Language: UR
مولوی ابوالاعلیٰ مودودی نے پاکستان کی صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات کے موقعہ پر جماعت احمدیہ کے خلاف اپنا رسالہ ’’ختم نبوت‘‘ ہزار ہا کی تعداد میں شائع کروا کر جماعت احمدیہ مسلمہ پر ختم نبوت کے منکر ہونے کا جھوٹا الزام لگایا تھا اور مسلمانوں میں نفرت کی آگ مزید بڑھانے کا سامان کیا تھا۔ اس پر قاضی محمد نذیر صاحب فاضل، ناظر اشاعت لٹریچر و تصنیف صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے ایک علمی اور تحقیقی رد تیار کیا تھا جسے مذکورہ بالا الیکشن کے گزر جانے کے بعد طبع کیا گیا تھا تا جماعت کے علمی اور مذہبی لٹریچر کی حیثیت پر کوئی سیاسی شائبہ یا الزام نہ آئے۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع کئے گئے اس علمی رسالہ کے مندرجات سے صاف عیاں ہوجاتا ہے کہ مولوی مودودی کا رسالہ اندرونی تضادات کا حامل اور سیاسی اغراض و مقاصد سے خالی نہ تھا اورا پنی تصنیف کے ذریعہ مولوی مودودی صاحب احمدیوں کو دلائل کے ساتھ قائل کرنے کی بجائے جماعت کے خلاف محض فتنہ وافتراء پردازی کو ہوا دینا چاہتے تھے۔ کاتب کی لکھائی میں تیار کئے گئے 130 صفحات کے ایڈیشن اول کے شروع میں فہرست مضامین اور آخر پر اغلاط نامہ بھی درج تھا، جبکہ موجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن مئی 2017ء میں نظارت نشر اشاعت قادیان نے یک صد صفحات پر دیدہ زیب انداز پر طبع کروایا ہے۔
66 مولوی مودودی صاحب کے رسالہ ختم نبوت پر علمی تبصره الله شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت قادیان
مولوی مودودی صاحب کے رسالہ وو ختم نبوت“ علمی مصفد قاضی محمد نذیر صاحب فاضل
نام کتاب: مولوی مودودی صاحب کے رسالہ ختم نبوت پر علمی تبصره تصنيف: قاضی محمد نذیر صاحب فاضل اشاعت ھذ اباراول کمپوز ڈ: مئی.2017ء 1000 فضل عمر پر نٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت قادیان - 143516 ضلع گورداسپور، پنجاب، انڈیا تعداد: مطبع ناشر Name of the Book: Maulvi Maudoodi ke risala Khatm-e- Nubuwwat par Ilmi Tabsirah Written by: Qazi Muhammad Nazeer Fazil Present edition (India): 2017 Quantity: Printed at: Published by: 1000 Fazl-e-Umar Printing Press Qadian Nazarat Nashr-o-Isha'at Qadian-143516 Distt:Gurdaspur, Punjab, India
پیش لفظ مولوی ابوالا علی صاحب مودودی نے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات کے موقعہ پر جماعت احمدیہ کے خلاف اپنا رسالہ ختم نبوت“ ہزار ہا کی تعداد میں شائع کروا کر جماعت احمدیہ پر منکر ختم نبوت ہونے کا جھوٹا الزام لگایا ہے اور مسلمانوں میں نفرت پھیلانے کی کوشش کی ہے.ہم اس رسالہ پر علمی تبصرہ الیکشن گذر جانے کے بعد شائع کر رہے ہیں تا اس کی مذہبی حیثیت میں کسی سیاسی غرض کا شائبہ نہ پایا جائے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے الفاظ میں ہمارا عقیدہ یہ ہے:.( '' ہم اس بات پر سچا ایمان رکھتے ہیں جو فر ما یا ولکن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ 66 ایک غلطی کا ازالہ مطبوعہ ۱۹۰۱ ء ) (ب) ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں سوائے اس کے جو آپ کے نور سے منور ہوا اور اس کا ظہور آپ کے ظہور کا ظل ہو الاستفتاء صفحه ۲۲ ۱۹۰۷ء) جمہور علمائے امت بھی مسیح موعود کو بموجب حدیث نبوی امتی نبی تسلیم کرتے چلے آئے ہیں.اور ایک گروہ مسلمانوں کا مسیح کے نزول کی حدیثوں سے امام مہدی کا مثیل عیسی ہونا مانتا چلا آیا ہے.(اقتباس الانوار صفحه ۵۲) جماعت احمد یہ بھی اس سچائی پر قائم ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام قرآن مجید کی آیات بینات کی رُو سے وفات پاچکے ہیں اور نزول مسیح سے ان کے مثیل کی آمد مراد ہے.i
عالی مرتبت علامہ محمود اشلتوت جواز ہر کی دینی یو نیورسٹی کے ریکٹر ہیں لکھتے ہیں:.قرآن کریم اور صحیح و مستند احادیث میں ہمیں ہرگز کوئی ثبوت نہیں ملتا جس پر ہم اس عقیدے کی بنیاد رکھ سکیں کہ عیسی علیہ السلام مادی جسم کے ساتھ آسمان پر اُٹھائے گئے اور وہ اب تک بقید حیات موجود ہیں اور اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک وہ آخری زمانہ میں زمین پر نہ آجائیں“ (مجلة الازهر فروری ۱۹۶۰) علامہ محمود الشلتوت سے پہلے مفتی دیار مصریہ علامہ رشید رضا مرحوم فرما چکے ہیں:.حضرت عیسی علیہ السلام کا ہندوستان میں ہجرت کر کے وہاں وفات پا جانا عقل و نقل کے خلاف نہیں“ (رساله المنار جلد ۱۵ صفحه ۹۰۱٬۹۰۰) علامہ اقبال فرماتے ہیں :.احمدیوں کا عقیدہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایک فانی انسان کی طرح وفات پاچکے ہیں اور ان کی دوبارہ آمد کا مطلب یہ ہے کہ رُوحانی لحاظ سے ان کا مثیل آئے گا کسی حد تک معقولیت کا پہلو لئے ہوئے ہے“ مودودی صاحب کو دعوت آزاد ۶ را پریل ۱۹۵۱ به تحریک احمدیت و ختم نبوت) مودودی صاحب اپنے رسالہ میں حضرت عیسی علیہ السلام کے مادی جسم کے ساتھ آسمان سے اُترنے کی امید دلاتے ہیں.آسمان سے مادی جسم کے ساتھ انتر نا تبھی ممکن ہے کہ پہلے ان کا مادی جسم کے ساتھ آسمان پر جانا ثابت ہو اور وہ آسمان پر بقید حیات ہوں.لہذا ہم مودودی صاحب کو حیات و وفات مسیح علیہ السلام کے مسئلہ پر تحریری مبادلۂ افکار کی دعوت دیتے ہیں گو ii
ہمیں امید نہیں کہ مودودی صاحب اس کے لئے تیار ہوں کیونکہ وہ صاف کہہ چکے ہیں:.حیات مسیح اور رفع الی السماء قطعی طور پر ثابت نہیں.قرآن کی مختلف آیات سے یقین پیدا نہیں ہوتا ( تقریر اچهره ۲۸ / مارچ ۱۹۵۱) جب مودودی صاحب کو ان کے مادی جسم کے ساتھ آسمان پر جانے کا یقین ہی پیدا نہیں ہوا تو وہ ان کے آسمان سے مادی جسم کے ساتھ اتر آنے کا یقین کیسے دلاتے ہیں؟ اگر مودودی صاحب اس فیصلہ کے لئے آمادہ نہ ہوئے تو صاف ظاہر ہے کہ ان کا رسالہ محض سیاسی نوعیت کا حامل تھا.ان کا مقصد احمدیوں کو قائل کرنا نہ تھا بلکہ جماعت احمدیہ کے خلاف محض فتنہ پردازی تھی.iii......
انڈکس علمی تبصرہ 1 پیش لفظ - بانی سلسلہ احمدیہ اور ان کی جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم i النبیین یقین کرتے ہیں علمائے مصر اور علامہ اقبال وفات مسیح کے قائل ہیں مودودی صاحب کو حیات مسیح اور ان کے مادی جسم کیسا تھ آسمان پر اُٹھایا جانے کے متعلق مبادلہ افکار کی دعوت 4 آغاز علمی تبصرہ جماعت احمدیہ کا خاتم النبیین کے معنوں میں جمہور علمائے امت سے اتفاق مودودی صاحب کا دعویٰ کہ خدا نبی بھیجے تو وہ قرآن وحدیث کا ریکارڈ مندرجہ رسالہ ختم نبوت پیش کر کے مواخذہ الہی سے بچ سکتے ہیں یہودیوں کا مودودی صاحب کی طرح ریکارڈ ا نکار سیح پر مواخذہ سے بچنے کیلئے 7 مودودی صاحب کے ریکارڈ پر ہمارا سوال نمبر سے وہ ہمارے جوابی ریکارڈ کو پڑھ کر جواب دیں ختم نبوت کی حقیقت آیات قرآنیہ کی روشنی میں اور امام راغب اور علامہ بیضاوی کی تفسیر سوال نمبر ۲.اس تفسیر کی صورت میں مودودی صاحب خدا کو کیسے الزام دے سکتے ہیں احادیث سے امکان نبوت کا روشن ثبوت اور امام علی القاری علیہ الرحمہ کی تشریح اور خاتم النبیین کے معنی کی تعیین کرنا کہ ناسخ شریعت اور امت محمدیہ کے باہر سے کوئی نبی نہیں آسکتا ii ii 1 3 3 4 5 LO 7 8 V
10 بزرگان دین کے اقوال سے مودودی صاحب کا رڈ اور آیت خاتم النبیین اور حدیث لانبی بعدی وغیرہ کی تشریح کہ تشریعی نبوت بند ہوئی ہے نہ کہ مطلق نبوت 12 11 حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ کا قول اور اسکی تشریح امام محمد طاہر کے قول سے سوال نمبر ۳- کیا مودودی صاحب ام المومنین کو بھی منکر ختم نبوت قرار دیتے ہیں؟ 12 12 حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ کے اقوال کہ تشریعی نبوت منقطع ہے نہ مقام نبوت نیز ظلی نبوت اور خاتم النبیین کے معنی اور بزرگوں کے اقوال 13 ان سب بزرگوں کی بلند حیثیت اسلام میں اور ان کے زمانہ کا پہلی صدی ہجری سے ہمارے زمانہ تک امتداد اور ان کا دنیائے اسلام کے اہم حصوں سے تعلق 14 ہمارا سوال نمبر ہم ان بزرگوں کے اقوال کی روشنی میں کیا مودودی صاحب انہیں ختم نبوت کا منکر قرار دیں گے؟ 15 مولوی حکیم سید محمد حسن امروہی کے نزدیک نبوت کی دو قسمیں - شارع اور غیر شارع اور صرف شارع کا انقطاع ہے.غیر شارع منقطع نہیں 16 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ آپ کے الفاظ میں 17 وفات مسیح کا ثبوت از روئے قرآن وحدیث 18 مودودی صاحب کے اس خیال کا ابطال قرآن وحدیث سے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ زندہ ہو کر آئیں گے 13 20 21 22 22 22 23 23 25 19 سوال نمبر ۵- اگر دوبارہ زندہ ہو کر آئیں گے تو نزول مسیح کی حدیثوں کی کیا تعبیر کریں گے؟ 20 سوال نمبر 4.وفات مسیح فرض کر کے مودودی صاحب کے نزدیک احادیث متعلقہ نزول مسیح کی تعبیر ان کا مر کر زندہ ہونا ہوسکتی ہے تو مثیل مسیح آنا کیوں نہیں ہوسکتی؟ 26 21 حدیث امامکم منکم کی تشریح 22 از روئے آیت استخلاف کوئی خلیفہ امت محمدیہ کے باہر سے نہیں آسکتا 27 28 vi
23 سوال نمبر ۷ آیت استخلاف کی موجودگی میں عیسیٰ علیہ السلام کیسے آسکتے ہیں؟ 24 | مودودی صاحب کے اس خیال کا رڈ از روئے حدیث نبوی کہ مسیح موعود نبی کی حیثیت میں نہیں ہوگا اور اس پر وحی نہیں آئے گی.ہمارا سوال نمبر ۸ کہ 25 جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسیح موعود کو نبی اللہ قرار دیتے ہیں تو مودودی صاحب کو انکار کا کیا حق ہے 26 سوال نمبر 9 جب حدیث میں مسیح موعود کے نبی اللہ اور اس پر وحی نازل ہونے کا ذکر موجود ہے تو مودودی صاحب نے یہ حدیث پوری درج کیوں نہیں کی 27 علمائے امت کے نزدیک مسیح موعود نبی ہوگا 28 مسلمانوں کے ایک گروہ کا عقیدہ رہا ہے کہ مسیح علیہ السلام کا مہدی میں بروزی نزول ہوگا از روئے احادیث مسیح و مہدی ایک ہی شخص ہے 29 30 30 30 50 31 31 32 34 29 علمائے امت کا مذہب کہ مسیح موعود پر وحی نازل ہوگی 30 مودودی صاحب کی امام غزالی کے کلام میں صریح تحریف اور امام صاحب پر افتراء 35 سوال نمبر ۱۰ کیا مودودی صاحب امام غزالی کی طرف اپنے منسوب کردہ الفاظ ان کی کتاب الاقتصاد سے دکھلا سکتے ہیں 31 آیت خاتم النبین کی تفسیر 32 مودودی صاحب کی تفسیر اور اس کارڈ 33 اصل سیاق آیت کی رو سے تفسیر 37 38 38 42 34 مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی مدرسہ دیو بند کے نزدیک سیاق آیت سے تفسیر 42 35 خاتم آ خاتم النبیین کے حقیقی لغوی معنے سے مودودی صاحب کا انکار 36 لغت کی مستند کتاب مفردات راغب میں ختم کے لغوی معنے اور ان کا مفاد 37 آخری اور بند کرنا مجازی معنی ہیں.حقیقی معنی کا قرآن مجید موید ہے 43 44 45 vii
38 مودودی صاحب کا افضل النبیین کے معنوں سے جو حقیقی معنے کو لازم ہیں انکار 39 خاتم کے محاورات اور ان کے لغوی معنیٰ سے مطابقت 40 مودودی صاحب کا فیضان نبوت محمدیہ سے انکار 41 سوال نمبر 11 کیا مودودی صاحب امام راغب کے معنی کو جھٹلا سکتے ہیں 42 حدیث آخر الانبیاء کی تشریح اور مودودی صاحب کی تشریح کا رڈ 43 سوال نمبر ۱۲ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مطلق آخری نبی ہیں تو آپ نے مسیح موعود کو کیوں نبی اللہ قرار دیا؟ 44 مسیلمہ کذاب سے لڑائی کی وجہ بغاوت تھی نہ دعوی نبوت 45 مسیلمہ تشریعی نبوت کا مدعی تھا 46 حضرت ابوبکر کی احتیاط اور مودودی صاحب کی بے احتیاطی اور ظلم 47 کیا مودودی صاحب کہہ سکتے ہیں کہ مسیلمہ امتی نبوت کا مدعی تھا (سوال نمبر ۱۳) 48 ختم نبوت کے متعلق مودودی صاحب کے پیش کردہ مفسرین کے اقوال اور اجماع امت کی کیفیت 49 سوال نمبر ۱۴ کیا مودودی صاحب امتی نبی کے انقطاع پر اجماع امت ثابت کر سکتے ہیں 46 44 47 49 5554 51 51 52 52 35 53 55 56 66 57 58 50 صدارت و نبوت مودودی صاحب کے اس خیال کا رد کہ مسیح موعود نبی نہیں ہوگا 51 سوال نمبر ۱۵ کیا صدر کی موجودگی میں نائب صدر کو خلاف آئین قرار دے سکتے ہیں 59 52 مودودی صاحب کے نزدیک نبی کی حقیقت اور مسیح موعود کا اس قسم کی نبوت کے دعوی سے انکار 59 59 viii
53 مسیح موعود اور دجال کی حقیقت اور مودودی صاحب کا حالیہ نظریہ 54 مودودی صاحب کے خیال کا رڈ کہ دجال فلسطین کے یہودیوں میں مسیح موعود کا دعوی کر کے کھڑا ہو گا 55 دجال سے متعلقہ احادیث پر مودودی صاحب کا سابقہ تبصرہ 56 سوال نمبر ۱۶ و ۱۷ متعلق دجال 61 63 64 66 2222 57 مودودی صاحب کی طرف سے حدیث کے الفاظ یکسر الصليب ويقتل الخنزیر کی تاویل 66 58 اور اس پر ہمارا سوال نمبر ۱۸ 59 مودودی صاحب کا حیات مسیح اور رفع الی السماء پر شک اور ہمارا سوال نمبر ۱۹ 60 مودودی صاحب کے قول کہ حقیقت کا بے نقاب کر دینا حکمت خداوندی کے خلاف ہے کی روشنی میں ہمارا سوال نمبر ۲۰ 61 | مودودی صاحب کا قول کہ عیسی علیہ السلام کو سب لوگ مقابلہ کے بغیر قبول کر لیں گے اور اس پر ہمارا سوال نمبر ۲۱ 62 مودودی صاحب کی بے اصولی اور ہمارا مسلک احادیث کے متعلق 63 دجال کے ظہور اور مسیح موعود کے نزول کی احادیث کی صحیح تعبیرات 64 دجالی تحریک وفتنہ عیسائیوں سے پیدا ہونے والا تھا از روئے قرآن وحدیث 65 دجالی تحریک کا لمبا عرصہ تک مقابلہ ہوگا از روئے حدیث 66 آخری گزارش.مودودی صاحب کا دجال کبھی ظاہر نہیں ہوگا نہ حضرت عیسی علیہ السلام کبھی آسمان سے مادی جسم کے ساتھ اتریں گے 67 حضرت مسیح موعود کا ایک اعلان اور پیشگوئی.حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان سے اُترنے کا عقیدہ لوگ مایوس ہو کر چھوڑ دیں گے 67 68 69 69 70 71 74 78 82 82 ix
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ سیدابوالاعلی مودودی صاحبکے رساختم نبوت پر علمی تبصره اور ان سے چند سوالات مولوی ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے حال ہی میں جو رسالہ ختم نبوت کے عنوان سے تحریر کیا ہے اس میں لوگوں کو حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان سے اصالتنا اترنے کی طمع خام دلا کر انہیں مسلوب النبوۃ قرار دیا ہے تا وہ آیت خاتم النبیین کے اپنے مزعوم معنے محض ”آخری نبی قرار دے سکیں.حالانکہ تمام علمائے امت مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع نبی یقین کرتے چلے آئے ہیں اور اس طرح وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری شارع اور آخری مستقل نبی یقین کرتے رہے ہیں جماعت احمدیہ بھی ان معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی یقین کرتی ہے مگر مودودی صاحب اپنے مزعوم معنے کے پیش نظر محض فتنہ انگیزی کے لئے جماعت احمدیہ کو منکر ختم نبوت قرار دے کر کافر ٹھہراتے ہیں.حالانکہ ان کے مزعوم معنی کو اگر درست سمجھ لیا جائے تو وہ تمام علمائے امت منکرین ختم نبوت قرار پاتے ہیں جو حضرت عیسی نبی اللہ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلوب النبوۃ ہو کر آنے کے عقیدہ کو درست نہیں سمجھتے بلکہ کفر سمجھتے ہیں.مولوی مودودی صاحب کا یہ مضمون تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں اور علامہ اقبال کے 1
مکتب خیال کے حامیوں کے لئے سخت قابل تعجب ہوگا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات یافتہ مانتے ہیں اور ان کے آسمان سے اصالتا آنے کے قائل نہیں.جماعت احمدیہ کے علماء کو آیت خاتم النبیین کے ان معنوں سے علمائے امت کے ساتھ اصولی اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شارع اور آخری مستقل نبی ہیں اور یہ کہ مسیح موعود ایک پہلو سے امتی ہے اور ایک پہلو سے نبی.اگر جماعت احمدیہ کو ان علماء سے کوئی اختلاف ہے تو صرف مسیح موعود کی شخصیت کی تعیین میں اختلاف ہے کہ آنے والا مسیح موعود اصالتاً حضرت عیسیٰ علیہ السّلام ہیں یا اس سے مراد آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی امت کا ایک فرد ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مثیل اور ان کے رنگ میں رنگین ہو کر آنے والا تھا.یہ اختلاف ختم نبوت کے معنوں میں نہیں محض موعود امتی نبی کی تعیین میں ہے.علمائے امت کو یہ بھی مسلم ہے کہ پینگوئیوں کی پوری حقیقت اکثر ان کے پورا ہونے پر کھلتی ہے اور قبل از ظهور پیشگوئی اس پر کسی خاص معنوں پر اتفاق بھی ہو تو اسے اجماع امت قرار نہیں دیا جاسکتا.مولوی مودودی صاحب آیت خاتم النبیین کی تفسیر میں قرآن شریف سے ایک بھی آیت پیش نہیں کر سکے.حالانکہ ایسے جدید وصف کی تفسیر جس سے پہلے مخلوق نا آشنا تھی خود خدا تعالیٰ کو کرنی چاہئے.مگر مولوی صاحب کو اپنے معنی کی تائید میں قرآن شریف سے ایک آیت بھی نہیں ملی لیکن اس کے باوجود وہ چند احادیث کے غلط معنی لے کر اپنے رسالہ میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آیت خاتم النبیین اور احادیث نبویہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا بکلی انقطاع ثابت ہے.اپنے اس خیال پر وہ ایسے نازاں ہیں کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کو اپنے ان معنوں کا قائل کر سکتے ہیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں:.اب اگر بفرض محال نبوت کا دروازہ واقعی گلا بھی ہو اور کوئی نبی آبھی جائے تو ہم بے خوف و خطر اس کا انکار کر دیں گے.خطرہ ہوسکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی باز پرس کا ہی تو 2
ہو سکتا ہے.وہ قیامت کے روز ہم سے پوچھے گا تو ہم سارا ریکارڈ برسر عدالت لا کر رکھ دیں گے جس سے ثابت ہو جائے گا کہ معاذ اللہ اس کفر کے خطرے میں تو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت نے ہی ہمیں ڈالا تھا.ہمیں قطعاً کوئی اندیشہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کسی نئے نبی پر ایمان نہ لانے کی سزا دے ڈالیگا‘ ختم نبوت صفحہ ۳۳) مولوی مودودی صاحب کی یہ کیسی جسارت ہے کہ خدا تعالیٰ امت محمدیہ میں نبی بھیجے تو وہ اس کا انکار کر کے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر الزام دے کر خدا تعالیٰ کو اُن کے مواخذہ سے عاجز کر دیں گے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ گر تو قرآں بریں نمط خوانی بری رونق مسلمانی یہودیوں کا ریکارڈ اگر اس قسم کا عذر خدا تعالیٰ کے حضور درست ہو اور ایسے لنگ عذرات پر انسان خدا کو مؤاخذہ سے عاجز کر سکتا ہو تو یہودی بھی بعینہ خدا تعالیٰ کے حضور اس قسم کا ریکار ڈ ا پنی بریت کے لئے پیش کر سکتے ہیں اور وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے تمہارے بھیجے ہوئے یسوع مسیح کو اس لئے قبول نہیں کیا تھا کہ ہماری مسلمہ کتاب سلاطین میں لکھا تھا کہ ایلیاء نبی بگولے میں ہو کر زندہ آسمان پر چلا گیا ہے (۲ - سلاطین باب ۲ آیت (۱۲) اور ملا کی نبی کی کتاب میں مسیح کے ظہور سے پہلے ایلیاہ کا آنا ضروری قرار دیا گیا ہے ( ملا کی باب ۴ آیت ۶ ) ہم نے یسوع کی اس تاویل کو کہ ایلیاہ کی دوبارہ آمد سے یوحنا (سکی علیہ السلام ) کا ایلیاہ کے مثیل کے طور پر آنا مراد ہے قبول نہیں کیا تھا کیونکہ ہماری کتابوں میں صریح طور پر ایلیاہ کے آسمان پر جانے اور موعود مسیح سے پہلے دوبارہ آنے کی پیشگوئی موجود تھی.نیز پیشگوئیوں میں یہ بھی لکھا تھا کہ خداوند خدا مسیح کو اس کے باپ داؤد کا تخت دے گا مگر یسوع کہتا تھا کہ میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں 3
بلکہ آسمانی ہے.ہمیں تو گمراہی میں تمہاری اور تمہارے نبیوں کی پیشگوئیوں نے ڈالا ہے.اب تمہیں ہمارے مسیح کا انکار کرنے پر مواخذہ کا کوئی حق نہیں.سوال نمبر 1 کیا مودودی صاحب بتا سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سامنے ایسا ریکارڈ پیش کرنے پر یہودی حضرت عیسی علیہ السلام کی مسیحیت و نبوت کا انکار کر کے مواخذہ الہی سے بری ہو سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر وہ اپنا مزعومہ ریکارڈ پیش کر کے اور آیت خاتم النبیین کے قرآن مجید اور بعض احادیث نبویہ کے خلاف معنی کر کے کس طرح مؤاخذہ سے بری ہو سکتے ہیں.ان کا یہ مزعومہ ریکارڈ ہرگز ان کی تائید نہیں کرے گا.بلکہ خدا تعالیٰ انہیں قرآنی آیات اور احادیث نبویہ پیش کر کے ملزم کردے گا کیونکہ قرآن مجید کی روشنی میں صرف تشریعی نبوت اور مستقلہ نبوت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انقطاع ہوا ہے نہ کہ امتی نبوت کا.امتی نبوت کے امکان کے ثبوت میں قرآن مجید اور احادیث کی کئی نصوص موجود ہیں.جب اللہ تعالیٰ ان آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کا ریکارڈ ان کے سامنے رکھ دے گا تو معلوم نہیں اس وقت مولوی ابوالاعلیٰ صاحب مودودی کا خدا کے حضور کیا جواب ہوگا.یہ جواب ہم ان سے اب سُننا چاہتے ہیں وہ ذیل کے ریکارڈ کو پر نظر رکھ کر اپنا جواب دیں جوابی ریکارڈ (1) اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولبِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَبِكَ رَفِيقًاه (سوره نساء رکوع ۹) 4
یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ( محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کریں پس وہ ان کے ساتھ شامل ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے یعنی نبی صدیق شہید اور صالح اور یہ ان کے اچھے ساتھی ہیں.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ایک انسان صالحیت کے مقام سے ترقی کر کے نبوت کے مقام تک پہنچ سکتا ہے اگر آیت کے یہ معنی کئے جائیں کہ خدا تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے صرف ظاہری طور پر نبیوں کے ساتھ ہوں گے نبی نہیں ہونگے تو یہی تشریح دوسرے تین مدارج کے بارے میں بھی کرنا پڑے گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروصرف بظاہر صد یقوں،شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہوں گے خود صدیق ، شہید اور صالح نہیں ہوں گے.یہ تشریح صحیح نہیں کیونکہ یہ معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ بزرگ کے صریح منافی ہیں کہ ان کی پیروی سے کوئی شخص صدیق شہید اور صالح بھی نہیں ہو سکتا بلکہ صرف ظاہری طور پر ان کے ساتھ ہوگا حالانکہ امت محمدیہ کے اطاعت کرنے والوں کا اس دُنیا میں زمانی اور مکانی طور پر پہلے انعام یافتہ لوگوں کے ساتھ ہونا امر محال ہے اور آیت فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ جملہ اسمیہ ہے جو استمرار پر دلالت کرتا ہے یعنی اس دنیا میں ان کے ساتھ ہونا بھی ثابت کرتا ہے پس اس دنیا میں ساتھ ہونے میں مرتبہ پانا ہی مراد ہوسکتا ہے.امام راغب کی تفسیر ہمارے انہی معنوں کی تائید امام راغب علیہ الرحمہ کی تفسیر سے بھی ہوتی ہے تفسیر بحر المحیط میں لکھا ہے :- وَالظَّاهِرُ أَنَّ قَوْلَهُ مِنَ النَّبِيِّينَ تَفْسِيرُ لِلَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَكَأَنَّهُ قِيْلَ مَنْ يُطِعِ الله وَالرَّسُولَ مِنْكُمُ الْحَقَهُ اللهُ 5
بِالَّذِينَ تَقَدَّمَهُمْ لِمَنْ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ قَالَ الرَّاغِبُ مِمَّنْ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ الْفِرَقِ الْأَرْبَعِ فِي الْمَنْزِلَةِ وَالثَّوَابِ النَّبِيِّ بِالنَّبِيِّ والصديق بالصيني والفهيد المهيد والصالح بِالصَّالح ( تفسیر بحر المحیط جلد ۳ صفحه ۲۸۷، مطبوعہ مصر ) ، و ترجمہ:.یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قول ” من النبيين الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمُ “ کی تفسیر ہے.گویا یہ کہا گیا ہے کہ جو تم میں سے اللہ اور رسول کی اطاعت کریگا اللہ تعالیٰ اسے ان انعام یافتہ لوگوں سے ملا دیگا جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں.راغب نے کہا ہے یعنی ان چار گروہوں کے ساتھ درجہ اور ثواب میں شامل کر دے گا جن پر اس نے انعام کیا ہے.اس طرح کہ جو تم سے نبی ہوگا اس کو نبی کے ساتھ ملا دے گا اور جو صدیق ہوگا اسے صدیق کے ساتھ ملا دے گا اور شہید کو شہید کے ساتھ ملا دیگا اور صالح کو صالح کے ساتھ ملا دے گا.اس عبارت میں امام راغب علیہ الرحمۃ نے " التي بالنبي “ کہ کر ظاہر کر دیا ہے کہ اس امت کا نبی گزشتہ انبیاء کے ساتھ شامل ہو جائے گا جس طرح اس امت کے صدیق گزشتہ صدیقوں اور اس امت کے شہید گذشتہ شہیدوں اور اس امت کے صالح گذشتہ صالحین کے ساتھ شامل ہوں گے.گویا ان کی تفسیر کے مطابق امت محمدیہ کے لئے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں نبوت کا دروازہ کھلا ہے.ورنہ وہ کونسے نبی ہوں گے جو امام راغب علیہ الرحمہ کی اس تفسیر کے مطابق انبیاء کی صف میں شامل ہوں گے؟ CO 6
سوال ۲ اب ہمارا سوال ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت اور امام راغب علیہ الرحمتہ کی اس تفسیر کی موجودگی میں کس طرح آیت خاتم النبیین کے معنی مطلق آخری نبی لے سکتے ہیں.اس بیان کی روشنی میں تو امتی نبی کی آمد کا امکان روز روشن کی طرف ثابت ہے.اب مودودی صاحب بتائیں کہ کیا خدا تعالیٰ قیامت کے دن ان کے رسالہ ختم نبوت کا ریکارڈ پیش کرنے پر انہیں اس آیت کے رُو سے ملزم نہیں ٹھہرا سکے گا ؟ (۲) ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.يُبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ التى " فَمَنِ الفى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (اعراف رکوع ۴) یعنی اے بنی آدم ! جب کبھی آئیندہ تم میں سے تمہارے پاس رسول آئیں گے جو تم پر میری آیات بیان کریں تو جو لوگ تقویٰ اختیار کر کے اپنی اصلاح کرلیں گے ان پر کوئی خوف اور غم نہیں ہوگا.اس آیت کے سیاق میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے بنی نوع انسان کو قلی کہہ کر کئی ہدایات دلائی ہیں اور اسی سلسلہ میں تمام نوع انسانی کو خطاب کر کے فرمایا ہے کہ آئندہ جب بھی تم میں سے رسول تمہارے پاس آئیں تو تقویٰ اختیار کر کے اصلاح کرنے والے ہی کامیاب ہوں گے.اس سے ایک پہلی آیت میں ہے يُبَنِی آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ كه اے بنی آدم ہر مسجد کے قریب زینت اختیار کرو.عرب کے لوگ خانہ کعبہ کا ننگے بدن طواف کرتے تھے اس لئے یہ آیت نازل ہوئی.7
امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ اس کی تفسیر فرماتے ہیں:.فَإِنَّهُ خِطَابٌ لِأَهْلِ ذَلِكَ الزَّمَانِ وَلِكُلِّ مَنْ بَعْدَهُمْ ( تفسیر اتقان جلد ۲ صفحه ۳۶مصری) یعنی بنی آدم کے الفاظ سے یہ خطاب اس زمانہ اور بعد کے لوگوں سے ہے.پس زیر بحث آیت میں بھی بنی آدم کے الفاظ میں تمام بنی نوع انسان کو خطاب کر کے ان میں رسولوں کے بھیجے جانے کی پیشگوئی اور انہیں قبول کرنے کی ہدایت دی گئی ہے.علامہ بیضاوی اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :.اثْيَانُ الرُّسُلِ اَمْرُ جَائِزُ غَيْرُ وَاجِبِ ( تفسیر بیضاوی مجتبائی جلد ۲ صفحه ۱۵۴) کہ رسولوں کا آنا جائز یعنی ممکن ہے واجب یعنی ضروری نہیں“ پس جب اس آیت سے بھی امکان الرسل ثابت ہے تو کیا خدا تعالیٰ مودودی صاحب کو اپنا ریکارڈ پیش کرنے پر اس آیت سے ملزم نہیں کر سکے گا؟ اس سلسلہ میں اور بھی بہت سی آیات پیش کی جاسکتی ہیں مگر اس مختصر مضمون میں صرف ان دو آیتوں کا پیش کرنا کافی ہے.(۳) حدیث نبوی میں آیا ہے:.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ صَلّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ وَلَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا - (ابن ماجہ جلدا کتاب الجنائز صفحه ۲۳۷ مصری) 8
یعنی حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب ابراہیم فرزند رسول وفات پا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا کہ جنت میں اس کے لئے ایک دودھ پلانے والی ہے اور فرمایا کہ اگروہ زندہ رہتا تو ضر ور صدیق نبی ہوتا“ یہ حدیث ابن ماجہ میں ہے جو صحاح ستہ میں سے ہے اور یہ تین مختلف طرق سے مروی ہے.شہاب علی البیضاوی جلدے صفحہ ۱۷۵ پر اس حدیث کے متعلق لکھا ہے:.أَمَّا مِحَةَ الْحَدِيثِ فَلَا شُبْهَةٌ فِيْهِ لِأَنَّهُ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةً وَغَيْرُهُ - یعنی حدیث کی صحت میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ ابن ماجہ وغیرہ نے روایت کی ہے.حضرت امام علی القاری نے جو فقہ حنفیہ کے ایک زبر دست امام ہیں اس حدیث سے امکانِ نبوت پر استدلال کیا ہے اور لکھا ہے:.لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ الله وَصَارَ نَبِيًّا وَكَذَا لَوْ صَارَ عُمَرُ الله نَبِيًّا لَكَانَا مِنْ أَتْبَاعِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ - یعنی اگر ابراہیم زندہ رہتے اور نبی ہو جاتے اور اسی طرح اگر حضرت عمررؓ نبی ہو جاتے تو یہ دونوں آپ کے متبعین ہی رہتے.(موضوعات کبیر صفحہ ۵۸) پھر یہ بتانے کے لئے کہ ان کا نبی ہو جانا آیت خاتم النبیین کے خلاف نہ ہوتا.فرماتے ہیں :.فَلَا يُنَاقِضُ قَوْلَهُ تَعَالَى خَاتَمَ النَّبِيِّينَ إِذِ الْمَعْلَى أَنَّهُ لَا يَأْتِي بَعْدَهُ نَبِيٌّ يَنْسَحُ مِلَّتَه وَلَمْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِه (موضوعات كبير صفحه ۵۹) یعنی ان کا نبی ہو جانا خدا تعالیٰ کے قول خاتم النبیین کے خلاف نہ ہوتا کیونکہ خاتم النبیین کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی امت میں سے نہ ہو.صاحبزادہ ابراہیم فرزند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 9 ھ میں ہوئی اور آیت خاتم 9
النبتين ۵ھ میں نازل ہو چکی تھی.گویا خاتم النبیین کی آیت کے نزول کے قریباً پانچ سال بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور نبی ہوتا.اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس کا نبی نہ بننا اس کی موت کی وجہ سے ہے نہ کہ آیت خاتم النبیین کے نزول کی وجہ سے.اگر آپ کے بعد آپ کے تابع نبی ہونے میں آیت خاتم النبیین روک ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ کبھی نہ فرماتے کہ ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور نبی ہوتا بلکہ یہ فرماتے کہ اگر ابراہیم زندہ بھی رہتا تو ہی نہ ہوسکتا تھا کیونکہ اس میں آیت خاتم النبیین روک ہے.امام علی القاری علیہ الرحمۃ نے اس حدیث کی تشریح میں خاتم النبیین کے معنوں کی دو شرطوں کے ساتھ تعین کر دی ہے.اول یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آ سکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے.دوم یہ کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی بھی نہیں آسکتا جو آپ کی اُمت سے باہر ہو.گو یا امام علی القاری علیہ الرحمتہ کے نزدیک آیت خاتم النبیین صرف غیر مسلموں میں سے کسی کے نبی بن جانے کو روکتی ہے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے امت محمدیہ میں سے کسی کے نبی ہو جانے کو.حديث لا نبی بعدی کی تشریح میں حضرت امام علی القاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :.حَدِيثُ لَا وَحْيَ بَعْدَ مَوْتِي بَاطِلُ لَا أَصْلَ لَهُ نَعَمْ وَرَدَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي مَعْنَاهُ عِنْدَ الْعُلَمَاءِ لَا يَحْدُثُ بَعْدَهُ نَبِيُّ بِشَرْعِ يَنْسَخُ شَرْعَهُ الاشاعة في الشراط الساعة ، صفحه ۲۲۶ نیز المشرب الوردی فی مذہب المہدی مطبوعہ حافظ عبدالرحمن ماڈل ٹاؤن لاہور صفحہ ۶۴) ترجمہ : یہ بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی وحی نہیں باطل ہے.اس کی کوئی اصلیت نہیں.ہاں حدیث میں لا نبی بعدی کے الفاظ آئے ہیں.معنی اس کے علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ آئندہ کوئی ایسا نبی پیدا نہیں ہو گا جو ایسی شریعت لائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ 10
وسلم کی شریعت کو منسوخ کرتی ہو.(۴) ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.أَبُو بَكْرٍ أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِي ( كنوز الحقائق في حديث خير الخلائق ) گر حضرت ابوبکر اس امت میں سب سے افضل ہیں سوائے اس کے کہ آئندہ کوئی نبی (امت میں ) ہو جائے تو اس سے افضل نہیں ہونگے ) (۵) ایک تیسری حدیث میں وارد ہے:.ابو بَكْرِ خَيْرُ النَّاسِ بَعْدِى إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِيُّ (کنز العمال جلد ۹ صفحه ۱۳۸ وطبرانی و ابن عدی فی الکامل بحوالہ جامع الصغیر للسیوطی صفحه ۵) کہ حضرت ابوبکر میرے بعد سب انسانوں سے بہتر ہیں بجز اس کے کہ آئندہ کوئی نبی ہو.ان دونوں حدیثوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِی کے الفاظ استعمال فرما کر نبی ہونے کا امکان قرار دیا ہے ورنہ آپ یہ الفاظ کبھی استعمال نہ فرماتے.جن سے امت میں امکان نبی ثابت ہوتا ہے ان دونوں آیتوں اور تینوں حدیثوں نے انقطاع نبوت کے متعلق مودودی صاحب کی پیش کردہ آیت خاتم النبیین اور احادیث کی تشریح کر دی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شارع اور مستقل نبی نہیں آ سکتا.ہاں امتی نبی آسکتا ہے.اب مودودی صاحب ان آیات اور احادیث کے پیش نظر اپنی پوزیشن پر غور فرمائیں کہ وہ خدا کے بھیجے ہوئے امتی نبی کا انکار کر کے کس طرح اپنے رسالہ ختم نبوت کے ریکارڈ کو برسر عدالت خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کی جرات کر سکیں گے.اور اگر وہ یہ جرأت کریں تو کیا خدا تعالیٰ انہیں آیات و احادیث مندرجہ بالا کے رو سے ملزم نہیں کر سکے گا ؟ 11
بزرگان دین کے اقوال سے مودودی صاحب کی پیش کردہ احادیث کی تشریح مولوی ابوالاعلیٰ صاحب کے پیش کردہ ریکارڈ کی تشریح کی خامی ثابت کرنے کے لئے ہم بعض مسلّمہ بزرگانِ دین کے اقوال بھی اس جگہ درج کر دینا ضروری سمجھتے ہیں.سب سے پہلا قول ہم ام المومنین حضرت عائشہ الصدیقہ معلمہ نصف الدین رضی اللہ عنہا کا پیش کرتے ہیں.آپ فرماتی ہیں:.قُولُوا إِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ (تکملہ مجمع البحار صفحه ۸۵) یعنی لوگو یہ تو کہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں مگر یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں.اس سے ظاہر ہے کہ ام المومنین خاتم النبیین کے معنی محض آخری نبی جو مودودی صاحب کے مد نظر ہیں درست نہیں سمجھتیں بلکہ ان معنی کو اختیار کرنے اور فروغ دینے سے ساری امت کو منع فرماتی ہیں.سوال ۳ ہمارا اس پر یہ سوال ہے کہ کیا مودودی صاحب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی منکرین ختم نبوت کی صف میں سمجھتے ہیں؟ اگر مودودی صاحب کے نزدیک وہ منکر ختم نبوت ہیں تو ہمیں انکی طرف سے ختم نبوت کا منکر قرار 12
دیا جانے کا کوئی افسوس نہیں ہوسکتا امام محمد طاہر اس قول کی شرح میں لکھتے ہیں.یہ آنحضرت کی حدیث لا نبی بعدی کے خلاف میں لانه أَرَادَ لَا تَوى يَنسَعُ قر عہ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یتی کہ کوئی ایسا نبی نہیں ہو گا جو آپ کی شرع کو منسوخ کرے.(تکملہ مجمع البحار صفحہ ۸۵) (۲) ہم امام علی القاری علیہ الرحمہ کا قول قبل از میں خاتم النبیین کے معنی کی تعیین میں پیش کر چکے ہیں جو انہوں نے ایک حدیث نبوی کی تشریح میں بیان کیا ہے کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے.اور آپ کی امت میں سے نہ ہو.گویا ان کے نزدیک خاتم النبیین کی آیت کی موجودگی میں غیر مسلموں میں کوئی نبی ظاہر نہیں ہوسکتا.صرف آپ کی امت میں نبی ہونے میں آیت خاتم النبیین روک نہیں (۳) سرتاج صوفیا حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن العربی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں:.(۱) اِنَّ النُّبُوَّةَ الَّتِي انْقَطَعَتْ بِوُجُودِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هِيَ نُبُوَّةُ التَّشْرِيعِ لَا مَقَامُهَا فَلَا شَرْعَ يَكُونُ تا سا لِشَرْعِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَزِيدُ فِي شَرْعِهِ حُكْمًا أَخَرَ وَهَذَا مَعْلَى قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الرَّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِى وَلَا نَبِيَّ أَتَى لَا نَبِيَّ يَكُونُ عَلَى شَرْعِ يُخَالِفُ شَرْعى بَلْ إِذَا كَانَ يَكُونُ تَحْتَ حُكْمِ شَرِيعَتِى.(فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۳) ترجمہ:.وہ نبوت جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے منقطع ہوئی 13
ہے وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقام نبوت.پس اب کوئی شرع نہ ہوگی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شرع کی ناسخ ہو اور نہ آپ کی شرع میں کوئی حکم بڑھانے والی شرع ہوگی.اور یہی معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے ہیں کہ اِنَّ الرَّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ یعنے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ( اس قول سے ) یہ ہے کہ اب ایسا کوئی نبی نہیں ہوگا جو میری شریعت کے مخالف شریعت پر ہو بلکہ جب کبھی کوئی نبی ہوگا تو وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہوگا.پھر فرماتے ہیں :.(ب) فَمَا ارْتَفَعَتِ النُّبُوَّةُ بِالْكُلِّيَةِ لِهَذَا قُلْنَا إِنَّمَا ارْتَفَعَتْ تبوةُ التَّشْرِيعِ فَهَذَا مَعْلَى لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ (فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۶۴) ترجمہ :.پس نبوت کلّی طور پر نہیں اٹھی.اسی لئے ہم نے کہا ہے کہ صرف تشریعی نبوت اٹھی ہے اور یہی معنی حدیث لا نبی بعدی کے ہیں.خاتم النبیین کے معنی بھی ان کے نزدیک آخری شارع نبی ہیں چنانچہ وہ فرماتے ہیں:.(ج) وَمِنْ جُمْلَةِ مَا فِيهَا تَنْزِيلُ الشَّرَائِعِ فَخَتَمَ اللهُ هَذَا التَّنْزِيلَ بِشَرْعِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ (فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۵۵-۵۶) یعنی آغاز وانجام والی اشیاء میں سے شریعتوں کا نازل کرنا بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے شریعت کے اتارنے کو مالی اما اینم کی شرع سے ختم کر دیا ہے پس آپ خاتم النبیین ہیں.پھر شیخ اکبر علیہ الرحمۃ نبوت مطلقہ کو جاری قرار دینے کے لئے لکھتے ہیں: 14
(د) فَإِنَّ النُّبُوَّةَ سَارِيَةُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فِي الْخَلْقِ وَإِنْ كَانَ التَّشْرِيحُ قَدِ انْقَطَعَ فَالتَّشْرِيعُ جُزْءٌ مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ (فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحہ ۶۰) ترجمہ :.بے شک نبوت قیامت کے دن تک مخلوق میں جاری ہے اگر چہ نئی شریعت کا لانا منقطع ہو چکا ہے.پس شریعت کالا نا نبوت کے اجزا میں سے ایک جزو ہے.(۴) حضرت پیران پیر سید عبد القادر جیلانی قدس سرہ فرماتے ہیں:.إِنَّ الْحَقِّ تَعَالَى يُخْبِرُنَا فِي سَرَائِرِنَا مَعَانِي كَلَامِهِ وَكَلَامِ رَسُولِهِ وَيُسَمَّى صَاحِبُ هَذَا الْمَقَامِ مِنْ أَنْبِيَاءِ الْأَوْلِيَاءِ - ( الیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحه ۳۹ ونبراس شرح الشرح لعقائد نسفی حاشیه صفحه ۴۴۵) ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ ہمیں خلوت میں اپنے کلام اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے معانی سے آگاہ کرتا ہے اور اس مقام کا رکھنے والا انسان انبیاء الاولیاء میں سے ہے.یہ نبوت الاولیاء جسے بزرگان دین جاری مانتے ہیں ولایت مطلقہ سے ایک بالا مقام ہے.اس مقام کی شان بیان کرتے ہوئے عارف ربانی حضرت عبدالکریم جیلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:.كُلُّ نَبِي وَلَايَةٍ أَفْضَلُ مِنَ الْوَلِيِّ مُظْلِقًا وَمِنْ ثَمَّ قِيْلَ بَدَايَةُ النَّبِيِّ نِهَايَةُ الْوَلِي فَافُهُمْ وَتَأَمَّلُهُ فَإِنَّهُ قَدْ خَفِيَ عَلَى كَثِيرٍ مِنْ أَهْلِ مِلتنا.(الانسان الکامل صفحہ ۸۵) ترجمہ:.ہر نبی ولایت ولی مطلق سے افضل ہے اور اسی وجہ سے کہا گیا ہے 15
کہ نبی کا آغاز ولی کی انتہا ہے.پس اس نکتہ کو سمجھ لو اور اس میں غور کرو کیونکہ یہ ہمارے بہت سے اہل ملت پر مخفی رہا ہے ( یعنی انہوں نے نبوۃ الولایت کو ولایتِ مطلقہ کا ایک درجہ قرار دے دیا ہے جو درست نہیں ) پھر سید موصوف لکھتے ہیں:.اِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَنْبِيَاءِ وَنُبُوَّتُهُ نُبُوَّةُ الْوَلَايَةِ كَالْخِضْرٍ فِي بَعْضِ الْأَقْوَالِ وَكَعِيسَى إِذَا نَزَلَ إِلَى الدُّنْيَا فَإِنَّهُ لَا يَكُونُ لَهُ نُبُوَّةُ تَشْرِيعٍ وَكَغَيْرِهِ مِنْ بَنِى اسرائيل - ( الانسان الکامل صفحه ۸۵) یعنی بہت سے انبیاء کی نبوت بھی نبوة الولایت ہی تھی.جیسا کہ حضرت خضر علیہ السّلام کی نبوت بعض اقوال میں اور جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت جب وہ دنیا میں نازل ہوں گے تو اُن کی نبوت تشریعی نہیں ہوگی اور اسی طرح بنی اسرائیل کے دوسرے نبیوں کا حال ہے یعنی ان کی نبوت نبوۃ الولایت تھی نہ کہ تشریعی نبوت.اسی نبوة الولایت کو جس کے ساتھ مسیح موعود کا آنا تسلیم کیا گیا ہے حضرت محی الدین ابن العربی نے نبوت مطلقہ قرار دیا ہے.چنانچہ فرماتے ہیں:.يَنْزِلُ وَلِيًّا ذَا نُبُوَّةٍ مُطلَقَةٍ ( فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحه ۵۵) یعنی حضرت عیسی علیہ السلام ایسے ولی کی صورت میں نازل ہونگے جو نبوت مطلقہ کا حامل ہوگا.پھر فرماتے ہیں :.عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ يَنزِلُ فِيْنَاعَكُما مِنْ غَيْرِ نَشْرِيج وهُوَ 16
نبي بلا شك.(فتوحات مکیہ جلد اوّل صفحه ۵۷۰) یعنی عیسی علیہ السّلام ہم میں حکم کی صورت میں شریعت کے بغیر نازل ہوں گے اور وہ بلا شک نبی ہوں گے.(۵) حضرت امام عبدالوہاب شعرانی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:.ہے.فَإِنَّ مُطلَقَ النُّبُوَّةِ لَمْ تَرْتَفِعُ وَإِنَّمَا ارْتَفَعَتْ نُبُوَّةُ التَّشْرِيع - (الیواقیت والجواہر صفحہ ۲۷ بحث ۳) ترجمہ:.پس بے شک مطلق نبوت نہیں اُٹھی اور صرف تشریعی نبوت اُٹھی آگے فرماتے ہیں:.وَقَوْلُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا رَسُوْلَ الْمُرَادُ بِهِ لَا مُشَرِعُ بَعْدِي - یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ” میرے بعد نبی اور رسول نہیں“ سے مراد یہ ہے کہ میرے بعد کوئی شریعت لانے والا نبی اور رسول نہیں ہوگا.(1) عارف ربانی سید عبدالکریم جیلانی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:.فَانْقَطَعَ حُكْمُ نُبُوَّةُ التَّشْرِيعِ بَعْدَهُ وَكَانَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ لِأَنَّهُ جَاءَ بِالْكَمَالِ وَلَمْ يُحِيُّ أَحَدٌ بدالك.الانسان الکامل باب ۳۶ جلد اوّل صفحہ ۷۶) ترجمہ:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تشریعی نبوت کا حکم منقطع ہوا ہے اور اس طرح محمد صلے اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں کیونکہ آپ کمال کو لائے 17
ہیں.اور کوئی اس کمال کو نہیں لا یا.(۷) رئیس الصوفیاء حضرت مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :- فکر کن در راه نیکو خدمتے تا نبوت یابی اندر اُتے ( مثنوی دفتر اول صفحه ۵۳) یعنی خدا کی راہ میں نیکی بجالانے کی ایسی تدبیر کر کہ تجھے امت کے اندر نبوت مل جائے.(۸) حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :.خُتِمَ بِهِ النَّبِيُّونَ أَى لَا يُوجَدُ مَنْ يَأْمُرُهُ اللهُ سُبْحَانَهُ بالتشريع عَلَى النَّاسِ.(تفہیمات الہیہ تفہیم نمبر ۵۳) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبی ختم ہونے کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں ہوسکتا جسے خدا تعالیٰ شریعت دے کر لوگوں کی طرف مامور کرے.(۹) حضرت مولوی عبدالحی صاحب لکھنوی فرنگی محلی تحریر فرماتے ہیں :.بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مجز دکسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شرع جدید البتہ منع ہے“ دافع الوسواس فی اثر ابن عباس ایڈیشن جدید صفحہ ۱۶) (۱۰) نواب صدیق حسن خانصاحب کے فرزند مولوی نورالحسن کی مرتبہ کتاب میں لکھا ہے :.حديث " لَا وَحْيَ بَعْدَ مَوْتى بے اصل ہے ہاں لا نبی بعدی آیا ہے.اس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہیں لائے ( اقتراب الساعۃ صفحہ ۱۶۲) گا یہ عبارت در اصل امام علی القاری علیہ الرحمہ کی ایک عبارت کا ترجمہ ہے جو پہلے پیش کی 18
جاچکی ہے.(۱۱) حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی مدرسہ دیو بند تحریر فرماتے ہیں:.عوام کے خیال میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم و تأخیر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں.پھر مقام مدح میں وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِاين فرمانا کیونکر صحیح ( تحذیر الناس صفحہ ۳) ہو سکتا ہے گویا خاتم النبیین کے معنی مودودی صاحب کی طرح محض آخری نبی آپ کے نزدیک عوام کے معنی ہیں نہ کہ اہلِ فہم کے معنی.پھر وہ خاتم النبیین کے معنی یہ بیان فرماتے ہیں:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم موصوف بوصف نبوت بالذات ہیں اور سوا آپ کے اور نبی موصوف بوصف نبوت بالعرض ہیں.اوروں کی نبوت آپ کا فیض ہے مگر آپ کی نبوت کسی اور کا فیض نہیں.اس طرح آپ پر سلسلہ نبوت مختم ہو جاتا ہے غرض جیسے آپ نبی اللہ ہیں ویسے ہی نبی الانبیاء بھی ( تحذیر الناس صفحہ ۴،۳) گویا نبی الانبیاء خاتم النبیین کے معنی ہیں جو اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف نبوت ذاتی ہے اور آپ کے سوا دیگر تمام انبیاء کا وصف نبوت عرضی ہے یعنی آپ کا فیض ہے.ان معنوں کا مفاد آپ یہ بیان فرماتے ہیں :.بالفرض اگر بعد زمانہ نبوی صلے اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو 19
پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا ( تحذیر الناس صفحہ ۲۸) یہ بارہ مسلمہ بزرگوں کے اقوال ہیں.تیرھویں بزرگ امام راغب علیہ الرحمۃ کا قول ہم پہلے پیش کر چکے ہیں.یہ تیرہ بزرگ علم دین، تفقہ اور للہیت کے لحاظ سے ایسے ممتاز اور قابل فخر وجود ہیں کہ مودودی صاحب جیسے علماء دین اُن کی جوتیاں اُٹھانے کو باعث فخر سمجھیں گے.ان درخشندہ ستاروں کا زمانہ صحابہ کرام سے لے کر ہمارے موجودہ زمانے تک ممتتد ہے.اور یہ حجاز سے لے کر شام ، ترکی، عراق، سپین اور ہندوستان کے مشاہیر بزرگوں میں سے ہیں.(1) ام المومنین حضرت عائشہ الصدیقہ وفات ۵۸ بموجب حدیث نبوی معلمه نصف الدین کہلاتی ہیں.(۲) امام راغب الاصفہانی وفات ۵۰۲ لغت قرآن میں امام ہیں.ان کی کتاب المفردات لغتِ قرآن میں بے نظیر اور سب سے زیادہ مستند ہے.(۳) شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ وفات ۱۳۱ھ (۴) حضرت مولانا جلال الدین الرومی وفات ۶۷۲ هه (۵) پیران پیر حضرت سید عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ قدس سره وفات ۵۶۲ (۶) حضرت سید عبدالکریم جیلانی علیہ الرحمتہ وفات اکھ (۷) امام عبد الوہاب الشعرانی علیہ الرحمۃ وفات 294 (۸) امام محمد طاہر علیہ الرحمتہ وفات ۹۸۶ھ چھ بزرگ علم تصوف میں امام اور علوم دین میں امت کی ممتاز ترین ہستیاں ہے حضرت پیران پیر چھٹی صدی کے مجد دبھی ہیں.20
(۹) الامام علی القاری علیہ الرحمۃ وفات ۱۲ ماه فقہ حنفی کے جلیل القدر امام اور ممتاز شارح حدیث ہیں.(۱۰) حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی وفات کے باھ بارھویں صدی کے مجد داور ممتاز متکلم اسلام ہیں.(۱۱) حضرت مولوی عبدالحی صاحب لکھنوی علیہ الرحمتہ وفات ۰۴ ساھ (۱۲) حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی علیہ الرحمتہ بانی دارالعلوم دیو بندوفات اه آخری دونوں بزرگ فقہ حنفی میں ہندوستان کے جلیل القدر علماء میں سے ہیں.(۱۳) نواب صدیق حسن خانصاحب بھو پالوی وفات کے ساتھ ہندوستان کے اہلحدیث علماء میں سے ممتاز عالم دین تھے ان کی تفسیر فتح البیان عربی زبان میں مصر میں طبع ہوئی ہے.ان تیرہ بزرگوں نے آیت خاتم النبیین اور حدیث لا نبی بعدی وغیرہ کی جو انقطاع نبوت پر دلالت کرتی ہیں یہی تشریح فرمائی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شارع اور مستقل نبی نہیں آسکتا.ان کے نزدیک امتی نبی کا آنا منافی ختم نبوت نہیں.اس لئے یہ سب مسیح موعود کو امتی نبی تسلیم کرتے ہیں.سوال اس جگہ ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر مودودی صاحب کے نزدیک جماعت احمدیہ آیت خاتم النبیین اور حدیث لا نبی بعدی وغیرہ کے یہی معنی لینے کی وجہ سے منکر ختم نبوت ہے تو کیا ان تیرہ بزرگان دین پر بھی وہ کفر کا فتویٰ لگانے پر آمادہ ہیں؟ 21
نبوت کے لئے اسلام میں دو اصطلاحیں ہیں.مکرم مولوی سید محمد حسن صاحب امروہی اپنی کتاب کواکب دریہ میں لکھتے ہیں:.ہیں :- اصطلاح میں نبوت بخصوصیت الہیہ خبر دینے سے عبارت ہے اور وہ دو قسم کی ہے.ایک نبوت تشریعی جو ختم ہوگئی.دوسری نبوت بمعنی خبر دادن ہے اور وہ غیر منقطع ہے.پس اس کو مبشرات کہتے ہیں اپنے اقسام کے ساتھ “ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا پہلی قسم کا دعوی نہیں بلکہ دوسری قسم کا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ”میری مراد نبوت سے یہ نہیں ہے کہ میں نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں.صرف مراد میری نبوت سے کثرت مکالمت و مخاطبت الہیہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہے.سو مکالمہ مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ مخاطبہ رکھتے ہیں میں اس کی کثرت کا نام بحکم الہی نبوت رکھتا ہوں (تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۶۵) (ب) مودودی صاحب اپنے رسالہ ختم نبوت میں آنے والے مسیح کے متعلق روایات درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں :- اس مقام پر یہ بحث چھیڑنا بالکل لا حاصل ہے کہ وہ ( یعنی حضرت مسیح ناصری.ناقل ) وفات پاچکے ہیں یا زندہ موجود ہیں.بالفرض وہ وفات ہی پاچکے ہوں تو اللہ انہیں زندہ کر کے اُٹھا لانے پر قادر ہے (ختم نبوت صفحہ ۵۴) حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات و وفات کی بحث اس موقع پر لا حاصل نہیں بلکہ از بس ضروری ہے کیونکہ حضرت عیسی علیہ السّلام کو وفات یافتہ یقین کرنے کی وجہ سے جماعت احمدیہ 22
حضرت مسیح ابن مریم کے نزول کو ایک امتی فرد کے لئے استعارہ یقین کرتی ہے.دراصل مودودی صاحب اس بحث سے گریز اس لئے کر رہے ہیں کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے مقابلہ میں حیات مسیح ثابت کرنے کی انہیں جرات نہیں.کیونکہ قرآن مجید کی نص وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ، فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ (سوره مائده آخری رکوع ) ان کی وفات پر روشن دلیل ہے.حضرت عیسی علیہ السّلام ان الفاظ میں خدا تعالیٰ کے حضور کہتے ہیں کہ میں اپنی قوم میں اُسوقت تک نگران رہا تھا جب تک ان لوگوں میں موجود رہا لیکن جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر ان پر تو ہی نگران تھا.گویا وہ بتاتے ہیں کہ میری قوم میری موجودگی یعنی علم میں نہیں بگڑی.میری موجودگی میں انہوں نے مجھے اور میری ماں کو معبود نہیں بنایا.اگر میری قوم بگڑی ہے تو میری وفات کے بعد بگڑی ہوگی جبکہ میری نگرانی بگی ختم ہو چکی تھی.چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی قوم بگڑ چکی ہوئی ہے اس لئے حضرت عیسی علیہ السّلام کی وفات اس بیان سے روزِ روشن کی طرح ظاہر ہے.الفاظ كُنت أنتَ الرَّقِيبٌ عَلَيْهِم انکی اصالتا دوبارہ آمد کی نفی کرتے ہیں اسی طرح حدیث نبوی میں وارد ہے.اِن عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَاشَ مِائَةَ وَعِشْرِينَ سَنَةً ( کنز العمال جلد ۲ صفحہ ۱۶۰ وطبرانی) کہ بیشک عیسی بن مریم ایک سو بیس سال زندہ رہے.پس ان کے اس وقت تک یعنی دو ہزار سال تک زندہ ہونے کا خیال ان نصوص کے صریح خلاف ہے.اور مولوی مودودی صاحب کا ان کو وفات یافتہ فرض کر کے ان کے دوبارہ زندہ کئے جانے کا خیال پیش کرنا بھی ان نصوص قرآنیہ وحدیثیہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے سراسر باطل ہے جو او پر پیش کی جاچکی ہے.نیز قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.اللهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتُ فِي مَنَامِهَاءَ 23
فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى (سورہ زمر رکوع ۵) یعنی اللہ قبض کرتا ہے روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جو نہ مریں انہیں نیند میں قبض کرتا ہے.پس جس روح پر موت وارد کرتا ہے اسے روکے رکھتا ہے اور دوسری کو ایک مقررہ مدت تک واپس بھیجتا رہتا ہے.یہ آیت اس امر پر شاہد ناطق ہے کہ جس نفس پر موت وارد ہوتی ہے اسے خدا تعالیٰ رو کے رکھتا ہے یعنی دوبارہ دُنیا میں نہیں بھیجتا.ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے:.ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذلِكَ لَمَيْتُونَ، ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ تُبْعَثُونَ (مومنون رکوع ۱) یعنی (جسمانی زندگی کے بعد ) پھر تم ضرور مرنے والے ہو.پھر تم قیامت کے دن ہی زندہ کئے جاؤ گے.یہ آیت بھی اس بات پر نص صریح ہے کہ جسمانی موت کے بعد اس دُنیا میں دوبارہ زندہ کیا جانا خدا تعالیٰ کے اس وعدہ اور قانون کے خلاف ہے جو وہ قرآن مجید کی آیت میں بیان کر چکا ہے بلکہ مرنے والے حسب وعدہ الہی قیامت ہی کو زندہ ہوں گے.اسی طرح حدیث میں وارد ہے کہ حضرت جابر کے والد حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ جب شہید ہو گئے اور وہ خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہوئے تو خدا تعالیٰ نے انہیں کہا تم عَلَى أُعْطِكَ تو آرزو کر میں تیری آرزو پوری کروں گا.اس پر حضرت عبداللہ نے یہ آرزو کی کہ میں دوبارہ زندہ کیا جاؤں تا کہ خدا کی راہ میں دوبارہ قتل کیا جاؤں.ان کی اس آرزو پر خدا تعالیٰ نے فرمایا.قَدْ سَبَقَ مِنِى الْقَوْلُ إِنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ کہ یہ میرا قول ہو چکا ہے کہ مرنے والے دُنیا 24
میں نہیں لوٹیں گے.گو یا خدا تعالیٰ نے اپنے اس قول کی وجہ سے ان کی اس آرزو کو پورا نہ کیا حالانکہ اس کا وعدہ تھا کہ وہ ان کی آرزو پوری کرے گا لیکن چونکہ انہوں نے ایسی آرزو کی جو خدا تعالیٰ کے پہلے قول کے خلاف تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے اپنے قانون کے خلاف ہونے کی وجہ سے اُن کی آرزو پوری نہیں کی.( مشکوۃ باب جامع المناقب) پس مردہ کا دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں آنا جب قرآن مجید میں خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے خلاف ہے تو مودودی صاحب کا یہ خیال کہ حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ زندہ ہو کر آجائیں گے ایک خیال خام اور وہم سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں رکھتا جسمیں وہ مسلمانوں کو مبتلا کرنا چاہتے ہیں.پس اس مسئلہ کا مدار محض قدرت الہی پر نہیں رکھا جاسکتا.گوا سے مردہ کو زندہ کرنے کی قدرت تو ہے مگر اس کا دنیا میں ظہور اس کے اپنے وعدہ و قانون کے خلاف ہے.سوال ۵ لیکن اگر حضرت مسیح کی وفات مان کر ان کا دوبارہ زندہ کیا جانا بھی فرض کیا جائے تو اس پر ہمارا یہ سوال ہے کہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام وفات پانے کے بعد زندہ ہوکر آئیں گے تو پھر مودودی صاحب ان حدیثوں کی کیا تاویل کریں گے جنہیں وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان سے اترنے کے ثبوت میں اپنے رسالہ میں پیش کر رہے ہیں اگر حضرت مسیح کے آسمان سے اترنے کی تعبیر ان کے دوبارہ زندہ کیا جانے سے ہو سکتی ہے تو اس کی یہ تعبیر کیوں نہیں ہوسکتی کہ ان احادیث سے مراد یہ ہے کہ کوئی امتی فرد حضرت عیسی علیہ السلام کا مثیل ہو کر آئے گا اور اپنے ساتھ آسمانی تائید رکھتا ہوگا کیونکہ مردہ کا زندہ ہو کر آنا تو قرآن مجید اور احادیث نبوی میں بیان کردہ قانون کے صریح خلاف ہے مگر ہماری تعبیر تو کسی آیت قرآنیہ کے خلاف نہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں :.25
یا در ہے کہ ہم میں اور ان لوگوں میں بجز اس ایک مسئلہ کے اور کوئی مخالفت نہیں.یعنی یہ کہ یہ لوگ نصوص صریحہ قرآن اور حدیث کو چھوڑ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کے قائل ہیں اور ہم بموجب نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ متذکرہ بالا کے اور اجماع ائمہ اہل بصارت کے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں.اور نزول سے مراد وہی معنے لیتے ہیں جو اس سے پہلے حضرت ایلیا نبی کے دوبارہ آنے اور نازل ہونے کے بارے میں حضرت عیسی علیہ السلام نے معنے کئے تھے.فَسْتَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ.اور ہم بموجب نص صریح قرآن شریف کے جو آیت فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ سے ظاہر ہوتی ہے اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ جولوگ اس دنیا سے گزر جاتے ہیں پھر وہ دنیا میں دوبارہ آباد ہونے کے لئے نہیں بھیجے جاتے اس لئے خدا نے بھی اُن کے لئے قرآن شریف میں مسائل نہیں لکھے کہ دوبارہ آکر مال تقسیم شدہ ان کا کیونکران (ایام الصلح صفحہ ۸۸، ۸۹) کو ملے (ج) مودودی صاحب لکھتے ہیں :.” بہر حال جو شخص حدیث کو مانتا ہے اسے یہ ماننا پڑیگا.کہ آنے والے وہی عیسی بن مریم ہوں گے.وہ پیدا نہیں بلکہ نازل ہوں گے.“ سوال اس پر ہمارا سوال ہے کہ جب مودودی صاحب نے ان کی وفات فرض کر کے ان کا دوبارہ زندہ ہو کر آنامان لیا تو جب ان احادیث میں نزول کے لفظ کی تعبیر مر کر زندہ ہونے سے ہو سکتی ہے تو اس کی تعبیر مسیح موعود کے امت محمدیہ میں پیدا ہونے سے کیوں نہیں ہوسکتی؟ جبکہ قرآن مجید 26
میں خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہونے کے باوجود آپ کے اعزاز واکرام کی وجہ سے آپ کے متعلق نزول کا لفظ استعمال فرمایا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.قَدْ أَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَّسُوْلًا يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آيَتِ اللهِ (طلاق رکوع ۲) یعنی بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف ذکر رسول نازل کیا ہے جو تم پر اللہ کی کھلی آیات پڑھتا ہے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نزول کا لفظ پیدا ہونے کے باوجود تائید سماوی کے لئے اکر اما استعمال ہوا ہے تو اسی طرح مسیح موعود کے لئے نزول کا لفظ آسمانی تائید یافتہ ہونے کی وجہ سے کیوں استعمال نہیں ہو سکتا ؟ چونکہ یہ احادیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکاشفات پر مبنی ہیں اس لئے یہ سب تعبیر طلب ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود یہ ہے کہ امت محمدیہ کے مسیح موعود کو عیسی یا ابن مریم کا نام حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مماثلت رکھنے کی وجہ سے دیا گیا ہے.چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث میں اسی وجہ سے اس کے لئے فَأَمَّكُم مِنْكُمْ اور بخاری شریف میں اِمَامُكُمْ منكُمْ اور مسند احمد بن حنبل میں اِمَامًا مَهْدِيَّا حَكَبًا عَدْلًا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں یعنی یہ ابن مریم تم میں سے تمہارا امام ہوگا اور یہ ابن مریم امام مہدی ہوگا.پس امت کے امام مہدی ہی کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہے عیسی ابن مریم کا نام استعارہ دیا گیا ہے فَاقَكُمْ مِنْكُمْ کے الفاظ مندرجہ صحیح مسلم یعنی ابن مریم تم میں سے تمہارا امام ہوگا اس بات پر صریح الدلالت ہیں کہ ابن مریم سے مراد اسرائیلی مسیح نہیں بلکہ امت محمدیہ کا امام مہدی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک امتی نبی اور خلیفہ کی حیثیت میں حضرت مسیح ابن مریم کا مثیل ہو کر آنے والا تھا.پس ابن مریم اور عیسی کا نام امام مہدی کو بطور استعارہ دیا گیا ہے.27
از روئے قرآن مجید کوئی خلیفہ باہر سے نہیں آسکتا قرآن مجید اس بات پر روشن گواہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے کوئی خلیفہ باہر سے نہیں آسکتا اور جو خلفاء بھی ہوں گے وہ ان خلفاء سے جو امت محمدیہ سے پہلے گذر چکے ہیں مشابہت اور مماثلت رکھیں گے.چنا نچہ اللہ تعالیٰ سورہ ٹور میں فرماتا ہے:.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ (سوره نور رکوع ۷) یعنی اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایمان لاکر اعمال صالحہ بجالانے والوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنا یا جو اُن سے پہلے گزر چکے ہیں.اس آیت سے ظاہر ہے کہ امت محمدیہ کے خلفاء امت محمدیہ میں سے ہی ہونے والے ہیں اور یہ خلفاء پہلے خلفاء کے مشابہ اور ان کے مثیل ہوں گے.جس پر كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ کے الفاظ دال ہیں نہ یہ کہ کوئی پہلا نبی وخلیفہ امت محمدیہ میں خلیفہ ہوکر آجائے گا.اس آیت میں امت محمدیہ کے خلفاء مشتبہ اور انبیائے بنی اسرائیل جو اُن سے پہلے گذر چکے ہیں مشبہ یہ ہیں کیونکہ وہ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيُّ خَلَفَهُ نَہ کی حدیث کے مطابق امت محمدیہ سے پہلے خلفاء ہیں.پس امت محمدیہ کے خلفاء انبیائے بنی اسرائیل کے مشابہ ہونے کی وجہ سے اُن کے مثیل تو ہو سکتے ہیں لیکن انبیائے بنی اسرائیل جو سب مشتبہ یہ ہیں ان میں سے کوئی نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آکر آپ کا خلیفہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اس طرح مشتبہ اور مشبہ یہ کا عین ہونالا زم آتا ہے جو محال ہے کیونکہ مشتبہ ہمیشہ مشتبہ یہ کا غیر ہوتا ہے.پس اس آیت کی روشنی 28
میں امت محمدیہ کا امام مہدی تو حضرت عیسی علیہ السلام کا مثیل ہونے کی وجہ سے عیسی یا ابن مریم کا نام پاسکتا ہے مگر حضرت عیسی علیہ السلام امت محمدیہ میں آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ نہیں ہو سکتے.لہذا ان کی زندگی یا وفات پا کر زندہ ہونے کا خیال ایک وہم ہی وہم ہے کیونکہ اس آیت کے رو سے جب وہ امت محمدیہ میں خلیفہ ہو کر آہی نہیں سکتے تو انہیں زندہ رکھنا لا حاصل ہے.سوال کے کیا مودودی صاحب ہمارے اس سوال کا کوئی جواب دے سکتے ہیں کہ اس آیت کی روشنی میں حضرت عیسی علیہ السلام امت محمدیہ میں امام اور خلیفہ ہوکر کیسے آسکتے ہیں؟ (1) مودودی صاحب نے رسالہ ختم نبوت میں نزول مسیح کی مختلف روایات پیش کر کے جود وسر ا نتیجہ نکالا ہے وہ ان کے الفاظ میں یوں ہے :- ” دوسری بات جو اتنی وضاحت کے ساتھ ان احادیث سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابن مریم علیہ السلام کا یہ دوبارہ نزول نبی کی حیثیت میں نہیں ہوگا اور نہ اُن پر وحی نازل ہوگی اس کے متعلق عرض ہے کہ اس نتیجہ کی دونوں شقیں سراسر باطل ہیں کیونکہ صحیح مسلم کی اس حدیث میں ان دونوں شقوں کی صریح تردید موجود ہے جسے نواس بن سمعان کی روایت سے خود مودودی صاحب نے اپنے رسالہ کے صفحہ ۴۶ پر پیش کیا ہے مگر اس کے بعد کا وہ حصہ دانستہ حذف کر دیا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ کے مسیح موعود کو چار دفعہ تکرار کے ساتھ نبی اللہ قرار دیا ہے اور اس پر وحی نازل ہونے کا بھی ذکر فرمایا ہے.مودودی صاحب 29
نے حدیث کا یہ حصہ عمد درج نہیں کیا تا کہ ان کے اس خیال باطل پر پردہ پڑار ہے کہ مسیح موعود نبی کی حیثیت سے نہیں آئے گا اور نہ اس پر وحی نازل ہوگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حدیث میں فرماتے ہیں:.وَيُحْصَرُ نَبِيُّ اللهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ...فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَاَصْحَابُهُ...ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللهِ عِيسَى وَأَصْحَابُ....فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابه إلى الله - ( صحیح مسلم باب خروج الدجال ) یعنی جب مسیح موعود یا جوج ماجوج کے زور کے زمانہ میں آئے گا تو مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابی دشمن کے نرغہ میں محصور ہو جائیں گے تو پھر مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابہ خدا کے حضور رجوع کریں گے...پھر مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابی ایک خاص جگہ اتریں گے...پھر مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابی خدا تعالیٰ کے حضور تضرع کے ساتھ رجوع کریں گے.سوال A اب مودودی صاحب پر ہمارا سوال ہے کہ جب اس حدیث میں چار دفعہ تکرار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کو نبی اللہ قرار دیا ہے تو انہیں کیا حق ہے کہ وہ یہ خیال پیش کریں کہ مسیح موعود نبی کی حیثیت میں نہیں آئے گا ؟ پس مودودی صاحب کا خیال محض ان کی ایجاد ہے اور حدیث کے منشاء کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل ہے.پھر اسی حدیث میں لکھا ہے:.إِذْ أَوْحَى الله إلى عِيسَى أَنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِّي لَا يَدَانِ 30
لاحَدٍ بِقِتَالِهِمْ کہ خدا تعالیٰ عیسی موعود کو وحی کرے گا کہ میں نے کچھ بندے ( یعنی یا جوج ماجوج ) نکالے ہیں جن سے کسی کو لڑنے کی طاقت نہیں.عجیب بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسیح موعود پر وحی نازل ہوگی مگر مودودی صاحب مسلمانوں سے یہ منوانا چاہتے ہیں کہ مسیح موعود پر وحی نازل نہیں ہوگی.اب مسلمانوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل مودودی صاحب کے خیال کو غلط تصور کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں.سوال اگر مودودی صاحب به پوری حدیث درج کر دیتے تو وہ یہ دونوں باتیں نہیں کہہ سکتے تھے.اب مودودی صاحب بتائیں کہ انہوں نے نقل کرتے ہوئے حدیث کے یہ دونوں حصے کیوں درج نہیں کئے.کیا اسی لئے نہیں کہ ان کے جھوٹ پر پردہ پڑا رہے؟ علمائے امت کامذہب مسیح موعود کی حیثیت متعلق علمائے امت کا عقیدہ بھی مسیح موعود کی حیثیت کے متعلق یہی ہے کہ وہ نبی اللہ ہوں گے.نبوت کے بغیر نہیں آئیں گے.چنانچہ نواب صدیق حسن خاں لکھتے ہیں :.مَنْ قَالَ بِسَلْبِ نُبُوَتِهِ كَفَرَ حَقًّا كَمَا صَدَحَ بِهِ السُّيُوطِيُّ حج الكرامه صفحه ۱۳۱) کہ جو شخص یہ کہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے وقت نبی نہ ہوں گے 31
وہ پکا کا فر ہے جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی نے اس کی وضاحت کی ہے.پھر وہ لکھتے ہیں :.فَهُوَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَإِنْ كَانَ خَلِيفَةً فِي الْأُمَّةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ فَهُوَ رَسُولُ وَنَبِيُّ كَرِيمٌ عَلَى حَالِهِ ( حجج الکرام صفحه ۴۲۶) یعنی اگر چہ عیسی علیہ السلام اس امت میں خلیفہ ہوں گے مگر وہ اپنے پہلے حال پر نبی اور رسول بھی ہوں گے.حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن العربی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :.عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ يَنْزِلُ فِيْنَا حَكَمًا مِنْ غَيْرِ تَشْرِيعِ وَهُوَ نَبِيُّ بِلا شَكٍ.(فتوحات مکیہ جلد اوّل صفحه ۵۷۰) یعنی عیسی علیہ السلام ہم میں حکم کی حیثیت میں بغیر شریعت کے نازل ہوں گے اور وہ بلا شک نبی ہوں گے.ہاں حضرت محی الدین ابن العربی یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں:.ہے:.وَجَبَ نُزُولُهُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ يَتَعَلَّقِهِ بِبَدَنِ أَخَرَ ( تفسیر محی الدین ابن العربی برحاشیہ عرائس البیان صفحه ۲۶۲) کہ حضرت عیسی کا نزول آخری زمانہ میں کسی اور بدن یعنی وجود سے متعلق ہوگا.یعنی حضرت عیسی علیہ السلام اصالتا نہیں بلکہ بروزی طور پر آئیں گے.صوفیاء کے ایک گروہ کا یہی مذہب چلا آیا ہے جیسا کہ اقتباس الانوار صفحہ ۵۲ پر بھی لکھا بعض بر آنند که روح عیسی در مهدی بروز کند و نزول عبارت از ہمیں بروز 32
است مطابق ایس حدیث کہ لا مهدی الا عیسی کہ بعض صوفیاء کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسی علیہ السلام کی روح (یعنی کمالاتِ روحانیہ ) مہدی میں بروز کریں گے.عیسی علیہ السلام کے نزول سے مراد یہی بروز ہے مطابق حدیث لا مهدی الا عیسی کے (یعنی کوئی مہدی نہیں سوائے عیسی کے ) خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:.يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنْكُمْ أَنْ يَلْقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اِمَامًا مَهْدِيَّا حَكَمًا عَدُلًا يَكْسِرُ الصَّلِيْب وَيَقْتُلُ الْخِنْزِير الخ ( مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۴۱۱) یعنی قریب ہے کہ جو تم میں سے زندہ ہو وہ عیسی بن مریم سے اس کے امام مہدی اور حکم و عدل ہونے کی حالت میں ملاقات کرے.اس حدیث میں حدیث لا مهدی الا عیسی کی طرح امام مہدی اور عیسی بن مریم ایک ہی شخص قرار دیئے گئے ہیں اور امام مہدی کے متعلق دوسری تمام حدیثیں اسے امت محمدیہ کا ایک فرد قرار دیتی ہیں.پس حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان سے اصالتاً اترنے کا خیال باطل ہے احادیث امت محمدیہ کے امام مہدی کو ہی امت کا عیسی موعود قرار دیتی ہیں تا کہ امام مہدی کی عیسی علیہ السلام سے مماثلت پر دلیل ہو.33
مسیح موعود پروحی نازل ہونے متعلق علماء کا عقیدہ مسیح موعود پر صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق وحی نازل ہونے کا عقیدہ بھی علمائے امنت میں مسلم ہے.چنانچہ علامہ الوہی رُوح المعانی میں بحوالہ ابن حجر ہیٹی لکھتے ہیں :.نَعَمُ يُوحَى عَلَيْهِ السَّلَامُ وَحَى حَقِيقِيُّ كَمَا فِي حَدِيثِ مُسْلِمٍ - ( تفسیر روح المعانی جلدے صفحہ ۶۵) یعنی ہاں عیسی علیہ السلام پر بعد از نزول وحی حقیقی نازل ہوگی جیسا کہ مسلم کی حدیث میں آیا ہے.اور پھر لکھا ہے:.حَدِيثُ لَا وَحْيَ بَعْدَ مَوْتِ بَاطِلُ وَمَا اشْتَهَرَ أَنَّ جِبْرِيلَ لَا يَنْزِلُ إِلَى الْأَرْضِ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهُوَ لَا أَصْلَ لَهُ - (روح المعانی جلد 2 صفحہ ۶۵) یعنی حدیث لا وحی بعد موتی بے اصل ہے اور یہ جو مشہور ہے کہ جبریل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد زمین پر نازل نہیں ہوتے یہ بے اصل ہے.پس مودودی صاحب کی یہ دونوں باتیں کہ مسیح موعود نبی کی حیثیت میں مبعوث نہیں ہوگا اور اس پر وحی نازل نہیں ہوگی حدیث نبوی کے بھی خلاف ہیں اور علمائے امت کے عقیدہ کے بھی خلاف ہیں.اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ انہوں نے یہ دونوں باتیں کہاں سے اخذ کی ہیں کیونکہ خدا اور رسول کے اقوال تو ان کا ماخذ نہیں ہو سکتے.خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں مسیح موعود کا امتی نبی کی حیثیت میں آنا علمائے 34
امت کو بجز مودودی صاحب مسلّم ہے اور یہ عقیدہ بموجب حدیث صحیح مسلم خاتم النبیین کے منافی نہیں اور آیت خاتم النبیین کے لازمی معنی آخری شارع اور مستقل نبی قرار پاتے ہیں نہ کہ محض آخری نبی جو بقول مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی محض ایک عامیانہ خیال ہے نہ کہ اہل فہم کے معنی پس مودودی صاحب کا رسالہ ختم نبوت ان کا کوئی علمی کارنامہ نہیں محض بعض سطحی خیالات کا مرقع ہے.ข امام غزائی پر افتراء مودودی صاحب نے جو حوالہ جات پیش کئے ہیں ان میں سے بعض میں کتر و بیونت سے کام لیا ہے لیکن امام غزالی علیہ الرحمہ کے حوالہ میں صریح تحریف سے بھی کام لیا ہے چنانچہ اپنے رسالہ کے صفحہ ۲۴ پر مودودی صاحب نے امام غزالی کی کتاب الاقتصاد صفحہ ۱۱۳ کے حوالہ سے ان کی طرف ذیل کی عبارت منسوب کی ہے:.امت نے بالا تفاق اس لفظ لا نبی بعدی سے یہ سمجھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد کسی نبی اور کسی رسول کے کبھی نہ آنے کی تصریح فرما چکے ہیں اور یہ کہ اس میں کسی تاویل و تخصیص کی کوئی گنجائش نہیں ہے.اب جو شخص اس کی تاویل کر کے اسے کسی خاص معنی کے ساتھ مخصوص کرے اس کا کلام محض بکواس ہے جس پر تکفیر کا حکم لگانے میں کوئی امر مانع نہیں ہے کیونکہ وہ اس نص کو جھٹلا رہا ہے جس کے متعلق تمام امت کا اجماع ہے“ (رساله ختم نبوت صفحه ۲۴-۲۵) جن الفاظ پر ہم نے خط کھینچ دیا ہے یہ الفاظ امام غزالی پر سراسر افتراء ہیں کیونکہ ان کی کتاب الاقتصاد صفحہ ۱۱۳ پر ہرگز ایسے الفاظ موجود نہیں.جن کا ترجمہ یہ الفاظ ہوسکیں.مولوی مودودی صاحب نے امام غزائی کے فتویٰ کے رو سے احمدیوں کو خاتم النبیین کی نص کا مکذب 35
اور کا فرٹھہرانے کے لئے امام غزالی کی طرف یہ الفاظ منسوب کر کے ان پر افتراء کیا ہے.کیونکہ الاقتصاد میں کوئی ایسی عبارت موجود نہیں جس کا یہ ترجمہ ہو سکے، جومودودی صاحب نے درج کیا ہے بلکہ اس عبارت سے کچھ پہلے امام غزالی تحریر فرماتے ہیں:."جو شخص حضرت ابوبکر کے وجود اور ان کی خلافت سے انکار کرے اس کی تکفیر لازم نہیں ہوگی کیونکہ یہ اصول دین میں سے جن کی تصدیق ضروری ہے کسی اصل کی تکذیب نہیں ہے بخلاف حج اور نماز اور ارکانِ اسلام کے.ہم اسے اجماع کی مخالفت کی بناء پر کافر نہیں ٹھہرائیں گے کیونکہ ہمیں نظام کو کا فرٹھہرانے میں بھی اعتراض ہے.جو سرے سے اجماع کے وجود کا ہی منکر ہے کیونکہ اجماع کے قطعی حجت ہونے میں بہت مشبہ ہے.جب اجماع کے منکر پر امام غزالی اجماع کے قطعی حجت ہونے میں مشبہ کی بناء پر کفر کا فتویٰ نہیں لگاتے اور سرے سے اجماع کے وجود کے منکر کو بھی کافر نہیں ٹھہراتے تو یہ کس طرح ممکن ہے وہ آگے چل کر خود ہی لا نبی بعدی کی تاویل کرنے والے کو نص کا مکذب اور کافر ٹھہراتے ؟ پس مودودی صاحب نے امام غزالی کی طرف سے اپنے رسالہ ختم نبوت میں جو عبارت نقل کی ہے اس کے خط کشیدہ الفاظ سراسر محرف ہیں اور امام غزالی پر افتراء ہیں.ایک دینی عالم کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ خدا کے خوف کو بالائے طاق رکھ کر حوالہ کے پیش کرنے میں اس قسم کی خیانت سے کام لے جس کا ارتکاب مودودی صاحب نے اس عبارت میں کیا ہے.مودودی صاحب یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ میں نے اپنی سمجھ کے مطابق امام غزالی کی تحریر کا مفہوم لکھا ہے کیونکہ تحقیقاتی کمیشن کے سامنے دس سوالوں کے جواب میں وہ امام غزالی کی کتاب 36
الاقتصاد صفحہ ۱۱۳ کی عربی عبارت میں بھی اُسی تعریف کا ارتکاب کر چکے ہیں.تحقیقاتی کمیشن کے سامنے انہوں نے عربی عبارت یوں پیش کی تھی جو ان کے مطبوعہ تیسرے بیان میں بھی درج ہے:.ان الأمة فهمت بالاجماع من هذا اللفظ انّه أفهم عدم النبي بعده ابدا وعدم رسول بعده وانه ليس فيه تاویل ولا تخصيص وَ مَنْ أَوَّلَهُ بتَخْصِيصٍ فكلامه من انواع الهذيان لا الحكم بتكفيره لانه مكلّب لهذا النص الذي اجمعت يمنع الامة على انه غير مأوّل ولا مخصوص (الاقتصاد صفحه ۱۱۲) " اس عبارت میں بھی خط کشیدہ الفاظ محرف ہیں اور امام غزالی کی کتاب الاقتصاد صفحہ ۱۱۳ میں محولہ عبارت اس طرح موجود نہیں.غرض امام غزالی نے ایسے شخص کو جو اجماع کا منکر ہولیکن وہ اصل نص کو مانتا ہو اس جگہ نص کا مکذب قرار نہیں دیا.امام غزالی کے نزدیک تو ماول کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا.سوال ا کیا مودودی صاحب یا ان کے حامیوں میں یہ جرات ہے کہ وہ خط کشیدہ عبارت مودودی صاحب کے پیش کردہ الفاظ میں الاقتصاد سے دکھا سکیں؟ ہرگز نہیں.ہرگز نہیں وَلَوْ سَكَان بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا - واضح رہے کہ امت محمدیہ کا اجماع صرف اس بات پر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی تشریعی نبی نہیں آسکتا.آیت خاتم النبیین اور لا نبی بعدی وغیرہ احادیث سے صرف شارع نبی کے انقطاع پر اجماع امت قرار دیا گیا ہے اور جماعت احمد یہ اس اجماع 37
امت کو درست تسلیم کرتی ہے اور اس اجماع میں شریک ہے اور شارع نبی کی آمد کا کسی تاویل و تخصیص کے ساتھ جو از منافی ختم نبوت یقین کرتی ہے.آیت خاتم النبیین کی تفسیر اللہ تعالیٰ نے سورہ احزاب میں فرمایا ہے.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ، وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا.یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کی مہر ہیں اور اللہ ہر شے کو جاننے والا ہے.مودودی صاحب اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :.یہ آیت سورہ احزاب کے پانچویں رکوع میں نازل ہوئی ہے اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے کفار و منافقین کے اعتراضات کا جواب دیا ہے جو حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح پر طعن و تشنیع اور بہتان و افتراء کے طوفان اُٹھا رہے تھے...ان کا اولین اعتراض یہ تھا کہ آپ نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے حالانکہ آپ کی اپنی شریعت میں بھی بیٹے کی منکوحہ باپ پر حرام ہے.اس کے جواب میں فرمایا گیا مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ "محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، یعنی جس شخص کی مطلقہ سے نکاح کیا گیا ہے وہ بیٹا تھا کب کہ اس کی مطلقہ سے نکاح حرام ہوتا.تم لوگ تو خود جانتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سرے سے کوئی بیٹا ہے ہی نہیں“ 38
مودودی صاحب کا بیان یہاں تک بالکل درست ہے.مگر آگے وہ لکھتے ہیں :.ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اچھا اگر منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہے جب بھی اس کی چھوڑی ہوئی عورت سے نکاح کر لینا زیادہ سے زیادہ بس جائز ہی ہو سکتا تھا آخر اس کا کرنا کیا ضرور تھا.اس کے جواب میں فرمایا گیا.وَلكِن رَّسُولَ اللہ مگر وہ اللہ کے رسول ہیں یعنی ان کے لئے ضروری تھا کہ جس حلال چیز کو تمہاری رسموں نے خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے اس کے بارے میں تمام تعصبات کا خاتمہ کر دیں اور اس کی حلت کے معاملہ میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں.پھر مزید تاکید کے لئے فرمایا.وَخَاتَمَ النَّبِین یعنی ان کے بعد کوئی رسول تو در کنار کوئی نبی تک آنے والا نہیں ہے کہ اگر قانون اور معاشرے کی کوئی اصلاح ان کے زمانے میں نافد ہونے سے رہ جائے تو بعد کا آنے والا نبی یہ کسر پوری کر دے لہذا یہ اور بھی ضروری ہو گیا تھا کہ اس رسم جاہلیت کا خاتمہ وہ خود ہی کر کے جائیں“ (رساله ختم نبوت صفحه ۷،۶) یہ دوسرا اعتراض جو کفار و منافقین کی طرف سے آیت مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ پر وارد ہونا مودودی صاحب نے بیان کیا ہے اس کا چونکہ کوئی تاریخی ثبوت مودودی صاحب کے پاس نہ تھا اس لئے رسالہ ختم نبوت کے حاشیہ میں اسے سیاق کلام سے ماخوذ قرار دیا ہے مگر آج تک کسی مفتر کا ذہن سوائے مودودی صاحب کے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ سے یہ اعتراض پیدا ہونے کی طرف منتقل نہیں ہوا.بلکہ یہ سوال آیت مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ سے صرف مودودی صاحب کے ذہن کی پیداوار ہے حالانکہ اگلے الفاظ وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِین در اصل اس سوال کا جواب بن ہی نہیں 39
سکتے کہ چونکہ آپ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اس لئے آپ کے لئے اس نکاح کا کرنا ضروری تھا.کیونکہ یہ سوال تو اس جواب کے بعد بھی باقی رہتا ہے کہ اگر آپ اللہ کے رسول و خاتم النبین ہیں تو اس نکاح کے جائز ہونے کی صورت میں آپ کے لئے اس کا کرنا کیا ضروری تھا؟ یہ تو کوئی جواب نہیں کہ چونکہ آپ رسول اللہ اور خاتم النبیین ہیں اس لئے آپ کے لئے یہ نکاح کرنا ضروری تھا.امت کے لئے ایسے نکاح کی حلت خدا تعالیٰ اپنے کلام میں بیان کر سکتا تھا یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول سے اس کی حلت قرار دے سکتے تھے.تو کرنا کیا ضرور تھا کا جواب رَّسُولَ الله اور خَاتَمَ النَّبِيِّن کے الفاظ نہیں ہو سکتے.یہ سوال مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ سے اس لئے بھی پیدا نہیں ہوتا کہ اس اعتراض کا جواب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نکاح کیوں کیا ہے؟ جبکہ زید آپ کا منہ بولا بیٹا تھا.اللہ تعالیٰ آیت خاتم النبیین کے نزول سے پہلے خودان الفاظ میں دے چکا تھا:.فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوِّجُنُكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ اَدْعِيَابِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا احزاب رکوع ۵) یعنی جب زید نے زینب کو طلاق دے دی تو ہم نے اس کا نکاح تجھ سے کرادیا تا مومنوں کے دل میں اپنے منہ بولے بیٹوں کی ازواج سے نکاح کرنے میں جبکہ وہ انہیں طلاق دے دیں کوئی انقباض باقی نہ رہے.لہذا اس آیت کی موجودگی میں مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ سے کوئی کافر اور منافق یہ سوال کرنے کا حق نہیں رکھتا تھا کہ آخر اس نکاح کا کرنا کیا ضرور تھا.کیونکہ اس کا جواب تو اللہ تعالیٰ پہلے ہی دے چکا تھا.پس وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ کے الفاظ ایسے سوال کا جواب نہیں ہو سکتے.40
اگر اس کے باوجود مودودی صاحب کو اصرار ہو کہ کم از کم ان کے روشن دماغ میں تو ما كَانَ مُحَمَّدُ أَبَا أَحَدٍ سے زَوَّجُنُكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَج کی موجودگی میں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے یہ نکاح کیوں کیا ؟ تو ہم ان کی خدمت میں عرض پرداز ہیں کہ انہوں نے وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِین کے الفاظ کا یہ ترجمہ کس بناء پر کیا ہے کہ ” کوئی رسول تو درکنار کوئی نبی تک آنے والا نہیں ہے حالانکہ در کنار کے مفہوم کے لئے آیت ہذا میں کوئی لفظ موجود نہیں بلکہ یہ لفظ آپ نے خاتم النبیین کے اپنے مفروض اور خیالی مفہوم کو سہارا دینے کے لئے ترجمہ میں داخل کر دیا ہے.اگر بالفرض اس جگہ مودودی صاحب کے خیال میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ اس نکاح کا کرنا کیا ضرور تھا ؟ تو نکاح تو ایک شرعی مسئلہ تھا جسے ایک شارع نبی ہی اپنے قول یا فعل سے حل کر سکتا تھا اس لئے جواب میں رسول اللہ اور خاتم النبیین “ کے الفاظ اس صورت میں آپ کی شرعی حیثیت کو بیان کرنے کے لئے سمجھے جاسکتے ہیں رسول اللہ کے الفاظ ایک شارع رسول کی حیثیت ظاہر کرنے کے لئے اور خاتم النبیین کے الفاظ نبیوں میں سے ایک اکمل شریعت لانے والے نبی کی حیثیت کو ظاہر کرنے کے لئے ہیں.چنانچہ مودودی صاحب نے خود لکھا ہے:.وو یعنی اُن ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لئے ضروری تھا کہ جس چیز کو تمہاری رسموں نے خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے اس کے بارے میں تمام تعصبات کا خاتمہ کر دیں اور اس کی حلت کے معاملے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں (رساله ختم نبوت صفحه ۶) جب اس غرض کے لئے بقول مودودی صاحب "رسول اللہ “ اور ” خاتم النبیین“ کے الفاظ لائے گئے تو صاف ظاہر ہے کہ اس جگہ ”رسول“ سے مراد شارع رسول“ اور” خاتم 41
66 التبيين “ سے مراد نبیوں میں سے شریعت کی ہر طرح سے تکمیل کر دینے والے نبی کے ہوئے جن کے بعد کوئی شارع نبی نہیں آسکتا بلکہ اگر آ سکتا ہے تو ان کی خاتمیت کے فیض سے ہی اثر پذیر ہوکر اور ان کی شریعت کی پیروی کرنے کے بعد بہ حیثیت ایک امتی نبی ہی کے آسکتا ہے جیسا کہ مسیح موعود کا امتی نبی ہونا حدیثوں میں بھی مذکور ہے اور علماء امت کا بھی مذہب رہا ہے.مسیح موعود آپ کے بعد آنے والا بھی تھا اور امتی نبی بھی تھا.لہذا امتی نبوت ختم نبوت کے منافی نہیں.پس یہ سیاق کلام جو صرف مودودی صاحب کے دماغ کی پیداوار ہے.اس نے بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں دیا بلکہ وہ اپنے مقصد میں سراسر نا کام رہے ہیں.اصل سیاق آیت یہ بات ہم نے مودودی صاحب کے سیاق کو بطور فرض محال تسلیم کر کے جوا بالکھی ہے ورنہ در اصل سیاق آیت یہ ہے کہ جب خدا نے فرما یا ما كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ که محمد ال ی ل ی م م م مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں تو اس سے کافروں کے دلوں میں طبعاً یہی ایک سوال پیدا ہوسکتا تھا کہ جب محمد رسول اللہ مرودں میں سے کسی کے باپ نہیں تو ( معاذ اللہ ) وہ ابتر اور لاوارث ہوئے.اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس فقرہ میں آپ کے باپ ہونے کی نفی مطلق طور پر نہیں کی گئی بلکہ جسمانی طور پر باپ ہونے کی نفی کی گئی ہے ورنہ رسُول اللہ “ اور ”خاتم النبیین “ ہونے کے لحاظ سے آپ معنوی اور روحانی باپ ضرور ہیں.رسول اللہ ہونے کے لحاظ سے آپ امت کے باپ ہیں اور خاتم النبیین ہونے کے لحاظ سے آپ نبیوں کے بھی باپ ہیں نہ کہ مطلق آخری نبی.66 ہمارے پیش کردہ سیاق کی حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دارالعلوم دیو بند بھی تائید کرتے ہیں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- 42
جیسے خاتم بفتح تا کا اثر اور نقش مختوم علیہ میں ہوتا ہے ایسے ہی موصوف بالذات کا اثر موصوف بالعرض میں ہوتا ہے.حاصل مطلب آیت کریمہ اس صورت میں یہ ہوگا کہ ابوت معروفہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابوت معنوی امتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے انبیاء کی نسبت تو فقط آیت خاتم النبیین شاہد ہے کیونکہ اوصاف معروض اور موصوف بالعرض ( یعنی دوسری نبوتیں اور دوسرے نبی) موصوف بالذات کی ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) فرع ہوتے ہیں اور موصوف بالذات اوصاف عرضیہ کی اصل ہوتا ہے اور وہ اس کی نسل اور امتیوں کی نسبت لفظ رسول اللہ میں غور کیجئے ( تحذیر الناس صفحہ ۱۰.۱۱) خاتم النبیین کے ان معنوں کا مفادوہ یہ بتاتے ہیں :.اس صورت میں فقط انبیاء کے افراد خارجی (جو نبی آچکے ) پر آپ کی فضیلت ثابت نہ ہوگی بلکہ افرادِ مقدرہ (جن کا آنا تجویز کیا جائے ) پر بھی آپ کی فضیلت ثابت ہو جائے گی بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا (تحذیر الناس صفحہ ۲۸) خاتم النبیین کے حقیقی لغوی معنی سے مودودی صاحب کا انکار مولوی مودودی صاحب نے خاتم النبیین کے معنی محض آخری نبی بیان کرنے کے لئے عربی لغت کی کتابوں سے بعض حوالے پیش کئے ہیں مگر جیسا کہ آپ معلوم کر چکے ہیں کہ حضرت مولوی محمد قاسم صاحب بانی دارالعلوم دیو بند کے ایک قول کے مطابق آخری نبی کے معنی کسی ذاتی فضیلت پر دال نہیں بلکہ یہ خاتم النبیین کے عامیانہ معنے ہیں نہ اھلِ فہم کے معنے.اہل فہم 43
کے معنے ان کے نزدیک یہ ہیں کہ ”جیسے خاتمہ بفتح تاء کا اثر اور نقش مختوم علیہ میں ہوتا ہے ایسے ہی موصوف بالذات کا اثر موصوف بالعرض میں ہوگا“ ( تحذیر الناس صفحہ ۱۰) گویا خاتم الانبیاء کے معنیٰ آپ کے نزدیک نبوت میں مؤثر وجود ہیں ان معنیٰ کی اصل حقیقت یہ ہے کہ لفظ ختم کے مصدری معنی میں صرف ایجاد کا مفہوم پایا جاتا ہے اور بنیادی طور پر موجد کے لئے صاحب کمال اور دوسروں سے افضل ہونا بھی ضروری ہے.چنانچہ مفردات راغب میں جو لغتِ قرآنی کی مستند کتاب ہے.لکھا ہے:.الْخَتُمُ والطَّبْعُ يُقَالُ عَلى وَجْهَيْنِ مَصْدَرُ خَتَمْتُ وَطَبَعْتُ وَهُوَ تَأْثِيرُ الشَّيْيَ كَنَقْشِ الْخَاتَمِ وَالثَّانِي الْأَثْرُ الحَاصِلُ مِنَ (المفردات زیر لفظ ختم ) الشَّقْشِ.کہ ختم اور طبع کی دو صورتیں ہیں.صورت اول مصدری معنوں کے لحاظ سے مہر کے نقش کی طرح آگے اثر پیدا کرنا ہے.یہ ختم کے مصدری اور حقیقی معنی ہیں اور دوسرے معنی اس کے نقش سے حاصل شدہ اثر کے ہیں اور یہ معنی ختم کے مصدری معنوں کا اثر ہیں.پس مصدری یعنی لغوی معنی کے لحاظ سے خاتم الانبیاء حقیقی طور پر وہ شخص ہو گا جو اپنے بعد کمالات نبوت میں مؤثر ہو یعنی اپنے ذریعہ نبوت کا اثر چھوڑے اور اس کے فیض سے لوگوں میں کمالات نبوت پیدا ہوں اور حسب ضرورت نبوت کا منصب بھی مل سکے.اور چونکہ ایسا صاحب کمال اللہ تعالیٰ نے صرف ایک شخص یعنی آنحضرت کو ہی قرار دیا ہے اس لئے لازمی طور پر خاتم الانبیاء کا افضل الانبیاء ہونا اور آخر الانبیاء بمعنی آخری شارع اور مستقل نبی ہونا ضروری ہے.مطلق آخری نبی خاتم الانبیاء کے الفاظ کے صرف مجازی معنے تو ہو سکتے ہیں مگر حقیقی معنی 44
نہیں.اور اگر مجازی معنے لئے جائیں تو خاتم الانبیاء ان معنوں سے ذاتی طور پر دوسروں سے کوئی فضیلت نہیں رکھے گا کیونکہ محض آخری ہونا بالذات کسی فضیلت کو نہیں چاہتا.آگے مفردات راغب میں اسی جگہ بندش اور بلوغ الآخر کے معنوں کو ختم کے مصدری معنوں سے تجو زقرار دیا گیا ہے اور ( تفسیر بیضاوی کے حاشیہ پر خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ کی تفسیر میں یہ نوٹ دیا گیا ہے:.66 فَاطَلَاقُ الْخَتمِ عَلَى الْبُلُوغِ وَالْإِسْتِيثَاقِ مَعْلَى مَجَازِ “ ( حاشیہ تفسیر بیضاوی) یعنی لفظ ختم کا آخری اور بندش کے معنوں میں استعمال مجازی معنی ہیں اور مجازی معنے تب مراد ہوتے ہیں جب حقیقی معنے محال ہوں.ہم آیات قرآنیہ سے حقیقی معنوں کی تائید دکھا چکے ہیں.مودودی صاحب نے لغت سے جو حوالے پیش کئے ہیں وہ صرف ختم کے مجازی معنے بتاتے ہیں جیسے ختم الاناء و خاتم القوم وغیرہ کے معنی.مودودی صاحب کا حقیقی معنوں کو چھوڑ کر مجازی معنوں کی طرف رجوع کرنا ان کی کسی اچھی نیت اور تحقیق پر دال نہ ہونے کی وجہ سے عملاً حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک شان اور خاتم الانبیاء کے حقیقی معنی سے انکار کے مترادف ہے لیکن وہ ” بکف چراغ دارد کی مثل کے مطابق اُلٹا جماعت احمدیہ کومنکر ختم نبوت قرار دے رہے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے دل سے لغت عرب کے حقیقی اور اصلی معنوں میں بھی خاتم النبیین یقین کرتی ہے اور ان معنوں کے بالشبع حضور علیہ السلام کو افضل النبیین اور آخری شارع اور آخری مستقل نبی بھی یقین کرتی ہے.45
مودودی صاحب کا افضل النبیین کے معنوں سے انکار لیکن مودودی صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں کمالات نبوت کی ایجاد اور اثر کے معنی سے انکاری ہیں اور اس کے معنی محض آخری نبی ( جو صرف مجازی معنی ہو سکتے ہیں ) لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء بمعنی افضل الانبیاء سے بھی انکار کر رہے ہیں چنانچہ وہ 66 خود لکھتے ہیں :.ایک دوسری تاویل اس گروہ نے یہ بھی کی ہے کہ ” خاتم النبیین کے معنی فضل النبیین“ کے ہیں یعنی نبوت کا دروازہ تو گھلا ہوا البتہ کمالات نبوت حضور پر ختم ہو گئے ہیں.لیکن یہ مفہوم لینے میں بھی وہی قباحت ہے جو ہم نے اوپر بیان کی (رساله ختم نبوت صفحه ۹) ہے.مقصود آپ کا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کمالات کا ختم ہونا جس کے نتیجہ میں آر آپ کا افضل النبیین ہونالازم آتا ہے ایسے معنی ہیں جو مودودی صاحب کے پیش کردہ سیاق کے خلاف ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین کے معنوں کی وجہ سے افضل النبیین ثابت ہوں یا نہ ہوں مودودی صاحب کی بلا سے، ان کا پیش کردہ خیالی اور مفروض سیاق ضرور درست رہنا چاہئے ، خواہ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی خوبیوں اور فضیلت پر پانی پھر جائے حالانکہ اگر وہ ذرا غور و تامل سے کام لیتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کمالات کا ختم ہونا اور آپ کا افضل النبیین ہونا ان کے مفروض سیاق کے بھی خلاف نہیں کیونکہ اس سے آپ آخری شارع نبی قرار پاتے ہیں.مودودی صاحب خاتم النبیین کے معنی آخر نبیوں کی مہر مان کر لکھتے ہیں :.46
عربی لغت اور محاورہ کے رو سے خاتم کے معنی ڈاکخانے کی مہر کے نہیں جسے لگا لگا کر خطوط جاری کئے جاتے ہیں.بلکہ اس سے مراد وہ مہر ہے جو لفافے پر اس لئے لگائی جاتی ہے کہ نہ اس کے اندر کی چیز باہر نکلے نہ باہر کی کوئی چیز اندر جائے“ (رساله ختم نبوت صفحه ۱۲) لیکن جب حضرت عیسی علیہ السلام پر لفافہ والی مہر لگ چکی ہے اور وہ لفافہ انبیاء کے اندر بند ہو چکے ہیں تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس بند لفافہ سے مُہر توڑے بغیر نکل کر امت محمدیہ میں کیسے آسکتے ہیں؟ کیونکہ بقول اُن کے انبیاء کے لفافہ پر مہر بندش والی لگ چکی سواندر کا نبی باہر نہیں آسکتا.جب تک مہر ٹوٹ نہ جائے اور یہ مہر ٹوٹ نہیں سکتی.لہذا ان کا امت محمدیہ میں اصالتاً آنا محال ہوا.ہاں لفافہ والی مہر پہلے انبیاء پر لگ سکتی ہے اور وہ سب انبیاء مستقل نبی ہیں.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے امتی نبی پر تو خاتم النبیین کی مہر بند کرنے کے لئے نہیں لگ سکتی بلکہ اس کی تصدیق اور اس کے جاری کرنے کے لئے ہی لگ سکتی ہے.فتووں پر علماء کی مہریں فتووں کو جاری کرنے کے لئے ہوتی ہیں نہ کہ انہیں بند کرنے کے لئے.ڈاکخانہ والی مہر سے پہلے فتووں والی مہر کا رواج عام رہا ہے جوفتووں کو جاری کرتی یعنی مستند بناتی ہے آخر مودودی صاحب خاتم النبیین کی مہر کا کیوں علماء کی فتووں والی متداول اور قدیم سے رائج مہر پر قیاس نہیں کرتے.واضح رہے کہ ڈاکخانہ والی مہر بھی عربی لغت اور محاورہ کے معنوں میں خاتم ہے نہ کہ لغت و محاورہ عربی کے خلاف عربی لغت کے معنی ہم پہلے بیان کر چکے ہیں.اب محاورہ کے معنی ملاحظہ ہوں جو بالکل لغت کے مطابق ہیں.خاتم کے محاورات امت کے اندر خاتم الاولیاء خاتم الفقہاء خاتم المحدثین اور خاتم الشعراء کا محاورہ شائع وذائع 47
ہے جس کے معنی کوئی عقلمند محض آخری ولی محض آخری فقیہہ یا محض آخری محدث یا محض آخری شاعر نہیں لیتا.ایک شاعر کہتا ہے.ہے.فُعَ الْقَرِيْضُ بِخَاتَمِ الشُّعَرَاءِ وَخَدِيْرِ رَوْضَتِهَا حَبِيبِ الطائي یعنی شعر خاتم الشعراء اور اس کے باغ کے تالاب حبیب الطائی کی وفات سے دردمند ہو گیا اس جگہ خاتم الشعراء کے معنی آخری شاعر نہیں کیونکہ یہی شعر کہنے والا خود بھی شاعر ہے جو اس وقت زندہ موجود تھا.اسی طرح خاتم الاولیاء کے معنے ہیں ایسا کامل ولی جس کے اثر اور فیض سے ولی پیدا ہوں اور خاتم الفقہاء اور خاتم المحدثین وہ اشخاص ہوں گے جن کے اثر اور فیض سے فقیہ اور محدث پیدا ہوں اور خاتم الشعراء کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ ایسا با کمال شاعر ہے کہ جس کے اثر سے شاعر پیدا ہو سکتے ہیں.یہ معنی لفظ ختم کے مصدری لغوی معنی کے لحاظ سے ہیں اور افضلیت کے معنی ان معنوں کے بالتنج پیدا ہوتے ہیں اور ان حقیقی معنی کولازم ہوتے ہیں اور خاتم النبیین میں آخریت کے معنی صرف اس حد تک مسلم ہوں گے جو ان حقیقی معنی سے اختلاف نہ رکھیں اور ان کے متضاد نہ ہوں اور ان کے ساتھ جمع ہوسکیں محض آخری نبی کے معنے چونکہ مجازی معنی ہیں اور خاتم النبیین کے مصدری حقیقی لغوی معنی سے تضاد رکھتے ہیں اس لئے ان کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتے.ہاں آخری شارع اور آخری مستقل نبی ان معنوں کے ساتھ جمع ہو سکتے ہیں کیونکہ جب دنیا میں ایک ہی فرد حقیقی خاتم النبیین ہے تو ضروری ہے کہ وہ آخری شارع اور مستقل نبی بھی ہو.اور آئندہ نبوت صرف اس کی پیروی اور فیض کے واسطہ سے مل سکے نہ کہ براہ راست اور اس کے فیض سے 48
آئندہ ہونے والا صرف امتی نبی کہلا سکتا ہو نہ کہ مستقل نبی.کیونکہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم شریعت تامہ کاملہ مستقلہ الی یوم القیامہ لانے والے نبی ہیں نہ کہ ایسے آخری نبی جو شریعت تامہ کاملہ مستقلہ الی یوم القیامہ کی امتیازی حیثیت سے خالی ہوا اور صرف نبوت عامہ کے لحاظ سے آخری نبی ہو.پس مودودی صاحب کو خاتم النبیین کے حقیقی معنوں سے انکار کر کے اور اس کے معنی محض آخری نبی کر کے اور ان کو حقیقی معنی سمجھ کر (حالانکہ یہ مجازی معنی ہیں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افضل النبیین ہونے سے بھی انکار کرنا پڑا ہے اور وہ ختم نبوت محمدیہ کے فیضان سے بھی منکر ہورہے ہیں.خشت اول چوں نہر معمار کج.تا ثریا می رود دیوار کج چونکہ خاتم النبیین کے معنوں کی بنیاد ہی مودودی صاحب نے غلط رکھی ہے اس لئے جو عمارت اس پر انہوں نے تعمیر کی ہے وہ سرتا پا بھونڈی اور خاتم النبیین کی بزرگ شان کے منافی ہے.کجا مودودی صاحب کے یہ معنی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گویا آخری بادشاہ کی طرح آخری نبی ہیں اور کجا ہمارے معنی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کے لئے مہر ہیں یعنی روحانی شہنشاہ ہیں جن کی ماتحتی میں اور جن کی مہر ختمیت کی تاثیر و فیض سے رُوحانی بادشاہ بھی ہو سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم تو مودودی صاحب کے نزدیک ختم نبوت کے منکر ٹھہرے اور مودودی صاحب ختم نبوت کے حقیقی لغوی معنی کا انکار کر کے اور افضل النبیین کے معنوں کو رڈ کر کے اور فیضانِ نبوت محمدیہ کو بند قرار دے کر ختم نبوت کے ماننے والے ہیں.گو یا ختم نبوت اُن کے نزدیک نبوت محمدیہ کے فیضان کی بندش کا نام ہے اور خاتم النبین آپ کی افضلیت بر انبیاء پر دال نہیں.انا للہ وانا الیہ راجعون.49
حضرت مولاناروم علیہ الرحمہ تو فرماتے ہیں بہرائیں خاتم شداست او که بجود مثل او نے بود نے خواهند بود چونکه در صنعت برد استاد دست نے تو گوئی ختم صنعت بر تو است یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے خاتم ہیں کہ سخاوت یعنی فیض پہنچانے میں نہ آپ کی مثل کوئی ہوا ہے اور نہ ہو گا جب کوئی استاد کاریگری میں اپنا کمال دکھاتا ہے تو کیا اے مخاطب تو نہیں کہتا کہ اس پر گاریگری ختم ہوگئی ہے.پس خاتم النبیین کے حقیقی معنی ہیں نبوت کا فیض پہنچانے میں کامل کا ریگر نبی.(مثنوی مولاناروم جلد ۶ صفحه ۱۹) پھر وہ آپ کا فیض یوں بیان فرماتے ہیں ؎ فکر کن در راه نیکو خدمتے.تا نبوت یابی اندر امتے.....یعنی نیکی کی راہ میں گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ایسی خدمت بجالا کہ تجھے امت کے اندر نبوت مل جائے.( مثنوی جلد ۱ صفحہ ۵۳) پس خاتم النبیین کے حقیقی معنی نبی تراش ہیں اور افضل النبیین اور آخری شارع اور آخری مستقل نبی ہونا ان معنی کے توابع اور لوازم ہیں.نحوی لحاظ سے لکن سے پہلے منفی جملہ ہو جیسا کہ آیت زیر بحث میں ہے تو اس کے بعد والا جملہ مثبت مفہوم رکھتا ہے پس لكِن رَّسُول الله وَخَاتَمَ النبین کا جملہ منفی مفہوم نہیں رکھتا لہذا اس کے معنی محض آخری نبی نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کا مفہوم منفی ہے جو یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں.پس خاتم النبیین کے مثبت معنی اس جگہ نبی تراش ہیں اور اوپر کے باقی معانی اس کے لوازم ہیں جو مثبت و منفی ہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاتم بنایا یعنی آپکو 50
افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی.اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا.یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی سوال نمبر 11 (حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ ۹۷) کیا مودودی صاحب امام راغب اصفہانی کے ان معنوں کو جھٹلا سکتے ہیں کہ ختم “ مصدر کے لغوی معنی ” تأثیر الشی“ اور ” اثر حاصل ہیں اور باقی تمام معانی محض مجازی ہیں؟ حدیث آخر الانبیاء کی تشریح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح مسلم کی ایک حدیث میں وارد ہے:.إنّي أَخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَإِنَّ مَسْجِدِى أَخِرُ الْمَسَاجِدِ.دوسری احادیث نبویہ لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا اور أَبُو بَكْرٍ أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا أَنْ يكُونَ نَبِيُّ اور أَبُو بَكْرٍ خَيْرُ النَّاسِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِی میں جب خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا امکان قرار دیا ہے تو حدیث مندرجہ عنوان کی یہی تشریح ہوسکتی ہے کہ جن معنوں میں مسجد نبوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آخری مسجد ہے انہی معنوں میں آپ آخر الانبیاء ہیں.جس طرح مسجد نبوی کے بعد ایسی مساجد کا بنانا جائز ہے جن کا وہی قبلہ ہو جو مسجد نبوی کا قبلہ ہے خواہ ایسی مساجد عام مسلمان بنا ئیں یا مسیح موعود ، ان کا بنا نا مسجد نبوی کے ماتحت ہونے کی وجہ سے جائز ہوگا.اسی طرح آپ نے اپنے تئیں انہیں معنوں میں آخر 51
الانبیاء قرار دیا ہے کہ آپ کے مقابل میں کوئی نبی نہیں آسکتا مگر آپ کے تابع نبی آسکتا ہے جس کی وہی شریعت ہو جو آپ کی شریعت ہے.مودودی صاحب تین مسجدوں مسجد الحرام، مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی میں عبادت کے زیادہ ثواب پر مذکور حدیثوں کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :.حضور کے ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ اب چونکہ میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اس لئے میری اس مسجد کے بعد دنیا میں کوئی چوتھی مسجد ایسی بنے والی نہیں ہے جس میں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں سے زیادہ ہو اور جس کی طرف نماز کی غرض سے سفر کر کے جانا درست ہو (رسالہ ختم نبوت صفحہ ۲۰ حاشیہ) جب مودودی صاحب کے نزدیک "آخر المساجد“ کا یہ مطلب ہے کہ ایسی کوئی مسجد نہ بنے گی جس میں عبادت کا ثواب مسجد نبوی سے زیادہ ہو تو اس لحاظ سے ”آخر الانبیاء“ کے یہ معنے ہوئے کہ اب ایسا کوئی نبی نہیں ہوگا جس کا درجہ نبوت اور شانِ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ سے بڑا ہو.پس جس طرح مسجد نبوی کے بعد کی مساجد ثواب عبادت میں مسجد نبوی سے کم درجہ کی ہوں گی ، اُسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو نبی آئے گا وہ آپ سے کم درجہ کا ہوگا.اسی لئے احادیث نبوی میں مسیح موعود کو نبی اللہ بھی قرار دیا گیا ہے اور امتی بھی.سوال ۱۲ مودودی صاحب بتا ئیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان معنوں میں آخر الانبیاء تھے کہ آپ مطلق آخری نبی ہیں تو آپ نے مسیح موعود کو کیوں نبی اللہ قرار دیا.اور اوپر کی تین حدیثوں میں اپنے بعد کیوں امکان نہیں تسلیم فرمایا؟ 52
نوٹ :.مودودی صاحب کی انقطاع نبوت پر پیش کردہ باقی احادیث کا اصولی جواب ہم امت کے مسلمہ آئمہ دین اور اولیائے امت اور فقہائے ملت کے اقوال سے دے چکے ہیں تفصیلی جواب رسالہ الفرقان اپریل مئی ۱۹۶۲ء کے خاتم النبیین نمبر یا نشر و اشاعت کے رسالہ القول المبین فی تفسیر خاتم النبیین “ میں ملاحظہ فرمائیں.اس میں مفسرین کے اقوال کے متعلق بھی مفصل بحث درج ہے.مسیلمہ کذاب سے لڑائی کی وجہ مودودی صاحب صحابہ کرام کے اجماع کے عنوان کے ماتحت اپنے رسالہ کے صفحہ ۳۳ پر لکھتے ہیں:.صحابہ نے جس جرم کی بناء پر اُن (مسیلمہ اور اس کے ساتھیوں.ناقل ) سے جنگ کی تھی وہ بغاوت کا جرم نہ تھا بلکہ یہ جرم تھا کہ ایک شخص نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا اور دوسرے لوگ اس کی نبوت پر ایمان لائے.یہ کارروائی حضور کی وفات کے فورابعد ہوئی ہے.ابوبکر صدیق کی قیادت میں ہوئی ہے اور صحابہ کی پوری جماعت کے اتفاق سے ہوئی.اجماع صحابہ کی اس سے زیادہ صریح مثال شاید ہی کوئی ہو.“ (رساله ختم نبوت صفحه ۲۳) مودودی صاحب کا یہ دعوی سراسر بے بنیاد ہے کیونکہ صحابہ نے جس جرم کی بناء پر مسیلمہ کذاب سے جنگ کی وہ یقیناً بغاوت کا مجرم تھا نہ کہ دعوی نبوت کا جرم.مسیلمہ کذاب نے دعوی نبوت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کر رکھا تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 53
اس بناء پر اُس پر چڑھائی نہ کی تو حضرت ابو بکر اور صحابہ کرام اس بناء پر اُس پر کیسے چڑھائی کی جرات کر سکتے تھے.مودودی صاحب کا یہ بیان اسلامی تاریخ کے سراسر خلاف ہے اور انہوں نے تاریخی حقائق کو چھپانے کی کوشش کی ہے ورنہ اصل حقیقت یہ ہے کہ مسلمہ باغی تھا اور اس کے ساتھی حربی مرتد تھے یعنی اسلامی اسٹیٹ (حکومت) کی بغاوت کے جُرم کے مرتکب ہو چکے تھے اس لئے ان سے محارب کفار کا سا سلوک کیا گیا نہ کہ مسلمان باغیوں کا سا.چنانچہ تاریخ طبری مترجم اردو مطبوعہ حیدر آباد دکن کے حصہ اول جلد چہارم کے چند کوائف ملاحظہ ہوں :- (۱) مسیلمہ نے بغاوت کی تھی (۲) چالیس ہزار کا لشکر جرار تیار کیا تھا (صفحه ۹۳) (صفحہ اے) (۳) اس نے کہا کہ میں اپنی اور سجاح کی فوج کے ساتھ تمام عرب پر قبضہ کروں گا (صفحہ اے) (۴) اسلامی حکومت کے اندر یمامہ میں خود خراج وصول کرتا تھا ( صفحہ اے) (۵) علاوہ ازیں تاریخ الخمیس جلد ۱ صفحہ ۱۷۷ پر لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس نے حجر و یمامہ سے آپ کے مقرر کردہ والی ثمامہ بن اثال کو نکال دیا تھا اور خود ان کا حاکم بن گیا تھا.پس صحابہؓ نے مسیلمہ کذاب اور اس کے قبیلہ بنو حنیفہ کے خلاف محض ارتداد کی بناء پر جنگ نہیں کی بلکہ بغاوت کے جرم کی وجہ سے جنگ کی تھی کیونکہ مسیلمہ باغی تھا اور بوحنیفہ محض مرتد نہ تھے بلکہ حربی مرتد تھے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اُس وقت جن قبائل عرب سے لڑائی کا حکم دیا ان میں ایسے قبائل 54
بھی تھے جن میں کوئی مدعی نبوت موجود نہ تھا مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اعلان کے مطابق سب ایسے لوگوں سے جنگ میں یکساں سلوک کیا گیا یعنی انہیں اسیر بنایا گیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا گیا.مسیلمہ کذاب کے متعلق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کوئی ایسا خصوصی اعلان نہیں فرمایا تھا کہ اس کے دعوی کنبوت کی وجہ سے اس کے خلاف چڑھائی کی جارہی ہے.ہمارا چیلنج ہمارا چیلنج ہے کہ اگر مودودی صاحب بچے ہیں تو وہ ایسا مخصوصی اعلان پیش کریں جس سے صحابہ کا اس بات پر اجماع ثابت ہو خواہ سکوتی اجماع ہی ثابت ہو کہ مسیلمہ کذاب پر ہم اُس کے دعوی نبوت کی وجہ سے چڑھائی کر رہے ہیں وہ باغی نہیں.مید تشریعی نبوت کا مدعی تھا واضح ہو کہ مسیلمہ کذاب تشریعی نبوت کا مدعی تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مد مقابل ہو کر نبوت کا دعوی کر رہا تھا.لہذا اگر کوئی ایسا اعلان بفرض محال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے موجود بھی ہوتا تو زیادہ سے زیادہ اس سے یہ استدلال ہوسکتا تھا کہ صحابہ تشریعی نبوت کے دعویٰ کو ختم نبوت کے منافی سمجھتے تھے اس لئے تشریعی نبوت کا دعوی بھی چڑھائی کے موجبات میں سے ایک موجب تھا اور دوسرا موجب اس کی بغاوت تھی.یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسیلمہ کذاب تشریعی نبوت کا مدعی تھا.چنانچہ نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں :.”اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل تشریعی نبوت کا دعویٰ کیا اور شراب اور زنا کو حلال قرار دیا.فریضہ نماز کو ساقط کر دیا.قرآن مجید کے مقابلہ میں 55
سورتیں لکھیں.پس شریر اور مفسدلوگوں کا گروہ اس کے تابع ہو گیا.“ (حج الکرامه صفحه ۲۳۴ ترجمه از فارسی) یہی مضمون طبری جلد اول صفحہ ۵۸۱ پر موجود ہے.پس مسیلمہ تشریعی نبوت کا مدعی ہونے کی وجہ سے کافر تھا اور اسلامی حکومت کی بغاوت کیوجہ سے اس پر چڑھائی کی گئی اور اس سے محارب کفار کا سا سلوک کیا گیا.حضرت ابوبکر کی احتیاط تاریخ طبری مترجم اردو جلد اول حصہ چہارم صفحہ ۶۷ پر لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لشکر کو ہدایت فرمائی تھی:.ان مرتدین پر حملہ کرنے سے پہلے ان کے گاؤں کے باہر اذان دینا.اگر وہ بھی اذان واقامت کہیں تو ان سے کوئی تعرض نہ کیا جائے“ یہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی کمال احتیاط تھی کہ مسیلمہ کذاب اور ان کے ساتھیوں میں اسلامی اذان واقامت کے پائے جانے پر آپ نے اُن سے جنگ کرنے سے منع فرما دیا تھا.کجا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یہ حزم واحتیاط اور کجا مودودی صاحب کی یہ ظالمانہ حرکت کہ وہ احمدیوں کو اذانیں دینے، قبلہ رخ ہو کر اسلامی نمازیں پڑھنے اور پانچ بنائے اسلام پر ایمان رکھنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین کرنے کے باوجود مسیلمہ کذاب کی طرح جو تشریعی نبوت کا مدعی تھا، مرتد قرار دے کر واجب القتل ٹھہرانا چاہتے ہیں.سوال ۱۳ اس موقعہ پر ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے اس بیان کو پڑھ کر بھی مودودی صاحب یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب تشریعی نبوت کا مدعی نہیں تھا بلکہ امتی نبوت کا دعویدار تھا اور اس نے 56
اسلامی اسٹیٹ کی کوئی بغاوت نہیں کی تھی بلکہ وہ اس کے ماتحت ایک پر امن شہری کی طرح زندگی بسر کر رہا تھا ؟ مفسرین کے اقوال لنبيين اجماع امت کے عنوان کے ماتحت مودودی صاحب نے مفسرین کے اقوال خاتم النبی کے معنی میں پیش کر کے اس بات پر اجماع ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے کہ ساری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.ان کا یہ دعویٰ اجماع باطل ہے کیونکہ تیر امسلمہ بزرگوں کے اقوال سے ہم دکھا چکے ہیں کہ آیت خاتم النبیین اور احادیث نبویہ میں صرف تشریعی نبوت کا انقطاع مراد ہے امت کے اجماع کا دعوی اگر کیا جائے تو صرف اس بات پر کیا جاسکتا ہے کہ علماء سابقین کا صرف تشریعی اور مستقل نبوت کے انقطاع پر اجماع ہے اور اس اجماع میں جماعت احمد یہ بھی شامل ہے.جن مفسرین کے اقوال مودودی صاحب نے پیش کئے ہیں ان میں سے کوئی مودودی صاحب کا ہم خیال نہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو وہ مسلوب النبوۃ ہوکر آئیں گے چنانچہ ان میں سے حضرت امام علی القاری تو صاف لکھتے ہیں :.عیسی علیہ السلام کے نبی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہو کر احکام شریعت کے بیان کرنے اور آپ کے طریق کو پختہ کرنے میں کوئی منافات موجود نہیں خواہ وہ یہ کام اس وحی سے کریں جو اُن پر نازل ہو“ ( ترجمه مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد ۵ صفحه ۵۶۴) اور علامہ الوسی مفسر قرآن اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں :.57
فَهُوَ عَلَيْهِ السَّلَامُ نَبِي وَرَسُولُ قَبْلِ الرَّفْعِ وَفِي السَّمَاءِ “ وَبَعْدَ النُّزُولِ أَيْضًا (روح المعانی جلد ۶ صفحه ۴۱) یعنی حضرت عیسی علیہ السلام رفع سے پہلے بھی نبی اور رسول ہیں.آسمان میں بھی نبی اور رسول ہیں اور نزول کے بعد بھی نبی اور رسول ہیں.سوال نمبر ۱۴ ان اقوال کی موجودگی میں مودودی صاحب کس طرح علماء امت محمدیہ کا اس پر اجماع ثابت کر سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے تابع امتی نبی کا آنا بھی آیت خاتم النبیین کے منافی ہے؟ صدارت اور نبوت مودودی صاحب عیسی علیہ السلام کی آمد کے متعلق لکھتے ہیں :- اُن کا آنا بلا تشبیہہ اسی نوعیت کا ہوگا جیسے ایک صدر ریاست کے دور میں کوئی سابق صدر آئے اور وقت کے صدر کی ماتحتی میں مملکت کی کوئی خدمت انجام دے.ایک معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ایک صدر کے دور میں کسی سابق صدر کے محض آجانے سے آئین نہیں ٹوتا“ (رساله ختم نبوت صفحه ۵۶) اس عبارت میں مودودی صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صدر اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سابق صدر سے عملاً تشبیہ بھی دیتے ہیں مگر آپ یہ بھی لکھتے ہیں کہ آپ بلا تشبیہ ایسا لکھ 58
رہے ہیں.گویا اسی نوعیت کا ہوگا جیسے “ کے الفاظ آپ کی لغت میں تشبیہ کا فائدہ نہیں دیتے.خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے.اصل بات یہ ہے کہ علماء امت جیسا کہ پہلے ثابت کیا جا چکا ہے حضرت عیسی علیہ السلام کو بعد از نزول بھی نبی اللہ قرار دیتے چلے آئے ہیں مگر نبی نا ئب کی حیثیت میں.پس جس طرح ایک صدر کے دور میں ایک نائب صدر کا وجود خلاف آئین نہیں ہوتا.اسی طرح خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی میں آپ کے کسی امتی کا نبی نائب کی حیثیت میں آنا بھی منافی خاتم النبیین نہیں.یہ بات ہر کوئی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ صدر کے ساتھ کسی نائب صدر کا وجود کسی طرح بھی خلاف آئین نہیں.سوال نمبر ۱۵ کیا مودودی صاحب صدر کی موجودگی میں نائب صدر کو خلاف آئین قرار دے سکتے ہیں.مودودی صاحب کے نزدیک نبی کی حقیقت مودودی صاحب لکھتے ہیں :.محض اصلاح کے لئے نبی دُنیا میں کب آیا ہے کہ آج صرف اس کام کے لئے وہ آئے ؟ نبی تو اس لئے مقرر ہوتا ہے کہ اس پر وحی کی جائے اور وحی کی ضروریات یا تو کوئی نیا پیغام دینے کے لئے ہوتی ہے یا پچھلے پیغام کی تکمیل کرنے کے لئے یا اس کو تحریفات سے پاک کرنے کے لئے“ (رساله ختم نبوت صفحه ۳۶) نبی کی یہ تینوں صورتیں تشریعی نبی کی ہیں.نبی کی چوتھی صورت جو انہوں نے اس سے پہلے صفحہ ۳۵ پر بیان کی ہے یہ ہے کہ 59
ایک نبی کے ساتھ اس کی مدد کے لئے ایک اور نبی کی حاجت ہو“ اس کے متعلق وہ لکھتے ہیں :.دم اگر اس کے لئے کوئی نبی درکار ہوتا تو وہ حضور کے زمانے میں آپ کے ساتھ مقرر کیا جاتا.ظاہر ہے کہ جب وہ مقرر نہیں کیا گیا تو یہ وجہ بھی ساقط (رساله ختم نبوت صفحه ۳۶) ہوگئی.اس کے متعلق عرض ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے مودودی صاحب کی بیان کردہ پہلی تینوں صورتوں میں سے جو تشریعی نبوت کی صورتیں ہیں، کسی صورت میں بھی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ جماعت احمد یہ انہیں ایسا نبی یقین کرتی ہے.چوتھی صورت مودودی صاحب کے نزد یک ساقط ہے.اب پانچویں صورت کے متعلق سنہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح مسلم کی حدیث میں جس کا پہلے ذکر آچکا ہے مسیح موعود کو چار دفعہ نبی اللہ قرار دیا ہے اور اس پر وحی کا نزول بھی بیان فرمایا ہے.شارع نبی تو کوئی آنہیں سکتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی نبی ہوا نہیں تو یہ پانچویں قسم کی نبوت اگر اصلاح خلق کے لئے نہیں ہے جو مسیح موعود کو حاصل ہوگی تو مودودی صاحب بتائیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کو صاحب وحی اور نبی اللہ کیوں قرار دیا ہے؟ مطلق نبوت کے ارتفاع پر جب امت کا اجماع نہیں تو اب پانچویں قسم کا جو نبی آئے گا وہ اصلاح کے لئے نہیں ہوگا تو اور کس غرض کے لئے ہوگا؟ حضرت امام عبد الوہاب شعرانی علیہ الرحمتہ واشگاف الفاظ میں لکھتے ہیں:.فَإِنَّ مُطلَقَ النُّبُوَّةِ لَمْ تَرْتَفِعُ إِنَّمَا ارْتَفَعَتْ نُبُوَّةُ التَّشْرِيع - الیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحه ۲ مبحث ۳) پس بے شک مطلق نبوت نہیں اٹھی صرف تشریعی نبوت اُٹھی ہے 60
امید ہے کہ مودودی صاحب اب اپنے مضمون پر نظر ثانی کر کے اپنے خیالات میں اصلاح فرمالیں گے اور یہ تسلیم کر لیں گے کہ محض اصلاح کے لئے بھی نبی آسکتا ہے.بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد جو نبی آئے وہ سب اصلاح خلق کے لئے مبعوث ہوتے رہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَيةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ، يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الذين أسلموا اللذين هادوا (مائده رکوع ۷) یعنی بے شک ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور ہے.اس تورات کے ذریعہ کئی نبی جو خدا تعالیٰ کے فرماں بردار تھے یہودیوں کے لئے بطور حکم کام کرتے تھے.مسیح موعود کی شان میں بھی حدیث نبوی میں حَكَم و عدل کے الفاظ وارد ہیں.اگر حکمیت اصلاح خلق کے مترادف نہیں تو مودودی صاحب یوں سمجھ لیں کہ پانچویں قسم کا نبی بشانِ حکمیت آتا ہے اور مسیح موعود کی نبوت بھی جو حدیثوں میں بیان ہوئی ہے وہ بھی بشانِ حکمتیت ہے.پس بشانِ حکمیت نبی کا آنا جبکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہو،نبوت کی ایسی قسم ہے جو آیت خاتم النبیین کے منافی نہیں.اگر یہ منافی ختم نبوت ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ مسیح موعود کو امتی نبی قرار دیتے نہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد آنے والے نبیوں کی طرح اُسے امت محمدیہ میں حکم کی حیثیت میں آنے والا بیان فرماتے.فتدبر وا یا اولی الابصار مسیح موعود اور دجال کی حقیقت (ل) دجال کے ظہور اور مسیح بن مریم علیہ السّلام کے نزول کے متعلق اکیس " احادیث درج 61
کرنے کے بعد جو در حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکاشفات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے تعبیر طلب ہیں ، مودودی صاحب لکھتے ہیں :.آخری بات جو ان احادیث سے اور بکثرت دوسری احادیث سے بھی معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دقبال جس کے فتنہ عظیم کا استیصال کرنے کے لئے حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کو بھیجا جائیگا یہودیوں میں سے ہوگا اور اپنے کو سیح کی حیثیت میں پیش کریگا آج تک دُنیا بھر کے یہودی اس مسیح موعود کے منتظر ہیں جس کے آنے کی خوشخبریاں ان کو دی گئی تھیں.اس کی خیالی لذت کے سہارے صدیوں سے یہودی جی رہے ہیں اور یہ امید لئے بیٹھے ہیں کہ یہ مسیح موعود ایک جنگی اور سیاسی لیڈر ہوگا جو دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ (جسے یہودی اپنی میراث سمجھتے ہیں) انہیں واپس دلائے گا اور دنیا کے گوشے گوشے سے یہودیوں کو لا لا کر اسی ملک میں پھر سے جمع کر دے گا.اب اگر کوئی شخص مشرق وسطی کے حالات پر ایک نگاہ ڈالے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئیوں کے پس منظر میں ان کو دیکھے تو وہ یہ فوراً محسوس کریگا کہ اس دجال اکبر کے لئے اسٹیج بالکل تیار ہو چکا ہے جو حضور کی دی ہوئی خبروں کے مطابق مسیح موعود بن کر اُٹھیا...اس مسیح دجال کے مقابلہ کے لئے اللہ تعالیٰ کسی مثیل مسیح کو نہیں بلکہ اصلی مسیح کو نازل فرمائے گا.مسیح دجال ستر ہزار یہودیوں کا لشکر لے کر شام میں گھسے گا اور دمشق کے سامنے جا پہنچے گا ٹھیک اس نازک موقعہ پر دمشق کے مشرقی حصے میں سفید مینار کے قریب ( اور یہ سفید مینار اس وقت وہاں موجود ہے) حضرت عیسی ابن مریم صبحدم نازل ہوں گے اور نماز فجر کے بعد مسلمانوں کو 62
اس کے مقابلہ پر لے کر نکلیں گے.ان کے حملے سے دجال پسپا ہو کر افیق کی گھائی سے ( جہاں حدیث میں تو اس کے خدا کے ہاتھوں ہلاک ہونے کا ذکر ہے ملاحظہ ہو حدیث نمبر ۲۱ مگر مودودی صاحب کی بناوٹ کے مطابق اسرائیل کی طرف پلٹے گا اور وہ اس کا تعاقب کریں گے.آخر کارلڈ کے ہوائی اڈے پر پہنچ کر وہ اُن کے ہاتھ سے مارا جائے گا.“ (رساله ختم نبوت صفحه ۷ ۵ تا ۶۱ ) ہم نے مودودی صاحب کے اقتباس کا ضروری حصہ انہی کے الفاظ میں اُوپر درج کر دیا ہے.تعجب ہے کہ جس طرح یہودی بچے مسیح کا انکار کر کے بقول مودودی صاحب ایک اور اسرائیلی کے مسیح موعود بن کر آنے کے قائل ہیں جسے وہ اپنا جنگی اور سیاسی لیڈر سمجھتے ہیں.اسی طرح مودودی صاحب بھی بچے مسیح موعود کا انکار کر کے حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کے امت محمد یہ کامسیح موعود بن کر بصورت جنگی و سیاسی لیڈر کے مسلمانوں کو انتظار دلا نا چاہتے ہیں.یہودیوں سے کوئی مسیح موعود ظاہر نہیں ہوگا مگر مودودی صاحب کی یہ امید کبھی بزنہیں آئے گی کہ یہودیوں میں سے کوئی مخلص مسیح موعود کا دعوی کر کے کھڑا ہوگا جو دراصل مسیح الدجال ہوگا اور یہودی اسے مسیح موعود قبول کر کے اپنا سیاسی اور جنگی لیڈر بنائیں گے کیونکہ یہودی تو ایلیاء نبی کو آسمان پر زندہ مانتے ہیں اور اپنے موعود مسیح کی آمد سے پہلے ملا کی نبی کی پیشگوئی کے مطابق ایلیاء نبی کے دوبارہ آسمان سے اتر کر آنے کے قائل ہیں اور دیوار گریہ کے ساتھ سر جوڑ کر رو رو کر دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایلیا نبی کو جلد دوبارہ بھیجے.انہوں نے ایلیاء کے آسمان سے اصالتاً آنے کا قائل ہونے کی وجہ سے ہی اپنے بچے مسیح حضرت عیسی علیہ السلام کے آنے کا انکار کر دیا تھا اور ان کی اس تاویل کو صحیح 63
تسلیم نہیں کیا تھا کہ یوحنا ( یحیی علیہ السلام ) ایلیا کی قوت اور رُوح میں آنے کی وجہ سے پیشگوئی کا موعود ہے اس لئے ایلیا نبی اپنے مثیل کی صورت میں مجھ سے پہلے آچکا ہے.جب یہودیوں کے عقیدہ کا یہ حال ہے تو اُن میں سے کوئی مسیح موعود کا دعوی کر کے ان میں مقبول نہیں ہو سکتا جسے یہودی سچا تسلیم کر کے اپنا مسیح موعود اور جنگی اور سیاسی لیڈر مان لیں جب تک اصلی ایلیا ان کے عقیدہ کے مطابق آسمان سے نہ اُترے.پس نہ یہودیوں میں سے کوئی مسیح موعود بن کر آسکتا ہے جسے یہودی قبول کر لیں اور نہ حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کو اس مفروض دجال کو قتل کرنے کے لئے آنے کی ضرورت ہوگی.حدیثوں میں مذکور دجال یہودیوں کی شاخ یعنی عیسائیوں سے ظاہر ہو چکا ہے اور اس سے مقابلہ کے لئے مسیح موعود کا ظہور بھی عرصہ ہوا، ہو چکا ہے مگر مودودی صاحب اسے شناخت نہیں کر سکے.دجال سے متعلقہ احادیث پر مودودی صاحب سابقہ تبصرہ مودودی صاحب لکھتے ہیں :.(۱) '' کا نا دجال وغیرہ سب افسانے ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں.ان چیزوں کو تلاش کرنے کی ہمیں کوئی ضرورت بھی نہیں.عوام میں اس قسم کی جو باتیں مشہور ہوں ان کی کوئی ذمہ داری اسلام پر نہیں اور ان میں سے کوئی چیز اگر غلط ثابت ہو جائے تو اس سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا“ ( ترجمان القرآن ستمبر اکتوبر ۱۹۴۵ ء ) (۲) دجال کے متعلق جتنی احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں ان کے مضمون پر مجموعی نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضور کو اللہ تعالیٰ کی 64
میں جب طرف سے اس معاملہ میں جو علم ملا تھاوہ صرف اسی حد تک تھا کہ ایک بڑا د قبال ظاہر ہونے والا ہے اور اس کی یہ اور یہ صفات ہوں گی اور وہ ان خصوصیات کا حامل ہوگا لیکن آپ کو نہیں بتایا گیا کہ وہ کب ظاہر ہوگا اور کہاں ظاہر ہوگا اور یہ کہ آیا وہ آپ کے عہد میں پیدا ہو چکا ہے یا آپ کے بعد کسی بعید زمانہ میں پیدا ہونے والا ہے.ان امور کے متعلق جو مختلف باتیں حضور سے احادیث میں منقول ہیں وہ دراصل آپ کے قیاسات ہیں جن کے بارے میں آپ خود شک میں تھے کبھی آپ نے یہ خیال ظاہر فرمایا کہ دقبال خراسان سے اٹھیگا.کبھی یہ کہ اصفہان سے اور کبھی یہ کہ شام و عراق کے درمیانی علاقہ سے آخری روایت یہ ہے کہ اھ فلسطین کے ایک عیسائی راہب ( تمیم داری ) نے آکر اسلام قبول کیا اور آپ کو قصہ سنایا کہ ایک مرتبہ وہ سمندر میں ( غالباً بحیرہ روم یا بحر عرب ) سفر کرتے ہوئے ایک غیر آباد جزیرے میں پہنچے اور وہاں ان کی ملاقات ایک عجیب شخص سے ہوئی.اور اس نے انہیں بتایا کہ وہ خود ہی دجال ہے.تو آپ نے ان کے بیان کو بھی غلط باور کرنے کی کوئی وجہ نہ سمجھی البتہ اس پر اپنے شک کا اظہار فرما دیا کہ اس بیان کے رو سے دقبال بحر روم یا بحر عرب میں ہے مگر میں خیال کرتا ہوں کہ وہ مشرق سے ظاہر ہوگا.یہ تر ڈ داوّل تو خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ باتیں آپ نے وحی کی بنا پر نہیں فرمائی تھیں اور آپ کا گمان وہ چیز نہیں ہے جس کے صحیح نہ ثابت ہونے سے آپ کی نبوت پر کوئی حرف آتا ہو یا جس پر ایمان لانے کے لئے ہم مکلف کئے گئے ہوں حضور کو اپنے زمانہ میں یہ اندیشہ تھا کہ شاید دجال آپ کے عہد میں ظاہر ہو جائے یا آپ کے بعد کسی قریبی زمانہ میں ظاہر ہولیکن کیا ساڑھے تیرہ سو 65
برس کی تاریخ نے یہ ثابت نہیں کر دیا کہ حضور کا اندیشہ صحیح نہیں تھا.اب ان چیزوں کو اس طرح نقل و روایت کئے جانا کہ گویا یہ بھی اسلامی عقائد ہیں نہ تو اسلام کی صحیح نمائندگی ہے اور نہ ہی اسے حدیث کا صحیح فہم کہا جا سکتا ہے“ رساله ترجمان القرآن فروری ۱۹۴۱ ورسائل و مسائل صفحه ۵۷) اس بیان پر ذیل کے سوال پیدا ہوتے ہیں:.سوال ۱۶ جب دقبال کے متعلق روایات مودودی صاحب کے نزدیک مشکوک تھیں تو انہوں نے ان روایات کو کس سیاسی غرض کے ماتحت نقل کیا ہے کیونکہ مذہبی لحاظ سے تو بقول ان کے ان کا نقل و روایت کرتے جانانہ اسلام کی صحیح نمائندگی ہے اور نہ حدیث کا صحیح فہیم ؟ سوال ۱۷ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نہیں بتایا گیا کہ دقبال کب اور کہاں ظاہر ہوگا “ تو مودودی صاحب نے کیوں اس مضمون میں یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ دجال موعودہ ریاست فلسطین کے یہودیوں میں سے مسیح موعود کا دعوی کر کے کھڑا ہوگا اور پھر دمشق میں خروج کرے گا.حالانکہ تمیم داری کی روایت سُن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دقبال کے متعلق فرما چکے ہیں کہ وہ مشرق سے ظاہر ہو گا اور دمشق مدینہ منورہ سے مشرق میں نہیں ؟ (ب) مودودی صاحب دجال اور مسیح بن مریم کے نزول کے متعلق احادیث کے الفاظ يكسر الصلیب کو ظاہری معنوں میں نہ لے کر ان کی اپنے رسالہ میں یہ تعبیر کرتے ہیں کہ عیسائیت الگ دین کی حیثیت میں ختم ہو جائیگی ( ختم نبوت صفحہ ۴۰) اور حدیث کے الفاظ يَقْتُلُ الْخِنزیر کے ظاہری معنے ترک کر کے ان کی یہ تعبیر کرتے 66
ہیں کہ ” جب وہ (حضرت عیسی علیہ السّلام) بتائیں گے کہ میں نے تو اپنے پیروؤں کے لئے سور حلال نہیں کیا تھا اور نہ شریعت کی پابندی سے آزاد ٹھہرایا تھا تو عیسائیت کی دوسری امتیازی خصوصیت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا“ (رساله ختم نبوت صفحه ۴۰) یعنی اس طرح صلیب کا توڑنا ظاہری طور پر نہ ہوگا اور مسیح موعود ظاہری طور پر خنزیر کو قتل نہیں کرے گا بلکہ عیسائیوں کو اس کا گوشت کھانے کے لئے مارنے سے روک دینا حضرت مسیح کے سؤروں کو قتل کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے گویا مودودی صاحب نے ان الفاظ کو استعارہ مان لیا ہے.سوال ۱۸ لہذا اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب حدیث کے ایک حصہ کو انہوں نے استعارہ مان لیا ہے تو کیوں اس کے دوسرے حصہ یعنی عیسی ابن مریم علیہ السلام کے فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے دمشق کے مینارہ کے پاس آسمان سے اتر نے اور دجال کو حربہ کے ساتھ قتل کرنے کے الفاظ حدیث کو ایک مثیل مسیح کے آسمانی تائید کے ساتھ آنے اور دلیل کے حربہ کے ساتھ درقبال کی تحریک کو مٹانے کے لئے استعارہ یقین نہ کیا جائے؟ (ج) مودودی صاحب فرماتے ہیں:.حیات مسیح اور رفع الی السماء قطعی طور پر ثابت نہیں.قرآن کی مختلف آیات سے یقین پیدا نہیں ہوتا“ ( تقریر مودودی صاحب اچهر ه ۲۸ مارچ ۱۹۵۱ به ماخوذ از آئینه مودودیت) 67
پھر فرماتے ہیں :.مسیح علیہ السّلام کے رفع کا مسئلہ متشابہات میں سے ہے“ (اخبار کوثر ۲۱ فروری ۵۱) اس حقیقت کے باوجود مودودی صاحب نے اپنے رسالہ ختم نبوت میں پیش کردہ نزول مسیح کی احادیث سے حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان سے اصالتاً نازل ہونے کا یقین دلانے کی کوشش کی ہے حالانکہ احادیث کے متعلق ان کا مذہب یہ ہے :- آیات قرآنی کے منزل من اللہ ہونے میں تو کسی شک کی گنجائش ہی نہیں.بخلاف اس کے روایات میں اس شک کی گنجائش موجود ہے کہ واقعی حضور ( رسائل و مسائل صفحه ۲۷۰) کی ہیں یا نہیں“ سوال ۱۹ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مودودی صاحب نے کیوں اپنے عقیدہ اور اس مسلک کے خلاف نزول مسیح کی احادیث سے حضرت عیسی علیہ السّلام کے اصالتا آسمان سے اترنے پر عوام الناس کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے جبکہ وہ از روئے قرآن مجید اُن کے آسمان پر زندہ اُٹھائے جانے کو قطعی اور یقینی نہیں سمجھتے اور روایات میں قرآن مجید کے بالمقابل اس شک کی گنجائش موجود قرار دیتے ہیں کہ یہ واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں یا نہیں؟ (د) مودودی صاحب امام مہدی علیہ السّلام کے متعلق ایک حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھ چکے ہیں :.حقیقت کو بالکل بے نقاب کر دینا جس سے عقلی آزمائش اور امتحان کا کوئی موقعہ باقی نہ رہے حکمت خدا وندی کے خلاف ہے کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ اللہ 68
تعالیٰ اس سنت کو امام مہدی ہی میں بدل دے گا اور ان کی بیعت کے وقت آسمان سے منادی کرے گا کہ لوگو! یہ ہمارا خلیفہ مہدی ہے اس کی سنو اور اطاعت کرو“ (ترجمان القرآن جون ۲۶) سوال ۲۰ اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر مودودی صاحب حضرت عیسی علیہ السّلام کے فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے دمشق کے مشرق میں سفید مینارہ کے پاس ظاہری طور پر اتر آنے کا لوگوں کو کیوں یقین دلانا چاہتے ہیں؟ کیا یہ امر سنت اللہ اور حکمت خداوندی کے خلاف نہیں؟ کیا اس سے حقیقت مہدی کے متعلق آسمان سے آواز آنے سے بڑھ کر بے نقاب نہیں ہو جاتی اور عقلی آزمائش اور امتحان کا موقعہ مفقود نہیں ہو جاتا." (ه) مودودی صاحب اپنے رسالہ میں یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام کے نازل ہوتے ہی مسلمان اور عیسائی سب انہیں قبول کر لیں گے چنانچہ وہ لکھتے ہیں :.اس وقت ملتوں کے اختلافات ختم ہو کر سب لوگ ایک ہی ملت میں شامل ہو جا ئیں گے اور اس طرح نہ جنگ ہوگی اور نہ کسی پر جزیہ عائد (رساله ختم نبوت صفحه ۴۱) کیا جائے گا“ سوال ۲۱ اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک کسی نبی کے زمانہ میں بھی ایسا ہوا ہے کہ اس کے آتے ہی بلا مقابلہ اس کے زمانہ کے سب لوگوں نے اسے یکدم قبول کر لیا ہو.کیا ایسے عقیدہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کو بلحاظ 69
قبولیت ایسی عظمت نہیں مل جاتی جو کسی نبی کو حاصل نہیں ہوئی حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ عظمت (نعوذ باللہ ) حاصل نہ ہوئی کہ ان کی قوم نے بلا مقابلہ انہیں قبول کر لیا ہو؟ مودودی صاحب کی بے اصولی پس مودودی صاحب کا دجال اور نزولِ مسیح کے متعلق یہ سارا مضمون ان کے اپنے مسلمات اور مسلک کے خلاف ہے اور ان کے بے اصولے پن کا ایک شاہکار ہے.ہمارا مسلک احادیث کے متعلق ہمارا مسلک ایسی احادیث کے متعلق جو اخبار غیبیہ پر مشتمل ہیں کسی بے اصولی پر مبنی نہیں چونکہ احادیث جو اخبار غیبیہ پر مشتمل ہیں وحی خفی یعنی مکاشفات سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے ایسی احادیث مکاشفات اور رویائے صالحہ کی طرح تعبیر طلب ہوتی ہیں اور ہم ان کی ایسی تعبیرات کرتے ہیں جن سے عقلی آزمائش اور امتحان باقی رہے اور يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ کا ثواب اُٹھ نہ جائے اور سنت اللہ اور حکمت خداوندی قائم رہے.اگر کسی جگہ دو یا زیادہ حدیثیں بظاہر مختلف مضمون بیان کرتی ہوں تو ہم ان میں تطبیق دینے کی کوشش کرتے ہیں.اور اگر ایسی حدیثوں میں تطبیق نہ دی جاسکتی ہو تو پھر ہم اقرب الی الصواب کو ترجیح دیتے ہیں.ہم اخبار غیبیہ پر مشتمل احادیث کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے استخفاف پسند نہیں کرتے جیسا کہ مودودی صاحب نے کانا دجال کے ذکر پر مشتمل احادیث کو افسانہ قرار دیا ہے جو صریح استخفاف ہے.مودودی صاحب نے تو ھذا خلیفة الله المهدی کی حدیث کو رڈ کر دیا ہے مگر ہم اسے بھی صحیح حدیث سمجھتے ہیں.کیونکہ احمدیوں کے نزدیک امام مہدی کے 70
متعلق آسمانی نشان جو رمضان شریف میں چاند اور سورج کے گرہن کی صورت میں ظاہر ہوا وہ ایک طرح سے آسمانی آواز ہی تھی جو بتا رہی تھی کہ خدا تعالیٰ کا خلیفہ مہدی آچکا ہے اس کی سُنو اور اطاعت کرو.مگر افسوس ہے کہ مودودی صاحب کے روحانی کان اس کے سُننے سے محروم رہے.علاوہ ازیں کئی احمد یوں کو الہامی طور پر یہ خبر دیا جانا کہ امام آخر الزمان کا ظہور ہو چکا ہے آسمانی آواز ہی ہے جو انہوں نے اپنے دل کی گہرائیوں میں سنی.اس موقعہ پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم دجال کے ظہور اور مسیح ابن مریم کے نزول کے متعلق احادیث کی اہم باتوں کی تعبیرات بھی لکھ دیں.دجال کے ظہور اور نزول مسیح کی احادیث کی صحیح تعبیرات (1) مسیح ابن مریم کے نزول سے ان کے کسی مثیل کا آسمانی تائید کے ساتھ آنا مراد ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مکاشفہ میں ان کا دوفرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے اُترتے دکھائی دیئے جانے کی تعبیر یہ ہے کہ مثیل مسیح کو ملائکہ کی تائید حاصل ہوگی.(۲) صبح کے وقت نازل ہونے سے مراد یہ ہے کہ مسیح موعود کا ظہور ایسے وقت ہوگا جبکہ اسلام سے تاریکی کا دور دور ہونے اور اُس کی نشاۃ ثانیہ کا وقت آجائے گا.(۳) مسلمانوں کے صبح کی نماز کی تیاری کے وقت مسیح کے نازل ہونے سے یہ مراد ہے کہ مسیح موعود کی آمد سے پہلے مسلمانوں کی ایک جماعت خدمتِ اسلام کے لئے آمادہ ہوگی اور اس کی منتظر ہوگی اور اس کے دعوی کرنے پر اسے اپنا امام تسلیم کرلے گی.مسیح موعود کا اس وقت یہ کہنا کہ فَرَّجُوْا بَيْنِي وَبَيْنَ عَدُوّ الله “ سے یہ مراد ہے کہ یہ جماعت دجال سے مقابلہ کرنا چاہتی ہوگی مگر اپنے طریق پر اس کے مقابلہ کے قابل نہیں ہوگی.اس لئے دجال کے مقابلہ میں مسیح موعود 71
اپنے تئیں پیش کر دے گا اور اس کی دلیل کے حربہ سے دجالی تحریک ختم ہوگی.یہی دقبال کا قتل ہے.(۴) دمشق کے مشرق میں سفید مینارہ کے پاس نزول کی تعبیر وہ مقام ہے جہاں مسیح موعود کا ظہور ہونے والا تھا.قادیان کا نورانی مقام دمشق سے مشرق میں ہی واقع ہے جہاں سے مسیح موعود نے دعویٰ کیا ہے.اس تعبیر سے دمشق کے مشرق میں مسیح کے نازل ہونے والی حدیث اور مدینہ منورہ کے مشرق میں دجال کے ظاہر ہونے کی دونوں حدیثوں میں تطبیق ہو جاتی ہے ورنہ دمشق مدینہ منورہ سے مشرق میں نہیں.ان حدیثوں کے مطابق مسیح موعود کو دجال کا مقابلہ ایسے مقام سے کرنا چاہیے جو دمشق سے بھی مشرق میں ہو اور مدینہ منورہ سے بھی مشرق میں ہو اور یہ مقام ہندوستان اور اس کا صوبہ پنجاب ہے.پس اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک ہندوستان سے ہی شروع ہونے والی تھی جو مذاہب کی منڈی تھی اور یہ خصوصیت کسی اور ملک کو حاصل نہ تھی کہ اس میں سب مذاہب پائے جائیں.دمشق کے مشرق میں سفید مینارہ کے پاس صحیح کے نزول کی حدیث ایک طرح سے ظاہری الفاظ میں بھی پوری ہو چکی ہے کیونکہ ۱۹۲۴ء میں سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے سفر مشتق میں اس سفید مینارہ کے پاس نزول اجلال فرمایا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں آپ کے اس فرزند موعود کو بھی ایک مسیح قرار دیا گیا ہے.نیز نائب کے ذریعہ کسی پیشگوئی کا پورا ہونا بھی منیب کے ہاتھ سے ہی پورا ہونا سمجھا جاتا ہے جیسے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں آپ کے ایک مکاشفہ میں قیصر و کسری کے خزائن کی چابیاں دی گئیں مگر یہ پیشگوئی حضرت عمرؓ کے ہاتھ پر ان کی خلافت کے زمانہ میں پوری ہوئی ( صحیح بخاری جلد ۴ صفحہ ۱۵۱ باب رؤیا الیل ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام قبل ازیں اس کی تعبیر میں فرما چکے تھے ثُمَّ يُسَافِرُ الْمَسِيحُ الْمَوْعُودُ أو خليفةٌ مِنْ خُلَفَائِهِ إلى أرض دمشق (حمامۃ البشری صفحہ ۳۷) 72
(۵) روایت نمبر ۲۱ کے ان الفاظ سے کہ پتھر اور درخت پکار اُٹھیں گے، کہ اے عبداللہ ، اے عبدالرحمن ، اے مسلم یہ الیہودی ہے اسے قتل کر دو ، مودودی صاحب کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ دقبال یہودی ہوگا حالانکہ یہ سب الفاظ بھی تعبیر طلب ہیں کیونکہ پتھر اور درخت کا ظاہری طور پر پکار اُٹھنا بھی اسی طرح سنت اللہ اور حکمت خداوندی کے خلاف ہے جیسے مودودی صاحب کے نزدیک آسمان سے یہ آواز آنا کہ یہ ہمارا خلیفہ مہدی ہے اس کی سُنو اور اطاعت کرو، سنّت اللہ اور حکمتِ خداوندی کے خلاف ہے.پس حجر اور شجر کے پکار اُٹھنے کی تعبیر یہ ہے کہ جن دلائل کو دقبال مضبوط اور تسلّی دہندہ سمجھ کر ان کی پناہ لے رہا ہو گا.وہ دلائل بزبانِ حال مسیح موعود اور اس کی مسلم جماعت کے سامنے خود اپنی کمزوری کا اعلان کر رہے ہوں گے اور مسیح موعود اور اس کی جماعت کے دلائل کے سامنے دقبال اپنے ان دلائل سے کوئی پناہ اور سہارا نہیں پاسکے گا.اور حسب آیت لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ کہ ہلاک ہوا وہ جو دلائل سے ہلاک ہو.دقبال دلائل کی رو سے ہلاک ہو جائیگا اور یہی اس کا قتل کیا جاتا ہے.جس کے بعد اس کی قوم اسلام میں نیا روحانی جنم لے گی.کسر صلیب اور قتل خنزیر کے الفاظ کی تعبیر خود مودودی صاحب نے بھی یہی کی ہے کہ عیسائیت الگ دین کی صورت میں ختم ہو جائے گی.(۶) اس حدیث میں دجال کو الیہودی اس لئے کہا گیا ہے کہ عیسائیت بھی دراصل یہودی مذہب کی ایک شاخ ہے.نیز اپنے زمانہ کے مسیح موعود کا انکار کرنے کی وجہ سے جس طرح یہود نے حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کا انکار کر دیا تھا.دجال یہودیوں سے مشابہت رکھنے اور ان کا مثیل ہوجانے کی وجہ سے تمثیلی زبان میں ”الیھودی“ قرار دیا گیا ہے.پس الیہودی دجال کا وصفی نام ہے نہ کہ خاندانی.کیونکہ اسی حدیث میں آگے مسیح موعود کی جماعت کے متعلق لکھا ہے.وَيَكْسِرُونَ الصَّلِيْب وَيَقْتُلُونَ الْخِنْزِيرَ کہ وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے جس سے خود مودودی صاحب عیسائیت کا الگ دین کی صورت میں ختم ہو جانا مراد لے 73
رہے ہیں.پس مسیحی دجال دراصل یہودی نہیں.اسے تمثیلاً الیہودی قرار دیا گیا ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص دجال کے فتنہ سے بچنا چاہے وہ سورہ کہف کی پہلی دس آیات کی تلاوت کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ یہ آیات پڑھنے والا درقبال کے نمایاں وصف کو معلوم کر کے اس کی شناخت کر لے گا.اس لئے اس کے فتنہ میں مبتلا ہونے سے بچ جائے گا.سورہ کہف کی پہلی دس آیات میں دجال کا پتہ دینے والی اہم آیت یہ ہے:.وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِبَابِهِمْ (کہف رکوع ۱) یعنی اللہ تعالیٰ انہیں خبردار کرتا ہے جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے بیٹا بنالیا ہے.اس بات کا نہ انہیں علم ہے اور نہ اُن کے آباء کو.سورۃ مریم میں اس کو فتنہ عظیمہ قرار دیا گیا ہے سورۃ مریم کے آخر میں جس کا تعلق عیسائیوں سے ہے اس فتنہ عظیمہ کا ذکر تعادُ السموتُ يَتَفَطَرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُ الْأَرْضُ وَتَخِرُ الْجِبَالُ هَداهِ آنْ دَعَوُا للرّ حمٰنِ وَلَداہ کی آیت میں کیا گیا ہے یعنی قریب ہے کہ ان کے خدا کا بیٹا بنانے سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ٹوٹ کر گر پڑیں.اس سے بڑا مذ ہبی فتنہ قرآن مجید میں اور کوئی بیان نہیں ہوا.اور حدیث میں سب سے بڑا فتنہ دجال کا قرار دیا گیا ہے.پس دجال کا خروج عیسائیوں میں سے ہی ہونے والا تھا.چنانچہ خدا کا بیٹا بنانے والے اور اس عقیدہ پر اصرار کرنے والے اس آخری زمانہ میں مغربی اور یورپین پادری ہیں جو اس عقیدہ کی جابجا تبلیغ کرتے پھرتے ہیں کہ مسیح ابن مریم علیہ السلام ابن اللہ ہیں بلکہ وہ خود خدا ہیں.پس دجال دراصل عیسائیوں میں سے ہی ظاہر ہونے والا تھا نہ کہ یہودیوں میں سے عُزیر کو خدا کا بیٹا قرار دینے والے یہودی جو عرب میں صدر اسلام میں موجود تھے.اب بالکل 74
معدوم ہو چکے ہیں.(۷) مسیح موعود کا حربہ جس سے وہ دجال کو قتل کرنے والا تھا محض سماوی حربہ ہے.کیونکہ صحیح بخاری کی حدیث میں مسیح موعود کے متعلق يَضَعُ الحرب کے الفاظ وارد ہیں ( جن کا یہ مطلب ہے کہ مسیح موعود ٹرائی کو روک دے گا.یعنی اس کا مقابلہ روحانی ہوگا نہ ظاہری لڑائی سے ) یہ سماوی حربہ اس بات کا ثبوت مہیا کرنا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیبی موت سے بچ کر کشمیر کی طرف ہجرت کر گئے تھے.اور وہاں آپ نے اپنی طبعی زندگی کے دن گزار کر وفات پائی تھی.کتاب جیز زان روم (JESUS IN ROME) کے بیان سے ظاہر ہے کہ اب محقق عیسائی بھی اس خیال کی حمایت کرنے لگے ہیں.حال ہی میں کوہ ایتھاس سے انجیل مرقس کا ایک قدیمی نسخہ برآمد ہوا ہے جس میں مسیح کے مشرق میں ظاہر ہونے کا ذکر ہے.جو صاحب اس مضمون کے متعلق سیر حاصل بحث معلوم کرنا چاہیں ، وہ ہمارے ذیل کے رسائل و کتب کا مطالعہ کریں:.(۱) مسیح ہندوستان میں.مصنفہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ.(۲) مسیح مشرق میں (۳) مسیح کشمیر میں (۴) صحائف قمران (۵) قبطی انجیل کا انکشاف (1) مسیح بلا د شرقیہ میں اس عقیدہ کے پھیل جانے سے عیسائیت اور یہودیت دونوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے.جہاں جہاں یہ عقیدہ پھیلتا جا رہا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیبی موت سے بچ کر مشرق میں ہجرت کر گئے تھے وہاں دجالی تحریک ساتھ ہی ساتھ ناکام ہوتی جارہی ہے.(۸) مودودی صاحب کی پیش کردہ احادیث میں دجال کا مقام قتل دمشق بھی بیان ہوا ہے ( حدیث نمبر ۱۶) جبل افیق کی گھائی کا قرب بھی (حدیث ۲۰) اور باب ریڈ بھی ( حدیث 75
۱۵) جبل افیق اور باب لڈ کے درمیان مودودی صاحب کے رسالہ میں دیئے گئے نقشہ کے مطابق بعد المشرقین ہے.یعنی جبل افیق ریاست فلسطین سے باہر شمال مشرق میں ہے اور باب لد ریاست کی سرحد پر جنوب مغرب میں.اس امر کی وضاحت کے لئے ہم مودودی صاحب کے رسالہ ختم نبوت میں دیئے گئے نقشہ کا عکس درج ذیل کرتے ہیں.(نقشہ کاعکس اگلے صفحہ پر ملاحظہ ہو ) 76
مشرق لبنان یهودی بات اردن بیت المقدس یمیانہ بحساب میں 77
اس نقشہ سے یہ حقیقت واضح ہے کہ جبلِ افیق سے باب لڈ بہت دُور واقع ہے.اور دونوں جگہ درقبال کی ظاہری ہلاکت درست نہیں ہو سکتی مودودی صاحب نے دونوں حدیثوں میں تطبیق دینے کے لئے یہ تاویل کی ہے کہ دجال جبلِ افیق سے حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام سے پسپا ہونا شروع ہوگا اور آپ باب لد تک اس کا تعاقب کر کے اسے قتل کریں گے.گویا ایک حدیث میں دجال کی ہلاکت کی تعبیر ان کے نزدیک دجال کی پسپائی ہے.مگر یہ تعبیر بھونڈی ہے کیونکہ دجال کی ہلاکت کے لئے حدیثوں میں تین مقام بیان ہوئے ہیں.اوّل دمشق ، دوم جبل افیق ، سوم باب لد چونکہ دجال کا قتل ظاہری طور پر مراد نہیں تھا بلکہ مودودی صاحب کی کسر صلیب اور قتل خنزیر کی تعبیر کی طرح اس کی تعبیر بھی عیسائیت کا ختم ہو جانا ہے.لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان تینوں مکاشفات کی تعبیر یہ ہے کہ دجالی تحریک کا انجام کارشہروں میں بھی خاتمہ ہو جائے گا.پہاڑی علاقوں میں بھی خاتمہ ہو جائے گا اور میدانی علاقوں میں بھی خاتمہ ہو جائیگا.دمشق شہروں کا قائم مقام ہے اور جبلِ افیق پہاڑی مقامات کا اور باب لد میدانوں کے دیہاتی علاقوں کا.اس طرح یہ سب حدیثیں ایک دوسرے کے مطابق ہو جاتی ہیں اور دقبال کے ہر جگہ کی استیصال کو ظاہر کرتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دمشق جبل افیق اور باب لڈ وغیرہ کے بعض علاقوں کا مکاشفات میں دکھایا جانا اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے بھی تھا کہ بگڑی ہوئی عیسائیت کی بنیاد اور تبلیغ کے لئے یہ علاقے ایک تاریخی پس منظر کی حیثیت رکھتے تھے.دجالی تحریک کا لمبا مقابلہ احادیث میں دجالی تحریک کا ساری دنیا میں مسیح موعود کے حربہ سے یکدم ختم ہو جانا مراد 78
نہیں بلکہ جس طرح مذہبی تحریکات کامیابی کے لئے ایک لمبے وقت اور جدو جہد کو چاہتی ہیں اسی طرح دجالی تحریک کے کلی استیصال کے لئے لمبا زمانہ چاہئیے جبکہ تمام مذاہب کو خدا تعالیٰ بموجب حدیث نبوی ہلاک کر کے اسلام میں داخل کر دے گا.چنانچہ ایک حدیث نبوی میں بروایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ وارد ہے:.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ( مُوسى) يَارَبِّ إِنِّي أَجِدُ فِي الْأَلْوَاحِ أُمَّةً يُؤْتَوْنَ الْعِلْمَ الْأَوَّلَ وَالْآخِرَ فَيَقْتُلُونَ قُرُونَ الضَّلَالَةِ الْمَسِيحَ الرِّجَالَ (دلائل النبوة جلد ا صفحه ۱۴) یعنی ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.موسیٰ نے کہا اے میرے رب میں الواح میں ایک قوم کا ذکر پاتا ہوں جنہیں پہلا اور آخری علم دیا جائیگا.پس وہ ضلالت کی صدیوں میں مسیح الدقبال کا مقابلہ کرتے رہیں گے.اس حدیث کی روشنی میں مسیح موعود کی جماعت کو دجال کے ساتھ لمبا عرصہ مقابلہ کرنا پڑیگا.تب جا کر دجالی تحریک کا خاتمہ ہو گا اور اس طرح دجال ہلاک ہو گا یہ نہیں کہ مسیح موعود کے دعوی کے ساتھ ہی آنا فانا دجال قتل کر دیا جائے گا.(۹) مودودی صاحب کی پیش کردہ احادیث میں ہے کہ مسیح کے دم سے کا فر مریں گے اور جہاں تک اس کی نظر پہنچے گی وہاں تک اس کا دم پہنچے گا.ظاہری طور پر یہ اعجوبہ بھی عقلی آزمائش اور امتحان کو کالعدم کرتا ہے اور سنتِ الہیہ اور حکمت خداوندی کے خلاف ہے.لہذا مسیح موعود ما حدیث میں پہلے اور پچھلے علم پر قتل دجال متفرع کیا گیا ہے.لہذ ا قبال کا قتل علمی دلائل سے ہوگا نہ مادی حربہ سے.79
کے دم سے کافروں کے مرنے کی تعبیر یہ ہے کہ مسیح موعود کی بد دعا سے وہ کافر مریں گے جن پر اس کی بددعا کے لئے نظر پڑے گی.یہ مراد نہیں کہ اس کا سانس زہریلا ہوگا جس سے ہر کا فرحدِ نظر تک مرتا چلا جائے گا.اگر یہ مراد ہوتی تو دجال کو حربہ سے قتل کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی مسیح موعود کا زہریلا سانس ہی اسے ہلاک کر دیتا چونکہ دجال ایک شخص نہیں بلکہ ایک خاص تحریک ہے اس لئے اس کا استیصال دلیل کے ساتھ لمبے عرصہ تک مقابلہ کو چاہتا ہے.(۱۰) دجال کی روایات میں اس کے مقامات خروج میں اختلاف ہے.اس کا خراسان سے خروج بھی مذکور ہے.اصفہان سے خروج بھی مذکور ہے.دمشق اور شام و عراق کے درمیان سے خروج بھی مذکور ہے.تمیم داری کی روایت کے مطابق جزیرہ سے خروج بھی مذکور ہے اور مدینہ منورہ سے مشرق میں خروج بھی مذکور ہے.ان روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ دجال ایک شخص نہیں بلکہ اس کے مظاہر مختلف اشخاص اور ان کی تحریکات ہیں جو مختلف مقامات سے مختلف رنگوں میں خروج کرنے والے تھے جزیرہ (برطانیہ) سے نکل کر ہندوستان میں خروج کرنے والا دقبال یورپین پادریوں کی تحریک تھی، جس کا انگریزوں کے ہندوستان پر مسلط ہونے کے بعد ایک سیلاب امڈ آیا تھا اور اس وقت مسلمانوں کے کئی شریف گھرانے عیسائیت کی آغوش میں چلے گئے تھے اور جارہے تھے.(۱۱) مودودی صاحب کانا دجال کے ذکر پر مشتمل احادیث کو افسانہ قرار دے چکے ہیں.مگر ہم ان احادیث کو اُن کی طرح افسانہ نہیں بلکہ تعبیر طلب سمجھتے ہیں کیونکہ دراصل ایسی حدیثیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کشوف پر مشتمل ہیں.پس دقبال کے دائیں آنکھ سے کانا ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کی رُوحانی آنکھ نا بینا ہوگی.چنانچہ یورپین پادریوں کی دینی نابینائی کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہے کہ وہ ایک انسان کو خدا بنارہے ہیں جو تمام حوائج بشری رکھتا تھا.80
(۱۲) دجال اور مسیح ابن مریم کے نزول کے متعلق جو احادیث مودودی صاحب نے پیش کی ہیں ان میں سے بعض میں ہے کہ مسیح علیہ السلام مسلمانوں کے امیر کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور بعض میں ہے کہ وہ خود امام ہوں گے دونوں قسم کی روایات میں بظاہر تضاد ہے.مودودی صاحب نے دوسری قسم کی احادیث کو ر ڈ کر دیا ہے اور مسیح ابن مریم کو بعد از نزول مسلمانوں کے امیر کے تابع قرار دیا ہے جو ایک نبی کی صریح ہتک ہے ہمارے نزدیک دونوں قسم کی احادیث میں یوں تطبیق ہو سکتی ہے کہ چونکہ دوسری احادیث سے ثابت ہے کہ آخری زمانہ کے مامور کی دو حیثیتیں ہیں ایک مقام مہدویت کی اور دوسری مقام عیسویت کی جیسا کہ مسند احمد حنبل کی حديث يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنْكُمْ أَنْ يَلْقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِمَامًا مَهْدِيًّا سے ظاہر ہے کہ جس شخص کو عیسی قرار دیا گیا ہے اس کو امام مہدی بھی قراردیا گیا ہے.یہ موعود امام الْمَهْدِی ہونے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل بروز ہونے کی وجہ سے ساری دُنیا کی اصلاح سے تعلق رکھتا ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کا کامل بروز ہونے کی وجہ سے اُمت کا مسیح موعود بن کر عیسائیوں کی اصلاح کرنے والا تھا.لہذا اس کی مہدی ہونے کی حیثیت اصل اور مقدم ہے اور مسیح ہونے کی حیثیت فرع اور متاثر ہے.مگر چونکہ مسیح موعود ہی امام مہدی بھی ہے اس لئے مکاشفہ میں آنحضرت کو اُسے بحیثیت مہدی امام دکھایا گیا اور بحیثیت مسیح مقتدی.اور دوسری احادیث میں اس کے ایک شخص ہونے کی وجہ سے مسیح موعود کو ہی امام قرار دے دیا گیا ہے.اگر کوئی شخص ہماری اس تعبیر کو درست نہ سمجھے تو دوسری احادیث کی روشنی میں جو مسیح اور مہدی کو ایک ہی شخص قرار دیتی ہیں ، پہلی قسم کی احادیث کو رڈ کرنا پڑے گا.مگر رڈ کی بجائے تطبیق کو ترجیح حاصل ہے اس لئے ہم نے اسی کو اختیار کیا ہے.(۱۳) مودودی صاحب کی پیش کردہ روایت میں ہے کہ مسیح مسلمانوں کا امام بنے گا تو 81
جب اسے خدا کا دشمن ( دجال ) دیکھے گا تو د قبال اس طرح پگھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں پگھلتا ہے.اگر مسیح اسے اس حالت پر چھوڑ دے تو وہ خود پگھل جائے یہاں تک کہ ہلاک ہولیکن خدا تعالیٰ اسے مسیح سے قتل کرائے گا اور وہ مومنوں کو اپنے حربہ پر اس کا خون دکھائے گا.اس حدیث میں مسیح موعود کے ظہور پر دقبال کی یہ حالت بیان کی گئی ہے کہ مسیح موعود کی روحانی تحریک سے ایک ایسی ہوا چلے گی کہ دجال کو یہ احساس پیدا ہو جائے گا کہ میری قوم کے معاشرہ میں مادہ پرستی آجانے کی وجہ سے ان کی مذہبی حالت آہستہ آہستہ انحطاط پذیر ہو رہی ہے.اگر مسیح موعود انہیں اس حالت پر چھوڑ دیتے تو عیسائیت مادہ پرستی میں فنا ہو جاتی لیکن چونکہ یہ امر اسلام کے لئے مفید نہ تھا.اس لئے مسیح موعود نے پادریوں کے خلاف اپنے اس حربہ کو استعمال کرنا تھا کہ حضرت مسیح ابن مریم طبعی عمر پا کر وفات پاچکے ہیں.آپ نے اپنی جماعت کو اس حربہ میں عیسائیت کے موت کے آثار دکھا دیئے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ بالآخراب عیسائیت ختم ہو کر اسلام میں نیاز و حانی جنم لے گی.وما ذلك على الله بعزیز.آخری گزارش ہماری آخری گزارش اس موقعہ پر یہ ہے کہ مودودی صاحب نے مسلمانوں کو جو امید دلائی ہے کہ موجودہ ریاست فلسطین میں سے کوئی یہودی مسیح موعود کے دعوئی کے ساتھ کھڑا ہوگا جو دراصل دجال ہوگا اور اسے قتل کرنے کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے اتر آئیں گے یہ امید کبھی پوری نہ ہوگی کیونکہ خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ مسیح موعود بر وقت امت محمدیہ میں ظاہر ہو چکا ہے لہذا اب کوئی مسیح آسمان سے نہیں آئے گا.خدا کے مقرر کردہ مسیح پاک پیشگوئی فرماتے ہیں کہ ر مسیح موعود کا آسمان سے اتر نا محض جھوٹا خیال ہے.یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا.ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے 82
اور کوئی اُن میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر اُن کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسی مبن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولا د مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا.اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے.اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑ دیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے.(تذکرۃ الشہادتین ایڈیشن اول ص 65 مطبوعہ ۱۹۰۳ ) وأخر دعوننا ان الحمد لله رب العالمين 83
ضمیر علمی تبصره مودودی صاحب نے اپنے رسالہ ختم نبوت“ میں امام غزالی علیہ الرحمہ کی کتاب الاقتصاد کا ایک حوالہ اس بات کے ثبوت میں پیش کیا تھا کہ امام صاحب موصوف آیت خاتم النبیین اور لانبی بعدی کی تاویل و تخصیص کے قائل کو کافر قرار دیتے ہیں.مودودی صاحب نے امام غزالی کی طرف اپنے بیان میں تحقیقاتی کمیشن کے سامنے دس سوالوں کے جواب میں یہ حوالہ عربی زبان کا پیش کیا تھا اور رسالہ ختم نبوت میں اسی عربی عبارت کا ترجمہ پیش کیا تھا.وہ عبارت معہ ترجمہ یہی تھی :- عربی عبارت پیش کردہ مودودی صاحب إِنَّ الْأُمَّةَ فَهِمَتْ بِالْإِجْمَاعِ مِن هذا اللفظ أَنَّهُ أَفْهَمَ عَدُمٌ النَّبِي بَعْدَهُ أَبَدًا وَعَدُم رسولٍ بَعْدَهُ وَأَنَّهُ لَيْسَ فِيهِ تَأْوِيلَ وَتَخْصِيْصَ فَكَلَامُهُ مِنْ اَنوَاعِ الهِذْيَانِ لَا يَمْنَعُ الْحُكْمُ بِتَكْفِيرِه لأَنَّهُ مُكَذِّبُ لِهَذا النَضِ الَّذِي أَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى أَنَّهُ غَيْرُ مَاوَلٍ وَلَا مَخصُوص 66 اس کا اردو تر جمہ از مودودی صاحب ( الاقتصاد صفحه ۱۱۳) امت نے بالا تفاق اس لفظ لا نبی بعدی سے یہ سمجھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد کسی نبی اور کسی رسول کے کبھی نہ آنے کی تصریح فرما چکے ہیں اور یہ 84
کہ اس میں کسی تاویل و تخصیص کی کوئی گنجائش نہیں ہے.اب جو شخص اس کی تاویل کر کے اسے کسی خاص معنی کے ساتھ مخصوص کرے اس کا کلام محض بکواس ہے اس پر تکفیر کا حکم لگانے میں کوئی امر مانع نہیں ہے کیونکہ وہ اس نص کو جھٹلا رہا ہے جس کے متعلق تمام امت کا اجماع ہے“ (رسالہ ختم نبوت صفحہ ۲۴-۲۵) ہم نے اپنے جوابی رسالہ ”علمی تبصرہ “ میں لکھا تھا:.جن الفاظ پر ہم نے خط کھینچ دیا ہے یہ الفاظ امام غزالی پر سراسر افتراء ہیں کیونکہ ان کی کتاب الاقتصاد صفحہ ۱۴ - ۱۱۳ پر ہرگز ایسے الفاظ موجود نہیں.جن کا ترجمہ یہ الفاظ ہوسکیں.( علمی تبصرہ صفحہ ۴۹) اس جگہ ہم نے مودودی صاحب سے سوال نمبر ۱۰ کے ذیل میں لکھا تھا:.کیا مودودی صاحب یا ان کے حامیوں میں یہ جرات ہے کہ وہ خط کشیدہ عبارت مودودی صاحب کے پیش کردہ الفاظ میں الاقتصاد سے دکھا سکیں؟ ہرگز نہیں.ہرگز نہیں.ولو كان بَعْضُهُم لِبَعْضٍ ظَهِيرًا - چونکہ ہماری طرف سے یہ پر زور چیلنج تھا کہ مودودی صاحب امام غزالی علیہ الرحمتہ کی طرف منسوب کردہ خط کشیدہ عبارت الاقتصاد سے دکھا ئیں.اور ہم نے متحدی سے کہا تھا کہ وہ ہرگز ایسا نہیں کر سکتے.لہذا مو دودی صاحب نے اس کے بعد اپنے اس رسالہ ختم نبوت کا مضمون اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں سورۃ احزاب کی تفسیر کے ساتھ بطور ضمیمہ شائع کرتے ہوئے امام غزالی علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کردہ عبارت درج کرنے کی بجائے الاقتصاد کی اصل عبارت درج کر دی ہے مگر اس میں وہ خط کشیدہ فقرات موجود نہیں جو مودودی صاحب نے رسالہ ختم نبوت اور تحقیقاتی کمیشن کے سامنے اپنے پیش کردہ بیان میں درج کئے تھے اب مودودی صاحب کے اصل عبارت کو الاقتصاد سے پیش کرنے سے ظاہر ہو گیا کہ ان کی محترفہ عبارت الاقتصاد میں موجود 85
نہ تھی.اور یہ محرفہ عبارت رسالہ ختم نبوت اور تحقیقاتی کمیشن کے سامنے اپنے بیان میں درج کر کے مودودی صاحب نے پبلک اور عدالت کو محترفہ عبارت امام غزالی علیہ الرحمتہ کی طرف منسوب کر کے دھوکا دیا تھا.ضمیمہ تفہیم القرآن میں الاقتصاد کی اس عبارت کو درج کرتے ہوئے مودودی صاحب نے اس کے صفحہ ۱۴۶ پرفٹ نوٹ میں لکھا ہے:.”امام غزالی کی اس رائے کو ہم ان کی اصل عبارت کے ساتھ اس لئے نقل کر رہے ہیں کہ منکرین ختم نبوت نے اس حوالہ کی صحت کو بڑے زور شور سے چیلنج کیا ہے اس عبارت سے مودودی صاحب یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ الاقتصاد سے اصل عبارت پیش کر کے گویا انہوں نے ہمارے اس چیلنج کو غلط ثابت کر دیا ہے جو ہماری طرف سے بڑے زور شور سے کیا گیا تھا.وہ ہمیں منکرین ختم نبوت قرار دینے میں تنابز بالا لقاب سے کام لے رہے ہیں کیونکہ جماعت احمد یہ آیت خاتم النبیین کے اجماعی معنوں کو تسلیم کرتی ہے.کیونکہ امت محمدیہ کا اجماع خَاتَمُ النَّبِيِّين اور حدیث لا نبی بعدی کے معنوں پر اگر قرار دیا جائے تو اس کا مفہوم علمائے امت کے نزدیک صرف یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی تشریعی اور مستقل نبی نہیں آسکتا.اور یہی عقیدہ جماعت احمدیہ کا ہے.پس اگر مودودی صاحب جماعت احمدیہ کو منکرین ختم نبوت قرار دیں تو انہیں ان سب بزرگوں کو منکرین ختم نبوت قرار دینا پڑے گا جن کی عبارتیں ہم قبل ازیں اس رسالہ میں نقل کر چکے ہیں.میں بہر حال مودودی صاحب نے ضمیمہ سورۂ احزاب میں امام غزالی کا جوحوالہ نقل کیا ہے اس ان الامة فهمت بالاجماع من هذا اللفظ انه افهم عدم النبى بعده ابدا وعدم رسول بعده و انہ لیس فیہ تاویل ولا تخصیص 86
کے بعد کی یہ عبارت الحكم وَمَنْ اَوْ لَهُ بِتَخْصِيصِ فكلامه من انواع الهذيان لا يمنع بتكفيره لانه مكتب لهذا النص الذي اجمعت الامۃ علی انہ غیر ماوّل ولا مخصوص جو انہوں نے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے بیان میں امام غزالی کی طرف منسوب کی تھی مودودی صاحب کے ضمہ سورہ احزاب مندرجہ تفسیر تفہیم القرآن میں موجود نہیں.اسی عبارت کا ترجمہ مودودی صاحب نے اپنے رسالہ ختم نبوت میں درج کیا تھا:.اب جو شخص اس کی تاویل کر کے اسے کسی خاص معنی کے ساتھ مخصوص کرے اس کا کلام محض بکواس ہے جس پر تکفیر کا حکم لگانے میں کوئی امر مانع نہیں ہے کیونکہ وہ اس نص کو جھٹلا رہا ہے جس کے متعلق تمام امت کا اجماع ہے 66 (رساله ختم نبوت صفحه ۲۵) ہم امام غزالی کی کتاب الاقتصاد کے رو سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ان کے نزدیک اجماع کو حجت قاطعہ ماننے میں بہت شبہات ہیں اس لئے وہ اجماع کے انکار کی بناء پر کسی کو کا فرقرار نہیں دیتے بلکہ نظام معتزلی کو کافر قرار دیا جانے پر بھی انہیں اعتراض ہے جو سرے سے ہی اجماع کے منکر ہیں.اور نص کی تاویل کرنے والے کو بھی وہ نص کا مکذب قرار نہیں دیتے تو پھر آیت خَاتَمُ النَّبِيِّين اور حدیث لا نبی بعدی کی تاویل کرنے والے کو وہ کیسے کا فرقرار دے سکتے تھے.پس مودودی صاحب کے ضمیمہ میں پیش کردہ اصل عبارت نے بھی مودودی صاحب کی صحافتی دیانت اور امانت کا پردہ چاک کر دیا ہے اور رسالہ ختم نبوت اور ضمیمہ سورہ احزاب سے امام غزالی علیہ الرحمہ کی الاقتصاد کے پیش کردہ دونوں عبارتوں کا تقابل اور موازنہ کرنے والے کے سامنے یہ بات آئینہ کی طرح سامنے آجاتی ہے کہ رسالہ ختم نبوت اور تحقیقاتی 87
کمیشن کے سامنے امام غزالی کے حوالہ سے مودودی صاحب کی پیش کردہ عبارت سراسر محرف تھی اور اس عبارت کا حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کرنا مودودی صاحب کا امام غزائی پر سراسر افتراء تھا.پس مودودی صاحب ضمیمہ سورۃ احزاب میں امام غزالی علیہ الرحمہ کی الاقتصاد سے اصل عبارت پیش کر کے ہمارے چیلنج سے عہدہ بر آنہیں ہو سکے.بلکہ انہوں نے دراصل ہمارے چیلنج کے مقابلہ میں تو ہتھیار ڈال دیئے ہیں.مگر اس شکست کو چھپانے کے لئے ضمہ سورہ احزاب کے فٹ نوٹ میں انہوں نے یہ عبارت لکھ دی ہے کہ امام غزالی کی اس رائے کو ہم ان کی اصل عبارت کے ساتھ نقل کر رہے ہیں کہ منکرین ختم نبوت نے اس حوالہ کی صحت کو بڑے زور شور سے چیلنج کیا ہے“.مگر تحریف چھپائے سے چھپ نہیں سکتی.چنانچہ ہم اب بھی بڑے زور سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ مودودی صاحب کے رسالہ ختم نبوت اور تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش کردہ ان کی امام غزالی علیہ رحمتہ کی طرف منسوب کردہ عبارت انکے ضمیمہ سورۃ احزاب میں امام غزالی علیہ الرحمہ کی پیش کردہ عبارت میں موجود نہیں.اور رسالہ ختم نبوت اور تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش کردہ ہر دو عبارتیں محترف ہیں اور مودودی صاحب کی صحافتی دیانت وامانت کا ماتم کر رہی ہیں.جناب مودودی صاحب نے اب سورۃ احزاب کی تفسیر کے ساتھ ضمیمہ میں الاقتصاد کی جو عبارت درج کی ہے اس میں بھی تحریف سے کام لیا ہے جس کی وجہ سے اس کا ترجمہ بھی بگاڑ دیا ہے.بہر حال وہ عبارت معہ اُن کے ترجمہ کے درج کی جاتی ہے :- 88
لو فتح هذا الباب اگر یہ دروازہ (یعنی اجماع کو حجت ای باب انکار کون ماننے سے انکار کا دروازہ کھول دیا الاجماع حجة انجر الى جائے تو بڑی فتیح باتوں تک نوبت پہنچ امور شنيعة وهو ان قائلاً جاتی ہے.مثلاً اگر کہنے والا کہے کہ لو قال يجوزان يبعث ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رسول بعد نبينا محمد کسی رسول کی بعثت ممکن ہے تو اس کی صلى الله عليه وسلم تکفیر میں تامل نہیں کیا جاسکتا لیکن فيبعد التوقف في تكفيره ومستبعد استحالة ذلك بحث کے موقعہ پر جوشخص اس تکفیر میں عند البحث تَسْتَمِلُ من تامل کو ناجائز ثابت کرنا چاہتا ہوا سے الاجماع لا محالة فان لا محالہ اجماع سے کام لینا پڑیگا کیونکہ العقل لا يحيله وما نقل عقل اس کے عدم جواز کا فیصلہ دیتی من قوله لا نبی بعدی و من ہے اور جہانتک نقل کا تعلق ہے اس قوله تعالى خاتم عقیدے کا قائل لا نبی بعدی اور خاتم النبيين فلا يعجز هذا النبیین کی تاویل کرنے سے عاجز نہ القائل عن تأويله فيقول ہوگا.وہ کہے گا کہ خاتم النبیین خاتم النبيين اراد به مراد اولوالعزم رسولوں کا خاتم ہونا اولو العزم من الرسل ، فان ہے.اور اگر کہا جائے کہ النبیین کالفظ قال النبيين عام فلا عام ہے تو عام کو خاص قرار دے دینا يبعد تخصيص العام و اس کے لئے کچھ مشکل نہ ہوگا اور لا نبی به الرسول وفرق بين بعدی کے متعلق وہ کہہ دے گا کہ لا رسول بعدی تو نہیں کہا گیا اور رسُول قوله لا نبي بعدى لم يرد النبي والرسول 89
والنبى اعلى مرتبة من اور نبی میں فرق ہے اور نبی کا مرتبہ رسول الرسول الى غير ذالك من سے بلند تر ہے.غرض اس طرح کی انواع الهذيان فهذا و امثاله بکواس بہت کچھ کی جاسکتی ہے اور محض لا يمكن ان ندعى استحالته لفظ کے اعتبار سے ایسی تاویلات کو ہم من حيث مجرد اللفظ فانا في محال نہیں سمجھتے بلکہ ظواہر تشبیہہ کی تاویل تاویل ظواهر التشبيه میں ہم اس سے بھی زیادہ بعید احتمالات قضينا باحتمالات أبعد من کی گنجائش مانتے ہیں.اور اس طرح کی هذه ولم يكن ذالك مبطلاً تاویلیں کرنے والے کے متعلق ہم یہ للنصوص ولكن الرد على هذا القائل ان الامة فَهِمَت بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ نصوص کا انکار بالاجماع من هذا اللفظ کر رہا ہے لیکن اس قول کے قائل کی ومن قرائن احواله انه تردید میں ہم کہیں گے کہ امت نے افهم عدم نبي بعده ابدا بالاتفاق اس لفظ ( یعنی لا نبی بعدی ) و عدم رسول الله ابدا وانہ سے اور نبی کے احوال کے قرائن سے یہ ليس فيه تأويل و لا سمجھا ہے کہ حضور کا مطلب یہ تھا کہ آپ تخصيص فمنكر هذا لا کے بعد نہ کبھی کوئی نبی آئے گا نہ رسول يكون الا منكر الاجماع نیز امت کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ اس الاقتصادفي الاعتقاد المطبعة میں کسی تاویل و تخصیص کی گنجائش نہیں الادبية مصر صفحه ۱۱۴) ہے لہذا ایسے شخص کو منکر اجماع کےسوا کچھ نہیں کہا جاسکتا.جناب مولوی مودودی صاحب نے شروع عبارت میں ولو فتح هذا الباب کے آگے بریکٹ میں جو یہ الفاظ لکھے ہیں ای باب انکار کون الاجماع حجة “ یہ الاقتصاد 90
کے الفاظ نہیں.یہ الفاظ دراصل مودودی صاحب کے خود ساختہ ہیں جن کے ذریعہ انہوں نے سیاق کلام میں تحریف کر دی ہے.امام غزالی یہ بتا رہے تھے کہ اجماع کے انکار کی وجہ سے ہم کسی کو کا فرقرار نہیں دیں گے ہمیں تو نظام معتزلی کو بھی کا فر قرار دینے پر اعتراض ہے جو سرے سے اجماع کے وجو دہی کے منکر ہیں کیونکہ اجماع کے حجت ہونے میں بہت سے شبہات ہیں.اس کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ لو فتح هذا الباب لانجر الى امور شنيعة یعنی اگر اجماع کو حجت قرار دے کر اس کے انکار پر تکفیر کا دروازہ کھول دیا جائے تو یہ بہت سی خرابیاں پیدا کرنے کا موجب ہوگا مودودی صاحب نے اس اصل سیاق کلام کو نظر انداز کر کے اس سیاق کلام کے برعکس بریکٹ کی عبارت اپنے پاس سے گھڑ کر امام غزالی علیہ الرحمتہ کی طرف یہ مضمون منسوب کرنا چاہا ہے کہ اگر اجماع کے حجت ہونے سے انکار کا دروازہ کھول دیا جائے تو بڑی فتیح باتوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے.حالانکہ امام غزالی علیہ الرحمہ اس کے برعکس اس عبارت سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر اجماع کو حجت قرار دے کر تکفیر کا دروازہ کھول دیا جائے تو اس سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی.پس مودودی صاحب نے امام موصوف کے کلام میں خود ساختہ بریکٹ بڑھا کر اس کے سیاق کو بگاڑنے میں سراسر تحریف سے کام لیا ہے.امام غزالی علیہ الرحمہ تو اجماع کو حجت اس لئے نہیں مانتے کہ ان کے نزدیک اس کے حجت ہونے میں بہت سے شبہات ہیں اور اس جگہ یہ بتارہے ہیں کہ اس کے حجت ہونے کا دروازہ کھولنے پر اس سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی.پھر مثال کے طور پر وہ ایک خرابی کا یوں ذکر فرماتے ہیں کہ مثلاً اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ ہمارے محمد صلی اللہ علیہ کے بعد کسی رسول کی بعثت جائز ہے تو (اجماع کو حجت قرار دینے کی وجہ سے.ناقل ) اس کی تکفیر میں توقف نہیں ہو سکے گا.یہ ترجمہ ہے فیبعد التوقف فی تکفیرہ کا.جس سے مراد ان کی یہ ہے کہ رسول کی آمد کے محال ہونے پر اجماع قرار دے کر 91
اگر اس اجماع کو حجت قرار دیا جائے تو پھر رسول کی آمد کو جائز قرار دینے والے کو فوراً کا فر قرار دینا پڑے گا.مگر مودودی صاحب نے اس عبارت کا ایسا ترجمہ کر دیا ہے جس کا مفہوم یہ بن جاتا ہے کہ امام غزالی علیہ الرحمہ نے ایسے شخص کی تکفیر میں تامل کو جائز نہیں رکھا اور انہوں نے یہ فتویٰ دے دیا ہے کہ وہ شخص ایسا کہنے سے بلا تامل کا فر ہو جائے گا.پس فیبعد التوقف فی تکفیرہ کہ اس کی تکفیر میں تامل نہیں کیا جاسکتا اصل سیاق کلام کے لحاظ سے درست ترجمہ نہیں بلکہ تحریف معنوی کا ارتکاب ہے امام غزالی کا مطلب یہ ہے کہ اجماع کو حجت قرار دینے کی صورت میں ایسے شخص کو فوراً کا فرقرار دے دیا جائے گا حالانکہ یہ امر شنیع اور خرابی ہے جو اجماع کو حجت قرار دینے سے پیدا ہوگی اور ایسے شخص کی تکفیر پر منتج ہو گی حالانکہ ایسے شخص کو کا فرقرار دینا مناسب نہیں کیونکہ اجماع کا حجت ہونا خود مشتبہ ہے.اس عبارت کے بعد امام غزالی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :- ومستبد استحالة ذالك عند البحث يَسْتَمِدُّ من الاجماع لا محالة فان العقل لا يحيله وما نقل فيه مِن قَوْلِهِ لا نبى بَعْدَى وَمِنْ قَوْلِهِ تَعَالَى خَاتَمَ النَّبِيِّينَ فَلَا يَعْجِزُ هذا القائِلُ عن تأويله ،، اس عبارت کا ترجمہ سیاق کے لحاظ سے یہ ہے کہ تکفیر میں توقف کو اس موقعہ پر محال قرار دینے پر اصرار کرنے والا بحث کے وقت ناچارا جماع سے حجت پکڑے گا کیونکہ عقل تو رسول کا آنا محال قرار نہیں دیتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول لا نبی بعدی اور اللہ تعالیٰ کے قول خاتم النبیین کی تاویل سے وہ شخص جو رسول کی آمد کے جواز کا قائل ہے عاجز نہیں ہوگا.مودودی صاحب نے اس عبارت کا سیاق اپنی تحریف سے بدل دینے کی وجہ سے اس جگہ 92
مستبد کے لفظ کی بجائے مستبعد کا لفظ تحریف کر کے لکھدیا ہے تايَبعُدُ التَّوقِّفَ فِي تَكْفِيرِه کا جو غلط ترجمہ انہوں نے کیا ہے اس سے اگلی عبارت کا جوڑ قائم ہو جائے.پھر اس سے اگلی عبارت فَإِنَّ الْعَقْلَ لا يُحِیلہ کا درست ترجمہ یہ ہے کہ عقل رسول کی آمد کو محال قرار نہیں دیتی.مگر مودودی صاحب اس کا ترجمہ لکھتے ہیں کیونکہ عقل اس کے عدم جواز کا فیصلہ دیتی ہے 66 مودودی صاحب کے تبدیل کردہ سیاق کے لحاظ سے انکے غلط ترجمہ کا یہ مفہوم بن رہا ہے کہ عقل تکفیر میں توقف کے عدم جواز کا فیصلہ دیتی ہے گویا عقل تکفیر کو جائز قرار دے رہی ہے لیکن اگلی عبارت کا مودودی صاحب کا یہ صیح ترجمہ ” جہاں تک نقل کا تعلق ہے اس عقیدے کا قائل لا نبی بعدی اور خاتم النبیین کی تاویل کرنے سے عاجز نہ ہوگا، اُن کے فَانّ العقل لا یحیلہ کے غلط ترجمہ کو رڈ کر رہا ہے اور صحیح ترجمہ یہ بنتا ہے کہ عقل تو رسول کی آمد کو محال قرار نہیں دیتی ، رہی نقل لا نبی بعدی اور خاتم النبیین کے الفاظ سوان کی تاویل میں ایسا شخص عاجز نہیں ہوگا جو رسول کی آمد کے جواز کا قائل ہے اور چونکہ تاویل کرنے والے کی تکفیر نہیں کی جاسکتی اور عقلاً بھی رسول کا آنا محال نہیں اس لئے رسول کی آمد کو محال ثابت کرنے والا اُس شخص کی تکفیر کے لئے اجماع امت کو پیش کرے گا جس کے حجت ہونے کے بارہ میں امام موصوف بہت سے شبہات قرار دے چکے ہیں.چنانچہ آگے اس شخص کی تاویلات پیش کر کے مودودی صاحب کے ترجمہ کے مطابق امام غزالی بتاتے ہیں.محض لفظ کے اعتبار سے ہم ایسی تاویلات کو محال نہیں سمجھتے جبکہ ظواہر تشبیہہ کی تاویل میں ہم اس سے بھی زیادہ بعید احتمالات کی گنجائش مانتے ہیں اور اس طرح کی تاویلیں کرنے والے کے متعلق ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ نصوص کا انکار کر رہا ہے“ پس مودودی صاحب کے اس ترجمہ سے بھی ثابت ہے کہ امام غزالی علیہ الرحمہ نص کی 93
تاویل کرنے والے کو نص کا مکذب نہیں جانتے کہ اس کی تکفیر جائز ہو.کیونکہ امام غزالی اس سے پہلے وضاحت سے الاقتصاد میں لکھ چکے ہیں کہ وہ کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھنے والے فرقوں کو جو کسی نص کی تاویل کریں نص کا مکذب قرار دے کر کافر نہیں ٹھہراتے.اس کے بعد کی عبارت میں امام غزالی علیہ الرحمة لكن الردُّ عَلى هَذا القائل س لے کر فمنكر لهذا لا يكون إلا منكر الإجتماع تک یہ بیان فرما رہے ہیں کہ اس بحث میں رسول کی آمد کے قائل کی تردید میں رسول کی آمد کو محال قرار دینے والا بحث کنندہ یہی کہے گا کہ امت نے بالا تفاق اس لفظ یعنی لا نبی بعدی اور خاتم النبیین سے یہ سمجھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ آپ کے بعد کبھی کوئی نبی نہیں آئے گا.اور نہ کبھی رسول آئے گا اور اس میں کوئی تاویل اور تخصیص نہیں.سو اس صورت میں اس امر کا انکار کرنے والا صرف اجماع کا منکر ہوگا.اب اجماع کے منکر کے متعلق امام غزالی علیہ الرحمہ محولہ عبارت سے پہلے بتا چکے ہیں کہ اس کے حجت ہونے میں بہت سے شبہات ہیں.اور اس کو حجت قرار دے کر اس کا انکار کرنے والے کی تکفیر جائز نہیں کیونکہ ہمیں تو نظام معتزلی کی تکفیر پر بھی اسی وجہ سے اعتراض ہے جو سرے سے اجماع کے وجود کا منکر ہے.پس مودودی صاحب اس عبارت سے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ امام غزالی علیہ الرحمہ کے نزدیک خاتم النبیین اور لا نبی بعدی کی تاویل کرنے والا اجماع کا منکر ہونے کی وجہ سے کافر ہوگا اور اس کی تکفیر میں تامل جائز نہیں ہو گا مگر یہ نتیجہ وہ ان کی عبارت کے سیاق میں لفظی اور معنوی تحریف سے نکال رہے ہیں.حالانکہ امام غزالی علیہ الرحمتہ کی محولہ عبارت سے یہ نتیجہ نکالنا مودودی صاحب کا امام موصوف پر افتراء عظیم ہے.پہلے مودودی صاحب نے رسالہ ختم نبوت میں اور تحقیقاتی کمیشن کے سامنے بیان میں ان کی محولہ عبارت میں خطر ناک تحریف 94
کی تھی.اب تیسری مرتبہ ضمیمہ تفسیر سورہ احزاب میں ان پر یہ افتراء باندھ رہے ہیں حالانکہ ان کی عبارت سے ایسے شخص کی تکفیر کا مضمون اخذ کر نا الاقتصاد کی عبارتوں کی رُوح کو کچلنے اور اس صداقت کا خون کرنے کے مترادف ہے جسے امام غزالی علیہ الرحمۃ الاقتصاد میں پیش کر رہے ہیں کہ تاویل کرنے والے کو نص کا مکذب اور کا فرقرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ وہ اجماع کے منکر کو کافر قرار دینا چاہتے ہیں کیونکہ اجماع کے حجت ہونے میں بہت سے شبہات ہیں.امام غزالی علیہ الرحمہ تو الاقتصاد میں یہ بیان فرما رہے ہیں کہ ایسے لوگ کلمہ لا الہ الا اللہ کے قائل ہونے کی وجہ سے کا فرقرار دیا جانے سے محفوظ ہوں گے ان کے نزدیک کلمہ لا الہ الا اللہ کے قائل مسلمان کو مذکورہ وجوہ سے کا فرقرار دینا بہت بڑا گناہ ہے.واضح رہے کہ جماعت احمدیہ خاتم النبیین کے حقیقی معنے ختم کے لغوی معنے تاثیر الشئی اور اثر حاصل کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء کے ظہور میں موثر ذریعہ مان کربلا تاویل و تخصیص خاتم النبیین یقین کرتی ہے اور یہی معنے حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی نے اصل اور مقدم معنے قرار دیئے ہیں اور آخری نبی ہونے کو ان معنی کے لوازم میں سے قرار دیا ہے.اب اگر خاتم النبیین کے معنے مجازی لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوعلی الاطلاق آخری نبی قرار دیا جائے اور لانبی بعدی میں لنفی جنس کا قرار دے کر یہ معنے کئے جائیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کس قسم کا کوئی نبی نہیں تو حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد کے جواز کے لئے ان ہر دو نصوص میں تاویل یا تخصیص کے بغیر چارہ نہیں ہوگا اگر یہ قول درست ہو کہ تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ خاتم النبیین اور لا نبی بعدی میں تاویل و تخصیص نہیں تو حضرت عیسیٰ نبی اللہ علیہ السّلام کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے کا جواز نکالنا ان نصوص کی تاویل و تخصیص ہی ہوگا لہذا اس فتوی کی زد میں مودودی صاحب بھی آتے ہیں جو 95
سابق نبی کی حیثیت میں مسیح کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے کے قائل ہیں کیونکہ حدیث لا نبی بعدی میں لاننی جنس کا ہے جو اپنے عام معنوں کے لحاظ سے علی الاطلاق نئے اور پرانے نبی کی آمد میں روک ہوگا.پس خاتم النبیین اور لا نبی بعدی کی موجودگی میں پرانے نبی کی آمد کا جواز نکالنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علی الاطلاق آخری نبی ہونے کے منافی ہے.اس لئے علماء کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد کی صورت میں ان نصوص کی تاویل و تخصیص کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے.لا نبی بعدی کی تاویل علماء نے یہ کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شارع نبی نہیں آسکتا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرے لہذا حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد میں لا نبی بعدی کی حدیث روک نہیں.کیونکہ وہ بقول ان علماء کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے تابع ہو کر آئیں گے اور آپ کے امتی ہونگے.یہ اگر تاویل تخصیص نہیں تو اور کیا ہے.اس جگہ یا تو لا نبی بعدی میں نبی کے عموم کو خاص مفہوم دے کر توڑا گیا ہے.یا لفظ نبی کی تاویل تشریعی نبی کی گئی ہے.یہی حال خاتم النبیین کے معنی مطلق آخری نبی ترک کر کے تاویل و تخصیص سے حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد کا جواز نکالنے کا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہونے میں آخری نبی ہیں یا شریعت لانے میں آخری نبی ہیں.یہ معنی النبیین کے عموم کی سراسر تخصیص ہیں.پس یہ سب تاویل و تخصیص کرنے والے بموجب فتویٰ مودودی صاحب کا فرقرار پائے اور خود مودودی صاحب بھی اپنے اس فتوی کی زد میں ہیں.اصل حقیقت یہ ہے کہ امت کا اجماع صرف اس بات پر ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی تشریعی اور مستقل نبی نہیں آسکتا امت محمدیہ میں مسیح موعود نبی اللہ غیر تشریعی نبی ہوگا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بھی.اس اجماع میں جماعت احمدیہ شریک ہے.ہمیں اختلاف زمانہ حال کے علماء سے مسیح موعود کی صرف شخصیت میں ہے اس کے اس منصب 96
پر آنے میں اختلاف نہیں کہ وہ ایک پہلو سے نبی ہوگا اور ایک پہلو سے امتی.ایسے نبی کا آنا علماء نے ختم نبوت کے منافی نہیں جانا.پس جماعتِ احمدیہ کو ختم نبوت کا منکر اور اجماع امت کا منکر قرار دینا محض مودودی 97 ☆.......صاحب کا افتراء ہے.