Khatam-eNubuwwat Kee Haqiqat

Khatam-eNubuwwat Kee Haqiqat

بزرگان اُمت کے نزدیک ختم نبوت کی حقیقت

اور مولوی لال حسین اختر کی تنقید کا جواب
Author: Other Authors

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات
فیضان ختم نبوت

مقام ختم نبوت کی حقیقت عامۃ المسلمین پر ظاہر کرنے کے لئے جماعت احمدیہ نے ہر دور میں از حد کوشش کی ہےاور اسی نہج پر غیر احمدی مخالفین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی  کوششیں بھی ساتھ ساتھ جاری رکھیں مثلاً جب مولوی مودودی نے سیاسی مقاصد کی خاطر رسالہ بنام ’’ختم نبوت‘‘ لکھا تو اس پر جماعت کی طرف سے 2 علمی جواب مرتب کئے گئے: اول ’’القول المبین فی تفسیر خاتم النبیین‘‘ اور دوسری کتاب کا نام تھا ’’رسالہ ختم نبوت پر علمی تبصرہ‘‘۔ اس پر بعض احمدی دوستوں نے مذکورہ بالا دونوں تحقیقی کتب سے بزرگان امت کے اقوال جمع کرکے ایک پمفلٹ مرتب کیا تا خودہی موازنہ ہوجائے کہ ختم نبوت پر کس گروہ کا موقف سلف صالحین سے انحراف ہے۔اس خالص علمی کاوش پر مودودی صاحب نے تو اپنے بلند بانگ دعاوی کے باوجود  چپ سادھ لی البتہ مولوی لال حسین اختر نے ’’مرزائی تحریفات کا تجزیہ۔ ختم نبوت اور بزرگان امت‘‘ کے نام سے ایک 32 صفحات کا رسالہ شائع کرادیا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے مولوی صاحب نے جماعت احمدیہ پر تحریف کا الزام لگایا اور مذکورہ بالا جماعتی پمفلٹ کو کذب ،افتراء اور دجل آمیزی کا پلندہ قرار دیا۔ جماعت کے پیش کردہ حوالہ جات کو اکابرین امت پر بہتانات قرار دیا ۔ الغرض پورا رسالہ ہی سخت کلامی اور درشتی کا نمونہ تھا۔


Book Content

Page 1

بزرگان اُمت کے نزدیک ختم نبوت کی حقیقت مولوی لال حسین اختر کی تنقید کا جوار نا جواب

Page 2

Page 3

شده و ماهر بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيدُ پچھلے دنوں مولوی ابوالاعلیٰ صاحب مودودی نے جماعت احمدیہ کے خلاف ایک رسالہ بنام "ختم نبوت " لکھا تھا جس کے ہماری جماعت کی طر سے دو بجواب دیئے گئے ایک کا نام " القول البدین فی تفسیر خاتم النبیین ہے اور دوسرے کا نام "رسالہ ختم نبوت پر علمی تبصرہ ہے.یہاں سے لاہور کے دوستوں نے اللہ دونوں ریسالوں میں سے بزرگان دین کے بعض حوالہ جات لے کہ ایک پمفلٹ مرتب کر کے شائع کیا.مولوی ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نے اگر انہیں جواب کے لئے چیلنج کیا گیا تھا، ہماری پیش کر دہ باتوں کا کوئی جواب نہ دیا.اب حال ہی میں مولوی لال حسین صاحب اختر نے " مرزائی تعریفات کا تجزیہ ختم نبوت اور بندگان امت کے نام سے ایک ۲۲ صفحات کا رسالہ شائع کر لیا ہے جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے مولوی لال حسین نے ہم پر تعریفات کا الزام لگایا ہے اور اس پمفلٹ کو کذب و افتراء اور دھل آمیزی کا پلندہ قرار دیا ہے.اور ہمارے پیش کردہ حوالہ جات کو اکابرین امت پر بہتا اے قرار دیا ہے.گو مولوی لال حسین صاحب اختر نے اس رسالہ میں سخت کلامی سے کام لیا ہے.تاہم یہ امر خوش کن ہے کہ اگر چہ وہ بہار سے پیش کردہ حوالہ جات

Page 4

کو اپنی تحریر میں تو بہتانات ہی کہتے ہیں اور ہم پر تعریف کا الزام دیتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے ان کے قلم سے اسی ذیل میں اس حقیقت کا اعتراف کر لیا ہے کہ ان بزرگوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ غیر تشریعی نبی آسکتا ہے اور لانبی بعدی کے یہ معنی ہیں کہ حضور علیہ السّلام کے بعد تشریعی ثبوت باقی نہیں (صفحہ (۵) مگر لال حسین صاحب اختر کہتے ہیں کہ یہ بزرگ غیر تشریعی نبی کو نبی نہیں سمجھتے.نبی ان کے نزدیک وہی ہے جو شریعیت لائے لیکن اگر یہ بات مولوی لال حسین صاحب کی صحیح ہو تو صات قل ہر ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمدق دیانی علیہ اسلام نے جو غیر تشریعی امتی نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے یہ دعوی مولوی لال حسین صاحب کی مسلمہ اصطلاح میں نبوت کا دعوئی نہیں.کیونکہ حضرت اقدس نے تشریعی نبوت کے دعوے سے ہمیشہ کار کیا ہے اور ایسے دعوی کو کفر اور افترار قرار دیا ہے.پس جب صورت حال یہ ہے تو آپ کے خلاف ختم نبوت کے انکا یہ کا جو بہتان باندھا جاتا ہے.وہ ایک دانستہ فتنہ پردازی ہے.مولوی لال حسین صاحب اختر اپنے رسالہ کے میٹھے پر لکھتے ہیں : " اپنے باطل عقیدہ کے اثبات کے لئے انہوں (احمدیوں، ناقل) نے بزرگان دین کے چند اقوال نقل کئے ہیں کہ.شرع تاسیخ لیکر نہیں آئے گا کوئی نبی نب کوئی ایسا شخص نہیں ہوگا جیسے اللہ تعالے لوگوں کے لئے شریعت دے کر مامور کرے یعنی نئی شریعت لانے والا نہیں نہ ہو گا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مجرد کسی ہی کا آنا محال نہیں بلکہ نئی شریعت والا البتہ منع ہے"

Page 5

یہ اقوال بطور خلاصہ نقل کرنے کے بعد ان کے متعلق مولوی لال حسین صاحب اشتر ذیل کے تین امور پیش کرتے ہیں.وہ لکھتے ہیں :- جن حضرات نے ایسی عبارتیں لکھی ہیں.ان کے پیش نظر تمین امور تھے.اول - حضرت مسیح علیہ السلام کا تشریف لانا بظا ہر آیت خاتم انبیین اور حديث لاني ANNOT کے منافی معلوم ہوتا ہے.دوم حديث لم يبق مِنَ النُّوةِ إِلا المبشرات (فوت سے سوائے مبشرات کے کچھ باقی نہیں ، میں نبوت کے ایک جزو کو باقی کہا گیا ہے.یہ حدیث مسطحی طور پر حدیث لا نبی بعدی کے مخالفت نظر آتی ہے.سوم بعض علماء و صوفیاء کو وحی و الہام سے نوازا جاتا ہے.جس سے بادی النظر میں ختم نبوت سے تعارض نظر آتا ہے" و ٹریکٹ مولوی لال حسین مه ) ہمیں مولوی لال حسین صاحب اختر کا یہ بیان مسلم ہے مگر میں ایک جنید خوست کو حديث لم يبق من النبوة ولا المبرات میں باقی کہا گیا ہے.حضرت محی الدین ابن عربی کے نزدیک وہ نبوت کی جزا ذاتی ہے نہ مجذر ماریں کیونکہ شریعت کو حضرت ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ نے امر عارض قرار دیا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- عَلَمَا كَانَتِ النُّبُوَةُ اَشْرَفَ مَرْتَبَةٍ وَ احْمَلَها ينتهى إليها من اصْطَفَاهُ الله مِنْ عِبَادِه - : علمنا

Page 6

اَنَّ التَّشْرِيمَ اَمْرُ عَارِضَ بِكَوْنِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ يَنْزِلُ فِيْنَا مَكَما مِنْ غَيْرِ تَشْرِيحٍ وَهُوَ نَبِى بِلا شَةٍ " جب نبوت اشرف و اکمل مرتبہ ہے جس پر وہ شخص پہنچتا ہے جسے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا تو ہم نے جان لیا کہ شریعیت کا لانا ایک امر عارض ہے (یعنی نبوت مطلقہ کی حقیقت ذاتیہ پرایک زائد وصفف ہے.ناقل ) کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام بغیر شریعیت کے ہم میں محکم ہو کر نازل ہوں گے اور وہ بلا شبہ نبی ہوں گے " افتوحات مکیه علیه اقول من ۱۵ پس جب حضرت عیسی علیہ السّلام ان کے نزدیک بود از نزول بلا شک نبی ہیں تو معلوم ہوا کہ غیر تشریعی نبی بھی ان کے نزدیک نبی ہوتا ہے.اسی لئے انہوں نے شریعیت لانے کو امر عارض یعنی نبوت پر زائد وصف قرار دیا.لہذا جب شریعت امر عارض ہوئی تو المبشرات ہی نبوت کے جدہ ذاتی قرار پائے.اور یہ بیان حضرت محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کا سو فیصدی درست ہے کیونکہ چتر موسی علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل میں جو نبی آئے.وہ کوئی جدید شریعت نہیں لائے بلکہ وہ شریعت موسوی یعنی تورات کا ہی حکم دیتے تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إلا انْزَلْنَا الشَّوْرية فِيهَا هُدى وَ نُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النبيُّون الدين أسلموا اللَّذينَ هَادُوا الآية (امام)

Page 7

یعنی ہم نے تورات نازل کی کہ جس میں ہدایت اور نور تھا.اسی تورات کے ذریعہ کئی نبی یہودیوں کے لئے علم تھے.اس سے ظاہر ہے کہ ان بندگان اُمت کے نزدیک نبی صرف وہی نہیں جو شریعت لائے بلکہ غیر تشریعی نبی بھی واقعی نبی ہوتا ہے.پس جب مولوی لال حسین صاحب کو مسلم ہے کہ فیر ٹر یہی نبی کی آمد کو ان بندگوں نے منقطع قرار نہیں دیا تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ غیر تشریعی نبی کی آمد کو وہ ختم نبوت کے منافی نہیں سمجھتے.اور یہی مذہب حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور جماعت احمدیہ کا ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ خاتم انبیین صلے اللہ علیہ وسلم کے ظہور پر اب الیسا غیر تشریعی نبی ہی آسکتا ہے جو ایک پہلو سے امتی بھی ہو.یہ بزرگان دین ہے؟ حضرت عیسی علمی است نام کو بعد از نزول بلا شک ہی ہی مانتے ہیں اور آنحضر کیلے اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے تاریخ بھی قرار دیتے ہیں.ہیں اصولی لحاظ سے ہمارے اور ان بزرگوں کے مذہعہد میں اتفاق ہے.اختلاف صرف مسیح موعود کی شخصیت میں ے کہ مسیح موعود حضرت عیسی علیہ السلام ہیں، جن کا اصاللہ نزول مانا جاتا ہے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی امتی فرد ہے جسے حضرت عیسی علیہ السلام کے رنگ میں رنگین ہونے یا مثل ہونے کی وجہ سے مجازا اور استعارہ احادیث نہو یہ میں عیسی نبی السر یا ابن مریم کا نام دیا گیا ہے ؟ خلاصہ کلام یہ کہ ہم میں اور ان بزرگوں میں مسئلہ نبوت میں اصولی طور پر اتفاق ہے.مولوی لال حسین نے اپنے رسالہ کے صفحہ ، پر حضرت محی الدین ابن عربی آن کی ایک عبارت یوں نقل کی ہے :-

Page 8

قيللا ولياءِ وَالأَنْبِيَاءِ الخبرة اللة والانبياء الشرائع وَالرُّسُلِ الْبُرُ وَ الجمعة من افتوحات مکیه جلد ۲ باب ۱۵۹ صفوان کام جو الہ ٹریکٹ سواری لال حسین) مگر اس عبارت کو مولوی لالی حسین صاحب سمجھ نہیں سکتے اور انہوں نے اس کا غلط ترجمہ کیا ہے.اس لئے نتیجہ نکالنے میں بھی اُن سے لازما غلطی ہو گئی ہے.اسس عبارت کا صحیح ترجمہ یہ ہے:.اولیاء اور انبیاء کو خاص طور پر المطر ( یعنی اخبار غیبیہ) ملتی ہے اور شریعت والے انبیاء اور رسولوان کو خمیر بھی ملتی ہے اور حکم بھی الینی اخبار غیبیہ اور احکام شریعت دونوں ملتے ہیں) اس عبارت سے صاف ظاہر ہوا کہ نبوت کی جیند و ذاتی اخبار یہ ہیں.اسی تھے غیر تشریعی انبیاء کو تو اخبار غیبیہ ملنے کا ذکر ہے اور شریعت لانے والے انبیا اور ریل کو اخبار غیبیہ کے ساتھ الحکمہ ریعنی شریعیت جدیدہ انہی دی جاتی ہے.ہمارے پیلٹ میں حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ کا یہ قول نقل کیا ابن گیا تھا :- وہ نبوت جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے آنے سے ختم ہوئی ہے وہ شریعت والی نبوت ہے نہ کہ مقام نبوت اوست اس قول سے ظاہر ہے کہ نبوت غیر تشریعی ان کے نزدیک منقطع نہیں.مولوی لال حسین صاحب اختر اس عبارت سے انکار تو نہیں کر سکے.مگر چونکہ انہیں اه فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۳

Page 9

انطور جواب کچھ لکھنا تھا.اس لئے انہوں نے حضرت محی الدین ابن عربی کا ایک اور قول بھی پیش کر دیا ہے کہ : یہ نبوت حیوانات میں بھی جاری ہے جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیرے رب نے شہد کی مکھی کو وسعی کی " ر فتوحات مکیه جلد ۲ باب ۱۵۵ ص۲۵۲) اور اس پر لکھا ہے کہ حضرت ابن عربی گھوڑے گدھے ، بلی، چھپکی ، چو ہے، چمگارڈ ، اتو اور شہد کی مکھی وغیرہ حیوانات میں نبوت بھاری تسلیم کرتے ہیں.شہد کی مکھی پر اُتو ، چمگادڑ وغیرہ حیوانات کا اضافہ تو مولوی لال حسین نے خود کیا ہے.مگر ہم نے ہو عبادت حضرت بھی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کی پیش کی تھی اس کا تعلق حیوانات کو ملنے والی نبوت سے نہیں بلکہ اس نبوت سے ہے جو انسانوں کو آئندہ مل سکتی ہے مجھے وہ منقطع قرار نہیں دیتے.حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ کا جو حوالہ نبوت کے بھاری ہونے کے متعلق ہمارے پمفلٹ میں پیش کیا گیا ہے.اس کا تعلق اس نبوت سے ہے.جسے حدیث لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ الا المسيرات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی قرار دیا ہے.حضرت ابن عربی علیہ الرحمہ کے نزدیک یہ نبوت " نبوة الولاية" کہلاتی ہے اور اس نبوت کے حامل کو وہ انبیاء الاولیاء کہتے ہیں نہ کہ النبی ریعنی صرف نبی ، اسی لئے حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ النبی کا نام کسی پر نہیں بولا جاتا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی تشریعی اٹھ چکی ہے.یہ احتیاط محض اسی بنا پر سکھلائی ہے کہ اُمت کے

Page 10

نہی الاولیاء کے لئے اللہی کے لفظ کے استعمال سے لوگوں کو یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ مدعی کا دعوی تشریعی نبوت کا ہے اور اس طرح وہ غلطی میں پڑ سکتے تھے چنانچہ وہ النبی کا نام اللہ جانے کی وجہ یوں لکھتے ہیں :- لان لا تميل متخيل ان العليق لهذا اللفظ يُرِيدُ لمرة التَّشْرِيعِ فَيَخْلُطَ یعنی تا یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اس لفظ کا بولنے والا تشریعی نبوت کا مدگی ہے اور اس طرح اس کے متعلق غلطی واقع ہو جائے ورنہ غیر تشریعی انیسیاء کو اصحاب نبوة مطلقہ قرار دے کر اُن کے لئے انبیاء الاولیاء کے الفاظ وہ خود استعمال کرتے ہمیں دیکھئے فتوحات مکیہ صفحہ ۸۷۹) آپ میں نبوت الولایت کو محد ثمین امت محمدیہ اور غیر تشریعی انبیاء بنی اسرائیل میں مشترک سمجھتے ہیں.چنانچہ وہ مسیح موعود کے متعلق بھی لکھتے ہیں :- يَنْرَى وَلِيًّا ذَا نَبُوةٍ مُطْلَقَةٍ يَشْرِكْهُ فِيهَا الْأَوْلِيَاء المُحَمَّدِيُونَ فَهُوَ مِنا وسيدنا و فتوحات مکیه جلد ۲ مثا) یعنی وہ ایسے ولی کی صورت میں نازل ہونگے جو نبوت مطلقہ رکھتا ہوگا.جس میں محمد سی او لیا ہو بھی سٹریک ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک نبی الاولیا ا ثبوت مطلقہ کا بھی حامل ہوتا ہے کیونکہ عیسی علیہ السلام کا بعد از دول، با وجود غیر تشریعی ہونے کے بلاشک نبی ہونا انہیں مسلم ہے جیسا کہ پہلے مذکور ہوا.اور مندب بر بالا حوالہ میں موج انہیں صاحب نبوت مطلقہ ولی قرار دے رہے ہیں.ļ

Page 11

این ضروری تمہید کے بعد اب ہم علی الترتیب ان حوالوں کے متعلق بحث کرتے ہیں جن کے پیش کرنے کو مولوی لال حسین صاحب نے احمدیوں کا کذب افتراء قرار دیا ہے..لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَعَانَ صِدِّيقَا نَبِيَّا یہ حقیقت اپنی جگہ ثابت ہے کہ ابن ماجہ کی اس حدیث کے یہ کلمات آنحضر صلے اللہ علیہ وسلم نے آیت خاتم النبیین کے نزول سے پارکی سال بعد اپنے فرزند ابراہیم کی وفات پر اُن کی شان کے متعلق بیان فرمائے تھے.ان سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آیت خاتم النبیتین امت میں نبی آنے کے متعلق روک نہ تھی.بلکہ صرف صاحبزادہ ابراہیم کی وفات اُن کے نبی ہننے میں روک بنی ہے ورنہ ان میں فطری استعداد نہی پہننے کی موجود تھی.اگر آیت خاتم النبیین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ہر قسم کے نبی کے آنے میں مانع ہوتی.تو آپ بجائے ان الفاظ کے یہ فرماتے - شیپور لَوْ عَاشَ لَمَا كَانَ نَبِيًّا لِأَنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّينَ کہ اگر ابراہیم زندہ بھی رہتا تو بھی نبی نہ ہوتا کیونکہ میں خاتم النبیین ہوں.گو یہ حدیث اُمت میں نبوت کے امکان پر روشن دلیل تھی.مگر بعض لوگوں نے غلط فہمی سے اس حدیث کو ضعیف کہہ کر رو کرنے اور باطل قرار دینے کی کوشش کی ہے.چنانچہ نووی اور ابن عبدالبر اور شیخ عبد الحق صاحب محدث دہلوی کے اقوال سے مولوی لال حسین صاحب اختر نے اس حدیث کو کو

Page 12

١٢ ضعیت ٹھہرانے کی کوشش کی ہے.بیشک ابن ماجہ کی اس حدیث کے راوی ابی شیبہ ابراہیم بن عثمان عیسی کو بعض محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن بعض نے اس کو ثقہ بھی قرار دیا ہے چنانچہ تہذیب التہذیب نیز اکمال الاکمال میں لکھا ہے: قال يزيد بن هارون ما قضى رجل أَعْدَلَ فِي الْقَضَاءِ مِنْهُ وَقَالَ ابن عدي لله احاديث صالحةٌ وَهُوَ خَيْرُ مِنْ الى حية د تہذیب التہذیب جلدا مش ۱۳ و المال الان احد و في اسماء الرجال صنا ) یعنی ابن ہارون نے کہا ہے کہ ابراہیم بن عثمان سے بڑھ کر کسی نے قضا میں عدل نہیں کیا.اور ابن عدی کہتے ہیں کہ اس کی احادیث آچھی ہیں اور وہ اپنی حمید سے بہتر مانی ہے.اور ایوسیہ کے متعلق نہیں ہے ابھی سعدی نے راوی زیر بحث حدیث کو بہتر قرار دیا ہے، تہذیب التہذیب جلد اول صفحہ ۱۱۳ پر لکھا ہے: ولته دارقطني وقال التس ثقه یعنی امام دار قطنی نے الوحید کو ثقہ قرار دیا ہے اور نسائی بھی اسے ثقہ کہتے ہیں.پس اگر نسائی وغیرہ نے ابی شیبہ کو ضعیف قرار دیا ہے تو ابن عدی اُسے ابو سینہ سے بھی بہتر راوی سمجھتے ہیں جیسے خود نسائی ثقہ قرار دے رہے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ حدیث زیر بجنت کے معنے چونکہ ان لوگوں پر نہ کھیلے تھے اس لئے انہوں نے روایت کو ضعیف قرار دے دیا ہے.چنانچہ امام علی القاری علیہ الرحمہ نے ابن عبد البر کے قول کی تردید میں لکھا ہے غرابته لا یخفی کہ

Page 13

اس کا یہ قول قابل تعجب ہے.پھر حدیث زیر بحث کے متعلق لکھا ہے :- له طرق ثلاثة يُقرى بَعْضُهَا بِبَ حضي - کہ یہ حدیث تین طریقوں ثَلَاثَةُ سے مروی ہے جن سے یہ حدیث قوت پا رہی ہے.پس امام علی القاری اس حدیث کو تین صحابہ کے طریقوں سے مروی ہونے کی وجہ سے قومی یعنی صحیح حدیث سمجھتے ہیں اور اس کی یہ تشریح فرماتے ہیں : لَوْ مَاشَ وَصَارَ نَبِيَّا وَكَذَا لَوْ صَارَ عُمَرُ نَبِيَّا لَكَانَا مِنْ رجم اناهِم عَلَيْهِ السَّلاَمُ کہ اگر صاحبزادہ ابراہیم زندہ رہتے اور نہی ہو جاتے اور اسی طرح اگر حضرت عمر نبی ہو جاتے تو وہ دو تو آنحضرت میلے حسد علیہ وسلم کے متبعین میں سے ہوتے.پھر اس اعتراض کا جواب کہ کیا یہ بات تھا تم نہیں کے خلاف نہیں؟ یوں دیتے ہیں :- فَلاَيْنَا قِضُ قَوْلَهُ تَعَالَى مَا مَا النَّبِيِّنَ إِذَا الْمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَات نَبِيُّ بَعْدَهُ يَنْسَهُ مِلتَهُ وَلَمْ يَكُن مِنْ أُمَّتِهِ وَ يُقويهِ حَدِيثُ لَوْ كَانَ مُوسَى حَيَّا لَمَا وَسِعَهُ إِلَّاتَّبَا فِى ( موضوعات کبیر صفحه ۵۸-۵۹) یعنی صاحبزادہ ابراہیم کا ہی ہو جانا آیت خاتم النبین کے خلاف نہ ہوتا کیونکہ خاتم النبین کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت صلے امیر علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی اُمت میں سے نہ ہو.ان معنی کو حدیث نبوی ، اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو میری پیروی کے سوا انہیں کوئی چارہ نہ ہوتا بھی قوت دے رہی ہے.

Page 14

۱۴ گویا یہ حدیث تین طریقوں سے قوت پانے کے بعد جو بھی حدیث کے مضمون سے بھی قوت پا رہی ہے.اس خاتم النہرین کے معنے انہوں نے معین کر دیئے ہیں.اور دو شرطوں کے ساتھ نبوت منقطع قرار دی ہے پہلی شرط یہ ہے کہ کوئی ناسخ شریعت محمدیہ نہیں آسکتا.دوسری شرط یہ ہے کہ امت محمدیہ سے باہر کوئی نہیں نہیں ہو سکتا.لہذا اگر صاحبزادہ ابراہیم زندہ رہتے اور نبی ہو جاتے تو وہ آنحضرت صلہ اللہ علیہ وسلم کے تابع یعنی اُمتی نہی ہوتے کیونکہ المتی نہیں خاتم النبیین کے منافی نہیں.ظاہر ہے ان معنوں سے امام علی القاری علیہ الرحمہ نے ابن عبد البر اور امام نووی وغیرہ کے اس خیال کو رد کر دیا ہے کہ یہ حدیث ضعیت ہے.اُنی کے نزدیک یہ حدیث معنوی طور سے آیت خاتم النبین کے خلاف نہیں اور بعضی طور پر تین صحابہ کے طریقوں سے مروی ہونے کی وجہ سے صحیح حدیث ہے.ضعیف نہیں ہے.بیعادی کے حاشیہ الشہاب علی البیعناوی میں بھی اس حدیث کے متعلق صاحت لکھا ہے : لیا کر الماصحة الحديث فلا شيعة فھا کہ اس حدیث کے صحیح کھنے میں کوئی شبہ نہیں.علامہ شوکانی اس حدیث کے بارہ میں نوری کے اس خیال کو کہ یہ ہمدریت باطل ہے، یوں رڈ کرتے ہیں :- وهو جيب من النووي لَمَعَ وَرُود با عَنْ ثَلاثَةٍ مِن الصحابة وَكَانَه لَمْ يَظْهَرُ لَهُ تَادِيله ( (۱۲) ) الفوائد المجموعه صفحه

Page 15

یعنی نووی کا اس حدیث سے انکار جیب ہے.باوجودیکہ اس حدیث کو تین صحابہ نے روایت کیا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نور کی پر اس کے صحیح سے نہیں کھٹے حديث لَوْ عَامِلَ إِبْرَاهِيمَ كَكَان مدیکا نبیا کے متعلق مولوی لال حسین صاحب نے یہ بھی لکھا ہے.اس روایت میں حرف کو ہے جو امتناع اور نامسکنات کے لئے استعمال ہوتا ہے.جیسے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے.لَوْ كَانَ فِيْهِمَا الهَةُ ال الله لفسدتا (انبیا (۲۳) اگر زمین و آسمان دونوں میں اللہ تعالٰی کے سوا معبود ہوتا تو دو نو بگڑ جاتے.جیسے دو خدا نہیں ہو سکتے اسی طرح حضرت ابراهیم زندہ نہ رہ سکتے تھے نہ نبی ہو سکتے تھے کے ٹریکٹ مولوسی لال حسین صند) پھر آیت اَوْ اَشْرَكُوا الحَبِطَ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (انعام آیت (۸۸) پیش کر کے لکھتے ہیں :- اس آیت میں تعلیق بالمحال ہے.یعنی حیات کو سے یہ مسئلہ فرضی طور پر بیان کیا گیا ہے کہ بالفرض اگر نبی بھی اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہراتے تو اُن کے تمام اعمال اکارت اور مائع ہو جاتے.کیا مرزائیوں کے مذہب میں اس سے یہ استدلال صحیح ہوگا کہ فیوں سے مشترک ہو سکتا ہے نعوذ باللہ منہ " فریکی مولوی لال حسین صال) الجواب بجناب مولوی لال حسینی صاحب کو کے استعمال میں غلطی خوردہ ہیں.کو کا استعمال دو طرح ہوتا ہے.وہ یاد رکھیں کہ کبھی شرط کے محال ہونے

Page 16

14 پر سزا کا محال ہونا صرف اس شیر کے نہ پایا جانے پر موقوف ہوتا ہے.ورنہ جتنا اپنی ذات میں محال نہیں ہوتی.اُوپر کی دونوں مثالوں کا یہی حال ہے.پہلی مثال میں دو خداؤں کا ہونا محال ہے اور دو خراؤں کے پایا جانے کی صورت میں زمین و آسمان میں فساد ضروری قرار دیا گیا ہے.لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اگر دو خدا نہ پائے جائیں تو پھر فساد مسکن ہی نہیں بلکہ محال ہی ہے.کیونکہ فساد کا امکان تو اس کے بغیر بھی قیامت سے پہلے مسلم ہے.پیس فساد دو خداؤں کے بغیر بھی ممکن ہوا.اسی طرح دوسری مثال میں انبیاء سے شرک محال قرار دے کر ان کے عملوں کا اکارت بجانا محال قرار دیا گیا ہے.ورنہ لوگوں کے عمل کا اکارت جانا شرک کے علاوہ کفر و فسق کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے گویا اس مثال میں جوانی نف مجال نہیں بلکہ ممکن الوقوع ہے.گو تیجی سے اس کا امکان محال ہے.اسی طرح حدیث لَوْ عَاشَ اِبْرَاهِمُ لَمَعَانَ صديقا نیا میں شرط کو عالی ابراهیم کر پایا جانے کی وجہ سے ابراہیم کا نہی ہونا محال قرار دیا گیا ہے.درینہ اپنی ذات میں اُمتی نبی ہونا آیت خاتم النبیین کے منافی نہیں ہے.اسی لئے تو امام علی القاری بناتے ہیں کہ خاتم النبیین کے معنے یہ ہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نہی نہیں ہو سکتا جو آپ کی شریعیت کو منسوخ کرے اور آپ کا امتی نہ ہو.گویا یہ آیت تشریعی اور مستقل نبی کی آمد میں مانع ہے.اُمتی نبی کا آنا اس کے منافی نہیں.پس امتی نبی کا آنا آیت خاتم النبین کے رو سے محال نہ ہوا.L

Page 17

جناب مولوی لال حسین صاحب آیت ذیل پر غور فرمائیں.ه از یک وَلَوْ الهُمُ امَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَخْرَبَةُ مِنْ عِندِ اللهِ خَيْرُ یعنی اگر یہود ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو اُن کے لئے اللہ تعالے کی ے طرف سے بہتر ثواب ہوتا.مراد یہ ہے کہ چونکہ وہ ایمان نہیں لائے اس لئے ثواب ل سے محروم ہیں.ورنہ اُن کے ایمان نہ لانے سے دوسرے ایمان لانے والے ثواب سے محروم نہیں.پس اپنی ذات میں ثواب پانے کا امکان ہے.لیکن ان یہودیوں کے لئے جو ایمان نہ لائے بہتر تو اب پانا محال قرار دیا گیا ہے.اسی طرح کی اپنی ذات میں اُمتی نہی ہونا ممکن ہے.آیت خاتم النباتین کے منافی نہیں.گو صاحبزادہ ابراہیم کی زندگی کے محال ہونے پر ان کے لئے نبی ہونا محال قرار دیا ایگاه گیا ہے نہ اپنی ذات میں.فتدبروا یا اولی الابصار.ام المومنین حضرت عالت صديقه انار کا قول ہمارے پمفلٹ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول بھی پیش کیا گیا تھاد قُولُوا الصفاته الأشياء وَلَا تَقُولُوا لاني بَعْدَهُ ر در نشود جلده مانا و تكمله لجميع البحار شد کہ اے لوگو ! آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانب یاد تو ضرور کہو مگر یہ نہ کہو کا کہ آپ کے بعد کسی قسم کا نبی نہ آئے گا " یہ قول اور اس کا ترجمہ درج کرنے کے بطور تشر بھی نوٹ آگے لکھا گیا تھا.

Page 18

الله اللها جدی مادر مشفقہ کا خیال کہاں تک پہنچا.آنے والے خلات کو چودہ سو سال قبل بھانپ لیا.کس لطیف انداز میں فرماتی ہیں کہ اے بہنو! کبھی لانبی بعدی کے الفاظ سے ٹھو کر نہ کھانا.اس خاتم النبیین کی طرف نگاہ رکھنا.مگر یہ نہ کہنا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں" مولوی لال حسین اس تشریحی نوٹ کے ایک حصہ کو نقطے دے کر معدن کرنے کے بعد دری کرتے ہوئے حسب عادت گالیاں دینے کے بعد لکھتے ہیں:."اگر امت مرزائیہ حضرت ام المومنین کے یہ الفاظ دنیا کی کسی کتاب سے دکھا دے تو ہم اُسے ایک ہزارہ روپیہ نقد انعام دیں گے" جناب مولوی لال حسین صاحب اس عبادت میں بے جا تعلی فرما رہے ہیں کہ وہ ایک ہزار روپیہ نقد انعام دیں گے.انعام کس بات پر مقرر کرتے ہیں تشریح الفاظ کو حضرت عائشہ صدیقہ کے قول میں سے دکھانے پر حالانکہ اصل قول تو ہمارے پمفلٹ میں ان الفاظ میں موجود ہے : " قُولُوا إِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لا نبي بعده | اور اس کے متعلق معتبر کتابوں کے والے بھی درج ہیں اور مقصود بھی حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کا یہی ہے کہ لا نبی بعدی کے معنے سے متعاق مسلمانوں کو ٹھو کر نہ بچائیں.اسی لئے انہوں نے لانبی بعدہ کہنے سے منع فرمایا.حالانکہ لا نبی بعدہ کا قول بظاہر حدیث " لا نبى بعدى " کے مطابق ہے.پس اگر کسی ٹھوکر سے بچانا مقصود نہ ہوتا تو لا نبی

Page 19

19 بعدی کی حدیث کی موجودگی میں وہ کیوں فرمائیں کہ تم لاني بحدة ان کیا کر دو.کیا جو بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی.اس کے نے اسے حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہ منع فرماتی ہیں ؟ ہرگزہ نہیں.اصل حقیقت یہ ہے کہ لانبی بعدی کے ایک معنیٰ سے جو یہ ہو سکتے ہیں که نمیرے بعد مطلق کوئی نبی نہیں بوجہ غلط معنے ہونے لیے امت کو ضرور ٹھوکر لگ سکتی تھی.کیونکہ صحیح معنیٰ اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک یہ تھے کہ آپ کے بعد کوئی مستقل نبی نہیں آئے گا اس لیئے احتیاطاً حضرت ام المومنین سے مسلمانوں کو منا تم الانبیاء کہنے کی ہدایت فرمائی اور لا نبی بعد کی کہنے سے منع فرما دیا.تشریحی نوٹ کے الفاظ کا اصل قول سے دکھانا لازم نہیں آتا.جناب مولوی لال حسین صاحب نے امام محمد طاہر کے قول کو اپنے یکٹ کے صفحہ ۱۱ (۲) پر درج کرنے کے بعد اس کے متعلق یہ لکھا ہے:." واضح بیان ہے کہ اگر لا تقولوا لا نبي بعده حضرت ام المومنین کا مقولہ ثابت ہو جائے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا آسمان سے نزول ہوگا.ان کا تشریف ان الان حدیث لانبی بعدی کے خلاف نہیں.اس لئے حدیث کا مطلب کیا ہے کہ ایسا نہیں نہیں آسکتا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو منسوخ کردے؟ خط کشید و الفاظ بداری مالی حسنین کا امام محمد طاہر علیہ الرحمہ پر افترار ہیں.لوی

Page 20

کہ اگر لا تقولوا لا نبی بعدہ حضرت ام المومنین کا مقولہ ثابت ہو جائے" مولوی لال حسین امام محمد طاہر کے قول میں یہ الفاظ تا قیامت نہیں دکھا سکتے اور یقینا نہیں دکھا سکتے ہیں ان کے الفاظ محض جھوٹ اور بہتان ہیں.کیونکہ امام محمد طاہر نے ایسا ہر گز نہیں فرمایا کہ "اگر لا تقولوا لا نبی بعد کا حضرت ام المومنین کا مقولہ ثابت ہوا مولوی لال حسین صاحب اپنے ڈیکٹ کے منہ ہم مولوی لال حسین کی تعلی رکھتے ہیں.جمله قولوا انه خاتم الانبيار ولا تقولوا لا نبی بعدہ کی حضرت ام المومنین کی طرف نسبت یہ ایسا قول ہے کہ دنیا کی کسی مستند کتاب میں اس کی سند نہیں اور حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا تک اس قول کی سند دکھا دو تو دس ہزار روپیا نعام تو یہ الجواب : مولوی لال حسین صاحب پر واضح ہو کہ حضرت ام المومنین رضی اعد عنہا کا یہ قول ہرگز بے سند نہیں بعضرت امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب الدر المنشور میں زیر آیت خاتم النبیین اس قول کو یوں درج فرمایا ہے :- " أخرج ابن ابى شيبة عن عائشة قولوا خاتم الانبياء و لا تقولوا لا نبي بعدة " حضرت امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ کو اپنے زمانہ کا محمد تسلیم کیا جاتا ہے.ان کی مندرجہ بالا عبادت سے ظاہر ہے کہ یہ عبادت بے سند نہیں بلکہ اس کی تھری کے محدث ابوبکر عبد المعد بن ابی شیبہ نے حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کی ہے.پھر امام صاحب موصوف اپنی تفسیر الله المنشور جلد اول کے شروع میں تحریر فرماتے ہیں:-

Page 21

۲۱ جب میں نے کتاب ترجمان القرآن" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی سند سے تالیف کی اور وہ محمد ا لنر کئی جلدوں میں پوری ہوئی.تو میں نے دیکھا کہ اکثر لوگوں کی ہمتیں اس کی تحصیل سے قاصر ہیں.اور وہ استاد کے بغیر صرف منون اثر (الفاظ روایت) کی رغبت رکھتے ہیں تو میں نے اس مختصر ( الدر المنثور) کو تفسیر ترجمان القرآن سے شخص کیا ہے.اس میں صرف روایات کے متن پر اختصار کیا ہے اور ان کی سند کے متعلق تہر معتبر کتاب کا جس میں اس کی تخریج ہوئی ہے حوالہ دے دیا ہے.اور اس کا نام الدر المنثور في التفسير بالماثور (ترجمہ) لکھا ہے" ہ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت امام جلال الدین سیوطی نے الدر المنشور کی تمام سلامیات" ترجمان القرآن" میں باسند درج کی ہیں.اور الدر المنشور میں صرف یہ بتا دیا ہے کہ اس روایت کی تخریج کس کتاب میں ہوئی ہے.پس مولوی لال حسین صاحب کا اس روایت کو بے سند قرار دینا ان کی نا واقعی اور لاعلمی کی دلیل ہے.در اصل حضرت امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ پر بہتان عظیم ہے کہ انہوں نے یہ ریوراست بے سند درج کی ہے.کیا مولوی لال حسین صاحب حضرت امام جلال الدین سیوطی علیه گرفته -.اور کی کا منہ بال بیان پڑھنے کے بعد بھی اپنے اس انعامی چیلینج پر قائم ہیں.دیدہ باید خاب رہی یہ بات کہ امام محمد طاہر علیہ الرحمہ نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کے قول کے متعلق اپنا یہ خیال ظاہر کیا ہے :- دهار هذَا نَاظِتُ إِلى نُزُولِ عِيسَى"

Page 22

۲۲ یعنی حضرت عائشہ الصدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول اس بات کے مدنظر ہے.کہ بیٹے علیہ السلام نازل ہوں گے.یہ ہمارے مقصد کے خلاف نہیں.گو یہ امام محمد طاہر صاحب کا اپنا قیاس ہے.حضرت عائشہ صدیقہ کے الفاظ میں اس کا مطلقا ذکر نہیں.مگر خواہ بقول امام محمد طاہر صاحب نزول عیسی کو مد نظر رکھ کر حضرت عائشہ صدیقہ کا یہ قول فرض کیا جائے امام محمد طاہر صاحب نے حدیث لانبی بعدی کا مطلب واضح فرما دیا ہے جیسے مولوی لال حسین صاحب اختر نے تسلیم کر لیا ہے کہ : حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا ہوں حضور صلی الہ علیہ وسلم کے دین کو منسوخ کرے اور حضرت عیسی علیہ السلام تو حضور صلے سہ علیہ وسلم کے دین کی استاد کیلئے تشریف لائیں کہ کہ اسلامی تعلیمات کو منسوخ کرنے کیلئے ٹریکٹ ملا) اس سے ظاہر ہے کہ ہمارا اور مولوی لال حسین صاحب کا اعتقاد یہ ہے کہ مسیح موعود نبی اللہ ہے ہاں ہم احمدی نزول عیسی کی حدیث کا تعلق ایک مثیل مسیح سے سمجھتے ہیں کیونکہ حدیثوں میں اس کے متعلق اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ (صحیح بخاری) اور فالشکم منکم وصحیح مسلم اور اما ما مصدا یا د سند احمد بن حنیل) کے الفاظ وارد ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ یہ موجود عیسی امت محمدیہ میں سے اقت کا امام ہے جسے سند احمد کی حدیث میں امام مہدی بھی قرابہ دیا گیا ہے.پس ہم دونوں فریق متفق ہیں کہ حدیث لا نبی بعدی ایسے نبی کے آنے کے لئے مانع نہیں جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت کیلئے تشریف لائے.مولوی لال حسین صاحب ایسا آنے والا نبی حضرت عیسی علیہ السلام کو سمجھتے ہیں اور ہم لوگ یہ موعود جیسے ایک اتنی فرد کو سمجھتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور آپ کے افاضہ رومانیہ سے مقام نبوت پا کر اشاعت دین محمدی کے

Page 23

د آنے والا را فالحمد لله على ذلك.مولوی لال حسین صاحب نے لکھا ہے :.ہے:.مین حضرات نے ایسی عبارات ولیعنی غیر تشریعی نبی آسکتا ہے.ناقل لکھی ہیں.ان کے پیش نظر تین امور تھے " العالمین سے دوسرا امر آپ یہ بیان فرماتے ہیں :- لحديث لم يبقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلا المبرات (نبوت کے حوالے مبشرات کے کچھ باقی نہیں میں نبوت کے ایک جزء کو باقی قرار دیا گیا ہے.یہ حدیث مسلمی طور پر لانبی بعدی کے مخالف نظر آتی ہے.ٹریکٹ (صف) پھر مولوی لال حسین صاحب صفحہ 4 پر حضرت ام المؤمنين عائشة الصدیقہ رضی الله عنها کی ایک سے روایت پیش کرتے ہوئے جس میں رویائے صالحہ کے مسلمانوں کے لئے باقی رکھنے کے بنک ہے.اس کی تشریح شیخ اکبر کے الفاظ میں ہوں درج کرتے ہیں."كما ارتفعت الثمرة بالعلية.ولهذا قلنا الما تميَّةُ - وَلَهُذَا قُلْنَا إِنَّمَا ارتفعت نبرة التَّشْرِيح فَهذا معنى لا نَبِيَّ بَعْدَهُ اور اس کا ترجمہ مولوی عامل حسین صاحب نے خود یہ کیا ہے وہ بیداری مس اس اعتبار سے کلی طور پر نبوت ختم نہیں ہوئی.املی موجود ہے.ہم نے کہا ہے کہ لا نبی بعدی کا معنیٰ یہ ہے کہ حضور کے بعد موت تشریعی باقی نہیں.کیونکہ رونا اصالحہ اور میش است جاتی ہیں."

Page 24

۲۴ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسیح موعود کی نبوت امت محمدیہ میں ظہور کے بعد مبشرات والی غیر تشریعی نبوت ہی ہوگی یا تشریعی نبوت به مسیح موعود کو تشریعی نبی تو مولوی لال حسین صاحب اور ہم احمدی دونوں نہیں مانتے اور نہ مستقل نبی ہی مانتے ہیں.اس صاف ظاہر ہے کہ مسیح موعود اس حدیث کی موجودگی میں المبشرات والی غیر تشریعی نبوت کی وجہ سے ہی نہی کہلا سکتے ہیں اور المبشرات کی وجہ سے ہی نبی اکرم صلے اللہ علیہ وسلم نے انہیں حدیث میں نبی الله کہا ہے.تشریعی نبوت تو حدیث لم یينَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَات کے الفاظ " لمين " کی وجہ سے باقی نہیں رہی.چونکہ بہو جب بعدیث علمائے امت مسیح موعود کو بعد از نزول نبی اللہ تسلیم کرتے ہیں.لہذا صاف ظاہر ہے کہ مسیح موعود کا غیر تشریعی نبی ہوتا اور نبی اللہ کہلا ناقابل اعتراض نہیں.بلکہ بموجب حدیث ہذا مسیح موعود مبشرات کو علی وجہ الکمال پانے کی وجہ سے ہی نبی اللہ کہنا سکتا ہے.درمیانی عرصہ کے بزرگوں نے بھی مبشرات کو ایک حد تک پایا ہے مگر وہ اس وجہ سے نبی نہیں کہلا سکتے کہ خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :- أَلَا إِنَّهُ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ بی کہ سُن لو.میرے اور عیسی موعود کے درمیان کوئی بھی نہیں " (طبرانی) پس ہمارا اور مولوی لال حسین صاحب اختر کا مسیح موعود کے نبی اللہ ہونے پر اتفاق ثابت ہو گیا.اختلاف ہے تو صرف مسیح موعود کی شخصیت میں سے میسج موعد کا نبی ہونا وہ بھی مانتے ہیں اور ہم بھی.

Page 25

حضرت محی الدین ابن عربی کا قول ہمارے پمفلٹ میں حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمتہ کے ایک قول کا ترجمہ ان الفاظ میں درج کیا گیا تھا :- وہ نبوت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے ختم ہوئی ہے وہ صرف شریعت والی نبوت ہے نہ کہ مقام نبوت.کیسی اب ایسی شریعیت نہیں آسکتی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ قرار دے یا آپ کی شریعت میں کوئی حکم زائد کرے.یہی محے اس حدیث کے ہیں کہ ان الرسالة والتموة قد انقطعت - کتاب رسالت اور نبوت منقطع ہو گئی.میرے بعد رسول ہے نہ نہیں.یعنی کوئی ایسا نہی نہیں ہو گا جو ایسی شریعت پر ہو جو میری شریعت کے خلاف ہو.بلکہ جب کبھی نہیں آئے گا تو وہ میری شریعت کے بدیع ہوگا " (فتوحات مکیہ جلد با صفحه (۳) ۱۰ مولوی لال حسین صاحب دختر ہمارے اس ترجمہ کی صحت سے انکار نہیں سکے اس قول میں حضر سے محی الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ نے انقطاع نبوت بیان کرنے والی حدیثوں کی تشریکہ میں یہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ آئندہ کوئی ایسا نہیں نہیں ہوگا جو ایسی شریعت پر ہو جو میری شر ہونے کی بات ہو، بلکہ جب کبھی نہیں آئے گا تو وہ میری شریعت

Page 26

کے تابع ہوگا.۲۶ مولوی لال حسین صاحب اوریہ کی عبارت کی تشریح میں اپنے ڈیکیٹ میں لکھتے ہیں :- وہ ولایت الہام اور مبشرات کو اقت میں جاری مانتے ہیں.اور اسی کو غیر تشریعی نبوت کے نام سے موسوم کرتے ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام کے آسمان سے نزول کے قائل ہیں.آمد ثانی کے بعد حضرت مسیح ہے.کسی نئے اوامر اور تو انہی کا نزول نہیں مانتے.ان کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہو گزیدہ نبی حضرت پیسے علیہ السلام حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے.وہ شریعت محمدیہ کو منسوخ نہ کرینگے بلکہ اسی شریعت کی متابعت کریں گے " ( ٹریکٹ مولوی لال حسین ص ) ہمیں مولوی لال حسین صاحب کی یہ تشریح بھی مسلم ہے اور ہم اس تشریح پر صرف یہ امر زیادہ کرتے ہیں کہ حضرت محی الدین ابن عربی موجود عیسی کو مجب غیر تشریعی نبی مانتے ہیں نہ کہ تشریعی نبی.تو ساتھ ہی وہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ وہ بلا شک نبی ہوں گے اور نبوت مطلقہ رکھتے ہوں گے.اور وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے اصالتا نزول کے بھی قائل نہیں بلکہ لکھتے ہیں :- تجب نُزُولُهُ في أَخِرِ الزَّمَانِ تعلله بَدِي أَخَرَ.تنی شیخ کہ یہ عائشہ فرانس البیان است الكبريم

Page 27

۲۷ ریا بہ یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول آخری زمانہ میں کسی دوسرے بدن میر کے تعلق سے ہوگا.اس کے صاف یہ معنیٰ ہیں کہ یہ نزول اصالتا نہیں ہوگا.بلکہ ہرونی ہوگا.مولوی لال حسین صاحب نے اس جگہ لکھا ہے :- "غیرت اور ہزار حیرت ہے امت مرزائیہ پر کہ ان کے قادیانی نہی نے م حضرت محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ اور وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والوں پر کافر ملحد اور زندیق کا فتویٰ لگایا ہے دوحدت الوجود پر حضرت اقدس کا خط بنام میر عباس علی ، لیکن مرزائی ہیں کہ اپنے نبی کی نبوت ثابت کرنے کے لئے معاذ اللہ اسی ملحد اور زندیق کی پناہ لے رہے ہیں.ان کے طرز استدلال پر ارسطو کی روح بھی پھڑک ابھی ہوگی " ٹریکٹ صفحه ۱۳-۱۱۴ ہم نے میر عباس علی کے نام محولہ خط کا مطالعہ کیا ہے.اس میں کسی جگہ بھی بھارت اقدس نے حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ کو کافر ملحد اور زندیق کا فتویٰ نہیں دیا.مولوی لال حسین صاحب کے اس جھوٹ پر تو بڑے بڑے بھوتو کی روح بھی پھڑک اٹھی ہوگی.علاوہ ازیں جب مولوی لال حسین صاحب کے نزدیک وہ مہرو کا فر نہیں کیونکہ اس کا ذکر انہوں نے معاذاللہ کے الفاظ سے کیا اور کئی کے اسی مسلمہ بزرگ کے قول کو اُن کے سامنے پیش کرنے کا ہمیں ہر رات جو حا صل ہے.حضرت محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کی اجتہادی خلا پر الله الراحل نہیں ہو سکتا.کیونکہ المجتهد يخطی و یصیب مسلم ہے.گو

Page 28

۲۸ فی نفسه وحدت الوجود کا مسئلہ الحاد ہی ہے.غلط اجتہاد پر مجتہد سے خدا تعالیٰ مؤاخذہ نہیں کرتا کیونکہ حدیث نبوی میں وارد ہے کہ اگر مجتہد غلط اجتہاد کرے تو اس کے لئے ایک احمد ہے اور اگر درست اجتہاد کرے تو اس کے لئے دو اجر ہیں.حضرت مولانا جلال الدین رومی علامہ کا قول ہمارے پمفلٹ میں مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ کا یہ قول پیش کیا گیا تھا سے فکر کن در راه نیکو خدمتے تا نبوت یابی اندر اتنے کہ نیکی کی راہ میں خدمت کی ایسی تدبیر کہ کہ تجھے امت کے اندر ثبوت مل جائے.د مثنوی مولانا روم دفتر اول (۱۹۳۰) یہ شعر اپنے مضمون میں نہایت واضح ہے کہ حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ کے نزدیک اُمت کے اندر نبوت مل سکتی ہے.مگر مولوی لال حسین صاحب حق پر پردہ ڈالنے کے لئے اس کی تشریح یہ بتاتے ہیں کہ : " نیک اعمال کے لئے کوشش کرنے سے مومن کو فیضانِ نبوت سے نوازا جاتا ہے " دیکھئے کسی طرح حق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے.مولانا روم علیہ الرحمتی تو کہتے ہیں کہ امت کے اندر نبوت ملتی ہے.اور مولوی لال حسین صاحب ترمیمید میں کہتے ہیں " فیضان نبوت سے نوازا جاتا ہے" اگر یہ ترجمہ درست سمجھا جائے.

Page 29

۲۹ تو فیضانِ نبوت سے نوازا جانا نبوت ہی ہوئی جس سے کم و بیش مومنین کو حصہ ملتا رہا ہے.میسج موعود کا نہیں اللہ ہونا تو حدیث سے ثابت ہے.و اچھر مولوی لال حسین صاحب نے خود مولانا روم علیہ الرحمتہ کا یہ شعر پیش کیا ہے اں نئی وقت باشد اے مُرید! تا از و نور نبی آید پدید کہ اے مرید پیر نئی وقت ہوتا ہے تاکہ اس سے نور نبی ظاہر ہو.میں جب پیر نئی وقت ہوا تو عینی موعود تو بدرجہ اولی نبی ہوگا.رجس کو امتی نبی ثابت کرنا ہمارے ٹریکٹ کا مقصد تھا.کیونکہ اسے خود آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے نبی بھی قرار دیا اور اتنی بھی خاتم کے معنوں میں ہمارے ٹریکیٹ میں حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ کے یہ اشعار بھی لکھے گئے تھے سے پهر این خاتم شد است او که بود مثل او نے بُود نے خوابند بود یعنی آپ خاتم اس لئے ہوئے ہیں کہ آپ بے مثل ہیں.فیض روحانی کی بخشش میں آپ جیسا نہ کوئی پہلے (نبی) ہوا ہے اور نہ آئندہ آپ جیسے ہوں گے.

Page 30

چونکه در صنعت برد استاد دست تو نہ کوئی ختم صنعت بر تو است.کہ جب کوئی استاد صنعت و دستکاری میں کمال پیدا کرتا ہے اور سبقت لے جاتا ہے تو کیا تو یہ نہیں کہتا کہ تجھے پر صنعت و دستکاری ختم ہے.سمجھے جیسا کوئی صنعت گراور دستکار نہیں ہے.در کشاد ختم با تو من تھی ! در جہاں روح بخستان حالتی ! کہ اسے مخاطب مثنوی ! جس طرح اسلئے درجہ کے کاریگر کو تو کہتا ہے کہ تھر پر کا ریگر ی اور دستکاری کا فن ختم ہے.اسی کا طرح تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب ہو کر کہہ سکتا ہے کہ کہ بندشوں اور روکاوٹوں کے بہٹانے اور عملہ ائے لاینحل کے جل کرنے میں تو خاتہ یعنی ہمیشل اور یگانہ روزگار اور روحانیت عطا کرنے والوں کی دنیا میں تو حاتم کی طرح لاثانی ہے.پہلے شعر کے متعلق جناب مولوی لال حسین صاحب اختر لکھتے ہیں : " اس شعر کو اجرائے نبوت سے کیا تعلق.اس میں تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے فضائل و کمالات اور رومانی فیوض کا تذکرہ ہے.یہ قادیانیوں کا محض افتراء ہے کہ حضرت مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ حضور رسالت مآب صلے اللہ علیہ وسلم

Page 31

۳۱ تان کے بعد اجرائے نبوت کے قائل تھے جس کا کوئی ثبوت وہ پیش نہیں الجواب ہم پر افتراء کا الزام تو سراسر بے بنیاد ہے.کیونکہ امت میں نبوت ملنے کے ثبوت میں تو پمفلٹ میں درج شدہ پہلے شعر کا دوسرا مصرعہ صاحت شہادت دے رہا ہے حد تا نبوت یابی اندر اتنے وتا تجھے اُمت کے اندر نبوت مل جائے) پس مولانائے روم علیہ الرحمہ بدرجات مختلفہ امعنی کا نبی ہو جاتا ممکن سمجھتے میں جب بقول مولوی لال حسین صاحب وہ ہر متبع سنت اور پیر و مرشد کو ی بڑا نہیں کہتے ہیں تو مسیح موعود تو بدرجہ اولی نبی ہوں گے جن کی اُمت کے دور نبوت ثابت کرنا اس وقت مقصود ہے اور جسے حدیث نبوی میں نبی اللہ حضرت امام عبد الوهاب الشعرانی کا قول مارے پمفلٹ میں حضرت امام صاحب موصوف کا یہ قول درست کیا گیا تھا انا یاد رکھو کہ مطلق نبوت نہیں اسلی اور صرحت شریعیت والی نبوت رالیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحه (۲) ت نه مولوی لال حسین صاحب جواب میں لکھتے ہیں :-

Page 32

tup حضرت امام شعرانی رحمتہ اللہ علیہ پر افتراء ہے کہ وہ حضور سرور کائنات صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد مرزائیوں کی طرح غیر تشریعی نبوت کے قائل تھے.امام شعرانی نے تشریعی اور غیر تشریعی نبوت کی تقسیم انہی تین امور کے پیش نظر کی ہے جن کا ذکر ہم نے حضرت شیخ اکبر کے حوالہ سے کیا ہے.آپ فرماتے ہیں :- " 3...اسی طرح جب حضرت عیسی زمین پر نازل ہوں گے تو ہمارے نبی محمد مصطفے صلی علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق فیصلہ کریں گے " الجواب - حضرت امام شعرانی علیہ الرحمتہ کے حوالہ کو مولوی لال حسین نے تسلیم کر لیا ہے مگر پھر اس امر کو ہمارا افتراء قرار دیا ہے کہ وہ ہماری طرح غیر تشریعی نبوت کے اجراء کے قائل تھے.مولوی لال حسین صاحب کے نزدیک انہوں نے نبوت کی تقسیم تشریعی اور غیر تشریعی میں پہلے بیان کرنا تمین امور کو مد نظر رکھ کر کی ہے.جب ہم اس تقسیم کو درست تسلیم کرتے ہیں تو ہمارا ان پر افتراء کیا ہوا.وہ خود کہتے ہیں کہ مطلق نبوت نہیں ابھی.ہم ہم کہتے ہیں.مانا کہ انہوں نے نبی کی تقسیم تشریعی اور غیر تشریعی میں ان L امور کے پیش نظر کی ہے کہ حضرت عیسی نبی اللہ آئیں گے اور مدینہ لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّراتُ کے مطابق مبشرات نبوت میں سے باقی ہیں.اس لئے مبشرات کا ملنا غیر تشریعی نبوت ہے اور اولیا پر وحی و الہام کا دروازہ کھلا ہے.لہذا جب انہوں نے حضرت

Page 33

۳۳ عیسی کا بحیثیت امتی نبی کے آنا مان لیا تو غیر تشریعی نبوت کو انہوں نے منقطع قرار نہیں دیا.یہی جماعت احمدیہ کا مذہب ہے.پس ہمارا ان پر افتراء کیسے ہوا ؟ وہ بھی نبوت مطلقہ کو بند نہیں مانتے کیونکہ لکھتے ہیں : جان لو کہ مطلق نبوت بند نہیں ہوئی.صرف تشریعی نبوت اُٹھائی گئی ہے " :- پس نبوت مطلقہ ان کے نزدیک بند نہیں مسیح موعود کے متعلق وہ لکھتے ہیں :.نَيُرْسَلُ وَلِيًّا ذَا نُبُوَّةٍ مُطْلَقَةٍ رالیواقیت والجواہر جلد ۲ صفه ) میع کو ایسے ولی کی صورت میں بھیجا جائے گا جو نبوت مطلقہ کا حامل ہوگا.انہیں نبی الاولیاء یہ نبوت مطلقہ یقین کرتے ہیں.تو ان کا یہ قولی ہمارے مذہب کا مؤید ہوا.کیونکہ ان کا مسیح موعود کو نہیں ماننا ہمارے کی تائید ہے.ہم بھی مسیح موعود کو نبی اللہ مانتے ہیں.مولوی لال حسین صاحب آگے اُن کا یہ قول نقل کرتے ہیں هذا بَاب أَعْلِقَ بَعْدَ مَوْتِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْ الاَحَدٍ إِلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - وَال وَلكِن بَقِى وى الْأَنْهَامِ الَّذِى لَا تَشْرِيمَ فِيهِ الیواقیت والجواہر جلد ۳ مش۳ وَسَلَّم لی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بند ہو چکا اور قیامت تک کسی کے لئے نہیں کھیلے گا.لیکن اولیاء اللہ

Page 34

نے کے لئے وحی الہام باقی رہے جس میں شرعی احکام نہ ہوں گے.اس عبادت میں امام شعرانی نے تشریعی نبوت کا دروازہ بند قرار دیا ہے اور اولیا اللہ کے لئے وحی الالہام یعنی وحی غیر تشر یعنی کا دروازہ کھلا قرار دیا ہے.یہی مذہب حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کا بھی ہے.خدا کے ان اولیاء کو جنہیں وحی غیر تشریعی ملتی ہے ان بزرگوں نے بر وی طور پر نبی الاولیا قرار دیا ہے اور مسیح موعود کو نبی الاولیاء بہ نبوت مطلقہ مولوی لال حسین صاحب نے اس بچی کو مبشرات یعنی وحی غیر تشریعی تسلیم کر لیا ہے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں ان اولیا اللہ کو اجابات ہوتے ہیں جن میں شرعی احکام یعنی ہیں میں یعنی اوامر و نواہی نہیں ہوتے.ان الہامات کو مبشرات کہا گیا ہے.ان پر نبوت کا اطلاق نہیں ہوتا یہ بات آپ نے حضرت محی الدین ابن عربی اور امام شعرانی کے عقیدے کے طور پر بیان کی ہے.مگر یہ بزرگوار تو اس وحی کے حاملین کو نبی الاولیاء کہتے ہیں اور اس نبوت کو غیر تشریعی نبوت قرار دیتے ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے اس پر نبوة الولایتہ کا اطلاق جائز رکھا ہے.ہاں خالی نبوت کا اطلاق جائز نہیں رکھا.کیونکہ اس سے تفسیر کبھی موت کے دعوی کا شبہ ہوتا ہے.پس نبی کا اطلاق تو ان لوگوں کے لئے جائز ہے مگر اولیاء کے لفظ کی طرف مضاف کر کے یعنی وہ ایسے لوگوں کو خالی نبی نہیں بلکہ نبی الاولیاء کہتے سلام کو بھی نہ دل کے بعد یہ دونوں بزرگ ہیں.علیہ

Page 35

۳۵ انی انا ولسیار صاحب بوست مطلقہ تسلیم کرتے ہیں.چنانچہ " فتوحات یکیہ" هنر" له قیت والجواہر کا دونوں میں اس کے متعلق قبل ازیں تھیں اور بھارت دیئے جاچکے ہیں کہ وہ مسیح موعود کا ایسے ویلی کی صورت میں تزول مانتے ہیں جو صاحب نبوت مطلقہ ہو گا.فتوحات مکیہ میں ہی حضرت محی الدین این عربی بعد از نزول عیسی کو بلاشک نبی بھی قرار دیتے ہیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں :.فالتشريع امر عارض يكون عيسى يمنلوك فينا عما من غير تشريع وهو نبی بلا شادی و فتوحات کی جلد من كيلد اصنا یعنی شریعت کا نہ تو نبوت پر ایک بھارض حقیقت یعنی زائد بات ہے.لانا کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام ہم میں بغیر شریعیت کے نازل ہوں گے علیمران اور وہ بلا شک نبی ہوں گے.پس وہ غیر تشریعی نبی ہوئے اور بیچ میں نبی ہوئے اور سبورت مطلق کے حامل ہوئے.ہم لوگ بھی حضرت مسیح موعود کو اسی قسم کا نبی مانتے ہیں نہر کو کے تشریعی یا مستقل نبی او میں حضرت عیسی علیہ السلام کو حضر ہے ابن عربی علیہ الرحمہ نے بلا شک نہی بھی قرار دیا ہے اور نبی الاولیاء یہ میوات مطلقہ بھی.اسی طرح امام مشرانی بھی انہیں نبی بہ نبوت مطلقہ قرار دیتے ہیں.لہذا ان بزرگوں کے نزدیک حضرت ملے علیہ السلام کو نبوت الولایت انبیا ر 2 الی حاصل ہو گی کیونکہ نبوت، مطلقہ کے حامل گی.کا بھی نہی ہوتے ہیں.غیر نبی ہوتے ہیں.ہیں ہمارا مولوی با حسین صاحب سے اختارا، صرف بیچ سو خود کی

Page 36

poxy شخصیت کے بارے میں رہ گیا.کہ وہ خود حضرت عیسی علیہ السلام ہیں.یا اُن کا کوئی مثیل.ورنہ ہم اور وہ دونوں مسیح موعود کو غیر تشریعی نبی مانتے ہیں.محض ولی نہیں سمجھتے.ویسے ہر نبی بدرجہ اولی ولی ہوتا ہے.مولوی لال حسین صاحب نے الیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحہ ۳۷ کا یہ حوالہ بھی نقل کیا ہے :- " اس عقیدہ پر امت کا اجماع ہے کہ حضرت نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم خاتم المرسلین ہیں جس طرح خاتم النبيين " ہم اس اجماع کو بھی درست مانتے ہیں.لیکن اس اجماع کے باوجود مسیح موعود کا نبی اور رسول ہونا بھو جب احادیث نبویہ علمائے امت کو مسلم رہا ہے.علماء کا میسج موعود کے نبی نہ ہونے پر کبھی اجماع نہیں ہوا، اور مسیح موعود کا نبی اللہ ہونا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین اور خاتم المرسلین ہونے کے منافی نہیں.کیونکہ ان بزرگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریعی انجنیا اور تشریعی رسولوں میں سے آخری نبی اور آخری رسول قرار دیا ہے اور بموجب حديث لم يبق من النبوة إلا المبشرات مبشرات والی نبوت کو راہو اُن کے نزدیک غیر تشریعی نبوت ہے ( منقطع قرار نہیں دیا.اور مسیح موعود کو اسی بناء پر نبی الاولیاء یہ نبوت مطلقہ قرار دیا جا سکتا ہے.امپھر امام عبد الوہاب شعرانی علیہ الرحمة خاتم النبین پر اجماع مانتے ہوئے ہی لکھ رہے ہیں کہ اعل مان مُطلَقُ النُّبوة لم ترفع که جان نوا که مطلق نبوت نہیں اُٹھی.پھر وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے خاتم المرسلین

Page 37

ہونے پر اجماع کے قائم ہونے کے باوجود آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی امت میں رسولوں کا آنا بھی ضروری قرار دیتے ہیں.چنانچہ تحریر فرماتے ہیں :- فَلا تخلو الاَرْضُ مِنْ رَسُولٍ حَيَّ بِحِسْمِهِ إِذْ هُوَ قُطب الْعَالَمِ الإِنسَانِي وَلَوْ كَانُوا أَلْفَ رَسُوْلِ فَإِنَّ الْمَقْصُود مِنْ هُوَ لَاءِ هُوَ الْوَاحِدُ " (الیواقیت والجوابر بحث ۴۵ صنت جلد ۲ ) یعنی زمین کبھی مجسم زندہ رسول سے خالی نہ رہے گی خواہ ایسے ہیول شمار میں ہزار ہوں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عالیم انسانی.کے قطب ہیں.اور ان رسولوں سے مقصود خود آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ہی واحد شخصیت ہے ریعنی یہ رسول آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا ہی ہیروز اور فل ہوں گے.پھر آگے لکھتے ہیں :- تمَازَالَ الْمُرْسَلُونَ وَلَا يَنَالُونَ فِي هَذِهِ الدَّابِ لعين من بالطريةِ شَرْعِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلكِنَّ الثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ " یعنی پہلے بھی مرسلین دُنیا میں رہے اور آئندہ بھی اس دُنیا میں رہینگے لیکن یہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی باطنیت سے ہوں گے.ریعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعیت کی پیروی سے مُرسل بنیں گے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت و شریعت محمدیہ کی باطنیت کی حقیقت سے واقف نہیں تو الیواقیت والجواهر جلد ۲ صفحه ، و بحث ۴۵)

Page 38

دیکھا آپ نے امام عبد الوہاب شعرانی علیہ الرحمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم المرسلین ہونے پر اجماع کے قائل ہو کر بھی آپ کے قدمین شریعت سے مرسلین کے امت محمدیہ میں ہونے کے قائل ہیں.پس ان کے نزدیک خاتم المسلمین پر خاتم النیتین کی طرح اجماع سے مراد یہی ہے کہ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اب کوئی مستقل رسول اور مستقل نبی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا.ہاں نبوت مطلقہ کا ملنا اور مرسلین کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے آنا منقطع نہیں ہوا.فافهم وتدبره را عارف بانی حضرت عبدالکریم جیلانی عبدالرحمہ کا قول ہمارے ٹریکٹ میں حضرت عارف ربانی سید عبد الکریم جیلانی علیہ الرحمتہ کا یہ قول درج کیا گیا تھا :- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت تشریعی نیند ہو گئی اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم خاتم النبیستین قرار پائے.کیونکہ آپ ایک ایسی کامل شریعت لے آئے جو اور کوئی نبی نہ لایا ".والانسان الكامل جلد ا عشه مطهر مصر) مولوی لال حسین صاحب اس کے جواب میں لکھتے ہیں.ا ا حضرت سید عبدالکریم جیلانی کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ نبی وہ ہوتا ہے جس پر وحی تشریعی نازل ہو.اور وحی تشریعی حضور رسالی کے صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی پر نازل نہ ہوگی.انہوں نے کہیں

Page 39

نہیں لکھا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد امت میں نبی مبعوث ہوں گے.مرزائیوں میں ہمت ہے vi لوان لی عبارت پیش کریں.لیکن تمام امت مرزائیہ دمِ واپسین تک عبارت پیش نہ کر سکے گی " - مولوی لال حسین صاحب ب کوئی دلیل نہ ہو.وہ محض جھوٹی تحریوں اور تعلیوں سے کا جملا غالباً انہوں نے کتاب " الانسان الكامل “ کا مطالعہ نہیں فرمایا.ورنہ انہیں معلوم ہوتا کہ حضر 6 " عبد الکریم جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کو الإنسان الكامل “ میں حدیث نبوی واشَوقَاهُ إِلَى اِخْوَانِي الَّذِينَ يَأْتُونَ مِن ی کی تشریح میں بھی مریم سے علیہ وسلم کے ان اخوال کے ان اخوان کے بارے میں جو آئیندہ آنے والے تھے صاف بـ نَهْرُ لَا فَانْبِيَاءِ الْأَوْلِيَاءِ يُرِي بِذلِكَ انْقَطَعَتْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ یعنی یہ اخوان انبیاء الاولیاء ہیں نبوت القريب والاعلام والحكم الالهى مراد ر یعنی وہ نبوت غرب الہی کا درجہ ہے جس میں اخبار کیہ ہے ہوتا ہے.ناقل ) یہ کہ تشریعی نبوت علیہ وسلم کے بعد منقطع ہوگئی اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ نبوة الوا سے کہ نبوة الولایت کا دیر ں کا اظہار ہوت یہ وسلم

Page 40

کے بعد کھلا ہے.اسے وہ نبوت القرب والاعلام والحکم الا لہی بھی قرار دیتے ہیں اور تشریعی نبوت کو بند مانتے ہیں.پھر لکھتے ہیں :.إن كثيرا من الانماء نُبُوَّتُهُ نَبُوةُ الوِلَايَةِ كَالْخَفَيرِ فِي بعض الأقوالِ وَكَعِيسَى إِذَا نَزَلَ إِلَى الدُّنْيَا فَإِنَّهُ لَا يَكُونُ لم بدةُ التَّشْرِيمِ وَكَثِيرِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ " د الانسان الکامل جلد ۲ ص ) یعنی بہت سے انبیاء کی نبوت بھی نبوت الولایت ہی تھی.جیسا کہ حضرت خضر علیہ السّلام کی نبوت بعض اقوال میں اور جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت جب وہ دنیا میں نازل ہوں گے تو ان کی نبوت تشریعی نہیں ہوگی اور اسی طرح بہت سے انبیاء بنی اسرائیل کا حال ہے.پھر وہ نبی الاولیاء کے متعلق لکھتے ہیں بل كُل نَبِي وَلَايَةٍ أَفْضَلُ مِنَ الْوَلِي مُطْلَقًا وَ مِنْ ثَمَّ قيل بداية النبيِّ نِهَايَةُ الوَلِي فَافُهُمْ وَتَأَمَلَهُ فانتَهُ قَدْ خَفَى عَلَى كَثِيرِ مِنْ أَهْلِ مِثْتِنَا " د الانسان الكامل مدة یعنی ہر نبی ولایت مطلق ولی (محض ولی) سے افضل ہوتا ہے.اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ نبی کا آغاز ولی کی انتہا ہے.پس اس نکتہ کو سمجھ لو 3

Page 41

اور اس میں غور کرو کیونکہ یہ ہمارے بہت سے اہل ملت پر مخفی رہا ہے.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کا قول ہمارے پمفلٹ میں شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کا یہ قول نقل کیا گیا تھا.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اب کوئی ایسا شخص نہیں ہوگا.جیسے اللہ تعالے لوگوں کے لئے شریعت دے کر مامور کرے " جناب مولوی لال حسین صاحب اس قول کو بھی بہتان قرار دیتے ہیں.اس لئے اب ہم حضرت ولی اللہ شاہ صاحب کے عربی الفاظ نقل کر دینا کافی سمجھتے ہیں تا پبلک اندازہ لگا سکے کہ ہماری طرف سے شاہ ولی اللہ صاحب پر بہتان باندھا گیا ہے یا اس عبارت کو بہتان قرار دینے میں مولوی لال حسین صاحب جھوٹ بول رہے ہیں.حضرت شاہ صاحب کی عربی عبارت جس کا ترجمہ دیا گیا تھا ، یوں ہے :- خُتِمَ بِهِ النَّبِيُّونَ أَن لا يُوجد مَن يَأْمُرُهُ اللهُ سُبْحَانَهُ بِالتَّشْرِيعِ عَلَى النَّاسِ " (تفہیمات الہیہ جلد ۲ م ) ناظرین کرام میں سے جو عربی دان نہ ہوں وہ اس کا لفظی ترجمہ کسی عربی دان سے کرا کر دیکھیں تو اُن پر واضح ہو جائے گا کہ ہم نے حضرت شاہ صاحب پر کوئی بہتان نہیں باندھا بلکہ اسے بہتان کہنا خود بہتان ہے.

Page 42

۲۲ اب مزید سنئے.شاہ صاحب موصوف اپنی کتاب الخير الكثير صفحه میں تحریر فرماتے ہیں : امنح أن يكون بَعْدَهُ نَبِي ، نقل بالشليه کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد مستقل با تلقی نبی ہونے کا امتناع ہوا ہے.اور یہی حضرت پانی سلسلہ احمدیہ کا مذہب ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی مستقل نبی ظاہر نہیں ہو سکتا.پھر حضر شاہ صاحب علیہ رحمۃ المستوى شرح الموطا امام مالک میں لکھتے ہیں: لان النبوة يتجن جَزَّى وَجُزْءٌ مِنْهَا بَاقٍ يَحْسَخَاتَمَ الأَنْبِيَا الميسونی جلد ۲ صفحه ۲۱۶ مطبوعہ دہلی).یعنی نبوت قابل تقسیم ہے اور نبوت کی ایک جز ( یعنی قسم - ناقل) حضرت خاتم الانبیاء کے بعد باقی ہے اور مسیح موعود کے متعلق اُن کا مذہب یہ ہے کہ وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا کامل مظہر ہوگا محض اتنی نہیں ہوگا دگو وہ حضرت علیہ السلام کے اصالتا نزول کے ہی قائل تھے کیونکہ ان پر یہ حقیقت نہیں کھلی تھی کہ مسیح موعود اممت محمدیہ کا ہی کوئی فرد ہوگا جو ان سے اللہ علیہ وسلم کا بروز ہو گا ) آپ لکھتے ہیں :- يَنْعَمُ الْعَلَمَةُ اَنَّهُ إِذَا نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ كَانَ وَاحِدًا مِنَ الأُمَّةِ كَلَّا بَلْ هُوَ شَرْحُ لِلإِسْمِ الجَامِع -

Page 43

الْمُحَمَّدِهِ وَيُسْمَةٌ مُنتَجَةٌ مِنْهُ فَشَتَان بَيْنَهُ وَبَيْنَ الله من الأمة الظاهر الخير الكثير صك طبع بجنور مدینہ پرلیس) یعنی عوام یہ گمان کرتے ہیں کہ مسیح موعود جب زمین کی طرف نازل ہوگا تو ریس کی حیثیت محض ایک امتی کی ہوگی.ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اہم جامع مموری کی پوری تشریح اور دوسرا نسخہ ہوگا.کہاں اس کا مقام اور کہاں محض امتی کا مقام ؟ دونوں میں عظیم الشان فرق ہے.پس جس نبوت کے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ختم ہو جانے کانی کر حضرت شاہ صاحب نے حجتہ اللہ البالغہ جلد ؟ میں کیا ہے وہ تشریعی اور مستقلہ نبوت ہی ہے نہ کہ غیر تشریعی غیر مستقله نبوت بغیر تشریعی نبوت کو تو آپ نے نبوت کی ایک جزء قرار دے کر باقی قرار دیا ہے اور مسیح موعود کو نبی تسلیم کیا ہے اور اُسے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا کامل مظہر ٹھہرا کہ عام امتی کے مقام سے اس کا مقام بلند قرار دیا ہے.درمیانی زمانہ کے جن دعا جلہ کے دعوی نبوت کا ذکر حضرت شاہ صاحب نے کیا ہے.مسیح موعود کی شخصیت اُن سے الگ قرار دی ہے.پس تنضیمات الہیہ جلد ۲ صفحہ ۱۹۸ کا حوالہ جو دھا جلہ کے ذکر پر مشتمل ہے.اس کا پیش کرنا مولوی لال حسین صاحب کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.

Page 44

حضرت مجدد الف ثانی عبد الرحمن کا قول ہمارے پمفلٹ میں لکھا گیا تھا کہ معہد و العب ثانی فرماتے ہیں :- "خاتم الرئيل عليه الصلوة والسلام کے مبعوث ہونے کے بعد خاص متبعین آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو بطور وراثت کمالات نبوت کا حاصل ہونا آپ کے خاتم الرسل ہونے کے منافی نہیں.یہ بات درست ہے.اس میں شک مت کرو و مکتوب انه صفحه سوم مكتوب امام ربانی علیه الرحمه) کمالات نبوت میں مولوی لال حسین صاحب کے نزدیک نبوت شامل نہیں.(حالانکہ نبوت بھی نبی کا ایک کمالی ہے ، اس لئے مولوی لال حسین صاحب مکتوب ۲۲ حصہ پنجم ۱۲۳ کی ایک عبارت کو اس سے جوڑ کر لکھتے ہیں :- " مرزائیوں کو کون سمجھائے کہ حضرت مجدد علیہ الرحمہ کے استاد کے پیش نظر حساب میں آسانی ، معمولی لغزشوں کی معافی ، درجات کی بلندی ، ملائکہ سے ملاقات اور کثرت ظہور خوارق ایسے کمالات نبوت حضور علیہ السلام کے وسیلہ محمدیہ کے برگزیدہ افراد کو عطا کئے جاتے ہیں.یہ چند فضائل ہو کمالات اجزائے نبوت ہیں.اور چند کیلات موت کے حصول کی سے نبوت نہیں مل جاتی.شجاعت - سخاوت وغیرہ صفات بھی کمالات نبوت ہیں.کیا ہر شجاع اور ہر سمتی نبی بھی جاتا ہے؟"

Page 45

۴۵ مولوی لال حسین صاحب کی یہ تشریح ناقص ہے.کیونکہ مھر صاحب تو اس جگہ فرماتے ہیں.ارتفاع درجات و مراعات صحبت فرشته مرسل که از اکل و شرب پاک است و کثرت ظهور خوارق که مناسب مقام نبوت اند و امثال آن " کہ ایسے لوگوں کے درجات بلند ہوتے ہیں.انہیں فرشتہ مرسل کی صحبت میسر آتی ہے جو کھانے پینے سے پاک ہیں.اور کثرت سے خوارق (معجزات) کا ظہور ہوتا ہے جو نبوت کے مقام کے مناسب ہیں دیکھئے مولوی لال حسین صاحب ! آپ کی پیش کر وہ عبارت ہی بتا رہی ہے کہ ایسے برگزیدوں کو فرشتہ مرسل کی صحبت بھی میسر آتی ہے اور انہیں نبوت کے مقام کے مناسب معجزات بھی دیئے جاتے ہیں.اگر مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نبوت کا مقام ندیل سکتا ہوتا تو مقام نبوت کے مطابق معجزات ملنے کا وہ کیسے ذکر فرماتے.لیکن دوسرے کمالات نبوت کے ذکر میں وہ مقام نبوت کے پانے کی بھی امید دلا رہے ہیں.وهذا هو المرام بے شک یہ بزرگ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو آدم سے شروع ہونے والے انبیاء کا اختر قرار دیتے ہیں، مگر غور تو کیجئے آدم علیہ السلام سے نبوت تشریعیہ اور مستقلد شروع ہوئی تھی.لہذا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم تشریعی اور مستقل انبیاء کا آخری فرد ہوئے.اور مقام نبوت اب آپ کی پیروی کے بعد آپ کے توسط سے ہی مل سکتا ہے نہ کہ براہ راست اور مستقل طور پر.

Page 46

نواب صدیق حسن خانصاحب کا قول ہمارے پمفلٹ میں حدیث لانبی بعدی کی تشریح میں نواب صدیق حسن خانصاحب کا یہ قول پیش کیا گیا تھا :- " لا نبی بعدی آیا ہے جس کے معنے نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شری ناسخ دیعنی پہلی شریعت منسوخ کر کے نئی شریعت لے کر نہیں آئے گا (اقتراب الساعۃ ص۲) مولوی لال حسین صاحب لکھتے ہیں.حضرت نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق انتہام ہے.کہ وہ حضور نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے بعد ا جوائے نبوت کے قائل ہیں.ان کی کسی کتاب میں اس خلاصہ اسلام نظریہ کا شائبہ تک نہیں.لا نبی بعدی کے مفہوم میں کوئی نبی شرع ناسخ لے کر نہیں آئیگا اس لئے کہا گیا کہ مسیح علیہ السلام بعد از ترول علی شریعت لاگر شریعت اسلامیہ کو منسوخ نہ کریں گئے بلکہ خود اسی شریعت کی متابعت کریں گے الجواب ہمارے پمفلٹ میں کہاں لکھا ہے کہ نواب صاحب موصوف اجرائے نبوت کے قائل ہیں ؟ اس میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ حدیث لا نبی بعدی سے علماء کے نزدیک آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی شریعیت بعدیدہ نے کرنا نہیں آئے گا.یہ قول در اصل حضرت اللہ علی القاری

Page 47

کے ایک قول کا ترجمہ ہے.ان معنوں سے یہ ظاہر ہوا کہ حدیث لا نبی بعدی غیر تشریعی نبی کے آنے میں نافع نہیں.اور یہ بات مولوی لال حسین صاحب اپنے ٹریکٹ میں جیسا کہ پہلے بیان ہوا.خود مان چکے ہیں.گو وہ اسے جزء نبوت قرار دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ نبوت نہیں.اگر اقتراب الساعۃ میں حدیث لا نبی بعدی کی یہ تشریح بقول مولوی لال حسین صاحب حضرت عیسی نبی اللہ کی آمد کے پیش نظر ہے کہ وہ نئی شریعت لا کر شریعت اسلامیہ کو منسوخ نہ کریں گے.خود اسی شریعت کی متابعت کریں گے تو ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود ہیں اور نبی اللہ ہیں.اور شریعت محمدیہ کے تابع ہیں.تشریعی نبی نہیں کہ شریعت اسلامیہ کا کوئی حکم منسوخ کریں.ہمارا اختلاف خواب صاحب وغیرہ سے صرف مسیح موعود کی شخصیت ہیں ہوا نہ کہ مسیح موعود کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع نبی اور غیر تشریعی امتی نبی ہوتے ہیں.اصولی طور پر تو مسیح موعود کی نبوت ہم دونوں میں مسلم ہوئی.کیونکہ ایسی نبوت اہل علم کے نزدیک لانبی بعدی کی حدیث کے منافی نہیں.مولوی عبد الحی صاد لکھنوی کا قول ہمارے پمفلٹ میں مولانا عبد الحی صاحب کا قول ان الفاظ میں پیش کیا گیا تھا.بعد آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے با زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرد کسی نبی کا آنا محال نہیں بلکہ نئی شریعیت والا البتہ منع ہے " دافع الوسواس فی اثر ابن عباس نیا ایڈیشن صلا )

Page 48

مولوی لال حسین صاحب اشتر جواب میں لکھتے ہیں : سے نزول عیسی علیہ السلام کے پیش نظر فرمایا ہے.حضرت مسیح حضور علیہ السلام کے بعد نازل ہوں گے.کوئی نئی شریعت نہ لائیں گے حضور ہی کی شریعت پر عمل پیرا ہوں گے" الجواب.ہم بھی تو مسیح موعود علیہ اسلام کی نبوت کے ثبوت میں ہی ان کا یہ قول پیش کر رہے ہیں.میں ان کے نزدیک خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسیح موعود کا غیر تشریعی نبی کی صورت میں آنا ہمیں اور آپ کو مسلم ہوا.اور سیح موعود تبھی غیر تشریعی نبی کی صورت میں آسکتے ہیں جبکہ بعد آنحضرت ایسے نبی کے آنے کا امتناع نہ ہو.پس جس نبوت کا ادعا ان کے نزدیک کفر ہے جس کا ذکر مولوی لال حسین صاحب نے فتوی مولانا عبدالھی لکھنوی جلد صفحہ 99 کے حوالہ سے کیا ہے اس سے مراد ان کی تشریعی نبوت کا ادعا ہی ہوا.نہ کہ غیر تشریعی نبوت کا.حضرت مولانا عبد الحی لکھنوی کی ایک اور عبارت بھی مذکورہ بالا حوالہ کی تائید میں پیش خدمت ہے.آپ " دافع الوسواس فی اثر ابن عباس " میں لکھتے ہیں :- در علماء اہل سنت بھی اس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ آنحضرت کے عصر میں کوئی نبی صاحب شرع جدید نہیں ہو سکتا.اور نبوت آپ کی تمام مکلفین کو شامل ہے اور جو نبی آپ کے ہمعصر ہوگا.وہ متبع شریعت محمہ ہوگا " دافع الوسواس مدل نیا ایڈیشن وتحذیر الناس) }

Page 49

۴۹ حضرت مولانا محمد ا تم ما بانی مدرسه اون کا قول ہمارہ سے پمفلٹ میں مولانا محمد قاسم صاحب کے دو قول پیش کئے گئے تھے :- ا سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ مسلے اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بایں معنیٰ ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں.مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم اور تاخیر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں.پھر مقام مدت میں ولیکن رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ الNAKANNA فرمانا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے" سچ ) تحذیر الناس عد ۳ ) اگر بالفرضن بعد زمانہ نیوی سلے اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا " تجديد الناس مش ) مولوی لال حسین صاحب نے دشنام طرازی کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ دوسری عبادت کا تعلق خاتمیت ذاتی سے ہے نہ کہ خاتمیت زمانی سے.اور مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بموجب حدیث لا نبی بعدی وغیرہ خاتمیت زمانی کے قائل ہیں.اور اس کے منکر کو کا فرقرار دیتے ہیں.اور مناظرو مجیبہ" میں لکھتے ہیں :- اپنا دین و ایمان ہے.بعد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں.جو اس میں تامل کرنے اس کو کافر سمجھتا ہوں "

Page 50

۵۰ الجواب : مولانا محمد قاسم صاحب کی تحذیر الناس صفحہ ۳ کی عبارت اس بات کو وضاحت سے پیش کر رہی ہے کہ خاتم النبیین کے معنی زمانہ کے لحاظ سے آخری نہ عوام کے معنی ہیں نہ کہ اہل فہم کے.اور عوام کے معنوں سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر کوئی فضیلت ذاتی ثابت نہیں ہوتی.دوسری عبارت خاتمیت محمدی سے متعلق ہے جو خاتمیت ذاتی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے.پس بالفرض نبی کا آنا نہ ان کے نزدیک خاتمیت ذاتی کے سانی ہے نہ خاصیت زمانی کے خاتمیت زمانی کا علماء کے نزدیک مفہوم یہی رہا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی مشروع بعدید نہیں لا سکتا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت ذاتی خود اس بات کو مستلزم ہے کہ آپ کو کے بعد کوئی نئی شریعت نہ آئے کیونکہ آپ کے ذریعہ شریعت کی تکمیل ہو گئی ہے ہیں اب کسی نئی شریعت کا آنا خاتمیت ذاتی کے منافی ہوا.ان معنوں میں خاتمیت دانی خانیت زمانی کو مستلزم ہوئی.حضرت امام علی القاری رحمتہ اللہ علیہ دین ات کے بعد ہی کی تشریح میں جس سے مولانا محمد قاسم صاحب نے معا نمیت زمانی کا استنباط فرمایا ہے.لکھتے ہیں.د لا نبيَّ بَعْدِى مَعْنَاهُ عِنْدَ الْعُلَمَاءِ لَا يَحْدُتُ بشدة ني بِشَرْعِ يَنْسَ شَرْعَة " (الاشاعة فی اشراط الساق نی لانبی بعدی کی حدیث آئی ہے جس کے معنے علماء کے نزدیک جس کہ کوئی نبی ناسخ شریعت پیدا نہیں ہوگا.میں محمد قاسم صاحب کے نزدیک خاتمیت زمانی علی الاطلاق نہیں بلکہ جس طرح علم اور

Page 51

۵۱ ت کے نزدیک محدود صورت میں تسلیم کی گئی ہے.وہ بھی اسے محدود صورت میں سمجھتے ہیں.چنانچہ خود مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی "مناظرہ عجیبہ" میں بحث ت کرتے ہوئے مولوی عبد العزیز صاحب کو جس نے آپ کو منکر ختم نبوت کہا تھا.لکھتے ہیں : " عرض خاصیت زمانی سے یہ ہے کہ دین محمدی بعد ظہور منسوخ نہ ہو معلوم نبوت اپنی انتہا کو پہنچ جائیں.کسی اور نبی کے دین یا علم کی طرف پھر بنی آدم کو احتیاج باقی نہ رہے“ (منظره عجیبہ منانا) پھر ر پس ان کے نزدیک خاتمیت زمانی کے لحاظ سے وہ مدعی نبوت کا فر ہو گا.جو دین عمودی کو منسوخ قرار دے اور نیا علم لانے کا مدگی ہو.پھر وہ صفحہ ۴۰ پر مولوی عبد العزیز صاحب کو یہ نبی لکھتے ہیں "آپ خاتمیت مرتبی مانتے ہی نہیں (خاتمیت ذاتی کو.ناقل ) خاتمیت زمانی ہی آپ تسلیم کرتے ہیں.خیر اگر بچہ اس میں در پر وہ انکار فضیلت تامه نبوی صلی اللہ علیہ وسلم لازم آتا ہے لیکن خاتمیت زمانی کو آپ اتنا عام نہیں کر سکتے جتنا ہم نے خاتمیت مرتبی کو عام کر دیا تھا صاف ظاہر ہے کہ مولانا محمد قاسم صاحب کے نزدیک خاتمیت ذاتی وسیع مفہوم رکھتی ہے اور خاتمیت زمانی اس کے بالمقابل محدود مفہوم رکھتی ہے.یہ خاتمیت ذاتی یا مرتبی کی طرح وسعت نہیں رکھتی.مولانا محمد قاسم صاحب آنحضرت صلی اللہ ہ علیہ وسلم کو خاتمیت ذاتی کئے لحاظ سے دیوالانبیاء قرار دینے کے بعد آپ کی

Page 52

OK تصدیق کی غرض کو ملحوظ رکھتے ہوئے لکھتے ہیں :- " بعد نزول حضرت میٹی کا آپ کی شریعت پر عمل کرنا اسی بات پر مبنی ہے اور رسول الیہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ارشاد علمت علم الأولِينَ وَالْآخَرِيْنَ بشرط فہم اسی جانب مُشیر ہے تحذیر الناس مت ) پس جب حضرت عیسی نبی اللہ کا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے لئے آنا اُن کے نزدیک خاتمیت زمانی کے بھی منائی نہیں جیسا کہ خاتمیت ذاتی کے منافی نہیں.کیونکہ اُن کی آمد آپ کے نزدیک نئی شریعت اور نئے دین کی حامل نہیں ہوگی.تو اس سے صاف ظاہر ہوا کہ ایسی تابع نبوت جس کے لئے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا اتنی ہونا لازم ہو اور اس طرح وہ نبوت کسی نے علم دین و شریعت جدید کی حامل نہ ہو بلکہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اور تجدید اسلام اصلاح خلق اور اشاعت اسلام اس کی غرض ہو.وہ مولوی محمد قاسم صاحب کے نزدیک خاتمیت زمانی کی غرض کے خلاف نہ ہونے کی وجہ سے آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی خاتیمیہ ، زمانی کے خلاف نہیں.گو وہ عقید تا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد بھر عیسی علیات لام کے کسی اور نبی کی آمد کے قائل نہ ہوں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دعوی بھی تو مسیح موعود کا ہی ہے.پس ہمارا مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی سے عرف مسیح موعود کی شخصیت میں اختلاف ہوا.ورنہ مسیح موعود کو وہ بھی غیر تشریعی نبی مانتے ہیں اور ہم بھی غیر تشریعی نبی مانتے ہیں.پس ہم دونوں کے نزدیک مسیح موائم کی نبوت غیر تشریعی مایع شریعت محمدیہ ہونے کی وجہ سے منائی خاتمیت زمانی نہیں.

Page 53

۵۳ کیونکہ ایسے نہی کے لئے امتی ہونا اور اتنی رہنا لازم ہے.امام علی القاری علیہ الرحمہ کا قول ہمارے ٹرکیٹ میں حضرت امام علی القاری کا قول یوں پیش کیا گیا تھا.اگر صاحبزادہ ابراہیم زندہ رہتے اور نبی ہو جائے اور اسی طرح حضرت عمر نبی بن جاتے تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے متبع یا اتنی نبی ہوتے جیسے عیسی خضر اور الیاس علیہم السلام ہیں.یہ صورت خاتم النبیین کے خلاف نہیں ہے کیونکہ خاتم انبیین کے تو یہ معنے ہیں کہ اب آنحضرت صلے اللہ یہ وسلم کے بعد ایسا ہی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کا اتنی نہ ہو " ( موضوعات کبیر مش ۵۹) یہ عبارت امام علی انصاری نے حدیث کو عاش (ابراهيم الكَانَ سِدَ لِقَا نَبِيًّا (ابن ماجہ میلہ اول صفحه ۲۳۷ کتاب الجنائز ) کی تشریح میں درج کی ہے.اس حدیث پر بحث ہم شروع میں کر آئے ہیں.مولوی لال حسین صاحب اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں.ہم ثابت کر چکے ہیں کہ امام علی القاری اس حدیث کو تین طریقوں سے مروی ہونے کی وجہ سے قوت یافتہ قرار دیتے ہیں بلکہ اُسے جو بھی حدیث لو کان موسی جیا لا و سکه إِلا بائی کے مضمون سے بھی قوت پانے والی قرار دیتے ہیں.اسی لئے انہوں نے اس کی وہ تشریح زمائی ہے جو اُن کے اوپر کے الفاظ میں درج ہے.مولوی لال حسین صاحب اختر لکھتے ہیں.الله حضرت ملا علی قاری رحمتہ المہ علیہ اپنی مندرجہ بالا عبارت کی تشریح کرتے ہیں.

Page 54

۵۴ لا يَحْدُثُ بَعْدَهُ نَبِيٌّ حضور صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو ثبوت لانصات البيين السابقين نہیں مل سکتی کیونکہ آپ پہلے نبیوں کے ختم کرنیوالے النَّبِيِّينَ السَّالِقِينَ وفيه الماء إلى انه لو کان میں.اگر آپ کے بعد کوئی نبی ہو سکتا تو حضرت علی بعد کا نبی الكَانَ عَلى و نبی ہوتے اور یہ حدیث اور اسی طرح وہ حدیث هُوَ لا يُنَانِي مَا وَرَدَ فِي حَقِّ جو صراحت کے ساتھ حضرت عمر کے بارے میں آئی عُمَرَ صَريا - لان الحکم ہے خاتم النبیین کی آیت کے منافی وَكَانَهُ قَالَ لَو نہیں کیونکہ یہ حکم فرضی اور تقدیر ی طور پر تُصُورَ بَعْدِي لَعَانَ ہے.گویا یہ کہا گیا ہے کہ اگر میرے بعد کوئی جَاعَةٌ من اصحابی نبی تصور کیا جا سکتا تو میرے فلاں فلاں صحابی انبياء ولكن لا نبى بعدى نبی ہوتے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں بن وَهُذَا مَعْنى قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ سکتا اور یہی معنے ہے اس حدیث کا کہ اگر عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ عَاش الرام ابراہیم زندہ رہت تو نبی ہو جاتا.م لكان نَبِيًّا.الجواب.یہ عبارت ہماری طرف سے " موضوعات کبیر" سے پیش کردہ عبارت کی تشریح ہرگز نہیں ہے بلکہ مرقاۃ کی اس عبارت میں حدیث لو عاش ابراهیم لَكَانَ صِديقانبیا کی ایک اور رنگ میں توجیہ پیش کی گئی ہے جس کا ذکر خود موضوعات میں بھی موجود ہے.ہم نے جو حوالہ پیش کیا تھا وہ حدیث لو عاش الا کی ایک دوسری توجیہ کے بیان میں ہے.مولوی لال حسین اختر نے اپنی پیش کردہ عربی عبارت میں دو جگہ غلط

Page 55

۵۵ اعر اب بھی دیتے ہیں اور دانستہ ایک جگہ ترجمہ بھی چھوڑ دیا ہے.چنانچہ انہوں نے خیبک انمار کا ترجمہ چھوڑ دیا ہے.یہ انہوں نے نا دانستہ نہیں کیا.کیونکہ اگر وہ اس عبادت کا ترجمہ کرتے ہوئے فیهِ اینکار راس میں اشارہ ہے، کا ترجمہ کردیتے تو پھر ظاہر ہو جاتا کہ یہ عبارت وہ ادھوری پیش کر رہے ہیں.اس لئے پردہ دری کے خون سے انہوں نے فیه ایجاد کا ترجمہ حذف کر دیا.اصل بات یہ ہے کہ فیه ایمائی میں فیه کی ضمیر کا مرجع حدیث الا ترضى يَا عَلَى أَنتَ مِنَى بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا انَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِی کا فقرہ لا نَبِيَّ بَعْدِی ہے.اور امام موصوف اس جیگر مرقاۃ شرح مشکوۃ میں ان لوگوں کی تردید کر رہے ہیں جن کا یہ عقیدہ ہے کہ بعد نزول حضر عیسی علیہ السلام حدیثہ ہذا کے الفاظ لا نبی بعدی کی وجہ سے نبی نہیں ہوں گے بلکہ محض امتی ہوں گے.امام علی القاری اس خیال کی تردید میں فرماتے ہیں : لا منافاة بين ان يكون حضرت معینی کے نبی ہونے اور رسول اللہ صلی اللہ نَبِيَّاد يكون متابعا لنبينا علیہ وسلم کے تابع ہونے میں کوئی منافات نہیں.اس يَكُونَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِی صورت میں کہ وہ آپ کی شریعیت کے احکام بیان کریں بَيَاتِ احکامِ شریعتِه وَالْعانِ اور اس شریعیت کی طریقت کو پختہ کریں.خواہ وہ اپنی طَرِيقَتِهِ وَلَوْ بِالْوَي ولی سے ایسا کریں جیسا کہ اس کی طرف حدیث لو اليومَا يُشيرُ كان مومی الو (اگر موسی زندہ ہوتے تو إلَيْهِ قَوْلُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ انہیں میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ وَسَلَّمَ لَوْ كَانَ مُوسَى، ہوتا اشارہ کر رہی ہے.مراد

Page 56

۵۶ لَمَا وَسِعَهُ إِلَّا انباری یہ ہے کہ موسی و صنعت نبوت و رسالت کے أى مع وضعت الله اي ساتھ زندہ ہوتے ورنہ نبوت و رسالت کے مَعَ وَضَعَتِ والرِّسَالَةِ وَإِلَّا قَمَعَ چھن جانے کے ساتھ ان کا تابع ہونا) آنحضرت سَدِهِ مَا لَا يُفيدُ زِيَادَةَ صل اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کو کوئی فائدہ نہیں دیتا (مرقاة جلده مه ) المزية اس عبارت سے ظاہر ہے امام صاحب موصوف کے نزدیک حدیث لا نسبتی بعدی امتی نبی کے آنے میں مانع نہیں ورنہ ان کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام بھی بعد انہ نزول نہبی نہ ہو سکتے.اُوپر کی عبادت کے بعد وہ عیادت شروع ہوتی ہے جو مولوی لال حسین صاحب نے درج کی ہے.اس کے پہلے فقرہ الا يحدث بعد نبی لانه خاتم النبيين السابقین اسے امام علی القاری یہ بتا رہے ہیں کہ آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی منتقل اور شارع نبی پیدا نہیں کیا جائے گا کیونکہ وسیل اس کی یہ دی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انبیائے سابقین کے خاتم ہیں.مخاتم النبیین کے ساتھ السابقین (کچھیلے) کا لفظ اس بات کے لئے قطعی قرینہ ہے کہ اس جگہ وہ یہ بیان کر رہے ہیں کہ حدیث لا نبی بعدی کی لہو سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نئی شریعت لائیو الا یا مستقل نبی نہیں آسکتا کیونکہ انبیائے سابقین تشریعی یا مستقل نبی تھے.ایک دوسرے مقام پر وہ تصریح سے یہ بیان کرتے ہیں کہ حدیث لا نبی بعدی کے یہ معنے ہیں کہ کوئی ناسخ شریعت نبی پیدا نہیں ہو گا چنانچہ الاشاعتہ فی اشراط الساعۃ میں اُن کا یہ قول یوں درج ہے:.

Page 57

وَرَدَ لانى بَعْدِي وَمَعْنَاهُ عِنْدَ الْعُلَمَاءِ لَا يَحْدُتُ حدَهُ نَبِيٌّ بِشَرْعِ يَنْسَخُهُ " (ص) ترجمه حدیث میں لانبی بعدی آیا ہے اور علماء کے نزدیک اس کے یہ معنے ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی پیدا نہیں ہوگا جو آپ کی شریعت کا ناسخ ہو.اسی کا ترجمہ اقتراب الساعہ" میں یوں درج ہے:." لانبی بعدی آیا ہے جس کے معنے نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی تشریح ناسخ لے کر نہیں آئے گا " (اقتراب الساعه صفحه ۱۶۲) اب ذرا لا نبی بعدی کی حدیث کے یہ معنے ذہن میں رکھئے اور فیسٹ ایمائی سے لے کر آخر تک مولوی لالی حسین کی پیش کردہ مرقاۃ کی عبارت پڑھ جائیے تو صاحت ظاہر ہوگا کہ امام علی القاری علیہ الرحمۃ حضرت علی کے متعلق حدیث کے ايمار وَلَوْ كَانَ بَعْدَم نَبِيُّ لَكَانَ علی اور حضرت عمر کے متعلق صریح حدیث لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِي الكَانَ عُمر میں فرضی حکم قرار دے کر اور تشریعی نبوت مراد لے کہ ایسی نبوت کو لا نبی بعدی کی حدیث کے منافی قرار دے رہے ہیں.اسی طرح حدیث کو عاش اِبرَاهِيمُ لكَانَ مِدِيقًا نَيا میں می رمنی اور تقدیر کی محکم قرار دے کر اور تشریعی نبوت مراد لے کر بنا رہے ہیں.کہ اگر صاحبزادہ ابراہیم نبی ہو جاتے تو وہ شارع نبی ہوتے مگر ایسا نبی ہوتا حدیث ہو لانبی بعدی کے غلات ہے.نہیں اس جگہ لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيم لعان

Page 58

نیا کی تشریح میں نبی سے مراد تشریعی نبی نے کر اُن کے نبی ہو جانے کو متنع قرار دیا گیا ہے.اگر حدیث ہذا میں نبی سے مراد تشریعی نبی لیا بھائے تو ہم بھی مانتے ہیں کہ ان کا اس صورت میں نہی ہو جانا واقعی حدیث لا نبی بعدی کے خلاف ہوتا.یہ توجیہ موضوعات کبیر میں بھی درج ہے مگر ہم نے اپنے پمفلٹ میں اس حدیث کی دوسری توجیہ درج کی تھی جو انہوں نے موضوعات کبیر میں ان الفاظ میں لکھی ہے :- لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ وَصَارَ نَبِيَّا وَ كَذَا لَوْ صَارَ عُمَرُ نَبِيًّا لَكَانَا مِن انباعِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ كَعِيسَى وَخضَرَ وَ الْيَاسَ ( موضوعات کبیر صفحه ۵۸) : اگر ابراہیم زندہ رہتے تو نہی ہو جاتے اور اسی طرح حضرت عمر نبی ہو جاتے تو وہ دو تو آپ کے متبعین میں سے ہوتے جیسا کہ عیسی ، خضر اور الیاس آنحضرت کے متبع سمجھے جاتے ہیں.پھر اس سوال کو ملحوظ رکھ کر کہ اگر یہ نبی ہو جاتے تو آیا ان کا نبی ہو جانا خدا تعالیٰ کے قول خاتم النبیین کے خلاف نہ ہوتا تو اس کا یہ جواب دیا ہے :- فَلَا يناقض قَوْلَهُ تَعَالَى خَاتَمَ النَّبِيِّينَ إِذَ المعنى انه لديات نبي تحدة يُنْسَهُ مِلَّتَهُ وَلَمْ يَكُن مِنْ أُمَّته " لا ( موضوعات کبیر مه) یعنی زندہ رہنے کی صورت میں ان کا نبی ہو جانا خدا کے قول خاتم النبیین کے اس لئے خلاف نہ ہوتا کہ خاتم

Page 59

النبیین کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی اُمت میں سے نہ ہو.پس ملا علی القاری رحمتہ اللہ علیہ کی اس دوسری توجہ کے لحاظ سے حدیث ندا امتی نبی کی آمد کے امکان کے خلاف نہیں کیونکہ اس توجیہہ سے امتی نبی کا آتا نہ آیت خاتم النبیین کے خلاف ہے اور نہ حدیث لانبی بعدی کے کیونکہ یہ آیت اور حدیث ان کے نزدیک صرف تشریعی اور مستقل نبی کی آمد میں مانع ہے امتی نبی کی آمد میں مانع نہیں خواہ امام علی القاری بیج حضرت عیسی علیہ السلام کے کسی امتی نبی کا آنا مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں.حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد ثانی بھی ان کے نزدیک اسی وجہ سے ممکن ہے کہ وہ تابع شریعت محمدیہ ہوں گے نہ کہ شارع اور مستقل بالفعل نہی.پھر مولوی لال حسین صاحب اختر نے امام علی القاری کا ایک قول یوں نقل کیا ہے :- دَعْوَى النُّبُوَّةِ بَعْدَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم كفر بالاجماع " (شرح فقہ اکبر م ) بِالْإِجْمَاعِ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ اجماعی طور پر گھر ہے.حضرت امام علی القاری کے اس قول میں اوپر کے اقوال کی روشنی میں دعوی نبوت تشریعہ و مستقلہ ہی مراد ہے اور ایسا دعویٰ یقینا کفر ہے.اسی تران در زد

Page 60

ئے حضرت عیسی علیہ السّلام کو بعد از نزول وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا تابع امتی نبی مانتے ہیں.پس اس قول میں علی الاطلاق دعوی نبوت کو کفر با جماع امت قرار نہیں دیا جاسکتا.کیونکہ امت کی اکثریت مسیح موعود کے نبی اللہ ہونے پر یقین رکھتی ہے.اور حدیث سيكون في أُمَّتِى كُنَّ ابُونَ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ يَوْعَمُ انه نَبِيُّ وَأَنَا خَاتَمُ اللَّبِينَ لا نبی بعدی میں ان علماء کی تشریح کے لحاظ سے ایسے دعوی نبوت کو نہی آیت خاتم النبیین اور حدیث لا نبی بعدی کے خلاف قرار دیا گیا ہے.جو تشریعی یا مستقلہ نبوت کا دعوی ہو.اس حدیث میں تعالی نبی کا دعوی کرنے والوں کو کذاب دقال قرار دیا گیا ہے نہ کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے تابع امتی نبوت کا جھوٹی کرنے والوں کو.اور یہ حقیقت ہے کہ جتنے اقبال کذاب مدعی نبوت انت میں گزرے ہیں ان میں سے کسی نے بھی امتی نبوت کا دعوی نہیں کیا لیکن مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ کیونکہ امتی نبوت کا ہے.اور ساری امت مسیح موعود کو امتی نبی مانتی آئی ہے.اس لئے یہ دعوی اس حدیث کے خلاف نہیں.اللهم احهِ قَوْمى فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام باقی جماعت احمدیہ نہاتے ہیں " یہ کہنا کہ نبوت کا دعویٰ کیا ہے کس قدر جہالت کسی قدر حماقت اور کس قدر حق سے خروج ہے.اے نادانو !

Page 61

41 میری مراد نبوت سے یہ نہیں ہے کہ میں نعوذ باللہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوت کا دعوی کرتا ہوں یا کوئی شریعت لایا ہوں.صرف مراد میری نبوت سے کثرت مکالمت و مخاطبت الہیہ ہے.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہے.سو مکالمہ مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں.پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی.یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ مخاطبہ رکھتے ہیں میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکیم الہی نبوت رکھتا ہوں.وَلِكُلِّ أَن يَصْطَلِحَ " (تتمہ حقیقة الوحی صنت ) علامه مسکیم صوفی محمد حسین صاحب مصنى غاية البريمان تحریر فرماتے ہیں : " الغرض اصطلاح میں نبوت خصوصیت الہیہ شہر دینے سے عبادت ہے.وہ دو قسم پر ہے.ایک نبوت تشریعی جو ختم ہو گئی.دوسری نبوت بمعنی خبر دادن ہے.وہ غیر انامل ہے ہیں اس کو مبشرات کہتے ہیں.اپنے اقسام کے ساتھ اس میں رویا بھی ہیں." کواکب الدریہ صفحہ ۳۰ - ۱۳۸) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعوت نبوت مبشرات والی غیر تشریعی امتی نبوت کا ہی ہے نہ کہ تشریعی یا ستغللہ نبوت کا.اور مسیح موعود کو اُمت محمدیہ اور خود مولوی لال حسین صاحب

Page 62

نبی اللہ مانتے ہیں.پس اب ہم میں اور مولوی لال حسین صاحب کے دا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک امتی نبی کی آمدہ پر اتفاق ثابت ہوا.اور اختلاف صرف شخصیت کی تعیین میں ہوا.اگر وفات میسج کا مسئلہ قرآن و حدیث سے حل ہو جائے تو تمام نزاع دُور ہو جاتا ہے کہ امت محمدیہ کے مسیح موعود نبی اللہ حضرت عیسی علیہ السلام ہیں یا امت محمدیہ کا کوئی فرد ہے جو امتی نبی ہونے والا تھا ایسے بطور استفادہ عیسی ابن مریم کا نام دیا گیا ہے.اللہ تعالے لوگوں کو سوچنے اور غور کرنے کا موقعہ دے اور اپنے فصل سے ان کی رہنمائی فرمائے.اللہم آمین.فیصلہ کن حدیث قدسی قدسی امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ اپنی کتاب کفایہ اللبيب في خصائص الحبيب المعروف بالخصائص الکبری میں ایک حدیث قدسی لائے ہیں جو اس بات میں فیصلہ کن ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی امت میں نبی ہوگا.حدیث ہذا یوں یوں وارد ہے :- وَاَخْرَجَ ابْوْنَعِيمٍ فِي الْحِلْيَةِ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ أوحى الله إلى مُوسى نَبِيَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنَّهُ مَنْ لَقِيَنِي وَهُوَ جَاهِدٌ بِأَحْمَدَ ادْخَلْتُهُ النَّارَ قَالَ يَا رَبِّ وَمَنْ اَحْمَدُ قال ما خَلَقْتُ خَلَقَا الرَمَ عَلَى مِنْهُ كَتَبْتُ اِسْمَهُ مَعَ اسْمِي فِي الْعَرْشِ قَبْلَ أَن يَخْلُقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ إِنَّ الْجَنَّةُ مُحَرَّمَةٌ عَلَى جَمِيْهِ خَلِي حَتَّى يَدْخُلَهَا وَامَتُهُ قَالَ وَمَنْ أُمِّتُهُ - قَالَ -

Page 63

الْحَمَّادُونَ يَحْمِدُونَ صَعُودًا وَهَبُوطًا وَ عَلَى كُلِّ حَالٍ يَسدُّونَ السَاطَهُمْ وَيُطَهَرُونَ أَطْرَا فَهُمْ صَائِمُونَ بِالنَّهَارِ رُهْبَانَ بِاللَّيْلِ اقْبَلُ مِنْهُمُ الْبَسِيرَ وَادْخُلُهُمُ الْجَنَّةَ - بشَهَادَةِ أن لا إله إلا الله: قَالَ اجْعَلْنِى نَبِى تِلك الأمةِ قَالَ نَبيُّهَا مِنْهَا قَالَ اجْعَلْنِي مِنْ أُمَّةٍ ذَلِكَ النَّبِيِّ قَالَ اسْتَخدَمْتَ وَاسْتَأْخَرَ وَلَكِنْ سَلَيْمَةُ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ فِي دَارِ الْجَلَالِ والخصائص الكبرى جلد اول صلا مطبوعہ دائرة الدنیا حیدر آباد دکن) ترجمه : ابونعیم نے اپنی کتاب علیہ میں حضرت انس سے تخریج کی ہے.حضرت انس نے کہا کہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ندا نے بنی اسرائیل کے نبی موسی کو وحی کی کہ جو شخص مجھ کو ایسی حالت میں ملے گا کہ وہ احمد (صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہوگا تو میں اس کو دوزخ میں داخل کروں گا خواہ کوئی ہو.موسی علیہ السلام نے عرض کیا.احمد کون ہیں ؟ ارشاد ہوا.میں نے کوئی مخلوق ایسی پیدا نہیں کی جو اُن (احمد) سے زیادہ میرے نزدیک مکرم ہو.میں نے عرش پر اس کا نام اپنے نام کے ساتھ زمین و آسمان کے پیدا کرنے سے بھی پہلے لکھا ہے.بیشک جنت میری تمام مخلوق پر حرام ہے جب تک وہ نبی اور اُن کی امت جنت میں داخل نہ ہوں.موسی علیہ السلام نے کہا.آپ کی امت کون لوگ ہیں ؟ ارشاد

Page 64

باری ہوا.وہ بہت حمد کرنے والے ہیں.پڑھائی اور اُترائی میں محمد کریں گے.اپنی کمریں باندھیں گے اور اپنے اطراف (اعضاء) پاک رکھیں گے.دن کو روزہ رکھیں گے اور رات کو تار کب دُنیا.میں اُن کا تھوڑا عمل بھی قبول کروں گا، اور انہیں کلمہ لا الہ الا اللہ کی شہادت سے جنت میں داخل کروں گا.موسی علیہ السلام نے کہا مجھ کو اُس اُمت کا نبی بنا دیجئے.ارشاد ہوا.اس اُمت کا نبی اس امت میں سے ہوگا.عرض کیا مجھ کو اُن (احمد) کی است میں سے بنا دیجئے.ارشاد ہوا.تم پہلے ہو گئے وہ پیچھے ہوں گے.البتہ تم کو اور ان کو دارالجلال (جنت) میں جمع کر دوں گا ہے اس عدمیت کی رو سے حضرت عیسی علیہ السلام بھی اصالتا حضرت موسی علی السلام کی طرح اس امت میں نہیں آسکتے.کیونکہ اس حدیث کے رُو سے نبی است میں سے ہی آسکتا ہے.پس حدیثوں کا موعود عیسی نبی اللہ اس امت میں سے ہی ایک فرد نبی اللہ بننے والا تھا.اور انقطاع نبوت کے مضمون پر مشتمل احادیث کا مطلب صرف یہ رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے باہر اب کوئی شخص مقام نبوت نہیں پاسکتا.ختند بروایا اولی الالباب.واخر دعونا آنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ كتبه شاه محمد شاہد شباب الاسلام نہیں

Page 64