Khatm-eNabuwwat Ki Haqeeqat

Khatm-eNabuwwat Ki Haqeeqat

ختم نبوت کی حقیقت

رسولِ پاک ؐ کا عدیم المثال مقام
Author: Hazrat Mirza Bashir Ahmad

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات
فیضان ختم نبوت

حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ نے 1953 میں ختم نبوت کی حقیقت کے بیان  میں یہ کتاب تصنیف فرمائی تھی کیونکہ جماعت احمدیہ کے خلاف پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں میں سے یہ غالباً سب سے بڑا اور شرانگیز بہتان یہی ہے کہ نعوذ باللہ جماعت احمدیہ ختم نبوت کی منکر ہے اور اپنے سلسلہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو ایسا نبی مانتی ہے جس سے حدیث لانبی بعدی اور حدیث انی اٰخر الانبیاء کا مفہوم باطل ہوجاتا ہے۔یہ رسالہ  اسی سر تاپا باطل الزام اور سراسر بے بنیاد اتہام کو دور کرنے کے لئے لکھا گیا ۔ اللہ کے فضل سے اس رسالہ میں مسئلہ ختم نبوت کے وہ سب ضروری پہلو مختصر طور پر آگئے ہیں جو اس بارہ میں جماعت احمدیہ کے عقائد اوران عقائد کے دلائل اور پھر ان دلائل کی حکمت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہیں۔


Book Content

Page 1

ختم نبوت کی حقیقت رسول پاک کا عدیم المثال مقام ) الله تصنیف لطیف رض حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے

Page 2

ختم نبوت کی حقیقت تصنيف لطيف حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.|| اشر نظارت نشر و اشاعت قادیان.پنجاب (انڈیا)

Page 3

نام کتاب ختم نبوت کی حقیقت تصنیف : حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے رض سن اشاعت : مارچ 2016ء تعداد شائع کردہ مطبع 1000: : نظارت نشر و اشاعت قادیان ، ضلع گورداسپور صوبہ پنجاب (بھارت) -143516 : فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان ISBN:978-93-8388-285-4

Page 4

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ط أَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ط دوستو اک نظر خُدا کے لئے سید الخلق مصطفے" کے لئے جو غلط فہمیاں اس زمانہ میں جماعتِ احمدیہ کے متعلق پھیلائی گئی ہیں ان میں غالباً سب سے زیادہ شر انگیز غلط نہی اس بہتان سے تعلق رکھتی ہے کہ نعوذ باللہ جماعت احمدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی منکر ہے.اور اپنے سلسلہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود کو ایسا نبی مانتی ہے جس سے حدیث لا نبی بعدی اور حديث ابي اخر الانبیاء کا مفہوم باطل ہو جاتا ہے.اور گو یا سرور کائنات فخر موجودات حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا دور ختم کر کے ایک نئے مذہب اور نئے سلسلۂ رسالت کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے.یہ رسالہ اسی سرتا پا باطل الزام اور سراسر بے بنیادا تہام کو دُور کرنے کی غرض سے لکھا گیا ہے.اور گو اس رسالہ کی تصنیف ایسے وقت میں ہوئی ہے جب کہ پنجاب کے گزشتہ ہنگامی حالات کی وجہ سے توجہ میں کافی انتشار کی کیفیت تھی اور خاطر خواہ یکسوئی میٹر نہیں تھی.لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا کے فضل سے اس رسالہ میں اس مسئلہ کے وہ سب ضروری پہلو مختصر طور پر آگئے ہیں جو اس بارے میں جماعت احمدیہ کے عقائد اور ان عقائد کے دلائل اور پھر ان دلائل کی حکمت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہیں.لیکن ظاہر ہے کہ کوئی دلیل خواہ وہ کتنی ہی روشن اور پختہ ہو کسی انسان کے دل میں راہ نہیں پاسکتی جب تک کہ کوئی شخص اپنے دل و دماغ کی کھڑکیوں کو کھلا رکھ کرحق وصداقت

Page 5

کو بلاخوف لومة لائم قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو.پس خاکسار راقم الحروف ہر اُس صداقت پسند انسان سے جس کے ہاتھ میں یہ رسالہ پہنچے خدائے ذوالجلال اور اس کے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دیکر عرض کرتا ہے کہ وہ اسے شروع سے لے کر آخر تک خالی الذہن ہو کر مطالعہ کرنے کی کوشش کرے.اور ساتھ ساتھ خدا کے حضور دست بدعا بھی رہے کہ اگر اس رسالہ کا مضمون حق و صداقت پر مبنی ہے تو وہ اُسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ دل کی تسلی کی گنجی صرف خدا کے ہاتھ میں ہے.اور اسی کی طرف یہ عاجز رجوع کرتا اور اپنے ناظرین کو رجوع کرنے کی دعوت دیتا ہے.وَنِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ * خاکسار : مرزا بشیر احمد ۱/۳۰ پریل ۱۹۵۳ء

Page 6

ختم نبوت کی حقیقت ط نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ ط ختم نبوت کی حقیقت رسول پاک کا عدیم المثال مقام سب حمد و ثناء اُس خدائے بزرگ و برتر کے لئے ہے جس نے انسان ضعیف البنیان کو اس کا ئنات عالم کا مرکزی نقطہ قرار دیکر اسے اشرف المخلوقات کے مقام سے نوازا اور پھر اس کی ہدایت کے لئے سلسلۂ رسالت جاری فرما کر ہمارے آقا فخر ابنیاء سید ولدِ آدم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی ) کے وجود باجود میں نبوت کے کمالات کو اس انتہائی بلندی تک پہنچایا جس تک اگلوں اور پچھلوں میں سے کسی انسان کی پہنچ نہیں.یہ وہ آفتاب عالمتاب تھا جس میں خدائی انوار کا اجتماع اپنے کمال کو پہنچ گیا.اور اس سراج منیر کی روشنی قیامت تک کے لئے تمام بنی نوع آدم کے واسطے ہدایت کا ذریعہ قرار پائی.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَبَارِكَ وَسَلِّمْ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُوْدَ الَّذِي وَعَدُتَهُ ہر ٹور کے ساتھ ظلمت کا سایہ لگا ہوتا ہے مگر جس طرح ہر روشنی کے ساتھ تاریکی لگی ہوئی ہے.حتی کہ خدائے حکیم وعلیم نے فرشتوں کے نورانی وجود کے ساتھ بھی ابلیس کا سیاہ سایہ لگا رکھا ہے.اور جس طرح ہر دن

Page 7

کے پیچھے رات آتی ہے اسی طرح باوجود اس کے کہ ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا درخشاں شورج تمام زمانوں اور تمام قوموں کو روشنی پہنچانے کے لئے طلوع ہو اتھا.خدا تعالیٰ نے اپنے از لی قانونِ ہدایت کے ماتحت یہ مقدر کر رکھا تھا کہ آپ کے اس ابدی دور میں بھی لوگوں کی سیاہ بختی کی وجہ سے کبھی کبھی ظلمت اور تاریکی کے زمانے آتے رہیں گے اور آپ نے اپنی امت کو خبر دی تھی کہ ان تاریکیوں کے ایام میں بھی میراخد امیری اُمت کو بھولے گا نہیں.بلکہ میرے آفتاب ہدایت کی منعکس شدہ روشنی کے ذریعہ حسب ضرورت رُوحانی چاند پیدا کرتا رہے گا.جن میں سے کوئی چاند پہلی رات کے ہلال کی طرح ہوگا اور کوئی اس سے بڑا اور کوئی اس سے بڑا.اور کوئی چودھویں رات کے درخشاں چاند کی طرح پورا روشن ہوگا.مگر بہر حال یہ سب چھوٹے اور بڑے چاند آپ ہی کے شورج کے گرد گھومنے والے ہوں گے.اُمت محمدیہ میں خلفاء کا سلسلہ چنانچہ آپ کی زبانِ مبارک سے خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ:.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنَّا طَ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًاطَ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ ) (سورة نور آیت ۵۶) یعنی اے امت محمدیہ کے لوگو اللہ تعالیٰ تم میں سے کامل ایمان رکھنے والوں اور اعلیٰ اعمال بجالانے والوں کے ساتھ وعدہ کرتا ہے کہ وہ انہیں اسی طرح دُنیا

Page 8

میں خدمت دین کیلئے خلفاء مقرر کرے گا جس طرح کہ اس نے تم سے پہلے نبیوں کی قوموں میں خلفاء مقرر کئے.اور اللہ تعالیٰ ان خلفاء کے ذریعہ اس دین اسلام کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے دُنیا میں مضبوط ومستحکم کر دے گا.اور ان کی خوف کی حالت کو امن کی حالت سے بدل دے گا.یہ خلفاء خالص میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے مگر اس انتظام کے ہوتے ہوئے بھی جو شخص انکار اور ناشکری کا راستہ اختیار کرے گا وہ خُدا کے نزدیک بدعہد سمجھا جائے گا.“ مجد دین کا سلسلہ اس قرآنی آیت کی تشریح میں ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.إِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَيِّدُ لَهَا دِينَهَا - (ابوداؤد جلد ۲ باب الملاحم ) یعنی خدا تعالیٰ میری اُمت کے لئے ہر صدی کے سر پر ایک ایسا شخص مبعوث کرتا رہے گا جو اس کے دین کی تجدید کر کے مسلمانوں کے اُن عقائد اور اعمال کی اصلاح کیا کریگا جو اس درمیانی عرصہ میں بگڑ چکے ہوں گے.“ مثیل مسیح کی پیشگوئی لیکن عام مجددین کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد ایک خاص تاریکی کے زمانہ کا بھی ذکر فرمایا تھا جس میں غیر معمولی دجالی فتنوں کا ظہور مقدر تھا اور

Page 9

چونکہ بڑے فتنہ کو فرو کرنے کے لئے بڑے مصلح کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے آپ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ اس زمانہ میں ایک عالی شان مجد دیعنی مثیل مسیح“ کا نزول ہوگا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.والذي نفسي بيده ليوشكن ان ينزل فيكم ابن مريم حَكَمًا عَدُلًا فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية.....كيف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم و امامکم منکم ( صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب نزول عیسی بن مریم ) یعنی مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں ضرور ضرور مسیح ابن مریم (اپنے ایک مثیل کے ذریعہ ) نازل ہوگا.وہ تمام دینی اختلافات میں حکم بن کر فیصلہ کر یگا اور اس کا فیصلہ حق وانصاف کا فیصلہ ہوگا.وہ صلیبی فتنہ کے زور کے وقت میں آئے گا اور اس فتنہ کو پاش پاش کر دے گا.اور اس وقت دُنیا میں خنزیری گندوں اور پلیدیوں کا بھی زور ہوگا.اور مسیح ان پلید یوں کو تباہ کر کے رکھ دے گا.مگر یہ سب کام دلائل اور براہین اور رُوحانی نشانوں کے ذریعہ ہوگا کیونکہ مذہبی جنگ اور جزیہ اُس زمانہ میں موقوف ہو جائے گا.ہاں ہاں اُس وقت تمہاری کیسی اچھی حالت ہوگی جب مسیح تم میں نازل ہوگا اور وہ تمہیں میں سے تمہارا ایک امام ہوگا.“ امام مہدی یعنی بروز محمد سی کے ظہور کی خبر اسی پیشگوئی کے دوسرے پہلو کا ذکر کرتے ہوئے خدا تعالیٰ قرآن مجید میں

Page 10

فرماتا ہے:.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ ، وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِيْنٍ وأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ - (سورۃ جمعہ آیت ۴،۳) یعنی خدا نے عربوں میں انہیں میں سے اپنا ایک رسول بھیجا ہے جو انہیں خدا کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک وصاف کرتا اور کتاب اور حکمت کی باتیں سکھاتا ہے اگر چہ اس سے قبل وہ کھلی کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے اور ایک دوسری جماعت بھی انہی کے ساتھ کی ہے جس کی ہمارا یہ رسول (اپنے ایک نظل اور بروز کے ذریعہ) تربیت فرمائیگا مگر یہ جماعت ابھی تک دُنیا میں ظاہر ہو کر صحابہ کی جماعت سے ملی نہیں.لیکن آئندہ ایک زمانہ میں ضرور ظاہر ہو جائے گی.66 مسیح و مہدی نے اہلِ فارس میں سے ہونا تھا بخاری کی ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب سورہ جمعہ کی یہ آیات نازل ہوئیں جو او پر درج کی گئی ہیں تو کسی صحابی نے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ آخرین لوگ کون ہیں؟ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقرب صحابی حضرت سلمان فارسی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ:.لو كان الايمان عند التريا لناله رجل من هؤلاء ( بخاری کتاب التفسیر باب تفسیر سورۃ جمعہ )

Page 11

د یعنی اگر کسی زمانہ میں ایمان دُنیا سے غائب ہو کر ثریا ستارے پر بھی چلا گیا تو پھر بھی ان اہلِ فارس لوگوں میں سے ایک شخص اسے دوبارہ زمین پر اُتار لائے گا اور ایک دوسرے موقع پر آپ نے فرمایا کہ:.سلمان منا اهل البيت (طبرانی کبیر و مستدرک حاکم بحوالہ جامع الصغیر) 66 د یعنی سلمان فارسی ہمیں میں سے یعنی ہمارے اہل بیت میں سے ہے.اس حدیث میں یہ اشارہ تھا کہ آنے والے مسیح و مہدی نے اہل فارس میں سے ہونا تھا اور اس طرح ضمنا وہ دوسری پیشگوئی بھی پوری ہوگئی جو مہدی کے متعلق کی گئی تھی کہ وہ اہلِ بیت میں سے ہوگا.رُوحانی شورج کا رُوحانی چاند بہر حال ان قرآنی آیات اور ان احادیث سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ امت محمدیہ میں رُوحانی خلفاء کا وجود ازل سے مقدر ہو چکا تھا.اور ان سب خلفاء نے على قدر مراتب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے نور سے روشنی حاصل کر کے دُنیا کو اسی طرح منوّر کرنا تھا جس طرح کہ اس مادی عالم میں خدا کا بنایا ہو ا چاند اُس کے سُورج سے روشنی حاصل کر کے زمین کو منور کرتا ہے اور پھر جس طرح کہ مختلف راتوں کے چاند مختلف طاقتوں کی روشنیاں لے کر طلوع کرتے ہیں اسی طرح رُوحانی عالم میں بھی ہمارے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نور حاصل کرنے والے اور آپ کے گردگھومنے والے چاندوں

Page 12

۹ کے لئے مختلف طاقت کی روشنیاں مقدر تھیں.اور ہمارا ایمان ہے کہ گو ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام خلفاء اور سارے مجد دخدا کے فضل سے رُوحانی چاندوں کا حکم رکھتے ہیں اور ہم ان سب کو دلی عزت اور دلی عقیدت اور دلی محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں.مگر جس چاند نے چودھویں صدی میں طلوع کیا ہے وہی وہ بدر منیر ہے جس نے اپنے شورج کی صورت اختیار کر کے اس کی طرف سے ظلی نبوت کا خلعت پایا ہے.اور یہ وہ نقطہ ہے جہاں سے ہمارا اور ہمارے مخالفین کا اختلاف شروع ہوتا ہے.جماعت احمد یہ اور دوسرے مسلمانوں کے اختلاف کی حقیقت اس اختلاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مخالف یعنی اس زمانہ کے مولوی صاحبان کہتے ہیں کہ بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سورج سے روشنی پا کر پہلی رات کا چاند بن سکتا ہے، دوسری رات کا چاند بن سکتا ہے، تیسری رات کا چاند بن سکتا ہے، حتی کہ گیارہویں، بارھویں اور تیرھویں رات کا چاند بھی بن سکتا ہے.مگر نہیں بن سکتا تو چودھویں رات کا چاند نہیں بن سکتا.کیونکہ چودھویں رات کا چاند اپنی گولائی کے دائرہ کو مکمل کر کے گو یا سورج کی شکل اختیار کر لیتا ہے.اور ایسے چاند کے طلوع کرنے میں خدائی سورج کی ہتک ہے.افسوس صد افسوس کہ یہ کتنا باطل خیال ہے کہ روشنی کو تاریکی اور خوبی کو نقص اور عزت کو موجب ہتک خیال کیا جاتا ہے! خدا ہمارے ان بھٹکے ہوئے دوستوں کی آنکھیں کھولے.کیا اس مادی عالم میں چودھویں رات کا چاند سورج کی ہتک کا موجب ہوتا ہے کہ ہمارے یہ کرم فرما اصحاب رُوحانی عالم میں چاند کے طلوع کو شورج کی ہتک کا موجب قرار دے رہے ہیں؟ بھائیو سنو اور دیکھو کہ جب تک چاند سورج کے تابع ہے اور جب تک وہ

Page 13

سورج سے روشنی لے رہا ہے اور جب تک وہ سورج کے گرد گھوم رہا ہے اس وقت تک اس کا کمال خودشورج کا کمال ہے نہ کہ اس کی ذات کا کمال.کیونکہ وہ ظل ہے نہ کہ اصل، تابع ہے نہ کہ آزاد ! اور پھر سوچو اور سمجھو کہ کیا سورج کا زیادہ کمال پہلی اور دوسری اور تیسری راتوں کے چاند پیدا کرنے میں ہے یا کہ چودھویں رات کا چاند پیدا کرنے میں جو اُسی کا نور لے کر آتا اور اسی کی شکل میں ظاہر ہوتا اور اپنی تیز روشنی کے ساتھ سارے جہاں کو منور کر دیتا ہے؟ اختلاف کا مرکزی نقطہ بہر حال یہ وہ مرکزی نقطہ ہے جس کی گہرائیوں میں آج کل جماعت احمد یہ اور اس زمانہ کے دیگر عام مسلمانوں کا اختلاف مرکوز ہے.ہمارے مخالف مولوی صاحبان کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا نہ تشریعی اور نہ غیر تشریعی.نہ ظلی اور نہ مستقل، نہ تابع اور نہ آزاد.( گو ہمارے مخالفین اپنے ہی عقیدہ کے خلاف حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان سے اُتار کر ان کی نبوت کی گڑی بہر حال قائم رکھنا چاہتے ہیں.) اس کے مقابل پر ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ بیشک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت آخری شریعت ہے اور آپ کے بعد کوئی تشریعی یا مستقل نبی ہرگز نہیں آسکتا اور یہ دروازہ قیامت تک بند ہے مگر آپ کے ٹور سے ٹور پا کر اور آپ کا ظل بن کر اور آپ کی شریعت کا خادم ہو کر ایک شخص اُسی طرح نبوت کے کمالات حاصل کر سکتا ہے جس طرح کہ چودھویں رات کا چاند سورج سے روشنی پاکر اور سورج کے تابع ہوکر اور گو یا سورج کے ساتھ بندھا ہؤا نکلتا ہے ایسے چاند کے طلوع کو کوئی عقلمند انسان سورج کے لئے موجب ہتک نہیں سمجھ سکتا.

Page 14

بلکہ یہ چاند سورج کے کمال کی علامت سمجھا جاتا ہے.کیونکہ وہ اسی کا ظل ہے نہ کہ اصل، تابع ہے نہ کہ آزاد.موت کی تین اقسام اس تمہیدی نوٹ کے بعد میں اپنے اصل مضمون کی طرف آتا ہوں جو مسئلہ ختم مبقت کی تشریح اور توضیح کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.سو جاننا چاہئے کہ جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ جیسا کہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور تاریخ بھی اس کی شہادت دیتی ہے انبیاء تین قسم کے ہوتے ہیں.اوّل وہ نبی جو خدا کی طرف سے کوئی نئی شریعت لاتے ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تو راہ کی شریعت لائے.یا جیسا کہ ہمارے آقا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) قرآن مجید کی شریعت کے ساتھ مبعوث ہوئے.ایسے انبیاء تشریعی نبی یا صاحب شریعت نبی کہلاتے ہیں.دوسرے وہ نبی جو کوئی نئی شریعت تو نہیں لاتے بلکہ کسی سابقہ شریعت کی خدمت کے لئے مبعوث ہوتے ہیں مگر ویسے ان کی نبوت مستقل نبوت ہوتی ہے جو انہیں کسی سابقہ نبی کی اتباع کی وجہ سے نہیں ملتی بلکہ خدا کی طرف سے براہِ - راست ملتی ہے.جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت داؤ داور حضرت سلیمان اور حضرت ذکریا اور حضرت یحیی اور حضرت عیسی علیہم السلام مبعوث ہوئے.یہ سب انبیاء جیسا کہ قرآن مجید اور توراۃ اور انجیل سے ثابت ہے ، موسوی شریعت کے تابع تو ضرور تھے اور اسی کی خدمت کے لئے مبعوث ہوئے تھے مگر بایں ہمہ وہ مستقل نبی تھے کیونکہ اُن کی نبوت کے حصول میں حضرت موسی کی اتباع کا کوئی دخل نہیں تھا بلکہ اُنہوں نے یہ انعام براه راست خدا کی طرف سے اپنی ذاتی حیثیت میں پایا تھا اور پھر وہ موسوی شریعت کی

Page 15

۱۲ خدمت میں لگا دیئے گئے تھے.ایسے انبیاء با وجود صاحب شریعت نہ ہونے کے مستقل نبی کہلاتے ہیں.یہی وجہ ہے ( اور یہ ایک خاص نکتہ ہے جو یا درکھنے کے قابل ہے ) کہ ایسے نبیوں کو اپنے سابقہ تشریعی نبی کے تابع ہونے کے باوجود اس کے ساتھ کوئی خاص خادمانہ عقیدت نہیں ہوتی جیسا کہ مثلاً ہمیں حضرت مسیح ناصری میں حضرت موسیٰ کی شریعت کے ماتحت ہونے کے باوجود حضرت موسی کے ساتھ کوئی خاص محبت اور عقیدت کا لگاؤ نظر نہیں آتا.بلکہ ان کا معاملہ ایسا نظر آتا ہے جیسے کہ مثلاً ایک ضلع کے کسی مجسٹریٹ یا ای.اے سی کو حسب ضرورت کسی دوسرے ضلع میں تبدیل کر کے اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے ماتحت لگا دیا جائے.تیسری قسم کا نبی وہ ہوتا ہے جو نہ تو صاحب شریعت ہو اور نہ وہ کوئی مستقل حیثیت رکھتے ہوئے کسی سابقہ نبی کی پیروی کے بغیر براہِ راست نبوت کا انعام پائے بلکہ اُس کی نبوت اپنے متبوع نبی کی ظل اور اسی کا عکس اور اسی کا حصہ ہو یعنی وہ اپنے متبوع نبی کی پیروی کے نتیجہ میں اسی سے فیض پا کر اور اسی کے نور سے روشنی لیکر نبوت کا انعام پائے.اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی باغبان کو اس کے باغ کی حفاظت کے لئے باہر سے کوئی غیر باغبان لانے کی بجائے اس کا بیٹا ہی بطور نائب کے دے دیا جائے.اور ظاہر ہے کہ جو عقیدت اور محبت اور درد اور اخلاص ایک بچے کو اپنے باپ اور اس کے لگائے ہوئے باغ کے ساتھ ہوسکتا ہے وہ ایک غیر شخص کو جو گو یا باہر سے لا کر بطور نائب مقرر کر دیا جاتا ہے ہرگز نہیں ہو سکتا.اسی لئے ہم جہاں مقدس بانی سلسلہ احمدیہ یعنی حضرت مسیح موعود میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غیر معمولی عقیدت اور والہانہ محبت اور اخلاص کا جذبہ دیکھتے ہیں اس کا ہزارواں حصہ بھی اسرائیلی نبیوں میں حضرت موسی کے لئے نظر نہیں آتا.

Page 16

۱۳ اس کی وجہ یہی ہے کہ جہاں اسرائیلی نبی گویا باہر سے لائے ہوئے باغبان تھے جو حضرت موسی کے باغ کی نگرانی کے لئے مقرر کر دیئے گئے وہاں خدا کے فضل و رحمت سے سلسلہ احمدیہ کا بانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی شاگرداور آپ ہی کا رُوحانی فرزند اور آپ ہی کا ظل تھا.اسی لئے حضرت مسیح موعود یعنی بانی سلسلہ احمدیہ میں آنحضرت صلعم کے ساتھ وہ والہانہ عشق نظر آتا ہے جس کی مثال کسی دوسری جگہ نہیں ملتی.اور یقینا ہر وہ شخص جو ایک طرف آپ کی کتب کا مطالعہ کرے گا اور اس کے مقابل پر انجیل میں حضرت موسیٰ کے متعلق حضرت عیسی کے اقوال وغیرہ پڑھے گا اس پر ہمارے اس دعوی کی صداقت روزِ روشن کی طرح ظاہر ہو جائیگی.مثال کے طور پر حضرت مسیح موعود کے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں کس وارفتگی کے ساتھ فرماتے ہیں:.وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دلبر میرا یہی ہے سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الورای یہی ہے اُس ٹور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھا یا وہ مہ لقا یہی ہے دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے نیات کی اقسام کا اصطلاحی نام الغرض نبوت تین قسم کی ہے، اور گو جیسا کہ خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے مختلف نبیوں میں بھی مدارج کا فرق ہوتا ہے.لیکن اُصولاً تمام نبی ان تینوں قسموں کی نبوت میں سے ہی کسی نہ کسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں:.

Page 17

۱۴ (۱) اوّل تشریعی نبوت یعنی ایسی نبوت جس کے ساتھ کسی نئی شریعت کا نزول ہو جیسا کہ مثلاً حضرت موسیٰ یا ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تھی.ایسی نبوت بعض اوقات حقیقی ثبوت کے نام سے یاد کی جاتی ہے.اور یہ نام اسے اس لئے دیا گیا ہے کہ نبوت کے ہر سلسلہ کا آغاز تشریعی نبوت سے ہی ہوتا ہے.اور باقی دونوں قسم کی نبو تھیں اس کے پیچھے آتی ہیں.پس اگر غور کیا جائے تو در اصل تشریعی نبوت ہی حقیقی نبوت کا نام پانے کی مستحق ہے.(۲) دوسرے غیر تشریعی مستقل نبوت یعنی ایسی نبوت جس کے ساتھ کوئی نئی شریعت تو نہیں ہوتی.مگر ویسے وہ ایک مستقل نبوت ہوتی ہے جو براہِ راست خدا کی طرف سے ملتی ہے.اور اس میں کسی سابقہ نبی کی فیض رسانی کا دخل نہیں ہوتا جیسا کہ مثلاً حضرت داؤ ڈ اور حضرت عیسی کی نبوت تھی جو موسوی شریعت کے خادم تو بے شک تھے مگر اُن کی نبوت میں حضرت موسی کی فیض رسانی کا کوئی دخل نہیں تھا.بلکہ انہوں نے براہ راست مستقل حیثیت میں نبوت کا انعام پایا تھا.یہ نبوت مستقل نبوت کے نام سے موسوم ہوتی ہے کیونکہ مستقل سے مراد ایسی چیز ہے جو کسی دوسری چیز کے سہارے کے بغیر خود اپنی ذات میں قائم ہو.(۳) تیسرے غیر تشریعی ظلی نبوت جو کسی سابقہ نبی کی اتباع میں اور اُس سے نور پا کر اور اُس کے اندر قت ہو کر علی صورت میں ملتی ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بائی سلسلہ احمدیہ کی نبوت تھی جو آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی میں حاصل کی.یہ نبوت ظلی نبوت کہلاتی ہے اور ایسا نبی اگر ایک جہت سے نبی کہلاتا ہے تو دوسری جہت سے وہ اتنی بھی ہوتا ہے.

Page 18

۱۵ نبوت کی اقسام کے متعلق ہمارا اور ہمارے مخالفین کا نظریہ اس کے بعد جاننا چاہئے کہ ہمارے مخالفین کا یہ عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان تینوں قسم کی نبوت گلی طور پر بند ہو چکی ہے.اور آپ کے بعد کوئی پر ؛ شخص خواہ وہ کسی قسم کی نبوت کا حامل ہو قیامت تک نہیں آ سکتا.یعنی اُمت محمدیہ کا کوئی فردخواہ وہ کتنا ہی کامل ہو ظلی طور پر بھی کمالات نبوت کا وارث نہیں بن سکتا.گو ہمارے مہربان مخالف اپنے ہی عقیدہ کے خلاف یہ عقیدہ ضرور رکھتے ہیں کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام ( جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سو سال قبل حضرت موسی کی شریعت کی خدمت کے لئے مستقل نبوت پاکر مبعوث ہوئے تھے.) وہ کچھ عرصہ کے لئے اپنی سابقہ نبوت کے ساتھ اُمت محمدیہ کی اصلاح کے لئے دوبارہ تشریف لائیں گے.اس کے مقابل پر جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پہلی دو قسموں کی نبوتوں کا دروازہ توکلی طور پر بند ہو چکا ہے یعنی اب نہ تو کوئی صاحب شریعت نبی آ سکتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت آخری شریعت ہے.اور نہ بغیر شریعت کے ہی کوئی ایسا نبی آسکتا ہے جس نے مستقل حیثیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے آزاد رہ کر نبوت پائی ہو.کیونکہ اس میں ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تامہ کاملہ کی ہتک ہے کہ کوئی شخص آپ کے فیض سے باہر رہ کر نبوت کے کمالات کا وارث بنے.مگر تیسری قسم کا نبی جو ظلی اور امتی نبی کہلاتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے اور آپ کے فیض سے فیض پا کر اور آپ کے نور سے منور ہو کر آپ کی غلامی میں

Page 19

۱۶ نبوت کا مقام حاصل کر سکتا ہے.کیونکہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تامہ کا ملہ کی ہتک نہیں.بلکہ آپ کی نبوت کا کمال ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے درخشاں سورج نے اپنے ٹور کے زور سے اپنی ہی شکل پر اپنے گرد گھومنے والا ایک پورا چاند پیدا کر دیا.اور ہمارے عقیدہ کے مطابق اس قسم کی نبوت سے ختم موت کی مہر بھی ہرگز نہیں ٹوٹتی اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے میں کوئی رخنہ پیدا ہوتا ہے.کیونکہ مخدوم اور متبوع اور فیض دہندہ ہونے کے لحاظ سے اس صورت میں بھی دراصل آپ ہی آخری نبی رہتے ہیں.جیسا کہ چاند کے نکلنے سے سُورج کی حکومت ختم نہیں سمجھی جاتی بلکہ اس کی حکومت کا اقتدار اور بھی زیادہ نمایاں ہو کر نظر آنے لگتا ہے.اسی نظریہ کے ما تحت ہم حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کو ختم نبوت کے منافی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں.کیونکہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے براہ راست نبوت کا منصب پایا تھا.لہذا ایسے شخص کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کی اصلاح کے لئے مبعوث ہونا جس کی مبقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی مرہونِ منت نہیں صریحا ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے موجب ہتک اور ختم نبوت کی مہر کو توڑنے والا ہے فافهم و تدبر ولا تكن من الممترين - ختم نبوت کے متعلق حضرت مسیح موعود کا حلفی اعلان لیکن قبل اس کے کہ میں جماعت احمدیہ کے عقیدہ کی تائید میں دلائل بیان

Page 20

۱۷ کروں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کے اپنے الفاظ میں جماعت احمدیہ کا عقیدہ بیان کر دیا جائے تا دلیل سے پہلے دعوی کی حقیقت واضح ہو جائے اور ہمارے ناظرین خود مدعی کے مُنہ سے اس کا دعوی سُن لیں تا اس کے بعد کوئی فتنہ پرداز انسان ہماری طرف غلط باتیں منسوب کر کے خلق خدا کو دھوکہ نہ دے سکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں :.مجھے خُدا کی عزت و جلال کی قسم ہے کہ میں مومن اور مسلمان ہوں.اور میں ایمان رکھتا ہوں اللہ تعالیٰ پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور اس کے فرشتوں پر اور بعث بعد الموت پر.اور میں ایمان رکھتا ہوں اس بات پر کہ ہمارے رسول محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم تمام رسولوں سے افضل اور خاتم النبیین ہیں.“ پھر فرماتے ہیں کہ :.( ترجمه از عربی عبارت حمامة البشرکی صفحه (۸) مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخاتم النبیین نہیں مانتے یہ ہم پر افتراء عظیم ہے.ہم جس قوت اور یقین اور جس معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی یہ (الزام لگانے والے) لوگ نہیں مانتے “ (الحکم ۱۷ مارچ ۱۹۰۵ء)

Page 21

۱۸ حضرت مسیح موعود کی طرف سے ختم نبوت کی تشریح اس حلفی دعوے کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.”ہمارا یہ ایمان ہے کہ آخری کتاب اور آخری شریعت قرآن ہے اور بعد اس کے تاقیامت ان معنوں میں کوئی نبی نہیں جو صاحب شریعت ہو یا بلا واسطہ متابعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی پاسکتا ہو......اس کی تفصیل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس جگہ یہ وعدہ فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں.اسی جگہ یہ اشارہ بھی فرما دیا ہے کہ آنجناب اپنی روحانیت کی وجہ سے اُن صلحاء کے حق میں باپ کے حکم میں ہیں.جن کی تکمیل نفوس بذریعہ متابعت کی جاتی ہے اور وحی الہی اور شرف مکالمات کا ان کو بخشا جاتا ہے.جیسا کہ وہ جلشانہ فرماتا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ (سورۃ احزاب) یعنی محمد رسول اللہ صلعم تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے مگر وہ رسول اللہ اور خاتم الانبیاء ہے.اب ظاہر ہے کہ لاکن کا لفظ زبان عرب میں استدراک کے لئے آتا ہے یعنی تدارک مافات کے لئے (استعمال ہوتا ہے) سو اس آیت کے پہلے حصہ میں جو امرفوت شدہ قرار دیا گیا ہے یعنی جس امر کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے نفی کی گئی ہے وہ جسمانی طور سے کسی مرد کا باپ ہونا تھا.سولا کن کے لفظ کے ساتھ اِس فوت شدہ امر کا اس طرح تدارک کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء

Page 22

19 ٹھہرایا گیا.جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے بعد براہ راست فیوض نبوت منقطع ہو گئے اور اب کمال نبوت صرف اس شخص کو مل سکتا ہے جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی کی مُہر رکھتا ہو.اور اس طرح وہ ( رُوحانی لحاظ سے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا اور آپ کا وارث ہو گا غرض اس آیت میں ایک طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ ہونے کی نفی کی گئی ہے اور دوسرے طور پر باپ ہونے کا اثبات کیا گیا ہے تا مخالفین کا وہ اعتراض جس کا ذکر اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ میں ہے دُور کیا جائے.ماحصل اِس آیت کا یہ ہوا کہ نبوت گو وہ بغیر شریعت کے ہو اس طرح پر تو ممتنع ہے کہ کوئی شخص براہِ راست مقام نبوت حاصل کر سکے لیکن اس طرح پر ممتنع نہیں کہ وہ نبوت چراغ محمدی سے مکتب اور مستفاض ہو.“ پھر فرماتے ہیں:.ریویو بر مباحثہ چکڑالوی و اہلحدیث صفحه ۷،۶) " خاتم النبیین کے یہ معنی ہیں کہ (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کی مُہر ہیں ) آپ کی مہر کے بغیر کسی نبوت کی تصدیق نہیں ہو سکتی.جب (کسی کاغذ پر مہر لگ جاتی ہے تو وہ کاغذ سند ہو جاتا ہے اور مصدقہ سمجھا جاتا ہے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر اور تصدیق جس نبوت پر نہ ہو وہ صحیح نہیں.“ (الحکم ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۲ء)

Page 23

پھر فرماتے ہیں:.اللہ جلالہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خائم بنایا اور آپ کو افاضہ کمال کے لئے وہ مہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی.اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا.یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے.اور آپ کی توجہ رُوحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی.“ (حقیقۃ الوحی صفحه ۹۷،۹۶) اب محمد صی نبوت کے سوا سب نبوّتیں بند ہیں وو پھر اپنے دعوی کی مخصوص تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:.یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی پیروی سے حاصل ہوا ہے.اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دُنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگز نہ پاتا.کیونکہ اب بجز محمد کی نبوت کے سب نبوّتیں بند ہیں.شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہوسکتا ہے.مگر وہی جو پہلے امتی ہو.پس اس بناء پر میں اُمتی بھی ہوں اور نبی بھی.“ 6 6 (تجلیات الہیہ صفحہ ۲۵،۲۴)

Page 24

۲۱ اختلاف حل کرنے کے چاڑا مکانی طریقے ختم نبوت کے متعلق جماعت احمد یہ اور اس زمانہ کے دیگر عامتہ المسلمین کے عقیدہ کا اختلاف بیان کرنے کے بعد اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس اختلاف کے حل کی صورت کیا ہے.اور ہم کس طرح فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس معاملہ میں جماعت احمدیہ کا نظریہ درست ہے یا کہ اس زمانہ کے دوسرے عام مسلمانوں کا؟ سو جاننا چاہیئے کہ ایک مسلمان کے لئے تمام دینی مسائل میں اختلاف کا حل امکانی طور پر صرف چار طریق پر ہی ہوسکتا ہے.اوّل قرآن مجید کے ذریعہ جو حق و باطل کو پہچاننے کے لئے سب سے زیادہ پختہ اور سب سے زیادہ یقینی کسوٹی ہے اور جس کے متعلق خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قباتي حَدِيثٍ بَعْدَ الله وَالتِهِ يُؤْمِنُونَ (سورۃ جاثیہ آیت ۷ ) ” یعنی خدا اور اس کی آیات کی گواہی کے مقابل پر لوگ کس حدیث کو قبول کریں گے؟“ دوسرے درجہ پر حدیث ہے.حدیث گوا تنا پختہ اور ارفع مقام نہیں رکھتی جو کتاب اللہ کو حاصل ہے اور نہ ہی کسی حدیث کے متعلق یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ وہ ضرور مین و عن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا کلام ہے.مگر پھر بھی قرآن مجید سے اُتر کر اسلامی مسائل کو حل کرنے کے لئے حدیث ایک نہایت عمدہ ذریعہ ہے.گو ہمیں لا زما اس میدان میں مختلف حدیثوں کے مدارج اور صحیح اور ضعیف کے فرق کو مدّ نظر رکھنا ہوگا.تیسرے درجہ پر اسلام کے گذشتہ صلحاء اور محمد دین اور ائمہ کا مقام ہے.کیونکہ یہ مبارک طبقہ گو بشری غلطیوں سے پاک نہ ہولیکن بہر حال وہ عامتہ المسلمین کی نسبت

Page 25

۲۲ بہت زیادہ اعتماد کا درجہ رکھتا ہے.اور چونکہ ان بزرگوں کے اقوال موجودہ اختلاف اور موجودہ بحث سے پہلے کے ہیں اسلئے وہ اس تعصب کے عصر سے بھی پاک ہیں جو بد قسمتی سے حاضر الوقت مسلمانوں کے دلوں میں جماعت احمدیہ کے خلاف پایا جاتا ہے.اور ان کے علم اور تقویٰ کا مقام بھی یقیناً موجودہ زمانہ کے مولویوں سے بدرجہا بہتر اور بدر جہا ارفع تھا.چوتھے درجہ پر عقل انسانی ہے جو اپنی امکانی لغزشوں کے باوجود خدا کی طرف سے پیدا کیا ہوا اندرونی ٹور ہے جس کے ذریعہ دُنیا کے اکثر کام سرانجام پاتے ہیں.اور اس میں شبہ نہیں کہ اگر درمیان میں کوئی ظلمت کا پردہ حائل نہ ہو تو کھوٹے کھرے کو پہچاننے کے لئے عقل ایک بہت مفید اور کارآمد آلہ ہے.سواب یہ خاکسار خدا کی توفیق سے انہیں چار معیاروں کے مطابق ختم نبوت کے سوال پر نظر ڈالتا ہے تا ہمارے معز ز ناظرین اس معاملہ میں کسی فیصلہ کن نتیجہ پر پہنچ سکیں.وما توفیقی الا باللہ العظیم نعم المولى و نعم الوکیل.....

Page 26

۲۳ قرآنِ مجید کی رُو سے مسئلہ ختم نبوت کا حل قرآن کی مبارک کسوٹی جیسا کہ میں نے اُوپر بیان کیا ہے سب سے ارفع مقام قرآن مجید کا ہے اور اسی مبارک کسوٹی سے ہم اپنی اس مختصر بحث کی ابتداء کرتے ہیں.سوسب سے پہلے تو یہ بات جاننی چاہئے کہ قرآن مجید میں کوئی ایک آیت بلکہ آیت کا جزو بلکہ کوئی ایک لفظ تک ایسا نہیں ملتا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہونا ثابت ہوتا ہو.بلکہ ہر جگہ خدائی رحمتوں اور خدائی نعمتوں کے دریا بہتے نظر آتے ہیں اور قرآن مجید جابجا اس قسم کی توضیحات اور اشارات سے پر ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد خصوصیت کے ساتھ خدائی نعمتوں کا چشمہ زیادہ زور کے ساتھ بہنے لگ گیا ہے.لے دے کے منکرینِ اجرائے نبوت صرف آیت وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيْنَ پیش کرتے ہیں مگر یہ آیت تو خود زیر بحث ہے.اور ایک زیر بحث امر میں ایک متنازعہ آیت پیش کرنا ہرگز کافی نہیں سمجھا جا سکتا.اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید کا یہ طریق ہے کہ جب وہ کوئی اہم صداقت بیان کرتا ہے تو صرف ایک آیت پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس کی تائید میں مختلف مقامات پر مختلف رنگوں میں بہت سی آیات لا کر گویا دلائل اور شواہد کا ایک سُورج چڑھا دیتا ہے.چنانچہ وہ خود فرماتا ہے کہ:.وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَّرُوا ( سورۃ بنی اسرائیل آیت ۴۲)

Page 27

۲۴ یعنی ہم قرآن میں ایک مضمون کو بار بار مختلف شکلوں اور مختلف صورتوں میں بیان کرتے ہیں تا کہ لوگ سمجھ سکیں اور غلطی میں مبتلا نہ ہوں.“ پس قرآن مجید کا اس اہم مضمون پر صرف ایک آیت وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ البين بیان کر کے بالکل خاموش ہو جانا اور کسی دوسری جگہ اُس مضمون کو نہ دُہرانا جو ہمارے مخالف خیال اصحاب اس آیت سے نکالنا چاہتے ہیں.بلکہ جا بجا اس کے خلاف بیان کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض کو سارے دوسرے نبیوں سے زیادہ وسیع لتبتين اور بالا اور ارفع رنگ میں پیش کرنا اس بات کی قطعی اور یقینی دلیل ہے کہ آیت خاتم اللہ کے وہ معنی ہرگز درست نہیں جس کے ذریعہ ہمارے بھٹکے ہوئے دوست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض اور برکات اور آپ کے بعد خدائی نعماء کے ظہور کو محدود اور محصور کرنا چاہتے ہیں.قرآن مجید کی کوئی آیت نبوت کا دروازہ بند نہیں کرتی بہر حال ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ آیت خاتم النبیین کے علاوہ (جو اس وقت خُودزیر بحث ہے اور ہم ابھی ثابت کریں گے کہ اس آیت کے بھی وہ معنی ہرگز نہیں جو ہمارے مخالفین بیان کرتے ہیں) قرآن مجید میں کوئی ایک آیت یا کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں جس سے ہمارے آقا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہونا ثابت ہوتا ہو.بلکہ اس کے خلاف جا بجا یہ بیان موجود ہے کہ سرور کائنات فخر موجودات سید ولد آدم حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خدائی نعمتوں اور رحمتوں اور برکتوں کے دروازے پہلے سے بھی بہت زیادہ وسیع صورت میں گھل گئے ہیں.

Page 28

۲۵ باقی رہی آیت خاتم النبیین سواس کے متعلق ہم انشاء اللہ ابھی ثابت کریں گے کہ اس سے بھی ہرگز وہ مطلب نہیں نکلتا جو ہمارے مخالفین سراسرسینہ زوری کیسا تھ اس کی طرف منسوب کرنا چاہتے ہیں.بلکہ یہ آیت بھی دوسری بیسیوں آیتوں کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے نظیر برکات اور عدیم المثال فیوض کا ایک وسیع دروازہ کھول رہی ہے جسے ہمارے مہربان دوست اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے دیکھنے اور شناخت کرنے کے لئے تیار نہیں.پس قرآنی کسوٹی کے مطابق ہماری پہلی دلیل تو یہ ہے کہ قرآن مجید کی کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں جو نبوت کا دروازہ بند کرتی ہو یا آیت خاتم النبیین کے ان معنوں کی مؤید ہو جو ہمارے مخالف بیان کرتے ہیں.حالانکہ قرآنی اصول کے مطابق اگر آیت خاتم النبیین کے واقعی وہی معنی تھے جو اس زمانہ کے مولوی صاحبان اس کی طرف منسوب کرتے ہیں تو قرآن مجید کو چاہیئے تھا کہ اپنی بہت سی دوسری آیتوں میں اس مضمون کو مختلف صورتوں میں دُہرا کر اس پر دلائل اور شواہد کا ایک شورج چڑھا دیتا مگر معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ قرآن مجید پکار پکار کر گواہی دے رہا ہے کہ ہمارے آقا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خدائی نعمتوں اور برکتوں کا دروازہ پہلے سے بھی بہت زیادہ وسیع ہو گیا ہے.کاش برادرانِ اسلام اس نکتہ کو سمجھیں! سورہ فاتحہ کی زبردست شہادت اس کے بعد میں اُس قرآنی آیت کو لیتا ہوں جو قرآنِ مجید کی افضل ترین سورۃ میں بیان کی گئی ہے.قرآن مجید ہمیں اپنی سب سے پہلی سورۃ میں یہ عظیم الشان دُعا

Page 29

۲۶ سکھاتا ہے کہ:.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (سورۂ فاتحہ آیت ۷،۶) یعنی اے ہمارے خدا جس نے ہماری طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے تو ہمیں سیدھے راستہ کی طرف ہدایت دے.وہ رستہ جو تیری طرف سے انعام پانیوالوں کا رستہ ہے.“ یہ آیت جو قرآن مجید کے بالکل شروع میں درج ہے اور جسے ہر باعمل مسلمان دن میں کم از کم تین دفعہ پڑھتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کے لئے ایک عظیم الشان بشارت کی خبر دے رہی ہے.اس آیت میں خدا تعالیٰ مسلمانوں کو یہ دُعا سکھاتا ہے کہ تم مجھ سے وہ تمام انعام مانگو جو میں تم سے پہلی امتوں میں انعام پانے والے لوگوں پر کرتا رہا ہوں.یہ ظاہر ہے کہ اس دُعا میں صرف ہدایت طلب کرنا مقصود نہیں ہے کیونکہ اگر صرف یہی مقصد ہوتا تو اهْدِنَا الخراط الْمُسْتَقِيمَ کے الفاظ کہنا کافی تھے.اور اس کے ساتھ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ کے الفاظ زیادہ کر نیکی قطعا ضرورت نہیں تھی.ان الفاظ کا زیادہ کر نا صاف ظاہر کرتا ہے کہ اس جگہ صرف عام طلب ہدایت کی تعلیم دینا مقصود نہیں بلکہ اصل غرض یہ ہے کہ گذشتہ انعام پانے والوں کے انعاموں کی طرف توجہ دلا کر مسلمانوں کے دلوں میں ان انعاموں کی طلب اور ان کے حصول کے لئے تڑپ کا جذبہ پیدا کیا جائے اور اُمت محمدیہ کے معیار کو بلند کر کے مسلمانوں کو اس بات کی طرف تو جہ دلائی جائے کہ جو انعام پہلی امتوں کو متفرق طور پر ملتے رہے ہیں وہ سب کے سب تمہارے لئے بصورت اتم جمع کر دیئے گئے ہیں.چنانچہ اس کی تشریح میں

Page 30

۲۷ قرآن مجید دوسری جگہ فرماتا ہے کہ :.وَمَنْ يُطِعِ الله وَالرَّسُوْلَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيْنَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِيْنَ ، وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (سوره نساء آیت ۷۰) دو یعنی جو لوگ خدا اور اس رسول کی سچی سچی پیروی اختیار کرتے ہیں وہ اُن لوگوں کے ساتھ شامل کئے جائیں گے جن پر ہم نے انعام کیا.یعنی نبی اور صدیق اور شہید اور صالح.اور یہ سب انعام پانے والی جماعتیں آپس میں بہت مبارک رفیق اور بہترین ساتھی ہیں.“ انعام پانے والوں کے چار طبقات اس آیت میں اللہ تعالیٰ انعام پانے والے لوگوں کے مختلف طبقات بیان فرماتا ہے اور بتاتا ہے کہ دین کے رستہ میں منعلم علیہ لوگ چار قسم کے ہوتے ہیں.اول نبی دوم صدیق.سوم شہید اور چہارم صالح.یعنی کوئی شخص اپنی استعداد اور اپنے محاسن کی بناء پر اور بمقتضائے ضرورتِ زمانہ نبوت کا انعام پالیتا ہے.اور خدا تعالیٰ کے مکالمہ مخاطبہ اور أمور غیبیہ سے بکثرت مشرف ہو کر مخلوق خدا کی طرف مبعوث ہوتا ہے.اور کوئی شخص صدیق بن جاتا ہے جس کے عقائد اور اعمال گویا مجسم صداقت بن جاتے ہیں.اور اس کے قول اور فعل میں کسی نوع کی مغائرت باقی نہیں رہتی.اور کوئی شہید کا درجہ پالیتا ہے جس کی زندگی اور موت دین کے رستہ میں گویا ایک مجسم شہادت بن جاتی ہے.اور کوئی صالح ہوجاتا ہے جس کے اعمال نیکی کا رستہ اختیار کر کے اس رستہ پر پختہ صورت میں قائم ہو جاتے ہیں.

Page 31

۲۸ اب دیکھو کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں سورہ فاتحہ میں خود یہ دعا سکھائی ہے کہ اے مسلمانو! تم اُن لوگوں کا رستہ تلاش کرو اور ان لوگوں کی برکتوں کے طالب بنو جنہوں نے تم سے پہلے خُدا کے انعام پائے.بلکہ جہاں سابقہ امتوں نے یہ انعام متفرق صورت میں حاصل کئے وہاں تم ان سب انعاموں کو اپنے اندر جمع کرنے کی کوشش کرو.اور دوسری خدا تعالیٰ نے خود یہ تشریح فرما دی کہ انعام پانے والوں سے ہماری مراد نبی اور صدیق اور شہید اور صالح ہیں.تو اب ان دو واضح آیتوں کو ملانے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے لئے جو خدا کے فضل سے سب امتوں میں سے افضل ترین امت ہے نبوت کے انعام کا دروازہ کھلا رکھا ہے.ورنہ یہ ہرگز ممکن نہیں تھا کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ سورہ فاتحہ میں یہ دعا سکھاتا کہ ” اے خدا ہمیں انعام پانیوالے لوگوں میں شامل فرما.اور دوسری طرف خود یہ تشریح فرما تا کہ انعام پانے والوں سے ہماری مراد نبی اور صدیق اور شہید اور صالح ہیں.اور پھر باوجوداس کے اپنے حبیب کی اُمت پر ان برکات کے دروازے بند رکھتا !! عزیز و اور دوستو غور کرو اور اپنے دل و دماغ کی کھڑکیوں کو کھول کر سوچو کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ یہ دعا سکھاتا ہے کہ ہمیں انعام پانیوالے لوگوں میں شامل کر اور دوسری طرف وہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انعام پانے والوں سے نبی اور صدیق اور شہید وغیرہ مراد ہیں تو کیا ان دو قرآنی آیتوں کے مرکب مفہوم سے اس کے سوا کوئی اور بات ثابت ہوتی ہے یا ہوسکتی ہے کہ اس اُمت کے لئے جو خدا کے فضل سے افضل ترین امت ہے جس طرح صدیق اور شہید اور صالح کا انعام گھلا ہے اسی طرح نبوت کا انعام بھی گھلا ہے؟ ورنہ ہمارے خدائے قدوس پر نعوذ باللہ یہ الزام آتا ہے کہ ایک طرف تو وہ ہمیں خود کہتا اور ترغیب

Page 32

۲۹ دیتا ہے کہ مُجھ سے یہ یہ چیزیں مانگو اور دوسری طرف وہ اپنا ہا تھ کھینچ لیتا ہے کہ میں تو یہ چیزیں تمہیں ہر گز نہیں دُوں گا.افسوس صد افسوس.کیا خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہی ایسی رہ گئی ہے کہ اس کے ساتھ یہ کھیل کھیلا جائے؟ اس اُمت پر انعام کے سارے رستے کھلے ہیں پھر لطف یہ ہے اور حقیقہ یہ قرآن مجید کا ایک کمال ہے کہ اگر ان آیتوں کو مرتب صورت میں نہ بھی لیا جائے جیسا کہ ہم نے اوپر والے بیان میں لیا ہے تو پھر بھی علیحدہ علیحدہ صورت میں بھی یہ دونوں آیتیں ( یعنی سورہ فاتحہ کی آیت اور سورہ نساء کی آیت جو او پر درج کی جاچکی ہیں.بڑی صراحت اور وضاحت کے ساتھ امت محمدیہ میں نبوت کا دروازہ کھول رہی ہیں.چنانچہ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں سورۃ فاتحہ کی آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ :.اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - د یعنی اے ہمارے خدا ہمیں سیدھے رستہ کی طرف ہدایت دے، وہ رستہ جو تیری طرف سے انعام پانے والوں کا رستہ ہے.“ اب ظاہر ہے کہ اگر سورۂ نساء والی آیت جو ہم او پر درج کر چکے ہیں نہ بھی ہو تو پھر بھی یہ سورۃ فاتحہ والی آیت اپنی ذات میں ہی اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ہے کہ مسلمانوں کیلئے ان تمام انعاموں کے دروازے کھلے ہیں جو سابقہ امتوں کو متفرق طور پر ملتے رہے ہیں کیونکہ جب خدا خود ایک دُعا سکھاتا ہے اور اس دُعا میں انعام کے ذکر کو مطلق رکھا گیا ہے اور اس کے ساتھ کوئی شرط یا حد بندی نہیں لگائی گئی تو لا زما اس کے یہی معنی ہیں کہ دُعا مانگنے والوں کیلئے سب قسم کے انعاموں کے حصول کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے ورنہ ایسی دُعا کا سکھانا

Page 33

بالکل بے شود بلکہ مضحکہ خیز بن جاتا ہے پس اگر سورۂ نساء والی آیت نہ بھی ہو جس میں انعام پانیوالوں کے طبقات بیان کئے گئے ہیں تو پھر بھی محض اس دُعا کا سکھایا جانا ہی کہ ہمیں وہ انعامات عطا فرما جو تو نے پہلے لوگوں کو دیئے اس بات کا کافی و شافی ثبوت ہے کہ اُمتِ محمدیہ کے لئے تمام سابقہ امتوں والے انعاموں کا دروازہ کھلا ہے.وھو المُراد.رسول پاک کے بعد تشریعی اور مستقل نبوت کا دروازہ کیوں بند ہے؟ اس جگہ اگر کسی شخص کے دل میں یہ شبہ پیدا ہو کہ سابقہ امتوں کے انعاموں میں تو تشریعی نبوت اور مستقل نبوت بھی شامل تھیں لیکن باوجود اس کے اب اس قسم کی نبوتوں کا دروازہ بند ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصل سوال مطلق نبوت کا ہے نہ کہ اس قسم یا اُس قسم کی نبوت کا.اور مطلق نبوت کا دروازہ اب بھی گھلا ہے.باقی رہا تشریعی نبوت اور مستقل نبوت کا سوال سو ہر شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ نبوت کی قسم کا سوال محض ایک انتظامی نوعیت کی چیز ہے جسے انعام کے پہلو سے کوئی تعلق نہیں جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل دنیا کی مختلف قوموں کو ان کے حالات کے مطابق علیحدہ علیحدہ شریعت کی ضرورت تھی تو خُدا نے مختلف نبیوں پر علیحدہ علیحدہ شریعتیں نازل فرمائیں.لیکن جب دُنیا کے حالات بدل گئے اور سرور کائنات حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ سارے زمانوں اور ساری قوموں کے لئے ایک آخری اور عالمگیر شریعت نازل ہو گئی تو اس کے بعد طبعا نئی شریعت کا نزول بند ہو گیا اسی طرح چونکہ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامل و مکمل نبی تھے اور عظیم الشان قوت قدسیہ لیکر مبعوث ہوئے تھے جس کے فیض سے ایک شخص نبوت کا مقام حاصل کر سکتا تھا.اس لئے آپ کے بعد

Page 34

۳۱ مستقل نبوت یعنی براہ راست حاصل ہونے والی نبوت کا دروازہ بھی بند ہو گیا.لیکن جہاں تک مطلق نبوت کا سوال ہے وہ آپ کے بعد ظلی نبوت کی صورت میں کھلی ہے اور ہرگز بند نہیں ہوئی.پس اصل سوال مطلق نبوت کا ہے نہ کہ نبوت کی اس قسم یا اس قسم کا.نبوت کی قسم کا سوال ایک بالکل زائد امر ہے.جو زمانہ کی ضروریات اور حالات سے تعلق رکھتا ہے.اور جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شریعت والی نبوت اور مستقل نبوت کی ضرورت نہیں رہی.کیونکہ آپ کی شریعت کامل اور دائمی ہے جس کے بعد کسی نئی شریعت کی حاجت نہیں.اور آپ ایک کامل اور انتہائی قوت قدسیہ رکھنے والے نبی ہیں جس کے بعد مستقل نبوت کا سوال نہیں.الغرض اصل سوال مطلق نبوت کا ہے.نہ کہ نبوت کی قسم کا.اور مطلق نبوت اب بھی جاری ہے.اور ہرگز بند نہیں ہوئی.مثال کے طور پر غور کرو کہ اگر بالفرض کسی ضلع میں کوئی سرکاری خزانہ نہ ہو تو ظاہر ہے کہ وہاں کوئی ای.اے سی افسر خزانہ کے طور پر مقر نہیں کیا جائیگا لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس ضلع میں ای.اے سی کا عہدہ ہی منسوخ ہو گیا ہے.کیونکہ حسب ضرورت دوسری ڈیوٹیوں پر ای.اے سی بدستور کام کرتے رہیں گے.یہ ایک موٹی سی بات ہے جو کسی عقلمند انسان کے رستہ میں روک نہیں ہونی چاہئیے.امت محمدیہ کس طرح قلتِ انبیاء کے باوجود ساری اُمتوں سے افضل.مگر اس جگہ ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اگر مطابق قرآنی آیت كُنتُم خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ امت محمد یہ ساری اُمتوں سے افضل ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی اُمت میں تو حضرت داؤ ڈاور حضرت سلیمان اور حضرت زکریا

Page 35

اور حضرت یحیی اور حضرت عیسے وغیر ہم بہت سے نبی آئے مگر امت محمدیہ میں ابھی تک صرف ایک ہی نبی مبعوث ہوا ہے؟ اگر نبوت واقعی ایک انعام ہے اور اگر امت محمدیہ واقعی افضل ہے تو اس اُمت میں اُن سے بھی زیادہ نبی مبعوث ہونے چاہیئے تھے.اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ بیشک حضرت موسیٰ کی اُمت میں بظاہر بہت نبی آئے مگر یہ نبی حضرت موسیٰ کی پیروی اور فیض کا نتیجہ نہیں تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں براہِ راست نبوّت کے انعام سے نواز کر موسوی شریعت اور موسوی اُمت کی خدمت میں لگا دیا تھا اس لئے ان کا آنا موسوی اُمت کی افضلیت کا نشان نہیں تھا.لیکن اس کے مقابل پر جو نبی امت محمدیہ میں مبعوث ہوا ہے وہ خالصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض یافتہ اور آپ کا رُوحانی فرزند ہے اور اس نے جو کچھ پایا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی اور غلامی میں پایا ہے.اس لئے اس کا آنا خواہ وہ ایک ہی ہے یقینا امت محمدیہ کی افضلیت کی دلیل ہے.چنانچہ اسی قسم کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے سلسلہ احمدیہ کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ السّلام فرماتے ہیں اور کیا خوب فرماتے ہیں کہ:.اس جگہ یہ سوال طبعا ہو سکتا ہے کہ حضرت موسی کی امت میں بہت سے نبی گزرے ہیں ( اور امت محمدیہ میں اس وقت تک صرف ایک ہی نبی آیا ہے) پس اس حالت میں موسیٰ کا افضل ہونا لازم آتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ (حضرت موسی کی اُمت میں ) جس قدر نبی گزرے ہیں اُن سب کو خُدا نے براہِ راست چن لیا تھا حضرت موسیٰ کا اس میں کچھ بھی دخل نہیں تھا.لیکن اس اُمت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ہزار ہا اولیاء ہوئے ہیں اور ایک وہ بھی ہوا جو امتی بھی ہے اور نبی بھی.اس کثرتِ فیضان

Page 36

۳۳ کی کسی نبی میں نظیر نہیں مل سکتی.اسرائیلی نبیوں کو الگ کر کے تمام لوگ اکثر موسوی امت میں ناقص پائے جاتے ہیں.رہے انبیاء سو ہم بیان کر چکے ہیں کہ انہوں نے حضرت موسیٰ سے کچھ نہیں پایا بلکہ وہ براہ راست نبی کئے گئے.مگر اُمت محمدیہ میں ہزار ہا لوگ محض پیروی کی وجہ سے ولی کئے گئے.(اور ایک وہ بھی ہو جو امتی بھی ہے اور نبی بھی ).“ (حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ ۲۸) حضرت مسیح موعود کا یہ لطیف جواب کسی تشریح کا محتاج نہیں.مگر میں اس جگہ اہلِ ذوق کے لئے ایک ضمنی بات ضرور کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ جواب جو او پر درج کیا گیا ہے ایک ایسی حقیقت سے تعلق رکھتا ہے جس کا علم عقل یا تاریخ وغیرہ کے نتیجہ میں ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ یہ جواب وجدان اور عرفان کے دائرہ سے تعلق رکھتا ہے.پس اگر غور کیا جائے تو حضرت مسیح موعود کا یہ جواب ضمنا آپ کے اعلیٰ رُوحانی مقام کی بھی دلیل ہے کیونکہ اس قسم کے وجدانی جواب پر وہی شخص آگاہ ہوسکتا ہے جو خود صاحب حال ہو.اور خدائے قدوس کا خاص قُرب رکھتا ہو.اور اس کے ساتھ ساتھ وہ دُوسرے مقربین بارگاہ الہی کے مقام قرب کو بھی جانتا اور سمجھتا ہو.ورنہ اس قسم کے وجدانی امور کی خبر دوسرے لوگوں کو نہیں ہو سکتی.ان باتوں کو یا تو خدا جانتا ہے جس پر کوئی بات پوشیدہ نہیں.اور یا وہ لوگ جان سکتے ہیں جو در بار قدسی تک رسائی رکھتے ہیں کیونکہ اندر کی چیز باہر والے نہیں دیکھ سکتے.اور نہ خدائی دربار کی باتیں دوسروں کو نظر آسکتی ہیں.سوالحمد للہ کہ خُدا نے ہمیں وہ بلند مرتبہ امام عطا فر ما یا جس نے اپنے مقدس آقا کے طفیل خدا سے وہ سارے انعامات پائے جو پہلے لوگوں نے براہ راست پائے تھے.اس نعمت الہی کا ذکر کرتے

Page 37

۳۴ ہوئے حضرت مسیح موعود کیا خوب فرماتے ہیں کہ :.نچه داد است ہر نبی را جام داد آن جام را مرا بتمام دل من برد و الفت خود داد خود مراشد بوحی خود استاد ام من خدارا بدو شناخته ام دل بدیں آتشم گداخته ناصحان را خبر ز حالم نیست گزرے سوئے آں زلالم نیست ( نزول المسیح) رسول پاک کے پیر و ساری برکتوں کے وارث ہیں اس وقت تک میں نے یہ بتایا ہے کہ سورہ فاتحہ کی آیت علیحدہ اور منفر دصورت میں بھی امت محمدیہ کے لئے سارے ان انعاموں کا دروازہ کھول رہی ہے جو گذشتہ امتوں کو ملے تھے.اب میں سورۂ نساء والی آیت کو علیحدہ صورت میں لیکر ثابت کرتا ہوں کہ وہ بھی اس دروازہ کو واضح طور پر کھول رہی ہے.یہ آیت جیسا کہ وہ اوپر کی بحث میں بھی درج کی جاچکی ہے یہ ہے:.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِيْنَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (سوره نساء آیت ۷۰) یعنی جو لوگ اللہ اور اس رسول کی سچی پیروی اختیار کرتے ہیں وہ ان لوگوں کے ساتھ شامل ہیں جن پر خدا نے انعام کیا یعنی نبی اور صدیق اور شہید اور صالح اور یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے بہت اچھے ساتھی اور رفیق ہیں."

Page 38

۳۵ اب دیکھو کہ یہ آیت علیحدہ صورت میں بھی کس وضاحت کے ساتھ اعلان کر رہی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے متبعین کے لئے خدا کے سارے انعاموں کا رستہ گھلا ہے.یعنی وہ حسب استعداد اور علی قدر مراتب نبی بھی بن سکتے ہیں،صدیق بھی بن سکتے ہیں ، شہید بھی بن سکتے ہیں اور صالح بھی بن سکتے ہیں.اور یہ وہ طبقات ہیں جن کی رفاقت ایک دوسرے کے لئے بڑی بابرکت اور پاکیزہ ہے.گویا اس آیت کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اتنا بلند اور اتنا ارفع ہے کہ آپ کی پیروی انسان کو بڑے سے بڑے رُوحانی انعام کا وارث بنا سکتی ہے.اور کوئی انعام ایسا نہیں جو آپ کے سچے مشبع کی پہنچ سے باہر ہو.اس کے مقابل پر جب اللہ تعالیٰ دوسری آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ باقی نبیوں کا ذکر کرتا ہے تو وہاں نبوت کے انعام کا ذکر ترک کر کے صرف صدیقوں اور شہیدوں کے ذکر پر ہی اکتفا فرماتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے:.الَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُوْنَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ تهم - ( سوره حدید آیت ۲۰) یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر سچا سچا ایمان لاتے رہے ہیں وہ خُدا کے نزدیک حسبِ استعداد صدیق اور شہید کا درجہ پاتے رہے ہیں.66 ان دو آیتوں ( یعنی سورہ نساء کی آیت اور سورہ حدید کی آیت) کے الفاظ اور مفہوم میں جو نمایاں فرق پایا جاتا ہے وہ ہر عقلمند انسان کو اس بات کا یقین دلانے کے لئے کافی ہے کہ جہاں سابقہ نبیوں کے متبعین کے لئے صرف صدیق اور شہید بننے کا انعام گھلا تھا اور وہ

Page 39

۳۶ اپنے نبی متبوع کی پیروی کی بناء پر نبوت کا انعام نہیں پاسکتے تھے وہاں ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے لئے آپ کی شاگردی میں علی قدر مراتب صدّیق اور شہید کے انعاموں کے علاوہ نبوت کا انعام بھی گھلا ہے.وذلك فضل الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم - مع کے لفظ کی تشریح اگر اس جگہ کسی شخص کو یہ خیال گزرے کہ سورۂ نساء والی آیت میں مع ( یعنی ساتھ ) کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین نبی نہیں بن سکتے بلکہ صرف نبیوں کی معیت حاصل کر سکتے ہیں.تو یہ ایک سخت کوتاہ نظری کا اعتراض ہو گا.کیونکہ اول تو اِس آیت میں معَ کا لفظ نبیوں کے ساتھ استعمال نہیں ہوا.بلکہ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ کے الفاظ کے ساتھ استعمال ہوا ہے جن میں نبی اور صدیق اور شہید اور صالح سب شامل ہیں.پس اگر مع کے لفظ کی وجہ سے اس آیت کا یہ مطلب لیا جائے کہ ایک مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی اور پیروی کی وجہ سے موت کا انعام نہیں پا سکتا.بلکہ صرف نبیوں کی ظاہری معنیت حاصل کر سکتا ہے تو پھر اس کے ساتھ یہ بات بھی لا زما قبول کرنی ہوگی کہ نعوذ باللہ کوئی مسلمان منعم علیہ گروہ میں شامل ہی نہیں ہوسکتا.اور نبی بننا تو الگ رہا صدیق اور شہید اور صالح بھی نہیں بن سکتا اور ہر مسلمان سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات بالبداہت باطل ہے.علاوہ ازیں عربی زبان کے محاورہ کی رو سے یہ بات ثابت ہے کہ بعض اوقات مع کا

Page 40

۳۷ لفظ من کے معنوں میں بھی آتا ہے.چنانچہ خود قرآن مجید فرماتا ہے کہ:.رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَّاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ( سوره آل عمران آیت (۱۹۴) یعنی اے ہمارے رب ہمارے گناہوں کو بخش اور ہماری کمزوریوں کو دُور فرما اور ہمیں اپنے نیک بندوں کے ساتھ ( یعنی نیک بندوں میں شامل کر کے ) وفات دے.اس آیت میں جو مع الابرار ( یعنی نیک بندوں کے ساتھ ) کا لفظ آتا ہے اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ وفات دے یعنی جب کوئی نیک آدمی مرنے لگے تو اُس وقت ہماری جان بھی قبض کر لے.بلکہ اس جگہ مع کے معنی یقیناً من کے ہیں.اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں نیک بندوں میں شامل کر کے وفات دے اور ایسا نہ ہو کہ ہم گناہ کی حالت میں مریں.اسی طرح مثلاً ابلیس کے سجدہ نہ کرنے کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید ایک جگہ تو مین کا لفظ استعمال کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ لحم يَكُن من الشجِدِينَ (سورۃ اعراف آیت ۱۲) '' یعنی ابلیس سجدہ کر نیوالوں میں نہیں تھا اور دوسری جگہ اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے معَ کا لفظ استعمال کر کے فرماتا ہے.آبي آن يَكُونَ مَعَ الشجدِينَ (سوره حجر آیت ۳۲) ابلیس نے سجدہ کر نیوالوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیا.اور اسطرح گویا خُود قرآن نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ بعض اوقات مع کا لفظ من کے معنوں میں بھی استعمال ہو جایا کرتا ہے وَهُوَ الْمُرَادُ.الغرض مع کے لفظ کا مین کے معنوں میں استعمال ہونا عربی زبان میں اتنا عام ہے

Page 41

۳۸ کہ کوئی معمولی علم رکھنے والا انسان بھی اِس کا انکار نہیں کر سکتا.اور حق یہ ہے کہ اس قسم کا محاورہ ہر زبان میں ملتا ہے جیسا کہ مثلاً اُردو میں بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص مسلم لیگ کے ساتھ ہے.اور اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ لیگ سے الگ رہ کر صرف اس کی ظاہری اور جسمانی معیت اختیار کئے ہوئے ہے.بلکہ اس سے لا زما یہی مراد ہوتی ہے کہ وہ مسلم لیگ کا ایک فرد ہے اور لیگ والوں میں شامل ہے.مگر افسوس ہے کہ اس زمانہ کے مولوی صاحبان نے قرآن مجید میں تدبر کرنا بالکل چھوڑ دیا ہے اور محض سطحی باتوں یا منقولی قصوں میں الجھ کر بیٹھ گئے ہیں.ورنہ اگر وہ ذرا غور سے کام لیتے تو اُن کے لئے مع کے لفظ پر اڑنے اور ٹھوکر کھانے کی کوئی وجہ نہیں تھی.مع کا لفظ اختیار کرنے میں حکمت حق یہ ہے کہ مین کو چھوڑ کر مع کا لفظ اختیار کرنے میں ایک بڑی حکمت تھی اور وہ یہ کہ تا اس آیت میں مین اور مع دونوں کا مرکب مفہوم پیدا کیا جائے.یعنی غرض یہ تھی کہ اس جگہ مع کا لفظ ایک ہی وقت میں مع اور من دونوں کے معنی دے.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جیسا کہ حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الاروائح جنود مُجدَةٌ یعنی رُوحوں کے بھی مختلف گروپ ہوتے ہیں.“ اور ایک قسم کی رُوحیں اسی قسم کی رُوحوں کی طرف جھکتیں اور اُن کے ساتھ رابطہ اور اتحاد پیدا کرتی ہیں.پس اس جگہ مین کا لفظ چھوڑ کر مع کا لفظ اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ تا اس لطیف حقیقت کی طرف اشارہ کیا جائے کہ یہ انعام پانے والے لوگ نبیوں اور صد یقوں اور شہیدوں میں شامل ہونے کے علاوہ اپنے اندر معیت کا مفہوم بھی پیدا کریں گے.یعنی ہر طبقہ

Page 42

۳۹ کے لوگوں کا آپس میں کامل اتحاد اور رابطہ اور اتصال ہوگا.اور وہ گویا جُنُودُ مُجَنَّدَةٌ کا نظارہ پیش کریں گے.چنانچہ اس غرض کے ماتحت آیت کے آخر میں حَسُنَ أُولَئِكَ رفیقا کے الفاظ رکھتے گئے ہیں تا اس رُوحانی رفاقت اور رابطہ اور اتحاد کی طرف اشارہ کیا جائے جو ہر منعم علیہ جماعت میں لازما موجود ہوتا ہے اور ہونا چاہئیے.اسی اُصول کے ما تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حدیث میں فرماتے ہیں کہ :.الانبياء اخوة من علات أمها تهم شتى و دينهم واحد.( مسلم باب فضائل عیسی ) یعنی تمام نبی آپس میں ایسے بھائی بھائی ہیں کہ اُن کی مائیں تو جدا جدا ہیں مگر باپ ایک ہی ہے اور دین بھی ایک ہے.“ پس آیت زیر غور میں بھی اسی رُوحانی اتحاد کی طرف اشارہ کرنے کے لئے مع کا لفظ لا یا گیا ہے تامن اور مع کا مرتب مفہوم پیدا کر کے آیت کے معنی میں وسعت پیدا کی جائے.مگر افسوس کہ اس زمانہ کے اکثر مولوی صاحبان قرآنی معارف اور غوامض سے بالکل کورے ہیں.اور سمندر میں غوطہ لگا کر اس کی گہرائیوں سے موتی نکالنے کی بجائے اس کی سطح کی جھاگ اور خس و خاشاک کو ہی جو خود اُن کی اپنی پیدا کردہ ہے، اپنے سینوں سے لگائے بیٹھے ہیں ورنہ انہیں نظر آتا کہ قرآن مجید کا ہر لفظ اور ہر حرف اپنے اندر نہایت وسیع اور گہرے معانی رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب قرآن مجید ایک عام لفظ کو چھوڑ کر اس کی جگہ کوئی دوسرا لفظ اختیار کرتا ہے تو اس تبدیلی میں بھی ایک بھاری حکمت مخفی ہوتی ہے ولا يَعْلَمُ تَأْوِيْلَهُ إِلَّا اللهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ - وَالَّذِيْنَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تشَابَهَ مِنْهُ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا -

Page 43

امت محمدیہ میں رسولوں کی آمد کا صریح وعدہ اس کے بعد میں ایک ایسی قرآنی آیت کو لیتا ہوں جس میں اُمت محمدیہ میں صریح طور پر رسولوں کی آمد کا وعدہ دیا گیا ہے.قرآن شریف فرماتا ہے:.يُبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُضُونَ عَلَيْكُمْ ايْتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (سورۃ اعراف آیت ۳۶) ” یعنی اے بنی آدم اگر آئندہ تمہارے پاس تمہیں میں سے خُدا کے رسول آئیں جو تم پر خدا کی آیات پڑھ کر سنائیں تو تم ہرگز انکار نہ کرنا بلکہ ایمان لے آنا کیونکہ جو لوگ رسولوں کی آمد پر تقویٰ اختیار کرتے اور اپنی اصلاح کرتے ہیں وہ خوف اور محزون سے محفوظ ہو جاتے ہیں.“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ تمام بنی آدم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اگر آئندہ کسی زمانہ میں تم میں تمہیں میں سے ( کیونکہ اب غیروں میں رسول مبعوث ہونے کا دروازہ بند ہو چکا ہے ) کوئی رسُول مبعوث ہو تو انکار نہ کرنا بلکہ خُدا کا تقوی اختیار کر کے اپنی اصلاح کی فکر کرنا کیونکہ یہی تمہارے لئے خوف وخون سے نجات پانے کا رستہ ہے.اب دیکھو کہ یہ آیت کس صراحت اور وضاحت کے ساتھ اور کن زور دار الفاظ میں امت محمدیہ میں حسب ضرورت رسولوں کی آمد کا دروازہ کھول رہی ہے.کاش لوگ ان حقائق پر غور کریں! اور اگر اس جگہ کسی شخص کو یہ شبہ ہو کہ یہ آیت گذشتہ قوموں کے متعلق ہے نہ کہ آئندہ

Page 44

زمانہ کے متعلق تو وہ خود قرآن شریف کھول کر اس آیت کے آگے پیچھے اچھی طرح نظر ڈال کر دیکھ سکتا ہے کہ کیا اس جگہ کسی گذشتہ قوم کے ذکر کا شائبہ تک بھی ہے؟ پھر اگر یہ ثابت ہو کہ یہ آیت آئندہ زمانہ کے لئے ہے نہ کہ کسی گذشتہ قوم کے لئے تو پھر ہر انصاف پسند انسان کا فرض ہے کہ وہ سوچے کہ کیا اس سے بڑھ کر اجراء نبوت کا کوئی ثبوت ہوگا کہ قرآن شریف خود بہ بانگ بلند فرما رہا ہے کہ اے آدم کے بیٹو! ہوشیار ہو کرشن لو کہ تم میں آگے چل کر بھی ہمارے رسول آسکتے ہیں.مگر وہ بہر حال تمہیں میں سے ہو نگے اور تمہارے رشول کے تابع اور خوشہ چین رہیں گے.دوستو اور بھائیو! خُدا کے لئے دیکھو اور سُنو کہ دین کا معاملہ کوئی کھیل نہیں ہے.اس میں انتہائی سنجیدگی کے ساتھ سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے.پس خُدارا قرآن شریف کی اس آیت پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرو کہ کیا اس میں گذشتہ زمانہ کا ذکر ہے یا کہ آئندہ زمانہ کا؟ اگر آئندہ کا ذکر ہے تو کیا اس میں رشولوں کی آمد کا وعدہ نہیں دیا گیا؟ اور پھر اگر یہ بات ثابت ہو کہ اس آیت میں آئندہ رسولوں کا وعدہ دیا گیا ہے تو حق و صداقت کی خاطر اسے قبول کرو کیونکہ قرآن سے بڑھ کر کوئی ہدایت نہیں.اور قرآن کے انکار سے بڑھ کر کوئی شقاوت نہیں.اٹھا کے لفظ کی تشریح اور اگر کسی شخص کو یہ خیال گزرے کہ اس آیت میں اما یعنی اگر“ کا لفظ رکھا گیا ہے اور جو بات اگر“ کے لفظ سے کہی جائے وہ یقینی نہیں ہوا کرتی بلکہ اس میں شک کا پہلو ہوتا ہے.تو یہ ایک جہالت کا شبہ ہوگا.کیونکہ اس جگہ اگر “ کا لفظ نعوذ باللہ شک کے اظہار کے لئے نہیں رکھا گیا بلکہ اس حکمت کے ماتحت رکھا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 45

۴۲ کے بعد قیامت تک بہت سی نسلوں نے آنا تھا.پس اٹھا یعنی اگر“ کا لفظ رکھ کر اس طرف تو جہ دلائی گئی ہے کہ آپ کے بعد ہر نسل کو آنے والے رسول کے لئے تیار رہنا چاہیئے.کیونکہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کس نسل میں آجائے.پس اگر“ کے لفظ میں شک کا اظہار مُراد نہیں.بلکہ ہرنسل کو ہوشیار کرنا مراد ہے.گویا کہ ہرنسل کو علیحدہ علیحدہ مخاطب کر کے کہا جارہا ہے کہ اگر تم میں آجائے یا اگر تم میں آجائے یا اگر تم میں آجائے.ورنہ اگر ایما کے لفظ سے شک کا اظہار مُراد ہوتا یا اگر منشاء یہ ہوتا کہ کسی رسول نے آنا وانا تو ہے نہیں.لیکن بالفرض اگر کوئی آجائے تو تم مان لینا تو یہ نعوذ باللہ ایک لغو کلام بلکہ ایک کھیل بن جاتا جو قرآن کی شان سے بالکل بعید ہے.اور اگر یہ اعتراض ہو کہ اس آیت میں تو رسل کا لفظ ہے جو جمع کی صورت میں استعمال ہوا ہے مگر اُمتِ محمدیہ میں اس وقت تک صرف ایک ہی رسول آیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اے ہمارے جلد باز بھائیو! ابھی دُنیا کی عمر ختم نہیں ہوئی.تمہیں کیا معلوم ہے کہ شاید آگے چل کر کوئی اور امتی نبی بھی آجائے.علاوہ ازیں یہ بھی ایک عام قاعدہ ہے اور ہر زبان میں پایا جاتا ہے کہ جہاں کوئی بات بطور اُصول کے بیان کرنی ہو تو وہاں بعض اوقات واحد کا صیغہ چھوڑ کر جمع کا صیغہ استعمال کر لیتے ہیں خواہ مراد ایک ہی ہو اور پھر یہ خاص نکتہ بھی ضرور یادرکھنے کے قابل ہے کہ چونکہ حضرت مسیح موعود میں مختلف رسولوں کے بروزوں کا اجتماع ہوا ہے جیسا کہ آپ کے دعاوی کے تفصیلی مطالعہ سے ظاہر ہے لہذا آپ کی بعثت میں دراصل بہت سے رسولوں کی بعثت جمع ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف قرآنی آیت وَإِذَا الرُّسُلُ أُقتَتْ ( یعنی مختلف رسول ایک ہی وقت میں اکٹھے کئے جائیں گے ) میں اشارہ کیا گیا ہے.مگر افسوس ہے کہ ہمارے اس مختصر مضمون میں ان

Page 46

۴۳ تصریحات کی زیادہ گنجائش نہیں ہے.آیت خاتم النبیین کا بلند نظریة اب میں اس معرکۃ الآراء آیت کی طرف آتا ہوں جو گو یاختم موت کی بحث کا مرکزی نقطہ ہے اور دراصل یہی وہ آیت ہے جس کی غلط تشریح کی بناء پر ہمارے مخالفین نبوت کے دروازہ کو بند قرار دیتے ہیں.مگر جیسا کہ ابھی ظاہر ہو جائے گا یہ آیت نبوت کا دروازہ بند کرنے کی بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ بلند مقام پیش کر رہی ہے جسے گویا نبی تراش کہنا چاہئیے.قرآن مجید فرماتا ہے:.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِين - دو (سورۃ احزاب آیت ۴۱) یعنی اے لوگو! محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد ( یعنی نرینہ اولاد) 66 کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم الیقین ہیں." آیت خاتم النبیین کا شانِ نزول لیکن اس آیت کی تشریح پیش کرنے سے قبل اس کی شان نزول کا ذکر کرنا ضروری ہے تا یہ معلوم ہو کہ ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کس بناء پر اور کس تاریخی پس منظر کے پیش نظر خاتم النبیین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.سو جاننا چاہیئے کہ ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ہی تشریف رکھتے تھے کہ قضاء الہی سے آپ کی ساری نرینہ اولا دجو حضرت خدیجہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھی فوت ہوگئی.اس پر بد باطن کفار مکہ نے

Page 47

۴۴ آپ پر یہ طعن کیا کہ نعوذ باللہ آپ بے ثمر اور ابتر ہیں اور یہ کہ آپ کی وفات کے ساتھ آپ کا سارا سلسلہ ختم ہو جائے گا.اِس پر خُدا تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرما ئیں کہ:.إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَةُ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَالْحَرْثُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ (سوره کوثر) " یعنی اے محمد ! ہم نے تجھے عظیم الشان نعمتیں عطا کی ہیں.پس تو ان انعاموں کی شکر گزاری میں خوب عبادت بجالا اور خدا کے رستہ میں بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کر کیونکہ دُعاؤں اور قربانیوں کے نتیجہ میں تو اور ترقی کریگا اور یقیناً تیرا دشمن جو تجھے ابتر کہتا ہے وہ خودا بہتر اور بے شمر رہے گا.“ اس کے بعد جب مدینہ کی ہجرت ہو چکی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدائی حکم کے ماتحت اعلان فرمایا کہ میں نے جو اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کوا پنامُنہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا وہ اب اسلامی احکام کے ماتحت جائز نہیں رہا.اس لئے آئندہ میرے ساتھ زید کا کوئی جسمانی رشتہ نہ سمجھا جائے (سورہ احزاب آیت ۵ تا ۷ ) تو اِس اعلان سے بد بخت کفار نے ناجائز فائدہ اُٹھا کر پھر اپنے سابقہ طعن کو دُہرایا کہ لڑکے تو پہلے ہی مر چکے تھے اب منتیشنی کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا اور گو یا خاکش بدہن ابتریت مکمل ہوگئی.اس پر خاتم النبیین والی آیت نازل ہوئی اور اس کے ذریعہ اعلان کیا گیا کہ بیشک خدائی مصلحت کے ماتحت محمد رسول اللہ کی نرینہ اولاد کوئی نہیں لیکن وہ خُدا کا رسول ہے اور اس لحاظ سے وہ کثیر التعداد رُوحانی اولا دکا باپ ہے بلکہ عام رسولوں سے بھی بڑھ کر وہ خاتم النبیین بھی ہے.اور اس کے پروں کے نیچے نبی اور رسول پرورش پانے والے ہیں.پس وہ ہرگز ابتر اور بے شمر نہیں بلکہ عظیم الشان روحانی سلسلہ کا بانی اور اولین و آخرین کا سردار ہے.

Page 48

آیت خاتم النبیین کے دو امکانی معنی یہ وہ پس منظر ہے جس میں آیت خاتم النبیین کا نزول ہوا اور اس سے ظاہر ہے کہ اس آیت میں خاتم النبیین کا لفظ گو یا اس بلند آیت کی چوٹیوں میں سے بلند ترین چوٹی ہے مگر افسوس صد افسوس کہ اسی لفظ کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع شان کے اظہار کے لئے استعمال کیا گیا ہے خدائی نعمتوں کے دروازہ کو بند کرنے والا قرار دیا جاتا ہے.اور اس سے یہ غلط استدلال کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کی نہر ہمیشہ کے لئے خشک ہوگئی ہے.اور آپ کے بعد کوئی شخص خواہ وہ آپ کا شاگرد اور متبع اور خادم ہی ہو نبی نہیں بن سکتا.لیکن جیسا کہ ہم انشاء اللہ ابھی ثابت کریں گے یہ تشریح ہر گز درست نہیں.کیونکہ نہ صرف عربی زبان کے قواعد کے مطابق بلکہ اس آیت کے الفاظ اور اس آیت کی شان نزول کے پیش نظر بھی اس آیت کے صرف دو ہی معنی بنتے ہیں اور وہ دو معنی یہ ہیں کہ :.(۱) اے لوگو! محمدصلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد یعنی نرینہ اولاد کے جسمانی باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہونے کے لحاظ سے مومنوں کے رُوحانی باپ ہیں وہ نبیوں کی مہر ہیں اور اس لحاظ سے گویا نبیوں کے لئے بھی بمنزلہ باپ کے ہیں.اور آئندہ کوئی نبی آپ کی تصدیقی مہر کے بغیر سچا نہیں سمجھا جاسکتا.یا (۲) اے لوگو! محمدصلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن وہ رسول ہونے کے لحاظ سے مومنوں کے باپ ہیں اور رسول بھی اس شان کے کہ اُن پر تمام کمالات نبوت ختم ہیں یعنی وہ افضل ترین نبی ہیں.

Page 49

۴۶ لکن کے لفظ کی تشریح گوعربی محاورہ کے لحاظ سے یہ دونوں معنی درست ہیں لیکن اوّل الذکر معنی یقیناً زیادہ صحیح اور آیت کے الفاظ اور شان نزول کے لحاظ سے زیادہ درست ہیں.لیکن خواہ ان دو امکانی معنوں میں سے کوئی معنی لئے جائیں بہر حال موجودہ زمانہ کے غیر احمدی علماء کا استدلال درست ثابت نہیں ہوتا.اور اس آیت سے یہ بات رکسی طرح مستنبط نہیں ہو سکتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر قسم کی نبوت کا دروازہ کھلی طور پر بند ہے.در اصل اندرونی شہادت کے لحاظ سے اس آیت کی گنجی دولفظوں میں ہے.ان میں سے ایک لکین کا لفظ ہے اور دوسرا خاتم کا لفظ ہے.اور ان دولفظوں کی صحیح تشریح کے بغیر آیت کے اصل معنی سمجھ میں نہیں آسکتے.لیکن کا لفظ عربی قواعد کے مطابق وہاں استعمال کیا جاتا ہے جہاں کسی جُملہ یا فقرہ کے بعد اس کے مقابل کا مفہوم بیان کرنا مقصود ہو یا جہاں پہلے حملہ سے کوئی شبہ پیدا ہوتا ہو اور لکن کے ذریعہ دوسرا حملہ بیان کر کے اس شبہ کا ازالہ کیا جائے.مثلاً اگر کسی جُملہ میں کوئی منفی مضمون بیان کیا گیا ہو تو لکین کے بعد اس کے مقابل کا مثبت مضمون بیان کرتے ہیں.اور اگر کسی فقرہ میں کوئی مثبت مضمون مذکور ہو تولیکن کے بعد اس کے مقابل کا منفی مضمون لاتے ہیں.اور چونکہ لکین کا لفظ اُردو زبان میں بھی تقریبا عربی والے مفہوم میں ہی استعمال ہوتا ہے اس لئے اس جگہ اس کی تشریح کے لئے اُردو کی مثالیں بیان کرنا کافی ہیں.مثلاً اُردو میں کہتے ہیں کہ ”حمید بدن کا کمزور تو ہے لیکن بہادر ہے.اب اس جملہ میں بدن کے کمزور ہونے کے مقابل پر لیکن کا لفظ استعمال کر کے بہادر کا لفظ رکھا گیا ہے.اور اس طرح جو شبہ بدن کے کمزور ہونے کے تصور ،،

Page 50

۴۷ سے پیدا ہوسکتا ہے کہ شاید حمید بہادر نہ ہو.اسے لیکن کے لفظ کے بعد بہادر کا لفظ استعمال کر کے دُور کیا گیا ہے.اسی طرح مثلاً کہتے ہیں کہ ” سب لوگ اُٹھ گئے لیکن سعید نہیں اُٹھا.اب اس جگہ سب لوگوں کے اُٹھ جانے سے یہ شبہ پیدا ہو سکتا تھا کہ شاید کوئی شخص بھی بیٹا نہ رہا ہو تو اس شبہ کو لیکن کے استعمال کے بعد دوسراجُملہ بول کر دُور کیا گیا اور بتایا گیا کہ گو باقی سب لوگ اُٹھ گئے ہیں لیکن سعید نہیں اُٹھا اور ابھی تک بیٹھا ہوا ہے.الغرض لیکن کا لفظ وہاں استعمال کیا جاتا ہے جہاں کسی امکانی شبہ کا تدارک کرنا مقصود ہو یا کسی بات کے بعد اس کے مقابل کی بات بیان کرنی مد نظر ہو.اس قسم کے استعمال کو عربی محاورہ میں استدراک کہتے ہیں اور لغت کی ہر کتاب میں لکھا ہے کہ لکین کا لفظ استدراک کے لئے آتا ہے.اب اچھی طرح غور کر کے سمجھ لو کہ اگر خاتم النبیین کے معنی نبیوں کوختم کرنے والا کئے جائیں جیسا کہ ہمارے مخالفین کرتے ہیں تو پھر اس آیت میں لکین کا لفظ بالکل بے معنی ہو جاتا ہے.اور یہ آیت نعوذ باللہ ایک مہمل کلام بن جاتی ہے.کیونکہ اس صورت میں آیت کے معنی یہ بنتے ہیں کہ :.محمدصلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کے باپ تو نہیں لیکن وہ نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں.اب غور کرو کہ خدائے علیم وحکیم تو الگ رہا کیا کوئی معمولی عقل کا آدمی بھی اس قسم کا مل کلام کر سکتا ہے جس میں لیکن کے لفظ سے پہلے کا جملہ اور لیکن کے بعد کا جملہ ایک ہی مفہوم کے حامل ہوں.اور سابقہ شبہ کو دور کرنے کی بجائے اُسے اور بھی زیادہ مضبوط کر دیا جائے.یہ تو اس قسم کا ختر و بن جاتا ہے کہ سارے لوگ اُٹھ گئے لیکن سعید بھی اُٹھ گیا.کیا

Page 51

۴۸ کوئی سمجھ دار انسان ایسا بے معنی کلام کر سکتا ہے؟ کیا قرآن مجید جیسی فصیح وبلیغ کتاب اس قسم کے مہمل جملہ کی حامل ہوسکتی ہے؟ خدارا غور کرو اور انصاف سے کام لیکر بتاؤ کہ کیا لیکن کا لفظ ان معنوں کو برداشت کرتا ہے جو ہمارے مخالف بیان کرتے ہیں؟ اس کے مقابل پر جو معنی اس آیت کے ہم کرتے ہیں اس میں لکین کا لفظ پوری طرح مطابقت کھاتا ہے اور کوئی پیچیدگی نہیں رہتی کیونکہ ہمارے معنی یہ ہیں کہ:.محمدصلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کے باپ تو نہیں ہیں لیکن وہ مومنوں کے روحانی باپ ہیں بلکہ نبیوں تک کے روحانی باپ ہیں.ان معنوں کے لحاظ سے لکین کا لفظ اس آیت کے مفہوم میں اس طرح ٹھیک بیٹھتا ہے جس طرح کہ ایک اعلیٰ درجہ کی انگوٹھی میں اس کے صحیح ناپ کا نگینہ بیٹھا کرتا ہے اور کوئی رخنہ باقی نہیں رہتا.خاتم کے لفظ کی تشریح اس آیت میں دوسرا خاص لفظ خاتم کا ہے.یہ لفظ گو عام قرآت میں ت کی زبر سے درج ہے اور پاکستان کا ہر قرآنی نسخہ خواہ وہ احمدیوں کے ہاتھ میں ہے یا غیر احمدیوں کے ہاتھ میں اس لفظ کوت کی زبر سے ہی ظاہر کرتا ہے.مگر یہ درست ہے کہ ایک شاذ قرات میں ت کی زیر بھی آئی ہے.لیکن ہم کہتے ہیں کہ خواہ کوئی سی صورت لے لی جائے اس آیت سے نبوت کا بند ہونا بہر حال کسی طرح ثابت نہیں ہوتا.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جیسا کہ لغت کی کتابوں میں صراحت کے ساتھ لکھا ہے ت کی زبر سے خائم کے معنی مہر کے ہوتے ہیں چنانچہ لغت کی مشہور کتاب تاج العروس میں لکھا ہے الخاتم ما يوضع على

Page 52

۴۹ الطينة.یعنی خاتم کے معنی اُس مہر کے ہوتے ہیں جو لاکھ یا مٹی یا کاغذ وغیرہ پر لگائی جاتی ہے.جیسا کہ مثلاً حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر و کسری کو تبلیغی خطوط بھجواتے ہوئے اُن خُطوط پر اپنی تصدیقی مہر ثبت کی تھی.اس لحاظ سے آیت کے یہ معنی بنتے ہیں کہ :.محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کے جسمانی باپ تو نہیں لیکن وہ رسول ہونے کے لحاظ سے مومنوں کے روحانی باپ ہیں بلکہ وہ نبیوں کی بھی مہر ہیں اور آئند ہ وہی شخص سچا نبی سمجھا جا سکتا ہے جسے آپ کی مہر اور تصدیق حاصل ہو.“ اب دیکھو یہ معنی کتنے صاف اور کتنے واضح ہیں.جسے ایک بچہ بھی آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے.اور پھر دیکھو کہ ان معنوں کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی بلندشان ثابت ہوتی ہے کہ آپ صرف عام رسول ہی نہیں بلکہ آپ کی مہر نبی تراش ہے اور آپ کی کامل پیروی اور روحانی تو جہ سے ایک شخص نبوت کے مقام تک پہنچ سکتا ہے.اور اس طرح آپ گویا نبیوں کے بھی رُوحانی باپ ہیں.الغرض اگر اس آیت میں ایک طرف آپ کی جسمانی اولاد کی نفی کی گئی ہے تو دوسری طرف لکین کا لفظ استعمال کر کے آپ کی رُوحانی اولاد کا اثبات کر دیا گیا ہے.اور پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آپ کے ہاتھ میں نبی گری کی مہر دے کر آپ کو نبیوں کا بھی رُوحانی باپ قرار دے دیا گیا ہے.اس کے علاوہ یہ بھی یا درکھنا چاہیئے کہ مجاز کے طور پر خاتم کے معنی انگوٹھی کے بھی ہوتے ہیں ( تاج العروس ) اور چونکہ انگوٹھی زینت کا موجب ہوتی ہے اس لئے اس لحاظ سے خاتم النبیین کے معنی ایسے وجود کے ہوں گے جو گویا مجملہ انبیاء کے لئے موجب زینت ہے اور یہ معنی بھی اپنی جگہ بہت لطیف ہیں.

Page 53

خاتمہ کے لفظ کی دوسری قرأت اب رہی لفظ حاتم کی دوسری قرآت جو شاذ کے طور پرت کی زیر سے بیان ہوئی ہے.سواگر غور کیا جائے تو اس کی رُو سے بھی ہرگز مبقت کا ختم ہونا ثابت نہیں ہوتا.کیونکہ غور کیا روسے ہر کا اس صورت میں لفظ خاتم النبیین کے صاف اور سید ھے معنی یہ بنتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کے کمالات ختم ہیں یعنی آپ افضل ترین نبی ہیں نہ یہ کہ آپ نعوذ باللہ نبوت کا انعام ہی ختم کرنے والے اور ایک بہتی ہوئی نہر کو بند کرنے والے ہیں.چنانچہ عربی لغت کی مشہور کتاب اقرب الموارد میں لکھا ہے کہ.ختم الله له الخير اتمه_یعنی جب یہ کہا جائے کہ خدا نے فلاں شخص کے لئے خوبیوں کو ختم کر دیا تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اُنہیں کمال تک پہنچا دیا.پھر اس بات کو تو سکول کے بچے بھی جانتے ہیں کہ جب مثلاً یہ کہا جائے کہ فلاں شخص پر مصوری کا ہنر ختم ہے تو اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ اس نے مصوری کے ہنر میں انتہائی کمال پیدا کیا ہے نہ یہ کہ اس کے بعد کوئی مصوّر پیدا ہی نہیں ہو سکتا.اس قسم کے محاورے ہر زبان میں کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں.بہر حال خاتم کی ت کی زیر سے بھی آیت کے معنی بالکل صاف اور واضح ہیں جس میں کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آتی.چنانچہ انہی معنوں کے لحاظ سے حضرت مولانا رومیؒ (وفات ۷۲ ہجری) اپنی مثنوی میں فرماتے ہیں.بہ ایں خاتم شد است اوکه بجود مثل ہو ئے بود کے خواهند بود (مثنوی رومی دفتر ششم صفحه ۶)

Page 54

۵۱ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خاتم النبیین اس بناء پر رکھا گیا ہے کہ نہ آپ سے پہلے کوئی نبی فیض رسانی اور کمالات میں آپ کا ہم مرتبہ ہوا ہے اور نہ آپ کے بعد ہوسکتا ہے.“ آیت خاتم النبیین کے متعلق بحث کا خلاصہ! خلاصہ کلام یہ کہ خواہ خاتم کا لفظت کی زبر سے سمجھا جائے جیسا کہ پاکستان اور ہندوستان اور دوسرے ممالک کے کروڑوں نسخوں میں ت کی زبر سے ہی لکھا جاتا ہے اور خواہ اسے ت کی زیر سے سمجھا جائے جیسا کہ بعض تفسیر کی کتابوں میں شاذ کے طور پر بیان ہوا ہے ہر دو صورت میں اس آیت سے نبوت کا بند ہونا کسی طرح ثابت نہیں ہوتا بلکہ ت کی زبر سے خاتم کے معنی نبیوں کی مُہر کے ہیں.اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیقی مہر کے بغیر نبی نہیں بن سکتا.بلکہ وہی شخص نبی بن سکتا ہے جو آپ سے فیض یافتہ اور آپ کا شاگرد اور خادم ہو.اورت کی زیر سے خاتم کے معنی کمالات نبوت میں انتہائی کمال پیدا کرنے والے کے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ افضل ترین نبی ہیں.اور آپ کے مقام کی بلندی کوکوئی دوسرا شخص نہیں پہنچ سکتا.اس واضح تشریح کے مقابل پر ہمارے مخالفین کے ہاتھ میں کیا ہے؟ اس سوال کا جواب خود اُن کے اُس ترجمہ سے ظاہر ہے جو وہ اس آیت کا کرتے ہیں یعنی :.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی مرد کے جسمانی باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور ایسے نبی ہیں جس کے بعد نبوت کا انعام بند ہو گیا ہے.کیا ان ادنی اور پست معنوں کو ان اعلیٰ اور ارفع معنوں سے کوئی دور کی بھی نسبت ہے جو ہم نے

Page 55

۵۲ او پر بیان کئے ہیں؟ ضد کا معاملہ جُدا گانہ ہے مگر ہر انصاف پسند انسان کا دل بولے گا اور اس کے وجدان کی تاریں اس کے دل کے دامن کو کھینچ کھینچ کر پکاریں گی کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان انہی معنوں میں ہے جو ہم نے لکھے ہیں.کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے.ع کرشمہ دامن دل میکشد که جا این جا است الغرض خاتم النبیین کی آیت نے بھی جو گو یا ہمارے مخالفین کے نظریہ کا بنیادی پتھر سمجھا جاتا ہے ہمارے حق میں ہی ڈگری دی کیونکہ اس آیت سے بھی نبوت کا دروازہ بند ہونے کی بجائے یہی ثابت ہوا کہ ہمارے آقا (فداہ نفسی ) صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ بلند مقام ہے کہ آپ کے شاگرد اور خادم بھی آپ کی قوت قدسیہ کے طفیل اور آپ کی مہر تصدیق کے ساتھ نبوت کے کمالات حاصل کر سکتے ہیں.یہ اس لئے ہے کہ آپ خدا کے فضل سے افضل ترین نبی ہیں اور افضل ترین وبجود کے نزول کے بعد تمام دوسرے وجود اس کے نیچے آجاتے ہیں.اور پھر یہ اس لئے ہے کہ آپ نعوذ باللہ ابتر نہیں بلکہ الکوثر کے مالک ہیں.اور روحانی فیوض کا ہر چشمہ آپ کے مبارک وجود میں سے پھوٹتا ہے اور اولین و آخرین کی گردنیں آپ کے سامنے جھکتی ہیں.اسی لئے آپ فرماتے ہیں کہ اناسید ولد آدم ولا فخر.یعنی میں کل نسل آدم کا سردار ہوں.مگر مجھے اس پر فخر نہیں کیونکہ یہ سب میرے خدا کا فضل ہے.اور پھر فرماتے ہیں:.لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتَّبَاعِى - الیواقیت والجواہر مرتبہ امام شعرانی جلد ۲ صفحه ۲۰) و یعنی اگر اس وقت موسیٰ اور عیسی بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری پیروی کے بغیر چارہ نہ ہوتا.“

Page 56

۵۳ اللہ اللہ یہ کس شان کا نبی ہے اور اس کا قدم کس بلندی پر ہے کہ نہ صرف گذشتہ رسول بلکہ اس زمانہ کا مثیل مسیح بھی جس کے ہاتھ پر اسلام کے دُوسرے دور کا غلبہ مقدر ہے اس کے خادموں کے زمرہ میں کھڑے ہیں.اور اس کی مقدس مہر اگلوں اور پچھلوں دونوں کی تصدیق کا کام دے رہی ہے! اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكَ وَسَلِّمْ حدیث کی رُو سے مسئلہ ختم نبوت کاحل مسئلہ ختم نبوت کے متعلق قرآن مجید کی رُو سے مختصر مگر خدا کے فضل سے جامع تبصرہ پیش کرنے کے بعد اب میں حدیث کی طرف آتا ہوں.جیسا کہ اس رسالہ کے شروع میں بتایا جا چکا ہے کوئی حدیث خواہ بظاہر کتنے ہی اعلیٰ مقام پر فائز ہو قرآن مجید کے مقابل پر اس کا مقام بہر حال خطتنی ہے لیکن چونکہ مجھے اپنے مخالف خیال اصحاب کی تسلی کرانی مقصود ہے اور اس مختصر سے رسالہ میں مفصل بحث کی گنجائش بھی نہیں اس لئے میں اس جگہ مختلف حدیثوں کے متعلق صحیح اور ضعیف کی بحث میں نہیں جاؤں گا بلکہ دلیل کی خاطر ان سب حدیثوں کو جو اس جگہ بیان کی جائیں گی صحیح فرض کر کے ان کی مناسب تشریح پیش کرنے کی کوشش کروں گا.وما توفیقی الا باللہ العظیم - سب سے پہلے میں اُن مثبت قسم کی حدیثوں کو لیتا ہوں جن کی رُو سے ہمارے

Page 57

۵۴ خیال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ظلی نبوت کا رستہ گھلا ہونا ثابت ہوتا ہے یعنی جن سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ گو ہمارے آقا (فداہ فسی) کے بعد کوئی صاحب شریعت نبی نہیں آ سکتا اور نہ ہی کوئی غیر تشریعی مستقل نبی آسکتا ہے.جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے آزاد ہو کر براہ راست نبوت کا انعام پایا ہو.لیکن امتی نبی جس نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے فیض پایا اور آپ کے ٹور سے ٹور حاصل کیا ہو ضرور آسکتا ہے.اور ہم جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسی قسم کا ظلی اور امتی نبی یقین کرتے ہیں جس نے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی اور پیروی میں نبوت کا انعام پایا.بہر حال اس جگہ پہلے مثبت قسم کی حدیثوں کی بحث پیش کی جاتی ہے.اور اس کے بعد انشاء اللہ اسی اصول پر ان منفی قسم کی حدیثوں کی تشریح پیش کی جائے گی جن سے ہمارے مخالفین بزعم خود یہ استید لال کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے.اگر ابراہیم ابنِ رسول زندہ رہتا تو ضرور نبی بن جاتا ! اس تمہیدی نوٹ کے بعد جو حدیث میں موجودہ بحث کے تعلق میں سب سے بیان کرنا چاہتا ہوں وہ ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ صاحبزادہ ابراہیم سے تعلق رکھتی ہے.ابراہیم جو حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے تھے نہ ہجری میں پیدا ہوئے تھے (طبری و زرقانی و تاریخ خمیس ) اور چونکہ نبوت کے زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا لڑکا تھا اور اس سے پہلے جولڑ کے حضرت خدیجہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے تھے وہ سب کے سب فوت ہو چکے تھے اس لئے.

Page 58

آپ کو صاحبزادہ ابراہیم کے ساتھ بہت محبت تھی.مگر قضائے الہی سے یہ بچہ بھی سترہ اٹھارہ ماہ کے بعد فوت ہو گیا.طبعا اُس کی وفات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت صدمہ ہوا.اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے لیکن آپ نے اس کے سوا کچھ نہیں فرمایا کہ انا بفراقك يا ابراهيم لمحزونون یعنی اے ابراہیم ہم تیری جدائی کی 66 وجہ سے بہت مغموم ہیں.“ اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ بھی فرمایا :.لو عاش ابراهيم لكان صديقًا نبيًّا - (ابن ماجہ کتاب الجنائز) یعنی اگر میرا یہ بچہ ابراہیم زندہ رہتا تو وہ ضرور صدیق نبی بن جاتا.“ صديقا نبیا کی مرکب اصطلاح میں لطیف حکمت اس حدیث میں جو صدیق نبی کی مرکب اصطلاح استعمال ہوئی ہے اس میں صاحبزادہ ابراہیم کے درجہ کی بلندی کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے.اور مطلب یہ ہے کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو وہ اپنے اندر صد یقیت اور نبوت دونوں کی برکات اور دونوں کے اوصاف جمع کرتا.چنانچہ قرآنِ مجید نے جہاں حضرت اور میں علیہ السلام کے لئے صدیقاً نبیا کی مرکب اصطلاح استعمال کی ہے ( اور حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے علاوہ صرف حضرت ادریس ہی ایک ایسے نبی ہیں جن کے متعلق یہ اصطلاح استعمال ہوئی ہے ) وہاں ساتھ ہی قرآنِ مجید نے فرمایا ہے کہ رَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا ( سوره مریم آیت ۵۸ ) ” یعنی

Page 59

۵۶ ہم نے اور میں کو ایک بلند مرتبہ والا نبی بنایا تھا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی اس حدیث میں یہ اشارہ تھا کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو وہ بھی بڑی بلندشان کو پہنچتا کیونکہ اس میں فطری طور پر بہت اعلیٰ قومی ودیعت کئے گئے تھے.اس کے علاوہ صديقا نبیا کے مرکب الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اشارہ بھی فرمایا ہے کہ جس طرح ایک صدیق اپنے درجہ کے لحاظ سے نبی سے نیچے ہوتا ہے اسی طرح اگر ابراہیم نبی بنتا تو وہ بھی اپنے علو مرتبت کے باوجود میری شریعت کے تابع اور میرا خوشہ چین ہی رہتا.یعنی بالفاظ دیگر خلی اور امتی نبی بنتا نہ کہ صاحب شریعت یا مستقل نبی.الغرض اس لطیف حدیث میں جو صحاح ستہ کی مشہور کتاب ابنِ ماجہ میں درج ہے ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت صاف اور صریح الفاظ میں یہ فرمایا ہے کہ اگر میرا بچہ ابراہیم زندہ رہتا تو وہ ضرور نبوت کے مقام کو پہنچ جاتا.اس واضح ارشاد کے بعد ہمارے مخالفین کے لئے صرف دو ہی رستے کھلے ہیں.(۱) یا تو وہ یہ کہیں کہ نعوذ باللہ خدا نے ابراہیم کو اس لئے وفات دے دی کہ وہ کہیں بڑا ہو کر نبی نہ بن جائے.مگر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک بالکل لغو اور بیہودہ بات ہے کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ خدا نے نعوذ باللہ ابراہیم کو بھول کر دُنیا میں بھیجد یا تھا لیکن جب اسے یہ بات یاد آئی کہ میں تو اپنے رسول کو خاتم النبیین قرار دے چکا ہوں تو اس نے فورا حضرت ابراہیم کو وفات دیگر یہ قصہ ختم کر دیا.کیا اس سے بڑھ کر کوئی غیر معقول تشریح اس حدیث کی ہو سکتی ہے؟ (۲) دوسرا رستہ یہ ہے کہ ہمارے مخالف خدا کا خوف کھا کر اور اپنی ضد چھوڑ کر اس بات کو قبول کریں کہ آیت خاتم النبیین کے

Page 60

۵۷ با وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں نبی آ سکتا ہے.کیونکہ یہ آیت صرف تشریعی اور مستقل نبوت کو روکتی ہے.غیر تشریعی ظلی نبوت کو ہر گز نہیں روکتی.صاحبزادہ ابراہیم آیت خاتم النبیین کے نزول کے کئی سال بعد پیدا ہوئے تھے.اس حدیث کے تعلق میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ آیت خاتم النبیین شنه ہجری میں نازل ہوئی تھی.(ابن ہشام.طبری و تاریخ خمیس ) مگر صاحبزادہ ابراہیم کی وفات اس کے چار پانچ سال بعد شبہ یا نہ ہجری میں ہوئی.(طبری وزرقانی ).اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لو عاش لكان صديقًا نبيًّا (یعنی اگر ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور نبی بن جاتا) کے الفاظ فرمائے تو خاتم النبیین والی آیت اس سے پانچ سال پہلے نازل ہو چکی تھی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ خدا کی طرف سے مختم مملات کا ارشاد آ چکا ہے مگر باوجود اس کے آپ نے یہ الفاظ فرمائے کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو ضر ور نبی بن جاتا.یہ اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ہے کہ آپ کے علم میں خاتم النبیین والی آیت حضرت ابراہیم کے نبی بننے کے رستہ میں ہرگز روک نہیں تھی.اب دیکھو کہ یہ ایک کیسی صاف اور واضح حدیث ہے جو ختم نبوت کے باوجود امت محمدیہ میں نبوت کا دروازہ کھول رہی ہے.کاش ہمارے مسلمان بھائی اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں ادو ستو خدا کے لئے سوچو اور غور کرو کہ آیت خاتم العینین اتر

Page 61

۵۸ چکی ہے اور ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو ختم نبوت کے تاج سے مزین کیا جا چکا ہے.مگر پھر بھی جب اس کے کئی سال بعد آپ کا بچہ ابراہیم فوت ہوتا ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ :.اگر میرا یہ لڑکا زندہ رہتا تو وہ ضرور نبی بن جاتا.“ اس حدیث کے متعلق حضرت ملا علی قاری کی لطیف تشریح اس سے کیا نتیجہ نکلا؟ اسکے جواب میں اگر آپ لوگ ہماری نہیں سنتے تو فرقۂ حنفیہ کے جلیل القدر امام حضرت ملا علی بن محمد سلطان القاری ( وفات ۱۴ ہجری) کی سنیں جو فرماتے ہیں کہ:.لو عاش ابراهیم و صار نبيَّا لكان من اتباعه..فلا يناقض قوله تعالى خاتم النبيين اذا المعنى انه لا يأتي نبي بعده ينسخ ملته ولم في أمته- ( موضوعات کبیر صفحه ۶۶ و ۶۷) یعنی اگر ابراہیم زندہ رہتا اور نبی بن جا تا تو پھر بھی اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں ہی رہنا تھا تو اس صورت میں اس کے نبی بننے سے آیت خاتم النبیین کے مفہوم میں کوئی رخنہ نہ پیدا ہوتا.کیونکہ خاتم النتین کے صرف یہ معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آ سکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی اُمت میں 66 سے نہ ہو."

Page 62

۵۹ " کسی نبی کے ” نہ آنے اور نہ آ سکتے میں باریک فرق اس موقع پر بعض جلد باز لوگ یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرت ملا علی قاری نے یہ جواب صرف امکانی رنگ میں دیا ہے ورنہ اُن کا ذاتی عقیدہ یہی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.اس اعتراض کے متعلق اصولی رنگ میں یادرکھنا چاہئیے کہ اول تو حضرت ملا علی قاری کی طرف سے ایسے صریح اور واضح اظہار کے بعد یہ دعوی کرنا کہ اُن کا ذاتی عقیدہ کچھ اور تھا ایک ایسا بعید الفقیاس دعوئی ہے جسے قطعی دلیل کے بغیر ہرگز قبول نہیں کیا جا سکتا.بلکہ حق یہ ہے کہ جو حوالہ حضرت ملا علی قاری کا اُو پر درج کیا گیا ہے اس کے شروع میں خُود حضرت مُلا صاحب نے اپنے ہاتھ سے ایسے الفاظ بڑھا دیئے ہیں جن سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ اُن کا ذاتی عقیدہ بھی یہی تھا جو او پر لکھا گیا ہے نہ کہ اس کے خلاف.چنانچہ اُن کے پورے الفاظ یہ ہیں :.قُلت و مع هذا لو عاش ابراهيم وصار نبيًّا لكان من اتباعه.....فلا يناقض قوله تعالی خاتم النبین الخ (موضوعات صفحہ ۶۷) د یعنی میں کہتا ہوں (میں کہتا ہوں“ کے الفاظ ملاحظہ ہوں ) کہ باوجود اُن مختلف اقوال کے جو اس مسئلہ کے متعلق کہے گئے ہیں اگر ابراہیم نبی بن جاتا تو اُس نے پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں ہی رہنا تھا.پس اس صورت میں بھی ابراہیم کا نبی بننا خدائی ارشاد خاتم النبیین کے خلاف نہ ہوتا.66

Page 63

اب کیا ”میں کہتا ہوں“ کے الفاظ کی موجودگی میں کوئی شخص حضرت ملا صاحب کے ذاتی عقیدہ کے متعلق شبہ کر سکتا ہے؟ لیکن اگر بالفرض یہی صورت ہو کہ حضرت ملا علی قاری نے یہ خیال محض امکانی رنگ میں بیان کیا ہو تو پھر بھی ہماری مندرجہ بالا دلیل بہر حال قائم رہتی ہے کیونکہ اس جگہ سوال یہ نہیں کہ عملاً کسی نبی کے آنے یا نہ آنے کے متعلق حضرت ملا صاحب موصوف کا ذاتی خیال کیا تھا بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ حدیث لو عاش ابراھیم لكان صديقا نبیا کے معنی کیا سمجھتے تھے.اور یہ کہ آیت خاتم النبیین کی موجودگی میں اُن کا عقیدہ کسی غیر تشریعی امتی نبی کے آ سکنے یا نہ آسکنے کے متعلق کیا تھا ؟ گویا اس جگہ کسی نبی کے آنے یا نہ آنے کا سوال نہیں بلکہ آ سکنے یا نہ آ سکنے کا سوال ہے.اور اس کے متعلق حضرت ملا علی قاری کا یہ حوالہ جو او پر درج کیا گیا ہے ایسا صریح اور ایسا واضح ہے کہ اس میں قطعا کسی تاویل کی گنجائش نہیں.کیونکہ اُنہوں نے صاف فرما دیا ہے کہ اگر حدیث لو عاش ابراهيم لكان صديقًا نبيًّا کے مطابق حضرت ابراہیم نبی بن جاتے تو پھر بھی اُن کا نبی بنا ہرگز آیت خاتم النبیین کے خلاف نہ ہوتا کیونکہ حضرت ملا صاحب کے نزدیک اس آیت کے صرف یہ معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی صاحب شریعت یا غیر امتی نبی نہیں آسکتا نہ یہ کہ کوئی غیر تشریعی امتی نبی بھی نہیں آسکتا.پس اگر بالفرض ( اور میں یہ بات صرف فرض کے طور پر کہہ رہا ہوں ) حضرت ملا علی قاری کا ذاتی خیال یہی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا تو پھر بھی ہمارے استدلال میں ہرگز کوئی رخنہ پید انہیں ہوتا کیونکہ حدیث لو عاش ابراهيم لكان صديقًا نبیا کے ماتحت حضرت ملا صاحب

Page 64

۶۱ صاف اقرار فرما رہے ہیں کہ باوجود آیت خاتم النبیین کے اُمت محمدیہ میں غیر تشریعی امتی نبی " آ سکتا ہے.اور ظاہر ہے کہ اس جگہ ہماری بحث امکانِ نبوت میں ہے نہ کہ وقوع نبوت میں جو ایک بالکل جدا گانہ موضوع ہے.میں امید کرتاہوں کہ ہمارے ناظرین اس بار یک فرق کو جو میں نے اس جگہ بیان کیا ہے غور کے ساتھ سمجھ کر اس شبہ سے بچنے کی کوشش کریں گے جو اس موقع پر بعض کم فہم اصحاب یا دھوکا دینے والے بے اُصول لوگ پیدا کیا کرتے ہیں.اور یہی اُصولی تشریح بعض دُوسرے بزرگانِ دین کے اقوال کے متعلق بھی مد نظر رکھنی چاہئیے جن کے متعلق بعض خُود غرض اصحاب شبہ پیدا کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں.حضرت ابوبکر اس اُمت کے افضل ترین انسان ہیں سوائے اس کے کہ آئندہ کوئی نبی پیدا ہو جائے.دوسری حدیث جو میں اس جگہ پیش کرنا چاہتا ہوں وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مشہور قول پر مشتمل ہے.ہمارے آقا صلی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.ابوبکر افضل هذه الأمة الا ان يكون نبى - ( دیلمی بحوالہ کنوز الحقائق مرتبہ امام منادی طبع مصر صفحہ ۷) یعنی ابو بکر میری اُمت میں سب سے افضل درجہ رکھتا ہے سوائے اِس کے کہ آئندہ کوئی نبی پیدا ہو جائے.“

Page 65

۶۲ اور ایک دوسری حدیث میں آپ فرماتے ہیں :.ابو بکر خیر الناس الا ان يكون نبی.(طبرانی کبیر و کامل ابن عدی بحوالہ جامع الصغیر مرتبه امام سیوطی طبع مصر صفحه ۵) د یعنی ابوبکر اِس اُمت کا بہترین انسان ہے سوائے اس کے کہ بعد میں کوئی نبی پیدا ہو جائے.یہ دو حدیثیں جو ایک ہی مفہوم کی حامل ہیں اور حدیث کی تین مختلف کتابوں سے لی گئی ہیں کسی تشریح کی محتاج نہیں.ان میں ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اور کیسے صاف الفاظ میں فرماتے ہیں کہ میری اُمت میں ابو بکر کا درجہ سب سے بلند ہے ہاں اگر بعد میں کوئی نبی پیدا ہو جائے تو اور بات ہوگی.کیونکہ ایک نبی کا درجہ بہر حال ایک غیر نبی سے افضل ہوتا ہے.یہ حدیثیں اپنے الفاظ اور اپنے مفہوم میں اتنی صریح اور اتنی واضح ہیں کہ اُن کے متعلق کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہو سکتی.اور پھر یہ حدیثیں ہماری بنائی ہوئی نہیں ہیں بلکہ سینکڑوں سال سے دُنیائے اسلام میں شائع اور متعارف چلی آتی ہیں.اور ان حدیثوں کو نقل کرنے والے بھی مسلمانوں کے دو بڑے پائے کے بزرگ یعنی امام منادی اور امام سیوطی ہیں.اور پھر جو ترجمہ ہم نے اس جگہ ان حدیثوں کا کیا ہے وہ بھی عربی قواعد کے مطابق بالکل درست اور صحیح ہے جسے ہر عربی دان شخص خود آسانی کے ساتھ چیک کر سکتا ہے.بیشک اگر ان حدیثوں میں نبی کا لفظ نبیا کی صورت میں منصوب ہوتا تو اس کے یہ معنی ہوتے کہ :.ابوبکر میری اُمت میں افضل ترین انسان ہے سوائے اس کے کہ وہ بعد میں خود نبی بن جائے.“

Page 66

۶۳ مگر اس صورت میں یہ عبارت ایک بالکل مہمل اور بے معنی کلام بن جاتی ہے.کیونکہ ظاہر ہے کہ دونوں صورتوں میں حضرت ابو بکر نے ہی افضل رہنا تھا.اور اس طرح اس حدیث میں اڑا ( یعنی سوائے اس کے کہ ) کے لفظ کا استعمال بالکل غیر ضروری بلکہ غلط قرار پاتا ہے.بہر حال جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں اور ہر شخص اصل کتا بیں دیکھ کر خود تسلی کر سکتا ہے.اس حدیث میں نبی کا لفظ مرفوع صُورت میں استعمال ہوا ہے نہ کہ منصوب صورت میں.اور حدیث کا صحیح تر جمہ یہی ہے کہ :.ابو بکر میری اُمت کا افضل ترین انسان ہے سوائے اس کے کہ آئندہ کوئی نبی پید اہو جائے.“ اب دیکھو کہ یہ حدیث کتنی واضح اور کتنی صاف ہے مگر جو قوم دیکھنے کے لئے تیار نہ ہوا سے کس طرح دکھایا جائے.اور جو انسان سُننے کے لئے تیار نہ ہوا سے کس طرح سنایا جائے.اور جو شخص سمجھنے کے لئے تیار نہ ہوا سے کس طرح سمجھایا جائے؟ قرآن کس افسوس کے ساتھ کہتا ہے کہ اَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ آمَ عَلى قُلُوبِ أَقْفَالُهَا فَانَّا للهِ وَانَّا اليه راجعون آخری زمانہ میں پھر دوبارہ منہاج نبوت کا دور مقدر تھا اب میں ایک ایسی حدیث پیش کرتا ہوں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے مختلف دوروں کا ذکر فرمایا ہے اور وضاحت فرمائی ہے کہ جس طرح اسلام کا آغا ز نبوت سے ہوا اور اس کے بعد نبوت کے منہاج پر خلافت قائم ہوئی اسی طرح ایک لمبے زمانہ کے بعد جو درمیانی عرصہ میں گزرے گا آخری ایام میں پھر

Page 67

۶۴ دوبارہ نبوت ہی کے منہاج پر خلافت قائم ہوگی.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.تكون النّبوّة فيكم ما شاء الله ان تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج النبوة ما شاء الله ان تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكًا عاضًا فتكون ما شاء الله ان تكون ثم يرفعها الله تعالى- ثمّ تكون ملكًا جبرية فتكون ماشاء الله ان تكون ثمّ يرفعها الله تعالى- ثم تكون خلافة على منهاج النبوة ثم سكت.(مسند احمد جلد ۵ صفحه ۴۰۴) د یعنی اے مسلما نو تم میں یہ نبوت کا دور اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ خدا چاہے گا کہ وہ قائم رہے.اور پھر یہ دور ختم ہو جائے گا.اس کے بعد خلافت کا دور آئے گا جو نبوت کے طریق پر قائم ہوگی.(اور گویا اس کا تمہ ہوگی ) اور پھر کچھ وقت کے بعد یہ خلافت بھی اُٹھ جائے گی.اس کے بعد کاٹنے والی ( یعنی لوگوں پر ظلم کرنے والی ) بادشاہت کا دور آئے گا.اور پھر کچھ عرصہ کے بعد یہ دور بھی ختم ہو جائے گا.اس کے بعد جبری حکومت کا دور آئے گا جو خواہ ظلم کے طریق سے اجتناب کرے.مگر وہ جمہوریت کے اُصول کے خلاف ہوگی اور پھر اس رنگ کی حکومت بھی اُٹھ جائے گی.اس کے بعد پھر دوبارہ خلافت کا دور آئے گا جو ابتدائی دور کی طرح نبوت کے طریق پر قائم ہوگی.اس کے بعد راوی کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.“

Page 68

اسلام کی لہر دار تاریخ کا خلاصہ یہ لطیف حدیث اسلام کی لہر دار تاریخ کا ایک دلچسپ اور مکمل خلاصہ پیش کر رہی ہے.اور ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے کمال حکمت سے ہر دور کا علیحدہ علیحدہ نقشہ کھینچنے کے لئے ایسے نادر الفاظ چنے ہیں جنہوں نے حقیقتہ دریا کو کوزے میں بند کر کے رکھ دیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے نبوت کا دور ہے جو گویا اس سارے نظام کا مرکزی نقطہ ہے.اس کے بعد خلافت کا دور آئے گا.مگر خلافت سے مراد عام خلافت نہیں جس میں کہ بعض اوقات سینہ زوری سے جابر حکمرانوں کا نام بھی خلیفہ رکھ دیا جاتا ہے بلکہ خلافت علی منہاج النبوة مراد ہے.یعنی وہ خلافت جو ایک سچے نبی کے بعد اس کے کام کی تکمیل کے لئے خُدا کی طرف سے قائم کی جاتی ہے.اور گویا نبوت کا تتمہ ہوتی ہے (جیسا کہ ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کی خلافت قائم ہوئی.) اس کے بعد آپ نے ملكًا عاضًا کا دور بیان فرمایا ہے جو گویا کاٹنے والا اور ظلم ڈھانے والا دور تھا.یہ وہ دور تھا جس میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور خاندانِ نبوت کے کئی دوسرے مقدس افراد ظلم کا شکار ہو گئے.اور اسی دور میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عالی مرتبہ نواسہ حضرت عبد اللہ بن زبیر بھی شہید کئے گئے.اور یہی وہ دور تھا جس میں حجاج بن یوسف کی خون آشام تلوار نے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو تہ تیغ کر کے رکھ دیا.پس لا ریب یہ دور ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں ملحا عاضًا کا پورا پورانمونہ تھا.جس میں گو یا ظالموں کے خونی دانت پاکبازوں کا گوشت کاٹنے اور بوٹی بوٹی کرنے

Page 69

میں لگے ہوئے تھے.۶۶ اس کے بعد حدیث زیر نظر میں ملكًا جبریة کا دور بیان کیا گیا ہے.یعنی ایسی بادشاہت جس میں خواہ سابق دور کی طرح انتہائی ظلم وستم کا رنگ نہ ہو مگر وہ اسلام کے جمہوری نظام پر قائم نہیں ہوگی.بلکہ جبری اور استبدادی رنگ کی حکومت ہوگی جس میں حاکم لوگ پبلک کی صحیح نمائندگی کے بغیر محض ورثہ کی بناء پر یا طاقت کے زور سے حکمران بن جایا کریں گے.چنانچہ اسلام میں یہ جبری دور حکومت صدیوں تک چلا.اور خواہ اس میں یزید بن معاویہ اور حجاج بن یوسف کے سے ظلم نہیں ہوئے مگر بہر حال وہ ایک جبری اور استبدادی رنگ کا دور تھا.جس میں صحیح اسلامی نظام مفقود ہو چکا تھا.نبوت اور خلافت کا دور ثانی اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پھر دوبارہ خلافت علی منہاج النبوۃ کا دور قائم ہو جائے گا.یعنی اللہ تعالی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے کسی بندہ درگاہ کوظلی اور بروزی نبوت کے خلعت سے نواز کر اس کے ذریعہ پھر صحیح خلافتِ اسلامی کا سلسلہ شروع کر دیگا.اب دیکھو کہ یہ لطیف حدیث اپنی دوسری کثیر التعداد لطافتوں کے ساتھ کیسے صریح اور واضح اور غیر مشکوک الفاظ میں یہ اعلان کر رہی ہے کہ جس طرح اسلام کا آغا ز خلافت على منهاج النبوة ( یعنی نبوت کے طریق پر خلافت) سے ہوا اسی طرح آخری زمانہ میں دوبارہ اسی رنگ کی خلافت قائم ہوگی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے ایک ظلی نبی مبعوث ہوگا اور اس کے قدموں پر دوبارہ خلافت کا دور دورہ شروع ہو جائے گا.اور راوی بیان کرتا ہے

Page 70

۶۷ کہ ثُمّ سکت یعنی اس قدر بیان فرمانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.اس خاموشی میں یہ اشارہ کرنا مقصود تھا کہ اس دُوسری خلافت کے ساتھ اسلام کی تاریخ کا پہلا دور ختم ہو کر ایک نیا دور شروع ہو جائے گا.اور یہ نیا دور وہی ہے جو اب خُدا کے فضل سے بانی سلسلہ احمدیہ کی بعثت کے ساتھ شروع ہو چکا ہے.چنانچہ حدیث کی مشہور کتاب مشکوۃ میں جہاں یہ حدیث نقل کی گئی ہے وہاں اس کے بین السطور یہ الفاظ لکھے ہیں کہ:.الظاهر ان المراد به ز من عیسی و المهدی - ( مشکوۃ طبع اصبح المطابع کراچی صفحہ ۴۶۱) د یعنی یہ بات ظاہر ہے کہ خلافت کے اس دُوسرے دور سے مسیح اور مہدی کا زمانہ مراد ہے.“ یہ اُن لوگوں کی شہادت ہے جن کی اولاد ( خدا سے ہدایت دے) اس وقت گویا ہمیں ملیا میٹ کرنے کے درپے ہے.والفضل ما شهدت به الاعداء - حضرت عمر بن عبد العزیز ہرگز اس خلافت کے مصداق نہیں ہو سکتے اس جگہ اگر کسی کے دل میں یہ شبہ پیدا ہو کہ بعض لوگوں نے اس حدیث میں خلافت کے دوسرے دور کو حضرت عمر بن عبد العزیز اموی پر چسپاں کیا ہے تو یہ شبہ ایک نادانی کا شبہ ہوگا.کیونکہ اوّل تو خلافت علی منہاج النبوۃ کے الفاظ ایک با قاعدہ نظام اور باقاعدہ دور کے متقاضی ہیں.حالانکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خلافت صرف دو سواد و سال رہ کر ختم ہو گئی تھی (طبری و تاریخ کامل ابن اثیر ) تو کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 71

۶۸ نے اس مختصر سی انفرادی خلافت کو ایک دور اور نظام کے طور پر پیش فرمانا تھا؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں.پھر ہر تاریخ دان یہ بھی جانتا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کی خلافت ملكًا عاضًا اور ملا جبرية ( یعنی کاٹنے والی حکومت اور جبری حکومت ) کے دوروں کے درمیان اور اُن کے اندر گھری ہوئی واقع تھی نہ کہ اُن کے بعد.کیونکہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے بعد بھی جبری حکومت کا دور چلتا رہا.لیکن زیر نظر حدیث صریح طور پر خلافت کے دُوسرے دور کو جبری حکومت کے دور کے بعد بیان کر رہی ہے.جو اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ خلافت کے اس دور سے حضرت عمر بن عبد العزیز کی خلافت مراد نہیں ہو سکتی.علاوہ ازیں ثمّ سکت (یعنی اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے ) کے الفاظ بھی قطعی طور پر ثابت کر رہے ہیں کہ یہاں اُس دورِ خلافت کا ذکر ہے جس کے بعد اسلام کی تاریخ نے گویا ایک پلٹا کھانا تھا.اور ایک نئے انقلابی زمانہ کی بنیا د رکھی جاتی تھی.لیکن حضرت عمر بن عبد العزیز کی خلافت سے ہر گز کسی نئے زمانہ کی بنیاد قائم نہیں ہوئی.پس جس طرح بھی دیکھا جائے اس حدیث کو بنو امیہ کے خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیز پر چسپاں کرنا ایک سینہ زوری اور زبردستی کے فعل سے زیادہ نہیں.اور جس نے بھی ایسا سمجھا ہے اُس نے ایک خطر ناک اجتہادی غلطی کھائی ہے.خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں جو ہم نے اُو پر درج کی ہے صریح طور پر آخری زمانہ میں مسلمانوں کو خلافت علی منہاج النبوۃ کا وعدہ دیا گیا ہے.اور یہ خلافت اس بات کی متقاضی ہے کہ کوئی ظلی اور امتی نبی پیدا ہو کر خلافت حقہ کی بنیاد قائم کرے.وهو المراد.

Page 72

19 اس حدیث میں نبوت کے ذکر کو کیوں مخفی رکھا گیا ؟ ہے بعض لوگ جو زیادہ تر تبر کا مادہ نہیں رکھتے لیکن اعتراض کی طرف جلدی قدم اُٹھانے کے عادی ہوتی ہیں.اس حدیث کے متعلق یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اس حدیث میں آخری زمانہ کے متعلق صرف خلافت کا ذکر ہے.نبوت کا کوئی ذکر نہیں.اس لئے اس سے نبوت کے متعلق استدلال کرنا درست نہیں.مگر یہ اعتراض بھی بالکل بودا اور کمزور ہے کیونکہ ہر شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا کہ جب حدیث میں خلافة على منهاج النبوۃ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.یعنی ” نبوت کے طریق پر خلافت یا بالفاظ دیگر نبو ت کے بعد آنے والی خلافت تو لا زما اس قسم کی خلافت کے ذکر میں نبوت کا ذکر خود بخو د آ جاتا ہے.اور علیحدہ ذکر کی ضرورت باقی نہیں رہتی.کیونکہ جب نبوّت ہی نہ ہو گی تو خلافت جو نبوت کا تتمہ ہے کس طرح قائم ہو جائیگی ؟ علاوہ ازیں ہمارے مخالفین نے اس بات پر بھی غور نہیں کیا حالانکہ موجودہ بحث میں یہ ایک بنیادی امر ہے کہ جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مسیح موعود کو ہرگز ہرگز کسی علیحد ہ نبوت کا دعویٰ نہیں ہے.بلکہ صرف ایسی ظلی نبوت کا دعوی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا حصہ اور اسی کا عکس ہے.اس صورت میں ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس جگہ نبوت کے علیحدہ ذکر کی قطعا ضرورت نہیں تھی.دراصل یہ اسی قسم کی صورت ہے جو قرآن مجید نے سورۂ جمعہ میں اختیار کی ہے.جس کا ذکر ہم اُو پر کر آئے ہیں.چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے :.

Page 73

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولًا..وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا علم (سورۃ جمعہ آیت ۳ ، ۴) یعنی خدا نے عربوں میں اپنا ایک رسول بھیجا ہے...........اور وہ ایک بعد میں آنے والی قوم میں بھی جو انہی کے ساتھ کی ہے اُس رسول کو (اس کے ایک ظل اور بروز کے ذریعہ ) دوبارہ ظاہر فرمائے گا.“ اب دیکھو کہ اس آیت میں کس طرح صرف صحابہ کرام کی مشابہت کے ذکر پر اکتفا کر کے ایک بروز محمد سی کے ظہور کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.بعینہ اسی طرح حدیث زیر نظر میں اسلام کے آخری دور کے بیان میں نبوت کے ذکر کو لفظا ترک کر کے صرف خلافت علی منہاج النبوۃ کے اشارہ پر اکتفا کیا گیا ہے تا آیت اخَرِينَ مِنْہم کی طرح لوگوں کی تو جہ اس لطیف حقیقت کی طرف مبذول کرائی جائے کہ آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا نبی کوئی علیحدہ نبی نہیں ہوگا.بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا خادم اور آپ ہی کا شاگرد اور آپ ہی کا ظل ہوگا.کیونکہ خاتم النبیین کے ظہور کے بعد دُنیائے دین میں کسی غیر کے لئے گنجائش باقی نہیں رہی.بلکہ اب صرف ہاں سچ مچ صرف محمد رسول اللہ ہی کا دور دورہ ہے اور آپ کے بعد جو بھی آئے گا خواہ وہ نبوت کے کمال کو پہنچے وہ بہر حال محمد رسول اللہ کا خوشہ چین اور آپ کا خادم اور آپ کے ٹور سے ٹور پانے والا اور آپ کا ظل ہوگا نہ کہ کوئی مستقل نبی.دیکھو چودھویں رات کا چاند کتنا پیارا اور کتنا دلکش اور کتنا روشن نظر آتا ہے مگر اُس کی روشنی سورج کی روشنی کا حصہ اور اس کا عکس ہوتی ہے نہ کہ اپنی ذات میں مستقل روشنی.اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود اپنے

Page 74

مقتداء حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے کس عشق و محبت کے ساتھ فرمارتے ہیں کہ:.اُس نور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے الغرض اس حدیث میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ آخری زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں ایک خلقی نبی پیدا ہوگا.اور اس نبی کے قدموں میں پھر دوبارہ خلافت علی منھاج النبوۃ قائم کی جائے گی.مگر نبوت کے ذکر کو اس لئے پس پردہ رکھا گیا ہے کہ تا اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا جائے کہ یہ نبوت دراصل رسُولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہی کی ظلت اور حصہ ہوگی نہ کہ کوئی آزاد یا مستقل نبوت.مگر افسوس صد افسوس کہ نادان لوگوں نے ان پر حکمت حقائق کی طرف سے آنکھیں بند کر کے انہی لطیف کنایات کو اعتراض کا نشانہ بنارکھا ہے.حدیث میں آنے والے مسیح کو نبی کے نام سے پکارا گیا ہے اب میں ایک ایسی حدیث کو لیتا ہوں جس میں صریح طور پر آنے والے مسیح کا نام نبی رکھا گیا ہے اور ہمارے آقا (فداہ نفسی ) نے اُسے خود اپنی زبانِ مبارک سے نبی کے نام سے پکارا ہے.چنانچہ صحیح حدیث میں آتا ہے:.عن ابي هريرة قال قال رسول الله صلى اللہ علیہ وسلّم لیس بینی وبينه نبى يعنى عيسى و انه نازل فاذا رأيتموه فاعرفوه- رجل مربوع الى الحمرة والبياض.فيقاتل الناس على

Page 75

۷۲ الاسلام فيدق الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية- (ابوداؤ د کتاب الملاحم باب خروج الدجال ) یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ آنے والے مسیح اور میرے درمیان کوئی اور نبی نہیں ہے.اور مسیح ضرورتم میں نازل ہوگا.پس جب وہ آئے تو تم اُسے دیکھتے ہی پہچان لینا.اُس آنے والے مسیح کا قد درمیانہ ہوگا اور رنگ سُرخی کی جھلک لئے ہوئے سفید ہوگا........وہ اسلام کی تائید میں دوسرے مذہبوں کے ساتھ مقابلہ کرے گا.اور صلیبی عقائد کو پاش پاش کر دے گا.اور خنزیری گندوں کو مٹا دیگا.اور چونکہ اُس کے زمانہ میں دین کے لئے تلوار کی جنگ نہیں ہوگی اس لئے وہ جزیہ کو بھی منسوخ کر دے گا.“ یہ حدیث ایسے صاف اور سید ھے الفاظ پر مشتمل ہے کہ کسی تشریح اور کسی استدلال کا سوال پیدا نہیں ہوتا.کیونکہ ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم خودا پنی زبانِ مبارک سے آنے والے مسیح کو نبی کے نام سے یاد فرماتے ہیں.بلکہ اس خیال سے کہ کہیں آیت خاتم النبیین کی غلط تشریح کی وجہ سے آنے والے مسیح کے متعلق یہ غلط نہی نہ پیدا ہو کہ وہ حقیقہ نبی نہیں ہے بلکہ اُسے صرف غیر اصطلاحی طور پر وسعت مفہوم کے لحاظ سے نبی کا نام دیدیا گیا ہے.آپ اس حدیث میں گفتگو کے عام اور معروف طریق سے اجتناب کر کے یہ پر حکمت الفاظ استعمال فرماتے ہیں کہ :.لیس بینی و بینه نبی یعنی میرے اور اس آنے والے مسیح کے درمیان کوئی اور نبی نہیں ہے.“

Page 76

اس حدیث کے خاص انداز بیان میں حکمت اس انداز بیان میں جو اپنی نوع کا ایک خاص کلام ہے یقیناً یہی اشارہ کرنا مقصود تھا کہ دیکھنا آنے والے مسیح کو یونہی غیر اصطلاحی طور پر نام کا نبی نہ سمجھ لینا بلکہ نفسِ نبوت کے لحاظ سے (نہ کہ مقام نبوت یا قسم نبوت کے لحاظ سے ) وہ اسی طرح خُدا کا نبی ہے جس طرح کہ میں نبی ہوں.اللہ اللہ ! ہمارے پاک رسول کا کلام بھی کس شان کا کلام ہے کہ اس کے لفظ لفظ میں حکمت و معرفت کے خزانے بھرے ہوئے ہیں.ہاں سوچو اور غور کرو کہ اگر آپ صرف یہ سادہ الفاظ فرماتے کہ آنے والا مسیح نبی ہوگا تو ان غلط فہمیوں کے پیش نظر جو اس مسئلہ میں پیدا ہونے والی تھیں شک کرنے والے لوگ اس شک میں مبتلا ہو سکتے تھے کہ شاید اس جگہ نبی کا لفظ غیر اصطلاحی طور پر استعمال کیا گیا ہے ورنہ یہاں حقیقہ نبی مُراد نہیں ہے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لیس بینی و بینہ نبی (یعنی میرے اور اس کے درمیان کوئی اور نبی نہیں ) کے حکیمانہ الفاظ استعمال کر کے یہ تعین فرما دی ہے کہ جس طرح میں خدا کا نبی ہوں اسی طرح آنے والا مسیح بھی خدا کا نبی ہوگا.اور گو وہ میرا خادم اور شاگرد اور خلق ہوگا.مگر بہر حال اس کے نبی ہونے میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں.کیونکہ اُمت محمدیہ کے ایک کنارے پر میں کھڑا ہوں.اور دوسرے کنارے پر یہ آنے والا صحیح ہے.اور ہمارے درمیان کوئی اور نبی نہیں.یہ حدیث اتنی صاف اور اتنی واضح ہے کہ کوئی غیر متعصب انسان اس کے مفہوم کے متعلق ایک سیکنڈ کے لئے بھی شک نہیں کر سکتا.علاوہ ازیں لیس بینی و بینۂ نبی کے الفاظ میں یہ اشارہ بھی ہے کہ اگر مسیح موعود کے ظہور سے پہلے میری اُمت میں کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کرے تو اُسے ہرگز نہ ماننا کیونکہ

Page 77

۷۴ میرے اور مسیح موعود کے درمیان کوئی اور نبی نہیں آسکتا.گویا ایک طرف آپ نے مسیح موعود کے دعوی کی تصدیق فرما دی اور دوسری طرف اُمت کو ہوشیار کر دیا کہ اگر مسیح موعود سے پہلے کوئی شخص نبوت کا مدعی پیدا ہو تو وہ دجال اور کذاب ہے اُسے ہرگز نہ قبول کرنا.بہر حال یہ حدیث کھلے الفاظ میں اعلان کر رہی ہے کہ مسیح موعود خُدا کا نبی ہوگا.وھو المُراد.یہ حدیث یقیناً آنے والے مسیح کے متعلق ہے! اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ شاید اس حدیث میں مسیح ناصری یعنی عیسی علیہ السلام کا ذکر ہو نہ کہ آنے والے مسیح موعود کا تو یہ ایک بالکل مجنونانہ خیال ہوگا کیونکہ حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صاف الفاظ میں فرمار ہے ہیں کہ :.انه نازل یعنی لوگو میں یہاں گذشتہ مسیح کا ذکر نہیں کر رہا بلکہ اس مسیح کا ذکر کر رہا ہوں جو آئندہ آنے والا ہے.“ اس صریح اور واضح ارشاد کے ہوتے ہوئے یہ شبہ کرنا کہ یہاں گذشتہ مسیح کا ذکر ہے کسی عظمند انسان کا کام نہیں.علاوہ ازیں اس حدیث میں جو یہ الفاظ آتے ہیں کہ یقاتل الناس على الاسلام یعنی آنے والا مسیح اسلام کے اُس دور میں آئے گا جب کہ اسلام پر دوسرے مذاہب کے حملے ہور ہے ہو نگے.اور وہ اسلام کی تائید میں دوسرے مذاہب کے ساتھ مقابلہ کریگا.اور پھر یہ الفاظ آتے ہیں کہ فیدقی الصلیب ” یعنی یہ ربانی مصلح مسیحی مذہب کے زور کے وقت میں ظاہر ہو کر صلیبی عقائد کو پاش پاش کر دیگا.یہ دو فقرے اس بات کا مزید ثبوت ہیں کہ یہاں محمد سہی سلسلہ کے آنے والے مسیح موعود کا ذکر ہے نہ کہ موسوی

Page 78

۷۵ سلسلہ کے گزرے ہوئے مسیح ناصری کا.عزیز و اور دوستو! خدا کے لئے سوچو اور غور کرو کہ ایک طرف تو ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انه نازل ( یعنی یہ مسیح آئندہ زمانہ میں ظاہر ہوگا) کے الفاظ فرما کر یہ اعلان فرما رہے ہیں کہ یہاں مسیح ناصری کا ذکر نہیں بلکہ مسیح محمد مہی کا ذکر ہے جو آئیندہ آنے والا ہے.اور دوسری طرف آپ یہ الفاظ فرمارہے ہیں کہ :.لیس بینی و بینه نبی یعنی میرے اور اس آنے والے مسیح کے درمیان کوئی اور نبی نہیں.“ تو اب ان دو یقینی اور قطعی تصریحات کے ہوتے ہوئے کون عقلمند انسان اس بات میں شک کر سکتا ہے کہ ہمارے آقا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے مطابق آنے والا مسیح خدا کا نبی ہے اور نبی بھی ایسا جسے یونہی تسامح اور وسعت مفہوم کے رنگ میں غیر اصطلاحی طور پر نبی کا نام نہیں دے دیا گیا.بلکہ سچ سچ کا نبی.ہاں ہاں ایسا نبی جس کے متعلق یہ الفاظ بولے جاسکیں کہ اس کے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی اور نبی نہیں ؟ خلاصہ کلام یہ کہ ابوداؤد کی اس حدیث سے ذیل کی تین باتیں روز روشن کی طرح ثابت ہوتی ہیں:.(۱) محمدی سلسلہ کا مسیح خود سرور کائنات کے ارشاد کے مطابق خدا کا نبی ہے جو امت محمدیہ کی حفاظت کے لئے اس کے آخری کنارے پر اسی طرح چوکس ہو کر کھڑا ہے جس طرح کہ اس کے ابتدائی کنارے پر ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم جلوہ افروز ہیں.(۲) ایسے نبی کا آنا جو يُقاتل الناس على الاسلام کے ارشاد کے مطابق خدمت اسلام کے لئے مبعوث کیا گیا ہو آیت خاتم النبیین کے خلاف نہیں.کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا رُوحانی فرزند اور آپ ہی کے وجود کا حصہ ہے.

Page 79

اور اسی لئے اس آیت کے باوجود آپ اُسے خود اپنی زبانِ مبارک سے نبی قرار دے رہے ہیں.(۳) اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود کے درمیان نبوت کا دعوی کرے تو وہ جھوٹا ہے.کیونکہ فیج اعوج کا زمانہ ازل سے دجالون کذابون کی پیشگوئی کے مطابق جھوٹے نبیوں کے لئے ریز رو ہو چکا ہے.نبوت کے متعلق صحیح مسلم کا حوالہ ابو داؤد کی اس حدیث کی تائید صحیح مسلم کی ایک حدیث کے ذریعہ بھی ہوتی ہے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے مسیح کو ایک ہی فقرہ میں بار بار نبی کے نام سے یادفرماتے ہیں.چنانچہ فرماتے ہیں:.و يُحصر نبى الله عیسی و اصحابه.فيرغب نبی اللہ عیسی و اصحابه.ثمّ يهبط نبی الله عیسی و اصحابه.نبی اللہ عیسی و اصحابہ الی الله - الخ فيرغب (مسلم باب ذکر الدجال) " یعنی جب مسیح موعود یا جوج ماجوج کے زور کے زمانہ میں آئے گا تو مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابی دشمن کے نرغہ میں محصور ہو جائیں گے.......پھر مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابی خدا کے حضور دعا اور تضرع کے ساتھ رجوع ۳ کریں گے.........اور اس دُعا کے نتیجہ میں مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابی مشکلات کے بھنور سے نجات پا کر دشمن کے کیمپ میں گھس جائیں گے.لیکن

Page 80

وہاں نئی قسم کی مشکلات پیش آئیں گی..اور پھر مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابی دوبارہ خدا کے حضور دُعا کرتے ہوئے جھکیں گے اور خُدا اُن کی مشکلات کو دُور فرما دے گا.وغیرہ وغیرہ.“ اس لمبی حدیث میں جسے مفصل نقل کرنے کی اس جگہ گنجائش نہیں ( مگر وہ یقیناً آخری زمانہ کے فتنوں اور آنے والے مسیح کے متعلق ہے جیسا کہ ہر شخص اصل حدیث کو پڑھ کر فیصلہ کر سکتا ہے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی جملہ کے اندر مسیح موعود کے متعلق چار دفعہ نبی اللہ کا لفظ استعمال فرماتے ہیں.یہ طریق کلام بھی ابو داؤد کی حدیث کی طرح یقیناً غیر معمولی ہے اور اس میں بھی سوائے اس انتباہ کے کوئی اور غرض نہیں تھی کہ بیشک میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میرے فیض سے آزاد ہو کر آئے یا میری شریعت کو منسوخ کرے لیکن چونکہ آنے والا مسیح میرا ہی رُوحانی فرزند اور میرا ہی ظل ہو گا اسلئے اُس کا آنا ختم نبوت کے منافی نہیں کیونکہ وہ میرے ہی فیض سے فیض یافتہ ہو گا.اور اُس کی نبوت میری ہی نبوت کا حصہ ہوگی.پس تم اس کی نبوت میں شک نہ کرنا.کیونکہ شاخ اپنی جڑ سے جُدا نہیں اور نہ ہی ظل اپنے اصل سے الگ ہے.اسی غرض کے ماتحت آپ نے غیر معمولی طور پر ایک ہی فقرہ میں آنے والے مسیح کو چار دفعہ نبی اللہ کے نام سے یاد کیا ہے.لاریب یہ طریق کلام خاص حکمت پر مبنی ہے.اور وہ حکمت یہی ہے کہ تا آئندہ پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کے پیش نظر امت محمدیہ کو ہو شیار کر دیا جائے کہ دیکھنا دیکھنا ٹھوکر نہ کھانا اور جلد بازی میں کسی صادق کا انکار نہ کر بیٹھنا.ورنہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایک ہی جگہ ایک ہی فقرہ میں مسیح موعود کو بظاہر بلاضرورت چار دفعہ نبی اللہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور نہ کسی

Page 81

ZA اور نبی کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور جگہ ایسا غیر معمولی طریق اختیار فرمایا ہے.فافهم و تدبر ولا تكن من المُمترين - امت محمدیہ میں مبشرات کا سلسلہ اب میں ایک ایسی حدیث کو لیتا ہوں جسے بعض اوقات ہمارے مخالفین جلد بازی کے طریق پر اپنے خیال کی تائید میں پیش کیا کرتے ہیں لیکن جیسا کہ میں انشاء اللہ ابھی ثابت کروں گا وہ دراصل ہماری تائید میں ہے.کیونکہ اس حدیث سے بھی سوائے اس کے کچھ ثابت نہیں ہوتا کہ گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شریعت والی نبوت کا دروازہ بند ہے مگر غیر تشریعی امتی نبوت کا دروازہ کھلا ہے اور کبھی بند نہیں ہوگا.چنانچہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :.لم يبق من النبوّة الّا المبشرات قالوا وما المبشرات قال الرؤيا الصالحة - ( صحیح بخاری ابواب الرؤیا ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب نبوت میں سے مبشرات کے سوا اور کوئی پہلو باقی نہیں رہا.صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ مبشرات سے کیا مراد ہے.آپ نے فرمایا اس سے رویا صالحہ مراد ہے.“ اس حدیث کی مزید تفصیل ایک دوسری حدیث میں اس طرح آتی ہے کہ:.ان النبي صلى الله عليه وسلّم كشف الستارة و رأسه معصوب في مرضه الذى مات فيه والناس صفوف خلف ابي بكر فقال يا ايها

Page 82

الناس انه لم يبق - الخ صحیح مسلم و ابوداؤد بحوالہ فتح الباری جلد ۱۲ صفحه ۳۰۵) و یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں ایک دن جبکہ آپ نے بیماری کی شدت کی وجہ سے اپنا سر باندھا ہوا تھا اپنے دروازے کا پردہ اُٹھایا ( اور اس وقت لوگ حضرت ابوبکر کے پیچھے صفیں بنا کر نماز کے لئے تیار کھڑے تھے ) اور اپنے صحابہؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا.لوگو! سنو کہ اب صرف مبشرات باقی رہ گئی ہیں.“ یہ وہ حدیث ہے جس سے ہمارے مخالفین بعض اوقات یہ استدلال کیا کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ کلّی طور پر بند ہو گیا ہے اور مسلمانوں کے لئے اب صرف خواب وغیرہ ہی باقی ہے جو کبھی کسی مومن کو آجائے.اور اس کے سوا کچھ باقی نہیں رہا.لیکن یہ استدلال بالکل غلط اور بے بنیاد ہے.بلکہ اگر غور کیا جائے تو یہ حدیث بھی صرف وہی حقیقت بیان کر رہی ہے جو ہم اوپر درج کر آئے ہیں.یعنی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تشریعی نبوت اور مستقل نبوت کا دروازہ تو بے شک بند ہے لیکن ظلی نبوت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور شاگردی میں ملتی ہے اس کا دروازہ ہرگز بند نہیں.بلکہ گھلا ہے اور گھلا رہے گا.مرض الموت میں مبشرات والے اعلان کی حکمت اس کے لئے سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہیئے کہ یہ الفاظ جو اس حدیث میں بیان ہوئے ہیں، یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں فرمائے تھے.جب کہ

Page 83

۸۰ آپ یہ سمجھ رہے تھے کہ اب میں اپنے عزیز صحابہ سے رخصت ہو رہا ہوں.ایسے موقع پر انسان طبعا اس مخصوص تعلق کی طرف اشارہ کیا کرتا ہے جو اُسے اپنے پیچھے رہنے والے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے.اور اپنے اس تعلق کے واسطے سے وہ اُنہیں مناسب الفاظ کے ذریعہ تسلی دینے کی کوشش کرتا ہے.اب ظاہر ہے کہ صحابہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ایک شارع نبی کا تھا.پس لامحالہ آپ کے ان الفاظ کا یہی منشاء سمجھا جائے گا کہ اس جگہ آپ تصرف تشریعی نبوت کا ذکر فرمارہے ہیں نہ کہ عام.گو یا بالفاظ دیگر آپ کا مقصد یہ تھا کہ اے میرے عزیز صحابیو! اب میں تو تم سے رخصت ہو رہا ہوں اور میری وفات کے ساتھ خدا کے اس تشریعی کلام کا نزول بھی جو میرے ذریعہ ہو رہا تھا بند ہو جائے گا.لیکن تم گھبرانا نہیں.بلکہ خدا کی طرف دھیان رکھناوہ تمہیں بھولے گا نہیں اور مومنوں پر اپنی بشارتوں اور رویا صالحہ کے ذریعہ اپنی رحمت کا نزول فرما تا رہے گا وغیرہ وغیرہ.پس یہ ایک مخصوص قسم کا کلام تھا، جو آپ نے اپنی وفات کو قریب دیکھتے ہوئے اپنی مخصوص نبوت کے پیش نظر فرمایا.اور اس میں صرف اس مخصوص زمانہ کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا جو آپ کی وفات کے معا بعد آنے والا تھا نہ کہ عام.چنانچہ یہی وہ تشریح ہے جو اسلام کے چوٹی کے علماء اس حدیث کی کرتے آئے ہیں.مثلاً علامہ ابن حجر (وفات ۸۵۲ ہجری) جو فنِ حدیث میں امام کا درجہ رکھتے ہیں اس حدیث کی تفسیر میں فرماتے ہیں:.اللام في النبوة للعهد والمراد نبوّتة والمعنى لم يبق بعد النبوة المختصة بي الا المبشرات (فتح الباری جلد ۱۲ صفحه ۳۰۵) یعنی اس حدیث میں جو النبوۃ کا لفظ آیا ہے اس سے مخصوص طور پر آنحضرت

Page 84

ΔΙ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی نبوت مراد ہے نہ کہ عام نبوت ) اور مطلب یہ ہے کہ میری مخصوص نبوت میں سے شریعت والا حصہ تو ختم ہو گیا ہے.مگر مبشرات باقی ہیں.“ پس اس حدیث کے متعلق ہمارا پہلا جواب تو یہی ہے کہ یہ حدیث عام نہیں تھی.بلکہ جیسا کہ سیاق و سباق سے ظاہر ہے اور جیسا کے سابقہ علماء امت نے بھی تصریح کی ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مخصوص نبوت کی طرف اشارہ فرمایا تھا.اور اس کا تعلق صرف اس زمانہ کے ساتھ تھا جو آپ کی وفات کے معا بعد آنے والا تھا تا کہ صحابہ کو اپنی وفات کی خبر دے کر تسلی دی جائے کہ میں تو جا رہا ہوں مگر مبشرات کی صورت میں خدا کے فضل و رحمت کا سایہ تمہارے ساتھ رہے گا.اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے جلد بعد کسی نبی کی بعثت مقدر نہیں تھی اس لئے آپ نے وقت کے تقاضا کے مطابق مبشرات کی تشریح میں صرف رویائے صالحہ کے ذکر پر اکتفا فر ما یا.رسول پاک کے عہد میں قلتِ الہام کی وجہ عقلاً بھی یہی ضروری تھا (اور یہ ایک خاص نکتہ ہے جو یاد رکھنا چاہئیے ) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور اس کے قریب قریب وحی والہام کے سلسلہ کو زیادہ وسیع نہ کیا جاتا تا قرآنی وحی کے ساتھ کسی دوسری وحی کے خلط ہونے کا خطرہ نہ پیدا ہو.اسی لئے آپ نے ان حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے زمانہ کے لئے مبشرات کی اس تشریح پر اکتفا فر ما یا کہ اس سے رویا صالحہ مراد ہے.چنانچہ اس کے متعلق علامہ ابن حجر

Page 85

موصوف صحیح بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں :.۸۲ وكان السر في ندور الالهام فى زمنه و کثرته من بعده.........لمن اختصه الله به للامن من اللبس فى ذلك.(فتح الباری جلد ۱۲ صفحه ۳۰۵) یعنی یہ بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کے زمانہ میں الہام کی وہ کثرت نہیں پائی جاتی جو بعد کے زمانہ میں پائی جاتی ہے اس میں تقدیر الہی کا یہ راز مخفی تھا کہ تا قر آنی وحی کے ساتھ کسی دوسری وحی کا خلط نہ واقع ہو.“ میہ وہ لطیف تشریح ہے جو اس حدیث کی ثابت ہوتی ہے اور ہر شخص جو صاف دلی کے ساتھ اس حدیث کے الفاظ اور اس کے سیاق و سباق پر غور کرے گا اس پر یہ بات مخفی نہیں رہے گی کہ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قریب کے زمانہ کا ذکر فرمایا ہے.اور یہ کہ مبشرات کے لفظ کی جو تشریح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے الرؤيا الصالحة کے الفاظ سے فرمائی ہے وہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے ساتھ مخصوص تھی عام نہیں تھی.لیکن اگر اس حدیث کو عام سمجھا جائے تو پھر بھی کثرت معانی کے اصول کے ماتحت کوئی حرج لازم نہیں آتا.کیونکہ جیسا کہ ہم ابتدائی بحث میں بتا چکے ہیں، نبوت تین قسم کی ہوتی ہے.اوّل تشریعی نبوت جس کے ساتھ کسی نئی شریعت کا نزول ہوتا ہے جیسا کہ مثلاً حضرت موسیٰ اور ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نئی شریعت عطا کی گئی.دوسرے مستقل نبوت جس کے ساتھ کوئی نئی شریعت تو نہیں ہوتی مگر ایسا نبی کسی سابقہ نبی کی پیروی اور شاگردی کے بغیر براہ راست نبوت پاتا ہے اور اس کی نبوت کسی دوسرے

Page 86

۸۳ نبی کی نبوت کے سہارے پر قائم نہیں ہوتی بلکہ حصول نبوت کے لحاظ سے آزاد ہوتی ہے.جیسا کہ مثلاً حضرت داؤد اور حضرت عیسی کی نبوت تھی.اور تیسرے ظلی نبوت جس کے ساتھ نہ تو کوئی نئی شریعت ہوتی ہے اور نہ ایسا نبی آزاد صورت میں نبوت حاصل کرتا ہے.بلکہ یہ نبوت سابقہ تشریعی نبوت کی ظل اور عکس ہوتی ہے اور گویا اسی کے سہارے پر قائم ہوتی اور اُسی کی خدمت کے لئے آتی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے نبی یعنی مثیل مسیح کے لئے مقدر تھا.پس اگر بالفرض مبشرات کے لفظ کو عام معنوں میں لیا جائے تو تب بھی اس حدیث کا منشا صرف یہی سمجھا جائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی صاحب شریعت نبی نہیں آسکتا بلکہ صرف مبشرات ومنذرات والا نبی آ سکتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خوشہ چین بن کر اور آپ ہی کے ٹورنبوت سے فیض پا کر نبی بنے.مبشرات کی کثرت ہی کا دوسرا نام نبوت ہے حق یہ ہے کہ مبشرات اور منذرات ( کیونکہ مبشرات کے ساتھ منذرات کا وجود لازم و ملزوم ہے ) کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ جب یہی مبشرات و منذرات اپنی کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے کثرت اور کمال کے ساتھ کسی شخص کو عطا کئے جائیں تو ایسا شخص نبی کہلاتا ہے.ہاں معمولی پیمانے پر اُن کا وجود بیشک کم و بیش سب مومنوں میں پایا جاتا ہے.لیکن جس طرح مثلاً ایک روپے کا مالک مالدار نہیں کہلاتا.اسی طرح معمولی طور پر مبشرات ومنذرات کی نعمت سے حصہ پانے والا شخص بھی نبی نہیں کہلا سکتا.بلکہ صرف وہی شخص نبی کہلاتا ہے جسے یہ نعمت خدا کی طرف سے غیر معمولی کثرت اور غیر معمولی کمال کے

Page 87

۸۴ ساتھ عطا ہوئی ہو.پس حقیقہ صرف کثرت اور قلت کا فرق ہے ورنہ مبشرات ومنذرات کی کثرت ہی کا دوسرا نام نبوت ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ فَمَنْ أَمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (سوره انعام آیت ۴۹) د یعنی ہم اپنے سب رسولوں اور نبیوں کو صرف مبشرات اور منذرات ہی کا حامل بنا کر بھیجتے ہیں.اور پھر جو لوگ ان پر ایمان لاتے اور اپنی اصلاح کرتے ہیں وہ خُدا کی طرف سے ہر خوف وخون سے امن میں 66 آجاتے ہیں.“ اس قرآنی آیت سے واضح طور پر ثابت ہے کہ جہاں تک نفس نبوت کا تعلق ہے مبشرات و منذرات کی کثرت ہی کا دوسرا نام نبوت ہے اور باقی چیزیں مثلاً شریعت کا لانا یا مستقل حیثیت میں نبوت پانا یہ سب زائد با تیں ہیں جو ہر نبی میں پائی جانی ضروری نہیں.بلکہ کسی نبی میں پائی جاتی ہیں اور کسی میں نہیں پائی جاتیں.چنانچہ بوقت کی تعریف کے متعلق خود حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:.یہ تمام بد قسمتی دھوکے سے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں میں غور نہیں کی گئی.نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خُدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو.شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ کسی صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۳۸)

Page 88

۸۵ اور دُوسری جگہ فرماتے ہیں:.جیسا کہ مجد د صاحب سرہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگر چہ اِس اُمت کے بعض افراد مکالمہ مخاطبہ الہیہ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ مخاطبہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت اُمور غیبیہ اُس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۹۰) پس اگر لم يبق من النبوة إلا المبشرات ( یعنی اب نبوت میں سے صرف مبشرات باقی رہ گئی ہیں ) والی حدیث کو عام بھی سمجھا جائے تو تب بھی اس سے مُراد اصولی رنگ میں صرف یہ ہے کہ آئندہ کوئی شریعت والا نبی نہیں آسکتا بلکہ صرف غیر تشریعی امتی نبی آسکتا ہے جس کی نبوت صرف مبشرات ومنذرات تک محدود ہو.امت محمدیہ کے خواص میں الہام کا سلسلہ اس حدیث کے متعلق یہ بات بھی یا درکھنی چاہئیے کہ اس حدیث میں مبشرات کی جو تشریح الرؤيا الصالحة کے لفظ سے کی گئی ہے وہ صرف عام مومنوں کو مد نظر رکھ کر ہے ورنہ جیسا کہ اسلام کی تاریخ میں ہزاروں اولیاء اور صلحاء کی عملی شہادت سے ثابت ہے یہ مراد ہر گز نہیں کہ نعوذ باللہ اس خیر امت کے حصہ میں اب صرف خوا ہیں ہی رہ گئی ہیں.اور آئندہ کوئی شخص کشف اور الہام وغیرہ سے حصہ نہیں پاسکتا.چنانچہ سُنن ابنِ ماجہ کی شرح میں امام ابو الحسن الرؤيا الصالحة کے لفظ کی تشریح کرتے

Page 89

ہوئے فرماتے ہیں :.۸۶ المراد انها لم تبق على العموم والا فالالهام والكشف للاولياء فموجود.( شرح سنن ابن ماجہ مصنفہ امام ابوالحسن جلد ۲ صفحه ۴۴۸) یعنی اس حدیث میں الرؤيا الصالحة ( سچی خوابوں ) کا لفظ عام لوگوں کو مدِ نظر رکھ کر بیان کیا گیا ہے ورنہ اولیاء اور خواص کے لئے الہام اور کشف کا سلسلہ تومسلم اور موجودہی ہے.“ خلاصہ یہ کہ حدیث لم يبق من النبوة إلا المبشرات میں اوّل تو صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم والی تشریعی نبوت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لوگ مراد ہیں نہ کہ عام.لیکن اگر اس حدیث کو عام سمجھا جائے تو پھر بھی مُبشیرات کے لفظ سے مطلقا نبوت کی نفی مراد نہیں بلکہ صرف تشریعی نبوت اور مستقل نبوت کی نفی مراد ہے.اور حدیث کا منشاء یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے شریعت والی نبوت اور مستقل نبوت کا دروازہ تو بیشک بند ہو گیا ہے لیکن مبشرات اور منذرات والی نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوا کیونکہ وہ آپ کی نبوت کی ظل ہے نہ کہ اصل اور آزاد نبوّت.ایک مبشرات والے نبی کی پیشگوئی علاوہ ازیں حدیث لم يبق من النبوّة الّا المبشرات میں ایک اور لطیف اشارہ بھی تھا اور وہ یہ کہ اِس میں ضمنی طور پر آخری زمانہ میں مثیل مسیح کے نزول کی خبر

Page 90

۸۷ دی گئی تھی.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جیسا کہ ہمارے ناظرین کو معلوم ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام پر انجیل نازل ہوئی تھی اور انجیل کے معنی جیسا کہ ہر لغت کی کتاب میں لکھا ہے ” بشارت“ کے ہیں.(مثلاً دیکھو اقرب الموارد وغیرہ).گویا حضرت عیسی کی نبوت جو غیر تشریعی رنگ کی تھی ایک ایسے کلام الہی کی حامل تھی جسے خُدا نے بشارت کا نام دیا ہے.پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما یا کہ لھ يبق من النبوة إلا المبشرات ( یعنی اب نبوت میں سے صرف مبشرات باقی رہ گئی ہیں ) تو آپ نے اس میں یہ لطیف اشارہ فرمایا تھا کہ میں تو جاتا ہوں اب تم میرے بعد انجیلی بشارت والے موسوی مسیح کی طرح مبشرات والے محمد سی مسیح کی راہ دیکھنا جو میرے قدموں پر میرے ہی ٹور سے ٹور پاکر مبعوث ہوگا.دیکھو یہ کیسا لطیف کلام ہے جو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلا.گویا آپ نے دوسرے الفاظ میں مثیل مسیح والی پیشگوئی کو ہی دُہرا کر فرما دیا کہ جس طرح حضرت موسیٰ کے بعد موسوی شریعت کی خدمت کے لئے مسیح ناصری آیا تھا جسے انجیل کی بشارات دی گئی تھیں اسی طرح آخری زمانہ میں قرآنی شریعت کی خدمت کے لئے ایک محمدی مسیح آئے گا اور اُسے بھی مسیح ناصری کی طرح مبشرات عطا کی جائیں گی.خلاصہ کلام یہ کہ قریب کے زمانہ کے لئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مبشرات کی تشریح میں رویا صالحہ کے الفاظ فرمائے تا قرب زمانی کی وجہ سے قرآنی وحی کے ساتھ کسی دوسری وحی کا خلط نہ واقع ہو اور دُور کے زمانہ کے لئے اسی لفظ میں مثیل مسیح کے نزول کی طرف اشارہ فرما دیا.کاش ہمارے مخالف اصحاب اپنے سطحی استدلالوں کو چھوڑ کر ان لطیف حقائق پر غور فرمائیں جن سے قرآن وحدیث بھرے پڑے ہیں.

Page 91

۸۸ منفی قسم کی احادیث پر تبصرہ منفی حدیثوں کا خلاصہ مسئلہ ختم نبوت کے متعلق مثبت حدیثوں کی بحث ختم کرنے کے بعد اب میں منفی قسم کی حدیثوں کو لیتا ہوں.منفی حدیثوں سے میری مراد وہ حدیثیں ہیں جن سے بظا ہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کے سلسلہ کا بند ہونا سمجھا جاتا ہے.یہ حدیثیں مختلف قسم کی ہیں.اور ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے الفاظ بھی مختلف قسم کے استعمال فرمائے ہیں.مثلاً بعض میں اس قسم کے الفاظ آتے ہیں کہ لا نبی بعدی (یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں) اور بعض میں یہ الفاظ آتے ہیں لو کان بعدی نبی لکان عمر ( یعنی اگر میرے بعد کوئی نبی ہوسکتا تو عمر ہوتا ).اور بعض میں ایسے الفاظ آتے ہیں که الی آخر الانبیاء ( یعنی میں آخری نبی ہوں ) اور بعض میں اس قسم کے الفاظ آتے ہیں کہ مثلی و مثل الانبیاء من قبلی.الخ ( یعنی میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایک مکان کی سی ہے جس میں ایک اینٹ کی کسر تھی اور میری بعثت سے یہ اینٹ اپنے موقع پر لگ گئی ).اور بعض میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ ان الرّسالة والنبوّة قد انقطعت ( یعنی اب رسالت اور نبوت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے) اور بعض میں ایسے الفاظ آتے ہیں کہ ثلاثون دجالون کذابون كلهم يزعم انہ نبی.( یعنی میرے بعد تیس دجبال ظاہر ہوں گے جن میں سے ہر ایک اس بات کا مدعی ہوگا کہ میں خُدا کا نبی ہوں ).وغیرہ وغیرہ.

Page 92

۸۹ یہ ان حدیثوں کا خلاصہ ہے جن سے بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر قسم کی نبوت کا دروازہ گلی طور پر بند ہو چکا ہے.میں اس جگہ ان حدیثوں کی صحت اور عدم صحت کی بحث میں تو نہیں جاؤں گا.کیونکہ یہاں اس قسم کی تفصیلی بحث کی گنجائش نہیں لیکن جیسا کہ میں انشاء اللہ ابھی ثابت کروں گا ان حدیثوں سے وہ نتیجہ نکالنا ہرگز درست نہیں جو ہمارے مخالف خیال اصحاب نکالا کرتے ہیں.بلکہ اگر غور کیا جائے تو ان حدیثوں سے بھی صرف یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ شریعت والی نبوت اور مستقل نبوت تو بے شک حضور خاتم النبین کی بعثت کے بعد ختم ہو چکی ہیں لیکن ظلی نبوت جو محمد می نبوت ہی کا پر تو اور عکس ہے اور گویا اسی کا حصہ ہے وہ ہرگز بند نہیں ہوئی.اور ان حدیثوں میں سے کوئی ایک حدیث بھی ایسی نہیں جو اس قسم کی ظلی نبوت کا دروازہ بند کرتی ہو.مگر علیحدہ علیحدہ حدیثوں کی بحث شروع کرنے سے پہلے میں ایک مجموعی نوٹ کے ذریعہ اپنے ناظرین کو ایک اصولی بات کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں.جس سے انشاء اللہ اس مسئلہ کے حل کا ایک سہل اور آسان رستہ گھل جائے گا.حدیثوں کے تضاد کو دُور کرنے کا طریق وہ اُصولی امر یہ ہے کہ مسئلہ ختم نبوت کی بحث میں کچھ حدیثیں ہماری طرف سے پیش کی جاتی ہیں.جن سے نبوت کے دروازہ کا گھلا ہونا ثابت ہوتا ہے.اور کچھ حدیثیں ہمارے مخالفین کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں.جن سے اس دروازہ کا بند ہونا ظاہر ہوتا ہے.بظاہر یہ ایک بھاری تضاد ہے جو اگر حل نہ ہو سکے تو ہمارے آقا سرورِ کائنات فخر موجودات سید ولد آدم (فداہ نفسی ) کے متعلق یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ

Page 93

نعوذ باللہ نعوذ باللہ آپ نے متضاد ارشادات فرمائے ہیں.یعنی کبھی تو آپ نے یہ فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں.اور کبھی یہ فرمایا ہے کہ میرے بعد بھی نبی آسکتا ہے کبھی یہ فرمایا ہے کہ میں آخری نبی ہوں اور کبھی یہ فرمایا ہے کہ میرے بعد میری اُمت میں ایک مسیح آنے والا ہے اور وہ نبی ہوگا.اس ظاہری تضاد کے دُور ہونے کی کوئی نہ کوئی صورت ہوئی چاہئیے اور ہمارا اور دوسرے مسلمانوں کا یہ مشترکہ فرض ہے کہ انتہائی سنجیدگی اور دیانتداری کے ساتھ اس معاملہ میں غور کر کے کوئی ایسی صورت نکالیں جس سے یہ تضاد ( جو یقیناً صرف ظاہر میں نظر آنے والا تضاد ہے کیونکہ ہمارے آقا کے کلام میں کوئی حقیقی تضاد نہیں ہوسکتا ) دُور ہو جائے.اور جیسا کہ ہر عقلمند انسان ہمارے ساتھ اتفاق کر دیگا.اس ظاہری تضاد کے دُور ہونے کی مندرجہ ذیل دوا مکانی صورتیں ہی ہیں :.اوّل یہ کہ حدیثوں کے ظاہری تضاد کو اُن سے اوپر کے حاکم یعنی قرآن مجید کے سامنے رکھ کر اس سے فیصلہ حاصل کیا جائے کہ وہ اس بارہ میں کیا فرماتا ہے پھر جو حدیث قرآن کے مطابق ہو اُ سے لے لیا جائے، اور دوسری کو ر ڈ کر دیا جائے یہ وہ طریق ہے جس کی طرف خود قرآن نے رہنمائی کی ہے.چنانچہ فرماتا ہے:.فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللهِ وَايَتِهِ يُؤْمِنُونَ ( سورہ جاثیہ آیت ۷ ) یعنی اللہ اور اس کی آیات کے مقابل پر لوگ کس حدیث کو مانیں گے؟“ لیکن ہمارے مخالفین کو یہ صاف اور سیدھا طریق منظور نہ ہو تو پھر دوسرا طریق یہ ہے کہ دونوں قسم کی حدیثوں کو لے کر (سوائے اس کے کہ کوئی حدیث خاص طور پر ضعیف یا موضوع ثابت ہوجس کی بحث کا یہ موقع نہیں ) ان میں کوئی مطابقت اور موافقت کا رستہ

Page 94

۹۱ نکالا جائے.یعنی یہ فیصلہ کیا جائے کہ جن حدیثوں میں نبوت کے اجراء کا اقرار ہے اُن میں رکن معنوں میں اقرار ہے.اور جن حدیثوں میں نبوت کے اجراء کا انکار ہے اُن میں کن معنوں میں انکار ہے تا اس ذریعہ سے کسی لمبی بحث کے بغیر دونوں قسم کی حدیثوں کو قبول کرنے کا رستہ نکل آئے.قرآن کا فیصلہ ہمارے حق میں ہے یہی وہ دو امکانی طریق ہیں جن سے ہم اس ظاہری تضاد کو دُور کر سکتے ہیں اور ہر نیچے مسلمان کا فرض ہے کہ اس اہم معاملہ میں جو ایمانیات سے تعلق رکھتا ہے، انتہائی سنجیدگی اور دیانتداری کے ساتھ غور کر کے اس اُلجھن کے حل کا رستہ نکالے.قرآن مجید کا رستہ تو بالکل صاف ہے.کیونکہ جیسا کہ میں اس رسالہ کے شروع میں بیان کر چکا ہوں قرآن مجید کی کوئی ایک آیت یا کسی آیت کا کوئی مجزو بھی ایسا نہیں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کے سلسلہ کو بند قرار دیا گیا ہو.بلکہ ہر جگہ یہی مضمون چل رہا ہے کہ ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خدائی نعمتوں اور خُدائی رحمتوں کے دروازے پہلے سے بھی بہت زیادہ فراخ ہو کر گھل گئے ہیں.لے دے کے ہمارے مخالفین صرف ایک آیت خاتم النبیین پیش کیا کرتے ہیں.مگر اس آیت کے متعلق ہم ثابت کر چکے ہیں کہ اس میں بھی سلسلہ نبوت کا بند ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوتا.بلکہ صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ جو انعام پہلے نبیوں کو براہِ راست ملا کرتے تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارفع مقام اور مکمل فیضان کی وجہ سے آپ کے بعد آپ کی پیروی اور شاگردی اور آپ کی مہر تصدیق کے ساتھ ملا کریں گے.اور یہ بعینہ وہی نظریہ ہے جو ہم

Page 95

۹۲ پیش کرتے ہیں.بہر حال قرآن کی کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں جس میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کے سلسلہ کے بند ہونے کا ذکر ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے کمال حکمت سے قرآن مجید کا آغاز ہی اس شاندار مضمون کے ساتھ کیا ہے کہ جو جو انعامات پہلی امتوں کو متفرق طور پر ملتے رہے ہیں وہ سب کے سب ہلا استثناء امت محمدیہ کو اکمل اور اتم صورت میں ملیں گے.کیا ایسی کامل و مکمل کتاب جو اس وسیع نظریہ کے ساتھ شروع ہو رہی ہے اس تنگ نظریہ کی تائید کر سکتی ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے خدائی انعام واکرام کے وسیع دریا کو خشک کر کے رکھ دیا ہے؟ اور جو نہر میں پہلے جاری تھیں وہ اب بند ہوگئی ہیں.هیهات هيهات لما يصفون.حدیثوں میں کوئی حقیقی تضاد نہیں باقی رہا حدیث کا معاملہ.سو اس کے تضاد کوڈ ور کرنا کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ اس کا تضاد محض ظاہری ہے حقیقی نہیں.چند حدیثیں ہم پیش کرتے ہیں جن سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے دین کی خدمت کے لئے آپ ہی کے خادموں میں سے آپ ہی کے نور سے ٹور پا کر اور آپ ہی کا عکس لیکر ایک شخص نبوت کے مقام کو پہنچ سکتا ہے.اس کے مقابل پر چند حدیثیں دوسرا فریق پیش کرتا ہے جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خُدا کے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی اور نبی نہیں.بظاہر یہ ایک بھاری تضاد ہے.مگر دوستو اور عزیز و اور ہمارے مشترکہ آقا کے نام لیواؤ! خدا تمہاری آنکھیں کھولے، کیا یہ تضاد اس ایک حکیمانہ لفظ سے دُور نہیں کیا جا سکتا کہ جہاں ہمارے آقا نے لا نبی بعدی اور ائی آخر الانبیاء

Page 96

۹۳ وغیرہ کے الفاظ فرمائے ہیں وہاں آپ کا منشاء یہ ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو مجھ سے آزاد ہوکر اور میری شریعت کو منسوخ کر کے اور میرے دامنِ نبوت سے کٹ کر نبی ہونے کا دعوے کرے.اور اس معنی میں میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں لیکن اس کے مقابل پر جہاں آپ نے یہ فرمایا ہے کہ میرے بعد نبی آ سکتا ہے اور میری اُمت کا مسیح موعود نبی ہوگا وہاں آپ کا مقصد یہ ہے کہ میری شریعت کا خادم بن کر اور میرے نور سے نور پا کر اور گویا میرے سورج کے ساتھ چاند کی طرح وابستہ ہو کر میرا ایک روحانی فرزند نبوّت کے مقام کو پہنچ سکتا ہے ایسے شخص کی نبوت کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پھر بھی آخری نبی رہتے ہیں اور لا نبی بعدی کے مفہوم میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوتا کیونکہ شاخ اپنی جڑھ سے جدا نہیں اور نہ ظلق اپنے اصل سے الگ ہے.ہم اصولا ساری حدیثوں کو قبول کرتے ہیں اب دیکھو کہ یہ ایک کیسا سہل اور کیسا آسان طریق ہے جس میں حدیثوں کا ظاہری تضاد گویا ایک لفظ کے کہنے سے اور ایک کانٹے کے بدلنے سے بالکل دُور ہو جاتا ہے.اور ہمارے آقا ( فداہ نفسی ) کی ہر حدیث ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہمارے دل کی راحت قرار پاتی ہے اور کسی مزید بحث کی ضرورت نہیں رہتی.میں جانتا ہوں کہ ان حدیثوں کی صحت اور عدم صحت کے متعلق بعض لوگوں نے لمبی لمبی بحثیں کی ہیں.اور اس میدان میں داخل ہونے سے یقیناً کافی بحث کا رستہ گھل سکتا ہے لیکن جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں میں اس جگہ بحث میں نہیں جانا چاہتا بلکہ دلیل کی خاطر ان ساری حدیثوں کو قبول کرتا ہوں جن کی طرف میں نے اُو پر اشارہ کیا ہے.میں مانتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

Page 97

۹۴ ہے کہ لا نبی بعدی ( یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں ).میں مانتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ابی آخر الانبیاء (یعنی میں آخری نبی ہوں) مگر میں ان حدیثوں کے وہ معنی نہیں کر سکتا جس کے نتیجہ میں میرے آقا کی دوسری حدیثیں نعوذ باللہ غلط قرار پائیں.میں ان حدیثوں کے وہ معنی نہیں کر سکتا جن سے میرے آقا کی شان میں کمی آئے.پس میں جہاں ان حدیثوں کو مانتا ہوں وہاں اُن دوسری حدیثوں کو بھی مانتا ہوں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور شاگردی میں نبی آسکتا ہے اور یہ کہ آنے والا مسیح جو آپ کا رُوحانی فرزند ہے نبوت کے مقام کو پہنچے گا.میں ان ہر دو قسم کی حدیثوں کو مانتا ہوں کیونکہ اس طرح حدیثوں کا تضاد دُور ہوتا ہے اور میرے آقا کی یہ بلندشان ظاہر ہوتی ہے کہ اُس کے خادم اس کی خوشہ چینی میں نبوت کے مقام کو پہنچ سکتے ہیں.ہمارے رسول پاک نے فرمایا تھا اور بالکل سچ فرمایا تھا کہ :.لو كان موسی و عیسی حيّين لما وسعهما الا اتباعي الیواقیت والجواہر مرتبہ امام شعرانی جلد ۲ صفحہ ۲۰) یعنی اگر اس وقت موسیٰ اور عیسی زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا.“ لیکن ایک غیر مسلم معاند کہہ سکتا تھا کہ نعوذ باللہ یہ صرف ایک منہ کا دعوی ہے، جس کا کوئی ثبوت نہیں.مگر خُدا نے آپ کے خادموں میں سے ایک شخص کو مثیل مسیح بنا کر اور اُسے نبوت کے مقام تک پہنچا کر بتا دیا کہ اس کے حبیب کا دعویٰ بالکل سچا تھا.جس کی صداقت پر واقعات نے مُہر لگا دی ہے.کیا ہمارے مخالف اصحاب واقعات کی اس شہادت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟ کیا وہ حدیثوں کے اس تضاد کو حل کرنے کی خاطر ہماری طرح

Page 98

۹۵ اس اعلان کے لئے آمادہ ہیں کہ ہم اس بحث میں ساری پیش کردہ حدیثوں کو مانتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر وہ خُود سوچ لیں کہ قرآن کو اُنہوں نے کلی طور پر چھوڑا.حدیثوں کے نصف بہتر حصّہ سے اُنہوں نے مُنہ موڑا اور پھر بھی انہیں اس محرومی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا کہ اپنے رسول کی شان گھٹا کر اور خُدائی انعاموں کی نہریں خشک کر کے بیٹھ گئے.فاعتبروا یا اولی الابصار - حدیث لا نبی بعدی کی تشریح اس کے بعد میں نہایت اختصار کے ساتھ منفی قسم کی حدیثوں کو نمبر وار لیتا ہوں.اس میدان میں سب سے پہلے ہمارے سامنے یہ حدیث آتی ہے کہ لا نبی بعدی (یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں اس حدیث پر ہمارے مخالفوں کا بڑا زور ہے کہ دیکھو کس طرح رسول پاک نے صاف صاف فرما دیا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.اور اُنہوں نے اس حدیث کو اپنی تحریروں اور تقریروں میں بار بار بیان کر کے اور اس کی غلط تشریحات پیش کر کے گو یا عوام الناس کے دل و دماغ پر ایک گونہ سحر کر رکھا ہے لیکن انشاء اللہ خدا کے فضل اور اُس کے رسول کی برکت سے یہ طلسم زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکتا.بات یہ ہے کہ لا نبی بعدی کے لفظی معنی بیشک یہی ہیں کہ ” میرے بعد کوئی نبی نہیں لیکن اس بات کو ہر پڑھا لکھا شخص جانتا ہے کہ بعض اوقات لا ( یعنی نہیں ) کے لفظ سے ایک بات کی نفی کی جاتی ہے.مگر اس سے عام نفی مراد نہیں ہوتی بلکہ محدود قسم کی نفی مراد ہوتی ہے جسے قواعد عربی کے محاورہ میں نفی جنس کہتے ہیں.اُردو زبان میں اس کی مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ مثلاً اگر کسی سکول کا ہیڈ ماسٹر خاص طور پر اعلیٰ اور ممتاز قابلیت کا ہو اور

Page 99

۹۶ اس علاقہ کے دوسرے ہیڈ ماسٹر اس کے مقابل پر معمولی قابلیت کے لوگ ہوں تو بسا اوقات اس قسم کے الفاظ کہہ دیئے جاتے ہیں کہ ” ہیڈ ماسٹر تو بس یہی ہے اور اس کے سوا کوئی ہیڈ ماسٹر نہیں.اس سے مراد ہر گز یہ نہیں ہوتی کہ اُس کے سوا کوئی ہیڈ ماسٹر ہی نہیں بلکہ مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ اس علاقہ میں اس قابلیت کا یا اس قسم کا یا اس شان کا کوئی اور ہیڈ ماسٹر نہیں.یہ محاورہ جو ہر زبان میں پایا جاتا ہے ایسا عام اور ایسا معروف ہے کہ کوئی سمجھدار انسان اس کا انکار نہیں کر سکتا.مگر ہمیں اس بحث میں دوسرے لوگوں کے محاوروں کا سہارا ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں.کیونکہ خود ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے اس محاورہ کی ایک ایسی مثال بیان فرما دی ہے جس سے اس ساری بحث کا خاتمہ ہو جاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.اذا هلك قيصر فلا قيصر بعده واذا هلك كسرى فلا كسرى بعده ( بخاری کتاب الایمان والنذور ) یعنی جب موجودہ قیصر شہنشاہ روم مر جائے گا تو اس کے بعد کوئی اور قیصر نہیں ہوگا.اور جب موجودہ کسر کی شہنشاہ ایران مرجائے گا تو اس کے بعد کوئی اور کسر کی نہیں ہوگا.“ اب دیکھو کہ اس حدیث میں قیصر اور کسریٰ کے الفاظ بظاہر بالکل مطلق اور عام ہیں اور اُن کے ساتھ کوئی شرط یا قید یا حد بندی نہیں لگائی گئی مگر باوجود اس کے مراد اس جگہ خاص قسم کے قیصر و کسری ہیں نہ کہ عام.کیونکہ جن قیصر اور کسریٰ کے وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ فرمائے تھے اُن کے بعد بھی کئی قیصر و کسر کی ہوتے رہے.بلکہ جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے قیصر کی حکومت تو اس کے پانچ سو سال بعد تک جاری رہی.اس

Page 100

۹۷ لئے اس جگہ تمام متقین نے بالاتفاق لکھا ہے کہ ان الفاظ کے استعمال کرنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء یہ نہیں تھا کہ جب یہ موجودہ قیصر و کسری مر جائیں گے تو اُن کے بعد کوئی اور قیصر و کسری ہوں گے ہی نہیں بلکہ مطلب صرف یہ تھا کہ ان کے بعد اس رُتبہ اور اس شان اور اس قسم کی وسیع حکومت والے قیصر و کسری نہیں ہوں گے ( مثال کے لئے دیکھو فتح الباری جلد 4 صفحہ ۴۰۷) بعینہ اسی طرح جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ فرمائے کہ لا نبتی بعدی ( یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں ) تو اس سے بھی آپ کا منشاء صرف یہ تھا کہ میرے بعد میری طرح کا کوئی صاحب شریعت نبی یا مستقل نبی نہیں ہوگا.نہ یہ کہ مطلقا کوئی نبی ہوگا ہی نہیں.اس خیال کی تشریح کے لئے آپ نے گویا خود مثال دیکر وضاحت فرما دی کہ دیکھو جس طرح میں نے لانبی بعدی کے الفاظ استعمال کئے ہیں بعینہ اسی طرح میں نے اذا هلك قيصر فلا قیصر بعدہ کے الفاظ بھی استعمال کئے ہیں.پس جس طرح لا قیصر بعداللہ کے معنی محدود تھے اور مراد صرف یہ تھی کہ اس موجودہ قیصر کے بعد کوئی اس رتبہ کا یا اس قسم کا قیصر نہیں ہوگا.اسی طرح لا نبی بعدی کے معنی بھی محدود ہیں.اور مراد یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی میری طرح کا صاحب شریعت اور مستقل حیثیت رکھنے والا نہیں ہوگا.یہ ایک اتنی صاف اور سیدھی بات ہے کہ کوئی دانا انسان اس میں شبہ نہیں کر سکتا.بغدمی کے لفظ کی تشریح علاوہ ازیں اس حدیث میں بغدی ( یعنی میرے بعد ) کا لفظ بھی خاص طور پر قابل غور ہے.اس کے متعلق جاننا چاہئیے کہ عربی زبان میں بعد کا لفظ تین مختلف معنوں میں

Page 101

استعمال ہوتا ہے:.۹۸ اوّل ظرف مکافی کے لحاظ سے بعد کا استعمال.اس صورت میں بعد کے معنی پیچھے کے ہوتے ہیں.جس طرح کہ مثلاً ایک عمارت کے پیچھے یعنی اس کے عقب میں دوسری عمارت ہوتی ہے.دوم ظرف مکانی ہی کی دوسری صورت وہ ہے جس میں بعد کا لفظ استعارہ کے طور پر ” مقابل“ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے یعنی ایک چیز کو چھوڑ کر اور گویا اس سے آگے گزر کر کسی ایسی دوسری چیز کو اختیار کیا جائے جو اس کے پیچھے ہے.جیسے کہ مثلاً قرآن مجید فرماتا ہے کہ فَبِأَتِي حَدِيثٍ بَعْدَ اللهِ وَايَتِهِ يُؤْمِنُونَ یعنی خدا اور اس کی آیات کے بعد ( یعنی انہیں چھوڑ کر یا ان کے مقابل پر ) لوگ کس حدیث کو مانیں گے؟ سوم زمانہ کے لحاظ سے بعد کا استعمال جسے عربی زبان میں ظرف زمانی کہتے ہیں.جس طرح مثلاً ایک چیز کے گزر جانے اور اس کا زمانہ ختم ہو جانے کے بعد دوسری چیز آتی ہے.یہ تینوں معنی لغت عربی اور محاورہ زبان کی رُو سے قطعی طور پر ثابت ہیں.اور کوئی شخص ان کے انکار کی جرات نہیں کر سکتا.سو اس جگہ پہلے معنی کی بحث میں تو ہمیں جانے کی چنداں ضرورت نہیں ، کیونکہ جہاں تک موجودہ بحث کا تعلق ہے یہ معنی صرف ایک مخصوص حدیث سے تعلق رکھتے ہیں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے سفر پر جاتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ تم اس سفر میں میرے لئے ہارون کی طرح ہو.( یعنی جس طرح حضرت موسیٰ اپنے ایک سفر میں اپنے بعد ہارون نبی کو چھوڑ گئے تھے اسی طرح میں تمہیں اس سفر میں اپنے پیچھے چھوڑ رہا ہوں ) غیر انه لا نبی بعدی مگر فرق یہ ہے کہ موسیٰ

Page 102

۹۹ کے سفر میں اُن کے بعد ایک نبی قائم مقام بنا تھا.مگر میں اس سفر میں اپنے بعد کسی کو نبی نہیں چھوڑ رہا.اس حدیث میں بعد کا لفظ صریح طور پر ظرف مکانی کی صورت میں استعمال ہوا ہے اور مطلب بھی واضح ہے کہ اس جگہ صرف حضرت علی کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مدینہ میں ٹھہرے تھے غیر نبی قرار دیا گیا ہے.لیکن چونکہ یہ حدیث صرف ایک منفرد اور مخصوص واقعہ کے متعلق ہے اور لا نبی بعدی کے الفاظ اس کے علاوہ بعض دوسری حدیثوں میں کسی خاص واقعہ کے تعلق کے بغیر بھی آئے ہیں اس لئے مجھے اس مخصوص حدیث کی بحث میں جانے اور اس کی آڑ لینے کی ضرورت نہیں.میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس مخصوص واقعہ کے علاوہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض جگہ لا نبی بعدی یا اس سے ملتے جلتے الفاظ فرمائے ہیں.اور ہماری اصل بحث انہی عام مواقع کے ساتھ تعلق رکھتی ہے نہ کہ حضرت علی والے مخصوص واقعہ کے ساتھ.دوسرے معنی بعد کے لفظ کے یہ ہیں کہ ایک بات چھوڑ کر کسی دوسری بات کو اختیار کیا جائے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ قباتِي حَدِيثٍ بَعْدَ اللهِ وَايَتِهِ يُؤْمِنُونَ ( یعنی لوگ خدا اور اس کی آیات کو چھوڑ کر کس حدیث کو مانیں گے؟ ) ان معنوں کے لحاظ سے بھی حدیث لا نبی بعدی کا مطلب بالکل صاف ہے کیونکہ اس صورت میں اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ اب کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو میری شریعت کو چھوڑ کر اور اسے منسوخ کر کے کوئی اور شریعت لائے بلکہ جو بھی آئے گا میرا تابع اور میری شریعت کا خادم ہو کر آئے گا اور میرے جھنڈے کے نیچے ہوگا.تیسرے معنی بعد کے جو ظرف زمانی سے تعلق رکھتے ہیں یہ ہیں کہ ایک چیز کے گزر جانے اور اس کا زمانہ ختم ہو جانے کے بعد دوسری چیز ظاہر ہو.یعنی وقت کے لحاظ سے

Page 103

دونوں آگے پیچھے ہوں.اس صورت میں حدیث لانبی بعدی کے یہ معنی ہوں گے کہ میرا زمانہ گزرنے کے بعد کوئی اور نبی نہیں.“ اب دیکھو کہ یہ معنی بھی کتنے صاف اور کتنے واضح ہیں.کیونکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کے زمانہ کو ختم کر کے نیا دور شروع کر دے.اور اس لحاظ سے بھی قطعا کوئی اعتراض پیدا نہیں ہوتا.کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم ایک دائی شریعت لے کر مبعوث ہوئے تھے اور آپ کا زمانہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے جیسا کہ آپ نے بار بار صراحت فرمائی ہے حتی کہ ایک موقع پر آپ نے اپنا دست مبارک اُٹھا کر اور اس کی دو انگلیاں باہم ملا کر تاکید کے رنگ میں فرمایا کہ:.دو بُعِثْتُ آنَاوَ السَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ - (بخاری کتاب التفسیر تفسیر سوره نازعات ) یعنی میں اور قیامت اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں جس طرح کہ میرے ہاتھ کی یہ دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں.اور اُن کے درمیان کوئی رخنہ نہیں.“ رسول پاک کی نبوت کا دامن قیامت تک پھیلا ہوا ہے.سو جب آپ کا زمانہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے تو لازما ظرف زمانی کی صورت میں لا نبی بعدی کے یہی معنی لئے جائیں گے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آ سکتا جو میرے زمانہ کو ختم کر کے کسی نئے دور کی بنیا درکھ دے کیونکہ میرا زمانہ قیامت تک ہے.افسوس صد افسوس کہ ہمارے مخالفین اپنی کوتاہ نظری سے بعدی کے مفہوم کو بلا وجہ آنحضرت

Page 104

1+1 صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی زندگی کے ساتھ محدود کر رہے ہیں حالانکہ آپ کا منشاء یہ تھا اور یہی آپ کی ارفع شان کے مطابق ہے کہ میرا زمانہ نبوت قیامت تک پھیلا ہوا ہے.اور اس کے بعد یعنی اس کے دامن کو کاٹ کر اس کے دور کوختم کر کے کوئی نبی نہیں آسکتا.عزیز و اور دوستو! سوچو اور غور کرو کہ بعد کا مفہوم سوائے اس کے کچھ نہیں کہ آپ کی نبوت کا دور ختم ہو اور آپ کی شریعت کو منسوخ کر کے کوئی دوسرا نبی ظاہر ہو جائے.لیکن ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا.کیونکہ آپ کی نبوت کا دور قیامت تک چلتا ہے.اور کبھی ختم نہیں ہوگا.یہ وہ لطیف اور پر حکمت مضمون ہے جو حدیث لا نبی بعدی میں بیان کیا گیا ہے.مگر افسوس کہ اس زمانہ کے ظاہر پرست اور کوتاہ بین لوگوں نے اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی زندگی کے ساتھ محد ودکر کے اسے اس کے ارفع مقام سے نیچے گرادیا ہے.خلاصہ کلام یہ کہ ہم پورے شرح صدر کے ساتھ حدیث لا نبی بعدی پر ایمان لاتے اور اس بات کا برملا اعلان کرتے ہیں کہ واقعی ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ نعوذ باللہ آپ کے چشموں کا پانی خشک ہو گیا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ کی نبوت کا دامن قیامت تک پھیلا ہوا ہے.اور اب جو بھی آئے گا وہ آپ کی نبوت کے دامن میں لپٹا ہوا آئے گا.اور اس کی نبوت آپ کی نبوت اندر ہوگی نہ کہ اس کے بعد یا باہر.کیونکہ اب کسی ماں کے بیٹے میں یہ طاقت نہیں خواہ وہ مسیح ناصری ہو یا کوئی اور کہ وہ قیامت سے پہلے آپ کی نبوت کے دور کو کاٹ کر اور آپ کی ختم نبوت کی مہر کو توڑ کر سر پر رسالت پر قدم رکھے.ہمارا آقا اولین و آخرین کا سردار اور سیّدِ ولید آدم ہے، جو نبی اس سے پہلے گزرے وہ اُس کی تیاری کے لئے آئے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے کہ كُنْتُ نَبِيًّا وَادَهُ بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِيْن.اور جو اس کے بعد آئے گا وہ اُس کا

Page 105

۱۰۲ خادم اور خوشہ چین اور ظلل بن کر آئے گا.یہی آیت خاتم النبین اور حدیث لا نبٹی بعدی کی حقیقی تفسیر ہے مگر افسوس کہ اس زمانہ کے ظاہر پرست لوگ ارفع حقائق کو چھوڑ کر سطحی باتوں میں اُلجھے ہوئے ہیں.خلاصہ یہ کہ حدیث لا نبی بعدی بے شک درست اور صحیح ہے اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں مگر اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ :.(۱) اب کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو میری شریعت کو چھوڑ کر اور اسے منسوخ کر کے کوئی اور شریعت قائم کرے.کیونکہ میری شریعت دائمی ہے جس کے بعد کوئی اور شریعت نہیں.(۲) میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو میرے زمانہ نبوت کو کاٹ کر اور میری نبوت کے دور کو ختم کر کے کوئی نیا دور شروع کر دے.بلکہ جو بھی آئے گا میری ہی شاخ بن کر آئے گا.اور میرے ہی نور نبوت سے فیض یافتہ ہوگا.اس لئے اس کی نبوت میری نبوت کے اندر ہوگی نہ کہ اس کے بعد یا باہر.اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کا فیصلہ کن ارشاد یہی وہ لطیف تشریح ہے ، جس کی امت محمدیہ کے بڑے بڑے صلحاء اور علماء ہر زمانہ میں تائید کرتے آئے ہیں حتی کہ ہمارے رسول پاک کی محبوب بیوی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی فرماتی ہیں کہ :.قُولُوا إِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ - تحمله مجمع السجار صفحه ۸۵ و در منثور جلد ۵) یعنی اے لوگوتم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ تو کہا کرو کہ آپ

Page 106

۱۰۳ خاتم الانبیاء ہیں.مگر یہ نہ کہا کرو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں.“ اللہ اللہ ! ہماری مادر مشفق رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا خیال کہاں پہنچا ہے جس کی گرد کو بھی آج کا مولوی نہیں پاسکتا.فرماتی ہیں اور کس لطیف انداز میں فرماتی ہیں کہ حدیث لا نبی بعدی کے معنی سمجھنے میں جلد بازلوگوں کو غلطی لگ سکتی ہے.اور وہ اس کی تہہ تک نہ پہنچنے کی وجہ سے یہ گمان کر سکتے ہیں کہ شاید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ کلی طور پر بند ہو چکا ہے اس لئے تم آئے مسلما نو اس ٹھوکر سے بچنا اور لا نبی بعدی کی حدیث کی بجائے آیت خاتم النبین کی طرف نگاہ رکھنا.کیونکہ اس میں ساری حقیقت کا خلاصہ آ گیا ہے.ظاہر ہے کہ امکانی طور پر حدیث لا نبی بعدی کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں.ایک وہ جو ہمارے مخالف کرتے ہیں یعنی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر قسم کی نبوت کا دروازہ کلی طور پر بند ہو چکا ہے اور دوسرے وہ معنی جو ہم کرتے ہیں.یعنی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے دورِ نبوت کو منسوخ کرنے والا نبی نہیں آسکتا.مگر آپ کی اتباع اور شاگردی میں آپ کی مُہر تصدیق کے ساتھ ظلی اور امتی نبی آسکتا ہے.اور یہ بعینہ وہی مفہوم ہے جو آیت خاتم النبین میں بیان ہوا ہے.جس کے متعلق ہم اُو پر بحث کر آئے ہیں.اب دیکھو کہ ہماری مادر مشفق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کسی وضاحت اور کس لطافت کے ساتھ ہمارے معنوں کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ لوگو! تم لا نبی بعدی کی حدیث کے الفاظ سے غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتے ہو.اس لئے اسکی جگہ آیت خاتم النبین کے مفہوم کو مد نظر رکھو تا ٹھوکر سے بچے رہو.اور آیت خاتم النبیین کا مفہوم کیا ہے؟ یہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کی مہر ہیں.آپ کے بعد کوئی صاحب شریعت یا مستقل نبی نہیں آ سکتا.

Page 107

۱۰۴ کیونکہ اس سے ختم نبوت کی مہر ٹوٹتی ہے.مگر ظلی اور امتی نبی جو آپ کے ٹور سے ٹور پائے اور آپ کے فیض سے فیضیاب ہو آ سکتا ہے.کیونکہ اس کی نبوت آپ کی شریعت کے تابع اور آپ ہی کا حصہ ہے.میں حیران ہوتا ہوں اور میری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی کہ اس بزرگ خاتون اور مومنوں کی مادر مشفق رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا خیال کس گہرائی تک پہنچا ہے کہ آنے والے خطرات کو چودہ سو سال پہلے بھانپ کر فرماتی ہیں کہ دیکھو حدیث لا نبی بعدی کے وہ معنی نہ کرو جو آیت خاتم النبین کے خلاف ہیں بلکہ وہ معنی کرو جو اس آیت کے مطابق ہیں.اور اس طرح ضمنا آیت خاتم النبیین کی تشریح بھی کر جاتی ہیں کہ اس آیت میں نبوت کے بند ہونے کا ذکر نہیں بلکہ سرور کائنات کی مُہر تصدیق کے ساتھ آپ کے واسطہ سے انعامات الہی جاری ہونے کا ذکر ہے.اللهم صل علی محمد و على آلِ محمّد و علی ازواج محمد و بارك وسلم - حضرت امام شعرانی کا حوالہ میرا یہ مضمون میرے اندازے سے بہت لمبا ہوتا جا رہا ہے.اس لئے اب اس حدیث کی بحث کے تعلق میں صرف ایک اور حوالہ پیش کر کے دوسری حدیثوں کو لیتا ہوں.حضرت امام شعرانی (وفات 24 ہجری) فرماتے ہیں:.قوله صلى الله عليه وسلّم فلا نبى بعدى ولا رسول المُراد به لا مشرع بعدی.(الیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحہ ۲۷)

Page 108

۱۰۵ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے ک میرے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں اِس سے صرف یہ مراد ہے کہ میرے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا رسول نہیں آسکتا.“ حضرت امام شعرانی کی یہ تشریح بالکل صاف اور واضح ہے جس میں کوئی عقلمند شخص ایک لمحہ کے لئے بھی شک نہیں کر سکتا.اور اگر اس جگہ کوئی کج بحث انسان ہمیں حضرت ملا علی قاری والے حوالہ کی طرح جو ہم حدیث لو عاش ابراهيم لكان صديقا نبیا کے ضمن میں اوپر بیان کر آئے ہیں اس بحث میں گھسیٹنا چاہے کہ نبوت کے متعلق حضرت امام شعرانی کا ذاتی مذہب تو یہ تھا یا وہ تھا تو یہ ایسے شخص کی صریح نادانی یا بد دیانتی ہوگی.کیونکہ جیسا کہ ہم حضرت ملا علی قاری والے حوالہ کی بحث میں صراحت کے ساتھ بیان کر چکے ہیں ہمیں اس جگہ اس بحث سے کوئی غرض نہیں کہ کسی نبی کے آنے یا نہ آنے کے متعلق امام شعرانی " کا مذہب کیا تھا.بلکہ ہمیں اس جگہ صرف اس سوال سے سروکار ہے کهہ امام صاحب کے نزدیک لا نبی بعدی کی تشریح کیا تھی.اور یہ تشریح یقیناً یہی تھی کہ لا مشرع بعدہ.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نئی شریعت والا نبی نہیں آ سکتا.پس خُدا کے لئے مخلوق خدا کو دھوکا دینے کے طریق پر خلط مبحث سے کام نہ لو.کیونکہ اس جگہ ہماری بحث امام شعرانی کے دُوسرے معتقدات کے متعلق نہیں ہے.بلکہ صرف اس محمد و سوال کے متعلق ہے کہ اُن کے نزدیک حدیث لا نبی بعدی کی تشریح کیا تھی.اور یہ بات ان کے اس حوالہ سے جو او پر درج کیا گیا ہے اظہر من الشمس ہے کہ ان کی تشریح یہی اور فقط یہی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شارع نبی نہیں آسکتا وهو المُراد.

Page 109

1.4 ہر نبی کے لئے نئی شریعت کا لانا ضروری نہیں ! باقی اگر بالفرض ( اور میں یہ بات پھر صرف فرض کے طور پر کہہ رہا ہوں ) امام شعرانی کا ذاتی خیال یہی تھا کہ نبی وہی ہوتا ہے جو نئی شریعت لائے تو یہ خیال کسی طرح درست نہیں.کیونکہ قرآن مجید صریح الفاظ میں فرماتا ہے کہ :.وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ (اور پھر فرما تا ہے ) إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَةَ فِيهَا هُدًى وَنُوْرٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا - سوره بقره آیت ۸۸ وسوره مائده آیت ۴۵) یعنی ہم نے موسیٰ پر کتاب نازل کی اور پھر موسیٰ کے بعد اس کی اتباع میں پے در پے رسُول بھیجے.....اور ہم نے موسیٰ پر تو راۃ اُتاری تھی جس میں بنی اسرائیل کے لئے ہدایت اور نو ر تھا اور اسی کی شریعت کو تسلیم کر کے اور اسی کی ہدایت کے مطابق موسیٰ کے بعد آنے والے نبی یہودی قوم میں دینی مسائل کا فیصلہ کیا کرتے تھے.“ یہ ایک بالکل واضح اور صریح آیت ہے جس کے مفہوم کے متعلق کسی شک کی گنجائش نہیں.بلکہ قرآن مجید کی بہت سی دوسری آیات بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں اور حدیث سے بھی اسی کا ثبوت ملتا ہے.مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ دُنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی گزرے ہیں جن میں سے شریعت لانے والے رسول صرف تین سو پندرہ تھے ( مسند احمد بحوالہ مشکوۃ باب بدء الخلق و ذكر الانبياء ومرقاة شرح مشكوة جلد ۵ صفحہ ۳۵۲( اور پھر واقعات کی

Page 110

شہادت بھی اسی کی تائید میں ہے کیونکہ دنیا کی تاریخ میں کثیر تعداد ایسے نبیوں کی نظر آتی ہے جنہیں کوئی نئی شریعت نہیں دی گئی بلکہ وہ صرف سابقہ شریعت کی خدمت اور لوگوں کی ایمانی اور عملی اصلاح کے لئے مبعوث کئے جاتے تھے.جیسا کہ حضرت موسیٰ کے بعد حضرت داؤد اور سلیمان اور زکریا اور بیحی علیہم السلام مبعوث ہوئے اور عقلا بھی یہی بات درست معلوم ہوتی ہے.کیونکہ نبیوں کا سلسلہ جاری کرنے میں خدا تعالیٰ کی اصل غرض اصلاح خلق ہے خواہ یہ اصلاح نئی شریعت کے نزول کے ذریعہ ہو یا کہ سابقہ شریعت کی تجدید کے ذریعہ ہو.پس اس قطعی فیصلہ کے ہوتے ہوئے جس پر قرآن مجید اور حدیث اور تاریخ اور عقل سب کی متفقہ شہادت ثبت ہے یہ خیال ہر گز نہیں کیا جاسکتا کہ امام شعرانی یا کسی اور ذمہ دار بزرگ کا یہ عقیدہ ہو سکتا ہے کہ ہر نبی کے لئے نئی شریعت کا لانا ضروری ہے.بلکہ اغلب یہ ہے کہ ہماری اصطلاح کے مطابق جو ہم اوپر بیان کر آئے ہیں (ولک“ ان يصطلح ) امام صاحب کا عقیدہ بھی یہی ہوگا کہ دراصل حقیقی نبوت صرف شریعت والی نبوت ہوتی ہے، کیونکہ لازما اسی سے ہر سلسلہ نبوت کا آغاز ہوتا ہے اور نبوت کی باقی اقسام اس کے پیچھے آتی ہیں نہ یہ کہ باقی اقسام نبوت کی اقسام ہی نہیں ہوتیں.الغرض لا نبی بعدی کی حدیث بالکل برحق ہے اور ہم اسے پورے شرح صدر کے ساتھ قبول کرتے ہیں.لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بالکل بند ہے.بلکہ اس کا منشاء صرف یہ ہے کہ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا دامن قیامت تک پھیلا ہوا ہے اس لئے آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے یا آپ کی اُمت میں سے نہ ہو.بلکہ وہی اور صرف وہی آسکتا ہے جس کا رستہ خاتونِ جنت اُم المومنین

Page 111

1+A حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے عقیدہ کے مطابق آیت خاتم النبین کے ذریعہ کھولا گیا ہے یعنی ظلمی اور امتی نبی جو رسولِ پاک کی مہر پا کر نبوت کے مقام کو پہنچے.حدیث انّى أخر الانبیاء کی تشریح دوسری حدیث جو ہمارے مخالف خیال اصحاب کی طرف سے پیش کی جاتی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر مشتمل ہے کہ اٹی اخر الانبیاء (یعنی میں آخری نبی ہوں ).اس حدیث کو پیش کر کے کہا جاتا ہے کہ دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم.للہ علیہ وسلم نے خود فیصلہ فرما دیا ہے کہ میں آخری نبی ہوں اور آپ کے فیصلہ کے بعد کوئی سوال باقی نہیں رہتا.اس کے جواب میں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئیے کہ جس طرح ہم اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نبوت گزرنے کے بعد کوئی نبی نہیں اسی طرح ہم پورے شرح صدر کے ساتھ اس بات پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ حقیقہ آپ ہی آخری نبی ہیں.اور ہم نے کبھی اس سے انکار نہیں کیا.لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے مخالف اصحاب ہمارے نظریہ کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے بغیر بلکہ بعض صورتوں میں دیدہ و دانستہ ہمارے خلاف یہ الزام لگاتے چلے جاتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں مانتے حالانکہ جن معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو آخری نبی قرار دیا ہے ان معنوں میں ہم آپ کو ہلا شک وشبہ آخری نبی یقین کرتے ہیں ولعنۃ اللہ علی من کذب.

Page 112

1+9 تین قسم کے نبی دراصل سارا دھوکا اِس وجہ سے لگ رہا ہے کہ کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر غور نہیں کیا گیا کہ ہم بانی سلسلہ احمدیہ کو کس قسم کا نبی مانتے ہیں.اور محض نبی کا لفظ سن کر شور مچادیا جاتا ہے کہ لیجیؤ دوڑ یو غضب ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت ٹوٹ گئی اور رسول پاک کی جگہ ایک اور شخص کو آخری نبی قرار دے دیا گیا! کاش ہمارے بھٹکے ہوئے دوست چندمنٹ تحمل اور صبر سے کام لیکر اور اپنے دل کی تختی کو صاف کر کے اس بات پر غور کریں کہ نبوت کس چیز کا نام ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کونسی نہر بند کی ہے اور کونسی کھولی ہے! اگر ہمارے ناظرین بھول گئے ہوں تو میں پھر اس بات کو دُہرا دیتا ہوں کہ جیسا کہ قرآن مجید اور احادیث اور تاریخ سے ثابت ہے نبوت تین قسم کی ہے:.(اول) تشریعی نبوت جس کے ساتھ کوئی نئی شریعت نازل ہوتی ہے اور نبوت میں ایک نئے دور کا آغاز ہو جاتا ہے.جس طرح کہ حضرت موسیٰ کی نبوت تھی جن پر تو راہ کی شریعت نازل ہوئی یا جس طرح ہمارے آقا صلی اللہ یہ وسلم کی نبوت تامہ کاملہ تھی.جن پر قرآن مجید کی دائی شریعت کا نزول ہوا.اس قسم کی نبوت تشریعی بھی ہوتی ہے اور مستقل بھی.تشریعی اس لئے کہ اس کے ساتھ نئی شریعت کا نزول ہوتا ہے.اور مستقل اس لئے کہ وہ سابقہ نبی کی اتباع اور پیروی کے بغیر براہِ راست عطا کی جاتی ہے.اور اسی لئے اس قسم کی نبوت بعض اوقات حقیقی نبوت کے نام سے موسوم ہوتی ہے.( دوم ) غیر تشریعی مستقل نبوت جس کے ساتھ کوئی نئی شریعت تو نازل نہیں علیہ و

Page 113

11+ ہوتی.مگر ویسے وہ کسی سابقہ نبی کی پیروی کے بغیر براہ راست خدا کی طرف سے ملتی ہے اور اسی لئے اس کا نام مستقل نبوت رکھا جاتا ہے.کیونکہ ایسی نبوت کسی سابقہ نبوت کے سہارے پر قائم نہیں ہوتی بلکہ خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہوتی ہے.اور یادر ہے کہ اسجگہ مستقل کا لفظ عارضی کے مقابل پر نہیں ہے بلکہ آزاد کے معنی میں ہے اس نبوت کی مثال ایسی ہے جیسی کہ حضرت موسیٰ کے بعد حضرت داؤ ڈ یا حضرت سلیمان یا حضرت یحیی یا حضرت عیسی کی مبقت تھی.یہ بزرگ نبی بے شک موسوی شریعت کے تابع تھے.لیکن انہیں حضرت موسی کی پیروی کی برکت سے نبوت نہیں ملی تھی بلکہ آزاد طور پر مستقل حیثیت میں نبوت ملی تھی اور اس کے بعد وہ خدا کی طرف سے موسوی شریعت کی خدمت میں لگا دیئے گئے تھے.(سوم) غیر تشریعی غیر مستقل نبوت جو دوسرے لفظوں میں ظلی نبوت کہلاتی ہے.ایسی نبوت کے ساتھ نہ تو کوئی نئی شریعت ہوتی ہے اور نہ ہی یہ نبوت کسی سابق تشریعی نبی کی پیروی سے آزاد ہوکر براہ راست ملتی ہے.بلکہ وہ محض سابق نبی کی پیروی سے اور اسی کی شاگردی میں اور اسی کے فیض سے فیض پا کر خلقی طور پر ملتی ہے.اور چونکہ ظل کے معنی عکس کے ہیں اس لئے ایسی نبوت گویا سابق نبی ہی کی نبوت کا حصہ ہوتی ہے.نہ کہ کوئی علیحد و چیز.سوات کی یہ قسم جس کا حامل امتقی ہی کہلاتا ہے صرف ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ظاہر ہوئی ہے.کیونکہ آپ سے پہلے کوئی نبی اس مقام کو نہیں پہنچا تھا.اور نہ کسی شریعت کو ایسا کمال حاصل

Page 114

ہو ا تھا کہ اس کی پیروی کسی شخص کو نبوت تک پہنچا سکتی.رسُولِ پاک بہر حال آخری نبی ہیں.اس تشریح سے جو ہم اس رسالہ میں بار بار کر چکے ہیں ظاہر ہے کہ جہاں تک پہلی دو قسم کی نبوت کا سوال ہے ( یعنی نبوت تشریعی اور نبوت مستقلہ ) ان میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا بالکل ظاہر وعیاں ہے ، جس میں کسی شخص کو کلام نہیں ہوسکتا.کیونکہ یہ بات مسلّمہ فریقین ہے کہ نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی تشریعی نبی آ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا نبی آسکتا ہے جس نے آپ کی پیروی کی وساطت کے بغیر نبوت حاصل کی ہو.اور اس لحاظ سے آپ بہر صورت آخری نبی ہیں.باقی رہا تیسری قسم کی نبوت کا سوال ( یعنی ظلی نبوت ) سو ہر شخص تھوڑے سے غور کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ اس صورت میں بھی حقیقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی آخری نبی رہتے ہیں کیونکہ آپ کی پیروی میں اور آپ کے فیض سے نبوت پانے والا شخص آپ ہی کی شاخ اور آپ ہی کا حصہ ہے نہ کہ کوئی جدا گانہ چیز.اس کا وجود تو محض ایک آئینہ ہے جس میں چودھویں رات کے چاند کی طرح سورج کے انوار منعکس ہو گئے ہیں اور اس سے زیادہ کچھ نہیں.پس اس صورت میں بھی بہر حال آپ ہی کو آخری نبی کہا جائیگا نہ کہ اُس کو جو آپ ہی کے ٹور سے ٹور پا کر روشنی دے رہا ہے اور وہ ظت ہے نہ کہ اصل.اس کی مثال اس طرح بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ ایک شخص نے ایک باغ لگایا اور اس میں طرح طرح کے درخت نصب کئے اور پھر اُس باغ کی تکمیل کے لئے اس میں ایک

Page 115

١١٢ آخری درخت جوسب سے اعلیٰ اور سب سے اشرف اور سب سے بڑا اور سب سے زیادہ پھلدار تھا نصب کیا.لیکن ایک عرصہ کے بعد اس آخری درخت کی جڑوں میں سے اسی کی ایک اور شاخ پھوٹ آئی جو اُسی کا حصہ اور اُسی کا بچہ تھی.تو کیا اس صورت میں اس شاخ کی وجہ سے اس درخت کا آخری ہونا باطل ہو جائے گا؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں.بلکہ اس شاخ کے باوجود اصل درخت ہی آخری درخت سمجھا جائے گا نہ کہ یہ شاخ جو اُسی کا حصہ اور اسی کے ساتھ پیوست ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ہمارے مخالف اصحاب تھوڑی سی توجہ دے کر اس چھوٹے سے نکتہ کو سمجھ لیں تو یہ سارا مسئلہ جو انہوں نے اپنی کج بحثی سے ایک گورکھ دھندا بنا رکھا ہے نصف النہار کی طرح روشن ہو کر ہمارے سامنے آ جائے گا اور کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا.آخری نبی اور آخری مسجد مگر اس معاملہ میں بھی ہمیں اپنی طرف سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ خود ہمارے آقا (فدا فسی) نے اس حدیث کی ایسی تشریح فرما دی ہے جس کے بعد کسی مزید وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی.یہ حدیث جس میں ائی آخر الانبیاء کے الفاظ آتے ہیں اپنی مکمل ترین اور صحیح ترین صورت میں صحیح مسلم میں بیان ہوئی ہے.چنا نچہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.إلى آخر الانبياء وإن مسجدی آخر المساجد.(صحیح مسلم باب فضل الصلاة في مسجد المدينة ) یعنی میں آخری نبی ہوں اور میری یہ ( مدینہ والی ) مسجد آخری مسجد ہے.“

Page 116

ہزاروں ہزار دُرود اور سلام ہمارے رسول پاک پر ہوں جس نے ہمارے لئے ہر تاریک کونے میں ایک شمع ہدایت آویزاں کر رکھی ہے اور ہر ٹھوکر لگانے والے گڑھے میں سے ایک صاف رستہ گزار کر ہمیں گرنے سے محفوظ کر لیا ہے.اب یہی ائی آخر الانبياء والی حدیث ہے جس کے متعلق بعض جلد باز اور کوتاہ نظر لوگ لغزش کھا سکتے ہیں کہ شاید ان الفاظ سے یہی مراد ہو کہ آپ کے بعد کسی صورت میں کسی قسم کا نبی بھی نہیں آسکتا خواہ وہ آپ کا خادم اور آپ کا حصہ ہی ہو تو آپ نے فورا اس امکانی ٹھوکر کے قریب ایک روشن شمع نصب کر کے اپنی اُمت کو ہوشیار کر دیا کہ اس جگہ ائی آخر الانبیاء سے میری مراد اسی قسم کا آخری نبی ہے جس طرح کہ میری یہ ( مدینہ والی ) مسجد آخری مسجد ہے.اگر ان مسجدی آخر المساجد ( یعنی میری یہ مسجد آخری مسجد ہے ) کے معنی یہ نہیں اور ہر گز نہیں کہ آئندہ دُنیا میں کوئی اور مسجد بنے گی ہی نہیں بلکہ صرف یہی معنی ہیں کہ آئندہ میری مسجد کے مقابل پر کوئی مسجد نہیں بنے گی بلکہ جو مسجد بھی بنے گی وہ میری مسجد کے تابع اور اُس کی نقل اور اُس کی ظلت ہوگی کیونکہ میری شریعت دائمی ہے اور اس کے بعد کوئی اور شریعت نہیں تو لا ز ما ابی آخر الانبیاء ( میں آخری نبی ہوں) کے بھی یہی معنی ہیں کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آ سکتا جو مجھ سے آزاد رہ کر نبوت کا انعام پائے بلکہ جو بھی ہوگا وہ میرا شاگرد اور تابع اور خلق ہوگا.اللہ اللہ ! یہ کس شان کا کلام ہے اور ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی دُور بین نظر کس حد تک پہنچی ہے کہ ابی آخر الانبیاء کے الفاظ میں جس غلط فہمی کا امکانی خطرہ مخفی تھا اُسے بھانپ کر فورا ان الفاظ کے ذریعہ دُور فرما دیا کہ میں اسی معنی میں آخری نبی ہوں جس معنی میں کہ میری یہ مدینہ والی مسجد آخری مسجد ہے.

Page 117

۱۱۴ ختم موت کی حقیقت دوستو اور عزیز و! خدا تمہاری آنکھیں کھولےسوچو اور غور کرو کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد اسلامی ممالک میں لاکھوں کروڑوں مسجدوں کے بننے کے باوجُوران مسجدی آخر المساجد کا مفہوم قائم رہتا ہے اور اس میں کوئی رخنہ نہیں پیدا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں آپ کے کسی خادم اور شاگرد اور خوشہ چین کا آپ کی اتباع اور غلامی میں آپ کا ظل بن کر نبوت کا انعام پانا رکس طرح ابی اخر الانبیاء ( یعنی میں آخری نبی ہوں) کے منشاء کے خلاف قرار دیا جا سکتا ہے؟ تم مانو یا نہ مانو بات وہی ہے جو ہم او پر لکھ آئے ہیں کہ ہمارا آقا (فداہ نفسی) بہر حال آخری نبی ہے کیونکہ نبوت کی جو اقسام ( یعنی تشریعی نبوت اور مستقل نبوت ) آپ کے آخری نبی ہونے کے مفہوم کو باطل کر سکتی ہیں، ان کا رستہ بہر صورت بند ہے.اور اس کے مقابل پر جس قسم کی نبوت کا رستہ کھلا ہے ( یعنی ظلی نبوت ) اس کی وجہ سے آپ کے آخری نبی ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا.کاش دُوسرے مسلمان اس نکتہ کو سمجھیں ! اے کاش وہ سمجھیں !! آخری کے معنی کامل کے بھی ہیں علاوہ ازیں آخری کے معنی عربی میں ایسے شخص کے بھی ہوتے ہیں جو اپنے فن میں آخری حد کو یعنی کمال کو پہنچ گیا ہو.اس کی مثالیں عربی نظم و نثر میں کثرت کے ساتھ ملتی ہیں.لیکن چونکہ ہم اپنی اس بحث کو جو پہلے ہی کافی لمبی ہوگئی ہے مزید طول نہیں دینا چاہتے اسلئے اس جگہ صرف ڈاکٹر سر محمد اقبال کے کلام سے اُردو کی ایک مثال پر اکتفاء کرتے ہیں.اُمید ہے ہمارے ناظرین جن میں غالبا اکثر اقبال کے کلام اور فلسفہ کے دلدادہ ہوں گے اس مثال سے ضرور فائدہ اُٹھائیں گے.علامہ اقبال فرماتے ہیں :.

Page 118

۱۱۵ چل بسا داغ آہ میت اس کی زیب دوش ہے آخری شاعر جہاں آباد کا خاموش ہے (با نگ درا) ظاہر ہے کہ اس جگہ آخری شاعر سے حقیقۂ آخری شاعر مراد نہیں.کیونکہ شاعری کا سلسلہ تو داغ کے بعد بھی جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہیگا بلکہ ہمارے ملک کے ادیب خود ڈاکٹر اقبال کو داغ سے بدرجہا بہتر شاعر خیال کرتے ہیں.پس اس جگہ مراد صرف یہ ہے کہ ڈاکٹر اقبال کے نزدیک پرانی شاعری کے میدان میں داغ فرنِ شعر کی آخری حد یعنی کمال کو پہنچا ہو ا شاعر تھا.اس لحاظ سے آخر الانبیاء کے یہ معنی ہوں گے کہ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے میدان میں کمالات نبوت کی آخری حد کو پہنچے ہوئے تھے.اور یہ بھی اپنی جگہ بالکل صحیح اور بہت لطیف معنی ہیں.حديث لو كان بعدی نبی لکان عُمر کی تشریح تیسری حدیث جو ہمارے مخالفین کی طرف سے پیش کی جاتی ہے اُس کے یہ الفاظ ہیں کہ لو کان بعدی نبی لکان عُمر.یعنی اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا.‘ اس حدیث سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.کیونکہ آپ نے صاف فرما دیا ہے کہ اگر میرے بعد کوئی شخص نبی بن سکتا تو عمر ضرور نبی بن جاتا.لیکن چونکہ عمر نبی نہیں بنے اس لئے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بالکل بند ہے.مگر غور کیا جائے تو یہ تشریح بھی تحقیق و تدقیق کی خورد بین کے نیچے درست ثابت نہیں ہوتی.ہمارے ناظرین کو یاد ہوگا کہ

Page 119

حديث لا نبی بعدی کی تشریح پیش کرتے ہوئے ہم نے بتایا تھا کہ عربی زبان میں لفظ بعد کے معنی ظرف مکانی کی صورت میں یہ بھی ہوتے ہیں کہ ایک چیز کو چھوڑ کر اس کی جگہ کسی دوسری چیز کو اختیار کر لیا جائے.جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللهِ وَايَتِهِ يُؤْمِنُونَ (سورہ جاثیہ آیت ۷) یعنی خدا اور اس کی آیات کو چھوڑ کر لوگ کس حدیث کو قبول کریں گے؟ بعد کے لفظ کا یہ محاورہ عربی زبان میں اس قدر عام اور معروف ہے کہ کسی مزید تشریح کا سوال نہیں.اور حق یہ ہے کہ قرآن مجید کی شہادت کے بعد کسی اور دلیل کی ضرورت بھی نہیں.پس اس تشریح کے ماتحت حديث لو كان بعدى نبى لكان عُمر کے یہ معنی بنتے ہیں کہ اگر میں نبی نہ بنتا تو میری جگہ عمرہ نبی بن جاتا.اور یقینا یہی معنی صحیح اور درست ہیں.اس کا ثبوت یہ ہے کہ جیسا کہ ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ ایک حدیث کی امکانی غلط فہمی کو دوسری حدیث کے ذریعہ دُور فرما دیتے تھے آپ نے دوسری جگہ یہی حدیث ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ :.دو لوْ لَمْ أَبْعَثْ فِيْكُمْ لَبُعِثَ عُمَرُ - ابن عدی حوالہ کنوز الحقائق جلد ۲ صفحه ۱۵۱) یعنی اے مسلما نو اگر میں تم میں مبعوث نہ ہوتا تو میری جگہ عمر مبعوث ہو جاتا.“ اب ان دونوں حدیثوں کو ملا کر دیکھو تو معاملہ بالکل صاف ہو جاتا ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تشریح فرما دی ہے کہ جہاں میں نے یہ کہا ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا وہاں میری مراد یہ ہے کہ اگر مجھے چھوڑ کر کوئی اور شخص نبی بنتا تو عمر بنتا.

Page 120

112 حضرت عمر میں تشریعی نبوت کا جو ہر موجود تھا! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلام میں حکمت یہ ہے کہ ایک طرف تو آپ خود صاحب شریعت نبی تھے اور اپنے ساتھ ایک نیا الہی قانون لائے تھے.اور دوسری طرف تاریخ اور حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت عمر” میں بھی قانون سازی کا مادہ غیر معمولی طور پر زیادہ تھا.اور نہ صرف ان کی اپنی خلافت کا سارا زمانہ اس بات پر گواہ ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی حضرت عمر کے حالات زندگی اس بات کا واضح ثبوت پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمر ایک نہایت اعلیٰ درجہ کے مقنن تھے جن میں قانون سازی کا مادہ گوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ کسی معاملہ میں حضرت عمر نے ایک رنگ میں مشورہ دیا اور دوسرے صحابہ نے دوسرے رنگ میں مشورہ دیا پھر جس طرح حضرت عمر نے رائے دی تھی اسی کے مطابق کلام الہی نازل ہوا.( دیکھو بخاری و مسلم وزرقانی وغیرہ ) پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اگر میری جگہ کوئی اور شخص نبی بنا تو عمر بنتا تو اس میں یقینا حضرت عمر کی اسی مخصوص اور نمایاں صفت کی طرف اشارہ تھا اور مطلب یہ تھا کہ چونکہ اس زمانہ میں نئے قانونِ شریعت کی ضرورت تھی اِس لئے اگر میں نہ آتا تو میری جگہ عمر آ جاتا.حضرت عمرہ میں قانون سازی کا وصف اتنا نمایاں تھا کہ بڑے بڑے یورپین مؤرخوں نے بھی اُن کی قابلیت اور کارناموں پر حیرت کا اظہار کیا ہے.پس نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دوسری حدیث جس میں آپ صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ اگر میں مبعوث نہ ہوتا تو میری جگہ عمر ہو جاتا.بلکہ حضرت عمرؓ کے اپنے حالات زندگی

Page 121

۱۱۸ بھی اس بات پر گواہ ہیں کہ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ یقینا حضرت عمرؓ کے اس مخصوص وصف قانون سازی کی طرف تھا جس میں وہ دوسرے تمام صحابہ سے ممیز وممتاز تھے.صحابہ میں حضرت ابوبکر کا مقام سب سے افضل تھا ہماری اس تشریح کا مزید ثبوت یہ ہے کہ عام اوصاف کے لحاظ سے صحابہؓ میں بالاتفاق سب سے بڑا درجہ حضرت ابو بکر کا مانا گیا ہے.حتی کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت ابوبکر سب صحابہ میں افضل تھے.چنانچہ اس کے متعلق ایک حدیث او پر درج کی جا چکی ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری اُمت میں سب سے افضل درجہ ابو بکر کا ہے سوائے اس کے کہ بعد میں کوئی نبی پیدا ہو جائے.تو پھر باوجود اس کے حضرت ابوبکر کو ترک کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا اس بات کی یقینی اور قطعی دلیل ہے کہ یہاں حضرت عمرؓ کے کسی ایسے وصف کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جس میں وہ جزوی فضیلت کے طور پر حضرت ابو بکر سے بھی بڑھے ہوئے تھے اور وہ یہی قانون سازی کی صفت تھی جس کا ثبوت وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دے چکے تھے اور ان کی خلافت کے ایام میں یہ صفت اور بھی زیادہ نمایاں ہو کر چمکی.پس جس طرح بھی دیکھا جائے اس حدیث کے صرف یہی معنی ثابت ہوتے ہیں کہ یہاں بعد کے لفظ سے زمانہ کے لحاظ سے بعد مراد نہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ اگر مجھے چھوڑ کر نبوت کسی اور کو ملتی تو عمر کوملتی کیونکہ اس میں ایک شارع نبی بننے کا جو ہر موجود تھا.

Page 122

119 خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد مبعوث ہونے کا سوال نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم مقامی میں مبعوث ہونے کا سوال ہے اور اس پر مندرجہ ذیل چار قطعی دلیلیں گواہ ہیں جن کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا.(۱) بعد کا لفظ عربی زبان میں کثرت کے ساتھ اس معنی میں آتا ہے کہ ایک چیز کو چھوڑ کر دوسری چیز کو اختیار کیا جائے اور اس جگہ بھی بعد کے معنی یہی ہیں کہ اگر میری جگہ کوئی اور نبی ہوتا تو عمر ہوتا.(۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خود اپنی دوسری حدیث بھی اسی تشریح کی تصدیق کرتی ہے کیونکہ اس دوسری حدیث میں صاف مذکور ہے کہ اگر میں مبعوث نہ ہوتا تو میری جگہ عمر ہوتا.(۳) حضرت عمرؓ کے حالات زندگی سے ثابت ہے کہ اُن میں قانون سازی کا وصف بہت ممتاز اور نمایاں تھا اور چونکہ ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم ایک صاحب شریعت نبی تھے اس لئے اس حدیث میں آپ کا یہی اشارہ تھا کہ چونکہ یہ شریعت کے نزول کا زمانہ ہے اس لئے اگر میں نہ مبعوث ہوتا تو میری جگہ عمر مبعوث ہو جاتا.(۴) نہ صرف اُمت کے اجماع سے بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ارشاد کے ماتحت بھی صحابہؓ کی مقدس جماعت میں بحیثیت مجموعی سب سے افضل درجہ حضرت ابوبکر کا تھا.پس اگر مطلق نبوت کا سوال ہوتا تو یقیناً اسکے حقدار حضرت ابو بکر تھے نہ کہ حضرت عمرؓ.یہ اس بات کا مزید ثبوت ہے

Page 123

۱۲۰ کہ اس حدیث میں حضرت عمرؓ کے ایک ایسے وصف کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا جس میں وہ جزوی فضیلت کے رنگ میں حضرت ابو بکر سے بھی بڑھے ہوئے تھے.حديث ان النبوة قد انقطعت کی تشریح میرا یہ مضمون چونکہ زیادہ لمبا ہو گیا ہے اسلئے بقیہ احادیث کے متعلق صرف مختصر اشاروں پر اکتفا کرنے کی کوشش کروں گا.لیکن میں امید کرتا ہوں کی اس وقت تک جو اصولی بحث او پر گزر چکی ہے وہ انشاء اللہ ہر عقل مند اور صاف دل انسان کے لئے کافی ہوگی کیونکہ اس اُصولی بحث کی مدد سے اُن ساری حدیثوں کو حل کیا جا سکتا ہے جو اِس مسئلہ کے متعلق ہمارے مخالفوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں حق تو یہ ہے کہ اوپر والی بحث میں قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کی جو اُصولی تشریح پیش کی گئی ہے اس میں خُدا کے فضل سے ایک ایسی ماسٹر کی لے یعنی عمومی کنجی آگئی ہے جس کے ذریعہ اس میدان کے ہر بند قفل کو کھولا جاسکتا ہے.پس میں آئندہ صرف مختصر اشاروں پر اکتفا کر کے اپنے باقی ماندہ مضمون کو چند صفحوں میں ختم کرنے کی کوشش کروں گا وما توفیقی الا بالله العظيم - اب جاننا چاہئیے کہ اگلی حدیث جو اس مسئلہ کے تعلق میں ہمارے مخالف اصحاب کی طرف سے پیش کی جاتی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ان الرسالة والنبوة قد انقطعت فلا رسُول بعدی ولا نبی ( یعنی اب رسالت اور نبوت کا سلسلہ بند ہو گیا ہے اور میرے بعد کوئی رسول اور کوئی نبی نہیں آئے گا ).اس حدیث کو پیش کر کے دعوئی MASTER KEY

Page 124

۱۲۱ کیا جاتا ہے کہ دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اعلان فرما دیا ہے کہ اب نبوت کا سلسلہ بند ہے اور میرے بعد کوئی نبی نہیں.لیکن ہر عقلمند انسان آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ اس حدیث میں ہرگز کوئی نیا مضمون بیان نہیں کیا گیا.بلکہ بعینہ وہی مضمون ہے جو سابقہ حدیثوں میں مختلف طور پر بیان کیا جا چکا ہے.پس جو تشریح حدیث لا نبی بعدی اور حدیث ائی آخر الانبیاء وغیرہ کے متعلق او پر پیش کی جا چکی ہے وہی یقینا اس حدیث کے لئے بھی کافی وشافی ہے.اور کسی مزید تبصرہ کی ضرورت نہیں.دراصل اس حدیث میں جو الرسالۃ اور النبوۃ کے الفاظ الف لام کی تخصیص کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں ان سے جیسا کہ رئیس المحد ثین علامہ ابن حجر نے حدیث لم يبق من النبوۃ الا المبشرات کے ماتحت تشریح کی ہے (دیکھو فتح الباری جلد ۱۲ صفحه ۳۰۵) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح کی تشریعی نبوت مُراد ہے نہ کہ عام نبوّت.چنانچہ اس حدیث کے آخر میں آپ نے خود فلا رسُول بعدی ولا نبی کے الفاظ بڑھا کر اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا ہے کہ یہاں بھی میری مراد وہی ہے جو لا نبی بعدی والی حدیث میں بیان ہو چکی ہے.بہرحال اس حدیث میں سابقہ حدیثوں سے زائد قطعاً کوئی بات نہیں بلکہ بعینہ وہی مضمون ہے جو حدیث لا نبی بعدی اور ائی آخر الانبیاء وغیرہ میں بیان ہو چکا ہے.یعنی یہ کہ آنحضرت صلی وسلم کی بعثت سے صرف تشریعی نبوت اور مستقل نبوت کا دروازہ بند ہؤا ہے نہ کہ ظلی نبوت کا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہی کا حصہ اور اسی کا عکس ہے نہ کہ کوئی غیر چیز.اللہ علیہ و

Page 125

۱۲۲ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی کا لطیف حوالہ چنانچہ یہی وہ تشریح ہے جو اسلام کے چوٹی کے علماء اور صلحاء ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں.مثلاً حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی (وفات ۳۸ ہجری) فرماتے ہیں :.ان النبوة التي انقطعت بوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم انّما هي النبوّة التشريع لا مقامها......و هذا معنى قوله صلى الله عليه وسلم ان الرسالة والنبوّة قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبى آى لا نبی بعدى يكون على شرع يخالف شرعى بل اذا كان يكون تحت حکم شریعتی.فتوحات مکیہ جلد ۲ باب ۷۳ مطبوعہ مصر ) یعنی جہاں یہ بات کہی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کے ساتھ نبوت کا سلسلہ بند ہو گیا ہے وہاں صرف تشریعی نبوت مراد ہے جس کے لئے رسول پاک کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہی.یہی اس حدیث کی تشریح ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اب رسالت اور نبوت ختم ہو گئی ہے اور میرے بعد کوئی رسول اور نبی نہیں.اس سے آپ کی مراد صرف یہ تھی کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو میری شریعت کے خلاف کوئی اور شریعت لے کر مبعوث ہو بلکہ جب بھی کوئی آئے گا تو میری ہی شریعت کے ماتحت ہوگا.“ اب دیکھو کہ یہ حوالہ کتنا واضح اور کتنا صاف ہے.اور پھر یہ حوالہ آج کا نہیں بلکہ آج

Page 126

۱۲۳ سے سات سو سال پہلے کا ہے اور ہے بھی اُس شخص کا جو اسلام میں گویا ایک امام کا درجہ رکھتا ہے.اور اگر اس حوالہ کے متعلق کسی شخص کے دل میں اس قسم کا شبہ پیدا ہو جو حضرت مُلا علی قاری اور حضرت امام شعرانی کے حوالوں کے متعلق او پر کے صفحات میں بیان کیا گیا ہے تو وہ حدیث لو عاش ابراهيم لكان صديقًا نبیا اور حدیث لا نبی بعدی کی بحث کے ضمن میں میرا اُصولی نوٹ جو اسی قسم کے اعتراض کے جواب میں لکھا گیا ہے دوبارہ ملا حظہ کر لے اور اگر پھر بھی اس کا شبہ باقی رہے تو اس کا معاملہ خُدا کے ساتھ ہے.وانك لا تهدى من احببت ولكن الله يهدى من يشاء - ریث مثلی و مثل الانبیاء من قبلی کی تشریح اس کے بعد میں اس حدیث کو لیتا ہوں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان مثلی و مثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنى بيتًا فاحسنه و اجمله الّا موضع لبنة من زاوية فجعل الناس يطوفون به ویعجبون له ويقولون هلا وضعت هذه اللبنة فقال انا اللبنة وانا خاتم النبین.یعنی ” میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک شخص نے ایک مکان بنایا اور اس میں ہر طرح کی خوبصورتی کا خیال رکھا.اور اُسے اچھی طرح سجایا مگر اس کے ایک کو نہ میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی.لوگ اس مکان کے ارد گرد گھومتے تھے اور اُسے دیکھ دیکھ کر تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اس ایک اینٹ کی جگہ کیوں خالی رہ گئی ہے؟ پس میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں." اس حدیث کو پیش کر کے ہمارے مخالفین کہا کرتے ہیں کہ دیکھونبوت کی عمارت

Page 127

۱۲۴ میں صرف ایک اینٹ کی کمی رہ گئی تھی اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے پوری کر دی.پھر اس کے بعد کس چیز کی گنجائش رہ جاتی ہے؟ مگر افسوس ہے کہ ہمارے بھٹکے ہوئے بھائیوں نے ہماری مخالفت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع شان کو بھی بھلا رکھا ہے اور اس حدیث کی غلط تشریح کر کے آپ کے درجہ کو گھٹا ر ہے ہیں.حالانکہ جو مثال اس حدیث میں بیان کی گئی ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا مقام بیان کر نا ہر گز مقصود نہیں.بلکہ صرف شریعت کی تکمیل کی طرف اشارہ کرنا اصل غرض ہے.اور حدیث کا مطلب صرف یہ ہے کہ دُنیا میں کئی صاحب شریعت نبی آئے اور ہر نئی شریعت کے نازل ہونے سے گویا نبوت کی عمارت میں ایک مزید اینٹ لگتی گئی حتی کہ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے آخری اینٹ لگ کر شریعت کی عمارت مکمل ہو گئی.اور اسلامی شریعت نے نہ صرف سابقہ شریعتوں کی مستقل صداقتوں کو اپنے اندر لے لیا بلکہ مزید مستقل ارشادات کو بھی شامل کر کے تشریعی ہدایات کی ایک دائمی اور عالمگیر عمارت کھڑی کر دی.اس حدیث میں صرف تکمیل شریعت کا ذکر ہے پس اس حدیث میں صرف شریعت کی تکمیل کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا اور مسئلہ نبوت کے دوسرے پہلوؤں سے اسے ہرگز کوئی تعلق نہیں.یہی وہ نقطۂ نظر ہے جو اس حدیث کے متعلق اسلام کے گزشتہ علماء لیتے رہے ہیں چنانچہ علامہ ابن حجر (وفات ۵۵۲ ہجری) جنہوں نے صحیح بخاری کی مشہور شرح فتح الباری لکھی ہے اور حدیث کے علم میں امام کا درجہ رکھتے ہیں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.

Page 128

۱۲۵ المرادهنا النظر الى الاكمل بالنسبة إلى الشريعة المحمدية مع ما مطى من الشرائع الكاملة - ( فتح الباری جلد ۶ صفحه ۳۶۱) یعنی اس جگہ صرف اس بات کا اظہار کرنا مقصود ہے کہ گو سابقہ شریعتیں اپنے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے کامل ہوں لیکن شریعت محمدیہ نے خدائی شریعت کو دائمی صورت میں اکمل مکمل کر دیا ہے.“ رسول پاک سلسلہ نبوت کا مرکزی نقطہ تھے.پس حق یہی ہے کہ اس حدیث میں صرف شریعت کی تکمیل کی طرف اشارہ ہے.ورنہ اگر اس مثال کو عام سمجھا جائے تو اس میں نعوذ باللہ ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ہتک لازم آتی ہے کہ گویا نعوذ باللہ من ذلک نبوت کی وسیع عمارت میں آپ کا مقام صرف ایک اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے.حالانکہ آپ فرماتے ہیں کہ کنت نبيًّا و ادم منجدل بين الماء والطین.یعنی میں نبوت کا مرکزی نقطہ ہوں اور اُس وقت سے نبی ہوں جب کہ اس دُنیا کا پہلا نبی یعنی آدم ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا.اس لطیف حدیث میں یہ اشارہ کرنا مقصود تھا کہ خدا نے تمام دوسرے نبیوں کو آپ ہی کی نبوت کا ملہ تامہ کی تیاری کے لئے پیدا کیا تھا.کیونکہ آپ مسلسلۂ رسالت کا مرکزی نقطہ تھے.اور آپ کے ذریعہ خدائی شریعت نے اپنے کمال کو پہنچنا تھا.ایسی ارفع اور اشرف اور اکمل ہستی کے لئے جو سید ولد آدم اور لولاک لما خلقت الافلاک کی مصداق ہے یہ خیال کرنا کہ آپ مقام نبوت کے لحاظ سے نبوت کی وسیع عمارت میں صرف ایک اینٹ کی حیثیت رکھتے تھے حدیث

Page 129

ختم سکوت کی حقیقت زیر نظر کی ایک بالکل باطل اور مردود تشریح ہے جسے کوئی باغیرت مسلمان قبول نہیں کر سکتا.اور حق یہی ہے کہ اس حدیث میں صرف شریعت کی تکمیل کا ذکر کرنا مقصود تھا اور اس کے سوا کچھ نہیں.تشریعی نبیوں کے دلچسپ یونٹ آج کل کی سیاسی اصطلاح میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس حدیث میں ہر شریعت لانے والے نبی کو ایک علیحدہ علیحدہ یونٹ یعنی اکائی کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر صاحب شریعت نبیوں کو مختلف یونٹ قرار دیکر آپ کے وجود مبارک کو اِن یونٹوں میں سے ایک یونٹ فرض کیا جائے تو آپ کی مثال اس اینٹ کی ہے جو آخر میں آکر اپنے موقع پر لگ گئی اور شریعت کی عمارت کو ہمیشہ کے لئے مکمل کر دیا.یہی اشارہ اس حدیث کے ان الفاظ میں ہے کہ ھلا وضعت هذه اللبنةُ ( یعنی یہ کونے کی اینٹ ابھی تک کیوں نہیں لگی تا یہ عمارت مکمل ہو ) جس کا یہ مطلب ہے کہ فطرت انسانی اس بات کو محسوس کر رہی تھی اور اس کا تقاضا کر رہی تھی کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ دُنیا کے لئے ایک عالمگیر اور دائمی شریعت نازل کر کے شریعت کی عمارت کو مکمل کر دیا جائے.ورنہ اگر محض نبوت کا سوال ہوتا تو اس جگہ اس فطری طلب اور فطری تقاضا کے ذکر کا کوئی موقع نہیں تھا.پس حق یہی ہے کہ اس لطیف حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شریعت لانے والے نبیوں میں سے ایک یونٹ کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور جیسا کہ ہر واقف کار شخص جانتا ہے کہ یونٹ کی گنتی میں سب چیزوں کا شمار برابر ہوتا ہے اور چھوٹی بڑی چیز میں کوئی امتیاز مد نظر نہیں رکھا جاتا.اور اس مثال سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ

Page 130

۱۲۷ یونٹ کے لحاظ سے لا زما صرف تشریعی اور مستقل نبیوں کو ہی شمار کرنا ہوگا.اور کسی ظلی اور انتی نبی کا سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ایک امتی نبی کی حیثیت ایک شاخ کی ہوتی ہے نہ کہ ایک علیحدہ مستقل درخت کی.علاوہ ازیں ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس حدیث کے آخر میں انا خاتم النبیین کے پر حکمت الفاظ فرما کر ساری بحث کا فیصلہ کر دیا ہے اور ان الفاظ میں مسلمانوں کو نصیحت فرمائی ہے کہ اس حدیث کے کوئی ایسے معنی نہ سمجھ لینا جو قرآنی آیت خاتم النبیین کے خلاف ہوں کیونکہ اگر میں الانبیاء من قبلی ( یعنی اپنے سے پہلے نبیوں) کے لحاظ سے تشریعی نبوت کی آخری اینٹ ہوں تو خاتم النبیین ہونے کے لحاظ سے میں آئندہ نظام کی خشت اول بھی ہوں اور اب قیامت تک صرف میری ہی مہر اور میرا ہی سکہ چلنے والا ہے.خلاصہ کلام یہ کہ جیسا کہ اس حدیث کے حکیمانہ الفاظ سے ظاہر ہے اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام نبوت کی طرف اشارہ کرنا ہرگز مقصود نہیں بلکہ صرف ایک یونٹ یعنی اکائی کی حیثیت میں آپ کی تشریعی نبوت کی طرف اشارہ کرنا اصل مقصد ہے اور غرض یہ ہے کہ آپ کے زمانہ میں فطرتِ انسانی دُنیا کے حالات کے ماتحت ایک عالم گیر اور دائمی شریعت کا تقاضا کر رہی تھی.اور اس فطری تقاضا کو آپ کی لائی ہوئی شریعت نے ہمیشہ کے لئے پورا کر دیا.یہی وہ تشریح ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع شان اور قرآنی شریعت کے عالی مقام کے مطابق درست بیٹھتی ہے.ور نہ نعوذ باللہ یہ ماننا پڑتا ہے کہ ایک وسیع عمارت میں آپ کی حیثیت ایک اینٹ.زیادہ نہیں.

Page 131

۱۲۸ حديث ثَلَاثُونَ دَجَّالُونَ کی تشریح اب میں منفی قسم کی حدیثوں میں سے آخری حدیث کو لیتا ہوں جس میں حقیقہ تو ہمارے عقیدہ کے خلاف کوئی بات نہیں لیکن نادان لوگ اسے حسب عادت استہزاء کا آلہ بنا لیا کرتے ہیں.اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سیکون فی امتى ثلاثون كذابون و فى رواية ثلاثون دجالون) كُلّهم يزعم انه نبى و انا خاتم النبین لا نبی بعدی یعنی عنقریب میری اُمت میں تیس کذاب اور دجال پیدا ہوں گے جن میں سے ہر ایک یہ دعوی کرے گا کہ وہ نبی ہے اور میں تو خاتم النبیین ہوں میرے بعد ( یعنی میرے مقابل پر) کوئی نبی نہیں.‘ اس حدیث کو پیش کر کر کے ہمارے مخالف مولوی صاحبان شور مچایا کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر مدعی ثبوت دجال اور کذاب ہے.اور نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود بائی سلسلہ احمدیہ کو اس حدیث کا مصداق قرار دیکر بزعم خود طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں لیکن جیسا کہ ابھی ظاہر ہو جائے گا یہ اعتراض جہالت کا ایک سطحی اُبال ہے.جو محض جلد بازی اور کوتاہ نظری سے جنم لیکر پیدا ہوا ہے ورنہ اسے حضرت مسیح موعود کے دعوئی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.اس کے متعلق سب سے پہلی بات تو یہ یا درکھنی چاہئیے کہ جیسا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کے آخر میں انا خاتم النبین اور لا نبی بعدی کے الفاظ استعمال کر کے صریح اشارہ فرما دیا ہے اِس جگہ صرف ایسے مدعیانِ نبوت مراد ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ قرار دے کر اور آپ کے دور نبوت کو کاٹ کر کسی نئے دین اور نئی شریعت کے لانے کے مدعی ہوں.پس مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کا

Page 132

۱۲۹ معاملہ بہر صورت اس حدیث کے نیچے نہیں آسکتا.دوسری بات یہ قابل توجہ ہے کہ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ فرمایا ہے کہ میری اُمت میں تیس دجال اور کذاب پید اہوں گے جو نبوت کا دعویٰ کریں گے.لیکن یہ ہرگز نہیں فرمایا کہ جو شخص بھی نبوت کا دعوی کرے وہ دقبال اور کذاب ہوگا.ان دونوں باتوں میں بہت بھاری فرق ہے.اور کوئی عقل مند انسان انہیں ایک نہیں قرار دے سکتا.کیا جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ میری امت میں تیس کذاب اور دجال پیدا ہوں گے جو نبوت کا دعوی کریں گے، آپ یہ مختصر سی بات نہیں فرما سکتے تھے کہ میری اُمت میں جو شخص بھی نبوت کا دعوی کرے وہ دجبال اور کذاب ہے؟ ہائے افسوس کہ عقلوں پر کیسے پردے پڑ چکے ہیں کہ ایک صاف اور سیدھی سی بات سے بالکل الٹا نتیجہ نکالا جارہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ فرماتے ہیں کہ میری امت میں تیس جھوٹے مدعی نبوت پیدا ہوں گے لیکن ان الفاظ پر ملمع سازی کر کے رنگ یہ دیا جا رہا ہے کہ گویا آپ نے یہ فرمایا ہے کہ جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا اور دجال ہے.اس دیدہ دلیری پر جو حدیث کے صریح الفاظ کو دیکھتے بھالتے ہوئے کی جارہی ہے اس کے سوا کیا کہا جائے کہ :.چه دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد عدد کی حد بندی میں لطیف حکمت علاوہ ازیں اِس حدیث میں جو تیس کا عدد بیان ہوا ہے وہ بھی اس بات پر گواہ ہے کہ یہاں جھوٹے نبیوں کی تعداد کی تعیین اور حد بندی کرنا اصل مقصد ہے نہ کہ یہ بتانا

Page 133

کہ جو بھی آئے گا وہ جھوٹا ہو گا.بلکہ اگر غور کیا جائے تو اس تعداد کے ذکر میں یہ مخفی اشارہ بھی ہے کہ دیکھنا سارے مدعیوں کو رڈ نہ کر بیٹھنا بلکہ بعض مدعی بچے بھی ہوں گے.بھائیوغور کرو اور سوچو کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی منشاء ہوتا کہ آپ کے بعد ہر مدعی نبوت چھوٹا ہے تو آپ ہر گز تین کی حد بندی نہ فرماتے بلکہ صاف ارشاد فرماتے کہ میرے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعوے کرے وہ جھوٹا ہے.لیکن آپ نے ایسا نہیں فرمایا بلکہ صرف یہ فرمایا کہ میرے بعد تیس جھوٹے مدعی پیدا ہوں گے جس میں یہ صاف اشارہ ہے کہ ان کذابوں کو چھوڑ کر بعض مدعی بچے بھی ہوں گے.یہ بعینہ وہی صورت ہے جو سنن ابوداؤد کی اس حدیث میں بیان ہوئی.ہے جو ہم اُو پر درج کر آئے ہیں.اس حدیث میں ہمارے رسول پاک صل اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ :.لیس بینی و بینۂ نبی و انۂ نازل.(ابوداؤ د کتاب الملاحم) یعنی میرے اور آنے والے مسیح کے درمیان کوئی اور نبی نہیں ہوگا.“ یہ لطیف حدیث کس وضاحت اور کس فصاحت کے ساتھ ثلاثون دجالون ( تیس دجال) والی حدیث کی تشریح کر کے بتا رہی ہے کہ بیشک اُمت محمدیہ میں تیس جھوٹے مدعی نبوت پیدا ہوں گے لیکن ایک سچا نبی بھی ہوگا اور وہ وہی ہے جو آخری زمانہ میں مثیل مسیح بن کر آئے گا.گویا ان دو حدیثوں کے ذریعہ یہ بتانا مقصود تھا کہ مسیح موعود سے پہلے تو کئی جھوٹے مدعی نبوت پیدا ہوتے رہیں گے.لیکن پھر جھوٹے مدعیوں کی صف لپیٹ دی جائے گی اور بچے مدعی کی آمد کا ڈنکا بجنے لگے گا.

Page 134

تنیس کذابوں کی گنتی پوری ہو چکی ہے.چنانچہ تاریخ سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ ان تیس جھوٹے نبیوں کی تعداد حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی بعثت سے پہلے پوری ہو چکی تھی.مثلاً علامہ قسطلانی اپنی مشہور کتاب مواہب اللہ نیہ میں لکھتے ہیں:.قال القاضي عياض هذا الحديث قد ظهر صدقه فلوعُدّ من تنبأ من زمن النبي صلى الله عليه وسلم إلى الأن ممن اشتهر بذلك لوجد هذا العدد و من طالع كتب التاريخ عرف صحة هذا - (مواہب الله نیہ جلد ۲ صفحہ ۱۹۸) یعنی قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی صداقت ظاہر ہو چکی ہے کیونکہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لیکر آج تک معروف جھوٹے مدعیان ملات کی گنتی کی جائے تو یہ عدد پورا ہو جاتا ہے اور جو شخص کتب تاریخ کا مطالعہ کرے گا اُس پر اس قول کی صحت ظاہر ہو جائے گی.“ حضرت مسیح موعود کا اعلان حق اسی قسم کی شہادت اکمال الاكمال شرح مسلم اور بنج الکرامہ مصنفہ نواب صدیق حسن خان صاحب سرگروہ اہلِ حدیث میں بھی درج ہے.لیکن جب بار بار سمجھانے کے با وجود حضرت مسیح موعود کے خلاف مولوی صاحبان یہی شور مچاتے چلے گئے کہ نعوذ باللہ آپ اُن تیس دجالوں میں سے ایک دقبال ہیں جن کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی

Page 135

۱۳۲ فرمائی تھی تو بالآخر آپ نے ایمانی غیرت اور مومنانہ جلال کے ساتھ فرمایا کہ:.و بعض نیم ملا میرے پر اعتراض کر کے کہتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ خوشخبری دے رکھی ہے کہ تم میں تھیں دجال آئیں گے.اور ہر ایک اُن میں سے نبوت کا دعوی کرے گا.اس کا جواب یہی ہے کہ اے نادانو ! بدنصیبو! کیا تمہاری قسمت میں تیس دقبال ہی لکھے ہوئے تھے اور کوئی سچا مصلح تمہارے لئے مقدر نہیں تھا ) چودھویں صدی کا خمس بھی گزرنے پر ہے اور خلافت کے چاند نے اپنے کمال کی چودہ منزلیں پوری کر لیں جس کی طرف آیت والقمر قلّدته منازل بھی اشارہ کرتی ہے.اور دُنیا ختم ہونے لگی مگر تم لوگوں کے دجال ابھی ختم ہونے میں نہیں آتے.شاید وہ تمہاری موت تک تمہارے ساتھ رہیں گے.اے نادانو ! وہ درقبال جو شیطان کہلاتا ہے وہ خود تمہارے اندر ہے.اس لئے تم وقت کو نہیں پہچانتے.آسمانی نشانوں کو نہیں دیکھتے.مگر تم پر کیا افسوس کہ وہ جو میری طرح موسیٰ کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا تھا اُس کا نام بھی خبیث یہودیوں نے دجال ہی رکھا تھا.فالقلوب تشابهت اللهم ارحم ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی صفحہ ۷ ) اللہ اللہ! یہ کس سوز اور کس درد کا کلام ہے.گویا اپنی قوم کی محرومی پر برسوں کا دبا ہوا جذبہ پھوٹ کر باہر آ گیا ہے.مگر افسوس کہ مذاق اُڑانے والے پھر بھی سنجیدہ نہ ہوئے.نہ ماننے والے پھر بھی نہ مانے.سونے والے پھر بھی نہ جاگے اور قوم کی کشتی ایک بھنور سے نکل کر دُوسرے بھنور میں پھنستی چلی گئی.

Page 136

۱۳۳ خلاصہ کلام یہ کہ تیس دجالوں والی حدیث میں صرف یہ خبر دی گئی تھی کہ تھیں جھوٹے مدعی پیدا ہوں گے نہ یہ کہ کوئی سچا پیدا ہی نہیں ہوگا.اور ہم ثابت کر چکے ہیں کہ یہ تیس کذاب اپنے اپنے وقت پر ظاہر ہو کر پورے ہو چکے ہیں.اور ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری پیشگوئی کے مطابق وہ ربانی مصلح بھی آپ کا جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ لیس بینی و بینۂ نبی.( یعنی میرے اور آنے والے مسیح کے درمیان کوئی اور نبی نہیں) تو اب اگر اس کے بعد بھی ہمارے بھائیوں کو اپنی قوم میں مزید دجالوں کا ہی انتظار رہے تو ان کے متعلق اس کے سوا کیا کہا جائے جو حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ:.امروز قوم من نه شناسد مقام من روزے بگریہ یاد گند وقت خوشترم اب خُدا کے فضل و کرم سے اور اسی کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ یہ خاکسار مسئلہ ختم نبوت کے متعلق حدیثوں کی بحث ختم کر چکا ہے.اور یہ ایک حسنِ اتفاق ہے کہ اس بحث میں چھ حدیثیں مثبت قسم کی ہیں اور چھ ہی منفی قسم کی ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان بارہ حدیثوں پر جو تبصرہ اوپر کی بحث میں کیا گیا ہے وہ خدا کے فضل سے ایک صاف دل انسان کی تسلی کے لئے بہت کافی وشافی ہے.بلکہ اس بحث کے دوران میں ایسی اُصولی باتیں آگئی ہیں جن سے ہر سمجھدار شخص ان زائد حدیثوں کے مطالب بھی آسانی کے ساتھ حل کر سکتا ہے جن کا مضمون ان حدیثوں سے ملتا جلتا ہے.مگر وہ اختصار کے خیال سے اس تبصرہ میں شامل نہیں کی گئیں.اور قرآن مجید کی فرقانی ہدایت جوسب سے بالا اور سب پر حاکم ہے مزید برآں ہے.لیکن جس طرح شورج کی روشنی آنکھوں کے

Page 137

۱۳۴ ٹور کے بغیر بے سود ہے.اسی طرح قرآن و حدیث کی روشنی بھی صرف اسی شخص کے کام آسکتی ہے جو اپنے دل میں پاک نیت اور تلاشِ حق کا نور رکھتا ہو.پس قبل اس کے کہ میں اس مضمون کے اگلے حصہ کو شروع کروں میں اپنے ناظرین سے پھر دوبارہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ تقویٰ اللہ کو مد نظر رکھ کر اور سچائی کے طالب بن کر (خواہ یہ سچائی اُن کے موجودہ عقیدہ کے مطابق ہو یا کہ اس کے خلاف ) قرآن وحدیث کے دلائل پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں.کیونکہ ایمانیات کا سوال بہت نازک ہوتا ہے.اور اس میں ذراسی ٹھو کر انسان کو خدا کی ناراضگی کا نشانہ بنا دیتی ہے.پس عزیز و اور دوستو ! یہ مت خیال کرو کہ تمہارے موجودہ عقائد کیا ہیں.یا تم نے اپنے باپ دادوں سے کیا ئنا ہے.یا تمہارے مولوی کیا کہتے ہیں.بلکہ اس بات کی طرف دیکھو کہ قرآن کیا ارشاد فرماتا ہے.حدیث کیا فتویٰ دیتی ہے.اور تمہارا نور قلب کیا ہدایت مہیا کرتا ہے اور ہمارے دلوں کا حال تو خُدا جانتا ہے کہ اخلاص اور محبت اور اشاعت حق کے جذبہ کے سوا ہمیں کوئی اور خیال نہیں.ہمارے امام نے پہلے سے فرما رکھا ہے کہ :.ہمیں کچھ کہیں نہیں بھائیو نصیحت ہے غریبانہ کوئی جو پاک دل ہووے دل و جاں اُس پہ قرباں ہے 0000

Page 138

۱۳۵ اقوالِ بزرگان کی رُو سے مسئلہ ختم نبوت کا حل ان اقوال کے پیش کرنے میں دوہری غرض احادیث کی بحث ختم کرنے کے بعد اب میں نہایت اختصار کے ساتھ بعض گزشتہ بزرگوں کے ایسے اقوال پیش کرنا چاہتا ہوں جن میں انہوں نے مسئلہ نبوت کے متعلق اسی قسم کے خیالات کا اظہار فرمایا ہے جو آج جماعت احمدیہ کی طرف سے ظاہر کئے جارہے ہیں.میں یہ اقوال اس غرض سے نہیں پیش کر رہا کہ ہمارے لئے یا ہمارے مخالفوں کے لئے ان بزرگوں کا ہر قول قابل محبت ہے.( کیونکہ یہ مقام صرف خُدا اور اس کے رسول کو حاصل ہے.اور ان کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں) بلکہ میں یہ حوالے صرف اس بات کے ثبوت کے لئے پیش کر رہا ہوں کہ ہم نے اس بحث میں کوئی نئی بات نہیں کہی بلکہ کم و بیش وہی بات کہی ہے جو ہم سے پہلے گزرے ہوئے صلحائے امت اور بزرگانِ کرام مختلف زمانوں میں کہتے چلے آئے ہیں.علاوہ ازیں ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی پیشگوئی فرمائی تھی کہ گو جیسا کہ قدیم سے سنت ہے ایک زمانہ کے بعد میری اُمت کے خیالات اور اعمال میں بھی فسادرُونما ہو جائے گا.مگر میری اُمت کبھی بھی ساری کی ساری خراب نہیں ہوگی.اور اس کا ایک نہ ایک حصہ ضرور حق و صداقت پر قائم رہے گا.چنانچہ آپ نے فرمایا تھا کہ لا تزال طائفة من أمتى على الحق لا يضرهم من خالفهم حتى يأتى امر الله (ابوداؤد کتاب الفتن ) یعنی میری اُمت کا ایک نہ ایک حصہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا.اور اُن کے مخالف خیال لوگ اُن کی کمزوری کے زمانہ میں بھی انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے حتی کہ اللہ تعالیٰ اُن کی کامیابی کا پورا پورا رستہ کھول

Page 139

۱۳۶ دیگا.پس ذیل میں بعض گزشتہ بزرگوں کے اقوال پیش کرنے میں خاکسار راقم الحروف کی یہی دُہری غرض ہے کہ :.(۱) ختم نبوت کے عقیدہ کے متعلق اسلام کے بہت سے ممتاز بزرگ ہر زمانہ میں کم و بیش انہی خیالات کا اظہار کرتے آئے ہیں جو موجودہ زمانہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں.اس لئے جماعت احمدیہ کو ان خیالات کی وجہ سے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں قرار دیا جا سکتا.ور نہ ان بزرگوں کے متعلق کیا کہا جائے گا جو ہم سے پہلے اسی قسم کے خیالات ظاہر فرما چکے ہیں؟ (۲) ان عقائد کی موجودگی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس مخصوص مسئلہ میں بھی ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مبارک ارشاد پورا ہوا ہے کہ میری اُمت کا ایک نہ ایک حصہ ہر زمانہ میں حق پر قائم رہے گا.اور یہ کہ خدا کے فضل و رحمت سے موجودہ زمانہ میں جماعت احمدیہ ہی اس بشارت کی مصداق ہے اور اس کے ساتھ وہ اس عظیم الشان بشارت کی بھی مصداق ہے کہ لا یضرھم من خالفهم حتى يأتى امر الله - یعنی درمیانی ابتلاؤں اور امتحانوں کے باوجود آخری کامیابی اُسی کے لئے مقدر ہے.مسئلہ نبوت میں کب اور کس طرح غلط فہمی پیدا ہوئی ؟ انفرادی حوالے پیش کرنے سے قبل ایک اور سوال کا جواب دینا بھی ضروری ہے اور وہ یہ کہ مسئلہ ختم نبوت کے متعلق عام مسلمانوں میں کب اور کس طرح غلط نہی پیدا ہوئی؟

Page 140

۱۳۷ سواس سوال کے جواب میں اچھی طرح تو جہ دے کر سمجھ لینا چاہئیے کہ جیسا کہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سلسلۂ رسالت کا مرکزی نقطہ ہیں.چنانچہ آپ خود فرمایا کرتے تھے کہ کنت نبيًّا و آدم منجدل بين الماء والطين.” یعنی میں اُس وقت سے نبی ہوں کہ ابھی دُنیا کا سب سے پہلا انسان ( یعنی آدم ) پیدا بھی نہیں ہو ا تھا.اس پر حکمت کلام سے یہی مرا تھی کہ خدا تعالیٰ نے یہ تمام سلسلہ نبوت ورسالت اس غرض سے چلایا تھا اور اس رنگ میں چلایا تھا کہ اسے بالآخر آپ کی نبوت تامہ کاملہ میں اوج کمال تک پہنچایا جائے.اسی طرح روایت آتی ہے کہ آپ سے خُدا تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ لولاک لما خلقت الافلاك ” یعنی اے محمد اگر تو نہ ہوتا تو میں یہ زمین و آسمان بھی پیدا نہ کرتا.جس کا یہ مطلب ہے کہ آپ نہ صرف سلسلہ نبوت کے بلکہ عالم روحانی کے بھی مقصد ومنتہا تھے.اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے بار بار یہ اعلان فرمایا کہ انا سيد ولد آدم ولا فخر وانا اكرم الاولين و الأخرين ولا فخر ” یعنی میں تمام بنی آدم کا سردار ہوں مگر میں اس کی وجہ سے فخر نہیں کرتا اور میں اولین و آخرین میں سے خدا کے حضور سب سے افضل ہوں مگر میں اس کی وجہ سے فخر نہیں کرتا.یہی وجہ ہے کہ آپ کو وہ دائگی اور عالمگیر شریعت دی گئی جو سب شریعتوں سے افضل ہے.اور اس کے بعد قیامت تک کوئی اور شریعت نہیں.تو جب آپ کا یہ ارفع مقام ہے اور آپ کی شریعت کی یہ بے نظیر شان ہے تو ضروری تھا کہ آپ اپنے اس خدا داد منصب کی تبلیغ و تلقین کے لئے اس قسم کے خاص امتیازی الفاظ استعمال فرماتے تا دنیا پر ظاہر ہو کہ سلسلۂ رسالت کی سب پچھلی تاریں آپ میں پہنچ کرختم ہو گئی ہیں.اور سب اگلی تاریں آئندہ آپ کے وجود میں سے ہو کر نکلیں گی.

Page 141

۱۳۸ چنانچہ آپ نے اپنی موت کے متعلق جتنے بھی اعلانات فرمائے وہ سب کے سب بلا استثناء اسی نقطہ کے ارد گرد گھومتے ہیں کہ عالم رُوحانیت میں مرکزی و جود آپ کا ہے.گزشتہ سب کمال آپ میں جذب ہو کر ختم ہوئے.اور آئندہ ہر ٹور آپ میں سے ہو کر نکلنے والا ہے.اس کی مثال بجلی کے ایک زبردست ٹرانس فارمر کی سی سمجھنی چاہئیے.جس میں ایک طرف سے بجلی کی ایک روآکر داخل ہوتی ہے اور پھر دوسری طرف سے وہ ایک نیا رنگ اختیار کر کے اور گو یا نئی بجلی بن کر باہر نکلتی ہے.رسول پاک کے مقام کے متعلق نام نہیں آپ کے اس عدیم المثال اور عجیب و غریب مقام کی حقیقت ظاہر کرنے کے لئے قرآن مجید نے تو خاتم النبیین کی جامع و مانع اصطلاح استعمال فرمائی ہے مگر حدیث نے حسب موقع مختلف قسم کے کلمات اور استعارات سے کام لیکر اس نادر الوجود حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے.یعنی کبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ میں آخری نبی ہوں.اور کبھی یہ فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں.اور کبھی یہ فرمایا ہے کہ مجھ پر نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم ہے.اور کبھی یہ فرمایا ہے کہ میں نبوت کے محل کی آخری اینٹ ہوں وغیرہ وغیرہ.حقیقتہ یہ سارے کلمات ایک ہی مفہوم کے حامل اور ایک ہی حقیقت کے مظہر تھے.اور یہ حقیقت وہی تھی جو قرآن مجید نے اپنے ایک جامع لفظ خاتم اصمعین میں بیان فرما دی تھی اور اس کا مطلب یہی تھا کہ آپ عالم روحانیت کا مرکزی نقطہ ہیں.گزشتہ ہر تار آپ میں آکر ختم ہوگئی.اور آئندہ ہر تار آپ میں سے ہو کر نئی صورت میں نکلے گی.TRANS-FORMER ✓

Page 142

۱۳۹ صحابہ کرام کی مقدس جماعت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی براہ راست تربیت کے نیچے تھی.وہ تو فی الجملہ اس نادر حقیقت اور اس روحانی فلسفہ کو اچھی طرح جانتی اور مجھی تھی.اور انہیں اس معاملہ میں کوئی غلط نبی نہیں تھی لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرب کے دور افتادہ حصوں اور بیرونی ملکوں کے لوگوں نے جوق در جوق اسلام قبول کیا اور یدخلون فی دین اللہ افواجا کا زمانہ آیا تو نئے مسلمان ہونے والوں میں سے ایک حصہ نے رسول پاک کے ان اعلانوں اور ان اصطلاحوں کی اصل حقیقت کو نہ سمجھتے ہوئے ان کی تشریح میں اپنے اپنے طور پر خیال آرائی شروع کر دی.یہ نومسلم لوگ جوصحابہ کے بعد آنے والے تابعی تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پرحکمت الفاظ لا نبی بعدی اور ائی آخر الانبیاء وغیرہ سنتے تھے اور ان میں سے بعض اس سوچ میں پڑ جاتے تھے کہ ان الفاظ کی حقیقت کیا ہے؟ وہ ابھی تک اس گہرے رُوحانی فلسفہ کی بنیادی حقیقت سے نا آشنا تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رکن معنوں میں اپنے آپ کو اگلی اور پچھلی تاروں کے اتصال کا مرکز قرار دیا ہے.اور چونکہ اسلامی تعلیم کا مرکزی نقطہ یہ کلمہ طیبہ ہے کہ لا الہ إِلَّا الله محمد رسول اللہ اور اس کلمہ میں ختم نبوت کا کوئی ذکر نہیں.اور جس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ ارکانِ اسلام بیان فرمائے ہیں اس میں بھی ختم نبوت کا کوئی ذکر نہیں اس لئے وہ اس بحث کو ایک زائد علمی مسئلہ سمجھ کر خاموش ہو جاتے تھے.اسلام کی ظاہری حد بندی کے متعلق ایک ضمنی نوٹ یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جیسا کہ حدیث میں ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار صراحت فرمائی ہے اسلام کی ظاہری حد بندی صرف

Page 143

۱۴۰ کلمہ طیبہ یعنی لا اله الا الله محمد رسول اللہ ہے.پس جو شخص بھی اس کلمہ پر ایمان لاتا ہے اور خدا کو ایک سمجھتا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کرتا ہے وہ اسلام کی ظاہری تعریف کے لحاظ سے مسلمان کہلانے اور امت محمدیہ کا فرد سمجھے جانے کا حقدار ہو جاتا ہے.باقی باتیں تکمیل دین اور حقیقت باطنی سے تعلق رکھتی ہیں جنہیں اسلام کی ظاہری حد حد بندی سے کوئی تعلق نہیں.پس ایک کلمہ گو خواہ وہ کوئی ہو اور کسی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو سیاسی حقوق کے لحاظ سے مسلمان سمجھا جائے گا.گو اُ سے اس کے دیگر دینی نقائص اور خامیوں کی وجہ سے کامل یا حقیقی مسلمان نہ سمجھا جائے.یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن وحدیث سے ثابت ہوتی ہے.اور اسی کے مطابق اسلام کا ظاہری اور سیاسی نظام قائم کیا گیا ہے.اسی لئے ابتدائی مسلمانوں نے بلکہ ہر زمانہ کے محقق علماء نے ختم نبوت کے عقیدہ کی بحث میں پڑنے کے بغیر اسلام کی ظاہری حد بندی صرف کلمہ طیبہ قرار دی ہے.اور اس معاملہ میں دُوسری باتوں کو قطعا مؤثر نہیں گردانا.اور یہی وجہ ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جہاں جہاں اسلام کی ظاہری تشریح یا تعریف فرمائی ہے وہاں صرف کلمہ طیبہ لا اله إلا الله محمد رسول اللہ کو اسلام کا مرکزی نقطہ قرار دیا ہے.اور اس کی تفصیل میں ملائکہ اللہ اور کتب سماوی اور سلسلہ رسل اور بعث بعد الموت اور تقدیر خیر وشر کے فی الجملہ ذکر پر اکتفا فرمایا ہے.اور ختم نبوت کا ذکر نہیں کیا.گو بہر حال قرآنی ارشاد کے ماتحت ہر سچا مسلمان ختم نبوت کے عقیدہ پر دل و جان سے ایمان لاتا ہے.یہ ایک خاص نکتہ ہے جو ہمارے سب دوستوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے.

Page 144

۱۴۱ صحابہ کی زندگی میں ہی اس غلط فہمی کا آغاز ہو گیا تھا اس ضمنی نوٹ کے بعد میں اپنے اصل مضمون کی طرف رجوع کرتا ہوں.جیسا کہ او پر صراحت کی گئی ہے.ختم نبوت کی تشریح اور لا نبی بعدی کی حقیقت کے متعلق ابتدائی مسلمانوں کے خیالات میں ایک قسم کا مجزوی انتشار صحابہ کرام کے زمانہ میں ہی نومسلم تابعین کے ایک طبقہ میں شروع ہو گیا تھا.لیکن چونکہ یہ انتشار صرف ایک محمد ود اور قلیل طبقہ میں تھا.اسلئے طبعا وہ زیادہ نمایاں نہیں ہوا.اور اس انتشار کا احساس بھی صرف خاص خاص صحابہ کو ہوا جنہوں نے اسے اپنے اپنے رنگ میں دبانے اور مٹانے کی کوشش کی.چنانچہ جو روایتیں ہم ذیل میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پیش کریں گے وہ اس بات پر یقینی گواہ ہیں کہ اِن ہر دو بزرگوں نے کس طرح اس غلط رجحان کو محسوس کر کے اس کی اصلاح کی کوشش فرمائی.لیکن چونکہ ابھی تک یہ رجحان صرف ایک چھوٹے سے بیج کے رنگ میں تھا اور صرف نو مسلم تابعین کے ایک قلیل حصہ تک محدود تھا اور غالبا یہ طبقہ مرکز اسلام سے بھی دُور رہتا تھا.اسلئے اس غلط نہی کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی.اور نہ ہی وقتی حالات کے ماتحت اسکی طرف زیادہ توجہ ہوئی.نتیجہ یہ ہوا کہ اندر ہی اندر مسلمانوں کے ایک طبقہ میں یہ غلط خیالات راسخ ہوتے گئے کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سب کچھ ختم ہو گیا ہے.اور اب آپ کے بعد کوئی شخص کسی رنگ میں بھی نبوت کا انعام نہیں پاسکتا.اور پھر جوں جوں عہد نبوت سے دُوری ہوتی گئی یہ غلط خیالات زیادہ جڑھ پکڑتے اور زیادہ وسیع ہوتے گئے.لیکن جیسا کہ ہم انشاء اللہ ابھی ثابت کریں گے مسلمان علماء اور صلحاء کا ایک حصہ ہر

Page 145

۱۴۲ زمانہ میں جمہور مسلمانوں کو اس غلطی کی طرف توجہ دلاتا رہا ہے اور خیالات کی کش مکش برابر جاری رہی ہے.حتی کہ فیج اعوج کے زمانہ میں جس کے لئے علماء ھم شر من تحت ادیم الشماء کا انذار بیان ہو چکا تھا.یہ غلطی ایسا غلبہ پاگئی کہ خاص اہلِ بصیرت لوگوں کو چھوڑ کر عوام الناس اسی غلط خیال پر جم کر بیٹھ گئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِ مبارک میں سب اگلے پچھلے سلسلے کلیہ ختم ہو چکے ہیں.اور آپ کے بعد ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہے.یقینا یہی وہ صورت ہے جس میں اس غلط عقیدہ نے ابتداء میں ایک بیج کے طور پر پرورش پا کر آہستہ آہستہ جمہور کے دل و دماغ پر قبضہ جما لیا.اور عہد نبوت سے دُوری کی وجہ سے مسلمان عوام یہ سمجھنے لگ گئے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال اس بات میں نہیں ہے کہ آپ نئی رُوحانی نہر کے جاری کرنے والے قرار پائیں بلکہ اس بات میں ہے کہ آپ پر تمام سابقہ نہریں پہنچ کر بند ہو جا ئیں.مجھے یقین ہے کہ جو شخص اس معاملہ میں خالی الذہن ہو کر صحیح نفسیاتی اُصول پر غور کرے گا وہ لازما اسی نتیجہ پر پہنچے گا جو ہم نے اس جگہ بیان کیا ہے.یعنی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی مقام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ ساری غلط نہی پیدا ہوئی ہے.کاش ہمارے مخالف اصحاب اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں.وما علینا الا البلاغ.حضرت علی رضی اللہ عنہ کا لطیف ارشاد اس کے بعد میں نہایت مختصر طور پر انفرادی حوالوں کو لیتا ہوں.سب سے پہلے ہمارے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول آتا ہے جو ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے چا زاد بھائی اور آپ کی جگر گوشہ حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کے خاوند اور اسلام کے

Page 146

۱۴۳ چوتھے خلیفہ تھے.اور ان کی بلندشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ انا مدینۃ العلم و علی با بھا.یعنی میں علم کی بستی ہوں اور علی اس بستی کا دروازہ ہے.سو اس علم و بصیرت والی ہستی کے متعلق روایت آتی ہے کہ آپ نے ایک شخص ابوعبد الرحمن بن سلمیٰ نامی کو اپنے صاحبزادگان حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی تعلیم کے لئے مقرر کر رکھا تھا.چنانچہ ابوعبد الرحمن روایت کرتے ہیں کہ:.كنت اقرئ الحسن و الحسین رضی الله عنهما فمر بي علی ابن ابی طالب رضى الله عنه و أنا أقرتهما وقال لى أقرئهما وخاتم النبيين بفتح التاء- (در منثور مرتبه امام سیوطی زیر آیت خاتم النبیین ) و یعنی میں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو پڑھایا کرتا تھا تو ایک دفعہ جب میں ان صاحبزادگان کو پڑھا رہا تھا حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ میرے پاس سے گزرے اور مجھے مخاطب ہو کر فرمایا.دیکھو انہیں خاتم النبین کا لفظت کی زبر سے پڑھانا.“ ہمارے ناظرین جانتے ہیں کہ خاتمہ کا لفظ ( یعنی حروف سے اور الف اور تا اور ھ کا مجموعہ ) عربی زبان میں دو طرح پر آتا ہے.ایک ت کی زبر سے خاتمہ کی صورت میں آتا ہے.جس کے معنی مہر یا انگوٹھی کے ہوتے ہیں.اور دوسرےت کی زیر سے خاتمہ کی صورت میں آتا ہے جس کے عام معنی تو آخری کے ہوتے ہیں مگر کبھی کبھی وہ مہر کے معنوں میں بھی استعمال ہو جاتا ہے.لیکن چونکہ ت کی زیر کی صورت میں غلط نہی کا احتمال تھا اس لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کمال ذہانت اور دُور اندیشی سے اس خطرہ کو بھانپ کر

Page 147

۱۴۴ ابوعبد الرحمن کو تاکید فرمائی کہ دیکھنا میرے بچوں کو خاتم کا لفظت کی زبر سے پڑھانا زیر سے نہ پڑھانا.تا کہ ”نبیوں کی مہر والے معنی مراد لئے جائیں اور کسی قسم کی غلط فہمی نہ پیدا ہو.اس عجیب وغریب روایت سے پتہ لگتا ہے کہ ابتدائی زمانہ میں ہی بعض نومسلم تابعین میں اس غلط فہمی کی طرف رجحان پیدا ہونے لگا تھا کہ شاید خاتم کا لفظت کی زیر سے ہو.اور اس سے مراد نبیوں کے سلسلہ کو بند کرنے والا ہو.اس لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فورا ابوعبد الرحمن کو ٹوک کر ہدایت فرمائی اور صحیح رستہ پر ڈال دیا.اب غور کرو کہ اگر لفظ خاتم (ت کی زبر سے ) اور خاتم (ت کی زیر سے ) ہر صورت میں بالکل ایک ہی معنی دیتے ہیں اور ان میں قطعا کوئی فرق نہیں ہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو عبد الرحمن بن سلمیٰ کو یہ تاکید کیوں فرمائی کہ یہ لفظت کی زبر سے پڑھاؤت کی زیر سے نہ پڑھاؤ.یقینا اس کی تہہ میں یہی خیال کارفرما تھا کہ ان مقدس صاحبزادوں اور ان کے اُستاد کے دل میں ”نبیوں کی مہر والے معنوں کا تصور قائم کیا جائے.اور اُن کے خیال کو اس طرف جانے سے روکا جائے کہ اس کے معنی آخری نبی کے ہیں.تا کسی قسم کی غلط فہمی کا امکان نہ رہے.مگر افسوس ہے کہ باوجود حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس مشفقانہ انتباہ کے آجکل کے مسلمان اس بات پر مُصر ہیں کہ خاتم النبین کے معنی آخری نبی کے ہیں اور یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہے.بہر حال یہ وہ سب سے پہلی شہادت ہے جو اسلام کی تاریخ میں ہمارے عقیدہ کے حق میں پائی جاتی ہے.اور شہادت بھی کس کی؟ ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد اور خلفاء راشدین میں سے چوتھے خلیفہ کی جو علم و عرفان کی بستی میں دروازہ کا حکم رکھتا تھا.اور جس کے سامنے اہل سنت والجماعت اور اہل تشیع دونوں کی گردنیں جھکتی ہیں.

Page 148

۱۴۵ حضرت اُم المومنین عائشہ صدیقہ کا ہدایت نامہ اس کے بعد مومنوں کی مادر مشفق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد آتا ہے جو ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ عالمہ فاضلہ بیوی تھیں اور جن کے متعلق یہ روایت آتی ہے کہ صحابہ کو کبھی کوئی علمی مشکل ایسی نہیں پیش آئی جس کا حل انہیں حضرت عائشہ کے پاس نہ مل گیا ہو.(زاد المعاد ) آپ فرماتی ہیں:.قولوا انه خاتم النبيين ولا تقولو الا نبي بعده (در منثور جلد ۵ و تکمله مجمع السجار صفحه ۸۵) یعنی اے مسلما نو ! تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ تو کہا کرو کہ آپ خاتم النبیین ہیں.مگر یہ نہ کہا کرو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں.“ یہ شہادت زمانہ کے لحاظ سے حضرت علی کی شہادت کے بعد کی معلوم ہوتی ہے جبکہ غالبًا مسئلہ نبوت کے متعلق غلط نہی کسی قدر زیادہ ہو چکی تھی.کیونکہ اس میں حضرت علی والی شہادت کی نسبت زیادہ وضاحت اور زیادہ وسعت پائی جاتی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تک اس قسم کی خبر پہنچی ہوگی کہ بعض نو مسلم لوگ جو دین کے حقائق سے زیادہ واقف نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث لا نبی بعدی کی غلط تشریح کر کے اس خیال کی طرف جھک رہے ہیں کہ اب شاید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا نبی بھی نہیں آ سکتا.اور یہ کہ آپ کے بعد یہ دروازہ کھلی طور پر بند ہو چکا ہے.سو حضرت عائشہ نے ایک مہربان معلمہ کی حیثیت میں فورا اس کی طرف توجہ فرمائی.اور

Page 149

۱۴۶ ہدایت دی کہ چونکہ تم لا نبی بعدی کی حقیقت کو پوری طرح نہیں سمجھتے اس لئے اس حدیث کی بجائے آیت خاتم النبیین کی طرف دھیان رکھو جس کے معنی ”نبیوں کی مہر کے ہیں.اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے مقام نبوت کا سارا فلسفہ اس ایک لفظ میں آ جاتا ہے اور جو غلط نہی لا نبی بعدی کے الفاظ سے بعض خام طبیعتوں میں پیدا ہوسکتی ہے اس کا سد باب بھی ہو جاتا ہے.اب دیکھو کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ ارشاد کتنا واضح اور کتنا بصیرت افروز ہے جس کے بعد کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی.لیکن چونکہ اوپر کی بحث میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس قول کی کسی قدر تفصیلی تشریح گزر چکی ہے اس لئے ہمیں اس جگہ اس کے متعلق زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.بہر حال یہ بات ظاہر ہے کہ نبوت کے مسئلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اوائل زمانہ میں ہی ایک غلط رجحان محسوس کیا اور اس کی تصحیح کی طرف فوری توجہ فرمائی.حضرت شیخ محی الدین ابن عربی کی شہادت حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ابتدائی زمانہ کے ارشادات پیش کرنے کے بعد اب میں اسلام کے وسطی زمانہ کے ایک بڑے بزرگ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی (وفات ۳۱ ہجری) کا حوالہ پیش کرتا ہوں جس میں انہوں نے صراحت اور تکرار کے ساتھ فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف شریعت والی نبوت کا دروازہ بند ہے.عام نبوت کا دروازہ ہرگز بند نہیں.چنانچہ حضرت شیخ اکبر فرماتے ہیں:.إن النبوة التي انقطعت بوجود رسول الله صلى الله عليه وسلّم انّما

Page 150

۱۴۷ هي نبوّة التشريع لا مقامها فلا شرع ناسخا لشرعه صلى الله عليه وسلّم ولا يزيد فى شرعه حكمًا آخر وهذا معنى قوله صلى الله عليه وسلم ان الرسالة والنبوّة قد انقطعت فلا رسُول بعدی ولا نبی آی لا نبى بعدى يكون على شرعٍ يخالف شرعى بل اذا كان يكون تحت حکم شریعتی - (فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۳ طبع مصر) یعنی نبوت کی وہ قسم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے بند ہوگئی ہے وہ صرف شریعت والی نبوت ہے کیونکہ اب اس کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی.پس آئندہ کوئی ایسی شریعت نہیں آسکتی جو آپ کی شریعت کے کسی حکم کو منسوخ کرے یا آپ کی لائی ہوئی شریعت میں کوئی محکم زیادہ کرے.اور یہی معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے ہیں کہ اب رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے.اور میرے بعد کوئی رسول اور نبی نہیں.اس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ آئندہ کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو کسی ایسی شریعت پر قائم ہو جو میری شریعت کے خلاف ہے.بلکہ جب بھی کوئی آئے گا تو وہ میری ہی شریعت کے تابع ہوگا.“ اور پھر اسی مضمون پر اسی کتاب میں دوسری جگہ فرماتے ہیں :.النبوة سارية الى يوم القيامة فى الخلق وإن كان التشريع قد انقطع فالتشريع جزء من اجزاء النبوة - (فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۱۰۰ طبع مصر)

Page 151

۱۴۸ ختم نکات کی حقیقت د یعنی نبوت دُنیا میں قیامت کے دن تک جاری اور کھلی ہے.اگر چہ شریعت کا نزول ختم ہو چکا ہے.اور شریعت نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے.“ اور اپنی ایک دوسری کتاب میں حضرت ابن عربی موصوف فرماتے ہیں :.اما نبوّة التشريع والرسالة فمنقطعة و في محمّد صلى الله عليه وسلّم قد انقطعت فلا نبي بعده مشرعًا...........الا ان الله لطف بعباده فابقى لهم النبوّة العامة لا تشريع فيها - ( فصوص الحکم صفحه ۱۴۱،۱۴۰) یعنی شریعت والی نبوت ورسالت تو ختم ہو چکی ہے کیونکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مکمل ہو گئی.پس آپ کے بعد کوئی صاحب شریعت نبی نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر یہ مہربانی فرمائی ہے کہ اُن آسکتا..کے لئے عام نبوت کا دروازہ کھلا رکھا ہے.جو شریعت کے بغیر ہوتی ہے.“ ان تین حوالوں سے جو اسلام کے ایک بڑے عالم اور ممتاز بزرگ کے قلم سے ہیں اور آج سے قریبا ساڑھے سات سو سال پہلے لکھے گئے تھے.ذیل کی چار باتیں قطعی طور پر ثابت ہوتی ہیں:.(اول) یہ کہ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف نئی شریعت کے نزول کا دروازہ بند ہوا ہے نہ کہ ہر قسم کی نبوت کا.(دوم) یہ کہ حضرت شیخ موصوف کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت پلا شریعت کا دروازہ کھلا ہے.اور قیامت تک کھلا رہے گا.اور وہ

Page 152

۱۴۹ اس قسم کی نبوت کا نام نبوت عامہ رکھتے ہیں.(سوم) یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی آئے گا وہ بہر حال آپ کی شریعت اور آپ کے فرمان کے تابع ہوگا.(چہارم) یہ کہ نبوت کے متعد دا جزاء ہیں اور شریعت کا نزول ان اجزاء میں سے ایک جزو ہے نہ یہ کہ شریعت ہی میں نبوت ہے.یہ وہ چارا ہم نتائج ہیں جو اوپر کے حوالوں سے قطعی طور پر ثابت ہوتے ہیں.اور اگر کسی شخص کو ہمارے ترجمہ کے متعلق شک ہوتو وہ اپنے کسی مولوی سے ترجمہ کر کے خود تسکی کر سکتا ہے.اب دیکھو کہ یہ حوالے کتنے واضح اور کتنے صاف ہیں! حضرت شیخ اکبر فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف شریعت والی نبوت کا دروازہ بند کیا ہے اور چونکہ شریعت صرف جزر و نبوت ہے نہ کہ عینِ نبوت اسلئے آپ کے بعد نبوت عامہ کا دروازہ کھلا ہے اور کبھی بند نہیں ہو گا.اور یہ کم وبیش وہی بات ہے جو ہم کہتے ہیں.لیکن چونکہ اکثر لوگ اپنے قائم شدہ عقیدہ کے خلاف کسی خیال کو قبول کرنے کے لئے جلدی تیار نہیں ہوتے اور بات بات پر شبہ پیدا کرنے کا طریق اختیار کرتے ہیں.اس لئے اس موقع پر بھی بعض اصحاب کی طرف سے یہ شبہ پیدا کیا گیا ہے کہ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی نے اس جگہ نبوت عامہ سے صرف ولایت کا مقام مرا دلیا ہے اور یہ کہ ان کا اصل عقیدہ یہی تھا کہ ہر نبی کے لئے شریعت کالا نا ضروری ہے.اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی اور شریعت نہیں اس لئے آپ کے بعد حقیقی معنوں میں کوئی نبی بھی نہیں آسکتا.اس شبہ کے جواب میں اصولی طور پر تو یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ ہم نے حضرت شیخ اکبر یا کسی اور بزرگ کو بلینک چیک نہیں دیا ہوا کہ یا ہمارے لئے ان کی ہر بات BLANK CHEQUE

Page 153

واجب القبول ہو.بلینک چیک کا مقام صرف خدا اور اس کے رسول کو حاصل ہے کیونکہ خُدا اور اس کے رسول ہی ایسی ہستیاں ہیں جن کی ہر بات ہر حال میں واجب القبول ہوتی ہے.ان کے علاوہ کسی اور کو یہ مقام حاصل نہیں.بلکہ باقی سب کے متعلق علی قدر مراتب خذ ما صفا و دع ماکلد کا اصول چلتا ہے یعنی جو بات صحیح ہے اور قرآن وحدیث کے فیصلہ کے مطابق ہے اسے لے لو اور جو بات قرآن وحدیث کے خلاف ہے اسے رڈ کر دو.اسی لئے ہم نے اس جگہ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی کی شہادت ان کے سارے عقائد اور نظریات کی تصدیق کے لئے پیش نہیں کی بلکہ صرف اس محدود شہادت کے طور پر پیش کی ہے کہ ہماری طرح حضرت شیخ اکبر کے نزدیک بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف تشریعی نبوت کا دروازہ بند ہے نہ کہ ہر قسم کی نبوت کا.اور اس حصہ میں پیش کردہ شہادت بالکل صاف اور واضح ہے اور کسی شبہ کی گنجائش نہیں.پس اگر بالفرض ( اور میں یہ بات صرف فرض کے طور پر کہہ رہا ہوں ) حضرت شیخ محی الدین ابن عربی کا یہی عقیدہ تھا کہ ہر نبی کے لئے شریعت کالا نا ضروری ہے تو اس سے ہمارے موجودہ استدلال پر کوئی اثر نہیں پڑتا.کیونکہ اول تو جس مخصوص غرض کے ماتحت ہم نے یہ حوالہ پیش کیا ہے اس کے لحاظ سے یہ ایک زائد اور لاتعلق بات ہے.دوسرے جیسا کہ ہم حضرت امام شعرانی کے حوالہ کی بحث کے تعلق میں قرآن اور حدیث اور تاریخ اور عقلی دلائل کی متحدہ شہادت سے ثابت کر چکے ہیں یہ خیال ہرگز درست نہیں کہ ہر نبی کے لئے نئی شریعت کالا نا ضروری ہے.بہر حال حضرت شیخ اکبر کا منشاء صرف یہ ہے کہ وہ تشریعی نبوت کو مبقت خاصہ کا نام دے کر اس کا دروازہ توکلی طور پر بند قرار دیتے ہیں.مگر اس کے مقابل پر نبوت کی باقی اقسام کو بقت عامہ کے لفظ سے تعبیر کر کے اس کا رستہ ہمیشہ کے لئے کھلا سمجھتے ہیں.وھو المراد.

Page 154

۱۵۱ لیکن حق یہ ہے کہ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی نے ہرگز یہ نہیں کہا اور نہ ہی اُنہوں نے کسی جگہ یہ عقیدہ ظاہر فرمایا ہے کہ ہر نبی کے لئے شریعت کا لانا ضروری ہے بلکہ وہ تو صاف الفاظ میں اعلان فرماتے ہیں کہ :.التشريع جزء من اجزاء النبوة (فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحہ ۱۰۰) ر یعنی شریعت کا نزول نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے.نہ کہ 66 عین نبوت.“ پس جبکہ شیخ موصوف کے نزدیک شریعت کا نزول نبوت کے ساتھ لازم و ملزوم ہی نہیں ہے تو اُن کی طرف یہ خیال کس طرح منسوب کیا جا سکتا ہے کہ ہر نبی کے لئے شریعت کا لانا ضروری ہے؟ لہذا اگر اُنہوں نے کسی جگہ نبوت عامہ ( یعنی غیر تشریعی نبوت ) کو ولایت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے تو یقینا یہ صرف ایک مجازی استعمال کی صورت ہے.جو اُنہوں نے اپنے رنگ میں عوام الناس کو غیر تشریعی نبوت کی حقیقت سمجھانے کے لئے اختیار کی ہے.اور ان کا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ ہر نبی لا زما ولی بھی ہوتا ہے.اور یہ کہ نبوت عامہ جس کے ساتھ شریعت شامل نہیں وہ دراصل ولایت ہی کا ایک ترقی یافتہ مقام ہے.ولک ان يصطلح فافهم و تدبّر ولا تكن من الممترین.اسی لئے حضرت شیخ محی الدین ابن عربی نے حضرت ہارون علیہ السلام کے متعلق یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ وہ کوئی شریعت نہیں لائے بلکہ موسوی شریعت کے تابع تھے انہیں قرآنی ارشاد و وهبناله هارون نبیا کے ماتحت نبی قرار دیا ہے.(فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحہ ۴،۳)

Page 155

۱۵۲ حضرت مولانا رومی کی شہادت اسلام کے وسطی زمانہ کی دوسری شہادت حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ (وفات ۷۲ ہجری) کے کلام میں ملتی ہے مگر یہ یاد رہے کہ اس جگہ میری غرض سارے حوالے پیش کرنا نہیں ہے بلکہ میں یہاں صرف مثال کے طور پر چند حوالے پیش کر رہا ہوں تا یہ بات ثابت ہو کہ مسئلہ ختم نبوت کے متعلق جماعت احمدیہ کا عقیدہ نیا نہیں ہے بلکہ ہر زمانہ میں اسلام کے بعض چوٹی کے علماء اور صلحاء اور صوفیاء کم و بیش انہی خیالات کا اظہار کرتے آئے ہیں.اس غرض کے ماتحت بعض حوالے او پر درج کئے جاچکے ہیں.اور بعض حوالے ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.چنانچہ مولا نا رومی جن کی مثنوی مسلمانوں کے ہر طبقہ میں مقبول ہے اور اعلیٰ درجہ کے علوم اور تصوف سے معمور مانی گئی ہے.فرماتے ہیں:.بہر ایں خاتم شد است او که بجود * مثل او نے بود نے خواهند بود چونکه در صنعت برو استاد دست * نے تو گوئی ختم صنعت بر تو ہست (مثنوی مولاناروم دفتر ششم صفحه ۸) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اس لئے خاتم النبیین رکھا گیا کہ آپ کے برابر نہ تو کوئی شخص پہلے لوگوں میں گزرا ہے اور نہ آئندہ ہوگا.دیکھو جب کوئی ماہر فن کسی صنعت میں سب سے آگے نکل جاتا ہے تو کیا تم اس کے متعلق یہ نہیں کہتے کہ یہ صنعت تو تجھ پر ختم ہو گئی ہے؟ پس سمجھ لو کہ اسی معنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بات ختم ہوئی ہے."

Page 156

۱۵۳ اب دیکھو کہ یہ حوالہ کتنا صاف اور واضح ہے.حضرت مولانا رومی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ خاتم النبیین کے لفظ سے یہ نہ مجھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدائی انعاموں کی نہر کو بند کرنے والے ہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ افضل الرسل ہیں اور آپ نے اپنے اندر نبوت کے کمالات کو احسن اور اتم صورت میں جمع فرمایا ہے.اور پھر مثال دیکر فرماتے ہیں کہ جس طرح ایک عدیم المثال ماہر فن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس پر فلاں صنعت ختم ہے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے بھی یہ معنی ہیں کہ آپ میں نبوت کی تشریح کی وجہ سے کا فرقرار دینے والوسوچو اور غور کرو کہ کیا یہ وہی تشریح نہیں ہے جو ہم کرتے ہیں؟ اور پھر سوچو اور غور کرو کہ کیا ہماری تشریح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کی شان کے مطابق ہے یا کہ آپ لوگوں کی یہ تشریح کہ ختم نبوت سے مراد جاری شدہ نہروں کا بند کرنا ہے؟ ہم اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے ہر مسلمان اپنے دل سے فتویٰ پوچھے اور خدا کو حاضر ناظر جان کر جواب دے.حضرت امام محمد طاہر کی شہادت اس کے بعد میں وسطی زمانے کے ایک اور ممتاز بزرگ حضرت امام محمد طاہر (وفات ۹۸۶ ہجری) کی شہادت پیش کرتا ہوں جنہیں بعض لوگوں نے اپنے زمانہ کا امام مانا ہے اور جن کی کتاب مجمع السجار کی لغت میں ایک بڑے پائے کی کتاب تسلیم کی گئی ہے.امام محمد طاہر موصوف لکھتے ہیں:.عن عائشة رضى الله عنها قولوا خاتم الانبياء ولا تقولو الا نبي بعده و هذا ناظر الى نزول عيسى و هذا ايضًا لا يُنا فى حديث لا نبی بعدی

Page 157

۱۵۴ لانه اراد الا نبى ينسخ شرعه - (در منثور و تکمله مجمع الجار صفحه ۸۵) یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جو یہ فرمایا ہے کہ لو گو تم یہ تو کہا کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں مگر یہ نہ کہا کرو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں یہ بات حضرت عیسی کے نزول کے پیش نظر کہی گئی ہے.اور یہ قول حدیث لا نبی بعدی کے خلاف نہیں.کیونکہ اس حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف یہ منشاء تھا کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو میری شریعت کو منسوخ کرے.مطلقا نبوت کا بند ہونا مراد نہیں تھا.“ امام محمد مظاہر کا یہ لطیف حوالہ اس معاملہ میں دوہری شہادت پیش کر رہا ہے:.(اوّل) یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف شریعت والی نبوت کا دروازہ بند ہے.ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند نہیں.(دوم) یہ کہ اسلام میں جس مسیح موعود کے نزول کی پیشگوئی پائی جاتی ہے وہ خدا کا نبی ہوگا.لیکن چونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے تابع ہوگا اس لئے اس کا آنا حدیث لا نبی بعدی کے منشاء کے خلاف نہیں.یہ دونتائج بعینہ وہی ہیں جو مسئلہ ختم نبوت کے تعلق میں جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں.مگر افسوس کہ ان بزرگوں کی شہادت کے باوجود ہمیں اِن خیالات کی وجہ سے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جاتا ہے اور اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ اس حوالہ میں تو حضرت عیسی کا ذکر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے چھ سو سال قبل بنی اسرائیل کی قوم میں گزرے تھے تو یہ ایک دو ہر اظلم ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ

Page 158

۱۵۵ علیہ وسلم کے بعد ایک ایسے شخص کو تو نبی تسلیم کیا جائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں اور شاگردوں اور رُوحانی فرزندوں میں سے نہیں ہے بلکہ آپ کی بجائے وہ حضرت موسیٰ کی شریعت کا جوا اپنی گردن پر رکھتا ہے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں اور شاگردوں اور خوشہ چینوں اور روحانی فرزندوں میں سے کسی فرد کے لئے اس اعزاز کو تسلیم نہ کیا جائے؟ دوستو اور عزیز وخدا کے لئے غور کرو کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بنی اسرائیل کی قوم کا ایک گزشتہ نبی جس کی نبوت آپ کے فیضان کی ممنونِ احسان نہیں اپنی سابقہ نبوت کے مقام پر فائز رہ کر مسلمانوں کا امام بن سکتا ہے اور نبی کہلاسکتا ہے تو سید ولید آدم فخر انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام اور شاگرد اور آپ کے فیض سے فیض پانے والا اور آپ کے ٹور سے نور حاصل کرنے والا شخص کیوں اس منصب کو حاصل نہیں کر سکتا ؟ افسوس صد افسوس کہ ہمارے بھٹکے ہوئے بھائیوں نے اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی قدر بالکل نہیں پہنچانی.اور آپ کو حضرت موسی اور بنی اسرائیل کا ممنونِ احسان بنانا پسند کیا مگر اس بات کو گوارا نہ کیا کہ آپ کے غلاموں اور شاگردوں میں سے کوئی شخص آپ سے فیض کی برکت سے اور آپ کے ٹور سے ٹور پا کر نبوت کے مقام کو پہنچے.کسی نے سچ کہا ہے :.من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم * کہ بامن ہر چہ کر دآں آشنا کرد حضرت امام شعرانی اور امام علی بن محمد سلطان القاری کے حوالے حضرت امام شعرانی (وفات 4 ہجری ) اور حضرت امام علی بن محمد سلطان القاری (وفات ۰۱۴! ہجری) کے حوالے او پر گزر چکے ہیں.اسلئے انہیں اس جگہ دُہرا کر اس مضمون کو بلا وجہ طول دینے کی ضرورت نہیں.اگر ناظرین چاہیں تو حدیث لا نبی بعدی ا دیکھوصفحہ ۱۰۴ تا ۱۰۸

Page 159

۱۵۶ اور حدیث لو عاش ابراهيم لكان صديقا نبيًّا کی بحث دوبارہ ملاحظہ فرما کر تسلی کر سکتے ہیں وما علینا الا البلاغ حضرت مجد والف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد اسلام کے وسطی زمانہ کے حوالے پیش کرنے کے بعد اب ہم اسلام کے زمانہ حال کے ابتدائی حصہ میں داخل ہوتے ہیں جو گویا گیارہویں صدی ہجری سے شروع ہوتا ہے.اس صدی کی سب سے بڑی شخصیت حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی مجد دالف ثانی علیہ الرحمہ کا وجود با نجود ہے جن کا مقام کثیر التعداد مسلمانوں نے ان تمام مجد دین میں جن کا ظہور مسیح موعود سے پہلے مقدر تھا، سب سے بالا مانا ہے.بہر حال حضرت مجد دالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ (وفات ۳۴ ہجری ) فرماتے ہیں :.حصول کمالات نبوت مرتابعان را بطریق تبعیت و وراثت بعد از بعثت خاتم الرسل علیہ وعلى جميع الانبياء الصلوة والتحيات منافي خاتميت أونيست فلا تكن من الممترين“ (مکتوبات احمد یہ جلدا مکتوب ۲۷۱) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کے لئے آپ کی پیروی میں اور آپ کے رُوحانی ورثہ کے طور پر نبوت کے کمالات کا حاصل کرنا آپ کی ختم نبوت کے خلاف نہیں ہے.پس تم اس معاملہ میں ہرگز شک کرنے والے لوگوں میں سے مت بنو.“ کیا یہ نظریہ بعینہ وہی نظریہ نہیں ہے جو جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کیا جاتا دیکھو صفحہ ۵۷ تا ۶

Page 160

۱۵۷ ہے؟ کیا ہم اس کے سوا کچھ اور کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے بیشک شریعت والی نبوت اور براہ راست حاصل ہونے والی مستقل نبوت کا دروازہ تو ہمیشہ کے لئے بند ہو چکا ہے مگر جو نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی اور آپ کی پیروی کی برکت سے رُوحانی ورثہ کے طور پر ملتی ہے اس کا دروازہ ہرگز بند نہیں ؟ بلکہ یہ وہ نبوت ہے جس سے ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع شان اور بلند مقام کا ثبوت ملتا ہے کہ آپ کے خادم اور شاگرد بھی نبوت کا درجہ پاسکتے ہیں.پس حضرت مجد دالف ثانی کی طرح ہم بھی ہر مسلمان سے یہی کہتے ہیں کہ هذا هو الحق فلا تكن من الممترين.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کا ارشاد اس کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی (وفات کا اھ ) کا زمانہ آتا ہے.حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ بارھویں صدی ہجری کے مجد دمانے گئے ہیں اور پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کا بچہ بچہ ان کے وسیع علم وفضل کا معترف اور مدح خوان ہے.حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں:.ختم به النبيون أى لا يوجد بعده من يأمره الله سبحانه بالتشريع على الناس.( تفہیمات الہبی تفهیم نمبر ۵۳) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہونے سے یہ مراد ہے کہ آپ کے بعد کوئی ایسا ربانی مصلح نہیں آسکتا جسے خدا تعالیٰ کوئی نئی شریعت دے کر مبعوث کرے.“

Page 161

۱۵۸ ختم نکات کی حقیقت حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ حوالہ کسی تشریح کا محتاج نہیں.حضرت شاہ صاحب موصوف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس چیز کا دروازہ بند قرار دیتے ہیں وہ صرف نئی شریعت کا نزول ہے اور یہی ہمارا عقیدہ ہے.اور ہم یہ بھی ثابت کر چکے ہیں کہ ہر نبی کے لئے شریعت کا لانا ضروری نہیں ہوتا.کیونکہ جیسا کہ حضرت محی الدین ابن عربی نے فرمایا ہے شریعت حجز و نبوت ہے نہ کہ عینِ نبوت.اور قرآنِ مجید اور تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ دنیا میں بہت سے نبی ایسے گزرے ہیں جو کوئی نئی شریعت نہیں لائے تھے بلکہ صرف سابقہ شریعت کی خدمت کے لئے مبعوث کئے جاتے تھے.پس حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی کا یہ واضح حوالہ ہر اُس مسلمان کے لئے جو انہیں عزت کی نظر سے دیکھتا ہے ایک فیصلہ کن حوالہ ہے.اور حضرت شاہ صاحب کا مقام یہ ہے کہ وہ خود تو الگ رہے اُن کا سارا خاندان اپنے علم وفضل کی وجہ سے بر عظیم پاک و ہند میں انتہائی عزت و اکرام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے.پس چاہو تو اس شہادت کو قبول کرو.حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کی شہادت اب ہم اُس زمانہ میں داخل ہوتے ہیں جو گویا ہمارا اپنا زمانہ ہے.حتی کہ اس زمانہ کے بزرگوں کو دیکھنے والے کئی لوگ ابھی تک زندہ ہونگے.اور چونکہ جو شہادت میں اس وقت پیش کرنے لگا ہوں وہ باوجود موجودہ زمانہ سے تعلق رکھنے کے حضرت مسیح موعود بائی سلسلہ احمدیہ کے دعوی سے چند سال پہلے کی ہے اس لئے اہل بصیرت کے نزدیک اس شہادت کو خاص وزن حاصل ہونا چاہئیے.یہ شہادت مدرسۃ العلوم دیو بند کے نامور بانی حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی ( وفات ۱۸۸۹ عیسوی) کی ہے.مولوی صاحب

Page 162

موصوف فرماتے ہیں:.۱۵۹ عوام کے مخیال میں تو رسول اللہ صلعم کا قائم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ معنی انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد ہے.اور آپ کسب میں آخری نبی ہیں.مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخیر زمانی میں بالذات کوئی فضیلت نہیں.پھر مقام مدح میں ولکن رسول اللہ و خاتم النبین فرما نا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے؟ ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہیئے اور اس مقام کو مقامِ مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تاخر زمانی صحیح ہوسکتی ہے.مگر میں جانتا ہوں کہ اہلِ اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی.“ پھر اسی کتاب میں دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ:.66 تحذیر الناس مطبوعہ سہارنپور صفحہ نمبر ۳) اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدسی میں کچھ فرق نہ آئے گا.“ ( تحذیر الناس صفحہ ۲۸) کیا علماء دیو بندا اپنے محترم بانی کے اس حوالہ پر غور فرمائیں گے؟ کیا وہ ختم نبوت کی تشریح میں اُسی وسعت قلب اور وسعتِ نظر سے کام لیں گے جس سے اُن کے قابلِ احترام بزرگ نے کام لیا ہے؟ اور اگر اس جگہ کسی کے دل میں یہ شبہ پیدا ہو کہ اس حوالہ میں تو حضرت مولا نا نانوتوی نے ”اگر “ اور ”بالفرض“ کے الفاظ استعمال کئے ہیں جو شک پر دلالت کرتے ہیں.یا یہ کہ کسی دوسری جگہ مولانا موصوف نے اس قسم کا خیال بھی ظاہر فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اور نبی نہیں تو اس شبہ کے جواب میں یہ خاکسار

Page 163

17.وہی بات عرض کریگا جو اس رسالہ میں کئی جگہ عرض کر چکا ہے کہ اے ہمارے بھولے بھالے بھائیو! خدا تمہیں سمجھ عطا کرے ہم نے یہ حوالہ اس غرض سے ہرگز پیش نہیں کیا کہ مولانا موصوف کے نزدیک کوئی نبی آنے والا ہے.بلکہ صرف اس غرض سے پیش کیا ہے کہ اُن کے نزدیک آیت خاتم النبین اور حدیث لا نبی بعدی کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ” نبی آسکتا ہے.پس یہاں کسی کے آنے کا سوال نہیں بلکہ آ سکنے کا سوال ہے.اور اس سوال کے متعلق یہ حوالہ بالکل واضح اور صاف ہے.کاش ہمارے مہربان مخالف جلد بازی کی بجائے صبر وسکون کے ساتھ غور کرنے کی عادت پیدا کریں.اب میں خدا کے فضل سے وہ حوالے ختم کر چکا ہوں (اور یہ حوالے تعداد میں دن عدد ہیں ) جو میں ختم نبوت کی بحث کے تعلق میں مثال کے طور پر اس جگہ پیش کرنا چاہتا تھا.اور جیسا کہ ہمارے معزز ناظرین نے دیکھا ہے.میں نے یہ حوالے اسلامی تاریخ کے ہر زمانہ سے پیش کئے ہیں اور ابتدائی اور وسطی اور آخری زمانہ میں سے کوئی زمانہ بھی ایسا نہیں چھوڑا جس میں سے کسی نہ کسی بزرگ کی شہادت نہ پیش کی ہو.سب سے پہلا حوالہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا ہے جو بالکل ابتدائی زمانہ سے تعلق رکھتا ہے جو گویا صحابہؓ کا زمانہ تھا اور سب سے آخری حوالہ اُس زمانہ کا ہے جس میں ہماری جماعت کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے حکم پاکر سلسلہ احمدیہ کی بنیا د رکھی.میں یہ دعوئی ہرگز نہیں کرتا کہ صحابہ کرام کے زمانہ کے بعد سب مسلمانوں کا یہی عقیدہ رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد غیر تشریعی نبوت کا دروازہ کھلا ہے.کیونکہ اگر ایسا ہو تو پھر اختلاف کا کوئی سوال ہی نہیں رہتا.مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں اور میں نے مضبوط حوالوں کے ذریعہ اس

Page 164

۱۶۱ بات کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیا ہے کہ اسلامی تاریخ کے ہر زمانہ میں کوئی نہ کوئی مسلمان بزرگ اس عقیدہ کا برملا اظہار کرتا رہا ہے کہ ہمارے رسول پاک کی ختم نبوت کسی غیر تشریعی نبی کی بعثت کے رستہ میں روک نہیں ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ حضرت خاتم النبیین سید ولید آدم (فدا فسی) کے بعد انوار نبوت کا رستہ پہلے سے بھی زیادہ وسیع ہو کر کھل گیا ہے.وهو المراد جمہور مسلمانوں کی متفقہ شہادت یہاں تک تو میں نے صرف خاص خاص بزرگوں کے اقوال پیش کئے ہیں لیکن اب میں خدا کے فضل سے بتاتا ہوں کہ ایک لحاظ سے مسلمانوں کا ہر فرد اور اُن کا بچہ بچہ اس عقیدہ پر ایمان لاتا رہا ہے کہ ختم نبوت کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کم از کم ایک غیر تشریعی نبی مسلمانوں میں ضرور آنے والا ہے.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے اسلام میں یہ پیشگوئی پائی جاتی ہے کہ آخری زمانہ میں حضرت عیسی نازل ہوں گے.اور اُن کے ذریعہ اسلام کوغیر معمولی طاقت حاصل ہوگی اور دین محمد ہی تمام دوسرے دینوں پر غالب آ جائے گا.اور دجال قتل کیا جائے گا.اور صلیب توڑی جائے گی.اور کا فر مغلوب و مقہور ہو جائیں گے.اور اندرونی اختلافات کا سچا سچا فیصلہ کیا جائے گا وغیرہ وغیرہ.یہ پیشگوئی اجمالاً قرآن مجید میں (سورہ نورآیت ۵۶ ) اور تفصیلاً حدیث کی ہر کتاب میں درج ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیشگوئی پر اس شنڈ ونڈ کے ساتھ زور دیا ہے اور اسے اس کثرت اور تواتر کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ اسلامی پیشگوئیوں میں اسے گویا نمبر لا حاصل ہو چکا ہے.اور مسلمانوں کا بچہ بچہ اس سے واقف ہے اور اس

Page 165

۱۶۲ ختم نکات کی حقیقت پیشگوئی کو اتنی شہرت حاصل ہے کہ اس سے زیادہ شہرت خیال میں نہیں آسکتی اور خود ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پیشگوئی پر اتنا یقین تھا اور آپ اس پر اتنا زور دینا چاہتے تھے کہ آپ نے اسے خدا کی قسم کھا کر بیان کیا ہے.چنانچہ حدیث کی صحیح ترین کتاب بخاری میں آپ فرماتے ہیں :.والذی نفسی بیده ليوشكن ان ينزل فيكم ابن مريم حكمًا عدلًا فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية.(صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب نزول عیسی بن مریم ) و یعنی مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں ضرور ضرور مسیح ابن مریم نازل ہوگا.وہ تمام دینی معاملات میں حکم بن کر فیصلہ کر دیگا.اور اس کا فیصلہ حق و انصاف کا فیصلہ ہوگا.وہ صلیبی فتنہ کو پاش پاش کر دیگا.اور خنزیری پلیدیوں کو تباہ کر کے رکھ دے گا.اور وہ جزیہ کو بھی موقوف کر دے گا.“ حضرت عیسی اپنی نبوت کے ساتھ نازل ہونگے یہ وہ عظیم الشان پیشگوئی ہے جو نزولِ مسیح کے متعلق اسلام میں پائی جاتی ہے.اور گو جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اس پیشگوئی میں ایک مثیل مسیح کے نزول کی پیشگوئی ہے نہ کہ اصل مسیح ابن مریم کی.لیکن موجود الوقت مسلمانوں کے تمام دوسرے فرقے یقین رکھتے ہیں کہ وہی مسیح ناصری دوبارہ دنیا میں نازل ہوگا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سوسال پہلے موسوی سلسلہ میں گزر چکا ہے.اور اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ یہ مسیح اپنی نبوت کے ساتھ آئیگا.اور ایسا نہیں ہوگا کہ وہ نبوت کے مقام سے معزول

Page 166

۱۶۳ کر کے بھیجا جائے.چنانچہ امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں:.من قال بسلب نبوّته كفر حقًا فانه نبى لا يذهب عنه وصف (بحوالہ بنج الکرامه صفحه ۴۳۱) النبوة - یعنی جس شخص نے حضرت عیسی کے متعلق یہ کہا کہ وہ آخری زمانہ میں نبوت سے معزول ہو کر آئیں گے وہ پیکا کا فر ہے کیونکہ حضرت عیسی بلا ریب خدا کے ایک نبی تھے اور یہ نبوت کا وصف اُن سے کسی طرح جلد انہیں ہو سکتا.“ پس جب تک کہ تمام مسلمانوں کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ آخری زمانہ میں مسیح" کا نزول مقدر ہے اور پھر اس بات پر بھی سب مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ یہ مسیح نبوت کے مقام پر فائز ہوکر آئے گا تو اس کا یہ طبعی اور منطقی نتیجہ بھی لازما قبول کرنا ہوگا کہ تمام مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک نبی کے وجود کو تسلیم کرتے آئے ہیں.پس ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک رنگ میں نبوت کا دروازہ کھلا ہونے پر صرف خواص اُمت ہی کی شہادت نہیں بلکہ مسلمانوں کے بچہ بچہ کی بھی شہادت ہے.عزیز و اور دوستو سوچو اور غور کرو کہ ایک طرف تو سب مسلمان اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ میں مسیح کے نزول کی پیشگوئی فرمائی تھی.اور دوسری طرف وہ اس بات پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ آنے والا مسیح نبوت کے مقام سے معزول ہو کر نہیں آئے گا بلکہ نبی ہونے کی حیثیت میں نازل ہوگا تو ان دونوں باتوں کا نتیجہ اس کے سوا کیا نکلتا ہے کہ سب مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک نبی کے قائل ہیں؟ وھو المراد.اگر یہ کہا جائے کہ دوسرے مسلمان بیشک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک نبی کے قائل ہیں.مگر یہ نبی وہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سو سال پہلے نبوت

Page 167

۱۶۴ کے منصب پر فائز ہوا تھا.اس لئے اُس کا آنا ختم نبوت میں کوئی رخنہ نہیں پیدا کرتا.لیکن کسی بعد میں پیدا ہونے والے شخص کا نبی بنا ضرور رخنہ پیدا کرتا ہے.تو میں کہوں گا کہ اے ہمارے بھٹکے ہوئے بھائیو خدا آپ کی آنکھیں کھولے، یہاں پہلے پیدا ہونے یا بعد میں پیدا ہونے کا سوال نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی کے طور پر ظاہر ہونے اور آپ کے بعد نبوت کے فرائض ادا کرنے کا سوال ہے.پس خواہ مسیح ناصری پہلے ہی پیدا ہوا لیکن بہر حال آپ لوگوں کے عقیدہ کے مطابق وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دُنیا میں ظاہر ہو کر نبوت کے فرائض سرانجام دے گا.لہذا اگر نبوت کا دروازہ من کلّ الوجوہ بند ہے تو اُس کا آنا بہر صورت ختم نبوت کے خلاف ہے.کاش تم سمجھو! بلکہ حق یہ ہے کہ ایسے نبی کا آنا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے نہیں ہے اور نہ اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی اور پیروی میں اور آپ کی فیض رسانی سے نبوت کا منصب پایا ہے اسلام کے تمام نظام کو درہم برہم کر کے رکھ دیتا ہے.اور نہ تو ختم نبوت باقی رہتی ہے.اور نہ ہی ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا آخر الانبیاء ہونا درست ٹھہرتا ہے.مگر اس کے مقابل پر آپ کے شاگردوں اور رُوحانی فرزندوں میں سے کسی شخص کا آپ کے فیض کی برکت سے اور آپ کے ٹور سے ٹور پا کر نبوت کے مقام پر فائز ہونا ہرگز کوئی رخنہ پید انہیں کرتا بلکہ اس سے آپ کی ارفع شان کا ثبوت ملتا ہے کہ کس طرح آپ کے رُوحانی سورج نے آپ کے بعد ایک روحانی چاند پیدا کر کے دُنیا کی تاریکی کے زمانہ میں روشنی کا سامان مہیا کر دیا.اللّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكَ وَسَلِّمْ *

Page 168

عقلی دلائل کی رو سے مسئلہ ختم نبوت کا حل ہمارا عقیدہ خدائی سنت کے عین مطابق ہے بزرگانِ سلف اور جمہور مسلمانوں کی شہادت پیش کرنے کے بعد اب میں اپنے مضمون کے آخری حصہ کی طرف آتا ہوں جو عقلی دلائل کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا عقلِ انسانی اپنی امکانی لغزشوں کے باوجود جو بعض اوقات خارجی ظلمات کی وجہ سے پیدا ہو جاتی ہیں، ایک اعلیٰ درجہ کا فطری ٹور ہے جو انسان کو کھوٹے کھرے کی پہچان کے لئے خُدا کی طرف سے عطا کیا گیا ہے.اور دُنیا کے بیشتر مسائل اسی کی روشنی میں حل ہوتے ہیں.سو اس تعلق میں سب سے پہلی بات تو یہ جاننی چاہئیے کہ جیسا کہ تاریخ عالم کے مطالعہ سے ثابت ہے اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہ سنت ہے کہ جب کبھی بھی دُنیا میں فاسد خیالات اور فاسد اعمال کا دور دورہ شروع ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اپنے کسی پاک بندہ کو لوگوں کی اصلاح کے لئے مبعوث فرماتا ہے.اور اصلاح کا طریق حالات پر مبنی ہوتا ہے.یعنی اگر کسی وقت نئی شریعت کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ نئی شریعت نازل فرما کر اصلاح کا کام کرواتا ہے.اور اگر نئی شریعت کی ضرورت نہیں ہوتی تو بغیر شریعت کے نبی مبعوث کر کے اصلاح کروائی جاتی ہے.یہ سلسلہ جب سے کہ دنیا بنی ہے برابر جاری چلا آیا ہے.اور کبھی بند نہیں ہوا.چنانچہ ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کا وجود جن میں سے صرف تین سو پندرہ صاحب شریعت رسول تھے.(مسند احمد بحوالہ مشکوۃ باب بدء الخلق) اس ابدی صداقت پر ایک زبردست گواہ ہے.تو جب قدیم

Page 169

۱۶۶ سے خدا تعالیٰ کی یہی سنت چلی آئی ہے کہ وہ ہر فساد عظیم کے زمانہ میں اپنی طرف سے کسی شخص کو نبوت کے مقام پر فائز کر کے اصلاح خلق کے لئے مبعوث فرماتا ہے تو اس زمانہ میں اس ازلی سنت کو کیوں ختم سمجھا جائے؟ اس کے جواب میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بیشک پہلے ایسا ہی تھا مگر خاتم النبیین کی بعثت کے بعد یہ سلسلہ بند ہو چکا ہے.کیونکہ اول تو ہم آیت خاتم المتعین کی تشریح میں ثابت کر چکے ہیں کہ خاتم النبیین کے لفظ سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ اب نبوت کا سلسلہ ہی بند ہے بلکہ مراد صرف یہ ہے جہاں پہلے یہ نہر مستقل اور علیحدہ صورت میں جاری تھی وہاں اب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک وجود کے ذریعہ سے اور اس کے اندر ہو کر جاری ہے.دوسرے جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں یہاں قرآن یا حدیث کے دلائل کی بحث نہیں جو او پر گزر چکی ہے بلکہ صرف عقلی دلائل کی بحث ہے اور عقل کے میدان میں یہ دلیل بالکل صاف اور واضح ہے کہ اصلاح خلق کا جو طریق اور بعثت انبیاء کی جو سنت ازل سے جاری چلی آئی ہے اُسے اب آکر کیوں بند سمجھا جائے؟ اور وہ کونسی عقلی دلیل ہے جس کی وجہ سے اس قدیم نہر کے آگے بند لگا کر اسے ختم کرنا ضروری ہو گیا ہے؟ دوستو اور عزیزو! سوچو اور سمجھو کہ جب سے کہ دُنیا بنی ہے خدا تعالیٰ نے انبیاء کی بعثت کے ذریعہ اصلاح خلق کا ایک معین طریق قائم کر رکھا ہے اور لوگوں کے قلوب کی آبپاشی کے لئے ایک از لی نہر جاری کی ہوئی ہے تو اب اس زمانہ میں آکر اس قدیم سنت کو کیوں بند قرار دیا جائے؟ یہ ایک ایسا پختہ اور یقینی استدلال ہے جسے ہر غیر متعصب انسان کی عقل اور اس کا نور ضمیر قبول کرنے پر مجبور ہے.اور اس کے خلاف کوئی عقلی دلیل خیال میں نہیں آسکتی.

Page 170

۱۶۷ بار ثبوت ہمارے مخالفین کے ذمہ ہے پھر اس دلیل کی ایک شاخ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس زمانہ میں خدا کی یہ ازلی سنت بند ہوگئی ہے کہ وہ ہر بڑے فساد کے زمانہ میں کسی نبی کو مبعوث کر کے اصلاح کروایا کرتا ہے تو اس کا بار ثبوت اس شخص کے ذمہ ہے جو ایسا دعویٰ کرتا ہے.ہمارا دعویٰ بہر حال کسی دلیل کا محتاج نہیں کیونکہ وہ خُدائی سنت اور ایک جاری شدہ طریق کے عین مطابق ہے.دلیل لا نا اُن لوگوں کے ذمہ ہے جو خُدائی سنت کے خلاف ایک نئی بات کے مدعی بنتے ہیں.پس اگر ہمارے مخالفین اپنے عقیدہ کی تائید میں کوئی عقلی دلیل پیش نہ کر سکیں جیسا کہ وہ خدا کے فضل سے ہر گز نہیں کر سکتے تو پھر اس معاملہ میں صحیح منطقی پوزیشن یہی ہے کہ اس صورت میں ہماری طرف سے قطعا کسی دلیل کی ضرورت نہیں کیونکہ جب بار ثبوت ہمارے مخالفین کے ذمہ ہے تو اُنکی طرف سے کسی عقلی دلیل کا پیش نہ کیا جانا ساری بحث کو ختم کر دیتا ہے.موجودہ زمانہ کا فساد عظیم ایک نبی کا متقاضی ہے عقل کے میدان میں یہ دلیل بھی بہت بھاری وزن رکھتی ہے کہ موجودہ زمانہ کے حالات جب کہ مذہبی دُنیا میں عقائد اور اعمال کا غیر معمولی فساد رُونما ہے اور مادیت اور لادینی چاروں طرف جال پھیلائے ہوئے ہے اور دجالی فتنے جنکے متعلق ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق تمام نبی ڈراتے آئے ہیں ساری

Page 171

۱۶۸ قوموں اور ساری ملتوں کو گھن کی طرح کھاتے جا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ.یہ سب حالات ایک نبی کی بعثت کے متقاضی ہیں.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی اور فرزندی میں اور آپ کے رُوحانی سورج سے روشنی پا کر دنیا کومنو رکرے.بیشک گزشتہ صدیوں میں بھی تاریکی کا دور دورہ رہا ہے مگر جو غیر معمولی تاریکی اور ایمان اور اعمال کے میدان میں جو غیر معمولی فساد اس زمانہ میں آکر رُونما ہوا ہے اس کی مثال کسی دوسرے زمانہ میں نہیں ملتی.پس اگر گزشتہ صدیوں میں عام مجد دوں سے کام چل سکتا تھا تو موجودہ زمانہ میں ایک ایسے عظیم الشان محمد د کی ضرورت تھی جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے فیض سے نبوت کے مقام کو پہنچ کر اور موت کی طاقتوں سے آراستہ ہو کر دُنیا میں اصلاح کا کام سر انجام دے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ کے غیر معمولی ظلمات اور فسادات کے پیش نظر فر ما یا تھا کہ بیشک ہر صدی کے سر پر عام مجد د آتے رہیں گے مگر دجالی فتنوں کے زمانہ میں وہ شخص مبعوث ہوگا کہ:.ليس بيني و بينه نبی (ابوداؤد) 66 د یعنی میرے اور اُس کے درمیان کوئی اور نبی نہیں.“ علامہ اقبال اور مولوی مودودی صاحب کی شہادت یہی وہ تاریک زمانہ ہے جس کے متعلق شاعر قوم علامہ اقبال نے مسلمانوں کے مذہبی انحطاط کو دیکھ کر فرمایا تھا کہ:.

Page 172

۱۶۹ ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں * اتنی باعث رسوائی پیغمبر ہیں بت شکن اُٹھ گئے باقی جو ہیں بت گر ہیں * تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں شور ہے ہو گئے دُنیا سے مسلماں نابود * ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود * یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود (جواب شکوہ) ان اشعار میں علامہ اقبال جوش کی حالت میں کچھ سخت الفاظ استعمال کر گئے ہیں.مگر اس کا خیال نہیں کرنا چاہیئے.کیونکہ بعض اوقات اصلاح کے خیال سے تلخ الفاظ استعمال کرنے پڑتے ہیں.پس ہمارے ناظرین کو ان الفاظ کی سختی کی طرف نہیں بلکہ ان کی رُوح کی طرف دھیان رکھنا چاہیئے.اور رُوح نیک نیتی پر مبنی ہے بہر حال ایسے ظلماتی زمانہ میں جس کا اثر نہ صرف مسلمانوں پر بلکہ ہر مذہب و ملت پر پڑ رہا ہے.لوگ خواہ گوشت پوست کی زبان سے بولیں یا نہ بولیں مگر زبانِ حال سے ضرور پکار رہے ہیں کہ اس وقت خدا کی طرف سے کوئی عام مصلح نہیں بلکہ نبوت کی طاقتوں والا مصلح درکار ہے.چنانچہ اور تو اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی تک بھی جو اس وقت ہماری مخالفت میں پیش پیش ہیں فرماتے ہیں:.اکثر لوگ اقامت دین کی تحریک کے لئے کسی ایسے مرد کامل کو ڈھونڈتے ہیں جو اُن میں سے ایک ایک شخص کے تصویر کمال کا مجسمہ ہو اور جس کے سارے پہلو قوی ہی قوی ہوں دُوسرے الفاظ میں یہ لوگ دراصل نبی کے طالب ہیں.اگر چہ زبان سے ختم نبوت کا اقرار کرتے ہیں.اور کوئی اجرائے

Page 173

نبوت کا نام بھی لے دے تو اُس کی زبان گڈی سے کھینچنے کے لئے تیار ہو جائیں مگر اندر سے اُن کے دل ایک نبی مانگتے ہیں اور نبی سے کم کسی پر راضی نہیں.“ ترجمان القرآن بابت دسمبر و جنوری ۴۲، ۴۲۳ عیسوی صفحه ۴۰۶ زمین و آسمان کی زبردست شہادت پس قطع نظر قرآنی ارشادات کے اور قطع نظر حدیث کی تصریحات کے اور قطع نظر بزرگان سلف کی شہادات کے خود زمانہ کی حالت اور لوگوں کے دل کی آواز اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ اس زمانہ میں ایک نبی کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ:.بشنوید اے طالباں کز غیب بکنند این ندا * مصلح باید که در هر جا مفاسد زاده اند آسمان بار دنشاں الوقت میگوید زمیں * ایں دو شاہد از پئے تصدیق من استادہ اند ( آئینہ کمالات اسلام صفحه ۱۱۴) د یعنی اے لوگو جو صداقت کی طلب رکھتے ہو کان دھر کر سنو کہ غیب سے یہ آواز آرہی ہے کہ اس وقت ایک بڑے ربانی مصلح کی ضرورت ہے کیونکہ ہر جگہ دین و مذہب میں فساد ہی فساد برپا ہے.دیکھو آسمان نے اوپر سے نشانات برسائے ہیں اور زمین نیچے سے پکار رہی ہے کہ یہ وقت ایک ربانی مصلح کا وقت ہے.آسمان اور زمین کے یہ دو گواہ میری صداقت کے حق میں شہادت دینے کے لئے چوکس ہو کر کھڑے ہیں.“

Page 174

پھر اپنے مخصوص دعوی مسیحیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت * میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا!! (در ثمین) یعنی یہ زمانہ ایسا تھا کہ اس زمانہ کی لادینی اور مادیت اور دجالی فتنوں اور اسلام کے خلاف حملوں کی وجہ سے کوئی عام مصلح کافی نہیں تھا بلکہ ایک ایسے نائب رسول کی ضرورت تھی جو مثیل مسیح بن کر خدمت دین کے لئے مبعوث کیا جاتا اور جس طرح حضرت موسی کے بعد حضرت مسیح ناصری آئے تھے اسی طرح آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے دین کی خدمت کے لئے ایک مسیح کی ضرورت تھی.سو جب زمانہ زبانِ حال سے ایک مسیح کو پکار رہا تھا تو یقینا اگر اس وقت میں نہ آتا تو کوئی دوسرا نائب رسول صحیح مبعوث کیا جاتا.خلاصہ یہ کہ زمانہ کی ضرورت اور وقت کی شہادت ایک عظیم الشان مصلح کی متقاضی تھی جو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے نور پا کر اور آپ کے فیض سے فیض حاصل کر کے دنیا کی اصلاح کرے اور اسی کا دوسرا نام خلی اور امتی نبی ہے.کیونکہ وہ ہمارے رسولِ پاک کا رُوحانی فرزند اور آپ کے شجر طیبہ کی شاخ اور آپ ہی کا حصہ ہے.کاش ہمارے بھائی اس نکتہ کو سمجھیں ! کون سا عقیدہ رسول پاک کی شان کے زیادہ مطابق ہے؟ اس کے بعد میں عقلی دلائل میں سے آخری دلیل کو لیتا ہوں جو اس پہلو سے تعلق رکھتی ہے کہ عقلی دلائل کے لحاظ سے ( کیونکہ اس جگہ عقلی دلائل کی بحث ہے قرآن و حدیث

Page 175

کی بحث نہیں ) ختم نبوت کے متعلق کون سا نظریہ درست اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع شان کے زیادہ مطابق ہے؟ آیا وہ نظریہ درست ہے جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے یا کہ وہ نظریہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مطابق ہے جو اس زمانہ میں ہمارے مخالف مولوی صاحبان پیش کرتے ہیں؟ سو اس کے متعلق ہمیں کسی لمبی چوڑی بحث میں جانے کی ضرورت نہیں.بلکہ دونوں عقیدوں کو ایک دوسرے کے سامنے رکھ کر ایک یکجائی نظر ڈالنا کافی ہے.لہذا ذیل کے متقابل کالموں میں ہر دو فریق کے عقیدے درج کئے جاتے ہیں ناظرین خود اپنے دل سے فتویٰ لیکر فیصلہ کریں کہ حق کس کے ساتھ ہے.مگر ضروری ہے کہ خدا کو حاضر و ناظر جان کر ان متقابل کالموں پر نظر ڈالیں کہ یہ دین کا سوال ہے.جس میں انتہائی سنجیدگی سے کام لینے کی ضرورت ہے:.اس زمانہ کے دوسرے مسلمانوں کا عقیدہ جماعت احمدیہ کا عقید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ النبیین ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں.اور آپ نبیوں کی مہر ہیں.اور آپ میں نبوت کے کے بعد ہر قسم کی نبوت کا دروازہ گلی طور کمالات انتہاء کو پہنچ چکے ہیں اسلئے آپ پر بند ہو چکا ہے.اور آئندہ کوئی شخص کسی کے بعد براہ راست نبوت پانے کا صورت میں نبوت کا انعام نہیں پاسکتا.جو دروازہ بند ہے کیونکہ اب ہر انعام کا نبی آنے تھے وہ آپ سے پہلے آچکے اور حصول آپ کی غلامی کے ساتھ وابستہ کر آپ کے بعد کوئی نبی نہیں.نہ آپ کی دیا گیا ہے.پس آپ کے مقام ختم نبوت اُمت میں اور نہ آپ کی اُمت سے باہر کی وجہ سے خُدائی انعاموں کی نہر بند

Page 176

۱۷۳ اس زمانہ کے دوسرے مسلمانوں کا عقیدہ جماعت احمدیہ کا عقیدہ کیونکہ آپ کی بعثت سے نبوت کی تمام نہیں ہوئی بلکہ اس کا رستہ بدل کر آپ کے وجود میں گویا ایک نیا ہیڈ ورک قائم کیا گیا ہے.اگر آئندہ کوئی شخص نبی بنے گا تو پس آئندہ آپ کے خادموں اور آپ کی غلامی میں اور آپ کے نور سے نور غلاموں میں سے بھی کوئی شخص نبی نہیں نہریں ہمیشہ کے لئے بند ہو چکی ہیں.بن سکتا.پا کر اور آپ کا ظلت بن کر بنے گا.اسکے بغیر ہرگز نہیں.یہ وہ دو متقابل نظرتے ہیں جو اس مسئلہ کے متعلق اس وقت ہمارے سامنے ہیں.ایک نظریہ موجودہ زمانہ کے غیر احمدی حضرات کا ہی جو ہرقسم کی نبوت کا دروازہ بند قرار دیتے ہوئے خیال کرتے ہیں کہ گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بنی نوع انسان کے لئے نبی اور صدیق اور شہید اور صالح بننے کا رستہ کھلا تھا مگر آپ کی بعثت کے بعد صرف صدیق اور شہید اور صالح بننے کا رستہ کھلا ہے اور نبوت کا رستہ بند ہو چکا ہے.اور دوسرا نظریہ احمدیوں کا ہے جو نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی تمام خدائی انعاموں کا دروازہ کھلا مانتے ہیں بلکہ یقین رکھتے ہیں کہ آپ کی ارفع شان اور اکمل مقام کے پیش نظر یہ دروازہ پہلے سے بھی زیادہ فراخ ہو کر کھل گیا ہے.اور خدائی انعاموں اور رُوحانی انوار کے چشمے پھوٹ پھوٹ کر بہنے لگ گئے ہیں.البتہ پہلے یہ انعام مستقل حیثیت میں جاری تھے اور اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے ساتھ وابستہ کر دیئے گئے ہیں.HEAD WORK.

Page 177

۱۷۴ حضرت مسیح موعود نے اپنے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کیا خوب فرمایا ہے کہ :.ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے ( آئینہ کمالات اسلام ) عزیز و اور دوستو! خدا کے لئے اپنے تعصبات سے آزاد ہو کر سو چو اور غور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع شان کس بات میں ہے؟ آیا آپ کی شان اس میں ہے کہ آپ کی بعثت کے نتیجہ میں ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند کر کے آپ کو ایک جاری شدہ نہر کے خشک کر دینے والا قرار دیا جائے یا کہ آپ کی شان اس میں ہے کہ آپ کے مبارک وجود میں سے نبوت کے آبشار پھوٹیں.اور جو نعمت پہلے بغیر کسی سابقہ نبی کی پیروی کے براہ راست ملتی تھی وہ آئندہ آپ کی غلامی میں اور آپ کے فیض کی برکت سے اور آپ کی مہر کی تصدیق کے ساتھ ملا کرے؟ ہاں ہاں خدا کے لئے گواہی دو.وہی خُدا جس کے قبضہ قدرت میں ہم سب کی جان ہے.اور جس کے سامنے ایک دن ہم سب نے مرکز اپنے اعمال کا جواب دینے کے لئے کھڑے ہونا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع شان کس بات میں ہے؟ آیا آپ کے بعد ہر قسم کی نبوت کے بند ہونے میں یا آپ کی اُمت سے باہر بند ہونے میں.اور آپ کی غلامی کے جوئے کے نیچے جاری رہنے میں؟ میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر مسلمان جسے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سچی محبت ہے اور جو درجہ کی نسبتی بلندی کے معیار کو جانتا اور پہچانتا ہے اس کا دل گواہی دے گا اور اس کا نور قلب پکارے گا کہ ہمارے آقا (فدا فسی ) کی شان اسی

Page 178

۱۷۵ میں ہے کہ آپ کے خادموں اور غلاموں میں ظلی نبوت کا دروازہ کھلا ہو.دیکھو! حضرت موسیٰ کے بعد کتنے نبی آئے کہ گویا نبیوں کا ایک تانتا بندھ گیا.اور گو اُن نبیوں نے موسی کی پیروی کی برکت سے نبوت نہیں پائی تھی.مگر بہر حال وہ موسی کی ماتحتی میں رکھے گئے تھے.اور موسیٰ کی شریعت کے خادم بنے تھے.مگر تمہیں کیا کہا جائے اور تمہاری سمجھ پر کیا رونا رویا جائے کہ تمہیں اپنے آقا فخر رسل سید ولد آدم کے خادموں میں ایک شخص کا نبی بننا بھی نہیں بھایا اور اس کا وجود تمہاری آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے! نبوت سے ہماری مراد وہ نہیں جو دوسرے مسلمانوں کے ذہن میں ہے بالآخر اس بات کی پھر مکر روضاحت کی جاتی ہے کیونکہ بدقسمتی سے یہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے دوسرے مسلمانوں کو ہمارے عقیدہ کے متعلق غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے کہ جن معنوں میں ہمارے سلسلہ کے مقدس بانی حضرت مسیح موعود نے اپنے آپ کو نبی کہا ہے یا جن معنوں میں کہ ہم آپ کو نبی مانتے ہیں وہ ہرگز ہرگز وہ نہیں جو اس زمانہ کے دوسرے مسلمانوں کے ذہن میں ہیں.بدقسمتی سے آجکل عام مسلمانوں میں یہ غلط خیال راسخ ہو چکا ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جو کوئی نئی شریعت لائے.یا سابقہ شریعت میں کوئی کمی یا بیشی کرے.یا سابقہ نبی کے جوئے سے آزاد ہو کر نبوت پانے کا مدعی ہو یا اپنا کوئی نیا کلمہ بنائے یا کسی نئے دین کی بنیا د رکھے وغیرہ وغیرہ.اور جب وہ حضرت بائی سلسلہ احمدیہ کی تحریرات میں نبوت کا دعویٰ پڑھتے ہیں یا کسی احمدی کے منہ سے یہ بات سنتے ہیں کہ اُن کے امام نے خدا کی طرف سے نبوت کا منصب پایا تھا تو نبوت

Page 179

کی اس غلط تعریف کی وجہ سے جو اُن کے ذہنوں میں سمائی ہوئی ہے وہ جھٹ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ یہاں بھی اسی قسم کی نبوت کا دعوئی ہے.اور یہ کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکسی نئے دین کی بنیا درکھی ہے.اور کوئی نیا کلمہ ایجاد کیا ہے اور آپ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں رہا.حاشا وکلا یہ خیال ہرگز درست نہیں.اور ہم خُدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں جس کی جھوٹی قسم کھا نالعنتیوں کا کام ہے کہ حضرت مسیح موعود کا ایسا کوئی دعویٰ نہیں اور نہ ہم آپ کو ایسا نبی مانتے ہیں.بلکہ جیسا کہ آپ نے اپنی کتب میں بار بار صراحت کی ہے آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور شاگردی میں اسلام کی خدمت کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور آپ ہرگز کوئی نیا دین نہیں لائے اور نہ آپ نے کوئی نیا کلمہ بنایا ہے بلکہ آپ کا اور آپ کے متبعین کا وہی اور صرف وہی ابدی کلمہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی ) کو دیا گیا یعنی :.لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ 66 اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں.“ آے زمین و آسمان اور اے جن و انس ! گواہ رہو کہ ہم نے خدا کی قسم کھا کر یہ شہادت دی ہے اور انشاء اللہ ہم اسی شہادت کے ساتھ اس دُنیا سے رخصت ہوں گے کہ ہمارا دین اسلام ہے اور ہماری کتاب قرآن ہے اور ہما را رسول محمد صلعم ہے جو خاتم النبیین ہے اور سب نبیوں سے افضل اور سید اولین و آخرین ہے اور اسی کی ہم اُمت ہیں.جو شخص اس عقیدہ کے سوا ہماری طرف کوئی اور عقیدہ منسوب کرتا ہے

Page 180

122 وہ ہم پر افترا باندھتا ہے اور ہم پر ایک ایسا ظلم کرتا ہے جس کے لئے یقینا وہ خدا کے سامنے جوابدہ ہو گا.حضرت مسیح موعود کی نبوت سے ہماری مراد ہرگز ہرگز وہ نبوت نہیں جو ہمارے مخالفوں کے ذہن میں ہے.بلکہ یہ ایک رُوحانی مقام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور شاگردی میں اور آپ کی ارفع شان کے اظہار کے لئے خدا کی طرف سے عطا کیا گیا ہے.اور اس سے مراد صرف کثرتِ مکالمہ مخاطبہ اور اظہار علی الغیب ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں.اور جیسا کہ ہم او پر بیان کر چکے ہیں حقیقی مبقت سے مُراد یہی چیز ہوتی ہے نہ کہ کسی نئی شریعت کا نزول جو ایک بالکل زائد چیز ہے.کاش ہمارے دوست اس حقیقت کو سمجھیں! اگلا صفحد.

Page 181

۱۷۸ بحث کا خلاصہ اور رسالہ کا خاتمہ اب میں خدا کے فضل سے اور اسی کی توفیق کے ساتھ اس مضمون کے سارے حصوں کی بحث ختم کر چکا ہوں.یعنی ابتدائی تمہید کے بعد سب سے پہلے قرآنی آیات کی روشنی میں مسئلہ ختم نبوت کا حل پیش کیا گیا ہے.اس کے بعد احادیث کی رُو سے اس مسئلہ کی بحث کی گئی ہے.پھر اپنے عقیدہ کی تائید میں گزشتہ بزرگوں کے اقوال درج کئے گئے ہیں.اور بالآخر عقلی دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اس اُمت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی اور غلامی میں خلقی اور امتی نبی آسکتا ہے بلکہ یہ کہ زمانہ زبانِ حال سے پکار رہا ہے کہ اس وقت ایک نبوت کی طاقتوں والے مصلح کی ضرورت ہے اور یہی وہ چار امکانی ذریعے ہیں جن سے کسی زیر بحث اسلامی مسئلہ پر روشنی ڈالی جاسکتی ہے.اور الحمد للہ کہ ان چاروں کسوٹیوں نے بالا تفاق ہمارے حق میں ڈگری دی ہے.قرآن مجید بآواز بلند گواہی دے رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں جو غیر اُمت کا درجہ رکھتی ہے گزشتہ امتوں سے بڑھ کر رُوحانی انعاموں کے دروازے کھلے ہیں کیونکہ جہاں گزشتہ امتوں میں جوشخص نبوت کا درجہ پاتا تھا وہ کسی سابقہ نبی کی پیروی سے نہیں پاتا تھا بلکہ براہِ راست پا تا تھا وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ختم نبوت کی برکت سے امت محمدیہ میں یہ دروازہ آپ کی شاگردی اور غلامی میں کھولا گیا ہے.پھر حدیث کے میدان میں نہ صرف یہ کہ متعد دا حادیث اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں بغیر شریعت کے نبی آسکتا ہے بلکہ جو حدیثیں متشابہ مجھی جاتی ہیں اُن پر غور کرنے سے بھی یہی بات ثابت

Page 182

۱۷۹ ختم نکات کی حقیقت ہوتی ہے کہ صرف تشریعی نبوت اور مستقل نبوت کا دروازہ بند ہے.ظلی نبوت کا دروازہ ہرگز بند نہیں.اور ظلی نبوت سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں اور خوشہ چینوں میں سے کوئی شخص آپ کے فیض سے فیض پا کر اور آپ کے انوار کا عکس لیکر نبوت کا مقام حاصل کرے.ایسی نبوت جو فنافی الرسول کے طریق پر حاصل ہو حقیقہ آپ ہی کی نبوت کا حصہ ہے نہ کہ کوئی غیر چیز.اس لئے اس قسم کی نبوت کے باوجود آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ہی آخری نبی رہتے ہیں.احادیث کے بعد بزرگوں کے اقوال کا درجہ آتا ہے.اور ہم ثابت کر چکے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ سے لیکر موجودہ زمانہ تک کوئی زمانہ بھی ایسا نہیں گزرا جس میں کسی نہ کسی اسلامی بزرگ نے کم و بیش وہی عقیدہ نہ ظاہر کیا ہو جو ہماری طرف سے پیش کیا جاتا ہے.اس مقدس سلسلہ شہادت کی ابتدائی کڑی حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے شروع ہوتی ہے.اور حضرت شیخ محی الدین ابن عربی اور حضرت شیخ احمد سرہندی مجد دالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نوراللہ مرقدہ جیسی عظیم الشان ہستیوں کے دور میں سے گزرتے ہوئے بالآخر مدرسۃ العلوم دیو بند کے واجب الاحترام بانی مولا نا محمد قاسم صاحب نانوتوی مرحوم کے وجود میں آکر ختم ہوتی ہے.اور یہ وہ زمانہ ہے جس کے معا بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے.پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک غیر تشریعی امتی نبی کے وجود کو تسلیم کرنے کی وجہ سے ہمیں کافر اور مُرتد اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جاتا ہے تو ہمارے مخالف ان بزرگ ہستیوں کے متعلق کیا کہیں گے جو کم و بیش وہی عقائد ظاہر کرتے رہے ہیں جو ہم کرتے

Page 183

۱۸۰ ہیں.بالآخر عقلی دلائل کا میدان ہے اور اس میدان میں بھی ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ ہمارا عقیدہ نہ صرف خدا تعالیٰ کی ازلی سنت کے عین مطابق ہے بلکہ زمانہ کی شہادت اور فطرت کی پکار بھی ہمارے حق میں ہے اور یہ شہادت وہ ہے جس کی تائید میں علامہ اقبال اور مولوی ابوالاعلیٰ مودودی تک صریح الفاظ میں اعلان کر چکے ہیں.ان چار عظیم الشان شہادتوں کے ہوتے ہوئے جن میں سے ہر شہادت صداقت کا ایک بلند مینار ہے ہم پر یہ الزام لگانا کہ گویا ہم نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے منکر اور آپ کی ہتک کرنے والے ہیں اور گو یا ہم نے اسلام کو چھوڑ کر کوئی بنیادین نکالا اور کوئی نیاکلمہ ایجاد کیا ہے کتنا جھوٹ ، کیتنا ظلم اور کتنی سینہ زوری ہے! ہمارے امام حضرت مسیح موعود نے کس درد کے ساتھ فرمایا ہے کہ :.ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں دل سے ہیں خدام ختم المرسلین شرک اور بدعت سے ہم بیزار ہیں خاک راہ احمد مختار ہیں سارے حکموں پر ہمیں ایمان ہے جان و دل اس راہ پر قربان ہے

Page 184

۱۸۱ دے چکے دل اب تنِ خا کی رہا ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فیدا تم ہمیں دیتے کا فر کا خطاب کیوں نہیں لوگو تمہیں خوف عقاب یہ ہمارے سلسلہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کا کلام ہے جس کے لفظ لفظ اور حرف حرف پر ہمارا ایمان ہے.لعنۃ اللہ علی من کذب.دُنیا اِس وقت مانے یا نہ مانے لیکن صداقت انشاء اللہ غالب آکر رہے گی اور آج جن لوگوں کو نعوذ باللہ اسلام کا دشمن اور رسول پاک کی ہتک کرنے والا قراردیا جاتا ہے وہی بالآخر بچے ثابت ہوں گے اور اسلام کی فتح کا نظارہ انہی کے نام پر بجے گا.دُنیا اس وقت اس نازک مقام پر ہے جہاں سے آگے جانے والے رستے پھٹتے ہیں.اور خُدا کی ازلی تقدیر نے مقدر کر رکھا ہے کہ جماعت احمدیہ کا قدم اسی رستہ پر پڑتا چلا جائے گا جو کامیابی اور کامرانی کا رستہ ہے.اور وہ وقت دور نہیں کہ دُنیا پکارے گی اور ہمیں کافر کہنے والوں کی اولا د شہادت دے گی کہ ہمارے رسول پاک صلے اللہ علیہ وسلم ( فدا نفسی ) کی شان کی رفعت اور اسلام کی سر بلندی اُس عقیدہ میں نہیں ہے جو ہمارے مخالف کہتے ہیں بلکہ اس عقیدہ میں ہے جو ہم کہتے ہیں.ختم نبوت کا مسئلہ وہ آخری خندق ہے جو ہمارے اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان حائل ہے اور جب ہم نے خُدا کے فضل و رحم کے ساتھ اس خندق کو کامیابی سے سر کر لیا تو انشاء اللہ اگلا

Page 185

۱۸۲ میدان صاف ہے.خُدا کرے کہ وہ وقت قریب ہو.خدا کرے کہ ہمارے بھٹکے ہوئے بھائی اس روشنی کو دیکھیں جو ہم نے دیکھی ہے اور اس آب حیات کو چکھیں جو ہم نے چکھا ہے اور حضرت خاتم النبیین افضل الرسل سید ولد آدم کی بلندشان اور آپ کے حقیقی مقام کو پہچان کر اسلام کی خدمت میں ہمارا ہاتھ بٹائیں.تا دُنیا میں اسلام کا بول بالا ہو.اور تا جس طرح دُنیا کا خدا ایک ہے، خدا کی کتاب اور اُس کا رسول بھی ایک ہو.اور باقی سب اُس کے جھنڈے کے نیچے.وذلك تقدير العزيز الحكيم وأخر دعونا آن الحمد لله رب العلمين * خاکسار خادم ملت مرزا بشیر احمد ربوہ.بروز جمعہ بتاریخ ۲۷ / مارچ ۱۹۵۳ء

Page 186

۱۸۳ شرائط بیعت سلسلہ عالیہ احمدیہ اشتهار تحمیل تبلیغ ۱۲؍ جنوری ۱۸۸۹ء تحریر فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اول بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئند ہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا.دوم یہ کہ جھوٹ ، زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتارہے گا.اور نفسانی جوشوں کے وقت اُن کا مغلوب نہیں ہو گا.اگر چہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے.سوم یہ کہ بلا ناغہ پنج وقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتارہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا.چہارم یہ کہ عام خلق اللہ و عموما اور مسلمانوں کو خصوصا اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا.نہ زبان سے، نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے.یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور خسر اور ٹیسر اور نعمت اور بلاء میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضا ہوگا.اور ہر یک ذلت اور دُکھ

Page 187

۱۸۴ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیار رہے گا.اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا.ششم یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آجائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کر لے گا.اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا.ہفتم یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.ہشتم یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولا د اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.نہم یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچاوے گا.دہم یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض اللہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا.اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو *

Page 187