Language: UR
خطابات طاہر تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت ) فرمودة سید تا حضرت مزالامه امینی اسی اداری رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى
iii نام کتاب اشاعت خطبات طاہر ( تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت ) طبع اول ( دسمبر 2006ء)
صفحہ نمبر فہرست نقار سر جلسه سالانه قبل از خلافت نمبر شمار خطاب فرموده عنوان 1 २ 3 2 ا.١٩٦٠ء وقف جدید کی اہمیت ١٩٦٢ء ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالیٰ ١٩٦٣ء کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟ ١٩٦٤ء مصلح موعود سے متعلق پیشگوئی ١٩٦٦ء حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوت قدسیہ ١٩٦٧ء احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟ ۱۹۶۸ء فلسفه دعا ١٩٦٩ء اسلام اور سوشلزم ١٩٧٠ء حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت قرآن ۱۹۷۲ء حقیقت نماز ١٩٧٣ء اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۱۹۷۴ء اسلام کا بطل جلیل 1 17 37 57 79 101 135 157 175 195 215 235 ۱۹۷۵ء اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانی 255 ۱۹۷۶ء قیام نماز ۱۹۷۷ء فلسفه حج ۱۹۷۸ء فضائل القرآن ۱۹۷۹ء غزوات النبی میں خلق عظیم (غزوہ احد ) ١٩٨٠ء غزوات النبی میں خلق عظیم (غزوہ خندق) ۱۹۸۱ء غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ) 279 295 313 317 371 409 11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ لا ۱۸ ۱۹
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 1 وقف جدید کی اہمیت ۰۶۹۱ء وقف جدید کی اہمیت ( بر موقع جلسه سالانه ۱۹۶۰ء) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا: وقف جدید کی تحریک سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک دیرینہ آرزو کی تعبیر ہے جو آج ہم اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.آج سے 68 برس پہلے حضور علیہ السلام نے اس تحریک کو یا یوں کہئے کہ اس تحریک کے مفہوم کو جماعت کے سامنے ایک اشتہار کے ذریعہ پیش فرمایا آپ فرماتے ہیں: اس عاجز کا ارادہ ہے کہ اشاعت دین اسلام کے لئے ایک ایسا احسن انتظام کیا جائے کہ ممالک ھند میں ہر جگہ ہماری طرف سے واعظ و مناظر مقرر ہوں اور بندگان خدا کو دعوت حق کریں تا حجت اسلام تمام روئے زمین پر پوری ہو.لیکن اس ضعف اور قلت جماعت کی حالت میں ابھی یہ ارادہ کامل طور پر انجام پذ یر نہیں ہوسکتا ہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحه: ۳۲۳، اشتہار ۳۹ رمئی ۱۸۹۲ء) تو مشیت ایزدی یہی تھی کہ حضور کا یہ مبارک ارادہ اس وقت انجام پذیر نہ ہولیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق جب اس ارادہ نبوی کے کامل طور پر ظہور پذیر ہونے کا وقت آیا تو آپ ہی کے ایک خلیفہ نے ، ایک مصلح موعود خلیفہ نے ، آج سے تین برس پہلے اس تحریک کا یوں آغاز فرمایا.
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: 2 وقف جدید کی اہمیت ۰۶۹۱ء ”ہماری جماعت کو یا درکھنا چاہئے کہ اگر وہ ترقی کرنا چاہتی ہے تو اس کو اس قسم کے وقف جاری کرنے پڑیں گے اور چاروں طرف رشد و اصلاح کا جال پھیلانا پڑے گا یہاں تک کہ پنجاب کا کوئی گوشہ اور مقام ایسا نہ رہے جہاں رشد و اصلاح کی کوئی شاخ نہ ہو.“ ( خطبه ۳ /جنوری ۱۹۵۸ءروز نامه الفضل ۱۱ر جنوری ۱۹۵۸ء) دیکھئے مفہوم وہی ہے صرف الفاظ ہی کا فرق ہے اور یہ وہی تحریک ہے جو دراصل سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آج سے 68 برس پہلے جاری فرمائی تھی اور یہ تحریک خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے کیونکہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اسے جاری کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور ضرور پورا ہوکر رہے گا.میرے دل میں چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے اس لئے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں ، کپڑے بیچنے پڑیں، میں اس فرض کو تب بھی پورا کروں گا.اگر جماعت کا ایک فرد بھی میرا ساتھ نہ دے خدا تعالیٰ ان لوگوں کو الگ کر دے گا جو میرا ساتھ نہیں دے رہے اور میری مدد کے لئے فرشتے آسمان سے اتارے گا.“ ( الفضل ۷ رجنوری ۱۹۵۸ء) پس وقف جدید ایک آسمانی آواز ہے جسے مصلح موعود کے ہاتھوں ہم ظاہری صورت میں پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں مگر یہ صرف آسمان ہی کی آواز نہیں ہے یہ زمین کا بھی تقاضا ہے اور بڑا پر زور تقاضا ہے.آج جماعت احمدیہ کے مسائل سائل کی صدا کی طرح اسی قسم کی ایک تحریک کے جاری ہونے کا تقاضا کر رہے ہیں.ازل سے خدا تعالیٰ کا یہی طریق جاری رہا ہے کہ جو قوم ایک ترقی یافتہ مقام پر پہنچنے کے بعد اس مقام پر ٹھہرنے کے لئے جد و جہد نہیں کرتی وہ ہمیشہ ان ترقی یافتہ مقاموں سے گرادی جایا کرتی ہے.آپ تاریخ عالم پر نگاہ ڈال کر دیکھیں.دیکھئے کہ گزشتہ زمانوں میں گزشتہ ام سے زمانے نے کیا سلوک کیا ؟ بنی اسرائیل کی تاریخوں کو دیکھئے کہ کس طرح انبیاء نے اس
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 3 وقف جدید کی اہمیت ۰۶۹۱ء پسماندہ قوم کو اٹھا کر ایک اعلیٰ اور ارفع مقام پر پہنچا دیا تھا.نبی کے بعد نبی آیا اور نبی کے بعد نبی گزر گیا اور انہوں نے بنی اسرائیل کو جو ایک پسماندہ قوم تھی اس کو ایسے اعلیٰ اور ارفع مقام تک پہنچایا کہ خود خدا تعالیٰ نے انہیں مخاطب ہو کر کہا کہ اے میرے بندو ! آج میں نے تمہیں تمام جہان پر فضلیت دے دی ہے فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَلَمِينَ (البقرة : ۸۴) کہ آج بنی نوع انسان میں تم سے زیادہ فضیلت والی کوئی قوم نہیں ہے.لیکن اس قوم نے جب اپنی جدو جہد کے پر سمیٹ لئے ، جب انہوں نے اپنی تربیت چھوڑ دی ، جب انہوں نے کوشش ترک کر دی تو وہی قوم دیکھئے کتنی بلندیوں سے گرتی ہے.اتنی بلندیوں سے گری، اتنی بلندیوں سے گری اور خدا کی نظر سے ،خدا کی رضا کی آنکھ سے اتنا گر گئی کہ خود اسی خدا نے جس نے انہیں کبھی سارے جہان پر فضیلت دی تھی ان کو تمام زمانوں کے لئے عبرت بنادیا اور آنے والی قومیں ان پر لعنت کرنے لگیں اور سورہ فاتحہ میں خدا نے ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہی لوگ ہیں ، وہی افضل قوم ہے کہ جو آج الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتح : ) میں شمار ہونے لگی ہے.اس لئے اگر چہ یہ صیح ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہماری تربیت کی اور ہمیں اٹھایا اور بلند کیا لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم اس بلند مقام پر قائم رہیں، ضروری ہے کہ ہم جد و جہد کریں ضروری ہے کہ ہم قربانیاں دیں اور اس مقام کو قائم رکھیں.حضرت رسول اکرم ﷺ کے تربیت یافتہ مسلمانوں سے زیادہ خدا کوکس سے پیار ہوسکتا تھا؟ رسول اکرم ﷺ نے اس عرب کی پسماندہ قوم کو اتنا اٹھایا ایسے شاندار مقامات دکھائے کہ ثریا ان کے پاؤں چومنے لگی لیکن وہی قوم تھی وہی لوگ تھے جو کبھی آسمان سے باتیں کیا کرتے تھے لیکن جب انہوں نے اپنی تربیت کی آنکھیں بند کر لیں اور نگرانی کی آنکھیں بند کرلیں اور تربیت کی کوشش بند کر دی تو وہ لوگ دیکھتے گرتے گرتے کیسا گرے کہ ثریا پر اپنا ایمان چھوڑ آئے اور تحت الثری میں جا گرے اور ایسا گرے کہ چہار دانگ عالم میں ان کے پرزے اڑ گئے اس لئے آپ خدا تعالیٰ کو ان مسلمانوں سے زیادہ پیارے نہیں ہو سکتے.آپ کو بھی اپنی نگرانی کرنی پڑے گی اور بڑی سخت نگرانی کرنی پڑے گی ، جد و جہد کرنی پڑے گی اور بڑی سخت جد و جہد کرنی پڑے گی کیونکہ ترقیات کو حاصل کرنا اگر چہ بہت ہی مشکل کام ہے لیکن ترقیات کو قائم رکھنا غالبا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے.ایک
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 4 وقف جدید کی اہمیت ۰۶۹۱ء بڑا سخت مقام ہے، بڑا ہی سخت اور کٹھن کام ہے اس لئے جب تک آپ اس کام کو نہایت دیانتداری کے ساتھ اور خلوص کے ساتھ اور جد وجہد کے ساتھ اور محنت کے ساتھ ادا نہیں کریں گے اس وقت تک آپ کی فلاح کے راستے نہیں کھل سکتے.اس وقت آپ کی ترقیات کی ضمانت نہیں دی جاسکتی.مجھے وقف جدید کے سلسلہ میں پاکستان کی مختلف جماعتوں کا دورہ کرنے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نہایت ہی درد بھرے دل کے ساتھ آپ کے سامنے آج یہ بیان کرتا ہوں کہ ہماری تربیتی حالت ایک خطرناک حد تک گر چکی ہے.ایک ایسا وقت آچکا ہے کہ جس وقت کے آنے کے بعد خطرے کا الارم بج جانا چاہئے اور فضا میں یہ خطرے کا الارم بج رہا ہے لیکن وہ کان جو سننے کے عادی نہیں وہ اب بھی نہیں سن رہے اور وہ کان جو سننے کے عادی ہیں انہوں نے آج سے تین سال پہلے اس الا رم کو سنا اور یہ اعلان کیا کہ میں وقف جدید کی تحریک کو اس لئے جاری کرتا ہوں کہ تا جماعت زندہ رہے اور تا جماعت سے تربیت کی ضمانت لی جا سکے.حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے دل پر دراصل یہ تحریک خدا تعالیٰ ہی نے القا کی تھی اور اس القا کے نتیجہ میں وہ ذکی غلام وہ امام وہ ذہین و فہیم دماغ جماعت سے یوں گویا ہوا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور ضرور پورا ہوکر رہے گا میرے دل میں وو چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے اس لئے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں کپڑے بیچنے پڑیں میں تب بھی پہلے اپنے اس فرض کو پورا کروں گا “ پھر حضور فرماتے ہیں: پس میں اتمام حجت کے لئے ایک بار پھر اعلان کرتا ہوں تا کہ مالی امداد کی طرف بھی لوگوں کو توجہ ہو اور وقف کی طرف بھی لوگوں کو توجہ ہو.“ ( الفضل ۷ رجنوری ۱۹۵۸ء) جماعت کی طرف سے جو مختلف خطوط موصول ہورہے ہیں کہ دوروں کے علاوہ خطوط بھی اس امر پر بڑی وضاحت کے ساتھ روشنی ڈال رہے ہیں کہ جماعت کی تربیتی حالت اس وقت نہایت ہی خطرناک حد تک گر چکی ہے.بہت سی ایسی جماعتیں بھی ہیں آپ میں سے کئی لوگ یہ سن کر تعجب کریں گے کہ بہت سی ایسی جماعتیں بھی ہیں جن میں باجماعت نماز تک کا انتظام نہیں رہا.ہمارا
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 5 وقف جدید کی اہمیت ۰۶۹۱ء دیانت کا معیار گر چکا ہے، ہمارا تقویٰ کا معیار گر چکا ہے، ہمارا سچ کا معیار گر چکا ہے اور ایسے ایسے خطرناک مرضوں نے ہمارے اندر پنجے گاڑ لئے ہیں کہ جن مرضوں کے ہوتے ہوئے کوئی جماعت صحت مند طریق پر ترقی نہیں کر سکتی.نفاق کی لعنت بھی ہم میں داخل ہو چکی ہے.کئی ایسی جماعتیں ہیں جن کو دیکھ کر دل کٹ جاتا ہے یہ دیکھ کر کہ نفاق کے کلہاڑوں نے ان کے دلوں کو دو نیم کر کے رکھ دیا ہے.خدا تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہوا کرتا ہے الہی جماعتوں پر کہ وہ ان کے دلوں کو محبت سے باندھ دیا کرتا ہے جیسا کہ ابھی آپ نے قرآن کریم کی تلاوت میں سنا تھا کہ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ اِخْوَانًا ( آل عمران : ۴۰۱) کہ اے مسلمانو ! اس نے تم پر اتنا احسان کیا کہ تمہارے دلوں کو محبت کے دھاگوں سے مضبوط رسوں سے جکڑ دیا اور تم ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہو گئے.تو یہ خدا تعالیٰ کا بڑا بھاری احسان ہوا کرتا ہے اور دراصل تمام الہی جماعتیں ، مذہبی جماعتیں اسی محبت کے سہارے بڑھا کرتی ہیں، اسی محبت کے سہارے پنیا کرتی ہیں اور پھیلا کرتی ہیں اور ایک جان ہوکر ، ایک دل ہوکر ، ایک قبلہ کی طرف کھڑے ہو کر کام کیا کرتی ہیں اور جب نفاق کے دانت ان محبت کے رسوں کو بودا کر دیتے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ جب یہ سیمنٹ بودا ہو جاتا ہے، کٹ جاتا ہے جس طرح بعض دفعہ موسلا دھار بارش بعض مکانوں میں بڑے بڑے گھاؤ ڈال دیا کرتی ہے اور سڑکوں پر گہرے شگاف پڑ جایا کرتے ہیں اسی طرح جب زمانے کے مصائب، زمانے کے ستم اور شیطانی طاقتیں ان محبت کے رسوں کو بودا کر دیتی ہیں، اس سیمنٹ کو کھوکھلا کر دیتی ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بڑی بڑی شاندار مذاہب کی عمارتیں دھڑام سے زمین پر آرہتی ہیں اور ملبوں کا ڈھیر بن جایا کرتی ہیں.اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر وہ محبت قائم کریں، وہ خلوص قائم کریں جس خلوص اور محبت کو قائم کرنے کے لئے انبیاء دنیا میں آیا کرتے ہیں.جس خلوص اور محبت کے ذریعہ ہی انبیاء کی جماعتیں ترقی کیا کرتی ہیں لیکن نہایت حسرت اور افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری بہت سی جماعتیں ہیں جو دو نیم ہو چکی ہیں ہماری بہت سی جماعتیں ہیں جن کے کئی حصے بٹ چکے ہیں.میں نے ایک ایسی جماعت بھی دیکھی اور میں اپنے غم کا اظہار نہیں کر سکتا اس جماعت کے متعلق کہ جس جماعت کے لوگوں کے ایک حصہ نے مسجد میں باجماعت نماز پڑھنی ترک کر دی تھی صرف اس لئے کہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 6 وقف جدید کی اہمیت ۰۶۹۱ء ان کا کسی امیر سے یا پریذیڈنٹ سے سیکرٹری مال سے اختلاف تھا اور ایسی اور بھی مثالیں ہونگی.میں ہر جماعت میں نہیں گیا لیکن بعض جماعتوں کو میں نے دیکھا ہے اور ایسی کئی مثالیں میرے سامنے آتی رہی ہیں.تو یہ امورا ایسے نہیں ہیں کہ جن امور کو دیکھنے کے بعد ہم خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہیں.ہم یہ دعوے کرتے رہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ساتھ محبت ہے.ہم یہ دعوے کرتے رہیں کہ ہمیں خدا اور اس کے رسول محمد مصطفی میں اللہ سے محبت ہے اور پھر یہ دعوے دنیا کے سامنے پیش کریں اور بڑے بڑے بلند بانگ دعوے کریں اور بڑی بڑی تقاریر میں اپنے کاموں کا اظہار کریں، اپنی کوششوں کا اظہار کریں اور کہیں کہ ہم ساری دنیا کومسلمان بنارہے ہیں اور جب مڑکر دیکھیں، جب گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو کہ ہمارے اندر بعض گہرے مرضوں نے دخل دے دیا ہے، ناخن ڈال لئے ہیں، اپنے پنجے گاڑ لئے ہیں.اگر ابھی سے ہم نے ان کی بیخ کنی نہ کی تو یقیناً یہ رفتار احمدیت کی قائم نہیں رہ سکتی.یہ گرے گی اور گر رہی ہے اگر ہم نے ابھی سے اپنے ان مسائل کی طرف توجہ نہ دی اور ان مرضوں کو ان کی جڑوں سے اکھیڑ کر نہ پھینک دیا تو پھر احمدیت کی ترقی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی.احمدیت کی ترقی تو ضرور ہوگی یہ میں نے کیا کہا کہ احمدیت کی ترقی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی لیکن ہاں یہ ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ ہم ہی وہ لوگ ہوں گے جو ترقی کریں گے.احمدیت کا زندگی بخش پیمانہ ضرور چلے گا.یہ پیمانہ جو چکر میں آیا ہے یہ چلے گا اور قوموں کو زندہ کرے گا لیکن اگر ہم نے اس پیمانہ کی طرف توجہ نہ دی، اگر ہم نے محنت اور جد وجہد کے ساتھ اس کو نہ چلایا تو یہ چلتے چلتے رک جائے گا اور رک رک کر چلے گا.ہاں ہوسکتا ہے کہ ہم اس سے سیراب نہ ہوں ، ہوسکتا ہے کہ ہم اس سے فیضیاب نہ ہوں اور دوسری قومیں، باہر سے آنیوالی قومیں، دیر سے آنیوالی قومیں آئیں اور اس پیالے سے فیضیاب ہو کر زندگی کی لذت حاصل کریں.اس لئے ضروری ہے، توجہ کے قابل چیز ہے توجہ کریں اور سوچیں اور غور کریں کہ وہ کونسا نظام ہے ہمارے اندر جو اس ہماری زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے؟ وہ کونسا نظام ہے جو ہماری دیہاتی جماعتوں کو دوبارہ زندہ کر سکتا ہے؟ یہ نظام در حقیقت وقف جدید ہی کا نظام ہے جو تمام دیہاتی جماعتوں میں ایک جال کی طرح
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 7 وقف جدید کی اہمیت ۰۶۹۱ء پھیل جائے گا.اگر جماعت توجہ کرے گی تو انشاء اللہ یہ نظام ہر ہر گاؤں میں ہر ہر قصبے میں ہر ہر قریہ میں پہنچے گا ہر گھر کے دروازے کھٹکھٹائے جائیں گے اور ان احمدیوں کو بیدار کیا جائے گا اور جو آج غافل ہورہے ہیں.ان احمدیوں کو بیدار کیا جائے گا اور وہ خطرے کا الارم سنایا جائے گا جو خطرے کا الا رم آج فضا میں بج رہا ہے.پس آج ہمارے پاس اتنے افراد نہیں ہیں کہ ہم ان کو آسانی کے ساتھ ضائع کر سکیں.ہماری تعداد تھوڑی ہے کام بہت زیادہ ہے.ایک ہمالہ پہاڑ ہے جو ہمارے سروں پر کھڑا ہے اور اس کو اٹھانے کی بظاہر ہم میں سکت نظر نہیں آتی.اتنا کام ہے اتنا کام ہے کہ جس کے خیال سے دل کا پنپنے لگتا ہے.آج وقت تو یہ تھا کہ ہم اپنے بچے بچے کو آواز دے کر بلا لیتے اور کہتے کہ آؤ اور مسیح موعود کا اس بوجھ اٹھانے میں ہاتھ بٹاؤ آؤ اور مسیح موعود کے محمد اور حواری بن جاؤ ، آپ کے انصار میں داخل ہو جاؤ کجا یہ کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں کہ ہمارے بچے بڑے ہورہے ہیں اور ان کا رستہ وہ ہے جو احمد بیت سے دور جارہا ہے.ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں کہ ہماری اولا دیں تعلیم تو حاصل کر رہی ہیں لیکن خالصہ دنیاوی تعلیم اور ان کو دین سے کوئی لگاؤ باقی نہیں رہا.یہ دیکھیں اور یہ دیکھنے کے باوجود اور باوجود ان دعووں کے کہ ہم نے ساری دنیا کی تربیت کرنی ہے، باوجود یہ دیکھنے کے کہ ہم اپنی اولاد کی بھی تربیت نہیں کر سکتے.اگر ہم یہ دعوے کریں تو ہم دنیا کو کیا منہ دکھا ئیں گے ؟ کس عمل سے ان دعووں کو سچا کر دکھا ئیں گے؟ اس لئے ضرورت ہے غور کرنے کی سوچنے کی.آج ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر اس تحریک کو زندہ کرنے کے لئے جد و جہد کریں جو تحریک اسلام کی زندگی کے لئے کوشش کر رہی ہے جو تحریک آج احمدیت کی تربیت کی ضمانت دے رہی ہے.وقت کم ہے کام زیادہ ہے.پس اے میرے بزرگو! اے میرے بھائیو اور بچو! اے ماؤں بہنوں بیٹیو! خوابوں کی دنیا میں نہ رہو اور عمل کے میدان میں اتر آؤ.اے میرے بھائیو! اور اے میرے بزرگو! اے بچو! اے ماؤں بہنوں بیٹیو! خوابوں کی دنیا میں نہ رہو اور عمل کے میدان میں اتر آؤ کہ عمل ہی میں زندگی ہے اور عمل کے علاوہ سارے افسانے ہیں ساری خواہیں ہیں اور کوئی حقیقت نہیں رکھتیں اگر ہم نے زندہ رہنا ہے اگر ہم نے دنیا کو فتح کرنا ہے جیسا کہ ضرور احمدیت نے زندہ رہنا ہے اور احمدیت نے دنیا کو فتح کرنا ہے تو ہمیں حقیقت کے میدان میں اترنا پڑے گا.ہمیں ترقیات کرنی ہوں گی لیکن نیچے
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 8 وقف جدید کی اہمیت ۰۶۹۱ء اترکر، میدانوں میں جدو جہد اور محنت کرنے کے بعد، راتیں جاگنے کے بعد اور خون کو پسینے کی طرح بہانے کے بعد کسی عربی شاعر کا مجھے یہ شعر یاد آ گیا کہ: ع مَنْ بَلَغَ الْعُلَى سَهَرَ اللَّيَالِي کہ بلندیوں تک پہنچا تو جایا کرتا ہے لوگ پہنچتے رہے ہیں پہلے بھی لیکن وہی لوگ بلندیوں تک پہنچا کرتے ہیں جو راتوں کو جاگ کر صبح کر دیا کرتے ہیں.اس لئے راتوں کو جاگنے کا وقت ہے اور بڑی محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہے تا کہ احمدیت اپنی پہلی سی روش پر دوبارہ گامزن ہو جائے.وہی روش ہم اختیار کرلیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کی تھی.وہی خلوص ہمارے دلوں میں پیدا ہو جائے وہی محبت ، وہی یگانگت ، وہ سب چیزیں جب تک ہم دوبارہ نہ لے لیں گے جب تک ہم انہیں سینے سے چمٹا نہ لیں گے ان خوبیوں کو جو صحابہ کے اندر ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں اس وقت تک احمدیت کی ترقی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی.وقف جدید کی تحریک اسی کام کو جاری کرنے کے لئے اسی کام کو جماعت میں راسخ کرنے کے لئے جاری کی گئی ہے اس لئے یہ تحریک در اصل جماعت کی زندگی کے مترادف ہے.جماعت کی زندگی اور وقف جدید کی زندگی آج ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اس لئے میں آپ سے پھر یہ درخواست کروں گا بڑے عجز سے یہ درخواست کروں گا اور یہ درخواست میں اپنے دل کی عمیق ترین گہرائیوں سے کر رہا ہوں کہ جد و جہد کیجئے ، جاں فشانی کیجئے ، کوشش کیجئے ، اپنی جماعتوں کو اس اعلیٰ معیار پر قائم کریں اور لے کر آئیں جو معیار روحانی جماعتوں کا ہوا کرتا ہے اور جب یہ معیار پیدا ہو جائے گا تو پھر احمدیت کی فتح میں اور زیادہ دیر نہیں ہوگی.ہم خود ٹال رہے ہیں احمدیت کی فتح کا وقت.ہم خود ٹال رہے ہیں اپنے ہاتھوں سے قادیان کی واپسی کا وقت.ہمارا بوڑھا امام ہم میں بیمار ہے.وہ امام جس نے راتیں ہمارے لئے جاگ کر کاٹیں ، وہ امام جس نے ساری عمر ہمارے لئے ہلاک کر دی ، وہ امام ہم میں بیمار ہے اور بوڑھا ہے اور قادیان کی محبت میں تڑپ رہا ہے اور بیقرار ہے.اس امام کی چھینیں کل آپ نے یہاں سنی ہیں لیکن اس کے باوجود آپ کا دل نہیں ہل رہا.اٹھیں اپنے دل کو ہلائیں اور افسانوی رنگ میں دل کو نہ ہلائیں ، اس طرح نہ روئیں جس طرح لوگ ناول اور قصے پڑھ کر رویا کرتے ہیں بلکہ اس طرح روئیں جس طرح مومن کے آنسو راتوں کو اٹھ اٹھ کر بہا کرتے ہیں.اپنے
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 9 وقف جدید کی اہمیت ۰۶۹۱ء دل کو اس غم میں ہلاک کریں.کوشش کریں اپنے اندر غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کریں.وہ تبدیلیاں پیدا کریں جو ہمارا امام ہم سے چاہتا ہے پھر دیکھیں کہ قادیان کس طرح دوڑتا ہوا آپ کی طرف آئے گا.آپ کو قادیان نہیں جانا پڑے گا قادیان آپ کے پاس آئے گا اور یقیناً آئے گا.بس ضرورت ہے صرف تبدیلی کی ، اس پاک تبدیلی کی جس کو پیدا کرنے کے لئے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا میں تشریف لائے تھے.دیکھئے حضور علیہ السلام کس محبت سے جماعت کو نصیحت فرماتے ہیں: ”دیکھو! جنہوں نے انبیاء کا وقت پایا انہوں نے دین کی اشاعت کے لئے کیسی کیسی جاں فشانیاں کیں.جیسے ایک مالدار نے دین کی راہ میں اپنا پیارا مال حاضر کیا.ایسا ہی ایک فقیر در یوزہ گر نے اپنی مرغوب ٹکڑوں کی بھری ہوئی زنبیل پیش کر دی اور ایسا ہی کئے گئے جب تک کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے فتح کا وقت آ گیا.مسلمان بننا آسان نہیں.مومن کا لقب پانا سہل نہیں سواے لو گواگر تم میں وہ راستی کی روح ہے جو مومنوں کو دی جاتی ہے تو اس میری دعوت کو سرسری نگاہ سے مت دیکھو.نیکی حاصل کرنے کی فکر کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں آسمان پر دیکھ رہا ہے کہ تم اس پیغام کو سن کر کیا جواب دیتے ہو.“ فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه: ۳۱) سوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان الفاظ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ نیکی حاصل کرنے کی فکر کیجئے اور اس تحریک کو زندہ کیجئے.میں پھر یہی کہوں گا اور بار بار یہی کہوں گا کہ اس تحریک کو زندہ کیجئے جو آپ کے اندر نیکی کو قائم اور راسخ کرنے کے لئے جاری کی گئی ہے.وقف جدید کی تحریک خدا تعالیٰ کے فضل سے اس بارہ میں نہایت ہی کامیاب ثابت ہورہی ہے اور خدا کے فضل سے اس کے غیر معمولی نتائج نکل رہے ہیں.بعض ایسی جماعتیں بھی تھیں کہ جہاں جب وقف جدید کا معلم ابھی نہیں گیا تھا تو ان کی حالت یہ تھی کہ وہاں ہمارے جائزہ کے مطابق مساجد نہیں تھیں، پریذیڈنٹ تھا، سیکرٹری مال تھا لیکن کوئی رجسٹر نہیں تھا، کوئی حساب نہیں تھا، کوئی چندہ نہیں تھا.اس کے متعلق ہمارے پہلے جائزے کی رپورٹ یہ ہے کہ جماعت کا نام صرف اس رپورٹ میں تھا جس کے ذریعہ قیام ہوا، ورنہ حقیقت میں اسکا وجود عملی رنگ میں کچھ نہ تھا.نہ کوئی نماز با جماعت، نہ جمعہ نہ
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 10 وقف جدید کی اہمیت ۰۶۹۱ء چندہ، نہ بجٹ، نہ رسید بک، نہ روز نامچہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے معلم کے جانے کے بعد یہ سب کام مکمل ہوا، جماعت کی کیفیت بدل گئی اور اب اس جماعت کی آخری رپورٹ یہ ہے جماعت کا ایک با قاعدہ وجود بن چکا ہے، چندہ ادا کیا جاتا ہے، پانچوں نمازیں باجماعت بلکہ تہجد تک کی نماز بھی با جماعت ہوتی ہے اور اس میں اکثر ، وہ چھوٹی سی جماعت ہے پندرہ افراد کی، تو اس میں اکثر چار افراد شریک ہوتے ہیں.تو دیکھئے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کے ایک معمولی کم تعلیم کے معلم نے خدا کے فضل سے کیسی تبدیلی پیدا کی ! در اصل یہ تبدیلی اس نے نہیں کی بلکہ اس خدائے علیم و حکیم اور قادر مطلق نے کی جس کے ایماء پر یہ تحریک جاری کی گئی تھی.اور ایک سیکرٹری مال نے ابھی کچھ ہی دن ہوئے مجھ سے ذکر کیا کہ وقف جدید کا معلم جب وہاں مقرر ہوا تھا تو اس سے پہلے اس جماعت کا یہ حال تھا کہ باوجود ہزار کوشش کے وہاں سالانہ ایک ہزار سے زیادہ بجٹ نہیں ہوا تھا لیکن اس دو سال کے اندراندر ہی اس جماعت کا بجٹ پانچ ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے.تو دیکھئے آپ کے چندے بھی بڑھ جائیں گے آپ کی اخلاقی حالت بھی درست ہو جائے گی.دراصل ہماری جماعت دیہاتی جماعت ہے اور دیہاتی جماعتوں کی تربیت پر ہماری ترقی منحصر ہے.ہماری شہری جماعتیں بہت ہی تھوڑی ہیں نسبت کے لحاظ سے اور جب تک ہم دیہاتی جماعتوں کی طرف توجہ نہ کریں گے، جب تک ہم اپنا رخ خاص طور پر دیہات کی طرف نہیں پھیریں گے اس وقت تک ہم حقیقت میں اس رفتار سے ترقی نہیں کر سکتے اور میں تو یہ کہوں گا کہ ڈر ہے کہ کہیں وقت سے پہلے تنزل نہ شروع ہو جائے خدا تعالیٰ جس سے ہمیں محفوظ رکھے.تو ہم اس رفتار سے ترقی نہیں کر سکتے جس رفتار سے ترقی ہمارے لئے ضروری ہے اب دیکھیں ہماری رفتار کیا ہے؟ ہمارے حالات کیا ہیں؟ کام ہمیں کیا کرنا ہے؟ یہ چیزیں ایک اور ایک دو کی طرح غور کرنے کے لائق ہیں اور نتائج بھی ایک اور ایک دو ہی کی طرح نکلتے ہیں.ہماری مثال یا ہمارے بعض حصوں کی مثال، یوں کہنا چاہئے تو ایسی ہو گئی ہے جیسے کوئی چین کے سفر کا ارادہ کرے اور پیدل نکلے اور گھر سے دو ہی قدم جائے اور تھکے اور ماندہ ہو جائے اور لیٹ جائے اور شاید یہ خیال کرے کہ لوگ آئیں گے اور اسے دبائیں گے کیونکہ بہت تھک گیا ہے اور اس نے بہت کام کیا ہے.ایک ایسا شخص اگر چین پہنچ سکتا ہے تو ہم بھی ان مقامات کو حاصل کر لیں گے جن مقامات کو حاصل کرنا
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 11 وقف جدید کی اہمیت ۰۶۹۱ ء ہمارے مقدر میں لکھا گیا ہے یا احمدیت کے مقدر میں لکھا گیا ہے اگر ہماری رفتار یہی رہی ، اگر ہمارے اطوار یہی رہے ، اگر ہم نے اپنے اعمال کی نگرانی اسی طرح کی جس طرح اس وقت تک ہوتی رہی ہے.اس لئے ضروری ہے کہ اس کے طور کو بدلیں ، ہم اپنے طریق کو بدلیں اور ایک ایسا ٹھوس دیہاتی تربیت کا نظام جاری کریں جو ہمارے افراد کو صحیح معنوں میں مسلمان بنائے.ہماری جماعت حقیقت میں جیسا کہ حضرت میاں شریف احمد صاحب کی نظم میں آپ نے سنا ہے حقیقت میں بہت ہی تھوڑی ہے.اتنی تھوڑی ہے کہ آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے ہیں کہ کتنی تھوڑی ہے.لاکھوں لاکھ کی جماعت میں سے اس وقت تک صرف سترہ ہزار آدمی چندہ دے رہے ہیں.دس بارہ لاکھ سے کم نہیں ہیں ہم پاکستان میں اور صرف سترہ ہزار چندہ دے رہے ہیں اور سترہ ہزار میں سے صرف چند ہی ہوں گے یا میں سمجھتا ہوں کہ میں چالیس فی صدی سے زیادہ نہیں ہوں گے جو پورا اپنی نسبت کے مطابق چندہ دیتے ہیں.تو یہ حالات قابل غور ہیں معمولی بات نہیں.ہمارے پہ بوجھ ہے دس لاکھ جماعت کا، توقع ہم سے یہ کی جاتی ہے کہ ہم دس لاکھ کا کام کریں گے لیکن عملاً ہم میں سے صرف چند ہزار کام کر رہے ہیں.تو تحریک وقف جدید خدا کے فضل سے اس لحاظ سے بھی کامیاب ثابت ہو رہی ہے اس کے ذریعہ ہمارے چندے بڑھ رہے ہیں اور وہ دیہات جہاں سے کبھی کوئی چندہ ادا نہیں ہوا تھا.وقف جدید کے معلم کے جانے کے بعد خدا کے فضل سے وہ بھی با قاعدہ چندہ دہندہ بن گئی ہے.بعض لوگ یہ کہتے ہیں اور بعض صاحب حیثیت دوست بھی یہ کہتے ہیں کہ وقف جدید کا چندہ تو صرف چھ روپے ہے حضور نے چھ ہی کی تحریک کی تھی پس ہم نے یہ چندہ ادا کر دیا اور ہم اس فرض سے سبکدوش ہو گئے ہیں.اور آپ حیران ہونگے کہ وقف جدید کا چندہ دینے والے جو پچاس روپے سے زائد چندہ دیتے ہیں صرف سنتر (۷۷) ہیں اس لاکھوں کی جماعت میں اور ایسے افراد جو پانچ سو سے زائد چندہ دیتے ہیں وہ صرف آٹھ ہیں اور ایسے افراد جن کا چندہ ایک ہزار روپے سے زائد ہے وہ اس ساری بھر پور جماعت میں صرف دو ہیں.ایک کراچی کے شیخ عبدالحفیظ صاحب اور ایک لاہور کے چوہدری فتح محمد صاحب ہری کے ٹرانسپورٹ والے.تو یہ حالت تسلی بخش نہیں اور جب بھی دوست چھ پر زور دیتے ہیں تو مجھے وہ لطیفہ یاد آ جاتا ہے.کہتے ہیں کہ ایک میراثی اور ایک چوہدری نے اکٹھا سفر کیا کشتی پر وہ جارہے تھے.میراثی کھودا تھا اس کی داڑھی پر صرف دو چار بال تھے اور چوہدری کی
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 12 وقف جدید کی اہمیت ۰۶۹۱ء داڑھی پوری بھری ہوئی تھی تو کشتی بھنور میں پھنسنے لگی اور ملاح نے کہا لوگوں میں اعلان کیا کہ لوگ خضر پیر کی خیرات کچھ نہ کچھ ڈال دیں تو چوہدری کو مذاق کی سوجھی اور اس نے اس میراثی سے مخاطب ہو کر کہا کہ آؤ کیوں نہ ہم اپنی داڑھی کے دو دو چار چار بال اس دریا میں پھینک دیں وہ جانتا تھا کہ اس کے دوچارہی بال ہیں میراثی سمجھ گیا اور اس نے برجستہ جواب دیا کہ چوہدری جی! اے چوآں دا ویلا اے.کیٹر ا پودا پتر اے جے ساری داڑی نہ پیٹ کے سُٹ دے.تو یہ ایک لطیفہ ہے جس پہ ہنسی آتی ہے لیکن اس لطیفہ کا اطلاق اگر آپ جماعت اور اسلام کے مسائل پر کر کے دیکھیں تو یہ لطیفہ نہیں رہتا بلکہ ایک دردناک حقیقت بن جاتا ہے.خدا کی قسم آج چھ کا وقت نہیں ہے ، خدا کی قسم آج وقت ہے کہ ہم اپنا سب کچھ لا کر دین کے حوالے کر دیں.آج وقت ہے کہ خدا تعالیٰ جس نے ہمیں سب کچھ دیا تھا، جس نے ہمیں پیدا کیا بڑا کیا یہ زمین و آسمان ہمارے لئے مسخر کر دیے، اس خدا کی دی ہوئی چیزیں اسے لوٹا دیں.وہ ہم سے ہمیشہ کے لئے نہیں مانگتا عارضی طور پر قرض کے طور پر مانگتا ہے اور پھر اسے واپس کرے گا اور بہت بڑھا چڑھا کر واپس کریگا.تو ہم مالک حقیقی کا انکار کر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی کبھی جماعت پر کچھ فرض مقرر نہیں کیا بلکہ حضور جماعت کے اخلاص اور جماعت کی محبت سے یہ توقع رکھا کرتے تھے کہ جماعت بڑھ چڑھ کر قربانیاں کرے.جیسا کہ حضور کی ایک مبارک تحریر پڑھ کر میں آپ کو سناتا ہوں.حضور جماعت کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں مجھے اب الفاظ یاد نہیں لیکن چند ایک الفاظ حضور کے میرے ذہن میں ہیں وہ میں سنا دیتا ہوں.حضور فرماتے ہیں کہ ”اے میرے عزیزو ! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شا خو! یہ حضور کا خطاب ہے جماعت سے اور یہ کہہ کر حضور فرماتے ہیں کہ میں تم پر کچھ فرض نہیں کرتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ لوگ جن کو مجھ سے محبت ہے جو مجھ سے خلوص رکھتے ہیں میں انہیں جو کچھ کہوں گا وہ سب کچھ لا کر میری نذر کر دیں گے.تو میں تم پر زبردستی کرنا نہیں چاہتا کہ تم میرے فرمان کی خاطر مجبور ہو کر کچھ دو.ہاں میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ خدا کے رستے میں جتنا تم دے سکتے ہو خوشی سے دے دو.اور آپ کی اس تحریک پر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو آپ کو خط لکھا وہ یہی تھا کہ جو ایک مومن کے دل سے توقع
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 13 وقف جدید کی اہمیت ۰۶۹۱ ء کی جاتی ہے.وہی باتیں لکھیں جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اکرم ﷺ ایک زمانے میں کی تھیں.آپ نے فرمایا کہ سیدنا! میرا تو سب کچھ آپ کا ہے.میرا گھر بار، میرے بیوی بچے ہم سب خدام ہیں آپ چاہیں تو میں سب کچھ آپ کے حضور فدا کر دوں.اپنی بیوی بچوں کو اپنی مال دولت کو قربان کر دوں اس لئے آپ یہ نہ کہیں کہ کچھ تھوڑا دو، آپ یہ نہ کہیں کہ حصہ رسدی دو بلکہ مجھے ارشاد ہو کہ میں سب کچھ آپ کے حضور لا کر حاضر کر دوں.(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ : ۳۵) تو دیکھئے یہ ہے وہ توقع یہ ہے وہ مقام جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کو بلاتے ہیں.لیکن حضور جانتے تھے کہ جماعت کی حالت کمزور ہے.اس وقت ہماری مالی حالت آج سے بہت ہی زیادہ کمزور تھی اور حضور عام مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں.حضور کا دل چاہتا تھا کہ خدا نے آپ سے جو پیاری پیاری باتیں کی تھیں، خدا جو راتوں کو آپ سے بولا کرتا تھا وہ ساری باتیں ساری دنیا میں اشاعت کر کے پھیلا دیں.جیسے کسی کو ایک نعمت ملتی ہے وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِتْ (الضحی :۲۱) اس کے مطابق آپ کا دل بیقرار رہا کرتا تھا لیکن پیسے نہیں تھے ، بے سروسامانی کی حالت تھی اور حضور نہایت ہی درد سے ملک ہند کو خطاب کر کے کہتے ہیں کہ ” اے ملک ہند! کیا تجھ میں کوئی ایک باہمت امیر نہیں کہ اگر اور نہیں تو فقط اسی شاخ کے اخراجات کا متحمل ہو سکے.“ یہ شاخ اشاعت لٹریچر، اشاعت کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی شاخ ہے جس کا آپ نے اس سے پہلے ذکر فرمایا تھا اور اس سے آگے حضور فرماتے ہیں کہ اسلام پر ابھی ایسی مفلسی طاری نہیں ہوئی تنگ دلی ہے ایسی تنگ دستی نہیں.اور وہ لوگ جو کامل استطاعت نہیں رکھتے وہ بھی اس طور پر اس کارخانہ کی مدد کر سکتے ہیں جو اپنی اپنی طاقت مالی کے موافق ماہواری امداد کے طور پر عہد پختہ کے ساتھ کچھ رقوم نذر اس کارخانے کی کیا کریں.“ فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه: ۳۰، ۳۱)
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 14 وقف جدید کی اہمیت ۰۶۹۱ء حضور کے انہی ارشادات کی روشنی میں ہم نے وقف جدید کی طرف سے ایک مستقل شعبہ، شعبہ اشاعت لٹریچر قائم کیا اور ہمارا مقصد یہ تھا کہ کلیۂ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کی اشاعت کی جائے اور تمام پاکستان میں، کیونکہ ہمارا دائرہ عمل پاکستان ہی ہے مختلف مقامی زبانوں میں ان کتابوں کے تراجم کرا کے ان کو شائع کریں لیکن باوجود تحریکات کے اب تک غالبًا جماعت اس کی اہمیت سے واقف نہیں ہوئی اور یہ عجیب بات ہے کہ پہلے دو مہینے میں اس تحریک میں سوائے معلمین وقف جدید کے اور کسی نے چندہ نہیں دیا.معلمین وقف جدید کا حال یہ ہے کہ ان کو پچاس روپے ماہانہ ملتے ہیں.ان میں سے اکثر بہت سے موصی ہیں وہ پانچ روپے اس میں کٹوا دیتے ہیں، تحریک جدید میں وہ چندہ ادا کرتے ہیں، وقف جدید میں وہ چندہ ادا کرتے ہیں اور اس کے علاوہ کشمیر فنڈ میں اور چھوٹے چھوٹے ریلیف فنڈ ز میں بھی وہ چندہ ادا کرتے ہیں.کسی ایک چھوٹے سے چھوٹے شعبہ سے بھی پیچھے نہیں ہے اور اس کے بعد ان کے اخلاص کا یہ حال تھا کہ جن میں سے بعض نے سوسور و پے چھوڑے اور اس چالیس روپے کے گزرانے کے اوپر آگئے.ان کا یہ حال تھا کہ جب یہ تحریک الفضل میں پہلی دفعہ چھپی تو بعض معلمین کی طرف سے یہ خط آنے شروع ہوئے کہ یہ تحریک پڑھ کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کو شائع کیا جائے گا ہمارے دل درد سے بھر گئے ہماری آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ کاش ہم میں توفیق ہوتی تو ہم خود اس تحریک کا بار اٹھا لیتے لیکن ہم میں یہ توفیق نہیں.بعض نے لکھا کہ میرے ماہانہ الاؤنس میں سے ایک روپیہ کاٹ کر اس چندہ میں جمع کر لیا کریں بعض نے لکھا کہ میرے ماہانہ الا ونس میں سے دوروپے کاٹ کر اس چندہ میں جمع کر لیا کریں.تو دیکھئے وہ لوگ اس خلوص سے کام کر رہے ہیں.اگر جماعت اتنا تھوڑا چندہ دے کہ جو معلمین ہم رکھ چکے ہیں ہم ان کا بوجھ بھی برداشت نہ کر سکیں تو کتنی حسرت اور افسوس کا مقام ہوگا.اور عملاً ایسا ہوا، عملاً ایسا ہی ہوا اور گزشتہ سال ہمارے معلمین کی تعداد 64 تھی لیکن مالی مجبوریوں کی بناء پر اس سال انہیں کم کر کے صرف 58 کردیا گیا اور اس 58 کا خرچ بھی بڑی مشکل سے چلایا جا رہا ہے.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں.علم کم سہی لیکن اخلاص بہت ہے اور غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں.جماعت کا فرض ہے کہ ان
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 15 وقف جدید کی اہمیت ۰۶۹۱ ء لوگوں کی طرف توجہ کریں.ان درویشوں کی طرف ، ان غریبوں کی طرف جنہوں نے اپنا سب کچھ خدا کے رستے میں دے دیا ہے کم از کم ان کے گزارے کی ایسی آسان صورت پیدا کریں کہ یہ تسلی اور بے فکری کے ساتھ جماعت کی خدمت کر سکیں، مسیح موعود کے پیغام کی خدمت کر سکیں اور خدا تعالیٰ کی خدمت کرسکیں.پس وقف جدید کی اس تحریک کو زندہ کیجئے یہ تحریک اور ملکی ضروریات کو بھی پورا کر رہی ہے.یہ تحریک خدمت خلق میں بڑا بھاری کام کر رہی ہے معلمین کو ہومیو پیتھک بھی سکھائی جاتی ہے طب بھی سکھائی جاتی ہے، کمپونڈری بھی سکھائی جاتی ہے اور ایسی دور افتادہ جگہوں میں جہاں کوئی ڈاکٹری امداد مہیا نہیں ہوسکتی یہ لوگ خدمت خلق بھی کرتے ہیں انہیں سوشل کام بھی سکھائے جاتے ہیں.یہ دیہات سدھار کا بھی کام کرتے ہیں، یہ تبلیغ اسلام بھی کرتے ہیں، یہ جماعتوں کی تربیت بھی کرتے ہیں.تو یہ وہ لوگ ہیں چاہئے ہمیں جن کے متعلق کہ ہم ان کی ہر لحاظ سے خدمت کریں.اس نظام کو تقویت دیں اور بڑھائیں.پس میں آپ سے ایک دفعہ پھر کہوں گا کہ وقف جدید کی تحریک کو زندہ کیجئے ، اسے زندہ کیجئے اور اس کی رگوں میں اپنی قربانیوں کا خون بھر دیجئے تا کہ اسلام کی شریانوں میں تازہ اور زندہ اور تمناؤں سے بھرا ہوا خون دوڑنے لگے.آج آپ سے حضرت محمد مصطفی ﷺ کی امیدیں وابستہ ہیں.آج آپ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی امیدیں وابستہ ہیں.آج آپ ہی ہیں جن کے ذریعہ اسلام زندہ ہوگا اور آپ کے علاوہ سب تاریکی ہے.اپنے آپ پر ظلمات کے سائے نہ پڑنے دیجئے.زندہ ہوں اور ہوشیار ہوں اور اس تحریک کو بھی زندہ کیجئے اور اس تحریک کی رگوں کو اپنی قربانیوں کے خون سے بھر دیجئے تا اسلام کی شریانوں میں تازہ اور زندہ اور تمناؤں سے بھرا ہوا خون دوڑنے لگے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 17 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی ۲۶۹۱۰ ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالیٰ بر موقع جلسه سالانه ۱۹۶۲ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا: ہستی باری تعالیٰ اور ارتقائے انسانی کا مضمون ایک نہایت اہم اور وسیع مضمون ہے اور یہ ممکن نہیں کہ اس کے تمام پہلوؤں کو اس مختصر وقت میں بیان کیا جا سکے.اس مشکل کے پیش نظر میں نے اس کے صرف ابتدائی تمہیدی حصہ کو تعارف کے طور پر آج کی تقریر کے لئے چنا ہے.سب سے پہلے تو اس مضمون کی اہمیت کو واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ میرے علم کے مطابق اکثر احباب اس کی اہمیت سے واقف نہیں حتی کہ بہت سے علماء بھی مذہب سے اسکا بہت دور کا واسطہ سمجھتے ہیں.اس کے بعد میں عام فہم زبان میں ارتقاء کا مفہوم احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا اور سورہ فاتحہ سے عمومی طور پر اس پر جو روشنی پڑتی ہے اس سے احباب کو روشناس کراؤں گا.سورہ فاتحہ کے علاوہ بھی قرآن کریم میں بیسیوں آیات ایسی ہیں جو اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں اور انسانی پیدائش کے متعلق ایک مکمل نقشہ پیش کرتی ہیں.مگر ناممکن ہے کہ اس وقت میں سائنس کے انکشافات کی روشنی میں ان پر تفصیلی بحث تو در کنار ان کا مختصر ذکر بھی کیا جاسکے.انسانی پیدائش کا سوال یا یوں کہنا چاہئے کہ زندگی کی پیدائش کا سوال ہمیشہ انسانی ذہن کے لئے بیک وقت دلچسپی اور پریشانی کا موجب بنارہا ہے.فلسفہ اور سائنس کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مسیح سے ہزاروں سال قبل کے فلسفیوں نے بھی اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی اور آج کے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 18 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی ۲۶۹۱ فلسفی اور سائنسدان بھی اس کا حل تلاش کرنے میں کوشاں ہیں.سیزر (Julius Caesar) نے بھی اس پر بحث کی اور ارسطو (Aristotle) اور افلاطون (Plato) نے بھی.لا مارک (Jean Baptist Lamark ) اور ڈارون ( Charles Darwin نے بھی اور اینجل (Sir Norman Angell) اور ہالڈین (Haldane) اور ہیکل (Ernest Heackel) اور بریش (Bertalt Brecht) نے بھی اور اس کے علاوہ دنیا کے ہر مذہب نے بھی اپنے مخصوص انداز میں اس پر لب کشائی کی ہے.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تو رات کی تو ابتدا ہی اسی مسئلہ سے شروع ہوتی ہے.اور دنیا کی آخری اور سب سے کامل کتاب یعنی قرآن کریم بھی اس بارہ میں خاموش نہیں رہا اور جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں اس کے ہر پہلو پر بڑی وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالتا ہے.لیکن اس کے باوجود گزشتہ کسی زمانہ میں بھی یہ مسئلہ مذہب کے لئے ایسی اہمیت اختیار نہیں کر سکا جیسا کہ آج اس زمانہ میں اختیار کر چکا ہے.آج پیدائش انسانی کا مسئلہ مذہب کے لئے ایسا زبردست چیلنج بن چکا ہے کہ کم از کم مسلمانوں کے لئے اسے نظر انداز کرنا کسی طرح ممکن نہیں رہا.آج اس مسئلہ پر انسانی معلومات میں اتنا حیرت انگیز اضافہ ہو چکا ہے کہ اس کے مقابل پر یوں معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ تمام انسانی معلومات ایک تاریک جہالت کے دور کی پیداوار تھیں.اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ گزشتہ زمانوں کا انسان تو جاہل تھا اور غلطی کر سکتا تھا مگر اگر کوئی عالم الغیب علیم و حکیم خدا موجود ہے تو بہر حال تخلیق حیوانی کے بارہ میں اس کی طرف سے جو معلومات انسان کو بہم پہنچائی گئی ہوں وہ سو فیصدی درست ہونی چاہئیں.پس اگر یہ معلومات جو خدا کی طرف منسوب کر کے دنیا کو دی گئی ہوں یقینی طور پر غلط ثابت ہو جائیں تو تین باتوں میں سے ایک بہر حال تسلیم کرنی پڑے گی.یا تو یہ کہ وہ شخص جھوٹا ہے جس نے خدا کی طرف ان خلاف قدرت نظریات کو منسوب کیا یا یہ کہ خدا عالم الغیب نہیں ہے یا اس کا کوئی وجود ہی نہیں اور یا پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ کتاب جس میں خدا کی طرف یہ باتیں منسوب کی گئی ہیں غیر معتبر اور محرف اور مبدل ہے.پس اگر بائیل یا کوئی اور کتاب مقدس ایسے امور درج کرے جن کا غلط ہونا یقینی طور پر ثابت ہو تو ان کتب کے ماننے والے اس آخری امکان کے دامن میں پناہ لے سکتے ہیں.وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتب غیر معتبر
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 19 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی ۲۶۹۱ ہو چکی ہیں اور عین ممکن ہے کہ یہ غلط باتیں بعد کے انسانوں نے اپنی طرف سے ان میں داخل کر دی ہوں.چنانچہ اس عذر کی آڑ میں وہ اپنے خدا اور رسول کو غلطی کے اس الزام کی زد سے محفوظ کر سکتے ہیں مگر مسلمانوں کے لئے ایسی کوئی جائے پناہ نہیں ہے کیونکہ ان کی کتاب کا تو ابتدائی دعوی ہی یہی ہے کہ الرّه ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ( البقرة :٣،٢) میں خدا ہوں سب سے زیادہ جاننے والا.یہ وہ کتاب ہے جس میں قطعا کوئی شک نہیں ،متقیوں کے لئے ہدایت ہے.پس اگر نعوذ باللہ اس کتاب میں کوئی ایسا امر بیان ہو جو مشاہدہ سے یقینی طور پر غلط ثابت ہوا.مثلاً یہ کہ زمین چپٹی ہے ،یا چاند، سورج کا زمین سے فاصلہ ڈیڑھ سو میل قرار دیا جائے تو خواہ مسلمان علماءلاکھ کہتے رہیں کہ یہی درست ہے اور سائنس جھوٹ بولتی ہے گر کو ئی تعلیم یافتہ غیر مسلم ان کے دعوی کو تسلیم نہیں کرے گا اور اسلام کو اس خلاف عقل مذہب کی حیثیت سے ٹھکرا دے گا.پس اس لحاظ سے یہ مضمون نہایت ہی اہم ہے اور ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ کے علماء اس کی طرف خاص توجہ دیں.اسکے علاوہ بھی تخلیق انسانی کو ہستی باری تعالیٰ کے ساتھ ایک براہ راست تعلق ہے اور خالق کی عظمت کا تصور باندھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم تخلیق پر غور کریں.یہ تعلق تمثیلی زبان میں ایسا ہی ہے جیسے خوشبو کا مشک سے اور دھوپ کا سورج سے یا پھل کا اپنے درخت سے ہوتا ہے.پس اگر درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور سورج دھوپ سے اور خوشبو کا بھی مشک سے ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ مسلم ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ ہم خالق کی تخلیق پر غور کئے بغیر اسے پہچان سکیں.یہی وجہ ہے کہ بار بار قر آن کریم مسلمانوں کو اپنے گرد و پیش زمین آسمان ، چاند سورج ، خشکی اور تری ، دن اور رات پر غور کرنے کی تلقین فرماتا ہے.مگر انتہائی بدقسمتی ہے کہ باوجود اس بار بار کی تاکید کے مسلمانوں نے روحانی عالم کی طرح جسمانی عالم پر بھی غور کرنا ترک کر دیا اور دین بھی ان کے ہاتھ سے جاتا رہا اور دنیا بھی.جسمانی عالم پر غور کرنا رفتہ رفتہ آخران غیر مسلموں کی جاگیر بن گیا جو یا تو خدا کے تصور سے ہی نا آشنا تھے یا ایک ایسا غلط تصور رکھتے تھے جو اس مادی عالم کے ساتھ مطابقت نہ کھاتا تھا پس بسا اوقات انکے علمی انکشافات ان کو خدا تعالیٰ کے قریب لے جانے کی بجائے اس سے اور بھی دور لے گئے اور وہ بد قسمت خود بھی ہلاک ہوئے اور اوروں کو بھی ہلاک کیا.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 20 20 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی ۲۶۹۱۶ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اس مادی عالم پر بھی غور فرمایا کرتے تھے اور اس کے عجائبات میں محو ہو کر محبوب ازلی کے حسن سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کو اپنے بستر پر نہ پا کر جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا تلاش کے لئے باہر نکلیں تو دیکھا کہ تاروں بھرے آسمان کے نے حضور ان آیات کی تلاوت فرما رہے ہیں : إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَا يَتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا ۚ سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران : ۱۹۱ ۱۹۲) یقین زمین و آسمان کی پیدائش میں اور دن رات کے بدلنے میں اہل عقل کے لئے نشانات ہیں.وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کا ذکر کھڑے ہو کر بھی کرتے ہیں اور بیٹھے ہوئے بھی اور لیٹے ہوئے بھی اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے متعلق غور کرتے رہتے ہیں اور ان کی پکار یہ ہوتی ہے کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَهُذَا بَاطِلًا اے ہمارے رب! تو نے یہ سب کچھ بے کار اور بے مقصد پیدا نہیں فرمایا پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچائیو.یعنی ہم اس زمین و آسمان کی پیدائش کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اپنے محبوب آقا کی پیروی میں اپنے گردو پیش کائنات کے ذرے ذرے میں خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے عجائبات دیکھا کرتے تھے.اور جیسا کہ انگریزی کا محاورہ ہے کہ All Roads Leads to Rome کہ ساری سڑکیں روم ہی کی طرف جاتی ہیں.خدا کے مومن بندے جب عجائبات قدرت کا نظارہ کرتے ہیں تو انہیں ہر چیز خدا تعالیٰ ہی کی طرف اشارہ کرتی نظر آتی ہے.اس کے برعکس اگر چہ ایک شاعر، ایک فلسفی اور ایک سائنسدان بھی انہی عجائبات کا نظارہ کرتا ہے تو قدرت کا یہ نظارہ اس کے لئے کوئی معین پیغام لیکر نہیں آتا بلکہ وہ حیرانی کی دنیا میں کھو جاتا ہے اور ہر چیز اس کے لئے ایک سوال بن جاتی ہے.ان عجائبات کو دیکھ کر ایک
ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی ۲۶۹۱۰ تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت شاعر کے دل سے تو یہ آواز اٹھتی ہے کہ 21 21 جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ سبزه و گل کہاں سے آئے ہیں ؟ ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے ؟ یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں غمزه و و عشوه , ادا کیا ہے؟ شکن زلف امبریں کیوں ہے؟ نگه چشم سرمہ سا کیا ہے؟ دیوان غالب صفحه: ۲۵۱ ۲۵۲) لیکن ان عجائبات قدرت کا نظارہ خدا کے ایک مومن کامل کے لئے نا قابل حل سوالات کی صورت میں ظاہر نہیں ہوتا بلکہ معین پیغام بن کر آتا ہے اور اس کا دل حمد و ثناء کے گیتوں سے بھر جاتا ہے جس کی صدا د نیا کو یوں سنائی دیتی ہے کہ چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا چشم مست ہرحسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا اُس بہار حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترک یا تا تار کا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 22 22 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی ۲۶۹۱۰ کیا عجب تو نے ہر اک ذرہ میں رکھے ہیں خواص کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحه: ۵۲) جوں جوں آپ اپنی بساط کے مطابق ان اسرار کا دفتر پڑھتے چلے جائیں گے اپنے خالق کے حسن کے نئے نئے نظارے آپ پر روشن ہوتے چلے جائیں گے.اس عقدہ دشوار کا حل کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں.کوئی ان اسرار کا سارا دفتر نہیں پڑھ سکتا مگر جوں جوں آپ عقدوں کی اس لا متناہی زنجیر کی گرہ کشائی کرتے چلے جائیں گے آپ کے اور خالق کے درمیان سے نت نئے حجاب اٹھتے چلے جائیں گے.اسرار کے جس دفتر کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی نظم میں فرمایا ہے اس دفتر کی ایک مسل ارتقائے انسانی کی مسل ہے.انسان ہو یا حیوان یا نباتات تمام زندہ چیزوں کی پیدائش کے متعلق دو ہی اہم نظریات ہیں جن میں سے ایک کو بہر حال غلط اور ایک کو درست قرار دینا پڑے گا.ایک نظریہ اچانک پیدائش کا نظریہ ہے اور ایک ارتقائی پیدائش کا نظریہ.اچانک پیدائش کے نظریہ کے مطابق مختلف قسم کے جاندار اچانک اپنی مکمل صورت میں ہی پیدا ہوئے.یا اس قد رتھوڑے عرصہ میں کہ گویا دیکھتے دیکھتے پیدا ہو گئے.انسان کیچڑ میں سے اٹھ کھڑا ہوا ، مینڈک دلدل میں سے، کیڑے مکوڑے کھا دیا گو بر میں سے اور جوئیں پسینے میں سے.قدیم ترین زمانہ سے لے کر گزشتہ صدی تک کے تمام فلسفی اور سائنسدان خواہ وہ دنیا کی کسی قوم سے بھی تعلق رکھتے ہوں اسی نظریہ کے قائل رہے ہیں.چنانچہ سیزیر(Julius Caeser) بھی اسی نظریہ کا قائل تھا اورارسطو (Aristotle) بھی اور افلاطون (Plato) بھی اور چینی فلاسفر بھی اسی نظریہ کے قائل تھے اور ہندی فلاسفر بھی.اسی طرح مشرق وسطی اور یورپ کے فلسفہ دان بھی اسی نظریہ کے قائل تھے.گویا کہ رسول اللﷺ کے عہد سے پہلے بھی اور بعد میں بھی تقریباً تیرہ سو برس تک بالا تفاق دنیا کا یہی نظریہ رہا کہ زندہ چیز میں اسی طرح اچانک بغیر کسی لمبے زمانے کی تدریجی ترقی کے پیدا ہوئیں.چنانچہ اس زمانے کا عظیم المرتبت ماہر حیاتیات روسی سائنسدان او پارین (Aleksandr Ivanocvich Oparin) اپنی کتاب The Origin
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 23 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی ۲۶۹۱ of Life on the Earth میں لکھتا ہے: زندہ چیزوں کی اچانک پیدائش کا نظریہ ہمیں ہر قوم اور ہر زمانہ میں ملتا ہے اور قدیم ترین زمانے سے شروع کر کے آج تک کے زمانہ میں پایا جاتا ہے.پس فلسفہ دانوں اور مفسرین کا اس مسئلہ پر اجماع ایک عظیم الشان اجماع ہے.کیونکہ گزشتہ صدی سے پہلے ہر ملک اور ہر زمانہ کے اہل علم بالا تفاق اس مسئلہ کے قائل تھے.ہاں اس کی تفصیلات میں انہیں جزوی اختلافات ضرور تھے.اگر چینی باغ کی نو نہال شاخوں کو نمدار موسم میں زمین میں گاڑنے سے نئے جاندار پیدا ہوتے ہوئے دیکھتے تھے تو ہندوستانی فلسفہ دانوں کو گوبر سے کیڑے مکوڑے، چھپکلیاں، مینڈک اور اپنے پسینے سے جوئیں بنتی ہوئی نظر آتی تھیں.اسی طرح مصر کا مشاہدہ یہ تھا کہ دریائے نیل کی پھینکی ہوئی مٹی سے مینڈک چھپکلیاں اور دوسرے جاندار پیدا ہوتے ہیں.اور اہل یورپ کا بھی یہی یقین تھا چنانچہ میسپئیر (William Shakespeare) کے مشہور ڈرامہ Anthony and Cleopatra میں جب دریائے نیل کے کیچڑ سے مگر مچھ بنتے ہوئے دکھائے جاتے تھے تو سارے انگریز تماشائی اس پر ایمان لے آتے تھے کیونکہ مگر مچھوں کی تو پیدائش کے متعلق ان کا اپنا نظریہ بھی بعینہ یہی تھا.اس کے علاوہ سکاٹ لینڈ میں یہ خیال رائج تھا کہ بعض پودوں سے مرغا بیاں اڑتی ہیں اور یورپ کے بعض معتبر سیاح یہ بیان کرتے تھے کہ انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے ایران میں وہ پودا دیکھا ہے جس پر بڑے بڑے کدوؤں کے برابر بھیڑیں اور مینڈھے لگے ہوتے تھے جو اسی پودے کے اردگر دشاخ سے بندھے ہوئے گھاس چرا کرتے تھے.پس اگر چہ اس نظریہ کی تفصیلات مختلف تھیں مگر بہر حال نظریہ یہی تھا کہ زندگی اچانک مکمل صورت میں دریا کی مٹی ، یا درختوں یا گوبر وغیرہ سے نکل کھڑی ہوئی.لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جتنا شاندار اجماع گزشتہ تمام فلسفیوں کا اس نظریہ پر تھا اتنا ہی شاندار اجماع اب موجودہ سائنسدانوں کا اس امر پر ہے کہ یہ نظریہ بالکل غلط، بے معنی اور بے بنیاد ہے اور اس زمانہ کے تمام سائنسدان بالاتفاق اس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں کہ انسان اور حیوان اور اسی طرح زندگی کی دوسری اقسام کی پیدائش علیحدہ علیحدہ اچانک حادثات کے نتیجہ میں نہیں ہوئی بلکہ ایک منظم سلسلہ پیدائش کی کڑیوں کے طور پر ہوئی ہے.
24 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالٰی ۲۶۹۱ تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت اس کڑی کا پہلا سلسلہ قریب کے زمانہ تک امیبا سمجھا جاتا تھا جو ایک چھوٹا سا تحصیلی نما جانور ہے، جس کا نہ سر ہے، نہ پیر، نہ آنکھ، نہ منہ نہ کان ، نہ دل، نہ دماغ مگر پھر بھی اس میں زندگی کی وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو زندگی میں ہونی چاہئیں اور اس سلسلے کی آخری کڑی انسان ہے کہ جس کے جسم کا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ بھی اس ابتدائی جانوروں سے کہیں زیادہ پیچ دار اور پر اسرار ہوتا ہے.یہ ارتقاء کا نظریہ جسے سب سے پہلے ڈارون Charles Darwin) نے ایک منظم اور مرتب صورت میں ٹھوس دلائل کے ساتھ پیش کیا اب سائنس کا ایسا ہی مسلمہ بن چکا ہے جیسا یہ امر کہ زمین چپٹی نہیں بلکہ گول ہے اور سورج زمین کے گرد نہیں گھومتا بلکہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے.ڈارون کے بعد سے اب تک دلائل کا ایک ایسا انبوہ کثیر اس امر کے ثبوت میں مہیا ہو چکا ہے کہ سوائے اس کے کہ ان سے لاعلمی ہو یا جان بوجھ کر آنکھیں بند کر لی جائیں حقیقت ارتقاء کا انکار نہیں کیا جا سکتا.لیکن باوجود اس کے کہ ڈارون (Charles Darwin) کے نظریہ ارتقاء سے سب اصولی پر متفق ہیں ڈارون کے نظریہ کی تفاصیل سے اکثر متفق نہیں.یہ تو مانتے ہیں کہ ارتقاء ضرور ہوا ہے مگر یہ نہیں مانتے کہ بعینہ اسی طرح ہوا ہے جس طرح ڈارون کہتا ہے.نئی تحقیقات سے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی کئی تفصیلات غلط ثابت ہو چکی ہیں مگر ارتقاء کا نظریہ ہر روز اور زیادہ یقینی ، اور زیادہ یقینی طورة ہوتا چلا جاتا ہے.اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا قرآن کریم گزشتہ تاریک زمانوں کے قطعی مشاہدات اور خام خیالات کی تائید کرتا ہے اور وہی کہتا ہے جو نزول قرآن کے وقت اس بارے میں رائج الوقت تصور تھا یا اس کے برعکس تیرہ سو سال بعد ہونے والی سائنسی تحقیق کی تائید کرتا ہے.میرے نزدیک تو یقینی طور پر قرآن کریم پیدائش انسانی کے بارہ میں جو نظریہ پیش کرتا ہے وہ اچانک پیدائش کا نظریہ نہیں بلکہ ارتقائی اور تدریجی پیدائش کا نظریہ ہے اور اپنی تفصیلات میں یہ بعض جگہ ڈارون ( Darwin) کی تائید کرتا ہے اور بعض جگہ ہالڈین (Haldane) کی کہیں یہ گریش (Grace) کے نظریہ پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے اور کہیں پر سان (-) ، نیگلے ( Naglee) اور آئمر (Imer) کو درست قرار دیتا ہے اور بعض ایسے امور بھی بیان کرتا ہے جن تک ابھی انسانی تحقیق نہیں پہنچ سکی اور وہ سائنسی پیشگوئیوں کے طور پر قرآن کریم میں موجود ہیں.لیکن اس قرآنی نظریہ کو بیان کرنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ لفظ ارتقاء کی ایک
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 25 45 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی ۲۶۹۱ سادہ عام فہم تشریح کر دوں کیونکہ میرے مخاطب اس وقت کچھ وہ احباب بھی ہیں جو شاید اب تک لفظ ارتقاء کو انقاء کے ساتھ مشتبہ کر رہے ہوں جس کے معنی اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے.ویسے تو ان دونوں لفظوں میں ظاہری مشابہت کے علاوہ ایک معنوی مشابہت بھی پائی جاتی ہے کیونکہ اگر اتقاء ہر روحانی ترقی کا زینہ ہے تو ارتقاء ہر حیوانی ترقی کا زینہ ہے.مگر اس کے علاوہ یہ دونوں الفاظ بالکل مختلف معنوں پر اطلاق پاتے ہیں.لفظ ارتقاء سائنس کی ایک اصطلاح ہے جو ایک وسیع اور بار یک علمی معنوں کو ظاہر کرنے کے لئے بنائی گئی ہے.اس ایک لفظ میں ابتداء سے لیکر آج تک کی تمام انسانی پیدائش کی تاریخ کو سمیٹ کر بیان کر دیا گیا ہے.میرے لئے آپ کو یہ مفہوم سمجھانا مشکل ہوتا مگر خوش قسمتی سے اس وقت میرے مخاطب وہ مسلمان ہیں جن کے دین کی الف ب ہی ارتقاء کے سبق سے شروع ہوتی ہے.اس لئے خواہ وہ علم کے کسی بھی معیار پر ہوں ان کے لئے لفظ ارتقاء کا مفہوم سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ وہ دن میں کم از کم پانچ مرتبہ ہر نماز کی ہر رکعت میں اس سبق کو دہراتے ہیں.جب وہ سورہ فاتحہ کی تلاوت کرتے ہوئے پڑھتے ہیں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحہ:۲) دراصل وہ ارتقاء کا پہلا اور آخری سبق پڑھ رہے ہوتے ہیں کیونکہ ارتقاء کی ابتداء اور ارتقاء کی انتہاء اور ابتداء سے لے کر انتہاء تک کا وہ یہ زمانہ جسے ہم کلمہ کُن سے لیکر فَيَكُونُ تک کا زمانہ کہہ سکتے ہیں خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت ہی کا مظہر ہے.آپ سب جانتے ہیں کہ رب سے مراد وہ ہستی ہے جو ادنیٰ حالتوں سے ترقی دے کر اعلیٰ کی طرف لے جاتی ہے اور بعض شرائط کے ساتھ اسی ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف حرکت کا نام سائنسی اصطلاح میں ارتقاء ہے.پس ہم عام فہم زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کے عکس کا نام ارتقاء ہے.لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت ہمیشہ صرف ارتقاء ہی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے.ربوبیت کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اس کے اظہار کے صرف ایک حصہ کا نام ارتقاء رکھا جا سکتا ہے.کسی چیز کا ایک معمولی حالت سے بہتر ہوتے چلے جانا دو طرح پر ہوسکتا ہے.ایک گندم کا دانہ پہلے چھوٹا ہوتا ہے پھر آہستہ آہستہ بڑا ہونے لگتا ہے.یہ بھی خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت کا ایک اظہار ہے.ایک بچہ پہلے چھوٹا اور کمزور ہوتا ہے ، نہ وہ بات کر سکتا ہے، نہ وہ چل پھر سکتا ہے ، نہ اپنی روزی کما سکتا ہے بلکہ اتنا بے طاقت اور عاجز ہوتا ہے کہ ایک مکھی سے بھی اپنا بچاؤ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 26 26 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی ۲۶۹۱ نہیں کر سکتا.مگر آہستہ آہستہ وہ بڑا اور طاقتور ہونے لگتا ہے، بولنا سیکھتا ہے، چلنا سیکھتا ہے ،اور اپنی تمام ضروریات خود ہی پوری کرنے لگتا ہے اور ہر قسم کے خطرات سے بچاؤ کے ذریعے اختیار کرتا ہے.یہ بھی ایک خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت کا ایک اظہار ہے.دیکھئے ایک معمولی کمزور اور بے حقیقت بچہ جب ترقی کرتا ہے تو کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے.جسے پہلے چلنا نہیں آتا تھا وہ دوڑ نے بلکہ فضاؤں میں اڑنے لگتا ہے.اور چاندستاروں کو فتح کرنے کے خواب دیکھنے لگتا ہے جو پہلے کھی کے مقابلے پر بھی کمزور تھا کبھی قیصر بن جاتا ہے اور کبھی کسری کبھی سکندر اعظم اور کبھی بابر اور کبھی اکبر.وہ جو ایک دمڑی کمانے کی بھی طاقت نہ رکھتا تھا جب مالدار ہوتا ہے تو قارون کے خزانوں کی کنجیاں اس کو دی جاتی ہیں اور ان سب سے کہیں بڑھ کر وہ کمزور اور ناتواں بچہ جو بھی تو تلی زبان میں بھی بات کرنے کا اہل نہیں تھا ترقی کرتے کرتے خود رب العالمین سے ہمکلام ہو جاتا ہے.یہ سب خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت کے مظاہر ہیں.مگر سائنس کی اصطلاح میں ان کو ارتقاء نہیں کہا جاتا بلکہ صرف ترقی کہتے ہیں.اگر چہ ارتقاء بھی ایک قسم کی ترقی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت ہی کا ایک پرتو ہے مگر ہر ترقی ارتقاء نہیں کہلا سکتی.ارتقاء صرف ایسی ترقی کو کہتے ہیں جس کے دوران میں کسی جاندار کی جنس اور نوعیت ہی تبدیل ہو جائے.اب میں مثال دے کر یہ واضح کرتا ہوں کہ ارتقاء اور عام ترقی میں کیا فرق ہے؟ ترقی کی بعض مثالیں میں ابھی بیان کر چکا ہوں.ان مثالوں سے واضح ہے کہ خواہ ترقی کتنی ہی حیرت انگیز کیوں نہ ہو ترقی کرنے والے کی جنس پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا.مثلاً ایک انسانی بچہ خواہ ترقی کرتے کرتے قیصر بن جائے یا کسری مگر رہتا بہر حال انسان ہی ہے.ایک چوہے کا بچہ خواہ ترقی کرتے کرتے موٹا ہوتے ہوتے ہاتھی کے برابر بھی ہو جائے مگر پھر بھی چوہے کا چوہا ہی رہے گا اور بلکہ شاید اس وقت بھی بلی سے ڈرتا رہے.مگر فرض کریں کہ یہ چو ہاہاتھی جتنا موٹا تو نہ ہومگر اس کے جسم میں پر نکل آئیں اور وہ بلوں میں گھسنے والا جانور اپنے جسمانی پروں کے ساتھ ہوا میں اڑنے لگے اور درختوں پر بسیرا کرلے تو ایسی ترقی کو سائنس کی اصطلاح میں ارتقاء کہا جائے گا.کیونکہ پر نکلنے کی وجہ سے اس چوہے کی جنس ہی تبدیل ہو جاتی ہے.پس ہر وہ ترقی جو جنسی تبدیلی کا موجب بن جائے اسے ہم ارتقاء کہ سکتے ہیں مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ تبدیلی کم از کم پہلے جیسی یا پہلے سے بہتر ہو پہلے سے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 27 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی ۲۶۹۱ خراب نہ ہو کیونکہ ربوبیت کا یہ تقاضا ہے کہ ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف لے کر جائے نہ کہ اعلیٰ سے ادنیٰ کی طرف.پس اس لحاظ سے ایک چوہے کو پر لنا تو ارتقاء کہلائے گا مگر اس کی ایک ٹانگ غائب ہو جائے تو اسے ہم ارتقاء نہیں کہہ سکتے.اس پر تو پنجابی کی وہی مثل صادق آئے گی کہ پہلے سوا دوں وی گیا“ پہلے تو بے چارہ پھر بھی بھاگ دوڑ کر اپنی جان بچالیا کرتا تھا مگر اب اس قابل بھی نہ رہا.اس کے علاوہ ارتقاء کی ایک اور شرط بھی ہے اور وہ بھی عین خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت کے مطابق ہے.وہ شرط یہ ہے کہ ارتقاء کے نتیجہ میں جو تبدیلی بھی پیدا ہو وہ انفرادی اور عارضی نہ ہو بلکہ جنسی اور مستقل ہو.چنانچہ اس شرط کے مطابق اگر ایک چوہے کے پر نکل آئیں اور وہ مستقل پر ہوں اور آئندہ اس چوہے کی نسل میں بھی پروں والے چوہے ہی پیدا ہوں تو اس تبدیلی کو ہم ارتقائی تبدیلی کہہ سکتے ہیں.لیکن اس کے برعکس اگر اس کے پر تو نکل آئیں مگر اس کی اولا د غریب پروں سے محروم ہی رہے اور وہ بے پر کے بچے چھوڑ کر اسی طرح اپنے پروں سمیت مرجائے تو ایسے چوہے کو سائنس کی اصطلاح میں ارتقائی چوہا نہیں کہا جاسکتا بلکہ ایک عجوبہ روزگار چوہا کہا جائے گا جسے چڑیا گھر کی بجائے غالبا عجائب گھر میں رکھنا زیادہ موزوں ہوگا.پس جیسا کہ صفت ربوبیت کا تقاضا ہے کہ جو نعمت رب العالمین ایک مرتبہ دے دے، اسے قائم بھی رکھے،سائنس کی اصطلاح میں بھی ارتقاء کا بعینہ یہی مفہوم ہے.ایک آخری شرط ارتقاء کی یہ ہے کہ یہ صرف اچھی چیزیں دینے والا ہی نہ ہو بلکہ بری چیزیں دور کرنے والا بھی ہو مثلاً یہی پروں والا چوہا جس کی مثال ہم نے اپنے سامنے رکھی ہے جب اڑنے کے قابل ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کے جسم میں کچھ اور تبدیلیاں بھی پیدا کی جائیں مثلاً ایک لمبی اور بوجھل گوشت پوست کی دم کی بجائے ایک ہلکی پھلکی پروں کی دُم اسکو دی جائے تا کہ اڑنے میں اسے دقت نہ ہو.پس اگر ترقی کی کسی منزل پر اس کی پہلی دم جھڑ جائے یا چھوٹی اور ہلکی ہو جائے تو اس تبدیلی کو بھی ارتقائی تبدیلی کہا جائے گا کیونکہ گو بظاہر ایک عضو کم یا چھوٹا ہورہا ہے مگر دراصل یہ اس کے فائدہ کے لئے ہے اور ایک کے اس بوجھ کو دور کیا جا رہا ہے.پس ارتقاء کا مطلب یہ بنا کہ رب العالمین کی صفت ربوبیت کا اس رنگ میں اظہار ہو کہ ایک چیز اپنی ترقی کے دوران میں ادنیٰ سے اعلیٰ حالت کی طرف اس طرح حرکت کرے کہ اس میں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 28 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی ۲۶۹۱ نوعی یا جنسی تبدیلیاں پیدا ہوتی چلی جائیں اور اس طرح پیدا ہونے والی ہر تبدیلی اس میں زندہ رہنے کی زیادہ اہلیت پیدا کر دے اور اس کی حالت کو بہتر اور بہتر اور بہتر بناتی چلی جائے.نیز یہ تبدیلی مستقل ہو عارضی نہ ہو سوائے اس کے کہ اس سے بھی بہتر کوئی تبدیلی اس کی جگہ لے لے.اس کے علاوہ ایک آخری شرط یہ ہے کہ ترقی کے دوران میں کسی جانور کے جسم کا کوئی حصہ اس مقصد کو پورا کرنا چھوڑ دے جس کے لئے اسے ابتدا میں پیدا کیا گیا تھا تو وہ بے کا رحصہ اس جسم سے دور کر دیا جائے.یہ ارتقائی مفہوم قرآن کریم کی اس آیت کے مفہوم کے بالکل مشابہ ہے کہ مَا نَنْسَخُ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنُسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرة: ۱۰۷) ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا فراموش کرا دیتے ہیں اس سے بہتر یا کم از کم اس جیسی اور آیت بھیج دیتے ہیں.کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے.امید ہے کہ اس مختصر سی تشریح کو سن کر احباب پر لفظ ارتقاء کا مفہوم کسی قدر واضح ہو چکا ہوگا.اس زمانے کے تمام سائنسدان اب اس امر پر بیک آواز متفق ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ انسان کی پیدائش اسی طریق پر ہوئی ہے.وہ صرف روزمرہ کی زندگی میں چھوٹے سے بڑا اور کمزور سے طاقتور ہو کر خدا تعالیٰ کی ربوبیت کا ثبوت ہم نہیں پہنچا تا بلکہ بحیثیت جنس اس کا انسان بننا بھی صفت ربوبیت ہی کا مظہر ہے اور وہ اچانک ایک تماشا کی طرح پیدا نہیں ہوا بلکہ جیسا کہ صفت ربوبیت کا تقاضا تھا ایک لمبے عرصہ میں زندگی کے ایک حقیر ذرے سے شروع ہو کر طبقہ در طبقہ خَلْقَا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ (الزمر: ) اپنی جنس تبدیل کرتا ہو تر قی کی ان گنت منازل طے کرنے کے بعد انسانیت کے مقام تک پہنچا.اس کی روز مرہ کی تدریجی ترقی بھی یہ گواہی دے رہی ہے کہ اس کا ایک رب ہے.اور بحیثیت جنس اس کا انسانیت کے مقام تک پہنچ جانا بھی اس امر پر گواہ ہے کہ اس تدریجی ترقی کا ضرور کوئی رب ہے.دراصل ایک عام ترقی سے بھی کہیں زیادہ بڑھ کر ارتقائی ترقی ربوبیت کا تقاضا کرتی ہے.کیونکہ عام ترقی کی نسبت ارتقاء کے ذریعہ پیدا ہونے والی تبدیلیاں کہیں زیادہ حیرت انگیز ہوا کرتی ہیں اور ایک نہایت لمبے عرصہ تک ایک وجود کا اس طرح ترقی کرتے چلے جانا کہ ہر آئندہ تبدیلی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 29 29 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی ۲۶۹۱ اس وجود کو بہتر بناتی چلی جائے یہاں تک کہ ایک حقیر ذرہ انسانیت کے بلند مقام تک جا پہنچے، بغیر کسی رب کے ناممکن ہے.رب اور ارتقاء لازم اور ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں.اگر کوئی رب ہے تو ارتقاء کا وجود ضرور ہو گا اور اگر ارتقاء ہے تو ناممکن ہے کہ رب نہ ہو.یہی وجہ ہے کے ڈارون Charles) (Darwin پر جب ارتقاء کا نظریہ روشن ہوا تو اگر چہ بائبل کے ماننے والوں نے اس کے نظریہ کو بائبل کے خلاف سمجھ کر اس پر کفر کے فتوے لگائے اور طرح طرح کی پھبتیاں کسیں.مگر اپنی شہرہ آفاق کتاب Origin of Species میں وہ یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ جوں جوں حقیقت ارتقاء مجھ پر روشن ہوتی چلی جاتی ہے میر اسر ادب اور احترام کے ساتھ اپنے خالق کے حضور جھکتا چلا جاتا ہے.جب تک میں یہ سمجھتارہا کہ انسان اور حیوان اچانک کیچڑ سے نکل کھڑے ہوئے تھے خدا تعالیٰ کی عظمت مجھ پر روشن نہیں ہوئی تھی.مگر جب حقیقت ارتقاء مجھ پر واضح ہوئی تو میرے ذہن پر اس عظیم الشان بنانے والے کی ہستی آشکارا ہوگئی اور میرا دل اس یقین سے بھر گیا کہ اس حیرت انگیز نظام اور تدریجی ترقی کا ضرور کوئی رب ہے.پس ارتقاء کا وجود اس شدت سے کسی رب کے وجود کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ تمام سائنسدان جوارتقاء کے وجود کے قائل ہیں اس امر پر طوعاً و کرہا مجبور ہیں کہ اس کا ایک رب تسلیم کریں.اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا.صرف فرق یہ ہے کہ جیسا کہ ہونا چاہئے ان میں سے بہت سے تو خدا تعالیٰ کوارتقاء کا رب سمجھتے ہیں مگر بعض ایسے خدا تعالیٰ کی ہستی کے منکر دہر یہ سائنسدان بھی موجود ہیں جو یا تو ارتقاء کرنے والے حیوانات اور نباتات کو ہی خود اپنا اپنا رب خیال کرتے ہیں یا ان گنت سالوں میں ہونے والے ان گنت حادثات زمانہ کو بہر حال یہ امران سب کے نزدیک یقینی ہے کہ ارتقاء کا وجود کسی نہ کسی کو چاہتا ہے اور یہ دہریہ بھی اس کا انکار نہیں کر سکتے.جوں جوں علم بڑھتا چلا جاتا ہے اور منظم قوانین قدرت کے حیرت انگیز انکشافات ہوتے چلے جاتے ہیں ایسے دہر یہ سائنسدانوں کی مشکلات بڑھتی چلی جارہی ہیں جن کے نزدیک اتفاق ہی انسانی ارتقاء کا رب تھا.کیونکہ جس قدر بھی وہ زندگی کی چھان بین کر رہے ہیں اسی قدر کارخانہ قدرت انہیں منظم نظر آ رہا ہے اور یہ نظم وضبط اتنا وسیع ہے کہ اگر اتفاق کو رب الارتقاء تسلیم کیا جائے تو ارتقاء کی ان گنت منازل پر ان گنت اتفاقات کا وجود تسلیم کرنا پڑے گا.یہ نظریہ تسلیم کرنے کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے کہا جائے کہ تاج محل اس طرح بنا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 30 30 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی ۲۶۹۱ تھا کہ ایک دفعہ زلزلہ آیا اور سنگ مرمر کا ایک پہاڑ ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا.پھر اتفاق سے وہ سب ٹکڑے برابر ہو گئے اور خوبصورت مناسب پتھروں کی شکل میں تراشے گئے.پھر یہ پتھر ایک زبر دست آندھی میں وہاں سے اڑ کر آگرہ میں جا گرے.اتفاق ایسا ہوا کہ اسی آندھی میں ایک اور جگہ سے اتفاقیہ بنا ہوا پلستر بھی اڑ کر آگرہ ہی چلا آیا.دونوں وہاں اتفاقا اکٹھے پہنچے اور اتفاقاً اس وقت بارش شروع ہوگئی مگر اتفاقا صرف بارش اتنی ہی ہوئی کہ پلستر کا مسالہ بھیگ کر عمدہ پلستر کی صورت میں تبدیل ہو گیا اور پھر پتھر اور مسالہ اتفاقاً ایک دوسرے پر اس طرح گرنے لگے کہ ہر دو پتھروں کی درمیانی سطح پر پلستر کی ایک تہہ جمنے لگی.اسی طرح اور بہت سے اتفاقات کے نتیجہ میں دوسری تعمیری ضروریات بھی وہاں پہنچنے لگیں اور ایسی دو چار پندرہ ہمیں سویا ہزار آندھیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ آخر ایک رات جب کہ چاروں طرف نرم نرم چاندی بکھری پڑی تھی تاج محل کی حسین و جمیل عمارت اتفاقا بن کر مکمل ہوگئی.اگر آپ کو یہ کہا جائے کہ تاج محل کی تعمیر کا رب اتفاق تھا اور یقین دلانے کے لئے یہ بھی کہہ دیا جائے کہ وہ چند سالوں کے اتفاق کے نتیجہ میں نہیں بلکہ دس کروڑ سالوں کے اتفاقات کے نتیجہ میں اپنی صناعی کے اس کمال تک کو پہنچا تو بھی کیا آپ یہ تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر دیں گے؟ پھر آپ یہ کیسے تسلیم کر سکتے ہیں کہ انسان کی ارتقائی تعمیر کا رب اتفاق تھا حالانکہ انسان کے اندر جو صناعی کے کمالات موجود ہیں ان کے مقابل پر تاج محل کی حیثیت اتنی بھی تو نہیں جتنی تاج محل کے مقابل پر کسی مٹی کے غلیلے کی ہو جو اس کے دامن میں پڑا ہوا ہو.اتفاق کو ارتقائے انسانی کا رب قرار دینے کی راہ میں یہی مشکل ہے جس کے پیش نظر اب بڑے بڑے دہریہ سائنسدان بھی اس نظریہ کو ٹھکرا رہے ہیں.ارتقاء کے ان گنت منازل کو اتفاق کا نتیجہ قرار دینا تو خیر بہت ہی دور کی بات ہے اس کی پہلی منزل یعنی زندگی کے ابتدائی ذرہ کے پیدا ہونے کو بھی اتفاق کی پیداوار قرار نہیں دیا جا سکتا.چنانچہ عصر حاضر کا عظیم روسی ماہر حیاتیات اس نظریہ کو کہ زندگی اتفاقاً پیدا ہو گئی سخت نا معقول قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ تسلیم کر لینا اسی طرح خلاف عقل ہے جس طرح یہ تسلیم کر لینا کہ میری میز کا ہر ذرہ جو ایک اندرونی حرکت کر رہا ہے اتفاقاً اکٹھا ایک ہی رفتار کے ساتھ اوپر کی طرف حرکت کرے اور کسی بیرونی اثر کے بغیر اچانک یہ میز خود بخو داو پر
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 31 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی ۲۶۹۱ کی طرف اٹھ جائے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسانی پیدائش کی پہلی منزل کو بھی اتفاق کا نتیجہ قراردینا اگر سخت احمقانہ بات ہے تو اس کی ان گنت منازل پر اس پاگل پن کی تکرار کس طرح تسلیم کی جاسکتی ہے.اسی لئے وہ جدید دہر یہ سائنسدان بھی جو کسی بیرونی ذی شعور ہستی کو ارتقاء کا رب تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اپنے ایک رب یعنی اتفاق کو تو خود اپنے ہاتھوں سے مارنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ان کی تحقیق بصیرت کے اس مقام پر جا پہنچے گی کہ انہیں یہ امکان بھی اسی طرح ناممکن نظر آئے گا کہ ارتقاء کرتی ہوئی زندگی خود اپنا رب ہے تب ان کے لئے سوائے اس کے چارہ نہیں رہے گا کہ قرآن کے ہم زبان ہو کر یہ اعلان کر دیں کہ اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام ارتقاء کرتے ہوئے جہانوں کا رب ہے.یہ تو نئی تحقیق کے ہاتھوں اتفاق کا حشر ہے مگر زندگی کو خود اپنا ہی رب قرار دینے والوں کا حال بھی کچھ کم دردناک نہیں.وہ زندگی میں ترقی کا مادہ دیکھ کر اپنے آپ کو یہ تو کسی نہ کسی طرح منوا لیتے ہیں کہ یہ ترقی کی خواہش ہی رب الارتقاء ہے مگر جب اس مسئلہ پر غور کرتے ہیں کہ ایسا ذی شعور رب اور حیرت انگیز صانع موت کے منہ سے کس طرح خود بخود نکل آیا ؟ اور اس رب کو پیدا کرنے والا کون تھا؟ تو سخت شش و پنج میں مبتلا ہو جاتے ہیں.سائنس کا ایک ایسا مسئلہ ہے جو آج تک حل نہیں ہو سکا.آج کوئی ایسا فلسفہ بھی دنیا کے لئے قابل قبول نہیں رہا جو اس مادی عالم سے تعلق رکھتا ہو مگر قانون طبعی اس کی تائید نہ کرتا ہو.چنانچہ زندگی کی ابتدا کے متعلق بھی گزشتہ ایک سوسال میں یا اس سے پہلے جتنے بھی نظریات پیش کئے گئے ہیں سائنس کے نئے انکشافات نے ان کو بالکل جھٹلا دیا ہے.سب سے پہلے ریڈی (Francesco Redi) نے تقریباً سترھویں صدی کے وسط میں اپنے بعض تجربوں سے یہ ثابت کیا کہ یہ جو ہم گلے سڑے گوشت سے کیڑے مکوڑے پیدا ہوتے دیکھتے ہیں یہ دراصل ان انڈوں سے پیدا ہوتے ہیں جو مکھیاں ایسے گوشت پر چھوڑ جاتی ہیں.جب یہ ٹوٹ پھوٹ کر کیڑوں مکوڑوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ ابھی مردہ مادہ میں سے پیدا ہوئے ہیں.اس انکشاف کے حق میں اور خلاف سائنسدانوں نے ایک مدت تک بحث کی کیونکہ ان کے تجربے ناقص تھے اور انہیں ایک دوسرے کی تردید اور نکتہ چینی کے بہت سے مواقع میسر تھے مگر
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 32 32 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی ۲۶۹۱۰ ۱۸۶۲ء میں پاسچر (Louis Pasteur) نے اپنے ٹھوس تجربوں اور نا قابل تردید دلائل پیش کر کے اس دلچسپ بحث کا خاتمہ کر دیا اور ان سائنسدانوں نے ہمیشہ کے لئے ہتھیار ڈال دیئے جو یہ کہتے تھے که زندگی مردہ چیزوں سے خود بخود پیدا ہوئی ہے.شروع میں بھولے بھالے مذہبی لوگوں نے سمجھا کہ یہ نظریہ خدا کے تصور کے خلاف ہے اور انہوں نے دل کھول کر اس کی مخالفت کی اور کفر کے فتوے لگائے مگر آہستہ آہستہ اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا اور بہت سے خدا کے قاتل سائنسدان دھڑلے سے اس امر کو خدا کی ہستی کے ثبوت کے طور پر پیش کرنے لگے.در حقیقت آج بھی یہ انکشاف خدا تعالیٰ کی ہستی کا ایک ایساز بر دست ثبوت ہے کہ منکرین آج تک اس کا کوئی تشفی بخش جواب نہیں دے سکے.خدا کے قائل یہ کہتے تھے اور آج تک کہتے ہیں کہ جب زندگی مردہ سے خود بخود پیدا ہو ہی نہیں سکتی تو پھر تم اسے خود اپنا رب کس طرح قرار دے سکتے ہو؟ لازماً ایک بیرونی ہستی کو رب قرار دینا پڑے گا.اس کے جواب میں بعض سائنسدانوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ دراصل زندگی پیدا ہوئی نہیں بلکہ قدیم سے ہے.یہ بعینہ وہی عقیدہ ہے جو آریہ تسلیم کرتے ہیں.آریوں کے نزدیک بھی روح اور مادہ دونوں قدیم ہیں اور کبھی پیدا نہیں ہوئے.آریوں کے لئے تو یہ کہنا کچھ مشکل نہیں تھا کیونکہ وہ گھر بیٹھے جو مرضی کہتے رہتے اور مشاہدات قدرت سے بے نیاز ہو کر جو چاہتے فلسفہ پیش کر دیتے.مگر سائنسدان چونکہ اپنے نظریات کی بنیاد معلوم مشاہدات پر رکھتے ہیں ان کی راہ میں اس نظریہ کو پیش کرنے میں بعض سخت مشکلات حائل تھیں.سب سے بڑی مشکل تو یہ تھی کہ یقینی طور پر یہ زمین کبھی ایک پگھلا ہوا سیال مادہ تھی اور جیسا که قرآن کریم بھی بیان فرماتا ہے سیال حالت سے پہلے یہ ایک دھویں کی صورت میں تھی اور اس وقت اس کا درجہ حرارت اتنا زیادہ تھا کہ کسی چیز کا اس گرمی میں زندہ رہنا اس سے بھی زیادہ ناممکن تھا کہ کوئی مکھی پگھلے ہوئے لوہے میں زندہ رہے.اس لئے لاز م وہ یہ تسلیم نہیں کر سکتے تھے کہ زندگی اس دنیا پر ہمیشہ سے موجود تھی.چنانچہ اس مشکل سے بچنے کے لئے بعض دہر یہ سائنسدانوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ زندگی زمین کے اندر کسی دوسرے ستارے یا خلا سے اس وقت نازل ہوئی تھی جب زمین ٹھنڈی ہوکر اس قابل ہو چکی تھی کہ اس میں چیزیں زندہ رہ سکیں.اس نظریہ پر ایک تو لازماً یہ اعتراض پڑتا تھا کہ پھر ان بیرونی ستاروں یا خلا میں زندگی کہاں سے آئی ؟ مگر بہر حال بیسیوں سال تک یہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 33 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالٰی ۲۶۹۱ نظریہ سائنسدانوں کے درمیان اختلاف کا موجب بنا رہا.اس نظریہ کے قائل تو یہ کہتے تھے کہ زندگی کے جراثیم ٹوٹنے والے ستاروں یعنی شہب ثاقب پر سوار ہو کر ہماری دنیا میں داخل ہوئے.مگر اس کے مخالفین کے پاس اس کے خلاف یہ نا قابل تردید دلیل تھی کہ جب بھی کوئی ٹوٹا ہوا ستارہ زمین کے دائرہ میں داخل ہوتا ہے ، ہوا کے ساتھ اس کی رگڑ کی وجہ سے اتنی گرمی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ایک شہاب مبین یعنی آگ کا بھڑکتا ہوا شعلہ بن جاتا ہے.سائنسدانوں کا یہ نظریہ کہ یہ زندگی بیرونی دنیا سے آئی ہے یہ بھی غلط ثابت ہو گیا کیونکہ شہب ثاقب زمین میں داخل ہوتے ہی جل جاتے ہیں.اس کے بعد بعض سائنسدانوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ باہر سے شہب ثاقب پر سوار ہو کر زندگی نہیں آئی بلکہ شعاعوں کے اوپر سوار ہو کر آئی ہے لیکن جب نئی تحقیق نے یہ ثابت کر دیا کہ جن شعاعوں کے اوپر وہ ان کو سوار کراتے ہیں وہی زندگی کی قاتل ہیں تو یہ نظریہ بھی خود بخود دھڑام سے زمین پر آ رہا.خصوصاً اس نظریہ کے تابوت پر حال ہی میں روسی تحقیقات نے آخری کیل ٹھونک دی ہے اور یہ اب ہمیشہ کے لیے مر چکا ہے کیونکہ روس نے جو فضا میں راکٹ پھینک کر اس بارہ میں معلومات حاصل کی ہیں ان سے تو یقینی طور پر یہ امر ثابت ہو گیا ہے کہ باہر سے زندگی کے اس زمین میں داخل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا.اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زندگی ہمیشہ سے موجود نہیں بلکہ زمین کے ٹھنڈا ہونے کے بعد اس دنیا میں بنی یہ عجیب تصرف ہے کہ انیسویں صدی کے آخر پر ایک طرف تو عقلی دلائل کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس نظریہ کے خلاف آریوں سے برسر پر کار تھے کہ زندگی قدیم سے ہے اور دوسری طرف یورپ کے بہت سے سائنسدان تجربات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ زندگی کا قدیم سے ہونا ناممکن ہے.چنانچہ دونوں میدانوں میں اس نظریہ کے قائلین کو بری طرح شکست اٹھانی پڑی اور آج سے ستر اسی برس پہلے جو بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عقلی دلائل کے ذریعہ ثابت فرمائی تھی آج دہر یہ روس کے سائنسدان سائنس کی رو سے انہیں کے حق میں نا قابل تردید ثبوت پیش کر رہے ہیں اور اس آر یہ نظریہ کو قطعی طور پر جھٹلا رہے ہیں کہ زندگی ہمیشہ سے موجود چلی آتی ہے.آج روس اپنے سائنسی انکشافات کا عصا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ میں دے رہا ہے اور میرا یہ یقین ہے اور میرا یہ ایمان ہے کہ وہ دن اب بہت دور نہیں رہے کہ جب
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 34 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی ۲۶۹۱ قانون قدرت کا ایک ایک حرف قانون شریعت کے حق میں گواہی دے گا اور اس کلام کے ایک ایک لفظ پر مہر تصدیق ثبت کرے گا جو خدا کا کلام ہے اور محمد مصطفی ﷺ کے دل پر نازل ہوا.میرا یہ یقین اس لئے ہے کہ آثار ہمیں یہ بتاتے ہیں اور خدا کا کلام بھی یہی خبر دیتا ہے کہ آئندہ زمانہ کے سب بچے انکشافات وحی الہی کے مطابق ہوں گے.جیسا کہ فرمایا: إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَاَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا يَوْمَبِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا ( الزلزال :۲-۱) جس دن زمین خوب ہلائی جائے گی.اور اپنے بوجھ اگل دے گی.اور انسان حیرت اور استعجاب سے کہے گا کہ اسے کیا ہو گیا ہے؟ اس روز وہ اپنی خبریں بیان کرے گی.کیونکہ تیرے رب نے اس پر اس امر کی وحی کی ہے.زندگی کی پہلی منزل کے ناقابل فہم معمہ کو حل کرنے کے لئے اور ایک بیرونی رب سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے دہر یہ سائنسدانوں نے اور بھی کئی حل پیش کئے جن میں سے ایک یہ تھا کہ زندگی کی ابتدا ایک لمبے ارتقائی طریق پر ہوئی یعنی پہلی جاندار ہستی بھی ایک دم پوری طرح زندہ نہیں ہوئی بلکہ آہستہ آہستہ تھوڑے تھوڑے زندگی کے آثار اس میں پیدا ہونے شروع ہوئے.یہ عقیدہ بھی اول تو تاج محل کی اس مثال سے ملتا جلتا ہے جو میں نے پہلے بیان کی تھی اور دوسرے اس کے متعلق سائنسدانوں نے اور بھی بہت سی بحثیں کی ہیں اور آخر کار موجودہ سائنس نے اس کو بھی بالکل بے بنیا د اور خلاف عقل قراردے دیا ہے.چنانچہ اس بارہ میں میں اوپارین Aleksandr Ivanovich Oparin) کی مثال آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.او پارین جو روس کا دہر یہ سائنسدان ہے اس کو میں نے اس لئے چنا ہے کہ یہ ایک دہریہ کا حوالہ خدا کے حق میں زیادہ قابل قبول ہونا چاہئے.او پارین روسی ماہر حیاتیات ہیکل (Ernest Heackel) وغیرہ کے اس نظریہ کو صریح غلط قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے: تجربہ سے جو بھی حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں وہ اس دعوی کے بالکل برعکس اور صریحاً مخالف ہیں.ہم کائنات میں کہیں بھی موت سے زندگی کو
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 35 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی ۲۶۹۱۰ پہلی مرتبہ پیدا ہوتے ہوئے نہیں دیکھتے.اور تجربہ گاہوں میں مصنوعی آلات کے ذریعہ زندگی پیدا کرنے کی ہماری تمام کوششیں نا کام (....).“ پس یہ نظریہ کہ زندگی کا ارتقاء خود ہی اپنا رب ہے اسی طرح کا ایک بے بنیا د نظر یہ ثابت ہو رہا ہے جیسے یہ نظریہ کہ اتفاق ہی اس ارتقاء کا رب تھا اور سائنس جوں جوں اس سوال کی چھان بین کرتی چلی جاتی ہے اس کے سامنے اور مشکل اور مشکل سوال ابھرتے چلے آتے ہیں.وہ زندگی کے بظاہر سادہ نظر آنے والے ذرات جن کے متعلق پہلے سائنسدان بھی سمجھا کرتے تھے کہ ان کا خود بخود پیدا ہونا کچھ مشکل نہیں.اب نئی تحقیق کی روشنی میں بذات خود اسرار کا ایک جہان اپنے اندر لئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں.وہ بالکل ابتدائی قسم کے جاندار بھی بظاہر جن کی شکل ایک مٹی کے آبخورے سے زیادہ عجیب نظر نہیں آتی تھی اب نئی تحقیقات کی روشنی میں نہایت پیچ دار اور پر اسرار دکھائی دے رہے ہیں.خدا تعالیٰ کی قدرت کاملہ نے ہر جہان میں ان گنت ذرے اور ہر ذرے میں ان گنت اسرار کے جہان پوشیدہ کر رکھے ہیں.عے کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا ایک دہر یہ سائنسدان کے لئے یہ انکشافات ایک لا متناہی سوالات کی زنجیر بن کر ابھر آتے ہیں.مگر مومن کی نظر جب ان پر پڑتی ہے تو اس کی روح یہ گواہی دیتے ہوئے سجدہ ریز ہو جاتی ہے کہ ذلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ (الانعام : ۱۰۳) وہ اللہ ہی تمہارا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، ہر چیز کا وہی خالق ہے پس اس کی عبادت کرو وہ ہر چیز پرنگران ہے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 37 37 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟۳۶۹۱ء کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟ سكتة ( بر موقع جلسه سالانه ۱۹۶۳ء) تشہد، تعوذ کے بعد آپ نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهُ عِوَجَاةٌ قَيِّمَا لِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِنْ لَّدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصّلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنانُ مَاكِثِينَ فِيْهِ اَبَدًا وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللهُ وَلَدًان مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِأَبَا بِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا (الكهف : ٢-٦) عیسائی نظریہ کفارہ کو عام فہم رنگ میں عوام الناس کو سمجھانے کے لئے اسے ایک تصویری زبان میں پیش کیا جا سکتا ہے.میرے ذہن میں جو تصویر ابھرتی ہے وہ کچھ اس قسم کی ہے کہ کروڑوں کروڑ انسان گناہوں کی قیود میں بندھے پڑے ہوں اور ہاتھ پاؤں ہلانے کی سکت نہ ہو.ان بے چاروں کی تو مشکیں کسی ہوئی ہوں اور شیطان کو سانڈھ کی طرح ان پر آزاد چھوڑا گیا ہو کہ ان بندھے ہوئے انسان کو خوب دل کھول کر آزار دے.اس مصیبت سے نکلنے کی انہیں کوئی راہ نظر نہ آئے.اتنے میں ایک طرف سے اچانک نجات نجات کی خوش کن آواز میں آنے لگیں اور سب
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 38 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟ ۳۶۹۱ء قیدیوں کی نظریں اس امید سے اس طرف اٹھیں کہ شاید کوئی قوی ہیکل انسان انہیں شیطان لعین کے چنگل سے رہائی دلانے کے لئے آیا ہے.لیکن ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہے جب اس کی بجائے ایک کمزور ، نحیف ، لاغر شخص ان کی طرف آتا دکھائی دے.وہ آتے ہی اس جابر شیطان سے یوں مخاطب ہو کہ اگر چہ میں رب العالمین ہوں ( نعوذ باللہ من ذلک ) اور قادر مطلق بھی ہوں مگر میں زبر دستی ان لوگوں کو تم سے چھڑا کر فاؤل (Foul) نہیں کھیلنا چاہتا.جب تم نے جائز طور پر انہیں پچھاڑ گرایا ہے تو پھر میرا ز بر دستی ان کو آزاد کرانا انصاف اور کھیل کے اصولوں کے منافی ہے اس لئے میں یہ پیشکش کرتا ہوں کہ ہمیشہ کے لئے ان سب کو باندھ کر پیٹنے کی بجائے تین دن کے لئے نعوذ باللہ مجھے باندھ کر پیٹ لو اور ان سب کو آزاد کر دو.اس پر اگر وہ احمق شیطان ان سب کو آزاد کر دے اور ان کے بدلہ میں اس منجی کو تین دن کے لئے باندھ لے تو یہ بعینہ کفارہ کی کہانی بن جائے گی.لیکن صرف اس کہانی کو پیش نظر رکھ کر حقیقت کفارہ پر غور نہیں ہو سکتا اور اس امر کی چھان بین کے لئے کہ کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے یا نہیں؟ ضروری ہے کہ ہم اس بارے میں مختلف عیسائی نظریات کا تجزیہ کر کے کسی نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کریں.عیسائیت انسانی صلاحیتوں کے بارے میں ایک نہایت ہی تاریک اور مایوس منظر پیش کرتی ہے جس کے مطابق انسان جو کہ طبعا گناہ گار واقعہ ہوا ہے اگر چاہے بھی تو خدا تعالیٰ سے کبھی وصال حاصل نہیں کرسکتا.انسانی پیدائش انسان کے لئے ایک ابدی ہلاکت اور لعنت کا پیغام لے کر آتی ہے.اس کامل تاریکی اور مایوسی کا تصور جمانے کے بعد عیسائیت اس جد وجہد میں مصروف ہو جاتی ہے کہ کسی طرح آسمانی نور کی کوئی کھڑ کی ایسی کھول دی جائے جس راہ سے نورانی شعاعیں داخل ہو کر تار یک انسانی مستقبل کو سراپا نور میں تبدیل کر دیں.لیکن اگر چہ عیسائیت کے نزدیک خدا تعالیٰ فضل بھی ہے، رحم بھی اور محبت بھی مگر اس تلخ حقیقت سے تو انکار نہیں ہوسکتا کہ ان کے علاوہ اس کی ایک صفت عدل بھی ہے.جب کبھی بھی ڈوبتی ہوئی انسانیت کو اس ہلاکت سے بچانے کی خاطر اس کے فضل اور رحم کا ہاتھ انسان کی طرف بڑھتا ہے کہ اس کی مدد کا طالب ہاتھ تھام کر اسے ہلاکت کے گڑھے سے نکال لے اس کا عدل اپنے دونوں متوازن بازو پھیلا کر ان کی راہ روک کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ نہیں آگے مت بڑھو کیونکہ جب تک نا پاک انسان اپنے گناہوں کو پھل نہ چکھ لے اسے خدائے
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 39 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟ ۳۶۹۱ء قدوس سے ملنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہوتا اور گناہوں کا پھل کیا ہے؟ بیشگی کی موت اور لعنت اور خدا سے دوری.پس خدا تعالیٰ کے فضل کو ایک عجیب مخمصہ در پیش آجاتا ہے.فضل تو بضد ہوتا ہے کہ انسان اپنے گناہوں کی پاداش میں ہمیشگی کی لعنت سے بچایا جائے اور عدل کو یہ اصرار بہت ہے کہ گناہ گار کو گناہ کا پھل بھی بہر حال چکھنا ہوگا.عیسائیت کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام کے ظہور سے پہلے خدا تعالیٰ کے فضل نے اس مشکل کا یہ حل تجویز کیا کہ خدا تعالیٰ اپنا کلام مختلف انبیاء پر نازل کرتا رہا اور اس زبانی پیغام کے ذریعہ بنی نوع انسان کو گناہ کے چنگل سے نجات دلانے کی کوشش میں مصروف رہا مگر کیونکہ گناہ انسانی فطرت کا ایک لازمی جزو بن چکا تھا اس لئے یہ لاتوں کا بھوت باتوں سے نہیں مانا اور کوئی سلام، کلام، لالچ یاد ھمکی گناہ کے آسیب کو انسانیت کا مسکن چھوڑنے پر آمادہ نہ کر سکے.چنانچہ ایک زمانہ کے تلخ تجربہ کے بعد خدا تعالیٰ نے اپنے کلام کو مجسم کیا اور گوشت پوست سے ایک انسانی بیٹے کی صورت میں نعوذ باللہ حضرت مریم کے پیٹ میں اتارا جہاں سے وہ انسانی صورت لے کر دنیا میں نمودار ہوا.وہ کامل طور پر معصوم تھا، وہ کامل خدا بھی تھا، وہ کامل انسان بھی تھا.وہ جب تک زندہ رہا اپنی قوت قدسیہ اور پاک کلام کے ذریعہ انسان کی اصلاح کی کوشش کرتا رہا لیکن خدا تعالیٰ کا عدل شیکسپیئر کے شائی لاک (Shy Lock) کی طرح پھر بھی انتقام انتقام ہی پکارتا رہا.چنا نچہ اس مسلسل تقاضے سے مجبور ہو کر خدا تعالیٰ کو وہ تلخ گھونٹ بھرنا پڑا جس کے بغیر دراصل چارا نہ تھا اور اس نیک دل روایتی بزرگ کی طرح جس نے ایک ہراساں فاختہ کو ایک بھوکے باز سے بچانے کے لئے اپنی ران کا گوشت کاٹ کر اس باز کے منہ میں ڈال دیا تھا ، خدا تعالیٰ نے بھی نعوذ باللہ اپنے بیٹے کا خون پلا کر اس ظالم عدل کی پیاس بجھائی.پس یوں ہوا کہ مسیح ہمارے گناہوں کا کفارہ بن کر صلیب کی اذیت ناک موت مارا گیا اور نعوذ باللہ تین دن کی لعنتی اور جہنمی موت قبول کر کے انسانوں کو اس قابل بنا گیا کہ وہ مسیح کے خون سے اپنے گناہ دھوسکیں.چنانچہ لکھا ہے کہ ” انہوں نے اپنے گناہ آلود لبادوں کو مینڈھے کے خون سے دھو کر سفید کرلیا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 40 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟۳۶۹۱ء لیکن یہ کفارہ ہر کس و ناکس کے لئے نہیں ہوا بلکہ صرف انہیں لوگوں کے لئے جو مسیح کی اس عظیم قربانی پر ایمان لائیں اور اس کے طفیل ندامت اور توبہ کے آنسوؤں سے اپنے گناہوں کو دھو ڈالیں.پس جب اس آخری شرط کے ساتھ حقیقت کفارہ پر نظر ڈالی جائے تو اس کا ماحصل مختصر الفاظ میں یہ بنے گا کہ مسیح کے کفارہ کے نتیجہ میں گناہ کے وہ پختہ داغ جو پہلے تو بہ کے آنسوؤں سے بھی نہیں دھل سکتے تھے ایک کچی سیاہی میں تبدیل ہو گئے اور اب ان کے دھل جانے کا امکان پیدا ہو گیا.ہر انسان کے گناہ گار ہونے کا نظریہ چونکہ نظریہ کفارہ کی بنیاد اس مفروضہ پر ہے کہ ہر انسان لازما گناہ گار ہے اور گناہ کے چنگل سے کسی طرح بھی بچ نہیں سکتا اس لئے سب سے پہلے ہم اسی کی چھان بین کرتے ہیں.یہ خیال اگر چہ یہود میں بھی پایا جاتا تھا مگر عیسائیوں میں سب سے پہلے سینٹ پال ( Saint Paul) نے اسے ایک مخصوص رنگ میں اپنایا اور اسی پر نظریہ کفارہ کی بنیاد رکھی.اس نے اسے اس رنگ میں پیش کیا کہ اول : آدم نے گناہ کیا.دوئم یہ گناہ اس کی نسل میں بھی وراثتا منتقل ہونے لگا اور اس کے نتیجے میں گناہ کی ایک دبی دبی تمنا انسانی فطرت میں سرایت کر گئی.یہ تمنا ایک تیل کی طرح ہے جسے قانون شریعت کا علم آگ دکھاتا ہے اور جو نہی یہ علم حاصل ہوتا ہے اس کے خلاف بغاوت کا جذبہ معاً آگ کی طرح بھڑک اٹھتا ہے.سوئم : انسانی موت اسی گناہ کی سزا ہے.چہارم : انسانوں کو اس مصیبت سے نجات دلانے اور موت کے چنگل سے رہائی دلانے کی خاطر نعوذ باللہ خدا کے بیٹے نے خود اپنے اوپر موت قبول کرلی اور اس طرح آدم" کے اس گناہ کا کفارہ ہو گیا لیکن چونکہ اس کفارہ کا فیض صرف ان بنی آدم کو پہنچ سکتا ہے جو صیح اور حقیقت کفارہ پر ایمان لائیں اس لئے فطری گناہ سے نجات پانے کے لئے پانچویں شق یہ ہے کہ واحد حل بپتسمہ میں مضمر ہے.یہ نظریہ کفارہ کی عمارت کے لئے بنیاد کے طور پر ہے.ایک لحاظ سے تو معقول ترین نظریہ ہے کیونکہ جس مقصد کی خاطر یہ نظریہ گھڑا گیا ہے اسے یہ بدرجہ کمال پورا کرتا ہے.لیکن ایک پہلو سے یہ نا معقول ترین نظریہ بھی ہے کیونکہ جب عقل کی کسوٹی پر اسے پرکھ کر دیکھتے ہیں تو معمولی عقل کے معیار پر بھی اس کا کوئی جز و پورا نہیں اترتا.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 41 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟ ۳۶۹۱ء دیکھئے اول تو ایسے اہم نظریہ کی بنیاد جو انسان کی روح کے لئے زندگی اور موت کا سوال ہو ایک نہایت ہی کمزور غیر ثابت شدہ دعوئی پر رکھی گئی ہے.یعنی اس دعوی پر کہ آدم نے گناہ کیا.تاریخی شواہد سے ہرگز آدم کا گناہ گار ہونا ثابت نہیں ہوسکتا اور اگر بائبل کو الہامی تسلیم کر کے یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ بائبل غیر مبدل اور محفوظ ہے تو بھی خود بائبل کا بیان آدم کے گناہ کے بارے میں ایسا واضح نہیں کہ اس کی تشریح میں اختلاف کی گنجائش نہ ہو.دوسرے یہ مسئلہ چونکہ تمام بنی نوع انسان سے تعلق رکھتا ہے جن میں ہندو بھی ہیں ، بدھ بھی ، زرتشتی بھی اور کنفیوشس بھی.اس لئے ایسے اہم مسئلہ پر جب تک ٹھوس نا قابل تردید تاریخی شہادتیں پیش نہ کی جائیں اس وقت تک اس دعویٰ کی حقیقت مفروضہ سے آگے نہیں بڑھ سکتی.پس اس پہلو سے آدم کے گناہ کو ثابت کرنے کے لئے محض بائبل کا بیان کافی نہیں ہوسکتا بلکہ ایسی غیر جانب دارانہ تاریخی شہادتیں پیش کی جانی ضروری ہیں جو بلا امتیاز مذہب و ملت ہر انسان کے لئے قابل قبول ہوں.بائبل کی گواہی تو اتنی کمزور ہے کہ اسے الہامی تسلیم کرنے والوں کے لئے بھی یہ گواہی کافی نہیں.یہ دعوی بھی کہ آدم کا گناہ نسل انسانی میں سرایت کر کے وراثتاً اولا در اولاد میں منتقل ہوتا چلا جاتا ہے ایک نہایت ہی بے بنیاد اور نا معقول دعوئی ہے.نہ صرف یہ کہ اس کے حق میں کسی قسم کے فلسفیانہ یا سائنسی شواہد نہیں ملتے بلکہ اب تک سائنس نے علم وراثت حیوانی سے متعلق جو کچھ بھی معلومات فراہم کی ہیں وہ تمام اس عقیدہ کا بطلان ثابت کر رہی ہیں.سائنس کے ان انکشاف کی رو سے تو اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ آدم نے اس گناہ پر زندگی بھر ہر لمحے ، ہر سانس میں عمل کیا ہو بلکہ آدم سے لے کر آج تک کی تمام نسل انسانی مسلسل اپنی تمام زندگیاں بھی اسی گناہ کی تکرار کرتی رہی ہوں تب بھی اس پانچ چھ ہزار سال کی قلیل مدت میں وہ گناہ انسان کی سرشت میں داخل نہیں ہوسکتا.اس مسئلہ کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ انسانی خیالات اور افعال کے اثرات بعینہ اسی طرح اولاد میں منتقل ہو سکتے ہیں تو پھر جس طرح گناہ کو یہ حق پہنچتا ہے کہ ایک نہ ختم ہونے والا ورثہ بن کہ زندگی کے ذرات میں جذب ہو جائے نیکیوں کو کیوں یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بھی گناہ کی طرح انسانی زندگی کا جزوِ لا ینفک بن جائیں.حیرت کی بات ہے کہ آدم کی ایک لمحہ کی بدی تو ہمیشہ کے لئے اس کے مادہ افزائش میں محفوظ کر دی گئی لیکن اس کی عمر بھر کی نیکیاں، اس کی تو بہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 42 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟۳۶۹۱ء اور اس کا استغفار اور وہ تمام بھلائیاں جو وہ عمر بھر کرتا رہا اس کی موت کے ساتھ ہی پیوند خاک ہو گئیں.وہ تمام نیکیاں اس کی اولاد کو فطر تا نیک نہ بنا سکیں اور وہ ایک بدی بنی آدم کا مستقبل ہمیشہ کے لئے تاریک کر گئی.اس نظریہ پر ایک اور اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ اگر اسے درست تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس سے زیادہ سے زیادہ یہی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ اس آدم کی اولا د گناہ گار ہوئی جس آدم نے وہ مبینہ گناہ کیا تھا لیکن اس امر کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ تمام بنی نوع انسان ایک ہی آدم کی اولاد ہیں اور جب تک یہ ثابت نہ کیا جائے اس وقت تک یہ نظریہ کسی عالمی کفارہ کی بنیاد نہیں بن سکتا.اگر مشرق اور مغرب کی مختلف اقوام اور کالوں اور گوروں کے مختلف آدم ہو سکتے تو جہاں تک کفارہ کی ضرورت اور ابن اللہ کے انسانی جسم اختیار کرنے کا سوال ہے یہ نظریہ مہمل ہو کر رہ جاتا ہے.دلیل تو اس طرح پر قائم کی گئی ہے کہ چونکہ بنی نوع انسان وراثتی گناہ کی وجہ سے لازماً گناہ گار ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی معصوم پیدا نہیں ہو سکتا جو دوسرے گناہ گاروں کا بوجھ اٹھا سکے اس لئے ضرورت تھی کہ ابن اللہ آسمان سے نازل ہو کر انسانی جسم اختیار کرتا اور ہمارے گناہوں کا بوجھ اُٹھا کر خدا کے عدل کی پیاس بجھاتا.لیکن اس صورت میں کہ بنی نوع انسان تمام کے تمام اس ایک آدم کی اولا د ثابت نہ ہوں ان سب کا گناہ گار ہونا بھی قطعاً ثابت نہیں ہو سکتا ہے اور ضرورت ہی باقی نہیں رہتی کہ ہم کسی معصوم قربانی کی تلاش میں آسمان کی طرف نگاہ لگائے بیٹھے رہیں.اس امکانی اعتراض کے جواب میں بعض عیسائی مفکرین یہ کہہ دیتے ہیں کہ اگر چہ یہ تو ممکن ہے کہ ایک سے زیادہ آدم ہوں لیکن ان کی اولادوں کی آپس میں بیاہ شادیوں کے ذریعہ تمام بنی نوع انسان کا خون اس گناہ گار آدم کے خون کی ملاوٹ سے گدلا ہو سکتا ہے.اس خیالی جواب کو سن کر کوئی عقل مطمئن نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس امر کی مکمل تحقیقات اور اعداد و شمار نہ پیش کئے جائیں کہ مشرق ومغرب کی جملہ اقوام یعنی زردہ، گوری اور کالی اور سرخ، چھٹے ناکوں والی اور اونچے ناکوں والی غرضیکہ سطح ارض کے تمام انسانوں کا خون اس آدم کے خون کے ساتھ گھل مل چکا ہے جس نے بائبل کے بیان کے مطابق گناہ کیا تھا.اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ تمام بنی نوع انسان خواہ وہ کسی رنگ کے ہوں اور کسی ملک کے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 43 لله کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟ ۳۶۹۱ء رہنے والے ہوں ایک ہی آدم کی اولاد ہیں تو سوال یہ پیدا ہوگا کہ کیا وہ آدم وہی تھا جس کے متعلق بائبل میں آتا ہے کہ اس نے گناہ کیا ؟ یہ ایک اور سوال ہے ادنیٰ سے غور سے بھی یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ محض چھ ہزار سال کی قلیل مدت میں حضرت آدم" ہم سے چھ ہزار سال پہلے گزرے ہیں، پس چھ ہزار سال کی قلیل مدت میں ، یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک آدم کی اولا د ایک دوسرے سے اتنی بنیادی طور پر مختلف ہوگئی ہو.ہزار ہا سال کی انسانی تاریخ جو محفوظ ہے اس سے تو یہی پتا چلتا ہے کہ چینی آج سے ہزاروں سال پہلے بھی یہی نقوش رکھتے تھے اسی طرح ان کے چیٹے ناک ہوا کرتے تھے اور زردرنگ ہوا کرتے تھے جو وہ آج رکھتے ہیں اور انگریزوں یا دوسری یورپین اقوام یا حبشیوں یا عربوں سے ان کی کوئی بھی مشابہت نہ پہلے تھی نہ اب ہے.چینیوں پر ہی موقوف نہیں دنیا کی کسی قوم کی تاریخ کو بھی اٹھا کر دیکھ لیجئے نقوش کی کسی تدریجی تبدیلی کا کوئی پتا نہیں چلتا.مزید برآں اس صدی کے سائنس کے انکشافات نے تو قطعی طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ انسان کا وجود آدم کے وجود سے ہزاروں سال پہلے سے موجود ہے اور اس طرح انسانوں کا مختلف بر ہائے اعظموں پر پھیلاؤ بھی حضرت آدم“ کے وجود سے ہزاروں سال قبل ہو چکا تھا.پس ان قطعی شواہد کی روشنی میں لازماً ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بائبل کا بیان کردہ آدم اور تھا اور ہمارا باپ جد امجد جو واحد آدمی تھا وہ کوئی اور تھا.ہم سب کا مشترکہ باپ حضرت آدم سے ہزار ہا سال پہلے کسی نامعلوم خطہ ارض میں پیدا ہوا تھا.پس اس پہلو سے بھی آدم کے فعل کی وجہ سے تمام بنی نوع انسان کا گناہ گار ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوسکتا.موت اور گناہ کا تعلق سینٹ پال Saint Paul) کے وراثتی گناہ کے نظریہ کی ایک شق یہ ہے کہ موت اس گناہ کا پھل ہے اور موت کا وجود گناہ کے وجود کو ستلزم ہے.اس نظریہ کے مطابق اگر آدم گناہ نہ کرتا یا گناہ اس کی اولاد میں منتقل نہ ہوتا تو بنی آدم موت کی لعنت میں مبتلا نہ کئے جاتے.اگر تو موت سے مراد اس جگہ روحانی موت ہے تو آدم سمیت آج تک کے تمام انسان روحانی طور پر مردہ شمار ہونے چاہئیں جو آدم کی نسل میں سے ہیں اور اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ میچ پر ایمان لانے سے یہ موت ٹل
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 44 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟۳۶۹۱ء جاتی ہے تو کم از کم مسیح سے پہلے کے تمام انسان اور مسیح کے بعد کے تمام غیر مسیح انسان روحانی مردے شمار کرنے پڑیں گے خواہ انہیں مسیح کا پیغام پہنچا ہو یا نہ پہنچا ہو.لیکن یہ دعوی خدا تعالیٰ کی صفت عدل پر ایک اتنا بڑا داغ ہے کہ جسے لاکھ مسیحوں کا خون بھی دھو نہیں سکتا.ایک آدم کی ایک غلطی کے نتیجہ میں اس کی ساری تو بہ اور استغفار کو نظر انداز کر کے اس کی ساری نیکیوں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اس کی روح کو بھی ہمیشگی کی موت اور ابدی لعنت میں مبتلا کر دینا اور اس کی اولاد کی بڑی بھاری اکثریت کو بھی قیامت کے دن تک اس موت کا وارث قرار دیتے چلے جانا کسی عادل خدا کا تو کیا کسی ظالم خدا کا بھی فعل نہیں ہو سکتا.ایسا ظلم اور ایسی بے رحمی اور ایسی سفا کی کسی ظالم سے ظالم بے دین جابر بادشاہ کی طرف بھی منسوب نہیں کی جاسکتی.ہلا کو اور چنگیز نے بھی اپنی ساری زندگیوں میں وہ مظالم نہیں توڑے ہوں گے جو یہ نظریہ خدا کی طرف منسوب کر رہا ہے.وہ تو چند انسانوں کے خون میں ہاتھ دھو کر ایسے مطعون ہوئے کہ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ان کا نام سرخ حرفوں میں لکھا جانے لگا لیکن عیسائیت کا خدا ایک آدم کی ایک لغزش کے عوض میں قیامت تک اس کی اولاد در اولا د اور ان کے جسموں کو ہی نہیں بلکہ روحوں تک کو ہلاک کر رہا ہے.كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا کہ بہت ہی بڑی بات ہے جو وہ خدا کے متعلق کہتے ہیں.یقیناً یقیناً وہ جھوٹ بول رہے ہیں.یہاں یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ضرورت کفارہ کو ثابت کرنے کے لئے خدا کے عدل کو پیش کیا جاتا ہے اور دعوی یہ کیا جاتا ہے کہ چونکہ وہ عادل ہے اس لئے اسے بہر حال گناہوں کی سزا دینی تھی اور معافی کا اس کے بغیر کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.لیکن وراثتاً گناہ کا تصور اور اس کی غیر محدود سزا کا آدم کی نسلوں میں جاری ہو جانا خدا کے عدل کو سرے سے باطل کر دیتا ہے.اس موقع پر وہ لطیفہ یاد آ جاتا ہے کہ ایک بے وقوف اسی شاخ کو کاٹ رہا تھا جس پر وہ خود بیٹھا ہوا تھا.پس عیسائیت بھی جس عدل کی شاخ پر بیٹھی ہوئی ہے، نجات کا انتظار کر رہی ہے، خود اپنے ہی ہاتھوں اسی شاخ کو کاٹ رہی ہے.معلوم ہوتا ہے پولوس Saint Paul) نے تمام نسل انسانی کو گناہ گار ثابت کرنے کی خاطر اس نظریہ کا سہارا لیا ہے کیونکہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ موت گناہ کا پھل ہے تو چونکہ موت کی دست برد سے کوئی انسان محفوظ نہیں ہر انسان کو لازما گناہ گار تسلیم کرنا پڑے گا.
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 45 45 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟۳۶۹۱ء پولوس کے پیش کردہ وراثتی گناہ کے نظریہ پر جو عقلی اعتراضات وارد ہوتے ہیں ان سے بچنے کے لئے عیسائی مفکرین نے اس نظریئے کو ایک اور رنگ میں بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے.خصوصاً اس زمانہ میں علم وراثت حیوانی کے انکشافات کے بعد کم ہی ایسے تعلیم یافتہ عیسائی ہوں گے جو وراثتی گناہ کے نظریہ کے قائل رہے ہوں.انہی اعتراضات کے پیش نظر آرچ بشپ آف کیٹری اینڈ یارک (Arch Bishop of Canterbury and York) نے ۱۹۲۲ء میں ایک کمیشن مقرر کیا تھا جس کا کام یہ تھا کہ چرچ آف انگلینڈ کے جملہ عقائد کی چھان بین کر کے انہیں نئے علوم کی روشنی میں ڈھال کر پیش کرے.یہ رپورٹ بھی اگر چہ تسلیم کرتی ہے کہ ہر انسان بہر حال گناہ گار ہے لیکن اس کی تو جیہات کے طور پر ایک معقول تو جیہہ پیش کرتی ہے.وہ یہ ہے کہ انسان اپنی طبیعت کے لحاظ سے سوشل Social) ہے، ملنے جلنے والا جانور ہے اس لئے جب آدم کے گناہ کے ذریعہ ایک دفعہ گناہ انسانی سوسائٹی میں داخل ہو گیا تو اس سوسائٹی کے تمام ممبران لازماً اس سے متاثر ہوتے چلے جاتے ہیں.یہ نظریہ اس مسئلہ میں دوسرے عیسائی نظریوں کی نسبت سب سے زیادہ معقول ہے لیکن جہاں تک کفارہ کی ضرورت کو ثابت کرنے کا سوال ہے یہ ایسا کرنے میں بری طرح ناکام رہتا ہے.جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں باوجود اپنی ذات میں سخت نا معقول ہونے کے پولوس Saint) (Paul کا نظریہ ہی وہ واحد نظریہ ہے جس کے صحیح ثابت ہونے کی صورت میں ضرورت کفارہ ثابت ہوسکتی ہے.اس کے برعکس وہ تمام عیسائی نظریات جو عقل کے قریب تر ہیں جوں جوں معقول صورت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں ضرورت کفارہ کو ثابت کرنے سے اسی حد تک عاری ہوتے چلے جاتے ہیں.سوسائٹی کے ذریعہ نسل انسانی میں گناہ کا میلان باقی رہنے کے نظریہ میں یہ کمزوری ہے کہ اس امکان کی کوئی پیش بندی نہیں کی گئی کہ اگر ایک انسان کو سوسائٹی کے اثرات سے الگ محض کتب مقدسہ کی تعلیم کے مطابق پروان چڑھایا جائے تو کیوں اسے معصوم قرار نہ دیا جائے؟ اس کے علاوہ اس امر کا بھی کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا کہ آدم کے گناہ سے جو سوسائٹی ملوث ہوئی تھی وہ سوسائٹی دنیا کی ہر دوسری سوسائٹی پر اثر انداز ہو چکی ہے.
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت طبعا گناہ گار ہونے کا نظریہ 46 46 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟ ۳۶۹۱ء ایک نظریہ یہ ہے کہ انسان طبعا گناہ گار ہے.اس میں دو سوال اٹھتے ہیں : اول کیا واقعی اگر انسان کی فطرت میں گناہ کا میلان پایا جاتا ہے؟ اور دوئم واقعی انسانی فطرت اس گناہ کے میلان سے مغلوب بھی ہو جاتی ہے کہ نہیں ؟ سوال دوئم کا جواب یہ ہے کہ اگر چہ یہ درست ہے کہ فطرت انسانی میں لذات کی طرف رغبت رکھی گئی ہے اور یہ بھی درست ہے کہ بعض صورتوں میں اسی طبعی رغبت سے مغلوب ہو جانا گناہ کی تعریف میں داخل ہو جاتا ہے مگر یہ تسلیم کرنے کے باوجود بھی انسان کا گناہ گار ہونا ثابت نہیں ہوسکتا حتی کہ اگر یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ ہر انسان کو تمام یا بعض گناہوں کی طرف ایک جیسی رغبت ہوتی ہے تو بھی جب تک یہ ثابت نہ کیا جائے کہ فطرت انسانی میں ان رغبتوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت موجود نہیں اور ضروری ہے کہ ہر انسان ان کے سامنے سرتسلیم خم کر دے اس وقت تک اس دلیل کے ذریعہ ہر انسان کا گناہ گار ہونا قطعاً ثابت نہیں ہوسکتا.نیکی اور بدی کی جنگ تو اکثر انسانوں کے سینوں میں جاری رہتی ہے مگر محض اس جنگ کے نتیجہ میں کسی کو گناہ گار قرار دے دینا ایک احمقانہ اور غیر عادلانہ فعل ہوگا.جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ فطرت انسانی میں اس میلان کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے لیکن جب ہم اس سوال اول کو لیتے ہیں تو سرے سے یہ دعوی ہی غلط نظر آتا ہے کہ فطرت انسانی میں گناہ کا میلان پایا جاتا ہے کیونکہ روز مرہ کا مشاہدہ ہمیں بتلاتا ہے کہ رغبت اور کراہت نسبتی چیزیں ہیں.عین ممکن ہے بلکہ قرین قیاس ہے کہ جہاں ایک گناہ گار انسان مثلاً چوری کے حرام مال کے لئے شدید کشش محسوس کرتا ہے وہاں ایک خدا رسیدہ انسان سخت ضرورت کے باوجود بھی اس سے اسی قدر کراہت رکھتا ہے اور یہی حال باقی تمام بدیوں کا ہے.ایک انسان ادنیٰ سے غور سے بھی اس حقیقت کو پاسکتا ہے کہ جن کیفیات کو طبعی میلان کہا جاتا ہے وہ انسان کے ماحول، اس کے مقام، اس کی ذاتی دلچسپیوں، اس کے تعلق باللہ یا خدا سے دوری کے حالات کے زیر اثر بدلتی رہتی ہیں.ان تمام میلانات طبعی کا مرکزی محرک حصول لذت کی تمنا ہے اور لذت کی تعریف ہر انسان کے ذہنی قلبی اور روحانی معیار کے مطابق مختلف ہوتی ہے.پس یہ عمومی دعوی کہ فطرت انسانی میں گناہ کا میلان پایا جاتا ہے ایسا دعویٰ کرنے والوں کی
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 47 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟۳۶۹۱ء انسانی فطرت سے ناواقفیت کی دلیل ہے.میلان صرف حصول لذت کی طرف ہے اور جوں جوں مذاق سلیم ہوتا چلا جاتا ہے لذات گناہوں کی حدود سے نکل کر نیکیوں کی عملداری میں داخل ہونے لگتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ جب کہ ایک مادہ پرست عبادت کے تصور سے بھی گھبراتا ہے ایک عارف ، عابد رات کی تنہائیوں میں اٹھ کر اپنے معبود کے حضور سجدہ ریز ہو جاتا ہے اور اس پر مشقت عبادت میں بھی اسے ایسی لذت محسوس ہوتی ہے کہ کسی دنیا دار انسان کو دنیا کی اعلیٰ ترین لذات میں بھی اس کا عشر عشیر نصیب نہیں ہوتا.فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَإِلى رَبِّكَ فَارْغَبُ (الم نشرح: ۹۸) میں آنحضرت ﷺ کے اسی میلان طبعی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.چنانچہ فَارْغَبُ کا لفظ یہاں خاص طور پر قابل غور ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت کی رغبت روز مرہ کے کام کاج کی طرف نہیں بلکہ نیم شمی عبادات کی طرف تھی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عبارت بھی اس ضمن میں خاص طور پر قابل ذکر ہے.آپ فرماتے ہیں: ”ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ عمل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو.کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں کس وف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں، کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ: ۲۱ - ۲۲) مگر افسوس کہ عیسائی مفکرین کے کان اس خوشخبری کو سننے سے محروم رہ گئے اور ان کی آنکھیں اس بصیرت سے محروم ہو گئیں کہ فطرت انسانی میں ہر گز کسی گناہ کی طرف میلان نہیں پایا جاتا.ہاں حصول لذت کی ایک بے قرار تڑپتی ہوئی تمنا ضر ور فطرت انسانی کا جزو ہے اور عدم معرفت کی بناء پر یہ تمنا بسا اوقات سفلی چیزوں اور گناہ کی گندگی میں اس لذت کے حصول کی کوشش کرتی ہے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 48 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟۳۶۹۱ء لیکن جوں جوں الہی راہنمائی کے نتیجہ میں اسے حقیقی معرفت نصیب ہوتی جاتی ہے بدیوں کی بدزیبی اور نیکیوں کا حسن اس پر ظاہر ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب یہ پاکیزہ فطرت بے اختیار پکار اٹھتی ہے ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اسے دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ یہ تمہیں سیراب کرے گا یہ زندگی کا چشمہ ہے.پس گناہ کے متعلق عیسائی نظریات کو پڑھنے کے بعد یہ افسوس ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ کفارہ کے جواز کو ثابت کرنے کے لئے تمام عیسائی مفکرین کی نظری اور فکری کوششیں اسی الجھن میں ضائع ہو گئیں کہ کسی طرح گناہ کی ایسی تعریف کی جائے کہ ہر انسان میں بلا استثناء اس کا وجود ثابت کیا جا سکے.اس موضوع پر سترہ سو سال میں عیسائی اہل قلم نے جتنے صفحے کالے کئے ہیں اور جس قدر دیئے جلائے ہیں اگر وہ اس کی بجائے اپنا قیمتی وقت حقیقت کفارہ پر غیر جانبدارانہ سوچ و بچار میں صرف کرتے تو بلا شبہ وہ نظر یہ کفارہ کی تاریک بھول بھلیوں سے کبھی کے آزاد ہو چکے ہوتے.اسلامی اصول کی فلاسفی کے چند صفحات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس موضوع پر جو روشنی ڈالی ہے عیسائی مفکرین کی فکر ونظر کی سترہ صدیاں بھی اس کا عشر عشیر نہ پاسکیں.یہ محض اس لئے کہ انہوں نے اپنے فکر کو آزاد نہیں چھوڑا بلکہ پیش نظر ہمیشہ یہ مخصوص مقصد رہا کہ کسی طرح نظریہ کفارہ کے جواز کو ثابت کیا جا سکے.پس اس غلط نظریہ کے نتیجہ میں ان کے بڑے بڑے سور ما فلسفیوں نے بھی ایسی ایسی طفلانہ ٹھوکریں کھائی ہیں کہ عقل انگشت بدنداں رہ جاتی ہیں.Muller کا یہ نظریہ کہ تمام انسان اس لئے گناہ گار ہیں کہ صرف گناہ گار روحوں کو ہی سزا کے طور پر انسان بنایا جاتا ہے.ان مجنونانہ ٹھوکروں کی ایک ادنی سی مثال ہے.خدا کا عدل اور بخشش نظر یہ کفارہ کی دوسری کڑی یہ ہے کہ چونکہ خدا عادل ہے اس لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ بغیر سزا کے کسی مجرم کے گناہ معاف کر دے.اس میں بھی دو بے بنیاد دعوے کئے گئے ہیں.اول یہ کہ خدا ان معنوں میں عادل ہے جن معنوں میں ایک قوانین ملکی کا پابند منصف یا حج عادل ہوا کرتا ہے.دوئم یہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 49 99 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟۳۶۹۱ء کہ ایک منصف کو یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ کسی جرم کے گناہ کو بخش دے خواہ گناہ کیسے ہی حالات میں کیوں نہ کیا گیا ہو.عیسائیت جس صفت عدل کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتی ہے وہ بھی ایک لا یعنی اور لغوصفت ہے اور خدا تعالیٰ کی مقدس ذات کو داغ دار کرنے والی ہے.بڑا ہی منحوس ہے ایک ایسے بے اختیار عادل کا تصور جو معاف کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور بڑا ہی عجیب ہے یہ دعویٰ کہ خدا تعالیٰ ایک ایسا ہی بے اختیار عادل ہے.پھر حیرت ہے کہ عیسائیت اپنے متبعین سے تو یہ توقع رکھتی ہے کہ اگر ان کے ایک گال پر طمانچہ مارا جائے تو وہ نہ صرف معاف کردیں بلکہ دوسرا گال بھی اس مارنے والے کے سامنے پیش کر دیں لیکن اس صورت میں بھی ان کی صفت عدل قطعا متاثر نہیں ہوتی لیکن ان کے خدا کا عدل ایسا نازک ہے کہ خفیف سے خفیف بخشش کے پھولوں کی مار سے بھی چکنا چور ہو جاتا ہے.جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ عدل ایک پسندیدہ چیز ہے اس سے کوئی انکار نہیں مگر سوال صرف یہ ہے کہ کیا عدل اور مغفرت ایک وقت میں اکٹھے رہ سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر تو یہ متناقض قدریں ہوں اور ایک وقت میں یکجا نہ ہوسکیں تو پھر تولا ز ماہم مجبور ہوں گے کہ یا تو خدا تعالیٰ کو بخشش کا نا اہل تسلیم کر لیں یا اس کے مزعومہ عدل کو کالعدم سمجھیں لیکن دونوں صورتوں میں اس کی پاک ذات پر ایک بدنما داغ لگتا ہے.اس مشکل چناؤ کی ضرورت ہی دراصل پیش نہیں آتی کیونکہ عدل اور بخشش در حقیقت ہرگز دو متناقض صفات نہیں ہیں.عدل کا فقدان صرف اور صرف اسی وقت عیب بنتا ہے جب کہ اس کی جگہ ظلم لے رہا ہو اس کے بغیر عدل کا فقدان کوئی عیب نہیں.مثلاً اگر ایک آقا اپنے مال کے نقصان کے بدلہ میں اپنے غلام کو سزا نہیں دیتا تو کوئی ظالم انسان بھی ایسے نیک دل شخص کو ظالم یا غیر عادل قرار نہیں دے سکتا.کاش اگر عیسائی مفکرین اسی راز کو سمجھ جاتے تو کبھی ظلمات کے جنگلوں میں اس قدر سر گرداں نہ ہونا پڑتا.خدا تعالیٰ کو عقل صرف ان معنوں میں عادل تسلیم کر سکتی ہے کہ اس سے ظلم کے الزام کی بریت کی جائے اس سے بڑھ کر عدل کی کوئی حقیقت نہیں ہے.لیکن عیسائی نظریہ کفارہ متناقض دعوؤں کا ایک حیرت انگیز شاہکار ہے.ایک طرف تو خدا تعالیٰ کو عادل اس لئے تسلیم کرواتا ہے کہ اگر عادل نہ مانا جائے تو ظالم ماننا پڑے گا اور دوسری طرف اس بے ہودگی پر بھی مصر ہے کہ چونکہ وہ عادل ہے اس لئے وہ بخش نہیں سکتا.دوسرے لفظوں
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 50 50 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟ ۳۶۹۱ء میں اس دعویٰ کے یہ معنی نہیں گے کہ چونکہ خدا تعالیٰ ظالم نہیں ہے اس لئے معاف نہیں کر سکتا.یہ بالکل اسی قسم کا دعوی ہے جیسے کوئی کہے کہ چونکہ فلاں شخص جھوٹ نہیں بولتا اس لئے کذاب ہے.چونکہ فلاں شخص کی نظر تیز ہے اس لئے اندھا ہے، چونکہ فلاں شخص کالا ہے اس لئے گورا ہے اور چونکہ فلاں شخص گورا ہے اس لئے وہ کالا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اسی ٹھوکر سے، اسی لغویت سے بچانے کے لئے اور عدل کے صحیح مفہوم کو ذہن نشین کرانے کے لئے قرآن کریم میں کہیں ایک جگہ بھی خدا تعالیٰ کو عادل بیان نہیں کیا گیا البتہ اس کی ذات پر سے ظلم کی بار بارفی کی گئی ہے.جیسا کہ فرمایا اَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ( آل عمران : ۳۸۱) کہ خدا تعالیٰ ہرگز اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا.دوسری ٹھو کر عیسائیت نے یہ کھائی ہے بلا تحقیق گناہ کو ایک ایسے داغ کے طور پر تصور کر لیا ہے جو نہایت ہی پکی سیاہی کا داغ ہے اور سزا کے پانی کے سوامٹ ہی نہیں سکتا حالانکہ حق یہ تھا کہ گناہ کی نیت اور اس کے محرکات کا باریک تجزیہ کر کے دیکھا جاتا کہ کیا گناہ کسی پکی سیاہی سے مشابہ بھی ہے یا نہیں؟ اور اگر وہ دھل سکتا ہے تو اسے دھونے کے لئے کس قسم کے پانی کی ضرورت ہے؟ انسانی فطرت سے متعلق روز مرہ کا مشاہدہ ہمیں بتاتا ہے کہ گناہ گار دل جب تو بہ اور استغفار کے پانی سے دھلتے ہیں تو وہ ایسے پاک اور صاف ہو جاتے ہیں کہ ان میں گندگی کی کوئی بھی ملونی باقی نہیں رہتی.ایک بچہ جب باپ کی نافرمانی کر کے مورد سز ا ٹھہرتا ہے تو بسا اوقات سزا سے قبل ہی اس کے اندر پاک تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے.اس وقت عین ممکن ہے کہ اگر بخشش سے کام نہ لیا جائے اور انصاف کی چھری اندھا دھند چلائی جائے تو اس کی توبہ بغاوت میں تبدیل ہو جائے.اس لئے کوئی باپ سوائے اس کے کہ اس کے سینہ میں پتھر کا دل ہو اور کھوپڑی میں گدھے کے عقل ہو ایسے موقع پر انصاف کی چھری کو اندھا دھند نہیں چلا سکتا بلکہ عین ممکن ہے کہ اسے سزا دینے کی بجائے اس کی ندامت کے آنسوؤں کو قبول کرتے ہوئے اسے چھاتی سے لگالے اور پہلے سے بھی بڑھ کر اسے پیار کرنے لگے.مگر ا یک طرفہ تماشا ہے کہ عیسائی عدل کی رو سے خدا تعالیٰ صرف ظالم ہی نہیں بلکہ نادان اور بے سمجھ بھی ٹھہرتا ہے جسے نہ تو سزا کی حکمتوں کا کوئی علم ہے اور نہ گناہ کی ماہیت سے کوئی واقفیت کیونکہ وہ ظالم نہیں ہے اس لئے بخش نہیں سکتا کیونکہ وہ عادل ہے اس لئے ضرور ہے کہ ایک گناہ کی سزا
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 51 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟ ۳۶۹۱ء دوسرے کو دے دے اور اس قدر بڑھا چڑھا کر دے کہ ایک آدم کی ایک لمحہ کی لغزش کی سزار بوں ارب بنی آدم کو ایک لامتناہی مدت تک دیتا چلا جائے اور پھر اچانک محض اس لئے کہ وہ عادل ہے اربوں ارب انسانوں کی لامتناہی لعنتوں کے بدلہ میں ایک معصوم کو تین روز کی لعنت کا شکار کر دے.عیسائیت کے خدا کے عدل کا ایک یہ بھی عجیب تقاضا ہے کہ گناہ گار انسان کو سزا سے بچانے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ ان کی سزا کسی معصوم کو دے دی جائے.حیرت ہوتی ہے کہ اس عدل کو کیا نام دیا جائے؟ ظلم کہیں یا جنون یا سفا کی یا پھر اس کا نام تمسخرکھ دیں کہ وہ عدل جو عیسائی دنیا خدا کی طرف منسوب کر رہی ہے ان تمام صفات کا ایک حیرت انگیز امتزاج ہے جو تثلیث کے امتزاج سے کسی طرح بھی کم نہیں یہ عدل ایک ہی وقت میں عدل بھی ہے اور ظلم بھی اور حماقت بھی پھر بھی ایک ہی ہے یعنی عدل.پس اس لحاظ سے کفارہ کا عقیدہ صرف اپنی مجموعی صورت ہی میں Mystery یعنی معمہ نہیں بلکہ اس کا ہر جزو اپنی اپنی جگہ ایک علیحدہ معمہ ہے.یہ دعویٰ کہ چونکہ انسان گناہ گار ہے اور خدا عادل ہے اس لئے ضروری ہے کہ کوئی معصوم قربانی کر کے انسان کے گناہوں کا بوجھ اٹھا لے اس مقام پر آکر نامعقولیت کی تیسری منزل میں داخل ہو جاتا ہے.سب سے پہلے تو یہ امر قابل توجہ ہے کہ کفارہ کا مقصود کیا تھا؟ اگر تو مقصود یہ تھا کہ انسان کو گناہ کے میلان یا اس کے نتائج سے بچایا جائے تو یہ مقصد تو انسانوں کے ہاتھوں خدا کے بیٹے کو صلیب دلوانے سے پورا نہیں ہوسکتا بلکہ بنی آدم کے گناہوں میں اضافہ کا موجب بن جاتا ہے.نعوذ باللہ خدا کے بیٹے کو صلیب پر چڑھا کر جو کہ کلیۂ معصوم تھا انسانیت تو ایک ایسے مکروہ گناہ میں ملوث ہو جاتی ہے کہ جس کے دھلنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا.اگر عام انسانوں کا قتل بھی ایک قاتل کے دل کو سراسر داغدار کر سکتا ہے، اگر آدم کی ایک لغزش تمام انسانیت کے چہرے پر ہمیشہ کے لئے کلنک کے ٹیکے لگا جاتی ہے تو خدا کے معصوم بیٹے کے قتل سے کیوں انسانیت ایک نا قابل معافی ابدی لعنت کا شکار نہیں ہو جانی چاہئے.کفارہ کے لئے معصوم کی تلاش کی اصل ضرورت جو عیسائیوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان سارے کے سارے اتنے گناہ گار ہیں کہ ان میں سے ہر ایک زیادہ سے زیادہ صرف اپنے گناہ کی سزا برداشت کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اور مزید گناہ کے بوجھ اس پر لا دے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 52 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟۳۶۹۱ء نہیں جاسکتے یا مزید سزا کے بوجھ اس پر لا دے نہیں جاسکتے.اول تو یہ محض ایک دعوئی ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں ہے.دوسرے اگر اسے مان بھی لیا جائے تو اس کا آسان حل تو یہ تھا کہ شیطان کو پکڑ کر انسان کے گناہوں کا کفارہ بنادیا جاتا نہ کہ یہ کہ خدا کے بھولے بھالے معصوم بیٹے کو انسان کی بدکاریوں کے بدلہ میں صلیب کی اذیتیں دے کر مارا جاتا.اگر عیسائیت یہ فرضی دعوی کرے کہ شیطان کے گناہ بھی اتنے ہی زیادہ تھے اور سزا برداشت کرنے کی طاقت اتنی ہی محدود کہ وہ بھی آدم اور بنی آدم کے گناہوں کی سزا بھگت کر انہیں اس سے نجات نہیں دلا سکتا تھا تو اس لئے بہر حال ایک معصوم قربانی ہی کو ڈھونڈ نا پڑے گا.اگر ہم کچھ دیر کے لئے یہ صورت تسلیم کر لیں تو اس بات کی پڑتال تو بہر حال نہایت ہی ضروری ہوگی کہ اس معصوم کی سزا برداشت کرنے کی اہلیتوں کا پورا پورا جائزہ لیا جائے اور اسے بعینہ اتنی سزادی جائے جتنی سزا تمام بنی آدم کے لئے مقرر کی گئی تھی.لیکن اس چھان بین سے پہلے یہاں ایک لطیفے کا بیان بے جانہ ہوگا جس کی یاد اس موقع پر خود بخود ذہن میں ابھر آتی ہے.کہتے ہیں کہ ایک نگری تھی جسے اندھیر نگری کہا جاتا تھا اور اس نگری کا ایک راجہ تھا جسے چوپٹ راجہ کہتے تھے.اس نگری میں بھی ایک قسم کا مشینی انصاف چلتا تھا اور عدل اور مساوات کا یہ عالم تھا کہ ہر چیز مٹی ہو یا پھر یا سونا یا مٹھائی دو پیسے سیر بکا کرتی تھی.وہاں ایک روز مشتبہ حالات میں ایک آدمی قتل ہوا پایا گیا اور قاتل پکڑا نہ گیا.پولیس نے راجہ کے عدل کے تقاضا کو پورا کرنے کی خاطر ایک شخص کو شبہ میں گرفتار کر لیا.اس نے کوئی عذر پیش کیا انہوں نے ایک اور کو پکڑ لیا اور اس نے کوئی عذر پیش کیا انہوں نے ایک اور کو پکڑ لیا چنانچہ ایک لمبی کہانی ہے تان اس کی یہاں آکر ٹوٹتی ہے کہ وہ آخری شخص جو قاتل قرار دیا گیا اس غریب کا اس قتل میں اتنا بھی ہاتھ نہیں تھا جتنا مسیح کے افعال کا ہمارے گناہوں میں ہو سکتا ہے لیکن چونکہ آدمی مارا گیا تھا اس لئے اس کے بدلہ میں کسی آدمی کی جان لی جانی ضروری تھی.بادشاہ نے خاص شاہی فرمان کے ذریعہ اسی لئے اسے تختہ دار پر لٹکانے کا فیصلہ دے دیا لیکن جب پھانسی کا پھندہ اس کی گردن میں ڈالا گیا تو معلوم ہوا کہ اس نا تو ان کی گردن اتنی سوکھی ہوئی ہے کہ موجود پھندے سے اسے پھانسی دی ہی نہیں جاسکتی اور ملک کا عدل بے قرار تھا کہ بغیر تاخیر کے مقتول کا انتقام لیا جائے.چنانچہ جب اس عادل راجہ کے حضور اس دشواری کو پیش کیا گیا تو اس نے فیصلہ فرمایا کہ اچھا اگر اس کی گردن پھندے میں نہیں آتی تو پھر جس کی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 53 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟۳۶۹۱ء گردن اس کے پھندے میں آتی ہے اسے پھانسی دے دو.پس اگر یہ کائنات اندھیر نگری ہے اور نعوذ باللہ اس کا ئنات کا خدا چوپٹ راجہ ہے تو پھر یہ ضرور ممکن ہے کہ بنی نوع انسان کے تمام گناہوں کی سزا میں خدا کے معصوم بیٹے کو تختہ دار پر چڑھا دیا جائے لیکن اگر ایسا نہیں اور یقینا نہیں تو پھر اے عیسائیو! اپنے خالق اور مالک پر یہ ظلم نہ توڑو، اس رحیم و کریم پر یہ افتراء نہ باندھو اور اسے کائنات کی سب سے زیادہ ظالم ،سفاک اور غیر عاقل ہستی کے طور پر پیش نہ کرو.کیوں عدل کے نام پر اسے ظالم قرار دیتے ہو اور عقل کے نام پر غیر عاقل؟ کفارہ کی اس آخری امکانی صورت پر پھر اس شخص کی مثال یاد آجاتی ہے جو اسی شاخ کو کاٹ رہا تھا جس پر وہ بیٹھا ہوا تھا مگر اس غریب نے تو یہ غلطی ایک بار کی ہوگی کفارہ کا نظریہ بار بار اسی شاخ کو کاٹتا ہے جس پر بیٹھتا ہے اور اسی عدل کی بنیاد کو اکھیڑتا ہے جس پر نجات کی موہومہ عمارت تعمیر کی گئی ہے.اگر بفرض محال یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ عیسائیت کا خدا اس قسم کا عدل جاری کر سکتا ہے کہ زید کا گناہ بکر کے سر پر لاد دے تو یہ تسلیم کرنے کے باوجود بھی عیسائی نظریہ کفارہ عقل کی حد سے باہر ہی رہتا ہے اور اعتراضات عقلی کی زد سے باہر نہیں نکلتا.اس آخری صورت کو تسلیم کرنے سے مسئلہ کی شکل یہ بنتی ہے کہ چونکہ خدا عادل ہے اس لئے ضروری ہے کہ گناہ کا بدلہ یعنی اس کی سزا دے.خدا عادل ہے اس لئے معاف نہیں کر سکتا اور ضروری ہے کہ گناہ کی سزا دے.کیونکہ وہ محبت بھی ہے اور رحم بھی اس لئے سزا دینا نہیں چاہتا.یہ امر اس کے عدل کے منافی نہیں ہے کہ زید کی سزا بکر کو دے دے.چونکہ اس کا اپنا بیٹا معصوم ہے اور دوسرا کوئی سزا لینے کا اہل نہیں اس لئے تمام انسانوں کی سزا اس معصوم کو دے کر ان کی گردنوں کو اس لعنت کے طوق سے آزاد کر دیتا ہے.پانچ نکات پر مبنی کفارہ کی اس صورت کو اگر اسی طرح تسلیم بھی کر لیا جائے تو صرف ایک سوال باقی رہ جائے گا کہ یہ دیکھا جائے کہ سزا قبول کرنے والا وجود اس بات کا اہل بھی ہے کہ اس سزا کو برداشت کر سکے.دیکھئے اتنی عقل تو اس چوپٹ راجہ میں بھی تھی کہ اس نے بڑے پھندے سے پتلی گردن والے شخص کو پھانسی دینے کی کوشش نہیں کی.دوسرا یہ کہ اس امر کی پوری پوری نگرانی کی جائے کہ جتنی سزا واجب ہے اتنی ہی سزا اس قربانی کرنے والے کو دی جائے لیکن عملاً عیسائیت اس سزا کے قصہ کو جس رنگ میں پیش کرتی ہے.وہ بالکل اس کے برعکس ہے.
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 54 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟ ۳۶۹۱ء ہم نے اس نظریہ کو عقلاً صرف مفروضہ کے طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ سزا دینے کے لئے ایک معصوم کی تلاش کی اس لئے ضرورت درپیش ہے کہ جتنے انسان یا شیطان اس کا ئنات میں موجود ہیں وہ سارے کے سارے اتنے گناہ گار ہیں کہ جو زیادہ سے زیادہ سزا ان کو دی جاسکتی تھی وہ دی جا چکی ہے اور اس کے علاوہ مزید بوجھ اٹھانے کی ان میں طاقت نہیں رہی اور خدا کے بیٹے کے سوا کوئی شخص اس بوجھ کو اٹھا نہیں سکتا.اگر بات یہی تھی تو پھر طبعا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ جب ایک انسان کے گناہ اس کو ابد الآباد تک کے لئے مطعون کر سکتے ہیں تو پھر کائنات کے تمام انسانوں اور شیطانوں کی سزا یکجائی صورت میں کیسی ہولناک اور کتنی بے حد و پناہ نہ ہوگی.لیکن جب مسیح کو اس طوعاً سزا کا جو پہلے ظالموں کی بھی ہے اور اگلے ظالموں کی بھی اور کالے گناہ گاروں کی بھی ہے اور گورے گناہ گاروں کی بھی مورد ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو بے اختیار غالب کا وہ شعر یاد آ جاتا ہے کہ تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشا نہ ہوا (دیوان غالب صفحه: ۵۹) لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ عدل کے نام پر ایسی بے انصافی ، ایسا تمسخر کہ جب آدم نے گناہ کیا تو اس کی سزا یہ ٹھہری کہ ہمیشہ کے لئے جنت سے نکالا گیا،موت کا سزاوار ٹھہرا اور ہمیشہ کے لئے اس کی نسلوں میں گناہ کی سرشت بھر دی گئی جس کے نتیجہ میں سب نے بلا استثناء ایسے ایسے گناہ کئے کہ سوائے ابدی لعنت اور موت کے ان کے لئے اور کوئی سزا قرار نہ پائی لیکن جب یہ لامتناہی سزا خود اپنے بیٹے کو دینے کا سوال پیدا ہوا تو یہ صرف تین دنوں کی عارضی موت میں تبدیل کر دی گئی.صرف یہی نہیں بلکہ شاہانہ شان و شوکت کے ساتھ اس سزاوار کو مردوں میں سے بلایا گیا اور وہ عرش معلیٰ پر خدا کے داہنے ہاتھ جا بیٹھا.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو چھوڑ دو اس کا تو عدل کے نام پر بار بارخون ہو چکا.صرف اس مسئلہ ہی کو حل کر دو کہ جب کفارہ کی بناء ہی یہ قرار دی گئی تھی کہ اپنے عدل کی وجہ سے خدا معاف نہیں کر سکتا تو پھر اچانک یہ معافی کی اہلیت خدا میں کہاں سے آ گئی؟ گناہ کی سزا کے طور پر کیا تین دن کی موت ہی وہ سزا تھی جو آدم اور بنی آدم اور جملہ شیاطین میں تقسیم ہوئی تھی ؟ اگر یہی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 55 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟۳۶۹۱ء وہ سزا تھی اور اسی نے ان جملہ گناہ گاروں پر تقسیم ہونا تھا تو پھر تو ہر گناہ گار کے حصہ میں شاید ایک ایک لحہ کے کروڑویں کروڑویں حصہ کی سزا بطور موت کے آتی ہوگی اس سے فرق ہی کیا پڑتا تھا، یہ سب کفارہ کا طوفان کھڑا کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ اس قلیل عرصہ کی موت کا تو کسی گناہ گار کو احساس بھی نہ ہوتا اور عرصہ سزا گزر بھی جاتا، عدل کا تقاضا بھی بعینہ پورا ہو جاتا اور جذ بہ رحم و کرم پر بھی کوئی زد نہ آتی.لیکن اگر مسیح کی تین دن کی صلیب کی موت کو اس سزا سے کوئی بھی نسبت نہیں جس کے یہ تمام بنی آدم سزاوار تھے تو پھر عقل کو یہ پوچھنے کا حق پہنچتا ہے کہ وہ باقی سزا کیا ہوئی ؟ اگر کہا جائے کہ معاف کر دی گئی تو اس تین لفظی جواب ہی میں کفارہ کی ساری فرضی عمارت دھوئیں کی طرح اڑ جاتی ہے.کیونکہ جو عادل خدا اپنے عدل کی وجہ سے بغیر بدلہ کے معاف نہیں کر سکتا تھا اس نے اب معاف کیسے کر دیا ؟ یہ مثال کہ جس طرح ایک مقروض کا قرض ایک دوسرا ادا کر سکتا ہے انسانی گناہوں کے مسئلہ پر چسپاں نہیں ہوسکتی.اگر گناہ کے فلسفہ کی بحث نہ بھی اٹھائی جائے تب بھی ظاہر ا جو عمل نظر آتا ہے اس کی رو سے اگر چہ ایک مقروض کے قرض کی ادائیگی تو دوسرا کر سکتا ہے مگر دوسرے بے شمار ایسے جرائم ہیں جن میں ایک کی سزا دوسرے کو نہیں دی جا سکتی.کیا ایک قاتل کی بجائے کسی دوسرے کو پھانسی دی جاسکتی ہے؟ کیا ایک زانی کی جگہ دوسرے کو کوڑے مارے جاسکتے ہیں ؟ کیا ایک چور کی جگہ کسی دوسرے کے ہاتھ کاٹے جاسکتے ہیں؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں اور یقینا نہیں تو پھر اس مثال کو مسئلہ کفارہ پر چسپاں کرنا عقل و فہم کے ساتھ ایک تمسخر نہیں تو اور کیا ہے؟ کیونکہ گناہ گاروں میں چور بھی ہیں اور قاتل بھی اور زانی بھی.کیا ان سب کے جرموں کی سزا قرض کے طور پر قابل انتقال ہے؟ اس بحث میں یہ سوال بار بار مختلف موقعوں پر اٹھایا گیا ہے کہ ایک گناہ گار کی سزا ایک معصوم کود بینا بڑا بھاری ظلم ہے.ہوسکتا ہے کہ کوئی عیسائی دوست اس کا یہ جواب دیں کہ اگر کوئی معصوم اپنی مرضی سے کسی گناہ گار کی سزا قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائے تو اس صورت میں یہ سز اظلم نہیں بنتی کیونکہ ذمہ داروہ عادل نہیں بلکہ وہ معصوم ہو جاتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تسلیم کرنے سے اول تو یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ کیا عادل خدا کا فیصلہ اور معصوم بیٹے کی پیش کش دو الگ الگ فیصلے تھے؟ دوسرے یہ کہنا واقعۂ صلیب کے بھی صریحاً خلاف ہے کیونکہ خود انجیل کے بیان کے مطابق مسیح سزا سے پہلی رات
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 56 60 کیا نجات کفارہ پر موقوف ہے؟۳۶۹۱ء اپنے آسمانی باپ کے حضور دعائیں کرتا رہا کہ اس لعنت کے پیالے کو مجھ سے ٹال دے کہ مجھ میں یہ برداشت کرنے کی طاقت نہیں اور صلیب کی سختیوں میں بھی اس کے ناتواں جسم سے یہ پکار اٹھتی رہی کہ ایلی ایلی لما سبقتانی“.پس عیسائی نظریہ کفارہ کو کسی بھی پہلو سے دیکھیں وہ محض لغویات کا ایک انبار نظر آتا ہے اور ایک عام انسان کو انہیں دیکھ کے ہنسی آجاتی ہے.لیکن اس دردناک حقیقت کو ہرگز بھلایا نہیں جاسکتا که در اصل یہ انسی کی بات نہیں، یہ خدا تعالیٰ کی پاک ذات پر ایک ایسا بہتان ہے کہ قریب ہے کہ اس سے زمین و آسمان پھٹ پڑیں.دیکھو کہ حضرت محمد مصطفی میت کو خدا تعالیٰ نے اس عقیدہ کے بد نتائج سے جب آگاہ کیا تو آپ کو کوئی ہنسی نہیں آئی، کوئی تقسیم اس معصوم چہرے سے نہیں کھلا بلکہ آپ کا دل یہ عقیدہ رکھنے والوں کی ہلاکت کے خیال سے ایسا دردمند ہوا کہ خود خدا کا عرش بھی پکار اٹھا کہ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ إِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (الكهف :) کہ اسے محمد ؟ کیا تو اپنے آپ کو اس غم میں ہلاک کر دے گا کہ یہ تو میں مجھ پر بہتان باندھ کر ہلاک ہو رہی ہیں.غرض اے توحید کے پرستارو! اگر تم واقعی اس غلط اور بیہودہ عقیدہ کو دنیا سے مٹانا چاہتے ہو تو صلیب کی کمر توڑنے کے لئے ضروری ہے کہ تم اپنی نفسانی خواہشات کی کمریں توڑ دو اور اسی طرح غم محسوس کرو، اسی طرح دیکھ محسوس کرو جس طرح حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ان لوگوں کی خاطر محسوس کیا تھا.اگر تم یہ کرنے کے لئے تیار ہو تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ زمین کا ذرہ ذرہ تمہارے ساتھ یہ گواہی دیگا کہ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا (الکھف:1) که وہ بات بڑی جھوٹی اور بے بنیاد ہے جو یہ کہتے ہیں، خدا کی قسم وہ جھوٹ کہتے ہیں.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 57 پیشگوئی مصلح موعود ۴۶۹۱ء پیشگوئی مصلح موعود بر موقع جلسه سالانه ۱۹۶۴ء) ۱۹ ویں صدی کا نصف آخر اس لحاظ سے ہندوستان کی مذہبی تاریخ میں ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے کہ جس طرح متلاطم سمندر میں کف بلب موجیں ایک دوسرے پر یلغار کرتی ہیں ، ہندوستان کے جملہ مذاہب باہم دگر برسر پیکار تھے اور یہ ملک مذہبی جنگوں کا ایک اکھاڑا بنا ہوا تھا.یہ ایک ایسا ملک تھا جس میں دنیا کے تقریباً تمام مذاہب کے نمائندے موجود تھے اور یہ سب ایک دوسرے پر فوقیت حاصل کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے.بالخصوص عیسائیت ، ہندو ازم اور اسلام کے مابین تو گھمسان کی جنگیں ہو رہی تھیں.ان مذہبی جنگوں میں سب سے زیادہ قابل رحم اور دردناک حالت اسلام ہی کی تھی کہ جس کے نبی معصوم پر ہر طرف سے ایسے ناپاک حملے کئے جارہے تھے کہ ان کے تصور سے بھی آج تک دل خون کے آنسو روتا ہے.مسلمانوں کے پاس ظاہری طاقتوں میں سے کچھ بھی نہ تھانہ حکومت ، نه علم ، نه سیاست، نه اتحاد، نه زور دولت.رہیں باطنی، اخلاقی طاقتیں تو وہ بھی مدت ہوئی کہ ہاتھ سے جاتی رہی تھیں.اوج ثریا سے گری ہوئی یہ وہ قوم کہ جس کے کمالات کی گونج کبھی مشرق میں چین کی دیواروں اور مغرب میں سلی کے ساحل سے ٹکرایا کرتی تھی.ایسی بے زور بے نام اور مفلس و قلاش ہو چکی تھی کہ تہی دامنی میں بھی اس کی مثال نظر نہ آتی تھی.یہ قوم تھی کہ جو اپنی مذہبی، اخلاقی ، سیاسی ، معاشی اور علمی اقدار کی حفاظت نہ کر سکی یہاں تک کہ روحانیت اور عرفان کی دولت
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 58 پیشگوئی مصلح موعود ۴۶۹۱ء بے بہا بھی ہاتھ سے جاتی رہی.ایمان کہیں ماضی میں کھویا گیا اور قرآن شریا کی طرف اٹھ گیا.جرى الله في حلل الانبیاء کی آمد اس کسمپرسی اور ناطاقتی کی حالت میں جب کہ چاروں طرف سے سو قسم کے دشمنوں نے مسلمانوں کو نرغے میں لے رکھا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میدان جنگ میں قدم رکھا.اسلام کا یہ بطل جلیل جب تیغ بر ان محمد سے آراستہ دعاؤں کے ہتھیار سجائے ہوئے دشمنان اسلام کی طرف بڑھا تو خدا گواہ ہے کہ اس کے رعب اور اس کی ہیبت سے رن کانپنے لگا.فاتح مفتوح ہوئے ، فتح وشکست کی کایا پلٹ دی گئی اور دشمن کے کیمپ میں ہر طرف بے مہابا بھگدڑ مچ گئی.آسمان نے گواہی دی کہ دیکھو! دیکھو! وہ جرى الله في حلل الانبیاء آیا اور زمین بھی اس کی تعریف میں یوں مدح سرا ہوئی کہ اسلام کی جانی و مالی قلمی ولسانی ، حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے.“ (اشاعۃ السنہ جلدے نمبر ۶ صفحه ۱۲۹) یہ تھا دین اسلام کا وہ پہلوان جس نے جب اسلامی جنگوں کی باگ دوڑا اپنے ہاتھ میں لی تو حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آگیا اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ گیا.اے فتح نصیب جرنیل ! اے محمد عربی کے مایہ ناز غلام ! بے شمار رحمتیں ہوں تجھ پر اور تیرے محبوب آقا پر کہ جس کی ناموس کی خاطر تو نے یہ سب بار ا ٹھایا.اے مظفر! تجھ پر سلام کہ تیرے ہی آنے سے اسلام کے کیمپ میں فتح کے شادیانے بجے اور قدوسیوں نے حمد کے گیت گائے.آپ کا ایک بے مثل ہتھیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اسلوب جنگ اور فنون حرب کا مضمون بڑا وسیع اور دلچسپ مضمون ہے جس کے تفصیلی بیان کا یہاں موقع نہیں البتہ اس کے ایک پہلو کا تعلق براہ راست میرے آج کے مضمون سے ہے اور اسی پہلو کی دلفریبی کا ہم چند لمحوں کے لئے نظارہ کریں گے.نشان مصلح موعود ایک ثمرہ ہے اس جذبہ جہاد اور درد اسلام کا جس نے آپ کے قلب وجگر
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 59 پیشگوئی مصلح موعود ۶۴۶۹۱ میں ایک بے مثال سوز و گداز کی کیفیت پیدا کر رکھی تھی.یہی جذبہ جہاد تھا جس نے آپ کو اپنے رب سے ایک جانشین مجاہد اسلام مانگنے پر مجبور کیا.ایک ایسا جانشین مانگنے پر مجبور کیا جو آپ کے شایان شان ہو اور آپ ہی کے رنگ میں رنگین ہو کر علم اسلام کی سربلندی کے لئے تازیست جہاد کرتا رہے ایک مقدس جنگ میں آپ کے اسلحہ خانے کا سب سے زیادہ قوی اور کارگر ہتھیار تعلق باللہ کا ہتھیار تھا اور اسی ہتھیار کی قوت اور شوکت میں آپ کی قوت اور شوکت کا راز مضمر ہے.یہی وہ تیغ برانِ محمدؐ تھی جو لیکھرام کو ترساں کرتی رہی اور یہی وہ آسمانی بجلی تھی جو بعد میں ڈوئی اور اس کے بسائے ہوئے صیون پر گری.یہی تھی وہ ھاویہ جس میں آتھم کو گرایا گیا جس کی ہیبت سے سراسیمہ ہو کر اس کا دن کا چین اٹھ گیا اور راتوں کی نیندیں حرام ہو گئیں.زندگی کا سر چشمہ لیکن یہ محض ایک تباہ کن ہتھیار نہ تھا بلکہ زندگی کا سرچشمہ بھی یہی تھا.موسمی کا عصا بھی یہی تھا اور دم عیسی بھی یہی.اسلام کی سچائی کے ایک نا قابل رد ثبوت کے طور پر بھی آپ نے اسی تعلق باللہ کو پیش فر مایا اور تمام مذاہب کے پیروکاروں کو یہ چیلنج دیا کہ اگر فی الواقع تمہارے مذاہب سچے ہیں تو پھر اپنے میں سے ایسے وجود تو پیش کرو جن کو تمہارے مذہب کی پیروی نے اللہ تعالیٰ سے ملا دیا ہو.آپ نے فرمایا کہ اسلام کی سچائی کا اس سے روشن تر اور کیا تم ثبوت مانگتے ہو کہ میں نے اسلام کی تعلیم پر چل کر اسی دنیا میں اپنے رب کو پالیا ہے.وہ میرے دشمنوں کا دشمن ہے اور دوستوں کا دوست اور میری خاطر حیرت انگیز کام دنیا کو دکھاتا ہے.پس ہر وہ شخص جو پاک دل لے کر تحقیق حق کی خاطر میرے پاس آئے اور کچھ عرصہ ٹھہرے وہ خود اپنی آنکھوں سے اس تعلق باللہ کا مشاہدہ کرسکتا ہے.آپ نے یہ چیلینج صرف اپنے ہم وطنوں ہی کو نہیں دیا بلکہ کثرت کے ساتھ اس مضمون کی مسجل چٹھیاں یورپ اور امریکہ کے مختلف باشندوں کو بھجوائیں.مصلح موعود کی پیشگوئی سے اس چیلنج کا تعلق یہ چیلنج گویا انذار اور تبشیر کی دودھاری تلوار تھی جو کبھی تو جلال کی بجلی بن کر دشمن کو خاکستر کرتی اور کبھی جمال کے جادو سے دلوں پر فتح یاب ہوتی تھی.یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا بلکہ متواتر نازل
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 60 60 پیشگوئی مصلح موعود ۴۶۹۱ ہونے والی تائیدات الہیہ کے کرشمے تھے جن کا نظارہ کروانے کے لئے کل دنیا کو آپ نے ایک دعوت عام دے رکھی تھی.ان خطوط کا علم پا کر قادیان کے بعض ہندوسا ہوکاروں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں ایک درخواست ارسال کی کہ ہم لوگ جو آپ کے ہمسایہ اور ہم شہری ہیں.لندن اور امریکہ والوں سے زیادہ حقدار ہیں......ہمیں ایسے نشان ضرور چاہئیں جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہوں جن سے معلوم ہو سکے کہ وہ سچا اور پاک پر میشر بوجہ آپ کی راستبازی دینی کے عین محبت اور کرپا کی راہ سے آپ کی دعاؤں کو قبول کر لیتا ہے اور قبولیت دعا سے قبل از وقوع اطلاع بخشتا ہے یا آپ کو اپنے بعض اسرار خاصہ پر مطلع کرتا ہے اور بطور پیشگوئی ان پوشیدہ بھیدوں کی خبر آپ کو دیتا ہے یا ایسے عجیب طور سے آپ کی مدد اور حمایت کرتا ہے جیسے وہ قدیم سے اپنے برگزیدوں اور مقربوں اور بھگتوں اور خاص بندوں سے کرتا آیا ہے.“ (ساہوکاران و دیگر ہند و صاحبان قادیان کا خط بنام مرزا صاحب مرزا مخدوم و مکرم مرزا غلام احمد صاحب تبلیغ رسالت جلد اصفحه: ۵۱،۵۰) قادیان کے ہندوؤں کا یہ مطالبہ نشان مصلح موعود کے ظہور کا ایک ظاہری اور فوری سبب بن گیا.چنانچہ اس مطالبہ کو پورا کرنے کی خاطر آپ نے ۱۸۸۶ء میں ہوشیار پور جا کر وہ مشہور چلہ کشی اختیار کی پورا جس کی تضرعات کو سن کر اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور آپ کو نشان رحمت کے طور پر ایک عظیم الشان بیٹے کی ولادت کی خوشخبری عطا کی گئی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھے سے مانگا سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپائیہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے ) تیرے لئے مبارک کر دیا سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے اور فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے، اے مظفر! تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 61 پیشگوئی مصلح موعود ۴۶۹۱ پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تالوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفی کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت ونسل ہوگا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے وہ نوراللہ ہے مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے ) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبه - فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الْاَوَّلِ وَالْآخِر وَمَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَأَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ.جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَكَانَ أَمْراً مَقْضِيًّا “ (اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء مشموله آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۴۷)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 62 پیشگوئی مصلح موعود ۴۶۹۱ء اس پیشگوئی کے الفاظ بڑے واضح ہیں اور ان سے یہ دوامور بالبداہت ثابت ہوتے ہیں که اول نشان رحمت کے طور پر اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک عظیم الشان اولوالعزم بیٹے کی خوشخبری دے رہا ہے اور دوم یہ کہ خدا تعالیٰ کی یہ عطا بعینہ اس التجا کے مطابق ہے جو حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے رب سے کی گویا مصلح موعود کی پیشگوئی میں جس وجود کے ظہور کی خبر دی گئی ہے یہ و ہی وجود ہے جو حضور علیہ السلام نے اپنے رب سے مانگا تھا.ہمارے نزدیک یعنی ان احمدیوں کے نزدیک جو نظام خلافت سے وابستہ ہیں اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ الودود کو مصلح موعود مانتے ہیں یہ پیشگوئی نہایت صفائی اور شان کے ساتھ پوری ہو چکی ہے.مگر احمدی کہلانے والوں کی ایک دوسری شاخ یعنی منکرین نظام خلافت اسے تسلیم نہیں کرتے.ان کا یہ دعویٰ ہے کہ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں مندرج پیشگوئی ہرگز حضرت اقدس علیہ السلام کے کسی اپنے بیٹے سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ یہ کسی دو تین سوسال بعد پیدا ہونے والے روحانی یا جسمانی بیٹے کے بارہ میں ہے.ان کے نزدیک پاک لڑکا ز کی غلام اور فرزند دلبند گرامی ارجمند وغیرہ الفاظ محض استعارہ رکھے گئے ہیں جن سے مراد بیٹا ہرگز نہیں بلکہ یہ کسی ایسے شخص کے متعلق استعمال ہوئے ہیں جو ممکن ہے دوسو سال بعد پیدا ہو.آتا ہے.کسی بھی پہلو سے آپ اس پیغامی موقف پر غور کر کے دیکھیں یہ انتہائی لغو اور نا معقول نظر اول تو کسی لفظ کو حقیقت کی بجائے استعارہ قرار دینے کے لئے کوئی قرینہ ہونا ضروری ہے.یونہی خواہ مخواہ تو کسی کو یہ حق نہیں پہنچ جاتا کہ جس لفظ کو چاہے حقیقت کی بجائے استعارہ قرار دے لے اور اہل پیغام خواہ ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں انہیں پیشگوئی مصلح موعود میں کوئی دور کا قرینہ بھی ایسا نہیں مل سکتا جس کی رو سے ”بیٹاز کی غلام اور فرزند دلبند“ کے الفاظ کو استعارہ پر محمول کرنا ضروری ہو.پھر اگر اس پیشگوئی کے سیاق و سباق اور پس منظر پر بھی نگاہ ڈال کر دیکھا جائے تو بھی اہل پیغام کا یہ موقف انتہائی مضحکہ خیز اور عقل و خرد سے عاری نظر آتا ہے.یہ امر تو بہر حال انہیں بھی تسلیم ہوگا کہ ” فرزند دلبند سے جو بھی مراد لی جائے خواہ اس کا ترجمہ پڑپوتا کر لیا جائے یا بیٹا یہ وہی رحمت کا نشان ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے رب سے مانگا تھا جیسا کہ خود الہام الہی کے یہ الفاظ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت ثابت کر رہے ہیں کہ سے مانگا 83 63 پیشگوئی مصلح موعود ۴۶۹ ء میں تجھ کو ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھے اب یہ تسلیم کر لینے کے بعد کہ جو کچھ بھی دیا گیا ہے.اسی کے موافق ہے جو حضرت اقدس نے اپنے رب سے مانگا تھا اگر پیغامی موقف پر نظر ڈالیں تو اس کا یہ مطلب بنے گا کہ حضرت مسیح موعود یہ السلام نے رحمت کے نشان کے طور پر اپنے رب سے ایک پاک اور وجیہ لڑکا نہیں بلکہ پڑپوتا یا لکڑ پوتا یا نکڑ پوتا یا کوئی اور رشتہ دار مانگا تھا جو اسی دعا کے سودوسوسال کے بعد ظاہر ہو.تمسخر کی حد ہے! ذرا سوچئے تو سہی دشمنان اسلام سے شدید مقابلہ ہورہا ہے، آپ اپنی دعاؤں کی قبولیت اور تعلق باللہ کو اسلام کی سچائی کے ثبوت کے طور پر پیش فرماتے ہیں.دشمن یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہماری پیش کردہ شرائط کے مطابق خدا تعالیٰ سے کوئی خارق عادت رحمت کا نشان مانگیں اور اس کی قبولیت کی پہلے سے خبر دیں پھر اگر ہم نے دیکھ لیا کہ وہ واقعی رحمت کا نشان آپ کو اسی طرح ملتا ہے جس طرح آپ نے مانگا تھا تو کفر و اسلام کی جنگ کا اس پر فیصلہ ہو جائے.ہم مان جائیں گے کہ آپ کچے ، آپ کا خدا سچا، آپ کا مذہب اسلام سچا.پیغامی کہتے ہیں کہ کفر و اسلام کی یہ فیصلہ کن جنگ جب اس مرحلہ پر پہنچ گئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو دکھانے کے لئے ایک ایسا نشان مانگا جس کے سچا یا جھوٹا ہونے کا فیصلہ ان لوگوں کی زندگی میں ہو ہی نہیں سکتا تھا.عجیب تمسخر ہے کہ دعوئی تو یہ ہے کہ میں تم لوگوں کو ایک حیرت انگیز نشان دکھانے والا ہوں مگر جب لوگ کہیں اچھا پھر دکھاؤ ہم تو خود مشتاق ہیں تو جو نشان پیش کیا جائے وہ یہ ہو کہ جب تم سب لوگ مرکھپ جاؤ گے تو تم پر حجت تمام کرنے کی خاطر اور میری اور دین اسلام کی سچائی کو نصف النہار کی طرح روشن کرنے کے لئے تمہیں ایک حیرت انگیز رحمت کا نشان دکھایا جائے گا.صرف یہی نہیں بلکہ جب ہم ایک اور پہلو سے اس پیغامی موقف کو دیکھتے ہیں تو یہ تمسخر کی حد سے نکل کر ظلم اور سفا کی کی حد میں داخل ہوتا دکھائی دیتا ہے.ان کے نزدیک جہاں تک حضرت اقدس کی پہلی نسل کا تعلق ہے اس میں سے مصلح موعود پیدا ہونے کا تو کیا سوال وہ تو ساری کی ساری
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 64 پیشگوئی مصلح موعود ۴۶۹۱ راہ حق سے ہی برگشتہ ہو چکی ہے اور ہدایت سے بکلی محروم گہری ظلمتوں میں بھٹک رہی ہے.اس موقف کو اگر تسلیم کر لیا جائے اور الہام الہی کے ان الفاظ کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ ”میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا تو لازماً اس سے یہ نتیجہ بھی نکلے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے رب سے گویا نعوذ باللہ یہ التجا کی تھی کہ اے میرے آقا.....قادیان کے یہ ہندو جو مجھ سے رحمت کا نشان طلب کرتے ہیں اور تیرا کوئی ایسا فضل مجھ پر نازل ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں جو میری اور اسلام کی سچائی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکے اور جس کا بنانا انسانی اختیار سے باہر ہو تو اس کے جواب میں میری گریہ وزاری کو سنتے ہوئے میرے حق میں یہ رحمت کا نشان ظاہر فرما کہ میری ساری اولا د تو (نعوذ باللہ ) ان کے دیکھتے دیکھتے تجھ سے دور ہٹ کر ابدی ہلاکت کے گڑھے میں جاپڑے اور ان میں کوئی دین اللہ کا شرف اور مرتبہ بلند کرنے والا نہ ہومگر جب تمام موجودہ انسان صفحہ ہستی سے گزر چکے ہوں اور ان روحانی مقابلوں کا دیکھنے والا بھی کوئی باقی نہ رہے، نہ تو قادیان کا کوئی ہندو ہی موجود ہو، نہ میں ، نہ میرے موجودہ متبعین.تو ان مرے کچھپے ہندوؤں پر حجت تمام کرنے کی خاطر اور ان تمام منتظر نگاہوں کو تسکین دینے کے لئے جو آج اس رحمت کے نشان کی انتظار میں فرش راہ بنی بیٹھی ہیں تو آج سے دو سو سال کے بعد مجھے ایک روحانی فرزند عطا فرمانا تا کہ ان بھولے بسرے ہندوؤں اور خاک بسر آنکھوں پر حجت تمام ہو جو کبھی مجھ سے رحمت کے نشان کی طالب تھیں.کاش منکرین خلافت بغض محمود میں ایسے اندھے نہ ہوتے.کاش وہ ذرا اتنی سی بصارت رکھتے کہ جس عناد کے تیر کو وہ محمود ایدہ اللہ الودود کے سینے میں پیوست کرنے پر مصر ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چھاتی کو برمائے بغیر اس دل تک نہیں پہنچ سکتا.وہ عقلاً یہ مسلک اختیار کرنے کے مجاز ہی نہیں کہ مصلح موعود کی پیشگوئی سو دو سو سال بعد پیدا ہونے والے کسی شخص کے متعلق ہے جب تک ساتھ ہی یہ بھی تسلیم نہ کر لیں کہ خاکم بدہن نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام معمولی عقل و فہم سے بھی عاری تھے.پہلے تو اذن الہی پاکر کل عالم کو یہ چیلنج دیدیا کہ میرا خدا مجھ سے ایسی محبت اور شفقت کا سلوک فرماتا ہے کہ میری اور اسلام کی حقانیت کو دنیا پر ثابت کرنے کے لئے مجھے منہ مانگی مراد دے گا اور جو کچھ میرے حق میں فرمائے گا اس کے ایک ایک لفظ کو روز روشن کی طرح پورا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 65 59 پیشگوئی مصلح موعود ۶۴۶۹۱ کر دکھائے گا.پھر جب چیلنج قبول کرنے والے میدان میں نکل آئے اور دنگل تیار ہو گیا.سب دنیا کی تماشائی نگاہیں اس نبرد آزمائی کو امید وبیم کے ساتھ دیکھنے لگیں تو اپنے رب سے مراد یہ مانگی کہ اے میرے محبوب ! اپنی محبت کا یہ ثبوت دیجیو کہ میری پہلی نسل کو تو حاسدوں ، کینہ وروں اور دشمنوں کی آنکھوں کے سامنے ہلاک کر دیجیو.ان میں مفسد تو ہوں ، مگر مصلح کوئی نہ ہو.دین اسلام کے مرتبہ کو گرانے والے تو ہوں ! بلند کرنے کی توفیق کسی کو نصیب نہ ہو رسوائیاں اور ذلتیں تو نعوذ بالله من ذالک ان کے مقدر میں رکھ دیجیو اور اگر نشان رحمت عطا فرماتا ہے تو تجھے تیری عزت وجلال کی قسم ! میرے ان بچوں کو عطا نہ فرمائیو.ہاں سو دو سو سال کے بعد بے شک جو کچھ میں نے تجھ سے مانگا ہے میرے کسی دور کے روحانی یا جسمانی بیٹے کو عطا فرما دیجیو.مجھے تو بس یہی غم کھائے جارہا ہے کہ کہیں میری اولا دہی کو تیری رحمتیں نصیب نہ ہو جائیں.پس رحم فرما اور یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے.پیغامی موقف کو اگر قبول کریں تو بات نہیں بنتی جب تک کچھ اس قسم کی دعا کو حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف منسوب نہ کریں اور ساتھ ہی یہ بھی ایمان نہ رکھیں کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ نے اس مزعومہ دعا کو قبول بھی فرمالیا اور ان التجاؤں کے جواب میں کچھ اس قسم کی تسلی دی کہ فکر نہ کراے میرے پیارے بندے! میں تیرے مقصد کو خوب سمجھتا ہوں.چنانچہ اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا ہے میں تیرے اپنے بیٹوں کے قریب تو رحمت کو پھٹکنے تک نہ دوں گا اور نشان رحمت صرف ایک بہت دور کے نام کے بیٹے کو عطا کرونگا تا کہ تیری سچائی اور مجھ سے تیرا تعلق ظاہر ہو.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ.ہوسکتا ہے یہ موقف رکھنے والے منکرین خلافت ایسا ہی دل و دماغ رکھتے ہوں کہ جب کائنات کا بادشاہ ان کے دل کی مراد پوچھے اور فرمان جاری ہو کہ مانگو مجھ سے کیا مانگتے ہو تو وہ رورو کر اس کے حضور اپنی اولاد کی ہلاکت کی تمنا کریں مگر خدارا! خدا کے مسیح سے تو یہ غیر معقول توقع مت رکھو.اے اہل پیغام ! کیا تم میں کوئی ایک بھی مرد رشید نہیں ہے؟ کیا فہم و ادراک سے تمہیں کوئی دور کا بھی علاقہ نہیں ؟ کیا تمہارے کان وہ بشارات سننے سے بھی عاری ہیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے مسیح کو اس کی اولاد کے حق میں دیں، اس کے ان بیٹوں کے حق میں دیں جو حضرت ام المومنین نصرت جہاں بیگم نوراللہ مرقدھا کے بطن سے پیدا ہوئے؟ تم کیوں نہیں سنتے کہ خدا کا مسیح کیا کہتا ہے:
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 66 60 خدایا تیرے فضلوں کو کروں یاد بشارت تو نے دی اور پھر یہ اولاد کہا! ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد خبر مجھ کو یہ تو نے بارہا دی فسبحان الذي اخزى الاعادي میری اولا دسب تیری عطا ہے ہراک تیری بشارت سے ہوا ہے یہ پانچوں جو کہ نسل سیدہ ہے یہی ہیں پنج تن جن پر بنا ہے یہ تیرا فضل ہے اے میرے ہادی فسبحان الذي اخزى الاعادي دئے تو نے مجھے یہ مہر و مہتاب یہ سب ہیں میرے پیارے تیرے اسباب دکھایا تو نے وہ اے رب ارباب کہ کم ایسا دکھا سکتا کوئی خواب یہ تیرا فضل ہے اے میرے ہادی فسبحان الذي أخزى الاعادي پیشگوئی مصلح موعود ۴۶۹۱ء پھر کیوں اے منکرین خلافت ! تم عناد محمود میں ایسے بڑھے کہ آنکھوں نے دیکھنے سے انکار کر دیا اور کانوں نے سننے سے اور یہ مژدہ جانفزا تمہارے پردہ سماع کو مرنقش نہ کر سکا کہ بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہوگا ایک دن محبوب میرا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 67 کروں گا دور اس مہ سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا پیشگوئی مصلح موعود ۴۶۹۱ء بشارت کیا ہے اک دل کی غذادی فسبحان الذي أخزى الاعادي ( در مشین اردو صفحه : ۵۰،۴۹) اہل پیغام مجھے انصاف سے بتائیں.اگر انصاف سے انہیں کوئی دور کا واسطہ بھی ہے کہ ان اشعار کو سننے کے بعد کیا کسی گھٹیا سے گھٹیا احمدی کے لئے کوئی خفیف سی گنجائش بھی اس امر کی باقی رہتی ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کی مبشر اولاد کو نعوذ باللہ فاسق وفاجر اور راہ حق سے بھٹکی ہوئی تسلیم کرے؟ کیا خفیف سے خفیف گنجائش اس امر کی باقی رہتی ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے متعلق بھی یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ نعوذ باللہ ایسا ظالم و بے باک ہوگا کہ بے دھڑک خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھے گا؟ نہیں نہیں ایسا مت کہو کہ وہ خدا کا محبوب ہے.اندھیروں کو اپنے چاند سے چہرہ سے روشن کرنے والا ، ظلمات کو اجالوں میں بدلنے والا وہ ماہ رخ جو اک عالم کا رخ نور اسلام کی طرف پھیر رہا ہے.کاش وہ سننے کے کان رکھتے اور دیکھنے کی آنکھیں ! یقینا یہ دیکھ کرسخت تعجب ہوتا ہے کہ منکرین خلافت کیوں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ الہ الودود کے حق میں حضرت مسیح موعود کی وہ بشارات سنے اور دیکھنے سے محروم ہیں.جو ایسی بلند بانگ اور ایسی روشن ہیں کہ ایک کجلائی ہوئی سماعت اور دھندلائی ہوئی بصارت کے لئے بھی ان کا ادراک مشکل نہیں ہونا چاہئے.اس معمہ کا حل تلاش کرتے ہوئے جب ہم صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اہل پیغام بھی دراصل ایک شدید مشکل میں مبتلا ہیں.اگر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا موعود بیٹا اور مصلح موجود بھی تسلیم کر لیں تو مصلح موعود کے عقائد بھی درست مانے بغیر چارہ نہیں رہتا اور اس طرح معاً پیغامیت کا تار پود بکھر جاتا ہے.پس اس مصیبت سے نجات پانے کی انہیں صرف یہی ایک راہ نظر آئی ہے کہ مصلح موعود کا جھگڑا ہی بیچ میں سے نکال دیں اور اس موقف پر ڈٹ جائیں کہ پیشگوئی مصلح موعود کا حضرت اقدس کے اپنے بیٹوں میں سے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 80 68 پیشگوئی مصلح موعود ۴۶۹۱ ء کسی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ تو ایک بہت بعد میں آنے والے روحانی فرزند کے متعلق ہے.لیکن اس لحاظ سے ان کی حالت سخت قابل رحم ہے کہ بے چارے ایسے دلائل کے خلاف سر پٹک رہے ہیں کہ جو چٹان سے زیادہ سخت اور مستحکم اور مضبوط ہیں اور اس چٹان کو توڑنے کے لئے جو کچھ ان کے پاس ہے اس کی حقیقت اس جھاگ سے زیادہ نہیں جسے دریا کی شوریدہ لہروں نے کسی چٹان کے قدموں میں لا پھینکا.ان کا مسلک حماقت در حماقت کا ایک تانا بانا ہے جسے جس پہلو سے بھی دیکھیں ہنسی آتی ہے یا حد سے بڑھی ہوئی حماقت پر رونا.کس قدر ظلم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گویا خود آپ کو بھی یہ علم نہ تھا کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے کیا نشان رحمت مانگا ہے؟ یہ امران کے لئے فیصلہ کن ہونا چاہئے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جب آپ کو مصلح موعود کی بشارت عطا فرمائی تو آپ نے اور دوسرے سننے والوں نے اس کا کیا مطلب لیا؟ کیا یہ ایک معلوم حقیقت نہیں کہ اس پیشگوئی کے شائع ہوتے ہی کیا موافق اور کیا مخالف ، کیا مسلمان اور کیا ہندو اور سکھ اور عیسائی سب نے بلا استثناء " فرزند دلبند سے مراد ایک عظیم الشان بیٹا لیا جو حضرت اقدس کو بلا فصل عطا ہونا تھا.چنانچہ سب دنیا کی نگاہیں اس پیشگوئی کے پورا ہونے یا نہ ہونے کی طرف لگ گئیں.ان سب لوگوں کو تو مان لیا کہ الہام کی تشریح میں غلطی لگ گئی مگر حضور علیہ السلام کے متعلق یہ کیسے مانا جائے کہ آپ کو بھی غلطی لگ گئی تھی.کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ آپ نے اپنے رب سے کیا مانگا ہے؟ پھر کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہی کچھ دینے کا وعدہ فرمایا جو آپ نے اس سے مانگا تھا.پھر یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ مانگا تو آپ نے پڑپوتا ہومگر انتظار بیٹے کا شروع کر دیا ہو.میرے پیغامی بھائیو! کچھ تو خدا تعالیٰ کا خوف کرو.خدا کے واسطے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل سے ایسی دشمنی نہ کرو کہ ہمیشہ کے لئے انقطاع ہو جائے.اگر واقعہ میں حضرت اقدس نے بیٹے کی بجائے کچھ اور مانگا ہوتا تو جب ۱۵ اپریل ۱۸۸۶ء کو صاحبزادی عصمت کی پیدائش پر مخالفین نے تمسخر اور تضحیک کا ایک طوفان بے تمیزی برپا کر دیا تو کم از کم اسی وقت حضرت اقدس کو یاد آجانا چاہئے تھا کہ کیا غلطی ہو گئی.آپ کو یاد آجانا چاہئے تھا کہ نہ میں نے بیٹاما نگا تھا نہ خدا تعالیٰ نے ہی بیٹے کا وعدہ فرمایا.پس اس فروگذاشت کے ازالہ کی خاطر آپ بذریعہ اشتہار یہ اعلان فرما دیتے کہ مجھ سے ایک
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 69 69 پیشگوئی مصلح موعود ۴۶۹۱ ء بڑی بھول ہو گئی.دراصل میں نے نہ تو کسی عظیم الشان بیٹے کی پیدائش کی التجا کی تھی نہ خدا تعالیٰ نے ہی کوئی ایسی خوشخبری دی پس تم عبث ایک مصلح موعود بیٹے کی انتظار میں خود بھی پریشان ہورہے ہو اور مجھے بھی پریشان کر رہے ہو آئندہ سے اس بحث کو بند سمجھا جائے.مگر افسوس کہ یہ بحث بند نہ ہو سکتی تھی ! آپ خود تو اپنے الفاظ واپس لے لیتے مگر اس وحی الہی کو کیسے بند کرتے جو متواتر آپ کے موقف کی تائید اور توثیق کرتی چلی جاتی تھی اور خدا تعالیٰ بھی بار بار آپ کو خبر دے رہا تھا کہ بیٹا ہی ہوگا ، بیٹا ہی ہوگا ، بیٹا ہی ہوگا اور ہوگا بھی نو سال کے اندر اندر.چنانچہ اشتہار ۱۲ / مارچ ۱۸۸۶ء میں آپ تحریر فرماتے ہیں: ایسا لڑکا بموجب وعدہ الہی 9 برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا.خواہ جلد ہو خواہ دیر سے.بہر حال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا.“ (اشتہار ۲ مارچ ۱۸۸۶ تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحه ۷۲) پس منکرین خلافت سے میں پوچھتا ہوں کہ کیا خدا تعالیٰ کو بھی غلطی لگ گئی تھی ؟ سننے والوں کو پتہ نہ چلا کہ اس پیشگوئی سے کیا مراد ہے؟ مانگنے والے کو یاد نہ رہا کہ میں نے کیا مانگا تھا؟ دینے والے کو یعنی خود خدا تعالیٰ بھی بھول گیا کہ کیا دینے کا وعدہ کیا تھا ؟ ہاں سال ہا سال کے بعد اہل پیغام کو نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ اور اس کی ساری مخلوق کی یہ بچگانہ غلطی معلوم ہوگئی اور اس پر سخت ہنسی آنے لگی.اُف میرے خدا اعصاب شکن ہے ان کی یہ عقل و فہم ! بہر حال اہل پیغام خواہ کچھ سمجھتے رہیں.ہر اہل عقل و دانش پر خوب روشن ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت اقدس علیہ السلام کو ایک عظیم الشان مصلح موعود بیٹے کی خوشخبری عطا فرمائی اور سب اہل علم جانتے ہیں کہ بڑی ہی صفائی اور شان کے ساتھ یہ پیشگوئی دنیا کے دیکھتے دیکھتے پوری ہوگئی.گو مخالفتوں کے بہت طوفان برپا ہو گئے ، گو آپ کو اور آپ کے ہونے والی اولا د کو سخت ناپاک اور ذلیل تمسخر کا نشانہ بنایا گیا.یہاں تک کہ دروغ گوافتراء پردازوں نے تمسخر اور تذلیل کے رنگ میں الہام الہی کی نقالی اور حضرت اقدس اور آپ کی اولاد کی کامل تبا ہی اور بربادی کے متعلق من گھڑت جھوٹے الہام شائع کئے مگر یہ سب جھوٹ خود انہی پر پڑے اور پسر موعود کے حق میں خدا کے سب ارادے پورے ہو کر رہے.محروم از لی لیکھر ام ہی کو دیکھئے کیسی سخت گستاخی کی راہ سے اس نے لکھا:
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 70 10 پیشگوئی مصلح موعود ۴۶۹۱ ”آپ کی ذریت بہت جلد منقطع ہو جائے گی.غایت درجہ تین سال تک شہرت رہے گی...خدا کہتا ہے جھوٹوں کا جھوٹا ہے میں نے کبھی اس کی دعا نہیں سنی.خدا اس سفر کو نہایت منحوس بتلاتا ہے.....خدا کہتا ہے میں نے قہر کا نشان دیا ہے خدا اسے نا پاک بتلاتا ہے جس کو شیطان نے اپنی شیطنت اور بے حمیتی سے بھیجا ہے...خدا کہتا ہے وہ نہایت غلیظ القلب ہوگا اور علوم صوری و معنوی سے قطعی محروم رہے گا اس رذیل کا نام قادیان میں بھی بہت سے نہ جانیں گے.“ کلیات آریہ مسافر صفحه ۴۹۶-۴۹۸) لیکھرام نے یہ ہرزہ سرائی کی لیکن جیسا کہ مقدر تھا یہ سارے جھوٹ خودای پر لعنت اور دکھ کی مار بن کر پڑے اور اس پیشگوئی کو ابھی تین سال کا عرصہ پورا نہ ہوا تھا کہ لیکھرام نے سخت بے اختیاری اور پر عذاب حسرت کے ساتھ مصلح موعود کی ولادت کی خبرسنی.تین سال گزر گئے اور مسیح موعود کی ذریت منقطع نہ ہوئی پھر اور تین سال گزرے اور لیکھرام کے کذب اور افتراء پر دوبارہ مہر تصدیق ثبت کر گئے.تب وہ اپنے ہی افتراء کی چھری سے ایک بچھڑے کی طرح کاٹا گیا اور اس کی نا پاک نسل کی صف لپیٹ دی گئی.ہاں یہ سارے دشمن خائب و خاسر رہے اور ان کے جیتے جی ان کی حاسد نظروں کے سامنے مسیح موعود علیہ السلام کو رحمت کا نشان عطا ہوا.اسی کے موافق جو آپ نے اپنے رب سے مانگا تھا.بس بڑی حسرتناک نگاہوں سے دشمن نے اسے جلد از جلد بڑھتے ہوئے دیکھا اور اس کا کچھ بگاڑ نہ سکے.وہ جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوا.جو اس سے ٹکرایا وہ پاش پاش ہو گیا اور وہ جس سے ٹکرایا اسے پاش پاش کر دیا.گنگ ہوگئیں وہ زبانیں جوکہتی تھیں کہ ہم اس کی بستی کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے.ہاں مگر جب اس نے کہا کہ میں دشمن کے پاؤں تلے سے زمین نکلتے دیکھتا ہوں تو دشمن کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی.شدید مخالفتوں کے طوفان اس کی اولوالعزمی سے ٹکرا کر پراگندہ ہو گئے اور اس کی آہ رسا کے اثر سے عناد کے الاؤ ٹھنڈے پڑ گئے.اس کے دشمنوں نے خود اس کے وطن میں اسے نیست و نابود کرنے کی کوشش کی مگر اس کے رب نے اس کی زمین کو وسیع تر کر دیا اور وہ اسلام کا علم ہاتھوں میں تھامے اور قرآن کے تراجم سینے سے لگائے مشرق اور مغرب
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 71 پیشگوئی مصلح موعود ۴۶۹۱ء کالوں اور گوروں کو برکت دیتا ہوا دیں بدلیں، قریہ قریہ پھرا اور اسلام کے شرف اور کلام اللہ کے مرتبہ کو کل عالم پر ظاہر کر دیا.یہاں تک کہ زمین کے کناروں تک شہرت پا گیا.اے اہل پیغام! جانتے ہو کہ یہ کون ہے ؟ اے منکرین مصلح موعود ! کیا اس نشان رحمت کو پہچانتے ہو؟ کیا یہ تصویر تم نے کہیں دیکھی ہے؟ دیکھو کہ یہ وہی محمود تو ہے جو مسیح موعود کی دعاؤں کا ثمرہ ہے.وہی فرزند دلبند گرامی ارجمند تو ہے جس کے حق میں خدا تعالیٰ نے اپنے مسیح کو بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہوگا ایک دن محبوب میرا کروں گا دور اس مہ سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی فسبحان الذي اخزى الاعادي اہل پیغام کے اعتراضات مصلح موعود کی وہ تصویر جو ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی اور سبز اشتہار میں ملتی ہے اور وہ تصویر جو ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کی زندگی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے باہم دگر ایسی ملتی ہیں کہ ہر نقش دوسرے کے مشابہ ہے اور سوائے اس کے کہ آنکھ کے اندھوں کوسوسو حجاب حائل ہو جائیں ممکن نہیں کہ کوئی اسے پہچان نہ سکے مگر افسوس کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام ہی کی طرف منسوب ہونے والے منکرین خلافت کیسی محجوب نگاہی کا شکار ہیں.ان میں سے بہت سے یقیناً ایسے بھی ہوں گے جن کی نظر میں شرارت کا قصور نہیں لیکن کچھ ایسے بھی ضرور ہیں جن کی نگاہیں شرارت اور بغض کے سوا اور کسی قصور کی سزاوار نہیں.جوں جوں آپ کے متبعین اور فدائیوں کا دائرہ بڑھتا چلا جاتا ہے ان کا حسد اور بڑھتا جاتا اور غیظ و غضب اور جوش مارتا جاتا ہے یہاں تک کہ ان کے سینے ایک کھولتی ہوئی ہنڈیا کی پر عذاب تصویر بنے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور سوائے حسد اور عناد کے ابال کے وہاں اور کوئی حقیقت نظر نہیں آئی.ان کے بعض اعتراض بودے اور بے معنی اور بعض لچر اور پوچ ہیں ، تہذیب واخلاق سے ایسے گرے ہوئے کہ انسانیت کی پست ترین
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 72 پیشگوئی مصلح موعود ۴۶۹۱ چوکھٹ پر بھی سر رکھنے کے اہل نہیں.مجھے تو حیرت ہے کہ اہل پیغام میں سے شریف النفس احباب کی شرافت اور انسانیت یہ برداشت کیسے کرتی ہے کہ پیغام صلح کے بھیس میں لیٹے ہوئے ایسے زہرناک اعلانات جنگ پسران مسیح موعود کی طرف بھیجے جائیں.میں نے آج کی تقریر کے لئے اہل پیغام کے دو ایسے اعتراض منتخب کئے ہیں جو گویا ان کے اسلحہ خانہ کے مضبوط ترین ہتھیاروں میں سے ہیں.پہلا ایک اصولی نوعیت کا اعتراض ہے اور دوسرا ذاتی نوعیت کا جس سے اولاد مسیح کے خلاف ان کے کھولتے ہوئے بغض کے اظہار کے سوا اور کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا.اعتراض اول یہ ہے کہ ان کے نزدیک عقلاً یہ ممکن ہی نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد اس قدر جلد مصلح موعود ظاہر ہو کیونکہ اصلاح کا تصور اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ اس سے پہلے فساد کا دور دورہ ہو.وہ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ احمدیت پر بھی فساد کا دور نہیں آیا اس لئے مصلح موعود کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ناممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد اس قدر جلد خرابی کا دور آجائے اور ایک اور مصلح کی ضرورت پیش آجائے.اول تو اس اعتراض پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ یہ خود اپنے ہی پاؤں تلے سے زمین نکالتا ہے.دعویٰ تو یہ ہے کہ چونکہ اس قدر جلد فساد ظاہر نہیں ہو سکتا اس لئے مصلح موعودا بھی سو دو سو سال تک نہیں آسکتا اور نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ چونکہ مصلح موعود ا بھی آنہیں سکتا اس لئے جماعت قادیان نے ایک مصلح موعود بنا کر فساد عظیم کھڑا کر لیا ہے.گویا جس سانس میں یہ دعویٰ ہے کہ اتنی جلدی فساد کا سوال پیدا نہیں ہوتا اسی سانس میں یہ دعویٰ بھی ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کے وصال کے چھ سال بعد ہی فساد کا ایسا طوفان اٹھ کھڑا ہوا کہ جماعت کی بھاری اکثریت اس کی لپیٹ میں آکر ہلاک ہوگئی حتی کہ نعوذ باللہ خود حضرت اقدس علیہ السلام کی ساری کی ساری اولا د بھی بلا استثناء اس کا شکار ہوگئی.پس یہ دلیل کہ چونکہ اس قدر جلد فساد برپا نہیں ہوسکتا اس لئے مصلح موعود کی ضرورت نہیں خود اپنی ذات میں فساد عقل اور تضاد کا ایک شاہکار ہے.اس اعتراض کا دوسرا بڑا نقص یہ ہے کہ یہ جس دعوئی پر مبنی ہے وہ محض ایک فرضی دعوی ہے جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں.معلوم ہوتا ہے اعتراض کرنے والوں نے ایک سرسری نظر سے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 73 پیشگوئی مصلح موعود ۴۶۹۱ء بھی مصلح موعود کی پیشگوئی پر نظر نہیں ڈالی اور نہ ایسا بے بنیاد موقف اختیار نہ کرتے محض لفظ مصلح کوسن کر یہ فرض کر لینا کہ جس مصلح موعود کی پیشگوئی کی گئی ہے وہ اس وقت ظاہر ہوگا جب جماعت احمدیہ میں فساد برپا ہو چکا ہو، اس پیشگوئی سے اپنی جہالت کے اقرار کے سوا اور کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ جب خود پیشگوئی میں ہی تفصیل کے ساتھ مصلح موعود کے آنے کے مقاصد بیان کر دئیے گئے ہیں اور ان میں اشارہ یا کنایہ بھی یہ ذکر نہیں ملتا کہ وہ نعوذ باللہ خود جماعت احمد یہ ہی کے فساد کو دور کرنے کے لئے کھڑا کیا جائے گا تو یہ اعتراض خود بخود باطل ہو جاتا ہے.اصل حقیقت یہ ہے کہ مصلح موعود کو تو الہام الہی میں اسلام کے ایک ایسے جری پہلوان کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو منکرین اسلام کے مقابل پر اسلام کی طرف سے نبرد آزمائی کے لئے نکلے گا اور انہیں شکست فاش دے گا.تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انکار اور تکذیب کی نظر سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے دوسرا اعتراض جو آج کل بعض شریروں کی طرف سے بڑے شدومد کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے وہ نعوذ باللہ دوئی کے ساتھ حضرت امیر المومنین کی مشابہت ثابت کرنے کی ناپاک کوشش ہے.ان معاندین کے نزدیک گویا حضرت مصلح موعود کی بیماری ویسا ہی عذاب الہی ہے جیسا مسیح موعود علیہ السلام کی دعا سے ڈوئی پر نازل ہوا اور اس خیالی عذاب کے خیال میں چٹخارے لیتے ہوئے وہ پیغام صلح کے صفحات کالے کرتے چلے جاتے ہیں حالانکہ نہ تو انہیں عذاب کی حکمتوں سے کوئی واقفیت ہے نہ سزا کی الف ب پر کوئی اطلاع.جوش تعصب میں یہ ادنی سی حقیقت بھی ان کی نظر سے اوجھل ہو جاتی ہے کہ ہر مذہبی راہ نما کی ہر بیماری عذاب الہی نہیں ہوا کرتی نہ ہرموت ذلت اور ہلاکت کی موت.ایک ہی میدان میں پچھاڑ کھا کر گرنے والا ایک واصل جہنم مقتول بھی ہوسکتا ہے اور ایک داخل جنت شہید بھی.دونوں کا ظاہر ایک نظر آتے ہوئے بھی حقیقت میں بعد المشرقین ہے.دونوں کی علامتیں بظاہر ایک ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے الگ اور ممتاز ہیں اور دونوں کے مقاصد بین طور پر مختلف.پھر حیرت ہے کہ ان معاندین کو کیوں یہ فرق نظر نہیں آتا؟ کیا ایک ایسے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 74 پیشگوئی مصلح موعود ۴۶۹۱ء خادم دین محمد کی بیماری بھی جس کی ساری عمر اور عمر کے سارے دن رات خدمت اسلام ہی میں کٹے ہوں ان کے نزدیک ویسا ہی عذاب الہی ہے جیسا ایک ایسے شخص کی بیماری جو عمر بھر دین محمد کی دشمنی میں جلتا رہا ہو، جس کی دردناک ہلاکت کی اذن الہی کے مطابق پہلے سے خدا کے ایک برگزیدہ رسول نے خبر دے رکھی ہو اور اسے اسلام کی سچائی کا ایک معیار قرار دیتے ہوئے اخبارات ورسائل کے ذریعہ خوب مشتہر کیا ہو.حضرت مصلح موعود کی بیماری کو ڈوٹی کی بیماری سے تشبیہ دینے والے ظالموں کا دھیان کبھی اس طرف بھی منتقل ہوا ہے کہ وہ یہ ناپاک کوشش شروع کرتے ہی خود کس کے مشابہ اور کس کے مثیل بن جاتے ہیں؟ کیا وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک بد بخت دشمن اسلام لیکھرام بھی تو حضرت اقدس علیہ السلام کی اولاد کے متعلق وہی کچھ کہتا تھا جو آج یہ معاندین کہ رہے ہیں؟ اس کو بھی آپ کی اولا دایک آنکھ نہ بھاتی تھی.وہ بھی زبان حسد ایسے ہی دراز کیا کرتا تھا، وہ بھی بغض وحسد کی آگ میں ایسے ہی جلا کرتا تھا جیسے یہ آج جل رہے ہیں.آج اگر وہ زندہ ہوتا تو کس فخر اورشان کے ساتھ محبت بھری نگاہیں ان پر ڈالتا جیسے کوئی مطمئن باپ اپنی کا رہائے نمایاں سرانجام دینے والی اولا د کو دیکھتا ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اس کی اپنی اولا د بھی آج زندہ موجود ہوتی تو اس کی پیروی میں وہ کام کر کے نہ دکھا سکتی جو یہ معاندین آج دکھا رہے ہیں.ایک طرف لیکھرام کی خرافات کو رکھ کر دیکھ لیجئے اور دوسری طرف پیغام صلح کی ہرزہ سرائیوں کو.کون کہہ سکے گا کہ یہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے نہیں ؟ پھر مصنفین کے نام مٹاکر ( کہ وہ مٹنے ہی کے لائق ہیں) مضمونوں کو باہم ادل بدل کر پہچاننے کی کوشش کیجئے.کون پہچان سکے گاکر لیکھر ام کون ہے اور ان کے ہمنوا کون؟ پس اے اس بد بخت آریہ کے ہمنواؤ جو اس کی جانشینی کا خوب خوب حق ادا کر رہے ہو! خدا را کبھی اپنی اس تصویر کی طرف بھی تو نگاہ ڈالو.کیا تمہاری مماثلت کی متلاشی آنکھ پسر موعود پر ہی قہر برساتی رہے گی ؟ ظلم کی حد ہے کہ ایک شخص جو بیمار ہی اس لئے ہوتا ہے کہ اپنی طاقت سے بڑھ کر خدمت دین کا بوجھ کندھوں پر اٹھا لیتا ہے.خدمت دین میں دن رات مصروف مسلسل مہینوں، سالوں اس کی نیند چار پانچ گھنٹے سے زیادہ نہیں بنتی.وہ بنی نوع انسان کا ایسا ہمدرد کہ لوگ اسے دعا کے لئے کہہ کر چلے جاتے ہیں اور اطمینان کی نیند سو جاتے ہیں.وہ ان کے درد سے بے سے بے قرار ہوکر
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 75 پیشگوئی مصلح موعود ۴۶۹۱ء راتوں کو اٹھتا اور اپنے رب کے حضور گریہ وزاری میں بسر کرتا ہے.وہ غم ملت میں بھی گداز ہے اور غم انسانیت میں بھی.وہ ایسی مسلسل محنت اور مشقت کا عادی ہے کہ جو بڑے بڑے سور ماؤں کو چند دن میں چور چور کر دے.ظلم کی حد ہے کہ ایک ایسے شخص کی بیماری کو ایک ایسے بد بخت کی بیماری اور ہلاکت کے مشابہ قرار دیا جاوے جو تکبر اور فرعونیت میں اپنی مثال نہ رکھتا تھا.جس کی ساری زندگی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے دین کی توہین و تحقیر میں برباد ہوئی.جس نے سرور دو عالم کے ایک عاشق غلام کو سخت حقارت کے ساتھ نعوذ باللہ زمین کا ایک کیڑا قرار دیا کہ جسے جب چاہے وہ اپنے پاؤں تلے مسل دے لیکن انجام کار وہ خود اپنے ہی تکبر کے بے رحم پاؤں تلے مسلا گیا اور زمین کے ذلیل ترین کیڑوں سے بھی بدتر حالت میں اس کی موت واقع ہوئی.کیا ان دونوں بیماریوں میں ان کی کینہ ور آنکھ کوئی امتیاز نہیں کر سکتی؟ کاش اس پیارے وجود کے متعلق جس پر ایسے بہیمانہ حملے کر رہے ہیں وہ کچھ جانتے جو ہم جانتے ہیں ! کاش وہ جانتے کہ بنی نوع انسان کا ایسا ہمدرد دل دنیا کے پردے پر شاذ و نادر ہی ظاہر ہوا کرتا ہے.کاش وہ جانتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے دین کا عشق کم کم دلوں میں اس زور سے موجیں مارتا ہے.کاش وہ دین اسلام کے لئے اس در دوالم سے واقف ہوتے ، وہ اس کرب و اضطراب سے آشنا ہوتے جس میں ہمیشہ دین محمد کے افکار نے اسے مبتلا کئے رکھا.کاش ایسا ہوتا تو وہ اپنے دلوں کی سفا کی کے باوجود ہمارے اس محبوب امام پر ایسے ظالمانہ حملے نہ کرتے اور اس خدا کے قہر سے ڈرتے جس کے قبضہ قدرت میں ہم ناچیز انسانوں کی بے حقیقت جانیں ہیں.کیا یہ بے باک جو اس بیماری کو ایک جھوٹے مدعی کی ہلاکت سے تشبیہ دیتے ہیں نہیں جانتے کہ ایک جھوٹے مدعی کی ہلاکت محض اس کی ذات کی ہلاکت نہیں ہوتی بلکہ اس کے سارے سلسلہ کی شہ رگ کاٹ دی جاتی ہے.دیکھوڈوئی کے ساتھ خدا کے غضب نے کیا سلوک کیا؟ اس کی جماعت ہی کی صف لپیٹ دی اور اس کی بسائی ہوئی بستی ایسی اجڑی کہ اس میں گدھوں کے ہل چل گئے.اس نے اپنی تباہی اور بربادی کا یہ حسرت ناک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور انہی آنکھوں سے دیکھا کہ اس کے جان نثار کہلانے والے سخت بے چارگی اور کرب کی حالت میں اسے پیٹھ دکھا کر چلے گئے اور جس نے بھی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 76 پیشگوئی مصلح موعود ۴۶۹۱ ء مڑ کر نگاہ ڈالی نفرت اور حقارت کی نگاہ ڈالی یہاں تک کہ اس کی بیوی اس سے برگشتہ ہوگئی.اس کے سب مدح سراؤں نے دشنام طرازی کو اپنا شیوہ بنالیا.پھر جب وہ مرا تو ایسی کسمپری کی حالت میں مرا کہ ایک عظیم گروہ کی سرداری تو کیا نصیب ایک ادنی انسان اسے اپنا غلام بنانا بھی گوارا نہ کرتا.یہ تھا وہ ڈوئی کا عبرتناک انجام جو خدا کے ایک شیر پر ہاتھ ڈالنے کے بعد اس نے دیکھا.کیا اس کے بعد بھی کوئی متعصب آنکھ ہمارے امام کی بیماری اور اس عقوبت الہی میں کوئی مشابہت دیکھ سکتی ہے جس نے ڈوئی کو اپنا شکار بنایا؟ کیا معاندین کا یہ گروہ نہیں دیکھتا کہ اپنے امام کی بیماری کے باوجود ہم ترقی کی راہ پر پہلے سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ گامزن ہیں؟ ہمارے جذبہ خدمت دین پر یہ بیماری ایک جلاد کی چھری کی طرح نہیں بلکہ ایک سوار کی مہمیز کی طرح پڑی ہے.آپ کی بیماری سے پہلے کی نسبت آج ہماری تعداد زیادہ ہے ، ہمارے مبلغ زیادہ ہیں ، ہماری مساجد زیادہ ہیں ، ہمارے رسائل زیادہ ہیں ، ہماری اشاعت زیادہ، ہمارا رسوخ زیادہ اور ہماری مالی قربانی زیادہ ہے.ڈوئی کے متبعین کے دل میں تو خدا نے اس کی ایسی نفرت بھر دی تھی کہ وہ حقارت بھری نظروں کے سوا اسے دیکھنا بھی گوارا نہ کرتے تھے مگر ہماری اپنے امام سے محبت ایسی بڑھی ہے کہ لاکھوں آنکھیں ہیں جو شوق دید میں آب دیدہ پھرتی ہیں اور ہزاروں شب زندہ دار ہیں جو راتوں کو اٹھ اٹھ کر اس کی خاطر اپنے رب کے حضور روتے ہیں اور سجدہ گاہوں کو اس کی محبت کے آنسوں سے تر کر دیتے ہیں.خدا کے یہ وفا شعار متوکل بندے مایوس نہیں ! ہاں اس خالق موت وحیات کی ہر تقدیر کے سامنے سرنگوں اور راضی بر رضا ہیں.یہ جانتے ہیں کہ قانون قدرت نیک وبد کی تمیز سے بے نیاز اپنے ایک الگ دائرہ اختیار میں کام کرتا چلا جاتا ہے.یہ جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر بعضوں کو نا گہانی طور پر اپنی طرف بلاتی ہے تو بعضوں کو نیم مردنی کی حالت میں جلد بخشتی اور واپس زندوں کی دنیا میں لاتی ہے اور اگر وہ چاہے اور ایسی ہی اس کی رضا ہوتو بعض روحوں کو معاً اور بعضوں کو رفتہ رفتہ ان کے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے.پس اپنے دلوں کی تاریکیوں کو اس نور پر مت پھینکو اور خدا کی عقوبت سے ڈرو.وہ کیسے مور د غضب الہی ہوا جس کی زندگی پہلے بھی دین محمد کے لئے گداز تھی اور آج بھی گداز ہے؟ وہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 77 پیشگوئی مصلح موعود ۶۴۶۹۱ کیسے مورد غضب الہی ہوا جو بڑھاپے اور بیماری سے بے نیاز جب تک اس کے نڈھال جسم میں طاقت کی رمق رہی ، قرآن کی خدمت کرتا رہا.اے تاریک ظنوں کی آماجگاہو! جاؤ اس بیمار کے مقابل پر دین متین کی تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچا کر دکھاؤ.آؤ اس کے مقابل پر اس کی تفاسیر قرآن کی مثال بنا کر لاؤ اور اگر اس کی سکت نہیں پاتے اور یقیناً نہیں پاتے تو تف بھیجوان صحبتوں پر جو فحشاء کی و با لئے ہوئے دنیا کی فضاؤں کو مسموم کر رہی ہیں اور قدم دھو کر پیواس بیمار کے جس کے نفوس نے صدیوں کے روحانی مردوں کو زندہ کر دیا.کیا تمہیں یورپ کے صنم کدوں سے غلغلہ ہائے تکبیر بلند ہوتے سنائی نہیں دیتے؟ کیا افریقہ کے تاریک و تار جنگلوں سے نور اسلام کے بلند ہیکل مینار بلند تر ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے ؟ سماعت کا تو ذکر کیا تمہاری تو بصارت بھی جاتی رہی تم تو تہذیب و انسانیت کے ادنی ترین مقامات سے بھی گر گئے.تم کیسے مسیح محمد ہی کے لخت جگر پر زہرناک تیروں کی بوچھاڑ کر کے پھر اس کی غلامی کا دم بھرتے ہو؟ کاش تمہارے ضمیر نہ مر گئے ہوتے !! شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ لا ہورڈویژن دسمبر ۱۹۶۵ء)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 79 نبی کرے کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء نبی کریم ﷺ کی قوت قدسیہ بر موقع جلسه سالانه ۱۹۶۶ء منعقده ۳۶، ۲۷، ۲۸ جنوری ۱۹۶۷ء) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا: آج سے چار ہزار برس پہلے کا یہ واقعہ ہے کہ عرب کے ایک لق و دق صحرا میں خانہ کعبہ کی دیواریں از سر نو بلند کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے رب سے کچھ دعائیں کیں.کیا ہی عجیب اور پاکیزہ وہ ماحول تھا جبکہ باپ معمار اور معصوم بچہ مزدور بنے ہوئے اپنے رب کی محبت میں سرتا پا سرشار ایک ایک اینٹ عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ رکھ رہے تھے.اس وقت انہوں نے اور دعاؤں کے علاوہ اپنے رب سے ایک ایسی مراد بھی مانگی جو مراد اس سے پہلے کسی انسان نے انسان کے لئے نہ مانگی تھی.انہوں نے اپنے رب کے حضور یہ التجا کی رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة:١٣٠) وہ وقت گزر گیا اور نہ تو حضرت ابراہیم زندہ رہے نہ حضرت اسماعیل بلکہ ان کی کتنی ہی نسلیں یکے بعد دیگرے اس دار فانی سے کوچ کر گئیں.دنیا والے تو حید اور خدا پرستی کے ان اسباق کو یکسر بھلا بیٹھے جو حضرت ابراہیم اور ان کی پاک نسلوں نے ایک دوسرے کے بعد دنیا کو دیئے تھے.دیوار کعبہ کے پاس کی ہوئی وہ مقدس دعا ئیں کسی کو یاد نہ رہیں جن میں خدا تعالیٰ سے ایک عظیم الشان رسول کی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 80 60 نبی کرے کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء بعثت کی التجا کی گئی تھی مگر خدائے حیبی و قیوم جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا نہ تو اپنے بندے ابراہیم ہی کو بھولا تھا نہ ان پاکیزہ آنسوؤں میں بھیگی ہوئی دعاؤں کو.پس اس وقت جبکہ شرک نے دنیا پر خوب خوب اپنا تسلط جما لیا حتی کہ توحید کے مرکز خدا کے پہلے گھر پر بھی بتوں نے پنجے گاڑ دیئے اور خدائے واحد کی بجائے ہبل اور لات و منات کی پرستش ہونے لگی، عین ظلم کی اس انتہاء کے وقت جب فساد خشکی پر بھی پھیل گیا اور تری پر بھی اور دنیا رشد و ہدایت سے یکسر خالی ہوگئی ،سرزمین عرب نے ایک عجیب تر ماجرہ دیکھا اور عرب کے زمین و آسمان اس بات پر گواہ ٹھہرے کہ دعائے ابراہیم کا ایک ایک لفظ مقبول ہوا تھا.ابراہیم کی دعاؤں کا ثمرہ آیا اور غار حرا سے تو حید کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ نور کی کرنیں بکھیر تا ہوا طلوع ہوا.وہ آسمان ہدایت کا بادشاہ آیا، وہ دنیائے رشد کا مزگی پیدا ہوا، وہ نبی آیا جس کی طرف بائبل نے اس کی عظمت و جلال کی وجہ سے وہ نبی“ کہہ کر اشارہ کیا، قدوسیوں کا وہ شہنشاہ جلوہ افروز ہوا جس کی محبت کے گیت داؤد نے اپنی زبور میں گائے.وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی برلانے والا !! تیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ فقیروں کا ملجی اسیروں کا مالوی اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا پڑا ہر طرف غل وہ پیغام حق سے کہ گونج اٹھے دشت و جبل نام حق سے وہ بجلی کا کڑکا تھا یا خوف ہادی عرب کی زمین جس نے ساری ہلادی (مسدس حالی صفحه : ۱۵) آج میں اسی مقدس وجود کے ذکر کے لئے کھڑا ہوا ہوں جس کی قوت قدسیہ نے دنیا کو عجیب اور بے مثل کام دکھائے اور زمان و مکان کے فاصلے اس کی پاک کر دینے والی قوت کے سامنے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 81 نبی کرے کی قوت قدسیہ ۱۶۹ء بے حقیقت ہو کر رہ گئے.کچھ ایسے رنگ میں اس نے خدائے حمید و قدوس کی تحمید و تقدیس کی کہ فرشتوں کی تحمید و تقدیس اس کے سامنے ماند اور پھیکی پڑگئی اور وہ سرنگوں اپنی لاعلمی کا اقرار کرنے لگے.کچھ اس شان اور عجیب قوت کے ساتھ بنی نوع انسان کو آلائشوں سے پاک کیا کہ ہزاروں لاکھوں نفس کے بندوں کو رب العزت کے بندے بنایا ، قدوسیوں کی صف میں لا کھڑا کیا وہ دس ہزار قد وسیوں کے ساتھ فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہوا.اس کی قوت قدسیہ نے مادر زاد اندھوں کو شفا بخشی اور اچانک دنیا نے یہ دیکھا کہ وہ دیکھنے لگے ہیں.پیدائشی بہروں اور گونگوں کو قوت سماعت و گویائی عطا کی اور معاوہ سننے اور بولنے لگے.لولوں اور لنگڑوں کو اس کے دست شفا نے اچھا کر دیا اور تیزر و توانا قدموں کے ساتھ وہ روحانی بلندیوں کی طرف دوڑنے لگے.صدیوں کے بیمار ہزار آزار لئے ہوئے اس کے پاس آئے اور دیکھو دیکھو کہ اس کی ایک جاں بخش نظر سے اچھے ہو گئے وہ جس کی دست نورانی کی پر تو سے کتنے ہی نخیف ہاتھ طاقت ، شوکت اور توانائی اور نور سے بھر گئے اور ید بیضا کی طرح چمکنے لگے.وہ جس کے غلامان در کے ہاتھوں کے عصا کفر و باطل کے لئے عصائے موسیٰ سے بڑھ کر ثابت ہوئے.وہی ہمارا آقا جس کی حیات آفریں سانسوں نے صدیوں کے مردوں کو زندہ کیا اور جس کی مٹھی نے عرب کی ویران اور بے روح خاک کو ہاتھوں میں لیا تو ابو بکر و عمر، عثمان وعلی پیدا ہوئے.ہاں وہی ہمارا آقا دل و جان سے پیارا وہی محبوبوں میں محبوب محمد م جس کے سانسوں کی مہک نے لاکھوں مردوں کو زندہ کر دیا اور کتنے ہی زندوں کو مسیحا بنادیا.آج زمانہ شاہد اور چاند سورج گواہ ہیں اور آپ اور میں اور سب روئے زمین پر بسنے والے غلامان غلام احمد شہادت دیتے ہیں کہ یہ اسی رسول عربی کی قوت قدسیہ تھی جو شعاع نور بن کر تیرہ صدیوں کا سینہ چیرتی ہوئی گزری اور ایک عاشق غلام کے دل پر نازل ہوئی.اس نور نے اس سینے کو بھر دیا اور زمین و آسمان حیرت سے یہ معجزہ دیکھنے لگے کہ پنجاب کی مٹی سے اس زمانے کا مسیح پیدا ہوا.وہی ہمارا آقا ہمارے دل و جاں سے زیادہ پیارا آقا جس کا جمال جمال خداوندی کے بعد اپنی ہرشان میں بے مثال تھا.وہ جس کے عکس رُخ کی تاثیر سے چہروں کے نقوش جلد جلد اپنی ہئیت بدلنے لگتے تھے اور دیکھتے دیکھتے جمال کے قالب میں ڈھل جاتے تھے.وہ حسینان عالم کو شرمندہ کرنے والے حسن جس کے مقابل پر حسن یوسف کی شمع بے نور دکھائی دینے لگی اور جس کے پر تو نے ہزاروں چہروں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 82 نبی کرم ﷺ کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء کوحسن یوسف عطا کیا.دنیا و مافیھا اس پر شار، جان و دل اس پر فدا ہوں اس کے تو ذکر سے روح اعتزاز کرتی ہے اور جان فدا ہونے کو بے قابو ہوئی جاتی ہے.اے میرے آقا سن کہ بے اختیار دل کی پنہائیاں تجھے پکارتی ہیں کہ يَاعَيْنَ فَيُضِ اللَّهِ وَالْعِرْفَانِ يَسْعَى إِلَيْكَ الْخَلُقُ كَالظُّمُان يَـا بَحْرَ فَضْلِ الْمُنْعِمِ الْمَنَّانِ تَهُوِى إِلَيْكَ الزُّمَرُ بِالْكِيْزَانِ إِنِّي أَرَى فِي وَجُهِكَ الْمُتَهَدِّل شَأْنَا يَفُوقُ شَمَائِلَ الْإِنْسَانِ أَحْيَيْتَ اَمْوَاتَ الْقُرُونِ بِجَلُوَةٍ مَاذَا يُمَائِلُكَ بِهَذَا الشَّانِ أَنْظُرُ إِليَّ بِرَحْمَةٍ وَتَحَبُّنِ يَا سَيِّدِى أَنَا أَحْقَرُ الْغِلْمَانِ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه : ۵۹۰ - ۵۹۴) اے اللہ تعالیٰ کے فیض و عرفان کے سرچشمے ! پیاسوں کی طرح مخلوق خدا تیری طرف دوڑی چلی آرہی ہے.اسے منعم اور منان خدا کے فضل کے سمندر! جوق در جوق ہجوم خلائق پیالے لئے تیری طرف بڑھ رہا ہے.میں آپ کے روشن چہرہ میں ایک ایسی عجیب شان دیکھتا ہوں جو تمام انسانوں سے بڑھ کر ہے.تو نے صدیوں کے مردوں کو ایک ہی جلوہ سے زندہ کر دیا.کون ہے جو اس عجیب شان میں تیری ہمسری کا دعویٰ کر سکے؟ دیکھ میری طرف پس ایک رحمت اور شفقت کی نظر سے دیکھ ! اے میرے آقا! میں تو ایک حقیر اور ادنی غلام ہوں.آنحضور نے جب اول اول عرب کو رشدو ہدایت کی طرف بلایا تو عرب طبیعتیں سرکش گھوڑوں کی طرح سیخ پا ہونے لگیں اور انکار کیا اور تکبر اختیار کیا اور چاہا کہ اس آسمانی سوار کو گرا کر اپنے سموں تلے روند ڈالیں لیکن دیکھو! میرے شاہ سوار آقا کو دیکھو کہ اس نے اپنی عالی قوت کے زور
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 83 نبی کرم ﷺ کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء سے ان کی گردنوں کے غم تو ڑ ڈالے اور ان کی چال کی سب کجیوں کو ہموار کیا یہاں تک کہ وہ اصیل گھوڑوں کی طرح اپنے مالک کے ادنی اشاروں پر سر تسلیم خم کئے صراط مستقیم پر دوڑنے لگے.اس مرد میدان سے پہلے کبھی کسی نبی کا دائرہ اصلاح اتنا وسیع نہ ہوا تھا کہ کل عالم پر محیط کر دیا گیا ہو بلکہ وہ تو اپنی بساط کے مطابق چھوٹی چھوٹی قوموں یا قبیلوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے کسی کے سپرد بنی اسرائیل کی بھیڑوں کی گلہ بانی کی گئی تو کوئی ملک ہند کی گائیوں کی رکھوالی کے لئے آیا.کوئی چین کا نبی بنا تو کسی کو ملک فارس کا رسول بنایا گیا لیکن ہمارا آقا کل دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوا.ہاں ایک ایسی دنیا کی اصلاح کے لئے جس کی تری بھی فساد میں ڈوبی ہوئی تھی اور خشکی بھی.آپ سے پہلے ابنیاء تو بعض مخصوص برائیوں کو مٹانے کے لئے آئے تھے کسی کا جہاد شرک کے خلاف تھا تو کوئی سنگدلی اور ظاہر پرستی کے خلاف رشد کی تلوار اٹھانے والا تھا.کوئی کم تولنے والوں اور مال میں خیانت کرنے والوں کے ناپ تول درست کرنے کے لئے آیا تو کسی کو یہ خدمت سپرد ہوئی کہ وہ عفت اور پاکیزگی کے قیام کے لئے کوشاں ہو.ہمارے آقا کے سپر دیگر یہ سب کام تھے.وہ ایک ایسی دنیا کی طرف مبعوث ہوا جو سرتا پا برائیوں اور گناہوں میں ملوث دنیا تھی اور کوئی ایک بدی بھی ایسی نہ تھی جو اس میں نہ پائی جاتی ہو.۱۳ سال کی قلیل مدت حضور کو دی گئی کہ ان سب مخالف قوتوں پر غالب آکر تمام بدیوں کا خاتمہ کر دیں.بدی کے بدلے میں نیکی ، ہر فتح کے بدلے میں ایک حسن ان وحشیوں کو عطا کریں پھر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اعلان حق کے ساتھ ہی آپ کے ہاتھوں وہ تبدیل شدہ روحانی انسان پیدا ہونے شروع ہو گئے جن کی تخلیق کا کام اللہ تعالیٰ کے اذن سے آپ کو سونپا گیا تھا.ہجرت حبشہ کے موقع پر حضور ﷺ کی بعثت کو ابھی چند سال ہی گزرے تھے اس وقت آپ کے کاموں کا جو تذکرہ حضرت جعفر نے نجاشی کے دربار میں کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کتنے تھوڑے عرصہ میں ہی آنحضور اللہ اپنے غلاموں کے اندر ایک عظیم الشان انقلاب پیدا فرما چکے تھے حضرت جعفر نے فرمایا: ”اے شہنشاہ ذی جاہ! ہم لوگ اس سے پہلے جاہلیت کے اوہام میں بری طرح مبتلا تھے، بتوں کی پرستش ہمارا مذہب تھا اور تعظیم عناصر ہمارا مسلک.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 84 نبی کرے کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء ہم نے اپنی خواہشوں کو اپنا خدا بنا رکھا تھا اور ہر ایک گناہ کا ارتکاب ہم خوشی کے ساتھ کرتے تھے.رحم و مروت ہم میں نام کو باقی نہ رہی تھی ، ہمارا ظلم وطغیان حد سے بڑھ چکا تھا.شراب اور قمار بازی ہمارا وطیرہ بن چکی تھی.پڑوسیوں کو ستانا، یتیموں کا مال کھا جانا ، مسافروں کو لوٹنا ہمارا دن رات کا شیوہ تھا.امانت، دیانت، صدق اور صداقت سے ہم کوسوں دور ہو چکے تھے.زبر دست زیر دستوں پر ظلم کرنے میں نہایت دلیر تھے.دوسروں کا حق مارنے اور لوگوں کو تکلیف پہنچانے میں ہمیں مزہ آتا تھا.غرض ہم مذہبی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے نہایت ذلیل حالت میں تھے مگر خدا تعالیٰ نے ہم پر اپنا خاص فضل نازل کیا اور ہم میں ایک ایسا رسول مبعوث فرمایا جس کے حسب نسب کی بزرگی سے ہم واقف تھے.جس کے اعلیٰ اخلاق اور جس کی امانت ، دیانت اور سچائی اور دیانت کا ہم میں سے ہر شخص معترف تھا.اس رسول نے ہم کو خدائے واحد ویگانہ کی پرستش کی تعلیم دی.بت پرستی سے روکا.سچ بولنے، امانت میں خیانت نہ کرنے ، لوگوں سے رحم و مروت کے ساتھ پیش آنے ، فواحش کو ترک کرنے اور عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا.غرض اس نے ہمیں ہر ایک بری بات سے اجتناب کرنے کا حکم دیا اور ہر ایک اچھی بات پر عمل کرنے کا ارشاد فرمایا.“ سيرة النبي و لا بن هشام جلد اصفحه: ۱۸۱) جیسا کہ حضرت جعفر کے بیان سے بھی ظاہر ہے آنحضور ﷺ کی بعثت سے پہلے عربوں کی دنیا ایک شاعروں اور شرابیوں ، فاسقوں اور فاجروں کی دنیا تھی جس میں راہزن تو بہت تھے لیکن رہنما کوئی نہ تھا.وہاں انسان انسان کو غلام بنائے ہوئے تھا اور بظاہر آزاد کہلوانے والے آقا خود رسم و رواج کے اسیر تھے.وہ ظلم وستم کی ایک اندھیر نگری تھی جہاں بغض وعناد ملتے تھے اور عفو کا کوئی وجود نہ تھا قتل ناحق اس عہد کا دستور تھا اور اکل حرام کی وہاں حکمرانی تھی کمزور طاقتور کے مظالم کا تخیہ مشق تھا لیکن مظالم کا ہاتھ روکنے کی کسی میں طاقت نہ تھی.ان حالات میں آنحضور کا ظہور ہوا جو سراج منیر بن کر اس تاریک دنیا پر چمکے.پھر آپ کی قوت قدسیہ نے یہ عجیب معجزہ دکھایا کہ ۱۳ سال کی نہایت
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 55 85 نبی کرے کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء قلیل مدت میں بدی کی ہر تاریکی ان سے دور تھی ، ہر ظلمت کی جگہ ایک نور نے لے لی.شاعر جو کبھی خیال کی وادیوں میں سرگرداں رہا کرتے تھے کلام الہی کا ورد کرنے لگے.آنحضوع کی ایک جنبش لب سے ایک ہی روز میں ہزار ہا شراب کے مٹکے توڑے گئے ، یہاں تک کہ مدینہ کی گلیوں میں ہر طرف شراب بہنے لگی اور کہنہ مشق شرابیوں نے شراب سے یک دفعہ منہ موڑ لیا اور مست مہ عرفان رہنے لگے.فاسق و فاجر عابد وزاہد بن گئے اور دیکھو یہ کیسا ہی انقلاب ہوا کہ وہ اب بھی راتوں کو اٹھتے تو تھے لیکن فسق و فجور کے لئے نہیں بلکہ اپنے رب کے حضور آہ و بکا اور گریہ وزاری کی خاطر.اس مز کی کے فیض سے پشتوں کے چوروں نے چوری ترک کر دی اور ایک مزدور کی تابناک زندگی کو اس پر ترجیح دینے لگے پھر اسی پر بس نہ تھی اور انفاق فی سبیل اللہ میں اپنے اموال لٹانے لگے.چھپ چھپ کر وہ اب بھی تک راتوں کو وہ نکلتے تو تھے لیکن فقط اس لئے کہ ان کا انفاق دنیا کی نگاہوں سے اور وں سے اوجھل رہے.اللہ اللہ یہ کیسا انقلاب تھا کہ تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (السجدة: ١٧ ) راتوں کو ان کے پہلو اس کے عذاب کے خوف اور رحمت کی طمع میں اسے پکارتے ہوئے بستروں سے الگ ہوتے تھے اور جو کچھ وہ انہیں عطا فرماتا تھا وہ ایک جاری چشمے کی طرح اسی کی راہ میں خرچ کرتے چلے جاتے تھے.آپ نے جھوٹی عزتوں کا قلع قمع کیا اور غلام زادوں کو سرداران لشکر بنا دیا.پھر سرزمین عرب نے یہ عجیب دن بھی دیکھے کہ گلیوں میں گھسیٹے جانے والے غلاموں کے جھنڈے تلے سردارن عرب کو جان کی امان ملی اور بلال حبشی کے کانوں نے عمر فاروق کے ہونٹوں سے سنا سید نا بلال ! سیدنا بلال ! آپ نے رسم و رواج کے بندھن توڑے اور سرداران عرب کو رسوم کی غلامی سے آزاد کیا.نہ جاہلیت کے سنگھار باقی رہے نہ جاہلیت کی نوحہ خوانی اور سادگی اور صبر نے ان کی جگہ لے لی.رات کی فضول گوئی کی مجالس ویران ہوئیں اور خدا کے گھر قائمین اور راکعین اور ماجدین سے بھر گئے.ظلم وستم کا دور ختم ہوا اور رحم و کرم کے چشمے پتھر دلوں سے پھوٹ پڑے، ظالموں اور ستم گروں کی دنیا رحیم و کریم بندگان خدا کی دنیا بن گئی.صدیوں کے بغض و عناد کاٹے گئے اور عفو اور حلم نے ان کی جگہ لے لی قتل ناحق کا رواج مٹ گیا اور قاتل اپنے مقتول کے بارے میں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 86 98 نبی کر نے کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء پوچھا جانے لگا کمزور طاقت ور کے مظالم کا نشانہ نہ رہا اور ظالموں کے دل خوف عاقبت سے بھر گئے.تاریخ عالم پر نگاہ ڈال کر دیکھئے اور مذاہب عالم کے پیرو کا ران کو ان کے اپنے خداؤں کی قسمیں دے کر پوچھئے کہ کیا کبھی ایک یا سو یا ہزار یالا کھ مصلحین کے ہاتھ پر بھی دلوں کی ناپا کی ایسی عظیم المرتبت پاکیزگی میں تبدیل ہوئی ہو.اگر وہ کہیں ہاں تو ان سے منہ موڑ لیجئے کہ وہ جھوٹے ہیں اور تاریخ مذاہب کا ایک ایک ورق ان کے کذب پر گواہی دیتا ہے.آنحضو کے ظہور کے وقت دنیا کے مختلف ممالک میں جس قدر بدیاں رائج تھیں وہ صلى الله صلى الله صلى الله ساری ملک عرب میں پائی جاتی تھیں.پھر بڑی قیامت یہ تھی کہ گنتی کی جو چند خو بیاں تھیں ان پر بھی تہ بہ تہ بدیوں کا ہی رنگ چڑھا ہوا تھا.پس آج میں اس پہلو سے حضورت کی قوت قدسیہ کی حیرت انگیز تاثیر پر روشنی ڈالتا ہوں کہ آنحو ﷺ نے عربوں کو صرف ان بدیوں ہی سے پاک نہیں فرمایا جونگی اور ظاہر بدیاں تھیں بلکہ ان کی ان صفات حسنہ پر بھی کار فرما ہوئی جو گو خو بیاں سمجھی جاتی تھیں لیکن در حقیقت ان میں ناپاکی کی اس قدر آمیزش تھی کہ اخلاق حسنہ سے انہیں دور کا واسطہ بھی نہ رہا تھا آنحضور نے ان ایسی تمام صفات کو بھی خالص اور پاک فرمایا اور پھر روحانیت اور تقویٰ اللہ کا رنگ دے کر ایسا چمکایا کہ وہ انمول جواہر کی طرح چمکنے لگیں.عربوں کی دلیری اور مردانگی ہی کو دیکھئے کہ اس خلق میں عرب بہت مشہور تھے اور ہر قسم کے مصائب کا چیلنج قبول کرنے اور سختیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مردانہ وار آگے آجایا کرتے تھے لیکن در حقیقت ان کی یہ بہادری وحشت اور درندگی کہلانے کی زیادہ مستحق تھی اور حد اعتدال سے ایسا تجاوز کر چکی تھی کہ خدا کا خوف بھی دلوں میں باقی نہ رہا تھا.ظلم سے ان کے ہاتھ روکنے کی راہ میں کوئی چیز حائل نہ تھی قادر مطلق کی پکڑ اور آخرت کے خیال سے وہ بالکل بے خوف بلکہ نا آشنا تھے.بے جا شیخی اور فخر اور تعلی نے شجاعت کے حسن کو داغ داغ کر رکھا تھا.حضور ﷺ نے اس بہادری کی ناپاک الائشوں کو اس طرح کاٹ کر الگ پھینک دیا جیسے بھٹی کپڑے کی میل کاٹ دیتی ہے.اب اس بہادری میں بے جا فخر اور نمود اور سفا کی کی کوئی ملاوٹ نہ رہی.اب یہ وہ بہادر تھے جن کی بہادری کا ہر رخ غیر اللہ کی طرف تھا اور جہاں تک خدا تعالیٰ کا تعلق ہے ان کے دل اس کے خوف سے صبح ومساء بھرے رہتے تھے اور قضاء اللہ کوللکارنے کا کیا سوال اس کے خوف سے ان کے پتے پانی ہوتے تھے ، ڈرتے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 87 نبی کرے کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء ڈرتے وہ دن گزارتے تھے اور روتے روتے ان کی راتیں بسر ہوتی تھیں.حضرت عمر کے آخری لمحات اور آپ کے آخری کلمات سے کون مسلمان بے خبر ہے.اس جری انسان پر قضاء اللہ کا خوف ایسا غالب ہوا کہ سخت بے چینی اور کرب سے کروٹیں لیتے اپنے رب سے التجا کرتے تھے رَبِّ لَالِى وَلَا عَلَى رَبِّ لَا لِي وَلَا عَلَيَّ ( صحیح بخاری کتاب الا حکام باب الاستخلاف) اے میرے رب! میں اس جان کنی کی حالت میں تجھے سے التجا کرتا ہوں تو مجھ سے حساب نہ فرما.میں تو خود کہتا ہوں کہ میری نیکیاں ایسی بے حقیقت ہیں گویا ان کا کوئی وجود نہیں.میری بدیاں بھی تو اپنے بخشش کے پانی سے دھو ڈال حتی کہ ان کا بھی کوئی وجود نہ رہے اور اس تہی دامن بندے کو جو کچھ دینا ہے محض اپنے فضل کے ہاتھ سے دے.حضرت خالد بن ولیڈ جنہیں خدا کے رسول نے سیف اللہ کا لقب عطا فرمایا بستر مرگ پر پڑے زار زار روتے تھے.پوچھنے والے نے پوچھا آپ کیوں اس طرح بے تابانہ روتے ہیں؟ تو فرمایا میں جہاد میں اس کثرت سے شریک ہوا ہوں کہ میرے جسم پر ایک بالشت بھی ایسی جگہ نہیں جس پر میں نے خدا کے نام پر زخم نہ کھائے ہوں.یہ کہتے کہتے آپ نے روتے ہوئے پیٹھ اور پیٹ پر سے کپڑا اٹھایا کہ دیکھو میرا تو سارا بدن زخموں کے نشانوں سے بھرا پڑا ہے لیکن صد حیف اس کے باوجود مجھے شہادت نصیب نہ ہوئی اور آج میدان جنگ کی بجائے بستر پر جان دے رہا ہوں.اگر شہید ہو جاتا تو یقیناً میرے گناہ بخشے جاتے اور جنت میں شمار ہوتا لیکن اب نہیں جانتا کہ مجھ سے کیا سلوک کیا جائے گا.(تھذیب التھذیب جز ۳ صفحه : ۱۰۷از میر خالد بن ولید بن مغیرہ) ان کے اس خوف کا باعث یقیناً موت نہیں بلکہ مابعد الموت کی وہ زندگی تھی جس میں انہیں اپنے رب کے حضور پیش ہونا تھا.موت کا خوف تو در کناران میں ہزار ہا ایسے مردان میدان تھے جو شہادت کی تمنا لئے ہوئے جیتے تھے فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ (الاحزاب :۴۳) ان میں سے بہتوں نے اپنی امنگوں کو پالیا لیکن بہت سے ایسے بھی رہ گئے جو اس آرزو اور انتظار میں عمر بھر جیا گئے یہاں تک کہ لَا لِی وَلَا عَلَی کی سخت در ناک آہ و پکار نے انہیں وصال یار کا پیغام پہنچایا.موت کا خوف تو در کنار وہ بسا اوقات ظاہری موت یعنی ابدی زندگی کی طرف اس طرح لپکتے تھے جیسا پیاسا پانی کی طرف دوڑتا ہے.زمانہ شاہد ہے کہ موت کبھی کسی قوم کے سامنے اگر ذلیل وخوار ہوئی ہے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 88 نبی کرے کی قوت قدسیہ ۱۶۹ء تو وہ میرے آقامحمد عربیﷺ کے پروردہ غلاموں کے سامنے ہوئی ہے.آنحضور ﷺ نے عربوں کی بہادری کو جو نئی تخلیق عطا فرمائی اس کا اگر عرب کی جاہلیت کی بہادری سے موازنہ کرنا ہو تو میدان بدر پر بس ایک نگاہ ڈالنا کافی ہے.ایک طرف عرب کے نامور ایک ہزار سپاہیوں کا وہ لشکر جرار تھا جو سر سے پاؤں تک ہتھیاروں سے مسلح ہو کر ایک قلیل جماعت کو کچلنے کے لئے شیروں کی طرح بھرتا ہوا آیا تھا ان کے ساتھ رجزیہ اشعار پڑھنے والے شاعر بھی تھے اور مقتولوں کے تذکرے کر کے جوش دلانے والی عورتیں بھی تھیں اور وہ ڈھول پیٹنے والے ماہر فن بھی تھے جن کی ضربوں کی تال پر آواز کا وہ زیروبم پیدا ہوتا تھا جو دلوں کو مرتعش کرتا اور جذبات کو وحشت پر ابھارتا تھا.ہر طرف سرخ اونٹوں اور مشکیں گھوڑوں کی پیٹھوں پر فخر وتعلّی کا شور بلند ہورہا تھا.اس لشکر جرار کے مقابل پر وہ تین سو تیرہ (۳۱۳) بہادر نکلے جنہوں نے ہمارے آقا سے بہادری کے جوہر سیکھے تھے.انہیں اپنی طاقت کا کوئی گھمنڈ اور بڑائی کا کوئی دعوی نہ تھا، وہ تو بجز اور انکساری کا پیکر تھے جن کے نقش خاک میں ملے ہوئے تھے.ان کی زبانیں فخر و تعلی سے عاری تھیں.ہاں نعرہ ہائے تکبیر سے وہ وادیوں کے دل دہلا دیا کرتے تھے.ان میں صحت مند بھی تھے اور بیمار بھی، کمزور بھی اور طاقتور بھی ، بوڑھے بھی اور بچے بھی ، ان میں ایسے بھی تھے جن کے پاس زرہ کا تو کیا سوال بدن ڈھانکنے کو کپڑا تک نہ تھا اور ایسے بھی تھے جن کے ہاتھوں میں ٹوٹی ہوئی تلوار یا محض لکٹری کے ایک ڈنڈے کے سوا کچھ اور نہ تھا.پھر بھی وہ بے خوف تھے اور ہر پیشانی پر شجاعت، فتح اور کامرانی اور عزم شہادت کی نقوش کندہ تھے.وہاں بدر کے میدان میں ان دو لشکروں کی ٹکر ہوئی.عربوں کی فاخرانہ جہالت اور آنحضرت کی پروردہ بسالت کے درمیان ایک زبر دست تصادم ہوا.وہاں بدر کے میدان میں اس شجاعت میں جو بجز کی پر و درہ تھی فخر اور تعلی کے سر توڑ ڈالے اور غلامان مﷺ نے ملکہ کے جگر گوشوں کے ٹکڑے اڑا دیئے اور بندگان خدا نے ایک ہزار سرداران عرب کو جڑوں سے اکھیٹر پھینکا.ی تھی وہ شجاعت جو آنحضور کی قوت قدسیہ نے پیدا کی.ہر کبر ونخوت سے پاک عاجزی میں ڈوبی ہوئی بسالت مضبوط ، محکم اور غیر متزلزل جس سے اگر چٹانیں بھی ٹکرائیں تو حقیر موجوں کی طرح پارہ پارہ ہوجائیں.عرب ایک غیرت مند قوم مشہور تھے لیکن ان کی غیرت بھی درحقیقت غیرت کی نسبت
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 89 نی کر نے کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء درندگی کہلانے کی زیادہ مستحق تھی.وہ غیرت کے نام پر ایسے انسانیت سوز مظالم توڑتے تھے کہ اس کی مثال روئے زمین پر نظر نہیں آتی.عورت کے پیٹ سے پیدا ہونے والے وہ وحشی عورت ہی کو اپنے لئے اس قدر باعث ننگ و عار سمجھتے تھے کہ بہتیرے ان میں سے خود اپنے ہاتھوں اپنی نوزائیدہ معصوم بچیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے.یہ سفا کی ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے خود آنحضرتﷺ کی خدمت میں اپنی غیرت کا یہ واقعہ بیان کیا کہ میری غیر حاضری میں ایک دفعہ میرے ہاں لڑکی پیدا ہوئی تو بیوی نے اس ڈر سے کہ میں اسے مارنہ دوں مجھے اطلاع بھیجی کہ مردہ بچہ پیدا ہوا ہے.جب میں سفر سے واپس لوٹا تو اس نے مجھے بتایا کہ میں نے دل بہلانے کے لیے اپنی بہن سے ایک بیٹی مانگ لی ہے چنانچہ وہ بچی میری لاعلمی میں میرے ہاں پلتی رہی اور چار پانچ سال کی ہوگئی.بہت پیاری بچی تھی ، بہت خوبصورت ، بہت نیک سیرت، اس وقت مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہ میری اپنی بچی ہے چنانچہ میں نے سفر پر ساتھ لے جانے کے بہانے اسے تیار کروایا.وہ اچھے اچھے کپڑے پہن کر میرے ساتھ چل پڑی.جنگل میں پہنچ کر میں نے ایک گڑھا کھودا اور وہ معصومانہ پوچھتی رہی کہ ابا یہ کیا کر رہے ہو؟ پھر میں نے اسے اس میں لٹا دیا اور وہ محو حیرت مجھ سے میری اس حرکت کے بارے میں سوال کرتی رہی.پھر میں نے جلد جلد اس پر مٹی ڈالی اور دیر تک مجھے اس کی خوف زدہ روتی ہوئی آوازیں سنائی دیتی رہیں کہ اباتم یہ کیا کر رہے ہو؟ ہائے ابا تم یہ کیا کر رہے ہو؟ یہاں تک کہ مٹی کے ڈھیر تلے وہ خوف زدہ آواز میں ہمیشہ کے لئے دب گئیں اور میری آنکھ نے اس کے اس حال پر ایک بھی آنسو نہ بہایا.رحمتہ للعالمین نے جب یہ واقعہ سنا تو بے اختیار آپ کی آنکھوں سے رحمت کے سوتے پھوٹ پڑے اور آپ نے فرمایا مَنْ لَمْ يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ ( مقدمہ سنن الدارمی) کہ وہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا.عربوں کی یہی وہ سفا کی اور درندگی تھی جسے ان کی اخلاقی پستی نے غیرت کا نام دے رکھا تھا اور یہ وہ ذلیل اور درندہ صفت قوم تھی جسے انسان اور پھر باخدا انسان بنانے کا کام ہمارے آقا کو سونپا گیا.پھر کیوں نہ دل اس مزکی کی مدح کے گیت گاتے ہوئے پروانہ وار اس کے حسن کا طواف کریں کہ اس نے چند سال کی قلیل مدت ہی میں یہ انہونا کام کر کے دکھایا اور عربوں کی اخلاقی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 90 90 نبی کرم ﷺ کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء دنیا کی کایا پلٹ کے رکھ دی.حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ اسی حیرت انگیز تبدیلی کا ذکر اپنے منظوم کلام میں یوں فرماتی ہیں: رکھ پیش نظر وہ وقت بہن جب زندہ گاڑی جاتی تھی گھر کی دیوار میں روتی تھیں جب دنیا میں تو آتی تھی جب باپ کی جھوٹی غیرت کا خون جوش میں آنے لگتا تھا جس طرح جنا ہے سانپ کوئی یوں ماں تیری گھبراتی تھی یہ خونِ جگر سے پالنے والے تیرا خون بہاتے تھے جو نفرت تیری ذات سے تھی فطرت پر غالب آتی تھی گویا تو کنکر پتھر تھی احساس نہ تھے جذبات نہ تھے تو ہین وہ اپنی یاد تو کر اتر کے میں بانٹی جاتی تھی وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جاتا ہے تو بھی انساں کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے ان ظلموں سے چھڑوا تا ہے بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سوسو بار پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار در عدن صفحه ۴، ۲۵) آنحضور ﷺ کی بعثت کے بعد بھی عرب غیرت مندر ہے بلکہ پہلے سے کہیں بڑھ کر غیرت مند ہو گئے لیکن اب اُن کی غیرت سفا کی اور درندگی کی ہر آمیزش سے پاک تھی.اب وہ معصوم بے دست و پا بچیوں کو اپنی غیرت کا نشانہ نہیں بناتے تھے.وہ اب بھی غیرت مند بلکہ پہلے سے کہیں بڑھ کر غیرت مند تھے لیکن سنگدلی اب ان میں نام کو باقی نہ رہی تھی اور ان گنت رحمت اور شفقت علی الناس کے چشمے ان پتھروں سے پھوٹ پڑے تھے.معاشرے کا وہ سنسان اور بے آب و گیاہ صحرا جو کبھی ظالم بھیڑیوں کا مسکن تھا اب سنسان اور بے آب و گیاہ صحرا نہ رہا تھا بلکہ سرسبز اور شاداب سرائیوں میں تبدیل ہو گیا تھا جن میں شفقت اور ایثار اور رحم و کرم کی دائمی نہریں بہتی تھیں.یہ کون تھا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 91 نبی کرے کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء جس نے حیرت افزا انقلاب برپا کیا تھا وہی ہمارا آقا محمد تھا جو دلوں کو پاک کرنے اور مذموم اخلاق کی کائنات کو مسمار کر کے ایک نئی زمین اور ایک نیا آسمان بنانے کے لئے دنیا میں آیا تھا.احول کی بعثت سے قبل بھی عربوں کی فیاضی اور مہمان نوازی کی داستانیں زبان زد خلائق تھیں لیکن ان کے ہر دوسرے خلق کی طرح اس خلق پر بھی نفسانی اور شیطانی رنگ غالب تھا اور اسراف اور بذر اور ریا اور نمود کو تو اپنی نا کبھی میں فیاضی اور مہمان نوازی کا نام دیا کرتے تھے.کتنے ہی ایسے امراء تھے جو نام ونمود کی خاطر ایک ایک دن میں سینکڑوں اونٹوں اور بھیٹر بکریوں کی گردن پر چھری پھیر دیتے تھے لیکن اکار کا آنے والے یتامیٰ اور مساکین کی قسمت میں ان کے دروازوں پر دھکوں کے سوا اور کچھ نہ تھا.ضرورت مند غربا کے گلوں میں سود درسود کے پھنڈے ڈالنا ان کے جذ بہ فیاضی کے مخالف نہ تھا اور یتامیٰ اور بیوگان کے اموال بے دریغ کھا جانے کے باوجود وہ بندہ پرور کہلاتے تھے.بڑی بڑی عظیم الشان دعوتوں چھلکتی ہوئی شراب کی بوتلوں اور راگ ورنگ کی شبانہ محافل پر ان کی فیاضی کی ساری داستانیں ختم ہو جاتی تھیں.اس وقت ان میں وہ مز کی عالم پیدا ہوا جو وحی الہی سے قبل بھی جود وسخا کا ایک حسین پیکر تھا.جو بنی نوع انسان کو سچی ہمدردی کا ایک قلزم بے کراں اور رحمتوں کا ایک ایسا بحر ذخار تھا جو نام و نمود کی آلائش سے کلیۂ پاک تھا.اس سے بہتر مہمان نواز کبھی پیدا نہ ہوا تھا اور اس سے زیادہ مصیبت زدگان کی امداد کرنے والا اور کوئی نہ آیا تھا.وہ مفلسوں اور قلاشوں کا والی ، وہ گردنوں کو چٹیوں سے آزاد کرنے والا ، وہ بے نواؤں اور بے کسوں کا ہمدرد، یتامیٰ اور بیوگان کا والی ، اول اول عرب کی اخلاقی دنیا میں ایک اجنبی کی طرح آیا کیونکہ اس جیسی صفات کا حامل انہوں نے کوئی انسان نہ دیکھا تھا.اپنے اخلاق کی پاکیزگی ، خلوص، وسعت اور عظمت کے لحاظ سے گویا وہ کسی اور دنیا کا انسان تھا جوان میں ظاہر ہوا.اول اول وہ ایک اجنبی کی طرح آیا لیکن اس کی عظیم قوت قدسیہ آن کی آن میں اپنے گردو پیش کو متاثر کرنے لگی اور اس کے اخلاق حسنہ ایک طاقت ور برقی رو کی طرح اس کے احساس و قلوب میں سرایت کر گئے تب وہ اخلاقی معجزہ رونما ہوا جو نہ زمانوں میں اپنی کوئی نظیر رکھتا تھانہ جہانوں میں ، فیاضی کے سب قدیم اور بوسیدہ اطوار بدلے گئے اور کریمی نئے قالب میں ڈھالی گئی.میرے آقا کے نور نے نام و نمود کا کوخس و خاشاک کی کے طرح جلا کر خاکستر کر دیا اور فیاضی نے حیا کی چادر
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 92 92 نی کر ے کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء اوڑھ لی اب وہی فیاض جو کبھی اپنی عطا کے جو ہر دکھانے کے لئے دن کی روشنی اور دیکھنے والی آنکھوں کا انتظار کیا کرتے تھے انسانی نظروں سے اوجھل رات کی تاریکی میں چھپ چھپ کر نکلنے لگے اور اکثر لینے والا ہاتھ اس امر سے نا آشنا ر ہنے لگا کہ دینے والا ہاتھ کون تھا یا کس کا تھا؟ فیاضی کی ادا کچھ ایسی بدلی کہ معطی کے لئے اس کے احسان کا شکریہ باعث مسرت بننے کی بجائے موجب اذیت ہو گیا اور خود اللہ تعالیٰ ان فیاضوں کے متعلق گواہی دیتا ہے کہ شکریہ سے ان کے دل تنگ ہوتے تھے اور بے اختیار وہ یہ کہا کرتے تھے: إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (الدھر: ۱۰) نادانو ! ہم تو تمہیں خدا کے چہرے کی خاطر کھانا کھلاتے ہیں.تم سے کوئی شکر یہ اور کوئی عطا نہیں چاہتے.آنحضور ﷺ کی قوت قدسیہ نے جو فیاض پیدا کئے گویا وہ ایک نئی مخلوق تھے جن سے فیاضان گزشتہ کو کوئی نسبت یہ تھی.آپ سے قبل سخاوت امیروں کے گھر کی باندی سمجھی جاتی تھی.سخی بس وہ ہی ہو سکتا تھا جس کے ظروف زیادہ اور دیگیں بڑی ہوں اور جس کے مویشیوں سے وادیاں بھر جاتی ہوں.آپ نے یہ سب تصور باطل کر دکھائے اور اپنے غلاموں کو کچھ ایسی دل کی غنا بخشی کہ ان کے امیر ہی تھی نہ رہے بلکہ غریب بھی تھی بلکہ سیخوں کے سرتاج بن گئے.احادیث سے پتا چلتا ہے کہ آنحضوﷺ نے جو دو کرم کا ایسا ولولہ ان کے دلوں میں پیدا کر دیا کہ بسا اوقات مفلس اور بے زرصحابہ اس نیت کے ساتھ رسی اور کلہاڑا لے کر جنگل میں نکل جاتے تھے کہ لکڑیاں بیچ کر جو قیمت ہاتھ آئے وہ خدا کی راہ میں خرچ کریں.وہ خود ضرورت مند ہونے کے باوجود دوسروں کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر اس درجہ ترجیح دینے لگے کہ آسمان سے کہ خدا تعالیٰ کی تحسین و کرم کی نظریں ان پر پڑنے لگیں اور اپنے محمد کے غلاموں کی اس بے مثل کردار کا ذکر اس نے ان الفاظ میں فرمایاؤ يُؤْثِرُونَ عَلَى اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (الحشر : (۰) یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے فیاضوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک اعلان عام تھا کہ اے کریمان عالم جو جود وسخا کے دعوے دار ہو آؤ اور میرے محل کے غلاموں سے فیاضی کے سبق سیکھو، اس کے چاکروں سے فیاضی کے سبق سیکھو
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 93 نی کرنے کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء جس کے غریب مفلس غلام بھی آج دنیا ئے جو دو کرم کے بادشاہ ہیں.آؤ اور فیاضی کے نئے رسم و رواج کو دیکھو کہ مفلس و قلاش مزدور اپنی ضرورتوں کو حج کے دوسرے محتاجوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مصروف ہیں.عرب مہمان نوازی میں ایک بلند مقام پیدا کر چکے تھے اور ان کے اس اعلیٰ خلق کی داستانیں دنیا کے طول و عرض میں مشہور تھیں لیکن یہ مہمان نوازی بھی عموماً سکھ کے دنوں کی اور کھاتے الله پیتے گھروں کی مہمان نوازی تھی اور فخر اور تعلی اور نمود کی ملونی سے ناپاک ہو چکی تھی.آنحضور ﷺ کی قوت قدسیہ اس پر بھی کار فرما ہوئی اور اسے ایک نئے جلا بخشی.مہمان نوازی کے بھی نئے اسلوب اور نئے آداب وضع ہوئے اب ایسے مہمان نواز پیدا ہوئے کہ جو بھوک کی شدت کے وقت بھی یعنی اس وقت بھی جبکہ کھانا انسان کو سخت محبوب ہو جاتا ہے محض اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر اپنا کھانا مہمانوں کو پیش کر دیتے تھے یہاں تک کہ بعض اوقات ان کے بچے محض اس لئے بھو کے سوتے تھے کہ ایک مہمان کا پیٹ بھر جائے اور پھر وہ خلق کو ایسا چھپاتے اور دنیا کی نظر سے دور کھتے تھے کہ اگر عرش کا خدا ان کی اس عجیب حالت کو ظاہر نہ فرماتا تو شاید کبھی کسی کو اخلاق کے ان نادر نمونوں کی خبر نہ ہوتی.لیکن خدا تعالیٰ کے تقدیر نے نہ چاہا کہ یہ انمول موتی دنیا کی نظر سے اوجھل رہیں اور آنحضوں پر یہ وحی فرمائی: وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِيْنًا وَيَتِيمَا وَ أَسِيرًا (الدھر: ٩) صلى الله کہ اے میرے بندے! تیرے غلاموں میں تو ایسے پیدا ہو چکے ہیں کہ وہ کھانا تیموں اور مسکینوں اور غریبوں کو کھلاتے ہیں اس حال میں بھی کہ بھوک کی شدت سے خود کھانا انہیں عزیز ہورہا ہوتا ہے.ایک مرتبہ آنحضور ﷺ کے پاس ایک مہمان آیا اس کے کھانے کے لئے حضور ﷺ نے باری باری تمام ازواج مطہرات سے پتا کروایا لیکن سب نے یہی جواب دیا کہ اس خدا کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے کہ ہمارے پاس تو پانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے اس پر حضور نے اعلان فرمایا کہ کوئی ہے جو میرے اس مہمان کو اپنے ساتھ لے جائے اور ایک انصاری کھڑے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 94 نی کرنے کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں لے جاتا ہوں چنانچہ اسے اپنے ساتھ گھر لے گئے اور بیوی سے کہا کہ رسول الل کا مہمان آیا ہے تمہارے پاس کھانے کو کیا ہے؟ اس نے جواب دیا میرے پاس بس اتنا ہی کھانا ہے کہ بچوں کو کھلا سکوں.انصاری نے کہا بچوں کو کسی چیز کے ساتھ بہلا لو اور جب وہ شام کا کھانا مانگیں تو ان کو سلا دو اور جب ہمارا مہمان آجائے تو چراغ بجھا دو اور اس پر یہ ظاہر کرو کہ ہم بھی کھا رہے ہیں چنانچہ سب بیٹھ گئے اور مہمان تو کھا تارہا اور وہ دونوں منہ کی آوازوں سے یہ ظاہر کرتے رہے کہ گویا وہ بھی کھا رہے ہیں اور اس طرح مہمان کو کھلانے کے بعد بھوک کی حالت میں صلى الله انہوں نے رات گزار دی.صبح جب وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے فرمایا کہ رات مہمان کے ساتھ تم دونوں کے سلوک پر اللہ تعالیٰ بھی آسمان پر چٹخارے لے رہا تھا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ( صحیح بخاری کتاب المناقب باب قول اللہ تعالیٰ و یؤثرون علی ام..) کن وحشیوں کو آپ نے کیا بنا دیا کہ زمین پر بسنے والوں کے خلق کے تبصرے ملاء اعلیٰ میں ہونے لگے اور وہ سفلہ پرست جن کے کردار سے انسانوں کو بھی گھن آجاتی تھی اب ایسے پاک ہوئے فرشتے رشک کی نگاہوں سے ان کو دیکھتے ہوں گے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ قوت قدسیہ کی پہچان کی ایک کسوٹی یہ بھی بیان فرماتا ہے کہ وہ بغض اور نفرت کو شدید محبت میں تبدیل کرنے کی طاقت رکھتی ہے چنانچہ فرمایا: اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيُّ حَمِيمٌ وَمَا يُلَقْهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقْهَا إِلَّا ذُو حَظِّ عَظِيمٍ (تم السجدة :۳۰-۳۲) یعنی حسن کی تلوار سے بدی کا مقابلہ کر اور برائی کا انتقام نیکی سے لے تو اچانک تو کیا دیکھے گا کہ وہ بھی جو تیرا شدید دشمن ہے تیرے دامن محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے.لیکن یہ تبدیلی ہرکس و ناقص کے بس کی بات نہیں اس کے لئے خدا کے ایسے مز کی بندوں کی ضرورت ہے جو صبر کی عظیم طاقتیں اپنے اندر رکھتے ہوں اور خدا کے فضل سے انہیں عظیم حصہ ملا ہو.اس کسوٹی پر پورا اتر تے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی ایک آگ کو ٹھنڈا کیا تھا لیکن بغض اور حسد اور حد سے بڑھی ہوئی عناد کی جتنی آگئیں ہمارے آقا کے معجز نما قدموں سے ٹھنڈی ہو ئیں اور پھر عشق و محبت کے گلزار میں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت صلى 95 95 نبی کرے کی قوت قدسیہ ۶۶۹۱ ء یل ہو گئیں اس کی مثال دنیا کے پردے پر نظر نہیں آتی.بغض کی آگ میں جلتے ہوئے ایسے دشمن جو بھی بڑھی ہوئی نفرت کی وجہ سے آپ کو دیکھنے تک کے ردا دار نہ تھے آپ کے خلق عظیم کا ایسا کشتہ ہوئے کہ آپ کے قدموں میں جان دینے کو باعث نجات سمجھنے لگے.پھر ان میں سے بعضوں کا بخت ایسا رسا نکلا کہ واقعی انہیں حضور ﷺ کے قدموں پر سر رکھ کر جان دینے کی سعادت نصیب ہوئی مگر بعض عشاق صرف اسی حسرت میں دنیا سے رخصت ہوئے.حضرت عمرو بن العاص کے متعلق یہ روایت آتی ہے حضرت ابو شما سہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عمر و بن العاص کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ پر نزع کی حالت طاری تھی.آپ بہت دیر تک روتے رہے اور اپنے اس چہرے کو دیوار کی طرف پھیر لیا یہ حالت دیکھ کر آپ کے صاحبزادے نے عرض کیا ابا جان! کیا رسول اللہ ﷺ نے آپ کو فلاں فلاں بات کی بشارت نہیں دی تھی پھر آپ اتنے غمگین کیوں ہوتے ہیں؟ پھر آپ متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہمارے لئے بہترین توشه لا اله الا الله محمد رسول اللہ کی شہادت ہے.اور بے شک میں تین دوروں میں سے گزر رہا ہوں ایک دور وہ تھا جس میں میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ سے زیادہ مجھ کو کسی شخص سے عداوت نہ تھی اور کوئی چیز میری نظر میں اتنی محبوب نہیں تھی جتنی نعوذ باللہ یہ بات کہ اگر مجھ کو رسول الل پر قدرت اور طاقت حاصل ہو جائے تو میں آپ کو قتل کر دوں اگر میں اس حالت میں مرجاتا تو یقیناً دوزخ والوں میں سے ہوتا.دوسرا وہ دور تھا جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کا الله خیال میرے دل میں پیدا کر دیا اور میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اپنا الله دایاں ہاتھ پھیلائیے تا کہ میں آپ کی بیعت کروں.حضور ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ پھیلا دیا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا.حضور نے فرمایا عمرو کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط کرنی چاہتا ہوں.فرمایا جو چا ہو شرط کرو.میں نے عرض کیا یا رسول الل! میرے گناہ معاف ہو جائیں.آپ نے فرمایا عمرو کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام تمام پچھلے گناہوں کو ختم دیتا ہے اور ہجرت اپنے سے پہلے تمام گناہوں کو منہدم کر دیتی ہے اور حج تمام پہلے گناہوں کو معاف کرا دیتا ہے.پھر میں نے بیعت کی.اس وقت مجھے رسول اللہ سے زیادہ کسی شخص سے محبت نہیں تھی اور نہ میرے آنکھوں میں آپ سے زیادہ کوئی صاحب جلال تھا.میں حضور کی شان جلال کی وجہ سے آنکھیں بھر کر آپ کی طرف نہ دیکھ سکتا تھا یہاں تک کہ اگر آج آنحضوں کا حلیہ دریافت کیا جائے تو میں بیان کرنے کی طاقت
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 96 96 نبی کرم ﷺ کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء نہیں رکھتا.اگر میرا انتقال اس حالت میں ہو جاتا تو البتہ مجھ سے اس بات کی امید تھی کہ میں اہل جنت میں سے ہوتا.اس کے بعد ہم بہت سی باتوں کے ذمہ دار ہو گئے.معلوم نہیں کہ میرا ان میں کیا حال رہے گا؟ پس جب میرا انتقال ہو جائے تو میرے جنازہ پر کوئی نوحہ گر نہ آئے اور آگ نہ جلائی جائے اور پھر جب مجھے دفن کرنے لگو تو میری قبر پر تھوڑی تھوڑی مٹی ڈالنا اور پھر میری قبر کے ارد گر داتنی دیر ٹھہر نا کہ اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جائے تا کہ میں تم سے انس حاصل کروں اور دیکھوں کہ اپنے رب کے فرستادہ فرشتوں سے کیا گفتگو کرتا ہوں؟ ( صحیح مسلم کتاب الایمان باب کون الاسلام يهدم بما قبله وكذا الهجرة والج) یہ تو محض ایک مثال ہے ورنہ نفرت کو عشق میں تبدیل کرنے کے واقعات ایسی بکثرت اور اتنے درخشندہ ہیں کہ انکا شمار اور لطافتوں کا بیان ممکن نہیں.جب آنحضور ﷺ نے دعوی فرمایا تو بجز خدا اور چند بندگان خدا کے کون تھا جو آپ کا حامی تھا؟ بڑے بھی آپ کی جان کے دشمن ہوئے اور چھوٹے بھی ، امیر بھی اور غریب بھی ، اپنے بھی اور غیر بھی، قریش کے ہر قبیلہ نے آپ کے قتل کا اجماع کیا.آپ کی سلامتی اور فلاح کے جواب میں ہر طرف سے گالیاں اور آزار آپ کے حصے میں آئے ، جان کو بھی دیکھ دیئے گئے اور جسم کو بھی ، اوجڑیاں آپ کی پیٹھ پر اور خاک آپ کے بالوں میں ڈالی گئی لیکن صبر کے اس پہاڑ نے جسے خُلق عظیم عطا ہوا تھا ہر نفرت کا جواب شفقت اور ہر بغض کا جواب رافت سے دیا.یہاں تک کہ آپ کے خلق عظیم اور مقبول دعاؤں کی طاقت نے جسے ہم قوت قدسیہ کہتے ہیں وہ حیرت ناک انقلاب برپا کیا جس کی نظیر پیش کرنے سے کائنات عاجز ہے.وہی جان لیوا دشمن جانیں آپ پر نچھاور کرنے لگے اور گالیوں کی جگہ دن رات کے درود نے لے لی.ماؤں نے اپنے جگر کے لعل پیش کر دیئے کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں پیشتر اس کے کہ آنحضور ﷺ کو کوئی گزند پہنچے.بیویوں نے خاوندوں کی قربانی دی، بہنوں نے بھائیوں کی قربانی دی اور آپ کی سمت برسائے جانے والے تیر صحابہ نے بڑھ بڑھ کر اپنی چھاتیوں پر لئے.قَامُوا بِأَقْدَامِ الرَّسُولِ لِغَزُوِهِمُ كَالْعَاشِقِ الْمَشْغُوفِ فِي الْمَيْدَانِ فَدَمُ الرِجَالِ لِصِدْقِهِمْ فِي حُبِّهِمْ تَحْتَ السُّيُوفِ أُرِيقَ كَالْقُرُبَانِ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه : ۵۹۱)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 97 نی کرنے کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء وہ حصول کے قدموں میں میدان کارزار میں ایک عاشق صادق کی طرح ڈٹ گئے اور ان کے خون محبت کی راہ میں ثابت قدمی کی وجہ سے تلواروں کی دھاروں کے نیچے قربانیوں کی صلى الله طرح بہائے گئے.کبھی کسی قوم کو کسی نبی نے اس درجہ تبدیل نہیں کیا جیسا آنحضور ﷺ نے اپنی قوم کو کیا اور کبھی کسی قوم نے اپنی جہالت کا ایسا دردناک فدیہ ادا نہیں کیا جس طرح آنحضور ﷺ کی قوم نے ادا کیا.اللهم صل علی محمد و علی آل محمد حضور ﷺ کی قوت قدسیہ نے وحشی انسانوں کو انسان اور پھر انسانوں کو مہذب انسان بنانے پر ہی بس نہیں کی اور بغض و کینہ کو عشق و وفا میں تبدیل کرنے پر ہی اکتفانہ فرمائی بلکہ اس حد تک انھیں ہر خلق میں صیقل کیا کہ خدا تعالیٰ کی نظر انتخاب نے انہیں اپنے لئے چن لیا اور حرص و ہوا اور لات ومنات کے بندے عباد الرحمن کہلانے لگے.حضرت ابو ہریرہ نے جب کسری کے رومال پر تھوکا تھا تو اس خیال سے کہ وہ ابو ہریرہ جو کئی کئی دن کے فاقے سے بے ہوش ہو جایا کرتے تھے آج آنحضور ﷺ کی قدموں کی برکت سے کسری کے رومال پر تھوک رہا ہے.بے اختیار ان کے منہ سے یہ کلمہ نکل گیا تھا کہ بخ بخ ابو هريرة ! واہ واہ ابو ہریرہ! تیری بھی کیا شان ہے! لیکن حق یہ ہے خدا کی قسم آنحو ص نے اپنے غلاموں کو لقاء اللہ کے جس بلند مقام پر پہنچا دیا تھا اس کے پیش نظر یقیناً وہ رو مال زبان حال سے یہ پکا رہا ہوگا کہ بخ بخ یا کسری ! واہ واہ اے کسری ! تیری بھی آج کیا شان ہے! تیرے رومال پر آج محمد عربی کا ایک دربان تھوک رہا ہے.جس حالت میں آپ نے عرب کی مٹی کو پایا تھا اسے اس حالت سے کوئی بھی نسبت نہیں ہے جس میں اسے آپ نے چھوڑا چنانچہ اس قلب ماہیت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: صَادَفَتَهُمْ قَوْمًا كَرَوْثٍ ذِلَّةٌ فَجَعَلْتَهُمْ كَسَبِيكَةِ الْعِقْيَانِ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه: ۵۹۱) یعنی تو نے عرب کی قوم کو گوبر کی طرح حقیر و ذلیل پایا اور خالص سونے کی ڈلیوں میں تبدیل کر دیا.امت محمدیہ کے ان تبدیل شدہ انسانوں کا جو اپنے آقا کی متابعت میں ایک خلق آخر میں تبدیل ہو چکے تھے قرآن کریم ان الفاظ میں ذکر فرماتا ہے:
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 98 88 نبی کریم ﷺ کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء أَلَا إِنَّ اَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (یونس: ۶۳) سادہ بے قیمت کپڑوں میں ملبوس خاک بسر یہ لوگ اپنے خدا کو ایسے پیارے ہو چکے تھے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا الا رُبَّ اَشْعَتْ اَغْبَرَ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَابَرَّه (سنن ترندی کتاب المناقب باب مناقب البراء بن مالک) خبر دار میرے احباب کے ظاہر پر قیاس میں نہ بیٹھنا.ان میں کچھ ایسے بھی پراگندہ خاک حال اولیاء ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کوئی بات کر دیں تو خدا ان کی بات پوری کر دے گا.حضرت عمرؓ کے متعلق ان کے بیٹے حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ میں نے کبھی حضرت عمر کے منہ سے یہ نہیں سنا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ ایسا ہو گا مگر اللہ تعالیٰ ویسے ہی کر دکھاتا تھا جیسا حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے کہ ایسا ہو گا.صحابہ کرام کے متعلق ولایت کی ایک جھلک حضرت انس کی اس روایت سے بھی ملتی ہے ایک مرتبہ دو شخص آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رات دیر تک آپ کی پاک صحبت میں بیٹھے رہے.جب وہ گھر کے لئے روانہ ہوئے تو رات گھپ اندھیری تھی لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت سے دونوں کی لاٹھیوں میں سے ایک لاٹھی روشن ہوگئی اور جب ان دونوں کا راستہ الگ الگ ہوا تو دوسرے کی لاٹھی بھی روشن ہوگئی اور ہر ایک اپنی لاٹھی کی روشنی میں اپنے گھر تک پہنچ گیا.بخاری کی اس مستند روایت کو پڑھ کر ذہن خود بخود اس ید بیضا کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جو حضرت موسی کو اپنے رب کی طرف سے عطا ہوا تھا.اللہ تعالیٰ کی شان کہ مثیل موسیٰ کے غلاموں کو بھی اس نے ایک روشن نشان عطا فرمایا.کیوں نہ ہو یہ وہی لوگ تھے جن کے بارہ میں خدا تعالیٰ نے بشارت دی تھی.نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ (الحريم :) بلاشبہ اخروی زندگی میں سب مومنوں کا نور ان کے آگے دوڑتے ہوا ان کی رہنمائی کرے گا لیکن غلامان مﷺ نے تو اس دنیا میں ہی تمثیلاً اس وعدے کو پورا ہوتے دیکھ لیا.حضور ﷺ کی بعثت سے قبل یہ لوگ کون اور کیا تھے؟ اگر یہ سوچیں تو دل ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے.ایسی حیرت انگیز تبدیلی اور ایسا عظیم الشان تغیر کہ جیسے کوئی رات کو کہے کہ دن ہو جا اور واقعی وہ دن ہو جائے.اس بے مثل مزکی کے فیض سے سرتا پا پاک ہو جانے والے یہ لوگ جو
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 99 نبی کرے کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء روحانیت کے بلند و بالا مقامات پر فائز ہوئے عرب کے غیر متمدن وحشی ہی تو تھے جو حضور ﷺ کی بعثت سے قبل ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرے پڑے ہوئے تھے.روحانی اور اخلاقی پستی کی انتہا تک پہنچے ہوئے تھے، کفر و شرک کے گہواروں میں پلنے والے یہ لوگ جو فسق و فجور کی گودیوں میں کھیلے اور جہالت اور بربریت کے ہاتھوں میں جوان ہوئے تھے محمد عربی ﷺ کی ایک مز کی نگاہ سے بدل گئے.آپ کی دعاؤں کا فیض رحمت کا پانی بن کر ان پر برسا یہاں تک کہ ان کے سارے گند دھوئے گئے ،سب تاریکیاں ان سے دور ہوئیں اور عصیان کے داغ دار لبادے انہوں نے اتار کر پھینکے پھر آسمانی نوران کے دلوں پر نازل ہوا اور سینے اس نور سے بھر گئے یہاں تک کہ وہ ان کی پیشانیوں سے پھوٹنے لگا.میرا آقا اس دنیا سے رخصت نہ ہوا جب تک ان میں سے ہر وہ طالب نور جو صدق وصفا کے ساتھ اس کے قدموں میں حاضر ہوا ایک بقعہ نور نہ بن گیا.تب اس نے افق اعلیٰ سے اپنے گردو بیش اور زیریں آسمان پر نگاہ ڈالی تو اسے یہ اپنے ستاروں کی طرح روشن صحابہ سے مزین پایا.تب اس نے تاریکی میں بسنے والوں کو یہ زندگی بخش پیغام دیا اَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ ( مشکوۃ المصابیح کتاب المناقب باب مناقب الصحابه ) کہ دیکھو! میرے غلام اب آسمان ہدایت کے روشن ستارے بن چکے ہیں.پس جو چاہے جس کی چاہے پیروی کرے اس کے لئے راستہ بھٹکنے کا کوئی خوف نہیں رہا.یہی تزکیہ نفس کا وہ حیرت انگیز مجزہ ہے جس کا ذکر کرتے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گز را کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الٹمی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں ایک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچادیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں جو اس امی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں اَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالِهِ بِعَدَدِ هَمِّهِ وَغَمِّهِ وِ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 100 نی کرنے کی قوت قدسیہ ۶۶۹ ء حُزْنِهِ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ وَانْزِلُ عَلَيْهِ أَنْوَارَ رَحْمَتِكَ إِلَى الْأَبَدِ بركات الدعا روحانی خزائن جلد 4 صفحہ ۱۰-۱۱) آپ نے بے شمار آسمان ہدایت کے ستارے پیدا کئے اور آپ کے وصال کے بعد بھی یہ آپ کا غیر فانی نورزندہ رہا اور ہر صدی کے سر پر تاریک راتوں میں ضیاء پاشی کرتا رہا.پھر وہ پورن ماشی کا چاند بھی آپ ہی کی قوت قدسیہ سے وجود میں آیا جس نے چودھویں صدی کے سر پر طلوع ہونا تھا اور اپنے آقا کے نور کی چادر اوڑھے ہوئے ایک دفعہ پھر دنیا کی ظلمتوں کو اجالوں میں تبدیل کرنے لگا.آپ کی سانسوں کی برکت سے وہ مہدی آیا، وہ مسیح الزمان پیدا ہوا جس نے ایک عالم کے مردوں کو چلا دینی تھی اور مرتی ہوئی انسانیت کو حیات نو کا پیغام سنانا تھا.وہ جس کے وجود کے ساتھ اسلام کا ادیان باطلہ پر غالب آجانا مقدر ہو چکا تھا.وہ آیا اور آپ ہی کے دم قدم کی برکت سے آیا.وہ شاہد آیا جس کے وجود کا ایک ایک ذرہ اس بات پر گواہ تھا کہ اس نے جو کچھ پایا محمد عربی ہے کے فیض سے پایا.وہ آیا اور اپنے محبوب آقا کے حسن و احسان کے گیت گا تا ہوا آیا.اس کے عشق ومحبت کے گیتوں میں ایک عجیب رس تھا اور وہ انوکھے سروں میں اپنے نفس کو مٹا کر اپنے محبوب کی بڑائی بیان کرتا رہا.اس کے گیت کچھ اس انداز کے تھے کہ ملائک بھی اس کے ہمنوا ہوئے اور فضا اس نغمہ عشق اور اس جیسے سینکڑوں نغمات عشق سے بھر گئی کہ : وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دلبر میرا یہی ہے وہ آج شاہ دیں ہے وہ تاج مرسلین ہے وہ طیب وامیں ہے اس کی شناء یہی ہے سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھا یا وہ مہ لقاء یہی ہے اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے ( قادیان کے آریہ اور ہم ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه : ۴۵۶)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 101 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟ بر موقع جلسہ سالانہ ۱۹۶۷ء منعقدہ ۱۱، ۱۲، ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء) عموماً جماعت احمدیہ سے غیر از جماعت مسلمان یہ سوال کرتے ہیں کہ احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟ اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اگر تو احمدیت نے اسلام میں کچھ تبد یلیاں کر دی ہیں اور دین محمدی کو بدل کر پیش کیا ہے تو ہمیں اس نئے مذہب سے کوئی دلچسپی اور علاقہ نہیں کیونکہ یہ ایک کھلی کھلی گمراہی ہے اور اگر احمدیت نے وہی اسلام ہمیں دیا جو پہلے ہی سے ہمارے پاس موجود ہے تو پھر احمدیت کو قبول کرنا یا نہ کرنا دونوں برابر ہیں.اس سوال کے پہلے حصہ کا جواب تو یہ ہے کہ احمدیت نے اسلام یعنی حقیقی اسلام کے سوا دنیا کو کچھ اور نہیں دیا اور ایک شوشہ کی بھی تبدیلی دین اسلام میں نہیں کی.دوسرے حصہ کا جواب مختصر آیہ ہے کہ احمدیت نے دنیا کو دیا تو فقط اسلام ہی لیکن وہ رائج الوقت اسلام نہیں دیا جو فرقہ درفرقہ بہتر مذاہب میں بٹ چکا تھا اور بہتر مختلف اور متضاد عقائد اور عبادت کے طریقوں پر مشتمل تھا بلکہ وہ اسلام دیا جو ایک دین واحد کے طور پر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا اور ظاہر ہے کہ اول الذکر کو مؤخر الذکر سے کوئی نسبت نہیں.گویه درست ہے کہ ظہور احمدیت کے وقت بظاہر اسلام کا خدا و ہی تھا اور کتاب بھی وہی اور رسول بھی وہی لیکن مرور زمانہ نے نظروں میں کچھ ایسی کبھی پیدا کر دی کہ اب نہ تو خدا وہ خدا رہا نہ کتاب وہ کتاب اور نہ رسول وہ رسول ، نام میں کوئی تبدیلی نہ تھی لیکن تصور بدل چکے تھے.اسلام کا جو
نقار ی جلسه سالانه قبل از خلافت 102 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟۷۶۹۱ء چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جار ہا تھ یہ وہ چہرہ نہ تھا جومحمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے یا پیش کئے ہوئے اسلام کا چہرہ تھا بلکہ ایک بگڑا ہوا غبار آلود چہرہ تھا جسے اس حسن سے کوئی نسبت نہ تھی جو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا.غیروں کا تو کیا ذکر خود اپنوں ہی کی دست درازی کی کہانی بہت طویل اور دردناک ہے.اسلام کے بنیادی تصورات اور عقائد ایک ایک کر کے تبدیل کئے گئے.انبیائے گزشتہ کے تصورات بھی بگاڑ دیئے گئے اور بہت سی لغو اور نا پاک کہانیاں ان کی طرف منسوب کی جانے لگیں، فرشتوں کے وجود کو بھی من گھڑت قصوں کی زینت بنادیا گیا، توحید خالص اسلام میں باقی نہ رہی اور شرک عام ہو گیا.ایک طرف تو خدا کی طاقتوں میں کمی کی جانے لگی اور اس کی قوت تکلم اس سے چھین لی گئی دوسری طرف نا چیز انسانوں کو بھی الہی صفات سے متصف کیا جانے لگا اور مردوں کو زندہ کرنے کی طاقتیں ان کی طرف منسوب کی جانے لگیں.ایسے پیر ظاہر ہونے لگے جو جسے چاہتے بزعم خود لڑکیاں دیتے اور جسے چاہتے لڑکے عطا کرتے.پھر اگر چاہتے تو کئی کو ان دونوں نعمتوں سے نوازتے تھے اور جسے کچھ عطا نہ کرنا چاہتے تھے اسے وہ بانجھ رہنے کا حکم دیتے تھے نعوذ باللہ.خدا صفت یہ پیر پیدا ہوئے اور مر بھی گئے لیکن بعض مسلمانوں کے تصور میں ان کی یہ الہی صفات زندہ رہیں اور آج بھی زندہ ہیں.چنانچہ ان کی قبریں حاجتمندوں کی زیارت گاہیں بنی ہوئی ہیں.قدرت کے وہ نظارے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں خدا اور صرف خدا دکھاتا تھا آج سینکڑوں ہزاروں قبریں اور زیارت گاہیں ان کے زعم میں وہ نظارے دکھلا رہی ہیں.وہ جبینیں جو خدا کے سوا کسی کے سامنے جھکنا نہ جانتی تھیں آج گلی سڑی ہڈیوں کو ڈھانپے ہوئے خاک کے تو دوں کو سجدے کرنے لگیں.یہ سب کچھ ہوا اور اسلام اور روحانیت ہی کے نام پر ہوا.پس یہ کیا عجیب زمانہ ہے کہ روحانیت اور شرک کے درمیان جن کا اکٹھے رہنا ناممکن تھا آج چولی دامن کا ساتھ ہو گیا اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے دونوں اسلام کا لبادہ اوڑھے کھڑے ہیں.ایک طرف شرک سے آلود اسلام کی یہ تصویر ہے اور دوسری طرف تو حید اسلام کو اس رنگ میں پیش کیا جا رہا ہے کہ گویا وہ ایک خالی برتن ہے جو کبھی روحانیت کے دودھ سے نہیں بھرا.تو حید نام رکھا جارہا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت پر زور دینے کا اور توحید نام رکھا جا رہا ہے ظاہر پرستی اور خشک ملائیت کا.آج تو حید نام ہے اس عقیدے کا کہ خدا زندہ تو ہے لیکن قوت تکلم سے عاری
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 103 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء ہو چکا ہے اور کسی عبادت کرنے والے کی آہ و پکار کا جواب نہیں دیتا.آج تو حید نام ہے اس عقیدے کا کہ دنیا میں لقائے باری تعالیٰ کا حصول ناممکن ہے اور خشک اور بے کیف عبادتیں ہی (جو خالی خولی قیام اور رکوع و سجود کے سوا کوئی قیمت نہیں رکھتیں) حاصلِ اسلام ہیں.آج تو حید نام رکھ دیا گیا ہے، دلوں کی سختی اور نظروں کی خشونت کا اور جبر اور تلوار اور غیظ و غضب کا.آج ایک ایسی بے حاصل اور بے شمر تو حید دنیا کے سامنے پیش کی جارہی ہے جو جذبات کی لذت سے عاری اور بنی نوع انسان کی ہمدردی سے خالی ہے جس کی بناء رحمت پر نہیں بلکہ غضب اور انتقام پر ہے اور جسے روحانی سرور اور کیف کا پھل نہیں لگتا.ایک ایسی تو حید جو خدا کو ایک تو کہتی ہے مگر اس ایک خدا کے ایک جلوے سے انسانوں کو عمر بھر محروم رکھتی ہے جو محض یوم آخرت کے وعدے پر جینے کا حکم دیتی ہے اور اس فرمان الہی کو بھول جاتی ہے کہ (بنی اسرئیل: ۳۷) یعنی جو آنکھ اس دنیا میں اندھی ہوگی اور اپنے رب کے دیدار سے محروم ہوگی وہ آخرت میں بھی اندھی اور دیدار سے محروم رہے گی.پس یہ عجیب متضاد تصویریں ہیں اسلام کی جو کھینچی جارہی ہیں.کہیں تو یہ نظارہ کہ بعد المشرقین رکھنے والے روحانیت اور شرک یک قالب و یک جان ہورہے ہیں اور کہیں یہ تماشا کہ توحید اور روحانیت جو کبھی باہم دگر جدا نہ ہوئے تھے ایسے ایک دوسرے کے دشمن ہوئے کہ ایک سینے میں سمانہیں سکتے.صرف یہی نہیں ، بلکہ خالص تو حید کے وہ دعویدار جو اپنے تئیں تو حید کا واحد علمبر دار سمجھتے تھے خودان کے عقائد بھی شرک کی ملونی سے پاک نہ رہے.چنانچہ ایک طرف تو آنحضرت ﷺ کی بشریت پر حد اعتدال سے بڑھ کر زور دینے سے یہ سمجھا جانے لگا کہ توحید کا حق ادا ہو گیا اور دوسری طرف حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف خدائی صفات منسوب کرتے ہوئے ان کی طبیعت ذرا نہ ہچکچائی اور اس عقیدے پر پختگی سے قائم ہو گئے کہ حضرت عیسی علیہ السلام دو ہزار برس سے اپنے جسم عنصری کے ساتھ بغیر کچھ کھائے پئے زندہ ہیں اور نہ اس دو ہزار سالہ زندگی نے انہیں ارذل العمر تک پہنچایا اور نہ بھوک ہی انہیں مار سکی.پس اپنی اس غیر بشری صفت میں وہ انسانوں سے بالا تر اور خدا کے مشابہ ہو گئے.یہی نہیں بلکہ ان کے آسمان پر جانے کا عقیدہ فی ذاتہ ایک مشرکانہ عقیدہ تھا چنانچہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کفار مکہ نے آسمان پر چڑھنے کا مطالبہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 104 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء Kalabra Proonpictures for کیا تو آپ نے خدا تعالیٰ کے ارشاد پر یہ جواب دیا کہ.khutbatthal kuntu.tif not found ( بنی اسرائیل: ۹۴) یعنی میں تو ایک بشر رسول ہوں.یعنی جسم سمیت آسمان پر جانا میری بشریت کے بھی منافی ہے اور رسالت کے بھی.لیکن افسوس ! تو حید کا دعویٰ رکھنے کے باوجود مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اس پہلو سے بشریت اور رسالت دونوں سے بالاتر مقام پر لے جا کر کھڑا کر دیا.پس ظہور احمدیت کے وقت مسلمانوں میں توحید خالص باقی نہ رہی تھی.عقائد میں بھی شرک کی ملونی ہو چکی تھی اور اعمال میں بھی.علاوہ ازیں اور بھی بے شمار خرابیوں اور فسق و فجور نے مسلمانوں کو گھیر رکھا تھا.وحدت ملی نام کو باقی نہ رہی تھی اور اوج ثریا سے گری ہوئی یہ امت ایک چینی کے برتن کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر چکی تھی.اس کی مثال بعینہ ایک ایسی ریاست کی طرح تھی جو اندرونی فتنوں کا بھی شکار ہورہی ہو اور بیرونی فتنوں کا بھی اور ہر چہار سمت سے اس پر طاقتور اور جابر دشمن حملہ آور ہوں.اسلام فرقوں میں بٹ چکا تھا اور تمام فرقے باہم برسر پیکار تھے.ادھر خانہ جنگی کا یہ عالم تھا اور ادھر غیر مذاہب اسلام کی سرحدوں پر چھاؤنیاں ڈالے پڑے تھے.ان پر خطر راتوں میں احمدیت کا ظہور ہوا اور قادیان کی گمنام بستی سے وہ شعاع نور پھوٹی جو رفتہ رفتہ کل عالم کونور محمدی سے بھر دینے والی تھی.پس احمدیت اس لئے نہیں آئی کہ کوئی نیا اسلام دنیا کو دے بلکہ اس لئے آئی کہ ہر نئے اسلام کو دنیا سے مٹادے اور قرون اولیٰ کے اس اسلام کی طرف مسلمانوں کو واپس لے جائے جو حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسلام تھا کیونکہ زمانے کے دکھوں کا مداوا دین محمدی کے سوا ممکن نہ تھا، نہ ہے، نہ ہو گا.حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے مہدی بنا کر مبعوث فرمایا تا کہ وحی اور الہام سے ہدایت پاکر ان کے اختلافات کا فیصلہ فرمائیں اور ان کے اعمال کی تطہیر کریں.حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کے مقام پر فائز کیا تا کہ صلیب کو توڑنے اور اسلام کو عیسائیت پر غالب کرنے کے لئے ایک عظیم الشان مہم کا آغا ز کریں.پس احمدیت آئی اور وہ حقیقی اسلام دنیا کو عطا کیا جو صدیاں گزریں کہ نظر سے اوجھل ہو چکا تھا.احمدیت آئی اور مسلمانوں کو دور مہدویت عطا کیا.احمدیت آئی اور اپنے ساتھ وہ مسیح الزمان لے کر آئی جو روحانی مردوں کو زندہ کرتا تھا اور تصوراتی خداؤں کو مارتا تھا.احمدیت آئی اور دنیا کو ان تمام آسمانی فیوض سے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 105 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء بھر دیا جن کا عطا ہونا اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے ساتھ مقدر تھا.احمدیت کبھی تو وہ باران رحمت بن کر برسی جس سے لاکھوں سعید فطرت تشنہ روحوں کی پیاس بجھی اور مجھے ہوئے نیم مردہ دلوں کونئی زندگی عطا ہوئی اور کبھی وہ آگ بن کر اتری جس نے دشمنان اسلام کے بدارا دوں اور مہلک منصوبوں کو جلا کر خاکستر کر دیا.کبھی تو دم عیسی بن کر مردہ روحوں کو جلا بخشتی رہی اور کبھی عصائے موسیٰ کی صورت میں ان خداؤں کو لقمہ اجل بنایا جو محض واہمہ اور تصور کی پیداوار تھے.احمدیت نے تو حید کو قائم کیا اور شرک کی بیخ کنی کی.احمدیت نے خدائے واحد پر ایک سچا اور زندہ ایمان دنیا کو بخشا اور مخلوق کے لئے خالق کی لقا کے سامان کئے.احمدیت نے ان فاسد عقائد سے اسلام کی تطہیر کی جو رس چوسنے والی بیلوں کی طرح اسلام کے شجرہ طیبہ پر پنجے ڈالے ہوئے تھے اور ان بد رسومات اور بدعات سے مسلمانوں کو نجات عطا کی جن کا حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں کوئی وجود نہ تھا.اسلام کے بنیادی عقائد میں بعض خطر ناک تبدیلیاں اور ان کی اصلاح یہاں تفصیل کے ساتھ ان تمام بد اعتقادیوں پر بحث کرنے کی گنجائش تو نہیں جو رفتہ رفتہ مسلمانوں میں جگہ پاگئیں اور جن کی احمدیت نے آکر اصلاح کی مگر نمونہ کے طور پر بعض ایسی خرابیوں کا ذکر کرتا ہوں، جو اسلام کے بنیادی اعتقادات سے تعلق رکھتی ہیں.خدا تعالیٰ سب سے پہلے خدا تعالیٰ کے تصور کو لے لیجئے جو روحانیت کا مرکزی نقطہ ہے اور جس پر یقین کامل کے بغیر مذہب بے حقیقت ہو کر رہ جاتا ہے.اسلام نے خدا تعالیٰ کو ایک ایسی زندہ حقیقت کے طور پر پیش کیا جس کا دیدار اسی دنیا میں ممکن ہے اور دعوی کیا کہ خدا تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کی پکار کوسنتا ہی نہیں اس کا جواب بھی دیتا ہے بشرطیکہ وہ کمال خلوص کے ساتھ اس کو پکار ہیں.چنانچہ فرمایا: (البقرة : ۱۸۷)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 106 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟۷۶۹۱ء یعنی اے محمد ! جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں کہ میں کہاں ہوں تو اعلان کر دے کہ میں قریب ہوں.جب کوئی خلوص قلب کے ساتھ مجھے پکارتا ہے تو میں اس کا جواب دیتا ہوں.پس چاہئے کہ وہ بھی وصل الہی کے حصول کی شرائط کو پورا کریں اور میرے احکامات پر عمل کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں.پھر اس مضمون کو مزید وضاحت کے ساتھ ایک اور مقام پر ان الفاظ میں بیان فرمایا: فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا (الصحف : 11) یعنی جو کوئی بھی اپنے رب کی ملاقات کا متمنی ہے اسے چاہئے کہ نیک اعمال بجالائے اور اپنے رب کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہ ٹھہرائے.بالفاظ دیگر تو حید خالص اور عمل صالح کی علامت ہی یہ قرار دی کہ انسان اسی دنیا میں اپنے رب کو پالےاور اس کی لقاء سے مشرف ہو جاۓ.پھر ایک اور مقام پر ملائکہ کے ذریعہ اپنے بندوں سے ہم کلامی کے مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ( حم السجدة : ۳۱ - ۳۲) یعنی یقیناً وہ لوگ جو کمال اخلاص اور صداقت قلب سے یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر دنیا کی مخالفتوں کے باوجود اپنے اس دعوئی میں استقامت دکھاتے ہیں ، ان باوفا بندوں پر کثرت سے فرشتے یہ کہتے ہوئے نازل ہوتے ہیں کہ تم نہ خوف زدہ ہو، نہ غمگین ہو.ہم اس دنیا میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی.پس اس جنت کی بشارت سے خوش ہو جاؤ جس کا وعدہ تمہیں دیا جاتا ہے.لیکن افسوس کہ جب مسلمان تنزل اور مایوسی کے دور میں داخل ہوئے تو قرآن کریم کے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 107 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء اس کھلے کھلے اعلان کے باوجو د لقائے الہی اور وحی والہام خداوندی کے منکر ہو گئے اور افسوس کہ اسلام کے حسن کی جان جس تصویر میں تھی.اسی تصور کو مسخ کر دیا اور وصل الہی کی حقیقت کو جسے اسلام ایک زندہ اور دائمی حقیقت کے طور پر پیش کرتا تھا محض ایک قصہ اور افسانہ بنا دیا.مسلمانوں کی یہ کیسی محرومی اور بد قسمتی تھی اور اسلام کے چہرے پر کتنا بد نما داغ تھا وہ مابہ الامتیاز نشان جو اسلام کو دوسرے تمام مذاہب سے ممتاز کرتا تھا ، وہ مابہ الامتیاز مٹا دیا گیا.یہ امتیازی شان اسلام سے چھینی گئی کہ وہ محض وعدہ فردا پر جینے کے لئے نہیں بلکہ اسی دنیا میں بندوں کو اپنے رب سے ملانے کا وعدہ کرتا ہے.افسوس کہ وہ مسلمان جو وصل الہی کے بغیر چین نہ پاتے تھے ان کی اولادیں خالی برتنوں پر راضی ہو گئیں اور ایک ایسے خدا کے تصور کو لے کر بیٹھ گئیں جو محض کتب تاریخ اور صحف ابراہیم و موسی میں زندہ تھا.ان کے زعم میں آدم اور ابراہیم موسیٰ اور پھر عیسی اور پھر ان سب سے بڑھ کر محمد عربی علیہم السلام سے ہم کلام ہونے والا خدا اب ہمیشہ کے لئے خاموش ہو چکا تھا.اب خواہ قیامت تک اس کے عاشق بندے درد جدائی سے بے قرار ہو ہو کر اسے پکارتے رہیں مگر اس کی طرف سے ان کی کسی پکار کا جواب نہ دیا جانا تھا.صدافسوس !وہ مذہب جس کی رونق اور شادابی کا انحصار لقائے باری تعالیٰ پر تھا اور جس کا یہ دعویٰ تھا کہ اسلام اور صرف اسلام ہی وہ مذہب ہے جس پر چل کر انسان اس دنیا میں ہی اپنے رب کو پالیتا ہے ، خود اس مذہب کے پیروکاروں نے ہی اس سے یہ رونق چھین لی اور لہلہاتے ہوئے شاداب چمن کو جولقائے باری کے پھولوں سے سجا ہوا تھا ایک ویران اور بے شمر باغ میں تبدیل کر دیا.افسوس که مسلمانوں ہی میں وہ رہنما بھی پیدا ہوئے جو افادیت دعا کے ہی منکر ہو بیٹھے.تب اس انتہائی مایوسی کے دور میں قادیان کی گمنام بستی سے بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پر شوکت آواز بلند ہوئی اور آپ نے اہل اسلام کو یہ مژدہ بہار دیا کہ وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار براین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲ صفحه: ۱۱۳۷) آپ نے دنیا کو بتایا کہ اسلام کا خدا ایک زندہ اور لازوال طاقتوں کا مالک ہے.اس کی ہر صفت
نقار بر جلسه سالانه قبل از خلافت 108 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء تعطل سے پاک ہے.وہ اب بھی اپنے بندوں سے جو مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ (النساء :) کی شرائط پر پورا اترتے ہوں ہم کلام ہوتا ہے اور ان کو ان تمام انعامات سے نوازتا ہے، جو اس کے پہلے برگزیدہ بندوں کو ملتے رہے.وحی والہام کے سلسلے کو جاری قرار دیتے ہوئے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے صرف نظریاتی دلائل پر ہی اکتفا نہیں فرمایا بلکہ خود اپنے وجود کو اس حقیقت کے ایک زندہ ثبوت کے طور پر پیش کیا.آپ کا وجود ان لوگوں کے لئے ایک مجسم پینج بن گیا جو وحی والہام کے منکر تھے یا اسلام کو بھی نعوذ باللہ ان متروک مذاہب میں شمار کرنے لگے تھے جو ذات باری تعالیٰ سے منقطع ہو چکے ہیں.آپ نے اپنے وجود کو ایک زندہ خدا کے زندہ ثبوت کے طور پر پیش کیا اور ایک عام منادی کے ذریعہ ابنائے آدم کو بھی اسی خدا کی طرف دوڑے چلے آنے کی دعوت دی، جس کے دیدار کی عجیب لذت آپ نے پائی تھی اور جس کے شیریں کلام کا رس تا دم آخر آپ کے کانوں میں گھلتا رہا.آپ نے فرمایا: کیا بد بخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے.ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے.اور یہ عمل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمے کی طرف دوڑو.کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس دف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں.اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.“ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه: ۲۱.۲۲) 19 اس صلائے عام کو سن کر سینکڑوں، ہزاروں لقاء الہی کے پیاسے دلوں کے پیالے لئے ہوئے آپ کی طرف دوڑے اور اسی سر چشمہ سے سیراب ہوئے جس سرچشمہ سے آپ کی زندگی کا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 109 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء ایک ایک لمحہ سیراب ہوتا تھا.لقاء اللہ صرف ایک وجود تک محدودنہ رہی اور اسلام کے خدا کی زندگی کی گواہی دینے والا محض تنہا نہ رہا.وہ تنہا نہ رہا، بلکہ سید ولد آدم کے ان نقوش پا پر چل کر جن پر خود اس نے قدم مارے تھے سینکڑوں ہزاروں دوسرے بندگان خدا بھی اسی دنیا میں اپنے رب کو پاگئے.وہ صاحب کشف والہام ہوئے.قادیان کی بستی ایسے وجودوں سے بھر گئی اور اس کی طرف سے لقاء اللہ کی منادی کرنے والے منادی کرتے ہوئے اہل دنیا کی طرف نکلے.انہی میں سے تھے جو صدیق کہلائے اور سراپا نور الدین بن گئے.انہی میں سے تھے جو مصلح موعودؓ ٹھہرے اور کشف والہام کے مورد بنے.انہی میں غلام رسول اور عبدالرحیم اور شیر علی پیدا ہوئے اور پھر انہی میں وہ ناصر الدین بھی ہیں جن کے ہاتھوں میں شربت وصل و بقا کے جام تھمائے گئے.ہزار ہا مردوں نے بھی اسلام کے زندہ خدا کا مشاہدہ کیا اور ہزار ہا عورتوں نے بھی حتی کہ بچے بھی ان جلووں سے محروم نہ رہے اور جیسا کہ مخبر صادق نے خبر دی تھی ان کو بھی رویائے صادقہ سے مشرف فرمایا گیا.پس احمدیت نے جو دنیا کو سب سے بڑا فیض عطا کیا وہ یہی لقاء الہی کا فیض تھا آج احمدیت کو چھوڑ کر وہ کونسی جماعت ہے جو رب العباد کو اس یقین اور قوی شہادت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے اور کہاں ہیں احمدیت کے سواوہ لوگ جو وصل الہی کے اس دنیا ہی میں دعوے دار ہوں اور زندہ براہین کی ایک فوج اپنے ساتھ رکھتے ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارفع مقام کی تنقیص اور اس غلطی کی اصلاح خدا تعالیٰ کے بعد حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام ہے جن پر کامل اور پُر خلوص ایمان کے بغیر حصول نجات ممکن نہیں.لیکن افسوس کہ مسلمانوں کے بدلتے ہوئے عقائد نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارفع تصور کو بھی کامل نہ رہنے دیا.وو قرآن کریم سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا مقام جس میں کوئی دوسرا آپ کا شریک نہیں ” مقام خاتم النبیین ہے.لفظ خاتم کے بہت سے معانی ہیں لیکن اگرا سے بمعنی ختم کرنے والا لیا جائے تو ظاہر ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو ہی طریق پر
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 110 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء سب نبیوں کو ختم فرما سکتے تھے.اول ظاہری معنوں میں اس طریق سے کہ آپ کی بعثت کے بعد ہر وہ نبی جو زندہ ہوتا اس دار فانی سے کوچ کر جاتا اور اس طرح جسمانی لحاظ سے آپ کے وصال سے قبل ہی ختم ہو جاتا.دوسرے روحانی معنوں میں اس طرح کہ آپ دوسرے تمام انبیاء علیہم السلام کے روحانی فیض کو ہمیشہ کے لئے ختم فرما دیتے اور کسی گزشتہ نبی کی قوت قدسیہ سے کبھی کوئی فرد بشر کوئی روحانی فیض نہ پاسکتا.یہاں تک کہ خودان کی امتیں بھی صرف اور صرف آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دست نگر اور محتاج ہو جاتیں لیکن ظلم دیکھو کہ مسلمانوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے اور پھر امت محمدیہ میں نازل ہونے کے بارے میں جو عقیدہ گھڑ رکھا تھا وہ ان ہر دو معنوں سے عملاً آیت خاتم النبین کی تکذیب کرنے کے مترادف تھا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام خاتم النبین کی شان میں سخت گستاخی کا حامل تھا.اس سے تو یہ ثابت ہوتا تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نعوذ باللہ حضرت عیسی علیہ السلام کو نہ ظاہری لحاظ سے ختم فرما سکے اور نہ باطنی لحاظ سے.ظاہری لحاظ سے اس لئے نہیں کہ خود مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت تمام انبیائے گزشتہ میں سے صرف ایک نبی یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ تھے لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ایک نبی کو بھی مار نہ سکے اور وہ آپ کی زندگی میں تو کیا آپ کے وصال کے بعد بھی زندہ رہے اور آج تک زندہ سلامت موجود ہیں.روحانی لحاظ سے اس لئے نہیں کہ فیض بھی ان کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے باوجود ختم نہ ہوسکا اور جاری رہا بلکہ وہ تو پہلے سے بھی بڑھ گیا.اگر چہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل وہ صرف بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے اور بنی اسرائیل ہی کی ایک بہت قلیل جماعت نے آپ کے وجود سے برکت پائی تھی لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد تو نعوذ باللہ ان کا فیض امت محمدیہ کی عالمگیر وسعتوں تک بھی ممتد ہو گیا اور آخری زمانہ میں جب اس امت کو ہولناک خطرات کا سامنا کرنا تھا تو اس کی نجات بھی حضرت مسیح کے دم قدم کی برکت سے ہی وابستہ کر دی گئی.کیسا خوفناک یہ عقیدہ ہے جو مسلمانوں نے نا مجھی سے رفتہ رفتہ اپنالیا اور کیسی کاری ضرب اس سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتمیت پر پڑتی ہے.احمدیت نے اس سراسر غیر اسلامی اور حضور اکرم کی شان میں سخت گستاخانہ عقیدہ کے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 111 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟ ۷۶۹۱ء خلاف عالمگیر سطح پر ایک عظیم الشان اور کامیاب جہاد کیا اور قرآن وحدیث پر مبنی محکم دلائل سے ثابت کر دیا کہ مسیح ناصری علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور جس مسیح کے آنے کی امت محمدیہ کو خوشخبری دی گئی تھی وہ بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونے والے سابق مسیح نہ تھے بلکہ غلامان محمد ہی میں سے ایک ذی شان امتی کو بعض مشابہتوں کی بناء پر مسیح کا صفاتی نام دیا جانا تھا.احمدیت نے دنیا پر ظاہر کیا کہ سراسر خلاف قرآن یہ عقیدہ سید ولد آدم کی شان میں کئی طرح سے گستاخی کا موجب ہے کیونکہ جیسا کہ مسلمان گمان کرتے تھے اگر واقعی ناپاک دشمن کی دست درازی سے اپنے پیارے مسیح کو بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ انہیں آسمان کی بلندیوں کی طرف اٹھالے گیا تو بجا طور پر سوال پیدا ہوتا تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس استثنائی محبت اور پیار کا سلوک کیوں نہ فرمایا ؟ آپ پر بھی تو ہولناک دکھوں اور مہیب خطرات کے وقت آئے تھے.آپ پر بھی تو پتھراؤ کیا گیا، تیر چلائے گئے اور تیز دھار آلوں سے آپ کے معصوم بدن کو چر کے لگائے گئے.پھر کیوں اپنے محبوب ترین نبی کے لئے اس خدا کی محبت جوش میں نہ آئی جس نے عیسی کے لئے دشمن کا وار برداشت نہ کیا اور اس کو زندہ آسمان پر اٹھالیا ؟ کیوں ہجرت کے وقت ان کو آسمان پر نہ اٹھالیا گیا بلکہ اس کے برخلاف ان کو پہاڑ کے ایک غار میں پناہ لینی پڑی ؟ کیوں طائف اور احد اور حنین کے المناک سانحوں میں آسمان کے دروازے آپ پر نہ کھولے گئے ؟ اور کیوں اس دنیا میں اپنے دشمنوں کے درمیان گھرے رہے؟ کیا اس عقیدے کے حامل مسلمانوں سے عیسائی پادری یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتے کہ اے علماء اسلام ! بتاؤ اس استثنائی سلوک کو دیکھ کر عقل کیا فیصلہ دیتی ہے؟ کون خدا کو زیادہ پیارا تھا؟ وہ جسے میدان کارزار میں پیہم صدمات نے نیم جان اور بے ہوش کر دیا لیکن خدا کی محبت نے اسے آسمان کی طرف نہ بلایا یا وہ جس کی آہ و پکار سن کر آسمان نے اپنی آغوش محبت واکر دی.فرشتے بلندیوں سے اترے اور سرحد ادراک سے بھی پرے چوتھے آسمان کی طرف اسے اٹھالے گئے.افسوس که تاریک صدیوں میں اسلام کے اندر داخل ہو جانے والا یہ عقیدہ آج سے تقریباً نوے برس قبل کے زمانے تک پوری طرح اسلامی لبادہ اوڑھے بیٹھا تھا اور اسلام کے لئے متعدد نقصانات کا موجب ہورہا تھا.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان افضلیت کو یہ کئی طرح کے صدمے پہنچارہا تھا لیکن مسلمان خواب غفلت میں پڑے تھے.پھر ایک عیسائی یہ سوال بھی کر سکتا تھا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 112 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء کہ خود اپنے عقیدوں کی رو سے انصاف بتاؤ کہ حسن اعظم کون ہیں؟ وہ جوا نہیں سو سال سے آسمان پر بیٹھا اس گھڑی کا انتظار کر رہا ہے کہ امت محمدیہ نا قابل حل مسائل میں الجھ جائے تو ان گنتھیوں کو سلجھانے کے لئے آسمان سے نازل ہو یا وہ جو اپنی امت کو ایسے حال میں چھوڑ کر چلا گیا کہ فتنوں کے دروازے تو کھلے رہے لیکن فتنوں سے بچانے والے آسمانی پہلوانوں کی راہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگئی.وہ بجاطور پر مسلمانوں سے یہ سوال کر سکتے ہیں کہ جب امت محمدیہ کو خطرناک اندرونی اختلافات کا شکار ہونا تھا تو بتاؤ تو سہی کہ حکم اور عدل کی کرسی پر جلوہ افروز ہونے کے لئے کون آئے گا ؟ اور بتاؤ تو سہی کہ جب دجال نے کل عالم کو تاخت و تاراج کرنے کے لئے خروج کرنا تھا اور سب مذاہب کو ملیا میٹ کرتے ہوئے بالآخر اسلام کی شہ رگ پر بھی تبر رکھ دینا تھا تو کون سا آسمانی پہلوان آسمان سے اتر کر اس امت مرحومہ کو بچائے گا؟ پھر وہ کون ہوگا جو اپنی آسمانی تلوار سے دجال کی گردن اڑائے گا اور ایک ایسے فتنے سے دنیا کو نجات بخشے گا جس سے بڑا فتنہ اس سے پہلے کبھی دنیا میں ظاہر نہیں ہوا؟ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا ان کا کوئی امتی غلام؟ اگر نہیں تو پھر کیوں اعتراف حق نہیں کرتے اور کیوں بآواز بلند نہیں کہتے کہ عیسی ابن مریم ، ہاں عیسی ابن مریم.حیف! اے علمائے اسلام! دیکھو اس عقیدے سے اسلام اور اسلام کی مقدس ہستیوں کی کیسی گستاخی لازم آتی ہے اور کس طرح یہ اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے والا ایک باطل نظریہ ہے جسے دین محمدی کی چار دیواری میں پینے کا کوئی حق نہیں.احمدیت نے اس عقیدے کے چنگل سے اسلام کو نجات بخشی اور دنیا پر واضح کر دیا کہ امت محمد یہ اپنی اصلاح کے لئے کسی غیر نبی کی محتاج نہیں.بلکہ ہر دوسری امت اپنی اصلاح کے لئے امت محمدیہ کی محتاج ہے.احمدیت نے دنیا کو بتایا کہ فساد عظیم اور خروج دجال کے وقت کسی بنی اسرائیلی نبی نے نہیں بلکہ محمد ہی کے ایک غلام نے دنیا کو اس فتنہ عظیم سے نجات بخشنی تھی اور دجال کے سر کو براہین کی تلوار سے پاش پاش کرنا تھا.احمدیت نے دنیا کو بتایا کہ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد ہر دوسرے نبی کا فیض ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکاحتی کہ خود اپنی امتوں کو بھی اب وہ کوئی فیض روحانی نہیں پہنچا سکتے.پھر ممکن ہی کہاں ہے کہ ان میں سے کوئی حضرت محسن اعظم احمد عربی کی امت پر احسان کرے.نہیں نہیں یہ امر ایک محال امر ہے.بلکہ صورت حال بعینہ برعکس ہے.
نقار میر جلسه سالانه قبل از خلافت 113 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء سنو ! امت عیسوی تو خود اپنی نجات اور بقا کے لئے آج غلام احمد کی محتاج ہوتی جاتی ہے: برتر گمان و و ہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه: ۲۸۶ حاشیه ) ہاں ! برتر ہے احمد کی شان ! وہم وگمان سے کہیں برتر والی !! کہ غلام احمد تو غلام احمد ہے.آج امت عیسوی شربت وصل بقا کے لئے غلام ابن غلام ابن غلام احمد کی بھی محتاج ہے بلکہ اس کے غلاموں کی بھی محتاج فیض روحانی کے سب دھارے بس ایک ہی سمت سے ہر دوسری سمت کو بہتے ہیں.پس لاکھوں سلام ہوں اس محسن اعظم پر جس کے وجود پر سب نعمتیں ختم ہوئیں اور اب ہر نعمت کا دینے والا وہی ایک فرماں روا ہے.قرآن پر ایک خطر ناک حملہ اور اس کا دفاع قران کریم ہر شک سے بالا خدا تعالیٰ کا وہ غیر مبدل اور محفوظ کلام ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لئے آخری ہدایت کے طور پر نازل ہوا اور قیامت تک جس کا ایک شوشہ بھی ہرگز بدل نہیں سکتا.لیکن گزرتے ہوئے وقت نے اس لا ریب اور بین کتاب کو بھی شکوک سے بھر دینے کی کوشش کی ہے.غیروں نے جو حملے کئے ان کا تو ذکر ہی الگ ہے خود مسلمانوں میں رفتہ رفتہ یہ غلط خیال پھیل گیا کہ قرآن کریم کی بعض آیات اس کی بعض آیات کے ذریعے منسوخ ہو چکی ہیں.بعض مفسرین قرآن تو ان منسوخ شدہ آیتوں کی تعداد پانچ سو تک بتانے لگے.ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ جس کی فی الحقیقت اسلام میں کوئی بنیاد نہیں قرآن کریم پر ایک نہایت خطرناک حملہ کی حیثیت رکھتا تھا.کیونکہ جو نہی یہ تسلیم کر لیا جائے کہ قرآن کریم میں بعض منسوخ شدہ آیات بھی شامل ہیں تو معا سارا قرآن ہی مشکوک ہوکر رہ جاتا ہے کیونکہ ایک مفسر کے نزدیک ایک آیت منسوخ ہوسکتی ہے اور دوسرے کے نزدیک دوسری اور تیسرا ایک تیسری آیت کو منسوخ سمجھ سکتا ہے غرضیکہ قرآن محفوظ ایک ایسی غیر محفوظ کتاب میں تبدیل ہو جاتا ہے جس کی سینکڑوں آیتیں نسخ کا شکار ہیں.افسوس یہ ظالمانہ سلوک اس کتاب سے کیا گیا کہ جس کی ابتداء ہی اس دعوی سے ہوئی تھی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 114 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟ ۷۶۹۱ء ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرۃ:۳) یعنی یہ وہ کتاب ہے جو ہر شک سے بالا ہے اور متقیوں کے لئے ہدایت ہے.احمدیت نے آکر اس داغ کو بھی دھویا اور بانی سلسلہ احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بینات پر قائم ہو کر یہ اعلان فرمایا کہ قرآن کی چند سوآیات کے منسوخ ہونے کا تو کیا سوال، ایک نقطہ، ایک شوشہ بھی اس غیر مبدل کتاب کا نہ منسوخ ہے نہ کبھی قیامت تک ہوگا.دیکھئے اسلام تو وہی تھا، اسلام کا خدا بھی وہی ، رسول بھی وہی اور کتاب بھی وہی.پھر کیا انسانی دست برد نے ان تینوں بنیادی اور ازلی حقیقتوں کے تصورات تبدیل اور مسخ نہیں کر دیے؟ یقیناً ایسا ہی ہوا.تب اس خدا نے جس نے دین اسلام کی حفاظت کا وعدہ فرمایا تھا احمدیت کو قائم فرمایا اور غلامان محمد ہی میں سے وہ بطل جلیل مبعوث فرمایا جس کا وعدہ دیا گیا تھا.وہ آیا اور اپنے رب سے ہدایت پا کر کرسی عدالت پر حکم اور عدل بن کر جلوہ افروز ہوا.وہ آیا اور جیسا کہ اس کے آقا نے پیش خبری کی تھی مختلف اسلامی فرقوں کے اختلافات کا فیصلہ کیا اور راہ حق دکھائی اور اسلام کو ان تمام تہمتوں سے پاک صاف کیا جو تاریک صدیوں نے اس کی نورانی پیشانی پر لگا رکھی تھیں اور ایک دفعہ پھر عہد نبوی کی طرح اسلام کا چاند سا مکھڑا اپنے تمام حسن و جمال اور تمام نور کے ساتھ نکھر کر روشن ہو گیا.بعض اور اعتقادی خرابیوں کا مختصر ذکر یہ تو چند نمونے مثال کے طور پر پیش کئے جارہے ہیں.ورنہ اعتقادی خرابیاں جو رفتہ رفتہ مسلمانوں میں پیدا ہوئیں اور بھی بہت سی ہیں جن پر تفصیلی بحث کی تو یہاں گنجائش نہیں مگر مختصر ان کا ذکر بے محل نہ ہوگا.ملائكة الله ملا سلگتے اللہ کے متعلق بھی مسلمانوں میں کئی قسم کے لغو قصے رائج ہو گئے تھے اور کہا جانے لگا تھا کہ نعوذ باللہ یہ بھی پریوں کی طرح کی کوئی مخلوق ہے، جس کی شکل انسانوں سے ملتی جلتی ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے دنیا کو بتایا کہ ملا ئکتہ اللہ کا یہ تصور غیر معقول اور غیر اسلامی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس تصور کی خامیوں کی طرف مسلمانوں کی توجہ دلائی اور یہ غلطی بھی دراصل اسی وجہ سے لگی کہ قرآن کریم کی بعض تمثیلوں کو ظاہر پر محمول کر لیا گیا.آپ نے قرآن کریم کی مختلف آیات
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 115 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء اور احادیث سے استنباط کرتے ہوئے ملائکہ کے صحیح اسلامی تصور کو ایسے بصیرت افروز رنگ میں پیش فرمایا کہ انہیں سن کر ایک معاند کو بھی مجبوراً اسلام کی حقانیت کا قائل ہونا پڑتا ہے.پ نے فرمایا کہ اگر چہ تمثیل کے طور پر بعض اوقات انسانوں کو ملائکہ مختلف صورتوں میں دکھائے جاتے ہیں جیسے حضرت مسیح کو روح القدس ایک کبوتر کی شکل میں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک عظیم الشان پر شوکت انسانی وجود کے طور پر دکھایا گیا جو افق تا افق پھیلا ہوا تھا لیکن در حقیقت وہ جسمانی شکلوں کی قید سے آزاد ہیں اور وہ عظیم الشان وجود ہیں جو عظیم روحانی قوتوں کے طور پر خدا تعالیٰ کے حضور ایسے ماوراء الور کئی مقامات پر فائز ہیں جہاں سے وہ کبھی نہیں ہلتے اور ان کے ایک جگہ سے دوسری جگہ اڑنے پھرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.ان کی مثال ان کے مخصوص فرائض کے دائرے میں جن پر وہ مامور ہیں ، ایک سورج کی سی ہے جو اپنی جگہ سے ہٹے بغیر اپنے دور رس تاثرات کے ذریعہ ان گنت کام اس کا ئنات میں سرانجام دے رہا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ سورج یہ کام غیر شعوری طور پر ادا کرتا ہے اور ملائکہ صاحب شعور ہستیاں ہیں جو عظیم الشان کارخانہ قدرت میں علیحدہ علیحدہ نظاموں کو خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق چلانے پر مقرر ہیں.چنانچہ ملک الموت اس روحانی وجود کا نام ہے.جو موت کا نظام چلانے پر فائز ہے اور اس کے ماتحت بے شمار کارندے اس کام کو سرانجام دینے کے لئے موجود ہیں.قرآن کریم میں پروں کے الفاظ جو ان کے متعلق استعمال ہوئے ہیں.محض استعارہ کی زبان ہے جیسے انسانوں کے متعلق بھی قرآن کریم استعارہ پروں کے الفاظ استعمال فرماتا ہے.چنانچہ والدین کے حق میں اولا د کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: (بنی اسرئیل: ۲۵) یعنی ان کے لئے نرمی یعنی رحمت کا پر جھکاؤ.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی مختلف کتابوں میں اس مسئلے کو ایسی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ اس کا کوئی بھی پہلو تشنہ نہیں رہتا.نمونے کے طور پر ہم حضور کا ایک ارشاد درج کرتے ہیں.اس سے واضح ہو جائے گا کہ ملا ئکتہ اللہ کا جو تصور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو دیا ہے دراصل وہی درست ہے اور اس کو اپنانے سے کسی بھی قسم کا کوئی اعتراض قرآن کریم پر وارد نہیں ہوسکتا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 116 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء محققین اہل اسلام ہرگز اس بات کے قائل نہیں کہ ملائک اپنے شخصی وجود کے ساتھ انسانوں کی طرح پیروں سے چل کر زمین پر اترتے ہیں اور یہ خیال ببداہت باطل بھی ہے کیونکہ اگر یہی ضرور ہوتا کہ ملائک اپنی اپنی خدمات کی بجا آوری کے لئے اپنے اصل وجود کے ساتھ زمین پر اترا کرتے تو پھر اُن سے کوئی کام انجام پذیر ہونا بغایت درجہ محال تھا.مثلا فرشتہ ملک الموت جو ایک سیکنڈ میں ہزار ہا ایسے لوگوں کی جانیں نکالتا ہے جو مختلف بلا دوامصار میں ایک دوسرے سے ہزاروں کوسوں کے فاصلہ پر رہتے ہیں اگر ہر ایک کے لئے اس بات کا محتاج ہو کر اول پیروں سے چل کر اس کے ملک اور شہر اور گھر میں جاوے اور پھر اتنی مشقت کے بعد جان نکالنے کا اس کو موقع ملے تو ایک سیکنڈ کیا اتنی بڑی کارگزاری کے لئے تو کئی مہینے کی مہلت بھی کافی نہیں ہو سکتی.کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص انسانوں کی طرح حرکت کر کے ایک طرفۃ العین کے یا اس کے کم عرصہ میں تمام جہان گھوم کر چلا آوے.ہرگز نہیں.بلکہ فرشتے اپنے اصلی مقامات سے جوان کے لئے خدایتعالی کی طرف سے مقرر ہیں ، ایک ذرہ کے برابر بھی آگے پیچھے نہیں ہوتے.جیسا کہ خدایتعالی ان کی طرف سے قرآن شریف میں فرماتا ہے (الصافات: ۱۶۵-۱۶۶) پس اصل بات یہ ہے کہ جس طرح آفتاب اپنے مقام پر ہے اور اُس کی گرمی اور روشنی زمین پر پھیل کر اپنے خواص کے موافق زمین کی ہر ایک چیز کو فائدہ پہنچاتی ہے اسی طرح روحانیات سماویہ خواہ ان کو یونانیوں کے خیال کے موافق نفوس فلکیہ کہیں یا دسا تیر اور وید کی اصطلاحات کے موافق ارواح کواکب سے ان کو نامزد کریں یا نہایت سید ھے اور موحدانہ طریق سے ملائک اللہ کا لقب ان کو دیں.درحقیقت یہ عجیب مخلوقات اپنے اپنے مقام میں مستعفر
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 117 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟ ۷۶۹۱ء اور قرار گیر ہے اور حکمت کا ملہ خداوند تعالیٰ زمین کی ہر یک مستعد چیز کو اس کے کمال مطلوب تک پہنچانے کے لئے یہ روحانیات خدمت میں لگی ہوئی ہیں.ظاہری خدمات بھی بجالاتے ہیں اور باطنی بھی.جیسے ہمارے اجسام اور ہماری تمام ظاہری قوتوں پر آفتاب اور ماہتاب اور دیگر سیاروں کا اثر ہے ایسا ہی ہمارے دل اور دماغ اور ہماری تمام روحانی قوتوں پر یہ سب ملائک ہماری مختلف استعدادوں کے موافق اپنا اپنا اثر ڈال رہے ہیں.“ 66 توضیح مرام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه: ۲۶ - ۶۸) پھر آپ نے فرشتوں کے وجود کے متعلق اپنا ذاتی مشاہدہ ان الفاظ میں بیان فرمایا: واضح ہو کہ یہ خیال کہ فرشتے کیوں نظر نہیں آتے بالکل عبث ہے..فرشتے خدا تعالیٰ کے وجود کی طرح نہایت لطیف وجود رکھتے ہیں.پس کس طرح ان آنکھوں سے نظر آویں.کیا خدا تعالیٰ جس کا وجود ان فلسفیوں کے نزدیک بھی مسلم ہے ان فانی آنکھوں سے نظر آتا ہے.ماسوا اس کے یہ بات بھی درست نہیں کہ کسی طرح نظر ہی نہیں آسکتے کیونکہ عارف لوگ اپنے مکاشفات کے ذریعے سے جو اکثر بیداری میں ہوتے ہیں فرشتوں کو روحانی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں اور اُن سے باتیں کرتے ہیں اور کئی علوم اُن سے اخذ کرتے ہیں.اور مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جو مفتری اور کذاب کو بغیر ذلیل اور معذب کرنے کے نہیں چھوڑتا کہ میں اس بیان میں صادق ہوں کہ بار ہا عالم کشف میں میں نے ملائک کو دیکھا ہے اور ان سے بعض علوم اخذ کئے ہیں.اور ان سے گزشتہ یا آنے والی خبریں معلوم کی ہیں جو مطابق واقعہ تھیں.پھر میں کیونکر کہوں کہ فرشتے کسی کو نظر نہیں آسکتے.بلاشبہ نظر آسکتے ہیں مگر اور آنکھوں سے ( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه: ۱۸۱، ۱۸۳ حاشیه)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 118 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء دجال دجال کے بارے میں بھی مسلمانوں میں عجیب و غریب قصے رائج ہو چکے تھے اور وہی غلطی دہرائی گئی تھی کہ کلام کی حکمت سے آنکھیں بند کر کے ظاہر کو پکڑ لیا گیا تھا.اس ظاہر بینی کے نتیجہ میں مسلمان بالعموم ایک ایسے کانے دجال کا انتظار کرنے لگے جو ایک ایسے عظیم القامت گدھے پر سوار ہوگا جس کے دونوں کانوں کے درمیان ستر گز کا فاصلہ ہوگا اور دنیا کو تباہ و برباد کرنے کے لئے آخری زمانہ میں خروج کرے گا.احمدیت نے آکر ان سب غلطیوں کی اصلاح کی اور ان عارفانہ معموں کو سلجھایا جو قبل ازیں سینکڑوں سال سے کسی کے سلجھائے نہ سمجھے تھے.چنانچہ مقدس بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السلام دجال کی یوں تشریح فرماتے ہیں: " قرآن شریف اس شخص کو جس کا نام حدیثوں میں دجال ہے شیطان قرار دیتا ہے جیسا کہ وہ شیطان کی طرف سے حکایت کر کے فرماتا ہے: (الاعراف : ۱۵.۱۶) یعنی شیطان نے جناب الہی میں عرض کی کہ میں اس وقت تک ہلاک نہ کیا جاؤں.جب تک کہ وہ مردے جن کے دل مر گئے ہیں دوبارہ زندہ ہوں.خدا نے کہا کہ میں نے تجھے اس وقت تک مہلت دی.سو وہ دجال جس کا حدیثوں میں ذکر ہے وہ شیطان ہی ہے جو آخر زمانہ میں قتل کیا جائے گا.جیسا کہ دانیال نے بھی یہی لکھا ہے اور بعض حدیثیں بھی یہی کہتی ہیں اور چونکہ مظہر اتم شیطان کا نصرانیت ہے اس لئے سورۃ فاتحہ میں دجال کا تو کہیں ذکر نہیں مگر نصاریٰ کے شر سے خدا تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا حکم ہے.اگر دجال کوئی الگ مفسد ہوتا تو قرآن شریف میں بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ یہ فرماتا وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتحہ : ۷) یہ فرمانا چاہئے تھا کہ ولا الدجال.اور آیت (الاعراف:۵۱) سے مراد جسمانی بعث نہیں کیونکہ khutbatiela yom.tif not found.شیطان صرف اس وقت تک زندہ ہے جب تک بنی آدم زندہ ہیں.ہاں شیطان
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 119 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟۷۶۹۱ء اپنے طور سے کوئی کام نہیں کرتا بلکہ بذریعہ اپنے مظاہر کے کرتا ہے سو وہ مظاہر یہی انسان کو خدا بنانے والے ہیں اور چونکہ وہ گروہ ہے اس لئے اس کا نام دجال رکھا گیا ہے کیونکہ عربی زبان میں دجال گروہ کو بھی کہتے ہیں اور اگر دجال کو نصرانیت کے گمراہ واعظوں سے الگ سمجھا جائے تو ایک محذور لازم آتا ہے، وہ یہ کہ جن حدیثوں سے یہ پتہ لگتا ہے کہ آخری دنوں میں دجال تمام زمین پر محیط ہو جائے گا انہی حدیثوں سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ آخری دنوں میں کلیسیا کی طاقت تمام مذاہب پر غالب آجائے گی.پس یہ تناقض بجز اس کے کیونکر دور ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں.حشر نشر اور زمانہ قبر (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲ صفحه: ۴۱) حشر نشر اور زمانہ قبر کے متعلق بھی قصہ گو واعظوں نے مسلمانوں میں عجیب و غریب کہانیاں رائج کر رکھی تھیں جن کی وجہ سے اسلام محض ایک قصوں کا مجموعہ بن کر رہ گیا تھا.قرآن کریم اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن روحانی امور کو لطیف استعاروں اور تمثیلات کی صورت میں بیان فرمایا تھا فر است کی کمی کی وجہ سے ظاہر بین آنکھوں نے انہیں ظاہر پر محمول کر لیا.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے ان سب لغو قصوں سے اسلام کی گردن آزاد کی اور اپنے آقا کی غلامی کا حق ادا کیا.آپ نے اسلام، قرآن کریم اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پر حکمت اور لطیف استعارات کو کھول کھول کر اہل دنیا کے سامنے رکھا جس سے اسلام کی قدر و منزلت اور عزت وعظمت غیر مسلم دلوں میں بھی جاگزیں ہونے لگی.لیکن یہ سب امور حضوڑ ہی کے الفاظ میں اور حضور ہی کی کتب میں پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں.یہاں ان تفاصیل کی گنجائش نہیں.نظام خلافت کا قیام احمدیت نے دنیا کو محض نظریاتی اور اعتقادی لحاظ سے ہی از سرنو وہ اسلام نہیں دیا جوحضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسلام تھا بلکہ وہ نظام بھی عطا کیا جو اس آسمانی پانی کی حفاظت کا ذمہ دار
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 120 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء ہوتا ہے اور دنیا کے کونے کونے تک اس کی ترسیل کا انتظام کرتا ہے.یہی وہ نظام ہے جسے اسلامی اصطلاح میں " نظام خلافت کہا جاتا ہے اور جس کے بغیر دینی اقدار کی کما حقہ حفاظت ناممکن ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سے آج تک کی اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ نظام خلافت کا ہاتھ سے جاتا رہنا ہے.یہ صرف اسلام کا المیہ ہی نہیں بلکہ فی الحقیقت اسے چودہ سو سال میں تمام بنی نوع انسان کا سب سے بڑا المیہ کہنا چاہئے کیونکہ دنیا کی اکثریت کی اسلام سے محرومی کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اسلامی نظام خلافت کی برکات سے محروم ہے.یہ نظام چونکہ خالصہ اللہ تعالیٰ کی منشاء اور ارادہ سے قائم ہوتا ہے اس لئے تا وقتیکہ آسمان پر خدا اس نظام کو از سر نو قائم کرنے کا فیصلہ نہ فرمائے صرف انسانی ہاتھوں کے ذریعے اس کا قیام ناممکن ہے.پس اس المیہ کے بعد جو گزر گیا خدا تعالیٰ کا عظیم ترین فضل بھی یہی ہے کہ اس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرما کر خلافت راشدہ اسلامیہ کو دوبارہ قائم فرمایا: (الجمعه: ۵) آج اسلامی اقدار کی حفاظت اور ادیان باطلہ پر اسلام کے غلبہ نو کا انحصار اسی نظام کی کامیابی اور استحکام پر ہے.اس کی مثال ایک شجرہ طیبہ کی سی ہے جو ہر آن میٹھے پھل دنیا کو کھلاتا ہے اور کسی موسم میں بے فیض اور بے ثمر نہیں رہتا.یا پھر یہ ایک روحانی جنت کی طرح ہے جس کے گھنے سایوں تلے اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی نہریں بہتی ہیں اور روحانی فیوض کے اثمار سے اس کی شاخیں لدی ہوئی ہیں.خلافت راشدہ کا نظام وہ جزا ہے جو تو حید پرستوں کو اسی دنیا میں عطا ہوتی ہے اور آسمان پر ایک خدا کو ماننے والے زمین میں ایک ہاتھ پر ا کٹھے ہو کر وحدت ملی کی ایک دل کش تصویر پیش کرتے ہیں.خلافت راشدہ کا نظام اعلان عام ہے اس از لی اور ابدی سچائی کا کہ خدائے واحد نے اپنے بندوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا ہے.خلافت راشدہ کے قیام کے بغیر حقیقی تو حید کا قیام ممکن نہیں چنانچہ قرآن کریم میں توحید خالص کو قیام خلافت کے پھل کے طور پر پیش کیا گیا ہے.جیسا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 121 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء کہ مسلمانوں کو عطائے خلافت کا وعدہ دیتے ہوئے اس کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والی برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: (النور: ۶۵) یعنی خلافت راشدہ کے استحکام کے ساتھ قیام توحید کے لئے وہ ساز گار فضا پیدا ہوگئی ہے کہ تم خالصہ میری عبادت کرنے لگو گے اور کسی دوسرے کو میرا شریک نہ ٹھہراؤ گے.خدا تعالیٰ نے قیام احمدیت کے ذریعہ یہ عظیم الشان نظام دنیا کو از سر نو عطا فرمایا جو دراصل آج اہل اسلام کے لئے نئی زندگی کا ایک پیغام ہے اور ان پر جو اسلام کی چاردیواری سے باہر ہیں اسلام کے دروازے ایک مادر مہربان کی آغوش کی طرح وا کر رہا ہے.نظام خلافت کے خدوخال ایک مرکزی نقطہ حیات یعنی خلیفہ اسیح کے گرد فدایان اسلام کی ایک جماعت اکٹھی ہے جو خدمت اسلام کے لئے اس کی ہر آواز پر سَمْعاً وَّطَاعَةً سمعاً وطاعۂ کے سوا کچھ کہنا نہیں جانتی جو نیکی کی راہیں وہ انہیں دکھاتا ہے، وہ بڑی تیزی کے ساتھ ان پر قدم مارتی ہے اور دین محمدی کی جس خدمت کے لئے اسے بلاتا ہے وہ لبیک یاسیدی لبیک کہتی ہوئی اپنی جانیں اور اپنے اموال لئے ہوئے حاضر ہو جاتی ہے.وہ اس کے ایک ہاتھ پر اٹھنا اور ایک ہاتھ پر بیٹھنا جانتی ہے.اسی لئے اپنی ہیئت مجموعی میں کثرت تعداد کے باجود ایک فرد واحد کی طرح زندہ ہے.جس کی جان خلافت راشدہ میں ہے اور خلیفہ راشد اس کے لئے بمنزلہ دل کے ہے.یہ دل قالب بدلتا ہے لیکن خود کبھی نہیں مرتا.اس دل کے نام بدلتے ہیں، کام نہیں بدلتے.یہ کبھی نور الدین کے لباس میں ظاہر ہوتا ہے کبھی محمود کا لبادہ اوڑھے ہوئے اور کبھی ناصر احمد بن کر غلامان محمد کی قومی زندگی کے سینے میں دھڑکتا ہے اور خدا کرے کہ اسی طرح قیامت تک دھڑکتا رہے اور کبھی اس دل پر موت نہ آئے کیونکہ اسلام کی حیات نو اس دل کے ساتھ وابستہ ہے اور اسی کی دھڑکن ہے جو مسلمانوں کے قومی وجود کے پور پور میں نبض آسا چلتی ہے.صدر انجمن احمدیہ قرآن کریم متعدد مرتبہ نزول شریعت کی مثال آسمانی پانی سے دیتا ہے جو نازل ہوکر مردہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 122 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء زمینوں کونئی زندگی بخشا اور انہیں روحانی سرسبزی اور شادابی عطا کرتا ہے تمثیلی زبان میں اگر گفتگو کی جائے تو نظام خلافت اس پانی کی حفاظت کرتا ہے اور اسے نہروں کی صورت میں زمینوں کی سیرابی کے لئے جاری کرنے کا انتظام کرتا ہے.صدر انجمن احمد یہ بھی اسی نظام کا ایک جزو ہے جو احمدیت نے دنیا کو عطا کیا اور مرکزی حیثیت کی حامل یہ انجمن شریعت اسلامی کی روشنی میں اہل دنیا کی تربیت، رشد و اصلاح دنیوی تعلیم ، عمومی فلاح و بهبود، اقتصادی ترقی ، خدمت خلق ، عقائد اور اعمال کی نگرانی اور اسلامی تہذیب و تمدن کی ترویج کے لئے رائج کی گئی ہے.یہ کام کئی شعبوں میں تقسیم ہے جنہیں نظارتوں کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.کوئی نظارت تعلیمی امور کی انجام دہی کے لئے قائم ہے تو کوئی رشد و اصلاح کے لئے مخصوص، کسی نظارت کا کام ان روحانی خزائن کی تقسیم ہے جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اور اس زمانہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زبان اور قلم پر جاری ہوئے اور کسی نظارت کا کام خدمت خلق کے عمومی کاموں کی بجا آوری اور اسلامی معاشرہ کی حفاظت اور نگرانی ہے.باالفاظ دیگر یہ سب نہریں ہیں جو باغ احمد کی جنت کے گھنے سایوں تلے دائم بہتی ہیں اور خلافت احمدیہ کی ہدایت اور نگرانی کے ماتحت شریعت اسلامیہ کے روحانی پانی کو سمیٹے ہوئے چلتی ہیں.تحریک جدید ایک اور عظیم الشان نظام سیرابی تحریک جدید انجمن احمدیہ کے نام سے جاری ہے جس کا رخ اسلام سے باہر کی سرزمینوں کی طرف ہے.اللہ اللہ ! یہ نہریں کیا ہیں جو ہزاروں فدائیان اسلام کی قربانیاں لئے ہوئے بہہ رہی ہیں اور ان کے پلائے ہوئے کھیت ان قربانیوں کے خون سے سینچے جارہے ہیں.یہ اس غرض سے جاری کی گئی ہیں کہ غیر مذاہب کی بنجر زمینوں کو اسلام کے پانی سے سیراب کریں.یہ عالمگیر آبی نظام خلافت راشدہ احمدیہ کا ایک شاہکار ہے جو دلوں کو مرعوب اور عقلوں کو دنگ کر رہا ہے اور دنیا کے ہر ایک براعظم کو سیراب کرنے کے لئے جاری کیا گیا ہے.اس نظام نے یورپ کو بھی اسلام کے پانی سے سیراب کیا ہے اور امریکہ کو بھی ، چین کو بھی اور جاپان کو بھی.ایشیا کے مختلف ممالک میں بھی اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں اور تاریک براعظم افریقہ کے صحراؤں اور
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 123 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟ ۷۶۹۱ء جنگلوں کو بھی یہ نہریں سیراب کر رہی ہیں.ان بہتے پانیوں کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر بے اختیار زبان پر جاری ہو جاتا ہے: ایں چشمہ رواں کہ خلق خدا دہم یک قطرة زبحر كمال محمد است در مشین فارسی صفحه : ۸۹) اللہ اللہ! کیا پر بہار منظر ہے کہ اسلام کی سرزمین بڑھ رہی ہے اور بیرونِ اسلام کی زمینیں کم ہوتی جارہی ہیں اور دیکھو خدا کا وہ وعدہ کس شان سے پورا ہورہا ہے جو اس نے آج سے چودہ سوسال پہلے اپنے محبوب ترین بندے سے کیا تھا کہ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغُلِبُونَ ) (الانبياء: ۴۵) یعنی کیا ان منکرین نے دیکھا نہیں کہ ہم بیرون اسلام زمین کو ہر سمت سے کم کرتے چلے جاتے ہیں اور اسلام کی زمین پھیل کر ان غیر زمینوں پر قبضہ کر رہی ہے.کیا اس کے باوجود بھی وہ تجھ پر غالب آنے کے خواب دیکھتے ہیں.پس نظام تحریک جدید وہ نظام ہے جو محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زمین کے مقابل پر ہر دوسری زمین کو کم کرنے کے لئے جاری کیا گیا ہے.آج یہ نظام بڑی تندہی اور بڑی شان کے ساتھ ان مقاصد کو پورا کر رہا ہے اور آج اسی نظام کی برکت ہے کہ یورپ کے روحانی ویرانوں میں بھی اسلام کے شاداب پودے لہلہار ہے ہیں اور افریقہ کے بیابانوں میں بھی اور باغ احمد کی قلمیں کچھ یہاں کچھ وہاں ، ہر خطہ ارض پر زمین کے کناروں تک پھیلائی جا چکی ہیں.وقف جدید وقف جدید انجمن احمد یہ بھی باغ احمد کا ایک سیرابی نظام ہے جو اندرون ملک کے ایسے دیہاتی خطوں کی سیرابی کے لئے جاری کیا گیا ہے جہاں قبل از میں روحانی پانی کی کمی محسوس کی جارہی تھی.احمدیت کے بہت سے ایسے چمن تھے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 124 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء بڑے شاداب اور پر بہار تھے اور میٹھے پھل دے رہے تھے.لیکن رفتہ رفتہ مرکزی نہروں کے زندگی بخش پانی سے ان کا تعلق کم ہو گیا اور ان میں سے کچھ خشکی اور پژمردگی کا شکار ہونے لگے.خلافت را شدہ احمدیہ کی عظیم الشان برکات میں سے ایک برکت یہ بھی ہے کہ اس نے ان علاقوں کے لئے ایک مزید تقویتی نظام جاری کیا اور وقف جدید کو جاری کر کے اندرون ملک میں چھوٹی چھوٹی روحانی نہروں کا ایک جال پھیلا دیا تا کہ ایک چپہ زمین بھی ایسی نہ رہے جو خلافت احمدیہ کے روحانی آب حیات سے براہ راست سیراب نہ ہو.ابھی اس نظام کو جاری ہوئے صرف چند سال کا عرصہ گزرا ہے لیکن اس کے اثرات ہر طرف روحانی شادابی کی صورت میں ظاہر ہونے لگے ہیں اور بہت سے ایسے خطہ ہائے احمدیت ہیں جہاں نئی زندگی کا پیغام لئے ہوئے یہ نہریں جا پہنچی ہیں.ہر شاخ ہری ہو رہی ہے اور ہر پتے میں جان پڑ رہی ہے.نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں اور چمن کے صحنوں کو وسعت مل رہی ہے.بہت سے ایسے دل کش مناظر ہیں کہ دیکھ کر آنکھوں میں طراوت آتی ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر بے اختیار زبان پر آ جاتا ہے: بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں کھلے ہیں پھول میرے بوستاں میں ( در تمین صفحه: ۵۰) کیوں نہ دل ان مناظر کو دیکھ کر خوش ہو کہ بعض ایسی مسجد میں جو کبھی نمازیوں کی کمی کی شکایت کرتی تھیں اب زبان حال سے وَسِعْ مَكَانَكَ.وَسِعْ مَكَانَگ پکار رہی ہیں.کیوں نہ دل ان مناظر کو دیکھ کر خوش ہو کہ بہت سے احمدی بچے جو کبھی اپنے گھروں میں بھی نماز سے غافل تھے اب پو پھٹتے ہی گھروں سے نکلتے ہیں اور درود شریف کا ورد کرتے ہوئے دیہات کی گلیوں میں پھرتے ہیں.معصوم زبانوں میں جاری یہ درود کے نغمات دوسرے بچوں اور جوانوں اور بوڑھوں کو بیدار کرتے ہیں.اور صَلَّ عَلَى نَبِيِّنَا.صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ کی صداؤں سے دیہات تک کی فضا مترنم ہو جاتی ہے.نمازیوں سے مسجد میں بھر جاتی ہیں اور تلاوت کی آواز سے روحیں وجد کر نے لگتی ہیں.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 125 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء ہاں کیوں نہ دل ان مناظر سے خوش ہو کہ ایسی ہندو بستیوں میں بھی وقف جدید کی نہریں جاری ہو چکی ہیں جو کبھی اسلام اور پیغمبر اسلام کے نام کوسننا تک گوارا نہ کرتی تھیں.توحید کے پانی نے ان زمینوں کو اپنا لیا ہے جو کبھی سینکڑوں فرضی خداؤں کے قبضہ میں تھیں.آج وہاں بھی تو حید کے نعرے بلند ہور ہے ہیں ، آج وہاں بھی مسجد میں تعمیر ہو رہی ہیں.آج وہاں بھی خدائے واحد کی پرستش کرنے والے جنم لے رہے ہیں.ہاں آج ان مشرک بستیوں میں بھی وہ گواہ پیدا ہورہے ہیں جو پانچ وقت صدق دل کے ساتھ یہ گواہی دیتے ہیں کہ: اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدَ ارَّسُوْلُ اللهِ بعض ذیلی تنظیمیں ہیں.not found.نظام خلافت احمد یہ بھی ان ملائکہ کی طرح ہے جو اُولِی أَجْنِحَةٍ مَّثْنى وَثُلَثَ وَرُبعَ (فاطر ۲۰ ) اللہ تعالیٰ اس نظام کو جس قدر چاہے اور بھی روحانی پرواز کے لئے پر عطا کرتا رہے گا.یہ ایک مکمل نظام ہے جو کسی بندے کی تخلیق نہیں بلکہ وحی الہی کے مطابق جاری ہوا ہے.القائے الہی کے مطابق ہی اس میں بنی نوع انسان کے لئے فیض رسانی کے نئے چشمے پھوٹ رہے ہیں اور دینی اور روحانی اقدار کی حفاظت کے لئے قطار اندر قطار دفاعی قلعے تعمیر ہورہے ہیں.لجنہ اماء الله ایک لجنہ اماءاللہ کی تنظیم ہے جو اسلامی تعلیم کو عورتوں میں رائج اور راسخ کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے اور اسلامی اقدار کے مطابق اچھی مائیں پیدا کرنے کے سلسلہ میں عظیم قومی خدمت میں مصروف ہے.اطفال الاحمدیہ ایک اطفال الاحمدیہ کی تنظیم ہے جو بچوں کو اسلامی رنگ میں تربیت دینے پر کمر بستہ ہے اور وہ محروم بچے جو گھروں میں دینی تعلیم و تربیت سے بے نصیب رہے، اس تنظیم کے دائرہ میں آکر دین
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 126 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟ ۷۶۹۱ء سیکھنے اور دین پر عمل پیرا ہونے کی مشق کر رہے ہیں.خدام الاحمدیہ ایک خدام الاحمدیہ کی تنظیم ہے جو ان نوجوانوں کے لئے وجود میں آئی ہے جو طفولیت سے عہد جوانی میں داخل ہورہے ہوں اور پھر چالیس سال کی عمر تک ان کا ساتھ نہیں چھوڑتی.اس تنظیم کے زیر انتظام نوجوان گرم خون اور بلند ولولوں کے ساتھ خدمت دین میں مصروف ہیں.یہ مجلس ان کے سامنے خدمت دین اور خدمت خلق کے نئے نئے پروگرام رکھتی ہے.بہتر رنگ میں اپنے رب کی عبادت کرنے کے درس دیتی ہے اور مخلوق خدا کی خدمت اور بہبودی کی راہیں ان پر کھولتی ہے.یہ مجلس ان نوجوانوں کی طرف خصوصی توجہ دیتی ہے جو اطفال الاحمدیہ کے تربیتی دائرہ سے کما حقہ مستفید نہ ہوئے ہوں اور عہد جوانی میں ان کی تربیت کرنے کے خصوصی پروگرام بناتی ہے.مختلف مقامات کے علاوہ حلقہ وار ضلع وار اور علاقہ وار تربیتی اجتماعات کا انعقاد کرتی ہے اور ان تمام مقاصد کو پورا کرنے میں مرکزی انجمنوں کا ہاتھ بٹاتی ہے جن مقاصد کے حصول کے لئے سلسلہ عالیہ احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے.انصار الله احمدیت حقیقی اسلام ہے اور اسلام میں موت سے قبل ریٹائر ہونے کا کوئی تصور نہیں.ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ اپنی استعدادوں اور خدا داد قوتوں کے مطابق حسب توفیق اللہ تعالیٰ کی راہ میں تادم آخر کوشش کرتا رہے.پس احمدیت بھی اس تصور کی عملی تصویر پیش کرتی ہے اور اس کے تربیتی حلقے زندگی کے سب دائروں پر محیط ہیں.جب احمدی نوجوان اپنی عمر کے چالیس سال پورے کر چکتے ہیں تو ان پر مجلس انصار اللہ کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور اس مجلس میں داخل ہو کر پھر زندگی کے آخری سانس تک وہ اسی مجلسی دائرہ میں رہتے ہوئے پہلے سے بڑھ کر ذہنی اور عملی پختگی کے ساتھ خدمت دین میں مصروف ہو جاتے ہیں.یہ مجلس ان کے اعمال کو بہتر سے بہتر کرنے میں شب و روز کوشاں رہتی ہے اور اس دن سے پہلے کہ وہ اپنے رب کے حضور پیش ہوں، ہر گھڑی بلند تر روحانی درجات کے حصول میں ان کی مدد کرتی ہے.پس نظام احمدیت میں یہ مجالس احمدیت کے مرکزی تربیتی نظام کو مزید تقویت دے رہی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 127 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟ ۷۶۹۱ء ہیں اور اسلامی روحانی اقدار کی حفاظت کے لئے ایک ایسے عظیم الشان دفاعی نظام کے مشابہ ہیں، جس میں قلعوں کے بعد قلعے ایک دوسرے کی پشت پناہی کر رہے ہوں.یہ عظیم الشان اور مکمل نظام روحانی جو خلافت راشدہ احمدیہ کے ذریعہ دنیا کو عطا ہوا کوئی معمولی معجزہ نہیں.تیرہ صدیوں تک مسلمان ایک کے بعد دوسرے تنزل کی جانب اترتے رہے اور تیرہ طویل صدیوں تک اسلام کی تصویر غیروں کی نظر میں بگڑتی چلی گئی.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوی اور دائمی قوت قدسیہ کا سہارا نہ ہوتا اور خدا تعالیٰ کی ابدی نصرت کا وعدہ شامل حال نہ ہوتا ، تو کبھی کی یہ امت ماضی کا ایک عبرت آموز قصہ بن چکی ہوتی اور اس آب حیات سے دنیا ہمیشہ کے لئے محروم ہو چکی ہوتی.لیکن جیسا کہ ازل سے مقدر تھا آخری زمانہ میں اسلام کو ایک نئی اور پر شوکت زندگی عطا ہونی تھی اور ادیان باطلہ پر ایک عالمگیر غلبہ کی بنیاد مسیح محمدی کے ہاتھوں رکھی جانی تھی.پس خوشا وہ وقت کہ جب قادیان کی گمنام بستی میں اسلام کی تعمیر نو کی پہلی اینٹ رکھی گئی اور اس وقت سے آج تک ہر روز یہ عمارت اپنی تکمیل کی نئی اور بلند تر منازل کی طرف اٹھائی جارہی ہے.وہ کھویا ہوا نظام خلافت جو اسلام کے استحکام اور تمکنت کے لئے بمنزلہ جان کے تھا پھر سے مسلمانوں کو عطا ہو چکا ہے اور زمین کے کناروں تک قوموں نے اس کے فیض سے برکت پائی ہے.پس اے مسلمانان عالم ! احمدیت کو آپ کا انتظار ہے! کب آپ دین محمد کے احیاء کی خاطر، اس عظیم الشان نظام میں شامل ہوں گے اور ان قربانیوں کی لذت سے حصہ پائیں گے جو آج خدام احمدیت کے لئے مخصوص ہو چکی ہیں.احمدیت کو آپ کا انتظار ہے کیونکہ آپ کی شمولیت سے دین اسلام کو تقویت نصیب ہوگی اور اسلام کا وہ عظیم سمندر جو آج قطرہ قطرہ دنیا کی خشنگیوں میں بکھرا پڑا ہے، ایک بار پھر مجمع ہو کر ایک بحر بے پایاں میں تبدیل ہو جائے گا.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کوئی روحانی نظام خواہ کیسا ہی کامل اور نافع الناس کیوں نہ ہو اس وقت تک کامیابی سے نہیں چل سکتا جب تک قربانیوں کے خون سے اس کی آبیاری نہ کی جائے.اسلام کا اکمل نظام بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں قربانیوں کا خون پی کر پنپا تھا.بنی نوع انسان کو ہدایت اور کامیابی کی راہوں کی طرف بلانا کوئی بازیچہ اطفال نہیں ، دنیا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 128 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء قط کی ہدایت کے دعویدار پھولوں کی سیج پر چل کر روحانی انقلاب بر پا نہیں کیا کرتے.وہ وقت یاد کرو جب ایک خیر امت، بنی نوع انسان کی بہبود کی خاطر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کے پروں تلے پرورش پا کر تیار ہوئی اور رحمت کا پیغام لئے ہوئے بنی نوع انسان کی طرف نکلی.اس راہ میں انہوں نے کیسے کیسے دکھ اٹھائے اور کتنی طویل اور مسلسل اور شاندار قربانیاں دیں.پس محض ایک کامل نظام کی موجودگی سے دنیا فیض نہیں پاسکتی جب تک اس نظام کے نفاذ کے لئے بے مثل قربانیاں دینے والے کچھ بے نفس بندے بھی دنیا کو عطانہ ہوں.احمدیت نے یہ بے نفس بندے بھی دنیا کو عطا کئے.سیہ وہ بے نفس بندے ہیں، جنہیں اس زمانہ میں بنی آدم کی بہبود کے لئے نکالا گیا ہے.یہ وہ لوگ ہیں جو بے دریغ اپنے عزیز مال کو ایک بلند مقصد کی خاطر لٹا ر ہے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں ، جو اپنی قیمتی جانیں ایک عظیم الشان مح نظر کی خاطر قربان کر رہے ہیں.یہ ایک نہایت حیرت انگیز مالی اور جانی قربانی کا نظام ہے جس کی نظیر دنیا کے پردے پر اس وقت اور کوئی نہیں اور جس کی مثل ڈھونڈنے کے لئے نظر کو چودہ سو برس قبل کے زمانہ کی طرف لوٹنا پڑتا ہے.سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ہر انجمن اور ہر تنظیم کی رگوں میں ان بندگان خدا کی قربانیوں کا منزہ خون دوڑ رہا ہے.یہ روپیہ جو پانی کی طرح اسلام کے احیائے نو کے لئے اور دنیا کو دین محمدی کی طرف بلانے کے لئے بہایا جا رہا ہے اور یہ جانیں جو خدمت دین کے لئے بھیڑ بکریوں کی طرح قربان کی جارہی ہیں ان کی کہانی سننے کے لائق اور ان کی کیفیت دیکھنے کے قابل ہے.ہر بالغ احمدی جو کچھ کمانے کی طاقت رکھتا ہے.ان پابندیوں کے باوجود کہ نا جائز طریق سے کمائی کے سب راستے اس پر بند ہیں اور اس مالی تنگی کے باوجود جو اس کے نتیجہ میں اسے برداشت کرنی پڑتی ہے اپنی کمائی کا کم از کم ۱/۱۶ حصہ اور زیادہ سے زیادہ ۱/۳ حصہ صدرانجمن احمدیہ کی خدمت میں اس غرض سے پیش کرتا ہے کہ خلیفہ کی رہنمائی میں ، راہ خدا میں اسے خرچ کرے.پھر جو اس کے پاس بچتا ہے وہ بھی سب اس کا نہیں ہو جا تا بلکہ غیر ممالک میں مذاہب غیر پر غلبہ اسلام کے لئے جو تبلیغی ادارہ تحریک جدید کے نام سے جاری کیا گیا ہے، اسے چلانے کی خاطر وہ اپنے بچے ہوئے مال میں سے ایک حصہ تحریک جدید انجمن احمدیہ کی خدمت میں پیش کر دیتا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ ہو.پھر اس کے بعد جو بیچ رہتا ہے وہ بھی سب اس کا نہیں ہو جا تا بلکہ اندرونِ ملک میں دیہاتی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 129 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء جماعتوں کے احیائے نو کے لئے اور ان کی دینی معیار کو بلند کرنے کے لئے جو انجمن وقف جدید کے نام سے جاری کی گئی ہے، اپنے بچے ہوئے مال میں سے ایک حصہ وہ اس انجمن کو چلانے کے لئے پیش کر دیتا ہے.اس کے بعد جو بیچ رہتا ہے وہ بھی سب اس کا نہیں ہو جا تا بلکہ اگر وہ نوجوان ہے تو نوجوانوں کی انجمن مجلس خدام الاحمدیہ کے اخراجات چلانے کے لئے بھی چندے دیتا ہے اور اگر وہ چالیس سال سے متجاوز ہے تو مجلس انصار اللہ کی خدمت میں دینی کاموں پر خرچ کرنے کے لئے اپنے اموال کا ایک حصہ پیش کر دیتا ہے اور اگر وہ عورت ہے تو لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کے اخراجات چلانے کے لئے وہ اپنے مال کا ایک حصہ اس مجلس کی خدمت میں پیش کر دیتی ہے.پھر جو بچ رہتا ہے وہ بھی سب اس کا نہیں ہو جاتا کیونکہ تعمیر مساجد کے لئے بھی اس سے مالی قربانی کا مطالبہ ہوتا ہے اور مختلف زبانوں میں تراجم قرآن مجید شائع کرنے کے لئے بھی پھر اسی سے مالی قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے.پھر جو بچ رہتا ہے وہ بھی سب اس کا نہیں ہو جاتا کیونکہ اس کے سامنے اپنے رب کے یہ احکام بار بار پڑھے جاتے ہیں کہ (الذاریات: ۲۰) یعنی خدا کے بندوں کے اموال میں سوالیوں اور محروموں کا بھی حق ہے.پس خدا کے یہ عجیب بندے اپنے اموال میں سے دن رات صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں.خفیہ طور پر بھی اور ظاہری بھی.چھپ چھپ کر بھی اور اعلانیہ بھی.پھر جو بچ جاتا ہے وہ سب بھی ان کا نہیں ہوجاتا کیونکہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ دینی علم کے بغیر خدمت دین کا حق ادا نہیں ہوسکتا.اس لئے قرآن وحدیث کے مطالعہ پر خرچ کرو، امام الزمان کی کتب پر خرچ کرو ،خلفائے سلسلہ کی تحریرات خرید و تفسیر صغیر پڑھو اور تفسیر کبیر کا مطالعہ کرو، بزرگان سلسلہ کی کتابوں سے استفادہ کرو.الفضل سلسلہ عالیہ احمدیہ کا ترجمان ہے، اس کا ہر گھر میں ہونا ضروری ہے.نوجوان ہو تو خدام الاحمدیہ کے ترجمان خالد کے بغیر گزارہ نہیں کر سکتے.انصار اللہ کے رکن ہو تو انصار اللہ کا مطالعہ تمہارے لئے از بس ضروری ہے.لڑکی یا عورت ہو تو خواتین کا رسالہ ” مصباح“ کے بغیر تمہاری معلومات مکمل نہیں ہوسکتیں.پس اپنے بچے ہوئے اموال میں سے خدا کے یہ عجیب بندے ماہ بماہ اور سال بہ سال ان دینی کتب اور رسائل کی خرید پر بھی روپیہ صرف کرتے ہیں.پھر جو بچ رہتا ہے، وہ بھی سب ان کا نہیں ہو جاتا.بلکہ گاہ بہ گاہ خدا کے نام پر خرچ کرنے کی اور راہیں بھی ان پر کھولی جاتی
نقار میر جلسه سالانه قبل از خلافت 130 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء ہیں.کبھی خدام الاحمدیہ کے ہال کی تعمیر ہورہی ہے اور کہیں وقف جدید کا مرکزی دفتر بن رہا ہے اور کبھی فضل عمر فاؤنڈیشن کے نام پر ایک عظیم الشان رفاہی منصوبہ ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے.یہ قطار اندر قطار مالی قربانی کا مظاہرہ اسی پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ کمانے والے ان سب چندوں کی ادائیگی کے بعد جب اپنی بیویوں کو خرچ دیتے ہیں تو وہ بھی حسب توفیق ان سب چندوں میں شامل ہونے کی کوشش کرتی ہیں.پھر یہ قطار اندر قطار مالی قربانی کا مظاہرہ اسی پر ختم نہیں ہو جاتا.بلکہ وہ چند پیسوں یا آنوں یا روپوں کے چھوٹے چھوٹے جیب خرچ جو مائیں اپنے بچوں کو دیتی ہیں وہ بچے بھی ان میں سے ایک حصہ اپنے رب کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.دنیا والے ان چھوٹی چھوٹی قربانیوں کو حقیر نہ جانیں کہ خدا کی نگاہ میں ان کی بڑی قیمت ہے.ان چھوٹے چھوٹے سینوں میں اللہ اور رسول کی خاطر سب کچھ قربان کر دینے والے عظیم دل چھپے ہوئے ہیں.ان ننھے منے بچوں میں ایسے مجاہدین اسلام بھی ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی شوق کی گردن پر چھری رکھ دی اور سالہا سال کی جمع شدہ پونجیاں دین محمدی کی خاطر خلیفہ وقت کے حضور پیش کر دیں اور جب خلیفہ وقت نے اسے قبول کرنے میں تامل کیا تو مچل گئے اور بضد ہوئے اور نہ ملے جب تک ان کی قربانی قبول نہ کی گئی.پھر ان میں سے ایسے بھی ہیں، جنہوں نے مہینوں پیسہ پیسہ جوڑ کر اپنی کجیاں بھریں اور جب وہ بھر گئیں اور بوجھل ہوگئیں تو ان کے کانوں میں یہ آواز پڑی کہ خلیفہ وقت وقف جدید کی مالی امداد کے لئے احمدی بچوں کو بلا رہا ہے.یہ آواز انہوں نے سنی اور اپنے شوق کو یہ دیکھنے تک کی مہلت بھی نہ دی کہ یہ ان کے مہینوں کے صبر اور قربانی کا ثمرہ تھا.وہ بند کی بند کجیاں انہوں نے خلیفہ وقت کے حضور پیش کر دیں کہ جو کچھ بھی ان میں ہے وہ ہمارا نہیں خدا کا ہے.پس خدا ہی کی راہ میں اسے خرچ فرمائیں.اے ابنائے آدم ! اور اے معشر جن وانس ! یہ وہ بچے اور وہ مائیں اور وہ باپ اور وہ جوان اور وہ بوڑھے ہیں، جو احمدیت نے مخلوق خدا کی بہبودی کی خاطر قربانی کے میدانوں کی طرف نکالے ہیں اور وہ خیر امت ہے جو محمد عربی کی قوت قدسیہ نے اس زمانہ میں پیدا کی ہے.اے امریکہ اور اے یورپ اور جاپان کے دولت مندو! اور چین اور روس کی عظیم مملکتوں کے فرماں رواؤ! کیا احمدی بچوں کی ان معصوم قربانیوں سے بڑھ کر بھی کوئی قیمتی دولت تمہارے خزانوں میں ہے؟ سنو! تمہاری سب دولتیں اور تمہارے سب خزائن اور دفینے دنیا کی زینت ہی تو ہیں اور دنیا ہی کی بھٹی میں جل کر
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 131 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء خاکستر ہو جائیں گے اور تمہیں ہلاکت کی گھڑی سے بچ نہ سکیں گے لیکن یہ حقیر نظر آنے والی کجیاں اور یہ پیسے اور یہ سکے جو معصوم دلوں نے بے پناہ خلوص کے ساتھ اپنے رب کے حضور میں پیش کئے ہیں یہ بڑھیں گے اور پھولیں گے اور پھلیں گے اور انہیں برکت پر برکت ملے گی اور دنیا کی نجات اب ان سے ہاں ان ہی سے وابستہ ہو چکی ہے.اے مشرق و مغرب پر چھا جانے والی عظیم الشان طاقتو ! جو اشتراکیت اور سرمایہ داری کی علم بردار ہو ! تمہاری عظیم مادی قوتیں تمہارے کچھ کام نہ آئیں گی اور تمہیں ہلاکت کے اس دن سے بچا نہ سکیں گی جو دنیا کی تباہی کے لئے مقدر ہو چکا ہے.تمہارے جمع شدہ اموال تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے.سنو اور امام زمان کی آواز سے سنو : ”اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا.مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا.جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں.پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے.نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے.مگر خدا غضب میں دھیما ہے تو بہ کرو تاتم پر رحم کیا جائے.جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی.اور جو اس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ “ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد نمبر ۱۲ صفحه ۴۹) پس اے اہل دنیا! امام وقت کی اس آواز کوسن جو تمہیں ہلاکت سے بچانے کے لئے منار محمدی سے بلند ہوئی اور دیکھو احمدی بچوں اور ماؤں اور بوڑھوں اور جوانوں کی ان پر درد قربانیوں کو دیکھو جو تمہیں تباہی سے بچانے کی خاطر وہ رب العباد کے حضور کس خلوص اور تڑپ کے ساتھ پیش کر رہے ہیں.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 132 احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء خدا گواہ ہے کہ اب دنیا کی نجات احمدیت کی ان قربانیوں کے ساتھ وابستہ ہو چکی ہے ان پیسوں کے ساتھ وابستہ ہو چکی ہے، جو معصوم بچوں نے اپنے خالق کے حضور پیش کئے.ان جھومروں اور ان کنگنوں کے ساتھ وابستہ ہو چکی ہے.جو پاک دامن احمدی خواتین نے محض اس لئے اتار دیئے کہ ان کی فروخت سے مغرب کے بت خانوں میں مسجد میں تعمیر ہوں اور خدائے واحد کی پرستش کی جائے.ہاں اے ابنائے آدم ! آج تمہاری نجات ان زندگیوں سے وابستہ ہو چکی ہے جو ہزارہا احمدی نو جوانوں اور بوڑھوں نے تمہیں اپنے رب کی طرف واپس لوٹانے کی خاطر دین محمدی کی نذر کر دیں.ان مجاہدین احمدیت سے وابستہ ہو چکی ہے جو تبلیغ اسلام کی خاطر اپنے گھروں سے نکلے اور گھروں کے آرام کو پیچھے چھوڑ دیا.جوان بیویوں، بوڑھے ماں باپ اور چھوٹے بچوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور دور دراز ممالک کو روانہ ہوئے تا کہ بنی آدم کو پیشگی کے امن یعنی دین اسلام کی طرف آنے کی دعوت دیں.بعض ان میں سے ایسے تھے جو غیر ممالک ہی میں راہ جہاد میں خدا کو پیارے ہوئے اور مڑ کر وطن اور اہل وطن کی صورت نہ دیکھ سکے اور بعض ان میں سے ایسے تھے جو اتنی دیر کے بعد اس حال میں وطن کو لوٹے کہ ان کے بوڑھے ماں باپ اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے اور ان کی جوان بیویاں بوڑھی ہو چکی تھیں اور ان کے بالوں کی سیاہی میں بڑھاپے کی سفیدی پھر گئی تھی.بیویوں نے خاوندوں کے بغیر اور بچوں نے باپوں کے بغیر زندگی کی تلخیاں برداشت کیں اور کرب ناک بیماریوں میں انہیں یاد کیا اور ایسا ہوا کہ سینکڑوں عورتوں نے اپنے خاوندوں کی زندگی میں ہی ایک بیوگی کی سی بد حالی کو اپنے لئے قبول کیا اور ہزار ہا بچے اپنے باپوں کی زندگی میں یتیموں کی طرح رہنے لگے.یہ افسانے نہیں حقیقتیں ہیں.آسمان کا خدا گواہ ہے کہ یہ حقیقتیں ہیں.یہ وہ حقیقتیں ہیں ، جو احمدیت دنیا کی نجات کے لئے کفارہ کے طور پر اپنے رب کے حضور پیش کر رہی ہے.ہاں یہ درد کی چادروں میں لپٹی ہوئی وہ بشارتیں ہیں، جو احمدیت نے دنیا کو عطا کیں.کاش دنیا ان حقیقتوں کو سمجھے اور ان بشارتوں کو قبول کرے اوراے کاش ! دنیا اس خدائے واحد کی طرف لوٹ آئے اور اس یکتا رسول احمد مرسل کو قبول کرے.جس کی چار دیواری سے باہر کوئی جائے امن نہیں.اے کاش! دنیا ہلاکتوں کے اس تاریک دور میں غلام احمد کی اس آواز کو سنے کہ
احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ؟۷۶۹۱ء نقار مر جلسه سالانه قبل از خلافت 133 صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار براهین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲ صفحه: ۱۴۵) اور اس عظیم الشان خوش خبری سے فائدہ اٹھائے کہ ع لوائے ما پنہ ہر سعید خواہد بود! شائع کردہ جماعت احمد یہ لاہور ۱۹۶۸ء)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 135 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء فلسفه دعا ( بر موقع جلسہ سالانہ ۱۹۶۸ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایسے زمانے میں مبعوث ہوئے کہ دنیا ہی کی نہیں بلکہ مسلمانوں کی اکثریت بھی دعا سے غافل ہو چکی تھی اور وہ جو بظاہر دعا کے قائل نظر آتے تھے وہ بھی اس کے فلسفہ اور بار یک حکمتوں کا بہت کم علم رکھتے تھے یہاں تک کہ مسلمانوں ہی میں ایک ایسا گروہ بھی پیدا ہوا جو دعا کی تاثیر اور قوت ہی سے منکر ہو چکا تھا اور اسے ایسا بے حقیقت جانتا تھا کہ گویا دعا اپنی طاقت میں ہوا کے ایک خفیف جھونکے سے بھی کمزور تر ہے اور ایک خزاں رسیدہ پتے کو بھی ہلانے کی طاقت نہیں رکھتی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طبقے کو ایک ایسا چیلنج دیا جو قارعة کا حکم رکھتا تھا اور بار بار ان کی عقلوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہوئے فطرت انسانی کو اس امر پر گواہ ٹھہرایا کہ بندے اور رب کے درمیان دعا کا تعلق ایک ثابت شدہ حقیقت ہے جسے قبول کئے بغیر ایک سلیم العقل انسان کے لئے چارہ کار نہیں.پھر اس نظریاتی بحث پر ہی اکتفانہ فرمائی بلکہ اپنے وجود کو ایک زندہ ثبوت کے طور پر پیش کیا.یہ ایک ایسا وجود تھا جس کا ماضی، حال اور مستقبل اور تمام گردو پیش قبولیت دعا کے حق میں گواہی دے رہے تھے.ماضی اس طرح کہ آنحضور کی ان دعاؤں کا آپ شمرہ تھے جن کے نتیجے میں اسلام کو چودھویں صدی کے سر پر مذاہب غیر پر غالب کرنے والا ایک عظیم الشان سپہ سالا رعطا ہونا تھا.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 136 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء حال اس طرح کہ آپ کی دعائیں شب و روز اس طرح قبول ہو رہی تھیں جیسے بارانِ رحمت برس رہی ہو اور اپنے اثر میں اتنی وسیع تھیں کہ لاکھوں کروڑوں قبولیت دعا کے گواہ آپ کے اپنے زمانے میں پیدا ہوئے اور ان کے دلوں نے لاریب کے نعرے لگائے.مستقبل اس طرح کہ آپ نے اپنی دعاؤں کے ایسے عظیم الشان ثمرات آئندہ نسلوں کو فیض پہنچانے کے لئے پیچھے چھوڑے جنہوں نے زمین کے کناروں تک شہرت پائی اور اطراف عالم نے زبان حال سے گواہی دی کہ ہاں اے محمد ﷺ کی دعاؤں کے ثمره ! دعائیں قبول ہوتی ہیں اور ضروری ہوتی ہیں اور ضرور ہوتی ہیں.جہاں تک فلسفہ دعا کا تعلق ہے آپ نے اس مشکل مسئلے کو آسان اور عام فہم کر کے دکھا دیا اور اس زمانے کے خشک فیلسوفوں کی طرف سے وارد ہونے والے ہر اعتراض کا شافی جواب دیا.میرا آج کا مضمون حضور اقدس علیہ السلام کے فرمودات کی ہی خوشہ چینی ہے چنانچہ اس کا آغاز حضور ہی کے الفاظ سے کرتا ہے.حضور فرماتے ہیں: ایک بچہ جب بھوک سے بے تاب اور بے قرار ہو کر دودھ کے لئے چلاتا اور چیختا ہے تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مار کر آجاتا ہے حالانکہ بچہ تو دعا کا نام بھی نہیں جانتا لیکن یہ کیا سبب ہے کہ اس کی چھینیں دودھ کو جذب کر لاتی ہیں.یہ ایک ایسا امر ہے کہ عموماً ہر ایک صاحب کہ اس کا تجربہ ہے.بعض اوقات ایسا دیکھا گیا ہے کہ مائیں اپنی چھاتیوں میں دودھ کو محسوس بھی نہیں کرتی ہیں اور بسا اوقات ہوتا بھی نہیں ہے لیکن جو نہی بچہ کی درد ناک چیخ کان میں پہنچی فوراً دودھ اتر آیا ہے.“ (احکم جلد ۵ نمبر ۲۴ مورخه ۱۲ راگست ۱۹۰۱ صفحه ۳) اس کی چھینیں دودھ کو کیوں کر کھینچ لاتی ہیں اس کا ہر ایک کو تجربہ ہے.بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ مائیں دودھ کو محسوس بھی نہیں کرتیں مگر بچے کی چلا ہٹ ہے کہ دودھ کو کھینچ لاتی ہے تو کیا ہماری چیچنیں جب اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں تو وہ کچھ بھی کھینچ نہیں لاسکتیں ، آتا ہے سب کچھ آتا ہے مگر آنکھوں کے اندھے جو فاضل اور فلاسفر بنے بیٹھے ہیں وہ دیکھ ہی نہیں سکتے.بچے کی جو مناسبت ماں سے ہے اس تعلق اور رشتے کو انسان اپنے ذہن میں رکھ کر اگر دعا کی فلاسفی پر غور کرے تو بہت آسان اور سہل معلوم ہوتی ہے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 137 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا کا فلسفہ سمجھانے کے لئے جو ماں کی اپنے بچے سے تعلق کی مثال دی ہے یہ اپنے اندر گہری حکمتیں رکھتی ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر خالق کو اپنی تخلیق سے پیار ہوتا ہے خواہ کیسی ادنی درجہ کی ہی کیوں نہ ہو.صناع اپنی صنعت سے پیار کرتے ہیں ، مصور اپنی تصویروں سے، شاعر اپنے اشعار سے اور افسانہ نگار اپنے افسانوں سے.اپنی تخلیق سے پیار کا یہ جذبہ بڑوں میں بھی نظر آتا ہے اور چھوٹوں میں بھی.آپ نے دیکھا نہیں کہ بچے مٹی کے بے ہنگم کھلونے بنا کر اپنی صنعت کی کیسی کیسی داد چاہتے ہیں جب کہ ویسے ہی کھلونے اگر بازار سے آپ ان کو لا کر دیں تو وہ اٹھا کر زمین پر دے پیٹھیں اور واویلا کریں یہ کیا اٹھا لائے؟ اسی طرح وہ بچے جو بسا اوقات باورچی کے اچھے اچھے کھانوں کو بھی پسند نہیں کرتے جب آپ چھوٹی سی ہنڈیا میں ادھ پکے یا کیچڑ بنے ہوئے چاول پکاتے ہیں یا غیر متناسب اوزان میں نمک مرچ گھی اور گوشت وغیرہ کو سینک دلا کر اس کا نام سالن رکھ دیتے ہیں تو خود بھی کس مزے سے اسے کھاتے ہیں اور ماں باپ کے منہ میں بھی زبردستی ٹھونستے ہیں پھر یہ تقاضا بھی جاری رہتا ہے کہ مزیدار پکا ہے نا؟ پس جب ادنی ادنی خالق اپنی ذلیل اور بے حقیقت تخلیق سے بھی ایسا پیار کرتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ وہ کامل ذات جو احسن الخالقین ہے اپنی کامل تخلیق سے پیار نہ کرے؟ خالق اور مخلوق کا یہی وہ رشتہ ہے جو ماں کو اپنے بچے کے ادنیٰ سے اضطراب پر بھی بے قرار کر دیتا ہے.حقیقی خوف تو کیا خواب میں بھی اگر وہ ڈر کر جینے تو ماں کا کلیجہ دھڑکنے لگتا ہے اور وہ اسے سینے سے چمٹاتی ہے اور تھ پکاتی ہے اور واری جاتی ہے.پھر کیا حقیقی خوف کی چیخوں پر آپ نے نہیں دیکھا کہ مائیں کس طرح اپنے بچوں کی طرف لپکتی ہیں اور کمزور اور نا تواں دل والیاں جو اپنے گھر کی محصور چار دیواری میں بھی اندھیرے سے ڈرتی ہیں جب اپنے خطرات میں گھرے ہوئے بچے کی دردناک پکار سنتی ہیں تو بھری ہوئی غضب ناک شیر نیوں کی طرح بے خوف اور مجنونانہ اپنے بچے کو بچانے کے لئے خطرات کی جانب جھپٹتی ہیں.انسان تو انسان بے زور اور نا تواں چڑیوں کو بھی ہم نے دیکھا ہے کہ اپنے بچوں کو بچانے کے لئے سیاہ فام کو وں کی طرف لپکتی ہیں.پس تخلیق کے یہ چھوٹے چھوٹے اور ادنیٰ حقیر رشتے اگر مجازی مخلوق کی پکار پر خالق کے دل میں قبولیت کا یہ جوش پیدا کرتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ خالق حقیقی اپنی مخلوق سے ایسا بے نیاز ہو جائے کہ ایک مضطر کی آہ و پکار پر انّي قَرِيب (البقرة :۷۸۱) کی آواز نہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 138 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء دے اور مَتی نَصْرُ الله کے جواب میں اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ (البقرة :۵۱۲) کا مژدہ نہ سنائے ؟ نہیں نہیں یہ ہرگز ممکن نہیں مضطر کی چیخ و پکار کو وہ سنتا ہے اور سنتا آیا ہے اور اس کے وہ بندے جو اس کے سایہ عاطفت میں پلتے ہیں اور اسی کی انگلی پکڑ کر چلنے کے عادی ہوتے ہیں ایسے نڈر اور ایسے بے خوف ہو جاتے ہیں کہ کھلے بندوں اپنے بظاہر بڑے بڑے طاقت ور دشمنوں سے بھی بڑی شوکت اور جلال سے للکارتے ہیں کہ سر سے لے کر پاؤں تک وہ یا ر ہے مجھ میں نہاں اے میرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار براهین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه : ۱۳۳) قرآن کریم کی متفرق آیات فلسفہ دعا کو مختلف پیراؤں میں بیان کرتی ہیں لیکن ان میں ایک مرکزی حیثیت کی آیت ایسی ہے جو اعجازی طور پر نہایت اختصار مگر حیرت انگیز کمال کے ساتھ اس مضمون کو بیان کر رہی ہے وہ آیت یہ ہے: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة: ۱۸۷) یعنی اے میرے بندے! جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو ان سے کہہ دے میں قریب ہوں.جب مجھے کوئی خلوص نیت کے ساتھ پکارنے والا پکارتا ہے تو اس کا جواب دیتا ہوں پس ان پر بھی لازم ہے کہ میری ہدایات پر عمل کریں اور مجھ پر کامل ایمان لائیں تا کہ ہدایت پانے والے ہوں.اس آیت میں وضاحت کے ساتھ قرب الہی اور قبولیت دعا کے تین مدارج کا ذکر ہے اور آنحضور نبی اکرم کو جو تمام بنی نوع انسان میں اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب تھے عبد کامل کی حیثیت سے اس امر پر مامور فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف سے تمام دیگر بندگان خدا کو ایک مردہ وصل عام سنا دیں.اس آیت کے پہلے حصے کا تعلق اس پہلو سے بلا امتیاز مذہب وملت تمام بنی نوع انسان سے ہے کہ عبد کا ابتدائی معنی سب پر صادق آتا ہے اور جہاں تک جسمانی لحاظ سے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 139 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء مخلوق خدا ہونے کا تعلق ہے شرقی غربی، کالے گورے سبھی اللہ تعالیٰ ہی کے بندے ہیں.چنانچہ اس پہلو سے آنحضرت کو ارشاد ہے کہ اگر میرے بندے میرے بارے میں تجھ سے سوال کریں کہ میں کہاں ہوں تو ان کا یہ سوال تعجب انگیز ہے کیونکہ میں تو ہر آن اپنی تخلیق کے پردے میں جلوہ گر ہوں اور ہر لحظہ اپنے ہر بندے کے قریب ہوں.بصارت کی آنکھ سے کوئی دیکھنا چاہے تو اپنے ماحول میں، اپنے گردو پیش میں، اپنے دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے مجھے قریب دیکھے گا.اس پہلو سے قریب کا مفہوم بھی ابتدائی اور عام ہے اور اس میں وہ روحانی اور حقیقی قرب مراد نہیں جو حقیقی عباداللہ کو اپنے رب کے ساتھ نصیب ہوتا ہے.اسی ابتدائی مگر عام رویت الہی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ علامہ اقبال کے ایک شعر کے جواب میں فرماتی ہیں: تیری آنکھ میں میرا نور ہے مجھے کون کہتا ہے دور ہے مجھے دیکھتا جو نہیں ہے تو یہ تیری نظر کا قصور ہے مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں تیری جبین نیاز میں مجھے دیکھ رفعت کوہ میں مجھے دیکھ پستی کاہ میں مجھے دیکھ عجز فقیر میں مجھے دیکھ شوکت شاہ میں نہ دکھائی دوں تو یہ فکر کر کہیں فرق نہ ہو نگاہ میں مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں تیری جبین نیاز میں مجھ ڈھونڈ دل کی تڑپ میں تو مجھے دیکھ روئے نگار میں کبھی بلبلوں کی صدا میں سن کبھی دیکھ گل کے نکھار میں میری ایک شان خزاں میں ہے میری ایک شان بہار میں مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں تیری جبیں نیاز میں ( در عدن صفحه : ۷۱، ۷۲ ) دوسرا درجہ عباد کا وہ ہے جو عموما تو اپنے رب سے سخت غفلت اور بے پروائی کا معاملہ کرتا ہے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 140 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء مگر کبھی کبھی اتفاقی حادثات کے نتیجہ میں شعوری طور پر اپنے رب سے دعا کا رشتہ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے.اس گروہ کے متعلق بھی جس سے حقیقی عبدیت کی صفات شاذ و نادر اور نہایت خفیف طور پر ظاہر ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ کا اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ کا وعدہ اسی نسبت اور اسی حد تک پورا ہوتا ہے.تیسرا درجہ عبد ہونے کا آخری درجہ ہے جس کے حصول کی راہ آیت کے اس حصہ میں دکھائی گئی ہے کہ فَلْيَسْتَجِبْوَالِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ یعنی اے میرے کامل بندے ! میرے ادنیٰ اور عام بندے جب میرے بارے میں سوال کریں گے بتادے کہ وہی ہوں میں جو اپنی تخلیق کے پردے میں ہر جگہ جلوہ گر ہوں.اگر تم صاحب نظر ہو تو میرے قرب کا احساس کئے بغیر تمہارے لئے چارہ نہیں کیونکہ شعوری طور پر بھی جب کبھی سراب کی کیفیات میں کامل خلوص کے ساتھ پکار کرتے ہو تو میں وہی ہوں جو تمہیں قبولیت کے رنگ میں جواب دیتا ہوں پس میرے جلووں کے ان عام مشاہدات کے بعد اگر تم چاہتے ہو کہ میرے حقیقی عبد بنو اور حقیقی قرب کا تعلق مجھے سے جوڑو تو اس کا طریق ہے کہ میرے فرمان اور ہدایات کے مطابق اپنی زندگی کے اطوار چلا ؤ اور میرے مومن بندوں کی صف میں آکھڑے ہو.اگر تم ایسا کرو تو یقیناً میرے صاحب رشد بندوں کے گروہ میں شمار کئے جاؤ گے.پس جیسا کہ مضمون کی تدریج و تسلسل سے ظاہر ہے کہ تیسرا گروہ بندگان خدا کا وہ ہے جو عبودیت کی مذکورہ شرائط کو پورا کرتا ہے اور حقیقی معنوں میں لفظ عبادت کا مصداق ٹھہرتا ہے اور اسی حد تک قرب الہی اور قبولیت دعا کے وعدے کا بھی اہل قرار دیا جاتا ہے.پس آیئے اب ہم الگ الگ ان تینوں گروہوں کے حالات کی سیر کر کے دیکھیں کہ کس کس حد تک بندگان خدا عبد بنے کا حق ادا کرتے اور اس کے مطابق قرب الہی کے کیا کیا نظارے دیکھتے ہیں؟ پہلی قسم عباد کی وہ ہے جس کا قبل از میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ وہ محض مادی تخلیق کی حد تک اپنے خالق سے ایک غیر شعوری تعلق رکھتی ہے اور شعوری طور پر نہ تو اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور نہ اس کی ضرورت سمجھتی ہے.یہ عبد کا کم از کم معنی ہے جو بلا استثناء ہر انسان کے حق میں پورا ہوتا ہے.پس اسی نسبت سے قرب خداوندی کا کم از کم وعدہ صرف ظاہری معنوں میں ان عباد کے حق میں پورا کیا جاتا ہے یعنی جب وہ اپنی ضروریات کے لئے مادی دنیا میں کوشش کرتے ہیں تو ہمیشہ اپنے خالق کو ان
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 141 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء کوششوں کا جواب دینے کے لئے قوانین قدرت اور مخفی خزانوں کی صورت میں اپنے قریب پاتے ہیں.جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا جا چکا ہے رب رحمن کے ساتھ عبدیت کے ایک وسیع اور ابتدائی تعلق سے یہ گروہ بھی اسی طرح استفادہ کرتا ہے جس طرح حقیقی عباد اللہ اور اس پہلو سے تمام عباداللہ بلا امتیاز مذہب و ملت ، نیک و بد، صغیر و کبیر اپنے خالق کے برابر فائدہ اٹھاتے ہیں.اس دودھ ہی کو دیکھ لیجئے جو بچے کی آہ و پکار پر ماں کی چھاتیوں میں اترتا ہے کیا یہ اس کی ذاتی کوشش یا محنت سے آتا ہے؟ ہر گز نہیں بلکہ دودھ کے نظام کا ماں کو عطا ہونا اور بچے کی تڑپ پر اس کا اچھلنا یہ سب خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ ایسے قوانین کے تابع ہوتا ہے جنہیں خدا تعالیٰ نے پیدا ہوتی ہوئی کائنات کے خمیر میں اس وقت گوندھا تھا جب ابھی نہ کسی ماں کا وجود تھانہ کسی بچے کا.پس خدا گواہ ہے کہ اگر بصیرت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو جب کبھی کسی بچے کے بلکنے پر ماں کی چھاتیاں دودھ سے بھر جاتی ہیں تو وہ ماں کی عطا نہیں ہوتی بلکہ خدائے رحمن ورحیم کی عطا ہوتی ہے اور جب کبھی بچے کی طمع اور خوف کی چیخ و پکار پر ایک ماں بے تابانہ میرے لعل میں قریب ہوں ، میں قریب ہوں کی آواز دیتی ہے تو بخدا وہ ماں کی آواز نہیں بلکہ خالق کون و مکان کی آواز ہوتی ہے جو اپنی ایک معصوم مخلوق کی غیر شعوری پکار کے جواب میں اسے اِنِّي قَرِيبٌ کی لوریاں دیتی ہے پس وَ اِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ کا پہلا مفہوم یہ ہے کہ ایک عالم کون کے ذرے ذرے میں خالق کے بارے میں بندوں کے ہر سوال کا جواب پنہاں ہے.وہ اپنی ہر ضرورت کو اسی کائنات کے اندر پورا ہوتے دیکھتے ہیں اور ہر طلب پر اس عالم کون میں اپنی طلب کا جواب پاتے ہیں.إنِّي قَرِیب کا دوسرا مفہوم :.یہ نظام کائنات خواہ کیسا ہی مکمل کیوں نہ ہو اور قیامت تک کے لئے ہی خواہ اس میں تمام ضروریات حیوانی اور انسانی مہیا کیوں نہ کر دی گئی ہوں اور خواہ ذرہ ذرہ اس عالم کا ایک کامل خالق کی طرف بیتابانہ اشارے کیوں نہ کر رہا ہو اور عقل بھی ان اشاروں کو دیکھ کر وجود باری تعالیٰ کی قائل کیوں نہ ہو جائے پھر بھی یہ سوال پیدا ہوگا کہ کہیں ایسا تو نہیں ایک دفعہ اس عظیم اور کامل نظام کی تخلیق و ترتیب کے بعد اور اسے ارتقا کی راہ پر ایک ابدی حرکت کا دھکا دے کر ہمارا خالق ہم سے غافل و بے نیاز ہو گیا ہو؟ کہیں وہ قصہ تو نہیں جیسے کہانی کے بیان کے مطابق کوئی شہزادہ کسی ایسے شہر میں جانکلتا ہے جہاں ہر قسم کی دکانیں کھلی اور قرینے سے بھی ہوئی ہیں مگر
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 142 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء دکان داروں کا کوئی اتا پتا نہیں اور شہر خاموش اور سنسان پڑا ہے، ہر انسانی ضرورت کی ہر چیز وہاں موجود ہے مگر بنانے والا کوئی نہیں اور کوئی نہیں جو ان کی نگرانی کرے یا گاہک کے سوالات کا جواب دے.یہ دنیا کہیں ویسا ہی شہر خموشاں تو نہیں جس کا خالق ہر چیز پر اِنِّي قَرِيبٌ کی مہر لگا کر آپ کہیں عرش معلیٰ کی رفعتوں میں روپوش ہو چکا ہو اور یہ سمجھ کر کہ بندے کی ضرورتیں تو سب پوری کر چکا اس کے انفرادی دکھ سکھ اور ثواب و گناہ سے ہمیشہ کے لئے بے نیاز ہو گیا ہو؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمارا خالق ہم سے کبھی ایک لمحے کے لئے بھی جدا نہ ہوا ہے نہ ہوگا اور اس کا ہم سے تعلق محض تخلیق کامل کے واسطے ہی سے نہیں بلکہ ہر متلاشی حق کو وہ ایک زندہ و موجود اور قادر وتوانا ہستی کے طور پر مل سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ تعلق کے اس نئے میدان میں بھی طلب اور مطلوب کا وہی قانون لاگو ہوگا جو اس سے پہلے دور پر لاگو تھا اور جس طرح مادی دنیا میں اپنے خالق کی تلاش اور اس سے فیض یاب ہونے کے لئے مسلسل جستجو اور خلوص اور انتھک محنت کی ضرورت تھی اسی طرح اپنے خالق کو ایک زندہ اور متکلم ہستی کے طور پر پانے کے لئے بھی انہی خصائل کا ہونا ضروری ہے.کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ مادی دنیا میں طلب کا ہاتھ پھیلانے والے کیسی کیسی محنتیں کرتے اور مشقتیں اٹھاتے ہیں اور سائنس دانوں کی دنیا کیسی سخت جانی اور کاوش کی دنیا ہوتی ہے؟ اسی طرح بعض اوقات صفت رحمانیت کے ظہور کے طور پر خدا تعالیٰ اپنے ایسے مضطر بندوں کی التجائیں بھی قبول فرما لیتا ہے جو عام حالات میں تو اپنے رب سے کوئی رشتہ بندگی نہیں جوڑتے اور سخت غفلت اور بے پرواہی کی زندگی بسر کرتے ہیں مگر جب اندھیرے ان کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں اور موت بے نقاب ہو کر ان کی طرف ہر سمت سے بڑھتی ہے تو اس وقت انہیں اپنے رب کے تصور میں دور کی ایک امید اور روشنی کی ایک کرن دکھائی دیتی ہے اور وہ اسے مضطر بانہ اپنی مدد کے لئے پکارتے ہیں حالانکہ قبل ازیں ان کی زندگیوں کی دلچسپیوں میں اس خدا کا کوئی وجود نہ تھا.تب اللہ تعالیٰ بغیر کسی استحقاق کے محض فضل کے طور پر ان کی بھی دعاؤں کوسنتا اور قبول کرتا ہے لیکن جیسا کہ ان کا یہ رجوع الی اللہ ، بندگی کا تعلق عارضی اور اتفاقی ہوتا ہے اسی طرح قبولیت دعا کا وعدہ بھی ان کے حق میں اتفاقی واقعات طور پر رونما ہوتا ہے اور جس طرح یہ بے وفا بندے اپنی جسمانی نجات کے بعد اپنے رب کو پھر بھلا دیتے ہیں اسی طرح ان کا رب بھی انہیں فراموش کر دیتا ہے اور بندگی کی فہرست
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 143 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء سے ان کا نام کا ٹا جاتا ہے چنانچہ قبولیت دعا کے اس فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ حَتَّى إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيحٍ طَيْبَةٍ وَفَرِحُوْا بِهَا جَاءَ تْهَا رِيحُ عَاصِفُ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيْطَ بِهِمْ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ : لَبِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَذِهِ لَتَكُونَنَّ مِنَ الشَّكِرِينَ فَلَمَّا أَغْجُهُمْ إِذَاهُمْ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ (یونس : ۲۳ ۲۴) وہ خدائے کریم ہی ہے جو تمہیں تو فیق دے کر خشکی اور تری میں چلاتا ہے یہاں تک کہ جب تم لوگ کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور وہ عمدہ ہوا کے ذریعے سے ان لوگوں کو ساتھ لے کر چل رہی ہوتی ہیں اور وہ ان پر اترار ہے ہوتے ہیں.تو ان پر ایک تند و تیز ہوا آجاتی ہے اور ہر طرف سے موج پر موج ان پر چڑھ آتی ہے اور وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہلاکت کا وقت آ گیا.تو ایسے وقت میں وہ اپنی اطاعت کو خدا کے لئے خالص کرتے ہوئے اس کو پکارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ ! اگر تو نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دی تو ہم ضرور ہی تیرے شکر گزار بندوں میں ہوں گے پھر جب وہ انہیں اس عذاب سے نجات دے کر خشکی پر پہنچا تا ہے تو وہ جھوٹ زمین میں ناحق سرکشی کرنے لگتے ہیں.رب اور بندے کے درمیان یہ عظیم احسان اور سخت ناشکری کا معاملہ صرف سمندروں کا ہی معاملہ نہیں بلکہ خشکی پر بھی بار ہا خالق اور مخلوق کے مابین یہی ماجرہ گزرتا ہے چنانچہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ ان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِةٍ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَابِمَا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَانْ لَّمْ يَدْعُنَا إلى ضُرِ مَّسَّهُ كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُونَ (يونس:١٣) یعنی جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے پہلو کے بل لیٹا ہوا یا بیٹھا ہو یا کھڑا ہوا ہمیں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 144 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء پکارتا ہے پھر جب ہم اس کی تکلیف کو اس سے دور کر دیتے ہیں تو وہ اس طرح سے کترا کر گزر جاتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف کے دور کرنے کے لئے جو اسے پہنچی تھی ہمیں پکارا ہی نہ ہو.اسی طرح تمام حد سے بڑھ جانے والوں کو جو کچھ وہ کیا کرتے ہیں خوبصورت کر کے دکھلا دیا گیا ہے.پس کیا ہی عجیب ہے ہمارا رب مجیب کہ جب اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ کی شان میں ظاہر ہوتا ہے تو بسا اوقات ایسے بے وفا اور ظالم اور فسق و فجور میں ڈوبے ہوئے عاصی بندوں کی دعا بھی سن لیتا ہے کہ جن کا ماضی بھی یہ گواہی دیتا ہے کہ وہ عباداللہ کی فہرست میں داخل نہیں اور مستقبل بھی یہ گواہی دیتا ہے کہ وہ عباداللہ کی فہرست میں داخل نہیں.ہاں حال کے عارضی اور بال کی طرح باریک رشتے پر نظر کرم فرماتے ہوئے ان کے حق میں بھی قبولیت دعا کا وعدہ پورا کیا جاتا ہے.انسان کی اس ناشکری اور اللہ تعالیٰ کی اس شان کریمی اور عفو کو دیکھ کر اس بد بخت لڑکے کا قصہ یاد آجاتا ہے جس نے اپنی بیوی کی باتوں میں آکر اپنی ماں کا سر قلم کر دیا تھا.کہتے ہیں کہ جب وہ یہ کٹا ہوا سرطشتری میں لگا کر بیوی سے اس کارنامے کی داد لینے کے لئے جار ہا تھا تو راستے میں اسے ٹھوکر لگی اور طشتری سمیت زمین پر اوندھے منہ جا گرا.اس وقت اچانک اس ماں کے کٹے ہوئے سر کے منہ سے ایک دردناک چیخ نکلی کہ ہائے میرے بچے ! تجھے چوٹ تو نہیں لگی.آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں کہ یہ محض ایک قصہ ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی اس سے کہیں زیادہ ناشکری کرتا ہے اور گو خدا تعالیٰ کی عالی ہستی کو براہ راست گزند پہنچانے کی یہ حقیر کیڑا مقدرت اور مجال نہیں رکھتا مگر مقدور بھر کوشش اس امر کی ضرور کرتا ہے کہ اس لاشریک محسن کے نام تک کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالے.کتنے ہی نمرود اس دنیا میں پیدا ہوئے اور کتنے ہی فراعین نے أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى (النازعات:۵۲) کا دعویٰ کیا انسانیت کی تاریخ ایسی ناشکری اور احسان فراموشی کی کر یہ المنظر وارداتوں سے بھری پڑی ہے اور آج بھی ان میں داغ داغ اضافہ ہورہا ہے.اس فرضی قصہ میں ماں کا سر کاٹنے والے بچے نے تو ایک ایسے محسن کا سر کاٹا تھا جس کے احسانات محض معمولی اور گنتی کے چند احسان تھے.انسان اپنے جس محسن کے وجود کو دنیا سے مٹانے کے در پے ہے اور دنیا کے عظیم خطے سے بظاہر ملک بدر کر بیٹھا ہے اس کے احسانات کا نہ تو شمار مکن ہے نہ ان کی قطار کی طوالت کا بیان ممکن لیکن حیرت ہے کہ احسان فراموشی کی اس انتہائی کر یہہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 145 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء ارتکاب کے باوجود یہ بد بخت انسان، یہ خدا کی ہستی کا مذاق اڑانے والا اور اسے اپنی فانی اور مجازی مملکت سے بزعم خود نکال باہر کرنے والا نمرود بھی جب خود ایسی مصیبتوں میں گرفتار ہو جاتا ہے جو اسے چاروں طرف سے گھیر لیتی ہیں اور اس کی کشتی پہاڑوں کی طرف بلند لہروں اور تہ و بالا کر دینے والی خوفناک اور تند ہواؤں کے تھپیڑوں سے عدم اور وجود کے درمیان ہچکولے کھانے لگتی ہے اور اس کی فطرت میں سویا ہوا الَستُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى ( آل عمران : ۳۷۱) کا افسانہ جاگ اٹھتا ہے اور وہ بے اختیار اپنے اس رب کو پکارتا ہے تو سنو کہ خدا گواہ ہے اور خدا کا کلام گواہ ہے کہ بسا اوقات اس کے حق میں بھی تُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ (النمل: ۳۶) کا وعدہ پورا ہوتا ہے اور آسمان سے اس کی بدنی نجات کا فرمان اترتا ہے.پس بتاؤ کہ اس فرضی ماں کے سوا جس کا سر بچے کی ٹھو کر پر بے قرار ہوا تھا کیا ہے کوئی ماں جو اس مشفق و مهربان خدا سے زیادہ علم اور عفو اور بے پناہ شفقت کے نمونے دکھا سکے؟ نہیں نہیں، کوئی نہیں کوئی نہیں، کوئی نہیں.وہ تو سب رحمتوں اور سب برکتوں کا سرچشمہ ہے.خدا کی قسم ماؤں کی چھاتیوں نے رحمت کا دودھ اس بحر رحمانیت کے گھاٹ سے بھرا اور سب حلم اور عفو کا سلوک کرنے والوں اور اسی کا حلم اور عفو کے بے کنار سمندر سے جود و کرم کا پانی پیا.سب کریم اور جو اداور سب بخشش اور عطا کرنے والے اسی کے در کے بھکاری اور سوالی اور اسی کے صفات حسنہ کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں.اس سے بڑھ کر در گز کوئی نہیں.نہ دوست، نہ عزیز و اقارب، نہ ماں، نہ باپ.اس سے زیادہ پیار کرنے والا اور مصیبتوں میں گھرے ہوئے کی التجائیں سنے والا اور کوئی نہیں کوئی نہیں جو مسلسل انکار اور عصیان اور ناشکری اور اعراض کے بعد کس طرح اپنے تائب بندوں کو رحمت کی گود میں بٹھالے کہ گویا کبھی کچھ نہ ہوا تھا.وہ انہیں گود میں بٹھائے اور محبت اور پیار کی باتیں ان سے کرے اور سینے سے لگاتے ہوئے کہے کہ اے میری رحمت کی گود میں بیٹھنے والے! میں تو کب سے تیرا منتظر تھا.دیکھ میری آغوش تیرے لئے وا ہے اور دیکھ میں تیری راہ اس طرح دیکھتا رہا جیسے پیتے ہوئے صحرا میں دو پہر کو ستانے والا مسافر جس کی پانی اور زادراہ سے بھری ہوئی اونٹنی گم ہو جائے اور وہ اس کی واپسی کی راہ دیکھ رہا ہو.پھراے میرے بندے ! میں تیرے چلے آنے سے ایسا خوش ہوں جسے وہ پیار سے تڑپتا ہوا مسافر اچانک اپنی اس گمشدہ اونٹنی کو پالینے کے بعد.(مسلم کتاب التوبہ باب فی الحض على التوبة والفرح بھا)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 146 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء اف! اے رحیم و کریم آقا! اے محبت اور پیار اور غفران کے بحر بے کراں ! اے وہ کہ جس کی رحمت اور بخشش حدود کی قیود سے آزاد ہیں، ہاں اے کرم خاکی کو سینے سے لگانے والے! اپنے عاجز اور ذلیل اور حقیر بندوں کو اس پیار اور اس شان سے نوازنے والے! اے رفیع الشان ربنا الاعلیٰ ! اے سب پیاروں سے بڑھ کر پیارے! اے جان بخش آقا ابتا کوئی کیسے تجھ پر، کوئی کیسے تجھ پر جان نچھاور کرے!! آئیے اب ہم تیسرے درجے کے عباد کے حالات پر نظر کرتے ہیں جو حقیقی معنوں میں عباداللہ ہیں اور دیکھتے ہیں کہ خدائے قریب و مجیب کیسے کیسے پیار کے ساتھ ان کے قریب ہوا اور کس کس شفقت اور رحمت اور کریمانہ نوازشات کے ساتھ ان کی تضرعات کو سنا اور کس طرح اپنے آسمان سے خودان کی دنیا میں اتر آیا اور انہی کے قلوب اور سینوں کو اپنا عرش بنا لیا.یہی وہ حقیقی عباداللہ ہیں جن کے حق میں قبولیت دعا کے تمام وعدے اپنی تمام شان کے ساتھ پورے ہوئے اور یہی وہ حقیقی بندگان خدا ہیں جنہیں ان کا رب بڑے پیار کے ساتھ بھی تو عبادالرحمن کے محبت بھرے القاب کے ساتھ یاد فرماتا ہے اور کبھی عباد الله المخلصین کہہ کر ان کا ذکر کرتا ہے.پھر یہی وہ حقیقی عباد ہیں جن کی وفا اور بندگی پر ناز کرتے ہوئے ان کا رب تمام طاغوتی طاقتوں کے سرغنے کو یہ پوری شوکت کے ساتھ چیلنج دیتا ہے: وَاسْتَفْزِزُ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَاجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكُهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ وَعِدُهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَنُ إِلَّا غُرُورًا إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَنَّ وَكَفَى بِرَبِّكَ وَكِيلًا (بنی اسرائیل: ۶۵ - ۲۶) اور ہم نے کہا کہ اے شیطان ! جا ان میں سے جس پر تیرا بس چلے اسے اپنی آواز سے فریب دے کر اپنی طرف بلا اور اپنے سواروں اور پیادوں کو ان پر چڑھا لا اور ان کے مالوں اور اولادوں میں ان کا حصہ دار بن اور ان سے جھوٹے وعدے کر اور پھر اپنی کوششوں کا نتیجہ دیکھ.شیطان جو بھی وعدے کرتا ہے فریب ہی کی نیت سے کرتا ہے لیکن سن کہ جو میرے بندے ہیں اُن
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 147 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء پر تیر ہرگز تسلط نہیں ہوسکتا! اور اے میرے بندے محمدؐ! تیرا رب کارسازی میں تیرے لئے کافی ہے.یہ ہے وہ خوش بخت عبادالرحمن کا گروہ جو قبولیت دعا کے وعدے کا حقیقی مصداق ہے لیکن یہ گمان کر لینا بھی خطا ہے کہ محض خشک صالحیت کا جامہ پہن لینا ہی قبولیت دعا کے لئے کافی ہے.واقعہ یہ ہے کہ یہ تو عشق و محبت کا ایک زندہ اور پیچ در پیچ تعلق ہے.یہ کیسے ممکن ہے کہ بندہ تو شحن کے مقام پر کھڑا ہو جائے اور معبود فَيَكُونُ کے انتظام میں مصروف رہے.یہ تو دوطرفہ ناز و نیاز کا تعلق ہے اور عجیب در عجیب افسانہ ہائے ہجر و وصل اور مناجات اور زاری اور قدم تھا منا اور قدم چومنا کبھی ماننا اور کبھی منوانا.یہ تمام واردات فلسفہ دعا کی کنہ میں شامل ہیں.قبولیت دعا کے آداب کا مضمون بہت ہی وسیع ہے اور اس کا احاطہ کرنا ایک ناقص العلم انسان کے بس کا روگ نہیں بھلا کون ہے جو ان اداؤں کا احاطہ کر سکے جو معشوق کو پسند آتی ہیں اور عشاق کی قسمت سنوارنے کا موجب بنا کرتی ہیں.پس آج کی مجلس میں محض نمونہ جستہ جستہ بعض بنیادی آداب دعا کا ذکر کروں گا جو دعا کی قبولیت میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں.ان میں سے ایک یقین کامل ہے.جب تک دعا گو بندہ اپنے رب کی لامتناہی قوتوں پر کامل ایمان نہ رکھتا ہو اور یہ یقین نہ رکھتا ہو کہ میرا رب ضرور میرے حال پر رحم فرمائے گا دعا میں وہ قوت اور جان پیدا نہیں ہوتی جو تقدیر الہی کی محرک بنا کرتی ہے چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں: ” جب تو دعا کے لئے کھڑا ہو تو تجھے لازم ہے کہ یہ یقین رکھے کہ تیرا خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے تب تیری دعا منظور ہوگی اور تو خدا کی قدرت کے عجائبات دیکھے گا جو ہم نے دیکھے ہیں اور ہماری گواہی رویت سے ہے نہ بطور قصہ کے......تیرا خدا وہ ہے جس نے بے شمار ستاروں کو بغیر ستون کے لٹکا دیا اور جس نے زمین و آسمان کو محض عدم سے پیدا کیا.تو کیا تو اس پر بدظنی رکھتا ہے کہ وہ تیرے کام میں عاجز آجائے گا؟ بلکہ تیری ہی بدظنی تجھے محروم رکھے گی.ہمارے خدا میں بے شمار عجائبات ہیں.مگر وہی دیکھتے ہیں جو صدق
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 148 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء اور وفا سے اس کے ہو گئے ہیں.“ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه: ۲۱) اس غیر متزلزل یقین اور اپنے رب پر حسن ظن کی ایک نہایت پیاری مثال قرآن کریم میں حضرت زکریا کی دعا کی صورت میں بیان کی گئی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيَّا قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْئًا وَ لَمْ أَكُن بِدُعَابِكَ رَبِّ شَقِيًّان (مریم:۳-۵) یعنی اے میرے بندے! ہم تیرے رب کی رحمت کا ذکر چھیڑ رہے ہیں جس کا ایک بندہ زکریا بھی تھا وہ وقت عجیب سوز و گداز کا حامل تھا جب اس نے راز کے پردوں میں اپنے رب کو آواز خفی سے پکارا اور عرض کیا کہ اے میرے رب ! میں تو اس حد تک عمر رسیدہ ہو چکا ہوں کہ میری ہڈیاں بھی کمزور پڑگئیں اور بڑھاپے کی سفیدی سے میرا سر آگ کے شعلوں کی طرح بھڑک اٹھا ہے لیکن باوجود اس کے اے آقا! میرا یقین متزلزل نہیں کیونکہ آج تک میں تیرے حضور میں گریہ وزاری کے نتیجے میں شقی اور محروم نہیں رہا.یہ نمونہ ہے ان مقبول دعاؤں میں سے ایک دعا کا جو غیر متزلزل یقین اور حسن ظن کے ساتھ عبادالرحمن اپنے رب کے حضور کرتے ہیں پھر بتاؤ بھلا کیسے وہ کریم ذات انکار کرے؟ ایک بوڑھا جس کی ہڈیوں میں دم خم باقی نہیں اور سر کا ایک ایک بال سفید ہو چکا ہے دعا یہ مانگ رہا ہے اور خدا معلوم کتنے لمبے عرصے سے مانگ رہا ہے کہ اے میرے رب ! مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما جو تیری رضا کی راہوں پر چلنے والا اور برگزیدہ ہو.عمر کی ہر سانس کے ساتھ ظاہری اسباب کے لحاظ سے قبولیت دعا کا امکان کم تر ہوتا جا رہا ہے اور بیٹے کی پیدائش ایک امر موہوم بن رہی ہے.ہڈیوں کی کمزوری بڑھ رہی ہے اور سر کی سفیدی گاڑھی ہو کر آگ کے شعلوں کی طرح بھڑک اٹھی ہے لیکن یقین کامل پر آنچ تک نہیں آئی اور اللہ اللہ پھر مانگا بھی کس ناز اور ادا کے ساتھ ہے کس زعم کے ساتھ ہے کہ آقا بھلا مجھے کیوں یہ وہم آنے لگا کہ میرا بڑھاپا تیری قدرت کاملہ کے اختیار سے بڑھ جائے گا.میں تو آج تک تیرے در سے محروم نہیں پھرا اور کبھی بھی میرے نامے میں یہ بدبختی نہیں لکھی گئی کہ تیری ذات کریم سے مانگ کر خالی ہاتھ لوٹ آؤں.اب بتائیے کون ہے جو اس دعا کور د کر سکے؟ کیا وہ خدا جوسب عطا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 149 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء کرنے والوں سے بڑھ کر عطا کرنے والا ہے؟ کیا وہ خدا جو خود کہتا ہے میرے بندو! مجھ سے مانگو میں عطا کروں گا؟ پھر یہ بھی تو دیکھو کہ یہاں تو مانگنے والا ایک برگزیدہ نبی تھا کوئی عام بوڑھا نہ تھا.خدا کی قسم آنحوی تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ میرا رب اتنا فیاض ہے اور ایسی حیا والا ہے کہ جب کوئی بھی عمر رسیدہ بندہ اس سے مانگتا ہے تو بسا اوقات اس کے بالوں کی سفیدی سے حیا کھا کر وہ اس کی مراد کو پوری کر دیتا ہے.آداب دعا میں سے ایک اہم ادب صبر ہے اور وہ انسان جو بے صبر اور چھوٹے ظرف کا ہو اور تھوڑی سی آزمائش کو بھی برداشت نہ کر سکے وہ اس عالی دربار تک رسائی نہیں پاتا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: دعا اور اس کی قبولیت کے زمانہ کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلاء پر ابتلاء آتے ہیں اور ایسے ایسے ابتلاء بھی آجاتے ہیں جو کمر توڑ دیتے ہیں مگر مستقل مزاج سعید الفطرت ان ابتلاؤں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعد نصرت آتی ہے.“ ( ملفوظات جلد ۲ صفحہ : ۷۰۷ ) امت محمد ع میں سے ایک بزرگ کا قصہ اس ضمن میں بیان کے لائق ہے.کہتے ہیں کہ ایک بزرگ ہر شب تہجد کے وقت ایک خاص دعا مانگا کرتے تھے لیکن اسی وقت انہیں اللہ جل شانہ کی طرف سے یہ جواب ملتا تھا کہ ہم نے یہ تیری دعا رد کر دی ہے.ایک دفعہ ان کا ایک ارادت مند صحبت صالحہ کا فیض پانے کے لئے ان کے ساتھ تہجد کی نماز ادا کرنے لگا چنانچہ جب بعد از دعا ان کو یہ الہام ہوا کہ ہم نے یہ دعا رد کر دی ہے تو مشیت الہی سے اس مرید کے کانوں میں بھی یہ آواز پڑی.دوسری شب پھر یہی ماجرا گز را اور تیسری شب پھر یہی ماجرا گزرا.اس پر وہ خام کا را رادت مند مزید صبر نہ کر سکا اور عرض کیا یا حضرت تین راتوں سے میں یہ ماجرا دیکھ رہاں ہوں کہ آپ ایک دعا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اسے روفرما دیتا ہے پھر میں نہیں سمجھ سکا کہ کس پر تے پر آپ بار بار وہی دعا کرتے ہیں.اس بزرگ کی طبیعت پر یہ سوال ناگوار گزرا اور بڑے جوش سے فرمایا کہ اے کم ظرف اور بے صبرے! تو صرف تین دن میں گھبرا گیا، اللہ کی قسم میں مسلسل بارہ سال سے بلا ناغہ یہ دعا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 150 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء کر رہا ہوں اور مسلسل بارہ سال سے میرے کانوں نے یہ آواز سنی ہے کہ ہم اس دعا کو قبول نہیں کرتے ، ہم اس دعا کو قبول نہیں کرتے ، پھر بھی میرا یہ مقام نہیں کہ دعا ترک کروں.وہ مالک الملک ہے اور میں ایک حقیر اور عاجز بندہ.میرا کام یہ ہے کہ مانگتا چلا جاؤں اور اس کی شان یہ ہے کہ چاہے تو قبول فرمائے چاہے تو رد کرے.یہ الفاظ ابھی اس کے منہ میں ہی تھے کہ غیب کے پردوں کو چیرتی ہوئی ایک پر شوکت آواز آئی اے میرے بندے! میں نے تیری یہ دعا بھی قبول کر لی ہے اور اس بارہ سال کے عرصہ میں جتنی دعا ئیں تو نے مجھ سے مانگیں تھیں وہ ساری کی ساری آج قبول کرتا ہوں.وہ عباد الرحمن جو بسا اوقات اپنے رب کو منوا کر ہی رہتے ہیں وہ صبر کے ساتھ اپنی دعاؤں میں عاجزی اور فروتنی کو بھی کمال تک پہنچا دیتے ہیں چنانچہ اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: پس دعاؤں سے کام لینا چاہئے اور خدا تعالیٰ کے حضور استغفار کرنا چاہئے کیونکہ خدا تعالیٰ غنی بے نیاز ہے.اس پر کسی کی حکومت نہیں ہے.ایک شخص اگر عاجزی اور فروتنی سے اس کے حضور نہیں آتا وہ اس کی کیا پرواہ کر سکتا ہے.....خدا تعالیٰ سے اڑ کر مانگتا ہے اور اپنے ایمان کو مشروط کرنا بڑی بھاری غلطی اور ٹھوکر کا موجب ہے.( ملفوظات جلد ۲ صفحه : ۲۹۶) قرآن کریم نے انبیاء گزشتہ کی جو دعائیں بطور نمونہ زندہ رکھی ہیں ان سب میں عاجزی اور فروتنی کا عنصر بہت نمایاں نظر آتا ہے اور انبیاء علیھم السلام کی بعض چھوٹی چھوٹی دعائیں اس پہلو سے ایک عجیب شان رکھتی ہیں.دیکھئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کتنے سادہ مگر عمیق الاثر الفاظ میں اپنی عاجزی اور بے مائیگی کا اظہار کرتے ہیں رَبِّ انِي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرُ (القصص: ۲۵) کہ اے میرے رب ! جو چیز بھی تو میری جھولی میں بطور خیر ڈال دے میں اسی کا محتاج و فقیر ہوں.پھر مخالف قوتوں کے مقابل پر اپنی ناطاقتی اور بے مائیگی کا تذکرہ یوں کرتے ہیں رَبِّ إِنِّي لَا أَمْلِكُ إِلَّا نَفْسِي وَأَخِي فَافُرُقْ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ الْقَوْمِ الْفَسِقِينَ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 151 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء (المائدة: ۲۶) کہ اے میرے رب! مجھے تو اپنی تنہا جان اور ایک بھائی کے سوا کسی پر کوئی اختیار نہیں.پس تو ہی ہے جو ہمارے اور فاسقوں کے درمیان تفریق کر کے دکھا.سوز و گداز کا ہونا بھی ضروری ہے اور آنسوؤں اور دعا کا ایک ایسا فطری اور ازلی جوڑ ہے جسے تو ڑا نہیں جاسکتا إِنَّمَا أَشْكُوا بَثْى وَحُزْنِی إِلَى اللهِ (یوسف: ۷۸) کا دلگد از فقرہ ایسی پر درد حقیقت کی طرف اشارے کر رہا ہے اور بچے کی چیخ و پکار پر ماں کے سینے میں جذبات رحم کا متلاطم ہو جانا بھی اسی کی سچائی کی ایک دلیل ہے.اسی طرح عبدا اور معبود کے مابین بھی سوز وگداز میں ڈوبی ہوئی دعا الفت و جذب کی نہایت قوی لہریں دوڑا دیتی ہے جو قبولیت دعا کا موجب بنتی ہے.حضور علیہ السلام اس عجیب کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ خیال مت کرو کہ ہم بھی ہر روز دعا کرتے ہیں اور تمام نماز دعا ہی ہے جو ہم پڑھتے ہیں.کیونکہ وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے.وہ فنا کرنے والی چیز ہے.وہ گداز کرنے والی آگ ہے وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے.وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے.وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے.ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے.مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں.تھکتے نہیں کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے.مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے.مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ کہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے.مبارک تم جبکہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اٹھانے کے لئے اندھیری کوٹھڑیوں اور
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 152 سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنادیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا.وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم ورحیم.حیاوالا.صادق وفادار.عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے.پس تم بھی وفادار بن جاؤ اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو.“ لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه: ۲۲۲ ۲۲۳) فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء عباد الرحمن کا یہ گروہ جس کے سر پر ہمارے آقا ومولیٰ حضرت رسول اکرمﷺ کھڑے ہیں رحمانیت اور ربوبیت کی صفات میں اپنے رب رحمن سے ایسی مشابہت اختیار کر لیتا ہے کہ کلی طور پر بنی انسان کے حق میں انہیں ربوبیت اور رحمانیت کی چادر پہنائی جاتی ہے.رب رحمن کے فیوض کا دودھ انہی کی چیخوں اور آہ و پکار کے اترتا ہے اور انہی کے واسطے سے اہل طلب میں بٹتا ہے اگر ان کی دعا ئیں نہ ہوتیں تو بلا شبہ یہ دنیا فیوض روحانی سے عاری رہ جاتی اور بنی نوع انسان کی سیرابی اور احیاء کے لئے کوئی پانی آسمان سے نہ اترتا اور دنیا ایک ایسے ہولناک صحرا میں تبدیل ہو جاتی جس پر مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي (الفرقان : ۸۷) کی پر ہیبت حکومت طاری ہوتی.پس لاکھوں درود ہوں اس محسن اعظم پر جس کی ربوبیت تمام بنی نوع انسان اور تمام زمانوں کے لئے عام ہوگئی اور وہ مربی اعظم بنا.لاکھوں درود ہوں اس محسن اعظم پر جس کی رحمت نے ایسا جوش مارا کہ قیود زمانہ اور حدود شرق و غرب سے آزاد ہو گئی اور وہ خدائے رحمن کے ہاتھوں رحمۃ للعالمین کے منصب پر فائز کیا گیا.لاکھوں درود ہوں اس محسن اعظم پر جس کی گریہ وزاری آسمان کی رفعتوں سے قرآن کا دودھ کھینچ کر لائی اور جسے رحمتوں کا نہ ختم ہونے والا کوثر عطا کیا گیا.بخدا اگر اس کی دعائیں نہ ہوتیں تو یہ دنیا ویران ہو جاتی اور عالم روحانیت میں ہر طرف خاک اڑتی پھرتی.اگر اس کی دعائیں نہ ہوتیں تو آج اس خطہ ارض سے زندگی کا نشان مٹ چکا ہوتا.اگر اس زندہ کرنے والے کی ، اس میحی کی دعائیں نہ ہوتیں تو یہ دنیا خاک کے تو دوں اور بے روحوں کے چلنے پھرنے والے لاشوں کی دنیا بن جاتی.اسلام کا زندگی بخش انقلاب اسی کی دعاؤں کے طفیل آیا اور اسی کی دعاؤں کے طفیل دلوں نے اسے قبول کیا لیکن یہ ماجرا میری ناچیز اور حقیر اور عاصی زبان سے سننے کے لائق نہیں.سنو اور غلام احمد کی پاک زبان سے احمد
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت پاک کی مقبول دعاؤں کا تذکرہ سنو : ,, 153 وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء جاری ہوئے اور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا.کچھ جانتے ہو وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس امی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں اللهم صل و سلم و بارک علیه و آله بعدد هـمـه وغمه وحزنه لهذه الامة وأنزل عليه انوار رحمتک الی الابد.بركات الدعار وحانی خزائن جلد 4 صفحہ: ۱۰.۱۱) یہ ہے عباد الرحمن کا وہ رفیع الشان گروہ جو وعدہ اِنِّي قَرِيب کا حقیقی مصداق ہے اور اپنی اس وسعت میں افق تا افق پھیلا ہوا ہے اور اپنی ذات میں ایک عظیم الشان جہان ہے.اس روحانی دنیا کی رفعتوں پر انبیاء علیہم السلام کے مفت آسمان صاف علم ہیں.جن میں سب سے آخری اور سب للمعلمين سے بالا اور سب سے ارفع اور سب سے روشن ہمارے آقا ومولیٰ سید الانبیاء خاتم النبین رحمۃ حضرت نبی اکرم ہیں.آپ ابدیت کے سب سے آخری مقام پر جلوہ افروز ہیں اور سب زمرہ خلائق میں حقیقی اور کامل معنوں کے اعتبار سے بس ایک ہی آپ عبداللہ ہیں اور ایک معبود ہے اور باقی تمام بندگان خدا کے حق میں یہ تقدیر جاری نظر آتی ہے کہ جس حد تک وہ اپنی صفات حسنہ میں اس عبد کامل کے قریب پہنچتے ہیں اسی حد تک انہیں ابدیت کا جامہ پہنایا جاتا ہے.اے قبولیت دعا کا انکار کرنے والو! دیکھو کہ اسی عبد کامل کا ایک غلام کامل اس زمانہ میں بھی پیدا ہوا اور ان اخلاق اور اطوار اور حسن و احسان کو اپنایا جو اس نے اپنے آقا میں دیکھے وہ قدم قدم اس کے پیچھے چلا اور روش روش اس کی پیروی کی.اپنے آقا کی طرح وہ بھی مجسم دعا بن گیا اور اپنے آقا کی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 154 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء طرح اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے ، ہر ہر سانس کے ساتھ اور کروٹ کروٹ اس نے دعائیں کیں.صبح بھی وہ دعا گو ہوا اور شام کو بھی اور دن کو بھی اور رات کو بھی ، روشنی میں بھی اور اندھیرے میں بھی ، شب ہائے غم میں بھی اور ایام خوشی میں بھی اپنے محبوب رسول اپنی جان سے پیارے آقا کی طرح وہ دعا ہی کے ساتھ پیدا ہوا ، دعا ہی کے ساتھ زندہ رہا اور دعا کے ساتھ ہی اس نے جان دی.وہ آنکھیں ابھی زندہ ہیں جو اسے دیکھتی تھیں اور اس کی دعاؤں کی قبولیت کا نظارہ کرتی تھیں.وہ دل ابھی دھڑک رہے ہیں جو از لی اور ابدی حقیقت پر گواہ ٹھہرے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں سنتا اور قبول فرماتا ہے جو خلوص کامل کے ساتھ اُسی کے ہو رہتے ہیں دنیا اس حقیقت سے بے خبر ہوتو ہو لیکن اے مسیح محمدی کے غلامو! تمہارے لئے قبولیت دعا کی حقیقت سے بے خبر ہونے کی کوئی گنجائش نہیں.وہ مستجاب الدعوات احمد عربی کا غلام گو آج ہم میں نہیں مگر ہزار ہا غلامانِ غلام احمد ایسے چھوڑ گیا ہے جو قبولیت دعا کا زندہ نشان ہیں.پس لوگوں کے لئے جگ بیتی ہو تو ہو لیکن تمہارے لئے تو یہ ایک ایسی آپ بیتی ہے جو ہزارہا بارتم پر بیت چکی.بار ہا تم ابتلاؤں کی چکی میں پیسے گئے مگر ماں سے زیادہ پیار کرنے والے رحمان خدا نے تمہیں صحیح سالم نکال لیا.بار ہا تم پر مخالف وطن کی آگ بھڑکائی گئی مگر رحمت باری کا پانی آسمان سے برسا اور اسے ٹھنڈا کر دیا.وہ دن یاد کرو جب اسی وطن عزیز کی گلیاں تمہیں کاٹنے کو دوڑتی تھیں اور اپنے تمہیں بیگانوں کی طرح دیکھتے تھے ، جب ماحول کے تیور بدل گئے تھے اور شر پھیلانے والوں نے ایسا شر پھیلا رکھا تھا کہ اپنے اور بیگانے خون کے پیاسے بن گئے تھے.جب وہ عشاق کو دشمنان محمد کہہ کر گردن زدنی قرار دیا جارہا تھا اور ایک احمدی کی نہ تو جان محفوظ رہی تھی ، نہ ہی مال وعزت، خطرات ایسی مہیب صورت اختیار کر چکے تھے کہ ظاہر بین آنکھ احمدیوں کو چند دن کے مہمان دیکھ رہی تھی اور دم توڑتے ہوئے مریض کی سانسوں کی طرح عدم اور وجود کے درمیان لٹکا ہوا دیکھ رہی تھی.اس وقت خدا کے مومن بندے ایک شدید زلزلے کی ابتلاء میں ڈالے گئے اور خطرات میں گھرے ہوئے ہر گھر سے خدا کے حضور گریہ وزاری کے شور بلند ہوئے.یہ وہ دن تھے جب جماعتی نظام کے سینے میں مصلح موعود کا دل دھڑک رہا تھا.پس وہ دل ایسا مضطرب و بے قرار ہوا اور اس زور
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 155 فلسفہ دعا ۸۶۹۱ء کے ساتھ مَتی نَصْرُ اللہ کا آوازہ بلند کیا کہ عرش کے پائے بھی لرز اٹھے اور آسمان سے خدا تعالیٰ کی فوجوں کو اس نے اپنی مدد کے لئے بارش کے قطرات کی طرح اترتے دیکھا جس نے ہر آگ کو ٹھنڈا کر دیا اور ہر دشمنی کو محبت اور پیار میں بدل دیا.پس اے مسیح محمدی کے غلامو! اور خلافت احمدیہ کے جانثارو! دنیا اگر غافل ہے تو ہوتم تو گواہ ہو، اٹھو اور گواہی دو کہ ہمارا رب اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا اور جواب دیتا ہے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 157 اسلام اور سوشلزم ۹۶۹۱ء اسلام اور سوشلزم بر موقع جلسہ سالانہ ۱۹۶۹ء) تشہد اور تعوذ کے بعد آپ نے قرآن کریم کی درج ذیل آیات کی تلاوت کی: هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ س ج هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ هُوَ اللهُ الَّذِي لاَ إلهَ إِلَّا هُوَ * الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَثِرُ سُبْحَنَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ ) هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الحشر : ۲۳ - ۲۵) یہ وہ الفاظ ہیں جن میں قرآن کریم اس خالق اور مالک ہستی کا تعارف انسان سے کرواتا ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہر چیز ہے اور تمام اسماء حسنہ یعنی تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور ان صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں.اشتراکیت اس کے برعکس یہ بنیادی اعلان کرتی ہے کہ اس عالم کے ارتقائی وجود میں آج کسی بادشاہ یا کسی خدا کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں اور کسی ایسی ہستی اعلیٰ کا تصور کرنا جو اس عالم موجودات سے الگ تھلگ ہوا اپنے اندر آج ایک عظیم اصطلاحی تضاد رکھتا ہے.یہ پہلا اور بنیادی فرق ہے اسلام اور اشتراکیت کے مابین جو محوری حیثیت رکھتا ہے اور جس کے گرد تمام
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 158 اسلام اور سوشلزم ۹۶۹۱ء دوسرے فرق گھومتے ہیں.اس بنیادی اعلان کے نتیجہ میں جو اسلام نے کیا اسلام کی تمام دوسری تعلیم شاخوں کی طرح پھوٹتی ہے.اسلام کا فلسفہ قانون بھی اسی اعلان کا نتیجہ ہے.حقیقت یہ ہے کہ وہ قانون جس کا انسان کا.پابند ہو وہ اس پر کون لاگو کرے گا؟ کس کو حق ہے کہ کوئی قانون بنائے؟ جب تک یہ بنیادی مسئلہ طے نہ ہو قانون بن نہیں سکتا.قرآن کریم کے نظریہ کے مطابق اسلام کا خدا اس تمام کائنات کا خدا چونکہ خالق و مالک ہے اور ہر چیز پر قادر ہے اس لئے مقنن بھی وہی ہوگا.مالک ہی کا حق ہے کہ وہ اپنی چیز کے لئے ضابطہ حیات طے کرے غیر مالک کو کسی دوسری ملکیت میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں چنانچہ قرآن کریم اس اصل کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: پھر فرمایا: وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَإِلَى اللهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ ( آل عمران : ۱۱۰) تَبْرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيُوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ) ( الملك : ٣:٣) یہ ساری کائنات جو کچھ بھی اس میں ہے آسمانوں اور زمین میں وہ سب خدا ہی کا ہے پس فیصلوں کا حق بھی اسی کو ہوگا.اِلَى اللهِ تُرْجَعُ الأمور اس ملک کے متعلق تمام فیصلوں کا حق اللہ تعالیٰ کا ہی ہے.اشتراکیت اس کے برعکس جو فلسفہ قانون پیش کرتی ہے اس کی بنا ء خدا کے انکار اور انسان کی آزادی پر ہے.مارکس (Karl Marx) اور انجلز (Friedrich Engels) اور لینن (Vladimir Lenin) اور دیگر اشترا کی مفکرین نے انسان کی آزادی کا ڈھونگ رچایا اور کہا کہ ماوراء الانسان ہستی کا تصور باطل اور خیال اور مضحکہ ہے اور یہ نظریہ پیش کیا کہ مذہب محض ایک افیم ہے جسے غریب طبقے کو سلانے کے لئے امیر طبقے کی طرف سے استعمال کیا جاتا ہے گویا کہ تمام مذہبی رہنما یہ افیم دینے والے اور سرمایہ دار طبقے کے آلہ کار ہیں اس کے سوا مذ ہب کی کوئی بنیاد نہیں اور چونکہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 159 اسلام اور سوشلزم ۹۶۹۱ء انسان آزاد ہے اس لئے ایک آزاد ہستی کا ہی کام ہے کہ اپنے لئے وہ قانون مقرر کرے اور وہ قانون بنائے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ اشتراکیت کے اس دعوے میں اس لحاظ سے کوئی حقیقت نہیں ہے کہ اشتراکیت خود مارکس (Karl Marx) کو حقیقت میں اپنا خدا بناتی ہے اور وہ قانون جو بحیثیت آزاد ہونے کے انسان کا حق ہے کہ وہ خود بنائے وہ خالصہ مارکس (Karl Marx) اور اینجلز (Friedrich Engels) کے سپرد یہ حق کر دیتی ہے اور اس سے انحراف کی کسی کو اجازت نہیں دیتی.اس سلسلہ میں میں انشاء اللہ تعالیٰ ابھی کچھ عرض کروں گا اس سے پہلے میں ایک اور اسلام کا دعویٰ پیش کرنا چاہتا ہوں.اسلام میں نبی کو کیا حیثیت ہے؟ نبی کو اسلام میں یہ حیثیت ہے کہ جب مالک خدا ہے اور قانون ساز وہ ہے تو اس کا کوئی نمائندہ ضرور ہونا چاہئے جو اس کی طرف سے اس کے قانون کو نافذ کرنے والا ہو اور اس کے قانون کو دنیا میں پہنچانے والا ہو اور تمام مذاہب میں یہ قدرے مشترک ہے.اس لحاظ سے آنحضرت ﷺ کی حیثیت ایک مقنن ثانی کی حیثیت رکھتی ہے ،خدا تعالیٰ کے بعد آپ کے نمائندہ کے طور پر آپ آتے ہیں اور جب تک یہ سند آپ کو حاصل نہ ہو آپ کا کوئی حق نہیں کہ کوئی دوسرا انسان آپ کی اطاعت کرے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْى يُولى (النجم : ۵،۴ ) کہ محمد عربی تم پر کسی سرداری جتانے کی خاطر یا اپنا قانون نافذ کرنے کے لئے نہیں آئے وہ اپنے نفس کی ھوی کو تمہارے سامنے پیش نہیں کر رہے اِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى وہ تو محض خدا کی آواز ہیں جو خدا ان سے کہتا ہے وہ آگے کہتے چلے جاتے ہیں اس لئے اگر وہ مطاع ہیں تو اس لئے کہ مالک حقیقی کے نمائندہ ہیں اور اس حیثیت سے قرآن کریم قول بشر کے متعلق بار بار تر دید فرماتا ہے کہ آنحضرتﷺ کا کلام قول بشر نہیں ہے.اس کے برعکس جیسا کہ میں نے بیان کیا مارکس (Karl Marx) اور اینجلز (Friedrich Engels) اور دیگر اشترا کی لیڈر قول بشر کو تسلیم کرتے اور اس پر اصرار کرتے ہیں کہ 6 یہ قول بشر ہی ہے اور اس کے باوجود تمام انسانوں کا فرض ہے کہ اسے تسلیم کریں.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا حقیقت یہ ہے کہ مارکس (Karl Marx) کو اشتراکیت میں خدا کی حیثیت دی جاتی ہے اور لینن (Vladimir Lenin) کو نبی کی حیثیت دی جاتی ہے اور
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 160 اسلام اور سوشلزم ۹۶۹۱ء اتنی عظیم پکڑ ہے ان کے تصورات کی اشترا کی دنیا میں کہ اسی کروڑ اشترا کی اشتراکیت کی دنیا میں بسنے والے انسانوں کو یہ حق نہیں ہے کہ اشارہ یا کنایہ بھی مارکس (Karl Marx) کے تصورات کے خلاف کوئی آواز بلند کریں.یہ وہ انسانی آزادی ہے جس کو اشتراکیت نے پیش کیا اور یہ اتنی تفصیلی ہے، اتنا گہرا اس کا نفوذ ہے، اتنا خوفناک استبداد ہے یہ کہ اگر اس کے حوالے صحیح پیش کئے جائیں اور اس کی تفصیل بیان کی جائے تو کئی دن اس پر لگ سکتے ہیں کہ کس حد تک استبدادیت نے اشترا کی دنیا پر قبضہ کر لیا ہے.کوئی زندگی کا پہلو ایسا نہیں ہے جس پر یہ استبدادیت حاوی نہیں ہے.مثال کے طور پر میں دوا مور آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ایک مشہور روسی فلم پروڈیوسر سر جے آئن سٹائن (Sir J.Einstein) تھا جس نے اپنے فلم میں 'آئی وانٹ دی ٹیری بل (IWantthe Terrible) مشہور ایک تاریخی ہستی ہے جو بہت خوفناک اور ظالم جابر کے طور پر پیش کی جاتی ہے.اس کو اس نے فلمایا اور اسی رنگ میں جو اس کی حقیقت تھی اس کو پیش کیا.اس وقت اشترا کی پالیسی یہ تھی کہ اسے روس کا عظیم ہیرو اور روس کے منجی کے طور پر پیش کیا جائے چنانچہ سٹالن (Joseph Stalin) نے اس پر بڑی سخت پکڑ کی.اس وقت اس پکڑ کے بعد اس نے معافی مانگی کہ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی لیکن معافی میں جو اس نے الفاظ پیش کئے وہ اس لائق ہیں کہ انہیں اس وقت پڑھ کر سنایا جائے.وہ کہتا ہے ” آج ہر فنکار کے لئے ضروری ہے کہ لینن (Vladimir Lenin) اور سٹالن (Joseph Stalin) اس دنیا کی زندگی کو جن آنکھوں سے دیکھتے تھے انہی آنکھوں سے وہ بھی دیکھے اور تاریخ کو بھی اس حد تک لینن Madimir) (Lenin اور سٹالن (Joseph Stalin) کی آنکھ سے دیکھنے لگے کہ پرانی قوموں کی باقیات، حقائق اور اثرات کلیتہ ذہن سے فراموش کر دئے یہ وہ انسانی آزادی ہے جس کو اشتراکیت پیش کر رہی ہے.مشہور موسیقار ڈیمیتری شاستا گووچ (Dimitry Schastagowichvic) کو ایک نغماتی پیشکش کے نتیجے میں پکڑا گیا وہ صنفنی آرکسٹرا کا ایک مشہور ماہر تھا.اس نے ایک نعماتی پیشکش کی اور اس خاموش زبان کی پیشکش پر بھی ان کو یہ شک پڑا کہ اس میں اشترا کی رنگ غالب نہیں ہے.جب مرکزی پارٹی نے اس سے جواب طلبی کی اور اسے معافی مانگنے پر مجبور کیا تو اس نے بھی معذرت
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 161 اسلام اور سوشلزم ۹۶۹۱ء کرتے ہوئے ایسے تاریخی الفاظ پیش کئے جن کا جاننا آج کل غیر اشترا کی دنیا میں بسنے والوں کے لئے ضروری ہے.وہ کہتا ہے کہ اشتراکی روس سے فنون لطیفہ کی تاریخ میں مرکزی اشترا کی کمیٹی نے ایک تاریخی سنگ میل کا اضافہ کیا ہے کہ آئندہ سے فنکار اپنی قلبی تحریکات اشترا کی مجلس مرکز یہ سے حاصل کیا کرے گا.“ یہ وہ حقیقت میں آزادی ہے جس کا آج ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے.اس کے بعد میں بعض اصولی باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کیونکہ تفصیلات میں جانے کا وقت نہیں.حقیقت یہ ہے کہ ہر تحریک کی ایک سرشت ہوا کرتی ہے اور ہر تحریک کو چلانے کے لئے ایک قوت محرکہ درکار ہوا کرتی ہے.اسلام کے نزدیک یہ محرکہ قو تیں دو ہی قسم سے تعلق رکھتی ہیں یا ناری صفت کی یا طینی صفت کی.چنانچہ قرآن کریم ابتدا ہی میں اس بات کو شیطان اور خدا تعالیٰ کے مکالمے کی صورت میں ظاہر فرماتا ہے.یہ ایک بنیادی اصل ہے کہ تمام لامذہبی طاقتیں ناری سرشت سے تعلق رکھا کرتی ہیں اور تمام مذہبی طاقتیں رحمت کے سرچشمے سے پھوٹتی ہیں چنانچہ اسلام اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہ قرآن کریم اور آنحضرت اور اسلام کی سرشت کیا ہے بیان فرماتا ہے الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ( الرحمن :۲-۵) کہ وہ ذات جس نے اس کائنات کو پیدا کیا وہ رحمان ہے چنانچہ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ (الاعراف: ۷۵۱) كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ (الانعام: ۳۱) کہ خدا تعالیٰ کی کائنات میں بھی جو حقیقت ظاہر ہورہی ہے اس تعلیم میں بھی جو قرآن کی تعلیم ہے اس کی رحمت کا پہلو غالب ہے.پھر آنحضرت کے متعلق فرمایا وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ) (الانبیاء : ۸۰) کہ ہم نے تمھیں بھی مجسم رحمت بنا کر بنی نوع انسان کے لئے بھیجوایا ہے پھر مومنوں کے متعلق فرمایارُ حَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح:۰۳) وہ نہایت ہی رحیم ہیں ایک دوسرے سے محبت کرنے والے.چنانچہ یہ رحمت کا مضمون مسلسل تمام تفاصیل پر حاوی ہے.اس کے برعکس اشتراکیت کی تحریک غضب کے سرچشمے سے پھوٹ رہی ہے اور انتقام کے سرچشمے سے پھوٹ رہی ہے.مارکس ( Karl Marx) جو خود یہودی نژاد تھا ایک ایسی قوم سے تعلق
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 162 اسلام اور سوشلزم ۹۶۹۱ء رکھنے والا تھا جس کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ (الفاتحہ: 4 ) اور خالق مخلوق کو مغضوب نہیں کہ سکتا جب تک وہ اس کے بندوں پر غضب ناک نہ ہو اور مسلمہ حقیقت ہے کہ یہودی اپنے غضب میں ایک مثال بن چکے ہیں اس دنیا میں.صرف یہی نہیں بعض دفعہ تاریکی سے نور بھی نکل آتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مارکس ( Karl Marx) نے اس یہودی اصلیت کو قائم رکھا.اس کی تمام زندگی اس بات کی آئینہ دار ہے کہ وہ انتہائی غضب ناک اور منتقم مزاج شخص تھا.بڑے بڑے محسنوں کو بھی ادنی سی غلطی پر اس نے پکڑ کی اور ہمیشہ ان سے نفرت اور حقارت کا سلوک کیا.وہ جو تعلیم دیتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے دن آنے دو ہم اپنے غضب کے لئے اور اپنے انتقام کے لئے بہانے نہیں ڈھونڈیں گے.ہم بزور شمشیر ہلاکت کے ساتھ تمہارے موجودہ نظام کو برباد کریں گے اور اپنا نیا نظام چلا کر دکھائیں گے.معافی کا عفو کا کوئی تصور اشترا کی دنیا میں نہیں ملتا.اس کے برعکس اسلام کی ساری تعلیم رحمت ، عفو اوران نرم جذبات سے گوندی ہوئی ہے جو ساری کی ساری رحمت سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں.اس سلسلے میں تفصیل کا تو موقع نہیں صرف اشارۃ اتنا کہنا کافی ہوگا کہ اشترا کی پہلا انقلاب یا پہلی عظیم فتح زار روس کی شکست ہے جو اشتراکیوں کی مخالفت میں اس نے اٹھائی اور تاریخی حیثیت سے اس کے مقابل پر فتح مکہ کو پیش کیا جاسکتا ہے جو اسلام کی پہلی عظیم الشان فتح تھی.ان دونوں کے حالات پر آپ غور کریں زار روس پر غالب آنے کے بعد شاہی خاندان اور کثیر تعداد میں لاکھوں کی تعداد میں، حکومت سے تعلق رکھنے والے افراد پر جو مظالم ڈھائے گئے اس کی تاریخ انتہائی دردناک ہے.احمدیوں کے لئے تو اس کا سمجھنا تو کچھ مشکل نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ان دردناک حالات کی خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار ( در نمین صفحه: ۱۵۱) ہزاروں زار حالتیں ان لوگوں پر آئی ہیں آخر خدا نے اس حقیقت کو چن کر پیش گوئی کے طور پر جو بیان فرمایا اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں.ایک تاریخ ہے شہزادی کی تھرین نے ان حالات کی لکھی ہے اس کی تفصیل کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے، رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں انسان کے جس قسم
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 163 اسلام اور سوشلزم ۹۶۹۱ء کے مظالم ڈھائے گئے.فتح کے بعد زار کو سات مہینے جہاں قید رکھا گیا اس کی جوان بیٹیوں اور ایک معصوم بیمار بچے پر جو مظالم ڈھائے گئے وہ بہت ہی دردناک ہیں.سات مہینے تک شرابی اور شقی القلب سپاہی ان ماں اور باپ کے سامنے ان کی جوان بیٹیوں سے زنا کرتے رہے اور جب وہ ماں تکلیف کو برداشت نہ کرتے ہوئے منہ پھیر لیتی تھی تو سنگینیں مار مار اس کا منہ پھیرا جاتا تھا کہ دیکھواس حالت کو دیکھو مخش کلمات ان کی دیواروں پر لکھے جاتے تھے، گندے گانے ان کے سامنے گائے جاتے تھے.بیار بچہ جس میں چلنے کی طاقت نہیں تھی اس کو سنگینیں مار مار کے اٹھایا جا تا تھا کہ کام کرو اور یہ پھر وقتی جذبے کی بات نہیں تھی سات مہینے مسلسل ان درد ناک مظالم کا شکار کر کے ان کو مارا گیا اور پھر جس فخر کے ساتھ اور انقلابی نعروں کے ساتھ اور جس رعونت کے ساتھ وہ انقلاب آیا ہے وہ ساری حقیقت دنیا جانتی ہے.اس کے برعکس آنحضرتﷺ جب مکہ میں داخل ہو رہے تھے کوئی غرور کوئی تکبر نہیں تھا.سر عجز کے ساتھ ایک فاتح کا سراتنا جھک گیا تھا کہ زمین کے ساتھ لگ رہا تھا.ان تمام ظالموں کو جنہوں نے اس سے بہت زیادہ ظلم کئے تھے جو زار نے کئے ، ان تمام ظالموں کو جنہوں نے ان لوگوں پر ظلم کئے تھے جو معصوم تھے ایک ہی سلے میں لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ آپ نے بخش دیا.(السیرۃ النبویۃ لابن هشام، ذکر فتح مکہ ) ایسا عظیم الشان تضاد ہے کہ صرف یہی اسلام اور اشتراکیت کی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے.اشترا کی فتح کے لئے اگر جھوٹ بولنا پڑے، ظلم کرنا پڑے، جبر کرنا پڑے، مکر کرنا پڑے تو یہ ساری چیزیں اشتراکیت کے نزدیک حسین اخلاق کے دائرے سے تعلق رکھتی ہیں.چنانچہ اس پہلو سے بھی اگر دیکھا جائے تو اسلام ایک انتہائی مشکل صورت میں پڑا ہوا ہے.اس کے بظاہر کہ اسلام کے انقلاب بر پا کرنے کے لئے اتنی عظیم پابندیاں ہیں کہ ان پابندیوں میں رہ کر اگر انقلاب برپا کیا جائے تو یہ ایک عظیم الشان فتح قرار دی جاسکتی ہے.اس کے بعد میں اب چند اصولی باتیں جو بنیادی تعلیم سے تعلق رکھتی ہیں آپ کے سامنے مختصراً پیش کرتا ہوں.اسلام اپنے اقتصادی نظام میں جو دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے بعض ایسے امور کو مدنظر رکھتا ہے جو اس کی اقتصادی تعلیم کے اوپر ہر رنگ میں غالب ہیں.ان امور میں سے ایک امر یہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 164 اسلام اور سوشلزم ۹۶۹۱ء ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے رحمت ہے اسلام کی، اس کے علاوہ ایک امر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو أُمَّةً وَسَطًا ( البقرۃ:۴۴۱) کے طور پر پیش فرمایا.یہ ہر انتہاء سے پاک ہے اس امر کو آپ کو مدنظر رکھنا چاہئے.دوسری حقیقت یہ ہے کہ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے دین فطرت قرار دیا اور کوئی ایسی تعلیم اسلام پیش نہیں کرے گا جو انسانی فطرت کے ساتھ مطابقت نہ رکھتی ہو.اس کے علاوہ اسلام نے جو تعلیم دی اس کے دو حصے ہیں جو دراصل پہلے ہی بنیادی فرق سے تعلق رکھنے والے ہیں.چونکہ اللہ تعالیٰ کا تصور پیش کیا جاتا ہے اس لئے اسلامی تعلیم لازماً انسان اور بندے کے تعلقات اور انسان اور انسان کے تعلقات کو دو الگ الگ حصوں میں پیش کرتی ہے.چونکہ اللہ تعالیٰ کا تصور پیش کیا جاتا ہے اور چونکہ یہ تصور بھی پیش کیا جاتا ہے کہ انسان کی زندگی دائمی اور قائم رہنے والی ہے اس لئے اسلام کی تعلیم اپنے ہر شعبے میں ان امور کو مد نظر رکھتی ہے جس کا انسان کی روح سے اور اس کے ارتقا سے تعلق ہے.چنانچہ یہ وہ حصے ہیں اسلامی تعلیم کے جن کا موازنہ سوشلزم سے یا کمیونزم سے ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وہاں یہ تصور ہی موجود نہیں.اس لئے آدھے سے زیادہ اسلامی تعلیم کا موازنہ ہم سوشلزم سے نہیں کر سکتے لیکن جہاں تک اقتصادی تعلیم کا تعلق ہے بنیادی اصل جو اسلام نے پیش کیا اور اس کے مقابل پر ایک کمیونسٹ اصل بھی رکھا جا سکتا ہے وہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے: اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَائِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (النمل: ٩١) پھر فرمایا: لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ (البقرة : ۲۸۷) کہ اللہ تعالیٰ عدل کی تعلیم دیتا ہے احسان کی تعلیم دیتا ہے اور ايْتَائِ ذِي الْقُرْبى کی تعلیم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ اصل مقررفرماتا ہے کہ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کسی جان سے اس کی طاقت سے بڑھ کر کام نہیں لیا جائے گالَهَا مَا كَسَبَتْ پھر جب وہ کام کرے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 165 اسلام اور سوشلزم ۹۶۹۱ء گی تو جو کچھ کمائے گی وہ اس کا ہوگا وَ عَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ اور جو بدیاں وہ کمائے گی اس دور میں یا جو نقصانات پہنچائے گی اس کی ذمہ داریاں بھی اسی جان پر عائد ہوں گی.اس کے برعکس اشتراکیت کا مشہور مقولہ یہ ہے کہ ہر انسان سے اس کی طاقت کے مطابق کام لیا جائے لیکن ہر انسان کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جائے یہ دواصول ہیں جو ایک دوسرے کے مقابل پر کھڑے ہیں.ان کا موازنہ کرتے وقت یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہر جان سے اس کی طاقت کے مطابق کام لیا جائے کیونکہ طاقت کی تعیین کرنا ایک انسان کا کام نہیں ہے اور اس کی طاقت ہی نہیں ہے کہ وہ تعین کر سکے.فرمایا لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کسی کی طاقت سے بڑھ کر اس سے کام نہیں لیا جائے گا.ان دو چیزوں میں بنیادی فرق ہے.اشترا کی اصل کے مطابق اشترا کی دنیا میں اشترا کی حکومت ہر شخص کو کام کرنے پر مجبور کر سکتی ہے کیونکہ یہ فیصلہ ہے کہ ہر شخص سے کام ضرور لیا جائے گا.اور یہ فیصلہ کہ اسکی طاقت کیا ہے یہ اشترا کی حکومت کرے گی.اسلام یہ نہیں کہتا کہ ہر شخص سے کام ضرور لیا جائے گا فرماتا ہے جب بھی کام لیا جائے اور اگر کام لیا جائے تو اس کی طاقت سے بڑھ کر نہیں لیا جائے گا.پھر اشتراکیت کہتی ہے کہ اس کے نتیجے میں جو کچھ وہ حاصل کرے وہ اس کا نہیں ہوگا بلکہ آگے ہم ضرورت کی بھی تعین کریں گے اور ایک انسان دوسرے انسان کی ضرورت کا تعین کر کے بتائے گا کہ تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے.اسلام کہتا ہے نہیں جب کمانے کی آزادی ہوگی، محنت کی آزادی ہوگی ، حاصل کرنے کی آزادی ہوگی تو جو کچھ اس نے کمایا وہ اس کا لیکن جو کچھ وہ نہیں کما سکے گا یا ظلم کرے گا اس کا وبال بھی اس پر پڑے گا.اسلامی تعلیم کا یہ حصہ اور جو پہلی آیت میں نے پڑھی تھی اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ یہ تمام اسلامی اقتصادی تعلیم پر حاوی ہے.عدل کے پیش نظر انصاف کا اولین تقاضہ ہی یہ تھا کہ انسان کو کسی ایسے کام پر مجبور نہ کیا جائے جسے وہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا یا وہ سمجھتا ہے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا اس لئے حکومت کو زبر دستی بیگار ڈالنے کی کوئی اجازت نہیں ہے.اگلا حصہ عدل کا جو ہے اس کے پیش نظر ہر انسان برابر ہے اپنے اقتصادیات کے لحاظ سے بھی اور اپنے تمدن کے لحاظ سے بھی چنانچہ
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 166 اسلام اور سوشلزم ۹۶۹۱ء اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتفسكُمْ (الحجرات : ۴۱) ہم نے تمہیں قبائل اور شعوب میں اور ذاتوں میں اس لئے تقسیم نہیں کیا تھا کہ ایک دوسرے پر عزت پاؤ.جہاں تک انسان کا تعلق ہے وہ سب برابر ہیں اور ایک ہی قسم کا حق رکھتے ہیں.اس پہلو سے اسلامی حکومت کا یہ فرض ہے کہ جہاں تک دوڑ کے لئے طاقتیں فراہم کرنے کا تعلق ہے ہر انسان کو برابر حق دیا جائے نہ کوئی ذات پات اس کے کام آئے گی ، نہ اس کا کوئی اثر و رسوخ کام آئے گا، نہ تعلقات کام آئیں گے، نہ رشوت کام آئے گی لیکن جب وہ کما لیتا ہے تو جو اس نے کمایا وہ اس کو دیا جائے لیکن وہ یہ یہیں نہیں ٹھہر جاتا اسلام بلکہ اگلا قدم اٹھاتا ہے اور اگلا قدم اٹھانے کے لئے ایک اور اصول مقرر فرماتا ہے.فرماتا ہے یہ آزادی شخصی ہم نے تمہیں دے دی لیکن اس کے بعد ایک اور حق ہے انسان کا بحیثیت انسان کے اس کے رب پر ، وہ تمہیں بحیثیت جماعت عطا کرنا ہوگا اور وہ حق یہ ہے کہ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا (ھود:۷) ہر چیز جو اس نے پیدا کی ہے اس کا رزق اللہ پر ہے اور اللہ کی نمائندہ حکومت کا فرض ہے کہ ہر انسان کے لئے رزق کا انتظام کرے اور اس کے علاوہ فرمایا اِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى وَأَنَّكَ لَا تَطْمَوا فِيهَا وَلَا تَضْحی (طه: ۹۱۱-۰۲۱) کہ اسلام جو جنت پیش کرتا ہے اس کا بنیادی خا کہ یہ ہے کہ کوئی انسان بھی اس دنیا میں نہ نگا ر ہے گا، نہ بھوکا رہے گا ، نہ پیاسا رہے گا ، نہ بے مکان کے رہے گا.یہ بنیادی ضروریات اسلام نے انسان کی طے کر دیں لیکن اس رنگ میں نہیں کیں کہ انفرادی دوڑ کا رستہ ختم ہو جائے اور ان ضروریات کے علاوہ جو باقی چیزیں ہیں وہ انسان کو بحیثیت فرد کے کمانے کا حق دے دیا اُمَّةً وَسَطًا ( البقرة : ۳۴۱) کا یہ لازمی نتیجہ ہونا چاہئے تھا کہ اسلام ایک انتہا پر نہ جائے نہ ہی دوسری انتہا پر جائے اس حیثیت سے اسلام اشتراکیت اور کیپٹل ازم کے عین وسط میں واقع ہوتا ہے.کیپٹل ازم اشتراکیت کے برعکس یہ اصل پیش کرتا ہے کہ ہر انسان کو کمانے کا پورا حق ہے اور اس حد تک اس کو تصرف کی اجازت ہے اپنی کمائی پر کہ تمام ملک کا اگر نظام معاشیات بگڑ بھی جائے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا.ہر فرد کا حق ہے کہ جو کچھ کمائے اسے رکھتا بھی چلا جائے.اسلام کہتا ہے کمانے کا حق ہے تمہیں ملے گا لیکن دوسرے اصل سے ہم اسے ٹکرانے نہیں دینگے.انسان کے جو بنیادی حقوق ہیں ان کو بہر حال قوم کو ادا کرنا پڑے گا اللہ تعالی کی نمائندگی میں اس کے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 167 اسلام اور سوشلزم ۹۶۹۱ء بعد جو کچھ کسی کے لئے بچتا ہے اسے حق ہے کہ وہ اسے استعمال کرے.چنانچہ انسان کی انفرادیت کو بھی قائم رکھا اور قوم کی قومیت کو بھی قائم رکھا اشتراکیت اس کے برعکس تمام انسانی ذرائع کو ایک ہاتھ میں یعنی حکومت کے ہاتھ میں اکٹھا کر دیتی ہے.یہاں یہ بات بیان کرنی ضروری ہے کہ اشتراکیت کا یہ اصل کہ تمام دولت برابر تقسیم ہو جائے اور ہر انسان کو برا برمل جائے بظاہر بڑا دلکش اور بڑا حسین اصل معلوم ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا پس منظر کیا ہے؟ آخر کیوں ایسا کیا جائے؟ حقیقت میں اگر اس کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ خوشیاں برابر تقسیم کی جارہی ہیں تو پھر اس کا کوئی بھی فائدہ نہیں.انسان تو مسرت اور خوشی اور اطمینان چاہتا ہے اگر مسرت اور اطمینان اور خوشی ایسی اقدار ہیں تو جو برابر تقسیم کی جاسکتی ہیں تو پھر اس اشترا کی اصل کو ہمیں دوسرے مواقع پر بھی چسپاں کرنا پڑے گا.حکومت میں دخل انسان کی ایک فطری خواہش ہے کسی پر حکومت کرنا، علم کا حصول اور اعلی علمی مقام حاصل کرنا، فتوحات کرنا ، غلبہ حاصل کر کے دوسرے کو شکست دینا یہ تمام انسان کی فطری خواہشات ہیں.محبت ،شادی بیاہ، بچوں کا حصول ، بیماریوں سے بچنا، صحت یہ تمام ایسی چیزیں ہیں جو انسان کی خوشی پر اثر انداز ہوتی ہیں.یہاں آکر اشتراکیت کا کھوکھلا پن ظاہر ہو جاتا ہے چونکہ اشتراکیت مالک نہیں ہے اس لئے ان چیزوں میں دخل دینے کا نہ حق رکھتی نہ طاقت رکھتی ہے.وہ خوشی کو برابر تقسیم کر ہی نہیں سکتی.لینن کی بیوی نے ایک موقع پر لکھا کہ صرف روٹی سے پیٹ بھر لینا ہی انسان کی مسرتوں کے لئے کافی نہیں ہے اور انسان کے اطمینان کے لئے کافی نہیں ہے.جب مارکس (Karl Marx) کا بچہ مرا اور وہ انتہائی درد اور دکھ میں مبتلا ہوا اس کی باقی ساری عمر اس غم میں کٹ گئی تو اس کی بیوی نے بھی اسی قسم کے الفاظ اپنے ایک دوست کو خط میں لکھے یعنی مارکس (Karl Marx) کے دوست کو اور اس نے کہا کہ دنیا میں خوشیاں صرف روٹی پر ہی منحصر نہیں ہیں.اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے اور روٹی کو وہ بنیادی اور مرکزی حیثیت اس رنگ میں نہیں دیتا جس رنگ میں اشتراکیت دیتی ہے اور روٹی کی برابر تقسیم کے نتیجے میں خوشی کے برابر پھیلاؤ کا دعویٰ نہ کرتا ہے نہ یہ عمل ممکن ہے.اسلام کے نزدیک روٹی ایک ضرورت ہے اور یہ ضرورت پوری ہونی چاہئے.اس کے بعد انسان کی خوشی کے لئے انسانی فطرت جتنے تقاضے کرتی ہے وہ سارے
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 168 اسلام اور سوشلزم ۹۶۹۱ء پورے ہونے چاہئیں ان تقاضوں میں سے ایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ انسان کی انفرادیت کو قائم رکھا جائے.اگر روٹی کی خاطر انسان کی انفرادیت مار دی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہزاروں انسان ہونگے جو انفرادیت کو زیادہ پسند کریں گے بہ نسبت بہتر روٹی کے.لوگ عزت کی خاطر جانیں دے دیتے ہیں، مال قربان کر دیتے ہیں آخر وہ کون سا انسانی فطرت کا جذبہ ہے جو ان باتوں پر مجبور کرتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ روٹی کی برابر تقسیم محض برابر تقسیم نہ کافی ہے اور نہ ہی ممکن ہے.انسان جتنا بھی چاہے عملاً وہ روٹی کو برابر تقسیم کرنے میں ناکام رہے گا.اشترا کی دنیا کے موجودہ حالات ہمیں بتارہے ہیں گذشتہ تاریخ ہمیں بتا رہی ہے کہ وہ اشترا کی دنیا کے حدود کے اندر بھی روٹی کو برابر تقسیم کرنے میں ناکام رہے ہیں.اور پھر ایک اور بات خاص طور پر توجہ رکھنے کے قابل یہ ہے کہ اشتراکیت مبنی ہے اس بات پر کہ انسان بنیادی طور پر بد خلق ہے اور بددیانت ہے اور جھوٹا ہے اور فسادی ہے اور دوسرے کا مال ہضم کرنے والا ہے.اگر یہ نظر یہ اشتراکیت تسلیم نہ کرے تو برابر تقسیم اور متوازن سوسائٹی کا تصور پیش ہی نہیں ہوسکتا.اس کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر انسان کو برابر روٹی تقسیم نہ کی جائے تو وہ لاز ما ایک دوسرے کی طرف دیکھے گا اور ایک دوسرے سے چھینا جھپٹی کرے گا اور ایک دوسرے کا مال غصب کرے گا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سوسائٹی میں بدامنی اور بے اطمینانی پھیل جاتی ہے.سوال یہ ہے کہ اگر انسان ایسا ہی ظالم اور بنیادی طور پر اس بات کا نا اہل ہے کہ اس کے سپرد کوئی ذمہ داریاں کی جائیں تو اشترا کی دنیا میں جب حکومت کے کاموں کی تقسیم ہوگی جب روٹی کی تقسیم کا مسئلہ بعض انسانوں ہی نے کرنا ہوگا تو اس وقت اس چھینا جھپٹی اور لالچ اور ہوس اور استبداد ان تمام چیزوں کو انسان کے اندر سے کس طرح نکال دیا جائے گا ؟ عملاً ناممکن ہے.اور ایک اور بات یہاں خاص طور پر قابل ذکر یہ ہے کہ اسلام ایسی برابری کو ایسی مساوات کو جس کے نتیجے میں اونچ نیچ بالکل مفقود ہو جائے تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے.اسلام ایک ایسے ارتقاء کا تصور پیش کرتا ہے جس میں برابر روٹی کی تقسیم فٹ (Fit) ہی نہیں ہوسکتی اس کے ساتھ وہ مطابقت ہی نہیں کھا سکتے.قرآن کریم جس نہج پہ انسان کو چلانا چاہتا ہے اور جو تصور انسانیت کا پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (الملک:۳) ہم نے انسان کو صرف
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 169 اسلام اور سوشلزم ۹۶۹۱ء روٹی کی خاطر پیدا نہیں کیا روٹی کو انسان کی خاطر پیدا کیا ہے اور خدا تعالیٰ نے جو کائنات کا تصور پیش کیا ہے وہ ایک ارتقائی تصور ہے.باہمی دوڑ کا تصور، جد و جہد کا تصور اور اس دوڑ کے نتیجے میں اعلیٰ اقدار جو انسان کو حاصل ہوتی چلی جاتی ہیں جو سبق سیکھتا چلا جاتا ہے ظلم سے رحم کی طرف مائل ہوتا چلا جاتا ہے، نا جائز دباؤ سے حق چھوڑنے کی طرف مائل ہوتا چلا جاتا ہے، یہ وہ رستہ ہے عروج اور ترقی کا جس کی طرف اللہ تعالیٰ انسان کو لے جانا چاہتا ہے.اگر اس رستہ کے سارے امکانات بند کر دیئے جائیں، روکیں ڈال دی جائیں تو تمام ارتقاء انسانی تہذیب کا وہیں کھڑا ہو جاتا ہے.انسانی تہذیب ہی کا نہیں بلکہ سائنس سے ثابت ہے کہ اگر اشترا کی اصل کو اس زندگی کی سٹیج پر نافذ کر دیا جاتا جہاں کی زندگی ابھی صرف امیبا کی صورت میں تھی اور باہمی جدوجہد کے نتیجے میں جو بہتر اور اعلیٰ اقدار زندگی لڑتے ہوئے حاصل کرتی ہے وہ حاصل نہ ہوتیں تو ارب ہا ارب سال بھی زندگی پر گزر جاتے تو امیبا امیبا ہی رہتا اور انسان کے مقام پر نہ پہنچتا.انسانیت کے بعد انسان نے جتنی بھی تہذیب سیکھی ہے وہ اسی اونچ نیچ کے نتیجے میں ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ ( آل عمران: ۱۴۱) کہ ہم نے جو نظام پیش کیا ہے وہ ایک سٹیٹک نظام (Static System) نہیں ہے ایک ہی حالت پر کھڑا ہوا نظام نہیں ہے وہاں تو دن سے رات نکلتی ہے اور رات سے دن نکلتا ہے، امارت سے غربت پیدا ہوتی ہے اور غربت سے امارت پیدا ہوتی ہے اور اس باہمی جد و جہد اور جدال کے نتیجہ میں انسان جو سبق سیکھتا ہے اور اعلیٰ اخلاق کی طرف حرکت کرتا ہے یہی زندگی کا مقصود ہے لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا تو زندگی کا جو مقصود ہے اور وہ تحریک جو انسان کو ادنی سے اعلیٰ مقامات کی طرف لے جارہی ہے اگر اس مقصود کو کالعدم قرار دے دیا جائے یا اس تحریک کے راستے بند کر دیئے جائیں تو انسان کی ترقی وہیں کھڑی ہو جاتی ہے.اس لئے بھی اسلام کا نظریہ فائق اور دین فطرت کے مطابق ہے اور تمام انسانی زندگی کی تاریخ اس نظریہ کی تائید کرتی ہے.اس کے علاوہ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ میں ایک عظیم الشان اقتصادی تعلیم اللہ تعالیٰ نے دی.فرمایا عدل کا مقام پہلا مقام ہے ہم چونکہ انسان کو ادنیٰ سے اعلیٰ اقدار کی طرف حرکت کروانا چاہتے ہیں اس لئے پہلا فرض اس کا یہ ہے کہ وہ عدل قائم کرے لیکن عدل کے نتیجے میں انسان نہیں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 170 اسلام اور سوشلزم ۹۶۹۱ء بن سکتا.دنیا کے ہر قانون میں جہاں کسی چیز کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے راستے سے ہٹے قدرتاً ہمیں عدل قائم ہوتا ہوا نظر آتا ہے.اگلا قدم یہ ہے کہ وہ احسان کرے اور اپنے حق کو خود چھوڑےاپنے بھائی کی خاطر.یہ وہ تعلیم ہے جو اعلیٰ انسانی اقدار انسان میں پیدا کرنے والی تعلیم ہے، یہ وہ مزاج ہے جو اسلام کا خصوصی مزاج ہے اور نہ وہ اشتراکیت میں ملتا ہے اور نہ وہ کیپٹل ازم(Capitalism) یعنی سرمایہ داری میں ملتا ہے، سرمایہ داری کا مزاج اگر آپ غور کریں تو چھینا جھپٹی ہے.ایسے قوانین ہیں سرمایہ داری کے جن کے نتیجے میں یہ کیفیت تِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ پیدا ہوہی نہیں سکتی.ایسے قوانین جہاں سرمایہ سرمائے کو کھینچتا ہے، جہاں سودی نظام کے نتیجے میں انسان کے لئے ممکن ہے کہ اپنی نااہلی کے باوجود اپنے پیسے کو بڑھا تا چلا جائے.چوٹی اونچی ہوتی چلی جاتی ہے اور پستی نیچے ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ جو فرق ہے یہ لازماً اشتراکیت پہ جا کر منتج ہو جاتا ہے کیونکہ دنیا کا یہ بھی قانون ہے کہ جب چوٹیاں اتنی اونچی ہو جائیں کہ ان کی بنیادیں تنگ رہ جائیں تو لازماً وہ عمارتیں منہدم ہوں گی.مارکس (Karl Marx) نے اس حقیقت کو پہچانا اور اسی کے نتیجے میں اس نے یہ پیشگوئی کی کہ دنیا کا رخ کیپٹل ازم (Capitalism) سے کمیونز (Communism) کی طرف ہے اور اس رخ کو کوئی موڑ نہیں سکتا.اس کی نظر میں اسلام نہیں تھا.جو اشترا کی قانون ہے وہ دراصل رد عمل ہے.حقیقت میں وہ بچہ ہے کیپٹل ازم کا.جہاں ملکی قوانین سرمائے کو اکٹھا کرتے چلے جائیں اور سرمائے کو نکل کر جہاں سرمایہ کم ہورہا ہو اس کی طرف واپس جانے کا راستہ نہ رہے تو لازماً وہ صورت پیدا ہوگی جو مارکس (Karl Marx) نے کہی تھی اس لئے اس صورت کو روکنے کے لئے اس نے بھی کہا کہ ہم ایسا منظر پیش کریں گے کھلا میدان ہو جائے کوئی اونچی نیچی نہ رہے اونچی چیز کہاں گرے گی پھر ؟ پستی ہمیشہ اونچائی کو نیچا کرتی ہے اس لئے گرنا اور چڑھنا اس کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.اسلام کی تعلیم کی یہ خصوصیت ہے کہ اسلام نے سرمائے کے اس طرح اکٹھا ہونے کے تمام راستے بند کر دیئے ہیں کہ پھر وہ واپس نہ ہوسکیں.معاشرے میں بھی اس کی یہی تعلیم ہے کہ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمُ (الحشر: ۸) کہ جب تم اپنے معاشرے میں سلوک کرو ایک دوسرے سے معاملے کرو تو اس رنگ میں معاملے نہ کرنا کہ امیر امیروں کو تحفے بھیج رہے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 171 اسلام اور سوشلزم ۹۶۹۱ء ہیں، امیروں کی دولت امیروں کی طرف منتقل ہو رہی ہے اور ایک اوپر کی سوسائٹی آپس میں ہی اپنی دولت کو چکر دے رہی ہے.اسلامی نظام اوپر سے نیچے کی طرف اور نیچے سے اوپر کی طرف ایک مسلسل حرکت دے رہا ہے اور اگر انسانی اہلیت اس کے سرمائے کے ساتھ شامل نہ ہو تو سرمایہ بے کار ہو جاتا ہے.اس کا نتیجہ لازماً یہ نکلتا ہے کہ اگر سرمائے کو اہل آدمی استعمال کر رہا ہے اسلامی قوانین کے مطابق تو وہ تو یہ ترقی کرے گا اگر نا اہل کر رہا ہے تو وہ لازما گرے گا اور اس کے نتیجے میں سرمایہ دار غریب بھی ہوسکتا ہے اور امیر بھی ہوسکتا ہے.اس سلسلے میں تفصیلات تعلیم کی بیان کرنے کا تو وقت نہیں ہے میں اتنا عرض کروں گا کہ زکوۃ کا نظام اور حق سے بڑھ کر ادا کرنے کا نظام اور بنیادی ضروریات کو قائم کرنے کا نظام اور اس کے علاوہ ایتائِ ذِي الْقُرْبی کا نظام جو احسان سے بھی آگے کا قدم ہے یہ تمام انسانی تعلیم کا خا کہ ہیں.اس کے برعکس اشتراکیت میں اونچائی نیچائی اور بلندی پستی سب ختم ہو جاتی ہے اور انسان کی ترقی کی دوڑ وہیں کھڑی ہو جاتی ہے جس مقام سے زندگی نے آغا ز کیا تھا.لیکن ان باتوں سے ایک بہت زیادہ اہم بات میں آخر پر پیش کرنے کے بعد آپ سے اجازت چاہوں گا.وہ بات یہ ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ اسلامی نظام کا مقابلہ اشتراکیت سے ہونے والا ہے.اب وقت آگیا ہے کہ دنیا میں یہ فیصلہ کیا جائے کہ خدا مالک ہے یا بندہ مالک ہے؟ وقت آگیا ہے کہ یہ فیصلہ کیا جائے کہ رب کون ہے اور اللہ کون ہے اور ملک کون ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا قُل اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ الهِ النَّاسِ ( الناس : ۴۲) میں پناہ مانگتا ہوں اپنے رب اللہ کی جو رب الناس بھی ہے یعنی ربوبیت کا نظام بھی اسی طرح چلے گا.مَلِكِ النَّاس بھی ہے یعنی سیاسی نظام بھی اسی کا ہی چلے گا اله الناس بھی ہے یعنی عبادت کا نظام بھی اسی کا چلے گا، اس فتنے سے جو ان تینوں کے خلاف ہے.پہلے اسلام کی فکر مذاہب سے ہوتی تھی اب دہریت کے ساتھ یہ پہلا موقع ہے کہ عظیم الشان اسلام کی ٹکر ہونے والی ہے.جس طرح اسلام جہاد کی تعلیم دیتا ہے اس طرح اشتراکیت بھی دہریت کے حق میں اور خدا کے خلاف جہاد کی تعلیم دیتی ہے اور کھلم کھلا لین ( Vladimir Lenin) اور مارکس (Karl Marx) نے یہ لکھا کہ ہم خدا کے تصور کو اس دنیا سے مٹا کر رہیں گے کیونکہ اشتراکیت کے تصور کے ساتھ یہ مطابقت نہیں کھاتا.
تقاریر جلسه سالا نه قبل از خلافت 172 اسلام اور سوشلزم ۹۶۹۱ء بے خداؤں کی انجمن ایک روس میں قائم کی گئی اور اس نے جو ذرائع اختیار کئے ان میں اس تمدن کو مٹانے پر بھی زور دیا گیا تھا جو تمدن اسلام معاشی تمدن اس دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے.مسلمان عورتوں کے پردے اتروا دئیے گئے زبردستی، ان میں بد خلقیاں پیدا کی گئیں، اینجلز Friedrich) (Engels نے جو لکھا تھا کہ ہم تو اس بات کے بھی قائل ہیں، تمدن میں اس حد تک اشترا کی ہیں کہ بہن بھائی کی اور ماں بیٹے کی آپس کی شادیاں بھی جائز ہیں ہمارے نزدیک اور کوئی اخلاقی قدر ہمارے نزدیک صحیح نہیں، یہ سارے واہمے اور جہالت کی پیداوار ہیں.چنانچہ وہ منعکس حرکت یعنی انسانیت سے حیوانیت کی طرف لے جانے کی حرکت ان کی تمدنی تعلیم میں بھی جاری ہے اسی طرح.یہ وہ تمام باتیں انسانی اخلاق کو خراب کرنے والی انہوں نے کیں.اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی تعلیم تہذیب روس سے عملاً بالکل مٹ چکی ہے.نتیجہ یہ نکلا کہ اس تعلیم کے بعد بڑے فخر سے ان کی شاعروں نے گیت گائے اور ان گیتوں میں کہا کہ تم کہا کرتے تھے کہ قرآن کی تعلیم دائمی ہے اور تم کہا کرتے تھے کہ پری چہرہ عورتیں مستورات اپنے چہرے کے نقاب نہیں انہیں گی جو انہوں نے الٹ دیئے اور یہ گیت سارے روس میں گائے جانے لگے.ایک وقتی فتح روس اشتراکیت کو اسلام پر بعض ممالک میں ہو چکی ہے ابھی اور ابھی باقی ٹکر باقی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نتیجہ بالآخر فتح اسلام کی اور محمد عربی کی ہی ہوگی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ بیان فرمائی سورۃ محمد (ﷺ ) میں اللہ تعالیٰ اس کا ) ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ذلِكَ بِأَنَّ اللهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوْا وَ أَنَّ الْكَفِرِينَ لَا مَوْلى لَهُمْ (محمد : ۱۲) یہ فتح اس لئے ہوگی کہ اسلام کی بنا اس بات پر ہے کہ اس کا ایک مولیٰ ہے اس کا ایک آقا ہے جو اس کے مفادات کی حفاظت کرے گا اور جن لوگوں کا کوئی آقا نہیں ، جن لوگوں کا کوئی مولی نہیں ان کے مقابل پر موٹی والوں کو لا ز ما فتح نصیب ہوگی اور اب یہ وقت آ گیا ہے کہ اس بات کا فیصلہ کیا جائے کہ سرداری کس کی ہے؟ حقیقت ہے کہ آج مسلمان ممالک میں بھی آنحضرتی سرداری کا تاج چھین کر ماؤزے تنگ (Mao Tse-Tung)اور لینن (Vladimir Lenin)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 173 اسلام اور سوشلزم ۹۶۹۱ء اور مارکس (Karl Marx) کو پہنایا جا رہا ہے.آج ہمارے اس ملک پاکستان میں بھی مشرقی پاکستان میں یہ آوازیں بلند کی جارہی ہیں بڑے بڑے ہجوموں میں لاکھوں کی تعداد میں جلوس نکلتے ہیں اور ایک آدمی نعرہ مارتا ہے ہمار یا تمہار نیتا ماؤزے تنگ.ہمارا آقا تمہارا آقا کون ہے؟ ماؤزے تنگ.اس کے مقابل پر اسلام یہ کہتا ہے قرآن یہ کہتا ہے کہ يسَ وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ) لیس:۴۲) کہ (اے محمد) قرآن حکیم کی ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تو ہی اس دنیا کا سردار ہے اور کوئی دنیا کا سردار نہیں ہے.پس آج یہ وقت آگیا ہے کہ ہم سرداری کا فیصلہ کریں کہ محمد عربی اس دنیا کے سردار ہیں یا ماؤزے تنگ (Mao Tse-Tung) یا لینن (Vladimir Lenin) یا مارکس (Karl Marx) اس دنیا کے سردار رہیں گے؟ اس لئے مستعد ہو جاؤ اور تیار ہو جاؤ حقیقت یہ ہے کہ اب باتوں سے اس لڑائی کا فیصلہ نہیں ہو گا.بد قسمتی سے اسلام نے اگر شکست کھائی ہے اب تک تو محض اس وجہ سے کہ اسلام کے نظریہ کو اشتراکیت کی حقیقت کے سامنے پیش کیا جاتا رہا.کوئی ایک بھی ملک آج ایسا نہیں ہے جہاں اسلام ایک حقیقت کے طور پر رائج اور نافذ ہوا ہو.اس لئے ایک تصور کا ایک حقیقت کے مقابل پر شکست کھانا خواہ وہ حقیقت کتنی ہی ادنیٰ کیوں نہ ہو بالکل ایک قدرتی اور طبعی بات تھی.یہ شکست اسلام کی نہیں ہے یہ مسلمانوں کی بدقسمتی کی شکست ہے ان بدقسمت مسلمانوں کی شکست ہے جنہوں نے اسلام کو محض نظریات میں رکھ دیا اور عملی دنیا میں وہ یا اشترا کی ہوگئے یاوہ کیپٹلسٹ (Capitalist) بن گئے.اس لئے آج ہمیں چاہئے کہ اس امر پر غور کر کے اپنی کمروں کو کسیں اور مستعد ہو جائیں اور تیار ہو جائیں اور یہ اپنی زندگیوں کے ذریعے عملی طور اسلام کو اپنے اوپر نافذ کر کے یہ ثابت کریں کہ اسلام ہی بہتر تعلیم ہے.حقیقت یہ ہے کہ میں یہ سوچتا ہوں کہ جنگ بدر کے موقع پر جو ایک انصاری نے ہمیشہ ہمیش صلى الله کے لئے زندہ جاوید کلمات فرمائے تھے اور جو عہد کیا تھا آنحضر سے آج وقت ہے کہ ہم اس
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 174 اسلام اور سوشلزم ۹۶۹۱ء عہد کو دہرائیں اور ہم اپنے آقا اور اس دنیا کے سردار کو بھی اور اس دنیا کے سردار کو بھی یقین دلائیں کہ اے آقا اےمحمد محرم ! اس لڑائی میں بھی ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے ہم آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے ہم آپ کے بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن نہیں پہنچ سکتا آپ تک جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ آئے.اے جماعت احمد یہ! آج تجھ پر تجھ پر اور صرف تجھے پر ہی یہ فرض ہے کیونکہ تو ہی نے اس عہد بیعت کی تجدید کی ہے مسیح موعود کے ہاتھ پر ، اگر احمدی جماعت اس عہد کو نہ نبھا سکی، اگر احمدی جماعت نے اشتراکیت کے مقابل پر اسلام کے عملی نظام کو پیش کر کے اس کی فوقیت کو ثابت نہ کیا تو آج پھر پوری دنیا میں اسلام کی فوقیت کو ثابت کرنے والا اور کوئی نہیں.پس اٹھو اور اس عہد پر مستعد ہو جاؤ جو تم نے دوبارہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے باندھا ہے.آگے بھی لڑو اور پیچھے بھی لڑو، دائیں بھی لڑو اور بائیں بھی لڑو اور روحانی طور پر ثابت کرو کہ دنیا کے سردارمحمد عربی ﷺ ہیں اور لین اور مارکس اور دنیا کے اور کسی لیڈر کو آپ کی جوتیوں کے غلاموں کے غلاموں کے مقابلے پر بھی کوئی حیثیت حاصل نہیں.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 175 حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ء حضرت مصلح موعوددؓ کی خدمت قرآن ( بر موقع جلسه سالانه ۱۹۷۰ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد آپ نے درج ذیل آیت کی تلاوت کی : وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَام وَ الْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَتُ اللهِ إنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ) (لقمان:۲۸) حضرت مرزا بشیرالدین محمداحمد ا ا ا اا ا ال عال الصلح الموعود و عام خادم قرآن نہ تھے.آپ کی پیدائش سے بھی پہلے ملاء اعلیٰ میں اس خدمت قرآن کے چرچے شروع ہو چکے تھے جو آپ کے مقدر میں لکھی گئی تھی.اس کی بازگشت الہام کی صورت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل ہوئی اور آپ نے علی الاعلان دنیا کو بتایا کہ دیکھ خدا اپنی قدرتوں کا ایک نشان دکھانے والا ہے.مجھے وہ ایک ایسا بیٹا عطا کرے گا جو خدمت قرآن میں دنیا میں نام پیدا کرے گا اور ایسی بے نظیر خدمت کرے گا کہ دنیا گواہی دے گی کہ ہاں مسیح موعود کے فرزند کو ایک عظیم الشان خدمت کی توفیق ملی ہے.حضور کو جو الہام اس سلسلہ میں ہوا اس کا ایک حصہ میں احباب کو پڑھ کر سنا تا ہوں.حضور فرماتے ہیں : ( یہ الہامی الفاظ ہیں :.میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں.اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا.سو میں نے تیری تفتر عات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 176 حضرت مصلح موعود کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ء سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو ( جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام خوستوں کے ساتھ بھاگ جائے.“ اشتہار مشمولہ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحم: ۶۴۷) ایک طرف تو یہ پیش گوئی تھی دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو الہاما قرآن کریم کی ایسی تفاسیر سمجھائیں بلکہ قرآن کریم کی چابیاں آپ کے ہاتھ میں دیں کہ جن کے نتیجے میں آپ ہمیشہ دشمنوں کے سامنے اس سلسلہ میں ایک چیلنج بنے رہے.حضور اس الہامی تدریس اور تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: رویا میں میں نے ایک عجیب نظارہ دیکھا میں نے دیکھا کہ میرا دل ایک کٹورے کی طرح ہے جیسے مراد آبادی کٹورے ہوتے ہیں.اس کو کسی نے ٹھکورا ہے جس سے ٹن ٹن کی آواز نکل رہی ہے اور جوں جوں وہ آواز دھیمی ہوتی جاتی ہے مادے کی شکل میں منتقل ہوتی جاتی ہے.ہوتے ہوتے اس میں ایک میدان بن گیا اس میں سے مجھے ایک تصویر سی نظر آئی جو فرشتہ معلوم ہونے لگا.میں اس میدان میں کھڑا ہو گیا، اس فرشتے نے مجھے بلایا اور کہا کیا میں تم کوسورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں؟ میں نے کہا ،سکھاؤ، اس نے سکھانا شروع کی.سکھاتے سکھاتے جب اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه: ۵) پر پہنچا تو کہنے لگا تمام مفسرین میں سے کسی نے اس سے آگے کی تفسیر نہیں لکھی سارے کے سارے یہاں آکر رہ گئے ہیں لیکن میں تمہیں اگلی تغییر بھی سکھاتا ہوں چنانچہ اس نے ساری سکھائی.جب میری آنکھ کھلی تو میں نے اس بات پر غور کیا اس کا کیا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 177 حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ ء مطلب ہے کہ تمام مفسرین نے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تک کی تفسیر کی ہے آگے کسی نے نہیں کی ؟ اس کے متعلق میرے دل میں یہ تعبیر ڈالی گئی کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تک تو بندے کا کام ہے جو اس جگہ آکر ختم ہو جاتا ہے آگے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحہ: ۶) سے خدا کا کام شروع ہو جاتا ہے تو تمام مفسرین کے اس حصہ کی تفسیر نہ لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس حصہ کی تفسیر تو کر سکتا ہے جو انسانوں سے متعلق ہے اور جن کاموں کو انسان کرتا ہے ان کو بیان کر سکتا ہے مگر اس حصہ کی تفسیر کرنا اس کی طاقت سے باہر ہے جس کا ذکر خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے.“ ( رویاء و کشوف سید نا محمود صفحه ۷،۶) بہر حال حضرت اقدس مصلح موعودؓ نے خدا تعالیٰ سے ہدایت اور رشد پا کر قرآن کریم کی خدمت کا کام شروع کیا اور تمام دنیا کے سامنے آپ چینج بنے اور بڑے زور سے للکار کر بتایا کہ میں نے چونکہ خدا کی ہدایت اور خاص مدد سے قرآن کریم کی خدمت کا معجزہ پایا ہے اس لئے کوئی نہیں جو اس میں میرا مقابلہ کر سکے.آپ فرماتے ہیں: قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی کسی اور کتاب کو حاصل نہیں.اور اگر کسی کا یہ دعوی ہو کہ اس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو میں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے.اگر کوئی وید کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے.اگر کوئی تو ریت کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے، اگر کوئی انجیل کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اور قرآن کریم کا کوئی ایسا استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو میں بھی استعارہ سمجھوں پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی نہ پیش کروں تو وہ بے شک مجھے اس دعوی میں جھوٹا سمجھے لیکن اگر پیش کر دوں تو اسے ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں قرآن کریم کے - 66 سواد نیا کی اور کوئی کتاب اس خصوصیت کی حامل نہیں.“ ( سوانح فضل عمر جلد ۳ صفحه: ۱۵۱)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 178 حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ء یہ تو حضور کا اپنا دعوئی تھا.دشمن نے اس دعوے کو کس حد تک قبول کیا اس سلسلہ میں مولا نا ظفر علی خان صاحب کا ایک حوالہ احباب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.احباب جانتے ہیں کہ وہ تمام عمر بد قسمتی سے احمدیت کے مخالف رہے اور ایڑی چوٹی کا زور احمدیت کی مخالفت میں صرف کیا لیکن ہر کوشش کے بعد جب ناکامی کا منہ دیکھا تو نفس میں غور کیا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ ایک موقع پر ان کے منہ سے یہ سچائی کا کلمہ نکلا.اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں: کان کھول کر سن لو ! تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے.مرزا محمود کے پاس قرآن ہے اور قرآن کا علم ہے تمہارے پاس کیا دھرا ہے؟“ ایک خوفناک سازش از مولانا مظہر علی اظہر صفحه: ۱۹۶) حضرت لمصلح الموعود نے قرآن کی خدمت جس رنگ میں کی ہے اس کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی روشنی تو ڈالی جانہیں سکتی مختصر میں بعض پہلو آپ کے سامنے بیان کر کے پھر تفسیر والے حصہ کو نسبتا زیادہ تفصیل سے لوں گا.پہلی بات یہ ہے کہ آپ کا اٹھنا بیٹھنا، بولنا سکوت تمام کا تمام قرآن کریم ہی سے پھوٹتا تھا.آپ کی فکر و نظر کا منبع قرآن تھا.آپ گفتگو فرماتے تھے تو قرآن کی تفسیر ہوتی تھی ، تقریر فرماتے تھے تو قرآن کی تفسیر ہوتی تھی تحریر فرماتے تھے تو قرآن کی تفسیر ہوتی تھی اور اس پہلو سے آپ جتنی بھی حضور کی کتب کا مطالعہ کریں گے ایک بھی کتاب ایسی نظر نہیں آئے گی جس کا مضمون قرآن کریم سے نہ پھوٹتا ہو.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی یادیں آپ سب کے دلوں میں یا کم سے کم پرانی نسل کے دلوں میں اور ذہنوں میں محفوظ ہوں گی.گھنٹوں حضور کا تقریر کرنا، وہ سوز و گداز جس سے آپ تلاوت فرمایا کرتے تھے، وہ عشق قرآن جو آپ کے چہرے پر اس طرح چھا جاتا تھا کہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے چہرہ غائب ہو گیا ہے اور قرآن کا عشق باقی رہ گیا ہے.گھنٹوں مدہوش ہو کر ، مست ہو کر ہمارا ان تقریروں کوسننا.بسا اوقات رات آجایا کرتی تھی، قمقمے روشن ہو جاتے تھے، بیٹھے بیٹھے سامعین تھکتے نہیں تھے ہاں یہ تمنا کیا کرتے تھے کہ کاش یہ سلسلہ محبت و عشق جاری رہے، جاری رہے.رات آئے اور صبح میں تبدیل ہو جائے، صبح آئے اور رات میں تبدیل ہو جائے لیکن کوئی ایک دل اس آواز کو سنتے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت ہو.179 دئے تھکتا نہیں تھا کیونکہ قرآن کریم کی محبت میں سراپا ڈوبی ہوئی تھی.حضرت مصلح موعود کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ ء یہ تاثر صرف حضور کے غلاموں کا نہیں ہے.وہ لوگ جنہوں نے مخالفتیں بھی کیں ان کا بھی یہی تاثر ہے.وہ لوگ جو دنیا میں بڑے عالم اور فاضل کہلائے اور مشرق میں انہوں نے ایک بڑا نام پیدا کیا ان کا بھی یہی تاثر ہے.چنانچہ ایک موقع پر لاہور میں علامہ اقبال کو حضور کے ایک جلسے کی صدارت نصیب ہوئی تو اسکے صدارتی کلمات کہتے ہوئے آپ نے فرمایا: ایسی پر از معلومات تقریر بہت عرصے کے بعد لاہور میں سننے میں آئی ہے اور خاص کر جو قرآن شریف کی آیات سے مرزا صاحب نے استنباط کیا ہے وہ تو نہایت عمدہ ہے.میں اپنی تقریر کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھ سکتا.تا مجھے اس تقریر سے جو لذت حاصل ہو رہی ہے وہ زائل نہ ہو جائے اس لئے میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں.“ (الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۲۷ء) حضور نے قرآن کریم کی خدمت کے لئے جو سلسلہ جاری فرمایاوہ ایک نہایت ہی عمدہ ذہن کا سوچا ہوا ایک منصوبہ تھا جو ہر پہلو سے خدمتِ قرآن کے لئے مکمل منصوبہ تھا اس میں کوئی بھی سقم ہم نہیں دیکھتے.خالی تفسیر لکھ دینا اور پھر اسے شائع کر دینا یہ اپنی ذات میں کافی نہیں ہے.حاملِ قرآن علماء کی تیاری ضروری ہے، اس نظام کی ضرورت ہے جو اس قرآن کو تمام دنیا میں کونے کونے تک پہنچائے.ان ربانی علماء کی ضرورت ہے جو اپنی زندگیوں سے یہ ثابت کریں کہ قرآن ایک زندہ کتاب ہے محض علمی لحاظ سے آج دنیا فتح نہیں ہو سکتی اس پہلو سے علم کے پہلو سے بھی اور عمل کے پہلو سے بھی اور پھر اس سلسلہ (احمدیہ ) میں وہ قربانی کی روح پیدا کرنے کے لحاظ سے بھی جس کے نتیجے میں سلسلہ قرآن کی خدمت کے لئے بحیثیت مجموعی تیار ہو آپ نے عظیم الشان خدمت کی ہے.جہاں تک علماء کی تیاری کا تعلق ہے آپ سب جانتے ہیں جامعہ احمدیہ میں حضور نے غیر معمولی توجہ کے ساتھ خدمت قرآن کا سلسلہ شروع کیا.علماء تیار کئے، ایسے علماء تیار کئے جن کی دنیا کے علوم پر بھی نظر تھی.واقفین کو بلایا اس لئے کہ وہ اپنی دنیا کے علم لے کر ابراہیمی پرندہ بننے کے لئے مرکز میں حاضر ہو جائیں اور یہاں پھر سے دین کی تربیت لے کر تمام دنیا میں اسلام کے اور قرآن کے خادم کے طور پر نکلیں.اس لحاظ سے آپ نے عملی قربانی بھی دی اور جماعت کو بار بار فرمایا کہ دیکھو خدا کے حضور
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 180 حضرت مصلح موعود کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ء پیش کرنے کے لئے بہترین چیز چاہئے.یہ نہ کیا کرو کہ اپنے کمزور بچے، ذہنی لحاظ سے کمزور یا دنیاوی لحاظ سے جسمانی لحاظ سے کمزور ہوں وہ خدمت کے لئے پیش کیا کرو اور آج جو قربانی کرے گا اس راہ میں اس کے لئے ہمیشہ ہمیش کا ایک نہ مٹنے والا فخر ہوگا.چنانچہ مثال کے طور پر حضور کے تیرہ لڑکے تھے تیرہ کے تیرہ حضور نے وقف کر دیئے.میں جب گورنمنٹ کالج سے فارغ ہو کر یہاں آیا تو حضور نے مجھے بلا ک خود فرمایا کہ دیکھو میں نے تو تم لوگوں کو دین کی خدمت کے لئے ہی پیدا کیا ہے اور اسی لحاظ سے میں تمہیں آئندہ دیکھنا چاہتا ہوں اور میں تمہیں جامعہ احمدیہ میں داخل کروانا چاہتا ہوں، پھر مولوی فاضل کی تعلیم بھی دلواؤں گا تا کہ دین کی خدمت کے قابل بن سکو ، دنیا کی تعلیم تو کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور یہ بات حضور نے اپنے سب بچوں سے کہی کسی ایک کو منتقی نہیں کیا.تو جو کچھ آپ کو عطا ہوا وہ ہوا بھی خدمت قرآن کے لئے تھا اور کم سے کم آپ نے انتہائی اخلاص کے ساتھ وہ سب کچھ پیش کر دیا.اگر ہم اپنی بدقسمی سے اس قابل نہ ہو سکیں تو یہ ہمارا قصور ہے لیکن مصلح موعودؓ نے خدمت کا حق جہاں تک ممکن تھا وہ ادا کیا اور ساری زندگی ادا کرتے رہے.دنیاوی علوم کے ماہرین کو پکڑ کر جب آپ نے خدمت قرآن پر مسخر کیا تو اس کے لئے بے شمار اخراجات کی ضرورت تھی ، دنیا میں ایک عظیم الشان نظام قائم کرنے کی ضرورت تھی، لائبریریوں کی ضرورت تھی.چنانچہ ان تمام امور کی طرف آپ نے توجہ کی اور اپنی تقاریر کے ذریعے اس بے پناہ جذبہ خلوص کے ذریعے جو آپ کے دل میں موجزن تھا آپ نے جماعت کے دلوں کو بھی پگھلایا اور خدمت قرآن کے لئے تیار کیا.بے شمار قربانیاں دیں اس سلسلہ (احمدیہ ) نے اس راہ میں.اپنے بچوں کو اپنے خرچوں پر تعلیم دی.بے شمار ایسی مثالیں ہیں ،غریب خاندانوں نے جن کے لئے دنیا میں بظاہر وہی سہارا تھا.سب دنیا کی لالچیں ترک کر دیں ، ٹھوکر میں ماریں ان کے منہ پے اور اپنے پر وردہ بچوں کو حضور کی خدمت میں دین کی خدمت کے لئے پیش کرتے رہے.پھر مالی قربانی میں ایسی مثال قائم کی کہ دنیا کے پردے پر ایسی کوئی مثال نظر نہیں آتی مسلسل ان تھک مالی قربانی ، ہر آواز پر لبیک کہا، اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج دنیا کے کونے کونے میں یہ قرآن کے خادمان پہنچ چکے ہیں.صرف چند نام میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جن میں مشن قائم ہیں.انگلینڈ، ہالینڈ ، مغربی جرمنی ، سوئٹزرلینڈ ، ڈنمارک، سپین، امریکہ ،ٹرینیڈاڈ.یہ وہ جگہیں ہیں جن میں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 181 حضرت مصلح موعود کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ء ایک سے زیادہ مشن بھی ہیں اس لئے میں صرف ملکوں کے نام پڑھ رہا ہوں.کینیڈا ،ساؤتھ امریکہ، جاپان، ملائیشیا، نبی ،انڈونیشیا، سنگا پور ، شام، غانا، کینیا، کیپ ٹاؤن، تنزانیہ، یوگنڈا، برما، سیرالیون، نائیجیریا، آئیوری کوسٹ، لائبیریا، گیمبیا، ماریش، سیلون، اردن ،سویڈن اور ہندوستان اور پاکستان اس کے علاوہ ہیں.تو یہ سارا نظام محض خدمت قرآن کے لئے کیا گیا.اگر یہ مجاہدین وہاں نہ پہنچتے اور دلوں کو قرآن کی خدمت کے لئے آمادہ نہ کرتے تو وہ سفید پرندے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے پکڑے تھے آنحضرت ﷺ کے قدموں میں حاضر کرنے کے لئے، یہ نظارہ دنیا نہیں دیکھ سکتی تھی اور محض کتابوں کے ذریعے اور نیک مثال کے بغیر کوئی پاکیزہ تبدیلی نہیں ہوسکتی تھی.اس کے علاوہ حضور نے تراجم قرآن کا کام شروع کروایا.بے شمار دنیا میں زبانیں ہیں جو ترجمہ کی محتاج تھیں اور بے شمار قومیں ہیں جن کو جب تک آپ ترجمہ کر کے قرآن پیش نہ کرتے ان کی کچھ سمجھ میں نہیں آسکتا تھا.چنانچہ جرمنی میں ، ڈچ میں ، ڈینش میں ، سواحیلی میں ، یوگنڈی میں، مینڈی میں فرانسیسی زبان میں، ہسپانوی زبان میں ، اٹالین زبان میں، روسی زبان میں ، پرتگیزی زبان میں کوکو یو زبان میں کو کمبا زبان میں اور انڈونیشین زبان میں یہ تراجم ہو چکے ہیں.آج ان تراجم کے زندہ گواہ کے طور پر ہمارے اندر اٹلی کے ایک نومسلم دوست یہاں تشریف فرما ہیں.آپ کو پہلے تو حضور کا پیغام پہنچا خدام کے ذریعے اور آپ نے اسلام کو قبول فرمایا اس کے بعد پھر ایسی محبت قرآن کی دل میں پیدا ہوئی کہ اس بڑی عمر میں جب کہ آپ کا بینکنگ کا کام ہے، ایک پورا Whole Time Job ہے، اس کام میں مصروفیت بھی بے انتہا ہے باوجود اس کے عربی زبان سیکھی ، قرآن کریم پڑھا، بڑی توجہ کے ساتھ ، اس کا ترجمہ آپ نے دنیا کی جو تمام دنیا کی بین الاقوامی زبان ہے اسپرانٹو ، اس میں کیا اور وہ شائع ہو چکا ہے اور قرآن کے ترجمہ سے پہلے جو محبت قرآن کی حضور کے خدام کے ذریعے آپ کے دل میں پیدا ہوئی اور قرآن کے ترجمہ کے بعد جو پاک تبدیلی آپ کے دل میں پیدا ہوئی اس کا ایک چھوٹا سا نظارہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ ابھی حال ہی میں آپ قادیان کی زیارت کر کے آئے ہیں اور وہ ظاہری طور پر ایک معمولی چھوٹا سا قصبہ ہے ، گلیاں ہیں اب تو وہاں احمدی چونکہ کم ہیں مرکزی حصہ میں ہیں ، غیر مسلم بڑی کثرت سے ہیں.اس کے باوجود قادیان کے تقدس کا ایسا گہرا دل پر اثر لے کر آئے اور وہاں سے جو حضرت مسیح
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 182 حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ء موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یادیں وابستہ تھیں اور خدمت قرآن کی یادیں وابستہ تھیں انہوں نے ایسا آپ کے دل پر گہرا اثر کیا کہ مجھے کئی دوستوں نے بتایا کہ ان سے جب ہم نے پوچھا قادیان میں آپ نے کیا دیکھا تو شدت جذبات سے آواز گلو گیر ہوگئی ،آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے اور بتانہیں سکتے تھے کہ میں نے قادیان میں کیا دیکھا؟ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس عظیم الشان فرزند کا ایک عظیم کارنامہ ہے کہ تراجم قرآن کا نظام بنایا اور پھر ان ترجموں نے دلوں کو موہا اور تر جموں کی کیفیت یہ تھی، اتنی احتیاط سے یہ ترجمے کئے گئے کہ وہ جامعہ از ہر جو کسی زمانے میں یہ فتویٰ دیا کرتا تھا کہ قرآن کا ترجمہ ہی حرام ہے کیونکہ اچھا ترجمہ ہو نہیں سکتا.اسی جامعہ از ہر کے ایک عالم کی یہ گواہی ہے، مجلتہ الازہر میں یہ شائع ہوئی ہے، جرمن ترجمہ قرآن کے متعلق: ” میں نے مختلف مقامات اور مختلف سورتوں کی بہت سی آیات کا ترجمہ بنظر غائر دیکھا ہے.اس ترجمے کو میں نے قرآن مجید کے جملہ تراجم سے جو اس وقت منصہ شہود پر آچکے ہیں بہترین پایا ہے.اس ترجمے کا اسلوب علمی احتیاط سے لیا ہوا ہے اور باریک بینی کو مدنظر رکھا گیا ہے اور معانی قرآن کی ادائیگی میں انتہائی علمی قابلیت کا اظہار کیا گیا ہے تا کہ عربی میں نازل شدہ قرآنی آیات کی کماحقہ ترجمانی ہو سکے.“ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر قرآن کا موضوع جس پر میں زیادہ تر اس وقت آپ سے مخاطب ہوں گا، بہت ہی وسیع مضمون ہے.سب سے پہلی بات جو آپ کی تفاسیر کو پڑھنے کے بعد انسان پر ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ وہ علموں کا ایک جہان ہے اور نہ ختم ہونے والا جہان ہے یہ بڑا ہی سچا دعویٰ ہے.کوئی دنیا کا علم ایسا نہیں ہے خواہ قدیم ہو خواہ جدید جس کا ذکر آپ کی تفاسیر میں نہیں ملتا.قرآن کریم کی صداقت پر یا تو وہ علم گواہ کے طور پر اور خادم کے طور پر ہمیں آپ کی تفاسیر میں نظر آتا ہے یا اگر وہ جھوٹا ہے تو قرآن کریم اس علم کا رد کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور ایسے دلائل اور قوی دلائل کے ساتھ کہ کوئی دنیا میں ان دلائل کو تو ڑ نہیں سکتا.محض محبت اور جذبات کی باتیں نہیں ہیں بلکہ جیسا کے آگے بیان ہو گا حضور بارہا چیلنج کرتے رہے کہ قرآن کے ذریعے تمام جھوٹے علوم کا منہ کالا میں کر کے دکھا تا ہوں اور تمام بچے علوم کو میں قرآن کے خادم
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 183 حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ء اور گواہ کے طور پر پیش کرتا ہوں اور اس دعوے کو آپ نے عملاً مثالوں کے ذریعے بکثرت ثابت فرمایا.تفسیر پر آپ نے دس ہزار ( ۱۰۰۰۰) صفحات لکھے ہیں اور ان دس ہزار صفحات میں تمام دنیا کی قدیم کی ، جدید کی ، علوم کی ، تاریخ کی تمام علوم کی سیر کرائی ہوئی ہے اور قرآنی حدود کے اندر رہتے ہوئے.چھوٹی سی کتاب ہے قرآن کریم لیکن اس میں ایک جہان کو سمو کر دکھا دیا ہے.اللہ تعالیٰ کی یہ قدیم سے سنت چلی آئی ہے کہ وہ اپنے جہانوں کو وسعتیں دیتا چلا جاتا ہے کولمبس Christopher Columbus) کو بھی اس نے ایک نئی دنیا عطا کی تھی گلیلیو Galilid) کے لئے بھی اس نے اپنی کائنات کی وسعتیں کھولی تھیں اور آج تو اس گلیکسی Galaxi) کا سوال نہیں نئی نئی گلیکسیاں (Galaxies)، نئے نئے گھر مٹ ستاروں کے انسان پر روشن ہوتے چلے جارہے ہیں لیکن خدا گواہ ہے کہ جو قرآن کے جہان حضرت مصلح موعودؓ کو اُس نے عطا کئے ان کی کوئی مثال نہیں.عظیم الشان جھرمٹ ہیں یہ ستاروں کے، آپ ان کو پڑھ کر دیکھیں ایک حیرت انگریز سیر ہے.اس سیر کی بعض یا دیں آپ کے ذہن میں بھی موجود ہوں گی سیر روحانی کی صورت میں.وہ تسلسل تقریر کا جس میں قرآنی علوم کی رو سے آپ نے تاریخ کی سیر کروائی تھی.ایسی بے شمار دولتیں ہیں ، بے شمار جہان وہاں مہیا ہیں.اس تفسیر کو پڑھ کے جو پہلا نمایاں تاثر دل پر قائم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے جب اس آیت میں یہ دعوی فرمایا تو بالکل سچا فرمایا تھا کہ وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَهَا بِأَيْدِوَ إِنَّا لَمُوسِعُونَ (الذاريات: ۸۴) کہ یہ جو آسمان تمہیں نظر آتے ہیں، دنیا کا ہو یا دین کا ہو ، یہ ہم نے خاص قدرت سے پیدا کئے ہیں اور غیر معمولی صفات عطا کر کے پیدا کئے ہیں.ہم اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ ان کو اب ہمیشہ وسعتیں دیتے چلے جائیں.دنیاوی لحاظ سے بھی ایسے بندے میرے پیدا ہوں گے جو کائنات کو وسعت دیتے چلے جائیں گے اور روحانی لحاظ سے بھی ایسے بندے پیدا ہوں گے جو اس میری روحانی کائنات کو وسعت دیتے چلے جائیں گے.چنانچہ تفسیر کبیر پڑھ کر روحانی کائنات کی وسعتوں کا نظارہ حضرت مصلح موعودؓ ہمیں کرواتے ہیں.پھر ایک اور پہلو خصوصیت کے ساتھ یہ سامنے آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے قرآن کریم کی تحقیق کے بعد ، نظر فرمانے کے بعد، خدا تعالیٰ سے ہدایت اور رشد پانے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 184 حضرت مصلح موعود کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ ء کے بعد جو تفاسیر لکھیں ان میں تفسیر کے علاوہ بے شمار ایسے اشارے پائے جاتے ہیں جن میں حضور کو آگے بڑھ کر پیروی کا وقت نہیں ملا.اگر قرآن کے معانی کو اور لطائف کو روحانی پرندوں سے تشبیہ دیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تفسیر کے ایک ایک صفحہ پر با رہا اشارے کرتے ہیں کہ وہ بھی ایک روحانی پرندہ ہے، وہ بھی ایک روحانی پرندہ ہے، وہ بھی ایک روحانی پرندہ ہے.حضرت مصلح موعودؓ کی تفسیر پڑھنے کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے جس طرح باز اپنے آقا کے اشارے پر ان پرندوں کی پیروی کیلئے جھپٹتا ہے اس طرح مصلح موعودؓ نے ہر اشارے کی پیروی کی اور اس روحانی پرندے کو ہمارے لئے ، ہماری دنیا کے مائدے کے لئے ، دنیا کے دستر خوان کے لئے لا حاضر کیا.آج جو ساری دنیا اس دستر خوان سے کھانا کھا رہی ہے، قرآن کریم کے رزق سے لطف اٹھا رہی ہے یہ وہ اشارے ہیں جن کے پس منظر میں وہ اشارے ہیں اور کہا کہ نہ صرف یہ کہ ہر آیت کا دوسری آیت سے تعلق ہے بلکہ ہر سورۃ کا اپنی آئندہ آنے والی سورۃ کے ساتھ تعلق ہے.ایک سورۃ کا آخر دوسری سورۃ کے شروع سے تعلق رکھتا ہے پھر وہ مضمون چلتا چلا جاتا ہے پھر اس سورۃ کے ختم ہونے کے بعد اس کا اگلی سورۃ سے تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور تفسیر کبیر میں اس کو عقلی دلائل کے ساتھ ، واضح دلائل کے ساتھ ثابت فرمایا ہے.مثال کے طور پر سورہ یونس کے متعلق حضور فرماتے ہیں کہ سورہ یونس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ساتھ سلوک کے دو پہلو بیان فرمائے تھے ایک سزا کا دوسر ارحم کا.سزا کے پہلو کوسورۂ ہود میں تفصیل سے بیان کیا.( تعارف سورۃ یوسف تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ : ۲۷۳) یہ وہ سورۃ ہے جس کے متعلق آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ منکرین کے لئے اتنی سزا کی باتیں اس میں بیان کی گئی ہیں ، وعید دیئے گئے ہیں کہ اس غم سے کہ منکرین ہلاک ہو جائیں گے میرے بال سفید ہو گئے ہیں.اتنا گہراغم کا اثر اس سورۃ نے آپ پر چھوڑا.اس کے بعد جو سورۃ آتی ہے وہ سورۃ یونس کے دوسرے پہلو یعنی تبشیر کے پہلو کا ذکر کرتی ہے اور اس عظیم الشان رحمت کا ذکر کرتی ہے جو حضور اکرمﷺ کے دل سے جس کا چشمہ پھوٹا تھا اور جس نے دشمنان کو معاف کر دینا تھا.چنانچہ فرمایا سورہ یوسف میں رحم کے پہلو کی تفصیل ہے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے آخر کار اپنے مخالفوں کو رحم سے کام لیتے ہوئے معاف
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 185 حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ء کر دیا تھا.( تعارف سورۃ یوسف تفسیر کبیر جلد ۳ صفحه ۷۳) دیکھیں کتنا عظیم الشان ایک تعلق اور ربط حضور ثابت فرماتے ہیں.یہ سلسلہ بڑا تفصیلی ہے ہر سورۃ کے مضامین کا ایک دوسرے سے تعلق ثابت ہوتا چلا جاتا ہے.ایک عام خصوصیت اور قابل ذکر یہ ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے انبیاء کی عصمت کے لئے ایک عظیم الشان کارنامہ سرا انجام دیا ہے.قرآن کریم کی پہلی تفسیروں میں بھی اور اس سے بہت زیادہ بائبل کے مفسرین کی طرف سے اور دشمنانِ اسلام کی طرف سے یا خود یہود علماء اور عیسائی علماء کی طرف سے اپنے اور غیر نبیوں پر اتنا گند اچھالا گیا تھا کہ نبی تو نبی بعض انبیاء ایک عام شریف انسان کے طور پر بھی دنیا کے سامنے پیش نہیں کئے جاسکتے اور آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی کر رہے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے ایسے زور کے ساتھ ان کی عصمت کی حفاظت کی ہے قرآن کریم سے ثابت کرتے ہوئے کہ عش عش کر اٹھتا ہے انسان.وہ آیتیں جو کسی پر حل نہ ہوئی تھیں ، وہ عقدے جو کسی سے کھل نہ سکے تھے ، وہ آیتیں حضور نے حل فرما ئیں اور وہ عقدے کھولے.چنانچہ یہ میں اپنے الفاظ میں نہیں کہتا، میں ایک غیر احمدی دوست کے تاثرات کی صورت میں آپ کے سامنے یہ بات بیان کرتا ہوں.ملاحظات نیاز میں علامہ نیاز فتح پوری کے مضامین شائع ہوئے ہیں جو مشہور شخصیت ہیں.آپ فرماتے ہیں: تفسیر کبیر جلد سوم آج کل میرے سامنے ہے اور میں اسے بڑی نگاہ غائر سے دیکھ رہا ہوں.اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے.آپ کی تجر علمی، آپ کی وسعتِ نظر ، آپ کی غیر معمولی فکر و فراست ، آپ کے حسن استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ میں کیوں اس وقت تک بے خبر رہا؟ کاش کہ میں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا.کل سورۃ ہود کی تفسیر میں حضرت لوط پر آپ کے خیالات معلوم کر کے جی بھڑک گیا اور بے اختیار یہ خط لکھنے پر مجبور ہو گیا.آپ نے هَؤُلاء بَنَاتِی (حود : ۹۷) کی تفسیر
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 186 حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ء کرتے ہوئے عام مفسرین سے جدا بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے اس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں ہے.خدا آپ کو تا دیر سلامت رکھے.“ 66 الفضل ۷ ار نومبر ۱۹۵۳ء) خدا آپ کو تا دیر سلامت رکھے گا اور میں یقین دلاتا ہوں اور آپ بھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ آپ کبھی نہیں مریں گے قرآن کی جو خدمت آپ نے کی ہے جو تفاسیر ہمیشہ ہمیش کی زندگی لئے ہوئے آج ہمارے سامنے ہیں اور آتی رہنے والی دنیا کے سامنے بھی آتی چلی جائیں گی وہ آپ کو ہمیشہ زندہ و جاوید رکھیں گی.یہ دعا قبول ہو چکی اور ہمیشہ قبول ہوتی رہے گی.آپ کی تفاسیر میں جو میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا اِنَّا لَمُوسِعُونَ (الذاریات ۸۴) کی صفت ایسی شان سے ظاہر ہوتی ہے کہ چھوٹی چھوٹی آیات اور ان پر نظر ڈال کے آپ ان کے مختلف بطون دیکھتے ہیں.اس لفظ کے یہ معنی ہیں، اس کے یہ معنی ہیں، اس کے یہ معنی ہیں، ایک پہلو سے اور ان معنوں کے لحاظ سے یہ مضمون چلتا ہے.دوسرے معنی ان الفاظ کے یہ ہیں اور ان کے لحاظ سے یہ مضمون چلتا ہے.وہ سورۃ کھلتی چلی جاتی ہے یوں معلوم ہوتا ہے جس طرح سات دروازے ہیں الگ الگ جن میں سے آپ داخل ہو کر ہر سورۃ کا ایک نیا جہان دیکھتے ہیں.ارَعَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ (الماعون : ۲) سورہ ماعون کی آپ نے تفسیر فرمائی.اس میں دین کے تیرہ معانی پیش کئے لغت سے اور یہ تفسیر میرا خیال ہے کہ قریباً (۷۳) تہتر بڑے صفحات پر مشتمل ہے.اسی طرح سورۃ کوثر کی تین آیات ہیں لیکن تقریباً ایک سو تہتر (۱۷۳) صفحات کی یہ تفسیر ہے ان تین آیات کی : إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ (الكوثر :٢-٤) مشتمل ہے.ان تین آیات کی تفسیر بڑی تقطیع کی کتاب پر ایک سو تہتر (۱۷۳) صفحات پر مش تو یہ ایک مثال ہے کہ کس طرح آپ نے قرآن کے جہان کو کھولا اور عظیم وسعتوں کے ساتھ ہمیں روشناس کروایا.پھر ایک اور صفت حضور کی تفسیر کی یہ ہے کہ آپ نے قرآن کے معاملہ میں بڑی غیرت کا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 187 حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ ء ثبوت دیا ہے.قرآن کریم کو دیگر کتب مقدسہ خصوصاً بائبل کے مقابل پر آپ نے اتنی نمایاں فضیلت کے ساتھ پیش کیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کوئی موازنہ ہی باقی نظر نہیں آتا.قرآن کریم کی فضیلت کے رنگ میں آپ نے شوکتِ کلام اور فصاحت اور بلاغت کے نقطہ نگاہ سے بھی فضیلت ثابت فرمائی.تاریخی نقطہ نگاہ سے بھی بائبل کی اغلاط بتا ئیں اور قرآن کریم کے ہر تاریخی بیان کی صحت کو ثابت فرمایا.پھر عقلی نقطۂ نگاہ سے بائبل کے تضاد دکھائے اور قرآن کریم کے متعلق جو تضاد کے دعوے تھے ان کو غلط ثابت فرمایا.فطری نقطہ نگاہ سے آپ نے بائبل کی تعلیم کو موجودہ دنیا کے لحاظ سے غیر فطری قرار دیا اور قرآن کریم کی تعلیم کا فطری ہونا ثابت فرمایا.قانونِ قدرت کے راز دان ہونے کے لحاظ سے آپ نے بتایا کہ بائبل تو بے شمار ایسی باتوں سے ،غلطیوں سے بھری پڑی ہے جن کو خدا کی طرف منسوب ہی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ کائنات قدرت کی ایک غلط تشریح پیش کرتی ہے لیکن قرآن ہر بات پر گہری نظر رکھتا ہے اور اسی خدا کا کلام ہے جس خدا نے قانون قدرت کو پیدا فرمایا.یہاں یہ غلط نہی نہیں ہونی چاہئے کہ بائبل بھی تو خدا کا کلام تھا اس لئے بائبل میں غلطیاں کیسے آگئیں؟ حضور نے ثابت فرمایا کہ بائبل خدا کا کلام تھا ضرور لیکن انسانی دست برد سے محفوظ نہیں رہا اور پھر اس شان کا کلام نہیں تھا جس شان سے کا یہ نبی تھا جس پر یہ قرآن اتارا گیا.موسی جس شان کا نبی تھا اس کے مقابل پر محم عرب بہت ہی عجیب اور بلند تر مقام رکھتے تھے.کوئی نسبت ہی نہیں تھی آپ دونوں کے درمیان.وہی نسبت، وہی موازنہ ہمیں آپ کے اور آپ کے کلام میں بھی نظر آتا ہے.مثال کے طور پر میں چند سائنسی انکشافات آپ کو بتاتا ہوں جو حضور نے قرآن کریم سے مثال کے طور پر دنیا کے سامنے پیش فرمائے ہر چیز کا نرومادہ ہونا، زمین کا گول اور متحرک ہونا، اجرام فلکی میں دوری حرکت کی صحیح تصویر، اعمال انسانی کے مکمل ریکارڈ رکھے جانے کا حیرت انگیز نظام، رنگوں کے خواص، سورج کی روشنی کا ذاتی اور چاند کی روشنی کا انعکاسی ہونا، زمین و آسمان کی تخلیق کا مختلف ادوار میں ہونا مختلف اجرام شمسی کے مابین جو کشش ثقل کے غیر مرئی ستون نظر آتے ہیں ان کا ذکر قرآن کریم میں، زمین کے علاوہ دیگر سیاروں میں زندگی کے پائے جانے کے امکانات اور یہ خبر کہ ایک دن دنیا کی زندگی غیر دنیا وی سیاروں کی زندگی کے ساتھ مل بھی جائے گی.یہ تمام انکشافات اور ان کے علاوہ بہت سے ، یہ چند مثالاً میں آپ کے سامنے پڑھ کے سنا رہا ہوں.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 188 حضرت مصلح موعود کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ء پھر حضور نے قرآن کریم پر غیر مذاہب کے اعتراضات کا جواب بڑی شان سے دیا ہے.اس زور اور قوت کے ساتھ کہ یہ عظیم الشان جہاد ہے آپ اگر تفسیر کبیر صرف یہ جہاد کے لحاظ سے ہی پڑھیں تو تب بھی جو آپ کے وقت کی قیمت ہے اس سے بہت زیادہ آپ کو ملے گا.سیر و تفریح پر، تماشوں پر، کھیل دیکھنے پر، کبڈی کے میچ پر، کرکٹ کے میچ پر آپ کتنا خرچ کرتے ہیں ، کتنا وقت دیتے ہیں لیکن خدا گواہ ہے کہ اس سے زیادہ شاندار لڑائی کا لطف آپ کو نظر نہیں آئے گا جیسا تفسیر کبیر میں اسلام کی طرف سے اس مجاہد اعظم نے دنیا کے سامنے پیش کر کے دکھائی ہے.ہر غیر مذہب کے پہلوان کو لتاڑا ہے.اس شان کے ساتھ لتاڑا ہے کہ پیٹتا ہوا ، مرتا ہوا آپ کو آنکھوں کے سامنے دکھائی دے گا اور پھر صرف مذاہب کے پہلوان کو نہیں وہ لوگ جو نئے فلسفے کو لے کر اٹھے تھے، نئے نئے علوم لے کر قرآن پر حملے کر رہے تھے جن کو گھل مل ہوئی تھی ، بڑے بڑے اونچے نام تھے نفسیات میں ایک فرائیڈ کہلاتا تھا ، مستشرقین میں ریورنڈو ھیری تھے، نو لڈ کے تھیوڈور ، جمیز روڈویل تھے ، ولیم میور تھے، آرنلڈ تھے بڑے بڑے نام انہوں نے پیدا کئے اور قرآن پر حملے کر کے اپنی دانست میں انہوں نے کمال کر دکھایا.ایک ایک عالم کی پیروی کی آپ نے اور اس کی جہالت کو ثابت کر کے دکھا یا قرآن کے مقابل پر.اس کی لاعلمی کو، اس کی کم مائیگی کو.یوں معلوم ہوتا ہے جس طرح کوئی چوہے کا بچہ کسی ایسے بچے کو بظاہر تنگ کر رہا ہو جس کا محافظ کوئی نظر نہ آرہا ہو پھر اس کی ماں آجائے اور پاؤں تلے روند دے اس کو.کوئی مقابلے کی طاقت نظر نہیں آتی ہے حضرت خلیفتہ لمسیح الثانی کے مقابل پر اور ساری طاقت قرآن سے حاصل کی آپ نے ، ایک چیز بھی اپنی طرف سے نہیں کہی ، یہ ہے اصل لطف کی بات.قرآن میں وہ ہتھیار موجود تھے صرف چلانے والا کوئی نہیں تھا.بدقسمتی کے ساتھ مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں آنکھیں بند کر کے لوگ پڑے ہوئے تھے چپ چاپ.پھر نئے نظام جو دنیا میں ظاہر ہورہے تھے ایک نظام تو کیپٹلزم (Capitalism ) کا نظام ظاہر ہو چکا ہے دیر سے اور ایک نیا نظام اشتراکیت کا ظاہر ہورہا تھا ان دونوں کا رد آپ نے قرآن کریم سے کر کے دکھایا اور پھر روہی نہیں کیا بلکہ اس سے بہتر تعلیم سامنے لا کر دکھائی.وہ شعر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یاد آ جاتا ہے کہ:
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 189 حضرت مصلح موعود کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ ء پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں پھر جو سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلا ( براھین احمدیہ حصہ سوم صفحه: ۳۰۵) قرآن صرف مارنے کی طاقت نہیں رکھتا ، غلط کو مارتا ہے اور صحیح کو زندہ کرتا ہے اور تفسیر کبیر میں یہ نظارہ آپ دیکھ سکتے ہیں کس طرح موتیں ہوتی ہیں غلط آدمیوں کی اور کس طرح صحیح لوگ زندہ کئے جاتے ہیں.کس طرح غلط نظام مارے جاتے ہیں اور کس طرح صحیح نظام دنیا میں زندہ کر کے پیش کئے جاتے ہیں.یہ تفسیر کبیر میں بھی ملتا ہے اور بے شمار کتب حضور کی.وقت نہیں ہے اس وقت تفصیل کا نام پڑھنے کا بھی وقت نہیں رہا اس وقت.قرآن کریم کو زندہ کتاب کے طور پر پیش کرنے کے سلسلے میں آپ نے کئی پہلو اختیار کئے ایک خلاصہ میں آپ کے سامنے پڑھ کے سناتا ہوں آپ نے فرمایا کہ اس زمانے کی تمام خبریں اس قرآن کریم میں موجود ہیں یہ ہمارے زمانے کی باتیں کرتا ہے.چودہ سوسال پرانی کتاب نہیں ہے.جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے قرآن ختم ہو گیا ہے اور چودہ سو سال پرانی فرسودہ کتاب ہے.یہ تو آج کی ساری خبریں بڑی تفصیل سے بیان کرتا ہے.فرمایا دیکھو قرآن کریم میں پریس کی ایجاد کا ذکر ہے علم معیشت کی غیر معمولی ترقی کی خبر ہے، علم طبقات الارض کا ذکر ہے.فرعون موسیٰ کی جو لاش دریافت ہوئی ہے آج آکر ، اس کا ذکر قرآن کریم میں ہے.یہاں تک تفصیل میں قرآن کریم جاتا ہے کہ چڑیا گھروں کے قیام کی بھی خبر دیتا ہے.ایک وقت ایسا آئے گا جب بہت سے جانور ا کٹھے کئے جائیں گے اور چڑیا گھر بنائے جائیں گے.پھر اس سے بڑی خبروں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں نہر سویز اور نہر پانامہ کا ذکر اس میں موجود ہے کہ سمندر ملائے جائیں گے نہروں کے ذریعے.وہم و گمان بھی کسی کو نہیں تھا.دخانی جہازوں کا ذکر ہے، ریل گاڑیوں کا ذکر ہے، موٹر کاروں کا ذکر ہے، ہوائی جہازوں کا ذکر ہے، ہوائی جہاز جو پیغام پھیلایا کریں گے دنیا میں، جو بم گرایا کریں گے ان کا ذکر ہے، ایٹم بم کا ذکر ہے ، ہائیڈ روجن بم کا ذکر ہے اور یہ بھی ذکر ہے کہ ان سے بھی زیادہ خطرناک ہتھیار ایجادہوں گے، کلمک ریز (Cosmic Rays) کا ذکر ہے.پھر یوروپین اور روسی اقوام کی ترقی اور بالآخر ان کی ہلاکت کی پیش گوئیاں موجود ہیں،اسرائیل کے قیام اور بعد ازاں مسلمانوں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 190 حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ ء کے ہاتھوں نیست و نابود ہونے کی خبر موجود ہے.یہ تو ایسا مسئلہ ہے آپ فرماتے ہیں اسرائیل کے سلسلے میں کہ پہلے تو یہ بتایا کہ میں نے پہلے سے لکھ دیا تھا کہ اسرائیل قائم ہوگا تفسیر کبیر اٹھا کر دیکھ لو اس میں لکھا ہوا ہے لیکن فرمایا کہ یہ بھی لکھا ہوا ہے اس میں کہ اسرائیل پھر مٹے گا بھی اور مسلمان جوانوں کے ہاتھوں مٹے گا.فرمایا اس کے معنی یہ ہیں کہ: وو " پھر مسلمان فلسطین میں جائیں گے اور بادشاہ ہوں گے اور لازماً اس کے یہ معنی ہیں کہ پھر یہودی وہاں سے نکالے جائیں گے اور یہ سارا نظام جس کو یو.این.او کی مدد سے اور امریکہ کی مدد سے قائم کیا جارہا ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق دے گا کہ وہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجادیں اور پھر اس جگہ پر لا کر مسلمانوں کو بسائیں دیکھو حدیثوں میں یہ پیشگوئی آتی ہے.حدیثوں میں یہ ذکر ہے کہ فلسطین کے علاقہ میں اسلامی لشکر آئے گا.“ پھر فرمایا: خدا تعالیٰ کے عِبَادِيَ الصّلِحُونَ محمد رسول اللﷺ کی امت کے لوگ لازماً اس ملک میں جائیں گے نہ امریکہ کے ایٹم بم کچھ کر سکتے ہیں نہ ای بم کچھ کر سکتے ہیں.نہ روس کی مدد کچھ کر سکتی ہے.یہ خدا کی تقدیر ہے یہ تو ہو کر رہتی ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد ۵ صفحه : ۷۶ ۵ زیر آیت ولقد كتبنا في الزبور ) قرآن کریم کے زندہ کتاب ہونے کے سلسلہ میں آپ نے اپنے وجود کو پیش فرمایا.اس کے بعد ایک آخری اقتباس حضور کا پڑھ کر میں اجازت چاہوں گا،فرماتے ہیں: ”اب میں اس علمی تحفہ کے پیش کرنے کے علاوہ دنیا کے تمام مذاہب کے راستی پسند لوگوں سے کہتا ہوں کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.قرآن کرم بھی ہر زمانے میں پھل دیتا ہے اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں پر اللہ تعالیٰ اپنا تازہ الہام نازل کرتا ہے اور ان کے ہاتھ پر اپنی قدرتوں کا اظہار کرتا رہتا ہے.پس علمی غور و فکر کے علاوہ اس مشاہدہ کے ذریعے صداقت معلوم
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 191 حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ء کی جاسکتی ہے.اگر مسیحی پوپ یا اپنے آرچ بشپوں کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ میرے مقابل پر اپنے پر نازل ہونے والا تازہ کلام پیش کریں جو خدا تعالیٰ کی قدرت اور علم غیب پر مشتمل ہوتو دنیا کو سچائی کے معلوم کرنے میں کس قدر سہولت ہو جائے گی اور پوپ اور پادری جو مسیح کی صلح کل پالیسی کو ترک کر کے عیسائی خدا کو صلیبی جنگوں پر اکساتے رہتے ہیں کیا وہ آج اس روحانی جنگ کے لئے اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکتے“ حضرت مصلح موعودؓ نے جو خدمت قرآن کی ہے اس تفصیل کا وقت نہیں رہا.اس سلسلے میں میں نے ایک بات آپ سے شروع میں کہی تھی وہ پھر دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ یہ خدمت ایسی نہیں جس کو موت آ جائے.ابدالآباد تک باقی رہنے والی خدمت ہے.حضور کی آخری بیماری کا حال دیکھئے ، دنیا یہ کہ رہی تھی نعوذ باللہ دینی توازن کھو بیٹھے ہیں اور تغیر صغیر آپ نے اس آخری بیماری میں لکھی ہے.اس سلسلے میں ایک غیر احمدی دوست کو میں نے یہ تفسیر بھجوائی تو وہ لکھتے ہیں کہ: اس تفسیر پاک کے مطالعہ سے قبل میں قرآن پاک کو انسانی دسترس سے ماورا کوئی شے سمجھتا تھا گویا اسکی تعلیمات پاک اور پوتر زبان سے صرف ورد ہی کی خاطر ہیں اور عملی لحاظ سے انسانی فہم و تفہیم اور تگ و دو سے یکسر باہر.صرف ملائکہ کیلئے صرف ہیں لیکن اس تفسیر صغیر کے مطالعہ سے مجھے سب سے بڑا احساس یہ ہوا ہے کہ قرآن حکیم ہی کر ہ ارض پر خیر وشر کے لامتناہی جھمیلوں میں بسنے والے انسانوں کے لئے ایک کتاب ہے.“ حضور فرماتے ہیں: یہ خدمت جو میں نے کی ، یہ رہتی دنیا تک باقی رہے گی.وہ دشمن جو آج مجھ پر آواز میں کس رہے ہیں ان کو بھی بالآخر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ میں ہی خدا کی طرف سے اس زمانے کیلئے خادم قرآن کیمقام پر کھڑا کیا گیا ہوں.“ آپ فرماتے ہیں: ”خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لئے بھجوایا اور مجھے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 192 حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ء قرآن کے ان مطالب سے آگاہ فرمایا جوکسی انسان کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آسکتے تھے.وہ علم جو خدا نے مجھے عطا فرمایا اور وہ چشمہ روحانی جو میرے سینے میں پھوٹا وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردے پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعوی کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اس سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو.خدا نے مجھے علم قرآن بخشا ہے اور اس زمانے میں اس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے.خدا نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کیلئے شکست دے دوں.دنیا زور لگالے ، وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کرلے، عیسائی بادشاہ بھی اور ان کی حکومتیں بھی مل جائیں ، یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے ، دنیا کی تمام بڑی بڑی مال دار اور طاقتور قو میں اکٹھی ہو جائیں اور مجھے اس مقصد میں نا کام کرنے کے لئے متحد ہو جائیں پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی اور خدا میری دعاؤں اور تذا بیر کے سامنے ان کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا.( الموعود، انوار العلوم جلد ۱۷ صفحہ: ۶۴۷) صلى الله اور آپ کے لئے بھی ایک خوش خبری ہے فرماتے ہیں: ” اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اتباع کے ذریعے سے اس پیش گوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے رسول کریم ملی کے نام کے طفیل اور صدقے اسلام کی عزت کو قائم کرے گا اور اس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 193 حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت قرآن ۰۷۹۱ ء نہ ہو جائے اور جب تک محمد رسول الل کو پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم نہ کر لیا جائے......میں اس سچائی کو نہایت کھلے طور پر ساری دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں.یہ آواز وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی آواز ہے.یہ مشیت وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی مشیت ہے.یہ سچائی نہیں ملے گی نہیں ملے گی اور نہیں ملے گی.اسلام دنیا پر غالب آکر رہے گا، مسیحیت دنیا میں مغلوب ہوکر رہے گی.اب کوئی سہارا نہیں جو عیسائیت کو میرے حملوں سے بچا سکے.خدا میرے ہاتھ سے اس کو شکست دے گا اور یا تو میری زندگی میں ہی اس کو اس طرح کچل کر رکھ دے گا کہ وہ سر اٹھانے کی تاب نہیں رکھے گی اور یا پھر میرے بوئے ہوئے بیچ سے وہ درخت پیدا ہو گا جس کے سامنے عیسائیت ایک خشک جھاڑی کی طرح مرجھا کر رہ جائے گی اور دنیا میں چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا انتہائی بلندیوں پر اڑتا ہوا دکھائی دے گا.انشاء اللہ تعالی.الموعود، انوار العلوم جلد ۱۷ صفحہ: ۶۴۷، ۶۴۸)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 195 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء حقیقت نماز ( بر موقع جلسه سالانه ۱۹۷۲ء) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا: قرآن کریم کی نظریاتی تعلیم میں جو ارفع اور مرکزی مقام کلمہ توحید کو ہے وہی ارفع اور مرکزی مقام اس کی تعلیم عمل میں نماز کو حاصل ہے.یہ سب عبادتوں کی جان ہے، تمام نیک اعمال کی روح، ہر برکت کی کنجی اس میں ہے، فلاح کی کوئی راہ اس کو چھوڑ کر نہیں.اس سے ہٹ کر نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے.جب تک یہ قائم رہے انسان صراط مستقیم پر قائم رہتا ہے، جب یہ قائم نہ رہے تو صراط عمل مستقیم نہیں رہتی اور راستہ سلامتی کی منزل کو چھوڑ کر ہلاکت کے صحراؤں میں بھٹکنے لگتا ہے.میرا آج کا مضمون جو نماز کی حقیقت اور فلسفے سے متعلق ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان اور قلم پر جاری ہونے والے معارف کا مرہون منت ہے.یہ معارف وہ ہیں جن کے متعلق خود حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا دعوی بس اتنا ہے کہ ایں چشمہ رواں کہ مخلق خدا دہم یک قطره زبحر کمال محمد است ( در تمین فارسی صفحه: ۸۹) کہ یہ معارف کا شیریں چشمہ جو میں نے خلق خدا کی سیرابی کے لئے جاری کیا ہے میرے آقا محمد کے کمالات کے سمندر کا محض ایک قطرہ ہے.آئیے اب ہم نظام صلوٰۃ پر پہلے ایک
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 196 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء سرسری نظر ڈالتے ہیں پھر رفتہ رفتہ اس کے مخفی در مخفی کمالات اور لطائف کی سیر کریں گے.سب سے پہلے اوقات نماز کا ذکر آتا ہے.یہ گویا وہ برتن ہیں جن میں ہر نماز کو قرینے سے سجایا گیا ہے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان وقتوں کو نمازوں سے کیا مناسبت ہے اور کیوں سورج کے زوال اور غروب اور رات کے اندھیروں یا صبح کے او جالوں کو اسلامی نمازوں کے ساتھ مربوط کر دیا گیا ہے؟ عارف ربانی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس گتھی کو سلجھاتے ہوئے فرماتے ہیں: پنجگانہ نمازیں کیا چیز ہیں وہ تمہارے مختلف حالات کا فوٹو ہے.تمہاری زندگی کے لازم حال پانچ تغیر ہیں جو بلا کے وقت تم پر وارد ہوتے ہیں اور تمہاری فطرت کے لئے ان کا وار د ہونا ضروری ہے.(۱) پہلے جبکہ تم مطلع کئے جاتے ہو کہ تم پر بلا آنے والی ہے.مثلاً جیسے تمہارے نام عدالت سے ایک ورانٹ جاری ہوا یہ پہلی حالت ہے.جس نے تمہاری تسلی اور خوشحالی میں خلل ڈالا سو یہ حالت زوال کے وقت سے مشابہ ہے.کیونکہ اس سے تمہاری خوشحالی میں زوال آنا شروع ہوا.اس کے مقابل پر نماز ظہر متعین ہوئی جس کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے.(۲) دوسرا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے جب کہ تم بلا کے محل سے بہت نزدیک کئے جاتے ہو مثلاً جبکہ تم بذریعہ وارنٹ گرفتار ہو کر حاکم کے سامنے پیش ہوتے ہو.یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارا خوف سے خون خشک ہو جاتا ہے اور تسلی کا نور تم سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے.سو یہ حالت تمہاری اس وقت سے مشابہ ہے جبکہ آفتاب سے نور کم ہو جاتا ہے اور نظر اس پر جم سکتی ہے اور صریح نظر آتا ہے کہ اب اس کا غروب نزدیک ہے.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عصر مقرر ہوئی.(۳) تیسرا تغیر تم پر اس وقت آتا ہے جو اس بلا سے رہائی پانے کی بکلی امید منقطع ہو جاتی ہے....یہ وہ وقت ہے جب تمہارے حواس خطا ہو جاتے ہیں اور تم اپنے تئیں ایک قیدی سمجھنے لگتے ہو.سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جبکہ آفتاب غروب ہو جاتا ہے اور تمام امید میں دن کی روشنی کی ختم
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 197 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء ہو جاتی ہیں.اس روحانی حالت کے مقابل پر نما ز مغرب مقرر ہے.(۴) چوتھا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے کہ جب بلا تم پر وارد ہی ہو جاتی ہے اور اس کی سخت تاریکی تم پر احاطہ کر لیتی ہے...سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جبکہ رات پڑ جاتی ہے اور سخت اندھیر اپڑ جاتا ہے.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عشاء مقرر ہے.(۵) پھر جب کہ تم ایک مدت تک اس مصیبت کی تاریکی میں بسر کرتے ہو تو پھر آخر خدا کا رحم تم پر جوش مارتا ہے اور تمہیں اس تاریکی سے نجات دیتا ہے.مثلاً جیسے تاریکی کے بعد پھر آخر کار صبح نکلتی ہے تو پھر وہی روشنی دن کی اپنی چمک کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے.سواس روحانی حالت کے مقابل پر نماز فجر مقرر ہے.اور خدا نے تمہاری فطرتی تغیرات میں پانچ حالتیں دیکھ کر پانچ نمازیں تمہارے لئے مقرر کیں.اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ نمازیں خاص تمہارے نفس کے فائدے کے لئے ہیں.پس اگر تم چاہتے ہو کہ ان بلاؤں سے بچے رہو تو تم پنجگانہ نمازوں کو ترک نہ کرو کہ وہ تمہارے اندرونی اور روحانی تغیرات کا ظل ہیں.نماز میں آنے والی بلاؤں کا علاج ہے.تم نہیں جانتے کہ نیا دن چڑھنے والا کس قسم کے قضا و قدرتمہارے لئے لائے گا.پس قبل اس کے جو دن چڑھے تم اپنے مولیٰ کی جناب میں تضرع کرو کہ تمہارے لئے خیر و برکت کا دن چڑھے.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ : ۶۹-۷۰) نظام صلوٰۃ کا دوسرا جز و اذان ہے جس کی مدد کے بغیر بدلتے ہوئے اوقات کا اشارہ سمجھنا اکثر انسانوں کے لئے ممکن نہیں.دیکھئے ہم ہر روز سورج کو ڈھلتا ہوا اور پھر غروب ہوتا ہوا بھی دیکھتے ہیں یہاں تک کہ یہ ہمیں رات بھر کے لئے اندھیروں کے سپرد کرتا ہوا رخصت ہو جاتا ہے لیکن کیا واقعہ ہم ان بدلتے ہوئے اوقات کے پیغام کو سمجھ کر از خود اپنے خدا کو یاد کرنے لگتے ہیں؟ افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا.صد افسوس کہ غافل انسان کا غافل ذہن جہل اور غفلت کے لحافوں میں پڑا سوتا رہتا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 198 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء ہے.ہم صبح و شام اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں.لیکن نہ تو صبح ہم میں سے اکثر کے لئے کوئی پیغام لاتی ہے نہ شام.پس اس انسانی کمزوری کے پیش نظر نظام صلوٰۃ کا دوسرا جز واذان کو مقرر کیا گیا ہے جو غفلت کے پردوں کو چیرتی ہوئی ہمارے خوابیدہ احساس کو جگاتی اور مرتعش کر دیتی ہے.نماز کی لذت سے آشنا تو دنیا میں کم ملیں گے کیونکہ یہ ایک مشکل اور بلند تر مرحلہ ہے لیکن شاید ہی کوئی مسلمان ایسا ہو جو اذان کی لذت سے آشنا نہ ہو.غروب آفتاب جو دن کے کھوئے جانے کا ایک مبہم سا احساس اور ایک غمگینی سی دلوں میں پیدا کرتا ہے تو اچانک مسجدوں سے بلند ہوتی ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر کی آواز دلوں میں ایک لذت اور سرور پیدا کر دیتی ہے اور خواہ کوئی نماز پڑھنے والا ہو یا نہ پڑھنے والا ہو ہر سننے والے کا ذہن اس طرف منتقل ہونے لگتا ہے کہ ہمارا ایک زندہ خدا ہے جس کی عبادت کی طرف ہمیں مسجدوں میں بلایا جا رہا ہے.اپنے یہ تو غروب آفتاب کی کیفیت تھی اب ذرا پو پھوٹنے کا تصور کیجئے.یہ وقت انسان کے لئے ایک بالکل مختلف اور غروب آفتاب کی کیفیت کے برعکس پیغام لے کر آتا ہے.نئے دن کی آمد آمدنئی امنگوں اور نئی کوششوں کا مژدہ سناتی ہے لیکن اس وقت بھی غافل انسان کا غافل دل از خود ہی ا.رب کی طرف منتقل نہیں ہو جاتا ہے.آنکھ کھلتی ہی ہے تو کہ دل کہتا ہے عمل کا وقت ابھی شروع نہیں ہوا، اس وقت اک پر درد اور پر شوکت آواز فضا کے پردوں کو سرسراتی دل کی گہرائیوں سے گزر جاتی ہے.الله اكبر الله اكبر الله اكبر الله اكبر، اشهد ان لا اله الا الله ، اشهدان لا اله الا الله، اشهدان محمد ارسول الله ، اشهدان محمدا رسول الله تب کچھ خوش نصیب اس آواز کو سن کر نیند کو خیر آباد کہتے ہوئے اپنے پہلوؤں کو بستر سے الگ کر دیتے ہیں اور کچھ دوسرے اپنی بے عملی پر افسوس کرتے ہوئے پھر نیند کی آغوش میں جاسوتے ہیں.لیکن نمازی ہو یا غیر نمازی دونوں صورتوں میں اذان اپنا کام کر ہی جاتی ہے اور بدلتے ہوئے وقت کے بدلتے ہوئے احساس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی یاد کو اس طرح ملا دیتی ہے جیسے دودھ میں رس گھول دیا گیا ہو.یہ اذان کا محض ایک ظاہری اثر ہے جو بسا اوقات کا فر کو بھی اسی طرح متاثر کر جاتا ہے جیسے مومن کو اور اگر اذان دینے والا خوش الحان ہو تو شاید ہی کوئی انسان ہوگا جو بدلتے ہوئے وقت اور
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 199 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء اذان کے مترنم الفاظ کی ہم آہنگی اور ہمسری سے متاثر نہ ہو.لیکن اذان کے اندر اور بھی گہرے معانی اور معارف پوشیدہ ہیں.انسان غروب آفتاب کو دیکھتا ہے اور دنیا کی بے ثباتی کا اثر اس پر پڑتا ہے اور معاذ ہن اس طرف منتقل ہوتا ہے کہ خدا پر کوئی غروب نہیں اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے.دن چھوٹا تھا تو بھی ختم ہوا.بڑا تھا تو بھی ختم ہوا، ہر چیز محدود اور فانی ہے مگر اللہ اللہ ! ہمارا رب غیر محد دو اور لافانی ہے.اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے.پس غم اور خوشی خوف اور اطمینان، امید و بیم ، فراق و وصال تنگی اور خوشحالی مصروفیت اور فراغت غرضیکہ کسی حال میں بھی انسان ہو سورج اس پر طلوع ہونے کو ہو یا غروب ہونے کو ہو ، روشنی جا چکی ہو یا آرہی ہو ، اندھیروں کا خوف غالب آجائے یا شفق صبح خود اعتمادی بحال کر رہی ہو ہر حال میں اللہ اکبر اللہ اکبر کی آواز اس کے لئے ایک نیا پیغام لے کر آتی ہے.عارف ربانی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ لطیف نکتہ بیان فرماتے ہیں کہ اذان کی ابتداء بھی اللہ سے ہوتی ہے اور اس کا اختتام بھی اللہ پر ہے.اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ہر تغیر کی ابتداء بھی اللہ ہی ہے اور انتہاء بھی اللہ ہی پر ہوگی اور وہ ہر چیز پر محیط ہے.صلوۃ کا تیسرا جز و وضو ہے.اذان میں جو توجہ خدا کی طرف مبذول کروائی تھی بالآخر وہ نمازی بندوں کے ذہن پر غالب آگئی اور جی دنیا کے کاموں سے چھوٹنے لگا اور خدا تعالیٰ کے لئے دنیا کے دھندوں سے الگ ہو جانے کا سلسلہ شروع ہو گیا.اس کے دربار میں جانا ہے جو سب سے بڑا ہے اسی نسبت سے جسمانی پاکیزگی، یکسوئی اور روحانی پاکیزگی کی ضرورت ہے.نجاست اور غلاظت تو مؤمن کے بدن سے پہلے ہی الگ تھی اب وضو اس کے ذہن میں روحانی پاکیزگی کا تصور پیدا کرتا ہے اور انسان اپنی روح کو استغفار کے پانی سے دھوتا ہوا اور ذکر الہی کرتا ہوا آخر مسجد میں خدا کے دربار میں حاضر ہو جاتا ہے.آئیے اب ہم مسجد کی طرف چلتے ہیں جہاں نمازی بالآخر ظاہری اور باطنی تیاریاں مکمل کر کے اپنے رب کی عبادت کے لئے اکٹھے ہو رہے ہیں.زیر لب دعا کرتے ہوئے مسجد کے ہر دروازے سے کچھ نمازی داخل ہورہے ہیں جو اپنے سے پہلے پہنچے ہوؤں کو سلام پہنچا کر با ادب قطار در قطار بیٹھنے لگتے ہیں.امیر اور غریب ، سردار اور غلام کا کوئی فرق نہیں جو پہلے ہے سو پہلے ہے اور جو
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 200 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء بعد میں ہے سو بعد میں.ایک باقاعدہ دستور اور نظم وضبط کی راجدھانی ہے.یہ خاموش ذکر الہی میں مصروف نمازی اچانک ایک بار پھر الله اکبر الله اکبر کی آواز سن کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں.اذان میں جس خدا کی تکبیر بلند کرتے ہوئے مسجد کی طرف بلایا تھا اب اقامت الصلواۃ کی تکبیر انہیں اس کے دربار میں بالآ خر صف آراء ہونے کا اذن دیتی ہے اور امام کی آواز ایک دفعہ پھر اللہ اکبر کا اعلان کر کے نماز کا آغاز کرتی ہے.اب نمازی جس منزل میں قدم رکھتا ہے یہ کامل تبتل کی منزل ہے یعنی دنیا سے بکلی کٹ کراب وہ اپنی تمام تر توجہات کو اپنے رب کی طرف پھیر دیتا ہے.اللہ اکبر کے پہلے پیغام نے اس کی توجہ دنیا کی ظاہری بڑائیوں سے ہٹا کر جس خدائے اکبر کی طرف مبذول کروائی تھی اب امام کی تکبیر نے اسے اسکی چوکھٹ تک پہنچا دیا.یہ وہ مقام ہے جہاں ہر دوسرا تصور اور ہر دوسرا خیال وجود اس کے دل و دماغ سے محو ہو کر محض اور محض اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا کامل تصور اس کے وجود کے ذرے ذرے پر مسلط ہو جاتا ہے.یہی وہ نماز ہے جو قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے مومن بندوں پر فرض کرتا ہے اور جو نیکیوں کا معراج ہے.یہی وہ نماز ہے جو پیدائش عالم اور پیدائش جن وانس کا مقصود ہے.یہ نماز اگر درست اور کامل اور قائم ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کا مادی بندہ اس کا روحانی بندہ بن جاتا ہے اور ظاہری عبد حقیقی عبودیت کا جامہ پہن لیتا ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو نماز کی اس حقیقت کو سمجھتے ہیں اور جیسا کہ حق ہے اسے قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ نماز کی سب سے پہلی خصوصیت قرآن کریم یہ بیان فرماتا ہے کہ اسے محض ادا نہیں کیا جاتا بلکہ قائم کیا جاتا ہے چنانچہ ابتدائے قرآن ہی میں فرمایا : ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ) الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ) (البقرة :٢/٣) یعنی متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ، نماز کو قائم کرتے اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.آئیے اب ہم دیکھیں کہ نماز کو قائم کرنے سے کیا مراد ہے اور کیوں نماز ادا کرنے کا حکم دینے کی بجائے نماز قائم کرنے کا محاورہ بار بار استعمال ہو رہا ہے؟
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 201 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء پس جاننا چاہئے کہ اقیموا الصلواۃ کا اول مفہوم یہ ہے کہ نماز کو باجماعت ادا کرو.یہی وجہ ہے کہ اکثر مقامات پر جہاں قیام الصلوۃ کا ارشاد ہے جمع کا صیغہ استعمال فرمایا گیا ہے.سب مسلمانوں کو نماز قائم کرنے کا اجتماعی حکم دیا گیا ہے اگر یہ ضروری نہ ہوتا تو نہ تو مساجد کی تعمیر کی ضرورت تھی نہ ہی اذان میں تکرار کے ساتھ اس ارشاد کے معنی تھے کہ دوڑتے ہوئے نماز کی طرف چلے آؤ، دوڑتے ہوئے کامیابی کی طرف چلے آؤ.آنحضور ﷺ کا اسوہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کو آپ کی تعلیم بھی یہی تھی کہ فرض نماز پانچ وقت مساجد میں جا کر باجماعت ادا کی جائے.چنانچہ آپ اس بارہ میں اس حد تک تاکید فرماتے تھے کہ ایک نابینا کو بھی جسے رستے کی خرابی کی وجہ سے ٹھوکریں کھاتے ہوئے مسجد میں آنا پڑتا تھا نماز گھر میں پڑھنے کی اجازت نہ دی اور یہ معلوم ہونے پر کہ اذان کی آواز اس کے کانوں تک پہنچتی ہے ٹھوکریں کھاتے ہوئے بھی مسجد میں جا کر باجماعت نماز میں شامل ہونے کی تلقین فرمائی.پس اول مفہوم قیام صلوۃ کا اجتماعی معنی رکھتا ہے اور امت مسلمہ کو خبر دار کرتا ہے کہ جب تک باجماعت عبادت نہیں کرو گے فرض عبادت ادانہ ہوگا.اس پہلو سے جب ہم حقیقت نماز پر مزید غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ باجماعت نماز کے نظام میں امت مسلمہ کے لئے عظیم الشان مثالیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں.وقت کی مناسبت سے نہایت اختصار کے ساتھ ان مصلحتوں کا کچھ ذکر کرتا ہوں جو نماز با جماعت کی ادائیگی سے وابستہ ہیں.با جماعت نماز کثرت میں وحدت کا منظر پیش کرتی ہے اور امت محمدیہ کو کثیر ہو جانے کے باوجود ایک ہو جانے کا سبق دیتی ہے.باجماعت نماز ایک امام کی ہر وقت ضرورت کی یاد دلاتی ہے اور بتاتی ہے کہ امت مسلمہ پر عاید کردہ فرائض کی ادائیگی امام کے بغیر ممکن نہیں.باجماعت نماز یہ سبق دیتی ہے کہ امام کی اطاعت ہر حال میں فرض ہے اور امت پر واجب ہے کہ اپنی ہر حرکت اور سکون کو امام کی جنبش لب کے تابع کر لے.امام کی اطاعت اس حد تک فرض کی گئی ہے کہ اگر کسی مقتدی کے نزدیک امام سے غلطی بھی ہو گئی ہو تو محض ادب سے توجہ دلا نا فرض ہے اگر اس کے باوجود امام اپنے فیصلے کو درست سمجھے تو اس کی اطاعت سے گریز کی اجازت نہیں.کسی حرکت میں امام سے آگے نکلنے اور پہل کرنے کی اجازت نہیں.ساری جماعت کا رخ قبلے کی طرف رہتا ہے جس میں پجہتی اور یکسوئی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 202 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء کا سبق ہے.صف بندی اور ایک ہی آواز پر اٹھنا اور بیٹھنا قومی نظم وضبط کے لئے بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں.کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے میں اس بات کی تعلیم ہے کہ مومنوں کے دل باہم ملے رہیں اور افتراق نہ ہو.جہاں تک شرف انسانی کا تعلق ہے باجماعت نماز یہ سبق دیتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی نظر میں سب انسان بحیثیت انسان برابر ہیں اور حسب و نسب ، جاہ و ثروت اور خاندان یا قوم کے لحاظ سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں ہے.امام کی پیروی کے وقت تکبیر اور تحمید اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ امام کی بڑائی ذاتی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے تابع ہے اور اس کی متابعت خدا تعالیٰ کے احکام کے تابع ہے.کبھی بلند آواز سے قراءت اور کبھی دل میں عبادت کے الفاظ دہرانے میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ذکرائی نہ تو صرف اعلانیہ ہونا چاہئے نہ محض دل میں بلکہ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً دونوں طرح اللہ تعالیٰ کی یاد ضروری ہے.بلند آواز سے اللہ تعالیٰ کا ذکر قوم میں ذکر الہی کی یاد کو تازہ رکھتا ہے اور خفیہ ذکر الہی ریا کاری کے خطرے سے بچاتا ہے.باجماعت نماز فی ذاتہ بھی ایک اعلامیہ ہے جو قوم کو مجموعی طور پر نماز قائم رکھنے میں مدد دیتی ہے.اگر مساجد میں جاکر پانچ وقت باجماعت نماز پڑھنے کا نظام قائم نہ ہوتا تو نمازیوں کی جو تعداد مسلمانوں میں آج نظر آتی ہے یقیناً شاید اس کا سوواں ( ۰۰اواں) حصہ بھی باقی نہ رہتی.نیکی با جماعت نماز کے کچھ تمدنی فوائد بھی ہیں مثلاً یہ ان بڑے لوگوں کو جنہیں قرآن کریم ”جن“ کی اصطلاح سے یاد کرتا ہے عوام الناس سے کٹ کر الگ رہنے کی اجازت نہیں دیتی اور اس پہلو سے سوسائٹی کو غیر طبقاتی یعنی Classless بنادیتی ہے.امراء مجبور ہو جاتے ہیں کہ کم از کم روزانہ پانچ وقت اپنے خلوت خانوں سے نکل کر اپنے غریب بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں اور ان کی تکلیف دہ حالات سے ذاتی طور پر واقف ہوں اور ہر کس وناکس کی رسائی کی حد میں رہیں.باجماعت نماز رہبانیت کے غلط تصور کو ختم کرتی ہے اور قومی نیکیوں میں حصہ لینے پر انسان کو مجبور کرتی ہے.باجماعت نماز ستی اور غفلت کو دور کرتی ہے اور جسمانی پاکیزگی کا اعلیٰ معیار قائم کرتی ہے.نماز با جماعت یہ سبق بھی دیتی ہے کہ جب قومی اجتماعی فرائض ادا کئے جار ہے ہوں تو انفرادی کاموں پر انہیں لازما فوقیت دی جائے گی.مساجد میں جا کر پانچ وقت نماز با جماعت
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 203 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء کے اہتمام کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ انسان اپنی پیدائش کے مقصود کو نہ بھولے اور دنیا کے دھندوں کو ثانوی حیثیت دینے کا شعور اس میں بیدار ر ہے.ان امور پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ در حقیقت باجماعت نماز کا قیام اور مسجدوں کی آبادی قیام الصلوۃ کی حقیقت میں داخل ہے اور اس پر جتنا بھی زور دیا جائے کم ہے.آنحضوع ہے کے ارشادات اور سنت سے یہ ثابت ہے کہ مومن مردوں کے لئے شرعی عذر کے بغیر باجماعت نماز صلى الله سے غیر حاضر رہنے کا کوئی جواز نہیں.صبح اور عشاء کی نماز سے غیر حاضر ہونے والوں کو آنحضوع ہے نے منافق قرار دیا اور یہاں تک فرمایا کہ اگر اجازت ہوتی تو میں لکڑی کے گٹھے سروں پر اٹھوا کر ایسے لوگوں کے گھروں تک پہنچتا اور ان کے گھروں کو آگ لگا دیتا.( صحیح بخاری کتاب الاذان باب فضل العشاء في الجماعة ) یہ قول کسی سخت دل انسان کا نہیں بلکہ اس حلیم و کریم رشک انسانیت کا قول ہے جو مومنوں کے لهُ رَءُوفٌ رَّحِيمُ (التوبہ: (۸۲) اور کل جہانوں کے لئے رحمت تھا.لازماً اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ آپ ان لوگوں کیلئے آخرت کے عذاب سے ڈرتے تھے اور یہ اظہار فرمانا مقصود تھا کہ بہتر ہوایسے لوگ آخرت کی آگ کی بجائے اس دنیا ہی کی آگ میں جل جائیں.دوسرا مفہوم اس ارشاد نبوی کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو گھر اس وقت آباد ہوں جب خدا کے گھروں کی آبادی کا وقت ہواس سے بہتر ہے کہ وہ جل کر خاکستر اور ویران ہو جائیں.احمدی مردوں اور احمدی عورتوں کے لئے جو عبادت کی مٹتی ہوئی رسوم کو تازہ کرنے کا عہد لے کر اٹھے ہیں اس میں بھاری سبق ہے.تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ جب تک امت مسلمہ نے خدا کے گھروں یعنی مساجد کو آباد رکھا امت مسلمہ کے گھر آبادر ہے اور گلستان احمد پر بہا رہی بہا تھی لیکن جب سے مساجد کو ویران چھوڑ کر گھروں کو آباد کیا گیا طرح طرح کی ویرانیوں اور ہلاکتوں نے امت کو آگھیرا.پس قیام نماز ہی میں امت مسلمہ کی زندگی اور جان ہے اور مساجد کی آبادی ہی سے در حقیقت ہمارے گھروں کی آبادی ہے.یہ ایک اجتماعی اور ملی فریضہ ہے جس میں ہم سب برابر کے ذمہ دار اور برابر کے شریک ہیں.پس احمدی مردوں اور خواتین کو چاہئے کہ اس حقیقت کو کبھی فراموش نہ ہونے دیں.وہ مرد جو خود نمازی ہیں وہ اپنے گردو پیش اپنے بھائیوں اور بچوں اور دوستوں کو تلقین کرتے رہیں اور چین
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 204 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء سے نہ بیٹھیں جب تک مساجد کی رونق قائم نہ ہو جائے.وہ عورتیں جن پر مساجد میں پہنچنا فرض نہیں وہ اپنے خاوندوں اور بچوں اور بھائیوں کو اوقات نماز میں گھروں میں نہ بیٹھنے دیں اور خود چین سے نہ بیٹھیں جب تک کہ نمازوں کے اوقات میں ان کے اپنے گھر خالی اور خدا کے گھر آباد نہ ہوں.اس زمانے کا یہ ایک بڑا جہاد ہے.پس احمدی خواتین اس وقت کو بھی یاد کریں جب تلوار کے جہاد میں ایک موقع پر مسلمان مردوں کے پاؤں اکھڑ گئے تھے اور وہ اپنے خیموں کی طرف دوڑے چلے آرہے تھے.جانتی ہواے احمدی ماؤں اور بہنو! کہ ان مسلمان جیالیوں نے اس وقت کیا کیا جو خیموں میں زخمیوں کی مرہم پٹی کے لئے کمر بستہ کھڑی تھیں؟ انہوں نے انہیں خوش آمدید نہیں کہا، انہوں نے انکو سینے سے نہیں لگایا، ان کے قدم نہیں تھامے، ان کو آرام گاہوں کی طرف نہیں بلایا بلکہ بپھری ہوئی شیر نیوں کی طرح ان پر حملہ آور ہوئیں اور اگر کوئی دوسرا ہتھیار ہاتھ نہیں آیا تو خیموں کے ڈنڈے اکھاڑ لئے اور ان پر جھپٹ پڑیں اور کہا کہ جاؤ اے خدا اور رسول کے دشمنوں کو پیٹھ دکھانے والو! جاؤ ہم تمہاری صورت تک سے بیزار ہیں.جاؤ ہم نے تمہیں خدا کی راہ میں سر کٹوانے اور چھاتیوں پر زخم کھانے کے لئے بھیجا تھا ، جاؤ یا تو راہ خدا میں شہید ہو جاؤ یا فتح کے بعد ہمیں منہ دکھانے کی جرات کرنا.اے احمدی خواتین ! مسجد میں تو کوئی تلوار نہیں چلتی ، سر نہیں اتارے جاتے ، بدن کے اعضاء ایک ایک کر کے جسم سے جدا نہیں کئے جاتے ، نیزے چھاتیاں نہیں چھید تے ، تیر جسم چھلنی نہیں کرتے پھر کیا احمدی ماؤں اور بہنو اور بیٹیو! تم اس حد تک عاجز اور دین خدا کے لئے حمیت سے خالی ہو کہ اس پر امن اور طمانیت بخش جہاد کبیر کی خاطر بھی اپنے مردوں پر اپنے گھروں کے دروازے بند نہیں کرتیں.انہیں تو خدا کی ان محبت سراؤں کی طرف بلایا جا رہا ہے جہاں امن ہی امن ہے، جہاں امن ہی امن ہے.نماز یعنی قیام صلوۃ کے ایک معنی اس کی کیفیت کے لحاظ سے ہیں.نماز خواہ انفرادی ہو یا با جماعت اس کی کما حقہ ادائیگی کوئی آسان کام نہیں اور ہمارا روزمرہ کا تجربہ بتاتا ہے کہ بڑی کوشش سے توجہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف لگانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر بار بار مختلف خیالات اور افکار اس میں خلل ڈال دیتے ہیں.گو یہ نمازیں اس کمزور بیمار کی طرح ہیں جسے مضبوط سہارا دے کر کھڑا کیا جائے ورنہ نڈھال ہو کر گر گر جائے اور خود اٹھنے کی سکت نہ ہو.اس پہلو سے جب غور کریں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 205 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء تو پھر سمجھ آتی ہے کہ بار بار قرآن کریم نماز کھڑی کروہ نماز کھڑی کرو، نماز کھڑی کرو کی اس شدت سے تاکید کیوں فرماتا ہے؟ بات ہی دارصل کچھ ایسی ہے کہ ہم میں سے اکثر کی نمازیں بے جان جسموں کی طرح گری پڑی رہتی ہیں اور اگر اس قدر تا کید نماز کھڑی کرنے کی نہ ہو تو معاملہ ہاتھ ہی سے جاتا رہے.آج امت مسلمہ کی سب سے بڑی بد قسمتی یہی ہے کہ بہتوں نے تو نماز کی کوشش ہی ترک کر دی اور زندگی کے اس سر چشمہ سے تعلق کو توڑ کر مردہ روحوں میں جا ملے لیکن کچھ وہ جو نماز پڑھتے ہیں ان میں سے اکثر نماز کو قائم رکھنے سے بری طرح عاجز رہتے ہیں اور ان کی نمازیں ایک مردہ جسم کی طرح ہوتی ہیں جس میں روح نہ ہو.ایک خالی برتن جو نہ غذا رکھتا ہے نہ پانی ، ایک ایسا چھلکا ہیں جس کے اندر سے رس اڑ چکا اور گودا سوکھ چکا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وہ نماز جس کا ذکر قرآن میں ہے اور وہ معراج ہے.بھلاان نمازیوں سے کوئی پوچھے تو سہی کہ ان کو سورۃ فاتحہ کے معنی بھی آتے ہیں.پچاس پچاس برس کے نمازی ملیں گے مگر نماز کا مطلب اور حقیقت پوچھو تو اکثر بے خبر ہوں گے حالانکہ تمام دنیوی علوم ان علوم کے سامنے بیچ ہیں.بایں دنیوی علوم کے واسطے تو جان توڑ محنت اور کوشش کی جاتی ہے اور اس طرف سے ایسی بے التفاتی کہ اسے جنتر منتر کی طرح پڑھ جاتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد ۵ صفحه: ۶۶۰) پس نماز اس وقت فائدہ دیتی ہے جب وہ قائم اور زندہ ہو ورنہ اس کی حالت اس گلے سٹرے پھل سے مشابہ ہوگی جو فرحت اور تازگی اور صحت بخشنے کی بجائے بسا اوقات انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے.ایسی مہلک نمازوں کے متعلق قرآن کریم ان الفاظ میں تنبیہ کرتا ہے: فَوَيْلٌ لِلْمُصَلَّيْنَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَآءُونَ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ (الماعون : ۵-۸) یعنی لعنت ہو ایسے نمازیوں پر لعنت ہو ایسے نمازیوں پر جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں.ان
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 206 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء لوگوں پر لعنت ہو جو دکھاوا کرتے ہیں اور سخت دل اتنے ہیں کہ اللہ کے ضرورت مند بندوں کی ادنیٰ ادنی خدمت سے بھی عاری اور محروم رہتے ہیں.پس افسوس کہ وہ چند لوگ جو نماز کے معنی بھی جانتے ہیں وہ بھی توجہ اور خلوص سے کما حقہ اُسے قائم کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور جو کوشش کرتے ہیں ان کی نمازیں بھی کئی قسم کی بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں اور وہ خوب جانتے ہیں کہ کوشش کی ابتداء اور اعلیٰ درجے کی نماز کے درمیان کتنی مشکل اور صبر آزما منزلیں ہیں.دنیا کے تفکرات، کاموں کے جھمیلے، سود و زیاں کے جھگڑے، خلوص نیت سے کوشش اور مجاہدہ کرنے والوں کو بھی آگھیرتے ہیں پھر ہوا و ہوس کے بندوں کا تو ذکر ہی کیا ؟ ان سے تو بقول اقبال یہ ماجرا گزرتا ہے کہ: جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں پس أَقِيمُوا الصَّلوةَ کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ نماز کو درست حالت میں نہایت توجہ سے سنوار کر پڑھو اور ایک دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اپنی نماز کو اس طرح کھڑا کرو جس طرح پھل دار درخت کو نصب کیا جاتا ہے.سب لوگ جانتے ہیں کہ ایک ہی دن میں وہ پھل نہیں دینے لگ جاتا اور بڑی محنت کی اور سالہا سال کی توجہ کی ضرورت پڑتی ہے.حضور علیہ السلام اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز اور روزہ کے برکات اور ثمرات ملتے ہیں اور اسی دنیا میں ملتے ہیں لیکن نماز روزہ اور دوسری عبادات کو اس مقام اور جگہ تک پہنچانا چاہئے جہاں وہ برکات دیتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد ۴ صفحہ: ۶۶۱) حضور علیہ السلام نے جماعت کو بارہا اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اس مشکل کا حل بھی سورہ فاتحہ میں نماز ہی میں موجود ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحہ: ۵-۷) کی دعا اسی غرض سے سکھائی گئی ہے.اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ اے آقا! ہم تیری اور صرف تیری
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 207 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء عبادت کا عزم رکھتے ہیں اور اپنی بساط کے مطابق اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن جانتے ہیں کہ تیری مدد اور تیرے سہارے کے بغیر یہ ممکن نہیں.پس تجھ سے ہاں تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں.یہاں یہ یا درکھنا چاہئے کہ نماز کی بے ذوقی اور بے لطفی دور نہیں ہوسکتی جب تک نماز میں عشق اور محبت کے جذبات پیدا نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا خود اُسی کی دی ہوئی توفیق کے بغیر ممکن نہیں.چنانچہ سورہ فاتحہ میں جو دعا مانگی جاتی ہے اس کے دوسرے حصہ یعنی صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کا مطلب یہ بنے گا کہ اے اللہ ! ہمارے دل میں سوز و گداز پیدا کر ، عشق و محبت کے شعلے بھڑ کا ! کچھ ہمیں بھی تو لطف آئے تیری عبادت کا.بہت سنتے ہیں کہ تیرے پیارے محمد عربی ﷺ نے تیری عبادت کے بہت لطف اٹھائے ، بہت سنتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لذتوں کا معراج بھی نماز ہی میں تھا.پس اے محبوب از لی وابدی! ہم پر بھی تو نظر عنایت ہو، ہم پر بھی کچھ نگاہ لطف ڈالی جائے! کیا بارا تیں دیکھنا ہی ہمارے مقدر میں ہے اور کبھی خود دولہا نہیں بنائے جائیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مضمون کو مکمل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز کیا چیز ہے؟ نماز اصل میں رب العزت سے دعا ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ عافیت اور خوشی کا سامان مل سکتا ہے جب خدا تعالیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا اس وقت اسے حقیقی سرور اور راحت ملے گی.اس وقت سے اسے نمازوں میں لذت اور ذوق آنے لگے گا جس طرح لذیذ غذاؤں کے کھانے سے مزا آتا ہے اسی طرح پھر گر یہ وبکا کی لذت آئے گی اور یہ حالت جونماز کی ہے پیدا ہو جائے گی.اس سے پہلے جیسے کڑوی دواؤں کو کھاتا ہے تا کہ صحت حاصل ہو اسی طرح اس بے ذوقی نماز کو پڑھنا اور دعائیں مانگنا ضروری ہیں.اس بے ذوقی کی حالت میں یہ فرض کر کے کہ اس سے لذت اور ذوق پیدا ہو ) یہ دعا کرے کہ اے اللہ ! تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں کیسا اندھا اور نا بینا ہوں اور میں اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہوں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 208 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء میں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آجاؤں گا اس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گالیکن میرا دل اندھا اور ناشناسا ہے.تو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا اُنس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے تو ایسا فضل کرکہ میں نابینا نہ اٹھوں اور اندھوں میں نہ جاملوں.جب اس قسم کی دعا مانگے گا اور اس پر دوام اختیار کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر ایسا آئے گا کہ اس بے ذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رقت پیدا کر دے گی.“ (الحکم مؤرخہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۳ء) قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور آیات اور اس کی پیدا کردہ کا ئنات پر غور کرتے رہنے سے عبادت کے قیام میں بڑی مددملتی ہے اور کوشش اور تکلیف کے بغیر ہی دل سے ایسی بے اختیار اس کی حمد پھوٹتی ہے جیسے چٹانوں کا سینہ پھاڑ کر پہاڑی چشمے اہلنے لگتے ہیں.چنانچہ بڑی کثرت اور تاکید کے ساتھ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں تخلیق عالم، آفاق اور خود اپنے نفوس پر غور کرنے کی تلقین فرماتا ہے اور قرآن صفات باری تعالیٰ کو اس حسین اور دلکش پیرائے میں بیان فرماتا ہے کہ دل حمد و ثناء کے گیت گانے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے بڑا پیار اور بڑا وقار دل میں پیدا ہو جاتا ہے.جولوگ زمین و آسمان کی پیدائش پر غور کرتے ہیں ان کے متعلق فرمایا کہ بے اختیاران کی توجہ اپنے رب کی طرف پھر جاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی آیات ان کو یاد دلائی جاتی ہیں تو تسبیح اور حمد کرتے ہوئے وہ سجدوں میں گر جاتے ہیں.پھر نہ صرف یہ کہ عبادت ان پر گراں نہیں گزرتی بلکہ فرمایا: تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا (السجده: ۱۷) یعنی راتوں کو بھی ان کو خدا کی یا دستاتی ہے.ان کے پہلو بستروں سے خود بخود جدا ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے رب کو خوف اور طبع کے ساتھ پکارتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے ہوتے ہیں.ملفوظات جلد چہارم میں درج ہے کہ عرب صاحب نے عرض کیا کہ میں نماز پڑھتا ہوں مگر دل نہیں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 209 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء ہوتا.فرمایا ” جب خدا کو پہچان لو گے تو پھر نماز ہی نماز میں رہو گے“ ( ملفوظات جلد ۲ صفحه : ۶۱۴) خدا تعالیٰ کے لئے عظمت اور جوش اور غیرت بھی نماز میں لذت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ”جو لوگ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال اور تقدیس کیلئے جوش نہیں رکھتے ان کی نمازیں جھوٹی ہیں اور ان کے سجدے بے کار ہیں.جب تک خدا تعالیٰ کے لئے جوش نہ ہو یہ سجدے صرف جنتر منتر ٹھہریں گے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحه : ۲۶۲) غرض یہ کہ نمازیں بڑی محنت اور کوشش کے بعد ایک ایسی منزل میں داخل ہو جاتی ہیں جس کے متعلق قرآن کریم یہ خوش خبری دیتا ہے کہ: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِيْنَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمُ خُشِعُونَ (المومنون : ۳۲) یعنی اللہ تعالیٰ کے مومن بندے یقیناً نجات یافتہ ہیں جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرنے کے عادی ہوچکے ہیں اور خاشعین کے زمرے میں داخل ہو گئے ہیں.پھر چند آیات کے بعد فرمایا وَ الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ) (المومنون (۰) یعنی یہ فلاح پانے والے مومن اپنی نماز کی حفاظت پر ہمیشہ مستعد رہتے ہیں.اس آیت کا حقیقی اطلاق آنحضرت ﷺ ہی پر ہوتا ہے.پھر آپ کی پیروی اور آپ ہی کی قوت قدسیہ کے طفیل یہ مقام خشوع آپ کے دوسرے غلاموں اور عشاق کو بھی نصیب ہوا.آنحضرت ﷺ کی نمازوں کی کیفیت کا کچھ اندازہ اس حدیث سے ہوسکتا ہے.حضرت صلى الله عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور ﷺ کی باری میرے ہاں تھی ایک تاریک رات کو حضور نصف شب کے قریب اٹھے میرے دل میں نسوانی حسد کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوا کہ دیکھوں حضور کہاں جاتے ہیں؟ حضور اٹھے اور سیدھے باہر ایک علیحدہ مقام میں تشریف لے گئے اور نوافل پڑھنا شروع کر دیئے.قیام اور رکوع کے بعد حضور سجدے میں گر گئے اس وقت آپ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 210 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء کا سینہ ہنڈیا کی طرح اہل رہا تھا اور حضور بار بار فرماتے تھے اللَّهُمَّ سَجَدَ لَكَ رُوحِی وَ جَنَانِي اللَّهُمَّ سَجَدَ لَكَ رُوحِی وَ جَنَانِی اے میرے اللہ ! تیرے حضور میری روح بھی سجدے میں ہے اور جسم بھی سجدے میں.اے میرے اللہ ! تیرے حضور میری روح بھی سجدے میں ہے اور جسم بھی سجدے میں ہے.پس یہ مقام جو خشوع کا مقام ہے یہ نمازوں کا اعلیٰ معیار کا ایک مقام ہے.دوسری صفت نمازوں کی وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (المومنون : ۱۰) کی بیان کی گئی ہے.میں اب تیسرے مقام کا ذکر کرتا ہوں جو مقام لقاء ہے اور نمازوں کا مقصود ہے.فلاح کے اس رفیع الشان مقام کے بعد جسے قرآنی اصطلاح میں مقام خشوع اور مقام حفاظت کہا جاسکتا ہے ایک اور بلند تر مقام بھی آتا ہے جو مقام لقاء کہلاتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کا ذکر قرآن کریم میں ان الفاظ میں فرمایا ہے: يَايُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلْقِيهِ (الانشقاق:۷) یعنی اے انسان جو لقاء باری تعالیٰ کے حصول کی خاطر کڑی محنت اور مشقت اٹھاتا رہا ہے یا اٹھا رہا ہے آخر تو لقاء کا پھل پالے گا.اس مقام پر پہنچ کر انسان محض گردو پیش پر غور اور فکر اور تدبر کرنے کے نتیجہ میں ہی نہیں بلکہ خود ذاتی مشاہدے سے یہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ذاتی مشاہدہ اور تجربہ کی بناء پر ایسی نماز کی کیفیت ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: انسان کی روح جب ہمہ نیستی ہو جاتی ہے تو وہ خدا کی طرف ایک چشمہ کی طرح بہتی ہے اور ماسوا اللہ سے اسے انقطاع تام ہو جاتا ہے.اس وقت خدا تعالیٰ کی محبت اس پر گرتی ہے.اس اتصال کے وقت ان دو جوشوں سے، جو اوپر کی طرف ربوبیت کا جوش اور نیچے کی طرف عبودیت کا جوش ہوتا ہے، ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کا نام صلواۃ ہے.پس یہی وہ صلوٰۃ ہے جو سیئات کو بھسم کر جاتی ہے اور اپنی جگہ ایک نور اور
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 211 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء چمک چھوڑ دیتی ہے.“ ( ملفوظات جلد اصفحہ: ۱۰۵) قرآن کریم اس کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرماتا ہے: فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا (الكهف : (11) یعنی جو کوئی بھی اپنے رب کی لقاء کی تمنا لئے ہوئے ہے اسے چاہئے کہ وہ عمل صالح اختیار کرے اور اپنے رب کی عبادت کو ایسا خالص کر لے کہ اس میں شرک کی کوئی ملونی باقی نہ رہے يعني لا اله الا اللہ کا جو اقرار انسان نے اپنی زبان سے کیا تھا جب کامل طور پر یہ اقرار اس کے افعال میں نمودار ہو جائے اور اس کی عبادت زبان حال سے لا الہ الا اللہ کا ودر کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ اسے خلعت لقاء سے نوازتا ہے.یہاں یہ بات یادر کھنے کے لائق ہے کہ اس عظیم الشان ارتقاء کے بعد بلکہ اسی کے نتیجے الله میں حقیقت محمدی پیدا ہوتی ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کا ظہور ہوتا ہے.چنانچہ کلمہ طیبہ میں لا اله الا اللہ کے بعد محمد رسول اللہ کا اقرار اسی حکمت اور فلسفے کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ کامل توحید جب کمال نام کے ساتھ انسانی اعمال کے سانچے میں ڈھلتی ہے تو ان دونوروں کے اتصال سے خلق آخر رونما ہو جاتی ہے اور اسی کا نام محمد رسول اللہ ہے.یعنی ایک وجود جس نے لا اله الا اللہ کے مفہوم کو کمال تام کے سے ساتھ اعمال کے سانچے میں ڈھالا اور گویا مجسم تو حید بن گیاوہ ایک اور صرف ایک اور صرف ایک محمد رسول اللہ ہی ہے.یہ وہ مقام ہے جس کے بعد آپ کو اس اعلان عام کا اذن ملتا ہے: قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام: ۱۶۳) تو بنی نوع انسان سے کہہ دے کہ میرا الگ وجود مٹ گیا.میں تو سرتا پا اپنے رب ہی کا ہو چکا ہوں.میری عبادتیں اور میری قربانیاں، میری زندگی اور میری موت تمام جہانوں کے رب اللہ ہی کے لئے ہو چکی ہیں.توحید کامل نے وصل تام پیدا کیا اور وصل تام نے دل کے ہر پردے کو چاک کر دیا یہاں تک کہ حقیقت محمدی اس شان کے ساتھ ظاہر ہوئی کہ رب العرش نے آپ کو مخاطب
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت کرتے ہوئے فرمایا: 212 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (الفتح: 11) E یعنی اے محمد ! بیعت رضوان میں شامل ہونے والوں نے تیری نہیں اللہ کی بیعت کی ہے تیرا وہ ہاتھ جو ان کے ہاتھوں پر ہے اللہ کا ہاتھ ہے.پھر فرمایا: وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَى (الانفال: ۱۸) کہ اے محمد امیدان بدر میں جب تو نے کنکریوں کی مٹھی کفار کی طرف پھینکی تو وہ تو نے درمیں جب ونے کمر نہیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھی.یہ آیات فی الحقیقت توحید کا معراج بیان کر رہی ہیں اور اسی ایک ازلی اور ابدی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ اس درجہ توحید میں کامل ہوئے کہ غیر تو غیر خود اپنے وجود کو بھی راہ خدا میں فنا اور کالعدم کر دیا پھر بعد اس ثناء کامل کے جو کچھ اس عبد کامل سے ظہور میں آیا وہ خدا کی مرضی اور خدا کا فعل اور خدا کا جلال و جمال تھا.وہ خدا تو نہ تھا مگر اس نے اپنے وجود کے ذرے ذرے کو خدا کی تخت گاہ اور خدا کا عرش بنانے کے لئے اپنی ذات سے خالی کر دیا.وہ خدا تو نہ تھا مگر باخداوہ خدا ہی کی جلوہ گاہ تھا، وہ خدا ہی کی جلوہ گاہ تھاوہ خدا ہی کی جلوہ گاہ تھا.الحضور اللہ نے قرآنی تعلیم کی روشنی میں اپنے رب سے حقیقت نماز کی معرفت حاصل فرمائی اور نماز کی جو اعلیٰ اور ارفع تصویر قرآن نے کھینچی تھی اپنے عمل کے سانچے میں ڈھال لی.اپنے صحابہ کو بھی تلقین فرمائی اور ان کو اسی رنگ میں رنگین کر دیا.یہاں تک کہ میدان بدر میں جب ان صحابہ کی ہلاکت کا خطرہ تھا آنحضور نے اپنے رب سے یہ دعا کی کہ اللّهُمَّ إِنْ أَهْلَكْتَ هَذِهِ الْعِصَابَةَ فَلَنْ تُعْبَدُ فِي الْاَرْضِ اَبَداً ( سنن ترندی کتاب تفسیر القرآن باب من سورۃ الانفال ) کہ اے اللہ ! عبادت کرنے والوں کا یہ وہ خلاصہ اور وہ روح ہے جو میں نے خالص تیری عبادت کے لئے تیار کی ہے.یہ وہ عابد بندے ہیں جن کی عبادت کے سامنے دوسری کوئی عبادت نہیں.پس آج اگر بدر کے میدان میں تو نے انہیں ہلاک ہونے دیا تو اے ہمارے معبود اور مسجود! گویا دنیا میں پھر تیری کبھی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 213 حقیقت نماز ۲۷۹۱ء عبادت نہیں کی جائے گی.پس اے احمدی نوجوانو اور بوڑھو اور بچو اور عور تو ! تم جو دنیا کی عظیم قوتوں سے نبرد آزمائی کے لئے اس حال میں نکلے ہو کہ بڑے قلیل اور نحیف اور کمزور اور کم مایا ہو اور دنیا کی قوتوں کے سامنے تمہیں اتنی بھی ظاہری حیثیت حاصل نہیں جتنی ہمالہ کی عظمتوں کے مقابل پر رائی کے ایک دانے کو ہو سکتی ہے.اگر تم چاہتے ہو کہ شکست دنیا کی عظمتوں کے مقدر میں لکھی جائے اور فتح تمہارے بجز اور انکسار اور کم مائیگی کے حصے میں آئے تو اٹھو اور محمد عربی کی اس دعا کے مصداق ہو جاؤ جو بدر کے میدان میں مانگی گئی تھی.عبادت پر اس مضبوطی سے قائم ہو جاؤ اور اپنی نمازوں کو اس طرح سنوار کر پڑھو کہ تم نماز کے دم سے قائم ہو اور نماز تمہارے دم سے قائم ہو.اگر تم ایسا کر سکو اور خدا کرے کہ تم ایسا کر سکو تو یقین جانو کہ آسمان پر روح محمد ایک دفعہ پھر تمہارے حق میں ، ہاں تمہارے حق میں یہ دعا کرے گی کہ اللهُمَّ إِنْ أَهْلَكْتَ هَذِهِ الْعِصَابَةَ فَلَنْ تُعْبَدُ فِي الْأَرْضِ أَبَداً کہ اے اللہ ! تو نے مسیح موعود کی اس جماعت کو اگر آج ہلاک ہونے دیا تو پھر کبھی دنیا میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی.روح محمد تمہارے لئے یہ دعا کرے گی اور عرش کے کنگرے بھی اس کی تاثیر سے لرزنے لگیں گے.تم اس دعا کے بعد خدا کی حفاظت میں اور اس کے جلال اور پیار کی گود میں جا بیٹھو گے اور کوئی نہیں دنیا میں جو تمہیں ہلاک کر سکے.خدا کی عظمتوں کا سایہ تمہارے سر پر ہوگا اور تم عاجزوں کی ایک نحیف اور کمزور اور بے کس اور بے سہارا جماعت نہیں رہو گے.ہاں دنیا کی عظیم نظر آنے والی طاقتیں تمہارے مقابل پر کمزور اور نحیف اور بے سہارا ہو جائیں گی.خدا کے جلال اور جمال کا مظہر بن کر تم قوت اور شوکت کا ایک سیلاب بن کر نکلو گے جو شیطانی عظمتوں اور تکبر کے پہاڑوں کو تنکوں اور خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا.اے خدائے عظیم کے مسکین بندو ! عبادت کے گر سیکھو اور اپنے عمل کو خدا کی عبادت سے حسین بنالو.اگر تم ایسا کرو تو تم عظیم ہو گے اور دنیا تمہارے سامنے ایسی ہوگی جیسے کوہ ہمالہ کے مقابل پر رائی کا ایک حقیر اور کرم خوردہ دانہ.پس اٹھو اور نماز کو قائم کرو اور مرد نہیں جب تک تم اپنے رب سے راضی نہ ہو جاؤ اور تمہارا رب تم سے راضی نہ ہو جائے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 215 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ( بر موقع جلسه سالانه ۱۹۷۳ء) تشہد وتعوذ کے بعد آپ نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الْفَسِقُونَ ( النور :۵۶) اسلام کے تنزل کا آغاز خلافت راشدہ کی ناقدری سے ہوا.یعنی اس آسمانی اور روحانی قیادت کی ناقدری سے ہوا جو بجا طور پر سید ولد آدم کی جانشین تھی اور جس کے اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی جانشینی کا مربوط سلسلہ وار اور مرکزی نظام اس دنیا سے اٹھ گیا.وہ برکتیں اٹھ گئیں جو اس نظام سے وابستہ تھیں، دین اسلام میں تمکنت باقی نہ رہی ،خوف نے امن کی جگہ لے لی ، توحید خالص نا پید ہونے لگی اور وحدت ملی پارہ پارہ ہوگئی.خلافت راشدہ کے انقطاع کے ساتھ وہ فتنے موج در موج سرزمین اسلام میں داخل ہونے لگے جن کے بارہ میں پہلے ہی سے مخبر صادق نے مسلمانوں کو خبر دار فرما رکھا تھا.انوالہ کے ایک صحابی حضرت حذیفہ کو آنے والے فتنوں کے متعلق بہت جستجو رہا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 216 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء کرتی تھی چنانچہ اس ہولناک فتنہ کے متعلق بھی آپ ہی نے روایت کی ہے جس کے بارہ میں آنحضور نے فرمایا کہ وہ سمندر کی موجوں کی طرح مواج ہوگا.ایک مرتبہ اس موضوع پر گفتگو کے دوران حضرت عمرؓ سے انہوں نے بیان کیا کہ آنحضور نے ان فتنوں کی راہ میں ایک بند دروازہ حائل ہونے کی بھی خبر دی تھی.اس پر حضرت عمرؓ اس کا مفہوم پا گئے اور پوچھا کہ بتاؤ تو سہی کہ فتنوں کی یلغار سے پہلے یہ دروازہ کھولا جائے گا یا توڑا جائیگا ؟ حضرت حذیفہ نے عرض کیا ، تو ڑا جائیگا.اس پر حضرت عمرؓ نے بڑی حسرت سے فرمایا کہ اگر تو ڑا جائیگا تو پھر کبھی بند نہ ہوگا.“ ( بخاری کتاب الفتن باب الفنية التي تموج كموج البحر ) یہ بند دروازہ خلافت راشدہ ہی تھی جو کہ اسلام اور فتنوں کے درمیان بڑی مضبوطی کے ساتھ حائل تھی.افسوس کہ اس دروازہ پر پہلی چوٹ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں پڑی اور خود آپ ہی کی ذات مبارک پر ایک سفاک خنجر کا حملہ وہ ضرب کاری ثابت ہوا جس نے اس مقدس دروازہ میں پہلا شگاف ڈالا.تفصیل اس واقعہ کی یہ ہے کہ ایک ایرانی مجوسی غلام ابولولو فیروز نے بعض دوسرے غلاموں کے ساتھ مل کر آپ کے قتل کی سازش تیار کی اور ناراضگی کا بہانہ وضع کرنے کی خاطر آپ سے ایک دن مطالبہ کیا کہ میرے مالک سے کہہ کر میرا مالکانہ بڑھوا دیجئے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب وجہ پوچھی تو جواب تسلی بخش نہ پایا چنانچہ آپ نے انکار فرما دیا.بات بہت معمولی تھی مگر گفتگو کے دوران اس نے ایک ایسا فقرہ بولا جس کا مفہوم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سمجھے کہ یہ مجھے دھمکی دیتا ہے.چنانچہ آپ نے اپنے رفقاء سے فرمایا کہ اگر شبہ کی بناء پر کسی کا قتل جائز ہوتا تو میں اسے اس الزام میں قتل کروادیتا کہ اس نے مجھے قتل کی دھمکی دی ہے.افسوس کہ اس تنبیہ کے باوجود اس کی نگرانی کا کوئی انتظام نہ کیا گیا اور ۳۶ / ذوالحج ۲۳ ہجری بمطابق ۴ رنومبر ۶۴۴ ء اس وقت جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز فجر کی امامت فرما رہے تھے، ابولولو مسجد میں داخل ہوا اور پے در پے آپ پر خنجر کے چھ وار کئے جن سے زخمی اور نڈھال ہو کر حضور و ہیں جائے نماز پر گر پڑے اور اپنے ہی خون کے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 217 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء سیلاب میں نہا گئے.پیشتر اس کے کہ اس ظالم کے کوئی ہاتھ روکتا، یہ واقعہ گزر چکا تھا تاہم نہتے نمازی خنجر بکف فیروز پر ٹوٹ پڑے اور اپنے آقا کے قاتل کو بھاگ نکلنے کی اجازت نہ دی لیکن اس کشمکش میں سات دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم شہید ہو گئے اور چھ شدید زخمی ہوئے لیکن بالآخر ا سے مغلوب کر لیا گیا، اس وقت اس نے اپنے سینہ میں خنجر گھونپ کر خود کشی کر لی.تاریخ الخلفاء صفحه ۳۳، تاریخ الخمیس جلد دوم صفحه ۳۸) تیسرے روز حضرت عمرؓ بھی رحلت فرما گئے اور اس طرح شاران خلافت محمدیہ کا یہ پہلا قافلہ آٹھ سعید روحوں پر مشتمل ملاً اعلیٰ میں اپنے رب اور آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں حاضر ہو گیا.۴ رنومبر کا یہ دن بلا شبہ اسلام کی تاریخ کا سب سے زیادہ تاریک اور سب سے زیادہ پر درد اور پر آلام دن تھا.یہ اس لئے کہ اس دن اسلام پر آنے والے ہولناک مصائب کا آغاز ہوا، یہ اس لئے کہ اس دن اس دروازہ پر ضرب کاری لگی جو اسلام اور موج در موج فتنوں کے درمیان حائل تھا.یہی وہ دن تھا جو خلافت راشدہ کے اختتام کا آغاز بنا، یہی وہ دن تھا جو حضرت عثمان اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادتوں کا پیشرو بنا اور بلا شبہ کر بلا کے دردناک واقعہ نے اسی دن کے منحوس پیٹ سے جنم لیا.ایک کربلا ایک آفت ! نہیں نہیں ہزاروں لاکھوں کروڑوں آفات سینکڑوں کر بلائیں اسی دن کی کوکھ سے پیدا ہوئیں.اس دن نے شکوہ کیا کہ خلافت راشدہ محمدیہ کی حفاظت کا کماحقہ انتظام نہیں ہے، اس دن نے شکایت کی کہ خلافت حقہ کی جیسا کہ حق تھا قدرشناسی نہیں کی گئی، اس دن نے یہ الزام دیا کہ خلیفۃ الرسول کے خلاف سازشوں کا بر وقت ازالہ نہیں کیا گیا.انگلی اٹھا کر اس دن نے وہ پر غدر ایام دکھائے کہ جب حضرت عثمان اور حضرت علیؓ کے خلاف سازشوں کو پنپنے کی اجازت ملنی تھی اور اس حد تک برداشت کیا جانا تھا کہ پانی سر سے گزر جائے پھر اس دن نے بڑی حسرت کے ساتھ وہ ٹوٹا ہوا دروازہ دکھایا جس کی راہ سے فتنوں کا سیلاب سرزمین اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گیا تھا اور جس نے مستقبل قریب میں امن کے محافظ اس مقدس دروازہ کو کلیہ اکھاڑ پھینکنا تھا.پس ایسا ہی ہوا اور یکے بعد دیگرے اسلام کے تین خلفاء راشد سید ولد آدم کے دین کی حفاظت اور خدمت کرتے ہوئے شہید ہوئے.امن اور خالص توحید کا دور ختم ہوا اور بلاؤں اور کر بلاؤں کا دور شروع
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 218 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء ہوا، بادشاہت نے خلافت کی جگہ لے لی اور شرک نے تو حید کو بے دخل کرنا شروع کیا ،ملت واحدہ فرقوں میں بٹنے لگی اور دین اسلام کی وحدت پارہ پارہ ہوتی رہی.کوئی نہیں تھا جو اس انتشار کو روک سکے.شیعہ اور سنی ، خارجیہ اور مرجیہ، معتزلہ اور انکی شاخ در شاخ تقسیمیں ، اہل عدل اور اہل حکم، قدریہ اور شنو یہ جمیہ اور وادیہ معطلہ - شیعوں کی اندرونی سیمیں : اثنا عشریہ، اسماعیلیہ، طبعیہ ، حشیشین ، دروزی، کرامطی.اہل سنت کی فقہی تقسیمیں مالکی ، شافعی، حنفی، جنبلی.پھر ہندوستان کے پیداوار فرقے : بریلوی، دیوبندی، چکڑالوی.غرضیکہ آنحضور ﷺ کا پیارا دین واحد بٹتے بٹتے ۷۲ فرقوں میں تقسیم ہو گیا.ادھر دین اسلام پر یہ گزر رہی تھی ادھر دنیائے اسلام کا حال بھی سن لیجئے کہ مسلمانوں کی شرق تا غرب پھیلی ہوئی عظیم سلطنت ایک دو تین خلافتوں میں بٹتی ہوئی آخر بیسیوں چھوٹی چھوٹی بے زور اور بے ہمت ریاستوں میں تبدیل ہو گئی.ان میں سے کچھ تو ابتک اس حال میں زندہ ہیں کہ اپنی حفاظت اور بقا کے لئے کبھی مشرق کی طرف دوڑتی ہیں اور کبھی مغرب کی آغوش میں جابیٹھتی ہیں، دونوں ہی وقت ان کے ہاتھ میں کشکول ہوتا ہے اور کچھ ایسی ہیں جو آزاد حیثیت سے زندہ نہ رہ سکیں اور غیروں کی غلامی کا جوا پہن کر حقیر غلامانہ زندگی پر راضی ہوگئیں.کچھ سلطنتیں ایسی مٹیں کہ ان کا نشان تک باقی نہ رہا نہ غلامی کا سوال رہا نہ آزادی کا جھگڑا اور اس طرح انکی صف لپیٹ دی گئی کہ محاورۃ نہیں بلکہ فی الحقیقت نام کا بھی مسلمان اس خطہ پر نظر نہ آتا تھا جس پر اس نے آٹھ سو سال تک بڑی شان اور بڑے جلال اور بڑی تمکنت کے ساتھ حکومت کی تھی.پین کی سرزمین وہی بدقسمت سرزمین ہے جہاں مسلمانوں کے خاموش مقابر اور شاندار مساجد اور بڑے بڑے عالیشان قلعے بھی ملتے ہیں لیکن نہ تو کوئی مجاور نظر آتا ہے نہ کوئی نمازی نہ قرآن خوان نہ نگران نہ محافظ.یہ ایسا کیوں ہوا ؟ صرف اس لئے اور صرف اس لئے کہ خلافت راشدہ کا نظام ہمارے ہاتھ سے جاتارہا.یہ وہ نظام تھا جس میں اسلام اور ملت اسلامیہ کی جان مضمر تھی.یہی وہ حصن حصین تھا جو اسلام کو سب آفات سے بچائے ہوئے تھا جب اس قلعہ کا دروازہ سر ہوا تو مسلمانوں اور اسلام پر جو کچھ گزری اس کا جائزہ لیتے ہوئے مشہور مسلمان مفکر جمال الدین افغانی فرماتے ہیں : ر ملت اسلام کی مثال ایسی تھی جیسے قوی الجثہ صحیح المزاج جسم عظیم ہوتا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 219 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء ہے پھر اس کو بیماریاں لاحق ہوئیں اور اس کے اجزاء کی پیوستگی میں تفرق و انحلال پیدا ہونے لگا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ سارا جسم پارہ پارہ ہوکر تحلیل ہو جائے.یہ ضعف و انحلال اس وقت سے شروع ہوا جب رتبہ علمیت رتبہ خلافت سے جدا ہوا.خلفاء راشدین رضی اللہ نھم علم اور خلافت کے جامع تھے لیکن عباسی خلفاء شرف علم اور تفقہ فی الدین اور اصول و فروع میں اجتہاد کے مرتبہ سے اتر کر محض نام کی خلافت پر قانع ہو گئے.خلفاء کی اس بے مائیگی نے بکثرت مذاہب پیدا کر دئیے یہاں تک کہ جب تیسری صدی ہجری شروع ہوئی یہ اختلافات اس قدر شاخ در شاخ ہو چکے تھے کہ اس کی مثال کسی دین میں نہیں ملتی.ایک طرف یہ ہوا تو دوسری طرف عیش کی فراوانی اور عقل و عزم کی قلت نے وحدت خلافت کو تقسیم کر ڈالا.بغداد میں عباسیوں کی خلافت قائم تھی کہ مصر ومغرب میں فاطمیہ کی خلافت اور اندلس اور اس کے اطراف میں امویہ کی خلافت قائم ہوگئی.اس تقسیم و تجزی نے کلمہ امت کو پراگندہ اور اجماع واتفاق کو گروہ گروہ کر دیا.......اختلافات کی شدت ان کے نیزے آپس ہی میں توڑ رہی تھی کہ چنگیز خان کا ظہور ہوا.چنگیز خان اور اس کی اولا د تیمور لنگ اور اس کے احفاء یکے بعد دیگرے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور اتنا قتل کیا کہ ذلیل کر دیا.اسقدر ذلیل کیا کہ وہ خود اپنی ہی نگاہ میں اپنے نفس کے سامنے ذلیل ہو گئے.شیرازہ ملت ورق ورق ہو گیا.بادشاہوں اور عالموں کے ربط کے لکھے ٹوٹ گئے.انفرادیت نے اس شدت سے سراٹھایا کہ ساری امت فرد فرد ہوگئی.“ (مسلمانوں کا انحطاط وجمود اور اسکا سبب، از مقالات جمال الدین افغانی صفحہ اکا، ۱۷۳) پھر کہتے ہیں: " کیا تم نے اس امت کو دیکھا ہے جو پہلے کسی شمار میں نہیں تھی پھر وہ عدم کی اندھیری کو چاک کر کے باہر نکلی اور جب باہر نکلی تو اس شان سے کہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 220 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیلۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء ہر شخص اس کا حامی بن گیا، جس کا نقشہ حیرت انگیز ، جس کے ارکان مضبوط ، جس کی عمارت مستحکم، جس کی دیوار میں بڑی زبردست ، جس کے اطراف شجاعت کی فصیل کھینچی ہوئی تھی، جس کے صحن میں اترنے والی آفتیں بے اثر ہو جاتی تھیں، جس کے مدبروں کے ہاتھوں مشکل عقدے حل ہوتے تھے، جس کے شجر عزت کی جڑیں مضبوط اور شاخیں خوب پھلی پھولی تھیں، جس کی حکومت دور ونزدیک سب پر پھیلی ہوئی تھی ، جس کی عظمت کا سکہ ہر طرف چلتا تھا، جس کا کلمہ سب پر چھایا ہوا تھا اور جس کی قوت درجہ کمال تک پہنچ چکی تھی...گویا وہ عالم کی روح مد برتھی اور عالم اس کے لئے جسم اور اسکے تحت کام کرنے والا.ان تمام ترقیوں کے باوجود اس قوم کی عمارت کمزور ہوگئی ، اس کے نظم ونسق میں انتشار پیدا ہو گیا، خواہشات نے اسمیں پھوٹ ڈالدی، اس میں اتحادو اتفاق باقی نہ رہا، اس کا شیرازہ بکھرنے لگا ،مضبوط گر ہیں کھلنے لگیں ، تعاون و توافق کا دستہ ٹوٹ گیا....امت میں یہ مرض اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ وہ ہلاکت کے قریب پہنچ گئی ہے اور اپنے بستر مرگ پر وہ ہر ظالم کا شکار اور ہر درندہ کا نوالہ بن گئی ہے.“ امت کا ماضی حال اور اسکی بیماریوں کا علاج از مقالات جمال الدین افغانی ، صفحہ ۱۲۱- ۱۲۳) اس در دوالم کی کہانی کو بعد کے شعراء نے بھی بیان کیا.اس وقت تک یہ درد اور بھی بڑھ چکے تھے.کچھ ان کی زبانی بھی سن لیجئے.علامہ حالی فرماتے ہیں: اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے پر دیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں اب اسکی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے
اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 221 جو دیں کہ ہمدرد بنی نوع بشر تھا اب جنگ و جدل چار طرف اس میں بپا ہے دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے اک دیں ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے بگڑی ہے کچھ ایسی کہ بنائے نہیں بنتی ہے اس سے یہ ظاہر کہ یہی حکم خدا ہے کشتی امت کے نگہبان فریاد ہے بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی ہاں اک دعا تیری کہ مقبول خدا ہے (مسدس حالی صفحہ ۱۱۷- ۱۲۰ ) پھر کہتے ہیں: پھر اک باغ دیکھے گا اجڑا سراسر جہاں خاک اڑتی ہے ہر سو برابر نہیں تازگی کا نہیں نام جس پر ہری ٹہنیاں جھڑ کیں جس کی جل کر نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل ہوئے روکھ جس کی جلانے کے قابل یہ آنحضرت کی قوم کے حالات بیان ہورہے ہیں.کہیں تازگی کا نہیں نام جس پر ہری ٹہنیاں جھڑ گئیں جس کی جل کر نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل ہوئے روکھ جس کے جلانے کے قابل
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 222 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء چمن میں ہوا آچکی ہے خزاں کی پھری ہے نظر دیر سے باغباں کی صدا اور ہے بلبل نغمہ خواں کی کوئی دم رحلت ہے اب گلستاں کی تباہی کے خواب آرہے ہیں نظر سب مصیبت کی ہے آنے والی ہے سحراب؟ ڈاکٹر اقبال نے ان حالات کو ان الفاظ میں بیان کیا: شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟ وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تم مسلمان بھی ہو ہاتھ بے زور ہیں ، الحاد سے دل خوگر ہیں امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں بادہ آشام نئے بادہ نیا تم بھی نئے حرم کعبہ نیا بت بھی نئے تم بھی نئے جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہو بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 223 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء ہو نکونام جو قبروں کی تجارت کر کے کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے؟ (جواب شکوه، با نگ در از کلیات اقبال ص ۱۸۱، ۱۸۲، ۱۸۴) اسلام کے تنزل کے مضمون پر نثر میں بھی اور نظم میں بھی بہت کچھ لکھا گیا.لیکن اس مضمون میں آخری بات وہی ہے جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے ایک شعر میں بیان فرما دی ہے.آپ فرماتے ہیں: کربلا ایست سیر ہر آنم صد حسین است در گریبانم ( در تمین فارسی صفحه: ۲۴۸) اسلام کے دکھوں کا حال مجھ سے پوچھو تمہیں تو ایک کر بلا کی خبر ہے مگر میں تو ہر لحہ ایک نئی کر بلاد یکھتا ہوں اور میرے گریبان میں سو حسینوں کا دکھ گر یہ کناں ہے.تنزل کا وہ سایہ جو خلافت راشدہ کے آخری ایام میں گہرا ہونا شروع ہوا بالآخر ایک مکمل رات کی تاریکی میں بدل گیا.اور تیرہویں صدی کے آغاز تک تو یہ تہہ بہ تہ ظلمتوں اور سخت در سخت اندھیروں میں بدل چکا تھا اور بڑی شدت سے حساس مسلمانوں کے دل میں یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ کیا نجات کی کوئی راہ باقی ہے؟ کیا کبھی صبح صادق طلوع ہوگی بھی کہ نہیں ؟ اب امت مسلمہ کے لئے سوال اچھے یا برے حال میں زندہ رہنے کا نہیں تھا بلکہ زندگی اور موت کا سوال بن چکا تھا.اب سوال یہ تھا کہ To be or not to be کیا ہم باقی رہیں گے بھی یا نہیں ؟ سوال اب یہ تھا کہ روٹھی ہوئی خلافت راشدہ کو پھر سے کیسے منایا جائے؟ وہ کون سے تدبیر کی جائے کہ یہ آسمان سے پھر زمین پر اتر آئے.ظاہر ہے کہ جس خلافت کو تیرہ سو سال کی زمینی کوششوں کے نتیجے میں قائم نہ کیا جاسکا اس انتہائی ادبار اور حد سے گزرے ہوئے تفرقہ کے وقت مسلمانوں کا ازخودا کٹھے ہوکر ایک خلیفہ راشد کا انتخاب کرنا ناممکن تھا اور بفرض محال وہ ایسا کر بھی لیتے تو اس بات کی کیا سند تھی کہ اس انتخاب کے نتیجے میں خلیفہ بننے والا واقعی رسول اللہ کا حقیقی جانشین بھی ہوگا؟ آنحضرﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا اور آپ کا خلیفہ بنانے کا حق بھی صرف اور
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 224 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء صرف خدا ہی کو ہے پس وہ خلافت جو خدا نے قائم فرمائی اور بندوں کی نالائقی کے ہاتھوں اس دنیا سے اٹھ گئی ،ممکن نہیں تھا، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس خلافت کو دنیا کے وہ بندے جو ان مقامات سے بہت زیادہ ادنیٰ حالتوں تک پہنچ چکے ہیں جن مقامات پر وہ لوگ کھڑے تھے جن سے خلافت روٹھی تھی ، وہ اپنے ہاتھوں سے دوبارہ اس خلافت محمدیہ کو قائم کر دیں.صرف اور صرف ایک راہ تھی چنانچہ طبعاً نگاہیں آسمان کی طرف اٹھنے لگیں اور جوں جوں وہ صدی ڈھلتی گئی جس کے وقت کے آخر میں متفرق حدیثوں کی رو سے امام مہدی کے ظہور کی خبر دی گئی تھی.کروڑ ہا منتظرین مسیح و مہدی کی بے چینی و بے قراری میں اضافہ ہوتا رہا اور بے کلی حد سے بڑھ گئی.رات بہت طویل ہو چکی تھی اور سفیدی صبح طلوع ہوتی نظر نہ آتی تھی.اس وقت عالم اسلام میں چیخ و پکار اور آہ و بکا کا ایک شور بلند ہوا اور سب نے بے تابی سے منت وزاری سے گریہ کر کے اپنے رب کے حضور دعائیں کیں ، مناجات کیں کہ اے خدا! بھیج اب اس امام کو جس کی اس امت کو خوشخبری دی گئی تھی.مشہور اہلحدیث رہنما نواب صدیق حسن خان نے لکھا، کچھ حدیثیں بیان کر کے کہتے ہیں : میں کہتا ہوں کہ اس حساب سے ظہور مہدی کا شروع تیرھویں صدی پر ہونا چاہئے تھا.مگر یہ صدی پوری گزرگئی ، مہدی نہ آئے ، اب چودھویں صدی ہمارے سر پر آئی ہے،....شاید اللہ تعالیٰ اپنا فضل و عدل اور رحم وکرم فرمائے ، چار چھ برس کے اندر مہدی ظاہر ہو جاویں.....اب یہ صدی چودہویں شروع ہے، ہر طرف سے آواز فتنہ فساد نے کانوں کو بھر دیا ہے دیکھئے 66 یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے.“ پھر کہتے ہیں: اقتراب الساعۃ صفحہ ۲۱ مصنفہ ابوالخیرسید نور الحسن خان) بلا سے کوئی ادا انکی بدنما ہو جائے کسی طرح سے تو مٹ جائے ولولہ دل کا کہاں کہاں میں بچاؤں کہاں کہاں دیکھوں ہے خارزار محبت میں آبلہ دل کا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 225 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء مدد کرے اثر بے کسی و تنہائی ہے آج لشکر غم سے مقابلہ دل کا زیادہ مت دل مضطر کو بے قرار کرو ز میں نہ لوٹ دے اک دن زلزلہ دل کا اقتراب الساعۃ صفحه ۳۳، ۲۲۴ ) مشہور سجادہ نشین خواجہ حسن نظامی نے ممالک اسلامیہ کی سیاحت کے بعد لکھا: ممالک اسلامیہ کے سفر میں جتنے مشائخ اور علماء سے ملاقات ہوئی میں نے انکو امام مہدی کا بڑی بے تابی سے منتظر پایا.شیخ سنوسی کے ایک خلیفہ سے ملاقات ہوئی انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اسی ۱۳۳۰ھ میں امام محدوح ظاہر ہو جائیں گے.“ اهل حدیث ۲۶ / جنوری ۱۹۱۲ء بحوالہ موعود اقوام عالم از مولا نا عبدالرحمن مبشر صفحه : ۳۹) شیعوں کے ایک مشہور عالم نے اپنے امام مہدی کو مخاطب کرتے ہوئے یہ فریاد کی : شعار بیا اے امام ہدایت که بگذشت غم از انتظار حد زروئے ہما یوں بیفکن نقاب عیاں ساز رخسار چون آفتاب بروں آئے زمنزل اختفاء نمایاں کن آثار مهر آثار مهر و وفا (مستطاب روضتہ الاحباب از سید جمال الدین عطاء اللہ بن سید غیاث الدین فضل اللہ.بحوالہ الصراط السوی فی احوال المهدی از مولوی سید محمد سبطین ) یعنی اے امام صداقت شعار ! آ کہ انتظار کا غم حد سے بڑھ گیا ہے، اپنے مبارک چہرے سے پردہ اٹھا اور سورج جیسا چہرہ ظاہر فرما.پوشیدہ جگہ سے باہر آ اور محبت اور وفا کے آثار ظاہر فرما.ایک اور مسلمان شاعران الفاظ میں اپنے رب کے حضور مناجات کرتے ہیں:
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 226 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء اب دعا کہ اے مالک آپکا جو غضب تھا آنے کا ہو چکا نہیں بھیج امتحان صبر ورضا وقت آزمانے کا اب امام مہدی کو بتا بلانے کا یا طریقہ بتا اے امام الزماں کہاں ہیں آپ کچھ بتا دیجئے ٹھکانے کا جلد آجائے جو بھی آنا ہے اب گیا وقت آنے آنے کا؟ دیکھئے جہان ہے مشتاق آپ کو آنکھوں بٹھانے کا پر موعود اقوام عالم از مولانا عبدالرحمن مبشر صفحه ۲ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ ) لیکن افسوس کہ وقت کے تقاضوں کے باوجود، قرآن کے حتمی وعدہ کے باوجود کہ تمہیں یقیناً خلافت عطا کی جائے گی ، آنحضرت ﷺ کی عظیم خوشخبریوں کے باوجود، ان منتظرین مسیح و مہدی کے لئے کوئی آنے والا نہ آیا.ان کی دانست اور تصور کے مطابق نہ تو کوئی آنے والا آسمان سے اترانہ زمین سے ظاہر ہوا.ایسا کیوں ہوا؟ سوال یہ ہے کہ خدا اور رسول کے وعدے آخر کیوں پورے نہ ہوئے؟ در اصل اس کی وجہ یہ ہے کہ انکا مہدی اور مسیح کا تصور ان کے قرآنی تصور سے ہٹ چکا تھا اور آنحضرت ﷺ کے عمل اور سنت سے پرے نکل گیا تھا.ان کو انتظار ہوئی ایک ایسے خونی مہدی کی جو ایک روز اچانک ظاہر ہو کر اپنی تلوار سے دشمنان اسلام کا قلع قمع کر دیں گے اور توپ اور تفنگ اور جیٹ طیاروں کے راکٹ اور بمبار طیاروں کے برستے ہوئے بم اور آتشیں راکٹ برسانے والے میزائل اور پہاڑوں کی طرح عظیم الہئیت طیارہ بردار جہاز اور ایٹمی اسلحہ سے لیس آبدوز کشتیاں اور ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک مار کرنے والے ہولناک ہتھیار، غرضیکہ یہ تمام ہلاکت اور نار صلى الله
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 227 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیلۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء جہنم برسانے والی مشینیں امام مہدی کی تلوار کی چھنا چھن اور پے در پے ضربوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی اور اچانک یہ امام آخری الزمان اعلان کرے گا کہ اے مفلس و بے کس اور اے بے زوروز رمسلمانوں! اے دین و دنیا سے عاری اور اسلام سے دور فسق و فجور کی راہوں میں بھٹکنے والو! جو آج تک مغرب کی ترقی یافتہ قوموں کے رحم و کرم اور ان سے ملنے والی امداد پر زندہ تھے، اٹھو اور انکی تباہ شدہ سلطنتوں پر قبضہ کر لو.میرے دست و بازو نے ان کو تمہارے لئے مغلوب و مفتوح اور خائب وخاسر کر دیا ہے.اسی طرح ان کو انتظار تھی ایک ایسے مسیح کی جو دو ہزار برس قبل طبعی موت وفات پا کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو چکے تھے.ان کو انتظار تھی کہ وہ آسمان سے ظاہر ہوں اور ان کے لئے وہ کرشمے دکھا ئیں جن کرشموں کا تصور بھی ایک معقول انسان کے لئے مضحکہ خیز ہے.مسلمانوں کے ادبار اور تنزل کے انتہا کے وقت ظاہر ہونے والے آسمانی مصلحین کا یہ وہ تصور تھا جسے مسلمان علماء ، صوفیاء اور مشائخ دل و دماغ میں سمائے اور سینوں سے چپکائے ہوئے بیٹھے تھے کہ اچانک قادیان کی ایک گمنام بستی سے ایک پر شوکت آسمانی آواز بلند ہوئی اور اس نے مسلمانوں کو ایک نیا مکتب فکر عطا کیا.اس کا لب لباب یہ تھا کہ جب سے دنیا بنی ہے اور جب سے پیغمبری اور رسالت کا سلسلہ شروع ہوا ہے آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بگڑے ہوئے مذاہب یا مذاہب کے بگڑے ہوئے متبعین کی اصلاح کرنے میں علماء یا صوفی یا مشائخ یار بی یا راہب یا فقیر یاسن سادھو کی کوششیں کامیاب ہوئی ہوں.قرآن کریم جو تاریخ مذاہب میں ہمیں بتاتا ہے اس میں ایک بھی استثناء نہیں بلکہ اس کے برعکس بار بار اس امر کی تنبیہ ملتی ہے کہ جب بھی مذہبی قوموں پر اد بار آیا اس کے بڑے لوگ اور مہنت اور ربی اور راہب اور مشائخ خود ان خرابیوں کے ذمہ دار تھے.ان سے اصلاح کی توقع تو در کنار یہ تو اصلاح کی ہر اس کوشش کے اولین دشمن نکلے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست فرمائی گئی.پس ہر وہ شخص نادان یا شیخی خوردہ ہے جو اس طفلانہ ذہن میں مبتلا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمت اور قوت اور ہدایت اور اذن پائے بغیر کوئی مولوی یا پیر فقیر محض اپنے علم اور تدبر اور کوششوں کے ذریعہ کسی بھی بیمار امت کی روحانی اصلاح میں کامیاب ہو سکتا ہے.پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا اور آئندہ کبھی ایسا نہیں ہوگا.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 228 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء آدم کے بعد نوع آئے اور نوح کے بعد عاد کی طرف ھوڈ کو بھیجا گیا اور بگڑی ہوئی خمود کی طرف صالح " مبعوث ہوئے ، قوم آزر کو ابراہیم نے توحید کا درس دیا اور ابراہیم کے بعد نسلاً بعد نسل روحانی خلافت ان کی ذریت کو عطا ہوتی رہی.جب سدوم اور گمارہ کی بستیوں میں گمراہی پھیلی تو اللہ تعالیٰ نے کھلے کھلے انذار کے ساتھ لوظ کو بھیجا اور مدین کے بددیانت تاجروں کو شعیب نے ماپ تول کے آداب سکھائے.غرضیکہ ایک کے بعد دوسرا نبی آیا اور اپنے فرائض کو پورا کر کے چلا گیا.ان میں سے صاحب شریعت بھی تھے اور وہ بھی تھے جو پہلی شریعتوں کے تابع تھے اور یہ ایک لمبا سلسلہ آدم سے حضرت محمد مصطفی میل تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے.لیکن اس طویل مذہبی تاریخ میں قرآن کریم ایک بھی ایسے واقعہ کی خبر نہیں دیتا کہ خدا کی طرف سے بھیجے ہوؤں کے سوا کبھی کسی نے بگڑی ہوئی قوموں کی اصلاح کی ہو.پھر آقائے امت حضرت محمد مصطفی ﷺ نے بھی اصلاح امت کے لئے ایک آسمانی مصلح ہی کی خبر دی تھی جس نے خدا تعالیٰ کی طرف سے اذن ہدایت پا کرامت کی اصلاح کرنا تھی.لیکن جہاں تک مسلمانوں کے اس گروہ کا تعلق ہے جو آسمانی مصلحین کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا، قادیان سے بلند ہونے والی اس آواز نے ان کو بتایا کہ مہدی اور مسیح کا آنا تو برحق ہے لیکن منشاء نبوئی نہ سمجھنے کے باعث جس صورت میں تم ان کے آنے کے منتظر ہو وہ سراسر عقل کے منافی ، تاریخ مذاہب کے خلاف اور سنت اللہ اور سنت الرسول سے ٹکر انے والی ہے.مذہبی قوموں کی تقدیر کبھی ایسے شعبدوں سے نہیں بدلی.کیسے ممکن ہے کہ مسلمان تو کتاب اللہ کی طرف پیٹھ پھیر کر ہر قسم کی بد عملی اور فسق و فجور میں مبتلا ہو جائے ، وحدت ملی پارہ پارہ ہو چکی ہو، ان کا رسول زبان حال سے بارگاہ رب العزت سے شکوہ کر رہا ہو کہ يُرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ( الفرقان :۱۳) کہ اے میرے رب! میری قوم نے میرے قرآن کو مہجور کی طرح چھوڑ دیا ہے.تب ایسی صورت حال میں یکا یک سنت انبیاء کے خلاف کوئی آسمانی وجود آسمان سے اترے یا زمین سے ظاہر ہو اور اس قوم کو طویل اور مسلسل اور عظیم اور دردناک قربانیوں کی راہ دکھائے بغیر تن تنہا دنیا کی عظیم سلطنتوں کے تاج و تخت کو پاؤں تلے روندتا ہوا گزر جائے یا وہ اکیلا اٹھے اور واشنگٹن اور ماسکو اور لندن اور پیکنگ کی اینٹ سے اینٹ بجادے اور ان کے خزانوں کی چابیاں مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھما کر ان سے کہے کہ اٹھو اور اب ان سلطنتوں پر حکومت کرو.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 229 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء کا ئنات کا سب سے بڑا معجزہ تو محمد عربی ﷺ نے دکھایا تھا اور وہ یہ تھا کہ دنیا کی ایک ادنی اور حقیر اور ذلیل اور پسماندہ اور جاہل قوم کو قعر مذلت سے اٹھا کر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی حیران نظر کے سامنے اوج ثریا پر جا بٹھایا تھا.مگر اس بلندی سے پہلے انہیں بلندی کردار بخشی گئی تھی ، دنیا کی بادشاہتوں سے قبل انہیں آسمان روحانیت کی بادشاہت عطا ہوئی تھی ، بندے پر حکومت سے پہلے انہیں خدا کی بندگی کے آداب سکھائے گئے تھے.یہ درست ہے کہ قیصر و کسریٰ کی شرق تا غرب پھیلی ہوئی سلطنتیں ان کے گھوڑوں کے سموں تلے روندی گئیں.اور یہ بجا ہے کہ ان کے ذخار خزانوں کی چابیاں ان فاقہ مستوں کے ہاتھوں میں تھائی گئیں.یہ درست ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ابو ہریرہ نے کسری کے جواہرات سے مزین ریشمی رومال پر تھوکا اور اپنے آقا محمد عربی ﷺ پر درود بھیجے لیکن یہ درست نہیں، بخدا یہ درست نہیں کہ یہ معجزہ ان کی بے مثل قربانیوں اور محنتوں اور مشقتوں اور ایثار کے بغیر ہی رونما ہو گیا ہو.جس راہ پر انہوں نے قدم مارا وہ بلا شبہ آسمان کی رفعتوں کی جانب پھر اس سے بلند ہوتی ہوئی ایک درخشندہ راہ تھی.مگر خوب جان لو کہ وہ خون آشام وادیوں اور سنگلاخ چٹانوں اور بے آب و گیاہ منزلوں سے ہو کر گزری تھی.یہ وہ راہ تھی جو مکہ سے نکلی اور طائف کا منہ دیکھا اور شعب ابی طالب کی فاقہ مست تنہائی میں سالہا سال تک قرار کیا.یہ وہ راہ تھی کہ جو لوٹے ہوئے شہر بدر مظلوموں کا قافلہ لئے ہوئے مدینہ کی طرف روانہ ہوئی اور پھر بدر کے میدان سے گزرتی ہوئی یہ احد اور حنین کی قربان گاہوں تک جا پہنچی اور وہاں جان کے نذرانے پیش کئے.اس راہ پر خندقیں واقع تھیں، اس راہ میں جھلتے ہوئے صحرا پڑتے تھے، اس راہ پر وہ عبادتگاہیں تھیں جو راتوں کی گریہ وزاری اور مناجات کے شور سے جاگ اٹھتی تھیں.اس راہ پر وہ مسجد نبوی واقع تھی جس کے صحن میں فاقہ کش اصحاب الصفہ نے درویشانہ ڈیرے ڈال رکھے تھے.یہ وہ راہ تھی جس پر ظالم ڈاکے ڈالتے تھے اور سفاک قاتل اندھے نہتے اور بے کس حفاظ قرآن کو تہ تیغ کیا کرتے تھے.یہ وہ راہ تھی جس پر دن رات قرآن کی تلاوت کرنے والے نیزوں کی انیوں میں پروئے جاتے تھے.جہاں عزتیں لوٹی جاتی تھیں اور خون ناحق کی ارزانی تھی.اس راہ پر چلنے کی مد عربی اے نے دعوت دی تھی.یہ وہ قافلہ تھا جس کے آپ قافلہ سالار تھے.یہ وہ معجزہ تھا جو آپ نے دکھایا.پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس راہ سے ہٹ کر بھی کوئی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 230 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء اور نجات کی راہ ہو؟ اسلام پہلے بھی زندہ ہوا تھا اور پھر بھی زندہ ہو گا.کامل موت سے یہ کامل زندگی کا چشمہ پھر بھی پھوٹے گا لیکن بعینہ اسی راہ پر چل کر جس پر اس آقائے دو جہان نے اپنی قوم کو چلایا اور ویسی ہی دعاؤں سے قوت پا کر جو آپ نے رب العزت کی بارگاہ میں کیں.کوئی مصلح ، اور خوب کان کھول کر سن لو کہ کوئی مصلح اور کوئی ریفارمر اور کوئی معجزہ دکھانے والا اس معجزہ سے ہٹ کر اور اس معجزہ سے بڑھ کر کوئی معجزہ امت محمدیہ کے لئے نہیں دکھا سکتا.وہ رسول جسے تمام کائنات کے لئے اور تمام زمانوں کے لئے خلیفتہ اللہ مقرر کیا گیا ممکن نہیں کہ اس کے نقوش پا کی پیروی کے بغیر کوئی اس کے مسند خلافت پر متمکن کیا جائے اور ممکن نہیں کہ ایسے خلیفہ الرسول کی بعثت کے بغیر امت کے درد کا کوئی مداوا ہو سکے.پس قادیان سے اٹھنے والی اس آواز نے امت محمد ﷺ کو امت کے احیائے نو کا یہ فلسفہ سمجھایا اور یہ ولولہ انگیز اعلان کیا: سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے.لیکن ابھی ایسا نہیں ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لئے ساری ذلتیں قبول نہ کریں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے.پھر آپ نے فرمایا: (فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه: ۱۰) و ہی صبح صادق ظہور پذیر ہوگئی ہے جس کی پاک نوشتوں میں پہلے سے خبر دے دی گئی تھی.خدائے تعالیٰ نے بڑی ضرورت کے وقت تمہیں یاد
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 231 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء کیا.قریب تھا کہ تم کسی مہلک گڑھے میں جا پڑتے مگر اس کے با شفقت ہاتھ نے جلدی سے تمہیں اٹھا لیا سو تم شکر کرو اور خوشی سے اچھلو جو آج تمہاری زندگی (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه : ۱۰۴، ۱۰۵) کا دن آگیا.“ پھر فرمایا: ” اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدید دین کے لیے آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں.تاوہ ایمان جو زمین پر سے اٹھ گیا ہے اس کو دوبارہ قائم کروں اور خدا سے قوت پا کر اسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کو اصلاح اور تقویٰ 66 اور راستبازی کی طرف کھینچوں اور ان کی اعتقادی اور عملی غلطیوں کو دور کروں.“ تذكرة الشهادتين روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰) پھر فرمایا: ”میرے بعد قیامت تک کوئی ایسا مہدی نہیں آئے گا جو جنگ اور خونریزی سے دنیا میں ہنگامہ برپا کرے اور خدا کی طرف سے ہو.اور نہ کوئی ایسا مسیح آئے گا جو کسی وقت آسمان سے اترے گا.ان دونوں سے ہاتھ دھولو یہ سب حسرتیں ہیں جو اس زمانہ کے تمام لوگ قبر میں لے جائیں گے.نہ کوئی مسیح اترے گا اور نہ کوئی خونی مہدی ظاہر ہوگا.جو شخص آنا تھا وہ آپکاوہ میں ہی ہوں جس سے خدا کا وعدہ پورا ہوا.جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا وہ خدا سے لڑتا ہے کہ تو نے کیوں ایسا کیا.“ پھر فرمایا: تبلیغ رسالت جلد ۱۰ صفحه : ۷۸) کیوں عجب کرتے ہوگر میں آگیا ہو کر مسیح خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ باد بہار آسمان پر دعوت حق کے لئے اک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 232 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء کہتے ہیں تثلیث کو اب اہل دانش الوداع پھر ہوئے ہیں چشمہ تو حید پر از جاں نثار باغ میں ملت کے ہے کوئی گل رعنا کھلا آئی ہے باد صبا گلزار سے مستانہ وار اسمعوا صوت السماء جاء المسيح جاء المسيح نیز بشنو از زمین آمد امام کامگار اک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا پھر خدا جانے کہ کب آئیں یہ دن اور یہ بہار سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں اے مرے بد خواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پر وار وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اس سے بولتا ہے جس وہ کرتا ہے پیار میں وہ پانی ہوں کہ اترا آسماں سے وقت پر میں ہوں وہ نور خدا جس سے ہوا حق آشکار ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے آئے گا وہ انجام کار براھین احمدیہ جلد پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه: ۱۲۷-۱۳۷) لیکن افسوس یہ مسیح زندگی کا پیغام دے کر چلا گیا.امام مہدی ظاہر ہوا اور ہدایت کے سرچشمے کھول گیا لیکن بعض بد قسمت دیکھنے کے باوجود ان دیکھوں کے طرح رہے اور معلوم ہونے کے باوجود انجان بنے رہے.وہ آج تک ان حسرتوں کا شکار ہیں، آج تک ان دکھوں نے ان کے دلوں کو چھلنی کر رکھا ہے جن سے آپ نا آشنا ہیں.آپ کے دل مسیح محمدی نے مسرتوں سے بھر دیئے ہیں ، آپ کے دل امنگوں سے بھر دیئے گئے ہیں لیکن کروڑوں ایسے بد قسمت ہیں جنہوں نے اس مسیح کو نہیں پہچانا اور آج تک ان کی گریہ وزاری کی آواز بلند ہورہی ہے اور وہ چیخ و پکار رہے ہیں.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 233 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء اخبار زمیندار لاہور نے لکھا: وہ آواز آج بھی فضا میں گونج رہی ہے جو فاران کی چوٹیوں سے بلند ہوئی اور دنیا کے ہر مظلوم کو سر بلند کر کے ہر سج رو ظالم کو راستی کی راہ پر چلنے پر مجبور کرگئی.سماج کو آج پھر ان کانوں کی احتیاج ہے جو اس آواز کو سن سکیں اور اس پر لبیک کہیں پستیوں کو رفعتوں سے بدل دینے والا انقلاب آج اسی آواز پر لبیک کہنے والے کی جنبش قدم کا منتظر ہے.پھر ایک اور مسلمان عالم نے لکھا: یا رسول اللہ ! اب عقل اور اسباب ظاہری کا سہارا جاتا رہا، قومی بے کار ہو گئے ، ہمتیں پست ہو گئیں.خونخواران تثلیث نے ان کو قعر مذلت میں اس طرح دھکیل دیا کہ اب پھر ابھرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.اے نبی اللہ بتائیے کہ شکستہ دل اور زخموں سے چور امت اپنے درد کی دوا کہاں پائے گی اور کیونکر امام موعود علیہ السلام کے حضور اپنی فریاد پہنچائے گی.اب دل کے زخم کی تپش اور سوزش نا قابل اظہار ہو چکی ہے.66 کاش انہیں نور بصیرت عطا ہوتا ! وہ اس درجہ محرومیوں اور حسرتوں اور اندھیروں میں نہ بھٹکتے پھرتے اور اسلام میں احیائے نو کی اس عظیم تحریک میں شامل ہو کر جو مسیح دوران نے ان کے لئے جاری کی ، خدمت دین کی حسرتیں دل کھول کر پوری کر لیتے.پس اے خلافت محمدیہ کے جاں نارو! جو شمع خلافت محمدیہ کے گرد آج اس میدان میں پروانوں کی طرح جمع ہوئے ہو، اس عظیم روحانی اجتماع میں شرکت کرنے والی اے سعید روحو! جو زمین کے کناروں سے اس مرکز خلافت میں جمع ہوئی ہو، تمہیں تو وہ بستان احمد کے گل بوٹے ہو جن کی سر بلندی اور شادابی کی خوشخبریاں مسیح موعود نے دنیا کو دیں.وہ تم ہو جن پر نسیم رحمت پھر سے چلی ہے اور وقت خزاں میں جن پر عجب طرح کی بہار آگئی ہے.تم اسی خزاں رسیدہ چمن سے پھوٹنے والی نو بہار شاخیں ہو جن کے روکھ دنیا کی نظر میں جلانے کے قابل ہو چکے تھے.سوسنو اور خوب اچھی طرح اسے اپنی عقل و فراست کی گانٹھوں میں باندھ کر محفوظ کر لو کہ تمہاری یہ شادابی اور تمہاری یہ.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 234 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے ۳۷۹۱ء بہار نو تمہاری کلیوں کا چٹکنا اور شگوفوں کا پھوٹنا اور گلہائے رنگارنگ میں تبدیل ہوتے رہنا یہ سب سرتا پا خلافت محمدیہ کے دم قدم کی برکت سے ہے.یہ نعمت تمہیں ہجر کی تیرہ طویل دردناک اور صدیوں کی گریہ وزاری کے بعد نصیب ہوئی ہے.اب اسے سر آنکھوں پر بٹھانا، اب اس نعمت کو سر آنکھوں پر بٹھانا ، سینہ سے لگانا اور اپنے بچوں اور اپنی بیویوں اور اپنی ماؤں اور اپنے باپوں اور اپنے ہر دوسرے پیارے سے ہزار بار بڑھ کر عزیز رکھنا.تمہارے احیاء اور تمہاری بقاء کی تمام کنجیاں خلافت میں رکھ دی گئی ہیں.سب تدبیریں قیامت تک کے لئے خلافت سے وابستہ ہو چکی ہیں.امت مسلمہ کی تقدیر اس نظام سے وابستہ ہے اور تمہاری غیر متناہی عظیم شاہراہ اس در سے ہو کر گزرتی ہے جسے خلافت را شدہ محمد یہ کہا جاتا ہے.جان دے کر بھی اس نعمت کی حفاظت کرو اور ایک کے بعد دوسرے آنے والے خلیفہ راشد سے انصار کی زبان میں ہمنت عرض کرو کہ اے خلیفتہ الرسول! ہم تمہارے آگے بھی لڑیں گے اور ہم تمہارے پیچھے بھی لڑیں گے، ہم تمہارے دائیں بھی لڑیں گے اور ہم تمہارے بائیں بھی لڑیں گے اور خدا کی قسم ، خدا کی قسم اب قیامت تک کسی دشمن کی مجال نہ ہوگی کہ مد عربیﷺ کی خلافت کو بری نظر سے دیکھ سکے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 235 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ ء اسلام کا بطل جلیل بر موقع جلسہ سالانه ۱۹۷۴ء) تشہد وتعوذ کے بعد آپ نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ أيتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِيْنٍ ﴿ وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) ( الجمع : ٣-٤) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (القف: ١٠) یہ دو آیات جو میں نے احباب کے سامنے تلاوت کی ہیں آنحضور ﷺ کی احادیث کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں آیات کا تعلق ایک عظیم روحانی مصلح سے ہے جو ایسے زمانے میں ظاہر ہوگا جب کہ دین اسلام کو دو پہلوؤں سے اس کی شدید ضرورت ہوگی.ایک اندرونی خرابیوں کو دور کرنے کے لئے چنانچہ یہ اپنی روحانی قوت سے ایسے سامان پیدا کرے گا کہ ایمان اگر ثریا پر بھی جاچکا ہوگا تو اسے وہاں سے کھینچ لائے گا اور دوسرے اسلام کے غلبۂ نو کے لئے مسلمانوں کے پراگندہ لشکر کو ازسر نو منظم کرنے کی خاطر یہ ظاہر ہوگا.( صحیح بخاری کتاب التفسیر باب قولہ و آخرین منھم...تفسیر طبری زیر آیت و آخرین منھم...میرے مضمون کا تعلق اس دوسرے حصہ سے ہے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 236 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مشن کوئی معمولی مشن نہ تھا.آپ قرآن کریم کی اس عظیم الشان پیشگوئی کو پورا کرنے کی غرض سے بھیجے گئے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دین کو دوسرے تمام ادیان پر غالب کر دیا جائے.آپ ایسے وقت میں اس عظیم الشان مشن کو پورا کرنے کے لئے تشریف لائے جب کہ بظاہر یہ دین سخت کسمپرسی کی حالت میں تھا اور اس دین کے فدائی اور حامی شعراء اس کی موجودہ حالتِ زار پر نوحے لکھ رہے تھے.ایک طرف ان کے سامنے آنحضوں اور صلى الله خلفاء راشدین کے زمانے کا وہ اسلام تھا جو غار حرا سے نور کے چشمے کی صورت پھوٹا تھا اور دیکھتے دیکھتے ریگزار عرب کو اس نے جل تھل کر دیا کہ وہ موج در موج ایک سیل رواں کی صورت خاکنائے عرب کی سرحدوں کو پھلانگتا ہوا.قیصر و کسریٰ کے تخت و تاج اور ان کی بوسیدہ اور کرم خوردہ تہذیب کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا.مسلمان شعراء اور مفکرین کے سامنے ایک وہ روشن روشن منظر تھا اور ایک یہ بھیانک تصویر کہ صدیوں کے مرے ہوئے بت پھر زندہ ہو گئے اور آب و آتش کے پرستاروں اور پتھروں، سانپوں اور بچھوؤں کے پجاریوں کو یہ تاب اور یہ مجال ہوئی کہ بڑھ بڑھ کر للکارتے ہوئے اسلام پر حملہ آور ہونے لگے.جراتیں یہاں تک بڑھیں اور حوصلے ایسے بلند ہوئے کہ سیوا جی نے راجا جے سنگھ کے نام اپنے خط میں لکھا: ”میری تلوار مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے.افسوس صد ہزار افسوس کہ یہ تلوار مجھے ایک اور ضرورت کے لئے مجھے میان سے نکالنی پڑی.اسے مسلمانوں کے سروں پر بجلی بن کر گرنا چاہیے تھا جن کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ انہیں انصاف کرنا آتا ہے.میری بادلوں کی طرح گرجنے والی فوجیں مسلمانوں پر تلواروں کا وہ خونی مینہ برسائیں گی کہ دکن کے ایک سرے سے لے کر دوسرے تک سارے مسلمان اس سیلاب خون میں بہہ جائیں گے اور ایک مسلمان کا نشان بھی باقی نہیں رہے گا.“ ( منقول از اخبار الجمیعہ دہلی.بحوالہ سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ : ۱۵) اس خط کو نقل کرتے ہوئے اے.کے.سور یہ لکھتے ہیں: سیوا جی کی یہ الفاظ اس کے اصلی رنگ میں ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 237 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ ء اسلام کو مٹا کر اس ملک کا عام مذہب ہندو دھرم کو بنانا چاہتا تھا.اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہی تھا کہ مسلمانوں کو حوالہ شمشیر و آتش کر کے ہندوستان سے ان کا نام ونشان مٹادے.“ ( منقول از اخبار الجمیعہ دہلی.بحوالہ سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ: ۱۵) ہندوؤں کے احیاء نو کی ایک تحریک آریہ سماج کے نام سے اٹھی جس کا اولین مقصد ہندومت کو اسلام پر اس طرح غالب کرنا تھا کہ ہندوستان میں بھولے سے بھی کوئی مسلمان نہ ملے.اس کے متعلق ذکر کرتے ہوئے اخبار پر کاش لکھتا ہے: ”ہندوستان میں سوائے ہندو راج کے دوسرا راج قائم نہیں رہ سکتا.ایک دن آئے گا کہ ہندوستان کے سب مسلمان شدھی کے ذریعہ آریہ سماجی ہوں جائیں گے.یہ بھی ہندو بھائی ہیں آخر صرف ہندو ہی رہ جائیں گے یہ ہمارا آدرش ہے یہ ہماری آشا ہے.سوامی جی مہاراج نے آریہ سماج کی بنیا داسی اصول کو لے کر ڈالی.“ (پرکاش، لاہور ۳۴ را پریل ۱۹۲۵ء بحوالہ سوانح فضل عمر جلد اول صفحه: ۱۶) ادھر ہندوؤں کی یہ کیفیت تھی ادھر پنجاب کی سرزمین میں سکھ راج نے مسلمانوں پر آفت ڈھا رکھی تھی.تلسی رام ایک ہندو مورخ اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ: مسلمانوں سے سکھوں کو بڑی دشمنی تھی اذان یعنی بانگ با آواز بلند نہیں ہونے دیتے تھے.مسجدوں کو اپنے تحت میں لے کر ان میں گرنتھ پڑھنا شروع کرتے اور اس کا نام موت کڑا رکھتے تھے.“ انسائیکلو پیڈیا آف سکھ لٹریچر میں لکھا ہے: سکھوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جذبہ بے پناہ تھا.مسلمان مردوں عورتوں اور بچوں کو بے دریغ قتل کیا گیا.ان کے گاؤں بالکل 66 تباہ کر دیئے گئے ، عورتوں کی بے حرمتی کی گئی اور ہزاروں مسجد میں جلا دی گئیں.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 238 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ مسلمانوں کو ابھی تک وہ زمانہ نہیں بھولا جبکہ وہ سکھوں کی قوم کے ہاتھوں ایک دہکتے ہوئے تنور میں مبتلا تھے اور ان کی دستِ تعدی سے نہ صرف مسلمانوں کی دنیا ہی تباہ تھی بلکہ ان کے دین کی حالت اس سے بھی بدتر تھی دینی فرائض کا ادا کرنا تو درکنار بعض آذان کے کہنے پر جان سے مارے جاتے تھے.“ اس حالت زار کے وقت انگریزی حکومت نے مسلمانوں کو سکھوں کے ظلم و استبداد سے نجات بخشی اور امن و امان کا دور دورہ ہوا لیکن افسوس کہ ان کے ساتھ عیسائیت کا پیغام مسلمانوں کی تباہی کا پیغام بن کر آیا اور ہندوستان کی مذہبی دنیا میں ایک تلاطم بر پا کر دیا.خصوصاً اسلام پر عیسائیت کی طرف سے ایسے بھر پور حملے کئے گئے کہ ان کی یلغار کے چرچے ہونے لگے.عیسائیت کو اس تیزی سے ہندوستان میں کامیابی حاصل ہونے لگی کہ فتح کے نشے میں بدمست ہو کر عالمی شہرت کے مالک عیسائی پادری یہ بلند و بانگ دعاوی کرنے لگے کہ : دنیائے عیسائیت کا عروج آج اس درجہ زندہ حقیقت کی صورت اختیار کر چکا ہے کہ اس درجہ عروج اس سے پہلے کبھی نصیب نہیں ہوا تھا.ذرا ہماری ملکہ عالیہ ملکہ وکٹوریہ کو دیکھو جو ایک ایسی سلطنت کی سر براہ ہے جس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا.دیکھو! وہ ناصرہ کے مصلوب کی خانقاہ پر کمال درجہ تابعداری سے احتراما جھکتی ہے اور خراج عقیدت پیش کرتی ہے.....دیکھو! جرمنی کے نوجوان قیصر کو جب وہ خود اپنے لوگوں کے لئے بطور پادری فرائض سرانجام دیتا ہے اور یسوع مسیح کے مذہب یعنی دین عیسائیت سے اپنی وفاداری کا اعتراف کرتا ہے.مشرقی اقدار پر ماسکو کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ میں زار روس کو دیکھو کہ تاج پوشی کے وقت ابن آدم کے طشت میں رکھ کر اسے تاج پیش کیا جاتا ہے یا پھر ایک مغربی جمہوریت کے صدر کے بعد دوسرے صدر کو دیکھو ان میں سے ہر ایک عبادت کے نسبتا سادہ لیکن عمیق اسلوب میں ہمارے خداوند کے ساتھ اپنی وفاداری اور تابعداری کا اظہار کرتا چلا جاتا ہے.“ ( بیروز لیکچر ز صفحه: ۱۹، ۲۰)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 239 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ ء مذہبی جنگ کے میدان میں یہ نقشہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میدان کارزار میں قدم رکھا اور اس شان اور قوت اور فنی مہارت اور بے مثل فراست کے ساتھ اہل اسلام کی کمان سنبھالی که گذشتہ تیرہ صدیوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی.آپ کا جہاد فی سبیل اللہ بارگاہ الہی میں اس حد تک مقبول ہوا کہ الہاماً آپ کو جرى الله في حلل الانبياء( تذکرہ صفحہ: ۶۳) کا لقب عطا کیا گیا یعنی کہ فرمایا کیا کہ دیکھو کہ خدا کا پہلوان انبیاء کا لبادہ اوڑھے ہوئے میدانِ کارزار میں اترا ہے.ایک عظیم سپہ سالار میں جو جو خوبیاں پائی جانی چاہئیں وہ آپ میں بدرجہ اتم موجود تھیں.بڑا دلچسپ اور طویل مضمون ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فنون حرب کو سمجھنے کے لئے گہرے تحقیقاتی مطالعہ کی ضرورت ہے.صرف تعارف کے طور پر چند ایک امور پر روشنی ڈالتا ہوں.جنگ مادی ہو یا روحانی، روحانی ہو یا نظریاتی بنیادی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ اچھی تیاری کی جائے اس کے دو حصے ہیں.پہلا حصہ اچھے ہتھیاروں کی فراہمی اور نئے ہتھیاروں کی ایجاد سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا حصہ اپنی فوج کو عمدہ تربیت دینے سے تعلق رکھتا ہے جو فی ذاتہ ایک بڑا وسیع مضمون ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیونکہ ایک عظیم روحانی فوج کے سردار تھے جسے مادی ہتھیاروں سے نہیں بلکہ روحانی ہتھیاروں سے دشمنانِ اسلام پر غلبہ پانا تھا.لہذا اس جہاد کے لئے جس قسم کی تیاری کی ضرورت تھی وہ آپ نے حد امکان تک فرمائی.اس تیاری کے سلسلے میں آپ نے راہنمائی کے لئے سیدنا ومولانا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تا قیامت باقی رہنے والی تعلیم اور ارشادات کو اپنا راہنما بنایا اور قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور روشنی پانے کے لئے اس کثرت سے اور ایسے گریہ وزاری سے دعائیں کیں کہ اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت اور تائید اس کوشش میں ہر گھڑی آپ کے ساتھ رہتی تھی.یہی وجہ ہے کہ آپ کو اس مختصر زندگی میں تنِ تنہا اسلام کی ایسی شاندار اور عظیم الشان خدمات کی توفیق عطا ہوئی کہ غیر بھی پکار اٹھے کہ حضور ﷺ کے دور اول کے بعد تیرہ صدیوں میں کسی کو ایسی توفیق نہیں ملی.اس سلسلے میں آپ کی پہلی تصنیف براہین احمدیہ گویا اہل اسلام کا ایک جدید اسلحہ خانہ ثابت ہوئی اور ایسے نئے مؤثر اور نا قابل تردید دلائل سے آراستہ تھی جن کے استعمال نے دشمن کے کیمپ میں ایک کھلبلی مچادی.اپنوں کو نئے حوصلے ، نئی جراتیں اور نئے اعتماد عطا کئے.یہ وہی کتاب ہے جس کی اشاعت پر مولوی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 240 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ ء محمد حسین بٹالوی نے وہ تاریخی خراج عقیدت پیش کیا جو اس نوعیت کا ہے کہ اسلامی جہاد کا مورخ ہمیشہ اسے دہراتا رہے گا.مولوی صاحب موصوف نے فرمایا: ہمارے رائے میں یہ کتاب اس زمانے میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں“.اشاعۃ السنتہ جلدے نمبر ۶ صفحه: ۳۴۸ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ا صفحه : ۱۷۲) مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے اس مشہور و معروف اعتراف حق کے بعد ہندوستان کے ایک اور عالم دین صحافی کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں جن کی بزرگی اور علم وفضل کا شہرہ ہندوستان کے طول وعرض میں پھیلا ہوا تھا.جناب مولانا محمد شریف صاحب بنگلوری مدیر اخبار منشور محمدی، براہین احمدیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: مدت سے ہماری آرزو تھی کہ علمائے اسلام سے کوئی حضرت جن کو خدا نے دین کی تائید اور حمایت کی توفیق دی ہے کوئی کتاب ایسی تصنیف یا تالیف کریں جو زمانہ موجودہ کی حالت کے موافق ہو.اور جس میں دلائل عقلیہ اور براہین نقلیہ قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے پر آنحضرت ﷺ کے ثبوت نبوت پر قائم ہوں.خدا کا شکر ہے کہ یہ آرزو بھی بر آئی.یہ وہی کتاب ہے جس کی تالیف یا تصنیف کی مدت سے ہم کو آرزو تھی.......افضل العلماء فاضل جلیل جرنیل فخر اہل اسلام ہند مقبول بارگه صمد جناب مولوی میرزا غلام احمد صاحب رئیس اعظم قادیان ضلع گورداسپور پنجاب کی تصنیف ہے.سبحان اللہ کیا تصنیف منیف ہے کہ جس سے دین حق کا لفظ لفظ سے ثبوت ہو رہا ہے.ہر ہر لفظ سے حقیت قرآن و نبوت ظاہر ہو رہی ہے.مخالفوں کو کیسے آب و تاب سے دلائل قطعیہ سنائے گئے ہیں.دعویٰ ہی مدلل براہین ساطعہ ثبوت ہے.مثبت بہ دلائل قاطعہ ، تاب دم زدنی نہیں.اقبال کے سوا چارہ نہیں.ہاں انصاف شرط ہے ورنہ کچھ بھی نہیں.ایھا الناظرین! یہ وہی کتاب ہے جو فی الحقیقت لا جواب ہے.“
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 241 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ ء منشور محمدی بنگلور ۲۵ / رجب المرجب ۱۳۰۰ھ.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اصفحہ : ۱۷۶) مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اس رائے کا اظہار فرمایا تھا کہ آج تک تو یہ کتاب لا جواب اور بے نظیر ہے آئندہ کی خبر نہیں مگر مولانا محمد شریف صاحب فرماتے ہیں: ”لا الہ الا اللہ حق اور محمد رسول اللہ برحق ہم تو فخریہ یہ کہتے ہیں کہ جواب ممکن نہیں ہاں قیامت تک محال ہے.“ آپ کے اولین مد مقابل ، ہندو عیسائی اور سکھ تھے ان کے مقابل پر اسلام کی تائید میں جو دلائل کا اندہ ہوا سیل رواں آپ کے قلم سے پھوٹا آج میں ان تینوں مذاہب سے متعلق آپ کے ان میں سے ایسے تین دلائل نمونہ پیش کرتا ہوں جن کی دو امتیازی خصوصیات ہیں.اول یہ کہ ان کی کوئی نظیر آپ سے قبل کے علم کلام کی دنیا میں نہیں ملتی.دوسرے یہ کہ یہ دلائل گہری تحقیق کا نتیجہ ہیں محض منطقی نوعیت کے شعبدے نہیں گویا اس عصائے موسیٰ کے مشابہ ہیں جس کے سامنے شعبدہ بازی کے سانپ رسیاں بن گئے تھے.ہندومت کے مقابلے میں ہندو مذہب کے تمام فرقے اپنے اندرونی اختلافات کے باوجود اس عقیدے اور دعوے میں متفق تھے کہ سنسکرت وہ واحد الہامی زبان ہے جس میں خدا تعالیٰ نے اپنے رشیوں سے کلام کیا.اس دعوے کے ثبوت میں وہ یہ مفروضہ بھی پیش کرتے تھے کہ سنسکرت دنیا کی وہ قدیم ترین زبان ہے جو کسی دوسری زبان کی مرہونِ منت نہیں جب کہ دنیا کی تمام دوسری زبانیں سنسکرت سے نکلی ہوئی ہیں.پس ایک کامل زبان کی حیثیت سے سنسکرت ہی اس بات کی اہل تھی کہ اس میں خدا کا کلام نازل ہو.پس اس موضوع پر قرآن اور ویدوں میں سے در حقیقت کون سی کامل اور الہامی کتاب ہے آپ کے اور ہندوؤں کے درمیان شدید معرکہ آرائی ہوئی.ہندو دعاوی کی لغویت اور اسلامی نظریے کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے آپ نے جو سینکڑوں قوی دلائل پیش کئے ان میں سے ایک یہ تھا کہ آپ نے گہری تحقیق کے بعد یہ ثابت فرمایا کہ سنسکرت نہ تو دنیا کی پہلی زبان ہے نہ ہی الہامی زبان ہے نہ کوئی ایسی خوبی اپنے اندر رکھتی ہے کہ اسے بهترین تو در کنار عام درجے کی اچھی زبان بھی سمجھا جائے.اس کے برعکس عربی کے حسن و کمال اور کمال حسن پر آپ نے ایک بے نظیر تحقیق فرمائی جس میں ثابت فرمایا کہ عربی نہ صرف ایک کامل زبان
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 242 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ ہے بلکہ وہ پہلی زبان ہے جسے خدا تعالیٰ نے الہاما انسان کو سکھایا اور دنیا کی تمام دوسری زبانیں اسی زبان سے نکلیں اور اسی کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں.پھر آپ نے یہ بھی ثابت فرمایا کہ سنسکرت بھی عربی ہی سے نکلی ہے لیکن جن ہاتھوں میں اس نے پرورش پائی وہ اتنے بھونڈے اور بے سلیقہ تھے کہ نقل کی بھی عقل نہ رکھتے تھے لہذا اسنسکرت عربی کی بگڑی ہوئی صورتوں میں ایک بہت ہی ادنی اور ذلیل مقام کھتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور ہندومت کے رہنماؤں کے درمیان وید یا قرآن کی فضیلت کے موضوع پر جو طویل معر کے ہوئے ان میں سے صرف ایک نمونہ میں نے سامعین کے سامنے پیش کیا ہے.اس طویل معرکہ آرائی کا نتیجہ بالآخر کیا نکلا؟ وہ مجھ سے نہیں بلکہ ایک ہندوراہنما کی زبان سے سنئے.کتاب ”ہندو دھرم اور اصلاحی تحریکیں“ کے مصنف اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: آریہ سماج کا مسلمانوں کے ایک تبلیغی گروہ یعنی قادیانی فرقے سے تصادم ہو گیا.آریہ سماج کہتی تھی کہ وید الہامی ہے اور سب سے پہلا آسمانی صحیفہ ہے اور مکمل گیان ہے.قادیانی کہتے تھے کہ قرآن شریف خدا کا کلام ہے اور حضرت محمد خاتم النبین ہیں.اس کد و کاوش کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی عیسائی اور مسلمان اب مذہب کی خاطر آریہ سماج میں داخل نہیں ہوتا.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دوسرے اہم مخاطب بلکہ اہمیت کے لحاظ سے اولین مخاطب کہنا چاہئے عیسائی تھے جن کے مذہب کی بنیاد ہی اس عقیدے پر تھی کہ حضرت مسیح علیہ السلام ما فوق البشر طاقتوں کے حامل تھے اور ابدی زندگی اور رفع الی السماء کے دو ایسے امتیازی نشانات ان کو عطاء ہوئے کہ کبھی کسی بشر اور رسول کو یہ نشانات عطا نہیں ہوئے.بدقسمتی سے چونکہ مسلمان بھی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اپنے خا کی جسم کے ساتھ آج تک زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں لہذا اس دلیل کا کوئی شافی جواب ان کی پاس نہیں تھا.حضرت مسیح کا بن باپ کے پیدا ہونا مسلمانوں کی مشکلات میں مزید اضافے کر رہا تھا.عیسائی پادری الوہیت مسیح کی تائید میں دلائل کی یہ تثلیت پیش کیا کرتے تھے کہ دیگر بشر رسولوں سے ممتاز، غیر طبعی زندگی پانے والے، جسم سمیت آسمان کی طرف پرواز کر جانے والے وہ روحانی وجود جن کی پیدائش ابنائے آدم کی لمس سے پاک تھی، جن
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 243 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ء میں خدا نے خود اپنی روح کو پھونکا، جسے تم خود روح اللہ تسلیم کرتے ہوا گر وہ خدا کا بیٹا نہیں تھے تو اور کیا تھے؟ اس دلیل کے مقابل پر دیگر علماء سخت عاجز تھے اور آج تک عاجز ہیں.عیسائی پادریوں کے اس ہتھیار سے زخمی ہو کر لاکھوں مسلمان اسیر عیسائیت ہو گئے اور کسی میں طاقت نہ تھی کہ اس ہتھیار کی ہلاکت آفرینی کا مقابلہ کر سکے.تب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جرى الله في حلل الانبیاء تشریف لائے ، اپنے ہاتھوں میں علم اسلام کو تھاما اور خدا سے خبر پا کر یہ پر شوکت اعلان کیا کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے.یہ اعلان عیسائی کیمپ پر ایک آسمانی بجلی بن کر گرا اور اس عظیم انکشاف نے یک دفعہ میدان کارزار کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیاوہ جو حملہ آور تھے شدید تر حملوں کی زد میں آگئے ، وہ جو پسپا کر رہے تھے پسپا ہوئے ، اسیران صیادر ہا ہوئے اور صیاد دام اسیری میں الجھ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس برہان قاطعہ کو اس شان اور قوت کے ساتھ استعمال فرمایا اور ایسے تابڑ توڑ حملے عیسائیت پر کئے کہ صلیب کی گویا کمر توڑ کر رکھ دی.یہ محض ایک دعوی نہیں، عیسائیت کوشکست دینے کی خاطر فقط ایک منطقی حربہ نہیں تھا جسے کسی ہوشیار مناظر نے اپنی اعلی مہارت سے بیٹھے بیٹھے گھڑ لیا ہو یہ مذہبی اور علمی دنیا کا ایک عظیم انکشاف تھا اس کے آگے اور پیچھے دائیں اور بائیں ٹھوس نا قابل تردید شہادتوں کے کڑے پہرے تھے.اس انکشاف کی تائید میں آپ نے بائبل کو گواہ ٹھہرایا تو قدیم اور جدید صحیفے ورق در ورق وصال ابن مریم کی گواہی دینے کے لئے چل پڑے.آپ نے تاریخ عہد عیسوی کو گواہ ٹھہرایا تو تاریخ عہد عیسوی دست بستہ شہادت کے لئے آگے بڑھی.آپ نے عقل انسانی اور علوم ظاہری کو شہادت کے لئے پیش کیا تو عقلی اور سائنسی دلائل ہجوم در ہجوم دوڑے چلے آئے اور گروہ در گروہ نعرہ زن ہوئے کہ عیسی ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے.آپ نے قرآن سے فیصلہ چاہا تو سنو کہ میں محکم آیات کی عدالت عالیہ نے وفات مسیح پر اپنی مہر ناطق ثبت فرمائی.محض یہ کہہ دینا کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ایک معمولی اور آسان سی بات نظر آتی ہے لیکن ذرا اس طرف بھی نگاہ فرمائیے کہ دنیا کی دوسب سے بڑی مذہبی قوموں کے ایسے مسلمہ (عقیدہ) کے بر عکس اعلان کرنا جس پر وہ صدیوں سے جسے بیٹھے تھے کوئی معمولی ہمت کا کام نہ تھا.کہنے کو تو یہ آسان بات تھی لیکن ذرا غور فرمائیے کہ تمام ہمعصر علماء اسلام کے متفق علیہ عقیدہ کو قرآن و حدیث کے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 244 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ء قطعی دلائل سے غلط ثابت کرنا بھی کیا کوئی آسان بات تھی؟ کیا یہ آسان بات تھی کہ عہد نامہ قدیم ہی سے نہیں بلکہ عہد نامہ جدید کی رو سے بھی وفات مسیح کو ثابت کیا جائے جسے حیات مسیح کی واحد سند کے طور پر پیش کیا جاتا تھا عیسائیت کے خلاف آپ کے پیش کردہ سینکڑوں دلائل میں سے ایک دلیل تھی.عقل دنگ رہ جاتی ہے یہ سوچ کر کہ اس ایک دلیل کے پیچھے تحقیق اور جستجو پر آپ کو کتنی محنت شاقہ خرچ کرنی پڑی ہوگی اور کتنی راتوں کے دیئے آپ نے جلائے ہوں گے.مذہبی اور تاریخی، علمی اور عقلی عقلی اور نقلی سینکڑوں تائیدی دلائل آپ کی پیش کردہ اس ایک دلیل کے آگے اور پیچھے چپرا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.پس یہ جدید اور بے مثل نظریاتی ہتھیار جو آپ نے لشکر اسلام کو عیسائیت پر یلغار کے لئے فراہم کیا تائید غیبی اور نصرت الہی کا ایک انقلاب آفریں چمکتا ہوا اعجاز تھا صرف اسی ایک مسئلے پر آپ کی تحقیق کی وسعت اور جستجو کا انہاک ملاحظہ فرمائیے کہ مختلف پہلوؤں سے وفات مسیح کے سینکڑوں دلائل پیش کرنے پر ہی بات ختم نہیں فرمائی بلکہ پہلے تو عیسائیت کے مصنوعی خدا کو آسمان سے زمین پر اتارا اور پھر مریم کے بیٹے اس حقیقی عیسی کی تلاش شروع فرما دی جو خدا کا ایک مقدس رسول تھا اور بنی اسرائیل کی طرف سے اپنے رب کا پیغام لے کر آیا تھا یعنی اس حقیقی رسول کی تلاش شروع کی جس کی شخصیت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ایک فرضی عیسیٰ آسمان پر جا بیٹھا تھا اور وہ خود واقعہ صلیب کے بعد سے عملاً گوشہ گمنامی میں پڑا ہوا تھا اور انیس سو سال سے کچھ پتا نہ تھا کہ اس سخت مظلوم نبی پر کرب و بلائے صلیب کے بعد کیا گزری اور وہ کس حال میں کہاں گیا ؟ بڑا مشکل کام تھا بڑا ہی مشکل کام تھا.جب سے دنیا بنی ہے گمشدگان کی تلاش بھی بنی آدم کو رہی ہے لیکن جب سے دنیا بنی ہے کسی تلاش کرنے والے کو ایسی کٹھن مہم در پیش نہ آئی ہوگی کہ انیس سو سال سے پہلے کے ایک گمشدہ وجود کو تلاش کرے.عقل انسانی اسے ناممکن اور محال قرار دیتی ہے لیکن سنو اور اپنے رب کی تکبیر کرو کہ حمد مصطفیٰ احمد م کا غلام اسلام کا بطل جلیل آگے بڑھا اور اس ناممکن کام کوممکن کر کے دکھا دیا اور اس مظلوم نبی کے مدفن اور آخری آرام گاہ کو تلاش کر لیا جو انیس صدیاں قبل اپنی قوم کے ظلم وستم سے تنگ آکر اور دکھوں والی صلیب کے چنگل سے رہائی پاکر ایک چشموں والی پر امن پہاڑی وادی کی طرف ہجرت کر کے چلا گیا تھا.بلاشبہ یہ تحقیق اور دریافت کی دنیا کا ایک عظیم شاہکار تھا.اس وقت سے لے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 245 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ء کر کہ جب حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو صلیب سے اتارا گیا اس وقت تک کہ جب خدا نے آپ کی روح کو اپنی ابدی جنتوں کی طرف بلایا مسیح محمدی نے آپ کے سفر ہجرت کی ہر منزل سے پردہ اٹھایا ، ہر سنگ میل کو دریافت کیا اور صدیوں کی خاک تلے دبے ہوئے ان نقوش پا کو اجاگر کیا جو مظلوم مہاجرین کا ایک قافلہ فلسطین سے جنت کشمیر کی طرف ہجرت کرتے ہوئے تاریخ کی مدفون راہوں پر چھوڑ آیا تھا.اللہ اللہ کیا شان ہے اس تحقیق کی ! اللہ اللہ کیا شان ہے اُس احمد مکی کی جس کی غلامی کا دم بھر کر قادیان میں یہ عارف ربانی پیدا ہوا.عیسائیوں اور ہندؤوں کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سکھ مت کے نسبتاً محدود محاذ پر بھی اسلام کی شاندار نمائندگی فرمائی.اس موقع پر بھی آپ کی یہ امتیازی شان قائم رہتی ہے کہ غیر مذاہب کے ساتھ اسلام کے مقابلے میں آپ بڑی گہری تحقیق اور جستجو کے بعد بین اور قاطع دلیل کا ایک ایسا نیا ہتھیار دریافت کرتے ہیں جس کی نظیر پہلے کوئی نہیں ملتی اور جو دشمن اسلام کو ایک دفعہ حیران اور مبہوت کر دیتا ہے.جس کی قوت ضد اور تعصب کے خوفوں کو توڑتی اور جس کی لطیف آگ پوشیدہ سروں کو دو نیم کرتی ہوئی دلوں سے گزر جاتی ہے.اب ذرا دیکھئے کہ سکھ مت پر دین اسلام کو غالب کرنے کے لئے آپ نے کیسا لطیف اور اچھوتا انکشاف فرمایا کہ نام نہاد سکھ مت کے بانی حضرت گرو بابا نانک رحمۃ اللہ علیہ تو خود ہی مسلمان تھے بلکہ محمد عربی کے عشق میں گرفتار اور اسلام کے جان نثار خادموں میں سے تھے.ان کی طرف کوئی نیا مذہب منسوب کرنا سراسر ظلم اور نا انصافی ہے.ظاہر بات ہے کہ اگر سکھ مت کے بانی کو ہی محمد رسول کا ایک ادنی غلام اور سچا مسلمان ثابت کر دیا جائے تو پیچھے سکھ مت کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سکھ مت کی علیحدہ مذہبی حیثیت کے خلاف بکثرت دوسرے دلائل پیش کرنے کے علاوہ الہام الہی کی روشنی میں وہ سر بستہ راز دریافت فرمالیا جو حضرت بابا نانک کے مسلمان ہونے کا ایک ناقابل تردید ثبوت فراہم کرتا تھا.صلى الله العروسة حضرت بابا نانک علیہ الرحمہ کا مقدس چولہ حضرت بابا صاحب کی ایک متبرک یادگار کے طور پر ڈیرہ بابا نا تک میں محفوظ چلا آتا ہے اور ہر سال صرف ایک بار بڑی حزم واحتیاط کے ساتھ باہر نکالا جاتا ہے.سکھوں کا یہ عقیدہ تھا کہ گرو با نا نک سے اللہ تعالیٰ نے مخفی الہامی زبان میں کلام فرمایا جو اس
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 246 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ء چولے پر من وعن درج ہے لیکن اس آسمانی زبان کا علم کسی دوسرے انسان کو نہیں دیا گیا لہذا قیامت تک اب ایک سربستہ راز رہے گا.ان بے چاروں کو کیا خبر تھی کہ علیم وخبیر خدا اس سر بستہ راز کو قادیان کے ایک عاشق اسلام پر آشکار کرنے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سکھوں کو سراسیمہ و مبہوت کر کے رکھ دیا جب آپ نے یہ حیرت انگیز انکشاف فرمایا کہ چولہ بابا نانک پر کلمہ طیبہ سورهٔ فاتحه، درود شریف اور بعض آیات قرآنیہ کے سوا کچھ اور درج نہیں اور مخفی وہ الہامی زبان جس میں یہ مقدس کلام درج ہے قرآن کی زبان یعنی عربی ہے.یہ اعلان کیا تھا گویا سکھوں کے لئے ایک بم کا دھما کہ تھا جس پر پنجاب کی دھرتی ہل گئی.میں نے عرض کیا ہے کہ اور بہت سے دلائل میں سے ایک دلیل یہ تھی لیکن ذرا اس دلیل کی قوت اور شوکت ملاحظہ فرمایئے کہ مقابل کو جڑوں سے اکھیڑ کر پچھاڑ دیا پھر ندرت دیکھئے کہ جب سے سکھ مت کا ایک الگ وجود بنا ہے سکھوں نے اسلام کی تاریخ میں نہ کبھی ایسا ہتھیار دیکھا تھا ، نہ سنا تھا ، نہ ہی ایسا ہتھیار چلانے والا کبھی ان کے مد مقابل آیا تھا.جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ دلائل محض منطقی جمع خرچ نہیں ہوتے تھے ٹھوس حقیقتوں کے بچے اور پکے گواہ اپنے ساتھ رکھتے تھے.حضرت مسیح موعود نے جب یہ انکشاف فرمایا کہ چولہ باوانا نک پر کلمہ طیبہ اور آیات قرآنیہ لکھی ہیں اور ساتھ ہی چولہ باوا نا نک کی وہ تصویر بھی شائع فرمائی جو بڑی حکمت اور کوشش سے حاصل کی گئی..جہاں تک تربیت یافتہ روحانی فوج کی تیاری کا تعلق ہے قادیان دیکھتے دیکھتے فدائیان اسلام کی ایک الگ چھاؤنی بن گیا جہاں جان و مال کی نذر لئے ہوئے مجاہدین اسلام دور نزدیک سے کھنچے چلے آتے ہیں اور حضوڑ سے تربیت پا کر اعلائے کلمہ اسلام کے لئے چاروں سمت نکل کھڑے ہوتے تھے.آپ نے ان میں اپنے مقصد کی عظمت اور سچائی کا کامل یقین پیدا کیا ، آپ نے ان کے اندر اپنے مقصد کا عشق اور والہیت کا تعلق قائم کیا ، آپ نے انہیں دلائل کے ہتھیاروں کا بہترین استعمال سکھایا اور فنون حربیہ روحانیہ کی بے مثل تربیت دی.آپ نے ان کے حوصلے ثریا کی طرف بلند کر دیئے اور دشمنوں کے حوصلے ایسے پست کہ گویا تحت الٹری میں گرے ہوئے ہوں.آپ نے ان میں کامل نظم و ضبط پیدا کیا اور کامل نظریاتی وحدت پیدا کی یہاں تک کہ ان کے دلوں کی دھڑکنیں ہم آہنگ ہو گئیں اور لاکھوں جسموں میں گویا ایک دل دھڑکنے لگا.آپ نے انہیں اطاعت کا سلیقہ سکھایا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 247 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ء اور وہ ایک ہاتھ پر اٹھنا اور ایک ہاتھ پر بیٹھنا سیکھ گئے.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک جرنیل کی حیثیت سے جنگی حکمت عملی کے موضوع پر روشنی ڈالتا ہوں.یہ وہ زمانہ تھا کہ کیا یہود اور کیا عیسائی، کیا ہندو اور کیا سکھ ہر کس و ناکس عالم و جاہل اٹھتا تھا اور اسلام پر لغو اعتراضات کی بوچھاڑ شروع کر دیتا تھا.اسلام کے خلاف اسی نوع کا نہایت دل آزار لٹریچر اس کثرت سے شائع کیا جارہا تھا کہ بلا مبالغہ مطبوعہ صفحات کی تعداد کروڑوں تک جا پہنچتی ہے.حکمت عملی کے ایک ہی وار سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان دونوں مسائل کا علاج کر دیا.آپ نے اسلام کے مدمقابل تمام مذاہب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ جب ہم سب کے دعاوی میں یہ قدرے مشترک ہے کہ ہم اپنے اپنے دعوئی کے مطابق اپنے مذہب کی بنیاد الہام الہی پر قرار دیتے ہیں تو کیا ہم پر یہ پابندی لازم نہیں کہ ہم اپنے مذاہب کی طرف صرف وہی دعاوی اور خوبیاں کریں جن کی سند ہماری الہی کتب میں ملتی ہوں اور دوسرے کی طرف جو بات منسوب کریں اسے بھی اس کی الہامی کتاب سے نکال کر دکھانے کے ذمہ دار ہوں.یہ بظاہر سادہ اور معمولی سی پیشکش تھی لیکن دشمنان اسلام کے لئے ایک ایسا لقمہ اجل ثابت ہوئی جو نہ اس سے اگلا جاتا تھا نہ نگلا جاتا تھا.لغو اعتراضات کا غوغا اور بے جا اعتراضات کا شور ان کے حلقوں میں پھنسنے لگا.نہ جائے رفتن رہی نہ پائے ماندن.اسے قبول کرنا اس لئے مشکل تھا کہ بہت سی خوبیاں جو وہ اپنے مذاہب کی بیان کرتے تھے اور بہت سے حسین دعاوی جو اپنے مذہب کی طرف منسوب کرتے تھے ان کا کوئی ذکر ان کی الہامی کتاب میں موجود نہ تھا.حقیقتاً وہ اسلامی تعلیم ہی کی چوری تھی مثلاً عیسائیت ایک عالمگیر مذہب ہونے کا دعوی کر رہی تھی اور حضرت عیسی علیہ السلام کو تمام دنیا کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جارہا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ اصول کو تسلیم کرنے کی صورت میں عیسائیت کا یہ دعویٰ بائبل سے نکال کر دکھانا پڑتا تھا جہاں ایسا کوئی بھی ذکر موجود نہیں.لہذا کسی مزید بحث کا سوال ہی باقی نہیں رہتا تھا.اگر عیسائی اس پیشکش کو قبول نہ کرتے تو ان پر مدعی ست اور گواہ چست ہونے کا محاورہ صادق آتا تھا.آریہ مت پر اس اصول کو چسپاں کر کے دیکھیں کہ تو وہاں بھی یہی دلچسپ نقشہ نظر آتا ہے.آریہ مت ہندوؤں کا وہ فرقہ ہے جو تو حید الہی کا قائل ہے ساتھ ہی یہ فرقہ چاروں ویدوں کے الہامی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 248 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ء ہونے پر بھی ایمان رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ طریق فیصلہ کے مطابق جب ویدوں پر نظر ڈالیں تو اول تا آخر شرک سے بھرے پڑے ہیں لہذا آریوں کا حق نہیں بنتا کہ وہ اپنی الہامی کتب کی طرف خود ساختہ دعاوی منسوب کریں.ان دونوں مثالوں پر نظر کرنے سے صاف کھل جاتا ہے کہ دراصل قرآن کے پیش کردہ دو خوبصورت دعاوی چوری کر لئے گئے تھے اور چورا ایسے دلاور تھے کہ دن دہاڑے چوری کا مال بغل میں دابے مالک سے لڑنے نکلے تھے.کامیاب دفاع کے بعد شدید یلغار یہ بھی ایک عظیم جرنیل کی خصوصیت ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فنِ جہاد کا یہ بہت اہم پہلو تھا کہ معاندین اسلام کے اعتراضات کا جواب دیتے وقت اسے ایک حد تک ڈھیل دیتے چلے جاتے تھے کہ وہ ہر امکانی حملہ کر کے دل کی بھڑاس نکال لے اور کوئی اعتراض نہ چھوڑے.اس دوران اس کے ہر اعتراض در اعتراض کا ایسا مدلل اور مسکت جواب دیتے کہ ہر پڑھنے اور سننے والے منصف مزاج شخص پر اعتراضات کی لغویت اور اسلامی تعلیم کی حقانیت ثابت ہو جاتی تھی.بالآخر جب معترض کے اعتراض کا ترکش خالی ہو جاتا تو اسلام کی طرف سے دفعہ شدید الزامی جواب کی کارروائی فرماتے اور سنبھلنے کا موقع دیئے بغیر اسی قسم کے ہتھیاروں سے اس پر سخت تر حملہ کرتے جس قسم کے ہتھیاروں سے اس نے اسلام پر حملہ کیا تھا.چونکہ دشمن اسلام کو زخم پہنچانے کے شوق میں پہلے ہی اپنے اعتراض کو غلط استعمال کر چکا ہوتا تھا اس لئے اس کے خلاف یہی ہتھیار بہت زیادہ قوت اور کامیابی کے ساتھ کام کرتا تھا اور فرار کی تمام راہیں اس پر بند ہو جاتی تھیں.اس پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کا مطالعہ غیر معمولی دلچسپی کا باعث بنتا ہے.مثال کے طور پر کثرت ازدواج پر دشمن اعتراض کرتا تھا.اس کا بڑا سلجھا ہوا معقولی جواب دینے کے بعد اور اس تعلیم کا فلسفہ اور حکمت سمجھانے کے بعد پھر معترض کے اپنے معتقدات کے پیش نظر آپ ایسا الزامی جواب دیتے کہ اُسے منہ چھپائے نہ بنتی تھی.معترض اگر عیسائی ہوتے تو انہیں انبیاء بنی اسرائیل خصوصاً حضرت داؤد علیہ السلام کی بیویوں کی تعدا د یاد دلائی جاتی ، اگر ہندو ہوتے تو حضرت کرشن کی سکھیوں کے ذکر کے ساتھ نیوگ کی تعلیم کا کچھ مزا ان کو چکھایا جاتا.غرضیکہ ویسے ہی ہتھیار زیادہ تیز اور زیادہ ناقابل تردید صورت میں حضور علیہ السلام اسلام دشمنوں کے خلاف فرماتے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 249 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ اس نوعیت کی اچانک اور بھر پور جوابی کارروائی کی دلچسپ مثال وہ ہے جو مباحثہ امرتسر میں پیش آئی.عیسائیوں نے آپ کے دعوی مسیحیت کے پیش نظر آپ کو مبہوت اور مغلوب کرنے کی خاطر لولوں لنگڑوں، پیدائشی اندھوں اور برص والے مریضوں کا ایک جلوس آپ کے سامنے پیش کر دیا اور اچانک یہ سوال کیا کہ اے مسیحیت کے دعوے دار! ہمارا مسیح تو لولوں ،لنگڑوں کو اچھا کر دیا کرتا تھا اور پیدائشی اندھوں اور مبر وصوں کو بھی شفا بخشتا تھا اگر تو اپنے دعوی میں سچا ہے تو اپنے مسیحائی دم سے ان کو اچھا کر کے دکھا تا کہ یک دفعہ فیصلہ ہو جائے.آپ خاموشی سے مسکراتے رہے اور انہیں پوری طرح سے موقع دیا کہ ہر پہلو سے بات مکمل کر لیں.بظاہر یہ ایسا سخت حملہ تھا کہ دوست گھبرا گئے اور دشمن آپ کی ذلت آمیز شکست کے تصور سے دل ہی دل میں مزے لینے لگا لیکن پیشتر اس کے کہ گھٹی گھٹی عیسائی مسکراہٹیں اسلامی پہلوان کے پچھڑنے پر بے اختیار قہقہوں میں تبدیل ہو جاتیں آپ نے بڑے تحمل سے مسکراتے ہوئے انہیں جواب دیا کہ جو طاقتیں تم اپنے مسیح کی طرف منسوب کرتے ہو ہمارے نزد یک یا تو وہ تاویل طلب ہیں یا قصے ہیں.ہم تو اس مسیح کو جانتے ہیں جو روحانی بیماروں کو اچھا کرتا تھا اور اسی قدر ہما را دعویٰ ہے لیکن ہم تمہارے بہت ممنون ہیں کہ تم نے ہمیں ایک تکلیف سے بچالیا.جس مسیح پر تم ایمان رکھتے ہو اس نے یہ بھی تو دعوی کیا تھا کہ ایک رائی کے برابر بھی اگر تم میں ایمان ہے تو تم اگر پہاڑوں کو حکم دو گے تو وہ چل کر تمہارے پاس پہنچیں گے اور تمہارے اذن سے لولے لنگڑے اچھے ہو کر چلنے لگیں گے اور جب تم کہو گے تو پیدائشی اندھے اور مبروص شفا پا جائیں گے.پس بجائے اس کے کہ ہم تمہارے ایمان کے امتحان کے لئے ان بیماروں کو اکٹھا کرنے کی تکلیف کرتے تم نے احسان کیا کہ ہمارے لئے یہ موقع فراہم کر دیا.پس آگے بڑھو اور اگر رائی کے برابر بھی تمہیں مسیح کی سچائی پر ایمان ہے تو اپنے اذن سے ان بے چاروں کو اچھا کر دو.چونکہ اپنے حملے کے وقت عیسائی اس بات پر قائم ہو چکے تھے کہ مسیح کے اقوال ظاہری اور حقیقی معنی رکھتے ہیں کسی روحانی تاویل کے محتاج نہیں اس لئے ظاہر ہے کہ ان کے لئے جواب کی کوئی صورت نہ بچی تھی.حاضرین جلسہ کا بیان ہے اس اچانک اور شدید تر جوابی حملے سے عیسائی پادریوں کے اوسان خطا ہو گئے اور ایک ہر اس ان پر طاری ہو گیا.وہ ان معذوروں، بے چاروں کو دھکے دے دے کر وہاں سے نکالنے لگے کہ جلد تر نظر سے دور ہوں اور ان کی ذلت کے گھڑی کسی طرح ملے.(جنگ مقدس روحانی خزائن جلد ۶ صفحه: ۱۵۰ - ۱۵۵)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت قومی شعار کے لئے غیرت 250 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ ء میدان جنگ میں سب سے زیادہ قابل حرمت شئے ایک غیور سپہ سالار کے لئے قومی علم ہوتا ہے.قومی علم کو سر بلند رکھنے کے لئے مسلمان افسران جیش نے حیرت انگیز فدائیت کے نمونے اپنے پیچھے چھوڑے ہیں، ایک صحابی کے متعلق روایت ہے کہ جب آپ کا وہ ہاتھ کٹ گیا جس میں آپ نے لشکر اسلام کا جھنڈا تھاما ہوا تھا تو گر نے سے پہلے آپ نے اسے دوسرے ہاتھ سے تھام لیا.جب دوسرا ہا تھ بھی زخمی ہوا تو بھی اسے گرنے نہ دیا اور اس وقت تک اسے دانتوں میں دبا کر بلند رکھا جب تک آپ کے قائم مقام نے یہ امانت سنبھال نہ لی تب آپ نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا.( شروع الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۳۲۰).قومی علم سے بہت بڑھ کر، بہت بڑھ کر صحابہ رضوان اللہ علیھم کو حضرت رسول کر ے کے لئے غیرت تھی.آپ کے بدن کو دشمن کی زد سے بچانے کے لئے ایسی فدائیت کے ساتھ اپنے ہاتھ اور اپنے چہرے اور اپنی چھاتیاں تیروں اور شمشیروں کے سامنے پیش کرتے تھے کہ تاریخ عالم میں ایسی والہانہ قربانی کی کوئی مثال نہیں.اسلام کے بطل جلیل احمد مکی و مدنی ﷺ کے غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی سب سے بڑھ کر اپنے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عزت و ناموس کے لئے غیرت تھی.یہ آپ کے عظیم جہاد کا نمایاں اور روشن پہلو تھا کہ جہاں کسی بد بخت دشمن نے آنحضور کی ناموس اور عصمت اور حرمت پر کوئی ناپاک حملہ کیا آپ کا رد عمل اتنا شدید ہوا اور تعاقب اتنا سخت اور قوی کہ ایک زلزلہ سابر پا ہو جاتا تھا اور دشمن اسلام کو عبرت ناک سزا دیئے بغیر آپ کو دل کا چین اور آرام جان میسر نہ آتا تھا.بسا اوقات جب معترض اسلامی تعلیم پر اعتراض کرتے کرتے بد بختی سے آنحضرتﷺ کی مقدس ذات اور مطہر کردار پر حملے شروع کر دیتا یا ازواج مطہرات کو طعن کا نشانہ بنانے کی شرارت کرتا تو حضور کا پر جلال رد عمل اور جوابی حملے کا کروفر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا.کوئی شیرنی اپنے بچوں کے لئے ایسانہ پھرتی ہوگی کسی غیرت مند بیٹے کو اپنی ماں کی حرمت کی ایسی حیا نہ ہوگی کسی غیور جو ان کو اپنے باپ کے بالوں کی سفیدی کا ایسا پاس نہ ہو گا جیسے مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے آقا محمد رسول اللﷺ کی عزت اور ناموس کی غیرت تھی.یکدفعہ پلٹ کر ایسا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 251 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ شدید جوابی حملہ کرتے کہ دشمن کو ایک مرگی زدہ مریض کی طرح پچھاڑ کر پرے پھینکتا تھا.مخالفین کی طرف سے آپ پر نا واجب سختی کا جو الزام لگایا گیا ہے وہ پیشتر ایسے ہی موقعوں سے تعلق رکھتا ہے.آپ مزاجاً بڑے حلیم، بڑے رؤوف اور رحیم تھے، دکھ دینے والوں سے درگزر کرنے والے، خطا کاروں سے صرف نظر کرنے والے لیکن آنحضوری کے خلاف گستاخی کا جرم آپ سے معاف نہیں کیا جاتا تھا.سب ستم گوارا تھے یہ ایک ستم گوارا نہ تھا، سب ظلم برداشت تھے یہ ایک ظلم برداشت نہیں تھا.آپ کے صحابہ نے اس پہلو سے آپ کو جو پایا اور سمجھا اس کا اظہار اس دلچسپ واقعہ سے ہوتا ہے، ایک مرتبہ کسی بد گودشمن نے آپ کی یعنی مسیح موعود کی شان میں گستاخی کی تو اس وقت آپ کے ایک صحابی سے برداشت نہ ہو سکا اور جوابا اس نے بھی قدرے سختی کا برتاؤ کیا.جب آپ کو اس کا علم ہوا تو اس جوابی سختی کوناپسند فرمایا اسے صبر اور برداشت کی تلقین فرمائی.اس پر اس نے مودبانہ یہ عرض کی یا حضرت جب آپ کے پیر یعنی محمد رسول ال پر کوئی حملے کرتا ہے تو آپ سے تو برداشت نہیں ہوتا تو ہم کیسے برداشت کریں کہ آپ پر کوئی حملے کرے.(سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے رضی اللہ عنہ صفحہ: ۲۹، ۳۰) بسا اوقات ایسا ہوا کہ بعض بد زبان عیسائی دشمنوں نے آنحضور ﷺ اور آپ کے اہل بیت کے کردار پر سخت نا پاک حملے کئے ایسے موقع پر آپ کی جوابی کاروائی حمیت اور حکمت عملی کی ایک حسین امتزاج کی حیثیت سے قیامت تک سنہرے حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے.اس سلسلے میں آپ کی ایک عبارت پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے آپ فرماتے ہیں: عیسائی مشنریوں نے ہمارے رسول اللہ کے خلاف بے شمار بہتان گھڑے ہیں اور اپنے اس دجل کے ذریعے ایک خلق کثیر کو گمراہ کر کے رکھ دیا ہے میرے دل کو کسی چیز نے کبھی اتنا دکھ نہیں پہنچایا جتنا کہ ان لوگوں کے اس ہنسی اور ٹھٹھہ نے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسول پاک ﷺ کی شان میں کرتے رہتے ہیں ان کے دل آزار طعن و تشنیع نے جو حضرت خیر البشر کی ذات والا صفات کے خلاف کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کر رکھا ہے.خدا کی قسم اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولا د اور میرے سارے دوست اور میرے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 252 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دیئے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے جائیں اور میری آنکھوں کی پتلیاں نکال پھینکی جائیں اور میں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لئے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول اکرم پر ایسے نا پاک حملے کئے جائیں.پس اے میرے آسمانی آقا! تو ہم پر اپنی رحمت اور نصرت کی نظر فرما اور ہمیں اس ابتلائے عظیم سے نجات بخش ( ترجمه از عربی عبارت.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه: ۱۵) میں آخر پر صرف ایک دو اقتباس اس موضوع پر پیش کرتا ہوں کہ اس روحانی جنگ کا آخری نتیجہ کیا نکلا؟ ایک وہ وقت تھا کہ عیسائی پادری یہ دعوے کر رہے تھے کہ صلیب کی چمک اب مکہ معظمہ اور مدینہ میں بھی جا کر اپنی چمکار دکھائے گی.مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اسلامی جہاد کا آغا ز فر ما یا اس وقت سے آج تک آپ کے غلاموں کو صلیب کے توڑنے اور عیسائیت کو شکست دینے کی جو تو فیق ملی اس کا اعتراف کرتے ہوئے آج کیا مسلمان اور کیا عیسائی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں.یوسف سلیم چشتی کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں آپ فرماتے ہیں: " آج بلا د مغرب میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں تبلیغی میدان پر احمدی حضرات قابض ہیں.یورپ اور امریکہ کے علاوہ ان کے مبلغین ان علاقوں اور جزیروں میں اپنے مذہب کی تبلیغ کر رہے ہیں جن کا نام بھی ہمارے عربی مدارس کے اکثر طلباء نے نہیں سنا ہوگا مثلاً ماریشس، نجی ٹرینیڈاڈ، سیرالیون وغیرہ وغیرہ اخبار الفتح قاہرہ لکھتا ہے: ” میں نے دیکھا ہے کہ قادیانیوں نے تقریری اور تحریری طور پر مختلف زبانوں میں اپنی آواز بلند کی ہے.ایشیاء اور پورپ اور امریکہ اور افریقہ میں ان کے تبلیغی مراکز قائم ہو گئے ہیں جو ہر طرح سے علمی اور عملی طور پر
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 253 اسلام کا بطل جلیل ۴۷۹۱ ء عیسائیوں کے مشنوں کے ہم پلہ ہیں لیکن تاکید اور کامیابی کی رو سے ان میں اور مسیحیوں میں کچھ بھی نسبت نہیں کیوں قادیانی اسلامی حقائق اور حکمتوں کی وجہ سے عیسائیوں سے بدرجہا زیادہ کامیاب ہیں مزید لکھا: مسلمانوں پر واجب نہیں کہ اہل یورپ اور امریکہ کے ذہنوں سے وہ فاسد خیالات درست کریں جو اسلام اور آنحضرت کے متعلق رکھتے ہیں یقیناً واجب ہے اور مسلمانوں کے سلاطین ، علماء، اغنیاء اور فقراء کا فرض ہے مگر کون ہے جو ان اوہام کو دور کرنے کے لئے جدو جہد کر رہا ہو؟ ہر گز کوئی نہیں.صرف اکیلے احمدی ہیں جو اپنے اموال اور جانوں کو خدا کی راہ میں خرچ کر رہے ہیں.“ ہاں اگر مسلمانوں کے زعماء اور مصلحین کھڑے بھی ہوں اور چلاتے چلاتے ان کی آواز بھرا جائے اور لکھتے لکھتے ان کے قلم ٹوٹ جائیں تب بھی وہ تمام اسلامی دنیا سے مال اور کارناموں کے لحاظ سے اس کا دسواں حصہ بھی جمع نہیں کر سکتے جس قدر یہ چھوٹی سی مسیح موعود کی جماعت خرچ کر رہی ہے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 255 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانی ( بر موقع جلسه سالانه ۶۵۷۹۱) تشہد و تعوذ کے بعد آپ نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی : وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ اِبْرهِمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَهُ فِي الدُّنْيَا وَاِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّلِحِينَ إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّةٌ أَسْلِمُ " قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (البقرة : ۱۳۲،۱۳۱) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا ذکر بڑے ہی پیار سے فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کون احمق ہے اپنی جان کو ہلاک کرنے والا جو ابراہیم کے دین سے اعراض کرتا ہے ! وہ اس دنیا میں بھی ہمارا ایک برگزیدہ شخص تھا اور آخرت میں بھی وہ صالحین میں شمار ہو گا.وہ دین کیا ہے جس کا اس پیار سے ذکر کیا گیا ہے؟ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کا خلاصہ یوں بیان فرمایا: إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّةٌ أَسْلِمُ ، قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ کہ دیکھو اللہ نے اسے پکارا اور کہا اے ابراہیم! تو میرا ہو جا ،سب کچھ میرے سپرد کر دے.ابراہیم نے عرض کیا اے آقا! میں تو تیرا ہی ہوں ، میرا سب کچھ پہلے ہی تیرے سپرد ہے.یہ ہے اسلام کی وہ حقیقی تعریف جو قرآن کریم سے ثابت ہے اور وہ اسلام جو ابراہیم نے اختیار کیا.لیکن یہ صرف زبانی اس کا دعوی نہ تھا، محض یہ کہہ دینے سے کہ میرا سب کچھ اے آقا تیرا ہو چکا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 256 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء سب کچھ اس کا نہیں ہو جاتا.آزمائشوں میں سے گزارا جاتا ہے ، بڑے بڑے ابتلاء آتے ہیں ، امتحان در پیش ہوتے ہیں پھر جو اس کا ہے جو حقیقی خدا کا ہے وہ چھن کر اور ابتلاؤں سے نکل کر نکھر کر اور صاف ستھرا ہو کر اس کا ہو جاتا ہے.ان ابتلاؤں کا ذکر قرآن کریم نے اسی سلسلے میں فرمایا کہ ابراہیم نے جب اسلام قبول کر لیا اور سارے کا سارا اپنے رب کا ہو گیا تو اس کے بعد اس پر کیا گزری؟ فرمایا: قَالُوا حَرِقُوْهُ وَانْصُرُوا أَلِهَتَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ فَعِلِينَ قُلْنَا يَنَارُ كُونِي بَرْدًا وَ سَلَمَّا عَلَى إِبْرُ هِيمَ (الانبیاء: ۹۶، ۰۷) اس اسلام کی سزا ابراہیم کو یہ دی گئی کہ لوگوں نے شور مچا دیا حَرِّقُوهُ آگ بھڑ کا واور ابراہیم کو اسمیں پھینک دو وَ انْصُرُوا الهَتَكُمُ اور اپنے معبودوں کی فکر کرو، انکی مدد کر وا گر تم کچھ کر رہنے والے ہو ورنہ ابراہیم کا دین تمہیں کھا جائے گا.ہم نے اس کے مقابل پر یہ فرمایا: قُلْنَا يُنَارُ كُونِي بَرْدًا وَ سَلَمَّا عَلَى إِبْرُ هِيمَ اے آگ ! تو میری بندی ہے تو ابراہیم اور اسکے ماننے والوں کو کچھ نہیں کہہ سکتی.یہی وہ ابتلاء ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام میں بھی ملتا ہے.آپ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی بھی غلام ہے“.( تذکرہ صفحہ: ۴۲۳) پھر ایک اور ابتلاء کا ذکر ہے فرمایا بعض ابتلاء تو مومنوں پر ایسے آتے ہیں جو دشمن ان پر وارد کرتا ہے.بعض ایسے ہیں جو عشق کے تقاضے سے خود بخود پیدا ہوتے ہیں.مومن ان ابتلاؤں کی تلاش میں رہتا ہے مانگتا ہے اے خدا! ہم سے قربانیاں لے رَبَّنَا آرِنَا مَنَا سِكَنَا اے خدا! ہمیں ہماری قربان گاہیں دکھا جہاں ہم اپنا سب کچھ تیرے لیے فدا کر دیں.اس قسم کے ابتلاؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 257 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء فَبَشَّرْنَهُ بِغُلْمٍ حَلِيْمٍ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ الشَّعْرَ قَالَ يُيُنَيَّ اِنّى اَرى فِي الْمَنَامِ انّى اَذْبَحُكَ فَانْظُرُ مَا ذَا تَرى قَالَ يَابَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ الله مِنَ الصُّبِرِينَ (الصفت : ۱۰۲ ۱۰۳) ہم نے ابراہیم کو ایک پاک غلام کی خبر دی تھی جو حلیم تھا.جب وہ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچا، اس کے ساتھ دوڑنے پھرنے لگا تو ابراہیم نے خواب میں یہ دیکھا اور اپنے بیٹے سے بیان کیا کہ اے بیٹے ! میں دیکھ رہا ہوں خواب میں میں نے دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں بتا تیرا کیا خیال ہے اس بارے میں؟ اس بیٹے نے عرض کیا یا بَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ تو بھی خدا کا ہے اور میں بھی خدا ہی کا ہوں ، جو تجھے حکم دیا جائے ویسا ہی کر سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصَّبِرِينَ تو یقیناً مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائے گا.تو یہ دوسرا ابتلاء ہے جان اور مال کو خدا کی راہ میں حاضر کرنے کا جو طوعی ہے، دشمنوں کی طرف سے وارد نہیں ہوتا.کر سکتا آنحضر کے زمانے میں یہ قربانیاں اپنی معراج کو پہنچیں اور ایک، دو یا تین کا تو یہ سوال نہیں سینکڑوں ماؤں نے اپنے لعل خدا کے حضور قربان کر دیئے.اموال لٹا دیئے ، گلیوں میں گھسیٹے گئے ، آگیں ان پر بھڑ کا ئیں گئیں.طرح طرح کے مصائب اور عذاب جن کا تصور انسان ہے ان پر وارد کئے گئے.لیکن حضور اکرم کے تمام غلام یہی کہتے رہے کہ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصُّبِرِينَ اے آقا ، اے مہ! تو ہمیشہ ہمیں صبر کرنے والوں میں سے پائے گا.پھر یہ زمانہ آیا آج کا زمانہ جس میں حضورا کر کے فرزند جلیل ، آپ کا عاشق غلام اسی پیغام کو لے کر اٹھا.آپ سے بھی اللہ نے کہا اسلم اے میرے بندے ! تو بھی اپنے آپ کو میرے سپرد کر دے.آپ نے عرض کیا أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِيْنَ میں ابراہیم کی طرح اور اپنے آقا محمد مصطفی ﷺ کی طرح تیرا ہی ہو چکا ہوں.وہ تمام ابتلاء ، وہ تمام امتحان جو ابراہیم پر گزرے یا اس کے بعد بہت زیادہ شان اور وسعت کے ساتھ محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے ماننے والوں پر گزرے ان تمام میں سے جماعت احمد یہ بڑی شان اور بڑے فخر کے ساتھ اور اپنے سر خدا کے حضور جھکائے ہو
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت ئے گزرتی چلی آئی اور آج بھی گزر رہی ہے.258 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء اس کی ابتداء کس طرح ہوئی ؟ سب سے پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں اپنے آپ کو خدا کے سپرد کرنے والے.آپ کے غلاموں میں سے اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ اسی الاول کو یہ توفیق عطا فرمائی.آپ یہ ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ کے فضل وکرم نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا.میرے ساتھ تعلق اخوت پکڑنے والے اور اس سلسلہ میں داخل ہونے والے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے، محبت اور اخلاص کے رنگ سے ایک عجیب طرز پر رنگین ہیں.نہ میں نے اپنی محنت سے بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص احسان سے یہ صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی ہیں.“ فتح اسلام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه: ۵۳) اور پھر ذکر کرتے ہوئے آگے فرماتے ہیں کہ ان میں سے ایک خاص روح کا ذکر کرتا ہوں اور وہ حضرت خلیفہ المسیح الاول حضرت حکیم مولوی نور الدین رضی اللہ تعالیٰ تھے.آپ کے خط کا اقتباس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دیکھو انکے اخلاص کا نمونہ انہوں نے مجھے لکھا: مولانا.مرشد نا.امامنا السلام علیکم ورحمۃ اللہ و بر کاتہ.عالی جناب میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں اور امام زمان سے جس مطلب کے واسطے وہ مجدد کیا گیا ہے وہ مطالب حاصل کروں.اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے استعفیٰ دے دوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑا رہوں یا اگر حکم ہو تو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طرف بلاؤں اور اسی راہ میں جان دوں.میں آپ کی راہ میں قربان ہوں.میرا جو کچھ ہے میر انہیں آپ کا ہے.حضرت پیر و مرشد میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا.( فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه: ۶۳)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 259 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء یہ جو بارش کا ابتدائی قطرہ تھا ، خدا کے فضلوں کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے طفیل اس دنیا کی اصلاح کے لئے نازل ہوا.پھر یہ بارش شدت اختیار کر گئی اور بڑی کثرت سے خدا نے خدا کی راہ میں قربانی کرنے والے سعید فطرت انسان مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا کئے.جماعت احمدیہ کی قربانیوں کا ذکر بہت ہی طویل ذکر ہے خلاصہ میں نے صرف چند مثالیں چنی ہیں، مختلف انواع کی جو میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.صلى الله قرآن کریم نے ابراہیمی قربانیوں کا وہ رنگ جو محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے ماننے والوں نے اختیار کیا تھا ، اسکا بارہا ذکر فرمایا ہے اور حدیث نبویہ اور تاریخ میں بھی بکثرت اسکی مثالیں ملتی ہیں.ایک چیز جو بڑی اہم ہے قربانیوں کے لئے قرآن کریم اسکا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ( آل عمران :۹۳) خدا کی راہ میں ادنیٰ اور گھٹیا چیز نہیں فدا کیا کرتے.جو بہترین تمہارا ہے جب تک تم وہ خدا کی راہ میں نہ دو گے تم حقیقی نیکی کو نہیں پاسکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں جماعت نے جو مالی قربانی کا آغا ز کیا اس میں بکثرت ایسی مثالیں ملتی ہیں اور بعد میں پھر بہت ہی زیادہ ہوگئیں کہ جماعت احمدیہ کی عورتوں نے جن کو سب سے زیادہ پیاری چیز زیور ہوتا ہے وہ اس طرح پھینکا ہے خدا کی راہ میں کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی ، ان کی نظر میں ذرہ بھی وقعت نہیں رکھتا تھا.اس کا قبول کئے جانا وقعت رکھتا تھا اس کا گلے کا زیور بننا کوئی وقعت نہیں رکھتا تھا اور اس میں آغاز سب سے پہلے حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر ضرورت پیش آئی.آجکل تو لاکھوں مہمان کھاتے ہیں اور جماعت کو پتہ بھی نہیں لگتا.اس سے بھی زیادہ آئیں تب بھی جماعت برداشت کر سکتی ہے.وہ ابتدائی دور ایسا تھا کہ ایک موقع پر جلسہ سالانہ کے مہمان آئے اور ان کے لئے سالن کے پیسے نہیں تھے.حضرت میر ناصر نواب صاحب نے عرض کیا حضور سے کہ حضور ! کیا کیا جائے ، سالن کے پیسے نہیں ہیں ؟ آپ نے اماں جان کا ذکر کر کے فرمایا کہ بیوی صاحبہ سے جا کے انکا زیور لے آؤ اور فروخت کر کے پیسوں کا انتظام کرو.چنانچہ وہ زیور پہلا جو خدا کی راہ میں خیرات کیا گیا اس دور میں وہ حضرت اماں جان کا تھا.آپ نے وہ زیور فروخت کیا اور
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 260 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء رات مہمانوں نے سالن کھایا.(اصحاب احمد جلد ۴ صفحہ: ۸۰۱) ان کو کیا پتہ تھا کہ یہ کیسا مبارک اور کیسا مقدس سالن ہے جو آج کھایا جا رہا ہے.دوسرا اسی غلام نے جس نے یہ روایت کی ہے ، حضرت منشی ظفر احمد صاحب، انہوں نے خود یہ رنگ پکڑا.حضرت مسیح موعود کو اشتہار کے لئے ضرورت پیش آئی ساٹھ روپے کی اور مثال سامنے تھی گھر گئے جماعت سے ذکر بھی نہیں کیا اور اپنی بیوی کا زیور لیکر فروخت کیا اور ساٹھ روپے حضرت مسیح موعودؓ کی خدمت میں پیش کر دیئے.(اصحاب احمد جلد ۴ صفحہ: ۸۵،۷۵) حضرت خلیفہ اسی الثانی نے اسی مثال کو زندہ کرتے ہوئے اپنے گھر میں بھی جاری فرمایا اور پھر جماعت میں تو اس کثرت سے یہ مثالیں پھیل گئیں کہ انکا ذکر تفصیل کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتا.اخبار الفضل جاری کرنا تھا.آج جو آپ پڑھتے ہیں بڑے شوق اور محبت کے ساتھ کوئی پیسہ پاس نہیں تھا، کوئی مددگار ایسا نہیں تھا جو اتنی رقم خرچ کر سکے.اپنی پہلی حرم حضرت سیدہ ام ناصر کے پاس گئے اور انکا جو کچھ زیور تھا یہاں تک کہ اپنی بچی ناصرہ بیگم کے لئے جو انہوں نے زیور رکھا ہوا تھا وہ بھی انہوں نے لے لیا اور یہ سارے کا سارا فروخت کر کے آپ نے الفضل کو جاری کیا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی فرماتے ہیں کہ ہمیشہ مجھے یہ قربانی یا د رہتی ہے اور میرے دل میں ہمیشہ اس قربانی کی وجہ سے انکا بڑا بھاری احترام رہتا ہے کہ جماعت کی ایک عظیم الشان ضرورت کو پورا کیا جو قیامت تک کے لئے دور رس نتائج رکھتی ہے.(سوانح فضل عمر جلد ۱ صفحہ: ۹۳۲، ۰۴۲) اب یہ تو ہیں چند ابتدائی ذکر اب سنئے کہ ساری جماعت کی عورتیں کس طرح اس راہ میں اپنی جانیں اور زیور فدا کرتی رہیں.مسجد برلن کی تحریک ہوئی.حضرت خلیفہ لمسح الثانی اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قادیان سے باہر کے خاص چندوں میں سب سے اول نمبر پر کپتان عبد الکریم صاحب ہیں، سابق کمانڈرانچیف ہیں یہ ، ان کی اہلیہ کا چندہ جنہوں نے اپنا کل زیور اور اعلیٰ کپڑے قیمتی خدا کی راہ میں دے دیئے ، ڈیڑھ ہزار روپے بنا.یہ دے کر انہوں نے ایک نیک مثال قائم کی ہے.اسی قسم کے اخلاص کی دوسری مثال چوہدری محمد حسین صاحب صدر قانون گوسیالکوٹ کے خاندان کی ہے.انکی بیوی ، بھاوج ، بہونے اپنے زیورات قریباً سب کے سب
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 261 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء اس چندے میں دے دیئے جنگی قیمت انداز ادو ہزار روپے تک پہنچی.تیسری مثال اسی قسم کے اخلاص کے نمونے کی سیٹھ ابراہیم صاحب کی صاحبزادی کی ہے.اس مخلص بہن نے اپنے کل زیورات جواند از ا ایک ہزار روپے کی قیمت کے ہوں گے چندے میں دے دیئے.چوتھی مثال اعلیٰ درجہ کے اخلاص کی خان بہادر محمد علی خان اسسٹنٹ پولیس پولیٹیکل آفیسر چکدرہ کی ہے انکی اہلیہ اور دختر نے اپناز یور جسکی قیمت انداز ایک ہزار روپیتھی ، چندہ میں دیا.خان بہادر صاحب کی اہلیہ نے تو اپنی مرحومہ دختر کا زیور بھی جو انہوں نے بطور یادگار رکھا ہوا تھا وہ بھی اس راہ میں فدا کر دیا.پانچویں مثال میاں عبداللہ سنوری ریاست پٹیالہ کی بیوی اور بیٹی اور بہو کی ہے جنہوں نے بہت محدود ذرائع آمد کے باوجود دوسوروپے سے اوپر چندہ بصورت نقد اور زیور دے دیا.“ ( الفضل یکم مارچ ۳۲۹۱ء) پھر آپ فرماتے ہیں: کہ یہ بھی ایمان کی علامت ہے کہ کئی لوگ لکھ رہے ہیں کہ آپ دعا فرمائیں کہ میری بیوی چندہ دینے میں کمزوری نہ دکھا جائے.پھر بعض لکھ رہے ہیں کہ وفات یافتہ بیوی کی طرف سے بھی چندہ دینے کی اجازت دی جائے.غرض یہ ایسا نظارہ ہے کہ جو اپنی نظیر نہیں رکھتا اور جس کا نمونہ صحابہ رضوان اللہ علیھم کے زمانہ میں ہی پایا جاتا تھا.“ حضرت منشی امام الدین صاحب ابتدائی صحابہ میں سے تھے.جب مسجد فضل لندن کی تحریک ہوئی تو ان کی بیوی نے صرف ایک زیور والدہ مرحومہ کی نشانی کے طور پر جور کھا ہوا تھا وہ رکھ کر باقی سارا زیورا اپنی خوشی سے پیش کر دیا.اہلیہ ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب نے لندن مسجد کے لئے دس اشرفیاں دیں.یہ اہلیہ ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب مرحوم میری نانی تھیں اور مجھے یقین ہے کہ یہ سب لوگ جو اپنے والدین کا یا دادیوں کا یا نانیوں کا ذکر پڑھ رہے ہوں گے ہن رہے ہوں گے یا پڑھتے ہوں گے، انکے فخر کی اصل وجہ یہ ہوگی، یہ نہیں کہ وہ خاندان کتنا اونچا تھا ، یہ نہیں کہ انکے پاس اموال
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 262 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء کتنے تھے بلکہ ہمیشہ انکے لئے فخر کا معیار اب یہ بن جائے گا کہ ہماری نانی نے یہ دے دیا ، ہماری دادی نے یہ دے دیا، ہمارے نانا نے یہ قربان کیا، ہمارے دادا نے یہ قربان کیا.تو یہ جو فخر ہے کہ انہوں نے دس اشرفیاں میری اُمی مرحومہ کی شادی کے لئے رکھی ہوئی تھیں وہ انہوں نے اس راہ میں قربان کر دیں.حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا : ” مرد اور عورت اور بچے سب ایک خاص نشہ محبت میں چور نظر آتے تھے.کئی عورتوں نے اپنے زیورا تار دیئے اور بہتوں نے ایک دفعہ چندہ دے کر پھر دوبارہ جوش آنے پر اپنے بچوں کی طرف سے چندہ دینا شروع کیا.پھر بھی جوش کو د بتانہ دیکھ کر اپنے وفات یافتہ رشتہ داروں کے نام سے چندہ دیا.“ (تواریخ مسجد فضل لندن صفحه : ۲۲) یہ تو قادیان کے قرب وجوار کا حال تھا.دور کی جماعتیں بھی خدا کے فضل سے یہ نمونے دیکھ کر اسی طرح آگے بڑھیں.میں چند مثالیں پیش کر رہا ہوں سینکڑوں، ہزاروں مثالیں ہیں جن میں سے صرف چند ایک اختیار کی گئیں ہیں.ڈاکٹر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی ایڈیٹر روز نامہ اتفاق دہلی لکھتے ہیں.کس تفصیل سے عورتوں نے قربانیاں دی ہیں وہ اندازہ کیجئے : جمعہ کی نماز جماعت دہلی خاکسار کے دفتر میں پڑھتی ہے جواب سڑک واقع ہے.گزشتہ جمعہ کو خطیب نے حضرت اقدس کا خطبہ جو الفضل میں چھپا ہوا تھا سنایا.یہاں سوائے میری اہلیہ کے باقی تمام مرد تھے اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ بیگم سے نماز کے بعد کہوں کہ مسجد کے لئے آپ اپنی پازیب دے دیں (جو پاؤں کا زیور ہوتا ہے ).اتنے میں دروازہ کی کھٹکھٹاہٹ میرے کان میں آئی اور میں گھر میں گیا جہاں وہ مصلے پر بیٹھی ہوئی خطبہ سن رہی تھیں اور انکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے.کچھ بات نہیں کی اور اپنے گلے سے پنچ لڑا طلائی ہار جو غالبا تمیں روپئے کا تھا مجھے دے دیا.“ (سوانح فضل عمر جلد ۲ صفحہ ۱۵۳) مردوں کی قربانیاں بھی کسی سے پیچھے نہیں تھیں.وہ میدان جہاد میں تو دیں اس کا بعد میں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 263 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء ذکر آئے گا لیکن مالی قربانی میں بھی مرد کسی سے پیچھے نہیں رہے تھے.ان میں ایسے بھی تھے کہ جو نہایت کمزور حالت میں تھے.جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا دینے کے لئے یا بہت تھوڑا اندوختہ تھا وہ سب انہوں نے خدا کی راہ میں فدا کر دیا.قرآن کریم ایسے لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (الحشر :۱۰) کہ میرے بندوں کا یہ حال ہے کہ صرف یہ نہیں کہ امیر ہی ہوں تو خدا کی راہ میں دیتے ہیں زیور والے ہی نہیں صرف قربانیاں کرتے.جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا وہ بھی جو کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں وہ پیش کر دیتے ہیں خدا کی راہ میں.حضرت خلیفہ المسیح ایسے لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایسے ایسے لوگوں نے اس میں حصہ لیا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.....ایک خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنی حیثیت اور طا قت سے زیادہ حصہ لیا ہے.بعض لوگ تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنا سارا اندوختہ دے دیا ہے.بعض ایسے ہیں جنکی چار چار پانچ پانچ روپیہ کی آمد نیاں ہیں اور انہوں نے کمیٹیاں ڈال کر اس میں حصہ لیا.یا کوئی جائیدادفروخت کر کے جو کچھ جمع کیا ہوا تھا وہ سب کا سب دے دیا ہے.“ فرماتے ہیں: ( خطبه جمعه فرموده ۱۴ دسمبر ۱۳۹۱، بحواله تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحه ۹۳) بعض مخلص ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنا سارا کا سارا اندوختہ دے دیا تھا.ایک نے لکھا دوسرے سال میں نے شرم کی وجہ سے بتایا نہیں تھا.میں نے اپنی کچھ اشیاء بیچ کر چندہ دیا تھا.پھر تیسرے سال سب کچھ بیچ کر چندہ دے چکا ہوں.66 تقریر فرموده ۷۲ دسمبر ۳۳۴۹۱، بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحه: ۷۳ ۸۳) ہمارے سیالکوٹ کے ایک دوست مزدور ہوتے تھے ایک زمانے میں.یہاں آج سٹیج پر بیٹھے ہیں ابھی ملاقات ہوئی ہے، مزدوری کرتے تھے ، اتفاق سے مہینہ بھر سے انکی مزدوری نہیں ملی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 264 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء تھی.تحریک جدید کا جب آغاز ہوا اور انہوں نے دیکھا کہ لوگ کس طرح قربانیاں کر رہے ہیں.حسن اتفاق سے اس سے ذرا پہلے ان کو بارہ دن کی مزدوری ملی تھی اور تمیں روپے کل ہوئے تھے.دل چاہتا تھا دوسرے گھر میں فاقے اور کمزوری کی حالت تھی.آخر انہوں نے یہ کہا اپنے دل پر جبر کر کے کہ میں یہ سمجھوں گا میں دس دن پیدا ہی نہیں ہوا تھا اور پہلے دس دن کی مزدوری میں خدا کی راہ میں دے دیتا ہوں.چنانچہ دس دن کے جو پچیس روپے بنے وہ انہوں نے خدا کی راہ میں دے دیئے اور دو دن کی مزدوری گھر میں رکھ لی.اللہ کا فضل پھر ان پر ایسا نازل ہوا کہ آج ان کا اکیلے کا تحریک جدید کا سالانہ چندہ اٹھارہ سوروپے ہے.اب سنئے کمزور ، غریب اور لاچار عورتوں کی قربانیاں جن کے پاس زیور نہیں تھے.ایک غریب اور ضعیف بیوہ جو افغانستان کی مہاجرہ تھی اور سوٹی لیکر بمشکل چل سکتی تھی.خود چل کر آئی اور حضور کی خدمت میں دو روپے پیش کر دیئے.اس کا ذکر حضرت صاحب نے خود اپنے الفاظ میں بعد میں کیا ہے.پھر کئی ایسی عورتیں تھیں، بیوہ عورتیں جو بعض یتیم بچوں کو بھی مزدوری کر کے پال رہی تھیں مزدوری کر کے.انکے پاس جو کچھ تھا وہ انہوں نے خدا کی راہ میں پیش کر دیا.ایک عورت جس کے پاس تھوڑا سا زیور تھا وہ اس نے دیا پھر تسلی نہ ہوئی دوبارہ گھر گئی جو برتن تھے وہ لے آئی اور وہ بھی حاضر کر دیئے.اس کے خاوند نے کہا کہ زیورات دے چکی ہے یہی کافی ہیں.اس نے کہا خدا کی قسم میرے دل میں اتنا جوش ہے کہ بس چلے تو تجھے بھی بیچ کر سب کچھ خدا کی راہ میں دے دوں.یہ وہ کیفیت تھی غرباء عورتوں کی.دل ٹھنڈے ہی نہیں ہوتے تھے ، دیتے چلے جاتے تھیں.برتن بیچ کے لیکن تسلی نہ ہوئی.کہا خدا کی قسم اے خاوند ! میں تجھے بھی بیچ کر اپنا جو کچھ ہے خدا کی راہ میں دینے کو تیار ہوں.ایک غریب بھا گلوری عورت تھی دو بکریاں تھیں صرف اس کے پاس.دو بکریاں ہانکتی ہوئی حضرت خلیفتہ اسی کی خدمت میں پہنچی کہ حضور یہ دو بکریاں ہی ہیں ان کو قبول کرلیں.حضرت علیہ اسیح (الثانی) لکھتے ہیں: ایک پٹھان عورت جو نہایت غریب ، چلتے وقت بالکل پاس پاس قدم رکھ کر چلتی ہے.میرے پاس آئی اور اس نے دوروپے میرے ہاتھ پر رکھ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 265 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء دیئے.اس کی زبان پشتو ہے اردو کے چند الفاظ ہی بول سکتی ہے.اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں اپنے ایک ایک کپڑے کو ہاتھ لگا کر کہا کہ یہ دو پٹہ دفتر کا ہے یعنی بیت المال نے مجھے صدقہ میں دیا ہے.یہ پاجامہ دفتر کا ہے، یہ جوتی دفتر کی ہے، میرا قرآن بھی دفتر کا ہے.میرے پاس کچھ نہیں ہے.میری ہر چیز بیت المال سے ملی ہوئی ہے.یہ دو روپے جو میرا سرمایہ حیات ہیں میں حضور کی خدمت میں پیش کرتی ہوں اسے قبول فرما ئیں.“ حضرت صاحب فرماتے ہیں: 66 اس کا ایک ایک لفظ ایک طرف میرے دل پر نشتر کا کام کر رہا تھا.دوسری طرف میرا دل اس محسن کے احسان کو یاد کر کے جس نے ایک مردہ قوم میں سے ایسی زندہ سرسبز روحیں پیدا کر دیں، شکر و اطمینان کے جذبات سے لبریز ہو رہا تھا اور میرے اندر سے یہ آواز آرہی تھی کی خدایا تیرا یہ مسیح کس شان کا تھا جس نے ان پٹھانوں کی جو دوسروں کا مال لوٹ لیا کرتے تھے کس طرح کا یا پلٹ دی کہ وہ تیرے دین کے لئے اپنی ملک اور اپنے عزیز اور اپنے مال قربان کر دینے کو نعمت تصور کرتے ہیں.“ (سوانح فضل عمر جلد ۲ صفحہ: ۹۴۳، ۰۵۳) یہ تو قربانیوں کے چند نمونے ہیں.اموال ، زیورات کی اور بڑی بڑی جائیدادوں کی قربانیاں ہوں یا پھٹے پرانے کپڑوں کی ، بکریوں کی قربانیاں ہوں.حقیقت یہ ہے کہ یہ ابتدائی قربانیاں ہمیشہ کے لئے تاریخ احمدیت کا سرمایہ رہیں گی.کروڑوں روپے تک اگر ہما را چندہ پہنچ چکا ہے.وہ دن آئیں گے اور دور نہیں کہ اربوں سے زیادہ آپ کا چندہ ہوگا لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ خدا کی محبت اور پیار کی نظریں ان دو بکریوں کی مالکہ پر ہمیشہ پڑتی رہیں گی.اس غریب پٹھانی کو خدا کا پیار ہمیشہ نواز تارہے گا اور اس کے مقابل پر ان کروڑوں اور اربوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی جس کا جو کچھ تھا وہ صدقے میں تھا اس میں سے بھی جو کچھ اس نے بچایاوہ خدا کے حضور پیش کر دیا.لیکن یہ ایک یا دو یا تین مثالوں کی بات نہیں ہے.میں نے بڑی مشکل سے وقت کے لحاظ سے چند مثالیں چینی ہیں.ہزارہا ، لاکھوں مثالیں ایسی قربانیوں کی ہیں جن کا ذکر تاریخ احمدیت میں بھی نہیں ملے گا.کسی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 266 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء لکھی ہوئی کتاب میں آپ کو نظر نہیں آئے گا مگر خدا کے علم میں وہ باتیں ہیں جنہوں نے خفیہ طور پر، چھپ چھپ کر خدا کے حضور اپنی جان اور مال شار کیا.اب میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ جانی قربانی کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے لوگوں کو بلایا، مالی قربانی کے لئے بھی بلایا اور اس کے لئے ایک پس منظر پیدا کیا.یہ نہیں ہوتا کہ قربانیوں کے لئے بلایا جائے اور آپ نے کہہ دیا اسلمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِيْنَ اور گھر بیٹھ رہے.ان قربانیوں کے لئے تیاری کرنی پڑتی ہے.آپ فرماتے ہیں: بہت سے لوگ نیکیوں سے اس لئے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ ماحول پیدا نہیں کر سکتے وہ صرف یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے جب کہا کہ قربانی کریں گے تو کر لیں گے.حالانکہ یہ صحیح نہیں.مجھے ہزار ہا لوگوں نے لکھا ہے کہ ہم قربانی کے لئے تیار ہیں اور جنہوں نے نہیں لکھا وہ بھی اس انتظار میں ہیں کہ سکیم شائع ہو تو ہم سب کچھ نچھاور کر دیں.مگر میں بتاتا ہوں کہ کوئی قربانی کام نہیں دے سکتی جب تک اس کے لئے ماحول نہ پیدا کیا جائے.یہ کہنا آسان ہے کہ ہما را مال سلسلہ کا ہے مگر جب ہر شخص کو کچھ روپیہ کھانے پر اور کچھ لباس پر اور کچھ مکان کی حفاظت یا کرائے پر اور کچھ علاج پر خرچ کرنا پڑتا ہے اور اس کے پاس کچھ نہیں بچتا تو اس صورت میں اس کا یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ میرا سب مال حاضر حضور نے اس سلسلہ میں ایک تحریک شروع کی جس کا نام تحریک جدید ہے.اس کے بڑے تفصیلی مطالبات ہیں مثلاً سادہ زندگی اختیار کی جائے.گھروں میں ایک کھانا کھایا جائے.آپ نے خود بھی گھروں میں ایک کھانا کھایا اور اس معیار تک پہنچا دیا کہ مجھے یاد ہے بچپن میں اتنا معمولی کھانا ہوتا تھا کہ بعض دفعہ ہماری بہنیں روٹھ جایا کرتی تھیں ماں سے کہ ہم نہیں کھاتے یہ کھانا.پانی ملا ہوا، کھلا شور به لیکن آج وہ بلکہ قیامت تک انکی اولادیں فخر کریں گی کہ اللہ کی راہ میں ہم نے قربانیاں دی ہیں تھا سب کچھ خدا کے اس خلیفہ کے پاس لیکن اپنے گھر کو انتہائی غربت کے ماحول میں سے گزار دیا.کپڑے نہ بنانے کی تحریک تھی اور نہ بنائے جائیں.خود دو سال تک جو تمیمیں پاس تھیں انہی میں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 267 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء گزارا کیا اور کپڑے نہ بنائے.زیورات جو تھے وہ قربان کرنے کے لئے ارشاد فرمایا اور آئندہ بنانے سے روک دیا.گوٹا کناری سے بھی کہا کہ شادیوں پر بالکل معمولی چند ایک گوٹا کناریاں لگا لوور نہ خدا کی راہ میں سادگی کی زندگی اختیار کرو.ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنے کے لئے فرمایا.خود ٹوکریاں ڈھو ئیں مٹی کی ،ساتھ مل ملکر مزدوری کی لوگوں کے سامنے ، جماعت میں ایک عجیب جوش پیدا ہو گیا.ہر طرف وقار عمل وقار عمل شروع ہو گیا، فرمایا امیر آدمی ہو خدا کی راہ میں دیتے ہو لیکن حرص پوری نہیں ہو سکتی تمہاری جب تک خود اپنے خون پسینے کی اس طرح کمائی پیش کرو جس طرح مزدور پیش کرتا ہے.اپنے ہاتھ سے کچھ بناؤ اور بیچو.خود عطر بنانا شروع کیا اور ایک دفعہ ایک عورت نے ذکر کیا کہ حضور میں نے تو اس طرح کپڑے سیئے اور دیا تو آپ نے فرمایا میں بھی پیچھے نہیں ہوں.میں نے عطر بنا کر اور بیچ کر جو کچھ تھا وہ خدا کی راہ میں پیش کیا ہے.اطاعت کی ایک عظیم الشان روح پیدا کر دی اور ایک ایسی جماعت بنائی، ایسا پس منظر پیدا کر دیا کہ آج جو دور دور سے مغرب اور مشرق سے سعید روحیں آپ آتی ہوئی دیکھ رہے ہیں اس کے پس منظر میں وہ ساری قربانیاں ہیں.انکی تفصیل کبھی بیان ہو ہی نہیں سکتی اور ان قربانیوں کا مقصد کیا تھا ؟ مقصد مزید قربانیاں کرنا تھا.یہ نہیں تھا کہ اپنی ذات میں وہ قربانیاں نہیں تھیں.منتہی نہیں تھیں یہ.یہ وہ ذریعہ تھیں وہ سواریاں تھیں جن پر چڑھ کر پھر مجاہدین اسلام نے جا کر اپنی جانیں خدا کی راہ میں پیش کرنی تھیں.آپ کو اس قدر شوق تھا خدا کی راہ میں جماعت کا ہر فردشامل ہو جائے کہ آپ کو خیال آیا کہ بعض لولے لنگڑے، بیمار بچارے جو شامل نہیں ہو سکتے کسی کام میں،حسرت کرتے ہوں گے کہ خدا ہمیں بھی توفیق دے.ان کو بھی آپ نے خوشخبری دی.آپ نے فرمایا : پس وہ لولے لنگڑے اور پانچ جو دوسروں کے کھلانے سے کھاتے ہیں.جو دوسروں کی امداد سے پیشاب یا پاخانہ کرتے ہیں اور وہ بیمار اور مریض جو چار پائیوں پر پڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ کاش ہمیں بھی طاقت ہوتی اور ہمیں بھی صحت ہوتی تو ہم بھی اس وقت دین کی خدمت کرتے.ان سے میں کہتا ہوں کہ ان کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے دین کی خدمت کرنے کا موقع پیدا کر دیا ہے.وہ اپنی دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور چار پائیوں پر
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 268 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء پڑے پڑے خدا تعالیٰ کا عرش ہلائیں تا کہ کامیابی اور فتمندی آئے.“ الفضل مؤرخہ ۹ دسمبر ۴۳۹۱ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحه ۲۲) وہ گریہ وزاری کرنے والے آج بھی جماعت میں موجود ہیں.لوگوں کو نظر نہیں آتے لیکن بیمار ، اپاہج ، لولے لنگڑے، بستروں پر پڑے ہوئے راتوں کو کروٹیں بدل بدل کر خدا کے حضور دعا صلى الله کرتے ہیں کہ اے آقا ! تیرے محمد مصطفی ﷺ کا دین دنیا میں پھیل جائے.اس روح کو دیکھتے ہوئے ایک سکھ مصنف نے جماعت احمدیہ کا ذکر کیا اور بڑا خراج عقیدت پیش کیا.وہ کہتا ہے: ترک خواہشات کی سپرٹ ( Spirit) ان کے خلیفہ نے جس تدبر اور دانائی سے ان کے اندر پھونک دی ہے وہ قابل صد ہزار تحسین و آفرین ہے.اور ہندوستان میں آج صرف ایک خلیفہ قادیان ہی ہے جو سر بلند کر کے کہہ سکتا ہے کہ اس کے لاکھوں مریدا ایسے موجود ہیں جو اسکے حکم کی تعمیل کے لئے حاضر ہیں اور احمدی نہایت فخر سے کہتے ہیں کہ انکا خلیفہ نہایت معاملہ فہم ، دور اندیش اور ہمدرداور بزرگ ہے.“ اس سکھ کی نظر تو صرف ہندوستان پر پڑی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا میں کوئی جماعت فخر کے ساتھ ان قربانیوں کو پیش نہیں کر سکتی جو جماعت احمدیہ نے حضرت امام جماعت احمدیہ کے ارشاد پر پیش کیں اور پیش کرتی چلی جارہی ہے.جانی قربانی بھی شروع ہوتی ہے ان اموال کی قربانی کے بعد اور یہی مقصد تھا.اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ المسیح نے لوگوں کو اپنی طرف بلایا.فرمایا: فوراً جلد سے جلد ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو سلسلہ کے لئے اپنے وطن چھوڑ دینے کے لئے تیار ہوں.اپنی جانوں کو خطرات میں ڈالنے کے لئے تیار ہوں اور بھو کے پیاسے رہ کر بغیر تنخواہوں کے اپنے نفس کو تمام تکالیف 66 سے گزارنے پر آمادہ ہو جائیں.“ پھر فرمایا: اگر اس قسم کے لوگ سلسلہ احمدیہ میں پیدا ہو جا ئیں تو ہماری فتح یقینی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 269 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء اور قطعی ہے کیونکہ اس وقت یہ سوال ہی نہیں ہوگا کہ انکو سلسلہ کی طرف سے ملتا کیا ہے؟ بلکہ وہ خدا کے دین کی اشاعت کے لئے دیوانہ وار نکل کھڑے ہونگے اور ہر قربانی کے لئے شرح صدر سے تیار ہونگے.انہیں اگر پہاڑوں کی چوٹی سے اپنے آپ کو گرانے کے لئے کہا جائے گا تو وہ ہر پہاڑ پر سے گرنے کے لئے تیار ہو جا ئیں گے.انہیں اگر سمندر میں چھلانگ لگانے کے لئے کہا جائے گا تو وہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لئے تیار ہو جائیں گے.“ ایسے لوگ خدا نے آپ کو عطا کئے ، ایسے جنہوں نے اپنی ساری زندگیاں خدا کی راہ میں پیش کر دیں، جن کو سلسلہ نے ہمیشہ کے لئے اپنی تحویل میں لے لیا.ایسے بھی تھے شروع شروع میں جو راز خود نکل کھڑے ہوئے اس تحریک کا سن کر.ان کا ذکر کرتے ہوئے بڑے پیار سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے کئی جگہ مختلف خطبات میں ان کا تذکرہ کیا ہے.ان میں سے ایک ولی داد خان تھے.افغانستان کی سنگلاخ زمین میں جہاں پہلے بھی احمدیت عظیم شہادت کا خون چکھ چکی تھی.یہ وہاں نکل کھڑے ہوئے.شروع میں چند ماہ تک سلسلہ نے ان کو گزارہ دیا.پھر وہ صورت پیدا نہیں ہوئی.اپنے طور پر یہ دوائیاں بیچ کر کام کرتے رہے اور کچھ عرصہ کے بعد اسی سرزمین میں شہید ہو گئے.ایک اور دوست تھے عدالت خان صاحب ایک نو جوان ضلع جہلم کے.ان کو حضرت خلیفہ المسیح کا پیغام سن کر، ان بیچاروں کو پتہ نہیں تھا پاسپورٹ لینے کا وغیرہ.یہ بھی سیدھا افغانستان پہنچے شوق شہادت لئے ہوئے کہ سب سے زیادہ مشکل سرزمین جہاں مجاہدین کی امنگیں پوری کی جاتی ہیں وہ افغانستان ہے.وہاں گئے ، جاتے ہی حکومت نے ان کو قید کر لیا.قید کی مشقتوں میں اتنی تبلیغ کی کہ اندر لوگ احمدی ہونے شروع ہو گئے.نتیجہ حکومت نے تنگ آ کر انکو دوبارہ ہندوستان کی سرحد میں دھکیل دیا.واپس آتے ہی ایک اور نو جوان کو تیار کیا اور کہا آؤ ہم اب چین چلتے ہیں، ترکستان کی طرف نکل کھڑے ہوتے ہیں اور کشمیر کے راستے ان کو لے گئے.وہ تعلیم یافتہ تھے اورمحمد رفیق ان کا نام تھا.انہوں نے تو پاسپورٹ وغیرہ بنوالیا.ان کے پاس کچھ نہیں تھا اور یہ کشمیر کی سرحد سے جب گزرنے لگے تو پھر پکڑے گئے واپس دھکیل دیئے گئے.کشمیر میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگے کہ جب داؤ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 270 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء لگے گا میں چلا جاؤں گا.نمونیہ ہوا.اخلاص کا یہ عالم تھا کہ جماعت کو کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ میں بیچ جاؤں تو کوئی غیر احمدی مباہلہ کرنے والا اٹھالاؤ.میں احمدیت کی صداقت پر اس سے مباہلہ کروں گا اور کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ میں مرجاؤں.چنانچہ مباہلہ کرنے والا تو کوئی نہیں ملا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس اخلاص کو دیکھتے قبول کرتے ہوئے ان کو بچا لیا.پھر دوبارہ بیمار ہوئے.ڈبل نمونیہ اچانک ہوا ، سرحد پر بار بار جا کر کوشش کیا کرتے تھے اور وہیں شہید ہو گئے.اس قسم کے نوجوان ایک دو نہیں بیسیوں ہیں جو نکل کھڑے ہوئے اور خدا کی راہ میں بڑی تکلیفیں اٹھا ئیں.پھر وہ آگے آئے جنہوں نے ساری زندگیاں بلا چون و چرا خدا کے حضور پیش کر دیں.ان میں سے سینکڑوں ہزاروں ہیں سب کی مثالیں پیش کی جاسکتیں.چند ایک کی مثالیں حضرت خلیفہ اسی نے جن کا بڑے پیار سے ذکر کیا ہے، میں پیش کرتا ہوں : حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس رض ان کے متعلق آپ فرماتے ہیں: ”ہمارے کئی مبلغ ایسے ہیں جو دس دس پندرہ پندرہ سال تک بیرونی ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہے اور وہ اپنی نئی بیا ہی ہوئی بیویوں کو پیچھے چھوڑ گئے.ان عورتوں کے اب بال سفید ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے خاوندوں کو کبھی یہ طعنہ نہیں دیا کہ انہیں شادی کے معا بعد چھوڑ کر لمبے عرصہ کے لئے باہر چلے گئے تھے.ہمارے ایک مبلغ مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں.وہ شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے تھے.انکے واقعات سنکر انسان پر رقت طاری ہو جاتی ہے.ایک دن انکا بیٹا گھر آیا اور اپنی والدہ سے کہنے لگا کہ اماں ابا کسے کہتے ہیں؟ سکول میں سارے بچے ابا ابا کہتے ہیں ہمیں تو پتہ نہیں کہ ابا کیا ہوتا ہے؟ کیونکہ وہ بچے تین تین چار چار سال کے تھے جب حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس انہیں چھوڑ کر چلے گئے اور 66 اس وقت واپس آئے جب وہ جوان ہو چکے تھے اور بیوی بوڑھی ہو چکی تھی.“
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت مولوی نذیر احمد صاحب مبشر : 271 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء ان کا ذکر کرتے ہوئے (حضور) فرماتے ہیں: " آج کل گولڈ کوسٹ میں کام کر رہے ہیں، یہاں گو جماعتیں پہلے سے قائم ہیں مگر وہ اکیلے کئی ہزار کی جماعت کو سنبھالے ہوئے ہیں.پھر انکی قربانی اس لحاظ سے بھی خصوصیت رکھتی ہے کہ وہ آنریری طور پر کام کر رہے ہیں.جماعت انکی کوئی مدد نہیں کرتی.وہ بھی سات آٹھ سال سے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے جدا ہیں بلکہ تبلیغ پر جانے کی وجہ سے وہ اپنی ( منکوحہ ) بیوی کا رخصتا نہ بھی نہیں کرا سکے، (الفضل یکم اکتو بر ۱۳۹۱ء) نکاح ہوا ہے اور رخصتانہ سے پہلے حکم آیا ہے کہ چلے جاؤ اور اٹھ کر نکل کھڑے ہوئے.حکیم فضل الرحمن صاحب: آپ کے متعلق فرماتے ہیں حضرت خلیفہ امسیح الثانی: نو سال سے تبلیغ کے لئے گئے ہوئے ہیں.انہوں نے شادی کی اور شادی کے تھوڑے عرصہ کے بعد ہی انہیں تبلیغ کے لئے بھجوا دیا گیا.وہ ایک نوجوان اور چھوٹی عمر کی بیوی کو چھوڑ کر گئے تھے مگر اب وہ آئیں گے ، (ابھی آئے نہیں تھے نو سال تک ) تو انہیں ادھیڑ عمر کی بیوی ملے گی.یہ قربانی کوئی معمولی قربانی نہیں ہے.“ (الفضل یکم اکتوبر ۱۳۹۱ء) حکیم صاحب کو ہمیں بھی دیکھنے کی توفیق ملی.وہاں افریقہ میں اس قدر مشکل حالات میں انہوں نے کام کیا کہ جب واپس آئے تو بہت کمزور اور بوڑھے ہو چکے تھے.بچے جوان ہو گئے تھے، بیوی بوڑھی ہو چکی تھی.وہ چند سال ہی یہاں آ کے زندہ رہے.خدمت دین کرتے ہوئے ہی یہیں آ کر فوت ہوئے.مولوی غلام حسین صاحب ایاز : یہ ملایا گئے.انتہائی تکلیف کے حالات میں شروع میں ان کو کچھ گزارہ ملا بعد میں وہ بھی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 272 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء نہیں مل سکتا تھا.اتنی تکلیفیں انہوں نے اٹھا ئیں ہیں احمدیت کے لئے کہ آپ ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے.حالت یہ تھی کہ اسلام کو پھیلانے کا جوش ایسا تھا کہ لوگوں میں تبلیغ کرتے ، وہ ان کو مار مار کر ادھ موا کر کے گلیوں میں پھینک دیا کرتے تھے.رات کتے زخم چاٹتے رہتے تھے انکے.صبح اٹھتے ، اپنے زخم بینچ کر پھر تبلیغ اسلام میں مصروف ہو جاتے.سالہا سال کی دکھوں کی زندگی ہے جس میں سے کچھ باتیں کہی گئی ہیں کچھ ان لکھی ہیں، ان کہی ہیں جن کو صرف خدا جانتا ہے.حضرت مولوی رحمت علی صاحب: آج ہی آپ نے انڈو نیشیا کے ایک بڑے ہی ہمارے جلیل القدر بزرگ کی تقریر سنی تھی انگریزی میں.یہ پھل کن قربانیوں کے ہیں؟ ان کی طرف بھی تو دیکھئے ! کہنا تو آسان ہے کہ ساری دنیا میں تبلیغ ہورہی ہے، اسلام پھیل رہا ہے لیکن کس طرح پھیلا ؟ کس طرح وہ تبلیغ شروع ہوئی ؟ کس لمبی قربانی کے نتیجے میں یہ شیریں انشمار جماعت احمدیہ کو ملے؟ انکی طرف بھی نگاہ کیجئے.مولوی رحمت علی صاحب کے متعلق حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ذکر فرمایا کرتے تھے دوباتوں کا.بچہ انکا چھوٹا تھا جب آپ چلے گئے.جب باقی اردگرد کے باپ باہر جاتے اور بچوں کے لئے تحفہ لایا کرتے تو یہ اپنی ماں کے پاس جا تا بچہ اور رو کر کہتا کہ ہمارے ابا کب آئیں گے.وہ کیوں کچھ ہمارے لئے نہیں لاتے ؟ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ان کی ماں کی بسا اوقات آواز بھر جاتی تھی اور اپنی دانست میں جس طرف انڈونیشیا ہوتا تھا اس طرف اشارہ کر کے کہہ دیا کرتی تھی کہ تیرے ابا وہاں بہت اچھے کام پر گئے ہوئے ہیں.دوسری بات انکے متعلق حضور نے بیان کی وہ بھی عظیم الشان ہے.جب مولوی رحمت علی صاحب کو بہت لمبے عرصے کے بعد حضور نے واپس بلانے کا فیصلہ کیا تو یہی بوڑھی بیوی جس نے عملاً بیوگی کی زندگی اختیار کی، جس کی آنکھوں کے سامنے بچوں نے یتم کی حالت میں زندگی بسر کی تھی.خوشی سے دوڑتی ہوئی شکریہ ادا کرنے نہیں آئی کہ شکر ہے آپ نے آخر میرے خاوند کو بلا لیا.بلکہ روتی ہوئی یہ عرض کرنے گئی کہ اے امام ! تیرا احسان ہے ہم پر کہ خدا کے دین کی خاطر تو نے قربانیاں لیں.میری ایک ہی خواہش تھی اور اسے بھی پورا کر دیجئے.میری خواہش یہ ہے کہ اب میرا خاوند مجھے سے جدا رہ کر دین اسلام کی خدمت میں ہی باہر مر جائے.میری اب یہ خواہش ہی نہیں رہی کہ وہ واپس
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 273 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء آئے.چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح نے اس خواہش کو پورا کرتے ہوئے ان کو دوبارہ باہر بھجوادیا.واپس یہاں آ کر فوت ہوئے لیکن حضرت صاحب نے ان کو دوبارہ تبلیغ کے لئے بجھوا دیا تھا.یہ وہ قربانیاں ہیں جو میں نے چند مثالیں بیان کی ہیں.ان کے علاوہ ایک قربانیوں کا پس منظر ہے جو واقفین کی بیویوں اور بچوں کی زندگیوں میں ہمیں یہاں ملتا ہے.سینکڑوں، ہزاروں سلسلے کا کام کرنے والے ایسے ہیں جن کو بہت معمولی گزارے ملتے ہیں.جن کی بیویاں اور بچے پیچھے رہ کر انتہائی تکلیف کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں.صبر اور شکر اور رضا کے سوا انکے پاس کچھ نہیں ہے.انکی قربانیاں کسی مورخ نے لکھی نہیں ہیں.انکے حالات پرتفصیلی نظر ڈالیں تو مجھے Keats کاوہ شعر یاد آ جاتا ہے.جو اس نے ایک خاموش تصویر کو دیکھ کر کہا تھا جس میں ایک بنسری بجانے والا بنسری بجارہا ہے لیکن اس کی آواز نہیں آرہی.اس نے اس تصویر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: Heard melodies are sweet But those unheard are sweeter Therefore ye soft pipes play on (Ode on a Grecianurn by John Keats) کہ وہ نغمات جو سنے جاسکتے ہیں وہ بہت میٹھے ہوتے ہیں لیکن ایسے بھی نغمات ہیں جو کبھی سے نہیں جائیں گے.وہ ان سے بھی زیادہ میٹھے ہیں.اس لئے اے خاموش نغمہ سرا ! تو یہ نغمے سنائے چلا جا خواہ کوئی سنتا ہے یا نہیں سنتا.ان عورتوں سے، ان بچوں سے، ان بیٹیوں سے، ان ماؤں سے جماعت احمد یہ یہ کہتی ہے کہ اے خاموش نغمہ سر اؤ ! تم ان درد کے نغمات کو الاپتے رہو اپنی خاموش زبان میں.تاریخ احمدیت ان کی تفصیل بیان کرے یا نہ کرے تمہیں اس سے غرض نہیں.یہ جو کچھ قربانیاں تھیں تم نے اپنے خدا کی خاطر کیں اور خدا دلوں کی گہرائیوں پر نظر رکھتا ہے.وہ تمہارے ہر خون کے اس قطرے سے واقف ہے جو خدا کے دین کی خاطر تم نے بہایا.وہ ہر اس آنسو کے قطرے سے واقف ہے جو اپنے خاوندوں کے ہجر میں تم نے زمین پر گرائے.تمہاری خاموش گریہ وزاری کو وہ جانتا ہے.تمہارے بچوں کی تکلیفوں کو وہ جانتا ہے.وہ جانتا ہے کہ کس دکھ اور مصیبت میں تم نے یہ زندگی بسر کی ہے.اس لئے اے خاموش نغمہ سرا ؤ ! تم دنیا سے بے نیاز اپنے اس خدا کے حضور اپنے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 274 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء آنسو بہاتے رہو کہ قیامت کے دن تم ہی وہ سرفراز ہو گے جو مد مصطفی ﷺ کے قدموں میں سب سے پہلے درود کے پھول نچھاور کرنے کے لئے پیش کئے جاؤ گے.بے انتہا قربانیاں ہیں یہ ایسی جن کا کوئی تفصیلی ذکریا اشاریہ بھی بعض جگہ آپ کو نہیں ملے گا.ایک مبلغ کی بیوی چند دن ہوئے میرے پاس آئی.کچھ تکلیفیں تھیں ، کچھ ضرورتیں تھیں ان کی.تو بڑی شرم کے ساتھ آہستہ سے کچھ انہوں نے بیان کیں.مانگنے والی بات نہیں کی کچھ اور مدد جس طرح خاوند ، سہارا دینے والا نہ ہو تو انسان کہتا ہے کہ مجھے یہ کام کروا دو وہ کام کروا دو.میں نے ان کو کہا کہ مبلغ یعنی خاوند کے جو باپ ہیں وہ بھی کچھ کمائی کرتے ہیں آخر تمہیں اس کا بھی سہارا ہوگا.اب یہ سنئے ذرا اس باپ کی مثال.جو بیٹا باہر گیا ہوا ہے اور جس کے بچے اس باپ کے سامنے تکلیف اٹھا ر ہے ہیں.انہوں نے کہا وہ باپ ! وہ تو ایسا ہے کہ جو کچھ کماتا ہے خدا کی راہ میں پیش کر دیتا ہے.ایک آنہ بھی ان بچوں پر خرچ نہیں کرتا.وہ کہتا ہے اللہ تعالیٰ جب تک میرے اعضاء میں طاقت ہے، جب تک میں کچھ کماؤں گا جس طرح میں نے بیٹا خدا کی راہ میں دیا ہے.میرا مال بھی خدا کی راہ میں ہے.سب کچھ خاموشی کے ساتھ وہ خرچ کرتا چلا جاتا ہے.یہ ان کہی بات تھی ایک اتفاقا مجھے معلوم ہوئی.سینکڑوں ہزاروں ایسی مثالیں ہونگی جن کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کبھی نہیں کہی جائیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسے قربانی کرنے والوں کے متعلق رویا میں یہ خوشخبری دکھائی گئی تھی.آپ فرماتے ہیں: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک وسیع جگہ میں ہوں اور وہاں ایک چبوترہ ہے کہ جو متوسط قد کے انسان کی قمر تک اونچا ہے اور چبوترہ پر ایک لڑکا بیٹھا ہے جس کی عمر چار پانچ برس کی ہوگی اور وہ لڑکا نہایت خوبصورت ہے اور چہرہ اس کا چمکتا ہے اور اس چہرہ پر ایک ایسا نور اور پاکیزگی کا رعب ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسان نہیں ہے.اور معا د یکھتے ہی میرے دل میں گزرا کہ وہ فرشتہ ہے.تب میں اس کے نزدیک گیا.اور اس کے ہاتھ میں ایک پاکیزہ نان تھا.جو پا کیزگی اور صفائی میں کبھی میں نے دنیا میں نہیں دیکھا.اور وہ نان تازہ بتازہ تھا اور چمک رہا تھا.فرشتہ نے وہ نان مجھ کو دیا اور کہا کہ یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 275 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء درویشوں کے لئے ہے.اس خواب کے گواہ شیخ حامد علی....ہیں.اور یہ اس زمانے میں خواب آئی تھی جبکہ نہ میں کوئی شہرت اور دعویٰ رکھتا تھا اور نہ میرے ساتھ کوئی جماعت درویشوں کی تھی.مگر اب میرے ساتھ بہت سی وہ جماعت ہے جنہوں نے خود دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر اپنے تئیں درویش بنادیا ہے اور اپنے وطنوں سے ہجرت کر کے اور اپنے قدیم دوستوں اورا قارب سے علیحدہ ہو کر اور اپنی طرز زندگی کو سراسر مسکینی اور درویشی کی طرف تبدیل دیگر قادیان میں میری ہمسائیگی میں آکر آباد ہو گئے ہیں.“ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۵۱ صفحه : ۱۶۲ - ۳۶۲) تو یہ وہی درویش ہیں جن کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک شیریں نان کا تحفہ عطا ہوا.اب میں دوسری قسم کی قربانیوں کا کچھ مختصر تذکرہ کرتا ہوں.میں نے آپ سے بیان کیا تھا کہ ایک قربانی کی قسم ابراہیمی اسلام کے بعد یعنی اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (البقرة :۱۳۲) کہنے کے بعد یہ ہوتی ہے کہ خود انسان جس طرح کہ میں نے یہ مثالیں بیان کیں ہیں اپنے شوق سے اپنے جذبے کے ساتھ اپنی جان، مال خدا کی راہ میں فدا کرتا چلا جاتا ہے.ایک وہ قربانیاں ہوتی ہیں جوان پر ٹھونسی جاتی ہیں.انہیں بھی وہ بڑی خوشی کے ساتھ برداشت کرتے ہیں.ان قربانیوں کو اللہ تعالیٰ نے آگ سے مثال دے کر بیان کیا ہے جیسا کہ فرمایا قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا الهَتَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ فَعِلِينَ (الانبیاء: ۹۶) میرے ان بندوں کو ان کے اسلام کی یہ سزادی جارہی ہے کہ انکے لئے آگ بھڑ کا ؤ ، جلاؤ ان کو کیونکہ جب تک تم آگ سے ان کو خاکستر نہیں کرو گے ان کا ایمان دلوں سے ضائع نہیں ہوسکتا.ان لوگوں کے متعلق جو مختلف ادوار ہیں وہ بڑی تفصیل سے قرآن میں بیان ہوئے ہیں کہ کس قسم کی تکلیفوں میں سے یہ گزرتے ہیں.آگ کی طرف جب لے جایا جاتا ہے کبھی اس کی گرمی ابتداء میں ان کو پہنچتی ہے، وہ دھواں دیکھتے ہیں ، آگ کا جلتا ہوا نظارہ دیکھتے ہیں پھر آخر آگ میں ڈال بھی دیا جاتا ہے.ان کی مختلف Stages قربانیوں کی قرآن میں بھی بیان ہیں اور حدیث میں بھی کثرت
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 276 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء سے انکا ذکر ملتا ہے.ایک ابتدائی سٹیج(Stage) جس میں سے ساری جماعت گزرتی ہے کوئی نہیں بچتا وہ یہ ہے: اِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوْا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَرُوْنَ وَإِذَا انْقَلَبُوا إِلَى اَهْلِهِمُ انْقَلَبُوا فَكِهِيْنَ وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَؤُلَاءِ لَضَاتُونَ (المطففين : ۳۰ - ۳۳) کہ وہ لوگ جو جرم کیا کرتے تھے.وہ میرے ان بندوں سے تمسخر کرتے تھے جو ایمان لے آئے وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ ه جب وہ ان کے پاس سے گزرتے تھے تو آنکھیں مارتے ہوئے گزرتے تھے کہ دیکھو یہ مرزائی کتا یہ کافر، یہ محمد، یہ دجال، پاگل ہو گیا ہے کس کو قبول کر لیا ہے وَ اِذَا انْقَلَبُوا اور ایسا مزہ لیتے تھے وہ اس چھیڑ چھاڑ میں کہ بھولتے نہیں تھے، سارا رستہ چسکا لیتے ہوئے جاتے تھے یہاں تک کہ إِذَا انْقَلَبُوا إِلَى أَهْلِهِمُ انْقَلَبُوا فَكِھیں کہ جب وہ اپنے گھروں میں پہنچتے تھے تو اسی تمسخر کی کیفیت کے ساتھ پہنچ کر گھر میں جا کر بیان کیا کرتے تھے.بڑا لطف آیا آج ! اس طرح ایک احمدی بچہ تھا، اس طرح ہم نے اس کو چھیڑا ، اس طرح احمدی بڑا تھا، اس طرح احمدی عورت تھی ہم نے مرزائن کہہ کر اس کے دل کو دکھایا.یہ تمسخر کیا، یہ مذاق کیا وَ اِذَا رَاَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَؤُلَاءِ لَضَادُّونَ منہ بھر کر بڑی عالمانہ زبان میں کہتے ہیں جب وہ دیکھتے ہیں ان بندوں کو اِنَّ هَؤُلَاءِ لَضَاتُونَ یہی گمراہ ہیں یہی گمراہ ہیں.تو یہ ایک عمومی ابتلاء ہے آگ کی تیاری کا جس میں سے ساری جماعت گزرتی ہے.کوئی ایک بھی خدا کا مومن بندہ یہ کہہ کر کہ میں اپنے رب پر اور وقت کے امام پر ایمان لے آیا اس سزا سے بچ نہیں سکتا.ایک احمدی بچہ بھی نہیں ہے جس نے اپنی زندگی میں کبھی اس قسم کے دکھ نہ اٹھائے ہوں.پھر یہ سزا جو ہے کچھ آگے بڑھتی ہے.بدن تک پہنچتی ہے.تمسخر جو ہے وہ ایذا رسانی میں تبدیل ہونا شروع ہوتا ہے.اس قسم کا ایک واقعہ بڑا پیارا واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہمیں ملتا ہے.سیالکوٹ جب آپ تشریف لے گئے تو مولوی برہان الدین صاحب جو
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 277 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء آپ کے بڑے مشہور بزرگ صحابی تھے آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے.جس طرح حضور پر بعض دفعہ راکھ پھینکی جاتی تھی ، طرح طرح کے ایذاء دینے کے لئے.حضور کے اس غلام پر بھی کھڑکی سے کسی عورت نے راکھ پھینکی ، گھر کا کوڑا کرکٹ اور راکھ.حضور تو آگے نکل گئے پیچھے مولوی برہان الدین تھے ساری انکے سر پر پڑی.سر اٹھا کر کہا.” پاراے مائے پا.پا اے مائے پا“ اے اماں یہ راکھ بہت پیاری ہے پھولوں سے بڑھ کر ہے مجھے ڈالتی چلی جا، ڈالتی چلی جا.( تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحه : ۶۲۴) یہ وہ جذبہ تھا جس کے ساتھ احمدیوں نے ان قربانیوں کو قبول کیا.سیالکوٹ میں ہی جلسہ تھا.جلسے کے بعد مولوی برہان الدین صاحب باقی لوگوں سے بچھڑ کر ذرا الگ ہوئے.لوگوں نے پکڑ لیا ان کو اور یہ جو خواہش تھی ناں کہ خدا کی راہ میں مجھے اور اس قسم کی قربانیاں نصیب ہوں وہ اللہ تعالیٰ نے پوری کر دی ہیں.پکڑ کر گو برگلی سے اٹھا کر انکے منہ میں گوبر ڈالنا شروع کیا.اس کے جواب میں آپ نے جو کہا وہ یہ تھا او بر ہاناں! ایہ نعمتاں کتھوں! ( تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحه: ۶۲۴) اللہ تیری شان جس طرح ابو ہریرہ نے کہا تھا ”بخ بخ ابو ھریرہ“ کیا شان ہے ابو ہریرہ تیری ! وہ شان تو کسریٰ کے رومال ملنے کے نتیجے میں انہوں نے دیکھی تھی.یہ شان ایک گلی کے گوبر کے نتیجہ میں مسیح موعود کا غلام دیکھ رہا تھا.کہاں تیرہ سوسال کا عرصہ گزر گیا، صحابہ آئے اور خدا کی راہ میں قربانیاں پیش کر کے چلے گئے.نہ مسیح موعود آتے نہ یہ نعمتیں ہمیں نصیب ہوتیں کہ خدا کے رستے میں گوبر ہمارے منہ میں ڈالا جا رہا ہے.یہ وہ ایک معمولی سی مثال ہے.سینکڑوں ہزاروں ایسے تھے جو ان تکلیفوں میں سے گزر رہے تھے، مقاطعے ہوئے ان کے، گھروں میں قید کر دیا گیا.چھوٹے بچوں کو عذاب دیا گیا.آج جو آپ تکلیفیں دیکھ رہے ہیں کوئی نئی بات تو نہیں ہے.صرف آج کا زمانہ تو ان کے لئے مخصوص نہیں ہے.جس دن مسیح موعود کے غلاموں نے ساتھ ملکر یہ آواز دی تھی کہ ہاں ہم تیری راہ میں حاضر ہیں، جو کچھ تجھے حکم دیا گیا ہے ہمارے ساتھ کر، تو ہمیں صبر کرنے والوں میں سے پائے گا.اس دن سے انکے صبر کا امتحان لیا جا رہا ہے.۱۹۰۵ء میں بریلی کے ہمارے ایک بزرگ تھے.انہوں نے اس زمانے میں ایک اشتہارشا ئع کیا.مجھے کچھ عرصہ پہلے لائبریری میں دیکھنے کا موقع ملا.کہتے ہیں کہ سخت تپش کے دن ہیں.مئی، جون ، جولائی کا مہینہ، تین مہینے ہو گئے ہیں ، نہ پنکھا ہے لیکن ہم صحن میں اس لئے نہیں سو سکتے کہ پتھراؤ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 278 اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانیاں ۵۷۹۱ء کیا جا رہا ہے ہمارے اوپر اور پتھراؤ کے نتیجے میں رات گرمی میں سوتے ہیں، خاکروبوں وغیرہ کو منع کر دیا گیا ہے کہ ہمارے گھروں میں داخل ہوں اور بچے جو ہیں وہ سکول جانے سے محروم ہیں.نکلتے ہیں گلیوں سے، پانی بند ہے.جب ہم دور سے کہیں سے پانی لانے کی کوشش کرتے ہیں رستے میں محنت کے بعد لمبے عرصے کے بعد جب گھر پہنچنے لگتے ہیں تو بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی نے دیکھ لیا اور ہاتھ مار کر بالٹی ہاتھ سے گرادی.ترستے ہوئے بچے پانی کو پیچھے پیاسے کے پیاسے رہ جاتے ہیں.پس یہ وہ عظیم الشان قربانیاں ہیں جو جماعت احمدیہ نے خدا اور اس کے دین کی خاطر کیں.ابھی حال ہی میں جن مصائب میں سے جماعت ساری گزری ہے.آگ کا جو نظارہ آپ نے دیکھا اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ پر فضلوں کی بارش کی بالآخر وہ آپ کے سامنے ہے.لیکن ایک بات صرف کہہ کر میں اس تقریر کو ختم کرتا ہوں کہ اس کے نتیجے میں خدا نے اپنے فضلوں کی بے انتہاء بارشیں برسائی ہیں ان سب کا ذکر تو بہت تفصیلی ہے.صرف اس بات کو ملحوظ رکھے کہ واشنگٹن سے لے کر ماسکوتک اور لندن سے لیکر ٹوکیو تک کوئی ایک بھی ملک ایسا انہیں رہا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام نہ پہنچایا گیا ہو اس کے نتیجے میں.ان کے ریڈیو، ان کے ٹیلیویژن ، ان کے اخبارات سارے وقف تھے ، آپ کے درد کے تذکروں کے لئے نہیں مسیح موعود کے پیغام کے لئے ، یہ بڑی حیرت انگیز بات ہے.تفصیل سے انہوں نے بڑی دیانت اور صداقت کے ساتھ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو ساری دنیا میں پھیلایا.مجھے اس پر وہ واقعہ یاد آ گیا کہ جب قیصر کے دربار میں ابوسفیان کو حاضر کیا گیا آنحضرت کے متعلق پوچھنے کے لئے ، وہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا.باہر نکلا تو اس نے بڑی حسرت سے کہا کہ دیکھو مکہ کا ایک یتیم ، اس کی خبر کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے.آج قیصر کے دربار میں اسکی باتیں ہونے لگیں.میں نے سوچا کہ مکہ کے اس یتیم کے غلام کے غلاموں کی بات آج کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے.سب دنیا کے درباروں میں ان کے تذکرے ہورہے ہیں.کوئی دنیا کا ملک ایسا نہیں جو محبت اور پیار کے ساتھ ان کی قربانیوں کا ذکر نہیں کر رہا اور کوئی دنیا کا ایسا ملک نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام دنیا میں نہیں پھیلا رہا.اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّد كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 279 قیام نماز ۶۷۹۱ء قیام نماز بر موقع جلسہ سالانہ ۱۹۷۶ء) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا: نماز قائم کرنے کے متعلق قرآن کریم میں بیسیوں آیات ہیں جو اس مضمون کو مختلف رنگ میں بیان کرتی ہیں اور انسانی فطرت پر جو چیزیں بھی اثر انداز ہوسکتی ہیں ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے مختلف رنگ میں اس مضمون کو مختلف جگہ بیان فرمایا گیا ہے.لیکن ان سب آیات کی کنجی سورہ فاتحہ میں ہے اور ان تمام مضامین کا خلاصہ سورۂ فاتحہ کی ایک آیت میں درج ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ:۵) اے آقا ! ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں لیکن یہ توفیق نہیں پاسکتے جب تک تو مدد نہ فرمائے.اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اس لئے تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحہ (1) اس عبادت کے نتیجہ میں جو انعامات اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں ان کا ذکر اس اگلی آیت میں کر دیا کہ جب اس رنگ میں ان شرائط کے ساتھ تم عبادت کو قائم کرو گے تو پھر اگلی دعا بے اختیار زبان حال سے تمہارے دلوں سے اور تمہارے جسم کے ذرے ذرے سے یہ نکلے گی کہ اے خدا ! اب اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہاں اب ہم حق دار ہو گئے ہیں کہ اس راہ پر ہمیں چلا دے جن پر تمام انعام پانے والے چلتے رہے اور سب نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی ملا نے جس راہ کو مکمل فرمایا اور جس انعام کو مکمل کیا.اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں سب سے پہلا سبق تو ہمیں یہ ملتا ہے کہ ہم عبادت کو قائم نہیں کر سکتے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 280 قیام نماز ۶۷۹۱ء جب تک کہ شرک سے بکلی پاک نہ ہوں، صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور کسی کی نہیں کرتے صرف تیری عبادت کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اس میں ایک بجز کا مضمون ہے کہ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ عبادت کا ارادہ تو ہے صرف تیری کرنا چاہتے ہیں لیکن تیری مدد کے بغیر یہ حاصل نہیں ہوسکتا ، تو مدد فرمائے گا تو ہم عبادت کریں گے.تیسرا مضمون خصوصیت کے ساتھ اس میں یہ درج ہے کہ عبادت کرنا کوئی آسان کام نہیں نماز قائم کرنے کا مفہوم اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں بیان ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ قائم کرنے سے اس طرف اشارہ ہے کہ نماز گویا بار بار گری پڑتی ہے، کھڑی نہیں ہو سکتی ، خیالات، توہمات ،خواہشات ، دنیا کے دھندے، دنیا کی فکریں بار بار حائل ہوتی ہیں دنیا کے کام روک بن جاتے ہیں.وقت کا خیال کہ وقت کہیں اور ہم نے دینا ہے، وہ رستہ میں کھڑا ہو جاتا ہے.بار بار گرتی ہے اور بار بار نماز میں ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! قائم تو کرنا چاہتے ہیں پر تیری مدد کے بغیر قائم نہیں ہوگی.اس کو کھڑا کرنے میں تو ہماری مددفرما.دوسرا اس میں یہ مفہوم بیان ہوا کہ یہ وہ دروازہ ہے جس کے رستہ سے داخل ہو گے تو انعامات پاؤ گے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم کہنے کا حق ہی نہیں ہے تمہیں جب تک پہلے عبادت کو قائم نہ کر لو.عبادت قائم کرو گے تو پھر وہ شاہراہ تمہارے لئے کھلی ہے جس پر نبیوں نے قدم مارے اور جس کو محمد مصطفی ﷺ نے آکر کامل فرمایا اور ایک عظیم شاہراہ کے طور پر ہمارے سامنے کھلا کر دیا.سورہ فاتحہ میں اس مضمون کو بیان کرنے میں ایک اور لطیف اشارہ اس بات کا موجود ہے کہ دنیا میں راہ گذر بھی ہوتے ہیں پگ ڈنڈیاں بھی ہوتی ہیں جو آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ سڑکیں بنی شروع ہو جاتی ہیں.پھر ان سڑکوں کو پختہ کیا جاتا ہے، پھر بڑی سڑکوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے لیکن جب سب سے بڑا انسان زمانہ کا اس سڑک کو مکمل کر دیتا ہے تو پھر اس کے ذریعہ اس کا افتتاح کروایا جاتا ہے تو یہ دروازہ جو عبادت کا اس راہ سے پہلے کھڑا ہے اس کا آغاز ان معنوں میں حضرت محمد مصطفیٰ نے آ کر کیا.آپ ہی کے ذریعہ یہ افتتاح ہوا، سڑک تو پہلے بھی تھی لیکن مکمل نہیں تھی اس شان کے ساتھ نہیں تھی.عبادتوں کا دروازہ تو شروع میں بھی تھا لیکن ایسا کامل اور اتنا وسیع اور اتنا شاندار اور اتنا بلند دروازہ نہیں تھا.محمد مصطفی می ظاہر ہوئے اور سورہ فاتحہ کے ذریعہ، اس چابی کے ذریعہ اس
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 281 قیام نماز ۶۷۹۱ء دروازے کو کھول دیا اور ہمیشہ کے لئے یہ دروازہ ہمارے سامنے کھلا ہے لیکن غور کی بات یہ ہے کہ کتنے ہیں ہم میں جو سروں کو جھکاتے ہوئے کبھی رکوع کرتے ہوئے کبھی سجدہ کرتے ہوئے اس دروازہ کے احترام کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس سڑک میں داخل ہوتے ہیں.جماعت احمدیہ کا بہت بلند دعوی ہے اتنا بلند کہ اس سے پہلے اس کائنات میں ایسا بلند دعوئی نہیں کیا گیا آنحضرت کی غلامی میں تمام غیر ادیان پر ہم نے غالب آنا ہے، تمام مشکلات کے پہاڑ کو سر کرنا ہے ہماری کچھ بھی حیثیت نہیں جب تک اس کامل عجز کے ساتھ ہم عبادت کے ڈھنگ نہیں سیکھیں گے ہمیں کوئی بھی ترقیات نصیب نہیں ہوسکتیں.اس نکتہ کو اگر آپ نے بھلا دیا تو پھر دائیں اور بائیں تو بھٹکتے رہیں گے لیکن اس دروازے سے داخل ہو کر وہ ترقیات نہیں پاسکیں گے جس کا وعدہ اگلی آیت میں کیا ہے.اس لئے یہ بہت ہی اہم مضمون ہے اور بہت ہی قابل فکر مضمون ہے.حقیقت یہ ہے کہ سینکڑوں احمدی دل ہیں جو دردمند ہیں، خون ہورہے ہیں اس غم میں کہ جماعت احمد یہ کی نئی نسل عبادت کا حق ادا نہیں کر رہی.عبادت جو فرض ہے ، جو ظاہری برتن ہے وہ بھی پوری طرح مکمل نہیں کیا جارہا، یہ خیال کہ غیروں سے ہم بہت بہتر ہیں، یہ خیال کہ دوسروں کے مقابل پر ہماری مسجد میں زیادہ آباد ہیں یہ تسلی بخش خیال نہیں ہے.اس سے اطمینان نہیں ہوسکتا ہمارے سامنے اسوہ غیر نہیں ہیں کہ جس کو دیکھ کر ہم یہ کہیں کہ ان سے ہم بہتر ہیں.صلى الله ہمارے سامنے تو اسوہ حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے صحابہ ہیں اور اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں اور آپ کے صحابہ نہیں.انہوں نے جس طرح عبادت کا حق ادا کیا اگر ہم اس طرح نہ کریں گے تو ہم ناکام رہنے والوں میں سے ہوں گے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ایک موقع پر فرمایا کہ دوسروں سے بہتر ہونے کا خیال کیا مطلب؟ اگر پانچ بھی احمدی ایسے ہیں جو نماز با جماعت نہیں ادا کر تے تو یہ قابل فکر بات ہے اور ساری جماعت کے لئے تشویش کا مقام ہے.اس لئے اس اعلیٰ مقصد کو پیش نظر رکھ کر ان عاجزانہ باتوں کو سنیں جو میں آپ کی خدمت میں عرض کرنے لگا ہوں.قرآن کریم میں جس کثرت سے نماز کا ذکر ہے اس کی تفاصیل کا تو موقع نہیں.میں سب سے پہلے نماز با جماعت کے متعلق حضرت رسول اکرم ﷺ کا اسوہ تھوڑے سے عرصہ میں بیان کروں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 282 گا اس کے بعد دوسرے مضمون کی طرف آؤں گا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسجِدَ اللهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلوةَ وَأَتَى الزَّكُوةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا الله * قیام نماز ۶۷۹۱ء فَعَسَى أُولَيْكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (التوبه : ۱۸) کہ مسجدوں کو آباد کرنے کا دعویٰ تو غلط بات ہے لیکن فی الحقیقت صرف وہی لوگ مسجدوں کو آباد کرتے ہیں جو اللہ پر کامل ایمان لاتے ہیں ، یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں، نماز کو اس کے تمام فرائض اور شرطوں کے ساتھ قائم کرتے ہیں ، زکوۃ دیتے ہیں اور سوائے خدا کے کسی اور سے نہیں ڈرتے أو ليكَ اَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ یہی لوگ ہیں اور صرف یہی ہیں جو اس بات کے حق دار ہیں اور قریب ہے کہ ان کو ہدایت دی جائے.آنحضرت نے نہایت ہی پیارے انداز میں مختلف رنگ میں نماز با جماعت کو قائم کرنے کی نصائح فرمائیں.ایک موقع پر فرمایا کہ دیکھو جو شخص صبح بھی مسجد کی طرف چلتا ہے، جو شخص رات بھی مسجد کی طرف چلتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جنت میں میں نے اس کے لئے مہمانی تیار کر کے رکھی ہے ، میں اس کا مہمان نواز بنوں گا.( صحیح بخاری کتاب الاذان باب فضل العشاء في الجماعۃ ) اس لئے جن لوگوں کو بھی یہ توقع ہے، یہ امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اس پر ہو اس کو یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے.پھر آپ نے سات باتیں بیان فرما ئیں، فرمایا کہ دیکھو ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب کہ خدا کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہیں ہوگا.بے قرار ہوگا سارا زمانہ، ساری کائنات بے قرار ہوگی.تمام انسان جمع ہوں گے.خدا جن لوگوں پر اپنا رحمت کا سایہ فرمائے گا ان میں ایک وہ لوگ ہوں گے جن کا دل مسجد میں اٹکا رہتا ہے.کام میں بھی مصروف ہوتے ہیں تو توجہ مسجد کی طرف ہوتی.نا ہے.کب وقت آئے نماز کا تو پھر ہم خدا کے حضور حاضر ہو جائیں؟ ( صحیح البخاری کتاب الاذان باب من جلس في المسجد ينتظر الصلاة ) تو اگر آپ کے دل مسجد میں اسکے ہوئے ہیں تو آپ کے لئے خوشخبری ہے سب سے زیادہ سچ بولنے والے کی طرف سے خوشخبری ہے کہ آپ کو قیامت کے بے سایہ دن کی کوئی فکر نہیں کیونکہ خدا کا سایہ آپ کے اوپر ہوگا.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 283 قیام نماز ۶۷۹۱ء پھر آپ کو نماز با جماعت کے متعلق اتنا اہتمام تھا اور آپ سمجھتے تھے کہ نماز قائم ہی نہیں ہوسکتی جب تک باجماعت ادا نہ ہو اور مساجد میں جا کر ادا نہ ہو.ایک موقع پر عبداللہ ابن مکتوم جو اندھے تھے وہ حاضر ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں اندھا ہوں نظر نہیں ہے.مدینہ کی سڑکوں پر گڑھے بھی ہیں یہاں جانور کتے وغیرہ بھی پڑ جاتے ہیں مجھے اجازت ہے کہ میں گھر پہ پڑھ لیا کروں.آنحضرت ﷺ بہت شفیق تھے پہلا تاثر یہ ہوا کہ ہاں تمہیں اجازت ہے لیکن اصل شفقت روحانی تھی جسمانی نہیں تھی چنانچہ فورا آپ نے پوچھایہ تو بتاؤ کہ حَيَّ عَلَى الصَّلوۃ اور حَيَّ عَلَى الفلاح کی آواز سنتے ہو.انہوں نے کہا یا رسول اللہ !ہاں سنتا ہوں آپ نے کہا پھر اجازت نہیں ہے.جب سنتے ہو تو جایا کرو اس حال میں بھی جایا کرو.( صحیح مسلم کتب المساجد ومواقع الصلوۃ باب يجب اتيان المسجد على من سمع النداء ) کوئی کہہ سکتا ہے کہ دوسروں کو کہہ دیا، تکلیف اٹھا رہا ہے کوئی اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ آپ کا اپنا اسوہ میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.آخری بیماری تھی اتنی تکلیف میں تھے حضور کہ بار بار غشی کے دورے پڑ رہے تھے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور نے پوچھا کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ کیا لوگ انتظار کر رہے ہیں؟ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! نماز کا وقت ہوا ہے اور لوگ انتظار کر رہے ہیں.فرمایا پانی لاؤ ، پانی سے غسل فرمایا اور بے ہوش ہو گئے.پھر آنکھ کھلی پھر فرمایا لوگ انتظار کر رہے ہیں ؟ یا رسول اللہ! انتظار کر رہے ہیں.پانی لاؤ پانی لایا گیا حضور نے غسل کیا اور پھر نا طاقتی کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے.پھر آنکھ کھلی پھر فرمایا بتاؤ لوگ انتظار کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! انتظار کر رہے ہیں وقت ہے نماز کا.آپ نے کہا پانی لاؤ پھر غسل فرمایا اور پھر اس ناطاقتی کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے چار مرتبہ ایسا کیا تب فرمایا کہ جاؤ ابو بکر کو کہہ دو کہ وہ نماز پڑھادے.حضرت عائشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ بڑے نرم دل ہیں کس طرح اس مقام پر کھڑے ہوں گے جس پر آپ کھڑا ہوا کرتے تھے روتے روتے نماز ان کی خراب ہوگی، نماز نہیں پڑھا سکیں گے.آپ نے فرمایا تم تو یوسف کی بہنیں ہو جس طرح میں کہتا ہوں کرو.ابوبکر کو حکم دو کہ وہ نماز پڑھائے.ایک اور روایت میں آتا ہے کہ جب حکم دے دیا تو پھر طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو آپ نے کہا کہ آؤ مجھے مسجد کی طرف لے کے چلو.دو آدمیوں کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا حضور اس طرح روانہ ہوئے کہ حضرت عائشہ فرماتی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 284 قیام نماز ۶۷۹۱ء ہیں کہ در داور تکلیف کی وجہ سے پاؤں گھسٹ رہے تھے برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ زمین پر قدم اپنا بوجھ اٹھائے، گھسٹتے ہوئے گئے اور اس طرح مسجد میں جا کر آپ نے حضرت ابو بکر کے ایک طرف بیٹھ کر نماز اس طرح پڑھائی کہ نماز آپ پڑھانے لگے اور ابو بکرہ تکبیر کہنے لگے.(صحیح بخاری کتاب الاذان باب انما جعل الامام لیوتم بہ ) ایک اور روایت میں آتا ہے کہ آخری دیدار میں نے رسول کریم کا مسجد میں اس طرح کیا کہ حضور بیمار تھے اور نماز نہیں پڑھا سکتے تھے.حضور دو آدمیوں کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے مسجد کی طرف آئے، پردہ اٹھایا اور نمازیوں کو نماز پڑھتے دیکھا.اس محبت سے دیکھا چہرے پر ایسی بشاشت پیدا ہوئی وہ کہتے ہیں چاندنی رات تھی میں کبھی چاند کو دیکھتا تھا کبھی محمد مصطفی کے چہرے کو دیکھتا تھا اور خدا کی قسم محمد مصطفیٰ" کا چہرہ زیادہ خوبصورت اور حسین نظر آ رہا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کے کامل غلام ، عاشق کامل ، آپ کا وصال بھی اسی حالت میں ہوا.روایت میں آتا ہے جب ذرا روشنی ہوگئی.( یہ آخری لمحات ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ) جب ذرا روشنی ہوگئی تو حضور نے پوچھا کیا نماز کا وقت ہو گیا ؟ عرض کیا گیا حضور ! ہو گیا.اس پر حضوڑ نے تیم فرمایا اور لیٹے لیٹے ہی نماز شروع کر دی.اٹھنے کی طاقت نہیں تھی اسی حالت میں غشی طاری ہوگئی اور نماز پوری نہ کر سکے.تھوڑی دیر بعد پھر حضور نے فرمایا کیا نماز کا وقت ہو گیا ؟ عرض کیا گیا حضرت! ہو گیا تو آپ نے پھر تیم فرمایا اور نماز پڑھی لیکن غشی طاری ہوگئی اور نماز پوری نہ کر سکے.اسی حالت میں بار بار تیم کرتے ہوئے اور عبادت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود " علیہ الصلوۃ والسلام کی روح اپنے اللہ کے حضور حاضر ہوگئی.( تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحہ: ۵۵۳) یہ وہ ہمارے سامنے اسوہ ہیں، یہ وہ نمونے ہیں جن کی ہم نے پیروی کرنی ہے.کتنے ہیں ہم میں جو اس خیال کے ساتھ مسجدوں کو آباد کرتے ہیں؟ کتنے ہیں جو یہ فکر نہیں کرتے کہ اپنے گھروں کو آباد رکھ کر ، خدا کے گھر کو ویران کرنا بہت ہی بڑا گناہ ہے.سب محبت کے دعوے جھوٹے کرنے والی بات ہے.ایسے انسان کی زبان کو زیب ہی نہیں دیتا کہ وہ یہ کہے کہ میں خدا سے پیار کرتا ہوں.کون ہوسکتا ہے جو خدا سے سچی محبت رکھتا ہو ، پانچ وقت اذان کی آوازیں سنے اور پھر مسجد کو چھوڑ دے اور اپنے گھر میں بیٹھ کر رونقیں لگائے.یہ احمدیوں کو زیب نہیں دیتا.آپ میں سے جس تک بھی یہ بات پہنچتی ہے میں عرض کروں گا کہ جب واپس جائیں تو اپنے گھروں میں اس بات پر نگران ہو جائیں.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 285 قیام نماز ۶۷۹۱ء مائیں بچوں پر نگران ہوں، باپ بیٹوں پر نگران ہوں اور بیویوں پر نگران ہوں، بیویاں بھی باجماعت پڑھ سکتی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ جب نماز کا یہ میدان ایسا خطر ناک حالت میں پہنچ چکا ہو کہ جب قیام نماز کی غیر معمولی ذمہ داری جماعت پر عاید ہو تو ایسے موقع پر عورتوں کو بھی یہ کہنا چاہئے کہ وہ با جماعت نماز پڑھیں.قادیان میں مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک موقع پر نماز کی اہمیت کو قائم کرنے کے لئے مستورات کو یہ حکم دیا.ہمارے گھر مجھے یاد ہے مہینوں مہینوں باجماعت نماز ادا ہوتی رہی.کبھی میری والدہ کبھی کوئی اور اکثر کوئی دوسری عورت ہوتی تھی غالباً استانی میمونہ وہ نماز پڑھایا کرتی تھیں اور باقی سب مستورات اکٹھی ہو کر پیچھے پڑھا کرتی تھیں.عجیب رونق لگی ہوتی تھی ہمیشہ باجماعت نماز ہو رہی ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا اپنا حال یہ تھا کہ ایک دفعہ مجھے یاد ہے بہت بیمار تھے مسجد میں نہیں جاسکتے تھے.نقرس کی بہت تکلیف تھی تو ہم بچے کچھ حاضر تھے خدمت میں آپ نے فرمایا کہ میں نماز پڑھاتا ہوں تم میرے پیچھے کھڑے ہو جاؤ اور وہیں بیٹھے بیٹھے نماز باجماعت پڑھائی اور فرمایا کہ باجماعت نماز اس طرح بھی ہو سکتی ہے امام کھڑا نہ ہو سکتا ہوتو بیٹھ کر پڑھا سکتا ہے.ہم نے جو حالات دیکھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تربیت یافتہ لوگوں کے ان کا نمونہ میں بتاتا ہوں.نواب محمد عبد اللہ خان صاحب، مجھے یہ بات بڑی ہمیشہ ان کی پسند رہی اور ہمیشہ یاد رہتی ہے کہ بیمار ہو گئے دل کی تکلیف تھی ، کرسی پر بیٹھ کے چلتے تھے مسجد تک نہیں پہنچ سکتے تھے تو درخواست کر کے محلے والوں سے اپنے گھر میں مسجد بنالی.پانچ وقت با قاعدہ پردہ کروا کر اپنے گھر میں وہیں نماز با جماعت کا اہتمام کیا کرتے تھے اور بچوں کو ساتھ شامل کیا کرتے تھے.(اصحاب احمد جلد ۱۲ صفحہ: ۱۵۲) تو یہ وہ طریق ہے جس کے اوپر ہمیں قائم ہونا ہے اور قائم کرنا ہے.اب میں آپ کے سامنے آنحضرت ﷺ کی کچھ کیفیت عرض کرتا ہوں عبادتوں کیکہ کیفیت کیا ہوتی تھی؟ قرآن کریم میں جو آیات ہیں عبادت کرنے والوں کے متعلق اور مختلف کہ کس طرح لوگ نماز قائم کرتے ہیں ان سب کا مرکزی اشارہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی طرف ہے یہ آپ یا درکھیں اور حضور ﷺ کی طرف اشارہ ہے اور آپ کے ماننے والوں ، آپ کے پیچھے چلنے والوں کی طرف اشارہ ہے اس سوسائٹی کے نقشے کھینچے ہوئے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 286 قیام نماز ۶۷۹۱ء اِنَّ فِى خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِيْنَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( آل عمران : ۱۹۱ ۱۹۲) کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں عقل مندوں کے لئے یقیناً کئی نشان موجود ہیں.جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے بارے میں غور و فکر سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے رب ! تو نے اس عالم کو بے فائدہ پیدا نہیں کیا.پس تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا اور ہماری زندگی کو بے مقصد بننے سے بچالے.آنحضرتﷺ کے متعلق روایت آتی ہے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی روایت ہے کہ ایک صحابی نے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھا.رات نماز کے بعد کچھ دیر آرام فرمایا پھر اٹھے اور باہر نکل کر اُفق کو دیکھا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی اور خدا کو یاد کرنے لگے کہ زمین و آسمان میں نشانات ہیں اللہ کے اور پھر نماز شروع کر دی.پھر کچھ دیر آرام فرمایا، پھر آنکھ کھلی اور پھر اسی طرح باہر نکل گئے اور افق کو دیکھ کر اس آیت کی تلاوت فرمانے لگے اور پھر نماز شروع کر دی پھر کچھ دیر آرام فرمایا پھر باہر نکل آئے اور آسمان کو دیکھ کر اپنے رب کے نشانات کو یاد کرنے لگے پھر نماز پڑھی اور پھر کچھ دیر آرام فرمایا.تین مرتبہ ایک رات میں اس طرح ہوا.( صحیح مسلم کتاب صلوٰۃ المسافر وقصرها باب الدعا فی الصلوة الليل وقيامه ) پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِايْتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (السجدة :١٦ - ١٧)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 287 قیام نماز ۶۷۹۱ء ہماری آیتوں پر تو وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب ان کو ان کے متعلق یاد دلایا جاتا ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے زمین پر گر جاتے ہیں اور اپنے رب کی تعریف اور تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے اور ان کے پہلوان کے بستروں سے الگ ہو جاتے ہیں اور اپنے رب کو اس کے عذابوں سے بچنے کے لئے اور اس کی رحمتوں کو حاصل کرنے کے لئے پکارتے ہیں.اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.پہلو تو اس دنیا میں دوسرے لوگوں کے بھی الگ ہوا کرتے ہیں.بدوں کے بدی کے لئے، نیکوں کے نیکی کے لئے مگر جس شان سے جس بے قراری سے سجدوں میں گرنے کے لئے گریہ وزاری کے لئے میرے آقا محمد مصطفی ﷺ کے پہلو بستر سے الگ ہوا کرتے تھے نہ پہلے کبھی دنیا میں ایسا دیکھا گیا اور آپ کے غلاموں کے سوا اس کی مثال اور بھی کہیں کوئی نظر نہیں آسکتی.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک دفعہ رات میری آنکھ کھلی میں نے محمد مصطفی ﷺ کو بستر پر نہیں پایا.عورت کی فطرت ہے خیال پیدا ہوا کہ شاید کسی اور گھر چلے گئے ہوں تو تلاش کے لئے بے قرار ہو کر باہر نکلیں.ایک قبرستان کے پاس حضور کو اس حال میں پڑے دیکھا کہ وہ کہتی ہیں یوں لگتا تھا جس طرح چوغہ اتار کے کوئی پھینک دیتا ہے اس طرح بجز اور انکساری کے ساتھ خدا کے حضور بچھے ہوئے ہیں.ایک روایت میں ہے کہ جس طرح ہنڈیا ابلتی ہے اس طرح حضور اکرم کے سینے سے آواز نکلی رہی تھی رونے کی ، اس طرح بے قراری کے ساتھ خدا کے حضور وہ عبادت کر رہے تھے.(سنن ترمذی کتاب الصوم عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باب ما جاء فی لیلتہ النصف من شعبان ) حضرت مغیرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت اس قدر عبادت کیا کرتے تھے کہ عبادت میں کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے تھے.آپ کی یہ حالت دیکھ کر آپ سے کہا گیا کہ حضور! اس قدر کیوں تکلیف فرماتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو گنا ہوں سے محفوظ کر دیا ہے.تو آپ نے فرمایا میں اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ اس نے تو اتنا احسان کیا ہے.تو میں اس احسان کا شکریہ نہ ادا کروں.( صحیح بخاری کتاب الجمعہ باب قیام النبی اللیل حتی تورم قد ماہ) یہی وہ مضمون ہے جس کو آپ کے عاشق کامل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح بیان فرمایا کہتے ہیں:
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 288 لَهِ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ عَلَى مِرْجَلٍ وَفَاقَ قُلُوبَ الْعَالَمِينَ تَعَبُّدا وَتَوَرَّمَتْ قَدَ مَاكَ لِلَّهِ قَائِمًا وَمِثْلُكَ رَجُلًا مَا سَمِعُنَا تَعَبُّدا کرامات الصادقین ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه : ۹۰-۹۳) قیام نماز ۶۷۹۱ء وہ وجود ایسا تھا کہ عبادت کے وقت اس کے سینے سے درد کے ساتھ اُبلتی ہوئی ہنڈیا کی طرح آواز آیا کرتی تھی فَاقَ قُلُوبَ الْعَالَمِینَ تمام انسانوں کے تمام جہانوں کے دلوں پر وہ ایک دل عبادت میں سبقت لے گیا.پھر بے اختیار مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں میرے آقا! میرے محبوب ! تَوَرَّمَتْ قَدَ مَاكَ لِلَّهِ قَائِمًا تیرے پاؤں سوجا کرتے تھے اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر وَمِثْلُكَ رَجُلًا مَا سَمِعُنَا تَعَبُّد ا ہم نے تو تیرے جیسا عبادت کرنے والے آدمی کے متعلق سنا بھی نہیں کبھی.سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.یہ وہ حضور اکرم ﷺ کا نمونہ تھا جو ہمارے لئے ہمارے سامنے قائم ہے ہمیشہ کے لئے.اس نمونہ کو جماعت قائم نہیں کرے گی تو جماعت زندہ نہیں ہوسکتی.اس نمونہ کو آپ قائم کریں تو آپ کی چند ہزاروں کی تکبیریں نہیں ساری کائنات کی تکبیر آپ کے ساتھ ہوگی.ذرہ ذرہ کا ئنات کا اللہ کا نام بلند کرے گا آپ کے ساتھ اور کوئی دنیا کی طاقت آپ کو مٹا نہیں سکتی.حضرت رسول اکرم ﷺ کے نمونہ کو صحابہ نے جس طرح پکڑا اس کی حالت یہ تھی کہ ایک دفعہ آنحضر ﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابوالدردائے بڑی غم اور بے قراری کی حالت میں گھر میں داخل ہوئے ام الدرداء نے پوچھا کہ کیا غم پہنچا ہے آپ کو؟ کیا تکلیف ہوگئی ؟ انہوں نے کہا مجھے تو یاد ہی نہیں کہ رسول اللﷺ کے زمانہ میں کوئی کوئی شخص بے جماعت نماز پڑھا کرتا ہو.سارے اکٹھے تمام کے تمام باجماعت پڑھا کرتے تھے.( کسی ایک کو دیکھ لیا ہو گا گلیوں میں پھرتا ہو نماز کے وقت ایسی بے قراری دل میں پیدا ہوگئی.مسجد کا شوق ،مسجد کی محبت ایسی تھی ایک دفعہ رسول کریم مسجد میں آئے تو ایک رسی بندھی ہوئی دیکھی دو پولوں (ستونوں ) کے درمیان.آپ نے کہا یہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 289 قیام نماز ۶۷۹۱ء ری کیسی ؟ عرض کیا گیا کہ حضرت زینب کی رسی ہے وہ رات اتنی لمبی عبادت کرتی ہیں مسجد میں آکے کہ وہ تھک کر گرنے والی ہو جاتی ہیں سہارے کے لئے رسی پاس رکھی ہوئی ہے.تب آنحضرت سے نے فرمایا کہ نہیں یہ مناسب نہیں ایسی تکلیف جو طاقت سے بڑھ کر ہے اس کی خدا اجازت نہیں دیتا اور وہ رسی کھلوا دی.( صحیح بخاری کتاب الجمعة باب ما يكره من التشديد في العبادة ) تہجد میں آنحضرتﷺ نے نماز شروع کی تو صبح کی نماز کا تو الگ سوال ہے تہجد کے وقت باجماعت نمازیں شروع ہو گئیں.ترک فرما دیں اس خیال سے کہ امت اس کو فرض نہ سمجھ لے لیکن محبت صحابہ کی مسجد سے یہ تھی.ایک دفعہ صحابہ حاضر ہوئے بعض اور نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کہ جو اہل ثروت ہیں یہ تو لے گئے بازی ہم پر.بڑے فکر میں ہیں ہم.ان کو خدا نے دولتیں دی ہیں ہم کیا کریں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کیوں کیا ہوا ؟ بتاؤ تو سہی انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! دیکھیں ہم بھی نماز پڑھتے ہیں وہ بھی نماز پڑھتے ہیں اور روزے ہم بھی رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں لیکن زکوۃ وہ دیتے ہیں ہم دے نہیں سکتے غریب آدمی ہیں.خدا کی راہ میں وہ خرچ کر سکتے ہیں ہم نہیں کر سکتے وہ تو لے گئے بازی ہمارے اوپر.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دیکھو دیکھو میں تمہیں ایک ترکیب بتا تا ہوں اس پر عمل کرو تو جو تم پر بازی لے گئے ہیں ان سے جاملو گے یا اور تمہارے بعد تم سے پھر کوئی نہیں مل سکتا.آپ نے فرمایا نماز کے فوراً بعد مسجد سے نہ نکلا کرو ۳۳ دفعه سبـحـان الـلـه ۱۳ دفعه الحمد للہ اور ۳۴ دفعہ اللہ اکبر کہا کرو انہوں نے شروع کر دیا.اب دیکھئے وہاں کی امیر سوسائٹی کا کیا حال تھا؟ میں یہ بتا رہا ہوں نمازیں کوئی غریبوں کی چیز نہیں تھیں بلکہ ایک دوسرے پر ہر طبقہ سبقت لے جاتا تھا.امیر بھی اور غریب بھی، بچہ بھی اور بوڑھا بھی.جب امیروں نے یہ سنا تو انہوں نے بھی یہی کام شروع کر دیا پھر وہ شکایت لے کر حاضر ہو گئے یا رسول اللہ ! اب ہم کیا کریں کوئی اور ترکیب بتائیں.آپ نے کہا اللہ کا فضل ہے کہ میں اس کو روک نہیں سکتا اگر امیروں پر خدا کا یہ فضل ہے کہ دنیا کی دولتیں ہوتے ہوئے بھی روحانی دولتیں ڈھونڈ رہے ہیں میں کیسے ان کو روک دوں.( صحیح بخاری کتاب الاذان باب اذا کان بین الامام و بین القوم حائط اوسترۃ ) یہ وہ سوسائٹی تھی جو
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 290 قیام نماز ۶۷۹۱ء حضرت محمد مصطفی ﷺ نے قائم فرمائی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: الصَّالِحُونَ الْخَاشِعُونَ لِرَبِّهِمُ الْبَاتِتُونَ بِذِكْرِهِ وَبُكَــاء سر الخلافہ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه : ۳۹۷) کہ یہ وہ لوگ تھے جو نیک تھے اور اپنے رب کے حضور خشوع کے ساتھ جھکا کرتے تھے الْبَائِتُونَ بِذِكْرِهِ وَبُكاء راتوں کو اٹھ کر خدا کا ذکر کیا کرتے تھے اور روتے ہوئے ذکر کرتے تھے یہ وہ لوگ تھے جو حضرت محمد مصطفی اے نے اپنے پیچھے چھوڑے.لیکن صرف خود نماز قائم کرنا کافی نہیں ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ ہم با جماعت عبادت کرتے ہیں تیری قومی طور پر ہم تیری عبادت کریں گے بلکہ اس کو قومی عبادت قائم رکھیں گے.اے خدا! محمد مصطفی سے کی جماعت سے تجھے ایاک اعْبُدُ کی آواز نہیں آئے گی عبادت کرنے والے یکتا اور تنہا نہیں رہیں گے ،ساری قوم پکارے گی کہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ ، إِيَّاكَ نَعْبُدُ اے خدا ! یہ ساری قوم تیری عبادت کر رہی ہے اور اس کا طریق کیا ہے اس کا طریق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے کہ اس کو رائج کرو، اپنے گھروں میں رائج کر و خود نصیحت کرو، اپنے بیوی بچوں کو سمجھاؤ جب تک تم یہ نہیں کرو گے اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا مقام تمہیں حاصل نہیں ہوسکتا.گھروں کے ذریعہ ہی قوم بنا کرتی ہے.بعض لوگ خود نماز پڑھ لی بچے سوئے ہوئے ہیں چلو کوئی بات نہیں رہنے ہی دو.آرام کر رہے ہیں.آرام نہیں کر رہے ان کو آپ سردی سے بچا نہیں رہے ان کو تو آپ آگ کے لئے تیار کر رہے ہیں.یہ رحم نہیں ہے یہ ظلم ہے اس لئے اس بات کو مدنظر رکھیں قرآن کریم فرماتا ہے حضرت اسماعیل کا ذکر کرتے ہوئے: وَكَانَ يَأْمُرُ اَهْلَهُ بِالصَّلوةِ وَالزَّكُوةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيَّان (مریم: ۵۶) اس کی شان دیکھو کہ وہ خود ہی نماز نہیں پڑھتا تھا بلکہ اپنے اہل وعیال کو بھی نماز اور زکوۃ کی تاکید کیا کرتا تھا وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيَّا یہ بات اس کی اللہ کو بہت پسند تھی بہت پیارا وجود تھا وہ خدا کی نظر میں.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 291 قیام نماز ۶۷۹۱ء چنانچہ آنحضرت ﷺ کا یہی دستور تھا آپ ہمیشہ اپنے بچوں کو اپنی بیویوں کو نماز کے بعد خود زیادہ عبادت کرتے تھے کچھ دیر کے بعد جگا دیا کرتے تھے کہ وہ بھی شامل ہوں نماز میں حضرت علیؓ کو ، حضرت فاطمہ کو اور مومنوں کو نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: اللہ اس خاوند پر رحم کرتا ہے جو خاوند نماز پڑھتا ہے اور نماز پڑھنے کے بعد اپنی بیوی کو بھی جگاتا ہے اور بیوی اگر نہیں اٹھتی تو اس کے منہ پر چھینٹے دیتا ہے کہ وہ ان چھینٹوں کی وجہ سے اٹھ جائے اور پھر وہ نماز میں اس کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے.فرمایا اللہ اس بیوی پر رحم کرے گا جس کا خاوندست ہے وہ اٹھتی ہے اور وہ اپنے خاوند کے منہ پر چھینٹے دیتی ہے اور پھر اس کو بھی نماز میں شامل کر لیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہی طریق تھا.آپ نماز کو اتنی اہمیت دیتے تھے کہ گھر میں نماز قائم رہی ہمیشہ قائم رہی آپ کی وفات تک اور آپ کے بعد آپ کی اولاد میں ایسی شان کے ساتھ قائم رہی ہے کہ وہ نمونہ جن لوگوں کو یاد ہے وہ جانتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ مُحَافِظِينَ نماز کے محافظ بن کر وہ سارے کھڑے ہو گئے تھے.حضرت اماں جان کو جس طرح نماز سے محبت تھی اور وقت پر نماز پڑھنے کی محبت تھی اس کا ذکر خود مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہتے ہیں بشیر اول جب فوت ہو رہے تھے، نزع کی حالت تھی نماز کا وقت ہو گیا اور میرے گھر سے اس کو چھوڑ کر نماز کے لئے کھڑی ہوگئیں اور ذرا پرواہ نہیں کی.جب نماز پڑھ لی اطمینان کے ساتھ تو پوچھا کیا حال ہے؟ میں نے کہا وہ فوت ہو چکا ہے تو بڑے صبر کے ساتھ اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہا اور میرا دل اس یقین سے بھر گیا کہ خدا اس کی اس نیکی کو ضائع نہیں کرے گا اور اس کے بعد وہ بیٹا ضرور آئے گا جس کا مجھے وعدہ دیا گیا ہے چنانچہ اس کے ایک مہینے کے بعد مصلح موعود مرزا محمود احمد پیدا ہوئے.( ملفوظات جلد ۲ صفحہ: ۳۹۲، ۳۹۳) یہ نماز کو قائم کرنا اور اس کی طرف توجہ کرنا آپ کی اولادوں کے لئے ہونا ضروری ہے یہ برکتیں آپ کی ضائع نہیں جائیں گی آپ کی نسلوں میں منتقل ہوں گی.نیک لوگ پیدا ہوں گے اس کے نتیجہ میں.اس لئے اگر آپ کو اپنی اولاد سے محبت ہے اگر آپ کو سلسلہ کے مستقبل سے محبت ہے تو نمازوں کو قائم خود بھی کریں اور اپنے اہل و عیال کو بھی قائم کرائیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ بہت کم بچوں کو مارا کرتے تھے مگر مجھے یاد ہے کہ جتنی دفعہ بھی مارا ہے نماز نہ پڑھنے پر اور کئی دفعہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 292 قیام نماز ۶۷۹۱ء حضور یہ کیا کرتے تھے کہ نماز پڑھ کے آئے اور گھروں کا چکر لگایا.کوئی بچہ کھیل رہا تو اس کو بلا لیا کبھی سمجھایا بعض دفعہ اکٹھے چار پانچ بچے پکڑ لئے ایک لائن میں کھڑا کیا اور ان کو سزا دی.تو اول تو سزا کی ضرورت نہیں ہوتی تھی حضور کی ناراضگی ایسی تکلیف دہ چیز تھی سب کے لئے سب احباب جماعت کے لئے کہ وہی بڑی سزا ہو جایا کرتی تھی مگر بڑی پابندی کے ساتھ حضور ہمیشہ اپنے اہل وعیال کو نماز پر قائم فرماتے رہے.آنحضر ﷺ نے اپنی نصائح میں کوئی کسی کے لئے ایسا بہانہ نہیں رہنے دیا کہ وہ نماز با جماعت کو قائم نہ کر سکے.ایک جگہ حضور سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ! میں اکیلا ہوں سفر پر تو پھر میں نماز با جماعت کس طرح قائم کروں آپ نے فرمایا کہ اگر تم اکیلے ہوتو اذان دو.اذان کو سن کر اگر کوئی شخص کوئی راہی، کوئی مسافر تمہارے ساتھ شامل ہو گیا تو ویسے ہی تمہاری با جماعت نماز ہوگئی لیکن اگر کوئی نہ شامل ہوا تو تم تکبیر کہو اور باجماعت نماز پڑھاؤ خدا کے فرشتے اتریں گے اور تمہارے ساتھ اس نماز کو باجماعت کر دیں گے.( صحیح بخاری کتاب الاذان باب رفع الصوت بالنداء) احمدی زمینداروں کو چاہئے کہ وقت ہو، ہل چھوڑ دیں اور باجماعت نمازیں پڑھیں.آپ کو مسجدوں کا شکوہ ہے.مسجدوں کا کیا شکوہ کہ مسجدیں نہیں مل رہیں، محمد مصطفی کے لئے تو خدا نے ساری زمین کو مسجد بنادیا ہے.رسول الل فرماتے ہیں میری خاص شان میں سے ایک یہ شان ہے کہ ساری زمین میرے لئے مسجد بنادی گئی.( صحیح بخاری کتاب الصلوۃ باب قول النبي جعلت لى الارض مسجداً) الله پس اے احمدی ! تجھ سے کوئی مسجد نہیں چھین سکتا قیامت تک تجھے یہ شکوہ نہیں ہوسکتا کہ ہمارے لئے مسجد نہیں تھی باجماعت نماز پڑھنے کے لئے.جہاں دو گز زمین میسر ہو وہاں نماز با جماعت کرالیا کریں اور یہ جماعت خدا کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہوگی.حضرت رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک گڈریہ سے بڑا پیار کرتا ہے.بڑی محبت سے اس کو دیکھتا ہے اس کی کیا عادت ہے؟ اس کی عادت یہ ہے کہ بھیڑیں چراتے ہوئے جب نماز کا وقت آتا ہے تو وہ اذان دیتا ہے اور پھر تکبیر کہتا ہے اور پھر اکیلا با جماعت نماز پڑھتا ہے اللہ کہتا ہے رسول صلى الله ال کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دیکھو میرے اس پیارے بندے کو تو دیکھو! کس طرح نماز قائم کر رہا ہے اور صرف اس لئے کہ مجھ سے ڈرتا رہتا ہے.(سنن نسائی کتاب الاذان باب الاذان لمن يصلى وحده )
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 293 قیام نماز ۶۷۹۱ء کس پیار سے ، کس محبت سے آنحضرت یہ ذکر فرماتے ہیں اور آپ کو نماز کی طرف بلاتے ہیں.پانچ وقت مسجد سے اذانوں کی آواز میں بلند ہوتی ہیں لیکن بعض دفعہ دل خون ہو جاتا ہے دیکھ کر کہ احمدی ان عظیم الشان دعاوی کے باوجود یہ لوگ بچے بھی واقعی محبت رکھتے ہیں محمد مصطفیٰ سے ورنہ کیوں اتنی قربانیاں دیں.محض لاعلمی میں محض غفلت کی وجہ سے بعض والدین کی تربیت کی کمزوری کی وجہ سے اس فریضہ سے غافل ہو جاتے ہیں کھڑے ہیں باتیں کر رہے ہیں خیال ہی نہیں آرہا کہ خدا ان کو اپنی طرف بلا رہا ہے.اس لئے میں آپ کو دوبارہ تاکید آیہ عرض کرتا ہوں میرے پاس الفاظ نہیں کہ جن کے ذریعہ میں آپ کو سمجھا سکوں کہ اس کی کتنی اہمیت ہے.دل میرے ہاتھ میں نہیں ہیں.دل تو کسی کے ہاتھ میں نہیں سوائے خدا کے لیکن اس کے حضور ہم عرض تو کر سکتے ہیں روروکر کہ اے خدا ! ہمارے اندر اپنے فضل سے جس طرح تو نے فرمایا تھا اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہم عبادت کرنا چاہتے ہیں اپنے فضل سے قائم فرما دے.ہمارے دلوں کو پھیر دے ہمارے دلوں میں اس کی اہمیت کو راسخ کر دے.کوئی شخص ہم میں بے جماعت نماز پڑھنے والا نہ ہو.مسجد سے اذان ہو تو جوق در جوق دوڑتے ہوئے لوگ مسجدوں کی طرف جایا کریں.احمدیت کی شان جس طرح نظریات میں ہے اس طرح اعمال میں ظاہر ہوا ایسا حسین معاشرہ ہم دنیا میں قائم کر دیں کہ یہ معاشرہ خود کہے کہ یہ ہیں غلام محمد مصطفیٰ " کے ، ان کے سوا اور کوئی غلام تمہیں اس شان کا نہیں نظر آسکتا.دیکھئے احمدیت کی زندگی مسجدوں سے وابستہ ہے ،احمدیت کا مستقبل مسجدوں سے وابستہ ہے، احمدیت کا اطمینان ، احمدیت کا سکون مسجدوں میں لٹکا ہوا ہے، وہ دل جو مسجدوں سے لٹکے رہتے ہیں ان دلوں کے لئے خدا تعالیٰ نے اطمینان اور سکینت کی ضمانت دے دی ہے.پس مسجدوں کی طرف جائیں.یہ وقت ایسا ہے کہ جس کے لئے ساری قوم کو جد و جہد کی ضرورت ہے.مجھے بعض دفعہ جنگ حنین کا وہ واقعہ یاد آ جاتا ہے جب کہ وقتی طور پر بعض دفعہ ایک کمزوری آجاتی ہے مسلمانوں میں میدان جنگ میں بھی پاؤں اکھڑ جاتے ہیں.مجھے یقین ہے کہ اگر یہ کمزوری ہے تو وقتی ہے انشاء اللہ.جماعت بڑی شان اور قوت کے ساتھ اس کمزوری کو دور کرے گی.مجھے واقعہ یہ یاد آتا ہے کہ جنگ حنین کے وقت ایک دفعہ وقتی طور پر صحابہ کے پاؤں اکھڑ گئے اور صلى الله محمد مصطفی قریباً تنہا رہ گئے ایک دو صحابی پاس تھے.اس وقت آنحضرت ﷺ نے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 294 قیام نماز ۶۷۹۱ء حضرت عباس سے کہا کہ ان کو آواز دو کہ اے انصار اوراے مہاجرین ! خدا کا رسول تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے.جب یہ آواز ان کے کانوں میں پڑی تو صحابہ یہ کہتے ہیں کہ ہماری منہ زور اونٹنیاں یا منہ زور گھوڑے جو مڑتے نہیں تھے جب ہم ان کو موڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تو ان کی گردنیں اپنی تلواروں سے کاٹ دیں اور چھلانگیں مار کے دوڑتے ہوئے محمد مصطفی کی خدمت میں حاضر ہو گئے.(سیرت النبی له لابن هشام جزء ۵ صفحه ۱۳ باب غزوہ حنین فی سنة ثمان بعد الهجرة) پس اے مسیح موعود کی قوم ! اے محمد مصطفیٰ کے غلامو! آج میں آپ کو یہ آواز پہنچارہا ہوں قرآن اور خدا کے رسول کی کہ خدا کا رسول تمہیں عبادت کے لئے بلا رہا ہے، اگر تمہارے نفسانی خواہشات کی اونٹنیاں اور تمناؤں کی سواریاں تمہارے قابو میں نہیں رہیں، اگر ان کی گردنیں خمیدہ نہیں ہوتیں مڑتی نہیں اس طرف تو کاٹ دیجئے یہ گردنیں ، اپنی خواہشات پر چھری پھیر دیجئے دوڑتے ہوئے اَللَّهُم لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے مسجدوں کو آباد کیجئے کہ انہیں سے احمدیت کی آبادی ہے، انہیں سے آپ کے گھروں کی آبادی ہے، انہیں سے عاقبت میں آپ پر رحمت کا سایہ ہوگا اس کے سوا کوئی فضل کا دروازہ نہیں ہے.یہی عبادت کی راہ ہے جو نعمتوں کے عظیم الشان شاہراہ پر آپ کو ہمیشہ کے لئے جاری کر دے گا.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہو.(آمین)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 295 فلسفہ حج ۷۷۹۱ء فلسفه حج ( بر موقع جلسہ سالانہ ۱۹۷۷ء) تشہد وتعوذ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: وَاذِنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَّأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُوْمَةٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَابِسَ الْفَقِيرَ ثُمَّ ليَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ (الحج: ۲۸-۳۰) قرآن کریم کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں عظیم واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے حج کے لئے لوگوں کو بلانے کا ارشاد فرمایا.اس آیت میں متفرق حج کے فلسفہ کے پہلوؤں کا ذکر ہے لیکن اس پہلے حصہ سے جس مضمون کا تعلق ہے وہ بلانے کے نتیجہ میں جو نتیجہ ظاہر ہونا تھا اس وقت تک محدود ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَّأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ کہ میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ تو بلا اور تجھ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ تیری آواز بے کا رنہیں جائے گی.لوگ والہانہ جوش عشق کے ساتھ پیدل بھی اور ایسی سواریوں پر بھی دوڑتے ہوئے تیری طرف آئیں گے جن کو
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 296 فلسفہ حج ۷۷۹۱ اس غرض سے دبلا کیا گیا ہو کہ وہ تیز چل سکیں.یہاں سواری کا جو لفظ استعمال فرمایا اس سے مراد نہ گھوڑا ہے نہ اونٹ بلکہ ہر وہ سواری مراد ہے جسے اس غرض سے ہلکا پھلکا اور چست بدن کا بنایا گیا ہو کہ وہ تیز چل سکے.پھر جو منظر کھینچا اس کے چلنے کا وہ ایسا عجیب ہے کہ پرانی سواریوں پر بھی اطلاق پاتا ہے اور نئی سواریوں پر بھی اطلاق پاتا ہے فرما ا يأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ فَجٍّ کا مطلب عربی لغت کے مطابق ہے مَشَى مُفَرِجًا وَ فَا تِحا مَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ پر آتا ہے فَجَّ الشَّى أَى شَقَّها (القاموس المحیط زیر لفظ هذا) اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ کوئی سواری ایسی تیزی کے ساتھ چلے کہ اپنے سامنے کی فضا یا مٹی یا پانی کو اس طرح چیرتی ہوئی چلی جائے کہ اس میں گہری گھاؤ پڑ جائیں.پس جیٹ ہوائی جہاز جب چلتا ہے تو وہ بھی فج عمیق میں سے گزرتا ہوا آتا ہے.وہ سٹیمر جو ہلکے بدن کا چست بدن کا تیزی کے ساتھ سمندر کی لہروں کو پھاڑتا ہے وہ بھی فج عمیق میں سے گزرتا ہے اور وہ سواریاں جو زمین میں گہری لکیریں ڈالتی ہوئی چلتی ہیں رفتار کے باعث وہ بھی فَج عمیق میں سے آتی ہیں.تو قرآن کا یہ کیسا معجزہ ہے کہ ہر زمانے کی سواریوں کا ان نہایت ہی پیارے مختصر الفاظ میں ذکر فرما دیا.لیکن اس میں دراصل ولولہ اور عشق اور تیزی کی طرف اشارہ ہے اور حج کا فلسفہ اگر ایک لفظ میں بیان کرنا مقصود ہو تو وہ عشق ہی ہے.جو مناسک حج میں ادا کئے جاتے ہیں جو حرکتیں انسان جا کر، خدا سے محبت کرنے والے بندے اس کے ، عبادت کرنے والے کرتے ہیں وہ ساری نہ صرف عشق بلکہ مجنونانہ عشق کی علامتیں ہیں.تمدن کے کپڑے اتار دینا ، دو چادروں میں ملبوس ہو جانا، صحراؤں میں جا کر ڈیرے ڈال دینے ، گھروں کے گرد گھومنا دیوانہ وار، پہاڑیوں کے درمیان سعی کرنا، سرمنڈا دینا، قربانی کرنا اور بار بار بڑے والہانہ عشق کے انداز کے ساتھ یہ کہنا لَبَيْكَ اللَّهُم لَبَّیک لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيْكَ والحَمدُ والنَّعْمَةُ لَكَ لَا شَرِیک لک کہ حاضر ہوں اے میرے آقا! اے میرے رب ! میں حاضر ہوں.تیرا کوئی شریک نہیں تجھ سا کوئی نہیں میں حاضر ہوں.ہر تعریف تیرے لئے ہے.ہر نعمت تجھ ہی سے ہے.آقا تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں.یہ جذبات عشق اور دیوانہ وار وہاں گھومنا یہ سب کچھ عشق ہی کے تو مناظر ہیں.ایسے عشق کے مناظر جس کی کوئی نظیر دنیا میں اور کہیں نظر نہیں آتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس فلسفہ کو بیان کرتے
فلسفہ حج ۷۷۹۱ء تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 297 ہوئے فرماتے ہیں: ( یہ سب کیا ہے عشق کے سواہاں والہانہ عشق کے سوا اور کچھ نہیں.) اسلام نے....محبت کی حالت کے اظہار کے لئے حج رکھا ہے خوف کے جس قدر ارکان ہیں وہ نماز کے ارکان سے بخوبی واضح ہیں کہ کس قدر تذلل اور اقرار عبودیت اس میں موجود ہے اور حج میں محبت کے سارے ارکان پائے جاتے ہیں.بعض دفعہ شدت محبت میں کپڑے کی بھی حاجت نہیں رہتی.عشق بھی ایک جنون ہوتا ہے کپڑوں کو سنوار کر رکھنا یہ عشق میں نہیں رہتا....غرض یہ نمونہ جو انتہائے محبت کے لباس میں ہوتا ہے وہ حج میں موجود ہے.سر منڈا یا جاتا ہے، دوڑتے ہیں.محبت کا بوسہ رہ گیا وہ بھی ہے جو خدا کی ساری شریعتوں میں تصویری زبان میں چلا آیا ہے پھر قربانی میں بھی کمال عشق دکھایا ہے.“ ( ملفوظات جلد ۲ صفحہ: ۲۲۵) پھر فرمایا: خانہ کعبہ کا پتھر یعنی حجر اسود ایک روحانی امر کے لئے نمونہ قائم کیا گیا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو نہ خانہ کعبہ بناتا نہ اس میں حجر اسود کھتا لیکن چونکہ اس کی عادت ہے کہ روحانی امور کے مقابل پر جسمانی امور بھی نمونہ کے طور پر پیدا کر دیتا ہے تا وہ روحانی امور پر دلالت کریں اسی عادت کے موافق خانہ کعبہ کی بنیاد ڈالی گئی.محبت کے عالم میں انسانی روح ہر وقت اپنے محبوب کے گرد گھومتی ہے اور اس کے آستانے کو بو سے دیتی ہے.ایسا ہی خانہ کعبہ جسمانی طور پر محبان صادق کے لئے ایک نمونہ دیا گیا اور خدا نے فرمایا کہ دیکھو یہ میرا گھر ہے اور یہ حجر اسود میرے آستانے کا پتھر ہے اور ایسا حکم اس لئے دیا کہ انسان جسمانی طور پر اپنے ولولہ عشق اور محبت کو ظاہر کرے تو حج کرنے والے حج کے مقام میں جسمانی طور پر اس گھر کے گردگھومتے ہیں ایسی صورتیں بنا کر کہ گویا خدا کی محبت میں دیوانہ وار مست ہیں.زینت دور کر دیتے ہیں، سر منڈا دیتے ہیں، مجذوبوں کی شکل بنا کر اس کے گھر کے گرد عاشقانہ طواف کرتے ہیں اور
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 298 فلسفہ حج ۷۷۹۱ء اس پتھر کو خدا کے آستانے کا پتھر تصور کر کے بوسہ دیتے ہیں.یہ جسمانی ولولہ روحانی تپش اور محبت پیدا کر دیتا ہے اور جسم اس کے گھر کا طواف کرتا ہے اور سنگ آستانہ چومتا ہے اور روح اس وقت محبوب حقیقی کے گردطواف کرتا ہے اور اس کی روحانی آشیانہ کو چومتا ہے.کوئی مسلمان کعبے کی پرستش نہ حجر اسود سے مرادیں مانگتا ہے بلکہ صرف خدا کا قرار دادہ ایک جسمانی نمونہ سمجھا جاتا ہے و بس.جس طرح ہم زمین پر سجدہ کرتے ہیں مگر وہ سجدہ زمین کے لئے نہیں ایسا ہی یہ حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں مگر وہ بوسہ اس پتھر کے لئے نہیں پتھر تو پتھر ہے جو نہ کسی کو نفع دے سکتا ہے نہ نقصان مگر اس محبوب کے ہاتھ کا ہے جس نے اس کو اپنے آستانہ کے لئے نمونہ ٹھہرایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس فلسفہ عشق کا ذکر فرمایا یہ محض کوئی نظریاتی بات نہیں محض کوئی فلسفہ نہیں بلکہ اس کے پس منظر میں بعض ایسے واقعات ہیں جو ہمیشہ ہمیش کے لئے بنی نوع انسان کے لئے عشق کے نمونوں کے طور پر ہمارے لئے محفوظ کر دیئے گئے ہیں.قرآن کریم ان واقعات کی طرف کہیں اشارہ ذکر فرماتا ہے اور کہیں تفصیل سے ان واقعات کا ذکر فرماتا ہے.جب ہم ان واقعات پر نظر ڈالتے ہیں تب سمجھ آتی ہے کہ وہ کس قسم کا عشق ہے جس کا مطالبہ ہم سے کیا جا رہا ہے.وہ چند دن نہیں جو حج میں گزار کر ہم آجاتے ہیں بلکہ وہ تو ایک نمونہ ہے جس کے مطابق ہمیں اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہے.چنانچہ اس واقعہ کا ذکر قرآن کریم سے جو ملتا ہے وہ حضرت ابرا ہیم سے اس کا آغاز ہوتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق آتا ہے کہ آپ اپنی ایک بیوی اور ایک بچے کو لے کر خدا کی رضا کی خاطر اپنی رضا کی گردن پر اس کی چھری چلاتے ہوئے ایک ایسے بے آب و گیاہ ویرانے کی طرف چلے آئے جہاں دنیا کے لحاظ سے رہنے کی کوئی صورت نہیں تھی آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی بناء پر بیوی اور معصوم بچے کو ساتھ لیا جو بھی دودھ پیتا تھا اور وہ جگہ تلاش کی جہاں کسی زمانے میں خانہ کعبہ کا آغاز کیا گیا تھا.ایک ٹیلہ بن چکا تھا وہاں اس کے گردریت کا، ارد گرد ذرا گہری جگہ بن گئی تھی.آپ نے بڑی محنت سے اس کو تلاش کیا کشف کے مطابق اور وہاں اس خانہ کعبہ کی جگہ پر
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 299 فلسفہ حج ۷۷۹۱ء اپنے بیوی اور بچے کو بٹھایا.ایک مشکیزہ پانی کا وہاں رکھا، ایک کھجوروں کا تھیلا چھوڑا اور کچھ دیر کے بعد چل پڑے.ان کے چلنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ حضرت ہاجرہ پریشان ہوئیں، پیچھے پیچھے دوڑیں اور کہا کہ ہمیں کہاں چھوڑ کر جاتے ہو؟ یہ پانی کا مشکیزہ گے دن چلے گا؟ یہ کھجور میں کب تک کام آئیں گی؟ لیکن حضرت ابراہیم جو بہت ہی نرم دل تھے مڑ کر بھی نہ دیکھ سکے.زبان سے کچھ کہنے کا تو سوال ہی نہیں تھا.آپ خاموش چلتے رہے وہ والہا نہ پیچھے دوڑتی رہیں.کہتیں دیکھو! معصوم بچہ ہے اور میں ہوں ہمیں کیوں چھوڑے جاتے ہو؟ آخر حضرت ہاجرہ کو خیال آیا کہ یہ نرم دل باپ خدا کے حکم کے سوا یہ نہیں کر سکتا.انہوں نے کہا کہ اتنا تو بتا دو کہ کیا یہ خدا کے حکم کے نتیجے میں ہے؟ اس وقت حضرت ابراہیم نے صرف اتنا کہا ہاں.حضرت ہاجرہ نے عرض کیا کہ اگر خدا کے حکم کے نتیجہ میں ہے تو ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا.حضرت ابراہیم رخصت ہوئے.حدیث میں آتا ہے کہ آپ ایک ایسی جگہ پہنچ کر ثنیہ کے مقام پر جہاں سے وہ بچہ اور بیوی ان کو دیکھ نہیں سکتے تھے، وہ ان کو نہیں دیکھ سکتے تھے کھڑے ہوئے اور مڑ کر اس مقام کی طرف منہ کیا اور یہ دعا کرنی شروع کی: رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلوةَ فَاجْعَلْ أَفَبِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمُ وَارْزُقُهُمُ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (ابراہیم: ۳۸) اے ہمارے رب ! میں نے اپنی اولا د کو اپنی ذریت کو ایک ایسی وادی میں بسا دیا ہے جس میں گھاس کا تنکا تک نہیں اگتا، تیرے مقدس گھر کے قریب.اس لئے اے میرے آقا ! کہ تیری عبادت کریں.پس تو ہی لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے.وہ دوڑتے ہوئے ان کی طرف چلے آئیں اور اے میرے آقا ! ان کو پھلوں سے رزق عطا فرما تا کہ وہ تیرے شکر گزار بندے بنیں.یہاں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے جو دعا کی اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جو برکتیں عطا فرمائیں وہ ظاہر ہیں ان کے ذکر کی ضرورت نہیں لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جانے کے بعد جو واقعہ ہوا وہ یہ ہے کہ حضرت ہاجرہ تھوڑی دیر کے بعد پیاس کی شدت کے باعث اس حال کو پہنچ گئیں کہ دودھ پلانے کے لئے بھی بچے کے لئے کچھ نہیں تھا.جب آپ کا دودھ بھی خشک ہو گیا اور
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 300 فلسفہ حج ۷۷۹۱ بچہ پیاس سے تڑپنے لگا تو بے قراری میں دوڑیں ، ایک پہاڑی ہے صفا اس پر چڑھیں ، دیکھا کہ کوئی دور تک شاید آدمی نظر آئے کہیں سے کوئی سہارا مل جائے، کچھ نہیں تھا، واپس اتریں جب درمیان کے حصے میں پہنچیں جو گہری ہے اس گھبراہٹ سے کہ جلدی جاؤں اس کی طرف وہاں سے دوڑنے لگیں ، پھر پہاڑی آئی ، کمزور ہو چکی تھیں پھر آپ کی رفتار سست ہو گئی ،مروہ کی پہاڑی پر چڑھیں ، وہاں سے دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا پھر گھبراہٹ میں واپس دوڑیں کہ شاید پرلی طرف کوئی آدمی آچکا ہو.اسی طرح سات مرتبہ ہوا یہاں تک کہ جب آخری مرتبہ، ساتویں مرتبہ آپ پہاڑی کے اوپر تھیں تو آپ کو ایک آواز سنائی دی، دوبارہ آواز سنائی دی.آپ نے کہا اے آواز والے! کیا تو میری مدد بھی کرسکتا ہے؟ اس وقت خدا کا فرشتہ ظاہر ہوا اور اس نے کہا اے ہاجرہ! تجھے کوئی فکر نہیں خدا نے تیری سن لی ہے.دیکھ جہاں تو نے اپنا بچہ رکھا ہوا ہے، ڈالا ہوا ہے اس طرف دیکھ.وہاں آپ نے دیکھا تو فرشتہ وہاں تھا اس نے زمین پر ایٹڑی ماری اور آب زم زم کا چشمہ پھوٹ پڑا.آپ بے قراری سے اس طرف دوڑیں اور اس چشمے سے چلو بھر بھر کر پانی لینے لگیں.حضرت رسول کر یم ﷺ فرماتے ہیں کہ اسماعیل کی ماں ہاجرہ اگر چلو نہ بھرتی تھوڑا اظرف نہ دکھاتی تو بہت بڑا اور پر زور چشمہ وہاں سے پھوٹ پڑتا.( صحیح بخاری کتاب المساقاة باب من رأى ان صاحب الحوض والقربۃ...لیکن دراصل اس چشمہ میں اشارہ تھا، بیت اللہ کے اندر فلسفہ اسلام ہے دراصل سارے کا سارا.صلى الله الله بیت اللہ دراصل حضرت محمد مصطفی کے لئے ایک بنیاد کا کام دیتا تھا.اس چشمے میں بھی دراصل اس کوثر کی طرف اشارہ تھا جو آنحضرﷺ کو عطا ہونے والی تھی.جس طرح جسمانی لحاظ سے زندگی کے لئے وہاں ایک چشمہ پھوٹا اسی عرب کے صحرا سے ایک بے قرار روح نے خدا کے حضور گڑ گڑانا تھا اور ایڑیاں رگڑنی تھیں وہ حضرت محمدمصطفی تھے.ساری دنیا پیاس سے تڑپ رہی تھی کہ ایک بوند پانی کی نظر نہیں آتی تھی روحانی دنیا میں تب محمد مصطفی ﷺ کی روح کی بے قراری کو دیکھ کر تب آپ کی گریہ وزاری کو سن کر آسمان سے وہ رحمت کا چشمہ پھوٹاوہ عرفان کا چشمہ پھوٹا وہ سمندر ظاہر ہوا جسے ہم قرآن کہتے ہیں.یہی وہ دراصل کوثر ہے جس کے لئے آب زم زم ایک بنیاد اور ایک اشارے کے طور پر تھا لیکن یہ کوثر ظرف کے مطابق عطا ہوا اور جس طرح حضرت محمد مصطفی کا ظرف بے پناہ تھا ویسا ہی یہ کوثر بھی بے پناہ ہو گیا.اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 301 فلسفہ حج ۷۷۹۱ اس کے بعد ایک دوسرا واقعہ قربانی کا واقعہ ہے جس کا بھی تعلق حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے بیٹے اسماعیل سے ہے.قرآن کریم اس کا ذکر ان الفاظ میں فرماتا ہے: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعَى قَالَ يُنَيَّ إِنِّى أَرَى فِي الْمَنَامِ انِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَابَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصُّبِرِينَ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ وَنَادَيْنَهُ أَنْ يَابُرُ هِيمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلُوا الْمُبِينُ وَفَدَيْنَهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمِ (الصافات: ۱۰۳ - ۱۰۸) کہ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام اس قابل ہوئے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ دوڑنے پھرنے لگے، یہ اس زمانے کی بات ہے ابھی چھوٹی عمر تھی لیکن ساتھ دوڑ تے پھرتے تھے گیارہ بارہ سال کی عمر میں.حضرت ابرا ہیم بار بار دیکھنے کے لئے یہاں تشریف لایا کرتے تھے.آپ نے رویا میں دیکھا قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ اے میرے پیارے بیٹے ! میں نے ایک خواب دیکھی ہے اور وہ خواب یہ ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں.تو بتا تیرا کیا خیال ہے اس بارے میں؟ معصوم بچے نے کہا اے میرے ابا افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ تو وہی کر جس کا تجھے خدا نے حکم دیا ہے سَتَجِدُنِي اِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصّبِرِینَ تو اللہ کے فضل کے ساتھ اللہ نے چاہا تو مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائے گا.تب حضرت ابراہیمؑ نے پیشانی کے بل اوندھا کر کے ان کو لٹا دیا اس طرح سے کہ میں اس بچے کی گردن پر اس حال میں چھری پھیروں کہ وہ مجھے نہ دیکھ سکے اور میں اسے نہ دیکھ سکوں.اس وقت خدا نے فرمایا وَ نَادَيْنَهُ أَنْ يَا بْرُ هِيمُ ہم نے کہا اے ابراہیم قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا تو نے اپنی رویا پوری کر دی ہے كَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ اس طرح ہم محسنوں کو جزا دیا کرتے ہیں.یہ جو قربانی کا واقعہ ہے اسی کی یاد میں وہ قربانیاں کی جاتی ہیں یہ یاد دلانے کے لئے کہ کس
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 302 فلسفہ حج ۷۷۹۱ء طرح ابراہیم نے اپنے بچے کی گردن پر چھری پھیری تھی یا پھیر نے کے لئے تیار ہو گئے اور اتنا کامل عزم ا تھاوہ، باپ اور بیٹے دونوں کا کہ خدا تعالیٰ نے گواہی دی کہ تو نے اس خواب کو پورا کر دیا ہے.ایک شعشہ بھی وہم کا پیدا نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ چھری نہ پھیر تی اس کی گردن پر اگر خدا کا یہ حکم نازل نہ ہوتا.اس میں اشارہ ہے دراصل ان قربانیوں کی طرف جن کا آغاز حضرت محمد مصطفی امی نے کرنا تھا.ذبح عظیم میں وہ بکر انہیں مراد جو ظاہر ہوا اور اس کی گردن پر چھری پھیری گئی تھی.بکرے کو تو کوئی نسبت ہی نہیں تھی حضرت اسماعیل سے.حضرت اسماعیل کے مقابل پر بکرے کو ذبح عظیم کہنا تو بڑی عجیب بات نظر آتی ہے.حضرت اسماعیل کے مقابل پر جو عظیم ذبیح کہلا سکتا ہے وہ محمد مصطفیٰ کے سوا اور کوئی نہیں.ساری عمر آپ کی روح خدا کے حضور ذبح ہوتی رہی بنی نوع انسان کی محبت میں بھی اور خدا کی محبت میں بھی.تمام عمر آپ کے جسم کا خون بھی بہا ان گلیوں میں خدا اور بنی نوع انسان کی محبت میں اور آپ کی روح بھی فدا ہوتی رہی اور اس کے اوپر چھریاں چلتی رہیں صبر و رضا کی.صرف یہی نہیں بلکہ آپ نے ذبح عظیم کے طور پر وہ صحابہ پیدا کئے جنہوں نے اس قربانی کو آگے چلایا اور محض اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش ہی نہیں کیا عملاً اپنی گردنیں خدا کی رضا کی تلواروں کے سامنے اس طرح رکھیں کہ وہ ذبح کئے گئے میدانوں میں.تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ جس طرح حضرت اسماعیل اور انکی بیوی اور ان کے بچے سارے اس قربانی میں شریک تھے ایک ابراہیم اور ایک اسماعیل اور ایک ہاجرہ نہ رہی محمد صلی ہوتی ہے نے سینکڑوں ابراہیم اور سینکڑوں ہاجر ائیں اور سینکڑوں اسماعیل پیدا کر دیئے.ایسی مائیں تھیں جنہوں نے سات سات بچے جنگ میں بھیجے اور دعائیں کرتی رہیں رورو کے خدا کے حضور کہ اے خدا! ایک بھی بیچ کر واپس نہ آئے اور سارے تیرے حضور میں ذبح ہو جائیں.ایسی بیویاں تھیں جنہوں نے خاوندوں کو ان دعاؤں کے ساتھ اور ان تمناؤں کے ساتھ میدان جنگ میں بھیجا کہ میں دوبارہ اس خاوند کا منہ نہ دیکھوں اور تیری راہ میں یہ کام آئے.ایسے باپ تھے جنہوں نے بچوں کو یہ دعائیں دیں کہ جاؤ اور خدا کرے اور کاش ایسا ہو کہ تم خدا کی راہ میں شہید ہو جاؤ اور میں تمہارا دوبارہ منہ نہ دیکھوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ذبح عظیم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت مصلى الله 303 قَامُوا بِأَقْدَامِ الرَّسُولِ بِغَزْوِهِمْ كَالْعَاشِقِ الْمَشْغُوفِ فِي الْمِيْدَانِ فَدَمُ الرّجال لِصِدْقِهِمْ فِي حُبِّهِمْ تَحتَ السّيُوفِ أُرِيقَ كَالْقُرُبَانِ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه: ۵۹۱) فلسفہ حج ۷۷۹۱ء کہ محمد مصطفی کے صحابہ نے محمدمصطفی میت کے اقدام کے ساتھ آپ کے پیچھے پیچھے غزوات میں اقدام کیا.ایک ایسے عاشق کی طرح جو جلوہ عشق سے پاگل ہو چکا ہو.اس حال میں وہ میدانوں کی طرف نکلے کہ تم دیکھو گے کہ انسانوں کا خون ان کی سچائی کے باعث اس محبت کی سچائی کے ثبوت کے طور پر جو انھیں خدا کے ساتھ تھی تلواروں کے نیچے اس طرح بہایا گیا جس طرح چھریوں کے نیچے قربانیوں کی گردنوں کا خون بہتا ہے.یہ وہ نقشہ ہے قربانیوں کا جسے اول دور میں واقعات کی دنیا میں پیش کیا جا چکا ہے اور اس دور ثانی میں آپ ہیں جنہوں یہ نمونے پیش کرتے ہیں.اے مسیح موعود کی جماعت! اے وہ جو حج سے محبت کا دعویٰ رکھتے ہو! اے وہ جو یہ دعوی کرتے ہو کہ عشق و وفا کی کتنی ہی تصاویر ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں انہیں ہم دوبارہ دہرائیں گے اور اپنی زندگیوں میں ان تصاویر کے نمونے بن کر دنیا کے سامنے پیش کریں گے.جنہوں نے تجدید عہد کی ہے، یہ ہے روح حج ، یہ ہے فلسفہ حج.آج جو سینکڑوں ہزاروں واقفین زندگی اور ان کی بیویاں اور ان کے بچے وادی ذی زرع میں رزق کے ظاہری انتظاموں کے بغیر اپنے آپ کو خدا کے حضور پیش کر رہے ہیں اور کرتے چلے جارہے ہیں یہ سارے اسی قربانی کے مناظر ہیں.یہی ہیں حج کے مقاصد جن کو جماعت احمد یہ اللہ کے فضل سے پورا کر رہی ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ پورا کرتی چلی جائے گی.حج کے اندر ایک عظیم بات یہ ہے کہ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا نے یہ حکم دیا تھا کہ سب دنیا کو اس طرف بلاؤ اس لئے خدا نے ہر دنیا میں ہر قسم کی قوموں اور عبادت کرنے والوں کے کچھ نہ کچھ نمونے حج میں رکھ دیئے ہیں.آپ کو سادھوؤں کا رنگ بھی یہاں نظر آجائے گا ، دو کپڑوں میں ملبوس ،سر منڈائے ہوؤں کا رنگ بھی یہاں نظر آ جائے گا، بیٹھ کر عبادت کر نیوالوں کا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 304 فلسفہ حج ۷۷۹۱ رنگ بھی نظر آجائے گا ، دوڑ کر عبادت کرنے والوں کا رنگ بھی نظر آ جائے گا ، ہاتھ چھوڑ کر عبادت کرنے والوں کا رنگ بھی نظر آجائے گا، ہاتھ باندھ کر عبادت کرنے والوں کا رنگ بھی نظر آجائے گا، رکوع کرنے والوں کا بھی سجدہ کرنے والوں کا بھی ، جنگلوں میں دھونی رما کر بیٹھ جانے والوں کا بھی ، پتھروں کے گرد گھومنے والوں کا بھی، پتھروں کو چومنے والوں کا بھی.کوئی ایسا رخ کوئی ایسا رنگ دنیا میں عشق اور عبادت کے اظہار کا نہیں ہے جو حج میں نہ پایا جائے.دیکھیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حج کا اصل مقصد بنی نوع انسان کو بالاخر اکٹھا کرنا تھا.حج وحدت انسانی کا ایک عظیم درس ہے.حج میں بنی نوع انسان اس طرح ایک ہو جاتے ہیں کہ دنیا کے پردے پر ان کی کوئی مثال کہیں نظر نہیں آتی.وہاں کالے بھی آتے ہیں اور گورے بھی آتے ہیں.سیاہ وسفید اور ہر رنگ کے انسان مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب سے اکٹھے ہوتے ہیں.امیر بھی اور غریب بھی مختلف زبانیں بولنے والے لیکن وہاں ایک زبان عربی چل رہی ہوتی ہے.ساری دعائیں، سارا اظہار عشق عربی میں ہو رہا ہوتا ہے.کوئی فرق نہیں رہتا نہ کپڑے کا نہ کسی اور رہن سہن کا.سارے بنی نوع انسان خدا کے حضور ایک ہو جاتے ہیں.اس سے بہتر اس سے زیادہ پیارا بنی نوع انسان کے اکٹھے ہونے کا کوئی اور منظر آپ کو دنیا میں کہیں نظر نہیں آئے گا.اس کے علاوہ لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ میں جن منافع کا ذکر تھا ان کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: حج تو ایک مذہبی عبادت ہے مگر اس میں میں روحانی فوائد کے علاوہ ملی اور سیاسی غرض بھی ہے کہ مسلمانوں کے ذی اثر طبقے میں ایک بڑی جماعت سال میں ایک جگہ جمع ہو کر تمام عالم کے مسلمانوں کی جماعت سے واقف ہوتی رہے.تمام عالم کے مسلمانوں کے حالات سے واقف ہوتی رہے اور ان میں اخوت اور محبت ترقی کرتی رہے اور انہیں ایک دوسرے کی مشکلات سے آگاہ ہونے اور آپس میں تعاون کرنے اور ایک دوسرے کی خوبیوں کو اخذ کرنے کا موقع ملتار ہے“ پھر فرماتے ہیں: حج سے مسلمانوں کے اندر مرکزیت کی روح بھی پیدا ہوتی ہے اور
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 305 فلسفہ حج ۷۷۹۱ء انہیں اپنی اور باقی دنیا کی ضرورتوں کے متعلق غور وفکر کرنے کا موقع مل جاتا ہے اسی طرح ایک دوسرے کی خوبیوں کو دیکھنے اور ان کو اخذ کرنے کا موقع ملتا ہے.“ حج کو مکہ میں کیوں مقرر کیا گیا؟ اس کا بھی ایک فلسفہ ہے.دراصل بیت اللہ وہ پہلا گھر ہے جو بنی نوع انسان کی خاطر خدا کی عبادت کے لئے بنایا گیا.چنانچہ حج کا مضمون جہاں جہاں بھی قرآن کریم میں بیان ہوا ہے وہاں یہ آپ عجیب بات دیکھیں گے کہ یــايــا الـذيــن أمنوايا يــا ايـهـا المسلمون وغیرہ کا کہیں کوئی ذکر نہیں آتا ہر جگہ بنی نوع انسان کا الناس کے طور پر خطاب ہے مثلاً فرمایا أَذِنْ فِي النَّاسِ بِالْحَج (الحج:۸۲) لوگوں کو حج کی طرف بلا.پھر فرمایا جَعَلْنَهُ لِلنَّاسِ سَوَاءَ الْعَاكِفُ فِيْهِ وَالْبَادِ (الحج: ۶۲) ہم نے اس کو سب لوگوں کے لئے برابر بنایا.پھر فرمایاتم افيْضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ (البقرة :٠٠٢) یہاں بھی النـاس کا ذکر ہے.پھر فرمایا اِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ ( آل عمران:۷۹) پہلا گھر جو لوگوں کے لئے یعنی لوگوں کے فوائد کے لئے عبادت کی خاطر بنایا گیا وہ اللہ کا گھر مکہ میں ہے.پھر فرمایا وَ اذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ (البقرۃ:۶۲۱) تو ہر جگہ الناس کا ذکر ہے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دراصل یہ وہ پہلا گھر ہے اور اس وقت یہ گھر بنایا گیا تھا جبکہ ابھی مذہبی اور قومی تقسیمیں نہیں تھیں.....کسی کو کرشن نے کسی کو بدھ نے کسی کو اور دوسرے مذاہب کے بانیوں نے بنایا لیکن ہر ایک کے ساتھ یا ہندو کا گھر ہو گیا یا بدھ کا گھر لگ گیا ساتھ یا زرتشت کا یا پھر کنفیوشس کا.اگر سب دنیا کو وہ اپنی طرف بلائیں تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ تو زرتشت کا گھر ہے ہمیں اس سے کیا غرض؟ یا یہ تو بدھ کا گھر ہے ہمارا اس سے کیا تعلق؟ لیکن وہ ایک گھر جس کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ یہ فلاں کا گھر ہے اور یہ فلاں کا گھر ہے وہ وہ پہلا گھر ہی ہوسکتا ہے جب کہ مذہب کی بنیاد ڈالی گئی تھی اور ابھی بنی نوع انسان مختلف مذاہب میں ہے نہیں تھے.اسی گھر کے ارد گرد وہ مذہب تعمیر ہونا تھا جو عالمی مذہب ہے اور اسی گھر میں رسول الناس نے پیدا ہونا تھا جس کا یہ دعویٰ تھا کہ يَا يُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف:۹۵۱) اس لئے وہ ایک ہی جگہ ہے جہاں بنی نوع انسان کو اکٹھا کرنے میں کوئی حکمت نظر آتی ہے.صلى الله چنانچہ حضرت محمد مصطفی سے وہ رسول ہیں جو خانہ کعبہ کے اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 306 فلسفہ حج ۷۷۹۱ بطور معراج پیدا ہوئے.حج خود عبادت کا معراج ہے روحانی لحاظ سے بھی اور جسمانی لحاظ سے بھی جو اس میں ارتقاء ملتا ہے اس پر اگر آپ غور کریں تو آپ حیران ہوں گے کہ کس طرح رفتہ رفتہ حج اس آخری مقام تک انسان کو پہنچاتا ہے جو تمام عالم کو اکٹھا کرنے کا مقام ہے.پھر قرآن میں جو عبادتیں ہمارے لئے مقرر فرمائی ہیں ان پر آپ غور کر کے دیکھیں آپ کو صلى الله معلوم ہوگا کہ عبادت کا آغاز فرد سے ہوتا ہے.حضرت محمد مصطفی ﷺ نے بطور فرد کے عبادت کی.صحراؤں میں جا کر ، غار حرا میں.پھر وہ عبادت جہاں تک انسانی سوسائٹی کا تعلق ہے ترقی کرتے ہوئے ایک اجتماعی رنگ اختیار کر گئی اور باجماعت نماز شروع ہوئی.اس باجماعت نماز کا تعلق محلہ سے ہے.پھر یہ باجماعت نماز ترقی کرتی ہے اور جمعہ پر منتج ہو جاتی ہے اور جمعہ کا تعلق پورے شہر سے ہے.پھر یہ اور ترقی کرتی ہے اور عید پر جا کر منتج ہو جاتی ہے جس کا تعلق ایک بڑے علاقہ سے ہے.پھر یہ ترقی کرتی ہے اور اس حج پر منتج ہو جاتی ہے جس کا تعلق ساری دنیا سے ہے اور تمام دنیا سے بنی نوع انسان اس ایک مقام کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں.اس چیز کی کوئی نظیر دنیا میں کسی اور جگہ نہیں ملتی.تو یہ ارتقاء عبادت کا حج پر جا کر جو ختم ہوتا ہے اس پر اگر آپ غور کریں تو اسی سے ثابت ہو جاتا ہے کہ اسلام خدا کا پاکیزہ اور سچا اور آخری اور عالمی مذہب ہے.انگریزی کا ایک محاورہ ہے عیسائی دنیا کا کہ All Roads take to Rome کہ ساری سڑکیں روم ہی کی طرف جاتی ہیں.حج اس محاورے کو کہانی بنا دیتا ہے.واقعہ حج یہ ثابت کرتا ہے کہ اب تو ساری سڑکیں بنی نوع انسان کی مکہ ہی کی طرف روانہ ہوں گی.ایک سمندر بن جاتا ہے وہاں بنی نوع انسان کا.مشرق اور مغرب، شمال اور جنوب سے لوگ سڑکوں پر ، ہوائی جہازوں پر سمندر کے ذریعہ رواں دواں دریاؤں کی طرح چلتے ہیں لیکن ایسے دریاؤں کی طرح جو پانی کی طلب میں جا رہے ہیں.ایسے خشک ذرے کہہ لیں آپ جیسے ریت کے ذرے بہہ رہے ہوں ایک طرف اس لئے کہ ان کی روحانی پیاس بجھ جائے اور یہ ساری پیاس مکہ میں جا کر بجھتی ہے.اس لئے اگر جج کو آپ دیکھیں تو دونوں باتیں اس میں پائی جاتی ہیں عشق کے لحاظ سے کہ یہ عبادت کا معراج ہے کیونکہ عبادت کا منتہی عشق ہوا کرتا ہے.اپنی ظاہری بناوٹ کے لحاظ سے بھی یہ اپنی عبادت کا معراج ہے اور اس میں آکر تمام بنی نوع انسان اکٹھے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت ہو جاتے ہیں.307 پھر قرآن کریم حج کے ایک اور مقصد کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتا ہے: جَعَلَ اللهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيمًا لِلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَابِدَ ذلِكَ لِتَعْلَمُوا اَنَّ اللهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَانَّ اللهَ بِكُلِّ شَيْ ءٍ عَلِيمٌ (المائده: ۹۸) فلسفہ حج ۷۷۹۱ء کہ اللہ نے کعبہ یعنی محفوظ گھر کولوگوں کی دائمی ترقی کا ذریعہ بنایا ہے اور نیز حرمت والے مہینے اور قربانی کو اور جن جانوروں کے گلے میں پٹہ ڈالا گیا ہو اور ان کو بھی.یہ اس لئے کیا کہ تم جان لو کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ سب کو جانتا ہے.یہاں جو بنیادی چیز بیان کی گئی وہ ہے قِيمًا لِّلنَّاس کہ حج کولوگوں کے قیام کی خاطر بنایا گیا ہے یعنی حج میں وہ فلسفہ اور وہ پیغام ہے کہ جس کو اگر بنی نوع انسان سمجھ جائیں تو انسانیت باقی رہ سکتی ہے.انسان اس دنیا میں جی سکتا ہے بطور انسان کے لیکن اگر اس فلسفہ کو بھلا دیا گیا تو پھر اس دنیا میں انسان بھی باقی نہیں رہے گا.حج میں وہ پیغام ہے بنی نوع انسان کے لئے جس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں انسانیت کی حفاظت ہوگی.بنی نوع انسان اس دنیا میں آزادانہ شرف انسانی کو قائم رکھتے ہوئے زندہ رہیں گے لیکن اگر اس پیغام کو بھلایا گیا تو انسانیت اس صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی.حج ہی کے ذریعہ اس انسانیت کا قیام ہے یہ کیسے ہے؟ بظاہر یہ عجیب بات نظر آتی ہے.ہم تو اب تک جتنی باتیں کرتے چلے آئے ہیں حج کے متعلق ان سب کا تعلق تو حقوق اللہ سے تھا حقوق العباد کا تو وہاں بظاہر کچھ نظر نہیں آتا.اپنے آپ کو ہر رنگ میں خدا کے سامنے پیش کر دینا.اس مسئلہ کا صلى الله حل کہ قِيمًا لِلنَّاس کیسے ہو گیا حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ہمارے لئے کر دیا.حج کے بعد حج جو پیغام دیتا ہے بنی نوع انسان کو وہ پیغام یہ ہے کہ خدا سے ملنے کے بعد بنی نوع انسان کی طرف لوٹ جاؤ.اگر خدا کے حقوق ادا کرتے ہو تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خالق کے حقوق تو ادا کر رہے ہو اور مخلوق کے حقوق بھول جاؤ.دَنَا فَتَدَلَّى (النجم : 9) کا مضمون کامل ہو جاتا ہے حج کے پیغام میں.چنانچہ حضرت محمد مصطفی لا الہ اس کا خلاصہ حجتہ الوداع کے موقعہ پر پیش کرتے ہیں.مصلى الله
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 308 فلسفہ حج ۷۷۹۱ حجۃ الوداع کے موقعہ پر آپ نے جو حج کا پیغام، حج کا فلسفہ بیان فرمایا اس پر آپ غور کریں تو حیران رہ جائیں گے کہ تمام کی تمام باتیں بنی نوع انسان کے حقوق سے تعلق رکھتی ہیں وہاں عبادت کا کوئی ذکر نہیں ہے.مطلب تھا کہ عبادت تو تم کر چکے لیکن یہ نہ سمجھنا کہ انقطاع الی اللہ کا مطلب یہ ہے کہ بنی نوع انسان کو بھول کر تم خدا میں غائب ہو جاؤ اور پھر بنی نوع انسان کی طرف توجہ ہی نہ کرو.خدا میں غائب ہونے کا وہ مطلب ہے جو میں نے کر کے دکھایا ہے.مجھ سے زیادہ خدا کے کوئی قریب نہیں تھا لیکن میں غائب نہیں ہوا اپنے بھائیوں سے.میں تو ایسا دردمند ہوا، لوٹا واپس بنی نوع انسان کو بلانے کے لئے ،ان سے پتھر کھائے ، ان سے ماریں کھائیں، ان کی گالیاں سنیں ، ہر دکھ جو ایک انسان انسان کو دے سکتا ہے مجھے دیا گیا.لیکن پھر بھی میں خدا سے غائب اس طرح نہیں ہوا کہ ان کو بھول جاؤں، ان کی طرف لوٹا ، ان کی مصیبتیں برداشت کیں تکلیفیں برداشت کیں اور انہیں پیغام دیتا رہا.میں خون بہاتا رہا وہ خون لیتے رہے، میں گالیاں سنتار ہاوہ گالیاں دیتے رہے، میں پتھر کھاتا رہا وہ پتھر مارتے رہے لیکن پھر بھی میں ان کو اس حال میں بلاتا رہا کہ میری جان ان کی راہ میں ہلکان ہوئی.خدا تعالیٰ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ إِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (الكيف :) پھر فرماتا ہے: لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ) (الشعراء: ٢) اے میرے پیارے محمد ﷺ ! کیا تو ان لوگوں کی خاطر ہلاک ہو رہا ہے جو ایمان نہیں صلى الة لا رہے؟ اس لئے کہ ایمان نہیں لا رہے تو اپنے آپ کو غم میں ہلاک کرتا چلا جارہا ہے!! یہ ہے وہ فلسفہ حج جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت محمد مصطفی ﷺ نے الوداعی خطبہ دیا آخری حج کے موقع پر خطبہ فرمایا.آپ دیکھیں میں نے اس میں سے چند اقتباسات لئے ہیں ان سب کا تعلق بنی نوع انسان کے ساتھ ہے آپ فرماتے ہیں: ”اے لوگو میری بات کو اچھی طرح سنو کیونکہ میں نہیں جانتا کہ اس سال کے بعد کبھی بھی میں تم لوگوں کے درمیان اس میدان میں کھڑے ہو کر کوئی تقریر کروں گا.تمہاری جانوں اور تمہارے مالوں کو خدا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 309 فلسفہ حج ۷۷۹۱ء 66 تعالیٰ نے ایک دوسرے کے حملے سے قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا ہے.“ تمہاری جانوں اور تمہارے مالوں کو خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے کے حملے سے قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا ہے.یہ ہے حج کا پیغام.خدا تعالیٰ نے ہر شخص کے لئے وراثت میں اس کا حصہ مقرر کر دیا ہے کوئی وصیت ایسی جائز نہیں جو دوسرے کے حق کو نقصان پہنچائے“ پھر فرمایا: ( صحیح بخاری کتاب الحج باب خطبتہ ایام معنی ) ”اے لوگو! تمہارے کچھ حق تمہاری بیویوں پر ہیں اور تمہاری بیویوں کے کچھ حق تم پر ہیں.یادرکھو کہ ہمیشہ اپنی بیویوں سے اچھا سلوک کرنا.“ (سنن ترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی حق المرأة على زوجها ) یہ فلسفہ حج ہے جس کی طرف جماعت کو توجہ کرنی چاہئے کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کی نگہداشت تمہارے سپرد کی ہے.عورت کمزور وجود ہوتی ہے اور اپنے حقوق کی خود حفاظت نہیں کر سکتی تم نے جب ان کے ساتھ شادی کی تو خدا تعالیٰ کو ان کے حقوق کا ضامن بنایا تھا اور خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت تم ان کو اپنے گھروں میں لائے تھے پس خدا تعالیٰ کی ضمانت کی تحقیر نہ کرنا اور عورتوں کے حقوق ادا کرنے کا ہمیشہ ہیں: خیال رکھو.“ کوئی پہلو حج کے فلسفہ کا جس کا بنی نوع انسان سے تعلق ہے آپ نہیں چھوڑتے فرماتے اے لوگو تمہارے ہاتھوں میں ابھی کچھ جنگی قیدی بھی باقی ہیں" خطبہ حج ہے آخری خطبہ ہے اور دیکھئے کس کس کے حقوق کا تصور دماغ میں ہے، کس کس کا غم آپ کو کھائے جا رہا ہے: بھی کچھ جنگی قیدی باقی ہیں میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ان کو وہی
فلسفہ حج ۷۷۹۱ء تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 310 کچھ کھلانا جو تم خود کھاتے ہو اور ان کو وہی کچھ پہنانا جو تم خود پہنتے ہو.اگر ان سے کوئی ایسا قصور ہو جائے جو تم معاف نہیں کر سکتے تو ان کو کسی اور کے پاس فروخت کر دو کیونکہ وہ خدا کے بندے ہیں اور ان کو تکلیف دینا کسی صورت میں بھی جائز نہیں.( مسند احمد بن حنبل جزء ۴ صفحہ ۳۶) پھر فرمایا: ”اے لوگو جو کچھ میں تمہیں کہتا ہوں سنو اور اچھی طرح اس کو یا د رکھو ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے.تم سب ایک ہی درجہ کے ہو.تم تمام انسان خواہ کسی بھی قوم اور کسی حیثیت کے ہوانسان ہونے کے لحاظ سے ایک درجہ رکھتے ہو.“ ( سنن ترمذی کتاب التفسير القرآن باب ومن سورة التوبة ) پھر فرمایا: و کیا تمہیں معلوم ہے کہ آج کونسا مہینہ ہے؟ کیا تمہیں معلوم ہے یہ علاقہ کون سا ہے؟ کیا تمہیں معلوم ہے یہ دن کونسا ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں اے آقا! یہ مقدس مہینہ ہے، یہ مقدس علاقہ ہے اور یہ حج کا دن ہے.“ ہر جواب پر رسول کریم اللہ فرماتے تھے: جس طرح یہ مہینہ مقدس ہے، جس طرح یہ علاقہ مقدس ہے، جس طرح یہ دن مقدس ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی جان اور اس کے مال کو مقدس قرار دے دیا ہے اور کسی کی جان اور کسی کے مال پر حملہ کرنا ایسا ہی ہے ناجائز ہے جیسے کہ اس مہینے اور اس علاقے اور اس دن کی ہتک کرنا.یہ حکم آج کے لئے نہیں کل کے لئے نہیں بلکہ اس دن تک کے لئے ہے کہ تم خدا سے جا کر ملو ( صحیح بخاری کتاب الحج باب خطبة الحج ایام منی ) پھر فرمایا: دو یہ باتیں جو میں تمہیں آج کہتا ہوں ان کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دو کیونکہ ممکن ہے جو لوگ آج مجھ سے سن رہے ہیں ان کی نسبت وہ لوگ اس پر زیادہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 311 فلسفہ حج ۷۷۹۱ء عمل کریں جو مجھ سے نہیں سن رہے ( صحیح بخاری کتاب الحج باب الخطبة ایام منی) یہ ہے حج کا آخری پیغام یہ ہے حقیقت فلسفہ حج کہ خدا کو جب تم کامل طور پر پالو گے تو اس کی مخلوق سے کامل پیار کرنا پڑے گا.یہ فلسفہ کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ معلوم کرے یہ اسی معلم کتاب و حکمت کا کام تھا جس نے قرآن کی آیتیں بھی ہمارے سامنے پیش کیں اور پھر ان کی حکمتیں بھی کھول کھول کر ہمارے سامنے بیان کیں اس پہلو سے جب میں نے اس واقعہ کو دیکھا تو خدا گواہ ہے کہ جسم کا رواں رواں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی محبت میں مست ہونے لگا.بے اختیار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ شعر زبان پر جاری ہو گئے : يَا حِبِّ إِنَّكَ قَدْ دَخَلْتَ مَحَبَّةٌ فِي مُهْجَتِي وَ مَدَارِ كِي وَ جَنَا نِي اے میرے آقا! تو اپنے محبت کی وجہ سے میرے جسم کے رویں رویں میں ، جوڑ جوڑ میں، بند بند میں داخل ہو چکا ہے.يَا حِبِّ إِنَّكَ قَدْ دَخَلَتَ مَحَبَّةٌ فِي مُهْجَتِي وَ مَدَارٍ كِي وَ جَنَا نِي إني أرى فِي وَجْهِكَ الْمُتَهَدِّلِ شَأْنًا يَفُوقُ شَمَائِلَ الْإِنْسَانِ میں تیرے چہرے میں وہ شان دیکھتا ہوں، وہ روشنی اور چمک دیکھتا ہوں کہ جو انسانوں کے چہروں سے بالا تر ہے عام انسانوں کے بس میں نہیں کہ وہ نو ر اپنے چہروں پر ظاہر کرسکیں.جِسْمِي يَطِيرُ إِلَيْكَ مِنْ شَوْقٍ عَلَاَ يا لَيْتَ كَانَتْ قُوةٌ الطَّيَرَانِ آقا! میرا جسم شوق محبت میں تیری طرف اڑتا چلا آ رہا ہے اے کاش ! اس میں اڑنے کی طاقت ہوتی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کیسا والہانہ عشق ہے یو نہی تو نہیں ہو گیا عشق !
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 312 فلسفہ حج ۷۷۹۱ اس لئے ہوا کہ آپ نے حضرت محمد مصطفی اللہ کے حسن کو دیکھا ان آنکھوں سے جن آنکھوں سے عام انسان دیکھ نہیں سکتا؟ ہر فرمان کے پیچھے ایسی حکمتیں آپ نے پڑھیں جن کے نتیجہ میں عاشق ہونے کے سوا چارہ ہی نہیں رہتا انسان کے لئے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں: أَنْظُرُ إِلَيَّ بِرَحْمَةٍ وَتَحَنُنٍ يَا سَيِّدِى أَنَا أَحْقَرُ الْغِلْمَانِ میرے آقا! میرے محبوب! میری طرف بھی تو محبت کی آنکھ سے دیکھ.میری طرف بھی تو رحمت کی نظر فرما.میرے آقا! میں تو أَحْقَرُ الْعِلْمان ہوں.غلاموں میں سب سے حقیر غلام ہوں تیرے حضور عشق کے لحاظ سے.تیرے مقابل پر کوئی اتنا نہیں بچھا جتنا میں بچھ چکا ہوں.اخـــــرُ الغِلْمَان کا یہ مطلب ہے کوئی تیرے عشق میں ایسا فنا نہیں ہوا آج تک جس طرح میں تیرے حضور عشق میں فنا ہو چکا ہوں.میری آنکھیں تیرے حضور بچھی ہوئی ہیں، میرا دل، میری روح ، میرے جسم کا ذرہ ذرہ تیری محبت میں فنا ہے.یہ کہنے کے بعد آپ فرماتے ہیں اور ایک دعا کرتے ہیں آئیے ہم سب اس دعا میں شامل ہوں : يَا رَبِّ صَلِّ عَلَى نَبِيِّكَ دَائِمًا في هذه الدُّنْيَا وَبَعُثِ فَان يارب صل علی نبیک دائماً في هَذِهِ الدُّنْيَا وَبَعْثٍ ثَانُ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه: ۵۹۱ - ۵۹۴) کہ اے میرے رب اپنے اس نبی پر ہمیشہ ہمیش سلامتی بھیجتا چلا جا.اس وقت تک بھی جب تک یہ دنیا باقی رہے گی اور حج کا فلسفہ باقی رہے گا اور حج باقی رہے گا جب تک محمد مصطفی میلے کا پیغام ہمیشہ ہمیش تک بنی نوع انسان کو ہمیشہ ہمیش فوائد پہنچا تا رہے گا.اس وقت بھی جب یہ سب دنیا مٹ جائے تب بھی اے میرے آقا جہاں تک تیرے اس محبوب محمد کا تعلق ہے ہمیشہ ہمیش ان پر سلام اور درود بھیجتارہ.آمین.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 313 فضائل قرآن کریم ۸۷۹۱ء فضائل قرآن کریم (خلاصه خطاب بر موقع جلسه سالانه ۱۹۷۸ء) خطاب کا متن دستیاب نہیں ہوسکا ) جس طرح مادی کائنات بے حد اسرار سے پر ہے اسی طرح کلمات الہیہ کی روحانی کائنات یعنی قرآن کریم بھی اسرار کا ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں اس لئے فضائل قرآن کا مضمون بھی ایک بے کنار سمندر ہے.مختصر وقت میں صرف چند باتیں ہی بیان کی جاسکتی ہیں.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کا عشق پیدا کرنے کی بے انتہاء قوت ہے.اسی میں ایک برکت اور قوت ہے جو خدا کے طالب کو دمبدم خدا کی طرف کھینچتی ہے اور اسے روشنی بسکیت اور اطمینان بخشتی ہے.قرآن کریم کے بچے پیروؤں کے رگ وریشہ میں اس قدر محبت الہیہ تاخیر کرتی جاتی ہے کہ محبوب حقیقی سے ایک عجیب طرح کا پیار ان کے دلوں میں جوش مارتا ہے اور آتش عشق ایسی افروختہ ہوتی ہے کہ وہ مجلس میں ساتھ بیٹھے لوگوں کو بھی محسوس ہوتی ہے.اگر وہ اس محبت اور عشق کو کسی تدبیر سے چھپانا بھی چاہیں تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے.قرآن کریم نے جو عشاق خدا پیدا کئے ان میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بہت بلند مقام پر فائز ہیں.قرآن کریم کا کوئی صفحہ ذکر الہی سے خالی نہیں.اول سے آخر تک اللہ ہی اللہ بھرا ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیشہ قرآن کریم کے گن گائے.آپ نے اپنی زندگی میں جو نعمات گائے ان پر ایک عظیم کتاب لکھی جاسکتی ہے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 314 فضائل قرآن کریم ۸۷۹۱ء قرآن کریم ایک کامل اور جامع کتاب ہے اس میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں جو کسی اٹھی کتاب میں امتیازی نشان کے طور پر ہونی چاہئیں.قرآن کریم محبوب حقیقی کا چہرہ دکھاتا ہے.اس کا پیر وصفات الہیہ کا مظہر بن جاتا ہے.اس میں ہر روحانی مرض کا علاج موجود ہے.یہ محفوظیت کے بلند مقام پر فائز ہے اس کی حفاظت کا ذمہ خدا تعالیٰ نے خود اٹھایا ہے.اس میں انسانی ہاتھ دخل نہیں دے سکتا.اسکا ایک ایک نقطہ اور ایک ایک شعشہ غیر محرف و غیر مبدل ہے.دوسری کتب الہیہ اس کے مقابلہ میں پیچ ہیں اور اس کے مقابل پھیکی اور بے نور نظر آتی ہیں.آپ نے قرآن کریم اور بائبل کی تعلیم کا مقابلہ کرتے ہوئے فرمایا: بائیل نے تخلیق کائنات کا جو تصور پیش کیا ہے اسے انسانی عقل قبول نہیں کرتی لیکن قرآن کریم نے اس کے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے وہ عقل کے عین مطابق ہے.آج کل جو انکشافات ہو رہے ہیں وہ چودہ سو سال پہلے سے قرآن کریم میں موجود ہیں.قرآن کریم نے کئی صداقتیں ایسی بیان فرمائی ہیں جن کا تصور بھی انسانی دماغ میں پہلے موجود نہ تھا.قرآن کریم نے مرد اور عورت دونوں کے نفس واحدہ سے پیدا ہونے کا نظریہ پیش کیا ہے جس سے عورت کے مرد کی پسلی سے پیدا ہونے کی تردید ہوتی ہے.آج سائنس نے اس سلسلہ میں جونئی دریافت کی ہے وہ بعینہ وہی ہے جو قرآن کریم نے بیان کی ہے.قرآن کریم اللہ تعالیٰ کو تمام صفات حسنہ سے متصف قرار دیتا ہے.وہ اسے ہر عیب سے منزہ قرار دیتا ہے اس کے مقابل پر بائبل خدا کا جو تصور پیش کرتی ہے وہ نہایت ظالمانہ ہے.انسانی عقل اسے تسلیم نہیں کرتی بلکہ انسانی روح اس سے دکھ تکلیف اور اذیت محسوس کرتی ہے.محترم صاحبزادہ (حضرت مرزا طاہر احمد ) صاحب نے اشتہار ” اہل اسلام کی فریاد سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک فارسی نظم پڑھ کر سنائی جس میں ایک مسلمان کو قرآن کریم سے متعلق ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اس کی خدمت پر کمر بستہ ہونے کی تحریک فرمائی ہے اور جماعت احمدیہ کے افراد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے مسیح موعود کے غلامو اور آپ کی محبت کا دعوی کرنے والو! تم کہاں ہو؟ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہو.آگے بڑھو! اور قرآن کریم کی خدمت میں اپنی ہر متاع عزیز کو پیش کر دو.اس آواز کو سنو جو قرآن کریم سے اٹھ رہی ہے.محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے صحابہ کے بعد
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 315 فضائل قرآن کریم ۶۸۷۹۱ اس زمانہ میں پھر یہ آواز بلند ہورہی ہے کہ مَنْ اَنْصَارِی إِلَى اللهِ (الصف:۵۱) خدا کے قریب لے جانے والے کاموں میں میرا کون مددگار ہے؟ تم اس آواز کو سنو اور اس پر لبیک کہو اور نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ (الصف: ۵۱) (ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں) کے نعرے سے اتنی بلند آوازیں لگاؤ کہ زمین و آسمان گونج اٹھے اور اس خلوص سے بلند کرو کہ زمین کا ذرہ ذرہ تھرا اٹھے.تم قرآن کریم کے نور سے اپنے سینوں کو منور کرو اور پھر اس کا ئنات کو اس کے نور سے ایسی حسین بنا دو کہ تاریکی کا نام ونشان مٹ جائے.خدا کرے کہ لوگ قرآن کریم کی قدر کو پہچانیں.ہر دل میں قرآن کریم کا عشق پیدا ہو اور ہر صاحب دل اس کی برکات سے نوازا جائے.آمین روزنامه الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۷۹ء)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 317 غزوات النبوی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء غزوات النبی میں خلق و (غزوہ احد ) ( بر موقع جلسہ سالانہ ۱۹۷۹ء) وَكَأَيِّنْ مِنْ نَّبِيِّ قَتَلَ مَعَهُ رِبَّيُّوْنَ كَثِيرٌ ۚ فَمَا وَهَنُوْا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ وَمَا ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَكَانُوا وَاللهُ يُحِبُّ الصَّبِرِينَ وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (آل عمران: ۱۴۷- ۱۴۸) ترجمہ: اور بہت سے نبی ایسے ( گزرے) ہیں جن کے ساتھ شامل ہوکر (ان کی ) جماعت کے بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی.پھر نہ تو وہ اس ( تکلیف) کی وجہ سے جو انہیں اللہ کی راہ میں پہنچی ست ہوئے نہ کمزوری دکھائی اور نہ تذلل اختیار کیا.یقینا اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.سوائے اس کے انہوں نے کچھ (بھی) نہ کہا کہ (اے) ہمارے رب ہمارے قصور بخش اور اعمال میں ہماری زیادتیاں معاف فرما دے اور ہمارے قدموں کو مضبوط کر اور کافروں کے خلاف ہماری مدد کر.اس پر اللہ نے انہیں دنیا کا بدلہ (بھی) اور آخرت کا بہترین بدلہ (بھی) دیا.اللہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت محسنوں سے محبت کرتا ہے.318 غزوات النبوی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء حقیقت تو یہ ہے کہ آنحضور کی سیرت کا موضوع ایک بے کنار سمندر ہے.جس کا سفر کبھی مکمل نہیں ہوسکتا.آپ کی سیرت کا ہر واقعہ تہ بہ تہحسن اپنے اندر رکھتا ہے.اس لئے کئی بار بھی اگر ایک ہی واقعہ کو دہرایا جائے تو غور کرنے سے سیرت کا کوئی نہ کوئی پہلو سامنے آجاتا ہے.گویا آنحضور کی ذات پر یہ شعر خوب صادق آتا ہے کہ جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا یعنی اے ہمارے محبوب ہم نے تو ہر دفعہ تجھے ایک نئی شان اور نئی آن بان کے ساتھ جلوہ گر پایا.ہر بار تجھے دیکھنے پر حسن کا ایک نیا عالم دیکھا.تیری سیرت کے بے کنار سمندر میں مشتاق آنکھوں کا سفر کبھی ختم نہیں ہوسکتا.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سپہ سالار کی حیثیت سے پیشتر اس سے کہ غزوات کے شدید آزمائشوں کے دوران آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق عظیم کا روح پرور تذکرہ کیا جائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان حالات پر کچھ نظر ڈالی جائے جن میں آپ کو یہ جنگ لڑنی پڑی اور آپ کی ان استعدادوں کا بھی کچھ ذکر چلے جو ایک عظیم سپہ سالار کی حیثیت سے اس غزوہ کے دوران اس شان سے ابھر کر سامنے آتی ہیں کہ دیکھنے والے کی نظر کو خیرہ کر دیتی ہیں اور تعجب سے نگاہ اس حیرت انگیز وجود کو دیکھتی ہے جو اول و آخر ایک مصلح تھا جسے جنگ سے کوئی سروکار نہ تھا.لیکن جب حالات کی مجبوری نے اسے جنگ کے میدان میں لا کھڑا کیا تو اس میدان میں بھی سیادت کی ایسی نرالی شان اس سے ظاہر ہوئی جو معجزے سے کم نہیں.ہجرت کے تیسرے سال کا ذکر ہے، شوال کا مہینہ تھا ، چاند اپنی بارہ منزلیں طے کر چکا تھا کہ اچانک یہ خوفناک خبر اہل مدینہ کو ملی کہ کفار مکہ کا ایک زبر دست لشکر جو قریش کے چوٹی کے لڑنے پر مشتمل ہے مدینہ پر حملہ کی غرض سے سر پر آپہنچا ہے.تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہ لشکر تین ہزار جوانوں پر مشتمل ہے جو ہر طرح کے ہتھیاروں سے آراستہ ہیں اور جنگ بدر کی ذلت ناک شکست کا والوں پر
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 319 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء انتقام لینے کے لئے اس نیت سے گھر سے نکلے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کو کلیہ نابود کر دینے کے بعد ہی وہ واپس لوٹیں گے.بکثرت اونٹوں کے علاوہ دو سو بہترین جنگی گھوڑے بھی ان کے ساتھ تھے جنہیں خاص اسی مقصد سے تربیت دے کر خوب تیار کیا گیا تھا.اس لشکر کی کمان ابوسفیان کے ہاتھ میں تھی جس کے نائبین میں افق حرب پر ابھرنے والا ایک ایسا جو ہر قابل بھی تھا جسے آج ہم اللہ کی تلوار خالد بن ولیڈ کے نام سے جانتے ہیں.لیکن جن دنوں کی ہم بات کر رہے ہیں ان دنوں ابھی یہ تلوار مالک حقیقی کے ہاتھ میں نہیں بلکہ خداوندان باطل اہل ھبل کے ہاتھ میں تھی.لشکر کفار کے دائیں بازو کے سالا راس نوجوان خالد کی بعد کی زندگی پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایسی حیرت انگیز جنگی استعدادوں کا مالک تھا کہ کم ہی ماؤں نے دنیا میں ایسے بچے جنے ہیں جو اس جیسے فنون حرب کے دھنی ہوں.خالد بن ولید ایک پیدائشی سپہ سالار تھے جو فن حرب کی حیران کن استعدادیں لے کر پیدا ہوئے اور ان تمام قائدانہ صلاحیتوں سے نوازے گئے جن کی میدان جنگ میں کسی قائد کو کسی رنگ میں ضرورت پیش آسکتی ہے.تمام زندگی خالد کو کوئی مد مقابل ایسا نہ ملا جوان کی حیرت انگیز شاطرانہ جنگی چالوں کو سمجھ سکا ہو.خالد میدان جنگ میں مہروں کی ایک ایسی بساط سجاتے تھے جسے کوئی مدمقابل مات نہ دے سکا.بلاشبہ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو تاریخ عالم میں خالد کا ہم پلہ جرنیل شاذ ہی کوئی پیدا ہوا ہوگا.عظیم سلطنت روما اور عظیم تر فارس کے بڑے بڑے آزمودہ کا راور کہنہ مشق جرنیلوں نے جب خالد سے زور آزمائی کی، اپنی بے پناہ شان و شوکت اور لشکر آرائی کے باوجود وہ خالد کی قیادت میں لڑنے والی مٹھی بھر فوج کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کھانے پر مجبور ہوئے.جب تک وہ زندہ رہا حرب کی دنیا میں اس جیسا کسی نے کوئی اور نہ دیکھا.جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوا تو جریدہ عالم پر اپنی بے مثل سپہ گری کا ایسا نقش ثبت کر گیا جو دائمی اور انمٹ ہے.بے شک تاریخ عالم پر نظر دوڑا کر دیکھیں اس جیسا زیرک اور حوصلہ مند اور جنگ کی باریک در بار یک حکمتوں کو سمجھنے والا شاید ہی کوئی دکھائی دے جو بار بار بے سروسامانی اور کم مائیگی کی حالت میں دنیا کی عظیم طاقتوں سے ٹکرایا ہو اور ہر بار ان کی عظیم پر ہیبت جمعیتوں کو ذلت ناک شکست دے کر پراگندہ اور پریشان نہ کیا ہو.خالد کی یہ سب تعریف درست اور بے خطا ہے، اس میں مبالغہ کا کوئی عنصر شامل نہیں مگر ایک بار ہاں اس کی ساری زندگی میں صرف ایک باراس
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 320 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء ابھرتے ہوئے جرنیل کا مقابلہ دنیا کے کسی جرنیل سے نہیں بلکہ اللہ کے ایک بندے اور اس کے رسول محمد سے ہوا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو دنیائے حرب کا نہیں بلکہ امن کی دنیا کا شہزادہ تھا.اسے شمشیر وسنان اور تیر و تفنگ سے کوئی علاقہ نہ تھا.وہ دنیا میں محض اپنے رب کا نور پھیلانے اور اس کی محبت کے لافانی گیت گانے کے لئے آیا تھا.وہ اس لئے آیا تھا کہ اس کی رحمت کے سائے افق تا افق محیط ہو جائیں اور کل عالم کے شرقی اور غربی ، کالوں اور گوروں کو اپنی رحمت کے پر امن اور ٹھنڈے سائے تلے لے لے.معرکہ احد کا دن خالد کی زندگی کا وہ سب سے تاریک دن تھا جب اس کا مقابلہ رب جلیل کے بندہ جلیل محمد مصطفی سے احد کی سنگلاخ سرزمین پر ہوا.اس روز اس کی حکمت اور تدبیر کا سارا تانا بانا ٹوٹ کر بکھر گیا.اس کی ہر مخفی تدبیر اللہ کے اس ذکی و فہیم بندے پر روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی جو بظاہر انسان کی آنکھ سے دیکھتا تھا لیکن فی الحقیقت اسے خدا کا نور بصیرت عطا ہوا تھا.بلاشبہ خالد کو اپنی ساری زندگی کسی کے ہاتھوں کبھی ایسی ذلت اور خواری نصیب نہ ہوئی کہ اس کی ہر ماہرانہ چال کو سمجھ کر اس سے بہتر چال چل دی گئی ہوا اور نمایاں عددی اکثریت اور غالب عسکری قوت کے باوجود وہ آخری غلبہ سے محروم کر دیا گیا ہو.سب سے اہم اور بنیادی اور سخت حیران کن بات جو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت عملی کی تھی وہ میدان جنگ کے انتخاب سے تعلق رکھتی ہے.میدان کا تعجب انگیز انتخاب مکه، مدینہ کے جنوب میں تقریباً اڑھائی صد میل کے فاصلہ پر واقع ہے اور بظاہر عقل یہی تقاضا کرتی ہے کہ مکہ سے مدینہ پر حملہ کرنے والا لشکر جنوب کی جانب سے مدینہ پر حملہ کرے گا لیکن حملہ آور قریش سرداروں نے جن کے فیصلوں میں خالد بن ولید ایسے زیرک ماہر حرب کی رائے کو بڑا دخل تھا ، مدینہ کے قریب پہنچ کر سیدھا اس کی طرف بڑھنے کی بجائے اسے اپنے بائیں ہاتھ چھوڑ دیا اور مشرق کی طرف سے بڑھتے ہوئے تقریباً چار میل شمال میں پہنچ کر احد پہاڑ کے قریب پڑاؤ کیا.اس میدان کو منتخب کرنے کی وجوہات کی تفصیلی بحث تو تاریخ میں نہیں ملتی ہاں اس امر کا ذکر ضرور آتا ہے کہ لشکر کفار جہاں تھا وہاں انصار کی کھیتی باڑی کے میدان بھی تھے اور کفار کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 321 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء ان کھیتوں کو اجاڑے جانے کی خبر سے اہل مدینہ مجبور ہو جائیں کہ شہر سے باہر نکل کر کفار کے منتخب کردہ میدان میں ان کا مقابلہ کریں.مسلمانوں کو اپنے شہر سے چند میل کے فاصلے پر نکل کر لڑنے پر مجبور کرنے میں بعض گہری فوجی چالیں مخفی تھیں اور متعدد فوائد حاصل ہونے کی توقع تھی اور حکمتوں کے علاوہ غالباً ایک یہ بھی حکمت ان کے پیش نظر تھی کہ اس پوزیشن میں لڑنے سے کفار کے بھاگ اٹھنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہونی تھی.جنگ بدر کی شدید ہزیمت کی یاد بھی کفار کے دلوں میں تازہ تھی.اگر ان کے منہ مدینہ کی طرف ہوتے اور مکہ عقب میں ہوتا.تو جیسا کہ جنگ بدر میں ہوا پیچھے فرار کی کھلی راہ دیکھ کر اس بات کا پورا احتمال تھا کہ مسلمانوں کے شدید جوابی حملے سے بوکھلا کر ایک دفعہ پھر مشرکین مکہ راہ فرار اختیار کرنے میں جلدی کرتے لیکن مدینہ کو سامنے رکھ کر اور احد پہاڑ کو اپنی پشت پر رکھ کر یہ احتمال کم ہو جاتا تھا.مسلمان فوج سامنے ہونے کی صورت میں ان کو مغلوب کئے بغیر مکہ کی طرف بھاگنا ممکن نہ تھا اور اگر مسلمان مغلوب ہو جاتے تو فرار کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی تھی.اس سے بڑھ کر فائدہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو مدینہ سے اتنے فاصلے پر آکر لڑنا پڑتا تھا کہ میدان جنگ مدینہ سے ملحق بھی نہ تھا اور اتنی دور بھی نہیں کہ اگر خطرہ در پیش ہو تو بھاگ کر مدینہ جانے کا خیال ہی دل میں پیدا نہ ہو سکے.اس صورتحال کے نتیجہ میں کفار کا یہ تخمینہ لگانا بعید از قیاس نہیں تھا کہ اگر مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ جائیں اور بھاگتے ہوئے مدینہ میں داخل ہوں تو کفار سپاہی بھی ان کے ساتھ ہی حملہ کرتے ہوئے مدینہ میں داخل ہو سکتے تھے اور مدینہ کی چھتوں پر جو پتھر اس خیال سے جمع کئے گئے تھے کہ اگر دشمن شہر میں داخل ہو تو اس پر عورتیں اور بچے شدید پتھراؤ کریں گے وہ مقصد مسلمانوں کو حاصل نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ جب دشمن کی فوج دفاعی فوج کے ساتھ ملی جلی شہر میں داخل ہو رہی ہو تو اس پر پتھراؤ کرنا ممکن نہیں رہتا.دوسرا امکانی فائدہ کفار کو یہ پہنچ سکتا تھا اور غالبا یہی ان کا اصل مدعا تھا کہ وہ مسلمانوں کا مکمل گھیراؤ کرنا چاہتے تھے.ان کے پاس دو سو گھوڑے تھے جب کہ مسلمانوں کے پاس صرف دو گھوڑے تھے.پس اگر مسلمان مدینہ سے تین چار میل شمال کی جانب آکر لڑتے تو ان کے اور مدینہ کے درمیان اتنا فاصلہ رہ جاتا کہ ان کا عقب محفوظ نہ رہتا اور اہل مکہ کا گھوڑ سوار جنگی دستہ جب چاہتا بجلی کی سی تیزی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 322 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء کے ساتھ ان کے عقب میں پہنچ کر ان کو مکمل گھیرے میں لے لیتا.لازما گھوڑ سوار دستہ کا یہ حملہ مسلمانوں کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا تھا.پس غالب گمان یہی ہے کہ ان کا دراصل یہی مقصد تھا.اگر چہ جس طرح وہ چاہتے تھے یہ مقصد بعینہ اسی طرح ان کو حاصل نہ ہو سکا لیکن شروع جنگ ہی سے خالد بن ولید کا بار بار گھوڑ سوار دستوں کے ساتھ مسلمانوں کے عقب میں پہنچنے کی کوشش کرنا صاف بتا رہا ہے کہ میدان کے اس انتخاب میں کفار کا اولین مقصد یہی تھا کہ مسلمانوں پر عقب سے حملہ کیا جائے اور خالد بن ولید ہی اس سکیم کے بانی مبانی تھے کیونکہ شروع سے آخر تک یہ دھن جنون کی طرح انہی پر سوار رہی.بہر حال سالاران کفار نے اپنی دانست میں میدان کا ہر پہلو سے بہترین انتخاب کیا لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فراست کے سامنے ان کی یہ تدبیرا کارت گئی.کوئی شخص یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ کسی شہر کا کوئی دفاع کرنے والا ایسا بھی ہو سکتا ہے جو اپنے شہر کی سمت تو خالی چھوڑ دے اور حملہ آور دشمن کے دوسری طرف جا کر ایسی پوزیشن اختیار کرے کہ اس کے اور اس کے شہر کے درمیان دشمن حائل ہو جائے.لہذا اسی خیال کو بعید از قیاس خیال کرتے ہوئے کفار مکہ نے احد کے بالکل دامن میں اترنے کی بجائے اتنے فاصلے پر پڑاؤ کیا کہ ان کے اور احد پہاڑ کے درمیان اتنی کھلی جگہ بچ گئی کہ جس میں بآسانی ایک اور لشکر بھی سما سکتا تھا.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب جائزہ کے لئے نمائندہ بھیجا تو اس کی رپورٹ پر آپ نے یہ حیرت انگیز فیصلہ فرمایا کہ مدینہ کی سمت خالی چھوڑ کر دشمن کے پر لی طرف پڑاؤ کیا جائے.لیکن اس ارادہ کو آنحضور نے مدینہ سے رخصت ہوتے وقت کسی پر ظاہر نہ فرمایا بلکہ کچھ راستہ طے کرنے کے بعد صحابہ سے یہ سوال کیا کہ کون ہے جو ہمیں ایسے راستے سے دشمن کے پر لی طرف اُحد کے دامن میں لے جائے کہ دشمن کو اس کی خبر نہ ہو.یہ تو وہی بتا سکتا ہے جو تمام دنیا کی جنگی تاریخ پر عبور رکھتا ہو کہ کیا کسی جگہ دنیا کے کسی جرنیل نے بھی ایسا غیر معمولی فیصلہ کیا کہ اپنے شہر کے راستے دشمن کے لئے خالی چھوڑ کر اس کی پرلی طرف اپنی فوج کو لے گیا ہو اور لطف یہ کہ یہ فیصلہ ہر لحاظ سے درست ثابت ہوا ہو اور کھلا ہونے کے باوجود وہ شہر بھی دشمن کے حملہ سے محفوظ رہا ہو.جب تک کوئی انتہائی باریک نظر سے اپنی اور دشمن کی فوج کی تعیناتی کیفیات اور دیگر حقائق کا صحیح مطالعہ نہ کر چکا ہوا ایسا فیصلہ ناممکن ہے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 323 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء جہاں تک میں نے نظر ڈالی ہے مجھے انسانی جنگوں کی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی.بظاہر یہ ایک خطرناک فیصلہ تھا.لیکن بنظر غائر دیکھو تو دراصل یہی وہ فیصلہ تھا جس نے لشکر قریش کے سب منصوبے خاک میں ملا دیئے اور جنگ کے شروع کے ایک دو گھنٹے ہی میں مسلمانوں کو ان پر ایک نمایاں فتح حاصل ہوئی.احد کی لڑائی سے پہلے تو کسی کے وہم وگمان میں بھی اس کی حکمتیں نہیں آسکتیں تھیں.لیکن اب جبکہ تاریخ نے بعد کے پیش آمدہ واقعات کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے رکھ دیئے ہیں صاف نظر آجاتا ہے کہ آنحضور کا یہ فیصلہ فن حرب کی حکمت عملی کی ایک ایسی درخشندہ مثال ہے جس کی راہ میں اگر ایک اور نا گہانی روک حائل نہ ہو جاتی تو اس روز بغیر کسی قابل ذکر نقصان کے مسلمانوں کو کفار پر ایک فتح نمایاں نصیب ہو جاتی.احد کو اپنے عقب میں رکھ کر آنحضور نے اپنی مختصر فوج کو جو دشمن کے تین ہزار جوانوں کے مقابل پر صرف سات صد تھی اور دوصد سواروں کے مقابل پر صرف دو سواروں پر مشتمل تھی.جنگی نوعیت کی متعدد فوقیتیں دلوا دیں.اوّل: یہ فیصلہ کشتیاں جلانے کے مترادف حالات پیدا کر رہا تھا.اس بات کا اعلان تھا کہ مسلمانوں کے لئے دوران جنگ مدینہ میں بغرض پناہ داخل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.دوم : کفار کی سوار فوج کے لئے اپنی تیز رفتاری سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو گھیرے میں لینے یا عقب سے حملہ کرنے کا امکان ختم ہو گیا.صرف ایک درہ مسلمانوں کی پشت پر ایسا تھا جس کے راستہ دشمن کے سوار مسلمانوں کے پیچھے سے حملہ آور ہو سکتے تھے لیکن وہاں آنحضور نے پچاس بہترین تیراندازوں کا ایک دستہ حضرت عبد اللہ بن جبیر کی قیادت میں اس ہدایت کے ساتھ متعین فرما دیا کہ تم نے ہر قیمت پر اس درہ کی حفاظت کرنی ہے یہاں تک کہ اگر مسلمانوں کو فتح بھی ہو جائے تب بھی اس کی حفاظت کرنی ہے اور شکست ہو جائے تب بھی اس کی حفاظت کرنی ہے.یہاں تک کہ آنحضور نے اس دستے کو وہیں جمے رہنے اور وہاں سے کسی حالت میں نہ ملنے کی ایسی سخت تاکید فرمائی اور حکم دیا کہ اگر تم یہ بھی دیکھو کہ مسلمانوں کی لاشوں کو کوے اور چیلیں نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں تب بھی اس درہ کو نہیں چھوڑ نا اور جب تک میں خود اجازت نہ دوں یہاں سے نہیں ہٹنا.آغاز جنگ ہی سے بار بار خالد بن ولید کا اس درہ پر حملہ کر کے ان تیراندازوں کو مغلوب کرنے کی کوشش کرنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 324 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء شروع ہی سے خالد کی سکیم یہی تھی کہ مسلمانوں کے عقب سے ان پر حملہ کیا جائے اور اس دوطرفہ حملے سے انہیں کلیہ نابود کر دیا جائے.لیکن آنحضور کے انتخاب میدان اور تیراندازوں کی انتہائی برحل تقرری کی بناء پر اس کی سب تدبیریں خاک میں مل گئیں.سوم : ایک احتمال یہ ہو سکتا تھا کہ کفار مکہ صورتحال سے فائدہ اٹھا کر مدینہ پر حملہ آور ہو جاتے مگر آنحضور جانتے تھے کہ اول تو مدینہ کی تنگ گلیوں میں اس طرح داخل ہونا کوئی آسان کام نہیں تھا جب کہ چھتوں پر سے مسلمان عورتیں اور بچے پتھروں کی بارش برسا رہے ہوں.دوسرے ایسی صورت میں کفار مکہ خود دونوں طرف سے مصیبت سے گھر جاتے.ایک طرف سے مدینہ ان پر پتھراؤ کر رہا ہوتا تو دوسری طرف سے مسلمان اس کے عقب سے حملہ آور ہوتے.آنحضور کو مسلمانوں کی حمیت اور غیرت پر بھی کامل اعتماد تھا اور جانتے تھے کہ اگر دشمن نے مدینہ کی طرف بدارا دے سے نظر ڈالی تو صحابہ پہلے سے بڑھ کر جوش کے ساتھ ایسی بپھری ہوئی شیرنی کی طرح اس پر حملہ کریں گے جس کے بچوں کو خطرہ درپیش ہو.پس جہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس احتمال سے پوری طرح باخبر تھے کہ دشمن مدینہ کو کھلا دیکھ کر اس پر حملہ کر سکتا ہے وہاں ایسی صورت میں اس سے مؤثر طور پر نپٹنے کے لئے بھی پوری طرح تیار تھے اور ایک ذرہ بھی اس بات سے مرعوب نہ تھے کہ آپ کی قلیل جماعت دشمن کی کثیر فوج کو کس طرح مدینہ پر حملہ سے باز رکھ سکے گی.واقدی بیان کرتا ہے کہ جنگ احد کے فوراًبعد کفار کی فوج میدان چھوڑ کر بظا ہر مکہ کی جانب کوچ کر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے فرمایا کہ ذراتم جا کر ان کی خبر لاؤ کہ یہ کوچ کرتے ہیں یا ہمیں دھوکہ دے کر کوچ کے بہانے سے مدینہ پر چڑھائی کرنا چاہتے ہیں اور اس ذات پاک کی قسم ہے کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر یہ لوگ مدینہ پر دھاوا کریں گے تو میں ان کے مقابلہ میں ضرور جاؤں گا اور انکی شرارت کا بدلہ ان کو ابھی ہاتھوں ہاتھ چکا دونگا.( شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۳۹۵) پس ۳۱ مارچ ۶۲۴ء کو بمطابق ۱۵ شوال ۲ ھ جب قلیل التعداد مسلمان فوج اور کفار کی کثیر فوج میں ٹکر ہوئی تو آنحضور کے اس انتہائی مدبرانہ جنگی اقدام کی فوقیت خوب کھل کر سامنے آگئی اور مسلمان اس یقین کی بناء پر خوب بے فکری اور بے جگری کے ساتھ دشمن پر حملہ آور ہوئے کہ ان کا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 325 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء عقب پوری طرح محفوظ تھا یعنی پیچھے سے حملہ کا کوئی خطرہ باقی نہ رہا تھا.دوسری طرف کفار پر اپنی تدبیر کی ناکامی سے مایوسی سی چھا گئی اور صحابہ کے شدید حملے نے بہت جلد ان کے قدم اکھیڑ دیئے.افسوس کہ اس وقت درہ کے محافظین میں سے اکثر نے آنحضور کی واضح ہدایت فراموش کر دی اور صحابہ کو فتح مند ہوتے اور دشمن کو شکست کھا کر بھاگتے ہوئے دیکھ کر ان پچاس تیراندازوں میں سے چالیس درہ چھوڑ کر پیچھے اتر آئے اور ان کی یہ غلطی مسلمانوں کی فتح مبین کو ایسے پر خطر حالات میں تبدیل کر گئی کہ اگر آنحضور کی قیادت کی سعادت انہیں نصیب نہ ہوتی تو یقیناً ان کی یہ عارضی فتح ایک انتہائی ہولناک شکست میں تبدیل ہو جاتی اور وہ سب کے سب اس روز صفحہ ہستی سے نابود کر دئیے جاتے.ان حالات پر نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ جہاں مسلمانوں کی ابتدائی فتح کلیه آنحضور کے حسن تدبر اور آپ کی بابرکت قیادت کی طرف انگلی اٹھارہی ہے وہاں یہ احتمال شکست بھی آنحضور ہی کی عظمت کے گیت گا رہا ہے اور ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ بسا اوقات فتح وشکست کا انحصار لڑنے والی سپاہ کے جوش اور ولولے اور مادی قوت سے کہیں زیادہ ایک عظیم سپہ سالار کی حکیمانہ قیادت اور اس کی غلامانہ اطاعت پر منحصر ہوا کرتا ہے.خصوصاً آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت تو مسلمان کی فلاح کے لئے ایسی ضروری ہے جیسے سانس زندگی کے لئے.دیکھو! کس طرح آپ کی اطاعت نے جو شاندار فتح عطا کی تھی چند لوگوں کی چندلحوں کی نافرمانی نے اسے کیسی خوفناک شکست میں تبدیل کر دینے کے سامان پیدا کر دیئے.لیکن حقیقی زندگی کا یہ حیرت انگیز ڈرامہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا.ایک اور منظر سے بھی پردہ اٹھنا ابھی باقی ہے جس میں ہم بظاہر انہونی بات کو ہوتا ہوا دیکھیں گے کہ صرف اور صرف ہمارے آقا آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دم قدم کی برکت سے حالات نے ایک دفعہ پھر انقلابی پلٹا کھایا اور یہ یقینی شکست ایک بین فتح میں تبدیل ہو گئی.آپ بے شک تاریخ عالم کے سب اوراق کی ورق گردانی کر کے دیکھ لیجئے آپ کو ایک بھی مثال ایسی نظر نہیں آئے گی کہ کسی کثیر التعداد جماعت کو کسی قليل التعداد جماعت پر کامل غلبہ کے اتنے یقینی حالات میسر آگئے ہوں لیکن پھر بھی وہ فتح سے محروم کر دی گئی ہو اور اس حال میں واپس لوٹے کہ گویا خائب و خاسر اور نامراد ہے اور انتقام کی آگ اسی طرح اس کے سینہ میں بھڑک رہی ہو جیسے پہلے تھی.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت ہو 326 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء جنگوں میں اونچ نیچ اور زیر و بم تو آتے ہی رہتے ہیں لیکن کم ہی کوئی مثال ایسی دکھائی دے گی کہ ایک ایسی شاندار فتح جو مسلمانوں کو آغاز احد میں نصیب ہوئی ایک ایسی پر خطر اور پر آشوب شکست میں بدلتی دکھائی دے کہ ابھی چند ہی لمحے قبل جو فوج اپنے کامل غلبہ کا جشن منارہی ہووہ اچانک اس درجہ مغلوب اور بے بس اور پراگندہ اور بے ثبات ہو جائے کہ اس کے صفحہ ہستی سے کلیہ نابود ہونے کا خطرہ درپیش ہو.احد کے روز ایک ایسی ہی انقلابی تبدیلی رونما ہوئی جب اطاعت رسول کے طفیل حاصل نے والی فتح چند افراد کی حکم عدولی کے باعث یکا یک ایک ایسی ہولناک شکست میں تبدیل ہو جانے کوتھی جو تاریخ انسانی کا رخ پلٹ دینے کی صلاحیت رکھتی تھی.اللہ کی تقدیر تو جو چاہے کر سکتی ہے اور یہ اسی کی تقدیر تھی جس نے بالآخر ان حالات کا رخ پلٹ دیا لیکن اگر محض ایک مؤرخ کی آنکھ سے دیکھا جائے تو ان نگہبانوں کی غلطی جنہوں نے آنحضور کی اجازت کے بغیر درہ کی حفاظت چھوڑ دی تاریخ عالم کی سب سے زیادہ مہنگی اور ہلاکت خیز غلطی ثابت ہو سکتی تھی جس کے نتیجے میں اسلام اور اہل اسلام صفحہ ہستی سے مٹ کر ایک قصہ پارینہ بن سکتے تھے اور دنیا ایک ایسی تاریک رات میں ڈوب سکتی تھی جسے تا ابد پھر کوئی سورج روشنی بخشنے کے لئے طلوع نہ ہوتا.ایک ایسی تاریک رات بنی نوع انسان پر مسلط ہو جاتی جس کے چاند تارے بھی ہمیشہ کے لئے بجھ چکے ہوتے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ان پچاس محافظین نے جب اپنے تئیں وہ مقصد پورا کر دیا جس کی خاطر انہیں درہ پر مامور کیا گیا تھا اور دشمن کی یلغار کواپنے تیروں کی بوچھاڑ سے ناکام بنادیا جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کو مکمل فتح نصیب ہو چکی ہے اور وہ مال غنیمت لوٹنے میں مصروف ہیں ، جب انہوں نے محسوس کیا کہ اب مزید اس درّہ پر بے کارکھڑے رہنا ایک فعل عبث ہے تو ان میں سے اکثر کے دل پھسل گئے اور اپنے سردار حضرت عبداللہ بن جبیر سے حجت کرنے لگے کہ اب درہ چھوڑ کر نیچے اتر جانا چاہئے اور مال غنیمت میں حصہ لینا چاہئے.انہوں نے بہت سے دلائل دیئے کہ آنحضور کا اصل مدعا تو پورا ہو چکا ہے اس لئے اب درّہ کو خالی چھوڑ دینا آپ کے منشاء کے خلاف نہیں لیکن حضرت عبداللہ بن جبیر نے ان کی ایک نہ مانی اور اس تجویز کو یہ کہہ کر صاف ٹھکرادیا کہ یہ آنحضور کی ہدایات کے صریح خلاف ہے.افسوس کہ اجازت مانگنے والوں کے سر میں اس وقت کچھ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 327 غزوات النبی میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء ایسا سودا سمایا کہ اپنے سردار کی اجازت کے بغیر ہی جگہ چھوڑ کر چلے گئے.صرف چند جاں نثار اور وفا کیش صحابہ اپنے سردار کے ساتھ اطاعت رسول کی برکت سے فوز عظیم پانے کے لئے پیچھے رہ گئے.شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۳۰۷) اس وقت اگر چہ کفار کی فوج میں ایک عام بھگڈ ریچ چکی تھی اور کیا پیادہ اور کیا گھوڑ سوار بھی میدان چھوڑ کر بھاگ رہے تھے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ خالد کے دل کی یہ حسرت ابھی مایوسی میں نہیں بدلی تھی کہ کسی طرح اسی درہ پر عبور حاصل ہو جائے جو فتح وشکست کا فیصلہ کن دروازہ بنا ہوا تھا.خالد خوب جانتا تھا کہ جب تک یہ دروازہ قائم ہے قریش حملہ آور فتح کے میدان میں قدم نہیں رکھ سکتے.پس معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھاگتے ہوئے بھی بار بار مڑ مڑ کر اس درہ پر لالچ بھری نگاہیں ڈال رہا تھا.اچانک اس نے یہ دیکھا کہ درہ کے محافظین کی اکثریت جگہ خالی کر گئی ہے، اچانک اس کے دل کی مراد بر آئی اور اس کی تیز عقابی نظر نے بھانپ لیا کہ جوابی حملہ کا وقت آپہنچا ہے.سالاران جیش کی زندگی میں شاذ ہی ایسے سنہری موقع آتے ہیں جیسے اس وقت خالد کو نصیب ہوا چنانچہ اس نے دفعہ اپنے گھوڑ سوار دستے کا رخ پلٹ دیا اور اطاعت اور وفا کے پہلے حضرت عبداللہ بن جبیر اوران کے چند ساتھیوں کو شہید کرتا ہوا مسلمانوں کی پشت پر حملہ آور ہو گیا.یہ دیکھ کر کفار کی دوسری بھاگتی ہوئی فوج بھی رک گئی اور معا پلٹ کر نئے سرے سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئی.پس اچانک انہوں نے دونوں طرف سے مسلمانوں کو بے خبری کے عالم میں جالیا.یہ دو طرفہ حملہ ایسا شدید اور اچانک تھا کہ اس نے صحابہ کو صف بندی کا موقعہ ہی نہ دیا اور بالعموم مسلمانوں کے پاؤں ایسے اکھڑے کہ پھر جمنے کا نام نہ لیتے تھے.آنحضور بھی چند صحابہ کے ساتھ میدان وغا کے وسط میں باقی لشکر سے کٹ کر الگ ہو چکے تھے.اس وقت دشمن کا سارا زور آپ کی ذات پر مرکوز ہو گیا اور چاروں طرف سے طوفانی لہروں کی طرح ایک کے بعد دوسری یلغار ہونے لگی.لڑائی کے میدان میں یہ حیرت انگیز ڈرامائی تبدیلی اگر چہ بڑے پر درد مناظر پیش کرتی ہے اور عشاق رسول کے سینوں پر درد کے آرے چلانے لگتی ہے لیکن ساتھ ہی آنحضور کی عظمت اور رفعت شان کے ایسے مناظر بھی دکھاتی ہے کہ نظر حیرت سے اس رفیع الشان وجود کو دیکھتی ہے جو ناممکن الوجود دکھائی دیتا ہے لیکن عالم خلق میں اس سے بڑھ کر یقینی اور کوئی وجود نہیں.وہ جن کی صفات
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 328 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء بشریت سے بالا نظر آتی ہیں لیکن درحقیقت وہ بشریت ہی کا معراج کامل تھا جونور میں مدغم ہو کر نو مجسم بن چکی تھی.لیکن فی الوقت ذکر آپ کی استعدادوں کا چل رہا ہے جو بحیثیت سپہ سالا راحد کے روز آپ کے وجود باجود میں ایک امتیازی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئیں.کسی سالارجیش کی استعدادوں کے امتحان کا اصل وقت تو اس وقت آتا ہے جب جنگ کا پلڑا پورے بوجھ کے ساتھ دوسری طرف جھک جائے اور اپنے پلڑے میں کچھ بھی وزن نہ رہے.جب تمام حالات کی نظریں بدل جائیں اور تمام موجبات مخالفانہ ہو جائیں.ایسے وقتوں میں عموماً سپہ سالار کی عظمت اسی امر میں بیان کی جاتی ہے کہ وہ سپاہیوں کی بھگدڑ سے بے نیاز تنہا میدان جنگ میں کود پڑے اور گوجسم پارہ پارہ ہو گیا ہولیکن اپنے عزم آپنی پر خراش تک نہ آنے دے.اسی قسم کے واقعات ہمیں انسانی جنگوں کی تاریخ میں بار ہا ملتے ہیں لیکن ایسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی جرنیل اپنی جان کی بازی اس عزم اور ہمت اور حکمت اور تدبر کے ساتھ لگا دے کہ میدان جنگ کی تقدیر بدل کر رکھ دے.اس روز احد کے میدان میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیادت میں یہی معجزہ رونما ہوا اور بڑی منفردشان کے ساتھ رونما ہوا.جیسے مخالفانہ حالات اچانک احد کے روز آنحضور کو پیش آئے ایسے حالات میں جنگ کی تقدیر کو ایک بار پھر پلٹ دینا کوئی معمولی بات نہ تھی.ذرا دیکھو تو سہی کہ اس وقت سرداران قریش کو مسلمانوں کے مقابل پر کیسی کیسی فوجی برتری حاصل تھی.وہ ایک ایسا موقع تھا کہ بڑے بڑے ماہرین حرب کی قیادت میں دوسو گھوڑ سوار، زرہ پوش، نیزه بردار جوان اور تین ہزار شمشیر بکف آزمودہ کا رسپاہی ایک ایسی فوج کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے تھے جو تعداد میں ان سے بہت کم تھی، جو ہتھیاروں اور ساز وسامان میں ان سے بہت کم تھی.وہ کم تعداد اور کم سامان ہی نہیں تھی بلکہ اس کی جمعیت بھی ٹوٹ کرایسی پراگندہ اور پریشان ہو چکی تھی جیسے چینی کا پیالہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے.وہ تو ایسے بکھرے اور پراگندہ ہو چکے تھے کہ بیشتر کو یہ بھی خبر نہ تھی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کہاں اور کس حال میں ہیں؟ دشمن کے اس شدید جوابی حملہ کے وقت حضور کے گرد جو چند صحابہ رہ گئے تھے وہ بھی حملہ آور دشمنوں سے نبرد آزما بسا اوقات دور دور تک نکل جاتے یا ان کے نرغے میں پھنس کر وہیں شہید
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 329 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء ہو جاتے.حتی کہ آنحضور بعض اوقات بالکل اکیلے رہ جاتے یا صرف دو تین فدائی آپ کے ساتھ ہوتے.آنحضور کے چوگرد اس وقت جنگ نے ایسی ہولناک شدت اختیار کر لی تھی کہ کسی مددگار کا آپ کے قریب پہنچنا یقینی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا.احد کی سرزمین سے قریش حملہ آوروں کی للکار اور بھری ہوئی قریش کی عورتوں کے رزمیہ اشعار سے ایک دہشت ناک شور بلند ہورہا تھا.یہ وہ عورتیں تھیں جن کے سینے جنگ بدر کے مقتولوں کی یاد میں جوش انتقام سے ہنڈیا کی طرح اہل رہے تھے.وہ یہ عزم لے کر نکلی تھیں کہ ان کا بس چلے تو غازیان بدر کے کلیجے نکال کر چہا جائیں.خالد بن ولید کی قیادت میں دوسو جنگجو سواروں کا دستہ مسلمانوں کی بکھری ہوئی پیادہ فوج کوگھوڑوں کے سموں تلے روندنے اور نیزوں میں پرونے میں مصروف تھا.ان کے بپھرے ہوئے جنگی گھوڑوں کے ہنہنانے اور زمین پر ان کی ٹاپوں کی آواز سے ایک وحشت ناک آواز بلند ہورہی تھی.ان سب مصیبتوں پر سوا یہ کہ کسی دشمن نے اچانک بآواز بلند یہ نعرہ لگایا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم مقتل کر دئیے گئے.اس شدید مصیبت کے وقت میں یہ اعلان مسلمانوں کے دلوں پر بجلی کی طرح گرا اور مجاہدین کا وہ حصہ جو پہلے ہی خوفزدہ اور سراسیما ہو چکا تھا یہ سن کر میدان سے فرار اختیار کر گیا.یہاں تک اس پر دہشت اور سراسیمگی کا عالم طاری تھا کہ قرآن کریم کے مطابق آنحضوران بھاگنے والوں کو پیچھے سے بلاتے رہے لیکن انہوں نے مڑ کر نہ دیکھا.عزم و حوصلہ اعلیٰ اخلاق ، بلند نظریات اور عظیم قائدانہ صلاحیتوں کی آزمائش کا یہی وقت ہوا کرتا ہے جبکہ مصائب کی یورش بڑے بڑے صاحب عزم انسانوں کے حوصلے پست کر دیتی ہے اور مصائب کی چکی ان کی ہمتیں نہیں ڈالتی ہے.لیکن آنکھ تعجب سے اس بات کا نظارہ کرتی ہے اور عقل حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتی ہے جب یہ دیکھتی ہے کہ سرداران ملکہ کو ان تمام جنگی فوقیتوں کے باوجود اور اپنی تمام بے پناہ استعدادوں کے ہوتے ہوئے بھی ایک محمد مصطفی پر فتح نصیب نہ ہوئی.ہاں وہ ایک ہی تو تھا میرا محبوب آقا ، لا فانی رسول جو ابدی زندگی کا حامل تھا.وہ ایک ہی تو تھا لا ثانی و تنہا احد کے میدان کا وہ بے مثل دلیر، مرد کامل، بار ہارسالت کا جھنڈا بلند کئے ہوئے اس حال میں اکیلا پایا گیا کہ غل مچاتی ہوئی مسرتوں نے ہر طرف سے اسے گھیرے میں لے رکھا تھا.لیکن وہ آسیب بیابانی کی طرح واویلا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 330 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء کرتی ہوئی نا کام اور خائب و خاسر لوٹ جاتی ہیں.مگر اس بطل جلیل ، مرد میدان عظیم خدا کے عظیم بندے محمد کے عزم کولرزاں وتر ساں نہ کرسکیں.وہ سر بفلک پہاڑوں کی طرح غیر متزلزل تھا.اس کے پائے ثبات لغزش کے نام سے نا آشنا تھے.خوف وہراس اس کے قدموں کی ٹھوکر سے پارہ پارہ ہو جاتے تھے.وہ یکا و تنہا مہیب خطرات میں کھڑا ہوا مسکرانا جانتا تھا.عکرمہ کا جوش انتقام اس کا کچھ بگاڑ نہ سکا.ابوسفیان کا غیظ و غضب جھاگ بن کر بکھر گیا.خالد کی ساری کوششیں بے کار گئیں، اس کی ساری استعداد میں مفلوج ہوگئیں.وہ اس حال میں میدان احد سے لوٹا کہ جنگ کے بنیادی مقاصد میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہو سکا تھا.موت کی ان ہولناک یورشوں سے محمد مصطفی کا زندہ نکل آنا گویا کفار کی سب امنگوں اور آرزوؤں کی موت تھی.لشکر اسلام کا پھر اس طرح دب کر ابھر آنا اور بکھر کر مجمع ہو جانا کہ میدان جنگ پر ڈوبتے دن تک وہی قابض رہے جب کہ بظاہر جیتا ہوا دشمن کوچ کر چکا تھا.کبھی کسی نے ایسی فتح وشکست پہلے نہ دیکھی تھی.پھر دیکھو کفار کی یہ کیسی فتح تھی کہ مسلمانوں کی مغلوب فوج کفار کی جیتی ہوئی فوج کا تعاقب کرتی ہوئی کوسوں دور نکل جاتی ہے.کئی منزلیں طے کرتی ہوئی اس کا پیچھا کرتی ہے لیکن اس جیتی ہوئی فوج کو یہ حوصلہ نہیں ہوتا کہ مڑکر اس زخمی شکار کا قضیہ چکا سکے.جسے وہ اپنی دانست میں ادھ موا کر کے پیچھے چھوڑ آئی تھی.میں سمجھتا ہوں کہ جنگ احد کے دوسرے ہی روز آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے زخمی لشکر کو دشمن کے تعاقب کا حکم دینا ایک ایسا حیرت انگیز واقعہ ہے کہ تاریخ عالم کی ورق گردانی کر کے دیکھ لو تمہیں اس کی کوئی مثال نظر نہیں آئے گی.جنگ و جدال کی دنیا میں حکمت و فراست اور جرات کا یہ ایک ایسا شاہکا رہے جو تاریخ کے افق پر سورج کی طرح چمک رہا ہے.تنہا ، روشن اور بے نظیر.غزوہ احد کے حالات کا کسی قدر تفصیلی جائزہ آئندہ صفحات پر پیش کیا جارہا ہے.قارئین ! جب ان واقعات سے گزر کر شام احد تک پہنچیں گے تو اس وقت اس امر کا جائزہ لینے کا صحیح موقع پیش آئے گا کہ آنحضور کا یہ فیصلہ کس قدر حیرت انگیز اور عقل کے لئے لا نخیل تھا کہ آپ لشکر اسلام کو یہ حکم صادر فرما دیتے ہیں کہ دشمن کا دور تک تعاقب کیا جائے گا.لیکن کسی نئے سپاہی کو ساتھ شامل ہونے کی اجازت نہیں دیتے فیصلہ یہ ہے کہ صرف وہی مجاہدین اس تعاقب میں حصہ لیں گے جو غزوہ احد میں شرکت کر چکے تھے.آنحضور کا یہ اقدام اس طرح باریک نظر سے تجزیہ کا محتاج ہے جس طرح بھنورا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 331 غزوات النبوی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء پھولوں سے چمٹ کر ان کے تہہ بہ تہہ حسن کا جائزہ لیتا ہے.اس دن لڑائی کے اختتام پر حالت یہ تھی کہ ایک طرف تو مسلمان مجاہدین جسمانی طور پر ہی نہیں جذباتی اور نفسیاتی طور پر بھی شدید زخمی تھے تو دوسری طرف لشکر کفار ایک ظاہری فتح کے باوجود سخت نا کامی اور نامرادی کا احساس لئے ہوئے لوٹ رہا تھا.جوں جوں کفار مکہ اس امر کا جائزہ لیتے تھے کہ جنگ کے اختتام پر انہوں نے کیا پایا اور کیا کھویا تو پہلے سے بڑھ کر اس بات کے قائل ہوئے جاتے تھے کہ عملاً ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا.نہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنے میں کامیاب ہو سکے نہ فتح مدینہ نصیب ہوئی ، نہ مسلمانوں کے اموال ان کے ہاتھ آئے اور نہ مسلمان عورتوں اور بچوں کو لونڈیاں اور غلام بنا سکے.ہر چند کہ مسلمان شہداء کی تعداد ان کے مرنے والوں سے زیادہ تھی لیکن تنہا یہی فوقیت ان کے کھولتے ہوئے سینوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے کافی نہ تھی.پس غلبہ کا وقتی نشہ اتر جانے کے بعد جب ٹھنڈے دل سے انہوں نے اپنے نفع نقصان کا جائزہ لیا تو احساس فتح احساس نامرادی میں بدل گیا اور اس نامرادی کی تلخی اس حد تک بڑھی کہ بالآخر انہوں نے یہ تہیہ کر لیا کہ مسلمانوں پر ایک مرتبہ پھر شدید حملہ کیا جائے اور جب تک مدینہ مکمل طور پر فتح نہ ہو جائے اور مسلمانوں کا پوری طرح استیصال نہ ہو جائے واپس مکہ نہ لوٹا جائے.اس ارادہ کے ساتھ انہوں نے چند منزلوں کے فاصلہ پر پڑاؤ کیا اور نئے حملہ کے بارہ میں باہم مشورے ہونے لگے.اب دیکھو! کیا یہ حد سے زیادہ تعجب کی بات نہیں کہ جس دشمن کو نیم جان اور کمزور اور بد حال سمجھ کر وہ اس کی قسمت کا آخری فیصلہ کرنے اور مکمل طور پر اُسے نابود کر دینے کے ہدارا دے لئے ہوئے باہم مشوروں میں مشغول تھے وہی زخمی اور لا چار دشمن خود ایک شکاری کی طرح ان کے تعاقب میں چلا آیا تھا اور کھلے میدان میں پڑاؤ کر کے ان کی واپسی کا منتظر تھا.جنگ اُحد کے دوسرے ہی روز آنحضور کا مجاہدین اسلام کو مجتمع کر کے دشمن کے پیچھے دُور تک نکل جانا اور تین دن ایک کھلے میدان میں اس کے انتظار میں پڑاؤ کئے رہنا ایک ایسا واقعہ ہے جس پر غور کرنے سے آنحضور کی بصیرت اور سیرت کے بعض نہایت لطیف اور دل نشین پہلو سامنے آتے ہیں.ا.مسلمانوں سے احساس شکست کو کلیۃ مٹانے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی اقدام ممکن نہ تھا کہ انہیں بلا توقف از سرنو مقابلہ کے لئے میدان قتال میں لے جایا جائے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 332 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء ۲.تازہ دم نو جوانوں اور نئے مجاہدین کو ساتھ چلنے کی اجازت نہ دے کر آنحضور نے قطعی طور پر یہ ثابت کر دیا کہ آپ ظاہری اسباب پر بھروسہ نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے اس دعوی اور یقین میں چے تھے کہ آپ کا اصل تو کل اپنے رب پر ہی ہے اور وہ یقینا آپ کی نصرت پر قادر ہے..اس فیصلہ کے ذریعہ آپ نے اپنے ان صحابہ کی دلداری فرمائی جن کے پاؤں میدان احد میں اُکھڑ گئے تھے اور ان پر اس مکمل اعتماد کا اظہار فرمایا کہ وہ درحقیقت پیٹھ دکھانے والے نہیں تھے بلکہ اچانک ناگزیر حالات سے مجبور ہو گئے تھے.جہاں تک میں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ انسانی جنگوں کی تاریخ میں ایک بھی مثال ایسی نظر نہیں آتی کہ کسی جرنیل نے اپنی فوج پر اتنے مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہو جبکہ وہی فوج صرف چند گھنٹے پہلے اُسے تنہا چھوڑ کر میدان سے ایسا فرار اختیار کر چکی ہو کہ چند جان شاروں کے سوا اس کے پاس باقی کچھ نہ رہا ہو.بلاشبہ ہر ایسے موقع پر ہمیں بالکل بر عکس معاملہ نظر آتا ہے اور یہی دیکھتے ہیں کہ بھاگے ہوئے سپاہیوں پر نہ صرف یہ کہ اعتماد نہیں کیا جاتا بلکہ چن چن کر ان کو فوج سے الگ کر کے سزائیں دی جاتی ہیں اور بھگوڑوں کی صف میں کھڑا کر کے ذلیل و خوار کیا جاتا ہے اور ان کی جگہ تازہ دم نئے سپاہیوں کو پیش آمدہ معرکوں میں شامل کیا جاتا ہے.-۴.یہ امر کہ آنحضور کا یہ سوفی صدی اعتماد درست تھا اور کوئی جذباتی فیصلہ نہ تھا اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ بلا استثناء احد کے وہ سب مجاہدین پورے عزم اور جوش کے ساتھ اس انتہائی خطر ناک مہم میں حضور کے ساتھ شامل ہوئے جن میں چلنے پھرنے کی سکت موجود نہ تھی اور کسی ایک نے بھی یہ کہ کرمنہ نہ موڑا کہ یہ ہم خود کشی کے مترادف ہے اور یہ اعتراض نہ کیا کہ ایک دفعہ بمشکل جان بچانے کے بعد پھر اس قومی اور جابر دشمن کے چنگل میں از خود پھنس جانا کہیں کی دانائی نہیں.پیچھے ہٹنے کا تو کیا سوال صحابہ کے جوش کا تو یہ عالم تھا کہ دوزخمی بھائیوں نے آپس میں یہ باتیں کیں کہ اگر چہ ہم سخت زخمی ہیں اور چلنا تک دُوبھر ہے اور ہمیں اجازت بھی ہے کہ ہم پیچھے رہ جائیں لیکن چونکہ حضرت محمد مصطفی " کا ارشاد کہ وہی مجاہدین دشمن کے تعاقب میں نکلیں جو غزوہ احد میں شامل تھے اس لئے پیچھے بھی نہیں رہا جاتا آخر باہم مشورہ کے بعد انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ خواہ گرتے پڑتے ٹھوکریں کھاتے بھی جانا پڑے آنحضور
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 333 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے.چنانچہ تاریخ میں لکھا ہے کہ وہ اس طرح حضور کے لشکر میں پیچھے پیچھے چلے جارہے تھے کہ نسبت زیادہ زخمی بھائی جب اتنا لا چار ہو جاتا کہ ایک قدم اٹھانا بھی دوبھر ہو جاتا تو نسبتا کم زخمی بھائی کچھ دُور اُسے پیٹھ پر لادے ہوئے لے جاتا.غرضیکہ اسی طرح گرتے پڑتے وہ آنحضور کے پیچھے پیچھے میدان جہاد میں پہنچ گئے.( شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۴۴۳، ۴۴۴) دنیاوی جنگوں کی تاریخ میں آپ نے کئی ایسے واقعات پڑھے ہوں گے کہ ایک زخمی سپاہی دوسرے زخمی ساتھی کے لئے بڑے ایثار کا نمونہ دکھاتا ہے اور اسے بچانے کے لئے خود اپنی جان جوکھوں میں ڈالتا ہے لیکن کیا کبھی ایسا نظارہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک زخمی بھائی اپنے دوسرے زخمی بھائی کو اس طرح پیٹھ پر لادے ہوئے موت سے دُور نہیں بلکہ موت کے منہ میں لئے جاتا ہو.محض اس لئے کہ اس کے محبوب سالار جیش کے منہ سے نکلا ہوا حکم لفظاً لفظاً پورا ہو.پس آنحضور کے غلاموں نے آپ کے اعتماد کو جس طرح اپنے عمل سے سچا کر دکھایا اس سے جہاں ان کی عظمت کردار کا پتہ چلتا ہے وہاں آنحضور کی بے خطا فراست کو بھی ایک عظیم خراج تحسین ملتا ہے.کبھی کسی آقا نے اپنے غلاموں کی مخفی قلبی کیفیات کو اس صفائی اور وضاحت کے ساتھ نہیں جانچا جیسے آنحضور ﷺ نے اپنے غلاموں کے دلی حالات کو دیکھا اور سمجھا.محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اُحد کے دوسرے روز ہی دشمن کے تعاقب کا فیصلہ اپنے ساتھیوں پر ایک ایسا عظیم احسان ہے کہ کبھی کسی سالار نے اپنی فوج پر نہیں کیا کہ ان کے زخمی کردار کو آن کی آن میں ایسی کامل شفا بخش دی ہو.اللهم صلّ على محمد و علی ال محمد و بارک وسلم انک حمید مجید ۵.بعد کے واقعات سے ثابت ہے کہ آنحضور کا یہ اقدام محض نفسیاتی اور اخلاقی فوائد کا حامل ہی نہیں بلکہ فوجی نقطہ نگاہ سے بھی انتہائی کارآمد ثابت ہوا اور اس سے دشمن ایک اور شدید تر حملہ سے باز آ گیا بلکہ اس حال میں واپس لوٹا کہ فتح کی ترنگ کی بجائے بُری طرح مرعوب ہو چکا تھا.پس بغیر مزید نقصان کے آنحضور نے محض اپنی حکمت اور تدبر کے طفیل متعد عظیم الشان فوائد حاصل کئے.تفصیل اس واقعہ کی یہ ہے کہ جب آنحضور حمراء الاسد میں دشمن کے انتظار میں خیمہ زن تھے تو ادھر ابوسفیان کا لشکر کچھ دور روحاء کے مقام پر از سر نو حملہ کرنے کا عزم کئے ہوئے آخری
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 334 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء تیاریوں میں مصروف تھا.اس اثنا میں روحاء کے میدان سے ایک شخص معبد خزاعی کا گزر ہوا جو بنو خزاعہ سے تعلق رکھتا تھا اور آنحضور سے بہت متاثر تھا.اس نے جب لشکر اسلام کا بے پناہ عزم و حوصلہ دیکھا تو اس کے دل پر اس کا گہرا اثر پڑا چنا نچہ وہ وہاں سے سیدھا لشکر کفار کے پاس روحاء پہنچا اور ابوسفیان کو متنبہ کیا کہ خبردار اس لشکر سے ہر قیمت پر اپنی جان بچاؤ جسے میں حمراء الاسد میں دیکھ کر آیا ہوں.ان میں عزم و ہمت اور جوش انتقام کے وہ آثار میں نے دیکھے ہیں کہ تم کسی طرح ان سے بیچ نہیں سکو گے.جب ابوسفیان نے یہ سن کر جواب دیا کہ ہم تو ان پر حملہ کرنے کا پختہ ارادہ کئے بیٹھے ہیں تو معبد نے کہا میں ہر صاحب عقل کو اس سے باز رہنے کا مشورہ دیتا ہوں اور مزید کہا کہ محمد (مصطفی) کے لشکر سے متاثر ہوکر میں نے کچھ اشعار بھی کہے ہیں جو تمہیں سنائے دیتا ہوں.جو اشعار اس نے پڑھے ان میں آنحضور اور آپ کے ساتھیوں کو دراز قد شریف الاصل شیروں سے تشبیہ دی اور کہا: فَظَلْتُ عَدْواً أَظُنْ الْأَرْضَ مَائِلَةً لَمَّا سَمِعُوا بِرَئيسٍ غِيرِ مَخُذُولٍ فَقُلْتُ وَيْلٌ لِابْنِ حَرْبٍ عَنْ لِقَائِهِمْ إِذَا تَغَطْمَطَتِ الْبَطْحَاءُ بِالْجِيْلِ یعنی میں دراز قد شیروں کو دیکھ کر تیزی سے دوڑا اور اس وقت زمین مجھے ایک طرف جھکتی ہوئی معلوم ہوئی جب میں نے ان کو ایک عظیم سردار کی معیت میں آگے بڑھتے دیکھا جو کبھی شکست نہیں کھاتا.تب میں نے کہا کہ ہلاک ہولڑائی کا بیٹا (ابوسفیان ) جب وہ تم جیسوں سے تصادم کرے.یہ بات میں نے اس وقت کہی جب بطحاء کی زمین ان جیالے گروہوں کی وجہ سے جوش سے بھری ہوئی تھی.ابوسفیان نے جب معبد خزاعی کے یہ اشعار سنے تو اس کا دل ڈول گیا اور بالآخر باہم مشوروں کے بعد سردار قریش نے خیریت اسی میں جانی کہ لڑائی کا ارادہ ترک کر کے مکہ کی طرف لوٹ جائیں.( شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۴۴۹، ۴۵۰) ہر چند کہ غزوات نبوی پر نظر ڈالنے سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احسن بے مثل استعدادوں پر بھی حیران کن روشنی پڑتی ہے جو بحیثیت ایک سالار عیش آپ کی ذات میں بد درجہ اتم
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 335 غزوات النبی میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء موجود تھیں لیکن آنحضور کی اوّل و آخر حیثیت ایک جنگی ماہر کی نہیں بلکہ ایک اخلاقی اور روحانی سردار کی تھی جس کے ہاتھوں میں مکارم اخلاق کا جھنڈا تھایا گیا تھا.اعلیٰ اخلاق کا جھنڈا بلند رکھنے اور بلند تر کرتے جانے کے جس عظیم جہاد میں مصروف تھے وہ ایک مسلسل کبھی نہ ختم ہونے والا ایک ایسا مجاہدہ تھا جو امن کی حالت میں بھی اسی طرح جاری رہا جیسے جنگ کی حالت میں ، دن کو بھی آپ نے اس علم کی حفاظت کی اور رات کو بھی.دشمن بارہا آپ کو اور آپ کے صحابہ کو شدید جسمانی ضربات پہنچانے اور المناک چر کے لگانے میں کامیاب ہو جا تا رہا مگر اس علم اخلاق پر آپ نے کبھی ادنی سی آنچ نہ آنے دی اور اس کو کوئی گزند نہ پہنچنے دیا.اس وقت بھی یہ جھنڈا آپ کے مقدس ہاتھوں میں بڑی شان کے ساتھ آسمانی رفعتوں سے ہمکنار تھا جب آپ کا بدن شدید زخموں سے نڈھال ہوکر احد کی پتھریلی زمین پر گر رہا تھا.اس وقت بھی یہ جھنڈا ایک عجب شان بے نیازی کے ساتھ آپ کے ہاتھوں میں لہرا رہا تھا جب چاروں طرف صحابہ کے بدن کٹ کٹ کر گر رہے تھے.پس خلق محمدی اور ان صحابہ کے اخلاق کا جہاد جو آپ کے ساتھ تھے ، احد کے قتال کے شانہ بشانہ بڑی قوت اور زور کے ساتھ جاری رہا اور فاتح اعظم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر بار ہر اخلاقی معر کے میں عظیم فتح نصیب ہوئی.ان ہولناک زلازل کے وسط میں سے ہو کر آپ بسلامت نکل آئے جو اخلاق کی بڑی بڑی مضبوط عمارتوں کو بھی مسمار کر دینے کی طاقت رکھتے ہیں.پس آئیے اب ہم انتہائی صبر آزما اور سخت مشکل اور حوصلہ شکن حالات میں جو جنگ احد میں پیش آئے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے پیارے پر سکون اور پر وقار اخلاق کا کچھ نظارہ کرتے ہیں: عزم و ہمت کا پہاڑ جس کے پائے ثبات لغزش سے نا آشنا ہیں کفار کے اچانک جوابی حملے نے جو سراسیمگی اور انتشار کی کیفیت پیدا کر دی اس کا سب سے بڑا نقصان لشکر اسلام کو یہ پہنچا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا رابطہ کٹ گیا اور محض گنتی کے چند آدمی تھے جو آنحضور کے ساتھ رہ گئے لیکن وہ بھی شدت جنگ کے باعث ہمہ وقت ساتھ نہیں رہ سکتے تھے چنانچہ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ بعض اوقات آنحضور بالکل تنہا رہ جاتے تھے لیکن
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 336 غزوات النبی میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء خوف و ہراس کا سایہ بھی آپ کے پاس سے نہ گزرتا تھا.کعب بن مالک بیان کرتے ہیں کہ احد کے روز جب مسلمان آنحضور کی جدائی کی بے چینی میں مبتلا ہو گئے تو سب سے پہلے میں نے ہی آنحضور کو تلاش کیا آپ کا سر اور چہرہ چونکہ خود اور زرہ سے ڈھکا ہوا تھا اس لئے میں نے آپ کو آپ کی آنکھوں کی چمک سے پہچانا.معلوم ہوتا ہے آنحضور کی تلاش میں اس وقت متعدد صحابہ ادھر ادھر سرگرداں پھر رہے تھے چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق بھی روایت ہے کہ جب آنحضور دشمن کی اچانک یلغار کی بناء پر اکثر صحابہ کی نظر سے اوجھل ہو گئے اور یہ مشہور ہو گیا کہ آپ شہید ہو چکے ہیں تو اس خبر سے حضرت علیؓ کے دل کی جو حالت ہوئی وہ نا قابل بیان ہے.آنحضور کی تلاش میں اس طرح ہر طرف بے محابا دوڑے کہ تن بدن کا ہوش نہ رہا.کبھی شہداء کی لاشوں میں جگہ بہ جگہ حضور کا چہرہ ڈھونڈتے پھرتے.کبھی حملہ آور جتھوں کی صفیں چیرتے ہوئے آر پار گزر جاتے کہ شاید اس طرف کہیں آنحضور پر نظر پڑ جائے.بالآخر انہوں نے آنحضور کو وہاں پایا جہاں جنگ سب سے زیادہ شدت کے ساتھ لڑی جارہی تھی.آپ زرہ پوش تھے ،سر پر جو دتھا، ہاتھ میں کمان تھی کبھی تو حملہ آوروں پر تیر برساتے کبھی پتھراؤ کرنے لگتے.حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جب نگاہ پڑی تو اس وقت حضور کنکروں کی ایک مٹھی بھر کر کفار کی ایک حملہ آور پارٹی کی طرف پھینک رہے تھے.حضرت علیؓ نے یہ حیرت انگیز ماجرا دیکھا کہ وہ حملہ آور کنکروں کی اس مٹھی سے ہی اس طرح پسپا ہو گئے جیسے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی گئی ہو.اسی طرح یعقوب بن عمر بن قتادہ نے بیان کیا ہے کہ جنگ احد کے روز آنحضور کے حضور تھیں آدمی ثابت قدم رہے تھے اور سب کے سب حضور سے یہی عرض کرتے تھے کہ ہمارا سر آپ کے سر پر فدا ہو اور ہماری جان آپ کی جان پر قربان ہے اور آپ پر ہمارا سلام ہے مگر یہ سلام کچھ رخصت کے لئے نہیں بلکہ محض برکت کے لئے ہے.( شروح الحرب ترجمہ فتوح العرب صفحہ: ۳۲۳) " آنحضور کے ثبات قدم کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور راوی بیان کرتا ہے کہ صفیں بالکل ٹوٹ پھوٹ گئیں اور مشرکوں نے اپنے عسکری نشان عزای بت کی دہائی ہے“ کے نعرے مارنے شروع کر دئیے اور اپنے آدمیوں کو آواز دی کہ اے ھبل بت کی اولاد! دوڑو کہ خدا کی قسم بڑے گھمسان کی لڑائی ہو رہی ہے.راوی کہتا ہے کہ تمام مشرک اس وقت بہت جان تو ڑ کر لڑے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 337 غزوات النبی میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء بہت سخت اذیت پہنچائی مگر قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ کو دین حق دے کر بھیجا کہ باوجود اس قدر اذیت کے میں نے آپ کو آپ کی جگہ سے ایک بالشت بھی ہٹتے ہوئے نہیں دیکھا.آپ بڑے استقلال کے ساتھ دشمنوں کے مقابلہ میں ڈٹے رہے اور مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ کبھی تو ان کی کوئی جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو جاتی اور کبھی پھر متفرق ہو جاتی تھی اور اس بیجان کی حالت میں میں نے حضور کو دیکھا کہ آپ اپنی جگہ پر جھے ہوئے کبھی تو مشرکوں پر اپنی کمان سے تیر چلاتے تھے اور کبھی پتھر مارنے لگ جاتے تھے.یہاں تک کہ مشرکوں کا جوش و خروش تھم گیا اور وہ حملہ کرتے کرتے ٹھہر گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوں کے توں اپنی اس چھوٹی سی جماعت میں مشرکوں کے مقابلہ میں نہایت صبر و استقلال کے ساتھ ثابت قدم رہے اور ڈٹے رہے اور باوجود ایسے زور شور کے حملہ کے آپ کے قدم میدان سے ذرا نہیں ڈگمگائے.جو آدمی آپ کے ساتھ ایسے نرغہ کے وقت میں صبر کے ساتھ بدستور ثابت قدم رہے وہ صرف چودہ آدمی تھے.سات تو مہاجرین میں سے تھے اور سات انصار میں سے تھے مہاجرین میں سے تو یہ تھے حضرت ابوبکر حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ ، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اور حضرت زبیر بن العوام.اور انصار میں سے حضرت حباب بن منذر، حضرت ابودجانہ.حضرت عاصم بن ثابت ، حضرت حارث بن معمر.حضرت سہل بن حنیفہ اور حضرت عمیر بن حضیر اور حضرت سعد بن معاذ ( شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۳۲۱، ۳۲۲) ہیجان خیز حالت میں انتہائی سکون کے ساتھ اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کی قیادت حضرت وہب بن قابوس" کو شہادت کی خوشخبری جب ( کفار کی ) ایک جماعت مسلمانوں پر حملہ کرنے کو آگے بڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی طرف خطاب کر کے فرمایا اس جماعت کا کون مقابلہ کرے گا ؟ اس پر حضرت وہب بن قابوس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں کروں گا.چنانچہ یہ اپنی تیر کمان لے کر کھڑے ہو گئے.اور اس جماعت پر اتنے تیر برسائے کہ ان کا منہ پھیر دیا اور آخر کار وہ عاجز ہوکر لوٹ گئے اور حضرت وہب اپنی جگہ پر چلے گئے.اس کے بعد پھر دوسری جماعت آئی اور اس کے لئے بھی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 338 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ اس کا مقابلہ کون کرے گا ؟ اس دفعہ بھی حضرت وہب بن قابوس مزنی نے اپنے آپ کو پیش کیا کہ یا رسول اللہ ! اس سے بھی میں ہی نمٹ لوں گا.یہ اپنی تلوار لے کر کھڑے ہوئے اور ان کا قلع قمع کر کے رکھ دیا جس سے انہیں بھاگتے ہی بنا اور یہ ان کو بھگا کر پھر اپنی جگہ چلے آئے پھر تیسری مرتبہ ایک اور مشرکوں کی جماعت آگے بڑھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب دستور فرمایا کہ ان کے مقابلہ میں کون ڈٹے گا.اس دفعہ بھی حضرت مزنی نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! میں ڈٹوں گا.اس پر حضور نے فرمایا کہ اچھا اٹھ اور جنت کی بشارت لے.چنانچہ یہ نہایت خوشی خوشی یہ کہتے ہوئے کھڑے ہوئے کہ خدا کی قسم اب تو خود چین سے بیٹھوں گا اور نہ ہی دوسروں کو چین سے بیٹھنے دوں گا اور ایک دم سے مشرکوں کے غول میں ان پر تلوار بجاتے ہوئے گھسے چلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسلمانوں سمیت کھڑے ہوئے ان کی حالت کو دیکھ رہے تھے.یہاں تک کہ ان کے آخر تک پہنچ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے دعا کرتے تھے اے اللہ ! ان کے حال پر اپنا فضل و کرم کر.اس کے بعد حضرت وہب لوٹ کر پھر ان میں گھس گئے اور ان کو چیرتے پھاڑتے ان کے آخر تک پہنچ گئے اور دیر تک ان کا برابر یہی حال رہا.آخر دشمنوں نے موقع پا کر ان کو گھیر لیا اور ان کی تلواریں اور برچھے یکدم سے ان پر پڑنے لگے جس سے یہ بہت زخمی ہوکر شہید ہو گئے.چنانچہ لڑائی فرو ہونے کے بعد جب ان کے زخم گئے گئے تو وہ کل ہیں گھاؤ نکلے جو برچھوں کے تھے اور سب کے سب ایسے نازک موقعوں پر لگے ہوئے تھے کہ جن کے زخمی ہونے کے بعد آدمی کا جانبر ہونا مشکل و محال ہے اور ان کے شہید ہونے کے بعد ان کی لاش کا بری طرح مثلہ کیا گیا تھا.( شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۳۶۷، ۳۶۷) آنحضور جنگ کے حالات کا بڑے سکون اور اطمینان کے ساتھ جائزہ لے کرح ضرورت اپنے چند ساتھیوں کو کبھی ایک حملہ آور گروہ کی طرف بھجواتے تو کبھی دوسرے کی طرف.جب اکیلے رہ جاتے تو خود تیر چلانے لگتے.جب جاں نثاروں میں کوئی اپنا مشن پورا کر کے واپس آجا تا تو آنحضور اس کی راہنمائی اور مددفرماتے.خود اپنے ہاتھ سے تیرا ٹھا کر پکڑاتے.تیرختم ہو جاتے تو دشمن کے چلائے ہوئے تیر جو آپ کے چاروں طرف بکھرے پڑے تھے وہ اٹھا اٹھا کر اپنے معتمد تیراندازوں کو پکڑاتے جاتے.اگر کوئی تیر نہ ملتا تو دعائیں کر کے تیر اندازوں کے ہاتھوں میں کوئی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 339 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء سیدھی سی لکڑی ہی تلاش کر کے تھما دیتے اور آپ کی دعا کی برکات سے وہی لکڑی بہترین تیر کا کام دے جاتی.یہ صحابہ اگر چہ بار بار حملہ کر کے دور تک دشمن کی صفوں میں گھس جاتے لیکن یوں لگتا ہے کہ آنحضور کا ہجر اور آپ کا فکران کو پھر کھینچ کر آنحضور کے قدموں میں لے آتا.ان کے سینے اور ان کی پیٹھیں آنحضور کے لئے سپر بن جاتیں.معلوم ہوتا ہے کہ ان کے شوق شہادت پر آنحضور کی حفاظت کا خیال اس قوت کے ساتھ غالب آچکا تھا.کہ زخم پر زخم کھانے کے باوجود یہاں تک کہ بدن چھلنی ہو گئے ان کی جان سینے میں انکی رہی.آنحضور کے ان ذاتی محافظوں کا اتنے زخم کھا کر بھی بیچ رہنا ایک حیرت انگیز معجزہ ہے جو اس ارشاد باری تعالیٰ کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے: لَهُ مُعَقِّبْتُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُوْنَ مِنْ اَمْرِ اللهِ (الرعد: ۱۲) b یعنی اس کے آگے اور پیچھے ایسے محافظ مقرر کر دیئے گئے ہیں جو باری باری اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں.حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ بعض اوقات رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جنگ میں سوائے میرے اور سعد کے کوئی بھی باقی نہ رہتا تھا.( صحیح بخاری کتاب المناقب باب ذکر طلحہ بن عبید اللہ ) انہی سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بچایا (یعنی آپ کو تیروں سے بچانے کے لئے سپر بن گئے ) اور ہاتھوں سے اتنے تیر لگے کہ وہ لنجے ہو گئے.( شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحہ: ۳۳۹ - ۳۴۰) حضرت (ابو ) طلحہ نے اپنے سارے تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پھیلا دیئے کہ حضور ! دیکھئے میں اس قدر تیر چلاؤں گا اور یہ بڑے زبر دست تیرانداز تھے اور بلند آواز تھے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لشکر میں اکیلے طلحہ کی للکار چالیس آدمیوں سے بہتر ہے اور ان کے ترکش میں پچاس تیر تھے انہوں نے وہ سب تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بکھیر دیئے پھر چیخ مار کر کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! بس میری جان آپ پر قربان ہے اور ایک ایک تیر د مادم چلانے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے کھڑے ہوئے ان کے کندھے پر سے سر نکالے جھانک رہے تھے کہ تیر کہاں جاتے ہیں اور کس کس کو لگتے ہیں؟ آخر جب تک ان کے تیرختم ہوئے یہی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 340 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء صورت رہی ختم ہونے کے بعد حضرت طلحہ حضور سے عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ ! خدا مجھے آپ پر قربان کرے بس اب آپ کیوں تکلیف فرماتے ہیں؟ میرے تیر تو ختم ہو گئے آپ ہٹ جائیں اور آرام فرما دیں غرض حضرت طلحہ تو حضور سے یہ عرض کرتے جاتے اور حضور آپ کو ادھر ادھر سے کوئی خشک لکڑی اٹھا دیتے تھے اور فرما دیتے تھے کہ لے اس کو مار.چنانچہ ( ابوطلحہ ) اسی خشک لکڑی کو اپنی کمان پر رکھ کر تیر کی جگہ مارتے تھے تو وہی بہترین تیر ہو جاتی تھی.( شروح الحرب ترجمہ فتوح العرب صفحہ: ۳۲۶) حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب احد کا دن ہوا تو ( دیکھا ) لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے مگر ابو طلحہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آپ پر ایک ڈھال لگائے ہوئے تھے ابوطلحہ ایسے تیرانداز تھے کہ ان کی کمان کی تانت بہت سخت ہوا کرتی تھی.اس دن وہ دو یا تین کما نہیں توڑ چکے تھے اور کوئی شخص تیروں سے بھرا ہوا ترکش لے کر نکلتا تو آنحضرت اس سے فرماتے یہ تیرا ابوطلحہ کے سامنے ڈال دے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گردن اٹھا اٹھا کر دیکھتے تو ابوطلحہ کہتے تھے یا نبی اللہ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں.آپ گردن نہ اٹھا میں کہیں آپ کو کافروں کا تیر نہ لگ جائے.میرا سینہ آپ کے سینہ کے آگے ہے...اور ابوطلحہ کے ہاتھ سے اس دن دو مرتبہ یا تین مرتبہ تلوارگر پڑی.شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۳۲۵، ۳۲۶) ابن اسحاق نے بیان کیا: ابو دجانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک کر ڈھال بن گیا.تیر پر تیر پشت پر کھاتا رہا.بے شمار تیر اس کو لگے.سعد بن ابی وقاص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدافعت میں تیر چلا رہے تھے.آپ ( سعد بن ابی وقاص) نے کہا میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے مجھے تیر تھماتے جارہے تھے کہ ارم فداک ابی و امی میرے ماں باپ تم پر قربان تیر چلاتے جاؤ.یہاں تک کہ آپ نے مجھے ایک ایسا تیر دیا جس کا پھل نہ تھا.اس کے باوجود فر مایا ارم بہ اس کو چلاؤ.(سیرت ابن ہشام جزء ۴ صفحه : ۳۰) یه ابودجانہ جن کا ذکر اس روایت میں آیا ہے وہی ہیں جن کو آنحضور نے خود اپنی تلوار عنایت فرما کر ایک جاودانی اعزاز بخشا تھا.اس تلوار کا جس شان کے ساتھ انہوں نے حق ادا کیا اس کا تفصیلی ذکر احادیث اور کتب تاریخ میں ملتا ہے.یہ حملہ کرتے ہوئے بسا اوقات دشمن کی صفیں چیرتے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 341 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء ہوئے آر پار نکل جاتے لیکن آنحضور کی یاد نہیں پھر کھینچ کر واپس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آتی.جب انہوں نے آنحضور کو انتہائی خطرات میں گھرا ہوا تنہا پایا تو جب تک آنحضور پر سے خطرہ ٹل نہ گیا پھر آپ کو چھوڑ کر نہ گئے اور اپنے جسم کو آنحضور کی ڈھال بنائے رکھا.یہ عشق اور روحانیت کی سرزمین کے قصے ہیں کسی دنیاوی قتال کی باتیں نہیں.بھلا دنیا کی جنگوں میں بھی ایسی عاشقانہ جان نثاریاں کبھی دیکھنے میں آتی ہیں؟ میں سوچتا ہوں کہ اس چھلنی بدن ابودجانہ کے ہونٹوں پر جاری وہ عاشقانہ اشعار کیسے بچے اور بھلے لگتے ہوں گے جب ماتھے پر سرخ پٹی باندھے ہوئے آنحضور کی تلوار کو دشمنوں کے سروں پر لہراتے ہوئے وہ بلند آواز سے ایک خاص ترنگ اور لے کے ساتھ یہ اشعار پڑھتے جاتے تھے: انا الَّذِي عَاهَدَنـي خَلِيْلَـيْ وَنَحْنُ بِالسَّفْحِ لَدَى النَّخِيْلِ الا أقومُ الدَّهْرَ فِي الْكَيول أخرِبْ بِسَيْفِ اللَّهِ وَالرَّسُوْلِ ترجمہ:.میں وہی ہوں جس سے میرے حبیب نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے درختوں کے قریب پہاڑ کے دامن میں عہد و پیمان لیا تھا.میں کھڑے ہو کر آخری صف تک مقابلہ کرتا رہوں گا.اللہ اور اس کے رسول کی تلوار برابر چلاتا رہوں گا.(سیرۃ ابن ہشام جز ۴ ، صفحہ: ۱۶،۱۵) غزوہ احد میں بعض عورتیں بھی شریک تھیں جو زخمیوں کو پانی پلانے کے لئے آئی ہوئی تھیں.ان میں سے ایک ام عمارہ دشمن کی اچانک یلغار کے وقت آنحضور کے قریب ہی تھیں.جب انہوں نے حضور کو ان مہیب خطرات میں گھرا ہوا پایا تو ان سے برداشت نہ ہوا کہ ان کے جیتے جی دشمن آپ تک پہنچ جائے.پس بھاگنے والے مسلمان مردوں کا کفارہ انہوں نے اس طرح ادا کیا کہ یعنی مشکیزہ و ہیں زمین پر پٹخ کر تلوار اٹھائی اور دیوانہ وار بھی ایک طرف سے آنے والے حملہ آور پر بھرتی تھیں تو کبھی دوسری طرف لوٹتیں.غرض یہ کہ جیسے ماں بچے کے لئے دیوانی سی ہوکر درندوں سے بھڑ جاتی ہے کچھ ایسی ہی حالت اس وقت ان کی ہورہی تھی.آنحضور بلند آواز سے ان کے لئے دعائیں کرتے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 342 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء تھے، ان کے حوصلے بڑھاتے اور دلجوئی فرماتے تھے.حضرت ام عمارہ جنہوں نے اس تاریخی جہاد میں بھر پور حصہ لے کر مسلمان عورت کے مقام کو آسمانی رفعتیں عطا کیں اور ثریا سے ہمکنار کر دیا اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں: ”جس وقت اُحد کے مقام پر ہمارے لوگوں میں بھگدڑ پڑ گئی اور آنحضور کے پاس دس آدمی بھی باقی نہ رہے تو میں اور میرا شوہر اور میرے دو بیٹے حضور کے آگے کھڑے ہو کر آپ کے پاس سے دشمنوں کے غول کو ہٹانے لگے اور مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ آپ کے سامنے ہی بھاگے جاتے تھے.اسی اثناء میں حضور کی نظر اچانک مجھ پر پڑ گئی تو آپ نے دیکھا کہ میرے پاس سپر نہیں ہے اس لئے آپ نے ایک بھاگنے والے سے جس کے پاس سپر تھی یہ فرمایا کہ اے سپر والے ! اپنی سپر کو کسی لڑنے والے کو دیتا جا.چنانچہ اس نے بھاگتے بھاگتے اپنی سپر زمیں پر ڈال دی.میں جھٹ اسے اٹھا کر آنحضور کے سامنے روک کر کھڑی ہوگئی اور اس وقت مشرک لوگ ہم پر بہت زیادتیاں کر رہے تھے.وجہ یہ تھی کہ وہ سوار تھے اور ہم پیدل اور وہ بھی ہماری طرح کہیں پیدل ہوتے تو ہم انشاء اللہ ان کو ضرور مار لیتے.چنانچہ ان میں سے ایک سوار نے آگے بڑھ کر مجھ پر تلوار چلائی تو میں نے اس کو اپنی ڈھال پر روک لیا اس لئے اس کا وار خالی گیا اور وہ لوٹ کر واپس چلا.پس میں نے موقع پا کر پیچھے سے اس کے گھوڑے کے کونچ کاٹ دیئے جس سے وہ چاروں شانے چت گر پڑا.“ ( شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۳۶۰) اس واقعہ کا ذرا گہری نظر سے مطالعہ کریں تو آنحضور کے کریمانہ اخلاق کے دو بہت حسین پہلوا بھر کر سامنے آتے ہیں.پہلا یہ کہ اس شدید نرنے کی حالت میں بھی حضور گردو پیش کے حالات پر پورے اطمینان کے ساتھ نظر رکھے ہوئے ہیں.ایک ذرا بھی سراسیمہ نہیں ہوئے اور اپنے گر دو پیش لڑنے والوں کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال رکھ رہے ہیں.دوسرا پہلو یہ ہے کہ حضرت ام عمارہ کو ڈھال دلوانے کا انداز بڑا ہی دل نشین ہے اور ایک بھاگنے والے مرد کی ڈھال ایک لڑنے والی عورت کو دلوانی ہے لیکن بات میں کوئی تلخی اور طعن نہیں.یہ کہنا پسند نہیں فرمایا کہ اے بھاگنے والے! ایک لڑنے والی عورت کے لئے ڈھال چھوڑتا جا.بس اتنا ہی کہا کہ اے ڈھال والے ! ایک لڑنے والے کو ڈھال دیتا جا.یہ بھی ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ ضرورت مند ایک عورت ہے لیکن ساتھ ہی دیکھئے کہ لڑنے والی عورت کا دل کیسے بڑھا دیا ! اور کیسی حوصلہ افزائی فرمائی اور کیسی بر وقت اس کی امداد فرمائی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 343 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء چنانچہ دوسرے ہی لمحے آنحضور کے اس بروقت اقدام کی برکت اس طرح ظاہر ہوئی کہ وہی ڈھال اُتم عمارہ کی جان بچانے کا موجب بن گئی.یقینایہ اتفاق نہیں تھا بلکہ تصرف الہی کا کرشمہ تھا کیونکہ آنحضور کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کے تصرف میں تھا اور قدرت خداوندی آپ سے وہ کام دکھلا رہی تھی جو محض بشری طاقت سے ممکن نہ تھا.آپ کے ایک عاشق تام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا خوب کہا ہے: إِنِّي ارى فِي وَجْهِكَ الْمُتَهَدِّلِ شَانًا يَّفُوقُ شَمَائِلَ الْإِنْسَانِ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه : ۵۹۱) یعنی اے میرے محبوب آقا! یقیناً میں تیرے روشن چہرے میں وہ شان دیکھتا ہوں جو فوق البشر صفات اپنے اندر رکھتی ہے.یہی وہ ام عمارہ ہیں جنہیں یہ فخر حاصل ہے کہ آنحضور پر حملہ کرنے والے بد بخت ابن قمئہ کا وارانہوں نے آگے بڑھ کر اپنے کندھے پر لیا چنانچہ ابن ہشام بیان کرتا ہے کہ: عین اس وقت جب کہ کافروں نے حملہ عام کر دیا اور آپ کے ساتھ صرف چند جاں مار رہ گئے تھے.حضرت اُم عمارہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اور سینہ سپر ہو گئیں.کفار جب آپ پر بڑھتے تھے تو تیر اور تلوار سے روکتی تھیں.ابن قمیہ جب دڑا تا ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا تو حضرت ام عمارہ نے بڑھ کر رو کا چنانچہ کندھے پر زخم آیا اور غار پڑ گیا.انہوں نے بھی تلوار ماری لیکن وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا اس لئے کارگر نہ ہوئی.(سیرۃ النبی لا بن ہشام جزء ۴ صفحہ: ۳۰، ۳۶) اس معرکہ میں ام عمارہ کو اور بھی متعدد زخم لگے کیونکہ آنحضور کی جانب گھوڑ سوار بار بار حملے کر رہے تھے اور جہاں تک ان کا اور ان کے لڑکوں کا بس چلتا یہ ان کے سامنے سینہ سپر ہو جاتے چنانچہ ایک سوار ایک ہی جھپٹ میں ام عمارہ اور ان کے بیٹے دونوں کو زخمی کر گیا ایک دفعہ پھر پلٹ کر گھوڑا رض بڑھاتا ہوا حضرت ام عمارہ پر جھپٹا تو آنحضور ہی نے اس خطرہ سے انہیں متنبہ کیا.حضرت ام عمارہ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ اتفاق سے پھر وہی شخص جس نے میرے تلوار ماری تھی آگے بڑھا تو حضور نے فرمایا کہ اے ام عمارہ! دیکھ یہ وہی شخص ہے جس نے تیرے بیٹے کو تلوار ماری تھی.“
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 344 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء چنانچہ آپ کے فرمانے کے بعد میں اس کے آگے ہوئی اور اس کی پنڈلی پر ایک تلوار رسید کی جس سے وہ گر پڑا.اس وقت میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری اس واردات کو دیکھ کر خوب ہنسے یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت بھی کھل گئے اور مجھ سے فرمانے لگے ”اے ام عمارہ! آخر تو نے بدلہ لے ہی لیا.(شروح الحرب ترجمه فتوح العرب : ۳۶۰ - ۳۶۱) زور سے ہنسنا آنحضور کی عادت یہ تھی صرف تبسم فرماتے تھے.لیکن احد کے روز آپ کا ہنسنا آپ کی ایک خاص شان دلربائی تھی.یہ بنسی در اصل خوف و ہراس کی ناکامی کی دلیل تھی.ہولناک خطرات کے مقابل پر یہ آپ کے عزم و ہمت کی فتح کا ایک اعلان تھا.ام عمارہ کی یہ روایت آنحضور کی حکمت اور فراست پر بھی بڑے دل نشین انداز میں روشنی ڈالتی ہے.آنحضور جانتے تھے کہ حضرت ام عمارۃ زخموں سے چور ہیں اور بدن کمزور پڑ چکا ہے.پس ایسی حالت میں وہی حملہ آور جو پہلے ہی انہیں زخمی کر کے نفسیاتی برتری حاصل کر چکا ہو اور فن حرب کے ہر پہلو میں فوقیت رکھتا ہو اگر دوبارہ سامنے آئے تو اس کا ایک نفسیاتی رعب پڑنا طبعی بات تھی.وہ ایک عورت کے مقابل پر مرد تھا، ایک زخمی کے مقابل پر تنو مند تھا، ایک پیدل کے مقابل پر سوار تھا، ایک سادہ کپڑوں میں ملبوس بی بی کے مقابل پر جو کئی جوان بچوں کی ماں تھی ایک زرہ پوش ہٹا کٹا جوان تھا.اس وقت صرف ایک ہی صورت اس کمزور بے کس تھکی ماندی عورت کی بجھی بھی ہمت بڑھانے کی ہو سکتی تھی کہ اس کی زخمی ذات کی بجائے اس کی زخمی مامتا کو پکارا جائے.پس آنحضور نے ایسا ہی کیا اور یہ فرما کر کہ دیکھ تیرے بیٹے کو زخمی کرنے والا پھر آرہا ہے ایک ایسا کچو کا اس کی زخمی مامتا کو لگایا کہ وہ بھری ہوئی شیرنی کی طرح ابھری اور اس تن نازک میں وہ آگ سی لگ گئی جو ممولوں کو شہباز سے لڑا دیا کرتی ہے.حضور پر ہمارا ذرہ ذرہ قربان ہو کہ کس شان کے سپہ سالار اور کس شان کے انسان تھے ! علم النفس پر کیسی باریک نظر تھی اور اپنے حواس پر کیسا مکمل اختیار کہ اوسان خطا کرنے والے خطرات میں بھی تمام استعدادیں کامل سکون اور توازن کے ساتھ دل و دماغ کے عرش پر مستوی اور متمکن تھیں.دوران قتال اخلاقی تعلیم علاج معالجہ حیرت کی بات ہے کہ جہاد بالسیف میں شدید مصروفیت کے باوجود جب مہیب خطرات
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 345 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء سر پر منڈلا رہے تھے اس وقت بھی حضوراکرم نے تعلیم اخلاق کا کام نظر انداز نہ فرمایا.اپنے غلاموں کو جسمانی خطرات سے متنبہ فرماتے جاتے تھے اور روحانی خطرات اور لغزشوں سے بھی صحابہ کو فوجی قیادت کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی قیادت کے فرائض بھی ادا کئے جارہے تھے.میدان وغا میں تعلیم کتاب ، دوران جنگ میں تربیت کا کام بھی جاری تھا.رشید فارسی جو قبیلہ بنی معاویہ کے ایک غلام تھے.انہوں نے مشرکوں میں سے ایک جری پہلوان پر حملہ کیا جو قبیلہ بنی کنانہ میں سے تھا.یہ مشرک سرا پا لو ہے میں ڈھکا ہوا تھا اور حضرت سعد کے ایک ہی وار میں دوٹکڑے کرنے کے بعد یہ فخریہ نعرہ لگا رہا تھا کہ میں ابن عویمر ہوں.حضرت رشید نے اس پر ایک بھر پور وار کیا جس سے اس کے دوٹکڑے ہو گئے اور ساتھ ہی یہ نعرہ مارا کہ اس وار کوروک کہ میں رشید ایک فارسی غلام ہوں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کا مقابلہ دیکھ رہے تھے چنانچہ آپ نے حضرت رشید کا یہ کلمہ سن کر کہ میں غلام فارسی ہوں ناپسند کیا اور یہ فرمایا کہ تو نے اس کی بجائے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ لے اس کو روک میں ایک غلام انصاری ہوں.معلوم ہوتا ہے کہ حضور کے اس ارشاد پر حضرت رشید فارسی کے دل میں سخت ندامت پیدا ہوئی پس اللہ نے ان پر کرم کی نظر فرمائی اور ان کو یہ حسرت پوری کرنے کا موقع دے دیا کہ کاش میں نے ابن عویمر کو مارتے ہوئے حضور کی مرضی کے مطابق نعرہ لگایا ہوتا.ابھی حضور کا یہ فقرہ ختم ہوا تھا کہ اچانک ابن عویمر کا بھائی کتوں کی طرح دوڑتا ہوا آگے بڑھا اور حضرت رشید پر حملہ کرتے ہوئے یہ نعرہ مارا کہ دیکھ میں بھی ابن عویمر ہوں.حضرت رشید نے اس پر شدید حملہ کیا اور اس خود سر کے سر پر بھی تلوار ماری جس سے اس کا سر دوٹکڑے ہو گیا اور مارتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق اس سے کہا لے اس وار کو روک اور دیکھ میں ایک غلام انصاری ہوں.یوں لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے فلم پیچھے کر کے وہیں سے دوبارہ چلادی ہوتا کہ غلطی کی اصلاح کا موقع مل جائے اور ایک اور ا بن عویمر سامنے لاکھڑا کیا.رشید نے یہ کہہ کر حضور اکرم کی طرف دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ذرا تبسم فرمایا اور فرمانے لگے اے ابو عبداللہ ! شاباش ! تو نے اچھا کیا کہ یہ کہا میں انصاری غلام ہوں.“ ( شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۳۴۸) دوران جہاد ظاہری فتح و شکست کی نسبت حضور کی نظر اخلاقی فتح وشکست پر کہیں زیادہ تھی اور
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 346 غزوات النبی میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء بڑی باریک نظر سے صحابہ کی تربیت فرمارہے تھے.گویا جنگ احد کا میدان نہیں اخلاقیات کی درسگاہ کھلی تھی.صلہ رحمی کا اس حد تک خیال تھا کہ بیٹے کو باپ اور بھائی کو بھائی کے قتل کی اجازت نہ دی.ابو عامر کفار کی طرف سے لڑ رہا تھا لیکن اس کے بیٹے حضرت حنظلہ اسلام لا چکے تھے.انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باپ کے مقابلہ میں لڑنے کی اجازت مانگی لیکن رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ گوارا نہ کیا کہ بیٹا باپ پر تلوار اٹھائے.(سیرة النبی از شبلی نعمانی جلد نمبر صفحه: ۳۵۳) عتبہ وہ بد بخت انسان تھا جس نے شدید حملہ کر کے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے کے دو دندان مبارک شہید کئے اور دہن مبارک کو سخت زخمی کر دیا.عقبہ کے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص مسلمانوں کی طرف سے لڑ رہے تھے جب ان کو عتبہ کی بدبختی کا علم ہوا تو جوش انتقام سے ان کا سینہ کھولنے لگا اور فرماتے ہیں کہ میں اپنے بھائی کے قتل پر ایسا حریص ہورہا تھا کہ شاید کبھی کسی اور چیز کی مجھے ایسی حرص نہ لگی ہو.دو مرتبہ دشمن کی صفوں کا سینہ چیر کر اس ظالم کی تلاش میں نکلا کہ اپنے ہاتھ سے اس کے ٹکڑے اڑا کر اپنا سینہ ٹھنڈا کروں مگر وہ مجھے دیکھ کر ہمیشہ اس طرح کترا کر نکل جاتا تھا جس طرح لومڑی کترا جایا کرتی ہے.آخر جب میں نے تیسری مرتبہ اس طرح گھس جانے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم براہ شفقت مجھ سے فرمانے لگے کہ اے بندہ خدا! تیرا کیا جان دینے کا ارادہ ہے چنانچہ میں حضور کے روکنے سے اس ارادہ سے باز رہا.شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۳۲۸، ۳۲۹) اس واقعہ میں حضور کا روکنے کا انداز بہت معنی خیز ہے.آنحضور کی محبت اس وقت حضرت سعد کے دل میں ایسا جوش مار رہی تھی کہ یہ کہہ کر روکنا کہ بھائی بھائی کو قتل نہ کرے اقتضائے حال سے منافی تھا پس آپ نے بڑے پیار سے صرف اتنا فرمایا ” بندۂ خدا! کیوں جان گنواتے ہو.“ روحانی و جسمانی طبیب یہ عجیب میدان جنگ تھا کہ سپہ سالار بھی آپ ہی تھے، مونس و غم خوار بھی آپ اور معالج بھی آپ ہی تھے اور امراض روحانی کے ساتھ ساتھ امراض جسمانی کی شفا کا کام بھی جاری تھا.دوا تو کوئی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 347 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء پاس تھی نہیں دعا اور روحانی برکت سے غزوہ بدر کی طرح غزوہ احد میں بھی متعد دمریضوں کو شفا بخش رہے تھے.کہیں دعا کرتے ، کہیں زخموں پر لعاب دہن لگاتے ، کہیں جراحی فرماتے جبکہ ہاتھ میں کوئی اوزار بھی نہ تھا.حضرت قتادہ بن نعمان کی آنکھ میں مشرکوں کا ایک ایسا تیر آلگا کہ جس سے آنکھ باہر نکل کر کلے پر لٹک گئی.قتادہ خود بیان فرماتے ہیں کہ اس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری زوجیت میں ایک عورت ہے کہ وہ بہت نوجوان اور صاحب حسن و جمال ہے میں خود بھی اس کو بہت چاہتا ہوں اور وہ بھی مجھے بہت چاہتی ہے.اس لئے مجھے اس بات کا خدشہ ہے کہ میری آنکھ کبھی اس کو مکروہ اور نازیبا معلوم ہونے لگے.چنانچہ آپ نے اس کی آنکھ کے ڈھیلے کو اپنے دست مبارک سے اٹھا کر اس کی آنکھ میں رکھ دیا تو وہ فوراً بینا ہوگئی اور جیسی تھی وہ ویسی کی ویسی ہوگئی.بعض روایات میں آتا ہے کہ وہ آنکھ ہمیشہ دوسروں کی نسبت زیادہ روشن اور صاف رہی.( شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه : ۳۲۴، ۳۲۵) یہ واقعہ بھی شدید جنگ کے دوران پیش آیا جب دشمن چار طرف سے حضور کو گھیرے میں لئے ہوئے تھا لیکن صحابہ کو بھی ذرا دیکھو کہ کس طرح ہر مصیبت میں حضور کی طرف دوڑتے اور حزن و غم میں حضور سے راز دل کہہ کر غمخواری کی توقع رکھتے.کوئی دنیا کا جرنیل ہوتا تو اس کڑے وقت میں ایسی بات کرنے والے کو ذلیل و خوار کر کے دھتکار دیتا لیکن حضور نے دیکھو! کس اطمینان سے اس کی بات سنی اور کس دل سے اس کا غم محسوس فرمایا اور اس نو بیا ہتا عورت پر رحم کیا جس کی محبت کو شدید آزمائش در پیش تھی.پس یہ رحمۃ للعالمین کی قلبی کیفیت ہی تھی جس پر نظر ڈال کر شافی مطلق نے یہ عجیب معجزہ دکھایا.یہ باتیں آنحضور ہی کی ذات سے وابستہ تھیں.اب کہاں یہ دن دیکھنے میں آئیں گے.جنگ احد کی سرگزشت اب کبھی دہرائی نہ جائے گی.ہاں اس کے ذکر کا سوز ہمیشہ دلوں کو درود کے لئے نرم کرتا اور پگھلاتا رہے گا اور جہاد کے ان نئے میدانوں کی طرف دعویداران محبت کو بلاتا رہے گا جو اسلام کے آخری غلبہ کے لئے روئے زمین پر جابجا کھل رہے ہیں اور کھلتے رہیں گے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت حکم وعدل 348 غزوات النبوی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء عمرو بن جموح اور بیٹوں کا مقدمہ آنحضور کی عدالت میں ایک فیصلہ.ایک تفسیر لَيْسَ عَلَى الْأَعْلَى حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَج وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ (ال): ۱۸) ترجمہ : نہ تو کسی اندھے پرسختی ہے اور نہ لنگڑے اور بیمار پرسختی ہے ( کہ وہ باوجود معذوری کے لڑائی میں شامل ہوں ) اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے وہ ایسی جنتوں میں داخل ہوگا جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں.آپ کی حیثیت محض ایک عام سپہ سالار کی نہ تھی بلکہ جہاد صغیر کے ساتھ ساتھ آپ منصب رسالت کے دیگر فرائض بھی برابر سرانجام دے رہے تھے.جہاد سے معذوروں کو رخصت کا مسئلہ جنگ احد کے آغاز میں اس شکل میں پیش آیا کہ ایک لنگڑے صحابی حضرت عمرو بن جموح کی اپنے بیٹوں سے تکرار ہو گئی.یہ چار بیٹے جن کے متعلق آتا ہے کہ شیروں کی طرح لڑا کا اور دلیر جوان تھے باپ کو جہاد میں شمولیت سے روکے ہوئے تھے کہ تم لنگڑے ہو اور تم پر جہاد فرض نہیں اور کہتے تھے کہ تمہاری جگہ ہم جو جانیں دینے کے لئے حاضر ہیں.حضرت عمرو بن جموح نے ان کی ایک نہ سنی اور جب دیگر صحابہ نے بھی بیٹوں کی طرفداری میں حجت بازی کی تو فرمانے لگے واہ ! یہ بھی کوئی بات ہے کہ بیٹے تو جنت میں چلے جاویں اور میں تم ایسوں کے پاس بیٹھا رہ جاؤں.معلوم ہوتا ہے کہ ان کی طبیعت میں نہایت لطیف اور پاکیزہ مزاح پایا جاتا تھا.چنانچہ یہ جھگڑا جب آنحضور کی خدمت اقدس میں پہنچا تو اپنے مخصوص انداز میں حضور کا دل اپنی طرف مائل کرنے کے لئے عرض کیا حضور ! میرا تو دل چاہ رہا ہے کہ اپنی اس لنگڑی ٹانگ سے جنت کی سرزمین میں کھیلتا کودتا پھروں.یہ سن کر حضور کا دل پسیج گیا.بچوں کو یہ نصیحت فرمائی کہ تمہیں باپ پر اس بارہ میں زبردستی کا کوئی حق نہیں اور عمرو بن جموح سے فرمایا کہ جہاد تم پر فرض نہیں لیکن میں منع بھی نہیں کرتا.شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه : ۳۵۲)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 349 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء پس ضمناً اس موقع پر آنحضور نے لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ( البقرہ: ۷۵۲) کی بھی ایک لطیف تفسیر یہ فرما دی کہ جو بات منع نہ ہو جبرا اس سے روکا نہیں جائے گا یعنی نہ تو جبر نیکی کروانے کی اجازت ہے اور نہ جبرائیکی سے روکنے کی لیکن اجتماعی امور میں امام وقت کی اجازت بہر حال ضروری ہے کیونکہ جنت کی راہ میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا دروازہ نصب ہے.حضرت عمرو بن جموح کی شہادت حضرت عمرو بن جموح، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن حرام ، حضرت ہند بن عمر بن حرام اب حضرت عمرو بن جموح کا حال سنئے کہ آنحضور کی اس اجازت سے انہوں نے کس شان اور کس چاہت کے ساتھ فائدہ اٹھایا.حضرت طلحہ نے بیان کیا کہ احد کے روز جس وقت مسلمان شکست کھا کر بھاگنے کے بعد جمع ہو کر آئے تو میں نے حضرت عمرو بن جموح کو دیکھا کہ وہ اول ہی سے گروہ میں لنگڑاتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے آرہے ہیں کہ خدا کی قسم! مجھے تو بس جنت ہی کا شوق لگ رہا ہے اس کے بعد انہوں نے دشمنوں پر حملہ کیا اور ان کے پیچھے پیچھے ان کا ایک لڑکا بھی دوڑا تب دونوں مل کر دشمنوں پر ٹوٹ پڑے اور آخر کار دونوں ساتھ کے ساتھ شہید ہو گئے.(شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۳۵۳) یہ عمرو بن جموح حضرت عبد اللہ بن عمرو بن حرام کے بہنوئی تھے جو اسی غزوہ میں شہید ہوئے.بہن کے خاوند عمرو کی طرح بیوی کا بھائی بھی ایک امتیازی شان کا مالک تھا چنانچہ ان کی شہادت کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود آنحضور کو یہ خبر دی کہ جب عبداللہ شہادت کے بعد خدا کی جناب میں حاضر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا کہ بتا آج تیری رضا کیا ہے؟ اس پر عبداللہ بن عمرو نے عرض کیا میری رضا تو بس یہی ہے کہ تو مجھے ایک دفعہ پھر زندہ کر دے اور میں محمد مصطفی کے ساتھ ساتھ تیری راہ میں جہاد کرتا ہوا پھر مارا جاؤں، تو پھر مجھے زندہ کر دے اور میں پھر رسول اللہ کی معیت میں جہاد کرتا ہوا مارا جاؤں اور تو مجھے پھر زندہ کر دے اور پھر میں تیرے رسول کی معیت میں جہاد کرتا ہوا مارا جاؤں.شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۳۵۷) اس واقعہ میں طرح طرح کا حسن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور جس کروٹ سے اسے دیکھیں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 350 غزوات النبی میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء یہ ایک نئی رعنائی دکھاتا ہے.منجملہ اور امور کے اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کس طرح مسلسل آنحضور کا رابطہ اپنے رب سے قائم تھا.بندوں پر بھی نظر شفقت فرما رہے تھے اور رب سے بھی دل ملا رکھا تھا.ایک پہلو اپنے صحابہ پر جھکا ہوا تھا تو دوسرا پہلور فیق اعلیٰ سے پیہم وابستہ اور پیوستہ تھا.وہ وجود جوامن کی حالت میں ثُمَّ دَنَا فَتَدَتی (انجم : 9) کے افق اعلیٰ پر فائز رہا، جنگ کی حالت میں بھی ایک لمحہ اس سے الگ نہ ہوا.ایک نگاہ میدان حرب کی نگران تھی تو دوسری جمال یار کے نظارہ میں مصروف تھی.ایک کان رحمت سے صحابہ کی طرف جھکا ہوا تھا تو دوسرا ملاء اعلیٰ سے اپنے رب کا شیریں کلام سننے میں مصروف.دست با کار تھا تو دل بایار.آپ صحابہ کی دلداری فرماتے تھے تو خدا آپ کی دلداری فرما رہا تھا.عبداللہ بن عمرو کی قلبی کیفیت کی خبر دے کر دراصل اللہ تعالیٰ آپ کو یہ پیغام دے رہا تھا کہ اے سب سے بڑھ کر مجھ سے محبت کرنے والے! دیکھ ! تیرا بھی کیسا عشق ہم نے اپنے عارف بندوں کے دل میں بھر دیا ہے کہ عالم گزراں سے گزر جانے کے بعد بھی تیرا خیال انہیں ستاتا ہے اور تجھے میدان جنگ میں تنہا چھوڑ کر چلے جانے پر کس درجہ کبیدہ خاطر ہیں.تیرے مقابل پر انہیں جنت کی بھی حرص نہیں رہی.ان کی جنت تو بس یہی ہے کہ تیز تلواروں سے بار بار کاٹے جائیں ،مگر تیرے ساتھ رہیں، پھر تیرے ساتھ رہیں، پھر تیرے ساتھ رہیں.شہیدوں کو اپنی طرف کھینچنے والا رسول حضرت عبداللہ بن عمرو کی بہن یعنی حضرت عمرو بن جموح کی اہلیہ بھی اپنے بھائی ہی کی طرح رسول اللہ کی محبت میں سراپا رنگین تھی.خاوند اس جنگ میں شہید ہوا، بھائی اس جنگ میں شہید ہوا.بیٹا اس جنگ میں شہید ہوا لیکن آنحضور کی سلامتی کی خوشی ان سب غموں پر غالب آگئی.حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ میں میدان جنگ کی طرف حالات معلوم کرنے جارہی تھی کہ راستے میں مجھے عمرو بن جموح کی بیوی ہند ایک اونٹ کی مہار پکڑے مدینہ کی طرف جاتی ہوئی ملی.میں نے اس سے پوچھا میدان جنگ کی کیا خبر ہے؟ اس نے جواب دیا کہ الحمد للہ سب خیریت ہے.حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے ہیں.اتنے میں میری نظر اونٹ پر پڑی جس پر کچھ لدا ہوا تھا.میں نے پوچھا یہ اونٹ پر کیا لدا ہوا ہے.کہنے لگی میرے خاوند عمرو بن جموح کی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 351 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء لغش ، میرے بھائی عبداللہ بن عمرو کی نعش ، میرے بیٹے خلا د کی نعش.یہ کہہ کر وہ مدینہ کی طرف جانے لگی مگر اونٹ بیٹھ گیا اور کسی طرح اٹھنے نہ آتا تھا.آخر جب وہ اٹھا تو مدینہ کی طرف جانے سے انکار کر دیا تب اس نے اس کی مہار پھر احد کے میدان کی طرف موڑ دی تو وہ خوشی خوشی چلنے لگا.شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۳۵۳، ۳۵۴) ادھر تو یہ ماجرا گز رہا تھا اور ادھر آنحضور صحابہ سے فرما رہے تھے کہ جاؤ عمرو بن جموح اور عبد اللہ بن عمرو کی نعشیں تلاش کرو انہیں اکٹھ دفن کیا جائے گا کیونکہ وہ اس دنیا میں بھی ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے لیکن اسے آقا! وہ نعشیں تو تیری طرف کھینچی چلی آرہی تھیں.اے سب محبوبوں سے بڑھ کر محبوب ! تیری قوت جاز بہ زندوں کی طرح شہیدوں کے جسموں کو بھی اپنے طرف کھینچ رہی تھی.عشاق کا یہ قافلہ کشاں کشاں تیرے حضور حاضر ہونے کو چلا آرہا تھا.آخر جب حضرت ہنڈ نے آنحضور کے قدموں پر شہداء کی نعشوں کو ڈھیر کر دیا اور سارا واقعہ سنایا تو آنحضور نے فرمایا کہ لازماً شہادت سے پہلے عمرو بن جموح نے کوئی ایسی خواہش کی تھی جو بر آئی.اس پر ہنڈ نے گواہی دی کہ انہوں نے کچھ ایسی ہی تمنا کی تھی.اس پر آنحضور نے ان کے حق میں یہ کلمات فرمائے ” بسا اوقات خاک آلود پراگندہ بالوں والا ایک انسان خدا کو اتنا پیارا ہوتا ہے کہ جب وہ اس کی ذات کی قسم کھا کر کچھ کہتا ہے کہ ایسا ہوگا.تو اللہ تعالی ضرور ویسا ہی کر دیتا ہے.“ شروح الحرب فتوح العرب صفحه : ۳۵۴) اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں ڈوبا ہوا یہ ایک عجیب خاندان تھا کہ جس کا ہر فرد سراپا عشق انگیز تھا.بیٹے باپ سے بڑھ کر راہ خدا میں جان دینے کی تمنا رکھنے والے.باپ بیٹوں سے بڑھ کر شہادت کا شیدائی.وہ لنگڑا تھا مگر نیکی کی دوڑ میں کروڑوں انسانوں پر سبقت لے گیا.جنت میں کوئی لنگڑا نہ ہو گا مگر بخدا مجھے تعجب نہ ہوگا اگر چند لمحوں کے لئے ہاں صرف چند لمحوں ہی کے لئے عرش کا خدا اس خاک آلودہ پراگندہ بالوں والے کی یہ قسم بھی پوری کر دے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ جنت میں اپنی لنگڑی ٹانگ کے ساتھ اچھلتا کودتا پھروں.“ اللہ اور اس کے رسول کے عشق سے سرشار یہ ایک عجیب خاندان تھا.بھائی دیکھو تو عبداللہ بن عمرو بن حرام کی شان کا کہ جس سے خدا خود پوچھے کہ اے میرے بندے ! بتا تیری رضا کیا ہے؟
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 352 غزوات النبویہ میں خلق عظیم (غزوہ احد )۹۷۹۱ء اور وہ رضا بتائے تو بس یہی کہ میں بار بار تیرے رسول کے پہلو میں جہاد کروں اور بار باراسی حالت میں قتل کیا جاؤں.بہن دیکھو تو ہنڈ جیسی بلند حوصلہ اور عالی مرتبت.ایسی فدائے پائے رسول کہ خاوند اور بھائی اور بیٹے کی لاشیں اونٹ پر لادے ہوئے الحمد الحمد کا ورد کرتی ہوئی گھر کو جاتی ہے کہ محمد مصطفی تو خیریت سے ہیں.بظاہر یہ واقعات ان صحابہ کی سیرت کی عکاسی کر رہے ہیں لیکن چشم بینا سے دیکھو تو ان کے ہر قطرہ خون میں محمد مصطفی کا سورج بڑی دلربائی سے چمکتا ہوا دکھائی دے گا.یہ سیرت محمدی کا جلوہ ہی تو تھا جس نے عرب کی تاریک دنیا کو بقعہ نور بنا دیا.رات کی تاریکی میں جب شمع روشن ہوتی ہے تو پروانے زمین کا سینہ چیر کر بھی باہر نکل آتے ہیں اور اس حسن کی آگ میں جل جانے کو سعادت جانتے ہیں.میرے آقا محمد مصطفی نے جب عربوں کو زندہ کیا تو وہ لاشے ہی تو تھے لیکن جب وہ مردوں سے جی اٹھے اور جب نور محمدی کو جلوہ گر دیکھا تو قبروں کے سینے پھاڑ کر باہر نکل آئے اور پروانوں کی طرح اس کی طرف اپنی جانوں کے نذرانے لئے ہوئے دوڑے.کسی کڑے وقت میں قوم کے کردار کی عظمت دراصل رہنما کے کردار کی عظمت ہی کی شہادت دیا کرتی ہے.غزوہ احد میں چند ایسی ساعتیں بھی آئیں کہ ان جیسی کڑی اور حوصلہ شکن ساعتیں شاذ ہی قوموں کی زندگی میں آئی ہوں گی.تاریخ عالم گواہ ہے کہ کبھی کسی قوم نے ایسے کڑے وقتوں میں اپنے آقا کی عظمت کردار کو ایسا خراج تحسین پیش نہیں کیا جیسا کہ حضرت محمد مصطفی کے عشاق نے آپ کے حضور پیش کیا.ان کے خون کے ایک ایک قطرے نے گواہی دی کہ محمدمصطفیٰ سب حسین انسانوں سے بڑھ کر حسین اور سب بچوں سے بڑھ کر سچے ہیں.ان گواہوں میں آپ کے قریبی رشتہ دار بھی تھے اور وہ بھی جن کا آپ سے خون کا کوئی رشتہ نہ تھا.ان میں وہ بھی تھے جو رشتہ میں بڑے اور اوپر کی نسل کے تھے اور وہ بھی تھے جو برابر کا رشتہ رکھتے تھے اور وہ بھی تھے جو بیٹوں کی طرح تھے.ان میں بوڑھے بھی تھے اور جوان بھی تھے اور بچے بھی ، ان میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی.وہ آخری سانس تک اسی طرح آنحضور کی صداقت کے گواہ تھے جیسے آسائش کی پر امن گھڑیوں میں جانکنی کی حالت میں بھی اکھڑے اکھڑے سانسوں کے ساتھ انہوں نے حضور اکرم پر درود بھیجے اور دعائیں کیں کہ اے خدا! جس کے طفیل ہمیں یہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 353 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء سعادت نصیب ہوئی اسے ایسی جزاء دے کہ کبھی کسی امت کی طرف سے کسی نبی کو نہ پہنچی ہو.اے محبت عجب آثار نمایاں کردی زخم ومرهم و مرہم برہ یار تو یکساں کردی تانه دیوانه شدم ہوش نہ آمد بسرم اے جنوں گردے تو گردم کہ چہ احساں کر دی ( در مشین فارسی صفحه : ۲۱۷) خون سے لکھی جانے والی عشق کی لافانی داستانیں جان نثاران محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عبداللہ بن جحش آنحضور کے پھوپھی زاد بھائی تھے.سب جانتے ہیں کہ یہ رشتہ کوئی ایسا رشتہ نہیں کہ فدائیت اور وارنگی کے تقاضے کرتا ہو.یقین یہ حضور کی بے پناہ قوت حسن و احسان ہی تھی کہ جس نے عبداللہ بن جحش کو عشق میں دیوانہ بنارکھا تھا شہید ہونے کا عزم کئے ہوئے جب وہ میدان احد میں حاضر ہوئے تو سب سے پہلے آنحضور سے یہ عرض کیا ” پس اب خدا اور رسول سے میری ایک گزارش ہے.اللہ سے تو یہ ہے کہ اے اللہ! میں تیری پاک ذات کی قسم دیتا ہوں کہ کل کو میری ضرور دشمنوں سے اس طرح مڈ بھیڑ ہو جائے کہ وہ مجھے قتل کر ڈالیں اور پھر میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور میرا مثلہ بھی کریں.غرض پھر میں اس طرح مقتول ہو کر اور یہ ساری سختیاں جھیل کر تیری ملاقات سے مشرف ہوں اور اس وقت تو مجھ سے پوچھے کہ یہ کیا حال بنارکھا ہے.یہ ساری کارروائی تیرے ساتھ کیوں ہوئی ؟ تو اس پر میں یہ عرض کروں کہ اے پروردگار! یہ سب باتیں میرے ساتھ محض تیری وجہ سے ہوئی ہیں اور اے رسول اللہ ! آپ سے یہ گزارش ہے کہ میری شہادت کے بعد میرے 66 سب تر کہ کے مالک اور وارث آپ ہوں.( شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه : ۳۸۷) جس خدا نے عبداللہ بن جحش کی شہادت کی آرزو پوری کر دی اس کی رحمت سے کب بعید ہے کہ شہادت کے بعد اسی طرح اس سے مکالمہ و مخاطبہ کرے جیسے اس کے دل کی تمنا تھی.آنحضور کی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 354 غزوات النبویہ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء خدمت میں حضرت عبداللہ بن جحش کی عرض و نیاز در اصل ان آیات قرآنی کی عملی تفسیر تھی جن میں بار بار مومنوں کو اس طرف بلایا گیا کہ وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ (التوبہ: ۴۱) b پس خدا کے حضور اپنی جان پیش کرنے کے بعد آنحضور کی خدمت میں اموال پیش کرنے میں عبد اللہ بن جحش کی حکمت یہ تھی کہ ان کے نزدیک انفاق فی سبیل اللہ کے آداب سے آنحضور سے بڑھ کر اور کوئی واقف نہ تھا.یعنی آپ کی تحویل میں جانے والا ایک ایک پیسہ، ایک ایک کوڑی راہ خدا کے سوا کسی اور مقصد پر خرچ نہیں ہو سکتے تھے.اسی طرح آنحضور کے قدموں میں سب اموال ڈال کر وہ شہادت سے قبل یہ گواہی بھی دے گئے کہ راہ خدا میں سب سے بڑھ کر سب سے بہتر خرچ کرنے والے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے.پس اس امین کے سپر د یہ امانت کر کے وہ رخصت سے قبل ہر ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے.صحابہ کی سیرت کا یہ بھی ایک انداز تھا جو انہوں نے رسول اللہ سے سیکھا کہ کسی آیت کی تفسیر اس طرح کرتے کہ خود اس کی تصویر بن گئے اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِكْ وَ سَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ حضرت عبدالمطلب کی اولاد کا آنحضور کی محبت میں سرشار ہونا اہل بصیرت کے لئے آنحضور کی صداقت کی ایک ایسی دلیل ہے جس کی کوئی نظیر دنیا کے پردے پر نظر نہیں آتی.ایک پھوپھی زاد بھائی کا تذکرہ گزر چکا ہے.اب ایک چازاد بھائی کا حال سنئے جو قبل ازیں جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے لیکن مضمون کی مناسبت سے اس واقعہ کا یہاں ذکر بے محل نہ ہوگا.میدان جہاد میں زخم کھانے والے حضرت عبیدہ جنگ بدر کے پہلے مجاہد ہیں جن کی پنڈلی شیبہ کی تلوار سے کٹ گئی تھی.اس حالت میں ان کو آنحضور کی خدمت میں پہنچایا گیا کہ کٹی ہوئی ٹانگ سے خون کا پھوارہ پھوٹ رہا تھا حضور کے قدموں سے لپٹ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرا شمار بھی شہیدوں میں ہوگا کہ نہیں آپ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 355 غزوات النبی میں خلق عظیم (غزوہ احد )۹۷۹۱ء نے فرمایا ہاں تم شہید ہو.یہ سن کر طبیعت بشاش ہوگئی اور آنحضور کے ساتھ اپنی محبت پر ناز کرتے ہوئے یہ عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کے چا ابو طالب اگر آج زندہ ہوتے تو یقینا انہیں آج اقرار کرنا پڑتا کہ وہ شعر جو انہوں نے آپ کی تائید میں لکھے تھے وہ ان سے زیادہ مجھ پر صادق آرہے ہیں.یہ کہہ کر وہ اشعار پڑھے جو یہ تھے: كَذَبْتُمْ وَبَيْتُ اللهِ تُخْلِى مُحَمَّداً وَلَمَّا نُطَاعِـنْ دُوْنَهُ وَنُنَا ضِل وَنُسْلِمُهُ حَتَّى نُصَرَّعُ حَوْلَهُ وَنَذْ هَلُ عَنْ أَبْنَائِنَا وَالْحَلَائِل کہ اے قریش !خدا کے گھر کی قسم تم یہ بات جھوٹ کہتے ہو کہ محمد کو اکیلا چھوڑ دیں گے اور اس کی حمایت میں نیزہ بازی اور تیراندازی نہیں کریں گے.بلکہ ہم تو ایسے زور کی حمایت کریں گے کہ اسے بچاتے ہوئے ہم اس کے چاروں طرف قتل ہو ہو کر گریں گے اور اس کی حمایت میں اپنے بال بچوں اور عورتوں کو بھی بھول جائیں گے.شروح الحرب ترجمہ فتوح العرب صفحہ: ۷۲-۷۱ ) شاران محمد جو آنحضور کے بعد زندہ نہیں رہ سکتے تھے مجاہدین اُحد میں کچھ تو وہ تھے جنہوں نے آنحضور کی جان بچاتے ہوئے اپنی جان نچھاور کر دی.پس خدا نے ان کی قربانیوں کو قبول فرمایا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے لیکن کچھ ایسے بھی تھے جن پر حضور کی شہادت کی خبر بجلی بن کر گری اور ان کے خرمن ہوش و حواس کو خاکستر کر گئی.وہ جیتے جی مردہ کی طرح ہو گئے اور غم وحزن کی تصویر میں بنے ہوئے ادھر ادھر پتھروں پہ بیٹھ رہے.ایک تیسرا گروہ بھی تھا جس کا رد عمل کچھ اس طرح ظاہر ہوا کہ جینے سے نفرت ہوگئی اور دنیا کی زندگی کے منہ پر تھوکتے ہوئے دیوانوں کی طرح باب شہادت کی طرف دوڑے.انہوں نے بہت تیزی کی اور عجلت سے کام کیا اور اس کے بند ہونے سے قبل وہ اس سے گزر کر اس ماوراء جہان میں پہنچ گئے جہاں وہ سمجھتے تھے کہ آنحضور تشریف لے جاچکے ہیں.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 356 غزوات النبی میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء اللہ! اللہ ! تلاش حبیب میں دیوانوں کا یہ کیسا عجیب سفر تھا.واقدی کا بیان ہے کہ احد کے روز جس وقت مسلمانوں کی حالت خراب ہو گئی اور سب کے سب گھبرا کر بے اوسانی کی حالت میں تتر بتر ہو گئے تو اس وقت حضرت ثابت بن دحداحہ آگے بڑھے اور زور زور سے کہنے لگے.اے انصار کی جماعت ! تم کدھر بھاگے جاتے ہو.دیکھو میری طرف دیکھو، میں ثابت بن دحداحہ ہوں اور میرے پاس آجاؤ.اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے تو کیا ہوا خدا تو زندہ ہے اور وہ ہمیشہ ہمیش قائم رہنے والا ہے جس کے لئے تم پڑنے کو آئے ہو.سو تم اپنے دین کی حمایت میں جانبازی کرو خدا ضرور تمہاری مدد کرے گا اور دشمنوں پر تمہیں فتح دے گا.چنانچہ چند آدمی انصار میں سے ان کی آواز سن کر ان کے پاس آگئے اور انہیں چند آدمیوں کو لے کر مشرکوں پر حملہ کرنے کو تیار ہو گئے اور مشرکوں کی طرف سے بھی ان کے مقابلہ کے واسطے ایک ہتھیار بند فرقہ آڈٹا جس میں ان کے بڑے بڑے سردار شامل تھے.حضرت دحدانہ اور جو جو فدائین ان کے ساتھ تھے وہ سب کے سب وہاں شہید ہو گئے کہا جاتا ہے کہ یہ جنگ احد کے آخری شہداء تھے.شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه ۳۷۳، ۳۷۴) حضرت انس بن نضر جو انس بن مالک کے چچا تھے.ان کی کیفیت راوی اس طرح بیان کرتا ہے کہ احد کے روز جب مسلمان شکست کھا کر بھاگنے لگے تو ہم چند مسلمان اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے.اسی عرصہ میں اتفاق سے انس بن نضر بن ضمضم بھی گزرے اور ہمیں بیٹھے ہوئے دیکھ کر فرمانے لگے کہ تم جنگ سے کیوں بیٹھ رہے ؟ لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو شہید ہو گئے ہیں.اب ہم بھی لڑ کر کیا کریں.یہ سن کر حضرت انس بن نضر فرمانے لگے کہ حضور کے بعد تم زندہ ہی رہ کر کیا کرو گے.پس اٹھ کھڑے ہو اور جس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مر مٹے ہیں تم بھی لڑ کر اسی بات پر مرمٹو اور اپنی جان کھو دو.یہ فرما کر انہوں نے جلدی سے اپنی تلوار اٹھالی اور مشرکوں پر بجانی شروع کر دی یہاں تک کہ آخر کار خود بھی شہید ہو گئے ایسے حال میں کہ ان کے چہرے پر ستر زخم آئے جس سے وہ پہچانے بھی نہ جاتے تھے.( شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه ۳۷۲، ۳۷۳) حضرت عباس بن عبادہ نے جوش میں آکر اپنے سر سے خود کوا تار دیا اور اپنی زرہ کو بھی نکال
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 357 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء دیا.پھر حضرت خارجہ سے کہنے لگے کہ اگر آپ کو میری زرہ اور میرے خود کی ضرورت ہو تو لے لیجئے.حضرت خارجہ نے فرمایا کہ مجھے تو کچھ ضرورت نہیں اور جو کچھ آپ کی نیت ہے وہی میری بھی نیت ہے غرض یہ سب کے سب اپنی اپنی زرہ وغیرہ سب چیزیں اتار کر اور سر بکف ہو کر مشرکوں کے ٹڈی دل میں گھس گئے اور حضرت عباس بن عبادہ یہ بھی فرماتے جاتے تھے کہ اگر خدانخواستہ ہماری آنکھوں کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے تو ہم خدا کو کیا منہ دکھا ئیں گے اور اس کے سامنے کیا کہیں گے؟ اور حضرت خارجہ ان کی تائید کرتے جاتے تھے.( شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه : ۳۴۴) پس ان دونوں کی دلی آرزو اللہ تعالیٰ نے پوری کر دی اور وہیں لڑتے لڑتے شہید ہو گئے.سیرت ابن ہشام میں شہداء کی جو فہرست دی گئی ہے اس میں حضرت خارجہ کا ۴۱ واں نام ہے اور حضرت عباس بن عبادہ کا ۵۲ واں نام درج ہے.اللہ تعالیٰ ان عظیم شہداء کے انگ انگ پر بے شمار حمتیں اور برکتیں نازل فرمائے اور تا ابد ہمارے محبوب آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ان کو جگہ دے کیونکہ دراصل یہ چاروں شہداء یعنی حضرت ثابت بن دحداحہ اور حضرت انس بن نفر اور حضرت عباس بن عبادہ اور حضرت خارجہ بن زید اس لائق ہیں کہ حضرت محمد مصطفی کے فراق کا شہید کہا جائے.آنحضور کی شہادت کی خبر نے دنیا ان پر اندھیر کر دی تھی اور ہجر کی بے قراری انہیں مزید اب یہاں ٹھہر نے نہ دیتی تھی.پس اس سے زیادہ خوش نصیبی اور کیا تھی کہ شہادت کا باب ابھی کھلا تھا اور یکے بعد دیگرے یہ کہتے ہوئے اس میں داخل ہوئے.آنحضور کا ایک انقلاب آفرین اعلان قرآن کریم کے اس ارشاد سے کون مسلمان واقف نہیں کہ ایک ایسا کڑا وقت بھی جنگ احد میں آیا تھا کہ آنحضور دوڑتے ہوؤں کو پیچھے سے آوازیں دے کر بلا رہے تھے مگر کوئی مڑکر بھی نہ دیکھتا تھا.اس واقعہ نے ہمیشہ سیرت نگاروں کو سخت تعجب میں مبتلا کئے رکھا ہے کیونکہ بظاہر یہ بات اسوہ صحابہ کے منافی نظر آتی ہے اور اگر قرآن کریم نے اس واقعہ کی تصدیق نہ کی ہوتی تو کسی مسلمان کا دل اس کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوتا.یہاں یہ امر یا درکھنے کے قابل ہے کہ احد کے میدان سے جن بھاگنے والوں کا ذکر ملتا ہے وہ کوئی منافق نہ تھے بلکہ ان میں بعض اعلیٰ پائے کے صحابہ بھی شامل تھے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 358 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء معلوم ہوتا ہے کہ کفار کا حملہ ہی اتنا شدید اور اچانک تھا کہ اس نے انہیں سراسیمہ اور حواس باختہ کر کے رکھ دیا اور اس ریلے کے آگے وہ اس طرح بے بس و بے اختیار ہو گئے جیسے سیلاب میں تنکے بہہ جاتے ہیں.اس بات کا سب سے بڑا ثبوت کہ وہ عمد أ قصور وار نہ تھے بلکہ محض لغزش کے مرتکب تھے یہ ہے کہ بعد ازاں آنحضور نے ان میں سے کسی کو سر زنش نہ فرمائی نہ ہی کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار کیا.حالات ہی اچانک کچھ ایسے پیدا ہو گئے تھے کہ جن میں بڑے بڑے سور ماؤں کے قدم اکھڑ جاتے ہیں.اپنی جگہ پر یہ سب درست ہے لیکن یہ سوال پھر بھی وہیں رہتا ہے اور ذہن کو ماؤف کئے دیتا ہے کہ آخر ان کے لئے یہ کیسے ممکن ہو گیا کہ آنحضور کے بلانے کے باوجود دوڑے ہی چلے جائیں اور مڑ کر بھی نہ دیکھیں.بہت غور کے بعد میں اس قطعی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ دراصل انہیں اس بات کا علم ہی نہ ہوسکا کہ انہیں کون بلا رہا ہے؟ آنحضور زرہ پوش تھے اور آنکھوں کے سوا چہرہ مبارک نظر نہ آتا تھا.اسی طرح آپ کی آواز بھی زرہ کا پردہ حائل ہونے کے باعث پہچانی نہیں جارہی تھی چنانچہ جیسا کہ حضرت کعب بن مالک کی روایت گزر چکی ہے انہوں نے بھی جب ڈھونڈتے ڈھونڈ تے آخر آپ کو پالیا تو صرف آپ کی آنکھوں کی حسین چمک کی بدولت آپ کو پہچان سکے ورنہ اور کوئی ذریعہ آپ کو پہچانے کا نہ تھا.معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور خود بھی اس راز کو پاگئے چنانچہ مسلمانوں پر قطعی طور پر یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ کون انہیں اپنی طرف بلا رہا ہے آپ نے ایک ایسا اعلان فرمایا جس کے بعد کسی غلط فہمی کا سوال باقی نہ رہتا تھا کیونکہ یہ ایک اعلان تھا جو ہمارے محبوب آقا آنحضور کے سوا کسی اور زبان پر زیب نہ دیتا تھا اور سننے والے عشاق کے لئے کسی شک کی گنجائش نہ چھوڑتا تھا کہ یہ خاص انداز محبوبی میں بلانے والا کون ہے.حضرت یعقوب بن عمر بن قتادہ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لڑائی کا بہت زور پڑ گیا اور سارے مشرک ایک دم آپ ہی پر ٹوٹ پڑے اور حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت ابو دجانہ جان پر کھیل کر حضور کی امداد کو حاضر ہوئے اور دشمنوں کو آپ کے پاس سے دم کے دم میں رفع دفع کر دیا اور خود زخموں سے چور چور ہو گئے تو حضور نے مسلمانوں کو آواز دے کر یہ فرمایا کہ اس وقت کون ہے جو مجھ پر اپنی جان نچھاور کرے؟ یہ آواز کیا تھی ایک صور پھونکا جارہا تھا.جس
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 359 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء نے عاشقوں کو دیوانہ سا کر دیا.انصار میں حضرت زیادہ بن سکن کے کانوں میں جب یہ آواز پڑی تو انصار کی ایک ٹولی لے کر جن کی تعداد پانچ یا سات بیان کی جاتی ہے کودتے اور پھلانگتے ہوئے حضرت محمد مصطفی کے حضور حاضر ہو گئے اور اس بے جگری سے آپ کے سامنے لڑے کہ دشمن کی ہر یلغار کو بار بار پسپا کر دیا یہاں تک کہ زخموں سے چور چور ہو کر وہ سب کے سب میدان جہاد میں کٹ کٹ کر گرے.اتنے میں حضور کی دعوت عام پھیل گئی اور جس جس نے بھی سنی وہ دوڑتا ہوا حضور کی طرف لپکا اور ایک بڑی جماعت جان شاروں کی آپ کے گرد اکٹھی ہوگئی اور دشمن کا حملہ کلیہ ناکام و نا مراد بنادیا گیا.رض تب حضور اکرم نے صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ جاؤ اور زیادہ کو میرے پاس لاؤ.حضرت زیادۃ کے سب ساتھی شہید ہو چکے تھے لیکن ان میں ابھی کچھ جان باقی تھی.ہر چند کہ چودہ گہرے زخم لگے تھے جن میں سے ہر ایک جان لینے کے لئے کافی تھا، خدا کی تقدیر نے ایک خاص مقصد کے لئے ان کے چھلنی بدن ہی میں جان کو روک رکھا تھا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جان نثار عاشق کو اس فدائیت کی ایک جزاد نینی تھی اور جب تک یہ نہ ہو جا تا موت کور کے رہنے کا اذن تھا.پس آنحضور رض کے حکم پر جب صحابہ نے زیادہ کے چور چور بدن کو حضور کے قریب ڈال دیا تو حضور نے فرمایا اسے میرے اور قریب کرو.صحابہ نے تعمیل ارشاد کی اور فرمایا اور بھی قریب کرو.یہاں تک کہ جب وہ عین قدموں میں لٹا دیئے گئے تو آنحضور نے اپنا پاؤں آگے بڑھایا اور فرمایا اس پاؤں پر اپنا سر رکھ دو.پس حضرت زیادہ نے اپنا سر آپ کے قدموں پر رکھ کر آخری سانس لیا اور جان جان آفرین کے سپرد کردی.( شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه : ۳۲۲.۳۲۳) اللہ ! اللہ کسی عاشق اور معشوق کے درمیان ایسا ناز و نیاز کا ماجرا پہلے کب آسمان کی آنکھ نے دیکھا تھا.حضور کی اس شان محبوبی کے شار، دلداری کی تو آپ نے حد کر دی.کیسے اس جان نثار کی دلی آرزو پوری کی ! کیسے اس وفا شعار سے وفا کی اور اپنے قدموں پر اس کا سر رکھ کر ہر سر بلند سے اس سر کو بلند تر کر دیا.بلاشبہ ہر دیکھنے والے کی آنکھیں ہزار حسرت سے اس شار محمد کو دیکھ رہی ہوں گی اور ہر دل میں رشک کی آگ سی بھڑک اٹھی ہوگی کہ کاش اس سر کی بجائے ہمارا سران قدموں پر دھرا ہوتا.لیکن حضور کے اس فعل کی حکمت اس سے کہیں زیادہ گہری تھی جو بظاہر دکھائی دیتی ہے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 360 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر آنحضور یہ جانتے تھے کہ قیامت کے روز ہر شہید اسی حالت میں اٹھایا جائے گا جس حالت میں وہ جان دے گا.پس حضور نے زیادہ کو جو جزا دی وہ دنیا کی ہی نہیں آخرت کی بھی بہترین جزا دی تھی.حضور یہ چاہتے تھے کہ قیامت کے روز ایک سراہاں وہ ایک زیادہ انصاری کا سر میرے ہی قدموں پر زندہ کیا جائے اور میرے ہی قدموں پر زندہ کیا جائے اور میرے ہی قدموں پر سے اٹھایا جائے.اے احد کی زمین! تجھ پر نثار! تیری داستانیں لازوال ہیں.تو نے شہیدوں کے خون سے آسمان شہادت پر کیسے کیسے رنگ بھرے اور کیسے کیسے دل نواز نقش و نگار بنائے ہیں.ایک عجیب ایفائے عہد اور آپ کی صداقت پر دشمن کی گواہی ابی بن خلف ایک جنگجو مشرک تھا جس کا بیٹا غزوہ بدر میں قیدی بنایا گیا تھا.وہ ایک مرتبہ اپنے بیٹے کو رہائی دلانے کے لئے اور دیت کی رقم طے کرنے مدینہ آیا تو آنحضور سے کہا کہ میرا ایک بڑا منہ زور اور تنومند گھوڑا ہے جسے میں اس نیت سے جو کھلا کھلا کر خوب ہٹا کٹا کر رہا ہوں کہ ایک دن اس کی پیٹھ پر سوار ہو کر آپ کو قتل کروں.آنحضور نے جوا با صرف اتنا فرمایا کہ انشاء اللہ میں ہی تجھے قتل کروں گا اور حضور کا یہ قول اس کی تقدیر بن کر آسمان پر لکھا گیا.جنگ احد کے اختتام پر جب دشمن کے سیہ بادل چھٹ گئے اور میدان ٹھنڈا پڑ گیا تو آنحضور احد کے دامن میں ایک محفوظ مقام پر اپنے صحابہ کے ساتھ کچھ عرصہ سستانے کے لئے ٹھہرے.اچانک ایک سوار نمودار ہوا جو ایک خاص ارادہ سے سر پٹ گھوڑا دوڑاتا ہوا اس طرف بڑھا چلا جارہا تھا.دیکھا تو یہ ابی بن خلف تھا جو اسی گھوڑے پر سوار آنحضرت کے قتل کی نیت سے بڑھا چلا آرہا تھا.آنحضور کے گرد صحا بہ گھیرا باندھے کھڑے تھے انہوں نے اجازت طلب کی کہ وہ اس حملہ آور کا کام تمام کردیں.ہر چند کہ تمام دن کی خوفناک جنگ کے باعث حضور سخت تھکے ہوئے تھے ،سر زخمی تھا، چہرہ زخمی تھا، دندان شہید ہو چکے تھے ، خون اتنا بہا تھا کہ کسی صورت تھمنے میں نہ آتا تھا ، پتھریلی زمین پر گرنے کے باعث دونوں گھٹنے چوٹ کھائے ہوئے اور بری طرح چھلے ہوئے تھے.آپ کی عمر اس وقت چھپن برس تھی.ہر چند کہ یہ تمام امور قدم تھامے ہوئے تھے.آنحضور کے عزم کی ایک جنبش نے یہ زنجیریں توڑ ڈالیں.ایفائے عہد کا تقاضا ہر مصلحت اور مجبوری پر بلا تردد غالب آ گیا.آپ نے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 361 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء صحابہ کو اجازت نہ دی اور فرمایا میں خود اس کا مقابلہ کروں گا.یہ کہہ کر حضور نے ایک نیزہ اٹھایا اور صحابہ کا ہجوم چیرتے ہوئے اس کی طرف بڑھے.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت آپ کے نیزے سے ایک ایسی چمک سی پیدا ہوئی کہ جس طرح بجلی کے کڑکے سے اور ہماری یہ حالت ہوئی کہ جس طرح بعض اوقات بجلی کی چمک سے اونٹ اس شدت سے کانپتا ہے کہ اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ہمارے بدنوں پر بھی ایک کپکپی طاری ہو گئی.آنحضور آگے بڑھے اور عین اس جگہ جہاں خود اور زرہ ملتے تھے اس کی گردن پر نیزے کا وار کیا جس سے وہ چکرا کر گھوڑے کی پیٹھ پر دو تین بار گھوما اور گھوم کر گر گیا.اس کے پیچھے اس کے کچھ ساتھی بھی آرہے تھے جنہوں نے دوڑ کر اسے تھام لیا اور واپس لے گئے.لشکر میں پہنچ کر اس نے بہت واویلا کیا کہ میں مرا جاتا ہوں.اس پر لوگوں نے اسے سمجھایا کہ معمولی زخم ہے تو ہر گز اس سے نہیں مرے گا لیکن اس نے جواب دیا.دیکھو محمد نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ تو میرے ہاتھوں قتل ہوگا پس اس کا وعدہ ضرور پورا ہوگا یہ تو پھر ایک زخم ہے خدا کی قسم اگر وہ میرے منہ پر تھوک بھی دیتا تو میں ضرور مرجاتا.چنانچہ وہ اس زخم سے جانبر نہ ہوسکا اور مکہ لوٹتے ہوئے دوسرے یا تیسرے پڑاؤ پر مر گیا.( شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۳۳۵، ۳۳۶) شام احد دنیا کے شاعر شام تلج یا شام بیاسا کے حسن کی باتیں کرتے ہیں یا سندر بن میں ڈوبنے والے سورج کے سندر سمے کے گیت گاتے ہیں لیکن میں آج آپ کو ایک حسین تر شام کے کچھ قصے سناتا ہوں.یہ ایک سوز و گداز میں ڈوبی ہوئی شام تھی جس کی شفق روتی ہوئی آنکھوں کی طرح گلابی تھی اور بھیگی ہوئی پلکیں اپنے حسن میں یکتا تھیں.یہ شام شام احد تھی جس میں ماتم بھی تھا اور ماتم پر سیاں بھی.جس میں بیمار عشق بھی تھے اور ناز و ادا کی تیمار داریاں بھی.لیکن عجیب تر بات یہ تھی کہ وہ جس کا دل سب سے زیادہ غم سے بھرا ہوا تھا وہی تھا جو سب کا غمگسار بھی تھا.ہر ایک صاحب غم دلداری کے لئے اس کے پاس آتا تھا اور وہ ایک عجیب شان محبوبی کے ساتھ ہر ایک کی دلداری کرتا تھا.یہ وہ شام تھی جب شفق شام نے عبادت کا ایک ایسا منظر دیکھا جو سورج سے بڑھ کر روشن تھا.وہ ایک ایسی شام تھی جس نے قیام نماز کا ایک ایسا نظارہ کیا کہ گردش لیل و نہار کو پھر قیامت تک نصیب نہ ہونا تھا.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت شہداء کی تدفین 362 غزوات النبوی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء آئیے ! اب ہم شام احد کی کچھ باتیں کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ جب جنگ کے بادل چھٹ گئے اور دشمن حضور کو ہلاک کرنے کی حسرت لئے ہوئے خائب و خاسر لوٹ گیا تو حضور کی یہ شام کیسے بسر ہوئی؟ سب سے پہلے تو حضور نے اپنی نگرانی میں شہداء کی تدفین کا انتظام فرمایا.یہ نظارہ بڑا پر درد تھا لیکن خلق محمد سمی نے اس درد کو بھی ایک حسن کی چادر پہنا رکھی تھی.آپ کی فطرت پھولوں سے زیادہ لطیف اور معطر تھی اور کوئی ایک گھڑی بھی مہک اور خوشبو سے خالی نہ تھی.تمام دن کی شدید تعب اور تھکن اور زخموں کی کسک کے باوجود آپ نے شہیدوں کی تدفین میں کسی افرا تفری یا جلد بازی سے کام نہ لیا بلکہ بڑی احتیاط کے ساتھ یہ معلوم کر کے کہ اس دنیا میں کون کس کے زیادہ قریب تھا جہاں تک ممکن ہوا اقرباء اور محبت کرنے والوں کو ایک ساتھ دفن کرواتے رہے.حضرت عمرو بن جموح کے ساتھ ان کے برادر نسبتی عبد اللہ بن عمرو بن حرام کو یہ کہہ کر دفن فرمایا کہ دنیا میں دونوں بہت ہی عزیز دوست تھے.حضرت حمزہ کے ساتھ ان کے بھانجے عبداللہ بن جحش کو اکٹھا کیا.(شروح الحرب ترجمہ فتوح العرب صفحہ: ۳۵۵) اور جہاں دوسرا قرابت کا رشتہ نہ پایا وہاں حفظ قرآن کو ہی معیار قرابت قرار دیا.عربوں کے نزدیک ہم مشرب اور ہم پیالہ ہونا با ہمی قرب اور انس کی دلیل سمجھا جاتا تھا.آنحضور نے ہم مشرب کہلانے کے لئے جو پیمانہ مقرر فرمایا وہ کتاب اللہ کا پیمانہ تھا.یہ وہ پیمانہ نہ تھا جس میں فرق کے ساتھ کلام الہی کی شراب بلتی تھی.آپ نے حکم دیا جو شہداء حفظ قرآن میں ہم مرتبہ ہوں یا قریب تر ہوں ان کو ایک ساتھ دفن کیا جائے.بہترین ہمدردومونس شہداء کی تدفین کی نگرانی کے ساتھ دکھیا دلوں کی غم خواری بھی فرماتے جاتے.شہداء کے وارثین کو بڑی ملائمت اور پیار اور حکمت عملی کے ساتھ ان کے پیاروں کی شہادت کی خبر دیتے.آپ کا انداز ایسا انوکھا تھا اور بات ایسی دل میں اترنے والی تھی کہ غم ناک خبر کی اطلاع کے ساتھ ساتھ دلجوئی بھی ہوتی چلی جاتی تھی اور صبر نہ بھی آتا ہوتو محمد مصطفی کے انفاس قدسیہ کی برکت سے آہی جاتا تھا.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 363 غزوات النبوی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام کی شہادت پر اللہ تعالیٰ نے ان کی جو بندہ نوازی فرمائی.اس کا ذکر ان کے بیٹے جابر بن عبد اللہ سے فرما کر ان کے زخم پر پھا یار کھ دیا بلکہ ایک عارضی غم کے بعد ایک ایسی جاودانی خوشخبری عطا فرمائی جو بعد ازاں تادم مرگ ان کی خوشیوں کا سرمایہ بنی رہی.وہ صحابہ یا صحابیات جن کے اقرباء میں شہید ہونے والوں کی تعداد ایک سے زیادہ ہوتی ان کو ٹھہر ٹھہر کر اس انداز میں خبر دیتے کہ صدمہ یک لخت دل کو مغلوب نہ کر لے.چنانچہ جس وقت حضور کی خدمت میں حضرت عبداللہ کی بہن مسماۃ حمنہ دختر جحش حاضر ہوئیں تو آپ نے فرمایا اے حمنہ ! تو صبر کر اور خدا سے ثواب کی امید رکھ.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کس کے ثواب کی؟ آپ نے فرمایا اپنے ماموں حمزہ کی.تب حضرت حمنہ نے کہا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ غَفَرَلَهُ وَ رَحِمَهُ هَنِيئًا لَهُ الشهادة.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اے حمنہ ! صبر کر اور خدا سے ثواب کی امید رکھ.اس نے عرض کیا کہ یہ کس کے ثواب کی؟ آپ نے فرمایا اپنے بھائی عبداللہ کی.اس پر حمنہ نے پھر یہی کہا اناللہ وانا اليه راجعون.غفر له ورحمه هنيئًا له الشهادة.آپ نے فرمایا اے حمنہ ! صبر کر اور خدا سے ثواب کی امید رکھ.انہوں نے عرض کیا حضور یہ کس کے لئے؟ فرمایا مصعب بن عمیر کے لئے.اس پر حمنہ نے کہا ہائے افسوس ! یہ سن کر حضور نے فرمایا کہ واقعی شوہر کا بیوی پر اتنابڑ احق ہے کہ کسی اور کا نہیں مگر تو نے یہ ایسا کلمہ کیوں کہا؟ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے اس کے بچوں کی یتیمی یاد آگئی تھی جس سے میں پریشان ہو گئی اور پریشانی کی حالت میں یہ کلمہ میرے منہ سے نکل گیا.یہ سن کر حضور نے مصعب کی اولاد کے حق میں یہ دعا کی کہ اے اللہ ! ان کے سر پرست اور بزرگ ان پر شفقت اور مہربانی کریں اور ان کے ساتھ سلوک سے پیش آویں.یتیموں کا والی شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه : ۳۸۷، ۳۸۸) یموں پر آپ اس درجہ شفیق تھے اور ان کی خبر گیری کا ایسا خیال رہتا تھا کہ سب محبت کرنے والے غلاموں نے بھی آنحضور ہی کا رنگ پکڑ لیا اور مجاہدین اسلام کو یہ فکر نہ رہی تھی کہ پیچھے ان کی اولادوں کا کیا بنے گا؟ یتیموں کے سر پر سے شفقت کا ایک سایہ اٹھتا تھا تو سوشفقت کے سائے اس کی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 364 غزوات النبوی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء جگہ لینے کے لئے آگے آجاتے تھے.ایک مرتبہ کسی نے حضرت ابو بکر کو اس حال میں دیکھا کہ زمین پر لیٹے ہوئے اپنی چھاتی پر ایک بچی کو سوار کر رکھا ہے اور والہانہ اس سے پیار کر رہے ہیں.اس نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو فرمایا یہ مجھ سے بہتر ایک ایسے انسان کی بیٹی ہے جس کا نام سعد بن ربیع تھا اور جواحد کی جنگ میں شہید ہوا.(سیرت النبی.ابن ہشام صفحہ ۷۹ ) یہ وہی سعد بن ربیع ہیں کہ غزوہ احد کے دوران جن کی تلاش میں آنحضور نے ایک صحابی کو بھجوایا تو وہ اس وقت جان بلب تھے اور ضعف کا یہ عالم تھا کہ یہ سننے کے باوجود کہ مجھے بلایا جارہا ہے جواب دینے کی طاقت نہیں تھی.تب اس پکارنے والے نے پکارا کہ اے سعد بن ربیع ! مجھے خدا کے رسول نے تجھے ڈھونڈنے کے لئے بھیجا ہے.اس فقرے کا اس کے منہ سے نکلنا تھا کہ نعشوں کے ایک ڈھیر میں ایک بدن نے شدید جھر جھری لی گویا اس کی مختصر کا ئنات پہ ایک زلزلہ آ گیا ہے.یہ سعد بن ربیع تھے جو آنحضور کا نام سن کر برداشت نہ کر سکے تھے کہ لبیک کہے بغیر دم توڑ دیں.چنانچہ راوی کہتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوت کا آخری قطرہ تک سمیٹ کر بمشکل مجھے جواب دیا کہ بھائی آؤ میں ادھر ہوں آؤ اور میرے آقا کی جناب میں میرا ایک پیغام تو لیتے جاؤ.وہ پیغام یہ ہے کہ اللہ آپ کو بہترین جزا دے جو کبھی کسی امت کی طرف سے اس کے نبی کو پہنچی ہواور صحابہ کو بھی میرا ایک پیغام دینا.دیکھو! تمہارے جیتے جی اگر دشمن رسول اللہ تک پہنچ گیا تو تم خدا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گے.شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۳۸۹) حضرت صفیہ سے صبر کا وعدہ لینا اور ان کے ساتھ حضرت حمزہ پر خاموش آنسو بہانا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حمزہ سے جو پیار تھا اس کا اظہار ان الفاظ سے ہوتا ہے جو احد کی شام آنحضور نے حضرت حمزہ کی نعش پر کھڑے ہو کر فرمائے.آپ نے فرمایا اے حمزہ ! مجھے آج جو غصہ ہے اور جو تکلیف تیرے مقتل پر کھڑے ہو کر پہنچی ہے اللہ آئندہ کبھی مجھے ایسی تکلیف نہ دکھائے گا.اس وقت آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ حضرت حمزہ کی بہن بھی یہ خبر سن کر وہاں چلی آئیں تو اس خوف سے کہ کہیں صبر کا دامن ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے پہلے تو آپ نے انہیں نعش دیکھنے کی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 365 غزوات النبی میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء اجازت نہ دی لیکن جب انہوں نے صبر کا وعدہ کیا تو اجازت فرما دی.حضور کے ارشاد پر روکنے والوں نے جب حضرت صفیہ کا راستہ چھوڑ دیا تو وہ حضرت حمزہ کے مقتل پر حاضر ہوئیں اور شیر خدا اور شیر رسول اپنے پیارے بھائی کی لاش اس حالت میں سامنے پڑی دیکھی کہ ظالموں نے سینہ پھاڑ کر کلیجہ نکال لیا تھا اور چہرے کے نقوش بھی بری طرح بگاڑ دیئے تھے.ہر چند کہ سینہ غم سے بیٹھا جاتا تھا.حضرت صفیہ اپنے صبر کے وعدہ پر قائم رہیں اور ایک کلمہ بے صبری کا منہ سے نکلنے نہ دیا.لیکن آنسوؤں پر کسے اختیار تھا.اِنَّا لِلہ پڑھا اور روتے روتے وہیں بیٹھ گئیں.حالت یہ تھی کہ غمزدہ خموش آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی.راوی کہتا ہے کہ آنحضور بھی پاس بیٹھ گئے.آپ کی آنکھوں سے بھی بے اختیار آنسو جاری ہو گئے.جب حضرت صفیہ کے آنسو مدھم پڑتے تو حضور کے آنسو بھی مدھم پڑ جاتے.جب حضرت صفیہ کے آنسو تیز ہوتے تو آنحضور کے آنسو بھی تیز ہو جاتے.چند منٹ اسی حالت میں گزرے.( شروح الحرب ترجمہ فتوح العرب صفحہ: ۳۸۴.۳۸۶.السیرۃ الحلبیہ ذکر غزوة احد جلد ۲ صفحہ: ۲۰۶ ۲۰۷) پس آنحضور اور اہل بیت کا نوحہ ان چند خاموش آنسوؤں کے سوا اور کچھ نہ تھا اور یہی سنت نبوی ہے.مدینہ میں داخل ہونے کا منظر آپ مدینہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ تمام مدینہ ماتم کدہ بنا ہوا تھا اور گھر گھر سے شہدائے احد کی یاد میں نوحہ گروں کی آوازیں بلند ہورہی تھیں.حضور نے سنا تو بڑے درد سے فرمایا اما حمزة فلا بواكى لۂ یعنی حمزہ کو تو کوئی رونے والا نہیں.ہاں حمزہ کو رونے والا ہو بھی کون سکتا تھا کہ اہل بیت کو تو صبح و شام صبر کی تلقین ہوا کرتی تھی.حضرت حمزہ کی بہن ایک صفیہ تھیں جن کو بھائی سے شدید محبت تھی مگر آنحضور خود بخش دکھانے سے قبل ان سے صبر کا وعدہ لے چکے تھے.بہر حال حضور کے اس درد بھرے فقرے کو جب بعض انصار نے سنا تو تڑپ اٹھے اور گھروں کی طرف دوڑے اور بیبیوں کو حکم دیا کہ ہر دوسرا ماتم چھوڑ دو اور حمزہ پر ماتم کرو.دیکھتے دیکھتے ہر طرف سے حمزہ کے لئے آہ و بکا کا ایک شور بلند ہوا اور ہر گھر حمزہ کا ماتم کدہ بن گیا.( شروح الحرب ترجمہ فتوح العرب صفحہ: ۴۱۴) انصار بیبیاں حمزہ کے نوحے پڑھتی اور آنسو بہاتی.آنحضور کے رحمت کدہ پر اکٹھی ہو گئیں.آنحضور نے شور سن کر باہر دیکھا تو انصار بیبیوں کی ایک بھیڑ لگی ہوئی تھی.حضور نے ان کی ہمدردی پر ان کو دعا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 366 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء دی اور شکریہ ادا کیا لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ مردوں پر نوحہ کرنا جائز نہیں.پس اس دن سے نوحے کی رسم متروک کر دی گئی.( شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحہ: ۴۱۶) آنحضور کے قدموں پر ہماری جانیں شمار ہوں.کس شان کا معلم اخلاق تھا جو روحانیت کے آسمان سے ہمیں دین سکھانے نازل ہوا.کیسا صاحب بصیرت اور زیرک تھا یہ نصیحت کرنے والا جس کی نظر انسانی فطرت کے پاتال تک اتر جاتی تھی.اگر اس وقت آنحضور انصار بیبیوں کو نوحہ کرنے سے منع فرما دیتے جب وہ اپنے شہیدوں کا نوحہ کر رہی تھیں تو شاید بعض دلوں پر یہ شاق گزرتا اور یہ صبر ان کے لئے صبر آزما ہو جاتا لیکن دیکھو کیسے حکیمانہ انداز میں آپ نے پہلے ان کے ماتم کا رخ اپنے چا حمزہ کی طرف پھیرا اور پھر جب نوحہ سے منع فرمایا تو گویا اپنے چچاکے نوحہ سے منع فرمایا.اللہ کا انتخاب اللہ ہی کا انتخاب ہے.دیکھو اپنی مخلوق کے لئے کس شان کا نصیحت کرنے والا بھیجا جو انسانی فطرت کی باریکیوں اور لطافتوں سے خوب آشنا تھا اور اپنے غلاموں کے لطیف جذبات کا کیسا خیال رکھنے والا تھا.آنحضور کی ان حسین اداؤں پر جب نظر پڑتی ہے تو دل سینے میں اچھلتا اور فریفتہ ہونے لگتا ہے اور بے اختیار دل سے یہ آواز اٹھتی ہے کہ ہماری جانیں ہمارے اموال ہماری اولادیں تیرے قدموں کے نثار، ان گلیوں کے نثار جو خوش بختی سے تیرے قدم چھوتی تھیں.اے اللہ کے رسول! تجھ پر لاکھوں درود اور کروڑوں سلام ! اے وہ کہ جس کے حسن واحسان کا سمندر بے کنارا اور اتھاہ اور لافانی ہے.اے اللہ کے رسول ! تجھ پر لاکھوں درود اور کروڑوں سلام.زمین و آسمان کے واحد و یگانہ خدا کی قسم !ازمین و آسمان میں اس کی تمام مخلوق میں تو واحد اور یگانہ ہے.تجھ سا نہ کوئی تھا، نہ ہے، نہ ہوگا.غلام نوازی ایسے رؤوف و رحیم کہ اپنے سے بڑھ کر اپنے غلاموں کا خیال رہتا تھا.حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ جب احد کے روز میں حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا اے ابو بکر تو اپنے چچا زاد بھائی کی ملاقات اور عیادت کو جا.لہذا میں آپ کے حکم کے بموجب طلحہ بن عبید اللہ کے پاس آیا تو ان کا یہ حال تھا کہ خون تو ان کا سارا بہہ گیا تھا.اور وہ بہت
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 367 غزوات النبی میں خلق عظیم (غزوہ احد )۹۷۹۱ء ناتواں اور بے ہوش ہورہے تھے اس لئے میں نے ان کے منہ پر پانی چھڑکنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ ہوش میں آگئے اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا خیریت سے ہیں اور مجھے حضور نے ہی تمہارے پاس بھیجا ہے.سن کر وہ ذرا خوش ہوئے اور بولے خدا کا شکر ہے.ہر مصیبت کے بعد آسانی ہو جاتی ہے.شروع الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه : ۳۴۰، ۳۴۱) آنحضور کا کوئی فعل تصرف الہی سے باہر نہ تھا چنا نچہ اس واقعہ میں تصرف الہی نمایاں طور پر کارفرما نظر آتا ہے آنحضور کا حضرت ابو بکر کو طلحہ بن عبید اللہ ) کی عیادت کے لئے بھجوانا آ.کا ایک ایسا بر حمل اور بر وقت اقدام تھا جو طلحہ کی جان بچانے کا موجب ہو گیا.جیسا کہ حضرت ابوبکر کی روایت سے ظاہر ہے.حضرت طلحہ کی بے ہوشی پر بھی آنحضور ہی کا فکر غالب تھا.آنکھ کھلتے ہی یہ پوچھا کہ حضور اکرم کا کیا حال ہے؟ اس انتہائی کمزوری کی حالت میں کہ جسم تیروں سے چھلنی تھا اور اس چھلنی جسم کے ہر زخم سے خون بے روک ٹوک بہہ نکلا تھا ایسی بے ہوشی اکیلی ہی موت کی نیند سلانے کے لئے کافی ہوتی ہے لیکن اس نحیف جان کو تو یہ غم بھی لگا ہوا تھا کہ آنحضور کا خدا جانے کیا حال ہوگا.یہ سب باتیں ایسی تھیں کہ گویا حضرت طلحہ اپنے مرنے کے سب سامان کئے پڑے تھے لیکن یہ مژدہ جانفزا جو سنا کہ آنحضور خیریت سے ہیں تو لبوں سے جان پھر دل کی طرف لوٹ آئی اور دل جو خون سے خالی ہو چکا تھا آنحضور کی محبت کی قوت سے پھر چلنے لگا.آخری فتح احد کے روز آپ کی آخری مصروفیت عبادت الہی کا قیام تھا.یہ آخری جھنڈا تھا جو اس روز آپ نے بلند کیا اور ایسا بلند کیا کہ عبادت الہی کا جھنڈا ہر دوسرے جھنڈے سے بلند تر اور بالا اور ارفع ہوکر آسمان روحانیت پر لہرانے لگا.نماز کو کبھی اپنے قیام کے لئے شاید ایسی سخت آزمائش پیش نہ آئی ہو جیسی شام اُحد کو پیش آئی.تمام دن کی شدید محنت اور مشقت اور جانکا ہی کے سبب جسم تھکاوٹ کے غلبے سے مٹی ہوئے جاتے تھے تس پر کاری زخموں نے ایک الگ آفت ڈھار کھی تھی.بوٹی بوٹی اذیت میں مبتلا تھی لیکن دیکھو ایسے حال میں بھی آنحضور نے نماز کو قائم کیا.راوی بیان کرتا ہے کہ احد میں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 368 غزوات النبی میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے اور زخمی ہونے کے بعد سواری پر حضور اپنے دولت خانہ پہنچ گئے مگر وہاں جا کر خود بخود گھوڑے سے اتر نہ سکے.اس لئے لوگوں نے آپ کو اٹھا کر اتارلیا اور میں (ابوالخذری) حضور کے دونوں رانوں کو دیکھتا تھا.ان کی کھال چھلی ہوئی اور سکڑی ہوئی تھی اور حضور دونوں سعد ( یعنی سعد بن عبادہ اور سعد بن معاذ ) پر سہارا لگائے لگائے اپنے دولت خانہ میں تشریف لے گئے.پھر شام کے وقت جب غروب آفتاب ہو گیا اور حضرت بلال نے اذان دی تو حضور اسی طرح دونوں سعد پر سہارا لگائے لگائے باہر تشریف لائے اور پھر دوبارہ اسی طرح اندر تشریف لے گئے اور میں نے یہ بھی دیکھا.لوگ مسجد میں بیٹھے آگ جلائے ہوئے اپنے اپنے زخموں کو سینک رہے تھے اور داغ دے رہے تھے یہاں تک کہ جب شفق غائب ہوگئی تو حضرت بلال نے عشاء کی اذان دی مگر دیر تک حضور باہر تشریف نہ لائے اور حضرت بلال آپ کے دروازے پر بیٹھے رہے جب ایک تہائی رات گزر چکی تو حضرت بلال نے آواز دی کہ حضور جماعت تیار ہے نماز کے لئے تشریف لائے چنانچہ آپ اس وقت سوتے سے اٹھ کر باہر تشریف لائے تو میں نے دیکھا کہ آپ بہت آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے تھے پھر آپ نے نماز پڑھی.شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۳۳۲) آج کے تن آسان نوجوان جو ساحل ساحل چلنا جانتے ہیں اور اسلام کے مزے کناروں پر سے ہی لوٹنے کے عادی ہوچکے ہیں ذرا اس وقت کی تصویر ذہن میں جما کر دیکھیں اور سوچیں تو ان کے وہم وگمان سے بھی یہ اندیشہ نہیں گزر سکتا کہ اس شام مسجد نبوی میں مغرب اور عشاء کی نمازیں با جماعت ادا کی گئی ہوں گی.لیکن ذرا محمد مصطفیٰ کو تو دیکھو کہ کس طرح اپنی ساری قوتیں سمیٹ کر اس گرتی پڑتی نماز کوکھڑا کیا اور ہر دوسرے جھنڈے سے یہ جھنڈا بلند تر کر دیا.ہر چند کہ آپ کے قدم اس کوشش میں تکلیف اور نقاہت سے لڑکھڑا رہے تھے عبادت الہی کے قدموں میں آپ نے کوئی کمزوری اور کوئی نقاہت اور کوئی لڑکھڑاہٹ نہ آنے دی.یہ تھے ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کر نیوالوں کے سرتاج جن کے قدم رفعت مآب تھے.سب رفیع الشان جنتیں جن کے پاؤں کے نیچے تھیں.دنیا کے پہاڑ اور بلند چوٹیاں، ظاہری چاند ستاروں کی رفعتیں اور سات آسمانوں کے دور از قیاس افق آنحضور کی روحانی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 369 غزوات النبی میں خلق عظیم ( غزوہ احد )۹۷۹۱ء رفعتوں کے مقابل پر ادنیٰ اور حقیر اور پست دکھائی دیتے ہیں.آپ کی پرواز حدود کائنات سے پرے تک تھی اور عرش الہی آپ کا دل ہی تو تھا جس پر خدا اپنی پوری شان کے ساتھ ممکن ہوا.یہ تھے محمد مصطفیٰ سب نبیوں کے سردار جن پر عرش کا خدا پیار کی نگاہیں ڈالتا تھا اور اس کا ذکر اپنے لافانی کلام میں محفوظ فرماتا تھا: مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَريهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا (الفتح: ۳۰) يَارَبٌ صَلِّ عَلَى نَبِيَّكَ دَائِماً فِي هَذِهِ الدُّنْيَا وَبَعْثِ ثَانِ (ماہنامہ خالد جون، جولائی ۱۹۸۰ء)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 371 غزوات النبویہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۰۸۹۱ء لذ غزوات السبھی یہ میں خلق میں خلق عظیم (غزوہ احزاب) ( بر موقع جلسه سالانه ۱۹۸۰ء) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَاءَ تُكُمْ جُنُودُ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًان صلى الله (الاحزاب : ۱۰) مختلف قسم کے اخلاق کو پر کھنے کے لئے مختلف قسم کی کسوٹیاں ہوتی ہیں.بعض اخلاق اگر آرام و آسائش کی کسوٹی پر پرکھے جاتے ہیں تو بعض اخلاق مصائب و آلام اور کڑی آزمائش کی کسوٹی پر.ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ایک عجیب اور منفردشان کے انسان تھے جن کی ذات میں ہر قسم کے اخلاق حسنہ روشنی کے مختلف رنگوں کی طرح جمع تھے.ان اخلاق حسنہ کے باہمی امتزاج اور توازن ہی کا نام نور محمد ہے جو روشنی کے ایک موجیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح آپ کی ذات کے کوزے میں بند تھا اور سورج کی طرح روشن تھا.اس نور کی کرنیں بڑے وفور اور جوش اور قوت کے ساتھ آپ کی ذات سے پھوٹ کر عالم اخلاق کی شش جہات کو روشن کر رہی تھیں اور آج بھی کر رہی ہیں.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 372 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم (غزوہ احزاب ) ۰۸۹۱ء وہ سب اخلاق جو پیارے اور حسین کہلاتے ہیں وہ آپ میں جمع تھے اور سب اخلاق جو کر یہ المنظر اور مکروہ دکھائی دیتے ہیں آپ کا وجود ان سے کلیۂ پاک اور خالی تھا.آپ کے اخلاق کا ہر رنگ پیارا تھا لیکن بڑی ہی پیاری بات جو آپ کے تمام اخلاق میں یکساں اور برابر نظر آتی ہے وہ ان کی وفا تھی.آپ یہ سن کر شاید تعجب کریں گے کہ میں یہ کیا بات کہہ رہا ہوں اخلاق اور وفا.کیا کبھی اخلاق بھی با وفا ہوئے ہیں؟ ہاں ہاں ہوتے ہیں کبھی اخلاق بھی با وفا ہوا کرتے ہیں.میرے آقا ﷺ کے اخلاق کو دیکھو وہ تو سبھی با وفا تھے، تمام تر سرا پا باوفا.کبھی کسی انسان کے اخلاق نے اس سے ایسی وفا نہیں کی جیسی ہمارے آقا و مولا کے اخلاق نے آپ سے وفا کی کبھی کسی حال میں بھی تو آپ کو نہ چھوڑا.کبھی کسی آزمائش کے وقت بھی آپ سے جدا نہیں ہوئے.آپ کے وہ اخلاق بھی بڑے باوفا تھے جو عموماً غربت اور افلاس میں تو دوستی کا دم بھرتے ہیں لیکن فراخی اور آسائش کے وقت اس طرح ساتھ چھوڑ جاتے ہیں جیسے کبھی واقف اور آشنا ہی نہ تھے.آپ کے وہ اخلاق بھی حد درجہ با وفا تھے جو آسائش اور آرام کے وقت ہر کسی کے سکھ کا ساتھی بننے کے لئے آدھمکتے ہیں لیکن مصائب اور آلام کے وقت ساتھ نہیں دیتے اور اس طرح آنکھیں پھیر لیتے ہیں جیسے پہلے کبھی ملے ہی نہ ہوں.یا جیسے پرندہ گھونسلے کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دے.عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ امن کے زمانہ میں بڑے بڑے با اخلاق کہلانے والے شائستہ لوگ جب جنگ کے حالات سے دو چار ہوتے ہیں تو ان کے اخلاق کا کہیں نام ونشان باقی نہیں رہتا.یہی حال قوموں کا ہے.ہم نے بڑی بڑی با اخلاق کہلانے والی مہذب قو میں دیکھی ہیں جن کو جنگ کی آزمائش نے وحشی درندوں میں تبدیل کر دیا اور ان کے تمام اخلاقی ضابطے ٹوٹ کر چکنا چور ہو گئے اور ایسی سفا کی اور بہیمیت ان سے ظاہر ہوئی گویا وہ انسانیت کے ملمع میں چھپے ہوئے ہولناک درندے تھے جو وحشی بھی تھے اور کمینے بھی ، جو سفاک بھی تھے اور ذلیل بھی.تہذیب اور تمدن اور انسانیت کا جو غازہ سا انہوں نے چہروں پر مل رکھا تھا جب جنگ کی تند ہواؤں نے اس پاؤڈر کو اڑا دیا تھا تو ایسے مکروہ اور ذلیل وخوار چہرے برآمد ہوئے جو آج کے انسان کی نسبت قدیم زمانہ کے بھیانک جانوروں کے چہروں سے زیادہ مشابہ تھے.جس کسی نے بھی جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم کے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 373 غزوات النبی اے میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۰۸۹۱ء حالات دیکھے یا پڑھے یا سنے ہوں وہ بلا شبہ گواہی دے گا کہ میں جو کچھ کہ رہا ہوں مبالغہ سے پاک عین حقیقت ہے.جرمن فسطائیوں نے خود اپنے ہی بھائی بند سفید فام یورپین لوگوں سے جو کچھ کیا کوئی ڈھکی چھپی راز کی بات نہیں.اور ایشیا کی مہذب قوم جاپان نے اپنے ایشیائی بھائی انڈونیشیا کے باشندوں سے جو شرم ناک اور ظالمانہ سلوک روا رکھا اس کی یادیں آج بھی ان لوگوں کو لرزہ بر اندام کر دیتی ہیں جو اس بھیا نک دور سے گزرے تھے.بلا شبہ جاپانی تسلط کا وہ ہولناک دور تمام ہو چکا ہے لیکن اس کا منحوس ڈراؤنا سایہ ہمیشہ انڈونیشیا کی تاریخ پر ایک بھیانک خواب کی طرح مسلط رہے گا.پس وہ لوگ جو گزشتہ دو عالمی جنگوں کی تاریخ سے کسی قدر واقف ہیں خوب جانتے ہیں کہ ان عالمی جنگوں نے کل عالم میں انسانی اخلاق کے کھوکھلے پن کا ڈھنڈورا پیٹ دیا اور تمام جہان میں انسانی تہذیب و تمدن کی ایسی پردہ دری کی کہ اس دور کا متمدن انسان حیوانوں کی دنیا میں وہ سراُٹھا کر چلنے کے قابل نہ رہتا.مصلى الله لیکن ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اخلاق زمانے کے نشیب وفراز اور حالات کی سختی اور نرمی اور وقت کے گرم و سرد سے آزاد تھے اور کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی آپ کے اخلاق کریمانہ نے آپ کا ساتھ نہ چھوڑا.دولت اور غربت ، طاقت اور کمزوری ، امن اور جنگ ہر قسم کے تغیرات آپ کی زندگی نے دیکھے لیکن اخلاق حسنہ کا رنگ بدلتے نہ دیکھا.آنحضو کو جتنے بھی غزوات پیش آئے ان میں سے ہر غزوہ نے اخلاق حسنہ کو ایک نئے رنگ میں نکھار کر پیش کیا.یوں تو ہر میدان کارزاران لشکروں کے لئے جو مقابلہ کمزور ہوں صبر اور ہمت اور مردانگی اور شجاعت کا امتحان لے کر آتا ہے اور آزاد بلند ہمت ماؤں کے بیٹے ہی ان امتحانوں میں کامیاب ہوا کرتے ہیں.لیکن آنحضور ﷺ کے غزوات ان امتحانوں کے سوا بھی کچھ امتحان لایا کرتے تھے جو اخلاقی آزمائش کے ایسے کڑے امتحان ہوتے کہ عبادالرحمن کے سوا کوئی ان امتحانوں میں کامیاب نہیں ہوسکتا.پس جب ہم آنحضور ﷺ کے غزوات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہر گز یہ مقصد نہیں کہ فنون جنگ کے اعتبار سے آپ کی ایسی شاندار جنگی حکمت عملی کو ابھار کر پیش کیا جائے جس کے سامنے دنیا کے دوسرے بڑے بڑے جرنیلوں کے چہرے پھیکے اور ماند پڑے ہوئے دکھائی دینے لگیں.مانا کہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 374 غزوات النبی یہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۶۰۸۹۱ یہ بھی سچ ہے اور اس پہلو سے بھی آپ کو دنیا کے عظیم جرنیلوں پر فوقیت حاصل ہے لیکن یہ تو محض ایک ضمنی اور ثانوی اور ادنی سی بات ہے.آنحضوﷺ کی شان ہرگز اس امر پر مبنی نہیں کہ آپ نے فنون جنگ کے اعتبار سے سپہ سالاری کے عظیم کارنامے سرانجام دیئے.آپ کی شان تو اس امر میں مضمر ہے بلکہ ظاہر و باہر اور نصف النہار کے سورج کی طرح روشن ہے کہ آپ مکارم الاخلاق پر فائز تھے اور اخلاقی فتوحات کی وہ بلند چوٹیاں آپ نے سرکیں جن کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے سے پگڑی گرتی ہے.جنگ احزاب بھی انہی آزمائشوں کی ایک کڑی تھی جن میں آپ کے بلند اخلاق بشدت آزمائے گئے.یہ ایک ایسا امتحان تھا کہ ایمان اور روحانیت اور اخلاقیات کی دنیا پر گویا ایک زلزہ سا طاری ہو گیا اور اس زلزلے کے متواتر شدید سے شدید تر جھٹکے ایسے آئے کہ غیر مسلم اہل مدینہ تو در کنار نسبتاً کمزور ایمان والے مسلمانوں کی اساس میں بھی دراڑیں پڑ گئیں اور بعض بظاہر بڑی بڑی مظبوط عمارتیں بھی منہدم ہو کر سطح زمین سے پیوست ہو گئیں.اہل اسلام کی کائنات پر فی الحقیقت یہ وقت ایک ایسے ہی ہولناک زلزلہ کے مشابہ تھا جس کے جھٹکے بار بار محسوس ہوں اور ہر بار پہلے سے بڑھ کر خطر ناک شدت کے ساتھ.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اس کا ذکر فرماتے ہوئے ایک ہولناک زلزلے کی ہی مثال دیتا ہے: هُنَالِكَ ابْتُلِلَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالَّا شَدِيدًا (الاحزاب : ۱۲) اگر چہ جنگ احزاب کی تفاصیل بیان کرنا تو میرے موضوع میں شامل نہیں لیکن اس موقع پر الله آنحو کے بے نظیر کردار کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ صبر آزما حالات بیان کئے جائیں جن سے آپ کے اخلاق حسنہ کو دو چار ہونا پڑا.اس غزوہ کا پس منظر یہ ہے کہ غزوہ احد کے موقع پر اگر چہ کفار مکہ کے مقابل پر مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیف اٹھانی پڑی لیکن اس کے باوجود قریش مکہ اور ان کے سردار اس احساس سے بے چین تھے کہ انہیں جنگ احد کا کوئی بھی ٹھوس فائدہ نہیں پہنچا اور جنگی مصلحتوں اور منفعتوں میں سے کچھ بھی تو حاصل نہ ہوا.ان کا اصل مقصد تو اسلام کی بیخ کنی اور توحید کا خاتمہ کرنا تھا لیکن جنگ احد کے بعد بھی مسلسل اسلام ترقی پذیر رہا بلکہ پہلے سے بڑھ کر تیز رفتاری کے ساتھ اہل عرب میں نفوذ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 375 غزوات النبویہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۰۸۹۱ء کرنے لگا.پس قریش مکہ لِيَغِیظُ بِهِمُ الْكُفَّار کی اٹل تقدیر کے تابع پہلے سے بڑھ کر اسلام کی ترقی پر حسد میں جلنے اور غیظ کھانے لگے.قریش مکہ کے علاوہ ایک یہودی قبیلہ بنونضیر جسے عہد شکنی ، فساد، بے حیائی اور آنحضو کے خلاف اقدام قتل کے نتیجہ میں مدینہ سے نکال دیا گیا تھا اپنی اس جلا وطنی کے نتیجہ میں اسلام کا پہلے سے بھی کہیں بڑھ کر دشمن ہو چکا تھا اسی انتقام کی آگ میں جلتا ہوا اس قبیلہ کا سردار حیی بن اخطب مسلسل قبائل عرب اور اہل مکہ کو آنحو اور اسلام کے خلاف اکساتا رہتا تھا.پس اس معاند کی اشتعال انگیزی نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اہل مکہ اور ان کے حلیف اسلام دشمن قبائل بنو غطفان ، بنو اسد، بنو سلیم ، بنومزہ، بنو اسعد وغیرہ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ ایک ایسا عظیم الشان لشکر لے کر مدینہ پر حملہ آور ہوں جس کے مقابلہ کی مسلمانوں میں تاب نہ ہو.یہ منصوبہ انتہائی خطر ناک تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ عرب کی سرزمین سے مسلمانوں اور اسلام کو کلیتہ نا پید کر دیا جائے.مختلف گروہوں یعنی احزاب پر مشتمل یہ عظیم لشکر جس کی تعداد دس اور پچیس ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے سامان جنگ سے پوری طرح لیس ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوا.چونکہ ان گروہوں کے علاقے مدینہ سے مختلف سمتوں اور فاصلوں پر واقع تھے اس لئے ایک منصوبہ کے تحت یہ ایسے مختلف وقتوں میں روانہ ہوئے کہ مدینہ کے قریب احد کی وادی کے گردو پیش یہ سب گروہ تقریباً ۲۰، ۲۵/ فروری ۶۶۲۷/ شوال ۵ ہجری تک جمع ہو گئے.اس خوفناک منصوبہ کا دائرہ چونکہ بہت وسیع تھا اور مدینہ کے شمال میں مدینہ کے جنوب میں مکہ تک پھیلا ہوا تھا اس لئے اس کا پردہ اختفاء میں رکھنا ناممکن تھا.چنانچہ غالباً جنوری کے اواخر تک کسی وقت آنحضو کو بھی اس منصوبہ کی اطلاع مل گئی.یہ صلى الله اطلاع ملتے ہی آنحضور ﷺ نے صحابہ سے مشورہ فرمایا کہ اس انتہائی خوفناک حملہ سے کیسے نپٹا جاسکتا ہے تو حضرت سلمان فارسی نے یہ تجویز پیش کی کہ مدینہ کی شمالی اور مشرقی جانب چونکہ قدرتی دفاع سے خالی ہے اور اس طرف سے کوئی لشکر بلا رو کے ٹو کے شہر میں داخل ہوسکتا ہے اس لئے اہل فارس کے طریق کے مطابق اس طرف خندق کھودی جائے تاکہ دشمن کو اپنی بے پناہ عددی برتری سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے اور مسلمانوں پر یک دفعہ یلغار نہ کر سکے.آنخصوصی نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور خندق کی نشان دہی فرما کر بلاتا خیر اس کی کھدائی کا کام شروع کروا دیا.یہ خندق تقریباً ۲۱ دن
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 376 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۱۰۸۹۱ میں مکمل ہوئی.اس کی لمبائی ڈیڑھ میل سے ساڑھے تین میل تک بیان کی گئی ہے.لیکن میرے نزدیک تین میل والی روایات زیادہ قابل قبول ہیں کیونکہ مدینہ کے نقشہ پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے که اگر کم و بیش تین میل خندق نہ کھودی جاتی تو خندق کی کھدائی کا مقصد ہی فوت ہو جاتا اور میل ڈیڑھ میل کا ایسا کھلا راستہ دشمن کو میسر آجاتا جس پر سے ہیں پچیس ہزار کی فوج آسانی سے گزر کر بیک وقت یلغار کر سکتی تھی.تین ہفتہ کا یہ عرصہ جس میں خندق کھودی گئی آنحضور ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی زندگی پر جسمانی لحاظ سے سخت ترین دور تھا.مرد، عورتیں اور ایسی عمر کے بچے ملا کر جو کچھ نہ کچھ کام کے صلى الله قابل تھے صحابہ کی کل تعداد تین ہزار کے لگ بھگ تھی.آنحضور ﷺ نے یہ تمام مردوزن ، بوڑھے اور بچے خندق کی کھدائی کے سلسلہ میں مختلف کاموں پر لگا دیئے.ہلکے کام عورتوں اور بچوں کے سپرد تھے اور کھدائی اور مٹی اٹھانے کا کام مردوں کے سپر د تھا.آپ نے کام کرنے والوں کو دس دس کی ٹولیوں میں تقسیم فرما کر ہر ٹولی کے سپر د تقریباً بیس گزلمبی اور چار گز چوڑی زمین کر دی جہاں انہوں نے اپنے حصہ کی خندق بنانی تھی.شدید مشقت اور فاقہ کشی مسلمانوں پر یہ وقت بہت بھاری تھا.وقت تھوڑا اور کام بہت زیادہ تھا.معلومات کا کوئی ایسا ذریعہ ایسا نہ تھا کہ دشمن کے پہنچنے کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے اس لئے اس بے یقینی کی کیفیت نے اور بھی اضطراب بڑھا دیا تھا.زمین سخت اور سنگلاخ تھی.آلات پورے میسر نہ تھے.کدالوں اور پھاوڑوں کی اتنی کمی تھی کی بنو قریظہ سے کرائے پر حاصل کئے گئے تب بھی ضرورت پوری نہیں ہوسکی.مٹی دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے نگاریاں اور ٹوکرے بھی بالکل نا کافی تعداد میں تھے.پس صحابہؓ اپنی چادروں میں بھر بھر کر مٹی خندق سے نکال کر باہر پھیلاتے رہے.حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ بھی اپنے کھیسوں میں مٹی بھر بھر کر لے جانے کے کام پر مامور تھے.آنحضور ﷺ کی نگرانی میں دن رات اللہ کے مزدوروں کا یہ گروہ خندق کھودنے میں مصروف تھا.آنحضور محض نگرانی کے فرائض ہی سرانجام نہیں دے رہے تھے بلکہ دوسرے محنت کشوں کی طرح اپنے مولا کے در کے ایک مزدور بنے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 377 غزوات النبی ہے میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ۰۸۹۱ء ہوئے اہل بیت کے ساتھ اپنے حصہ کی زمین کی کھدائی فرمارہے تھے.میں سوچتا ہوں کہ ایسے معزز مزدور دنیا میں ایک ہی بار ظاہر ہوئے جن کی صفوں میں سب دنیا کا سردار ایک عام مزدور کی طرح محنت کر رہا تھا.اور سب جفا کشوں سے بڑھ کر جفاکشی کے جو ہر دکھا رہا تھا.b آسمان کی آنکھ نے ایسا نظارہ پہلے کب دیکھا تھا کہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةً (الفتح ۳۰) محمد اللہ کا رسول اور وہ خوش نصیب جو اس کے ساتھ تھے یعنی عباد الرحمن کے یہ گروہ جو تخلیق کائنات کا خلاصہ تھے.وہ جن کی خدمت پر زمین و آسمان کو اور ہر اس چیز کو جوان کے درمیان ہے مسخر کیا گیا تھا خود اپنے رب اور اپنے خالق کے حضور اپنی زندگی کی ساری کائنات مسخر کئے ہوئے سخت جان جوکھوں کی مزدوری میں مصروف تھے.یہ وہ دن تھے جب تسخیر کائنات کا مضمون اپنے کمال کو پہنچا.یہ وہ ایام تھے جب مزدوری کے ادنی کام کو وہ شرف نصیب ہوا کہ قیامت تک مزدور سخت مشقت کی گلیوں میں بھی سر اٹھا کر چلے گا اور مزدوری ذلت و نکبت کا نہیں بلکہ عزت و شرف کا نشان بنی رہے گی.یہ کوئی عام معمولی محنت کام نہیں تھا، کوئی ایسا وقار عمل نہیں تھا کہ کچھ سفید پوش نصف گھنٹے یا گھنٹے کے لئے مٹی کھود نے یا اُٹھانے کا کام کر کے وقار عمل کی عظمت کا احساس لئے ہوئے گھروں کو سدھاریں اور سارے گھر کو فخر سے بتائیں کہ جی ہم وقار عمل سے آ رہے ہیں اور پھر کئی دن تک ہاتھوں کے چھالے سہلاتے رہیں.یہ تو ایک ایسی سخت جانی کی مزدوری تھی کہ کوہ کن فرہاد کے قصے اس کے سامنے ایک لغو اور کھوکھلا افسانہ دکھائی دیتے ہیں.دن رات کی اس شدید محنت پر بھوک نے ایک الگ آفت ڈھا رکھی تھی.اول تو ان دنوں مسلمانوں کی معاشی حالت ویسے ہی بہت کمزور تھی اوپر سے دفاعی مصروفیات نے روز مرہ کے تجارتی کاروبار بند کر دیئے تھے.علاوہ ازیں بکثرت ان میں ایسے غریب محنت کش صحابہ شامل تھے جن کی معیشت روز مرہ کے ہاتھ کی کمائی پر منحصر تھی.پھر ایک لمبے نامعلوم عرصہ تک پھیلے ہوئے پیش آمدہ گھیراؤ کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا اس لئے جس گھر میں تھوڑا بہت ذخیرہ تھا وہ بھی آئندہ سخت تر وقتوں کے لئے بچا کر رکھا جا رہا تھا.غرضیکہ حال یہ تھا کہ ایک طرف تو محنت کی غیر معمولی شدت، دوسری طرف خوراک کی غیر معمولی کمی ، اوپر سے موسم سخت سردی کا اور کھلے میدان میں خیمہ کشی جبکہ بہتوں کو
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 378 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ۰۸۹۱ء تن ڈھانپنے کو پورے کپڑے بھی میسر نہ تھے.غرض یہ کہ آنحضور ﷺ اور آپ کے صحابہ پر ایسی طویل اذیت ناک گھڑیاں کبھی نہیں آئیں جیسی غزوہ احزاب کے پر آشوب زمانہ میں.جسمانی مشقت اور شدید بھوک کے اس ہولناک ابتلاء میں آنحضور سب دوسروں سے بڑھ کر تکلیف اُٹھانے والے تھے اور سب دوسروں سے بڑھ کر ان آزمائشوں سے آپ کامیاب و کامران ہو کر نکلے.اس ضمن میں دو حیران کن مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ہوکر خندق کی کھدائی کے دوران مسجد زباب کے پاس جو پارٹی خندق کھود رہی تھی اس میں حضرت سلمان فارسی بھی شامل تھے.آپ انتہائی مضبوط جسم کے مالک تھے اور بڑے جفا کش تھے.یہی وجہ ہے کہ گروہ بندی کے وقت انصار اور مہاجرین دونوں کی خواہش تھی کہ وہ ان میں شمار کئے جائیں اور دونوں اپنے اپنے حق میں دلائل پیش کر رہے تھے لیکن آنحضور ﷺ نے بڑی محبت اور شفقت سے ان کے متعلق فرمایا سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ که سلمان تو ہمارا ہے اور اہل بیت میں سے ہے.( تاریخ طبری جلد ۲ صفحه ۹۱، شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۴۹۲، ۴۹۳) یہ تو خیر ایک ضمنی بات تھی ، میں یہ بتا رہا تھا کہ اس کھدائی کے دوران ایک ایسی سخت چٹان نمودار ہوئی کہ کسی صورت سے ٹوٹنے کا نام نہ لیتی تھی.حتی کہ حضرت سلمان جیسے غیر معمولی مضبوط انسان کی ضربیں بھی محض بے کار ثابت ہوئیں.آخر عاجز آکر اس گروہ نے آنحوی ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجا جس کا ذکر الله سیرت النبی ترجمه تاریخ طبری میں ان الفاظ میں آتا ہے: " پھر اللہ عزوجل نے خندق کے اندر ایک چکنا سفید بڑا پتھر ظاہر کر دیا.اس سے ہمارے اوزار ٹوٹ گئے اور ہم اس کے اُکھاڑنے سے تنگ ہو گئے.ہم نے کہا سلمان ! تم رسول اللﷺ کے پاس اوپر جاؤ اور ان کو اس کی اطلاع کرو تا کہ وہ ہمیں اس پتھر سے ذرا ہٹ جانے کی اجازت دیں کیونکہ اس سے بہت ہی کم فرق پڑے گا.یا وہ اس کو نکالنے کا حکم دیں تو ہم ویسا کریں گے.ہم اسے پسند نہیں کرتے کہ آپ کے خط سے سر موتجاوز کریں.سلمان خندق کے اندر سے چڑھ کر رسول اللﷺ کے پاس آئے.آپ اس وقت ترکی خیمہ میں بیٹھے تھے.سلمان نے کہا یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 379 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۱۰۸۹۱ شار ہوں.خندق میں ایک بہت بڑا سفید سخت اور چکنا پتھر نکل آیا ہے.اس سے ہمارے اوزارٹوٹ گئے.ہم اس کے کھودنے سے تنگ آگئے ہیں اس پر کچھ اثر ہی نہیں ہوتا.اب جیسا ارشاد عالی ہو ، ہم آپ کے خط سے سرمو تجاوز کرنا پسند نہیں کرتے.رسول اللل سلمان کے ساتھ خود خندق میں اترے.آپ کے آتے ہی ہم بقیہ نو آدمی خندق کے اوپر آگئے.رسول اللہ ﷺ نے سلمان کے ہاتھ سے کدال لی اور اس سے پتھر پر ایک ضرب ماری جس سے وہ ٹوٹ گیا اور اس میں سے بجلی کی ایک ایسی چمک نکلی جس سے تمام مدینہ روشن ہو گیا.وہ روشنی اس قدر تیز تھی کہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ اندھیری کوٹھڑی میں روشن چراغ ہے.رسول اللﷺ نے تکبیر فتح کہی پھر مسلمانوں نے بھی تکبیر کہی.دوسری مرتبہ آپ نے اس پر ضرب ماری جس سے اس میں اور شگاف پڑ گیا اور ایسی بجلی کی سی روشنی ہوئی جس سے تمام مدینہ روشن ہو گیا.معلوم ہوتا تھا کہ اندھیری کوٹھڑی میں چراغ روشن ہے.آپ نے تکبیر فتح کہی تمام مسلمانوں نے تکبیر کہی اور اب تیسری مرتبہ آپ نے دست مبارک سے اس پر ضرب ماری اور اس مرتبہ اسے بالکل توڑ ڈالا.تو پھر اس میں سے حسب سابق بجلی کی چمک ہوئی جس سے تمام مدینہ روشن ہو گیا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تاریک کوٹھڑی میں چراغ روشن ہو گیا.رسول اللہ نے تکبیر کہی مسلمانوں نے بھی تکبیر کہی پھر سلمان کا ہاتھ پکڑ کر خندق کے اوپر چڑھ گئے.“ 66 ( تاریخ طبری جلد ۲ صفحه : ۹۲) اس چھوٹے سے واقعہ کو مختلف زاویوں سے دیکھنے سے آنحضور ﷺ کے خلق عظیم کے مختلف پہلو نظر کے سامنے آتے ہیں.سب سے پہلے تو تعجب ہوتا ہے کہ اس انتہائی جسمانی محنت اور فاقہ کشی کے زمانہ میں آنحو کے دل میں کیسا غیر معمولی عزم اور ذمہ داریوں کا احساس تھا کہ یہ اطلاع ملنے پر کہ ایک سخت چٹان کسی کوشش سے بھی ٹوٹنے میں نہیں آتی.آپ اطلاع دینے والے کو یہ جواب نہیں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 380 غزوات النبو اللہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ۱۰۸۹۱ دیتے کہ اے مسلمان ! تم تو اسلامی لشکر کے مضبوط ترین مجاہد ہو اور تمہاری جفاکشی کے چرچے عام ہیں.اگر تمہاری ضربوں سے بھی چٹان نہیں ٹوٹی تو میں کیا کر سکتا ہوں اس جگہ کو چھوڑ کر خندق کا راستہ بدل دو اور چٹان کے پہلو سے ہو کر گزر جاؤ نہیں! بلکہ ایک نہایت بلند پایا منتظم کی حیثیت سے آپ موقع پر جا کر صورت حال کا جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں.صرف جائزہ لینا ہی ضروری نہیں سمجھتے بلکہ خود چٹان کو توڑنے کی کوشش کرنے کا فیصلہ فرما لیتے ہیں.یہ فیصلہ ان حالات میں کوئی معمولی ہمت کا کام نہ تھا.مسلسل فاقوں اور محنت شاقہ کے ان ایام میں سردی بھی غضب کی پڑ رہی تھی.جن لوگوں کو سخت سردی میں بھوک کی سختی اور اس کے ساتھ جسمانی محنت کا کچھ تھوڑا سا بھی تجربہ ہو وہ اندازہ لگا سکتے الله ہیں کہ اس وقت انسان کی نفسیاتی کیفیت کیا ہوتی ہے.پس یہ واقعہ آنحضور کے آہنی عزم پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور اس احساس ذمہ داری پر بھی اور اس حقیقت پر بھی کہ ادائیگی فرض کی خاطر آپ آپنی جان کو اور اپنی ذات کو شدید سختی اور مشقت میں ڈالنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتے تھے.پس میں تو جب اس وقت کا تصور کرتا ہوں کہ کیسی شدید جسمانی اذیت اور تکلیف کی حالت صل الله میں آنحضو سے اس چٹان کی طرف بڑھ رہے تھے ، وقار اور صبر اور ضبط کا پیکر بنے ہوئے.جب آپ کے قدم خندق کے اس حصہ کی طرف اُٹھ رہے تھے تو اللہ تعالیٰ اس وقت کیسی محبت اور پیار کی نظروں سے آپ کو دیکھ رہا ہوگا اور کائنات کے ذرے ذرے کے دل سے یہ آواز اُٹھ رہی ہوگی کہ دیکھو اس انسان کامل کو دیکھو! کیسے کیسے بوجھ اٹھانے کے لئے آگے بڑھ رہا ہے! ایک اور پہلو سے جب ہم اس واقعہ کو دیکھتے ہیں تو اپنے رب پر آپ کے حیرت انگیز تو کل اور یقین کامل کا ایک حسین نظارہ سامنے آجاتا ہے.آپ جانتے تھے کہ آپ کی مرضی خدا کی مرضی اور آپ کا ارادہ خدا کا ارادہ بن چکے ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے مشن میں ناکام رہنے دے.آپ ہمہ تن ہمہ وقت دعا تھے.میں سوچتا ہوں کہ اس وقت آپ کے دل کی گہرائیوں سے کیا کیا کہی یا ان کہی دعائیں اُٹھ رہی ہوں گی.زبان حال تو یقیناً یہ کہتی سنائی دیتی ہے کہ اے میرے رب ! میرے ہم و غم اور جسمانی آزار تجھ سے بڑھ کر اور کوئی نہیں جانتا، میری جسمانی کمزوری اور فاقہ کشی سے پیدا ہونے والی نقاہت کے راز تجھ سے بڑھ کر کس پر روشن ہیں ! تو جانتا ہے کہ میں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 381 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ۰۸۹۱ء الاول دن کو بھی مصروف رہتا ہوں اور راتیں بھی تیرے حضور جاگ کر کاٹتا ہوں اور چندلمحوں کی پرسکون نیند سے بھی محروم ہوں.پھر بھی میرے آقا! یہ امت مسلمہ جس کی سرداری تو نے مجھے بخشی ہے اس کی ہر ذمہ داری کو میں فقط اور فقط تیری رضا کی خاطر اُٹھاتا چلا جارہا ہوں اور اُٹھاتا چلا جاؤں گا.یہ دعا ئیں خواہ کچھ بھی ہوں عالم الغیب خدا آپ کے حال سے خوب باخبر تھا وہ جانتا تھا کہ جب مجاہدین خندق کو بھوک ستاتی ہے تو سب سے بڑھ کر بھوک کی تکلیف میں اس کا بندہ مبتلا ہوتا ہے.وہ جانتا تھا کہ جب مومن مشقت اُٹھاتے ہیں تو سب سے بڑھ کر مشقت اٹھانے والا اس کا بندہ ہوتا ہے اور خوب جانتا تھا کہ جب نیند کے چندلحات کے لئے مومنوں کی آنکھیں ترس رہی ہوتی ہیں تو سب سے بڑھ کر نیند کا ستایا ہوا اس کا بندہ موم ہوتا ہے.ان حالات میں جب کوئی فاقہ زدہ آنحضوﷺ کی طرف سائلا نہ نظروں سے دیکھتا ہوگا، جب کوئی تھکا ہارا آنحضو سے آرام کی اجازت مانگتا ہوگا، جب کوئی رتجگوں سے تنگ آیا ہوا حضور تیل سے سونے کی رخصت صلى الله چاہتا ہو گا، جب کوئی تھکا ہوا جسم سخت کاموں میں آنحضو سے مدد کا طالب ہوتا ہوگا اور آنحضور خود اپنی بے آرامی اور اپنے فاقوں اور اپنی جسمانی اذیت کا راز سینے میں چھپائے ہوئے اس نسبتاً کم مصیبت زدہ کی ہمدردی اور غم خواری فرماتے ہوں گے اور اس کا بوجھ ہلکا کرنے کی سعی فرماتے ہوں گے تو کائنات کا ذرہ ذرہ آپ پر درود اور سلام بھیجتا ہوگا اور زمین و آسمان بیک زبان یہ گواہی دیتے ہوں گے کہ دیکھو اپنے خدا کی خاطر اس کی مخلوق کے سارے بوجھ اُٹھانے والا وہ آ گیا جس کی وقت کو ازل سے انتظار تھی.وہ جس کی نظیر نہ پہلے تھی نہ آئندہ ہوگی.یہ کیسے ممکن تھا کہ ان آڑے وقتوں میں آپ کا رب اپنے اس بے مثل بندے کی مدد کے لئے خود عرش سے زمین پر نہ اتر آتا کہ اے میری خاطر سب ناممکن بوجھ اُٹھانے والے ! میں تیری خاطر تیرے سب بوجھ اُٹھالوں گا اور ہر ناممکن کو ممکن کر دکھاؤں گا، تو میرا ہے اور میں تیرا ہوں.میری ساری کائنات اور اس کے تمام مخفی قوانین تیرے لئے مسخر کر دیئے گئے ہیں.واقعاتی شہادت ہمیں بتا رہی ہے کہ ایسا ہی ہوا اور آنحضو جب خندق میں اتر کر اس چٹان تک پہنچے اور اسے توڑنے کے لئے کدال اُٹھایا تو وہ اٹوٹ چٹان جس پر سلمان فارسی جیسے گرانڈیل انسان کی پے در پے ضربات نے کوئی ادنی سا اثر نہ دکھایا آنحضور کی ایک ضرب سے
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 382 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ۰۸۹۱ء اس کا سینہ شق ہو گیا اور ایک شعلہ بلند ہوا جس سے سارا ماحول روشن ہو گیا.پھر دوسری مرتبہ آپ نے ضرب لگائی اور پھر چٹان کے ٹوٹنے کے ساتھ ایک اور شعلہ بلند ہوا جس سے سارا ماحول روشن ہو گیا.پھر تیسری مرتبہ آپ نے ضرب لگائی اور ایک اور ماحول کو روشن کر دینے والا شعلہ بلند ہوا اور چٹان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئی اور صحابہ کے لئے ایسی نرم اور عاجز ہوگئی جیسے ریت کا بے جان تو دہ ہو.اس واقعہ میں غلامان حل کے لئے قیامت تک کے لئے یہ سبق ہے کہ اگر تم محض خدا کی خاطر اس پر تو کل کرتے ہوئے بظاہر اپنی طاقت سے بھی بڑھ کر بوجھ اٹھانے کے لئے آگے بڑھو گے تو خدا خود تمہارے بوجھ اُٹھا لے گا اور تمہارے نحیف اور کمزور بازوؤں کو وہ طاقت بخشے گا کہ بڑی بڑی مضبوط چٹانوں کا سینہ چیر دیں.تمہارا خدا خود تمہارا کفیل ہو جائے گا اور تمہاری دعاؤں کو قبولیت کا وہ معجزہ عطا کرے گا جو ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے.ایک عظیم الشان جزا ان کے نام اور وقار کی عظمت کے لئے جب خدا تعالیٰ نے اس چٹان کو پارہ پارہ کر دیا تو بات یہیں ختم نہیں ہو گئی اور آنحضوں کی قربانی اور ایثار اور عزم اور تو کل کی صرف یہی جزا نہ تھی ، یہ تو محض ایک ابتدائی علامت تھی.حضرت عمرو بن عوف روایت کرتے ہیں کہ آنحضور چٹان کو تو ڑ کر خندق سے باہر تشریف لائے تو دوران گفتگو صحابہ سے فرمایا بے شک جب میں نے پہلی ضرب لگائی اور اس سے روشنی نمودار ہوئی تو اس کی چمک میں حیرہ کے قصور اور کسریٰ کی سرزمین کے شہر دکھائے گئے اور بشارت دی گئی کہ ان پر میری امت کو اقتدار بخشا جائے گا.دوسری ضرب لگانے پر جو روشنی نمودار ہوئی اس کی شو میں روم کے سرخ محلات دکھائے گئے اور جبرائیل نے مجھ کو خوشخبری دی کہ ان پر بھی میری امت فتح یاب ہوگی.تیسری مرتبہ جو میں نے ضرب لگائی اور اس سے روشنی نمودار ہوئی اس مرتبہ بھی مجھے اس کی چمک دھمک میں صنعاء کے محلات دکھائے گئے اور خوشخبری دی گئی کہ ان پر بھی تیری امت کو غلبہ عطا کیا جائے گا.اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ چٹان کے شق ہونے کا معجزہ محض ایک کھڑکی کی حیثیت رکھتا تھا جو مسلمانوں کے خوش آئند مستقبل کی جانب کھولی گئی تھی جو اس افق کی جانب کھولی گئی تھی جس
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 383 غزوات النبی اے میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۱۰۸۹۱ پر مسلمانوں کی عظیم فتوحات کی خبریں نور کی روشنائی سے جلی حروف میں لکھی ہوئی تھیں اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک پیغام تھا کہ اے عظیم سلطنت کسری کے فتح کرنے والو! اور اے مشرقی سلطنت روما کی بے پناہ طاقت زیروز بر کرنے والو! اور قسطنطنیہ کے سرخ محلات کے فاتحین ! اور اے وہ فتح نصیب اسلامی لشکر ! جن کی یورش سے صنعاء کے قلعوں کے دروازے توڑے جائیں گے کبھی یہ گمان نہ کرنا کہ یہ عظیم فتوحات تمہارے زور بازوؤں کا نتیجہ ہے.نہیں نہیں ! یہ نتیجہ ہے میرے بندے کے اس ایثار اور قربانی اور انکسار کا اور اس بے پناہ قوت برداشت کا جو احزاب کے پر آشوب زمانہ میں اس نے دکھائی تھی.غزوہ احزاب تاریخ عالم کے جس دور میں واقعہ ہے اس دور میں حجاز دنیا کے دیگر ممالک کے مقابل پر ایک نہایت کمزور اور بے زور ملک تھا.جس کا دنیا کے متمدن اور طاقتور ملکوں میں کوئی شمار ہی نہ تھا.اس حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ذرا اندازہ کیجئے کہ پھر مسلمانوں کی کمزوری کا کیا عالم ہوگا کہ مدینہ کے چھوٹے سے شہر میں عرب کے چند قبائل کے گھیرے میں آکر دنیاوی اعتبار سے کیسے بے زور اور بے طاقت اور بے بس نظر آرہے ہیں ان عربوں کے مقابل پر بے بس نظر آرہے ہیں جو خودا پنی ہمسایہ طاقتوں کے سامنے محض بے حیثیت اور عاجز اور ذلیل وخوار تھے.جن کے شمال مغرب میں قیصر کی بے پناہ قوت سر بفلک پہاڑوں کی طرح بلند تھی ، جن کے مشرق میں کسری کے محل آسمان سے باتیں کر رہے تھے اور جن کے جنوب میں یمن کے محلات اپنے بلند و بالا کنگروں کے ساتھ عرب کی پستی اور فلاکت اور نکبت کا مذاق اُڑا رہے تھے.تو پھر کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ جب والے اپنے نڈھال جسم کو ایک مافوق البشر عزم اور ہمت کا سہارا دیئے ہوئے اس چٹان کی طرف بڑھ رہے تھے تو خدائی تقدیر یہ اعلان کرنے کو تھی کہ اے میرے بندے! یہ چٹان کیا چیز اور اس کی حیثیت کیا ! ہم یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ تیرے غلاموں کے پاؤں کی ٹھوکروں سے شمال و جنوب، مشرق و مغرب کی دنیاوی طاقتوں کے بلند و بالا پہاڑ بھی ٹوٹ کر چکنا چور ہو جائیں گے.ایک چٹان کیا اور اس کی سرکشی کیا ! ہم تجھے وہ قوت اور عظمت اور ہیبت عطا کریں گے جو بڑے سے بڑے سرکشوں کے سرخم کر دے گی اور پہاڑوں کے سینے چیر دے گی.پس اے شمال و جنوب مشرق و مغرب
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 384 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ۰۸۹۱ء کے فاتح ! تجھ پر سلام ہو.اے بے مثل مظفر و منصور! قیصر کے سرخ محلات کے دروازے تجھ پر کھولے جاتے ہیں اور یمن اور کسری کے رفیع الشان قلعوں کی چابیاں تجھے سونپی جاتی ہیں.خلق محمدی کا ایک اور حسین نظارہ ذکر گزر چکا ہے کہ جب چٹان کے شق ہونے کا واقعہ گزرا تو آنحضور ﷺ اور آپ کے صحابہ اس وقت تین دن کے فاقہ سے تھے.اس وقت حالت یہ تھی کہ جب بعض صحابہ نے بھوک کی حد سے بڑھی ہوئی تکلیف کی شکایت کی اور اپنے پیٹ سے کپڑا اُٹھا کر دکھایا کہ یا رسول اللہ ! دیکھیں کہ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہم پیٹ پر پتھر باندھے پھرتے ہیں تو آنحضور نے بھی جواب میں اپنے پیٹ سے کپڑا اُٹھا کر دکھایا اور صحابہ نے دیکھا کہ آپ کے پیٹ پر تو ایک نہیں دو پتھر بندھے ہوئے تھے.(شمائل ترمذی) نحو ضبط و تحمل اور صبر کا ایک شاہکار تھے.پس اگر سائل کی تسلی مقصود نہ ہوتی تو غالباً کبھی آنحضور اپنی اندرونی کیفیت سے دوسروں کو آگاہ نہ فرماتے لیکن آنحوی کے صبر کے اس راز کو افشاء کرنے میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر کام کر رہی تھی اور جو آنحضو کے بے پناہ حسن کے بعض اور پہلوؤں سے بھی پردہ اُٹھانے والی تھی اور ہمیشہ کے لئے بنی نوع انسان پر یہ روشن کر دینا چاہتی تھی کہ کیوں خدا کا بندہ جو اپنے رب کو ہر دوسرے وجود بلکہ ساری کائنات سے زیادہ پیارا ہے اور کیوں یہ خارق عادت معجزہ اس کے ہاتھ پر بار بار ظاہر ہوتا ہے کہ قوانین قدرت اس کی مرضی کے تابع کر دیئے جاتے ہیں؟ جس وقت آنحضور ﷺ کی ضربات سے چٹان ٹوٹنے کا معجزہ ظہور میں آیا رت جابر بھی وہاں موجود تھے.جب آپ کو پتہ چلا کہ آنحضور نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا اور آپ کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے ہیں تو وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیجئے گھر جا کر کچھ کھانے کا بندوبست کروں.چنانچہ آپ نے اجازت دے دی.کہتے ہیں میں نے گھر آکر بیوی سے کہا کہ میں نے آنحضر کی ایسی حالت دیکھی ہے کہ میں اس پر صبر نہیں کر سکا.کیا کچھ کھانے کو ہے؟ میری بیوی نے جواب دیا.کچھ جو ہیں اور یہ بکری کا بچہ ہے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 385 غزوات النبویہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ۰۸۹۱ء چنانچہ میں نے اسے ذبح کیا، جو پیسے، آٹا گوندھا اور ہانڈی چولہے پر چڑھا دی.جب آٹا روٹی پکانے کے قابل ہو گیا اور ہانڈی چولہے پر پکنے کے قریب ہو گئی تو میں آنحضر ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا.آپ ایک دو آدمی ساتھ لے کر تشریف لے آویں ، کچھ کھانا تیار کیا ہے.آپ نے پوچھا کتنا کھانا ہے؟ میں نے آپ کو تفصیل بتائی.آپ نے فرمایا بہت ہے.پھر آپ نے فرمایا اپنی بیوی کو جا کر کہو کہ وہ نہ چولہے سے ہنڈیا اتارے اور نہ تنور سے روٹی نکالے.پھر آپ نے مہاجرین اور انصار کو کہا چلو جا کر کھانا کھا آئیں جابر نے ہماری دعوت کی ہے.جب مجھے اس کا علم ہوا تو بہت گھبرایا اور بیوی سے کہا خدا تیرا بھلا کرے آنحضرت ﷺ کے ساتھ تو مہاجر اور انصار سب آگئے ہیں اب کیا بنے گا؟ میری بیوی نے پوچھا کیا حضور نے جب تم سے کھانے کی تفصیل پوچھی تھی تو تم نے بتا دیا تھا میں نے کہا ہاں سب کچھ بتا دیا تھا.اس نے کہا تو پھر گھبرانے کی کوئی بات نہیں.بہر حال حضور نے لوگوں کو کہا اندر آجاؤ لیکن بھیٹر نہ کرنا.پھر آپ نے روٹی توڑی اور اس پر گوشت ڈالا اور ہنڈیا اور تنور کو ڈھانپ دیا.آپ اس سے کچھ کھانا لیتے اور اپنے ساتھیوں کے سامنے رکھتے.اس طرح روٹی توڑ توڑ کر اس پر سالن ڈالتے گئے اور لوگوں کو کھلاتے گئے.یہاں تک کہ سب سیر ہو گئے اور ابھی کافی کھانا بچا ہوا تھا آپ نے فرمایا تم خود بھی کھاؤ اور بطور تحفہ دوسروں کو بھی بھیجو کیونکہ بھوک نے لوگوں کوستا رکھا ہے.( بخاری کتاب المغازی باب غزوة الخندق) سیرت محمدی کا یہ واقعہ نہایت لطیف اخلاقی تعلیم کا حامل ہے جس کا باریک نظر سے مطالعہ ضروری ہے.دراصل آنحضو کے حسن سیرت کا محض سرسری نظر سے احاطہ ہو ہی نہیں سکتا.بلکہ قرآن کریم کے معارف کی طرح آپ کی سیرت کے بھی بہت سے بطون ہیں اور ہر پردہ کے پیچھے حسن کا ایک نیا جہان روشن دکھائی دیتا ہے.سیرت محمدی کے علاوہ اس واقعہ میں صحابہ کی فدائیت اور ایمانی کیفیت کے بھی بڑے دلنشین پہلو نظر آتے ہیں.جہاں ایک طرف آنحضر ا یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ اجتماعی تکلیف کے وقت اپنے نفس کو دیگر صحابہ پر کسی نوع کی کوئی ترجیح دیں بلکہ وہاں اپنی تکلیف کا حال بھی ان سے مخفی رکھتے تھے.دوسری طرف صحابہ کی حالت یہ ھی کہ اپنا سب آرام لٹا کر اور جان فدا کر کے بھی اگر آنحضور کو کوئی آرام پہنچا سکتے ہوں تو ایسا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.خادم اور مخدوم کے تعلقات
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 386 غزوات النبویہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ۰۸۹۱ء کا یہ اسلوب حسن معاشرت کی جان ہے اور ہر زمانہ کے انسان کے لئے اس میں سبق ہے.اگر اس صورت حال کو مزید غور سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دراصل صحابہ کی فدائیت ان کی ذاتی صفت نہ تھی بلکہ ایک صفت منعکہ تھی یعنی آنحضور کی اس شفقت کا پر تو تھی جو دراصل آپ ہی کی ذات سے پھوٹتی اور صحابہ کی جانب بہتی تھی جس کا قرآن کریم ان الفاظ میں ذکر فرماتا ہے: عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ (التوبه : ۱۲۸) یعنی اس رسول پر بہت شاق گزرتا ہے کہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچے.پس تمہارے دکھ یہ اپنی جان پر لے لیتا ہے.دیکھو یہ مومنوں سے کیسی رافت اور رحمت کا سلوک کرنے والا ہے.یہ صلى الله آنحضور کی رافت اور رحمت ہی تھی جس نے صحابہ کے دلوں کو اپنی محبت میں ایسا فریفتہ کر رکھا تھا کہ وہ پکھل پگھل کر آپ کے قدموں میں بہنے کے لئے مچلا کرتے تھے.حضرت جابر نے بھی اس جذبہ سے مجبور ہو کر اپنے گھر کی ساری پونجی آنحضوں کے قدموں میں ڈال دی لیکن یہ ناممکن تھا کہ وہ رؤف رحیم آقا شدید فاقہ کشی کے ان سخت ایام میں اپنی بھوک مٹانے کے لئے چل پڑتا جبکہ دیگر ساتھی اسی طرح بھوک سے بلک رہے ہوتے.چونکہ محمد مصطفة صلى الله کا خدا سب سے بڑھ کر اپنے بندے کی فطرت اور اداؤں سے واقف تھا اس لئے اس نے بھی اس موقع پر ایسے پیار اور قرب کا اظہار فرمایا کہ دل پھڑک اٹھتا ہے.جب جابر نے اطلاع صلى الله دی کہ حضور کھانا تیار ہے چند دوسرے خدام کو بھی ساتھ لے چلیں.تو آنحضور ﷺ نے معا یہ سوال کیا کہ کتنا کھانا ہے؟ کھانے کی تفصیل سن لینے کے بعد یہ جان کر کہ بمشکل چند بھو کے لوگوں کے لئے کافی ہو سکتا تھا.آپ کا یہ فرمانا کہ بہت ہے اور ساتھ ہی سارے لشکر اسلام کو دعوت عام دے دینا کہ چلو چلیں جابر نے ہماری دعوت کی ہے آپ کے ایثار اور توکل علی اللہ کی ایک حیرت انگیز مثال ہے.آپ جب اپنے رب کی خاطر ایثار اور توکل کا یہ عجیب نمونہ دکھا رہے تھے تو یوں لگتا ہے کہ زمین و آسمان کا مالک اس وقت آپ کو یہ بشارت دے رہا تھا کہ اے میرے بندے! تو کھانے کی مقدار کیوں پوچھ رہا ہے؟ میں جانتا ہوں جو تیرے دل میں ہے.پس تجھے بشارت ہو کہ کھانا اتنا ہے کہ جو اس وقت تک ختم نہ ہوگا جب تک تیرا اور تیرے محبوب غلاموں کا پیٹ نہ بھر جائے.اس وقت
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 387 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۱۰۸۹۱ سے تقدیر کا سب انداز ہی بدل جاتا ہے.اب جابر مہمان اور آنحضور میزبان بنے والے تھے.فرماتے ہیں میرے آئے بغیر نہ آئے کو ہاتھ لگایا جائے اور نہ ہنڈیا سے ڈھکنا اٹھایا جائے.گویا وہ گھر اللہ کے حکم سے آپ کے تصرف میں دے دیا گیا تھا اور آپ کے ذریعہ ہی خدا تعالیٰ اپنی مالکیت اور رزاقیت کی ایک نئی شان دکھانا چاہتا تھا.سارے واقعہ پر دوبارہ گہری نظر ڈال کر دیکھ لیجئے آنحضور ﷺ کا سب انداز صاحب خانہ کا سا نظر آئے گا.چنانچہ آخر پر جب سب لشکر سیر ہو چکا اور ابھی بہت سا کھانا بچا ہوا تھا تو آپ نے جابر اور ان کی اہلیہ سے فرمایا کہ تم بھی کھاؤ اور لوگوں کو بھی تحفہ کے طور پر بھیجو کیونکہ بھوک نے لوگوں کو ستارکھا ہے.ادنی سی عقل رکھنے والا بھی دیکھ سکتا ہے کہ جو کھانا ایک بھو کے لشکر کی یلغار کے بعد بھی بچ گیا تھا یقیناً وہ بکری کا ایک لیلا اور جو کا تھوڑ اسا آٹا تو نہ تھا جو جابر کی ملکیت تھا بلکہ آسمان سے اترا ہوا وہ مائدہ تھا جو آنحضور ﷺ اور آپ کے ساتھ کے درویشوں کے لئے اتارا گیا تھا.دوسرا دور صلى الله نظیم کی آمد اور محاصرہ شدید تکلیفوں کا یہ دور جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں یہ تو ابھی آغاز کی باتیں تھیں اور آئندہ سخت تر پیش آنے والی تکالیف کے لئے گویا تیاری کا زمانہ تھا.یہ محض تصرف الہی تھا کہ خندق کی تکمیل سے پہلے دشمن وہاں نہیں پہنچ سکا لیکن جو نہی خندق مکمل ہوئی مختلف سمتوں سے بیابانی غولوں کی طرح دشمن کے دستے مدینے کے شمال اور مغرب اور جنوب میں اترنے شروع ہوئے.ان میں کفار مکہ بھی تھے جن کے سینوں میں حسد کی آگ بھڑک رہی تھی اور بنونضیر بھی جو اپنی شرمناک جلا وطنی کی بناء پر انتقام کی آگ میں جل رہے تھے.اور ان دونوں دشمنوں کے حلیف وہ متعدد بدو قبائل تھے جو اپنی وحشت اور جاہلیت اور بربریت میں شہرت یافتہ تھے اور تہذیب اور انسانیت اور شرافت اور عفو سے عاری بھو کے صحرائی بھیڑیوں کی طرح حملہ کرنا ان کی سرشت میں داخل تھا.یہ سب غول بیابانی ہولناک کالی گھٹاؤں کی طرح امڈ کر آئے اور مدینہ کے مشرقی افق کو شمال تا جنوب تاریک کر دیا.یہ گھٹا ایسی تھی جس میں ظلمتیں بھی تھیں اور رعد و برق کے کڑ کے بھی لیکن
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت رحمت کے پانی کی کوئی بوند نام کو ن تھی.388 غزوات النبویہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۰۸۹۱ء اواخر فروری میں اس لشکر جرار نے جس کی تعداد بارہ سو مسلمان مجاہدین کے مقابل پر کم و بیش ہیں چھپیں ہزار تھی ، مدینے کو مشرقی جانب سے شمال تا جنوب اپنے گھیرے میں لے لیا.یہ لشکر تین فوجوں میں بٹا ہوا تھا.لشکر کا ایک حصہ جو بنی غطفان پر مشتمل تھا عینیہ بن حصن فرازی کی سرکردگی میں تھا.لشکر کا دوسرا حصہ جو بنو اسد پر مشتمل تھا کی کمان طلحہ کر رہا تھا اور لشکر کا تیسرا حصہ جو قریش کے قبائل پر مشتمل تھا اس کی کمان ابوسفیان کے ہاتھ میں تھی جو سالا راعظم بھی تھا.جب سرداران لشکر نے مسلمانوں کے اور اپنے درمیان خندق کو حائل دیکھا تو ایک ایسی جنگی حکمت عملی اختیار کی جو مسلمانوں کے لئے انتہائی پریشان کن اور اعصاب شکن بن گئی اور لمبے عرصہ تک کسی بھی فوج کے لئے اسے برداشت کرنا ممکن نہ تھا.مسلمان چونکہ سخت تھکے ہوئے ، کم تعداد اور فاقوں کے ستائے ہوئے تھے اس لئے کفار مکہ نے موقع محل کے مطابق جو جنگی منصوبہ بنایا اس کے خد و خال یہ تھے: اول : جب تک فاقوں سے تنگ آکر مسلمان یا مر نہ جائیں یا ہتھیار نہ ڈال دیں محاصرہ قائم رکھا جائے.دوم : خندق کے کمزور حصوں کی نشاندہی کر کے مسلسل ان پر حملے کئے جائیں تا کہ اگر کسی جگہ سے خندق کو پاٹا جاسکے تو عام ہلہ بولنے کے لئے راستہ صاف ہو جائے.سوم : بہترین سواروں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں خندق کے تنگ حصوں کو پھلانگ کر مسلمانوں کی چوکیوں پر حملہ کرتی رہیں.چهارم مختلف وقتوں میں مختلف سمتوں سے ہونے والے یہ حملے دن کے علاوہ رات کو بھی جاری رکھے بائیں تا کہ مسلمانوں کو کسی وقت بھی چین نصیب نہ ہو.اپنے ایجنٹوں اور منافقوں کے ذریعہ ان میں انتہائی حوصلہ شکن باتیں پھیلائی جائیں اور آنحو کے خلاف یہ زہریلا پروپیگنڈا کیا جائے کہ فتح و نصرت اور غلبہ کے جو وعدے تم سے صلى الله کرتا رہا ہے سب جھوٹے ہیں.عرب کے چند قبائل کے مقابلہ کی تو طاقت نہیں اور سلطنت روما اور ایران کی فتوحات کی باتیں کر رہا ہے.یہ ففتھ کالم (Fifth Column) پروپیگنڈا جس کا قرآن
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 389 غزوات النبویہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۰۸۹۱ء کریم میں بھی ذکر ملتا ہے، جنگ عظیم ثانی کے نازی طریق جنگ سے بہت ملتا جلتا تھا اور بلا شبہ کسی دشمن کی کمر توڑنے کے لئے اس سے زیادہ زبر دست حربہ نہیں سوچا جا سکتا.ہتھیار کیسے ہی کیوں نہ ہوں اگر ہمت ہی کی کمر ٹوٹ جائے تو سپاہی لڑ نہیں سکتا اس لئے کسی حملہ آور کے لئے اس سے بہتر اور کیا طریق جنگ ہو سکتا ہے کہ لڑائی کے بغیر ہی دشمن کو زیر کر لیا جائے.ششم : یہ کہ یہودی قبیلہ بنو قریظہ سے ساز باز کی جائے کہ وہ مسلمانوں سے اپنے عہد و پیمان توڑ دیں اور جب کفار کا لشکر ایک عام یلغار کرے تو یہودی مسلمانوں کی پشت پر سے حملہ آور ہوں.آنحضور کی صداقت کا ایک روشن ثبوت عرب سرداران نے اس خطر ناک سکیم پر آغاز ہی سے عمل شروع کر دیا جس سے مسلمان مجاہدین کی مشکلات اور تکالیف میں بے پناہ اضافہ ہو گیا اور سب سے زیادہ ان مصائب کا اثر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات پر پڑا.حیرت ہوتی ہے کہ بظاہر اس ناممکن بو جھ کو آپ نے کیسے اُٹھائے رکھا اور کیوں آپ کے پائے عزم و ثبات میں ایک ادنی سی لغزش بھی نہ آئی.آپ کی بے مثل قوت کا راز در اصل تعلق باللہ اور دعاؤں میں تھا.آپ مسلسل دردناک دعاؤں کے ذریعہ اپنے رب کے حضور گریہ وزاری کرتے رہے اور اسی سے مدد مانگتے رہے.بظاہر امید کی کوئی بھی تو کرن دکھائی نہ دیتی تھی اور دنیا کے پیمانوں سے جانچا جائے تو ایک ہی دن میں سارالشکر اسلام مایوسی کا شکار ہو جانا چاہئے تھا.جس لشکر کے آب و دانا کی یہ کیفیت ہو کہ دشمن کے محاصرہ سے پہلے ہی تہی دامن اور فاقہ مست ہو چکا ہو ایسے قومی اور ہولناک محاصرے کے وقت اس کی کیا حالت ہوسکتی ہے؟ پھر منافقین کا باتیں بنانا اور طعن و تشنیع کی چھریاں چلانا اور کمزور ایمان والوں کی یہ حالت کہ خوف و ہراس سے صلى الله آنکھیں پتھرا رہی ہوں اور موت کی سی غشی طاری ہو، آنحضور ﷺ اور آپ کا صبر ہی تو تھا جو ایسے میں مومنوں کی ڈھارس بنا ہوا تھا.اور یہ آنحضور ﷺ کی صداقت پر غیر متزلزل ایمان ہی تو تھا جس سے وہ زندگی کی قوت پارہے تھے.ہم بلا خوف وتر دید کہ سکتے ہیں کہ جب سے دنیا بنی ہے کبھی کسی نبی کی صداقت پر ایمان لانا ایسا دشوار نہیں ہوا جیسا احزاب کے پر خطر ایام میں محمد مصطفیٰ کی صداقت پر ایمان لانا تھا.اور کبھی کسی نبی کی صداقت کو ایسا امتحان پیش نہیں آیا جیسا آنحوم کی صداقت کو
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 390 غزوات النبی اے میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۰۸۹۱ء احزاب کے پر ستم ایام میں.کیا پہلے بھی کبھی آسمان کی آنکھ نے ایسا حیرت انگیز نظارہ دیکھا تھا کہ چند نحیف و نزار فاقہ کش درویشوں کے درمیان جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہوں.اُن کا نبی اُن سے شرق و غرب ، شمال و جنوب کی فتوحات کے وعدے کر رہا ہو اور سننے والوں کے دل حیرت و استعجاب میں ڈوب جانے اور بے یقینی اور بے اطمینانی کا شکار ہونے کی بجائے یقین اور ایمان میں پہلے سے بھی بڑھ جائیں.وہ پہلے سے بڑھ کر اپنے آقا کی صداقت کے قائل ہو جائیں اور ایسے پر جوش نعرہ ہائے تکبیر سے اس کی صداقت کی گواہی دیں کہ عرش کے کنگرے بھی لرز نے لگیں.مومنوں کی اس عجیب جماعت کو ہم کیا نام دیں اور کس لقب سے پکاریں.کیا وہ ایک دیوانوں کی جماعت تھی یا حد سے بڑھے ہوئے عشاق کا ایک گروہ یا مئے عرفان و ایمان میں مست ہوش و خرد سے بے نیاز لافانی لوگ تھے جو اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی اس عالم بقا میں بستے تھے.میں تو کہتا ہوں کہ تینوں نام اُن پر سجتے تھے.وہ اس خطہ سماوی کے باشندے تھے جہاں جنون اور عشق اور فنافی الرسول اور فنافی اللہ کی سرحدیں ملتی ہیں.لیکن اک ذرا ٹھہرو اور سوچو کہ یہ مصطف صلى الله انہوں نے کیسے حاصل کیا اور یہ قوت انہوں نے کہاں سے پائی؟ بلاشبہ یہ کرشمہ حضرت محمد مصنف میں سے کی صداقت ہی کا تو تھا.مومنوں نے آنحضور کو ہر حال میں ہر آزمائش میں ہمیشہ سچا پایا تھا اور جانتے تھے کہ آپ کی صداقت ایک لازوال اور اٹل حقیقت ہے جو سورج سے بڑھ کر روشن اور یقینی ہے.بھلا کبھی راتوں نے بھی سورج کے وجود کو مشکوک کیا ہے ؟ یا سیاہ بادلوں کے لائے ہوئے گھپ اندھیروں نے بھی کبھی مہر تاباں کے بارہ میں وسوسے پیدا کئے ہیں.پس درحقیقت صحابہ کا غیر متزلزل ایمان آنحضور ﷺ کی لازوال صداقت کا ہی ایک پر تو تھا جس کی ضو پاشی ان کے دلوں سے منعکس ہو کر ہمیں ان کے نور ایمانی کی صورت میں نظر آتی ہے.لاریب آپ کی صداقت ہی توانائی کا وہ ابدی سرچشمہ تھی جس سے صحابہ کے ایمان زندگی کی قوت پا رہے تھے.پس اے سچائی کے شہزادے! تجھ پر سلام، اے صادقوں کے قافلہ سالار! تجھ پر درود، تجھ سا نہ کوئی تھا، نہ ہے، نہ ہوگا.محاصرہ کے ساتھ ساتھ جوں جوں غزوہ احزاب کی تلخیاں بڑھیں.آنحضور ﷺ کی ذمہ داریاں بھی اسی نسبت سے بڑھنے لگیں.دن اور رات کوئی لمحہ بھی مسلمانوں پر چین اور سکون کا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 391 غزوات النبی اے میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۰۸۹۱ء نہیں آتا تھا.دو تین میل لمبی خندق پر کسی وقت کسی جگہ بھی دشمنوں کے تازہ دم دستے باریاں بدل بدل کر حملے کرتے تھے اور مسلمانوں کو ہر وقت چاک و چوبندان سے حفاظت پر مامور رہنا پڑتا تھا اور ہر خطرے کے وقت وہ آنحضور کی طرف دوڑتے تھے.آنحضو ﷺ ہمہ وقت ان کی نگرانی فرماتے، ان کو ہدایت دیتے ، ان کی ڈھارس بندھاتے.تمام اطلاعات اور تمام ہدایات کا مرکز آپ کی ذات تھی.پس دوسرے صحابہ کو تو کچھ آرام کا وقت میسر آ بھی جاتا مگر آپ کا دل تو ساری سرحد پر صحابہ کی ہر ٹولی کے ساتھ اٹکا ہوا تھا.خطرہ جگہیں بدلتا ہوا اصحابہ کی جس ٹولی پر بھی منڈلاتا ، دن ہو یا رات آپ اس سے براہِ راست متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے.ہر چند کے آپ کی روح ذکر الہی میں مستغرق یاریگا نہ میں نہاں در نہاں.انسانی دست برد سے محفوظ ایک اور ہی عالم میں بستی تھی لیکن جسم تو بہر حال تقاضائے بشریت سے مجبور تھا اور ہر دکھ اور تکلیف کو اسی طرح محسوس کرتا تھا جیسے دوسرے انسانوں کے جسم بلکہ سب دوسروں سے بڑھ کر حساس تھا اس لئے میں سوچتا ہوں کہ ان دنوں کی تلخیاں آپ نے کس مافوق البشر صبر کے ساتھ برداشت کیں کہ صبر ایوبی آپ کے صبر کے سامنے پھیکا دکھائی دیتا ہے.میں سوچتا ہوں کہ جب شدید اور سخت سردی اور دن رات کی تھکن آپ کے بدن کی نس نس کو ستاتی تھی تو آپ کا کیا حال ہوتا ہوگا.میں سوچتا ہوں کہ جب نیند کی پیاسی آنکھیں حد برداشت سے بڑھ کر بوجھل ہو جاتی تھیں تو آپ کسی اپنی عزم کے ساتھ پلکوں کو چومتی ہوئی نیند کو جھٹک دیا کرتے تھے.آپ کی ذات وصفات کے بارہ میں قرآن کریم کی یہ گواہی کیسی بچی لیکن دردناک ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے لئے آپ اپنے نفس پر بڑا ہی ظلم کرنے والے تھے.مصائب کی ان طویل گھڑیوں میں آپ کے آرام کے بارہ میں بہت کم ذکر ملتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ اتنا تھک گئے کہ سخت مجبور ہو کر چندلمحوں کے لئے ستانے کو لیٹ گئے ایسے مختصر سے آرام کے اور بھی کئی وقت آئے ہوں گے لیکن مشکل یہ تھی کہ گھڑی گھڑی کی پر خطر خبر میں لئے ہوئے صحابہ آپ کے پاس پہنچ جایا کرتے تھے اور وہ بھی کیا کرتے اور جاتے تو صلى الله کہاں جاتے؟ چین دل، آرام جان پاتے تو کہاں پاتے ؟ ایک در مصطفی ﷺ ہی تو تھا جسے دن رات کھٹکھٹایا جا رہا تھا پس آرام کی چند گھڑیاں بھی دراصل آپ کو میسر نہ آتی تھیں.لیکن ایک موقع پر
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 392 غزوات النبویہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ۱۰۸۹۱ پ کی آنکھ لگی تو حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ ہتھیار بند آپ کے پہرے پر کھڑے ہو گئے تا کہ کوئی آپ کے آرام میں مخل نہ ہونے پائے.یہ بھی ایک عجیب نظارہ تھا مائیں بچوں کے لئے جاگا کرتی ہیں شاید کبھی ایسا بھی واقعہ گزرا ہو کہ کوئی ماں اپنے بیمار بچے کے لئے اتنا جاگی ہو اتنا جاگی ہو کہ آخر سخت مجبور ہو کر اس کا سر تکیہ پر ڈھلک جائے اور بیمار بچہ اس کی حفاظت کے لئے اُٹھ بیٹھے کہ کہیں کوئی نادانی سے شور کر کے اسے جگا نہ دے.وہ وقت کچھ اس قسم کا تھا کہ صحابہ کی خاطر دن رات جاگنے والا وجو دسویا ہوا تھا اور صحابہؓ اس کی نیند کی حفاظت کر رہے تھے.جوں جوں وقت گزرتا گیا آپ کے بوجھ بڑھتے رہے اور مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا گیا.ہر چند کہ صحابہ کی روحیں مستعد تھیں مگر جسم کمزور تھے اور شب وروز کی محنت شاقہ اور پریشانی نے انہیں اس قدر نڈھال کر رکھا تھا کہ دن رات خندق کی نگرانی اور حفاظت کا کام ان کی طاقت سے بڑھتا جارہا تھا اور طاقت تھی کہ ساعت بساعت گھٹتی چلی جارہی تھی.محاصرہ کے آخری ایام میں تو ایسی راتیں بھی آئیں کہ خود آنحضوں کو پر خطر مقامات کی حفاظت کے لئے جانا پڑتا ور نہ وہ جگہیں صلى الله حفاظت سے خالی رہ جاتیں.ایک مرتبہ ایسی ہی ایک رات کو آنحضور تھکاوٹ سے چور ہو کر ذرا ستانے کے لئے خیمے میں واپس آئے تو ایک صحابی نے موقع غنیمت جانا اور ہتھیار بند ہو کر آپ کے خیمہ کے باہر کھڑے ہو گئے تا کہ چند لمحے حضور کی دربانی کی سعادت حاصل ہو جائے.لیکن آنحضور بیدار تھے اسکی آہٹ سن کر پوچھا کون ہے؟ اس نے جواب دیا میں ہوں یا رسول اللہ !.آپ کے خیمہ کا پہرہ دینے آیا ہوں.آنحضور ﷺ نے فرمایا میرا پہرہ چھوڑ و فلاں مقام پر خندق بغیر نگرانی کے ہے اور اس طرف سے خطرہ پیش آسکتا ہے اس لئے تم وہاں جا کر نگرانی کرو.( صحیح بخاری کتاب الجھا دو السير باب الحراسة في الغزو فی سبیل اللہ ) اس واقعہ سے جہاں یہ پتا چلتا ہے کہ آنحضور ہمہ وقت تمام حالات سے باخبر رہتے تھے وہاں صحابہ کی نا گفتہ بہ حالات کا اندازہ ہوتا ہے.آپ کا اس مقام خطر سے واقف ہونے کے با وجود کسی کو وہاں مقرر نہ کرنا ہی بتاتا ہے کہ آپ کے نزدیک مجاہدین اتنے تھک چکے تھے کہ اس وقت ان میں سے کسی کو مقرر فرما نا طاقت سے بڑھ کر تکلیف دینے کے مترادف تھا.عین ممکن ہے کہ اس وقت خیمہ کی تنہائی میں آپ اسی بارہ میں مصروف دعا ہوں کہ اے میرے آقا! میں تنہا رہا جاتا ہوں خود
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 393 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ۰۸۹۱ء اپنی طرف سے کوئی مددگار بھیج دے.لیکن یہ دعا ان لفظوں میں کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو آپ کا رب ہر وقت آپ کے حال سے باخبر تھا.پس آپ کو اس فکر میں غلطاں پا کر کہ خندق کا ایک حصہ حفاظت سے خالی پڑا ہے اللہ تعالیٰ نے ایک مددگار آپ کو مہیا فرما دیا.یہ امر بھی نظر انداز کرنے کے لائق نہیں کہ اس کمر توڑ دینے والی تھکاوٹ کے وقت اس رضا کار کو کیسے ہمت پڑی کہ از خود آپ کے خیمہ کی حفاظت کے لئے حاضر ہو جائے.دراصل یہ اسی عشق کا کرشمہ تھا جو دیوانگی کی حد تک پہنچا ہوا تھا ورنہ کسی فرزانہ کا یہ کام نہ تھا.صحابہ پر وہ دن ایسے سخت اور بوجھل تھے کہ تاریخ اسلام میں اس کی کوئی مثال نظر نہیں آتی.وہ جان نثار جو آنحضور کی ایک جنبش لب پر سو جانیں نچھاور کرنے کو تیار رہا کرتے تھے ان کی لاغری کا اب یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آنحضور نے رات کو ایک اہم کام کے لئے صحابہ کو آواز دی مگر کسی طرف سے کوئی جواب نہ آیا.آپ نے نام لے لے کر ابو حذیفہ کو بلایا مگر کامل سکوت طاری رہا.آخر حضور خود تلاش کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچے جہاں ابو حذیفہ لیٹے ہوئے تھے اور پاؤں سے ان کے جسم کو جنبش دے کر فرمایا ابو حذیفہ ! اس وقت انہوں نے عرض کی جی یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں.آپ نے فرمایا کیا تم میری آواز نہیں سن رہے تھے جب میں تمہیں بلا رہا تھا ؟ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! اس تو رہا تھا لیکن سردی کی شدت اور نقاہت کا عالم تھا کہ جواب دینے کی بھی طاقت نہ تھی.یقیناً حد سے بڑھی ہوئی بے بسی اور نا طاقتی ہی مانع ہوگی ورنہ یہ صحابہ تو وہ تھے جن کا گزشتہ کردار ہمیں بتاتا ہے کہ جان کنی کی حالت میں بھی جب رسول خد کا نام لے کر ان کو بلایا گیا تو جان کا آخری قطرہ لبوں تک آ گیا اور سوکھے ہوئے ہونٹوں سے سرگوشی کرتی ہوئی یہ آواز اٹھی کہ میں حاضر ہوں.( شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۴۹۷، ۴۹۸) پس خود آنحو کی آواز سن کر صحابہ کا خاموش رہ جانا بتا رہا ہے کہ بشری طاقت سے معاملہ تجاوز کر چکا تھا.آنحو ما ابو حذیفہ کو ایک اہم مشن پر دشمنوں کے لشکر میں بھیجنا چاہتے تھے.آپ کے ارشاد پر جس طرح بھی بن پڑا ابو حذیفہ اٹھ کھڑے ہوئے اور وہ بیان کرتے ہیں کہ اٹھ تو میں کھڑا ہوالیکن جان مجھ میں اس وقت پڑی جب آنحضور ﷺ نے میرے لئے دعا کی.اس وقت خدا جانے مجھ میں کہاں سے طاقت آگئی، نہ کمزوری کا احساس باقی رہا نہ سردی کا آزار.پس وہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 394 غزوات النبویہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ۱۰۸۹۱ ہلکے پھلکے قدموں سے رواں دواں خندق کو عبور کر کے دشمن کے کیمپ میں جا پہنچے اور حالات معلوم الله کرنے کے بعد اسی رات واپس آکر آنحضور ﷺ کی خدمت میں رپورٹ پیش کی.اس واقعہ پر غور کرنے سے ہمہ وقت آنحضور کی بیدار مغزی اور قائدانہ فرائض کی ادائیگی کا بھی پتا چلتا ہے اور نا قابل بیان جسمانی محنت اور بے مثل عزم و ہمت کا بھی.یہی وجہ ہے کہ تمام محاصرہ کے دوران دشمن نے آپ کو کبھی کسی پہلو سے غافل نہ پایا.آنحضور کی حیرت انگیز فراست کا بھی اس واقعہ سے پتا چلتا ہے کہ دشمن کی خبر لانے کے لئے وہ وقت منتخب کیا جب سارے دن کے مقابلہ کے بعد صحابہ اس قدر تھکے ہوئے تھے کہ دشمن کی نظر میں یہ بعید از احتمال تھا کہ ایسے مشکل وقت میں کوئی ان کی خبر لانے کو آسکتا ہے.پس ابوسفیان نے گورسمی احتیاط تو کی لیکن ابو حذیفہ ایک انتہائی اہم اور فیصلہ کن خبر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے.وہ خبر یہ تھی کہ مدینہ کے جنوب مغرب میں بسنے والے یہودی قبیلہ بنو قریظہ نے مسلمانوں کے ساتھ اپنے عہد و پیمان تو ڑ کر کفار کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے.دشمن کی سب سے خطر ناک چال اور بنو قریظہ کی غداری ہجرت مدینہ کے آغاز ہی میں جن یہودی قبائل سے آنحو ں کا صلح اور امن کا معاہدہ ہوا تھا ان میں سے دو قبیلے تو پہلے ہی غداری کر کے اپنے کئے کی سزا پا چکے تھے بس ایک قبیلہ بنو قریظہ ابھی تک کچھ نہ کچھ اپنے عہدو پیمان پر قائم تھا.حملہ آور لشکر کے سرداروں نے جب اس قبیلہ کو بھی مسلمانوں سے غداری پر آمادہ کر لیا تو مسلمانوں کی دفاعی صلاحیت کو بظاہر نا قابل تلافی نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو گئے.کفار کی طرف سے کامیاب گفت وشنید کا کارنامہ کی بن اخطب نے سرانجام دیا جو اس یہودی قبیلہ بنونضیر کا سردار تھا جسے عہد شکنی اور آنحضور پر قاتلانہ حملہ کرنے کی سازش کے نتیجہ میں کچھ عرصہ پہلے مدینہ سے نکال دیا گیا تھا.یہ معاہدہ اتنا خطر ناک تھا کہ اگر اس پر عمل درآمد ہو جاتا تو خدا تعالیٰ کی غیر معمولی تقدیر کے سوا کوئی طاقت بھی مسلمانوں کو کلیۂ نیست و نابود ہونے سے بچ نہ سکتی تھی.لومڑی کی طرح عیار اور بھیڑیے کی طرح سفاک دشمن کا یہ سب سے کاری وار تھا جو مسلمانوں پر کیا لیکن عمد امسلمانوں کے عذاب کو لمبا کرنے کی خاطر یا بنو قریظہ کو تیاری کا موقع
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 395 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ۰۸۹۱ء دینے کے لئے اس معاہدہ پر عمل درآمد کچھ دنوں کے لئے ملتوی کر دیا گیا.حالات کے اس نئے رخ نے کفار کو دوہرا فائدہ پہنچایا.ایک تو محاصرے کی طوالت ویسے ہی مسلمانوں کی کمزوری میں اضافہ کر رہی تھی دوسرے خندق کی حفاظت کرنے والے مجاہدین کے لئے مسلمان خواتین اور بچوں کی حفاظت کا ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا جو پہلے اس لئے محفوظ سمجھے جارہے تھے کہ ان کے اور دشمن کے درمیان لشکر اسلام صف آرا تھا جسے کلیۂ پامال کئے بغیر دشمن ان تک نہیں پہنچ سکتا تھا.لیکن بنوقریظہ اور مسلمان خواتین کی جائے قیام کے درمیان کوئی روک نہ تھی.علاوہ ازیں خود مسلمان لشکر کی پشت بھی بنو قریظہ کی طرف سے غیر محفوظ ہو گئی اور ان کی طرف سے مسلمانوں پر اچانک پشت کی طرف سے حملہ کا خطرہ پیدا ہو گیا.پس اس خطر ناک صورتحال کے پیش نظر آنحو نے دودستے جن کی تعداد تین صد اور دوصد بیان کی جاتی ہے خندق پر لڑنے والی فوج سے الگ کر کے ان دونئی ضرورتوں پر مامور فرما دیئے.گویا بارہ سو کی بجائے اب خندق کی حفاظت کرنے والی فوج کی تعداد صرف سات سو رہ گئی.مسلمانوں پر یہ ایک ایسا ہولناک وقت تھا کہ اس کے تصور سے بھی دل پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے.ایک طرف ہلاکت اور تباہی کی قوتوں میں اضافہ ہوتا چلا جار ہا تھا تو دوسری طرف دفاعی طاقت ڈوبتی ہوئی نبضوں کی طرح کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جا رہی تھی.آخر اس بظاہر بے جوڑ اور بے توازن مقابلے کا کیا انجام تھا.آخر کیوں دیکھنے والی آنکھوں نے اس انجام کو نہیں دیکھا جو آہستہ لیکن یقینی اور مضبوط قدموں کے ساتھ ان کی طرف بڑھ رہا تھا.دیکھا اور ضرور دیکھا لیکن زاویہ نگاہ کے فرق کے ساتھ.دیکھنے والوں کی آنکھیں دو گروہوں میں بٹی ہوئی تھیں جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف مستقبل کو قریب آتے ہوئے دیکھ رہے تھے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے ان دونوں قسم کی دیکھنے والی آنکھوں کا ذکر ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا ہے.کچھ آنکھیں تو وہ تھیں جو محض ظاہری حالات پر نظر رکھتے ہوئے جو کچھ دیکھ رہی تھیں انہی کے الفاظ میں یہ تھا: إِذْ جَاءُ وَكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُوْنَا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 396 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۰۸۹۱ء هُنَالِكَ ابْتِيَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا وَإِذْ يَقُولُ الْمُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُةَ إِلَّا غُرُورًا وَإِذْ قَالَتْ طَابِفَةٌ مِّنْهُمْ يَاهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوْا ۚ وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِنْهُمُ النَّبِى يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ إنْ يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا (الاحزاب ۱۱ ۱۴) ترجمہ: وہ وقت جب دشمن تمہارے اوپر کی طرف سے بھی اور نشیب کی طرف سے بھی تم پر چڑھ آیا تھا اور جب آنکھیں خوف و ہراس سے ٹیڑھی ہو رہی تھیں اور دل دھڑکتے ہوئے حلق تک آگئے تھے اور تم اللہ تعالیٰ کے متعلق طرح طرح کے گمان کرنے لگے تھے.اس وقت مومن ایک بڑی آزمائش میں سے گزر رہے تھے اور شدید زلزلے کے جھٹکوں میں مبتلا کئے گئے.وہ وقت جبکہ منافق اور دلوں کے بیمار یہ کہنے لگے کہ خدا اور رسول نے ہم سے محض ایک جھوٹا وعدہ کیا تھا اور ایک گروہ ان میں سے یہاں تک کہنے لگا کہ اے مدینہ والو! تمہارے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں پس مرتد ہو جاؤ.اور ایک گروہ ان میں سے یہ کہہ کر نبی سے اجازت مانگنے لگا کہ ہمارے گھر دشمن کی زد میں ہیں حالانکہ وہ گھر دشمنوں کی زد میں نہ تھے اور محض فرار کا ارادہ کر رہے تھے.اس مہیب دور میں جبکہ دشمن کی بڑھتی ہوئی طاقت کے ساتھ ساتھ دفاع کی ذمہ داریاں بٹ رہی تھیں اور عقب میں پیدا ہونے والے یہودی خطرہ کے علاوہ منافقین اور کمزور ایمان والے کھلم کھلا ساتھ چھوڑنے لگے تھے حقیقتا مسلمانوں کے پاؤں کے نیچے سے زمین سرکنے کا سا عالم تھا.قرآن کریم نے ان حالات کو شدید زلزلے کا نام دے کر اس تمام کیفیت کو بیان کر دیا جو مومنوں پر گزر رہی تھی لیکن ایسے خوفناک حالات میں جبکہ گویا زمین تہ و بالا ہورہی تھی ، اوپر سے چھتیں گر رہی تھیں اور نیچے سے زمین پھٹ رہی تھی مومنوں کی آنکھیں جس مستقبل کو قریب تر آتے ہوئے دیکھ رہی تھیں وہ ان حالات کے طبعی اور منطقی نتیجہ سے بالکل مختلف تھا.اس وقت ایمان کی بصیرت سے منور آنکھوں نے جو کچھ دیکھا وہ خدا تعالیٰ کی شہادت کے مطابق یہ تھا:
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 397 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۱۰۸۹۱ وَلَمَّارَاَ الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا شمن اِيْمَانًا وَتَسْلِيمَاتٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ ۚ فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (الاحزاب : ۲۳ - ۲۴) ترجمہ: اور جب حقیقی مومنوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو کہا یہ تو وہی (لشکر ) ہیں جن کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے بالکل سچ بولا تھا.اور ان کو اس واقعہ نے ایمان اور اطاعت میں اور بھی بڑھایا ( کمزور نہیں کیا).ان مومنوں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اس وعدہ کو جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا سچا کر دیا.پس بعض تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنی نیت کو پورا کر دیا ( یعنی لڑتے لڑتے مارے گئے ) اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو ابھی انتظار کر رہے ہیں اور اپنے ارادہ میں کوئی تزلزل انہوں نے نہیں آنے دیا.وہ وعدہ جسے مومنوں نے اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھا تھا ان کے دل پہلے سے بڑھ کر ایمان اور یقین سے بھر گئے وہی وعدہ تھا جس کا وعدہ سورۃ ص میں جو مکی سورتوں میں سے ہے ان الفاظ میں ملتا ہے: جُنْدٌ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُوم مِّنَ الْأَحْزَابِ (ص: ٢١) ایک (غیر متقی) منظم لشکر ( کی ہم خبر دیتے ہیں جو محمد ﷺ کے مقام پر حملہ کرے گا مگر ) آخر وہاں سے بھاگ جائے گا.اور دوسری جگہ سورۃ القمر میں بھی بیان ہوا: سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَثُونَ الدُّبُرَ ( القمر : ٢٤) دشمن کی جمعیت شکست کھا کر پیٹھ پھیرتی ہوئی بھاگ کھڑی ہوگی.سیہ وہ وقت تھا کہ بے اختیار مَتی نَصْرُ الله کی آوازیں مومنوں کے دلوں سے بلند ہو رہی تھیں کہ اے ہمارے آقا ! ہم یقین تو رکھتے ہیں کہ تیرے وعدے ضرور پورے ہوں گے اور تیری نصرت ضرور آئے گی لیکن کب آئے گی وہ نصرت؟ کہ اب صبر کی طاقت نہیں رہی.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 398 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۱۰۸۹۱ یہ وہ وقت تھاجب تقدیر الہی مستقبل سے پردہ اٹھانے ہی والی تھی اور أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قریب کا وعدہ پورا ہونے کو تھا.اس دور میں آنحضور کے کردار کو دیکھ کر قرآن کریم کی اس آیت کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے کہ اِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ اِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا (الاحزاب : ۷۳) یعنی ہم نے کامل شریعت اور عظیم اخلاقی ذمہ داریوں کی امانت کو زمین و آسمان کے سامنے حتی کہ پہاڑ صفت اور مضبوط ہستیوں کے سامنے بھی رکھا لیکن وہ ڈر گئے اور اس بات پر آمادہ نہ ہوئے کہ اس بوجھ کو اٹھا لیں تب انسان کامل یعنی ہمارا بندہ محمد ﷺ ) آگے بڑھا اور اس امانت کو اٹھا لیا.یقیناً وہ اس ذمہ داری کو نبھانے کی خاطر اپنے نفس پر بہت ظلم کرنے والا اور اس ظلم کے نتائج سے بے پرواہ اور بے نیاز تھا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضور کے عظمت کردار کی جو تصویر کھینچی ہے وہ آپ کے کردار کے ہر پہلو پر ہمہ وقت صادق آتی ہے.آپ کی ذمہ داریوں نے سینکڑوں ہولناک بھیس بدلے اور کئی ڈرانے والے لباسوں میں آپ کے سامنے آئیں لیکن کبھی آپ ان سے ادنی سا بھی خائف نہ ہوئے اور ادائیگی فرض کے ضمن میں آپ نے ایسے ایسے بوجھ اٹھا لئے کہ بڑے سے بڑے با حوصلہ اور با ہمت کہلانے والے بھی ان کے تصور سے پیچھے ہٹ جاتے.اقتضائے وقت اور خلق مصطفوی کا ایک عجیب تصادم میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ جنگوں کے دوران آنحضو کے کردار کو عام دنیا کے جرنیلوں کے پیمانوں سے ناپنا محض ایک حماقت اور جہالت ہے.آپ تو میدان روحانیت اور کارزار اخلاق کے سپہ سالار تھے پس اخلاق کی اعلیٰ قدروں کو بچانے کی خاطر جسم و جان کے ادنی تقاضوں کی آپ نے کبھی پرواہ نہ کی.مورخین ہمیں بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ کفار کی حملہ آور پارٹیوں میں سے ایک گھڑ سوار پارٹی گھوڑے دوڑا کر خندق پھلانگنے میں کامیاب ہوگئی لیکن ان کو یہ جسارت بہت مہنگی پڑی.ان کو شاید یہ غلط فہمی تھی کہ بھوک اور سردی اور مشقت کا شکار ہوکر صحابہ میں لڑنے کی سکت باقی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 399 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۱۰۸۹۱ نہ ہوگی لیکن ان آگ کے بیٹوں کو یہ گمان بھی نہ ہو سکتا تھا کہ صحابہ کس چکنی مٹی کس طین لا زب کے بنے ہوئے ہیں جو آگ میں پڑ کر اور بھی زیادہ مضبوط ہو کر نکلتی ہے.پس بہت جلد ان کو منہ کی کھانی پڑی اور اپنی جواں مردی کی لاشیں پیچھے چھوڑتے ہوئے جب وہ عجلت میں خندق عبور کر کے واپس ہونے لگے تو ان میں سے ایک سوار کا گھوڑا خندق میں گر پڑا اور گھڑ سوار جو پہلے ہی زخمی تھا اس حادثہ سے جانبر نہ ہو سکا.اس شخص کا نام نوفل بن عبداللہ تھا اور یہ قبیلہ بنی مخزوم کا رئیس تھا.اس خبر سے کفار کے کیمپ میں سراسیمگی پھیل گئی اور یہ خوف لاحق ہو گیا کہ کہیں مسلمان شہدائے احد کی بے حرمتی کا بدلہ لینے کی خاطر اس مقتول سردار کے ناک کان کاٹ کر اس کا حلیہ نہ بگاڑ دیں.اگر ایسا ہوتا تو گویا اس کے سارے قبیلہ کی ناک کٹ جاتی.چنانچہ عرب سرداروں نے آنحضو کی خدمت میں یہ پیغام بھجوایا کہ اگر آپ اس سردار کی لاش بغیر چہرہ بگاڑے ہمیں واپس لے جانے دیں تو ہم اس کے بدلے ایک سو اونٹ دینے کے لئے تیار ہیں باوجود اس کے کہ سو اونٹ ایک ہزار آدمیوں کے لئے دس دن کی خوراک مہیا کر سکتے تھے آنحضور ﷺ نے بلا توقف اس پیش کش کو یہ کہ کر ٹھکرا دیا کہ ہم نہ تو مردوں کے چہرے بگاڑتے ہیں نہ لاشوں کی قیمت وصول کرتے ہیں لہذا تم ویسے ہی اس لاش کو اٹھا کر لے جاؤ.شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۴۹۷) ذرا سوچئے تو سہی کیا کوئی دنیاوی جرنیل ایسے موقع کو ہاتھ سے جانے دے سکتا تھا؟ عام دنیا کے دستور اور اخلاقی معیار سے دیکھا جائے تو اس میں کوئی اخلاق سے گری ہوئی بات نظر نہیں آتی کہ دشمن از خود اپنی ایک لاش کے بدلے کوئی قیمت پیش کرے اور سخت ضرورت مند دفاعی فوج اسے قبول کر لے.پس اگر آنحضو سے اس پیش کش کو قبول فرما لیتے تو وہ ناقدین بھی جو آپ ﷺ کی صف میں نمایاں ہیں آپ ﷺ پر کسی قسم کا کوئی الزام عائد نہ کر سکتے لیکن آنحضوﷺ کا اخلاقی معیار اتنا لطیف اور اعلیٰ اور ارفع تھا کہ دنیاوی اخلاق کی میزان پر تولا نہ جا سکتا تھا.تقویٰ کی باریک راہوں کا یہ عظیم معلم جسم و جان کی حفاظت سے کہیں زیادہ مومنوں کے اعلیٰ اخلاق کا محافظ اور نگہبان تھا.پس جب بھی اخلاقی قدروں اور جسمانی مفادات کا تصادم ہوا آپ نے بلا استثناء اخلاقی قدروں کی چوکھٹ پر جسم و جان کو قربان ہونے دیا.جنگ کے دوران ایک دن حملہ اتنا شدید ہو گیا کہ مسلمانوں کی بعض نمازیں وقت پر ادا نہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 400 غزوات النبی اے میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۱۰۸۹۱ ہو سکیں جس کا آنحضور کو اتنا صدمہ ہوا کہ آپ نے فرمایا.خدا کفار کو سزا دے،انہوں نے ہماری نمازیں ضائع کیں....آنحضرت کے اخلاق پر ایک بہت بڑی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ عظیم ترین چیز آپ کے لئے خدا تعالیٰ کی عبادت تھی جبکہ دشمن چاروں طرف سے مدینہ کو گھیرے ہوئے تھے ، جبکہ مدینہ کے مرد تو الگ رہے عورتوں اور بچوں کی جانیں بھی خطرہ میں تھیں ، جب ہر وقت مدینہ کے لوگوں کے دل دھڑک رہے تھے کہ دشمن کسی طرف سے مدینہ کے اندر گھس نہ جائے اس وقت بھی آنحضور ﷺ کی خواہش یہی تھی کہ خدا تعالیٰ کی عبادت اپنے وقت پر عمدگی کے ساتھ ادا ہو جائے.نعیم بن مسعود کا جنگ احزاب میں کردار ایک چھوٹی سی بات جسے بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ) بنو قریظہ کی غداری اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے خطرناک حالات کے ذکر میں ایک ایسے واقعہ کا ذکر نہایت ضروری ہے جو اکثر تاریخی کتب نے غلط طور پر بیان کیا ہے اور یہودی خطرہ کے ملنے کا تمام تر سہرا خواہ مخواہ ایک شخص نعیم بن مسعود کے سر پر باندھ رکھا ہے.صرف یہی نہیں بلکہ ان کے کردار پر بھی ایک تہمت کا سایہ سا ڈال دیا ہے کہ گویا آپ نے اس خطرہ کو ٹلانے کے لئے خود نعیم کو ہدایت فرمائی تھی کہ ہیر پھیر اور چال بازی کے ذریعہ دشمنوں میں پھوٹ ڈال دے حالانکہ قطعی تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ ہرگز ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا اور آنحصول ہر گز کسی چال بازی کے نہ محتاج تھے، نہ ملوث ہو سکتے تھے، نہ ہوئے.صلى الله قصہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ نعیم بن مسعود جو بنو غطفان کی شاخ بنوا مجمع کا ایک فرد تھا، اگر چہ حملہ آور لشکر میں شامل تھا لیکن دل سے مسلمان ہو چکا تھا.وہ خفیہ طور پر آنحضوں کی خدمت میں حاضر ہوا، اپنی خدمات پیش کیں.اس پر آنحو ں نے یہ فرما کر کہ لڑائی میں دھوکے سے کام لیا جاتا ہے اسے نعوذ باللہ مسلمانوں کی خاطر چال بازی کرنے کا اشارہ کیا.چنانچہ اس نے ایسی چالا کی کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے دشمنوں کی صفوں میں پھوٹ ڈال دی.(۱) وہ پہلے تو یہودی قبیلہ بنو قریظہ کے پاس گیا اور انہیں کفار کی بدعہدی کا خوف دلا کر اس
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 401 غزوات النبی یہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۶۰۸۹۱ بات پر آمادہ کر لیا کہ ابوسفیان سے مطالبہ کریں کہ جب تک ستر معروف صاحب حیثیت آدمی بطور یر غمال ہمارے سپرد نہیں کرو گے ہم تم پر اعتماد نہیں کر سکتے اور لڑائی میں تمہارے ساتھ شامل نہیں ہوں گے.(۲) دوسری طرف ابوسفیان سے جا کر کہا کہ یہودی تم سے دھوکا کر رہے ہیں تم ان کو فوری حملہ کا پیغام دوتو دیکھو گے کہ وہ حملہ پر آمادہ ہونے کی بجائے تم سے بر یغمالیوں کا مطالبہ کریں گے.چنانچہ یہود کی طرح ابو سفیان بھی اس کی باتوں میں آ گیا اور جب یہود کو فوری حملہ کا پیغام بھیجا تو انہوں نے جوابا ستر یر غمالیوں کا مطالبہ کر دیا.تب ابوسفیان نے سوچا کہ واقعی نعیم ٹھیک ہی کہتا تھا اور جب اس نے یرغمالی دینے سے انکار کر دیا تو یہود نے بھی سوچا کہ واقعی نعیم سیج ہی کہتا تھا.اس طرح انہوں نے لڑائی میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور مسلمانوں کا خطرہ ٹل گیا.(السیرۃ الحلبیہ مترجم اردو زیر غزوہ خندق ، جلد ۲ صفحہ: ۳۸۳.۳۸۶) یہ بچوں والی کہانی بیان کر کے مورخین یہ تاثر دیتے ہیں کہ گویا مسلمانوں کی بلا ٹالنے اور جنگ احزاب کی تقدیر بدلنے میں سب سے بڑا کردار نعیم نے ادا کیا.اور وہ بھی ایسی چالاکی سے جو اگر جھوٹ نہیں بھی تھی تو جھوٹ کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ضرور گھوم رہی تھی.معاذ اللہ من ذلک.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ.یہ واقعہ محض ایک قصہ، ایک کہانی، ایک افسانہ ہے جس کا حقیقت حال سے کوئی بھی تعلق نہیں اور اس روشن اور صاف اور پاکیزہ الہی تدبیر پر سایہ ڈالنے کے مترادف ہے جو اللہ تعالیٰ نے صلى الله اپنے محبوب بندے محمد مصطفی کے لئے اور آپ کے اصحاب کے لئے اختیار فرمائی.ذراسی تلاش کے ساتھ انہی تاریخی کتب سے وہ پختہ روایات بھی مل جاتی ہیں جو اس سارے قصہ کو جھٹلا رہی ہیں اور معمولی غور وفکر اور چھان بین سے روایات کی اندرونی شہادتیں بھی اس مفروضہ کے خلاف ناقابل تردید دلائل پیش کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں.اصل واقعات اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہوں : اوّل: جب پہلے پہل کیی بن اخطب بنو قریظہ کو پھسلانے کے لئے ان کے پاس پہنچا ابھی نعیم کا کوئی ذکر اذکار بھی مسلمانوں نے نہیں سنا تھا کیونکہ نعیم اس واقعہ کے بہت بعد آنحضور کی خدمت میں آیا ہے ) تو سب تاریخیں متفق ہیں کہ بنو قریظہ اس پر اعتماد نہیں کر رہے تھے اور بڑی طویل بحث و تمحیص اور تحفظات کے سوال اٹھا کر بڑی دیر بعد مسلمانوں سے غداری پر آمادہ ہوئے:
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 402 غزوات النبویہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۰۸۹۱ء قال موسى بن عقبه و امر کعب بن اسد بنو قريظه حي بن اخطب ان يا خذ لهم من قريش و غطفان رهائن.تكون عند هم لئلا ينا لهم ضيم انهم رجعوا ولم يناجزوا محمداً قالواو تكون الرهائن سبعين رجلا من اشرا فهم فنا زلهم حتى على ذالك.فعند ذالک نقضوا العهد و مزقوا الصحيفة التي كان فيها العقد الا بنى سعنة اسد و أسيد وثعلبه فانّهم خرجوا الى رسول الله صلعم.(البداية والنهاية لابن كثير تي يمس من الهجرة النبوية غزة خندق ، جزء ۴ صفحه : ۱۰۳) ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس وقت یہود نے یہ مطالبہ کر دیا تھا کہ کفار اس امر کی ضمانت کے طور پر کہ وہ مسلمانوں کو مکمل طور پر کچلے بغیر واپس نہیں جائیں گے اپنے ستر بڑے آدمی بنو قریظہ کے پاس بطور یر غمال رکھوائیں.چنانچہ کی بن اخطب نے گر کر اس مطالبہ کو منظور کر لیا.یہ روایت نعیم والے قصہ کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ یرغمالیوں کا مطالبہ تو خود یہودیوں کی طرف سے ابتداء ہی میں کیا گیا تھا نہ کہ کسی نعیم کی لگائی بجھائی کے نتیجے میں.دوم: کسی مرفوع متصل روایت میں یہ ذکر نہیں ملتا کہ آنحضور نے نعیم کو دھوکہ سے مسلمانوں کی مدد کرنے کا ارشاد بھی فرمایا ہو.اسماء الرجال کی مستند کتاب ” اسد الغابہ میں خود نعیم کے بیٹے کی اپنے باپ سے جو روایت درج ہے اس میں تو مضمون ہی بالکل مختلف بیان ہوا ہے.اس کی رو سے نعیم جب آنحضور کی خدمت میں مخفی طور پر حاضر ہوا تو یہ عرض کی کہ میں مسلمان ہوتا ہوں : واستاذن النبي ان يخذل الكفّار یعنی آنحصوں سے اس امر کی اجازت چاہی کہ وہ کفار سے الگ ہو جائے یا ان کی مدد صلى الله سے ہاتھ کھینچ لے اس کے جواب میں آنحضور ﷺ نے فرمایا.خَذَلٌ مَا اسْتَطَعْتَ فَإِنَّ الْحَرْبَ خُدُعَة.یعنی جہاں تک تیرا بس چلے ان سے الگ رہ لڑائی کے دوران چالیں چلی ہی جاتی ہیں.(اسد الغابہ ذکر نعیم بن مسعود ) اس روایت سے تو یہ پتا چلتا ہے کہ نعیم نے محض اپنی ذات کے بارہ میں کفار سے علیحدگی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 403 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۱۰۸۹۱ مانگی تھی اور آنحضور نے مناسب حال مشورہ دے دیا.اس میں نہ تو کسی دھو کے کا ذکر ہے نہ مسلمانوں کے لئے کوئی مدد مانگی گئی ہے بلکہ نصیحت صرف اتنی ہے کہ اپنی ذات کو خطرے میں نہ ڈالنا اور احتیاط اور ہوشیاری سے کام لینا.سوم : نعیم کے بارہ میں واقدی کا بیان یہ ہے کہ نیم دراصل ابوسفیان کا خفیہ ایجنٹ تھا جسے مسلمانوں کے لشکر کی خبریں لانے پر مقرر کیا گیا تھا.( شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۵۰۱) قرائن بتاتے ہیں کہ یہی بات درست ہے ورنہ نعیم کو دونوں لشکروں کے درمیان آنے جانے کا موقع مل ہی نہیں سکتا تھا.پس یہ الگ بات ہے کہ الٹی تقدیر کے مطابق ابوسفیان نے ایسا آدمی چن لیا ہو جسے وہ اپنا ایجنٹ سمجھ رہا ہو لیکن دل سے وہ شخص مسلمان ہو کر اہل اسلام کا مفادعزیز رکھتا ہو.بہر حال نعیم کے بارہ میں واقدی کا بیان دوسرے مورخین کی نسبت زیادہ قرین قیاس اور معقول نظر آتا ہے.اس بیان کی روشنی میں جب ہم آنحضو کے جواب پر دوبارہ غور کرتے ہیں تو وہ ایک نہایت فصیح و بلیغ ذو معنی کلمہ معلوم ہوتا ہے.آنحضور ﷺ کی نہایت تیز فراست کے لئے اس احتمال کو بھانپ لینا ہرگز مشکل نہ تھا کہ نعیم مسلمانوں کی خبریں حاصل کرنے کے خاطر بھی یہ چال چل سکتا ہے کہ خود کو مسلمان ظاہر کرے ورنہ وہ مسلمانوں کے لشکر میں با آسانی آجانہ سکتا تھا.اگر نعیم اسلام قبول کر کے اسلامی لشکر میں ہجرت کر کے آجا تا تو بظاہر شبہ کی کوئی بات نہ تھی لیکن اسلام قبول کرنے کے باوجود لشکر کفار میں رہنا اور بحیثیت مسلمان کفار کے لشکر میں آنے جانے کی سہولت بھی حاصل کر لینا ، ایسے حالات ہیں جو نعیم کو جاسوسی کے لئے بہترین موقع فراہم کر سکتے تھے اور قطعی طور پر ایسے شخص کے بارہ میں یہ علم نہیں ہو سکتا کہ وہ دراصل کس کا جاسوس تھا ؟ اگر کفار کا مزید جاسوس بننا تھا تب بھی اس نے یہی کرنا تھا کہ آنحضور کے سامنے آکر خود کو مسلمان ظاہر کرتا.اگر واقعہ مسلمان ہو کر کفار کے لشکر کی جاسوسی کرنی تھی تب بھی مسلمان ہونا ضروری تھا.پس محض اس کا آنحضور کے سامنے اسلام کا اقرار کرنا اسے یہ اہلیت نہیں دیتا کہ آنحضور اُس پر فوراً مکمل اعتماد کر کے اپنی طرف سے جاسوس بھی مقرر فرما دیتے ہاں یہ امر کہ آنحضور کی سنت میں داخل تھا کہ مشکوک حالت میں بھی اسلام کا دعویٰ کرنے والے کا مسلمان ہونا منظور فرما لیتے تھے اس لئے آپ کا نعیم کے ساتھ یہ سلوک تعجب انگیز نہیں.پس آپ کا یہ فرمانا کہ لڑائی میں چالیں چلی ہی جاتی ہیں خود نعیم کی طرف بھی تو اشارہ ہوسکتا ہے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت نعیم کا اصل کردار 404 غزوات النبی ﷺ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۰۸۹۱ء پس نعیم نے ان واقعات کے سلسلہ میں جو اصل کردار ادا کیا وہ صرف اتنا تھا کہ بعض حالات سے اندازہ کر کے ابو سفیان کو یہ رپورٹ پہنچائی کہ بنو قریظہ نے کفار مکہ کے ساتھ غداری کا فیصلہ کرلیا ہے.بنو قریظہ کا عملاً جنگ میں شریک نہ ہونے کا اصل سبب پس بنو قریظہ کا مسلمانوں سے بدعہدی کے باوجود کفار کے ساتھ آخری حملہ میں شریک نہ ہونے کی اصل وجہ جو بھی تھی آنحضور کے کسی ایجنٹ کا بہر حال اس میں کوئی دخل نہ تھا جیسا کہ گزر چکا ہے کہ بنو قریظہ نے حی بن اخطب سے پہلی ہی ملاقات میں یہ طے کر لیا تھا کہ ہم تمہارے ساتھ شامل ہوکر مسلمانوں کے عقب سے حملہ تو کریں گے لیکن اس بات کی ضمانت کے طور پر کہ تم ہمیں محمد کے رحم پر چھوڑ کر بھاگ نہ جاؤ گے اپنے ستر بڑے بڑے آدمی ہمارے سپر د کر دو.جب آنحضرت کو اس عہد شکنی کا علم ہوا تو ایک وفد یہود کو سمجھانے کی غرض سے سعد بن معاذ کی سرکردگی صلى الله میں بھیجا.جس میں سعد بن عبادہ ، عبداللہ بن رواحہ کے ایک بھائی اور خوات بن جبیر شامل تھے.شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۴۹۹) حضرت سعد بن معاذ جو قبیلہ اوس کے سردار تھے اور اسلام سے پہلے یہودیوں سے ان کے گہرے دوستانہ مراسم تھے ان کے بہت سمجھانے کے باوجود یہود نے ایک نہ مانی بلکہ سخت گستاخانہ رویہ اختیار کیا اور صاف جواب دے دیا کہ ہمارا تمہارا معاہدہ ٹوٹ گیا ہے اور ان کے سامنے معاہدہ نامہ منگوا کر چاک کر دیا.( شروح الحرب ترجمه فتوح العرب صفحه: ۴۹۹ ، ۵۰۰ - السيرة الحلبیہ جلد دوم نصف آخر صفحه : ۳۶۸، ۳۶۹) اس وفد نے واپس آکر حضور کی ہدایت کے پیش نظر اس بات کو کسی پر ظاہر نہ کیا بلکہ بصیغۂ راز آپ کو اپنے مشن کی ناکامی کی اطلاع دی.آنحو یا اس پر یہ خبر بہت شاق گزری کیونکہ یہود کی یہ بد عہدی مسلمانوں کو تکلیف میں ڈال سکتی تھی.آپ یہ خبر سن کر اپنا چہرہ ڈھانپ کر بڑے درد و کرب کے عالم میں لوگوں سے الگ ہو کر اپنے خیمہ میں چلے گئے.کچھ وقت بعد جو یقینا اللہ تعالیٰ کے حضور
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 405 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ۰۸۹۱ء گریہ وزاری میں صرف ہوا ہو گا آپ باہر تشریف لائے اور بلند آواز سے نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے اور فرمایا مسلمانو ! خوش ہو جاؤ! آنحضور ﷺ کے نعروں کے جواب میں تمام لشکر اسلام نے نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے اور ان کے حوصلے فرش سے عرش تک بلند ہو گئے.واقدی کے بیان کے مطابق اس وقت نعیم بن مسعود ابوسفیان کے ایجنٹ کے طور پر مسلمانوں میں موجود تھا پس یہ ہرگز بعید از قیاس نہیں کہ نعیم نے ان نعرہ ہائے تکبیر سے یہ اندازہ لگایا ہو کہ یقیناً یہود مسلمانوں کی بات مان گئے ہیں اور کفار سے پھر گئے ہیں.ورنہ مسلمانوں کے لئے اتنی بڑی خوشی کی کوئی بات نہ تھی اور فوری طور پر ابوسفیان کو جا کر یہ رپورٹ کر دی ہو.(السیرۃ الحلبیہ جلد ۲ نصف آخر صفحه: ۳۶۸، ۳۶۹) قطع نظر اس سے کہ نعیم کس کا ایجنٹ تھا اور دلی ہمدردی کس کے ساتھ تھی دونوں صورتوں میں اس کے سوا وہ کچھ اور کر ہی نہیں سکتا تھا.اگر مسلمانوں کا ہمدرد تھا تو بھی اس کی ہمدردی کا تقاضا تھا کہ کفار کو فوری طور پر ایسی اطلاع دے جس سے وہ یہود کی طرف سے بدظن ہو جائیں.اگر کافر کا ایجنٹ تھا تب بھی ضروری تھا کہ فوراً ان کو مطلع کر دے کہ یہودی تمہیں دھوکا دے گئے ہیں.پس یہ محض نخوا کے نعرہ ہائے تکبیر کی برکت تھی جس نے نعیم کو وہ کام کرنے پر مجبور کر دیا جو مسلمانوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوا.اس کے سوا وہ کچھ کر ہی نہ سکتا تھا.بہر حال ابوسفیان کو جب یہود کی نیت پر شک پڑ گیا تو اس نے ایک وفد یہود کی طرف اس مطالبہ کے ساتھ بھجوایا کہ ہم نے عام دھاوا بولنے کا فیصلہ کر لیا ہے اس لئے کل جب ہم سامنے سے حملہ کریں تو تم معاہدہ کے مطابق پشت پر سے حملہ آور ہو جانا.اس کے جواب میں انہوں نے یہ کہلا بھجوایا کہ اول تو کل سبت کا دن ہے اس لئے کل ہمارے لڑنے کا سوال ہی نہیں.دوسرے ستر یرغمالیوں کی شرط بھی باقی ہے تم یہ شرط پوری کرو گے تو ہم اپنے حصہ کی ذمہ داری ادا کریں گے.ابوسفیان چونکہ پہلے ہی بدظن ہو چکا تھا اس لئے ان کی طرف سے مایوس ہو گیا.اس کے بعد دو تین روز مسلسل کفار کی طرف سے خندق فتح کرنے کی بھر پور کوششیں شروع ہو گئیں اور ہر طرف سے حملے ہونے لگے لیکن سر توڑ کوشش کے باوجود کفار اپنے ارادہ میں ناکام رہے اور کسی مقام پر بھی خندق پر قبضہ نہ جما سکے.یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل اور غیبی نصرت تھی ورنہ کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی کہ اپنی غیر معمولی طاقت اور عددی غلبہ کے باوجود وہ اپنے ارادہ میں ناکام رہے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 406 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۱۰۸۹۱ الله ان انتہائی نازک ایام میں آنحضوں کا تمام تر انحصار دعاؤں پر تھا اور یہی وہ ہتھیار تھا جو بالآخر کارگر ثابت ہوا اور سب دوسرے ہتھیاروں پر بازی لے گیا.ان دنوں آپ کی جو دعائیں منقول ہیں ان میں ایک بڑی پُر درد دعائی تھی : يَا صَرِيخَ الْمَكْرُوبِيْنَ يَا مُجِيبَ الْمُضْطَرِيْنَ اِكْشِفُ هَمِّي وَغَمِّى وَكَرْبِي فَإِنَّكَ تَرَى مَانَزَلَ بِي وَبِأَصْحَا بِي.( السيرة الحلبيه مترجم جلد ۲ نصف آخر صفحه: ۳۸۱ - ۳۸۲) ترجمہ: اے دیکھیوں کی دعا سننے والے، اے گھبراہٹ میں مبتلا لوگوں کی پکار کا جواب دینے والے، میری گھبراہٹ کو دور کر کیونکہ تو ان مصائب کو جانتا ہے جو مجھے اور میرے ساتھیوں کو در پیش ہیں.( بخاری کتاب المغازی.باب الخندق) ایک دوسری دعا: اللَّهُم مُنْزِلَ الْكِتَابِ سَرِيعَ الْحِسَابِ اهْزِمِ الْأَحْزَابَ اللَّهُمَّ اهْزِمُهُمْ وَ انْصُرْنَا عَلَيْهِمْ وَزَلْزِلْهُمْ.السيرة الحلبیہ مترجم جلد ۲ نصف آخر صفحه: ۳۸۱) ترجمہ: اے اللہ ! جس نے مجھے پر قرآن نازل کیا ہے جو بہت جلدی اپنے بندوں سے حساب لے سکتا ہے یہ گروہ جو جمع ہو کر آئے ہیں ان کو شکست دے.اے اللہ ان کو شکست دے اور ہمیں ان پر غلبہ دے.ان کو اچھی طرح ہلا دے.صلى الله خصوصا بڑے سوز و گداز کے ساتھ دعائیں پڑھتے ہوئے دن رات مختلف کاموں میں مصروف رہتے تھے اور منتظر تھے اور خوب جانتے تھے کہ کسی لمحہ بھی خدا تعالیٰ کی غیر معمولی نصرت آنے والی ہے.وہ کب اور کیسے آئیگی کوئی نہیں جانتا تھا لیکن اس کے آنے میں آنحضور اور آپ کے ساتھیوں کو ایک ادنی سا بھی شک نہ تھا.آخر وہ لمحہ آن پہنچا جومحمد مصطفی ﷺ کی دعاؤں کی قبولیت کا نشان تھا اور وہ رات آگئی جو سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ کا نظارہ دکھانے آئی تھی.ہوا میں کچھ لہک، کچھ تیزی سی آنے لگی اور دیکھتے دیکھتے وہ ایک تیز و تند آندھی میں تبدیل ہوگئی.وہ آندھی کیا تھی ایک نمونہ قیامت تھا جس نے کفار کے لشکر میں ایک کھلبلی سی مچادی اور زلزلہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 407 غزوات النبی ہے میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ۰۸۹۱ء سابر پا کر دیا اور ہر طرف بدامنی اور سراسیمگی پھیل گئی.بہت سے خیموں کی طنا میں ٹوٹ گئیں اور جگہ جگہ آگ کے الا و بجھ گئے.کئی جگہ جلتے ہوئے کو مکے منتشر ہو کر خیموں کو آگ لگانے لگے.وہ لوگ چونکہ آتش پرست بھی تھے اس لئے آگ کے بجھنے سے نحوست کا شگون نکالا اور دل چھوڑ بیٹھے.ہر طرف سے کوچ کوچ کی آواز میں بلند ہونے لگیں اور دیکھتے دیکھتے ایک سراسیمگی اور افراتفری کے عالم میں ہر طرف بھگدڑ مچ گئی.اب خود ابوسفیان کی سراسیمگی کا یہ عالم تھا کہ اونٹ کے گھٹے کھولے بغیر اس کی پیٹھ پر سوار اس پر کوڑے برسا رہا تھا کہ وہ بھاگتا کیوں نہیں.مسلمان ان تمام باتوں سے بے خبر تھکاوٹ اور فاقوں سے نڈھال اپنی قیام گاہوں میں پڑے تھے لیکن ایک بیدار بخت وجود ان کی بہبود کی خاطر جا گا ہوا تھا.قیامت کے اس طوفان میں اپنے خیمہ سے باہر تشریف لائے اور آواز دی کہ کوئی ہے جو اس وقت جا کر کفار کے لشکر کی خبر لاوے.جب کسی طرف سے کوئی جواب نہ آیا کیونکہ صحابہ آواز سننے کے باوجود تھکاوٹ سخت ٹھنڈی اور تند ہوا کے باعث جواب دینے کی طاقت نہ رکھتے تھے.صرف ایک ابوحذیفہ تھے جنہوں نے عرض کی کہ میں حاضر ہوں.آنحضوں نے ان سے اعراض کرتے ہوئے آواز دی لیکن اس دفعہ پھر ابو حذیفہ کے سوا اور کسی کو لبیک کہنے کی طاقت نصیب نہ ہوئی.تب آنحو ں نے ابو حذیفہ کو یہ کہہ کر کفار کی خبر لانے کے لئے بھیجا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ ہم نے تمہارے دشمن کو بھگا دیا ہے جاؤ اور دیکھو دشمن کا کیا حال ہے؟ چنانچہ جب حضرت ابو حذیفہ نے خندق کے پاس جا کر جائزہ لیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ تمام میدان خالی پڑا تھا اور اس ویرانی کے سوا جو بھاگتی ہوئی فو جیں اپنے پیچھے چھوڑ جاتی ہیں دشمن کا کوئی نشان باقی نہ تھا.ہاں ! گوش بصیرت فضا کے ہر ارتعاش میں یہ نغمہ سن رہا تھا کہ جُنْدٌ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُومٌ مِّنَ الْأَحْزَابِ (ص:۲۱) دیکھو خدا کے بندوں کے لئے جب خدا کی کائنات مسخر ہوتی ہے تو کیسے کیسے عجیب کام ان کے لئے دکھاتی ہے.وہ تند و تیز آندھی جس نے دیکھتے دیکھتے دشمن کے بڑے بڑے آگ کے الاؤ بجھا دیے اور لات و منات کے آتش کدوں کی خاک اڑا دی ، نور مصطفوی کے شعلہ نور کو بھجا نہ سکی بلکہ وہ تو اس رات پہلے سے بھی بڑھ کر بلند تر اور روشن تر اور قوی تر ہوکرا بھرا اور اس رات کو بقعہ نور بنا دیا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 408 غزوات النبی اے میں خلق عظیم ( غزوہ احزاب ) ۱۰۸۹۱ جو کتنے ہی مصائب سے پر اور مظالم سے کجلائے ہوئے دن کے بعد آئی.اے نور مصطفوی ! تو اللہ کے علم میں ازل سے روشن تھا اور ابد تک روشن رہے گا.اور مظالم اور معاصی سے بھرے ہوئے اس تاریک زمانہ کو بھی روشن کر ! اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ و بَارِكَ وَ سَلِّمُ انَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ (ماہنامہ خالد جولائی ۱۹۸۱ء)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 409 غزوات النبی میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء غزوات النبی میں خلق عن (غزوہ حدیبیہ ) بر موقع جلسه سالانه ۱۹۸۱ء) تشہد و تعوذ کے بعد آپ نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی: اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبُكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمَان وَيَنْصُرَكَ اللهُ نَصْرًا عَزِيزًا لف (اصح:۴۲) ترجمہ : ہم نے تم کو ایک کھلی کھلی فتح بخشی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تیرے متعلق کئے گئے وہ گناہ بھی جو پہلے گزر چکے ہیں ڈھانک دے گا اور جواب تک ہوئے نہیں (لیکن آئندہ ہونے کا امکان ہے ) ان کو بھی ڈھانک دے گا اور تجھ پر اپنی نعمت پوری کرے گا اور تجھے سیدھا راستہ دکھائے گا.اور اللہ تیری شاندار مد دکرے گا.فتح حديبيه آج سے ۱۳۵۵ سال قبل حدیبیہ کے مقام پر جو ماجرا گز را عموماً مورئین اسے صلح حدیبیہ کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن میں اس کا ذکر فتح حدیبیہ کے عنوان کے تحت کروں گا کیونکہ اس واقعہ کو
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت الله 410 غزوات النبویہ میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء خدا تعالیٰ نے اسی نام سے موسوم فرمایا ہے.چنانچہ سورہ فتح کی آیات میں جن کی میں نے تلاوت کی ہے حدیبیہ کی وادی میں ہونے والے اس عظیم الشان واقعہ کو فتح مبین کا نام دیا گیا.آج کی تقریر بھی جو غزوات نبوی اور آنحضرت کے خلق عظیم کے عنوان کے تحت کی جارہی ہے سلسلہ وار مضمون کی ایک کڑی ہے جو گزشتہ چار سال سے جاری ہے.آج میں فتح حدیبیہ کے تاریخ ساز لمحات کے دوران آنحضور ﷺ کے خلق عظیم اور بے مثل قائدانہ صلاحیتوں سے متعلق کچھ گفتگو کروں گا.فتح مکہ تاریخ اسلام میں ایک عظیم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور تاریخ کا مطالعہ کرنے والا ہر قاری یقینا اس امر سے اتفاق کرے گا کہ فتح مکہ دراصل فتح حدیبیہ ہی کا ایک ذیلی عنوان ہے اور اسی کے طبعی نتیجہ کے طور پر رونما ہونے والا ایک واقعہ ہے کیونکہ دراصل حدیبیہ کے میدان ہی میں فتح ملکہ کی قطعی داغ بیل رکھ دی گئی تھی.ہر چند کہ مضمون کا تعلق تاریخی نقطہ نگاہ سے اس غزوہ کی تفاصیل بیان کرنا نہیں بلکہ محض اس دوران ظاہر ہونے والے خلق محمدی کے دل نواز جلووں پر گفتگو کرنا ہے مگر بات کو سمجھانے کیلئے ضروری ہے کہ کسی حد تک وہ پس منظر بھی پیش کیا جائے جس کے جلو میں نور مصطفوی ایک منفردشان کے ساتھ جلوہ گر ہوا.پس منظر یہ سن چھ ہجری کا واقعہ ہے غزوہ احد کو تین سال گزر چکے تھے.عرب کی فضا بظاہر خاموش اور پر سکون تھی لیکن اسلام کے خلاف فتنے اندر ہی اندر پنپ رہے تھے اور کسی بھی وقت شمال اور جنوب کی سمتوں سے سراٹھانے کو تیار تھے.شمال کی جانب سے سب سے بڑا خطرہ خیبر اور اس کے ماحول میں بسنے والے یہود کی طرف سے تھا جو مشرکین عرب کے ساتھ اپنی ساز باز میں ناکامی کے بعد اب قسطنطنیہ کی عظیم عیسائی سلطنت کی طرف پر امید نظروں سے دیکھ رہے تھے اور اندر ہی اندر سازش کی ایک ہولناک کھچڑی پک رہی تھی.پس کسی بھی وقت سلطنت روما کی عظیم طاقت کی پشت پناہی کے ساتھ قبائل یہود مدینہ کے شمال کی جانب سے مسلمانوں کے لئے ایک مہیب خطرہ بن سکتے تھے.جنوب کی طرف سے آنے والا خطرہ قریش مکہ کی سر پرستی میں پرورش پا رہا تھا جو بعض جنگجو مشرک قبائل عرب میں ایک دفعہ پھر اپنا رسوخ بڑھا کر ان کو اسلام کے خلاف ایک فیصلہ کن جارحانہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 411 غزوات النبی اے میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء کارروائی کے لئے تیار کر رہے تھے چنانچہ بنو بکر کے علاوہ انہوں نے عرب کے مشہور تیرانداز اور بے جگری سے لڑنے والے احا بیش کے ساتھ بھی دوستی کی پینگیں بڑھانی شروع کر رکھی تھیں.اہل مدینہ ان دبے ہوئے طوفانوں کے وجود سے بے خبر اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف پرسکون زندگی بسر کر رہے تھے لیکن ان میں ایک شب بیدار صاحب بصیرت وجود ایسا بھی تھا جو اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا تھا اور کوئی ظاہری حجاب اس کی دور رس باریک بین نگاہ کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا تھا.آپ ان دونوں خطرات سے خوب باخبر تھے لیکن آپ ﷺ کا دستور زندگی یہ تھا کہ وحی الہی کی ہدایت کے بغیر نہ تو کوئی فیصلہ فرماتے نہ کوئی اقدام کرتے.پس گو نور بصیرت ہر لمحہ بھڑک ٹھنے کے لئے تیار تھا لیکن نور اللہ کے اس جلوے کا منتظر تھا جو آپ کے ہر فیصلہ اور ہر اقدام کو نُورٌ عَلَى نُورِ بنا دیا کرتا تھا.ی انہی دنوں کی بات ہے کہ خیر الماکرین یا عالم الغیب خدا کا فیصلہ ایک رات عجیب رنگ میں ظاہر ہوا اور مسلمانان مدینہ کو اس فیصلہ نے حیران کر دیا.رویا کی صورت میں وحی الہی نازل ہوئی اور آنحضور کو یہ خوشخبری عطا کی گئی کہ مسلمان سرمنڈاتے اور بال کتراتے ہوئے مسجد حرام میں داخل ہورہے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں.پس اس وحی سے یہ استنباط کرتے ہوئے کہ حج بیت اللہ کی جو خوشخبری دی گئی ہے وہ اسی سال پوری ہوگی آپ نے اہل اسلام میں یہ منادی فرما دی کہ حج بیت اللہ اور عمرہ کی تیاری کریں اور اچانک اس اعلان کے ساتھ مدینہ کی فضا گہما گہمی سے گونج اٹھی اور ہر طرف ذوق و شوق کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کی تیاری ہونے لگی.السيرة الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحه: ۵۱، ۵۲) جلد ہی خدا کے درویشوں کا یہ قافلہ اللہ کی محبت میں سرشار سرتاج عشاق کی قیادت میں مکہ کی جانب روانہ ہوا.تلواروں کے سوا جو عربوں کے لباس کا حصہ تھیں کوئی سامان جنگ ساتھ نہ تھا کسی مقابلہ کا وہم وگمان بھی کسی دل میں نہ گزرا تھا.ہاں زادراہ اور قربانی کے لئے ستر اونٹ ساتھ تھے.یہ قافلہ بڑے ذوق وشوق کے ساتھ مکہ کی طرف جارہا تھا.ذوالحلیفہ کے مقام پر جو مدینہ سے ایک منزل کے فاصلے پر ہے آنحضوں اور آپ کے غلاموں نے قدیم دستور کے مطابق احرام باندھا اور اونٹوں کے پہلو قربانی کی علامت کے طور پر داغ دیئے اور لبیک اللھم لبیک کا عاشقانہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 412 ورد کرتے ہوئے ایک بار پھر بیت اللہ کی طرف روانہ ہوئے.پہلا دھکا غزوات النبی اے میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء پہلا شدید دھکا ان کی امیدوں کو اس وقت لگا جب مکہ سے دو منزل کے فاصلے پر عسفان کے مقام پر ان کو معلوم ہوا کہ قریش مکہ ہر قیمت پر انہیں حج اور عمرہ سے روکنے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور اس غرض سے خالد بن ولید اور عکرمہ کی قیادت میں ایک دستہ مسلمانوں کے پڑاؤ کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے جس میں دو سوفن حرب میں طاق گھوڑ سوار نوجوان بھی شامل ہیں.وہ ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس یہ عزم کر کے گھروں سے نکلے ہیں کہ خون کا آخری قطرہ تک بہادیں گے لیکن مسلمانوں کو مکہ کی سمت آگے نہیں بڑھنے دیں گے.یہ خبر جہاں مسلمانوں کی غیرت ایمانی کے لئے ایک تازیانہ کا کام کر گئی اور وہ جان پر کھیل کر بھی اپنے مقصد کو حاصل کرنے پر آمادہ ہو گئے وہاں اس خبر نے آنحضور ﷺ کے قلب صافی پر ایک بالکل مختلف اثر دکھایا.آپ نے پیش آمدہ حالات کا بڑی طمانیت کے ساتھ جائزہ لے کر ایک فیصلہ کیا جو صحابہ کے فیصلہ سے بالکل مختلف تھا اور اہل قافلہ سے یہ سوال کیا کہ کیا کوئی ہے جو مجھے ایسے راستہ سے مکہ پہنچا دے جو کشت و خون کی راہ سے نہ گزرے اور حریف سے لڑے بغیر ہم منزل مقصود تک پہنچ سکیں؟ حاضرین مجلس میں سے ایک نے حامی بھری اور اپنے کمال فن کا اس طرح مظاہرہ کیا کہ ساحلی راستہ سے مغرب کی طرف گریز کرتے ہوئے صحرائی ٹیلوں اور گھاٹیوں کے بیچ سے راہ بتا تا ہوا مسلمانوں کے قافلہ کو مد مقابل کی آنکھ سے صاف بچا کر لے گیا اور جب تک یہ قافلہ مکہ کے جنوب میں حدیبیہ کی وادی تک نہ پہنچ گیا خالد بن ولید اور عکرمہ کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہوئی.(السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحه : ۵۴-۵۸) قدوسیوں کے اس قافلہ کو پڑاؤ کی تیاریوں میں مصروف چھوڑتے الله ہوئے ہم ذرا ایک لمحہ توقف کر کے اطمینان سے آنحوی کے اس فیصلہ پر غور کرتے ہیں کہ کیوں آپ نے صحابہ کے جوش و خروش کو نظر انداز کرتے ہوئے حملہ آور دشمن سے مقابلہ کرنے کی بجائے انحراف کا طریق اختیار فرمایا.بات یہ تھی کہ آنحضور جو فلسفہ شریعت کے راز دان تھے خوب جانتے تھے کہ حج بیت اللہ اور جنگ و جدال دو متضاد چیزیں ہیں جو ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں.پس چونکہ یہ سفر قتال کی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 413 غزوات النبی میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء نیت سے نہیں بلکہ خالصہ حج بیت اللہ کے قصد سے اختیار کیا گیا تھا اس لئے لڑائی کے ساتھ ہی یہ مقصد فوت ہو جاتا اور یہ سارا سفر بے کار جاتا.پس دشمن سے پہلو بچا کر گزر جانا کوئی جنگی چال نہ تھی بلکہ مقصد اعلیٰ کی حفاظت کے لئے ایک نہایت حکیمانہ فیصلہ تھا.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مکہ کے اتنا قریب پہنچ کر آپ حدیبیہ کے مقام پر کیوں ٹھہر گئے اور رکے بغیر کیوں نہ مکہ میں داخل ہو گئے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل حدیبیہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالنے کا فیصلہ آپ کا اپنا نہیں تھا بلکہ خدا تعالیٰ کی تقدیر نے انگلی اٹھا کر آپ کو وہاں قیام پر مجبور کر دیا.ہوا یوں کہ حدیبیہ پہنچ کر آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی اور کسی طرح اٹھنے پر آمادہ نہ ہوئی.(السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحہ: ۶۰) قافلہ میں شامل بعض اصحاب نے اسے شگون سمجھا مگر آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ! اس اونٹنی کو اسی خدا نے بٹھایا ہے جس نے اصحاب فیل کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا.اس جزوی مماثلت کے بیان سے صحابہ پر یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ تمہیں خونریزی سے مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن بلا شبہ اپنے رب کی زبان کو جس طرح آنحضور ﷺ سمجھتے تھے اور کون سمجھنے کی مقدرت رکھتا تھا.پس آپ کا اس وادی میں قیام کا فیصلہ فرمانا تقدیر الہی کے تابع ایک فعل تھا.اس قافلہ میں چونکہ غیر مسلم عرب قبائل کے بعض نمائندگان بھی شریک تھے اس لئے ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کسی کے دل میں شبہ گزرتا کہ آنحضور ﷺ کا یہ فیصلہ تقدیر الہی کے نتیجہ میں نہیں بلکہ محض ایک اتفاقی حادثہ یا شگون ہے.پس بہت جلد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے کی تائید میں ایک ایسا چمکتا ہوا نشان ظاہر ہوا جو تو ہمات کے اندھیروں کو روشنی میں بدلنے والا تھا.ہوا یوں کہ حدیبیہ کا کنواں جس کی طرف وہ میدان منسوب ہوتا ہے وہاں پانی کے حصول کا واحد ذریعہ تھا لیکن اس میں پانی اتنا تھوڑا تھا کہ چند آدمیوں کی ضرورت کا کفیل بھی نہ ہوسکا اور کنواں سوکھ گیا.اس پر صحابہ پریشان ہوئے کہ پانی کے بغیر زندہ کیسے رہیں گے؟ آنحضور ﷺ سے جب اس پریشانی کا ذکر کیا گیا تو آپ نے دعا کے ساتھ اپنے ترکش سے ایک تیر نکال کر دیا کہ اس کنوئیں کی تہہ میں اسے گاڑ دو.چنانچہ اس ارشاد کی تعمیل کی گئی اور مسرت بھری حیرت سے سب نے یہ ماجرا دیکھا کہ جہاں تیرگاڑا گیا وہیں سے پانی کا بھر پور چشمہ ابل پڑا جو اہل قافلہ کی تمام ضروریات کا کفیل ہو گیا.(السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحه : ۶۰) صل الله
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 414 غزوات النبویہ میں خلق عظیم ( غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء گفت و شنید حدیبیہ میں پڑاؤ چند روز جاری رہا.اس دوران قریش مکہ کے ساتھ گفت و شنید ہوتی رہی جس کا آغاز اہل مکہ کی طرف سے ہی ہوا.انہوں نے تین قاصد بنام بدیل بن ورقاء، مگر ز بن حفص اور جلیس کو یکے بعد دیگرے اس غرض سے بھیجا کہ مسلمانوں کی قوت اور آنے کے اصل مقصد کا جائزہ لے کر کفار مکہ کو رپورٹ کریں.(السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحہ: ۶۲ - ۶۴) دوسرے اگر بس چلے تو ڈرا دھمکا کر اس قدر مرعوب کر دیں کہ وہ مکہ میں داخل ہونے کا ارادہ ترک کر کے از خود ہی الٹے پاؤں واپس لوٹ جائیں.آنحضوں کی بے مثل فراست کا یہ کرشمہ تھا کہ ہر آنے والے کے مزاج کے مطابق طرز عمل اختیار فرماتے اور بجائے اس کے کہ وہ آنحضور ﷺ کو واپس لوٹ جانے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوتے خود ہی آنحضور ﷺ کے نہایت حکیمانہ طرز عمل سے متاثر ہو کر یہ یقین لئے ہوئے واپس لوٹتے کہ آپ کے ساتھ قریش مکہ زیادتی کر رہے ہیں اور آپ ﷺ کو بیت اللہ کے طواف سے روکنا نہ تو قرین مصلحت ہے نہ قرین انصاف.قریش ان قاصدوں کا جواب سن کر یخ پا ہو جاتے ، انہیں برا بھلا کہتے ، ان پر آوازے کستے اور یہ عجیب قصہ ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ کیوں ان کے سب سفیر اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی بجائے محمد مصطفی ﷺ ہی کے وکیل بن چکے ہوتے ہیں اور الٹا قریش مکہ کو سمجھانے لگتے ہیں.قریش کا تیسرا قاصد جلیس جو عرب کے ان مشہور تیرانداز قبیلوں کا سردار تھا جو احا بیش کہلاتے تھے ، جب حدیبیہ کے قریب پہنچا تو آنحضور اللہ نے اس کے مزاج کو سمجھتے ہوئے صحابہ کو ہدایت فرمائی کہ فوری طور پر قربانی کے اونٹوں کو ہانک کر اس کے سامنے کر دو تا کہ ہم تک پہنچنے سے صلى الله حبل الله پہلے وہ ان اونٹوں کو دیکھ لے.آنحضور ﷺ کا یہ اقدام ایسا مؤثر ثابت ہوا کہ بخاری کی روایت کے مطابق اس نے صحابہ کی قربانیوں کو دیکھا اور صحابہ کو لبیک کرتے سنا تو اس نے بے اختیار ہو کر کہا سبحان اللہ یہ تو ایسے چہرے ہی نہیں جنہیں خدا کے گھر سے روکا جائے چنانچہ وہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے بغیر ہی لوٹ گیا اور واپس جا کر قریش پر سخت اظہار افسوس کیا کہ حج کعبہ سے تم ان لوگوں کو روکتے ہو جو ہر گز لڑائی کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ کثیر تعداد میں قربانی کے لئے اونٹ لیکر آرہے ہیں.یہ بات سن کر حسب سابق قریش نے اس پر بھی آوازے کسنے شروع کر دیئے اور یہاں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 415 غزوات النبی اے میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء تک کہا کہ اجڈ آدمی تم ان باتوں کو کیا سمجھو آخر تم برو ہی نکلے.اس سلوک سے جلیں بھی سخت مشتعل ہو گیا اور اس نے کہا میں نے تم سے ہر گز کوئی ایسا معاہدہ نہیں کیا کہ محمد (ﷺ) کو حج کعبہ کرنے سے روکنے میں تمہاری مدد کروں گا پس میرا تم سے کوئی تعلق نہیں اور میں اپنے تمام قبائل کو لے کر اس معاملہ سے الگ ہوتا ہوں.قریش نے اس دھمکی پر پشیمان ہو کر اسے تو منت سماجت سے بہلا پھسلا کر ٹھنڈا کیا اور اپنی طرف سے سفارت کا حق ادا کرنے کے لئے بہتر آدمی کی تلاش کرنے لگے.چنانچہ ان کی نظر انتخاب عروہ بن مسعود پر پڑی.پہلے تو عروہ گزشتہ سفیروں کے ساتھ قریش کی بدسلوکی کا حال دیکھ کر سفارت پر آمادہ نہ ہوا لیکن جب قریش نے اسے یقین دلایا کہ وہ ہرگز اس سے کوئی ناپسندیدہ سلوک نہیں کریں گے تو وہ بالآخر مان گیا.عروہ نے اپنی دانست میں قریش کی سفارت کا خوب حق ادا کیا لیکن سب سفیروں سے زیادہ احمقانہ بات اسی کو سو جھی.چنانچہ آنحضور ﷺ کو خائف کرنے کے لئے بڑے ہمدردانہ رنگ میں یہ سمجھانے لگا کہ قریش لاکھ دشمن ہو چکے ہوں آخر آپ ہی کا خون ہیں.یہ مختلف انواع کے لوگ جو آج آپ کے گردا کٹھے ہیں کل کلاں جب آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے تو بالآخر آپ کو قریش ہی کی طرف لوٹنا پڑے گا اس لئے قریش کی بات ماننے میں آپ ہی کی بھلائی ہے.یہ احمقانہ بات عروہ کے منہ سے سن کر صحابہ کے تن بدن میں آگ لگ گئی لیکن ان کے دل کی ترجمانی کسی قدر تحمل کے ساتھ حضرت ابو بکر نے کی اور اسے بتایا کہ یہ وہم دل سے نکال ڈالو کہ محمدمصطفی ﷺ کے غلام محمد مصطفیٰ ابوبکر کو بھی کسی حال میں بھی چھوڑ سکتے ہیں.حضرت ابو بکر صدیق “ کے اس حوصلہ شکن جواب کے علاوہ عروہ کی آنکھوں نے کچھ اور نظارے بھی دیکھے جنہوں نے اس کے خیالات کو یکسر بدل دیا.تعجب خیز نظارے السيرة الحلبه جلد ۳ نصف اول صفحه: ۶۴۶۲ عربوں کی عادت کے مطابق وہ دوران گفتگو بار بار اپنا ہاتھ آنحضور کی ریش مبارک کی طرف بڑھاتا تھا لیکن ہر مرتبہ اس کی اس حرکت پر پاس کھڑے ہوئے مغیرہ بن شعبہ اس کے بازو کو جھٹک دیتے تھے.مغیرہ کی طرف سے یہ سلوک اس کے لئے خاص طور پر تعجب کا موجب بنا کیونکہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 416 غزوات النبی میں خلق عظیم ( غز واحدیبیہ ) ۱۸۹۱ء مغیرہ کے اسلام لانے سے قبل عروہ نے ان پر اتنا بڑا احسان کیا ہوا تھا کہ ان کے دس مقتولوں کا خون بہا خود اپنی جیب سے ادا کر کے ان کی جان بچائی تھی.(السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحہ: ۶۷) اس کے علاوہ عروہ نے بڑے تعجب سے یہ عجیب نظارہ بھی دیکھا کہ آنحضوں جب کلی بھی فرماتے تو صحابہ اسے زمین پر گرنے نہ دیتے اور والہانہ آگے بڑھ کر اپنے ہاتھوں میں لے لیتے پھر اس تبرک کو چہرے اور سینے پر مل کر دل ٹھنڈا کرتے.(السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحہ: ۷۰) پس دوران گفتگو بظاہر تو وہ سخت گیر رہا لیکن اندر ہی اندر آنحضو کی عظیم شخصیت سے بے حد متاثر ہو چکا تھا اور سمجھ چکا تھا کہ باہم دگر برسر پیکار رہنے والے مختلف قبائل عرب کا اس طرح ایک قالب اور ایک جان ہو کر ایک انسان پر پروانوں کی طرح جان نچھاور کرنا کوئی معمولی واقعہ نہیں چنانچہ اس نے قریش سے وہی بات کہی جو پہلے قاصد کہہ چکے تھے اور مزید اس پر ان تاریخی کلمات کا اضافہ کیا کہ ”اے معشر قریش! مجھے کسریٰ اور قیصر اور نجاشی کے درباروں میں بھی باریابی کا شرف حاصل ہو چکا ہے لیکن بخدا میں نے کبھی کسی فرمانروا کو اس کی قوم میں ایسا محترم اور معزز نہیں پایا جتنا محمد ﷺ کو اپنی قوم میں.پس تم جو چاہو فیصلہ کر ولیکن یہ وہم دل سے نکال ڈالو کہ اس کے ساتھی کسی وقت بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیں گے“.(السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحہ: ۷۰) پہلا سفیر مشرکین مکہ کی طرف سے پے در پے چار قاصدوں کے آنے کے بعد آنحضور ﷺ نے اپنا قاصد مکہ بھجوانے کا فیصلہ فرمایا اور اس غرض سے ابن الحق کی روایت کے مطابق خراش بن امیہ خزاعی کو اپنے تعلب نامی اونٹ پر سوار کر کے قریش کی طرف روانہ فرمایا.اس واقعہ کی توضیح کرتے ہوئے مؤرخین لکھتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے یہ قدم اس لئے الله اٹھایا کہ غالباً آپ کو یہ شک گزرا کہ قریش کے سفیروں نے وہاں جا کر غلط قسم کی باتیں کر دی ہوں گی لہذا مناسب تھا کہ خود آپ کا اپنا سفیر جاکر مسلمانوں کا اصل مدعا ان پر ظاہر
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 417 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء کرے.(السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحہ: اے) میں سمجھتا ہوں یہ تو ضیح درست نہیں ہے کیونکہ آنحضور کا نور بصیرت اس معاملہ میں کبھی دھوکہ نہیں کھا سکتا تھا.آپ تو سفیروں کو گفت وشنید سے پہلے ایک نظر دیکھ کر ہی یہ بھانپ لیتے تھے کہ یہ کس مزاج کے لوگ ہیں اور کیسی بات کریں گے؟ یہ کیسے ممکن تھا کہ گفت وشنید کے بعد بھی یہ اندازہ نہ فرماسکتے کہ وہ آنحضور ﷺ کے بارہ میں کیا تاثر واپس لے کر جا رہے ہیں اور کفار مکہ سے جا کر کیا کہیں گے؟ دراصل آنحضوں نے اپنا سفیر ہر صورت بھیجنا ہی تھا کیونکہ دشمن کے حالات اور اس کے حقیقی مقاصد اپنانمائندہ بھجوائے بغیر معلوم نہیں ہو سکتے تھے.سفیر بھجوانے میں تاخیر اور پہلے مسلسل قریش مکہ کو سفیر پر سفیر بھجوانے کا موقع دینا آپ کی گہری فراست پر دلالت کرتا ہے.آپ جانتے تھے کہ قریش مکہ غیظ وغضب میں بپھرے ہوئے ہیں اور اس حد تک آپ کے عناد میں بڑھے ہوئے ہیں کہ سفارتی آداب کوملحوظ نہ رکھیں گے اور بعید نہیں کہ آپ کے سفیر کو ہلاک کر دیں.پس آنحضوں کا آخر پر سفیر بھجوانے کا فیصلہ دراصل اس بات کا ثبوت تھا کہ آپ نے اندازہ لگایا کہ قریش کے چاروں سفیروں نے واپس جا کر بار بار آپ کے اور آپ کے ہمسفر اہل قافلہ کے حق میں ایسی اچھی رائے کا اظہار کیا ہوگا کہ بہت حد تک قریش کا اشتعال ٹھنڈا پڑ چکا ہو گا اور دماغ کم از کم اس حد تک ٹھکانے آچکے ہوں گے کہ وہ آنحضور ﷺ کے سفیر کو قتل کرنے سے باز رہیں.تاہم آپ نے مزید احتیاط کے طور پر ایک خزاعی صحابی کو سفیر بنایا کیونکہ قریش کا پہلا سفارتی وفد خزاعی قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا اور عرب مزاج کوملحوظ رکھتے ہوئے یہ امید رکھنا بے محل نہ تھا کہ خزاعی قبیلہ کے لوگ اپنے ہم قبیلہ سے ہمدردی رکھیں گے جبکہ خودان سے بھی حسن سلوک کیا گیا تھا.اسی طرح احا بیش کے سردار کے نہایت متاثر ہو کر لوٹنے سے بھی آپ باخبر تھے اور سمجھ چکے تھے کہ وہ مسلمانوں کا ہمدرد اور موید بن کر واپس لوٹا ہے.اس پس منظر میں آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اب سفیر بھجوانے میں کسی بڑے ضرر کا احتمال نہیں.پیش آمدہ حالات سے پتہ چلتا ہے کہ کسی قدر تاخیر کے ساتھ اپنا سفیر بھجوانے کا فیصلہ انتہائی دانشمندانہ اور برمحل تھا کیونکہ مزاج نسبتاً درست ہونے کے باوجود قریش کے عناد کا عالم اب بھی یہ تھا کہ انہوں نے آپ کے سفیر کو سخت بے عزت کیا اور مزید تذلیل اور اظہار جہالت کے طور پر آنحضور کی اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں جو آپ نے از راہ شفقت اپنے سفیر کو عنایت فرمائی تھی.بعید
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 418 غزوات النبویہ میں خلق عظیم ( غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء نہ تھا کہ اس حالت طیش میں وہ سفیر کو بھی گزند پہنچا دیتے لیکن اللہ تعالیٰ نے احاجیش کو ان کی مدد کے لئے کھڑا کر دیا اور وہ کفار مکہ اور سفیر محمد مصطفیٰ " کے درمیان حائل ہو گئے.آنحضور ﷺ کو اس بدخلقی اور جہالت سے بہت رنج پہنچا لیکن آپ کے خلق عظیم اور رحمت اور شفقت کا یہ عالم تھا کہ جب اس دوران کفار مکہ کے چالیس سردار پکڑے گئے جو بری نیت سے مسلمانوں کے کیمپ کے گرد چکر لگا رہے تھے تو آپ نے ان سے کوئی باز پرس نہ فرمائی اور معاف فرماتے ہوئے آزاد کر دیا حالانکہ وہ محض رہزن ہی تو تھے کوئی سفارتی حرمت انہیں حاصل نہ تھی.السيرة الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحہ: ۷۹) دوسرا سفیر P پہلے سفیر کی ناکام واپسی کے بعد آپ نے دوسرے سفیر کے طور پر عمر بن خطاب کا انتخاب فرمایا.حضرت عمرؓ نے اس انتخاب سے یہ مسیح اندازہ لگایا کہ آنحضور کے ذہن میں سفیر کی حرمت و خیریت کی فکر غالب ہے اور مجھے اس لئے منتخب فرما ر ہے ہیں کہ میرے ہم قبیلہ بنو عدی میری حفاظت کے ضامن ہو جائیں گے.پس حضرت عمرہؓ نے عرض کی کہ یارسول اللہ! ان دنوں مکہ میں بنو عدی موجود نہیں جو میری حفاظت کے ضامن ہوں.پس میں یہ مشورہ عرض کرتا ہوں کہ موجودہ حالات میں عثمان سے بہتر اور کوئی سفارت کیلئے موزوں نہیں.عمرؓ کا یہ مشورہ آنحضو کو پسند آیا اور آپ نے بلاتر در عثمان غنی کو سفیر بنا کر اہل مکہ کی طرف روانہ فرمایا.دراصل ذاتی طور پر حضرت عثمان کے اہل مکہ پر اتنے احسانات تھے کہ اہل مکہ کی طرف سے کم سے کم خطرہ اگر کسی کو در پیش ہوسکتا تھا تو وہ حضرت عثمان ہی تھے.(السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحہ: ۷۱ ، ۷۲ ) چنانچہ یہی ہوا کہ مکہ میں داخل ہوتے ہوئے پہلا قریش سردار جو آپ کو ملا اس نے ذاتی طور پر آپ کو امان دے دی اور بلاخوف و خطر آپ نے سفارت کے فرائض سرانجام دیئے.(السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحہ: ۷۲ ) یہی نہیں بلکہ اہل مکہ نے تو اس حد تک آپ کی عزت افزائی کی کہ خود بھی یہ پیشکش کی کہ اگر تم خود بیت اللہ کا طواف کرنا چاہتے ہو تو ہماری طرف سے اجازت ہے لیکن محمد ﷺ کو ہم اجازت نہیں دے سکتے.لیکن حضرت عثمان نے فرمایا کہ ہرگز ممکن نہیں کہ اپنے آقا کے بغیر عثمان اکیلا ہی طواف کرے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 419 غزوات النبی میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء السيرة الحلبيه جلد ۳ نصف اول صفحه: ۷۳) بہر حال گفت و شنید جاری رہی لیکن کفار کسی حالت میں بھی آنحضو اور آپ کے قافلہ کو عمرہ اور حج کی اجازت دینے پر آمادہ نہ ہوئے.تا ہم حضرت عثمان کی سفارت کلیہ رائیگاں نہ گئی اور قریش اس حد تک نرم ضرور پڑ گئے کہ صلح پر آمادہ ہو جائیں.بیعت رضوان معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان کولمبی بحث و تمحیص میں اتنی دیر ہوگئی کہ وہیں رات پڑ گئی اور واپسی کا وقت نہ رہا پس اس روز آپ واپس نہ آسکے.ایک تو ویسے ہی اس تاخیر سے تشویش لازمی تھی اوپر سے کسی نے یہ غلط خبر اڑا دی کہ حضرت عثمان کو شہید کر دیا گیا ہے.مسلمان جو پہلے ہی زخم خوردہ اور کبیدہ خاطر تھے اس قدر اس خبر سے برافروختہ ہوئے کہ غم و غصہ سے بے قابو ہوئے جاتے تھے.آنحضو کو اس خبر کی صداقت پر گو یقین تو نہ تھا مگر اس کے درست ہونے کے احتمال سے بھی آپ اتنا ملول خاطر ہوئے کہ دوران سفر کسی اور چیز نے آپ کو اتنا دکھ نہ پہنچایا تھا.اس موقع پر آپ نے ایک تاریخی عہد پر صحابہ سے بیعت لی کہ عثمان کے خون کا بدلہ لئے بغیر ہرگز وہاں سے واپس نہیں لوٹیں گے اور دشمن کو پیٹھ نہ دکھا ئیں گے خواہ ایک ایک مسلمان اسی میدان میں شہید ہو جائے.(السيرة الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحہ : ۷۳ - ۷۵) پس تاریخ اسلام کے فلک پر کہکشاں کی طرح چمکنے والا وہ جنت کا راستہ جسے بیعت رضوان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس موقع پر تعمیر ہوا.ایک درخت کے نیچے ایسی حالت میں آنحو اللہ نے تمام صحابہ سے بیعت لی کہ ہر دل پھڑک رہا تھا اور ہر جان شوق شہادت میں سینے سے باہر ہوئی جاتی تھی.در اصل حضرت عثمان کا پیچھے رہ جانا اور غلط خبر کا مشہور ہو جانا بھی ایک عظیم آسمانی تدبیر کی کڑیاں تھیں کوئی اتفاقی حادثات نہ تھے.چنانچہ یہ دلخراش خبر صحابہ کے تو دونوں جہان سنوار گئی اور ایسی برکتیں ان کو نصیب ہوئیں کہ شاید ہی کوئی خوشخبری ان کے حق میں ایسا معجزہ دکھا سکتی.اس واقعہ کا بیعت رضوان پر منتج ہونا ایک اتنا بڑا روحانی فائدہ ہے کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نظر نہیں آتی.بنی آدم کی تاریخ میں نہ کبھی پہلے ایسی بیعت لی گئی اور نہ آئندہ کبھی لی جانی تھی کہ جس کے بارہ میں عرش کا خدا یہ گواہی دے رہا ہو کہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 420 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم ( غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء اِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَنْ نَّكَتَ فَإِنَّمَا يَنْكُتُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْ فِى بِمَا عُهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيْهِ أَجْرًا عَظِيمًا (الفتح: 1) یقیناً یہ لوگ جو تیری بیعت کر رہے ہیں دراصل خدا کی بیعت کر رہے ہیں.اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے.پس جو کوئی اس عہد کو توڑے گا وہ اپنے ہی مفاد کے خلاف ایسا کرے گا اور جو اس عہد کو ایفا کرے گا اسے اللہ تعالیٰ اجر عظیم عطا فرمائے گا.اس عظیم روحانی فائدہ کے علاوہ بعض ضمنی فوائد بھی اس بیعت کے حاصل ہوئے.مثلاً یہ کہ صحابہ کو اپنے سینوں کے دبے ہوئے غم و غصہ کو کسی حد تک نکالنے کا موقع مل گیا اور یہ موقع بھی مل گیا کہ صلى الله من حیث الجماعت عروہ بن مسعود کے اس ناپاک الزام کا منہ توڑ دیں کہ نعوذ باللہ صحابہ آنحضور کو اکیلا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے.سفیر کی حرمت کا سبق بیعت رضوان کے واقعہ میں سفیر کی حرمت کا جو عظیم الشان سبق ہمیں ملتا ہے اسے عموماً مؤرخین نے نظر انداز کر دیا ہے حالانکہ بین الاقوامی تعلقات میں آنحضور ﷺ کے اسوہ کا یہ پہلو ایک ایسی درخشندہ مثال ہے جو قیامت تک قوموں کے لئے نور اور ہدایت کا موجب بنی رہے گی.اپنے سفیر کے قتل کی خبر پر آنحضور ﷺ کا جنگ پر آمادہ ہو جانا کوئی معمولی بات نہ تھی.آپ کے دل و دماغ پر تو اس وقت حج بیت اللہ کا عشق اس حد تک مستولی تھا کہ کسی قیمت پر بھی جنگ و جدال میں الجھ کر حج بیت اللہ سے محروم نہیں رہنا چاہتے تھے.اس اعلیٰ مقصد کے لئے آپ نے بڑی سے بڑی قربانی دی.ہر دباؤ کو برداشت کیا لیکن آپ کے اس فیصلہ میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی کہ جنگ نہیں ہوگی ، نہیں ہوگی نہیں ہوگی.پہلے کبھی آپ پر جنگ کے لئے ایسا دباؤ نہیں پڑا تھا جیسا اس وقت پڑا اور کبھی آپ نے جنگ سے اس شدت کے ساتھ احتراز نہیں فرمایا تھا جیسا اس وقت فرمارہے تھے.ہاں جب سفیر کی حرمت کا سوال سامنے آیا تو آپ نے بلاتر درد اپنا فیصلہ تبدیل فرما دیا اور ہر دوسری مصلحت
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 421 غزوات النبی میں خلق عظیم ( غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء کو اس اصول پر قربان کر دیا کہ سفیر کی حرمت کو بہر حال قائم کیا جائے گا خواہ اس راہ میں کیسی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے.حضرت عثمان کے قتل کی خبر سے پہلے آپ کا جو رویہ تھا اس رویہ میں اور اس رویہ میں جو قتل کی خبر کے بعد ظاہر ہوا یوں لگتا ہے جیسے مشرق و مغرب کا بعد ہے اور زمین و آسمان کا فرق پڑ چکا ہے.ذرا غور فرمائیے کہ اس خبر سے پہلے آپ کو جنگ پر آمادہ کرنے کیلئے کیسے کیسے بیرونی اور اندرونی دباؤ کا سامنا تھا جس کی آپ نے قطعا پرواہ نہ کی.بیرونی دباؤ تو دشمن کی مسلسل اشتعال انگیزی کی صورت میں تھا لیکن اس سے بڑھ کر آپ کے قلب صافی پر اثر انداز ہونے والا وہ اندرونی دباؤ تھا جو صحابہ کے جوش جہاد کی صورت میں بڑے زور کے ساتھ طغیانی دکھا رہا تھا تن تنہا آپ ان دونوں محاذوں پر بے مثل پامردی کے ساتھ جمے رہے اور آپ کے مستحکم ارادہ نے ایک انچ زمین بھی نہ چھوڑی اور ہر اس دباؤ کو ر دفرما دیا جو جنگ کی طرف دھکیلنے والا تھا.پھر دیکھو کہ اچانک یہ کیا انقلاب آیا اور یک بیک رُت کیسی بدلی کہ جو نہی سفیر کے قتل کی خبر پہنچتی ہے امن کا رسول اور محبت کا سفیر ہر دوسرے شخص سے زیادہ جنگ پر آمادہ اور مستعد ہو جاتا ہے.آپ کا یہ انقلابی فیصلہ بلا شبہ اس حقیقت کا غماز تھا کہ آنحضور کے نزدیک عہدہ سفارت کو غیر معمولی حرمت حاصل ہے اور سفیر کے قتل کو آپ ایک انتہائی بھیا نک انسانیت سوز جرم تصور فرماتے تھے.پس دشمنوں کا ہر دوسرا ذلت آمیز اور غیر شریفانہ حربہ جو کام نہ کر سکا آپ کے سفیر کے قتل کی خبر نے وہ کر دکھایا.بین الاقوامی تعلقات کے طلبہ کے لئے اور برسر پیکار قوموں کی رہنمائی کیلئے قیامت تک اس میں ایک سبق ہے مگر غیر قوموں سے ہمیں کیا شکوہ کاش مسلمان کہلانے والے ہی اپنے محبوب آقا کی اس محبوب سنت کو حرز جان بنائے رکھتے.کے اس اسوہ پر غور کرتے ہوئے میرا ذہن اس طرف بھی منتقل ہو گیا کہ آپ کا اپنے سفیر کی حرمت کا اس قدر پاس کرنا در اصل صفات باری تعالیٰ کا ہی ایک عکس تھا.آپ بہمہ ذات وصفات خدا کے رنگ میں رنگین تھے.آپ کی اپنی کوئی الگ ادا نہ تھی بلکہ اپنے مولیٰ ہی کے ڈھنگ سیکھے تھے.حدیبیہ کے مقام پر یہ سب الہی رنگ آپ ﷺ کی ذات میں ایک عجیب شان دلر بائی کے ساتھ کبھی جمال بن کر ظاہر ہوئے کبھی جلال بن کر چمکے.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 422 غزوات النبی میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء خدا کی غیرت میں نے سوچا کہ سفیر کی حرمت کا پاس بھی محمد مصطفی ﷺ نے اپنے رب ہی سے سیکھا تھا وہ بھی تو اپنے سفیروں کی حرمت کیلئے بے مثل غیرت دکھاتا ہے.اس خیال کے ساتھ ہی انبیاء کے دشمنوں کی وہ ساری تاریخ ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح میری آنکھوں کے سامنے پھر گئی جو بڑے بڑے مغرور اور سرکش بادشاہوں کے سر توڑے جانے کی خبر دیتی ہے اور بڑی بڑی عظیم قوموں کی ہلاکت اور بربادی کی داستان بیان کرتی ہے.جب کبھی ان بادشاہوں نے جن کے رعب اور ہیبت سے زمین کا نیا کرتی تھی اللہ کے سفیروں اور اس کے در کے فقیروں کو حقارت سے دیکھا اور ان کو رسوا کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ کی غیرت اور جلال نے خود انہی کو ذلیل اور رسوا کر دیا، ان کی عزتوں کو خاک میں ملا دیا اور ان کی سلطنتوں کو پارا پارا کر دیا.ان کی عظمتوں کے پرزے اڑا دیئے گئے اور ان کے تکبر ٹوٹ کر اس طرح ریزہ ریزہ ہو گئے جیسے کانچ کا برتن کوئی غضبناک ہاتھ کسی چٹان پر دے مارے.وہی زمینیں جو کبھی ان کے ہیبت و جلال سے کانپا کرتی تھیں ان کے بد انجام کے نظارے سے لرز نے لگیں.میں نے آنحو ﷺ کے اسوہ پر غور کیا تو مجھے سمجھ آگئی کہ کیوں وہ بظا ہر عظیم تو میں تباہ کی گئی ہیں جنہوں نے خدا کے پیغمبروں کے مقابلہ کی جسارت کی تھی؟ کیوں انہیں صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا اور کیوں وہ خواب و خیال کی باتیں بن گئیں؟ ان کی جمعیتیں کام نہ آئیں اور ان کی کثرت نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا.وہ ہلاک کی گئیں مگر آسمان نے ان کے حال پر کوئی آنسو نہ بہایا.وہ برباد کی گئیں مگر زمین نے ان کی بربادی پر کوئی تاسف نہ کیا.ہاں زمین و آسمان نے بیک آواز ان پر لعنت کی اور وقت نے لعنت کی اس پھٹکار کو اس طرح محفوظ کر لیا کہ قیامت تک اس کی گونج سنائی دیتی رہے گی.زمین کی لعنت کی بازگشت آسمان سے اترتی رہے گی اور آسمان کی لعنت کی بازگشت زمین سے اٹھتی رہے گی اور قرآن کی تلاوت کرنے والے ہمیشہ مسرت کے ساتھ ان کا ذکر کرتے ہوئے ان آیات کی تلاوت کرتے رہیں گے: فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءِ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنْظَرِينَ (الدخان: ۳۰)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 423 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء أوليكَ يَلْعَنُهُمُ اللهُ وَيَلْعَنُهُمُ التَّعِنُونَ ( البقرة : ٠٦) : أُولَكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَبِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (البقرة: ۱۶۲) فَلَمَّا أَسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَهُمْ أَجْمَعِينَ فَجَعَلْتُهُمْ سَلَفًا وَ مَثَلًا لِلْآخِرِينَ ) (الزخرف:۵۶-۵۷) پس نوح کی قوم کا انجام میری آنکھوں کے سامنے آگیا اور لوط کی قوم پر دن رات برسنے والے سنگریزے مجھے دکھائی دینے لگے.عاد اور ثمود کی بربادی کے مناظر نے مجھے بے چین کر دیا اور حسرت سے میں نے بنی آدم پر نظر ڈالی کہ آخر کب تک وہ خدا کے سفیروں کی بے حرمتی کی جسارت کرتے رہیں گے.میں کانپ اٹھا اس الہام کے تصور سے جو آج کے زمانہ کے انسان کیلئے عبرت اور تذکیر کا عنوان بنا ہوا ہے: دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا.“ ( تذکره صفحه: ۱۴۸) آئیے اب ہم ماضی کے عبرت کدوں اور مستقبل کے پُر خطر اور پر ہول مقامات سے واپس حدیبیہ کے میدان کی طرف لوٹتے ہیں جہاں ہمارے آقا و مولیٰ اپنے سفیر کے قتل کی خبر پر صحابہ سے بیعت لے رہے ہیں.یہ بیعت ایسے گہرے خلوص اور جذبہ سے کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور رضا کی نظر پڑی اور ایسے پایہ قبولیت میں جگہ عطا کرتے ہوئے اس واقعہ کا ذکر فرمایا: لَقَدْ رَضِيَ اللهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا (الفتح: ١٩) یہ سب کچھ ہوا اور خبر کے ظاہر ہونے پر فیصلہ فرماتے ہوئے آنخصوص اگر چہ ہر امکانی اقدام کیلئے پوری طرح تیار ہو چکے تھے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آنحضور ﷺ کی غیر معمولی بصیرت نے اس امکان کا دروازہ ابھی بند نہیں فرمایا تھا کہ شاید یہ خبر جھوٹی ہو.چنانچہ بیعت کے دوران عثمان کی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 424 غزوات النبی میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء نمائندگی میں آپ کا اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ پر رکھتے ہوئے یہ فرمانا کہ میر بایاں ہاتھ عثمان کی نمائندگی کر رہا ہے لہذا وہ بھی اس بیعت میں شامل ہے، صاف بتا رہا ہے کہ آنحضور کے نزدیک ان کی زندگی کا امکان ان کے قتل کے احتمال کی نسبت زیادہ تھا ورنہ اس بیعت میں حضرت عثمان کو شامل فرمانے کے کوئی معنی نہیں بنتے.یہ بیعت تو شہادت کے عہد کے طور پر لی جارہی تھی.حضرت عثمان کی شہادت کا اگر آپ کو یقین ہوتا تو ان کو اس بیعت میں شریک نہ فرماتے.وہ جو پہلے ہی شہید ہو چکا ہو اس نے شہادت کا از سر نو اقرار بھلا کیا کرنا تھا ! پس فکر و نظر قربان ہوں ان مقدس نگاہوں پر جو اللہ کے نور سے دیکھا کرتی تھیں.وہی ہوا جس کا آپ کو غالب گمان تھا اور بیعت رضوان کے تھوڑی دیر بعد ہی حضرت عثمان بخیر و عافیت اپنے آقا کے قدموں میں لوٹ آئے.شان دلنوازی اپنے بائیں ہاتھ کو عثمان کا ہاتھ قرار دے کر خود اپنے ہی ہاتھ سے ان کی بیعت لینے کے واقعہ میں ایک عجیب شان دلنوازی بھی پائی جاتی ہے.دیکھو کیسی بندہ پروری ہے، کیسی شفقت اور رحمت کا اظہار ہے، کیسی محبت ہے اپنے غلاموں سے، کیسا پیار ہے کہ اس عظیم الشان اور منفر د تاریخی واقعہ پر جب خدا کے بے پایاں فضل اور مغفرت نے اس درخت اور اس کے گردو پیش اور ان سب کو جو اس کے نیچے تھے ڈھانپ رکھا تھا اپنے اس غلام کو یا در کھا اور محروم نہ رہنے دیا جس نے مسلمانوں کی نمائندگی میں اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا تھا.اس غلام کو ذرا دیکھو کہ آقا نے کیسا اعزاز بخشا اور کیسے خاک سے اٹھا کر ثریا سے ملا دیا! اس بندہ فانی کو کیسا آب حیات عطا کیا کہ زندہ جاوید کر دیا.وہ جو غیر حاضر تھا سب حاضر غلاموں سے آگے بڑھ گیا اور وہ ہاتھ جو بیعت نہ کر سکا تھا سب بیعت کرنے والے ہاتھوں پر سبقت لے گیا.وہ عجیب لمحات تھے کہ جب آسمان کی آنکھ نے یہ چکا چوند کرنے والا نظارہ دیکھا کہ محمد مصطفی کا ایک ہاتھ تو اللہ کے ہاتھ کی نمائندگی کر رہا تھا اور دوسرا ہاتھ عثمان کے ہاتھ کی.آنحضور کی اس بندہ پروری کو دیکھ کر بے اختیار دل سے یہ صدا اٹھتی ہے کہ اے سب دلنوازوں سے بڑھ کر دلنوازی کرنے والے آقا ! ہاں اے سب دلنوازوں سے بڑھ کر دلنوازی کرنے والے آقا! دیکھ ہمارے سینوں میں جانیں تیرے قدموں پر شار ہونے کیلئے مچل رہی ہیں اور دل جوش محبت سے دھڑکتے ہوئے ہنسلیوں سے ٹکرا رہے ہیں:
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 425 غزوات النبی میں خلق عظیم (غز ووحد بيه ) ۱۸۹۱ء وَارَى الْقُلُوْبَ لَدَى الْحَنَاجِرَ كُرْبَةٌ وَارَى الْغُرُوبَ تُسِيْلُهَا الْعَيْنَانِ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه : ۵۹۰) جیسا کہ بیان کر چکا ہوں بیعت رضوان کو ابھی کچھ دیر نہ گزری تھی کہ حضرت عثمان واپس اہل ایمان کے قافلہ میں آملے.رحمتوں کی بارش برسانے کے بعد فکر کے وہ سب بادل چھٹ گئے اور گفت و شنید کا منقطع سلسلہ ایک بار پھر سے جاری ہو گیا.اس مرتبہ قریش مکہ نے سہیل بن عمرو کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا اور آنحضور ﷺ نے اسے دیکھتے ہی حاضرین مجلس کو یہ خوشخبری سنائی کہ سهل امر کم یعنی اب آسانی کی صورت نکل آئی اور آخر قریش صلح پر آمادہ ہو ہی گئے.(السیرۃ الحلبیہ جلد ۱۳ نصف اول صفحہ: ۸۰) اس گفت و شنید کے دوران صحابہ پر بار بار ایسے سخت ابتلا آئے کہ خدا تعالیٰ کے خاص فضل کا ہاتھ ان کے دل نہ تھامے رکھتا تو وہ صبر کی بازی ہار جاتے.عمومی گفتگو کے بعد فریقین کے مابین جو باتیں طے ہوئیں وہ اکثر و بیشتر اپنی ظاہری صورت میں مسلمانوں کیلئے خفت اور کفار کیلئے فتح و شادمانی کا موجب نظر آتی تھیں اور خدا اور اس کے رسول کے سوا کوئی نہ جانتا تھا کہ ان میں سے ہر خفت آمیز شرط کے اندر مستقبل کی فتح کی چابیاں چھپی ہوئی ہیں.معاہدہ صلح کی وہ شرائط جو مسلمانوں کو انتہائی خفت آمیز معلوم ہو رہی تھیں اور وہ انہیں قبول کرنے کی بجائے کٹ مرنے کو ترجیح دیتے تھے وہ یہ تھیں: اس سال مسلمان بغیر حج اور عمرہ کے واپس لوٹ جائیں ہاں آئندہ سال دوبارہ آئیں لیکن اس دفعہ بھی صرف تین دن مکہ میں قیام کی اجازت ہوگی.تا اختتام معاہدہ قریش اور مسلمانوں کے درمیان صلح رہے گی لیکن اس دوران اگر کفار میں سے کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ کی طرف ہجرت کر جائے تو عندالمطالبہ اسے کفار کو واپس کرنا پڑے گا.ہاں اگر کوئی مسلمان مرتد ہو کر کفار سے جاملے تو اسے مسلمانوں کو واپس نہیں کیا جائے گا.“ السيرة الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحه : ۸۵،۸۴)
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 426 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء ,, آج ہمیں یہ حقیقت نہیں بھلانی چاہئے کہ صحابہ لا کھ مومن سہی آخر ا نہی عربوں میں سے تو آئے تھے جو اپنی عزت نفس پر ایک ادنی سی آنچ بھی نہ آنے دیتے تھے.وہی آزاد صحرائی خون ان کی رگوں میں بھی گردش کر رہا تھا جو ذراسی سبکی کے تصور سے بھی کھولنے لگتا تھا.ان کے دلوں سے بھی ویسے ہی تیل کے چشمے اہلتے تھے جو تحقیر کی ایک ذراسی چنگاری سے آتش جوالہ بن کر بھڑک اٹھتا تھا.پس کیا یہ حضور اکرم کی عظمت و جلال کا معجزہ نہیں تھا کہ ان کی غیر تیں کفار مکہ کی کند چھریوں سے ذبح کی گئیں مگر انہیں پھڑکنے کی بھی اجازت نہ تھی.ان بظاہر ذلت آمیز شرائط پر مستزاد یہ کہ صلح نامہ کی تحریر کے دوران سہیل بن عمر وآنحضور ﷺ سے مسلسل بدخلقی کا مظاہرہ کرتا رہا.چنانچہ جب اسلامی دستور کے مطابق سرنامہ پر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ “ لکھا گیا تو اس نے سختی سے کہا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ “ کیا ہے؟ میں تو باسمک اللهم لکھواؤں گا.چنانچہ صلى الله آنحضوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اس کے مطابق تحریر کا ارشاد فرمایا.پھر جب یہ لکھا گیا کہ یہ معاہدہ محمد رسول اللہ اور سہیل بن عمرو کے درمیان ہے تو اس نے کہا اگر ہم تجھے اللہ کا رسول مانتے تو اس جھگڑے کا موقع ہی کیا تھا اس لئے رسول اللہ کا لفظ کاٹ کر سیدھا سادہ محمد بن عبداللہ لکھو.سیرت نگار لکھتے ہیں کہ اس موقع پر بھی آنحو ں نے اس کی بات تسلیم فرمائی اور علی کو محمد رسول اللہ کاٹ کر محض محمد بن عبداللہ لکھنے کا ارشاد فرمایا.اس وقت صحابہ کے دل کی جو کیفیت تھی اس کا کچھ اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت علی جو اطاعت کا پتلا اور فنا فی الرسول تھے کامل فرمانبرداری کے با وجود حضور کے اس ارشاد کی تعمیل سے قاصر رہے.ان کے ہاتھوں میں اس بات کی سکت ہی نہ رہی کہ محمد رسول اللہ کے الفاظ کاٹ کر محمد بن عبداللہ لکھیں.ان کی کیفیت دیکھ کر آنحضور نے انہیں کچھ نہیں کہا، کوئی شکوہ نہیں کیا، کسی خفگی کا اظہار نہیں فرمایا.خاموشی سے ہاتھ بڑھا کر وہ تحریر لے لی اور اپنے دست مبارک سے رسول اللہ کا لفظ کاٹ کر محمد بن عبداللہ لکھ دیا.السيرة الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحه: ۸۲ ۸۳) بعض مؤرخین کے نزدیک یہ آنحضور کا معجزہ تھا کہ امی ہوتے ہوئے بھی اپنا نام لکھ دیا.بعض کہتے ہیں کہ رسالت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں چونکہ دستخطوں کی ضرورت پیش آتی تھی لہذا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 427 غزوات النبی میں خلق عظیم ( غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء کوئی تعجب کی بات نہیں کہ آپ نے اپنا نام لکھنا سیکھ لیا ہو.لیکن یہ بحث ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہے یہاں صرف یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ شرائط صلح تو پہلے ہی مسلمانوں کو سخت خفت آمیز دکھائی دے رہی تھیں اوپر سے سہیل بن عمرو کی بدتمیزی اور گستاخی نے جلتی پر تیل کا کام کیا.یہ نظارہ ان کی بے قراری کو اور بھی بڑھا رہا تھا کہ آنحضور سہیل کی سختی کا جواب سختی سے نہیں دیتے بلکہ اس کی ہر ناواجب حرکت کو برداشت فرمارہے ہیں اور ہر نا حق مطالبے کو بھی قبول فرماتے چلے جارہے ہیں.آپ حق پر ہیں اس قسم کے واقعات نے حضرت عمر فاروق کے زخموں پر تو ایسی نمک پاشی کی کہ تڑپ اٹھے اور مزید صبر کا یارا نہ رہا.پس حضرت ابوبکر صدیق کو ایک طرف لے جا کر ان سے پوچھا کہ بتائیں کیا ہم حق پر نہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں ہم حق پر ہیں.پھر پوچھا کہ بتائیں کیا محمد مصطفی اللہ کے رسول الله نہیں؟ انہوں نے کہا ہاں محمد رسول اللہ بے شک اللہ کے رسول ہیں.تب حضرت عمرؓ نے بے قرار ہو کر کہا کہ بتائیں پھر ہم اس کے باوجود یہ ذلتیں کیوں برداشت کر رہے ہیں؟ حضرت ابوبکر نے سمجھایا اور فرمایا: یقیناً آپ خدا کے رسول ہیں اور آپ کا رب آپ کو ہر گز نہیں چھوڑے گا وہی آپ کا مددگار ہوگا پس آپ کی رکاب کو مضبوطی سے تھامے 66 رکھو.خدا کی قسم آپ حق پر ہیں.“ مگر عمر بن خطاب کو قرار نصیب نہ ہوا اور اس امر سے باز نہ رہ سکے کہ اس قسم کی گفتگو خود آنحضرت ﷺ سے بھی کریں.(السیرة الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحه : ۸۱،۸۰) صل الله ہر چند کہ وہ وقت آنحو پر بہت بھاری تھا اور صحابہ کے غم وحزن اور ان کی غیر متوقع طرز عمل سے آپ کو بہت دکھ پہنچا لیکن آپ نے انتہائی صبر کا مظاہرہ کیا اور عفو اور درگذر سے کام لیا، حضرت عمرؓ کو کوئی سرزنش نہ فرمائی ، تعجب کا اظہار تک نہ کیا کہ اے عمر مجھ سے یہ تو کہہ رہا ہے! آپ کے دل کی کیفیت آپ کے آسمانی رازداں کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا لیکن افسوس کے ساتھ تعجب تو فرماتے ہوں گے کہ وہ عمائدین جو دست و بازو تھے.نہیں نہیں ! وہ غلام جو پاپوش اٹھانے کو بھی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 428 غزوات النبی میں خلق عظیم ( غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء سعادت جانتے تھے آج غم و حزن اور احساس خفت نے ان کو اس حال تک پہنچا دیا کہ نہیں سوچتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں.لیکن آنحضوں نے عمرہ سے کوئی تعرض نہ فرمایا ہاں درد میں ڈوبی ہوئی آواز میں صرف اتنا کہا کہ عمر میں یقینا اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور ہر گز اس کے منشاء کی خلاف ورزی نہیں کروں گا اور میں اس سے امید رکھتا ہوں کہ وہی میری حفاظت کرے گا.(السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحه : ۹۲ ۹۳ - تاریخ طبری جلد ۲ صفحه : ۱۲۲) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دردوکرب کی وہ شیخ جو سوال بن کر حضرت عمر کے دل سے نکلی دوسرے بہت سے سینوں میں بھی کھٹی ہوئی تھی.اگر چہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جن جذبات کو عمر نے زبان دی تھی وہ صرف ایک عمر ہی کے جذبات نہیں بلکہ اوروں کے بھی تھے اور سینکڑوں سینوں میں اسی قسم کے خیالات ہیجان بپا کئے ہوئے تھے لیکن حضرت عمر نے جو ان کے اظہار کی جرات کی یہ ایک ایسی چوک ہو گئی کہ بعد ازاں عمر بھر حضرت عمرؓ اس سے پشیمان رہے.بہت روزے رکھے بہت عبادتیں کیں.بہت صدقات دیئے اور استغفار کرتے ہوئے سجدہ گاہوں کو تر کیا لیکن پشیمانی کی پیاس نہ بجھی.حدیبیہ کا اضطراب تو عارضی تھا جسے بہت جلد آسمان سے نازل ہونے والی رحمتوں نے طمانیت میں بدل دیا مگر وہ اضطراب جو اس بے صبری کے سوال نے عمر کے دل میں پیدا کیا وہ ایک دائمی اضطراب بن گیا جس نے کبھی آپ کا ساتھ نہ چھوڑا.ہمیشہ حسرت سے یہی کہتے رہے کہ کاش میں نے آنحضور سے وہ سوال نہ کیا ہوتا.( تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ: ۱۲۴) بارہا میں یہ سوچتا ہوں کہ بستر مرگ پر آخری سانسوں میں حضرت عمرؓ جب لَالِی وَلَا عَلَى کا ورد کر رہے تھے کہ اے خدا میں تجھ سے اپنی نیکیوں کا بدلہ نہیں مانگتا تو میری خطائیں معاف کر دے تو سب خطاؤں سے بڑھ کر اس ایک خطا کا تصور آپ کو بے چین کئے ہوئے ہوگا جو میدان حدیبیہ میں آپ سے سرزد ہوئی.صلح نامہ کی تحریر کے دوران صحابہ کی بے چینی اور دل شکستگی کا عالم دیکھ کر آنحضور کے دل کی کیفیت کا راز آپ کے آسمانی آقا اور بے حد محبت کرنے والے رفیق اعلیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا لیکن ان تین سادہ سے جملوں میں جو عمر کے جواب میں آپ کی زبان مبارک سے نکلے آپ نے غور کرنے والوں کیلئے بہت کچھ فرما دیا..
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 429 غزوات النبی میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء آپ کا یہ فرمانا کہ میں خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور اس کی مرضی کے سوا کچھ نہ کروں گا آپ کی صداقت کی عظیم الشان دلیل ہے.صحابہ کے سخت زخمی دل اور پُر ہیجان جذبات ایک طرف تھے جو آنحضور ہی کی صداقت کو ثابت کرنے کیلئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے کیلئے مچل رہے تھے اور دوسری طرف مرضی مولی تھی جو حج بیت اللہ کے قصد کے بعد ہر قسم کے جنگ و جدال سے روکے ہوئے تھی.پس آپ نے اس امر کی ذرہ بھی پرواہ نہ کی کہ دشمن آپ کی بظاہر نا کام واپسی پر کیا کیا پھبتیاں نہ کسے گا.آپ اس امر کو بھی خاطر میں نہ لائے کہ صحابہ کے دل پر کیا بیتے گی اور خفت سے اندر ہی اندر وہ کس طرح کٹ رہے ہوں گے.آپ اول و آخر اپنے مولیٰ کے بندے اور اسی کے رسول تھے اور خدا کی مرضی کے مقابل پر کل مخلوق کی مرضی بھی آپ کے سامنے کوئی حقیقت نہ رکھتی تھی.پھر آپ کا یہ فرمانا بھی کتنا معنی خیز اور کتنا لرزا دینے والا اعلان تھا کہ میں اپنے مولیٰ ہی سے حفاظت کی امید رکھتا ہوں.گویا سب پر برملا یہ واضح فرما دینا چاہتے تھے کہ ہر چند کہ تم لوگوں سے وفا کی امید ہے لیکن اے صحابہ کے گروہ! میرا سہارا تم نہیں ہو بلکہ صرف اور صرف میرا خدا ہے.یہ اعلان تھا اس اٹل حقیقت کا کہ آپ نے جس خدا کا ساتھ اس شدید آزمائش کے وقت میں بھی نہیں چھوڑ اوہ ہر گز آپ کا ساتھ کسی مشکل کے وقت بھی نہیں چھوڑے گا.قربانیاں دینے اور سر منڈانے کا ارشاد معاہدہ صلح لکھا گیا اور کفار کا وفد فتح کا گمان لئے ہوئے اس حال میں کہ دل میں شہنائیاں بج رہی تھیں واپس لوٹ گیا اور صحابہ کا یہ عالم کہ ایک فرضی شکست کے احساس سے نڈھال غم واندوہ میں ڈوبے ہوئے پڑے تھے اور نہیں جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں کیسی عظیم اور روشن اور کھلی کھلی فتح سے ہمکنار فرمایا ہے.اس وقت آنحضوں نے بآواز بلند یہ اعلان فرمایا کہ اٹھو اور قربانیاں دو اور سر منڈواؤ اور بال تر شواؤ.یقین نہیں آتا مگر یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس مقدس آواز کوسن کر ایک صحابی نے بھی حرکت نہ کی اور کسی بدن میں جنبش نہ آئی.آنحضور نے دوسری بار پھر اسی ارشاد کی تکرار فرمائی لیکن وہی پہلے کا سا سکوت طاری رہا پھر تیسری دفعہ آنحضور ﷺ نے بلند تر آواز میں وہی ارشادد ہرایا کہ اٹھو اور قربانیاں دو اور سرمنڈوا ؤ اور بال تر شوا ؤ لیکن سرتا پا غم کی تصویر بنے ہوئے صحابہ میں کوئی جنبش نہ ہوئی.
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 430 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم ( غزوه حد بی ) ۱۸۹۱ء اللہ ہی جانتا ہے کہ آنحضور پر وہ گھڑی کیسی کڑی ہوگی.تاریخ ہمیں صرف یہ بتاتی ہے کہ آنحضور خیمہ میں داخل ہوئے اور ام سلمہ سے مخاطب ہو کر بڑے درد کے ساتھ اس انہونی بات کا تذکرہ فرمایا.اس پر ام سلمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ غم نہ کریں صحابہ نا فرمان نہیں ہیں بلکہ شدت غم سے مغلوب ہو چکے ہیں پس آپ باہر تشریف لے جائیں اور قربانی کریں پھر دیکھیں کہ صحابہ آپ کو دیکھ کر کس طرح پیروی کرتے ہیں.چنانچہ آنحضور نے اس مشورہ کو قبول فرماتے ہوئے ایسا ہی کیا.آنحضور کو تن تنہا قربانی کرتا ہوا دیکھ کر صحابہ پر ایک بجلی سی گری گویا تن مردہ میں جان پڑ گئی.وہ میدان خفتگان ایک میدان حشر میں تبدیل ہو گیا جیسے صور پھونکا جا چکا ہو.ہر طرف بھگدڑسی مچ گئی اور صحابہ بے محابا قربانیوں کی طرف دوڑے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے لگے اور اچانک اس پر سکون اور جامد و ساقط میدان میں ہر طرف ایک شور قیامت برپا ہو گیا.ذبح ہوتی ہوئی قربانیوں کے شور اور صحابہ کی تسبیح وتحمید نے فضا میں ایک غلغلہ سا مچا دیا.اس واقعہ کے بارہ میں صحابہ روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے سر اس تیزی اور جوش کے ساتھ مونڈنے لگے کہ احتمال تھا کہ کہیں گردنیں ہی نہ کائی جائیں.(السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحه: ۹۲، ۹۳- تاریخ طبری جلد ۲ صفحه: ۱۲۴) یہ سب کچھ ہوا اور خوب خوب تلافی مافات ہوئی لیکن بایں ہمہ آج تک وہ تو قف اور تامل دلوں میں کھٹکتا ہے جو صحابہ نے آنحضور کے ارشاد کی تعمیل میں دکھایا اور تین مرتبہ کے بنکر ارفرمان رسول کے باوجود اس پر عملدرآمد سے کیسے قاصر رہے.پر چودہ سو برس ہونے کو آئے لیکن آج بھی جب انسان اس واقعہ کو پڑھتا ہے تو عقل گنگ ہو جاتی ہے اور سوچ کی طاقتیں ماؤف ہونے لگتی ہیں کہ چند ثانیوں کیلئے ہی سہی لیکن یہ ممکن کیسے ہوا صلى الله کہ اطاعت کے پہلے وہ جان نثار صحابہ جو محمدمصطفی میت کے خفیف اشاروں پر تن من دھن کی بازی لگا دیتے تھے اور مال وزرلٹا دیتے تھے اس جان و دل سے پیارے آقا کی آواز سن کر بھی ان سنی کیسے کر رہے تھے؟ وہ لوگ تو آسمان اسلام کے روشن ستارے تھے جن کی روشنی ایک عالم کیلئے ہدایت کا موجب بننے والی تھی.ان میں ولی بھی تھے اور ولیوں کے سرتاج علی بھی.ابوبکر و عثمان اور عمر بھی تھے.ان میں صالح بھی تھے اور شہید بھی اور صدیق بھی.انعام یافتہ بندگان خدا کا وہ ایک برگزیدہ گر وہ تھا جن کا مثل دنیا نے کبھی نہیں دیکھا تھا پھر ان سب سے یہ کیا ظاہر ہوا کہ آج تک عقل حیران
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 431 غزوات النبی اے میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء اور فکر سر گرداں ہے.دل پریشان ہو جاتا ہے اس نظارے سے.تاریخ اسلام کے یہ چندلحات تو قف ایک عقدہ لا نخل کی طرح سوچ و بچار کی قوتوں کو مفلوج کئے دیتے ہیں.یوں محسوس ہوتا ہے جیسے محمد مصطفی ﷺ کے وقت کے سوا اس میدان میں ہر دوسرا وقت ٹھہر گیا تھا اور آنحضور کے دل کی دھڑکن کے سوا ہر دوسرے دل کی دھڑکن رک چکی تھی.علي مؤرخین اور اصحاب سیر نے آنحضور ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں صحابہ کے توقف اور تامل کے جواز میں بہت کچھ لکھا ہے.محدثین نے بھی تو جیہات پیش کی ہیں لیکن بات دراصل یہی ہے کہ وہ منزل ہی بہت کڑی تھی اور وہ امتحان ان کی حد استعداد سے باہر تھا.یہ وہ کٹھن مہم تھی جومحمد مصطفیٰ کے سوا اور کوئی سر کرنے کی طاقت نہ رکھتا تھا.یہ وہ حد فاصل تھی جو محمدمصطفیﷺ کو ہر دوسری مخلوق سے جدا کرتی تھی.آپ نے قدم اٹھایا تو قدم اٹھے.آپ آگے بڑھے تو آگے بڑھنے کے حوصلے پیدا ہوئے.صالحین اور شہداء اور صدیقوں کا ہی کیا ذ کر اگر وہ محفل نبیوں سے بھی بھی ہوتی تو بخد امحمد مصطفیٰ" ان سب میں منفرد اور ممتاز اور ارفع اور بالا تر رہتے اور اطاعت خداوندی کے اس امتحان میں آپ کا تخت سب سے اونچا بچھایا جاتا.جہاد فی سبیل اللہ کا یہ ایک خاص اور منفرد مقام تھا.دیکھو راہ قتال میں بھی احد کے وہ چند دردناک لمحات آئے تھے جب قرآن کریم کے بیان کے مطابق دشمن کی یلغار نے مسلمانوں کے پاؤں اکھاڑ دیئے تھے اور وہ اس حال میں دوڑے چلے جاتے تھے کہ پیچھے رسول خدا تنہا میدان جہاد میں کھڑے انہیں اپنی طرف بلا رہے تھے.پھر یہ اسوہ نبی ہی تو تھا جس نے دوڑتے ہوؤں کو روکا اور گرتوں کو تھام لیا.حدیبیہ کا واقعہ راہ سلوک میں ایسا ہی ایک وقت تھا.پس تعجب کا کیا مقام اور وجہ جواز کی کیا ضرورت ہے؟ ایک دفعہ نہیں بارہا آپ کی زندگی میں ایسے تاریخ ساز لمحات آئے کہ تنہا آپ نے کھوئی ہوئی بازیوں کو جیتا اور دشمن کی جیتی ہوئی بساط کو اس پر الٹ دیا.بار ہا آپ نے مہیب خطرات کے رخ پلٹے اور تنگ اور تاریک راہوں کو کشادہ اور روشن کیا اور خود آگے قدم بڑھایا تب آپ کے غلاموں کو یہ توفیق نصیب ہوئی کہ آپ کے نقوش پا کو چومتے ہوئے آگے بڑھیں.پس یہ تھا ہمارا آقا محمد مصطفیٰ " منفرد اور تنہا، ممتاز اور اکیلا میدان وغا کی ہر بازی جیتنے والا وہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 432 غزوات النبی میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء محبوب سبحانی جومیدان و فامیں بھی ہر دوسرے پر سبقت لے گیا.انعام حدیبیہ میدان حدیبیہ میں آپ کی تقلید میں جو ظاہری قربانیاں دی گئیں وہ تو محض علامتیں تھیں اصل قربانیاں تو عزت نفس اور جذبات کی وہ قربانیاں تھیں جن کی گردن پر رضائے باری تعالیٰ کی خاطر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر آنحضور ﷺ نے مضبوط اور نہ لرزنے والے ہاتھوں کے ساتھ چھری پھیری اور انہیں تڑپنے کی بھی اجازت نہ دی.یہی وہ قربانیاں تھیں جو بارگاہ خداوندی میں مقبول ہوئیں اور اس شان سے مقبول ہوئیں کہ اس کی کوئی مثال انسانی تاریخ میں نظر نہیں آتی.حدیبیہ سے واپسی پر سورہ فتح کے نزول نے آنحضور ﷺ اور آپ کے صحابہ پر فضل و اکرام کا ایک نیا باب کھولا.مقام محمد مصطفی ﷺ کو ایک نئی شان اور نئی آن بان کے ساتھ ظاہر کیا اور حدیبیہ کی صلح کو.فتح مبین قرار دے کر یہ راز مسلمانوں پر کھولا کہ یہ کوئی گراوٹ کی صلح نہ تھی بلکہ ایک کھلی کھلی فتح تھی جس کے بطن سے آئندہ عظیم الشان فتوحات نے جنم لینا تھا.اس سورۃ نے مسلمانوں کو یہ نوید سنائی کہ درخت کے نیچے حدیبیہ کے مقام پر جو فدائیت اور وفا کی بیعت انہوں نے محمد مصطفی میل کے ہاتھ پر کی تھی وہ رب العزت کی نظر میں مقبول ہوئی.خدا ان سے راضی ہوا اور مستقبل قریب میں انہیں فتح کی بشارت دیتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ أَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا کے الفاظ میں جس فتح کا ذکر ہے وہ فتح مکہ ہے جو مسلمانوں کو سب فتوحات سے زیادہ مرغوب تھی.چنانچہ اس موقع پر جمع کا صیغہ استعمال فرما کر سب صحابہ کو اس میں شریک کیا لیکن وہ دوسری فتح جس کا سورہ فتح کی پہلی آیت میں ذکر کیا گیا ہے اور فتح مبین قرار دیا گیا اور اس کی بشارت دیتے ہوئے صرف رسول کریم ﷺ کو مخاطب فرمایا گیا ہے.إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مبینا (الفتح (۲) یہ فتح کیا تھی یہ کھلی کھلی اور روشن روشن فتح جو خاص ذات مصر سے منسوب کی گئی اور جس میں آپ کے ساتھ اور کوئی شریک نہ تھا مگر آپ کے وسیلہ سے یہ فتح آپ کی عظمت کردار، آپ کے خلق عظیم، آپ کی روحانی قوتوں کی فتح تھی.یہ فتح مرضی خدا کی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 433 غزوات النبی اللہ میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء خاطر ترک رضائے خویش کی فتح تھی اور یہ فتح حصول مقصد کی فتح تھی اور فتح مکہ بھی اس میں شامل اور اس کے ذیل میں آتی ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا روشن فتح ہو سکتی ہے کہ انسان اپنے مقاصد میں بتمام و کمال کامیاب ہو جائے.حدیبیہ کے واقعات کا بغور مطالعہ کریں تو لازماً انسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اس موقع پر آپ کے سارے مقاصد بدرجہ کمال پورے ہو گئے.آپ دشمن کی خونریزی سے بچنا چاہتے تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس خواہش کو معجزانہ طور پر پورا فرمایا اور دشمن کے ہاتھ روک دیئے.متعدد بار ایسے حالات پیدا ہوئے کہ جنگ کے شعلے بھڑک اٹھنے کو تیار تھے مگر اللہ کی رحمت نے ہر بار اس کو ٹھنڈا کر دیا.آپ صحابہ کو لڑائی سے باز رکھنا چاہتے تھے اور اس مقصد میں بھی خدا تعالیٰ نے آپ کو کامیابی عطا فرمائی.بارہا قریش کی طرف سے ایسی اشتعال انگیزی کی گئی کہ صحابہ کٹ مرنے پر تیار ہو گئے اور ایسا جوش اور ولولہ دکھایا کہ دنیا کے کسی دوسرے رہنما کیلئے اسے قابو میں رکھنا ممکن نہ ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ نے محمد مصطف مال کو ان کے مشتعل جذبات پر کامل غلبہ عطا کیا اور آنحضور کے منشاء کے خلاف انہیں انگلی تک ہلانے کی توفیق نہ ملی.آنحضور قریش مکہ سے صلح اور امن کے خواہاں تھے تا کہ جنوب کی طرف سے مطمئن ہو کر شمال میں اٹھنے والے خطرات کے ساتھ یکسوئی سے نپٹ سکیں اور تا قریش امن کے ماحول میں ٹھنڈے دل کے ساتھ اسلام کے پیغام پر غور کر سکیں.پس آپ کو اس مقصد میں بھی مکمل کامیابی ہوئی اور خود قریش ہی صلح کی پیشکش پر آمادہ ہو گئے.آپ کو یقین تھا کہ آپ کا رویا ظاہری رنگ میں پورا ہوگا خواہ جلد ہو یا بدیر چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ ہی کے ہاتھوں یہ پیشکش بھی کروادی کہ آئندہ سال آپ بے شک آئیں اور تین دن قیام کر کے مناسک عمرہ ادا کریں ہماری طرف سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے گا اور کوئی امن شکنی نہ ہوگی.پس اسی معاہدہ نامہ صلح میں رویا کے ظاہری شکل میں پورا ہونے کے آثار بھی رکھ دیئے.معاہدہ صلح میں چند ایسی دل آزار باتیں جو قریش کے تفاخر کا باعث اور صحابہ کی عزت نفس کو کچلنے کا موجب بنی ہوئی تھیں جب جذبات کی ہنگامہ آرائی کے بعد نسبتا پر سکون ماحول میں صحابہؓ نے ان کو دیکھا تو اپنی جلد بازی پر نادم اور پشیمان ہوئے اور جان لیا کہ ہر معاملہ میں آنحضور کا ہی فیصلہ درست اور مناسب اور برمحل تھا.مثلاً آپ کا بلاتر دو سہیل بن عمرو کی یہ بات تسلیم فرمالینا کہ
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 434 غزوات النبی اے میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء معاہدہ میں محمد رسول اللہ نہیں بلکہ محمد بن عبد اللہ لکھا جائے نعوذ باللہ آپ کی رسالت کی ہتک یا صداقت میں اشتباہ پیدا کرنے والی بات سمجھی گئی حالانکہ معاملہ برعکس تھا.یہ تو آپ کی صداقت ہی کی ایک مین دلیل تھی.یہ مقام رسالت کو گرانے والی بات نہ تھی بلکہ آپ کی رسالت کے عز و شرف کو اور بھی بڑھانے والا ایک ایسا واقعہ تھا جسے غیروں کی آنکھ بھی ہمیشہ احترم سے دیکھتی رہے گی.یہ آپ کے جذبہ حق و انصاف کی فتح تھی اور لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرۃ:۷۵۲) کے لازوال اصول پر عمل پیرا ہونے کی ایک درخشندہ مثال تھی.یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جو ہمیشہ بین الاقوامی معاہدات اور بین المذاہب مصالحتوں کیلئے مشعل راہ کا کام دیتارہے گا.آپ نے اس دن قیامت تک آنے والی نسلوں کو یہ سبق دیا کہ اگر صلح و امن کا قیام چاہتے ہو تو ایک دوسرے کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے غلط بات کہے بغیر کم سے کم قدر مشترک پر رضامند ہونا سیکھ جاؤ.تَعَالَوْا اِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ ( آل عمران: ۲۵) کی ایک نئی تفسیر اس روز آپ نے ہمیں سکھائی.واقعہ ابو جندل صحابہ کی نظر میں معاہدہ کی یہ شرط بھی انتہائی ذلت آمیز تھی کہ جب قریش میں سے کوئی مسلمان ہوکر رسول اللہ کی پناہ میں آجائے تو اس کے خاندان کی طرف سے مطالبہ ہونے پر آنحضور اس بات کے پابند ہوں گے کہ اسے واپس کر دیں لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی مرتد ہو کر اہل مکہ کی پناہ میں چلا جائے تو مطالبہ کے باوجود اسے واپس نہیں لوٹا یا جائے گا.اس شرط کے تسلیم کئے جانے پر صحابہ مرغ بسمل کی طرح تڑپ اٹھے تھے اور ان کے تازہ زخموں پر نمک پاشی کا بھی عجیب رنگ میں سامان پیدا ہوا.عین اس وقت جب یہ شرط بھی زبانی طور پر طے پا رہی تھی اور دم تحریر میں نہ آئی تھی ، نہ ہی معاہدہ پر فریقین کے آخری دستخط ہوئے تھے یہ عجیب واقعہ گزرا کہ حاضرین مجلس نے مکہ کی جانب سے زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے پریشان حال ایک قیدی کو گرتے پڑتے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا.وہ سخت مفلوک الحال تھا.اس کے بدن کا انگ انگ راستے کی صعوبت اور زنجیروں کے بوجھ اور کٹاؤ سے دکھ رہا تھا.کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ کب سے بھوکا تھا.کوئی نہیں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 435 غزوات النبی اے میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء جانتا تھا کہ وہ کتنے عرصہ سے قید تھا اور قید کے دوران اس پر کیا کیا مظالم توڑے گئے ؟ وہ سلاسل میں جکڑا ہوا ایک دیوانہ سا تھا جو بڑے کرب اور اضمحلال کے ساتھ چھوٹے چھوٹے صبر آزما قدم اٹھاتا ہوا قریب تر آرہا تھا.جب اس کا سرا پا روشن اور واضح ہوا تو تعجب سے سب نے دیکھا کہ وہ تو سفیر مکہ سہیل بن عمروہی کا اپنا بیٹا تھا جسے خدا جانے کب سے محض اس جرم کی سزا میں عذاب دیا جار ہا تھا کہ وہ اس حقیقت پر ایمان لے آیا کہ اللہ ایک ہے اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہیں.اس نے آتے ہی اپنا معاملہ حضور کی خدمت میں پیش کیا اور بڑے دکھ کے ساتھ اپنی درد بھری کہانی بیان کر کے آنحضور سے امان چاہی لیکن پیشتر اس کے کہ آنحضور اس کو امان دیتے اس کا باپ بیچ میں حائل ہو گیا اور بڑی سختی سے اس بات پر اصرار کیا کہ معاہدہ کی شرائط کے مطابق آپ کو بہر حال اسے واپس لوٹانا ہوگا.محدثین اور مؤرخین کے بیان کے مطابق صحابہ کی حالت اس وقت ایسی تھی کہ اس نوجوان کے حال زار پر نظر ڈال کر بے حال ہوئے جاتے تھے.کفار مکہ کی شقاوت کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا.ان کے تن بدن میں ایک آگ سی لگ گئی اور نگاہیں آتش برسانے لگیں.کسی مظلوم کی ہمدردی میں کم ہی کوئی قوم اتنی برافروختہ ہوئی ہوگی جیسے اس وقت صحابہ برافروختہ تھے.اس وقت وہ ایک ایسے آتش فشاں کی طرح تھے جو ہر لمحہ پھٹ پڑنے کیلئے تیار ہو اور اس کے سینہ سے گہری گڑگڑاہٹ کی آوازیں سنائی دیتی ہوں.لیکن محمد مصطفی ﷺ کا قوی ہاتھ اس آتش فشاں کے دہانے پر اس کے ہر جذبۂ بے تاب کو دبائے ہوئے تھا.دبے ہوئے غم وغصہ کی وجہ سے جو اندر ہی اندرکھول رہا تھا.صحابہ کے بدنوں پر ایک زلزلہ سا طاری تھا.ان کا بس چلتا اور اختیار ہوتا تو معاہدہ کی نامکمل تحریر کو چاک کر کے بھی ابو جندل کو بچالیتے.وہ صاحب امر ہوتے تو اہل مکہ کے ساتھ جنگ کر کے بھی ابو جندل کو بچالیتے.ان کی کچھ پیش جاتی تو اپنی جانیں دے کر بھی اس ایک مظلوم جان کو روک لیتے لیکن محمد مصطفی مال کے رعب و جلال اور روحانی دبدبہ کے سامنے ان کی کچھ پیش نہ جاتی تھی.آئیے اب دیکھیں کہ اس وقت حضرت محمد مصطفی ﷺ کی کیا حالت تھی ؟ تخلیق آدم کا وہ شاہکار ایک کوہ وقار بنا بیٹھا تھا.غم اور غصہ سے مغلوب ہو کر اس کا بدن نہیں کانپا ، اس کے ہونٹ نہیں کپکپائے، دیکھنے والوں نے اس کے جسم پر کوئی لرزہ طاری ہوتے ہوئے نہ دیکھا.کون کہہ سکتا ہے کہ وہ دل زخمی نہ تھا ؟ کون گمان کر سکتا ہے کہ آپ کا سینہ اس مظلوم کی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 436 غزوات النبویہ میں خلق عظیم (غز ووحد بيه ) ۱۸۹۱ء حالت زار پر ہمدردی اور رحمت کے جذبات سے امڈ نہ آیا تھا ؟ کون تصور بھی کر سکتا ہے کہ اس دل کا حال جو سارے جہانوں کیلئے رحمت تھا جو رؤف تھا رحیم تھا، جو اپنے غلاموں کے ساتھ ہر دوسرے سے بڑھ کر پیار کرنے والا تھا ویسی شفقت تو کسی نے کبھی ما در مہربان سے بھی نہ دیکھی تھی جو اس سے دیکھی.لیکن آپ کے جذبات ہمیشہ اعلیٰ اصولوں کے تابع رہے اور انہیں مرضی خدا سے سرمو انحراف کی تعلیم نہ تھی.پس موجزن جذبات اور اعلیٰ اصولوں کی اس کشمکش میں اصولوں کی فتح ہوئی اور اپنے جذبات کو ایک آہنی عزم کے ساتھ آپ نے زیر نگیں رکھا.آپ نے بڑے تحمل اور بردباری کے ساتھ حالات کا جائزہ لیا اور سہیل بن عمرو سے فرمایا کہ ابھی تو معاہدہ کی تحریر پر دستخط نہیں ہوئے اس لئے اپنے بیٹے کو ساتھ لیجانے پر اصرار نہ کرو.اس نے کہا ہرگز ایسا نہیں ہو گا دستخط ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں یہ شرط ہمارے درمیان تقریباً طے شدہ تھی اس لئے اے محمد ! معاہدہ کی پابندی کا یہ آپ کا پہلا امتحان ہے.دیکھو اس کے منہ سے یہ کیسی احمقانہ بات نکلی ! وہ جو تعلیم اخلاق کی الف ب نہ جانتا تھا استاد کامل کا امتحان لینے کی باتیں کر رہا تھا لیکن آنحضور نے اس کی جہالت کو نظر انداز فرماتے ہوئے بڑی نرمی کے ساتھ اسے فرمایا سہیل جانے بھی دو، چھوڑو ان باتوں کو.دیکھو اور نہیں تو میری خاطر ہی اتنی الله سی بات مان جاؤ کہ اپنے بیٹے کو میری امان میں آنے دو.لیکن افسوس کہ آنحضور ﷺ کے دل جیتنے والے انداز طلب نے بھی اس کے سینے کے پتھر پر اثر نہ کیا.کاش وہ ایسا کرتا تو اس کے دنیا و آخرت سنور جاتے.یہ لمحہ تاریخ کے ان معدودے چند لحات میں سے ایک تھا کہ جب آنحضور نے کسی سے اپنی ذات کا واسطہ دے کر کسی کے لئے رحم کی اپیل کی ہو لیکن اس نے نہ سمجھنا تھا نہ سمجھا.پس آنحضور نے مزید اصرار نہ فرمایا اور اس کے مؤقف کو تسلیم کر کے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ اہل ایمان کے معاہدات کسی تحریر یا دستخط کے پابند نہیں ہوا کرتے بلکہ مومن کے منہ سے جو بات بھی نکل جاتی ہے وہی پتھر کی لکیر اور لا زوال اور انمٹ تحریر بن جاتی ہے.آنحضور" کیلئے جذبات کی ہر قربانی ممکن تھی لیکن یہ ممکن نہ تھا بخدا یہ مک نہ تھا کہ معاہدہ شکنی کرتے ہوئے اپنے رحم و شفقت کے جذبات کی تسکین کرتے.السيرة الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحه: ۸۷، ۸۸) جب یہ بات کھل گئی کہ ابو جندل کو بہر حال اپنے شقی القلب باپ کی حراست میں جانا ہوگا
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 437 غزوات النبے میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء تو اپنے بھیا نک مستقبل کے خیال سے اس کے ہوش و حواس جاتے رہے اور ایک ایسی حرکت اس سے سرزد ہوئی کہ عام حالات میں وہ کبھی ایسی حرکت نہ کر سکتا تھا.اس نے یہ سمجھا کہ آنحضور تو مجھے پناہ نہیں دیتے ہاں صحابہ کا یہ جھرمٹ جن کی آنکھیں میرے لئے اشکبار اور خون آلود ہیں شاید یہی مجھے پناہ دے دیں.پس اس نے آخری اپیل آنحضور سے نہیں بلکہ صحابہ سے کی اور بڑی گریہ وزاری کے ساتھ ان کی منت کرنے لگا کہ دیکھو! اپنے مظلوم اور لاچار اور ستم رسیدہ بھائی کو بھیٹریوں کے منہ میں واپس نہ بھیجو.(السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحه : ۸۸) یہ ابوجندل کی کم فہمی تھی.بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ صحابہ اپنے امام سے آگے بڑھ کر کسی کو بچانے کی کوشش کرتے ؟ ان کو تو تعلیم ہی پیچھے چلنے کی تھی؟ ان کی تو زندگی کا انحصار اس بات پر تھا کہ قدم قدم محمد مصطفی کے پیچھے پیچھے چلیں.پس کوئی ٹس سے مس نہ ہوا، کہیں کوئی حرکت نہ ہوئی.ہاں حضرت علیؓ کا قلم بو جھل دل کے ساتھ پھر حرکت میں آیا اور معاہدہ کی رکی رکی تحریر پھر سے چل پڑی.تب آنحضور نے ابوجندل کو مخاطب کر کے فرمایا جاؤ اور اللہ پر توکل رکھو وہ تمہارے لئے کوئی نجات کی صورت نکالے گا.ابو جندل چلے گئے لیکن ایک دل میں کھٹکنے والی بات پیچھے چھوڑ گئے.اس بات کو پڑھ کر آج بھی تعجب ہوتا ہے کہ آخر انہیں کیا سوجھی کہ آنحضور کو چھوڑ کر براہ راست صحابہ سے اپیل کرنے لگے؟ لیکن نہیں اس حالت میں یقیناً وہ بے بس اور بے اختیار تھے شاید مصائب کی شدت نے انہیں مختل کر دیا تھا اور وہ بے سوچے سمجھے اس طرح ہاتھ پاؤں مار رہے تھے جیسے ڈوبتا ہوا تنکوں کا سہارا ڈھونڈتا وصلى الله ہے.اگر سوچ کی ادنی سی قوت بھی ان میں ہوتی تو وہ یقینا جان لیتے کہ محمد سے بڑھ کر صحابہ نے بھلا ان پر کیا رحم کرنا تھا؟ رحم کی تعلیم تو دبستان محمد ہی سے انہوں نے پائی تھی.نرمی اور شفقت اور رافت کے سبق تو خود آنحضور نے ہی انہیں پڑھائے تھے.جب تک محمد مصطفی سال کے اعجاز نے انہیں دل نہ عطا کئے ان کے سینوں میں بھی تو ویسے ہی پتھر دفن تھے جیسے اس کے باپ سہیل کے سینہ میں تھا.وہ بھول گیا کہ آج ان پتھروں سے جو رحمت کے چشمے پھوٹتے ہوئے اس نے دیکھے وہ آنحضور کی لمس کا ہی تو کرشمہ تھا.اسے یاد نہ رہا کہ یہ ہمدردی کے پتلے جنہیں آج وہ اصحاب محمد کی صورت میں دیکھ رہا ہے کل تک وہی صحرائے عرب کے وحشی ہی تو تھے جو اپنی ہی معصوم بچیوں کو زندہ الله
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 438 غزوات النبی میں خلق عظیم ( غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء در گور کر دیا کرتے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک قطرہ تک نہ گرتا تھا.ابوجندل کی اس نادانی پر کوئی شکوہ نہیں کیونکہ وہ اس وقت اپنے ہوش وحواس میں نہ تھے.ہاں وہ ابو جندل اپنے ہوش و حواس میں نہ تھے جو ہاتھوں میں زنجیریں اور پاؤں میں بیڑیاں پہنے ہوئے گرتے پڑتے واپس مکہ کی طرف جارہے تھے.پس معاہدہ کی یہ شرط کہ قریش میں سے جو بھی مسلمان ہو کر محمد مصطفی ﷺ کی پناہ میں آنا چاہے گا اسے واپس لوٹا دیا جائے گا صحابہ کے دل پر سب سے زیادہ شاق گزری اور اسے حد سے زیادہ کمزوری اور ذلت کا نشان سمجھا گیا لیکن بہت جلد آنے والے دنوں نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ شرط صحابہ کی کمزوری اور ذلت کا نہیں بلکہ قریش مکہ کی کمزوری اور ذلت کا نشان بنے والی تھی.صلح حدیبیہ کو زیادہ دیر نہ گزری کہ مکہ کے ایسے مظلوم مسلمان جنہیں مدینہ میں پناہ نہ مل سکتی تھی ابو بصیر کی سرکردگی میں جمع ہونے لگے.ابوجندل بھی انہی نوجوانوں میں سے ایک تھا جس کیلئے محمد مصطفی کی دعا سے خدا تعالیٰ نے یہ سبیل نکالی تھی.یہ مقام اس شاہراہ عرب پر واقع ہے جو مکہ سے گزر کر شام کی طرف جاتی ہے اور دونوں کے درمیان تجارتی گزرگاہ ہے.پس وہ نوجوان جو اسلام قبول کر لیتے وہ بھاگ کر اس مقام پر جمع ہو جاتے اور قریش سے ان کے مظالم کا بدلہ اس طرح لیتے کہ جب موقع پاتے ان کے تجارتی قافلوں کولوٹ لیتے.نو مسلم مہاجرین کا یہ گروہ قریش مکہ کیلئے ایک مصیبت بن گیا کہ ان کے دل کا چین اٹھ گیا اور راستے کا امن برباد ہو گیا.مسلمانوں کیلئے تو حدیبیہ کی صلح حقیقہ امن کا پیغام لائی لیکن قریش مکہ کیلئے بدامنی اور بے چینی کا ایک در کھول دیا جو دن بدن اور کشادہ ہوتا جارہا تھا.پس وہی شرط جسے صحابہ اپنی ذلت کا نشان سمجھے بیٹھے تھے دیکھتے دیکھتے کفار کی ذلت کا نشان بن گئی اور حد درجہ ذلیل ہو کر اور گر کر خود انہی کو آنحضور سے یہ درخواست کرنی پڑی کہ خدا کیلئے معاہدہ کی اس شرط کو منسوخ سمجھیں اور اپنے نومسلموں کو اپنے پاس بلا لیں.پس اس پہلو سے بھی صلح حدیبیہ آنحضور کیلئے محض ایک صلح نہیں بلکہ فتح مبین ثابت ہوئی.السيرة الحلبیہ جلد ۳ نصف اول صفحه: ۱۰۲ - ۱۰۵) آخری بات واقعات حدیبیہ کا بغور جائزہ لیں تو آخری بات یہی نظر کر سامنے آتی ہے کہ اگر چہ حدیبیہ کی
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت 439 غزوات النبویہ میں خلق عظیم ( غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء جنگ تیروں اور تلواروں اور نیزوں اور برچھیوں سے نہیں لڑی گئی اور انسانی خون کا ایک قطرہ بھی اس میں نہیں بہایا گیا تا ہم یہ ایک جنگ تھی جو بڑی شدت اور زور کے ساتھ انسانوں کے سینوں میں لڑی گئی.یہ جنگ نفس اور ضبط نفس کی جنگ تھی.یہ جنگ رضائے خویش اور مرضی خدا کی جنگ تھی.اقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ کا حکم جاری تھا.ہر طرف آرزوؤں کے سر کاٹے جارہے تھے اور امنگوں کے سینے پھاڑے جارہے تھے.بلاشبہ نفس انسانی کا اس موقع پر ایسا قتال ہوا کہ ہر طرف کشتوں کے پشتے لگ گئے.لیکن خدا کی قسم ! اس فتح مبین کا سہرا تمام تر محمدمصطفیٰ کے سر تھا.یہ آپ ہی تھے جنہوں نے بارہا گرتے ہوئے صحابہ کو سنبھالا اور لڑکھڑاتے ہوئے جسموں کو سہارا دیا.یہ آپ ہی تھے جنہوں نے ان کے اکھڑتے ہوئے قدموں کو ثبات بخشا اور گرتی ہوئی ہمتوں کو ابھارا، ہاں یہ آپ ہی تھے.آپ نے دلوں کو ڈھارس دی تو دل سنبھلے، آپ نے حوصلہ دلایا تو حو صلے پیدا ہوئے ، آپ نے ان کی روحوں کو ہلاکت سے بچایا اور ان کے ایمانوں کو نئی زندگی بخشی.وہ غلام جنہوں نے یہ عہد کیا تھا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم تیرے آگے بھی لڑیں گے، تیرے پیچھے بھی لڑیں گے، تیرے دائیں بھی لڑیں گے اور تیرے بائیں بھی لڑیں گے.یہ کیسا دن طلوع ہوا کہ آج خدا کا وہی برگزیدہ رسول ﷺ ان کے آگے بھی لڑ رہا تھا اور ان کے پیچھے بھی لڑ رہا تھا، ان کے دائیں بھی لڑ رہا تھا اور ان کے بائیں بھی لڑ رہا تھا اور شیطانی وساوس اور تاریک گمانوں کے چوطرفہ حملہ سے ان کی حفاظت فرمارہا تھا.بلا شبہ یہ آنحضور کی رفعت شان اور عظمت کردار کا ایک عظیم معجزہ تھا کہ ایک غیر متزلزل عزم اور آہنی ارادہ کے ساتھ ان کے نفوس کی باگیں تھامے ہوئے تھے.میدان اخلاق کا یہ بے مثل شہسوار اس روز ایک نئی شان اور نئی آن بان کے ساتھ جلوہ گر ہوا.پس تعجب نہیں کہ رب المجد للعلیٰ نے آپ کو عظیم الشان خلعتوں سے نوازا.اکرام پر اکرام کیا اور انعام پر انعام فرمایا اور پیار کا ایسا اظہار کیا کہ کسی آقا نے کسی پیارے غلام سے کیا ہوگا.وہ آپ سے ایسا راضی ہوا کہ آپ کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا اور آپ کی بیعت کو اپنی بیعت قرار دیا.پھر سب سے اول فتح مبین کی خوشخبری کیلئے آپ ہی کو چنا اور اس خطاب میں کسی دوسرے کو شریک نہ کیا.اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا یعنی اے ہمارے بندے! ہم نے یہ فتح مبین تجھے عطا کی ہے پس دوسرے سب جشن منانے والے تیرے ہی واسطہ اور تیرے ہی وسیلہ سے اس میں
تقاریر جلسه سالانه قبل از خلافت شریک ہوں گے.440 غزوات النبی اے میں خلق عظیم (غزوہ حدیبیہ ) ۱۸۹۱ء پھر یہ خوشخبری بھی سنائی کہ وہ حج جو دنیا کی نظر نے تجھے کرتے ہوئے نہیں دیکھا خدا کی نظر نے دیکھا اور اسے قبول کیا اور اس شان سے قبول کیا کہ کبھی کوئی حج ایسا قبول نہیں ہوا نہ آئندہ ہوگا.قبولیت حج کے نشان کے طور پر دوسرے سب حجاج کے تو پچھلے سب گناہ بخشے جاتے ہیں لیکن خدا نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ یعنی اے ہمارے بندے ! ہم نے تیری پچھلی لغزشیں بھی معاف فرما دیں اور اگلی لغزشیں بھی معاف فرما دیں.پس رب العزت کی نگاہ میں تیرا ماضی بھی پاک اور بے داغ ٹھہرا اور تیرا مستقبل بھی پاک اور بے داغ ٹھہرا.قیامت تک ظاہر بین آنکھوں کے لئے اس میں یہ سبق ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ رضائے باری تعالیٰ کی خاطر نہ کئے ہوئے حج بھی کئے ہوئے ہر دوسرے حج پر سبقت لے جاتے ہیں.چشم بصیرت سے ذرا دیکھو تو سہی کہ آغاز بیت اللہ سے لے کر اس دنیا کے انجام تک کروڑوں اربوں انسانوں نے حج کیا اور حج کرتے رہیں گے.حجاج کے بڑے بڑے قافلے طواف کرتے ہوئے اللہ کے گھر کے گرد گھومے اور گھومتے رہیں گے لیکن خدا کی قسم ! کسی حج کرنے والے کالج ایسا قبول نہیں ہوا نہ ہو گا جیسا کہ محمد مصطفی ﷺ کا وہ حج جو بظاہر آپ نہ کر سکے.یہ وہ حج تھا جو مکہ میں نہیں بلکہ حدیبیہ کے میدان میں کیا گیا.یہ حج وہ تھا جس کے دوران بیت اللہ مکہ میں نہیں بلکہ حدیبیہ کی وادی میں دکھائی دیا.یہ وہ دن تھا جب رب کعبہ اپنی تمام شان اور تمام رعنائیوں کے ساتھ اس مقام پر جلوہ نما ہوا جہاں محمد اور اصحاب محمد خیمہ زن تھے.ہاں یہ وہی دن تھا جب عرش خداوندی اس زمین پر اتر آیا جو آسمانوں سے بلند تر اور روشن تر تھی.جہاں قلب مصطفوی نور ازل کی تخت گاہ بنا ہوا تھا.جہاں روح محمد عشق کا یہ سرمدی نغمہ الاپتے ہوئے طواف کر رہی تھی.لیک اللَّهُمْ لَبّیک لَا شَرِيكَ لَكَ لَبِّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكِ.لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّیک.(ماہنامہ خالد اپریل ۱۹۸۲ء)
1 فہرست اشاریہ خطابات طاهر قبل از خلافت 15 2 الله - 2 15 5 16 10 16 ظ 11 16 11 18 11 18 11 ث..18 11 19------ 12.-& 21 12- -- 21 12.خ....21 13 23 ن.14 24 14 24 26 ی...15 15 15 س.
خطابات طاهر قبل از خلافت الله الله 24, 25, 28, 59, 60, 62, 67-69, 82-83, 2 دیتا ہے 121 آئیوری کوسٹ 181 آئمر -24 آئن سٹائن 95,98,111,148,154,158,159,162-166,169, 282,292,294,297-299,310,314, ایک مشہور روسی فلم پروڈیوسر سر تھا نجی) آیا 339,343,349-351,357,359,362,411 آیات قرانیه (بلحاظ حروف تیجی ) 413, 418, 420, 423, 433 ابن عمر کا فرمانا کہ حضرت عمر کے منہ سے جو کلمہ نکلتا اللہ تعالٰی ویسے ہی کر دکھاتا تھا 98 نظام خلافت خالصہ اللہ تعالیٰ کی منشاء اور ارادہ سے قائم ہوتا ہے 120 صفات الہیہ 209,421 رحمانیت 160 الرحمن علم القرآن خلق الانسان الرحمن 161(a_r: انما اشكوا بثى و حزني الى الله (يوسف: 151 الا ان اولياء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون(یونس : ۶۳)98 ادفع بالتي هي احسن حم السجدة: ٣٠.٢٣)94 بعض اوقات صفت رحمانیت کے ظہور کے طور پر خداتعالی اذا زلزلت الارض زلزالها (الزلزال : ٦.٢)34 اپنے ایسے مضطر بندوں کی التجائیں بھی قبول فرمالیتا ہے 142 الحمد لله رب العالمين (الفاتحه : ۲ ) - 25 آب زم زم آ اهدنا الصراط المستقیم (الفاتحه : ۵) 280 ایاک نعبد ویاک نستعین (الفاتحه : 178,207,280,294 الحمد لله الذي انزل على عبده حضرت اسماعیل کے ایڈریاں مارنے سے زم زم کا چشمہ پھوٹ الكتاب (الكهف: ٦.٢)37 پڑنا 300 حضرت آدم علیہ السلام 40-45, 51-55, 107-111, 119, 128, 130, 132, 215, 217, 228, 238, 243, 244, 419, 423, 434 انا اعطیناک الکوثر (الكوثر: ۳.۴)187 ارئيت الذي يكذب بالدين(الماعون: ٢)187 الم ذالك الكتاب لاريب فيه(البقره: ٣.٢) – 19 اذ جاء وا من فوقكم (الاحزاب : ۱۴.۱۱)397 انما يعمر مساجد الله من امن (التوبه : ۱۸ 283 آرچ بشپ آف کینٹری اینڈ یارک.ان اول بيت وضع للناس للذي ببكة (آل آریہ سماج 237, 242 46- عمران: ۹۷ )306 انــمــا يــــومــن بــــايـــاتنــــا الذين اذا آریہ مت ہندوؤں کا وہ فرقہ ہے جو تو حید الہی کا قائل ہے ذكروا (السجدہ: ۱۷.۱ )288 247-248 آسمانی پانی انک الا تجوع فيها ولا تعرى ( ١١٩ ١٢٠)167 ان اكرمكم عند الله اتقاكم (الحجرات : ۱۴)167 الست بربكم ( آل عمران: ۱۳۷ 145 قرآن کریم متعدد مرتبہ نزول شریعت کی مثال آسمانی پانی سے ان الذين اجرموا كانوا من الذين امنوا
خطابات طاهر قبل از خلافت 3 يضحكون (المطففین ۱۳۳.۱۳۰)276 ذکر رحمت ربک عبده زکریا(مریم ۳.۵)148 ان الذين يبــــايــعــونـك انــمــا يبــایـعـون ذالك الكتاب لاريب فيه (البقره: ٣.٢) - الله (اسح: 11)213,420 19,114,201 ان الذين قالوا ربنا الله ثم استقاموا(حم ذالك الله ربكم لا اله الا هو (الانعام ١٠٣ )35 ذالك فضل الله يؤتيه من يشاء (الجمعه : ۵)120 السجدة: ۳۲.۳۱)106 اولى اجنحة مثنى وثلث (فاطر:۲)125 افلان يــــ يرون ننقصها (الانبياء: ۴۵)123 الارض الرحمـن عـلـم الـقـرآن خلق الانسان (الرحمن 161(a_r: ان في خلق السموات والارض واختلاف الليل (آل عمران: ۱۹۱ ۱۹۲)20,287 ان الله ليس بظلام للعبيد (آل عمران : ۱۸۳)50 انما نطعمكم لوجه الله (الدهر : ١٠ )92 ان الله يامر بالعدل والاحسان (النحل: 91) 164 اسلمت لرب العالمین(البقره: ۱۲۳ 276 ـا الامانة عـ السموات (احزاب: ۷۳)399 انا فتحنا لک فتحا مبینا(الفتح: ۴.۲) 409,432 ب بان ربک اوحى لها (الزلزال : ٦.٢)34 تعالوا الى كلمة سواء بيننا ( آل عمران: ۲۵)۴43 تبارک الذی بیده الملک الملک: ۳.۲)158 تلك الايام نداولها بين الناس (آل عمران: ۱۴۱) 170 تتجافى جنوبهم عن المضاجع (السجدہ : 1 )85,208 ج جعل الله الكعبة بيت الله (المائده: 30898 جند ما هنالک مهزوم(ص: ۱۲)398,408 خ خلقاً من بعد خلق(الزمر: ) 28 ذالك بان اللــ آمنوا(محمد: ۱۲)173 ز ين لما انزلت الى من خير 150(ra: ـلقت هذا باطلا آل عمران: ۱۹۱ ۱۹۲)20 ربنا وابعث فيهم رسولاً من هم (البقره: ۱۳۰)79 ربنا انـی اسـکـنت من ذريتي بواد غير ذي زرع (ابراهیم: ۳۸)300 انش ستجدن الصابرين (الصافات: ۱۰۳.۱۰۲)258 سيهزم الجمع ويولون الدبر القمر: ۴۶ )398 عزيز علیکم(التوبه: ۱۲۸ 387 غ اعنتم - غير المغضوب عليهم (الفاتحه : 37 ف فأذا فرغت فانصب (الانشراح: 47.4 فالف بين قلوبكم فاصبحتم ( آل عمران : ۱۰۴)5 فانی قریب (البقره: ۱۸۷ ) - 106,137,141 فويل للمصلين الذين هم عن صلاته ساهون (الماعون ۵.۸)206 فضلتكم على العالمين(البقرة: ۸۴) 3 فلعلک باخع نفسک (الکھف: )56,309 فمن هم من قضى نحبه و منهم من ينتظر
خطابات طاهر قبل از خلافت (الاحزاب : ۴۳) 87 فما بكت ع والارض (الدخان: ۳۰)422 ما يعبؤا بکم ربی (الفرقان: ۷۸ 152 حمد رسول الله والذين معه اشداء على الكفار (الفتح: ۳۱) - 370,378 فلما أسفونا انتقمنا منهم (الذخرف ۱۵۶)423 من كان في هزي اعمى فهو في الاخرة اعمى المغضوب عليهم (الفاتحه : )162 فمن كان يرجوا لقاء ربه فليعمل عملا (بنی اسرائیل: ۷۳)103 صالحا الكهف: ۱۱۱)106,212 فلما بلغ مع السعى (الصافات: ۱۰۳.۱۰۸)302 من يطع الله والرسول(النساء: ۷۰)108 فبشرناه بغلام حلیم (الصافات: ۱۰۲ ۱۰۳)258 ق نورهم يسعى بين ايديهم التحريم: 9) - 98 الهتكم (الانبیاء : 19 - 257,276 ایانار کونی بـــ وسلاما (الانبیاء : ۶۹-۷۰ )257 روا قال انظرني الا يوم يبعثون (الاعراف : ۱۵)118 قد افلح المومنون(المومنون: ۳.۲)210 قل اعوذ برب الناس (الناس: ٢)172 قل ان صلاتی و نسکی (الانعام: 212۱۳۶ ک افواههم(الكهف: ٢.٢)37,44,56 كتب على نفسه الرحمه (الانعام: ۳۱)161 كن فيكون ()25 ل هنالك ابتلى المومنون (الاحزاب: ١٢)375 هــــو الذى يسيـــــــر كــــــ والبحر(يونس: 143۳۲.۲۴ هو الذى بــعـــث فـي الاميين رسولا منهم (الجمعه: ۳.۴) - 236 هو الذي ارسل رسوله بالهدی و دین الحق (الصف: ١٠ ) - 236 هو الله الذي لا اله الا هو الملک القدوس (الحشر: ۲۵.۲۳) - 157 و ولما راً المومنون الاحزا هذا (الاحزاب : ۲۴.۲۳)398 وكـــايـــن مــن نبــــی قـــاتــل مـعـه ربیون (آل لعلک باخع نفسك الايــكــونــوا عمران: ۱۴۸ ۱۴۷ )318 مومنين(الشعراء: ۴)309 وجاهدوا باموالكم و انفسكم (التوبہ: ۴۱)354 ليغفر لك اللـه مـاتـقـدم مـن ذنبك ومـا وعـــــد الـــــــــه الـــذين آمنوا وعــمــلــوا تأخر (الفتح : ٣) - 440 الصالحات (النور: ۵۶)216 لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون (آل عمران واما بنعمت ربک فحدث (الضحی : ۲۱)12 ويؤثرون على انفسهـم ولـو كــان بـهـم 260(9: خصاصة(الحشر: ١٠ )93,264 لیبلوکم ایکم احسن عملا (الملک: ۳) 169 لا يكون دولة بين الاغنياء منكم (الحشر: ٨)171 وكان يامر اهله بالصلوة (مریم ۵۶)291 له معقبات من بين يديه (الرعد: ۱۲ )340 ليس على الاعمى حرج (الفتح : 349 م ما ننسخ من آية اور ننسها (البقره: ۱۰۷ )28 ولله ما في السموات وما في الارض (آل عمران ۰ ۱ ۱ )158 واذ مس الانسان الضر دعانا لجنبه(يونس:١٣) 143-
خطابات طاهر قبل از خلافت والس ـاء بنيـ نها بايد وانا LO 5 372(1+: لموسعون (الذاریات: 184,187 يـــــايهــــا الانسان انک کادح الی ربک واذا سالک عبادی عنی فانی قریب (البقره: ۱۸۷) - كدحا : الانشقاق) - 211 106,137,141 يعبدونني لا يشركون بی شیئاً (النور : ۶۵) 120 واخفض لهما جناح الذل من الرحمة ( بني اسرئيل: يارب ان قومي اتخذوا هذا القرآن مهجوراً(الفرقان: ۳۱)229 114(ro وم ـــن ابراهيم (البقره: ۱۳۲.۱۳۱)256 ورحمتي وسعت كل شئ (الاعراف: ۱۵۷)161 ـلة و اذن في النــاس بــالـحـج (الحج: ۳۰.۲۸) 296,306 يايها الناس انی رسول الله عليكم جميعا (الاعراف: ۱۵۹)306 1 وما منا له الا مقام معلوم (الصافات : ۱۶۵ ) - 116 حضرت ابراہیم علیہ السلام و في اموالهم حق للسائل وا ، والمحروم (الذاريات: 128(۰۲ وما ينطق عن الهوى ان هو الا وحي يوحى (النجم:۵،۴)159 79, 94, 298, 299, 301,303 جب قربانی کیلئے آپ نے اپنی اہلیہ اور بچے کو چھوڑا.300-298 ومــــــا رمـــــــت اذ رميت ولكن اللـ آپ کی قربانیوں کا ذکر 299-302 رمی (الانفال: ۱۸)213 حضرت اسماعیل کی قربانی کا واقعہ 301-302 وما من دابة الا على الله رزقها (هود: ۷ (167 علامہ ابن اسحاق 340 161- وما ارسلناک الا رحمة للعالمين (الانبياء : ۱۰۸) ابن الله 42,44 ويطعمون الطعام على حبه مسكينا و حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ - 98 يتيما (الدهر : 9) - 93 آپ کی روایت کہ حضرت عمرؓ کے منہ سے جو کلمہ نکلتا اللہ تعالیٰ و استفز من استطعت منهم بصوتک (بنی ویسے ہی کر دکھاتا تھا 98 اسرائیل: ۶۵)146 والذين هــم عــلــى صــلــواتهم حافظ ابن كثير - 402 يحافظون (المومنو: • )211 ولو ان ما في الارض من شجرة اقلام حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (لقمان: ۲۸ 176 ی 337, 366, 367, 427, 430 حضرت ابو جندل 437-434,435 ย ياتين من كل فج عميق (الحج: ۳۰.۲۸) 296 حضرت ابود جانه -1370 يس والقرآن الحكيم (يس: ۴۲ )174 ويؤثرون على انفسهم ولو كان بهم حضرت ابو شماسه 95 خصاصة (الحشر: ١٠)92 يجيب المضطر اذا دعاه (النمل: ۶۳)145 ابوطالب 354 يايها الذين أمنوا اذكروا نعمة الله (الاحزاب حضرت ابو عبیدہ بن الجراح - 337
خطابات طاهر قبل از خلافت ابولولو فیروز جس نے حضرت عمر فاروق کو شہید کیا - 26 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ 37,229,277 6 122 نظام خلافت کا قیام صدر انجمن احمدیہ کا قیام 122-133 تحریک جدید کا قیام وقف جدید کا قیام ذیلی تنظیموں کا قیام 133-122 133-122 133-122 جب کسری کا رومال آپ کی خدمت میں پیش کیا 277 اخلاق عالیہ اتفاقات اتفاق اور ارتقائے انسانیت 30 اٹلی احمدیت 181 6-8, 11, 72, 101, 104, 105, 109, 111-114, 118, 119-124, 126, 127, 128, 130,132,178, 193, 240, 276, 277,284, 293, 294 مختلف قسم کے اخلاق کو پرکھنے کے لئے مختلف قسم کی کسوٹیاں ہوتی ہیں 371 اذان نماز اور اذان کی حقیقت 197-199 ارتقاء ارتقاء صرف ایسی ترقی کو کہتے ہیں جس کے دوران میں کسی جاندار کی جنس اور نوعیت ہی تبدیل ہو جائے 26 اتفاق اور ارتقائے انسانیت 30 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی - 17-35 نیز دیکھئے جماعت احمدیہ احمدیت نے دنیا کو کیا دیا احمدیت نے دنیا کو کیا دیا 101-113 اردن 181 ارسطو ( فلسفی) 18,22 احمدیت کے پیدا کر دہ انقلابات 101-113 ازواج مطہرات احمدیت اور اسلا کی خدمات 101-113 احمدیت اور بنی نوع انسان کی خدمت 101-113 93,250 احمدیت نے اسلام یعنی حقیقی اسلام کے سوا دنیا کو کچھ اور نہیں اسد اللہ خان غالب - 54 دیا اور ایک شوشہ کی بھی تبدیلی دین اسلام میں نہیں کی 101 احمدیت نے جو دنیا کو سب سے بڑا فیض عطا کیا وہ یہی لقاء اردن 181 الہی کا فیض تھا 109 احمدیت نے دلائل سے ثابت کر دیا کہ مسیح ناصری علیہ السلام 113-111 اسرائیل 3, 110, 189, 190 احمدیت آنحضرت ﷺ کے ارفع مقام کی تنقیص اور اس اسلام ( نیز دیکھئے مسلمان ) فوت ہو چکے ہیں غلطی کی اصلاح کی دفاع اسلام کیا 110-109 116-114 ملائکتہ اللہ کے متعلق بھی مسلمانوں میں رائج غلط نظریات کی اصلاح 120-114 7, 9,13,15,19,57,58,59,61, 65,67,70,73-75,95-97,100-109,111-132,135, 152,157,158,159,161-176,179, 181,185, 188, 192, 193, 204, 215- 218, 223, 224, 226, 227, 230, 233-241, 243-250, 253-257,267,271, 275, 297, 300,302,306,312,314,318,326, 124-122 دجال کے بارہ میں غلط نظریات کی اصلاح 120-122 حشر نشر اور زمانہ قبر کے متعلق بھی رائج نظریات کی اصلاح
خطابات طاهر قبل از خلافت 7 330-335,343,346,347,363,373, 375,386,389,393,395,403-405,410, 416, 419, 424, 430, 433, 437 اشاعت اسلام اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانی 255 اشتراکیت 131, 157-163, 165-168, 170-174, 188 166-160 164-159 اسلام اور سوشلزم راشتراکیت اسلام اور سوشلزم اسلام اور اشترا کی تعلیم کا موازنہ اسلامی اصول کی فلاسفی -16 اسلامی فرقے اثنا عشریہ 218 اسماعیلیہ 218 اہل حکم 218 46 اشتراکیت کی بنا خدا کے انکار اور انسان کی آزادی پر ہے 158 مارٹیس کو اشتراکیت میں خدا کی حیثیت دی جاتی ہے اور لین کو نبی کی حیثیت دی.159 اسلام اور اشترا کی تعلیم کا موازنہ 166-160 اشعار ( بلحاظ حروف تہجی ) اہل سنت 218 آسمان پر دعوت حق کے لئے اک جوش ہے 231 اہل عدل 218 بریلوی 218 تبریہ، 218 اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں 100 اک دیں ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے 222 امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں 222 نویه 218 اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا 80 چکڑالوی 218 اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے 222 حیثین 218 بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد 66 حنبلی 218 بشارت تو نے دی اور پھر یہ اولاد خفی 218 بلا سے کوئی ادا انکی بدنما ہو جائے خارجیہ 218 بھیج اب امام مہدی کو 66 224 226 دروزی 218 بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار 90 دیوبندی 2128 شافعی 218 شیعہ 218 قدریہ 218 بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو 223 پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے 222 پھر اک باغ دیکھے گا اجڑ ا سراسر 222 پھری ہے نظر دیر سے باغباں کی 222 کرامتی 218 تباہی کے خواب آرہے ہیں نظر سب 222 لحمد 218 تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی 222 مالکی 218 مرجیہ 218 معتزلہ 218 وہیہ 218 حضرت اسماعیل علیہ السلام , 79, 290, 30 تم کبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو 222 تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں 222 تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے 54 تیری آنکھ میں میرا نور ہے مجھے کون کہتا ہے دور ہے 139 تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں 205 جب باپ کی جھوٹی غیرت کا خون جوش میں آنے لگتا تھا 90 جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے 318
خطابات طاهر قبل از خلافت جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود 21 چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا 21 کوکل دیکھ کر چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے 21 حرم کعبہ نیابت بھی نئے تم بھی نئے 222 خدایا تیرے فضلوں کو کروں یاد 66 دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے 222.رکھ پیش نظر وہ وقت بہن جب زندہ گاڑی جاتی تھی شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود 222 صدا اور ہے بلبل نغمہ خواں کی 222 صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے 133 فریاد ہے کشتی امت کے نگہبان 222 90 8 وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا اشعار (عربی) 80 إني أرى فِي وَجْهِكَ الْمُتَهَلِلِ 311 الا أَقومُ الدَّهْرَ فِي الْكَيُّول أَنَا الَّذِي عَاهَدَنِي خَلِيْلَيْ 341 341 82,312 أَنْظُرُ إِلَى بِرَحْمَةٍ وَتَحَيْنِ جِسْمِي يَطِيرُ إِلَيْكَ مِنْ شَوْقٍ عَلَى 311 صَادَفَتَهُمْ قَوْمًا كَرَوُثِ ذِلَّةٌ الصَّالِحُونَ الْخَاشِعُونَ لِرَبِّهِمُ فَدَمُ الرِجَالِ لِصِدْقِهِمْ فِي حُبِّهِمْ 97 290 96,303 334 فَظَلْتُ عَدْوَا أَظُنْ الْأَرْضَ مَائِلَةً کبھی بلبلوں کی صدا میں سن کبھی دیکھ گل کے نکھار میں 139 کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا 35 کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں تیری جبین نیاز میں 139 کہاں کہاں میں بچاؤں کہاں کہاں دیکھوں 224 66 کہا! ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد کہیں تازگی کا نہیں نام جس پر 222 کیا عجب تو نے ہر اک ذرہ میں رکھے ہیں خواص 21 کیا نہ بیچو گے جول جائیں منم پتھر کے ؟223 کیجئے اب دعا کہ اے مالک کیوں عجب کرتے ہوگر میں آ گیا ہو کر مسیح 231 مجھے دیکھ رفعت کوہ میں مجھے دیکھ پستی کاہ میں 139 مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں 139 226 فَقُلْتُ وَيْلٌ لِابْن حَرْب عَنْ لِقَائِهِمْ 334 96,303 قَامُوا بِأَقْدَامِ الرَّسُولِ لِغَزُوهِمُ كَذَبْتُمْ وَبَيْتُ اللهِ تُخْلِى مُحَمَّداً 354 288 لَهِ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ غَيِيٌّ مِرْجَلٍ وَارَى الْقُلُوبَ لَدَى الْحَنَاجِرَ كُرْبَةً 424 وَتَوَرَّمَتْ قَدَ مَاكَ لِلَّهِ قَائِمًا يَا حِبِّ إِنَّكَ قَدْ دَخَلَتْ مَحَبَّةٌ يَا رَبِّ صَلِّ عَلَى نَبِيِّكَ دَائِمًا يَا عَيْنَ فَيُضِ اللَّهِ وَالْعِرُفَانِ اشعار (فارسی) این چشمہ رواں کہ خلق خداد ہم میری ایک شان خزاں میں ہے میری ایک شان بہار میں 139 اے محبت عجب آثار نمایاں کردی نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل 222 نہیں تازگی کا نہیں نام جس پر 222 100 نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہو 223 وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود 222 وہ پیشوا ہمارا جس سے نور سارا وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں 222 وہ دیں کہ ہمدرد بنی نوع بشر تھا 222 ہاں اک دعا تیری کہ مقبول خدا ہے 222 ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج ہوئے روکھ جس کے جلانے کے قابل 222 ہے اس سے یہ ظاہر کہ یہی حکم خدا ہے 222 یہی ہیں پنج تن جن پر بنا ہے تیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ 232 66 80 بروں آئے زمنزل اختفاء بیا اے امام ہدایت شعار زور ئے ہمایوں بیفکن نقاب صد حسین است در گریبانم لوائے ماہ پنہ ہر سعید خواهد بود! اصحاب الصفہ 229 اطفال الاحمدیہ 125,126 288 311 312,369 82 195 352 225 225 225 223 133 افریقہ 77,123,253 افغان را فغانستان 264,269 ڈاکٹر سر محمد اقبال 139179,207
9 خطابات طاهر قبل از خلافت 222, 223, 240 اسلام میں نبی کی حیثیت 159 میں نبی مولانا الطاف حسین حالی 220 صدرا جمن احمد یہ 128 123 1,122 انجیل 55177 الہام 190,247 ,175 ,73,149 ,69 ,68 ,62 | انڈونیشیا 181,272,373 255,423 وحی و الہام کا سلسلہ جاری ہے 108 اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کو الہاما قرآن کریم کی تفسیر سمجھائی 176 حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ 98,340, 356 حضرت انس بن مالک بن نضر 357 الہامات و کشوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام انصار الله - 126-127 اردو الہامات جب احمدی نوجوان اپنی عمر کے چالیس سال پورے کر چکتے آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام...257 ہیں تو ان پر مجلس انصار اللہ کے دروازے کھولے جاتے دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا 423 ہیں 126 زار بھی ہو گا تو ہوگا اس گھڑی با حال زار 162 انگلستان 45,181 میں تجھ کو ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں 63 عربی الہامات اوج ثریا 729 مظهر الاول والاخر ومظهر الحق والعلاء كأن الله ايشيا - 122,131 نزل من السماء 61 الہی جماعت 5 حضرت مریم النساء بیگم ام طاہر - 285 حضرت منشی امام الدین آپ کی اہلیہ کی مالی قربانی 261 امام مہدی -26-24 امرتسر 249 امریکہ 130, 181, 190, 192, 252, 253 ساؤتھ امریکہ انبیاء رسل 181 فریڈرک اینجلز 159 نارمن اینجلز الله 18 با جماعت نماز آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کا یہ اسوہ تھا کہ فرض نماز پانچ وقت مساجد میں جا کر باجماعت ادا کی جائے 201 با جماعت نماز کثرت میں وحدت کا منظر پیش کرتی 201 باجماعت نماز یہ سبق دیتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی نظر میں سب انسان بحیثیت انسان برابر ہیں 202 با جماعت نماز کے کچھ تمدنی فوائد 202 بائیل 18, 28, 41-43, 80, 187, 243, 247, 314 2, 5, 9, 39, 110, 150, 153, 185, 228, 244 عہد نامہ جدید 239, 248
خطابات طاهر قبل از خلافت بائیل کی الہامی حیثیت 41 حضرت بدھ علیہ السلام - 41,305 برکات خلافت 126-120 10 10 بنو اسد 375,388 بنو اسعد 375 بنو خزاعہ 334 دنیا کی اکثریت نظام خلافت کی برکات سے محروم ہے 120 بنوسلیم 375 حضرت برہان الدین جہلمی 276 بنو غطفان 375,400 181 بر ما بریش- 18 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے 251 ا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد لمصل اصبح الموعودة بنو قریظہ , 376, 389, 394, 395, 400, 401, 402, 404 بنومره 375 بنو نضیر 375,387 بنی اسرائیل پیشگوئی مصلح موعود 3,39,41-43,53,74,75,81,91 پیشگوئی مصلح موعود 178-176 بنی اسرائیلی نبی پس منظر اغراض و مقاصد 57-77 غرض و غایت 57-77 پیشگوئی پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات 77-57 اہل پیغام کے اعترضات کے جوابات 71-1-77 علامات پیشگوئی 66-60 خدمت قرآن حضرت مصلح الموعود اور خدمت قرآن 175-193 تفسیر و اشاعت قرآن میں آپ کی خدمات 178-190 تفسیر کبیر ایک بے نظیر تفسیر قرآن 185-180 112 بنی نوع انسان 3, 39, 41, 42, 43, 53, 74, 75, 81, 91, 113, 120, 125-128, 138, 139, 152, 161, 298, 302-309, 312, 326, 384 جین بیپٹسٹ تفسیر کے بارہ میں غیز از جماعت احباب کے تاثرات 185 لوئیس پاسچر-31 18 حضرت بلال رضی اللہ عنہ 85,368 پاکستان 11.14.173,181 سینٹ پال عیسائیوں میں سب سے پہلے سینٹ پال نے نظریہ کفارہ کی بنیا در طی 40
خطابات طاهر قبل از خلافت سینٹ پال اور گناہ وموت کا نظریہ 41-44 پیدائش سورہ فاتحہ کے علاوہ بھی قرآن کریم میں بیسیوں آیات ایسی 11 ہیں جو انسانی پیدائش کے متعلق ایک مکمل نقشہ پیش کرتی ٹرینیڈاڈ ٹ 181,252 ہیں 17 پیدائش عالم پیشگوئی مصلح موعود پیشگوئی مصلح موعود 201 178-176 پس منظر اغراض و مقاصد 57-77 غرض و غایت 57-77 پیشگوئی پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات 77-57 اہل پیغام کے اعتراضات کے جوابات 71-1-77 علامات پیشگوئی پیشگوئیاں 66-60 , 57, 59, 60, 62, 64, 67, 68, 69, 70, 71, 73, 170, 190, 236 حضرت ثابت بن دحداحہ 357 محمود 228,423 ج حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ 384-386 آپ کا اخلاص اور قربانی 386 جاپان تخلیق کائنات 181,372 جامعہ احمدیہ جرمن جرمنی 181,238,373 179,180 ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی -17-35 تذکرہ مجموعہ الہامات 255,274,423 تعلق باللہ 46,59,389 تورات 18,98 توحید باری تعالیٰ جلسہ سالانہ 17, 37, 57, 79, 101, 135, 195, 215, 235, 259, 295, 313, 316, 370, 409 عرب کے مشہور تیرانداز قبیلوں کا سردار 414 جماعت احمدیہ ( نیز دیکھئے احمدیت ) اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانی 255 2, 19, 73, 101, 133, 174, 281, 314 56,80,102-105, 120, 121,125,195, 212, 215, 218, 228, 232
خطابات طاهر قبل از خلافت 12 344-351, 354, 359, 421, 431 حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ 83,84 جمال الدین افغانی 218,220 سید جمال الدین عطاء 225 چ چرچ آف انگلینڈ 45 چشمہ معرفت (از حضرت مسیح موعود ).مولانا جلال الدین صاحب شمس ย آپ کے اخلاص اور دینی قربانیوں کا ذکر 270 جنت شہید جنت میں جاتا ہے 87 اسلام کی جنت کا بنیادی خاکہ یہ ہے کہ کوئی انسان بھی اس 703 چین 10, 11, 57, 59, 83, 107, 122, 250, 338 こ دیا میں نہ نگارہے گا، نہ بھوکا رہے گا، نہ پیا سارہے گا نہ ہے حضرت شیخ حامد علی 274 مکان کے رہے گا 166 جنگ احد ( نیز دیکھئے غزوات ) جنگ احد میں حضور ﷺ کا خلق عظیم حالات جنگ احد صحابہ کی جانثاری کے نمونے شہدائے احد کی تدفین جنگ بدر 88,173 368-317 368-320 368-340 36365 ,212,229,318,321,329,346,354,359 آنحضو ﷺ نے عربوں کی بہادری کو جو نئی تخلیق عطا فرمائی اس 95, 295-298, 303- 310, 312, 411-415, 419, 420, 425, 429, 440 حج تمام پہلے گناہوں کو معاف کرا دیتا ہے 95 حج کا فلسفہ 295 تا 310 بیت اللہ کونج کا مقام بنانے کی اہمیت 305 عشق اور حج 296 مقاصد حج 303 حضرت مسیح موعود کا بیان کردہ فلسفہ حج 296-299 کا اگر کی جاہلیت کی بہادری سے موازنہ کرنا ہو تو میدان بدر پر حدیث احادیث مبارکہ بس ایک نگاہ ڈالنا کافی ہے 88 کفار کے مقابلہ میں تین صد تیرہ صحابہ کرام 88 210, 225, 244, 299 ارم فداک ابی و امی 340 بدر کے موقعہ حضرت مقداد بن اسود کا اخلاص 173-174 اللهم ان اهلكت هذه العصابة فلن تعبد في جنگ خندق دیکھئے غزوہ احزاب جنگ عظیم ثانی 38 جہاد 58, 59, 87, 111, 128, 132, 171, 188, 239, 248-252, 263, 333, 335, 342, الارض ابداً 213,214 اللَّهُمَّ سَجَدَ لَكَ رُوحِی وَ جَنَانِي 211 99 أَصْحَابِي كَالنَّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُم اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ سَرِيعَ الْحِسَابِ اهْزِمِ الأحزاب اللَّهُمَّ اهْزِمُهُمْ وَ انْصُرْنَا عَلَيْهِمْ وَ زَلْزِلْهُمْ.406
خطابات طاهر قبل از خلافت 13 خَذْ لٌ مَا اسْتَطَعْتَ فَإِنَّ الْحَرُبَ خُدُ عَة403 رَبِّ لَا لِي وَلَا عَلَى 87 رُبَّ أَشْعَتْ أَغْبَرَ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَابَرَّه سهل امركم سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ 98 425 378 89 مَنْ لَمْ يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ احادیث با معنی اللہ تعالیٰ کا ایک گڈریہ سے بڑا پیار کرنا جو نماز کے وقت اذان دیتا اور نماز پڑھتا ہے.292 آنحضرت ﷺ اس قدر عبادت کیا کرتے تھے کہ عبادت 408-370 حدیبیہ کا پس منظر 411-410 حضرت حمنہ بنت جحش - 363 جنگ حنین جنگ حنین کے موقعہ پر صحابہ کا اخلاص اور قر بنایاں 294-293 خ میں کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے تھے 207 خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کی روایت کہا ایک رات میری آنکھ کھلی میں نے قرآن کریم سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صلى محمد مصطفی علی کو بستر پر نہیں پایا 287 فلسطین کے علاقہ میں اسلامی لشکر آئے گا 190 نماز کے بعد ۳۳ دفعہ سبحان الله ۳۳ دفعہ اللہ اکبر اور ۳۴ دفعہ الحمد للہ کہا کرو 289 حضرت حارث بن معمر -337 حضرت حباب بن منذر - 337 حج / زیارت فلسفه حج 312-294 سب سے بڑا مقام جس میں کوئی دوسرا آپ کا شریک نہیں مقام خاتم النبيين" ہے 110 حضرت خالد بن ولید 87, 318, 319, 322, 323, 329, 412 جنگ احد میں آپ درہ سے مسلمانوں پر حملہ کرنا 320-324 بستر مرگ پر آپ کی تمنا و آرزو خانہ کعبہ بیت اللہ 87 79, 222, 297, 298, 305, 307, 414, 415, حد حج اور عشق کا فلسفہ 295-297 440 حضرت مسیح موعود کا بیان فرمودہ فلسفہ حج 296-298 خانہ کعبہ کا پتھر یعنی حجر اسود ایک روحانی امر کے لئے نمونہ قائم حج کی حکمت 303 حج وحدت انسانی کا ایک عظیم درس ہے.303 کیا گیا ہے 297 تعمیر بیت اللہ 299-298 حج میں بنی نوع انسان اس طرح ایک ہو جاتے ہیں کہ دنیا کے بیت اللہ دراصل حضرت محمد مصطفی علیہ کے لئے ایک بنیاد کا پردے پر ان کی کوئی مثال کہیں نظر نہیں آتی 303 عبادت کا ارتقاء حج پر جا کر ختم ہوتا ہے 306 کام دیتا تھا.اس چشمے میں بھی دراصل اس کوثر کی طرف الله اشارہ تھا جو آنحضرت ﷺ کو عطا ہونے والی تھی 300 حج کا پیغام یہ ہے کہ خدا سے ملنے کے بعد بنی نوع انسان کی خدام الاحمدیہ - 130 177,126,129 طرف لوٹ جاؤ 307 حدیبیہ کے موقعہ پر حضور ﷺ کے اخلاق عظیمہ کے نظارے 440-410 پره میدان حدیبیہ میں حضور ﷺ کے صحابہ کی قربانیاں.خلا و بین حضرت عمرو بن جموح غزوہ خندق میں آپ کا اخلاص اور شہادت 350-349 خلافت 62, 64-71,119-125,127,155,215-219, 223, 224, 226, 228, 230, 233, 234
خطابات طاهر قبل از خلافت نظام خلافت کے خدو خال 121 14 حضرت داؤد علیہ السلام 248 دنیا کی اکثریت نظام خلافت کی برکات سے محروم ہے 120 خلافت راشده دجال 112,118,119 اسلام کے تنزل کا آغاز خلافت راشدہ کی ناقدری سے دعا.ہوا 215 خلافت راشدہ کا نظام وہ جزا ہے جو تو حید پرستوں کو اسی دنیا میں عطا ہوتی ہے 120 خلافت راشدہ کے قیام کے بغیر حقیقی توحید کا قیام ممکن نہیں 120 خلافت احمد یہ خلیفہ (نیز دیکھئے برکات خلافت ) 124, 125, 155,229 اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفۃ الرسول سے وابستہ ہے 234-215 60, 63, 65, 70, 73, 74, 107, 135, 136, 137, 138, 140, 144, 147-154, 186, 200, 214, 220, 221, 267, 280, 299, 312, 338, 339, 347, 363, 365, 380, 393, 406, 413, 437 آداب آداب دعا میں سے ایک اہم ادب صبر ہے 149 فلسفه مکمل نظام روحانی جو خلافت راشدہ احمدیہ کے ذریعہ دنیا کو فلسفه دعا 135-137,155 عطا ہوا کوئی معمولی معجزہ نہیں 126 خلافت احمد یہ اور شریعت اسلامیہ 122 منکرین خلافت کے اعتراضات کے جوابات خلافت محمد یہ 217,224,233,234 65-64,69,70 دعا کا فلسفہ اور حضرت مسیح موعود کی تعلیمات 137-150 قرآن کریم اور دعا کا فلسفہ 138-142 قبولیت دعا قبولیت دعا کے تین مدراج 138-140 } خلیفۃ الرسول 215,217,230,234 چارلس ڈارون-18 سیدنا حضرت خلیفتر امسیح الاول 257 ڈنمارک 181 سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ڈیمیتری شاستا گووچ (دیکھئے زیر عنوان حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ) فنی آرکسٹرا کا ایک مشہور ماہر حضرت خوات بن جبیر 404 ڈیرہ بابانا تک 245 160 ریوه-226 حضرت مولانا رحمت علی مبلغ انڈو نیشیا آپ کے اخلاص اور دینی قربانیوں کا ذکر 272
خطابات طاهر قبل از خلافت 15 رسول، رسالت و نبوت ( دیکھئے زیرعنوان حضرت سعد بن معاد - 337,404 انبیاء) حضرت سہل بن حنیفہ - 337 رمضان المبارک روزے صیام حضرت طلحہ بن عبید الله - 337 299,428 جیمز روڈ ویل 188 حضرت سعیدة النساء بیگم ابی حضرت ڈاکٹر سیدعبدالستار آپ کی مالی قربانی کا ذکر 261-262 روحانی خزائن حضرت اقدس ( دیکھئے زیر کتابیات) سنسکرت 241,242 ریڈی (Francesco Redi) - 31 ہندو مذہب کے تمام فرقے اپنے اندرونی اختلافات کے با وجود اس عقیدے اور دعوے میں متفق تھے کہ سنسکرت وہ واحد الہامی زبان ہے 241 ز زبور 80 حضرت زبیر بن العوام-337 حضرت زرتشت علیہ السلام 41,305 حضرت زینب رضی اللہ عنہا - 289 سنگا پور شیخ سنوسی سوئٹزرلینڈ 181 225 181 سیالکوٹ-263,276 سیرالیون آپ کا ستونوں میں رسی باندھنا تا دوران عبادت تھکاوٹ سے سہارا لیا جائے اور حضور ﷺ کا اظہار نا پسندیدگی 289 جولیس سیزر سائنسدان س سائنسدان اور ہستی باری تعالی -17-35 ارتقائے انسان اور سائنسدان -17-35 ساؤتھ امریکہ 181 سٹالن 160 سدوم 228 سر الخلافة 290 سیوا جی 236 سویڈن 181 شام 181 181,225 18 ش شعر ( دیکھئے زیر عنوان اشعار ) حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد 11 ویم شیکسپیئر ان کا ڈرامہ Anthony and Cleopatra -23 حضرت سعد بن ابی وقاص 337-
خطابات طاهر قبل از خلافت ص 106,148,212,430 صالح صالحیت -148-147 صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم.8, 92, 96, 98, 99, 202, 213, 217, 250, 251, 261, 277, 281, 288, 289, 293, 294, 302, 303, 314, 322,-328, 332, 335, 336, 339, 345- 354, 357, 359, 360, 363,375-378, 382- 386, 390-394, 399, 407, 412-416, 419-437-440 16 صلوٰۃ دیکھئے ( زیر عنوان نماز ) صلیبی موت مسیح کی صلیبی موت اور گناہ و سزا کا فلسفہ 56-60 طحظ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد 314 آپ کا وقف جدید کے سلسلہ میں پاکستان کی مختلف جماعتوں کا دورہ کرنا -4-5 آپ کا بیان کہ حضرت خلیفہ اسی الثانی ایک موقعہ پر نماز کی اہمیت کو قائم کرنے کیلئے مستورات کو یہ حکم دیا تو ہمارے گھر میں مہینوں مہینوں باجماعت نماز ادا ہوتی رہی 285 حضرت طلحہ بن عبید الله جنگ حنین کے موقعہ پر صحابہ کا اخلاص اور قربنایاں 294-293 قربانیوں کا تذکرہ -293-294 غزوہ احد میں صحابہ کی جانثاری اور فدائیت کے نمونے 369-345 غزوہ احزاب میں صحابہ کی جانثاری اور فدائیت کے نمونے 408-370 337, 339, 340, 349, 366, 367, 388 جنگ احمد کے موقعہ پر آپ کا حضور علیہ کی حفاظت کا واقعہ 349-337 طواف کعبہ نیز دیکھئے خانہ کعبہ 297, 298, 411, 414, 418, 440 83,102 صلح حدیبیہ میں صحابہ کی جانثاری اور فدائیت کے نمونے ظاہر پرستی 440-413 حضرت منشی ظفر احمد کپور تھلوی 260 صحابہ حضرت مسیح موعود - 8,281 مولوی ظفر علی خان 178 نواب صدیق حسن خان 224 صفات الہیہ رحمانیت 142 صفات حسنه 209,421 86,145,153,157,314 ع حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا 20,201,283,287,350 عادل صلح حدیبیہ نیز دیکھئے زیرعنوان حدیبیہ.قرآن کریم میں کہیں ایک جگہ بھی خدا تعالیٰ کو عادل بیان نہیں حدیبیہ کے موقعہ پر حضور ﷺ کے اخلاق عظیمہ کے کیا گیا البتہ اس کی ذات پر سے ظلم کی بار بارفی کی گئی ہے 50 نظارے 440-410
خطابات طاهر قبل از خلافت 17 حضرت عاصم بن ثابت 337 عبادات حضرت عبداللہ ابن مكتوم-283 شیخ عبد الحفيظ 11 ,171 ,140 ,126 ,121 ,103 ,111 مولوی عبد الرحمن مبشر 199, 200, 202, 207, 208, 209, 212-214, 238, 279, 280, 281, 284, 285, 287-296, 299, 303-306, 308, 361, 367, 368, 400 225,226 حضرت عبدالرحمن بن عوف 286,337 حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ عبادت کا آغاز فرد سے ہوتا ہے.حضرت محمد مصطفی ﷺ نے آپ کی اہلیہ کی مالی قربانی کا ذکر 261-262 بطور فرد کے عبادت کی 306 عبادت کا ارتقاء حج پر جا کر جو ختم ہوتا ہے 306 کپتان عبدالکریم صاحب ان کی اہلیہ کی مالی قربانی 260-261 خدمت خلق بہتر رنگ میں اپنے رب کی عبادت کرنے کے درس دیتی ہے 125 عبودیت اور عبادت 140 نماز سب عبادتوں کی جان ہے 195 عباداللہ 139, 141, 144, 146 عبادالرحمن عبادالرحمن کی شان و علامات 150-154 , 97, 147, 148, 150, 152,372,377 حضرت عبیدہ بن حارث 354 حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ 81, 217-421, 423, 424, 425, 430 عدل عدل اور کفارہ کے نظریات 47-50 عیسائیت عدل کی رو سے خدا تعالی کو صرف ظالم ٹھہراتی ہے جسے نہ تو سزا کی حکمتوں کا کوئی علم ہے اور نہ گناہ کی ماہیت سے کوئی واقفیت 49-51 عبد رعباد عبد اور عباد کی تفسیر عباد کی تین اقسام عباد الرحمن کی شان عدالت خان 269 142-138 146-139 ' 3, 79-91, 93, 97, 99, 153, 209, 236, 154-154 300, 352, 373, 375, 383, 388, 389, رب اور بندے کا تعلق 143 حضرت عباس 293 حضرت عباس بن عبادہ 356,357 399, 410-417,436, 437 296 عربی لغت حضرت عروہ بن مسعود - 415,420 ย عباسی خلفاء 219 حضرت عبد اللہ بن جبیر ,326,327323 عصائے موسی 81,105,241 حضرت صاحبزادی عصمت 68 حضرت عکرمہ
خطابات طاهر قبل از خلافت سید نا حضرت علی کرم اللہ وجہہ- 217, 291, 336, 337, 426, 436 18 عیسائیت اور سینٹ پال کے نام نہاد نظریات 42-52 عیسائی عدل کی رو سے خدا تعالیٰ صرف ظالم ہی نہیں بلکہ نادان اور بے سمجھ بھی ٹھہرتا ہے جسے نہ تو سزا کی حکمتوں کا کوئی علم ہے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور نہ گناہ کی ماہیت سے کوئی واقفیت 49-51 74,81,95,87,95,98,216,217,418,427 428,430 آپ کا بستر مرگ پر لالی وَلَا عَلَی کا ورد کرنا 428 حضرت عمرو بن جموع 347,348,349,350,351, غزوہ احد میں آپ کا اخلاص اور واقعہ شہادت 351-349 حضور ﷺ کا آپ کے حق میں فرمانا کہ : بسا اوقات خاک آلود پراگندہ بالوں والا....جو کچھ کہتا ہے کہ ایسا ہو گا.تو اللہ تعالی ضرور ویسا ہی کر دیتا ہے 1 35 حضرت عمر و بن العاص غانا 181 غ غزوات النبي الله 303, 316, 317, 334, 370, 372, 409, 410 غزوہ احد میں آنحضور علیہ کا خلق عظیم 369-317- غزوہ خندق میں آنحضور ﷺ کا خلق عظیم - 371-408 الله صلح حدیبیہ میں آنحضور علیہ کا خلق عظیم - 410-440 وصال کے وقت آپ کا بیان کہ میں نفرت ومحبت کی وجہ سے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام حضور ﷺ کا چہرہ نہ دیکھ سکا 95 حضرت عمیر بن حضیر 337 حضرت عیسی مسیح ناصری علیہ السلام 39,103,110,112,243,247 1, 3, 6, 20, 22, 33, 47, 48, 58, 62-67, 68, 71, 72, 97, 115, 116, 150, 162, 175, 181-184, 188, 196, 236, 237, 238, 239, 242, 246, 247-250, 280, 281, 284, 285, 288, 290, عوام الناس کا آپ کی طرف خدائی صفات منسوب اسلام کے بطل جلیل 235-253 کرنا 103 آپ کی احیائے اسلام کیلئے خدمات 234-253 قرآن کریم فرد بشر کی جسم سمیت آسمان پر جانے کی نفی کرتا تجدیدی کارنامے ہے 104 عیسائیوں کی طرف سے آپکو تمام دنیا کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے 247 وفات مسیح عبادات 253-234 حضرت مسیح موعود کا طریق تھا.آپ نماز کو اتنی اہمیت دیتے تھے کہ گھر میں نماز قائم رہی ہمیشہ قائم رہی 291 احمد بیت نے وفات مسیح کو ساری دنیا کے سامنے پیش کیا 111 غلام حسین صاحب ایاز قرآن میں آیات سے مسیح کی وفات ثابت کرتا ہے 243 آپ کے اخلاص اور دینی قربانیوں کا ذکر 271 وفات مسیح حضرت اقدس کا تجدیدی کارنامہ 243-245 حضرت صوفی غلام محمد مبلغ ماریشس - 148 عیسائی رعیسائیت انصاری عیسائیت انسانی صلاحیتوں کے بارے میں مایوس منظر پیش کرتی ہے 38
خطابات طاهر قبل از خلافت سید غیاث الدین 225 سورۃ فاتحہ نصاری کے شر کا ذکر 118 فاران 81,233 11 چوہدری مح محمد ۱ ف 181,252 فرشتے دیکھئے زیر عنوان ملائکتہ اللہ فرائیڈ 188 فرعون 75,189 فضل عمر فاؤنڈیشن 130 19 قبولیت دعا کے آداب 145-146 قرآن کریم ( نیز دیکھئے آیت قرآنیہ ) 5, 17-19, 24, 27, 31, 32, 50, 77, 94, 97,103,107,110-119,121,122, 129,138,148,150,152,157-162,168, 171-185-192, 195, 201, 206, 209, 210, 212,218,227-229,236,240-246, 248,279, 281, 282, 285, 286, 290,294- 298, 300, 301, 305, 307,311, 313-315, 329,357,362,373,385,386, 389,391,395,-398, 406, 422, 431 فضائل قرآن کریم 313-315 قرآن کریم مسلمانوں کو اپنے گرد و پیش پر غور کرنے کی تلقین فرماتا ہے 19 قرآن کریم اور گزشتہ تاریخ 24 قرآن کریم پیدائش انسانی کے بارہ میں جو نظریہ پیش کرتا ہے وہ اچانک پیدائش کا نظریہ نہیں بلکہ ارتقائی اور تدریجی پیدائش کا نظریہ ہے 24 فرماتا ہے کہ وہ بغض اور نفرت کو شدید محبت میں تبدیل کرنے حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب قرآن کریم قوت قدسیہ کی پہچان کی ایک کسوٹی یہ بھی بیان آپ کے اخلاص اور دینی قربانیوں کا ذکر 271-272 کی طاقت رکھتی ہے 94 فلسف , 17, 22, 23, 31, 32, 55, 135, 136,138, 143, 147, 158,168,188,195, 230, 248, 295,296,298,300, 303, 305-311, 412 قادیان ق قرآن کریم حضور اکرم ﷺ کا سب سے بڑا مقام مقام کا خاتم النبیین“ قرار دیتا ہے 110 قرآن کریم میں کہیں ایک جگہ بھی خدا تعالیٰ کو عادل بیان نہیں کیا گیا البتہ اس کی ذات پر سے ظلم کی بار بارضی کی گئی ہے 50 قرآن کی کوئی آیت منسوخ نہیں 113 قرآن کریم میں پروں کے الفاظ محض استعارہ کی زبان ہے 115 قرآن کریم کی متفرق آیات فلسفہ دعا کو مختلف پیراؤں میں بیان کرتی ہیں 138 قریش 96, 317, 319, 323, 327-329, 334, 355, 373, 375, 388, 402, 410, 412, 414- 8, 9, 60, 64, 70, 72,100, 107,109, 127, 181,182, 227, 228, 230,240, 245, 246, 285 419, 425, 433, 437 قبولیت دعا ' 135, 136, 138, 140, 142-148, 151, 153, 154
خطابات طاهر قبل از خلافت 20 20 کتابیات پیرمه چشمه آرید - 21,35 صح اسلام - 230,258 کرانات الصادقین - 274,288 کشتی نوح - 148,197 لیکچر سیالکوٹ-152 کتب تاریخ وسیرت و تفسیر وحدیث روحانی خزائن جلد اول-240-239 اقتراب الساعة 402 البدايه والنهايه 224,225 روحانی خزائن جلد دوم - 100 روحانی خزائن جلد سوم-258, 13,117,230, 9 روحانی خزائن جلد چہارم-21,35 جامع صیح بخاری 23582 ,216 ,94,204 ,87 روحانی خزائن جلد پنجم 117,176,312,343, 284, 288, 289 جامع صحیح مسلم 19614686 الصراط السوى في احوال المهدى 225 تاریخ الخميس 217 تاريخ الخلفاء 217 شروح الحرب ( ترجمه فتوح العرب) 250,324, 327, 333-349, 346-357, 359, 361-368, 378, 393, 399, 403, 404 282 47,61,96,97 روحانی خزائن جلد ششم - 100,153,249 روحانی خزائن جلد ا نہیں- 148,197, 109 روحانی خزائن جلد میں-47,152 روحانی خزائن جلد ا کیس.میں 108,133,138,232, روحانی خزائن جلد بائیں-113,119,131,274 ملفوظات جلدا - 209,211 ملفوظات جلد ٢ - 149,150,291,297 ملفوظات جلدم - 206,208,209 ملفوظات جلد ۵- 205 کتب سلسلہ احمدیہ تاریخ احمدیت 240276,284 تفسیر طبری 235 تفسیر کبیر 190-185,188-183 تهذيب التهذيب سیرت ابن ہشام 340,341,344,356,363 مستطاب روضة الاحباب 225 کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تفسیر صغیر 129,191 در عدن 90,139 آئینہ کمالات اسلام - 312,343,424, 117,176, رویا و کشوف سید نا محمود 47,61,96,97 ازالہ اوہام ( از حضرت مسیح موعود ) - 700 براہین احمدیہ چہار حصص 239-240- براہین احمدیہ حصہ جم - 108,133,138,232, بركات الدعا - 100,153 تبلیغ رسالت 60,69,231 توضیح مرام - 117 جنگ مقدس-250-249 حقیقۃ الوحی-131,274, 113,119 در مین اردو - 67,124,162 در تمین فارسی-122,195,223,352 سبز اشتہار 71 177 سوانح فضل عمر 177,260,262,265 سیرت طیبہ 251 موعود اقوام عالم 225,226 متفرق کلیات آریہ مسافر 70 انسائیکلو پیڈیا آف سکھ لٹریچر 237 مقالات جمال الدین افغانی 219 وید 177, 242 The Origin of Life on the Earth 22
خطابات طاهر قبل از خلافت 21 اخبارات ورسائل گولڈ کوسٹ 271 اشاعة السنة 240 خالد ربوہ 369,408,440 گیمبیا 181 14, 129, 179, 186, 260, 261, 262, 271, 315 ل لا الہ الا الله 212 252 لائبیریا 181 الحكم قادیان - 209 136 مصباح 70 منشور محمدی 240 اخبار الفتح قاہرہ حضرت کرشن علیہ السلام 248,305 لجنہ اماءاللہ - 125,129 کعبتہ اللہ ردیکھئے خانہ کعبہ کفاره کیا نجات کفارہ پر ہی منحصر ہے-37-56 نجات اور کفارہ - 37- 56 لندن-60,228,261,262,278 لیکڈے -24 ولادیمیر لینن 174- 1158,160,167,171 کفارہ کی بنیاد اس مفروضے پر ہے کہ ہر انسان لازما گناہ گار لین کو اشتراکیت میں خدا کی حیثیت دی جاتی ہے 59 ہے اور گناہ کے چنگل سے کسی طرح بھی بچ نہیں سکتا 40 عیسائیوں میں سب سے پہلے سینٹ پال نے کفارہ کی بنیاد رکھی 40 رڈ کفارہ کے دلائل 40-50 عدل اور کفارہ کے نظریات 47-50 نظرية كفاره متناقض دعوؤں کا ایک حیرت انگیز شاہکار ہے 49-50 کارل مارکس 158-162, 167, 170, 171, 173, 174 مارکس (Karl Marx) کو اشتراکیت میں خدا کی حیثیت دی جاتی ہے 59 نظریہ کفارہ کو کسی بھی پہلو سے دیکھیں وہ محض لغویات کا ایک انبار نظر آتا ہے اور ایک عام انسان کو نہیں دیکھ کے بنی آجاتی ماریشس 252 56 181 ماسکو 228,238,278 مالی قربانیاں احیائے اسلام کیلئے جماعت احمدیہ کی مالی قربانیاں 266-258 ہے کیپ ٹاؤن اسپٹلزم 166,170 کیمونزم 164,170 كينيا 181 گ قربانی 261 مالی قربا نینوں کے واقعات 258-266 اہلیہ حضرت منشی امام الدین صاحب کی مالی قربانی 261 حضرت سعیدۃ النساء اہلیہ ڈاکٹر عبد الستار شاہ صاحب کی مالی
خطابات طاهر قبل از خلافت 22 22 ماؤزے تنگ 172,173 معجزات حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم 139 آپ نے بے شمار آسمان ہدایت کے ستارے پیدا کئے وصال مبلغین نیز دیکھئے واقف زندگی 90,139 کے بعد بھی یہ آپ کا غیر فانی نورزندہ رہا100 خاتم النبيين مبلغین کی جان مال وقت عزت اور اہل وعیال کی اشاعت قرآن کریم سے ثابت ہے کہ حضورا کر اسلام کیلئے قربانی کے واقعات 270-276 صلى الله حضرت سید نا محمد مصطفی احمد مجتبی چوہدری محمد حسین-260 6,20,33,47,56,61,73,75,82-98, 101-104,109,110, 127,128,135,138, علی مقام خاتم النبیین ہے 110 محمد حسین بٹالوی 239,240,241 ,149159,161,163,172,173,181 139 1 مولوی سید محمد سبطین 184, 202, 204,210, 213, 215-218, 223, 226, 228, 235,236,239,242,244,250, 225 مولوی محمد شریف 240,241 ,251,253,256,259,279-294 | محمد عبد اللہ خان 285 300-303-308,311-314,317,319, 368,370,372-305 322-308,907 حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفه است 398-437,439-440 قوت قدسیہ نبی کریم صلعم کے قوت قدسیہ کے نشانات 79-100 اداری مالی مالیات است الثاني الصلح الموعود , 2, 57-64, 67-74, 109, 154, 175, 177, 180, 183-185, 191, 262, 291, 304 آپ ﷺ کی قوت قدسیہ نے جو فیاض پیدا کئے گویا وہ ایک پیشگوئی مصلح موعود 161918339 نئی مخلوق تھے جن سے فیاضان گزشتہ کو کوئی نسبت نہ تھی 92 آنحضور ﷺ کی قوت قدسیہ نے وحشی انسانوں کو انسان اور مدین 228 پھر انسانوں کو مہذب انسان بنا دیا اخلاق فاضلہ 97 مدینہ منورہ غزوہ احد میں آنحضور ﷺ کا خلق عظیم - 317-368 غزوہ احزاب میں آنحضور ﷺ کا خلق عظیم - 371-408 373, 375, 376, 379, 383, 387, 394, 396, 400, 410, 411, 425, 437 صلح حدیبیہ کے موقعہ پر آپ علیہ کے اخلاق عظیمہ کا ظہور مذہب / مذاہب حضور ﷺ ایک عظیم سپہ سالار کی حیثیت سے 318 عبادات.5, 17, 18, 19, 41, 59, 63, 83, 86, 101, 104, 107, 108, 112, 119, 128, 135, 159, 171, 188, 190, 219, 227, 228238- 245, 247, 305,306 440-410 لے کی قیام لیل کے واقعات 286-287 حضرت عائشہ کی روایت کہ ایک رات میری آنکھ کھلی میں نے آپ ﷺ کو بستر پر نہیں پایا 287 آپ ﷺ کا دستور تھا آپ ہمیشہ اپنے بیوی بچوں کو نماز کیلئے جگاتے اور خودان سے زیادہ عبادت کرتے 290,291 مذاہب اور ارتقاء 17-18
خطابات طاهر قبل از خلافت حضرت مریم علیہ السلام 39,112,244 حضرت مریم النساء بیگم ام طاہر - 15: مساجد 9,76,129,202,204,283 مسجد برلن 260 مستشرقین 285- مستشرقین میں ریورنڈ و ھیری ، نو لڈ کے جمیز روڈویل، ولیم 23 فرشتے خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ مقامات سے ایک ذرہ کے برابر بھی آگے پیچھے نہیں ہوتے 116 فرشتوں کے وجود کے بارہ میں مشاہدات 117-118 حضرت ہاجرہ کی خدمت میں ظاہر افرشتے کا آنا 300 حضرت موسیٰ علیہ السلام 18,81,95,105,107,187,189,241 مهمان نوازی 91,93 میور اور آرنلڈ بڑے بڑے نام ہیں جنہوں نے قرآن ولیم میور 88 پر حملے کئے 188 مسدس حالی 221 مسیح محمدی 77,104,127,154,155,232,245 285 استانی میمونہ بیگم صاحبہ مولانا نذیر احمد صاحب مبشر آپ کے اخلاص اور دینی قربانیوں کا ذکر 270-271 مسیح موعوڈ دیکھئے غلام احمد قادیانی علیہ السلام حضرت میر ناصر نواب دہلوی-260 مشرقی اقدار 238 سید نا حضرت مرزا ناصر احمد (خلیفہ مسیح الثالث ) حضرت مصعب بن عمیر - 358,363 حضرت مغیرہ بن عامر رضی اللہ عنہ - 287 حضرت مقداد بن اسود 121 با وانانک 245 نبی ررسول ( دیکھئے زیر عنوان انبیاء ) بدر کے موقعہ آپ کا اظہار کہ یا رسول اللہ ہم آپ کے آگے نجاشی شاہ حبشہ 83,416 بھی لڑیں گے پیچھے بھی لڑیں گے 173-174 حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنھا مکه معظمه آپ کی نماز کیلئے غیر معمولی محبت ,103,162,163 - نفسانی خواہشات 56,294 , 229, 252, 305, 306, 317, 319, 321-324, 329, 331, 334, 373, 375, 387, 388, 404, 410-418, 425, 426, 432, 433, 434, 437, 440 271 ملایا ملائکۃ اللہ فرشتے نفسات ماہر نفسیات فرائڈ کا ذکر 188 نعیم بن مسعود 40,402,403,405 ,118 - 107,111,116 ,102 ,96 14 نماز صلوة - 291 4, 5, 10, 25, 124, 149, 151, 195-203, 176, 191, 231, 292, 300
خطابات طاهر قبل از خلافت 24 24 204, 207-209, 216, 262, 279-293, 297, 306, 361, 367, 368 حقیقت نماز 195-213 اوقات نماز کی حقیقت 197-196 نماز اور اذان کی حقیقت 197-199 صلوۃ کا تیسرا جز ووضو ہے 199 قرآن نے نماز سے غافلین پر لعنت بھیجی ہے 206 نماز با جماعت , 4, 5, 10, 201, 202-204, 281-285, 288, 289, 290, 292, 306, 368 ایک بزرگ کا قصہ جو ہر شب تہجد کے وقت ایک خاص دعا مانگا کرتا تھا اور عدم قبولیت کی آواز آتی 150-149 جنگ احد کے موقعہ پر حضرت طلحہ کا حضور ﷺ کی حفاظت کرنا کا واقعہ 340-342 جنگ احد کے واقعات 317-368 احمدی احباب وخواتین کے مالی قربانی کے واقعات 276-266 کپتان عبد الکریم صاحب کی اہلیہ کی مالی قربانی 260-261 دہلی کی احمدی خواتین کی مالی قربانیوں کے واقعات 263-262 حضرت مصلح موعود کی تحریک پر جب قادیان میں بجنات آنحضرت ﷺ کا اسوہ اور صحابہ کرام و آپ کی تعلیم بھی یہی مہینوں باجماعت نماز ادا کرتی رہیں 285 تھی کہ فرض نماز پانچ وقت مساجد میں جا کر باجماعت ادا کی جائے 201 واقفين - 179 آنحضرت ﷺ نے نہایت ہی پیارے انداز میں مختلف وحدت انسانی رنگوں میں نماز با جماعت کو قائم کرنے کی نصائح فرمائیں 282 قیام صلوۃ کی حقیقت 208-204,278-294 حج وحدت انسانی کا ایک عظیم درس ہے 304 وفات مسیح دیکھئے زیر عنوان عیسی نماز قائم کرنے کے متعلق قرآن کریم میں بیسیوں آیات وقف جدید ہیں 276-294 نماز با جماعت کی اہمیت 281-282 حضرت نوح علیہ السلام 47,109,131,148,197,228,423 سید نور احسن خان 224 1, 2, 4, 8-11, 14, 15, 123, 125, 130 وضو صلوۃ کا تیسراجز ووضو ہے 199 وقف جدید اہمیت و مقاصد و غرض و غایت - 1-15 حضرت مولانا حکیم نور الدین خلیفتہ امسیح الاول وقف جدید کی تحریک حضرت مسیح موعود کی ایک دیرنیہ آرزو کی 121,257 تعبیر ہے 1 تھیوڈورنولڈ یکے (مستشرق )188 وقف جدید ایک آسمانی آواز جسے مصلح موعود کے ہاتھوں ہم علامہ نیاز فتح پوری تفسیر صغیر جلد سوم پر ان کا اظہار خیال 185 واقعات / حکایات صلح حدیبیہ کے واقعات 420-438 ظاہری صورت میں پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.2 پر تحریک خدمت خلق میں بڑا بھاری کام کر رہی ہے 15 مین کو ہومیو پیتھک اور طب بھی سکھائی جاتی ہے 15
خطابات طاهر قبل از خلافت ولید اد خان صاحب 269 حضرت وہب بن قابوس 338-337 ریورنڈ ویری وید 188 177,242 ہالینڈ 181 حضرت ہاجرہ علیہا السلام آپ کی قربانیوں کا ذکر 299-302 ہارڈن 18 ہجرت حبشہ 83 ہستی باری تعالیٰ ارتقائے انسانیت اور ہستی باری تعالی - 17-35 حضرت ہند (اہلیہ حضرت عمرو بن جموع ) ,348,349,350,351, غزوہ احد میں آپ کا اخلاص آپ کے باپ بھائی اور خاوند کی شہادت پر آپ کے صبر و رضا کا عظیم الشان نمونہ 351-349 ہندور ہندومت 25 25 ہیگل 18 ی حضرت یعقوب بن عمر بن قتاده - 336 یورپ 22,23,33,59,77,122,123,130,131,192 حضرت یوسف علیہ السلام - 73 یوسف سلیم چشتی 252 لوگینڈا 181 یہود یہودیت 40,185,222,401-405,410 41,57, 60, 64, 68, 236, 237, 241, 242, 247, 248 ہندو مذہب کے تمام فرقے اپنے اندرونی اختلافات کے باوجود اس عقیدے اور دعوے میں متفق تھے کہ سنسکرت واحد الہامی زبان ہے 241 ہندوستان 57,181,237,238,240,268