Language: UR
اس کتاب میں نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ نے ضیاء الاسلام پریس ربوہ سے حضور رضی اللہ عنہ کی 45 تقاریر شامل اشاعت کی ہیں جوجماعتی اخبارات الحکم اور البدر وغیرہ سے لی گئی ہیں۔یہ تقاریر جلسہ سالانہ اور دیگر مواقع پر جس طرح سامعین کے علم و معرفت اور ایمان و ایقان میں اضافے کا موجب بنتی رہیں اسی طرح اب قارئین کے لئے ازیاد علم و ایمان کا سامان بہم مہیا کررہی ہیں ۔ ان میں سے 26اور 28دسمبر 1908کی تقاریر قبل ازیں الگ سے کتابی شکل میں احمدیہ کتب خانہ قادیان نے 1927میں بھی شائع کی تھی۔ نیز ایک تقریر بعنوان ’’وفاتِ حضرت مسیح موعود‘‘ بھی قبل ازیں کتابی شکل میں شائع شدہ ہے۔ قریبا 600 صفحات کے اس ٹائپ شدہ،دیدہ زیب مجموعہ کے آخر پر ایک تفصیلی انڈیکس بھی موجود ہے۔
مذہب کی غرض و غایت {تقریر فرمودہ ۲۷؍ دسمبر۱۸۹۶ء برموقع جلسہ اعظم مذاہب} خدا تعالیٰ کی مہربانی اور اس کا فضل اور اس کی ربوبیت عامہ اور اس کا وہ فضل جو خاص خاص بندوں پر ہوتا ہے اگر انسان کے شامل حال نہ رہے تو اس کا وجود کب رہ سکتا ہے.منجملہ اس کی مہربانیوں کے جو ہم پر آج کل عطا فرمائی ہیں.علم کے حاصل کرنے کے ذریعے اور اس کے مخازن ہیں جو عطا کئے ہیں.کاغذ کا افراط سے بننا‘ مطبعوں کا جاری ہونا، پوسٹ آفسوں کی وہ ترقی کہ نہایت ہی کم خرچ پر ہم اپنے خیالات کو دور دراز ممالک میں پہنچا سکتے ہیں.پھر تار کا عمدہ انتظام، ریل اورجہاز کے ذریعہ سفر میں آسانی یہ تمام انعام الٰہی ہیں.اگر انسان اس کا شکر ادا نہیں کرتا تو وہ ضرور عذاب میں گرفتار ہوگا لیکن جو شکر کرتا ہے خدا اس میں بڑھوتی کرتا ہے.میں نے اپنے ابتدائی زمانہ میں دیکھا ہے جو کتابیں ہمیں مشکل سے ملتی تھیں بلکہ جن کے دکھانے میں تا ّمل اور مضائقہ ہوتا تھا.تھوڑے زمانہ سے دیکھتے ہیں کہ قسطنطنیہ کی عمدہ عمدہ کتابیں اور ایسا ہی الجزائر، مراکش، تیونس، طرابلس اور مصر سے آسانی کے ساتھ گھر بیٹھے پہنچتی ہیں.ہر ایک شخص کو واجب ہے کہ اس امن کے زمانہ میں اس نعمت الٰہی سے بڑا فائدہ حاصل کرے.مذہب میرے نزدیک ایسی چیز ہے کہ کوئی آدمی دنیا میں بغیر قانون کے زندگی بسر نہیں کرسکتا.گورنمنٹ کے قانون کی منشا حقوق کی حفاظت ہے لیکن ان قانونوں پر عمل درآمد کرنے کے لئے جو جو حدود باندھے گئے ہیں وہ اس قسم کے ہیں کہ ان سے ممکن ہے جرائم کا انسداد ہو لیکن محرکات جرائم کو روکنا ان کے احاطہ سے باہر ہے مثلاً یہ تو ممکن ہے کہ اگر کوئی شخص زنا بالجبر کا مرتکب ہو تو گورنمنٹ اسے سزا دے لیکن بدنظری سے بدصحبتوں سے بد خواہشوں سے جو انسان میں پیدا ہوکر اس سے طرح طرح کے جرائم کراتی ہیں.اس کا انسدا د
قانون گورنمنٹ سے باہر ہے.گورنمنٹ کا قانون انہیں نہیں روک سکتا.ایسا قانون مذہب ہے جو ان امور سے ہم کو روکتا ہے.ہمارے بعض افعال سے وہ ناراض ہوتا ہے. (السجدۃ :۱۹) یعنی مومن اور فاسق ایک جیسے نہیں اپنے معتقدات اور اعمال کے لحاظ سے وہ ایک دوسرے کے مساوی نہیں ایسے ہی ان کے اعمال یکساں نتائج مرتب نہیں کرتے.یہ ایک مذہب کا ہی قانون ہے جس نے فاسق کوان امور کے لئے بھی مجرم ٹھہرا کر اسے ان کے ارتکاب سے روکا ہے جن کا انسداد گورنمنٹ کے قانون سے باہر ہے.چنانچہ بعض ایسی سیہ کاریاں بھی ہیں جو اگرچہ عقلاً نقلاً بری نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں اور اہالیان گورنمنٹ اور ایسے ہی سوسائٹی کے دوسرے افراد اسے کامل بداخلاقی سمجھتے ہیں.لیکن نہ تو بذات خود گورنمنٹ بحیثیت گورنمنٹ اور نہ افراد سوسائٹی کوئی حکمی انسداد اس کی، بند کرنے کا اپنے پاس رکھتے ہیں مثلاً شراب خوری یا عیاشی جس میں فریقین راضی ہوں ایسے جرائم اور سیہ کاریوں کی انسداد کے لئے اگر کوئی قانون مفید ہوسکتا ہے تو وہ صرف مذہب کا ہی قانون ہے جو نہ صرف ایسے جرائم کو ہی روکتا ہے بلکہ ان خیالات اور خطرات نفس پر بھی اس کی حکومت ہے جو ان جرائم اور کج اخلاقیوں کے محرک ہوتے ہیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ جب انسان مدنی بالطبع ہونے کی صورت میں ایک قانون کا طبعاً اور مجبوراً محتاج ہے تو وہ قانون صرف شریعت الٰہی ہے جس میں سیاست مدن کی تکمیل کماحقہ ہوسکتی ہے اور یہی شریعت اصلاح انسانی کے لئے اپنے اندر وہ طاقت رکھتی ہے اور اسی شریعت کو انسانی طبیعت پر اس قدر غلبہ ہے جو کسی گورنمنٹ کے قانون کو خواہ اس میں کیسی ہی جابرانہ طاقت کیوں نہ ہو نصیب نہیں.لہٰذا مذہب میں انسان کو دلچسپی پیدا کرنا گورنمنٹ کے قوانین امن کی حفاظت کی ضرورت سے ہے نہیں بلکہ صدمات سے محفوظ رکھنے کا پہلا باعث ہے.اس ضروری چیز کے لئے فکر چاہئے.فکر ہے تو ضرورتوں کے موافق سامان بن جاتا ہے.اس وقت جب ہمیں طرح طرح کے سامان خدا تعالیٰ نے مہیا کردئیے ہیں تو یہ گویا خدا تعالیٰ کی ناشکری ہوگی اگر ہم ان خدا کی عطاکردہ نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر ان قوانین پر غور نہ کریں جو خدا کی طرف سے مذہب نے مرتب کرکے
ہمارے اعمال اور افعال کو ان کے ماتحت کیا اس لئے نہایت ضروری ہے کہ ہم مذہب کی نگہبانی کریں اور یہ جلسہ اس لئے قائم کیا گیا ہے.اس لئے میرے دل سے یہی دعا ہے کہ جس طرح کل کا دن امن و آرام سے گزرا.ویسے ہی آج کا دن بھی گزرے اور غالباً مولوی ثناء اللہ صاحب جو امرتسر کے ایک ہونہار نوجوان ہیں.اپنے ابتدائی خیالات سے آپ کو خوش کریں گے.(رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ ۵۶،۵۷) ٭ … ٭ … ٭
اطاعت اللہ ، اطاعت الرسول اور خلافت {تقریرجلسہ سالانہ فرمودہ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۷ء} اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ اما بعد فاعوذباللّٰہ من الشیطان الرجیم (النور :۵۵ تا ۵۸) اس آیت شریف میں اللہ جل شانہ انسان کو یہ تاکید فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور یاد رکھو کہ اگر تم اس کی اطاعت نہ کرو گے تو اس کا ذمہ تو صرف اتنا ہی تھا کہ تبلیغ کر دی اور یہ تمھارا ذمہ تھا کہ تم مان لو.کیونکہ یہ اطاعت ہی کامیابی کی راہ ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی اور فائزالمرام ہونے کے لئے ایک صراط مستقیم بتلائی ہے جو اطاعت اللہ اور اطاعت الرسول سے بنی ہے یہ ہدایت فرماتے وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو.چونکہ اللہ تعالیٰ تو ایک ایسی فوق الفوق اور وراء الوراء ہستی ہے جس کی شان ہے (الانعام :۱۰۴).پھر اس
کی اطاعت کیونکر ہو سکتی.اس کی سبیل اور صورت یہ ہے کہ .اطاعت الرسول ہی اطاعت اللہ ہوتی ہے کیونکہ رسول اللہ تو گویا مرضات اللہ کے دیکھنے اور معلوم کرنے کے لئے ایک آئینہ صافی ہوتا ہے اس کی زندگی اس کا چال چلن اس کی نشست برخاست.غرض اس کی ہر بات رضائے الٰہی اور اطاعت الٰہی کا نمونہ ہوتی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے کے بعد کہہ کر اس مشکل کو حل کر دیا جو اطاعت اللہ کے سمجھنے اور سوچنے میں پیدا ہو سکتی تھی اور اس کی صراحت اور توضیح اور بھی ہو جاتی ہے جب ہم یہ پڑھتے ہیں اس حصہ ٔ آیت میں میں ضمیر جو رسول کی طرف راجع ہے بتلا رہی ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس اطاعت کو جو ابتدائے آیت میں اللہ اور رسول کی اطاعت میں منقسم تھی یہاں صرف رسول ہی کی اطاعت سے مخصوص کر دیا ہے اور پھر جب ہم والے حصہ پر غور کرتے ہیں تو یہ راز اور بھی کمال صفائی سے حل ہو جاتا ہے غرض یہ ہے کہ اطاعت اللہ وہی ہے جو اطاعت رسول ہے.قرآن کریم کے دوسرے مقامات پر اس عقدہ کو صاف الفاظ میں حل کیا گیا ہے جیسے فرمایا (اٰل عمران :۳۲).یعنی اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے محب اور عزیز بن جائو تو اس کے لئے تدبیر یہ ہے کہ میری اطاعت کرو اور دوسرے مقام پر فرمایا: (النساء :۸۱) جس نے رسول اللہ کی اطاعت کی اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی.فی الجملہ اس آیت میں حصول کامیابی کے لئے ایک گر بتلایا ہے جس کا نام ہے اطاعت الرسول جو اپنے اصل معنوں میں اطاعت اللہ ہی ہے کیونکہ رسول مرضات اللہ کا مظہر ہوتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ کی َکل ہوتا ہے اس کا اپنا ارادہ کچھ ہوتا ہی نہیں.چنانچہ فرمایا ہے کہ (النجم :۴).اللہ تعالیٰ یہ طریق کامیابی بتلا کر ایک پیشگوئی کے ذریعے سے اس اصول کی صداقت ظاہر کرتا ہے کیونکہمیں تو ایک دعویٰ کیا گیا ہے کہ فائدہ اس اطاعت الرسول
میں یہ ہوگا کہ تم دین اور دنیا میں فائز المرام ہو جائو گے.پس اس دعوے کو اللہ تعالیٰ ایک پیشگوئی کے رنگ میں دلیل دے کر ثابت کرتا ہے چنانچہ فرمایا: (النور :۵۶) یعنی خدا تعالی نے ان لوگوں میں سے جو تم میں سے ایمان لائے (یعنی لوازم ایمان حقیقی ان میں پائے جاتے ہیں) اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں.(یعنی عملی طور پر بھی ایمان کا واقعی نتیجہ اپنی زبان اور اعضاء اور اپنے اموال پر دکھاتے ہیں) ان سے اللہ تعالیٰ نے حتمی وعدہ کر لیا ہے کہ یقینا یقینا ان کو ضرور اسی زمین پر خلیفہ بنا دے گا جیسا کہ ان لوگوں کو بنایا جو تم سے پہلے تھے اور ان کا وہ دین جو ان کے لئے پسند کر چکا ہے.اس کے کر دکھانے اور پھیلانے کی ان کو قوت عطا کرے گا اور خوف کے بعد ان کی حالت کو امن سے بدل دے گا.وہ مجھے ہی پوجیں گے.(یعنی میری ہی اطاعت اور عبادت کریں گے) میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گے.جو (یعنی ان نشانات کو دیکھ کر) اس کے بعد کفران کریں گے وہ لوگ فاسق ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک عظیم الشان اور تسلی بخش وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے جس کی تشریح اور تفسیر ابھی تھوڑی دور چل کر کی جاوے گی.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں تشریف رکھتے تھے اس وقت حضور کے اعداء کفار کا خیال تھا کہ ہم اس شخص کا نام ونشان تک مٹا دیں گے.چونکہ وہ ابتدائے اسلام کا زمانہ تھا اور دنیا کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عام کامیابی بلکہ وجود تک کی بھی خبر نہ تھی ایسے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے وعدے فرمائے تھے جو قرآن کریم میں مختلف مقامات پر مختلف طرز میں بیان ہوئے ہیں.کفار اور اعداء تو یہ خیال کرتے تھے کہ ہم اس مدعی نبوت کو گم کر دیں گے مگر وہ نادان نصرت الٰہی سے ناواقف اور سنت اللہ سے نابلد مطلق تھے ان کی ایسی باتوں اور دعاوی کو سن کر ارشاد ہوتا تھا.
(الحج :۱۶) قرآن کریم کے پر غور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے اور ایسا ہی تورات شریف پر نظر کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ ہمارے ہادی اکمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس رسول کے مثیل ہیں جو فرعون کے وقت برگزیدہ اور بنی اسرائیل کا ہادی ہو کر آیا تھا.جیسے فرمایا:. . .(المزمل :۱۶ تا ۱۸) یعنی ہم نے ہی تمہاری طرف تمہارا نگران رسول بھیجا ہے اور ٹھیک اسی طرح بھیجا ہے جیسا کہ فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا جب فرعون نے نافرمانی کی اس رسول کی تو ہم نے اسے سخت سخت پکڑ لیا.پس تم اگر اس رسول کی مخالفت اور انکار کرو گے تو کیونکر بچ سکتے ہو.اب اس آیت میں جو سورۂ مزمل (مکی سورۂ) کی ایک آیت ہے اس وقت حضور نے مثیل موسیٰ کے رنگ میں اپنے اعداء کے نیست ونابود ہونے کی پیشگوئی کی جبکہ وہ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اب امروز فردا میں ہم اس کو نیست ونابود کر دیں گے اور وہ اپنے خیال میں طرح طرح کے منصوبے گانٹھ رہے تھے اور اخراج یا قتل کی خوفناک اور کمینہ سازشیں کر رہے تھے اور بظاہر ان کی موجودہ حالت اور سامان نے ان کے ارادوں کے پورا ہونے کی قوی امید دلا رکھی تھی.مثیل موسیٰ کو یہ صدا آرہی تھی کہ (المائدۃ :۶۸) اس وعدہ الٰہی کو پکار پکار کر دشمنوں کو سنا دیا کہ تمہاری شرارتیں اور شیطنتیں مجھے ضرر نہ پہنچا سکیں گی بلکہ میں ان کے اثر سے محفوظ اور مصئون رہوں گا اس پر وہ عرب کی غیور اور کینہ توز قوم اور بھی جھلاّئی مگر آخر کار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسبِ وعدہ الٰہی ان کے نرغے سے محفوظ نکل آئے اور وہ خدا کے دشمن رسول کے دشمن انسان کی اصلاح وفلاح کے دشمن ہاتھ کاٹتے رہ گئے.یہی نہیں کہ اس کثرت اعدائے ملت اور قلت انصار دین کے وقت اپنے اپنے بچ جانے ہی کی پیشگوئی کی.نہیں! بلکہ وہ بات جس نے عرب جیسی جنگجو قوم کو اور بھی چڑا دیا و ہ اس دردناک عذاب کی خبر تھی جو مثیل موسیٰ والی آیت میں ان کو سنائی کہ یاد رکھو جیسے فرعونی موسیٰ علیہ السلام کے عصیان وکفر ان کے باعث عرضہ تیغ ہلاکت
ہوئے ہیں ایسا ہی میرے مخالف بھی تباہ اور ہلاک ہو جاویں گے اب غور تو کرو کہ اس حالت اور صورت میں جبکہ مسلمانوں کی تعداد بہت ہی کم یہاں تک کہ انگلیوں پر گنی جا سکے اور پھر ابھی تک مرجع قوم لوگ بھی شامل نہ ہوئے تھے.یہ پکار کر کہہ دینا کہ میرا عصیان وکفران تم پر ہلاکت لائے گا.کوئی آسان بات نہ تھی.الغرض یہ ایک عام بات ہے کہ جب خدا تعالیٰ کسی کو اپنے ید ِ قدرت سے پرورش کرتا ہے تو اپنی قدرت نمائی عجیب عجیب پیرایوں میں ظاہر کر دیتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب مبعوث کر کے فرعون کے پاس بھیجا تو اس نے نہایت ذلت اور حقارت کی نگاہ سے ان کو دیکھا اور کہا (الزخرف :۵۳) یعنی میں تو اس سے بہتر ہوں وہ تو ایک ذلیل آدمی ہے اور صاف بول بھی نہیں سکتا مگر دیکھو کہ وہ انسان جو اپنے لشکر اپنے شکوہ وطاقت کے گھمنڈ پر کھڑا ہوا تھا.آخر کہاں گیا؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا نام ونشان تک مٹا دیا.پس یہ خوب یاد رکھو کہ یہی کامیابی ایک راحت بخش معیار سچائی کا ہے جو ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور چلا جائے گا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں چونکہ تمام خوبیاں مجتمع تھیں اور ہر ایک نبی یا رسول کے اعداء جو فرداً فرداً تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ سب دشمن مجموعی طور پر موجود تھے اس لئے آپ کی کامیابی تمام انبیاء علیہم السلام کی کامیابیوں کا مجموعہ تھی اسی لئے مدینہ طیبہ کے یہود اور نصاریٰ کے مصائب ومعاصی بصیغہ ماضی بیان فرماتے فرماتے اب یوں فرماتا ہے کہ حَقٍّ (اٰل عمران :۲۲) یعنی مضارع کا صیغہ استعمال فرمایا گویا اس ایک نبی کے قتل کے ارادہ سے ہی تمام نبیوں کو قتل کر دیا ہے.پس ہماری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام خوبیوں اور صفات کے جامع تھے جو مختلف اوقات میں انبیاء علیہم السلام میں موجود تھیں اور قرآن کریم کل کتب کی جامع اور تمام خوبیوں کی جامع ہے.(البیّنۃ :۲) یعنی یہ لوگ سیدھے ہی کب ہونے والے تھے جب تک کہ ان کے پاس ایک بیّنہ نہ آجاتی.......جس کے پاس ایک کتاب ہو.جس میں الگ الگ سورتیں ہوں اور دنیا بھر کی مضبوط ومستحکم کتابوں کی جامع ہو.یہ نہیں فرمایا کہ محرّف کتابیں ہوں بلکہ یہ فرمایا کہ (البیّنۃ :۴) قرآن کریم کا نام
مہیمن بھی ہے یعنی محافظ اور نگہبان اور یہ نام اس لئے رکھا گیا کہ وہ ان تمام کتابوں کا جامع شارح اور مفسر ہے جو مختلف اوقات میں فرداً فردا ً کسی قوم کے پاس بھیجی گئی تھیں یہ ایک سچی بات ہے جو مشہور ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی دنیا میں گزرے ہیں اور یہ بھی مشہور بات ہے کہ حضرت ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی تعداد بھی اسی قدر تھی جن کے حالات اور سوانح کتب الرجال میں مرقوم ہیں.گویا ہر ایک میں نبوت کا رنگ موجود تھا اور صحابہ کو دکھ پہنچانے والوں کے لئے بھی یہی فتویٰ تھا.اب میں پھر جناب موسیٰ علیہ السلام کی مماثلت میں دئے ہوئے عظیم الشان وعدہ کی طرف رجوع کر کے کہتا ہوں کہ یہ وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے.اس کو موسیٰ علیہ السلام کے وعدے کے رنگ میں دکھایا ہے کہ موسیٰ کے دشمن جب ہلاک ونابود ہو گئے تو تم اگر کفران وعصیان کرتے ہو تو بتلائو تم کیونکر بچ سکتے ہو. (المزمل : ۱۸).جیسے موسیٰ علیہ السلام کا ایک دشمن تھا ویسے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد اور خاص دشمن تھے جو اسی طرح معذّب کئے گئے جس طرح وہ (الزخرف:۵۳) کہنے والا نابود کیا گیا یہ ایک خاص بات ہے کہ کبھی کسی خاص شخص کو کسی خاص صفت کے سبب معنوں میں وسیع کر دیا جاتا ہے دنیا میں مثل مشہور ہے.لِکُلِّ فِرْعَوْنَ مُوْسٰی.الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دوستوں کی قلت اور اعداء کی بے حد کثرت کے دنوں میں ایسے الفاظ میں جو اہل عرب کی جنگجو اور کینہ توز اور لفظ لفظ پر بھڑک اٹھنے والی قوم کے لئے (گویا بارود کا کام کرنے والے تھے اپنے محفوظ رہنے اور ان کے مورد غضب الٰہی ہونے کی پیشگوئی فرمائی جو لفظ بلفظ پوری ہوئی).نادان سمجھتے تھے کہ بس اس کے ساتھ ہی یہ سارا کھیل بگڑ جائے گا اور ہم کامیاب ہو جائیں گے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اور بھی ذلیل کرنے کے لئے یہ وعدہ فرمایا جو آیت استخلاف میں بیان ہوا یعنی جس طرح پر جناب موسیٰ علیہ السلام کی قوم مصر کے آہنی تنور سے نکل کر اور اپنے دشمنوں کے پنجہ سے نجات پاکر آخر معزز وممتاز ہوئی اور خلعت خلافت اور حکومت سے سرفراز ہوئی.اسی طرح ٹھیک اسی طرح اس رسول کے اتباع بھی موسیٰ علیہ السلام کے اتباع کی طرح اسی زمین میں حکومت اور خلافت سے بہرہ ور ہوں گے ک (کاف) علت کا ہے اور سبب کے
معنے دیتا ہے یعنی ہم اسی زمین میں خلیفہ بنا کر دکھائیں گے.کیونکہ پہلوں کو بھی بنایا تھا اور یہ نرا دعویٰ ہی دعویٰ نہ رہے گا بلکہ یعنی یہ دین اسلام جو ان کے لئے میں پسند کر چکا ہوں اس کی اشاعت کی ان کو قدرت دوں گا کہ وہ حامی دین ہوں اور دین ان کے سبب سے قدرت اور مکانت حاصل کرلے .اب جو ڈرتے ہیں کہ ان کی جان ومال پر حملہ ہو رہا ہے ہم وہ وقت لانے والے ہیں اس کے بدلے میں کہ خوف امن سے بدل جاوے.اب دیکھنا یہ واجب ہے کہ یہ مواعید الٰہی کس طرح جلوہ گر ہوئے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے مقابلہ میں عرب کا سارا ملک اٹھ کھڑا ہوا تھا لیکن کوئی ہم کو بتلائے کیا ہمارے ہادی بلکہ ہادی انام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوم میں نہیں نہیں آپ کے مولد مسکن اور آپ کے ملک میں آپ کا کوئی دشمن رہا ؟ دشمن کیسے؟ ان کے آثار اور نشان تک نہ رہے اور جس طرح پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا پورا ہوا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے کوچ کرتے ہی ایک عالمگیر شور برپا ہو گیا اور عرب کے ہر چہار گوشوں میں ایک زلزلہ سا آگیا.بعض نے جو دل کے کمزور اور ایمان میں ناتواں تھے یہ سمجھ کر کہ اب یہ کارخانہ ہی ختم ہوا اس سے انکار ہی کر دیا اور بعض نے زکوٰۃ وغیرہ ضروریات دین سے انکارکر دیا بعض نے صرف توحید ہی کو اصل مقصد اور غرض سمجھ لیا.غرض جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات منقلبین علی الاعقاب اور شاکرین دو فریقوں کے ہو جانے کی پیشگوئی خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرما چکے تھے پوری ہو گئی.اس عظیم الشان زلزلہ میں ارتداد ،بغاوت اور فتنہ عظیم برپا ہوا اور قریب تھا کہ یہ حالتیں اسلام کا نام ونشان تک مٹا دیتیں اگر اللہ تعالیٰ کا زبردست ہاتھ اس کا حامی نہ ہوتا.اب دیکھو کہ خدا تعالیٰ کا وہ زبردست وعدہ کہ .اس وقت میں کیسا سچا ثابت ہوا کہ متزلزل عرب کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے ٹھہرا دیا.اسلام کی عظمت اور شوکت کو پھر از سر نو قائم کیا اور کمالات اسلام کو تازہ کیا.حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت سخت معرض خطر میں تھی بلکہ خود ان کے باپ کو تعجب تھا کہ کیونکر ان کی خلافت کو ایسے فتنہ عظیم میں تسلیم کر لیا گیا ہے اصل بات یہ ہے کہ (آل عمران :۴۱)
(المائدۃ :۲).منشائے الٰہی یونہی تھا سو پورا ہوا.ابوبکر کوئی ملکی اجتماع قوم وغیرہ نہ رکھتے تھے لیکن بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ وعدہ کیا تھا اس کو حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت سے ثابت کر دکھایا.ادھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مرتے ہی یوشع بن نون کو خلیفہ کیا.ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت ہوتے ہی بلا فصل ابوبکر خلیفہ ہوئے اور ان کے بعد معاً حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی وغیر ہم رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین اور اسی طرح پر لگاتار یہ سلسلہ قیامت تک چلا جائے گا.میں پھر ایک بار یہ امر آپ لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت ایک جامع کمالات تھی.غور تو کرو کہ ایک طرف عرب کے جنگجو اور لڑائی پر ادھار کھائے ہوئے وحشیوں سے مقابلہ دوسری طرف لکھے پڑھے یہودیوں سے سامنا.ایک طرف جاہل دوسری طرف عالم.ایک طرف جاہلوں میں وحدت ارادی کی روح پھونکنا اور دوسری طرف ان کو خدا تک پہنچانا.پھر ان تمام امور میں کسی مشیر اور صلاح کار کی ضرورت نہیں.علاوہ ازیں کس قدر اہم امور آپ کے درپیش تھے.آپ ہی نمونہ بن کر دکھانا.آپ ہی خط وکتابت کرنی قضا بھی آپ ہی کرنی.فوجوں کے کمانڈنگ آفیسر بھی بذات خود.خطرات آویں تو سینہ سپر ہونا.پھر ایک نہیں دو نہیں نو بیویوں کا خاوند ہونا.الغرض کیا یہ کسی معمولی حیثیت کے آدمی کا کام ہے؟ کہ اس قدر کام کرے اور سب کے سب باحسن وجوہ پورے ہوں کہتے ہیں ایک بار مدینہ طیبہ میں شور اٹھا.صحابہ پہنچے تو دیکھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام واپس آرہے ہیں اور فرمایا کہ کوئی خطرہ نہیں ہے.گھر کے نظام، بیویوں سے سلوک اور پھر ایسا اطمینان کہ جاہلیت کے قصے بھی ہو رہے ہیں.الغرض اللہ تعالیٰ نے آپ کے ان کمالات اور انوار کو حسب استعداد مخلوق میں پھیلا دیا.کچھ لوگ احادیث کی حفاظت کے لئے آپ کے سینہ کی طرح مامور ہو گئے.کچھ فقہاء بن گئے.کچھ منتظم ملک اور پھر بعد زمانہ کے جب یہ جامعیت اٹھ گئی تو کچھ متکلم، کچھ قراء، کچھ مفسر، کچھ حواشی احادیث لکھنے والے پیدا ہو گئے اور بعض بادشاہ ہو گئے.ایک وقت میرے قلب پر کچھ تغیر تھا کہ حضرت علی مرتضی سے خدا نے کیا کام لیا.آخر کار مجھے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے اندرونی فتوحات
کا کام علی مرتضی سے لیا.آپ دیکھیں گے کہ اولیاء کے کمالات میں تمام متعارف سلسلے اپنے اپنے سلسلہ کو حضرت علی تک ہی پہنچاتے ہیں ہمارے امام کی سوانح عمری میں ابھی آپ نے سنا ہو گا کہ روحانی کمالات میں اہل بیت تک پہنچتے ہیں.المختصر خدا تعالیٰ نے ان انوار محمدیہ کو مختلف طور پر آپ کی امت میں پھیلایا.اب میں پھر اس وعدہ الٰہی کی طرف آتا ہوں اس وعدے کے پورا ہونے میں ایمان اور اعمال صالحہ کی شرط ہے اور یہ وعدہ کوئی خاص وقت اور زمانے کے لئے نہیں تھا بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہے.جوں جوں ایمان اور اعمال صالحہ میں کمزوری ہوتی گئی اور نبوت کے زمانہ پر عرصہ گزرتا گیا اسی قدر کمزوری اور تفرقے اسلام میں پیدا ہوتے چلے گئے.یہاں تک کہ وہ زمانہ آگیا جو ہمارا زمانہ ہے.شامت اعمال اور تفرقہ باہمی سے اگر شوکت اسلام کمزور ہوئی تو خیر! اس پر بھی صبر کیا گیا لیکن افسوس تو یہ ہے کہ روحانی سلطنت بھی باقی نہ رہی.بلکہ دونوں طرف آرا چلا.مخالفان دین کو دیکھو کہ کیسی سر توڑ کوششیں اس کے مٹانے میں کر رہے ہیں.اگر دین ان کے ہاتھ میں ہوتا تو آج تک کا نیست ونابود ہو گیا ہوتا.ہاں خدا تعالیٰ ہی کا فضل وکرم ساتھ نہ ہوتا تو مسلمانوں نے بھی کوئی دقیقہ اس کے مٹانے میں باقی نہیں رکھا تھا.چرچ آف انگلینڈ سالانہ چھتیس کروڑ روپیہ اشاعت عیسویت میں خرچ کرتا ہے اور اس سے بجز اس کے کچھ غرض نہیں کہ تخریب اسلام ہو.ادھر مسلمان ہیں کہ بے فکر خواب غفلت میں استراحت کی نیند سمجھ کر سو رہے ہیں.ان کے نزدیک کوئی دہریہ ہو جاوے آریہ یا بے دین ہو جاوے کچھ پرواہ ہی نہیں.میرے کانوں میں اب تک ایک صدا گونجتی ہے.کسی شخص کا بھائی مسلمان ہو گیا اس نے کہا کہ کاش وہ دہریہ ہو جاتا! اسلام پر جہاں ایک طرف بیرونی اور خارجی دشمنی میں آریہ، برہمو، عیسائی، دہریہ، طبعی، فلسفی اور کیا کیا سینکڑوں قسم کے لوگ حملہ آور ہو رہے تھے وہاں اندرونی مخالفت کے لئے بھی بہت سے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے.جنہوں نے اپنے خیالات کو اپنا رہبر قرا ردے لیا اور اسلام سے غرض واسطہ ہی نہیں رکھا.بلکہ اپنے خیالات کو سچا ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم کی اصلی تعلیمات پر گستاخانہ حاشیے چڑھانے شروع کر دئیے بیرونی دشمنوں نے تو تخریب دین کے لئے کوئی دقیقہ
فروگذاشت کرنا ہی نہ تھا مگر اندرونی مخالفوں نے بھی عجیب عجیب طور پر اسلام کی مخالفت کی ہے.اگر دل اور دماغ انسان کا ضائع نہ ہو گیا ہو تو وہ سمجھ سکتا ہے.اہل دل جو لوگ کہلاتے ہیں یعنی صوفی اور گدی نشین.ان کی حالت تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ قریب بہ اباحت پہنچ گئی ہے.قرآن پر تدبر کرنا، قرآن کریم کو امام بنانا حرام کر دیا.وظائف اور قواعد بھی اپنے ہی بنا لئے.چند اشعار کا پڑھنا عبادت کا لب لباب قرار دے دیا اور وحدت وجود کے ایسے مسائل ایجاد کئے اور ایسی امثلہ یاد کیں کہ اس کا نتیجہ اباحت ہے.اب بتلائو وہ مخالفان ملت کی کیا اصلاح کرتے ہیں.اہل دماغ گروہ کو دیکھو یہ وہ گروہ ہے جو اپنے آپ کو علماء کا گروہ کہلاتا ہے میں نے خود اس گروہ میں عرصہ تک رہ کر دیکھا ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ یہ گروہ دین کو کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے.جھوٹے اور بے معنی قصے ایجاد کر کے جن کا کہیں قرآن وحدیث میں ذکر تک نہیں مخالفان دین کو انگشت نمائی کا موقع دیتے ہیں اور اکثر وں کی ہلاکت کا موجب ہوتے ہیں.میں ایک دفعہ ریل میں سفر کر رہا تھا.اسی کمرے میں ایک بڈھا سا آدمی بھی بیٹھا تھا.اس نے جب مولوی کا نام سنا تو اسے نفرت ہوئی اور اس نے اپنا سر کھڑکی سے باہر نکال لیا.میں نے حسب معمول ایک انگریزی خواں کے سوالوں کا جب جواب دینا شروع کیا تو اس نے پھر سر اندر کر لیا اور اس نے بیان کیا کہ مجھے مولویوں کے نام سے نفرت کی وجہ یہ ہے کہ جب میں ایک بار لودھیانہ آیا تو کشمیری بہت تھے اور ایک مسجد میں فضائل دریائے نیل کے وعظ میں بیان ہورہے تھے بیان کیا گیا کہ دریائے نیل چاند کے پہاڑوں سے نکلتا ہے اس پر جب کسی نے اعتراض کیا کہ یا حضرت! ہندو کہتے ہیں کہ گنگا جی بھی شیوجی کی جٹوں سے نکلتی ہے ہم ان پر کیا انکار کر سکتے ہیں.اس پر واعظ صاحب نے سائل کو پٹوایا.اس کا اثر یہ ہوا کہ مجھے اسلام سے نفرت ہو گئی اور میں عیسائی ہو گیا اور کچھ عرصہ تک گجرات میں رہا.برانڈرس صاحب ایک انگریز تھے انہوں نے ایک پمفلٹ دکھایا کہ دیکھو یورپین لوگ کیسے مستعد ہیں سات پشت سے دریائے نیل کے منبع کی تلاش میں لگے تھے.اب معلوم ہو گیا کہ دریائے نیل جبل القمر سے نکلتا ہے.میں یہ سن کر رو پڑا اور اس دن سے عہد کر لیا کہ کسی مولوی سے نہیں ملوں گا اور مسلمان ہو گیا.(یہ ہنسنے کا مقام نہیں رونے کی جا ہے.یہاں تک اسلام کے علماء کی حالت پہنچ گئی ہے کہ
تحقیقات سے ان کو مس تک نہیں رہی) بے سود لفظی مباحث میں ان کی یہاں موشگافی ہو رہی ہے اب ایسی حالت میں غور کرو اور سوچو کہ یہ اسلام کس نرغہ میں ہے.اللہ تعالیٰ کا وعدہ اس زمانہ میں جبکہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے رخصت ہوئے ہوں اور ابھی اسلام بھی ایسا طور پر نہ پھیلا ہو اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو.اس وقت جبکہ مخالفت حد سے زیادہ بڑ ھ گئی ہو ایمان اور اعمال کا نام ونشان تک اٹھ گیا ہو.ہر طرف اور ہر پہلو سے تخریب دین قدیم کی تدابیر ہو رہی ہوں جبکہ نہ اہل دل ہی باقی ہوں نہ اہل دماغ ہی ہوں.خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید کا وعدہ پورا نہ ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ وعدہ فرما کر کہ (الحجر:۱۰).پھر عین ضرورت کے وقت اپنی تائیدا ور حفاظت کا ہاتھ کھینچ لے؟ ہرگز نہیں.ہرگز نہیں!!! وہ اپنے دین کی خود حفاظت کرتا ہے اور اس نے اب بھی حفاظت کی اور اس کا ایک نگہبان امام بھیج دیا جو تم ہی میں سے ہے اور اس لئے وہ منکم کا مصداق ہے.یہ کہنا کہ کتابیں موجود ہیں فضول ہے جب تک کہ سچی گریہ وزاری نہ ہو، خدا تعالیٰ سے ملانے والا نہ ہو.ممکن نہیں کہ کوئی فائدہ ان کتابوں سے پہنچ سکے! میں خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر اور اس وحدہ لاشریک کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنی ان امراض کا جو مجھے لاحق ہیں کوئی علاج نہیں پایا جب تک کہ خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے میں نے امام کو شناخت نہیں کیا مجھے کسی نے تسلی نہیں دی جب تک کہ میں نے اس کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دیا.کیا میرے جیسے اور لوگ مبتلائے امراض نہ ہوں گے جو مرض مجھے لاحق ہے میں اس کی تفسیر نہ کروں گا یہاں تک کہ میں نے کبھی امام کے سامنے بھی اس کا اظہار نہیں کیا مگر میں یہ صاف صاف کہتا ہوں کہ اگر میری جیسی مرض کا علاج نہ ملتا تو میں ہلاک ہو جاتا.جب میں ایسی مرض کا تریاق اگر کسی کو پاتا ہوں تو وہ یہی امام ہے تو میں کیونکر کہوں کہ اور دکھوں اور امراض کا تریاق یہ نہیں ہے.میں اپنے جیسی استعداد اور مرتبہ کے آدمیوں کو تو کھول کھول کر بتلا دیتا ہوں کہ میں نے اپنے مرض کا تو خطا نہ کرنے والا علاج پا لیا ہے اور وہ یہی تریاق موجود ہے جو تم میں بیٹھا ہے اور جو اسی وعدہ الٰہی کے موافق آیا ہے جو اس نے میں فرمایا ہے کوئی معجزہ.کوئی آیت.کوئی دلیل میرے لئے
ضروری نہیں کیونکہ میں نے اپنی مرض پر اس تریاق کا تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے.یہ وباء جو ہر ایک کو ہلاک کرتی ہے اس کا تریاق کس کے گھر اور گرہ میں ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو وہ کسی کو اپنے امراض کی شناخت کی توفیق دیتا ہے اور پھر اس کے علاج کو پہچاننے کی بھی توفیق بخشتا ہے.میں پھر اس مسجد میں جو خدا تعالیٰ کا گھر کہلاتا ہے اس کے سامنے یہ شہادت دیتا ہوں میرے جیسا بیمار خطرناک اور تندرستی میں بینظیر عمر کا بہت بڑا حصہ گزار چکا ہوں جس کا ایک ثلث بھی واپس نہیں آسکتا یہاں اگر اپنے مرض کا علاج نہیں پاتا ہوں تو کیوں بیٹھا ہوں؟ میرے جیسا پیشہ ور انسان آسائش کے سامان کہیں سے حاصل کر سکتا ہے مگر بتلائو تو سہی کہ یہاں کس قدر سامان مل سکتے ہیں.ہمارے بھائی سوچ سکتے ہیں کہ ہم یہاں رہ کر کس قدر امداد اپنی کر سکتے ہیں.پھر باایں ہمہ جو میں یہاں پڑا ہوا ہوں کیا پاگل اور مجنون ہوں؟ اگر کوئی دق مجھے اندر ہی اندر نہ کھا رہی تھی تو میں خود مجنونوں کا علاج کرنے والا ایک مجنوں کے پاس ہی وہ تریاق پاتا؟ سوچو! اور پھر سوچو! مجھے کوئی دلیل اس امر سے روک نہیں سکتی جبکہ میں خود اپنی دلیل بن گیا ہوں.کیا میں خود اپنے لئے بیّن دلیل نہیں ہوں.مسیح مر گیا.یہ تو میں اپنی لمبی چوڑی تقریروں کے وقت بھی جانتا تھا کہ(الاحزاب :۶۳).(الرحمٰن :۲۷) میں کسی کی کوئی تخصیص نہیں.دوسرا سلسلہ کہ متوفی واپس آتا ہے؟ صاحبان! قرآن کریم سے تومیت کا رجوع ثابت ہوتا ہے مگر متوفی کا رجوع ثابت نہیں.چند قصوں میں احیاء موتی کا ذکر ہے مگر وہ متوفی کا نہیں.متوفی کے لئے خدا کا وعدہ ہے کہ وہ واپس نہیں آتا.مسیح بھی متوفی ہو چکے.اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ابن مریم آئے گا.صریح طور پر بتلا رہا ہے کہ یہ دونوں مسیح جدا جدا ہیں مَاتَ زَیْدٌ وَجَائَ زَیْدٌ میں کیا زید جدا جدا نہیں ہیں؟ سوچو! مگر بااین ھمہ میں کہتا ہوں کہ عزیز! ابن مریم ہوا کرے کوئی اپنے دکھ کی دوا کرے کوئی یہ ایک سچی بات ہے کہ کامیابی راستباز کی صداقت کا ایک زبردست معیار ہے.پودوں کی
طرف دیکھو جن کی کوئی حفاظت اور پرداخت نہیں کی جاتی ان کو کیڑے اور جانور کھاتے ہیں مگر جن کی حفاظت اور نگہداشت میں کوئی فروگذاشت نہیں کی جاتی ہے ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.پس اسی طرح پر یاد رکھو کہ اگر اس پودے کو خدا نے لگایا ہے اور ضرور لگایا ہے تو پھر کوئی بھی نہیں جو اس کو گزند پہنچا سکے.وہ اس کی نگرانی میں پرورش پا رہا ہے میں یہ بات بھی کھول کر سنا دیتا ہوں کہ بعد آیات ونشانات ایمان کوئی نفع نہیں دیتا.دیکھو مہاجر اور انصار کے ساتھ کسی اور کا نام بھی لگایا گیا ہے؟ کیوں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا.جبکہ ظاہری اسباب اور حالت یہ بتلا رہی تھی کہ ابھی چند روز میں ہی خاتمہ ہوا چاہتا ہے.ابوبکرؓ نے کیا دیکھا تھا؟ جو اس نے دیکھا تھا وہ دیکھو! اگرچہ مدت گزر گئی جو عمرؓ نے دیکھا تھا وہ دیکھو! الغرض خدا تعالیٰ کے دین کی حمایت وحفاظت کے لئے اس کے مقررہ قانون اور وعدہ صادقہ کے موافق ایک شخص تم میں سے ہی خلیفہ ہو کر آیا ہے چونکہ جیسا کہ آیۃ وعدہ پر غور کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ خلیفہ کے لئے ضروری ہے کہ اس پر ایسی حالت بھی آجاوے کہ مختلف قسم کی شرارتیں اور افتراء پردازیاں.دنی الطبع مخالفوں کی منصوبہ سازیاں بظاہر یہ خیال پیدا کرنے کا موقع دیں کہ بس اب خاتمہ ہے.نہیں! مگر صادق اور اخلاص مند مومن کا یہ کام ہونا چاہئے کہ وہ ایسے زلزلوں اور فتنوں کے وقت اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ پر کہ پر نظر رکھے اور اطمینان کو ہاتھ سے نہ دے کیونکہ راحت اسی میں ہے پھر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ کو گھبراہٹ اور خوف کا سامنا بھی ہو اور یہ لازمی بات ہے کیونکر پھر سچے امن کی عافیت اور قدر معلوم نہیں ہو سکتی.پس ایسے وقت میں ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ پر ایمان صادق ہو کہکیونکہ خلیفہ آتا ہی اس وقت ہے جبکہ ارتداد والحاد کا زور ہو اس لئے کئی قسم کے افکار اور گھبراہٹیں لاحق حال ہو جاتی ہیں مگر اس وقت سے نکال دینے کا خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اس لئے کبھی خوف اور خطرہ کے وقت گھبرانا صادق کا کام نہیں.اور اس سے بیشتر جو مکانت دین کا وعدہ فرمایا ہے اس دین سے مراد وہی دین ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ اور ازلی دین یہی ہے.
(المائدۃ :۴) اسی کی ہی شان میں وارد ہے.دین کے چند خصائص ایسے ہیں جو محدثین نے احادیث میں جمع کئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ (بخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون) مسلمان وہ ہے جو اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً اور کسی بنی نوع انسان کو عموماً اپنے ہاتھ یا زبان سے تکلیف نہ پہنچائے.کل ایک دوست کہہ رہا تھا کہ صفیں چیرتے ہوئے بعض آدمی آگے چلے جاتے ہیں.یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے.اکثروں نے یہ شکایت کی ہے.یہاں تک کہ امام صاحب کی حضور تک بھی یہ شکایت پہنچی ہے کہ اس کو پیچھے ہٹا دیا.پس ان باتوں کا بڑا بھاری لحاظ رکھو! تم بڑے ذمہ دار ہو.تم نے کسی کے ہاتھ پر کسی کے نہیں خدا تعالیٰ کے ہاتھ پر دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا اقرار کیا ہے.عسر یسر میں قدم آگے ہی بڑھاتے رہو.کوئی شخص ثواب حاصل کرنے کے لئے کسی کا سر کچل کر آگے نہیں آسکتا.منافقین نے جن تدابیر سے کچھ حاصل کرنا چاہا سوچو! کیا وہ پا سکے؟ ہرگز نہیں؟ قرب اسی کو ملتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ قرب دے.پس پھر ایک عظیم الشان مسئلہ ہے کہ مسلمان مسلمان نہیں ہو سکتا جبکہ اس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان مامون نہ ہو جاویں.یہ بڑی خطرناک بات ہے ایسا نہ ہو کہ ان منافقوں میں شامل ہو جائو (خدا نہ کرے) جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھے میں تمہیں ایک بہت بڑی خطرناک بات سناتا ہوں.یہ بھی معلوم رہے کہ ہمارا امام خدا تعالیٰ سے یہ دعا کر رہا ہے کہ خشک ڈالی مجھ سے کاٹی جاوے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں منافقوں کے حق میں کہ ہم ان کو مدینہ میں نہ رہنے دیں گے بلکہ نکال دیں گے.غرض یہ بڑی غور طلب اور ڈرا دینے والی بات ہے میں نے اس بات کو بحکم امام بھی خصوصاً تمہارے پاس پہنچا دیا ہے میں نے مامور ہو کر کہا ہے اپنی خواہش سے نہیں.پھر دیکھو کہ امن کے ساتھ خوف کیوں بدلا جاوے گا؟ اسی لئے کہ وہ پرستار الٰہی ہیں.اگر خدا تعالیٰ کی عبادت واطاعت میںکسی دوسرے کا بھی حصہ ہے تو یاد رکھو کہ وعدہ الٰہی کے نیچے نہیں آسکتے.بالآخر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یعنی باوجود ان باتوں کے بھی اگر کوئی نہیں مانتا اور انکار کرتا ہے تو وہ دشمن اسلام اور فاسق ہے.پس اب اس نعمت کی قدر
کرو.خلیفۃ اللّٰہ تم میں آیا ہے اور وہ وعدے جو اللہ تعالیٰ نے کئے ہیں پورے ہونے والے ہیں.اب وقت ہے کہ اس وعدہ سے حصہ لینے کے لئے رضائے الٰہی کے حاصل کرنے کی فکر میں لگ جائو.اپنی کمزوریوں کو یاد کر کے دعائیں مانگو.نمازوں کو درست کرو.زکوٰتیں دو اور رسول کی اطاعت کرو کیونکہ یہی کامیابی کی مینار کا زینہ ہے جو تکالیف خلیفۃ اللّٰہ کے ساتھ ہونے والوں کے لئے آتی ہیں وہ لازمی ہیں.اس لئے استقلال اور سکینت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو.نصرت دین اور اشاعت کے لئے ہمہ تن سعی کرو.ہر طرح سے مدد کے لئے تیار رہو.اب وقت ہے پھر اگر زیادہ مال آگئے تو اتنا ثواب نہ رہے گا.بالآخر میں پھر ایک بار کہتا ہوں کہ امام کے ساتھ تعلق پیدا کر کے اس غرض کو حاصل کرو جس کے لئے وہ امام ہو کر آیا ہے.خدا تعالیٰ مجھے اور آپ سب لوگوں کو اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کی سچے توفیق عطا فرما دے! اور ہمیں توفیق دے کہ اس وعدہ الٰہیہ کو حاصل کریں جس کا ذکر آیۃ میں فرمایا ہے.آمین!!! واخر ان الحمد للّٰہ ربّ العالمین.(تحفہ سالانہ یا رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ۱۶۸ تا۱۸۲) ٭ … ٭ … ٭
اطفال کے لئے زریں نصائح {تقریر فرمودہ بتقریب جلسہ انجمن ہمدرد اسلام قادیان } بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم اخویم مکرم سلّمکم اللّٰہ تعالٰی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.تقریر ذیل اگرچہ جناب مولانا مولوی نورالدین صاحب نے انجمن ہمدرد اسلام قادیان دارالامن والا مان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو سنائی ہے مگر میرے خیال میں اعلیٰ وادنیٰ ہر طبقہ کے لوگوں میں سے ہر ایک قسم کے لوگ اپنی اپنی استعداد کے لحاظ سے اس پُر معارف تقریر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ یہ پاک الفاظ جو اس خدا کے برگزیدہ بندے کے منہ سے نکلے اور ایک دنیا کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں ان کو چند ہی کانوں تک محدود رکھ کر اور ان کی ناقدری کر کے ہوا ہی میں نہ اڑا دیا جاوے.بلکہ اللہ تعالی کی اس نعمت کے خوان کی جو اس نے محض اپنے فضل سے بغیر کسی محنت اور کوشش کے عنایت فرمایا ہے قدر کریں اور اس کو اپنے سر آنکھوں پر لے کر اس کی قدر کا حق ادا کریں اور اس کے دئیے میں سے اس کے حکم کی فرمانبرداری کے لئے جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ(البقرۃ :۴)کمربستہ ہو کر اس کو اس طرح خرچ کریں کہ ان پاک الفاظ کو ہوا کے گھوڑے سے اتار کر کاغذ کے گھوڑے پر سوار کر دیں.اس طرح پر یہ الفاظ محفوظ ہو کر وقتاً فوقتاً خلق اللہ کو فائدہ دے سکیں گے لہٰذا میں نے مذکورہ بالا غرض کے پورا کرنے کے لئے اس تقریر کو اکٹھا کر کے آپ کی خدمت میں ارسال کیا ہے کہ آپ براہِ مہربانی اس کو اپنے اخبار کے کسی کونے میں گوشہ گزین بنا دیں.عین مہربانی ہوگی خدا آپ کو جزاخیر دیوے اور ان الفاظ کو مخلوق کی ہدایت کا موجب بناوے.آمین ثم آمین.راقم.عاجز عبدالرحمن قادیانی سیکرٹری انجمن ہمدرد اسلام قادیان
وھو ھذا اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ.اَ مَّا بعد.بچو ! تم جانتے ہو کہ میں نے یہ کیا پڑھا ہے یہ وہ پاک کلمہ ہے جو اسلام کے شروع میں ہی پڑھایا جاتا ہے.جانتے ہو کہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کا کیا مطلب ہے.یہی کہ کوئی اللہ (جامع جمیع صفات کاملہ اور ہر بدی سے منزّہ) کے سوائے سچی فرمانبرداری کے لائق نہیں اور اس کی فرمانبرداری کے سکھلانے والے محمد مصطفی احمد مجتبیٰ دنیا میں پہلے وہ شخص آئے ہیں جن کی نظیر اولین وآخرین میں نہیں پائی جاتی.وہ اللہ کے رسول ہیں.کیونکہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے اور اسی کی فرمانبرداری کی راہیں سکھاتے ہیں اور ان سارے احکام کے مجموعے کو جو آپؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں قرآن شریف کہتے ہیں.پس معلوم ہوا کہ جس وقت سے انسان لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ پڑھتا ہے اسی وقت سے اس پر فرض ہو جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی سچی فرمانبرداری نہ کرے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے محمد رسول اللہ اور قرآن شریف سے مشورہ لیوے اور اپنی ساری ضرورتوں اور حاجتوں کا پورا کرنے والا انہی کو جان کر ہر حال میں انہی سے استمداد چاہے کیونکہ وہ خدا جس نے محمد کو رسول اور اپنے احکام کا مجموعہ قرآن شریف اسے دے کر دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے وہ بڑی قدرت اقتدار اور جبروت کا مالک ہے.وہی ہوا پانی اور ساری ان چیزوں کا جن سے تم وقتاً فوقتاً اپنی ضروریات پوری کرتے ہو فائق ہے.اسی نے تم کو آنکھ دی کہ تم دنیا کی عجائبات قدرت کو دیکھو کان دئیے کہ سنو.ان کے سوا سارے اعضا ء جن سے تم مختلف قسم کے فائدے حاصل کرتے ہو اسی کی عنایت ہیں.اب ذرا اس کے عطیات اور انعامات پر غور کر کے فکر تو کرو کہ وہ کیسا طاقتور اور کیسا عظیم الشان بادشاہ ہے جس کو لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کے اقرار کرنے والا انسان مانتا ہے اور درحقیقت انسان کو ضرورت بھی ایسے ہی خدا کی ہے جو اس کی ساری حاجتوں اور ضرورتوں کو جو اسے پیدا ہونے بلکہ نطفہ ہونے کی حالت سے اس دنیا سے قطع تعلق کرنے تک اور اس کے بعد اس لا انتہا زمانے میں ہوتی ہیں پورا کر سکے.ورنہ ایسے خدا کے سوا انسان کا دنیا میں رہنا ممکن ہی نہیں اورنہ آخرت میں اس کے سوا چارہ ہے.ایسا خدا قادر مطلق ربّ
رحمن رحیم اور مالک یوم الدین ہو سوائے اسلامی تعلیم کے اور کہیں نہیں مل سکتا.وہ وہی خدا ہے جس کا بیان لَا اِلٰـہَ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ میں ہے جب ہمیں جس خدا کی ضرورت تھی اور جو ہماری ربوبیت کر سکتا ہے مل گیا تو ہم کو چاہیے کہ جس طرح وہ فرماتا ہے اس کے مطابق عملدرآمد کریں تا کہ اس کی فرمانبرداری سے ایسے عظیم الشان بادشاہ کی مہربانیوں کے مورد بنیں جو اس دنیا کے بادشاہوں سے اعلیٰ اور بے تشبیہ ہے اور ہر ایک امر میں اس کی کلام پاک اور اس کے رسول سے مشورہ لیں کیونکہ وہی ایک ہے جو ہماری بچپن بڑھاپے اور اس دنیا کے بعد کی ضرورتوں کو جانتا اور پورا کر سکتا ہے.اس موجودہ حالت میں تمہیں کس مشورہ کی ضرورت ہے یہ تمہاری بچپن کی عمر ہے تو اس کے مناسب حال مشورے ہی کی ضرورت ہے اس لئے میں تم کو ایک بچے ہی کا قصہ جو قرآن شریف نے بیان فرمایا ہے سنا دیتا ہوں اور وہ اس طرح پر ہے کہ ایک بچہ یوسف نام جس کے گیارہ اور بھائی تھے.معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑے مضبوط زبردست تھے کیونکہ جب انہوں نے اس کو اپنے باپ سے باہر لے جانے کے لئے مانگا تو ان کے باپ نے اس بچے کی کمزوری اور ناتوانی پر رحم کر کے کہا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس کو بھیڑیا نہ کھا جاوے.دوسرے بھائیوں کا خطرہ نہیں کیا کہ ان کو بھی بھیڑیا کھا جاوے گا کیونکہ وہ مضبوط اور ہوشیار تھے اور ان کا جواب (یوسف :۹) جس کا ترجمہ ہے کہ ہم ایک مضبوط جماعت ہیں بھی اسی پر دلالت کرتا ہے.خیر قصے سے مطلب نہیں انہوں نے جوں توں کر کے اس کو باپ سے جد اکر کے جنگل میں جا کر کسی اندھے کنوئیں میں گرا دیا (بچو خیال رکھو وہ بھی تمہارے جیسا ایک بچہ ہی تھا اس کا معاملہ سناتا ہوں) خدا نے جس حالت میں چاہا اسے کنوئیں میں رکھا.کچھ عرصے کے بعد ایک قافلہ وہاں آیا قافلہ والوں نے یوسف کنوئیں سے نکال کر اپنے ساتھ لیا اور دور دراز ملک مصر میں جا کر اسے کسی امیر کے ہاں تھوڑی سی قیمت کے بدلے میں فروخت کر دیا اور اس کی ذرا بھی پروا نہ کی.اب جانتے ہو کہ وہ چھوٹی سی عمر میں جس میں شاید کوئی اور بچہ ذراسی دیر بھی ماں سے جدا ہونا گوارا نہیں کر سکتا پیارے ماں باپ سے بڑی بے رحمی سے توڑ کر الگ کر دیا گیا.ملک سے بے ملک کیا گیا.زبان وہاں کی بالکل سمجھ نہیں سکتا.گویا اس کے واسطے سارے لوگ حیوان ہی ہوں گے اور وہ ایسی جگہ ہے کہ بظاہر کوئی حامی ومددگار وتسلی دہ
غمگسار نہیں ہے.وہاں بھیجا گیا.بچو غور کرو.گو اس کو ایک طرف بڑی تکلیفوں کا مقابلہ تھا.حیرانی، پریشانی اور بے کسی کا سامنا تھا.مگر دوسرے صرف اندر ہی اندر ایک آواز دینے والے نے اُس عین کنوئیں کی مصیبت کے وقت بھی بڑی سریلی آواز اور دل کے اند وہ کو دور کرنے والی کلام سے اور دل کو باغ باغ کرنے والی آواز سے خوش کیا.جیسے کلام مجید میں ذکر ہے.(یوسف :۱۶) جس سے خواہ بظاہر لوگوں کی نظر میں کیسی اشد سے اشد تکلیف ہو تکلیف معلوم نہیں ہوتی.اس کے بعد اس امیر کے دل میں جس نے اسے خرید کیا تھا اور وہ انہیں غلام بنا کر رکھ سکتا تھا اس کے دل میں محبت ڈال دی، محبت بھی ایسی محبت کہ اس کے بجائے اس کے کہ اسے غلام بناوے گھر کا مالک بنا دیا اور ہر طرح کے آرام، راحت، آسائش اور خوشی وہاں انہیں ملی.یہاں تک کہ ایک وقت وہ ایک قسم کا بادشاہ ہی بن گیا بہت سے ملکی اختیارات اسے مل گئے.وہی بھائی معافی کے خواستگار ہوئے جن کو ایک وقت میں جب وہ کنوئیں میں گرانے لگے ہوں گے وہ کہتا ہو گا کہ مجھے کنوئیں میں نہ گرائو.اب وہی فرمانبرداری کے لئے کمر بستہ ہیں.بھلا کیا وجہ ہے کہ بظاہر اسباب تو اسی کے مقتضی تھے کہ وہ ذلیل وخوار ہووے لوگوں کا ماتحت اور غلام بنے.دربدر پھرے.بھوکا رہے.مگر وہ برعکس اس کے ہر جگہ ذلت سے بچا.بلکہ اس کے مخالف آخر اس کے سامنے ذلت سے آئے لوگ اس کے ماتحت بنے وہ کسی کی ماتحتی میں نہ آیا.بلکہ یہاں تک ترقی کی کہ گویا بادشاہی کے درجے تک نوبت پہنچی.جانتے ہو اس کی کیا وجہ ہے؟ میں بتا دیتا ہوں.لڑکو تم جانتے ہو کہ جس لڑکے پر اس کا استاد خوش ہو.اسے وہ استاد کیسا پیار کرتا ہے.محبت سے سبق دیتا ہے اسے انعامات دیتا ہے.کوئی لڑکا اسے مار نہیں سکتا کیونکہ اگر کوئی اسے مارنے یا لڑنے کا ارادہ کرے استاد اسے روک دیتا بلکہ الٹی اس لڑکے کو سزا دیتا ہے.اس کی کیا وجہ ہے کہ استاد اس لڑکے سے پیار کرتا ہے انعام دیتا ہے اور اگر کوئی اسے مارنے لگے تو اس کو سزا دیتا ہے، اس کی صرف یہی وجہ ہے کہ وہ لڑکا اپنے استاد کا حکم مانتا سبق یاد کر کے اسے خوش کر لیتا ہے اس طرح پر وہ آرام میں رہتا ہے اور دوسرے لڑکوں میں اور اس میں بھی فرق اور تمیز ہوتی ہے.پس اب ذرا سوچو کہ جب ایک چھوٹے
سے استاد یا حاکم کو خوش کر کے آدمی خوش رہ سکتا ہے تو کیا اس استادوں کے استاد اور حاکموں کے حاکم کو یعنی اللہ کو جو زمین وآسمان کا بادشاہ ہے خوش کر کے کوئی ذلیل اور خوار ہو سکتا یا کوئی اور اسے ذلیل یا خوار کر سکتا ہے.ہرگزہرگز نہیں.وہ بڑی آرام وآسائش میں رہتا ہے.اللہ اسے دوسرے لوگوں سے اچھی طرح پر محبت سے رکھتا ہے اور اس کی ساری مرادیں پوری کرتا ہے.اس چھوٹے بچے نے بھی جس کا نام یوسف تھا اپنے اللہ کو خوش کر لیا تھا وہ وہی کام کیا کرتا تھا جو اس کے مولیٰ کو پسند ہوتے تھے.وہ چوری، جھوٹ‘ چغلی، غیبت، حرص، طمع، سستی، بزدلی اور شہوات نفسانی سے اور اور جتنی ُبری عادات خدا کو ناراض کرنے والی ہیں سب سے بچتا تھا.دیکھو یوسف کو اسی عورت نے جن کے گھر میں وہ رہتا اور پرورش پاتا تھا حرام کاری کے لئے کہا تو اس نے ذرا بھی خوف یا طمع نہ کی.خدا کا خوف کیا.محسن (محسن کے معنے بتائیں گے) بن گیا اور کہہ دیا توبہ توبہ اللہ کی پناہ ایسا کام ہرگز ہرگز نہیں کروں گا.اللہ نے تو مجھے ایک بڑی عمدہ جگہ دی ہے وہ ایسی حالت ہے کہ اس کے مقابلہ میں ایسی گندی خوشیاں ہیچ اور ناکارہ ہیں اور اس حرام کاری کے کام سے باز رہا.ایسا نہ ہو کہ خدا ناراض ہو جاوے.اسی طرح وہ ہر ایک کام میں اس بات کا خیال رکھتا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ خدا ناراض ہو جاوے.غرض جب اس نے خدا کو ناراض نہ کیا اور جس طرح یوسف نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ تعالیٰ نے بھی یوسف کو خوش کر دیا اور اسے ملک میں بڑی طاقت عنایت فرمائی کیونکہ وہ بڑا نیک کردار اور محسن تھا اور فرمایا کہ ہم سارے لوگوں کو جو ایسے کام کرتے ہیں ایسا ہی آرام اور انعام دیا کرتے ہیں.محسن کے معنے یہ ہیں کہ ہر وقت اللہ کو حاضر ناظر جان لے.جب کوئی کام کرے دل میں دھیان ہو کہ اللہ دیکھتا ہے.بچو ! خدا نے اس کی بڑی قدر کی اور اس کو بڑی عزت دی یہاں تک کہ اپنی پاک کتاب میں اس کے قصے کو احسن القصص بیان فرمایا ہے.بھلا اس سے بڑھ کر اور کیا مرتبہ ہو گا کہ الٰہی دفتر میں مخلصوں، سچوں، نیکوں میں اس کا نام درج ہو گیا.تم بھی اگر چاہتے ہو کہ اس جیسے بن جائو.خدا تم سے پیاری پیاری باتیں کرے اور تم کو سچی کامیابیاں عنایت فرما وے.تم دنیا اور آخرت میں سچی خوشی پائو تو تم کو بھی چاہئے کہ یوسف ؑکے پائوں پر پائوں مارو تا تم ویسی ہی کامیابی حاصل کر لو …… اس کے قصے کو آنکھوں کے سامنے رکھ
کر کہ کس طرح وہ ماں باپ سے الگ اور ملک سے بدر کیا گیا تھا اس کا کوئی حامی ومددگار نہ تھا.اپنے دل کے ان جھوٹے خیالوں کو دور کر دو کہ ہم کیا کر سکتے ہیں کیونکہ کسی کا باپ نہیں کسی کی ماں نہیں کسی کا کوئی تربیت کرنے والا نہیں.پیارو یہ خیال محض غلط ہیں کہ ماں باپ نہیں.اخراجات کی مشکلات ہیں.تربیت کرنے والا کوئی نہیں.بھلا اس بچے کا کون متولی تھا.اس کی تربیت کون کرتا تھا.اس غریب الوطنی کی حالت میں اس کے ماں باپ کوئی ساتھ نہ تھے.نہیں تو پھر کیا وجہ کہ اس نے بڑی کامیابی حاصل کی.یہی کہ نیک تھااور خدا کو ناراض نہیں کرتا تھا.تم بھی اگر وہی اقتدار اور تمکّن حاصل کرنا چاہتے ہو تو آئو تم کو چند ایک ضروری باتیں بتائیں.پہلی بات جو تم کو کرنی چاہئے وہ یہی ہے کہ شریر اور شہوانی لڑکوں سے دور رہا کرو.ان کی صحبت سے ہر وقت پرہیز کرو.بچو! شریر لڑکے چھوٹے چھوٹے بچوں کو پھسلاتے اور برباد کرتے ہیں.ان کی ہر طرح کی بدیوں سے پرہیز کرو.ایسے لڑکوں کے دماغ اور آنکھیں بالکل کمزور ہو جاتی ہیں کوئی محنت کا کام نہیں کر سکتے.ان کی ساری عمر سخت تکلیف سے گزرتی ہے اور ان کو اس بدی کی سزا اسی دنیا میں آخرت کے بعض نمونے کے لئے ملنی شروع ہو جاتی ہے.تم ایسے مشرب کے لوگوں سے بچنا.یہ تو عام لڑکوں میں ُبری عادت ہوتی ہے اور ان کے اس کام کا ُبرا اثر قریباً ان کی اپنی جان تک ہی محدود ہوتا ہے مگر بعض اور جوان ہی شرارت کے میدان میں بڑھ کر قدم رکھنے والے ہوتے ہیں وہ کئی طرح سے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ضائع کرتے ہیں.کبھی ان سے ُبری ُبری باتیں کرتے ہیں کبھی خود ان کے سامنے ننگے ہو جاتے کبھی ان کو ننگے کرتے ہیں.کبھی اپنی پیشاب گاہ ان کے ہاتھ میں پکڑاتے اور طرح طرح کی ناقابلِ ذکر بدمعاشیاں کرتے ہیں.غرض ایک تو شریر اور بدمعاش لڑکوں کی صحبت بد سے بچو کیونکہ ایسی صحبت زہر قاتل کی طرح اندر ہی اندر اپنا اثر کر جاتی ہے جس سے بچنا مشکل ومحال ہو جاتا ہے.یاد رکھو بعض وقت ایسے شریر النفس استاد بھی مل جاتے ہیں ان کا قطعاً خوف مت کرو.اللہ تعالیٰ کی رضامندی کو ان کی رضامندی سے مقدم سمجھو.اس کے بعد بہت بانکپن سے بھی بچنا چاہئے کیونکہ بانکے ہو کر وہ پوشاک‘ وہ وضع قطع‘ ڈھال چال ان کو بڑا سست بنا دیتی ہے کام کرنا تو ان کی شان کو دھبہ لگاتا ہے جب کام نہ کیا پھر لباس پوشاک
خوراک وغیرہ بغیر روپے کے کہاں سے آسکتی ہے تو ایسی ہی جب گھر سے ان کو روپیہ نہیں ملتا تو ان کو بڑی بڑی بدمعاشیوں اور شرارتوں سے کام لینا پڑتا ہے.اکثر چوری کرتے چوری کرواتے ہیں.تو چوری ایک ایسی بُری عادت ہے کہ اس کی چاٹ چھوٹنی محال ہوتی ہے.تم نے سنا ہو گا کہ اکثر چوروں کی ساری زندگی اسی میں گزر جاتی ہے کہ چوری کی پکڑے گئے.قیدی بنے جب میعاد گزر گئی تو پھر وہی چوری کی پھر قیدخانے کی ہوا کھانے کو چلے گئے.غرض اسی طرح پر ان کی ساری عمر قیدخانہ میں ہی گزر جاتی ہے.مگر وہ عادت کسی سزا وغیرہ سے چھوٹ نہیں سکتی.دیکھ لو اسی لئے شریعت نے چور کے ہاتھ تک کاٹنے کا حکم فرمایا ہے.یہاں تک کہ بانکے لوگوں کو کنجروں کا پیشہ اختیار کرنا پڑتا ہے کیونکہ سوائے اس کے ان کا گزارہ نہیں ہو سکتا.اب تم جانتے ہو کہ کنجروں کا دینی یا دنیوی امور ہر دو میں کیا حال ہے.دیکھ لو اگرچہ میں آج جمعہ ہے حکم بھی ہے کہ دھلے ہوئے کپڑے پہنو، نیا جبہ پہنو اور مجھے استطاعت بھی اللہ کے فضل سے ہے مگر میں نے دیکھ لو معمولی کورے لٹھے کا پاجامہ پہنا ہوا ہے.غرض تم کو چاہئے کہ بانکپن سے بہت بچو اور ضرور بچو.یاد رکھو کہ ادنیٰ ادنیٰ بُرائیوں سے اعلیٰ درجے کی شرارتوں تک انسان پہنچتا ہے.بازار کی مٹھائی کا استعمال جہاں تک ہو سکے نہایت ہی کم کرو کیونکہ یہ بھی ایک ُبری عادت ہے اور اس کا چھوٹنا بھی مشکل ہوتا ہے.یہ بھی روپیہ چاہتی ہے تو پھر روپیہ حاصل کرنے کے سارے ُبرے وسیلے اس میں بھی استعمال کرنے پڑتے ہیں.اس سے بھی بُرے بُرے خطرناک نتائج کا خوف ہوتا ہے اور بازار کی مٹھائی کھانے کی عادت بچوں کے لئے زہر قاتل کا اثر رکھتی ہے.ان کے سوائے ہر ایک قسم کی بدصحبت سے بچو.سستی، بزدلی، کم ہمتی کو اپنے دل میں جگہ نہ دو.ہر ایک قسم کے فساد اور لڑائی جھگڑوں سے بچو اور اس کے مقابل پر نیک صحبت جو ہر ایک نیکی کی جڑ ہے اختیار کرو کیونکہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ (التوبۃ :۱۱۹) یعنی تقویٰ اختیار کرو اور وہ اس طرح پر حاصل ہو سکتا ہے کہ صادق راست باز اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو.قرآن شریف عمل کی غرض سے خواہ ایک دو آیت ہی کیوں نہ ہوں عمل کی غرض سے پڑھا سنا کرو.پانچوں نمازوں کو باجماعت عمدہ طور پر ادا کیا کرو.آپس میں اتفاق سے رہو.لڑائی جھگڑا
مت کرو.تھوڑی تھوڑی باتوں میں اختلاف کر کے اس انجمن سے الگ نہ ہو جایا کرو.دعائیں کیا کرو.اس کم ہمتی کو دل میں نہ آنے دو کہ ہم کیا کر سکتے ہیں چھوٹے ہیں اور کل بارہ لڑکے ہیں تم ابھی سن چکے ہو کہ اس بچے یوسف نامی کو ماں باپ سے ملک سے گھربار سے جدا کر دیا گیا تھا چھوٹی سی عمر تھی اور اس میں لطیفہ یہ کہ تم میں سے تو ہر ایک کے گیارہ معین ومددگار ہیں اس بیچارے کے گیارہ بھائی جانی دشمن تھے.تو دیکھو اس نے اپنے خدا کو راضی کر کے کیا مرتبہ حاصل کیا اور کس کامیابی کو پہنچا.اللہ فرماتا ہے. (یوسف :۲۲) یعنی ہم نے اس کو زمین میں بڑی طاقت عنایت فرمائی تھی.نام ایسا عزت سے اب بھی لیا جاتا ہے کہ جو بولتا ہے وہی یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کر کے بولتا ہے.غرض خدا کے دربار سے ناامید نہ ہو جیو.اس کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش سے جس طرح یوسف علیہ السلام نے کامیابیاں حاصل کیں تم بھی اپنی اس انجمن کو ترقی دو اور خدا تعالیٰ سے ایک محبت کا رشتہ بنا لو تا وہ تم کو اور لوگوں سے تمیز کر کے رکھ لے اور تم اس کی نظر میں پیارے ہو جائو.قربان جائیے اس کتاب کے کہ انسان کی ساری ضرورتوں کو جو اسے موقع بموقع بچپن سے بڑھاپے تک اور مرنے تک پڑتی ہیں ان سب کو ہی پورا کرتی ہے.دیکھو آج تم بچوں کے سامنے کچھ بیان کی ضرورت تھی اور نمونہ بھی دکھانا تھا جس کو مدنظر رکھ کر کام کرو تو کس طرح اس نے میرے دل میں مناسب موقع اس بچے کا حال ڈال دیا.اسی پر کفایت نہیں کروا بھی سن لو.حضرت ابراہیم علیہ السلام تم جانتے ہو گے ایک بڑے عظیم الشان خدا کے پیارے نبی گزرے ہیں.ان کو خواب میں دکھایا گیا کہ گویا وہ اپنے بیٹے اسمٰعیل کو ذبح کرتے ہیں اس وقت اس بچے کی عمر معلوم ہوتا ہے کہ قریبا تیرہ برس کی تھی.حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کو کہا کہ بیٹے میں نے دیکھا ہے کہ تم کو ذبح کرتا ہوں بیٹے کی فرمانبرداری دیکھو کہ کوئی عذر نہیں کیا بلکہ کہہ دیا کہ (الصّٰفّٰت:۱۰۳) اے باپ جو آپ کو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے انشاء اللہ تعالی مجھے آپ صابر پاویں گے.اس وعدہ پر پکا رہوں گا.اب ذرا دیکھو! اللہ تعالیٰ نے اس فرمانبردار بچے کو جس نے اپنے آپ کو حکم الٰہی کے موجب گویا
ذبح کروا ہی لیا کیا کیا اجر دئیے.وہ لڑکا جس نے رضا الٰہی کے لئے مرنے سے پہلے مرنا اختیار کیا خدا نے اسے کیسا زندہ کیا کہ قیامت تک بادشاہ لوگ اپنے آپ کو اس کی اولاد میں سے ہونے کا فخر کرتے رہیں گے.اس کی اولاد کے بچے بھی سید یعنی سردار کہلاتے ہیں.خدا نے اس کا نام صادق الوعد رکھ دیا.کیا یہ کوئی چھوٹے بدلے ہیں.نہیں نہیں یہ بڑی بات ہے جو ہر ایک کے نصیب نہیں ہوتی.سرور کائنات بھی انہی کی اولاد میں سے ہیں.کیا یہ کوئی تھوڑی بات ہے مگر کیا وجہ وہی کہ اس نے خدا کو ناراض نہ کرنا چاہا.اس کی رضا کے لئے مرنے سے پہلے مرنا اختیار کیا.خدا عملوں کو دیکھتا ہے ظاہر شان وشوکت پر ہی یہ انعامات منحصر نہیں جس کو چاہے چن لیوے.ایک اور یتیم بچے کا حال بھی سن لو.اس بچے کا نام محمد تھا صلی اللہ علیہ وسلم.وہی ہمارا سید ومولیٰ وہی ہمارا آقا اور شفیع.ان کے والد ماجد جب وہ ماں کے پیٹ میں تھے اور والدہ بزرگوارہ ڈھا ئی سال کا بچہ چھوڑ کر اس جہان سے کوچ کر گئے تھے.کون تھا جس کے ہاتھ سے پرورش ہوتی.تم سوچو اس بچے کا کیا حال ہوتا ہے جس کے والدین اسے چھوٹی عمر میں فوت ہو جاویں.مگر پھر اس یتیم بچے کی کامیابیاں دیکھو کہ کیا اس سے پہلے دنیا میں کوئی آج تک کامیاب ہوا.نہیں ہرگز نہیں ویسا کامیاب نہ کوئی ہوا اور نہ ہو گا.اس کا باعث بھی یہی تھا کہ اس نے مخلوق کی پرواہ نہ کر کے خدا سے تعلق پیدا کر لیا تھا اور اس کے ساتھ دوستی لگالی تھی اور ساری کامیابی کہ آج دنیا میں کروڑوں آدمی کے قریب ہر دم اس پر درود پڑھے اور اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کے نعرے اُڑ رہے ہیں.صرف اسی دوستی کا نتیجہ ہے جو اس خدا کے پیارے نے خدا سے کی تھی.تم کو ان کے بچپن کا ایک حال سناتا ہوں.مکّہ معظمہ میں ان دنوں ایک بڑی انجمن تھی جس میں چالیس سال کے کم عمر کے لوگ شریک نہیں ہوسکتے تھے.اس انجمن کو ندوہ کہتے تھے اور ان لوگوں نے ان بچوں کو فضول سمجھ رکھا تھا.تو رسول اللہ ایسی انجمن میں شریک ہوئے جو کم عمر لوگوں سے بنی تھی.اس انجمن کا ایک کام یہ تھا کہ کوئی مسافر وہاں آگیا ہو اور کسی مصیبت کے باعث اس کے پاس واپس جانے کا خرچ نہ رہا ہو تو اس کی مدد کرنا اور غرباء مساکین کی مدد کرنا اور ایسی قسم کے مظلوموں کی امداد کرنا جن کے ننگ وناموس پر کسی نے حملہ کیا ہو وغیرہ وغیرہ.غرض اپنی نیک نیتی کے باعث سے انہوں نے اس میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل
کیں.اسی طرح اب یہ تمہاری انجمن بھی اس کے مشابہ ہے.تم بھی نیک نیتی خدا ترسی اور اتفاق اور دعا سے کام لو تا کہ کامیاب بن جائو.جانتے ہو کہ میں نے تم کو کیا کچھ کہا ہے اچھا پھر خلاصے کے طور پر بیان کر دیتا ہوں.لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ پر پورا ایمان رکھو کہ اللہ کے سوا کسی کی سچی فرمانبرداری نہ کرو، اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، کسی کو اپنے ضرر یا نفع پہنچانے والا سوائے خدا کے نہ مانو، کسی کو سوائے اللہ کے قاضی الحاجات اور دعائوں کے سننے والا نہ گردانو.بہرحال عسر ویسر میں اسی کی طرف جھکو اور محمدؐ کو اس کا بھیجا ہوا اور اس کی کتاب کا معلم جانو.بعض کام ہیں جن سے بچتے رہو اور بعض ہیں جن کو ہمیشہ کرتے رہو مثلاً (نہ کرنے والے) بُرے، نفس پرست، شہوانی لوگوں کی صحبت سے، حرص، چوری، بانکپن، غیبت، چغلیاں، دوسروں کے حقوق کو تلف کرنے والے اور ہر ایک قسم کے بدکار شریر لوگوں کی صحبت سے ہمیشہ پرہیز کرتے اور بچتے رہو، سستی نہ کرو، لڑائی جھگڑوں سے بچو، بازار کی مٹھائیوں کا استعمال نہ کرو، خود روی اختیار نہ کرو اور ان سب سے بڑھ چڑھ کر خدا سے جنگ نہ کرو.اور کرنے کے کام، نیک صحبت اختیار کرو، ہر ایک قسم کی بُری عادتوں کو چھوڑ دو، سادگی اختیار کرو، حق اللہ اور حق العباد کا خیال رکھو، قرآن شریف عمل کی غرض سے پڑھو یا سنو، نماز با جماعت پڑھو،محنت کے عادی بنو ،ہمت اور بلند حوصلگی اختیار کرو دلیری کرو، دعائیں مانگو، اللہ پر بھروسہ رکھو، نیک نمونہ بننے کی کوشش کرو، خدا کو کامیاب کرنے والا ہونے پر یقین رکھو پھر استقلال اختیار کرو اور ان سب سے بڑھ چڑھ کر خدا سے صلح کر لو.دعا.خدا تعالیٰ مجھ کو اور تم سب کو میں نے جو باتیں کہی ہیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرماوے اور ہم سب کو اپنی سچی فرمانبرداری کرنے کی توفیق دے اور اسی سچی فرمانبرداری میں ہی سب کو اس دنیا سے اپنی طرف بلا لیوے اور ہماری آخری پکار یہی ہو الحمد للّٰہ ربّ العالمین.اٰمین ثم اٰمین.(الحکم۶‘ ۱۳؍جولائی ۱۸۹۸ء صفحہ۹تا۱۳) ٭ … ٭ … ٭
ابتلائوں اور مصائب پرصبر {تقریر فرمودہ ۳؍ستمبر ۱۸۹۸ء بعد نماز عصر} وعظ جو مولانا مولوی نور الدین صاحب نے ۳؍ستمبر ۱۸۹۸ء کو بعد عصر اپنے گھر میں کہا.اس کے بعض بعض حصہ کا اظہار میں امید کرتا ہوں کہ میرے ناظرین اس وعظ کو اپنے گھروں میں سنا کر اپنے اس فرض سے سبکدوش ہوں گے جو (التحریم :۷)کے رو سے ان پر ہے اور الحکم کے پڑھنے سننے والی نیک بیبیاں کوشش کریں گی کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق دے جواس وعظ میں بیان کی گئی ہے.(ایڈیٹر الحکم ) اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ‘ وَرَسُوْلُہٗ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ .. ..(البقرۃ :۱۵۶ تا ۱۵۹) ترجمہ: اور ضرور ضرور ہم انعام دیں گے تم کو بدلہ میں تھوڑے خوف اور بھوک اور کمی ہر مالوں اور جانوں اور پھلوں کے.کیا معنے اگر تم ذرا سا بھی اللہ تعالیٰ سے خوف کرو اور اس کی رضاجوئی کے لئے کسی خوف کی برداشت کرلو اور اللہ کی راہ میں روزہ وغیرہ بھوک کو اختیار کرو.اموال اور جانوں اور پھلوں کو اس کی راہ میں دے دویا کھو بیٹھو.اورخوشی کی خبر سنا دو ان مستقل مزاجوں کو جو سکھ اور دکھ دونوں میں اللہ تعالیٰ کو نہیں چھوڑتے بلکہ ثابت کر دکھاتے ہیں کہ ہم اللہ کے اور اسی کی طرف ہمارا جانا ہے.ایسے لوگ ان کے لئے شاباش ہے اور رحمت، وہی راہ راست پر ہیں.صبرکا
نتیجہ دیکھ صفاو مروہ پر کہ کیسے مقام پر ہاجرہ نے رہنا اختیار کرلیا جو بے کھیت کا ملک ہے پھرصبرکے بدلہ اللہ تعالیٰ نے اس کی اولاد کو کیسا سکھ دیا.میںنے تمہیں یہ چند آیتیں جو قرآن کریم کی سنائی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے چند ایک نصیحتیں اپنے بندوں کو فرمائی ہیں جن میں سے ایک صبر بھی ہے.صبرکے نتیجے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کس طرح اور کیونکر دیتا ہے اس کی بہت سی مثالیں ہیں.جن کو اگر مفصل بیان کیا جاوے تو بیان بہت لمبا ہو جاتا ہے مگر میں تمہیں بتلائے بغیر بھی نہیں رہ سکتا.شاید تم میں کوئی نیک بی بی ہو جو اس پر محض اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے عمل کرے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت تھی جس کا خاوند زمینداری کرتا تھااوران کا لڑکا بیمار تھا.ایک روز خاوند باہر کام پر گیا اور پیچھے سے لڑکا فوت ہوگیا.اس کی بیوی نے لڑکے کو ایک چارپائی پر ایک کونے میں لٹا دیا اور آپ خوب عمدہ لباس پہن کر خاوند کے آنے سے پیشترعمدہ کھانا تیار کر کے شاداں و فرحاں بیٹھ رہی.جب خاوند آیا تو اس نے لڑکے کا حال دریافت کیا.عورت نے جواب دیا اس نے آج آرام کیا ہے.خاوند نے سمجھا کہ ٹھیک کہتی ہے جبھی تو اس نے عمدہ لباس پہنا ہے غرض دونوں نے کھانا کھایا اورہرطرح سے لطف اٹھایا جب کھانا کھا کر اور جماع سے بھی فارغ ہو چکے تو عورت نے خاوند سے پوچھا ہمارے پاس کسی شخص کی امانت کچھ روزرہے پھر وہ صاحبِ امانت اپنی امانت مانگنا چاہے تو ہم کو بخوشی وہ امانت دے دینا چاہیے یا نہیں؟ خاوند نے کہا کہ امانت والے کو دینا چاہیے.پس عورت نے کہا کہ بچہ بھی امانت کے طور پر ہمارے پاس تھا.صاحب امانت نے اسے لے لیا.پھر خاوند ترساںوہراساں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سارا ماجرا بیان کیا.حضور نے فرمایا کہ اس صبر کے معاوضہ میں جو تیری بیوی نے کیا اللہ تعالیٰ نے ان کو سات یا نو بچے دئیے جو سب کے سب قاری ہوئے ایک شخص بیان کرتا ہے کہ میں نے ان سب کو دیکھا ہے.دیکھو کس قدر بدلہ عظیم اللہ تعالیٰ نے ایک صبر کرنے پر دیا.سنو؟عورتوں میں دستور ہے کہ جب دو چار مل کر بیٹھتی ہیں تو غیبت ، بد گوئی ، گلہ اور طرح طرح کی شرارتیں کرتی ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جب عورتیں آپ کی مرید ہونے کو آتی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.
(الممتحنۃ :۱۳) اے محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب تیرے پاس مومن عورتیں اس غرض کے واسطے آویں کہ وہ تجھ سے بیعت کر یں پس ان سے یہ اقرار لے کر بیعت کرکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو.یعنی کوئی مَنّت اور نذر غیراللہ کی نہ مانیں اور نہ غیر اللہ سے مرادیں مانگیں.چوری نہ کریں.زنا نہ کریں ہاتھ کا زنا، کان کا زنا،ناک کا ،آنکھ کا اور وہ زنا تو بدرجہ ادنیٰ نہ کریں جسے عام زنا یا بدکاری کہتے ہیں‘ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں اولاد کو قتل کرنے کی کئی راہیں ہیں.اول تو اس وقت کئی عورتیں اپنی لڑکیوں کو جب وہ پیدا ہوتی تھیں مار ڈالتی تھیں.چنانچہ اب بھی میں دیکھتا ہوں کہ ایسا ہوتا ہے.دوئم اولاد ہونے کے بعد ایسی دوا کھاتی ہیں کہ جو مانع حمل ہو.تیسرا حمل کا گرا دینا.چہارم اگر لڑکیاں بیمار ہو جاویں تو ان کا علاج نہ کرنا اور یہ کہنا کہ ان کو موت کہاں آتی ہے.پھر بہتان باندھنے سے باز آئو.بہتان وہ عیب کی بات ہے کہ جو کسی شخص میں نہ ہو اور اس پر وہ عیب لگایا جاوے.وہ بہتان جو تم اپنے ہاتھوں اور پائوں سے بناتی ہو اور بھلے کاموں میں تیری نافرمانی نہ کریں.پھر ایسی عورتوں کے واسطے مغفرت مانگ.پس ہر ایک عورت کا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرید ہوناچاہتی ہے یا اپنے آپ کو مرید سمجھتی ہے یعنی مسلمان کہلاتی ہے ضروری ہے کہ وہ ان بری باتوں کو چھوڑ دے ورنہ وہ نام کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استغفار میں شامل ہوکر خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے حصہ نہیں لے سکتی.غور کرو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قرآن کریم کے پہنچانے میں کتنی کتنی مصیبتیں بھی آئیں آخر حضور نے اس کو پہنچایا.مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس نے صرف خدا تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے سارے قرآن کو ایک بار بھی سمجھ کر پڑھا ہو یا سنا ہو.ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی جس کو کافروں نے کہا کہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے مگر اس نے انکار کیا.اس پر ان شریروں نے اس کی شرمگاہ میں برچھی مار کر گلے سے نکالی.اس کا خاوند دیکھتا تھا اسے کہا تو بھی گالی دے ورنہ تیرا بھی ایسا ہی حال ہوگا چنانچہ اس نے بھی انکار کیا اور انہوں نے اس کی ایک ٹانگ ایک اونٹ سے اور
دوسری دوسرے سے باندھ کر ان کو الگ الگ چلا دیا اور اس کو اس طرح پر پھڑوا کر مروا ڈالا.دیکھو وہ کیسے مبارک لوگ تھے.اس قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر کیا کیا تکلیفیں برداشت کیں اگر تمہارے کسی پیارے شخص کی کوئی چٹھی آوے تو جب تک تم اسے پڑھ یا پڑھا نہ لو تمہیں چین نہیں آتا.قرآن اللہ تعالیٰ کی چٹھی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان شخص لانے والا مگر اس کی کچھ پرواہ نہیں کی جاتی.پیاریو! اللہ تعالیٰ بڑا نکتہ گیر اور نکتہ نواز ہے ہر وقت اس سے ڈرنا چاہئے.میں تمہیں ایک آپ بیتی کہانی سناتا ہوں شاید تم میں سے کوئی نیک بی بی نصیحت پکڑے.میری والدہ صاحبہ نے اسّی برس تک قرآن پڑھایا اور ان کے ہم نو بچے تھے.ہمارے ہاں ایک بڑا مال و اسباب اور کتب خانہ بھی تھا.جن دنوں روس اور روم کی لڑائی ہورہی تھی میں نے اپنی والدہ سے ایک روز کہا کہ اچھا ہو اگر تم اپنا ایک بچہ اس وقت قربان کردو اور اسے مسلمانوں کی مدد کے لئے لڑائی میں بھیج دو خواہ میں ہی کیوں نہ ہوں.میری والدہ نے کہا کہ ایں! میرے جیتے جی! تم مجھ سے الگ ہو جائو نہیں ہوسکتا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سب اولادیں بجز میرے ان کی زندگی میں فوت ہوگئیں.ایک روز میں اس کتب خانہ کے مکان میں لیٹا ہوا تھا جب کہ وہ بالکل خالی پڑا تھا.میری والدہ صاحبہ وہاں آئیں اور انہوں نے اس حالت کو دیکھ کر بہت بلند آواز سے کہا کہ (البقرۃ :۱۵۷) میں نے کہا کہ امّاں یہ آواز کی بلندی بے صبری سے معلوم ہوتی ہے.مجھے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے مرنے پر شاید میں بھی نہ پاس ہوں گا یا اسی کے قریب الفاظ ہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا جب ان کا انتقال ہوا تو میں کہیں دور تھا.غرض اللہ تعالیٰ بڑا ہی بے نیاز اور نکتہ نواز ہے تم اپنے الفاظ سمجھ کر خدا سے ڈر کر منہ سے نکالا کرو.پھر میں دیکھتا ہوں کہ عورتیں اللہ تعالیٰ کے احکام کی بالکل پرواہ نہیں کرتیں اور اپنے رسومات کی ایسی پابند ہیں جس کی کچھ حد نہیں ہے.ہمارے پڑوس میں ایک عورت کے گھر میں بچہ پیدا ہوا ہے.میرا دل اس بات کو دیکھ کر حیران ہوتا ہے کہ اس نے اپنی کسی مَنّت کے واسطے قبل از تولّد اور عین تولّد پر تو بکرے ذبح کردیئے مگر جو امر مسنون اور ساتویں دن عقیقہ کرنے کا حکم تھا اس کے واسطے اس کے پاس خرچ نہیں.کبھی اس لڑکے کا باپ آوے گا تو شاید
کرے گا.ایک اور عورت ہمارے پڑوس میں رہتی ہے کہ جو اپنی اولاد کو ایسے ایسے خطرناک الفاظ سے پکارتی ہے کہ اگر اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فرشتے آمین کہنے میں شامل ہوویں اور آمین کہہ دیں اور اس کی وہ بد دعا قبول ہوجاوے تو شاید اللہ تعالیٰ پر اسے کتنی بڑی بدظنی اور ناراضی ہو.آیات میں جو میں نے پڑھ کر سنائیں ہیں اللہ تعالیٰ ایک خاص صابر آدمی کا ذکر فرماتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک بیوی تھی جس کا نام ہاجرہ تھا اور وہ شاہ مصر کی لڑکی تھی اس کے باپ نے اسے بہت بڑی دولت اور مال دے کر بیاہ دیا تھا.وہ چھوٹی عمر کی تھیں اور ان کو حمل ہوگیا.جب حمل ہوگیا تو حضرت ابراہیم کی پہلی بیوی نے اسے گھر سے نکال دیا اور اس کا سارا مال رکھ لیا.پھر اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا کہ خواہ وہ کچھ کہے تم اس کے گھر چلی جائو.پس وہ چلی گئی جب لڑکا تولّد ہوا تو پہلی بیوی نے حضرت ابراہیم سے کہا کہ میں نے تم سے اقرار لیا ہوا ہے کہ جو میں کہوں اسے تم پورا کرو.پس ان ماں بیٹے کو ایسے جنگل میں چھوڑ آئو جہاں نہ دانہ ہو نہ پانی ہو نہ سبزی وہ اسے ایک جنگل میں پہنچانے کے واسطے لے گئے.جب وہاں چھوڑا تو ہاجرہ نے پوچھا تم یہاں ہم کو کس کے حکم سے چھوڑ چلے ہو؟ حضرت ابراہیم نے کہا اللہ کے حکم سے.ہاجرہ بولی اب جائو اب ہم تمہاری کچھ پرواہ نہیں کرتے.تھوڑا سا پانی ان کے پاس تھا جب وہ خرچ ہوگیا تو بچے کو پیاس لگی.ماں کا دودھ خود پیاس کے سبب سے خشک ہوگیا تھا.پس بچہ شدت بھوک پیاس سے زمین پر ایڑیاں مارنے لگا.گویا اس بھوک پیاس سے اب اس کی جان نکلتی ہے.اس کی والدہ نے بڑے صبر سے کام لیا.پھر وہ ایک پہاڑی پر گئیں جس کا نام صفا ہے.حاجی لوگ اس جگہ کو خوب جانتے ہیں اور لگی پہاڑیوں پر ادھر ادھر دوڑنے کہ شاید کوئی بستی یا گائوں نظر آوے مگر جب ناامید ہوکر واپس آئیں تو دیکھا کہ بچے کے پائوں کے نیچے سے آب زمزم جاری ہے.پھر وہاں ایک قافلہ آیا.اس نے کہا کہ اگر کہو تو یہاں ایک سرائے بنالیں.انہوں نے کہا کہ پانی کی سرداری میری رہی.پس اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر اس مقدس شہر کو آباد کیا جس کا نام مکہ ہے اور جہاں آج ساری دنیا کے مسلمان حج کو جاتے ہیں.دیکھو یہ سب کچھ صبر ہی کا نتیجہ تھا.سنو! جس گھر میں کوئی مصیبت یا تکلیف آتی ہے اللہ تعالیٰ
وہاں اپنے فرشتوں کو بھیجتا ہے کہ جو کچھ گھر والے کہیں تم ساتھ آمین کہو.پس جو عورت بے صبری سے کلمات زبان پر لاتی ہے اگر اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فرشتے آمین کہہ دیں اور وہ دعا منظورِ خدا ہوجاوے تو اس عورت کا کیا حال ہو.ایسی بے صبریوں میں کوئی آنکھیں کھو بیٹھتی ہے کوئی ہاضمہ بگاڑ لیتی ہے.کسی کا سر خراب ہوجاتا ہے.غرض طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں.پس بڑے صبر سے کام لو.کاش میری بیویاں بھی میرے کہنے پر بتمامہٖ عمل کرتیں تو میں ان کو اس سے کہیں زیادہ محبت کرتا جو اب کرتا ہوں.پھر میں دیکھتا ہوں کہ انسان جس دنیا اور مال و اولاد کی خاطر ایسی ایسی تکلیفیں اٹھاتا ہے.ان میں سے کوئی ایک بھی اس کی مصائب میں حصہ نہیں لے سکتا.ذرا پیٹ میں درد ہو تو اس کے ہٹانے والا کوئی نہیں.غور کرو.مجھے حضرت مرزا صاحب نہایت ہی پیارے ہیں.میں نے ملک، وطن، نوکریاں، زمین، ہر قسم کے ذرائع، تحصیل مال و منال ان کے حضور خاص رہنے کی خاطر چھوڑیں ہیں.اگر کہیں جاتا بھی ہوں تو صرف ان کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے اور بھی یہاں تک مجھے وہ پیارے ہیں کہ اگر میرے پچاس بیٹے ہوں تو میں اس کے ایک بیٹے پر ان پچاس کو قربان کردوں لاکن غور کرو جب مجھے کوئی دکھ، درد، تکلیف پہنچتی ہے.وہ بھی بجز رضاء الٰہی کے ہرگز ہرگز ہرگز میرے دکھ درد کا حصہ نہیں لے سکتے.پس اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگو اور صبر اور استقلال سے کام لو.اس کی رضاء پر راضی ہوجائو اور قرآن کریم پر عمل کرو.اللہ تعالیٰ مجھ کو اور تم کو قرآن کریم پر عمل کرنے کی توفیق دے اگر کوئی مجھ پر کسی ایسے کلمہ سے جس کے ساتھ اس کی دل آزاری ہوئی ہو ناراض ہوئی ہو تو وہ معاف کرے کیونکہ میں نے صرف دردِ دل اور اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچانے کی خاطر سچی ہمدردی سے یہ باتیں کہی ہیں.(الحکم ۶‘۱۳؍ستمبر ۱۸۹۸ء صفحہ۸تا۱۰) ٭…٭…٭
صحبت صادقین {تقریر فرمودہ نومبر۱۸۹۹ء بر موقع تقریب جلسہ ء الوداع } (التوبۃ :۱۱۹) ہر ایک مریض و بیمار کے لئے ضروری ہے کہ اگر وہ اپنی زندگی اور صحت کی کچھ بھی قدر جانتا ہے تو کسی تجربہ کار طبیب کے حضور حاضر ہو اور اپنی بیماری کے حالات عرض کرے اور پھر صبر اور استقلال کے ساتھ اس کے علاج اور طبی مشورہ سے فائدہ اٹھائے.گھبرائے نہیں! بے دل نہ ہو! جلدبازی نہ کرے! بد پر ہیز نہ ہو.طبیب کی رائے میں اپنی رائے کا دخل نہ دے اور نہ کسی دوسرے کی رائے کو اس پر مقدم کرے اور پوری احتیاط اور ہوشیاری کے ساتھ اس کے تجویز کردہ نسخہ کو استعمال کرے.یہ قاعدے اور اصول ہیں جو ہر مریض کو اختیار کرنے چاہئیں.اگر وہ اپنی جان کی پرواہ کرتا ہے.ایسا مریض اگر اس کا مرض حد علاج سے باہر نہیں ہوگیا.یعنی مرض اس پر پورا پورا اثر کرکے اس کے قویٰ کو مضمحل اور بیکار نہیں کرچکا ضرور ہے کہ اس تجربہ کار طبیب سے فائدہ اٹھائے.لیکن اگر مرض اس کو کھا چکا ہے اور علاج کے لئے کوئی وقت اور موقع باقی نہیں رہا تو گو وہ مریض بچ نہ سکے تاہم کسی نہ کسی حد تک فائدہ اٹھائے گا.لیکن اگر مریض ان قواعد اور اصول کی پیروی نہیں کرتا اور جلد بازی اور عجلت سے کام لیتا ہے تو طبیب اس کی کیا پروا کرے گا.کچھ بھی نہیں اور وہ شخص جس سے طبی مشورہ لیا جاوے، جس کی صحبت میں رہ کر اپنے دکھوں کا علاج کیا جاوے تجربہ کار ہونا ضروری ہے.اس اصل کو یاد رکھنے کے بعداب یہ سمجھنا چاہئے کہ امراض دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو جسمانی امراض ہوتے ہیں اور دوسرے روحانی، جسمانی امراض کا اثر بھی روح پر پڑتا ہے.اس لئے سرور عالم فخر ولدآدم صلی اللہ علیہ وسلم نے علوم کی تقسیم بیان فرماتے ہوئے یہی فرمایا العلم علمان علم الابدان وعلم الادیان(الفوائد المجموعۃ کتاب الفضائل.فی فضائل العلم و ما ورد فیہ لما لم یصح).علم الابدانکو علم الادیان پر مقدّم اسی لئے کیا ہے.یہ مسئلہ بہت ہی صاف اور واضح ہے کہ جسمانی امور اور حوادث کا اثر روح پر ضرور پڑتا ہے.
اگر کسی کے سر میں چوٹ لگ جاوے تو اس کی قوت حافظہ متفکّرہ اور دوسرے عقلی قویٰ میں فتور آجاتا ہے.انسان اگر بیرونی حوادث سے متاثر ہو تو اس کی روح پر بھی ایک اثر ہوتا ہے اور اس کے قلب میں رقت پیدا ہوجاتی ہے.غرض اس امر کی بہت سی مثالیں ہیں اور اس پر مجھ کو کسی لمبی بحث کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک عام مسلّم بات ہے.جس طرح پر جسمانی امراض بے شمار ہیں.اسی طرح روحانی امراض بھی کثرت سے ہوتی ہیں اور ہر عضو اور قوت کی جداجدا بیماریاں ہوتی ہیں.بہت سی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان ان کو بالکل معمولی باتیں سمجھتا ہے لیکن وہ اندر ہی اندر اپنی باریک رفتار سے بہت سی روحانی قوتوں کا ستیاناس کردیتی ہیں اور آخر روحانی طور پر انسان کو ہلاک کردیتی ہیں.پس جیسے کسی جسمانی عارضہ کو گو وہ کیسا ہی خفیف کیوں نہ ہو کبھی خفیف نہیں سمجھنا چاہئے اور تجربہ کار اور حاذق طبیب کی صحبت میں رہ کر اس کے مشورہ اور ہدایت کے موافق علاج اور پرہیز کے اصول مدنظر رکھ کر علاج کرنا ضروری ہے.اسی طرح پر روحانی امراض کے علاج کی فکر چاہئے.علاج کرانے کے اصول اس میں بھی وہی ہیں جو جسمانی علاج کے ہیں یعنی بدظنی نہ ہو، شتاب کاری، بد پرہیزی اور اپنی یا کسی اور کی رائے کا تقدّم طبیب کی رائے پر نہ ہو.ایسا مریض فائدہ اٹھانے کی توقع کرسکتا ہے اور فائدہ اٹھاتا ہے.خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے مجھے موقع دیا ہے کہ امراض اور ان کے علاج کا ایک علم اور تجربہ مجھے عطا فرمایا اور ایک فقیر سے لے کر بادشاہ‘ جاہل سے لے کر عالم غرض ہر طبقہ اور عمر کے لوگوں کے امراض اور ان کے طرز علاج کا علم سیکھا اور چونکہ جسمانی اور روحانی امراض کے اصول ایک ہی ہیں.محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے باریک در باریک روحانی امراض کا علم بھی مجھے دیا گیا ہے اور میں مولیٰ کریم کی حمد کرتا ہوں اور اس کا شکر گزار ہوں کہ اس نے جیسے مجھے امراض کا علم عطا کیا.اس کے علاج کی طرف بھی توجہ دلائی اور تمام قسم کے روحانی امراض کا مجرب نسخہ میں نے پالیا.وہ مجرّب نسخہ خدا تعالیٰ کی پاک کتاب قرآن شریف ہے.جس کا نام رحمت، ہدایت، شفا، نور، فرقان، کتاب منیر وغیرہ وغیرہ ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ بھی احسان کیا کہ اس نسخہ کا عشق اور محبت میرے دل میں ڈال دی اور اس رحمت اور شفا کتاب کو میرے لئے روحانی غذا بنادیا جس کے بغیر
میں سچ کہتا ہوں کہ زندہ نہیں رہ سکتا.اور پھر اس کے فضلوں میں سے ایک عظیم الشان فضل مجھ پر یہ بھی ہے کہ اس نسخہ کا سچا عامل اور حاذق طبیب جو اس زمانہ کے مریضوں کے لئے مسیح ہے.اس کا مجھے پتہ دیا اور نہ صرف پتہ بلکہ اس کی خدمت میں پہنچا کر مجھے موقع اور توفیق دی کہ میں اپنی روحانی امراض کا علاج کروں.چنانچہ میں یہ ساری باتیں تحدیث بالنعمت کے طور پر ظاہر کرتا ہوں کہ میں نے اس کی صحبت میں رہ کر اپنی بہت سی بیماریوں سے خدا کے فضل سے شفاء پائی اور بہت سے امراض ہیں جو دور ہورہے ہیں.میں چونکہ اصول علاج سے واقف اور تجربہ کار ہوں.اس لئے میں جو کچھ کہوں گا وہ خیالی اور فرضی باتیں نہیں ہوسکتیں ہیں اور میں اس لئے بیان کرتا ہوں کہ شاید کسی کو فائدہ پہنچ جاوے.قرآن شریف کو غور سے پڑھنے اور اس زمانہ کی حالت پر فکر کرنے کے بعد جبکہ وہ نازل ہوا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جس قدر امراض روحانی طور پر ہوسکتے ہیں اور میرا تو یقین ہے کہ جسمانی بھی وہ سب کے سب اس نسخہ کے استعمال سے پیدا ہی نہیں ہوتے اور اگر ہوچکے ہوں تو دور ہوجاتے ہیں لیکن اس کے لئے ضرورت ہے صدق کی، ضرورت ہے استقلال اور صبر کی، ضرورت ہے حسن ظن کی.یہ ایک عام اصول ہے کہ ہر مریض کو ضروری ہے کہ وہ کسی تجربہ کار طبیب کے حضور حاضر ہو اور اس طبیب کو ضروری ہے کہ تجربہ شدہ نسخہ اس کے علاج کے لئے استعمال کرے.دنیا میں جس قدر امراض اس وقت ہیں یا تاریخ شہادت دیتی ہے کہ ہوچکی ہیں وہ سب کی سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھیں.سب سے بڑھ کر قابل عزت و عظمت اللہ تعالیٰ کی کتاب ہوسکتی ہے اور ہے لیکن اس زمانہ میں اللہ کی کتاب ایسی چھوٹ گئی تھی کہ کتاب اللہ کا کہیں پتہ ہی نہیں ملتا تھا.چنانچہ طبقات الارض کے محققوں کو بھی باوجود یکہ انہوں نے زمین کو کھود ڈالا اس کا پتہ نہ ملا بلکہ صرف ترجمہ در ترجمہ در ترجمہ رہ گئے.جس سے ایک آدمی جو سمجھدار ہو اندازہ کرسکتا ہے کہ وہ لوگ جو اہل کتاب کہلاتے تھے کن مشکلات اور مصائب میں مبتلا تھے.وہ قوم جو اپنی عقلوں اور علوم پر آج ناز کرتی ہے.اپنی صفتوں اور ملمع سازیوں پر اتراتی اور خدائی کے دعوے کرتی ہے.اس کا یہ حال کہ بغل میں جو کچھ لئے پھرتی ہے اس کے اصل کا ہی پتہ نہیں.مذہب کا معاملہ ایمان کا معاملہ ابدی رنج و راحت کا سوال مگر افسوس اس کے حل کرنے کی کلید روحانی امراض کا شفا بخش نسخہ خدا کی کتاب پاس نہیں اور
جو پاس ہے وہ ترجمہ در ترجمہ ہے اور اس کو لے کر خوش ہورہے ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں خدا کی کتاب ہے!!! افسوس اس قوم پر جو اپنی توجہات سے باریک در باریک راہیں نکالتی ہے کلام اللہ سے اس طرح محروم ہے اور تعجب اور عبرت کی جگہ ہے کہ اس کا فخر ایسا ملیا میٹ ہوا کہ سچی کتاب کا پتہ نہیں کہ کہاں گئی.۱؎ یہ دنیا کی معزز قومیں جیسی اس وقت اپنی کتاب کا پتہ نہ دے سکتی تھیں اور اس طرح پر گواہی دے رہی تھیں کہ ہادی کامل کے آنے کے وقت دنیا کی کیا حالت ہوتی ہے.آج بھی باوجود تیرہ سو سال کی ترقیوں کے اسی طرح اپنی کتاب کی اصلیت پیش کرنے سے قاصر اور بے دست و پا ہیں.میں حیران ہوتا ہوں کہ ایک طرف یہ قوم اس قدر بلند پروازیاں کررہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر احاطہ کرنے کے دعوے کرتی اور رموز قدرت میں سے بہت سے امور کو اپنے قبضہ میں کرلینے کی مدعی ہوتی ہے اور دوسری طرف یہ حال کہ اصل کتاب کا پتہ نہیں دے سکتی! یہ صدی لا انتہا نہیں تو کثیر التعداد ترقیوں کی صدی کہلاتی ہے لیکن مذہب کے معاملہ میں کتاب اللہ کی تفتیش اور تحقیق کے متعلق ایسی گری ہوئی صدی ہے کہ پہلے سے بھی زیادہ اس معاملہ کو تاریکی میں گرادیا ہے.آزاد خیال (فری تھنکرز) لوگوں نے کوشش کی ہے کہ یورپ کو مذہب ہی کی قید سے آزاد کریں.یہ ایک اور ثبوت ہے کہ اس وقت ایک ہادی کی ضرورت ہے.غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت یہ تو پچھلوں کا حال تھاجن کی کتاب کو نازل ہوئے پورے چھ سو سال بھی نہ ہوئے تھے تو ان سے پہلوں کا کیا حال؟ توریت شریف کے محافظ جو انبیاء اللہ اور احبار کہلاتے تھے ان کا یہ حال ہے کہ وہی توریت جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے منسوب کرتے ہیں اسی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا بھی ذکر کیا ہے.حالانکہ یہ ناممکن بات ہے.کیونکہ وفات کا واقعہ حضرت موسیٰ کے بعد کا ہی ہوسکتا ہے اور پھر قبر کا پتا نہیں یہ بھی اس میں لکھا ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایسے واقعات کا اندراج بعد میں ہوا ہے اور اس سے صاف کھل جاتا ہے کہ اصل توریت کی کیا حالت تھی اور وہ کہاں تک علماء یہود کی دست برد کے نیچے تھی.اس میں کمی بیشی کرنے کے لئے وہ کیسے بے باک اور دلیر تھے؟ اپنے مذہبی شعائر سے ایسے ناواقف اور بے خبر کہ بیت اللہ کی تعیین میں ہی ان کو شبہ پڑا ہوا تھا
جیسا کہ انجیل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے.غرض یہ تو ان دو قوموں کا حال ہے.جو اپنے آپ کو صاحب کتاب سمجھتے ہیں اور قرآن شریف کھلے طور پر جن کا مصدّق بھی ہے.پھر ان دو سے پہلے جو قومیں گزری ہیں.ان کے بقیۃالسلف جو اس وقت موجود ہوں گے ان کی حالت کا اس پر قیاس کرلو.ہمارے اس ملک میں ایک قوم اٹھی ہے جس کو زمانہ کے تازیانہ نے یا ترقی کی ہوا نے بیدار کیا ہے.وہ بھی ایک کتاب لے کر میدان میں نکلی ہے اور اپنی طرف سے کوشش کررہی ہے کہ اس کتاب کو دوسری کتابوں کے بالمقابل کوئی جگہ دے مگر مجھے حیرت آتی ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی کتاب کا پتہ جرمن سے ورے نہیں ملتا اور اگر اب پائی بھی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کے سمجھنے والا ہی کوئی نہیں پہلوں نے جو ترجمے کئے بھاش لکھے ٹیکا کئے وہ بالکل غیر مفید غیر متعلق اور خانہ ساز تھے اصل عبارات سے ان کا کچھ تعلق نہیں ہے.میں جب ایسی آوازیں سنتا ہوں تو میری حیرت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ کتاب کی اصل غرض عمل ہوتی ہے اور عمل کے لئے مطلوب ہے اس کا علم اور واقفیت اور وہ یہاں مفقود ہے پھر اس کتاب کا فائدہ کیا؟ غرض جس قدر اس سوال پر میں نے سوچا ہے اور میں سچ کہتا ہوں کہ میں نے مدتوں سوچا ہے اور بالکل خالی الذہن ہوکر محض سچائی اور راستی کے لینے کے لئے سوچا ہے اسی قدر میرا تعجب اور افسوس بڑھا ہے ان قوموں پر ان کتابوں پر.اور شرح صدر ہوا ہے قرآن کریم کی تعلیمات کی سچائی پر اور اس کے لانے والے کی صداقت پر اور بے اختیار ہوکر میرے دل سے نکلا ہے.اللّٰھم صلّ علٰی محمد وعلٰی اٰل محمد وبارک وسلّم دنیا کے مختلف مذاہب اور ان کی مذہبی کتابوں اور ان کے ماننے والوں کی عملی حالت نے مجھے ضرورتِ قرآن کی طرف بڑی بھاری رہنمائی کی ہے اور میں یقینا جانتا ہوں اور اسی لئے دعویٰ سے کہتا ہوں کہ جو شخص اپنے گوشہ تنہائی میں دل کو صاف کرکے اس تفرقہ مذاہب اور حالت مذاہب پر نظر کرے گا اگر اس کے دل میں کچھ بھی سلامتی اور فطرت میں سعادت، سر میں دماغ اور عقل میں قوت فیصلہ ہے تو وہ اس نتیجہ پر بہت جلد پہنچ جاوے گا کہ اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو انسان کے روحانی تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور قرآن شریف ہی ایک کامل کتاب ہے جو انسان کی زندگی کو مفید اور ان
اغراض کے ماتحت کرنے کے لئے اکیلی ہادی ہے جن کے لئے وہ پیدا ہوا ہے.پھر عرب کی حالت اور بھی قابل غور ہے.اس کے اردگرد یہ تینوں قومیں آباد تھیں.ہندوستان میں وید کے ماننے والے ایران میں زرتشتی مذہب کے پیرو اور شام میں اور عرب کے حصص میں عیسائی اور یہود لیکن کس قدر تعجب خیز بات ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ایسا قوی التاثیر مذہب نہ ہوا کہ عربوں پر اپنا اثر ڈال سکتا.تاریخ دنیا کا مصنف (جو ہمارے سید و مولا امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک دعا کا نشانہ اور اسلام کی صداقت پر ایک نشان ہے) جس نے بڑے فخر سے اپنے آپ کو براہین احمدیہ کی تکذیب لکھ کر مکذّب کہا ہے.عرب کو آریوں کا راستہ بتاتا ہے کہ وہ مصر کو اسی راستہ سے جاتے تھے مگر مجھے ہمیشہ ہی تعجب رہا کہ وہ صداقتیں جو وید میں تھیں یا تو ان آریوں کو بھی معلوم نہ تھیں جو مصر کو عرب کے راستہ جاتے تھے اور یا ایسی کمزور اور بودی تھیں کہ عرب جیسے مشرکوں پر کوئی اثر ہی نہ ڈال سکتی تھیں.اسی طرح پر عیسائیوں اور یہودیوں اور زرتشتیوں کے فیضان سے عرب محروم کا محروم ہی رہا.مگر یہ کیا معجزہ ہے کہ عرب میں جب فاران کی چوٹیوں اور حرا کے غاروں سے ایک نور نکلا تو اس نے ہند پر اپنا اثر ڈالا.ایران پر اپنا اثر ڈالا.ایران پر اپنا اثر اور عیسائیوں اور یہودیوں پر اپنا اثر.وہ عرب جن پر کسی کا اثر نہ پڑا تھا ان کے اثر سے سب کے سب متاثر ہوگئے اور اس کے نور سے سب نے حصہ لیا.میں تو اس سے یہی نتیجہ نکالتا ہوں کہ یہ لوگ جو کچھ اپنے پاس لئے بیٹھے تھے وہ دراصل ایک کمزور اور بے حقیقت شیء تھی.جس میں دوسرے پر اثر اندازی اور جذب کی کوئی قوت ہی نہ تھی ورنہ یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ وہ اثر کرنے سے رہتی اور حقیقت میں یہ بالکل سچ ہے جبکہ ابھی میں نے دکھایا ہے کہ ان لوگوں کی مذہبی کتابوں کی یہ حالت تھی.جب ایسی حالت اور صورت تھی تو دانشمند بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ دنیا اس وقت کس قدر جہالت کا سامان اکٹھا کرچکی تھی.عرب میں تفرقہ اس قدر تھا کہ وحدت کا نام و نشان بھی پایا نہ جاتا تھا.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے تحدیث بالنعمت کے طور پر اس امر کا ذکر کیا ہے کہ (اٰل عمران :۱۰۴)
تم آپس میں دشمن تھے.ہم نے تمہارے دلوں میں ایسی محبت ڈال دی کہ اگر رات کو تم دشمن سوئے تھے تو صبح کو بھائی بھائی بن کر اٹھے.غرض ان میں وحدت نظر نہ آتی تھی.نہ وہ فاتح تھے اور نہ مفتوح جیسے وہ حکمرانی کے قواعد و ضوابط سے نا آشنا محض ویسے ہی رعایا بن کر رہنے کے اصول سے ناواقف.نہ مصنف تھے نہ موجد تھے.غرض کچھ بھی نہ تھے.ایسی حالت میں ان کی عام حالت پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ مرد ے از غیب برون آید و کارے بکند دنیا کی عام حالت کا وہ نظارہ خاص عرب کی یہ حالت.اس سے بڑھ کر اور کیا ضرورت ہوسکتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی.۲؎ جب ایسی حالت دنیا کی ہورہی تھی اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور یہ اس وقت کی موجودہ حالت ہی صاف طور پر بتارہی تھی کہ ایک مزکّی کی ضرورت ہے اور پھر آپ نے جو اصلاح کی اس نے مہر کردی کہ لاریب آپ حقیقی مصلح تھے.عربوں کی اس حالت کو ایسا تبدیل کیا کہ ایسی حیرت انگیز تبدیلی کی نظیر دنیا کی تاریخ میں پائی نہیں جاتی.قرآن شریف کی روشنی کے آتے ہی حقوق اللہ اور حقوق العباد میں جو تاریکی اور تیرگی چھائی ہوئی تھی یکدم اڑ گئی.دنیا میں نابود قوم بود ہوگئی.وہ دنیا کی فاتح، امام، مقتدر فخر ٹھہری.وہ قوم جو ہزاردرہزار مرض میں مبتلا تھی اس نے جس نسخہ کے ذریعہ شفا حاصل کی وہ نسخہ قرآن کریم ہی کا نسخہ تھا.یہی وجہ ہے کہ اس کا نام نور، رحمت، شفا اور فضل ہے.اس نسخہ کو اپنا معمول بنا کر صحابہ کے سامنے کوئی سمندر یا پہاڑ روک نہ ہوا لیکن جوںجوں قرآن شریف ہی کی اتباع کی برکت سے کامیابی اور فتوحات کے دروازے کھلتے گئے.اسی قدر تعیّش کے آجانے کی وجہ سے قرآن شریف سے اعراض ہوتا گیا اور دنیوی امور اور آسائشوں کی طرف توجہ بڑھتی گئی.نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن شریف چھوٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی وہ خیروبرکت اٹھنے لگی.اختلاف بڑھنے لگا.یہاں تک کہ انجام کار نہ دنیا رہی نہ دین.مگر قرآن شریف اس وقت بھی ایسی کامل اور حکیم کتاب موجود تھی اور ہے کہ اگر اس کی طرف رجوع کیا جاتا اور سارے اختلافات کے مٹانے کا اس کو ہی ذریعہ قرار دیا جاتا تو کوئی مشکل مشکل نہ رہتی.مگر حکومت اور فتوحات کے ساتھ ساتھ خود رائی اور خود غرضی پیدا ہوتی گئی اور قرآن شریف دستورالعمل نہ رہا.جس نے وہ دن دکھایا جس کا کبھی خیال بھی مسلمانوں کو نہ آتا ہوگا لیکن اصل یہ ہے کہ وہ دن بھی مقدر تھا ضرور تھا کہ اسلام پر ضعف کی حالت آتی جیسا کہ اللہ
تعالیٰ نے پہلے سے اس کی اطلاع دی تھی.(البقرۃ :۲۹) اس وقت پھر وہی موت کی حالت طاری ہے.اسلام فی نفسہٖ زندہ اسلام ہے.قرآن شریف زندہ کتاب ہے لیکن مسلمانوں کی اپنی کم ہمتی، کم توجہی اور قرآن شریف سے اعراض نے ان کو مردہ بنادیا ہے.بالاتفاق مسلمانوں نے ایک زبان ہوکر مان لیا ہے کہ ان کی قوم مرچکی ہے یہاں تک کہ بعض نے جنازہ بھی پڑھ دیا ہے.اس قسم کی صدائیں سن کر اس میں شک نہیں کہ مجھے بعض اوقات سخت گھبراہٹ اور اضطراب ہوا ہے لیکن مجھے خوشی بھی ہوئی ہے.اس لئے کہ میں جانتا ہوں اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے موافق اس موت کے بعد ایک احیا بھی ہے اور میں یقینا سمجھتا ہوں کہ اس احیا کا یہی وقت ہے اور وہ احیا اللہ تعالیٰ نے ہمارے امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ کرنا چاہا ہے.یہی وجہ ہے کہ اس کے اور صرف اس کے آنے ہی سے بلکہ اس کے ہی منہ سے زندہ رسول، زندہ مذہب، زندہ کتاب اور زندہ خدا وغیرہ الفاظ سننے میں آئے ہیں.یہ اس لئے کہ اس میں زندگی بخش قوت ہے.اس امام کے حکم سے میں اس وقت آپ لوگوں کو کچھ سنانا چاہتا ہوں.میں نے شروع میں کہا ہے کہ مریض کو اپنے علاج کے لئے جہاں تجربہ کار اور حاذق طبیب کی طرف رجوع کرنا چاہئے وہاں صبر اور استقلال کے ساتھ اس کے بتائے ہوئے علاج اور پرہیز سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور ایک مجرب نسخہ استعمال کرنا چاہئے.اب اس وقت جو امراض دنیا میں روحانی طور ــپرپھیلے ہوئے ہیں.اس قسم کے امراض اس وقت بھی تھے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہور فرمایا تھا اور ان بیماریوںکا علاج قرآن شریف کے ذریعہ کیا گیاتھا.اس و قت بھی جب تک اس مجرب نسخہ کو استعمال نہ کیا جائے کچھ فائدہ نہ ہوگا اور اس نسخہ کا استعمال اس وقت تک ممکن نہیںجب تک حاذق طبیب کی طرف رجوع نہ ہواور وہ حاذق طبیب کون ہیــ؟ اس زمانہ کا امام(علیہ السلام) اس کی صحبت میں رہ کر علاج کے اصول کے موافق فائدہ اٹھائو.اور اسی لیے میںنے تمھیں یہ آیت سنائی.(التوبۃ :۱۱۹)
ایمان والو!متقی بن جاؤ.متقی بننے کی تدبیر یہ ہے کہ صادقوںکے ساتھ ہو جاؤ.یہی ایک گُر ہے معزز بننے کا،قوم بننے کا یعنی متقی بن جانااور متقی بننے کے لیے صادق کا ساتھ دینااس کے ساتھ رہنا ضروری ہے.تقویٰ کیا چیز ہے؟ مختصر الفاظ میں تقویٰ سے یہ مراد ہے اوّل سچے عقائد کو حاصل کرنا اور ان پر ایمان لاناپھر اس کے موافق زبان کو کرنااور اپنے اعمال سے اس کاثبوت دینا.وہ اعمال اس کے جسم کے متعلق ہوںیا مال کے.غرض ہر طرح سے ان عقائد کے موافق سچی وفاداری اور اخلاص کے ساتھ اپنے اعمال کرکے دکھا دے.سچے عقائد کے اصول میں سے پہلی اصل یہ ہے کہ حق سبحانہٗ تعالیٰ پر ایمان لاوے.حق سبحانہٗ تعالیٰ کا اعتقاد عظیم الشان نیکیوں اور خوبیوں اور مدارج پر پہنچنے کے لئے ضروری اور لا بدی اصل ہے، میرا ایمان اور مذہب یہ ہے کہ کوئی شخص نیک چلن اور راست باز ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان نہ لاوے.میں اس بات کا قائل نہیں کہ کوئی دہریہ بھی نیک چلن ہوسکتا ہے.حق سبحانہ تعالیٰ کے ماننے میں ایک عظیم الشان بات اور اصل یہ بھی ہے کہ اس کی صفات کو پورے طور پر مانا جاوے.صفات الٰہی کا مسئلہ ہی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے نہ ماننے سے دنیا کا بہت بڑا حصہ ہلاک ہوا ہے.میں نے اس معاملہ پر بہت غور کی ہے اور مختلف مذاہب کے اعتقادات اور مسائل کو خوب ٹٹولا ہے اور بڑی سوچ اور فکر کے ساتھ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جس قدر مذاہب باطلہ موجود ہیں وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت کے انکار سے پیدا ہوئے ہیں.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک ایسا گُر اور اصل سمجھا دیا ہے کہ میں مذاہب باطلہ کو قرآن شریف کے ایک لفظ کے ساتھ ردّ کرسکتا ہوں اور قرآن شریف کے کمالات اور فضائل میں سے یہ بھی ایک مہتم بالشان امر ہے کہ اس نے صفات الٰہی کے مسئلہ کو خوب کھول کھول کر بیان کیا ہے کیونکہ اسی راز کو نہ سمجھنے کی وجہ سے دنیا نے ٹھوکر کھائی ہے اور وہ گمراہ ہوئی ہے اور اس کے علاوہ صفات الٰہی کے مسئلہ سے ہی یہ راز بھی خدا کے فضل سے مجھ پر کھلا ہے کہ انسان جس قدر بدیوں اور گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے اگر صفات الٰہی کے مسئلہ کو سمجھ لے اور ان پر پورا ایمان رکھے اور ہر بدی کے ارتکاب کے وقت یہ خیال کرلے کہ اللہ تعالیٰ نگران ہے تو میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسے بچالے.
یہ امور اور یہ اصول سمجھ میں آتے ہیں.جب انسان قرآن شریف میں تدبر کرے اور فکر کرے.قرآن شریف پر تدبر اور فکر کی قوت پیدا ہوتی ہے تقویٰ سے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے خود فرما دیا ہے.(البقرۃ : ۲۸۳) اور یہ میں نے ابھی بتایا ہے اور اس کی تفصیل بیان کروں گا کہ تقویٰ کی حقیقت منکشف نہیں ہوتی سچا متقی انسان بن نہیں سکتا جب تک صادقوں اور راست بازوں کی صحبت میں رہنے کا اس کو موقع نہ ملے اور ان کی معیت اختیار نہ کرے کیونکہ تقویٰ اللّٰہ کی حقیقت منحصر ہے اولاً اللہ تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین پر اور یہ یقین بجز خدا تعالیٰ کے راست بازوں کی صحبت میں رہنے کے پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اس صحبت میں رہ کر وہ اللہ تعالیٰ کے عجائبات قدرت کو مشاہدہ کرتا ہے اور خارق عادت امور کو دیکھتا ہے جو انسانی طاقتوں اور ارادوں سے بالاتر ہوتے ہیں.ان امو راور عجائبات کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ پر ایمان پیدا ہونے لگتا ہے اور پھر اس کی صفات پر یقین آتا ہے جس سے تقویٰ اللّٰہ کی حقیقت اس پر کھلنے لگتی ہے اور وہ متقی بننے لگتا ہے.پس سچے عقائد کے اصول میں سے پہلی اصل اللہ تعالیٰ کا ماننا اور اس کی صفات پر ایمان لانا ہے اور یہ میں نے بتایا ہے کہ یہ ایمان پیدا نہیں ہوتا جب تک صادق کی صحبت میں نہ رہے.اب دوسرا امر عقائد کے متعلق یہ ہے کہ وہ ملائکہ پر ایمان لاوے.۳؎ وجود ملائکہ کے ثبوت کے لئے مجھے کسی فلسفیانہ بحث کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ملائکہ کے وجود کے انکار سے بڑھ کر کوئی حماقت نہیں ہے.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جس قدر فیوض اور برکات خواہ جسمانی ہوں یا روحانی انسان اللہ تعالیٰ سے پاتا ہے اس کے لئے کچھ نہ کچھ وسائط ضرور ہیں ان وسائط ہی کو مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے.اور انہیں سے ملائکہ بھی ایک نام ہے.اس صداقت سے انکار ایسا ہی ہے جیساوجود آفتاب کا انکار.ایمان بالملائکہ کی حقیقت اور غرض جو مجھے سمجھ آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے یہ راز معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں جب نیکی کی تحریک ہو معاً اس نیکی کے کرنے کے لئے مستعد اور ہوشیارہو جاوے اور اگر اس میں ذرا بھی سستی اور کاہلی سے کام لے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ وہ توفیق اس سے چھین لے گا اور اس کے دل پر ایک حجاب ساچھا جاتا ہے اسی طرح پر ایمان بالکتب ہے اور پھر رسولوں پر ایمان ہے.
ایمان بالرسل کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایمان صرف زبانی اقرار کا نام نہیں بلکہ اس کی حقیقت تب پیدا ہو تی ہے جب کہ اس ایمان کے موافق عمل ہو ورنہ وہ ایمان مردہ ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں.دیکھو اونٹ کتنا بڑا جانور ہے.لیکن اگر ایک ہزار اونٹ کی بھی ایک لمبی قطار ہو اور ان سب کی مہار ایک بچے کے ہاتھ میں دے دی جاوے تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ ان سب کو لئے چلا جاوے گا لیکن اگر سو آدمی بھی مل کر ایک اونٹ کو کنویں میں گرانا چاہیں تو وہ گرنا پسند نہیں کرے گا اور جہاں تک اس سے ممکن ہو گا وہ اس سے بچے گا کیوں ؟ وہ جانتا ہے کہ کنواں اس کے لئے ہلاکت کا گھر ہے.یہ ایمان کا ایک چھوٹا سا عمل ہے جو حیوان سے ہوتا ہے.پھر کسی قدر شرم کی بات ہے کہ ہم انسان کہلا کر ان باتوں پر عمل نہ کریں جن کو ہم ایمانیا ت کی ذیل میں مانتے ہیں.ایمان بالرسل بھی ایک عظیم الشان شعبہ ایمان کا ہے آج کل دنیا میں برہموازم بہت پھیلا ہوا ہے ہر ایک شخص اپنی ہی مرضی اور رائے کو پسند کرتا اور اسی پر عمل کرنا چاہتا ہے.لیکن میں سچ کہتا ہو ں یہ بات اصلی ترقی کے خلاف اور صریح متضاد ہے.جو فیوض اور برکات قوم پر بحیثیت قوم نازل ہو تے ہیں وہ انفرادی حالت میں نہیں آسکتے لیکن قوم کے لئے قوم بننے کے واسطے شخصی رائوں کو چھوڑکر ایک ہی امام کی اتباع ضروری ہوتی ہے.پس انبیاء ورسل کی ایک بڑی غرض بعثت کی یہ بھی ہوتی ہے کہ لوگ اپنی رائوں کو چھوڑ دیں اور اس مقتدا اور مطاع کی باتوںکو مانیں اور ان پر عمل کریں اس ایک امر سے انسان کے قلب پر بڑے بڑے فیض حاصل ہوتے ہیں اور اخلاق فاضلہ اور بہت سی نیکیوں سے اسے حصہ ملتا ہے.خود پسندی ، خود غرضی، تکبر اور انانیت جیسے رذائل سے نجات ملتی ہے.جو اس کو صداقت کے قبول کرنے سے روکنے والے ہوتے ہیں.انبیاء ورسل اور دوسرے ریفارمروں اور لیڈروں میں ایک عظیم الشان فرق ہوتا ہے جس کو کبھی بھولنا نہیں چاہیے اور وہ یہ ہوتا ہے کہ انبیاء ورسل جس امر کی تعلیم دیتے ہیں وہ خود اپنے نمونہ سے دکھا دیتے ہیں اوراس کے نتائج اور ثمرات کا بھی مشاہدہ کرادیتے ہیں.خیالی ریفارمر وں اور اصلاح کے مدعیوں میں یہ بات قطعاًنہیں ہوتی.غرض ایمان بالرسل بہت بڑی ایمانی جزو ہے.اعمال صالحہ اعمال صالحہ ہوتے ہی نہیں کیونکہ جو فعل خواہ وہ کیسا ہی نیک کیوں نہ ہو نیک نہیں کہلاتا جب تک
انبیاء و رسل کے افعال کے نمونہ پر نہ ہو.دنیا اس وقت حضرت امام کے دعویٰ کو سن کر حیران ہو رہی ہے اورآپ کی مسیح ابن مریم کے ساتھ مماثلت کو حیرت کے ساتھ دیکھ رہی ہے لیکن مجھے تعجب ہے کہ یہ لوگ مسلمان کہلا کر ایمان بالرسل رکھ کر کیوں تسلیم نہیں کرتے کیونکہ اگر انبیاء کی بعثت سے ایک آدمی بھی ان کے رنگ میں رنگین نہیں ہوتا اور وہی خُو بُو اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا تو اس صورت میں ماننا پڑے گا کہ معاذاللہ وہ محض ناکام رہا اور یہ صحیح نہیں ہے.غرض ایمان بالرسل بھی عقائد صحیحہ میں سے ایک امر اہم ہے.پھر عقائد میں سے ایک عظیم الشان مسئلہ جزاو سزا پر یقین کرنا ہے اس مسئلہ کے ماننے کے بغیر انسان نیکیوں کی طرف قدم نہیں اٹھا سکتا.یہ مسئلہ حقیقت میں بہت بڑی ترقیوں کا بنیادی پتھر ہے کیونکہ جب انسان مسئلہ جزا سزا پر یقین رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میرے فلاں فعل کی جزاء یہ ہو گی اگر وہ بد ہے تو اس سے اجتناب کرے گا اور اگر وہ فعل نیک ہے تو اس کے کرنے کے لئے چست اور چالاک ہوگا یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس مسئلہ کو عقائد میں داخل کیا ہے اور میں اپنے تجربہ سے کہتا ہو کہ اگر اس اصل کو محکم طور پر دل میں جگہ دی جاوے اور اس کی حقیقت کو سمجھ لیا جاوے تو انسان کو بہت سی نیکیوں کی توفیق مل جاتی ہے اور اس ایک اصل کو چھوڑ نے اور غافل ہونے سے بہت لوگ ہلاک ہوئے ہیں.۴؎ پھر دوسرا جزو ایمان کا جس سے تکمیل ہوتی ہے شفقت علی خلق اللہ کہلاتا ہے.مخلوق کی ہمدردی اور نوع انسان کی بھلائی کے لئے اپنے مال سے کچھ خرچ کرے.رنج میں، راحت میں، عسر میں، یسر میں، مصیبت میں، خوشی میں ہر حال میں قدم آگے بڑھائے کسی حال میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہو اور یہ ساری باتیں اس سے پیدا ہوتی ہیں کہ صاد قوں کا ساتھ دے.صادقوں کے ساتھ کے بغیر تقویٰ کی حقیقت کھلتی ہی نہیں، دقائق تقویٰ کا پتہ ہی نہیں لگتا جب تک انسان صادقوں کی صحبت میں نہ رہے.یہ ایک نہایت غلط خیال ہے جو انسان اپنے دل میں سمجھ لیتا ہے کہ میں نیکی کرتا ہوں مخلوق الٰہی پر شفقت بھی کرتا ہوں.محبّ ملک اور قوم ہوں تہجد گذار ہوں اور یقین کے اعلیٰ مقام پر کھڑا ہوں مجھے کسی صادق کی صحبت میں رہنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس قسم کا خیال نفس کا دھوکا ہے جو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے یہ ایک قسم کا برہمو ازم ہے.(البقرۃ :۸۶)
کیا تم قرآن کے بعض حصوں پر ایمان لاتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو.یہ انکارِ کتاب اللہ نہیں تو کیا ہے؟ جب کہ(التوبۃ :۱۱۹)کی ہدایت کی گئی ہے.پھر اس حکم کی ضرورت نہ سمجھنا اور عملی طور پر اس کو بیکار ٹھہرانا اس سے بڑھ کر کس قدر ظلم اور حماقت ہوگی؟ جو لوگ ایسا کرتے ہیں کہ قرآن شریف کے بعض حصص کا انکار کرتے ہیں خواہ علمی طور پر خواہ عملی وہ یاد رکھیں ان کی پاداش اور سزا بہت خطرناک ہے.(البقرۃ :۸۶) اسی دنیا میں وہ ذلیل ہوجائیں گے اور اب دنیا کی تاریخ کو پڑھ لو اور انبیا ء علیہم السلام کے معاملات پر غور کرو کہ جن لوگوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا بلکہ انکار کیا ان کا انجام کیا ہوا؟ کیا وہ اسی دنیا میں ذلیل اور خوار ہوئے ہیں یا نہیں؟ جہاں تک تاریخ پتا دے سکتی ہے یا آثار الصنادید سے پتا مل سکتا ہے وہاں تک صاف نظر آئے گا کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارشاد صاف اور ثابت شدہ امر ہے.میں اس معیت صادق کو حصول نیکی اور حصول تقویٰ کے لئے ایک ضروری چیز سمجھتا ہوں بغیر اس کے حقیقی نیکی کو انسان سمجھ سکتا ہی نہیں اور رضاء الٰہی کے طریق اس کو معلوم ہی نہیں ہوسکتے.ایک انسان اپنے جیسے انسان کی خواہ اس کی صحبت میں بھی رہے رضامندی کے طریق کو بدون اس کی اطلاع اور تفہیم کے جب معلوم نہیں کرسکتا تو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا کا علم اس کو کس طرح ہوسکتا ہے.جب تک خود الہام الٰہی نہ ہو اور ہر شخص چونکہ ایسی استعداد اور قابلیت نہیں رکھتا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ سے یہ قانون مقرر کیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کو بھیجتا ہے.جو براہ راست مکالمہ الٰہی کا شرف حاصل کرتے ہیں اور پھر وہ نوع انسان کو ان امور سے اطلاع دیتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ ہوتے ہیں اور پھر ان آثار اور نتائج کو جو رضاء الٰہی کا ثمرہ کہلاتے ہیں وہ اپنے وجود میں دکھاتے ہیں جس سے واقعی طور پر پتہ لگتا اور یقین بڑھتا ہے کہ ہاں یہی بات ہے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور یہی حقیقی نیکی ہے اسی لئے میں نے بتایا ہے کہ نیکی کامل نیکی اس وقت ہوتی ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ کے موافق ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہو.صادق کی صحبت اور راست باز کے ساتھ ہونے کی ضرورت کا مضمون بڑا وسیع مضمون ہے اور اس کے بہت سے پہلووں پر بحث کی جاسکتی ہے لیکن میں مختصر طور پر اس کے متعلق کہوں گا.
قانون قدرت میں اس کے نظائر موجود ہیں خود انسانی جسم کی ساخت اور بناوٹ میں اس کے نمونے نظر آتے ہیں.قوموں کی عظمت و جبروت پر نظر کرو اور ان اسباب کی تحقیق کرو جو اس کی عظمت کا اصل باعث ہوتے ہیں.انجام کار تم کو اس نتیجہ پر پہنچنا پڑے گا کہ وہ کسی راستباز کی معیت اور صحبت کا نتیجہ ہیں یہ امر الگ ہے کہ بعد میں اور اسباب بھی اس کے ساتھ مل گئے ہوں.میں ایک موٹی تمثیل کے ساتھ اس مضمون کو ذہن نشین کرتا ہوں پہاڑوں کی طرف نگاہ کرو.پہاڑ کا لفظ ہی انسان کے اندر ایک عظمت اور شوکت اس کے نام کی پیدا کرتا ہے.مگر اصل کیا ہے ذرّات کا مجموعہ ہے.اب اگر یہ ذرّات پراگندہ اور منتشر حالت میں ہوتے تو کیا ہم ان کا نام پہاڑ رکھ سکتے؟ ہرگز نہیں.یہی ذرّات منتشر حالت میں بے شمار تعداد میں تھلوں میں موجود ہوتے ہیں کیا کوئی کہتا ہے کہ یہ پہاڑ ہیں؟ کبھی نہیں.پس اگر یہ ذرات حالت منتشر میں ہوتے تو تھلوں سے زیادہ ان کی شوکت اور وقعت نہ ہوتی اور وہ مفاد اور منافع جو اس ہئیت مجموعی میں جو پہاڑ کی ہے دنیا کو پہنچتے ہیںنہ پہنچ سکتے.حالت اجتماعی میں پہاڑوں سے چشمے نکلتے ہیں دریا بہتے ہیں ندیوں نالوں کا سلسلہ جاری ہوسکتا ہے.عجیب عجیب قسم کے میوے قسم قسم کی لکڑیاں اور دوائیوں کے سامان پہاڑوں سے حاصل ہوتے ہیں.یہاں تک کہ بعض بعض مقامات پر بڑی بڑی گرانقدر کا نیں بھی نکلتی ہیں.غرض ہر قسم کی راحت اور آسائش اور تموّل کا سامان ایک طرح پر پہاڑوں سے حاصل ہوتا ہے اور بالمقابل انفرادی حالت تھلوں کی دیکھ لو کہ ریت اڑتی ہے نہ پیداوار ہوسکتی ہے نہ کوئی درخت ہی پیدا ہوتا ہے نہ کچھ اور غرض ہر طرح سے بربادی بخش اور مہیب نظارہ ہے اس زمانہ میں (جو علوم کا زمانہ کہلاتا ہے اور ہر قسم کی ایجادیں اور ترقیاں ہورہی ہیں) ان علوم مروجہ سے معلوم ہوا ہے کہ اجزا کے تفرق سے علیحدگی، کمزوری اور توافق سے تقویت پیدا ہوتی ہے.یہ تو جمادات کا نظار ہ ہے جو میں نے دکھایا ہے.اب نباتات کو لو.اس درخت کو لو جو اس مسجد میں سامنے کھڑا ہے اس کی شاخیں جو اس کے ساتھ لگی ہوئی ہیں یہ کیسی سرسبز اور خوش نما ہیں.ان کی ہر حالت اور ہر صورت خوبصورت معلوم ہوتی ہے
اس وقت جو غذا ان کو اس درخت کی جڑ کے ذریعہ اور پھر اس کے بڑے تنے کے ذریعہ جن کے ساتھ ان کا پیوند ہے پہنچتی ہے وہ بہر حال حصہ رسدی سے پہنچتی ہے لیکن باوجود اس کے بھی وہ شاداب اور سرسبز ہیں.اب ان میں سے ایک شاخ کو کاٹ لو اور اس کو عین بہار کے موسم میں کاٹ لو جبکہ خشک درخت بھی کوئی نہ کوئی پتا نکال لیتے ہیں اور ایک بڑے تالاب میں اس شاخ کو رکھ دو اور نتیجہ کا انتظار کرو کیا ہوگا؟ وہ شاخ مرجھا جائے گی.خشک ہوجائے گی آخر سڑ جائے گی اور تھوڑی دیر پہلے درخت کے ساتھ رہ کر انسانی زندگی کے لئے ایک نفع رساں اور راحت بخش ہوا کا ذریعہ تھی.وہی شاخ اس سے الگ ہوکر مضر صحت مواد اور اسباب پیدا کرنے کا ذریعہ ہوگئی.باوجود یکہ اسے پہلے سے زیادہ پانی میں رکھا گیا مگر وہ اس کے لئے آب حیات کی بجائے زہر کا کام دے رہا ہے.اب اس کے ہرے بھرے رہنے اور مثمر ثمرات اور نفع رساں ہونے کی کیا توقع ہوسکتی ہے؟ کوئی نہیں لیکن وہی شاخ جب درخت کے ساتھ اس کا پیوند ہوتا ہے کیسے ثمرات لاتی اور پھل پھول لاکر انسان کے لئے حیوانات کے لئے مفید اور نافع ہوتی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بزرگ اور عظیم تنا کے ساتھ کا پیوند ہی اس کے لئے مفید اور مثمر ثمرات ہونے کا باعث تھا اور وہ الگ ہوکر کبھی کوئی مفید شے نہیں ہوسکتی.۵؎ ضرورت امام : امام کی ضرورت ایک ایسی ضرورت ہے کہ اس سے کوئی سلیم الفطرت تو انکار نہیں کرسکتا ہاں جو انکار کرتا ہے وہ اپنے آپ کو کیسا ہی دانش مند تجربہ کار نیک سمجھتا ہو لیکن میں اس کو سب سے بڑھ کر بے وقوف ناواقف اور خطاکار قرار دوں گا کیونکہ وہ بدیہی باتوں سے انکار کرتا ہے.درخت کی مثال سے میں بتاچکا ہوں کہ کس طرح پر ٹہنیوں کو سرسبز و شاداب رہنے اور بار ور ہونے کے لئے درخت کے ساتھ حقیقی پیوند ضروری ہے.اپنی نظر کو ذرا اور وسیع کرو اور ریل گاڑی کی طرف دیکھو.ایک ٹرین جس میں سٹیم انجن نہ لگا ہوا ہو اور اس میں خواہ کیسی ہی مصفا اور شاندار گاڑیاں لگی ہوئی ہوں لیکن سٹیم انجن کے نہ ہونے کے سبب ان میں کوئی حس و حرکت پیدا نہیں ہوگی اور وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچیں گی.حیوانات پر غور کرو.مرغی کے بچے اگر متفرق کردئیے جاویں تو خواہ ان کو کیسی ہی غذا دو لیکن
اگر وہ مرغی کے پروں کے نیچے آکر اس کی حرارت سے حصہ نہیں لیتے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتے.ان کو چیلیں اور دوسرے جانور ہی کھا جائیں گے.غرض یہ تو سچ ہے کہ مادہ نشوونما پاتا ہے لیکن تعلق کے ساتھ.اسی طرح پر جب دنیا دار قومیں جب کوئی انجمن یا سوسائٹی بناتی ہیں اور مل کر کوئی کام کرتے ہیں اس وقت باوجود یکہ کثرت رائے پر فیصلہ ہوتا ہے لیکن اس پر بھی ان کو اپنا ایک میر مجلس یا پریذیڈنٹ منتخب کرنا پڑتا ہے اور اس کا فیصلہ قطعی اور آخری فیصلہ ہوتا ہے.جمہوری سلطنتوں کو بھی پریذیڈنٹ کی ماتحتی ضروری ہوتی ہے باوجودیکہ وہ بڑے آزاد رائے اور آزادی پسند ہوتے ہیں پھر جب عام نظارۂ قدرت اور موجودات میں وحدت ارادی کے پیداکرنے کی ضرورت ایک عام ضرورت سمجھی جاتی ہے اور انسان کی مادی ترقیات کی جڑ میں بھی وحدت ارادی کی روح کام کررہی ہے پھر کیسا نادان اور بے وقوف ہے وہ انسان جو علوی اور روحانی امور میں اس کی ضرورت نہیں سمجھتا.نظارہ وحدت کا معراج : میں نے اس مسئلہ پر گھنٹوں اور منٹوں سے لے کر دنوں اور ہفتوں بلکہ مہینوں اور سالوں تک غور کی ہے اور میں سچ کہتا ہوں کہ جس قدر میں اس مضمون پر سوچتا گیا ہوں خالص ذوق اور سرور کے ساتھ اس کی باریک باتیں مجھ پر کھلتی گئی ہیں.یہاں تک کہ اس وحدت کے نظارہ میں میں اوپر چڑھتا گیا اور میں نے دیکھا کہ واحد لاشریک خدا کے لئے وحدت کا نظارہ ضروری ہے.خدا جو اسماء حسنیٰ کا مرکز ہے اگر اس کی صفات پراگندہ ہوتیں تو خدائی ہی نہ چلتی.اسی طرح پر وہ جامع جمیع صفات کاملہ ہستی چاہتی ہے کہ اجزاء متفرقہ کا جو مجموعی طور پر ہیں اتحاد ہو.کشش: یہی وجہ ہے کہ کشش اتصال کا وجود اس نے رکھا ہے جو ذرات متفرقہ کو باہم ملاتی ہے.انفرادی حالت میں فیوض و برکات کا نزول نہیںہوتا بلکہ اس میں بھی توسط کی حاجت ہوتی ہے.یہ کشش قابل جوہروں کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور ان کو ان منافع اور برکات کا وارث ٹھہرا رہی ہے جو اتحاد سے پیدا ہوتی ہیں.جس طرح پر امور مادی میں میں نے یہ ضرورت دکھائی ہے.آسمانی اور روحانی معاملات میں بھی ایک صاحب کشش امام کی ضرورت ہوتی ہے.وہ
اپنی کشش سے پاک فطرت اور سعیدوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور پھر اس تعلق سے جو ان میں پیدا ہوتا ہے اس قوت اور طاقت کو نشوونما ہوتا ہے.فیوض الٰہی کا نزول: جو فیوض الٰہی کے جذب کرنے کا ذریعہ ٹھہرتی ہے.یہاںتک کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض و برکات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور یہ وہ سلسلہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ان الفاظ میں فرمایا ہے.(حٰم السّجدۃ :۳۱) کی کیفیت کیسے پیدا ہو: کی حالت اور کیفیت مجرد زبان سے کہہ دینے سے پیدا نہیں ہوسکتی بلکہ یہ ایک کیفیت ہے کہ اس کا ظہور اور بروز نہیں ہوتا جب تک خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندہ کی صحبت میں رہنے کا موقع حاصل نہ ہو اور اس کے ساتھ ہی سچا پیوند اور رشتہ قائم نہ ہو.یہ مسئلہ چونکہ ایک باریک مسئلہ ہے.اس لئے میں نے پہلے عام نظارہ قدرت کی مثالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وحدت ارادی فیوض کا وارث بناتی ہے لیکن یہ بیان کرنا کہ وہ برکات اور فیوض جو خدا تعالیٰ کے ماموروں اور صادقوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے ملتے ہیں وہ کس طرح پر نازل ہوتے ہیں یہ ایک کیفیت ہے جس کو بیان کرنا مشکل ہے.اسی لئے میں نے بتایا ہے کہ جس طرح مرغی اپنے انڈوں کو پروں کے نیچے لے کر بیٹھتی ہے اور اپنی گرمی پہنچاتی ہے اور اس گرمی سے اس مادہ میں جو انڈوں کے اندر نشوونما پانے کی قابلیت رکھتا ہے ایک خاص قسم کی حرارت جو زندگی کی روح رکھتی ہے پیدا ہونے لگتی ہے اور معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ روح کدھر سے آئی اور کس وقت.اسی طرح پر جب انسان ایک مامور کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرتا ہے تو اندر ہی اندر اس کی پاک تاثیریں عقد ہمت دعائیں اس تعلق پیدا کرنے والے انسان میں ایک نیا نفخ روح کرتی جاتی ہیں اور اس میں نئی زندگی کے آثار پیدا ہوتے ہیں.اس کی صحبت میں رہ کر اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایک نیا ایمان پیدا ہونے لگتا ہے جو اس ایمان پر اسے اپنا جان و مال تک نثار کردینے کی قوت بخش دیتا ہے.وہ ایمان اس کو استقامت کی قوت دیتاہے اور وہ اس آیت کا مصداق بنتا ہے اور اس طرح پر خدا تعالیٰ کے برکات
اور فیوض کا چشمہ اس کی طرف جاری ہوتا ہے اور ملائکہ کا نزول اس پر ہونے لگ جاتا ہے.غرض میں اس کیفیت کی گواہی تجربۃً دے سکتا ہوں جو انسان کو خدا تعالیٰ کے ماموروں کے ساتھ تعلق پیدا کرکے ہاں سچا تعلق پیدا کرکے حاصل ہوسکتی ہے.حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کیفیت کا ایک مرتبہ اس طرح پر اظہار کیا تھا کہ جیسے پانی کی ایک بڑی نالی ہوتی ہے.مامورمن اللہ اس نالی کی مانند ہوتا ہے اور سچے ارادتمندوں کا اس نالی کے ساتھ اس طرح پر تعلق ہوتا ہے جیسے چھوٹی چھوٹی نالیاں ایک بڑے لوہے کے نل کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہیں اور جب پانی کے چشمہ سے اس بڑے نل میں پانی آتا ہے تو ان چھوٹی نالیوں میں بھی ان کی ظرف کے موافق اور استعداد کے مطابق وہ پانی گرتا جاتا ہے.پس چونکہ امام خدا تعالیٰ کے فیوض و برکات کو براہ راست حاصل کرتا ہے اس لئے اس سے سچے تعلق رکھنے والے ان برکات کو اس میں ہوکر حاصل کرتے ہیں.میں اس سلسلہ میں دور چلا گیا.میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسماء حسنیٰ کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور وہ تقاضا کرتی ہے کہ اجزا متفرقہ کو مجتمع کرے اس لئے اجتماع لازمی ہے.ساری گاڑیاں اگرچہ اپنے پہیوں سے چلتی ہیں مگر سٹیم انجن کے بدون وہ پہیے بیکار محض اور نکمے ہیں اسی طرح پر ہمارے اندر بھی جو قرب کی فطری قوتیں اور طاقتیں ہیں وہ سب کی سب بیکاراور نکمی ہیں اگر کسی سٹیم انجن کے ساتھ ہمارا تعلق نہ ہو کوئی شاخ مثمر ثمرات نہیں ہوسکتی جب تک اصل درخت کے ساتھ اس کا تعلق نہ ہو، کوئی بچہ نشوونما نہیں پاسکتا جب تک ماں کی گود میں نہ ہو.اسی اصل اوربنا پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے.(التوبۃ :۱۱۹) یعنی ایمان باللہ والو! تقویٰ اختیار کرو اور تقویٰ اختیار کرنے کی راہ یہ ہے کہ صادقوں کی صحبت میں رہو.مجھے اپنے طالب علمی کے زمانہ کا ایک واقعہ یاد ہے.جب میں ہندوستان میں تعلیم پاتا تھا تو میرے ایک مہربان تھے جو بڑے ہی پرہیزگار اور صالح آدمی تھے.ان کا نام شاہ عبدالرزاق تھا.رام پور روہیلکھنڈ میں رہتے تھے اور یہ سیداحمد بریلوی کے معتقد تھے.میں عموماً ان کی ملاقات کے واسطے جایا کرتا تھا اور ان کے پاس بیٹھا کرتا تھا.ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ کئی دن تک مجھے ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع نہ ملا.اس غیر حاضری کے بعد جب میں ان کی خدمت میں حاضر
ہوا تو آپ نے پوچھا کہ تم اتنے دنوں تک کیوں نہیں آئے.میں نے عرض کی کہ یونہی آنا نہیں ہوسکا.اس پر مجھے فرمایا کہ کیا تم کبھی قصاب کی دکان پر بھی نہیں گئے ہو؟ دو تین مرتبہ اس فقرہ کو دہرایا مگر میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اس سے آپ کا کیا مطلب ہے اور میری غیر حاضری اور حاضری کو اس سے کیا تعلق؟ پھر آپ نے ہاتھ کے اشارہ کے ساتھ سمجھایا کہ دیکھو قصاب تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اپنی دونوں چھریوں کو کس طرح باہم رگڑ لیتا ہے حالانکہ بظاہر اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی.اس سے عارف کو سبق لینا چاہئے کہ دنیا کے دھندوں اور تعلقات میں انسان کے قلب پر ایک قسم کا زنگ چڑھ جاتا ہے اور معرفت کی تیزی جلد کند ہونے لگتی ہے جس کے واسطے ضروری ہے کہ انسان وقتاً فوقتاً صادقوں کی صحبت میں رہ کر اس زنگ کو دور کرتا رہے اور ان کی نیک صحبت سے اس تیزی اور جلا کو قائم رکھے.قرآن کریم میں اسی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ہے.(التوبۃ :۱۱۹) میں سچ کہتا ہوں اور اپنے تجربہ کی بنا پر کہتا ہوںبیشمار کتابوں کے پڑھنے نے مجھے اتنا فائدہ نہیں دیا جس قدر خدا تعالیٰ کے صادق بندوں کی صحبت نے مجھے فائدہ پہنچایا ہے اور اب میں سالہا سال سے تجربہ کررہا ہوں کہ قادیان میں بیٹھ کر جس قدر فائدہ میں نے اٹھایا ہے اپنی ساری عمر میں نہیں اٹھایا جو قادیان سے باہر بسر کی ہے اور چونکہ انسان کی فطرت میں یہ امر اللہ تعالیٰ نے رکھا ہوا ہے کہ وہ نفع رساں اشیاء کو لینا چاہتا ہے اور مضر اور نقصان رساں سے بھاگتا ہے.اسی لئے میں قادیان سے باہر ایک دم گزارنا بھی موت کے برابر سمجھتا ہوں.یہی وجہ ہے کہ میں قادیان سے باہر ہزاروں روپیہ پیش کرنے کی صورت میں بھی جانا نہیں چاہتا.ہاں اگر کبھی نکلتا ہوں تو محض اس لئے کہ اس پاک وجود کا حکم ہوتا ہے جس کے حضور حاضر رہ کر یہ عظیم الشان فائدہ اٹھا رہا ہوں.جس نے ہزاروں نہیں لاکھوں بلکہ دنیا کے سارے مال و متاع سے مجھے مستغنی کردیا ہے.میں نے یہ باتیں اس لئے نہیں کی ہیں کہ میں تمہیں یہ بتائوں کہ امام کے ساتھ میرا کیسا تعلق ہے؟ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ (بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی).میری غرض فقط یہ ہے کہ میں تم لوگوں کو خصوصاً ان دوستوں کو جو مجھ پر حسن ظن رکھتے ہیں ان فوائد سے
اطلاع دوں جو مجھے یہاں رہ کر حاصل ہوئے ہیں اور جنہوں نے دنیا کی ساری دولت کو میرے سامنے ہیچ کردیا ہے تاکہ وہ بھی یہاں رہ کر وہ بات حاصل کریں جو حضرت امام کے آنے کی اصل غرض ہے.اس امر کے اظہار سے میری یہ بھی ایک غرض ہے کہ ان لوگوں کو ابتلا سے بچائوں جو کبھی کبھی بدظنی کربیٹھتے ہیںکہ میں دوسروں کو حقیر سمجھ کر بلانے پر قادیان سے باہر نہیں جاتا.تم جو یہاں موجود ہو یاد رکھو خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے ہاں اپنے ہی فضل سے مجھے اس راہ کی ہدایت فرمائی ہے کہ الٰہی فیوض و برکات کے حصول کا اصل ذریعہ ایمان باللہ اور تقویٰ ہے.مگر ایمان باللہ اور تقویٰ اللہ کی حقیقت اور کیفیت پیدا نہیں ہوسکتی جب تک کہ صادق کی صحبت میں نہ ر ہے اور مجھے اپنی ذات پر تجربہ کرنے سے اس کی قدر معلوم ہوئی ہے.اس لئے میں کھول کر کہتا ہوں کہ اگر چاہتے ہو کہ وہ انوار سماوی اور روحانی برکات حاصل کرو جو روح کے تقاضوں کی انتہا ہیں تو سنو! یہاں آئو اور صادق کی صحبت میں رہو اور اس سے وہ فیض لو جو وہ لے کر آیا ہے.غرض مامور من اللہ اور صادق کی صحبت اور معیّت ضروری ہے.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ کوئی انسان اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ہی ذات پر بھروسہ کرے اور اپنی تجویزوں اور تدبیروں سے اعلیٰ کامیابیوں تک پہنچے اور اس امر کی پروا نہ کرے کہ مامورمن اللہ اور صادق کی صحبت میں رہنے سے اسے کوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے.اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ بیوقوف ہے اپنا دشمن ہے.دیکھو اس خیر القرون میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قرن تھا.خدا تعالیٰ کی برکات اور فیوض کی بارش کا وقت تھا لیکن کل عرب و عجم نہیں ساری دنیا میں سے مکّہ کو جوامّ القریٰ ہے منتخب فرمایا اور سارے مکّہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو اور پھر عبداللہ اور آمنہ کے بیٹے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو دنیا کو ان انوار و برکات سے بہرہ ور کرے پھر خیرالقرون میں صحابہ نے اور تابعین اور تبع تابعین نے کیسی ترقی کی؟ انہوں نے اپنے سلوک کے منازل کو طے کرنے کے واسطے کیا راہ اختیار کی؟ کیا یہ کہ آپ کا اقرار کر لیا آپ کو صادق تسلیم کرلیا اور پھر آپ کے پاس آکر نہ بیٹھے.اپنے گھروں میں جاکر اپنے کاروبار میں مصروف ہوکر روپیہ کمانے کی فکر میں ہوگئے اور پاس نہ رہنے کے لئے دنیا اور اس کے مخمصوں کا عذر کردیا؟ سوچو!
اور پھر سوچ کر بتائو.میں خود ہی اس سوال کا جواب دے دیتا ہوں.صحابہ نے جس قدر ترقیاں کیں جو جو مدارج عالیہ انہوں نے حاصل کئے ان سب کا اصل سبب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک صحبت اور معیّت ہی تھی جس نے ان کے اندر خدا تعالیٰ کی محبت اور عظمت اس درجہ تک کوٹ کوٹ کر بھردی تھی کہ جس کے مقابلہ میں انہوں نے وطن، آبرو، عزت، راحت، دولت، آسائش،عزیزواقرباء غرض دنیا کی کسی چیز اور کسی تعلق کی پروا نہیں کی.اور تو اور انہوں نے اپنی جانوں تک کی پروا نہیں کی اپنے خون پانی کی طرح بہا دئیے وہ بات جس نے ان میں یہ قوت یہ شجاعت و استقامت اور ایثار نفس پیدا کردیا تھا یہی تھی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہتے اور آپ کے ساتھ تعلق کو اتنا شدید کیا اور ایسے وابستہ ہوئے کہ وہ سکینت اور اطمینان جو خدا کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی تھی جس نے آپ کا شرح صدر فرمایا.اس تعلق اور محبت کی نالی کے ذریعہ صحابہ کے دل پر بھی اترتی تھی اور ان کے شرح صدر کرکے نور یقین سے بھرتے جاتے تھے.۶؎ وہ محبت اور اخلاص جو صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا.اس کے مقابلہ میں انہوں نے نہ وطن کی پروا کی اور نہ عزت و آبرو و راحت و آرام کو مدنظر رکھا.بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فنا فی الرسول کے مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کی اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس میں پورے کامیاب ہوئے.عرب جیسے اکھڑ اور آزاد، خودرائے قوم تھی لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فیض صحبت سے مستفیض ہوئے تو ان کی یہ حالت تھی کہ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک مجلس میں ان کو دیکھتا تو اسے صرف بت نظر آتے ہر ایک اپنی اپنی جگہ خاموش بیٹھا ہے اور اتنا حوصلہ جرأت نہیں کرتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان پر پیش دستی کرے اور بولنے لگے.کیوں؟ اس لئے آداب الرسول: کہ انہیں حکم ہوچکا تھا (الحجرات :۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی بات بڑھ کر نہ کرو.یہ چھوٹی سی بات نہیں اتنی بڑی جماعت کو یہ حکم ہوتا ہے کہ تم کچھ نہیں بول سکتے ہمارے بھیجے ہوئے رسول کی اتباع کرو.
(الحجرات :۳) یعنی یاد رکھو تم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرو بلکہ تم اس کے ماتحت رہو.اصل بات یہ ہے کہ ہر مجلس اور محفل کے کچھ آداب ہوتے ہیں اگر ان آداب اور مجلس سے قطع نظر کی جاوے اور پرواہ نہ ہو تو انسان بجائے اس کے کہ اس مجلس سے فائدہ اٹھاوے اور اس میں کوئی عزت حاصل کرے وہ اس سے نکالا جاتا ہے اور یا ان فوائد اور منافع سے محروم رہ جاتا ہے جو اس مجلس میں بیٹھنے والوں کو ہوتے ہیں.دنیا کے حاکموں اور عہدہ داروں کے درباروں میں جائو تو تمہیں آگاہ کیا جاوے گا کہ وہاں کس طرح پر بیٹھنا ہے اور کس طرح ہونا ہے.مکارم اخلاق کی کتابوں میں آداب مجلس اور آداب گفتگو وغیرہ وغیرہ جداجدا باب مقرر کئے ہیں.اس لئے کہ اخلاق فاضلہ کے حصول کے واسطے آداب و قواعد کی پابندی ضروری ہے.پر صاحب خلق عظیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی پاک مجلس سے سعادت اندوزی کے لئے کیا پابندیٔ آداب کی ضرورت نہیں ہے؟ ہے اور ضرور ہے.صحابہ کی کامیابیوں اور روحانی مدارج کی ترقیوں اور منازل سلوک کے طے کرنے کا اصل راز یہی تھا کہ انہوں نے فنا فی الرسول ہونے کی حقیقت کو سمجھ لیا تھا اور وہ ایک دم کے واسطے بھی آپ کی اطاعت سے قدم باہر نکالنا نہیں چاہتے تھے اور انہوں نے قدم باہر نہیں رکھا.اخلاص اور صواب: اعمال صالحہ کی حقیقت اسی لئے یہ بتائی گئی ہے کہ کوئی عمل عملِ صالح نہیں کہلاتا جب تک کہ اس میں دو شرطیں نہ پائی جائیں.اوّل: یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور فرمان کے موافق اور ماتحت ہو.دوم : وہ اس طریق پر ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل ہے.پہلی شرط کا نام اخلاص ہے اور دوسری کو صواب کہتے ہیں.صحابہ نے اس راز کا پتہ لگالیا تھااس واسطے وہ وہی کرتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اور اتباع کا رنگ رکھتا ہو کیونکہ انہوں نے یہ آداب الرسول کی آیتیں سنی ہوئی تھیں وہاں انہوں نے کلام الٰہی کو اس طرح پر بھی سنا تھا.
(اٰل عمران :۳۲) یعنی اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کہہ دو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ محبوب الٰہی بن جائو تو میری اطاعت کرو اللہ تعالیٰ تم کو دوست رکھے گا.پس چونکہ وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بننے کی ایک ہی راہ ہے اور ایک ہی کلید اور وہ ہے اتباع بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم.صحابہ کرام کو جو یہ حکم دیا گیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرو اور محبوب الٰہی بننے کا جو یہ گُر ان کو بتایا گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کرو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علیحدہ علیحدہ ترقی نہیں کرسکتے اور نہ ترقی کرنے کا یہ اصول ہے کہ انفرادی طور پر ترقی کریں بلکہ انبیاء و رسل کے ماتحت ترقی کرنے کا اصل الاصول یہی ہے کہ سب کے سب اکٹھے ہوکر اس کی اطاعت اور نقش قدم پر چلنے میں ایسے فنا ہوں کہ اسی کا عکس اور نمونہ بننا چاہیں اور اس کے سایہ میں اس طرح پر جمع ہوجائیں جیسے مرغی کے پروں کے نیچے بچے جمع ہوجاتے ہیں.انبیاء سے فیض کس طرح ملتا ہے: جو لوگ انبیاء و رسل علیہم الصلوٰۃ والسلام کی سیرت اور پاک لائف کو پڑھتے ہیں جو قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرز زندگی پر نظر کرنے سے ملتی ہے.کیونکہ آپ مجموعی طور پر کل نبیوں کی صفات اور کمالات کو لے کر آئے تھے اور جہاں ایک طرف آپ نوع انسان کے اکمل افراد میں سب سے اعلیٰ تھے اور سب کی خوبیوں اور کمالات کے جامع تھے وہاں کل دنیا کی اصلاح اور ہمیشہ تک کے لئے مصلح اور ریفارمر ہوکر آئے تھے.اس واسطے جس قدر نبی دنیا میں گزرے ہیں یا جس قدر خوبیاں اور کمالات انسان میں انتہائی درجہ تک ہوسکتے ہیں وہ سب آپ میں موجود تھیں.اس لئے آپ ہی کی لائف پر غور کرنا، کل نبیوں کی سیرت کو پڑھ لینا ہے مگر مجھے اس مقام پر پہنچ کر دل پر ایک ٹھوکر لگی ہے اور سخت درد محسوس ہوا ہے کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور لائف پڑھنے والے اور اس کو اسوہ بنانے والے بہت ہی کم ہیں.مسلمانوں کا فرض تھا کہ آپ کی سیرت کو تدبر سے پڑھتے مگر انہوں نے نہیں پڑھا.
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن کریم ہے اور قرآن کی طرف جو کچھ توجہ مسلمانوں کو ہے اس کے لئے یہ آیت بالکل صحیح ہے. (الفرقان :۳۱) قرآن شریف ہی آپ کی پاک سیرت ہے اور اسی کی طرف مسلمانوں کو توجہ نہیں باوجود یکہ وہ بہت ہی ذلیل حالت تک پہنچ گئے ہیں لیکن ابھی تک بھی وہ بیدار نہیں ہوئے اور اصل باعث جو ان کی تباہی اور ذلت کا ہے ان کو نظر انداز کرکے یورپ کی اتباع سے اور مغربی فلسفہ کو اسوہ بناکر مسلمان کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتے اور ہرگز نہیں کرسکتے؟ ترقی کی ایک ہی راہ ہے اور وہ وہی ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین نے اختیار کی تھی اور وہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوہ بنانا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ہی کو اسوۂ حسنہ ٹھہرایا ہے.(الاحزاب :۲۲) بات کچھ اور تھی اور میں اس سلسلہ میں ادھر چلا گیا.میں نے ایسا عمدًا اور ارادۃً نہیں کیا یہ میرے دل میں ایک درد تھا اور ہے کہ مسلمان بلندی سے گرے ہیں اور پھر ابھرنے اور گڑھے سے نکلنے کے لئے گھاس پھوس کو ہاتھ مارتے ہیں اور اس مضبوط رسی کو جس کی بابت کہا گیا تھا.(اٰل عمران :۱۰۴) چھوڑ بیٹھے ہیں اور اس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے.غرض انبیاء علیہم السلام سے فیض ملنے کی ایک ہی راہ ہوتی ہے اور وہ وہی راہ ہے جس کو قرآن شریف میں (التوبۃ :۱۱۹) کے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے.جب خدا تعالیٰ کا کوئی مامور دنیا میں آتا ہے تو وہ ایک مشین یا َکل کی طرح ہوتا ہے.جس قدر لوگ اس کے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہیں وہ انفرادی طور پر ترقی نہیں کرتے بلکہ ان کا فرض ہونا چاہئے کہ اس سے ملے رہیں اگر وہ اس سے ملے نہیں رہتے تو وہ ترقی نہیں کرسکتے اور اس فیض کو جو اس سے ملتا ہے نہیں پاسکتے.جس قدر لوگ محبوب الٰہی بننا چاہتے ہیں ان کو چاہئے کہ اس کا ساتھ دیں اور اس کی سچی اتباع کریں.ازالۂ وہم : بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پوچھتے ہیں کہ مامور کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی ہم کو کیا ضرورت ہے؟ ہم عقائد حقہ سے واقف ہیں اور اعمال صالحہ کی حقیقت سے آگاہ ہیں اور ان کے پابند ہیں.مگر یہ ان کا دعویٰ ہی دعویٰ ہوتا ہے اگر وہ اس سے واقف اور
آگاہ ہوتے تو انکار ہی نہ کرتے اعمال صالحہ کی حقیقت میں رسول کی سچی اتباع ضروری جزو ہے پھر اعمال صالحہ سے واقف اور اس کے پابند کیسے ہوسکتے ہیں.اور ایک بات یہ بھی ہے کہ بعض امور اصولی طور پر معلوم ہوتے ہیں لیکن ان پر عمل کرنا یا سچا اور حقیقی ایمان پیدا ہونا اور گناہ سے نفرت کرنا اور بچنا یہ باتیں صرف ایک رسمی یا خیالی علم سے نہیں ہوسکتیں مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جب کفار کو مخاطب کرکے فرمایا(لقمٰن :۲۶)یعنی جب ان سے پوچھا جاوے کہ خَالِقُ السَّمٰوٰ تِ وَالْاَرْضِ کون ہے؟ تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ اللہ ہی ہے اور اپنی اپنی حاجت پرستی کے متعلق بھی وہ یہی سمجھتے اور کہتے تھے یُقَرِّبُوْنَ اِلَی اللّٰہِ بِالْحَقِّ یعنی خدا تعالیٰ کے قرب میںپہنچاتے ہیں پھر قرآن شریف کا ایک سطر میں توحیدی وعظ کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ تو ہم پہلے ہی سے جانتے ہیں.پھر ایسا کون سا مذہب ہے جو سچ بولنے کو اچھا نہ سمجھتا ہے یا عام اخلاق کی ضرورت محسوس نہ کرتا ہو اور تو اور بدکار سے بدکار آدمی بھی بدکاری کو بُرا سمجھتا ہے لیکن یہ نہیں ہوتا کہ اس سے باز بھی رہے اور بدی کو چھوڑ کر نیکی اختیار کرے.پس انبیاء علیہم السلام نرا علم دینے کے لئے نہیں آتے ہیں بلکہ وہ اپنے اندر ایک کشش اور جذب کی قوت رکھتے ہیں جس سے دنیا کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور پھر اپنی قوت قدسی کا اثر ان پر ڈالتے ہیں اور وہ لوگ جو ان کی پاک صحبت میں رہتے ہیں ان کے پاک اور کامل نمونہ سے فائدہ اٹھاکر اپنے اندر بدیوں کو دور کرنے اور رذائل سے بچنے اور فضائل کے حاصل کرنے کی قوت پاتے ہیں.مگر یہ قوت اور طاقت اور توفیق کب ملتی ہے.اس وقت جبکہ وہ اس کے فیض صحبت سے بہرہ ور ہوں اور ان کی مجلس کے آداب کی نگہداشت کریں اور ان میں ایسی وحدت ارادی ہو کہ سارے کے سارے ایک َکل کے نیچے کام کرتے ہوں اور سب کے سب حبل اللہ کو مضبوط پکڑے رہیں اور ان کی آوازیں نبی کی آواز پر بلند نہ ہوں یہ ہے وہ اصل جس سے انسان روحانی کمالات کو مامور کی صحبت میں حاصل کرتا ہے اور صحابہ نے اسی اصل کو مضبوط پکڑ کر سب منازل سلوک طے کیں.یاد رکھو قوم قوم نہیں بنتی اور انعام نازل نہیں ہوسکتے جب تک وہ ایک شیرازہ میں جمع نہ ہوں
جب تک وہ متفرق اور منفرد حالت میں رہے گی اس کی طاقت کمزور ہوگی اور وہ ان فیوض سے بہرہ ور نہیں ہوسکتی.کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ ایک ہی سرگروہ ایک ہی مرکز اور ایک ہی چشمہ ہو.میں نے ایک چھوٹی سی کتاب میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک بار انسانی جسم کے اعضا نے باہم مشورہ کیا.پائوں نے کہا کہ مجھے روزی کمانے کے لئے سفر کی کیا ضرورت ہے.کھا تو پیٹ لیتا ہے.ایسا ہی ہاتھوں نے کہا کہ مجھے کمانے کی کیا حاجت.آنکھوں نے دیکھنے سے، کانوں نے سننے سے غرض ہر ایک عضو نے اپنے اپنے فرض منصبی سے انکار کردیا نتیجہ یہ ہو اکہ پیٹ میں جب کچھ نہ گیا تو آخر ُکل طاقتیں اور قوتیں سب سلب ہونے لگیں اور جب ہر ایک پر اس کا اثر ہوا تو پھر سب پکار اٹھے.یہ ہماری غلطی ہے.پیٹ ہی کے لئے مفید نہ تھا بلکہ ہم سب کی زندگی کا اصل راز بھی یہی اتفاق تھا.اس کہانی سے سبق یہ ملتا ہے کہ جب تک وحدت ارادی پیدا نہ ہو زندگی پیدا نہیں ہوسکتی.صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس راز کو سمجھ لیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دین و دنیا میں مظفر و منصور ہوگئے.صحابہ کرام نے یہ بات کیسے حاصل کی اور کس طرح سلوک پورا کیا.اس کا ایک نمونہ ان کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے.ایک مرتبہ ہادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ پڑھ رہے تھے.اثنائے بیان میں آپ نے فرمایا کہ بیٹھ جائو.ابن مسعود ایک گلی میں آرہے تھے.وہاں ہی یہ آواز ان کے کان میں آئی اور معاً وہیں بیٹھ گئے.کسی نے پوچھا کہ آپ یہاں کیوں بیٹھ گئے.فرمایا کہ اندر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز آئی تھی کہ بیٹھ جائو.چونکہ اس حکم کی تعمیل ضروری تھی اور یہ معلوم نہیں کہ مسجد تک جانے میں مجھے یہ موقع ملے یا نہ ملے.اس واسطے میں یہیں بیٹھ گیا کہ تعمیل ارشاد ہوجاوے.یہ ہے نمونہ صحابہ کی اطاعت اور تعمیل حکم کا اور جب تک یہی روح اور رنگ مسلمانوں میں پیدا نہ ہو یقینا سمجھ لو کہ کوئی ترقی اور کامیابی نہیں ہوسکتی اور ہرگز نہیں ہوسکتی.خواہ یورپ کے فلسفہ اور ایجاد کو اپنا قبلہ بھی بنالیں.اس طرح پر تم سمجھ سکتے ہو کہ وحدت کی کیسی ضرورت ہے انسان انسانی کمالات میں ترقی کرنی چاہتا ہے.جمادات اور نباتات بھی اپنے رنگ میں ایک ترقی کرتے ہیں لیکن ان ترقیوں کی تہ میں
بھی یہ رازِ وحدت کام کررہاہے.اگر وہ اعضا کسی مرکز کے متبع نہ ہوں تو مردہ اور بیکار ہوجاتے ہیں اگر یہ اعضا انسانی دوران دم قلب میں شریک نہیں ہوتے تو پھر تھوڑی دیر میں ان کا نتیجہ عام طور پر نظر آسکتا ہے کہ وہ قویٰ بیکارہوجاویں.پس وحدت کی ضرورت ہے وحدت پیدا کرو اور اس کے لئے ایک ہی راہ ہے کہ اسوہ ٔحسنہ کا کامل اتباع ہو.یہ خیال کرنا اور سمجھ لینا ضروری بات ہے کہ جو مامور آوے وہ کوئی نہ کوئی نئی بات ہی سناوے.یہ حماقت عظیم ہے.انبیاء علیہم السلام تو اس صداقت کی نشوونما کے لئے آتے ہیں جو فطرت‘ قانون قدرت اور جستہ جستہ فقرات کتاب میں موجود ہوتی ہے اور ان کی غرض اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان پیدا کرنا اور گناہ کی موت سے بچانے کی تدابیر کا بتانا اور ایک وحدت پیدا کرنا ہوتی ہے.اس مسئلہ کو حضرات صحابہؓ باریک نظر سے دیکھتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ کوئی امر بدون کسی جمعیت کے ہرگز حاصل نہیں ہوگا.نادان قوم نے صحابہ کی باریک عقل کو نہیں پہچانا اور بعض ان میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان پر اعتراض کردیا اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد معاً کچھ لوگوں کو خلافت کی فکر پڑی وہ اعتراض کرنے کو تو اعتراض کرتے ہیں مگر نہیں جانتے.مَنْ لَّمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہٖ فَقَدْ مَاتَ مِیْتَۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ صحابہ اس اصل کو مانتے اور اس پر ایمان لاتے تھے.اس لئے انہوں نے پہلے امام کا اقرار ضروری سمجھا کیونکہ اگر امام نہیں تو یہ کس طرح معلوم ہوتا کہ کہاں دفن کرنا ہے اور کیا کرنا ہے.مختلف الرائے اور مختلف الخیال کے آدمی موجود تھے.کوئی کچھ کہتا اور کوئی کچھ‘ لیکن جب ایک امام ہوگیا اور اس کو قوم نے تسلیم کرلیا پھر کوئی امر متنازعہ باقی نہیں رہ سکتا تھا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.۷؎ اس سے تو صحابہ کی او لوالعزمی اور ان کی فراست صحیحہ اور وحدت و یک جہتی کی خواہش صادقہ کا پتا ملتا ہے اور یہ فعل ان کا قابل تعریف ثابت ہوتا ہے مگر نادان معترض اس کو بھی اعتراض سے خالی نہیں چھوڑتا.سچ ہے عیب نماید ہنرش در نظر کا معاملہ ہے.
پھر قرآن شریف چونکہ حکیم خدا کی کتاب ہے اور وہ انسانی قویٰ اور انسانی ضرورتوں کے علم پر حاوی ہے اس لئے وہ ایک اصل کو تو قائم رکھتا ہے.ضمنی امور کو اس حد تک جہاں تک انسان کی جائز ضروریات کا تعلق ہے چھوڑ دیتا ہے.یا یہ کہو کہ وہ کوئی حکم ایسا پیش نہیں کرتا جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو اور وہ اس کی تعمیل ہی نہیں کرسکتا.چنانچہ صاف فرمایا.(البقرۃ :۲۸۷) مجھے اس موقع پر قرآن کریم کی عظمت اور کمال کے سامنے روح میں ایک وجد محسوس ہوتا ہے اور اس کے منجانب اللہ ہونے پر یہی زبردست دلیل نظر آتی ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کی ایک بڑی قوم جو آج اپنی دانش اور سمجھ پر اتراتی ہے اپنی ایجادوں اور صنعتوں پر ناز کرتی ہے.اپنے ہدایت نامہ کو بکلی چھوڑ بیٹھے ہیں محض اس لئے کہ اس کی تعلیم ناممکن العمل ہے اور وہ ایسی تعلیم ہے جس کے معلم کی نسبت تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ انسانی قویٰ کی حقیقت سے بالکل ناواقف اور نا آشنا ہے.یہی وجہ ہے کہ زندگی کے کسی حصہ اور شعبہ کے لئے انجیل کی ہدایت نہیں مل سکتی.ایک شوہر، ایک باپ، ایک کمانڈر انچیف‘ ایک قاضی اور جج‘ ایک سلطان جلیل القدر، ایک متبتّل الی اللہ درویش، ایک مقنّن، ایک جوّاد انسان بتائو انجیل سے کیا ہدایتیں لے سکتا ہے.ہماری گورنمنٹ مذہبًا عیسائی ہے لیکن اگر وہ انجیل کے موافق عملدرآمد کرنا چاہے تو آج پولیس اور فوج کو الگ کرے اور کوئی ہندوستان مانگے تو یہ دوسرے حصے سلطنت کے دینے کو تیار ہوجاوے.ایک گال پر طمانچہ کھاکر دوسری پھیردینے پر عمل شروع ہوتو آج انگلستان کا صفایا ہوجاوے.ملک کا امن چین خطرناک حالت میں پڑ جاوے.مگر خدا کا شکر ہے کہ اس پر عمل نہیں اور عملی طور پر یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ انجیل ہدایت نامہ نہیں ہے اور وہ انسانی زندگی کی ضروریات سے ناواقف شخص کے خیالات ہیں.غرض یہ ذکر تو ذوق بیان کی وجہ سے درمیان آگیا.میں یہ بیان کرنا چاہتا تھا کہ قرآن شریف چونکہ اللہ علیم و حکیم کی کتاب ہے.اس لئے وہ انسانی ضرورتوں اور ان کی مجبوریوں کا پورا علم اور فلسفہ اپنے اندر رکھتی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک
صحبت میں رہنے کا حکم دیا ہے اور انسان چونکہ متمدن ہے بعض اوقات اس کو مشکلات پیش آجاتے ہیں اور وہ ہر دم اس سرکار میں حاضر رہنے سے معذور ہوسکتا ہے.اس لئے معمولی دوری کو انقطاع کلی کا موجب نہیں ہونے دینا چاہئے.جس قدر دور ہوتا جاتاہے.اسی قدر سستی اور کاہلی پیدا ہوسکتی ہے اگر خدا تعالیٰ کا فضل اور کثرت استغفار نہ ہو.اس لئے انقطاع کلی سے بچانے کے لئے حکم دیا ہے.(التوبۃ :۱۲۰) یعنی اہل مدینہ اور اس کے اردگرد رہنے والوں کا یہ کبھی حال نہ ہو کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص کام میں توجہ کریں تو یہ اپنی جگہ سمجھیںیا نہ سمجھیں اس کی خلاف ورزی کریں.انسان ہمہ دان نہیں: انبیاء ومرسلین کے کام اللہ تعالیٰ کے اشارے اور ایما کے ماتحت ہوتے ہیں اور ان میں باریک در باریک اسرار اور غوامض ہوتے ہیں.موٹی عقل سے دیکھنے والوں کی نظرمیں ممکن ہے کہ ایک فعل مفید معلوم نہ ہو لیکن دراصل اس میں مآل کار قوم اور ملک کے لئے ہزاروں ہزار مفاد اور بہتریاں ہوتی ہیں تو یہ اس کی حماقت ہوگی اگر اس پر اعتراض کردے.نادان انسان ہر فعل کی علت غائی اور ضرورت کو نہیں سمجھتا اور نہ اس کے لئے ضروری ہے کہ یہ ہر ایک فعل کی علت غائی ہی سوچتا رہے.ایک کیکر کے درخت کو جو اس قدر کانٹے لگائے اور شیشم یا آم کے درخت کو ایک بھی کانٹا نہ لگایا.اب اگر ایک احمق اعتراض کرے کہ یہ کیا کیا کیکر کے درخت کو کانٹے کیوں لگائے اور دوسرے کو کیوں نہ لگائے یہ اس کی نادانی ہوگی یا نہیں؟ اس کی مصلحت اور ضرورت کو تو وہی خدا سمجھتا ہے جس نے کیکر اور آم کو بنایا ہے.دوسرا کیونکر اسے سمجھے.اسی طرح پر انبیاء کے افعال و حرکات جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے اللہ تعالیٰ کے خفی و جلی احکام اور اشارات کے ماتحت ہوتے ہیں.بعض اوقات ان کے افعال عام نظر میں ایسے دکھائی دئیے جاتے ہیں جو دوسروں کو اعتراض کا موقع ملتا ہے.مگر در حقیقت درست اور صحیح وہی ہوتا ہے.اب ایک آدمی دیکھتا ہے کہ بدر کے جنگ میں تین آدمی مخالفوں کی طرف سے نکلے ہیں اور تین ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی
طرف سے نکلے ہیں کوئی کہے کہ تین کے مقابلہ میں ڈیڑھ کافی تھا.آپ نے تین کیوں بھیجے جو چھ کے لئے کافی تھے؟ مگر وہ بڑا ہی احمق اور نادان ہوگا جو کہے کہ یہ کارروائی غلط تھی.یاد رکھو خدا تعالیٰ کی مرسل مخلوق کو اپنی فراست پر قیاس نہیںکرلینا چاہئے.اسی لئے فرمایا کہ خیر القرون کی مخلوق کو تخلّف جائزنہیں ہے.خواہ اس میں مصائب اور مشکلات ہی پیدا ہوں اور ہوتے ہیں مگر جب وہ اپنا کام اس پر مقدّم نہ کریں گے تو کیا یہ تکالیف اور مصائب اکارت جائیں گے؟ کبھی نہیں.سنو! (التوبۃ :۱۲۰).خلاصہ کلام یہ ہے کہ سفر میں پیاس لگتی ہے موقع پر پانی نہیں ملتا.بوجھ اٹھانا پڑتا ہے.تکان یا تکالیف ہوتی ہے.ایسا ہی سفر میں ممکن ہے کہ روٹی نہ ملے یا ملے تو وقت پر نہ ملے اس قسم کی صدہا قسم کی تکلیف ہوتی ہے.اس قسم کی تکالیف اور مشکلات اگر اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں اور یا دشمن سے کوئی فائدہ حاصل کرلے.غرض حضور الٰہی میں ان کا ثمرہ ضرور ہوتا ہے اور ان کے ذمہ اعمال میں نیک عمل لکھا جاتا ہے.خدا چونکہ شکور خدا ہے وہ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا.۸؎ محسنین کے معنی: مولا کریم چونکہ شکور ہے اور علیم و خبیر ہے اس لئے وہ فرماتا ہےبے شک اللہ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا.محسن کسے کہتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احسان کی تعریف جبرئیلؑ نے صحابہ کی تعلیم کے لئے پوچھی ہے آپ نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے یا کم از کم یہ کہ یقین کرلے کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو دیکھتا ہے.یہ ایک ایسا مرتبہ عظیم الشان ہے جس کے کسی نہ کسی پہلو کے حاصل ہوجانے پر انسان گناہوں سے بچ جاتا ہے اور بڑے بڑے مراتب اور مدارج اللہ تعالیٰ کے حضور پالیتا ہے.ساری نیکیوں کا سرچشمہ اور تمام ترقیوں اور بلند پرواز گیوں کی جان اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے.انسان اعلیٰ درجہ کے اخلاق فاضلہ کو حاصل ہی نہیں کرسکتا جب تک خدا تعالیٰ پر یقین نہ ہو کہ وہ ہے.میں اس بات کے ماننے کے واسطے کبھی تیار نہیں ہوسکتا کہ ایک دہریہ بھی کبھی اعلیٰ مراتب کے اخلاق فاضلہ والا ہوسکتا
ہے کوئی چیز اس کو گناہوں کے ارتکاب سے نہیں روک سکتی.نیکی کا کوئی سچا مفہوم اس کی سمجھ میں آنہیں سکتا پھر وہ نیکی کیسے کرے اور گناہوں سے کیونکر بچے.اس کی ساری عمر ناامیدیوں اور مایوسیوں کا شکار رہتی ہے.وہ اسباب اور علت و معلول کے سلسلہ کے پیچ در پیچ تعلقات میں ہی منہمک رہ کر آخر حسرت اور یاس سے اس دنیا کو چھوڑ جاتا ہے.دہریہ اور مومن : میں نے دہریہ اور ایمان والے دونوں کو مرتے ہوئے دیکھا ہے اور دونوں کی موت میں زمین و آسمان کا فرق پایا ہے.میں سچ کہتا ہوں اور اپنے ذاتی تجربہ سے کہتا ہوں اور پھر جوچاہے آزما کر دیکھ لے کہ سچی راحت اور حقیقی خوشی صرف صرف ایمان باللہ سے ملتی ہے.یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور صلحاء کی لائف میں جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کوئی واقعہ خودکشی کا نہیں پایا جاتا.مومن کی امید اپنے اللہ پر بہت وسیع ہوتی ہے وہ کبھی اس سے مایوس نہیں ہوتا ان کی زندگی کے واقعات کو پڑھو تو معلوم ہوگا کہ ایک ایک وقت ان پر ایسا آیا ہے کہ زمین ان پر تنگ ہوگئی ہے لیکن اس شدت ابتلا میں بھی وہ ویسے ہی خوش و خرم ہیں جیسے اس ابتلا کے دور ہونے پر.وہ کیا بات ہے جو ان کو اس موت کی سی حالت میں بھی خوش و خرم اور زندہ رکھتی ہے.فقط اللہ پر ایمان.محسنین کا پہلا اور پچھلا درجہ : غرض محسنین کے زمرہ میں داخل ہونا بہت ہی مشکل اور پھر مشکل کشا ہے.پہلا درجہ جو محسن کااعلیٰ مقام ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے.بعد میں حاصل ہوتا ہے.اس کا ابتدائی درجہ یہی ہے کہ وہ یہ ایمان لائے کہ میرے ہر قول و ہر فعل کو مولیٰ کریم دیکھتا اور سنتا ہے.جب یہ مقام اسے حاصل ہوگا تو ہر ایک بدی کے وقت اس کا نور قلب اس ایمان کی بدولت اس سے روکے گا اور لغزش سے بچالے گا اور رفتہ رفتہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخر وہ اس مقام پر پہنچ جائے گا کہ خدا تعالیٰ کو دیکھ لے گا اور یہ وہ مقام ہے جو صوفیوں کی اصطلاح میں لقا کا مقام کہلاتا ہے.پس جب انسان محسن ہوکر اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے توپھر تھوڑا ہویا بہت اللہ تعالیٰ اس کے بہتر بدلے دیتا ہے.یہ صرف اعتقادی اور علمی بات ہی نہیں.کہانی اور داستان ہی نہیں بلکہ واقعات نفس الامری ہیں.
مہاجرین میں خلافت کا راز: میں دنیا کی تاریخ میں جس سے مراد میں انبیاء علیہم السلام کی پاک تاریخ لیتا ہوں بہت سے واقعات اس کی تصدیق میں پیش کرسکتا ہوں اور علمی طریق پر بھی خدا کے فضل سے اس کی سچائی ثابت کرنے کو تیار ہوں.مگر ان سب باتوں کو چھوڑ کر میں ایک عظیم الشان واقعہ صحابہ کی لائف کا دکھانا چاہتاہوں.میں ایک عرصہ تک اس سوال پر غور کرتا رہا کہ کیا وجہ تھی جو انصار کو خلافت نہ ملی بلکہ خلافت کے اول وارث مہاجر ہوئے اور مہاجرین میں سے بھی ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ.حالانکہ انصار میں سب نے بڑی ہمت کی اور ان کی اس وقت کی امداد ہی نے ان کو انصار کا پاک خطاب دیا لیکن اس کا کیا سرّ ہے کہ بادشاہی اور حکومت کا ان کو حصہ نہ ملا اور پہلا خلیفہ قریشی ہوا.پھر دوسرا تیسرا چوتھا بھی یہاں تک کہ عباسیوں تک قریشیوں ہی کا سلسلہ چلا جاتا ہے.بنو ثقیفہ میں کوشش کی گئی کہ ایک خلیفہ انصار میں سے ہو اور ایک مہاجرین میں سے مگر یہ تجویز پاس نہیں ہوئی اور کسی نے نہ مانا.آخر مجھ پر اس کا سرّ یہ کھلا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت اپنا کام کررہی تھی.انصار نے کیا چھوڑا تھا جو ان کو ملتا.مہاجرین نے ملک چھوڑا، وطن چھوڑا، گھر بار چھوڑا، مال و اسباب.غرض جو کچھ تھا وہ سب چھوڑا اور سب سے بڑھ کر ابوبکرؓ نے ،اس لئے جنہوں نے جو کچھ چھوڑا تھا اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر پایا.زیادہ سے زیادہ ان کی زمین چند بیگہ ہوگی جو انہوں نے خدا کے لئے چھوڑ دی مگر اس کے بدلہ میں یہاں خدا نے کتنے بیگہ دی؟ اس کا حساب ہی کچھ نہیں.پس یہ سچی بات ہے کہ جس قدر قربانی خدا کے لئے کرتا ہے اسی قدر فیض انسان اللہ تعالیٰ کے حضور سے پاتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کتنی بڑی تھی.پھر اس کا پھل دیکھو کس قدر ملا.اپنی عمر کے آخری ایام میں ایک خواب کی بنا پر جس کی تاویل ہوسکتی تھی حضرت ابراہیم نے اپنے خلوص کے اظہار کے لئے جوان بیٹے کو ذبح کرنے کا عزم بالجزم کرلیا.پھر خدا نے اس کی نسل کو کس قدر بڑھایا کہ وہ شمار میں بھی نہیں آسکتی.اسی نسل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان رسول خاتم النبیین رسول کرکے بھیجا جو کل انبیاء علیہم السلام سے افضل ٹھہرا.جس کی امت میں ہزاروں ہزار اولیاء اللہ ہوئے جو بنی اسرائیل کے انبیاء کے مثیل تھے اور لاکھوں لاکھ بادشاہ ہوئے.یہاں تک کہ مسیح موعود جو خاتم الخلفاء ٹھہرایا گیا ہے وہ بھی اسی امت میں پیدا ہوا اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم نے
اسے پایا اور اس کی شناخت کا موقع ہم کو دیا گیا.والحمدللّٰہ علٰی ذٰلک.یہ بدلہ یہ جزا کس بات کی تھی؟ اسی عظیم الشان قربانی کی جو اس نے خدا تعالیٰ کے حضور دکھائی.واقعی یہ بات قابل غور ہے کہ ابراہیم کی عمر جب کہ سو برس کے قریب پہنچی.اس وقت قویٰ بشری رکھنے والا کیا امید اولاد کی رکھ سکتا ہے پھر تیرہ برس کی عمر کا نوجوان لڑکا جو چوراسی برس کے بعد کاملا ہوا ہو اس کے ذبح کرنے کا اپنے ہاتھ سے ارادہ کرلینا معمولی سی بات نہیں ہے جس کے لئے ہر شخص تیار ہوسکے غور کرو.اس ذبح کے بعد عمر کے آخری ایام ہیں اور قبر قریب ہے.پھر کیا باقی رہ سکتا ہے.نہ مکان رہا نہ عزت و جبروت.مگر اے ابراہیم تجھ پر خدا کا سلام! تو نے خدا تعالیٰ کے ایک اشارہ اور ایما پر سارے ارادوں اور ساری خوشیوں، خواہشوں کو قربان کردیا اور اس کے بدلے میں تو نے وہ پایا جو کسی نے نہیں پایا.خاتم النبیین اسی اسماعیل کی نسل میں ہوا اور خاتم الخلفاء اسی خاتم النبیین کی امت میں.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.پھر ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وہ صدق اور اخلاص کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ (البقرۃ:۱۳۲)اے ابراہیم تو فرمانبردار ہوجا عرض کیا حضور میں تو فرمانبردار ہوچکا.اَسْلِمُنہیں کہا اَسْلَمْتُ کہا یعنی اپنا ارادہ رکھا ہی نہیں معًا حکم الٰہی کے ساتھ ہی تعمیل ہوگئی.پھر اس اخلاص سے کیا بدلہ پایا یہی کہ ابوالملّتٹھہرا.جو کچھ چھوڑا اس سے بڑھ کر ملا.اسی طرح پر سید الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حالات پر غور کرو.اہل مکہ نے کہا کہ اگر آپ کو بادشاہ بننے کی آرزو ہے تو ہم تجھ کو بادشاہ بنانے کے واسطے تیار ہیں.اگر تجھے دولت مند بننے کی خواہش ہے تو دولت جمع کردیتے ہیں.اگر حسین عورت چاہتا ہے تو تامل و مضائقہ نہیں.یہ کیا چیزیں تھیں مگر دنیا پرست کی نظر ان سے پرے نہیں جاسکتی تھی.اس لئے اسی کو پیش کیا.آپ نے اس کا کیا جواب دیا؟ یہی کہ اگر سورج اور چاند کو میرے دائیں بائیں رکھ دو تو بھی میں اس اشاعت اور تبلیغ سے رک نہیں سکتا.اللہ! اللہ! کس قدر اخلاص ہے.اللہ تعالیٰ پر کتنا بڑا ایمان ہے.قوم کی مخالفت ان دکھوں اور تکلیفوں کے سمندر میں اپنے آپ کو ڈال دینے کے واسطے روح میں کس قدر جوش اور گرمی ہے جو اس انکار سے آنے والی تھیں.ان تمام مفاد اور منافع پر تھوک دینے کے لئے کتنی بڑی جرأت ہے جو وہ ایک دنیا دار کی
حیثیت سے پیش کرتے تھے مگر خدا تعالیٰ کو راضی رکھ کر اس کو مان کر اس کے احکام کی عزّت و عظمت کو مدنظر رکھ کر اس قربانی کا بدلہ آپ نے کیا پایا؟ وہ پایا جو دنیا میں کسی ہادی کو نہیں ملا اور نہ ملے گا.(الکوثر :۲)کی صدا آئی؟ اور کس نے ہر چیز میں آپ کو وہ کوثر عطا کی جس کی نظیر دنیا میں نہیں مل سکتی؟ سوچو! اور غور کرو!! میں نے مختلف مذاہب کی کتابوں ان کے ہادیوں اور یا نبیوں کے حالات کو پڑھا ہے اس لئے دعویٰ سے کہتا ہوں کہ کوئی قوم اپنے ہادی کے لئے ہر وقت دعائیں نہیں مانگتی ہے مگر مسلمان ہیں کہ دنیا کے ہر حصہ میں ہر وقت ہر آن اللّٰھم صلّ علٰی محمد وعلٰی اٰل محمد وبارک وسلّم کی دعا آپ کے لئے کررہے ہیں.جس سے آپ کے اور مراتب ہر آن بڑھ رہے ہیں.یہ خیالی اور خوش کن بات نہیں واقعی اسی طرح پر ہے.دنیا کے ہر آباد حصہ میں مسلمان آباد ہیں اور ہر وقت ان کی کسی نہ کسی نماز کا وقت ضرور ہوتا ہے.جس میں لازمی طور پر اللّٰھم صلّ علٰی محمد پڑھا جاتا ہے.مقرر نمازوں کے علاوہ نوافل پڑھنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے اور درود شریف بطور بڑی محبت کے پڑھنے والے بھی کثرت سے.اس طرح پر آپ کے مراتب مدارج کا اندازہ اور خیال بھی ناممکن ہے.یہ مرتبہ یہ فخر کسی اور ہادی کو دنیا میں حاصل نہیں ہوا ہے.۹؎ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام نے محض خدا تعالیٰ کے خوف سے ایک عورت کے ساتھ بدکاری کرنے سے پرہیز کیا.ورنہ ایک عام آدمی بھی جس کی نگاہ بہت ہی چھوٹی اور پست ہو کہہ سکتا ہے کہ اس تعلق سے وہ اس عزت سے جو اس وقت ان کی تھی زیادہ معزز اور آسودہ حال ہوتے.اگرچہ یہ خیال ایک دنی الطبع آدمی کا ہوسکتا ہے.مومن کبھی وہم بھی نہیں کرسکتا کہ کسی بدی اور بدکاری میں کوئی آرام آسودگی کی عزت مل سکتی ہے سچی عزت اور راحت مل سکتی ہے کیونکہ ارشاد الٰہی اس طرح پر ہے کہ ساری عزتیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور پھر معزز ہونا رسول اور مومنین کے لئے لازمی ہے.بہرحال جو کچھ بھی ہو.کمینہ فطرت کم حوصلہ انسان عاقبت اندیشی سے حصہ نہ رکھنے والا کہہ سکتا ہے کہ ان کو آرام ملتا ہے.مگر حضرت یوسف علیہ السلام نے اس عزت اس آرام اور دولت کو لات ماری اور خدا تعالیٰ کے احکام کی عزت کی.قید قبول کی مگر حکم الٰہی کو نہ توڑا.نتیجہ کیا ہوا وہی یوسف اسی مصر میں اسی شخص کے سامنے اس عورت کے اقرار کے موافق معزز اور راست باز ثابت ہوا.وہ امین
ٹھہرایا گیا اور جس مرتبہ پر پہنچا تم میں سے کوئی اس سے ناواقف نہیں.یوسف علیہ السلام کا یہ سارا تذکرہ بیان کرکے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (یوسف :۲۳) یعنی عادت اللہ اور سنت اللہ اسی طرح پر واقع ہوئی ہے کہ کوئی محسن ہو.کبھی ہو اس کو اس طرح پر جزا ملتی ہے جیسے یوسف علیہ السلام کو ملی.غرض انسان محسن بنے پھر خدا اس کے ساتھ ہے اور اسے مراتب اعلیٰ ملتے ہیں.خدا کی راہ میں تھوڑا ہو یا بہت جو کچھ خرچ کرتا ہے اور خدا کے لئے اگر کوئی وطن اور مال اور دولت یا عزت کو چھوڑتا ہے وہ بے وطن نہیں ہوتا اس کو بہترین وطن دیا جاتا ہے.وہ بے قوم و بے یارومددگار نہیں رہتا.اس کو بہترین قوم بہترین احباب و دوست دئیے جاتے ہیں جو چھوڑتا ہے اس سے بہتر پاتا ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر خرچ کے لئے جو اللہ کی راہ میں ہو‘ اوقات ہوتے ہیں.مامور من اللہ جب آتا ہے اس کے ابتدائی زمانہ میں اس کی اعانت و نصرت کی عنداللہ بہت قدر اور عزت ہوتی ہے.وہ وقت ایسا ہوتا ہے کہ ایک مٹھی بھر َجو بھی خدا کی راہ میں خرچ کرنا بہت قیمت اور قدر رکھتے ہیں مگر ایک زمانہ اس مامور کی کامیابیوں کا آجاتا ہے اس وقت سونے کے پہاڑ خرچ کرنے کے بھی اس قدر قیمت نہیں ہوگی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی زمانہ میں جبکہ ہر طرف سے مخالفت کی صدائیں بلند تھیں اور مسلمان ہونے والوں کو وہ اذ ّیتیں اور تکلیفیں دی جاتی تھیں جو آج خدا کے محض فضل سے اس گورنمنٹ کے زیر سایہ ہمارے مخالف ہم کو نہیں پہنچا سکتے.اس وقت آپ نے فرمایا کہ ایک مٹھی َجوکی آج جو قدر ہے وہ ایک وقت آنے والا ہے اُحد پہاڑ کے برابر سونا دینے والے کی وہ قدر نہ ہوگی.حقیقت میں یہ کیسی سچی بات ہے.جب مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ بہت وسیع ہوگیا اگر عباسیوں کے زمانہ میں ہارون رشید یا مامون رشید اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک مٹھی َجو کی دیتے تو ان کے لئے شرم اور عار کا باعث ہوتا.مگر یہ خوب یاد رکھو جس چیزکے بدلے انہوں نے سلطنت پائی اور قیصروکسریٰ کے خزانے ان کے پائوں میں ڈالے گئے وہ ایک مٹھی َجوہی تھی جو صحابہ نے دی.اس سے بھی صاف نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا اور پھر مامور کی ابتدائی بعثت کے ایام میں خرچ کرنا بہت ہی بڑا قدر و قیمت رکھتا ہے یہ تو ہے انفاق فی سبیل اللہ کی ضرورت.
اتقا اور صحبت صادق: اب ایک اور امر ہے جو قرآن شریف سے ثابت ہے اور جس کی طرف بڑی توجہ دلائی گئی ہے وہ کیا ہے؟ متقی بننا اور صادقوں کا ساتھ دینا ہے.حقیقت میں تقویٰ کی اصل روح انسان کے اندر پیدا نہیں ہوتی جب تک کہ صادقوں کی صحبت میں نہ رہے.صادق کی پاک صحبت اندر ہی اندر ایک خاص اثر انسان کی روح پر کرتی ہے اور اس کے امراض روحانی کا مداوا اس کی پاک توجہ، عقد ہمت، دعا اور موثر وعظ و نصائح جو وقتاً فوقتاً درد دل سے کرتا ہے اور وہ نشانات و خوارق جو وقتاً فوقتاً اللہ تعالیٰ اس کی تائید اور نصرت کے لئے نازل فرماتا ہے ایمان کو قوی کرتے ہیں اور جب ایمان کامل ہونے لگتا ہے تو گناہوں کی زندگی پر موت آکر ایک نئی زندگی اسے عطا ہوتی ہے جس میں تقویٰ کے خواص اور آثار پائے جاتے ہیں.لیکن انسان کی ضرورتیں‘ اس کی کم نظریاں‘ انعامات الٰہیہ کی وسعت سے بے خبری‘ اس کی ذاتی کمزوریاں اور بشری تقاضے بعض اوقات ایسا کرتے ہیں کہ ہر وقت وہ ماموروں کی صحبت میں نہیں رہ سکتا اور وہ فیض اور فضل جو ان کی پاک صحبت میں ملتا ہے وہ اسے ان شرائط اور لوازمات کے ساتھ جو خاص صحبت ہی سے مختص ہیں نہیں پاسکتا اس لئے ایک اور ضرورت پیش آئی وہ ضرورت ہے تفقّہ فی الدین کی.تفقّہ فی الدین: تفقہ فی الدین کے لئے پھر یہ حکم صادر ہوا. (التوبۃ :۱۲۲).یعنی چونکہ یہ تو ممکن نہیں ہے اور نہ مناسب ہی ہے کہ سب کے سب مسلمان یک دفعہ ہی نکل جاویں.اس لئے کیوں ہر گروہ سے ایک جماعت اس مقصد اور غرض کے لئے نہ نکلے کہ تَفَقّہ فِی الدِّیْنِ کرے اور جب وہ اپنی قوم کے پاس لوٹ کر واپس آئیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں تاکہ وہ قوم بُری باتوں سے بچے.اس آیت سے پہلی آیت میں انفاق کے فضائل بیان ہوئے ہیں.اس واسطے کہ اس آیت میں جو ابھی میں نے پڑھی ہے.انفاق کی ایک ضرورت بھی پیش ہوئی ہے.اس سے پہلی آیت یہ ہے. (التوبۃ :۱۲۱).
یعنی اور نہ وہ اللہ کی راہ میں کوئی ہو ایسا تھوڑا یا بہت مال خرچ کریں گے اور نہ کوئی میدان طے کریں گے مگر یہ کہ ان کے واسطے اس خرچ اور سفر کی جزا لکھی جاوے گی تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں اس اچھے کام کا بدلہ دے جو وہ کرتے تھے.اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مامورین کے وقت سفروں کی ضرورت بھی پیش آتی ہے اور خدا کے لئے کوئی نہ کوئی سفر قوم کے بعض یا کل افراد کو کرنا پڑتا ہے.پس وہ سفر بجائے خود اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین جزا کا موجب اور باعث ہوتا ہے.غرض اس میں انفاق کی فضیلت بیان کرکے اس دوسری آیت میں جو تفقّہ فی الدین کے لئے ایک جماعت کے نکلنے کی ہدایت کرتی ہے.انفاق کی ضرورت بیان کی گئی.۱۰؎ تفقّہ فی الدینکے لئے خاص جماعت ہو: عام طور پر ُکل انسان ایک امام کے حضور جمع نہیں ہوسکتے ُکل دنیا نہ تو متفق ہی ہو سکتی ہے نہ وہ ایک جگہ جمع ہوسکتی ہے.ملک کی طبعی تقسیم اور پھر ُکل دنیا کی طبعی تقسیم اس امر کی شاہد ہے.اس عام نظارہ قدرت کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ سب کے سب امام کے حضور جمع رہو اور ہر وقت حاضر رہو قریباً تکلیف مالایطاق ہوجاتی جو اللہ تعالیٰ نے نہیں رکھی.یہ فخر عیسائیوں کو بے شک ہے کہ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کو ایسی شریعت ملی ہے جس کو کوئی انسان بجا لاسکتا ہی نہیں.اگرچہ تعجب ہے کہ پھر وہ شریعت کا نزول ہی کیوں مانتے ہیں سرے سے کہہ دیتے شریعت آئی ہی نہیں اور نہ اس کی کوئی ضرورت تھی کیونکہ انسان اس کی بجاآوری اور تعمیل سے قاصر ہے لیکن اسلام ہاں! پاک و بے عیب اسلام ایسی شرمناک اور قابل مضحکہ بات کو روا نہیں رکھتا وہ (البقرۃ : ۲۸۷) کی پاک ہدایت دیتا ہے.پھر میں کیوں ایک طرفۃ العین کے لئے بھی یہ روا رکھوں کہ اسلام میں کوئی حکم ایسابھی ہے جس کی تعمیل ناممکن ہے.یہ خوبی اور عظمت اسلام کی ہی ہے کہ اس کے جمیع احکام اس قسم کے ہیں کہ ہر ایک انسان ان سے اپنی استطاعت و طاقت کے موافق اپنی حالت اور حیثیت کے لحاظ سے یکساں فائدہ اٹھا سکتا ہے.مثلاً ایک شخص ہے وہ بیمار ہے اٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا وہ بیٹھ کر حتیٰ کہ اشاروں سے بھی پڑھ سکتا ہے.اس کا ثواب ایک مستعد تندرست آدمی کی نماز سے کم نہیں ہوگا نہ اس نماز میں کوئی سقم واقع ہوسکتا
ہے.ایک شخص استطاعت حج کی نہیں رکھتا.حج نہ کرنے سے اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا اسی طرح پر تفقّہ فی الدین کی بھی مختلف صورتیں ہیں ہر شخص اتنا وقت اور فراغت نہیں رکھتا کہ وہ اس کام میں لگا رہے.دنیا میں تقسیم محنت کا اصول صاف طور پر ہدایت دیتا ہے کہ مختلف اشخاص مختلف کام کریں.انسان کی تمدنی زندگی کی ضروریات کا تکفّل ہوگا.اسی طرح اسی اصول کی بنا پر حکم ہوا کہ (التوبۃ :۱۲۲).یعنی یہ امر تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کل مومن علوم حقہ کی تعلیم اور اشاعت میں نکل کھڑے ہوں.اس لئے ایسا ہونا چاہئے کہ ہر طبقہ اور گروہ میں سے ایک ایک آدمی ایسا ہو جو علوم دین حاصل کرے اور پھر اپنی قوم میں واپس جاکر ان کو حقائق دین سے آگاہ کرے تاکہ ان میں خوف و خشیت پیدا ہو.میں افسوس اور درد دل کے ساتھ کہتا ہوں کہ عملی رنگ میں اس آیت کو منسوخ کردیا گیا ہے.حقیقت میں ایسا ہی ہوا ہے.علم کی غرض و غایت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت پیدا ہو جس خوف سے خدا تعالیٰ کی معرفت بڑھتی ہے اور انسان گناہوں اور بدیوں سے بچتا ہے.یہ بات خیالی نہیں یقینی اور نیچرل ہے.دیکھو تم کیوں خون کرنے سے ڈرتے ہو؟ صرف اس لئے کہ تعزیزات ہند ڈراتی ہے اور اس کی سزا تمہارے دل پر ایک خاص اثر ڈال کر ایسی حرکات سے بچاتی ہے.یہ طریقے دراصل بدیوں سے بچنے کے عارضی اور ظلی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قانون مجریہ وقت کے ہوتے ہوئے بھی باوجود یکہ مجرموں کو سزا ملتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں.من ُکل الوجوہ جرائم کا دروازہ بند نہیں ہوتا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ حقیقی طور پر یہ دروازہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت سے بند ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ علماء ربانی اور ماموروں کی زندگی میں یہ نمونہ بدیوں کا نہ ملے گا بلکہ ان کی زندگی پاک اور بے لوث ہوگی وہ اس لئے بدیوں سے نہیں بچتے کہ وہ تعزیرات ملک سے ڈرتے ہیں بلکہ وہ تعزیرات خدا سے ڈرتے ہیں او روہ خوف ان کے نفسانی قویٰ پر غلبہ پاکر اس مادہ کو بھسم کردیتا ہے جو بے اعتدالی کا جوش نفس سے پیدا ہوسکتا ہے.پس حقیقی طور سے گناہ سے بچنے کا طریق خوف خدا کا دل پر مستولی ہونا ہے.ایک اور بھی راہ ہے جس سے انسان گناہ سے بچ سکتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے حسن پر اطلاع
ہے.جب پوری معرفت اور بصیرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے جمال کو دیکھتا ہے تو اس حسن کے بالمقابل تمام لذّات اسے ہیچ اور فانی نظر آتی ہیں اور ساری خوشیوں اور راحتوں کو اسی صاحب الحسن کی اطاعت میں پاتا ہے.یہ مقام اعلیٰ درجہ کے انسانوں کا ہوتا ہے مگر ایک طبقہ انسانوں کا ایسا بھی ہے جو خوف الٰہی بھی ان کو گناہوں سے بچا لیتا ہے اور یہ خوف علوم حقہ میں تفقّہ کرنے سے پیدا ہوتا ہے.اسی لئے علماء ربّانی کی شان میں کہا گیا ہے.(فاطر : ۲۹) مگر آج اس زمانہ میں عالم کے یہ معنی سمجھے گئے ہیں کہ کج بحثیاں کرنے میں طاق ہو.کبھی کسی بات کے ماننے کے لئے تیار نہ ہو جو منہ سے نکل جاوے خواہ وہ کیسا ہی بیہودہ اور لغو ہو اس کی تائید میں قرآن شریف میں تحریف کرنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا کرنے سے بھی نہ ڈرے.خدا تعالیٰ مجھ کو اور میرے بھائیوں کو ایسے علم سے بچائے.آمین حضرت امام نے ایک الہامی قصیدہ لکھا ہے.اس کا یہ شعر کیسا سچا ہے.علم آں بود کہ نور فراست رفیق اوست ایں علم تیرہ را بہ پشیزے نمے خرم تم علم پڑھو لیکن اگر اس علم سے خدا کا خوف اور خشیت پیدا نہیں ہوتی تو استغفار اور لاحول پڑھو کہ وہ علم حجاب اکبر ہوکر ہلاکت کا موجب نہ ہوجاوے.میں نے بڑے بڑے مولوی اور عالم کہلانے والے دیکھے ہیں.اس وقت موجود ہیں اور تم میں سے اکثر اس سے ناواقف نہیں کہ وہ چیز جو ان کی راہ میں امام وقت کی اطاعت میں ٹھوکر کا پتھر ہوئی وہ وہی ان کا علمی ناز اور گھمنڈ تھا.اگر وہ حقیقی علوم کے وارث ہوتے تو ان میں خشیت اور خوف پیدا ہوتا ان کے دل یہ سن کر ڈرجاتے کہ سنانے والا کہتا ہے.میں خدا کا مامور ہوں.یہ چھوٹی سی بات نہ تھی خدا کے بھیجے ہوئے سے مقابلہ!!! میں سچ کہتا ہوں کہ یہ خدا کا فضل ہے جس کو میں بیان کرتا ہوں کہ میرا دل اس تصور سے بھی کانپ جاتا ہے کہ انکار کے لئے کیوں جرأت کرتے ہیں؟ مگر مشکل یہ ہے کہ وہ علم نور فراست ساتھ ہی نہ رکھتا اس سے بہتر تھا کہ وہ جاہل رہتے ایک اور بات قابل عذر ہے کہ عالم ربّانی بننے کے لئے شرط ہے.تقویٰ اللہ کی بدون اس کے علوم حقہ کی کلید مل سکتی ہی نہیں کیونکہ خود خدا تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے
(البقرۃ :۲۸۳) اصل معلم علوم حقہ کا تو خدا تعالیٰ ہی ہے اور اس کی راہ ہے تقوی اللہ.جب اس طریق پر انسان تقویٰ اختیار کرے تو علوم حقہ کے دروازے اس پر کھلیں گے اور وہ (فاطر :۲۹) میں داخل ہوگا.غرض عالم ربّانیکے لئے ضرورت ہے کہ تقویٰ سے کام لے اور تقویٰ کی حقیقت اس وقت تک کھل نہیں سکتی جب تک خدا تعالیٰ کے صادق اور مامور بندوں کی صحبت میں نہ رہے.جیسا فرمایا ہے.( التوبۃ :۱۱۹) اس سے معیت صادق کی بہت بڑی ضرورت معلوم ہوتی ہے اور فی الحقیقت ضرورت ہے لیکن چونکہ ساری قوم ایک ہی وقت اپنے امام کے گرد نہیں رہ سکتی اور اگر ہر فرد قوم کا حاضر بھی ہو تو ہر ایک فائدہ نہیں اٹھا سکتا.طبیعتیں جدا جدا ہیں اور مذاق الگ الگ اور تقسیم محنت کا اصول الگ اس کی مخالفت کرتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے یہ قانون مقرر فرمایا کہ ایک گروہ حصول تعلیم دین کے لئے حاضر ہو اور وہ واپس جاکر قوم کو سکھلائے.میں پھر کہتا ہوں کہ اس آیت اور اس کے اصل مفہوم پر غور کرو.اس کے الفاظ کو سوچو کہ ان کے اندر اصول تعلیم کے لئے کیسا کھلا اور واضح قانون رکھا ہے.اصل غرض تفقہ فی الدین ہے.یہ مقصد نہیں ہے کہ وہ طوطا کی طرح چند کتابیں رٹ لے اور دستار فضیلت باندھ کر یا ایک کاغذ سند کے طور پر ہاتھ میں لے کر قوم پر ایک بوجھ بن کر مالیہ وصول کرتا پھرے.نہیں بلکہ اس کی روحانی اور اخلاقی حالت اس کی نکتہ رسی اور معرفت ایسی ہو، اس کے کلام میں وہ تاثیر اور برکت ہو کہ لوگوں پر خوف الٰہی مستولی ہوکر ان کو گناہوں سے بچانے کا باعث ہو.وہ ایک نمونہ ہو جس سے قوم پر اثر پڑسکے.مگر بتائو اور وسیع نظر کرکے دیکھ لو کہ کتنے ہیں جو اس کے صحیح مصداق ہیں.اب میں تم سے پوچھتا ہوں کہ تم نے مرزا صاحب کو امام مانا صادق سمجھا بہت اچھا کیا لیکن کیا اس غرض و غایت کو سمجھا کہ امام کیوں آیا ہے؟ وہ دنیا میں کیا کرنا چاہتا ہے؟ اس کی غرض یا اس کا مقصد میری تقریروں سے یا مولوی عبدالکریم کے خطبوں سے یا کسی اور کی مضمون نویسیوں سے معلوم نہیں ہوسکتی اور نہ ہم اس غرض اور مقصد کو پورے طور پر بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ ہمارے بیان میں وہ زور اور اثر ہوسکتا ہے جو خود اس رسالت کے لانے والے کے بیان میں ہے پھر اس کے معلوم
کرنے کو تو خود اس کے منہ سے کچھ سننا چاہئے اور یہ اس کی صحبت سے معلوم ہوگا.تم نے مولویوں کو ناراض کیا.سجادہ نشینوں کو چھوڑا اور اکثروں کو یہ مشکلات بھی پیش آئیں کہ ان کو اپنے بعض رشتہ داروں یا عزیزوں سے قطع تعلق کرنا پڑا.یہ سب کچھ سہی لیکن اگر اس غرض کو معلوم نہ کیا جس کے لئے یہ چھوڑا ہے تو کیا فائدہ !اپنے آپ کو مشکلات میں تو ڈال لیا مگر غور تو کرو کہ کس قدر ہیں جو یہاں رہ کر قرآنِ شریف سیکھیں ‘علمی اور عملی تفسیر کا یہاں کے سوا کہیں موقع نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا مامور یہاں موجود ہے.میں سچ کہتا ہوں میرے دل میں یہ تڑپ اور جوش ہے اور رہتا ہے کہ میرے بھائی سمجھ دار اور ذہین یہاں رہیں اور قرآن شریف کے علوم حقّہ کو سیکھیں اسی طرح پر جس طرح پر صحابہؓ مدینہمیں رہ رہ کر سیکھتے اور پھر واپس جا کر اپنی قوم کو تبلیغ کرتے اور ان کی اشاعت میں مصروف رہتے.۱۱؎ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رہنے کی کس قدر ضرورت ہے.کیونکہ جب تک یہاں نہ رہے تو انوار شریعت اور مغز قرآن جو یہاں پیش کیا جاتا ہے اس سے اطلاع کیونکر ہو؟ یہاں نہ رہنے ہی کی وجہ سے آداب النبی کے خلاف بعض اوقات ہمارے بھائی حضرت اقدس سے دعا کے لئے لکھتے ہیں.ننانوے فیصدی ایسے خطوط دعا کے لئے آتے ہیں جن کو دعا کرانے کی حقیقت سے خبر نہیں ہے اور اگر ان کو اس راز پر اطلاع ہو تو ان کا قلم کانپ جاوے اور کبھی ایسی درخواستیں کرنے کی جرأت نہ کریں.کیا دنیادار کے رنگ میں کوئی شخص بطور خود یہ تجویز ملکہ معظمہ کو کرسکتا کہ مجھے فلاں جگہ کا گورنر یا عہدہ دار بنادے؟ ایسے آدمی کو نادان نہ کہا جائے گا؟ دعا ایک عجیب برکت اپنے ساتھ لاتی ہے اور اس سے بڑے بڑے عقدے حل ہوتے ہیں مگر دعا دعا ہو.جب تک اس میں وہ زینت اور خوبصورتی پیدا نہ ہو جو اس کے لوازمات ہیں اس کا کوئی اثر نہیں.سچا اضطراب ہو.کامل تبدیلی کی جاوے.رعایت آداب الدعا ہو.خشوع و خضوع کے ساتھ اعلائے کلمۃ الاسلام کے لئے دعا کی جاوے.پھر باب اجابت اس کے لئے جلد کھولا جاتا ہے اور دنیوی برکات بھی اس کے ساتھ ہی آتی ہیں.
صحابہ کی خصوصیت: میں نے صحابہ کی سیرت کو خوب غور سے پڑھا ہے اور مجھییاد نہیں کسی اولوالعزم صحابی کی پاک زندگی میں یہ پایا جاتا ہو کہ اس نے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے حضور دنیوی اغراض کے لئے یہ عرض کی ہو کہ حضور دعا کریں مجھے فلاں سلطنت مل جاوے یا میرے بیٹا ہوجاوے جو میری جائیداد کا وارث ہو.اس سے صحابہ کی عظمت اور ان کی پاک باطنی کا اندازہ ہوسکتا ہے.مگر دیکھو انہوں نے گو دنیا کے لئے کوئی دعا نہیں کرائی لیکن کیا وہ دنیا سے محروم رہے؟ دنیا خود ان کے پاس آگئی.وہ بادشاہ بنادئیے گئے اور قیصروکسریٰ کے خزانے ان کے پائوں میں ڈالے گئے.اب کوئی مقابلہ کرے دوسرے بادشاہوں کا جو دنیا میں ہوئے ہیں لیکن کیا وہ صحابہ جیسے بادشاہ ہوئے.پس تم بھی دنیا کے لئے دعائیں نہ کرو اور نہ منگوائو بلکہ دین کی عظمت اور اس کے اعلاء کے لئے خود بھی کرو اور امام سے بھی کرائو.یہ خدا تعالیٰ کے لئے ہوں گی ان کی اجابت یقینی ہے.پھر اس کے ثمرات بھی لازم طور پر آئیں گے.دعاوںسے کبھی گھبرانا نہیں چاہیے ان کے نتائج عرصہ دراز کے بعد بھی ظہورپذیر ہوتے ہیںلیکن مومن کبھی تھکتا نہیں.قرآن شریف میںدعاوںکے نمونے موجود ہیںان میں سے ایک ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے وہ اپنی اولاد کے لیے کیا خواہش کرتے ہیں.(البقرۃ :۱۳۰) اس دعا پر غور کرو.حضرت ابراہیم کی دعا روحانی خواہشوں اور خدا تعالیٰ کے ساتھ آپ کے تعلقات بنی نوع کی بھلائی کے جذبات کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے.وہ دعا مانگ سکتے تھے کہ میری اولاد کو بادشاہ بنادے مگر وہ کیا کہتے ہیں.اے ہمارے ربّ میری اولاد میں انہیں میںکا ایک رسول مبعوث فرما.اس کا کام کیا ہو وہ ان پر تیری آیات تلاوت کرے اور اس قدر قوت قدسی رکھتا ہو کہ وہ ان کو پاک و مطہر کرے اور ان کو کتاب اللہ کے حقائق و حِکَم سے آگاہ کرے اسرار شریعت ان پر کھولے.یہ ایسی عظیم الشان دعا ہے کہ کوئی دعا اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور ابتدا ئے آفرینش سے جن لوگوں کے حالات زندگی ہمیں مل سکتے ہیں کسی کی زندگی میں یہ دعا پائی نہیں جاتی.حضرت ابراہیم کی عالی ہمتی کا اس سے خوب پتہ ملتا ہے.پھر اس دعا کا نتیجہ کیا ہوا اور کب ہوا.عرصہ دراز کے بعد
اس دعا کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان پیدا ہوا اور وہ دنیا کے لئے ہادی اور مصلح ٹھہرا.قیامت تک رسول ہوا اور پھر وہ کتاب لایا جس کا نام قرآن ہے اور جس سے بڑھ کر کوئی رشد، نور اور شفا نہیں ہے.یہ دعائوں کے برکات اور ثمرات ہیں.پھر اس دعا سے کس قدر ثمرات حضرت ابراہیم کی اولاد کو ملے تم خود سوچ سکتے ہو.بات یہ ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کا خالص بندہ بن جاتا ہے اور اس کی ساری نفسانی خواہشوں پر موت آجاتی ہے اور ساری غرض و غایت اللہ کے لئے ہوجاتی ہے اور اس کے دین کا جلال ظاہر کرنا اس کا مقصد ہوجاتا ہے تو پھر ساری مشکلات اس کی حل ہوجاتی ہیں.دنیا اور اس کے اسباب خود اس کے پیچھے پیچھے دوڑتے ہیں مگر اس کی راہ اختیار کرنے کے واسطے ضرورت ہے قرآن شریف پر عمل کرنے کی.اور عمل کے لئے پہلے ضروری ہے قرآن شریف کا فہم اور فہم قرآن بجز تقویٰ کے حاصل نہیں ہوتا اور اس کے واسطے مجاہدہ شرط ہے اور یہ باتیں حاصل ہوتی ہیں مامور کی صحبت سے اور صادق کے پاس رہنے سے.اسی لئے اللہ تعالیٰ یہ حکم دیتا ہے.(التوبۃ :۱۱۹) اور پھر یہ نصیحت فرماتا ہے کہ تفقہ فی الدین کے لئے اپنی اپنی جگہ سے کچھ آدمی بھیجو جو مامور کی صحبت میں رہ کر وہ فیض حاصل کریں اور پھر واپس اپنی قوم میں جاکر تبلیغ کریں تاکہ تم میں خشیت الٰہی پیدا ہو.بارہا یہ بات میرے دل میں پیدا ہوتی ہے اور جوش اٹھتا ہے کہ لوگ اس ارشاد الٰہی پر کیوں عمل نہیں کرتے؟ تمہیں فخر ہے کہ قرآن فہمی ہم میں ہے مگر یہ فخر جائز اس وقت ہوگا کہ تم ایک بار اس قرآن کو دستورالعمل بنانے کے واسطے سارا پڑھ لو.لوگ مجھ سے پوچھا کرتے ہیں کہ قرآن شریف کیونکر آسکتا ہے.میں نے بارہا اس کے متعلق بتایا ہے کہ اول تقویٰ اختیار کرو.پھر مجاہدہ کرو اور پھر ایک بار خود قرآن شریف کو دستور العمل بنانے کے واسطے پڑھ جائو.جو مشکلات آئیں ان کو نوٹ کرلو.پھر دوسری مرتبہ اپنے گھر والوں کو سنائو.اس دفعہ مشکلات باقی رہ جائیں ان کو نوٹ کرو.اس کے بعد تیسری مرتبہ اپنے دوستوں کو سنائو.چوتھی مرتبہ غیروں کے ساتھ پڑھو.میں یقین کرتا
ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ پھر کوئی مشکل مقام نہ رہ جائے گا.خدا تعالیٰ خود مدد کرے گا لیکن غرض ہو اپنی اصلاح اور خدا تعالیٰ کے دین کی تائید.کوئی اور غرض درمیان نہ ہو.بڑی ضرورت عملدارآمد کی ہے.ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورئہ ھود نے مجھے بوڑھا کردیا ہے وہ کیا بات تھی جس نے آپ کو بوڑھا کردیا وہ یہ حکم تھا.(ھود :۱۱۳) یعنی جب تک تو اور تیرے ساتھ والے تقویٰ میں قائم نہ ہوں وہ کامیابیاں نہیں دیکھ سکتے.اس لئے تو سیدھا ہوجاجیسا کہ تجھ کو حکم دیا گیا ہے.اسی طرح پر یاد رکھو کہ ہماری اورہمارے امام کی کامیابی ایک تبدیلی چاہتی ہے کہ قرآن شریف کو اپنا دستورالعمل بنائو.نرے دعوے سے کچھ نہیں ہوسکتا.اس دعوے کا امتحان ضروری ہے جب تک امتحان نہ ہولے کوئی سرٹیفکیٹ کامیابی کا مل نہیں سکتا.خیرالقرون کے لوگوں کو بھی یہی آواز آئی.(العنکبوت :۳) کیا لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ وہ صرف اتنا ہی کہنے پر چھوڑ دئیے جاویں گے کہ وہ ایمان لائے اور وہ آزمائے نہ جاویں.ابتلائوں اور آزمائشوں کا آنا ضروری ہے.بڑے بڑے زلزلے اور مصائب کے بادل آتے ہیں مگر یاد رکھو ان کی غرض تباہ کرنا نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا منشا اس سے استقامت اور سکینت کا عطا کرنا ہوتا ہے اور بڑے بڑے فضل اور انعام ہوتے ہیں.ہاں یہ سچ ہے اور بالکل سچ ہے کہ جو لوگ کچے، غیر مستقل مزاج، کم قیمت اور منافق طبع ہوتے ہیں وہ الگ ہوجاتے ہیں صرف مخلص، وفادار، بلند خیال اور سچے مومن رہ جاتے ہیں جو ان ابتلائوں کے جنگلوں میں بھی امتحان اور بلاکی خاردار جھاڑیوں پر دوڑتے چلے جاتے ہیں.وہ تکالیف اور مصائب ان کے ارادوں اور ہمتوں پر کوئی بُرا اثر نہیں ڈالتیں.ان کو پست نہیں کرتیں بلکہ اور بھی تیز کردیتی ہیں.وہ پہلے سے زیادہ تیز چلتے اور اس راہ میں شوق سے دوڑتے ہیں نتیجہ کیا ہوتا ہے وہ بلائیں، وہ تکالیف، وہ مصائب، وہ شدائد خدا تعالیٰ کے عظیم الشان فضل اورکرم اور رحمت کی صورت میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور وہ کامیابی کے اعلیٰ معراج پر پہنچ جاتے ہیں.اگر ابتلائوں کا تختہ مشق نہ ہو تو پھر کسی کامیابی کی کیا امید ہو.دنیا میں بھی دیکھ لو ایک
ڈگری حاصل کرنے کے واسطے اے.بی.سی شروع کرنے کے زمانہ سے لے کر ایم اے کے امتحان تک کس قدر امتحانوں کے نیچے آنا پڑتا ہے.کس قدر روپیہ اس کے واسطے خرچ کرتا ہے اور کیا کیا مشکلات اور مشقتیں برداشت کرتا ہے.باوجود اس کے بھی یہ یقینی امر نہیں ہے کہ ایم اے پاس کرلینے کے بعد کوئی کامیاب زندگی کاسلسلہ شروع ہوجائے گا.بسا اوقات دیکھا جاتا ہے کہ اس لمبے سلسلہ تعلیم میں طالب علم کی صحت خطرناک حالت میں پہنچ جاتی ہے اور ڈپلومہ اور پیام موت ایک ہی وقت آپہنچا ہے.اس محنت اور مشقت اور ان امتحانوں کی تیاری، روپیہ کے صَرَف سے اس نے کیا فائدہ اٹھایا یا والدین نے کیا؟ مگر اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ کے لئے ابتلائوں اور امتحانوں میں پڑنے والا کبھی نہیں ہوا کہ وہ ناکامیاب اترا ہو اور نامراد رہا ہو.ان لوگوں کی لائف پر نظر کرو اور ان کے حالات پڑھو جن پر خدا تعالیٰ کے مخلص بندے ہونے کی وجہ سے کوئی ابتلا آیا اور انہوں نے ثبات قدم، استقلال اور صبر کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا اور پھر بامراد نہ ہوئے ہوں ایسی ایک بھی نظیر نہ ملے گی.۱۲؎ دنیاوی علوم و فنون کی تحصیل کے لئے غور کرو کہ ابجد شروع کرکے ایم.اے کی ڈگری تک پھر امتحان مقابلہ والادینے اور دوسرے اخراجات ضرور یہ خرید کتب وغیرہ میں کس قدر محنت، وقت اور روپیہ صرف ہوتا ہے اور ہم کرتے ہیں مگر اس کے بالمقابل قرآن کریم کو اپنا دستورالعمل بنانے کے واسطے ہم اس کے پڑھنے اور سمجھنے کے واسطے کس قدر محنت اور کوشش اور روپیہ ہم نے خرچ کیا ہے؟ اس کا جواب یہی ہوگا کہ کچھ بھی نہیں.اگر اس کے واسطے ہم عشر عشیر بھی خرچ کرتے تو خدا تعالیٰ کے فضل و رحمت کے دروازے ہم پر کھل جاتے.مسلمانوں کے افلاس ان کی تنگدستی اور قلاشی کے اسبابوں پر آئے دن انجمنوں اور کانفرنسوں میں بحث ہوتی اور بڑے بڑے لیکچرار اپنی طلاقت لسانی سے اس افلاس کے اسباب بیان کرتے ہیں.میں نے بھی ان لیکچروں کو پڑھا ہے اور مسلمانوں کے افلاس کے اسباب پر بھی غور کی ہے.مسلمانوں کے افلاس پر نظر : ان تمام ریفارمروں اور لیکچراروں کا اسی پر اتفاق ہوتاہے کہ چونکہ مسلمانوں میں ہائی ایجوکیشن نہیں رہی اس لئے یہ اعلیٰ عہدوں کے حاصل کرنے سے قاصر رہے ہیں اور یہی اصلی باعث ہے.پھر اس ہائی ایجوکیشن کے نعروں سے لیکچر ہال گونجا دئے جاتے ہیں.لیکن میں جب ان لیکچروں کو پڑھتا ہوں تو
میری حیرت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ مسلمانوں کو اور بھی مفلس بنا دینے کی ایک تدبیر ہے.میں ہائی ایجوکیشن کا مخالف نہیں ہوں مگر مجھے افسوس اس بات سے آتا ہے کہ مسلمانوں کو الٹی راہ پر ڈالا جاتا ہے خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے افلاس کی یہ وجہ نہیں بتائی.قرآن شریف نے صاف فیصلہ کیا ہے.٭ ( طٰہٰ :۱۲۵) اور جس نے میرے ذکر سے منہ پھیرا.پس تحقیق اس کے لئے گزران تنگ ہوگی اور ہم قیامت کے دن اسے اندھا اٹھائیںگے.اصل وجہ افلاس کی تو یہ ہے مگر افسوس ہے کہ اس سے غافل ہیںاور اور بھی دور ہٹتے جاتے ہیںاوربایں ہمہ چاہتے ہیںکہ مسلمانوں کو تنزّل سے نکالیں جب قرآن کریم اور ذکر اللہ سے دوری بڑھے گی تو اس کانتیجہ خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق ضنک معیشت ہوگا.پس میں ان لیکچراروں اور ریفارمروں کے ساتھ اسباب افلاس میںمتفق نہیں.ہائی ایجوکیشن کا نہ ہوناوجہ افلاس ہوگا.ہو لیکن اصل باعث اعراض عن ذکراللہ ہی ہے.میںپھر پوچھتاہوںکہ جس قدر کوشش اور وقت اور روپیہ ہم دنیاوی علوم کے حاصل کرنے کے لئے َصرف کرتے ہیںہم نے اور تم نے اپنے لئے اور اپنی اولاد کے واسطے قرآن کریم کو دستور العمل بنانے کی خاطر پڑھنے کے واسطے کس قدر نقدی ،وقت اور دعائوںکو خرچ کیا ہے؟میں نے جب بعض لوگوں کوکہا ہے کہ قرآن شریف پڑھا کرو توانھوںنے نہایت متانت اور شوق سے یہ جواب دیا ہے کہ کوئی عمدہ خوبصورت خوشخط چھپی ہوئی حمائل دے دو.جس سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوںکہ قرآن شریف کے لئے یہ لوگ گویا ایک اٹھنی یا روپیہ بھی خرچ کرنا نہیں چاہتے اور دوسری طرف مخرّب اخلاق ناولوںاور افسانوںکے خریدنے میں صد ہا روپیہ بھی خرچ کر دیں تو مضائقہ نہیں آہ! (یٰس :۲۷) غرض انسان کو واجب ہے اور ہم کو بہت ضروری ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کی طرف بہت توجہ کریں بجز اس تعلیم کے اور یہ تعلیم بھی دستور العمل کے لئے ہو تو مفید ہے.بجز اس کے کچھ فائدہ نہیں ہے.اور اس کے لئے یہ موقع اور وقت بہت ہی عجیب ہے ایک قوم
اس وقت غافل اور بے خبر ہے اور ہم چشم دید واقعات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.ایک قوم نے قرآن کو عملی طور پر قصہ کہانی سمجھ رکھا ہے اور ایک ہماری قوم ہے جو قرآن کو زندہ کتاب سمجھتی ہے اور اس کی آیات کو اب بھی اسی طرح پاتی ہے.جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت خیرالقرون کے لوگ پاتے تھے.پس ہم زیادہ ذمہ وار اور جواب دہ ہیں ہم پر حجت پوری ہوچکی ہے.ہم میں خدا کا امام موجود ہے.بہت بڑی ضرورت اس امر کی کہ ہم قرآن کی تعلیم کی طرف توجہ کریں اور اس کے لئے یہ ایک راہ ہے کہ یہاں آکر ایک جماعت رہے اور وہ تعلیم حاصل کرکے واپس اپنی قوم میں جاکر تبلیغ کرے اور وہ منذر بنیں.میں دیکھتا ہوں کہ ہم نے ایک چھوٹا سا مدرسہ بطور امتحان بنایا ہے اس کی طرف بھی لوگوں کو بہت ہی کم توجہ ہے.حالانکہ یہ مدرسہ حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خاص توجہ سے کھلا ہے.غرض ایک مرحلہ اور موقع یہ ہوتا ہے کہ مومن راستباز اور مامور کے حضور رہ کر اپنی اصلاح کرتا ہے اور اس کے پاک نمونہ اورپاک صحبت سے فیض حاصل کرتا ہے اور عملی طور پر قرآن کے حقائق اورمعارف سے آگاہی پاتا ہے اور اس کے پاس رہ کر بھوک پیاس اور جو ابتلا اس پر آئیں ان کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوجاتا ہے.تو اسے حکم ہوتا ہے.(التوبۃ :۱۲۳).اب اس کا یہ فرض ہوجاتا ہے کہ جوںجوں اسے کافر ملتے جاویں.ان کا مقابلہ کرے.پہلا کافر اس کا نفس ہے.نفس بسا اوقات اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے خلاف اس کو ہدایتیں کرتا ہے اور ان راہوں کی طرف اسے لے جانا چاہتا ہے جو خدا سے دور پھینک دینے والی راہیں ہیں جن پر شیطان کا تسلّط ہے.اس لئے پہلی کوشش اور پہلا مقابلہ خود اپنے نفس سرکش سے ہو اور اس کے جذبات سے بچتا رہے.خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدّم کرے.پھر وہ لوگ ہیں جو اس کے ساتھ کسی نہ کسی قسم کا تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق یا رشتہ محبت کا نہیں رکھتے.مثلاً برادری یا قوم کے تعلقات ہیں.وہ برادری یا قومی رسم و رواج کے ماتحت اس سے وہ کرانا چاہتے ہیں جو اس کا خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت فرض نہیں بلکہ اس کے مخالف ہے.ایسے موقع پر اس کو چاہئے کہ وہ اس کا مقابلہ کرے اور قومی تعلقات یا سوسائٹی کا کوئی اثر اس کوخدا سے دور پھینک دینے کا موجب نہ ہو.پھر غیر قومیں وہ بھی
اپنے کسی نہ کسی اثر کے ذریعہ اس کو خدا سے دور کرنا چاہیں تو یہ اپنی ایمانی قوت سے ان کا ایسا مقابلہ کرے کہ(الفتح :۳۰) ہوجاوے کسی منکر کا اثر کوئی اس پر نہ پڑے.جیسے مضبوط چیز پر جونک کام نہیں کرسکتی اسی طرح پر اللہ تعالیٰ کے ایمان اور محبت میں نتھارا وہ دل ہو کہ کافر کی عظمت و جبروت کسی قسم کا اثر اس پر نہ ڈال سکے اور خدا کی رضا کے خلاف کوئی کام نہ کرسکے.غلیظ کو دوسری جگہ شدید بھی فرمایا ہے اس کے معنی یہی ہیں کہ مومن کفار کے مقابلہ میں ایسا قوی ہو کہ اس کی کسی بات کا اثر اس پر نہ ہو.پھر انسان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ اپنے قویٰ، علم و دولت، جمعیت پر ناز کرتا ہے اور کبھی کبھی نیکی کی شکل میں بھی شیطان دھوکا دے دیتا ہے خوابوں اور الہاموں پر بھی گھمنڈ کر بیٹھتا ہے حالانکہ ان کی حقیقت سے بے خبر ہوتا ہے مگر یاد رکھو کہ یہ بھروسے، یہ ناز، یہ فخر کام نہیں دے سکتے.اصل بات جو انسان کو ہر حالت میں بچاتی اور اس کا ساتھ دیتی ہے وہ ایک ہی ہے جس کو تقویٰ کہتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ کی معیّت بڑی نعمت اور دولت ہے اور مبارک ہے وہ جس کو یہ نعمت ملی لیکن اس کے حاصل کرنے کی ایک ہی راہ ہے کہ انسان متقی بن جاوے.ہمارے ہادیٔ کامل صلی اللہ علیہ وسلم جب غار میں تشریف لے گئے اور کفار آپ کی تلاش میں وہاں تک آپہنچے تو جناب صدیق نے عرض کیا آپ نے کیا فرمایا.(التوبۃ :۴۰) اللہ ہمارے ساتھ ہے.موسیٰ علیہ السلام کی قوم جب فرعون کے لشکر اور دریا کے نظارہ کو دیکھ کر گھبرائی اور (الشعرآء :۶۲) کی آواز آتی ہے تو موسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں. (الشعرآء :۶۳) ہرگز نہیں.میرا ربّ میرے ساتھ ہے وہ بامراد کرے گا.غرض خدا کی معیّت تقویٰ سے ملتی ہے جس کے ذریعہ انسان دشمنوں پر فتح مند ہوتاہے.متقی کا خدا خود معلّم ہوتا ہے اس کے لئے (الطلاق :۴) رزق دیا جاتا ہے.متقی خدا کا محبوب اور ولی ہوتا ہے متقی کی دعائیں قبول ہوتی ہیں.پس ضرورت ہے اس امر کی کہ تم متقی ہو.اپنے ایمان کا تجربہ کرو اور کوئی ذرا سا گند اور میل اس میں پائو تو اس کو نکالنے کی کوشش کرو.کیونکہ تم جانتے ہو اگر بہت سارے دودھ میں ایک قطرہ بھی پیشاب کا ڈال دیا جاوے وہ سارا نجس ہوجاتا ہے.اس لئے اگر کوئی ذرا سی کمزوری اور غلطی بھی محسوس کرو تو اس کے چھوڑنے کی فکر کرو.ہر روز اپنی کمزوریوں کا مقابلہ کرو.راست باز کا ساتھ دو.کوئی شاخ جو درخت
سے الگ ہوجاتی ہے وہ پھلدار نہیں ہوسکتی جب تک درخت کے ساتھ پیوند نہ ہو گویا وہ اسی کا ایک حصہ یا جزو ہے.جب خدا کا مامور کسی کام کے لئے حکم دے تو پھر بھوک، پیاس اور خرچ کا خیال مت کرو.تمہارے کام اس خدا کے لئے ہوں جو شکور، قدیر اور علیم خدا ہے.وہ کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا.قرآن پڑھو مگر دستور العمل کے واسطے پڑھو اور قرآن چونکہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے تقاضا سے آیا ہے اس لئے وہاں آتا ہے جہاں کوئی عبدالرحمن ہو.اس کے پاس رہو تاکہ اس کے اپنے اطوار نشست و برخاست سے تم خدا تعالیٰ کے کلام کو سیکھ سکو.وہ اپنے طرز عمل سے اس قدر سکھادیتا ہے جو برسوں میں بھی حاصل نہ ہو.پھر اپنی قوم کے لئے منذر بنو اس کو جاکر تبلیغ کرو.نذیر و بشیر ہوکر جائو اور ان سب باتوں کے لئے آخر ایک ہی طریق ہے کہ خدا تعالیٰ سے توفیق چاہو.اللہ تعالیٰ مجھے اور تم سب کو جو یہاں موجود ہیں اور ان کو جو ان باتوں کو کسی اور ذریعہ سے سنیں.اعمال صالحہ کی توفیق دے.آمین ۱۳؎ ٭……٭……٭ ۱.الحکم ۱۷؍ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۴ ۲.الحکم ۲۴؍ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵، ۱۶ ۳.الحکم ۳۱؍ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۹، ۱۰ ۴.الحکم ۳۰؍ ستمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳ ۵.الحکم ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰، ۱۱ ۶.الحکم ۱۰ ؍ جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۵، ۶ ۷.الحکم ۱۷؍ جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۵، ۱۶ ۸.الحکم ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۷ ۹.الحکم ۱۰؍ فروری ۱۹۰۴ء صفحہ۴ ۱۰.الحکم ۱۷؍ فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۷، ۸ ۱۱.الحکم ۲۴؍ فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۴، ۵ ۱۲.الحکم ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۴ ۱۳.الحکم ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۴
قرآن کریم‘ اس کے حقائق و معارف اور اعلیٰ تعلیم {تقریر فرمودہ ۱۲؍ نومبر ۱۸۹۹ء بعد نماز ظہر بتقریب جلسۃ الوداع} الحکم کی گزشتہ اشاعتوں میں حضرت حکیم الامت کا وعظ جلسۃ الواداع کی تقریب پر ہم درج کر چکے ہیں.۱۲؍نومبر ۱۸۹۹ء بعد نماز ظہر حکیم الامت نے دوسرا وعظ کیا جس کو ہم آج سے شروع کرتے ہیں.(ایڈیٹر الحکم) سورۃ البقرہ کا پہلا رکوع.یہ ابتدا ہے اس پاک کتاب کی جس کا نام نور رکھا ہے اور فضل، شفا، رحمت اور ہدایت کہا ہے.وہ پاک کتاب جو اختلاف مٹانے کے واسطے حَکَمْ ہو کر آئی ہے.وہ کتاب جس کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ کل صداقتوں کا مجموعہ ہے خواہ وہ اس سے پہلے دنیا کی کسی کتاب میں موجود تھیں یا اس کے بعد تصنیف ہونے والی کتابوں میں ہوں.غرض راستی کا کوئی ٹکڑا اور حصہ کہیں اور کسی کے پاس ہے تو قرآن شریف میں بالضرور موجود ہے اور پھر قرآن شریف ان تمام صداقتوں کا جامع ہی نہیں بلکہ ان کا محافظ مفسّر اور ان کو مدلّل بیان کرنے والا ہے.یہ خیالی اور خوش کن بات نہیں کہ قرآن شریف ُکل صداقتوں کا مجموعہ ہے بلکہ قرآن شریف نے بڑے دعوے اور ناز کے ساتھ اس کو پیش کیا ہے.چنانچہ مولا کریم فرماتا ہے. (البینۃ :۴) جس قدر سیدھا کرنے والی مضبوط اور مستحکم کتابیں ہیں وہ سب اس میں موجود ہیں.اس لئے میں قرآن شریف پر عرصہ دراز تک تدبّر کرنے اور خشیۃ اللہ کے ساتھ اس کی تلاوت کرنے کے بعد تحدّی کرنے کے لئے تیار ہوں کہ کوئی سچائی اور پاک تعلیم دنیا کی کسی کتاب اور کسی زبان میں پیش کرو.قرآن شریف میں وہ ضرور موجود ہوگی.یہ تو اس کتاب کی شان ہے.پھر اس کتاب کے لانے والے کی شان کو سوچو تو اور بھی عظمت اس پاک کتاب کی پیدا ہوتی ہے.جناب الٰہی نے ہادیٔ کامل صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا.(القلم :۲) یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس قدر دواتیں اور قلمیں مل سکتی ہیں اور پھر جو کچھ ان سے لکھا جاوے.وہ سب کی سب تحریریں
اس امر پر شاہد ہوں گی.(القلم :۳) ُتو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجنون نہیں ہے.پھریہ نرا دعویٰ ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ایک دلیل بھی دی ہے کہ مجنون کے افعال و اعمال اس کی حرکات و سکنات کا کوئی نتیجہ واقعی نہیں ملتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فعل و حرکت ہر بات کا ثمرہ ملتا ہے اور اس سے پاک نتیجہ ملتا ہے.ساری رات پاگل چلّاتا رہے لیکن اس کا نتیجہ کیا؟ کچھ بھی نہیں برخلاف اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے فرمایا.(القلم :۴) اور یہ بھی نرا دعویٰ ہی نہیں کہ کہہ دیا .آپ کی پاک سیرت اور واقعات زندگی پر نظر کرو کہ کس قدراجر ملا.کیا یہ چھوٹی سی بات ہے کہ وہ مکہ جہاں سے بد اندیشوں کی ریشہ دوانیوں اور آئے دن کی ایذارسانیوں سے آپ کو ہجرت کرنی پڑی.آخر آپ اس پر ایک فاتح سلطان کی طرح قابض ہوئے اور دس ہزار قدوسیوں کی جماعت کے ساتھ داخل ہوئے.کسی نبی کی زندگی میں یہ بے نظیر کامیابی اور جلال نظر نہیں آتا.مسیح کہتا ہے کہ کوئی نبی بے عزت نہیں ہوتا مگر اپنے وطن میں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کے واقعات بتاتے ہیں کہ آخر آپ نے مکہ معظمہ میں کس قدر عزت و عظمت حاصل کی.پھر آپ کے لئے یہ جزا کیا کم ہے کہ آپ کی زندگی میں ایک بھی آپ کا دشمن باقی نہ رہا.یا تو وہ ذلّت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے اور یا آپ کے خدّام میں داخل ہوگئے.اس کامیابی کی بھی کوئی نظیر تلاش کرنے پر کبھی نہیں ملے گی.پھر کیا آپ کے افعال کا یہ ُمزد کم ہے کہ جس غرض اور مقصد کے لئے مبعوث ہوئے تھے.اس میں پورے طور پر کامیاب ہوگئے.مکہ معظمہ میں جہاں گھر گھر ایک بت خانہ بنا ہوا تھا.ایک خدا کی عبادت کا سکہ بٹھا دینا چھوٹی سی بات نہیں.یہ ایسی عظیم الشان بات ہے کہ میں نے مختلف ہادیانِ مذہب کی زندگیوں اور بڑے بڑے ریفارمروں کے حالات میں غور کی ہے مگر میں سچ کہتا ہوں کہ ایسا نمونہ کامیابی کا مجھے نہیں ملا.ایک ذرا سی رسم یا رواج کا اٹھا دینا مشکل ہوتا ہے.یہاں صدیوں کے بیٹھے ہوئے غلط اعتقادات کو ملیا میٹ کیا ہے اور عرب کی حالت کو بالکل پلٹا دیا ہے.جو جو لوگ عرب کی اس حالت سے واقف ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پیشتر تھی اور پھر جنہوں نے اس انقلاب پر نظر کی ہے جو آپ کی بعثت سے ہوا وہ حیران رہ گئے ہیں کہ اس قدر تغیر عظیم انسانی
طاقت سے باہر ہے.بہرحال کیا یہ جزا یہ نتیجہ حسنہ یہ ثمر شیریں آپ کے افعال کا کچھ کم ہے؟ پھر کیا یہ جزا کچھ کم ہے کہ آج روئے زمین پر ایک ارب کے قریب مسلمان موجود ہیں جو آپ کی امت کہلانے پر فخر کرتے ہیں؟ پھر آپ کے افعال کا یہ ثمرہ کیا کم ہے کہ ہر وقت اور ہر گھڑی دنیا کے ہر قطعہ اور ہر حصہ پر اللّٰھم صلّ علٰی محمد وعلٰی اٰل محمد وبارک وسلّم پڑھا جاتا ہے اور اس طرح پر آپ کے مدارج آپ کے کمالات ترقی کررہے ہیں.پھر آپ کے لئے یہ کیا بدلہ کم ہے؟ کہ اپنی ہی زندگی میں (المائدۃ :۴) کی صدا آپ کو آئی.پھر یہ آواز کس کی زندگی میں آئی کہ (النصر :۳).یہ ہیں آپ کے افعال و حرکات و سکنات کے مختصر نتائج اور اگر میں اس مضمون کی تفصیل کروں تو بہت وقت چاہئے.اس لئے اسی قدر پر کفایت کرتا ہوں.اب دوسرا امر قابل غور یہ ہے کہ پاگل کے اخلاق فاضلہ نہیں ہوتے.اس میں کوئی ُخلق ہوتا ہی نہیں.وہ ایک وقت دوستوں کو گالیاں دیتا ہے اور دشمنوں سے پیار کرنے لگتا ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا.(القلم :۵) اے رسول! تو اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کی تفسیر اور تشریح بھی کوئی چھوٹا سا کام نہیں.آپ کے اخلاق قیامت تک کے لئے اسوہ حسنہ قرار پائے ہیں اور ُکل دنیا کے لئے ہر طبقہ ہر عمر اور ہر حالت کے لئے ان میں نمونہ کامل موجود ہے پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ آپ کے اخلاق فاضلہ کا بیان میں چند گھنٹوں میں ختم کرسکوں.غرض یہ اسی کتاب کا ابتدا ہے.جس کا لانے والا اتنا بڑا عظیم الشان اور جلیل القدر کامل انسان ہے.میں نے دنیا کی بہت سی کتابیں پڑھی ہیں اور بہت ہی پڑھی ہیں.مگر ایسی کتاب دنیا کی دلربا راحت بخش لذت دینے والی جس کا نتیجہ دکھ نہ ہو نہیں دیکھی.جس کو باربار پڑھتے ہوئے، مطالعہ کرتے ہوئے اور اس پر فکر کرنے سے جی نہ اکتائے طبیعت نہ بھرجائے اور یا بدخو دل اکتا جائے اور اسے چھوڑ نہ دینا پڑا ہو.میں پھر تم کو یقین دلاتا ہوں کہ میری عمر میری مطالعہ پسند طبیعت کتابوںکا شوق اس امر کو ایک بصیرت اور کافی تجربہ کی بنا پر کہنے کے لئے جرأت دلاتے ہیں کہ ہرگز ہرگز کوئی
کتاب ایسی موجود نہیں ہے.اگر ہے تو وہ ایک ہی کتاب ہے وہ کونسی کتاب! (البقرۃ :۳).کیا پیارا نام ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کے سوا کوئی ایسی کتاب نہیں ہے کہ اس کو جتنی مرتبہ پڑھو.جس قدر پڑھو اور جتنا اس پرغور کرو اسی قدر لطف اور راحت بڑھتی جاوے گی.طبیعت اکتانے کی بجائے چاہے گی کہ اور وقت اسی پر َصرف کرو.عمل کرنے کے لئے کم از کم جوش پیدا ہوتا ہے اور دل میں ایمان ،یقین اور عرفان کی لہریں اٹھتی ہیں.میں جانتا ہوں کہ دنیا میں ایسے افراد بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ قرآن کریم سے ان کو لذت نہیں آئی.مگر وہ یہ کیوں کہتے ہیں؟ شامت اعمال کی وجہ سے، بدکاریوں اور اعتدا کی سبب سے.قرآن شریف میں اسے ہی لذت نہیں آسکتی جو ایک گندی زیست رکھتا ہے.چونکہ وہ بیمار دل ہوتا ہے اس لئے جیسے ایک مریض بعض اوقات اپنا ذائقہ تلخ ہونے کی وجہ سے مصری کو بھی تلخ بتاتا ہے.وہ کہہ دیتا ہے کہ مجھے اس سے لذت نہیں آتی! اس کے کہنے پر کیا انحصار ہے.خدا تعالیٰ نے خود فیصلہ کردیا ہے.(البقرۃ :۱۱)اور پھر صاف صاف ارشاد کردیا (الواقعۃ :۸۰) جس جس قدر انسان پاکیزگی، تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرے گا.اسی اسی قدر قرآن شریف کے ساتھ محبت اس کے مطالعہ اور تلاوت کا جوش اور اس پر عمل کرنے کی توفیق اور قوت اسے ملے گی.لیکن اگر خدا تعالیٰ کے احکام اور حدود کی خلاف ورزی میں دلیری کرتا ہے اور گندی صحبتوں اور ناپاک مجلسوں اور ہنسی ٹھٹھے کے مشغلوں سے الگ نہیں ہوتا وہ اگر چاہے کہ اس کو قرآن شریف پر غور و فکر کرنے کی عادت ہو ،تدبّر کے ساتھ اس کے مضامین عالیہ سے حظ حاصل کرے.ایں خیال است و محال است و جنون ایسے لوگوں کو قرآن کریم سے کوئی مناسبت نہیں ہے.میں ایک چھوٹی سی مثال تمہیں چشم دید بتاتا ہوں.ایک شخص قرآن شریف کا حافظ تھا.اسے قرآن شریف سے بڑی محبت اور عشق تھا.وہ اتفاقاً ایک لڑکے پر عاشق ہوگیا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن شریف سے جو لذّت اس کو آتی تھی وہ جاتی رہی.تھا سعید الفطرت اس نے اس کمی کو محسوس کیا اور دعائیں کرنے لگا.عرصہ دراز تک وہ دعائوں میں لگا رہا.آخر سالہا سال کے بعد اس کی دعائوں نے اپنا نتیجہ پیدا کیا اور خدا تعالیٰ نے اس کو تنبیہ کی اور
بتایا کہ یہ لذت قرآن اسی غلطی کی وجہ سے جاتی رہی ہے جو تو نے ایک لڑکے کو پسند کرنے میں کی ہے.اسی سے پتہ لگتا ہے کہ قرآن شریف سے لذّت اٹھانے کے واسطے کس قدر طہارت اور پاکیزگی کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے.(البقرۃ :۲۸۳) تقویٰاختیار کرو.پھر یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے کہ وہ تمہارا معلم ہو اور قرآن شریف تمہیں پڑھاوے.غرض یہ بالکل سچی بات ہے کہ دنیا میں یہی ایک کتاب ہے جس کی تلاوت جس کا تکرار گھنٹوں، دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں کا تدبّر انسان کو گھبراتا نہیں بلکہ زیادہ خوش اور زیادہ جوش اور عشق اس مجاہدہ کتاب اللہ کے لئے عطا کرتا جاتا ہے.ہزاروں ہزار اولیاء اور صلحاء اور اکابرامت گزرے ہیں جنہوں نے اس نتیجہ کو اپنے حالات زندگی سے صحیح پایا ہے.تاہم میں اپنے تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ قرآن شریف سے بڑھ کر راحت بخش کوئی کتاب اور اس کا مطالعہ نہیں ہے.مگر آہ! درد دل سے کہتا ہوں اسی راحت بخش کتاب کو آج چھوڑ دیا گیا ہے.(الفرقان :۳۱).اے میرے ربّ بے شک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا ہے.مجھے قرآن اس قدر محبوب ہے کہ میں باربار اس کا تذکرہ کرنا اس کا پیارا نام لینا اپنی غذا سمجھتا ہوں اور اسی دُھن اور َلو میں ابھی تک میں نے اس مضمون پر جو میں نے شروع کیا تھا کچھ بھی نہیں کہہ سکا.یہی وجہ ہے کہ بعض آدمی میرے اس قسم کے طرز بیان کو پسند نہ کرتے ہوں مگر میں کیا کروں میں مجبور ہوں اپنے عشق کی وجہ سے باربار اپنے محبوب کے تذکرہ سے ایک لذّت ملتی ہے کہے جاتا ہوں.حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کا علم کتنا بڑا وسیع ہے اور آپ کی نظر کیسی باریک اور عمیق ہے.کسی نے صحابہ میں سے آپ سے لائف آف محمدؐ پوچھی ہے کیونکہ بیرونی حالت تو لوگ دیکھتے تھے.آپ کے معاملات کا بھی علم تھا جو وہ صحابہ اور دوسرے لوگوں سے کرتے تھے غرض گھر کے باہر کی لائف صحابہ کے پیش نظر تھی مگر اندرونی لائف ،اندرونی معاملات کا علم کسی کو نہیں تھا.اس لئے نہایت سے نہایت بے تکلف رشتہ میاں اور بی بی کا ہوتا ہے.صحابہ نے بیرونی معاملات اور حالات کے لئے اپنی اور اپنے احباب کی آنکھیں کافی سمجھ کر حضرت صدیقہ سے پوچھا ہے کیونکہ صدیقہ سے بڑھ کر
آپ کی پاک لائف کا کوئی گواہ نہ تھا.حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس سوال کا کیا لطیف جواب دیا.کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ (مسلم کتاب الصلوٰۃ باب جامع صلوٰۃ اللیل)یعنی قرآن شریف ایک علم ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے عامل ہیں.گویا یہی آپ کی لائف ہے.اسی طرح پر میری رائے نے فیصلہ کرلیا ہے کہ قرآن شریف سے بڑھ کر کوئی کتاب قابل مطالعہ نہیں.کیونکہ ساری دنیا اور مخلوق پر اس نسخہ کا تجربہ ہوچکا ہے اور اس کے طبیب (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خوبیاں اور کمالات ظاہر ہوچکے ہیں.پھر اس کے بعد اور کیا باقی رہ سکتا ہے.(یونس :۳۳) حق کے بعد بجز ہلاکت اور گمراہی کے اور کیا ہوسکتا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ ہم اسی پاک کتاب کو اپنا محبوب بنائیں اور دنیا کی ساری کتابوں کو اس پر نثار کردیں.لیکن ایک بات اور یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآن شریف کے ساتھ عشق و محبت کے اتنے ہی معنے نہیں ہیں کہ ایک عمدہ قرآن شریف لے کر اس کی سونے کی جدول بنوا کر اور عمدہ جلد کراکے ایک ریشمی غلاف میں بند کرکے ایک کھونٹی کے ساتھ لٹکا دیا اور کبھی اسے کھول کر بھی نہ دیکھا کہ اس میں کیا لکھا ہے؟ یا اگر کھول کر دیکھا بھی تو اس کی غرض صرف اس قدر سمجھ لی کہ اس کی معمولی تلاوت کافی ہے.اگر کوئی شخص اسی قدر سمجھتا ہے تو وہ سخت غلطی کھاتا ہے اور وہ قرآن شریف کی عزت و عظمت کاحق ادا نہیں کرتا اور نہ اس کی تلاوت کے اصل مقصد کو پاتا ہے یاد رکھو کہ تلاوت کا اصل مقصد قرآن شریف پر عمل کرنا ہے.اگر کوئی عمل نہیں کرتا اور عمل درآمد کے واسطے اسے نہیں پڑھتا تو اسے کچھ بھی فائدہ اس تعظیم سے نہیں ہوگا.دیکھو کوئی انسان جس کے پاس حاکم وقت کا کوئی پروا نہ آئے تو کیا اگر وہ اسے زرّافشاں کا غذوں پر لکھ کر رکھ چھوڑے اور اس کی تعمیل نہ کرے تو وہ حاکم محض اس وجہ سے کہ اس کاغذ کی اتنی عزت کی وہ اس سے باز پرس نہ کرے گا؟ ضرور کرے گا اور اس تعظیم کے ساتھ قانونی سلوک کیا جاوے گا اور اس کے اس عذر پر کہ میں نے تو اس کوزرّا فشاں کاغذ پر لکھ کر رکھا ہوا ہے.اسے پاگل خانے میں بھیج دینے کے قابل سمجھا جاوے گا.پھر اس سے اتر کر اپنے احباب متعلقین اور رفقاء کے خطوط پر نظر کرو.ایک دوست کا خط آتا ہے تو کس بے صبر ی اورغور کے سا تھ اس کو پڑھنے کی کوشش کی جاتی
ہے.اگر خود نہیںپڑھ سکتا تو اس شخص کی خوشامد اور منّت کی جاتی ہے جو اس کو پڑھ دے.پھر صرف ایک مرتبہ ہی پڑھ لینے پر صبر نہیں آتا بلکہ حتی الوسع دو دو تین تین مرتبہ اس کو پڑھا اور سنایا جاتا ہے اور اس کے بعد سب سے پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ اس کی تعمیل کی جاوے نہ یہ کہ اس کو عمدہ طور پر سنبھال کر رکھ لیا جاوے اور اس امر کی کچھ پرواہ نہ کی جاوے کہ اس کی تعمیل بھی کرنی ہے.یہ ایک فطرتی امر ہے جو ہرانسان میں پایا جا تا ہے اور تم میں سے ہر ایک اس کا تجربہ کار ہوگا.ایسے موقع پر کبھی یہ بھی دیکھا نہیںجاتا کہ کوئی مجبوری یا مشکل درپیش ہے بلکہ جس قدر جلد ممکن ہوسکتا ہے اس کے تعمیل کرنے کی فکر ہوتی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ جب ولائتی ڈاک کے آنے کا دن ہوتا ہے تو انگریز ڈاکخانوںمیںبڑی تیزی اور سرعت اور بیقراری کے ساتھ دوڑے جاتے ہیں اس لئے کہ وہ اس ڈاک میں اپنے عزیز رشتہ دار یا کسی اور دوست کے خط کے متوقع ہوتے ہیںاور پھر اسی ڈاک میں ان کو جواب دینا ہوتا ہے جو ولایت کو جانے والی ہوتی ہے یہ تیزی یہ اضطراب ان میں کیوں ہوتا ہے؟اس لئے کہ ان کی فطرت میں یہ ایک طبعی جوش ہوتا ہے جو ان پر اتمام حجت کرتا ہے.پھر تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ ایک معمولی دوست اوررشتہ دارکے خط کی تعمیل کے لئے اس میں اس قدر جوش ہو مگر خدا تعالیٰ کی کتاب احکم الحاکمین کی پاک کتاب کی تعمیل کے لئے وہ جوش اور اخلاص نہ ہو؟ ۱؎ پھر اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی اس پاک کتاب کے پہنچانے میں کیا کیا مصائب اور مشکلات برداشت کیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک لائف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس پاک کلام کو لوگوں تک پہنچا دینے میں اپنی جان تک کی پروا نہیں کی.مکی زندگی جن مشکلات کا مجموعہ ہے وہ سب کی سب اسی ایک فرض کے ادا کرنے کی وجہ سے آپ کو برداشت کرنی پڑی ہیں.لکھا ہے کہ جب مکہ کے شریروں اور کفار نے آپ کے پیغام کو نہ سنا تو آپ طائف تشریف لے گئے اس خیال سے کہ ان کو سنائیں اور شاید ان میں کوئی رشید اور سعید ایسا ہو جو اس کو سن لے اور اس پر عملدرآمد کرنے کو تیار ہوجائے.جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام طائف پہنچے تو آپ نے وہاں کے عمائد سے فرمایا کہ تم میری ایک بات سنو.لیکن ان شریروں قسی القلب لوگوں نے آپ کا پیچھا کیا اور نہایت سختی کے ساتھ آپ کو ردّ کردیا.اینٹیں اور
پتھر مارتے جاتے تھے اور آپ آگے آگے دوڑتے جارہے تھے.یہاں تک کہ آپ بارہ کوس تک بھاگے چلے آئے اور پتھروں سے آپ زخمی ہوگئے.ان تکالیف اور مصائب کو آپ نے کیوں برداشت کیا؟ آپ خاموش ہوکر اپنی زندگی آرام سے گزار سکتے تھے پھر وہ بات کیا تھی جس نے آپ کو اس امر پر آمادہ کردیا کہ خواہ مصیبتوں کے کتنے ہی پہاڑ کیوں نہ ٹوٹ پڑیں لیکن امر الٰہی کے پہنچانے میں آپ تساہل نہ فرمائیں گے.قرآن شریف سے ہی اس کا پتہ چلتا ہے آپ کو حکم ہوا تھا (المائدۃ :۶۸) جو کچھ تیری طرف نازل کیا گیا ہے اسے مخلوق الٰہی کو پہنچا دے اور (الحجر:۹۵) جوتجھے حکم دیا جاتا ہے اس کو کھول کھول کر سنادے.اس پاک حکم کی تعمیل آپ کا مقصود خاطر تھا اور اس کے لئے آپ ہر ایک آفت اور مصیبت کو بہزار جان برداشت کرنے کو آمادہ تھے.پھر قرآن شریف کے تو تیس سیپارے ہیں اور ان میں ہزاروں ہزار مضامین ہیں جن کو پہنچانا آپ کا ہی کام تھا.اگر اللہ تعالیٰ کی تائید شامل حال نہ ہو اور اس کی نصرت ساتھ نہ ہو تو پشت شکن امور پیش آجاتے ہیں.اس زمانہ میں ہی دیکھ لو کہ ایک تو فّی کے امر کو پیش کرنے میں کس قدر دقتیں اندرونی اور بیرونی لوگوں کی طرف سے پیش آرہی ہیں اور کیا کیا منصوبے اور تجویزیں مخالفوں کی طرف سے آئے دن ہوتی رہتی ہیں.اور وہ شخص جو مسیح موعود کے نام سے آیا ہے اور اس پیغام کو پہنچانا چاہتا ہے وہ بھی بالمقابل ان کی تکلیفوں اور اذیتوں کی کچھ پروا نہیں کرتا وہ تھکتا اور ماندہ نہیں ہوتا.اس کا قدم آگے ہی آگے پڑتا ہے اور اس مضمون کے پہنچانے میں کوئی سستی نہیں کرتا.کوئی ذکر ہو اندر ہو باہر ہو آخر اس کے کلام میں یہ بحث ضرور آجاتی ہے اور پھر مخالفوں کی کوششیں ادھر اس کی مساعی جمیلہ اس پر دعائیں کرتا ہے.کتابیں لکھتا ہے تقریریں کرتا ہے غرض کیا ہے؟ (اٰل عمران :۵۶) کے حقیقی معنے لوگوں کے ذہن نشین ہوجائیں کیوں؟ اس موت سے خدا تعالیٰ کی زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات اسلام کی زندگی اور قرآن کریم کی زندگی ثابت ہوتی ہے اور یہ قرآن شریف کی اعلیٰ درجہ کی خدمت ہے.غرض قرآن شریف وہ پاک اور مجید کتاب ہے جس کی اشاعت اور تبلیغ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کو وہ محنت کرنی پڑی اور آج اس زمانہ کے امام اور خاتم الخلفاء کو وہ تکلیف اٹھانی پڑتی ہے.پھر اس سے اصل غرض یہی ہے کہ قرآن شریف کا حقیقی علم پیدا ہو اور اس پر عمل کیا جائے.
قرآن شریف کے حقائق قرآن شریف کی صداقتیں اس کی اعلیٰ تعلیم اور معرفت کی باتیں کوئی گو رکھ دھندا نہیں ہیں جو کسی کو معلوم نہ ہوں.نہیں بلکہ ہر شخص اپنے ظرف اپنے عزم و استقلال اور محنت و مساعی کے موافق اس سے فائدہ اٹھاتا ہے خود اللہ تعالیٰ نے اس کا فیصلہ کردیا ہے.(العنکبوت :۷۰) جو لوگ ہم میں ہوکر مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں یقینا یقینا کھول دیتے ہیں.یہ بالکل سچی بات ہے مولیٰ کریم تو اس وقت ہر متنفس کو یہ حقائق اور صداقتیں دکھا دیتا ہے جب وہ خدا تعالیٰ میں ہوکر کسی صداقت کے پانے کے لئے اضطراب ظاہر کرتا اور اس کے لئے سچی تلاش کرتا ہے.بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو مجاہدہ تو کرتے ہیں لیکن وہ مجاہدہ خدا میں ہوکر نہیں کرتے بلکہ اپنی تجویز اور عقل سے کوئی بات تراش لیتے ہیں اور جب اس میں ناکام رہتے ہیں تو پھر کہہ دیتے ہیں کہ ہم کو کوئی فائدہ نہیں ہوا.یہ اس کی اپنی غلطی اور کمزوری ہے اور وہ الزام خدا تعالیٰ اور اس کی پاک کتاب پر رکھتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ قرآن شریف کا علم صرف و نحو کی کتابوں کے رٹنے پر موقوف نہیں ہے.بدیع و معانی قرآنی علوم و حقائق کے لئے لازمی طور پر پڑھنے ضرور نہیں ہیں یا دوسرے علوم کے بغیر قرآن شریف کا سمجھ میں آنا ناممکن نہیں ہے.یہ خیالی باتیں ہیں اس قدر تو میں بے شک مانتا ہوں کہ جس قدر علوم حقّہ سے انسان واقف ہوگا اور ان علوم میں جو قرآن کریم کے خادم ہیں دسترس رکھتا ہوگا وہ اس کے فہم قرآن میں ایک ممدومعاون ہوں گے لیکن اسی صورت میں کہ اس کا مجاہدہ مجاہدہ صحیح ہوگا.مجاہدہ صحیحہ کی تشریح بہت بڑی ہوسکتی ہے مگر مختصر طور پر یاد رکھو کہ قرآن شریف پڑھو اس لئے کہ اس پر عمل ہو.ایسی صورت میں اگر تم قرآن لکھوا کر اس کا عام ترجمہ پڑھتے جائو اور شروع سے اخیر تک دیکھتے جائو کہ تم کس گروہ میں ہو کیا مُنْعَمْعَلَیْھِمْ ہو یا مغضوب ہو یا ضالّین ہو اور کیا بننا چاہئے.منعم علیہم بننے کے لئے سچی خواہش اپنے اندر پیدا کرو پھر اس کے لئے دعائیں کرو.جو طریق اللہ تعالیٰ نے انعام الٰہی کے حصول کے رکھے ہیں ان پر چلو اور محض خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے واسطے چلو.اس طریق پر اگر صرف سورۃ فاتحہ ہی کو پڑھ لو تو میں یقیناً کہتا ہوں کہ قرآن شریف کے نزول کی حقیقت کو تم نے سمجھ لیا اور پھر قرآن شریف کے مطالب و معانی پر تمہیں اطلاع دینا اور اس کے حقائق و معارف سے بہرہ ور کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور ایک صورت ہے
مجاہدہ صحیحہ کی.پھر میں نے انسانی فطرت اور اس کی بناوٹ پر نظر کی ہے میں نے دیکھا ہے کہ انسان کے اندر خوبیاں بھی ہیں اور کمزوریاں بھی ہیں.کمزوریاں اس میں کیوں ہیں؟ اس لئے کہ مغفرت کی شان دکھاوے اور اس کو تکبر سے بچاوے.ہر ایک شخص جس جس قدر اپنی کمزوریوں سے بچے گا اسی اسی قدر سکھ اور راحت اسے ملتا جاوے گا.مثلاً ایک شخص عام قوانین صحت کی پابندی کرتا ہے اس لئے اس کے نتیجہ میں اسے اتنا سکھ ضرور ملے گا کہ اس کی حالت صحت اچھی ہو.اگرچہ ممکن ہے کہ وہ ان اسباب اور ذرائع سے ناواقف ہو کہ کیوں اس کی صحت عمدہ ہے لیکن قانون الٰہی یہی ہے کہ وہ اس سے متمتع ہوگا اور فائدہ اٹھائے گا لیکن اس کے بالمقابل ایک شخص ہے خواہ وہ کیسا ہی عالم و فاضل ہو لیکن وہ قوانین حفظ صحت کو توڑتا ہے اس کا لازمی نتیجہ ہوگا کہ اس کی حالت صحت بگڑ جائے.اس سے بڑھ کر ایک شخص خیانت، بدنظری، چوری، ڈاکہ زنی، قتل اور ان بدیوں سے جن کا تعلق عام لوگوں سے ہے اور اس کا اثر دوسری مخلوق پر پڑتا ہے بچتا ہے تو اس کو ایسے انداز کے موافق سکھ ملے گا اور اس کا دائرہ راحت وسیع ہوجائے گا لیکن ایک سستی کرتا ہے، اپنے کاروبار میں غفلت کرکے بنی نوع انسان کے حقوق تلف کرتا ہے.قتل و غارت، چوری خیانت سے کام لیتا ہے اسی قدر اس کے دکھ کا میدان وسیع ہوجائے گا.اپنے گھر میں حسن معاشرت سے کام لیتا ہے اس کو گھر کا سکھ حاصل ہوگا برخلاف عمل کرنے سے دکھ ملے گا.غرض جس جس پہلو اور جس جس جگہ تک انسان قوانین فطرتیہ کی پابندی کرتا ہے اسی حد تک وہ سکھ پاتا ہے.قرآن شریف انسان کو قوانین فطرتیہ پر عامل کرانا چاہتا ہے اور اس جوئے کے نیچے اس کو رکھنا چاہتا ہے جو بظاہر تکالیف اور پابندی کا جوا نظر آتا ہے لیکن اس کے ماتحت ہوکر سچی خوشحالی اور حقیقی آزادی نظر آتی ہے.کوئی اس جوئے کو اپنی گردن پر رکھ لے اور پھر آزما کر دیکھ لے یہ کہنے کی بات نہیں.ہزاروں ہزار اور لاکھوں لاکھ اس کے نمونے دنیا میں گزر چکے ہیں اور گزرتے رہتے ہیں اور اب بھی ایک کامل نمونہ ہم میں موجود ہے.خوشی چاہتے ہو اور ضرور چاہتے ہو تو اس کی ایک ہی سبیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی فکر کرو.اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہو تو پہلے اللہ تعالیٰ کی رضا کی باتوں کو معلوم کرو.وہ تمہیں قرآن شریف میں
ملیں گی.قرآن شریف کا فہم چاہتے ہو تو تقویٰ اختیار کرو.صادقوں کی صحبت میں رہو اور پھر مجاہدہ کرو وہ مجاہدہ جو اللہ تعالیٰ میں ہوکر ہو.تم جہاں ہو اس اصل کو کبھی مت بھولو کہ ہر روز اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا اندازہ اور امتحان کرو کہ کس قدر تم نے حقیقی نیکی کے کام کئے اور کس قدر بدیاں تم سے سرزد ہوئیں.پھر ان بدیوں کے اسباب پر نگاہ کرو اور ان کے ترک کی فکر کرو.نیکی کے متعلق بھی ایک عام دھوکا اور نفس کا مغالطہ بعض وقت پیدا ہوجاتا ہے.ایک شخص ایک کام کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ نیکی کا کام ہے لیکن فی الحقیقت وہ کام اس کے لئے موجب عذاب ہوجاتا ہے.اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ وہ خدا تعالیٰ کی مرضی اور حکم کے ماتحت نہیں ہوتا.پس یاد رکھو کہ کوئی نیکی کبھی نیکی ہوتی ہی نہیں.جب تک وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت اور امر کے ماتحت نہ ہو اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے موافق نہ ہو.ان دونوں باتوں کو اخلاص اور صواب کہتے ہیں اور یہ دونوں جب تک کسی فعل میں موجود نہ ہوں وہ فعل نیکی کا فعل نہیں کہلاسکتا.بہت سے لوگ ہیں جو خاص قسم کی نمازیں اور وظیفے پڑھتے ہیں اور ان کے ادا کرنے میں بعض اوقات وہ جماعت کی پابندی اور بروقت نماز پڑھنے سے بھی قاصر رہ جاتے ہیں.اب نماز یا ذکر ایک عمدہ فعل تھا لیکن چونکہ وہ اپنی ذاتی تجویز کے موافق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ ثابت نہیں تو اسے کوئی نیکی کا فعل نہیں کہہ سکتے یا مثلاً صدقہ دینا اور زکوٰۃ نکالنا ایک عمدہ اور نیکی کا فعل ہے لیکن ایک اٹھتا ہے اور وہ اپنے مال سے پیران پیرکی گیارھویں نکالتا ہے.اس لئے وہ فعل اس کا نیکی کا فعل نہ ہوگا.اسی طرح پر بہت سی باتیں ہیں اور میں درد دل کے ساتھ کہتا ہوں کہ آج ُکل مسلمانوں میں ایسی بدعتیں اور خرابیاں بہت سی پیدا ہوگئی ہیں اور قرآن شریف کی شریعت کے مقابلہ میں ایک نئی شریعت اور نیا دین تجویز کرلیا گیا ہے اور باوجود یکہ ایسی خرابیوں اور غلطیوں میں مبتلا ہیں اور خود نئی شریعت کے مجوّز اور عامل ہیں لیکن جو کہتا ہے کہ قرآن شریف پر عمل کرو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۲؎ کی سنت کی اتباع کرو.اسے کہا جاتا ہے کہ یہ نیا دین پیش کرتا ہے العجب ثم العجب! بہت سے لوگ اپنے دنیوی کاموں میں ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں اور جس طرح بھی ممکن ہو ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں لیکن جب ضرورت دین کا موقع ہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے ایک کام میں خرچ کرنا پڑے پھر انہیں ہزاروں ہزار عذر ہوتے ہیں وہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی نہ کسی بہانہ سے یہاں سے بچ جاویں
یا جو لوگ ناجائز مال حاصل کرتے ہیں اور رشوت وغیرہ سے کماتے ہیں پھر اپنی اس خطاکاری کے چھپانے کے واسطے اپنے نفس سے اس کے جواز کے حیلے اور عذر تراشتے ہیں اور اس کو حلال بنانا چاہتے ہیں.اسی طرح پر ہر قسم کی بدی کو کسی نہ کسی رنگ میں اپنے لئے جائز بنانے کی فکر کرتے ہیں.مجھے تعجب ہوجاتا ہے کہ جس قدر سعی اور فکر ان لوگوں کو ایک بدی کے جائز کرنے کے لئے کرنی پڑتی ہے اور وہ اس کوشش اور تدبیر سے جائز ہو بھی نہیں سکتی.اگر یہ اس سے بھی آدھی کوشش اس بدی کے چھوڑنے کے لئے کریں تو یہی نہیں کہ وہ بدی ان سے چھوٹ جاوے بلکہ اس کے بدلے میں وہ ایسی نیکی کی توفیق پالیں جو ان کو اس سے زیادہ سکھ اور اطمینان دے سکے جو اس بدی سے ان کو ہرگزہرگز نہیں مل سکتا.انسان کے نیک یا بد ہونے کا امتحان اسی وقت ہوتا ہے.جب خدا تعالیٰ کے واسطے اس کو کوئی کام کرنا پڑے.اپنی جگہ وہ اخلاق کا پتلا بنا ہوا ہوتا ہے اور راست بازی کے لئے مشہور ہوتا ہے لیکن کوئی مقدمہ ہو تو پھر جان و مال کو اس میں لگا دیتا ہے اور دشمن کو ذلیل کرنے کے لئے ہر ایک قسم کی جائز و ناجائز حرکتوں کو روا رکھتا ہے.غرض جس قدر انسانی فطرت اور اس کی کمزوریوں پر نظر کرو گے تو ایک بات فطرتی طور پر انسان کا اصل منشا اور مقصد معلوم ہوگی وہ ہے حصول سُکھ، اس کے لئے وہ ہر قسم کی کوششیں کرتا اور ٹکریں مارتا ہے لیکن میں تمہیں اس فطرتی خواہش کے پورا کرنے کا ایک آسان اور مجرب نسخہ بتاتا ہوں کوئی ہو جو چاہے اس کو آزما کر دیکھ لے.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس میں ہرگز ہرگز کوئی خطا اور کمزوری نہ ہوگی اور میں یہ بھی دعویٰ سے کہتا ہوں کہ جس قدر کوششیں تم ناجائز طور پر سکھ کے حاصل کرنے کے لئے کرتے ہو اس سے آدھی ہی اس کے لئے کرو تو کامل طور پر سکھ مل سکتا ہے وہ نسخہ راحت یہ کتاب مجید ہے اور میں اسی لئے اس کو بہت عزیز رکھتا ہوں اور اس وجہ سے کہ کامل مومن اس وقت تک انسان نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے.میں اس کتاب کا سنانا بہت پسند کرتا ہوں.اس کتاب مجید کی یہ پہلی سورۃ ہے اور اس میں الحمدشریف کی گویا تفسیر ہے.بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ الحمد شریف کی تفسیر میں سے پہلی سورۃ ہے الحمد شریف کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اسماء ظاہری ، ، ، ، سے شروع فرمایا تھا اور اس سورۂ شریفہ کو اسماء باطنی سے شروع فرمایا یعنی جس
کے معنی ہیں اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ پھر الحمد شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایک کامل دعا تعلیم فرمائی تھی.(الفاتحہ :۶،۷) یعنی ہم کو اقرب راہ کی جو تیرے حضور پہنچنے کی ہے راہنمائی فرما.وہ راہ جو ان لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرا انعام ہوا یعنی نبیوں، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحوں کی راہ.سورۃ فاتحہ میں یہ دعا تعلیم ہوتی ہے لیکن اس سورئہ بقرہ میں اس دعا کی قبولیت کو دکھایا ہے اور اس کا ذکر فرمایا جبکہ ارشاد الٰہی یوں ہوا.(البقرۃ :۳) یہ وہ ہدایت نامہ ہے یعنی متقی اور بامراد گروہ کا ہدایت نامہ ہاں گروہ کی راہ یہی ہے.پھر منعم علیہ گروہ کے اعمال و افعال کا ذکر کیا اور ان کے ثمرات میں (البقرۃ :۶) فرمایا ان کے افعال و اعمال میں بتایا کہ وہ اَلْغَیْب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی وحی اور کلام اور سلسلہ رسالت پر ایمان لاتے ہیں.جزاوسزا پر ایمان لاتے ہیں.یہ منعم علیہ گروہ کی راہ ہے.اب ہر ایک شخص کا جو قرآن شریف پڑھتا ہے یا سنتا ہے یہ فرض ہے کہ وہ اس رکوع سے آگے نہ چلے جب تک اپنے دل میں یہ فیصلہ نہ کرلے کہ کیا مجھ میں یہ صفات یہ کمالات ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو وہ مبارک ہے اور اگر نہیں تو اسے فکر کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگنی چاہئیں کہ وہ ایمان صحیح عطا فرماوے (البقرۃ :۴)دراصل عقائد صحیحہ کو مشتمل ہے اور (البقرۃ :۵) مسئلہ رسالت اور الہام و وحی کے متعلق ہے اور (البقرۃ :۵)جزاوسزا کے متعلق ہے.پھر ان اعمال و افعال کے ثمرات میں (البقرۃ :۶)بتایا ہے.اگر انسان حقیقی کامیابی حاصل کرتا ہے اور بامراد ہورہا ہے تو اسے خوش ہونا چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے منعم علیہ گروہ کے زمرہ میںشامل ہے لیکن اگر نہیں تو پھر فکر کا مقام اور خوف کی جا ہے.پس قرآن کریم کی تلاوت کی اصل غرض یہی ہے کہ انسان اس پر عمل کرے.منعم علیہ گروہ کے ذکر کے بعد پھر بتایا کہ کون لوگ ہیں ان کے کیا نشانات ہیں؟ اور ان کا انجام کیا
ہوتا ہے؟ ان کے عام نشانات میں سے بتایا کہ یہ وہ گروہ ہے جو تیرے انذار اور عدم انذار کو برابر سمجھتا ہے اور چونکہ وہ وجود و عدم وجود کو برابر سمجھتے ہیں اس لئے باوجود دیکھنے کے وہ نہیں دیکھتے اور باوجود سننے کے نہیں سن سکتے.دل رکھتے ہیں پر نہیں سمجھ سکتے.ایسے لوگوں کا انجام کیا ہوتا ہے. (البقرۃ :۱۱) بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ جو شخص آنکھ رکھتا ہے کیوں نہیں دیکھتا، کان رکھتا ہے کیوں نہیں سنتا؟ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ نتیجہ ہے ایسے لوگوں کے ایک فعل کا.وہ فعل کیا ہے؟ انذار اور عدم انذار کو مساوی سمجھنا.اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص انگریزی زبان کو پڑھنے یا نہ پڑھنے کو برابر سمجھے تو وہ اس کو کب سیکھ سکتا ہے.اس صورت میں وہ اس زبان کی اگر کسی کتاب کو دیکھے تو بتائو اس دیکھنے سے اسے کیا فائدہ؟ اگر کسی دوسرے کو پڑھتے ہوئے سنے تو اس سننے سے کیا حاصل؟ دیکھو وہ دیکھتا ہے اور پھر نہیں دیکھتا ہے.سنتا ہے اور پھر نہیں سنتا.اسی طرح پر جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مامور و مرسل کے انذار اور عدم انذار کو برابر سمجھتے ہیں تو وہ اس سے فائدہ کیونکر اٹھا سکتے ہیں کبھی نہیں.جب ایک چیز کی انسان ضرورت سمجھتا ہے تو اس کے لئے سعی اور مجاہدہ کرتا ہے اور پھر اس مجاہدہ پر ثمرات مترتب ہوتے ہیں لیکن اگر وہ ضرورت ہی نہیں سمجھتا تو اس کے قویٰ میں مجاہدہ کے لئے تحریک ہی پیدا نہیں ہوگی.یہ بہت ہی خطرناک مرض ہے.جو انسان رسولوں اور اللہ تعالیٰ کے ماموروں اور اس کی کتابوں کے وجود اور عدم وجود کو برابر سمجھ لے.اس مرض کا انجام اچھا نہیں بلکہ یہ آخرکار تکذیب اور کفر تک پہنچا کر عذاب الیم کا موجب بنا دیتا ہے.پس تلاوت کرنے والے کو پھر اس مقام پر سوچنا چاہئے کہ کیا میں خدا کے رسول و مامور کے انذار اور عدم انذار کو مساوی تو نہیں سمجھتا؟ کیا میں اس کی باتوں پر توجہ تام کرتا ہوں اور کان لگا کر سنتا ہوں اور سوچتا ہوں؟ انذار و عدم انذار کے مساوات کی یہی صورت نہیں ہوتی جو آدمی زبان سے کہہ دے بلکہ اگر رسول کے فرمودہ کے موافق عمل نہ کرے تو یہی ایک قسم کا انذار اور عدم انذار کی مساوات ہے.۳؎ پھر کی تفسیر بیان فرمائی کہ یہ لوگ کون ہوتے ہیں.سورۃ فاتحہ میں جو دعا تعلیم کی تھی اس میں ضالّین کی راہ سے بچنے کی دعا تھی اور یہاں ان لوگوں کے حالات بتائے کہ وہ کون ہوتے ہیں.یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ اور ہوتا ہے.اسی لئے فرمایا (البقرۃ :۱۷) یعنی یہی
وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کو مول لے لیا ہے.پس ان کی تجارت ان کے لئے سود مند تو نہ ہوگی اور وہ کب بامراد ہوسکتے تھے.ان لوگوں کی پہلی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ زبان سے تو ایمان باللہ اور یوم الاٰخر کی لاف و گزاف مارتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کا فیصلہ ان کے حق میں یہ ہے (البقرۃ :۹) اس سے ایک حقیقت کا پتہ لگتا ہے کہ انسان اپنے منہ سے اپنے لئے خواہ کوئی نام تجویز کرلے اس نام کی کوئی حقیقت پیدا نہیں ہوسکتی جب تک آسمان پر کوئی مبارک نام نہ ہو اور یہ امر اس وقت پیدا ہوتا ہے جبکہ انسان اپنے ایمان کے موافق اعمال بنانے کی کوشش کرے.ایمان جب تک اعمال کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا کوئی سودمند نہیں ٹھہر سکتا اور اگر نِرا ایمان رکھ کر انسان اعمال اس کے موافق بنانے کی کوشش نہ کرے تو اس سے مرض نفاق پیدا ہوتا ہے.جس کا اثر آخر یہاں تک ہوجاتا ہے کہ نہ قوت فیصلہ باقی رہتی ہے اور نہ تاب مقابلہ.ان لوگوں کے دوسرے آثار اور علامات میں سے بیان کیا کہ وہ مفسد علی الارض ہوتے ہیں اور جب ان کو کہا جاتا ہے کہ تم فساد نہ کرو تو وہ اپنے آپ کو مصلح بتاتے ہیں حالانکہ وہ بڑے بھاری مفسد ہوتے ہیں.اس طرح پر کی ایک تفسیر ختم کردینے کے بعد پھر اس سورہ میں فرمانبرداری کی راہوں کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ فرمانبرداری اختیار کرنا انسان کی اصل غرض اور مقصد ہے اور یہ بتایا ہے کہ حقیقی راحت اور سکھ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہے اور فرمانبرداری کے راہوں کے بیان کرنے میں قرآن کریم کا ذکر فرمایا.جس سے یہ مراد اور منشا ہے کہ قرآن کریم کو اپنا دستور العمل بنائو اور اس کی ہدایتوں پر عمل کرو.پھر اس بات کی دلیل پیش کی ہے کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور ایک زبردست تحدّی کی ہے کہ اگر کسی کو اس کے منزّل من اللّٰہ ہونے میں شک ہو تو وہ اس کی نظیر لاوے.پھر منعم علیہم قوم میں سے آدم علیہ السلام ابو البشر کا ذکر کیا اور بتایا کہ راست بازوں کے ساتھ شریروں اور فساد کرنے والوں کی ہمیشہ سے جنگ ہوتی چلی آئی ہے اور آخر خدا کے برگزیدے کامیاب ہوجاتے ہیں.پھر مغضوب اور الضّال کا ذکر کیا ہے.بالآخر ابوالملۃ سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر فرمایا اور اس کی فرمانبرداری کو بطور نمونہ پیش کیا کہ اس کی راہ اختیار کرکے انسان برگزیدہ ہوسکتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فیوض و برکات کو حاصل کرلیتا ہے.پھر نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی
تاکید اور اسی سورہ شریف میں عبادت کے طریق سکھائے ہیں.پھر آخر میں یہ دعا سکھائی ہے. (البقرۃ:۲۸۷) یہ نہایت مختصر سا خلاصہ ہے سورہ فاتحہ کا جو سورہ بقرہ میں موجود ہے.اس کی تفصیل اور تفسیر کے لئے تو بہت وقت چاہئے مگر میں نہایت مختصر طریق پر صرف پہلے ہی رکوع پر کچھ سنائوں گا.چنانچہ ابتدا میں مولیٰ کریم فرماتا ہے. (البقرۃ :۲،۳) میں اللہ بہت جاننے والا ہوں اس کی جانب سے یہ ہدایت نامہ ملتا ہے.جس پر چل کر انسان روحانی آرام اور سچے عقائد اور جسمانی راحتیں حاصل کرسکتا ہے.میں نے پہلے کہا ہے کہ قرآن شریف کا نام اللہ تعالیٰ نے شفا رکھا ہے اور اس کے ماننے والوں کا نام متقی رکھا ہے اور پھر فرمایا ہے.(المنٰفقون :۹) یعنی جو لوگ ماننے والے ہوتے ہیں وہ معزز ہوتے ہیں.ماننے والے سے مراد یہ ہے جو اس پر عملدر آمد کرتے ہیں.یہ خیالی اور فرضی بات نہیں ہے.تاریخ اور واقعات صحیحہ اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ جس قوم نے قرآن کو اپنا دستورالعمل بنایا وہ دنیا میں معزز و مقتدر بنائی گئی.کون ہے جو اس بات سے ناواقف ہے کہ عربوں کی قوم تاریخ دنیا میں اپنا کوئی مقام و مرتبہ رکھتی تھی وہ بالکل دنیا سے الگ تھلگ قوم تھی لیکن جب وہ قرآن کی حکومت کے نیچے آئی وہ کل دنیا کی فاتح کہلائی.علوم کے دروازے ان پر کھولے گئے.پھر ایسی زبردست شہادت کے ہوتے ہوئے اس صداقت سے انکار کرنا سراسر غلطی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ آج کل مسلمانوں کے تنزّل و ادبار کے اسباب پر بڑی بحثیں ہوتی ہیں اور وہ لوگ جو قوم کے ریفارمر یا لیڈر کہلاتے ہیں.اس مضمون پر بڑی طبع آزمائیاں کرتے ہیں، لیکچر دیتے ہیں، آرٹیکل لکھتے ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ وہ اس نکتہ سے دور ہیں.ان کے نزدیک مسلمانوں کے ادبار کا باعث یورپ کے علوم کا حاصل نہ کرنا ہے اور ترقی کا ذریعہ انہیں علوم کا حاصل کرنا ہوسکتا ہے.حالانکہ قرآن شریف یہ کہتا ہے کہ قرآن پر ایمان لانے والے اور عملدرآمد کرنے والے معزز ہوسکتے ہیں.بلکہ میرا تو یہ ایمان ہے کہ جب انسان کامل طور پر قرآن کی حکومت کے نیچے آجاتا ہے تو وہ حکومت اس کو خود حکمران بنادیتی ہے اور دوسروں پر حکومت کرنے کی قابلیت عطا کرتی ہے.جیسا کہ (البقرۃ :۶) سے پایا جاتا ہے
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اللہ جو بہت جاننے والا ہوں.یہ ہدایت نامہ دیتا ہوں جس میں کوئی ہلاکت کی راہ نہیں اور نکتہ گیر ی کا کوئی موقع نہیں ہے ہاں یہ ضروری ہے کہ قرآن سے فائدہ اٹھانے والا انسان تقویٰ شعار ہو، متقی ہو.ابتدا ہی میں اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کو ان لوگوں کے لئے ہدایت نامہ قرار دیا ہے جو متقی ہیں.دوسرے مقام پر علوم قرآن کی تحصیل کی راہ بھی تقویٰ ہی قرار دیا ہے.جیسے فرمایا (البقرۃ :۲۸۳) یعنی تقویٰ اختیار کرو اللہ تعالیٰ تمہارا معلّم ہوجائے گا.تقویٰ کے پاک نتائج بڑے عظیم الشّان ہوتے ہیں.ان میں سے ایک تو وہ ہے جو میں نے ابھی بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ اس کا معلّم ہوجاتا ہے اور قرآنی علوم اس پر کھلنے لگتے ہیں.پھر تقویٰ ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہوتی ہے.جیسے فرمایا (النحل :۱۲۹) بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ضرور ہوتا ہے جو متقی ہوتے ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو محسنین ہوتے ہیں.احسان کی تعریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ وہ خدا کو دیکھتا ہو اگر یہ نہ ہو تو کم از کم یہ کہ وہ اس پر ایمان رکھتا ہو کہ اللہ اس کو دیکھتا ہے پھر یہ بھی تقویٰ ہی کے نتائج اور ثمرات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر تنگی سے متقی کو نجات دیتا ہے اور اس کو (الطلاق :۴) رزق دیتا ہے.متقی اللہ کا محبوب ہوتا ہے.(آل عمران:۷۷) غرض تقویٰ پر ساری بنا ہے.پھر فرمایا کہ متقی کون ہوتے ہیں.آپ کی پہلی نشانی یہ ہے (البقرۃ:۴) وہ پر ایمان لاتے ہیں خلوت اور َجلوت میں برابر مومن رہتے ہیں.ایک شخص کا مسجد میں اپنے ہم عصروں اور ملنے والوں کے سامنے ایماندار ہونا سہل ہے لیکن خلوت میں جہاں اسے کوئی نہیں دیکھتا بجز اللہ تعالیٰ کے اس کا مومن رہنا ایک امراہم ہے لیکن متقی خلوت اور جلوت میں برابر مومن رہتے ہیں.اسی بنا پر کسی نے کہا ہے.مشکلے دارم ز دانشمند مجلس بازپرس توبہ فرمایاں چرا خود توبہ کمتر میکنند
واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر میکنند چوں بخلوت میروند آں کار دیگر میکنند پھر ایمان بالغیب میں بہت سی باتیں ہیں جن کو ماننا چاہئے.اصل میں ثواب کے حاصل کرنے کے لئے ایمان بالغیب ضروری شیء ہے اگر کوئی شخص مثلاً آفتاب و ماہتاب پر ایمان لاوے تو تم ہی بتائو کہ یہ ایمان اس کو کس ثواب کا مستحق اور وارث بنائے گا؟ کسی کا بھی نہیں لیکن جن چیزوں کو اس نے دیکھا نہیں ہے.صرف قرائن قویہ کی بنا پر ان کو مان لینا کہ وہ اللہ تعالی کی کتاب میں آئی ہیں ایمان بالغیب ہے جو سودمند اور مفید ہے.پھر فرمایا کہ جب انسان ایمان لاتا ہے تو اس کا اثر اس کے جوارح پر بھی پڑنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان کے لئے تعظیم لامر اللہ کا لحاظ ہو اس لئے فرمایا (البقرۃ:۴) یہ متقی وہ لوگ ہوتے ہیں.جو نماز کو قائم کرتے ہیں.کیونکہ نماز اللہ کے حضور حاضر ہونے کا موقع ہے.مومن کو چاہئے کہ نماز کو اسی طرح پر یقین کرے.ابتداء نماز سے جب اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے اور کانوں پر ہاتھ رکھتا ہے تو گویا دنیا اور اس کی مشیختوں سے الگ ہوجاتا ہے اور خدا تعالیٰ سے ہی سروکار رکھتا ہے پھر اپنے مطالب و مقاصد بیان کرے.نماز میں قیام، رکوع، سجدہ اور سجدہ سے اٹھ کر پھر دوسرے سجدہ میں اپنے مطالب بیان کرسکتا ہے.پھر التّحیات میں صلوٰۃ اور درود کے بعد دعا مانگ سکتا ہے.گویا یہ سات موقعے دعا کے نماز میں رکھے ہیں.۴؎ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ نماز میں قسم قسم کے خیالات پیدا ہوتے ہیں اور حضور قلب حاصل نہیں ہوتا.اس کے لئے کیا کیا جاوے؟ اس کا علاج بھی نماز ہی ہے.کثرت کے ساتھ بے ذوقی اور بے حضوری سے بھی جب دعائیں ہوتی رہیں گی تو اسی بے حضوری سے حضور اور بے ذوقی سے ایک ذوق پیدا ہوجائے گا لیکن اصل بات یہ ہے کہ گھبرانا نہیں چاہئے اور تھک کر اس کو چھوڑنا نہیں چاہئے.جو مطالب پیش کرتے ہو اور جو کچھ پڑھتے ہو اگر سمجھ کر پڑھو پھر حضور پیدا ہونے لگے گا.نماز کے عجائبات میں سے اجتماع بھی ہے.اس لئے حتی الوسع نماز کو باجماعت ادا کرو.ہماری جماعت کے لئے ایک قسم کا ابتلا کا زمانہ ہے بعض کم فہم اور مساجد کے اغراض سے ناواقف لوگ
ہماری مخالفت میں یہاں تک بڑھ گئے ہیں کہ اپنی مسجدوں میں آنے سے روکتے ہیں.ایک وہ زمانہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور کچھ عیسائی آئے تھے اور آپ نے اپنی مسجد میں ان کو اپنے طریق پر گرجا کرلینے سے منع نہیں فرمایا اور یہ زمانہ ہے کہ ذرا سے اختلاف کی وجہ سے مسجدوں سے نکال دیتے ہیں اور اس اخراج میں اس قدر غلو ہے کہ بعض دفعہ ان لوگوں نے مسجدوں کے فرش اکھڑوا دئیے ہیں اور ان کو دھلوایا ہے.مسلمانوں کی اس قسم کی حالت ہی بتلاتی ہے کہ اس وقت ایک امام کی ضرورت ہے مگر یہ بیمار قوم اپنے درد مند طبیب اور شفیق غمگسار کو دشمن سمجھتی ہے اور اس طرح پر اس کے فیوض و برکات سے بے نصیب ہورہی ہے.آہ! (یٰس :۳۱).غرض نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کرو.اس کے لئے مسجدوں کا انتظام ہونا چاہئے.میرے دوست میری اس عرض کو غور سے سنیں اور بدگمانی کی نظر سے نہ سنیں.میں سچ کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ درد دل سے کہتا ہوں.خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے پر ایمان رکھتا ہوں.بعض لوگوں کو جب کہا گیا ہے کہ تم اپنے شہر میں مسجد بنالو تو وہ کہتے ہیں چندہ کرادو تاکہ مسجد بنالیں.میں نے انہیں کہا ہے کہ مسجدکی بہت بڑی ضرورت ہے لیکن فی الحال یہ ضروری بات نہیں ہے کہ کوئی عظیم الشان عمارت ہو تم سیدھی سادھی کوئی عمارت اگر ممکن ہو بنالو.ورنہ چبوترہ ہی سہی اس پر چھپر ڈال لو.دیکھو ہمارے ہادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا کام مدینہ طیبہ میں بھی مسجد کی بنا تھی مگر اس کے لئے کوئی بڑا اہتمام اس وقت نہیں کیا گیا.معمولی کھجور کے پتوں کی چھت ڈال لی گئی.یہاں تک کہ بارش میں وہ مسجد اس قدر ٹپکتی کہ صحابہ کے کپڑے لت پت ہوجاتے.وہی مسجد گو آج عظیم الشان مسجد ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی بنا تو ضروری سمجھی مگر اس کی عالی شان عمارت کی طرف توجہ نہیں فرمائی.اسی طرح پر وادی غیر ذی زرع میں ایک عظیم الشان مسجدبنائی گئی جو اللہ تعالیٰ کا گھر کہلایا.بیت الحرام اس کا نام رکھا گیا جو (اٰل عمران: ۹۷) کا مصداق ہوا.ہاں جو خدا تعالیٰ کی ہستی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت قرآن کریم کی سچائی کا زبردست نشان ہے وہ مسجد جہاں روئے زمین کے مسلمان کھنچے چلے جاتے ہیں.وہ مسجد کعبۃ اللہ کی مسجد ہے.اب غور کرو کیا ان دونوں مسجدوں کے لئے بنانے والوں نے اس وقت چند وں کی
فہرستیں کھولی تھیں؟ نہیں کعبہ کی بنا کے لئے خدا تعالیٰ کے دو برگزیدہ بندے باپ اور بیٹا خود ہی مستری معمار اور مزدور تھے.وہ سماں کیسا عجیب ہوگا؟ جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت اسماعیل اس مسجد کو بنارہے تھے.جس اخلاص اور غرض کے لئے انہوں نے بنیادی پتھر رکھا ہوگا.اس کا ثبوت اس قبولیت اور رجوع سے ملتا ہے جو اس مسجد کو حاصل ہوئی.ایسی جگہ وہ عظیم الشان انسان پیدا ہوا جو کل دنیا کے لئے رحمۃ للعالمین ہوکر آیا.جس کی رسالت کا دامن قیامت تک دراز اور جو خدا تعالیٰ کی کامل شریعت کا لانے والا ٹھہرا اور وہ وادی غیر ذی زرع آخر امّ القری کہلائی اور دنیا کی ناف اس کو کہا گیا ہے.اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ جب تک انسان تاریکی کے اندر ہوتا ہے اور پیٹ میں ہوتا ہے ساری غذا اس کو ناف ہی کے ذریعہ سے پہنچتی ہے اور اس کی پرورش ہوتی ہے اور پھرآخر وہ ایک جدید راستہ سے پیدا ہوتا ہے اور ایک عظیم الشان قضاء کے نیچے آتا ہے.اسی طرح پر جب دنیا ایک خطرناک ظلمت میں مبتلا تھی.اس وقت توحید کا دودھ مکہ کی ہی ناف سے نکلا ہے اور جب تک انسان اس دودھ سے یہ پرورش نہیں پاتا وہ جنم لینے کے قابل نہیں ہوسکتا.غرض وہ عظیم الشان مسجد تھی اس کا بنانا کوئی مشکل کام اس وقت نہیں سمجھا گیا.باپ بیٹے نے مل کر اس کو بنالیا اور وہ دوسری مسجد جو اس کے لئے فخر بنی یعنی مسجد نبوی وہ بھی ایک معنوں سے باپ اور بیٹوں نے بنالی کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو امہات المؤمنین قرار دیتا ہے.اس حیثیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باپ بنے اور صحابہ آپ کے فرزند تھے.اس مسجد کو صحابہ کے ساتھ مل کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بنالیا اور ساری دنیا اس کی متوالی ہوگئی.اس زمانہ میں بھی میں اس قسم کی مسجد کا ایک نمونہ دکھاتا ہوں.ہمارے امام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی مسجد بنائی ہے.زمین نہیں ملی تو اوپر چھت کے ہی بنالی ہے.بات کیا ہے جو چیز اللہ تعالیٰ کی رضا کے واسطے ہوتی ہے وہ بابرکت ہوتی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود نہ ہو تو کچھ نہیں بنتا.تم خیال کرسکتے ہو کہ لاہور امرت سر میں کئی بڑی بڑی مسجدیں ہیں.لاہور میں شاہی مسجد اور وزیرخان کی مسجد موجود ہے کیا وہ مسجدیں ایسا متوالا اور پروانہ بناسکتی ہیں جو مکہ اور مدینہ کی مسجد بنا سکتی ہے یا ہماری چھوٹی سی مسجد.
غرض جس جس جگہ ہمارے بھائی رہتے ہیں تو سب سے مقدم اور ضروری کام کم از کم ایک چھوٹی سی مسجد جیسی ممکن ہو بنالو.اگر سستی کرو گے تو نتیجہ اچھا نہ ہوگا.غرض پہلی بات نماز ہے نماز پانچ وقت احباب کو جمع کرتی ہے.یہ تو اس کی ظاہری خوبی اور حسن ہے.نماز ہی کی خوبی ہے کہ سارے گائوں کے لوگ ایک دن جمع ہوتے ہیں اور نماز ہی کی خوبی ہے کہ کل روئے زمین کے مسلمان مکہ میں جمع ہوتے ہیں.نماز ہی کی خوبی سمجھو کہ تم آئے.یہاں آنے کی یہ غرض نہیں ہونی چاہئے کہ آئیں گے تو ایسا جلسہ ہوگا تقریریں ہوں گی.یہ تو ایک قسم کے میلے کی بھی صورت ہے.نہیں بلکہ یہاں آنے کی غرض وہی ہو جو حق سبحانہ‘ تعالیٰ کا منشاء ہے.وحدت ہو، اخوت ترقی پکڑے اور اصلاح نفس ہو.ایک مرتبہ مجھے خیال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ پر اللہ تعالیٰ نے یہ انعام فرمایا (اٰل عمران :۱۰۴).یہ نہیں فرمایا احبابا.اس میں کیا سرّ ہے.وہ سرّ مجھے یوں سمجھ میں آیا کہ محبوب میں رنج نہیں ہوتا.بھائیوں میں رنج بھی ہوجاتے ہیں.کبھی کسی قصور فہم سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئی اور ناراض ہوگیا.اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ فضل الٰہی سے ہی اخوان بن سکتے ہیں.اپنی کوشش اور محنت سے کچھ نہیں ہوتا.پس اگر کسی سے کوئی غلطی یا کمزوری ہوجاوے تو اخوت ہی کے رنگ تک رکھو.یہاں آنے کی ایک بڑی غرض یہ بھی رکھو کہ تمہارے تعلقات باہم مضبوط اور اعلیٰ ہوں اور خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو.جناب ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائوں پر غور کرو کہ ان میں کیا چاہا گیا ہے کہ جناب ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی مربع مل جاوے.نہیں بلکہ ان کی ساری دعائیں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی ہیں.غرض یاد رکھو کہ اجتماع پر اللہ تعالیٰ کا فیضان نازل ہوتا ہے.اس وقت ایک تعارف پیدا ہوتا ہے.ایک خدمت کا شریک ہوتاہے.اپنا خرچ کیا.گھر چھوڑا.آرام چھوڑا.منجملہ اغراض کے یہ غرض بھی ہوسکتی ہے کہ اگر گھر چھوڑتے ہیں.احباب سے جدا ہوتے ہیں، اور اپنے اغراض اور اموال کو خرچ کرتے ہیں.مشکلات بھی پیش آتی ہیں تو اس میں تو کوئی شبہ اور کلام نہیں ہوسکتا کہ جب ہم یہ سب کچھ محض خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے برداشت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے مامور اور شکور
خدا کی طرف سے قدر بڑھتی ہے اور یہ ایک مزدوری ہوتی ہے جس کا عظیم الشان اجر ملنے والا ہوتا ہے اور ان دعائوں سے حصہ ملتا ہے جو خدا تعالیٰ کا مامور خصوصیت کے ساتھ ایسے موقع پر مانگتا ہے کیونکہ وہ سب جو اس وقت موجود ہوتے ہیں.ان دعائوں میں شریک ہوتے ہیں.پس ایسے موقعوں پر آنا چاہئے لیکن پاک اغراض اور رضاء الٰہی کے مقصد کو ملحوظ رکھ کر نہ کسی اور غرض اور خواہش سے.۵؎ پھر نماز میں ایک خاص قسم کا فیضان اور انوار نازل ہوتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا برگزیدہ بندہ ان میں ہوتا ہے اور ہر ایک شخص اپنے ظرف اور استعداد کے موافق ان سے حصہ لیتا ہے.پھر امام کے ساتھ تعلق بڑھتا ہے اور بیعت کے ذریعہ دوسرے بھائیوں کے ساتھ تعلقات کا سلسلہ وسیع ہوتا ہے.ہزاروں کمزوریاں دور ہوتی ہیں جن کو غیر معمولی طور پر دور ہوتے ہوئے محسوس کرلیتا ہے اور پھر ان کمزوریوں کی بجائے خوبیاں آتی ہیں جو آہستہ آہستہ نشوونما پاکر اخلاق فاضلہ کا ایک خوبصورت باغ بن جاتے ہیں.یہ مت خیال کرو کہ ہم یہاں آتے ہیں اور کچھ نہیں لے جاتے ہیں بہت کچھ ساتھ لے جاتے ہیں مگر یہ لینا اپنی استعداد کے موافق ہوتا ہے.جس جس قدر انسان اپنا دل صاف کرتا اور نیکی کے قبول کرنے کی اہلیت رکھتا ہے.اسی اسی قدر وہ ان فیضانوں سے حصہ لیتا ہے.جس طرح پر بچہ پرورش پاتا اور نشوونما پاتا ہے.اسی طرح پر نیکیوں اوربدیوں کا بھی نشوونما ہوتا ہے.جو شخص مامور کی صحبت میں رہ کر ایک دم میں چاہتا ہے کہ تبدیلی ہوجاوے وہ خدا سے ہنسی کرتا ہے.ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے لیکن ہم اس کا قانون قدرت اسی طرح پر پاتے ہیں کہ تدریجی ترقی ہوتی ہے.انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر کون صاف دل اور پاک فطرت ہوتا ہے لیکن ان کے کمالات اور ترقیوں کے سلسلے پر اگر نظر کی جاوے تو وہ بھی تدریجی ہوتے ہیں.اگر کمالات تدریجی نہ ہوتے تو چاہئے تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یک دفعہ ہی سارا قرآن شریف نازل ہوجاتا.تیئس برس میں کیوں نازل ہوا؟ دیکھو کسان جو دانہ زمین میں ڈالتا ہے کیا وہ دوسرے ہی دن اس کے کاٹنے کے لئے آمادہ ہوجاتا ہے.نہیں ایک اچھے خاصے عرصے تک اسے انتظار کرنا پڑتا ہے.پھر خدا کے اس صریح اور بیّن قانون کو توڑ کر جو چاہتا ہے کہ پھونک مارنے سے ولی ہوجاوے تو وہ میری رائے میں
اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہنسی کرتا اور اسے آزماتا ہے.اس لئے ضروری یہ بات ہے کہ انسان عرصہ دراز تک خدا تعالیٰ کے مامور کی صحبت میں حسن ظن اور ارادت کے ساتھ بیٹھے اور وفاداری اور اخلاص کے ساتھ اس کے نمونہ کو اختیار کرے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر فضل کرے اور اس کو نیکیوں اور اخلاق فاضلہ کا وارث بناوے.میں کسی اور کی بابت کوئی رائے نہیں دے سکتا.اپنی نسبت کہتا ہوں اور اپنی کمزوریوں پر نظر کرکے خیال کرتا ہوں کہ میں اس گائوں سے ایک گھنٹہ کے لئے بھی باہر جانا اپنی موت سمجھتا ہوں.بجز ایسی حالت اور صورت کے کہ مجھے حضرت امام نے حکم دیا ہو.مجھے ان لوگوں پر تعجب آتا ہے جو سلسلہ بیعت میں داخل ہیں مگر یہاں نہیں آتے اور اگر آتے ہیں تو اس قدر جلدی کرتے ہیں کہ ایک دن رہنا بھی ان کے لئے ہزاروں موتوں کا سامنا ہوجاتا ہے.ان کے جتنے کام بگڑتے ہیں وہ یہاں ہی رہ کر بگڑتے ہیں جتنے مریض ہوتے ہیں وہ یہاں ہی رہ کر ہوتے ہیں.ہزاروں ہزار عذر کرتے ہیں.یہ بات مجھے بہت ہی ناپسند ہے.مجھے ایسے عذر سن کر ڈر لگتا ہے کہ ایسے لوگ (الاحزاب:۱۴) کے الزام کے نیچے نہ آجائیں.پس جب یہاں آئو تو امام کی صحبت میں رہ کر ایک اچھے وقت تک فائدہ اٹھائو.کسل اور بُعد اچھا نہیں ہے.خدا کرے ہمارے احباب میں وہ مزہ دار طبیعت پیدا ہو جو وہ اس ذوق اور لطف کو محسوس کرسکیں جو ہم کررہے ہیں.اللہ تعالیٰ ستّارہے اور جب تک کسی کی بدیاں انتہا تک نہ پہنچ جاویں اور (البقرۃ :۸۲) نہ ہوجاوے اور حد سے تجاوز نہ کرجاوے خدا تعالیٰ کی ستّاری کام کرتی ہے بعد اس کے پھر سزا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.اس لئے اس سے پہلے کہ تمہاری بدیاں اور کمزوریاں اپنا اثر کرچکیں اور یہ زہر تمہیں ہلاک کردے.اس کی تریاق توبہ کا فکر کرو.اسلام ایسا پاک مذہب ہے کہ اس نے کونفیشن (confession ) جیسی گندی تعلیم نہیں دی کہ پوپ کے سامنے انسان اپنی تمام بدیوں اور بدکاریوں کا اقرار کرتا ہے.اسلام نے اس کے بالمقابل توبہ کا پاک مسئلہ رکھا ہے.جس میں انسان اپنے مولیٰ کریم کے حضور اپنے درد دل کا اظہار کرتا ہے اور خاص اسی کے حضور کہتا ہے جو کچھ کہتا ہے.ملائکہ تک کو اس میں شرکت کا موقع نہیں دیتا.
انسان میں کمزوریاں ضرور ہیں اور ان کے دور کرنے کے لئے اجتماع ایک عمدہ چیز ہے.جس بات کے لئے تم بلائے گئے ہو وہ کیا چیز ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کا نمونہ دیکھنے کے واسطے تیرہ سو برس سے جس کے دیکھنے کو آنکھیں ترستی تھیں.خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ وقت دیا اور پھر اس عالی شان انسان کی شناخت کی توفیق دی جو اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوکر آیا ہے.یہ وہ وقت ہے کہ اس میں پھر پتہ لگے گا کہ انسان کس طرح ترقی کرتا ہے تدریجی کمال حاصل کرتا ہے کس طرح پر اس کے دشمنوں کو ناکامی اور نامرادی حاصل ہوتی ہے اور وہ اور اس کی جماعت بامراد اور فائز المرام ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جس طرح پر صحابہ کی روحانی تربیت ہوئی اور ان کی تکمیل ہوئی اسی طرح پراب پھر خدا نے چاہا ہے کہ ایک جماعت تیار کرے جو اسی طرح پر کمالات روحانی حاصل کرے.خدا تعالیٰ کا کلام اب پھر نازل ہورہا ہے جس سے قرآن کریم کی صداقتوں کی تازہ بتازہ تائید ہوتی ہے اور اس کے ثمرات و برکات کا تازہ بتازہ نمونہ پیش کیا جاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کس طرح پر تحدّیاں ہوتی تھیں اور کس طرح پر مخالف قومیں باوجود سر توڑ کوششوں اور مخالفتوں کے بھی ان تحدّیوں کے جواب سے عاجز اور لاجواب ہوتی تھیں.ہماری سنی سنائی باتیں تھیں مگر آج دکھایا جاتا ہے کہ وہ تحدّیاں اس طرح پر ہوتی ہیں.خدا تعالیٰ کا راست باز مامور اور مسیح اللہ تعالیٰ کے منشا اور تائید سے قرآن کریم کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے آج تحدّیاں کررہا ہے اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ کس طرح پر مخالف شرمندہ ہورہے ہیں اور وہ ان تحدّیوں کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتے.ساری قوم کو بلایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ تم جس کو چاہو اپنے ساتھ ملالو اور اس کا مقابلہ کرو مگر میں حیران ہوتا ہوں کہ اگر یہ شخص کاذب ہے (معاذ اللہ) جیسا کہ یہ لوگ مشہور کرتے ہیں کہ یہ عربی کا ایک صیغہ بھی نہیں جانتا اور اس نے کوئی باقاعدہ تعلیم نہیں پائی مگر وہ خدا تعالیٰ کی تائید سے بول رہا ہے.اس کے قلم میں اللہ تعالیٰ کی طاقت کام کرتی ہے اور یہ انسانی طاقت میں ہرگز ہرگز نہیں کہ خدا تعالیٰ کا مقابلہ کرسکے اگر انسانی طاقت بھی ایسا کرسکتی تو پھر خدا خدا ہی نہ رہتا.ان لوگوں کے مقابلہ کے لئے نہ نکلنے ہی نے ثابت کردیا ہے کہ
یہ راستباز ہے اور خدا تعالیٰ اس کی تائید کررہا ہے اور وہ کاذبوں کی تائید نہیں کیا کرتا.غرض یہ وہ زمانہ ہے کہ ہم پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تازہ کمالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور ان پر ایمان لاتے ہیں.یہ بات بالکل سچی ہے کہ اگر یہ شخص نہ آتا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات اور معجزات ایک افسانہ سے بڑھ کر نہ ہوتے جو اب واقعات اور مشاہدہ کے رنگ میں نظر آرہے ہیں اور یہ سب کچھ اسی کے طفیل سے ہے جس کے بلانے سے تم آج یہاں جمع ہو.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے وقت میں صحابہ محض اللہ تعالیٰ کے جلال و جبروت کے اظہار کے لئے دور دراز کے سفر کرتے تھے اور خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرتے تھے.وہی رنگ یہاں دکھایا جاتا ہے کہ ایک جماعت کو اس نے تیار کیا ہے جو جنگلوں کو طے کرتی ہوئی اور سمندروں کو چیرتی ہوئی دور و دراز بلاد میں جائے گی اور اس کی غرض کیا ہوگی؟ اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہار، اس کی گم شدہ توحید کو پھر دنیا پر ظاہر کرنا.کیسی پاک اور مبارک غرض ہے.آج سفروں کے لئے ہر قسم کی آسائش اور سہولت کے بہم پہنچنے کی وجہ سے لوگ دور و دراز ولایتوں کے سفر کرتے ہیں اور آئے دن ایسے مسافر روانہ ہوتے ہیں.مگر میں پوچھتا ہوں ان کی غرض کیا ہوتی ہے؟ دنیا اور صرف دنیا.کوئی ولایت کو جاتا ہے ماں باپ اور احباب اور وطن سے جدا ہوتا ہے اس لئے کہ وہاں جائے بیرسٹری کا یا کوئی اور امتحان پاس کرے اور دنیا کمائے.پھر وہاں سے وہ کیا لاتا ہے.علمی یا عملی طور پر خدا کے نہ ہونے کا اقرار یہ تو روحانی ترقی ہوتی ہے اور مارل اینڈ سوشل اصلاح جو وہ کرکے آتا ہے وہ تم میں سے اکثروں کو ایسے لوگوں کے دیکھنے سے معلوم ہوئی ہوگی لیکن آج یہ پہلا موقع ہے کہ ایک جماعت سفر کرتی ہے لیکن اس سفر کی غرض خدا اور صرف خدا ہے.ان لوگوں کی حالت پر جب میں نظر کرتا ہوں تو میرے دل میں ان کی عظمت بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ پاک اغراض اور مقاصد لے کرجاتے ہیں.یہ اپنے احباب اور عزیزوں سے جدا ہوں گے.جنگل اور بیابان کاٹتے ہوئے جاویں گے اور ایسے ایسے مقامات پر یہ پہنچیں گے جہاں سے ہمیں ان کی کچھ بھی خبر نہ ہوگی کہ ان کے ساتھ کیا گزر رہی ہے اگر وہ کسی مصیبت اور مشکلات میں مبتلا ہوجاویں جو سفروں میں ممکن ہے (اور ہماری دعا ہے کہ وہ ان مصائب اور مشکلات سے محفوظ رہیں آمین) تو تم میں سے کون ہوگا جو ان کی اس وقت مدد کرسکے گا.کوئی بھی نہیں کیونکہ وہ تم سے اتنے دور ہوں گے کہ اول تو اطلاع آنی مشکل اور
آئے بھی تو بہت دیر کے بعد اور پھر وہاں تک پہنچنا بہت مشکل اور وقت چاہے گا.مگر یہ لوگ ان تمام مصائب اور مشکلات کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوگئے.نہیں انہوں نے اپنے اعزّہ اور احباب کی محبت، وطن کی الفت اور آرام کی پروا نہیں کی اور اس سفر کو مقدم رکھ کر ۶؎.اس وقت اس دور دراز ملک کے سفر کی جو تیاری کی گئی ہے تو اس کی کیا غرض ہے؟ اس کی غرض بھی وہی ہے جو صحابہ کے سفروں کی تھی یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کی تبلیغ اور اسلام کی عزت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو ظاہر کرنا.اس وقت ایک قوم موجود ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی صفات ایک عاجز انسان کو دے رکھی ہیں اور اسے خدا بناکر دنیا کو منوانا چاہا ہے.یہ قوم عیسائیوں کی قوم ہے.وہ مسیح کو خالق مانتے ہیں، شافی مانتے ہیں، محیی مانتے ہیں اور عالم الغیب مانتے ہیں اور سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ مسلمان جو ایک ہی حقیقی خدا کے پرستار تھے وہ اعتقاد کے طور پر ان کے ساتھ ہی ہیں یعنی اسی قسم کی صفات مسیح میں یقین کرتے ہیں.یہ جدا امر ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم مسیح کو خدا نہیں مانتے مگر اس میں کوئی کلام نہیں کہ وہ خدائی کی صفات ان میں یقین کرتے ہیں.حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی ایک مثال بارہا دیا کرتے ہیں کہ ان لوگوں کی ایسی حالت ہے جیسے کوئی شخص کسی مردہ کو کہے کہ یہ مرگیا ہے لیکن دوسرا شخص کہے کہ ہاں اس کی نبض بھی نہیں چلتی.بدن بھی سرد ہے کسی قسم کی حس و حرکت باقی نہیں ہے لیکن ہے زندہ.عیسائی تو صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ وہ خدا ہے مگر مسلمان اپنی غلط فہمی سے یہ کہتے ہیں کہ نہیں خدا تو نہیں ہے.یہ غلط ہے.البتہ وہ شافی ہے اسی طرح جس طرح اللہ شافی ہے.غیب دان ہے.مردوں کو زندہ کرنے والا محیی ہے.حی و قیوم ہے.پھر بتائو اس کے خدا ہونے میں کیا شک باقی رہا.مسلمانوں نے ایک اور بات بھی مسیح کے متعلق مان رکھی ہے جو دوسرے انبیاء میں وہ نہیں مانتے کہ صرف مسیح ہی مسِّ شیطان سے پاک ہے.میں جب ان باتوں کو سنتا ہوں تو سخت حیرت اور افسوس ہوتا ہے کہ وہ جو موحّد کہلاتے ہیں ان کا اعتقاد اس قسم کا ہے.صرف اللہ تعالیٰ کی توحید کو زندہ کرنے کے واسطے اور اس عقیدہ کو دور کرنے کے لئے حضرت امام علیہ الصلوٰ والسلام نے پسند فرمایا ہے کہ ہمارے بعض احباب سفر کریں اور جو کچھ باتیں معلوم ہوئی ہیں ان کی تصدیق کرلاویں.مسیحی مذہب کی شکست کے لئے اس سے بڑھ کر کارگر حربہ نہیں ہوسکتا
کہ یہ ثابت ہو جاوے کہ مسیح اپنی طبعی موت سے مرا ہے اور صلیب پر نہیں مرا.اس حربہ کی حقیقت سے وہ لوگ خوب مزہ اٹھا سکتے ہیں جو عیسائی مذہب کے اصولوں سے واقف ہیں اور ان کو ان کے ساتھ کبھی کلام کرنے کا موقع ہوا ہے.غرض اس بات کے لئے یہ اہتمام کیا گیا ہے یہ تو میرے نزدیک ایک چھوٹی سی بات ہے جو حضرت امام کے اس جوش کا نمونہ ہے جو توحید کے قائم کرنے کے لئے اس کے دل میں ہے واِلَّا وہ دکھ اور کپکپی جو اس کے دل و دماغ میں پہنچی ہے تم اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ نہ وہ دل ہے اور نہ وہ مزہ اور لذت ہے.اسی توحید کے پھیلانے کے واسطے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کو کیا کیا تکالیف برداشت کرنی پڑی تھیں.پھر آج یہ کام آسان کیونکر ہوسکتا ہے اس وقت تو مشکلات اور بھی بڑھے ہوئے ہیں.اس لئے بہت بڑی توجہ کی ضرورت ہے اور ہر شخص اس قدر توجہ نہیں کرسکتا جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی اس کی تائید نہ ہو.تم جانتے ہو کہ جس شخص نے سارے جہاں میں قرآن شریف کی عظمت کا بیڑا اٹھایا ہے.اس کو کس قدر مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.الغرض چونکہ قرآن شریف کی عظمت ہی اسے مقصود ہے.اس لئے اس کے واسطے یہ ہر قسم کی تکالیف اور مشکلات اٹھانے کو ہر وقت تیار رہتا ہے اور یہی اس کی کامیابی کی دلیل ہے کہ کوئی مشکل اور تکلیف اس کے حوصلہ کو پست نہیں کرسکتی.پھر دوسری بات جو سکھائی گئی ہے منعم علیہ بننے کے واسطے وہ شفقت علی خلق اللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے میں سے کچھ خرچ کرتے رہو.یہاں کوئی چیز مخصوص نہیں فرمائی.بلکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو.زبان دی ہے خدا کی عظمت اور جبروت کے اظہار کے لئے ‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے اظہار کے واسطے، پس اس سے یہ کام لو.حق گوئی کے لئے اسے کھولو.جب کوئی آپ کے مقابلہ میں گندہ دہنی کررہا ہو تو (النحل :۱۲۶) پر عمل کرکے نہایت پاکیزہ اور معقول اور مدلّل طریق سے اس کی زبان بند کرنے کی کوشش کرو اور اس کے گند کے بالمقابل ایک اعلیٰ درجہ کا محکمہ حفظ صحت قائم کرو جبکہ مخالف قسم قسم کے ردّی اور مضر صحت (روحانی) مواد پھیلانا چاہتا ہے.تو شائستہ باتوں
سے ان کو دور کرو.اسی طرح اپنے ہاتھوں اور پائوں کو خدا کے لئے مخلوق کی ہمدردی اور بھلائی میں خرچ کرو اور ایسا ہی اگر اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہے کپڑا دیا ہے غرض جو کچھ دیا ہے اسے مخلوق کی ہمدردی اور نفع رسانی کے لئے خرچ کرو.میں دیکھتا ہوں کہ اکثر لوگ نئے کپڑے بناتے ہیں لیکن وہ پرانے کپڑے کسی غریب کو نہیں دیتے بلکہ اسے معمولی طور پر گھر کے استعمال کے لئے رکھ لیتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ اگر کسی کو خدا کے فضل سے نیا ملتا ہے اور خدا تعالیٰ نے اسے اس قابل بنایا ہے کہ وہ نیا کپڑا خرید کر بنالے تو وہ کیوں پرانا اپنے کسی غریب اور نادار بھائی کو نہیں دیتا‘ اگر نیا جوتا ملا ہے تو کیوں پرانا کسی اور کو نہیں دے دیتے ہو.اگر اتنی بھی ہمت اور حوصلہ نہیں پڑتا تو پھر نیا دینا تو اور بھی مشکل ہوجائے گا.خدا تعالیٰ نے تکمیل ایمان کے لئے دو ہی باتیں رکھی ہیں.تعظیم لامر اللہ اور شفقت علی خلق اللہ جو شخص ان دونوں کی برابر رعایت نہیں رکھتا وہ کامل مومن نہیں ہوسکتا.کیا تم میں سے اگر ایک ہاتھ ایک ٹانگ کسی کی کاٹ دی جاوے تو وہ نقصان نہ اٹھاوے گا.اسی طرح پر ایمان کا بہت بڑا جزو ہے شفقت علیٰ خلق اللہ مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس پر زیادہ توجہ ہی نہیں رہی اور یہی وجہ ہے کہ ایمان کا پہلا جزو تعظیم لامر اللہ بھی نہیں رہی ہے.پس اس میں ہرگز سستی اور غفلت نہ کرو.خدا تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتوںکی شکرگزاری یہی ہے کہ اس کی مخلوق کو نفع پہنچایا جاوے.خدا کی مخلوق کو نفع پہنچانا درازئ عمر کا باعث ہے.کون ہے جو نہیں چاہتا کہ دنیا میں لمبی عمر پاوے.ہر شخص کے دل میں کم و بیش یہ آرزو موجود ہے مگر لمبی عمر کے حاصل کرنے کا اصلی اور سچا طریق یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق کو نفع پہنچایا جاوے.چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کا فیصلہ کردیا. (الرّعد :۱۸) درازیٔ عمر کا ایک اور نسخہ قرآن مجید میں موجود ہے.وہ استغفار ہے.پس جو چاہتا ہے کہ عمر سے تمتّع اٹھاوے وہ اس نسخہ پر عمل کرے.اس لئے جہاں تک تم سے بن پڑتا ہے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو.اور پھر جو کچھ اس نے دیا ہے اس کی مخلوق کی نفع رسانی کے واسطے اسے خرچ کرو.دل دیا ہے تو پوری توجہ کے ساتھ دعائیں ہی مانگتے رہو اپنے لئے اور اپنے اور دوسرے لوگوں کے واسطے.میں باربار تاکید کرتا ہوں کہ منشاء الٰہی یہی ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ نیک سلوک ہو اس اصل کو کبھی مت بھولو کیونکہ منعم علیہ بننے کے واسطے اس پر عمل کرنا بڑا ہی ضروری ہے.
جس قدر صداقتیں موجود ہیں اور جو احکام اللہ تعالیٰ نے دئیے ہیں.ان سب پر عمل کرکے دکھائو تاکہ نتیجہ میں سکھ پائو.اللہ تعالیٰ پر ایمان اور یقین کا نتیجہ یہی تو ہوتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے اوامر پر عمل کرے اور اس کی نواہی سے بچے.جب انسان اس قسم کا بن جاتا ہے کہ الغیبپر ایمان لاتا ہے اور خدا کی عبادت کرتا ہے اور اس کی مخلوق پر شفقت کرتا ہے پھر خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ ہم اس کا بدلہ کیا دیں گے؟ (البقرۃ:۶) یہ لوگ مظفر و منصور ہوجائیں گے.دنیا میں بامراد اور کامیاب ہونے کا یہ زبردست ذریعہ ہے اور اس کا ثبوت موجود ہے.صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی لائف پر نظر کرو.ان کامیابیوں اور فتح مندیوں کی اصل جڑ کیا تھی؟ یہی ایمان اور اعمال صالحہ تو تھے ورنہ اس سے پہلے وہی لوگ موجود تھے وہی اسباب تھے وہی قوم تھیلیکن جب ان کا ایمان اللہ تعالیٰ پر بڑھا اور ان کے اعمال میں صلاحیت اور تقویٰ اللہ پیدا ہوا تو خدا تعالیٰ کے وعدوں کے موافق وہ دنیا میں بھی مظفرومنصور ہوگئے تاکہ ان کی اس دنیا کی کامیابیاں آخرت کی کامیابیوں کے لئے ایک دلیل اور نشان ہو ں.یہ نسخہ صرف کتابی نسخہ نہیں ہے بلکہ ایک تجربہ شدہ اور بارہا کا آزمودہ نسخہ ہے.جو اسے استعمال کرتا ہے وہ یقیناً کامیاب ہوگا اور منعم علیہ گروہ میں داخل ہوجاوے گا.پس اگر تم چاہتے ہو کہ بامراد ہوجائو، تم چاہتے ہو کہ منعم علیہ بنو، تو دیکھو اس نسخہ کو استعمال کرو.۷؎ بامراد اور کامیاب ہونے کی اصل تو بیان ہوچکی اب محرومی کی اصل جڑ بتائی. (البقرۃ:۷)جن لوگوں نے خلاف ورزی کی اور تیرے انذار اور عدم انذار کو برابر سمجھ لیا وہ مومن نہیں ہوں گے.یہ کیسی سچی بات ہے کہ جب انسان کسی شے کے وجود اور عدم وجود کو برابر سمجھ لیتا ہے وہ اس کے حصول کے لئے کوئی سعی نہیںکرسکتا آخر محروم رہ جاتا ہے.یہی حال ان لوگوں کا ہوا.جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا اور اس انکار کی وجہ یہ ہوئی کہ انہوں نے آپ کے انذار اور عدم انذار کو مساوی سمجھا نتیجہ اس کا ایمان سے محرومی ہوئی اور انجام کار وہ ان تمام کامیابیوں اور فتوحات سے جو اہل ایمان لوگوں کے حصہ میں آئیں بالکل بے نصیب اور محروم رہے.
یہ کتاب مجید جو ہمیں دی گئی ہے.ساری خوبیوں اور کمالات سے بھری ہوئی ہے لیکن جو شخص اس کتاب کے وجود اور عدم وجود ہی کو برابر سمجھے وہ ان انعامات اور برکات سے جو اس کتاب کے پڑھنے اور پھر عمل کرنے سے ملتے ہیں کیونکر بہرہ ور ہوسکتا ہے؟ وہ یقینا یقینا محروم رہے گا اور اسے ایمان نصیب نہیں ہوگا لیکن اگر سلیم الفطرت انسان اپنے قویٰ سے کام لے اور اس کو یوں ہی نہ چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اس کو محروم نہیں چھوڑے گا.اس کا نام شکور ہے وہ اس کی ضرور قدر کرے گا اور اس پر اپنی نعمت کے دروازے بے شک کھول دے گا.اسے فہم قرآن عطا کرے گا اور ایک ذوق کے ساتھ توفیق عمل نصیب ہوگی.اس بات کو میں باربار بیان کروں گا اور تم بھی خوب یاد رکھو کہ بامراد اور کامیاب ہونے کی کلید یہی ہے کہ اس کتاب کو اپنا دستور العمل بنالو.اگر اس کتاب کو کوئی چھوڑتا ہے اور اس کے عدم اور وجود کو برابر سمجھتا ہے تو وہ اپنے ہاتھ سے اسباب محرومی تیار کرتا ہے.اس فعل پر خدا تعالیٰ سے اسے اولاً یہ سزا ملتی ہے کہ غور کرنے والا دل چھین لیا جاتا ہے وہ حقائق اور معارف کو سوچ نہیں سکتا اور اسی طرح پر دیکھنے اور سننے کے قویٰ بھی بیکار ہوجاتے ہیں وہ حق کا شنوا اور حق کا بینا نہیں رہتا.پس متقی بننے کی راہ تو یہ ہے کہ مومن بالغیب ہو.اعمال صالحہ پر چست اور چالاک ہو.تمام صداقتوں پر کاربند ہو.جزا و سزا پر ایمان لانے والا ہو کسی صداقت کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھے اور دل سے کام لے تاکہ عذاب سے محفوظ رہے.بہت سے دل اس قسم کے بھی ہوتے ہیں کہ اپنے فوری جوش یا بعض خارجی اثروں کی وجہ سے اپنے آپ کو مومن ظاہر کرتے ہیں لیکن جناب الٰہی کے حضور سے فتویٰ ملتا ہے کہ مومن نہیں ہیں اگر غور کیا جاوے تو اس اصل سے بھی بہت سے جھگڑے طے ہوجاتے ہیں.میں اپنا نام نور الدین کہلاتا ہوں کوئی شمس الدین ،جمال الدین ،کمال الدین کہلاتا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا آسمان پر بھی یہی نام ہے؟ اگر آسمان پر نہیں تو کچھ فائدہ اور حاصل نہیں.اسی طرح پر مومن وہی ہے جو آسمان پر مومن ہو اور کافر وہی ہے جس کا نام آسمان پر کافر ہو.دنیا کی نظر میں مومن یا کافر ہونا کوئی اثر اصل بات پر نہیں ڈال سکتا.
غرض بعض لوگوں کا خدا تعالیٰ نے یہاں ذکر کیا ہے کہ وہ بتاتے ہیں ہم مومن ہیں لیکن خدا تعالیٰ کا فتویٰ ان کے متعلق یہی ہے کہ وہ مومن نہیں ہیں.اگر ہمارے مخالف اس بات کو سمجھتے کہ ہمارے تجویز کردہ نام کوئی حقیقت اپنے اندر نہیں رکھتے بلکہ حقیقت ان اسماء کے اندر ہے جو خدا تعالیٰ کا مقبول اور پسندیدہ ہے.تو انہیں حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کے سمجھنے میں کیا دقت اور مشکل پیش آتی تھی؟ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لاتے اور اللہ تعالیٰ کے پاک نام کا ادب ان کے دل میں ہوتا تو وہ ایک شخص کے منہ سے یہ سن کر کہ خدا نے میرا نام ابن مریم رکھا ہے اس قدر جوش غصہ سے نہ بھر جاتے.وہ سمجھ لیتے کہ جب ہم اپنے بچوں کے نام یوسف، موسیٰ ،محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) رکھ لیتے ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ کا اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کا نام ابن مریم رکھ لے.لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ان باتوں سے محض بے خبر ہیں اور انہوں نے قرآن شریف میں کبھی غور نہیں کی.پس ایسے لوگ جن کی نسبت خدا تعالیٰ کا فتویٰ ہے کہ وہ مومن نہیں ہیں.انہوں نے کیا کیا ہے؟ خدا کو چھوڑ دیا ہے اور اس جماعت کو چھوڑ دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومنین کی جماعت ہے.ان لوگوں میں نہ تاب مقابلہ ہے نہ قوت فیصلہ ہے.یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا فیصلہ اور مقابلہ ابھی نہیں کرسکتے.جبکہ ابتدا ہے جب اور ترقی ہوگی تو کب کرسکیں گے ان کا یہ مرض تو بڑھتا ہی نظر آتا ہے.اس جھوٹ کا بدلہ عذاب الیم ہے.اب یہ بات بڑی غور طلب ہے کہ ایک شخص بظاہر اچھے لباس میں لوگوں کے سامنے آتا ہے.نمازی بھی نظر آتا ہے لیکن کیا اسے اتنی سی بات پر مطمئن ہو جانا چاہئے ہرگز نہیں؟ اگر اسی پر انسان کفایت کرتا ہے اور اپنی ساری ترقی کا مدار اسی پر ٹھہراتا ہے تو وہ غلطی کرتا ہے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے یہ سر ٹیفکیٹ نہ مل جاوے کہ وہ مومن ہے وہ مطمئن نہ ہو، سعی کرتا رہے اور نمازوں اور دعائوں میں لگا رہے تاکہ کوئی ایسی ٹھوکر اسے نہ لگ جاوے جو ہلاک کردے.عام طور پر تو یہ فتویٰ اسی وقت ملے گا جبکہ سعادت مند جنت میں داخل ہوں گے اور شقی دوزخ میں.لیکن خدا تعالیٰ یہاں بھی التباس نہیں رکھتا اسی دنیا میں بھی یہ امر فیصل ہوجاتا ہے اور مومن اور کافر میں ایک بین امتیاز رکھ دیتا ہے جس سے صاف صاف شناخت ہوسکتی ہے.ہر ایک شخص ان آثار اور ثمرات کو جو ایمان اور
اعمال صالحہ کے ہیں.اسی دنیا میں بھی پاسکتا ہے اگر سچا مومن ہو بلکہ اگر کوئی شخص اس دنیا میں کوئی اثر اور نتیجہ نہیں پاتا ہے تو اسے استغفار کرنی چاہئے.اندیشہ ہے کہ وہ آخرت میں اندھا نہ اٹھایا جائے.(بنی اسرائیل :۷۳) حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بارہا اس سوال کو چھیڑا ہے اور اپنی تقریروں میں بیان کیا ہے کہ بہشتی زندگی اور اس کے آثار اور ثمرات اسی عالمَ سے شروع ہوجاتے ہیں.جو شخص اس جگہ سے وہ قویٰ نہیں لے جاتا وہ آخرت میں کیا پائے گا اور یہ ایک امتیازی نشان ہے جو آپ نے دوسرے مذاہب باطلہ کے ردّکے لئے پیش کیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی نجات یافتہ ہے تو وہ آئے میرے ساتھ ثمرات و نتائج میں مقابلہ کرے اور کوئی نہیں آتا.پس یہ تو بالکل سچا فیصلہ ہے کہ مومن اور کافر کی عام شناخت کا تو وہی وقت ہے جبکہ ایک فریق جنت میں جاوے گا اور دوسرا دوزخ میں لیکن چونکہ بہشتی اور جہنمی زندگی اسی دنیا سے شروع ہوجاتی ہے اس لئے یہ کہنا بھی بالکل درست ہے کہ اسی عالمَ میں اللہ تعالیٰ کے اس فتوے کا پتا لگ جاتا ہے.اس لئے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم زمینی اور خیالی باتوں پر صبر کرنے والے نہ بنو.اپنے تجویز کردہ ناموں پر خوش.بلکہ اس فکر میں لگے رہو کہ آسمان سے تمہیں سرٹیفکیٹ مل جائے.میں اس پر بھی یقین رکھتا ہوں کہ حقیقی مومن خدا تعالیٰ سے براہِ راست بھی مومن ہونے کا فتویٰ سن لیتا ہے.جس کا زندہ نمونہ ہمارا مام علیہ الصلوٰۃ والسلام موجود ہے جس کو کھلے الفاظ میں حکم ہوگیا ہے.قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَاَ نَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ (تذکرہ صفحہ۱۵۸ )یہی وجہ ہے کہ ان فتویٰ اور کاغذات کی جو اس کے خلاف شائع کئے جاتے ہیں وہ ایک پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں سمجھتا.اسے پروا نہیں کہ اسے کن ناموں سے یاد کیا جاتا ہے بلکہ وہ اس کے جواب میں کیا کہتا ہے؟ کافر و ملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا غمِ ملت میں رکھایا ہم نے (درثمین صفحہ ۱۷) اسے کیوں ان مخلوق پرستوں کے فتووں کی پروا نہیں صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ سے اس نے سن لیا ہے کہ وہ اول المؤمنین ہے اور مومنین کے ثمرات و برکات اس پر نازل ہورہے ہیں.آج کل بہت سے
متصوفین اور کمزور دل کی مخلوق ایسی ہے کہ جن کا اس پر عمل ہے.بامسلمان اللہ اللہ بابرہمن رام رام.یہ لوگ جیسا کہ موقع دیکھتے ہیں ویسا ہی اپنے آپ کو بنالیتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا وہ اخلاص اور حقیقت چاہتا ہے.جب تک یہ بات پیدا نہ ہوگی کچھ نہیں.بہت سے لوگ اس وقت ایسے بھی ہیں جو ہم سے ملتے ہیں تو ہماری باتوں کو سنتے اور پسند کرتے ہیں لیکن جب ان کو کہا جاتا ہے کہ تم کیوں ہمارے ساتھ نہیں مل جاتے تو کہتے ہیں کہ ہم شامل تو ہوجائیں مگر حکاّم کی نظروں میں کھٹکنے لگتے ہیں اور مالی مشکلات کے لئے بلایا جاتا ہے اور یوں تو ہم آپ کے ہی ساتھ ہیں ظاہر کرنے کی کوئی حاجت نہیں.لیکن جب اپنے مدبّروں سے ملتے ہیں تو پھر مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو آپ ہی کی رائے کے تابع ہیں اور آپ کے ہی ساتھ ہیں ایسے لوگ منافق ہوتے ہیں.اس لئے تم جو حضرت اقدس کے ساتھ ہو اپنے دل کو ٹٹولو اور اپنے اعمال اور افعال پر نظر کرو کہ کیا تم میں وہ بات پیدا ہوگئی ہے کہ تم اس کے لئے اپنی قوم برادری کو چھوڑنے کے لئے تیار رہو.کیا تم ان مشکلات کو خوشی سے برداشت کرسکتے ہو جو اس کی خاطر تمہیں پیش آئیں؟ اگر تمہارا دل اس کے لئے قوت پاتا ہے اور وہ بڑی خوشی کے ساتھ آمادہ ہے تو سمجھو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے لیکن اگر مشکلات کی برداشت نہیں قوم اور برادری کا ڈر تمہیں دھمکاتا ہے تو پھر دعا کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں استقلال اور قوت عطا کرے کیونکہ اس کے فضل کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا اور اس کے فضل حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تم دعا میں لگے رہو.اپنے اعمال میں ایک تبدیلی کرو.۸؎ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عجیب در عجیب تقریروں یا تحریروں سے کامیاب ہوسکتے ہیں اور اکثر دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ عارضی طور پر بظاہر بعض لوگوں کو کامیابی نظر بھی آتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ کامیابی کوئی کامیابی نہیں ہوتی بلکہ ناکامی اور نامرادی ہی ہوتی ہے کیونکہ اس کا انجام خطرناک طور پر برا ثابت ہوتا ہے.کامیابی کا اصلی راز اور گُر تقویٰ اللہ ہی ہے کیونکہ اس کے ساتھ روح القدس کی تائید ہوتی ہے جس سے وہ کلام الٰہی کے اسرار اور نکات کو سمجھ سکتا ہے اور اس کی تقریر اور تحریر میں اللہ تعالیٰ ایک نور اور برکت رکھ دیتا ہے.اس میں ایک اثر ہوتا ہے جو سننے اور پڑھنے والوں کے
دلوں پر پڑتا ہے اور ان کو اس کی طرف کھینچ لاتا ہے.انبیاء علیہم السلام کی کامیابی کی اصل جڑ یہی ہے.اس لئے تم جو کامیابی چاہتے ہو اس اصل کو مضبوط پکڑے رکھو اور ہر ایک کام کو محض اللہ تعالیٰ ہی کی رضاجوئی کے لئے کرو.اس میں اپنے اغراض اور مقاصد کو قربان کردو.ورنہ ذاتی اغراض اس میں شریک ہوکر اس کی برکت اور خوبی کو کھو دیں گے.میں جانتا ہوں کہ تمہیں اپنے مخالفوں سے بہت کچھ سننا پڑتا ہے اور ایسے مواقع بھی آجاتے ہیں کہ تمہیں ان سے گفتگو کرنی پڑتی ہے.ایسے وقت کے لئے یاد رکھو کہ دشمن کے لئے تیار رہو مگر تائید الٰہی پر بھروسہ کرکے دعا مانگتے رہو.کبھی مناظرات اور مباحثات کی خود خواہش نہ کرو لیکن اگر مقابلہ پیش آجاوے تو پھر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ کر کشودکار کی خواہش کرو.اختلافی مسائل کے حل کے لئے آسان طریق یہی ہے کہ ان کو لکھ رکھو تاکہ ہر وقت نظر پڑتی رہے اور خدا تعالیٰ سے اس کے لئے بھی دعا مانگتے رہو کیونکہ ہر ایک مسئلہ میں ہدایت کی راہ بتادینا خدا ہی کا کام ہے.(الیل:۱۳) جب انسان سچا دل لے کر جناب الٰہی میں تضرع کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مولا کریم تو جانتا ہے میں تیری رضا کے لئے سعی اور مجاہدہ کرتا ہوں اس راہ میں تو ہی مجھے مدد دینے والا ہے اور تیرے ہی فضل سے منزل مقصود پر پہنچ سکتا ہوں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان اختلافی مسائل اور مشکلات کو پتوں کے ہلنے اور ہوائوں کے جھونکوں میں حل کردیتا ہے ہاں اخلاص ہو.اللہ تعالیٰ مستغنی کو کبھی پسند نہیں کرتا کیونکہ غنا مخلوق کو نہیں دیا گیا ہے میں باربار تم لوگوں کی توجہ دعا کی طرف منعطف کرتا ہوں کیونکہ ام الکتٰب دعا ہی سے شروع ہوتی ہے.بدبخت ہیں وہ لوگ جو دعا سے محروم ہوئے اور تکبر اور خودپسندی کے خطرناک مرض میں مبتلا ہوگئے.منافقوں کے خصائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں.پس تم کسی کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو.چھوٹے سے چھوٹے بھائی کو بھی حقیر مت جانو ورنہ مقابلہ میں خدا ہنسی میں اڑا دیتا ہے.تم نے وہ اشتہار شاید سنا ہوگا یا پڑھا ہوگا جو ہمارے رحیم و کریم امام نے دیا تھا کہ اپنی آوازوں کو قابو میں رکھو دوسرے پر حملہ کرتے ہوئے شرم و حیا سے کام لو.تم اپنی آوازوں کو نکالتے
وقت اس ارشاد کو مدنظر رکھو تاکہ ایسا نہ ہو کہ تم خلاف ورزی کرنے والوں میں ٹھہرو.قرآن شریف کو پڑھو عمل کرنے کے لئے کیونکہ اس کی تلاوت کا اصل مقصد یہی ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے.آمین ۹؎ ٭…٭…٭ ۱.الحکم ۱۰ ؍ اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۵تا۱۸ ۲.الحکم ۲۴ ؍ اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۲ ۳.الحکم ۳۰ ؍ اپریل و۱۰؍مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۳ ۴.الحکم ۱۷؍ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۸ ۵.الحکم ۲۴؍ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ ۶.الحکم ۳۱؍ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ۸ ۷.الحکم۱۰؍ جون ۱۹۰۴ء صفحہ ۸ ۸.الحکم ۲۴؍ جون ۱۹۰۴ء صفحہ۱۳ ۹.الحکم ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ۸
مشکلات ومصائب سے رہائی پانے کا گُر {تقریر فرمودہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۰۰ء} (اٰل عمران :۱۰۳) اس سے پیشتر کہ میں اس آیت شریف کے معنی بیان کروں یہ بتلانا چاہتا ہوں کہ اگر انسان دوراندیشی اور فکر سے کام لے تو ہر ایک جگہ اس کو واعظ مل سکتا ہے.اپنے گردوپیش کے نظارے اس کو بتلا سکتے ہیں کہ مولیٰ کریم کی رضا جوئی اور فرمانبرداری کا نتیجہ کیا ہوتا ہے اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کیا رنگ لاتی ہے.ہرنوآباد گھر کے پاس ضروری ہوتا ہے کہ ایک اجڑا ہوا گھر بھی ہوتا کہ اس نوآباد کو سبق ملتا رہے کہ حداعتدال سے گزر جانا اور قوانین شریعت کی پابندی نہ کرنا یوں اجاڑ دیا کرتی ہے.یہ نشان ہر جگہ برابر ملے گا.غرض ہر شہر میں آباد کرنے کا رنگ بھی موجود ہے اور اجاڑ دینے کا نمونہ بھی.یہی مسجد جس میں ہم بیٹھے ہیں (حضرت اقدس کی مسجد اقصیٰ) اس کی بابت ایک بات سناتا ہوں.کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کے والد صاحب نے جب اس مسجد بنانے کا ارادہ کیا تو فرمایا کہ میرا دل یہ چاہتا ہے کہ اس کو ایک کنال زمین میں بنائوں.اس مسجد کے اردگرد جس قدر مکان آپ لوگ دیکھتے ہیں.دراصل یہ مسجد ہی کی زمین میں ہیں.لوگوں نے جب آپ کی یہ تجویز اور رائے سنی تو کہا کہ اگر سارے قادیان کے لوگ بھی عید کے لئے اس میں جمع ہوں تب بھی محسوس نہ ہوں گے مگر انہوں نے کہا کیا کروں میرے دل میں کچھ ایسا ہی آتا ہے کہ اس کو ایک کنال زمین میں بنائوں.خیر وہ وقت تو گزر گیا لیکن اب میں کہتا ہوں کہ میری آنکھوں نے دیکھ لیا ہے کہ یہ مسجد ایک کنال زمین میں بھی ہمارے اجتماع کے وقت کافی نہیں.غرض اللہ تعالیٰ کی عادت اور سنت اسی طرح پر ہے کہ وہ آباد بھی کرتا ہے اور جب اس کی تعلیمات کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو اجاڑ بھی دیتا ہے اور اس ویرانی اور آبادی کے نظارے ہر جگہ دانش مند انسان کو سبق دینے کے لئے
موجود ہیں.(یونس :۱۵) سے صاف پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بلند صدا سے بتلا دیا ہے کہ تم نے بہت سی قوموں کے اونچا پن اور نیچا پن کو دیکھا ہے.اب ہم دیکھیں گے کہ تمہارا عملدرآمد کیا ہے؟ یہ ایک ضروری بات ہے جو یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآن کریم میں جس قدر قصص مذکور ہوئے ہیں.ان نبیوں کے ہیں جہاں جہاں نبی کریمؐ نے اور آپ کے صحابہ کرامؓ نے پہنچنا تھا اور یہ بات ایسی خصوصیات کے لئے ہے.ورنہ قرآن کریم تو صاف فرماتا ہے.(فاطر :۲۵) یعنی کوئی امت ایسی نہیں جس میں خدا کی طرف سے ایک ڈرانے والا نہ آیاہو.ایک طرف تو یہ حال ہے کہ کوئی قوم اور کوئی بستی نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا مامور نہ آیا ہو.دوسری طرف بہت سے ایسے رسول بھی ہو گذرے ہیں.جن کا ذکر قرآن مجید میں نہیں فرمایا تو ایک غور طلب بات ہے کہ کیا وجہ ہے کہ قرآن کریم انبیاء علیہم السلام کے ذکر کو بیس اور تیس کے اندر محدود کرتا ہے.مجھے یہ بات بتلائی گئی ہے کہ انہی نبیوں کا ذکر قرآن نے فرمایا ہے جن کے بلاد میں نافرمانوں اور فرمانبرداروں کے نشانات صحابہ کرام کے لئے موجود ہیں اور جہاں پیغمبر خدا نے کامیابی حاصل کرنی تھی اور صحابہ کرام نے دیکھ لینا تھا. (الانفال :۴۳) صحابہ وہاں پرپہنچے ان کا نمونہ یہ تھا کہ نبی کی مخالفت اور متابعت کا کیا انجام ہوتا ہے.اب جبکہ ہر جگہ واعظ موجود ہے تو مجلس وعظ رفتنت خبط است مرگ ہمسایہ واعظ تو بس است یہاں قادیان میں جہاں میں نے اب گھر بنایا ہے وہاں حکام کی ڈیوڑھی تھی اور جہاں اپنے شہر میں گھر بنایا تھا وہ ایک باغ تھا جس کے پھل میں خود بھی کھا چکا ہوں اور مجھے یہ نصیحت برابر ملتی رہتی ہے. (ابراہیم :۴۶) یعنی ہم نے تم کو ایسے لوگوں کے مکانات میں آباد کیا ہے جن کے کھنڈرات ہر وقت یہ آواز دیتے رہتے ہیں کہ خدا کی نافرمانی کیا کیا کرسکتی ہے.پس میں پھر یہی کہتا ہوں کہ بہت وعظ سننا اس کا منشا وہی ہے جو کھنڈرات اور ویران شدہ جگہوں کے دیکھنے سے پورا ہوتا ہے.تاریخ دان اگردنیا کی تاریخ کی ورق گردانی کرے تو اس کو معلوم
ہوجاوے گا کہ دنیا میں کس طرح کے لوگ آئے اور کوچ کرگئے.اس لئے میں اس سے پیشتر کہ ترجمہ کرتا یہ بتلانا چاہتا تھا کہ ہر شخص کے لئے نصیحت اور عبرت موجود ہے مگر ہاں دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان اور غور کرنے والا دل ہو.بھلوں اور بروں کے نشانات سے جو سبق ملتا ہے.اس کو عبرت کی نظر سے دیکھو.سنو! جب کہ یہ بات ہے پھر قرآن شریف جو (التوبۃ :۷۲) کے درجہ پر پہنچانا چاہتا ہے.یہ کوئی چھوٹی سی بات نہیں ہے.ایک چوکیدار اگر راضی ہے تو گھر والا کتنے گھمنڈ اور ناز میں رہتا ہے اور اگر ایک ڈپٹی انسپکٹر پولیس اس کا حامی ہو تو پھر اپنے آپ کو کیا کچھ سمجھتا ہے.تم نے بھی بہت سے لفظ سنے ہوں گے.اچھے اچھے متین کہہ اٹھتے ہیں فلاں شخص ہمارا دوست ہے اس کو کہہ کر فلاں کو گرفتار کرا دیں گے.نوکری کے لئے سفارش کردیں گے.چہ جائیکہ صوبہ کے حاکم یا بادشاہ کے ساتھ تعلق ہو.پس وہ احکم الحاکمین مولا کریم تو ذرہ ذرہ پر حاکم ہے جہاں واہمہ کی واہمہ بھی برداشت نہیں کرتی کہ اگر وہ راضی ہوجاوے تو کس قدر خوش حالی پیدا ہو سکتی ہے.اسی بنا پر وہ دعویٰ ہے جو آج بہت سے بھائیوں نے سنا ہوگا کہ دنیا کا نور میں ہوں.میں دنیا کا فاتح ہوں.میرا مقابلہ کون کرسکتا ہے وغیرہ وغیرہ.کیا یہ کوئی انسان باوجود اپنی ہمہ ضعف و ناتوانی کے کہہ سکتا ہے.جو ذراذرا سی باتوں کا محتاج ہے.عجز کا تو یہ حال ہے اور طاقت کا وہ نمونہ!! یہ طاقت کہاں سے آتی ہے غور تو کرو اس کا منبع وہی ہے (التوبۃ:۷۲)سارے دنیا پرست ، دنیا کے کتیّ، سارے دنیا کے حکمراں سب اللہ تعالیٰ ہی کی رضا کے محتاج رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ اگر حامی و مددگار ہو تو کسی کی دشمنی اثر نہیں کرسکتی.میں نے وہ آدمی بھی دیکھے ہیں جو دستخط کراتے ہوئے اور کسی کی بھلائی یا برائی کا فیصلہ کراتے ہوئے قلم آگے پیش کیا ہے اور جان نکل گئی ہے.خدا کی بڑی بڑی عظیم الشان طاقتیں ہیں جو وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی ہیں.ایک آن میں لاکھوں لاکھ پیدا کر سکتا ہے اور فنا کرسکتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں بھی ناعاقبت اندیش تعلّی کرنے والے متکبروں نے چندہ جمع کیا اور منصوبہ کیا کہ ہم اس کو نیست و نابود کریں گے اور خاک میں ملا دیں گے.اس ناتوانی کی حالت میں نبی کریمؐ کو اللہ تعالیٰ کی
طرف سے یہ صدا پہنچی (الانفال :۳۷).تیرے مقابلہ میں یہ صنادید مکہ بڑے بڑے مدبر اور منصوبہ باز مال خرچ کریں گے. پھر یہ سارا مال ان کے لئے حسرت و افسوس کا موجب ہوگا.افسوس تو اس لئے ہوگا کہ مال بھی خرچ کیا اور ناکامی کا داغ بھی لگا.مگر یہاں تک ہی انتہا نہیں ابھی ایک اور ذلت ان کے لئے باقی ہے..پھر مغلوب ہوکر ذ ّلت کی موت مریں گے.اب دیکھو حالت تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہر میں پوری آزادی کے ساتھ کھل کر نکل نہیں سکتے اور نکلے ہیں تو شہر سے باہر ایک ایسے غار میں جو خطرناک جگہ ہے چھپے ہیں.اس پر یہ دعویٰ ہے کیا معنی.تیرے یہ دشمن ذلت اور ناکامی اور حسرت کی موت مریں گے.اس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ اللہ جلّ شانہٗ کی وہ ذات پاک ہے کہ جس پر وہ راضی ہوجاوے اس کی بات عظیم الشان بات دکھلاتی ہے لیکن اگر وہ راضی نہ ہو تو اس کی کوئی محنت اور کوشش کام نہیں دیتی.یہی وجہ تھی کہ وہ مخالف اپنی اولاد، مال، سب رسم و رواج.سب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے بیٹھے.پھر دیکھو کس زور سے اذان میں کہا جاتا ہے اللّٰہ اکبر یعنی اللہ تعالیٰ ہر گھمنڈی کا گھمنڈ توڑ سکتا ہے.ہر شیخی باز اور ہر منصوبہ ساز کے بدارادہ کو اظہار سے پہلے ہی تباہ کرسکتا ہے.اس بھید کی کلید یہ آیت ہے.جو میں نے پڑھی ہے.(اٰل عمران :۱۰۳) یعنی مومنو! اللہ تعالیٰ کو اپنا ِسپر بنائو.دکھوں سے بچنے کے لئے اور مشکلات اور مصائب سے رہائی پانے کے لئے یہی ایک گُر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنا سپر بنالو.وہ اگر حامی اور مددگار ہو تو پھر کوئی دشمن باقی رہ نہیں سکتا.وہ سب کو ناکام اور نامراد کردے گا لیکن اب یہ غور طلب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سپر کس طرح بنایا جاوے.ایک آدمی منہ سے تو کہتا ہے کہ اے اللہ تو مجھ کو بچا.پھر دل میں برُے برُے منصوبے باندھتا ہے اور ایک اور شخص ہے جو دل سے منصوبے نہیں باندھتا لیکن زبان سے بھی کچھ نہیں کہتا.یہ کوئی طریق سپر بنانے کا نہیں ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے.جو سپر بنانے کا حق ہے.اس طرح پر سپر بنائو.سپر بنانے کا حق یوں ہوتا ہے کہ خدا کی رضا کو حاصل کرے.لیکن اب یہ ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ رضا حاصل کیونکر ہو؟ انسان جبکہ دوسرے
انسان کی رضامندی کی راہوں کو باوجود یکہ وہ کھانے پینے میں اس سے ایک قرب اور مشابہت رکھتا ہے اور جینت کے لحاظ سے بھی ایک مشابہت اور علاقہ رکھتا ہے معلوم نہیں کرسکتا تو اللہ تعالیٰ جو وراء الورا ہستی ہے اس کی رضامندی کی راہوں کو کیونکر معلوم کرے؟ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی راہ جیسا کہ نادان برہمو کہتا ہے.بودی اور کمزور عقل اور محدود اور ناکافی تجربہ سے ہرگز معلوم نہیں ہوسکتی.اگر ایسا ہوتا تو پھر دنیا میں رنج اور غم کیوں موجود ہوتا؟ پس معلوم ہوا کہ اللہ کی رضامندی کی راہ اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتی، جب تک کہ وہ خود نہ بتلاوے مگر پھر معاً یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو غنی عن العالمین ہے.وہ کوئی محتاج نہیں ہے.پھر کیا تدبیر اور سبیل کی جاوے کہ ان رضا کی باتوں کا پتہ لگ جاوے جن پر عملدرآمد کرنے سے سچا تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سپر ہوجاتا ہے اور ہر قسم کی کامیابیاں عطا فرماتا ہے اور یہ بات بھی ساتھ ہی ہے کہ کیا وہ ہر ایک کو بتلاتا ہے کہ میں یوں راضی ہوجائوں گا.جب ہم غور سے دیکھتے ہیں تو یہ بھی اس کی عادت نہیں ہے.پس معلوم ہوا کہ خدا کو راضی کرنے کی راہ بدون اس کے بتلائے معلوم نہیں ہوسکتی.جس کے لئے خاص فرشتے خاص بندے مقرر کئے ہیں.جن کے ذریعہ وہ آگاہ کرتا ہے.وہ مرسل اور رسول ہوتے ہیں.وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے.بلکہ خدا کی بات کہتے ہیں.۱؎ لیکن یہ مشکل پیش آئے گی کہ دنیا میں دھوکے بھی ہوتے ہیں جھوٹے مدعی اور خیالی مصلح بھی ہوتے ہیں اور ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ وحی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اندر ہی کی آواز ہوتی ہے جو دل سے ہی نکلتی اور دل پر ہی پڑتی ہے اور پھر ایسے بھی ہیں.جو ایسے مدعیوں کو مجنون اور دکاندار کہتے ہیں اور دنیا میں دکاندار بھی ہوتے ہیں.پھر یہ قاعدہ کیسا عجیب ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مجھ کو سپر بنائو اور پھر سپر بھی اس طرح جو سپر بنانے کا حق ہے.رضاء الٰہی کی اطلاع بدون بتلائے نہیں مل سکتی اور سب کو نہیں ملتی.صرف چند خواص کو ملتی ہے اور ادھر یہ دُبدہا پڑی ہوئی ہے کہ ہزاروں انسان دغا اور فریب کرتے ہیں اگر کوئی اس معاملہ میں بھی جھوٹ کہہ دے تو کیونکر پتہ لگے گا.اور پھر اس کے بعد یہ فرمایا ہے (اٰل عمران :۱۰۳) تم فرمانبردار ہوکر ہی مرو، فرمانبرداری جب ہو کہ جب فرمان ہو اور فرمان میں میں نے ابھی کہا ہے کہ اس دُبدہا
اور شک کی گنجائش ہے کہ کسی نے دھوکا ہی نہ دیا ہو.اس مشکل کی راہ صاف کرنے کے واسطے اللہ تعالیٰ نے چند ضروری امور کو بیان فرمایا ہے جن سے آدمی حق و باطل میں فی الفور امتیاز کرلیتا ہے.میں اس کو ایک عام فہم طریق پر بیان کرنا چاہتا ہوں.سنو! ہر ایک چیز خواہ وہ دکھ دینے والی ہو یا سکھ دینے والی دونوں کو ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا پاتے ہیں.اگر تریاق کو پاتے ہیں تو سانپ بھی تو ہیں اگر عمدہ عمدہ دوائیں اور تجربہ کار ڈاکٹر اور حاذق طبیب موجود ہیں تو مہلک بیماریاں اور ناتجربہ کار احمق مدعی حکمت بھی پائے جاتے ہیں اور عمدہ عمدہ غلہ اور ترکاریاں پائی جاتی ہیں تو اپنے گھروں میں سنڈاس اور پیشاب بھی ہے اور کب اختیار میں ہے کہ دونوں چیزوں کو یکساں طور پر استعمال کرکے سکھ اٹھا سکیں.آپ دیکھیں گے کہ دکھ یا سکھ دینے والی چیزوں میں باہم فرق کرکے ان کو الگ کردیا گیا ہے.ایک کانٹا دکھ دیتا ہے لیکن ایک عمدہ اور مضبوط جوتا اس کو مسل دیتا ہے.پس کانٹوں سے سکھ دینے کے لئے ہم سمجھتے ہیں کہ جوتا عمدہ چیز ہے اور سردی کی تکلیف میںسنجاب اور سمور اور پشمینہ اور روئی کے لحاف کیسی آرام دہ چیزیں ہیں جو سردی کا مقابلہ کرسکتی ہیں اور ہم خوب سمجھ سکتے ہیں کہ یہ چیزیں سردی سے محفوظ رکھ سکتی ہیں نہ کہ برف اور اس پر سرد ہوا.اسی طریق پر اللہ تعالیٰ نے روحانی سکھوں اور ابدی راحتوں کا ذریعہ جب کہ اپنا فرمان اور رضا کا حصول رکھا ہے اور وہ بدوں ان لوگوں کے جو اس کی طرف سے آتے ہیں ظاہر نہیں ہوتی اس کی شناخت کے اسباب بھی ضرور ہی رکھ دئیے ہوں گے تا کہ سچ اور جھوٹ میں صاف تمیز ہو سکے جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اور اس لئے آتے ہیں کہ ہم کو اس راہ کاپتا دیں جس پر چلنے سے اللہ تعالیٰ راضی ہو جاتا ہے ان میں اور اس مخلوق میں جو بچھوؤں سانپوں کی طرح دکھ دینے کو تیار رہتی ہے امتیاز اور تفریق کے ذریعے رکھ دئیے ہیں جن سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ راستباز کون ہے اور جھوٹا کون ہے؟ مگر ہاں سلیم دل اور حق کی تلاش کی پیاس ہو.موٹی عقل والا بھی جس طرح کانٹے کی تکلیف محسوس کر کے جوتا پہن لیتا ہے اور سردی کے لئے گرم کپڑا پہن کر آرام پاتا ہے.اندرونی دکھوں کو محسوس کرنے والا اور روح اور اخلاق کے علاج کو چاہنے والا ذرا اسی لطیف عقل سے کام لے تو راست باز کو پہچان سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے تو محض اپنے فضل سے اس کو واضح کر دیا ہے.پھر وہ کیا بات بتلائی
جس سے اس راہ حق پر ہم پہنچ سکیں.دیکھو یہ تو ایک مانی ہوئی بات ہے کہ دکھ دینے والی چیزوں میں سے خانہ جنگیاں اور تفرقے بھی ہیں کوئی گھر اور بستی جب کہ اس میں اختلاف اور پھوٹ ہو کبھی آباد نہیں رہ سکتی.بڑے سے بڑا دکھ جو انسان کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتا ہے پریشانی اور پراگندگی ہے اور یہ ایک ایسی خطرناک بیماری ہے جس کے مریض کو سخت درد اور دکھ کا سامنا ہوتا ہے.اب اس مرض کا علاج جو بتلائے اور وہ کارگر اور مفید اور مجرب ثابت ہو اس کی صداقت اور حذاقت میں کیا کلام ہو سکتا ہے اور یہ ایک مسلّم بات ہے کہ نبی کریم صلعم کے آنے سے پیشتر عرب کی حالت وحدت اور امن کے لحاظ سے کیسی خطرناک تھی ان میں بہت بڑی عداوت پھیلی ہوئی تھی ذرا ذرا سی بات پر خاندانوں کے خاندان کٹ مرتے تھے اور اس کو سب محسوس کرتے تھے کہ یہ بہت خطرناک شئ ہے.صحابہ اس کو محسوس کرتے تھے یا نہیں؟ ضرور کرتے تھے پس ان کو بتلایا کہ (اٰل عمران :۱۰۴) تم تو آپس میں جانی دشمن تھے اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا ایک بد یہی نتیجہ تو یہ ہوا کہ تمہارے دلوں میں ایسی محبت والفت ڈالی گئی کہ تم بھائی بھائی ہو گئے.رات کو دشمن سوئے تھے تو صبح کو بھائی بن کر اٹھے.کس قدر حیرت انگیز تبدیلی اور تعجب میں ڈال دینے والی بات ہے ان سالہا سال بلکہ صدیوں کی خانہ جنگیوں کو دور کر دینے والی صرف ایک ہی بات تھی یا کچھ اور.اور وہ یہ تھی کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر آکے توبہ کرتے.وہ توبہ کچھ ایسی تھی اور اس ہاتھ میں کچھ ایسی شفا رکھی گئی تھی کہ جو آتا اس کی تمام اندرونی بیماریاں صاف ہو جاتی تھیں اور بجائے اُس کے پاکیزہ خیالات اور سکھ دینے والی باتیں آبستی تھیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدسی قوت نے بڑے بڑے سوچنے والے لوگوں کو حیرت میں ڈال رکھا ہے.غرض یہ ایک بڑی بھاری شناخت صادق کی ہے کہ وہ ایک وحدت کی روح اپنے ساتھ لے کر آتا ہے.اس وقت بھی ہزاروں ہزار مولوی‘ سجادہ نشین، صوفی، مشائخ موجود ہیں اور بیشمار کتابیں بھری پڑی ہیں مگر دیکھو کہ کیا ان سب میں باہم اتحاد اور یگانگت ہے.ایک دوسرے پر کفر کے فتوے دئیے جا رہے ہیں اگر ایک شہر کے علما کو بھی دیکھو تو معلوم ہو گا کہ ان میں باہم اتحاد نہیں ہے پھر دین کو دنیا
پر مقدم کرنے کی ہدایت کو وہ کیونکر پھیلا سکتے ہیں حقیقت میں وہ اس بات سے ناآشنا محض ہیں کہ باہم محبت کس طرح بڑھتی ہے.غرض جب انسان کسی صادق کی تلاش کرتا اور اپنی اندرونی بیماریوں کو محسوس کر لیتا ہے تو اس کو خود بخود پتالگ جاتا ہے کہ جس کو میں نے صادق سمجھا ہے اس کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے مجھے ان بیماریوں کے متعلق کیا سکھ پہنچا ہے.جیسے ایک سردی سے ٹھٹھرا ہوا انسان جب روئی سنجاب یا سمور کے کپڑے پہن لیتا ہے تو اس کو واضح طور پر معلوم ہونے لگتا ہے کہ اس کو آرام پہنچتا ہے.اسی طرح پر روحانی بیماریوں کا مریض جب اپنے مسیح کے پاس جاتا ہے اور اس سے تعلق پیدا کرتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ مجھ سے فلاں گلی سڑی چیز اس کی اطاعت اور فرمانبرداری میں نکل رہی ہے اور یہ فائدہ پہنچ رہا ہے.پس پہلی بات جو صادق کی شناخت کے لئے اور اس برخورداری کے لئے ضروری ہے وہ ایک قسم کی وحدت اور یکتائی ہے تا کہ خدا کا فضل جو وحدت پر نازل ہوتا ہے اس سے متمتع ہو جائو.اس وقت بھی ایک صادق اللہ تعالی کی طرف سے آیا ہے اور تم نے اسے پہچانا ہے مگر تم اپنے اندر مشاہدہ کرو کہ اس کی اطاعت اور فرمانبرداری میں کیا سکھ پارہے ہو اور کون سی بیماریاں تمہاری دور ہو رہی ہیں.باہم مودّت پیدا کرو کیونکہ فضل الٰہی کے جذب اور کشش کے لئے پہلا اصول وحدت ہے اور سوچو کہ پہلے کن لوگوں کے ساتھ تعلق اور صحبت تھی اس کے ہاتھ پر توبہ کرنے کے بعد کیا تبدیلی ہوئی.ایک معاہدہ ہم سے لیا جاتا ہے اور جس وقت وہ معاہدہ لیا جاتا ہے میری طبیعت گھبرا جاتی ہے ایک انسان جس کو میں پورے شعور اور کامل بصیرت کے ساتھ یقین کرتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یہ وعدہ لیتا ہے کہ میں رنج میں، راحت میں، عسر میں، یسر میں قدم آگے بڑھائوں گا اور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.میں گھبرا اٹھتا ہوں اور معاً میں سمجھتا ہوں کہ یہ فقرہ انسانی فطرت اور طبع کا نتیجہ نہیں ہے انسان یہ بات ایجاد کر سکتا ہی نہیں انسان کی ایجاد تو یہ ہے کہ خالق سے خلقت رکھنی مشکل ہے پیچھے توبہ کر لیں گے.میاں ایہہ جگ مٹھاتے اگلا کس ڈٹھا.میں نے گائوں کے زمینداروں کو دیکھا ہے کہ ایک دوسرے کے بدلے جھوٹی گواہی دے آتا ہے صرف اس لئے کہ ہم اس سے فلاں مقدمہ میں گواہی دلائیں گے یا فلاں مقدمہ میںاس نے
گواہی دی تھی.ایک گائوں میں میں نے ایک قاتل کو دیکھا اور معلوم ہوا کہ اس کے بدلے اور ناکردہ گناہ دائم الحبسہو گئے ہیں.وارثان مقتول سے جب پوچھا گیا کہ یہ کیا بات ہے انہوں نے جواب دیا کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ قاتل ہے مگر ہم اس کو پکڑوا کر کیا کرتے یہ تو غریب آدمی ہے ہم نے تو ان کو ہی پکڑوانا تھا جن سے ہم کو خاص رنج تھا اور عداوت تھی.دیکھو وہ وارثان مقتول جانتے تھے کہ اصل قاتل کون ہے مگر انہوں نے ایک بری الذمہ اور ناکردہ گناہ ہی کو پھنسانے کی سعی کی کیونکہ انہوں نے دنیا کو دین پر مقدم کیا ہوا تھا.کچہریوں اور عدالتوں میں رہنے والے اگر دنیا کو مقدم نہ کریں تو وہ ظہر کی نماز ترک کیوں کر دیں.اسی طرح اور صدہا امور اور معاملات میں دیکھو جہاں انسانی منصوبہ اور غرض کو دخل ہے وہاں جب مقدم ہو گی تو دنیا ہی مقدم ہو گی.اس سے صاف طور پر معلوم ہو سکتا ہے کہ انسانی ایجاد اور انسانی قرار داد کا نتیجہ تو دنیا اور اس کے لوازمات ہیں لیکن وہ جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے وہ جب مقدّم کرے گا یا کسی سے کراوے گا وہ دین ہی کو مقدّم کرے گا.پس یہ ایک دوسرا ذریعہ ہے جو صادق کی شناخت کا ہے کہ آیا وہ دین کو مقدم کرتا ہے یا دنیا کو.ہمارے بھائیوں میں سے جنہوں نے دین کو دنیا پر مقدم کر کے تجربہ کیا ہے انہوں نے ضرور دیکھ لیا ہو گا کہ اللہ تعالی کی رضا کا یہ ذریعہ ضرور سچا ہے اور جس کے ذریعہ یہ راہ معلوم ہوئی ہے وہ بیشک خدا ہی کے بلانے سے بولا ہے اور یہ بھی معلوم ہو گیا ہو گا کہ اللہ تعالی کو سپر بنانا اور اس طرح پر سپر بناناجو سپر بنانے کا حق ہی یہی ہے.پھر اسی وعدہ میں اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗبھی ہے.دنیا میں جھوٹے قصے، جھوٹے منصوبے، خیالی تعلیمیں اور فرضی ہدایتیں شائع کرنے والے بھی ہوتے ہیں اور ان کے بدنتائج صاف بتلا دیتے ہیں کہ ان سب کی بنا جھوٹ اور زُور پر ہے مگر اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کو ماننے والے اور اس پر پورا عمل کرنے والے ؎۲ بتلا سکتے ہیں کہ یہ انسانی تعلیم نہیں ہوسکتی یہ آسمانی تعلیم ہے میں جب اذان میں کسی سے محمد رسول اللہ سنتا ہوں!!! مجھے کس قدر خوشی ہوتی ہے کیونکہ میرے دل میں سرور کے ساتھ یہ بات داخل ہوتی ہے کہ
محمد کے سوا تو کوئی رسول ہو ہی نہیں سکتاجو محمد ہو وہی رسول ہوگا.محمد کے معنے ہیں سراہا گیا اگر کوئی رسول بن سکتا ہے تو محمد لفظ کے معنے سے اس کو حصہ لینا ضروری ہے.ابراہیم، یوسف، موسیٰ میں یہ شان کسی حد تک جلوہ گر نہ ہوتی تو وہ رسول کیونکر بن سکتے تھے.ہاں جو شان محمد کی ہے اس کا کہنا تو آسان نہیں ہے.میرا ایمان تو یہی ہے کہ وہ محمد ہی کی شان لے کر رسول ہوئے اور جس کا نام دوست دشمن نے محمد رکھا ہے وہی رسول ہوسکتا ہے اور پھر محمد رسول ہوسکتا ہے.الغرض اللہ تعالیٰ کو سِپر بنانے کی یہ ایک راہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود بتادے کہ تم اللہ تعالیٰ کو اس طرح سپر بناسکتے ہو.چنانچہ اس آیت شریفہ کے آخر ارشاد فرمایا ہے.تم ایسی زندگی بسر کرو کہ تم پر موت آوے تو تم اس وقت اللہ کریم کے فرمانبردارہو جیسے فرمایا (اٰل عمران :۱۰۳) اس تعلیم کو دیکھو اس میں مسلمانوں کو کس قدر مستعد اور تیار رہنے کی تاکید ہے.برادران! موت کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے.اس لئے ہر وقت مسلمان بنے رہو تاکہ جب موت آوے تم کو کوئی حسرت اور افسوس نہ ہو.گناہوں سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی ہدایت اس آیت میں کس خوبی کے ساتھ بیان کی ہے.پس غفلت چھوڑ دو کہ یہ مسلمان کی شان نہیں ہے.چلتے، پھرتے، اٹھتے، بیٹھتے، سوتے، جاگتے غرض ہرحالت میں مسلمان بنے رہو.پس جو ایسی تعلیم لے کر آتا ہے وہی منجانب اللہ ہے لاکن اس کی یہ پہچان بھی ہے کہ جب وہ اس جہان میں آتا ہے اس وقت دنیا میںاس کا کوئی ہمدرد، ہم خیال نہیں ہوتا.بالکل بے کسی اور ناتوانی کی حالت ہوتی ہے.ہر طرف سے اس پر حملے کئے جاتے ہیں اور دنیادار ساری قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ چاہتے ہیں کہ اس کو نیست و نابود کردیں مگر (المؤمن :۵۲) کیا معنے ہم دنیا ہی کی زندگی میں اپنے رسولوں اور مومنوں کی مدد کرتے ہیں اور بتلا دیتے ہیں کہ اس کی متابعت اور اطاعت ہی اللہ تعالیٰ کو سپر بنانے کی صحیح اور یقینی راہ ہے.دنیادار اندر اور باہر سے اس کی مخالفت پر اٹھتے ہیں اور متحد اور منفرد صورتوں میں چاہتے ہیں کہ اس کو ہلاک کریں.ہر روز ہر آن میدان میں ہر پہلو سے ناکامیابی دیکھنا چاہتے ہیں مگر وہ تدبیر اور منصوبہ جو اس کی بدی میں سوچتے ہیں ان پر ہی الٹ کر پڑتا ہے اور وہ ان کی تمام زدوں سے صاف بچ کر نکل جاتا ہے اور اس طرح پر اس کا وجود اس امر کی دلیل ہوجاتا ہے کہ اس کی ِسپر اللہ تعالیٰ ہے.
ہر قسم کے مصائب آتے ہیں مگر وہ ایسی سپر کی اوٹ میں ہوتا ہے کہ اس پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو مکہ کے تمام بڑے بڑے عمائد اور منصوبہ سازوں نے مل مل کر سعی کی کہ تلوار کے نیچے آپ کو ذبح کردیں.ہر طرح سے چاہا کہ مخلوق کو روکیں کوئی اس کے پاس نہ جاوے مگر کا وعدہ ایسا پورا ہوا کہ جناب الٰہی سے یہ صدا آگئی (النصر :۲ تا۳) پر غور کرو کیسا وعدہ پورا ہی ہوکر رہا ہر قسم کے فتوحات اور کامیابیاں آپ کو عطا ہوئیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایسی سپر آپ کو معلوم تھی جو کوئی مشکل اور مصیبت اس پر اثر نہ کرسکتی تھی.وہ تو ایک عظیم الشان انسان تھا جس کی طرز،جوڑ، مثل کا کوئی دوسرا انسان نہیں ہوسکتا اور پھر یہ تیرہ سو برس کی بات ہے جو تم نے دیکھی نہیں.صرف تاریخوں میں پڑھی ہے مگر کیسی خوش قسمتی ہے کہ اس وقت تمہاری آنکھوں کے سامنے اسی محمد مکی صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم اور غلام احمد قادیانی (خدا کی برکت اور نصرت اس کے ساتھ ہو) تم میں موجود ہے.یہ مرزا کا مکان ہے.اس کے چاروں طرف دشمن ہیں.اِدھر دشمن اُدھر دشمن، بازار میں دشمن، شہر سے باہر دشمن، غرض ہر طرف سے دشمنوں کے نرغہ میں ہے.اسی پر بس نہیں ہے عالِم علمی تلوار سے قتل کرنا چاہتے ہیں.سجادہ نشینوں نے اپنی ضربوں اور حزبوں کا پورا زور لگایا.ناعاقبت اندیشوں نے اقدام قتل کے مقدمے بناکر پھنسانا چاہا.ملانوں نے قتل کے فتوے دے کر جہلا اور عوام کو بھڑکا کر جان لینی چاہی.ٹیکس کا مقدمہ بنوا کر مالی نقصان پہنچانے کی فکر کی.غرض کوئی دقیقہ اپنی کوششوں کا باقی نہیں رکھا مگر یہ خدا کو سپر بنانے والا ہر میدان میں باوجود اس کے کہ ظاہری اسباب مخالف ہی تھے کیسے بچ کر نکلتا رہا ہے.یہ تو مسلمانوں کا حال ہے.پھر آریہ، برہمو، سناتن، سکھ، پادری اپنی اپنی جگہ پر کبھی گورنمنٹ کو بدظن کرنا چاہتے ہیں.کبھی کسی اور پیرایہ میں اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ اس کو پھنسائیں مگر اللہ اللہ اس کے پاس کوئی ایسی سپر موجود ہے کہ مخالفوں کا وار اس پر چل ہی نہیں سکتا.میں تو مرزا کو دیکھ دیکھ کر اس قدر ایمان میں ترقی کرتا ہوں کہ اس کا اظہار بھی نہیں ہوسکتا.تم خود اس کو دیکھو نت نئی جوانی کی بہار دکھاتا ہے.ہر نیا دن اس کو جوان بناتا جاتا ہے.اب اس کی حالت کو دیکھو کہ مخالفوں کی اس قدر
کثرت اور اس کے دم میں تیزی پیدا ہوتی جاتی ہے اور کوئی مخالفت اور عداوت اس پر اثر نہیں کرتی تو یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ خدا کو سپر بنانے کا ڈھب اس کو ضرور یاد ہے.میں نے صحابہ کرام کی حالت پر غور کیا ہے.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جس قدر فتوحات کا زور ہے.وہ کسی دوسرے زمانہ میں نظر نہیں آتا.انتظام مملکت کے متعلق کیسی کیسی دور اندیشیاں کی جاتی ہیں.عمرو ابن عاص مصر کے خزائن کے متعلق لکھتا ہے تو اس سویز کینال (نہرسویز) کا بھی ذکر کرتا ہے اور اس کے اخراجات کا تخمینہ بھی بتاتا ہے.ایک فرانسیسی مورخ نے نہایت تعجب کے ساتھ لکھا ہے کہ اب بھی وہی کینال پر قریباً خرچ آیا ہے مگر اس وقت حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ سردست مصلحت نہیں یہ اور وقت کے لئے ہے اگر راستہ کھول دیا جاوے تو یورپ کی اقوام مدینہ کے قریب آسکتی ہیں.کتنا بڑادوراندیش اور مآل بیں انسان ہے مگر نماز میں خنجر چلا تو اپنے آپ کو نہ بچا سکا. (المائدۃ :۶۸) کی آواز ان کو تو نہ آئی تھی.جس کو یہ صدا آچکی تھی وہ تو تنہائی اور بے کسی کے زمانہ میں مخالفت کی تاریکی میں بھی صحیح و سلامت نکلتا ہے.لیکن حضرت عمرؓ پوری شوکت اور جلال کے دنوں میں عین نماز میں شہید ہوئے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مامور من اللہ کا وجود علی وجہ الاتم اللہ تعالیٰ کو سپر بنانے کا کامل نمونہ ہوتا ہے.کوئی مخالفت اور عداوت اور سازش ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی.سنو! یہ ایسے لوگ تھے کہ ان کی قوم کے ممبر ذہات کہلاتے تھے.پھر حضرت عثمان کو قتل کرہی دیا.پھر جناب مولیٰ مرتضیٰ کی بہادری کے قصے تو سب نے سنے ہیں مگر ابن ملجم شقی نے سب کچھ بھلا دیا.میری غرض اس بیان سے یہی ہے کہ پورا نمونہ کا خود مامور من اللہ ہوتا ہے.لکھا ہے کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوئے پڑے تھے اور تنہا تھے.ایک شخص نے آکر آپ کی تلوار اٹھالی اور چاہتا تھا کہ آپ پر وار کرے.آپ کی آنکھ کھل گئی.اس نے کہا کہ اب آپ کو کون بچاسکتا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ.آپ کے اس ارشاد میں کچھ ایسی ہیبت اور ایسا رعب تھا کہ اس کے بدن پر لرزہ پڑگیا اور تلوار گر پڑی.ان لوگوں کا وجود خدا نما آئینہ ہوتا
ہے جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ کوئی عجیب سپر ان کے پاس ہے.جس کی اوٹ میں یہ مامون اور مصئون ہیں.پس اب یہ بخوبی سمجھ میں آسکتا ہے کہ کیا ہے؟ (النجم :۴) یعنی وہ اللہ ہی کے بلائے سے بولتا ہے یہی وجہ ہوتی ہے کہ ان کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہے.اب میں تمہارے سامنے پھر وہی پاک نمونہ پیش کرتا ہوں.جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اور جو اس وقت تم میں موجود بیٹھا ہے.یعنی حضرت امام علیہ السلام کا پاک وجود.دیکھو ایک مولوی اور ملا اپنی اپنی جگہ شور مچاتا ہے کہ میں نے جیت لیا ہے اور کہتے ہیں.یہ کون ہے مرزا جو کرے چوں مرے آگے مگر میں ایمان سے کہتا ہوں اور دنیا دیکھتی ہے.خود ان کے دل ان کو شرمندہ کرتے ہیں کہ یہ نری شیخیاں اور دعویٰ ہی دعویٰ ہیں.وہ ایک بال کے برابر بھی اس کو ضرر نہیں پہنچاسکے.بلکہ ان کی مخالفت اس کی کامیابی کو زور کے ساتھ ثابت کررہی ہے.پس میں نے بتایا ہے کہ اول اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے.پھر تعلیم کی طرف نگاہ کرے اور پھر مامور کے اپنے وجود کو دیکھے کہ اس میں ایک زبردست ثبوت اس کی سچائی کا ہوتا ہے کہ مخالفوں کی مخالفت اس کو ضرر نہیں پہنچاسکتی.میری رائے میں اگر کوئی شخص الہام کا دعویٰ کرے اور اس کی مخالفت زور و شور سے نہ ہو وہ بھی من جانب اللہ نہیں ہوتا کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی سپر کا رنگ موجود نہیں ہوتا.یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہر دکھ کا موجب ہوتی ہے اور فرمانبرداری ہر سکھ کا موجب ہوتی ہے.پس اگر ہم اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی راہ اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ ضرور سپر ہوگا.پھر میں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سپر ہوجانے کا ثبوت اس نصرت سے ہوتا ہے جس کا وعدہ اس آیت میں ہے. تمام مرسلوں کی مخالفت ہوتی ہے اور پھر اس سے اللہ تعالیٰ کی نصرت کا پتا لگتا ہے.اگر مشکلات اور مصائب نہ آئیں اور مخالفت نہ ہوتو پھر نصرت الٰہی کا ثبوت ہو تو کیونکر ہو.پس یہ ضروری بات ہے کہ ماموروں اور خدا کے بھیجے ہوئے پاک بندوں کی مخالفت کی جاتی ہے اور بڑے بڑے مشکلات آتے ہیں مگر اس کا ہر میدان اور مقابلہ میں کامیاب ہونا بتادیتا ہے کہ اس نے اللہ کو سپر بنایا ہوا ہے اور پھر میں ابھی تم کو دکھا چکا ہوں کہ حضرت اقدس امام الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی بہت بڑی مخالفت کی گئی اور کی جاتی ہے مگر کوئی اس کا کچھ بھی تو نہیں بگاڑ سکتا.میں تو اس کی ایک ایک ادا اور نکتہ پر قربان ہوجاتا ہوں.ایک دن کا ذکر ہے کہ ایک دوست… کو ترغیب دی کہ شادی کرو اور یہ بھی کہا کہ کنواری سے کرو کیونکہ اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا ہوا ہوتا ہے.اس لئے کوئی مشکل پیش نہ آئے.معاً میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا کہ کس قدر عظیم الشان انسان ہے کہ کس قدر بیوہ عورتوں سے شادی کرکے دکھادیا اور پھر بڑھاپے میں.الغرض میرے نزدیک تو یہ پکی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سپر بنایا جاوے تو کوئی مشکل مشکل رہتی ہی نہیں.مرزا کے پاس بیٹھنے والے دیکھتے ہیں کہ یہ کیسی ہر بات سے ایک امیدوار اپنے لئے ایک بات نکال لیتا ہے.اب ایک ضروری بات میں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اگر صرف ہی ہوتا تو امید ٹوٹ جاتی مگر نہیں اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ بھی کہا ہے ہر مومن کا معین اور ناصر بھی اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے اور پھر یہ بھی ساتھ ہی فرما دیا ہے ؎۳.پس کس قدر خوشی اور امید کا مقام ہے کہ اللہ تعالی کی نصرت اور تائید اسی دنیا میں بھی ملتی ہے اور اس دنیا میں نصرت اور تائید الٰہی کا ملنا آخرت کی نصرت پر ایک قوی دلیل ہے.اور پھر یہ بھی کہ یہ نصرت اور تائید ہر مومن مخلص کو ملتی ہے اگر صرف انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ہی مخصوص ہوتی تو البتہ عام مومنوں کے لئے کس قدر دل شکن بات ہوسکتی تھی مگر خدا کا کس قدر احسان ہے کہ فرما دیا ہے (المؤمن :۵۲) اللہ تعالیٰ کے مامور اورمرسل اور مومن اسی دنیا میں اللہ تعالی کی تائیدات سے حصہ لیتے ہیں اور یہ نصرت عجیب عجیب طور پر اپنا ظہور کرتی ہے کیونکہ اس نصرت سے اللہ کی ہستی کا ثبوت مامور من اللہ کی صداقت اور اللہ کے دوسرے وعدوں کی تصدیق کی ایک دلیل ہوتی ہے اور ایک عظیم الشان ّحجت ہوتی ہے جو خدا کی طرف سے قائم کی جاتی ہے کیا خوب فرمایا ہے.خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے جب آتی ہے تو پھر عا َلم کو ایک عا َلم دکھاتی ہے وہ بنتی ہے ہوا اور ہر خسِ راہ کو اڑاتی ہے وہ ہو جاتی ہے آگ اور ہر مخالف کو جلاتی ہے
کبھی وہ خاک ہو کر دشمنوں کے سر پہ پڑتی ہے کبھی ہو کر وہ پانی ان پہ اک طوفان لاتی ہے غرض رکتے نہیں ہرگز خدا کے کام بندوں سے بھلا خالق کے آگے َخلق کی کچھ پیش جاتی ہے (درثمین صفحہ۳) پس میں تمہیں کہتا ہوں کہ اگر تم اللہ کی نصرت چاہتے ہو.اسے سِپر بنانا چاہتے ہو تو جس نے سپر بنانے کا نمونہ اپنی عملی زندگی سے دکھایا ہے اس کے نیچے آئو اور اس کے رنگ میں رنگین ہوجائو.پھر فرمایا (اٰل عمران :۱۰۴)سب کے سب مل کر حبل اللہ کو پکڑ لو.مجھے نہایت رنج اور قلق سے کہنا پڑتا ہے کہ اس حکم پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا.حبل اللہ یعنی قرآن کریم کو مضبوط پکڑنا چاہئے تھا مگر اس کی پروا نہیں کی جاتی.تمہاری کوئی حرکت اور سکون کوئی رسم اور پابندی اس رسن سے الگ نہ ہو.اللہ تعالی کو سپر بنانے کے واسطے اس کی رضامندی کی راہوں کو معلوم کرنا ازبس ضروری تھا اور وہ بیان ہوئی ہیں قرآن کریم میں اس لئے اس کو مضبوط پکڑنے کا ارشاد ہوا مگر بدقسمتی سے ہزاروں بدقسمت تو ایسے ہیں جو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ایک بار پڑھ لیا ہے اور بہت سے بدنصیب ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن شریف کا عطر فلاں مثنوی یا کتاب میں ہے پڑھ لیا کرتے ہیں اور اکثر ایسے بھی ہیں جو صرف الفاظ تک محدود ہیں ان کے نزدیک قرآن کریم کے مطالب عالیہ پر اطلاع ضروری شیء نہیں چہ جائیکہ اس پر عمل.میں ایک شخص کو قرآن پڑھاتا تھا اس نے پڑھنا چھوڑ دیا.میں نے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا؟ تو یہی جواب دیا کہ عمل تو ہوتا نہیں ہے پڑھ کر ملزم کیوں ہوں.وہ قرآن جس کے لئے دنیا میں ہزاروں آدمیوں کے خون بہائے گئے جس کی تعلیم کی اشاعت اور تبلیغ میں ہادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم کو خطرناک مصائب اور مشکلات کا مقابلہ کرنا پڑا.وطن، احباب اور عزیزوں سے الگ ہونا پڑا.اس قرآن کی طرف اب توجہ نہیں رہی.ہاں پھر وہ قرآن جس نے دنیا میں ایک متروک اور الگ پڑی ہوئی قوم کو دنیا کا فاتح اور حکمران بنا دیا اب اس کو غیرضروری شیء سمجھا جاتا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر تمام دکھوں اور مصیبتوں کو جو قرآن کے پہنچانے میں نبی کریمؐ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کو
برداشت کرنی پڑی تھیں بیان کیا جاوے تو دل ہل جائیں بدن پر لرزہ پڑ جا وے.مگر اپنے دلوں میں ٹٹول کر دیکھو کہ تم نے اس کی کیا قدر کی؟ کس قدر محنت اور اس کے پڑھنے پھر سمجھنے اور دستورالعمل بنانے کے واسطے کی.جس قدر روپیہ انگریزی تعلیم کے حاصل کرنے کے واسطے خرچ کرتے ہو اس کا سوواں حصہ بھی تو قرآن پر خرچ نہیں کیا.یاد رکھو جب تک قرآن پر عمل نہ ہو گا یہ ادبار اور تنزل جو مسلمانوں کے شامل حال ہے ہرگز دور نہ ہو گا مگر قرآن پر عمل کرنے کے واسطے قرآن کا فہم ضروری ہے اور فہم بدوں تقویٰ کے آ نہیں سکتا اور تقویٰ ہو نہیں سکتا جب تک مجاہدہ نہ ہو.مجاہدہ ممکن نہیں جب تک اخلاق فاضلہ نہ ہوں اور اخلاق فاضلہ کے حاصل کرنے کے واسطے امام کے حضور رہنا ضروری ہے.پس یہاں آئو اور امام کے حضور رہ کر اس بات کے حاصل کرنے کی فکر کرو جس کے لئے اللہ تعالی نے اس کو مبعوث فرمایا ہے.میں نے سارا قرآن شریف ماں کی گود میں پڑھا ہے.ایک سبق کی بابت تو مجھے یاد ہے کہ والد صاحب نے مسجد کی چھت پر دیا تھا اس کے بعد کسی اور سبق کی خبر نہیں ہے.اس وقت کا پڑھا ہوا اب دن میں کئی بار اور کئی رنگوں میں پڑھتا ہوں.قرآن ہی میری غذا اور میری روح کی فرحت کا ذریعہ ہے باوجود اس کے کہ دن میں کئی بار پڑھتا ہوں لیکن میری روح کبھی سیر نہیں ہوتی.غرض قرآن کریم کو اپنا دستورالعمل بنائو کہ یہ شفا ہے، رحمت ہے، نور ہے ،ہدایت ہے.اور پھر خدا فرماتا ہے (اٰل عمران :۱۰۴)میری رضا کا طریق مجھے سِپر بنانے کا ذریعہ یہی ہے کہ قرآن کریم کو اپنا دستوالعمل بنائو اور اس کا نمونہ اس وجود میں دیکھو جو میری سپر کے نیچے ہے.اُس کے خلاف چال نہ چلو اور قرآن کریم کی خلاف ورزی نہ کرو اور اس کی ایک ہی راہ ہے کہ قرآن کریم کا علم پیدا کرو اور علم سعی اور مجاہدہ پر منحصر ہے اللہ تعالی فرماتا ہے (العنکبوت :۷۰)جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان کو اپنی راہوں کی طرف ہدایت کر دیتے ہیں.ایک بار وزیرآباد کے ریلوے سٹیشن پر ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ قرآن کیونکر پڑھیں صرف و نحو تو آتی نہیں.میں نے کہا صرف و نحو کی ضرورت نہیں ہے.قرآن شریف میں قال پہلے
سے موجود ہے بنانا نہیں پڑتا.پھر صرف کی کیا ضرورت ہے.رہی نحو قرآن شریف میں زیریں زبریں پہلے سے موجود ہیں.پھر اس نے گھبرا کر کہا کہ اچھا معانی بدیع کی ضرورت ہے.میں نے کہا کہ وہ امر زائد ہے.جب وہ اس سے بھی رکا تو کہنے لگا کم از کم لغت کی تو ضرورت ہے.میں نے کہا کہ اگر تم اپنی ہی بولی پر ذرا غور کر کے قرآن شریف پڑھو تو لغت کی بھی بڑی ضرورت نہیں ہے.تم کوئی آیت قرآن شریف کی پڑھو میں تمہیں ترجمہ کر کے دکھا دیتا ہوں.خدا کی قدرت ہے اس نے یہ آیت پڑھی (الاحزاب :۷۱) میںنے کہا کیسی صاف بات ہے گلائو گل سدھی.خیر یہ تو اس وقت کی بات تھی پھر میں نے غور کیا ہے کہ قرآن شریف کے الفاظ دو اور تین ہزار کے درمیان ہیں.اگر ہم مسلمانی زبان مثلاً ان شاء اللّٰہ.لاحول ولا قوۃ الّا باللّٰہ وغیرہ اور ان کا ترجمہ سیکھ لیں تو قرآن شریف کے دستور العمل بنانے کا سارا حصہ حل ہو جاتا ہے.پھر میں نے دیکھا ہے کہ دعا مانگ کر تقوی اللہ کے لئے قرآن شریف کھولے اور نیک صحبت اختیار کر لے اور پھر ایک دور قرآن شریف کا ختم کرے.جو مشکلات رہ جائیں ان کو نوٹ کر لے.پھر دوسری مرتبہ بیوی کو سنائے.اس مرتبہ میں وہ مقامات جو حل طلب باقی تھے ان میں سے کئی ایک حل ہو جاویں گے پھر تیسری مرتبہ اور عزیزوں کو بھی شریک کر لے چوتھی مرتبہ کا ذمہ وار خدا ہے.اس مرتبہ قرآن شریف بالکل آجاوے گا.یہ میرا تجربہ کردہ نسخہ ہے.پھر اسی سلسلہ میں اللہ تعالی فرماتا ہے (اٰل عمران :۱۰۴) اس انعام الٰہی کو یاد کرو جو تم پر ہوا ہے تم باہم دشمن تھے تمہارے دلوں میں ایسی الفت ڈالی کہ تم باہم بھائی بھائی ہو گئے.رات کو دشمن سوئے تھے صبح کو اخوان بن کر اٹھے کیسا فضل ہے.یاد رکھو جب کوئی مامور من اللہ آتا ہے اس وقت ایک نئی برادری پیدا ہوتی ہے نئی اولاد پیدا ہوتی ہے اور نئے تعلقات پیدا ہوتے ہیں.اللہ تعالی اس برادری کا نام اخوان رکھتا ہے سارے عرب میں قریش ایک معزز اور سربرآوردہ قوم تھی اور قریش میں بنوہاشم کا خاندان اور بنوہاشم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گھرانا ممتاز اور معزز تھا.پھر دنیا میں حقارت سے دیکھی ہوئی قوم غلاموں کی ہے.مگر دیکھو کہ اسلامی اخوت نے کیا کرشمہ دکھایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن زینب کا نکاح زید بن حارث
سے کر دیا گیا تاکہ دنیا کو بتایا جاوے کہ اخوت اس کا نام ہے جو اسلام نے قائم کی ہے.بلال کا رشتہ قریش میں کرا دیا گیا.حسّان کا رشتہ ماریہ کی بہن سے کرا دیا.غرض یہ ایک نمونہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا جو اللہ تعالی کے انعام میں سے تھا.یہ سچی بات ہے کہ جب تک اخوت کا رنگ پیدا نہ ہو سپر بنانے کے ایک حصہ سے محروم رہتا ہے.پس یاد رکھو کہ جماعت پر اللہ تعالی کا فضل اسی وقت ہوتا ہے جب اخوت کا مرتبہ پیدا کریں وہ اپنے چھوٹوں کی جو غربا ہیں خبرگیری کریں اور کسی کو حقیر نہ سمجھیں.اب اس وقت اللہ تعالی نے یہ نمونہ اللہ کو سپر بنانے کا حضرت مرزا صاحب کے وجود میں دکھایا ہے اب وہ وقت پھر آیا ہے کہ تم تقویٰ اختیار کرو اور اس کے لئے ضروری ہے کہ حبل اللّٰہ یعنی قرآن شریف کو مضبوط پکڑو.تمہارا ہر فعل ہر حرکت و سکون قرآن شریف کے احکام کے نیچے ہو.تم باہم ایک برادری پیدا کرو وہ جو دولتمند اور متمول ہیں وہ اللہ تعالی کے اس فضل و کرم کا شکر یوں کریں کہ اپنے محتاج اور غریب بھائیوں کو حقیر نہ سمجھیں ان کی مدد کریں کوئی قومی تفاخر تم میں ایسا نہ ہو جو دوسروں کو ذلیل سمجھنے کا محرک ہو.اللہ تعالی کے حضور مکرم و معظّم متقی ہی ہیں.(الحجرات :۱۴)حضرت مرزا صاحب کی شرائط بیعت میں یہ بات موجود ہے کہ تمام مخلوقات سے عموماً اور اپنے سب بھائیوں سے خصوصاً پیار کرنا چاہئے.اب ہم سب مرزا صاحب میں ہو کر معزز و مکرم ہیں اور ہوں گے.ان شاء اللّٰہ.پھر اللہ تعالیٰ اپنے اس احسان اور انعام کا ذکریوں فرماتا ہے (اٰل عمران :۱۰۴) تم ایک آگ کے گڑھے پر پہنچ چکے تھے ہم نے تم کو بچا لیا.اللہ تعالیٰ ان آیات کو اس لئے بیان فرماتا ہے کہ تم بھی اس راہ کو اختیار کرو.جب قرآن دنیا میں نازل ہوا اس وقت عظیم الشان اختلاف موجود تھا.قرآن نے آکر وحدت کی روح پھونکی.اب اس وقت بھی بہت بڑا اختلاف پھیل رہا ہے.یہ اختلاف بھی قرآن ہی سے دور ہو گا.پس اس اختلاف کو مٹانے کے لئے علوم القرآن کی ضرورت ہے جو احمد کے غلام پر نازل ہو رہے ہیں اور اس کا خدا کی طرف سے ہونا تم دیکھ چکے ہو کہ وہ کیونکر مخالفوں کے حملہ سے محفوظ رہتا ہے جس سے ثابت ہو گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی سپر میں ہے.پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ تم قرآن کو اپنا دستورالعمل بنائو اور اس کا نمونہ احمد
کے غلام کے وجود میں دیکھو جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے اس کے عملدرآمد اور قرآن شریف کی ساری تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو دو نکتوں پر حل کر دیا ہے تعظیم لامراللّٰہ اور شفقت علٰی خلق اللّٰہ.اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرو گے تو تم بھی معظّم ہو جائو گے.مخلوق الٰہی پر شفقت کرو گے تم پر بھی رحم کیا جائے گا.پس ہر کاروبار میں وہی راہ اختیار کرو جس کا وجود سپر ہو کر دکھائی دے.اللہ تعالیٰ مجھ کو اور تم کو توفیق دے.قرآن شریف ہمارا دستورالعمل ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کو سپر بنائیں.ہم سچی اخوت اور برادری کو قائم کریں اور ہر قسم کی امداد اپنے غریب بھائیوں کی کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر بھی اپنا فضل کرے اور ہم کو توفیق دے کہ اس کی رضامندی حاصل کریں.آمین ؎۴ ٭…٭…٭ ۱؎ الحکم ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ۱۴، ۱۵ ۲؎ الحکم ۱۷؍ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ۵،۶ ۳؎ الحکم ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ۶،۷ ۴؎ الحکم ۳۱؍ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ۶، ۷
خرید الٰہی دنیا میں بیوپار لین دین ایک ایسی چیز بنائی گئی ہے جس کے مبادلہ سے بڑے بڑے فائدے پہنچتے ہیں.دنیا کا تمدن اسی پر موقوف ہے.پولیٹیکل اکانومی کے پڑھنے والے تقسیم محنت کے مسئلہ سے خوب واقف ہیں اور ایجادات اور اختراعات کی تاریخ پر غور کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ تبادلہ اشیاء کی صورت کس طرح پر تھی اور کیوں کر انسان اپنی ضرورت کی اشیاء باہم مبادلہ سے حاصل کرتا تھا اور پھر سکہ کا رواج کیونکر ہوا.مجھے نہ پولیٹیکل اکانومی کے مسئلہ تقسیم محنت کو بیان کرنا ہے اور نہ ایجادات کے ذیل میں ایجاد سکہ کی تاریخ کو بتانا مقصود ہے بلکہ مجھے اس بیان سے سننے والوں کو ایک اور طرف لے جانا مطلوب ہے.ہاں تو یہ ظاہر بات ہے کہ دنیا کا تمدن اسی بیوپار اور خرید و فروخت پر موقوف ہے.زمیندار اناج بوتا ہے اور اپنی ضروریات کو اناج بیچ کر پورا کرتا ہے.اسی طرح ہر حرفہ اور پیشہ کا انسان جو کچھ اپنے طریق پر کماتا ہے اس سے اپنے آرام کی اور چیزیں خرید کر لیتا ہے اور یہ ایک ایسا لمبا سلسلہ جاری ہے لیکن انسان اس بیوپار میں کبھی کبھی غلطیاں بھی کرلیتا ہے اور دھوکا کھا جاتا ہے.تاجر بنتا ہے مگر بعض اوقات اسامیاں تباہ ہوجاتی ہیں اور ایسے ایسے اسباب پیش آجاتے ہیں جن سے دیوالیہ ہوجاتا ہے اور بہت سے طریق اختیار کرتا ہے کیوں؟ منشاء صرف یہ ہے کہ آرام اور آسائش سے زندگی بسر کرے.انسان فطرۃً خوشحالی چاہتا ہے.بچپن سے جوانی ، جوانی سے ادھیڑ اور پھر بڑھاپے تک ہر حالت میں اس کے مد نظر آرام ہے.جب ہم انسان کی اس فطرت اور اس بناوٹ پر غور کرتے ہیں تو ان احمقوں پر بہت ہی افسوس اور معاً رحم بھی آتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ انسان کو ابدی راحت ، دائمی سکھ یا مکتی نہیں مل سکتی.میں تو حیران رہ رہ جاتا ہوں جب ایک طرف انسان کی اس فطرتی خواہش سکھ پر غور کرتا ہوں اور دوسری طرف ان وید کے پرستاروں کے اس اصول پر نظر کرتا ہوں.غرض انسان ہزاروں ہزار فکر کرتا اور لاکھوں لاکھ وسائل تلاش کرتا مگر منشاء صرف آرام ہوتا
ہے.نوکری کرتا اور عجز و نیاز سے افسروں کی فرمانبرداری کرتا صرف اس لئے کہ سکھ ملے.جب کہ یہ حال ہے تو انسان مرکب ہے دو چیزوں سے.جسم اور روح سے.جسمانی سکھ چاہتا ہے تو یہ کبھی سمجھ میں نہیں آسکتا کہ روح آرام کی خواہشمند نہ ہو.ہے اور ضرور ہے اور جیسے تبادلہ اشیاء کا سلسلہ ہم دیکھتے ہیں اور بیوپار اور لین دین دنیا کے تمدن کے لئے ایک ضروری شے ہے اسی اصول کو مدنظر رکھ کر کیونکہ یہ تو ہر ایک انسان کے مشاہدہ ، نہ صرف مشاہدہ بلکہ تجربہ میں آئی ہوئی بات ہے.میں ایک اور بات تمہیں سناتا ہوں.( التوبۃ :۱۱۱) بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لئے ہیں (کس چیز کے بدلہ میں )ان کے جانوں اور مالوں کے معاوضہ میں ان کو جنت دی ہے.یہ خرید الٰہی ہے.اللہ تعالیٰ کی تجارت اللہ تعالیٰ کا بیوپار مومنوں کے ساتھ ہے.یہ اس کا کس قدر فضل اور کرم ہے کہ جس چیز کو وہ بدوں کسی قسم کا تبادلہ یا معاوضہ دینے کے بھی مالک اور مختار تھا کہ جس طرح چاہے اس سے کام لے پھر بھی اس چیز کا معاوضہ دیا ہے.اللہ اللہ ایسا کریم و رحیم محسن آقا !!! پس یاد رکھو کہ مومن بننے کے ساتھ ہی مومن کہلاتے ہی اپنی جان و مال جو عارضی طور پر اپنی کہلاتی ہے بیچ دی جاتی ہے.اس لئے کہ انسان اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب سکھ کو چاہتا ہے اور وہ جنت میں حاصل ہوتے ہیں جس کا ظل اور پرتو اسی دنیا سے شروع ہوتا ہے.انفسھم کے کہنے سے نہ اپنے دل پر نہ آنکھ پر نہ زبان پر غرض اپنے جسم کے کسی حصہ اور اعضاء پر اپنا اب کوئی اختیار باقی نہیں رہتا اور نہ رہنا چاہیے کیونکہ جب ہم روز مرہ اپنے تجربہ میں اس امر کو دیکھتے ہیں کہ جب کوئی چیز کسی سے خریدتے ہیں تو خریدنے کے ساتھ ہی بیچنے والے کا اپنا کوئی اختیار اور تصرف اس پر نہیں رہتا.پس جب ہم نے ایمان کا دعویٰ کیا اور مومن بنے تو اس کے ساتھ ہی اپنا جان و مال خدا کے ہاتھ بیچ ڈالا تو اب اس پر ہمارا اپنا تصرف کیسا؟ اسلام کی حقیقت یہی ہے کہ انسان اپنی ساری قوتوں اور طاقتوں کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردے اور اپنی گردن فرمانبرداری کے لئے رکھ دے.اپنی خواہش اپنا ارادہ کچھ باقی نہ رہے اور یہی مومن ہونے کے معنی ہیں.
اگر مسلمان مسلمان کہلا کر ایمان باللہ کا دعویٰ کرکے اللہ تعالیٰ کے احکام کا جو ا اپنی گردن پر نہیں رکھتا اور اپنی خواہش اور ارادے کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کی مرضی اور حکم کا پابند اور مطیع نہیں ہوتا تو اس کو اپنے اندر غور کرنا چاہیے کہ اسلام اور ایمان کے لوازم سے اس نے کیا لیا اور اس بات کا معلوم کرنا کہ آیا میں نے خدا تعالیٰ کے ہاتھ اپنی جان اور مال کو بیچ دیا ہے یا نہیں بڑی صفائی کے ساتھ ہوسکتا ہے اور بہت ہی آسان ہے.اگر وہ اپنے ارادوں ، اپنی خواہشوں، اپنے دوستوں ، اپنی ملکی رسم ورواج قومی عادات اور شعائر اللہ کو مقدم کرتا ہے اور الٰہی قوانین اور فرامین کی اتنی بڑی پروا نہیں کرتا کہ رسم و رواج یا سوسائٹی اور برادری کے اصولوں پر اللہ تعالیٰ کی باتوں کو مقدم کرلے تو اس کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے کچھ بھی نہیں بیچا یا کہوکہ مومن اور مسلمان کہلانے کے ساتھ اپنی جان و مال کو بیچ کر بھی اس پر ناجائز تصرف کیا ہے.پس یہ بہت خطرناک اور نازک مقام ہے.مسلمان یا مومن باللہ کہلانا آسان ہو تو ہو مگر بننا کارے دارد.مسلمان بننے کا نمونہ ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں دیکھو. (البقرۃ :۱۳۲).پھر مسلمان بننے کا کامل نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مشاہدہ کرو.غرض مومنوں کے جان و مال اللہ تعالیٰ نے خرید لئے ہیں اور اس کے معاوضہ میں وہ فوز عظیم اور وہ عظیم الشان ابدی راحت اور آسائش کا مقام اس نے دیا ہے جس کو جنت کہتے ہیں.اب جب کہ مومن اپنے ایمان کے اقرار کے ساتھ اپنے جان اور مال بیچ چکے تو پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں ان کے خرچ کرنے سے مضائقہ کیا؟ مومن کو اگر اپنی جان تک دینے کی بھی نوبت آجائے تو اسے دریغ نہیں اس لئے کہ وہ اس پر اپنا اختیار ہی نہیں رکھتا وہ تو اسے دے چکا یہاں تک کہ (التوبۃ :۱۱۱).اگر یہ موقع بھی ان کو پیش آجائے کہ ان لوگوں کے مقابلہ میں جو ان سے لڑتے ہیں لڑنا پڑے تو وہ ہرگز نہیں جھجکتے.یہ وعدہ حق ہے.ا س کا پتا توریت اور انجیل سے بھی ملتا ہے اور قرآن میںبھی موجود ہے اور یہ
تو بتائو کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کون وفادار اور صادق الوعد ہوسکتا ہے.پس جب کہ یہ بات ہے تو پھر تم اپنی اسی بیع پر خوش ہوجائو اور یہی تو وہ اعلیٰ درجہ کی کامیابی ہے.لوگوں نے بہت بڑی غلطی کھائی ہے اسلامی دفاعی جنگوں کے راز کے سمجھنے میں.اور انہوں نے اسلام پر اعتراض کیا کہ وہ دین کے لئے تلوار اٹھانے کا حکم دیتا ہے.حالانکہ اسلام کے لفظ میں صلح اور آشتی اور سلامتی کا مفہوم اور منطوق موجود ہے اور اسلام نے پکار پکار کر کہاہے (البقرۃ:۲۵۷)اور قرآن کریم میں ایک بھی آیت اس مضمون کی نہیں ہے کہ تم غیر مذہب والوں سے مسلمان بنانے کے لئے لڑو.پھر خدا تعالیٰ جانے یہ لوگ کیوں ظلم اور زُور کی راہ سے اسلام پر افترا کرتے ہوئے خدا سے نہیں ڈرتے.مسلمان کی تعریف ہمارے سید و مولیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کی ہے کہ مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے عام لوگ عامۃً اور مسلمان خاصۃً محفوظ رہیں.غرض یہ افتراء ہے جو مسلمانوں پر کیا جاتا ہے.ہاں توبات یہ تھی کہ یہ سچی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی وفادار نہیں ہے اور خدا تعالیٰ سے معاملہ کرنے سے بڑھ کر کوئی فوز عظیم نہیں ہے.پاس فاز سے ہی بگڑ کر بنا ہے.اب دیکھ لو کہ ایک مڈل پاس کرنے میں کم از کم سات آٹھ سو روپیہ خرچ ہوتاہے اور عمر کا ایک بہت بڑا حصہ اور قیمتی حصہ صرف ہوجاتا ہے.اس کے بالمقابل دیکھو قرآن کے لئے کس قدر کوشش کی جاتی ہے اور کتنا وقت اس کو دیا جاتا ہے.بعض وقت میںنے دیکھا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے احکام کو جانتا ہے اورسنتا ہے مگر جب نفس جوش کرتا ہے تو پھر کسی کی بھی نہیں سنتا اور اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتا کہ میں تو مسلمان کہلانے کے ساتھ ہی اپنی جان اور مال سے بے دخل ہوچکا ہوں اور یہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ بیچ بیٹھاہوں.پھر نفس کی خواہش اور آرزو کے پورا کرنے میں اپنے مال اور جان کا خرچ کرنا کیوں روا رکھتا ہوں.مومن کا تو ہر فعل اللہ ہی کے حکم کے تابع ہونا چاہیے یہاں تک کہ اگر وہ کھاوے تو صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے کلوا کا حکم دیاہے ، پیتا ہے تو اس لئے کہ اشربوا کا حکم ہے، بیوی سے معاشرت کرتا ہے تو صرف اس حکم کی تعمیل کی خاطر کہ (النساء :۲۰) کہا ہے.پس جب کبھی وہ اپنے مال اور جان میں تصرف کرے تو جناب الٰہی کی اجازت کو تو دیکھ لے.۱؎
غرض مومن کا فرض ہے کہ اس کا ہر کام یہاں تک کہ کھانا پینا پہناسب کچھ اللہ ہی کے لئے ہو.کسی قسم کا تصرف اپنے جان و مال میں بدوں اجازت الٰہی نہ کرے جس کے ہاتھ یہ سب کچھ بیچ چکا ہے.جب جب کوئی آدمی ہمارے امام علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے تو مجھے سخت حیرت ہوتی اور بار بار میرا دل کانپ جاتا، جب میں یہ فقرہ سنتا ہوں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.امام کے ہاتھ پر نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ پر یہ عہد کیا جاتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کروں گا.اس کے صاف معنی یہی ہیں کہ ہر معاملہ میں زندگی کی رفتار اور ہر منزل میں مقصود بالذات دین ہوگا اور دنیا کو دین کے ماتحت رکھوں گا.اپنے دل، زبان ، جان ، مال.غرض کسی چیز پر میرا تصرف نہ ہوگا بلکہ آپ کا ہوگا.دیکھو بیعت کا مفہوم یہی ہے.اس کے معنے بھی بیچ دینے کے ہی ہیں.اس کو سوچ سمجھ کر اختیار کرو.جب تم نے اقرار کرلیا کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا پھر یہ نہیں ہوسکتا کہ جہاں دین اور دنیا کا مقابلہ ہو اور تم کہہ دو کہ یہ نہیں ہوسکتا برادری کے رسم و رواج اور قومی عادات اس کی اجازت نہیں دیتے ایسا کرنا ایسا کہنا، میں سچ کہتا ہوں احکم الحاکمین خدا کے حضور بہت خطرناک ہے.اب اللہ تعالیٰ مومنوں کی تصریح فرماتا ہے.ایک صفت ان کی ہوتی ہے التائبون یہ ان کی پہلی صفت ہے کہ جس طرح نفس ان کو کشاں کشاں لئے جاتا تھا اور جدھر جھکے جاتے تھے اب اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں.اپنی خواہشوں اور ارادوں کو خدا تعالیٰ کے حکم اور تصرف کے نیچے کردیتے ہیں.کوئی دکھ، تکلیف اور مشکل اس کے قدم کو ڈگمگا نہ سکے بلکہ جیسا کہ شرائط بیعت میں درج ہے رنج میں، راحت میں ، عسرمیں، یسر میں قدم آگے ہی بڑھاتا جاوے.ادھر چلنا بعض اوقات نفسانی اغراض اور خواہشوں کی بنا پر بھی ہوتا ہے اس لئے دوسری صفت ان مومنوں کی یہ ہے العابدون.یہ توبہ ، یہ رجوع اور انابت ذاتی اغراض اور مقاصد کے نیچے نہ ہو بلکہ منشاء اور مقصد صرف یہ ہو کہ خدا کی فرمانبرداری کی راہ ملے.عبودیت کی اصل غرض کو پورا کریں.بعض لوگ اپنے طرز و طریق پر نیکیاں تجویز کرلیتے ہیں مگر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی نیکی نیکی نہیں ہوسکتی جب تک صرف صرف اللہ ہی کے لئے نہ ہو اور اللہ کے بتائے ہوئے طرز پر جس کا نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا ہے نہ ہو.پھر ان کی ایک اور صفت ہوتی ہے کہ الحامدون.اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے والے ہر حال
میں راضی برضا رہنے والے خد اتعالیٰ کے ساتھ ان کی پوری صلح ہوتی ہے.کوئی مصیبت ، کوئی دکھ یا تکلیف ان کو اپنے مولیٰ کریم پر بد ظن نہیں کرسکتی اور ان کی ایک اور صفت یہ ہوتی ہے السائحون مطیع اور فرمانبردار یعنی اگر اعمال خالصۃً اللہ ہی کے واسطے ہیں.ترک فعل بھی اللہ ہی کے واسطے ہو.الراکعون نفسانی خواہشوں کو چھوڑ کر اللہ ہی کے لئے جھکنے والے ہوں اور پھر جھکنے والے بھی اس حد تک کہ الساجدون کے مرتبہ تک پہنچ جائو.سجدہ میں زمین پر سر رکھ دیتا ہے.اب اس سے آگے کہاں جاوے.عبودیت کی انتہاء ہی سجدہ ہے.جس قدر سجدہ میں جھکتا ہے اور تذلل اور انکساری اختیار کرتا ہے اسی قدر روح بلند پرواز کرتی ہے.قالب کو دیکھو جہاں جہاں سے گرا ہوا ہے وہاں وہاں سے اس کو اونچائی نصیب ہوتی ہے.سجدہ سے بڑھ کر اور کوئی جگہ نہیں.گویا بتانا ہے کہ تمام نفسانی خواہشوں سے الگ ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کا پورا عبد ہوگیا یہاں تک تو انسان کی اپنی ذاتی اصلاح اور درستی تھی مگر وہ انسان انسان کامل نہیں ہوسکتا جب تک وہ دوسروں کو فائدہ نہ پہنچاوے.اسلام نے ایمان کے دو بڑے حصے اور شعبے قرار دئیے ہیں جن میں ایک تعظیم لامر اللہ اور دوسرا شفقت علیٰ خلق اللہ.اس لئے دوسری شاخ کی سرسبزی اور تازگی کے لئے فرمایا (التوبۃ :۱۱۲) یعنی اس کمال کے بعد وہ مکمل ہونے کا درجہ پاتے ہیں اور اس مقام تک پہنچتے ہیں جہاں وہ دوسروں کو تمام بھلی باتوں کا حکم دیتے ہیں.یہ اللہ کا فضل ہے اور کامل ہونے کے بعد ملتا ہے ورنہ ایک کامل ناپاک دوسروں کو پاک بنانے کی کیا تعلیم دے سکتا ہے.حکم کس بات کا بالمعروف وہ پسندیدہ باتیں جن کو جناب الٰہی نے پسند کرلیا ہے.پھر اس پربھی بس نہ کرو آگے بڑھو.انسان کو اپنی فطرت، عادات، رسم و رواج کے خلاف کرنا بڑا ہی ناگوار ہوتا ہے.بڑے بڑے فرمانبرداری کے مدعیوں کو جب ایک بال کے کٹوانے کے لئے کہا گیا تو بہت مشکل ہوا اور ان کو قسم قسم کے عذر کرنے پڑے.چند روز کا تذکرہ ہے کہ ایک شخص نے لڑکی کے نکاح کے متعلق مشورہ پوچھا اور کہا چونکہ حضرت اقدس سے تعلق ہے بہتر ہے یہاں ہی ہو.مگر میں نے کہا کہ اب پھر مگر کے بعد تو شرط کا لحاظ کیا جاوے گا، پھر مگر کیا؟ باوجود روکنے کے کہہ دیا کہ جوان ہو.میں نے کہا کہ اگر میری لڑکی ہو اور مرزا صاحب اس کو سو برس کے بڈھے سے بیاہنا چاہیں تو ہرگز عذر نہ ہو.
پس دوسرے کو کسی کام سے روکنا بڑا بھاری کام ہے.مومن جب آپ کامل ہو تو اس کو لازم ہے کہ دوسرے کی تکمیل کا فکر کرے اوریہ تب ہوتا ہے کہ اچھی باتوں کو بتایا اور بری باتوں سے روکا جاوے.یہ دونوں امر یوں تو بہت مشکل ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی توفیق رفیق حال ہو تو بہت آسان ہوجاتے ہیں.مجھے خود اس امر کا تجربہ ہے اور میں تو ہر روز دیکھتا ہوں کہ جب جب جس جس قد ر کوئی اللہ تعالیٰ کا متبع ہوتا جاتا ہے اسی قدر اللہ تعالیٰ اس کے متبع بنا دیتا ہے.(الرحمٰن:۶۱).ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو ایک ممتاز انسان تھے اور اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کا نمونہ تھے اس لئے آپ کو جو جماعت ملی وہ آپ کی اطاعت میں محو اور از خود رفتہ تھی اور ایک ممتاز مخلوق تھی.اس وقت ایک زندہ نمونہ اس کا موجود ہے.امام کی اطاعت سے روکنے والے کس قدر موجود ہیں اور وہ کن کن حیلوں اور تدبیروں سے لوگوں کو روکنا چاہتے ہیں مگر امام کو یأ تون من کل فج عمیق(تذکرۃصفحہ۳۹)کی بشارت اس وقت سے مل چکی ہے جب ابھی اسے کوئی جانتا بھی نہ تھا اور اب تم خود اسے دیکھ رہے ہو کہ کس طرح پر یہ الہام پورا ہورہا ہے اور ہر حصہ ملک سے لوگ چلے آتے ہیں.خلاصۃ الکلام (التوبۃ :۱۱۲)اللہ تعالیٰ نے جو اوامر اور نواہی کی حد بندی کردی ہے اس کی نگہداشت کرتے ہیں اس کو نہیں توڑتے.شیطانی وسوسوں اوردھوکوں سے بچو اور خبردار ہوجائو.اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرو.اس کا نتیجہ یہ ہے ایسے مومنوں کو جو حدود اللہ کی حفاظت کرتے ہیں اور مندرجہ بالا صفات اپنے اندر پیدا کرتے ہیں خوشخبری دے دو.پس یاد رکھو کہ حفظ حدود اللہ اس وقت ہوسکتا ہے جب حدود اللہ کا علم ہو اور یہ نہیں آسکتا جب تک قرآن نہ آوے اور قرآن کا فہم منحصر ہے تقویٰ اور مجاہدہ پر.خدا تعالیٰ تمہیں اور مجھے توفیق دے کہ ہم ان حدود سے واقف ہوجائیں اور پھر ان کی حفاظت کریں تجاوز نہ کریں.آمین۲؎ ٭ … ٭ … ٭ ۱؎ الحکم ۱۰؍مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ۱۰تا۱۲ ۲؎ الحکم ۱۷؍مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ۵تا۶
سورۃ جمعہ پر وعظ (تقریر فرمودہ ۲۸؍دسمبر ۱۹۰۱ء بعد نماز ظہر وعصر) (الجمعۃ:۱تا۹) یہ ایک سورہ شریف ہے اور ایسی مہتم بالشان سورۃ ہے کہ مسلمانوں میں جمعہ کے دن پہلی رکعت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ،صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین کے زمانہ تک سنائی جاتی تھی اور ا ب تک بھی پڑھی جاتی ہے.اس سے تم اندازہ کر لو کہ کس قدر مسلمان گزرے ہیں اور آج تک کس قدر جمعے پڑھے گئے ہیں اور پھر اس سورۃ شریف کو پڑھ کر نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا اتباع کیا اور اس سورہ کو جمعہ کے دن خصوصاً پڑھ کر لوگوں کو آگاہ کیا ہے پھر جمعہ ہی کو نہیں بلکہ
احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم جمعرات کو بھی عشاء کی پہلی رکعت میں اس کو پڑھا کرتے تھے.پس ہر ہفتہ میں دو بار جہری قراء ت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورۃ کو پہنچایا ہے اس سے صاف پایا جاتاہے کہ ہمارے سید ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر اہتمام اس سورۃ کی تبلیغ میں تھا.پس مسلمانوں کو لازم ہے کہ وہ اس سورہ شریف پر بہت بڑی غور وفکر کریں اور میں تمھیں پکار کر کہتا ہوں کہ اَفَـلَا یَتَدَبَّرُوْنَ.میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس التزام اور اہتمام پر نظر کر کے اس سورہ شریف پر خاص غور کی ہے یوں تو قرآن شریف میری غذا اور میری تسلی اور اطمینان کا سچا ذریعہ ہے اور میں جب تک ہر روز اس کو کئی مختلف رنگ میں پڑھ نہیں لیتا مجھے آرام اور چین نہیں آتا.بچپن ہی سے میری طبیعت خدا نے قرآن شریف پر تدبّر کرنے والی رکھی ہے اور میں ہمیشہ دیر دیر تک قرآن شریف کے عجائبات اور بلند پروازیوں پر غور کیا کرتا ہوں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس قدر اہتمام اس کی تبلیغ میں کیا ہے اس نے مجھے اس سورہ شریف پر بہت ہی زیادہ غور اور فکر کرنے کی طرف متوجہ کیا اور میں نے دیکھا ہے کہ اس سورہ شریف میں قیامت تک کے عجائبات سے آگاہ کیا گیا ہے.بڑے بڑے عظیم الشان مقاصد جو جمعہ میں رکھے گئے ہیں ان سے آگا ہ کیا ہے میرا اپنا خیال نہیں نہیں ایمان بلکہ اس سے بھی بڑھ کر میں کہتا ہوں میرا یقین ہے اور میں علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ وہ ٹھوکریں جو اس عظیم الشان جمعہ (منجملہ ان کے مسیح موعود کے نزول کا مسئلہ بھی ہے)میں لوگوں کو لگی ہیں وہ اسی عدم تدبّر ہی کی وجہ سے لگی ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس التزام پر عمیق نگاہ کی جاتی اور اس سورۃ پر تدبّر ہوتا تو میں کہہ سکتا ہوں کہ بہت کم مشکلات ان لوگوں کو پیش آتیں.غرض یہ سورۃ اپنے اندر لا انتہا حقائق اور عجائبات رکھتی ہے اور قیامت تک کے واقعات کو بیان کرتی ہے جن پاک الفاظ سے اس کو شروع کیا گیا ہے اگر کم از کم ان الفاظ پر ہی غور وفکر کی جاتی تو مجھے امید ہوتی ہے کہ اسماء الٰہی میں تو کم از کم ٹھوکر نہ لگتی.وہ پاک الفاظ جن سے اس سورہ کا شروع
شروع ہوتا ہے یہ ہیں.ِ (الجمعۃ:۲) جو کچھ زمین وآسمان میں ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں ا س اللہ کی جو الملک ہے القدوس ہے العزیز ہے اور الحکیم ہے.تسبیح کیا ہوتی ہے ؟سورہ بقرہ کے ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کی زبان سے بتایا ہے (البقرۃ:۳۱) قرآن شریف میں جہاں تسبیح کا لفظ آیا ہے وہاں کچھ ایسے احسان اور انعام مخلوق پر ظاہر کئے ہیں جن سے حمد ہی ظاہر ہوتی ہے اور ان احسانا ت اور انعامات پر غور کرنے کے بعد بے اختیار ہو کر انسان حمد الٰہی کرنے کے لئے اپنے دل میں ایک جوش پاتاہے ہمارے پاک سیّد ومولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے فرمایا ہے. (بنی اسرائیل:۲) اور پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ارشاد ہوتا ہے (الأَعلٰی:۲) غرض جہاں جہاں ذکر آیا ہے خدا کے محامد بزرگیاں اور عجیب شان کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس سورہ کو جو یُسَبِّحُ لِلّٰہِ سے شروع فرمایا گیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے محامد اور انعامات اور احسانات اور فضل عظیم کا تذکرہ یہاں بھی موجود ہے ہر چیز جو زمین اور آسمان میں ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے یہ ایک بدیہی اور صاف مسئلہ ہے نادان دہریہ یا حقائق الاشیاء سے ناواقف سوفسطائی اس راز کو نہ سمجھ سکے تو یہ امر دیگر ہے مگر مشاہدہ بتا رہا ہے کہ کس طرح پر ذرہ ذرہ خدا تعالیٰ کی تقدیس اور تسبیح بیان کر رہا ہے دیکھو ایک لَو جو زمین سے نکلتی ہے بلکہ میں اس کو وسیع کر کے یوں کہہ سکتا ہوں کہ وہ پتّا جو بول وبراز میں سے نکلتا ہے کیسا صاف شفاف ہوتا ہے کیا کوئی وہم وگمان کر سکتا تھا کہ اس گندگی میں سے اس قسم کا لہلہاتا ہوا سبزہ جو آنکھوں کو طراوت دیتا ہے نکل سکتا ہے ؟ اس پتّا کی صفائی‘ نزاکت اور نظافت خود اس امر کی زبردست دلیل اور شہادت ہے کہ وہ اپنے خالق کی تسبیح کرتا ہے.اسی طرح پر ذرا اور بلند نظری سے کام لو اور دیکھو کہ انسان کے جس قدر عمدہ کام ہیں وہ روشنی میں کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے جتنے عجائبات ہیں وہ سب پردہ میں ہوتے ہیں اور پھر کیسے صاف کیسے دل خوش کن
اور اللہ کی تسبیح کرنے والے ہوتے ہیں ایک انار کے دانہ کو دیکھو کیسے انتظام اور خوبی کے ساتھ بنا یا گیا ہے کیا وہ دانہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح نہیں کرتا اسی طرح پرآسمان اور آسمان کے عجائبات اور اجرام کو دیکھو.نیچر کے عجائبات سے ناواقف توعجائبات نیچر کی ناواقفیت کی وجہ سے یہ کہہ دیتا ہے کہ فلاں امر خلاف نیچر ہے مگر میرا یقین یہ ہے کہ جس جس قدر سائنس اور دوسرے علوم ترقی کرتے جائیں گے اسی قدر اسلام کے عجائبات اور قرآن شریف کے حقائق اور معارف زیادہ روشن اور درخشاں ہوں گے اور خدا کی تسبیح ہوگی.غرض یہ سچی بات ہے کہ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے.ہر ایک ذرہ گواہی دیتا ہے کہ وہ خالق ہے اور اسی کی ربوبیت اور حیات اور قیومیت کے باعث ہر چیز کی حیات اور قائمی ہے اسی کی حفاظت سے محفوظ ہے.پھر یہ بھی کہ وہ اللہ المَلِک ہے وہ مالک ہے اگر سزا دیتا ہے تو مالکانہ رنگ میں اگر پکڑتا ہے تو جابرانہ نہیں بلکہ مالکانہ رنگ میں تا کہ ماخوذ شخص کی اصلاح ہو پھر وہ کیسا ہے؟ القدوس ہے اس کی صفا ت وحمد میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو نقصان کاموجب ہو بلکہ وہ صفاتِ کاملہ سے موصوف اور ہر نقص اور بدی سے منزّہ القدوس ہے قرآن شریف پر تدبّر نہ کرنے کی وجہ سے کہو یا اسماء الٰہی کی فلسفی نہ سمجھنے کی وجہ سے غرض یہ ایک بڑی غلطی پیدا ہو گئی ہے کہ بعض وقت اللہ تعالیٰ کے کسی فعل یا صفت کے ایسے معنے کر لئے جاتے ہیں جو اس کی دوسری صفات کے خلاف ہوتے ہیں اس لئے میں تمھیں ایک گُر بتاتا ہوں کہ قرآن شریف کے معنے کرنے میں ہمیشہ اس امر کا لحاظ رکھو کہ کبھی کوئی معنے ایسے نہ کئے جاویں جو صفاتِ الٰہی کے خلاف ہوں اسماء ِ الٰہی مد نظر رکھو اور ایسے معنے کرو اور دیکھو کہ قدوسیت کو بٹہ تو نہیں لگتا.لُغت میں ایک لفظ کے بہت سے معنے ہو سکتے ہیں اور ایک ناپاک دل انسان کلام الٰہی کے گندے معنے بھی تجویز کر سکتاہے اور کتابِ الٰہی پر اعتراض کر بیٹھتا ہے مگر تم ہمیشہ یہ لحاظ رکھو کہ جو معنی کرو اس میں دیکھ لو کہ خدا کی صفت قدوسیت کے خلاف تو نہیں ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے سارے کام حق وحکمت کے بھرے ہوئے ہوتے ہیں جس سے اس کی اور اس کے رسول اور عامۃ المؤمنین کی عزّت و بڑائی کا اظہار ہوتا ہے.(المنافقون:۹)مومنوں کو معزز کرتا ہے اور پھر
ان سے بڑھ کر اپنے رسولوں کو عزت دیتا ہے اور سچی عزت اور بڑائی حقیقی اللہ تعالیٰ ہی کو سزاوار ہے.غرض ہر قول وفعل میں مومن کو لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عزت کا خیال کرے کیونکہ وہ العزیز ہے.ظالم طبع انسان کی عادت ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک فعل سر زد ہوتا ہے تو وہ اس میں اپنی طرف سے نکتہ چینی کرنے لگتا ہے.آدم کی بعثت پر نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ کہنے والے اپنی کمی علم اور ناواقفی کی وجہ سے (البقرۃ:۳۱) پکار اٹھے مگر چونکہ یہ گروہ صاف طینت تھا آخر اس نے (البقرۃ:۳۳) کہہ کر اللہ تعالیٰ کے اس فعل خلافت آدم کو حکمت سے بھرا ہوا تسلیم کر لیا.مگر وہ لوگ جو خدا سے دُور ہوتے ہیں وہ عجائبات قدرت سے نا آشنا محض اور اسماء ِ الٰہی کے علم سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں وہ اپنے خیال اور تجویز کے موافق کچھ چاہتے ہیں جو نہیں ہوتا جیسا ہمارے سردار سرور عالم فخر بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر کہہ اٹھے (الزخرف:۳۲) یہ لوگ اللہ تعالی کو الحکیم نہیں مانتے ورنہ وہ اس قسم کے اعتراض نہ کرتے اور یقین کر لیتے کہ (الأَنعام:۱۲۵) اسی طرح شیعہ نے خلافت خلفاء پر بعینہٖ وہی اعتراض کیے جو کفارنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر کیئے.حکیم کے معنے ہی ہیں اپنے محل پر ایک چیز کو رکھنے والا اور مضبوط و محکم رکھنے والا.پھر اگر الحکیم صفت پر ایمان ہو تو بعثت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر انکار کر کے کیوں اپنے ایمان کو ضائع کرتے.غرض اللہ تعالیٰ یہاں بتاتا ہے کہ اس کے قول اور فعل میں سرا سر حکمت ہوتی ہے اس لئے اس کے انکار سے بچنے کے لئے یہی اصول ہے کہ اللہ تعالیٰ کو الحکیم مانو.پس جو کچھ زمین و آسمان میں ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں اس اللہ کی جو الملک ، القدوس ، العزیز ، الحکیم ہے زمین و آسمان کے تمام ذرات اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی ان صفات پر گواہ ہیں پس زمینی علوم یا آسمانی علوم جس قدر ترقی کریں گے خدا تعالیٰ کی ہستی اور ان صفات کی زیادہ وضاحت زیادہ صراحت ہوگی.میں اپنے ایمان سے کہتا ہوں کہ میں ہر گز ہر گز تسلیم نہیں کرتا کہ
علوم کی ترقی اور سائنس کی ترقی قرآن شریف یا اسلام کے مخالف ہے.سچے علوم ہوں وہ جس قدر ترقی کریں گے قرآن شریف کی حمد اور تعریف اس قدر زیادہ ہوگی.اس سورہ شریف کو ان پاک الفاظ سے شروع کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنا ایک انعام پیش کرتا ہے. (الجمعۃ:۳) اس اللہ نے جس کی تسبیح زمین و آسمان کے ذرا ت اور اجرام کرتے ہیں اور ہر شے جو ان میں ہے وہ اللہ جو اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ہے اُمّیوں میں (عربوںمیں)ان میں ہی کا ایک رسول ان میں بھیجا جو ان پر اللہ کی آیتیں تلاوت کرتا ہے اور ان کو پاک صاف کرتا ہے اور ان کو الکتاب اور الحکمۃ سکھاتا ہے اور اگرچہ وہ اس رسول کی بعثت سے پہلے کھلی کھلی اور خدا سے قطع تعلق کر دینے والی گمراہی میں تھے.۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مکّہ والوں میں اللہ تعالیٰ کی عزّت اور حمد کا ایک بیّن ثبوت ہے کیونکہ جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اہلِ دنیا اس رشتہ سے جو انسان کو اپنے خالق کے ساتھ رکھنا ضروری ہے بالکل بے خبر اور نا آشنا تھے.ہزاروں ہزار مشکلات اس رشتہ کے سمجھنے ہی میں پیدا ہو گئی تھیں اس کا قائم کرنا او رقائم رکھنا تو اور بھی مشکل تر ہو گیا تھا.کتبِ الٰہیہ اور صُحفِ انبیا علیہم السلام میں تاویلات باطلہ نے اصل عقائد کی جگہ لے لی تھی اور پھر ان کی خلاف ورزی مقدرت سے باہر تھی دنیا پر ستی بہت غالب ہوئی ہوئی تھی ان کے بڑے بڑے سجادہ نشین احبار اور رہبانوں کو اپنی گدیاں چھوڑنا محال نظر آتا تھا ، خد اتعالیٰ نے بڑے لوگوں کا ذکر کیا کیونکہ اس سے چھوٹوں کا خود اندازہ ہو سکتا تھا اگر ہم ایک نمبر دار کی حالت بیان کریں کہ ایک قحط میں اس پر فاقہ کشی کی مصیبت ہے تو اس سے چھوٹے درجہ کے زمیندار کا حال خود بخود معلوم ہو جاتا ہے.قرآن شریف نے نہایت جامع الفاظ میں فرما دیا ہے کہ (الرّوم:۴۲)جنگلوں اور سمندروں میں غرض ہر جگہ تری وخشکی پر فسا د نمودار ہو چکا ہے وہ جو اپنے آپ کو ابراہیم کے فرزند کہلاتے تھے
ان کی نسبت قرآن ہی نے خود شہادت دی ہے(التوبۃ:۸ ) ان میں اکثر لوگ فاسق تھے اور یہاں تک فسق وفجور نے ترقی کی ہوئی تھی کہ (المآئدۃ:۶۱) یہ اس وقت کے لکھے پڑھے علماء سجادہ نشین خدا کی کتاب مقدس کے وارث لوگوں کا نقشہ ہے کہ وہ ایسے ذلیل وخوار ہیں جیسے بندر وہ ایسے شہوت پرست اور بے حیا ہیں جیسے خنزیر.اس سے اندازہ کرو ان لوگوں کا جو پڑھے لکھے نہ تھے جو کتاب مقدس کے وارث نہ تھے جو موسیٰ کی گدی پر نہ بیٹھے ہوئے تھے پھر یہ تو ان کے اخلاق بد‘ عادات بد یا عزّت وذ ّلت کی حالت کا نقشہ ہے اگرچہ ایک دانشمنداخلاقی حالت اور عُرفی حالت کو ہی دیکھ کر روحانی حالت کا پتا لگا سکتا ہے مگر خود خدا تعا لیٰ نے بھی بتا دیا ہے کہ روحانی حالت بھی ایسی خراب ہو چکی تھی کہ وہ عبد الطاغوت بن گئے تھے یعنی حدودِ الٰہی کے توڑنے والوں کے عبد بنے ہوئے تھے ان کے معبود طاغوت تھے اب خیال کرو کہ اخلاق پر وہ اثر روح پر یہ صدمہ عزّت کی وہ حالت!یہ ہے وہ قوم جو (المآئدۃ:۱۹)کہنے والی تھی اس چھوٹے درجہ کی مخلوق کا خود قیاس کر لو.یہ نقشہ کافی ہے عقائد کے سمجھنے کے لئے یہ کافی ہے عزّت وآبروکے سمجھنے کے لئے کہ جو بندر کی عزّت ہوتی ہے.پھر یہ نقشہ کافی ہے اخلاق کے معلوم کرنے کے لیے جو خنزیر کے ہوتے ہیں کہ وہ سارا بے حیائی اور شہوت کا پتلا ہوتا ہے.جب ان لوگوں کا حال میں نے سنایا جو کہتے اور ابراہیم کے فرزند کہلاتے تھے تو عیسائیوں پر اسی کا قیاس کر لو.ان کے پاس تو کوئی کتاب ہی نہ رہی تھی اور کفّارہ کے اعتقاد نے ان کو پوری آزادی اور اباحت سکھادی تھی اور عربوں کا حال تو ان سب سے بدتر ہوگا جن کے پاس آج تک کتاب اللہ پہنچی ہی نہ تھی اور پھر یہ خصوصیت سے عرب ہی کا حال نہ تھا ایران میں آتش پرستی ہوتی تھی.سچے خدا کو چھوڑ دیا ہوا تھا اور اہرمن اور یزداں دو جُدا جُدا خدا مانے گئے تھے.ہندوستان کی حالت اس سے بھی بدتر تھی جہاں پتھروں ،درختوں تک کی پوجا اور پرستش سے تسلی نہ پا کر آخر عورتوں اور مردوں کے شہوانی قویٰ تک کی پرستش جاری ہو چکی تھی.غرض جس طرف نظر اٹھا کر دیکھو جدھر نگاہ دوڑاؤ.دنیا کیا بلحاظ اخلاق فاضلہ کیا بلحاظ عبادات اور
معاملات ہر طرح ایک خطرناک تاریکی میں مبتلا تھی اور دنیا کی یہ حالت بالطبع چاہتی تھی کہ ع مردے ازغیب بروں ا ٓید وکارے بکند چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے ایک رسول کو عربوں میں مبعوث کیا جیسا کہ فرمایا یہ رسول صرف عربوں ہی کے لئے نہ تھا باوصفیکہ عربوں میں مبعوث ہوا بلکہ اس کی دعوت عام اور کل دنیا کے لئے تھی جیسا کہ اس نے دنیا کو مخاطب کر کے سنایا.(الأَعراف:۱۵۹) اے لوگو !میں تم سب کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں اور پھر ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (الأنبیآء :۱۰۸) یعنی ہم نے تم کو تمام عالموں پر رحمت کے لئے بھیجا ہے اسی لئے وہ شہر جہاں سرور عالم فخر بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہور پایا وہ اُمُّ القریٰ ٹھہر ااور وہ کتاب مبین جس کی شان ہے(البقرۃ:۳) وہ اُم الکتب کہلائی اور وہ لسان جس میں اُم الکتب اتری وہ اُم الالسنہ ٹھہری.یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل تھا جو آدم زاد پر ہوا اور بالخصوص عربوں پر اس رسول نے آکر کیا؟ پہلا کام یہ کیا کہ ان پر خدا کی آیات پڑھ دیں پھر نرے پڑھ دینے سے تو کچھ نہیں ہو سکتا اس لئے دوسرا کام یہ کیا ان کو پاک صاف کیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر عظیم شان اور بلند مرتبہ ہے دوسرے کسی نبی کی بابت یہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی قوتِ قدسی اور قوتِ تاثیر کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ نے عربوں اور دوسری قوموں پر کیا اثر ڈالا.عرب کی تاریخ سے جو لوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر اس کی کایا پلٹ دی ان کے اخلاق، عادات اور ایمان میں ایسی تبدیلی کی جو دنیا کے کسی مصلح اور ریفارمر کی قوم میں نظر نہیں آتی.جو شخص اس ایک ہی امر پر غور کرے گاتو اسے بغیر کسی چون وچرا کے ماننا پڑے گاکہ ہمارے سیّد ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوت قدسی اور
تاثیر قوی اور افاضہء ِ برکات میں سب نبیوں سے بڑھ کر اور افضل ہیں اور یہی ایک بات ہے جو قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت دوسری تمام کتابوں اور نبیوں کے مقابلہ میں بدیہی الثبوت ہے.عیسائیوں نے حضرت مسیح کی شان میں غلو تو اس قدر کیا کہ ( باوجود یکہ وہ اپنی عاجزی اور بیکسی کا ہمیشہ اعتراف کرتے رہے اور کبھی خدائی کا دعویٰ نہ کیا) ان کو خدا بنا دیا لیکن اگر ان سے پوچھا جاوے کہ اس خدا نے دنیا میں آکر کیا کیا ؟ تو میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ کوئی قابلِ اطمینان جواب اس قوم کے پاس نہیں ہے.یہ ہم مانتے ہیں کہ جب مسیح آئے اس وقت یہودیوں کی ایمانی اور اخلاقی حالت بہت ہی گری ہوئی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے اخلاق اور عادات اور ایمان میں کیا تبدیلی کی؟جبکہ وہ اپنے حواریوں کا بھی کامل طور پر تزکیہ نہ کر سکے تو اوروں کو تو کیا فیض پہنچتا.یہی موجودہ انجیل جو اس قوم کے ہاتھ میں ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ چند لالچی اور ضعیف الایمان آدمیوں کے سوا وہ کوئی جماعت جو اپنے تزکیہء ِ نفس میں نمونہ ٹھہر سکے دنیا کے سامنے پیش نہ کرسکے جو ہمیشہ اپنے مرشد وامام کے ساتھ بے وفائی کرتے رہے.حتی کہ بعض ان میں سے اس کی جان کے دشمن ثابت ہوئے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن شریف نے دعوٰی کیا ہےاور اس دعویٰ کا ثبوت بھی دیا جبکہ ان میں حیرت انگیز تبدیلی پیدا کردی وہ قوم جو بُت پرستی میں غرق تھی وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُکہنے والی ہی ثابت نہیں ہوئی بلکہ اس توحید کو جوش اور صدق سے انہوں نے قبول کیا کہ تلواروں کے سایہ میں بھی اس اقرار کو نہیں چھوڑا.ملک ومال احباب رشتہ داروں کو چھوڑنا منظور کیا مگر اس چھوڑی ہوئی بُت پرستی کو پھر منظور نہ کیااپنے سیّد ومولیٰ رسول کے ساتھ وہ وفا داری اور ثباتِ قدم دکھایا جس کی نظیر دنیا کی کوئی قوم پیش نہیں کر سکتی یہاں تک کہ غیر قوموں کو بھی اس کا اعتراف کرنا پڑا.یہ واقعات ہیں جن کو کوئی جھٹلانہیں سکتا اس لیے مجھے ضرورت نہیں کہ میں ان پر کوئی لمبی بحث کروں میرا مطلب اور مدّعا صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ دوسرا کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا کہ ان کا تزکیہ کیا کہ ان کی حالت یہاں تک پہنچی(بنی اسرائیل:۱۱۰) وہ روتے
ہوئے ٹھو ڑی کے بل گر پڑتے ہیں اوران کو فروتنی میں ترقی ملتی ہے اور (الفرقان :۶۵)اپنے خدا کے سامنے سجدہ اور قیام میں رات کاٹ دیتے ہیں (السجدۃ:۱۷) راتوں کو اپنی خوابگاہوں اور بستروں سے اُٹھ اُٹھ کر خوف اور اُمید سے اپنے ربّ کو پکارتے ہیں پھر یہاں تک ان کا تزکیہ کیا کہ آخر(المجادلۃ:۲۳)کی سند ان کو مل گئی کسی ہادی اورمصلح کی ایسی سچی تاثیر اور تزکیہ کا پتہ دو.میں نے ہزاروں ہزار کتابیں پڑھی ہیں اور دنیا کے مختلف مذاہب کو ٹٹولا اور تحقیق کیا ہے میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی حیرت انگیز تبدیلی کوئی ہادی ، پیغمبر ، نبی ، رسول اپنی قوم میں نہیں کر سکا جو ہماری سرکار نے کی ہے اللّٰھم صل علی محمد وعلی اٰل محمد وبارک وسلم.یہ چھوٹی سی بات نہیں یہ بہت بڑی عظیم الشان بات ہے.اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی اور تاثیر افاضہ برکات کا ایک زندہ نمونہ موجود ہے جس سے آپ کی شان اور ہمت اور علو مرتبت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ تیرہ سو سال کے بعد بھی اپنی تاثیر یں ویسی ہی زبردست اور قوی رکھتا ہے جس سے ہم ایک اربعہ متناسبہ کے قاعدہ سے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اس کی تاثیریں ابدی ہیں اور وہ ابد ا لآباد کے لئے دنیا کا ہادی اور رسول ہے.اس وقت ہمارا امام زندہ نمونہ ہے ان برکات اور فیوض کا جس نے آکر ان فیوض اور برکات اور قدسی تاثیروں کا ثبوت دیا ہے جو صحابہ کی کامیاب قوم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فیض صحبت سے ہوئیں اگر دنیا میں کسی اور نبی کے برکات اور فیوض اس قسم کے ہیں تو پھر ان کے ماننے والوں کو چیلنج کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنی قوم کا تزکیہ کیا تھا تو اس کے ثبوت کے لئے آج کوئی مزکّینفس پیش کرو.اوروں کو جانے دو یسوع مسیح کو خدا بنانے والی قوم اس کی خدائی کا کوئی کرشمہ اب ہی دکھائے مگر یہ سب مُردہ ہیں جو ایک مُردہ کی پرستش کرتے ہیں اس لئے وہ زندوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے غرض دوسرا کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تھا کہ وہ آیات جو آپ نے پڑھ کر سنائیں اپنے عمل سے اور اس کی تاثیروں سے بتا دیا کہ اس کا منشا کیا ہے؟ منشا بھی بتا دیا اور عمل کرا کر بھی دکھا دیا.کیونکہ کتاب کا پڑھنا اور اس کے مطالب و منشا سے آگاہ کر دیناکوئی بڑا کام نہیں جب تک کوئی
کوئی ایسی بات نہ ہو کہ عمل کرنے کی روح پیدا ہو جاوے کتاب کا پڑھنا بھی ضائع ہوجاتا ہے جبکہ کوئی سننے کے لئے تیار نہیں.جب تک پڑھنے والا خود نہیں سمجھتا دوسروں کو سمجھا نہیں سکتا اس لئے نہایت ضروری ہے کہ پہلے تعلیماتِ صحیحہ آجاویں پھر ان کو پہنچایا جاوے اور سمجھا یا جاوے کہ کیسے عمل درآمد ہوتا ہے یا خود کر کے دکھایا جاوے.یہ ضروری مرحلہ ہے غور کر کے دیکھو کہ کیا یہود کے سامنے ایک بڑا بھاری انبار کتاب کا نہ تھا؟ کیامجوس کے پاس کتابیں نہ تھیں؟ کیا عیسائی اپنی بغل میں کتابِ مقدس مارے نہ پھرتے تھے؟ اور کیا ان میں عمدہ باتیں بالکل نہ تھیں؟ تھیں اور ضرور تھیں مگر ان میں اگر کچھ نہ تھا تو صرف یہی نہ تھا کہ ان پر عمل کرا دینے والا کوئی نہ تھا جب تک ایک روح اس قسم کی نہ آوے جو انسان کو مزکّیبناوے.اس وقت تک انسان ان تعلیمات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.۲؎ میں بیرونی مذاہب کو چھوڑ کر اندرونی فرقوں کی طرف توجہ کرتا ہوں کیا یہی قرآن شریف جو ہمارے سرور عالم سیّدِ وُلْدِ آدم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اس وقت سنیوں ، شیعوں ، خوارج اور اور بہت سے فرقوں کے پاس نہیں ہے ؟ کیا واعظ، امام، قاری اور دوسرے لوگ ان میں نہیں ہیں ؟ مگر سب دیکھیں اور اپنی اپنی جگہ غور کریں کہ کیا اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ؟ یہ سچی بات ہے کہ جب تک کوئی مزکّینہ ہو تو تعلیمات سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے.یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خیر القرون قرنی (تفسیرکبیررازی سورۃ التوبہ آیت ۱۰۰)یہ صدی جس میں میں ہوں بڑی خیر وبرکت کی بھری ہوئی ہے اور حقیقت میں وہ صدی بڑی ہی بابرکت تھی کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس میں موجود تھے اور آپ کی وساطت سے لوگ تزکیہ سے متمتع ہوتے تھے.پھر آپ نے فرمایا کہ دوسری صدی بھی اس پہلی کی طرح خیر وبرکت والی ہو گی اور پھر تیسری پر بھی اس پہلی کا اثر پڑے گا مگر اس کے بعد جھوٹ پھیل جائے گا.اب غور طلب یہ امر ہے کہ کیا قرآن شریف اس چوتھی صدی میں نہ رہا تھا جس میں جھوٹ کے پھیلنے کی آپ نے پیشگوئی فرمائی کیا تعامل اور حدیث ان میں نہ تھی ؟ پھر وہ کیا بات ہے جو یفشوا الکذب(سنن ترمذی کتاب الفتن باب لزوم الجماعۃ حدیث نمبر۲۱۶۵) کہا.بات اصل یہی ہے کہ وہ مزکّیان میں نہ رہا.مزکّی کو اٹھے ہوئے تین سو سال گزر گئے بہت سے نادانوں نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ ہم
مہدی یا مسیح یا امام کی کیا ضرورت رکھتے ہیں جبکہ دلائل سے نتائج تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر امام کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے ان سے پوچھا ہے کہ اگر تمہیں امام کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو اتنا بتاؤ کہ کتاب کی موجودگی میں معلّم کی کیا ضرورت ہوتی ہے ؟ اگر کہو بولی کے لئے ضرورت ہے تو پھر میں کہتا ہوں اچھا بولی سمجھتے ہو ؟ ایک عمدہ پڑھا ہوا آدمی جس نے قرآن کو خوب پڑھا ہے اور فرض کرو وہ قاری بھی ہو وہ اپنی جان پر تجربہ کر کے صاف صاف بتاوے کہ گھر میں لمبی قراء ت کی نمازیں کس قدر پڑھتا ہے ؟ اور باہر کس قدر؟ جس قدر جماعت میں التزام کیا جاتا ہے کیا گھر میں بھی ویسا ہی التزام کیا جاتا ہے؟ لیکن جب دیکھا جاتا ہے کہ باوصفیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب نماز پڑھائے تو امام کو چاہیے کہ مقتدیوں کا لحاظ کرلے ان میں کوئی ضعیف ہے کوئی بیمار ہے وغیرہ اس لئے ان کے لحاظ پر چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھے لیکن تنہائی میں نمازوں کو لمبا کرے مگر غور کر کے دیکھ لو کہ معاملہ بالکل اس کے برخلاف ہے اور قضیہ بالعکس ہے میں نے بہت ٹٹولا ہے اور دیکھا ہے کہ جبکہ یہ حدیث صحابہ تک پہنچتی ہے اور کذب کا کوئی احتمال نہیں رہتا تو پھر عمل درآمد کا نہ ہونا صریح اس امر کی دلیل ہے کہ ایک قوت اور کشش کی ضرورت ہے جو نہیں پائی جاتی.ریل گاڑی کی گاڑیوں کو دیکھو اگر ان میں باہم زنجیروں کے ذریعہ پیوند بھی قائم کیا گیا ہو لیکن سٹیم انجن ان کو کھینچنے والا نہ ہو تو کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ وہ گاڑیاں باہم ملاپ کی وجہ سے ہی چل نکلیں گی؟ ہر گز نہیں اس سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ نرا اتحاد بھی کچھ نہیں کر سکتا جب تک اس وحدت کے مفاد سے متمتع کرنے والاکوئی نہ ہو.غرض ہر حال میں ایک امام کی ضرورت ثابت ہوتی ہے اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا کہ وَجو کچھ آپ فرماتے اور تلاوت کرتے وہی کر کے بھی دکھا دیتے اور اپنے عمل سے اس کو اور بھی مؤثر بنا دیتے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ واعظ اگر خود کہہ کر عمل کرنے والا نہ ہو تو اس کا وعظ بالکل بے معنی اور فضول ہو جاتا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی لئے مزکّیٹھہرے کہ آپ جو تعلیم دیتے تھے پہلے خود کر کے دکھا دیتے تھے پانچ وقت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور خود پڑھ کر دکھا دی.دیکھو امام کو کس قدر التزام کرنا پڑتا ہے پھر آپ پانچوں نمازوں کے خود امام ہو ا کرتے
تھے اس سے قیا س کر لو کہ آپ کو کس قدر التزام کرنا پڑتا تھا پھر ان پانچوں نمازوں کے علاوہ تہجد اور دوسرے نوافل بھی پڑھتے اور بعض وقت تہجد میں اتنی اتنی دیر تک اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے رہتے کہ آپ کے پائے مبارک متورّم ہو جاتے جس سے آپ کا یہ التزام بھی پایا جاتا ہے کہ عام اور فرض نمازوں سے زیادہ بوجھ آپ نے اپنے اوپر رکھا ہوا ہے.پھر روزہ کی تعلیم دی آپ نے ہفتہ میں دوبار مہینہ میں تین روزے اور سال بھر میں معیّن مہینہ روزے رکھ کر دکھا دئیے اور شعبان او ر شوال بھی روزے رکھا کرتے گویا قریباً چھ مہینے سال میں روزے رکھ کر بتا دیئے.حج کر کے دکھا دیا خُذُوْا عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ (تفسیر کبیررازی.سورۃ البقرہ آیت ۱۵۹)پھر زکوٰۃ کی تعلیم دی.زکوٰۃ لے کر اور خرچ کر کے دکھا دی اسی طرح جو تعلیم دی اسے خود کر کے دکھا دیا جس سے تزکیہء ِنفوس ہوا.ایک طرف تلاوت آیات کرتے تھے اور دوسری طرف تزکیہء ِ نفوس کرتے تھے.امام ابوحنیفہ ابھی امام نہ تھے مگر نماز روزہ حج زکوٰۃ کے مسائل جانتے تھے امام بخاری بھی امام ہونے سے پہلے نماز روزہ کرتے تھے ؟ کیوں اس لئے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تعامل سے سب کچھ پہلے ہی سکھا دیا ہوا تھا اگر ایک بھی حدیث دنیا میں قلم بند اور جمع نہ کی جاتی تب بھی یہ مسائل بالکل صاف تھے.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل کے لئے مزکّی کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ بڑی بڑی کتابوں والے عبدالطاغوت ہو جاتے ہیں اور جب یہ حالت پیدا ہوتی ہے اور قوم کے دماغ اور دل (علماء اورمشائخ) کی حالت بگڑ جاتی ہے اس وقت وہ مزکّیآتا ہے اور اصلاح کرتا ہے.جب قوم اور ملک ضلالِ مبین میں پھنس جاتا ہے تو ایک انسان خدا سے تعلیم پاکر آتا ہے جو قوم کو نجات دیتا ہے اور تزکیہء ِ نفس کرتا ہے.خیالی ریفارمروں اور جھوٹے دعویداروں اور خدا تعالیٰ کے مامورو مرسلوں میں بھی امتیاز اور فرق یہی ہوتا ہے کہ اول الذکر کہتے ہیں پر کر کے نہیں دکھاتے اور تزکیہء ِ نفس نہیں کر سکتے مگر خدا کے مامور اور مرسل جو کہتے ہیں وہ کر کے دکھاتے ہیں جس سے تزکیہء ِ نفس ہوتا ہے ان کے قلوب صافیہ سے جو کچھ نکلتا ہے وہ دوسروں پر مؤثر ہوتا ہے ان میں جذب اور اثر کی قوت ہوتی ہے جو دنیا دار ریفارمر وں میں نہیں ہو سکتی اور نہیں ہوتی اور نہیں ہوئی.پس اس نافہم کے سوال کا جواب اس سے بخوبی حل ہو سکتا ہے جوکہتا ہے کہ کسی کے آنے کی کیا
ضرورت ہے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مامور کے آنے کا وقت صاف بتا دیا ہے جبکہ فرمایا.ٍ اس کی آمد اور بعثت سے پہلے ایک کھلی گمراہی پھیلی ہوئی ہوتی اور میں نے ابھی تمہیں بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے دنیا کی کیا حالت تھی اور پھر کس طرح آپ نے آکر اس کی اصلاح کی اور تزکیہء ِ نفوس فرمایا.جو لوگ علم تاریخ سے واقف ہیں ان پر یہ امر بڑی صفائی کے ساتھ منکشف ہوسکتا ہے اس سے بڑھ کر تزکیہء ِ نفوس کا کیا ثبوت مل سکتا ہے کہ آپ نے کوئی موقع انسان کی زندگی میں ایسا جانے نہیں دیا جس میں خدا پرستی کی تعلیم نہ دی ہو.میں ایک چھوٹی سی اور معمولی سی بات پیش کرتا ہوں پاخانہ کے لئے جانا ایک طبعی تقاضا اور ضرورت ہے میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس وقت کے لئے کسی ہادی اور مصلح نے کوئی تعلیم انسان کو نہیں دی مگر ہمارے ہادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بھی انسان کو ایک لطیف اور بیش قیمت سبق خدا پرستی کا دیا ہے جس سے آپ کے ان تعلقات محبت کا جوخدا سے آپ کے لئے تھے صاف پتا لگ سکتا ہے اور یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ انسان کو کس بلند رتبہ پر پہنچانا چاہتے تھے چنانچہ آپ نے اس وقت تعلیم دی ہے اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ (صحیح البخاری، کتاب الوضوء ،باب ما یقول عند الخلاء )یعنی جس طر ح پر ان گندگیوں کو تو نکالتا ہے دوسری گندگیوں سے جو انسان کی روح کو خراب کرتی ہیں بچا.جیسے پاخانہ جاتے وقت دُعا تعلیم کی ویسے ہی پاخانہ سے نکلتے وقت سکھایا ہے غُفْرَانَکَ (سنن ترمذی ،ابواب الطھارۃ،باب ما یقول إذا خرج من الخلاء).غور تو کرو کہ کس قدر تزکیہ نفس کا خیال ہے حضرت ابو الملۃ ابوالحنفاء ابراہیم علیہ السلام اپنی دُعا میں کہتے ہیں (البقرۃ :۱۳۰) پھر اگر مزکّی کی ضرورت نہ تھی تو اس دُعا کی کیا ضرورت.تلاوت کو اس لئے مقدم رکھا ہے کہ علم تزکیہ کے مراتب سکھاتا ہے اور تزکیہ کو بعد میں اس لئے رکھا ہے کہ بدوں تزکیہ علم کام نہیں آتا اس لئے کتاب کے بعد تزکیہ کا ذکر کر دیا.اور چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خیر القرون قرنی(تفسیرکبیررازی
سورۃ التوبہ آیت ۱۰۰) اور پھر دوسری اور تیسری صدی کو خیر القرون کہا اس کے بعد فرمایا کہ ثُمَّ یَفْشُوا الْکَذِبَ (سنن ترمذی کتاب الفتن باب لزوم الجماعۃ حدیث نمبر۲۱۶۵) اب ایک نادان اور خدا کی سنت سے ناواقف کہہ سکتا ہے کہ آپ کی قوت قدسی معاذ اللہ ایسی کمزور تھی کہ تین صدیوں سے آگے مؤثر نہ رہی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے کو ر باطن کے جواب کے لئے فرمایا. آپ کی قوتِ قدسی ایسی مؤثر اور نتیجہ خیز ہے کہ تیرہ سو سال کے بعد بھی ویسا ہی تزکیہ کر سکتی ہے چنانچہ کا وعدہ فرمایا.یعنی ایک اور قوم آخری زمانہ میں آنے والی ہے جو بلا واسطہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض اور برکات حاصل کرے گی اور ایک بار اور ہم اسی رسول کی بعثت بروزی کریں گے وہ بعثت بھی اسی کے ہم رنگ ہوگی جو کے وقت تھی.احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ اُمت کے اعمال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا ئے جاتے ہیں.پس سوچو کیسی تڑپ آپ کو پیدا ہوئی ہوگی جب آ پ کو بتایا گیا ہوگا کہ اس قسم کے حاشیے چڑھائے جاتے ہیں جن سے امر حق کو شنا خت کرنا قریباً محال ہوگیا ہے اور وہ باتیں داخل اسلام کر لی گئی ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق اور واسطہ نہ تھااس لئے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ اس معلّم کو دوبارہ بھیج دیں گے کی بعثت کریں گے اس کی توجہ ان پر ڈالیں گے جو کے مصداق ہیں یعنی ابھی نہیں آئے آنے والے ہیں.۳؎ یہ سنّت اللہ اور استمراری عادت اللہ ہے کہ جب دنیا میں بدی پھیلتی ہے بدی کیسی !لکھے پڑھے بھی بندر سؤر اور عبد الطاغوت ہو جاتے ہیں خدا کا خوف دلوں سے اٹھ جاتا ہے اور انسانیت مسخ ہو کر حیوانیت اور بہیمیت سی ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل وکرم سے تباہ شدہ مخلوق کی دستگیری کے لئے ایک مامور دنیا میں بھیجتا ہے جو آکر ان کی گم شدہ متاع پھر ان کو دیتا ہے اورخبیثوں اور طیب لوگوں میں امتیاز ہوجاتا ہے اس قاعدہ کو مدِّنظر رکھ کر صاف اشارہ ملتا ہے کہ خدا تعالیٰ کس وقت معلّم اور مزکّیکو بھیجتا ہے اس کی شناخت کا کیا طریق اور نشان ہو نا چاہئے ؟ یہ بڑی بھاری غلطی پھیلی ہوئی ہے کہ جب کوئی مامور دنیا میں آتا ہے تو ناواقف اور نادان انسان اپنی کمزور خیالی کے پیمانہ اور
معیار سے اس کو پر کھنا چاہتے ہیں حالانکہ اس کو پر کھنے کے لئے وہ معیار اختیار کرنا چاہئے جو راستبازوں کے لئے ہمیشہ ہوتا ہے.گورداسپور میں ایک موقع پر ایک شخص حضرت امام علیہ السلام کے متعلق مجھ سے کچھ سوال کرنے آیا میں نے جب اس سے یہ کہا کہ تم وہ معیار پیش کرو جس سے تم نے دنیا میں کسی کو راستباز مانا ہے تو وہ خاموش ہی ہو گیا اور سلسلہ کلام کو آگے نہ چلا سکا.یہ بڑ ی پکی اور سچی بات ہے کہ راستباز ہمیشہ ایک ہی معیار سے پرکھے جاتے ہیں اور ان میں کوئی نرالی اور نئی بات نہیں ہوتی چنانچہ ہمارے ہادی کامل فخر بنی آدم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشادِ الٰہی یوں ہوا (الأَحقاف:۱۰)کہہ دے میں کوئی نیا رسول دنیا میں نہیں آیا دنیا میں مجھ سے پہلے رسول آتے رہے ہیں تم نے اگر کسی کو راستباز اور صادق مانا ہے تو جس قاعدہ اور معیار سے مانا ہے تو وہی قاعدہ اور معیار میرے لئے بس ہے.میں نے قرآن شریف کے اس استدلال کی بنا پر بارہا ان لوگوں سے جو حضرت میرزا صاحب کے متعلق سوال اور بحث کرتے ہیں پوچھا کہ تم نے کبھی کسی کو دنیا میں راستباز اور صادق تسلیم کیا ہے یا نہیں ؟ اگر کیا ہے تو وہ ذریعے اور معیار کیا تھے؟ جن ذریعوں سے تم نے صادق تسلیم کیا ہے پھرمیرا ذمہ ہوگا کہ اس معیار پر اپنے صادق امام کی راستبازی اور صداقت ثابت کردوں.میں نے بارہا اس گُر اور اصول سے بہتوں کو لاجواب اور خاموش کرایا ہے اور یہ میرا مجرب نسخہ ہے اس راہ سے اگر چلو تو تم تمام مباحث کا دو لفظوں میں فیصلہ کر دو.گورداسپور کا جو واقعہ میں نے بیان کیا ہے جو لوگ میرے ساتھ تھے انہوں نے دیکھا ہے کہ باوجود یکہ سوال کرنے والا بڑاچلبلا اور چالاک آدمی تھا مگر میرے اس سوال پر وہ کچھ بھی نہ کہہ سکا بعض آدمیوں نے اس کو کہا بھی کہ تم کسی کا نام لے دو اس نے یہی کہا کہ میں نام لیتاہوں تو مرتا ہوں (یعنی ماننا پڑتا ہے اور لاجواب ہوں گا) غرض یہ ایک سنّت اللہ ہے خدا کا اٹل قانون ہے کہ جب دنیا پر ضلالت کی ظلمت چھا جاتی ہے اور یہ بے دینی اور فسق وفجور کی رات اپنے انتہا تک پہنچ جاتی ہے تو اسی قانون کے موافق جو رات دن دیکھتے ہیں کہ رات کے آخری حِصّہ میں آسمان پر صبح صادق کے وقت روشنی کے آثار نظر
آنے لگتے ہیں کوئی آسمانی نور اترتا ہے اور دنیا کی ہدایت اور روشنی کا موجب ٹھہرتاہے.اسی طرح پر ہم دیکھتے ہیں کہ جب امساکِ باراں حد سے گذرتاہے جس کا نام عام لوگوں نے ہفتہ رکھا ہے کہ سات سال سے زیادہ نہیں گذرتا تو سمجھنے والا سمجھتا ہے کہ اب بارش ضرور ہوگی.اس قسم کے نشانات خدا تعالیٰ کے ایک اٹل اور مستقل قانون کا صاف پتہ دیتے ہیں اگر آنکھ بالکل بند نہ ہو اگر دل بالکل سویا ہوا نہ ہو تو اس بات کا سمجھ لیناکہ روحانی نظام بھی اسی طرح واقع ہے کچھ مشکل نہیں مگر یہ آنکھ کی بصیرت اور دل کی بیداری بھی اللہ تعالیٰ ہی کے فضل پر موقوف ہے میں غور کرتے کرتے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مامور من اللہ اور راستباز کی شناخت کے لئے ہر قسم کے دلائل مل سکتے ہیں انفسی اور آفاقی دونوں قسم کے دلائل ہوتے ہیں یعنی اندرونی اور بیرونی دلائل.اندرونی دلائل میں سے ایک عقل بھی ہے پھر اس کے ساتھ نقل کا پتہ لگا سکتے ہیں اور اسے سمجھ سکتے ہیں اگر اپنی عقل یا نقل کافی نہ ہو تو دوسرے عقیل اور فہیم لوگو ں سے سن کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں.بارہا میرے دل میں یہ سوال پیداہوا ہے کہ عقل مقدم ہے یا نقل اور کیا ان دونوں میں کوئی تعارض اور تناقض تو نہیں ؟ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ سماعی چیزوں پر بھی عقل فیصلہ دیتی ہے جیسے فرمایا گیا ہے. (الملک:۱۱) اور پھر عقل صریح اور نقل صحیح میں ہر گز کوئی تعارض نہیں ہوتا دونوں کا ایک ہی فیصلہ ہے اور عقل مقدم ہے کیونکہ انسان مکلّف نہیں ہو سکتا جب تک سوچنے اور سمجھنے نہ لگے.پس اب ہم اس مدّعی کے دعویٰ کے امتیاز کے لئے عقلی اور نقلی دلائل سے اگر فیصلہ چاہیں تو یقیناً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ واقعی یہ خدا کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے.عقل سے پہلے ہمیں یہ معلوم کرنا ہو گا کہ کیا اس وقت کسی کے آنے کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ تو جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں خدا تعالیٰ کا مستقل اور اٹل قانون ہمیں بتاتاہے کہ اس کی طرف سے ایسے وقت پر مامور آتے ہیں اور آنے چاہئیں ؟ اور پھر جب ہم نقل سے اس کا موازنہ کرتے ہیں تو عقل صحیح ہم کو بتاتی ہے کہ یہ وقت خدا کے ایک مامور کے آنے کا ہے تمام کشوف اور
رؤیا اور الہام اس بات پر شہادت دیتے ہیں کہ مسیح موعود اور مہدی کا زمانہ چودھویں صدی سے آگے نہیں ہر صدی پر مجدد کے آنے کا وعدہ بجائے خود ظاہر کرتا ہے کہ ایک عظیم الشان مجدد اس وقت ہونا چاہئے اور چونکہ صلیبی فتنہ کثرت سے پھیلا ہوا ہے اس لئے اس صد ی کے مجدد کا نام بہر حال کاسر الصلیب ہی ہوگا خواہ وہ کوئی ہو اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوںمیں کاسر الصلیب جس کا نام رکھا گیا ہے وہ وہی ہے جس کو دوسرے الفاظ میں مسیح موعود کہا گیا ہے اور اسی طرح سے خدا تعالیٰ کے پاک کلام پرجب ہم نگاہ کرتے ہیں تو اور بھی صفائی کے ساتھ یہ با ت کھل جاتی ہے کہ اس نے وعدہ کیا کہ اسی اُمت میں سے خلفاء کا ایک سلسلہ اسی نہج اور اسلوب پر قائم ہوگا جیسے بنی اسرائیل میں ہوا اور پھر یہ بھی کھول کر بیان کیا گیا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وعدہ اور پیشگوئی کے موافق جو استثنا کے باب میں کی گئی تھی مثیل موسیٰ ہیں اور قرآن نے خود اس دعویٰ کو لیا (المزّمل :۱۶) اب جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ٹھہرے اور خلفاء موسویہ کے طریق پر ایک سلسلہ خلفائے محمدیہ کا خدا تعالیٰ نے قائم کرنے کا وعدہ کیا جیسا کہ سورہ نور میں فرمایا (النّور :۵۶)پھر کیا چودھویں صدی موسوی کے مقابل پر چودھویں صدی ہجری پر ایک خلیفہ کا آنا ضروری تھا یا نہیں ؟ اگر انصاف کو ہاتھ سے نہ دیا جاوے اور اس آیت وعدہ کے لفظ کَمَاپر پورا غور کر لیا جاوے تو صاف اقرار کرنا پڑے گا کہ موسوی خلفاء کے مقابل پر چودھویں صدی کا خلیفہ خاتم الخلفاء ہوگا اور وہ مسیح موعود ہوگا.اب غور کرو کہ عقل اور نقل میں تناقض کہاں ہوا؟ عقل نے ضرورت بتائی نقل صحیح بھی بتاتی ہے کہ اس وقت ایک مامور کی ضرورت ہے اور وہ خاتم الخلفاء ہو گا اس کا نام مسیح موعود ہونا چاہئے.پھر ایک مدّعی موجود ہے وہ بھی یہی کہتا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں اس کے دعویٰ کو راستبازوں کے معیار پر پرکھ لو.میں اب ایک اور آسان ترین بات پیش کرتا ہوں جو عقل اور نقل
کی رو سے اس امام کی تصدیق کرتی ہے قرآن شریف میں چاند اور سورج کی سنّت کے متعلق فرمایا ہے (یونس:۶)سورج اور چاند کے نظام اور قانون پر نظر کر کے بہت سے حساب سمجھ سکتے ہو جنتریاں بنا سکتے ہو جیسے دو اور دو چار ایک یقینی بات ہے اسی طرح پر یہ نظام بھی حق ہے اب اگر کوئی شخص میرزا صاحب کے دعویٰ کے متعلق پہلے دعویٰ کے وقت نقل صحیح سے کام لیتا تو یہ عقیدہ کیسی آسانی سے حل ہو جاتا تھاتیرہ سو برس پیشتر کہا گیا تھا کہ اس مہدی کے وقت رمضان میں کسوف اور خسوف ہوگا اور اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا.ُبت پرست قوم بھی سال سے پہلے جنتری لکھ دیتی ہے.مسلمانوں کو غیرت کرنی چاہئے تھی اور معلوم کرنا چاہئے تھا کہ کس سال میں اجتماع ممکن ہے ؟ ہندو جاہل جب پتری بنا کر کسوف خسوف کے پتے دیتا ہے تو ایک مسلمان کو جس کی کتاب میں لکھا ہے سوچنا چاہئے تھا کہ وہ وقت کب ہوگا اور جب اسے وقت کا پتا ملتا تو وہ تلاش کرتا کہ مدّعی ہے یا نہیں؟ اگروہ مدّعی کو پالیتا تو سوچ لیتا کہ آسمان کی بات میرے یا کسی کے تعلق میں نہیں ہے نقل میں موجود ہے کہ اس کے وقت کسوف خسوف ہوگا اور عقل بتاتی ہے کہ یہ اجتماع کسوف خسوف کا فلاں وقت ہوگا اور وہ وقت آ گیا ہے اور مدّعی موجود ہے جب ان امور پر غور کرتا تو بات بالکل صاف تھی اور وہ مان سکتا تھا اور بڑی سہل راہ سے سمجھ سکتا تھا اگر اتنی عقل اور سمجھ نہ تھی تو دعویٰ کے وقت ہی حدیث کو دیکھ لیتا اور سن لیتا اور سوچتا کہ یہ حدیث کیسی ہے اور پھر کسی ہندوسے دریافت کرتا کہ یہ موقع کب ہو گا اور وہ اسے بتاتا کہ فلاں سنہ میں ہوگا اور پھر جب وقوع میں آتا تو تسلیم کر کے اپنے تزکیہ کے لئے چلا آتا.غرض یہ کیسی صاف اور روشن بات تھی لیکن اگر آسمان کی طرف نہیں دیکھ سکتا تھا اور اس کی نگاہ اتنی اونچی نہ تھی تو زمین میں ہی دیکھتا کہ اس کے لئے کیا نشان ہیں؟ اور اس امر پر غور کرتا کہ قرآن تو اس لئے آیا ہے (البقرۃ :۲۱۴) اب اس دعویٰ کے موافق اس وقت کوئی اختلاف ہے یا نہیں ؟ اور پھر قرآن شریف اس اختلاف کے مٹانے کے لئے بس ہے یا نہیں؟ پہلی بات پر نظر کر کے صاف معلوم ہوتا کہ اختلاف کثرت سے پھیلا ہوا ہے سب سے پہلا اختلاف تو ہمیں اپنے ہی اندر نظر آتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض صداقتیں ہمارے اندر ہیں جن کو ہم ایمانیات یا عقائد کہتے ہیں اور پھر کچھ اعمال ہیں جو یا نیک ہوتے ہیں یا بد.
اب مطالعہ کرے کہ کیا وہ اعمال ان مسلّمہ نیکیوں اور صداقتوں کے موافق ہیں یا مخالف ہیں ؟ اگر اس کی مانی ہوئی نیکیاں اور ہیں اور نیک اعمال فی نفسہٖ اور ہیں تو اس کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوتی کہ یہ پہلا اختلاف مٹنا چاہئے.۴؎ پھر اس اختلاف کے بعد اگر اور بلند نظری سے کام لے تو اس کو بہت بڑا اختلاف ان لوگوں میں نظر آئے گا جو بخیال خویش وبزعم خود اکابران ملّۃ اور علماء اُمت بنے ہوئے ہیں ان کے باہمی اختلاف کو چھوڑ کر اگر خود ان کی حالت پر نظر کی جاوے تو ان کے قول اور فعل میں بُعد عظیم پایا جائے گا اسی کو زیر نظر رکھ کر ایک پارسی شاعر نے کہا ہے مشکلے دارم زدانشمندمجلس باز پرس توبہ فرمایاں چرا خود توبہ کمترمی کنند یہ واعظ یہ معلّم الخیر ہونے کے مدّعی صوفی اور سجادہ نشین چرا خود توبہ کمتر مے کنند کے مصداق ہیں.یہاں تک تو وہ شاعر عقل و دانش کی حد کے اندر ہے اس سے اور آگے چل کر کہتا ہے.واعظاں کیں جلوہ بر محراب ومنبر می کنند چوں بخلوت میروند آں کار دیگر می کنند یہ گواہی جو اس پارسی بان شاعر نے دی ہے کوئی مخفی شہادت نہیں بلکہ واعظوں ،صوفیوں ، سجادہ نشینوں تک پہنچی ہوئی ہے کیونکہ ان کی مجلس وعظ یا مجلس وجد وحال وقال کے لئے اس کے شعر ضروری ہیں اورہر ایک مسلمان جو کبھی کبھی اپنی مشکلات اور مصائب میں پھنس کر بے قرار ہوتا ہے تو بدقسمتی سے اسی لسان الغیب کا فال لینے کی طر ف توجہ کرتا ہے اور یوں اپنے اوپر اس دورنگی اور اختلاف کا جو واعظوں اور معلّم الخیر کے مدّعیوں میں ہے ایک گواہ ٹھہرتا اور اپنے اوپر حجت ملزمہ قائم کرتا ہے اب ان ساری باتوں کو یکجائی نظر سے دیکھو اور غور کرو کہ کیا یہ علمی اور عملی یا ایمانی اور عملی اختلاف کسی تال اور سُر کے ذریعہ مٹ سکتا ہے یا خود بخود ؟ اور قرآن شریف جو اختلاف مٹانے کا مدّعی ہے اور سچا مدّعی ہے اس نے کیا راہ بتائی ہے؟ میں بڑے درد دل سے ان مباحث اور لیکچروں کو پڑھا کرتا ہوں جو اسی زمانہ میں مسلمانوں کے تنزل کے اسباب پردئیے جاتے ہیں.اسباب تنزل اور اسباب ترقی کے بیان کرنے میں
ہمارے ریفارمر (خود ساختہ )اور مصلح قرآن شریف کو مسّ نہیں کرتے اور تفرقہ کے دور کرنے کے لئے قرآن شریف میں علاج نہیں ڈھونڈتے.میں نے ان لیکچروں اور سپیچوں کو پڑھ کر درد دل کے ساتھ یہی کہا ہے.(الفرقان:۳۱) غرض میں اس عظیم الشان اختلاف کو ابھی پیش کرتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ یہ کیونکر دور ہو سکتا ہے؟ دیکھو ایک چیز ہے جس کا نام ایمان ہے اور ایک کا نام عمل ان دونوں کا باہم مقابلہ کر و اور سوچ کر بتاؤ کہ کیا ان میں موافقت ہے ؟ کیا حال اور قال یکساں ہے ؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر کیوں صاف دلی کے ساتھ یہ اقرار نہیں کیا جاتا کہ ایک مزکّیکی ضرورت ہے جو انسان کو اس نفاق سے جو اس کے اندر ایمان اور عمل کی عدم موافقت سے پید ا ہو رہا ہے دور کرے اگر نرا علم کوئی چیز ہوتا معرفت صحیحہ کی ضرورت نہ ہوتی ؟ اگر اس قوت اور کشش کی حاجت نہ ہوتی جو انسان پر اپنا عمل کر کے اس کے دل کو صاف کرنے میں معاون اور مددگار ٹھہرتی ہے جو مزکّی کی تاثیر صحبت اور پاک انفاس کی برکت سے ملتی ہے جس کی طرف .(التوبۃ :۱۱۹)کہہ کر مولا کریم نے توجہ دلائی ہے تو میں پوچھتاہوں کہ پھر اسی پارسی لسان الغیب کو کیا حاجت اور ضرورت تھی جو وہ بول اٹھا کہ مشکلے دارم زدانشمند مجلس باز پرس.اس ایمانی اور عملی اختلاف کے ماورا اور اختلاف ہے جس نے قوم کے شیرا زہ کو پراگندہ اور منتشر کر دیا ہے اوروہ روح قوم میں نہ رہی جو (آل عمران :۱۰۴)میں رکھی گئی تھی یعنی مختلف فرقے شیعہ، سنّی ، خوارج ، مقلد ، غیر مقلد ، جبریہ، قدریہ وغیرہ کے بکھیڑوں اور قضیوں پر نگاہ کرو تو عظیم الشان تفرقہ نظر آئے گا میں نے اکثر لوگوں سے پوچھا ہے کہ یہ فرقہ بندیاں کیوں ہیں ؟ اکثروں نے کہا ہے کہ سب فرقے قرآن ہی سے استدلال کرتے ہیں.میں نے نہایت تعجب اور افسوس کے ساتھ اس قسم کی دلیری اور جرات کو دیکھا ہے اور سنا ہے قرآن شریف تو اختلاف مٹانے کو آیا ہے اور یہی اس کا دعویٰ ہے جو بالکل سچا ہے پھر یہ اختلاف اس کے ذریعہ کیسے ہو سکتا ہے ؟
میرے اس سوال کا جواب کسی نے نہیں دیا اور حقیقت بھی یہی ہے کیا معا ذا للہ قرآن شریف موم کی ناک ہے کہ جدھر چاہی پھیر دی یا وہ اپنے اس دعویٰ میں معاذاللہ سچا نہیں جو اس نے اختلاف مٹانے کا کیا ہے ؟ پھر یہ ایمان کیوں رکھتے ہو.میری سنو !قرآن شریف آیات محکمات ہے وہ لاریب اختلاف مٹانے کے لئے حَکَمْہے مگر اس پر مسلمانوں نے توجہ نہیں کی اور اس کو چھوڑ دیا وہ اپنی نزاعوں کو قرآن شریف کے سامنے عرض نہیں کرتے.مجھے ایک بار لاہو ر کے شیعوں کے محلہ میں وعظ کرنے کا اتفاق ہوا.میں نے کہا کہ شیعوں سنیّوں کے اختلا ف کا قرآن سے فیصلہ ہو سکتا تھا اگر یہ توجہ کرتے.ایک شخص نے کہا کہ وہ قرآن سے ہی استدلال کرتے ہیں.میں نے کہا کہ یہ قرآن موجود ہے آپ ہی بتا دیں کہ کہاں سے استدلال کیا ہے.غرض قرآن کو ہر گز حَکَم اور فیصلہ کُن نہیں مانتے اس پر ایمان ہوتا تو بڑی صفائی سے یہ بات سمجھ میں آجاتی کہ سچی توجہ کے لیے ایک کامل الایمان مزکّیاور مطھّرکی ضرورت ہے جو اپنی قدسی قوت کے اثر سے دلوں کے زنگ کو دور کرے.بدوں مزکّیکے یہ بات حاصل نہیں ہو سکتی اور یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے بلکہ وسیع نظارہ قدرت میں اس کے نظائر موجود ہیں.دیکھو ایک درخت کی ٹہنی جب تک درخت کے ساتھ پیوند رکھتی ہے وہ سر سبز ہوتی ہے حالانکہ اس کو جو پانی کی غذائیت ملتی ہے وہ بہت ہی کم ہوتی ہے اب اگر اس کو دیکھ کر ایک نادان اس کو کاٹ کر پانی کے ایک گڑھے میں ڈال دے کہ لے تو اب جس قدر پانی چاہے جذب کر اور اپنے دل میں خوش ہو کہ یہ بہت جلد بار آور ہو جائے گی تو اس کی حماقت اور نادانی میں کیا شک رہ جائے گا جب وہ ڈالی بہت جلد خشک ہو کر سڑ گل جائے گی اور اس کو بتا دے گی کہ میں سر سبز نہیں رہ سکتی اس درخت سے الگ ہو کر.اسی طرح یہ نظارہ قدرت عام اور وسیع ہے اس سے صاف سبق ملتا ہے کہ ایک مزکّیکی ضرورت ہے جس کے ساتھ پیوند لگا کر انسان اپنے تزکیہ کا حِصّہ لے سکتا ہے ورنہ مزکّیسے الگ رہ کر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ وہ اپنی اصلاح اور تزکیہ کر لے گا.یہ غلط اور محض غلط ہے بلکہ
ع ایں خیال است ومحال است وجنوں.اور وہی مشکلے دارم کا سچا مسئلہ.اندرونی اختلاف اور تفرقہ اگر کچھ ایسا نہ تھا کہ اس کے دل پر اثر انداز ہو سکتا اور اس کو صرف جزئی اختلاف قرار دیتا تھا تو پھر ضرور تھا کہ غیر قوموں کے اعتراضوں ہی کو دیکھتا جو اسلام پر کئے جاتے ہیں اور دیکھتا کہ وہ کونسا ذریعہ ہے جو اسلام کے نابود کرنے اور اس پر اعتراض کر کے اس کو مشکوک بنانے میں غیر قوموں نے چھوڑ رکھا ہے ؟ ذرا عیسائیوں ہی کو دیکھو کہ کس کس رنگ میں اسلام پر حملہ ہے شفاخانوں کے ذریعہ ، اخباروں اور رسالوں کے ذریعہ ہفتہ وار ،روزانہ اور ماہواری ، ٹریکٹوں اور اشتہاروں کے ساتھ‘ فقیروں اور جوگیوں کے لباس میں ، مدرسوں اور کالجوں کے رنگ میں، تاریخ اور فلسفہ کی شکل میں غرض کوئی پہلو نہیں جس سے اسلام پر حملہ نہ کیا جاتا ہو.اللہ تعالیٰ کی ذات پر وہ حملہ کہ بپتسمہ دیتے وقت کہا جاتا ہے واحد لاشریک باپ واحد لاشریک بیٹا واحدلاشریک روح القدس ، تین واحد لاشریک نہ کہو بلکہ ایک واحد لاشریک.باپ قادر مطلق ، بیٹا قادر مطلق، روح القدس قادر مطلق تین قادر مطلق نہ کہو بلکہ ایک قادر مطلق.باپ ازلی، بیٹا ازلی ، روح القدس ازلی تینوں ازلی نہ کہو بلکہ ایک ازلی.اب غو رتو کرو کہ یہ توحید پاک پر کیسا خوفناک اور بیباک حملہ ہے یہ کیا اندھیر ہے اسی طرح اس کے اسما، افعال اور صفات پر مختلف پیرایوں اور صورتوں میں حملہ کیاجاتا ہے اور غرض اسلام کو نابود کرنا ہے.اب اس اختلاف کو کون دور کرے اور کون اس مرض کا مداوا کرے ؟ وہی جو مزکّیہو.مجھے نہایت ہی افسوس اور درد دل کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عیسائیت کے اس پُر آشوب فتنہ کو فرو کرنے کے بجائے مسلمانوں نے مدد دی ہے اور اس آگ پر پانی ڈالنے کے بجائے مٹی کے تیل ڈال دینے کاکام کیا ہے.جب اپنے عقائد میں ان امور کو داخل کرلیا جو عیسائیت کی تقویت کا موجب اور باعث ہوئے ہیں.۵؎ یہ فیصلہ بالکل آسان اور صاف تھا اگر ذرا تدبّر اور غور سے کام لیا جاتا مگر رونا تو اسی بات کا ہے کہ عقل سے کوئی کام نہیں لیا جاتا خدا تعالیٰ کی مخلوق میں غور نہیں کیا جاتا.یہ کیسی
صاف بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور انسانی مخلوق کبھی برابر نہیں ہو سکتی.یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ جو کچھ انسان بناتا ہے خدا وہ کبھی نہیں بنا تا اور جو اللہ تعالیٰ بناتا ہے انسان وہ ہرگز نہیں بنا سکتا.مثلاً ایک تنکا ہی لو.ساری دنیا کے صنّاع اور فلاسفر مل جاویں اور کوشش کریں ساری عمر جدو جہد کریں کبھی ممکن ہی نہیں کہ ایک تنکا بنا سکیں گھاس کا تنکا یا دانہ کا ذرہ نہیں بنتا پھر یہ خیال کر لینا اور مان لینا کہ مسیح بھی خدا تعالیٰ جیسی مخلوق بنا سکتا تھا کیسی بیہودگی ہے.دیکھو خدا تعالیٰ کی مخلوق ہے غلہ انسان نہیں بنا سکتا.انسان اپنی صنعت سے روٹی بنا تا ہے خدا تعالیٰ کی غیرت کبھی پسند نہیں کر سکتی کہ وہ درختوں سے روٹیاں نکالے.کپڑے خدا تعالیٰ نے نہیں بنائے اسی طرح پر روئی انسان نہیں بنا سکتا.اس سے کیمیا گروں کی حماقت اور فریب کا ایک ثبو ت ملتا ہے اور کس طرح واضح طور پر ان کی تکذیب ہوتی ہے سونا چاندی اور چاندی سونا نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ کی یہ صفت ہے (الشورٰی:۱۲).کیا کوئی ہاتھی کے بچہ کو چوہا کہہ سکتا ہے ؟ اور کیا ہو سکتا ہے کہ مکھی کے انڈے سے گھوڑا نکل آوے ؟ ان امور کا سمجھنا آسان نہیں گو یہ بدیہی باتیں ہیں مگر ایک مزکّی جب تک موجود نہ ہو وہ انسان کو اس قسم کے شرک سے نجات نہیں دے سکتا.ایک وقت آئے گا کہ لوگ کہیں گے کہ کیا وفات مسیح کا مسئلہ بھی کوئی اہم مسئلہ تھا لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی اہمیت کس قدرہے ؟ ایک دنیا کو اس نے تباہ کر دیا ہے اور ربّ العالمین کے عرش پر ایک عاجز ناتواں انسان کو بٹھا یا گیا ہے.غرض اللہ تعالیٰ کے اسماء ، صفات اور افعال کے متعلق سچا علم بخشنا اس شخص کا کام ہوتا ہے جو آیات اللہ کی تلاوت کرے اور اپنی قدسی تاثیر سے تزکیہ کرے اور سچی توحید پر قائم کرے جب تک مزکّینہ ہو یہ سمجھ میں نہیں آسکتا کہ اس جہاں کا پیدا کرنے والا ربّ العالمین ایک ہے اور اس کا کوئی بیٹا نہیں جس کے بغیر نجات عالم ہی نہ ہو سکتی ہو جیسا کہ عیسائیوں نے مان رکھا ہے.تعجب ہے کہ وہ خلق عالم تو اللہ تعالیٰ کی صفت مانتے ہیں پھر اس مخلوق عالم کو کیا مشکل تھا کہ نجات
بھی دے دیتا ؟ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ چونکہ عادل ہے اس لئے مخلوق کے گناہوں کو بحیثیت عادل ہونے کے بغیر سزا کے نہ چھوڑ سکتا تھا اور رحیم بھی ہے اس لئے بیٹے کو پھانسی دیا ؟ یہ کیا خوب عدل اور رحم ہے کہ گنا ہ گاروں کے بدلے ایک بے گناہ کو پکڑلیا اور بے گناہ پر رحم بھی نہ کیا.پھر اور بھی ایک تعجب ہے کہ یہودیوں کو نجات نہ ملی حالانکہ پہلے...نجات کے وہی مستحق تھے جنہوں نے نجات کے فعل کی تکمیل کی کوشش کی یعنی صلیب دلوانے کی.ان کا فعل تو گویا عیسائیوں کے اعتقاد کے موافق خدا کے ارادہ اور منشا سے توارد رکھتا تھا پھر وہ غضب کے نیچے کیوں رہے.پھر ہم پوچھتے ہیں کہ کیا مسلمانوں کو نجات ملی؟ کیا مجوسیوں کو ملی؟ کس کو ملی ؟ نجات تو پھر بھی محدود ہی رہی کیا فائدہ اس پھانسی سے پہنچا ؟ اور پھر شیطان کا سر جب کچلا گیا تو اب کیوں گناہ ہوتا ہے.پھر پوچھا گیا ہے کہ گناہ کا بد اثر جسم پر ہوتا ہے یا روح پر.اگر روح پر ہوتا ہے تو آدم سے کہا گیا کہ محنت سے روٹی کھائے گا اور عورت دردِزہ سے بچہ جنے گی.اور اگر جسم پر پڑتا ہے تو عیسائی آتشک اور سوزاک وغیرہ امراض میں کیوں مبتلا ہوتے ہیں اور کیا عیسائی عورتیں دردِزہ سے بچہ جنتی ہیں انہیں اس سے تو معلوم ہوا کہ نجات کے آثار پائے نہیں جاتے.اس کی وجہ یہی ہے کہ مزکّیکے بغیر اصلاح نہیں ہو سکتی.ان خیالی باتوں سے کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا.اس کفّارہ کا نتیجہ تو یہ ہوا کہ دنیا میں فسق وفجوراور اباحت پھیل گئی اور خدا کا خوف اٹھ گیا اب جس مزکّیکی ضرورت ہے وہ ایسی خاصیت اور قوت کا ہونا چاہیئے جو اس فتنہ کو دور کرے.اور اب غور کر کے دیکھ لو کہ یہ مزکّی اپنے اس مقصدمیں کامیاب ہوا ہے یا نہیں.ایک ایک اصل جو اس نے پیش کی ہے اس کے ذریعہ مذاہب باطلہ کو اس نے ہلاک کر دیا ہے.ایک عیسائی نے مجھ سے پوچھا کہ اس نے آکر کیا کیا ہے میں نے کہا کہ تم کو لا جواب کر دیا ہے.۶؎ امرتسر میں پندرہ روز تک مباحثہ ہوا اگر رحیم کریم نہ ہوتا تو ایک ہی منٹ میں ختم کر دیتا.ایک ہی اصل اس نے پیش کی تھی جس کا جواب عیسائی اور دوسری قومیں ہر گز ہرگز نہیں دے سکتیں اور قیامت تک نہ دے سکیں گی.پھر وہ اصل ایسی اصل نہیں ہے کہ اسے یونہی ردّ کر دیا جاوے بلکہ ہر سلیم الفطرت دانشمند انسان کو ماننا پڑے گا کہ بڑی پکّی اصل ہے اور وہ اصل یہ ہے کہ ہر مذہب کی
الہامی کتاب کا یہ خاصہ ہونا چاہئے کہ جو دعویٰ وہ کرے اس کی دلیل بھی اسی میں ہو یعنی دعویٰ بھی وہی کرے اور دلیل بھی وہی دے مثلاً عیسائی کہتے ہیں کہ یسوع خدا ہے تو چاہئے کہ انجیل میں پہلے وہ یہ دعویٰ دکھائیں کہ یسوع خدا ہے پھر اس کے دلائل دیں مگر یہ اصل انجیل میں کہاں ؟ عیسائی مجبور ہو گئے اور ان کو اس حِصّہ کو چھوڑنا پڑا.اس راہ پر وہ ایک منٹ بھی چل نہ سکتے تھے مباحثہ کی روئیداد موجود ہے جو چاہے دیکھ لے.میں تو اسی وقت جب اس کے منہ سے یہ لفظ نکلا تھا سمجھ گیا اور مان چکا تھا کہ یہ کسر صلیب میں کامیاب ہو گیا.اس اصل سے اس نے قرآن شریف کی وہ عزّت اور عظمت ظاہر کی کہ میرا ایمان ہے تیرہ سوبرس کے اندر کسی نے نہیں کی.اس نے کل مباحثہ میں اپنے اس طرز اور اصل کو نہیں چھوڑا جو دعویٰ بیان کرتا قرآن شریف سے اور جو دلیل بیان کرتا وہ بھی کتاب اللہ سے دیتا.اور پندرہ دن تک برابر اسی کا التزام رکھا ا ب بتاؤ کہ یہ طرز بیان مزکّیکے سوا حاصل ہو سکتا ہے میں نے بہت سی کتابیں پڑھی ہیں اور میں یقیناً کہتا ہوں کہ جس قدر تم اس وقت موجود ہو تم سب سے زیادہ میں کتابیں پڑھ چکا ہوں اور کتاب میری ہر وقت کی رفیق ہے لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ اس طرز پر مباحثہ کی بنیاد کوئی نہیں ڈال سکا.اور ایسی طرز کہ مخالف پہلا ہی قدم نہیں اٹھا سکتا جو چاہے آزما کر دیکھ لے.میں نے تو آج بھی اس اصل سے فائدہ اٹھا یا.ایک شخص نے اعتراض کیا میں نے اسے بھی کہا کہ اس اصل کو مدِّنظر رکھو.مجھ پر اعتراض کیا گیا کہ روزہ کیوں رکھا جاتا ہے ؟ اور پھر رمضان ہی میں کیوں رکھا جاتا ہے؟ میں نے اس کو اولاً یہی جواب دیا کہ تم بتاؤ تمہاری کس کتاب نے منع کیا ہے کہ روزہ نہ رکھو اور پھر اس منع کے دلائل کیا دئیے ہیں.میں تو بتاؤں گا کہ روزہ کیوں رکھنا چاہئے اور رمضان میں کیوں فرض کیا گیا اسے کچھ جواب بن نہ پڑا.میں نے اس مضبوط اور محکم اصل کو لے کرکہا کہ دیکھو ہماری کتاب قرآن شریف روزہ کا حکم دیتی ہے تو اس کی وجہ بھی بتاتی ہے کہ کیوں روزہ رکھنا چاہیے (البقرۃ :۱۸۴)
چونکہ اس میں قرآن نازل ہوا ،یہ برکا ت الٰہیہ کے نزول کا موجب ہے اس لئے وہ اصل غرض جو میں ہے حاصل ہوتی ہے.اسی طرح پر جس امر کو لو یا جس نہی کو لو قرآن نے اس کے اسباب اور نتائج کو واضح طور پر بیان کیا ہے اور نہ صر ف بیان کیا ہے بلکہ ان کے نتائج سے بہرہ مند کر کے دنیا کو دکھادیا ہے.آخرت کے وعدے تو آخرت میں پورے ہوں گے اور ضرور ہوں گے مگر اس دنیا میں ان سے حِصّہ دیا اور ایسا حِصّہ دیا کہ اربعہ متناسبہ کے قاعدہ کے موافق وہ آخرت پر بطور دلائل اور حجج کے ٹھہرے جن کو دیکھ کر اب کوئی آخرت کا انکا ر نہیں کر سکتا.صحابہ ہی تک وہ فیض اور فضل محدود اور مخصوص نہ تھا اب بھی اگر کوئی قرآن شریف پر عمل کرنے والا ہو خلوص سے اللہ تعالیٰ کی طرف آوے وہ ان انعامات اور فضلوں سے حِصّہ لیتا ہے اور ضرور لیتا ہے اس وقت بھی لیتا ہے.دیکھو ہمار امام ان وعدوں اور فضلوں کا کیسا سچا نمونہ اور گواہ موجود ہے.غرض سب کچھ قرآن میں ہے مگر مزکّی کے بغیر، معلّم کے بغیر، وہ تزکیہ اور تعلیم نہیں ہوتی.مزکّی اپنی کشش اور اثر سے تزکیہ کرتا ہے ا ور ان انعامات کا مورد بنانے میں اپنی دُعا، عقدہمت، توجہ تام سے کام لیتا ہے جو دوسرے میں نہیں ہوتی ہے.ایک بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ وفات مسیح پر اس قدر زور کیوں دیا جاتاہے.ثابت ہو گیا کہ وہ مر گیا اب اس کی کیا ضرورت ہے کہ بار بار اسی کا تذکرہ کیا جاوے ؟ میں نے اس کو کہا کہ یہی وہ سِرّ ہے جس سے یہ مسیح موعود بنایا گیا اور جو کسر صلیب کا تمغہ لیتا ہے تم اور میں اور اور اس قابل نہیں ہوئے یہ ثبوت ہے اس کے خدا کی طرف سے ہونے اور اس کے کامیاب ہو جانے کا.میں سچ کہتا ہوں اور ایمان سے کہتا ہوں کہ میری آنکھ نے وہ دیکھا جو بہت تھوڑوں نے ابھی دیکھا ہوگا میں دیکھ چکا ہوں کہ کسر صلیب ہو چکی میں نے تو اسی روز اس کا مشاہدہ کر لیا تھا جب ا س نے امرتسر کے مباحثہ میں وہ اصل پیش کی جس کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے اس سے بھی بہت عرصہ پہلے مجھے اس کی خوشبو آرہی تھی اندر باہر جہاں کہیں ہو کوئی بھی مضمون ہو جس پر یہ بول رہا ہو میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ خواہ وہ وفات مسیح سے کتنا ہی غیر متعلق ہو مگر وفات مسیح کا ذکر ضرور ہی کرے گا یہ
عزم ، یہ استقلال اور عقد ہمت مامور کے سوا کسی دوسرے کو نہیں ملتی ہے اور یاد رکھو نہیں ملتی ہے تم مامور من اللہ کو اس کے عقد ہمت اور توجہ تام سے بھی شناخت کر سکتے ہو.بے شک خدا تعالیٰ مضطر کی دُعا سنتا ہے جب انسان مضطر ہو تو کیوں نہ سنے میں دیکھتا ہوں کہ اپنی بیماری یا دوسرے بیماروں کو دیکھتا ہوں تو میں مضطر ہوتا ہوں اور میرا مولیٰ میری دُعا سنتا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ وہ صورت جاتی رہتی ہے تو پھر وہ حالت پیدا نہیں ہوتی اس وقت میں اپنے نفس کو کہتا ہوں کہ تو مزکّی نہیں ہو سکتا اس وقت مزکّیوہی ہو سکتا ہے جو ہر حالت میں مسیح کی وفات کو لے آتا ہے.ایک شخص نے عرض کی کہ میں قرآن پڑھایا کرتا ہوں مجھے کوئی نصیحت فرمایئے.فرمایا قرآن شریف پڑھایا کرتے ہو تو بس یہی کافی ہے کہ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کے معنے اِنِّیْ مُمِیْتُکَ پڑھا دیا کرو اب غور کرو کہ کس قدر عقد ہمت ہے! کیسی توجہ ہے !ساری نصیحتوں میں اسے یہ ایک ضروری معلوم ہوئی ہے.مجھ سے اگر وہ شخص پوچھتا تو شاید سینکڑوں نصیحتیں کرتا اور وہ بظاہر ضروری بھی ہوتیں مگر نہ کرتا تو یہی نہ کرتا اور یہی سب سے اہم ہے.یا کسی اور سے وہ پوچھتا تو وہ اپنی جگہ سوچ لے کہ کیا وہ یہی نصیحت کرتا جو اس مزکّینے کی ؟ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہر گز نہ کرتا.یہ اسی کا کام ہے دوسرے کاہو ہی نہیں سکتا اور یہی تو بتاتا ہے کہ یہ کسر صلیب کے لئے آیا ہے.۷؎ یہ یقین رکھو کہ جب تک خد اتعالیٰ کے فضل کے جذب کرنے کے لئے اضطراب اور سچا اضطراب نہ ہو کچھ نہیں بنتا.مسیح کی موت معمولی بات نہیں یہ وہ موت ہے جو عیسوی دین کی موت کا باعث ہے.اس قوم کو اگر کوئی جیت سکتا ہے تو اس کے لئے یہی ایک گر ہے اور غور کر کے دیکھ لو کہ اس کے لئے اس نے کس قدر دُعائیں کی ہوں گی دل میں کس قدر جوش اٹھتے ہوں گے ہم تو ان کو سمجھ بھی نہیں سکتے کہ ایک آدمی مر گیا بس مر گیا بات کیاہے مرا ہی کرتے ہیں مگر نہیں اس کے حل سے سب کچھ حل ہے یہ فہم جو اسے دیا گیا ہے یہ فہم مامور من اللہ کے سوا دوسرے کو نہیں ملتایہ اضطراب اور جوش دوسرے کا حِصّہ نہیں ہو سکتا اگر کوئی دعویٰ کرے تو خیال باطل اور وہم محال ہے.پھر اختلاف اندرونی اور بیرونی پر نظر کرو کہ کیا حالت ہو رہی ہے ایک کہتا ہے بائیبل میں یہ ہے دوسرا کہتا ہے قرآن میں یہ ہے حضرت صاحب مثال دیا کرتے ہیں کہ انہوں نے مداری کے
تھیلے کی سی بات کر رکھی ہے جسے وہ چاہتا ہے اس میں سے نکالتا ہے ویسے ہی یہ بھی جو روایت اپنے مطلب کی چاہتے ہیں نکال کر پیش کر دیتے ہیں اور یہ اختلاف اس شدت سے پھیلا ہوا ہے کہ اس کا بیان کرنا بھی آسا ن نہیں.صداقت اس طرح پر چھپ جاتی ہے جب تک مامور من اللہ خدا تعالیٰ سے لطیف فہم لے کر نہیں آتا.صداقت بیج کی طرح رہتی ہے جیسے جب بارش آسمان سے آتی ہے تو خواہ ساری دنیا زور لگائے کہ بیج نشوونما نہ پائے وہ اگنے سے نہیں رہتا اسی طرح پر جب مامور من اللہ آتا ہے تو خواہ کوئی کچھ ہی کرے وہ صداقت کو ضرور نکال لیتا ہے اس کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ جو کام وہ کرتا ہے عقل صحیح اور نقل صریح اور تائیداتِ سماوی اس کی تصدیق کرتے ہیں.اس وقت آزادی کی راہیں کھلی ہوئی ہیں اسلام پر وہ اعتراض کئے جاتے ہیں کہ پہلے کسی نے کبھی سنے بھی نہ تھے.میں نے بعض لوگوں سے سنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ پہلے بھی اعتراض کرتے تھے.میں کہتا ہوں یہ بالکل غلط اور جھوٹ بات ہے پہلے کوئی اعتراض نہیں کرتا تھا.اسلامی سلطنت کی سطوت وجبروت کے مقابلہ میں کون اعتراض کر سکتا تھا یہ سب کچھ اسی صدی کا کرشمہ ہے اور اسی انڈیا میں اس کو ترقی ہے جو چاہے کوئی کہہ دے اخبارات و رسالہ جات میں زور شور سے مخالفت کی جاتی اور اعتراض کئے جاتے ہیں کوئی نہیں روکتا.فسق و فجور نے یہاں تک ترقی کی ہے کہ شراب جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمّاع الاثم کہا ہے اسی پر قیاس کر لو کہ کیا حالت ہے.لنڈن ایک شہر میں اس کی یہ حالت ہے کہ صرف شراب فروشوں کی دوکانوں کو الگ ایک لائن میں رکھا جاوے تو پچھتر میل سے زیادہ تک جاتی ہیں اور کل کارخانے اتوار کو بند رہیں مگر شراب کی دوکانیں اتوار کو بھی کھلنی ضروری ہیں اس سے اندازہ اور قیاس کر لو دوسری حالتوں کا.عورتوں کی بابت آیا ہے کہ وہ حبائل الشیطان ہیں یعنی عورتیں شیطان کی رسیاں ہیں حقیقت میں جس قدر ابتلا ان عورتو ں کے ذریعہ سے آتے ہیں اور جس طرح شیطان ان رسیوں کے ذریعہ سے اپنا کام کرتا ہے وہ کوئی ایسی بات نہیں کہ کسی سے پوشیدہ ہو.مشنری عورتوں اور مشنریوں سے
جو خرابیاں اکثر اوقات پیدا ہوتی ہیں اور آئے دن اس قسم کی خبریں سننے میں آتی ہیں کہ فلاں گھر میں ایک مشنری عورت آتی تھی اور وہاں سے فلاں عورت کو نکال لے گئی اس کا پتا نہیں وغیرہ.پھر اس سے ذرا اور آگے بڑھوولایت میں جو لوگ پڑھنے کے واسطے جاتے ہیں اور کوئی ان کے حال کا پرساں اور نگراں نہیں ہوتا پھر جو کچھ وہاں وہ کر گزریں تھوڑا ہے.مذہب کی رسمی قیود بھی بمبئی تک ہی سمجھی جاتی ہیں اس کے بعد پھر کوئی مذہب نہیں الاماشاء اللہ.ایک معزز ہندو نے نواب محمد علی خاں صاحب کے مکان پر بیان کیا کہ یہ مت پوچھو کہ ولایت میں کیا کیا کھایا بلکہ یہ پوچھئے کہ کیا نہیں کھایا.غرض حبائل الشیطان کی وہ حالت، جمّاع الاثم کا وہ زور شور، سلطنت کا رعب وسطوت وجبروت الگ یہاں تک کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوا ہے گو ویسے کچھ اور ہی ظاہر کر دیا گیا ہو کہ مقدمات میں تبدیلیٔ مذہب نجات کا موجب ہو گئی اور مجسٹریٹ نے لکھ دیا کہ عیسائی مذہب کی وجہ سے خلاف گواہی دی گئی یا مقدمہ بنایا گیا.ایک آدمی بجائے خود ذلیل اور کس مپرس ہو تا ہے لیکن مشنریوں کے ہاں جاکر اسے روزگار مل جاتا ہے یا کسی کو ممانعت روز گار ہوئی مشنریوں نے اسے پادری بنا دیا اس قسم کے واقعات موجود ہیں یہ خیالی یا فرضی باتیں نہیں ہیں.مشنریوں کی بعض رپورٹوں تک سے یہ واقعات کھل جاتے ہیں اگر ان پر زیادہ غور کی جاوے.یہ تو ان لوگوں کی آزادی کے اسباب ہیں جنہوں نے مذہب کی پروا نہیں کی.اس کے علاوہ مصنّفوں اور ماسٹروں کا اثر پڑھنے والوں پر اندر ہی اندر ایک مخفی رنگ میں ہوتا چلا جاتا ہے.تصنیف کا ایسا خوفناک اثر ہوتا ہے کہ دوسروں کو معلوم بھی نہیں ہوتا اور شاید پڑھنے والا بھی اسے جلدی محسوس نہ کر سکے مگر آخر کار وہ ایسا متاثر ہوتا ہے کہ خود اس کو جرات ہوتی ہے.شاہ عبدالعزیز صاحب نے بھی اس اثر کے متعلق لکھا ہے اور میں چونکہ بہت کتابوں کے پڑھنے والا ہوں میں نے تجربہ کیا ہے اور علاوہ بریں علم طب کے ذریعہ مجھے اس راز کے سمجھنے میں بہت بڑی مدد ملی ہے.میر حسن کی مثنوی پڑھ کر ہزاروں ہزار لڑکے اور لڑکیاں زانی اور بدکار ہوگئی ہیں اور یہ ایسی بیّن اور ظاہر بات ہے کہ کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا جبکہ تصانیف کا اثر طبائع پر پڑتا ہے اور ضعیف
طبیعتیں بہت جلد اس اثر کو قبول کرتی ہیں تو آج کل تصانیف کے ذریعہ جو زہر مشنری گروہ نے پھیلایا ہے اس کے متعلق مجھے کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے.ہر رنگ میں فلسفہ ، تاریخ، طب وغیرہ ہر شاخ علم اور ہر کتاب میں مذہب سے مغائرت اور آزادی کاسبق پڑھایا جاتا اور اسلام کی پاک تعلیم پر کسی نہ کسی رنگ میں حملہ کیا جاتا ہے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیم کا جادو کچھ ایسا کار گر ہوا ہے کہ ہر شخص بلا سوچے سمجھے کہ اس کے بچے کو کس قسم کی تعلیم مفید اور کار آمد ہو سکتی ہے اپنے لڑکوں کو سکول اور کالج میں بھیجتا ہے جہاں حفاظتِ دین کے اسباب بہم نہیں پہنچا ئے جاتے.وہاں قسم قسم کی فصیح و بلیغ تقریروں والے اوربڑی بڑی لمبی داڑھیوں والے عجیب غریب باتیں سناتے ہیں اوریورپین اقوام کی ترقیوں اور صنّاعیوں پرلیکچر دے دے کر نوجوانوں کو اس طرف مائل کرتے ہیں یہاں تک کہ سیدھے سادھے نوجوان جو اپنی مذہبی تعلیم سے بالکل کورے اور صاف ہوتے ہیں مذہب کو ایک آزادی کی مانع چیز سمجھنے لگتے ہیں اور انسانی ترقیوں کا مانع اسے قرار دیتے ہیں.باتوں ہی باتوں میں سمجھا دئیے جاتے ہیں کہ اگر وہ اعتراض علماء کے سامنے کئے جاتے ہیں تو ان پرکفر کے فتوے جڑے جاتے ہیں.ان اعتراضوں کا جو بُرا اثر پڑتا ہے اس کے متعلق میں ایک قصہ بیان کرتا ہوں مگر یاد رکھو کہ میں قصہ گو نہیں بلکہ درد دل کیساتھ تمھیں اسلام کی حالت دکھانی چاہتا ہوں میری غرض کسی پر نکتہ چینی کرنا نہیں ہے اور نہ ہنسانا مقصود ہے بلکہ اصلیت کا بیان کرنا مدِّ نظر ہے.میں ایک بار ریل میں سفر کر رہا تھا جس کمرہ میں مَیں بیٹھا ہوا تھا اسی کمرہ میں ایک اور بڈھا شخص بیٹھا ہو اتھا.ایک اور شخص جو مجھے مولوی صاحب کہہ کر مخاطب کرنے لگا تو اس دوسرے شخص کو سخت بُرا معلوم ہوا اور اس نے کھڑکی سے باہر سر نکال لیا.وہ شخص جو مجھ سے مخاطب تھا اس کے بعض سوالوں کا جواب جب میں نے دیا تو اس بڈھے نے بھی سر اندر کر لیا اور بڑے غور سے میری باتوں کو سننے لگا اور وہ باتیں مؤثر معلوم ہوئیں.پھر خود ہی اس نے بیان کیاکہ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں نے کیوں سر باہر کر لیا تھا.میں نے کہا نہیں اس نے بیان کیاکہ مجھے مولویوں کے نام سے بڑی نفرت ہے.اس شخص نے جب آپ کو مولوی کر کے پکارا تو مجھے بہت بُرا معلوم ہوا لیکن جب
آپ کی باتیں سنیں تو مجھے ان سے بڑا اثر ہوا.میں نے پوچھا کہ مولویوں سے تمہیں نفرت ہے ؟ اس نے کہا کہ میں نے لدھیانہ میں ایک مولوی صاحب کا وعظ سنااس نے دریائے نیل کے فضائل میں بیان کیا کہ وہ جبل القمر سے نکلتا ہے اور اس کے متعلق کہا کہ چاند کے پہاڑوں سے آتا ہے میں نے اس پر اعتراض کیا تو مجھے پٹوایا گیا.اس وقت مجھے اسلام پر کچھ شکوک پیدا ہوگئے اور میں عیسائی ہو گیا بہت عرصہ تک میں عیسائی رہا پھر ایک دن پادری صاحب نے مجھے کہا کہ ایک نئی تحقیقات ہوئی ہے دریائے نیل کا منبع معلوم ہوگیا ہے اور اس نے بیان کیا کہ جبل القمر ایک پہاڑ ہے وہاں سے دریائے نیل نکلتا ہے میں اس کو سن کر رو پڑا.اور وہ سارا واقعہ مجھے یاد آ گیا.ایک عیسائی نے مجھے مسلمان بنا دیا اور ایک مولوی نے مجھے عیسائی کیا.اس وجہ سے میں ان لوگوں سے نفرت کرتا تھا مگر آپ ان میں سے نہیں ہیں.میں سچ کہتا ہوں کہ اس کی یہ کہانی سن کر میرے دل پر سخت چوٹ لگی کہ اللہ !مسلمانوں کی یہ حالت ہے غرض اس وقت مسلمانوں کی حالت تو یہاں تک پہنچی ہوئی ہے اور اس پر بھی ان کو کسی مزکّی کی ضرورت نہیں.۸؎ غرض یہ حالت اس وقت اسلام کی ہے اور پھر کہا جاتاہے کہ مزکّی کی ضرورت نہیں.قرآن موجود ہے میں پوچھتا ہوں اگر قرآن ہی کی ضرورت تھی تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ قرآن شریف کے آنے کی کیا حاجت تھی؟ کسی درخت کے ساتھ لٹکا لٹکا یا مل جاتا ؟ اور قرآن شریف خود کیوں یہ قید لگاتا ہے. (البقرۃ :۱۳۰) وغیرہ میں سچ کہتا ہوں کہ معلّم کے اور مزکّیکے بدوں قرآن شریف جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت غیر مفید ہوتا آج بھی غیر مفید ہوتا.خدا تعالیٰ نے ہمیشہ سے یہ طریق پسند فرمایا ہے کہ وہ انبیاء ومرسلین کے ذریعہ ہدایت بھیجتاہے یہ کبھی نہیں ہوا کہ ہدایت تو آجاوے مگر انبیاء و مرسلین نہ آئے ہوں.پس اس وقت جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں اورمختلف پہلوؤں سے میں نے دکھایا ہے ضرورتیں داعی ہو رہی ہیں کہ ایک مزکّیاور مطھّر انسان جو قرآن کریم کے حقائق ومعارف بیان کر کے اس ہدایت کو لوگوں تک پہنچا دے جو قرآن شریف میں موجود ہے یہ کام اس کا ہے کہ وہ
ہدایت کی اشاعت کرے.جب یہ ضرورت ثابت ہے تو پھر اس امر کا پتا لگانا کچھ بھی مشکل نہیں ہو سکتا کہ وہ مزکّی آیا ہے یا نہیں ؟ میں کہتا ہوں کہ وہ مزکّیآ گیا اب اس کی صداقت کا جانچنا باقی رہتا ہے اس کے لئے قرآن شریف اور منہاج نبوۃ کامل معیا رہے اس سے دیکھ لو اس کی سچائی خود بخود کھل جاوے گی اور عقلی دلائل ، نصوصِ قرآنیہ اور حدیثیہ اور تائیدات سے اسے شناخت کر لو.کسوف وخسوف کا کس قدر عظیم الشان نشان موجود تھا مگر دیکھنے والوں میں سے سب نے فائدہ اٹھایا ؟ ہر گز نہیں.اس کے پورا نہ ہونے سے پہلے تو اسے صحیح قرار دیتے تھے مگر جب وہ پورا ہوگیا تو روایت کی صحت میں شبہ کرنا شروع کر دیا.حقیقت میں جب انسان تعصب اور ضد سے کام لیتا ہے اور ایک بات ماننی نہیں چاہتا تو اس کی بہت سی توجیہیں نکالتا ہے اور اپنے خیال کے موافق عذرات تراش لیتا ہے.چونکہ انسان کی قوتیں دن بدن آگے بڑھتی ہیں اس لئے وہ خیالات اور ترقی کرتے جاتے ہیں.دیکھو میں کل جس عمر کا تھا آج اس سے ایک دن بڑا ہوں اسی طرح دیکھ لو پچھلے حِصّہ زندگانی پر جس قدرغور کرو گے اور جتنا پیچھے جاؤ گے اسی قدر تمھیں نمایاں فرق نظر آئے گا کہ کمزوری بڑھتی گئی ہے دیکھو پہلے بول نہ سکتا تھا پھر بولنے لگا اور اپنی مادری زبان میں کلام کرنے لگا.پھر یہاں تک ترقی کی کہ اردو بولنے لگا اور پھر یَوْماً فَیَوْماً اس میں بھی ترقی کی یہاں تک کہ اب اپنی زبان میں مسلسل دو چار فقرے بھی ادا نہیں کر سکتا.ایک بار حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے پنجابی زبان میں وعظ کرنے کا حکم دیا میں دو چار فقروں کے بعد ہی پھر اردو بولنے لگا.اسی طرح دیکھ لو کہ ہر صورت میں انسان ترقی کرتا ہے بچپن کے زمانہ میں جو کپڑے کام آتے تھے اور خوبصورت اور ٹھیک موزوں تھے آج میں ان کو نہیں پہن سکتا.یہی نہیں کہ وہ میرے بدن پر نہیں آسکیں گے بلکہ بہت ہی بُرے ہوں گے.جہاں تک غور کرتے جاؤ انسان ترقی کرتا جاتا ہے اسی اصول کے موافق وہ نیکیوں اور بدیوں میں بھی ترقی کرتا ہے اور رسم ورواج لباس وغیرہ امور میں ترقی ہوتی رہتی ہے.ایک زمانہ تھا کہ مردوں کے پاجامے گلبدن کے ہوتے تھے اور وہ دوہری پگڑیاں پہنا کرتے تھے اور بھدی سی
تلواریں ہوتی تھی اور کچھ بد نما ڈھالیں مگر آج دیکھو کہ وہ طرز لباس ہی نہیں رہا.ان تلواروں اور ڈھالوں کی ضرورت ہی نہیں رہی اس اس قسم کی تو پیں اور بندوقیں آئے دن ایجاد ہو رہی ہیں کہ دشمن اپنے ہی مقام پر ہلاک کر دیا جاتا ہے تو اسے خبر ہوتی ہے.فنونِ حرب میں اس قدر ترقی ہوئی ہے کہ کچھ کہا نہیں جاتا.میری غرض اس وقت زمانہ کی ایجادات اور فنون کی ترقیوں پر لیکچر دینا نہیں ہے بلکہ میں اس اصل کو تمھارے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ انسان ترقی کرتا ہے اور وہ جس حالت میں ہو اس میں رہ نہیں سکتا.غرض پھر اس حکومت کے دور دورہ میں جہاں اور ترقیاں ہوئیں لباس میں بھی ترقی ہونے لگی پھر الٹی وضع کی پگڑیوں کے بجائے پگڑیوں کا طور بدلا.ٹوپیوں کا رواج شروع ہوا.بال رکھتے تھے یہ سوچا کہ سر دھونے کی تکلیف ہوتی ہے.بال چھوٹے کئے جاویں بالوں پر اثر پڑا.پھر داڑھیوں کی صفائی شروع ہوئی.پھر جوتے کی طرف دیکھا کہ پرانی وضع کے جوتے بھدے اور بد نما ہیں.اس لئے ان میں ترمیم کرنی چاہیے اور اس قسم کے ہونے چاہئیں جیسا کہ پاؤں کا نمونہ نیچر نے رکھا ہے.پس بوٹ کی طر ف توجہ ہوئی اور فرغل چغہ کی بجائے کوٹ نکلے یہاں تک تو خیر تھی.لباس سے آگے اثر شروع ہوا اور ایک تہ بند گزار کو نماز بھی چھوڑ نی پڑی کیونکہ نماز پڑھنے میں ایک قیمتی پوشاک خراب ہوتی ہے.وضو کرنے سے کالر اور نیکٹائی وغیرہ کا ستیاناس ہوتا ہے اور کفیں خراب ہوجاتی ہیں.یہ انسان کی ترقی کی ایک بات ہے اور یہی معنے ہیں میری نظر میں مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ (سنن ابی داؤد کتاب اللباس باب فی لبس الشھرۃ) موجود ہ زمانہ میں بھی یہی اثر ہوا ہے قوم کی حالت اسی طرح بگڑی ہے.بعض کو فلسفہ نے تباہ کر دیا ہے بعض اور مشکلات اور حالتوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوئے.میری طبیعت فلسفہ کو پسندکرتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کااحسان ہے کہ اس نے قرآن جیسا مجھے فلسفہ دیا ہے اور پھر ایک اپنا امام مجھے عطا کیا ہے کہ جس کی قوت قدسی اور تاثیر صحبت سے یہ فلسفہ مجھے بہت ہی عزیز اور کامل تر فلسفہ ملا.میں نے دیکھا ہے کہ آج کل کے نوجوان جو انگریزی فلسفہ کی چند کتابیں پڑھتے ہیں جس پر بجائے خود بیسیوں نہیں سینکڑوں اعتراض ہیں.بڑے فخر سے مِلْ، سپنسر کے نام لیتے ہیں اور ناز کرتے ہیں کہ پلیٹو نے فلسفہ میں یہ لکھا ہے اور فیثاغورث نے یہ کہا ہے ان باتوں نے ان پر کچھ ایسا اثر کیا ہے کہ اب وہ
مذہب پر ہنسی کرتے ہیں اور اس کو ٹھٹھے میں اڑاتے ہیں.مذہب کی حالت تو یوں بد تر ہوئی.پھر سوسائٹی کی طرف دیکھو.ادنیٰ سے اعلیٰ تک کو میں نے دیکھا ہے جب ان سے کوئی بات پوچھو تو ا ن کے نزدیک گویا حرام ہے کسی مسلمان کا نام لینا ،وہ سوسائٹی کے اصولوں کو بیان کرتے ہوئے بڑے خوش ہوتے ہیں اور انگریزوں کے نام لیتے ہیں اور ان کی کتابوں کے حوالے دینے لگتے ہیں.مختصر یہ کہ دنیا الگ معبود ہو رہی ہے حکومت کی طرف سے جو اثر ہو رہا ہے وہ ظاہر ہے.بچے یوں مبتلا ہیں.مدارس میں مذہبی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں اور مسلمان کر نہیں سکتے.گورنمنٹ برداشت نہیں کر سکتی کہ ہر مذہب کے معلّم مدرسوں میں اپنی گرہ سے قائم کرے کیونکہ مذہبی تعلیم دینا خود مسلمانوں کا اپنا فرض ہے اور اصل تو یہ ہے کہ خود مسلمانوں کی حالت ایسی ہے کہ جہاں جہاں انہوں نے بظاہر دینی تعلیم کا انتظام کیا بھی ہے وہاں بھی یہ حالت ہے کہ دینی تعلیم اصل مقصد نہیں بلکہ دنیوی علوم کے ساتھ برائے نام ایسا رکھا گیا ہے.میں اپنے یہاں دیکھتا ہوں دوسرے مدرسوں کی نسبت یہاں دینیات کی طرف توجہ ہے مگر میں نے دیکھا ہے کہ لڑکے مسجد میں بھی انگریزی کتابوں کے ہجے یاد کرتے رہتے ہیں مجھے تعجب ہی ہوا ہے.عربی اورقرآن شریف کی طرف وہ توجہ نہیں پاتا ہوں جو انگریزی اور اس کے لوازمات کی طرف ہے.غفلت جس قدر مسلمانوں پر سایہ کیے ہوئے ہے اس کا تو ذکر ہی نہ پوچھو.اعمال میں یہ حالت ہے کہ گھر میں تو إِنَّا أَعْطَیْنَابھی گراں گزرتی ہے لیکن اگر امام ہوں تو پھر سورہ بقرہ بھی کافی نہیں.حدود اللہ میں یہ غفلت ہے کہ اپنی ہی سستی اور کمزوری سے تمام حدود اٹھ گئی ہیں.کسی کو جھوٹ یا چوری یا دوسری خلاف ورزیوں کی سزا نہیں ملتی ہے.ان باتوں کا اگر ذکر نہ بھی کریں اور مختصر الفاظ میں کہیں تو یہ ہے کہ مذہب سے ناواقفی ہو گئی ہے.مہذب جماعت نے مذہب کا ذکر ہی خلاف تہذیب سمجھ رکھا ہے.مذہبی مباحثوں کو وہ اس قدر نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس کی کچھ حد ہی نہیں ان کی مجلس میں اگر اسلام یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن شریف کی نسبت سخت الفاظ میں حملے کئے جائیں تو ان کو سن کر خاموش ہو رہنا اور
کسی قسم کا جواب نہ دینا فراخ حوصلگی اور مرنج و مرنجاں کا ثبوت ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ مذہب کا تعلق صرف دل سے ہے ، زبا ن سے یا اعمال سے یا مال سے اس کا کوئی واسطہ ہی نہیں ہے.جہاں تک نظر دوڑاؤ مخلوق کو عجیب حالت میں مبتلاپاؤ گے باوجود اس حالت کے آزادی یہاں تک ہے کہ شاکت مذہب کے متعلق تک بھی کتابیں شائع ہو گئی ہیں اور گُپَت پرکاش کے نام سے ان کے حالات ظاہر ہو گئے ہیں کوئی مذہب ایسا نہیں رہا جو اس وقت دنیا میں موجود ہو اور اس کے عقائد اور متعلقات پبلک کے سامنے نہ آئے ہوں.جب یہ حالت ہے تو پھر میں مسلمانوں سے خطاب کر کے پوچھتا ہوں کہ (الصّف :۱۰)کا وقت کب آئے گا اور علامات اور واقعات سے اگر تم استدلال نہیں کرتے تو مجھے اس کا جواب دو کہ مذاہب مختلفہ کا ظہور تو اب ہو چکا ہے وہ رسول اس وقت کہاں ہے جس نے اسلام کو جمیع مِلَل پر غالب کر کے دکھانا ہے.الغرض انسان کی اپنی ضرورتیں‘ پس وپیش کی ضرورتیں ‘ اعمال کا مقابلہ عقل اور فطرت کے ساتھ ‘ عقلا کی گواہیاں‘ راست بازوں کی گواہیاں ‘اپنے نفس کی گواہیاں موجود ہ ضروریا ت کیا کافی نہ تھیں یہ ثابت کرنے کے واسطے کہ یہ زمانہ امام کا زمانہ ہے.بے شک یہ ساری شہادتیں کافی ہیں کہ یہ امام کا زمانہ ہے اور یہ سچ ہے کہ کوئی درخت جڑکے سوا، کوئی کام ایک مخزن کے سوا نہیں چلتا آخر خدا ہی کا فضل ہو ا.۹؎ (الجمعۃ :۵) اللہ تعالیٰ بڑے ہی فضلوں کا مالک ہے یہ اسی کا فضل ہے کہ وہ کس کے زمانہ میں امام ، معلّم مزکّی ، تالی بھیج دیتا ہے اور کوئی قوم کادرد مند انسان مبعوث فرما دیتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کے فضل اور رحم کا ایک عظیم الشان نمونہ تھا آپ کی بعثت اللہ تعالیٰ کی رحمانی صفت کے انتہائی تقاضے کا نتیجہ تھی اسی لئے فرمایا (الأنبیآء :۱۰۸)محمد وہی ہوتا ہے جس کی تعریف کی جاتی ہے آپ کے نام ہی میں
رحمانیت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ تعریف اسی کی کی جاتی ہے جو بلا مزدوری کام آئے اور شفقت فرمائے اگر مزدوری بھی لے تو پھر تعریف کیسی !بے وجہ عنایت فرما کی ہی تعریف ہوتی ہے اور بے مانگے دینے والا رحمن ہوتا ہے.پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمن کا مظہر ہوئے.اس قسم کے رحیم و کریم عنایت فرما کے احکام کی خلاف ورزی ایک شریر النفس اور ناپاک فطرت کاکام ہے کیونکہ فطرتی طور پر بمصداق جُبِلَتِ الْقُلُوْبُ عَلٰی حُبِّ مَنْ أَحْسَنَ إِلَیْہَا(کنزالعمال ،حدیث نمبر۴۴۱۰۲ جزء نمبر۱۶صفحہ۱۱۵)محسن کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے اور محبت کا شدید تقاضا اس کی اتباع ہے اس لئے فرمایا گیا.(آل عمران :۳۲)جوچاہتا ہے کہ وہ مولا کریم کا محبوب ہو اس کو لازم ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے اور سچی اتباع کامل محبت سے پیدا ہوتی ہے اور محبت محسن کے احسانوں کی یاد سے بڑھتی ہے جو شخص اس محسن اور عنایت فرما کی خلاف ورزی کرتا ہے جو بلا وجہ اور بلا مزد مروت و احسان کرتا ہے وہ سب سے زیادہ سزا کا مستحق ہوتا ہے اسی لئے ابو الحنفاء کے منہ سے قرآن شریف میں اب آذر کو یہ کہلوا دیا َ (مریم :۴۶)یعنی جس نے بلا وجہ تم پر احسان کیا تیرا قلب اچھا ہوتا تو اس کی محبت میں تو ترقی کرتا برخلاف اس کے تو نے بتوں کی پرستش کی.پس اس رحمانی صفت کے انکار کی وجہ سے عذاب بھی شدید آئے گا.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پہلو سے بھی رحمانیت کے مظہر تھے کہ آپ قرآن جیسی رحمت، شفا ،نور ،امام کتاب لے کر آئے اور قرآن کا نزول رحمانی صفت ہی کا اقتضا تھا جیسے فرمایا (الرَّحمٰن:۲‘۳ )قرآن کا نزول چونکہ اس صفت کے نیچے تھا آپ جب معلّم القرآن ہوئے تو اسی صفت کے مظہر بن کر باوجود اس کے کہ ان سے دکھ اٹھا ئے مگر دُعا، توجہ، عقد ہمت اور تدبیر کو نہ چھوڑا یہاں تک کہ آخر آپ کامیاب ہوگئے.پھر جن لوگوں نے آپ کی سچی اور کامل اتباع کی ان کو اعلیٰ درجہ کی جزا ملی اور ان کی تعریف ہوئی.اس پہلو سے آپ کا نام احمدؐ ٹھہرا کیونکہ دوسرے کی تعریف جب کرتا ہے جب فائدہ دیتا ہے چونکہ آپ نے عظیم الشان فائدہ دنیا کو
پہنچایا اس لئے آپ کی تعریف بھی اسی قدر ہوئی.اس سے بڑھ کر کیا فائدہ ہوگا کہ ابد ا لآباد کے لئے خلافت کا سلسلہ آپ کے کامل متبعین میں رکھ دیا. (النّور:۵۶).اسی وعدہ حقّہ اور صادقہ کے موافق آج بھی خدا تعالیٰ(نے)خاتم الخلفاء کو بھیجا ہے.غرض !خدا میں جو رحمن ورحیم کی صفت تھی محمد و احمد میں وہ جلوہ گر ہوئیں اس لئے وہ اپنے سچے غلاموں میں دونوں باتیں پیدا کر دیتا ہے اور یہ دیکھا گیا ہے کہ جس قدر مصلحان اسلام میں ہوئے ہیں وہ یا اسم محمدؐ کے نیچے تھے یا اسم احمدؐ کے.میں نے دیکھا ہے کہ علماء ایک بڑی بھاری غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں جب کہ وہ تمام مختلف پیشگوئیاں جو مختلف اشخاص کے حق میں ہوئی ہیں ایک ہی آدمی میں جمع کرنا چاہتے ہیں کی آیت بھی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ موعود خلیفے ایک سے زیادہ ہوں گے پھر کیوں سعی کی جاتی ہے کہ سب کا مصداق ایک ہی ہو.مختلف مہدی ہوئے اور اپنے اپنے وقت پر ہو گزرے مسیح بھی ایک مہدی ہے اور وہ اب موجود ہے مگر ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ جس کو چاہتا ہے فضل دیتا ہے اگر کہو کہ اس وقت بہت سے سلسلے گدی نشین اور سجادہ نشین اور کیا کیا ہیں تو (الجمعۃ :۶) اسفار ان بڑی کتابوں کو کہتے ہیں جن سے کشف حقائق ہو جاتا ہے مگر کوئی بتائے کہ ان انکشافات کے اسباب سے گدھا کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے گدھا جس کی عقد ہمت اور توجہ اس سے پرے نہیں کہ دانہ اور گھاس مل جاوے یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ اچھی اروڑی مل جاوے اور طویلہ کا آخری حِصّہ ہو جو خاکروب نے اچھی طرح صاف نہ کیا ہو.رات کو جھول اور پالان مل جاوے مقدرت سے زیادہ بوجھ نہ ہو.اصل غرض اس کی تھوڑی سی نفس پرستی ہے.اسی مثال کو اللہ تعالیٰ یہاں بیان کرتا ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس انکشاف حقائق کے اسباب ہوتے ہیں مگر وہ ان سے اس قدر فائدہ صرف اٹھاتے ہیں جس قدر گدھا دانے ، گھاس، جل ، پالان اور تھوڑی سی رسی یا اروڑی سے.پس جن کی اصل غرض دنیا ہوتی
ہے وہ ان اسباب انکشاف حقائق سے اسی مقدار دنیا طلبی کے فائدے اٹھاتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں.اس وقت ایک قوم دنیا میں موجود ہے جس نے ۲۷ سو زبان میں ایک کتاب کا ترجمہ کیا اور پھر ترجمہ در ترجمہ کر کے بھی کہتے ہیں کہ وہ کلام اللہ ہے اگر پو چھو کہ اس پر عمل کرنا شرط ہے یا نہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ شرط نہیں کیونکہ شریعت لعنت ہے پر سمجھ میں نہیں آتا کہ اس قدر بوجھ کیونکر اٹھایا ہے اس کی غرض ترجمہ کنندہ کی غرض روپیہ ہے پریچر کی غرض اتنی ہی ہے کہ تنخواہ مل جاوے یہ قوم اس کی مصداق ہے(البقرۃ:۸۰).یہ صاف ظاہر ہے کہ اس قدر زبانوں میں مسیح نے کام نہیں کیا مگر پھر بھی وہ اس کا نام کلام اللہ، کتابِ مقدس رکھا جاتا ہے.پریچروں کو کلامِ الٰہی کے خادم کہا جاتا ہے اس سے کس صفائی کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ یَتْلُوْا کی صفت نہیں رہی یہ تو ہے غیر مذہب کے لوگوں کا حال، اپنے گھر میں غورکرو.۱۰؎ کثرت کے ساتھ وہ لوگ جو علماء کہلاتے ہیں ایسے ملیں گے جو یہ کہتے ہیں کہ تَبَارَکَ الَّذِیْ یاد ہے اور کچھ نماز جنازہ آجاوے گویا سارے قرآن میں ان کو اتنی ہی ضرورت ہے کہ مُردے یا نئے تعلق نکاح وغیرہ سے کچھ مل جاوے.قرآن کی غرض و غایت ان کے نزدیک صرف اتنی ہی ہے اس سے آگے کچھ نہیں.مصنفوں کو دیکھو کتابیں لکھتے ہیں.مطلب صرف اتنا ہے کہ کچھ فائدہ ہو ان اسفار کا نتیجہ گدھے کی طرح ہے جو فوائد قلیلہ کے لئے اس قدر بوجھ اٹھاتا ہے کیا بُری مثال ہے وہ جامع اخلاق انسان جو صفاتِ عالیہ کا وارث ہو سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل و رحم کا وارث بن سکتا ہے وہ انسان جس کا خدا اللہ ہے اور بچھڑا نہیں وہ اس بات پر ایمان لایا ہے کہ اخلاقِ فاضلہ کے حاصل کرنے منشاء زندگی کو معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی معلّم آئے جو مزکّیہو اور تالی آیات اللہ کا ہو.مجھے اس آیت نے بارہا متأثر بنایا ہے(طٰہٰ :۹۰) وہ معبود کیسا ہو سکتا ہے جو کسی کی بات کا
جواب ہی نہیں دیتا اگر وہ کسی ایک سے بھی بولتا تو کم از کم یہ الزام اٹھ جاتا.جو لوگ یہ مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اب کسی سے کلام نہیں کرتا مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ بچھڑے خدا پر ایمان لائے ہیں نہ کہ متکلم خدا پر! وہ ہر گز نہیں مانتے کہ وہ (الفاتحۃ:۲تا۴ ) خدا ہے.ایک نیچری کہتا ہے کہ دُعاؤں کا کچھ نتیجہ اور اثر نہیں اس قسم کا اعتقاد رکھنے والا بھی خدا کو بچھڑا ہی مانتا ہے اسلام کے خدا پر وہ یقین نہیں لاتا جس کی بابت یہ اعتقاد رکھنا ضروی ہے کہ وہ اللہ وہی ہے جس نے یہ سچ فرمایا.اُ (المؤمن:۶۱).غرض انسان اسفار سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا جب تک معلّم ، مزکّی موجودنہ ہو.اگر ساری دانش اور قابلیت کتابوں پر منحصر ہوتی تو میں سچ کہتا ہوں کہ میں سب سے بڑھ کر تجربہ کار ہوتا کیونکہ جس قدر کتابیں میں نے پڑھی ہیں بہت تھوڑے ہوں گے جنھوں نے اس قدر مطالعہ کیا ہو اور بہت تھوڑے ہوں گے جن کے پاس اس قدر ذخیرہ کتب کا ہوگا مگر میں یہ بھی سچ کہتا ہوں کہ وہ ساری کتابیں اور سارا مطالعہ بالکل رائیگاں اور بے فائدہ ہوتا اگر میں امام کے پاس اور اس کی خدمت میں نہ ہوتا.مجرد کتابوں سے آدمی کیا سیکھ سکتا ہے جب تک مزکّینہ ہو.اب میری حالت یہ ہے کہ جبکہ میں نے محض خدا کے فضل سے راستباز کو پالیا ہے تو ایک منٹ بھی اس سے دور رہنا نہیں چاہتا یہاں تک کہ ایک نے ہزار روپیہ دے کر بلوانا چاہا مگر میں نے گوارا نہ کیا پھر اس پر مجھے تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے دوسرے بھائی کیونکر قادیان سے باہر جانا چاہتے ہیں.میں یہ باتیں صرف تحدیث بالنعمۃ کے طور پر کہتا ہو ں شاید کسی کو فائدہ ہو کہ میں نے بہت کتابیں جمع کیں لیکن جو کچھ مجھے ملا محض اس کے فضل سے ملا.تم نہ تھے کوئی دعویٰ نہ تھا اس وقت میرے دل نے مان لیا تھا کہ یہ سچا ہے میرے لئے اس کی سچائی کی دلیل اور نشان میں آپ ہی تھا.پھر میرا لڑکا عبدالحئی آیۃ اللہ ہے.محمد احمد مرگیا تھا.لدھیانہ کے ایک معترض نے اس پر اعتراض کیا میرے غافل قلب نے اس کی پروانہ کی اور حقیقت میں میری یہ حالت ہے کہ میں محض اولاد کا خواہشمند نہ تھا میں اسی مجلس میں ایک شخص کو بطور شہادت پیش کر سکتا ہوں اور وہ ایڈیٹر الحکم ہے کہ ایک طبیب نے جو اشتہاری ہے مجھے اس کی معرفت پیغام دیا کہ تم میرا علاج کرو تمہارے یہاں اولاد ہو
جاوے گی میں نے اس کو یہی جواب دیا کہ مجھے محض اولاد کی ضرورت نہیں بلکہ سعادت مند اولادکی ضرروت ہے اگر اس کا کوئی نسخہ تمہارے پاس ہو تو میں کئی ہزار روپیہ دینے کو تیار ہوں اس کا جواب اس نے کچھ نہ دیا.(ایڈیٹر.یہ واقعہ بالکل درسست اور صحیح ہے) غرض میں نے اس لدھیانوی معترض کی تحریر کا کچھ بھی لحاظ نہ کیا اور اس پر کوئی توجہ نہ کی مگر میرے آقا امام نے اس پر توجہ کی تو اس کو وہ بشارت ملی جو انوار الاسلام کے صفحہ ۲۶ پر درج ہے اور پھر اس کے چند برس بعد یہ بچہ جس کا نام عبد الحئی ہے پیدا ہوا.اسی کشف کے مطابق اس کے جسم پر بعض پھوڑے نکلے جن کے علاج میں میری طبابت گرد تھی.اس کو ان پھوڑوں کے باعث سخت تکلیف تھی اور وہ ساری رات اور دن بھر تڑپتا اور بے چین رہتا جس کے ساتھ ہم کو بھی کرب ہوتا مگر ہم مجبور تھے کچھ نہ کر سکتے تھے ان پھوڑوں کے علاج کی طرف بھی اس کشف میں ایماء تھا اور اس کی ایک جز ہلدی تھی اور اس کے ساتھ ایک اور دوائی تھی جو یاد نہ رہی تھی ہم نے اس کے اضطراب اور کرب کو دیکھ کر چاہا کہ ہلدی لگائیں آپ نے کہا کہ میں جرأت نہیں کر سکتا کیونکہ اس کا دوسرا جزو یاد نہیں مگر ہم نے غلطی کھائی اور ہلدی لگادی جس سے وہ بہت ہی تڑپا او ر آخر ہم کو وہ دھونی پڑی اس سے ہمارا ایمان تازہ ہو گیا کہ ہم کیسے ضعیف اور عاجز ہیں کہ اپنے قیاس اور فکر سے اتنی بات نہیں نکال سکے اور یہ مامور اور مرسلوں کی جماعت ایک مشین اور کل کی طرح ہوتے ہیں جس کے چلانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے اس کے بلائے بغیر یہ نہیں بولتے غرض میرا ایمان ان نشانوں سے بھی پہلے کا ہے اور یہ خدا کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو نشان کے بغیر نہ چھوڑا سینکڑوں نشان دکھا دئیے اور خود میرے ہی گھر میں نشان موجود ہے جس کا میں نے ذکر بھی کیا ہے.یہ بات بھی یادرکھو کہ جو لوگ اپنا ایمان کسی نشان سے مشروط رکھتے ہیں وہ ٹھوکر کھاتے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کو آزمانا چاہتے ہیں اور اس سوء ادبی اور جرأت کی سزا ان کو یہ ملتی ہے کہ وہ محروم رہ جاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اقتراحی معجزات مانگتے ہیں ان کو کوئی نشان نہیں دیا جاتا.میں نے اب بھی ایسے لوگ دیکھے ہیں جو اس قسم کے اعتراض اور جرأت کیا کرتے ہیں کہ اتنے عرصہ میں فلاں قسم کا عذاب ہم پر آجائے وہ اللہ تعالیٰ کو اپنی عقل اور حد کے پیمانہ میں محدود کرنا چاہتے ہیں اور اس پر حکومت کی خواہش کرتے ہیں حالانکہ اَ (یوسف:۲۲)
اس کی شان ہے.مختصریہ کہ ہم محتاج تھے اور قحط زدہ تھے فطرتاًہم چاہتے تھے کہ اس وقت ہماری دستگیری کی جاوے لیکن ہماری صرف صورت سوال تھی اگر ہم میں عقل ہوتی تو زمانہ کی حالت کو دیکھ کر آنے والے کی تلاش کرتے مگر میں پھر بھی اللہ تعالیٰ کے بڑے فضل کا شکریہ کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ٹھوکر نہیں کھانے دی بلکہ میری حفاظت فرمائی.۱۱؎ کہہ دو! اے یہودیو! اگر تمھیں یہ ناز اور گھمنڈ ہے کہ تم اللہ کے ولی ہو.تو اگر اس دعویٰ میں سچے ہو تو پھر الموت کی تمنّا کرو.یہودیوں کو اس لئے خصوصاً مخاطب فرمایا کہ وہ عیسائیوں کے بالمقابل مشکلات میں نہ تھے اور کتاب اللہ کے وارث تھے چونکہ عمل نہ تھا اور دنیوی لذات اور شہوات پر جو عارضی اور فانی تھیں مر مٹے تھے اس لئے گدھے کہلائے.بایں وہ اس امر کے مدّعی تھے کہ(المآئدۃ :۱۹ )ان کا یہ دعویٰ لوگوں کو حیرت میں ڈالتا تھا اس لئے اس دعویٰ کی صحت اور عدمِ صحت کے لئے اللہ تعالیٰ اب اس طرح پر تحدی کرتا ہے.عیسائیوں کی طرح مشکلات میں نہ تھے اس سے یہ مراد ہے کہ عیسائی قوم اپنی کتاب کے متعلق خطرناک مشکلات میں مبتلا ہے اوّل حضرت مسیؑح کی کوئی کتاب ہی ان کے ہاتھ میں نہیں ہے اور یہ مشکل بہت ہی خطرناک مشکل ہے پھر دوسر ی مشکل یہ ہے کہ جو کچھ ان کے ہاتھ میں ہے اس کے متعلق یہ قطعی اور یقینی فیصلہ نہیں ہے کہ وہ مسیح کے حواریوں کی ہی ہے کیونکہ لوقا اور مرقس کی بابت تو صاف فیصلہ ہے کہ وہ حواری نہ تھے اور یوحنّا کی بابت بھی بہت سے اعتراض ہوتے ہیں اور ان میں الحاقی حِصّے پائے جاتے ہیں پھر یہ دعویٰ نہیں کہ وہ خدا کے الہام اور وحی سے لکھے گئے ہیں پھر تیسری مشکل اور ہے کہ ان میں باہم اس قدر اختلاف ہے جو ان کو پایہ اعتبار سے ساقط کررہا ہے.…… علاوہ بریں بہت باتیں ان میں ایسی پائی جاتی ہیں جن کی کوئی اصل ہی نہیں.چہارم یہ مشکل ہے کہ جس زبان میں مسیح نے وعظ کہا تھا وہ عبری زبان تھی ان کی ماں کی بھی یہی بولی تھی چنانچہ مسیح کے آخری الفاظ جو انجیل میں موجود
ہیں ایلی ایلی لما سبقتانی یہ بھی عبرانی ہیں.لیکن اس کے مقابلہ میں یونانی کو اصل سمجھا گیا حالانکہ یہ زبان عبری کے مقابل میں ردی اور کفر سمجھی جاتی تھی یہاں تک کہ یروشلم میں یونانی کے متعلق کسی نے فتویٰ پوچھا کہ کیا اس کو پڑھ سکتا ہوں تو اس کو یہی جواب دیا گیا کہ رات اور دن کے تما م گھنٹوں میں عبرانی پڑھو.پھر اس سے جو وقت بچے اس میں یونانی پڑھ لو اب اس سے اندازہ کر لو کہ یونانی کیسی پھیلی ہوئی تھی اور اس سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے تھے.یوسی فس مورّخ عبری تھا وہ یونانی جانتا تھا مگر اسے یہ عذر کرنا پڑا کہ یونانی حرام ہے.اچھا آدمی اس کو سیکھ نہیں سکتا یوسی فس مستثنیٰ کیا گیاہے اور اس طرح پر گویا قوم کا کفر کیا گیا ہے.غرض اس قسم کے مشکلات میں عیسائی قومیں مبتلا ہیں سب سے بڑی مشکل جس کا ابھی میں نے ذکر کیا انجیل کی اصلی زبان کا سوال ہے جس کے حل نہ ہو نے کی وجہ سے اناجیل کی حقیقت بہت ہی کمزور اور بے اصل ثابت ہوتی ہے جب یہ پتا ہی نہ رہا کہ اصل کتاب کس زبان میں تھی؟ تو کتاب کی اصلیت میں کتنا بڑا شک پڑتا ہے!اور یہ ایسی زبردست زد ہے عیسائی مذہب پر کہ اس کا جواب کچھ نہیں دے سکتے.چونکہ اصل کتاب ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ ترجمہ در ترجمہ ہے اس لئے اور بھی غلطیاں در غلطیاں اس میں واقع ہوگئی ہیں اور اس کا اندازہ کرنا ہی اب قریباً ناممکن ہو گیا ہے کہ یہ قوم کس قدر غلطیوں میں مبتلا ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس کتاب کے متعلق یہی فیصلہ دیا ہے. (البقرۃ :۸۰) غرض عیسائی قوم تو ان مشکلات میں مبتلا تھی اور ہے اس لئے اس قوم کو مخاطب کیا جس کا یہ دعویٰ تھاپس ان کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر تمہارا یہ دعویٰ اور زُعم ہے کہ تم خدا کے محبوب اور ابنا اور اولیا ہو تو پھر الموت کی تمنّا کرو.اولیاء اللہ نہیں فرمایا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں فرمایا کہ ایسی قوم کو جو گدھے سے مشابہ ہو چکی ہے اپنی طرف مضاف کرے الموت کی تمنّا کرو.یہ ایک قولِ فیصل ہے ان لوگوں کے
درمیان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بروز علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درمیان.بہادر ہو خدا کے حضور اپنے تئیں راست باز اور مقرّب سمجھتے ہو تو پھر آؤ میری موت کے لئے بد دُعائیں کرو اور منصوبے باندھو کہ میں مر جاؤں.پھر دیکھ لو گے کہ کون کامیاب ہوتا ہے چنانچہ غور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کس قدر کوششیں اور ناپاک منصوبے کئے گئے اور آپ کی جان لینے کے لئے کونسا دقیقہ تھا جو باقی رکھا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے کیسے اپنے وعدہ کو پورا کیا.(المآئدۃ :۶۸) میں الموت کے معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کی آرزو اور کوشش کیوں کرتا ہوں اس کا ایک زندہ ثبوت ہے احمد ؑ مظہر نے دنیا کے تمام سجادہ نشینوں اور سیفی پڑھنے والوں کو کہا ہے کہ میرے لئے بد دُعا کرو اور پھر دیکھو کہ وہ کس پر الٹ پڑتی ہے.مخالف جو بد دُعائیں کرتے ہیں ان کی بد دُعائیں ان پر لوٹیں گی جو موت کی آرزو کرتے ہیں خود موت کا نشانہ بنیں گے اور آخر ان کو ماننا پڑے گا اور یامنافقانہ رنگ میں خاموش ہوجائیں گے اور ملل ہالکہ چوڑھوں چماروں کی طرح زندگی بسر کریں گے.۱۲؎ یہ کبھی بھی مرد میدان ہو کر نہ نکلیں گے اور الموت کی تمنّا نہ کریں گے مباہلہ کے لئے نہ آئیں گے.لوگوں کے سامنے چونکہ انکار نہیں کر سکتے اس لئے ایسی شرائط اور حجتیں پیش کریں گے جن کا آخری نتیجہ یہ ہو کہ مباہلہ نہ کرنا پڑے کیونکہ اپنی بداعمالیوں اور ایمانی کمزوریوں کو تو خوب جانتے ہیں صرف پر دہ دری کے لئے حیلے بہانے کرتے ہیں اور دنیوی مفاداور منافقوں کو نقصان سے بچانے کی خاطر.یہ بجائے خود کیسی حیرت انگیز اور عظیم الشان تحدّی ہے جس میں مخالفوں کو غیرت بھی دلائی گئی ہے کہ کبھی بھی مباہلہ میں نہ نکلیں گے اب اگر وہ اپنی ذاتی شعور اور بصیرت سے اپنے ایمان میں قوت پاتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حق پر نہیں سمجھتے تو پھر کونسا امر ہے جو ان کو اس تمنّٰی سے روک سکتا ہے وہ اتنا ہی غور کریں کہ اس میدان میں نہ نکلنے سے کی پیشگوئی پورا کرنے والے ٹھہریں گے مگر آخر خدا تعالیٰ کی ہی باتیں سچی اور لا تبدیل ہوتی ہیں.یہی سچ ہے کہ وہ کبھی الموت کی تمنّانہ کریں گے کیونکہ (التغابن:۵ ).
اللہ تعالیٰ صدور (مراکز قویٰ)کا عالم ہے مگر یاد رکھیں کہ یہ بھی مباہلہ ہی ہے مقابلہ جو کرتے ہیں اس مقابلہ میں مباہلہ کا رنگ موجود ہوتاہے اس لئے وہ موت جس سے بھاگتے ہیں اسی سے مخالف ہلاک ہوتے ہیں پھر عالم الغیب کے حضور جاؤ گے اور وہاں بھی عذاب ہوگا اور یہ اربعہ متناسبہ کے قاعدہ کی رو سے صحیح ثابت ہے کیونکہ جب اس جہان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے موافق وہ معذّب ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے موافق وہ اس جہان میں بھی معذّب ہوں گے.اب اس قوم کا فیصلہ کر کے اللہ تعالیٰ صرف مومنوں کو مخاطب کرتا ہے یا بہ تغیر الفاظ یوں کہو کہ کی مصداق قوم کو مخاطب کرتا ہے اور پہلے اس قوم کا ذکر کیا کہ جنہوں نے تشابہ بالیہود کیا.کے مصداق گروہ کومخاطب کر کے فرماتا ہے (الجمعۃ :۱۰)یعنی اے مومنو! جب تم نماز کے لئے جمعہ کے دن پکارے جاؤ تو اللہ کے ذکر کی طرف کوشش کر کے چلے آؤ یہ تمہارے لئے بہتر ہے.میں نے ابھی کہا ہے کہ یہ آیت کے نیچے ہے اور یہ بالاتفاق مانا گیا ہے کہ وہ مسیح موعود و مہدی مسعود کا زمانہ ہے کھلے الفاظ میں میں یوں کہتا ہوں کہ یہ قوم ہماری قوم احمدی قوم ہے اور تم کو اللہ تعالیٰ مخاطب کر کے فرماتا ہے.مسیح موعود کا زمانہ بھی حقیقت میں ایک جمعہ ہے.جیسا کہ آدم علیہ السلام کی پیدائش کی تکمیل جمعہ کی آخری ساعت میں ہوئی تھی اسی طرح پر یہ ضروری تھا کہ آدم ثانی کی بعثت بھی جمعہ ہی کہلائے اورجس طرح پر جمعہ کا دن باقی آئمہ کو معطل کر دیتا ہے اور مسلمانوں کو ایک مسجد میں جمع کر کے ایک ہی امام کے تابع کر دیتا ہے.مسیح موعودکانام اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ اسی لئے رکھا گیا ہے اور حَکَم بھی اسی واسطے رکھا گیا ہے یہ باتیں میں محض خوش اعتقادی کی بنا پر نہیں کہتا بلکہ میں یقین رکھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ
نے جہاں تک مجھے سمجھا یا ہے ہاں اس نے آپ سمجھایا ہے قرآن شریف اسی مطلب کو ادا کرتا ہے اور قرآن شریف نے اس آیت میں (الکہف:۱۰۰) میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کو سورہ جمعہ ہی میں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے.غرض مسیح موعود کا زمانہ ایک روحانی جمعہ ہے اور سے مراد وہی قوم ہو سکتی اور ہے جو مسیح موعود کو ماننے والی ہے اگرچہ عام طور پر عام مسلمان بھی اس حکم کے نیچے ہیں لیکن جو باوجود مسلمان اور مومن کہلانے کے مسیح موعود کا انکار کرتے ہیں وہ در اصل قرآن شریف کی اس آیت کے مصداق ہیں تُؤْ (البقرۃ:۸۶)پس میں یقینی طور پر سچا مصداق اس آیت کا انہیں لوگوں کو مانتا ہوں جو کل قرآن شریف پر ایمان لاتے ہیں اور عملی یا اعتقادی طور پر کسی حِصّہ کا انکار نہیں کرتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ مومنوں کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ تم ذکر اللہ کی طرف چلے آؤ.صلٰوۃ کیا ہے؟اس کا جواب خود اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں دیا ہے (العنْکبوت :۴۶) نماز تمام بے حیائیوں اور بد کاریوں سے روکتی ہے پس اگر نماز پڑھ کر بھی بے حیائیاں اور بدیاں نہیں رکتی ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ ابھی تک نماز اپنے اصل مرکز پر نہیں اور وہ سچا مفہوم جو نماز کاہے وہ حاصل نہیں ہوا.اس لئے میں تم سب کو جو یہاں موجود ہیں مخاطب کر کے کہنا چاہتا ہوں کہ تم اپنی نمازوں کا اسی معیار پر امتحان کرو اور دیکھو کہ کیا تمہاری بدیاں دن بدن کم ہو رہی ہیں یا نہیں.اگر نسبتاًان میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا تو پھر یہ خطرناک بات ہے.مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لئے بلایا جاوے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف آجاؤ.۱۳؎ یہ تمہارے لئے اچھا ہے اور بیع چھوڑ دو.میں نے اس بیع کے لفظ پر غور کی ہے کہ یہ کیوں کہا؟ انسان مختلف مشاغل میں مصروف ہوتا ہے.ملازمت، حرفت ، زراعت وغیرہ
یہاں خصوصیت کے ساتھ بیع کا کیوں ذکرکیا ہے؟ حقیقت میں جو لوگ قرآن شریف پر غور کرتے ہیں اور اس کے نکات اور معارف سے بہرہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کو ضروری ہے کہ وہ اس کی ترتیب اور الفاظ پر بڑی گہری نگاہ سے غور کیا کریں.میں نے جب اس لفظ پر غور کی تو میرے ایمان نے شہادت دی کہ چونکہ یہ سب سلسلہ وَ کے نیچے ہے اور یہ مہدی اور مسیح کا زمانہ ہے اس زمانہ میں دجال کا فتنہ بہت بڑا ہوگا اور دجال کے معنی کتب لغت میں جو لکھے ہیں اس سے پایا جاتا ہے کہ وہ ایک فرقہ عظیمہ ہو گا جو تجارت کے لئے پھرے گا.گویا یہ مشترکہ کمپنیاں تجارت کی طرف بلاتی ہوں گی اور ذکر اللہ اور طرف.اس لئے اس بیع کے لفظ میں دجال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.ایک جمعہ تو ہفتہ کے بعد پڑھتے ہیں جیسے یہ جمعہ چھوٹا ہے ویسے ہی اس کے مقابل تجارتیں بھی چھوٹی ہوتی ہیں لیکن ایک عظیم الشان جمعہ ہے چھ ہزار برس کے بعد ساتویں ہزار کا جمعہ ہے اگر اور دنوں میں جمعہ کی ضرورت ہے اور اس کے حق میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ جو جمعہ کی پروا نہیں کرتا اس کا ۴ -۱ حِصّہ دل کا سیاہ ہوجاتا ہے اور دو جمعہ کے ترک سے نصف اور چار جمعہ کے ترک سے سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور اس طرح پر گویا عبادت کی لذت ہی باقی نہیں رہتی.پھر فرمایا جو جمعہ سے تخلّف کرتے ہیں میرے جی میں آتا ہے کہ ان کے گھروں میں آگ لگا دی جاوے اور پھر فرمایا کہ اس جمعہ میں ایک وقت ہے جو قبولیتِ دُعا کا وقت ہے پھر اسی جمعہ میں آدم اپنے کمال کو پہنچا اور بہشت میں داخل ہوا.بہشت سے باہر مخلوقات کے پھیلانے کا ذریعہ ہوا.اسی جمعہ میں بہت درود شریف پڑھنے کا ارشاد ہوا کم از کم سو بار جمعہ کی رات اور دن کو.اور ایک اَور عظیم الشان بات ہے کہ جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھ لیا کرو اور نہیں تو کم از کم پہلی اور آخری دس آیتیں ہی پڑھ لیا کرو.پہلی آیتوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ان میں لکھا ہے. (الکہف :۵)یعنی ان کو ڈرایا جاوے جنہوں نے اللہ کا ولد تجویز کیا ہے اور یہ بھی ہے کہ اس کا بیٹا تجویز کرنے میں (الکہف :۶) نہ ان
کے پاس نہ ان کے بڑوں کے پاس کوئی علمی دلیل ہے ہاں یہ بات ہے.(الکہف :۱۰۵).ان کو اپنی صنعتوں پر ہی ناز ہے.اب ان تمام امور پر نظر کرو اور سوچو تو معلوم ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معمولی جمعہ میں بھی فتن دجال سے ڈرایا ہے.جمعہ میں فتن دجال سے ڈرانا اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے مطلع کیا ہے کہ جمعہ کے ساتھ مسیح موعود کو عظیم الشان تعلق ہے بلکہ میں یہ یقیناً کہتا ہوں کہ جمعہ کا وجود بھی مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت اور آمد کے لئے ایک نشان اور پیشگوئی تھا مگر افسوس ہے کہ جب مسلمانوں نے معمولی جمعہ سے لاپروائی کی اور اس کو ترک کر دیا تو اس بڑے جمعہ کی طرف آنے کی ان کو توفیق ملنی بہت مشکل ہو گئی.میں نے بڑے غور کیساتھ ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال کی تاریخ پر فکر کی ہے اور میں اس صحیح نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ سلسلہ زوال اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب مسلمانوں نے ترک جمعہ کو کیا.فتن دجال سے جو جمعہ کے آداب میں ڈرایا ہے یہ اشارہ تھا اس امر کی طرف کہ دجال کا فتنہ عظیم اس جمعہ میں ہونے والا ہے.دجال کے مختلف معنی ہیں دجا ل سونے کے معنی بھی دیتا ہے اور دجال تجارتی کمپنیوں کو بھی کہتے ہیں یہاں جملہ میں بیع کے لفظ سے بتایا ہے کہ دجال کی پرواہ نہ کرو اب یہ وہ جملہ آ گیا ہے جس کی یاد دہانی جمعہ میں رکھی گئی تھی.عجیب بات ہے کہ اس مسیح موعود کو آدم بھی کہا گیا ہے اور پھر یہ اور بھی مشابہت ہے کہ جیسے آدم کی تکمیل جمعہ کی آخری گھڑی میں ہوئی تھی.اسی طرح پر اس مسیح موعود کے ہاتھ پر بھی اسلام کی تکمیل اشاعت کاکام رکھا گیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے. (الصّف :۱۰) مفسروں نے بالاتفاق تسلیم کر لیاہے کہ یہ غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ہوگا اور حضرت امامؑ نے (المائدۃ :۴) کے جو معنے کئے ہیں وہ آپ میں سے اکثروں نے سنے ہوں گے وہ فرماتے ہیں کہ تکمیل سے دو قسم کی تکمیل مراد ہے ایک تکمیل ہدایت دوسری تکمیل اشاعت ہدایت.تکمیل ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ہو چکی اورتکمیل
اشاعت ہدایت کا یہ وقت آیا ہے یعنی یہ مسیح موعود کے وقت مقدر تھی چنانچہ اس وقت دیکھتے ہو اشاعت کے کس قدر سامان اور اسباب پیدا ہوگئے ہیں.اور پھر جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک جمعہ کے ترک سے ۴ -۱ حِصّہ دل کا سیاہ ہوجاتا ہے اسی طرح پر یہ بھی مسلّم بات ہے کہ خدا کی وحی کے انکار سے سلبِ ایمان ہو جاتا ہے پھر خدا تعالیٰ کے مامور ومرسل مسیح موعود کے انکار سے سلبِ ایمان ہونا یقینی ٹھہرا.اور پھر جمعہ میں ایک وقت ایسا ہے جو قبولیتِ دُعا کا ہے اسی طرح پر جب خدا تعالیٰ کا کوئی برگزیدہ بندہ اصلاحِ خلق کے لئے آتا ہے تو لیلۃ القدر کا وقت ہوتاہے جس کی بابت قرآن شریف میں آچکا ہے کہ وہ (القدر :۴) ہوتی ہے ان سارے امور کو اکٹھا کرو اور پھر سوچو اور دیکھو کہ کیا اب یہ وہ وقت نہیں ہے؟میں ایمان سے کہتا ہوں اور پھر اس پر پورا یقین رکھتا ہوں کہ یہ وہی وقت ہے یہ وہی جمعہ ہے.دجال بھی موجود ہے اور مسیح موعود بھی ہے. (الجمعۃ :۱۰)دو وقت ایسے آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُمّیوں میں اپنے رسول کو بھیجا ہے ایک وہ وقت تھا جب کُل دنیا پر تاریکی چھائی ہوئی تھی خصوصاً عرب میں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اور ابراہیم واسماعیل کی دُعا کے نتیجہ میں ان میں رسول مبعوث کیا اور اب آپ آئے تیرہ سو سال گزر نے کے بعد جب اسلام کی حالت پر اُمّیت غالب ہوگئی اور اخلاقی اور ایمانی اور عملی قوتیں کمزور اور مُردہ ہوگئی اور قرآن شریف کی طرف بالکل توجہ نہ رہی بلکہ وہ وقت آ گیا کہ رَبِّ (الفرقان :۳۱)ا مصداق ہے اور قرآن آسمان پراُٹھ گیا اورہر طرف سے اسلام اور قرآن پر حملے ہونے لگے تو خدا کے اس وعدہ کا وقت آیا (الحجر :۱۰)اس کی حفاظت کی ضرورت ہے اور چونکہ وہ آسمان پر اٹھ گیا ہے گویا اس کے دوسرے نزول کی ضرورت ہے تب ہی تو (الجمعۃ :۴) والی قوم تعلیم اور ہدایت حاصل کرے اس لئے والی قوم کا معلّم ضرور ہے کہ وہی احمد ہو
(صلی اللہ علیہ وسلم )جو مکّہ میں مبعوث ہوا تھا پس اس وقت وہی احمد اپنے بروزی رنگ میں آیا ہے دیکھنے والے دیکھتے ہیں جن کو توفیق نہیں ملی وہ نہیں دیکھ سکتے.قرآن شریف سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نام ذکر بھی ہے اور جیسے قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے ویسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا بھی وعدہ فرمایا تھا.(المآئدۃ :۶۸) اور عجیب بات ہے کہ یہی وعدہ حضرت مسیح موعود سے بھی ہواہے ان ساری آیتوں پر غور کرنے سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ یہ صحیح ہے کہ ذکر سے مراد اس آیت میں جمعہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بعثت ہے جو بروزی رنگ میں مسیح موعودؑ کی صورت میں ہوئی.۱۴؎ یہ وہ ذکر ہے جو آخری خلیفہ کہلاتا ہے یہ وہ راہ ہے جو صراط مستقیم ہے.پس اس طرف آجاؤ اور اس وقت دجالی تحریکوں کی طرف نہ جاؤ.اس صراط مستقیم کی طرف آنے یا اس ذکر کی طرف متوجہ ہونے کا اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ مان لیا کہ وہ حق ہے اورخدا کی طرف سے آیا ہے.یہ ایمان زندہ ایمان نہیں کہلاتا جب تک اس میں عمل کی روح نہ ہو یہ بالکل سچ ہے کہ ایمان بدوں عمل کے مُردہ ہے.میں نے جس وقت حضرت امام کے منہ سے یہ سنا کہ تم میں سے بہت ہیں جو اس چشمہ پر پہنچ گئے ہیں جو زندگی کا چشمہ ہے مگر ابھی پانی نہیں پیا.ہاں منہ رکھ دیا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ جس وقت سے میں نے یہ سنا ہے میں بہت ہی ترساں ہوں اور استغفار پڑھتا رہا ہوں کہ خدا نہ کرے کہیں وہ میں ہی نہ ہوں.لا الٰہ الا اللہ کے کہنے میں ہم سب یہ اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود، محبوب اور مطاع نہ ہوگا اور کوئی غرض و مقصد اللہ تعالیٰ کے اس راہ میں روک نہ ہوگی.اس امام نے اس مطلب کو ایک اور رنگ میں ادا کیا ہے کہ ہم سے یہ اقرار لیتا ہے دین پر دنیا کو مقدم کروں گا اب اس اقرار کو مدِّنظر رکھ کر اپنے عمل درآمد کو سوچ لو کہ کیا اللہ تعالیٰ کے احکام اور اوامر و نواہی مقدم ہیں یا دنیا کے اغراض ومطالب.اس اقرار کا منشا یہ ہے کہ ساری جز ئیں اللہ کے خوف کی اور حصول مطالب کی امید کی اللہ تعالیٰ کے سوا نہ رہیں یعنی خوف ہو تو اسی سے امید ہو تو اسی سے وہی
معبود ہو اسی کی عظمت اور جبروت کا خوف ہو جس سے اطاعت کا جوش پیدا ہو.ایسی اطاعت اور عبادت روح میں ایک تذلل اور انکساری پیدا کرے گی جس سے سرور اور لذت پیدا ہوگی اور عملی زندگی کو قوت ملے گی لیکن جب اللہ تعالیٰ کی صفات پر کامل ایمان نہ ہوتو اس ایمان میں عملی قوت پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی.وہ اس کھائے ہوئے دانہ کی طرح ہوتا ہے جس میں نشوونما پانے کی خاصیت باقی نہیں رہی.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم نماز کے لئے جمعہ کے دن بلائے جاؤ تو بیع کو چھوڑ کر ذکر اللہ کی طرف آجاؤ.عام جمعوں میں چھوٹی چھوٹی بیع ہے لیکن مسیح موعود کا وقت چونکہ عظیم الشان جمعہ ہے اس لئے اس وقت دجال کا فتنہ بہت بڑی بیع ہے.اس لئے فرمایا کہ اس کو چھوڑو اور ذکر اللہ کی طرف آجاؤ.نتیجہ اس کا کیا ہے؟ (الجمعۃ :۱۰)اگر تم کو کچھ علم ہے تو یاد رکھو کہ یہ تمہارے لئے مفید ہے اس میں خیر وبرکت ہے.تمہارے لئے اللہ تعالیٰ جس امر کو خیر وبرکت کا موجب قرار دیتا ہے اس کو ظنی یا وہمی خیال کرنا کفر ہے.انسان چونکہ عواقب الامور اور نتائج کا علم نہیں رکھتا اس لئے وہ بعض اوقات اپنی کمزوری علم اور کمی معرفت کی وجہ سے گھبرا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے مامور کی صحبت میں رہنا یا اس کے پاس جانا اخراجات کو چاہتا ہے یا بعض تجارتی کاموں میں اس سے حرج واقع ہوگا دوکان بند کرنی پڑے گی یا کیا کیا عذر تراشتا ہے لیکن خدا تعالیٰ یقین دلاتا ہے کہ اس کی آواز سنتے ہی حاضر ہو جانا خیر وبرکت کا موجب ہے اس میں کوئی خسارہ اور نقصان نہیں مگر تم کو اس کا علم ہونا چاہیے.پس اس میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیئے ہاں. (الجمعۃ:۱۱) جب نماز ادا کر چکو تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو لو.اس کا اصل اور گُر یہ ہے اللہ تعالیٰ کو بہت یا د کر ونتیجہ یہ ہو گا کہ تم مظفر و منصور ہو جاؤ گے.خدا کی یاد ساری کا میابیوں کا راز اور ساری نصرتوں اور فتوحات کی کلید ہے.اسلام انسان کو بیدست وپابنانا یا دوسروں کے لئے بوجھ بنانا نہیں چاہتا.عبادت کے لئے اوقات رکھے ہیں
جب ان سے فارغ ہو جاوے پھر اپنے کاروبار میں مصروف ہو.ہاں یہ ضروری ہے کہ ان کاروبار میں مصروف ہو کر بھی یاد الٰہی کو نہ چھوڑے بلکہ دست بکار دل بہ یار ہو اور اس کا طریق یہ ہے کہ ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھے اور دیکھ لے کہ آیا خلاف مرضی مولیٰ تو نہیں کر رہا.جب یہ بات ہو تواس کا ہر فعل خواہ وہ تجارت کا ہو یا معاشرت کا ملازمت کاہو یا حکومت کا غرض کوئی بھی حالت ہوعبادت کا رنگ اختیار کر لیتا ہے.یہاں تک کہ کھانا پینا بھی اگر امرالٰہی کے نیچے ہو تو عبادت ہے.یہ اصل ہے جو ساری فتح مندیوں کی کلید ہے مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس اصل کو چھوڑ دیا.جب تک اس پر عمل درآمد رہا تو اس وقت تک وہ ایک قوم فتح مند قوم کی حالت میں رہی لیکن جب اس پر سے عمل جاتا رہا تو نتیجہ یہ ہوا کہ یہ قوم ہر طرح پستیوں میں گر گئی. َ (الجمعۃ :۱۲) اور جب تجارت کے سامان مل جاتے ہیں یا کھیل تماشہ کا وقت پاتے ہیں وہ تجھے چھوڑکر چل دیتے ہیں ان کو کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ ساری تجارتوں اور کھیل تماشوں سے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہتر رزق دینے والا ہے.یہ حالت انسان کی اس وقت ہوتی ہے جب وہ خدا تعالیٰ پر سچا اور کامل یقین نہیں رکھتا اور اس کو رازق نہیں سمجھتا.یوں ماننے سے کیا ہوتا ہے جب کامل ایمان ہوتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے لئے سب کچھ چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.بعض لڑکوں سے میں نے پوچھا ہے کہ تم جو گھر جاتے ہو کیوں ؟کیا لھوکے واسطے.اگر یہ غرض ہے تو پھر یہ خدا کے اس ارشاد کے نیچے ہے.لَہْوًا اور تِجَارَۃً کوگویا خدا تعالیٰ پر مقدم کرتا ہے اس سے بچنا چاہیے.اللہ تعالیٰ کو خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ یقین کرو.اور مت خیال کرو کہ صادق کی صحبت میں رہنے سے کوئی نقصان ہوگا کبھی ایسی جرات کرنے کی کوشش نہ کرو کہ اپنی ذاتی اغراض کو مقدم کر لو.خدا کے لئے جو کچھ انسان چھوڑتا ہے اس سے کہیں بڑھ کر پالیتا ہے.تم جانتے ہو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نے کیاچھوڑا تھا اور پھر کیا پایا صحابہ نے کیا چھوڑا ہو گا اس کے بدلے میں کتنے گُنے زیادہ خدا نے ان کو دیا.خدا تعالیٰ کے نزدیک کیا ہے جو نہیں ہے.(المنافقون :۸)تجارتوں میں خسارہ کا ہو جانا یقینی اور کاروبار میں تباہیوں کا واقع ہو جانا قر یْنِ قیاس ہے لیکن خدا تعالیٰ کے لئے کسی چیز کو چھوڑ کر کبھی بھی انسان خسارہ نہیں اٹھا سکتا.۱۵؎ غرض اللہ تعالیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ ساری تجارتوں سے بہتر ہے وہ خیر الرازقین ہے.میں نے بہت سے ایسے بیباک دیکھے ہیں جو کہا کرتے ہیں.ای خیانت بر تو رحمت از تو گنجی یافتم ای دیانت بر تو لعنت از تو رنجی یافتم ایسے شوخ‘ دیدہ خود ‘ملعون ہیں جو دیانت پر لعنت بھیجتے ہیں.پس خد ا کے لئے ان ذریعوں اور راستوں کو چھوڑو جو بظاہر کیسے ہی آرام دہ نظر آتے ہوں لیکن ان کے اندر خدا کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے.میں نے بسا اوقات نصیحت کی ہے کہ (التوبۃ :۱۱۹) پر عمل کرنے کے واسطے ضروری ہے یہاں آکر رہو.بعض نے جواب دیا ہے کہ تجارت یاملازمت کے کاموں سے فرصت نہیں ہوتی لیکن میں ان کو آج یہ سناتا ہوں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمام تجارتوں کو چھوڑ کر ذکر اللہ کی طرف آجاؤ وہ اس بات کا کیا جواب دے سکتے ہیں کیا ہم کنبہ قبیلہ والے نہیں؟ کیا ہماری ضروریات اور ہمارے اخراجات نہیں ہیں؟ کیا ہم کودنیوی عزّت یا وجاہت بُری لگتی ہے؟ پھر وہ کیا چیز ہے جو ہم کو کھینچ کر یہاں لے آئی.میں شیخی کے لئے نہیں کہتا بلکہ تحدیث بالنعمۃ کے طور پر کہتا ہوں کہ میں اگر شہر میں رہوں تو شاید بہت روپیہ کما سکوں لیکن میں کیوں ان ساری آمدنیوں پر قادیان کے رہنے کو ترجیح دیتا ہوں؟ اس کا مختصر جواب میں یہی دوں گا کہ میں نے یہاں وہ دولت پائی ہے جو غیر فانی ہے جس کو چور اور قزاق نہیں لے جاسکتا مجھے وہ ملا ہے جو تیرہ سو برس کے اندر آرزو کرنے والوں کو نہیں ملا.پھر ایسی بے بہا دولت کو چھوڑ کر میں چند روزہ دنیا کے لئے مارا ماراپھروں.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر اب کوئی مجھے ایک لاکھ کیا ایک کروڑ روپیہ یومیہ بھی دے اور قادیان سے باہر رکھنا چاہے میں نہیں رہ سکتا.ہاں امام علیہ السلام کے حکم
کی تعمیل میں پھر خواہ مجھے ایک کوڑی بھی نہ ملے.پس میری دولت میرا مال، میری ضرورتیں اسی امام کے اتباع تک ہیں اور دوسری ساری ضرورتوں کو اس ایک وجود پر قربان کرتا ہوں.میرے دل میں بارہا یہ سوال پیداہوا ہے کہ صحابہ کو جو مہاجر تھے کیوں خلافت ملی اور مدینہ والے صحابہ کو جو انصار تھے اس سے حِصّہ نہیں ملا.بظاہر یہ عجیب بات ہے کہ انصار کی جماعت نے ایسے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی جب آپ مکّہ سے تکالیف برداشت کرتے ہوئے پہنچے.مگر اس میں بھید یہی ہے کہ انصار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چھوڑا نہیں ان کی نصرت کے لئے خدا نے ان کو بہت کچھ دیا مگر مہاجر جنہوں نے اللہ کے لئے ہاں محض اللہ ہی کے لئے اپنے گھر بار بیوی بچے اور رشتہ دار تک چھوڑ دئیے تھے اور اپنے منافع اور تجارتوں پر پانی پھیر دیا تھا وہ خلافت کی مسند پر بیٹھے.میں ثقیفہ کی بحث پڑھتا تھا اور منکم امیر و منا امیر (صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ باب قول النبی صلعم لو کنت متخذا خلیلا حدیث نمبر۳۴۶۷)پر میں نے غور کی ہے مجھے خدا نے اس مسئلہ خلافت میں یہی سمجھایا ہے کہ مہاجرین نے چونکہ اپنے گھر بار تعلقات چھوڑے تھے ان کو ہی اس مسند پر اول جگہ ملنی ضرور تھی.اللہ تعالیٰ کے لئے جب کوئی کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرتا.پس ایسے عذر بے فائدہ اور بے ہودہ ہیں اس وقت دنیا خطرناک ابتلا میں پھنسی ہوئی ہے.پہلی بلا جہالت کی ہے تدبّر سے کتاب اللہ کو نہیں پڑھتے اور نہیں سوچتے جب تدبّر ہی نہ ہوتلاوت ہی نہ ہو تو اس پر عمل کی تحریک کیسے پیدا ہو.کتاب اللہ کو چھوڑ دیا گیاہے اور اس کی جگہ بہت بڑا وقت قصوں کہانیوں اور اور لغویات میں بسر کیا جاتا ہے.دوسرا نقص یہ ہے کہ فسق وفجور بڑھ گیا ہوا ہے.بد معاملگی ہے.جہالت ہے گندگی اور ناپاکی کو مقدم کر لیا گیاہے پھر اس کے ساتھ کبر ہے وہ کبر کہ یہ برداشت نہیں رہی کہ کوئی نصیحت کرے تو صبر کیساتھ اس نصیحت کو سن لیں اور اس کے ساتھ اور مصیبت یہ ہے کہ اپنے دکھ سے ناآشنا ہیں مرض کے حالات سے ناواقف ہیں اسے محسوس نہیں کرتے طبیب کی تشخیص پر نکتہ چینیاں کرتے ہیں اور اسے ہی مجنون ٹھہراتے ہیں.غرض یاد رکھو کہ اب زمانہ بہت نازک آ گیا ہے ایک راست باز دنیا میں آیا ہے جس کے
لئے آسمان نے گواہی دی.اس وقت کہ جب خدا ایک بچھڑا سمجھا گیا تھا خدا تعالیٰ نے اپنے کلام سے بتایا کہ وہ زندہ اور متکلم خدا ہے اور اس نے اپنے برگزیدہ بندہ کوبھیج کر حجت پوری کی مگر پھر بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس کی مخالفت کی جاتی اور اس کے خلاف منصوبہ بازیاں ہوتی ہیں مگر اس کی کچھ پروا نہیں یہ لوگ آخر خائب و خاسر ہونے والے ہیں اور ہوتے جاتے ہیں مخالف منصوبے بناتا ہے کوشش کرتاہے سفر کر کے خرچ کر کے فتویٰ تیار کرتا ہے کہ یہ کافر ہے اورزور لگا کر کہتا ہے کہ میں اس کو گراؤں گا مگر اس کے سارے اخراجات ساری محنتیں اور کوششیں رائیگاں جاتی ہیں خود گرتا ہے اور جس کو گرانے کا ارادہ کرتا تھا وہ بلندکیا جاتا ہے جس قدر کوشش اس کے معدوم کرنے کی کی جاتی ہے اسی قدر وہ اور بھی ترقی پاتا اور بڑھتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کے ارادے ہیں ان کو کوئی بدل نہیں سکتا اس کے مخالف (الانفال:۳۷) کے مصداق ہو جاتے ہیں.پس یاد رکھو اس وقت ضرورت ہے ایسے امام کی جو حق کا سنانے والا ، سمجھانے والا اور پھر تزکیہ کرنے والا ہو.بڑے ہی بد قسمت ہیں وہ لوگ جو اس نور سے حِصّہ نہیں پاتے.اللہ تعالیٰ مجھ کو اور تم کو توفیق دے کہ ہم جنہوں نے اس نور سے حِصّہ لینے کی سعی کی اور اس چشمہ کے پاس پہنچے ہیں پوری روشنی حاصل کر سکیں اور سیراب ہوں.اور یہ ساری باتیں حاصل ہوتی ہیں جب بصیرت ،معرفت اور عقل عطا ہو.اور یہ خدا ہی کے فضل سے ملتی ہیں.پس جب کسی کو صادق کا پتہ لگ جائے تو ساری تجارتوں اور بیع وشریٰ کو چھوڑ کر اس کے پاس پہنچ جانا چاہیے اور (التوبۃ:۱۱۹)پر عمل کرنا ضروری سمجھا جاوے.بعض لوگ جو یہاں آتے ہیں اور رہتے ہیں ان کو ایسی مشکلات پیش آتی ہیں جو ان کی اپنی پیدا کردہ مشکلات سمجھنی چاہییں مثلاً کوئی کہتا ہے کہ مجھے چار پائی نہیں ملی یا روٹی کے ساتھ دال ملی.میں ایسی باتوں کو جب سنتا ہوں تو اگرچہ مجھے ان لوگوں پر افسوس ہوتا ہے جو ان خدمات کے لئے مقرر ہیں مگر ان سے زیادہ افسوس ان پر ہوتا ہے جو ایسی شکایتیں کرتے ہیں میں ان سے پوچھوں گا کہ کیا وہ اس قدر تکالیف سفر کی برداشت کر کے روٹی یا چارپائی کے لئے آتے ہیں یا ان کا مقصود کچھ اور ہوتا ہے؟ میرے ایک پیر شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ مدینہ میں رہا کرتے تھے ایک
شخص ہجرت کر کے مدینہ میں آیا.پھر اس نے ان سے کہا کہ میں یہاں نہیں رہتا کیونکہ لوگ شرارتی ہیں.شاہ صاحب نے اس کو کہا کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آئے تھے یا عربوں کے واسطے.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آئے تھے تو وہ تو ویسے ہی ہیں جیسا کہ تم نے یقین کیا تھا اور اگر عربوں کے لئے آئے تھے تو وہ بیشک ایسے ہی ہیں جیسا کہ تم سمجھتے ہو.پس میں بھی ان احمقوں سے یہی کہوں گا جو اس قسم کی شکایتیں کرتے ہیں کہ اگر تم کے معلّم کے لئے آئے تھے تو وہ اپنے خلق عظیم کے ساتھ ویسا ہی موجود ہے اور اگر ہمارے لئے آئے ہو تو ہم ایسے ہی ہیں.کیا کھانا کپڑا چارپائی گھر نہیں ملتی تھی جو اس قدر تکلیف اٹھا کر اسی روٹی کے واسطے یہاں آئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو لوگ آتے تھے ان کے لئے جانتے ہو کوئی مہمان خانہ تجویز ہوا ہوا تھا یا کوئی لنگر خانہ جاری تھا؟ کوئی نہیں پھر بھی لوگ آتے تھے اور کوئی شکایت نہ کرتے تھے.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آتے تھے اور وہی ان کی غرض ہوتی تھی.غرض یہاں آؤ نہ اس لئے کہ روٹی یابستر ہے بلکہ اس لئے کہ تمہاری بیماریوں کا علاج ہو.تم خدا کے مسیح اور مہدی سے فیض حاصل کرو.ہماری بابت کچھ بھی خیال نہ کرو ہم کیا اور ہماری ہستی کیا؟ ہم اگر بڑے تھے تو گھر رہتے پاکباز تھے تو پھر امام کی ہی کیا ضرورت تھی اگر کتابوں سے یہ مقصد حاصل ہو سکتا تھا تو پھر ہمیں کیا حاجت تھی ہمارے پاس بہت سی کتابیںتھیں ! مگر نہیں ان باتوں سے کچھ نہیں بنتا.دیکھو ایک درد سر کا بیمار ، ایک کھانسی والے بیمار کے پاس ہو اور وہ ساری رات کھانستا رہے اور اس کو تکلیف ہو اور اس کی شکایت کرے تو یہ شکایت بیجا ہوگی وہ خود مریض ہے اسی طرح پر ہم جس قدر یہاں ہیں اپنے اپنے امراض میں مبتلا ہیں اگر ہم تندرست ہو کر کسی مریض کو دکھ دیں تو البتہ ہم جوابدہ ٹھہر سکتے ہیں لیکن جبکہ خود مبتلائے مرض ہیں اور یہاں علاج ہی کے لئے بیٹھے ہیں تو پھر ہماری کسی حرکت سے ناراض ہونا عقلمندی نہیں ہے.پس ہمارے سبب سے ابتلا میں مت پڑو.جو لوگ ابتلاؤں سے گھبراتے ہیں میں سچے دل سے کہتا ہوں کہ وہ ہمارے لئے نہ آیا کریں اور اگر ہماری کوئی تقریر ان کو پسند نہ آوے تو وہ یہ سمجھیں کہ ہم مامور نہیں.صادق مامور ایک ہی ہے جو مسیح
اور مہدی ہو کر آیا ہے.پس خدا سے مدد مانگو ذکر اللہ کی طرف آؤ جو فحشا اور منکر سے بچانے والا ہے اسی کو اُسوہ بناؤ اور اسی کے نمونہ پر چلو.ایک ہی مقتدا اور مطاع اور امام ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم اسی سے سچا پیوند کریں.آمین ۱۶؎ ٭…… ٭ ……٭ ۱؎ الحکم ۳۱؍اگست ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۰ تا۱۲ ۲؎ الحکم ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۷ تا۹ ۳؎ الحکم ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۷تا۹ ۴؎ الحکم ۱۷؍نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۴،۱۵ ۵؎ الحکم ۲۴؍نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۹،۱۰ ۶؎ الحکم ۳۰؍نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۴،۵ ۷؎ الحکم ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۵ ۸؎ الحکم ۱۷؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۳،۱۴ ۹؎ الحکم ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۳،۴ ۱۰؎ الحکم ۱۰؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۷ ۱۱؎ الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۴ ۱۲؎ الحکم ۳۱؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۵ ۱۳؎ الحکم ۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۴ ۱۴؎ الحکم ۱۴؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۳،۴ ۱۵؎ الحکم ۲۸؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۷،۸ ۱۶؎ الحکم ۱۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۳،۴
اتفاق اور اختلاف {تقریر فرمودہ اکتوبر ۱۹۰۳ء بمقام کپور تھلہ} سید نا خلیفۃ المسیح اول حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ ۱۹۰۳ء میں برادرم مکرم خانصاحب محمد خاں صاحب مرحوم کی علالت طبع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد سے کپور تھلہ تشریف لے گئے تھے.جماعت کپور تھلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص مخلصین کی جماعت ہے اور برادر محمد خاں مرحوم حضرت کے عشق ومحبت میں ایک فانی شخص تھے.میں نے حضرت خلیفہ اول سے اپنے کان سے سنا کہ وہ محمد خاں مرحوم کی محبت اور عشق کو اپنی محبت کے مقابلہ میں بہت بڑھ کر سمجھتے تھے.بہر حال وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت میں گداز اور فانی فطرت رکھتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کی وفات پر خصوصاً افسوس ہوا اور مرحوم محمد خاں کی اولاد حضرت کے ایک خاص نشان کی صور ت میں ممتاز ہے.یہ داستان دراز اور پُر لطف ہے کسی دوسرے موقع پر انشاء اللہ سنائیں گے.یہ تقریب تھی حضرت خلیفہ اول کے کپور تھلہ جانے کی.وہاں کی جماعت نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور حضرت حکیم الامت کی ایک عام تقریر کا اعلا ن کیا.اس موقع پر جبکہ مختلف مذاہب اور مختلف مذاق کے سر بر آوردہ لوگوں کا ایک مجمع تھا حضر ت خلیفہ اول نے ایک تقریر فرمائی جس کو آج میں قارئین الحکم کے لئے بطور ایک خاص تحفہ کے پیش کرتا ہوں کیوںکہ اس قسم کی تحریر یں بجز ایڈیٹرالحکم کے انشاء اللہ العزیزکسی کو نہیں مل سکتیں اور اس قسم کے نادرات کا ایک بیش قیمت ذخیرہ اس کے پاس ہے.غرض حضر ت نورالدین ؓ اعظم کی یہ وہ تقریر ہے.اس موقع پر جماعت کے معزز اور مخلص دوست نے حضرت حکیم الامت کو عام عرف کے موافق انٹر وڈیوس کیا.حضرت حکیم الامت نے اپنی تقریرکو اسی انٹرو ڈیوس پر ریویوسے شروع کیا.اس تمہیدی نوٹ کے بعد ناظرین اس کا لطف اٹھائیں.(ایڈیٹرالحکم)
اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وا شھد ان محمد ا عبدہ ورسولہ امابعد اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم .(البقرۃ:۱۱۲،۱۱۳) یہ دنیا میں ایک رسم ہو گئی ہے کہ جب کوئی شخص کسی تقریر کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو پہلے لوگ اس کی روشناسی کے لئے انٹرو ڈیوس کراتے ہیں.اور اسی طرح آج بھی کیا گیا ہے پر جس طرح انسان خود روشناسی کرا سکتا ہے اس طرح دوسرے کا کام نہیں.میں ایک پنجابی آدمی ہوں.بھیرہ ضلع شاہپور میرا زاد بوم ہے.میرا نام والدین نے نورالدین رکھا.خدا کرے یہ نا م سچ ہو.میری مادری زبان پنجابی تھی لیکن چونکہ زمانہ طالب علمی میں ہندوستان میں بہت رہا ہوں اس لئے اردود بولتا ہوں پنجابی بول نہیں سکتا.میں سنی مسلمان ہوں مگر ان میں بہت فرقے ہیں.بہر حال میرے والدین حنفی المذہب تھے انہی میں میں نے علم پڑھا اور ترقی پائی.اس زمانہ میں حدیث پڑھنے کا شوق ہوا تو دور دور کا سفرکیا مگر ابتدائی بات میرے ساتھ تھی حدیث کو ضرور ترجیح دیتا رہا.مباحث کا بھی بہت اتفاق ہو ا اور اب اخیر زمانہ عمر میں بھی میں اسی قدیم مذہب پر ہوں اور اسی کے ساتھ مرزا صاحب کا مرید ہوں.مجھے یہ تو بتلا یا نہیں گیا کہ آپ لوگوں کو کیا سنائو ں اس لئے ایسے موقع پر میں اپنے دلی خیالات کا اظہار کر سکتا ہوں یہ کہنا کہ میرے لیکچر پر بحث کی جائے میں پسند نہیں کرتا بلکہ یہ تو اظہار خیال ہے.اس سے.......لگ سکے گا کہ آیا میں کچھ باتیں سنانے کے قابل ہوں کہ نہیں.میں یہاں مباحثہ کے لئے نہیں آیا بلکہ ایک دوست کی علالت ہے کسی کا مجبور کیا ہوا آیا ہوں.مومن کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ جہاں سے کوئی بھلی بات سنے اس کو لے لے.میں خوب سمجھتا ہوں کہ نظارہ قدرت میں میرے اپنے اندر اور تمہارے دیکھنے سے مجھے پتا لگتا ہے کہ ہم میں اختلاف بھی ہے اور اتفاق بھی.اگر اختلاف ہی اختلاف ہو یا اتفاق ہی اتفاق ہو تو کام نہیں چل سکتا.دیکھو صانع قدرت نے عناصر کو کس طرح رکھا ہے.گرم کے ساتھ سرد، نمک،
مرچ، گھی، پانی یا میری عادت کے موافق گوشت بھی ہو.مگر میں نے اپنے اندر کبھی نہیں دیکھا کہ سب کا ایک ہی رنگ ہو.بہر حال ان عناصر میں اختلاف بھی ہے اور یکجائی بھی.یہ درخت جو میرے سامنے کھڑا ہے، تنا، پھل، پتّا، جڑ میں اختلاف بھی رکھتا ہے وہ بھی اتفاق کے ساتھ ایک خوشنما منظر بھی بناتا ہے.پس ہر شخص کی شکل جوتی ،پگڑی، آواز، بال، جلد ، زبان، رنگ دوسرے کے ساتھ نہیں ملتے.اگر سب ایک ہی شکل صورت والے ہوتے تو بھائی بندوں، بی بی بچوں میں کس قدر اختلاف پڑتا.پھر اگر اس وقت اتفاق بھی نہ ہو تو سب لوگ باوجود اس قدر اختلافات کے ایک شخص کے اقوال سننے پر کیسے جمع ہوتے بلکہ باوجود مذہبی اور اخلاقی اختلاف کے بھی ایک وحدت تمہارے اندر ہے.اگر اختلاف کلیّ ہو تا یا اتفاق کلیّ ہوتا جس کو اتفاق یا اختلاف تامہ کہا جاوے تو آج میرے خیال میں آپ لوگ کبھی بھی نہ جمع ہوتے.ایک بچہ کے خیال، غذا، شکل میں والدین کے ساتھ باوجود اتحاد کے اختلاف بھی ہے اور وہ گھر باامن بھی کہلاتا ہے.میرا دل چاہتا ہے کہ لوگوں میں اتفاق بھی ہو اور اختلاف بھی ضرور ہو.اتفاق کے واسطے دنیا میں خدا کی طرف سے منادی آئے اور آتے رہیں گے.مگر لوگوں کو ان سے اتفاق بھی کرنا پڑا.پھر اختلاف میں ضرور قدم مارنا پڑا بلکہ میں کہتا ہوں کہ کسی بادشاہ کسی نبی، کسی رسول نے نہ ایک مذہب کر کے دکھلایا اور نہ ُکل دنیا میں وحدت کی روح پھونک سکا اگر کہیں وحدت کی روح ُپھنکی ہے تو ساتھ اختلاف کی بھی ضرور ُپھنکی ہے.پس میں اپنی باتوں سے اختلاف کرنے والے کو تسکین دلاسکتا ہوں کہ میرا دل اس بات کے لئے بالکل تیار نہیں کہ سب لوگ میرے ساتھ متفق ہی ہوں.میرے ہزاروں ہزار شاگرد، لاکھوں دوست سینکڑوں فدائی اور جان فدا کرنے والے لوگ ہیں.مگر میں نے سب کو اپنے ساتھ واحد نہیں پایا بلکہ میں تو آزاد خیال بنانا چاہتا ہوں.پھر میں کسی کی تسلی اور تشفی کا ٹھیکہ دار بن کر نہیں آیا اور نہ آئو ں گا.میں تو اپنے خیا ل کا اظہار کروں گا.پھر یہی اختلاف کے ساتھ اتحاد اور اتحاد کے ساتھ اختلاف کو بھی پسند کروںگا.خدا نے ہمارے اغذیہ، اشربہ، علم وغیرہ چیزوں میں اختلاف ضرور رکھا ہے.ہاں ایسی باتیں
کرنے والا مجنون کہلاسکتا ہے مگر وہ برُا نہ مناوے.میں آپ لوگوں میں چونکہ یہاں کا باشندہ نہیں تمیز نہیں کر سکتا کہ آ پ لوگ کس پایہ کے مسلمان، ہندو، آریہ، مقلّد ، غیر مقلّد، صوفی، سکھ، ظاہر پرست ہو.کس قدر وہ لوگ ہیں جن کے خیال میں آتا ہے کہ اب تو آرام سے گزرتی ہے.اب باوجود اس قدر ناواقفی کے کوئی مضمون چھیڑوںتو کیا؟مقلّدوں یا غیر مقلّدوںکی باتیں چھیڑوں یا مرزاکی باتیں کروں یا یہ کہ میں کس طرح قرآن اور انبیاء پر ایمان لایا ہو ں.مگر یہ ایسے مسائل ہیں کہ آپ لوگوں کو میرے بیان سے اتفاق نہ ہوگا.اگر خالص میرے اپنے لوگ ہوتے تو پھر اس اپنے عقائد کا وسیع میدان دیکھتا مگر جبکہ اتفاق اور اتحاد دیکھتا ہوں تو چاہیے کہ ایسی بات کروں جو نیک نیتی پر مبنی ہو.پھر اسی لئے میں نے قرآن کریم کی ایک آیت ایسی پڑھی ہے جو ایسی مجلس کے مطابق حال ہے.انسان کو خدا تعالیٰ نے یا دہرنے یا نیچر کے قویٰ نے، بہر حال کچھ بھی مختلف نام ہوں مگر ایک زبر دست طاقت کا اختیار دنیامیں ضروری اور لابدی مانا گیا ہے، جس نے پید اکیا.ایک دفعہ مجھے ایک رئیس کے ہاں بیٹھنے کا اتفاق ہوا وہاں سفید چاندنی بچھی تھی اور نرم ہو ا چل رہی تھی اور وہ چاندنی بڑی نزاکت سے لہریں مار رہی تھی میں اس کے تماشا میں محو ہو گیا.ہر ایک نظارہ ٔ قدرت کو پانچ آدمی دیکھتے ہیں.بچہ اور مالی.یہ ایک ادنیٰ نظارہ ہے.پھر شاعر دیکھتا ہے وہ اس کودیکھ کر عجب عجب اشعار تراشتا ہے.پھر ایک فلسفی دیکھتا ہے.وہ اس کے تناقضات اتحاد اورسائنس کے مسائل بناتا ہے.پھر صوفی خدا پرست دیکھتا ہے وہ اس میں اپنے مولیٰ کی قدرت اس کا جلال مشاہدہ کرتا ہے.پھر میں بھی اس موج کو اپنے حال کے مطابق جس طرح کا تھا دیکھ رہا تھا یہ نظارہ میرے لئے ایک دلربا چیز بن گیا اسی محویت میں تھا کہ رئیس نے کہا کہ مولوی صاحب ہمارے اور ہمارے وزیر صاحب کے درمیان ایک تنازعہ ہے آپ اس کا فیصلہ کریں.میں نے عرض کیا کیا ؟ جواب ملا کہ یہ صاحب ہستی باری کے منکر ہیں آپ ثبوت پیش کریں.میں نے کہا کہ یہ چاندنی کی موجیں عمدہ ثبوت ہیں.دونوں اس طرف متوجہ ہوئے.میں نے کہا.کیا یہ چاندنی اپنے ارادہ سے ناچتے ہیں کہا انہیں ہوا چلاتی ہے.میںنے کہا کیا ہوا میں ارادہ ہے.کہا نہیں اس کو انقباض چلاتا ہے.میں نے کہا کیا
انقباض میں ارادہ ہے.کہا نہیں یہ کوئی غیر معلوم سبب ہے.میں نے کہا.کیا اس غیر معلوم سبب میں ارادہ ہے.کہا نہیں اس کو کوئی گریٹ پاور دھکا دیتی ہے.میں نے کہا کیا اس پاور میں ارادہ ہے تو سر نیچا کرلیا.اس پر مہاراج کہنے لگے پھر اسی گریٹ پاور کو مولوی صاحب اللہ کہتے ہیں اور ہم پرمیشر کہتے ہیں.پھر سچے دہریہ اور سچے فلسفی حقیقت میں خدا کے منکرنہیں ہوتے ایک زبر دست طاقت کا خیال ضرور دل میں ہوتا ہے.پس باوجود اختلاف کثیر کے اگر ہم اتفاق پیدا کر سکتے ہیں تو پھر دوسری ہستی کا سرور دل میں پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے قوانین پر عمل کرنا اور دوسری چیز سمجھنا یہی اس کی ہستی کا سرور ہے وہ ہمارے اندر سے اندر کے رازیعنی (طٰہٰ:۸).یعنی چھپی سے چھپی باتوں کو جانتا ہے اس وقت ہمارے اندر کیا ہے اگر کوئی بچہ سے بچہ اس وقت کہہ سکتا ہے کہ تم اپنے حال سے اس وقت واقف ہو کہ تمہارے دل میں کیا ارادہ ہے.پھر ایک گھنٹہ کے بعد.ایک سال کے بعد، دس برس کے بعد، اس کے اندر کیا ارادہ ہو گا.بعد ایک ایسا راز ہے کہ مجھ سے ضرور مخفی ہے.پس ایسے اندرونی حالات کو جاننے والابے وقت وقتوں میں جو خیال آویں گے ان کو بھی وہ ایسا جانتا ہے جیسے کہ اس وقت کے خیالات کو جانتا ہے پھر باوجود اختلاف کے ا س طاقت پر بھی یہ ایمان لاوے اور اس کا یقین کرے.اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ جس طرح ہم اپنے حاکم کو حقیقت شناس اور رعایا کا پاس دار سمجھتے ہیں اسی طرح اگراس طاقت پر یقین ہو تو بڑ ی بڑی کٹھن منزلیں حل اور آسان ہو سکتی ہیں اس سے یہ بھی یقین ہوگا کہ کبھی میرا دشمن مجھ سے زبردست ہو سکتا ہے کہ نہیں.اس سے ہزاروں قسم کی نادانیوں، غلط کاریوں، تکبروں ، نخوتوں کے دور کرنے کا مجرب نسخہ مل جاوے گا.میں ہمیشہ اپنے محسنوں کا ذکر کیا کرتا ہوں اور کروں گا کیوں کہ مجھے اس سے خوشی ہوتی ہے میں نے اپنے ایک پیر سے کہا کہ مجھے کوئی ایسا طریقہ بتلائو کہ تمام دکھوں سے بچنے کے واسطے بڑا ہتھیار پیدا کر سکوں فرمایا.ہاں خدا کا دھیان.اگر ہم کبریائی سے چلتے ہیں تو ذرہ سوچیں چیز تو اُسی کی.ایک شخص بڑے تکبر سے اپنے افسر سے کسی ایسے حکم پر دستخط کرانے گیا جو اس کے مفید اور اس کے دشمن کے خلاف تھا مگر قلم ہاتھ میں رہی اور جان نکل گئی.ایسے آدمی بھی میں نے دیکھے ہیں کہ کسی
کو مارنے کے لئے ڈنڈا اٹھایا اور وہیں جان نکل گئی.ایک رئیس کو میں نے ایک مجلس میں ناچتے ہوئے دیکھا جب گھر پہنچا تو سنا کہ وہ رئیس مر گیا ہے.پس کیا پیاری بات ہے کہ خدا کا دھیان ہو اور اسی ہستی کا خوف دل میں نگران ہو.میں دیکھتا ہوںکہ میری عمر کا ایک وہ حصہ تھا کہ سلطنت ایسی وسیع نہ تھی اگر ہم لوگوں کو اس وقت لاہور سے کوئی چیز منگوانی ہوتی تو بڑا روپیہ خرچ کرنا پڑتا تھا اور میرے والد چونکہ میری تعلیم کے بہت خواہشمند تھے وہ میرے لئے اکثر چیزیں لاہور سے منگواتے اور بڑی دقتوں سے منگواتے.۱؎ اب ایسا زمانہ ہے کہ ایک مسافر پشاور سے سو رہے اور کلکتہ تک سوتا ہی چلا جاوے.میںنے ایک دفعہ چار کا رڈ منگوائے عدن، سیلون ،چین اور لندن لکھ دیئے.میںنے سجدہ ٔ شکر کیا کہ ایک بادشاہ کے اتحاد سے ہم کو کتنا آرام مل گیا ہے کہ ہم ساری دنیا کی خبر آسانی سے گھر بیٹھے منگواسکتے ہیں اور گھر بیٹھے بیٹھے ہم کن کن دور دراز کے دوستوں سے ملاقات کر سکتے ہیں حسد اور بخل کا دل مطبع اور کاغذ نے نکال کر پھنک دیا ہے.دس ورق کی کتا ب کی پہلے کیا قیمت تھی اور اب کیا ہے پھر جس طرح اس سلطنت سے اتحاد کر کے ہم نے فائدہ اٹھایا ہے اس طرح وہ طاقت جس کے ہاتھ میں ہمارے دکھ، سکھ ،موت، حیاتی رکھی ہوئی ہے اس پر ایمان لا کر یعنی اس سے اتحاد کر کے انسان کبھی غضب ، تکبر میں نہ پڑگیا اور ہزاروں بیماریوں کا خود علاج بن جاوے گا.یہی اس جلسہ کے حاضرین اگر ایک امر مشہودہ میں کوشش کریں تو مباحثات کا موقع نہ ملے.یہ میرا تجربہ ہے کہ کبھی انسان کسی نیک کام یا نیک خیال میں لگا ہوا ہوتا ہے کہ یک دم اس کا خیال بدی کی طرف راغب ہو جاتا ہے اور کبھی کسی بدی میں مصروف ہوتا ہے کہ فوراًنیک کام کی تحریک ہوتی ہے کبھی دوسرے پر رحم.کبھی سلوک اور کبھی محبت کرنے کو تیار ہو جاتاہے اور کبھی اس میں ریا اوردنیا طلبی آجاتی ایسے خیالا ت کو ہمارے شریعت کی اصطلاح میں ملائکہ یا شیاطین کی تحریک نام رکھتے ہیں.گو یہ اصطلاحی نام ہے مگر ایسا واقع ضرور ہوتا ہے پھر اگر ہم نیکی سے اتفاق کریں.جیسے ایک بچہ کو پہلے پتنگ چڑھانے میں تکلیف تو ضرو ر ہوتی ہے پر جب وہ دور چلا جاوے تو وہ خود بخود چڑھتا ہے اس طرح جب انسان نیکی میں قدم بڑھاتا تو پہلے ذرا تکلیف معلوم ہوتی ہے بعد
میں خود بخود اس سے نیکی سر زدہوتی چلی جاتی ہے.اور اس میں پھر اس کو کسی قسم کی تکلیف نہ مالی نہ جانی محسوس ہوتی ہے ساتھ ہی یہ خیال آتا کہ کنویں کی ِپھرکی کو اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھیں تو عجیب سبق ملتا ہے.وہ یہ کہ جب اس کے ذریعہ ڈول کو کنویں میں گرانا چاہتے ہیں تو جوں جوں ڈول بعید ہوتا جاتا تو ں تو ں پھرکی کی گرانے کی طاقت بڑھتی جاتی ہے.پھر جب انسان گرنے لگتاہے تو گرنے میں بھی گرانے والی طاقت جلدی جلدی ترقی کرتی ہے پہلے پہل کچھ گناہ کا شرم، کچھ دوستوں کا لحاظ، کچھ مربیوں سے حجاب ہوتی بھی ہے مگرپھر آہستہ آہستہ سب سے بڑھ جاتا ہے پھر جب ہمارے دل میں نیک خیال آویں تو ہم ان کے بڑھانے کی کوشش کریں تاکہ ہم سکھ پہنچانے کی کوشش کریں.مگر جب بدی کے خیال آویں تو ان کو روکیں ورنہ اس میں ترقی ہو کر دکھ اٹھانا پڑے گا.پھر مذہب میں پاک کتا بیں بھی ہو تی ہیں ان میں دنیا کی بہتری بھی ہوتی مگر ان میں ایک حصہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو بحث طلب ہوتا ہے.پھر کیا با برکت ہے وہ ملک، وہ قو م،وہ گھر جس نے اپنی کتا ب کی نیکی‘ باتوں میں جن میں اتحاد تھا اتفاق کیا.تورات، انجیل، وید، مہاں بھارت ‘ قرآن کریم میں نیکی کی باتوںمیں تو اتفاق تھا.اس سے اگر لوگ نیکی کی باتوں میں اتفاق کرتے اور اختلاف کے لئے ہمارے اندر ونہ کو جاننے والا دعائیں کرتا.کیونکہ ہم اپنی بھلائی میں تو کوشاں ہیں.مگر بعض باتیں جن میں ہمارا اختلاف تھا ہم لوگوں نے اس اختلاف کو آگے رکھ لیا اور اتحاد کو چھوڑ دیا اس لئے اختلاف بڑھ گیا.ایک دفعہ ایک عالم صاحب مرزا صاحب کے متعلق مباحثہ کرنے آئے.میں نے کہا آپ تو مولوی ہیں اور تنہائی میں بحث چاہتے ہیںگویا آپ ہارنا نہیں چاہتے.مگر بد قسمتی سے آپ نے ضرب کا صفحہ پڑھاہے.مگر نہ آپ مارنے والے نہ مار کھا نے والے.پھر آپ کیا فائدہ اٹھا ویں گے کیوں.اس کی دو وجہ ہیں.اگر آپ جیت جائیں تو اگر ہار جائیں تو.گواہ کون ہوگا اسی لئے تو آپ تنہائی چاہتے ہیں اصل میں آپ کا دل مانتا ہی نہیں کہ ایک انسان دنیا کا مصلح ہو سکتا ہے پھر اس کی عمدہ راہ یہ ہے کہ ہر قسم کی بدی دل سے دور کر کے خدا کے حضور دعا کرو کہ مولا کریم! مجھے ان امور میں بہت شبہات ہیں پھر تو میری راہ نمائی کر اور ہدایت کر.پھر مضطر انسان کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے
خر گدا نہ بنو.نر گدا بنو.پس خدا تعالیٰ خود تمہاری راہ نمائی کرے گا.جواب دیا اس سے کچھ نہیں بنتا.میں نے کہا پھر مجھ سے بھی کچھ نہیں بنتا مجھے یہ یقین تھا کہ اگر یہ شخص اس طرح دعا کرے گا تو ضرور فائدہ اٹھاوے گا.مگر خلاف نکلا.کیا حرج تھا کہ وہ ایک دفعہ بھی دعا کر لیتا اور میں سمجھتا کہ مجھے بھی باوقعت سمجھا.مگر کچھ دنوںکے بعد میں نے اس کی ایک کتا ب دیکھی اس میں لکھا کہ مرزا کے متبع ایسے بودے ہیں کہ میں نے نورالدین سے سوال کیا تو مجھے دعا کی غلط راہ دکھا ئی پھر کسی کی تسلی کر دینا یا تسلی کرنے کا وعدہ کرنا یہ بدوں فضل الٰہی حاصل نہیں ہو سکتا اس لئے ہر قسم کے بغض‘ کینہ‘ عداوت کو چھوڑ کر ایسی بات اختیار کر ے جن سے خود بھی اور دنیا کو بھی سکھ میں رکھ سکے.میں نے اپنے پیر سے ایک دفعہ عرض کیا کہ کوئی ایسا نسخہ بتلائو کہ دنیا میں ہمیشہ خوش رہوں.کہا آسان ہے مگر لوگ علم نہیں رکھتے اور عمل نہیں کرتے.میں نے کہا کیا؟ جواب دیا کہ خدا نہ بنو اور رسول نہ بنو.میں نے کہا اس کا کیا مطلب ؟ کہا تم خدا کس کو کہتے ہو.میں نے کہا وہ ایک ایسی زبردست طاقت ہے کہ جو چاہے سو کرے.کسی کی مجال نہیں کہ نا فرمانی کرے پھر کہا کہ ؎ چاہا ہم نے مگر نہ چاہا تو نے چاہا تیرا ہوا ہمارا نہ ہوا مجھے یہ بات نہایت پسند آئی کہ ناکام انسان بھی کبھی ناراض نہ ہو.کیونکہ ہم خدا تو نہیں کہ ہمارا ہر چاہا پورا ہو جاوے اگر اس کا کام پورا نہیں ہوتا تو نفس کو ملامت کرے کہ تو کوئی خدا ہے جو تیرا چاہا ہو کر رہے پھر فرمایا.رسول کس کو کہتے ہو.عرض کیا کہ وہ خدا کی طرف سے آتے اور جو کچھ لاتے وہ حق اور سچ ہوتا.اور اگر لوگ اس پر عمل نہ کرتے تو گھبراتے کہ جو کچھ ہم لائے ہیں لوگ اس کو ضرور مان لیں.فرمایا پس تو اگر کسی حکم کی اتباع کرانے میں ناکام رہے تو سمجھنا کہ تیرا رسول کا عہدہ تو نہیں کہ تیرا ہر کہنا مان لیا جاوے پھر تو یاد رکھ کہ اگر تیر ی سچائی کو بھی کوئی چھوڑتا ہے تو تو مامور نہیں یہی راحت بخش زندگی ہے.ایک تقدیر کا مسئلہ ہے جس پر اتفاق ہونا چاہیے یہ بھی ملک کی بد قسمتی ہے کہ پاک اور سچے معنوں کا انکارکریں.تقدیر کے معنے ہیں اندازہ ‘ آواز‘ علم‘خیمہ وغیرہ ہر چیزکی ایک حد ہوتی ہے جس کو عربی میں تقدیر کہتے ہیں (الفرقان:۳).پس یہ سب
چیزیں اندازہ کے ساتھ ہیں.بد قسمت انسان ہے وہ جو اس بھیدکو نہیں سمجھتا کہ بدی کا نتیجہ بد نہ ملے گا بلکہ اچھا ملے گا.گندم از گندم بر وید َجو ز َجو کیا عمدہ اور پاک ترجمہ ہے تقدیر کا.بدی سے نیکی کی امید جھوٹ، جھوٹ ، فریب دھوکہ وغیرہ سے اگر کوئی یقین کرے کہ میں کامیاب ہوا تو وہ بالکل جھوٹا ہے نہیں سمجھتا کہ گندم از گندم بر وید َجو ز َجو.پنجابی کی خوب مثل ہے کہ جو کوئی آگ کھائے گا انگارہ ہگے گا.بہلول ہارون رشید کے بھائی تھے مگر امور سلطنت میں دخل نہ دیتے تھے.ایک دفعہ ہارون رشید نے ان کو کہا کہ آپ ایک بھلا کام کریں.بازار کی خبر رکھا کرو.کہا بہتر.ایک دفعہ کروڑوں کے تاجر کی دوکان پر گئے اور پوچھا کیا حال ہے.کہا پیسہ روپیہ منافع لیتے ہیں بچہ آوے نادان آوے بوڑھا آوے جوان آوے اس سے زیادہ نہیں لیتے کبھی کوئی نقصان نہیں ہو ا.لاکھوں کا مال بکتا ہے.نقد خرید فروخت ہے.سینکڑوں کا منافع ہے.دوسری ایک دوکان پر گئے جہاں ہزاروںکی دوکان تھی سوایا منافع لیتے اس میں کچھ قرض بھی بتلایا گیا کہابعض آسامی لچ بھی جاتی ہے بقدر ضرور ت گزارہ ہو تا ہے.پھر ایک گلی کے چور دوکان پر گئے.پوچھا سنائو کہا اندھا راجہ بیداد نگر ‘ چار گنہ ‘ آٹھ گنہ ‘بیس گنہ بھی کر لیتے ہیں.مگر قدر ت خدا کی اگر دن کا ہے تو رات کا نہیں اور اگر رات کا ہے تو دن کا نہیں.برا حال ہے.یہ سیر کر کے بہلول ہارون کے پاس گئے کہا ضرور عقائد اور زبان بھی اثر کرتے پر اعمال بھی اپنا پھل دے رہے ہیں میرے اور تمہارے نگرانی کے سوائے بھی لوگ اپنے اپنے اعمال کی جزا سزا پا رہے ہیں.ہاں اندھے انسان کی نظراس پرنہیں پڑتی.پس میرے خیال میں تقدیرپر ضرور ایمان ہو.پھر تدبیر ہوتی ‘ جو تقدیر کے نیچے چلتی ہے پھر جو تدبیر تقدیر کے خلاف ہو وہ کبھی کا رگر نہیں ہوتی مگر یہ بات ضرور مد نظررہے کہ جس کام کو یہ کھل کر علی رء و س الا شیاء نہیں کر سکتا اس میں ضرور کچھ کپٹ ہے.پھر جو بات دوسروں کی طرف سے ہم اپنے لئے پسند نہیں کرتے.چاہئے کہ وہ ہم دوسروں کے لئے بھی ناپسند رکھیں.میرے دانست میں ان اتفاقات میں کوشش کرنا ہی اس آیت میں ہے (البقرۃ:۱۱۲)ٰ یہود کہتے ہیں ہم
خدا کے مقرّب ہیں.عیسائی کہتے ہم مقرّب ہیں کیونکہ مسیح کفارہ ہو گیا میں کہتا ہوں کہ آتشک کس کو ہوتا ہے تم کو یا مسیح کو.ہر انسان صرف دعوے سے کامیاب نہیں ہو سکتا اسلام کے معنے ہیں سلامتی‘ آشتی ‘ عمدہ نمونہ مگر ایک شخص زانی فاسق‘فاجر ، معاشرت اور تمدن میں بُرا نمونہ ہے وہ ان لفظوں سے بچ نہیں سکتا.کیوں؟اس لئے کہ (البقرۃ:۱۱۳) پھر یہی شخص فائدہ اٹھا ئے گا.نماز کا وقت آگیا ہے.اور شاید میری تقریر میں آپ لوگوں کی دلچسپی بھی پیدا نہ ہوئی ہو.اس لئے میں اس کو ختم کرتا ہوں اور یہ کہہ کر ختم کرتا ہوں کہ باوجود اختلاف اغذیہ، اشربہ، صور، مکان اور شہر کے پھر بھی وحدت کی روح اگر تم میں لگی رہے تو آرام اور سکھ پائو گے تمہارے کام عمدہ طور پورے ہوں گے.کیا پھلے ہیں وہ جو اختلاف میں اختلاف رکھتے اور اتفاق میں اتفاق.ایسا ملک ‘ ایسا گھر ایسا شہر امن سے رہتا ہے.لو میں سب سے رخصت ہوتاہوں.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.۲؎ ٭…٭…٭ ۱؎ الحکم ۷،۱۴؍دسمبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۳تا۵ ۲؎ الحکم ۱ ۲ ؍دسمبر ۱۹۱۸ء صفحہ۳تا۵
قرآن کریم اور فضلِ الٰہی کا سائبان (افتتاحِ کالج کی تقریب سے خطاب فرمودہ ۲۸؍مئی ۱۹۰۳ء) اشھد ان لاالٰہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد انّ محمدًا عبدہ ورسولہ اما بعد ہم تو ہر روز تم کو وعظ سناتے ہیں اورسارا دن اسی میں صرف ہو جاتاہے قرآن شریف کا وعظ بھی خدا کے فضل سے مستقل طور پر جاری ہے مگر اس وقت خصوصیت سے مجھے ارشاد ملا ہے کہ کچھ سنائوں.تمہید کی ضرورت نہیں ہے اس وقت یہ نظارہ سامنے موجود ہے.ایک طرف قرآن شریف اور دوسری طرف کرۂ ارض پڑا ہوا ہے پھر اوپر سائبان ہے اور ایک طرف وہ لمبی لکڑی ہے یہی مضمون کافی ہے.انسان کوخدا نے بنایا ہے اور اس کے اندر اس قسم کی اشیاء رکھی ہیں کہ اگر ان سب کا نشو ونما نہ ہو تو پھر وہ انسان انسان نہیں رہتا ایک ذلیل مخلوق ہو جاتا ہے.لیکن اگر ان خدا کی عطا کردہ قوتوں کا عمدہ نشوونما ہو تو وہی انسان خدا کا مقرّب بن سکتا ہے اور اس کے یہی ذرائع ہیں جو تمہارے سامنے ہیں.( قرآن کریم کی طرف اشارہ کرکے )یہ پاک کتاب جب نازل ہوئی اس وقت ساری دنیا میں اندھیر تھا.عرب خصوصیت سے ایسی حالت میں تھا کہ کل دنیا کا روبراست ہو جانا آسان مگر اس کا سدھر نا مشکل سمجھا جاتا تھا.یرمیا ہ نبی کے نوحہ میں یہ ایک فقرہ موجود ہے جس میں وہ اپنی قوم کو نصیحت کرتا ہے کہ تم نے سچے خدا کو چھوڑ دیا.دیکھو تمہارے پاس عرب موجود ہیں.وہ جھوٹے خدائوں کونہیں چھوڑ سکتے لیکن یہ ایک کتاب ہے جس نے ان عربوں کو ایسا بنایا اورعزت دی کہ وہ دنیا کے ہادی، مصلح، نور اور ہدایت بن گئے اس کا ذریعہ صرف قرآن کریم ہی تھا جو ان کے واسطے شفا، نور اور رحمت ہوا.قرآن کریم کا دائیں جانب ہونا تمہارے لئے خوش قسمتی کی فال ہے اور یہ وہی کتاب ہے جو کہ دائیں جانب ہونی چاہیے.اس سے یہ تفاول ہے کہ تمہارے دائیں ہاتھ میں ہو(کرۂ ارض کی طرف اشارہ کرکے )دوسری طرف یہ ہے جس پر زندگی چل رہی ہے.کتاب اللہ میں بھی اس کی ترتیب اسی طرح سے ہے کہ اول آسمان کا ذکر ہے تو پھر زمین کا موجودہ ضرورت کے لحاظ سے تم کو اس
قرب الٰہی کے حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس سے عرب کی نابودہستی بود ہوکر نظر آئی وہ ذریعہ قرآن کریم ہے کہ جس سے اس کرہ پر ان کو حکمرانی حاصل ہوئی تھی.اس وقت اس کے بڑے حصہ ایشیااور افریقہ اور یورپ ہی تھے جن کو مخلوق جانتی تھی اور اس قرآن کی بدولت ان معلوم حصص پر ان کی حکمرانی ہوئی مگر اس کے ساتھ ہی اصلی جڑ فضل الٰہی کا سائبان بھی ان پر تھا ورنہ قرآن تو وہی موجود ہے اوراِس وقت اہلِ اسلام کی تعداد بھی اُس وقت سے اضعاف مضاعفہ ہے.آنحضرت صلعم کے زمانہ میں پڑھے لکھوں کی تعداد ۱۳۵سے زیادہ ہر گز نہ تھی.خطرناک قوم کے مقابلہ پر سخت جنگ کی حالت میں ۳۱۳سے زیادہ سپاہی نہ تھے.غزوہ خندق میں ۶۰۰تھے اب باوجود اس کے کہ اس وقت سے بہت بہت زیادہ تعداد موجود ہے مگر وہ بات نہیں ہے نہ وہ عزت نہ آبرو نہ اندرونی خوشی نہ بیرونی.تو اس بات کی جڑیہ ہے کہ اس زمانہ میں جس وقت فرمان نازل ہوا اس کی قدر کی گئی اس کو دستور العمل بنایا گیا.نتیجہ یہ ہوا کہ اہل عرب جو اول کچھ نہ تھے پھر سب کچھ بن گئے.قرآن شریف کے ابتدائی الفاظ میں لکھا ہے (البقرۃ:۳)نبی کریم صلعم نے اس کتاب کا ادب اس طرح سے کیا کہ آپ کے زمانہ میں سوائے قرآن کے اور کوئی کتاب نہ لکھی گئی اس وقت بھی خوش قسمتی سے وہی کتاب موجود ہے.اگر کوئی اور بھی اس وقت کی لکھی ہوئی ہوتی تو پھر یہ جوش نہ ہوتا یا خدا اور کوئی راہ کھول دیتا.غرضیکہ اس کتاب کی عزت سے فضل الٰہی کا وہ سایہ قائم ہوا.جیسے اس وقت تم لوگ آسائش سے بیٹھے ہوسائبان تم پر ہے دھوپ کی تپش سے محفوظ ہو.اس طرح وہ لوگ جو کہ جنگلوں میں اور دور دراز بلاد میں رہتے تھے.وہ اس کے ذریعہ سے امن کی زندگی بسر کرنے لگے.تمام ترقیوںعزت اور حقیقی خوشی کی جڑ یہ کتاب ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہم اس (کرۂ ارض) پر حکمرانی کرتے ہیں.اور اسی کے ذریعہ سے فضل الٰہی کا سایہ ہم پر پڑ سکتا ہے ، یہ نہ خیال کرو کہ ایرانی سلطنت ایسی راحت میں ہے ہر گز نہیں.جس قدر وہ اس کتاب سے دور ہے اسی قدر اس میں گند ہے.مگر تم کو ان باتوں کا علم نہیں ہے.بڑے بڑے لائق، چالاک اور پھرتی سے بات کرنے والوں کے ساتھ ناچیز ی کی حالت میں میرا مقابلہ ہوا ہے مگر اس قرآن کے ہتھیار سے جب میں نے ان سے بات کی ہے توان کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگ گئیں.ایک انسان جو کہ بیماریوں میں مبتلا ہو بظاہر تم
تم اسے خندہ اور خوش دیکھ سکتے ہو مگر اندرسے دکھ اسے ملامت کا نشانہ بنا رہے ہیں.یا د رکھو خوشی کا چشمہ قلب پھر عقل ، پھر حواس ہیں اس کے بعد جسم میں خوشی ہوتی ہے مگر جو لوگ غموں میں مبتلاہوں ان کو حقیقی خوشی نہیں ہوا کرتی.میں تم کو ایک بچہ کا قصہ سناتا ہوں کیونکہ تم بھی بچے ہو مگر وہ عمر میں تم سب سے چھوٹا تھا اس کا نام یوسف ؑہے جس وقت بھائیوں نے اسے باپ سے مانگا اور چاہا کہ اسے باپ سے الگ کردیں اور جنگل میں جاکر ایک کنویں میں اتار دیا.اب تم سمجھ سکتے ہو کہ اس کی کیا عمر تھی.اگرچہ وہ چھوٹا تھا اور ناواقف تھا مگر پھر بھی اوروں کی طرح باپ سے الگ ہونے اور نکالے جانے کا اسے علم تھا اور یہ جانتا تھا کہ اس سے دکھ ملتا ہے ذرا سوچو تو جب ایک بچہ کو اس کی ماں سے الگ کیا جاتا ہے تو بچہ کا کیا حال ہوتا ہے.پھر بچے ہوّئے کے نام سے دب جاتے ،سہم جاتے ہیں اور اس کو وہ تاریک کنواں دکھایا جس میں اسے اتارا گیا.نہ اس وقت کوئی یار نہ آشنا نہ ماںاور نہ باپ اگر ہوتے بھی تو اسے وہ بات نہ بتلا سکتے جو خدا نے بتائی اور ان کو کیا علم تھا کہ اس کا انجام کیا ہوگامگر خدا کا سایہ اس پر تھا.خدا نے اسے بتلایا (یوسف:۱۶) کہ ا ے یوسف! دیکھ تجھے باپ سے الگ کیا تیری زمین سے تجھے الگ کیا اور اندھیرے کوئیں میں ڈالا.مگر میں تیرے ساتھ ہوں گا اور اس علیحدگی کی تعبیر کو تو بھائیوں کے سامنے بیان کرے گا اور ان کو اس بات کا شعور نہیں ہے.دیکھ لو یہ باتیں باپ نہیں کر سکتا نہ وعدہ دے سکتا ہے کہ یوں ہوگا.یا جاہ و جلال کے وقت تک یہ تندرستی بھی ہوگی ایک باپ بچے سے پیار تو کر سکتا ہے مگر وہ اس کے آئندہ کی حالت کا کیا اندازہ لگا سکتا ہے ان باتوں کو جمع کر کے دیکھو اگر کوئی انسان تسلی دیتا تو بچہ کو پیار کرتا گلے میں ہاتھ ڈالتا اور اسے کہتا کہ ہم چی جی دیویں گے.مگر خدا کی ذات کیا رحیم ہے وہ فرماتا ہے ہم وہ عروج دیویں گے کہ تو ان احمقوں کو بتلادے گا.یہ حقیقت ہے اس سایہ کی جسے میںچاہتا ہوں تم پر ہو.علوم کی تحصیل آسان ہے مگر خدا کے فضل کے نیچے اسے تحصیل کرنا یہ مشکل ہے.کالج کی اصل غرض یہی ہے کہ دینی اور دنیوی تربیت ہو مگر اول فضل کا سایہ ہو، پھر کتاب ،پھر دستورالعمل ہو اس کے بعد دیکھو کہ کیا کامیابی ہوتی ہے.فضلِ الٰہی کے لئے پہلی
بشارت پیارے عبدالکریم (سیالکوٹی.ناقل)نے دی ہے.وہ کیا ہے حضرت صاحب کی دعائیں ہیں میں ان دعائوں کو کیا سمجھتا ہوں یہ بہت بڑی بات ہے اور یقینا تمہارے ادراک سے بالاتر ہوگی مگر میں کچھ بتلاتا ہوں.مخالفتوں سے انسان ناکامیاب ہوتا ہے گھبراتا ہے ایک لڑکا ماسٹر کی مخالفت کرے تو اسے مدرسہ چھوڑنا پڑتا ہے.جس قدر مہتمم مدرسہ کے ہیں اگر وہ سب مخالفت میں آویں تو زندگی بسر کرنی مشکل ہو.اگرچہ افسر بھی لڑکوں کے محتاج ہیں مگر ایک ذرہ سے نقطہ سے اسے بورڈنگ میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے.اب اس پر اندازہ کرو کہ ایک کی مخالفت انسان کو کیسے مشکلات میں ڈالتی ہے.لیکن ہمارے امام کی ساری برادری مخالف ہے رات دن یہی طاق ہے کہ اسے دکھ پہنچے پھر گائوں والے مخالف حالانکہ ان کو نفع پہنچتا ہے.میںنے ایک شریر سے پوچھا کہ مرزا صاحب کے طفیل تمہاری کتنی آمدنی ہو گئی ہے تو کہا بیس روپے ماہوار زیادہ ملتے ہیں علی ہذاالقیاس ان گدھے والوں اور مزدوروں سب سے دریافت کرو تو یقین ہوگاکہ ان کے واسطے ہمارا یہاں رہنا کیسا بابرکت ہے مگر ان سب کے دلوں میں ایک آگ بھی ہماری طرف سے ہے باوجود ہم سے متمتع ہونے کے پھر بھی ان کے اندر ایک کپکپی ہے کہ یہ یہاں کیوں آگئے.ابھی ایک مینار بن رہا ہے.اگر کوئی میرے جیسا خلیق ہوتا تو راستہ کو توڑ کر مینار ایک کونہ میں بناتا مگر اس مجسم رحم انسان (مرزا غلام احمد )نے اسے مسجدکے اندر بنایا کہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو.ان لوگوں کو غیرت نہیں آتی کہ کیا ان دور دراز سے آنے والوں کی عقل ماری گئی ہے کہ دوڑ ے چلے آرہے ہیں.یہ کہاں کے فلاسفر ہوئے جو ایسی بات کرتے ہیں ؟کیا ان کے تجارب ہم سے زیادہ ہیں یا معلومات میں ہم سے بڑھ کر ہیں ؟شرم کے مارے کچھ جواب تو نہیں دے سکتے.یہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی مت ماری گئی ہے کہ روپیہ اپنا کھاتے ہیں اور یہاں رہتے ہیں.یہ حال تو گائوں کی مخالفت کا ہے.پھر سب مولوی مخالف، گدی نشین مخالف ،شیعہ مخالف، سنی مخالف، آریہ مخالف ، مشنری مخالف ، دہریوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر وہ بھی مخالف اور نہایت خطر ناک دشمن اس سلسلہ کے ہیں.ان تمام مشکلات کے مقابلہ میں دیکھو وہ (حضرت مرزا صاحب )کیسے کامیاب ہے.کیا تمہارا دل نہیں چاہتا کہ تم اس طرح کامیاب ہو.یہاں ہمارا رہنا تمہارا رہنا سب اسی کے نظارہ ہیں کہ باوجود اس قدر مخالفت کے پھر
پروانہ وار اس پر گرتے ہیں اس کا باعث یہی ہے کہ وہ کتاب اللہ کا سچا حامی ہے اور رات دن دعائوں میں لگا ہوا ہے.اس لڑکے سے بڑھ کر کوئی خوش قسمت نہیں.جس کے لئے یہ دعائیں ہوں.مگر ان باتوں کو وہی سمجھتا ہے جس کی آنکھ بینا اور کان شنواہو.کی صدایوسفؑ کے کان میں پڑی اس سے سوچوکہ خدا کا فضل ساتھ ہو تا ہے تو کوئی دشمن ایذا نہیں پہنچا سکتا کس طرح کے جاہ و جلال اور بحالی یوسف ؑکو ملی اور سب سے عجیب بات یہ کہ ان بھائیوں کو آخر کہنا پڑا(یوسف:۹۸) اس کا جواب یوسف ؑنے دیا(یوسف:۹۳).یہ سب کچھ اللہ پر یقین کا نتیجہ تھا تم بھی اللہ پر کامل یقین کرو اور ان دعائوں کے ذریعے جو کہ دنیا کی مخالفت میں ِسپر ہیں فضل چاہو.کتاب اللہ کو دستورالعمل بنائو تاکہ تم کو عزت حاصل ہوباتوں سے نہیں بلکہ کاموں سے.اپنے آپ کو اس کتاب کے تابع ثابت کرو.ہنسی ، تمسخر ،ٹھٹھا ، ایذا، گالی یہ سب اس کتاب کی تعلیم کے برخلاف ہے، جھوٹ سے ، لعنت سے ،تکلیف اور ایذادینے سے ممانعت اور لغو سے بچنا اس کتاب کا ارشاد ہے صوم اور صلوٰۃ اور ذکر شغل الٰہی کی پابندی اس کا اصول ہے.تمہاری تربیت کی ابتدائی حالت ہے اگر چہ تربیت کرنے والے اس قابل نہیں ہیں کہ تم کو اعلیٰ منازل تک پہنچائیں مگر کوئی کمزوری اور نقص اگر انتظام میں ہے تو اس کی اصلاح تمہارے ہی ہاتھ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (الانعام:۱۳۰) یعنی اس طرح ہم ظالموں پر ظالموں کوولی کرتے ہیں تا کہ اپنے اعمال کا نتیجہ بھوگیں.پھر فرماتا ہے(الرعد:۱۲) پس اپنی اصلاح میں لگو کہ مصلح تمہارا متولی ہواللہ تعالیٰ تم کو توفیق دے کہ فضل خدا کا سایہ تم پر ہو اس کی کتاب تمہارا دستور العمل ہو کرۂ زمین پر عزت سے زندگی بسر کرو دنیا کے لئے نمک نور اور ہدایت ہو جائو اپنی کمزوریوں کے لئے دعا کرو اپنے حکمرانو ں کے لئے دعا کرو اور کوشش کرو کہ یوسف ؑکی طرح بن جائو.آمین (الحکم ۲۴؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ۱۱،۱۲) ٭…٭…٭
عورتوں کووعظ {تقریر فرمودہ ۱۴؍جولائی ۱۹۰۳ء بعد نماز عصر} (الاحزاب :۲۹) یہ آیتیں قرآن شریف کے ۲۱ پارہ کے اخیر اور ۲۲ پارہ کے ابتدا کی ہیں ان میں خدا نے ایک گھر والیوں کو وعظ فرمایا ہے.اس گھر اور اس واعظ کا وعظ اور جن بیبیوں سے اس واعظ کا تعلق ہے اس کا ذکر فرمایا ہے.اس سے میری عرض یہ ہے کہ واعظ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور وہ وہ گرامی ذات ہے جس کے لئے دنیا کو یہ حکم ہوا کہ (اٰل عمران :۳۲) کہ اگر تم کو یہ منظور ہے کہ خدا کے محبوب بنو تو اس کی اتباع کرو.جب انسان کسی کا پیارا بنتا ہے تو پیار کرنے والا اپنے پیارے کی تکلیف کو پسند نہیں کرتا.اگر کسی غلطی کی وجہ سے وہ کسی تکلیف میں ہو تو اس کی تکالیف کو دور کرتا ہے.مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ محبوب کی تکلیف دیکھتے اور اس کو دور نہیں کر سکتے.اس لئے کہ ان میں طاقت دور کرنے کی نہیں ہوتی مگر خدا تو کامل قدرت اور کامل علم والا ہے.پس خدا نے فرمایا کہ اگر تم کو مجھ سے تعلق ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو پھر تم میرے محبوب بن جائو گے.جب تم اس کے محبوب بن جائو گے تو ہر ایک قسم کے سامان تمہارے لئے اللہ تعالیٰ مہیا کرے گا.بس اللہ تعالیٰ نے اس پاک بندے سے گھر میں وعظ کروایا اس لئے کہ ہم اس پر عمل کر کے فضل اور ابدی آرام حاصل کریں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وعظ کیا اور اپنی بیبیوں کو سنایا وہ بیبیاں کیسی تھیں (النّور :۲۷) پس ان بیبیوں کو وعظ سنایا.ہم کو اتباع کا حکم ہے.اس لئے یہ وعظ مجھ کو دو طرح سنانے کے لئے مامور کیا جاتا ہے.پہلے رسول اللہ کے اتباع کا حکم دوسرے اس سچے اور حقیقی نائب اور خدا کے پاک بندے نے حکم دیا ہے کہ میں تم کو وعظ سنائوں.
اب بتاتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا وعظ کیا اور کیا وہ وعظ خود کیا یا خدا کے ارادہ سے کیا.اس میں خدا کا ارشاد یہی تھا کہ وعظ سنائو.اس سے ہم کیا فائدہ اٹھائیں.سنیں اور سنائیں اور اس کے اغراض پر غور کر کے عمل کریں.آجکل دنیا میں ایک بیماری ہے نہ صرف عورتوں میں بلکہ مردوں میں بھی کہ جب ہم کسی راستباز کے اعمال‘ احکام اور چال چلن بیان کرتے ہیں تو اس وقت بہت لوگ شیطانی اغوا سے کہہ دیتے کہ یہ کام ہم سے نہیں ہو سکتا نہ ہم رسول اور نہ رسول کی بی بی.میرے نزدیک یہ کہنا کفر ہے اور خدا پر بھی الزام آتا ہے.اس لئے کہ اگر ہم سے ان احکام کا نباہ نہیں ہو سکتا تو کیا خدا نے کوئی لغوحکم دیا ہے.پھر جب خدا نے نبی کی اتباع کا حکم دیا ہے جبکہ ہم وہ کام کر ہی نہیں سکتے تو ہمیں ان کی اتباع کا حکم کیوں ملا ؟میرا ایمان ہے کہ جن احکام کا متبع خدا نے ہم کو بنایا ہے ہم ضرور کر سکتے ہیں اور جن سے روکا ہے ان سے ہم رک سکتے ہیں.پس میں یقین کرتا ہوں کہ خدا نے جو حکم دئیے ہیں ان کو ہم کر سکتے اور اس کے موانعات سے ہم رک سکتے ہیں.رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیبیاں جب مدینہ میں تشریف لائے تو مدینہ میں کوئی مکان‘ باغ‘ زراعت یا تجارت کا سامان نہ تھا اور سب کو ایک گو نہ تکلیف تھی اور وہ اس قسم کی تکلیف نہ تھی جیسے آجکل لوگوں کو لنگر سے کھانا ملتا اور مہمان خانہ میں چار پائی ملتی.بلکہ اس وقت ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہ ملتا تھا.پھر ایک شریر قوم یہود نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت چھیڑ کی یعنی دس ہزار آدمی کو باہر سے چڑھا کر لائے اور اندر سے خود تباہ کرنا چاہا.مگر خدا نے ان باہر والوں کو بھگا دیا اور یہود کو اس پاداش میں ہلاک کیا.اور ان کے کل اموال آنحضرتؐ کے سپرد کئے.اس پر کمزور طبائع کی عورتوں کو خیال آیا کہ اب ہمیں آسائش ہو جاوے گی.اس پر یہ حکم آیا کہ اے نبی اپنے گھر والوں سے کہہ دو کہ اگر تمہارا اصل منشاء دنیا والی زندگی اور اس کی زیب وزینت کا خیال ہے تو آئو ہم تمہیں کچھ دے کر علیحدہ کردیتے ہیں اور اگر یہ منشاء ہے کہ خدا راضی ہو اس کا رسول راضی ہو آئندہ سکھ پائو تو یاد رکھو کہ خدا کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا.اے نبی کی بیبیو! اگر تم میں سے کوئی بدی کا ارتکاب کرے گی تو اس کو دوہرا عذاب ملے گا.اور یہ بات خدا پر آسان ہے او رجو کوئی تم میں سے خدا اور رسول کی اطاعت
کرے گی اور عمل صالح کرے گی دوگنا اجر دیں گے.اے نبی کی بیبیو! کیا تم عام عورتوں کی طرح تو ہو نہیں جب کہ تم نے متقی بننے کا ارادہ کیا ہے تو کوئی ایسی بات نہ کرنا جس میں کسی شریر کا لحاظ پایا جاوے اور ایسی بات کہو جو بھلی اور پسندیدہ ہو اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور جاہلوں کی طرح باہر نہ نکلا کرو.اور درست رکھو نماز کو اور ادا کرو زکوٰۃ اور اطاعت کرو خدا اور اس کے رسول کی تحقیق ارادہ کر لیا ہے خدا نے یہ کہ دور کر دے تم سے ہر قسم کی ناپاکی‘ اے گھر والو اور تمہیں پاک کرے.اب غور کرو یہ نبی کی بیبیوں کا حکم ہے تم میں اگر ہماری امّ المومنین ہیں تو حکم پہلے ان کے لئے ہے کہ تمہارے لئے دنیا اور اس کی زینت کا ارادہ کرنا خدا کا منشاء نہیں.جب وہ خدا اور رسول اور یوم آخرت کا ارادہ کریں گے تو خداوند ضائع نہ کرے گا اور اگر تم سے کوئی غلطی ہو گی تو دوہرا عذاب ہو گا کیونکہ ان کے چال چلن کا اثر دوسری عورتوں پر پڑے گا.اگر وہ اپنے خاوند کے حالات پر غور نہ کریں گی اپنا نیک نمونہ دوسری عورتوں کو نہ دکھاویں گی تو بہت بڑا جوابدہ ہونا پڑے گا خدا کا منشاء ان کے لئے بھی وہی ہے جو رسول اللہ کی بیبیوں کے لئے تھا.اب جس قدر بیبیاں ان کے ماتحت ہیں لازمی ہے کہ وہ ان کا نمونہ اختیار کریں گی.ہماری ایک چھوٹی سی بچی ہے وہ عقل نہیں رکھتی پر ہمیں دیکھ کر کاغذ قلم دوات سے لکیریں ڈالتی رہتی ہے.پس جب کہ انسان کی جبلّت اس طرح پر واقع ہوئی ہے تو عورتیں بھی نمونہ کی محتاج ہیں بہت سی عورتیں باہر سے آئیں اگر وہ وہی نمونہ یہاں آکر بھی دیکھیں جو ان کے اپنے دنیاوی گھروں میں ہے تو پھر وہ سست اور کاہل ہو جائیں گی پھر اگر یہاں چستی اور نیکی اور دینداری کا نمونہ دیکھیں گی تو خود بخود نمونہ بنیں گی.پھر آپ کا چال چلن ایسا ہو کہ دوسری عورتیں اسے دیکھ کر نیکی کا نمونہ بنیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا ایک نمونہ‘ صرف ایک نمونہ سناتا ہوں.وہ ایک ایسی بی بی کا ذکر ہے کہ حقیقت میں ہماری امّ المومنین کی ماں تھی.سچا تقویٰ انسان حاصل کر ہی نہیں سکتا جب تک نکاح سے لباس حاصل نہ کرے کیونکہ بہت سے تعلقات اور نرمیاں اور اغماض اس رشتہ سے کرنے پڑتے ہیں.میں نے ایک حدیث میں پڑھا ہے کہ یہ بطال لوگ جن کا کوئی رشتہ بی بی، بچہ نہیں بڑے ناقابل اعتبار ہیں.
پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت کے وقت پہلے پہل جس پر اپنا دعویٰ اظہار کیا وہ آپ کی بی بی خدیجہؓ تھیں.ساتھ ہی اس بی بی کو یہ بھی کہا کہ میں مامور ہوا ہوں اس لئے اپنی جان کا بھی مجھے ڈر ہے.یہ نمونہ تعجب انگیز نہیں.اس وقت ہمارے مرشد ومولا بھی تن تنہا ہیں.ہندو، سکھ، آریہ، عیسائی، شیعہ وغیرہ وغیرہ ُکل قومیں دشمن.رشتہ دار دشمن.سر پر باپ موجود نہیں.غرض اندرونی بیرونی دنیا دشمن ہو رہی ہے پر خدا کے بغیر کون اس کی حفاظت کر سکتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ میں خود ابھی تک اس حد تک نہیں پہنچا جسے میں چاہتا ہوں.میں نے اس کی پاک زبان سے سنا ہے کہ میں ایک ایسے جنگل میں جانا چاہتا ہوں جس کی راہ میں لوہے کے کانٹے ہیں پھر ہم بظاہر دیکھتے ہیں کہ ہمیں کوئی دشواری نظر نہیں آتی مجھ کو جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلیٰ محبت ہے وہاں اس بی بی سے بھی اس طرح کی محبت ہے.اس بی بی نے اس وقت آنحضرتؐ کو کیا جواب دیا اور کیسا پاک اور پیارا جواب دیا جو بخاری میں درج ہے کہ میری روح اس پر قربان ہوتی ہے فرمایا کـلّا واللّٰہ نہیں حضور ہرگز نہیں ہو سکتا.خدا کی قسم خدا آپ کو کبھی ذلیل نہیں کرے گا.آپ تو رحم کا بڑا بھاری لحاظ کرتے ہیں پس رحم کے لحاظ سے جو بیوی کے رشتہ داروں سے محبت کی جاتی ہے جو شخص ایسا لحاظ کرتا ہے پیارے خاوند وہ ذلیل نہیں ہوتا.پس تم بھی رشتہ داروں سے خاص خاص پیار اور محبت کرو کہ خدا ذلت سے بچاوے.آپ تو دکھیاروں کے دکھ اٹھاتے ہو اور دکھیوں اور تھکے ماندوں کی مدد کرنے والا خدا کے حضور ذلیل نہیں ہوتا.پھر آپ کے حضور جو لوگ آتے ہیں وہ، وہ چیز پاتے ہیں جو جہان میں ان کو میسر نہیں آسکتی یعنی خدا کے قرب کی راہیں آپ سے ملتی ہیں.اور آپ سچ بولتے ہیں اور ضرورتوں کے وقت آپ ہمیشہ لوگوں کے شریک ہوتے ہیں اسی طرح کے لوگ کبھی ذلیل نہیں ہوتے.پس یہ ایسی باتیں ہیں کہ جو سچ طور پر رسول کی رسالت کو ثابت کرتی ہیں.یہ کلمہ اس بی بی کے منہ سے نکلا ہوا ہزاروں ہزار لوگوں کے واسطے راہ ہدایت ہوا.جب لوگ دیکھتے کہ پندرہ برس کی تجربہ کار بی بی ایسے الفاظ کہتی ہے تو سوائے ماننے کے اور کیا کہہ سکتے.
اسی قسم کاپاک نمونہ ہونے کے لئے خدا نے ان آیات میں آگاہ کیا ہے کہ جو عورتیں رسول کے گھر میں رہتی ہیں خدمت گار ہوں یا اصیل ہوں خدا تمہارے لئے چاہتا کہ تمہارا اصل ارادہ زینتِ دنیا نہ ہو بلکہ خدا اور رسول کی اتباع اور آخرت کی بھلائی ہو.تمہاری غلطی دوہری غلطی نہ ہو کیونکہ غلط کار اپنی غلطی کا آپ ہی پھل اٹھاتا.پس جس کی غلطی دیکھ کر دوسروں نے اثر پذیر ہونا ہے اس کو دو غلطیوں کا پھل ملے گا.اسی طرح تمہارے لئے نیکی کے عوض میں اجر بھی دوہرا ہے.مثلاً اگر ہمارا چال چلن برُا ہے تو ہم اول تو خدا کا گناہ کرتے ہیں دوسرا اپنے امام پر الزام لگاتے ہیں کہ اس کے ہم نشینوں کے اعمال کیسے ہیں تو خود اس کے کیسے ہوں گے.پس تم بھی دوہری جواب دہ ہو گی اوّل اپنی ذات میں دوسرے وہ نقص بھی تمہارے ذمہ ہے جو تم کو دیکھ کر دوسری عورتوں نے تمہاری اتباع کا نمونہ گھڑا.خدا کی اتباع کرو تا کہ خدا تمہارے کل دلِدّر دور کرے اور تم پر اپنی مہربانی کرے واعظ باتیں تو بہت کرتا ہے پر میں دیکھتا ہوں کہ واعظ کو مشکلات بھی بہت ہیں.میں بچپن سے وعظ کرنے کا عادی ہوں.پر مجھے بہت تجربہ ہوا ہے کہ واعظ کو وعظ میں بڑی بڑی دقتیں پیش آتی ہیں اگر واعظ صرف یہی بات کرے نیکی عمدہ چیز اور بدی بری چیز ہے تو پھر یہ تو ہر ایک فرد بلکہ بچہ بھی جانتا ہے اس کے بیان کی حاجت کیا ہے مگر واعظ کو ہمیشہ تفسیر میں دقت ہوا کرتی ہے.اول کوئی شخص ان بداعمالیوں اور بیماریوں میں مبتلا ہے جو واعظ بیان کر رہا ہے پر وہ سمجھتا ہے کہ واعظ مجھ کو برسرعام بدنام کر رہا ہے اور واعظ سے بد ظن ہو جاتا ہے.یاد رکھو کہ ایسا ظن برُی چیز ہے ہاں واعظ کو بھی اس میں دقت ضرور ہے کیونکہ اگر کھول کر ان بیماروں کا ذکر کرے تو لوگ سمجھتے کہ ہمیں طعنہ دے رہاہے اگر چپ رہے تو وعظ کیا ہوا.پس بیبیوں کو اس بات سے بھی آگاہ رہنا چاہئے کہ اگر میں بیان میں کسی ایسی بیماری کا ذکر کروں جو کسی کے اندر موجود ہو تو وہ یہ بدظنی نہ کرے کہ میں اس کو بدنام کرنا چاہتا ہوں یا اس کو طعنہ دے رہا ہوں.میں تمہارے گھر کو قابل عزت سمجھتا ہوں اور اس پر جان ومال قربان کرنے کو طیار ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ بالکل سچ ہے اگر اب بھی تم ایسے الزام لگائو تو میں برُی ہوں
تیسری غلطی یہ ہے کہ انسانی کمزوری سے انسان دوسرے کی غلطی دیکھ کر بدظن ہو جاتا ہے مگر خدا کے نزدیک اور میزان ہے.جس کے لئے فرمایا.(القارعۃ: ۷، ۸) پس میری طبیعت میں خدا تعالیٰ نے یہ بات رکھ دی ہے کہ انسان کے بہت سارے اعمال صالح پر نظر ڈالا کرتا ہوں.کیونکہ خدا نے فرمایا ہے(التوبۃ: ۱۰۲) پس جب ہم کسی بدی یا بیماری کی تفسیر کرتے ہیں تو یہ ارادہ نہیں ہوتا کہ کسی کو نشانہ بنا دیں بلکہ اس لئے کھولتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کوئی ایسی تحریک پیدا کر دے کہ ان کے اندر سے وہ بیماری دور ہو جائے.پس میں عورتوں کی بیماریوں کا ذکر کروں گا کیونکہ مجھ کو گول بات پسند نہیں ہوتی.(۱) عورتوں کی عادت بددعا کی ہوتی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہوشیار عورت نے پوچھا کہ یا رسول اللہ آپ جو فرماتے ہیں کہ جہنم میں عورتیں بہت جاویں گی اس کی کیا وجہ ہے.فرمایا اس لئے کہ تم بڑی لعنت دینے والی قوم اور خاوند کی کافر ہو.ایک انسان تمام عمر تمہارے ساتھ نیکی سے گزار دے پھر ایک دن کی تکلیف سے تم کہہ دیتی ہو کہ میں نے تم سے کبھی سکھ نہیں پایا.اسی طرح اولاد‘ جان‘ مال کو بددعا دیتی ہیں پر ایک وقت ایسی ہوا آتی کہ وہی دعا قبول ہو جاتی.جریج نام ایک شخص کو ماں نے نماز میں بلایا اس نے تین دفعہ بلایا.انہوں نے ماں کو تو کچھ جواب نہ دیا پر نماز میں دعا کی کہ خدایا ان صلوٰت وامی مگر اس عورت نے کہا کہ خدایا یہ بڑا نیک بنا پھرتا ہے اس کو موت نہ دیجیو جب تک کنچنی کا منہ نہ دیکھے.چنانچہ ایک فاحشہ نے اس کو بدی کے لئے بلایا اس نے انکار کیا مگر اس کو کسی اور جگہ سے حمل ہو گیا.جب بچہ پیدا ہوا تو عورت نے اس پر منسوب کیا لوگوں نے اس کو مارا مگر اس بچہ نے اس کی بریت کی شہادت دی.پس بیبیوں کو چاہئے ایسی باتوں میں خوب احتیاط سے کام لیں.ایک بی بی کے پاس سے ایک امیر گزرا.بچہ کو وہ دودھ پلا رہی تھی.کہا خدایا میرا بچہ بھی ایسا ہی امیر ہو مگر اس بچہ نے کہا خدایا میں ایسا بننا نہیں چاہتا پھر ایک پلٹتی ہوئی عورت گزری تو اس بی بی نے کہا خدایا میرے بچہ کو ایسا نہ کریو.اس بچہ نے کہا کہ خدایا مجھے ضرور ایسا کریو.اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ امیر ظالم تھا اور وہ عورت نیک تھی.
(۲) عیب عورتوں میں تمسخر کا ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنی زبان قابو میں رکھو.صحابہ نے عرض کیا کیا ہم زبان سے بھی پکڑے جاویں گے.فرمایا زبان دوزخ میں اوندہا گرا دیتی ہے.ہنسی ٹھٹھے میں یہ قاعدہ ہے کہ انسان دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے ابلیس کا گناہ تھا یہی کہ (ص : ۷۷)اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایک دوسرے پر ٹھٹھا نہ کرو ممکن ہے کہ وہی تم سے اچھا ہو.زبان کوقابو میں رکھنا بڑی خوبی کی بات ہے.انسان زبان سے ہی مومن اور زبان ہی سے کافر بنتا ہے اور اسی سے مومن اور اسی سے منافق بنتا ہے.(۳) تیسری بات ہماری پاک کتاب میں سورہ نور ہے تم میں جو پڑھی ہوئی ہیں وہ پڑھ کر عمل کریں اور جو پڑھنا نہیں جانتیں وہ دوسریوں سے سن کر عمل کریں.اس فضل سے پہلے جو خدا نے مجھ پر مرزا صاحب کے تعلق سے کیا ہے.میرا مولا پہلے ہی مجھ پر بڑے بڑے فضل کرتا رہا ہے جن میں سے ایک یہ فضل تھا کہ میں شاہ عبدالغنی صاحب کا مرید تھا.انہوں نے فرمایا تھا کہ اہل ہند نے سورہ نور پر عمل ترک کر دیا ہے بلکہ اپنے لئے اس کو منسوخ ہی سمجھ لیا ہے.پس تم اس پر ضرور غور کرو اس میں سب سے پہلے زنا کی مذمت ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر ایک عضو زنا کرتا ہے پس انسان ہر ایک عضو کا نگہبان بنے.خدا تعالیٰ نے اس سورت شریف میں فرمایا ہے کہ زانیہ کی سزا کے وقت نیک لوگ موجود ہوں اور اس پر رحم قریب ہی نہ آوے.وہاں حضرت صدیقہ کا ذکر فرمایا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی کنواری بی بی ہیں ان کا درجہ میرے نزدیک حضرت خدیجہ سے کچھ بھی کم نہیں.میں تم کو ایک نمونہ سناتا ہوں یہ ایک ایسی ذہین‘ ذکی اور نبی کریم کے چال چلن پر گہری نظر کرنے والی بی بی ہے کہ عقل حیران ہو جاتی ہے اس کا ایک ایک لفظ معرفت کا بھرا ہوا اور جامع ہے.کسی صحابی نے اس بی بی سے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کس طرح پڑھتے تھے.فرمایا کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا.ایک شخص نے اس بی بی سے آنحضرت کی سوانح عمری دریافت کی فرمایا کان خلقہ القران (صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ باب جامع صلوٰۃ اللیل)یعنی قرآن اگر کوئی قول ہے تو نبی کریم اس کا عامل ہے دیکھو ایک لفظ میں نقشہ کھینچ دیا ہے.اس بی بی نے امت پر بڑا احسان کیا ہے
حضرت عمرؓ جیسے جلال والے انسان کا مقابلہ قرآن کریم سے بھی کرتی تھی.اس بی بی پر لوگوں نے اتہام لگایا تھا ان کے گلے میں ایک ہار تھا کس چیز کا.سلیمانی منکے اور کچھ لونگ اس میں پروئے ہوئے تھے وہ لشکر سے باہر پاخانہ پھرنے کو گئیں تو وہاں ہار ٹوٹ پڑا اس کو چننے لگیں یہ نو برس کی بیاہی گئیں اور ۱۸ برس کی بیوہ بھی ہو گئیں تھیں اور۶۳ برس کی عمر میں فوت ہو گئیں تھیں.اس عرصہ میں مسلمانوں کے بہت انقلاب دیکھے چونکہ بہت ہلکی پھلکی تھیں ساربانوں نے ان کا ڈولا اونٹ پر کس دیا اور چل دئیے.کسی کو معلوم نہ ہوا کہ آپ اس میں ہیں کہ نہیں جب یہ جنگل سے واپس اس مقام پر آئیں تو دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے جوانی کے ایام تھے نیند نے غلبہ کیا اور سو گئیں.ایک شخص ہمیشہ لشکر میں پیچھے رہتا ہے کہ گری پڑی چیز اٹھا لاوے چنانچہ صفوان صحابی اس کام پر مامور تھا.جب اس نے دور سے بی بی کو پڑا ہوا دیکھا تو سمجھا کہ کوئی عورت فوت ہو گئی ہے اور یہیں چھوڑ کر قافلہ چلا گیا ہے اور زور سے انا للّٰہ پڑھا.آواز سن کر آپ جاگ اٹھیں.پھر صفوان نے ان کو اونٹ پر سوار کیا اور خود آگے آگے ہوا اور دوپہر کو لشکر میں لے کر پہنچا لیکن بہت سارے شریر اور بدگمان لوگوں نے کہا کہ شاید کسی بدی کی وجہ سے بی بی پیچھے رہ گئی ہیں.جب یہ خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو حضرت عائشہ ؓ ان دنوں میں بیمار تھیں ان دنوں گھروں میں پاخانہ نہیں ہوتا تھا ایک روز آپ باہر پاخانہ کو گئیںتو ایک بڑھیا ساتھ تھی.ساتھ والی بڑھیا راستہ میں گر پڑی (عورتیں بات دل میں نہیں رکھ سکتیں) گر کر اپنے بیٹے کو سخت گالی نکالی.بی بی نے منع کیا.غرض تین دفعہ اسی طرح کیا اور تین دفعہ بی بی نے منع کیا تو کہنے لگی کہ تجھے خبر نہیں تجھ پر لوگوں نے تہمت لگائی ہے اور اس میں میرا بچہ بھی شریک ہے اس لئے اس کو گالی دیتی ہوں.پس صدیقہ اسی دن اپنے میکے میں چلی آئی.ایک مہینہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور کہا عائشہ اگر تجھ سے غلطی ہوئی ہے تو استغفار کرو اگر نہیں ہوئی تو خدا تعالیٰ مجھے وحی سے آگاہ کر دے گا.اس سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ غیب کی کنجیاں اپنے ہاتھ میں نہیں رکھتے بہت لوگ ان کو خدا کا ایجنٹ سمجھتے ہیں.یاد رکھو کہ خدا بڑا بادشاہ ہے ُکل انبیاء اولیاء مرسل اس کی قوت کے نیچے رہتے ہیں اور جس کو وہ چاہتا ہے اس کو اطلاع دیتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیات نازل کیںاور اسی بی بی کا پاک اور مطہر ہونابتلایا.فرمایا: (النور: ۱۳).
جب عائشہؓ کے حق میں تم لوگوں نے برُا فقرہ سنا تھا تو نیک گمانی سے کیوں کام نہ لیا.پس میں تمہیںیہی فقرہ سنانا چاہتا ہوں کہ نیک گمانی سے کام لیا کرو.خدا فرماتا ہے کہ کیوں تم نے ایسی باتیں سن کر نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات کہنا مناسب نہیں.پس یہ عیب مردوں میں بھی ہے پھر عورتیں اس پر بڑے بڑے منصوبہ باندھتی ہیں.اور اس پر بڑے بڑے حکایات چلاتی ہیں.پس خدا نے اس سے منع کیا ہے.اس سورۂ شریف میں ایک اور حکم فرمایا ہے (النور: ۲۷) یعنی اچھوں کے لئے بیبیاں بھی اچھی ہوتی ہیں اس کے واسطے بڑے کلمات نہ نکالو.پھر فرمایا یہ کہہ دو (النور:۳۲) کہ اپنی آنکھیں نیچے رکھیں شرم گاہوں کو محفوظ رکھیں اور اپنی زینت کو نہ دکھاویں سوائے خاوند اور باپوں وغیرہ کے اور سوائے اپنی خاص عورتوں کے.اس پر بھی مجھے حیرت ہے کہ بہت کم عمل ہے.بہت سی عورتوں سے یہی پردہ لازم ہے.ہر ایک عورت سے بے پردگی نہ ہو.(۴) ایک اور بات ہے بعض عورتیں قسم قسم کے دکھوں میں مبتلا ہوجاتیںاور عورتیں ان کو طعنہ یا ملامت کرتی ہیں ایسی عورتیں بڑی بدطینت ہوتی ہیں مثلاً اگر بیوہ کو نکاح کرنا موجب ملامت ہے تو جناب خدیجہؓ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیسرے خاوندتھے.پس ایسی طاعن کس کو طعنہ دیتی ہے.بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری بیبیوں میں سے صرف حضرت عائشہؓ صدیقہ کنواری تھیں.طلاق بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا کرتی تھی.چنانچہ حضرت زینب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاش کر کے زید سے نکاح کرایا.مگر اس نے طلاق دے دی.پس پھر بڑی بدقسمت ہے وہ عورت جو مطلقہ کو طعن دیتی ہے.پھر قرآن نے حکم دیا ہے کہ اے ایمان والو تمہارے گھر میں تین وقتوں میں غیر مرد اور نابالغ لڑکے نہ آویں قبل از نماز فجر‘ دوپہر اور بعد عشاء کے کیونکہ یہ خاص احتیاط کا وقت ہے.پھر اگر بوڑھی عورت بھی ہو تو اپنے کپڑے احتیاط سے رکھے اور اپنی زینت دوسرے پر ظاہر نہ کرے پھر کچھ مال خدا نے مردوں کا اور عورتوں کا بنایا ہے.(۵) ایک اور عیب ہے کہ بہت سی لباس پہننے والیاں ہیں پر خدا کے نزدیک ننگیاں ہیں.بہت
لباس خدا اور رسول کو پیارا نہیں ہوتا.(۶) بعض عورتیں اولاد کے صدمہ پر الفاظ ناشائستہ کہہ دیتی ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا اس صابرہ کو دوزخ سے بچا لیتا ہے جو اولاد کے صدمہ پر صبر اور استقلال دکھاتی ہے.(۷) عام طور پر عورتیں چھوٹے چھوٹے گناہوں سے کم پرواہ رکھتی ہیں.مسیح علیہ السلام کی ماں کی طرف دیکھو کہ اپنی اولاد کے واسطے کیسی دعائیں مانگتی ہیں.عورتوں کے لئے پڑھنا پڑھانا لکھنا وغیرہ خوبی کی بات ہے اس کے بغیر ان کو مسائل سے پوری واقفیت نہیں ہو سکتی.میں نے کسی عورت کو اپنی عمر میں نہیں سناکہ اذان کے ساتھ اذان پڑھتی ہو جو طریق مسنون ہے.بالآخر میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ تمہیں اعمال صالحہ کی توفیق دیوے.تمہارے اندر واعظہ اور خدا کا پاک نمونہ موجود ہے.تم سخت ذمہ داری کے نیچے ہو.کیونکہ باہر کی عورتیں تمہارے نمونہ کو دیکھ کر قدم بقدم چلیں گی.تمہاری زبانیں پاک ہوں تمہارے اندر بدگمانیوں کے تخم ناپیدا ہوں.خدا کی سچی کتاب تمہارا دستورالعمل ہو اور خدا تمہیں اس کی توفیق دیوے اور تمہیں قرآن کریم کا تابع بناوے تمہاری اولاد کے واسطے تمہارے منہ سے نیک دعائیں نکلیں.ایک دفعہ حضرت زینبؓ اپنے کپڑے گیری میں رنگنے لگیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر سے تشریف لائے اور کپڑے رنگتے ہوئے دیکھ کر واپس تشریف لے گئے حضرت زینبؓ تاڑ گئیں کہ آپ کس بات کی وجہ سے واپس تشریف لے گئے ہیں.ہادیوں کے گھر میں ہر وقت الٰہی رنگن چڑھی رہتی ہے.جس کا ذکر(البقرۃ:۱۳۹) میں ہے.یہ رنگینیاں اس کے مقابل میں کیا چیز ہیں.پس یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بناوٹ‘ زیور اور لباس سے خوش نہیں ہوتا بلکہ نیک بیبیوں کی بناوٹ اور زیور ان کے نیک عمل ہیں.
خدا تعالیٰ کم سے کم میری بیبیوں کو بھی اس بات کی توفیق دیوے کہ وہ یہ نہ کہیں کہ یہ اس کی زبانی ہی باتیں ہیں.آمین.والسلام (الحکم ۳۱ جولائی ، ۱۰ ؍اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۸تا۱۰) ٭…٭…٭
تقویٰ اور اس کے اصول ونتائج (۳۰؍اکتوبر ۱۹۰۴ء بعد نماز ظہربمقام سیالکوٹ) (الحکم کے لئے مفتی فضل الرحمن صاحب نے لکھا) .(اٰل عمران:۱۰۳تا۱۰۴) یہ ایک قرآن کریم کی آیت ہے.اس سے میری ایک غرض ہے.آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں لوگ مختلف خیالات کے پیدا کئے گئے ہیں.کچھ تو ایسے ہیں کہ سننا جانتے اور سننا چاہتے.کچھ تو ایسے ہیں کہ بولنا ہی جانتے اوربولنا ہی چاہتے ہیں.تیسرے وہ ہیں جن کونہ بولنے کی خواہش ہے اور نہ سننے کی.پھر بولنے اور سننے والے بھی دو قسم کے ہیں.سننے والے دو قسم اس طرح ہیںکہ بعض تو بطورتماشا یا دل لگی یا بطورنکتہ گیری کے سنتے ہیں.اور بعض اس غرض سے سنتے ہیں کہ اگر کوئی حق وحکمت کی بات مل جاوے تو اس سے فائدہ اٹھائیں.پہلے لوگ اگر معرفت کا ہزار نکتہ بھی سنیں تو انہیں کچھ سروکار نہیں.پھر اگر بولنے والے کے منہ سے ایک لفظ صرفی یا نحوی یا زباندانی کے لحاظ سے غلط نکل گیا ہے یا اس کے مطلب میں انہیں کچھ تامل نظر آتا ہے تو وہ صرف اس وعظ سے اتناہی نتیجہ لے جاتے کہ ہاں جی فلاں شخص کا وعظ بھی ہم نے سنا ہے.لغتی غلطیاں بہت کرتا ہے.پس ان کے حصہ میں تو نکتہ چینی ہے اور بس.ان لو گوں کی تمثیل مکھی کی مثال ہے کہ اس کو کچھ تمیز نہیں کہ میں پاک مٹھاس پر بیٹھی ہوں یا سنڈاس پر یا بعض ان میں ایسے ہوتے کہ کوئی لفظ اپنی اغراض کے مطابق مل جاتا ہے تو وہ دوسروں سے پیش کرتے کہ دیکھو فلاں شخص کا بھی یہی مذہب ہے جو ہمارا ہے.اور دوسرے لوگ وہ ہوتے ہیں جو غلطیوں اور ناموزوں الفاظ کو بالکل نظر انداز کرتے اور اس
واعظ یا مقررکی تقریر سے اگر کوئی بے بہا موتی حق و حکمت کا مل جاتا ہے تو اسے لے کر خوش ہوتے.پھر سنانے والوں کی دو قسمیں یہ ہیں کہ بعض تو چند پیسوں کے لئے بولتے خواہ وہ انجمن کے واسطہ یا مسجد کے لئے یا اپنی ذات کے واسطے خواہ عمدہ کام کے واسطے.یا سنانے والے ایسے ہوتے کہ طبیعت ہی ایسی واقع ہوئی ہے کہ اپنے اعلیٰ خیالات کا اظہار کرنا چاہتے خواہ تحریری طور پر خواہ تقریری طور پر.یا بعض اس کے عوض میں کچھ ماہانہ تنخواہ لیتے اور بعض ایسے ہوتے کہ وہ اپنے آپ کو مامور من اللہ یقین کرتے اور کہتے کہ ہم خدا کے بلائے سے بولتے ہیں.پس اب تم خود سوچ لوکہ تم کس طرح کے سننے والے اور میں کس طرح کا سنانے والا ہوں.میں نے تو دنیا کی ُکل کتابوں میں سے قرآن کریم اور بخاری شریف کو پسند کیا ہے.بخاری کے ابتدا میں یہ بیان ہے کہ اسلام دنیا میں کس طرح آیا اور کیا لایا ہے.اس کے اغراض کیا تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کس طرح ہوئی اور آخری ترقی انسانی پر اس کو ختم کیا اور کتاب شروع کی ہے اسلام سے اور اس کو ختم کیا ہے انسانی اعلیٰ ترقی پر.لیکن پہلا باب باندھ کر پہلے ہی صفحہ پر اس غرض کو چھوڑ دیا ہے اور اس کا باب اس طرح شروع کیا ہے کہ کس طرح خدا کی وحی آخری نبی پر نازل ہوئی اس کے بعد اس کو ضرور تھا کہ اس کے ذرائع بیان کرتا.ہر بات یوں شروع کی ہے کہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَ اِنَّ لِا مْرِئٍٍ مَّا نَوٰی.یعنی ہر ایک اختیاری فعل.(عمل کہتے ہیں اس فعل کو جس کو انسان اپنی استطاعت اور مقدرت سے شروع کرتا پس لا بدہے کہ اس کا کوئی ارادہ اور مقصد بھی ہو)جب انسان ارادہ سے کرتا ہے تو ہر آدمی کو اس کی نیت کا پھل مل جاتا ہے جیسے ارادے اور اغراض ہوتے ہیں ویساہی وہ پھل اٹھا تا ہے.پس میں نے غور کیا کہ جس کتاب کو میں اس قدر عظیم الشان سمجھتا ہوں اس کا ہیڈنگ کچھ اور ہے اور یہ بات کچھ اور.پس میںنے خیال کیا کہ اس شخص نے ہمیں ترغیب دی ہے کہ جب تم اس کتاب پر وقت خرچ کرنا چاہو تو سوچ لو کہ تمہارے اس سے ارادے کیا ہیں.پس ان کی نیت ٹٹولنے کو یہ بات لکھ دی اب چونکہ مجھے وہ کتاب بہت عزیز ہے.اس لئے تم سے کہتا ہوں کہ تمہارا سننا کسی غرض سے ہو خواہ وہ غرض چھوٹی سے چھوٹی اور خواہ بڑی سے بڑی ہو.غرض کا لفظ جھوٹا ہے.ہر شیء تنکے کو بھی کہتے ہیں او ر خدا کو بھی کہہ دیتے ہیں.پس یہ لفظ اسی طرح
جامع ہے.غرض سننے والا اپنے وقت اور طاقت کو ضائع نہ کرے.یہاں کیسا ہجوم ہے اور ہجوم میں کیسی خلاف صحت ہوائیں چلتی ہیں.پس اس جگہ کھڑے ہو کر تم اپنا وقت ضائع نہ کرنا بلکہ تمہاری اغراض نیک ہوں.سنانے والے کے کیا اغراض ہیں.یہ بتلانے کی مجھے ضرورت نہیں.کیونکہ یہ معاملہ میرے دل کا ہے یا میں خود جانتا ہوں یا اس سے بڑھ کر میرا مولا خوب سمجھتا ہے.کیونکہ وہٰ (طٰـٰہ :۸).یعنی وہ موجودہ اغراض کو اور کہ ان اغراض کا نتیجہ دوسال کے بعد کیا ہو گا.اس نتیجہ کو بھی جانتا ہے اس واسطے میں اپنی غرض کو بتلائو ں کہ میری اس بولنے سے کیا غرض ہے ضرور ت نہیں ہے....اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.بہر حال تم لوگ اگر نیکی کی اغراض سے میری اس تقریر کو نہیں سنتے تو اپنے قیمتی وقت کو ایسی ہجو م اور ایسی متعفن ہو ا میں بے فائدہ رائیگاں نہ کرو.بہت ساری مخلوق ایسی ہوتی ہے کہ ان کے اغراض بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور صرف موجودہ وقت کے واسطے ہوتے ہیں ہر انسان کو علم اور عقل اس لئے بخشا گیا ہے کہ اس کے اغراض بھی بہت بلند پر واز ی کرنے والے ہوں.یہ میں نے تمہاری خیر خواہی کی ہے.پس میری پہلی بات کو تم لے لو.اور بڑی بات کو.کا لائے بد بریش خاوند.یہیں چھوڑ دو.حق و حکمت کا کاسہ لینے سے دریغ نہ کرو اور برائی کے کلمہ سے ہمت بلند سے کام لے کر اعراض کرو.جو آیت میں نے پڑھی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اے ایمان والو تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے.تقویٰ کیا ہے اوراس کا نتیجہ کیا ہے اور اس کے پہلوئوں سے انسان کس طرح آگاہ ہو سکتا ہے.اس سے مطلب یہ ہے کہ خدا تمہیں تقویٰ کا حکم دیتا ہے کہ حق تقویٰ ادا کرو.تقویٰ کہتے ہیں اس بات کو جس سے انسان دکھوں اور تکالیف سے بچ سکتا ہے.عربی زبان میں اس کا نام تقویٰ رکھا ہے اب آیا کہ کس طرح انسان دکھوں اور مصیبتوں سے بچ سکتا ہے قرآن کریم نے اس کو کھول کر بیان فرمایا ہے.یہاں میں صرف ان میں سے ایک ہی آیت کو لیتا ہوں.
(البقرۃ:۱۷۸) یہاں اسلامی شریعت نے تقویٰ کے معنی بتلائے ہیں.تقویٰ کی جڑ شاخوں اور اس کی روکوں کا اظہار کیا ہے اور یہ بتلایا ہے کہ سچے متقی کون ہوتے ہیںمیں نے اس پہلی زیر نظر آیت کے لفظ تقویٰ کی تفسیر کے واسطے یہ دوسری آیت پڑھی ہے.ٰلکن میرا جی چاہتا ہے کہ تمہیں پہلے یہ بتائوں کہ تقویٰ کیا ہوتا ہے کبھی جی چاہتا کہ تمہیں پہلے یہ بتلائوں کہ تقویٰ کے نتائج کیا ہو تے ہیں.کیونکہ جب نتیجہ مد نظر ہوتا ہے تو انسان اس کام کو شرح صدر سے کرتا ہے.پس پہلے، مجھے بھی یہ پسند ہے کہ تمہیں بتائوں کہ تقو یٰ کے نتائج کیا ہیں پس مختصراًبتلادیتا ہوں.ایک مومن کی طبیعت چاہتی ہے کہ صرف اس لئے کہ ہمارے مالک رب العالمین کا حکم ہے ہم ماننے کو تیار ہیں ہمیں بتلادو کہ تقویٰ کیا چیز ہے.مگر ایک اور شخص یہ سوال پیش کر سکتا ہے کہ ہم کسی کام کو کر نہیں سکتے جب تک ہمیں یہ علم نہ ہو کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا.پس بہتر ہے کہ ہم پہلے نتائج کا ہی اظہار کریں.ہر ایک انسان کی فطرت میں یہ بات رکھ دی گئی ہے کہ میں ایک طاقت عظیم یا عظیم کا محبوب بن جائوں.جب یہ خواہش موجود ہے تو ایک بیمار جو بہت طبیبوں کا علاج کر چکا ہے مفلس ہو گیا ہے.گھر والوں کو دوبھر معلوم ہوتا ہے.پر جب وہ ہر طرف سے تھک کر میری طرف آتا ہے تو اخراجات کثیر کا زیر بار ہو کر آتا اور پھر میرے سامنے نذر رکھتا ہے.حالانکہ کیا اس کو یقین ہے کہ اس سے مجھے شفامل جاوے گی.یا اس کی طبابت اکمل ہے.پھر ہماری طبابت ہی کیا ہے.اس کا بہت سارا حصہ کنچنیوں ‘ ڈاکٹروں ‘ حجاموں ‘ جراحوں کے سپرد ہے اور بہت تھوڑا حصہ ہمارے پاس ہے.پھر باوجود اس قلیل مقدار طب کے پھر وہ ہمارے ہاتھ سے زہر کھانے کو بھی تیار ہے.پس یہ وہی بات ہے کہ اپنے سے زیادہ عظیم کا متبع بننا چاہتا ہے.
پھر انسان طاقتوروں کا بھی اپنا بننا چاہتا ہے مثلاً حکام کا جیسے کوئی شخص کہہ دیتا کہ فلاں ڈاکٹر یا فلاں حکیم یا فلاں ڈپٹی انسپکٹروغیرہ میرا اپنا ہے یعنی میرا دوست ہے.پس جو لوگ مذہب کے پابند ہیں یعنی خد اکی ہستی کو مانتے ہیں (کیونکہ اس وقت میں خدا کی ہستی پر بحث کرنے کے واسطے کھڑا نہیں ہوا.اور وہ اور قومیں جن کے سامنے ہمیں یہ بحث کرنے کی ضرورت ہوتی ہے)وہ اس ہستی کو خوب جانتے ہیں کہ وہ بڑا علیم اور قادر ہے.اگر کوئی شخص اس پر اعتراض بھی کر دے تو میں تھوڑا سا ثبوت دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میرے ایک بڑے مہربان نے مجھ پر سوال کیا کہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ(المائدۃ:۹۸).یعنی کعبہ ہم نے ایک عزت کا گھر بنایا ہے وہاں لوگ حج کو جاتے اور قربانیاں کرتے وغیرہ.یہ اس لئے کہ خدا ہے اور قادر ہے اور علیم ہے.کیا یہ دلیل مکہ کے وجود سے ثابت ہو جاتی ہے اگر کوئی شخص کہہ دے کہ دو ہزار برس تک یہ جہت ایسا ہی مکرم اور معظم رہے گا.کیا کوئی عالم یہ دعو یٰ کرسکتا ہے ہرگز نہیں.پھر خدا کہتا ہے کہ ہم نے اس مسجد کو عزت والا بنا دیا ہے دنیا کی ہزاروں سلطنتیں پلٹ جاویں دنیا الٹ پلٹ ہو جاوے اور یہ سب کچھ ممکنا ت میں سے ہے پر ایسے جنگل و بیابان میں ایک کو ٹھہ ہے اوراس کے لئے دعویٰ کیا جاتا ہے اور دنیا میں شور مچا دینا کہ اس کو مٹا کر تو دکھلائو.پھر اس کو کوئی مٹا نہ سکے گا پھر یہ بات کیسی پوری ہوئی یہ اس لئے کہ تمہیں پتا لگ جاوے کہ کوئی خدا کی ذات ہے اور وہ زمین و آسمان کی باتیں جانتاہے اور یہ کہ وہ ہر ایک بات کا جاننے والا ہے اور وہ قادر ہے.پس جب ایسے علیم وقادر سے محبت ہو تو پھر کیا بات ہے.متقی کے واسطے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.۱.(التوبۃ:۴).اللہ متقی کو پیار کرتا ہے ۲.(المائدۃ:۲۸).اللہ قبول کرتا ہے متقی کی بات کو.۳.(البقرۃ:۲۸۳).متقی کو وہ علم سکھائیں جو تمہیں نہیں آتا.۴.(الطلاق:۳،۴) متقی کو ہر تنگی اور دکھ سے نکلنے کا راستہ ہم بتا دیںگے اور اس کو اتنا رزق دیں گے کہ وہ شمار بھی نہ کر سکے
گا ہم اس کو تنگ سے تنگ حالت سے فراخی کی راہ بتادیںگے.رزق کی بھی تکالیف ہوتی ہیں.اس کے سوائے اور کئی قسم کے مشکلات ہوتے ان سب سے نکالیں گے.اور رزق وہاںسے دیتا ہوںکہ اس کو خبر بھی نہ ہو.۵.(الانفال:۳۰).ہم تمہارے مخالفوںکو اڑا دیں گے اور تمہارے لئے راہ نکالیں گے اور دشمن ناکام ہوں گے.میں نے اپنی عمر میں کبھی تنگی نہیں دیکھی پر اس کی حقیقت کو خوب سمجھتا ہوں.۱.پس متقی خدا کا محبوب بنتا.۲.علم سیکھتا.۳.تنگی سے نجات پاتا.۴.کامیاب ہوتا اور اس کے دشمن ناکام ہوتے ہیں.۵.رزق لیتا.۶.اس کی باتیں قبول ہوتیں.اب متقی کی حقیقت اور نتائج کو تو تم نے سمجھ لیا.اب ہم یہ بتلاتے ہیں کہ تقویٰ کیا چیز ہے.۱.پہلی جڑ تقویٰ کی خدا پر ایمان لاناہے.۲.دوسری جزا وسزا پر ایمان ہے.۳.فرشتوں پر ۴.کتابوں پر ۵.انبیاء پر ایمان لانا.ان پانچ جڑوں کی میں تفسیر کرنا چاہتا ہوں جو دل کے متعلق ہے.دنیا میں بدی بھی ہوتی ہے جس کا نتیجہ دکھ اور نیکی بھی ہوتی جس کا نتیجہ سکھ ہوتا ہے اور اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.بہت سی آہ و فریادیں نالہ وزاری گھر والوں اور پڑوسیوں کو بے قرار کر دیتی ہیں جو دکھ کی وجہ سے ہوتی ہیں ایک وجود ی کو وجع مفاصل کی بیماری ہوئی اور شدید ہوئی تو ایک دن گھبرا کر یہ شعر کہا ان کان منزلتی فی الحب عندکم ماقد لقیت فقد ضعیت ایامی اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تو محبت کی ترنگ میں کہتے ہیں کہ تو میں اور میں تو ہوگیا.پر اب معلوم ہو گیا کہ تو اور ہے اور میں اور ہوں.پس ایک ہی چیز سے دکھ اور سکھ پہنچے یہ نہیں ہو سکتا پھر ہر ایک چیز کے اغراض اور اسباب الگ الگ ہوتے ہیں.دکھ کی جڑھ بدی اور سکھ کی جڑھ نیکی پر ہوتی ہے وہ خواہ کسی علم پر موقوف ہو.پر خدا کا ماننا بھی بہت سی بدیوں سے روک دیتا ہے.میںجب کبھی کسی شہر میںجاتا ہوں تو اپنے مذاق کے لوگوں کے پاس جاکرڈیرہ کرتا ہوں.اس سے یہ نتیجہ نکلاکہ
گویّا گانے والوںکے مکان پر‘اور فقیر تکیہ پر‘ برہمن ٹھاکر دوارے میں اور عیسائی مشن کمپائونڈ میں اس کی تلاش کرکے جا ڈیرہ لگاوے گا.پس انسان جس سے تعلق پیدا کرتا ہے اسی کے پاس رہنا اور سہنا اس کو مطلوب ہوتا ہے.اسی سے حسب استطاعت رنگین ہوتا ہے.حکام اپنے ہم مذاق حکام کے مکانوںپر جاتے.پس اسی طرح جب انسان کو خدا پر ایمان اور تعلق ہوتا اس کی ربوبیت ‘ پاک ہستی ‘ رحمانیت‘ رحیمیت اور مالکیت پر ایمان ہوتا ہے اور یہ کہ کس طرح یہ ربوبیت کا محتاج ہے اور اس کے محامد کا مطالعہ کرتا ہے تو اس طرف خیال آجاتا ہے کہ میں ایک گند ہ اور ناپاک انسان ہو کر کس طرح اس پاک اور قدوس خدا کے دربار میں منہ دکھلائو ں گا.جب تک ایک مناسبت انسان میں نہیں ہوتی اس وقت تک دوسرے سے تعلق پیدا نہیں کر سکتا.جیسے ہمیں اپنے مذا ق کا ہی آدمی پیارا لگتا ہے.پس تمام نیکیوں کی جڑ اور حصلِ حصول اور خوبیوں کے واسطے عظیم الشان ذریعہ خدا کی شان ہی ہو سکتی ہے.پولیس ہم کو بدیوں کے ارتکاب سے روکتی پر تما م بد یوں کی جڑ ھ تو دل میں ہوتی اوراس کو جب تک خدا نہ روکے رک نہیں سکتا.پس اس کی ہستی کا اقرار اور اس پر ایمان اور اس پر یہ یقین کہ اس کو بدیوں اور بداعمالیوں سے پیار نہیں.گناہ سے بچنے کا عمدہ ذریعہ ہے.۲.پھر انسان کبھی کبھی ایسا بھی بنایا گیاہے کہ ہتک کو پسند نہیں کرتا اور ایک آدمی کے سامنے بھی پسند نہیںکرتا.میری کیسی فطرت ہے کہ میں نے کہا کہ میری اگر کوئی غلطی ہو تو اس کی پرواہ نہ کرو اور اس سے درگزر کرو.یہ اسی لئے کہ میری ہتک نہ ہو.چور چوری کر کے اور کیوں انکار کرتا صرف اس لئے کہ میری ہتک نہ ہو.پھر بھلا ایک گھر والوں کے سامنے ایک شہر والوں کے سامنے.پھر ایک تمام ملک کے لوگوں کے سامنے پھر ساری دنیا کے سامنے پھر تمام اولین وآخرین کے سامنے ہماری ہتک ہو اورمقابلہ ہو یہ ہم سے برداشت ہو سکتا ہے ؟ پس کوئی شخص ایسا ایمان رکھ کر کب ایسی ہتک کو پسند کرے گا.ایک دفعہ میرے ایک دوست نے مجھے سوال کیا کہ جب ہم دوزخ سے سزاپا کر بہشت میں چلے جاویں گے تو کیا حرج ہے کہ کچھ وقت کے لئے اس عذاب کو برداشت کر لیں اور پھر بہشت میں چلے جاویں.میں نے اس کو جواب دیا کہ ہم اس وقت ایک بازار میں چلے جاتے ہیں اور یہاں ہمارا
واقف بھی کوئی نہیں.میں تمہیں دو روپیہ نذر دیتا ہوں مجھے سر پر دو جوت لگا لینے دو.تو وہ ڈر گیا کہ یہ کہیں ایسا کر نہ بیٹھے اور کہا کہ دیکھنا کہیں ایسی حرکت کر نہ بیٹھنا.پس میں نے کہا کہ دیکھو یہاں تم کو دو روپیہ بھی ملتے ہیں اور کوئی ہمارا شناسا بھی نہیں ہے تو تم صرف دو جوت کو پسند نہیں کرتے.پھر کیا وجہ کہ اس ذلت کو تم ساری دنیا کے سامنے پسند کرو گے.پس یہ شہادت تو تمہاری اپنی فطرت میں موجود ہے.ہر ایک بد کار قوم کے اندر ہی ایک ملزم کرنے والا موجود ہے.مثلاًڈاکو ، ٹھگ ، چور، کنجر میں نے دیکھے اور ان لوگوں کو نصیحت کی ہے وہ کہتے کہ ہم ان باتوں کو بدی نہیں سمجھتے.میں نے ایک کنجر کو جواب میں کہا کہ کیا تم اپنی بہو سے زنا کرواتے ہو تو اس نے جواب دیا کہ نہیں پر اس لئے کہ دوسرے کی لڑکی کو خراب نہیں کرنا چاہیے.پس جو شخص تمہارے گھر میں بد کاری کے واسطے آیا ہے کیا وہ لڑکی اس کے واسطے غیر کی نہیں.اسی طرح ٹھگ اور چور ٹھگی اور چوری کو اپنے جتھے میں برُا سمجھتے ہیں.میں نے ٹھگوں اور چوروں سے بھی پوچھا ہے کہ تم چند آدمی مل کر ایسا کام کرتے ہو اور مال صرف ایک آدمی کے سپرد کرتے ہو اگر وہ اس میں سے کچھ نقصان کر لے تو پھر جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ ایسا کرے تو وہ کمینہ اور بد ذات چور ہے اور ہماری شرکت کے قابل نہیں.میں نے کہا کیا دوسرے کا مال کھانے والا کمینہ اور بد ذات ہو تاہے تو پھر لاجواب ہو گیا.پس ہر ایک انسان کے اندر حق کی شناخت اور حق کا واعظ موجود ہے.لہٰذا جزا وسزا کا اعتقاد بھی نیکی پر مائل کرتا ہے.پس یوم آخرت کے یہی معنے سمجھ لو کہ بدی کو نتیجہ ضرور بھگتنا پڑے گا اور پڑتا ہے.۳.تیسرا ذریعہ نیکی کا محرک ہے پر افسوس کہ لوگوں نے اس کی قدر نہیں کی اور اگر کی ہے تو کم کی ہے یا اس پر ایمان نہیں یہ فرشتوں کا اعتقاد ہے اور لوگوں نے اس کو ایک معمولی وجود سمجھا ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے ملائکہ کااعتقاد.جزو ایمان میں کیوں بتلایا.میں تو ان کے اسباب اور نتائج وغیرہ وغیرہ کاموں میں بڑا لگا رہتا ہوں اور بقدر اپنی طاقت کے ہمیشہ ایسی تلاشوں میں رہتا ہوں.ملائکہ پر ایمان جیسے میںنے بتایا ہے کہ شروع وعظ کیا تقویٰ سے اور پہلے بتا دیا یہ کہ تقویٰ کے
پھل کیا ہیں.اسی طرح ہمیں خیال آتا ہے کہ ملائکہ کا ایمان کیاہے اور کیوں ہے.لوگ کہتے کہ ہم ملائکہ کو نہیں مانتے.پر ہم تلاش کرتے ہیں کہ ان سے محبت کس طرح بڑھانی چاہیے.بہت لوگ اس طرف بھی جھکے ہیں کہ ملائکہ کوئی نہیں.چنانچہ آریہ دیوتا کے معنے کرتے ہیں یا معمولی انسان فضیلت والا‘پر اگر ایسی بات ہوتی تو اس پر ایمان لانے کی کیا ضرورت تھی.میرا تو حق الیقین ہے کہ ملائکہ کا ایمان نیکی کی جڑھ ہے.ا س کی دلیل یہ ہے کہ جب ہم بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں (دنیا مانتی ہے کہ کوئی کام دنیامیں بے سبب کے نہیں ہوتا.مثلاًہم ایک بچہ کی بازی چھپا لیں تو وہ ہم سے طلب کرتا ہے.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ بے سبب یہ غائب نہیں ہوئی.کوئی نہیں مانے گا کہ میں نہیں بولتا دیوار سے آواز آرہی ہے.)تو بعض دفعہ معاًایک نیکی کا خیال آجاتا ہے.یا عین بد کاری میں ایک نیکی کا خیال آجاتا ہے.بعض دفعہ نماز پڑھتے ہوئے اس کے دل میں ریا آجاتا ہے.میںنے ایک دفعہ صبح کی نماز گھر میں پڑھی تو بہت مختصر کر دی اور ایک دفعہ پھر مسجد میں صبح کی جماعت کرانے لگا تو لمبی قراء ت شروع کردی.معاًدل میں خیال آیا کہ تو نے گھرمیں جہاں لمبی قراء ت چاہئے تھی چھوٹی کی اور مسجد میں جہاں چھوٹی قراء ت چاہئے تھی لمبی شروع کردی ہے.پس غور کر کہ کیا یہ ایمان کا مقتضاء ہے ؟جھٹ سلام پھیر کر راستہ لیا.کسی نے سمجھا جنبی تھا.کسی نے کچھ خیا ل کیا اور کسی نے کچھ.پس انسان کو بیٹھے بیٹھے کبھی نیک اور کبھی بد ارادے پیدا ہو جاتے ہیں یہ کیوں ہوتے ہیں جبکہ کوئی کام بدوں اسباب اور علل کے نہیں ہوتا.تو نیک اور بد ارادے کی تحریک کیوں ہوئی.اس محرک کو ہماری شریعت میں فرشتہ کہتے ہیں.ہم اسی پر قناعت کرتے اور نیکی کے محرک کا نام فرشتہ رکھتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ملائکہ و شیاطین کو ہر وقت انسان کے دل سے تعلق رہتا ہے اور موقع پر تحریکیں کرتے ہیں.اگر وہ تحریک نیکی کی ہے تو فرشتہ کی طرف سے ہے اور بتدریج پھر وہ تحریک ہوتی اور بڑھتی جاتی ہے اور وہ انسان اس میں لگ پڑتا ہے.یہاںتک کہ اس کے ملائکہ اور شیاطین میں جنگ ہو پڑتی اور ملائکہ جیت جاتے اور پھر وہ شخص فرشتوں سے مصافحہ کر لیتا ہے.اس کے متعلق قرآن کریم میں فرمایا.
(حٰم السجدۃ:۳۱) پس ایسے لوگوں پر پھر ملائکہ نازل ہوتے اور خدا کہتا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں مت غم کھائو.پس اس طرح ملائکہ کا ماننا بھی نیکی سکھلاتا اور بدی سے روکتاہے.۴.پھر پاک اور مقدس کتابیں بھی ایمان لانے سے ایسی ہی تحریک کرتی ہیں.مصنف کے خیالات کا اثر پڑھنے والے پر پڑتا ہے.مثلاًمثنوی میر حسن کے اثر سے ہزاروں عورتیں اور مرد ہندوستان میں بدکار ہو گئے.یہ بات بہت مصنفین نے صاف لفظوں میں لکھی ہے.اب ہم اپنا مشاہدہ دیکھتے ہیں کہ ناول ‘ افسانے ، عشق وحسن کے قصے پڑھنے والوں کو دیکھو کہ ان کا نتیجہ نیک اٹھایا یا بد.بہت کتابیں بازار وں میں پڑی ہوئی ہوں گی اور تمہارے لوگ پڑھتے ہوں گے ان کا مطالعہ کر کے دیکھ لو کہ ان کے نتا ئج کیا نکلے ہیں ؟ میں نے ایک دفعہ راگ کے مسئلہ پر خیال کیاتو خیا ل آیاکہ گیت گانے والوں نے اس سے کیا فائدہ اٹھایا ہے.اور گیت گانے والے کون لوگ ہیں.کنجر ‘ بھڑوے ‘ راس دہارئے ‘ مراسی ‘ ڈوم ‘ پھر قوال.ذرا غور کرو ان میں زیادہ قدر لوگ قوالوں کی کرتے ہیں مگر بندہ تو فعال چاہیے.وہ تو صرف قوال ہیں.پھر میں کہتا ہوں کہ قرآن کو اور اشعار کو سریلی آوازو ں سے پڑھنے والوں کے اعمال پر غور کرو وہ ان کے اقوال کے مطابق ہی نہیں ہوتے.پس ملائکہ کے ایمان کے بعد مقدس لوگوں کی کتابیں پڑھنے سے بہت فائدے ہوتے ہیں پھر خدا اور انبیاء کی کتابیں.۵.پھر پاک لوگوں کی صحبت اور پاک نمونوں سے انسان نیک بنتاہے اور انبیاء اور ان کی کتابوں پر ایمان لانے سے ہم نیک نمونے دیکھتے ہیں.یہ جڑہیں ہیں تقو یٰ کی.اب ان جڑہوں کے پھل اور نتائج کیا ہیں.گر جان طلبی مضائقہ نیست ور زر طلبی سخن دریں است ابھی اگر چندہ کا سوال کر یں تو یہ مجلس درہم برہم ہو جاوے میں چندہ کی درخواست ہرگز نہیں کرتا.پر وہ لوگ جوان جڑہوں کے پابند ہوتے ہیں(البقرۃ:۱۷۸) ہوتے ہیں.اللہ کی محبت اور اللہ کی مخلوق پر رحمت کرنے کے لئے مال خرچ
کرتے ہیں یہ ان میں تقویٰ کا ثبوت ہوتا ہے اور وہ شخص دیتا کہاں ہے تم لوگ میرے رشتہ داروں سے واقف نہیں میرے حالا ت جوانی سے واقف نہیں.پرمیرے رشتہ دار خوب واقف ہیں.اس لئے خدا نے حکم دیا ہے کہ ۱.ما ل سے رشتہ داروں کی خبر لو.جب انسان دیکھتا ہے فلاں میرے رشتہ دار نے میرے بچہ کو مارا تھا فلاں نے مجھے گالی دی تھی وغیرہ وغیرہ.تو اس کا دل ایسے رشتہ داروں کو چیز دینے سے تعرض کرتا ہے.پر خدا کے حکم کے سامنے ان باتوں کی پرواہ نہ کر کے اس کی پرورش کرتا ہے یہ اس تقویٰ کا نتیجہ ہے.پھر ۲.اموال کے خرچ کرنے میںانسان یہ خیال کرتاہے کہ یہاں سے مجھے بہت کچھ عوض میں ملے گا.مجھے یہ عزت ملے گی اورخدا فرماتا ہے کہ قرابت کے بعد مال یتیموں کو دو.کیونکہ یتیم سے تو بدلہ کی امید نہیں اور یہ مظہر بنتا ہے تقویٰ کا.پھر تیسری ایک اور جگہ ہے مال کے خرچ کرنے کی.ایک شخص درزی ہے اور اس کے پاس سوئی دھاگہ اور قینچی نہیں وہ سکون کی حالت میں ہے کا م نہیں کر سکتا.جب تک اس کے پاس سامان نہ ہو.پس سامان بنو ا دینا مسکین کی خبر گیر ی ہے.۴.پھر مسافروں کو مشکلات پیش آتے ہیں اور ہم ان مشکلات سے خوب واقف ہیں.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ہاتھ پھیلانے کی حقیقت کو بھی نہیں جانتے.پس مسافر نوازی بھی تقویٰ کی راہ ہے پانچ ہی اصول تقویٰ کے بتلائے ہیں اور پانچ ہی ظاہر نتائج تقویٰ کے بتلائے ہیں پھر سائل پر عجیب حالت ہے.ایک شخص سوال کرتا دوسرا اس کو کچھ دیتا تو نہیں پر کہتا کہ اس کے پاس تو ہزاروں روپیہ ہیں.پر یہ خیال نہیں کرتا کہ ہر ایک شخص کو دنیا میں کسی نہ کسی موقع پر ضرور سوال کی ضرورت پڑی ہے.سیّد عبد القادر جیلانی کہتے ہیں کہ جب سوالی آوے تو چار باتوں پر خیال کرلیا کرو.۱.کبھی تو مسئول کی جیب واقعی خالی ہے اور دے نہیں سکتا.۲.کبھی جیب تو پُر ہوتی پر بخل کی عادت اس کو نکالنے نہیں دیتی.اسی طرح پھر سائل کی دو حالتیں ہیں.۱.کبھی تو واقعی اس کے پاس کچھ نہیں اور وہ سوال پر مجبور ہوا ہے.اور کبھی اس کو ضرورت نہیں پر حرص نے دست سوال پڑھایا ہے.اب اگر یہ اس کو دیتا نہیں تو اس کا سوال لغو گیا.پس سید لکھتے ہیں کہ یہ شخص خدا سے استغفار کرے. یہ مغفرت کے وہ معنے فرماتے ہیں.استغفار کہ یا الٰہی اگر کسی
گناہ کی وجہ سے میری جیب خالی ہے تو اس کوپرُ کر.یا بخل کی وجہ ہے تو مجھے اس عادت کے عذاب سے نجات دے اور اس سوالی کو یا توتوفیق اور رزق عطا کر جو کسی گناہ کی وجہ سے تنگی کا زیر بار ہے.یا اگر اس کے گھر میں روپیہ ہے تو اس پر رحم کر کہ اس حرص کے عذاب سے نجات پاوے.پانچواں مظہر ہے تقویٰ کا رقاب، مثلاًقرضہ.ڈگری غلامی والے کودیوے.یہ تقویٰ کے مظہر ہیں اموال پر.۱.وَاِقَامِ الصَّلوٰۃ.صبح کا وقت ہے اور سردی کا موسم ہے.رات کو احتلام ہو گیا ہے اور صبح کی اذان ہوئی ہے.نماز پڑھنی ہے.پھر چستی سے اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے غسل کرتا اور نماز میں جا کر شامل ہوتا ہے.علیٰ ہذاالقیاس عشاء کا وقت ہے یا عصر کا وقت ہے کہ دوکان پر خریداروں کا جمگھٹا لگا ہوا ہے کہ مسجد سے اذان کی آواز آئی ہے اور یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مسجد کو دوڑتاہے اسی واسطے صبح اور عشاء کی نمازمیں منافق کسل کا ہلی کرتا ہے.۲.وَاِیْتَآئِ الزَّکوٰۃ.اپنے اموال میں حصص مقرر کرتا ہے.۳..اپنے معاہدوں میں وفاداری سے کام لیتا ہے.۴.الْبَاسَآئِ وَالضَّرَّآئِ.بیماری اور مقدمہ اور غربت وافلاس.یہ تین وقت انسان کو بہت مشکل ہوتے ہیں.ہر آدمی اس پر غور کرے کہ ان تین وقتوں میں ، ہمت ، حوصلہ، استقلال اور جوان مردی سے کام لے.یہ تقویٰ کے نشان ہیں اوران نشانوں والے شخص کو متقی کہتے ہیں اب تم نے اس آیت کے معنے سمجھ لئے ہوں گے.پس اس طرح انسان خدا کا محبوب بنتا ہے اب وقت ختم ہو گیا ہے اور نماز کا وقت آگیا ہے.باقی پھر سہی.ہاں سامان تقویٰ بتلا دیتا ہوں.دعا.نیک صحبت اور صدقہ وخیرات دینا.یہ سامان ہیں.اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق عطا کرے.آمین (الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ ۹تا ۱۱) ٭…٭…٭
جلسوں کی اغراض {تقریر فرمودہ ۲؍ نومبر ۱۹۰۴ء بمقام سرائے مہاراجہ والی ٔ جموں و کشمیرسیالکوٹ } دنیا میں بہت سے جلسے ہوا کرتے ہیں ان کے اغراض اور مصالح مختلف ہوتے ہیں.بعض جلسے اس قسم کے ہوتے ہیںکہ ان میں ملکی اور سیاسی امور پر بحث ہوتی ہے ، بعض جلسے اس غرض سے ہوتے ہیںکہ ان میں کسی خاص قوم کی اصلاح کے لئے غور کیا جاتا ہے اور بعض اصلاح اخلاق کے لئے ہوتے ہیں لیکن آج حسن اتفاق سے اور خوش قسمتی سے اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو ایک موقع دیا ہے کہ ایک لیکچر سنیں اور پھر اس کے مضامین پر غور کریں.بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو ایک بات سنتے تو ہیں لیکن چونکہ اس پر غور نہیں کرتے اور اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے اس لئے ان کا سننا اور نہ سننا برابر ہوجاتا ہے اور جب انہیں پتا لگتا ہے کہ ہم اس کے فوائد سے محروم ہوگئے ہیں تو اس وقت انہیں دستِ افسوس ملنا پڑتا ہے.اس مضمون کو قرآن شریف کی ایک آیت میں نہایت ہی لطیف طور پر بیان کیا ہے کیونکہ انسان ایک وقت اپنی غفلت پر پچھتاتا ہے مگر اس وقت اس سے کچھ بھی بن نہیں پڑتا.چنانچہ فرمایا ہے.(الملک:۱۱) کاش ! ہم ان باتوں کو سنتے اور پھر عقل سے کام لے کر ان پر غورکرتے تو آج ہم دکھوں میں نہ ہوتے.یہ ایسے ہی لوگوں کے متعلق ہے جنہوں نے وہ باتیں نہ سنیں اور ان پر غور نہ کیا جیسی آج اس لیکچر کے ذریعہ آپ لوگوں کو سنائی جانی مقصود ہیں.عقل انسان کے اندر ایک قوت اور طاقت ہے جس کا صحیح استعمال انسان کو بری کارروائیوں سے بچا لیتا ہے اور جلد بازی اور شتاب کاری سے روک کر غور کرنے اور سوچنے کی عادت پیدا کرتا ہے.
عقل کے معنے روکنے اور باندھنے کے ہیں.چونکہ یہ انسان کو جذبات نفسانی کے روکنے کے لئے کام دیتی ہے اس لئے عقلمند وہی ہوتے ہیں جو اپنے جذبات پر حکومت کرتے ہیںاور نہایت اطمینان اور سکینت کے ساتھ ایک بات کو سنتے ہیں اور غور کرتے ہیں.اس وقت سننے والے عقلمند ہیں یا کم از کم کافی تعداد عقلمندوں کی ہے اور وہ فائدہ کے لئے سننا چاہتے ہیں.اس لئے میں یقین کرتا اور خدا تعالیٰ سے توفیق چاہتا ہوں کہ وہ آپ کو وہ سننے کا موقع دے جو سننے کا حق ہے یعنی آپ توجہ سے سنیں اور ان پر بہت غور کریں اور ان کو مفید پا کر عمل کریں کیونکہ یہ معمولی آدمی کا کلام نہیں ہے بلکہ ایسے شخص کا کلام ہے جو کہتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوکر آیا ہوں.پس اس لحاظ سے اور بھی ضروری ہے کہ آپ بہت توجہ سے سنیں اور عمل کریں.قرآن شریف میں فرمایا ہے: (الزمر:۱۹) یعنی اچھی باتوں کو سنتے ہیں اور پھر ان کے متبع ہوجاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اتنا کہنا کافی ہے.اب مولوی عبدالکریم صاحب وہ لیکچرجو حضرت صاحب نے لکھا ہے آپ کو پڑھ کر سنائیں گے.اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے اور آپ لوگوں کو سننے ، سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق بخشے.آمین ( الحکم ۲۴؍ نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۵ ) ٭ … ٭ … ٭
بُت پرست شکر گزار نہیںہو سکتا {تقریر بر موقع جلسہ در خیر خواہی گورنمنٹ فرمودہ ۱۲؍مئی ۱۹۰۷ء بروز اتوار بعد نمازعصر} (العنکبوت:۵۲) اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کی تعریف میں فرماتا ہے کہ کیا کافی نہیں کہ خدا تعالیٰ نے ایک کتاب بھیجی ہے جو دنیا کے واسطے رحمت ہے اور اس میں نصیحت کی باتیں ہیں اس پاک کتاب میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رضامندی کے واسطے ایک نشان مقرر فرمایا ہے فرماتا ہے(النساء:۶۰)اے ایماندارو! اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اوراپنے حکام کی اطاعت کرو.اس آیت شریف میں سب سے اول خدا کی اطاعت کا حکم ہے جو ہمارا خالق ہے ہمارا ربّ ہے، ہمارا مالک ہے، حیّ اور قیوم خدا ہے ہمارے ذرہ ذرہ کا وہی خالق اور وہی مالک ہے.روحوں کا خالق بھی وہی ہے اس کا حق ہے کہ ہم کو اپنا مطیع بنائے.ہمارا فرض ہے اس کی اطاعت کریں اس کے صفات سے آگاہی حاصل کریں پھر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہم پر فرض ہے جس کی اطاعت ہم کو خدا تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے جیسا کہ فرمایا ہے(آل عمران:۳۲)کہہ دو کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو خداکے محبوب بن جائو گے خدا تمہارے گناہوں کو بخشے گا اور خدا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے.رسول کی اطاعت کے بعد اولی الامر کی اطاعت کا حکم ہے کیونکہ وہ حصہ انتظامی کے مظہر ہیں.اولی الامر میں بادشاہِ وقت ہے پھر صوبہ کا حاکم ہے پھر شہر کا افسر ہے پھر نمبردار ہے پھر محلہ کا چوہدری ہے.غرض انتظامی معاملات میں سب کی اطاعت کرنا انسان کا فرض ہے بعض
لوگ اس آیت کے معنوں میں لفظ منکم پر اٹکے ہیں کہ اس سے یہ مراد ہے کہ تم میں سے کیا معنے صرف مسلمانوں میں سے جو حاکم ہو اس کی بات مانو.لیکن یہ بات درست نہیں کیونکہمنکم کی مثالیں اور بھی قرآن شریف میں موجود ہیں جیسا کہ دوزخ والوں کو کہا جائے گا(الانعام:۱۳۱) کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے.اس میں کفار کو کہا گیا کہ رسول تم میں سے آئے.ظاہر ہے کہ وہ کافر تھے اور یہ مومن تو رسول کافروں میں سے کس طرح ہوئے.پس اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول ان کے زمانہ میں تھے ان کے ملک میں تھے اور ان کی طرف رسول ہو کر آئے تھے اس تعلق کے لحاظ سے ان کو منکم کہا گیا.قدرت خدا وندی کے عجائبات میں سے ایک یہ بات ہے کہ چونکہ مسلمانوں کو آئندہ زمانہ میں ایسے واقعات پیش آنے تھے کہ وہ عیسائیوں کے زیر حکومت رہیں گے اس واسطے ابتدائے زمانہ نبوی میں بھی اس کی نظیر قائم کی گئی تھی کہ مسلمانوں کو عیسائیوں کی ماتحتی میں کس طرح رہنا چاہیے.ابتدائے اسلام کے زمانہ میں جب کہ کفار نے مسلمانوں کو عرب میں دکھ دینا شروع کیا تو آنحضرت نے صحابہ کو فرمایا کہ حبشہ میں چلے جائو چنانچہ حبشہ کے عیسائی بادشاہ کے پاس آپ کے صحابہ کو بہت امن ملا.مسلمانوں کو عیسائی سلاطین کے ماتحت امن ملنے کی طرف قرآن شریف کی یہ آیت بھی راہ نمائی کرتی ہے(المائدۃ:۸۳)اور تو ضرور نصارٰی کو مومنوں کے ساتھ مودت کرنے میں دوسرے لوگوں سے بڑھ کر پائے گا.اس ملک کے ہندوئوں نے خدا تعالیٰ کے اس فضل و احسان کا شکریہ ادا نہیں کیا جو کہ آیت کریمہ (النحل :۱۵) جہازوں کی آمد ورفت کا جو نتیجہ ہے وہ خدا کا ایک فضل ہے جس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا اور اس سے کیا تجارت میں اور کیا ساہوکارہ میں اور کیا زراعت میں اور کیا ملازمت میں سب سے زیادہ فائدہ ہندوئوں نے ہی حاصل کیا ہے لیکن انہوں نے ہی سب سے زیادہ ناشکری کی اور ان سے اس سے زیادہ کچھ امید بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ جو مشرک اپنے حقیقی محسن خالق مالک ربّ کو چھوڑ کر ایک پتھر کے آگے سر جھکاتا ہے اس سے کیا امید ہو سکتی ہے کہ وہ کسی انسان کے احسان کو شکریہ کے ساتھ دیکھے گا
کیونکہ خدا تعالیٰ کے احسانات کے مقابلہ میں انسان کے احسان ہی کیا ہو سکتے ہیںوہ جس نے خدا کے ساتھ ہی بغاوت کی ہے وہ اپنے ہم جنس انسان کے ساتھ کب نیک سلوک کرے گا؟خدا تعالیٰ کے حضور اس ناشکر گزاری میں ہندو لوگ جو حصہ لے رہے ہیں وہ تو ظاہرہی ہے لیکن آریہ لوگ دراصل ان سے بڑھ گئے ہیں کیونکہ خدا کی مخلوق ہو کر وہ کہتے ہیں کہ نہ ہماری روح کا وہ خالق ہے اور نہ ہمارے جسم کے مادہ کا وہ خالق ہے پھر زمانہ کو بھی خدا کا مخلوق نہیں مانتے.یہ کس قدر ناشکری ہے جو ان لوگوں سے ظاہر ہو رہی ہے گورنمنٹ برطانیہ کے ذریعہ سے آریوں کو جو آرام اور فائدہ حاصل ہوا ہے زراعت میں اس سے ظاہر ہے کہ مدت کی بات ہے ایک دفعہ میں نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ پانچ کروڑ روپیہ کی جائیداد ہر سال مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر ہندوئوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے سرکاری ملازمت میں دیکھوتو تمام بڑے بڑے عہدے علی العموم ہندوئوں کے قبضہ میں ہیں اور کیا مجال ہے کہ کسی مسلمان کو معمولی دفتر کی کلرکی میں بھی حتی الوسع رہنے دیں ہاں دفاتر کے چپڑاسی اور فراش مسلمان رکھ لئے جاتے ہیں پھر مقدمات میں مسلمانوں اور بالخصوص احمدیوں کے ساتھ ہندو مجسٹریٹوںکا جو سلوک ہے وہ چندو لعل اور آتمارام کے مقدمات کرنے سے ظاہر ہے کہ وہ مقدمہ جس کو ایک انگریز نے بغیر اس کے کہ ہمارے امام بلکہ اس کے خدام کو بھی کوئی تکلیف ہو ایک ہی روز میں فیصلہ کر دیا گیا اس پر ان لوگوں نے دوسال تک گورداسپور کی آمد ورفت کی جو تکلیف حضرت امام اور آپ کے خدام کو دی وہ تاریخ ز مانہ میں ایک یادگارر ہے گی.غرض ہمارے لئے تو امن کی اور کوئی صورت گورنمنٹ برطانیہ کے ماتحت رہنے سے بڑھ کر ہے نہیں اور اس کے شکریہ میں ہمارے امام نے جو تحریریں آج تک شائع کی ہیں ان سب کو ایک جگہ جمع کیا جاوے تو ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے.(البدر ۲۳؍مئی ۱۹۰۷ء صفحہ۷،۸) ٭…٭…٭
خلیفۂ وقت کی اطاعت کی اہمیت (تقریر فرمودہ ۲۷؍مئی ۱۹۰۸ء بر موقع انتخاب خلافت) انتخاب خلافتِ اولیٰ کے موقع پرحضرت حکیم مولوی نورالدین ؓ کی خدمت میںایک تحریری درخواست کے پڑھا جانے کے بعد آپ نے کھڑے ہو کر ایک تقریر فرمائی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ :.میرے دل کے کسی گوشہ میں کبھی اس امر کا خیال خواہش یا واہمہ نہیں تھا کہ یہ کام میرے سپرد کیا جائے.میں چاہتا تھا کہ حضرت کا صاحبزادہ میاں محمود احمد جانشین بنتا.اور اسی واسطے میں ان کی تعلیم میں سعی کرتا رہا.یا میر ناصر نواب صاحب جو حضرت کے واسطے جائے ادب تھے یا نواب محمد علی خان صاحب جو حضرت کی فرزندی میں داخل ہیں یا حضرت مولوی محمداحسن صاحب جنہوںنے اس قدر تصانیف تائید حضرت میں کیں یا مولوی محمد علی صاحب جنہوں نے دین کی راہ میں ایسی جانفشانی کی یاسید میر حامد شاہ صاحب یا اور کوئی دوست.میں ہر گز نہیں چاہتا کہ یہ بوجھ مجھ پر ڈالا جاتا کیونکہ میں اپنے میں اس کے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا لیکن جب کہ بِلا میری خواہش کے یہ بار میرے گلے میں ڈالا جاتا ہے اور دوست مجھے مجبور کرتے ہیں تو اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کر میں قبول کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں اور دوستوں سے دعا کی ہر طرح کی امداد کی خواہش رکھتا ہوں.ممکن ہے کہ بعض باتیں جو میں منواتا ہوں وہ کسی کی مرضی کے برخلاف ہوں.پس اگر تم تیار ہو کہ میرا کہنا ہرامر میں مانو تو میں اسے منظور کرتاہوں.تم پھر بھی سوچ لواور جن کے نام میں نے لئے ہیں ان میں سے کسی کو اپنا امیر بنالو.(البدر۲؍جون۱۹۰۸ء صفحہ۶،۷) ٭…٭…٭
وفات انبیاء پر سنتِ الٰہی اور اس کا ظہور (خلافت کے بعد پہلی تقریر) بعد کلمہ شہادت واستعاذہ آپ نے آیت (اٰل عمران:۱۰۵).پڑھی اور اس کے بعد فرمایا.سنت الٰہی متعلق وفات انبیاء :.میں اس اللہ کی تعریف کرتا ہوں جو ابدی اور ازلی ہمارا خدا ہے.ہر ایک نبی جو دنیا میں آتا ہے اس کا ایک کا م ہوتا ہے جو کرتا ہے‘ جب کر چکتا ہے خدا تعالیٰ اس کو بلا لیتا ہے.حضرت موسیٰ کی نسبت یہ بات مشہور ہے کہ وہ ابھی بلادِ شام میںنہیںپہنچے تھے کہ رستہ ہی میں فوت ہوگئے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر و کسرٰی کی کنجیوں کا ذکر فرمایا کہ مجھے دی گئی ہیں مگر آپ نے وہ کنجیاں (چابیاں) نہ دیکھیں کہ چل دیئے.ایسی باتوں میں اللہ تعالیٰ کے مخفی اسرار ہوتے ہیں یہاں بھی بہت سے لوگ تعجب کریں گے کئی پیشینگوئیاں کی تھیں وہ ابھی پوری نہیں ہوئیں.پیش گوئیاں کس طرح پوری ہوا کرتی ہیں:.میرے خیال میں یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ بتدریج کام کرتا ہے اور پھر جسے مخاطب کرتا ہے کبھی اس سے مراد اس کا مثیل بھی ہوتا ہے.پہلے پارہ میں فرمایا کہ تم نے موسٰیؑ سے پانی مانگا اور ایسا ہی اور جگہ فرمایاحالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب وہ لوگ نہ تھے.پس خدا کی باتیں رنگ برنگ شکلوں میںپوری ہوتی ہیں.اسی طرح اللہ کی یہ بھی سنت ہے کہ بعض مواعید الٰہیہ کسی دوسرے وقت پر ملتوی کئے جاتے ہیں اسی لئے فرمایا (المؤمن:۲۹)اس پر خوب غور کرو کہ اس میں یہی سرّ تھا کہ تمام وعدے نبی کی زندگی میں پورے نہ ہوں گے.حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ نے فرمایا.قد یوعد و لایوفی.
یعنی بعض دفعہ خدا وعدہ کرتا ہے مگر پورا نہیں کرتا.نادان سمجھتا ہے کہ اس نے وفا نہیں کی حالانکہ مناسب وقت پر وہ وعدہ دیا اس کی مثل پورا ہو جاتا ہے.امامت کی خواہش نہیں :.میری پچھلی زندگی پر غور کر لو میں کبھی امام بننے کا خواہش مند نہیں ہوا.مولوی عبدالکریم مرحوم امام الصلوٰ ۃ بنے تو میں نے بھاری ذمہ داری سے اپنے تئیں سبکدوش خیال کیاتھا.میں اپنی حالت سے خوب واقف ہوں اور میرا ربّ مجھ سے بھی زیادہ واقف ہے.میں دنیا میں ظاہر داری کا خواہشمند نہیں.میں ہر گز ایسی باتوں کا خواہشمند نہیں.اگر خواہش ہے تو یہ کہ میرا مولیٰ مجھ سے راضی ہو جائے.اس خواہش کے لئے میں دعائیں کرتا ہوں قادیان بھی اسی لئے رہا اور رہتا ہوں اور رہوں گا.میں نے اس فکر میں کئی دن گذارے کہ ہماری حالت حضرت صاحب کے بعد کیا ہوگی.اسی لئے میں کوشش کرتا رہا کہ میاں محمود کی تعلیم اس درجہ تک پہنچ جائے حضرت صاحب کے اقارب میں اس وقت تین آدمی موجود ہیں.اول میاں محموداحمد وہ میرا بھائی بھی ہے میرا بیٹا بھی.اس کے ساتھ میرے خاص تعلقات ہیں.قرابت کے لحاظ سے میر ناصر نواب صاحب ہمارے اور حضرت کے ادب کا مقام ہیں.تیسرے قریبی نواب محمد علی خان صاحب ہیں.اسی طرح خدمت گذار انِ دین میں سے سید محمد احسن صاحب نہایت اعلیٰ درجہ کی لیاقت رکھتے ہیں.سید بھی ہیں خدمات دین میں بھی ایسے کام کئے ہیں کہ میرے جیسا انسان شرمندہ ہوجاتا ہے.آپ نے ضعیف العمری میں بہت سی تصانیف حضرت کی تائید میں کیں.یہ ایسی خدمت ہے جو انہی کا حصہ ہے بعد اس کے مولوی محمد علی صاحب ہیں جو ایسی خدمات کرتے ہیں جو میرے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتیں.یہ سب لوگ موجود ہیں.باہر کے لوگوں میں سید حامد شاہ اور مولوی غلام حسن ہیں اور بھی کئی اصحاب ہیں.یہ ایک بڑا بوجھ ہے، خطرناک بوجھ ہے اس کا اٹھانا مامور کا کام ہو سکتا ہے.کیونکہ اس سے خدا کے عجیب در عجیب وعدے ہوتے ہیں جو ایسے دکھوں کے لئے جو پیٹھ توڑ دیں عصا بن جاتے ہیں.موجودہ حالت میں سوچ لو.کیسا وقت ہے جو ہم پر آیا ہے.اس وقت مردوں بچوں عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وحدت کے نیچے ہوں اس وحدت کے لئے ان بزرگوں میں سے کسی کی بیعت کر لو.میں تمہارے
ساتھ ہوں میں خود ضعیف ہوں.بیمار رہتا ہوںپھر طبیعت مناسب نہیں.اتنا بڑا کام آسان نہیں.حضرت صاحب کے ساتھ چار کام تھے.۱.ایک ان کی اپنی عبودیت.دوم کنبہ پروری.سوم مہمان نوازی.چہارم اشاعت اسلام جو ان کا اصل مقصد تھا.ان چار کاموں میں سے ایک سے ہم سبکدوش ہو سکتے ہیں وہ آپ کی عبودیت تھی جو ان کے ساتھ رہے گی.آپ نے جیسے اس جہان میں خدمتیں کیں ویسے ہی بعد الموت کریں گے.باقی تین کام ہیں ان میں سے اشاعت اسلام کا کام بہت اہم اور نہایت مشکل ہے.اس وقت دہریت کے علاوہ اندرونی اختلاف بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کے اختلاف کے مٹانے کے لئے ہماری جماعت کو منتخب کر لیا ہے.تم آسان سمجھتے ہو مگر بوجھ اٹھانے والے کے لئے سخت مشکل ہے.پس میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جن عماید کا نام لیا ہے ان میں سے کوئی منتخب کر لو.میں تمہارے ساتھ بیعت کرنے کو تیار ہوں اگر تم میری بیعت ہی کرنا چاہتے ہو تو سن لو کہ بیعت بک جانے کا نام ہے.ایک دفعہ حضرت نے مجھے اشارۃًفرمایا کہ وطن کا خیال بھی نہ کرنا.سو اس کے بعد میری ساری عزت اور سارا خیال انہی سے وابستہ ہو گیا اور میں نے کبھی وطن کا خیال....تک نہیں کیا.پس بیعت کرنا ایک مشکل امر ہے ایک شخص دوسرے کے لئے اپنی تمام حریت اور بلندپروازیوں کو چھوڑ دیتا ہے اسی لئے اللہ نے اپنے بندے کا نام عبد رکھا ہے اس عبودیت کا بوجھ اپنی ذات کے لئے مشکل سے اٹھایا جاتا ہے کوئی دوسرے کے لئے کیا اور کیونکر اٹھائے.طبائع کے اختلاف پر نظر کر کے یک رنگ ہو نے کے لئے بڑی ہمت کی ضرورت ہے.میں تو حضرت صاحب کے کاموں میں حیران ہوتا ہوں کہ اول بیمار پھر اس قدر بوجھ.نثر ،نظم، تصنیف، دیگر ضروری کام ادھر میں حضرت صاحب کے قریب عمر.وہاں تائیدات روزانہ موجود یہاں میری حالت ناگفتہ بہ.اسی لئے فرمایا.(اٰل عمران:۱۰۴).کہ یہ سب کچھ خدا کے فضل پر موقوف ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت:.میں ایک بڑا امر پیش کرتا ہوں کہ جناب ابوبکرؓ کے
زمانے میں عرب میں ایسی بلاپھیلی تھی کہ سوا مکہ اور مدینہ اور جواثہ کے سخت شورو شر اٹھا.مکہ والے بھی فرنٹ ہونے لگے مگر وہ بڑی پاک روح تھی جس نے انہیں کہا کہ اسلام لانے میںتم سب سے پیچھے ہو.مرتد ہونے میں کیوں پہلے بنتے ہو.صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میرے باپ کے اوپر جو پہاڑ گرا ہے وہ کسی اور پر گرتا تو ُچور ہو جاتا.پھر بیس ہزار کی جماعت مدینہ میں موجود تھی اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حکم دے چکے تھے کہ ایک لشکر روانہ کرنا ہے پس اس کو بھیج دیا.ادھر اپنی قوم کا یہ حال تھا مگر آخر خدا نے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھلایا.(النور:۵۶) کا زمانہ آگیا.اس وقت بھی اس قسم کا واقعہ پیش آیا ہے.میں چاہتا ہوں کہ دفن ہونے سے پہلے تمہارا کلمہ ایک ہو جائے.نبی کریم صلعم کے بعد ابو بکر کے زمانہ میں صحابہ کرام کو بہت سی مساعی جمیلہ کرنی پڑیں.سب سے پہلا اہم کام جو کیا وہ جمع قرآن ہے.اب موجودہ صور ت میں جمع یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کرنے کی طرف خاص توجہ ہو.پھر حضرت ابو بکر نے زکوٰ ۃ کا انتظام کیا.یہ بڑا عظیم الشان کام ہے انتظام زکوٰۃ کے لئے اعلیٰ درجے کی فرمانبرداری کی ضرورت ہے.پھر کنبہ کی پرورش ہے غرض کئی ایسے کام ہیں.خلیفۃ المسیح اب تمہاری طبیعتوں کے رخ خواہ کسی طرف ہوں تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہوگی اگر یہ بات تمہیں منظور ہو تو میں طوعاً و کرہاًاس بوجھ کو اٹھاتا ہوں.وہ بیعت کے دس شرائطبدستور قائم ہیں ان میں خصوصیت سے میں قرآن کو سیکھنے اور زکوٰۃ کا انتظام کرنے واعظین کے بہم پہنچانے اور ان امور کو جو وقتاًفوقتاًاللہ میرے دل میں ڈالے کو شامل کرتا ہوں.پھر تعلیم دینیات ‘ دینی مدرسہ کی تعلیم میری مرضی اور منشاء کے مطابق کرنا ہوگی اور میں اس بوجھ کو صرف اللہ کے لئے اٹھا تا ہوں.جس نے فرمایا.(اٰل عمران:۱۰۵).یاد رکھو کہ ساری خوبیاں وحدت میں ہیں.جس کا کوئی رئیس نہیں وہ مر چکی.فقط (الحکم ۶؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۷،۸) ٭…٭…٭
وفاتِ مسیح موعودؑ نحمدہٗ و نصلی علٰی رسولـہ الـکریم و آلِـہٖ مع البرکات و التسلیم امّا بعد فاشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمّداً عبدہ ورسولہ ثم اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم ا.(المائدۃ :۷۶) ۲. (اٰل عمران : ۱۴۵) ان دونوں آیتوں پر غور کریں.کیا فرماتی ہیں اگر پہلی آیت کریمہ مسیح ابن مریم کو رسول فرماکر اس کے گزر جانے کا ذکر فرماتی ہے تو دوسری آیت ّبینہ کیا ہی دلربا تعلیم دیتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے خاتم النبیین رسول ربّ العالمین کو اگر موت آجاوے یا وہ بالفرض قتل کئے جاویں تو کیا تم لوگ الٹے پائوں اپنی ایڑیوں پر لوٹ جائو گے؟ اور جو کوئی الٹا پھرا اپنی ایڑیوں پر پس وہ ہرگز ضرر نہ دے سکے گا اللہ تعالیٰ کو کچھ بھی اور عنقریب ہی اللہ بدلہ دے گا ان قدر کرنے والوں کو.کیا معنے ؟حضرت نبی کریمؐ کے اللہ مولیٰ نے تم کو جن بد اعتقادیوں اور بدچلنیوں سے ایک پاک روح کے طفیل نکالا.کیا اس کے مرجانے کے بعد تم ان عقائد غیر صحیحہ اور اقوال و افعال و اعمال باطلہ کی طرف پھر رجوع کرجائو گے؟ ایسا نہ کرنا کیونکہ وہ اعمال و افعال و اقوال بہرحال گھنونے اور اسی لائق تھے کہ ان کو ترک کیا جاوے.وہ تو کسی طرح بھی قابل عملدرآمد نہیں تھے.رہے تمھارے مشکلات اور وہ ابتلا جو تم کو اپنے ہادی کے بعد آئیں گے سو ان کی پروا مت کرنا.تم نے اس پاک وجود کی اور اس کی پاک تعلیم کی قدر کی اور اس کے شکر گزار ہوئے تو اللہ تعالیٰ بھی جو حقیقی شکور ہے بڑا قدردان
اور بڑے بدلے دینے والا ہے.کیا معنے؟ تم کو بڑھ چڑھ کر ضرور اس قدر کا بدلہ دے گا.جب اس نے بدلہ دیا تو کیا وہ تم کو تباہ کردے گا؟ ایسا ہرگز نہیں ہوگا پس تم ہرگز تباہ نہ ہوگے.حضرت امام خود اپنی الوصیّۃ کے صفحہ نمبر ۵ میں اپنی وفات کا ذکر فرماتے ہوئے اور مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو جناب الٰہی سے پامال کردکھانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں اور قوم کو مخاطب فرما کر ارشاد کرتے ہیں.’’غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہوجائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کابھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جائوں.‘‘ (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۰۵ ) موت کا آنا سب کے لئے جو مخلوق ہوا ضروری ہے (العنکبوت : ۵۸) بلا استثنا یہ ایک عام قاعدہ اوّل تو منصوص پھر موجود و مشہود ہے.اس سچے قاعدہ کے مطابق قرآن کریم ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ موت جب سامنے حاضر ہو تو وصیت کا کرنا تمہارے لئے ایک ضروری اور فرض کام ہے اس پر اس امام نے کیسا عمل کیا ہے؟ اس نص کو سن لو اور پھر اس عمل و درآمد کو دیکھ لو.نص یہ ہے ۱؎ (البقرۃ:۱۸۱) اور اس پر جو عمل و درآمد اس کامل انسان نے فرمایا وہ رسالہ الوصیت میں ملاحظہ کرو.صفحہ نمبر ۲ سطر ۴ سے فرماتے ہیں.’’میرا زمانہ وفات نزدیک ہے (یہ حضر احدکم الموت کا بیان ہے) اور اس بارہ میں اس کی وحی اس قدر تواتر سے ہوئی کہ میری ہستی کو بنیاد سے ہلا دیا.......ــقَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّرُ (الیٰ آخرۃ).قُلْ مِیْعَادُ رَبِّکَ (الٰی آخرۃ)جَائَ وَقْتُکَ.(الیٰ آخرۃ)‘‘ (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰۱) اور صفحہ نمبر ۳ سطر ۱۱ میں ہے.’’ بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.اس دن سب پر اداسی چھا جائے گی.‘‘ (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۳۰۲) ۱ ؎ لکھا گیا ہے تم پر جب حاضر ہو تم میں سے کسی کی موت اگر چھوڑا کسی خیر کو ایک وصیت.
ان الہامات پر ایک سعادت مند دل غور کرے.پھر صفحہ نمبر ۴ کی سطر ۱۵ سے فرماتے ہیں.’’اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلاناچاہتے ہیں اس کی تخمریزی انہی کے ہاتھ سے کردیتا ہے.لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے.‘‘ (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰۴) اس آپ کے پاک کلام سے کیسا واضح ہوتا ہے کہ آپ کو قربِ اجل کی خبر دی گئی اور آپ نے الوصیۃ لکھ دی اور اس حالت کا ایسا نقشہ کھینچا کہ گویا آپ دیکھ رہے تھے کہ ایک طرف موت ہے دوسری طرف دشمن ہنستا ہے.سامنے قوم ہے.ان کلمات طیبات اور اس نظارہ کو جو آپ کی وفات کے بعد لاہور میں ہم نے دیکھا ہے کوئی عقلمند سعید دیکھے اور بے باک مرتد کا ٹریکٹ اس پر طرہ اور امرتسری مولوی کا اشتہار علاوہ بریں ہر دو.تو قدرت کا مشاہدہ ہوجاتا ہے کہ خدا کی باتیں کیسی سچی ہوتی ہیں جو وہ اپنے بندوں سے فرماتا اور ان کے منہ سے نکلواتا ہے.اب آپ کی وفات تو ہوچکی اور ہم نے دیکھ لی اور وہ صداقت بھی ظاہر ہوچکی جس کا ذکر فرمایا کہ لوگ ہنسی ٹھٹھا کریں گے تو اب الوصیۃ کے صفحہ نمبر ۵ سطر اوّل میں جو ارشاد فرماتے ہیں.اس کو پڑھیں.’’نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہوجاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں (جیسے ہم کو لاہور میں ایسا تنگ کرنا چاہا کہ گویا اب ہم کو کھالیں گے.اس وقت ابر رحمت کی طرح پولیس آگئی اور مسخرے خائب و خاسر بھاگے.ناقل) اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کرلیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہوجائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کرلیتے ہیں.تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ (پہلی مرتبہ تو اس امامؑ کے وقت میں ان لوگوں نے ناخنوں تک زور لگایا اور جہاں تک ان سے
ہوسکا جان و دل سے سر توڑ کوششیں کیں.پر الٰہی قدرت نے آخر ایک ممتاز جماعت قائم کردی.ناقل) اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے وقت میں ہوا.‘‘ (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰۴، ۳۰۵) عزیزان غور کرو! آپ کے بعد معاً دفن سے پہلے، جماعت میں بلااختلاف شمال سے جنوب اور مغرب سے مشرق تک وحدت کی روح اللہ قادر و مقتدر نے کس طرح پھونک دی.اے خدا قربان احسانت شوم اب ایک مسلمان، ایک مدبر، ایک عاقبت اندیش اور ایک دنیا کے حوادث کو دیکھنے والا غور کرے.حضرت میرزا کا ایک کیا، چار بیٹے اور پوتا موجود، میرزا کا داماد، محمد و علی نام کا مجموعہ قابل قدر اور لائق موجود، میرزا کا خسر بجائے باپ موجود ہے اور تمام قوم نے ایک اجنبی کے ہاتھ پر بیعت کرلی.اب خدارا اس آیت کریمہ کو پڑھو. (الانفال :۶۳، ۶۴) ترجمہ: اور اگر چاہیں گے وہ کہ دھوکا دیں تجھے تو سن لے بے ریب اللہ ہی بس ہے تجھے.وہ وہی ہے جس نے تائید کی تیری اپنی نصرت سے اور مومنوں کے ساتھ.اور الفت ڈال دی ان کے دلوں میں.اگر خرچ کرتا تو جو کچھ اس زمین میں ہے سب کا سب نہ الفت دے سکتا تو ان کے دلوں میں.لیکن اللہ نے الفت دی ان کے درمیان تحقیق اللہ غالب اور حکمت والا ہے.اس آیت کریمہ کو عملی رنگ میں کوئی دکھائے کہ جن مشکلات میں ہم کو ہمارے گدی نشینوں اور علماء پھر چلتے پرزوں اور مرتدوں نے ڈالنا چاہا.ہمیں ہمارے مولیٰ ہمارے ناصر ہمارے ہاتھ اور ہماری کمروں کو تھامنے والے الحیّ القیّوم نے کیسا بچایا.
(الفاتحۃ :۲ تا۴) ہمارے ملک میں یا ہمارے ملک میں سے سید محمد جونپوری، علی متقی شیخ، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، الشیخ المجدد الالف الثانی، شاہ ولی اللہ اور سید احمدبریلوی یہ لوگ ہیں جنہوں نے دعاوی مجددیت کے کئے اور لوگوں نے بھی ان کو مجدد مانا.ان کے کارنامے بحمداللہ ہم سے مخفی نہیں.مگر جو کچھ اس شخص مغفور نے کرکے دکھایا اس کا مقابلہ سوائے عقلمندوں کے کون کرے؟ اللہ تعالیٰ کو توفیق ہے کہ آنکھیں کھول دے کیونکہ ۱.اول آپ نے تمام دنیا کو دعوت کی اور انگریزی و اردو میں بیس ہزار اشتہار سے اعلان کیا کہ الاسلام حق.۲.دہریہ کے واسطے قرآنی صدہا پیشین گوئیوں اور اپنے متعلق ایک بڑا مجموعہ بشارات کا اور قبل از وقت اخبار کا پیش کرکے معرفت الٰہیہ کا دروازہ کھول دیا ہے گو ہمارے مخالف خدا کے ماننے والے اس راہ میں مشکلات ڈالتے رہے اور ڈالتے ہیں کہ بعض بشارات پوری نہیں ہوئیں.مگر عقلمند جانتے ہیں کہ مفید و راحت بخش تدابیر اپنی کثرت کے لحاظ سے مفید یقین کی جاتی ہیں نہ اس لئے کہ وہ کبھی مستثنیات بھی رکھتیں ہیں.۳.پھر آریہ کے لئے براہین، سرمہ چشم آریہ، شحنۂ حق، آریہ دھرم، قادیان کے آریہ اور ہم، چشمہ معرفت وغیرہا کتابیں لکھ کر اہل اسلام کو ان کے شر سے آگاہ فرمایا.۴.اور سکھوں کے لئے ست بچن، ہی پر بس نہ کی بلکہ چولہ صاحب ایک اور، قرآن کریم کو منجملہ تبرکات بابا نانکkجی ثابت کرکے جنم ساکھی بھائی lبالا سے قوم سکھ کو جگایا اور خوب جگایا کہ ان پر حجت قائم کردی.۵.پھر برہمو دھرم کو براہین احمدیہ لکھ کر بیدار فرمایا کہ الہام کیا ہے اور اس کی لامحدودیت کیا ہے اور کس طرح ہوتا ہے اور خدا ہے تک وہ کیوں قدم نہیں اٹھاتے.اگرچہ ہونا چاہئے تک وہ پہنچ گئے ہیں.۶.دارالسلطنت لاہور، میں اول تو فیصلہ آسمانی خود سنایا.جلسہ اعظم مذاہب مہوتسو میں کیسا
جامع و مانع عظیم الشان خطبہ سناکر اپنے کام سے سبکدوش ہوچکے.پھر ایک اور لیکچر تیسری بار، اس کے بعد پھر اس لئے کہ آخر دارالسلطنت ہے.آریہ کے جلسہ میں اپنی جماعت کو ایک مضمون دے کر بھیجا اور آخری ان کا حملہ جو بڑے ہی زور شور سے ہوا.اس کا بذات خود جواب دے کر چشمہ معرفت کا منہ کھول دیا.پھر اس پر بس نہ کی.وہاں کے عمائدواراکین کو اپنے مکان پر بلایا اور دعوت دی اور اپنی تعلیم و دعویٰ کا نہایت ہی مدلل پیش کیا اور آخری پیغام صلح اسی لاہور میں دے کر اپنے فرائض منصبی کو پورا کردیا.جزاہ اللّٰہ عنا احسن الجزاء.۷.مسیحی لوگوں کی مذہبی لڑائی میں تو آپ کا عہدہ ہی آپ کو شامل کرچکا تھا.اس لئے اول تو دعائوں سے کام لینا ان کا اصل فرض تھا کیونکہ یہی ایک ہتھیار خصوصیت سے ان کو دیا گیا تھا.کوئی غور کرے کہ اس چونتیس پینتیس برس میں اس قوم کے اندر کیسا خطرناک کیڑا لگا ہے کہ تثلیث یا ثالوث اور کفارہ اور الوہیت مسیح کا پہاڑ گرا کہ گرا.اس قدر اعلان و اشتہار شائع کئے کہ اس گائوں میں ایسے عظیم الشان کام پر تعجب آتا ہے.پھر اقوال موجہ و اصول صادقہ کا وہ مستحکم پہاڑ بنایا ہے کہ اس ذوالقرنینی سد کواب یاجوج ماجوج نہیں توڑ سکے گا.انشاء اللہ تعالٰی.سعدی علیہ الرحمۃ تو.ترا سد یاجوج کفر از زرست کہہ کر اسلامیوں کی کمزوری ظاہر کرکے اپنے ممدوح کو جزیہ دینے والا کفار کا باجگزار بناتا ہے مگر اس امام نے واقعی ایک ایسی سد بنادی ہے کہ اس کا توڑنا اب انسانی کام نہیں رہا.مثلتُ مثلاً مَیں ایک اینٹ اس دیوار کی پیش کرتا ہوں.جنگ مقدس میں آپ فرماتے ہیں.آسمانی کامل کتاب کا ایک نشان یہ ہے کہ وہ اپنے دعاوی اور ان دعاوی کے دلائل خود پیش کرے تو کہ اس حی قیوم کے کلام کو دوسرے کا سہارا نہ لینا پڑے.اگر وہ کتاب اعلیٰ صداقتیں پیش کرے تو ان صداقتوں کے دلائل بھی آپ ہی دے اور اگر کسی بطلان کا بیان کرے تو وجوہ بطلان بھی اپنے دلائل نیرّہ سے بتادے.پھر آپ نے قرآنی تعلیمات کو اس طرح تمثیلات سے دکھایا.نیز مرزا صاحب نے بتایا کہ کامل کتاب اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہیں بتا کر کل کو نہ سہی مگر بعض متبعین کو تو مکالمات الٰہیہ کے شرف سے مشرف فرماوے.ایسا خدا تو نہ بتاوے جیسا یہود کی ملامت کا باعث
ان کا بچھڑو معبود خدا ٹھہرایا گیا جس پر اللہ فرماتا ہے (الاعراف:۱۴۹).ترجمہ:.بچھڑو کو کیونکر معبود بناتے ہیں.تحقیق وہ تو ان سے کلام نہیں کرتا اور ان کو نیک راہ نہیں بتاتا.۸.سید احمد خانی جماعت کو روباصلاح لانے کے لئے برکات الدعا اور آئینہ کمالات اسلام میں ایک چٹھی لکھی اور ان کے فلسفیانہ خدا اور فلسفیانہ الہام کے بدلہ اسلامی قادر مقتدر اپنے پیاروں سے کلام کرنے والے خدا کی طرف راہ نمائی فرمائی.بہت متصوف گدی نشینوں اور رسمی علماء کو اقسام مواعظ و تعلیمات صحیحہ.دعائوں کے طریق بتاکر سچی راہ دکھائی اور بقیۃ السیف کو اعجازی تحریر اور سیفیوں کو بیکار دکھا کر اندر ہی اندر نادم کردیا.۹.مسئلہ حیات و ممات مسیح اسرائیلی پر جو آپ کے دعاوی کی اصل بنیاد اور ابطال مذہب مسیحی کے لئے بے نظیر حربہ تھا.وہ بسط کیا ہے کہ اس پر اب بحث کا موقع ہی نہیں رہا.۱۰.اپنے مقناطیسی جذب سے جو حقیقۃً بالکل الٰہی فضل تھا.وہ طاقت دکھائی کہ مخالفوں نے بہ ہیئت اجماعیہ ناخنوں تک زور لگایا مگر آپ کی روزانہ روز افزوں ترقی کو کوئی روک نہ سکا.۱۱.زندگی میں سرّالخلافہ لکھ کر اور وفات میں قوم کی روحانی ترقی کا معجزہ دکھا کر ثابت کردیا کہ حضرت نبی کریم صلعم کی وفات پر خلافت کا کوئی جھگڑ انہیں ہوا.دیکھتے نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک غلام اور اس کے جانشین کے روبرو آپ کے چار بیٹے، پوتا اور ایک لائق داماد اور ایک سید خسر موجود ہے اور وہ ہمہ تن اس آدمی کے ماتحت جو نہ مغل اور نہ ُترک اور نہ اتنا رشتہ دار جتنا قرشیت کے لحاظ سے صدیق اکبرؓ کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق حاصل تھا.اس موجودہ اتفاق و وحدت سے ہمارے احباب فائدہ اٹھائیں.۱۲.آدم سے لے کر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک کسی نبی کو یہ کامیابی نصیب نہ ہوئی جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی.عیسائیوں کے خدا صاحب عیسائیوں کے نزدیک جتنے اپنی زندگی میں کامیاب ہوئے اور ان کے مطاع مکرم جس طرح ہولی لینڈ میں جابراجی ان پر ظاہر ہے.گو ہم مسلمان ان کی وجاہت و کامیابی کے قائل ہیں مصلحان ملک نے کبھی ایسی کامیابی کا منہ نہ دیکھا
مگر آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشینوں نے ہی بتدریج تمام مراکز مذاہب یروشلم اور آتش کدہ آزر وغیرہ کو فتح کرلیا.پھر اصلی آیت کریمہ کا آخری حصہ لیتے ہیں.پس کیا آپ کی وفات پر (صلی اللہ علیہ وسلم) بلکہ فرض کرلیں کہ اگر آپ قتل بھی ہوجاتے تو کیا آپ کے تعلیم یافتہ لوگ شرک و کفر اور ان بداعمالیوں کو جن میں ملک گرفتار تھا پھر اختیار کرتے.نہیں اور ہرگز نہیں.ایسا ہی اس وقت دنیا نے دنیا کو دین پر مقدم کرلیا تھا اور حیات مسیح کے مسئلہ نے مسیحی مذہب کی کمر کو مضبوط کردیا تھا اور آپ کے نزول جسمانی کے توہمات نے مسیحیوں کے ساتھ مسلمانوں کو بولنے کے قابل نہ رکھا تھا.رویا، کشوف، وحی کا مسئلہ ہنسی و تمسخر میں اڑایا جاتا تھا اور مسیح کا بت ایسا قائم کیا گیا کہ کروڑوں روپیہ سالانہ اس بت کی خاطر پانی کی طرح بہایا جاتا تھا اور شراب خواری، جوابازی اور قسم قسم کی سود خواری جس نے مسلمانوں کی زمینیں اور وجاہت کو کھالیا اور شریعت کے ناوافقوں نے مسئلہ ربا میں یہاں تک بے حیائی سے کام لیا کہ ربا کے معنے ہی گویا کسی کو نہیں آتے.ربا جیسا خطرناک گناہ جس کی نسبت (البقرۃ :۲۷۶) اور (البقرۃ : ۲۸۰) کا فتویٰ موجود ہے ہر روز مسلمانوں پر ربا کے باعث ڈگریاں ہوں اور ان کے اموال و زمینیں تباہ ہوں اور ہمارے محقق الربا کہتے جاویں کہ رِبٰی کے معنے تو حضرت عمرؓ کو بھی معلوم نہ تھے.ایک دکاندار‘ ایک ادنیٰ جج ‘بے پاری تو اس کے معنے جانتا ہو مگر عمر رضی اللہ عنہ اس کے معنے سے بے خبر ہوں.دینی غفلت کا یہ حال ہوگیا تھا کہ ایک ریفارمر نوجوان نے مجھے فرمایا کہ کوشش کرو کہ لوگ صرف مردم شماری میں اپنے آپ کو مسلمان لکھوادیں اور بس.کسی عمل واعتقاد کی ضرورت نہ رہے اور دعا کی تاثیرات‘ دعا کی حقیقت اور دعا جیسے عظیم الشان سبب حصول مرادات کو محض لغو قرار دیا جارہا تھا.ایسے وقت ایک نور اترا اور اس نے علاوہ مکارم اخلاق اور معاشرت و تمدن و اطاعت اولوالامر اور تمام خوبی بھری تعلیموں کے ہم کو اعلیٰ اصل یہ سکھایا کہ ہم گندی زندگی سے توبہ کریں اور آئندہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں اور سینکڑوں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روحوں کو اس تعلیم کے ساتھ نجات دے دی اور اس تعلیم کی قریباً پینتیس برس آبپاشی کرکے آخر (البقرۃ :ا۱۸) کا سبق دے کر قریب تھا کہ رخصت ہوجاتا مگر صرف مولیٰ کا احسان ہوا کہ
حقیقۃ۱؎ الوحی، چشمہ معرفت اور پیغام صلح لکھ کر اور لاہور میں امراء کو بلا کر ان پر حجت قائم کرکے اس دنیا سے حسب بشارات چل دیا.(۱) بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید (بدر ۱۹؍دسمبر ۱۹۰۸ء).(۲) ڈرو مت مومنو (۱۵؍مئی ۱۹۰۸ء).(۳) تیری خوش زندگی کا سامان ہوگیا ہے.(۴) سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہوکر دعا کرتے رہو.الوصیۃ اب وہ اس دنیا میں رہ کر کیا کرتے.کیا تمام مخالفوں، مرتدوں، دشمنوں کا قلع و قمع کرکے اپنے جانشینوں کو مساعی جمیلہ اور کوشش و اجتہاد سے محروم کرکے جاتے اور جو ترقیات ابتلائوں محنتوں سے ہوتی ہیں اور جوجو نیک بدلے اور صلوات و رحمتیں و برکات صبر پر ملتی ہیں ان سے ہم لوگوں کو محروم کرجاتے.عزیزان! یہ لوگ دنیا کے لئے نور، رحمت اور برکت ہوتے ہیں.جب دنیا روحانی دکھوں میں مبتلا ہوکر تباہ ہونے کو ہوتی ہے.جیسا (الروم: ۴۲) سے ظاہر ہے کہ ایک وقت ہوتا ہے کہ حضرت حق سبحانہ‘ کا رحم، کرم، ستاری، غنائے ذاتی اور بے پروائی کام کرتی ہے اور بدکار کو اس کی بدکاری پر عفو و درگزر سے کام لیتا ہے.اور پھر ایک اور وقت آتا ہے کہ چور پکڑا جاتا ہے ڈاکو کو سزا ملتی ہے اور ظالم اپنے ظلم کا پھل کھاتا ہے.سزا کا زمانہ آنے سے کچھ طبائع میں نئے زمانہ کا شوق پیدا ہوجاتا اور اپنے موجودہ حالات سے گو نہ سیر ہی نہیں ہوجاتے بلکہ تنگ آجاتے ہیں.ادھر حق کی تڑپ بعض نفوس میںپیدا ہوجاتی ہے دنیا کی بے ثباتی، کثرت اموات اور دنیا کے مشکلات کی حقیقت قحطوں اور جنگوں سے سامنے آجاتی ہے.اس سنت اللہ پر غور کرو اور پھر غور کرو.آپ کے زمانہ کو دیکھو، قحط کے علاوہ جنگ ٹرنسوال و برطانیہ اور روس و جاپان نے کیسے جوانوں کے اقارب و احباب میں دنیا کی بے ثباتی کے نقشہ کو پیش کیا اور قحط نے کنبہ والوں کو کن مشکلات کا نظارہ دکھایا.پھر طاعون نے بقیۃ السیف اور بقیۃ القحط لوگوں کو کیا وعظ کیا.بائبل کا مجموعہ صدہا تراجم کے ذریعہ خدا کے نام سے آگاہ کرکے لوگوں کو مجرم کر چکا اور پھر قرآن کریم اپنے تراجم کے ساتھ اور اس ملک میں برہمو پھر ان کے بعد آریہ نے بھی اوم نام پیش کرکے ہندوستان کو بہت وعظ کیا یہ تو عام کارروائی اور حجت ملزمہ تھی مگر پنجاب میں خصوصیت سے ایک اس انسان حضرت میرزا نے پیدا ہوکر ۱؎ ان کے علاوہ چشمۂ مسیحی اور قادیان کے آریہ اور ہم‘ عیسائیوں اور آریوں کے لئے قلم برداشتہ لکھیں.منہ
تمام دنیا میں ایک انقلاب ڈال دیا اور اس طرح (الانعام:۴۳) کی تصدیق کردی.غرض یہ لوگ قسم قسم کی بداعمالیوں اور روحانی بیماریوں میں مخلوق کو گرفتار دیکھ کر ان کے لئے کبھی تڑپتے اور گاہے خفا ہوکر بداعتقادوں شوخوں پر بد دعائیں کرتے ہیں کبھی مدلل کلام سے ایک حصہ ملک اور سعادتمند انسانوں کو آگاہ فرماتے اور کبھی اس جمالی رنگ سے جلالی رنگ میں جھڑکیاں دیتے ہیں یہاں تک کہ اس مزرعۃ الآخرت میں جنتی طوبیٰ کا بیج بو دیتے ہیں اور اس پاک درخت کو بو کر اپنی پاک توجہات، دعائوں، عقد ہمت اپنے اقوال و احوال او راعمال و افعال سے اس کی آبپاشی کرکے اس کی جڑھیں مضبوط پاکر ملاء اعلیٰ سے جاملتے ہیں. (الفتح:۳۰) اور سورہ (النصر:۲) پر تدبر کرو.یہ آیۃ اور سورہ کریمہ دو بڑی گواہ میرے اس کلام پر ہیں.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم متمم مکارم اخلاق اور انسانی شخصی اصلاح، معاشرت و خانہ داری، اپنے و بیگانے سے تعلقات کیسے چاہیے عبادات و معاملات ‘سیاست و تمدن اوراطاعت اولی الامر وغیرہ کی اصطلاحات کے لئے دنیا میں رونق افروز ہوئے مگر اصل اصول آپ کی تعلیمات کا اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ تھا.جب یہ مضمون مکہ و مدینہ اور ان کے نواحی میں قائم ہوگیا تو داعی اجل کو لبیک کہہ دی.ایک لاکھ چالیس ہزار کے مجمع حجۃ الوداع میں اَ لَا ھَلْ بَلَغْتُ (صحیح بخاری ،کتاب العلم ،باب لیبلغ العلم الشاھد الغائب) پکار کر اکاسی روز بعد اس دنیا سے کوچ کردیا مگر جو بیج بویا تھا اس کا وہ درخت بنا جس نے پہلے تمام عرب پر اپنا سایہ کردیا اور یہ واقعہ دنیوی تاریخ میں سپرنیچر کا رنگ رکھتا ہے کیونکہ تاریخ کے صفحہ پر ایسا عملی رنگ کسی مصلح کے زمانہ کا نظر نہیں آتا.خیر بہرحال اب دشمن جلسے کریں اور خوشیاں منائیں.پہلی زبردست قدرت الٰہیہ اور نصرت الٰہیہ کو تو دیکھ چکے ہیں اور دوسری قدرت کا تماشا دیکھیں.اب یہ درخت محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسے محفوظ رہا ہے ویسا ہی اب پھولے گا اور پھلے گا اگر ہم میں ان کو کارکن لوگ تھوڑے نظر آتے ہیں تو امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے مذاہب کے رو سے صحابہ کرامؓ میں فقہا کتنے تھے ان کی تعداد دکھائیں اور خالد بن ولید جیسے سپاہی کتنے تھے ان کی تعداد پیش کریں اور
قدرت کا نمونہ دیکھیں.برادران وفات مسیح کا مسئلہ بھی منجملہ عجائبات الٰہیہ و اسرار خداوندی کے ہے کیونکہ ہمارے امام‘ علٰی نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ ہمیشہ اپنے ایام زندگی میں مسئلہ وفات مسیح علیہ السلام پر اپنی تعلیمات میں زور دیتے ہی رہے اور اپنی پر زور تقریر و تحریر و عقد ہمت سے اس مسئلہ کو اجلٰی بدیہیات سے کرکے دکھایا اور ہزارہا قلموں اور تقریروں کے سامنے یہ جری اللہ آخرفتح مند ہوا.جَزَاہُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ.آمین.اور آپ کی وفات کے بعد معاً آپ کے احباب پر اسی مسئلہ وفات مسیح کے بارہ میں ہی دشمن نے حملہ کردیا.الٰہی تیری پاک ذات بڑے بڑے عجائبات کا سرچشمہ ہے.ایک عقلمند، عاقبت اندیش اور خدا ترس دنیا کی بے ثبات ایام زندگی کو دیکھنے والا کیسے کیسے سبق سیکھ سکتا ہے اگر توفیق بھی اس کی دستگیر ہو.ہمارے مخالف جلد بازو! کچھ تو صبر سے بھی تم کام لیتے.تم نے پہلی قدرت کا نمونہ دیکھا تھا.دوسری کے لئے صبر کرتے.مگر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ہی صبر کے اجر انشاء اللہ تعالیٰ رکھے ہیں.وَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.کیا تمہیں خبر نہیں کہ ہمارے امام نے انتقال کیا اور ظاہر ہے کہ رئیس جماعت اور ان کا امام جب انتقال کرتا ہے تو اس کی جماعت کو نفس اس واقعہ سے کیا ابتلا آتا ہے اور دشمن بھی مانتا ہے کہ یہ واقعہ بے ریب ہمارے لئے رنج دہ واقعہ ضرور ہے.مگر ہم نے اس پر صبر سے کام لیا..اَللّٰھُمَّ اَجِرْنَا فِیْ مُصِیْبَتِنَا وَاَخْلِفْ لَنَا خَیْرًا مِّنْھَا وَعِضْنَا خَیْرًا مِّنْھَا.مگر تم نے ہماری تعزیت پر سوانگ بھرے.تمہارے پروفیسر اور صوفی نے سوانگ بھرنے والوں کو اعزازی خطاب خادم دین کا دیا.تمام دنیا میں برے یا بھلے مرے ہیں.اہل اسلام کی تعلیمات میں کیا تم نے یہ تعلیم کہیں پڑھی ہے کہ یہ طریق تعزیت کب سے معمول اہل اسلام ہوا؟ اور کس نے اس کی ابتدا سے من سن سَنَۃ سَیِّئَۃً کا تمغہ لیا؟ عزیزان.اللہ تعالیٰ کے تمام کام بے ریب حق و حکمت سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں اور اس کے ہر ایک کام میں اس کی ربوبیت و رحمانیت و رحیمیت اور مالکیت جوش زن رہتی ہے.
ہر بلا کیں قوم راحق دادہ است زیر آں گنج کرم بنہادہ است ہاں تعلیم و عملدرآمد اور متبعین پر جو اثر اس تعلیم و عمل و درآمد کا ہوتا ہے وہی عاقبت اندیش انسان کے لئے آخری کامیابی کا معیار ہوا کرتا ہے.بہرحال پہلے مسیح علیہ السلام کی وفات کے مسئلہ کی طرح یہ مسئلہ وفات الہامات صحیحہ اور رسالہ الوصیۃ سے تکمیل کو پہنچ چکا تھا.بدر ۲۹؍دسمبر ۱۹۰۷ء.’’بخرام کہ وقتِ تو نزدیک رسید.‘‘ ستائیس کو ایک واقعہ (ہمارے متعلق) اَللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی.‘‘ خوشیاں منائیں گے.‘‘ بدر ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء.(۲؍مئی ۱۹۰۸ء کا الہام ہے).’’الرحیل ثم الرحیل والموت قریب.‘‘ ۱۵؍مئی ۱۹۰۸ء.’’ڈرو مت.مومنو!‘‘ ۱۰؍نومبر ۱۹۰۷ء.’’موت قریب ہے، ان اللّٰہ یحمل کل حمل.‘‘ قادیان کے آریہ اور ہم وہ دن گئے کہ راتیں کٹتی تھیں کرکے باتیں جلد آپیارے ساقی اب کچھ نہیں ہے باقی اب موت کی ہیں گھاتیں غم کی کتھا یہی ہے دے شربت تلاقی حرص و ہوا یہی ہے (درثمین صفحہ ۸۱) حقیقۃ الوحی صفحہ اخیر چہرہ دکھلا کر مجھے کر دیجیئے غم سے رہا کب تلک لمبے چلے جائیںگے ترسا نے کے دن بدر نمبر ۱۸ جلد ۲.’’ دشمن کا بھی ایک وار نکلا.‘‘.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے.’’ہماری عادت ہے کہ کبھی ہم دشمن دین کو بھی خوش کردیا کرتے ہیں‘‘.۲۶؍اپریل ۱۹۰۸ء.’’ماتم کدہ.منسوخ شدہ زندگی‘‘.۲۶؍اپریل ۱۹۰۸ء مباش ایمن از بازیٔ روزگار‘‘.اور امام نے الوصیۃ کو لکھ کر اپنے ایسے بہت سے الہامات کی عملاً تصدیق فرما دی.اب الوصیۃ کودیکھ کر کب قابل وقعت ہے وہ جو اپنے منہ سے کہہ چکا ہے کہ وہ بیس برس متواتر اس کا متبع رہا جس کو وہ خود خاک بدہنش کہتا ہے.جو کہتا ہے اور جس کی اتباع میں وہ بیس ہزار روپیہ برباد کرچکا ہے
(گو اس کا یہ خرچ میرے جیسے انسان کے لئے تامل کا مقام ہے کیونکہ میں بھی تجربہ کار ہوں) اور جس نے باربار کہا ہے کہ یاتینی صادق و کاذب.اور جس نے دیکھ لیا کہ صدق کی عمارت قائم ہے.اس لئے وہ راستباز ہلاک نہیں ہوا اور جس کے نزدیک کسی راستباز کا ماننا ضروری ہی نہیں.کیونکہ نجات کی راہیں بے انت ہیں اور جس کے شہر میں ایک نے حضرت خاتم النبیین رسول ربّ العالمین صلی اللّٰہ علیہ واٰلہ الٰی یوم الدینکو مسیح الدجال کہہ کر ایک کتاب لکھی جس کا نام مسیح الدجال تھا اور اب خود اپنا نام الذکر الحکیم معروف کانا دجال کہہ کر اپنے آپ کو پہلے کا جانشین بنایا.اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِ الْاَعْدَآئِ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِ الْاَعْدَآئِ.اَللّٰھُمَّ اکْفِنَا شَرَّھُمْ بِمَاشِئْت.ہمیں اپنے اعداء پر تعجب بھی آتا ہے کیونکہ عبدالحکیم بھی اپنی نسبت اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اور اِنَّا اَرْسَلْنَاکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا اور مسیح و محمد و ابراہیم، موسیٰ و عیسیٰ بننے کا مدعی ہے.پھر پیسہ اخبار اور مولوی صاحبان کا اس کی نسبت کوئی جوش نہیں اس کا کیا بھید ہے؟ بہرحال حضرت مرزا کی وفات پر جن مشکلات کا ہمیں خیال ہوسکتا تھا کہ ہمارے سامنے ہوں گے ان کے علاوہ لاہور کے عوام کا وہ شوروغل تھا جس کا مجھے وہم و گمان بھی نہ تھا.قریب تھا کہ وہ لوگ ہمیں گاڑی تک بھی نہ پہنچنے دیتے کہ معاً اللہ تعالیٰ نے ابر رحمت کی طرح پولیس ہمارے لئے بھیج دی اور گورنمنٹ کا دل سے شکریہ کرتے ہوئے ہم پلیٹ فارم پر آرام سے سوار ہوگئے.اگر مرزا صاحب اپنے امن اور سامان اشاعت اور ہر طرح کے سکھوں کے باعث اس گورنمنٹ کے شکر گزار تھے اور قوم کو اطاعت کی تاکید کرتے گئے تو اس کی وفات نے ازسرِنو اس کی قوم کو امن پسند گورنمنٹ کا شکرگزار بنادیا.میں خوشامد سے نہیں کہتا کسی غرض سے نہیں میرا مطاع اس دنیا سے کوچ کرگیا اور میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور میرا زمانہ بھی کچھ بہت بڑا نہیں.میرے دل میں یہ سطور لکھنے کا جوش تھا جو قلم سے نکلا.ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب تحریم الظن) ہماری قوم اس آرام کی قدردان ہو.آمین یارب العالمین.اب میں ان حملوں کا ذکر کرتا ہوں جو ہم پر ہوچکے ہیں اور تمام حملوں میں زبردست حملہ جس کو دشمن یقین کرتا ہے کہ اس سے ہم کو پاش پاش کردے گا اور اس حملہ سے ثابت کرتا ہے کہ اس نے
مرزا کو ہلاک کردیا اور اس کا نام و نشان نہیں چھوڑا.وہ یہ حملہ ہے کہ میرزا صاحب قبل از وقت انتقال کرگئے اور ان کے الہامات کی رو سے جو ان کی عمر چاہئے تھی اس میں سے چار پانچ برس تو ضرور ہی کم ہوگئے کیونکہ عمر کی نسبت اصل الہام یہ تھا کہ ’’تیری عمر اسی برس کی ہوگی یا پانچ کم یا پانچ زیادہ‘‘.اس الہام میں علیم و خبیر کی طرف سے یا، یا کا لفظ بعض ایسی طبائع کو جو سماویہ کتب کے محاورات سے نابلد ہیں تعجب میں ڈالتا ہے مگر اس کا سرّ ہم انشاء اللہ تعالیٰ بیان کردیں گے.سو یاد رہے کہ یہی اعتراض مخالفوں کے اعتراضات کا سرچشمہ ہے باقی تمام اعتراضات اس اعتراض کے باعث پیدا ہوتے ہیں.اس اعتراض کے لئے کوئی برہمو اور شریف و متین مسیحی اور فلسفی تیار نہیں ہوا اور نہ ایسے گروہ سے خیال ہوسکتا ہے کہ توجہ کرے.اس اعتراض کے جوشیلے معترض اڈیٹر اہل حدیث اور امرتسر کے نرم دل، مرنج و مرنجان مرحوم و مغفور انسان عبداللہ الغزنوی رحمۃ اللہ کی طرف تلمّذ کا مدعی عبدالحق ہے.ہاں ایک امرتسری وکیل بھی ہیں جو ایک طرف تو ہمیں متانت و بردباری کی تعلیم دیتے ہیں اور دوسری طرف علماء کرام اور اپنے خطبائے عظام کو ہماری مخالفت میں تیز قلمیں اٹھانے کی ترغیب دیتے ہوئے ہمیں اور ہمارے امام کو جتنا برا کہنا اس کی ابتدائی کارروائی میں اور جس قدر زور لگانا اس کو مناسب تھا اس سے بہت زیادہ زور لگایا.اللہ تعالیٰ ہی اس کو اس کا بدلہ دے.اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِ الْاَعْدَآئِ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِ الْاَعْدَآئِ.اَللّٰھُمَّ اکْفِنَا شَرَّھُمْ بِمَاشِئْت.مرزا صاحب مغفور کی کیا عمر تھی جب آپ کا انتقال ہوا.اس کے لئے میں کوشش میں ہوں کہ پتا لگے مرزا سلطان احمد نے تو ّلد کا سنہ ۳۶،۳۷ بتایا ہے پس اس شمسی حساب سے آپ کی عمر قمری حساب میں چوہتر پچھتر ہوتی ہے اور کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا اور حضرت نے نصرۃ الحق میں قریباً یہی لکھا ہے مگر قبل از اطلاع تام خواہ مخواہ اگر مان لیں کہ آپ نے کچھ عمر کم پائی ہے.تو ایڈیٹر اہل حدیث اور عبدالحق کا علاج ایک حدیث شریف کے نسخہ سے شروع کرتا ہوں.والشافی ھو اللہ تعالیٰ، ہوالشافی، ترمذی شریف کی تفسیر سورۃ الاعراف اور خلاصۃً مشکوٰۃ باب القدر میں ہے حدثنا عبد بن حمید نا ابو نعیم نا ھشام بن سعد عن زید بن اسلم عن ابی صالح عن ابی ھریرۃ
قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لما خلق اللّٰہ آدم مسح ظھرہ فسقط من ظھرہ کل نسمۃ ھو خالقھا من ذریتہ الٰی یوم القیامۃ وجعل بین عینی کل انسان منھم و بیصا من نور ثم عرضھم علٰی آدم فقال ای ربّ من ھٰولاء قال ھٰولاء ذریتک فرایٰ رجلًا منھم فاعجبہ و بیص مابین عینیہ یقال ای رب من ھٰذا قال ھٰذا رجل من اٰخر الامم من ذریتک یقال لہ داؤد قال ربّ کم جعلت عمرہ قال ستین سنۃ قال ای ربّ زدہ من عمری اربعین سنۃ.فلما انقصی عمر آدم جاء ہ ملک الموت فقال اولم یبق من عمری اربعون سنۃ قال اولم تعطھا الابنک داؤد قال فجحد آدم فجحدت ذریتہ ونسی آدم فنسیت ذریتہ وخطی آدم فخطئت ذریتہ.ھٰذاحدیث حسن صحیح و قدروی من غیر وجہ عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم.تفسیر درمنشور میں ابن ابی حاتم و ابن مندہ و ابوالشیخ و ابن عساکر سے اس مضمون کی روایات کثیرہ اس کی تائید میں موجود ہیں اور ان میں یہ لطیفہ قابل قدر ہے کہ جملہ نسی آدم ونسیت ذریتہ و جحد آدم فجحدت ذریّتہٗ کو ابوہریرہ کا قول بتایا ہے اور واذا اخذ ربک من بنی آدم کے نیچے بیان کیا ہے.اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایک عظیم الشان انسان کی عمر سے چالیس برس کم ہوگئے اور ہمارے مرزا جی کو میں آج نہیں کہتا براہین احمدیہ کے لکھتے وقت یا آدم اسکن انت و زوجک الجنۃ کا الہام ہوچکا تھا اور اسے آدم کہا گیا.پھر اگر یہاں مانا جاوے کہ چار پانچ برس کی کمی ہوئی اگرچہ واقع میں کمی نہیں ہوئی تو آپ لوگوں نے کیوں حسن ظن سے کام نہ لیا.احادیث صحیحہ سے ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث ثابت ہے.اس میرے بیان کی تصدیق اول ان صدہا بلکہ ہزارہا الہامات سے ہوتی ہے جن کی صداقت مرزا صاحب ۱۳۲۶ مغفور کی زندگی میں ہم دیکھ چکے.پھر آپ کی کامیابیوں کو آخر آپ کے
بعد الوفات کامیابی اور وحدت سے ہم دیکھ چکے ہیں.فجزاہ اللّٰہ عنا احسن الجزاء.عبدالحکیم اگر اس حدیث کا انکار کرے تو تعجب نہیں کیونکہ اس کے نزدیک نجات کی بے انت راہیں اتنی وسیع ہیں کہ انبیا پر ایمان بلکہ ایمان باللہ بھی ضروری نہیں.مگر وہ اب تک قرآن کریم سے تمسک پکڑتا ہے.اس لئے اس کو ہم یہ آیت کریمہ سناتے ہیں (البقرۃ :۱۰۷).یہاں آیت کا لفظ ایک وسیع لفظ ہے انسانوں پر بھی بولا جاتا ہے.دیکھو اللہ تعالیٰ ایک ویران بستی پر گزرنے والے کو مخاطب کرکے فرماتا ہے (البقرۃ :۲۶۰).یہاں اس گزرنے والے کو آیت فرمایا ہے جو لوگ دنیا میں مامور ہوکر آتے ہیں وہ بھی آیت اللہ ہوتے ہیں اور ان کا اس دنیا سے کوچ کر جانا ان کے عنصری وجود کی نسخ ہوتی ہے.بلکہ ایک زمانہ ایسا بھی آتا ہے کہ بعض آیات بھول بھی جاویں.لاکن رحمت الٰہیہ ہم کو عمدہ تسلی بخش ہے.جس پر ہم ایمان لاکر یقین کرتے ہیں کہ آپ کی اولاد سے آپ سے خیر کان اللّٰہ نزل من السمآء یا کم سے کم آپ کی مثل آنے والا ہے اور نسخ کے ایسے وسیع معنے لینے میں السید عبدالقادر الجیلانی جیسے بزرگ ہمارے ساتھ ہیں.مسیح کی وفات کا مسئلہ آپ کی زندگی میں مہتم بالشان مسئلہ تھا اور یہی مسئلہ ہم لوگوں کے لئے ہماری زندگی میں بھی وفات المسیح کا مسئلہ مہتم بالشان ہوگیا.یاد رکھو کبھی دعائوں، صدقہ و خیرات و علاج و معالجہ سے قضائو قدر ٹلتی ہے اور گا ہے صبروشکر اور وَلَنَبْلُوَنَّ کی حکومت سے ہماری تدابیر ٹل جاتی ہیں اور اس عجیب قدرت سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم کو الایمان بین الخوف والرجاء کا مسئلہ سکھایا گیا ہے اور یہ خوف و رجاء ہمارے لئے دو پر عطا کئے گئے جیسا کہ سیدعبدالقادر الجیلی نے فتوح الغیب میں اس کا بسط فرمایا ہے.ایک صوفی اور اس کا معظم و مکرم قادری بھی خوشیاں کرتے ہیں اور وہ یقین کرتے ہیں کہ عمر والے الہام میں وہ جیت گئے ان کو میں حضرت السید عبدالقادر الجیلی کا ایک قول سناتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہاں تک وہ قادری اور صوفی مشرب ہیں اگر یہ دوائی ان کے لئے مفید نہ ہوئی تو سلاسل اربعہ کے اقوال بطور حجت ان کے پیش کروں گا.انشاء اللہ تعالیٰ وماتوفیقی الا باللہ اور اس آپ کے
بیان سے میری تحریر بالاکو صفائی سے تائید ملتی ہے.جس کا میں نے نسخ کے معنے میں ذکر کیا ہے.حضرت السید الجیلی مقالہ ۵۶ میں عبودیت کا ذکر فرماتے ہوئے اور اس کے انعامات کی تفصیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں.فیختار العبدحٍ اللّٰہ عزوجل ویرید بارادتہ عزوجل ویدبربتد بیرہ ویشاء بمشیتہ ویرضٰی برضاہ ویمتثل امرہ دون غیرہ ولا یری لغیرہ عزوجل وجودًا ولا فعلا فحٍ یجوز ان یعدہ اللّٰہ بوعد ثم لایظھر للعبد وفائً ا بذٰلک ولا یبلغہ ماقد توھمہ من ذٰلک لان الغیریۃ قد زالت بزوال الھوٰی والارادۃ وطلب الحظوظ وصار فی نفسہ فعل اللّٰہ عزوجل وارادتہ ومرادًا لہ عزوجل فلا یضاف الیہ وعد ولاخلف لان ھٰذہ صفۃ من لہ ھوی وارادۃ فیصیر الوعد حٍ فی حقہ مع اللہ کرجلٍ عزم علی فعل شیٔ فی نفسہ ونواہ ثم صرفہ الٰی غیرہ کالناسخ والمنسوخ فیما اوحی اللّٰہ عزوجل الٰی نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم. (البقرۃ :۱۰۷) ترجمہ: کامل عبودیت کے بعد بندہ اللہ تعالیٰ کو پسند کرلیتا ہے اور اللہ ہی کے ارادہ و تدبیر و مشیت و رضا کے ساتھ اپنے ارادہ و تدبیر و مشیت و رضا کو وابستہ کرلیتا ہے اور اسی کا حکم مانتا ہے نہ غیر کا اور اللہ کے سوا کسی کا حقیقی وجود و فعل نہیں مانتا.پس ایسے وقت میں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے بندہ سے کوئی وعدہ کرے اور ظاہر نہ کرے بندہ کے لئے اس وعدہ کی وفا کو اور پہنچاتا ہی نہیں اس بات پر جس کا اس بندہ کو خیال تھا کیونکہ اس بندے اور اس کے معبود میں غیریت اس لئے دور ہوگئی کہ بندے کی خواہش دور ہوگئی اور اس کا ارادہ اور طلب حظوظ بھی تو اس لئے اس بندے کے افعال افعال الٰہیہ ہوجاتے ہیں تو وہ وعدہ اور اس کے خلاف کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے وابستہ ہوگیا.کیونکہ وعدہ اور اس کا خلاف تو غیرت سے وابستہ تھا پس اس وقت عبودیت میں جو وعدے اس بندے سے ہوئے ایسے ہوجاتے ہیں کہ گویا کسی بندہ نے آپ ہی ارادہ کیا اور پھر اس ارادہ اور اس نیت کو کسی دوسرے کام میں لگا دیا اور یہ معاملہ ناسخ و منسوخ کی طرح ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی کتاب… میں جو ہمارے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی فرمائی.اس میں فرمایا ہے کہ اگر ہم
منسوخ کردیں کسی بات کو یا بھلادیں تو لاتے ہیں بہتر اس سے یا اس کی مثل کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قادر ہے.اس تعلیم پر قادری ہونے کے مدعی اور السید عبدالقادر جیلانی کے معتقد توجہ فرماویں.اگر حضرت مرزا صاحب کا کوئی ارادہ اور خواہش تمھارے لئے ٹھوکر کا باعث ہو تو اسی مقالہ میں غور کریں حضرت جیلانی فرماتے ہیں لما کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم منزوع الھویٰ والارادۃ سوی المواضع التی ذکرھا اللّٰہ عزوجل فی القرآن.یہاں سوی المواضع کے مقام میں مرتبہ خاتم النبیین و رسول ربّ العالمین صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور مرتبہ غلام احمد کا مدنظررکھ لیں تو انشاء اللہ تعالیٰ… ان کا بھلا ہوگا.اب میں اس اپنی پہلی تحریر میں مسئلہ وفات مسیح کو ان اشعار پر جو ایک صوفی اور ان کے متبعین کے لئے انشاء اللہ مفید ہوں گے لکھتا ہوں.یہ نظم حضرت کی ہے اور ایک احمدی خلیفہ رشید الدین نے ۲۵؍مئی کو لکھی اور ۲۶ کو بمقام قادیان دس بجے خوش قلم لکھوائی.حالانکہ واقع وفات سوا دس بجے کو ہوا.آنانکہ گشت کوچۂ جاناںمقام شان ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق اے مردہ دل مکوش پے ہجو اہلِ دل مثبت ست برجریدۂ عالم دوامِ شان میرد کسیکہ نیست مرامش مرامِ شان جہل و قصور تست نفہمی کلامِ شان ایک لڑکی کے متعلق کہ اس سے آپ کی شادی ہوگی اور ایک عورت سے زلازل کے پہلے ایک لڑکا ہوگا اور پانچویں اولاد کی بشارت پر جو اعتراض ہیں.ان کا للّٰہ و باللّٰہ قرآنی جواب یہ ہے کہ کتب سماویہ کا طرز ہے کہ مخاطب سے گاہے خود مخاطب ہی مراد ہوتا ہے اور گاہے وہ اور اس کا جانشین اور اس کی اولاد بلکہ اس کا مثیل مراد ہوتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ زمانہ نبوی میں فرماتا ہے ( البقرۃ :۴۴) اس حکم الٰہی میں خود مخاطب اور ان کے مابعد کے لوگ شامل ہیں جو ان مخاطبین کی مثل ہیں اور (المائدۃ :۲۱) میں مخاطب تو مراد ہی نہیں مگر اور ان کے پس ماندوں میں بھی بعض ہی مراد ہیں کیونکہ بنی اسرائیل اس خطاب کے وقت بادشاہ نہ تھے بلکہ اس خطاب کے بعد چالیس برس جنگل میں بھٹکتے پھرے ہلاک ہوئے اور اس نسل میں سوائے دو کے کسی کا پتا نہیں لگتا اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بنی اسرائیل کو ارشاد ہوتا ہے حالانکہ وہ مرتکب نہیں.
(البقرۃ :۵۰).یاد کرو جب ہم نے بچایا تم کو فرعونیوں سے تم کو برا دکھ دیتے اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے.اور فرماتا ہے.(البقرۃ :۵۱).اور جب فرق ڈال دیا ہم نے تمھارے لئے دریا میں اور پھر بچالیا تم کو.پھر فرماتا ہے.(البقرۃ :۵۲).پھر بنا لیا تم نے بچھڑے کو معبود پیچھے اس کے اور تم ظالم ہو. (البقرۃ :۵۹) اور جب کہا ہم نے، داخل ہو تم اس بستی میں پس کھائو تم اس سے.(البقرۃ :۶۲) اور جب کہا تم نے اے موسیٰ ہم صبر نہ کریں گے ایک طعام پر پس دعا مانگ ہمارے لئے.اور کثرت سے یہ طرز قرآن مجید میں ہے کہ مخاطب کوئی ہوتا ہے اور مراد گاہے وہی اور گا ہے اس کا مثل ہوتا ہے.اسی طرح ضمیر غائب میں کبھی خود مرجع مراد ہوتا ہے اور گا ہے اس کا مثل.نحو میں اَخَذْتُ الدِّرْھَمَ وَنِصْفَہٗ کی مثال دیتے ہیں کیونکہ اس سے منشاء عرب میں ڈیڑھ درہم ہوتا ہے نہ ایک درہم اور قرآن کریم کی بہت جگہ میں سے ایک جگہ لکھتا ہوں (فاطر :۱۲) اور نہیں عمر دیا جاتا بڑا بوڑھا اور نہ کچھ کم کیا جاتا ہے بوڑھے کی مثل اور کم عمر کی عمر سے.اس آیت میں عُمُرِہٖ کی ضمیر مُعَمَّر کی طرف تو جا نہیں سکتی اس لئے مُعَمَّر کی مثل اور انسان مراد ہے.ضمیر متکلم میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے چند مثالیں سن لو. (اٰل عمران :۱۵۵)ترجمہ: اگر اس حکومت میں ہمارا تعلق و دخل ہوتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے.اب یہاں ایک مسلمان غور کرے کہ قُتِلْنَا کہنے والے کیا مقتول اور جنگ احد کے شہید مراد ہیں یا ان کے زندہ بھائی بند مراد ہیں.
ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(القدر :۲).ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں اتارا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو تعظیماً یا جس طرح ہو قرآن کریم کا منزّل بیان فرماتا ہے.پھر اپنے خادم کو فرماتا ہے.(الشعرآء : ۱۹۴).اس قرآن کو روح الامین نے نازل کیا ہے.بلکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا جبرائیل کی نسبت فرماتا ہے.(الحاقۃ :۴۱) یہ قرآن رسول کریم کا قول ہے.اسماء ظاہر میں بھی جب وہ فاعل واقع ہوں ایسا ہی قاعدہ قرآن کریم میں پایا جاتاہے اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے.۱.(الزمر :۴۳).اللہ تعالیٰ روح کو قبض کرتا ہے موت کے وقت اور پھر فرماتا ہے.۲.(السجدۃ :۱۲) ملک الموت جو تم پر وکیل ہے وہ تمہاری روح کو قبض کرتا ہے اور پھر فرماتا ہے.۳.(النساء :۹۸).ان ظالموں کی روح کو ملائکہ قبض کرتے ہیں.ان آیات کریمہ میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ ہی کو متوفی فرمایا ہے اور پھر ملک الموت کو اور پھر اور اور ملائکہ کو.اب تمام اہل اسلام کو جو قرآن کریم پر ایمان لائے اور لاتے ہیں.ان آیات کا یاد دلانا مفید سمجھ کر لکھتا ہوں کہ جب مخاطبۃ میں مخاطب کی اولاد، مخاطب کے جانشین اور اس کے مماثل داخل ہوسکتے ہیں تو احمد بیگ کی لڑکی یا اس لڑکی کی لڑکی‘ کیا داخل نہیں ہوسکتی اور کیا آپ کے علم فرائض میں بنات البنات کو حکم بنات نہیں مل سکتا؟ اور کیا مرزا کی اولاد مرزا کی عصبہ نہیں میں نے بارہا عزیز میاں محمود کو کہا کہ اگر حضرت کی وفات ہوجاوے اور یہ لڑکی نکاح میں نہ آوے تو میری عقیدت میں تزلزل نہیں آسکتا پھر یہی وجہ بیان کی والحمدللّٰہ ربّ العالمین.اسی طرح مبارک احمد کے بدلہ میں اگر اللہ تعالیٰ اس کا نعم البدل عطا کرے جس کا ہم کو یقین ہے کیونکہ اللہ و رسول کا ہم سے وعدہ ہے کہ اگر ہر ایک ہم سے اِنّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن.اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِی
وَاخْلُفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْھَا دل سے پڑھے تو اسے نعم البدل عطا ہوتا ہے.پس ہم نے ایمان سے اس کو پڑھا اور جس دن پانچواں مبارک احمد کا بدلہ دنیا میں آیا اور علم فرائض کے موافق و لابن الابن حکم الابن موجود ہے تو آپ لوگ کیا کریں گے.پس یہ تمام پیشگوئیاں اگر بظاہر منسوخ ہوں تو ہمیں حرج نہیں اور اگر اپنے شرعی رنگ میں اللہ تعالیٰ سے پوری ہوئیں اور ہوں گی تو تم کیسے خطرہ میں ہو اس لئے ہم بہرحال جیت اور نفع میں رہے.مرزا صاحب کی اولاد میں چھ موجود ہیں وَالحمدللّٰہ ربّ العالمین.پس ان میں سے ایک بھی اولوالعزم ہو یا ان کی اولاد سے وہ عمانوئیل عظیم الشان ولد ظہور پذیر ہوا تو اس وقت آپ خود اور آپ کی اولاد دنیا کو کیا منہ دکھائے گی.اگر تم مرگئے تو تم کو کیا کہیں گے.مولوی ثناء اللہ نے رنگارنگ کی احتیاطوں سے تو کام لیا ہے اور اخبار وکیل نے بھی کارسپاڈنٹ میں ہماری نسبت تائیدی فقروں کے لکھنے سے دریغ نہیں کیا اور گوجرانوالہ کے شریف الطبع خالصہ نام نے جو شرافت کا نمونہ دکھایا اور اسی طرح ریاض لکھنؤ کے ایڈیٹر نے جو شرافت بھرے کالم سے کام لیا ہے.اس کے ہم سب احمدی شکرگزار ہیں اور ایڈیٹر مسلم کرانیکل کلکتہ کی تار کا خصوصیت سے شکریہ کرتے ہوئے.جزاہ اللہ احسن الجزاء کہتا ہوں.بعض جگہ دیسی عیسائیوں نے خوشیوں کے نعرے مارے اور جلسے بھی کہتے ہیں کیے مگر وہ غالباً معذور ہیں کہ اگر ایسا نہ کریں تو اپنی خوش اعتقادی کا اور کیا ثبوت دیں.ان کی کتاب مقدس نیوٹسٹمنٹ حلت و حرمت سے ساکت ہے.احکام شرائع کی پابندی سے پولیس نے روک دیا تو اپنے اخلاص و نیکی کا اب اور ثبوت کیا دیں‘ ورنہ وہ پہلی انجیل میں ہی دیکھ سکتے تھے کہ یسوع کا مرنا کیسا ہوا.بارہ وارثان تخت سے ایک نے پکڑوایا اور پتھر نے اپنے مقتدا پر لعنت کا پتھر پھینکا اور تتر بتر ہوگئے مگر آخر ان کے نزدیک وہ کامیاب ہوا تو یہاں جو نمونہ ان لوگوں نے دیکھا کیا اس سے ایک عاقبت اندیش عقلمند کچھ اندازہ نہیں لگا سکتا.کم عمری کا اعتراض ہمارے زیر نظر ہے.مگر اس ملک پنجاب میں خاص گائوں میں جو افراتفری سکھوں کے عہد میں آئی ہے اس سے اور جو خاندانوں اور شرفاء میں تکالیف پڑی اور ان کا ذکر حضرت مہدیؑ نے اپنی تصانیف میں بھی مفصّل فرمایا ہے ایسے وقتوں میں گائوں کے لوگوں میں
تاریخ تو ّلد کا پتا لگنا ایک مشکل کام ضرور ہے اور الٰہی مصلحت بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ہے.تا دشمن ذرا ٹھٹھا کرلے اسی لئے ہمیشہ حضرت مرزا صاحب نے تخمیناً سے اس معاملہ میں کام لیا ہے.اظہاروں میں بھی آخر تخمیناً ہی سے کام لینا پڑا اس واسطے کسی قدر اختلاف ہوا.نصرۃ الحق کے صفحہ ۹۷ میں ارقام فرماتے ہیں اور جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ تو چوہتّر اور چھیاسی کے اندراندر عمر کی تعیین کرتے ہیں اور صفحہ ۱۹۳ میں ارقام فرمایا ہے عمر کا اصل اندازہ تو خدا کو معلوم ہے مگر جہاں تک مجھے معلوم ہے اب اس وقت تک جو ۱۳۲۳ھ میری عمر سترّ کے قریب ہے.واللّٰہ اعلم.اس کو ایک عقلمند غور سے دیکھے.اب میں جماعت احمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تحمل و برُدباری و عاقبت اندیشی اور تقویٰ و طہارت سے کام لیں اور دعائوں میں لگے رہیں ابتدائً دشمن سے مقابلہ نہ کریں کیونکہ اسلام دفاعی مقابلہ کی اجازت دیتا ہے.پس جب دشمن مخالفانہ بات کرے تو اس وقت جناب الٰہی میں تضرع سے دعا کرکے جواب دیں اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بہت ہی جلد تمہارے لئے تائیدی راہیں کھولنے والا ہے.والسلام نور دین (ریویو آف ریلیجنز بابت ماہ جون و جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۲۵۷ تا ۲۸۰) ٭ …٭ … ٭
اطاعت اور وحدت {طلباء مدرسہ احمدیہ کوخطاب فرمودہ ستمبر۱۹۰۸ء} حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بروح القدس نے اپنے معمولی درس قرآن مجید کے علاوہ ارادہ فرمایا ہے کہ وقتاً فوقتاً طلباء مدرسہ کو خصوصیت سے ہفتہ میں ایک یا دو مرتبہ بعد مغرب خطاب کریں.آپ نے فرمایا کہ یہ تحریک میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوئی ہے.ورنہ ہر روز آپ وعظ فرماتے ہی ہیں.طلباء مدرسہ کو یہ خصوصیت اور امتیاز قابل ناز ہے کہ ان کے امام نے ان کے لئے اپنے گرامی اوقات میں سے کچھ حصہ مخصوص کیا.جو حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں انہیں حاصل نہ تھا.اس سے ان والدین کو کیسی خوشی ہوسکتی ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو مدرسہ تعلیم الاسلام میں بھیجا ہے مدرسہ کی یہ خصوصیت باعث فخر ہے.ان دنوں جبکہ طلباء سے بعض پولیٹیکل لیڈر نہایت خطرناک کام لے رہے ہیں اور ان کی آتشیں تقریروں نے ناعاقبت اندیش نوجوانوں کے دلوں کو پھونک ڈالا ہے اور وہ اخلاق اور حقوق العباد کی کچھ بھی پرواہ نہ کرکے سوراجیہ کی خواہش کی گونج اپنے دماغ میں سنتے ہیں اور لبرٹی لبرٹی کے نعرے مارتے ہیں.یہ بہت ہی ضروری پہلو ہے جو ہمارے امام کے خلیفہ (ایدہ اللہ بنصرہ) نے اختیار کیا ہے.اس مقام پر یہ ظاہر کرنا ضروری ہے کہ جس طرح پر ہمارے سید و مولا امام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گورنمنٹ کی وفاداری کی تعلیم اپنے اصول میں رکھی ہوئی تھی.اسی طرح پر ہمارے خلیفۃ المسیح نے اس کو ضروریات دین میں سے یقین کیا ہے چنانچہ اسی اشاعت میں جو اعلان شائع کیا گیا ہے وہ اس امرکو بخوبی ظاہر کرتا ہے.غرض حضرت خلیفۃ المسیح نے طلباء اور مدرسہ کو خصوصیت سے ہفتہ میں دو مرتبہ تلقین کے لئے وقت دینا پسند کیا ہے.گزشتہ ہفتہ میں آپ نے دو مرتبہ جو تقریر کی اس کا خلاصہ میرے اپنے الفاظ میں درج ذیل ہے.میں امید کرتا ہوں کہ یہ نہایت توجہ سے پڑھا جاوے گا.(ایڈیٹر)
پہلی تقریر ابتداً آپ نے اپنے تعلقات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے مخلوق سے بے نیاز کردیا ہے.میری حاجتوں اور ضرورتوں کا وہ خود کفیل ہے اور ذمہ وار ہے اور ایسے طریق پر میری مدد کرتا ہے کہ دوسرے سمجھ بھی نہیں سکتے.اس سے تم لوگ سمجھ سکتے ہو کہ میرا تمہیں نصیحت کرنا محض خدا کی رضا کے لئے ہے اور نیز اسی ذمہ داری کی وجہ سے جو مجھ پر تم لوگوں نے آپ ہی رکھ دی ہے.بہرحال میں یہ ظاہر کرتا ہوں کہ میں محض خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اور اس کی مخلوق پر شفقت کی غرض سے تمہاری بھلائی کے لئے کہتا ہوں جو کچھ کہتا ہوں.آج کل تم دیکھتے ہو کہ بعض ناعاقبت اندیش لوگوں نے طالب علموں سے کس کس قسم کے خطرناک کام لئے ہیں.وہ طالب علم یا ان کے وہ لیڈر اور سرپرست اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے اس کی مخلوق پر شفقت کی تعلیم ان کو دی گئی ہوتی تو اس قسم کی کمینہ اور پاجی پن کی حرکات ان سے سرزد نہ ہوتیں جن کو وہ اپنے اور اہل ملک کے لئے مفید اور بہتر یقین کرتے ہیں.یہ امور ملک کی بہتری کی بجائے اس کے لئے سخت مضر اور نقصان رساں ہیں.ایسی حرکات محض اس لئے ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایتوں پر عمل نہیں.میں تمہیں ہدایت کرتا ہوں کہ اس قسم کی شرارتوں سے بالکل الگ اور بیزار رہنا چاہے.اسلام فرمانبرداری کا نام ہے اور حاکم وقت کی اطاعت ضروری ہے.اس کے لئے ہمارا امام ہمیشہ یہی تعلیم دیتا رہا ہے.اس کے بعد تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ تمہارا فرض ہے کہ تم سچے وفادار اور سچے مسلمان بنو.قرآن مجید نے دو بچوں کا ذکر کیا ہے.ایک حضرت اسماعیلؑ کا، دوسرے حضرت یوسفؑ کا.حضرت اسماعیلؑ ایک نوجوان تھے.ان کے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رویا میں دیکھا کہ وہ اپنے بچے کو ذبح کرتے ہیں.اس خواب کا اظہار انہوں نے اسماعیل سے کیا.انہوں نے ان کو کیا کہا.اے میرے باپ! جو کچھ آپ کو حکم ملا ہے جلد کرو.آپ مجھے انشاء اللہ صابر پائیں گے.خدا تعالیٰ کی رضا اور باپ کی اطاعت میں سر رکھ دیا اور یہی وفاداری اور فرمانبرداری ہے.
حضرت یوسفؑ نے اپنی عفّت اور طہارت کا جو نمونہ دکھایا وہ ایک ظاہر امر ہے.پس ان دو بچوں کے ذکر سے تمہیں خدا تعالیٰ کی اطاعت اس کے رسول کی اطاعت اور اولوالامر کی اطاعت اور وفاداری کا سبق لینا چاہئے اور اس کے ساتھ ہی عفّت اور طہارت کی زندگی بسر کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی توفیق کو مانگنا چاہئے.دعا بہت بڑا ہتھیار ہے.اس کو کبھی ہاتھ سے نہ دو.یہ آپ کی پہلی تقریر کا خلاصہ ہے.دوسری تقریر دوسری تقریر میں آپ نے اس امر پر زور دیا کہ وحدت پیدا کرنی چاہئے.اولاً آپ نے نظارہ عالم سے دکھایا کہ دنیا میں اختلاف موجود ہے لیکن باوجود اختلاف کے پھر بھی ایک اتحاد ہے اگر اس اتحاد سے کام نہ لیا جاوے تو یہ سارا کام بگڑ جاوے.اس موقع پر آپ نے مختلف مثالوں کے ذریعہ سے صداقت کو بتایا.پھر طلباء کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تمہارے مدرسوں میں رسہ کا ایک کھیل ہوتا ہے.اس کی تعلیم قرآن مجید کی ایک آیت سے ملتی ہے.(اٰل عمران :۱۰۴).یہ رسہ جو مدرسوں میں ورزش کے لئے رکھا جاتا ہے جب تک متحد طاقت سے اسے ایک جماعت نہ کھینچے وہ کامیاب نہیں ہوسکتی.اسی طرح پر اس وقت ضرورت ہے کہ ہم قرآن مجید کے حبل کو مضبوطی سے پکڑ لیں.اسلام پر سخت حملے ہورہے ہیں.فلاسفر اپنے رنگ میں‘ حکیم اپنے طرز پر اور طبابت والے اپنے طریق پر‘ عیسائی ، آریہ، برہمو اور مختلف فرقوں اور مذاہب کے لوگ جداجدا چاہتے ہیں کہ وہ اس پاک تعلیم کا نام و نشان مٹا دیں.بیرونی حملہ آور ہی نہیں اندرونی لوگ بھی بگڑے ہوئے ہیں ان کی علمی اور عملی طاقتیں کمزور ہوچکی ہیں.ایسی حالت میں سب کا فرض ہے کہ ہم عملی طور پر اس رسن کو مضبوطی سے پکڑ لیں.پس وحدت پیدا کرو اور عملی طور پر.(الحکم ۱۸؍ستمبر ۱۹۰۸ء.صفحہ۶،۷)
کلمہ شہادت کے دونوں حصوں کی اغراض {تقریر فرمودہ۲۶؍دسمبر ۱۹۰۸ء بعد نماز ظہر و عصر} اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہ‘ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ کلمہ شہادت اور اس کے دونوں حصوں کی غرض: یہ وہ کلمہ ہے جس کو ہماری زبان میں کلمہ شہادت کہتے ہیں.اس کے دو حصے ہیں ایک حصہ میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک اکیلا معبود ہے کوئی اس کا شریک نہیں نہ اس کی ذات میں نہ صفات میں نہ افعال میں.دوسرے حصہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کے بندے اور اسی کے رسول ہیں.اس کلمہ شہادت کے پہلے حصہ کے اظہار اور تعلیم کے لئے سلسلہ کائنات میں انبیاء ورسل آتے رہے اور ان کے بعد ان کے خلفاء و جانشین ہوتے رہے اور وہ یہی ہدایت اور تعلیم دیتے رہے.لا الٰہ الا اللّٰہ ان سب کی ایک ہی غرض رہی اور ہمیشہ یہی غرض رہی کہ لوگ لا الٰہ الا اللّٰہ کہیں اور سمجھیں اور یقین کریں.ایسا ہی ہوتا رہا اور ہوتا آیا مگر ایک زمانہ گزرنے کے بعد ان ہادیوں کو جو یہ تعلیم لے کر آئے تھے ان کے ماننے والوں نے غلطی سے ہادیوں کو معبود بنالیا اور اس طرح پر وہ غرض جو ان کی تعلیم اور بعثت کی تھی فوت ہوگئی اور لا الٰہ الا اللّٰہ کی بجائے شرک پھیل گیا.اس غلطی اور مصیبت سے نجات دینے کے لئے اور توحیدالٰہیہ کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور آپ نے اس غلطی کو جو مختلف ہادیوں کو معبود بنانے کے متعلق دنیا نے کھائی اس طرح پر ہمیشہ کے لئے دور کردیا کیونکہ کلمہ شہادت کا دوسرا جزو اشھد ان محمد عبدہ ورسولہ قائم کردیا.پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خاص فضیلت ہے کہ آپ نے کلمہ لا الٰہ الا اللّٰہ کی تکمیل کردی اور وہی اس کے مستحق تھے.تمام قرآن کریم کو غور سے دیکھو گے تو اصل منشاء لا الٰہ الا اللّٰہ ہی کا قائم کرنا ہے اور تمام سلسلہ نبوت و رسالت اسی مقصد کے لئے قائم ہوا.اور اب اس سلسلہ کی بھی اس لئے ضرورت ہوئی
کہ لا الٰہ الا اللّٰہ کے مفہوم سے لوگ ناواقف ہوگئے تھے.اس کے معنے میں اللہ تعالیٰ توفیق دے گا تو درمیان میں بتائوں گا.فی الحال میں یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بیج کی طرح کس طرح میرے دل میں آیا اور پھر کامل استقلال اس سے کس طرح پیدا کیا.یہ میں آپ ہی تمہیں سناتا ہوں ممکن ہے تم میں سے کسی کو فائدہ ہو اور کوئی اپنی اولاد کی تربیت کے لئے مفید سبق حاصل کرے.امیرالمؤمنین کی تربیت: پہلے پہل میری تربیت کیونکر ہوئی اور لا الٰہ الا اللّٰہ کا اثر مجھ پر کیسے پڑا؟ تم یہ سن کر تعجب کرو گے کہ یہ اثر مجھ پر ماں ہی کے پیٹ میں پڑا.یہ نکتہ اب علم طب نے مجھ پر کھولا ہے کیونکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ والدہ کے خیالات کا اثر پیٹ میں بچہ پر پڑتا ہے بلکہ ان خیالات کا ذخیرہ ایک سال پہلے سے جمع ہوتا ہے اور پھر ان کا اثر بچہ قبول کرتا ہے.میری ماں پڑھی ہوئی تھی اور اچھی پڑھی ہوئی تھی.قرآن کریم کو خوب سمجھتی اور سمجھاتی تھی.صبح سے شام تک اسی کا شغل رکھتی.پس ان کے اس پاک شغل نے حمل کے اندر ہی مجھے قرآن مجید کا اثر پہنچایا اور اس طرح پر لا الٰہ الا اللّٰہ کی تخم ریزی میرے اندر ہوئی.اس کہانی کے سنانے سے میری غرض کیا ہے؟ یہ کہ تم میں سے جو والدین ہیں وہ اپنے خیالات میں پاکیزگی پیدا کریں تاکہ بچے پاکیزہ خیالات کا اثر لے کر پیدا ہوں اور جو ابھی شادی شدہ نہیں وہ اور ان کے متولی اور سرپرست ان کے لئے نیک عورتیں بیاہنے کی کوشش کریں.نکاح کی عام اغراض: حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ نکاح کرتے وقت کبھی تو اعلیٰ درجہ کی خوبصورتی کا لحاظ کرتے ہیں اور کبھی مال اور جاہ و جلال تلاش کرتے ہیںمگرنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جوہدایت کی ہے وہ یہ ہے.علیک بذات الدین (صحیح مسلم کتاب الرضاع باب استحباب نکاح ذاتِ الدین)کیا معنی تم دیندار عورت کی جستجو کرو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نظر کیسی وسیع اور صاف ہے.طبی تحقیقات نے آج یہ نکتہ بتایا کہ ایک سال پہلے کے خیالات کا اثر بچہ پر پڑتا ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تیرہ سو سال پہلے نکاح کی غرض وغایت بتاتے ہوئے اس اصل کو ملحوظ فرمایا.بہت سی خوبصورتی، مال والوں اور اعلیٰ جاہ و جلال والوں کی تلاش اگرچہ کسی حد تک مفید ہوتی ہے لیکن
ایک دیندار ماں کے ذریعہ جو پاک اثر ماں کا اولاد پر پڑتا ہے وہ کسی دوسری صورت سے ممکن نہیں.میں نے اپنی ماں سے بہت فائدہ اٹھایا اور میں اس کے لئے بڑی بڑی دعائیں کرتا ہوں اور دل سے چاہتا ہوں کہ ہماری اولاد کی مائیں ایسی ہی ہوں.میں اس امر کو بھی تحدیث بالنعمۃ کے طور پر ہی ذکر کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری ماں کو ایک جلال والی قوم میں سے بنایا تھا وہ اعوان قوم سے تھیں.یہ بھی اس کے فضل کی بات ہے لیکن جو بات مجھے خوش رکھتی ہے وہ یہ کہ میں نے گویا اس کے پیٹ میں قرآن کا سبق سنا یہ پہلا بیج تھا.لا الٰہ الا اللّٰہ کا جس نے باپ کی طرف سے آکر ماں کے پیٹ میں نشوونما پایا.تربیت کا دوسرا مرحلہ: اس کے بعد جب میں پیدا ہوا تو ماں کے دودھ کے ساتھ قرآن مجید کی پاک تعلیمات کے اثر کو پیا اور اس کی پیاری گود میں قرآن مجید کو سنا.دودھ پینے کا زمانہ ختم ہوا اور جہاں تک مجھے ہوش ہے اور دودھ چھڑانے کا مجھے ہوش ہے.مجھے خوب یاد ہے اس کے بعد میری تربیت کا ایک اور سلسلہ شروع ہوا میری ایک بھاوج صاحبہ تھیں وہ بگہ والے مشہور خاندان میں سے تھیں میں ان کی تربیت کے نیچے آیا ان کی گود میں جو آواز مجھے خوش کرتی اور سنائی دیتی تھی وہ انت الھادی انت الحق لیس الھادی الا ھو کی آواز تھی.گویا باہر آکر لا الٰہ الا اللّٰہ کا نشوونما اس طرح پر ہوا.تربیت کا تیسرا مرحلہ: پھر جب میں پڑھنے لگا اور میرے بھائی سلطان احمد صاحب مرحوم نے میری تعلیم عربی کی طرف توجہ کی تو جناب الٰہی کے انعامات میں سے ایک عجیب واقعہ پیش آیا اور وہ اس طرح پر ہے کہ اس وقت یاغستان کے مجاہدین کے لئے بنگال سے بہت سا روپیہ جاتا تھا اور وہ لوگ مخفی حیلوں سے انہیں روپیہ پہنچاتے تھے.کلکتہ کے ایک تاجر کتب جو روپیہ لے جایا کرتے تھے ہمارے ہاں اترے.انہوں نے ترجمہ قرآن کریم کی طرف یا یوں کہنا چاہئے کہ اس گراں بہا جواہرات کی کان کی طرف مجھے متوجہ کیا جس کے باعث میں اس بڑھاپے میں بھی نہایت شادمانہ زندگی بسر کرتا ہوں.مجھے انہوں نے کوئی چیز پڑھتے دیکھا تو میرے بھائی کو ہدایت کی کہ اس کو قرآن مجید پڑھائو
اورایک نہایت خوشخط پنج سورہ جس کے ابتداء میں (الواقعۃ:۲)کی سورۃ معہ ترجمہ تھی دیا اور اس طرح پر میں قرآن مجید کے ترجمہ کی طرف متوجہ کیا گیا یہ خدا تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہوا.والحمدللّٰہ علٰی ذٰلک.میں نے یہ کہانی نہیں سنائی بلکہ میرا مقصود اس سے یہ ہے کہ میں تمہیں بتائوں کہ والدین کا کیا فرض ہے، مائیں کیسی ہونی چاہئیں، بھائی اور بھاوجیں کیسی ہوں؟ دوسرے رشتہ دار کیسے اور کن لوگوں کے ساتھ آمدورفت کے تعلقات ہوں اگر یہ سب نیک اور خدا ُجو ہوں تو جو بچہ ان کی تربیت کے نیچے رہے گا خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے ضائع نہیں ہوگا.والد کی طرف سے جو الٰہی فضل مجھ پر ہوا اس کا ذکر پھر کسی وقت کروں گا.تربیت کا چوتھا مرحلہ: پھر میرے دوست میرے استاد تھے جو اس لا الٰہ الا اللّٰہ کے نشوونما کاموجب ہوئے ان ذریعوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ہمارے شہر میں دو واعظ آیا کرتے تھے ایک کوہاٹ کے علاقہ سے محمد جی نام کے تھے اور دوسرے پاس ہی کے علاقہ سے آیا کرتے تھے ان کا نام غلام محی الدین تھا ان کے وعظ سننے کا مجھے بہت شوق تھا.ہمارے اس زمانہ کے دوستوں میں سے… ایک حکیم فضل الدین اس وقت دم نقد موجود ہیں مجھے اور ان کو وہ وقت خوب یاد ہے جب ہم ان کے وعظوں کو نہایت شوق اور غور سے سنا کرتے تھے اور ان سے تمتع حاصل کرتے اور اس طرح پر لا الٰہ الا اللّٰہ میرے دل پر خوب بیٹھ گیا اور پھر اس طرح پر ترقی کا سلسلہ شروع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب کی محبت میرے دل میں ڈال دی اور وہ مشارق الانوار تھی، اس کتاب کا اردو میں ترجمہ ہوچکا تھا اور مجھ کو اردو زبان سے بہت رغبت تھی اور میں اس میں بہت دلچسپی لیتا تھا اس لئے اس کتاب کو میں نے بڑے شوق سے پڑھا اور نہ صرف پڑھا بلکہ اس زمانہ میں مجھے اس کتاب کے مضامین کی اشاعت کا ایسا جوش پیدا ہوا کہ میں نے منشی مہدی خان صاحب مرحوم (جو ہمارے دوست محمد نواب خان صاحب کے ماموں تھے) یہ ساری کتاب مختلف حیلوں سے سنادی.شرک سے مجھے پہلے ہی بڑی نفرت تھی مگر اس کتاب نے بڑا نفع دیا.
شرک کیونکر پیدا ہوتا ہے: جب دنیا میں مختلف قسم کے حوادث اور واقعات پیش آتے ہیں تو کمزور کم عقل لوگ شرک میں گرفتار ہوجاتے ہیں.ندیوں میں غرق ہوئے اور ان کے طوفانوں سے تباہ اور ہلاک ہوئے تو جھٹ ان کی پرستش شروع کردی.پہاڑ گرے اور کہیں آتش خیز پہاڑوں کے شعلے دیکھے.جھٹ ان کی پرستش کرنے لگے.چونکہ ہندوستان میں دھوپ پڑتی ہے اور اس سے آرام کے لئے سایہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس دھوپ سے بچانے اور آرام دینے میں بڑ کا درخت بہت ہی مفید ہے اس لئے اس کی پرستش اور پرورش کی طرف خاص توجہ انہوں نے کی.غرض ہندوستان کی مشرک قوموں کے معبودوں کی حقیقت خوف اور امید کے اندر پوشیدہ ہے اور شرک پیدا بھی اسی طرح ہوتا ہے اور انہوں نے جس چیز کو مفید سمجھا یا اسے اپنے لئے مضر پایا جھٹ اس کو دیوتا اور معبود بنالیا.تربیت کا پانچواں مرحلہ: میںنے ان امور پر غور کیا اور اپنے آپ کو محتاج پایا اور دیکھا کہ مضر اشیاء کی تکلیف سے بچنے کی ضرورت ہے اور مفید سے فائدہ اٹھانے کی حاجت مگر یہ چیزیں بجائے خود کچھ ہستی نہیں رکھتی ہیں.حقیقی سکھ اور دکھ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے نیچے ہے اور وہی تمام طاقتوں کا مالک ہے اس سے میرے دل میں ایک اور جوش پیدا ہوا اور اس لا الٰہ الا اللّٰہ کے وظیفہ نے ایک اور سیڑھی عطا کی جو دعا کی سیڑھی ہے اور میں بڑے یقین کے ساتھ اس نکتہ پر پہنچ گیا کہ ایک ہی ہے جو سب کچھ کرنے والا ہے پھر کیوں اسی کے سامنے اپنے مطالب کو پیش نہ کروں.بڑے زور کے ساتھ یہ تحریک میرے دل میں آئی کہ اسی سے مانگنا چاہئے جس چیز کی حاجت ہو.اس کے بعد ایک اور کتاب نے مجھے بہت مدد دی اور اگر میں اس کا نام نہ لوں گا تو یہ بڑی بھاری ناشکری ہوگی.اس کا نام تقویۃ الایمان کا حصہ اول ہے.پھر تیسری کتاب رفاہ المسلمین نے میری ایمانی کیفیت کی آبپاشی کی اور لاالٰہ الا اللّٰہ پر میرا ایمان بہت ہی قوی ہوگیا.یہ فضل الٰہی تھا.الحمدللّٰہ علٰی ذٰلک.جب دعا کے لئے میرے دل میں جوش پیدا ہوا تو میں نے دیکھا کہ دعا مانگتے مانگتے اس میں توجہ اور عقد ہمت پیدا ہونے لگا اور اسی حالت میں مجھے ایک مطلب پیش آیا.میں نے استاد سے عرض کیا کہ اس
کے حل کے لئے کوئی تدبیر بتائو انہوں نے کہا کہ اس کا عمل مجھے یاد نہیں یہ سن کر مجھے بہت بڑا رنج ہوا.دعا کا تجربہ: اور رنج کے ساتھ ہی یہ جوش بڑھا اور میرے دل میں آیا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی مشکل امر نہیں اور تمام مشکلات کی کلید تو دعا ہے آئو دعا کے ساتھ عقد ہمت اور استقلال سے کام لیں.اس تحریک کے ساتھ میں اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھ کر اسے پکارنے پر آمادہ ہوا اور عقد ہمت کے ساتھ میں نے توجہ شروع کی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عشاء کے بعد ہی میرا وہ مطلب استاد کے سامنے حاصل ہوگیا.یہ دیکھ کر میرے استاد کے دل میں آیا کہ اسے کوئی عمل آتا ہے.ورنہ یہ سخت مشکل مطلب تھا اور یہ حل نہیں ہوسکتا تھا.اس کرشمہ قدرت کو دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ لا الٰہ الا اللّٰہ ہی سچ ہے اور دعا اور عقد ہمت توجہ مشکلات کے لئے مشکل کشا کلید ہے.تربیت کا چھٹا مرحلہ: یہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ پر ایمان بڑھ گیا اور دل میں ایک اور تحریک اور جوش اٹھا کہ ایسے قادر اور دعائوں کے سننے والے خدا کو راضی کرنا چاہیے اور پھر اسی غرض کے لئے دعائوں میں بھی اور جوش پیدا ہوا اور سفر کا مجھے اتفاق ہوا.میں سفر میں بھی بڑی بڑی دعائیں کرتا اور جب کسی گائوں کو دیکھتا تو اسے دیکھتے ہی یہ دعا پڑھتا.کسی گائوں یا شہر میں داخل ہونے کی دعا: اللّٰھم ربّ السّمٰوات السّبع وما اظللن و ربّ الارضین السبع وما اقللن و ربّ الشیاطین وما اضللن وربّ الریاح وما ذرین انانسالک خیر ھٰذہ القریۃ وخیر اھلہا وخیر ما فیہا واعوذبک من شرھٰذا القریۃ وشر اھلہا وشرما فیہا(المستدرک کتاب الجھاد).اللّٰھم ارزقنا حیا ھا واعذنا من وباھا اللّٰھم حببنا الی اھلہا وحبب صالحی اصلھا الینا.(السلسۃ الضعیفۃ حدیث نمبر۶۰۹۴۰) ترجمہ:.اے سات آسمانوں کے ربّ اور ہر ایک چیز کہ جس پروہ سایہ کرتے ہیں اور ساتوں زمینوں کے ربّ اور اس چیز کے جس کو وہ اٹھاتی ہیں اور ربّ شیطان کے اور ان کے جن کو وہ بہکاتے ہیں اور ربّ ہوائوں کے اور اس چیز کے جس کو وہ بکھیرتے ہیں بے شک ہم مانگتے ہیں تجھ سے بھلائی
اس بستی کی اور اس کے رہنے والوں کی اور ہم تیری پناہ چاہتے ہیں اس کی اور اس کے رہنے والوں کی بدی سے اور اس چیز کی بدی سے جو اس میں ہے.اے اللہ عطاء کر ہمیں یہاں کی آرام والی زندگی اور بچالے ہمیں یہاں کی وباء سے.اے اللہ محبوب بنادے ہمیں ان لوگوں میں اور ہمیں محبت دے اس بستی کے نیک لوگوں کی.اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے آسمانوں اور زمینوں کے ربّ تو شیاطین اور ہوائوں کا بھی ربّ ہے میں اس شہر میں جانا چاہتا ہوں.اس کی چیزوں سے متمتع کر اور اس کے شر سے محفوظ رکھ یہاں کی حیات طیبہ سے متمتع کر اور وبائوں سے بچا.میں اس شہر والوں کی نظر میں محبوب ہو جائوں مگر میں کسی کو اپنا محبوب نہ بنائوں مگر صرف اسی کو جس سے تو راضی ہو.یہ ایک احسان ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جس نے یہ دعا سکھائی.میں اس دعا کو ان کی صداقت کا بہت بڑا ثبوت یقین کرتا ہوں یہ ایک وجدانی ثبوت ہے.میں نے اس دعا سے عظیم الشان فائدہ اٹھایا.یمن میں، حجاز میں، ہندوستان میں، میں دیکھتا ہوں کہ میرے بچپن کے دوست اب تک مجھے ویسے ہی پیارے ہیں اور لوگ علی العموم مجھ سے محبت کرتے ہیں.مجھے ان دعائوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی یاد آئے.جنہوں نے دعا کی تھی.(القصص :۲۵) یعنی اے میرے ربّ جو کچھ تو مجھ پر نازل کرے میں اس کی احتیاج رکھتا ہوں.جب میں یہاں تک پہنچا تو اور بھی ترقی کی یہ تو ایک لمبی کہانی ہے اس لئے میں اس کا بہت حصہ قطع کرتا ہوں.تربیت کا ساتواں مرحلہ: اسی سلسلہ حالات میں میرے دل میں ایک منصوبہ پیدا ہوا اور وہ یہ کہ جب بعض دوستوں سے مجھے سخت محبت تھی میں انہیں راضی کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو بعض بجائے راضی ہونے کے الٹے ناراض ہوجاتے ہیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے ایسے ہی ایک دوست آئے جن سے مجھے بڑی محبت تھی.وہ چائے پینے کے عادی تھے.میں نے بڑی محبت سے ان کے لئے چائے تیار کرائی اور ان سے نہایت خوشی کے ساتھ ذکر کیا کہ میں نے آپ کے لئے چائے پکوائی ہے یہ سن کر وہ بہت ناراض ہوئے اور یہ کہہ کر چل
دئیے کہ چائے تو ہم چوہڑے کو بھی پلا دیتے ہیں یہ مجھ پربڑا احسان جتاتا ہے.اس سے پیشتر کہ چائے تیار ہوتی وہ چل دئیے.اس سے مجھے عظیم الشان فائدہ ہوا اور مجھ پر عجیب نکتہ کھلا کہ جب ہم انسان ہو کے دوسرے انسان کی رضامندی کی راہ معلوم نہیں کرسکتے کیونکہ اس دوست کے لئے کچھ خرچ بھی ہوا اور وہ ناراض بھی ہوئے تو پھر انسان کے پیدا کرنے والے کی رضامندی کی راہ اپنے خیال اور تجویز سے کیوںکر معلوم کرسکتے ہیں؟ وہ جو علٰی کل شیئٍ محیط ہے اس کی رضامندی کی راہیں بدوں اس کے علم دینے کے کیوں کر معلوم ہوں جبکہ ہم محاط ہیں.میرا وہ دوست اب تک جیتا ہے مگر سیدھا نہیں ہوا.تاہم میں اس کی عزت کرتا ہوں کہ اس نے مجھے عجیب سبق دیا اور جب کبھی وہ مجھے ملتا ہے تو میں اسے کہا کرتا ہوں کہ استاد تو راضی ہے.اس لئے کہ مجھے اس کے ذریعہ سے ایک علم پیدا ہوا.مجھے اس عجیب نکتہ نے نہایت مشکلات میں ڈال دیا کیوںکہ میں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا تھا اور میں نے دیکھا کہ میں ایک اپنے جیسے انسان کو بھی راضی نہ کرسکا.تب میں نے دعا میں اور ترقی کی کہ اے مولیٰ میں تجھے راضی کرنا چاہتا ہوں اور مجھے اس کا علم نہیں کہ کن راہوں سے تجھے راضی کرسکتا ہوں.اس لئے تو آپ مجھے وہ راہ بتا دے.پس میں رات دن اسی فکر میں رہتا.تربیت کا آٹھواں مرحلہ : مگر ساتھ ہی خیال آیا کہ وہ تو ربّ العالمین ہے مجھے اس کے راضی کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اسی سوال کے پیدا ہونے پر اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا کہ دم بدم حالت تبدیل ہورہی ہے اور آج جو تیری ضرورتیں ہیں کل وہ تجھ سے الگ ہوں گی.تیرے یاروآشنا تجھ سے جدا ہوں گے اس لئے پھر طبیعت میں یہ جوش پیدا ہوا کہ اے میرے مولیٰ مجھے ایسے سامان دے کہ کبھی جدا نہ ہو.یہ سمجھ رکھو کہ یہ بات بڑی مضبوطی سے میرے دل میں پیدا ہوئی کہ آج جس چیز کی مجھے حاجت ہے.ایک برس کے بعد شاید نہ رہے.بچوں کو دیکھتے ہیں کہ ابھی بڑے جوش سے مٹھائی مانگتے تھے اور ابھی کوئی کھیل مانگتے ہیں.پھر اس پر بھی بس نہیں خواہشوں اور حاجتوں کا دائرہ دم بدم وسیع ہوتا جاتا ہے.ابھی عید آئی ہے نئے کپڑے چاہئیں.غرض انسان کی حاجتیں جدیدپیش آتی رہتی ہیں اور وہ تھوڑی دیر کے لئے کافی نہیں ہوسکتی
ہیں بڑی حاجتوں کو پورا کرنے والی ماں ہے اور بچہ اس کی گود کو بڑی آرام کی چیز سمجھتا ہے مگر جب یہ بچپن کی حالت جوانی سے بدل جاتی ہے تو اس وقت وہ ماں کی بغل میں نہیں سو سکتا بلکہ اس کی سکینت اور آرام کے لئے کسی اور کی حاجت ہے.غرض جب غور کرکے دیکھا تو انسان کو حوائج کا محتاج پایا.پھر ضرورتوں تک ہی سلسلہ محدود نہیں رہتا بلکہ ایک اور مشکل آتی ہے اور وہ یہ کہ بعض اوقات بڑی خواہشوں اور آرزئوں کے بعد بیٹا پیدا ہوتا ہے مگر مرجاتا ہے اور پھر انسان نہایت حیران اور رنجیدہ خاطر ہوتا ہے.میرے نو بچے مرگئے اور ایک بیوی بچوں کے ایسے صدمے سے قریباً نیم پاگل ہوگئی تھی اس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں مریں.ان مصائب اور مشکلات نے بتایاکہ اللہ تعالیٰ ہی محبت کے قابل ہے اور فی الحقیقت لا الٰہ الا اللّٰہ کا مصداق اللہ ہی اس قابل ہے کہ اسے اپنا یار و آشنا یقین کیا جاوے اس سے پھر اس کی رضا کی خواہش میں جوش پیدا ہو.تربیت کا نواں مرحلہ: تم میں سب نہ سہی اکثر جانتے ہیں کہ میں کتابوں کا بہتشائق ہوں اور بہت پڑھتا رہتا ہوں.ایک دفعہ میں نے ایک کتاب میں دیکھا کہ انسان فلاں مقام و موقع پر پہنچے تو وہاں کوئی ایک دعا مانگے تو وہ قبول ہوجاتی ہے.میں نے سوچا کہ ہر آن نئی حاجتیں پیدا ہوتی ہیں.ایک دعا مانگ کر کیا ہوگا؟ ممکن ہے تھوڑی دیر کے بعد وہ حاجت ہی نہ رہے کیونکہ ساری حاجتیں تو آنی ہوتی ہیں اور وقتی حالات کے ماتحت ہوتی ہیں سب سے بڑی نعمت وصال محبوب ہے لیکن اگر عقل جاتی رہے یا شکل بھونڈی ہوجاوے تو پھر وہ نعمت دکھ سے بدل جاوے گی.پس میں نے اپنے آپ کو عجیب مشکلات میں پایا.دل چاہتا تھا کہ اس دعا کو جو اس مقام پر قبول ہونے والی ہے ضائع نہ کروں اور دوسری طرف یہ سوچتا تھا کہ ہر وقت نئی حالت میں ہوں اور حاجتیں ترقی کرتی ہیں.پھر دعا ہی کے ذریعہ اس مشکل کو حل کیا اور خدا تعالیٰ سے ہی چاہا کہ ایسی دعا تعلیم کر جو میری ساری حاجتوں پر حاوی ہو.پس میرے دل میں یہ جامع دعا ڈالی گئی کہ: مضطر ہوکر جو کچھ حضور سے مانگا کروں وہ قبول کرلیا کرو.قرآن مجید سے تعلق: اس کا نتیجہ یہ دیکھا کہ سب دعائیں اسی میں آگئیں اور جب میں نے مضطر ہوکر اپنے ربّ سے کچھ مانگا وہ مجھے ملا.ادھر میں نے
قرآن کریم میں قبولیت دعا کے اسرار میں اضطرار کو پڑھا.جس سے قرآن کریم کی محبت میں ترقی ہوئی.یہ پہلا وقت تھا کہ قرآن کریم سے اس طرح پر تعلق ہوا.اس وقت مجھے سمجھ آگیا کہ قرآن کریم ہی تمام الٰہی رضامندیوں کی راہوں کا مجموعہ ہے.چنانچہ خود قرآن مجید فرماتا ہے (العنکبوت :۵۲) (اکیسویں سپارہ کے ابتداء میں) جس کا خلاصہ یہی ہے کہ کیا قرآن مجید کافی نہیں ہے.اس نے معاً اور اثر پیدا کیا اور میری ساری توجہ قرآن مجید کی طرف پھرگئی.لکھنؤ میں شیعوں پر اتمامِ حجّت: میںلکھنؤ میں پڑھتا تھا.ایک مرتبہ بعض لوگوں نے مجھ سے سوال کیا کہ حضرت عمرؓ نے حسبنا کتاب اللّٰہ (صحیح بخاری کتاب المرضیٰ قول المریض قوموا عنی)کیوں کہا؟ میں نے انہیں کہا کہ انہوں نے ٹھیک کہا کیونکہ قرآن مجید خود یہی کہتا ہے.تب میں نے وہی آیت (العنکبوت:۵۲) پڑھی اور وہ خاموش ہوگئے.اس واقعہ نے مجھے اور بھی لطف دیا اور میری سمجھ میں یہ بات آگئی کہ مخالفین پر خواہ وہ اندرونی ہوں یا بیرونی قرآن مجید ہی کے ذریعہ کامیابی حاصل ہوسکتی ہے.قرآن کریم کو ایک اور غرض سے پڑھا: اس خیال کے ساتھ قرآن مجید سے اور بھی تعلق بڑھا.پہلے اس کو خدا تعالیٰ کی رضا کی راہوں کے معلوم کرنے کے لئے پڑھا تھا.تو اب مخالفین پر اتمام حجت کی خاطر پڑھنے لگا اور اس طرز سے جب میں نے اس کو پڑھا اور مختلف مذاہب پر نظر کی تو قرآن مجید کے ذریعہ ہی ان سب پر کامیاب ہونے کے لئے گُر مجھے سمجھائے گئے یا سمجھ میں آگئے اور پھر میں نے اپنی زندگی میں ان اصولوں کو آزمایا اور بالکل صحیح پایا.یہ ایک لمبا سلسلہ ہے اور ذاتی باتیں ہیں کہ کس کس طرح پر میں نے قرآن مجیدکے ذریعہ مخالفین کو نیچا دکھایا.بہرحال تم اتنا سمجھ لو کہ اس راہ سے بھی کم از کم مجھے قرآن مجید کے ساتھ محبت بڑھ گئی.اس محبت کے بڑھتے ہی میں نے اپنی دعائوں کے نتیجہ پر نظر ثانی کی کہ قرآن کریم کے خلاف تو نہیں ہیں.
امیرالمؤمنین کی دعا کا ابتدا: میری دعائوں کا ابتداء ہوتا ہے.اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِاَنَّکَ اَنْتَ اللّٰہُ لَا اِلٰـہُ اِلَّا اَنْتَ الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ.(المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کتاب الدعاء ، والتکبیر،والتھلیل) اس دعا میں تو بہت لفظ ہیں مگر میں اس وقت کے حسب حال اور تمہارے ساتھ خطاب کے موافق جس لفظ سے دل بستگی ہے اس کی تشریح کروں گا اور وہ لفظ صمد ہے.اللہ نے ہم کو محتاج پیدا کیا ہے.انتم الفقراء الی اللّٰہ یہ صمد کے معنی ہیں.اس نام نے عجیب نکتہ معرفت میرے دل میں پیدا کیا کہ تم فقراء ہو.جب یہ بات دل میں آئی تو میں نے دیکھا کہ اللّٰہ جلّ شَانہٗ کے جو اسماء صفات ہیں وہ مخلوق کے لئے بھی رکھے گئے ہیں مثلاً وہ سمیع بصیر ہے.صفات الٰہیہ پر غور: تو مخلوق پر بھی یہ لفظ بولے گئے اس کا نام رؤف الرحیم ہے تو اس کے رسول کو بھی رؤف الرحیم کہہ دیا.غرض صفات الٰہیہ پر غور کرتے کرتے عجیب تماشا گاہ مجھے نظر آیا اور میں نے دیکھا کہ کس طرح پر اللہ تعالیٰ کی صفات کی جلوہ گری مخلوق پر ہوتی ہے.اس پر غور کرتے کرتے میں اس نکتہ پر پہنچا کہ جب میں صمدیت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا محتاج ہوں اور اس کے صفات کا پر تو انسان پر بھی پڑتا ہے.تو اسی صمدیت کے مظہر ہونے کی وجہ سے بعض میرے بھی محتاج ہیں اور بعض کا میں بھی محتاج ہوں اس فکر نے شفقت علیٰ خلق اللہ کی تعلیم: مجھے شفقت علیٰ خلق اللہ کی تعلیم دی اور یہ تعلیم گویا لفظ صمد کے ذریعہ ملی کیونکہ میں نے سمجھ لیا کہ جب صمد کے مظہر میں تو کریم رحیم کے بھی مظہر ہیں.پھر ایک طرف اپنی محتاجی کو دیکھا کہ ایک چوہڑی تک کا محتاج ہوں اور وہ مجھ سے روپیہ لینے کی محتاج ہے.پھر معاً دھوبی کو دیکھا وہ قیمت کا محتاج ہے.میں کپڑے کی صفائی کا.اس طرح پر ایک وسیع سلسلہ میرے سامنے آیا کہ مخلوق میں سے ایک دوسرے کا محتاج ہے.اس لئے میں نے عامۃ الناس کی ہمدردی کے لئے علم طب کو مناسب حال سمجھ کر سیکھا.اس سلسلہ احتیاج کو میں نے پھر قرآن شریف میں دیکھا تو یہ آیت نظر آئی. (الانعام :۱۲۹)
.غرض ایک نیا شوق اور نیا خیال پیدا ہوا.یہ شفقت علیٰ خلق اللہ کا خیال تھا اور اس کے ساتھ یہ سمجھ میں آیا کہ اس آیت کے لحاظ سے انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے.اجتماع کی خواہش: اور یہ حاجتیں تب ہی پوری ہوسکتی ہیں کہ اجتماع ہو.پس صمدیت نے مجھے طب اور اجتماع کی طرف متوجہ کیا اور میں دیکھتا تھا کہ شروع سے یہ سلسلہ جاری ہے.اولاً ماں کی گود میں رہے پھر حاجتیں اور پیدا ہوئیں تو اس گود کو چھوڑ دیا انہوں نے کئی بار کہا کہ نور! تو اب گود میں نہیں آتا.میں کہہ دیتا کہ اب اس کا وقت نہیں.پھر بھاوج کی گود میں رہ کر ایک فیضان اٹھایا.پھر اسے چھوڑا تعلیم کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ایک میاں جی سے قاعدہ پڑھتے ہیں.پھر دوسرے سے کچھ اور تیسرے سے اور‘ غرض دیکھا کہ اجتماع کرتے آئے اور وقتی ضرورتوں کے موافق چھوڑتے آئے.یہ عجیب تماشا تھا.پھر جوان ہوئے اور اس حالت کے ماتحت خیال آیا کہ کوئی ساتھ ہو.شادی کی ضرورت اور عمر: چنانچہ تیس سال سے متجاوز ہو کر میں نے شادی کی اور پھر اس نکاح سے میں نے بہت ہی فائدہ اٹھایا اور قرآن مجید کی اس اصلکوپایا.(الرّوم :۲۲).اس تعلق نے پھر ایک اور نیا اجتماع شروع کیا وہ اولاد سے تمتع تھا مگر میں نے اس سے پہلے دیکھا کہ فی الواقعہ سکون اور غمگساری میں نے اسی رشتہ میں.....پائی تو مجھے یقین ہوا کہ خدا تعالیٰ کی کتاب نے اس رشتہ کی غرض و غایت جو بیان کی ہے وہ بہت ہی درست ہے اور یہ خالق فطرت کا کلام ہے.غرض ان تعلقات میں ایک لمبا سلسلہ چلتا ہے.اولاد ہوئی اور اولاد ہو کر مری تو مشکلات کا ایک نیا سلسلہ نظر آیا اور بعض وقت تو عجیب عجیب کیفیت ہوئی.غم میں تسلی کا نور: بلکہ ایک مرتبہ مجھے یاد ہے کہ میں ایک نماز میں امام تھا اور قلب پر بعض دکھوں کا اثر تھا.اس لئے شرح صدر سے الحمدللّٰہ کہنے میں قلب نے مضائقہ کیا کہ جب یہ حالت ہے تو الحمد کیسی؟ مگر میں قربان جائوں قرآن کریم پر اور اس کے لانے والے پر کہ بجلی کی طرح میرے دل میں یہ بات آئی کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ ہم مصائب
پر انا للّٰہ کہنے والوں کو انعام دیتے ہیں اس لئے الحمد ہی کا موقع ہے جب سب کچھ خدا ہی کا ہے اور تجھے اس غم و ہم کے بدلہ اسے بہتر دینے کا وعدہ کرتا ہے تو الحمد کا خوب موقع ہے.اس طرف سے ایک پھوٹی کوڑی بھی جاوے تو ادھر سے خزانہ ملتا ہے.ہر بلاکین قوم را حق دادہ است زیر آن گنجِ کرم بنہادہ است اخلاقی تربیت اور ایک قرآنی رکوع کاحل: اس سے مجھے اتنا ہی فائدہ نہیں ہوا کہ میں نے زور سے الحمد پڑھی بلکہ اخلاقی فائدہ یہ ہوا کہ جب سب کے سب محتاج ہیں اور ایک دوسرے سے وابستہ ہیں یہاں تک کہ چوہڑی نہ ہو یا حجام یا دھوبی نہ ہو تو سخت مشکلات پیش آئیں.میرے گھر میں یہ جھگڑا ہی ہوا کرتا ہے کہ چوہڑی کو دو دفعہ آنا چاہئے یا تین دفعہ.بہرحال میں نے ان ضرورتوں کے سلسلہ پر غور کیا تو سورۃ حجرات کا یہ رکوع حل ہوگیا.(الحجرات :۱۲) کیا معنی جب تم ایک دوسرے کے محتاج ہو تو پھر ایک دوسرے کو ہنسی ٹھٹھا کیوں کرتے ہو.کوئی عورت کسی عورت سے اور کوئی مرد کسی مرد سے ٹھٹھا نہ کرے ممکن ہے کہ وہ جسے تم نے ہنسی کی تم سے بہتر ہوجائے.یہ سچ ہے کہ یہ سب چیزیں ایک پہلو سے مفید ہیں اور ایک پہلو سے مضر بھی یا طیب بھی اور خبیث بھی.برسات میں ایک کیڑا پیدا ہوتا ہے اسے عربی میں جعل کہتے ہیں اس کیڑے کا کام یہ ہے کہ وہ گندگی کی گولیاں بنایا کرتا ہے.اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ آٹھ پہر کے اندر اسے مٹی کردیتا ہے مگر مشک یا گلاب سے مرجاتا ہے.تربیت کا دسواں مرحلہ: اس سے مجھے خیال پیدا ہوا کہ دنیا میں مختلف اشیاء ہیں اور ہر ایک اپنی ذات میں خوبیاں رکھتی ہے چوہڑی نہ ہو تو کیاخرابیاں پیدا ہوں اسی سے قیاس کرلو مگر انسان کو چاہئے کہ اس کی خوبیوں کا متوالا رہے اور نقصوں کی پروا نہ کرے.پس صمد کے لفظ نے تو یہ فائدہ دیا کہ جب ہم صمدیت کے مظہر ہیں تو ایک دوسرے سے فائدہ
اٹھائیں اور ادھر طب نے یہ فائدہ دیا کہ کوئی چیز نہ دیکھی جو مفید نہ ہو.معمولی چیزیں جن کو انسان نہایت بے پروائی سے دیکھتا ہے ایسی مفید ہوتی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے.ایر نے یعنی جنگلی گوبر کی راکھ کو میں نے بعض امراض میں ایسا مفیددیکھا کہ ہزاروں روپیہ بھی اس کے بدلہ میں خرچ کریں تو کم ہے.غرض اس طرح پر اجتماع کا شوق بڑھتا گیا اور طب نے اس میں مدد دی کیونکہ طب تب چلے کہ وضیع سے لے کر شریف اور امیر سے لے کر غریب تک ہمارے ہاں جمع ہوں.پھر نباتات اور حیوانات تک سے پیار کرو جب اس لمبے سلسلے پر میں نے غور کی تو میرے اندر ایک عجیب اضطراب پیدا ہوا اور میں نے اپنی وسیع ذمہ داری کو سوچا.یکایک میری حالت متغیر ہوگئی اور فکر نے میرے دل پر غلبہ کیا اور میں نے مخلوقات کے ایک وسیع دائرہ میں اپنے آپ کو پایا اور میں گھبرا گیا کہ میرے فرائض بہت بڑے ہیںاور میں ایک ناتواں ہستی.فیضان الٰہی نے کس طرح دعا کی تحریک کی: انہیں خیالات میں حضرت اقدسؑ کے زمانہ میں، میںایک دن التحیات کے اندردعا کررہا تھا کہ یکایک میری توجہ مثنوی کی طوطی کی حکایت کی طرف پھر گئی اور وہ یہ ہے کہ ایک امیر تاجر نے ہندوستان کے سفر کا ارادہ کیا اور اپنے متعلقین اور دوستوں سے کہا تم اپنی اپنی فرمائشیں مجھے بتادو.چنانچہ انہوں نے بتائیں.اس کا ایک طوطا بھی تھا.اس سے بھی پوچھا اس نے کہا اور کوئی فرمائش نہیں مگر ایک بڑے درخت پر طوطوں کا ایک جھنڈ ملے گا وہ میرے بھائی ہیں تم ان کو میرا سلام پہنچا دینا.غرض جب وہ تاجر اس مقام پر آیا تو اس نے طوطوں کے ایک جھنڈ کو دیکھ کر اپنے طوطے کا سلام دیا تو ایک طوطا پھڑپھڑاتا ہوا نیچے گر پڑا.تاجر کو یہ دیکھ کر صدمہ تو ہوا مگر وہ مجبور تھا اسے کیا خبر تھی کہ اس کا انجام یہ ہوگا.غرض جب سوداگر واپس گیا تو اس نے جہاں اپنے دوستوں اور متعلقین کو ان کی فرمائشیں دیں.وہاں اس نے اپنے طوطے کو وہ قصہ اس کے سلام کا بھی سنایا کہ میں نے سلام کہا اس کا نتیجہ یہ ہوا جونہی اس طوطے نے یہ واقعہ سنا وہ پھڑپھڑایا اور تڑپ کر گر پڑا.تاجر کو یہ دیکھ کر اور بھی صدمہ ہوا کہ اس کی بھی جان گئی.اس نے بہرحال اسے پنجرہ سے نکال کر پھینک دیا تب وہ طوطا فوراً اڑ کر درخت پر جا بیٹھا اور اس نے تاجر کو مخاطب کرکے کہا کہ میں نے سلام
دے کر اپنے دوستوں سے اس قفس سے رہائی کی تدبیر پوچھی تھی اور انہوں نے جواب دیا ہے کہ جب تک موت اپنے پر وارد نہ ہو نجات نہیں ملتی.پس یہ میری رہائی اور اس کا علاج اور گُر تھا.سنو! یہ نکتہ میں نے تمہیں سمجھا دیا ہے کہ نفس کے پنجہ سے نجات چاہتے ہو تو موت اختیار کرو.یہ طوطی کا قصہ ہنسی نہیں مثنوی میں موجود ہے جس کو اہل اللہ پڑھتے ہیں.غرض التحیات میں جب مجھے اس قصہ کی طرف توجہ ہوئی تو میں نے تمام انبیاء اور رسل و اولیاء ملائکہ کو مخاطب کرکے کہا اے طوطیان قدس تم پر سلام مجھے بھی نجات کی کوئی راہ بتا دو.اس وقت مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ میں اس کو ضبط نہ کرسکا.طوطی کا استعارہ احادیث سے ثابت ہے کہ شہدا سبز پرندوں کے جوف میں عرش کے نیچے لٹکتے ہیں.امامت اور اخوت کی روح کیسے پیدا ہوئی: اس پر ایک زبردست تحریک میرے دل میں پیدا ہوئی جس کا نتیجہ وہ کارڈ تھے جو میں نے چھپوا کر بعض دوستوں کو بھیجے اور بھیجنے سے پہلے میں نے وہ کارڈ ان کو (حضرت صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب سلمہ ربہ‘ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ جو پاس ہی کرسی پر بیٹھے تھے) دیا کہ حضرت صاحب کو دکھا لو یہ اس تحریک میں شریک تھے اور انہوں نے دکھایا اور حضرت نے اسے بہت ہی پسند فرمایا.میرا ارادہ یہ تھا کہ جب چودہ سو (۱۴۰۰)آدمیوں کی ایک جماعت ہوجاوے گی تو میں حضرت کے حضور پیش کروں گا کہ ہم پر وہ فیضان نازل ہو جو اجتماع پر موقوف ہے.یہ ایک تحریک تھی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی.میں اس کے نتائج سے محض بے خبر تھا مگر مولیٰ کریم میرے دل کی حالت کو دیکھتا تھا.ابھی وہ موقع مجھے ملا نہیں تھا کہ خدا تعالیٰ نے یہ صورت پیدا کردی جو تم دیکھتے ہو.یہ خدا تعالیٰ کے وہ عجائبات ہیں وہ جن کو انسان نہیں سمجھ سکتا.غرض میں چاہتا تھا کہ چودہ سو احباب ہوں یہاںکئی چودہ سو مل گئے.بغیر کسی کوشش اور محنت کے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے، دیتا ہے.حضرت مولوی نور الدین بحیثیت امیرالمومنین: اب میں تم میں اس حیثیت سے کھڑا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے
تم ہی میں سے تمہارا امیرا بنادیا.اب معاً سوال ہوتا ہے کہ تم تو ملہم نہیں کسی امر کے مدعی نہیں تم ہمیں سنائو گے تو کیا سنائو گے؟ یہ سوال علی العموم پیدا ہوسکتے ہیں.ازالہ وہم: ہم کس طرح سنیں وہ تو مسیح تھے مہدی تھے، کرشن تھے، امام تھے، خدا تعالیٰ کا کلام ان پر اترتا تھا، وہ تو چلے گئے.یہ توکل ہمارے جیسا ایک مرید تھاشیخ کس طرح بن گیا.اگر اس کی سنیں تو کیوں سنیں اور وہ ہمیں سنائے گا کیا؟ کیا مسیح و مہدی ہمارے لئے کیا کم چھوڑ گئے تھے.اسیّ کے قریب تو کتابیں ہی لکھ گئے ہیں کیا وہ ہمارے لئے کافی نہیں؟ یہ سوال بڑے ناعاقبت اندیش لوگوں کا ہے جو خدا تعالیٰ کی سنت کا علم نہیں رکھتے اس لئے انہیں سمجھ نہیں.یادرکھو یہ سلسلہ میری پہلی تربیت کا نتیجہ ہوگیا اگر اس قسم کے سوالات کو کوئی وقعت دی جاوے تو پھر تمام انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ ہی باطل ہوجاوے.مثلاً آدم علیہ السلام کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (البقرۃ :۳۲).اب آدم کے بیٹے کہتے کہ ابراہیم اور نوح کون ہیں ہم کیوں ان کی سنیں اور مانیں ابا جان کو اللہ تعالیٰ نے سب کچھ سنا دیا وہ تو ایسے تھے کہ (الحجر :۳۱) پھر یہ کون ہیں؟ یہ تو واقعہ گزشتہ ہے دم نقد سناتا ہوں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جامع جمیع کمالات جن کی نسبت میرا اعقاد ہے کہ وہ خاتم العلما، خاتم النبیین، خاتم الرسل، خاتم الحکام، خاتم الاولیاء بلکہ خاتم انسانیت بھی وہی ہیں.غرض سب ان کے نیچے ہیں یہ مضمون بہت بڑا ہے اور اس وقت میں اس پر تفصیل کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا.خلاصہ یہ کہ وہ سچ اور برحق کل کمالات انسانیہ کا جامع ہے.اب اگر آپ کے بعد کوئی ابوبکرؓ کی خلافت کو نہیں مانتا تو اس کے متعلق خدائی فیصلہ یہ ہے (النور :۵۶) خلافت کے منکر کا نام خدا تعالیٰ کی کتاب میں فاسق رکھا ہے اور ادھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو میرے خلاف ہے اسے قتل کرو.خلافت کی ضرورت: خلافت کی ضرورت اصل بات یہ ہے کہ نئے نئے دشمن پیدا ہوتے رہتے ہیں.پس ان کے مقابلہ کے لئے نئے خلیفوں کی بھی ضرورت ہوتی رہتی ہے.اسی بنا پر قرآن مجید نے فرمایا:
(الانبیاء :۳،۴).اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ذکر آتا ہے اور اس وقت لوگوں کی کیا حالت ہوتی ہے.پس ایسے وقت میں (اٰل عمران :۱۰۴)خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اعتراضات اور سوالات کی راہ کو اختیار کرنا نہیں چاہئے کیونکہ وہ خطرناک راہ ہے. خدا تعالیٰ کا فیضان جماعت پر نازل ہوتا ہے میں نے مدرسہ میں رسہ کی ایک کھیل دیکھی ہے کچھ لڑکے اس کے ایک طرف ہوتے ہیں اور کچھ دوسری طرف.پس جس طرف کے متفق ہوکر پورا زور لگاتے ہیں وہ دوسروں سے جیت لے جاتے ہیں اور جس طرف کوئی کمزوری ظاہر کرے اور پورے اتفاق سے کام نہ کریں تو وہ ہار جاتے ہیں.اس کھیل کو دیکھ کر مجھے قرآن مجید کی ایک آیت حل ہوگئی اور وہ یہ ہے .خدا تعالیٰ مسلمان کو کہتا ہے کہ تم سب مل کر اس رسہ کو کھینچو دشمن دوسری طرف سے اس کو کھینچ رہا ہے اب اگر تم سست ہوکر بیٹھ رہو اور یہ سمجھ لو کہ اس سے پہلے ہم فتح پاچکے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دشمن رسہ لے جاوے گا مگر تم بتائو کہ کیا ہمارے اعداء سب مٹ گئے جب یہ بات نہیں ہے تو پھر اعداء کی مدافعت کی کیوں ضرورت ہے.یہ سچ ہے کہ مسیح حجتِ بالغہ عیسائیوں پر ختم کرگئے ہیں آریوں اور برہموں پر بھی حجت پوری کی مگر کیا آریہ، برہمو اور عیسائی مرگئے؟ کیا ان کی طرف سے اسلام پر بدستور حملے نہیں ہوتے؟ پھر جب ان کی طرف سے اسی طرح پر حملے ہورہے ہیں تو تم خدا سے باغی ہوکر کیوں کہتے ہو کہ ہمیں کسی کی ضرورت نہیں.میرے نزدیک اس رسہ کو اب پہلے سے زیادہ زور اور طاقت اور اتفاق سے مل کر کھینچنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ ان سپاہیوں میں سے ایک جو سب سے زیادہ طاقتور اور گویا بطور جڑھ کے تھا ہم میں سے جاتا رہا اور اس وجہ سے دشمن کا حوصلہ بڑھ گیا ہے.پس اسی صورت میں زیادہ زور لگانے کی حاجت ہے.پس یہ کہنا کہ اب قادیان میں ہوتا کیا ہے‘ کیا کوئی تصنیف کرے گا اور کیا کہے گا؟ اس قسم کے اعتراضوں سے بچنا چاہئے کیونکہ یہ اعتراض پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور
ابوبکر رضی اللہ عنہ پر پڑتا ہے اگر ابوبکرؓ کو نہیں مانتا تو پھر یوں کہو کہ محمدؐ اور علی رضی اللہ عنہ پر پڑتا ہے.جب علیؓ پر ایمان لاچکے تو اب مہدی کے کیوںمنتظر ہیں.غرض ایسے اعتراضوں سے بچنا چاہئے.ضرورت اجتماع: اس وقت ضرورت ہے اجتماع کی پھر کیا یہ اجتماع ایک ہی وقت کے لئے کافی ہوسکتا ہے یا نہیں؟ نہیں اس کی ہمیشہ ضرورت ہے دیکھولا الٰہ الا اللّٰہ کے لئے بھی پانچ وقت کی نماز کی ضرورت ہے پھر کہہ سکتے ہیں کہ صبح کو جو اکٹھے ہوئے تھے تو ظہر عصر اور مغرب اور عشاء کو اجتماع ضرورت ہے؟ پھر ہر جمعہ کو اکٹھے ہونے کی کیوں ضرورت ہے؟ پھر عیدیں کیوں جمع کرتی ہیں؟ پھر حج کیوں جمع کرتا ہے.یہ ایک نیا سوال اسی طرح پر ایک وقت کی روٹی کھالی تو پھر دوسرے وقت کی کیا ضرورت ہے؟ اسی طرح پر یہ سلسلہ سوالات کا قابل غور ہے.میں یہ اس لئے بیان کرتا ہوں تاکہ تم سمجھو کہ اجتماع کی ہر وقت ضرورت ہے یہ مت سمجھو کہ ایک ممبر جو ضرورتاً چلا گیا ہے جیسا کہ ہمارا امام چلا گیا ہے تو اس سے ہمیں کم حوصلہ …ہونا چاہئے.ایسا نہ ہو‘ ہمت ہار نی نہیں چاہئے اگر ایسا کرو گے تو رسہ کوئی اور لے جائے گا.پس ہمیں امام کے چلے جانے کے بعد بھی اسی طرح وحدت، اتفاق، اجتماع اور پرجوش روح کی ضرورت ہے.یہ اجتماع کیوں ہے؟ بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک اجتماع کی ضرورت محسوس ہوئی اب میرے سامنے ایک اجتماع ہے میں پوچھتا ہوں کہ یہ اجتماع کیوں ہے؟ تمہارے اکٹھے ہونے کی کیا غرض ہے؟ میں تو تمہارے پاس نہیں گیا تم جو یہاں آئے ہو اور روپیہ خرچ کرکے آئے ہو تم نے سوچ ہی لیا ہوگا کہ کیوں آتے ہو؟ سردی کا موسم ہے گھروں میں بیماریاں ہیں تھوڑی سی ہوا لگتی ہے کھانسی ہوجاتی ہے ایسی حالت میں جو اس سفر کو تم نے اختیار کیا ہے اس کی غرض کو تم ہی سمجھتے ہو.کیا یہ مطلب ہے کہ آئو تو مجھے بھی روپیہ دے جائو یہ بھی ایک سوال ہے.پھر میںپوچھتا ہوں کہ تمہارے کیا اغراض ہیں.تم نے جو تکلیف اٹھائی ہے کیوں؟ میں تو نہیں جانتا کہ تمہیں دال ملتی ہے یا کیا مگر گھر میں ممکن ہے کباب ملتے ہوں.یہاں سونے کے لئے کسیر اور پرالی ہے اور گھر پر پلنگ اور گرم بسترے ہیں.رات کو اگر کسی کو احتلام ہوجائے تو شاید گرم پانی ملے یا نہ ملے.میں تمہارے اغراض کو کوئی معلوم نہیں کرسکتا.میرے ایک دوست نے لکھا ہے کہا اس لئے
کثرت سے جمع ہونا چاہئے تاکہ لوگ ہنسیں نہیں میرے دل میں یہ خیال نہیں کیونکہ یہ ریا ہے سمعۃ ہے معلوم نہیں اگلے سال ہم ہوں یا نہ ہوں اس لئے میں کھول کر کہتا ہوں کہ میری غرض یہاں تک نہیں.لعنت ہے اگر میرے دل میں مخالفوں سے ذرا بھی خیال ہو.وہ کہتے ہیں کیا ہیں ہاں یہ سچ ہے کہ اجتماع ضروری ہے اور یہ ایسا ضروری ہے کہ اس کے بدوں کام نہیں چلتا.تم بھی ایک اجتماع کرتے ہو اور اس کے نتائج سے واقف ہو مگر یہ اجتماع کیوں ہوا.اس کے کیا اغراض ہیں؟ میرے اور دوست بھی یہاں ہیں.میں نہیں جانتا ان کے اغراض کیا ہیں اور وہ اس اجتماع کی کیا غرض قرار دیتے ہیں ہمارے اخبار کے ایڈیٹر ہیں میں نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے اس کی کیا وجہ سمجھی ہے؟ غرض ہر شخص اپنی نسبت خوب سمجھ سکتا ہے اور دوسروں کی بابت وہ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے اس کی کیا وجہ سمجھی ہے.میں اپنے اغراض جانتا ہوں کہ یہاں کیوں آیا؟ اس لئے میں ان کو ہی بیان کرتا ہوں؟ اول میں قادیان کیوں آیا: مختصر الفاظ میں یہ سمجھ لو کہ مجھے لا الٰہ الا اللّٰہ کی تکمیل کی خواہش لائی تھی.میں یہاں قرآن سمجھنے کے لئے آیا تھا اور یہیمیری غذا ہے.یہ غذا اگر آٹھ پہر میں استعمال نہ کروں تو میں مرجائوں.پس یہی میری خواہش اور غرض تھی اور اس کے سوا مجھے کوئی مطلب نہ تھا اور تم غور کر سکتے ہو کہ کوئی اور غرض ہو بھی نہیں سکتی.جو کسب میں جانتا ہوں وہ شہروں میں رہ کر زیادہ میرے لئے نفع مند ہوسکتا ہے اگر میری غرض اس سے بھی روپیہ کمانا ہوتا میرا لڑکا اتنا بڑا نہیں جو اپنے لئے خرچ کرسکے.میں اس کی تعلیم کے لئے خود روپیہ دیتا ہوں.وہ جو کپڑا پہننے کی خواہش کرے میرے پاس خدا کے فضل سے وقعت اور توفیق ہے کہ میں اس کے لئے مہیا کروں.پھر جب یہ حالت ہے تو میں اپنے ربّ پر بدظنی کرسکتا ہوں کہ جہاں اس نے اس قدر عرصہ تک مجھے اور میرے متعلقین کی ضرورتوں کے واسطے مجھے بہتر سے بہتر سامان دیتا ہے وہ آئندہ نہ دے گا؟ میرے جیسا انسان جس نے خدا کے فضلوں کو عجیب عجیب طور پر محسوس کیا ہو جس نے جنگلوں اور بیابانوں میں اس کی قدرت کے کرشموں کو اپنے لئے دیکھا ہو یہ وہم بھی نہیں کرسکتا اور پھر عمر کے اس حصہ میں جب کہ ستر برس سے متجاوز ہوگئی ہے اور وہ بہت ہے ا
ور باقی تھوڑی رہ گئی ہے.غرض مجھے یہاں جو چیزملی لا الٰہ الا اللّٰہ کی تکمیل اور قرآن کریم کا فہم تھا جس کو میں حاصل کرنا چاہتا تھا اور جس کے لئے میرے اندر تڑپ تھی.اس کہانی کا مقصد: یہاں تک جو کچھ میں نے تمہیں سنایا بظاہر وہ ایک کہانی ہے مگر میں نے اس نیت سے اسے بیان نہیں کیا بلکہ میری غرض اس سے یہ تھی کہ تمہیں معلوم ہو کہ اول لا الٰہ الا اللّٰہ پر پکے رہو اس کے لئے پھر دعا ایک ذریعہ ہے اور بڑا ذریعہ ہے پھر ہمت اور استقلال سے کام لو اور چہارم قرآن شریف سے محبت کرو اور اس کے سمجھنے کی کوشش کرو تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کی کیا راہیں ہیں؟ اور جب اللہ تعالیٰ راضی ہوجاوے تو سب کچھ حاصل ہوجاتا ہے اور یہی انسان کی اصل غرض ہے کہ وہ اپنے ربّ کو راضی کرے.سالک کے حالات: جب انسان ان راہوں کی تلاش اور طلب میں ہوتا ہے تو وہ سالک کہلاتا ہے.حضرت سید عبدالقادر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ سالک پر کئی زمانہ گزرتے ہیں ایک وقت آتا ہے کہ اسے حکم ہوتا ہے کہ کچھ مت مانگو اور ایک وقت آتا ہے کہ مانگو اور فلاں آدمی سے مانگو.ادھر فرشتہ اس کے دل میں ڈالتا ہے کہ اسے ذلیل کرکے نکال دو.یہ حالت ایک خاص وقت ہوتی ہے اور وہ وہ وقت آتا ہے جبکہ کثرتِ ذکر کی وجہ سے وہ اللہ کا بندہ اپنے اندر کبریائی کو محسوس کرتا ہے.اس وقت ان کی اصلاح اور ترقی مدارج کی یہ راہ ہے کہ ان کے لئے مانگنے کا حکم ہوتا ہے اور ادھر مخلوق کو حکم ہوتا ہے کہ اسے جھڑک کرنکال دو.جب ایسی حالت ہوتی ہے اس کی امید اللہ تعالیٰ پر وسیع ہوجاتی ہے اور وہ پھر اسی طرف آتا ہے پھر ایک وقت حکم ہوتا ہے کہ قرضہ مانگو اور کہیں حکم ہوتا ہے کہ مت دو.وہ کہہ دیتا ہے تم تو نکمے آدمی ہو تم کو دے کر کس سے لینا ہے.ایسی حالتیں آتی رہتیں ہیں اور یہ سب اصلاح کے مدارج ہیں پھر ایک وقت ان پر آتا ہے کہ مخلوق سے بالکل بے نیاز ہوجاتے ہیں اور کسی کی پرواہ بھی نہیں کرتے اس لئے لکھا ہے کہ صوفی اپنے حالات اور واقعات کو ظاہر نہ کرے.اپنی حالت: مگر میں بحمداللہ اس سرّ سے متجاوز ہوں اور میں اپنے پچھلے دراز تجربہ پر یقین کرکے کہہ سکتا ہوں کہ میری آمدنی میرا کھانا میرا پیناپہننا اور رہنے کے لئے مکان
کاملنااور میرے شوقوں کا پورا کرنا یہ ایک مخفی راز ہے جس کو کوئی نہیں سمجھ سکا.مجھے نہ قرض کی ضرورت نہ سوال کی حاجت نہ چور کا ڈر نہ دھوکا باز کا خوف.میں اس مخفی راز کو ہرگز ظاہر نہ کرتا کیونکہ صوفیوں نے منع کیا ہے مگر میں قرآن شریف کے حکم کو مقدم کرتا ہوں وہ حکم دیتا ہے. (الضحیٰ :۱۲).چندہ کیوں لیا جاتا ہے: یہاں قادیان میں چندے آتے ہیں مگر میں ان میں سے اپنے لئے ایک کوڑی کا بھی روادار نہیں ہوں بلکہ جن اغراض کے لئے وہ چندے آتے ہیں میں خود ان اغراض میں چندہ دینے والوں میں حصہ لیتا ہوں.یہاں ایک عمارت کی ضرورت ہے میں نے اس میں چھ سو روپیہ کا وعدہ کیا ہے ابھی مجھ سے ایک امر کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے لئے میں ایک ہزار کا وعدہ کرکے آیا ہوں اور یہ میں اسی روز سے لینے والا ہوں جس سے پہلے کام چلاتا ہوں آگے میں باہر بیٹھتا تھا اور لوگ سمجھتے تھے کہ میں طب کرتا ہوں اب تم دیکھتے ہو کہ میں باہر کم آتا ہوں بلکہ دن بھر تمہارے لئے کام کرتا ہوں میں اس کا کوئی اجر تم سے نہیں چاہتا.(الشوریٰ :۲۴).ہاں جس طرح پر خدا غنی ہے اور اس کا رسول بھی محتاج نہیں باوجود اس کے کہ وہ فرماتا ہے (محمد :۳۷) اور اس کا رسول کا اعلان دینے کے پھر بھی صدقہ اور زکوٰۃ کا حکم دیتے ہیں نہ خدا محتاج ہے نہ محمد رسول اللہ محتاج ہے مگر دونوں کہتے ہیں کہ دو.اس مانگنے سے ان کی غرض کیا ہے؟ یہ کہ تمہیں کچھ دلائیں اسی طرح پر اگر میں کچھ مانگتا ہوں تو اسی لئے کہ تمہیں کچھ اور ملے.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (البقرۃ :۲۴۶) یعنی جو شخص اللہ کے لئے اپنے مال کو الگ کرتا ہے ہم اس کے اموال کو بڑھا دیتے ہیں غور تو کرو کہ حضرت ابوبکرؓ نے اللہ تعالیٰ کے لئے چھوڑا کیا؟ اور لیا کیا؟ صدیقی شیخ کیا مزے اڑاتے ہیں.حضرت علیؓ نے چھوڑا کیا اور پھر پایا کیا؟ اب تک بھی دیکھ لو کہ ان کی اولاد کس مزے میں ہے سادات کتنے ہی فسق و فجور میں مبتلا ہوں مگر لوگ ان کی عزت کرتے ہیں اور نذریں دیتے ہیں مگر یہ چندے جو تم دیتے ہو یا میرے ہاتھ میں دیتے ہو میں انہیں اپنے لئے نہیں لیتا.
میرے ہاتھ میں آیا اور میں نے دیانت کے ساتھ اسے دوسری جگہ پہنچا دیا مگر ایک نے کل اور دو نے آج کہا کہ ہم تخصیص کرتے ہیں اور الحاح سے کہا تو میں نے یہ سمجھ کر کہ خداد لاتا ہے لیا یا میرا لباس ہے میں بنانا نہیں چاہتا بعض دوستوں نے ایسا کیا ہے کہ کوئی کپڑا انہوں نے بھیج دیا تو میں نے انکار نہیں کیا یہی کوٹ ہے جو ایک عزیز نے دیا ہے اور مجھ سے خواہش کی کہ آج ہی پہن لو یا پھل آتا ہے تو میں اس کے لینے میں مضائقہ نہیں کرتا.غرض چندوں کے متعلق بڑے بڑے عجائبات ہیں اور یہ چندے انبیاء کے ساتھ بھی رہے اولیاء کے ساتھ بھی رہے ہمارے امام کے ساتھ بھی اور ہمارے ساتھ بھی وابستہ ہیں اور ہمارے بعد بھی رہیں گے.پھر چندہ دینے والوں کو بھی بعض اوقات مشکلات آتی ہیں ہمارے دوستوں خاص دوستوں ہاں لنگوٹیے دوستوں میں سے ایک حکیم فضل الدین ہیں.انہوں نے ہزاروں روپیہ کی جائیداد دے دی ہے مگر بھائیوں اور ان کے رشتہ داروں کے خیال میں آیا کہ یہ سب کچھ مال بٹورنے کے لئے چالاکی کی حالانکہ اتنا نہیں سوچا کہ وہ مال لے کہاں جاوے گا اس کی نہ جوانی کی عمر ہے نہ اولاد ہے نہ کوئی حقیقی بھائی اور مائوں سے بھائی ہیں ان کو بھی یہی شبہ ہے پہلے وہ نیک سمجھتے تھے.مگر یہ تو برُا آدمی ہے اس قسم کے مشکلات بھی آجاتے ہیں مگرجو محض خدا کے لئے دیتے ہیں ان کو ان باتوں کی کیا پرواہ؟ تم اپنے چندوں کی نسبت مطمئن رہو کہ وہ جس غرض کے لئے آتے ہیں اسی پر خرچ ہوتے ہیں یاد رکھو ان کی نسبت کسی قسم کی بدظنی نیک نتیجہ نہیں دے سکتی.میں نے اپنا حال تو تمہیں بتا دیا کہ تمہارا پھل شرینی یا لباس تو میں لے لیتا ہوں مگر روپیہ کے لئے نہ نمبردار بنا اور نہ اس غرض کے لئے تم سے بیعت لی اور نہ میں نے یہ سمجھا ہے کہ تم اس غرض کے لئے جمع ہوئے ہو اور نہ میں اس مقصد کے لئے کھڑا ہوا.میں نے یا میرے دوستوں نے اگر کہا تو وہ اس قسم کی بات ہوگی جس طرح سے اللہ تعالیٰ نے باوجود غنی ہونے کے زکوٰۃ کا حکم دیا ہے یا حضرت امام دیتے تھے میں بھی اسی طرح تمہیں دلانے کے لئے کہتا ہوں.
مالی مشکلات اور اعتراضات: اموال کے جمع ہونے پر بھی مشکلات پڑتے ہیں میں انجمن حمایت اسلام کو اچھا سمجھتا ہوں اور وہ غنیمت ہے مگر اس پربھی حملے ہوتے ہیں اور مالی جھگڑے پیدا ہوجاتے ہیں.علی گڑھ میں ایک ہندو مال کھا گیا اور بڑے مشکلات پیدا ہوئے یہ کچھ ان ہی پر موقوف نہیں.ہرایک انجمن میں ایسے مشکلات پیدا ہوتے ہیں مگر میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اس دکھ میں نہ پڑنا اگر ہم تم سے شرارت کے ساتھ مال لیں گے تو ہمارے سزا دینے کے لئے تمہارا اللہ کافی ہے.تم یہ کہو کہ مومن تھے کہ ہم نے دھوکا کھایا شکایت کی راہ ٹھیک نہیں اس سے پہلے ایسی قومیں گزری ہیں جنہوں نے اس راہ کو اختیار کرکے فائدہ نہیں اٹھایا.اول عیسائی ہیں وہ اپنے مذہب کی کوئی خوبی نہیں بتاسکتے انہوں نے نبیوں پر معائب دہی کا دروازہ کھولا ہوا ہے کریں کیا؟ کفارہ کا مسئلہ بدوں اس کے چل سکتا ہی نہیں اور مذہب میں کوئی خوبی نہیں.پھر ان کے شاگرد شیعہ ہیں وہ صحابہ کی بدیوں کے بیان کرنے پر لگے رہتے ہیں اور کوئی عیب کی بات ہو صحابہ پر لگادینے میں دلیر ہیں یہ تو وہ پرانی قومیں ہیں تیسری قوم اب پیدا ہوئی ہے.یہ آریہ کی قوم ہے ان کا بھی یہی پیشہ ہے کہ دوسرے کی بدیاں بیان کردینے میں دلیر ہیں اور اپنی کوئی خوبی نہیں رکھتے.اس لئے انہوں نے مجبور ہوکر یہی سوچا کہ معائب کا دروازہ کھول دیں.خدا تعالیٰ کی نسبت تو ان کا یہی عقیدہ کہ وہ کسی چیز کو بلا مادہ پیدا ہی نہیں کرسکتا اور اخلاقی قول یہ کہ حقوق العباد میں یہ تجویز کیا کہ اگر کسی کے اولاد نہ ہو تو وہ عورت کسی اور سے ہم بستر ہو کر اولاد لے لے اور اس کا نام انہوں نے نیوگ رکھا.اب جس قوم کی یہ حالت ہو وہ دوسروں کے معائب بیان نہ کرے تو کیا کرے؟ چوتھے ہمارے مخالف مسلمان ہیں ایک لڑکا مجھے لکھتا ہے کہ لنگرخانہ کا خرچ ہی کیا ہے؟ اس میں ہوتا ہی کیا ہے؟ تم اعلیٰ درجہ کا لباس پہنتے ہو تم فلاں غلطی کرتے ہو یہ کرتے ہو وہ کرتے ہو.میں حیران ہوتا ہوں کہ یہ لوگ کیوں ایسی غلطی کرتے ہیںجس کا نتیجہ نیک نہیں.عیسائیوں نے اس راہ پر قدم مارا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبول کرنے سے رہ گئے شیعوں نے قدم مارا وہ سچائیوں کے لینے سے رہ گئے آریوں نے اس سے کیا فائدہ اٹھایا جو تم ان کی راہ اختیار کرتے ہو.
پس تم اس راہ سے بچتے رہو تم نے اگر دھوکا سے مال دے دیا اور ہم نے فریب سے لیا تو اس کا وبال ہماری جان پر ہے تو پھر تم کیوں ہمارا معاملہ اللہ پرنہیں رکھتے؟ ہمارے لباس پر حضرت صاحب کے لباس پر جو اعتراض کرتے ہیں وہ ناواقف ہیں اسی شہر میں ایک ہندو نے مجھے کہا کہ حضرت صاحب بادام روغن کا پلائو کھاتے ہیں.میں نے اس کو یہی جواب دیا کہ ہمارے مذہب میں حلال ہے.سید عبدالقادر گیلانی ؒنے ایک مرتبہ پانچ سو پونڈ کا صافہ پہنا ہوا تھا کسی نے اعتراض کیا کہ ایسا گراں قیمت تو عباسی خلیفہ نے بھی نہیںپہنا ہوا تو آپ نے جواب دیا کہ خدا کہتا ہے پہن لو ہم نے پہن لیا.غرض طعن کا دروازہ کھولنا نالائق آدمیوں کا کام ہے اس سے بچو کوئی کہہ سکتا ہے کہ اتنی باتیں جو کیں ہیں یہ بھی لینے کا ایک طریق ہے اور ایسے نیک دل بھی ہیں جو یہ یقین کرتے ہیں جو کچھ کہا ہے وہ دل سے کہا ہے.جماعت میں اس قسم کے سوال پیدا ہوجاتے ہیں اب کثرت کس طرف ہو اور قلت کس طرف میں نہیں کہہ سکتا.ہاں میں نے جو کچھ کہا ہے درد دل سے کہا ہے اب اپنے خیال کے موافق جو کچھ کسی کا جی چاہے سمجھ لے (بنی اسرائیل :۲۱).چندے تو ضرور دینے پڑیں گے دل سے دو گے بہتر بدلہ ملے گار یا اور لحاظ سے دو گے تو کچھ بھی فائدہ نہیں.غرض میں نے تمہیں بہت کچھ سکھ کی باتیں سنائی ہیں لا الٰہ الا اللّٰہ پر پکے رہو‘ دعا عقد ہمت اور استقلال سے کام لو خدا تعالیٰ کی رضا کی کوشش کرو اور اس کی راہ معلوم کرنے کی ایک ہی تجویز ہے کہ قرآن مجید کو سمجھو.خدا تعالیٰ کیسے کیسے لوگوں سے عجیب بات کھلوالیتا ہے کرزن گزٹ ایک اخبار دہلی سے نکلتا ہے اس نے جہاں حضرت صاحب کی وفات کا ذکر کیا وہاں یہ بھی لکھا کہ اب مرزائیوں کے پاس رہ ہی کیا گیا ہے ان کا سرکٹ چکا ہے اب جو شخص ان کا امام بنا ہے اس سے اور تو کچھ نہ ہوگا وہ قرآن سنایا کرے گا.میں نے اس فقرہ کو پڑھ کر سجدہ شکر کیا اور کرتا ہوں خدا کرے کہ تم قرآن ہی سنو اور میں قرآن ہی سنائوں.یہ اس نے بہت ہی عمدہ بات
کہی ہے جو دشمن کے منہ سے نکلی ہے.میں جو بات تمہیں سنا نی چاہتا ہوں وہ یہی قرآن مجید ہے.اب معلوم نہیں کتنا عرصہ ان باتوں میں نکل گیا.اب میں تمہیںاسی قرآن کی چند آیتیں سناتا ہوں مگر میں پڑھتا ہوں کہ میں لا الٰہ الا اللّٰہ کو مانتا ہوں محمدرسول اللہ کو خاتم الانبیاء اور خاتم الرسل یقین کرتا ہوں بلکہ خاتم الانسان مانتا ہوں.ان دونوں پر یقین کے بعد دعا کا پھر عقد ہمت اور استقلال کا پھر قرآن کا فضل مجھے ملا ہے.یہ اصل منشا ہے پروگرام میں لکھا ہے کہ ایک گھنٹہ بیان کروں اور آوازیں آئیں کہ نہیں جب تک حضور چاہیں بیان کریں مگر میں یوم اور بعض یوم کے تحت میں اس گھنٹہ کو بھی رکھ لیتا ہوں اور تمہیں قرآن سناتا ہوں. (التوبۃ :۱۱۱، ۱۱۲) یہ گیارہویں سپارے کی تھوڑی سی آیتیں ہیں جو میں تمہیں سنانی چاہتا ہوں.میں درد دل سے ہاں سچے درد دل سے سناتا ہوں تم درد مند دل لے کر سنو.امیر المؤمنین کی دعا قوم کے لئے: میں تمہارے لئے کس کس قسم کی دعائیں کرتا ہوں اگر دشمن کو بھی علم ہو تو وہ حیران ہوجاوے.ان دعائوں میں سے ایک کے چند فقرے تمہیں سناتا ہوں تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ میں تمہارے لئے کیا چاہتا ہوں میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ترقی دے اس نے تم کو جو سچائی عطا کی ہے اس کی قدر تمہیں سکھائے تاکہ تم اس کا شکر کر سکو.وہ تمہیں اس سچائی پر قائم رہنے کی توفیق دے اور استقامت بخشے تم دین کے خادم بنو‘ روح القدس سے موید ہو اور امراض جسمانیہ اور روحانیہ آفات سماویہ اور ارضیہ اور ہر قسم کے فتن سے بچ جائو.تم مظفر و منصور ہوجائو اور اسلام کی سچائی کے مظہر اور نمونہ ٹھہرو.
یہ دعائیں میں دردِ دل سے کرتا ہوں اور اسی نے یہ درد مجھے دیا ہے جس نے مجھے یہ مقام عطا فرمایا.اس لئے میں اپنے لئے بھی اس مقام کی ذمہ داریوں اور مشکلات کو دیکھ کر ابن عمر ان کی طرح دعا کرتا ہوں.اللّٰہ علیہ وسلّم (طٰہٰ :۲۶ تا ۲۹) یعنی اے میرے مربی میرے سینہ کو کھول دے اور میرے لئے میرے فرض منصبی کو آسان کردے میری زبان کو گویائی عطا فرماتا کہ میری باتیں سننے والے میرے کلام کو سمجھ سکیں.وزراء: پھر میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ میرے بھی وزراء ہوں.جو میرے بازو کو قوی کریں اور میرے بوجھ کو ہلکا کریں ان کی غرض اور مقصود اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے وہ مومن ہوں مخلص ہوں،محسن ہوں.ان کے ہر کام میں ہر حرکت و سکون میں اللہ ہی کی رضاء اصل منشاء ہو وہ دنیا اور اس کی خیالی عزتوں اور بڑائیوں سے اپنے نفس کو پاک کرنے کی توفیق پائیں عاجزی اور فروتنی سے دین کی خدمت کرنے والے ہوں.واعظانِ سلسلہ: پھر میں چاہتا ہوں اور ویسے چاہتا ہوں کہ تم میں واعظ ہوں اس خواہش کے لئے تڑپتا ہوں روتا ہوں یہ واعظ جلوہ بر محراب و منبرمی کنند کے مصداق نہ ہوں بلکہ یہ کہ ان میں اخلاص کامل ہو وہ فی الحقیقت یَدْ(اٰل عمران :۱۰۵) وہ نرے قوال ہی نہ ہوں بلکہ عملی رنگ میں واعظ ہوں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کی حقیقی راہ کا علم ہو اور اللہ ہی کی رضا کے لئے کام کرنے والے ہوں سست نہ ہوں صابر اور جفاکش ہوں ایسے لوگ جب خشیۃ اللّٰہسے کام کریں گے تو میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یقین کر سکتا ہوں کہ دنیا کے لئے ایسے وجود بابرکت ہوں گے.یہ میری خواہشیں ہیں اور میں اپنے ربّ پر یقین رکھتا ہوں کہ چونکہ یہ اسی کے لئے ہے وہ جب چاہے گا ان کو پورا کر دے گا.اب اس کے بعد ان آیات کا مطلب تمہیں سنانا چاہتا ہوں.ان آیات اللہ میں اول اللہ کا لفظ آیا ہے اللہ کے معنے ہیں تمام کاملہ صفات سے موصوف اور تمام بدیوں سے منزّہ ذات اور حقیقی معبود جس کے سوا کوئی اور معبود نہیں.اس نام پر قربان ہوجائوں جی
چاہتا ہے کہ اس کی تفصیل بہت کھول کر سنائوں مگر اس وقت اتنے ہی پر بس کرتا ہوں پھر اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا اور صحت اور وقت میسر آیا تو سنائوں گا.غرض اس اللہ نے لیا ہے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کو (اس سے معلوم ہوا کہ اب مومن نہ اپنی جانوں کے مالک ہیں نہ مالوں کے) مگر اللہ کے لینے سے یہ مال و جان ضائع نہیں ہوتے بلکہ ہمارے حضور موجود ہیں (النحل :۹۷) نے جو اس جان اور مال کو لیا کس چیز کے بدلے (التوبۃ:۱۱۱) اس غرض کے لئے کہ تمہیں جنت کے اعلیٰ مقام پر پہنچادیں.لڑو، مرو اللہ کی راہ میں کیونکہ اللہ کی راہ میں مجاہدہ کرنے والوں کے لئے جنت ہے یہ وعدہ ہے جو تورات میں بھی ہے اور انجیل میں بھی اور قرآن شریف میں بھی.پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس عہد کو ایفا کرے گا اس کو بشارت ہو یہ خوشی کی خبر سن لو کہ یہ عجیب بیع ہوئی ہے میں نے اللہ کے لفظ کے متعلق وقت صحت اور توفیق ملنے پر کچھ اور بیان کرنے کا وعدہ کیا ہے.اب دوسرا لفظ مومنین ہے.میں نے جہاں تک غور کیا ہے قرآن شریف اور احادیث سے ۷۰(ستر) کے قریب ایمان کے شعبے ثابت ہوتے ہیں.ایمان کے شعبے: قرآن مجید کے پارہ ۱۴؍۲۶میں آیا ہے. (الحجرات :۱۶).اس آیت میں پانچ باتیںایمان کی بتائی ہیں.(۱) االلہ پر ایمان لانا.(۲) اس کے رسول پر ایمان لانا.(۳) ان کے احکام میں شبہ نہ کرنا (۴) مالوں کے ساتھ کوشش کرنا.(۵) اپنی جان سے کوشش کرنا.پھر فرمایا(النساء :۶۶) یعنی مومن ہوتا ہی نہیںجب تک محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر امر دین میں حَکَم نہ بنائے اورپھر یہی نہیںکہ حَکَم بنالے بلکہ جو فیصلہ وہ کرے.اس فیصلہ کو شرح صدرسے قبول کرے اور دل سے مان لے اور اس محبوب کے سامنے سر تسلیم خم رکھے.(۶)گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حَکَم بنانا.(۷) اور آپؐکے فیصلہ کو شرح صدرسے مان لینا.پھر فرمایا:.
(النور :۶۳) اس آیت میں مومنین کی یہ صفت بتائی ہے (۸) کہ جب وہ کسی امر دین میں رسول اللہ اور اس کے جانشینوں کے ساتھ جمع ہوں اور جب تک وہاں سے اجازت نہ ہو وہاں سے اٹھیں نہیں.پھر (۹،۱۰) آیات الٰہی سنتے ہی فرمانبرداری کے لئے کامل طور پر جھک جانا، تسبیح اور تحمید کے لئے ہوشیار رہنا (بعض اس کے معنی الحمد پڑھنا بھی کرتے ہیں) اور تکبر نہ کرنا.چنانچہ فرمایا:(السجدۃ :۱۶).پھر (۱۱،۱۲،۱۳) خواب راحت کے وقت اٹھ کر یاد الٰہی میں مصروف ہونا.خوف اور طمع پر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنا.خدا تعالیٰ کے دئیے ہوئے سے خرچ کرنا چنانچہ فرمایا: (السجدۃ :۱۷).پھر (۱۴) اللہ اور رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے پسند کردہ فیصلہ سے الگ ہوجانا (الاحزاب :۳۷) پھر (۱۵ اور ۱۶) جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاوے تو بدوں عذر کے سَمِعْنَا اور اَطَعْنَاکہے (النور :۵۲).پھر (۱۷،۱۸،۱۹،۲۰،۲۱) اللہ تعالیٰ کی اس کتاب قرآن مجید پر ایمان لانا.تمام ان کتابوں پر ایمان لانا، جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں.فرشتوں پر ایمان لانا، رسولوں پر ایمان لانا، یوم آخرۃ پر ایمان لانا جیسا کہ فرمایا: (النساء :۱۳۷).پھر (۲۲،۲۳،۲۴،۲۵) اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری، اللہ کے رسول کی فرمانبرداری، اولوالامر کی فرمانبرداری اور اگر ان کا حکم خلاف ہو تو اللہ اور رسول کے حکم کو مقدم کرنا (النساء :۶۰).اس آیت میں دو لفظوں کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جو آج کل کی بیماریوں کے لحاظ سے بہت ہی
ضروری ہے.یاد رکھو کہ کتاب اللہ کے علاوہ رسول کریم کی فرمانبرداری کی بھی بہت ہی ضرورت ہے اور بدوں اس کے ایمان کی تکمیل ہوتی ہی نہیں.اسی لئے فرمایا ہے (الاحزاب :۲۲).ایک قوم ہے جو کہتی ہے کہ رسول اللہ کی فرمانبرداری کی ضرورت نہیں.وہ کہتے ہیں کہسے مراد قرآن ہے.یہ دجال کی ایک قسم ہے.یہ جو کہتے ہیں کہ اس سے شرک لازم آتا ہے.میں انہیں سورۃ نوح کی ایک آیت سناتا ہوں. (نوح:۳،۴).پس اگر اطاعت الرسول سے شرک لازم آتا ہے تو پھر اس کی بنا نوح نے ڈالی.یہ خیال بالکل غلط ہے.اصل یہی ہے کہ رسول کی اطاعت عین اللہ کی اطاعت ہے.چنانچہ فرمایا (النساء :۸۱).اولواالامر سے مراد حاکم ہے.حکام کی فرمانبرداری کی تعلیم اسلام نے دی ہے اور اس کو داخل شعب ایمان کیا ہے.ہم طوائف الملوکی میں بھی رہ چکے ہیں.جب ہم مکّہ میں تھے.پھر حبشہ کی طرف جب ہجرت ہوئی تو عیسائی سلطنت کے نیچے رہے.جمہوری سلطنت میں بھی رہے کیونکہ مدینہ میں جمہوری حکومت ہی تھی.پس ہمیں کسی حکومت کے ماتحت رہنے میں کوئی بھی مشکل نہیں.مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ سچے دل سے حاکم وقت کی اطاعت کریں.میرے دل میں اس کے لئے درد ہے.حکام کے مطیع اور فرمانبردار رہو.بلکہ میرا تو یہ جوش ہے کہ سپاہی ہو نمبردار ہو اس کی بھی اطاعت کرو.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم گورنمنٹ کے سچے فرمانبردار بنو اور کسی ایسے منصوبے میں شریک نہ ہو جو اولواالامر کے خلاف ہو جیسا کہ اب تک تم نے اپنے طرز عمل سے دکھایا ہے آئندہ اور بھی مضبوطی سے اس پر عمل کرو.اسلام کی یہی ہدایت ہے.قرآن کریم نے یہی تعلیم دی.صحابہ کا نمونہ موجود ہے.ہمارا امام اس کی تاکید کرتا آیا اور اس نے متعدد کتابوں میں اس امر پر بحث کی اور تم نے اس کے منہ سے سنا اور میں بھی تمہیں وہی کہتا ہوں جو تم پہلے سن چکے ہو.غرض اولواالامر کی اطاعت کرو.پھر (۲۶) یہود اور نصاریٰ کو اپنے دل کا متصرف دوست نہ بنانا.
(المائدۃ :۵۲) پھر (۲۷) مخالف یہود و نصاریٰ کو جو ہمارے مذہب پر چھیڑچھاڑ کرتے ہیں.ان کا قرب نہ کرنا(المائدۃ :۵۸).پھر (۲۸) جو اللہ اور رسول کے مقابلہ کرے اس کے ساتھ پیار نہ کرنا.(المجادلۃ :۲۳).(۲۹) اللہ کے ساتھ ہمیشہ محبت کو بڑھائے رکھنا.(البقرۃ :۱۶۶) (۳۰) جہاں دینی مشکلات پیش آئیں جماعت ہو یا ملک یا فعل اسے ترک کرنا یعنی وہاں سے ہجرت کرنا.(۳۱) اللہ کی راہ میں کوشش کرنا.(۳۲‘۳۳) ہجرت کرنے والوں کے لئے جگہ بنانا اور جگہ بنانے کی کوشش کرنا.(۳۴) مہاجرین کو ہر قسم کی مدد دینے کے لئے تیار رہنا.چنانچہ فرمایا سورۃ انفال رکوع ۶(الانفال :۷۳) سے آخر سورۃ تک.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن وہی ہوتے ہیں کہ جو مہاجرین کو جگہ دیتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں.مہاجرین کی نصرت اور ان کو جگہ دینا ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے اور نصرت دینا مومن کی شان ہے.(۳۵)مسلمانوں کے ساتھ برادرانہ سلوک سے پیش آنا.چنانچہ فرمایا(الحجرات :۱۱).(۳۶) کوئی غلطی سے بیاج کا معاملہ ہوجاوے تو اسے ترک کردینا.(البقرۃ :۲۷۹).(۳۷) سست نہ ہونا.(۳۸) بہت غمگین نہ ہونا.(اٰل عمران :۱۴۰).اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سست نہ ہو اور غم نہ کھائو کیونکہ یہ دونوں باتیں مومن کی شان سے بعید ہیں.مجھے بہت دکھ پہنچتا ہے جب کہ ایک مومن گھبرا جاوے
اور غم سے نڈھال ہو کہ اس کی بیوی یا بچہ مرگیا ہے کیونکہ ہمارے پاس تو اس سے بہت بڑھ کر چیز ہے جبکہ کوئی معمولی حاکم کسی کے ساتھ ہو تو وہ نہیں گھبراتا.لیکن یہاں تو اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے پھر گھبرائو کیوں ہو؟ میں نے بعض آدمیوں کو ایسے موقع پر نصیحت کی ہے.چونکہ انسان کی عادت ہے کہ وہ ملزم نہیں ہوتے.اس لئے میں نے دیکھا ہے کہ ایسے موقع پر بہت سی آیات پڑھ دیتے ہیں.بعض نے کہا کہ حضرت یعقوبؑ روتے رہے اور اندھے ہوگئے مگر یہ بات غلط ہے.قرآن شریف میں تو صرف اتنا ہے.(یوسف :۸۵) اور اس کے معنے ہیں.آنکھیں ڈبڈبا آئیں.غرض حزن کا حکم نہیں.ہاں فطرتاً بے شک ہوتا ہے.پھر مومن کو کسی کی جدائی کیوں اتنا غم میں ڈالے جب کہ خدا فرماتا ہے. (النساء :۱۳۱).(۳۹ لغائت ۴۴) اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر وقت سعی فی الدین کے لئے تیار رہنا.ظاہری اور باطنی فرمانبرداری میں کسی دوسرے کو خدا کا مقابل خیال میں نہ لانا.ناپنے میں، تولنے میں عام طور پر بھی کسی شخص کے نقصان کاروادارنہ ہونا.کسی قسم کی شرارت کو دنیا میں نہ پھیلانا.(الاعراف : ۸۶) (۴۵ لغائت ۴۹) جن کا باہم بگاڑ ہو ان میں صلح کرانا.ایمان میں ترقی کرنا.خدا تعالیٰ کا نام درمیان آجاوے تو خدا تعالیٰ کے نام کی عظمت سے دل میں دھڑکا پیدا کرنا.توکل کرنا.نماز کو ٹھیک درست کرنا.خدا نے جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کے لئے تیار رہنا (سورۃ انفال کے شروع میں ۵ آیتیں) (الانفال :۲) کا خصوصیت سے اقرار بیعت میں تم سے وعدہ لیا ہے.پس اس کو یاد رکھو.یہ باتیں ہیں جو ایمان کے شعبے سکھلاتی ہیں.اگر یہ خطبہ خدا کے فضل سے تمہیں لکھا ہوا مل گیا (الحمد للّٰہ کہ حضرت خلیفۃ المسیح سلمہ اللہ تعالیٰ کی یہ خواہش میرے قلم سے پوری ہوئی.ثم الحمدللّٰہ علٰی ذالک.ایڈیٹر) تو پھر کوشش کرو کہ یہ باتیں تم میں پیدا ہوں تاکہ تم مومن کامل بن جائو.ممکن ہے کہ بعض باتیں رہ بھی گئی ہوں تاہم میرا خیال ہے کہ بہت سی آگئی ہیں.پھر
حدیث میں بھی ایمان کے شعبوں کا ذکر ہوا.ان میں سے (۵۰) قدر خیروشر کا ماننا بھی ہے.اس کا اصل قرآن مجید میں موجود ہے، (الفرقان :۳).خلق خیروشر اسی سے نکلا ہے اور اسی کا نام تقدیر ہے.اسی مسئلہ تقدیر پر ساری بلند پروازیاں اور کوششیں موقوف ہیں.فلاسفروں کے فلسفہ کا اعلیٰ مقام یہی ہے اور تمدن کی جڑ یہی ہے جو مسئلہ تقدیر نہیں مانتا وہ انسان نہیں؟ تقدیر کے معنے اندازہ کرنے کے ہیں اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے آنکھ کا کام دیکھنا ہے اور کان کا کام سننا.اب ان سے یہی کام لیا جائے گا.انسان کو اللہ تعالیٰ نے دو قسم کے قویٰ دئیے ہیں.ایک وہ جن پر اس کا کوئی دخل و تصرف نہیں جیسے اس کے اندر خون بن رہا ہے.ہڈیاں بن رہی ہیں وغیرہ.اب ان پر کوئی حکم شریعت کا نہیں.زبان ہے.وہ مختلف قسم کے ذائقوں کو بتاتی ہے اور اگر اس کی ہزار منت کی جاوے کہ تو میٹھے کو کھٹا کہہ دے وہ کبھی نہیں کہے گی ایسا نہ کرنے پر کوئی سزا نہیں لیکن دوسری طرف اگر زبان سے خواہ کفر کا کام لیا جاوے.خواہ ایمان کا وہ اطاعت کے لئے تیار ہے.اسی پر قیاس کرکے اس مسئلہ کی حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے مگر مسلمانوں کا عجیب حال ہے.ہرچہ گیردعلتی علت شود.اگلے زمانہ میں آدمی تو تھوڑے تھے اور جنگ کے لئے آج کل کی سی ایجادات نہ ہوئی تھیں.اس لئے لڑائی کا یہ طریق تھا کہ فریقین میں سے سب سے بڑے پہلوان نکلتے اور اس کی کشتی ہوتی جو ہارتا اس کی شکست اس فریق کی شکست ہوتی جس کے ساتھ اس کا تعلق ہوتا.اب نہ اس قسم کی جنگیں ہیں نہ اس کی ضرورت.مگر مسلمان ہیں کہ برابر کشتیاں لڑتے جاتے ہیں اور ہزاروں روپیہ آئے دن ان کشتیوں پر مسلمانوں کا تباہ ہوتا ہے.اسی طرح پر بارود سے ہزاروں کام لئے جاتے تھے.اب وہ اصل غرض جاتی رہی اور اس کی جگہ شب برات رہ گئی جس کا نتیجہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ آپ جلیں اور دوسروں کو جلائیں اور پھر یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ہمیں اس قسم کے مشقوں کی ضرورت بھی نہیں جو بارود کے ذریعہ کی جاتی تھیں.اسی طرح ہوا کے عجائبات کے تجارب کے لئے پتنگ وغیرہ چڑھاتے تھے اور ان سے عمدہ عمدہ کام لئے جاتے تھے.مگر وہ غرض تو جاتی رہی.مسلمانوں کو ایک شغل مل گیا اور آئے دن کوٹھوں سے گر کر مرتے ہیں.اسی طرح پر مسئلہ تقدیر کا حال ہے ہر کام کے مراتب ہیں
چیونٹی کاٹے اس کا نقصان ایک اندازہ رکھتا ہے.سانپ کاٹے اس کا مرتبہ جدا ہے.نیکیاں ہیں ان کے مراتب الگ ہیں.فرائض ۱۷، ۲۰ کے مراتب الگ ہیں.نوافل الگ ہیں.روزہ ایک مہینہ کے سال بھر اور حج ایک مرتبہ ان کے مراتب جدا ہیں.وتروں کے متعلق اختلاف ہے.ان سے نیچے یہی نوافل ہیں.رمضان کے روزوں کے سوا اور بھی نفلی روزے ہیں جو مل ملا کر چار مہینے کے قریب ہوجاتے ہیں.پس ہر کام کا ایک پھل اور نتیجہ ہے اور یہی تقدیر ہے.اگر سست ہوگے تو تم کو وہی نتائج ملیں گے جو سستوں کے ہیں اور اگر چستی اور ہوشیاری سے کام لو گے تو تم کو وہی نتائج ملیں گے جو چستوں کے لئے مقرر ہیں.میری ماں نے اللہ تعالیٰ اس پر بہت بہت فضل کرے.مجھے بہت سے مسائل پنجابی زبان میں سکھا دئیے تھے.میں ان کو اصول کی طرح یاد رکھتا ہوں.ان میں سے مسئلہ تقدیر کے معنی بھی ہیں اور وہ مجھے اب تک یاد ہیں اتے ہر شے دا اندازہ چاہے بد تے چاہے نیک اللہ تعالیٰ تہیں مقرر ہے جیسا کوئی کرے گا ویسا ہی بھرے گا جو اگ کھائے گا انگارے ہگے گا نیکی کرو گے تو نیک نتیجہ ہوگا.بدی کرو گے بد نتیجہ ہوگا.پھر (۵۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ماں باپ اور تمام عزیزوں سے بڑھ کر محبت کرنا.(۵۲) دوسروں کا ایسا خیر خواہ ہو جیسا کہ اپنا ہے.بہت سے لوگ ہیں جو کچھ روپیہ بھیجتے ہیں اور لکھ دیتے ہیں کہ جہاں چاہو خرچ کردو.اس کے لئے پھر مجھے بہت ہی سوچنا پڑتا ہے.غرض مومن وہ ہے جو اپنے لئے پسند کرے وہی اپنے بھائی کے لئے چاہے.(۵۳) نمازوں کو قائم کرے.(۵۴) روزے رکھے.(۵۵) زکوٰۃ دے.(۵۶) استطاعت ہو تو حج کرے (۵۷) پھر مومن وہ ہوتا ہے کہ اس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ امن میں ہوں (۵۸) مومن زانی، شرابی، چور نہیں ہوتا.(۵۹) راستے کے دکھوں کو دور کرنا.یہ مومن کا کام ہے اس سے راستوں کی درستی اور صفائی بھی مراد ہے اور یہ بھی کہ کسی مومن مسلمان کے مقصد میں کوئی روک واقع ہو تو اسے ہٹا دینا.(۶۰) حیا کرنا مومن کا کام ہے.(۶۱) حُبٌّ لِلّٰہ یعنی اللہ ہی کے لئے کسی سے محبت کرے.(۶۲) بُغْضٌ لِلّٰہ کسی سے رنج ہو تو اللہ تعالیٰ کے لئے ہو.اپنے نفس کی خاطر نہ ہو.(۶۳) زبان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تررہے.(۶۴)دے تو اللہ کے لئے نہ دے تو اللہ
کے لئے (۶۵) انصار سے محبت کرنا (۶۶)کشادہ پیشانی سے پیش آنا.احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قوم آئی اور اس نے عرض کیا کہ ہمیں ایمان کا مسئلہ بتادو.آپ نے فرمایا کہ ایمان ۲۰ چیز کا نام ہے.اللہjپر، ملائکہk پر، کتابوںl پر، رسلmپر، جزا وnسزا پر ایمان لائو.ان کو عام مسلمان سمجھتے ہیں مگر ملائکہ پر ایمان لانے کی کیا حقیقت ہے اور میں نے اس سے کیا فائدہ اٹھایا.یہ تمہیں بتاتا ہوں:.انسان کے اندر ہر وقت دو محرک کام کرتے ہیں.ایک کا نام مَلِکہے اور دوسرے کا نام شیطان ہے.مَلِکنیکی کی تحریک کرتا ہے اور شیطان بدی کی.جب مَلِکنیکی کی تحریک کرتا ہے تو جو شخص اس تحریک پر عمل کرتا ہے وہ گویا ملائکہ پر ایمان لاتا ہے.اگر اس تحریک پر توقف کرتا ہے تو سنت اللہ یہ ہے (الانفال :۲۵) لیکن جب وہ اس تحریک پر عمل کرتا ہے تو اس فرشتہ کو اس سے محبت ہوجاتی ہے اور وہ اس سے تعلق پیدا کرتا ہے.اس کے بعد دوسرے ملائکہ جو اس سے، مَلِکسے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی اس انسان سے تعلق پیدا کرتے ہیں.یہاں تک کہ پھر قسم قسم کے ملائکہ اس سے مصافحہ کرلیتے ہیں اور ہر حال میں اس کے موید رہتے ہیں.پس نیکی کی تحریک پر عمل درآمد کرنا ایمان بالملائکہ ہے.پھر ایمان بالکتب اور ایمان بالرسل کی حقیقت تو بہت سنی ہے مگر میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں جو ایمان بالرسل کے متعلق ہے.ایک مرتبہ ایک معزز دوست نے مجھے تحریک کی کہ فلاں شخص تم سے ملنا چاہتا ہے مگر وہ کسی وجہ سے قادیان میں نہیں آسکتا.اس لئے تو اسے خود مل.میں اگرچہ جانتا تھا کہ وہ مانے گا تو نہیں.مگر میں نے یہ سمجھ لیا کہ حجت ہی پوری ہوجائے گی.اس لئے میں گیا.اس نے میری تو بہت خاطر مدارات کی مگر مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ علما ء کی تحقیر کرتا ہے.اس نے کہا کہ ملانوں کی باتوں کو تو آپ جانے دیں.یہ بتائیے کہ رسولوں کے ماننے کی کیا ضرورت ہے.میں نے اس کو کہا کہ تم کس مذہب کے ہو اور تمہارے نزدیک ایمان کوئی چیز ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں! میں اللہ اور آخرۃ پر ایمان لاتا ہوں اور اسی کو ضروری سمجھتا ہوں.میں نے کہا کہ یہ مطلب تم نے کہاں سے سنا.اس نے کہا قرآن مجید میں لکھا ہے.(اٰل عمران :۱۱۵).میں نے کہا کہ اور دلیل
تو نہ دو گے.اس نے کہا کہ نہیں.اس پر میں نے کہا کہ جس کتاب کا تم حوالہ دیتے ہو.اس میں یہ بھی لکھا ہے (البقرۃ :۸۶).بتائو کہ تم سارے قرآن کو مانتے ہو یا اس کے بعض کو.اس نے جواب دیا.نہیں میں تو سارے ہی کو مانتا ہوں.اس پر میں نے اسے کہا کہ پھر اس میں لکھا ہوا ہے.(النساء :۱۵۱).اس آیت سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ جو اللہ کو مانتے ہیں اور رسولوں کو نہیں مانتے وہی پکے کافر ہیں.پس یہ آیت تو تیرے پکے کافر ہونے کی دلیل ہے.اس کو سن کر کہا کہ میں اب رسولوں پر ایمان لاتا ہوں اور اس نے سمجھ لیا کہ رسولوں پر ایمان لانا ضروری ہے.پھر میں نے کہا کہ اسی پر بس نہیں.قرآن مجید میں ایک اور آیت بھی ہے. (المؤمنون :۱۰)یعنی جو آخرۃ پر ایمان لاتے ہیں.وہ قرآن پر بھی ایمان لاتے ہیں اور نماز بھی پڑھتے ہیں.غرض پانچ عقائد ہیں جو مذکور ہوئے (۱)لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ (۲) نماز( جو ابھی پڑھی ہے) (۳) روزہ (۴) زکوٰۃ (۵) حج( حج مکّہ کا ہوتا ہے).زکوٰۃ ۵۲ تولہ چاندی میں سوا ایک تولہ‘ ساڑھے سات تولہ سونا میں ڈھائی ماشہ.تب اس نے کہا کہ یارسول اللہ پانچ اور ہیں جو ہم ادا کرتے ہیں (۱) الصبر علی البلاء.(۲) والشکر علی الرخاء.(۳) والرضاء بالقضاء.(۴) والصدق عندالعلاء.(۵) و ترک الشما تۃ الاعداء.اس پر پانچ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائیں الذین یتقون.ہر کام میں دیکھ لو کہ اللہ توبہ کہتے ہیں ترک کو.نماز، روزہ ،حج، زکوٰۃ اور دوسری نیکیوں کے ترک کو توبہ نہیں کہتے بلکہ توبہ کہتے ہیں ترک قبیح کو اور یہ فعل ترک علم سے پیدا ہوتا ہے یعنی اس فعل کی قباحت کا علم ہونا چاہئے.اس کو ذنب کا علم بھی کہتے ہیں.ذنب کی عجیب در عجیب شاخیں ہیں.ایک عورت یہاں آئی اس نے کہا کہ تو ہمیشہ وعظوں میں کہتا رہتا ہے کہ مصیبت گناہ سے آتی ہے.مگر میں نے خدا کا کوئی گناہ نہیں کیا.مجھے
پھر کیوں مصیبت آتی ہے.وہ میری عزیز رشتہ دار تھی.میں نے کہا کہ تمہارے میاں کہاں رہتے ہیں.اس نے کہا کہ وہ تو باہر دور سفر میں ہیں.پھر پوچھا کہ انہوں نے کوئی خط تو نہیں بھیجا.بولی ہاں! اس پر میں نے کہا کہ تم خود تو پڑھ نہیں سکتی ہو کیا کیا کرتی ہو؟ جواب دیا کہ برقعہ لے کر کسی پڑھے ہوئے کے پاس جاکر پڑھا لاتی ہوں اور جو کچھ وہ اس میں وہ حکم کرتے ہیں اس کی تعمیل کردیتی ہوں.میں نے اس کو کہا کہ خط کے پڑھانے کی کیا ضرورت ہوتی ہے.جب آیا لے کر رکھ دیا اس نے کہا کہ یہ تو بری بات ہے.ایسا گناہ میں تو کر نہیں سکتی.خاوند مجازی خدا ہوتا ہے.اس کے حکم کو نہ مان کر گناہ کروں.اس پر میں نے اس کو متنبہ کیا کہ حقیقی خدا کی بھی ایک چٹھی آئی ہے.اس کا نام قرآن مجید ہے اور چٹھی رساں جبرائیل اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.کہا قربان جائوں وہ تو نبی رسول ہیں.ان کا تو کلمہ پڑھتے ہیں.میں نے کہا کہ پھر اس چٹھی کی کیا قدر کی؟ اس کا تو ایک کلمہ بھی نہ پڑھا اور نہ کسی سے سنا.اس سے بڑھ کر گناہ کیا ہوگا؟ تم تو سارے گناہ کی جامع ہوگئی.اس پر وہ بہت ہی نادم ہوئی.یہ کہانی میں نے ہنسی کے لئے نہیں سنائی.بلکہ اس لئے سنائی ہے کہ علم ذنب کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن مجید کو پڑھو یا سنو اور دل لگا کر پڑھو اور سنو.میں سچ کہتا ہوں کہ ذنب کا پتہ لگ سکتا ہی نہیں جب تک قرآن کا علم نہ ہو.جب تک علم نہیں ہوتا انسان گناہوں پر دلیر ہوتا ہے.لیکن جب اسے علم ہو جاتا ہے تب اسے گناہوں سے حجاب پیدا ہوجاتا ہے اور اس سے تحریک ہوتی ہے کہ وہ گناہ چھوٹ جاویں.اس سے پھر ندامت پیدا ہوتی ہے اور ماضی کے لئے افسوس کرتا ہے اور حال میں ترک اور آئندہ کے لئے تیار ہوجاتا ہے.یہ توبہ ہے.پس (النور :۳۲).اس میں سب شامل ہیں اولیاء اور انبیاء بھی.ان کی توبہ اور ان کے ذنوب کی حقیقت ہی اور ہوتی ہے.میں تم کو ایک بڑے فکر کی بات سناتا ہوں.انسان کو ایک بڑی لڑائی کے لئے تیار ہونا چاہئے جو ترک معاصی کی لڑائی ہے.پہلے پہل جب انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ خدا شناسی کو کیا جانتا ہے.(النحل :۷۹).اس سے یہ مراد نہیں کہ تمہیں دودھ پینا نہیں آتا تھا.بلکہ یہ کہ تم نیکی بدی کی حقیقت سے محض نا آشنا اور ناواقف تھے.
صرف دودھ پینے کا خیال تھا جو ایک قسم کی خود غرضی تھی جس میں دوسرا شریک نہیں.ننگ دھڑنگ موجود تھے.پہلے پہل کھانے پینے کا علم ہوا اور اس سے معرفت بلند نہ تھی.یہ بہیمیت تھی.اس سے ذرا ترقی ہوئی تو غضب پیدا ہوا.ماں نے دودھ دینے میں ذرا دیر کی.لگے چلّانے اور چیخنے.اس کے بعد شہوت آتی ہے.اٹھارہ سال کی عمر میں اخلاق پہنچاوے تو اخلاق فاضلہ کی راہ پیدا ہووے تو ہووے.بحالیکہ دشمن پہلے سے موجود ہے.کیسا مقابلہ ہے؟ جلق سے نفرت: عمر کے اس حصہ میں بڑے بڑے مشکلات پیش آتے ہیں.میں تو خدا تعالیٰ کے بڑے ہی فضل اپنے ساتھ پاتا ہوں.میرے سامنے ایک مرتبہ ایک طالب علمنے جلق لگایا تو مجھے متلی ہوگئی.اس کے بعد اس کے ساتھ میں نے روٹی کھانا بھی چھوڑ دیا اور اس طرح پر اللہ تعالیٰ نے اس بلا سے جو عام ہے مجھے نفرت دلائی.ایسی حالت میں انسان ملکیت کے مقام تو سمجھتا ہے.کیا ہے؟ میں بہت کم شعر پڑھتا ہوں.یا قریباً نہیں پڑھتا.مگر یہاں ایک شعر یاد آگیا.فلا تحسبن ھنداًلھا الغدر وجدھا سبجیۃ نفس کل غانیۃ ھند‘ ہر ایک انسان غور کرے کہ کیسے مشکلات میں پھنسا ہوا ہے.اس کا نفس اس کا مطلوب اور محبوب ہے.پھر دوسرے معشوقوں کی بے وفائی کا کیا ذکر؟ فارسی اردو کے تو دیوان معشوقوں کی بے وفائی میں بھرے پڑے ہیں.مگر کاش! پڑھنے والے اپنے نفس کی غداری پر ہی غور کرتے تا انہیں معلوم ہوتا کہ وہ کس راہ پر چل رہے ہیں.غرض مومن حمد الٰہی کرتے ہیں.توبہ کرنے والے ہوتے ہیں.پھر لکھا ہے.عابدون.عبادت کیا ہے؟ عبادت کہتے ہیں.تعظیم لامر اللّٰہ کو‘ جس میں ریاؔ اور سمعۃ نہ ہو.درد دل کا اظہار ہو.نماز کیسی عبادت ہے؟ ہر عبادت کے دوران میں دوسری عبادت بھی ہوسکتی ہے.روزہ میں نماز بھی پڑھ سکتے ہیں اور زکوٰۃ بھی دے سکتے ہیں.مگر نماز ایک ایسی عبادت ہے کہ اس کی حالت میں دوسری عبادت نہیں ہوسکتی.نماز مومن کا معراج ہے.یہ عبادت کی راہ ہے.
حامد ہو.خدا کے فضل پر راضی ہوجاوے.اس کے متعلق ایک مرتبہ میں نے سنایا تھا کہ طبیعت میں الحمدپڑھتے ہوئے روک پیدا ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ ہم بہتر بدلہ دیتے ہیں.تب میں نے زور سے الحمد پڑھا.پھر مومنین کی صفات میں فرمایا.السائحون.اس کے دو معنے ہیں.ایک یہ کہ گھروں میں بیٹھ کر عبادت کرنا.دوم ملکوں میں پھر کر تبلیغ کرنا.اور بَدوں کے برے انجام اور نیکوں کی کامیابی سے عبرت حاصل کرنا.بھلائیوں کی فہرست: پھر تم رکوع سجود کرنے والے بن جائو اور نہ صرف خود نیکیاں کرو بلکہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے ہو.امر بالمعروف میں کیا کچھ واقع ہے.لمبا مضمون ہے مگر میں بھلائیوں کی ایک مختصر سی فہرست بتاتا ہوں.مجھے حیاتی کی کیا خبر ہے یہ مجمع میری زندگی میں ہو یا نہ ہو.مجھے کچھ کہنے کا موقع ملے یا نہ ملے اس لئے سناتا ہوں.اول.اللہ پر ایمان ہو، دوم بدیوں اور رسوائیوں سے بچنا.میں ایک پیشہ طبابت کا رکھتا ہوں جس کے ذریعہ مجھے معلوم ہوا کہ صرف ایک بدی نے دنیا کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے.کالجوں اور سکولوں سے پچانوے فیصد ایسے خطوط آتے ہیں جو شہوت کے برے خمیازہ کو ظاہر کرتے ہیں.پس عفت اختیار کرو.عفت سے صحتِ جسم ہوتی ہے اور انسان فضولیوں سے بچ جاتا ہے اور پھر سخاوت اور حلم پیدا ہوتا ہے.(۳) پھر ایک معروف وقار ہے.انسان اپنے آپ کو بیہودہ باتوں سے بچائے اور فحش نہ بولے.خصوصاً مجلسوں میں بیہودہ حرکات نہ کرے.لوگوں کی عیب چینی میں نہ لگا رہے.جلدی جواب نہ دے.ٹھٹھا نہ کرے.رزیلوں سے صحبت نہ کرے.مادر پدر آزاد نہ ہوجاوے.بہت سے نوجوانوں چھوٹی عمر کے لڑکوں اور عورتوں نمبر ۹ اور ۱۰ کے بدمعاشوں کی صحبت سے بچے.(۴) پھر ایک حیاء ہوتا ہے.حیا کلام میں بھی ہوتا ہے.آنکھ میں بھی.جاہل کندۂ نا تراش کا نام حیاء نہیں (۵) تواضع ہر ایک کی.اہل علم و فضل کی خصوصاً (۶) وفا تعظیم لامراللہ.شفقت علی خلق اللہ.(۷) حرص چھوڑدے اور سستی نہ کرے (۸) قسم قسم کی مصیبتوں پر صبر اور بدیوں سے بچتا رہے.یہ اصول ہیں معروف کے ایسا ہی شہوت پر، غضب پر، بزدلی پر غلبہ اختیار کرے.
منکر کیا ہے؟ منکر میں ہر قسم کا کفر، فسق، فجور داخل ہے.اس فسق و فجور سے کئی خاندان تباہ ہوگئے اور قطع نسل‘ عزت و آبرو کا جاتے رہنا.مال، حیا اور جمال کا جاتے رہنا یہی اس کے نتائج ہیں.تکبر سے بھی بچنا چاہئے.تکبّر انسان کو حقائق کے قبول کرنے سے محروم کردیتا ہے اور لکھنے پڑھنے سے بھی رہ جاتا ہے.خوض فیما لا یعنی یعنی بیہودہ باتوں سے بھی اپنے آپ کو بچانا چاہئے.ان دکھوں میں بڑا دکھ شہوت اور غضب کا دکھ ہے.ان کے کم کرنے کے لئے ہمارے ایک کتاب پڑھ کر مجھے پوچھا ہے کہ لوگ بتاتے ہیں کہ شہوت اچھی نہیں.مگر یہ نہیں بتاتے کہ یہ عادت کیوں کر نکل جاتی ہے.اس نے تحریک کی ہے.شہوت کا علاج: اس لئے میں تم سب کو بتاتا ہوں.وہ بھی یہاں بیٹھا ہے.شہوت فی نفسہٖ بری چیز نہیں ہے مگر جب وہ حدود اللہ کے خلاف ہو تو خطرناک ہے.بہرحال اس کے غلبہ کا علاج ہے اور مفصلہ ذیل تدبیریں مفید ثابت ہوئی ہیں:.اول.میں اپنے فن سے شروع کرتا ہوں.مجھے معلوم ہوا ہے کہ آتشک اور سوزاک کے کیا نتیجے ہیں.ان میں پھنسے ہوئے کیسے دکھی ہیں.پاگل ہوجاتے ہیں.اندھے، کوڑہی اور نامردی کی تو جڑ ہے یہ بد ذاتیاں ہیں.ان کے مطالعہ سے فائدہ ہوتا ہے.دوم.ان کے مرتکب کی اولاد گل جاتی اور عورتیں تباہ ہوجاتی ہیں.سوم.شریف اور رئیسوں کے پاس آمدورفت رکھے.وہ لُچّوں کو کبھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے.چہارم.دیکھے کہ عام بدکاروں اور خلیع الرسن لوگوں کو عام طور پر لوگ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پولیس ان کی نگرانی کرتی ہے.پنجم.اچھے لوگوں کی صحبت کو اختیار کرے اور اچھے لوگوں کی تصانیف کو پڑھے.لطیف نکتہ: میرے ایک دوست شاہ جی عبدالرزاق تھے.میں عموماً ان کے پاس جایا کرتا تھا مگر ایک دفعہ کئی دن ان کے پاس نہیں گیا.پھر جو میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ نورالدین اتنے دن کیوں نہیں آئے.میں نے عرض کیا کہ سستی ہوئی.اس پر فرمایا کہ کبھی قصاب
کی دکان پر گئے ہو.وہاں، وہاں کچھ دیکھا ہے.پہلے مجھے ان کی بات سمجھ میں نہ آئی.آخر انہوں نے سمجھایا کہ قصائی جب گوشت کاٹتا ہے تو تھوڑی دیر کے بعد دونوں چھریوں کو باہم رگڑتا ہے.اس سے اس کی غرض بظاہر کچھ معلوم نہیں ہوتی.مگر ایسا کرنے سے وہ چھریاں درست رہتی ہیں.اسی طرح پر انسان کا حال ہے.وہ ایک دوسرے انسان کی صحبت سے اس زنگ کو دور کرلیتا ہے جو اس کے قلب پر آجاتا ہے.اس لئے میں تمہیں کہتا ہوں کہ یہ کیسا عمدہ نکتہ معرفت ہے جو انہوں نے بتایا ہے.بعض وقت انسان کے اندر دکھ ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کی صحبت سے وہ دور ہوجاتے ہیں.یہ بھی یاد رکھو کہ رؤساء خواہ کتنے ہی برے ارتکاب کریں مگر بدمعاش حرام زادوں کو کبھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے.یہ بہت بڑا مضمون ہے.اس لئے اس پر زیادہ نہیں کہتا.ششم.واعظوں کے وعظ اور صلحاء کی کتابوں سے فائدہ ہوتا ہے.ہفتم.کھانے، پینے، پہننے میں بانکا پن اختیار نہیں کرنا چاہئے.جو لڑکے بانکے لباس پہنتے ہیں.انہیں چار خطرناک عادتیں اختیار کرنی پڑتی ہیں.حکایت بر سبیل تذکرہ: ہمارے بھیرہ میں ایک کنچنی جوائی نام رہتی تھی.میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارا یہ پیشہ میری سمجھ میں نہیں آتا.ایک لُچّا آدمی محلہ میں سے گزرجاوے تو ناگوار معلوم ہوتا ہے.مگر تمہیں کوئی حس نہیں.اس نے کہا.قربان جائوں جو لوگ خوش خوراک ہوں‘ خوش پوشاک ہوں اور اس پر سست ہوں اگر وہ کنجر نہ بنے تو کیا کرے.میں نے کہا.خوب است.یہ نکتہ بچپن میں ہم نے اس سے سنا.یہ گویا ایک مصرعہ تھا.اب دوسرا مصرعہ مشنری کمپونڈوں کی صورت میں معلوم ہوا کہ جو لوگ محنت کے عادی نہیں اور اچھا کھانا پہننا چاہتے ہیں.سست اور خلیع الرسن ہیں.وہ اتنا ہی غنیمت سمجھ لیتے ہیں کہ مشن کمپونڈوں میں روٹی ہی مل جاتی ہے.غرض جو لوگ کھانے پینے اور پہننے میں تو غل کرتے ہیں.آخر بڑی ہی مشکلات میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور پھر خدا پر ناراض ہوتے ہیں کہ اس نے ہمیں کیوں پیدا کیا؟ کبھی ماں باپ کو گالیاں دیتے ہیں اور پھر دوستوں پر ناراض ہوتے ہیں کہ کیوں قرضے نہیں دیتے؟ یہ خوب یاد رکھو کہ جو لوگ عمدہ کھانے پہننے اور عمدہ لباس کی فکر
میں رہتے ہیں.وہ بڑے کام نہیں کرسکتے.وہ ان باتوں کو اپنی عزت سمجھتے ہیں مگر میں انہیں ذلیل سمجھتا ہوں.اس سے میری مراد یہ نہیں کہ یہ چیزیں حرام ہیں.اللہ تعالیٰ اگر کسی کو دے تو بیشک وہ عمدہ کھائے، عمدہ پہنے مگر ان امور میں تو غل نہ کرے اور ان باتوں کو مقصود بالذات نہ بنالے.ہشتم.رزیل قوم سے بھی بچتا رہے.کیونکہ اگر انہیں دو چار جوتے بھی لگ جاویں تو پرواہ نہیں ہوتی.نہم.ایک نے کہا ہے کہ موت کو یاد رکھو.دہم.ایک نے لکھا ہے کہ شغل میں رہو.میں‘ جب تک آنکھیں نیند سے گرا نہ دیں‘ مشغول رہتا ہوں.یازدہم.نشہ او رراگ سے بچے.دو از دہم.اپنی کمزوری اور خدا تعالیٰ کی گرفت سے ڈرے.ان چیزوں کے مطالعہ سے میں سمجھتا ہوں شہوت کا علاج ہوتا ہے.مجھ پر وہ زمانہ گزرا ہے اور میں اس میں صاحب تجربہ ہوں.غضب کے لئے بھی یہی علاج ہے.اس کے علاوہ اور بھی ہے.اوّل.اللہ کی صفت (البقرۃ :۷۳)پر ایمان ہو.اس صفت پر ایمان سب گناہوں سے بچنے کے لئے مفید ہے.جب ایمان ہوگا کہ چھپ کے چوری کروں گا تو ظاہر ہوجائے گی.اسی طرح دوسرے گناہوں پر قیاس کرو.(۲) پھر یہ مطالعہ کرے کہ خدا تعالیٰ مجھے بھی پکڑ سکتا ہے.(۳) پھر یہ سمجھے کہ میں اگر اس بدکاری کا مرتکب ہوتا تو لوگ کیا مطالعہ کرتے.(۴) مسکرات کا ترک کرے.(۵) سپاہیوں سے کم تعلق رکھے.(۶) انجام کو سوچے.(۷) طبیعات کو پڑھے.(۸) اخلاق پڑھے.(۹) سیاست کی کتابوں کا مطالعہ کرے.(۱۰) صوفیوں کی تصنیفات بھی پڑھے.یہ مفید ہیں.اب ایک حرف رہ گیا.والحافظون لحدود اللّٰہ.یہ بھی اپنی ذات میں بڑا بھاری مضمون ہے.عقائد میں (جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے) غلو نہ کرے.وہ کیا ہے.جیسا کہ نصاریٰ نے کیا.دَع ما ادعتہ النصاری فی نبیھم.اسی بدعت کا نام غلو ہے.اس لئے قرآن مجید نے ہدایت کی ہے.(النساء :۱۷۲).
میں نے اسی وجہ سے اپنے امام کی قبر کو پُرشان نہیں بننے دیا کہ تم غلو نہ کرو.تم جانتے ہو کہ پہلے مسیح کے سبب سے فتنہ ہوا ہے.پس اس سے عبرت پکڑو.میں پھر تمہیں کہتا ہوں کہ تم غلو نہ کرنا.غلو عقائد میں بھی برُا ہے.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ علم بڑی دولت ہے.علم کا مزہ اَن پڑھ نہیں جانتے مگر اَن پڑھوں کے سارے مزوں کو پڑھے ہوؤں نے دیکھا ہے.ہم نے تین شادیاں کیں.رؤساء کے پاس رہے ہیں.حکومت کا مزہ دیکھا ہے.دولت کو کمایا ہے.میرے ایک دوست تھے مولوی عبدالکریم مرحوم.انہوں نے خواب میں دیکھا کہ نورالدین جوا کھیلتا ہے.انہوں نے حضرت صاحب کی خدمت میں یہ خواب بیان کیا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ نور الدین کی بابت معلوم نہیں کہ وہ لے گا یا دے گا یعنی اس کے رزق کا معاملہ انسانی فہم سے بڑھ کر ہے.اسی طرح ایک ہندو نے مجھے کہا کہ تمہارے پاس بہت سا روپیہ ہے.میں نے کہا کہ ہاں ہے تو سہی.مگر کسی کو معلوم نہیں ہوسکتا.اگر وہ روپیہ بینک میں ہو تو منی آرڈر کے ذریعہ آنا چاہئے.یہ ایسا علم ہے کہ کسی کو پتا نہیں لگ سکتا.خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ خاص فضل کیا ہے کہ وہ خود مجھے دیتا ہے اور جتنا میں چاہتا ہوں یا مجھے مطلوب ہوتا ہے دیتا ہے.علم عجیب چیز ہے مگر اس میں ایک تو سخت تعمق کرتے ہیں.جس کو کہتے ہیں کہ ہندی کی چندی نکالتے ہیں تاکہ وہ محیط ہوجاویں.یہ سخت مضر ہے کیونکہ محیط ہونا تو صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے.اس زمانہ میں یہی کوشش کی جاتی ہے اور اسی وجہ سے عربی دانوں کی بڑی تحقیر کی جاتی ہے جو میں سخت ناپسند کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(اٰل عمران :۶۶) عربی کی طرف تم کو خود بڑی توجہ کی ضرورت ہے.اس لئے کہ تمہارے دین کی کتاب جو خدا تعالیٰ کی کتاب ہے.وہ عربی میں ہے.خدا تعالیٰ نے اس زبان کو اپنا کلام نازل کرنے کے لئے پسند کیا.پس ایسانہ ہو کہ اس زبان کے جاننے والوں کی تحقیر کا وبال پڑے.غرض علم میں تعمق کی بھی حاجت ہے تو اس کے لئے ضرورت ہے انتخابِ کتب کی اور پھر ضرورت ہے انتخاب معلمین کی اور پھر ضرورت ہے عمل کی.اس سے معرفت پیدا ہوتی ہے.وہ علم جس کے ساتھ عمل نہیں بیکار ہے.میں دیکھتا ہوں کہ آج کل کے علماء (الاماشاء اللہ) مال کے دینے کی لوگوں کو تو سناتے ہیں.مگر خود خرچ نہیں کرتے.مگر خدا کا فضل ہے
کہ تم کو سنانے والا ایسا نہیں.اس نے اگر چندہ کا ذکر کیا ہے.تو سولہ سو اپنے چندہ کا پہلے فیصلہ کرلیا ہے.عبادت میں بھی تو غلو نہ ہو اور وہ یہ ہے کہ رہبانیت اختیار نہ کرے.یا ہمیشہ روزے ہی رکھے.اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہمیشہ مدّنظر رہنا چاہئے.معاملات اور عادات میں تکلّف کو چھوڑ دے.میں لکھنؤ میں پڑھتا رہا ہوں اور تکلّف کی حقیقت سے خوب واقف ہوں کہ زبان، خوراک، کلام، لباس میں کیسا تکلف تھا.دلیّ اور لکھنؤ میں زمین آسمان کا فرق ہے.میں دلیّ میں پڑھا نہیں ہوں.میں نے بہت کوشش کی کہ نذیر حسین سے کچھ پڑھوں اور کئی بار قصد کیا مگر موقع ہی نہ ملا اور اس کی حکمت مجھ پر اب کھلی.جب اس نے حضرت صاحب پر کفر کا فتویٰ دیا.اور دلی کے قدماء میں سے میں نے شاہ ولی اللہ صاحب، حضرت محمد اسماعیل صاحب، حضرت شاہ عبدالغنی صاحب اور حضرت غلام علی صاحب رحمھم اللّٰہ سے بہت فائدہ اٹھایا ہے.پھر طہارت و نجاست میں لوگ وسواس کرتے ہیں.اخلاق میں عجز و کسل سے کام لیتے ہیں.یہ مفید نہیں.پھر میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے علماء کو وارث نبی کریم کا فرمایا ہے.مگر ان کی جو عزت کی جاتی ہے وہ تم جانتے ہو.اس لئے کہ انہوں نے علم کا اصل منشا چھوڑ دیا اور لا الٰہ الّا اللّٰہ کے مفہوم سے دور جا پڑے.الفاظ کو یاد کرتے ہیں اور معانی کو چھوڑتے ہیں.میرا ایک نہایت پرانا مخلص دوست ہے.اس نے ایک مرتبہ دعا کی.اس کے پاس سو روپیہ جمع ہوگیا.پھر دعا کی کہ سو روپیہ جمع نہ ہو.اس کا بیٹا ہے.اس نے کبھی اس دعا کی قدر نہیں کی.اس کا سرّ کیا ہے؟ وہ مزہ جو خدا کو راضی کرنے کا ہے اس نے نہیں پایا.علماء کی تو یہ حالت ہے.صلحاء میں صرف دعوے ہیں.کافیوں کے عجیب عجیب الفاظ یاد کر رکھے ہیں مگر منشاء الٰہی سے دور ہیں جو (الشّمس :۱۰) میں مذکور ہے.اس طرح پر ان کی حالت بھی بگڑی ہوئی ہے.لوگ لیکچروں میں عموماً تین باتوں کا خیال رکھتے ہیں.مشاقی سے الفاظ جمع کرتے ہیں اور کبھی ہنسا دیتے ہیں اور کبھی رُلا دیتے ہیں.سو میں اگر اس کے ماتحت اپنا لیکچر رکھتا تو مجھے بہت سے الفاظ یاد ہیں اگرچہ میں نے ان کو لیکچر دینے کے لئے کبھی یاد نہیں کیا.تاہم مجھے یاد ہیں اور میں اس
طرز پر حضرت صاحب کی وفات کا واقعہ بیان کرتا تو میں نے چونکہ مرثیہ کی بہت سی کتابیں پڑھیں اور میں ان طریقوں کو جانتا ہوں اور خنساء کا دیوان میں نے پڑھا ہے.میں تمہیں رُلا دیتا مگر میں جانتا ہوں اس سے کچھ فائدہ نہیں.وہ بات جو خدا کو پسند ہے وہ کچھ اور ہے.خدا تعالیٰ کو ایک گریہ پسند ہے مگر وہ الفاظ سے پیدا نہیں ہوتا.اس کی راہیں اور ہیں.اور علاوہ بریں میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے کام کسی کے بقا اور عدم بقاء پر موقوف نہیں.وہ ایک شخص کو نبوت دے کر بھیجتا ہے.پھر جبکہ اس کے علم میں وہ کام ختم کرچکتا ہے.تو اسے واپس بلالیا جاتا ہے.بعض انسان ان کے واپس بلانے سے ابتلا میں پڑتے ہیں اور وہ اپنی جگہ اس کو قبل از وقت سمجھتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر حضرت عمرؓ جیسا انسان بھی کہتا ہے کہ ابھی وفات نہیں ہوئی کیونکہ ان کے نزدیک ابھی بہت سے کام باقی تھے.مگر خدا تعالیٰ اپنے کام کو خوب جانتا ہے.غرض میں نے اپنے اس لیکچر میں کسی ترتیب کو مدنظر نہیں رکھا.دوسرا مقصد خطبوں میں یہ ہوتا ہے کہ اپنے اغراض کو بیان کیا جاتا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ جب بھان متی کا تماشا ہوتا ہے تو آخر میں وہ کہتا ہے کہ ایک اور بڑا کھیل باقی ہے مگر میں اس کو دکھائوں گا.جب کچھ پیسے جمع ہوجائیں مگر خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر ظاہر کرتا ہوں کہ میں اپنی کوئی غرض تم سے نہیں رکھتا کہ تم سے روپیہ لے کر جیب میں ڈال لوں.جس مولیٰ نے مجھے ایسی عجیب آنکھ، ناک، کان، زبان اور دوسرے اعضاء دئیے.پھر اس نے مجھے معزز قوم میں پیدا کیا.ماں بھی معزز قوم سے تھی اور باپ بھی.یہ سب میرے مولیٰ نے اپنے فضل سے مجھے دیا.پھر علم دیا اور اس کتاب سے محبت دی جو اس کی کتاب اور اس کا کلام ہے.پھر اس کا فہم دیا اور اس کے متعلق سامان دیا.ہزاروں، لاکھوں کتابیں میری آنکھوں سے نکلیں اور خدا ہی کے فضل سے دماغ میں موجود ہیں.پھر جس خدا کے اتنے بڑے فضل مجھ پر ہیں وہ اس آخر عمر میں مجھے کسی کا محتاج کرے گا؟ کبھی نہیں اور کیا پھر میں خدا کے فضلوں کا ایسا تجربہ کار ہو کراب لعنت کی موت مرنا چاہتا ہوں کہ تم سے کچھ فریب سے حاصل کروں.نعوذ باللّٰہ من ذالک اس کے بعد اب میں دو غرضیں پیش کرتا ہوں.اوّل جو حقیقی غرض ہے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جاوے.ہر ایک چیز دو طرف حرکت کرتی ہے.ایک اوپر کو اور دوسری نیچے کو.جو لوگ پتنگ اڑاتے
ہیں پہلے تھوڑا سا زور لگاتے ہیں.جب وہ اوپر چڑھتے ہیں تو پھر اس زور سے چلتے ہیں کہ بعض وقت ان کا ضبط کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور وہ اپنی طاقت سے اوپر چڑھتا چلا جاتا ہے.دوسری حرکت نیچے کی ہوتی ہے.جیسے ڈول کو جب کنوئیں میں لٹکاتے ہیں تو چرخی اول آہستہ پھرایسی تیز ہوجاتی ہے کہ ٹھہر نہیں سکتی.پس میں تمہیں ابھی ابتدائی حالت میں جو پتنگ چڑھانے کی ہوتی ہے زور لگانے کو کہتا ہوں.جب یہ اوپر چڑھے گا تو پھر تو اس کا ضبط بھی مشکل ہوجائے گا.جس طرح پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کہا کہ اس وقت جو مٹھی بھر جوَ دے گا اس کا اجر اتنا بڑا ہے کہ آگے ایک قوم آئے جو اگر اُحد کے برابر بھی سونا دے گی تو اتنا فائدہ نہیں ہوگا.میری جو غرضیں ہیں وہ سراسر تمہاری بہتری کے لئے ہیں.ایک تو یہ کہ تم لوگ تعلیم حاصل کرو اور تعلیم سے میری غرض یہ ہے کہ حقائق سے آگاہی ہو اور پھر اس سے متمتع ہوجائو.حقیقتیں دو ہیں.ایک یہ کہ اللہ سے محبت کرو.دوم علم کا ذوق ہو.اس کائنات کو دیکھ کر کس طرح پر عظمت الٰہی کے لئے جوش اور شوق پیدا ہوتا ہے.یہ ایک بڑا مضمون ہے اور یہ میرے دل میں آیا ہے.میں اس کو اعلیٰ درجہ کا مضمون سمجھتا ہوں.اگر موقع اور توفیق ملی تو بیان کروں گا.میں اسی کو اصل سمجھتا ہوں.یہ جو کچھ کہا ہے اس کی فرع ہے اور اسی میں سے نکلا ہے.مخلوق الٰہی کی بہتری کے وسائل سوچو اور ان پر عمل کرو.ہمت بلند رکھو اور اسی راہ پر قدم مارو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے.تحمل سے حِلم سے، شجاعت سے ترقی کرو.مسئلہ تعلیم: پھر یاد رکھو کہ تعلیم بڑی مشکلات کے نیچے ہے.ایک تعلیم ظاہری ہے.حکومت حتی الوسع تعلیم میں دلچسپی لیتی ہے مگر تعلیمی راہ میں کچھ ایسے مشکلات آرہے ہیںکہ حکومت ہاتھ کھینچ رہی ہے.فیس دن بدن بڑھ رہی ہے اور تعلیمی ضروریات گراں ہورہی ہیں.میرے زمانہ تعلیم میں ایک اعلیٰ سے اعلیٰ استاد پانچ روپیہ ماہوار پر آجاتا تھا مگر اب سو روپیہ میں بھی اعلیٰ ماسٹر کے ملنے میں دقّت ہے.اسی طرح سے اور تمدن کی مشکلات نے بھی اس راہ کو مشکل بنایا ہے.مثلاً شادی و غمی کے معاملات کو ہی دیکھو کہ باوجود یہ کہ باپ کی جائیداد تقسیم در تقسیم ہوچکی ہے.مگر اولاد ہے کہ اب بھی ہزار بیگھ کی پیداوار ہونے والے اخراجات کو اب دو سو بیگھ کی آمدنی پر
بھی قائم رکھنا چاہتی ہے.غرض ظاہری تعلیم کی وہ حالت ہے.باطنی تعلیم کو بھی اسی پر قیاس کرو.تم لوگ کس قدر روپیہ خرچ کرکے یہاں آئے اور یہاں کے اخراجات الگ ہیں.غرض کیا تھی.ایک روحانی سبق کا حاصل کرنا.پھر جو چندے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں کہ سالانہ دو، ماہوار دو، یکمشت دو.غرض جس رنگ میں دیکھو گرانی بڑھ رہی ہے.شادیوں کے اخراجات بڑھ رہے ہیں.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ تم فکر کرو اور بہت فکر کرو.ظاہری تعلیم بھی ہمت بلند اور استقلال چاہتی ہے اور باطنی تعلیم بھی.میں تو اس وقت بھی اپنے ماں باپ کو دعا دیتا ہوں.وہ اس وقت بھی دو روپیہ یومیہ میری تعلیم کے لئے استاد کو دینا دو بھر نہ سمجھتا تھا اور وہ ایسی ہمت بلند رکھتے تھے کہ مدن چند نام ایک ہندو تھا جو کوڑھی ہوگیا.وہ عالم آدمی تھا اس کو باہر جامن کی جھنگی میں رکھا گیا.میرے والد اس کے پاس گئے اور کہا کہ میں اپنی آمدنی کا نصف تمہیں دے دوں گا.میرے بچہ کو پڑھائو.لوگوں نے کہا کہ کوڑھی ہوجاوے گا.خوبصورت بچہ ہے.کیوں اس کی زندگی کو ہلاکت میں ڈالتے ہو.انہوں نے کہا کہ اگر مدن چند جتنا علم پڑھ کر کوڑھی ہوجاوے کچھ پرواہ نہیں.غرض وہ اولاد کی تعلیم اور تربیت کے لئے بڑے بلند حوصلہ تھے.میں کوئی جنازہ نہیں پڑھتا جس میں اپنے والدین کے لئے بڑی بڑی دعائیں نہیں کرتا.میں جب خیرات کرتا ہوں تو ان کے لئے بھی کرتا ہوں.اپنے بچوں کے لئے تم ایسے باپ بنو.وہ ایسے بلند ہمت تھے کہ اگر وہ اس زمانہ میں ہوتے اور انہیں خبر ہوتی کہ انگریزی عمدہ چیز ہے تو وہ مجھے امریکہ بھیج دیتے.پھر جب میں نے پڑھنے کا ارادہ کیا تو کہا کہ اول ماں کو خبر نہ دو اور دوسرے اتنی دور جائو کہ اگر ہم مرجاویں تو تمہیں خبر نہ ہو اور خبر ہو، تو جلد آ نہ سکو.میں بخاری پڑھتا تھا جب ان کی وفات کی خبر آئی.میں نے کہا.مولا کریم! میں یہ باغ وقف کرتا ہوں.غرض روحانی اور ظاہری تعلیم میں کوشش کرو.لوگ کہتے کہ بعض نے لڑکے بھیجے اور کوئی کمزوری دیکھ کر کہا.تعلیم اچھی نہیں ہے.یہ غلطی ہے.عام حالت دیکھنی چاہئے.تعلیم میری اس غرض کا ایک شعبہ ہے اور اس کے پور اکرنے کے لئے بلند حوصلگی اور روپیہ کی ضرورت ہے.اگر روپیہ نہیں تو دعا ہی کرو جو لوگ متموّل ہیں وہ فیاضی سے کام لیں اور مستقل مزاج ہوں.اب
میں مختصر کرتا ہوں.میں نے بڑی محنتوں سے قرآن مجید سناناچاہا مگر باوجود خرچ اموال مجھے اس قدر کثرت سے سننے والے نہ ملے.تاہم میں نے کبھی ہمت نہیں ہاری ہمیشہ یہی سناتا رہا.یہاں تک خدا تعالیٰ نے یہ فضل کیا اور ایک کثیر جماعت سننے والوں کی پیدا کردی.یہ اس کا فضل ہے.(الفا تحۃ :۵) کے ذریعہ آتا ہے.پس تم میں سے ہر ایک اس کا مستحق ہے کہ اللہ کی رحمت کو حاصل کرے.پس ایک غرض یہ ہوئی کہ تعلیم دلائو یا حاصل کرو یا روپیہ دو یا دعا کرو.دوسری بات یہ ہے کہ بغچہ سرائے اور قازان میں عربی کے مدارس کھل گئے ہیں اور مصر نے علم کا سمندر اگل دیا ہے.ادھر ندوۃ العلماء اسی فکر میں ہے.کانپور میں الہیات کا مدرسہ کھل چکا ہے.تم اس کی فکر کرو.میں نے اپنے امام سے ایک بات پوچھی کہ کالجوں میں دہریت پھیل رہی ہے.آپؑ نے فرمایا کہ میں ہزار برس کے بعد آنے والے چاند کو دیکھ رہا ہوں.اس میں شک نہیں کہ دہریہ بنتے ہیں بے دین بنتے ہیں مگر یہ تختی صاف ہورہی ہے.تم اچھا نقش بٹھانے والے ہوگے تو بٹھائو گے.ہم جھوٹے نہیں اور آخر لوگ وہی مانیں گے جو ہم اس وقت منوانا چاہتے ہیں.اس لئے ان باتوں کی پرواہ نہ کرو.اس وقت بعض ناعاقبت اندیش کہتے ہیں کہ عربی سے کیا ہوتا ہے؟ انہیں عربی کی قدر نہیں.اس لئے کہ کالجی تعلیم نے انہیں کسی اور طرف پھینک دیا ہے.مجھ سے پوچھو کہ عربی سے کیا ہوتا ہے.عربی سے قرآن مجید آتا ہے.عربی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت آتی ہے اور آپ کی ہدایات کا علم آتا ہے.عربی سے حقیقی آثار صحابہ تابعین کے پہچانے جاتے ہیں.جو کہتے ہیں کہ عربی پڑھے ہوئے ذلیل ہیں وہ بے وقوف خود ذلیل ہیں.انہیں کہو کہ تم نے علم نہیں پڑھا.مگر اب علماء کو ضرورت سمجھ میں آگئی ہے اور وہ باخبر ہوچلے ہیں.سجادہ نشینوں کو بھی اپنے تنزل کی خبر ہوگئی ہے اور وہ بھی اس فکر میں ہیں کہ کچھ علاج کریں.مگر تمہارا سجادہ نشین زمانے کے حالات سے خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے باخبر ہے.اس لئے میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ عربی پڑھنے میں کوشش کرو.جو تدبیر سمجھ میں آوے جو کوشش ہوسکے کرو.مگر کرو ضرور.پھر یاد رکھو کہ تعلیم کا اصل منشاء وحدت کا ہے.اگر تمہارے دلوں میں رنج اور کدورت ہوگی تو خدا کے مقبول نہیں ہوگے.اس کا
علاج صبر اور دعا ہے.غرض تعلیم حاصل کرنا تمہارا مقصود ہو.دعا سے ہو.تقریر سے ہو.خوش معاملگی سے ہو.تعلیم روحانی کی خاطر لنگرخانہ مہمان خانہ، تالیف، خط و کتابت، آنے جانے والوں کے لئے مروت کی راہ تھی.یہ لنگر تعلیم روحانی کا مدرسہ ہے.اب اس کے ذریعہ تعلیم ہوتی ہے یا نہیں.تم خود موجود ہو اور میرا آج کا بیان گواہ ہے.پھر ایک ذریعہ میگزین ہے.اس کے ساتھ تین مشکلات ہیں.ایک ہی مضمون لکھتا ہے.چھپواتا ہے اور شائع کرتا ہے.وہ انسان ہے خدا نہیں.اس سلسلہ میں ضرورت ہے کہ کوئی اور اس کے ساتھ شامل ہو.پھر لنگر کے ساتھ ضرورت پڑی کہ یتامیٰ، مساکین اور مہاجر آویں.اس کے اندر ہی اندر ہائی سکول، الحکم و بدر کی ضرورت پڑگئی.پھر ہمیں واعظوں کی ضرورت ہے.میں دردِ دل سے کہتا ہوں کہ ایسے واعظوں کی ضرورت ہے جن کا منشاء خدا کو راضی کرنے کا ہو.ایسے واعظ دو طرح سے ہوسکتے ہیں.دعا سے یا نگرانی سے.آپ لوگ دور رہتے ہیں اور اس وجہ سے شاید ان مشکلات سے واقف نہ ہوں.مگر جو یہاں ہیں انہیں علم ہے.ایک نادان نے مجھ پر اعتراض کیا کہ حضرت صاحب ایسا لباس پہنتے ہیں یا بادام روغن کا پلائو کھاتے ہیں.میں نے اس کو کہا کہ ہمارے ہاں حلال ہے اور حکم ہے (البقرۃ: ۵۸).شیعوں، آریوں کی طرح نکتہ چینیوں کی طرف نہ جھکو بلکہ ہماری ضروریات اور اغراض میں ہمارے ساتھ ہو جائو.میں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ نیا کپڑا بنائو تو پرانے یہاں بھیج دو.خواہ وہ پھٹا ہوا ہی کیوں نہ ہو.جوتا ٹوٹا ہوا ہو یہاں بھیج دو.وہ کام آسکتا ہے.پھٹے اور دھلے ہوئے کپڑے عورتوں کے پوتروں ہی کے کام آسکتے ہیں.دنیا میں جو کچھ بھی ہے وہ مفید ہے.اگر تم اپنے بچے کی تعلیم کے لئے روپیہ خرچ کرتے ہو تو اس کے صدقے میں تھوڑا سا غریب اور مسکین بچوں کے لئے بھی دو.ان اغراض کے بعد ایک اور بات ہے.جانتے ہو میں نے امامت کا دعویٰ نہیں کیا مگر میرے خدا نے تمہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ تم میرے ہاتھ پر بک جائو.اس کا فضل ہے.ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے سوال کیا کہ میں کون ہوں؟ وہ حیران ہوئے.اس پر آپؐ نے فرمایا کہ تم یہ جواب دو کہ تو مکّہ کا باشندہ ہے.تیری قوم نے تجھے شہر سے نکالا.ہم نے تجھ کو اور
تیرے ساتھ والوں کو جگہ دی.ہم تیرے سینہ سپر ہوئے اور انصار.تم یہ جواب دے سکتے ہو.پھر انصار! تم یوں بھی کہہ سکتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہم پر ہوا کہ اللہ کا رسول ہمارے گھر میں آیا اور ہمارے گھر میں اللہ کی وحی آنے لگی.اسی طرح پر میں تم سے کہتا ہوں کہ میں کون ہوں؟ میں ایک انسان تم میں سے ایک ہوں.کون ہوں؟ جس نے اپنا وطن چھوڑا تھا.تم میں سے بھی بعض نے چھوڑا مگر مجھے حضرت امام نے فرمایا کہ وطن کا خیال نہ کرنا.میں نے نہیں کیا.گھر تک کی خبر نہیں لی.ایک بات بڑھ کرکی ہے کہ بیٹے کے لئے ایک پیسہ کا ورثہ نہیں چھوڑا.اس لئے کہ اس کے باپ کو مخفی راز سے ملا.اسے بھی ملے گا اور ضرور ملے گا یہ میرا یقین ہے.تم میں سے ایک ہوں.تم کہہ سکتے ہو کہ ہم نے تجھ کو نمبردار کیا اور تیری بیعت کی ہے.مگر سچ یہ ہے اور تم بھی سمجھ سکتے ہو کہ میں لا الٰہ الا اللّٰہ پر سچا ایمان لایا ہوں اور میں دنیا کی رضا کا طالب نہیں.اللہ کی رضا کا طالب ہوں کیونکہ میری ضرورتیں ہر آن نئی ہیں.پس اگر اس کی رضا کا طالب نہ بنوں تو پھر ایک دم ہی میں ہلاک ہوسکتا ہوں.اس نے آپ میری تربیت کی اور یہ بھی میری تربیت کا ایک پہلو ہے.پس تم اگر چاہو اور خدا تعالیٰ کا فضل تمہارے شامل حال ہو تو یوں سمجھ سکتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمہیں ایسا شخص دیا جو تمہارے لئے ایک درد مند دل رکھتا ہے اور تڑپ تڑپ کر دعائیں کرتا ہے.دیکھو! یہ غلط ہے کہ تم نے میری بیعت کی.میرے مولیٰ نے تمہیں ادھر جھکایا.تمہیں میری فرمانبرداری ضروری ہے.میں تمہارا سکھ چاہتا ہوں.جن دعائوں کو میں نے کبھی نہیں کیا.تمہارے لئے کرتا ہوں.پھر آخر میں کہتا ہوں کہ صمد نام سے اجتماع کرو.ہم اکٹھے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کی بھلائی کے لئے دعا کریں کہ دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کے لئے تیار ہو.اس کے بعد آپؓ نے مولوی حسن علی صاحب مرحوم کی کتاب تائید حق اور سید عبدالحئی عرب کی کتاب اوامرونواہی قرآن مجید کے لئے تحریک کی اور اب بھی جن لوگوں تک یہ تحریر پہنچے.ان کا فرض ہے کہ حضرت امامؓ کی حکم کی تعمیل کی خاطر ان کتابوں کو منگوائے.تائید حق کی قیمت ۴؍ اور اوامرونواہی کے ۹؍ ہیں.(الحکم ۲۱مارچ ۱۹۰۹ء صفحہ۱تا۵۶) ٭ … ٭ … ٭
فلسفۂ ُحبّ {تقریر فرمودہ۲۸؍دسمبر ۱۹۰۸ء بعد نماز ظہر و عصر} اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ واشھد انّ محمدًا عبدہٗ ورسولہٗ (الجمعۃ :۱۱) اللہ جل شانہ‘ کے عجائبات میں قرآن مجید کو دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے.میں نے پرسوں وعدہ کیا تھا کہ جو کچھ میں نے آج کہا ہے اس سے بڑھ کر کوئی بات کہنے کا ارادہ رکھتا ہوں اگر توفیق اور وقت اور فرصت ملے.چونکہ اللہ تعالیٰ نے سبھی کچھ دے دیا ہے.اس لئے میں اس فضل کے شکر میں آج اپنا وعدہ کو پورا کرتا ہوں.اب تمہیں تعجب ہوگا کہ کیا کہا گیا تھا.بہتوں کو تحریر پہنچ جاوے گی اور انہیں یاد آجاوے گا جو کچھ کہا گیا تھا.بہتوں کو اب بھی یاد ہوگا.تاہم پھر میں آج یاد دلاتا ہوں.میں نے اپنی پچھلی تقریر کو لا الٰہ الا اللّٰہ سے شروع کیا تھا.(حضرت خلیفۃ ا لمسیح نے ابھی تقریر شروع ہی کی تھی کہ سامنے سے ایک سکھ پیش ہوا.اسے دیکھ کر حضرت نے فرمایا کہ اس کا ایک بھائی تھا.جس نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا.وہ فوت ہوگیا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس اپنے بھائی کو مرتے وقت کہہ گیا کہ نام دھاری سکھ ہوکر مسلمانوں سے نکل جائیو.اب یہ اسی دھن میں پھرتا ہے.یہ عجائبات قدرت ہیں.) خلاصہ تقریر اوّل: میں نے بتایا تھا کہ اوّل اوّل اللہ تعالیٰ کی توحید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے کی ضرورت ہے.پھر بتایا کہ اگر ماں باپ اچھے ہوں اور صلحاء کا کنبہ ہو تو تربیت میں فائدہ پہنچتا ہے اور آئندہ زندگی پر اس کا بہت اچھا اثر پڑتا ہے.اسلام کی تعلیم کا خلاصہ ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنا ربّ سمجھ کر اس پر استقامت اختیار کی جاوے
اور ہر وقت اس کی عظمت و جلال کا اظہار کرتے رہیں.چنانچہ سب سے پہلی وحی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ یہی تھی. (العلق :۲) یعنی تو اپنے ربّ کے نام سے پڑھ جس نے انسان کو ادنیٰ چیز سے پیدا کیا اور جو اکرم ہے.اب دیکھو کہ انسان کو ایک ادنیٰ چیز سے پیدا کرکے کس اعلیٰ مقام پر پہنچایا.پس تو گویا اسی کا نام لئے جا.وہ قلم کے ذریعہ بھی انسان کو علم سکھاتا ہے.پھر دوسری وحی جو ہوئی وہ یہ تھی (المدثر :۲ تا۴) اس میں بھی یہی ہدایت ہوئی کہ تو اپنے ربّ کی بڑائی بیان کر.ایسی عجیب اور کامل طور پر اس حکم کی تعمیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی کہ اب تک روئے زمین پر پانچوں وقت اللہ اکبر پکارا جاتا ہے.اس کے بعد یہ بتایا کہ ایمان کیا چیز ہے؟ اس کے بعد جنت‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر.پھر حدود اللہ کا بیان کیا.اب عامی رنگ کا مسلمان کہہ سکتا ہے کہ اس کے سوا بڑھ کر کیا چیز ہے.مگر میں وہ اب پیش کرتا ہوں.اس لئے میں بہت ہی پسند کروں گا کہ چند منٹ تم اس کے سننے میں لگائو.کیا اس لئے کہ مضمون کیسا عجیب ہے؟ اور کیا اس لئے کہ کہنے والا کون ہے؟ کیا اس لئے کہ سننے والے کون ہیں.مضمون کیا ہے؟ اَلْحُبّ: اَلْحُبّ کیا چیز ہے؟ اس کی بڑی ضرورت ہے.اگرحُبّ ہوگی تو لا الٰہ الّااللّٰہ کی ضرورت ہوگی.اگر حُبّ ہوگی تو انبیاء، اولیاء اور پاک کتاب کی بھی اتباع کریں گے.اگر یہحُبّ نہ ہوگی تو پھر یہ اور رنگ کی ہوگی اور کفار کا اتباع کریں گے.میں یقینا کہتا ہوں کہحُبّبڑی نعمت ہے.حُبّ کی تعریف اور اس کے کرشمے: یہ ایک قوت ہے جو دل میں توجہ کی صورت میں پیدا ہوتی ہے اور جس کے دل میں پیدا ہوتی ہے وہ اس توجہ کے ذریعہ لذت حاصل کرنا چاہتا ہے.محب وہ ہے جو توجہ کرتا ہے اور محبوب وہ ہوتا ہے جس کی طرف توجہ کرتے ہیں.اب حب، محب اور محبوب کے معنے سمجھ لو.جب تک یہ
کشش ہے جو دل سے اٹھتی ہے اور پھر اس کے ذریعہ شوق، توجہ، مال و زر اور دوسرے اسبابِ لذت کو اپنی طرف کھینچ لاتی ہے محبوب جیسا کہ میں نے بتایا ہے ملذّذ چیز کا نام ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے لذت پیدا ہوگی اور محب وہ ہوتا ہے جس کے اندر یہ بات پیدا ہو اور یہ کشش کی لہر اٹھے.اب ہم لا الٰہ الا اللّٰہ بھی کسی محبت کے جوش اور جذبہ سے کہتے ہیں.اگر یہ کوشش روح میں نہ ہوتی تو ہم کو لا الٰہ الا اللّٰہ کی نہ تو توفیق ملتی اور نہ وہ ہمارے لئے باعث لذت ہوتا.حُبّ ہی ہوتی ہے جو انبیاء علیہم السلام کو انتھک کوششوں کے لئے تیار کرتی ہے اور پھر اُسی حُبّ کا جوش ہوتا ہے جو ہم ان کی اطاعت کے لئے تیار ہوجاتے ہیں.حُبّ ہی ہے جو انسان کو مومن پھر صدیق بناتی ہے اور ایسے صدیقوں کو انبیاء سے جاملاتی ہے.حُبّ ہی ہے جو شہداء کو سربکف کرکے خدا تعالیٰ کی راہ میں لئے پھرتی ہے.ایک صحابی کا واقعہ لکھا ہے کہ اس نے ایک جنگ میں پوچھا کہ جنت کتنی دور ہے.وہ ایک کھجور کھا رہا تھا.جب اسے کہا گیا کہ ایک قدم تو وہ فوراً کھجور ہاتھ سے پھینک کر آگے بڑھا کہ اس کے کھانے میں دیر لگتی ہے.یہ جوش اور یہ کشش اسی حبّ کا ایک کرشمہ تھا.اب جبکہ یہ معلوم ہوگیا کہحُبّ کیا چیز ہے تو سوال ہوتا ہے کہ حُبّ پیدا کس طرح ہوتی ہے؟ حُبّ پیدا کس طرح ہوتی ہے؟ حُبّ کے پیدا ہونے کی عجیب در عجیب راہیں ہیں مگر پانچ ایسی راہیں ہیں جو دوسرے علوم کے لئے بھی ہیں.اوّل، ایک حسین کو دیکھ کر دل میں ایک کشش اور توجہ پیدا ہوتی ہے.پھر یہ محبت بڑھتی ہے اور اس میں کچھ ایسا کیمیاوی اثر ہوتا ہے کہ پھر اس کے مقابلہ میں مال و دولت، عزت و آبرو، جان و جسم کی کچھ بھی پرواہ نہیں کی جاتی ہے اور اس سے ایک عاشق دوسرا معشوق کہلاتا ہے اور عاشق اپنے معشوق پر سب کچھ قربان کردیتا ہے.یہ واقعہ ہے اور قرآن کریم نے بھی اس قسم کی حُبّ کا ذکر کیا ہے.چنانچہ حضرت یوسف اور ایک بیوی کی حُبّ کا ذکر یا یوسف اور اس کی محبت کا واقعہ.ہر ملک اور ہر قوم میں اس کے نظائر موجود ہیں.یہ حُبّ آنکھ کے ذریعہ پیدا ہوئی.ہمارے ملک میں سوہنی مہینوال، ہیر رانجھا، مرزا صاحباں کے قصے عام طور پر مشہور ہیں.یہ تمام کرشمیحُبّ کے ہیں اور وہ آنکھ کے
ذریعہ متاثر ہوئی.پھر کچھ حُبّ اپنا اثر کان کے ذریعہ کرتی ہے.اس کے کرشمے یوں تو میں نے بہت دیکھے ہیں.مگر ایک کا ذکر کرتا ہوں.میں پنڈ دادنخان میں مدرس تھا.ایک ہندو مدرس میرے ماتحت تھا.اس کو راگ کے ساتھ خطرناک حُبّ تھی.میں نے اس کو دیکھا کہ جہاں راگ کی آواز اس کے کان میں آئی.وہ سب کام چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوجاتا تھا.یہاں تک کہ بعض خطرناک موقعوں پر جب کہ افسر سامنے موجود ہو.وہ آواز سنتے ہی سو کام چھوڑ کر بھی بھاگ جاتا اور کچھ پرواہ نہ کرتا.پھر میں نے دیکھا ہے کہ کھانے پینے یعنی ذائقہ کے متعلق ایک حبّ ہے ایسے لوگ میں نے دیکھے ہیں جو ہزاروں روپیہ کھانے پینے میں خرچ کردیتے ہیں.پھر کپڑے پہننے کی حبّ ہے.پھر ایک اور حبّ ہے جس کا نام شہوت ہے.اس حبّ میں تو غل کا نتیجہ ہر شہر میں دیکھا گیا ہے کہ بہت سے خاندانوں کا قطع نسل ہوگیا ہے.صرف ایک لذت کی حبّ نے ہر ملک اور ہر شہر میں لا ولدقومیں بنادیں.میں چونکہ طبیب ہوں اور اس لذت کے انتہا کا علم رکھتا ہوں زیادہ سے زیادہ اوسط پچیس منٹ ہے.صرف اس پچیس منٹ کی خاطر میں نے دیکھا ہے کہ قطع نسل ہوئی ہے اور کئی خاندانوں کا نام و نشان مٹ گیا.بہت سے اموال اور جائیدادیں تباہ ہوگئی ہیں جن پر لاکھوں آدمیوں کا گزارہ ہوسکتا تھا.یہحُبّ عجیب عجیب راہوں سے آتی ہے.ہمارے شہر میں ایک لڑکے کو خود بدکاری کرانے کی حُبّ تھی اور وہ اس حد تک اس لذت کا غلام ہو چکا تھا کہ خواہ کوئی اس کی بیوی بھی لے جاوے.مگر اس کی اس حرص کو پورا کرے.کان، آنکھ، زبان اور شہوت کا ذکر تو ہولیا.مگر ان کے علاوہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیںجو ناک کے ذریعہ برباد ہوتے ہیں.ناک کے ساتھ دو امور وابستہ ہیں.ایک تو فطرتی ہے یعنی خوشبو، پچاس روپیہ تولہ والا عطر گلاب استعمال کرنے والے بھی میں نے دیکھے ہیں.پھر یہی نہیں کہ صرف ان کو لگایا جاتا ہو بلکہ لگانے والے پہلے تو خود لگالیتے اور پھر تمام متعلقین کو لگا دیتے.میں نے منع بھی کیا.مگر اس نے کہا کہ وہ چکنائی کی برداشت نہیں کرسکتے.اس لئے پہلے اوروں کو لگا دیا جاتا ہے تاکہ چکنائی کی تیز ُبو دور ہوجاوے.
پھر ایک اور امر ناک کے متعلق ہے جس کو کہتے ہیں کہ اگر فلاں کام نہ کیا جائے تو ناک کٹتی ہے اور یہ رسوم اور رواج ہیں.اب تم نے دیکھ لیا کہ انسان اس حُبّ کے اندر کیا کچھ کرتا ہے اور آنکھ ، کان، زبان، ناک اور شہوت کی حُبّ کے لئے کیا کرتا ہے.یہ تم نے سمجھ لیا کہحُبّ کیا چیز ہے.وہ خواہش ہے لذت کی.محب مُتَلَذِّذ ہے اور محبوب مُتَلَذَّذ ہے.ٹٹولنے کے متعلق بھی حُبّ ہے.اس کے لئے قسم قسم کے لباس بنا ہے اور پھر قسم قسم کی عورتوں کو چاہا گیا ہے.کیا تم دیکھتے نہیں کہ غریب سے غریب آدمی بھی شادیوں پر کس قدر خرچ کردیتا ہے.پھر مہروں کو دیکھ لو کہ لاکھ لاکھ کروڑکروڑ مہر باندھتے ہیں.غرض یہ حُبّ ان پانچ حواسوں کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہے.میں نے کبھی اس پر وعظ نہیں کیا.گویا اس مضمون پر کچھ کہنے کی یہ پہلی تاریخ ہے اور تمہارے لئے بھی یہ پہلا ہی دن ہوگا کہ حُبّ پر مضمون سنو.اس حُبّ پر بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں.ان پانچ حواسوں کے سوا ایک اور سلسلہ بھی حواس کا ہے.چنانچہ ایک اور حس ہے جو ان پانچوں کے اختلاط اور کیمیاوی اثر کا ایک نتیجہ سمجھنی چاہئے.اس کا نام حس مشترک ہے.جن لوگوں نے حواس کے فلسفہ پر بحث کی ہے.وہ کہتے ہیں کہ جہاں پانچوں حواس جمع ہوں اور پھر ان سے الگ ہوکر جو چیز محفوظ رکھتی ہے اس کا نام خیال ہے اور اس سے پرے ایک اور باریک چیز ہے جس کو معانی کہتے ہیں.جیسے چوہا جب بلی کو دیکھتا ہے تو وہ فوراً دہل جاتا ہے.گویا اندر ہی اندر اسے ایک علم ہوجاتا ہے کہ یہ مجھے نہیں چھوڑے گی اور وہ گھبرا جاتا ہے.دوسری طرف بلی کو وہ شعور ہوتا ہے کہ اب یہ بھاگ نہیں سکتا.وہ ایک جست کرکے اسے فوراً پکڑ لیتی ہے....جب اپنے بچوں کو چوہے کا پکڑنا سکھاتی ہے تو عجیب عجیب تماشے کرتی ہے.وہ چوہے کو پکڑ کر بچے کے سامنے رکھ دیتی ہے پھر وہ پکڑتا ہے.پھر چھوڑ کر پکڑتا ہے.یہی حال شیروں اور بارہ سنگھوں کا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ بارہ سنگھ شیر کی آواز سنتے ہی ڈر جاتا ہے اور اندر ہی اندر اس کی طاقت زائل ہوجاتی ہے.یہ کیاسِرّ ہے.یہ ایک طاقت ہے جو اندر معنوں کو محفوظ رکھتی ہے.اسے حافظہ کہتے ہیں.پھر ایک اور قوت پیدا ہوتی ہے جو متفکرہ کہلاتی ہے.پھر دماغ میں ہزاروں قسم کی ایسی سلوٹیں اورپیچ در پیچ مقامات اور اعصاب کا
اتنا بڑا کارخانہ ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے.آنکھ کی بناوٹ پر غور کریں تو یہ ایک اور ہی دنیا ہے.سبز دیکھنے کے لئے اور ہی ڈورے ہیں.سرخ دیکھنے کے لئے الگ.غرض مختلف رنگوں کے دیکھنے کے لئے مختلف اعصاب ہیں اور وہ سب کے سب ایک ہی وقت میں اپنا جدا جدا کام کررہے ہیں.بہت سے لوگ ہمارے پاس علاج کے لئے آئے ہیں جو کوئی ایک رنگ نہیں دیکھ سکتے تھے.غرض یہ بھی ایک بڑا سلسلہ ہے پھر دیکھو کہ ایک شخص تیز دوڑتا ہوا جارہا ہے.راستہ میں کوئی ٹھوکر کا پتھر آتا ہے تو اس تیزی کے ساتھ پائوں کے پٹھے کو حکم ہوتا ہے اور وہ فوراً اپنا پہلو بدل کر اس سے بچ کر نکل جاتا ہے.یہ محسوسات کا تماشا ہے.ربّانی فیض کا منبع: مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فیضان آتے ہیں.ڈاکٹروں کی آنکھ اس کو دیکھ نہیں سکتی اور وہ نہیں جانتے کہ اس کا منبع کیا ہے؟ اس لئے کہ ان کی نگاہ محسوسات سے آگے نہیں جاسکتی.ان علوم کے وارث اور عالم وہ لوگ ہوجاتے ہیں جو انبیاء کہلاتے ہیں.پھر ان کے اتباع اور تعلیم سے تیار شدہ لوگ جو اولیاء اور متقی ہوتے ہیں.انہیں ان فیضانوں کا علم دیا جاتا ہے.جناب الٰہی کی طرف سے جو خبریں آتی ہیں.اس کے علوم بالکل الگ ہیں.انسان کے اندر دو قسم کے مرکز ہیں.ایک دماغ دوسرا دل.دماغ دنیوی علوم اور مادی محسوسات کا منبع کہنا چاہئے اور قلب آسمانی علوم کا مرکز ہے.قرآن شریف کی غرض اور مقصود اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلقات کو بڑھانا ہے اور انسان کو آسمانی علوم کا وارث کرنا ہے.اس لئے وہ کہتا ہے. (الشعراء:۹۰) اب اس آیت میں دماغ کا ذکر بالکل گم کرتا ہے.اس سے یہ مراد نہیں کہ دماغی نشوونما کی ضرورت اور دماغی عجائبات پر غور کرنے کی ضرورت بتاتا نہیں.بلکہ قرآن مجید دوسرے مقامات پر (الذّٰریٰت :۲۲) اور اسی قسم کے دوسرے الفاظ بھی استعمال کرتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دماغی ترقی سے روکتا نہیں اس کی طرف توجہ دلاتا ہے.مگر انسانی خلق کی غایت اور مقصد مادی ترقیات نہیں.اس لئے ذہنی ترقیوں کے ساتھ اس کا پہلا فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ قلب سلیم کے عجائبات کو مشاہدہ کرنے کی کوشش کرے جو تقویٰ اللہ سے حاصل ہوتے ہیں اور تمام سروروں کا باعث ہوتے ہیں.پاک
مطاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.حُبِّبَ اِلَیَّ مِنْ دُنْـیَاکُمْ ثَلٰثٌ اَلنِّسَآئُ وَالطِّیْبُ وَ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ.(مسند احمد بن حنبلحدیث نمبر جلد۳ صفحہ ۱۲۸ مطبوعہ بیروت) اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ہے کہ جناب الٰہی نے محبت ڈال دی ہے.یہ نہیں فرمایا کہ میں محبت کرتا ہوں.کل یا پرسوں میاں منظور محمد نے مجھ سے پوچھا کہ مدارج ترقی کی انتہا بھی ہے.اس وقت خیال آیا کہ صوفیوں نے اس پر بحثیں کی ہیں.تمام ترقی یافتوں میں اولیاء ہوتے ہیں.اس میں غایت درجہ جناب الٰہی کا دیدار ہے.پس یہ لوگ تو وہاں تک تڑپتے ہیں کہ اس مقام لقاء تک پہنچ جاویں.حضرت معروف کرخی کو کسی نے رؤیا میں دیکھا کہ وہ یوں کھڑے تھے (اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح نے آسمان کی طرف منہ کرکے ٹکٹکی لگاکر بتایا) یعنی آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھے کھڑے ہیں.کسی نے پوچھا کہ کیوں کھڑے ہیں؟ تو جواب دیا کہ جناب الٰہی کو دیکھتے ہیں اور کوئی خواہش اب باقی نہیں رہی.جو لوگ صوفیاء کی صحبت میں بیٹھتے ہیں وہ (یونس :۲۷) کے یہ معنے لیتے ہیں.اَلنَّظْرُ اِلٰی وَجْہِ اللّٰہ.ان لوگوں میں یہ کہانی لقاء اللہ تک ختم ہوجاتی ہے.مگر انبیاء علیہم السلام میں عبودیت کی حُبّ رکھی ہے.اس حُبّ کا محبوب بھی اللہ ہے.جب تک اللہ ہے عبودیت بھی ہے.چونکہ حکم دینے والے کے مدارج کا انتہا نہیں.اس لئے ترقیات کا بھی انتہا نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرشتہ کے ذریعہ پوچھا گیا کہ آپ کیا بننا چاہتے ہیں.فرمایا.عبد.پھر پوچھا تو یہی فرمایا کہ عبد.پھر پوچھا فرمایا کہ عبد.غرض حُبّ کے بہت عجائبات ہیں.پہلا مرتبہ حواس خمسہ سے شروع ہوتا ہے.پھر حواس خمسہ باطنی پھر قلب کے عجائبات ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرے قلب میں محبت ڈالی گئی.ایک بیویوں کی.یہ کیوں؟ یہ بھی محبت کی جامع ہوتی ہیں.آنکھ بھی حظ اٹھاتی ہے کان بھی.مسّ سے بھی لذت حاصل ہوتی ہے.اس سے مراد آپؐ کی مراد یہ تھی کہ حواس کے ذریعہ سے جو انسانی کمالات ہیں.خدائے تعالیٰ نے مجھے ان سے بھی متمتع کیا ہے اور یہ حواس سب عجیب دئیے ہیں.پھر ان میں ایک چیز ناک کے متعلق عارضی ہے.اس لئے فرمایا کہ مشک کی بھی محبت دی
ہے.یہ عجائبات دماغ کے متعلق تھے.اس لئے ان کے ذکر کے بعد فرمایا کہ قلب کے کمالات بھی عطا فرمائے ہیں اور وہ یہ ہیں.قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ (المستدرک.کتاب النکاح)پہلے فرمایا تھا حبب الی یعنی مجھ میں محبت ڈال دی گئی ہے اور یہاں فرمایا کہ قُرَّۃُ عَیْنِی.میری آنکھوں کا سرور اور ٹھنڈک تو نماز میں ہے.ساری خوشیوں کا منتہا اور ساری لذتوں کی جڑ آپ کے لئے نماز ہے.اگرچہ یہ بھی کہا کہ مراد عائشہ و بتول ہے.ایک علمی نکتہ: عربی زبان میں جب مونث مذکر کو جمع کرتے ہیں تو غلبہ مذکر کو دیتے ہیں.جیسے کہتے ہیں.امراء ۃ ورجال جاء وا یعنی عورتیں اور مرد آئے.اس لئے یہاں ثلث کہا.ثلثہ نہیں کہا؟ پھر یہ سوال ہے کہ نساء کو مقدم کیوں کیا؟ صوفیا نہ ذوق کی بات ہے.اس کا سِرّ صوفیا نے یہ لکھا ہے کہ سارا کارخانہ جناب الٰہی کا موقوف ہے اثر ڈالنے پر اور اثر لینے پر.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کچھ ملا وہ اثر کرنے پر موقوف تھا.بیوی بھی ایک اثر کو قبول کرتی ہے اور اس اثر کا نتیجہ ہے جوبچہ پیدا ہوتا ہے.آسمان بھی نطفہ کی طرح زمین پر پانی ڈالتا ہے اور پھر اس کی تاثیرات کے نتائج مختلف ہیں.اسی طرح پر تاثیرات کا ایک وسیع سلسلہ ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جامع کمالات ظاہر کیا ہے اور بھی کچھ چیزیں آپ کو پسند تھیں.ان میں سے ایک دودھ بھی ہے.جب آپ دودھ لے کر پیتے تو فرماتے الٰہی اس سے بڑھ کر دے اور کوئی چیز لے کر کھاتے تو فرماتے.اس میں برکت دے.دودھ کے بھی بڑے عجائبات ہیں.ہمارے ایک دوست ہیں.ان کو ایک مرتبہ خواب آیا کہ میرے پاس دودھ کا نصف پیالہ ہے.مجھ سے انہوں نے لے کر پیا.میں نے اس کی تعبیر کی کہ علم ہے.غالباً آپ ہم سے پڑھیں.ان دنوں مولوی عبدالکریم مرحوم مجھ سے بخاری پڑھتے تھے.نصف ہوچکی تھی کہ وہ آئے بعض باتیں جو پسند آئیں تو بے اختیار کہہ اٹھے کہ اب میں بھی پڑھوں گا.چنانچہ باقی نصف بخاری انہوں نے مجھ سے پڑھی اور اس طرح پر یہ رؤیا پورا ہوگیا.قصہ معراج میں بھی آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شراب اور دودھ پیش کیا گیا.آپ نے دودھ ہی پسند کیا اور پیا.اس پر جبرائیل نے کہا کہ اگر آپ شراب پیتے تو امت غاوی ہوجاتی.
غرض محبت ایک چیز ہے جو آنکھ، کان، زبان ، لمس اور شہوت سے پیدا ہوتی ہے.اب اس سے آگے چلیں تو یہ بات کھلتی ہے کہ اگر یہ چیزیں دنیا میں موجود نہ ہوتیں تو یہ محب اور محبوب کہاں ہوتے؟ اس سے معلوم ہوا کہ وجود جڑ ہے تمام محبتوں کی.جس قدر اس میں ترقی ہوگی اسی قدر محبت میں ترقی ہوگی مثلاً دیکھا کہ ایک عورت ہے اس کی شکل چڑیل کی سی ہو انسان اس سے محبت نہیں کرسکتا.بدشکل انسان ہے تو موجود مگر وہ محبوب نہیں، پاخانہ موجود ہو تو وہ مطلوب نہیں ہوسکتا.اس سے معلوم ہوا کہ وجود کے ساتھ کمالات ہوں تو وہ محبوب ہوسکتا ہے.پس حُبّ کا وجود موجود سے ہوتا ہے بشرطیکہ اس وجود کے ساتھ کمال ہو.جس قدر کمالات میں ترقی ہوگی اسی قدر محبت زیادہ ہوگی.جہاں کمال پیدا ہوتا ہے محبت بھی جلوہ گر ہوجاتی ہے.لیکن اگر اس کمال میں بقا نہ ہو توکچھ بھی نہیں.مثلاً آنکھ کے سامنے ایک خوبصورت شیٔ جلدی سے گزر جاوے تو وہ اتنی پسندیدہ نہیں ہوسکتی بہ نسبت اس کے کہ وہ زیادہ دیر تک رہے.پس ضرور موجود ہو.اس کے ساتھ کمال ہو اور کمال کے ساتھ بقاء ہو.پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگ خود کشی کیوں کرلیتے ہیں.اس کی جڑ یہی ہے کہ اگر وہ کمال کا بقاء دیکھ لیتے تو ہرگز ایسا نہ کرتے.یہ جو ہم کہتے ہیں کہ آنکھ، ناک اچھی ہو تو یہ اس قسم کی محبت ہے.لوگ مال و دولت اور دوستوں کو پسند کرتے ہیں.یہ بھی دراصل محبوب کے لئے ہے.غرض جو کچھ ہے حسن و جمال کی خاطر ہے.جس کے سبب ان چیزوں کو پسند کرتے ہیں اس کے آگے ایک اور چیز ہے اور وہ احسان ہے.آنکھ، ناک، کان کا کوئی مزہ نہ ہو تو احسان کی وجہ سے بھی محبت ہوجاتی ہے.ڈاکٹر کے سامنے ایک خطرناک مریض ہو.زخموں میں پیپ پڑچکی ہو.بدبو آتی ہو.ڈاکٹر اس کا علاج کرتا ہے.ڈاکٹر کی کوئی چیز اسے پسند نہ ہو.مگر مریض ہے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے.کیوں؟ جُبِلَتِ الْقُلُوْبُ عَلٰی حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ اِلَیْھَا (کنزالعمال فی سنن الاحوال زیر حرف میم الباب الثالث فی الحکم والجوامع الکلم) انسانی فطرت میں یہ امر ہے کہ وہ اس شخص سے جو اس کے ساتھ احسان کرتا ہے محبت کرتا ہے.پس ایک ذریعہ حُبّ کا احسان بھی ہے.احسان ایک ایسی چیز ہے کہ بعض وقت فاسقوں،
فاجروں کو بھی پسند آنے لگتا ہے.روٹی، کپڑا، مکان وغیرہ چیزیں جو انسان کو اچھی معلوم ہوتی ہیں اور ان سے محبت کرتا ہے تو اس کی جڑ بھی احسان ہی ہے.دوائی جو آنکھ میں ڈالتے ہیں اگرچہ وہ لگتی ہے اور تکلیف ہوتی ہے تاہم اچھی معلوم ہوتی ہے.ایسا ہی لباس وغیرہ کا حال ہے.بعض چیزوں کے حسن کو بیان بھی نہیں کرسکتے.(اس موقع پر حضرت نے ایک نابینا کی مثال بیان کی جس کو کبوتر بازی کا شوق تھا اور جب کبوتر اڑاتا تو منہ اٹھائے ہاتھ پر ہاتھ ہاتھ مار کر مزہ لیتا) یہ بھی ایک حُبّ ہے کہ انسان اسے بیان نہیں کرسکتا.میں طالب علم تھا میرے ایک محسن مکرم عنایت فرما عبدالرشید مراد آبادی تھے.انہوں نے کہا کہ میرے ایک آشنا نے مجھ سے کہا کہ میں بنارس کے ایک لڑکے پر عاشق ہوں.ہم دس بارہ آدمی اس کو دیکھنے گئے کہ وہ کون بنارسی لڑکا ہے جس پر یہ عاشق ہیں.اس نے سوچا کہ ان کی آنکھیں تو اس طرح سے نہیں دیکھتی ہیں جس طرح پر میں دیکھتا ہوں.ممکن ہے کہ جن وجوہات سے میں اسے پیار کرتا ہوں ان کے نزدیک وہ کچھ بھی نہ ہوں.اس لئے اس نے ان سے کہا کہ ٹھہرو، میں دیکھ آئوں کہ وہ مکان پر بھی ہے یا نہیں.وہ ایک چکر لگا کر آگیا اور کہا کہ وہ آج مکان پر نہیں ہے.میں نے کہا کہ یہ بھی ایک نکتہ ہے کہ حُبّ ہوتی ہے مگر سمجھ ہی نہیں آسکتا.اس کو حب لا مرما کہتے ہیں.بعض لوگ سورۃ یوسف پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یوسفؑ بڑے ہی خوبصورت تھے.مگر انہیں آپ کا عشق نہیں آتا.اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جن کا بیان نہیں کرسکتے.میرے ایک دوست یہاں آئے تھے.وہ کانگڑہ میں رہتے ہیں.انہوں نے مجھے کہا کہ آپ وہاں آئیں.عجیب عجیب دلربا سینریاں ہیں.میں نے کہا کہ کیا کیا سینری ہے بیان تو کرو.اس پر کہنے لگے کہ میں بیان نہیں کرسکتا.مگر آہ یہ سب محبوب جو میں نے بیان کئے زوال پذیر ہیں.ایک شخص ایک عورت کو بھگا لے جاتا ہے صرف آنکھ کی خوشی کے لئے.چند روز کے بعد جب معلوم ہوا کہ اسے آتشک تھا یا عورت کی ناک کٹ گئی تو اسے چھوڑنا چاہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کسی طرح سے اس بلا سے رہائی ملے.اس محبوب کو پھر بلا سمجھتا ہے.میں نے ایسے گویّے دیکھے ہیں کہ وہ عقل فکر حیران کردیتے ہیں.مگر ذرا آواز بگڑی تو پھر گلستان کا یہ مصرعہ
پنبہ ام درگوش کن لوگ پڑھ اٹھتے ہیں.غرض فانی چیزوں کی محبت کا یہی حال ہے کہ وہ فانی اور زوال پذیر ہیں.تماشا کی گڑیا کیسی حسین ہوتی ہے مگر کوئی اسے محبت نہیں کرتا.جانتے ہیں کہ ابھی تباہ ہوجائے گی.ان واقعات سے ایک اصل ہمارے ہاتھ آگیا کہ حسن یا احسان ہو.اس کے ساتھ کمال ہو.اس میں دوام ہو تو وہ محبوب ہوجاتا ہے.اس سے آگے بڑھو ایک اور باریک چیز ہے جو محبوبیت کی شان رکھتی ہے.وہ علم ہے.اگر علم کا ذوق ہو تو حسین جمیل بیوی کتنا ہی کہے کہ یہاں ٹھہرو تو وہ یہی کہے گا کہ فلاں عالم کا آج لیکچر ہے میں تو اسے سنوں گا.تمہارا آنا قادیان آنا بھی اسی ذوق کے ماتحت ہے جو سارے آرام چھوڑ کر چلے آئے.ایک واعظ ہو‘ سخت بد شکل ہو‘ منہ کے دانت نکلے ہوئے ہوں.لیکن اپنے کمالات علم کی وجہ سے وہ محبوب ہوجائے گا.اس سے یہ مسئلہ حل ہوا کہ ایک محبوب پر دوسرا محبوب قربان کیا جاتا ہے.کبھی علم سے محبت ہوتی ہے.کبھی دین سے، انبیاء و رسل سے محبت کی جڑ یہی ہے.مکہ میں عناق نام ایک کنچنی زمانہ جاہلیت میں تھی.ایک صحابی کا زمانہ جاہلیت میں اس سے تعلق تھا.جب وہ مسلمان ہوا تو وہ تعلق بھی جاتا رہا.وہ ہمیشہ مدینہ سے مکہ آتے اور مسلمان قیدیوں کو چھڑاکر لے جاتے.یہ بدکار قوم ایسی ہے کہ جب کوئی نہ ملے تو دیر تک چراغ جلا کر بیٹھی رہتی ہیں.ایک رات جو وہ آیا تو اس کا گزر اس کے گھر کے پاس سے ہوا.تو اس نے کہا او جابر! میں جانتی ہوں تو کس غرض کے لئے آیا ہے.میں تیری غرض میں مدد دوں گی تھوڑی دیر کے لئے یہاں آجائو.جابر نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کردیا ہے.اس نے کہا.محمدؐ فی المدینۃ این ینظر.یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو مدینہ میں ہے وہ کہاں دیکھتا ہے.جابر نے کیا اچھا جواب دیا ربّ محمد ینظر اس پراس کنچنی نے کہا کہ پرانا زمانہ یاد کرو.مگر اس پر بھی جب اس کا مطلب پورا نہ ہوا تو کہا تمہیں مشکلات میں ڈلوادوں گی.اس نے اس پر کہا کہ کچھ بھی پرواہ نہیں.کیونکہ وہ تو اپنے تمام محبوبات کو اسلام کے لئے جواب دے چکا تھا.یہ سن کر وہ چلائی کہ مکہ والو! تمہارے قیدیوں کو چھڑالے جانے والا موجود ہے.اس پر
سب ٹوٹ پڑے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ محبوبوں میں بھی فرق ہوتے ہیں.وطن بھی محبوب ہے.اولاد بھی محبوب ہے.بیویاں بھی محبوب ہیں.مگر پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر صحابہ نے سب کو قربان کردیا اور ایک حُبّ دوسری پر غالب آگئی.اس محبت کے ذریعہ بڑے بڑے سرچشمہ پھوٹتے ہیں.دیکھوتم کو حضرت صاحب سے محبت ہے پھر میاں محمود سے محبت ہے پھر ان کی دوسری اولاد سے محبت ہے اور پھر مجھ سے بھی محبت ہے لیکن اگر کوئی امر مجھ سے خلاف شریعت سرزد ہو تو پھر تم کہہ دو گے کہ ہم تو اللہ کے لئے محبت کرتے ہیں.اب اس سے آگے چلو اور غور کرو کہ تقویٰ اور علم کے ہزاروں لاکھوں مراتب ہیں اور پھر ان محبتوں کے نتیجے میں کس طرح کی قربانی ہوتی ہے.اب کفار ہی میں دیکھو.میں نے ایک عربی اخبار میں پڑھا کہ دیکھو.پنجاب میں لاجپت رائے.مرہٹوں میں تلک، بنگال میں سریندر و بابو اور بپن پال محباّن قوم کہلاتے ہیں اور خاص خیال کے لوگ ان کے مداح ہیں.ان کی خاطر بعض ناعاقبت اندیش لوگوں نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال دیا ہے اور مال و جان کی بھی کچھ بھی پرواہ نہیں کی.مجھے معلوم ہوا کہ اٹھارہ سے پچیس برس تک کے نوجوان لڑکے ہیںجنہوں نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالا ہے.اس لئے کہ وہ محباّن ملک ہیں.تمام محبتوں سے بڑھ کر جب خیال آیا تو بیوی، بچوں، مال و دولت اور سب سے بڑھ کر جان تک کی بھی پرواہ نہیں کی.ایک دفعہ کسی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو مصلحین سے محبت ہے.میں نے کہا ہاں ہے تو سہی.مگر میرا عجیب تماشا ہے.ایک کو دوسرے پر قربان کرتا رہتا ہوں.اس نے کہا کہ کیشب بابو اور دیانند سے بھی محبت ہے؟ میں نے کہا کیوں نہیں.انہوں نے لاکھوں بت توڑ ڈالے.اس لئے اس حد تک میں نے ان سے محبت کی.پھر کہا کہ سرسید سے بھی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں.پھر اس نے کہا کہ آپ علی گڑھ نہ گئے اور نہ دیانند اور کیشب بابو کے پاس جاکر رہے.مگر مرزا کے پاس تو ایسے گئے کہ گھر بار ہی چھوڑ دیا؟ میں نے کہا تم جانتے ہو کہ میں ایک مذہبی آدمی ہوں اور مجھے قرآن مجید سے محبت ہے.اس میں لکھا ہے کہ (الانعام :۱۲۴)
یعنی بڑے بڑے آدمی راستبازوں سے محبت نہیں کرتے.بلکہ وہ ان سے قطع تعلق کرنے والے ہوتے ہیں.اب میں جو دیکھتا ہوں تو حضرت صاحب کے ساتھ کسی بڑے آدمی نے تعلق ارادت قائم نہیں کیا.حالانکہ کیشب بابو کے مریدین میں مہاراجہ کوچ بہار تھا اور ایسا ہی دیانند اور سرسید کے ساتھ تعلق رکھنے والے بھی بڑے بڑے آدمی تھے تو قرآن مجید کی یہ آیت مجھے راستباز کی صداقت کا ایک معیار نظر آتی تھی.اس لئے میں نے مرزا کو راستباز یقین کرکے پھر اپنی آنکھ سے دیکھ کر ساری محبتوں کو اس پر قربان کردیا اور اس کی خاطر وطن، عزیز اور دنیا کی خواہشیں قربان کردینی مجھے بہت ہی آسان معلوم ہوئیں اور جہاں اس نے کہا میں بیٹھ گیا.میرے ایک دوست ریاض احمد نام یہاں آئے تھے.انہوں نے میرے اس معیار صداقت کو کہیں سنا ہوگا یا پڑھا ہوگا.انہوں نے کہا کہ میں نے آپ کا معیار صداقت سنا ہے.مگر آپ یہ تو بتائیں کہ بڑے اور چھوٹے آدمیوں میں فرق کیا ہے؟ کیا نواب صاحب بڑے آدمی نہیں ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ مالیر کوٹلہ کے نواب نہیں ہیں.بلکہ وہاں کے خوانین میں سے ہیں.اس پر اس نے کہا کہ میں تو بریلی سے یہ خیال لے کر آیا تھا.اب میں جاتا ہوں.خیر یہ سلسلہ بڑا لمبا ہے.آنکھ، ناک، کان، ذوق، شہوت کے محبوب میں بھی محبوب ہوتے ہیں.مگر علم اور دین کے سامنے ان کی کچھ بھی حقیقت نہیں اور اس پر ان کو قربان کردیا جاتا ہے.اس قربانی کے عجیب عجیب تماشے میں نے دیکھے ہیں.ابھی میاں شریف کی انگلی کا ایک پورا اڑ گیا.ڈاکٹر نے کہا کہ جب تک اس کی ہڈی کا صاف حصہ نہ کاٹا جاوے.ماس اوپر نہیں آئے گا.اس پر مجھے بھی سپارش کرنی پڑی کہ ہاں اسے کاٹ دیا جاوے.کیونکر اس ہڈی کی محبوبیت کو اس پر قربان کردیا گیا.پھر محرم میں اس کے عجیب تماشے ہیں.یزید قریشی ہے، اولاد صحابہ میں سے ہے، دنیاوی جاہ و جلال بھی رکھتا ہے، اسلامی سلطنت کا بادشاہ بھی ہے امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ جب بدمعاملگی کی تو اب امام حسینؓ کے بالمقابل کوئی اس کا نام تولے یا پگڑی ہی باندھ کر اس مجلس عزا میں بیٹھ جاوے.یہ بھی علم دین کی حُبّ کا ایک تماشا ہے.مال بھی محبوب ہے تم نے قربان کیا.گھر کی انگیٹھیاں اور آرام سب کچھ آپ کو حاصل تھا.مگر اسے بھی قربان کیا.کیوں ان سے بڑھ کر جو ایک حُبّ نے اپنا اثر کیا.وہ حُبّ ایسی ہے جس کا
سرچشمہ دین ہے.مگر دین کہاں سے پیدا ہوتا ہے.علم اور قدرت سے ایک دیندار عالم اگر پاگل ہوجاوے تو کس کام کا.پس ان سب کا خلاصہ کیا ہوا؟ انسان اپنی جان سے پیار کرتا ہے.اپنی بقاء سے پیار کرتا ہے.پھر صحت سے پیار کرتا ہے.پھر سلامتی سے پیار کرتا ہے.مگر اس پیار کو حسن و جمال پر قربان کر دیتا ہے اور اسے کمال احسان پر قربان کرتا ہے اور حسن و احسان دونوں کو کامل دین کے لئے نثار کرتا ہے.پھر جب اس کی عقل جاتی رہے.تو اتقی اور علم پر اسے بھی قربان کردیتا ہے.اب میں تم سے پوچھتا ہوں کہ حسینوں کو کس نے پیدا کیا.کون حسن کو قائم رکھتا ہے.کس کی دی ہوئی آنکھوں، کانوں، ناکوں اور زبان سے متمتع ہوتے ہیں.مالوں سے کون متمتع کرتا ہے.محسنوں کو وہ چیزیں کون دیتا ہے.جس سے وہ کسی پر احسان کرتے ہیں.علم و دین اور قدرت کا سرچشمہ کون ہے؟ جواب یہی ہوگا کہ ایک وراء الوراء ذات ہے جو ان تمام صفات کاملہ کی جامع ہے.پس معلوم ہوا کہ حقیقی محبوب وہی ہونا چاہئے اور تمام محبوب اس پر قربان کردینے کے قابل ہیں.وہ ایک ایسا محبوب ہے کہ اس میں بقاء بھی ہے.پھر ایسی بقاء کہ اس کو زوال نہیں.بلکہ کمال ہے.کمال احسان ہے اور کمال حسن بھی وہ (النور:۳۶) پھر اللہ تعالیٰ اگر محبوب بنا ہے.تو وہ (النور:۳۶) ہے.اس کے علم کے سامنے کسی کا علم ہستی ہی کیا رکھتا ہے.انسان کبھی کبھی شجاعت کے کرشمے دیکھنے کا خواہشمند ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ پہلوانوں کے دنگل میں بیس بیس روپیہ ٹکٹ کی قیمت دے کر بھی چلا جاتا ہے.مگر اس سلسلہ کو ذرالمبا کرکے غور کرو.علیؓ کی شجاعت پر بھی نظر کرو اور پھر خدتعالیٰ کی شجاعت کو دیکھو.(النور:۴۶) اور (القمر:۵۶) ہے.حسن اور احسان میں کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا.محبوب اور ان کے حسن، محسن اور ان کے احسان کس نے بنائے؟ ہم دھوپ میں ہوں تو سایہ کی ضرورت ہوتی ہے.مگر دھوپ اور سایہ کس نے بنائے؟ اندھیرے میں ہوں تو روشنی کی ضرورت ہوتی ہے.مگر روشنی کس نے بنائی؟ یہ سارا سلسلہ بالآخر جناب الٰہی پر جاکر ختم ہوجاتا ہے اور وہ حقیقی محبت کا چشمہ قرار پاتا ہے.پھر دوسرے محبوبوں میں ایک نقص عظیم ہے کہ ان کی خوبیاں زوال پذیر ہیں اور بعض وقت ایسے نقص
پیدا ہوتے ہیں کہ خودکشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے.مگر اللہ تعالیٰ لازوال خوبیوں کا مالک ہے اور تمام عیبوں سے پاک جو محبوب ہے.وہ اللہ ہی ہے.محبوبوں پر ذرا عیب لگ جاوے تو محبوبیت معدوم ہوجاتی ہے.ایک شخص ایک مرتبہ آدھی رات کومیرے پاس آیااور وہ اتنا بڑا آدمی تھاکہ میرے جیسے کو لاکھ دو لاکھ دے سکتا تھا مگر آدھی رات کو خود آیا اور میرے دروازہ کو کھٹکھٹایا اور جب میں نے دروازہ کھولا تو جھٹ سر سے پگڑی اتار کر میرے پائوں پر رکھ دی.سبب دریافت کیا تو کہا کہ اتنی مصیبتوں سے ایک عورت کو بلایا ہے اور اب میں قادر نہیں ہوسکتا.اس لئے پیشاب کا بہانہ کرکے آپ کے پاس آیا ہوں.اب کوئی دوا دو ورنہ مرتا ہوں.مجھے اس حالت کو دیکھ کر ایک عجیب نکتہ یاد آیا کہ محبوبیت کے لئے بھی بڑی مصیبت ہے.کہتے ہیں کہ ایک مولوی صاحب اپنی ایک شاگردنی پر عاشق ہوگئے.اس نے کہا کہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرکے آئو.وہ گئے اور کانپتے ہوئے آئے اور اپنے عضو تناسل پرجوتے مارے کہ کم بخت تو نے ذلیل کیا.غرض محبوبیت کے ساتھ ذرا دکھ ہو تو باطل ہوجاتی ہے.پس ایک ہی محبوب ہے جو تمام عیوب سے پاک اور تمام نقصوں سے منزہ ہے اور وہ سبوح قدوس محبوب ہے جو علم، قدرت میں کامل ہے.(الجمعۃ :۲) تمام چیزوں سے گواہی ملتی ہے کہ اپنے علم قدرت میں یکتا.حی و قیوم ہونے میں کامل.اس کے حسن کا کمال یہ ہے کہ ہے اور تمام عیوب سے منزہ ہے.پھر جس جس قدر کوئی اس کا قرب حاصل کرتا ہے.اسی قدر وہ منزّہ ہوتا جاتا ہے.اب سوچو کہ اگرحُبّ اور عشق کوئی چیز ہے تو صرف اللہ ہی سے چاہئے.میں نے پرسوں بتایا تھا کہ لا الٰہ الا اللّٰہ مجھے کس طرح آیا اور دعا، قرآن کریم سے کس طرح محبت بڑھتی گئی مگر اس وقت یہ نہ بتایا کہ ان سب کی جڑ حُبّ تھی.اس لئے کہ جناب الٰہی کے جو کام ہیں.رحمانیت سے شروع ہوتے ہیں.پھر رحیمیت کی ضرورت پڑجاتی ہے.کیونکہ جب اس نے قویٰ دئیے ہیں اور استعمال کی تاکید کی ہے.آخر میں رحمانیت کی شان سے پھر کرشمہ دکھایا.مرزا صاحب میں ایک شان محبوبیت تھی.اس نے ہمیں کھینچا اور اس محبت پر وطن اور دوسرے دنیوی منافع کو قربان کردیا.اس محبت کی غرض لا الٰہ الا اللّٰہ کی ہی تکمیل تھی.ان کا رفع ہوا اور وہ
محبوب حقیقی کے حضور پہنچے.تو ان کی و فات نے بھی لا الٰہ الا اللّٰہ ہی کی طرف ہمیں متوجہ کیا.جب سچی محبت مولیٰ سے ہوگی.تو اس کا منشاء معلوم کرنے کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر اس کی پاک کتاب اور پاک زبان سے بھی محبت ہوگی.اس کو قرآن کریم نے جہاں سے میں نے اس وقت کھول کر رکھا ہے.بیان کیا ہے. (اٰل عمران :۳۲) یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت رکھتے ہو.تو اس کی پہچان یہ ہے کہ میرے تابع ہوجائو.پھر تم آپ ہی محبوب ہوجائو گے.یہ گُر ہے جو قرآن مجید نے بیان کیا ہے.کیسا مجرب نسخہ ہے.پہلے آپ آزماتا ہے پھر تمہیں بلاتا ہے.ایک اور راز محبت ہے اور قرآن کریم نے ہی اسے بیان کیا ہے مگر چونکہ بہت ہی باریک ہے.عادت کے نہ ہونے کے سبب اور وقت کے تنگ ہونے کے باعث اس وقت کھول نہیں سکتا.حُبّ کے لئے ایک مناسبت ہوتی ہے.اس مناسبت کے سبب سے عشق و محبت ہوتی ہے.ہیر یا رانجھا کو ایک دوسرے نے جس نظر سے دیکھا.کوئی اور ان کے دیکھنے والا نہ تھا.یہ ایک باریک راز ہے اور بڑی صحبت کو چاہتا ہے.میرے دل میں جوش ہے.جس سے بتائوں کہ یہ کیا راز ہے.ایک لاہوری دوست ایک شخص کو یہاں لائے اور اپنے خرچ سے لائے کہ تم مرزا صاحب کو ایک مرتبہ چل کر دیکھ آئو.پھر جو جی چاہے کہنا.جب وہ دیکھ کر واپس گیا اور اس سے پوچھا.تو اس نے اگر کچھ کہا تو یہ کہ نہایت ہی لغویت کے ساتھ آپؑ کی پگڑی پر اعتراض کیا.اس کی نظر میں وہ شان محبوبیت جو مرزا میں تھی آہی نہیں سکی اور ایک ہم ہیں کہ اس کی پگڑی کے پیچوں میں بھی ایک محبت کا جذبہ معلوم ہوتا ہے اور محبت کا ایک ایسا مخفی راز ہے کہ ہاتھ چومتے چومتے تھکتے نہیں اور وجہ نہیں بتا سکتے.اس کے مقابلہ میں بغض بھی ہے.اس کے لئے بھی اسی قدر کہنا پڑتا ہے.مگر یاد رکھو کہ یہ ایک مخفی راز ہے اور نہایت باریک.(الحجر :۳۰) او فرشتو! میں ایک آدم بناتا ہوں.وہ عناصر کی چیز ہے.تمہیں اس سے کیا تعلق.مگر میں اس میں اپنا ایک سِرّ محبت ڈالتا ہو ںتو تم سجدہ میں گر جائو گے.
یہی وہ سِرّ ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بعض لوگوں سے پوچھے گا کہ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِیْ (مسلم کتاب البر والصلۃ باب فضل عیادۃ المریض) میں بیمار ہوا مگر تم نے میری عیادت نہ کی.وہ کہے گا کہ تو کب بیمار ہوا.مگر اسے جواب میں بتایا جاوے گا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا.تم نے اس کو نہیں پوچھا.یہ کیا تھا.وہی مخفی امر حُبّ کا تھا.اس بندہ کا پوچھنا گویا خدا تعالیٰ کا پوچھنا تھا.یہ ایک سِرّ ہے جو اس بندہ کے ساتھ تھا.فلاسفر اس سِرّ کو پہنچے ہیں کہ ایک آنکھ جب دوسرے سے لڑتی ہے تو حُبّ ہوجاتی ہے مگر وہ اس راز کو بیان نہیں کرسکے کیونکہ یہ ایک کیمیاوی تاثیر ہے جو بیان میں نہیں آسکتی.اس سے سمجھو کہ جس کے دل میں لا الٰہ الا اللّٰہ کلمہ پیدا ہوا.اس نے دنیا کی محبتوں پر نظر کی اور تمام محبوبوں کو دیکھا.تو ان کی محبوبیت کو ذاتی نہ پایا اور ان میں نقص زوال محسوس کیا.ان کو دیکھ کر دل سے، زبان سے، جان سے رات دن کے رونے سے یہ نکلا کہ لا الٰہ الا اللّٰہ کہو.لاشریک لہ کہو.اب یہ کیا سِرّ ہے کہ سارا کارخانہ ہی حُبّ سے چلتا ہے مگر ان میں زوال ہے.میں نے بہت غور کیا ہے کہ جہاں تک محبت مخلوقات سے ہے.وہ ایک مخفی راز ہے اور وہ حی و قیوم کے تربیت کے نیچے ہے.پھر محبت کے بھی کئی مراتب ہیں.اس کی تمثیل سنو! ایک شخص جو ریگستان میں ہو اور سخت گرم ہوا چل رہی ہو اور دھوپ بھی سخت تیز ہو.وہ اس سے گھبراتا ہو.وہ دور سے درخت کو دیکھتا ہے اور اس کے سایہ کو غنیمت سمجھتا ہے اور دوڑ کر اس کے نیچے چلا جاتا ہے.لیکن وہاں وہ ایک اور درخت دیکھتا ہے.جس کا سایہ گھنا ہے اور پاس پانی بھی ہے تو وہ اس سایہ دار درخت کو جس کے پاس تالاب بھی ہے زیادہ پسند کرے گا اور وہاں چلا جانا چاہے گا.لیکن اس کے بعد ایک اور درخت کو دیکھتا ہے جہاںتالاب ہی نہیں بلکہ آدمی بھی ہے تو وہاں جاتا ہے اور وہ جگہ اسے محبوب تر نظر آتی ہے.پھر وہاں جاکر پوچھتا ہے کہ تو کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے کہ دہریہ ہوں.لیکن آگے دیکھتا ہے کہ ایک اور شخص ہے جو خدا کو مانتا ہے تو وہاں جاتا ہے مگر اس سے جاکر پوچھا کہ تو کون ہے اور اس نے کہا کہ میں آریہ ہوں.تو پھر بھی شکر کرتا ہے کہ دہریہ تو نہیں.لیکن آگے چلتا ہے تو اور دیکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو قادر ماننے والا ہے اور وہ یہودی یا مجوسی یا برہمو ہے تو اور
بھی خوش ہوتا ہے مگر اس سے بھی اگر مسلمان ہو تو اور بھی پسند کرے گا.لیکن شیعہ ہو تو اور آگے چلتا ہے اور سنی ہو تو اور بھی خوش ہوتا ہے اور احمدی ہو تو پھر اور بھی خوشی ہوگی.اس سے معلوم ہوا کہ حُبّ میں مراتب ہوتے ہیں اور فطرتاً ادنیٰ کو اعلیٰ پر قربان کرتے رہتے ہیں اور یہ واقعی بات ہے کہ جوں جوں کسی کو منزہ پاتے ہیں اسی قدر محبت کے تعلقات بڑھتے جاتے ہیں.اب یہ تو سمجھ میں آگیا ہوگا کہ نیکی وغیرہ کا مدار حُبّ پر ہے.اسی لئے میں نے کہا تھا کہ وہ مضمون اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے.میں اس کا بچپن سے مشتاق ہوں اور عجیب در عجیب محبوبوں کے نظارے کئے ہیں اور اس نکتہ پر پہنچا ہوں.کہ اللہ سے بڑھ کر کوئی محبوب نہیں.یہ بھی کہا تھا کہ کھانے پینے کا اول فکر ہوتا ہے پیدا ہوتے ہی پھر کپڑے کا.پھرآہستہ آہستہ عمدہ حالت آئی تو پچھلی کو چھوڑتا جاتا ہے.میں نے ایسی نابکار عورتیں دیکھی ہیں جو بچپن میں لاڈ سے بچوں کے عضو تناسل کو بارہا ہاتھ لگاتی ہیں مگر جب وہ بڑا ہوجاتا ہے تو پھر انہیں کہنا پڑتا ہے کہ تو الگ سویا کر.پھر باحیا اور بے حیا کا فرق بنتا ہے.غرض محبوبیت اور محبت کا تماشا ہوتا رہتا ہے.ہم میں ایک اور استعداد ہوتی ہے جو ترقی کی استعداد ہے.اس کے بھی عجیب عجیب تماشے ہوتے ہیں.آم کے درخت کو اتنا پھول آتا ہے کہ اگر سب پھل ہو تو جڑ تک کا ستیاناس ہوجاتا ہے.پھر جھکڑ چلتے ہیں او راس پھول کا بہت سا حصہ گرادیتے ہیں.چند دنوں کے بعد کیریاں لگتی ہیں اس کے ساتھ جانور وابستہ ہوتے ہیں.کچھ لڑکے لے جاتے ہیں.پھر چٹنی اور امچور کے لئے خرچ ہوتے ہیں.کچھ اچار کے مربّہ کے کام آتے ہیں.آخر جو بچتے ہیں وہ پکتے ہیں.جہاں دو چار پکے اتار لئے اسی طرح پر یہ سلسلہ ختم ہوجاتا ہے.آم کے پھول چاہتے تھے کہ ہم ہی رہ جاویں مگر ہوا کے جھکڑ نے صفائی کی.علٰی ہذا القیاس.یہ بھی ایک تماشا ہے.اب ہم میں انگریزی پڑھا ہوا دیکھتا ہے کہ متمدن قوم انگریزی بولتی ہے.غیر قوموں کو انگریزی کے ذریعہ سب کچھ پہنچا سکتے ہیں.پس ہمارا ہی راج ہو اور جو ہم چاہیں وہی ہو.بہت خوب! ایک عربی دان آتا ہے.وہ کہتا ہے کہ عربی ہی تو جان ہے.اسلام آسکتا ہی نہیں جب تک عربی سے محبت نہ ہو.قرآن عربی میں ہے اس کے لئے عربی کا پڑھنا ضروری ہے.عربی ہی عربی
ہو.میں اس تماشے کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہوں اور کہتا ہوں.خوب است! اپنے اپنے محبوبات سے کام لے رہے ہیں اور قوم کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ہر فرد میں سچا جوش ہو کیونکہ جب تک ہر ایک کو اپنے مذاق کے موافق جوش نہ ہو تو کامیابی کیسے ہو.میں جب طب پڑھنے گیا تو میرے استاد نے پوچھا کہ کہاں تک پڑھو گے.میں نے کہا کہ مجھے افلاطون بنادو.میں نہیں جانتا تھا کہ طبیب اور حکیم میں کیا فرق ہے.اس نے کہا کہ پھر تم کچھ پڑھ لو گے.اگر تم موجز کا نام لیتے تو میں کبھی نہ پڑھاتا.پس میں جب مباحثات سنتا ہوں اور ہمت بلند کے تماشے دیکھتا ہوں تو بہت خوش ہوتا ہوں.ایک انگریزی پر مباحثہ کرتا ہے.دوسرا عربی کی اہمیت جتاتا ہے.فٹ بال، کرکٹ وغیرہ میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہر ایک بڑھنا چاہتا ہے.قرآن مجید میں ہے.(الواقعۃ :۱۱، ۱۲) بہت سے نادان حیران ہوتے ہیں اور شاید بعض سمجھتے ہوں کہ یہ جھگڑتے ہیں.فلاں اٹھا اور اس نے دوسرے کی ایسی تردید کی کہ ناک رگڑ دیا.میں کہتا ہوں وہ حُبّ کے لئے بولتا ہے.تمہارا جو فرض منصبی ہے تم بھی زور لگائو.میں سچ کہتا ہوں کہ مجھے بڑی ہی خوشی ہوتی ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ عربی کا مؤید کہتا ہے کہ سب کو پیچھے چھوڑ دو اور سب کو اس پر قربان کردو.میں اس کے جوش کو دیکھ کر کہتا ہوں کہ ہاں ضرور ایسا ہی کرو.یہ جوش کام دے گا اور اس کے نتیجے مفید اور بابرکت ہوں گے.ہمارے شیخ یعقوب علی اٹھتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ مشینوں کے ذریعہ کام ہونا چاہئے اور مشینیں آنی چاہئے اس کے لئے اتنے ہزار چاہئے.میں کہتا ہوں، کروڑ مانگتا ہے تو دو یہ بھی ضروری ہے.دوسرا اٹھتا ہے کہ بدر کے لئے دو.کم قیمتی میںیہی ایک اخبار ہے.وقت پر نکالنے کے لئے خرچ کرنا پڑتا ہے اس لئے روپیہ کی ضرورت ہے اس کی کثرت اشاعت کی حاجت ہے.میں کہتا ہوں ٹھیک ہے کرو.میگزین والے کہتے ہیں کہ حضرت صاحبؑ نے فرمایا دس ہزار اشاعت ہو میں کہتا ہوں کہ بیس ہزار ہو.صاحبزادہ صاحب ہیں.تم نے ان کی نظم اپیل کو سنا ہے.ان کے دل میں حق کا جوش ہے.وہ بڑے ہونہار ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں نظر بد سے بچاوے (آمین) میں نے ان کی نظم کو سن کر رو
رو کر سجدہ میں ان کے لئے دعا کی ہے.ان کے اندر اس قدر جوش موجزن ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ حق کے مخالفوں کو پیس دوں.میں کہتا ہوں ہاں ایسا ہی ہونا چاہئے وہ جو اپیل کرتے ہیں اس کی تعمیل ہونی چاہئے.پس ان جوشوں کو دیکھ کر گھبرائو نہیں بلکہ خوش ہو کہ یہ ترقی کے لئے ضروری ہیں.ہاں! مقابلہ والوں کو چاہئے کہ حد بندی ہو.دنیا میں عیب گیری بہت ہوتی ہے.کسی کے لیکچر میں جوش دیکھتے ہیں تو اس پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ اگر نیک نیتی اور حسن ظن سے کام لیا جاوے تو بات آسان ہے کہ یہ حُبّ کا کرشمہ ہے اور حدود بندی جناب الٰہی کے اختیار میں ہے.مگر ہرشخص کا فرض ہے کہ اپنی راہ میں پورا زور لگائے.ایک اٹھتا ہے وہ کہتا ہے کہ ضعفاء کے لئے چندہ دو.ہم اپنے غریب بھائیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں.دوسرا کہتا ہے کہ مت دو.صدرانجمن ہی میں دو.وہ کہتا ہے کہ میں تمہارے روکنے سے نہیں رکتا.میں اپنی ذات کے لئے نہیں مانگتا.یہ عجیب بات ہے.تم اس نکتہ پر پہنچو نہ پہنچو مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب حُبّ کے کام ہیں.صدرانجمن کا حکم بھی ایک حُبّ ہے.وصایا پر کاربند ہونا بھی حُبّ ہے.یہ سب حُبّ ہے مگر میرا منشاء پوچھو تو عربی تو میری محبوب زبان ہے.اس کی تائید تو میں اپنا فرض سمجھتا ہوں مگر میں تو اس کے ساتھ یہ بھی چاہتا ہوں کہ وید کی زبان، فرانسیسی اور جرمن بھی پڑھیں اور میرا سارا کتب خانہ پڑھیں.غرض انگریزی کے مؤید خوب زور لگائیں.عربی کے مؤید خوب تائید کریں اور میرے جیسے انڈیا کی اور نو دس زبانیں بڑھا کر خوب کوشش کریں.ابو سعید جیسے بھی ہوں جو مختلف زبانیں سیکھ لیں.غرض سب کی ضرورت ہے.ہمیں ہر قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے.مگر نیک نیت، نیک کردار، خداترس اور سچے فرمانبرداروں کی.دیکھو، خالد بن ولید کی ایک بھی حدیث نہیں.ضرار بن آزر کا نام بھی حدیث کی کتابوں میں نہیں وہاں جائو تو قال ابوہریرہ ملے گا.مگر تاریخ میں جائو تو پھر ابو عبیدہ، خالد اور ضرار
کے کارناموں کو دیکھو.یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ کچھ عربی کے کچھ انگریزی کے، کچھ اور زبانوں کے مؤید ہیں.یہ سب مقابلہ ہے اور ان سب کی ضرورت ہے اور ان سب کو جوش کرنا چاہئے.آگے رہی حدبندی وہ تمہارا کام نہیں اور نہ وہ میرا کام ہے.گو میں سب کا مؤید اور سب کا جامع ہوں بلکہ وہ اصل کام ہے.الحکم کا بھی مؤید ، بدر کا بھی مؤید، انگریزی دانوں کا بھی مؤید، وکیلوں اور ڈاکٹروں کا بھی مؤید.عبدالحئی کہتا ہے کہ میری کتابیں لے لو.ایک میرا داماد ہے.وہ کہتا ہے میرے پاس طبیب حاذق ہے وہ لے لو.میں کروں تو کیا کروں.ان سب کو بے شک مجھے ہی کہنا چاہئے.تائید حق کے لئے میں نے کہا اور پھر پوچھا تو جس کے پاس تھیں.اس نے کہا کہ تھوڑی ہی بکی ہے.غرض حُبّ کا مضمون بہت بڑا تھا.میں نے کاٹ کر ایسے روکا اور کم کیا.ساری عمر میں یہ مضمون نہیں سنایا.مگر چھوٹی سی عمر سے میں اس پر غور کرتا رہا ہوں.اسی نے مجھے قرآن سکھایا.اسی نے مرزا تک پہنچایا.اب اسی جوش حُبّ میں میں چاہتا ہوں کہ اس کے لئے واعظ پیدا ہوں.ہمارے مفتی صاحب کو بھی تم سے محبت ہے.وہ کہتے ہیں میں آپ کو دعا سکھائوں.جس سے حُبّ پیدا ہوتی ہے.وہ یہ ہے.اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ.(ترمذی:کتاب الدعوات) اے اللہ میں مانگتا ہوں تجھ سے تیری محبت اور اس کی محبت جو تجھ سے محبت رکھے اور وہ کام جو مجھ کو پہنچاوے.تیری محبت تک.اس کے بعد میر حامد علی شاہ صاحب نے اپنے کشوف بتائے جو حضرت خلیفۃ المسیح وسلمہ اللہ تعالیٰ کی خلافت اور انتخاب ربانی کی تائید کرتے تھے اور بعد دعا جلسہ برخاست ہوا.(ایڈیٹرالحکم ) (الحکم۷،۱۴،۲۱؍مارچ ۱۹۰۹ء صفحہ۵۷تا۷۸) ٭ … ٭ … ٭
بچوں کو نصیحت (تقریر فرمودہ ۲۳؍جنوری ۱۹۰۹ء بعد نماز مغرب بمقام مسجد مبارک قادیان) حضرت خلیفۃ المسیح نے مدرسہ کے چھوٹے بچوں کو مخاطب کر کے فرمایا.تم جانتے ہو کہ برسات میں جب آم کی گٹھلیاں زمین میں اگ آتی ہیں تو بچے اکھیڑ کر ان کی پیپیاں بناتے ہیں لیکن اگر اس آم کی گٹھلی پر پانچ چھ برس گزر جاویں تو باوجود یہ کہ یہ لڑکا بھی پانچ چھ برس گزرنے پر جوان اور مضبوط ہو جائے گا لیکن پھر اس کا اکھیڑنا دشوار ہو گا پس معلوم ہوا کہ جب تک جڑ زمین میں مضبوطی کے ساتھ نہ گڑ جائے.اس وقت تک اس کا اکھیڑنا آسان ہے.اور جڑ مضبوط ہونے کے بعد دشوار.عادات وعقائد بھی درخت کی طرح ہوتے ہیں بری عادات کا اب اکھیڑنا آسان ہے.لیکن جڑ پکڑ جانے کے بعد ان کا ترک کرنا یعنی اکھیڑنا غیر ممکن ہو گا بعض بچوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ہو جاتی ہے اگر شروع سے ہی اس کو دور نہ کرو گے تو پھر اس کا دور کرنا مشکل ہو گا.ہم نے دیکھا ہے کہ جن کو بچپنے میں جھوٹ کی عادت پڑ گئی ہے پھر عالم فاضل ہو کر بھی ان سے جھوٹ کی عادت نہیں چھوٹتی ہے.جھوٹ بولنے کی عادت اس طرح ہوتی ہے مثلاً کسی لڑکے کو دودھ پیتے دیکھا تو خود بھی اس کی ریس کرنے کو جی چاہا کہ ہم کو بھی دودھ پینا چاہئے پھر اس کے لئے چند دلائل بھی دماغ میں پیدا کر لئے کہ ہمارا دماغ کمزور ہے اگر دودھ نہ پئیں گے تو دماغی کام نہ ہو سکے گا پیسے پاس نہیں ہیں تو پھر جھوٹ بول کر پیسے حاصل کرتے ہیں.ایک مرتبہ ہماری جوانی کا زمانہ تھا اور ہم مقام خوشاب میں تھے کہ حسین شاہ نامی ایک شخص دودھ کا کٹورا بھر کر ہمارے سامنے لایا اور کہا کہ اس کو پی لو.میں نے کہا میں تو دودھ پی نہیں سکتا اور مجھ کو دودھ ہضم نہیں ہوتا.اس نے بڑے تعجب کے ساتھ کہا کہ ہم تو تم کو حکیم سمجھ کر دوا دریافت کرنے آئے تھے تم تو خود ہی مریض ہو.بھلا بتائو تو سہی اگر تم سے کوئی شخص اس بات کی دوا پوچھے کہ مجھ کو دودھ ہضم نہیں ہوتا تو تم کیا بتا سکتے ہو جبکہ تم خود اپنی ہی دوا نہیں کر سکتے.میں نے یہ سن کر کٹورا
اس کے ہاتھ سے لے لیا اور سب دودھ پی گیا غرضیکہ مجھ کو دودھ پینے کی مطلق عادت نہیں اور میں بالکل دودھ نہیں پیتا.لیکن اب بھی دیکھو کہ کس قدر دماغی کام کرتا ہوں اور تمام تمام رات بیٹھ کر پڑھ سکتا ہوں.یہ بالکل غلط خیال ہے کہ ہم دودھ پی کر ہی دماغی کام کر سکتے ہیں غرض جس لڑکے کے پاس پیسے نہیں ہوتے وہ جھوٹ کے ذریعہ سے پیسے حاصل کرتا ہے.تم ہی میں سے ایک لڑکا ہمارے گھر میں آتا تھا ہمارے گھر والے بھی اس کے ساتھ سلوک کرتے رہتے تھے اس کو فضول خرچی کی عادت نے چوری پر مجبور کیا.اوروہ ہمارے گھر سے زیور چرا کر لے گیا خدا کے فضل سے ہمارا زیور تو واپس آگیا.لیکن اگر وہ لڑکا فضول خرچی کے سبب چوری کرنے کے گناہ میں مبتلا نہ ہوتا تو وہ بہت سے برکات اور تعلیمات سے محروم نہ ہوتا جیسا کہ اب اس کو اسکول بھی چھوڑ دینا پڑا.اس لڑکے سے جب دریافت کیا کہ تیرے پاس یہ زیور کہاں سے آیا تو اس نے کہا کہ مجھ کو مسجد کے قریب پڑا ہوا ملا تھا.دیکھو اس کو جھوٹ بھی بولنا پڑا.تم میں سے غریبوں کو چاہئے کہ غریبانہ زندگی بسر کریں اور امیروں کی ریس ہرگز نہ کریں.میرے بیان سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ میں دودھ کی مذمت اور برائی بیان کرتا ہوں بلکہ دودھ تو بہت ہی اعلیٰ درجہ کی چیز ہے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ بہت پسند تھا اور فرمایا کرتے تھے اللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَزِدْنَا مِنْہ(روضۃ المحدثین جزء نمبر۱۰ صفحہ ۳۲۷) جن کو میسر ہے اور وہ پی سکتے ہیں میرا تو جی چاہتا ہے کہ وہ ضرور پیئیں لیکن جن کے پاس نہیں ہے وہ چوری نہ کریں‘ جھوٹ نہ بولیں‘ فضولی نہ کریں.اگر تم کو اس وقت عادت پڑ جائے گی تو پھر اس کا چھوڑنا سخت دشوار ہو گا.جھوٹ فضول خرچی چوری کی عادت بالکل نہ ڈالو اور بہت بچو.میری ان باتوں کو یاد رکھو اور بہت ہی یاد رکھو.اگر کوئی امیر ہے تو اپنے واسطے ہے غریبوں کو کیا ضرورت ہے کہ اس کی ریس کریں.دوسری نصیحت میں تم کو یہ کرتا ہوں کہ آج اگر تم نماز نہ پڑھو گے تو بڑے ہو کر تو پھر بالکل ہی تم کو نماز کی عادت نہ رہے گی ہم مکتب میں پڑھا کرتے تھے ایک مرتبہ ہمارے استاد نے بچوں کو نماز پڑھنے کے واسطے مسجد میں بھیجا ہم میں ایک لڑکا تھا اس نے وضو کر کے کہا :یارو! کیسی نماز؟ کون نماز پڑھتا ہے یہ کہہ کر اس نے اپنی پیشانی پر مٹی ملی جس سے یہ معلوم ہونے لگا کہ یہ مسجد میں نماز
پڑھ کر آیا ہے.دیکھو اس نے سب کو نماز نہ پڑھنے اور جھوٹ بولنے کی ایک اٹکل سکھائی پھر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بڑا نامی گرامی چور ہوا.اور ہمارے شہر کے تمام چوروں اور بدمعاشوں میں اس کا اوّل نمبر تھا.ایک مرتبہ وہ ایک قلعہ کی دیوار سے کودا.اس کو قبصہ کی سخت تکالیف اٹھانی پڑیں.میری اس نصیحت کو بھی یاد رکھو کہ نماز دل سے پڑھو.(الحکم ۲۸؍جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ۴،۵) ٭ … ٭ … ٭
ایمان کی مضبوطی {تقریر فرمودہ ۲۸؍ مارچ ۱۹۰۹ء } حضرت امیرالمومنین و خلیفۃ المسلمین ؓ نے ۲۸؍مارچ ۱۹۰۹ء کو جبکہ لاہور سے خواجہ کمال الدین صاحب ‘ شیخ رحمت اللہ صاحب‘ ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب‘ مرزا یعقوب بیگ صاحب تشریف لائے ہوئے تھے.ایک موقع پر اپنے خدام کی طرف مخاطب ہو کر جو مختصر سی تقریر فرمائی تھی اس کو میرے عزیز مبارک اسماعیل نے نوٹ کیا تھا اور اسی نے صاف کیا ہے اور ناظرین الحکم تک پہنچانے کا واسطہ ہوا ہے.اس کے لئے ناظرین دعا کریں.(ایڈیٹر الحکم) اگر آدمی کا ایمان مضبوط ہو تو اس کو کوئی دکھ نہیں پہنچ سکتا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایمان کو دیکھو.غیر مذاہب والوں نے بھی ان کے ایمان پر یقین کیا ہے.اس واقعہ کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کا نام سارہ تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک دفعہ مع اپنی بیوی کے مصر جانے کا اتفاق ہوا.مصر کے آدمی چونکہ بدصورت ہوتے تھے.اس لئے مصر کے بادشاہ کو لوگوں نے خبر کی کہ آپ کی سلطنت میں فلاں مقام کی ایک بہت خوبصورت عورت آئی ہے.بادشاہ نے اپنے آدمیوں کو بھیجا کہ اس عورت (حضرت سارہ) کو پکڑ لائیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اس بات کا پتہ لگا تو انہوں نے حضرت سارہ سے فرمایا کہ تم پر اب ایک ایسا حادثہ ہونے والا ہے.تم ہمیشہ دعا میں لگی رہنا اور اسی پر دارومدار رکھنا.خدا تعالیٰ دعا سے تمام مشکلات حل کردیتا ہے.حضرت سارہ کو لوگ زبردستی پکڑ کر اس بادشاہ کے پاس لے گئے.بادشاہ نے فعل بد کا ارادہ کیا.جب پاس گیا تو اس پر فالج گرا.غرض کہ تین مرتبہ اس نے ارادہ کیا اور تینوں مرتبہ اس پر فالج گرا.آخر اس نے تنگ آکر حضرت سارہ سے تمام حال پوچھا.انہوں نے جواب دیا کہ میرا خاوند ایسا نیک ہے اور اس قسم کا آدمی ہے...تمام کیفیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنادی.بادشاہ کے دل پر حضرت سارہ کی باتوں کا ایسا اثر پڑا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بلایا.وہ جب
آئے تو معذرت کے ساتھ حضرت سارہ کو واپس دیا اور اپنی بیٹی ہاجرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دے دی.اب سارہ اور ہاجرہ اکٹھی ہوگئیں.واقعات کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سارہ نے پہلے کبھی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کوئی عہد لیا تھا کہ جو میں کہوں گی اس کو پورا کرنا پڑے گا.(جیسا کہ رام چندر جی کی سوتیلی ماں نے اپنے خاوند سے عہد لیا تھا کہ جو میں کہوں گی اس کو پورا کرنا پڑے گا.جب راجہ رام چندر جی کی تخت نشینی کا وقت آیا تو اس نے معاہدہ کو پیش کیا اور کہا کہ میرے کہنے کے موافق رام چندرجی کو چودہ برس کا بن باس دیا جائے) اب سارہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ ہاجرہ کو کسی دوردراز جگہ میں چھوڑ آئو.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بہت سمجھایا مگر سارہ نے نہ مانا اور اپنی بات پر اصرار کیا.پس حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ اے خدا اب میں کیا کروں؟ خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ اپنا وعدہ پورا کرو.پس آپ حضرت ہاجرہ کو لے کر دوردراز ملک میں چلے گئے اور کسی پہاڑی پر چھوڑ آئے.اب حضرت ہاجرہ کی گود میں ایک بچہ تھا.جس کا نام اسمٰعیلؑ تھا اور وہ ابھی شیر خوار تھا.ایک مشکیزہ پانی کا ان کو دے آئے تھے.خدا تعالیٰ نے اس مقام اور اس زمین کا نقشہ کو قرآن کریم میں اس طرح بیان فرمایا ہے.(ابراہیم :۳۸) جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو چھوڑ کر واپس آنے لگے تو حضرت ہاجرہ نے دریافت کیا کہ مجھ کو یہاں کیوں چھوڑ چلے ہو اور کس کے حکم سے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں تم کو یہاں خدا تعالیٰ کے حکم سے چھوڑ چلا ہوں.یہ سن کر حضرت ہاجرہ نے جواب دیا کہ بس جائو.اب مجھ کو کسی کی ضرورت نہیں.مشکیزہ کا پانی تو جلد ختم ہوگیا.بچہ رونے لگا.حضرت ہاجرہ بہت بے چین ہوگئیں.اسی عالم پریشانی میں مروہ پرگئیں اور پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ پر سات مرتبہ انہوں نے چکر لگائے مگر پانی نہ ملا.آخر واپس بچے کو دیکھنے آئیں کہ ایسا نہ ہو بچہ بے ہوش ہوجائے.پھر چلا کر کہنے لگیں کہ کوئی میری آواز کو سنتا ہے؟ بچہ کے قریب آکر دیکھا تو اس کو اس قدر بے تاب پایا کہ دیکھ نہ سکیں اور دور ہٹ گئیں.پھر قریب آئیں تو ایک چشمہ دیکھا جو حضرت اسمٰعیلؑ کی ایڑیوں کی ضرب کی جگہ سے پھوٹ نکلا تھا.اس کے اردگرد کناروں پر اینٹیں لگادیں تاکہ پانی بہہ نہ جائے.(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر
وہ اینٹیں نہ رکھتیں تو ضرور تھا کہ یہ چشمہ ایک ندی کی صورت میں تبدیل ہوجاتا) پانی پیا اور بچے کو پلایا (حضرت امیر المومنین فرماتے ہیں) میرا یہ اپنا تجربہ ہے کہ آدمی اس چشمہ کا پانی پی کر سترہ دن تک گذارا کرسکتا ہے.بعض جانوروں کا بھی پانی سے خاص تعلق ہوتا ہے.پانی کے سبب سے وہاں پرندے بھی آن موجود ہوئے تھے.ایک قافلہ کا گزر اس طرف سے ہوا.انہوں نے پرندوں کو دیکھ کر پہچان لیا کہ یہاں کہیں ضرور پانی ہے.کچھ آدمیوں کو پانی کی تلاش میں بھیجا.ان آدمیوں نے آکر دیکھا کہ ایک عورت چشمے کے کنارے بیٹھی ہوئی ہے اور ایک شیرخوار بچہ اس کی گود میں ہے.قافلہ والوں کو اطلاع دی.قافلہ اس طرف آیا اور لوگوں نے عرض کیا کہ اگر اجازت ہو تو ہم یہاں ٹھکانا بنالیں (بستی کی طرح ڈالیں).حضرت ہاجرہ نے جواب دیا کہ ہاں ہم کو منظور ہے لیکن شرط یہ ہے کہ یہاں کی نمبرداری ہمارے ہاتھ میں ہوگی.قافلہ والوں نے اس کا وعدہ کرلیا اور مکانات بنالئے.ایک مکان حضرت ہاجرہ کو بھی بنادیا اور ہر ایک قسم کی چیزوں میں سے تھوڑا تھوڑا حضرت ہاجرہؑ کو بھی دیا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خواہ کسی پر کتنی ہی مصیبت آجائے.پر وہ صفا و مروہ پر جاکر دیکھ لے کہ ہم بھی ہیں یا نہیں؟ دوسری بات جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایمان کا پتا دیتی ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ تیرے لڑکے اسمٰعیلؑ کی اولاد اتنی ہوگی کہ اگر کوئی شخص ریت کے ذروں کو گن سکتا ہے تو اس کو بھی گن سکے گا.لیکن جب خدا تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیلؑ کے ذبح کرنے کا حکم دیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ نہ پوچھا کہ اے خدا! تو نے تو وعدہ کیا تھا کہ اس کی اولاد بے شمار ہوگی.اب تو اس کے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے تو اولاد کس طرح ہوگی.بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لئے فوراً کمر بستہ ہوگئے.دیکھو! ان کا کتنا ایمان تھا.وہ خدا تعالیٰ پر ایسا ایمان رکھتے تھے کہ اگر میرا لڑکا مر بھی جائے گا تو خدا تعالیٰ اس کے مردہ ذرات سے بھی اولاد پیدا کردے گا.مجھ کو مثنوی کا یہ شعر بہت ہی پیار امعلوم ہوتا ہے.ہر بلاکین قوم را حق دادہ است زیراو گنج کرم بنہادہ است دیکھو! اس ایمان کا خدا تعالیٰ نے کیسا اجر دیا.بارہ لڑکے ہوئے ہر ایک ان میں سے سردار بھی
ہوا.انہوں نے بارہ قلعے بنوائے جو کہ پہاڑیوں پر موجود ہیں اور ان پہاڑوں کے مقام کو دیکھو کہ کتنا بڑا شہر بنا ہوا ہے.پس اگر آدمی کا ایمان مضبوط ہو تو اس کو کوئی دکھ نہیں پہنچ سکتا.(الحکم ۲۱؍اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ۸،۹) ٭ … ٭ … ٭
حقیقت البیعت {تقریرفرمودہ ۲۵ ؍ مارچ ۱۹۱۰ء بروز جمعہ بعد نماز عصر} بیعت کے معنی بِک جانے کے ہیں.جو شخص بیعت کرتا ہے وہ اپنے آپ کو بیچ دیتا ہے.یاد رکھو کہ اپنے آپ کو بیچ دینا معمولی کام نہیں بلکہ بہت بڑی ذمہ داری کا کام ہے.جو شخص بیعت لیتا ہے اس کی ذمہ داری کو تو تم سمجھ ہی نہیں سکتے.یہ بہت خطرناک کام ہے.اگر ہم اس ذمہ داری کو سوچ کر اس ستر برس سے متجاوز عمر میں بھی کسی کو دھوکا دیں اور دنیا کے کتوں کی طرح یہ کوشش کریں کہ تمہیں اپنے مطلب پر ڈھال لوں اور کچھ حاصل کروں تو اس سے بڑھ کر لعنتی کام کیا ہوگا؟ خدا تعالیٰ نے اس وقت تک میری پرورش فرمائی ہے اور ہر طرح سے مجھے نوازا ہے.میں نے اس کے فضلوں کو اپنے شامل حال دیکھا ہے.کیا اس ستر برس کے تجربہ کے بعد بھی میں یہ کام کرسکتا ہوں.پھر تم لوگ اپنا حرج کرکے اور خرچ کرکے آئے ہو.کیا اس لئے کہ کسی فریبی کو دیکھو.وطن چھوڑ کر اور کرایہ دے کر تمہیں آنا پڑا ہے اور معمولی اخراجات کے علاوہ چندے بھی تمہیں دینے ہوں گے.پھر وطن اور اقارب سے الگ ہو.یہاں تمہیں وہ آرام نہیں مل سکتا جو وطن اور گھر میں حاصل تھا.سب کو چارپائی نہیں ملے گی اور زمین پر سونا پڑے گا حالانکہ گھر پر تمہیں چارپائیاں حاصل تھیں.وہاں مرضی کے موافق کھانا ملتا تھا یہاں شاید یہ بات نہ ہو.وہاں انسان کچھ نہ کچھ کماتا ہے اور یہاں کمایا ہوا بھی دینا پڑتا ہے.اس قسم کی مشکلات کو دیکھ کر بھی تم اگر محض دھوکا کھا کر آتے ہو تو یہ کیسا خطرناک امر ہے.مگر میں یقین رکھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے.پھر میرا کام تو اور بھی مشکل ہے.میرا حال تو ایسا ہے کہ گویا بیعت لیتے وقت تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے.میرے دل میں کبھی یہ خواہش اور آرزو نہیںپیدا ہوئی کہ لوگوں سے بیعت لوں.میں اپنی جان پر کسی کی بیعت کرلینا بیعت لینے سے بہت آسان سمجھتا تھا.میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آئی تھی.پیر بننے کی خواہش نہ تھی اور
رزق کی طرف سے اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسا یقین دلادیا ہے کہ وہ آپ میری تمام ضرورتوں کا ضرورتوں سے پہلے تکفل فرماتا ہے اور ستر برس سے متجاوز عمر یعنی اس وقت تک میں نے اس کا تجربہ کیا ہے اور ہر روز کرتا ہوں کہ وہی مجھے دیتا ہے.کھانے کو ، پہننے کو،پینے کو اور پھر میرے رہنے کے لئے وہی سامان کرتا ہے.پھر تم ہی سوچ لو کہ جس خدا نے مجھے اس عمر تک دیا اور اب اور کتنا وقت رہ گیا ہے جس کے لئے میں اس خدا کے ان انعامات کو دیکھ کربھی پھر فریب سے لوگوں کا مال مارنا شروع کروں؟ یہ بات میرے تو وہم میں بھی نہیں آسکتی.اگر ایسا ہوتو میرے جیسا لعنتی کون ہوگا؟( بَارَکَ اللّٰہُ عَلَیْکَ وَ فِیْ مَالِکَ وَ اَوْلَادِکَ وَاَزْوَاجِکَ)اور اگر تم اپنے مال خرچ کرکے اور تکلیفیں اٹھا کر ایک شریر کے قبضے میں جائو تو تم جیسا احمق کون ہوگا.مگر نہیں تم کو خدا نے احمق نہیں بنایا بلکہ اس نے تمہیں ان میں داخل کیا ہے جو خدا داد عقل سے کام لیتے ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ تم نے حق کو پایا ہے.ہاں یہ خوب یاد رکھو کہ بیعت کرکے تم نے اپنے آپ کو بیچ دیا ہے کیونکہ یہی بیعت کی حقیقت ہے.سنو ! بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ حق نہیں بتاتے اس لئے کہ ان کی غرض صرف چند پیسے ہوتی ہے.وہ اپنے چندے سے غرض رکھتے ہیں مگر میں تو چندہ نہیں مانگتا اور نہ مجھے ضرورت.مجھے اپنی ذات اور نفس کے لئے بھی ضرورت نہیں اور اپنی اولاد کے لئے بھی نہیں.میرے بچے چھوٹے چھوٹے ہیں اور وہ جانتے ہی نہیں کہ ہمارے باپ نے ہمارے لئے کیا چھوڑا.میں نے اپنے باپ کی جائیداد میں سے ایک روپیہ نقد بھی نہیں لیا مگر میرے خدا نے مجھے بہت کچھ دیا.پھر جس نے مجھے دیا میں اپنی اولاد کے متعلق یہ وہم کروں کہ وہ اسے چھوڑ دے گا؟ ہرگز نہیں.میں اگر اپنی اولاد کے لئے یہ فکر کروں کہ ان کے واسطے کچھ چھوڑوں تو مجھ سے بڑا احمق کون ہوگا.پھر اس حالت میں کہ میں موت کے قریب ہوں کیونکہ بڈھے جوانوں سے زیادہ مرتے ہیں.میں تمہیں ایک اصل بتاتا ہوں اس کوہاتھ سے کبھی نہ چھوڑو.جناب الٰہی سے دعا کیا کرو کہ تم سے غلطی نہ ہو بہت استغفار کرو اور لا حول پڑھو.اگر یہ خیال شیطانی ہے تواللہ تعالیٰ رحم کرے.
پھر میں ان لوگوں کو جنہوں نے ابھی بیعت کی ہے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بہت استغفار کیا کریں.استغفار انسان کو بہت سی بدیوں سے محفوظ رکھتا ہے اور پھر بدیوں کے برے نتائج سے بچاتا ہے اور استغفار کی جڑ یہی ہے.پھر الحمد شریف بہت پڑھو.الحمد شریف ایک بے نظیر دعا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے پڑھنے سے پیدا ہوتی ہے مگر اس کے مطالب کو خوب سوچ کر پڑھو اور خوب توجہ سے پڑھو.پھر درود شریف بہت پڑھو.درود شریف کے پڑھنے میں اس بات کو یاد رکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی مدارج ہو.درود شریف کے پڑھنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بڑھتی جاتی ہے.آپ کے اتباع کا جوش پیدا ہوتا ہے.ملائکہ سے تعلق بڑھ جاتا ہے.درود شریف کا کثرت سے پڑھنا بڑا ہی مفید امر ہے.پھر لاحول بہت پڑھا کرو.اس سے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکیوں کے لئے توفیق اور بدیوں سے بچنے کی توفیق ملتی ہے اور ہر قسم کی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں.یہ میرا اور تمام راستبازوں کا مجرب نسخہ ہے.یہ ایک نصیحت ہے جو میں نے تمہیں درد دل سے کی ہے.اور محض خدا کی رضا کے لئے کی ہے.اگر دل سے نہیں کی تو پھر خدا پکڑنے والا ہے.میں پھر کہتا ہوں اور کھول کر کہتا ہوں کہ مجھے دنیا کی کوئی غرض نہیں اور نہ دنیا طلبی اور جاہ طلبی میرا مقصود ہے.صرف خدا کی رضا چاہتا ہوں.وہ کسی طرح سے راضی ہوجاوے.پھر یاد رکھو کہ میں اجتماع کو ضروری سمجھتا ہوں.اجتماع پر خدا تعالیٰ کے بہت بڑے فیضان اور برکات نازل ہوتے ہیں.اس لئے اس کی بہت بڑی تاکید قرآن مجید میں آئی ہے مگر یاد رکھو کہ اجتماع ہمیشہ ایک شخص پر ہی ہوسکتا ہے.ایک درخت کی خواہ لاکھ شاخیں ہوں اور سب کی سب پانی میں بھی ہوں تو بجائے اس کے کہ وہ سر سبز ہوں وہ سب کی سب خشک اور مردہ ہوجائیں گی بلکہ پانی کو بھی متعفن کردیں گی.اس طرح پر اگر مسلمان ایک شخص پر اکٹھے نہ ہوں تو ان کی حالت اس درخت کی ٹہنیوں کی سی ہوگی.اگر وہ درخت کے ساتھ وابستہ رہیں گی تو سر سبز رہیں گی و الّا نہیں.
میں نے الفاظ بیعت میں ایک لفظ بڑھانا چاہا تھا کہ آپس میں محبت بڑھائیں گے مگر میں نے دیکھا کہ بعض آپس میں لڑ پڑتے ہیں اس لئے میں ڈر گیا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ معاہدہ کا خلاف کریں اور پھر معاہدہ کی خلاف ورزی سے نفاق پیدا ہوجاتا ہے.بہرحال آپس میں محبت بڑھائو.اس کی بہت بڑی ضرورت ہے.ہماری کمزوریاں ہوں تو دعا کرو کیونکہ دعا ہی تمام بیماریوں کا علاج ہے.پھر اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے گا اگر مجھے موقع ہوا تو بہت سی باتیں سنائوں گا.(الحکم ۲۸؍ مارچ، ۷؍ اپریل ۱۹۱۰ء صفحہ ۶،۷ ) ٭ … ٭ … ٭
ختم نبوت {تقریر فرمودہ ۲۶؍مارچ ۱۹۱۰ء بعد نماز ظہر و عصر} ۲۶؍مارچ ۱۹۱۰ء کو بعد نماز ظہرو عصر حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے اپنی تقریر شروع کی.اس تقریر کے اہم مضمون کے لحاظ سے میں نے اس کا عنوان ختم نبوت تجویز کیا ہے.اس لئے میں نے اس عنوان کو پسند کیا تا وہ لوگ جو اپنی کوتاہ علمی اور عداوت کی وجہ سے ہمیں متہّم کرتے ہیں کہ ختم نبوت محمدیہؐ کے قائل نہیں وہ دیکھیں اور غور کریں کہ کیا جس قوم کا امام ختم نبوت پر ایسے لطیف دلائل پیش کرتا ہے اور ایسے موقع اور مجمع میں جب کہ اس کی قوم کے ادانیٰ واعالیٰ ہر حصہ ملک سے جمع ہیں.جس مجمع میں اس کو اپنے اصل عقائد اور اغراض کا قوم کے ذہن نشین کرانا ضروری ہے وہ ختم نبوت کے منکر ہوسکتے ہیں؟ امید کی جاتی ہے کہ یہ تقریر انشاء اللہ العزیز بہتوں کی ہدایت کا موجب ہوگی.واللّٰہ یہدی من یشاء.(ایڈیٹر الحکم).اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرّجیم
(الرّعد :۲۰ تا ۲۷) علم و جہل: ایک علم ہوتا ہے اس کے مقابلہ میں ایک جہل ہوتا ہے.ساری انسانی خوبیاں اور سارے کمالات علم صحیح کے ساتھ وابستہ ہیں اور سارے دکھ درد اور مصائب جہل سے ملے ہوتے ہیں.علم ہوتا ہے اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے.علم ہوتا ہے رسولوں کی معرفت حاصل ہوتی ہے.علم ہوتا ہے اللہ کی کتابوں سے آگاہی ملتی ہے.علم ہوتا ہے تو ضروریات کا استخراج کرتے ہیں.علم ہوتا ہے تو عجائبات مخلوقات کا مطالعہ کرکے اپنے منافع کی اشیاء کو جمع کرتے ہیں.اسی علم کے عجائبات میں سے سٹیم انجن ہیں.میرے اپنے مطلب اور مذاق کے موافق اس سے کتابیں چھاپنے کا کام لیا جاتا ہے اور بعض کے مذاق کے لئے اخبار، ناول اور ہر قسم کی تصنیفات چھاپی جاتی ہیں اور انسانی زندگی کی بہت سی ضروریات اس سے وابستہ ہیں.اسی کے ذریعہ سے سفر کی سہولتیں پیدا کی ہیں.چنانچہ ریل اور جہاز کے سفر آسان کردئیے ہیں.پھر ہزاروں ہزار کارخانے، کھانے پینے، پہننے کی اشیاء کے اور سونے اٹھنے،سواریوں کے آرام کے اس سے چلتے ہیں.مگر جن کو کامل علم نہیں وہ تکالیف برداشت کرتے ہیں.یہ علم کا ایک نظارہ ہے.علم دین کا ہو یا دنیا کا اگر صحیح ہو وہ ہر حال میں انسان کے لئے راحت اور آسائش کا ذریعہ ہوتا ہے.عجیب و غریب انسان دنیا کا جس کا نام ابراہیم ہے.(علیہ السلام) وہ اپنی دعا میں اسی لئے کہتا ہے..(البقرۃ :۲۰۲) انسانی کمالات کی تقسیم: انسان میں دو قسم کے کمالات ہیں.ایک جسم کے آرام کے لئے اور دوسرے روح کے لئے.جسم کے آرام کے لئے کھانے،پینے، پہننے، مکانات، عیش و آرام اور سواریوں کے سامان، معلومات کے سامان، دوستوں سے ملنے کے سامان بیویوں اور بچوں سے تعلقات اور ان کے عجیب دل خوش کن شواغل ،قوم میں
عزت و وقار ہے اور دوسروں پر حکومت کرنے کو ملے یہ جسمی آرام ہے.ایک طرف تو اس آرام کی خواہش دوسری طرف جسم کے لئے ایک وقت محدود کردیا بلکہ (الرحمٰن:۳۰) صوفیاء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ انسان ہر آن میں فنا ہو کر نیا بنتا ہے جو حالت ہماری باپ کے جسم میں (برنگ نطفہ تھی) وہ آج نہیں.پھر جو ماں کے پیٹ میں تھی وہ بھی نہیں پھر بچے تھے جوان ہوئے اور بڑھاپے میں اور ہی قسم کے اعضا ہوتے ہیں.غرض یہ مسلّم بات ہے کہ یہ جسم ہر آن معرض تحلیل میں رہتا ہے.اگرچہ ڈاکٹروں میں بحث ہے کہ تین سال بعد یا سات سال بعد یہ جسم بدل جاتا ہے.مگر میں تو یہی مانتا ہوں کہ ہر آن تحلیل اور تبدیل ہورہا ہے.پھر جب ایسے فنا پذیرکارخانہ کے لئے اس قدر انبیاء کتابیں تمدن کی طاقتیں بھیجی گئی ہیں جو ایک آن میں الگ ہوجاتا ہے تو دائمی بقا کے تقاضے کے لئے کیا کچھ ہوگا؟ ایک روح ہے.اس میں ایک تڑپ ہے کہ ہم ضائع نہ ہوں.جب سے انسان پیدا ہوا ہے.میرا یقین ہے کہ اسی وقت سے اس نے طب کے لئے ہاتھ پیر مارے ہیں اور ہمیشہ اس میں ایجادات اور ترقیوں کا سلسلہ جاری رہا ہے؟ کس قدر دوائیں نئے دن ایجاد ہوتی رہتی ہیں.کیوں؟ مطلب صرف یہ ہے کہ فنا ظاہری بھی طاری نہ ہو.فطرتی تقاضے پورے ہوتے ہیں: جس قدر قویٰ انسان کو دئیے گئے ہیں اس کا سامان بھی ساتھ ہی عطا فرمایا گیا ہے.میں نے دیکھا ہے مجھے جب فطرتی قویٰ دئیے گئے ہیں ان کا سامان بھی ساتھ ہی عطا فرمایا ہے.آنکھ ملی ہے تو خدا کے فضل کے نیچے میری نظر مضبوط اور محفوظ ہے.وہ تھکان محسوس نہیں کرتی.اس کے ساتھ ہی میں دیکھتا ہوں فطرت میں عجیب عجیب خوشنما نظارے موجود ہیں.ہر چیز جو جمال رکھتی وہ اسے خوش کرتی ہے.قدرت کی دلچسپیاں دیکھ دیکھ کر میں مدتوں خوش رہتا ہوں.مجھے کتابوں کا شوق ہے.انہیں دیکھ کر بہت ہی خوش ہوتا اور قدرت کے تمام نظاروں سے (جو آنکھ کو اپنی طرف محو کرتے) بڑھ کر اس نظارہ سے مسرور ہوتا ہوں.کبھی میں شاعر ہوتا توکتابوں کی سطروں اور الفاظ کو خط و خال سے تشبیہ دیتا.غرض آنکھ کی دلچسپی اور سرور کے لئے جمال کا سامان دنیا میں موجود ہے.پھر
فطرت نے کان دئیے ہیں وہ عمدہ بات سننا چاہتے ہیں خواہ وہ کامیابی کی کوئی خبر ہو خواہ عمدہ آواز ہو، خواہ صحت و عافیت کا نسخہ ہو.بہرحال قدرت نے کان کے لئے آواز کا سامان دیا ہے.میری ناک میں خاصیت ہے کہ نہایت ہی عمدہ گلاب کا عطر جو پچاس ساٹھ روپیہ تولہ کا ہو وہ اسے بہت خوش کرتا ہے.پھر بوباس راحت کا موجب ہوتی ہے.غرض فطرت نے اس کے لئے بھی سامان دیا ہے.میری زبان ذوق کا علم رکھتی ہے.وہ قسم قسم کے عمدہ سے عمدہ کھانے کبھی نمکین کبھی مرچ کے مزے، میٹھے، پھیکے، سیٹھے، ترشی اور شیرینی ملا کر غرض ہر قسم کے مزوں سے زبان لطف اٹھانا چاہتی ہے اور خدا کا شکر ہے کہ یہ سب سامان اس کے لئے موجود ہیں.پھر میری زبان قسم قسم کا بولنا چاہتی ہے.عجیب عجیب قسم کے مضمون اٹھاتی ہے اور اس کا سامان موجود ہے.اسی طرح ہاتھ پائوں اور بعض دوسرے اعضاء ہیں جن کا اگر نام لیں تو بعض شاید اسے خلاف تہذیب قرار دیں مگر میں کامل انسان کے اجزا میں ان کا کمال دیکھتا ہوں.(یہاں تک کہ اگر وہ کمزور ہوں تو ایسے شخص کو مردوں کی فہرست سے خارج کرکے نامرد کہا جاتاہے.ایڈیٹر) فطرت نے ان تمام اعضا کی سیری اور سرور کا سامان رکھا ہے.جب ٹٹولنے پر آتے ہیں تو بعض موقع پر درشتی اور بعض موقع پر نرم و ملائم عجیب بہار بخشتا ہے.کوئی مخفی طاقت اور راز ہے جو عورتوں کے دیکھنے سے بدن میں جوش پیدا ہوتا ہے.غرض ان تمام قواعد قویہ سے یقین پڑتا ہے اور میں اس سے بھی اعلیٰ یقین پر ہوں کہ روح میں بقا کی تڑپ ہے.اگر کروڑدرکروڑ اور سنکھ در سنکھ سال بھی حیاتی ملے لیکن جب اس میں فنا ہو پھر وہ میرے دل کو خوش نہیں کرسکتی.عارضی نجات پر قصہ: اس موقع پر مجھے ایک عزیز کی بات یاد آئی.وہ ہندو تھا اور پھر مسلمان ہوگیا اور اس کو ایک آریہ نے کہا کہ تم ہم میں واپس آجائو.ہم تمہیں ملانے کو تیار ہیں.اس پر اس نے اس آریہ کو کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ مجھے ابدی نجات کی تڑپ ہے اور یہ تمہارے ہاں نہیں ہے.یہاں مجھے یہ خوشی تو ہے کہ ابدی نجات ملے گی اس پر آریہ کو خاموش ہونا پڑا.
روح کی فطرتی تڑپ: غرض روح میں ایک تڑپ ہے.میں تو اپنی روح کی شہادت دے سکتا ہوں.میں نے ان لوگوں کو دیکھا ہے جو قریب تھا کہ خودکشی کرلیں.یہ نظارے ہم نے طبیب ہونے کی حیثیت سے دیکھے ہیں لیکن جب ہم نے ان کو کہا کہ ایسا سامان کردیتے ہیں جس کی وجہ سے تم ایسا کرتے ہو تو انہوں نے بے حد مسرت ظاہر کی کیوں؟ وہاں بھی بقا کی فطرت کام کرتی ہے.میرا اپنا دل چاہتا ہے کہ روح ابدالآباد کے لئے ہو.پھر انبیاء علیہم السلام کی تعلیم عطاء غیر مجذوذ سے تو ایسی خوش ہوتی ہے کہ اس نبی کے قدم چوم چوم کر قربان ہو جائوں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یقین ہی سُکھوں کا موجب ہے.میں علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ میرا مولیٰ دیکھتا ہے.وہ تمام مولے جو فنا ہونے والے ہیں یہ سکھ نہیں دے سکتے اس لئے میں ان سب سے بیزار ہوگیا اور تمام ان تعلیموں سے بیزار ہوگیا جن سے بقائے روح کا مسئلہ صاف نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ کا قانون ہے کہ اس نے فطرتی خواہشوں اور تقاضوں کو سیری کا سامان مہیا کیا ہے.روح بقا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ آواز دیتا ہے ہاں ہم دیں گے.روح علم چاہتا ہے اللہ تعالیٰ کہتا ہے ہم علمی ترقی دیں گے.یہ علمی ترقی کہاں تک ہوگی؟ میں یقینا کہتا ہوں کہ اس کی کوئی حد نہیں.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (جن کو میں اپنی بصیرت کے لحاظ سے کمالات جسمانی روحانی اور نبوت کا خاتم اور اس کے علاوہ سب میں کامل انسان یقین کرتا ہوں) کو بھی یہ تعلیم ہوتی ہے.( طٰہٰ :۱۱۵) تو اپنے علم کی ترقی مانگ.جب تمام نبوتوں، رسالتوں اور کمالات کے خاتم انسان کامل کو علمی ترقی کے لئے یہ دعا سکھائی جاتی ہے تو اس کلمہ کو دیکھ کر اور پڑھ کر دل اور بھی باغ باغ ہوگیا کہ یہ بھی اسی بقائے ابدی کا کرشمہ ہے.پس یہ تعلیم ہے جو اسلام کے لئے متوالا کرتی ہے.اپنے بعض کشوف: میں نے اس موجودہ ڈھچر میں بعد الموت لوگوں سے ملاقات کی ہے اور جنت و جہنم کے حالات اور نیکیوں اور بدیوں کے متعلق ان سے
سوال کئے ہیں.ہماری صحبت میں رہنے والے ان قصص سے واقف ہیں اور بعض کے نام سے بھی واقف ہیں.میں چھوٹا سا تھا میں نے ایک شخص کو دیکھا وہ بہت مضمحل ہورہا تھا.میں نے اسے کہا کہ کیا تم بیمار ہو.اس پر اس نے پکڑ کر ایک عورت کو میرے سامنے کیا اور کہا کہ اس کے عشق کی اب بھی سزا دیتے ہیں.مجھے اس واقعہ پر عورتوں سے ایسی نفرت ہوئی کہ ماں کا چہرہ بھی ناگوار ہوگیا.یہاں بعض وہ لوگ بیٹھے ہیں کہ جو اس قصہ سے واقف ہیں.ہمارے گھر میں ایک عورت روٹی پکاتی تھی.میں نے کہا کہ روٹی ڈیرے پر بھیج دیا کرو.اتفاق سے میں اس جگہ گیاجہاں کی وہ عورت تھی جو مجھے دکھائی گئی.پھر اس محلہ میں گیا جہاں کی عورتیں بہت حسین ہوتی ہیں.چونکہ وہاں میری وجاہت تھی.میں نے عورتوں کے ایک گروہ کو کہا کہ مائیو ذرا ٹھہر جائو.وہ ٹھہر گئیں اور میں نے غور سے دیکھا تو وہ لڑکی ان میں مجھے نظر آئی.میں نے ان عورتوں کو کہا کہ اس کو ذرا میرے پاس بھیج دو.انہوں نے اسے دھکا دے کر آگے کردیا.میں نے اس سے اس کا نام پوچھا جو اس نے بتادیا.اس کے بعد میں نے ایک شخص سے جو اس مرے ہوئے سے واقف تھا پوچھا کہ وہ کسی پر عاشق تھا.وہ یہ سن کر حیران ہوگیا.اس نے کہا کہ مرتے وقت اس کا سر میری ران پر تھا اور میرے اور اللہ تعالیٰ یا اس لڑکی کے سوا کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کسی پر عاشق بھی ہے.میں نے کہا عشق و مشک را نتوانست نہفت.(الانعام :۱۱۲) تک تو نوبت پہنچ چکی تھی.اس پر جب میں نے یہ حالات بتائے تو اسے بہت تعجب ہوا مگر اس واقعہ نے میرے قلب پر بہت اثر کیا اور مجھے عورتوں سے حد سے زیادہ نفرت ہوگئی اور خوف غالب ہوگیا مگر میں نے اس واقعہ کو ایمان کے لئے مفید پایا.کیونکہ ایمان خوف اور رجاء کے درمیان ہوتا ہے.پھر میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ بہشت میں ہے، غُرَفَات میں ہے.وہ سماں اب تک میری آنکھوں کے سامنے ہے.میں اسے جانتا تھا کہ وہ شراب خور اور عیاش تھا.میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارا گزر یہاں کیونکر ہوا.اس نے جواب دیا کہ میری غریب الوطنی پر رحم ہوگیا.بعد اس کے ہم نے ایک آدمی سے اس کی بابت پوچھا تو اس نے کہاکہ وہ سرشتہ دار تھا متوالا رہتا تھا.ایک روز
کچہری سے نکل کر گھر کو آیا مگر وہ گھر نہیں پہنچا.اس کے متعلق بہت دریافت کیا.اب تک پتا نہیں.اس واقعہ پر دو سال گزرنے کے بعد ایک دوست آیا.اس نے کہا کہ وہ مرگیا جب پوچھا کہ کہاں تو اس نے کہا کہ وہ پاپیادہ حج کے لئے بمبئی جارہا تھا.کلیانی میں پہنچ کر مرگیا.تب اس کی غریب الوطنی کی حقیقت مجھ پر کھلی کہ دل میں کیسی سچی توبہ کی تھی اور وہ خدا تعالیٰ نے قبول کرلی.یہ باتیں میں ان لوگوں کے لئے پسند کرتا ہوں جو مجھے راستباز یقین کرتے ہیں اور مجھے ان باتوں کے پہنچانے اور سنانے میں قطعاً کوئی دنیوی غرض نہیں.اگر کوئی غرض ہوتی تو جو لوگ یہاں رہتے ہیں وہ سب سے پہلے منکر ہوجاتے.خدا تعالیٰ کے احسانات: میں روٹی خدا کی دی ہوئی کھاتا ہوں.اس معاملہ میں گھر والوں کا بھی مجھ پر احسان نہیں کہ بیوی پکائے تو کھائوں.کپڑا اسی کا دیا ہوا پہنتا ہوں.رہنے کو اسی نے مکان دیا ہوا ہے.اب تھوڑی عمر باقی رہ گئی ہے کیا معلوم ،ہے بھی یا نہیں.پھر وہ کیا غرض ہوسکتی ہے جو مجھے خلاف بیانی کی ترغیب دے.بچے اس قدر چھوٹے ہیں کہ وہ کچھ سمجھ بھی نہیں سکتے.شاید خواب و خیال کی طرح بڑے کو یاد ہو کہ ہمارا ابّا ایسا ہوتا تھا.پھر کیا میں ان کے لئے کچھ جمع کرنا چاہتا ہوں ہرگز نہیں.راستباز کا واقعہ یقین کرنے کے لئے اعلیٰ مقام ہے.اسی طرح پر اللہ جل شانہ‘ کی ہستی پر ایمان آتا ہے.اب ہم جاپان اور لنڈن پر تو یقین رکھتے ہیں.وہاں کے آئے تاروں کو پڑھ کر کبھی وہم نہیں کرتے کہ یہ غلط ہیں.پھر کس قدر افسوس ہوگا اگر ہم ان راستبازوں کے منہ سے سن کر یقین نہ کریں جن کی راستبازی اور اخلاق کے پشّہ کے برابر بھی کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا.انہوں نے خدا تعالیٰ سے سن کر کہا کہ خدا نے کہا ہے.’’انا الموجود‘‘ غرض راستبازوں کے منہ سے سن کر تکذیب نہ کرو.یہ راستبازوں کی جماعت انبیاء علیہم السلام اور ان کے خلفاء و نواب کی جماعت ہے.رجوع بہ مطلب اصلی: ہاں اس رکوع کے شروع میں علم اور بے علمی کے متعلق بتایا ہے کہ علم اور بے علمی برابری نہیں کرتے.علم بڑی عجیب چیز ہے.انبیاء کا علم، اللہ کی کتابوں کا علم، ملائکہ کا علم، جزا و سزا، جنت و نار اور مقادیر الٰہیہ کے علوم ایسی راحت
بخش چیزیں ہیں کہ مجھے تو اس سے بڑھ کر کوئی خوشی اور خواہش نہیں ہوسکتی اور کوئی لذت اس علم کی لذت کا مقابلہ نہیں کرسکتی.میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے یہ علم دیا ہے.اس نے مال دیا تو اس قدر کہ اور حاجت نہیں.بے اعتنائی دی تو ایسی کہ ایک ہزار رکھنے کی جانچ نہیں.تم خود دیکھ لو کہ کوئی عزت تمہارے دل میں بھی ہے.پھر کیا میںتمہاری کسی بھی چیز کا حاجت مند یا لالچی ہوں اگر میں جھوٹ کہتا ہوں تو کہہ دو.پس میں جو کچھ کہتا ہوں دردِدل سے کہتا ہوں.یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو علیم یقین کرنا ہر بدی سے روکتا ہے.اللہ تعالیٰ قدوس ہے.پاک لوگ ہی اسی سے تعلق پیدا کرسکتے ہیں اور وہ پاکوں کو اپنا بناتا ہے کیونکہ پاک کو پلید سے کیا نسبت.جس قدر چیزیں پلیدی کا موجب ہیں ان سے قطع تعلق کرناتو اس کا آسان گُر یہ ہے کہ سبوح قدوس کا مطالعہ کرو.جب انسان یہ یقین کرلیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک ہی اس سے تعلق قرب پیدا کرسکتے ہیں تو وہ بدیوں اور ناپاکیوں سے بچنے کی توفیق پاتا اور پاک فرشتے اس سے اپنا تعلق بڑھاتے ہیں.میں تو اس کے فضلوں کو دیکھ دیکھ کر قربان ہوجاتاہوں اور یہ سب اسی کے رحم کا نتیجہ ہے.اعلیٰ سے اعلیٰ کھانے بتانے جانتا ہوں.بادشاہوں کو میں نے بتایا کہ اعلیٰ سے اعلیٰ پلائو اور روٹی کس طرح پک سکتی ہے.پھر ان کا استعمال میں نے کیوں نہ کیا ہو؟ ایسا ہی اعلیٰ درجہ کے لباس کی کتربیونت بھی جانتا ہوں اور اسے پہن کر دیکھا ہے.تو پس یہ اعلیٰ سے اعلیٰ راحت اور آرام کیونکر ملتا ہے.انبیاء علیہم السلام کی اطاعت پر.ایک دہریہ قرآن کریم کے طفیل بچ گیا: میں کس طرح پر قرآن کریم پر عمل کرنے کی روح تمہارے اندر پھونک دوں.یہ خدا ہی کا کام ہے.ایک مرتبہ ایک دہریہ نے مجھے کہا کہ میں کہیں باہر جاتا ہوں کوئی نصیحت کرو.میں نے اس کو کہا کہ تم قرآن شریف پر عمل کرلیا کرو.اسے ایک آسودہ جماعت کے ساتھ ایک جگہ جانے کا اتفاق ہوا.وہاں عیاشی کے سامان تھے.سب ساتھ والے آتشک میں مبتلا ہوگئے وہ بچ گیا.جب واپس آیا تو میں نے کہا کہ تم کس طرح بچ گئے.اس نے کہاکہ میں خدا کو
تو مانتا نہیں مگر اس قرآن نے مجھے بچالیا.تب میں نے اسے کہا کہ (البقرۃ :۳) اتباع انبیاء سکھ کا موجب ہے: اس کتاب کی شان ہے.ریب ہلاکت کو بھی کہتے ہیں یعنی اس کتاب میں کوئی ہلاکت کی راہ نہیں اور سچ تو یہ ہے کہ انبیاء کی اتباع میں کوئی دکھ ہی نہیں کے یہ بھی معنے ہیں کہ اس میں ہلاکت کی تعلیم نہیں بلکہ سکھ کی تعلیم ہے.پھر تمام انبیاء نے اپنے آزمودہ نسخوں کو لوگوں کے سامنے پیش کیا.صحابہ نے انہیں استعمال کیا.پھر دیکھ لو کہ کس قدر نفع اٹھایا.ابراہیم کی اصل نسل تو سب جانتے ہیں مگر نمرود کا نام بھی کوئی نہیں جانتا.آج کل یہ سوال اٹھا ہے کہ وہ کون تھا.بعض کہتے ہیں کہ وہ خیالی نام ہے.مگر وہ تھا ،اور حضرت ابراہیم ؑ کا دشمن تھا اور وہ بے نام و نشان ہوکر مٹ گیا.لیکن بانام و نشان گویا اب تک زندہ ہے.یورپ فخر کرتی ہے کہ وہ ابراہیم کی اولاد ہے.نصرانی عیسائی، یہودی،صیامی، مسلمان سب کے سب اس کے نام پر فخر کرتے ہیں.زرتشت کی قوم اس کو عظیم الشان انسان سمجھتی ہے.یہ درجہ اور عزت اسی کی اولاد کو ملی.(المائدۃ :۲۱) کوئی آسمان کے ستارے یا ریت کے ذرے گنے تو ابراہیم ؑکی اولاد کو گنے جو ابراہیم ؑپر برکت کرے خدا اس پر برکت نازل کرتا ہے جو ابراہیم پر (نعوذباللہ) لعنت کرے تو اللہ تعالیٰ اسے لعنت کی مار مارتا ہے.یہ انعام کیوں ہوا؟ (البقرۃ :۱۳۲) ایک ہی نکتہ ہے اور وہ کامل اتباع اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہے.جب اللہ تعالیٰ نے اسے کہا کہ تم ہمارے فرمانبردار ہوجائو تو کہا حضور میں تو فرمانبردار ہوچکا اور آپ کا کیوں فرمانبردار نہ بنوں آپ تو ربّ العالمین ہیں.ابراہیم فرمانبرداری کی نوعیت اور وجہ نہیں پوچھتا.حکم کے ساتھ ہی فرمانبرداری کا اقرار کیا ہے.یہاں تک ہی نہیں بلکہ (البقرۃ :۱۳۳) یعنی اسی فرمانبرداری کی ابراہیم ؑنے اپنے بیٹے کو وصیت کی اور یعقوبؑ نے بھی کہا کہ اے میرے بیٹو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے دین کو برگزیدہ کیا ہے جو فرمانبردار بننے کا دین ہے.پس تم فرمانبردار ہوکر ہی مرو.اسی ایک نکتہ پر سارے کمالات کا دارومدار ہے.غرض فرمانبرداری کامل فرمانبرداری تمام
سُکھوں کی جڑ ہے.میں نے بتایا ہے کہ انسانی اور جسمانی علوم سکھ کا موجب ہوتے ہیں تو جاودانی علوم کیوں جاودانی راحت کا ذریعہ نہ ہوں؟ میں اپنے تجربہ سے اور تمام راستبازوں کے تجربہ کے علم سے کہتا ہوں کہ جاودانی علوم سے متمتع ہونے والا کبھی گھبرائو میں نہیں ہوتا.اتنا سکون راحت کہنے والے کے سوا کسی اورکو نہیں مل سکتا.مگر ایسی سچائیوں کاعلم لوگوں کے اتباع سے نہیں مل سکتا.کتنا ہی مقرر ہو کیا وہ قرآن کریم سے بڑھ سکتا ہے.کیسا ہی صاحب تجربہ و معلومات ہو پھر بھی وہ خالق فطرت کے برابر کب ہوسکتا ہے اور یہ کتاب لے کر وہ شخص آیا جو کل کمالات انسانی کا جامع تھا.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے.(النساء :۸۱) یعنی جس نے اللہ کے رسول کی اتباع کی یقینا یقینا وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے.یہ بھی ختم نبوت کی دلیل ہے.اللہ کے پرے اور کیا ہوسکتا ہے.جب اللہ تعالیٰ کی اتباع کا نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو قرار دیا تو کیوں یہ آیت ختم نبوت کا نشان ہو؟ مقام محمد صلی اللہ علیہ وسلم: پھر فرمایا (الانفال :۱۸) تو نے نہیںپھینکا جب کہ تو نے پھینکا تھا مگر وہ اللہ ہی نے پھینکا تھا پھر کہا (الفتح :۱۱) جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی بیعت کرتے ہیں.اب غور کرو کہ یہ عظیم الشان مقام کسی اور کو ملا ہے؟ ہرگز نہیں.یہ بھی ختم نبوت کی دلیل ہے.ایک عجیب بات اور ہے یہ نرے دعاوی نہیں بلکہ اس کے ساتھ زبردست دلائل اور بھی ہیں.میں نے وید کو سنا ہے اور احتیاط سے سنا ہے.اتھرو کے سوا تینوں ویدسنے ہیں او ستاژند اور دساتیر کو پڑھا اور سنا ہے اور گاتھ جو مجوسیوں کی کتاب ہے اسے بھی احتیاط سے سنا ہے.پھر اس کے بعد میں نے قرآن کریم کو پڑھا ہے.تمہیں تعجب ہوگا کہ جب بَدْو فطرت سے قرآن سے محبت ہوئی تو شیعوں کی کتابیں بھی پڑھی ہیں.ایک کتاب چار سو روپیہ کو آتی ہے بحار الانوار نام اور عربی میں ہے.میرے دل میں ہے کہ اسے بھی منگوا کر پڑھ لوں یعنی اس کی مستند اور معتبر کتابوں کو منگوایا اور پڑھا ہے اور میرے پاس وہ ہیں میرے نزدیک ان کی کتابیں معتبر معلوم ہوتی ہیں.چاران کی مسلّم ہیں کافی
ہے تہذیب ہے.استبصار اور من لا یحضر، مجمع البیان، طبرسی اور نہج البلاغۃ جناب امیر کے خطبات ہیں.ان کے مد مقابل خوارج ہیں.ان کی کتابیں بھی میں نے پڑھی ہیں.ایک ترانوے جلدمیںہے اور میرے پاس ہے.(اس کتاب کی ترانویں جلدیں سن کر ایڈیٹر الحکم نے استعجاب سا ظاہر کیا.اس پر فرمایا).کہ ایک سیاح استنبول کا یہاں آیا اور پہلے وہ سلطان روم کے کتب خانہ کی بڑی تعریف کرتا تھا.لیکن جب اس نے میرے کتب خانہ کو دیکھا تو کہنے لگا کہ وہ کیا چیز ہے.غرض ان کتابوں کو اس وسعت سے دیکھا ہے.پھر سنیوں میں مذاہب اربعہ ،صوفیوں اور محدثین کا مذہب پڑھا ہے اور ان سب کو پڑھ لینے کے بعد میں ایماناً کہتا ہوں اور کھول کر سناتا ہوں اور یہ اس لئے کہ میں نہیں جانتا کہ آئندہ ہم سے کون ہوگا اور کون نہیں مجھے کچھ کہنے کا اور تمہیں کچھ سننے کا موقع ملے یا نہیں.اس لئے سنو اور غور سے سنو کہ اس تحقیقات اور تجربہ کے بعد میں علیٰ وجہ البصیرت اقرار کرتا ہوں کہ قرآن کریم جیسی کوئی نعمت اور کتاب نہیں.وہ خدا تعالیٰ کی کامل کتاب ہے اور وہ تمام اختلافات مٹانے کا کامل ذریعہ ہے اور وہ خود اختلافات کا باعث نہیں.اس کے ساتھ ہی میں اس شہادت کو بھی علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ بعد کتاب اللہ بخاری جیسی بھی کوئی کتاب نہیں.میں نے سرسید احمد صاحب کو سو روپیہ اس لئے دیا تھا کہ تم جو تصنیف کرومجھے بھیج دو.آخری دم تک اس نے اپنے وعدے کو پورا کیا ہے.میں نے اس کی تصنیفات کو خوب پڑھا ہے.میں دنیا کے مقتدائوں سے بے خبر نہیں.برہم ازم کی کتابیں پڑھی ہیں سب سے بڑی کافر قوم برہمو ہے.میں اس کو مذہبی رنگ میں آریوں اور عیسائیوں سے زیادہ خطرناک سمجھتا ہوں.لوگ کہتے ہیں کہ براہمو نرم ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ یہ بہت ہی گرم ہیں.یہ الٰہی غضب کے نیچے ہیں.جو تمام انبیاء علیہم السلام کو مکالمہ الٰہیہ کے دعویٰ میں جھوٹا سمجھتے ہیں.میں یہ بھی علم اور بصیرت سے کہتا ہوں.میں نے ان کی کتابوں کو درستی سے پڑھا ہے.یہ چھوٹی چھوٹی کتابیں لکھتے ہیں.میں انہیں چند منٹ میں پڑھ لیتا ہوں.انہوں نے انبیاء علیہم السلام کو کذّاب (معاذاللہ) مانا ہے اور جو کچھ نرم ہیں،انہوں نے دعویٰ رسالت کو جنون یا دروغ
مصلحت ان پر کہا ہے.غرض اس ساری تحقیقات کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قرآن کریم ہی کامل کتاب ہے.اور پھر جب قرآن مجید میں تدبر کیا اور سالہا سال تک تدبر کیا.اس سے معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ سے بڑھ کر کوئی نمونہ اس پر عملدرآمد کا نہیں.کتاب و سنت: پھر بخاری سے بڑھ کر کوئی کتاب تاریخی روایت کے لحاظ سے نہیں.اس کے ماوراء ہمارے سلسلہ میں قرآن کو کتاب اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل درآمد کو سنت کہتے ہیں.میں چاہتا ہوں کہ چند مثالیں دوں تاکہ جو تفرقہ ان میں ہے وہ معلوم ہوجائے.جب بخاری امام نہ ہوئے تھے تو بھی وہ مسلمان تھے.نماز پڑھتے، حج، روزہ، زکوٰۃ، اعمال الاسلام کا پابند تھے.اس سے معلوم ہوا کہ یہ علم جو ارکانِ اسلام اور اعمال کا ان کو تھاوہ اسی سنت متواتر کے ذریعہ ان کو ملا تھا.امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ابھی امام نہ ہوئے تھے اور فقہ نہیں لکھی گئی.محیط اور مبسوط کے مسائل منہ سے نہ نکلے تھے تو کیا وہ مسلمان نہ تھے؟ کیا ہدایہ اور قدوری پڑھ کر وہ مسلمان ہوئے تھے.نہیں بلکہ وہ جس ذریعہ سے نیک تھے وہ یہی سنت اور اہل سلسلہ کا تعامل تھا.صحابہ کے وقت تو یہ کتابیںنہ تھیں.انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کچھ کرتے دیکھا وہی کرتے تھے.وضو کرتے دیکھتے تھے تو اسی طرح وضو کرتے نماز پڑھتے دیکھتے، نماز پڑھ لیتے.روزہ رکھتے دیکھا تو روزہ رکھتے اور اسی طرح آپ کو دیکھ کر حج کرلیا.اخلاق فاضلہ سے متصف پایاآپ بھی ہوگئے.یہی سنت ہے.ایک نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے.میں چاہتا ہوں کہ بہت سے دوست اسے یاد رکھیں اور اسے پہنچاویں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملدرآمد دنیا کے بچے لڑکیاں جوان آدمی جوان عورتیں بوڑھے مرد، بوڑھی عورتیں، یہود،عیسائی غرض ہر طبقہ کے لوگ دیکھتے تھے.اسی تواتر سے وہ علم ہم تک پہنچا ہے.اب اگر کوئی اس میں ترمیم کرکے کہے کہ نماز کی اتنی رکعت ہے.وہ تمام مجنونوں سے بدتر مخبوط الحواس ہے.صلوٰۃ کے معنی صبح، ظہر، عصر، مغرب اور عشا کی سترہ رکعت فرض ہیں.وتروں کو زیادہ مؤکد کریں تو بیس رکعت اور اس کے سوا بیس رکعت اور یہ عمل درآمد تواتر سے ثابت ہے اس کے لئے کسی کتاب کی ہمیں ضرورت نہیں.
مجھے شوق ہوا کہ شیعوں اور خوارج وغیرہ کی نماز دیکھوں.صوفیوں اور محدثین کی نماز کا علم پیدا کروں.میں نے غور سے دیکھا اور دریافت کیا مگر وہاں بھی سترہ رکعت فرض ہی پائیں.پھر جھگڑا کیا؟ کیا روزہ، حج مکّہ اور زکوٰۃ میں؟ اس میں بھی نہیں لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ میں بھی نہیں.ملائکہ پر ایمان لانا اللہ تعالیٰ کی کتابوں اور رسولوں قیامت اور تقدیر کو ماننے میں سب برابر ہیں.اب اس قدر تعامل اور تواتر کے ہوتے ہوئے اگر ایک سکھ اٹھ کر کہے کہ نماز کے یہ معنے ہیں تو کیونکر قابل تسلیم ہوں گے.میں سچ کہتا ہوں کہ قرآن کریم کے ساتھ تعامل کا وجود بہت بڑی طاقت کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے.(الفاتحۃ :۲) کے معنی جو ہم نے بچپن سے سیکھے ہیں.وہ بھی اسی طرح تعامل کے نیچے چلے آتے ہیں.اَلْ کے معنی ساری حمد تعریفیں‘ ل کے معنی واسطے‘ اللہ معنی اللہ‘ ربّ کے معنی پالنے والا‘ اَلْ معنی سارے ‘عالمین معنے جہانوں یعنی ساری تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے.آہ! لوگوں نے تعامل کا بھید نہیں سمجھا.بچپن کا واقعہ ہے.بخاری ہمارے گھر میں تھی.خلاصہ کیدانی مجھے یاد کرایا جاتا تھا.اس میں رفع سبابہ کا ذکر تھا.مفتی محمد صادق کی والدہ کے باپ نے کہا کہ خلاصہ کی شرح ہم بھیجیں گے.چنانچہ کالے کالے بستوں میں انہوں نے وہ شرح دی.میرے بھائی صاحب نے اسے پڑھ کر کہا کہ رفع سبابہ کی بات تو درست ہی معلوم ہوتی ہے.اس وقت کی کتب کا یہ حال تھا مگر اب مطبع ‘کا غذ‘ا من‘ ڈاک کا انتظام اور وی پی کا طریق دیکھ کر میں تو قربان ہو ہو جاتا ہوں.آج اگر کتابوں کے ذریعہ یہ باتیں معلوم نہ ہوں تو تعجب نہیں مگر اس زمانہ میں جب کہ سلسلہ کتب نہ تھا تب بھی ارکانِ دین کا علم عام تھا.میں سچ کہتا ہوں کہ نماز کی شکل روزہ حج کی شکل مخلوق سے اتنی سنی ہوگی کہ گن بھی نہیں سکتے اور یہ کہنا کہ قرآن کریم کو مقدم سمجھتے ہیں.اس کے بھی معنے معلوم کرنے کے لئے اول تعامل ہے.پھر لغت ہے.یاد رکھو کہ ہمارا یہ ایمان ہے.کوئی تحقیق و قرآن والے کوئی مکالمہ مکاشف وحی اگر تعامل کے خلاف ہو تو تیرہ سو برس کے بعد ایسے لال بجھکڑ کی بات کون مانتا ہے.
یعنی وہی مکالمہ مکاشفہ اور وحی اب بھی قابل تسلیم ہوسکتی ہے جو قرآن کریم اور تعامل کے خلاف نہ ہو.اب میں پھر اصل رکوع کی طرف توجہ کرتا ہوں.اس آیت میں جاہل کا لفظ نہیں رکھا بلکہ اعمیٰ کا لفظ رکھا.اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے کمالات اور عجائبات میں سے یہ بھی ہے کہ ہر دعویٰ کے ساتھ دلائل دئیے ہیںجو دوسری کتابوں میں نہیں اور یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ رسول اللہ خاتم الانبیاء ہیں.قرآن کریم نے ہر تعلیم اور دعویٰ کے ساتھ دلائل دئیے ہیں.اس کی اگر تشریح کروں تو بہت وقت خرچ ہوگا.مختصراً بتاتا ہوں.مثلاً فرمایا کہ شرک نہ کرو.اس کی دلیل یہ دی (الاعراف :۱۴۱) یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں دوسری مخلوق پر فضیلت دی ہے.اب وہ چیز جس کو تم خدا کے سوا معبود بناتے ہو وہ تو تمہاری خادم ہے مخدوم بھی نہیں ہوسکتی چہ جائیکہ ایسے معبود بنائو.اب یہ کیسی روشن دلیل ہے.دعاوی اور دعاوی کے دلائل کے آگے کیا ضرورت باقی رہتی ہے.یہ بھی ختم نبوت کی دلیل ہے.دنیا میں مذاہب کے تین بڑے مرکز گزرے ہیں.ایک امر ان امیراموں برہما آسام چائنا وغیرہ کا یہ ایرانی مذہب کی شاخیں ہیں.یورپ امریکہ افریقہ کے کنارے اور کچھ ہندوستان کے کنارے یہ عبرانیوں کی شاخ در شاخ ہیں یروشلم (ہولی لینڈ) ان کا مرکز ہے.بت پرستی کے کمال میں عرب بھی پیچھے نہیں رہا.یرمیا کے نوحہ میں اس کی تفصیل ہے.واقعات بتاتے ہیں کہ وہ اپنے مذاہب کے بڑے حامی اور زبردست مؤید تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا بڑا کمال ہے کہ تینوں مرکز آپ نے فتح کرلئے.دارالسلطنت فتح کرلینے کے بعد اگر کوئی مقابلہ کرے تو یہ مذمومی حرکت ہوتی ہے.اگر سب کا سب فتح کرلیتے تو پچھلے آنے والوں کے لئے کیا رہتا.بہرحال مذاہب کے مرکزوں پر کامیابی حاصل آپ ہی نے کی اور یہ ختم نبوت کی دلیل ہے.اللہ کے لفظ پر کسی سماوی کتاب نے قرآن کے برابر زور نہیں دیا.سب نے صفاتی نام بیان کئے ہیں.دیانند نے سو ایک نام کہے ہیں جن میں پہلا نام اگنی بھسم کرنے والی آگ ہے اور اس میں رحم عدل دیا لتاکر پالتا کا نام بھی نہیں.وحدہ‘ لاشریک کہاں آتا ہے مگر اللہ کا لفظ ایسا ہے
کہ اس کی نظیر نہیں ملتی یعنی تمام کاملہ صفات سے موصوف اور تمام بدیوں سے منزہ معبود.یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کو جس قدر مطالعہ کرواللہ کو موصوف اور باقی صفات ہیں.اس ایک نقطہ سے بھی آپ خاتم النبیین ثابت ہوتے ہیں.پھر میں دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص مہدی مجدد کرشنا مصلح ہوگا.کچھ ہی اسے کہہ لو انگریزی الفاظ میں ریفارمر کہہ لو کچھ ہی ہو یہ ایک خوبی ہے.مگر یہ خوبی کسی کو قیامت تک نہیں مل سکتی جب تک وہ آنحضرت کا خادم اور غلام نہ ہو.اس سے معلوم ہوا کہ تمام روحانی فیوض کے حاصل کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور یہ آپ کی ختم نبوت کی دلیل ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام خوبیوں کے جامع ہیں اور اسی لئے آپ کا نام محمدؐ ہے ساری خوبیاں تو اس نام میں جمع ہیں.وہی رسول ہوسکتا ہے جو محمدؐ ہو.اَب آپ کے بعد کون رسول ہوسکتا ہے؟ پس محمد کا لفظ بھی خود ختم نبوت کی دلیل ہے.پھر میں نے غور کیا ہے کہ انسان اپنی انسانیت کے لحاظ سے ساری مخلوق پر حکمران ہے.میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ چیتے سے شکار کراتے ہیں.بازوں کو دیکھا ہے کہ کیسے چلے جاتے ہیں جو شکار کرکے لے آتے ہیں.پھر کبوتر کو دیکھا ہے.اعلیٰ درجہ کا کبوتر چوبیس گھنٹہ آسمان پر رہتا ہے.پھر جب بلاتے ہیں تو آواز کے ساتھ واپس آجاتے ہیں.ایک آدمی بھوکے شیر کے منہ میں سر دیتا ہے.یہ ایک قسم کا کسب کمال ہوتا ہے پھر بہت سے لوگ سانپوں کو نچاتے ہیں.چوہوں کو دیکھا ہے کہ ان سے تماشا کراتے ہیں.ہاتھی گھوڑوں سے ایسا تصرّف کرتے ہیں.انہیں کہتے ہیں مرجائو تو وہ مردہ کی طرح لیٹ جاتے ہیں اور ان کا حکم مانتے ہیں.یہ سب انسانی اخلاق کا نتیجہ ہے مگر تو بھی یہ ایک حد کے نیچے ہوتے ہیں.کوئی ڈاکٹر ہے‘ انجینئر ہے‘ وکیل ہے‘ اکانومسٹ ہے‘ مصلح قوم ہے‘ سپہ سالار ہے‘ فاتح ہے.غرض کسی ایک یا دوسرے ُخلق میں بڑائی ہوگی مگر اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے فرماتا ہے.(القلم :۵) جس کو خدا تعالیٰ عظیم کہے اس کی عظمت وہم میں بھی نہیں آسکتی.(التوبۃ :۱۲۹) کا عظیم بے مثل ہوتا ہے پھر کہا تو یہ کہا زبان کی خوبیوں کے لحاظ سے یہ جملہ نہایت عجیب ہے.
پھر عمدہ اخلاق ایک فضل ہے.پھر علم کا نظر لیکچر و الے کا ناک کا زبان کا قویٰ کا سیاست سپہ گری وغیرہ لاکھوں خدا کے فضل ہیں.اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے.(النساء :۱۱۴) تجھ پر اللہ کا فضل عظیم ہے.اب اس عظیم سے پرے تو ختم ہی ختم ہے.یہ دلیل ہے ختم نبوت کی.اب ہم نظارہ آنکھ کان سے کام لیتے ہیں.ایک کتاب میں نے پڑھی اس میں لکھا ہے کہ چرچ آف انگلینڈ کا خرچ چھتیس کروڑ روپیہ ہے.پھر اس میں چرچ آف انگلینڈ جہاں جہاں کام کرتا ہے وہاں کا راستہ اور جغرافیہ بھی دیا ہے.ایسا ہی میں نے مہاراجہ کپور تھلہ کا سیاحت نامہ پڑھا ہے.اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ پوپ کی ملاقات کو گئے اور وہاں دیکھا کہ یورپ کے بہت سے شہزادے پوپ کی خدمت کو حاضر ہیں اور پوپ کے سر پر چنوّر کررہے ہیں.ان کو کہا گیا کہ ہاتھ بڑھائو مگر پوپ نے ہاتھ نہ بڑھایا.پھر ان کو کہا گیا کہ ہاتھ بڑھائے رکھو.پوپ نے پوچھا کہ کیا تمہاری ریاست میں مسیحی لوگ بھی رہتے ہیں.کہا ہاں کچھ ہیں.پھر پوپ نے اقرار لیا کہ کیا آپ ان کی رعایت رکھنے کا اقرار کرتے ہو.انہوں نے اقرار کیا تو ہاتھ بڑھایا.جس پر انہوں نے بوسہ دیا.اس قصہ کو دیکھ کر غور کرو کہ کیسی خواہش اور کوشش ہورہی ہے اور ہمارے اور ان کے امراء میں کیا فرق ہے.میرا ایک دوست جٹ زمیندار ہے مگر بہت ہوشیار چلتا پرزہ ہے.مجھے اس نے بیان کیا کہ ایک وقت ہزاونرلیفٹیننٹ سے ملنے گیا.ہزاونر نے اسے کہا کہ ملک صاحب! آپ اردو پڑھے ہوئے ہو؟ پھر نہایت عمدہ سنہری جلد والی انجیل لاکر تحفہ دی اور کہا کہ مہربانی کرکے اس تحفہ کو آپ پڑھ لیا کریں.اس کے مقابلہ میں ہمارے امراء جو کچھ کرتے ہیں وہ تم سے مخفی نہیں.اس لئے تفصیل کی حاجت نہیں.باایں اسلام کا محافظ کیسا ہے؟ خدا تعالیٰ کسی نہ کسی کو پیدا کردیتا ہے اور اس کے ساتھ جماعت کو اکٹھا کردیتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ اسلام دنیا میں زندہ مذہب ہو.دیکھو یہود، مجوسی اور نصاریٰ میں مجدد نہیں ہوتے جن کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہو اور وہ خدا تعالیٰ سے فیض حاصل کرکے دوسروں کو فیض یاب کریں.وہ لوگ خود قائل ہیں کہ ان میں سے
ایسے لوگ نہیں ہوتے اور یہ ان کی تعلیم کی کمزوری اور ان کے ہادیوں کی قوت قدسی کا ضعف ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی ایسی زبردست اور آپ کی تعلیم ایسی بابرکت ہے کہ تیرہ سو برس تک برابر ایسے لوگ ہوتے آئے اور ہوتے جائیں گے جو احیاء ملت کرتے رہیں گے اور ان کے ہاتھ پر بہتوں کو شفا ہوگی اور وہ دنیا کی ہدایت کا ذریعہ ہوں گے.یہ بھی ختم نبوت کی دلیل ہے.ایک شخص نے مجھ سے انجیل کی رو سے ختم نبوت کی دلیل پوچھی.میں نے کہا وہاں تو بالکل صاف ہے.متی کی انجیل میں باغ کی مثال بیان کی ہے.باغ کے مالک کا آنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ہے اور یہ آخر میں ہے.اس لئے مالک کے پرے اور کون ہے جس کا انتظار ہو.ختم نبوت کی دلیل ہے.پھر قرآن میں ایک جگہ نبوت کا عظیم الشان معیار بتایا ہے اور وہ یہ ہے (النجم :۳) جو ہمارا ہادی ہو اس میں تین باتوں کا ہونا ضروری ہے.اول وہ اجنبی نہ ہو جس کو کوئی جانتا بھی نہ ہو کیونکہ ایسا آدمی تھوڑے دنوں کے لئے نیک بن سکتا ہے.حالانکہ ممکن ہے کہ وہ شریر ہو اس لئے ایسا شخص جوہادی ہونے کا مدعی ہو وہ تم میں سے ہی ہو جس کے حالات سے تم بخوبی واقف ہو.دوم وہ بے علم نہ ہو.سوم جو وہ تعلیم دیتا ہے اس کا عامل ہو آپ خلاف ورزی نہ کرے.مکّہ والو! بتائو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے صاحب ہیں یا نہیں؟ ہیں پھر بے علم تو نہیں؟ بالکل نہیں.پھر خلاف ورزی تو نہیں کرتا.بالکل نہیں.اب بتائو اس سے آگے کیا شرط ہوگی؟ یہ بھی ختم نبوت کی دلیل ہے.پھر فرمایا (النجم :۶) وہ جس کی طاقتیں بڑی مضبوط ہیں.وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معلم ہے.اس سے پرے کوئی طاقت نہیں.پھر وہ ذُوْمِرّہہے بڑا مضبوط (النجم :۸) اس دل گردے کا انسان کوئی ہے؟ یہ بھی ختم نبوت کی دلیل ہے.پھر فرمایا.(المائدۃ :۴) تعلیم اور ہدایت کو کامل کردیا.اس پر کسی قسم کے اضافہ کی کبھی حاجت نہیں.انسان کے لئے ایمان چاہئے.محافظ ایمان چاہئے.پھر معاملات تمدن ،معاشرہ ،اخلاق ،سیاست چاہئے.معاملات میں بیع شرا ‘اجارہ استجارہ‘ رہن تداین‘ وصایا
شہادت‘ کھانے پینے کا فکر غرض تمام ضروریات دین کی تکمیل کردی.اس سے پرے کسی چیز کی حاجت ہے؟ اگر کوئی ہے توکلوں کی.اگر کلیں بناکر دئیے جاتے تو کیا سستی کی رغبت دئیے جاتے اور روزمرہ کے ایجادات و ترقیات سے سبکدوش کیا جاتا.اس لئے اس کی ضرورت نہ تھی.غرض کامل شریعت اور کامل ہدایت دی.یہ بھی ختم نبوت کی دلیل ہے؟ حضرت صاحب کا شعر ہے.ختم شد برنفس پاکش ہرکمال لا جرم، شد ختم ہر پیغمبرے پھر ظلمت بہت بری چیز ہے کفر کی ظلمت ہو رسم کی ہو.عادت و جہالت کی ہو بیجا محبت اور غضب کی ہوغرض کسی قسم کی ظلمت ہو بڑے دکھ کا موجب ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر قسم کی ظلمت سے نجات دیتے ہیں.یہ بھی ختم نبوت کی دلیل ہے.ایک حدیث میں پڑھا تھا کہ شام کے وقت گھروں کو بند کرو.بچوں کو باہر نہ جانے دو.برتن ڈھانپ دیا کرو.میں عموماً ان ہدایات پر بحمداللہ عامل رہتا ہوں.چوہوں کو مار دینا چاہئے احرام کی حالت میں بھی چوہے کو مار سکتے ہیں.یہ بڑا فاسق ہے.کچھ دن ہوئے کہ میں نے لیفٹیننٹگورنر صاحب کا شائع کردہ ایک رسالہ پڑھا جس میں لکھا تھا کہ ابتدائے ظلمت میں جرمز کا زور ہوتا ہے اور ان تمام اصول کو بیان کیا جن کا نبی کریم نے تیرہ سو برس ہوئے بیان کیا تھا‘ کہہ اٹھا.غرض ہر سکھ کی راہ آپ نے بتائی.یہ بھی آپ کی ختم نبوت کی دلیل ہے.یہ بہت لمبا سلسلہ ہے اور آپ کی ختم نبوت کے اس قدر دلائل ہیں کہ گنتے گنتے تھک جاویں وہ ختم نہ ہوں اور اب وقت بہت ہوگیا ہے میں رکوع بھی ختم نہیں کرسکا.غرض یہ ہے مومن بنو اور ان کے جو صفات بیان کئے ہیں وہ اپنے اندر پیدا کرو.عہد شکن نہ بنو مومن وہی ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کو وفا کرتے ہیں اور عہداللہ کو توڑتے نہیں.نمازوں کو درست رکھتے ہیں.بدیوں کے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اب میں ایک بات کہہ کر ختم کردیتا ہوں ہمارے دوست میر عابد شاہ کچھ کہنا چاہتے ہیں ا ور انہوں نے مجھے لکھا ہے کہ میں ان کے لئے سپارش کروں.ان کی باتیں سنو اور شورو شب نہ ہو اور ہمارے لکھنے والے انہیں لکھ لیں وہ اخلاص سے کہتے ہیں.پھر ایک کتاب ہے دین الحق یا ہمارا
مذہب‘ میں نے اس کو بہت غور سے پڑھا اور بہت ہی غور سے پڑھا اور میں نے اس کے پچاس نسخہ آپ خرید کئے ہیں.میں پسند کرتا ہوں کہ اس کی بہت بڑی اشاعت ہو اور بہت بڑی اشاعت ہو اور اگر اللہ تعالیٰ کسی کو سمجھ اور توفیق دے اور اس میں کوئی کمزوری ہو تو مجھے اطلاع دے.میری عقل و فکر جہاں تک پہنچتی ہے میں اس کو مفید پاتا ہوں اور عبدالحئی کی بھی سپارش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے.آمین (الحکم ۲۸؍مارچ، ۷؍اپریل ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۴ تا ۲۱) ٭ … ٭ … ٭
قبولیت دعا {تقریر فرمودہ ۲۳ ؍ اپریل ۱۹۱۰ء } ناظرین الحکم کو معلوم ہے کہ مسجد النور کی بنیادی اینٹ حضرت خلیفۃ المسیح نے رکھی تھی.اب اسی مسجد کا خدا کے فضل سے بہت بڑا حصہ تیار ہو چکا ہے.۲۳؍ اپریل ۱۹۱۰ء کی نماز عصر حضرت خلیفۃ المسیح نے اسی مسجد میں پڑھی اور بعد نماز عصر آپ نے روزانہ درس القرآن بھی وہیں دیا.ساری احمدی جماعت وہاں موجود تھی.حضرت نے درس کے وقت جو تقریر فرمائی وہ بجائے خود وہاں تشریف لے جانے اور نماز پڑھنے کے اغراض کو کھلے طور پر بیان کرتی ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا ہے کہ اس تقریر کو شائع کردوں.آج حضرت نے اپنی جماعت کے لئے خصوصاً حاضرین کے لئے بہت دعائیں کیں اور فرمایا کہ آج اللہ تعالیٰ نے دعا کے لئے ایسے ایسے الفاظ اور طریق بتائے ہیں کہ میں حیران تھا اور ایسی دعائیں جو میرے وہم میں بھی نہ تھیں.یہ امر قبولیت دعا کا نشان ہے کیونکہ تمام راستبازوں کا وسیلہ ہے کہ جب دعا کے لئے الفاظ اور طریق بتائے جاویں تو وہ قبولیت دعا کا ایک زور ہوتا ہے اس لئے میں اپنی جماعت کو یہ خوشخبری سناتا ہوں کہ خصوصیت کے ساتھ ان کے امام کی دعائوں کو اللہ تعالیٰ نے اس کے حق میں سنا.بہرحال آپ نے نماز عصر کے بعد حسب معمول قرآن مجید کا رکوع پڑھ کر (جو سورۃ الانبیاء کا ۶رکوع تھا) ترجمہ کرنے سے پہلے فرمایا: آج یہاں ہم نے درس کیوںکیا؟ باوجودیکہ ہوا مجھے تکلیف دیتی ہے اور روشنی میں دیکھنے سے تکلیف ہوتی ہے پھر بھی یہاں آنا اور اس کے لئے اس مسجد میں کھڑا ہونا اس کے کیا اغراض ہیں؟ اس کے ظاہری محرک مولوی محمد علی صاحب ہیں.ان کی نیت ان کے ساتھ وابستہ ہے.مجھے ان کے دل کے حال سے آگاہی نہیں.اسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے.انہوں نے اپنے حوصلہ اور
وسعت کے موافق مجھے یہاں بلانے میں کوئی مقصد رکھا ہوگا مگر میں نے اپنی نیت کو ٹٹولا کہ وہ خدا کے لئے ہے تو میں نے ان کی درخواست کو منظور کرلیا.میرے دل میں جو بات ہے وہ یہ ہے.اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ جس کو میں یقینا راستباز مانتا ہوں اور تم بھی راستباز یقین کرتے ہو اس شہر میں آیا اور اس نے بڑا دعویٰ کیا جس کو سن کر بڑی مخلوق چونک اٹھی.بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ اتنا بڑا دعویٰ ایک انہونی بات ہے کس نے ماننا ہے اور کس نے پسند کرنا ہے ہاں اگر اس کی ذاتی وجاہت کی وجہ سے کوئی مان لے تو وہ اگر’’ ماند شبے ماند شبے دیگر نماند‘‘ کا مصداق ہوگا.ایسے خیالات ان لوگوں کے ہوتے ہیں جو سنت اللہ سے ناواقف اور راستبازوں کے خیالات سے بے خبر ہوتے ہیں.ایسے لوگ جو خدا کی طرف سے آتے ہیں.ایک آیت ہوتے ہیں اور اس رکوع میں بھی جو میں نے ابھی پڑھا ہے آیت کہا ہے.میں نے بناوٹ سے ترجمہ نہیں کرنا.یہی لفظ آیا ہے.(یہ حضرت کا اشارہ اس آیت کی طرف ہے : (الانبیاء :۹۲).ایڈیٹر) اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا ہاتھ اپنا فضل ، اپنا کرم، اپنا رحم دکھاتا ہے.وہ انہیں ایک آیت بتاتا ہے.وہ ایک نشان ہوتے ہیں اور پھر ان کی صداقت کے نشان عام طور پر دکھائے جاتے ہیں.اسی طرح پر وہ راستباز جو اس بستی میں آیا ایک آیت اللہ تھا.اس کو اللہ تعالیٰ نے نشان بنایا اور پھر اس کی سچائی کے لئے اس قدر نشان دکھائے کہ میں اب کہتا ہوں کہ تم سب جو یہاں ہو اس کی سچائی کا نشان ہو.ہر ایک شخص تم میں سے اس کی سچائی کا نشان ہے.تم نے اس بات کو نہیں سنا جب خدا تعالیٰ نے اسے تمہارے آنے کے متعلق کہا.وہ آواز ایسی کان میں پہنچی اور پھر اس نے تمہارے یہاں آنے سے بہت پہلے اس کو سنایا.(حضرت خلیفۃ المسیح کا اس امر سے یأتون من کل فج عمیق (تذکرۃصفحہ:۳۹)کی پیشگوئی کی طرف توجہ دلانا مقصود تھا.ایڈیٹر)
ہاں میرے کان میں بھی خدا کی آواز اسی کے ذریعہ پہنچی اور پھر اسی طرح ہوکر رہا.اس کی صداقت کے اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سے نشان دکھائے تھے جنہوں نے مجھے کامل یقین دلایا کہ وہ خدا کی طرف سے آیا ہے.میں ان نشانات میں جو مجھ پر اس کی سچائی کے ظاہر ہوئے.ایک تمہیں سناتا ہوں.میں ان دنوں جموں میں ملازم تھا.میرا ایک داماد عبدالواحد غزنوی ہے میں مولوی عبداللہ غزنوی کا مرید نہیں مگر مجھے ان سے بہت محبت تھی اسی محبت کی وجہ سے میں نے ان کے ایک لڑکے کو اپنی ایک لڑکی بیاہ دی.وہ ہمارے پاس رہتا تھا اور پڑھتا تھا.ایک اور شخص تھا جس نے فلسفہ پڑھ لیا تھا اور طب پڑھتا تھا وہ شخص اب بھی زندہ ہے.قدرت الٰہی کا عجیب نقشہ ہوتا ہے.ایک دن اس نے پوچھا کہ عبدالحق غزنوی کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ نیک آدمی ہے.پھر اس نے پوچھا کہ کیا وہ مفتری ہے؟ میں نے کہا میں اسے مفتری نہیں سمجھتا.(یہ حسن ظن کا نتیجہ ہے جو حضرت کی فطرت میں ہے.ایڈیٹر) تب اس نے کہا کہ عبدالرحمن لکھوکے کے متعلق کیا خیال ہے؟ میں نے کہا کہ وہ بھی مفتری نہیں.اس پر اس نے کہا کہ مرزا، عبدالحق، عبدالرحمن جب مفتری نہیں تو پھر یہ کیا بات ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کے کان میں کچھ کہتا ہے اور کسی کے کان میں کچھ؟ میں تو ایسے خدا کا قائل نہیں ہوسکتا.اس کی یہ بات سن کر میرے دل کو بہت دکھ ہوا کہ اس نے ہمارے ڈیرے میں رہ کر اور ہمارا شاگرد ہوکر ایسا بے ادبی کا کلمہ بولا.میرا دل گھبرایا اور میں اٹھ کر اند رچلا گیا اور اسی حالت میں معاً مجھے غیر طبعی نیند آئی اور اس میں مجھے بتلایا گیا کہ مرزا صاحب پر اعتراض کیا ہے؟ یہ کہ انہوں نے قادیان کو دمشق کہا ہے.اس وقت اس امر پر اعتراض تھا.اس کے جواب میں مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ آج ہم نے سب کو مجاز بولنے پر مجبور کردیا ہے.اس کے بعد میں بیدار ہوگیا.طبیعت کی کوفت جاتی رہی اور میں باہر چلاآیا اور آکر کہا کہ آج مجھے یہ الہام ہوا ہے اور ان لوگوں سے کہا کہ اعتراض تو مجاز کا ہے افترا کا نہیں.اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ آج ان سب کو ہم نے استعارہ پر مجبور کردیا ہے.میرے ساتھ ان لوگوں کی خط و کتابت نہیں.اللہ تعالیٰ جس طرح پرچاہے گا اس حقیقت کو کھولے گا.کچھ دن گزرے عبدالحق غزنوی کا خط میرے نام آیا.اس سے پہلے کبھی اس کا کوئی خط میرے
نام نہیں آیا تھا.میں نے اسے دیکھ کر عبدالواحد اور اس فلسفی کو کہا کہ آج یہ پہلا خط ہے اور یہ میرے الہام کی تصدیق کرتا ہے، اسے تم آپ کھولو.انہوں نے کھولا اور پڑھا تو اس میں لکھا تھا خربت خیبر ای قادیان.یہ اس نے اپنا الہام لکھا جس میں قادیان کا نام خیبر رکھا گیا ہے.میں نے کہا.جب یہ قادیان کو خیبر کہتا ہے تو دمشق کہنے میںکیا حرج ہے.عبدالواحد نے فوراً لکھ دیا کہ یہ خر دماغ ہے.میں نے کہا کہ نہیں.تم اس کا ادب کرو.وہ جانتا تھا کہ عبدالرحمن لکھو کے والے محتاط ہیں وہ اگر خط لکھیں گے تو سوچ کر لکھیں گے.مگر اللہ تعالیٰ بڑی طاقت ہے.اس کا بھی دوسری تیسری ڈاک میں خط آگیا.انہوں نے مجھے لکھا کہ ہم تمہیں اچھا سنتے تھے مرزا صاحب کے ساتھ تمہارے تعلق سے رنج ہوا.ہم نے اللہ سے توجہ کی کہ اس معاملہ کو صاف کردے.اس پر جو الہام ہمیں ہوئے ہیں وہ بلاکم و کاست نیچے لکھ دئیے ہیں.پھر نیچے وہ الہامات لکھے تھے ان میں سے ایک یہ تھا.ما سمعنا ھٰذا فی ملۃ الآخرۃ.یہ کفار کا قول ہے جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں آپ کی تعلیم کے متعلق کہا اور اعتراض کیا.پھر خود ہی ان کو دبدھا پڑی کہ یہ تو ہمیں ابوجہل بتاتا ہے.ہو نہ ہو اس میں استعارہ ہے اس لئے اس کے معنے بتائے.ای الملۃ المحمدیۃ.میں نے عبدالواحد سے کہا.اب بتائو تیرہ سو برس میں یہ معنے کسی نے نہیں کئے.اس پر اس نے کہا کہ آپ تو معذور ہیں.اس واقعہ سے وہ شخص جس نے کہا تھا کہ میں ایسے خدا کا قائل نہیں بول اٹھا کہ میں تو خد اتعالیٰ کا قائل ہوگیا.مجھے اس سے بڑی خوشی ہے.وہ شخص اب بھی ہماری جماعت میں ہے اور ایک مخلص دوست ہے.غرض خدا تعالیٰ نے مجھے بہت سے نشانات دکھائے ہیں اور تم سب اس راستباز کی صداقت کا نشان ہوئے.پس مولوی صاحب نے تحریک کی کہ میں یہاں نماز پڑھوں.میں اپنے اخلاص کو دیکھتا تھا کہ مخلصانہ وقت میسر آجاوے تو میں آئوں گا.پس خدا تعالیٰ نے مجھے وہ اس وقت دیا اور میں یہاں آیا ہوں.میں نے اس مسجد کی اینٹ رکھی تھی.اس وقت بھی میرے دل میں اسس بنیانہ سے التقویٰ ہی
مدنظر تھا اور یہی میری دعا تھی اور قرآن مجید کی یہ آیتیں میرے سامنے تھیں.(التوبۃ:۱۰۷تا۱۰۹).حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عیسائی ابو عامر تھا اس نے ایک مسجد بنائی تھی.عیسائی قومیں بڑی ہوشیار ہوتی ہیں.اس نے دل میں دیکھ لیا کہ ایک مسجد بنائو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ بعض اوقات ندی نالے چڑھ جاتے ہیں اور غرباء و ضعفاء آپ کی مسجد میں نہیں آسکتے اس لئے ان کے لئے ایک مسجد بناتے ہیں.حضور بطور تبرک ایک وقت کی نماز اس میں پڑھ لیں.جب آپ نماز پڑھ لیں گے تو یہ مسجد متبرک ہوجائے گی اور مسلمانوں کی نگاہ میں معزز ہوگی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ بھی کرلیا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی وحی کے ذریعہ آگاہ کردیا کہ ان کی غرض و غایت کیا ہے اور آپ پر وحی ہوئی یعنی اس مسجد کے بنانے والوں کا منشاء دکھ دینے اور کفر کا ہے اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنا مقصود ہے اور یہ غرض ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جن لوگوں نے جنگ کی ہے ان کے لئے کمین گاہ بنادیں اور یہ قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہمارا مقصود نیکی ہے اور ہم حسنیٰ چاہتے ہیں مگر یاد رکھو.میں نے بھی اس مسجد کی اینٹ رکھی ہے اور میرے وہی پیارے نے بھی رکھی ہے.میرے دل میں تقویٰ تھا.میں نے ضرر کے لئے نہیں رکھی اور کسی شریر کے آئندہ جانشین ہونے کے لئے نہیں رکھی یہ پتا پیچھے ملے گا.میری غرض تقویٰ ہے.اگراس غرض کے لئے نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ً اس مسجد ضرار میںکبھی کبھی بھی کھڑا نہ ہو
مگر تم دیکھتے ہو کہ میں اس مقام پر کھڑا ہوں.اس لئے کہ میں نے کسی کپٹ اور لحاظ کے لئے اینٹ نہیں رکھی.اگر ایسا ہوتا تو میں نہ اینٹ رکھتا اور نہ یہاں کھڑا ہوتا.میں نے پہلے دن تقویٰ پر اس کی اینٹ رکھی ہے اور اب اسی سنت کو پورا کرنے کے لئے یہاں آیا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اس مسجدمیں کون ہوں گے؟وہ مرد ہوں گے جن کو ضرورت ہے اور جو پسند کرتے ہیں کہ وہ مقدس ہوں اور خدا تعالیٰ مقدسین ہی کی جماعت کو پسند کرتا ہے.تم میں سے جو سچے دل سے چاہے گا کہ وہ مطہر اور پاکیزہ بن جاوے اللہ تعالیٰ اسے ضرور پاکیزہ بنادے گا.یاد رکھو جس مسجد کی بنا تقویٰ پر رکھی گئی ہے ، اللہ تعالیٰ کی رضا مندی پر رکھی ہے وہ بڑی پکی مسجد ہے مگر جس کی بنا کھائی کے کنارے ہو وہ گرے گی اور بنانے والے کو ہی ساتھ لے جائے گی.پس میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے اس کی بناء اللہ کی رضا کے لئے رکھی ہے اور تقویٰ پر رکھی ہے.وہ غریب نواز ہے.مجھ پر اس کے بڑے بڑے کرم ہیں.وہ مجھے ایسی جگہ کھڑا نہیں کرے گا جو اس کی رضا کا مقام نہ ہو.میری دعا ہے کہ اس مسجد کی بنا تقویٰ پر ہو.تیرے محبوب ، پیارے تیرے دین کے خادم عمل کرنے والے قرآن کے خادم ہوں.آمد ورفت کرنے والو ں میں تقویٰ کوٹ کوٹ کر بھری ہو اور جانشینوں میں بھی تقوی اللہ ہو.میں اب بھی کرب سے دعا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں کرب سے دعا کرنے والوں کی سنتا ہوں.میں یہ اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھتا ہوں ہاں اسی کا فضل ہے کہ اس نے مجھے جو کرب دیا جو دعا کی قبولیت کا ذریعہ ہوتا ہے اور میں اپنے آپ کو اور تمہیں خوش وقت سمجھتا ہوں.یاد رکھو ہماری نسبت اور ہمارے کاموں کی نسبت لوگ کیا کیا منصوبے کرتے ہیں کرنے دو.میں خدا کے فضل سے یقین رکھتا ہوں کہ میری چٹان سے جو سر مارے گا اس کا سر ٹوٹ جاوے گا.اب میں خدا تعالیٰ کے پاک لوگوں کا نام تبرکاً سناتا ہوں.ان میں سے ایک نوح تھے.اللہ تعالیٰ نے نوح اور اس کے ساتھ والوں کی دعا کو سنا اور انہیں کرب عظیم سے نجات دی اور ان کے مکذبین پر انہیں نصرت دی اور بالآخر ان کے مخالفوں کو غرق کردیا.یہ ایک راستباز اور اس کے ساتھ والوں اور
ان کے مخالفین کے انجام کی نظیرہے.اس طرح پر حسب معمول حضرت نے قرآن مجید کے اس رکوع کا درس دیا.حضرت سلیمان اور دائود علیہما السلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے ایک کھب کے معاملہ میں فیصلہ کیا.حضرت سلیمان کو اس کے متعلق سمجھ آگئی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ چھوٹوں کو ایک بات سمجھا دیتا ہے.دائود علیہ السلام کی زرہ کے ذکر پر فرمایا.دیکھو میں تمہیں اس زرہ کا پتا دیتا ہوں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنائی ہے جو ہر مصیبت کے وقت اور ہر دکھ کے وقت ہمیں محفوظ رکھتی ہے.وہ زرہ اسلام ہے.ہاں وہ میرے ہاتھ میں ہے.وہ یہ قرآن کریم ہے.میرا یقین ہے مجھے کامل تسلی ہے کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی.کوئی باطل پرست اس کتاب کے فہم والے کا مقابلہ نہیں کرسکتا.خدا تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیاہے کہ اگر قرآن کریم کا منکر تجھ پر اعتراض کرے گا تو ہم اسی وقت اس کا جواب سمجھا دیں گے.میں نے اپنی زندگی میں بارہا اس کا تجربہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تقویٰ کے مقام پر کھڑا ہوکر میں نے افترا نہیں کیا.رکوع ختم کرنے کے بعد آپ نے فرمایا: پھر میں تمہیں کہتا ہوں کہ خدا سے میرے لئے بھی دعا کرو اس مسجد کو متقیوں کی مسجد بنادے.اس میں نماز پڑھنے والوں کو مطہر بنادے.جو لوگ اس کے مہتمم ہیں ان کی غلطیوں کی اصلاح کرے اور ان کی صحیح باتوں کو ترقی دے اور صدموں سے محفوظ رکھے.آمین اس کے بعد آپ نے بہت لمبی دعا کی.اللہ تعالیٰ اس دعا کو ہمارے حق میں قبول فرماوے.آمین (الحکم.۱۴، ۲۱، ۲۸ ؍ اپریل ۱۹۱۰.صفحہ ۱۳ تا ۱۶) ٭ … ٭ … ٭
اسلام اور دیگر مذاہب (تقریر فرمودہ ۳۱؍جولائی ۱۹۱۰ء بوقت صبح بمقام میدان احمدیہ بلڈنگس ) وَقَـا لَ اللّٰـہُ تَعَالـیٰ(آل عمران:۲۰) (آلِ عمران:۸۶).تمہید جو اشتہار کل شائع کیا گیا ہے وہ آ پ لوگوں نے پڑھا ہے.اس میں آج کی تقریر کا مضمون اسلام اور دیگر مذاہب بتایا گیا ہے میں اس کے متعلق بیان کرنے کے واسطے اس وقت آپ صاحبان کے سامنے کھڑا ہوا ہوں تا کہ میں آپ کے سامنے پیش کروں کہ جس امر کا میں پابند ہوں اور جس چیز کو میں نے اپنا مذہب قرار دیا ہے ،وہ کیا ہے؟ اورمیں نے اسے کیوں اختیار کیا ہے اس پر کسی کو اعتراض کا موقع کم ہی ہو گا کیونکہ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ میں اپنے دلی اعتقاد کا اظہار کروں اور یہ بتائوں کہ میں کس طرح اس نتیجہ تک پہنچا.ہاں اس کے ضمن میں مجھے یہ بھی بتانا پڑے گا کہ دیگر بہت سے مذاہب سے میں نے اپنے آپ کو کیوں اور کس طرح علیحدہ کیا.کسی مذہب کو اختیار کرنے کے اسباب ہر ایک شخص کے واسطے کسی مذہب کے اختیار کرنے کے لئے بہت سے وجوہ ہوتے ہیں اور مختلف اسباب ایسے ہوتے ہیں جو کسی کو ایک مذہب کا پابند بنا دیتے ہیں ان میں سے ایک سبب یہ ہے کہ جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو جس مذہب کے لوگوں میں وہ نشوو نما پاتا ہے ان کے خیالات اور معتقدات رفتہ رفتہ اس کے دل میں گڑتے رہتے ہیں اور وہ بتدریج ان کا اثر اپنے اندر لیتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اس مذہب کا پابند کہلاتا ہے یہ بھی ایک سبب کسی مذہب کے اختیار کرنے کا ہے اور مجھے بھی ایسا موقع ملا ہے میں مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوا.میرے ماں باپ سنی حنفی کہلانے والے مسلمان تھے.اللہ تعالیٰ کی بہت بہت رحمتیں ہوں میری کھلائی
پر کہ مجھے بہلانے کے وقت اور لوری دیتے ہوئے اس کے منہ میں اللہ کا نام اور نبی کا نام رہتا تھا.ابتدا میں میرے مسلمان ہونے کا یہی سبب ہوا.بچپن کی سنی ہوئی کلام کا اثر آپ کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کے گھر میں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو سب سے اول اس کے کا نوں میں اذان کہی جاتی ہے جن کلمات میں مذہب اسلام کے تمام اصول صاف صاف مندرج ہیں وہ اس کے کان میں پھونکے جاتے ہیں جب میں نے طب پڑھی تو میں اس نکتہ پر پہنچا کہ بچپن کے وقت کان میں پڑی ہوئی بات گہرا اور لمبا اثر رکھنے والی ہوتی ہے.میں نے ایک عورت کاحال پڑھا ہے جو کہ جرمن زبان سے بالکل ناآشنا تھی مگر اس پر ایک دورہ پڑتا تھا کہ اس وقت وہ جرمن زبان میں ایک فصیح بلیغ لیکچر دیا کرتی تھی ایک ڈاکٹر اس کھوج میں لگا کہ اس کی اصلیت کو دریافت کرے.بہت کوشش کے بعد اسے اس کا سبب یہ معلوم ہوا کہ جب یہ عورت چھوٹی بچی تھی اور اپنی ماں کی گود میں تھی اس وقت اس کی ماں ایک جرمن پادری کے ہاں خدمت گاری کے لئے رہتی تھی.پادری صاحب اپنی سرمن(خطبہ)تیار کر کے پہلے مشاقی کے لئے گھر میں بآواز بلند اسی طرح پڑھا کرتے تھے جس طرح انہوں نے گرجا میں پڑھنا ہوتا تھا اور وہ آواز اس لڑکی کے کان میں متواتر ایک عرصہ تک پڑتی رہی.یہ اس کا اثر تھا جواب وہ جرمن زبان میں لیکچر دیتی تھی.ابتدائی تعلیم پھر میں نے اپنی ماں کی گود میں لَااِلٰـہَ اِلَّا اللّٰـہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِکی آواز سنی.بڑے بڑے صلوات وبرکات وسلام اور رحمتیں ہمارے ہادی پر ہوں جس نے ہمارے کانوں میں یہ صدا پہنچائی.جب مجھے ذرا ہوش آئی اور میں نے اپنے باپ کے پاس پڑھنا شروع کیا تب بھی یہی صدا میرے کان پڑتی رہی.جب میں اور بڑا ہوا اور مدرسہ میں داخل ہوا تو اس وقت کے مدارس میں ایسا گھمسان نہ تھا جیسا کہ اب ہے کہ ایک ہی بینچ پر اور ایک ہی کمرہ میں بہت سے مختلفانہ مذاہب کے لوگ جمع ہوں اور اکٹھے سبق پڑھیں اور ایک دوسرے پر اپنا اثر ڈالیں بلکہ ہمارے میاں جی ایک خاص رنگ کے آدمی تھے وہ دس لڑکوں کو ملا کر سبق نہ پڑھاتے بلکہ ایک ایک لڑکے کو باری باری الگ الگ سبق دیتے تھے جو زیادہ خدمت کرتا اسے زیادہ اور عمدہ سبق پڑھ لینے کا
موقع ملتا اور جو کم خدمت کرتا اسے کم موقع ملتا.یہ بناوٹی با ت نہیں ہے بلکہ واقع میں اسی طرح سے ہوا غرض یہاں تک میں نے کوئی بات اس آواز کے مخالف نہ سنی جو بچپن سے میرے کان میں ڈالی گئی تھی.پہلی مخالف آواز لیکن جب کہ میں نارمل اسکول راولپنڈی میں پڑھتا تھا تو میرے مکان کے قریب ایک مشنری پادری صاحب الگزینڈر نام کی کوٹھی تھی ان سے ملاقات کا اتفاق ہوا تو انہوں نے دو کتابیں بنام میزان الحق و طریق الحیات نہایت خوبصورت جلد کی ہوئی مجھے دیں.ان کتابوں سے مجھے پرانی تعلیم اور اس کے منشاء کے برخلاف باتیں معلوم ہوئیں جس سے مجھے حیرت پیدا ہوئی.یہ پہلی صدا تھی جو اس کلمہ اور تعلیم کے مخالف میرے کان میں پڑی.اس وقت میری عمر پندرہ سال سے کچھ زائد تھی.مزید مخالفتوں کی آواز اس کے بعد ایک بڑا وقفہ رہا مگر اہل حدیث و اہل فقہ کے باہم تخالف کے اسباب پر اطلاع مجھے پوری پوری مل گئی.پھر میں لکھنؤ میں تعلیم حاصل کرنے کے واسطے گیا.وہاں مجھے شیعوں کے عقائد اور اعمال کے دیکھنے اور سننے کا بڑا اتفاق ہوا.وہاں اہل تشیع طلبۃ العلم بھی تھے اور علماء بھی تھے سب کے حالات دیکھنے کا بخوبی موقع ملا.تب مجھے شوق ہوا کہ میں تحقیقات کروں کہ دنیا میں کس قدر مختلف الخیال لوگ ہیں اور ان میں باہمی کیا کچھ اختلاف ہے اور ان کے عقائد میں کیا فرق ہے؟ اس وقت تک مجھے صرف دو فرقوں کے دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا ایک عیسائی دوسرے شیعہ ،زیادہ کاوش کرنے سے معلوم ہوا کہ دو اور فرقے ہیں ایک اخباری اور ایک اصولی.پھر مجھے ہمیشہ یہ شوق رہا کہ دریافت کرتا رہوں کہ کس قدر عجیب خیالات کے لوگ اور دنیا میں ہیں مگر اس وقت بہ سبب طالب علمی کے یا شاید اس واسطے کہ آج کل کی طرح تبادلہ خیالات کا موقع نہ تھا مجھے زیادہ اختلاف معلوم ہوئے.اسلامی فرقوں میں چنداں اختلاف نہیں پھر ایک اور موقع نکلا جس میں مسلمانوں کے درمیان مختلف فرقوں کے دیکھنے اور حالات معلوم کرنے کے ذرائع مجھے حاصل ہوئے.تب مجھے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے درمیان مقلد اور غیر مقلد ،شرک وبدعت ، سنی وشیعہ ،اتباع الحدیث وغیرہ کے سبب بھی اختلافی مسائل ہیں.یہ میدان بہت بڑا نظر آیا لیکن جب میں نے اس پر غور کی نگاہ‘ ڈالی تو معلوم ہوا کہ اختلاف کوئی بہت
بڑا نہ تھا اخباری ہوں یا اصولی،مقلد غیر مقلد کہیں سے کوئی ایسا بگولہ نہ اٹھاجو اس لااِلٰـہَ اِلَّا اللّٰـہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے پودے کو صدمہ پہنچاتا.جو ابتداء سے میرے دل میں لگایا گیا تھاکیونکہ یہ سب فرقے اس کے قائل تھے پس ابتدائی عقیدے کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچا.علمی شوق کانمونہ انہیں اختلافِ مذاہب کے متعلق مجھے ایک کتاب کے دیکھنے کا شوق ہوا اور مجھے پتا لگا کہ وہ ایک تاجر کتب کے پاس مل سکتی ہے میں اس کے پاس گیا اس نے کہا وہ کتاب قابل تلاش ہے اس وقت نہیں مل سکتی میں تلاش کر رکھوں گا آپ کل آویں.میںدوسرے دن گیا اس نے مجھے کتا ب دی.جس کے کل ۶۲ صفحات تھے اور ۵۰ صفحات کا اس کے ساتھ ضمیمہ تھا.چھاپے کی کتاب تھی اور معمولی تھی.میں نے قیمت دریافت کی تو اس نے کہا کہ پچاس روپے.اگرچہ زمانہ طالب علمی تھا مگر میرے پاس خدا تعالیٰ کے فضل سے روپیہ موجود تھا اور کتا ب کا شوق تھا میں نے اسے مبلغروپیہ کا نوٹ نکال دیا اور کتاب اپنے قبضہ میں کی اور وہاں سے چل پڑا.اس نے اصرار کیاکہ ٹھہر جائو کچھ بات کرنی ہے مگر میں نے کہا کہ مجلس واحد میں اقالہ کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے.بعض تفارق قولی کے قائل ہیں اور بعض تفارق جسمی کے اور مجھے ہے کتاب کا شوق، اس لئے میں اٹھاہوں کہ بالاتفاق آپ اقا لہ فر ماسکیں.میں فی الحال باہر جاتا ہوں تاکہ یہ بیع بالاتفاق پختہ ہو جائے.چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد میں واپس آیا ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اس نے کہامیں آپ کو کچھ دینا چاہتا ہوں کیا آ پ قبول فرما نویں گے.میں نے کہا ہر ایک شخص کی مصلحت لینے اور دینے کی جدا جدا ہوتی ہے.جب تک کہ مجھے معلوم نہ ہو کہ آپ کیا دینا چاہتے ہیںمیں کچھ اقرار نہیں کر سکتا.وہ بولا میں آپ کو مبلغ روپیہ واپس دیتا ہوںکیونکہ میںنے کبھی کوئی کتاب کا ایسا عاشق نہیں دیکھا.میں نے کہا.جب عشق ہوا تو عشق کے سامنے پچاس روپیہ کی کیا ہستی ہے.۱؎ قرآن شریف میں کوئی آیت منسوخ نہیں مذکورہ بالا کتاب کی تلاش مجھے مسئلہ آیات نسخ کے متعلق تھی.سب سے پہلے میںنے ایک کتاب میں یہ دیکھا تھا کہ قرآن شریف کی چھ سو آیتیں منسوخ ہیں اس پر مجھے تعجب ہوا کیونکہ ۱۵۰ حدیثیں ہیں جن سے احکام فقہ نکلتے ہیںاوریہ قرآن شریف کی ۱۵۰تخمیناًآیات سے
احکام فقہ نکلتے ہیں یہ توکل تین سو ہوئے اور بالمقابل منسوخ ۶۰۰ ہوئے.یہ تعجب انگیز بات تھی اگرچہ میرا علم اس وقت ایسا وسیع نہ تھا تا ہم میں عربی جانتا تھا اور مجھے اس میں بعض جگہ تأمّل ہوتا تھا مگر جرأت مقابلہ کی نہ تھی.جب میں ان کتابوں کو پڑھ چکا تو پھر میں اور ایسی کتابوں کی تلاش کرتا رہا.اس تلاش میں مجھے ایک ترُک مہتمم کتب خانہ ملے انہوں نے فرمایاایک کتاب میں باب ناسخ منسوخ کے متعلق ہے اور اس کا نام اتقان ہے.پھر انہوں نے مجھے وہ کتاب پڑھنے کے واسطے عاریتاًدے دی.اس کتاب میں میں نے لکھا دیکھا کہ صرف انیس یا اکیس آیات منسوخ ہیں زیادہ نہیں.آپ لوگ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کس قدر خوشی اور راحت مجھے حاصل ہوئی ہوگی.کہاں چھ سو اور کہاں صرف انیس.عالم جوانی تھا.میں نے کہا انیس آیات تو میں ابھی یاد کر سکتا ہوں.جب میں نے ان آیات کو گہری نگاہ سے دیکھاتو مجھے فوز الکبیر نے یہ فائدہ دیا کہ اس میں صرف پانچ آیتیں ایسی ہیںجو منسوخ کہی جاسکتی ہیں باقی کا فیصلہ صاحب فوز الکبیر نے کر دیا کہ وہ منسوخ نہیں اس سے پھر مجھے ایسی خوشی ہوئی جیسے کسی کو کوئی سلطنت مل جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ معاً دوسرا خیال یہ پیدا ہوا کہ ناسخ منسوخ کے متعلق کوئی ارشاد حضرت حق سبحانہ تعالیٰ کا یا ارشاد نبوی نہیں ہے.ورنہ اتنا اختلاف کیوں ہوتا کہ ایک کے نزدیک چھ سو آیات منسوخ ہوںاور دوسرے کے نزدیک صرف پانچ.اس خیال سے جو خوشی مجھے حاصل ہوئی میں اس سرور کو نشہ کے ساتھ تعبیر کر سکتا ہوں.جب میرے علم میں اس سے زیادہ وسعت ہوئی تو مجھے معلوم ہوا کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ کا بھی اس نسخ کے متعلق کوئی فتویٰ نہیں اور نہ حضرت عمرؓ کا.سب سے پہلا مباحثہ سب سے پہلا مباحثہ جو کہ مجھے پیش آیا وہ اسی مسئلہ ناسخ منسوخ کے متعلق تھا اور وہ لاہور میں ہی ہوا.میرا اس وقت یہ خیال نہیںکہ میںاپنی سوانح عمری بیان کروں بلکہ مسئلہ نسخ کے متعلق بیان کرتا ہوں اور وہ اسباب بیان کرتا ہوں جنہوں نے مجھے اس موجودہ مذہبی عقائد تک پہنچایا.جب میں تعلیم حاصل کر کے واپس پنجاب میں آیا اور راستہ میں لاہور میں ٹھہرا تو ایک مسجد میں وضو کر رہا تھا کہ ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ جب عمل بالقرآن و الحدیث ضروری ہے تو ہم ناسخ منسوخ کس طرح پہچانیں.میں نے کہا یہ بحث لغوہے کوئی آیت منسوخ نہیں.اس نے یہ بات وہاں کے امام مسجد سے جاکہی.وہ مولوی صاحب
بہت ہی تیز ہوگئے ان کو اتنا اضطراب ہواکہ وہ اپنی جگہ پر بیٹھ نہ سکے.کھڑے ہو گئے اور مجھے بڑی دھمکی سے بلایا کہ ادھر آئو.مجھے تعجب ہوا کہ میرا ان کے ساتھ کوئی سابقہ تعلق نہیں.قبل ازیں کوئی واقفیت نہیں.یہ پہلی ملاقات ہے پھر یہ اتنا جوش کیوں دکھاتے ہیں.میں نے کہا کہ آپ لوگ مباحثات کو لمبا کرتے ہیں اس مسئلہ میں بہت باتیں کرنے کی ضرورت نہیں.فیصلہ کی راہ آسان ہے آپ کوئی ایک آیت پیش کریں جو آپ کے نزدیک منسوخ ہے.میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزارہوں کہ اس وقت تائید ایزدی میرے شامل حال ہوئی کہ مولوی صاحب نے ان پانچ آیات میں سے کوئی آیت پیش نہ کی جن کے متعلق میں نے تحقیقات کی ہوئی نہ تھی.خدا تعالیٰ نے ہی ایسا موقع دے دیا کہ انہوں نے ایک معمولی سی آیت پیش کی کہ اگر کوئی ناسخ منسوخ نہیں تو بتلائو (الکافرون:۷) کے کیامعنی ہیں.میں نے کہا یہ تو بالکل موٹی سی بات ہے اس کا جواب تو تفسیر فتح العزیز میں موجود ہے.بیضاوی کے حواشی پر بھی اس کا جواب درج ہے.مجھے اس سے راحت پہنچی کہ کو ئی ایسی بات ان کے منہ سے نہیں نکلی جس سے بہت گفتگو کی ضرورت پیش آوے.مولوی صاحب فرمانے لگے کہ کیا آپ سید احمد کو جانتے ہیں.میں نے کہا میں نہیں جانتا.اس وقت تک میں سر سید کے نام سے ناواقف تھا.مولوی صاحب کہنے لگے کہ اس کا بھی یہی مذہب ہے کہ کوئی آیت منسوخ نہیں.میں نے کہا خوب! پھر تو ہم دو ہوگئے.مولوی صاحب فرمانے لگے تم امام شوکانی کو جانتے ہو.میں نے کہاکہ نہیں.مولوی صاحب نے کہا کہ امام شوکانی نے اپنی کتاب میںلکھا ہے کہ ابو مسلم اصفہانی بھی ناسخ منسوخ کا منکر تھا.میں نے کہا آپ کا بھلا ہو مجھے تو ان لوگوںکا علم نہ تھا.مولوی صاحب اب تو ہم تین ہو گئے اور تین کی جماعت ہوتی ہے.مولوی صاحب کہنے لگے کہ یہ خیال بدعت ہے خیر خدا نے مجھے راحت دینی تھی.میں بہت خوش ہو کر وہاں سے چلا آیا.وطن میں پہنچ کر جب اس کا ذکر ہوا تو ایک دوست نے مشورہ دیا کہ ان پانچ آیات کے متعلق بھی تحقیق کرلینی چاہئے کیونکہ ممکن ہے کہ آئندہ گفتگو کے وقت کوئی شخص وہی آیات پیش کر دے تو پھر د ّقت واقع ہو.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے گھر میں کتابوںکا ذخیرہ کافی تھا ہر طرح کی آسودگی حاصل تھی، حافظہ قوی تھا، سب قویٰ صحیح تھے، جوانی کا وقت تھا.پھر صحت تھی اور فراغت تھی کتابوں کا مطالعہ خوب کر سکتا تھا اور کرتا تھا.جب میں کتابوں کو دیکھنے لگا تو پانچ میں سے تین آیات پر تو
بعض تفسیروں کے خصوصاًاقوال مل گئے کہ یہ تین منسوخ نہیں ہیں.اس پر مجھے پہلے کی طرح پھر ایسا جوش خوشی کا ہوا کہ باقی دو آیتوں کی طرف میں نے کوئی توجہ نہ کی.اس کے بعد میں ایک دفعہ ریل کے سفر میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا جس میں مجھے ان دو میں سے ایک کے متعلق یہ تحقیقات ملی کہ وہ منسوخ نہیں ہے اب ایک رہ گئی.پھر مجھے ایک تفسیر ملی جس میں اس کا بھی جواب تھا.تب تو میں بہت مضبوط ہو گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ قرآن شریف میںکوئی آیت بھی منسوخ نہیں ہے.فالحمد للہ علیٰ ذٰلک.ایک سوفسطائی سے ملاقات اس مسئلہ کا تو اس طرح سے تصفیہ ہوا لیکن یہ شوق مجھے ہمیشہ دامنگیررہا کہ میں دیکھوں کہ مختلف مذاہب کیا ہیں اور ان کا باہمی اختلاف کس حد تک ہے ایک جھگڑا تو ہمارے ساتھ عمل بالحدیث یا عمل بالفقہ کا تھا.بدعت وشرک کامقابلہ ہو رہا تھا مگر یہ اختلاف محدود دائرہ کے اندر تھا اور (آل عمران:۲۰) کی جو آواز میرے کان میں پڑی تھی اس پر بہر حال کوئی حملہ نہ تھا یہ اختلاف اسلام پر حارج نہ تھا مگر اسلام کی مقدس کتاب کی راہ میں ان سے ضرور مشکلات ڈالے گئے تھے.اس کے بعد پھر جو مجھے ایک دفعہ لاہور آنے کا موقع ہو ا تو اللہ تعالیٰ کے احسان سے مجھے ایک سوفسطائی کے خیالات معلوم کرنے کا موقع ملا.میرا کسب طبابت ایسا ہے کہ مجھے ہر ایک قسم کے شخص سے ملاقات کرنے کا موقع مل جاتا ہے.وضیع و شریف ،امیر وغریب ، نیک وبد ،تاجر ، ملازم ، اہل حرفہ مرد ،عورت ، بچہ بوڑھا غرض ہر قسم کے اشخاص کے ساتھ ملاقات کا ذریعہ رہتا ہے.جوانی کے عجیب جوشوں میں مختلف مجالس میں اور مختلف صحبتوں میں ہر قسم کے آدمیوں کے ساتھ ملنے کا اتفاق ہوا اور اسلام کے ساتھ غیر مذاہب کے مقابلہ کا موقع ملتا رہا.الغرض جب میں لاہور میں محلہ سید مٹھا میں تھا ایک خاص تعلق کے سبب اس محلہ میں مجھے ایک شخص ملا جو کہ سو فسطائی مذہب کا تھا اس نے کہا ہمارا مذہب ایسا ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اور نہ اس پر کوئی زد پڑ سکتی ہے کیونکہ اثبات کے واسطے لوگ نیچر کو پیش کرتے ہیں ہم خود نیچر ہی کو نہیں مانتے.اس واسطے نیچر کے ذریعہ سے بھی ہمارا مقابلہ نہیں ہو سکتا.مجھے سوفسطائی کے دیکھنے کا شوق تھا میں نے یہ لفظ تو سنا ہوا تھا مگر اس کا پابند کوئی نہ دیکھا تھا اس
نے مفصل اپنے عقیدہ کو بیان کیا اور تمام مذاہب پر ریویوکر گیا.کہا کہ لوگ واقعات عالم سے ثبوت لیتے ہیں ہم تو عالم ہی کو نہیں مانتے اس واسطے کسی کا رعب ہم پر نہیں پڑتا.خدا تعالیٰ نے اس وقت مجھے ایک عجیب جواب سمجھایا اورمیری ،اس کی اس طرح سے گفتگو ہوئی.میں: آپ کیا کام کرتے ہیں.میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں.وہ: ایک دفتر میں ملازم ہوں.میں: آپ کا دفتر کہاں ہے.وہ : انار کلی کے پرلے سرے پر.کوڑی باغ میں.میں: آپ کس وقت دفتر جاتے ہیں.وہ: دس بجے جاتا ہوں.میں: آپ کس راستہ سے دفتر جایا کرتے ہیں.وہ: انارکلی کے راستہ سے.میں: جب آپ کے مذہب میں انار کلی ،راوی ،شاہدرہ ، شال مار سب ایک ہی ہیں اور کسی کو نہیں کہہ سکتے کہ یہ انار کلی ہے یا شاہدرہ ہے کیونکہ ممکن ہے وہ راوی ہو اور ممکن ہے کچھ اور ہو.تو پھر کیا وجہ ہے کہ آپ دفتر جانے کے وقت ہمیشہ انار کلی کی طرف جاتے ہیں اور کبھی ایسا نہیں کرتے کہ دریا کی طرف منہ کر لیں اور اسی کو انار کلی کا دفتر سمجھ لیں پھر جب آپ کے نزدیک دس بجے بارہ بجے اور ایک بجے سب یکساں ہیں.تو کیا سبب ہے کہ آپ ہر روز ٹھیک دس بجے ہی دفتر جاتے ہیں اور آگے پیچھے نہیں جاتے.پھر جب آپ کے نزدیک ماں بیٹی ، بہن ، بیوی سب برابر ہیں تو چاہیے کہ آپ سب کے پاس بلا حجاب جاتے ہوں.اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے جیسا کہ ظاہر ہے کہ آپ نہیں کرتے اور عملی رنگ میں آپ ہمارے برابر ہیں اور آپ کا مذہب آپ کو کچھ فائدہ نہیں دے سکتا.تو پھر یہ ہدایت بے سود ہے عملی رنگ میں جو کچھ ہم کرتے ہیں وہی آپ کرتے ہیں تو آپ کا مذہب خصوصیت سے کس کام آیا.وہ: اب میں جاتا ہوں پھر کسی وقت آپ سے ملوں گا.
یہ پہلا موقع ہے جو ایک سوفسطائی سے میری ملاقات ہوئی.واقعات ِ عالم جو ظاہر ہو رہے ہیں ان کا کیونکر انکا رہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے شروع میں ہی اپنا نام ربّ العالمین رکھا ہے.عالم ایک چیز ہے جس کا وہ ربّ ہے.بھرم ورم کوئی شے نہیں سوفسطائی قوم بھی عملاًہمارے ہی ساتھ ہے.ان کا علم عمل کے لئے نہیں بلکہ صرف مباحثات کے واسطے ہے.لاہور کے مباحثات کے فیضان میں یہ دوسرا موقع ہے.اذان مجھے اس سوفسطائی کے ساتھ ملاقات کرنے سے اور اس کی باتوں کے سننے سے بہت خوشی ہوئی کہ حق کا غلبہ ہے.اسلام نے جو بات سکھلائی ہے وہی عملی رنگ میں سچی ہو سکتی ہے اس کے سوائے دنیا کا گزارہ ہی نہیں.اسلام میں کوئی ایسی بات نہیں جو مخفی رکھنے کے لائق ہو یا جو خاص کے واسطے اور ہو اور عوام کے واسطے الگ ہو جیسا کہ بعض مذاہب میں اکثر باتیں دوسرے لوگوں سے مخفی رکھی جاتی ہیں کسی پر ظاہر نہیں کی جاتیں.ہندوئوں میں ساکت مت ہے ،وہ عام طور پر اپنے عقائد کو بیان نہیں کرتے بلکہ اس کے اظہارمیں بہت مضائقہ کرتے ہیں.اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جس کا بیان ا ہلِ اسلام کے واسطے کسی حالت میں بھی قابل شرم ہو.یہی وجہ ہے کہ اسلام اپنے عقائد کو ہمیشہ اونچے سے اونچے مکانوں پر چڑھ کر اور بلند میناروں پر کھڑے ہو کر دن میں پانچ دفعہ پکار کر سب کو سنا دیتا ہے موذن کا نوں میں انگلی دے کر تاکہ اس کے کان کے پردوں کی حفاظت ہو، نہایت بلند آواز سے ایسے کلمات بول دیتا ہے جو کہ دین اسلام کے تمام اصول اور فروع کے لئے جامع ہیں یہی اصلی اور حقیقی اور سچا مذہب ہے.جس کی منادی کو ٹھوں پر چڑھ کر برملا کی جاتی ہے.افسوس ہے کہ موجودہ صدی کے مسلمان اذان کی حقیقت سے آشنا نہیں رہے اور اس کی خوبیوں سے بے خبر ہو گئے ہیں ورنہ بطور فخر کے اسے دیگر مذاہب کے سامنے پیش کرتے اور صرف اس کے ذریعہ سے سب کو جیت لیتے اس میں عقائد اصول فرائض، مواجب ، ضروریات ،نتیجہ اسلام اعمال سب باتیں شامل ہیں.اللہ اکبراللہ سے کون بڑا ہے اللہ ہی سب سے بڑا ہے.اللہ وہ ذات ہے جو تمام صفات کاملہ سے موصوف اور تمام بدیوں سے منزہ اور عبادت کے لائق ہے اس سے پرے مدح کا کوئی کلمہ
نہیں اور عبادت کے واسطے بلانے کے لئے کسی قوم نے اس سے بہتر کوئی تجویز نہیں کی.یورپ امریکہ نے اس پر ترقی نہیں دکھائی ایک دفعہ ایک انگریز پادری صاحب کے ساتھ مجھے گفتگو کا موقع ہوا.اثنائے گفتگو میں ممالک یورپ و امریکہ کی ترقی کا ذکر ہوا.پادری صاحب فرمانے لگے کہ دیکھو عیسائی اقوام نے کتنی بڑی ترقی کی ہے.میں نے کہا میں تو ان کی کوئی ترقی نہیں دیکھتا اگرچہ موچیوں کے کام میں انہوں نے بہت ترقی کی ہے اور بہت عمدہ خوبصورت جوتے بنانا جانتے ہیں یا اگر جلاہے کے کام میں انہوں نے بہت ترقی کر لی اور بہت سا کپڑا بنانا جانتے ہیں یا چکی پیسنے کے کام میں بہت ہوشیار ہو گئے ہیں تو ان سب باتوںکا انجام یہ ہوا کہ انہوں نے روپیہ کمانے کے کام میں بہت ترقی کر لی ہے اور وہ بڑے دولت مند ہو گئے ہیں.اب دیکھنا چاہئے کہ اس ترقی پر انجیل کا کیا فتویٰ ہے متی باب ۱۹آیت ۲۳میں لکھا ہے.’’تب یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دولت مند کا آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہے بلکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کاسوئی کے ناکے سے گزرجانا اس سے آسان ہے کہ ایک دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو.‘‘ اس سے ثابت ہواکہ یہ لوگ دولت مندلوگ جن کاآپ ذکر کرتے ہیں عیسائی دنیا کے واسطے قابل فخر نہیں ہو سکتے.پھر انجیل میں تو لکھا ہے کہ تُوکل کی فکر آج نہ کر.کیا آج کل کے پولیٹیکل لوگ جو سو سو سال کے بجٹ بناتے ہیں اس آیت پر عملدر آمد کرنے والے ہیں؟ کیا ان کی پولیٹیکل ترقیاں انجیل کی تعلیم کو سچا ثابت کر سکتی ہیں؟ یہاں تو گفتگو مذہب کے متعلق ہے دنیا داری کے متعلق نہیں.مذہبی امور میں آپ یورپ امریکہ کی کوئی ترقی دکھلائیں.مذہبی امور میں سے ایک امر یہ ہے کہ نماز کے واسطے لوگوں کو کس طرح سے بلایا جاوے.اس میں آپ نے سوائے گھنٹہ بجانے کے کیا تجویز اختیار کی ہے.اللہ اکبر اذان سے بڑھ کر کوئی بات بتائو.اس سے بہتر کوئی لفظ نکالو.پادری صاحب ذہین آدمی تھے بہت توجہ کی اور دیر تک سوچتے رہے.آخر فرمایا کہ بے شک اللہ اکبر سے بہتر کوئی لفظ نہیں ہے.ہاں مدت کے بعد ایک مسیحی وکیل کے رسالہ میں پڑھا کہ اذان کی بھدی اور بے سری آواز کو گھنٹہ کی سریلی آواز سے کیا نسبت.واہ واہ.
ثبوت ہستی باری پر مباحثہ سوفسطائی کی ملاقات کے بعد مجھے کسی ایسے آدمی سے ملنے کا شوق تھا جو دہریہ ہو اور ہستی باری کا منکر ہو.میں دیکھنا چاہتا تھا کہ ان لوگوں کے پاس دلیلیں ہیںجو وہ خدا تعالیٰ کے وجود سے منکر ہیں.اس کا موقع مجھے ایک بڑے رئیس کے دربار میں ملا.آخری وقت دن کا تھا کھلے میدان میں دور تک سفید چاندنی (فرش پر) بچھی ہوئی تھی اور اس کے کونوں پر میر فروش رکھے ہوئے تھے.آہستہ آہستہ نرم نرم ہوا چل رہی تھی اور ہوا کے سبب سے چاندنی میں ایک لطیف موج اٹھتی تھی جو دور تک نہایت موزوں ناچتی ہوئی چلی جاتی تھی.یہ قدرتی نظارہ ایسا دلکش تھا کہ میں پوری توجہ سے اس میں بالکل منہمک ہو گیااور صوفیانہ خیالات دل میں آکر مجھ پر ایک وجد سا طاری کر رہے تھے.رئیس اپنے پرائم منسٹر (وزیر اعظم) کے ساتھ کچھ مباحثہ کر رہا تھا جو بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ مباحثہ ہستی باری کے متعلق تھا.وہ پرائم منسٹر (وزیر اعظم ) موجودہ علوم کے رو سے ایک بہت بڑے پایہ کا آدمی تھا وہ وجودِ باری کا منکر تھا.رئیس خدا تعالیٰ کی ہستی کے دلائل دیتا تھا اور وزیر اس کے بر خلاف کہتا تھا.اثنائے گفتگو میں جب رئیس کسی موقع پر رکا تو اس نے مجھے آواز دی اور کہا کہ آپ ہستی باری کی کوئی دلیل دیجئے.میں نے کہا یہی چاندنی اس وقت خدا تعالیٰ کی ہستی کا بڑابھاری ثبوت ہے.انہوں نے کہا کس طرح.میں نے کہا.آپ غور کریں.کیا آپ نے کبھی ایسا دلربا نظارہ دیکھا ہے کس خوبصورتی کے ساتھ کیسا موزوں یہ تموج ہے.۲؎ ٭…٭…٭ ۱؎ البدر ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ۵،۶ ۲؎ البدر ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۴تا۶
لاالٰـہَ اِلَّااللّٰہ کے تین عظیم الشان فائدے {تقریر فرمودہ ۲۵؍دسمبر ۱۹۱۰ء بعد نماز ظہر وعصر} اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ واشہد ان محمداً عبدہ ورسولہ (اٰل عمران :۱۹).حمد باری تعالیٰ: اللہ جلّ شانہٗ کا بہت بڑا احسان اور بہت بڑا کرم اور فضل ہوا ہے کہ مجھ کو آپ لوگوں سے ملاقات کا زندگی میں پھر موقع ملا ہے.میں کوئی لمبی تقریر خصوصاً کھڑے ہوکر آواز بلند سے پہنچانے میں کسی قدر اس وقت عذر رکھتا ہوں اس واسطے ایک ضروری بات تمہیں پہنچانی چاہتا ہوں.میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح میں نے اپنے اوپر بہت بوجھ رکھ کر ہمت الٰہیہ سے یہ بات کہنی چاہی ہے.اللہ جل شانہ‘ تم کو توفیق دے کہ تم اس میری بات کو دل سے مانو اور دل سے مان کر زبان سے اقرار کرو.پھر اسی کے مطابق تمہارا عملدرآمد ہو.تمام وہ قومیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں.وہ سب کی سب اس بات کو مانتی ہیں کہ کلمہ طیبہ یعنی لا الٰہ الا اللّٰہ کے واسطے کیا کیا کوششیںہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیں اور یہی لا الٰہ الا اللّٰہ جو فقرہ ہے.اس کے پہنچانے کے لئے ہماری سرکار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ برس تک اپنے ملک میں بڑی بڑی تکالیف شدیدہ کو برداشت فرمایا.آخر اس لا الٰہ الا اللّٰہ کی مخالفت کے باعث آپ کو وطن بھی چھوڑنا پڑا.جب ان شریروں نے تکلیف کو حد سے بڑھا دیا تو اس رحمۃ للعالمین نے ہر طرح سے مقابلہ کیا اور انہی کی کوشش سے اس کلمہ کی اشاعت ہوئی.چنانچہ ہم سب جو موجود ہیں.لا الٰہ الا اللّٰہ کے قائل ہیں.سب انبیاء
جو خدا کی طرف سے آئے ہیں اسی کلمہ کے لئے انہوں نے وہ وہ تکالیف اٹھائی ہیں جن کے بیان کرنے کے واسطے بہت ہی وقت چاہئے.اس کلمہ کے تین عظیم الشان فائدے ہیں.جب انسان منہ سے بولتا ہے تو مسلمان کہلاتا ہے.وہ معاملا ت جو ہم مسلمانوںسے کرسکتے ہیں اس شخص سے کرتے ہیں جس کی زبان سے لا الٰہ الا اللّٰہ سنتے ہیں.اسلام ایک عجیب نعمت ہے.اسلام کے معنے اصل میں صلح کے ہیں اور آشتی کے اور نیک نمونے کے سَلم اور سِلم دونوں لفظ صلح کو چاہتے ہیں.منجملہ ان باتوں کے جن سے اسلام نے صلح کو قائم کیا ہے.ایک یہ ہے کہ :.(الانعام :۱۰۹).تمام وہ قومیں جو اللہ کے سوا کسی کو پکارتی ہیں.ان کے کسی معبود کو کسی بزرگ کو گو وہ اللہ کے سوا ہی ہو اور اس کی وہ پرستش کرتے ہوں.ان کو بالکل گالی مت دو..کیونکہ وہ نادان بھی اللہ کو گالی دیں گے ناسمجھی سے.یہ لا تسبّوا کی دلیل بتلاتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام بڑی صلح اور بہت بڑی آشتی کو چاہتا ہے.اس کے معنے فرمانبرداری کے بھی ہیں اور ہر ایک کی فرمانبرداری نہیں بلکہ اللہ کی فرماں برداری اور اس کے رسولوں کی فرمانبرداری، اولوالامر کی فرمانبرداری اس کا نام اسلام رکھا ہے.اسلام کے معنے فرمانبرداری مگر الاسلام کے معنے خاص فرمانبرداری.اسلام کے لفظ سے ایک سُلَّمْ لفظ بھی نکلا ہے.سُلَّمْ.اس سیڑھی کو کہتے ہیں جس سے انسان بلندی کی طرف چڑھتا ہے.ایسے ہی ہماری ترقیات کے لئے اور بلند مراتب پر پہنچانے کے واسطے خدا نے اسلام کو بھیجا ہے.اس کے نمونے دیکھ لو.راز خلافت: جناب ابوبکرؓ اور ان کے والد مکّہ کے صنادید اور عمائد سے نہ تھے مگر اسلام ہی تھا کہ اس فرمانبرداری نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جانشین بنادیا.جناب عمر ایک دفعہ حج سے واپس آتے ہوئے ایک درخت کے نیچے کھڑے ہوگئے.کئی آدمی ساتھ تھے.رعب کے سبب کسی کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ وجہ دریافت کرے مگر حذیفہ کو جناب سے بہت بے تکلّفی تھی.اس نے پوچھا تو فرمایا خطاب کا بیٹا یہاں اونٹ چراتا تھا.ایک دفعہ اس کے
باپ نے اسے یہاں جھڑکی دی تھی.آج اسلام نے اسے اس بلندی پر پہنچا دیا کہ لاکھوں آدمی ایک اشارہ پر خون بہانے کو تیار ہیں.اسی لفظ سے سلامتی نکلی ہے جس سے حفاظت کے معنے پیدا ہوئے ہیں.عجیب قسم کی حفاظت مومن کو عطا ہوتی ہے.میں نے پنتالیس برس سے بہت زیادہ طب کی ہے.میں نے کبھی کوئی اسلام میں فرمان بردار ہوکر آتشک میں، سوزاک میں مبتلا نہیں پایا.بہت سے حکام کے ساتھ تعلقات رکھے ہیں.میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اسلام کے سبب کسی کو بید لگے ہوں.کوئی تکلیف کسی کو اسلام کے باعث نہیں پہنچتی بلکہ اگر خدا تعالیٰ کو مومن کی خاطر جہاں غرق کردینا پڑے تو اسے پروا نہیں.کیا حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں پروا کی ہے.یہ بات نہایت سچ ہے.ہلاکت سے بچنے کی راہ: (البقرۃ :۳) کے یہ بھی معنے ہیں کہ یہ وہ کتاب ہے اور جس میں کوئی ہلاکت نہیں.ریب ہلاکت کو بھی کہتے ہیں جیسے قرآن شریف میں فرمایا.(الطّور :۳۱). کے یہ معنی ہوئے کہ قرآن کی تعلیم میں کوئی ہلاکت نہیں ہوتی.ابھی کل کی بات ہے یا رات کی ایک نکتہ معرفت میرے کان میں پہنچا.میری بیوی نے کہا آپ جانتے ہیں کہ آپ کو تکلیف کیوں پہنچی.میں نے کہا اللہ کے مخفی در مخفی راز ہیں.بیماری کا ایک راز: کہا.ایک وجہ میرے خیال میں بھی آئی ہے.کہو تو سنائوں.میں نے کہاہاں.کہنے لگی.تمہاری عادت تھی کہ جمعہ کے بعد دعائوں میں لگے رہتے، تم وہ دعا کا وقت چھوڑ کر ایک امیر کو ملنے چلے گئے.مجھے یہ نکتہ بہت پیارا لگا.غرض اسلام سلامتی چاہتا ہے.اسلام کے بھیجنے والا کا نام (الحشر :۲۴)ہے.السلام نام ہے اللہ تعالیٰ کا.اسلام کا نتیجہ بہشت ہے.بہشت کا نام بھی دارالسلام ہے.(الانعام :۱۲۸) اور فرمایا: (فاطر :۳۶).گویا اسلام سُکھوں کا موجب ہے اور بہت بڑے سُکھوں کا موجب ہے.اسلام میں کبھی کوئی
ہلاکت نہیں ہوئی.میں نے اس لفظ کو الٹ پلٹ کے بڑا دیکھا ہے اس کے سارے لفظوں میں خوبیاں پائی جاتی ہیں.سلم کو الٹادیں.ملس بن جاتاہے.ملس نرم چیزکوکہتے ہیں.مسلماناور (الفتح :۳۰) یعنی آپس میں رحیم کریم ہوتے ہیں.اسی لفظ کو اور الٹا دیں تو لسم بن جاتا ہے.لسم کے معنے یہ ہیں کہ انسان حیاء کے سبب بعض وقت خاموشی اختیار کرے.مسل بھی اس کا الٹ لفظ بنتا ہے.اس کے معنے ہیں پانی دوسری جگہ پہنچا دینا.مسلمان کا یہ بھی کام ہے کہ دوسرے کو نفع پہنچائے.لمس بھی اس کا مشتق ہے اس کے معنے ہر وقت طلب میں لگے رہنا.پس مسلمان کا یہ بھی کام ہے کہ ہر وقت رضائے الٰہی کی طلب میں لگا رہے مگر جس طرح اسلام دنیا میں صلح، آشتی، نیک نمونہ قائم کرنا چاہتا ہے.اسی قدر اگر کوئی موذی اسلام کے لئے پیدا ہو تو اس موذی کا عمدگی سے مقابلہ کرتا ہے.قرآن شریف فرماتا ہے.(النحل :۱۲۶) مقابلہ کرو پر ایسی ترکیب سے کرو کہ جس میں خوبیاں ہی بھری ہوئی ہوں.مناظرہ کس طرح سے ہو: پس ہمارے مناظرے غیر قوموں سے اگر ہوں تو اسی طرح سے وہ مناظرے ہونے چاہئیں جس میں خوبیاں ہوں‘ دشمن کی غلطی پر اسے آگاہ کیا جاوے اور اس کے مقابلہ میں اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کی جاویں اور ایک جگہ فرمایا.(حٰمٓ السّجدۃ :۳۵).مدافعت بھی کرو تو اس طریق سے کہ وہ بہت ہی عمدہ ہو.ادفع السیۃ بالحسنۃ.ہر بدی کو کسی خوبی سے ہٹا دو.جب مخالفوں کے ساتھ بھی ہمیں مدافعت میں خوبیاں مدنظر رکھنی چاہئیں تو دو مسلمانوں کے درمیان تباغض، عداوت اور باہم جنگ کیونکر ہوسکتی ہے.المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ.مسلمان تو اس وقت مسلمان ہوتا ہے کہ جو صلح کار لوگ ہیں اس کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہیں.میں جانتا ہوں کہ چند آدمیوں کے درمیان محبت کا قیام، اخوت کا استحکام محض فضل الٰہی سے ہوسکتا ہے.قرآن کریم میںایک جگہ اللہ تعالیٰ
نے فرمایا ہے:(الانفال : ۶۴).ساری زمین کی گول بھر کر اگر دے دو تو بھی یہ الفت پیدا نہیں ہوسکتی.(جو اَبْ اللہ نے ان کے دلوں میں پیدا کردی ہے) اور فرمایا (اٰل عمران :۱۰۴).خدا کے فضل سے تم بھائی بھائی ہوگئے.دعائیں کرو: میرے احباب میرے عزیز دوستوں پر واجب ہے.جناب الٰہی سے باہم الفت، محبت اور اخوت کے لئے دعا کیا کریں.مخالفوں نے ناخنوں تک زور لگائے کہ یہ جماعت نہ بنے.مگر اب تم اس قدر لوگ موجود ہو.یہ جناب الٰہی کے فضل کا نمونہ ہے.دوسرا مرتبہ: لا الٰہ الا اللّٰہ کا یہ ہے کہ جب یہ کلمہ دل میں رچ جاتا ہے اس وقت انسان کو مومن کہتے ہیں.مومن کا لفظ خود بھی امن سے مشتق ہے.یہی اسلام کا اعلیٰ مقام ہے.مومن امن میں تبھی رہ سکتا ہے کہ دشمن کا مقابلہ بھی کرے.عسکل عرینہ کے چند موذی مدینہ میں آئے بعض صحابہ کرام کو قتل کیا.لکھا ہے.مثل اعینہم.ان کی آنکھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چِروادی تھیں تا ایذاء سے باز آجاویں.مومن امن دینے والا اور خود امن میں رہنے والا ہوتا ہے.جب یہ کلمہ دل میں رچتا ہے تو مومن ایمان کے یمن میں اور برکات سے متمتع ہوتا ہے.یہ ایمان کا باغ جب دل میں لگ جاتا ہے.کوئی دکھ اور کوئی ناخوشی اورکوئی خوف و حزن باقی نہیں رہتا.میں ایک دفعہ مصیبت کے کسی پنجہ میں گرفتار تھا.صبح کی نماز پڑھانے لگا.اس وقت میرے دل میں جب یہ لفظ آیا.الحمدللّٰہ تو میرے دل نے یہ گواہی دی کہ اس دکھ میں الحمدللّٰہ کا کیا موقع ہے.اگر کہوں تو منافقانہ الحمدللّٰہ ہے.نہ کہوں تو الحمد کے سوا نماز کیسے ہوتی ہے.معًا خدا نے بجلی کی طرح سمجھایا کہ جب انسان (البقرۃ :۱۵۷) کہتا ہے تو ہر مصیبت کے وقت ہزاروں خوشیاں دیتا ہے.تب میں نے انا للّٰہ کہہ کر بڑی بلند آواز سے الحمدللہ کہا یہ اس ایمان کا نتیجہ تھا.ایمان سے وہ سارا خوف اور حزن راحت کے ساتھ مبدل ہوجاتا ہے اور وہ مضمون کہ مومن
جو ہوتے ہیں (البقرۃ :۶۳) ہوتے ہیں.میں نے دیکھ لیا.یہ ایمان میں کمزوری ہوتی ہے جو مومن ناامید ہوتا ہے یا یاس میں آجاتا ہے.تیسرا مرتبہ: لا الٰہ الا اللّٰہ کا فائدہ وہ ہے جو احادیث صحیحہ میں میں نے پڑھا.حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جناب الٰہی میں عرض کیا.کوئی مجھے کلمہ سکھایا جاوے جو میری ترقیات کا موجب ہو.الہام ہوا لا الٰہ الا اللّٰہ کہو.کہا الٰہی جب سے میں نبی ہوا ہوں اسی کلمہ کی اشاعت کی کوشش میں ہوں جنابِ الٰہی سے الہام ہوا.افضل الذکر لاالہ الا اللّٰہاس سے نئی کوئی بات نہیں.یہ بات کہنے کو معمولی ہے مگر سارا قرآن شریف ٹٹول کر دیکھ لو.قرآن شریف کے بعد تمام اولیاء کرام اور ان کے ملفوظات اور ان کی تصنیفات کو ٹٹولو.ساری بڑائیاں سارے قرب سارے فضل ساری ان کی کرامتیں اسی لا الٰہ الا اللّٰہ کے وظیفے پر موقوف ہیں اس کا نام وہ نفی و اثبات کہتے ہیں اور رنگ برنگ الفاظ میں اس کا ذکر کرتے ہیں.جیسے محبوب کے چہرے کو تغزلات میں بیان کیا جاتا ہے.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اسلام، ایمان کے بعد احسان کا مرتبہ ہے.اعبدوا اللّٰہ کانک تراہ فان لم یکن تراہ فانہ یراک.اللہ کی عبادت کرو گویا تم اسے دیکھتے ہو اگر تم نہیں دیکھتے ہو تو وہ تو تمہیں دیکھتا ہے.یہ ایک مقام ہے قرب الٰہی کا جو لا الٰہ الا اللّٰہ میں تدبر سے حاصل ہوتا ہے.کچھ زمانہ مجھ کو گزرا ہے مجھ کو اللہ جل شانہ‘ نے لا الٰہ الا اللّٰہ کے معنے بتلائے کہ انسان غور کرے اس کی ہستی کیا ہے. (الدّھر :۲).انسان پر وہ زمانہ بھی گزرا ہے کہ وہ کچھ چیز نہ تھا.اس عدم میں اس کی خواہش کیا مطالب کیا؟ جناب الٰہی کے فضل نے عدم سے موجود کیا.(الدّھر :۳).خدا جانے کیوں درمیان اس وعظ کے نکتہ خیال میں آیا.میں وعظ چھوڑ کر اس کے بیان کرنے میں معذور ہوں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس تین آدمی آئے ایک کو جگہ مل گئی.بیٹھ گیا.دوسرے نے دیکھا جگہ نہیں، تو وہ جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آواز نہ پہنچتی وہیں بیٹھ گیا.تیسرے نے کہا آواز نہیں آتی.یہاں کیا بیٹھنا چلا گیا.نبی کریم کو جناب الٰہی سے الہام
ہوا.تین آدمی یہاں آئے ایک کو جگہ ملی وہ بیٹھ گیا.فَاٰوَاہ اللّٰہ نے اسے قرب میں جگہ دی.دوسرے کو حیا آئی آگے نہ بڑھا.جانے سے مضائقہ کیا.اللہ بھی اس کی پکڑ سے حیا کرے گا.تیسرے نے منہ پھیرا خدا بھی اس سے منہ پھیرے گا.شاید کوئی قلب ایسا ہو جس کی وجہ سے یہ تحریک ہوئی.حضرت حق سبحانہ نے انسان کو، معدوم کو موجود فرمایا اور فرمایا (الدّھر :۳).اس پر انعام فرماتے رہے اور انعام کرتے کرتے اس قدر بڑھایا کہ سمیع بصیر بنا دیا.ایک عام طور پر سمیع و بصیر ہیں ایک وہ جو خدا کی آواز سنتے ہیں.جناب الٰہی کے حقائق دیکھتے ہیں.جس طرح انسان عدم میں بے طاقت تھا اور فضل الٰہی سے باہر آیا اسی طرح ہر وقت اس کو ایک جدید ترقی عطا ہوتی ہے.جناب الٰہی کا فضل نہ ہو تو ترقی عطا نہ ہو.کل کا کھایا، کل کا پیا، کل کا مکان، کل کا لباس آج ہمارے کام میں نہیں آیا.کل کی خوشی ، کل کی خوشحالی، کل کے جو تعلقات کسی کے ساتھ تھے وہ آج کام کے نہیں.ہر وقت اللہ کی ہی نعمتوں کا محتاج ہے.اس لئے اس کا نام ہے.میں آواز دیتا ہوں ایک حرف کے بعد دوسرا نکلتا ہے.اگر ذرا اعانت الٰہی نہ پہنچے تو وہ آواز کہاں سے آسکتی ہے.غرض ہر آن میں انسان جناب الٰہی کے فضلوں کا محتاج ہے.جتنے کمالات کسی کو نصیب ہوئے ہیں.انبیاء ہوں اولیاء ہوں.سب کا سب کارخانہ اس کے فضلوں کا ہر آن محتاج ہے.اس کے فضل کے بڑے بڑے عجائبات ہیں.لا الٰہ الا اللّٰہ کے یہ معنے ہیں کہ ہر آن میں تم میرے محتاج ہو.اس کا فضل ہی ہوتا ہے تو کام بنتا ہے.اس لئے انسان عبد بنا ہے اور جناب الٰہی معبود بنے ہیں.عبودیت: عبودیت کے واسطے تین چیزوں کی بڑی ضرورت ہے.تب جاکر عبد، عبد بنتا ہے.جناب الٰہی سے اعلیٰ درجہ کی محبت ہو اور جناب الٰہی کی اعلیٰ درجہ کی تعظیم ہو اور انسان اعلیٰ درجہ کے عجز و انکسار و تذلّل کے مقام پر ہو.محبت پیدا ہونے کے اسباب میں تعظیم الٰہی کے پیدا ہونے کے اسباب بھی ہیں.تذلّل و انکسار کے اسباب بھی ہیں.لا الٰہ الا اللّٰہ میں غور کرنے سے تینوں کا پتاچلتا ہے.ہم دیکھتے ہیں محبت جو پیدا ہوتی ہے حسن و احسان سے پیدا ہوتی ہے.جس قدر حسن
(حسن کے معنے خوبی کے ہیں) کسی میں ہوتا ہے اور جس قدر ہمارے ساتھ کسی کا احسان ہو اسی قدر اس سے محبت بڑھ جاتی ہے.جناب الٰہی کے حسن و احسان پر جب ہم غور کرتے ہیں ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ ساری دنیا کے احسان خدا تعالیٰ کے احسان کے جزو ہیں.جو دنیا احسان کرتی ہے وہ خدا کے فضل و داد کا نتیجہ ہیں.ہم غلہ کھاتے ہیں ایک دانہ سے کئی دانے پیدا کرنا اور وہ زمین وہ ہوا وہ روشنی وہ ظلمت جس کے ساتھ نشوونما وابستہ ہے کس کا کام ہے؟ پھر جانور جو ہل جوتتے ہیں کسی ملک میں بیل ہیں، ٹٹو ہیں، اونٹ ہیں، ہاتھی ہیں کہیں گھوڑے ہیں ان کا کتنا بڑا کارخانہ ہے؟ روشنیوں اور ظلمتوں اور جانوروں کا پیدا کرنا جن سے نشوونما ہوتا ہے.پھر اس میں لکڑی کی حاجت، لوہار کی ضرورت، کتنا بڑا کارخانہ ہے.یہ تمام کارخانہ جناب الٰہی کا عطا کردہ ہے.عمدہ سے عمدہ غذا ہے، گلا بند ہے، پیٹ میں درد ہے، قلنج ہے تو وہ غذا کس کام کی اگر اللہ کا فضل شامل حال نہیں.غرض اللہ کے فضل کے سوا کچھ بھی نہیں.حسن جتنے ہیں وہ بھی خدا ہی کے فضل پر موقوف ہیں.اگر خط و خال کاحسن ہے تو آنکھ کے سوا یہ نعمت بے کار ہے.آواز کا حسن ہے تو کان کے سوا کچھ نہیں.خوشبوئی کا حسن ہے تو ناک کے سوا کچھ نہیں.اگر اعضا کی خوبی کا ہے تو ٹٹولنے کے سوا نہیں.غرض سارے حسن و احسان خدا کے حسن و احسان پر موقوف ہیں.اگر محبت کا مدار حسن و احسان پر ہے اور واقع میں ہے تو اللہ کے برابر ہمارا کوئی محسن اور حسن والا نہیں.تعظیم کا مدار، علم کامل قدرت کاملہ پر ہے.جناب الٰہی کی قدرتوں حکمتوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں سارے علوم خدا ہی کے فیضان سے پیدا ہوتے ہیں.پس اعلیٰ تعلیم کا موجب علم و قدرت ہے اور اعلیٰ محبت کا موجب حسن و احسان ہے.اب ادھر ہم دیکھتے ہیں.تذلّل کی حالت، سانس رک جاوے جان معاًجاتی ہے.اب اس سے زیادہ تذلّل کیا ہے.جب انسان لا الٰہ الا اللّٰہ پر غور کرتا ہے اور اسے اپنا انکسار و تذلّل معلوم ہوتا ہے اور جناب الٰہی کے علم و قدرت کا تماشا دیکھتا ہے اور حسن و احسان کا نظارہ اس کے سامنے سے گزرتا ہے تو وہ لا الٰہ الا اللّٰہ پکار اٹھتا ہے.اس واسطے تمام غفلت کے پردے جو انسان کو قرب الٰہی میں واقع ہوتے ہیں.ان سب کا علاج لا الٰہ الا اللّٰہ ہے.اس کے بعد میں آیت کی
طرف توجہ کرتا ہوں.(اٰل عمران :۱۹).اللہ جل شانہ‘ فرماتا ہے..اس لا الٰہ الا اللّٰہ کی گواہی اللہ نے دی ہے گواہی ہمیشہ چند آدمیوں کے سامنے دی جاتی ہے.جناب الٰہی کی گواہی کے ساتھ بھی تمام رسول تمام انبیاء اور تمام اولیاء سب کے سب گواہی دیتے ہیں کہ اللہ نے ہم کو کہا ہے لا الٰہ الا اللّٰہ.حضرت موسیٰ کی گواہی، حضرت نبی کریم کی گواہی سے قرآن شریف بھرا پڑا ہے کہ اللہ نے ان کو فرمایا لا الٰہ الا اللّٰہ.ہر فرد کے سامنے گواہی ضروری نہیں ہوتی.میری دانست میں اللہ کی ہستی اور نبیوں کی صداقت پر یہ بڑی بھاری دلیل ہے کہ تمام انبیاء تمام اولیاء تمام مجددین سب کے سب متفق ہیں اس بات پر کہ لا الٰہ الا اللّٰہ معبود حقیقی خدا ہے اور اپنے حسن و احسان، علم و قدرت میں کامل ہے اور انسان بڑے انکساروتذلل کے نیچے ہے.دس، بیس، تیس، چالیس، پچاس جس بات کے گواہ ہوں وہ بات بھی قابل اعتماد ہوتی ہے.کیا حال ہے اس گواہی کا جس کے تمام صداقت کے عاشق صداقت کے محب اس بات پر متفق ہیں.اس صداقت کے لئے کوئی بڑا تعلق کوئی بڑاہی فضل حضرت محمد رسول اللہ پر اللہ کا ہے.دنیا میں ہزاروں انبیاء آئے ان کی تعلیم کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا پتا نہیں لگتا.پھر ان کی کتابوں کی زبانیں ہی ایسی پرانی ہیں کہ ان کے سمجھنے کے سب سامان مفقود ہوگئے.مجھے کبھی کبھی تعجب آتا ہے.آریہ مذہب پر کہ دو ارب برس سے وید ہیں.ویدوں کی لغت کا نام لیتے ہیں تو دو چار ہزار برس سے بتاتے ہیں.بھلا دو ارب کی بات دو چار ہزار برس والے کو کیا معلوم.یہ ایک فضل ہے ہم لوگوں پر.سلامتی سے اسلام نکلا ہے.اس واسطے رسول اللہ کی تعلیم کو اللہ نے محفوظ رکھ دیا.یہ بھی ایک اس کی گواہی ہے کس طرح اس نے حفاظت فرمائی.قرآن کے زیر و زبر تک محفوظ ہیں.پھر قرآن کے پہنچانے والوں اور اس کے معانی کے محافظین، مجددوں کا سلسلہ موجود ہے.ہم بھی بڑے خوش قسمت ہیں کہیں ۴۰ء ۵۰ء میں ہوتے تو اپنی آنکھ سے کہاں دیکھتے کہ خدا نے اسلام کی حفاظت فرمائی.ہمارے زمانے میں ایک مجدد آیا.اس کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا.ہم نے اس راستباز سے بارہا سنا کہ جب تک انا الموجود کی آواز نہیں آتی ایمان کامل نہیں ہوتا.اللہ اس کی روح رواں پر بہت سی برکتیں بھیجے.کیسی ایک جماعت اللہ نے باوجود عزیم مخالفت کے عطا
فرمائی.جس طرح جناب الٰہی کی یہ گواہی ہے اسی طرح پاک دلوں کے ساتھ جب ملائکہ کا تعلق ہوتا ہے وہ بھی لا الٰہ الا اللّٰہ کی گواہی دیتے ہیں.اس سے آگے بڑے بڑے علماء بڑے بڑے مؤحدجن کا بڑا اعلیٰ نمونہ ہم نے دیکھا.وہ بھی یہی کہتے اور شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے برابر کوئی معبود کوئی محبوب کوئی منعم اور کوئی محسن اور کوئی فضل و احسان کا وجود نہیں، کوئی علم اور قدرت میں اس کے برابر نہیں.یہ چند کلمات بہت ہی زور لگا کر سنائے ہیں.خدا تعالیٰ چاہے تمہارے دلوں کو لاالٰہ الا اللّٰہ سے بھرپور کردیوے.یہ تعلیم اللہ کی نعمتوں بڑی رحمتوں، غریب نوازیوں کا موجب ہوجاوے.(البدر ۵؍جنوری۱۹۱۱ء صفحہ ۱۳ تا ۱۵) ٭…٭…٭
حربہء دعا {تقریر فرمودہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۱۰ء بعد نماز ظہر و عصر} ۲۷؍دسمبر ۱۹۱۰ء کو حضرت خلیفۃ المسیح مدّظلّہٗ العالی کی طبیعت بہت کمزور تھی اور اس کی وجہ ۲۵؍دسمبر کی غیر معمولی تقریر اور زیادہ دیر تک باہر بیٹھے رہنا تھا.اس کے بعد بھی پورا تخلیہ نصیب نہ ہوا.احباب برابر آتے جاتے رہے تو بھی جیسا کہ اس قوم کا خاصہ ہوتا ہے کہ وہ تبلیغ حق کے لئے حریص ہوتی ہے آپ نے پسند کیا کہ بعد نماز ظہر وعصر پھر احباب کی عام ملاقات کے لئے باہر تشریف لائیں.ظہر وعصر کی نماز جمع کر کے پڑھی گئی اس کے بعد حضرت مدرسہ کے صحن میں تشریف لائے اگرچہ آج آپ کا ارادہ تھا کہ کچھ بھی نہ کہیں گے لیکن آخر اسی حرص تبلیغ کے جوش نے مجبور کر دیا اور مندرجہ ذیل تقریر آپ نے فرمائی.(ایڈیٹر) اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ.امابعد اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم.بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم.اُ (المؤمن :۶۱) یہ ایک ہتھیار ہے اور وہ بڑا کارگر ہے لیکن کبھی اس کے چلانے والا آدمی کمزور ہوتاہے اس لئیاس ہتھیارسے منکر ہو جاتا ہے.وہ ہتھیار دعا کا ہے جس کو تمام دنیا نے چھوڑ دیا ہے.مسلمانوں میں ہماری جماعت کو چاہئے کہ اس کو تیز کریں اور اس سے کام لیں.جہاں تک ان سے ہو سکتا ہے دعائیں مانگیں او رنہ تھکیں.میں ایسا بیمار ہوں کہ وہم بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ میری زندگی کتنی ہے اس لئے میری یہ آخری وصیت ہے کہ لا الٰہ الا اللّٰہ کے ساتھ دعا کا ہتھیار تیز کرو.تمہاری جماعت میں تفرقہ نہ ہو کیونکہ جب کسی جماعت میں تفرقہ ہو تا ہے تو اس پر عذاب آجاتا ہے جبکہ قرآن شریف میں فرمایا:.(المائدۃ :۱۵) اب تک تم اس دکھ سے بچے ہوئے ہو.خدا تعالیٰ کے فضل اور نعمت کے بغیر دعا بھی مفید نہیں ہوتی اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ بہت دعائیں کرو پھر کہتا ہوں کہ بہت دعائیں کرو تا کہ جماعت تفرقہ
سے محفوظ رہے.وہ نعمت جو اللہ تعالیٰ نے تم پر نازل فرمائی ہے وہ دعا ہی سے آنی ہے! میرے لئے بھی دعا کرو.میرے وزرا مومن ہوں‘ مسلمان ہوں‘ مخلص ہوں‘ محسن ہوں‘بامروت ہوں‘ میری مخالفت نہ کریں.اللہ تعالیٰ مجھے ایسے واعظ نصیب کرے جو علیٰ وجہ البصیرت وعظ کریں حق شناس ہوں ان میں دنیا کی ملونی نہ ہو باوجود اخلاص کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رستہ کی پہچان رکھتے ہوں.اس قدر بیان کے بعد پھر جوش پیدا ہوا تو ذیل کے فقرات بطور تتمہ بیان فرمائے.(ایڈیٹر) میرے تم پر بہت حقوق ہیں :.اوّل حق تو یہ ہے کہ تم نے میرے ہاتھ پر فرمانبرداری کا اقرار کیا ہے جو اقرار کے خلاف کرتا ہے وہ منافق ہو جاتا ہے میں ڈرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو میری نافرمانی سے کوئی منافق ہو جاوے.دوسرا حق یہ ہے کہ میں تمہارے لئے تڑپ تڑپ کر دعائیں کرتا ہوں.تیسرا حق یہ ہے کہ میں نماز میں بھی آجکل سجدہ نہیں کر سکتا مگر تمہاری بھلائی کے لئے نماز سے بڑھ کر سجدہ میں دعائیں کی ہیں.پس میری حق شناسی کرو اور باہم تفرقہ چھوڑ دو.(البدر ۱۲جنوری ۱۹۱۱ ء صفحہ ۳)
انجمنوں کے کارکنان کو نصیحت {تقریر فرمودہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۱۰ء بعدنماز مغرب} ۲۷؍دسمبر ۱۹۱۰ء کی شام کو بعد نماز مغرب حضرت خلیفۃ المسیح مدّظلّہٗ العالی نے تمام انجمنوں کے سیکرٹری اور میر مجلس صاحبان کو حاضر آنے کا ارشاد فرمایا تھا چنانچہ سب لوگ آچکے تو باوجود یہ کہ آپ کو بہت ضعف تھا آپ نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی.(ایڈیٹر) میں نے آپ لوگوں کو ایک خاص وجہ کے لئے بلایا ہے.سال گزشتہ میں میرے دل پر ایک رنجیدگی تھی کہ آپ لوگ مجھ سے نہیں ملے تھے اس لئے میں نے چاہا تھا کہ اگر سال آئندہ زندہ رہوں تو آپ کو ملامت کروں گا.یاد رکھو قوم میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک نافہم دوسرے وہ جن کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے فہم بخشتا ہے نافہموں کی میں ایک مثال سناتا ہوں.ایک عورت حضرت صاحب (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کے پاس آئی اور میں نے عورتوں سے سنا کہ اس نے ایک سو روپیہ حضرت کو نذر دیا.قدرت الٰہی سے وہ عورت میرے پاس بھی آئی اس کے ساتھ ایک جوان خوبصورت لڑکی بھی تھی اس عورت نے مجھ سے کہا کہ میرے لئے آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اولاد دے.میں اس لڑکی کو دیکھ کر سمجھا کہ یہ اس کی لڑکی ہے اس لئے میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کس کی لڑکی ہے اس نے کہا کہ میری ہی ہے مگر میرے اولاد نہیں.میں اس کے اتنے ہی فہم پر تعجب کرتا تھا کہ یہ لڑکی کو اولاد ہی نہیں سمجھتی اس پر میں نے چاہا کہ اس کی تسلی کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ اسے سنائوں کہ آپؐ کی بھی لڑکی ہی تھی.اس لئے میں نے اس سے پوچھا کیا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتی ہے اس نے جواب دیا جی میں پڑھی ہوئی نہیں (گویا اس کے خیال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جاننا صرف پڑھنے ہی پر موقوف ہے)
تب میں نے اس کو کہا کہ کیا تو جانتی ہے کہ اس جہاں کا پیدا کرنے والا بھی کوئی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ پڑھے لکھے لوگ ہی جانتے ہوں گے.اس پر میں نے اس کو کہا کہ تم جو مرزا صاحب کے پاس آئی اور سو روپیہ نذر دیا، کیا سمجھ کر آئی ہو؟ اس نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ وہ اچھے آدمی ہیں.اس سے تم اندازہ کر لو کہ بعض لوگ کیسے نافہم ہوتے ہیں.ہر قوم میں ایسے لوگ ہوتے ہیں اور ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے‘ ان کو علم ہوتا ہے فہم ہوتا ہے، وہ اللہ ربّ العالمین کو جانتے ہیں.محمد رسول اللہ خاتم النبیین کو سمجھتے ہیں (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اور اس کے پیاروں کو پہچانتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہوتا ہے اور خاص احسان ہوتا ہے.جن پر اللہ کا احسان ہے ان کے لئے قرآن شریف میں فرمایا:. (القصص :۷۸) یعنی جیسے اللہ تعالیٰ نے تجھ پر احسان کیا ہے تم بھی احسان کرو.تم پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے تم کو جاہلوں سے نہیں بنایا اور نافہم نہیں بنایا.نافہمی کا وہ نمونہ یاد رکھو کہ وہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام تک سے ناواقف اور اخلاص ایسا کہ سو روپیہ دے دیا.پس تم خدا کا شکر کرو کہ اس نے تم پر احسان کیا اس کا شکر یہ ہے کہ جو تم نے پاک تعلیم سنی ہے اسے مخلوق کو پہنچائو.میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ کام بہت ہی بڑا ہے.میرے کسی وہم یاگوشہ خیال یا تخیلات شاعرانہ میں بھی نہیں آیا تھا کہ میں کسی جماعت کا امام بنوں.یہ بات میرے وہم وگمان سے وراء الوراء تھی بلکہ میرے شاگرد جانتے ہیں جنہوں نے مجھ سے کچھ پڑھا ہے.ایک حدیث ہے اس کا مطلب اور ہی سمجھتا تھا اب تو اور سمجھتا ہوں.اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قریشیوں کی سلطنت میں زوال نہ ہو گا جب تک دو بھی ہوں.میں قریشی تھا اور مرزا کا سچے دل سے مرید ہوا.ہمارے جد بزرگوار میں فرخ شاہ ایک بزرگ کابل میں گزرا ہے.درہ فرخ شاہ اب تک بھی اس کے نام سے ہے.اس نے سلطنت جان بوجھ کر چھوڑی اور تخت سے اُتر کرچبوترہ پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی.اب بھی میری قوم کے آدمی یا غستان میں شاہزادے کہلاتے ہیں.تو میرے تو وہم میں بھی نہ تھا کہ میں کسی جماعت کا امام ہوں گا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ایک آن کی آن میں مجھے امام بنا دیا اور ایک قوم کا امیر بنا دیا.تم سیکرٹری لوگ ہو‘ پریذیڈنٹ بھی ہیں تمہیں کبھی کبھی مشکلات پیش آجاتے ہوں گے اور پھر اس سے عناد بڑھ
جاتا ہے.اوّل تو اس غلطی سے کہ کیوں مجھے عہدہ دار نہ بنایا.میرا اپنا تو ایمان ہے کہ اگر حضرت صاحب کی لڑکی حفیظہ (امۃ الحفیظ) کو امام بنا لیتے تو سب سے پہلے میں بیعت کر لیتا اور اس کی ایسی ہی اطاعت کرتا جیسی مرزا کی فرمانبرداری کرتا تھا اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتا کہ اس کے ہاتھ پر بھی پورے ہو جائیں گے.اس سے میری غرض یہ بتانا ہے کہ ایسی خواہش نہیں ہونی چاہئے.غرض کبھی اس قسم کی مشکلات آتی ہوں گی پس پہلی نصیحت یہ ہے اور خدا کے لئے اس کو مان لو.اللہ کہتا ہے.(الانفال :۴۷).اس منازعت سے تم بودے ہو جائو گے اور تمہاری ہوا بگڑ جائے گی پس تنازعہ نہ کرو اللہ تعالیٰ چونکہ خالق فطرت تھا اور جانتا تھا کہ جھگڑا ہو گا اس لئے فرمایا (الانفال :۴۷).پس جب سیکرٹری اور پریذیڈنٹ سے منازعت ہو تو اللہ تعالیٰ کے لئے صبر کرو.جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے صبر کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے ساتھ ہو گا.میرا حق ہے کہ میں تم کو نصیحت کروں تم نے عہد کیا ہے کہ تمہاری نیک بات مانیں گے اس لئے میں کہتا ہوں کہ یہ مان لو.قطعاً منازعت نہ کرو.جہاں منازعت ہو فوراً جناب الٰہی کے حضور گر پڑو.میں نے ابھی کہا ہے کہ اگر حفیظہ کو امام بنا لیتے تو اس کی بھی مرزا صاحب جیسی ہی فرمانبرداری کرتا.پس تم مشکلات سے مت ڈرو.مشکلات ہر جگہ آتی ہیں میرے اوپر بھی آئیں اور بڑی غلطی یا شوخی یا بے ادبی بعض آدمیوں سے ہوئی.اب ہم نے درگزر کر دیا ہے مگر انہوں نے حق نہیں سمجھا کہ کیا امامت کا حق ہوتا ہے؟ یہ بھی کم علمی کا نتیجہ ہوتا ہے جو انسان حقوق شناسی نہ کرے مگر اللہ تعالیٰ نے رحم فرمایا ان کے دلوں کی آپ اصلاح کر دی اور دل اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت میں تھے.اس نے سب کو میرے ساتھ ملا دیا اور ان پر اور ہم پر اور ہماری قوم پر رحم اور احسان ہوا.غرض ایک یہ یاد رکھو کہ تنازعہ نہ ہو.نہ آپ کرو نہ ماتحتوں کو کرنے دو.اللہ تعالیٰ نے ایسے موقع پر صبر کی تعلیم دی ہے.دوسرے بعض جگہ جہاں کثرت سے لوگ ہیں وہاں میں دیکھتا ہوں ترقی رک گئی ہے اس کا کوئی مخفی راز ہے.میں اس کو جانتا ہوں اس کی تلافی دو طرح ہو سکتی ہے ایک یہ کہ
پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں کریں.آپ جانتے ہیں کہ سورج اور چاند گرہن پر مسلمانوں کے ہاں نماز پڑھی جاتی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج گرہن اور چاند گرہن ہوتا تو گھبرا جاتے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ قرآن کریم میں ہے (یونس :۶) مگر وہ بہت گھبراتے تھے.اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جانتے تھے کہ سورج روشن تو رہتا ہی ہے مگر روشنی زمین پر نہیں آتی اسی طرح چاند کی روشنی رک جاتی ہے.چاند گرہن ۱۳.۱۴.۱۵ تاریخ کو ہوتا ہے جو اس کے کمال کے ایام ہیں اور سورج گرہن ۲۷.۲۸ کو.باوجود اس علم کے کہ سورج اور چاند روشن ہیں پھر ان کی روشنی رک جاتی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبراتے اس لئے کہ میں تو مبلغ ہوں کہیں میری تبلیغ کا اثر نہ رک جاوے اس لئے صدقہ کرتے قربانی دیتے دعائیں کرتے غلاموں کو آزاد کرتے.احمق فلاسفرز اس سرّ کو نہیں سمجھتے.مگر نبی جانتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں روشن ہے ایسا نہ ہو کہ آفتاب وماہتاب کی طرح ہماری روشنی اور اثر بھی رک جائے.اس لئے وہ صدقہ وخیرات اور دعائوں سے کام لیتے.پس خوب یاد رکھو کہ جہاں جماعت کی ترقی رک گئی ہے وہاں پریذیڈنٹ اور سیکرٹری صاحبان وضو کریں.نماز پڑھیں.دعائیں کریں اور اپنی ذات سے صدقہ اور خیرات کریں کہ جناب الٰہی خود اس گرہن کو دور کرے اور اس روک کو اٹھا دے جو ان کے اثر کے آگے آگئی ہے.میں نے اس وقت تک دو باتیں بتائی ہیں اول تنازعہ نہ کرو.پھر اگر ایسا ہو جاوے تو صبر کرو.تیسری بات یہ بتائی کہ اگر ترقی رک گئی ہے تو صدقہ وخیرات کرو.استغفار کرو.دعائوں سے کام لو تا کہ تمہارا فیضان رک نہ جائے اگر کوئی روک آگئی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دور کر دے.میں تم کو صدقہ کا حکم دیتا ہوں اس لئے کہ الصدقۃ تطفی غضب الرب (المعجم الاوسط جزء۷حدیث نمبر۷۷۶۱) صدقہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کے غضب کوبجھا دیتا ہے.اس کی بہت بڑی کہانیاں ہیں اور میں ان باتوں کو مانتا ہوں کہ صدقہ سے غضب الٰہی دور ہو جاتا ہے.تم تو مسلمان ہو اس لئے ضرورت نہیں کہ وہ کہانیاں تمہیں سنائوں، ایک بتاتا ہوں.ایک شخص کو پھانسی کا حکم ہوا اس
نے راستہ میں کسی سے دو پیسہ مانگے اور ان کی روٹی لے کر کسی غریب کو دے دی کسی نے اس سے پوچھا کہ یہ تم نے کیا کیا؟ اس نے کہا کہ مجھ پر غضب الٰہی آیا ہے میں نے صدقہ کیا ہے اور اس سے ٹل جائے گا.انہوں نے کہا کہ سولی کا تختہ سامنے ہے اب کیا ٹل سکتا ہے.ادھر کسی نے بادشاہ سے کہا کہ فلاں شخص جس کو پھانسی کا حکم دیا ہے بے گناہ ہے.بادشاہ نے کہا وہ تو پھانسی مل گیا ہو گا.اس پر اس نے عرض کیا کہ شاید ابھی نہ دیا گیا ہو چنانچہ بادشاہ نے سوار کے ہاتھ حکم بھیجا کہ پھانسی نہ دو.جس وقت سوار پہنچا وہ تختہ پر چڑ ھ چکا تھا گو ابھی پھانسی پر لٹکایا نہیں گیا تھا.اس طرح پر اللہ تعالیٰ نے اس کو بچا لیا یہ باتیں بناوٹ کی نہیں ہیں واقعات ہیں.میں ایسی حالت میں ہوں کہ اپنے اوپر بڑا زور ڈال کر بول رہا ہوں پھر مرنے کی حالت میں جھوٹ بولنے کی مجھے کیا حاجت؟ پس تم یاد رکھو کہ صدقہ غضب الٰہی کو روک دیتا ہے جس کا اثر متعدی نہیں رہا وہ خدا کے آگے گر پڑے اور صدقہ وخیرات دے.چوتھی بات جو میں سمجھاتا ہوں وہ یہ ہے کہ مال کے معاملہ کے متعلق بڑی بدگمانی ہوتی ہے یہاں کے کارکن امین ہیں‘ نیک ہیں اگر کسی کی نسبت پیسہ کا جرم لگ جاتا ہے تو وہ چور نہیں ہوتے.اس لئے تم اپنے مالوں کے لئے مطمئن رہو.جو مجھے کوئی دیتا ہے اس کے لئے بھی میں امین ہوں.میں جب چھوٹا تھا تو ایک امیر کبیر ہمارا دوست تھا اس نے ایک لوئی خریدی.وہ اتنا بڑا مالدار تھا کہ پچاس ساٹھ ہزار روپیہ اس کے پاس زکوٰۃ ہی کا تھا.میرا دل چاہا کہ لوئی مول لوں.میں نے خرید تو کی مگر مجھے یہ یاد نہیں کہ میں نے کبھی پہنی ہو.خریدنا تو اب تک یاد ہے مگر پہننا ہرگز یاد نہیں اور اب تک مجھے اللہ تعالیٰ پشمینہ ہی پہننے کو دیتا ہے.پس میں اپنی نسبت مطمئن کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مال کا حریص نہیں بنایا.میرے دل میں مال کی خواہش ہی نہیں ہے.تمہاری نذریں جو میرے پاس آتی ہیں دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک تو ایسی ہوتی ہیں کہ میں ان کو لے کر باغ باغ ہو جاتا ہوں.اس کی دو تین مثالیں بتاتا ہوں.حافظ معین الدین بڑا ہی مسکین اور مخلص آدمی ہے.نابینا آدمی ہے کوئی بھائی نہیں‘ باپ نہیں اور رشتہ دار نہیں.اگلے دن میرے پاس آیا اور تین روپیہ مجھے دئیے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے دئیے ہیں اب میرا جی چاہتا ہے کہ آپ ان کی یخنی پیئیں تو طاقت آجاوے گی.اس کی بے کسی اور نابینا پن کو دیکھو اور اخلاص کو دیکھو میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ مجھے اس کی یخنی پلائو.
ایک دفعہ دور ملک سے ایک شخص آیا اور اَڑھائی روپے دئیے اور کہا کہ یہ بڑے اَطْیَبْ ہیں آپ کھائیں گے تو نیا رنگ دیکھو گے.ایک شخص نے کھدر کا کرتہ دیا ہے اس نے کہا کہ خاص تیرے لئے ہے اور ایسی اطیب چیز سے بنا ہے کہ اس کو دیکھ کر میرا ایمان بڑھ جاتا ہے.یہ تین مثالیں ہیں باقی کے روپیہ کو میں سنبھال کر رکھتا ہوں اور کبھی مشورہ کرتا ہوں کہ کیا کروں.بہر حال انہیں ایسی جگہ خرچ کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا موجب ہو.پس میری طرف سے مطمئن رہو کہ میں مال کا بھوکا نہیں.بڑا بننے کی خواہش بھی نہیں.میں اپنی بیوی کو محدود خرچ مہینہ میں دیتا ہوں.تمہارے اموال اور نیتیں نیک ہوئیں تو میں انہیں نیک جگہ خرچ کروں.غرض یاد رکھو کہ ایک نصیحت تو یہ ہے کہ جھگڑے نہ کرو.دوم صبر سے کام لو.سوم صدقہ وخیرات دو اپنی ذاتی کمائی سے.چہارم یہاں کے لوگ جن کے قبضہ میں روپیہ آتا ہے ان کی نسبت بدگمانی نہ کرو.اللہ تعالیٰ کو اس جماعت کے بعض بندے بڑے ہی پیارے ہیں.ایسا نہ ہو کسی کی نسبت بدگمانی کر کے نقصان اٹھائو.اور یہ بھی یاد رکھو کہ اب مرنے کے قریب ہوں مگر میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں اور بڑا خیر خواہ ہوں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں.میں نے اپنی اولاد کے لئے روپیہ نہیں رکھا.میرے باپ نے مجھے کوئی روپیہ نہیں دیا اور نہ بھائی نے دیا.مگر میرے مولا نے مجھے بہت کچھ دیا.اور وہی دیتا ہے پس تم بدگمانی سے توبہ کر لو.یہ باتیں میں نے بہت سوچ سوچ کر کہی ہیں میرے دماغ میں خشکی ہو تو ہو مگر ان باتوں میں خشکی نہیں.آپس میں محبت رکھو تنازعہ نہ کرو.بدگمانی نہ کرو.کوئی اگر ناراض ہو تو صبر سے کام لو اور دعائیں کرو.ایک مرتبہ میں نے ایک شخص کو جو میرا پیارا ہے نصیحت کرنے کا ارادہ کیا میں مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ تم اس کو نصیحت نہ کرو اگر اس نے نہ مانا تو تم کو رنج ہو گا میرے دل پر اس سے کچھ بوجھ گزرا.اس پر اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ تم اس کے لئے دعا کرو ہم اپنی حکمت کاملہ سے سمجھا دیں گے وہ بڑا غریب نواز ہے.اس لڑکے پر اللہ تعالیٰ نے رحم کیا کہ اسے شرمندگی سے بچا لیا.پس ایسے لوگوں کے لئے دعا کرو اور نماز میں دعائیں کرو.یہ معرفت کی باتیں ہیں مجھے کہنے میں معذور سمجھو.میرے دل کی خواہش برس بھر سے تھی.بدگمانی بھی ہوئی کہ
شاید پیسوں کے لئے بلاتا ہے.میں مالوں کا خواہشمند نہیں میرا نام آسمان میں عبدالباسط ہے.باسط اسے کہتے ہیں جو فراخی سے دیتا ہے میرے پرانے دوست مثل حامد شاہ کے موجود ہیں وہ جانتے ہیں میرا یہی لباس رہا ہے میرا مولا وقت پر مجھے ہر چیز دیتا ہے اس کے بڑے بڑے فضل مجھ پر ہیں.میں ابھی گرا تھا اگر گھوڑی آنکھ پر لات مار دیتی تو کیا حقیقت تھی یہ اسی کا فضل تھا.سال گزشتہ میں کئی قسم کی غلطیاں ہوئیں مگر خدا کے فضل سے امید ہے کہ آئندہ نہ ہوں گی.(البدر ۱۲؍جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ۳تا۵
البلاغ من الشاہد الی الغیب {تقریر فرمودہ ستمبر ۱۹۱۱ء} عید الفطر کے دن حضرت صاحبزادہ مرز ابشیر الدین محمود احمد صاحب سلمہ ربہ‘ نے خطبہ پڑھا جس میں یوم العید کی حقیقت اور فلسفہ کے ساتھ ان حکمتوں کا ذکر فرمایا جو انسان کو لہوو لعب اور ہر قسم کی مناہی سے بچانے کا ذریعہ ہوسکتی ہیں.یہ خطبہ بعد میں انشاء اللہ العزیز درج ہوگا.ان کے خطبہ پڑھ چکنے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح نے نہایت جوش اور جلال کے ساتھ مندرجہ ذیل تقریر فرمائی جس میں آپ نے فرمایاکہ جو نہیں سنتے ان کو پہنچا دو.اس لئے میں اس تقریر کو بغرض ابلاغ درج کرتا ہوں اور اس کو حضرت خلیفۃ المسیح کو دکھا کر درست کرالیا گیا ہے.خدا کرے ہم اس سے عملی رنگ میں فائدہ اٹھانے والے ہوں.واللّٰہ یھدی من یَّشاء الٰی صراط مستقیم.( ایڈیٹرالحکم) فرمایا: میاں صاحب نے جمعہ کے دن لطیف سے لطیف خطبہ سنایا.وہ اور بھی الطف ہوگا اگر تم اس پر غور کرو گے.میں اس خطبہ کی بہت ہی قدر کرتا ہوں اور میں یقینا کہتا ہوں کہ وہ خطبہ جمعہ کا عجیب سے عجیب نکات معرفت اپنے اندر رکھتا ہے.بہت سے شریف الطبع لوگوں کو اس سے بہت سے فائدے ہوں گے مگر بعض بڑے بلید الطبع، گندے اور شریر ہوتے ہیں جو ایسی پاک باتوں سے بھی فائدہ نہیں اٹھاتے.تم نے سنا ہے کہ میں نے کیسے سخت لفظ بولے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ابھی میاں صاحب کے خطبہ جمعہ کی خوشی سے فرصت نہیں پاچکا کہ ایک شخص نے ایک لمبا رقعہ دوسرے کی شکایت کا پیش کیا جس کو پڑھ کر میں نے کہا ہے کہ خبیث الطبع لوگ ہیں جو ایسے پاک کلام کی قدر نہیں کرتے ہیں ایسے گندے اور بد بخت خدا کے کلام کی خوبیوں پر بھی غور نہیں کرسکتے.وہ بدبخت گندے بیمار کی طرح ہیں جن کو عمدہ اور لطیف غذا بھی گندی نظر آتی ہے.میں نے تم لوگوں سے معاہدہ لیا ہے کہ شرک مت کرو.شر ک کی عجیب عجیب راہیں ہوتی ہیں.بعض لوگ مجھے دعائوں کے
لئے کہتے ہیں اور وہ مجھے سمجھتے ہیںکہ گویا میں خدا کا کوئی ایجنٹ ہوں حالانکہ میں ایک عاجز بندہ ہوں.میری ماں ایک زمیندار اعوانی تھی ہاں وہ کچھ پڑھی ہوئی تھی.میرا باپ ایک غریب آدمی تھا جو اپنی ضروریات کے لئے تجارت کرلیتا تھا اور بہت ہی مختصر تجارت کرتا تھا.پھر میں کہاں سے خدا کا ایجنٹ آگیا.ہاں مجھے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کرنا آتا ہے.اس نے مجھے طرح طرح سے دعائیں کرنا سکھایا ہے اور دعائوں کی ترکیبیں بتائی ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی ہے اور میں کبھی کبھی قبولیت کے اثر بھی دیکھتا ہوں لیکن جب بعض لوگ شرک کی حد تک پہنچتے ہیں تو میں ان کے لئے دعائوں سے مضائقہ کرتا ہوں.میں علم غیب نہیںرکھتااگر مجھے علم غیب ہوتا تو میں اپنے لئے ہر قسم کی بھلائیاں جمع کرلیتا.میں فرشتہ بھی نہیں اور میرے اندر فرشتے نہیں بولتے.پس اللہ تعالیٰ ہی تمہارا معبود ہو.اللہ تعالیٰ کا علم قریب اوربعید، مخفی اور ظاہر سب رنگ میں وسیع ہے اور بہت ہی بڑا وسیع ہے.خدا کا تصرف بہت بڑا تصرف ہے جو چاہتا ہے کردیتا ہے.اس کے تصرف کا ایک نظارہ یہاں موجود ہے.تم بھی مرزا کے مرید ہو میں بھی اسی کا مرید تھا پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں پکڑ کر میری طرف جھکا دیا.کسی کا اس میں احسان نہیں قطعاً نہیں.کیا میری خواہش تھی؟ ہرگز نہیں نہ میرے وہم و گمان میں تھی نہ تمہاری خواہشوں سے یہ ہوا.ابھی بیمار ہوں ڈاکٹروں نے کہا کہ بچنے کی کوئی امید نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے حیاتی دی.اسی سے دعا ہے، اسی کے لئے سجدے اور قربانیاں ہیں.کوئی روزہ ، نماز ، دعا ، وظیفہ ، طواف ، قربانی اللہ کے سوا دوسرے کے لئے جائز نہیں مگر بے ایمان شریر لوگوں نے شرک کے اندر سمجھا دیا کہ قبروں پر جائو اور جاکر کہو کہ تم ہمارے لئے عرض کرو.یاد رکھو! اسلام نے یہ نہیں سکھایا.پس شرک چھوڑ دو اور مجھے خدا کا ایجنٹ مت سمجھو.پھر یہ معاہدہ ہے چوری مت کرو.تم میں سے بہت سے چور ہیں.نوکرہیں اگر وہ فرائض منصبی کو ادا نہیں کرتے تو وہ چور ہیں.تاجر جو تجارت کرتے ہیں اور حساب نہیں رکھتے ان کے مال میں ضرور چوری کا حصہ ہے.تمہاری شراکتیں ہیں پیچھے جوت چلتا ہے اس لئے کہ تمہارے اندر حلال کھانے کی توجہ کم ہے.تم اس سے واقف نہیں ایک کسب والا اگر اپنے کسب میں شرارت کرتا ہے وہ چوری کرتا ہے اور اکل بالباطل کرتا ہے.
پھر بدکاریوں کے نزدیک نہیں جائوں گا.بدکاریاں آنکھ کی، ناک کی، زبان کی، کان کی بھی ہوتی ہیں.پس تم ان کے نزدیک نہ جائو.بہتان کسی پر مت باندھو.ابودائود میں ایک حدیث ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.تمہاری طبائع ، خواہشیں، چال چلن، لباس ، خوراک مختلف ہے.… تمہاری تربیت مختلف ہے تو ان اختلافوں کی وجہ سے ایک دوسرے کی بدی مجھ تک مت پہنچائو.میں بھی تمہیں کہتا ہوں کہ تم میرے پاس مت پہنچائو.بعض لوگ میرے پاس ایک دوسرے کی بدی پہنچاتے ہیں.وہ لوگ تم میں سے سخت شریر ہیں، گندے ہیں، بدبخت ہیں جو دو آدمیوں کو باہم لڑانا چاہتے ہیں.انہیں چاہیے کہ وہ توبہ کرلیں ورنہ خدا کی لعنت برسے گی.اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (الانفال:۴۷) باہم تنازعہ نہ کرو ورنہ تم پھسل جائو گے.تمہارا کوئی اختلافی مسئلہ نہیں جس کا میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے فیصلہ نہیں کرسکتا.تم فیصلہ نہیں کر سکتے خدا نے مجھے علم دیا ہے تم میں بعض بے علم ہیں.خدا نے مجھے فہم دیا ہے تم میں بعض بے فہم ہیں.تم میں سے بعض ایسے گندے ہیں کہ انہوں نے مجھے سخت دکھ دیا ہے.انہیں کھول کر کہتا ہوں کہ پر عمل کرو.وَاِلَّا (الانفال:۴۷) تم بودے ہوجائو گے.تمہاری ہوا بگڑ جائے گی.تم میں سے بعض نے مجھے دکھ دیا ہے.ان خبیث تحریروں کو پڑھ کر مجھے نفرت ہوئی ہے.چھوٹے چھوٹے لڑکے واعظ بن کر مجھے سمجھاتے ہیں جو سنتے ہیں وہ توبہ کرلیں اور جو نہیں سنتے انہیں پہنچا دو اور سمجھا دو.عید کا دن میاں کہتا ہے خوشی کا دن ہوتا ہے مگر تم نے مجھے رنج دیا ہے.تنازعہ چھوڑ دو.تم کہتے ہو کہ مجھے دوسرے نے دکھ دیا ہے مگر اللہ کہتا ہے کہ پھر تم صبر کرو.صبر کی تعلیم اسی لئے تو دی تھی کہ جب دوسرے سے دکھ پہنچے تو صبر کرو.پھر وہ صبر کیوں نہیں کرتا.ایک پرائیویٹ چٹھی لکھتا ہے تو اس پر کالم کے کالم سیاہ نہ کرو بلکہ صبر کرو.صبر کے سوا لڑائی ختم نہیں ہوتی.میں نہیں سمجھتا کہ میرا مرید کون ہے.تم اتنے بیٹھے ہو مجھے کیا خبر ہے.ہاں میرا مرید وہی ہے جو ان معاہدات پر عمل کرتا ہے جو اس نے مجھ سے کئے ہیں اور جوحضرت صاحب سے کئے ہیں.میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا.میرے ڈاکٹر دوستوں نے میرے زخم کے لئے کوشش کی مگر باجرہ کے دانہ کے برابر اب تک باقی ہے اور ان کی
کوشش کچھ نہیں کرسکتی.رحم کرے اللہ اس خاندان پر جس کے ذریعہ میں نے توحید سیکھی ہے.میری بات کو کوئی پسندیدگی سے سنے یا ناپسندیدگی سے میں حق کہنے کے لئے کھڑاہوا ہوں.تمہارے تنازع ہیں ان کو دور کردو.یہ خدا کا پیغام ہے جو میں سناتا ہوں.لڑائیاں مت کرو.ہوا بگڑ رہی ہے، پھونک نکل رہی ہے.اگر کوئی عمل کرنے والا ہو، اس کا بھلا ہو.آمین.فرمایا: اس طرح کی عبارت لکھ دو کہ بہ سبب بیماری ضعف بہت دھیمی آواز سے بولتے ہیں مگر بقدر اپنی طاقت کے بہت زور سے سمجھایا.تم لوگ بے خبر نہیں ہو کہ کن باتوں میں اختلاف ہوتا ہے جو لوگ تنازعات کو نہ چھوڑیں گے میں ان کو کم از کم اپنی جماعت میں ہرگز نہ سمجھوںگا.(ضمیمہ الحکم ۱۴،۲۱؍ستمبر ۱۹۱۱ء صفحہ۱،۲)
فہم قرآن کے گُر ‘ ناسخ منسوخ کا حل اور حبل اللہ کو پکڑنے کی نصیحت (نوشتہ ایڈیٹر الحکم جس کو حضرت خلیفۃ المسیح نے شائع ہونے سے پہلے درست کیا) (تقریر فرمودہ ۲۷؍دسمبر۱۹۱۱ء بر موقع جلسہ سالانہ) اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمد ا عبدہ ورسولہ اما بعد . (اٰل عمران:۱۰۳تا۱۰۶) تمہیدی کلمات مجھے کل کسی نے کہااور شاید درد سے تمہارے فائدے کے لئے کہا ہو نا کہاہو کہ ’’ تم کوئی تقریر کرو‘‘.میرا ارادہ تھا کہ میں ہر روز درس دیتا ہوںان ایام میں اس درس ہی میں کچھ وسعت کر لو ں گااور اسے معمول سے زیادہ وسیع کر کے سنائوں گا.جیسا کہ حکم ہے کہ مہمان کے لئے اپنے کھا نے میں اضافہ کر لو اور اسے کسی قدر زائد اچھا اور ممتاز بنالو.میںنے اس حکم کی تعمیل میں مناسب سمجھا تھا کہ جو غذا میں کھا تا ہوں اور جس کے بغیر میری زندگی محال ہے اسے عمدہ طور پر کچھ زیادہ کر کے پیش کروں مگر ہر شخص اپنی اپنی پسند میں معذور ہوتا ہے.اگر کسی کو میٹھا پسند ہے تو کوئی نمکین کو پسند کرتا ہے.میں نے دیکھا کہ جسمانی غذا تو تمھیں گھر میں شاید یہاں سے بہتر میسر آسکتی ہو اور یہاں بھی اس کے لئے تم سب ہی انتظام کرنے والے
ہو.میں تمھیں وہ غذا دوںجو جسم نہیں روح کی سیری کا موجب ہو سکتی ہے اگر اللہ کا فضل ہو.اس خیال میں آج میں نے سوچا کہ تقریر کیا ہوتی ہے ؟ پھر بہت سے معانی میرے دل میں آئے اگر میں انہیں ہی بیان کروں تو شام تک شاید وہ ختم نہ ہوں.مجھے ایک عرب کا شعر یاد آگیا اگرچہ مجھے شعر کہنے کی عادت نہیں کبھی کہتا ہوں تو دقت سے کہہ سکتا ہوں.ہاں میں شعر کو خوب سمجھ سکتا ہوں اور یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہے اور و ہ شعر یہ ہے.قالوا اقترح شیئاً بخدمک طبخہ فقلت اطبخوولی جبۃ و قمیصا ایک عرب سردی کے دنوں میں کسی کے گھر گیا اس پر گرم کپڑا کوئی نہ تھا.موسم تھا سرما کا.میزبان نے کہاکہ اگر آپ حکم دیں تو آپ کے لئے ویسا ہی کھا نا پکوائیں جو آپ پسند کرتے ہیں تو اس نے جواب دیا ہاں میرے لئے گرم کپڑے پکوا دو.ایک میرا پیارا بچہ ہے اور مجھے بہت ہی عزیز ہے اس سے ذکر آیا کہ کوئی پیارا ہو اور گول چہرہ کی تعریف کرے تو کس سے تشبیہ دے.کبھی چودھویں کے چاند سے اور کبھی سورج سے تشبیہ دے.ایک بڑے آدمی نے ایک مرتبہ شعراء کو حکم دیا کہ وہ گول چہرہ کی تعریف کریں.سب شعراء نے طبع آزمائیاں کیں.مگر ایک نے کہا کہ جیسے گول خوبصورت روٹی ہوتی ہے.اس رئیس نے فوراً سمجھ لیا کہ اس کو ابھی تک کھانا نہیں کھلایا گیا اس نے فوراً اپنے آدمی کو اشارہ کیا اور ملامت کی کہ ان کو ابھی تک کھانا نہیں کھلایا.تب اس نے کہا کہ حضرت کھا نا تیارہے پہلے کھانا کھا لیں.غرض مجھے بھی عجیب عجیب جوش اٹھتے ہیں.میں اس بچہ کو وہ ساری ذوق کی باتیں نہیں سناتا.اس وقت مجھے جب تقریر کے لئے کسی نے کہا تو پھر عجیب عجیب جوش اٹھنے لگے.تو میں نے دل سے پوچھا کہ کو ن سی تقریر کرو گے ؟تو اس نے جواب دیا کہ اپنے پیارے کی پیاری کتاب قرآن ہی پڑھ دو.اللہ تعالیٰ ہی نے یہ بات میرے دل میں ڈالی اور مجھے یہی پیاری لگی کہ ایسی ہی تقریر میں بھی بیان کروں.آج کل کے سپیکروں کی حالت دنیا کے عجائبات ہیں.اس وقت یورپ کی ہوا چلی
ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارادے سے یا ہمارے اعمال کے سبب سے چلی ہے.اس لئے لوگ یورپ کی ہر بات اور ہر ادا کو پسند کرتے ہیں.تقریر میں بھی اسی یوروپین طرز کو پسند کرنے لگے ہیں.لیکچرار اپنے لیکچروں میں کئی امر مد نظر رکھتے ہیں کبھی تو بہت سی ضرب المثلیں یاد ہوتی ہیں اور لیکچرار اپنے لیکچر میں انھیں ادا کرتا ہے او ر بڑے زور سے اپنے لیکچر کے دوران میں کہتا ہے جرمن میں یہ ضرب المثل ہے.فرانس میں یوں ہے.قدیم مکین لوگوں میں یہ ضرب المثل ہے.انگریزی میں یہ فارسی میں وہ اور عربی لٹریچر میں فلاں اردو میں اس طرح پر ہے.جب لیکچر ار مختلف زبانوںکی ضرب المثلیں بیان کرتاہے تو لوگ عش عش کر اٹھتے ہیں.اور حیران رہ جاتے ہیں لیکچرار سمجھتا ہے کہ میری زبان کا سکہ سننے والوں کے دل پر بیٹھ گیا.میں بھی کبھی ایسے لیکچرکو پسند تو کرتا مگر قلب پر اس کا کچھ اثر نہ تھا اس لئے کہ بولنے والاصرف دلربا ئی کرنا چاہتا تھا نہ کچھ اور.غرض بعض بولنے والے تو اس قسم کے ہوتے ہیں اور بعض لطیف اشعار یاد کر لیتے ہیں اور موقع بموقع انہیں ایک ترتیب کے ساتھ پڑھتے جاتے ہیں.ہر شخص کو اس کی نیت کے موافق پھل مل جاتا ہے.اس میں شک نہیں شعر میں ایک طاقت ہوتی ہے جو قلوب پر اثر ڈالتی ہے.اس لئے کہ شاعر بھی اللہ تعالیٰ کا تلمیذہوتا ہے.بعض وقت اسے ایسی بات سمجھاتا ہے کہ اسے سن کر صوفی کو وجد ہو جاتا ہے.مگر خود شاعر کو اس کے سننے سے وجد نہیں ہوتا.ا س لئے کہ اسے براہ راست ملتا ہے.یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ملہمین کو بھی شعراء کے مصرعے اور اشعار ایک جگہ الہام ہوجاتے ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حق سبحانہ تعالیٰ کی وہ مراد ہوتی ہے.میں دور چلا گیا میں سنانا چاہتا ہوں کہ مجھے کہا گیا کہ تقریر کرو.مجھے کیا پسند ہے؟ خدائی کتاب مگرمجھے قرآن مجید سے بڑھ کر کوئی چیز پیاری نہیں لگتی ہزاروں کتابیں پڑھی ہیں ان سب میںمجھے خدا ہی کی کتا ب پسند آئی.باایں ایک احمق نے بڑھ کر ایک بات کہی ہے.وہ مجھے کہتا ہے کہ تم جانتے ہو کہ تمہارے سر کو چوٹ کیوں لگی ؟اور کیوں وہ کچلا گیا ؟بعض لوگ میرے سامنے بہت اونچی باتیں کرتے ہیں کہ شاید میں بہرا ہوگیا ہوں.وہ احمق اس چوٹ کی وجہ بتاتا ہے کہ تم نے ہزاروں ہزار کتابیں پڑھیں مگر
قرآن شریف کو چھوڑ دیا.اس واسطے کے موافق تمہیں بدلہ دیا اور سر کچلا گیا.وہ احمق نہیں جانتا کہ میر ا سر خدا ہی کے فضل سے بالکل محفوظ ہے باوجودیکہ تم نے دیکھا کہ چوٹ لگی اور سال گزشتہ کے انہیں دنوں میں بچنے کی امید نہ تھی.کلورافارم کے ذریعہ اور کلورا فارم کے بدون بھی اس زخم پر جراحی عمل ہو ا مگر ڈاکٹر و دوسرے لوگ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دماغ کی کیسی حفاظت فرمائی.جو لوگ میری صحبت میں رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب سے زیادہ مجھے کوئی کتاب عزیز نہیں اور میری غذاجس سے میں زندہ رہتا ہوں اللہ تعالیٰ ہی کی کتاب ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل اور محض فضل سے مجھے اس کتاب کی محبت اور اس کا فہم دیا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ یہ اس کا رحم ہے کہ اس کتا ب کا فہم کرنے والا پاگل نہیں دیکھا.پھر اللہ تعالیٰ نے میری دماغی قوتوں کی خود حفاظت فرمائی ہے یہ اس احمق کو غلطی لگی جو وہ سمجھتا ہے کہ میر اسر کچلا گیا.دوسری کتابیں کیوں پڑھی ہیں میں نے دوسری کتابیں پڑھی ہیں اور بہت پڑھی ہیں مگر اس لئے نہیں کہ قرآن کریم کے مقابلہ میں وہ مجھے پیاری تھی تھیں بلکہ محض اسی نیت اور غرض سے کہ قرآن کریم کے فہم میں معاون ہوں.قرآن شریف ہی میں یہ ارشاد ہے (المائدہ:۳)پس میں نے اگر ہزاروں ہزار کتابیں پڑھی ہیں یا پڑھتا اور پڑھاتا ہوںتو قرآن مجید کی اس آیت پر عمل کرنے کے لئے.اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر عجیب عجیب انعام کئے ہیں جو دوسروں کی سمجھ میں بھی نہیں آسکتے.کل ہی مجھے ایک کتاب ملی ہے.اس کی نسبت مجھے الہام ہوا تھاکہ وہ ہند میں نہیں ہے.میں اللہ تعالیٰ کو تو مالک السمٰوات والارض سمجھتا ہوں اس نے میرے لئے کیا کچھ نہیں کیا جو ایک کتا ب مہیا نہ کر دیتا.ایک سیاح اتفاقاًیہاں آگیا‘ مجھے برا سمجھتا ہے.میری نسبت پیشگوئیاں کی ہیں.میں تو اپنے عشق میں پورا ہوں (یاد رکھو عشق کا لفظ عادتاًبولتا ہوں اس لئے کہ پچھلے بولتے ہیں.ورنہ قرآن مجید میں یہ لفظ نہیں آیا ہاں حلیہ ابی نعیم سے ایک حدیث نکالی ہے کہ اس میں عشق کا لفظ آیا ہے مگر راوی روایت بالمعنی کرتا ہے)غرض میں نے اپنے اسی عشق کی وجہ سے جو مجھے قرآن کریم کی خدمت اور فہم کے لئے کتابو ں سے ہے.اس کتاب کا ذکر اس سے کیا اور یہ بھی کہا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ ہند میں یہ کتاب نہیں.
اس نے کہا ہاں ہند میں تو نہیں مگر سندھ میں ہے.میں تمہیں پہنچا دوں گا.کل وہ کتاب اللہ تعالیٰ کے فضل سےکے وی پی میں میرے پاس پہنچ گئی.اور اس کوپڑھ بھی لیا.یہ سچ ہے کہ مجھے کتابوںکا شوق ہوتا ہے مگر کے رنگ میں.پس میں نیکی کے طور پر کتابیں پڑھتا ہوںاور تفسیریں بھی پڑھ لیتا ہوں اور اس قدر پڑھتا ہوں کہ علی العموم دوسرے نہیں پڑھ سکتے.الاماشاء اللہ پرسوں ایک دوست نے مجھے قرآن مجید کا ایک ترجمہ دیاا س پرلکھا تھا الہامی ترجمہ.مجھے یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوا اور مجھ کو ہمیشہ دکھ ہو تا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ پاک لفظ کو گند ے معنوں میں لے لیتے ہیں.مثلاً کلمہ تمام لڑکوں کو پڑھایا جاتا ہے کہکلمہ لفظ مفرد کو کہتے ہیں.حالانکہ کلمہ کی یہ تعریف قرآن مجید کے خلاف ہے. (الانعام:۱۱۶).پھر کیا عدم صداقت عدم عدل کبھی کلمہ کی تعریف ہو سکتی ہے ؟کبھی نہیں.کلمہ کے معنی اصد ق کلمۃ قال الا کل شیء ما خلا اللہ باطل یہاں غالباً مسلمان ہی بیٹھے ہیں ابھی ایک نام دھاری مرید بھی بیٹھے ہیں.انہیں حضرت صاحب سے اور ہم سے اور ہمارے سلسلہ کے ساتھ بھی بڑی محبت ہے غرض سب مسلمان جانتے ہیں کہ لاالٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کو کلمہ کہتے ہیں.مگر اب اس لفظ کے معنی بگاڑ کر لفظ مفرد کا نام کلمہ رکھ دیا جو صحیح نہیں.اسی طرح پر بہت سے لفظ بگڑ گئے اور ان کے شرعی معنی چھوڑ دیئے گئے.جن کو سن کر اور دیکھ کر مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے.یہ مشکلات ہر زمانہ میںآئی ہیں اور ہم پر بھی آئی ہیں.ان مشکلات کو زیر نظر رکھ کر محض تفسیر کے متعلق میر اطرز عمل کے لئے میں کتابوں اور تفاسیر کو پڑھتا ہوں اور تفاسیر میں ان کو مقدم کرتا ہوں جو مجھے قرآن کریم کا تذکرہ کرا دیں اور
ان میں اس طرح پر تفسیر کی ہو کہ ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت سے ہو.اور پھر اس کے بعد میںاس تفسیر کو مقدم کرتا ہوں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک کلمات سے کی گئی ہو.ایک زمانہ مجھ پر ایسا بھی گزرا ہے کہ ایک تفسیر کے شوق میں میں بمبئی گیااور ایک دوست سے اس کے متعلق پوچھااس نے کہا ہاں مل سکتی ہے.دوسرے دن جب میں اس دوست کے پاس گیا تو گو میں طالب علم تھا تاہم اللہ تعالیٰ نے مجھے طالب علمی کے زمانہ میں بھی مالدار رکھا ہے میں جیب میں کچھ روپیہ ڈال کر لے گیا میں نے اس دوست سے کہا کہ وہ کتاب آئی ہے تو عطا کرو.انھوں نے کہا کہ ہاں کتاب تو آگئی ہے مگر اس کی قیمت پچاس روپیہ ہے.اس کتاب کے ساٹھ صفحہ ہیں اور ایک اس کا ضمیمہ ہے.اس کے ۵۸ صفحہ ہیں.میں نے کہا بہت اچھا لایئے.اور میں نے پچاس روپیہ کا نوٹ اس کے ہاتھ میں دے دیا وہ بولے کہ وہ کتاب طبع شدہ ہے اور اسی شہر بمبئی میں چھپی ہے.میں نے کہا اچھا ہے اس پر انھوں نے وہ کتا ب مجھے دی اور میں اس کو لے کر فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور تھوڑی دیر کے لئے باہر چلا گیا.وہاں تیلی کی گلی مشہور ہے اس کا یہ واقعہ ہے.پھر میں اندر گیا تو وہ حیران ہوا اور پوچھا کہ آپ باہر کیوں چلے گئے تھے میں نے کہا فقہی بحث ہے کہ تکمیل بیع کے لئے تفارق جسمی بھی قول کے ساتھ ضروری ہے یا نہیں.محدثین اور شوافع کا قول ہے کہ تفارق جسمی بھی چاہئے میں نے اس پر عمل کر لیا.اس لئے باہر گیا تھا تاکہ بالاتفاق کتاب میری ہو جاوے.میری ۳۵ویںپشت میں میرے ایک دادا نے اس مسئلہ پر عمل کیا تھا میں نے اس کی سنت ادا کر لی.پھر ا س نے پوچھا کتا ب کو بھی دیکھا میں نے کہا ’’جمادے چند دیدم جاں خریدم‘‘ اس کتاب کا نام مجھے قدرت ہی نے سکھادیا تھا میں جب اس دوست کے پاس اٹھنے لگا تو اس نے کہا میں آپ سے محبت کرتا ہوں.میں نے جواب دیا کہ آپ کی مہربانی ہے.تب اس نے کہا کہ اظہار محبت میں یہ پچاس روپیہ نذر کرتا ہوں.میں نے کہا کہ میں ہوں تو طالب علم مگر میری جیب میں اب بھی روپیہ موجود ہے.اس نے بہر حال وہ پچاس روپیہ واپس کر دیا.اسی طرح پر جب میں مدینہ طیبہ میںگیا تو ایک ترُک کو مجھ سے بہت محبت تھی اس نے کہا کہ اگر کوئی کتاب آپ کو پسند ہو تو ہمارے کتب خانہ سے لے جایا کریں گو ہمارا قانون نہیں ہے مگرآپ
ناسخ منسوخ کا مسئلہ کیسے حل ہوا کے اس عشق ومحبت کی وجہ جو آپ کو قرآن کریم سے ہے آپ کو اجازت ہے.میںنے کہا کہ مسئلہ ناسخ و منسوخ کے متعلق کوئی کتاب دو.انھوں نے مجھے ایک کتاب دی جس میں ۶۰۰ آیت منسوخ لکھی تھی مجھے یہ بات پسند نہ آئی.ساری کتاب کوپڑھا اور مزہ نہ آیا.میں ا س کتاب کو واپس لے گیا اور کہا کہ میں جوان آدمی ہوں اور خدا کے فضل سے یہ ۶۰۰آیت یاد کر سکتا ہوں.مگر مجھے یہ کتا ب پسند نہیں.وہ بڑا بڈھا اور ماہر تھا اس نے ایک اور کتاب دی.اس کا نام اتقان ہے اور ایک مقام اس میں بتا دیا جہاں ناسخ ومنسوخ کی بحث ہے.خوشی ایسی چیز ہے کہ میں نے ابھی پچاس والی کو پڑھا بھی نہیں.مگر اسے لایا او ر اس کو پڑھنا شروع کیا.اس میں لکھا تھا کہ ۱۹ آیتیں منسوخ ہیں.میں اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ گویا بادشاہ ہوگیا.میں نے کہا کہ ۱۹ یا ۲۱آیتیں تو فوراًیاد کر لوں گا.مجھے بڑی خوشی ہوئی مگر مجھے ایسا قلب اور علم دیاگیا تھا کہ اس پر بھی وہ کتاب مجھے پسند نہ آوے.آخر میں نے کہا کہ یہ بھی پوری خوشی کا موجب نہیں پھر مجھے خیال آیا کہ پچاس روپے والی کتاب بھی تو پڑھ دیکھیں اس کو پڑھا تو انہوں نے لکھا کہ خدا تعالیٰ نے جو علم مجھے دیا ہے اس میں ۵ آیتیں منسوخ ہیں.یہ پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اب کیا مشکل ہے.میں نے جب ان پانچ پر غور کی تو خدا تعالیٰ نے مجھے سمجھ دی کہ ناسخ ومنسوخ کا جھگڑا ہی غلط ہے کوئی پانچ سو چھ سو بتا تا تھا کوئی انیس ‘ اکیس ‘ کوئی پانچ اس سے معلوم ہوا کہ یہ تو صرف فہم کی بات ہے.اور میں نے یہ قطعی فیصلہ خدا کے فضل سے کر لیا کہ ناسخ ومنسوخ کا علم صرف بندوں کے فہم پر ہے.ان پانچ نے سب پر پانی پھیر دیا.یہ فہم جب مجھے دیا گیا تو ا س کے بعد ایک زمانہ میں لاہور کے اسٹیشن پر شام کو اترا.بعض اسباب ایسے تھے کہ چینیا ں والی مسجد میں گیا.شام کی نماز کے لئے وضو کر رہا تھا کہ مولوی محمدحسین بٹالوی کے بھائی میاں علی محمد نے مجھ سے کہا کہ جب عمل قرآن مجید و حدیث ہوتا ہے تو نا سخ ومنسوخ کیا بات ہے.میں نے کہا کچھ نہیں.اگر چہ وہ پڑھے ہوئے نہیں تھے (عالم مراد ہے.ایڈیٹر) گو میر ناصر کے استاد تھے.انھوں نے اپنے بھائی سے ذکر کیا ہوگا.یہ ان دنوں جوان تھے اور بڑا جوش تھا.میں نماز میں تھا اور وہ جوش سے ادھر ادھر ٹہلتا رہا.جب میں نماز سے فارغ ہو ا تو کہا ادھر آئو.تم نے میرے بھائی کو کہہ دیا کہ
قرآن میں ناسخ منسوخ نہیں.میں نے کہا ہاں نہیں ہے.تب بڑے جوش سے کہا کہ تم نے ابو مسلم اصفہانی کی کتاب پڑھی ہے وہ احمق بھی قائل نہ تھا میں نے کہا پھر تو ہم دو ہوگئے.پھر اس نے کہا کہ سید احمد کو جانتے ہو.مراد آباد میں صدرالصدور ہے.میں نے جواب دیا کہ میں رام پو ر‘ لکھنو اور بھوپال کے عالموں کو جانتا ہوں ان کو نہیں جانتا.اس پر کہا کہ وہ بھی قائل نہیں.تب میں نے کہا بہت اچھا پھر ہم اب تین ہو گئے.کہنے لگا یہ سب بدعتی ہیں.امام شوکانی نے لکھاہے کہ جو نسخ کا قائل نہیں وہ بدعتی ہے.میں نے کہا تم دو ہو گئے.میں ناسخ و منسوخ کا ایک آسان فیصلہ آپ کو بتاتا ہوں تم کوئی آیت پڑھ دو جو منسوخ ہو اس کے سا تھ ہی میرے دل میں خیال آیا کہ اگر یہ ان پانچ آیتوں میں سے کوئی پڑھ دے تو کیا جواب دوں.خدائے تعالیٰ ہی سمجھائے تو بات بنے.اس نے ایک آیت پڑھ دی میں نے کہا کہ فلاں کتاب نے جس کے تم بھی قائل ہو اس کا جواب دیے دیا ہے.کہنے لگا ہاں پھر میں نے کہا اور پڑھو تو خاموش ہی ہو گیا.علماء کو یہ وہم رہتا ہے ایسا نہ ہو ہتک ہو.اس لئے اس نے یہی غنیمت سمجھا کہ چپ رہے.بھیرہ میں ایک شخص نے نسخ کا مسئلہ پوچھا اور میں نے اپنے فہم کے مناسب جواب دیا اور کہا کہ پانچ کے متعلق میری تحقیق نہیں تو اس دوست نے کہاکہ اب ان پانچ پر نظر ڈال لیں.میں نے تفسیر کبیر رازی میں بہ تفصیل ان مقامات کو دیکھا تو تین مقام مجھے خوب سمجھ میں آگئے اور دو سمجھ میں نہ آئیں.تفسیر کبیر میں اتنا تو لکھا ہے کہ شدت اور خفت کا فرق ہو گیا ہے.غرض میں ان کتابوں کو پڑھتا ہوں مگر تعاون علی البر کے لئے نہ اس محبت اور جوش سے جو مجھے پیارے کی پیاری کتاب سے ہے.پھر میں ایک مرتبہ ریل میں بیٹھا ہوا ایک کتاب پڑھ رہا تھا.جیسے بجلی کو ند جاتی ہے.میں نے پڑھا کہ فلاں آیت منسوخ نہیں ہے.میں بڑا خوش ہوا کہ اب تو چار مل گئیں صرف ایک ہی رہ گئی.بڑی بڑی کتابوں کا تو کیا ذکر میں ُچھٹ بھیوّں کی بھی پڑھ لیتا ہوں.مگر اسی غرض تعاون علی البرکے لئے.اس طرح پر ایک میں وہ پانچویں بھی مل گئی اور اس طرح پر خدا کے فضل سے مسئلہ ناسخ ومنسوخ حل ہو گیا.میرے دماغ کو اللہ تعالیٰ نے ترتیب کو محفوظ رکھنے والا بنایا ہے اگر چہ
مجھے اب بھی زخم ہے مگر دماغ پر اس کے سبب سے صدمہ نہیں.اس لئے میں اصل مطلب کی طرف آکر کہتا ہوں کہ میں تفسیروں اور کتابوں سے تعاون علی البرکیا کرتا ہوں دوسری بات یہ تھی کہ ہر چہ گیرد علتی علت شود کے موافق الفاظ کے معانی بگڑ گئے ہیں.اس میں سے کلمہ کے معنی سنائے جو درسی کتابوں کے نصاب میں بھی بگڑ گئے اور گورنمنٹ نے بھی غلطی رہنے دی.اسی طرح پر ایک لفظ الہام کا ہے.محجوب لوگوں نے سمجھ رکھا کہ جو دل میں آجاوے وہ الہام ہے ان معنوں کو اتنا وسیع کیا کہ برہم ازم کے ماننے والوں نے تمام انبیاء علیہم السلام کو نعوذ باللہ جھوٹا کہہ دیا کیونکہ وہ الہام کی حقیقت ہی نہیں سمجھے اور اس کے مفہوم کو ایسا بگاڑا کہ نبی انہیں جھوٹے معلوم ہوئے اور کہہ دیا کہ نعوذ باللہ انبیاء علیہم السلام نے صرف لوگوں کو ڈرانے کے لئے الہام کی عظمت بیان کی والّایہ بہت معمولی بات ہے جو دل میں آجاتی ہے وہی الہام ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بڑے آدمی کی میں نے کتاب پڑھی وہ بات بات پر کہتا ہے ھذا ما الہمنی ربی.اور پھر لکھ دیا کہ ز جبرائیل امین قرآن بہ پیغامے نمے خواہم یہ برہموئوں کا مذہب ہے.پرسوں ایک شخص نے ایک ترجمہ دیا لکھا تھا نعوذ باللہ الہامی ترجمہ ہے.ایک ہزار نسخہ چھا پا ہے خریداجاوے.میں نے محض اس خیال پر کہ ایک دوست لایا ہے (میرے خیال میں وہ درست ہے )اس کو پڑھ لیا.میں اپنے کسی دوست کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ اس کو پڑھے.میرا پڑھنا تعاون علی البر کے طور پر ہے اس میں (البقرۃ:۱۰۳)میں ملکین کے معنے شیطان کیا ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ جیسے ہماری زبان میں لُچّے کو حضرت کہتے ہیں یہ دونوں باتیں غلط ہیں اور خطرناک غلط ہیں اگر ملک کا یہی ترجمہ ہے تو اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَالْمَـلَا ئِکَۃ کے کیا معنی ہوں گے ہمارا وہ دوست اس مجلس میں ہے تو اس پر غور کرے کہ اس الہامی ترجمہ والے نے خدا سے ذرا بھی خوف نہ کر کے ہاروت وماروت کو شیاطین کہا ہے اور پھر اس کا نام الہام رکھا ہے.میں نے جب اس ترجمہ میں یہ پڑھا تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے.پیچھے میں نے سمجھا کہ اس کے متعلق تبلیغ کردوں اس لئے میں کھول کر کہتا ہوں کہ اس ترجمہ کو ہر گز ہرگز نہ پڑھو ملککا ترجمہ فرشتہ ہے اور حضرت کا ترجمہ بے ایمان کرنا یہ بھی جہالت کی بات ہے..پس تم
کو چاہئے کہ الفاظ کے معانی کرنے میں محتاط رہو اور قرآن کریم کے فہم کے بعض گُر الفاظ کے معنی کرنے میں خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور قرآن شریف کے لفظوں کو مقدم کر لیا کرو.قرآن شریف کے سمجھنے کے لئے اول قرآن شریف ہی کو پڑھو.اس کی آیا ت دوسری جگہ متواتر معنی بیان کرتی ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ قرآن مجید جب ایک بات کہتا ہے تو بیس مقامات تک بھی اس کی تشریح کرتا ہے دس جگہ اور سات جگہ تو عام ہے.کیونکہ سات کا عدد بھی کامل ہے.بعض آیات ایسی بھی ہیں کہ میں ان پر سالہاسال غور کرتا رہا کہ قرآن شریف میں کہاں تشریح کی ہے اور پتا نہ ملا مگر جب خدا تعالیٰ نے وہ پردہ اٹھایا تو دیکھا کہ سوسو جگہ تک بیان کیا ہے.پھر اس کے بعد دوسرا ذریعہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عملدرآمد میں دیکھو وہاں بھی قرآن کریم کی تفسیر ملے گی.مثلاً صلوٰۃ اور زکوٰۃ کے الفاظ قرآن مجید میں آئے ہیں.اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملدرآمدتمہیں بتائے گا کہ ان الفاظ کا کیا مفہوم ہے.ہمارے بعض دوستوں کو بھی اس قسم کا ابتلاآیا تھا.انھوں نے کہا کہ قرآن شریف میں نماز حج وغیرہ دکھائو.میں نے کہا کہ پہلے گھوڑے ، خچر میں امتیاز بتائو.پھر البغال و الحمیر میں تفرقہ کر کے دکھائو میں نے ان کے لئے بہت دعا کی اور خدا تعالیٰ نے ان کو سمجھ دی اور یہ ابتلا جاتا رہا.میں نے کہا کہ جب تم بغال اور حمیر میں فرق کرنے کے لئے ان کو دیکھتے ہو تو کیوں تم اس شخص کی نماز نہیں دیکھتے جس پر قرآن نازل ہوا؟ ایک بات میری سمجھ میں آئی ہے کہ اگر قرآن مجید میں صلوٰۃ کی تمیز ہوتی تو وہ بھی عربی میں ہوتی پھر ان لفظوں کے کئی کئی معنی کرتے اور کس قدر مشکلات پیدا ہوتیں.پھر ایک اور نکتہ ہے.جب میں رامپور میں طالب العلم تھا کسی مقلّد نے غیر مقلد کو کہا کہ نذیر حسین کے کیا معنی ہیں تو غیر مقلد طالب العلم نے کہا کہ اصل میں نذیرعدو حسین ہے لفظ عدو محذوف ہو گیا ہے حالانکہ نذیر ان کا نام تھا اور حسین کا لفظ باظہار قومیت شامل کر لیا گیا.واِلّا اس طرح حذف مضاف سے عبدالنبی بھی جائز ہو جاوے کیونکہ بحذف مضاف عبد سبّ النبی ہو سکتا ہے.اور کہیں کنایۃ وغیرہ نکال کر خد اجانے کیا کیا
معنی کرتے.پس ہمارے مولیٰ نے کامل رحم فضل سے نماز پڑھوا کردکھادی اور ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابی نے دیکھ لی حتی کہ یہود و نصارٰی ومجوس نے بھی نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لی اب کسی اور معنی کی ضرورت نہیں.نہ تقدیم تاخیر.نہ کنایہ نہ حذف و محذوف کی.گجرات کے ضلع میں دتہ شاہی ایک قوم ہے وہ کام (شہوت)کرو دہ(غضب ) لوبھ (حرص) موہ(بے جامحبت)ہنکار (غرور)کو چھوڑنے کا نام ہی نماز رکھتے ہیں.یہاں ایک گلوّ سقّہ ہے جب وہ جماعت میں نہ تھا تو کہتا تھا کہ یہ خود منارہ ہیں، سر گنبد ہے اور آپ نماز ہیں.غرض اس قسم کی بیہودہ تو جیہیں پیدا کر لی جاتی ہیں.مسلمانوں پر یہ دکھ اور مصیبت کا وقت ہے ایسے وقت میں یاد رکھو کہ قرآن کریم کی تفسیر قرآن شریف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عملدرآمد سے کرو.اور پھر تمام امت میں مشترکہ رنگ کو دیکھ لو.پھر احادیث صحیحہ کو پڑھو.ایک بڑی گندی قوم گزری ہے جو احادیث کا انکار کرتی ہے.ایک نے یہ گندا لفظ َکل کہا اوربڑی جرأت سے کہا کہ رواتِ احادیث شیاطین ہیں وہ نہیں مرے گا جب تک خود شیطان نہ بن لے.وہ لوگ بڑے ہی محروم ہیں جو اس علم حدیث سے محروم ہیں میں بچپن سے ۷۵.۷۶سال کی عمرتک پہنچا ہوں اور میرا یہ تجربہ ہے کہ علم حدیث کے بغیر دین آتا ہی نہیں.تم ہی بتائو جس نے علم حدیث پڑھا ہے اس کی گواہی حدیث کے متعلق ماننی چاہیے یااس کی جس نے یہ علم پڑھا ہی نہیں پھر ایک وہ طریقہ قرآن کریم کے فہم کا ہے جو میرے ہادی نے مجھے سمجھایا ہے.میں نے ایک بار حضرت مرزا صاحب کے حضور عرض کیا کہ آپ کے طریق میں مجاہدات کیاہیں فرمایا اگر شوق ہے فصل الخطاب لکھنے کی وجہ ان مجاہدات کاجو ہمارے طریق میں ہیں تو ایک کتاب عیسائی مذہب کے ردّ میں لکھو.میں نے جب اس کتاب کے لکھنے کا ارادہ کر لیا تو ایکمسیحی کو مقرر کیا کہ وہ جو اعتراض قرآن شریف پر رکھتا ہے لکھے.اس نے ایک ہزار کے قریب اعتراض لکھ کر بھیج دیا.میں نے اس کے اعتراضوں کو پڑھ کر ساری بائیبل کو کئی مرتبہ پڑھا اور نوٹ کرتا گیا.(وہ بائیبل اب کسی نے چرا لی ہے )میں نے ُکل اعتراضات کے الزامی جواب
نوٹ کر لئے اور پھر حقیقی جوابات کی طرف متوجہ ہوا تو بعض اعتراضوں کے جواب سمجھ میں نہ آئے.میں نے مرزا صاحب سے عرض کیا کہ بعض اعتراضوں کے جواب حقیقی نہیں ہو سکتے.یا تو ان اعتراضات کا ذکر ہی نہ کریں یا الزامی جواب دے کر خاموش ہو جائیں.میرا ایک دوست تھااللہم اغفرہ وارحمہ مولوی عبد الکریم نام‘ انھوں نے کہا کہ الزامی جواب پسند نہیں.میں نے حضرت صاحب سے ذکر کیا.آپ کی عادت تھی کہ ہنستے ہنستے کپڑا منہ پر رکھ لیتے تھے.یہ سن کر فرمایا کہ بڑی بے انصافی کی بات ہے کہ جس بات کو آپ کا قلب نہیں مانتا دشمن کو وہ آپ کیونکر منوائیں گے.اس بات کو سن کر میرااعتقاد آپ کی نسبت بہت بڑھ گیا کہ جب تک اس کا قلب مطمئن نہیں ہوتا یہ بات کرتا ہی نہیں اور مجھے بزور کہا کہ یہ بے انصافی ہے کہ جس بات کو خود نہ سمجھو دوسروں کو منوائو.میں نے سمجھا کہ اس کا ایمان بڑا عجیب ہے اور یہی وجہ ہے جو ایک بات کو بیسیوں مرتبہ بیان کرتا ہے.میں یہ سن کر خاموش ہو گیا اور دل میں آیا کہ پھر کیا کریں.جب اٹھنے کے قریب ہوئے تو فرمایا کہ جو مقامات حل نہیں ہوتے ان کو خوشخط لکھ کر سامنے لگا لو.جب آمد رفت کے وقت ان پر نظر پڑے تو دعا کرو چند روز کے بعد وہ انشاء اللہ حل ہو جائیں گے.میں ان ایام میں صوفیت سیکھتا تھا.میں نے سوچا کہ خوشخط لکھنا اور پھر سامنے لٹکانا تو مشکل کام ہے اس لئے دل ہی میں لٹکادویہ میرا اپنا ذوق تھا.اب بھی یہ گُر یا د رکھنے کے قابل ہے جو آیت سمجھ میں نہ آوے اس کو خوشخط لکھ کر سامنے لٹکا دواور دعا کرتے رہو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حل ہو جائے گی.غرض میں نے ان سوالات میں سے بعض کو اپنے دل پر لٹکا دیا اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں حل کر دیا.انہیں سوالوں میں سے والفجراور والنجم کی تفسیر ہے جو میں نے لکھی ہے.اگر کوئی چاہے تو وہ سوال موجود ہیں.میں اس کے حوالہ کر سکتا ہوں غرض تم کو کوئی آیت سمجھ میں نہ آوے تو اس طریق سے کام لو اور جناب الہٰی میں گر پڑو کہ تیری کتاب ہے میری سمجھ میںیہ آیت نہیں آتی.دعائو ں میں لگے رہواور منتظر رہو کہ کب انکشاف ہو جاتا ہے.کیا میں نے اس موقع پر اپنے خیال کو ترجیح دی ہے یا کسی تفسیر کی سپارش کی ہے بلکہ یہ چوتھا مرتبہ بتایا ہے کہ قلب مطہر لے کر جناب الہٰی میںگر جائے، یہ اصول ہیں فہم قرآن کریم کے لئے.بات کچھ اور شروع کی تھی اور ذوق میں کہاں تک چلی گئی.۱؎
پہلی نصیحت متقی بنو اور مسلم مرو: میںنے آیت پڑھی ہے (اٰل عمران :۱۰۳).یاد رکھو آج کا دن کل کے دن کی آمد کی تیاری کر رہا ہے.اس وقت شام کی تیاری ہو رہی ہے.یہ وقت جب تک نہ گزر جائے شام نہ ہو گی.مرتے وقت غشی بھی ہوتی ہے.طب والے کہتے ہیں کہ اس وقت غشی کی حالت ہوتی ہے جبکہ گھر والے پکارتے ہیں کہ تم نے مجھے پہچانا ہے مرنے والا دیکھتا ہے مگر کہتا کچھ نہیں اس وقت وہ اسی غشی کی سی حالت میں ہوتا ہے.پس جبکہ انسانی زندگی کا ہر لمحہ موت کے قریب کر رہا ہے تو انسان کو چاہئے کہ اس کی تیاری کرے.اس لئے اس آیت میں یہ ہدایت کی ہے کہ تقویٰ اختیار کرو اور ایسا تقویٰ جو تقوی اللہ کا حق ہے اور یاد رکھو کہ تمہیں ایسی حالت میں موت آوے کہ تم مسلمان ہو.چونکہ انسان کو معلوم نہیں کہ موت کی گھڑی کس وقت آجاوے اس لئے اس آیت پر عملدرآمد اسی حالت اور صورت میں ہو سکتا ہے کہ انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار رہے اور کامل متقی ہو.تقویٰ اللہ کیا ہے؟ عقائد صحیحہ ہوں اور ان عقائد کے موافق اعمال صالحہ ہوں.تقویٰ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان دکھوں سے بچ جاتا ہے اور سکھوں کو پا لیتا ہے.متقی اللہ کا محب ہوتا ہے.متقی کو تمام تنگیوں سے نجات ملتی ہے.اس کو (الطلاق :۴) رزق ملتا ہے.متقی کی دعائیں قبول ہوتی ہیں.متقی کے دشمن ہلاک ہوتے ہیں اور وہ مقابلہ دشمن میں ممتاز ہوتا ہے.متقی پر الٰہی علوم کھولے جاتے ہیں.پس میں بھی پہلی نصیحت یہی کرتا ہوں کہ متقی بنو‘ متقی بنو.ہاں اللہ تعالیٰ کے لئے متقی بنو اور تم اللہ تعالیٰ کے سچے فرمانبردار بن جائو اور اسی فرمانبرداری پر تمہارا خاتمہ ہو.یہ فرمانبرداری عجیب نعمت ہے ابو الملۃ ابراہیم علیہ السلام پر تمام برکتیں اسی فرمانبرداری کی وجہ سے نازل ہوئیں (البقرۃ :۱۳۲) اس لئے تم بھی اگر برکات سماوی سے بہرہ اندوز ہونا چاہتے ہو تو متقی بنو اور تقویٰ کی حقیقت سچے مسلمان میں پیدا ہوتی ہے.پس تم بھی مسلم بنو اور تمہارا خاتمہ اسلام پر ہو.دوسری نصیحت حبل اللہ کو پکڑو اور تفرقہ نہ کرو: پھرفرمایا: (اٰل عمران :۱۰۴)
حَبْلُ اللّٰہکو مضبوط پکڑ لو اور سب کے سب مل کر مجموعی طاقت سے حبل اللہ کو پکڑو اور تفرقہ نہ کرو.یہ آیت میں آج تم پر تلاوت کرتا ہوں اور پھر سناتا ہوں تم خدا کی حبل کو مل کر مضبوط پکڑے رکھو اسے چھوڑو نہیں اور اس سے جدا نہ ہو اور نہ باہم تفرقہ کرو.ایک مرتبہ مجھے ایک مدرسہ میں لڑکوں کو وعظ کرنے کے لئے کسی نے کہا میں نے اس سے پہلے رسہ کشی کی کھیل نہ دیکھی تھی.اس روز لڑکے رسہ کشی کا کھیل کھیل رہے تھے ہر ایک طرف کے لڑکوں نے بڑا زور لگایا اور وہ کہتے تھے کہ مل کر زور لگائو جس طرف کے لڑکوں نے کمزوری دکھائی وہ ہار گئے.اس وقت مجھے اس آیت کی تفسیر معلوم ہوئی.دین اسلام میں جس کو حبل اللہ کہا گیا ہے قرآن مجید ہے.آریہ، برہمو، سناتن، مسیحی، دھریہ، ملحد بھی اس رسہ کو زور سے کھینچ رہے ہیں اور زور لگا کر اپنی طرف لے جانا چاہتے ہیں دوسری طرف تم نے اس حبل اللہ کو پکڑنے کا دعویٰ کیا ہے.پس تم اس دعویٰ کو بلا دلیل نہ رہنے دو اور پوری طاقت وہمت اور یک جہتی سے اس کو مضبوط پکڑ کر زور لگائو ایسا نہ ہو کہ وہ مخالفین اسلام اس رسہ کو لے جائیں (خدا نہ کرے ایسا ہو) اس رسہ کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید تمہارا دستور العمل اور ہدایت نامہ ہو.تمہاری زندگی کے تمام مرحلے اس کی ہدایتوں کے ماتحت طے ہوں.تمہارے ہر ایک کام ،ہر حرکت وسکون میں جو چیز تم پر حکمران ہو وہ خدا تعالیٰ کی یہ پاک کتاب ہو جو شفا اور نور ہے.یاد رکھو دنیا ایک مدرسہ ہے اس مدرسہ میں وہی کامیاب ہوں گے جو حبل اللہ کو ہاتھ سے نہ دیں گے اور مل کر زور لگائیں گے اس وقت بہت بڑی ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں عملی زندگی پیدا ہو اور ان کے تفرقہ مٹ جاویں میں پھر تمہیں اللہ کا حکم پہنچاتا ہوں سنو اور غور سے سنو! .تفرقہ مت کرو: دیکھو تفرقہ نہ کرو اگر تفرقہ کرو گے تو جانتے ہو اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟یہ حبل اللہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گی اور اس کے ساتھ ہی تم بھیبودے ہو جائو گے خدا تعالیٰ فرماتا ہے (الانفال :۴۷) تنازعہ کرو گے تو بودے ہو جائو گے اور تمہاری ہوا نکل جائے گی پھر تمہارا جتھا ٹوٹ کر قوت منتشر ہو جائے گی اور دشمن
تم پر قابو پا جائیں گے ہاں اگر تنازعہ پیدا ہو تو اس وقت تمہیں صبر سے کام لینا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے یہی ارشاد کیا ہے کیونکہ جب جھگڑا پیدا ہوتا ہے تو ایک طرف غضب آتا ہے اگر دوسری طرف بھی اس غضب سے کام لیا جاوے تو نتیجہ اس کے سوا نہیں ہو گا کہ پھر اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے آکر ہلاک ہو جائو گے.پس ایسے موقع کے لئے محض اپنے کرم اور غریب نوازی سے یہ تعلیم دی کہ صبر کرو اگر صبر سے کام لو گے تو نتیجہ کیا ہو گا (البقرۃ :۱۵۴) تنازعہ کے باطل کرنے کا یہی طریق ہے کہ صبر سے کام لو.انسان جب صبر کرتا ہے تو ایک نور اس کے قلب پر اترتا ہے جس سے اس کو سکینت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے اور وہ جوش کی آگ جو اس کے اندر بھڑکنے والی تھی بالکل ٹھنڈی ہو جاتی ہے.یہ ظہور ہوتا ہے کا خد اتعالیٰ کی معیت اس طرح پر اپنا کام کرتی ہے اور پھر جس کے ساتھ خدا ہو اس کی کامیابی اور فتح میں کیا کلام ’’خدا داری چہ غم داری‘‘ انسان خدا کی محبت اگر چاہتا ہے تو اس کے لئے لازمی شرط یہی ہے کہ متقی ہو اور پھر صبر کرے مگر تم دیکھو کہ تم میں ادنیٰ ادنیٰ باتوں میں تنازعہ ہو جاتا ہے.یہاں ہمارا بازار ہے کتنی دوکانیں ہیں ان میں کتنا سودا ہے میں تو جانتا ہوںاس کا نام بازار رکھنا بھی شرم ہے.بہرحال جو کچھ بھی ہے، ہے.ان گنتی کے دوکانداروں میں ہر ایک یہی سمجھتا ہے کہ جو سودا اس نے رکھا ہے کوئی دوسرا نہ رکھے اور اسے ہی سارا نفع ہو.پھر جگہ پر جھگڑا ہوتا ہے ایک کہتا ہے مجھے یہ جگہ ملے دوسرا کہتا ہے مجھے دو یہ.میں حیران ہو جاتا ہوں کہ یہ کیا کرتے ہیں کیاان کی غرض اتنی ہی ہے.وہ مجھ سے پوچھتے تو میں انہیں بتاتا کہ اگر تم نفع چاہتے ہو تو خدا پر بھروسہ کرو کسی دوکان یا کسی سودے کو اپنا خدا مت بنائو.ان پر بھروسہ کرو گے تو ہلاک ہو جائو گے.نہ دنیا کا فائدہ ہو گا اور دین بھی ہاتھ سے جائے گا.نفع دینا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے اور یہ اس کے فضل سے ملتا ہے.ہاں تدبیر کرو مگر اپنی تدبیروں کو خدا نہ سمجھ لو اور ان پر بھروسہ نہ کرو تمہاری تجارتیں تمہارے لئے موجب برکت دین ہوں.وہ دنیا کسی کام کی نہیں جو دین کو بگاڑ دے.کیا دنیا میں پہلے سے ایسے تاجر موجود نہیں جن کو دین سے واسطہ نہیں.تم کوشش کرو اور خدا تعالیٰ سے توفیق چاہو کہ تمہاری تجارتیں بھی تمہارے لئے دین ہو جائیں.پھر بعض نوجوان ہیں وہ جھٹ تصنیف کر دیتے ہیں حالانکہ ان میں وہ فہم وہ فراست نہیں ہوتی جو
ایک کتاب کے لکھنے والے میں ہونی چاہئے محض خیالات سے کچھ نہیں بنتا.جب تک سچے علوم سے واقفیت نہ ہو اور پھر ایسی تصنیفیں ایک تفرقہ کا موجب ہو جاتی ہیں.تم کو اگر مشکلات پڑتی ہیں تو خدا تعالیٰ سے توفیق مانگو اور دعائوں سے کام لو.ایک نے کہا کہ ہم سے امر بالمعروف میں اطاعت کی بیعت لی ہے.میں کہتا ہوں یہ بیعت میری ایجاد تو نہیں قرآن مجید بھی تو (اٰل عمران :۱۱۱) فرماتا ہے امر بالمعروف اسی قرآن مجید کے ارشاد کے نیچے ہے.پس میں ان نوجوانوں کو یہی کہوں گا کہ لڑانے کا فکر نہ کرو ہماری بد دعا نہ لو دعائیں لو.کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکالو جس سے جھگڑا پیدا ہو اور تفرقہ بڑھے.یاد رکھو میں پھر کہتا ہوں باہم جھگڑا کرو گے تو قرآن مجید کے اس فتوے کے نیچے آجائو گے(الانفال :۴۷) تم پھسل جائو گے اور تمہاری ہوا نکل جائے گی اس لئے توبہ کر لو اس میں تمہارا بھلا ہے.نکمے جھگڑے: بعض لوگ نکمے جھگڑے کرتے ہیں.ایک نے آکر سنایا کہ سیالکوٹ کی جماعت نے کہا کہ نور دین نے اتنے مسئلہ اُڑا دیئے ؟ ان میں سے ایک یہ بھی کہ نور دین جہراً بسم اللّٰہ نماز میں نہیں پڑھتا.ایسا ہی کل ایک دوست آیا کہ جہراً بسم اللّٰہ پڑھی تو پشاور کے قاضی نے کہا کہ احمدیوں کی نمازیں تو ٹھیک ہوتی ہیں مگر جہراً بسم اللّٰہ درست نہیں.یہ نکمّے جھگڑے ہیں.سیالکوٹ کا اگر کوئی بیٹھا ہے تو وہ اب توبہ کر ے اور استغفار کرے.یہ مسئلے جھگڑے کے نہیں ہیں.صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین بسم اللّٰہجہراً اور خفائً پڑھتے تھے.میری اپنی تحقیق میں جہراً پڑھنے والے تھوڑے ہیں خفائً پڑھنے والے بہت ہیں.میں عبدالکریم مرحوم سے خدا کے لئے محبت رکھتا تھااور اس کے پیچھے نہایت ذوق سے نماز پڑھتا تھا اور میں اس کے جہر پر بھی فدا تھا اور میں نے حضرت صاحب کے پیچھے بھی نماز پڑھی ہے تم میں سے بھی بعض نے پڑھی ہو گی.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت صاحب جہراً بسم اللّٰہ پڑھا کرتے تھے؟ پھر میں نے حضرت صاحب کے سامنے بھی نمازیں پڑھائی ہیں اور بہت پڑھائی ہیں اور تم میں سے بھی بہتوں نے پڑھائی ہیں کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ میں اس وقت بھی اسی طرح نماز نہ پڑھتا تھا؟ اب ان کے بعد بسم اللّٰہ کے جہراً پڑھنے یا نہ پڑھنے پر بحث کرتے ہو اور پھر اس بحث میں بڑھتے بڑھتے ایسے لفظ
بول دیتے ہو دیکھو میں خلیفۃ المسیح ہوں اور خدا نے مجھے بنایا ہے.میری کوئی خواہش اور دردمنددل سے نصیحت: آرزو نہ تھی اور کبھی نہ تھی جب خدا تعالیٰ نے مجھے یہ رِدَا پہنادی ہے میں ان جھگڑوں کو ناپسند کرتا ہوں اور سخت ناپسندکرتا ہوں میں نہیں چاہتا کہ تم میں ایسی باتیں پیدا ہوں جو تنازعہ کا موجب ہوں اس لئے میں اس خیال سے کہ سرچشمہ شاید گرفتن بہ میل چو پرشد نشاید گذشتن بہ پیل اس قسم کے نکمے جھگڑوں کو روکنا چاہتا ہوں.تم کو کیا معلوم ہے کہ قوم میں تفرقہ کے خیال سے بھی میرے دل پر کیا گزرتی ہے؟ تم اس درد سے واقف نہیں.تم اس تکلیف کا احساس نہیں رکھتے جو مجھے ہوتی ہے.میںیہ چاہتا ہوں اور خدا ہی کے فضل سے یہ ہو گا کہ میں تمہارے اندر کسی قسم کے تنازعہ اور تفرقہ کی بات نہ سنوں.بلکہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھوں کہ تم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا عملی نمونہ ہو (اٰ ل عمران : ۱۰۴)دیکھو ایسے چھوٹے چھوٹے مسئلوں پر یقین کے ساتھ پہنچنا تم میں سے بہتوں کو نصیب نہیں ہو سکتا.صحابہ کے آثار پڑھو کم از کم مؤطا امام محمد اور آثار امام محمد ہی کو پڑھ لو.صحابہ ایسے مسائل جزویہ میں اپنے ذوق کے موافق ترجیح دے لیتے تھے مگر یہ مسائل ان میں اختلاف کا باعث نہ ہوتے تھے.میں پھر تمہیں کہتا ہوں جو سنتا ہے وہ سن لے اور دوسروں کو پہنچا دے کہ جھگڑا مت کرو ہم مر جائیں گے پھر تمہیں بہت سے موقعے جھگڑے کے ہیں !!! تم سمجھتے ہو میں حضرت ابوبکرؓ کی طرح آسانی سے خلیفہ بن گیا ہوں؟ تم اس حقیقت کو سمجھ نہیں سکتے اور نہ اس دکھ کا اندازہ کر سکتے ہو اور نہ اس بوجھ کو سمجھ سکتے ہو جو مجھ پر رکھا گیا ہے.یہ خدا کا فضل ہے کہ میں اس بوجھ کو برداشت کر سکا.تم میں سے کوئی نہیں جو اس کو برداشت تو ایک طرف محسوس بھی کر سکے.کیا وہ شخص جس کے ساتھ لاکھوں انسانوں کا تعلق ہو آرام کی نیند سو سکتا ہے؟ اتنے
بڑے کنبے کے آدمی کی جو حالت ہو سکتی ہے اس کا قیاس تو کرو.پھر میری حالت کو دیکھو اور سمجھ لو کہ مجھے تمہاری بھلائی کے لئے کیا کرنا پڑتا ہے.حضرت صاحب توبہ کی بیعت لیتے تھے.میں نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ بیعت ارشاد کیوں نہیں لیتے.فرمایا میں شکر کرتا ہوں کہ توبہ ہی کر لیتے ہیں.پس تم میری اس نصیحت کو یاد رکھو میں تمہارے بھلے کے لئے کہتا ہوں کہ کوئی ایسی بات نہ کرو جس سے ذرا بھی تفرقہ کا احتمال ہو سکے.میری توجہ اور عقد ہمت کو اسی میں لگا رہنے دو.دوسری طرف متوجہ نہ ہونے دو اس میں تمہارا بھلا ہو گا.عبداللہ تیماپوری کا ابتلا: عبداللہ تیما پوری کا ایک ابتلا ہے.مجھے دکھایا گیا کہ وہ مجنون ہے.میں نے اس کو یہ کہہ دیا اس نے کہا کہ پھر توجہ کرو.تب میں نے اس کو کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے حضور بے ادبی ہے مجھے اب اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں.اس پر اس نے کہا کہ ہاں اگر میں روزہ رکھوں تو جنون ہو جاتا ہے پھر اس نے میرے ہاتھ پر بیعت کی اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا.میں نے اس سے بیعت ارشاد لے لی اور اس نے بیعت ارشاد کر لی.اس کے بعد اس نے ایک کتاب لکھی اور میرے پاس لایا اور کہا یہ مجھ کو براہ راست ملا ہے.میں نے کہا تم نے میرے ہاتھ پر بیعت کی اور کیا وہ بیعت ارشاد نہیں ہے؟ آخر اس نے اقرار کیا.تب میں نے کہا کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت پوری ہو گئی.اب وہ کہتا ہے کہ میں تمہیں خلافت سے معزول کرتا ہوں.پھر یہاں تک ہی بس نہیں کی بلکہ کہتا ہے کہ حضرت صاحب نے بھی مجھے شناخت نہیں کیا اور اسی وجہ سے ان کی عمر میں ۱۵ سال کی کمی ہو گئی.پھر یہ دعویٰ کیا ہے کہ حضرت صاحب کی تعلیم کمزور تھی.پھر اپنے دعوے کے ثبوت میں کہا کہ مجھ میں چالیس آدمی کی قوت ہے اور جو کوئی میری بیعت کرے اس میں پندرہ آدمی کی قوت آجاتی ہے.حافظ روشن علی نے ہاتھ پکڑا تو چلّا اٹھا اور کہا کہ میری غلطی تھی اس قوت سے مراد روحانی قوت تھی.یہ ایک ابتلا ہے مجھے خدا تعالیٰ نے اس کو مجنون دکھایا ہے.ان دعاوی کے ساتھ وہ اپنے آپ کو پیش کرتا ہے.بعض لوگ معذور ہیں جیسے شیخ نور احمد (شیخ نور احمد مالک ریاض ہند پریس امرتسر اور مولوی غلام رسول امرتسری نے تحریری طور پر حضرت خلیفۃ المسیح کے حضور توبہ کر لی ہے.ایڈیٹر الحکم)وہ رات کو کچھ کہتا ہے تو شیخ
نور احمد کہہ دیتے ہیں کہ اس کو چھاپ دو.میں دوستوں کو چوکس کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں سے پرہیز کرو ایسے لوگوں کی ایک جماعت ہے جو ایسے دعوے کرتے پھرتے ہیں.ایک نے مجھے لکھا کہ اگر تم راستباز ہو تو مجھے اپنے جلسہ میں تقریر کرنے کی اجازت دو.جب تک چاہوں بولتا رہوں اور یہ بھی لکھا کہ تمہارا سر اس لئے کچلا گیا کہ اور کتابیں پڑھتے ہو قرآن کو چھوڑ دیا ہے.میں نے اس کو لکھا کہ جب قرآن مجید کے سوا کچھ نہیں اور ہر شخص کو اس کا فہم دیا جاتا ہے تو تم کیا سمجھانے آئو گے؟ پھر مجھے لکھا کہ اجازت دو ورنہ حجت پوری ہو گئی.خلیفۃ المسیح کا اعلان خلافت: میں اس مسجد میں قرآن ہاتھ میں لے کر اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے پیر بننے کی خواہش ہرگز نہیں اور نہ تھی اور قطعاً خواہش نہ تھی.خدا تعالیٰ کے منشاء کو کون جان سکتا ہے اس نے جو چاہا کیا تم سب کو پکڑ کر میرے ہاتھ پر جمع کر دیا اور اس نے آپ نہ تم میں سے کسی نے مجھے خلافت کا کرتہ پہنا دیا.میں اس کی عزت اور ادب کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں باوجود اس کے میں تمہارے مال اور تمہاری کسی بات کا بھی روادار نہیں اور میرے دل میں اتنی بھی خواہش نہیں کہ کوئی مجھے سلام کرتا ہے یا نہیں.تمہارا مال جو میرے پاس نذر کے رنگ میں آتا تھا اس سے پہلے اپریل تک میں اسے مولوی محمد علی کو دے دیا کرتا تھا مگر کسی کو غلطی میں ڈالا اور کہا کہ یہ ہمارا روپیہ ہے اور ہم اس کے محافظ ہیں.تب میں نے محض خدا کی رضا کے لئے اس روپیہ کو دینا بند کر دیا کہ میں دیکھوں یہ کیا کر سکتے ہیں؟ ایسا کہنے والے نے غلطی کی نہیں بے ادبی کی.اسے چاہئے کہ وہ توبہ کرے میں پھر کہتا ہوں کہ وہ توبہ کرلے، اب بھی توبہ کر لیں.ایسے لوگ اگر توبہ نہ کریں گے تو ان کے لئے اچھا نہ ہو گا.ایک وقت مجھ سے کسی نے مجھ سے جھگڑا کیا اس وقت کے بعد سے میں ایسے اموال ان کو دیتا نہیں جو مخصوص مجھے ہی دئیے جاتے ہیں.ہاں میں انہیں ایک مد میں رکھتا ہوں اور اسے ایسی جگہ خرچ کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہ ہو.میں اپنی ذات اور اپنے متعلقین کے لئے تمہارے کسی روپیہ کا محتاج نہیں ہوں اور کبھی بھی خدا تعالیٰ نے مجھے کسی کا محتاج نہیں کیا.وہ اپنے غیب کے خزانوں سے مجھے دیتا ہے اور بہت دیتا ہے اور میں اب تک وہ کسب کر لیتا ہوں جو خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے.یاد رکھو میں پھر کہتا ہوں کہ میں تمہارے اموال کا محتاج نہیں ہوں اور نہ تم سے مانگتا ہوں تم میرے پاس اگر کچھ
بھیجتے ہو تو اسے اپنے فہم کے موافق خدا کی رضا کے لئے خرچ کرتا ہوں پھر وہ کون سی بات ہو سکتی تھی کہ میں پیر بننے کی خواہش کرتا.اب خدا تعالیٰ نے جو چاہا کیا اس میں نہ تمہارا کچھ بس چلتا ہے اور نہ کسی اور کا.اس لئے تم ادب سیکھو کیونکہ یہی تمہارے لئے بابرکت راہ ہے تم اب اس حبل اللہ کو مضبوط پکڑ لو یہ بھی خدا ہی کی رسن ہے جس نے تمہارے متفرق اجزا کو اکٹھا کر دیا ہے.پس اسے مضبوط پکڑے رکھو.تم خوب یاد رکھو کہ معزول کرنا اب تمہارے اختیار میں نہیں.تم مجھ میں عیب دیکھو آگاہ کر دو مگر ادب کو ہاتھ سے نہ دو.خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں یہ خدا تعالیٰ کا اپنا کام ہے.اللہ تعالیٰ نے چار خلیفے بنائے ہیں آدمؑ کو، دائود کو اور ایک وہ خلیفہ ہوتا ہے جو (النور :۵۶) میں موجود ہے اور تم سب کو بھی خلیفہ بنایا.پس مجھے اگر خلیفہ بنایا ہے تو خدا نے بنایا ہے اور اپنے مصالح سے بنایا ہے خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کر سکتی.اس لئے تم میں سے کوئی مجھے معزول کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے معزول کرنا ہو گا تو وہ مجھے موت دے دے گا (اللّٰھم ایّد الاسلام والمسلمین ببقائہٖ وطول حیاتہ.ایڈیٹر) تم اس معاملہ کو خدا کے حوالہ کرو تم معزول کی طاقت نہیں رکھتے میں تم میں سے کسی کا بھی شکر گزار نہیں ہوں.جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ ہم نے خلیفہ بنایا مجھے یہ لفظ بھی دکھ دیتا ہے کہ جو کسی نے کہا کہ پارلیمنٹوںکا زمانہ ہے دستوری حکومت ہے ایران اور پرتگال میں بھی دستوری ہو گئی ہے.ترکی میں پارلیمنٹ مل گیا.میں کہتا ہوں وہ بھی توبہ کر لے جو اس سلسلہ کو پارلیمنٹ اور دستوری سمجھتا ہے.کیا تم نہیں جانتے کہ ایران کو پارلیمنٹ نے کیا سکھ دیا اور دوسروں کو کیا فائدہ پہنچایا ہے.ترکوں کو پارلیمنٹ کے بعد کیا نیند آتی ہے؟ ایرانیوں نے کیا فائدہ اٹھایا.محمد علی شاہ کے سامنے کتنوں کو غارت کرایا اور اب پچھلوں کو الٹی میٹم آتے ہیں.ادھر انجمن ترقی واتحاد جو دکھ اٹھا رہی ہے اس کا اندازہ ان خبروں سے کر لو جو طرابلس سے آرہی ہیں.تم دستوری کو کیا سمجھتے ہو خدا ہی کے فضل سے اور اسی کے رسن کو مضبوط پکڑے رہنے سے کچھ بنتا ہے.اس لئے میں پھر کہتا ہوں (اٰل عمران:۱۰۴).میں تمہیں پھر یاد دلاتا ہوں کہ قرآن مجید میں صاف طور پر لکھا ہے کہ اللہ ہی خلیفے بنایا کرتا ہے.یاد رکھو آدم کو خلیفہ بنایا تو کہا (البقرۃ :۳۱) فرشتوں نے اس پر اعتراض کر کے کیا خمیازہ اٹھایا.تم قرآن میں پڑھو جب فرشتوں کی یہ حالت ہے اور انہیںبھی (البقرۃ :۳۳) کہنا پڑا تو
تم مجھ پر اعتراض کرتے ہو.اپنا منہ دیکھ لو مجھے وہ لفظ خوب یاد ہیں کہ ایران میں پارلیمنٹ ہوگئی اور دستوری کا زمانہ ہے انہوں نے اس قسم کے الفاظ بول کر جھوٹ بولا بے ادبی کی.خدا تعالیٰ کی غیرت نے انہیں دستوری کے نتیجے ایران ہی میں دکھا دیئے.میں پھر کہتا ہوں وہ اب بھی توبہ کر لیں میں دوستوں کو کہتا ہوں (ھود :۳۰) میرا مولا مجھے سب کچھ دیتا ہے اگر وہ نہ چاہتا تو جب میں گھوڑے سے گرا تھا تو اس صدمہ سے مر جاتا مگر اسی نے میری حفاظت کی اور جہاں پچھلے سال مجھے بولنے کی طاقت نہ تھی آج خدا کے فضل سے میں اس سے بھی بلند آوازسے بول سکتا ہوں (الحمدللّٰہ علٰی ذٰلک.ایڈیٹر) پس ایسے خیالات کو چھوڑ دو.پھر جو اخباروں میں بعض مضامین دیتے ہو اللہ تعالیٰ کے آگے ڈرو ورنہ تم پر الزام قائم ہو گا.خوب یاد رکھو اور سن رکھو میری امانت دیانت کی حفاظت تم سے نہیں ہو سکتی اور کوئی بھی نہیں کر سکتا.کل ایک بیوی نے مجھے سو روپیہ دیا اس کے بیٹے نے ایک مصیبت سے مخلصی پائی اس نے نذر مانی تھی.مجھے وہ روپیہ دیا.کیا کوئی جان سکتا تھا میری بیوی میرے پاس بیٹھی تھی میں نے سمجھا کہ شاید اس کا دل للچایا ہو.میں نے اس دینے والی سے پوچھا کہ کہاں خرچ کریں وہ بولی کہ کسی اچھی جگہ خرچ کرو.میں نے وہ جمع کر کے گھر میں نہیں رکھے.میرے پاس تین قسم کی رقوم آتی ہیں کچھ کپڑے آتے ہیں یتامیٰ اور مساکین کے لئے اور ایسا ہی روپیہ بھی آتا ہے کوئی روپیہ دیتا ہے کہ جہاں آپ چاہیں خرچ کر دیں.ایک کہتا ہے جہاں میرے مردے کو ثواب پہنچے وہاں خرچ کر دو اور کچھ خیرات بھی آتی ہے.بعض لوگ مخصوص کر دیتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ وہ خدا تعالیٰ کے خاص منشا کے ماتحت ہوتا ہے کہ یہ تمہاری ذات کے لئے ہے ان تمام اموال میں سے یتامیٰ کے اموال کو تو میں (الانعام :۱۵۳) پر عمل کرنے کے لئے محمد علی صاحب کے حوالہ کر دیتا ہوں اور ایسا ہی ان کے کپڑے بھی.جو اموال میرے پاس آتے ہیں میرے حفاظت کرنے والوں کو تو میرے گوہ کی بھی خبر نہیں تو اموال کی کیا خبر ہو؟ (یہ سخت لفظ میں نے ایک خاص وجہ سے بولا ہے) پھر جو کپڑے ہوتے ہیں بعض وقت ان میں قیمتی کپڑے ہوتے ہیں میں نے ایک دفعہ اپنی بیوی کو کہا کہ ان کو بیچ کر اوسط درجہ کے کپڑے بنا دیا کرو تا کہ وہ زیادہ کے کام آسکیں.اس نے کہا کہ اگر میں خود لینا چاہوں تو میں نے اسے جواب دیا کہ ہرگز نہیں.اگر کوئی اور بیوی ہو جو ہماری رشتہ دار نہ ہو وہ
چاہے تو لے سکتی ہے.تو ایسے کپڑے بعض وقت ہم بیچ دیتے ہیں گو بہت ہی کم موقع ملتا ہے.مجھے یہاں شادیاں کرنی پڑتی ہیں اور وہ مسکینوں کی ہوتی ہیں ابھی آٹھ دس نکاح ان دنوں میں ہوئے ہیں اور بجز میری ایک نواسی کے سب مساکین تھے.ان کو کپڑے اور مختصر سے زیور دینے پڑتے ہیں ایسے اموال سے جو مساکین کے لئے آتے ہیں اسی قسم کی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں.میں یہ واقعات اپنی برأت کے لئے نہیں کہتا اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے میں تمہاری مدح ،مذمت ،انکار کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس لئے سناتا ہوں کہ تم میں سے کوئی بدگمانی کر کے گنہگار نہ ہووے.ایک عورت نے ایک مرتبہ کہا کہ کپڑوں کے کوٹھے بھر لئے ہیں کوئی حساب تو نہیں.مجھے خیال ہوا کہ ممکن ہے اس قسم کے وہم مردوں میں بھی ہوں ایسے لوگ اگر ہوں تو توبہ کر لیں ’’عشق است و ہزار بدگمانی‘‘ میں تمہارے روپیہ کا محتاج نہیں حضرت صاحب کے وقت میں بھی ایسے اموال میرے پاس آتے تھے اور میں لے لیتا تھا.میں تمہاری بھلائی کے لئے کہتا ہوں مجھے تم میں سے کسی کا خوف نہیں اور بالکل نہیں ہاں میں صرف خدا ہی کا خوف رکھتا ہوں.پس تم ایسی بدگمانی نہ کرو اور توبہ کرو.اگر ہمارا گناہ ہے ہمارے ذمہ رہنے دو اگر میں غلطی کرتا ہوں اس بڑھاپے اور اس عمر میں قرآن مجید نے نہیں سمجھایا تو پھر تم کیا سمجھائو گے؟ میری یہ حالت ہے کہ بیٹھتا ہوں تو پیر دکھی ہوتے ہیں کھڑا ہوتا ہوں تو محض اس نیت سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے تھے.میں نہیں جانتا میرا کتنا وقت ہے میں اس راہ سے ناواقف ہوں نحن اُمّۃٌ اُمِّیَّۃٌ لا نکتب لا نحسب.میں نے ملازمت بھی کی مگر اس میں بھی گھڑی نہیں رکھی.میں نے روٹی بھی نہیں کھائی اور اگر چائے کی پیالی بھی نہ آتی تو اس کا بھی محتاج نہیں تھا.تمہاری بھلائی کے جوش میں میں ان چیزوں کی پرواہ نہیں کرتا.مجھے کیا معلوم ہے کہ پھر کہنے کا موقع ملے گا یا نہیں موقع ہو تو توفیق ہو یا نہ ہو.اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ تم کو حق پہنچا دوں.پس میری سنو اور خدا کے لئے سنو! اسی کی بات ہے جو میں سناتا ہوں میری نہیں کہ .غرض تفرقہ نہ کرو
(اٰل عمران :۱۰۴).اللہ کا فضل یاد کرو جب کہ تم باہم اعدا ء تھے.نظارہ تفریق: اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تم باہم بھائی بھائی ہو گئے.تم خود غور کرو تم جو یہاں موجود ہو سب کے ذوق الگ سب کی طرز کلام اور طریق بیان جدا، شکلیں الگ اور زبانیں الگ ہیں اور تمہارے لباس ایک دوسرے سے نہیں ملتے ،پگڑیوں کے رنگ ان کے باندھنے کے طریق سب جدا جدا ہیں.اکبر کے زمانہ میں بڑی خوبصورت پگڑیاں باندھنے کا طریق تھا ایک پگڑی سیدھی سادھی نور دین کی سی تھی دربار میں اس سے کہا گیا کہ تم کو پگڑی باندھنی نہیں آتی؟ اس نے کہا کہ مجھے تو آتی ہے یہ باقی عورتوں سے بندھوا کر لائے ہیں اگر انہوں نے آپ باندھی ہیں تو پھر بندھوا کر دیکھ لو.چنانچہ جب ان کو حکم دیا گیا تو نہ باندھ سکے کیونکہ گھر میں تو بڑے تکلف اور آئینہ سامنے رکھ کر باندھا کرتے تھے.عورتوں سے مراد نفس ہی لے لو.غرض اس وقت بھی پگڑیوں کی بندش ان کے رنگ اور ململوں اور لمبائی چوڑائی سب باتوں میں فرق ہے.یہ اختلاف اور فرق دور تک چلتا ہے ایک خالق ہے ہم سب مخلوق ہیں پھر اختلاف ہے ایک مرد ہے ایک عورت دونوں کے کام الگ ہیں.ہر ایک کے اعضاء میں فرق ہے.باوجود اس اختلاف کے پھر وہ اتحاد چاہتے ہیں جب ان کا اختلاط ہوتا ہے تو پھر وہ کسی اور کے خواہشمند ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی بچہ ہو جاوے.ہمیں بھی خطوط آتے ہیں کہ دعائیں کرو کسی نے اپنے بچہ کا نام غلام مرزا رکھا مگر وہ زندہ نہ رہا.غرض اکیلا ہو کر بیوی چاہتا ہے اس کے آنے پر پھر اولاد چاہتا ہے پھر اولاد کی شادی پھر ان کی اولاد کی خواہش کرتا ہے.اختلاف ہے تو کتنا اتحاد ہے تو کس حد تک.یہ تمام اختلافات اللہ تعالیٰ کی ہستی کے دلائل ہیں خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (الرّوم :۲۳) فی الحقیقت اگر ایک ہی قسم کے چہرے ہوتے اور ایک ہی قسم کی آوازیں قدوقامت ہوتے تو کیسا دکھ اور مصیبت ہوتی دوست دشمن بیوی بہن میں تمیز نہ ہو سکتی.اختلاف مثمر ہونے کے لئے وحدت چاہتا ہے: پس اختلاف جہاں بہت ہی مفید ہے وہاں باوجود اختلاف کے وحدت کے نظام کو چاہتا ہے تب یہ نتیجہ خیز اور مثمر ہو سکتا ہے.میں دیکھتا ہوں ایک دوات ہے وہ آسٹریا،چائنا یا انگلینڈ یا امریکہ سے بن کر آتی ہے.پھر سیاہی اور
اس کے اجزا کو دیکھو جب تک باہم مل کر متحد نہیں ہو گئے اس سیاہی میں لکھنے اور نقش پذیر ہونے کی طاقت نہیں.پھر قلم ہے اس میں آجکل کے قلم کو مدنظر رکھ کر دو تین جزو ہیں کچھ لکڑی ہے کچھ لوہا ہے یہ اجزا اگر باہم نہ ملیں تو قلم نہیں بن سکتا.پھر قلم بھی ہو لیکن اگر سیاہی کے ساتھ اس کا تعلق نہ ہو تو کچھ فائدہ نہیں قلم کسی شخص کے ہاتھ میں ہو اور وہ ہاتھ اس کو اس دوات تک لے جاوے اور پھر اس سیاہی سے کاغذ پر کچھ لکھے کاغذ کے مختلف اجزا کو دیکھو اور غور کرو پھر لکھنے کے لئے ہاتھ کی جنبش اور آنکھ کی بصارت اور دماغ کی قوت متفکرہ سے کام نہ لیا جاوے تو کچھ بھی نہیں.اب تمام پراگندہ صورتوں پر غور کرو پھر ان کے اتحاد کو دیکھو وہ حالت منتشرہ میں کیا کچھ بھی مفید ہو سکتی تھیں؟ لیکن جب ان میں اتحاد اور اختلاط ہوا اور ایک مرکز پر جمع ہو گئیں تو اس سے کتابیں اور نہایت قیمتی تحریریں پیدا ہو گئیں.یہ مضمون بجائے خود بڑا وسیع مضمون ہے اور اس پر غور کر کے نہایت مختصر الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ نظام عالم کی رونق اختلاف سے ہے جب جب وہ اختلاف ایک مرکز پر متحد ہو.اپنے وجود پر غور کرو کس قدر مختلف چیزوں کا مجموعہ ہے لیکن ان مختلف چیز وں کا اجتماع کیساخوبصورت بن گیا ہے.اب تم سوچو کہ باوجودیکہ تمہارے رنگ وروپ تمہاری شکلیں، علوم، عقول، تعلیم، تربیت، سوسائٹی ، مطالعہ کی کتابیں اور خواہشیں جداجدا ہیں.پھر تم دیکھو کہ کیوں اکٹھے ہو کر باہم ایک جگہ جکڑے گئے.تناسخ والوں کو اس اختلاف نے غلطی میں ڈالا اور وہ اس اختلاف کو تناسخ کا نتیجہ سمجھ بیٹھے کاش وہ اس اختلاف کی حقیقت پر غور کرتے تو اس کثرت میں وحدت کا مزہ پاتے.یہ خوب یاد رکھو کہ کثرت میں وحدت کی ضرورت ہے جب تک وحدت نہ ہو کثرت مفید ہی نہیں ہو سکتی.دیکھو کلکتہ سے لے کر پشاور تک ایک شاہی سڑک ہے جس پر ریلیں دوڑتی ہیں.اب تم غور کرو کہ یہ مختلف قطعات زمین مختلف لوگوں کے قبضہ میں تھے ایک طاقت جس کو گورنمنٹ کہتے ہیں آئی اور اس نے ان قطعات کو مختلف مالکوں سے لے کر ایک کی ملکیت میں شامل کر دیا تب اس کثرت میں وحدت پیدا ہو گئی.پھر اینٹوں پتھروں اور مٹی کو مختلف جگہ سے لا کر اس پر جمع کیا بظاہر مختلف چیزیں جمع کر دیں مگر ان کو ایک سطح اور ایک ترتیب میں رکھ کر ایک سڑک کی شکل میں تبدیل کر دیا پھر لکڑی اور لوہے کو بچھا کر اور ایک خاص صورت سے انہیں ملا کر لائن بچھا دی اور سکۃ الحدید بن گئی پھر اس لائن پر گاڑیوں کو جمع
کیا جن میں مختلف عقلوں اور ہاتھوں کے ذریعہ مختلف چیزوں لکڑی ،لوہا،رنگ وغیرہ کو ایک خاص شکل میں بنایا گیا وہ اختلاف بجائے خود قائم رہ کر وحدت کا رنگ پیدا ہو گیا.پھرایک اور چیز جس کو انجن کہتے ہیں ان کے آگے لگا دیا پھر اس انجن میں آگ پانی کوئلہ رکھا گیا سب کی سب مختلف اور متضاد چیزیں تھیں مگر ایک خاص ترکیب سے ان کو ملایا تب ان سے بھاپ پیدا ہو کر حرکت کا موجب ہو گئی اب کلکتہ اور پشاور کے درمیان ریل گاڑی دوڑنے لگی.جو فوائد اور آرام اس سے مل رہے ہیں وہ ظاہر ہیں مگر یہ سب کچھ کثرت فی الوحدت کا نتیجہ ہے.اسی طرح پر میں تمہیں کہتا ہوں کہ اختلاف کو رہنے دو مگر اس اختلاف کو وحدت کے مرکز کے نیچے لائوکہ یہ مفید اور کار آمد شیء بن جاوے.ہمارے لوگ اختلاف کو تو ترقی دیتے ہیں مگر مرکز وحدت سے الگ ہو کر اس صورت میں یہ مفید نہیں بلکہ مضر ہوگا.انسان کی ابتدائی حالت کے علوم : سنو! میں تمہیں ایک نصیحت کرتا ہوں قرآن کریم میں لکھا ہے.(الدّھر :۲) انسان کی ہستی ہی کیا تھی کچھ بھی نہ تھا.اللہ تعالیٰ نے ایک قطرہ سے ہاں ایک تھوڑی سی چیز سے بنا کر سمیع وبصیر بنا دیا ہے میں نے جب اس پر غور کیا ہے تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرہ علوم پہلے ہی بتا دیئے ہیں.ابھی کہتے کہتے معلوم ہوا کہ تیرہ نہیں بلکہ ۱۴ علوم نہ ماں سکھاتی ہے نہ باپ نہ کوئی اور ان میں سے بعض علوم یہ ہیں :.اوّل دودھ کو چوسنے اور نگلنے کا علم ہے غور کرو کہ اگر کوئی بچے کو یہ علم سکھاتا تو کس طرح اور کس بولی میں سکھاتا.(۲) پھر ایک اور علم ہے جو بدیہات کہلاتی ہیں.(۳) بچہ کل اور جزو کو سمجھتا ہے.ماں ایک چھاتی سے دودھ پلا رہی ہو اور ابھی اس میں باقی ہو جب وہ دوسری چھاتی پر لے جانا چاہے تو روتا ہے گویا کل اور جزو کو سمجھتا ہے.ایسا ہی بچوں کو مٹھائی دے کر دیکھا ہے اگر سارے ٹکڑے میں سے آدھی کاٹ لی جاوے تو رو پڑتا ہے.(۴) طول اور عرض کو بھی سمجھتا ہے.(۵) اس بات کو سمجھتا ہے کہ دو مکان میں ایک جسم نہیں ہو سکتا.ایک لڑکا اگر آجاوے تو اسے
دھکا دیتا ہے اور ایک پستان جو آپ پی رہا ہے دوسرے کو نہیں لینے دیتا.(۶) دو ضدوں کو خوب سمجھتا ہے کھڑا ہونے کو جی نہ چاہے تو نہیں اٹھتا‘ بیٹھنے کو نہ چاہے تو کھڑا ہو جائے گا.(۷) صدق وکذب کو خوب سمجھتا ہے مٹھائی نہ دو اور یونہی کہہ دو کہ تمہارے ہاتھ میں ہے کبھی نہ مانے گا.(۸،۹) مکان اور زمان کو بھی سمجھتا ہے.(۱۰) سمعیات کی سچائی کو جانتا ہے جو تمہیں کہتے سنتا ہے اسی کو یقین کر کے ان چیزوں کو اسی نام سے پکارتا ہے جس سے تم پکارتے ہو.(۱۱) یہ بھی جانتا ہے کہ علم غیب نہیں.(۱۲) یہ بھی مانتے ہیں کہ فعل بدوں فاعل کے نہیں ہوتا.غرض اس قسم کے بہت سے علوم فطرتاً دیئے جاتے ہیں.پس تم اگر ان فطرتی علوم سے کام لو تو اللہ تعالیٰ پھر نفس مطہر دے کر خود قرآن مجید سکھا دیتا ہے.غرض تم اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو یاد کرو کہ تم باہم اعداء تھے اس نے تمہیں بھائی بنا دیا اس اخوت کی قدر کرو اور سچے دل سے قدر کرو.ہمارے اصول: پس میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ ہمارے اصول مشکل نہیں ہیں بلکہ بہت آسان ہیں اول ایمان باللہ.ایمان باللہ کیا چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ کو تمام صفات کاملہ سے موصوف اور تمام محامد اور اسماء حسنیٰ کا مجموعہ اور مسمّیٰ اور تمام بدیوں اور نقائص سے منزّہ یقین کرنا ہے اور اللہ کے سوا کسی وجود اور ہستی سے امید وبیم نہ رکھنا اور کسی کو اس کاندّ اور شریک نہ ماننا.وہ اپنی ذات میں یکتا‘ اپنی صفات میں بے ہمتا‘ اپنے اسماء اور افعال میں (الشورٰی:۱۲) ہے.پھر ملائکہ پر ایمان ضروری ہے جو تمام نیک تحریکوں کے محرک ہیں اور ان پر ایمان لانے کی یہی غرض ہے کہ انسان ان پاک تحریکوں پر عمل کرے.ایمان کے ارکان: یہ ملائکہ نزول بھی کرتے ہیں اور ان پاک بندوں پر جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھاتے ہیں اور استقامت کے درجہ پر پہنچتے
ہیں ملائکہ کا نزول ہوتا ہے یہ قرآن مجید سے ثابت ہے.پھر اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے پھر اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وقتاً فوقتاً دنیا کی اصلاح اور بھلائی کے لئے اپنے پاک نبیوں کو بھیجا اور ہم ان تمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے یا نہیں اور ان انبیاء کی بعثت ونبوت میں ہم کوئی فرق نہیں کرتے.اس پاک گروہ نے خدا کا کلام مخلوق کو پہنچایا.ہم اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ تمام نبوتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئیں بلکہ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں اور بصیرت اور شرح صدر کے ساتھ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف تمام نبوتوں کے جامع اور خاتم تھے بلکہ میں کہتا ہوں کہ آپ خاتم النبیین، خاتم الرسل اور خاتم کمالات انسانی تھے.اب آپ کے بعد کوئی شخص آپ کی نبوت اور اتباع میں فنا ہوئے بغیر کوئی فیض نہیں پا سکتا اور کوئی نبوت موثر اور مستند نہیں ہو سکتیجس پر نبوۃ محمدیہ کی مہر نہ ہو.سب نبی برحق ہیں.پھر تقدیر کا مسئلہ ہے یہ حق ہے جزا وسزا حق، حشر نشر، پل صراط، جنت ونارسب حق ہیں، یہ عقائد ہیں.اعمال : اور عقائد کے بعد اعمال ہیں کیونکہ زندہ اور مثمر ایمان وہی ہے جس کے ساتھ اعمال صالحہ ہوں.ان میں نماز ہے‘ زکوٰۃ ہے‘ حج ہے‘ روزہ ہے‘ اخلاق فاضلہ ہیں اور رذائل سے بچنا ہے.یہ سب فرض ہیں.نماز کی سترہ رکعت پانچ اوقات میں فرض ہیں اور وتر کو فرض اور سنن کے درمیان رکھیں تو یہ ۲۰ رکعت ہوتی ہیں اور ۲۰ رکعت اس کی متمم ہیں اور پھر خدا توفیق دے تو ۴۰ یا ۶۰ رکعت تک نوبت پہنچتی ہے.ایک مہینے کے روزے فرض ہیں اور استطاعت ہونے اور راستہ میں امن کی صورت میں عمر بھر میں ایک بار حج فرض ہے اور زکوٰۃ فرض ہے.اخلاق فاضلہ کا حاصل کرنا اور رذائل کا چھوڑنا فرض ہے یہ اعمال ہیں.پھر یاد رکھو قرآن مجید کامل کتاب ہے (حٰمٓ السجدۃ :۴۳) اس کی شان ہے باطل اس پر اثر نہیں کر سکتا.جو لوگ آجکل کے علوم جدید اور سائنس سے ڈرتے ہیں انہوں نے قرآن مجید کی عظمت اور شوکت کو سمجھا ہی نہیں قرآن مجید پر باطل کا اثر نہیں ہو سکتا.وہ تمام صداقتوں کی جامع کتاب ہے اور خاتم الکتب ہے.اس کے فہم کے
لئے اوّل وہ کتاب خود ذریعہ ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل درآمد ہے پھر احادیث ہیں پھر لغت ہے پھر اللہ تعالیٰ کی حضور سے مدد اور دعا ذرائع ہیں.یہ میرے اصول ہیں یہاں رہو تب اور چلے جائیں تب ان کو یاد رکھو.ہم صحابہ کرام کو اور تابعین عظام کو رضوان اللہ علیہم اجمعین ابوبکرؓ وعمر ؓ سے لے کر معاویہ مغیرہ تک اویس قرنی وحسن بصری سے لے کر ابراہیم نخعی ونافع عکرمہ تک اور اہل بیت میں خدیجہؓ وعائشہؓ سے لے کر علی المرتضیٰؓ اور تمام اہل بیت علیہم السلام کو اپنا پیارا یقین کرتے ہیں.ہم آئمہ حدیث فقہ اور تصوف کی اتباع ضروری سمجھتے ہیں اور انہیں امام سمجھتے ہیں اس لئے امام اعظم، شافعی، مالک، احمد حنبل، امام بخاری، مسلم، ابو دائود، ترمذی، نسائی اور امام محمد رحمہم اللہ علیہم اجمعین کی جائز تکریم کرتے ہیں.اسی طرح تصوف میں حضرت سید عبدالقادر جیلانی، خواجہ معین الدین چشتی، قطب الدین بختیار کاکی، شیخ شہاب الدین سہروردی، محبوب الٰہی سلطان نظام الدین اولیا، ابن عم حضرت فرید الدین گنج شکر، چراغ دہلوی، خواجہ نقشبند، خواجہ احمد سرہندی،ز کریا ملتانی، شاہ بہاء الحق ملتانی رحمہم اللہ اجمعین کو دل سے پیار کرتا ہوں اور ایسا ہی ابن حزم، ابن تیمیہ اور ابن حجر اور ابن ہشام، ذہبی اور شوکانی کو بھی محبت کرتا ہوں.یہ لوگ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں اور ہادیوں میں گزرے ہیں.پھر اس قریب زمانہ میں شاہ ولی اللہ صاحب کو میں ممتاز انسان یقین کرتا ہوں اور سید احمد بریلوی کو خدا کے مخلص بندوں سے سمجھتا ہوں اور حضرت مسیح موعود اور مہدی بھی آچکے جن کا خدا نے اپنے فضل سے مجھ کو خلیفہ بنایا (الجمعۃ :۵).تاریخ : اب جبکہ ہمارے عقائد آپ کو معلوم ہو گئے ہیں ایک اور مسئلہ تمہیں بتاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ تاریخ میں جھوٹ اور سچ میں فرق کرنا ہر شخص کا کام نہیں ہے.اب تازہ واقعہ تمہارے سامنے موجود ہے طرابلس کی جنگ کی خبریں آرہی ہیں اور وہ شائع ہوتی ہیں.اب اگر کوئی شخص ان اخبارات جنگ سے کوئی تاریخ مرتب کرے تو تم ہی بتائو کہ اس کتاب کی حقیقت کیا ہو گی؟ صوفیوں میں سید عبدالقادر، امام قشیری اور صاحب عوارف کی باتیں آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہیں مگر صاحب فتوحات کی تصانیف مشکل ہیں‘ خصوص اور منازل السائرین آسان نہیں.پس تم کو میں پھر
کہتا ہوں پھر کہتا ہوں پھر کہتا ہوں اختلافات کو مٹا دو توبہ کر لو.جس کے کان ہوں سن لے جس قدر غلطی کسی سے ہوئی ہے اس سے توبہ کرلو.اس میں تمھارا بھلا ہے.آج میں نے عورتوں کے درس میں اس نکتہ کو سنایا ہے اور میں اس تقریر کو ختم نہیں کرسکتا جب تک تمہیں نہ سنا لوں.بہت سی بستیاں آباد تھیں ان بستی والوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی آخر اللہ تعالیٰ کے عذاب نے ان کا نام و نشان مٹا دیا.انہوں نے اپنی کرتوتوں کا بدلہ پایا.واعظ خانہ: یہ بات کیوں سنائی ہے؟کان والو! سن لو! عقل والو! سمجھ لو ! اگر میری آواز تم تک نہیں پہنچتی تو کہو میں اور اونچا کروں.سنو ! ہر شخص جو بڑا بنایا جاتا ہے اس کے پڑوس میں اجڑا ہوا کوئی گھر ضرور ہوتا ہے.ہر شہر میں ، ہر بستی میں اس کے نظائر موجود ہیں.میں ایک بستی میں رہتا تھا وہاں کا ایک امیر مجھ سے حد درجہ کی دشمنی رکھتا تھا.وہ میرے قتل کو چاہتا تو میں بھی اس کی زندگی کا خواہاں تھا.غرض میرے ساتھ اس کو سخت عداوت تھی.ایک دن میرے دل میں آیا کہ اتنے بڑے آدمی کو کون نصیحت کرسکتا ہے؟ یہ سوچ کر میں باوجود عداوت کے اس کے گھر چلا گیا.میں نے بڑی جرأت کی‘ وہ اس وقت کچہری کررہا تھامیں بیٹھ گیا.وہ حکم احکام لکھتا رہا.جوں جوں جگہ خالی ہوتی گئی میں بھی آگے ہوتا گیا.یہاں تک کہ سب لوگ چلے گئے اور صرف وہ اور میں اور اس کا میرمنشی اور چند پہرہ کے سپاہی رہ گئے.پھر اس نے میری طرف مخاطب ہوکر کہا کہ آپ کس طرح تشریف لائے ہیں؟ میں نے کہا بڑا ضروری کام ہے مگر تنہائی میں کہنا چاہتا ہوں.جب میں نے یہ کہا تو اس کا میر منشی جو میرا معتقد تھا فوراً چلا گیا اور اس کے پہرہ کے ایک قریبی سپاہی کے سوا باقی سپاہی بھی الگ ہوگئے.تب میں نے اس کو کہا کہ جو بڑے آدمی ہوتے ہیں ان کے لئے ایک واعظ ہوتا ہے کیا آپ کے لئے بھی کوئی ہے؟ کہنے لگا.مولوی صاحب (اسی دن مولوی کہا) ذرا کھول کر بتائو.اس پر میں نے کہاکہ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ جو بڑے آدمی ہوتے ہیں ان کے پڑوس میں کوئی نہ کوئی اجڑا ہوا گھر ہوتا ہے جو اس کو نصیحت کرتا رہتا ہے کہ سنبھل کر چلو ایسا نہ ہو تمہیں بھی عذاب میں گرفتار ہونا پڑے.یہ سن کر مجھے کہا کہ مولوی صاحب آگے آئو آگے جگہ تو نہ تھی ایک کھڑکی تھی جس کے آگے وہ بیٹھا ہوا تھا.میں گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا.پھر کہا ذرا اور آگے ہو جائو.آخر میں اور آگے ہوا.اس نے کہا میری گدی تو وہ پڑی ہے مگر میں کبھی وہاں نہیں بیٹھا یہاں بیٹھتا ہوں مگرآج مجھے سمجھ آئی ہے کہ میں یہاں کیوں بیٹھتا ہوں.
ہوا تھا.میں گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا.پھر کہا ذرا اور آگے ہو جائو.آخر میں اور آگے ہوا.اس نے کہا میری گدی تو وہ پڑی ہے مگر میں کبھی وہاں نہیں بیٹھا یہاں بیٹھتا ہوں مگرآج مجھے سمجھ آئی ہے کہ میں یہاں کیوں بیٹھتا ہوں.سامنے ایک محراب والا دروازہ تھا مجھے کہنے لگا کہ کیا سارے شہر میں اتنا بڑا دروازہ آپ نے دیکھا ہے میں نے کہا کہ نہیں.پھر اس نے کہا کہ اس گھر کا مالک اتنا بڑا آدمی تھا کہ جس قسم کا چھاتہ یہاں کا رئیس رکھتا ہے صرف وہ رکھ سکتا تھا اور ہم ولایت کی سیاہ چھتری بھی رئیس کے سامنے لگا کر نہیں جا سکتے.اب اس کی بیوی میرے گھر میں برتن دھونے پر ملازم ہے.میں نے جب اس نظارہ کو دیکھا تو وجد آگیا.میں نے کہا میں اب جاتا ہوں اور اس جوش میں میں وہاں کے رئیس کے پاس چلا گیا وہاں بھی کچہری ہو رہی تھی جب اس کے کھانے کا وقت آیا سب چلے گئے.میں بیٹھا رہا.اس نے بھی دربار برخاست کیا مگر میں پھر بھی بیٹھا رہا.میںیہ قصہ نہیں سناتا میں جس غرض کے لئے سناتا ہوں وہی غرض اب بھی ہے.میرے گھر میں اتنی روٹی نہیں پکتی جو تم سب کا پیٹ بھروں.اس لئے میں تم کو یہ دعوت کرتا ہوں اور یہ باتیں سناتا ہوں کہ تمہیں فائدہ پہنچے.غرض اس رئیس کو بھی وہی تقریر سنائی اس نے کہا میرے سامنے آئو.اس کے سامنے پہاڑ تھا اس نے کہا کہ یہاں ایک شہر تھا جو پہاڑ کو کرید کر بنایا گیا تھا.اس کا نام دھارانگر تھا.ہمارے بزرگ اس شہر کے رئیس کے ماتحت تھے خدا تعالیٰ نے یہ واعظ میرے سامنے رکھا ہے اور یہ مجھے بتاتا رہتا ہے.وہ مشرق میں تھا پھر جنوب کی طرف رخ کیا اور وہاں ایک قلعہ دکھایا اور کہا کہ یہ قلعہ بڑے زبردست بادشاہ کا قلعہ ہے اور یہ اس غرض کے لئے ہے کہ کوئی وبائی بیماری ہو تو وہاں جا رہتے ہیں.اس نے اس کے متعلق تاریخی واقعہ سنایا کہ ظلم کے سبب وہ سب ہلاک ہو گئے ہیں.میں وہاں سے اٹھ کر اپنی جگہ گیا مگر وہ رئیس وہاں رہا.میں نے ادب کے خلاف سمجھا کہ یہ اٹھا نہیں اور میں اپنی جگہ پر آگیا ہوں پر اس نے خیال نہ کیا اور کہا کہ جہاں ہم کو کمر بند ریاست دیا جاتا ہے اور جہاں گدی نشینی ہوتی ہے وہ ان بادشاہوں کا ہے جن کی غلامی پر فخر کرتے تھے اور آج ان کی نسل کو کھانا نہیں ملتا.اس نے کہا آج یہ نکتہ سمجھ میں آیا کہ یہ ہمارے سمجھانے کے لئے ہے.میں تم کو سمجھاتا ہوں کہ ہمارے گائوں میں
بھی اجڑے ہوئے مکان ہیں ان سے عبرت پکڑو.ہمیں بھی کوچ کرنا پڑے گا.میرے پاس سیالکوٹ کا ایک شخص بیٹھا ہے میں وہاں کی تاریخ خوب جانتا ہوں وہ سالباہن کہاں ہے اور اس کے بیوی بچے کہاں؟ کیا اتنا بڑا ڈھیر خاک کا آسانی سے بن گیا ہو گا.پس تم اپنی غلطیوں سے اپنے آپ کو برباد نہ کرو لوگوں نے تو تمہارے خلاف کفر کے فتوے لگا دیئے لیکن اگر تم نے خدا تعالی کو ناراض کر لیا تو پھر تو کچھ بھی نہ رہے گا.نمک سے کھانا ٹھیک ہوتا ہے لیکن اگر نمک ہی گندہ ہو جاوے تو کھانا کہاں اچھا رہے گا.تم میری باتیں سننے آئے ہو اس لئے میں جو تمہارے لئے مفید سمجھتا ہوں کہتا ہوں تمہیں خواہ پسند آوے یا نہ آوے؟ حوالہ بخدا کرتا ہوں میں کہاں تک کہتا رہوں گا جو سنتے ہیں یاد کر لیں اور جو نہیں سنتے ان کو پہنچا دیں کہ اللہ تعالیٰ کو ناراض مت کرو جو اس کو ناراض کرو گے تو پھر کہیں ٹھکانا نہ ہو گا.ہر شخص اس وعظ کو یاد رکھے اس کے پاس گھرانے اور مکان اجڑے ہوئے ہوتے ہیں میں نے صحت اور بیماری کی حالت بھی دیکھی ہے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو کہتے تھے کہ ہمارے پاس روپیہ آوے تو ہم یوں کریں ‘روپیہ آتا ہے مگر وہ نہیں کر سکتے اس لئے جو کرنا ہے آج کر لو.میں نے ان عورتوں کو درس میں سنایا کہ عورتوں میں عادت ہوتی ہے جو غیبت کرتی ہیں دوسروں پر تہمت لگانے کی عادت رکھتی ہیں اگر خاوند کسی حسین جوان عورت سے للہ فی ا للہ بات بھی کرے تو عورت اس پر بدظنی کرتی ہے.سوکن اگر ہو تو اسے نفرت سے دیکھتی ہیں.میں نے ان کو کہا کہ ان برائیوں کو اپنے اندر رکھ کر مت سمجھو کہ احمدی ہو گئی ہیں.تمہیں بھی سناتا ہوں کہ احمدی صرف زبانوں سے کہہ دینے کا نام نہیں.خدا کی کتاب پر عمل درآمد کرو تا کہ وہ راضی ہو.میں نے مریدوں میں جاں نثار بھی دیکھے ہیں جنہوں نے میری بیماری میں دعا کی کہ ہم مر جاویں اور یہ زندہ رہے.بعض ایسے بھی ہیں کہ کہتے کہتے تھک گیا وہ نہیں سنتے.میں ہمیشہ ایسی نصیحت کیا کرتا ہوں کہ گویا رخصتی نصیحت ہے.مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ کسی کو پسند آتی ہے یا نہیں میں تمہاری پسند کے لئے نہیں کہتا.بلکہ خدا کے لئے کہتا ہوں اگر کہو کہ سائنس کے مضامین میرے پاس نہیں تو میں ان کی قدر نہیں کرتا.اب قبل اس کے کہ میں تمہیں رخصت کروں یہ نصیحت کرتا ہوں.
ایک قومی بیماری کا علاج: کہ ایک بدی ہے جو لوگوں میں عام طور پر پھیلی ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی بدی کرتے ہیں تو اسے تقدیر کے حوالے کر دیتے ہیں اور اگر نیکی کرتے ہیں تو اس کو اپنی خوبی جتاتے ہیں.اس بیماری میں طبیب بہت مبتلا ہوتے ہیں.کوئی مریض اگر بچ جاوے تو کہتے ہیں ہم نے ایسی تشخیص کی اور ایسا نسخہ تجویز کیا کہ اکسیر کی طرح مفید ثابت ہوا.وہاں وہ شافی مطلق بن جاتے ہیں لیکن اگر مریض مر جاوے تو پھر کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو بڑی کوشش کی مگر کیا کریں تقدیر ہی ایسی تھی.یہ قرآن مجید کے خلاف ہے اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے اس مسئلہ پر تدبر نہ کرنے سے غلطی لگی ہے ایسی بارہ آیتیں ہیں جن میں قرآن مجید نے فیصلہ کر دیا ہے.شرعی اور کَونی امور: یاد رکھو دو قسم کے امور ہوتے ہیں.ایک کونی ہوتے ہیں ان کونی امور میں انسان کا دخل وتصرف کچھ نہیں ہوتا اور نہ ان امور کے لئے وہ مکلف ہے اور نہ جزاوسزا کے لئے مامور جو امور شرعی ہوتے ہیں وہ انسان کے دخل وتصرف کے نیچے ہوتے ہیں اس لئے وہ ان کے کرنے یا نہ کرنے پر جزا وسزا کا مستحق ہوتا ہے اس کی چند مثالیں قرآن مجید سے سن لو.قرآن مجید میں ایک لفظ قضٰی ہے یہ ایک تو کونی رنگ میں بولا گیا ہے جیسے فرمایا (حٰمٓ السجدۃ :۱۳) اب آسمانوں کا دو وقتوں میں بن جانا.اس سے انسان کو کوئی تعلق نہیں یہ اللہ تعالیٰ کے امر کے نیچے بن گیا پھر یہی لفظ دوسری جگہ شرعی رنگ میں فرمایا.(بنی اسرائیل :۲۴) یہاں حکم دیا کہ تم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اب یہ فعل انسان کے دخل وتصرف کے نیچے ہے اور اگر وہ اس کی تعمیل نہ کرے گا تو مستوجب سزا ہو گا.اسی طرح پر ایک کتبَکا لفظ ہے جو (المجادلۃ :۲۲) اس میں کونی کیفیت ہے(البقرۃ : ۱۸۴) میں شرعی صورت ہے اسی طرح پراتیان کا لفظ ہے (النساء :۵۵) کونی رنگ رکھتا ہے اور (الحشر:۸) میں شرعی حالت ہے اسی طرح ارسل کا لفظ ہے (فاطر:۱۰)
میں تو کونی ہے اور (الصف :۱۰) میں شرعی ہے اور (القصص:۱۳) میں حرمت کونی ہے اور (النساء :۲۴) میں شرعی ہے اسی طرح کلمہ کا لفظ ہے ( یونس :۳۴) میں کونی ہے (البقرۃ :۱۲۵) شرعی ہے.اسی طرح پر ارادہ کا لفظ ہے ایک جگہ فرمایا (ھود:۱۰۸) دوسری جگہ شرعی رنگ میں (البقرۃ :۱۸۶) فرمایا ہے.غرض جب تک انسان ان الفاظ کے استعمال میں تفرقہ اور امتیاز نہیں کرتا وہ غلطی کھاتا ہے اور حدود اللہ کو توڑ کر بھی اپنے آپ کو بری ٹھہرا کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیتا ہے یہ سخت غلطی اور گستاخی ہے اس کو چھوڑ دو اور توبہ کرو.اب میں اپنی تقریر کو اس خیال پر کہ نماز کا وقت تنگ نہ ہو جاوے اور کبھی اس خیال پر کہ تم میں سے کوئی اکتا نہ جاوے اور کبھی اس لحاظ سے کہ کوئی دوسرا نہ کہے کہ میرا وقت لے لیا ختم کرتا ہوں.میں نے تمہیں جو کچھ کہا ہے تمہاری بھلائی کے لئے کہا ہے.تم میں بعض نوجوان بچے ہیں جو کہتے ہیں کہ زبان کا لائسنس لینے کا حکم نہیں.میں نے کہا اخباروں کے لٹریچر کو بدل دو اور کہا کہ دوسرے مذہب کے متعلق اپنی تحریروں کو نرم کرو.تو کہا کہ آہن باہن تواں کوفتن.میں نے کہا کہ دھیمی چال چلو.مگر اب سرکاری قانون نے ان سے وہی کرایا جو میں قانون سے پہلے چاہتا تھا.اللہ تعالیٰ مغفرت کرے مولوی عبدالکریم کو.ایک مرتبہ کہا کہ نوردین بہت نرم لکھتا ہے حضرت صاحب نے فرمایا ہم بھی ان کی نرمی پر حیران ہیں.میں مانتا ہوں کہ فطرتیں الگ الگ ہیں بہر حال تم ہماری بات کو سنو اور عاقبت اندیشی سے کام لو.میں تم کو وصیت کرتا ہوں اوصیک بتقوی اللّٰہ.تقویٰ اللہ اختیار کرو.میں اسی کو وصیت کرتا ہوں متقی بن جائو گے تو دنیا میں بامراد اور کامیاب ہو جائو گے اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا.تم کو ہر قسم کی تنگیوں سے نجات دے گا.(الطلاق :۴) تم کو رزق ملے گا.تمہارے دشمن ہلاک ہوں گے اور بالاخر علوم حقہ تم پر کھولے جاویں گے.اللہ تعالی کے حضور بہت استغفار کرو تا کہ گناہوں کے برے نتائج سے تم محفوظ رہو اور آئندہ گناہوں کے جذبات سے دبا دیئے جاویں.استغفار بہت ضروری چیز ہے اور انبیاء کا اجماعی مسئلہ ہے.خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرو جو اس کے دروازے کو کھٹکھٹاتا ہے اس پر
کھولا جاتا ہے.تم میں سے بعض کمزور ہیں قوت فیصلہ نہیں رکھتے اور تاب مقابلہ ان میں نہیں.انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور گر جائیں اور بہت دعائیں کریں الحمد شریف پڑھ کر دعا کریں.الحمد شریف‘ درود شریف‘ استغفار اور لاحول کثرت سے پڑھا کرو.میرا اعتقاد ہے لیکچر دینے میں‘ کلام کرنے میں مسائل کا جواب دینے میں دعائوں سے کام لو اور الحمد شریف کو ضرور پڑھو تم اس کی عادت ڈالو نامردی اور ناکامی کو دیکھو گے ہی نہیں.تمہارا کام دعا کرنا ہو اور سب سے ضروری مسئلہ لا الٰہ الا اللّٰہ پر ایمان رکھو.بندہ کمزور ہے وہ اللہ ہر آن میں تمہیں کروڑوں نعمتیں عطا فرماتا ہے.پھر ایک اور ضروری مسئلہ کہہ کر ختم کر دیتا ہوں.ہمارا سردار بھی اور ہادی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.غور کرو انہوں نے کس طرح دین پھیلایااور اگر وہ بھی ہماری طرح ہوتے تو یہ دین ہم تک نہ آتا.آپ کی ان مشقتوں میں سے جو تبلیغ دین کے لئے اٹھائیں ایک ادنیٰ سی بات ہے کہ طائف میں عبد یا لیل کے پاس گئے اور اس کو خدا کا کلام سنانا چاہا.اس نے کہا کہ میں اوروں کو بلا لوں یہ کہہ کر وہ گیا اور تمام لچوں اور شہدوں کو جمع کر کے لے آیا.ان سب حرامزادوں کے ہاتھ میں پتھر تھے.انہیں کہا کہ جاتا ہے لو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں ۱۲ کوس تک بھاگتا گیا اور مجھے نہیں معلوم کدھر جاتا ہوں سر سے لے کر پائوں تک کے تلوے تک زخمی اور لہولہان ہو گئے.ایک فرشتہ نے اس حالت میں کہا کہ میں پہاڑ کا ملک ہوں اگر حکم ہو تو ان پر پہاڑ ڈال دوں.آپؐ نے فرمایا نہیں ان کی اولاد اچھی ہو جائے گی.یہ ناواقف لوگ ہیں انہوں نے مقابلہ کیا ہے.تمہارا دل بھر نہیں آتا یہ ادنیٰ سی مشقت ہے جو انہوں نے تبلیغ دین کے لئے اٹھائی.پس کثرت سے ایسے ہادی پر درود شریف پڑھو آپ کے حسن ،احسان، بردباری اور مصائب کو دیکھ کر جو اس دین کے پہنچانے میں اٹھائے درود شریف پڑھ کہ آپ کے مدارج بلندہوںاور آپ کو کامیابیاں نصیب ہوں.پس اپنے گناہوں سے استغفار کرو ‘باہم محبت بڑھائو‘ بغض چھوڑدو.جو لوگ اس سلسلہ میںداخل ہیںاور انہوں نے خدا کے فضل سے الہام کا فیض پایا ہے وہ اس فیض کی قدر کریں‘ خرمستیاں چھوڑ دیں ایسا نہ ہو یہ نصیحت ان کے لئے وبال جان ہو جاوے.خدا سے ڈرو کہ اس سے ڈرنے والے ضائع نہیں ہوتے.۲؎ ٭ … ٭ … ٭ ۱؎ الحکم ۱۴؍جنوری ۱۹۱۲ء صفحہ ۳تا ۶ ۲؎ الحکم ۲۱جنوری ۱۹۱۲ء صفحہ ۳ تا ۹
عمارتوں کی تعمیر کی غرض و غایت {تقریر فرمودہ ۱۵؍ جون۱۹۱۲ء ۶ بجے شام بتقریب سنگِ بنیادمکان محترم شیخ رحمت اللہ صاحب بمقام لاہور} (بعد اصلاح حضرت خلیفۃ المسیح ؓ شائع کی جاتی ہے.ایڈیٹر) اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ. (التوبۃ:۱۰۹) تاریخ عالم کا ابتدا معلوم نہیں : عمارتیں دنیا میں بہت بن رہی ہیں ، بنتی رہی ہیں اور بنتی رہیں گی اور اس قدر عرصہ سے بنتی آئی ہیں کہ میرے نزدیک اس پر زمانہ دراز گزر گیا ہے.اتنا بڑا زمانہ کہ اگر ارب ، کھرب، سنکھ مہاں سنکھ بھی کوئی تجویز کرے اور اس کو سنکھ مہاں سنکھ کے غیر نہایت عدد سے ضرب دے پھر بھی وہ اس وقت تو احمق و نادان ہے جو تجویز کرے کہ دنیا کب سے آباد ہے.اللہ تعالیٰ ہی اس حقیقت اور زمانہ کو سمجھتا ہے.تورات میں بھی تاریخ لکھی ہے.ویدوں سے بھی تاریخ کا پتا دیا جاتا ہے.زندوستا اور گاتھ سے بھی زمانہ کی تاریخ ظاہر ہوتی ہے.دساتیر میں تاریخ عالم ہے مگر قربان جائوں اس کامل کتاب قرآن کریم کے جس نے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی حد بندی نہیں کی.قرآن مجید نے نہیں بتایا کہ دنیا کب سے ہے اور یہ سچی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ربّ، رحمن، رحیم، داتا ، بخشنہار ہے.اس کی کوئی حد مقرر نہیں کہ اس قدر عرصہ سے ہے.پس قرآن کریم کو پڑھ کر اور سمجھ کر میرا ایمان یہی ہے کہ معلوم نہیں کہ دنیا کب سے قائم ہوئی ہے؟ میں اس کتاب پر دل و جان سے قربان ہوں جس نے ہر امر میں ایسی راہ بتائی ہے جو نہایت محفوظ اور مامون ہے اور اس پر کوئی زد اور اعتراض ہو نہیں سکتا.شیخ صاحب سے حضرت اقدسؑ کا وعدہ : پس جب ہمیں قطعاً معلوم نہیں کہ دنیاکب سے ہے تو یہ امر صاف ہے کہ
کسی غیر معلوم زمانہ دراز سے عمارتیں بن رہی ہیں.یہ کوئی نئی بات نہیں اس کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں.میرے آقا ، میرے محسن (حضرت مسیح موعودؑ) نے شیخ صاحب (شیخ رحمت اللہ صاحب) سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کی عمارت کی بنیاد اپنے ہاتھ سے رکھیںگے.اللہ تعالیٰ کا منشاء ایسا ہی ہوا کہ آپؑ کے اس وعدہ کی تعمیل آپؑ کا ایک خادم کرے.شیخ صاحب نے لکھا کہ تم آئو.میں بیمار ہوں اور بعض اعضاء میںدرد کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے مگر میرے دل میں یہ جوش ہے کہ اپنے پیارے کے منہ سے نکلی ہوئی بات پوری کرنی چاہتا ہوں.مجھے رسومات اور بدعات سے نفرت ہے اور سنت سے محبت ہے.آج نہیں بچپن سے میری فطرت میں یہ ایک جوش ہے کہ وحدہ لا شریک کا فدا ہوں اور شرک سے کلی بیزار ہوں اور ایسے امور سے نفرت کرتا ہوں جن میں کوئی رسم و بدعت ہو.خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھ پر کوئی زمانہ ایسا نہیں آیا کہ میں نے شرک و بدعت کو پسند کیا ہو.غرض عمارات جیسا کہ میں نے کہا لا انتہا زمانہ سے بنتی چلی آئی ہیں اور بنتی چلی جائیں گی.لاہور ایک ایسا شہر ہے کہ بہت پرانی تاریخ میں اس کا پتا ملتا ہے.سفینۃ الاولیاء میں دارا شکوہ کا قول میں نے پڑھا ہے کہ تیس ہزار قرآن کریم کے حافظ اس وقت یہاں تھے جب وہ یہاں اترے ہوئے تھے.یہ لمبا زمانہ نہیں.ایک ہزار ہجری کے بعد کا زمانہ ہے بلکہ بہت ہی قریب کا زمانہ ہے.اب میں نہیں سمجھتا ہوں کہ تیس ہزار کے بدلہ میں تین ہزار بھی ہوں.اس وقت تو تیس ہزار وہ تھے جو بادشاہ کے سامنے ثبوت دے سکتے تھے اب ایسے نہ ملیں.چونکہ ان کو میاں میر صاحب سے ارادت تھی اس لئے ان کے حرم سرا سے وہاں تک جانے کے لئے ایک پردہ دار سڑک بنی ہوئی تھی.پھر اس سے بھی پیچھے جائیں تو محمود غزنوی کے زمانہ میں بھی لاہور کے تاریخِ عمارت کے عجائبات معلوم ہوتے ہیں.محمود بڑا عاقبت اندیش تھا ان سے غلطیاں بھی ہوئیں ، نیکیاں بھی ہوئیں.فارسی کا رواج انہی نے ڈالا.اس کے بیٹے ابراہیم نے لاہور دارالسلطنت تجویز کیاتھا.رنگ محل کے ادھرایاز کی قبر ہے جو ایک کشمیری پنڈت تھا اور مسلمان ہوگیا تھا.محمود غزنوی کو اس سے بہت محبت تھی اور ان کے محبت کے بڑے اسباب لکھے ہیں.منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ جب محمود قنوج پر حملہ آور ہوا تو بعض لوگوں کو تعجب ہوا کہ ایک کشمیری پنڈت سے جو نو مسلم ہے اس قدر محبت
کیوں ہے؟ محمود کو یہ بات پہنچی.راستہ میں محمود نے ایک پہاڑی کی طرف جھک کر دیکھا.لوگوں نے خیال کیا کہ قدرت کا نظارہ کرتے ہوں گے مگر ایاز فوراً اپنی فوج کا دستہ لے کر پہاڑی پر چڑھ گیا.تب محمود نے کہا کہ ایاز سے پوچھو وہ پہاڑی پر کیوں چڑھ گیا.اس نے کہا میں جانتا ہوں بادشاہ عاقبت اندیش ہے بے وجہ نکمی حرکات نہیں کرتا اور اس کا دیکھنا بے وجہ نہیں.محمود نے جب پہاڑی کو دیکھا تو میں نے سمجھا کہ کوئی خطرہ ضرور ہے.اس پر محمود نے ان لوگوں کو کہا کہ ایاز ہمارا مزاج شناس ہے اور خدمت کرتا ہے.اس ایاز ہی کی قبر کو لاہوری کم جانتے ہیں.میں تو عبرت کے لئے وہاں چلا گیا.اس سے پہلے عربوں کے حملہ کے وقت بھی آباد تھا.غرض میرا مقصد لاہور کی تاریخ بیان کرنا نہیں.یہ ایک تاریخی مقام ہے سب جانتے ہیں.پس میں اصل غرض بیان کرتا ہوں.عمارتیں ہمیشہ سے دنیا میں بنتی ہیں، بنتی رہیں گی اس عمارت کے ارد گرد بھی تازہ عمارتیں بنی ہوئی اور بن رہی ہیں.اس عمارت سے ہمارا شخصی اور قومی تعلق: مگر اس عمارت کے ساتھ ہمارا ایک خاص تعلق ہے اور یہ تعلق شخصی بھی ہے اور قومی بھی.شخصی تو یہ کہ حضرت صاحب نے وعدہ فرمایاتھا کہ اس عمارت کی بنیاد رکھیں اور حضرت صاحب کا ایک خادم اس وعدہ کو پورا کردے.قومی تعلق یہ ہے کہ اس عمارت میں ہماری قوم (حضرت خلیفۃ المسیح مد ظلہ العالی کا اشارہ اس وصیت کی طرف ہے جو شیخ صاحب نے اپنی جائیداد کے متعلق کی ہوئی ہے کہ اس کا تیسرا حصہ قومی خدمات کے لئے ہو گا.ایڈیٹر الحکم )کا بھی ایک حصہ ہے اس لئے قوم کو چاہیے کہ درد دل سے دعا کرے کہ انجام بخیر ہو اور اس مکان میں جو بسنے والے ہوں جو اس کے مہتمم ہوں وہ راستباز ہوں اور نیکی سے پیار کریں.اگر اس مکان کے رہنے والے سچے، راستباز اور متقی مومن ہوں گے.اللہ تعالیٰ انہیں بڑھائے گا اور پھیلائے گا اور جس قدر یہ عمارت بڑھے گی اسی قدر ہماری قوم متمتع ہوگی کیونکہ اس کا اس سے تعلق ہے.بنیادی پتھر کی اصل قرآن میں : میں نے کہا ہے کہ میں ہمیشہ سنت کو پسند کرتا رہا ہوں اس لئے میں نے قرآن کریم میں غور کیا ہے کہ قرآن مجید میں کسی عمارت کا پتھر رکھنا ہے یا نہیں یا یوں ہی ایک بات بنالی ہے تو میری توجہ اس آیت
کی طرف ہوئی جو میں نے پڑھی ہے کہ بعض عمارتوں کی بنیادیں تقویٰ پر ہوتی ہیں اور اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہوتی ہے.یہ آیت مسجد نبوی کے متعلق ہے.اس مسجد نبوی کے مقابلہ میں بھی ایک پتھر رکھا گیا تھا مگر انجام کیا ہوا؟ اس کو جڑھ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا اور وہ جگہ نجاست پھینکنے کا میدان بنا.یہ لمبا قصہ ہے وقت اجازت نہیں دیتا کہ میں اس کو بیان کروں.یہ تو ہماری سرکار ہمارے مقتدا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بنیاد رکھنے کا ذکر ہے.اس سے بھی بہت پہلے ایک پتھر رکھا گیا تھا اور وہ وادٍ غیر ذی زرعٍ میں رکھا گیا جو ابوالملۃ ابراہیم نے رکھا تھا.اس پتھر کے متعلق بہت وسیع باتیں ہیں.وہ بنیادی پتھر اب تک موجود ہے اور حاجیوں کو تاکید ہے کہ وہاں چکر لگا کر ابراہیمی دعائیں کریں.حضرت ابراہیم نے سات عظیم الشان دعائیں مانگی ہیں اور سات دفعہ چکر لگانے کا حکم ہے.ہاجرہ وہاں سات دفعہ چلی ہے اور سات ہی وہاں نشان (آیات اللہ) ہیں.اس عمارت کی بنیاد اسی تقویٰ اور رضا الٰہی پر رکھی گئی.آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کیسی بابرکت ہے اور مدینہ طیبہ کی وہ عمارت جس کا پہلے ذکر کیا ہے.آج دنیا پر اس کی وسعت پھیلی ہوئی ہے اور وہ بڑی ہی بابرکت ہے.غرض مکّہ معظمہ کی عمارت بھی تقویٰ پر رکھی گئی اور مدینہ منورہ کی عمارت بھی.میں اس عمارت کی بنیاد اسی نیت اور غرض سے رکھتا ہوں.ہم اس وقت حضرت صاحب کے خاندان کے پانچ آدمی موجود ہیں.(خلیفۃ المسیح، صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد، صاحبزادہ بشیر احمد ، صاحبزاہ شریف احمد، نواب محمد علی خان صاحب) اور میں نے کہا ہے کہ ساری قوم کا اس عمارت میں حصہ ہے.میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ درد دل سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کو بابرکت کرے اور شیخ صاحب جن سے ہم کو محبت ہے ان کی اولاد کو بھی ہمارے ساتھ محبت بخشے.میں شکایت نہیں کرتا بلکہ دعا کے رنگ میں چاہتا ہوں کہ وہ ایسے ہوں.وہ بڑے سفروں میں جاتے ہیں مگر ہم سے اس طرح پر نہیں ملتے جس طرح ان کے والد ملتے ہیں.اب میں دعا کرکے ایک اینٹ رکھ دیتا ہوں پھر میرے بعد صاحبزادہ مرزا محمود اور بشیر اور شریف اور نواب صاحب دعا کرکے ایک ایک اینٹ رکھ دیں.یہ فرما کر آپ نے ایک اینٹ لی اور نہایت توجہ الی اللہ کے ساتھ دعا کرکے اسے ایک مقام پر رکھ دیا اور پھر صاحبزادہ صاحبان نے ارشاد
کے موافق ایک ایک اینٹ رکھی اور بالآخر نواب صاحب نے رکھی.اس موقع پر نواب صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا کہ دامادوں کے متعلق تو بڑی بڑی بحثیں ہوئی ہیں اس لئے آپ ضرور دعا کرکے اینٹ رکھ دیں.میں دعائوں کا بڑا معتقد ہوں.یہ کلمہ میاں شریف احمد صاحب کے اینٹ رکھنے پر فرمایا.اس کے بعد آپ نے اور حاضرین نے دعا فرمائی بعد دعا فرمایا.جس غرض کے لئے ہم آئے تھے خدا کے فضل سے ہم اس سے فارغ ہوچکے ہیں.اب ہم آزاد ہیں.ایڈیٹر الحکم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ شیخ صاحب سے کہہ دو کہ ہم آپ کے کام سے فارغ ہوچکے اور حضرت صاحب کے وعدہ کو خدا تعالیٰ کے فضل سے پورا کرچکے ہیں.اب ہم آزاد ہیں خواہ صبح چلے جاویں یا شام کو.( میں نے شیخ صاحب کو یہ پیام اسی وقت پہنچا دیا کیونکہ وہ پاس ہی موجود تھے.یہ سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور نہایت رقت بھرے لہجہ میں عرض کیا کہ جو غلام ہو اس کو آقا کو آزاد کرنے کی کیا جرأت.(ایڈیٹر الحکم) اس پر فرمایا: مجھے قادیان سے باہر مزہ نہیں آتا.میں کیا کروں میری حالت ہی ایسی ہے (چونکہ حضرت کے منشاء سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ۱۶ کی صبح کوہی چل دیں مگر احباب لاہور نے حضرت کے ایک عام لیکچر کا اعلان کیا تھا اس لئے میں نے عرض کیا کہ کل ۱۶ کی شام کو تو حضور کے ایک لیکچر کی تجویز ہے.ایڈیٹر الحکم) فرمایا.اچھا.اس ضمن میں پھر از راہ کرم خاکسار ایڈیٹر کو فرمایا کہ میں نے ایک خاص رنگ میں قوم کو دعا کے لئے توجہ دلائی ہے.اس عمارت میں قوم کا ایک حصہ ہے.اس طرح یہ تقریب بعافیت ختم ہوئی.سنگ بنیاد کی تقریر کے ضمن میں بعض ارشادات : سنگ بنیاد کی تقریب جب حضرت فرمانے لگے تو صاحبزادہ صاحب کو بلا کر اپنے پاس کھڑا کیا اور پھر نواب صاحب (جو پیچھے کھڑے تھے)کو بلا یا کہ آگے آئو.ان میں ان کو کھڑا کیا اور پھر خود کرسیاں لانے کے لئے حکم دیا اور ان چہار بزرگوں کو اپنے سامنے بیٹھنے کا حکم دیا.ان کو بیٹھنے میں تردد تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کھڑے ہیں.فرمایا میں تو تمہاری خدمت کرتا
ہوں اور تمہارا ہی کام کررہا ہوں.تمہارے باپ کی جو میرا محسن اور آقا ہے میرے دل میں بڑی عظمت ہے آپ بیٹھ جاویں.میں تو کھڑا ہوکر ہی تقریر کروں گا.میں بیٹھ کر تقریر کرنے کا عادی نہیں اور نہ ہمارے سلف سے یہ ثابت ہے.ہمارے سلف جب کوئی چھوٹی یا بڑی تقریر کرتے تھے تو وہ کھڑے ہو کر ہی کرتے تھے.میں تو لمبی تقریریں بھی کھڑے ہوکر کرتا ہوں اور یہ تو چھوٹی سی تقریر ہے.(الحکم ۱۴؍ جولائی ۱۹۱۲ء.صفحہ۲،۳ )
خلافت، اس کا حقدار اور امر خلافت میں روک {تقریر فرمودہ ۱۶؍جون ۱۹۱۲ء بمقام مسجد احمدیہ بلڈنگس لاہوربوقت صبح} (حضرت خلیفۃ المسیح ؓ کی اصلاح و تصدیق سے شائع ہوئی.ایڈیٹر) اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ.اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ. (اٰل عمران : ۱۰۳ تا ۱۰۶) لیکچراروں کی تقسیم اور اپنا منصب: مجھے باتیں بنانی بھی آتی ہیں اوربولنا بھی آتا ہے اور مختلف مضامین پر بول سکتا ہوں مگر مجھے بڑی سہولت ہے کہ مجھے ایک ہی مضمون پر بولنا پڑتا ہے.دنیا میں لوگوں کو بڑے بڑے مضامین کی ضرورت ہوتی ہے اور انہیں بہت سی ضرورتیں بولنے کی پیش آتی ہیں.ایک آدمی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کا دماغ ایسا بنایا ہوتا ہے کہ وہ سیاست پر گفتگو کرتا ہے اور تمام دنیا کی سلطنتوں کے سیاسی اصولوں سے واقفیت رکھ کر بولتا ہے اور تمدن، اپنی حفاظت‘ خودداری اور دوسروں کو کمزور کرنے کے اصولوں پر بولتا ہے.ہماری سلطنت ہندوستان میں تو رہی نہیں.باہر اگر کچھ ہے تو اس کے لئے بھی آوازیں آرہی ہیں کہ یہ بھی دے دو.پس نہ ہمارے حکمران اس بات کو پسند کرتے ہیں اور نہ ہماری موجودہ حالت اجازت دیتی ہے کہ سیاسی امور میں ہم دخل دیں اور ان پر بولیں.بہت لوگ
تمدن پر لیکچر دیتے ہیں کس طرح شہرت ہو اور کبھی تمدن کی ان شاخوں پر بحث ہوتی ہے کہ شہرت کے بعد شہر میں کیونکر گزارہ کریں.اور کبھی وہ دولت‘ تجارت اور ِحرفوں کے متعلق بولتے ہیں اور کبھی مادی ترقی اور اقتصادی امور پر بولتے ہیں اور کبھی حفظان صحت پر لیکچر دیتے ہیں.کبھی حکام سے تعلقات اور اپنی ملکی اور مقامی ضروریات پر بولتے ہیں.کبھی ہمسایہ اور دوسری قوموں پر بڑھنے کی تجاویز کے متعلق بولتے ہیں.غرض مختلف قسم کے لیکچرار ہوتے ہیں اور ان کی اغراض اور موضوع مضامین الگ ہوتے ہیں.پھر اسی لحاظ سے مختلف قسم کے اخبارات ہوتے ہیں.ان اخبارات نے اپنے اپنے مقاصد کے لحاظ سے کچھ فرض، سنت ،واجب بنائے ہوئے ہوتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی شریعت کے سنن اور فرائض اور واجبات نہیں ہوتے بلکہ ان کے اپنے ایجاد کردہ ہوتے ہیں.مگر میرا بیان ان سب سے علیحدہ ہے.میرا دماغ خدا تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ میں مختلف قسم کے مضامین پر بول سکتا ہوں اور خوب بول سکتا ہوں.میں اپنی جگہ امور سیاست پر بھی غور کرتا ہوں اور خوب غور کرتا ہوں اور خیالی لذت قرآن کریم کی سیاسی آیات سے اٹھا لیتا ہوں.کبھی تجارت ،حرفت اور حفظان صحت پر غور کرتا ہوں اور قرآن کریم کی ان آیات پر غور کرتے کرتے دور چلا جاتا ہوں جو ان اصولوں کو اپنے اندر رکھتی ہیں.میں کبھی فنون جنگ پر بھی سوچتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک صحبت نے ایسی گروہ تیار کر دی تھی کہ جب لڑائی کو جاتے تھے تو ساٹھ ہزار کے مقابلہ میں تین ہزارکافی ہوتے تھے.وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظام تھے.اسلامی تاریخ کا ایک واقعہ: ایک جنگ میں خالد بن ولید اور ضرار تھے.ضرار دشمنوں کے ہاتھوں میں قید ہو گئے.خالد کو ان کے قید ہونے کا سخت رنج ہوا.انہوں نے کہا کہ تیس آدمی ساٹھ ہزار کے لئے کافی ہیں اور عبیدہ بن جراح نے کہا کہ ساٹھ آدمی لے جائو.حالانکہ مخالفوں کا کمانڈر انچیف ۵ لاکھ لے کر مقابلہ پر تھا.خالد بن ولید کو ضرار کی قید کی خبر سن کر نیند نہ آئی.حضرت عبیدہ سے کہا کہ کوئی ایسی بات ہو کہ ضرار کو چھڑا لائوں.
رات بھر دعا کرتے رہے.اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی قبولیت کو یوں رنگ دیا کہ ہر قل کی افواج کے کمانڈر انچیف ہامان نے کہا کہ مسلمان ہر روز مقابلہ کرتے ہیں اور ہم کو شکستیں ہوتی ہیں.ان شکستوں سے بھی بدنامی ہوتی ہے.پھر کیوں دھوکا سے ان کے چیدہ افسروں کو قتل نہ کر دیں.اس دھوکاسے قتل کرنے پر بھی بدنامی تو ہو گی مگر شکستوں کی بدنامی کے مقابلہ میںہم کو اس بدنامی کو اختیار کرنا چاہئے.چنانچہ اس نے اپنے مشیروں سے مشورہ کے بعد خط لکھا کہ خالد بن ولید اور فلاں فلاں پانچ آدمی جو اسلامی لشکر کے منتخب افسر اور بہادر ہیں.ان کو آپ بھیج دیں تا کہ آپ کے لائق آفیسروں سے صلح اور امن کی گفتگو کریں اور تجویز یہ تھی کہ صلح اور امن کی گفتگو کے بہانہ سے انہیں بلائیں اور جب وہ یہاں آئیں تو انہیں قتل کر دیں.اس تجویز کے بعد ابوعبیدہ کے پاس آدمی بھیجا گیا.انہوں نے تو یہ تجویز اپنی کامیابی کے لئے ایک زبردست منصوبہ سمجھی تھی مگر میں اس کو ان دعائوں کی قبولیت کا کرشمہ سمجھتا ہوں.میں دعائوں کا بہت معتقد ہوں.میں بڈھا ہو گیا اور میرا یہ ایمان بڑھتا جاتا ہے.غرض جب اسلامی فوج کے ان عہدہ داروں کی طلبی کے لئے آدمی پہنچا تو ابوعبیدہ نے ذکر کیا کہ ہامان پانچ آدمی بلاتا ہے.خالد نے کہا ہم ضرار کی رہائی کی دعا کرتے رہے ہیں شاید اسی تجویز سے ضرار چھوٹ جاوے.خالد نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس موقع پر سو آدمی جاویں.شاید ضرورت پڑجاوے.ابو عبیدہ نے کہا کہ وہ تو صرف مشورہ چاہتا ہے.مگر خالد نے کہا کہ خواہ مشورہ ہی ہو.سو کے جانے میں ہرج ہی کیا ہے.خالد نے سو آدمی ساتھ لئے اور ان کو کہا کہ ہر وقت چوکس رہنا اور دوسرا کام یہ کرنا کہ پھرتی سے ہامان کو گھیر لینا.پھر دیکھا جاوے گا.چنانچہ اس تجویز کے موافق جب وہاں گئے تو خالد کے ساتھ سو آدمی تھے.ہامان نے کہا کہ ہم پسند نہیں کرتے کہ سو آدمی آویں مگر ادھر سے خالد نے جواب دیا کہ ہم لڑنے کے واسطے نہیں آئے.قرآن کریم میں حکم ہے (الشوریٰ :۳۹) اس لئے میں ان کو یہاں لایا ہوں کہ اگر مشورہ کی ضرورت پڑ جاوے تو باہم مشورہ کر لیں.فریق مخالف نے پھر روکا اور اعتراض کیا کہ صرف خالد کی ملاقات کا منشا ہے مگر پھر کہا گیا کہ اس جماعت کو صرف ضرورت مشورہ کے لئے لایا گیا ہے.اس پر انہوں نے کہا کہ اچھا پھر ہتھیار پہن کر نہ آویں مگر خالد نے کہا کہ ہتھیار تو صرف ہمارا لباس ہے ہم ننگے کس طرح پر آسکتے ہیں.آپ یہ اندیشہ کیوں کرتے ہیں جنگ میں سو آدمی اتنی بڑی فوج کے سامنے کیا حقیقت رکھتے ہیں.یہ بات ان کی سمجھ میں بھی آگئی اور انہوں نے ان کو بلا لیا.اندر جاکر انہوں نے اتنی پھرتی کی کہ ہامان بیچ میں گھِر گیا.خالد آگے بڑھے تو ہامان نے کہا کہ میں نے تو صرف تم کو بلایا تھا اتنے آدمیوں کو کیوں تکلیف دی.خالد نے کہا
کہ ہتھیار تو صرف ہمارا لباس ہے ہم ننگے کس طرح پر آسکتے ہیں.آپ یہ اندیشہ کیوں کرتے ہیں جنگ میں سو آدمی اتنی بڑی فوج کے سامنے کیا حقیقت رکھتے ہیں.یہ بات ان کی سمجھ میں بھی آگئی اور انہوں نے ان کو بلا لیا.اندر جاکر انہوں نے اتنی پھرتی کی کہ ہامان بیچ میں گھِر گیا.خالد آگے بڑھے تو ہامان نے کہا کہ میں نے تو صرف تم کو بلایا تھا اتنے آدمیوں کو کیوں تکلیف دی.خالد نے کہا کہ مشورہ کے لئے لایا ہوں اگر ضرورت پڑے تو یہاں ہی مشورہ ہو جاوے.اس وحدت نے یہ فائدہ دیا کہ وہ خوشامد کی باتیں کرنے لگا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر ذرا بھی رنگ بدلا تو خیر نہیں.غرض اس نے جب بہت محبت اور خوشامد کا اظہار کیا تو خالد نے کہا کہ ہمارا کمانڈر انچیف کیا سمجھے گا کہ آپ نے محبت سے ہم کو بلایا ہے اس کے لئے کوئی نشان چاہئے.مرنے جینے کو تو ہم کچھ سمجھتے ہی نہیں.اس نے کہا کہ میں آپ کو کیا نشان دوں.خالد نے کہا مال ودولت کی ہمیں ضرورت نہیں.ہمیں تم ضرار کو دے دو اور اس کے ساتھ ہی کہا کہ اب وہ یہاں آجانا چاہئے کیونکہ وہ میری جوڑی کا سپاہی ہے میں پسند نہیں کرتا کہ تنہا جائوں.آخر اس نے سوچ لیا کہ یہ سو آدمی ہے اور مرنے مارنے پر تیار ہے یا تو میں یہاں ہی مرتا ہوں اور یا یہ ضرار کو لئے بغیر نہ جائے گا اس لئے ضرار کو بلایا مگر ضرار نے کہا کہ میں نہیں جاناچاہتا.جب اس سے پوچھا گیا کہ آپ کو کیا تامل ہے.اس نے کہا کہ میں یہاں سے نہیں جائوں گا جب تک وہ چار سپاہی جو میرے ساتھ قید ہیں میرے ساتھ نہ ہوں.آخر ان کو بھی بلایا گیا اور ان سب کو خالد کے ساتھ روانہ کر دیا گیا اور وہ بڑی خوشی سے مکان پر آگئے.یہ بات تھی کہ ان میں ایک دوسرے کی ہمدردی عاقبت اندیشی ہر معاملہ میں گہری نگاہ کرنا موجود تھی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے جنگوں میں تمدن اور معاشرت میں نمونہ دکھا دیا تھا اور وہ اس امتحان اور مدرسہ میں پاس ہو چکے تھے وہی لوگ تھے جنہوں نے خشنپوش ہو کر ایک ایک اونٹ یا بکری کے مالک ہو کر جب باہر نکلے تو انہوں نے تمدن و معاشرت کے اصول وضع کئے اور سلطنت قائم کی اور بڑے بڑے فتوحات کئے.اس قسم کے عجائبات ان کے سیاسی امور میں ہیں کہ اگر ان کی صرف غیر قوموں کی تقریروں ہی کو کوئی الگ کر کے پڑھے تو ساری دنیا کی سیاسی عقل آسکتی ہے.ان تقریروں میں بڑی بڑی قوموں کے سیاسی امورات اور عاقبت اندیشیوں کے اشارات ہیں.
موجودہ حالت: مگر اب مسلمانوں کی حالت کیا ہے؟ اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ایک مسلمان نے کہا کہ وہ قلعہ فتح کر لیا.میں حیران ہوا کہ اب قلعہ کہاں فتح ہوا.اس کے دوست سے پوچھا تو اس نے کہا کہ’’ایک کنواری سے زنا کر لیا‘‘ افسوس اب ایک ہی کمال رہ گیا ہے.لاہور میں اتنے اشتہار قوت باہ کے نکلتے ہیں کہ شاید سارے ہندوستان میں نہ ہوں اور ان میں زمین وآسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں.امساک اور قوت باہ کا اتنا دعویٰ ہوتا ہے کہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے.ایک اور اشتہار سیالکوٹ یا کسی اور جگہ سے نکلتا ہے’’سنیاس کا نچوڑ اور لوہے کی لاٹھ‘‘ غرض اب ساری طاقت اسی ایک طاقت کے مضبوط کرنے میں رہ گئی ہے.غرض مجھے سیاسی امور پر لیکچر دینے کی ضرورت نہیں نہ میں خود سپاہی ہوں نہ سپاہی بنانے لگا ہوں.میرا باپ شاید سپاہی ہو کیونکہ مجھے یاد ہے کہ ایک کوٹھا تیروں، کمانوں اور بندوقوں کا بھرا ہوا تھا.میں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ یہ کیوں ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اگر یہ نہ ہو تو کیا یہاں امن رہ سکتا ہے.وہ قرآن بہت پڑھتے تھے اسی کا اثر ہے کہ مجھے بھی قرآن کریم سے بڑی محبت ہے.غرض نہ میں نے پولیٹیکل لیکچر دینا ہے نہ اکانمی اور اقتصاد پر تقریر کرنی ہے.میں مختصر سی بات کے لئے کھڑا ہوا ہوں کرسی کی ٹیک سے کام لے رہا ہوں ورنہ پائوں اجازت نہیں دیتا.مصنّفین اسلام: پھر اسلام میں بڑے بڑ ے لکھاری (مصنّفین) موجود ہیں.امام رازی (جنہوں نے تفسیر کبیر لکھی ہے) چھوٹی سی بات پر ہزاروں صفحے لکھ سکتا ہے.ان کے بعد تقسیم مضمون ،سلاست بیان اور عمدہ طور پر ذہن نشین کرنے والے امام غزالی ہیں اور انہوں نے نہایت مفید اور بابرکت کتابیں لکھی ہیں جس خوبی سے انہوں نے مضامین کو کھولا ہے اس کی نظیر کم ملتی ہے میں تیرہ سو برس کے مصنّفوں میں تین کانام لے سکتا ہوں تیسرے ابن سینا ہیں اپنے فن کا بڑا لکھنے والا ہے.ایسا احاطہ خیالی طور پر مضامین کا کرتا ہے کہ ڈاکٹر بڑی محنت اور جدوجہد کے بعد کوئی بات نکالتے ہیں تو اس کے احاطہ سے باہر نہیں.اس زمانہ میں تحریر ایک خاص فن ہے ہمارے حضرت کو اللہ تعالیٰ نے خاص توفیق بخشی تھی تحریری رنگ میں آپ کو اعجازی نشان دیا گیا تھا.میں بھی آپ کی زندگی میں کچھ لکھ دیا کرتا تھا مگر
آپ کے بعد ایک اور ضرورت کو میں نے مدنظر رکھا ہے اور اس سے فرصت نہیں ہوتی وہ کیا؟ میں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں.پس اب نہ مجھے کسی لمبی تقریر کی ضرورت ہے اور نہ تحریر کی میں چند باتیں تمہاری بھلائی اور تمہارے فائدہ کے لئے کہتا ہوں اور خدا کی رضا کے لئے کہتا ہوں.اختلاف کا نظارہ: میں دیکھتا ہوں تم یہاں تھوڑے سے آدمی ہو مگر سب کی پگڑیاںالگ کوٹ الگ جوتے جدا جدا ہیں.طرز غذا الگ ہے چہرہ کے خط وخال قد آواز سب جدا جدا ہیں.اس طرح پر تو یہ اختلاف اور بھی بڑھا.پھر ہر ایک کی صحبتیں الگ، مذاق الگ، کتابوں کے مطالعہ الگ، خیالی سلسلے الگ اور اب یہ دائرہ اختلاف اور بھی وسیع ہو گیا اور اگر غور کرو تو یہ اختلاف پیدائش سے ہی شروع ہے کسی کی ماں کسی تمدن کی ہے اور کسی کی کسی رنگ کی.میری ماں ایک اعوانی عورت تھی ان میں مردوں کی تعلیم کی طرف بھی توجہ نہ تھی.چہ جائیکہ عورتوں کی طرف ہو مگر میری ماں خدا کے فضل سے پڑھی ہوئی تھی.غرض ہر ایک کے ماں باپ کی تربیت جدا.پھر محلہ کے لڑکوں کی صحبت کا اثر جدا.اسی سے آگے چل کر سکولوں اور بورڈنگ ہائوسوں میں ایسی تعلیم کی ہوا چلتی ہے کہ ہمارے تو فرشتوں کو بھی خبر نہیں ،شیطان کو ہو گی.پھر کلبوں، ڈیبیٹوں، ناولوں اور اخباروں کے موثرات.پھر ہر مضمون پر اس قدر رسالے اور اخبارات ہوتے ہیں کہ بعض وقت انسان حیران ہو جاتا ہے مجھے بھی کتابیں پڑھنے کا جنون ہے مگر آجکل اس قدر رسالے، اخبارات اور کتابیں نکلتی ہیں کہ ان سب کا پڑھنا آسان نہیں.پھر ہر ایڈیٹر اخبار کا فرض ہے.خدا کا فرض ادا ہو یا نہ ہو مگر وہ قوم کے لئے ایک فرض رکھتا ہے اگر اسے ادا نہ کیا گیا تو قوم کو سخت نقصان پہنچے گا اور وہ ہلاک ہو جائے گی اور قوم نہ رہے گی وہ سمجھتے ہیں کہ اپنی پر زور تحریروں سے فلاں کو ہلاک کر دیا اور فلاں کو بگاڑ دیا.وہ اوروں کے بگاڑنے اور بنانے کے مدعی ہیں مگر اپنا کچھ نہیں بنا سکتے.غرض ان اخبارات اور رسالوں کی اس قدر کثرت ہے کہ میں تو ان کی طرف توجہ بھی نہیں کر سکتا.کتابیں پڑھنے کا مجھے ایسا خیال اب بھی ہے کہ لاہور میں داخل ہوا تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ میری جیب میں کچھ روپیہ ہیں.کچھ بیوی کو دے دوں گا اور کچھ بچوں کو دے دوں گا اور کچھ میرے پاس رہیں گے ان
سے ایک کتاب منگوائی اس کے بیسیوں نسخے کیا شاید سو کی تعداد میں ہمارے ہاں ہوں.مگر میں نے اس کا ایک نسخہ اور منگوا لیا باوجود اس وسیع تجربہ کے میں دیکھتا ہوں کہ اگر میں کچھ کہوں تو شاید میری بات مانو یا نہ مانو.میرے بھی اختلاف ہیں عمر، علم، مجلس، صحبت کتابوں کے مطالعہ کی کمی بیشی کے لحاظ سے ہزاروں ہی اختلاف ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ یہ اختلاف کا نظارہ مٹ نہیں سکتا.اختلاف تو دنیا میں رہے گا ہی (ھود :۱۱۹) مگر باوجود اختلاف کے گورنمنٹ کی تلوار نے کیسا جھکایا ہوا ہے.تمہارے ساتھ کی قومیں ایجی ٹیشن پھیلاتی ہیں اور بعض اوقات اپنے خیال کے موافق فائدہ بھی اٹھاتی ہیں اور انارکسٹ پیدا ہوتے ہیں اور ایسی باتوں سے بزعم خود کچھ حقوق پیدا کر لئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تمہارا نام ونشان مٹا دیں مگر خدا کافضل ہے کہ تم ان حرکات سے بچے ہوئے ہو اور ایسی راہوں سے الگ ہی رہنا چاہئے کیونکہ اسی میں برکت ہے.غرض اختلافات کا سلسلہ وسیع اور اختلاف کا نظارہ دلربا ہے.اختلاف دنیا سے مٹ نہیں سکتا.وہ رونق عالم کا موجب ہے جبکہ ایک وحدت کے نیچے ہو.میری غرض درس کلام الٰہی ہے: پس میں تمہیں تمہارے خالق کا کلام سنانے کو کھڑا ہوا ہوں.وہ تمہاری فطرتوں کا خالق ہے اور فطرت کا صحیح اور کامل علم رکھتا ہے.اس خالق الفطرت نے تمہیں کوئی ایسا حکم نہیں دیا جو تم نہ کر سکو بلکہ وہ احکام دئیے ہیں جو تمہاری طاقت اور مقدرت کے نیچے ہیں.چنانچہ وہ فرماتا ہے (البقرۃ :۲۸۷)انسان کی تمکن، وسعت اور فعل اور ترک فعل کی جو مقدرت اسے حاصل ہے.اسی وسعت ممکن کے ساتھ ہم حکم کرتے ہیں ایسی کوئی بات نہیں کہتے جو کہ طاقت سے باہر ہو.یہ بالکل جھوٹ ہو گا اگر کہہ دو کہ فلاں امر وحکم ہماری طاقت سے باہر ہے کیونکہ یہ آیت قرآنی شہادت ہے.پس اگر میں کچھ کہوں تو تم کہہ سکتے ہو کہ تم فطرت سے آگاہ نہیں.لیکن جب میں کلام الٰہی سناتا ہوںجو خالق وعالم فطرت کاکلام ہے تو تمہارا یہ اعتراض بھی اڑ جائے گا.افسوس ہے لوگوں
نے فطرت کے معنے بھی گندے کر لئے ہیں اور فطرت کو شرارت کا مفہوم قرار دے دیا ہے مگر یاد رکھو فطرت دین قیم کا نام ہے.پس تمہارا یہ عذر کہ ہماری طاقت سے باہر یا فطرت کی استعداد کے خلاف ہے میری اپنی تقریر پر تو ہو سکتا ہے مگر خالق ومالک کے کلام پر نہیں اور میں وہی پیش کرتا ہوں.اس کلام کا علم اور قدر جو محمد رسول اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھی وہ اس سے ظاہر ہے جو قرآن کریم کے متعلق فرمایا (البقرۃ :۳)یہی ایک کتاب ہے جس میں کوئی ہلاکت کی راہ نہیں یا شک وشبہ کی گنجائش نہیں.رَیْبَ کے دو معنی ہیں شک وشبہ اور ہلاکت اور دونوں ہی یہاں خوب لگتے ہیں.قرآن کریم میں شک وشبہ نہیں بالکل درست ہے اس کی ساری ہی تعلیم یقینیات پر مبنی ہے ظنّی اور خیالی نہیں یا آجکل کی اصطلاح میں یوں سمجھ لو کہ قرآن مجید میں تھیوریاں نہیں بلکہ بصائر ہیں وہ (بنی اسرائیل :۱۰) ہے.پھر قرآن مجید میں ہلاکت کی راہ نہیں یہ بھی سچ ہے کیونکہ اس میں توشفائُ لِلنّاسہے.غرض کلام الٰہی کی تعریف کی حد کر دی کہ یہی ایک کتاب ہے اور کتاب ہی نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کیا عمل کیا کہ اس کے سوا اور کوئی کتاب دیکھی ہی نہیں.تورات ممکن تھی مگر اس کے لئے بھی کہتے ہیں (اٰل عمران :۹۴) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم ہی لائو اور پڑھو.پس میں اسی کتاب کی چند آیتیں سناتا ہوں.متقی بنو: (اٰل عمران:۱۰۳) ایمان والو، متقی بن جائو اور جو تقوٰی کا حق ہے وہ ادا کرو اور نہ مریو مگر اس حالت میں کہ تم فرمانبردار ہو.گویا تم موت کو کہہ دو کہ آ جب تیری مرضی ہے توُ ہم کو مسلمان پائے گی.موت کا کسی کو کیا علم ہے کہ کب آجائے گی اور یہاں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تمہیں ایسی حالت میں موت آوے کہ تم کامل فرمانبردار ہو.یہ بڑا مشکل مرحلہ ہے جو کبھی طے نہیں ہو سکتا.جب تک ہر گھڑی انسان موت کے لئے تیار اور فرمانبردار نہ ہو.موت کے وقت انسان کی کیا حالت ہوتی
ہے.طب کے لحاظ سے جو ۲۰/ ۱ مجھے آتی ہے میں بتاتا ہوں.۲۰/ ۱ میں نے اس لئے کہا کہ کچھ حصہ تو ڈاکٹر لے گئے جو سرجری کے متعلق ہے اور کچھ عورتوں اور بوڑھیوں کے حصہ میں آئی کچھ دائیوں اور حلوائیوں کے حصہ میں آئی ہے کچھ کمانگروں، عطائیوں، کنجروں اور کنجریوں اور پہلوانوں کے حصہ میں آئی ہے.۲۰/۱ ہمارے حصہ میں بھی آیا ہے.اس طب کی رو سے میں کہتا ہوں کہ اس وقت بعض غشی کی حالت میں ہوتے ہیں گھر والے کہتے ہیں حضور اس قدر روپیہ دیتے ہیں صرف ایک بات کرا دو.مگر وہ ایک بات بھی نہیں کر سکتے.فہم بھی باقی نہیں رہتا تمام حواس اور طاقتیں زائل ہونے لگتی ہیں.بڑی بڑی پیاریاں آتی ہیں.ماں کہتی ہے.بیٹا! تم پہچانتے ہو میں کون ہوں.بہن کہتی ہے بھائی میں کون ہوں وہ منہ بھی ادھر نہیں کرتا.آنکھ جواب دے دیتی ہے اور کان کام نہیں کرتے جبکہ انسانی زندگی کا ہر لمحہ موت کے قریب کر رہا ہے اور حکم یہ ہے کہ مسلم مرو ،تو انسان کو چاہئے کہ اس کی تیاری کرے اس تیاری کے لئے قرآن مجید نے ایک راہ بتائی ہے کہ متقی بنو.سلسلہ علّت معلول: آج جو کام کر رہے ہیں اس کی کل تیاری کی تھی اور آج جو کر رہے ہیں یہ کل کی تیاری ہے یہ سلسلہ حکماء نے نامتناہی مانا ہے بات وہ بھی پتا کی کہتے ہیں.مثلاً غور کرو ہم کل یہاں آئے کیوں؟ ایک عمارت کی ایک اینٹ رکھنی تھی.ایک شخص متمول ہو پھر وہ تاجر ہو‘ لاہور کا باشندہ ذی وجاہت ہو‘ ہمارے ساتھ اس کا تعلق ہو.وہ ایک عمارت بنوائے اس عمارت میں قوم کا بھی حصہ ہو اور پھر اس نے کہا کہ آکر دعا کرو.تو ہم آگئے.ہمارا یہاں آنا کس قدر اسباب اور نتائج کا سلسلہ رکھتا ہے پھر وہ قوم جس کا اس کی عمارت میں حصہ ہے کیونکر بنی؟ ایک مرزا (علیہ السلام) آیا اس نے لوگوں کو نصائح کیں اور اشتہار دئیے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ومرسل ہو کر آیا ہے.اس تاجر نے اس کو قبول کیا اور اس کی وفات کے بعد اس نے ہمارے ساتھ تعلق کو قائم رکھا.مرزا صاحب نے ایسا کیوں کیا.پھر یہ بے انتہا اسباب اور نتائج کا سلسلہ ہے.غرض ان اسباب کے ماتحت ایک بات ہوئی کسی نے تم کو خط لکھے تم آگئے.پھر تمہارے آنے کے مختلف اغراض ہیں کوئی اس لئے آگیا کہ اس تقریب پر میں کیا کہتا ہوں اسے سن
لیں.کسی نے کچھ سوچا اور کسی نے کچھ زیر نظر رکھا.ایک ایڈیٹر ہے وہ اس واقعہ کو تاریخ سلسلہ کا ایک واقعہ قرار دے کر تاریخ کا ایک ورق بڑھانا چاہتا ہے.میں کہتا ہوں اچھا ہے تم بھی ایک ورق تاریخ میں الٹا دو.مجھے کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہو گا اور کیونکر ہو گا.غرض ہر شخص مختلف اسباب کے نیچے یہاں آیا.اور پھر مختلف نتائج ان اسباب سے پیدا ہوں گے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ علّت معلول کا سلسلہ ایک لمبا سلسلہ ہے.پس میں تمہیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تم بھی مسلمان ہو کر مرنا.اور اس کے لئے اگر آج تیاری نہیں کرتے تو مسلمان ہو کر مرنا تمہارے اختیار میں نہیں ہے.اگر کہو کہ مرنے کے وقت مسلمان ہو جائیں گے اور کلمہ پڑھ لیں گے تو یہ ایک خیال باطل ہے آج ہی کچھ تیاری کرو گے تو کچھ بنے گا.ایک مثال: اس وقت جو حالت ہوتی ہے وہ میں تمہیں طبی تجربہ سے بتا چکا ہوں.ایک مثال کے ذریعہ اور بھی واضح کرتا ہوں.ایک کنچنی تھی میں نے اس کو بہت نصیحتیں کیں آخر میں نے اس کو کہا کہ تم بدکاری سے توبہ کر لو.میں جوان تھا وہ اپنے خوبصورت حصہ کو زیور سے خوب آراستہ کر کے میرے پاس آتی رہی اور مجھے یہ بھی کہتی تھی کہ توبہ کر لی.آخر وہ کوئی تین چار ماہ غائب رہی اور پھر بڑے تزک واحتشام سے آئی اور مجھے کہا کہ مولا! توبہ اور بھوک سے مرنے لگے تھے اس واسطے اب کے ہولی میں توبہ توڑ دی.اس کی یہ بات سن کر میرے دل میں جوش پیدا ہوا اور میں نے معلوم کیا کہ اس نے کوئی بڑی بدکاری کی ہے اور اس طرح پر اس نے توبہ کی تذلیل کی ہے.اس نے کہا کہ وہاں سے ہم کو چار سو روپیہ ملا.اس کی یہ باتیں سن کر میرے دل میں سخت جوش آیا اور میں نے کہا یہاں سے چلی جائو.اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا رحم کیا ہے تم مجھ کو گرفتار کرنا چاہتی تھیں وہ دائو نہیں چلا.اب توبہ کی حقارت کرتی ہو یاد رکھو اب تمہیں توبہ نصیب نہ ہو گی.جب وہ گھر گئی تو اس پر فالج گرا اور زبان بند ہو گئی.اس کا لڑکا دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہا کہ یہ حالت ہے وہ روپیہ لائی تھی کہیں رکھ دیا ہے اور بتا نہیں سکتی.اس کو اس کے مرنے کا جو غم تھا وہ تھا ہی اس کے ساتھ ایک اور مصیبت تھی کہ پانچ سو روپیہ روٹی پر پہلے دینا پڑتا تھا.میں نے اس کو کہہ دیا کہ وہ بات نہیں کر سکے گی مگر اس نے بہت منت کی کہ آپ دیکھیں تو سہی مگر مجھے یقین تھا کہ توبہ
نصیب نہ ہو گی.میں نے اس کو کہہ دیا کہ زبان تو چل نہیں سکے گی..البتہ اگر تم میری بات مانو تو تمہیں ایک نکتہ بتاتا ہوں.تمہارا پانچ سو روپیہ بچ جاوے گا غرض میں اس کے ساتھ گیا اور دیکھا کہ زبان پر بھی فالج تھا میں نے اس کو کہا کہ اس کو آواز دو.اب کانوں میں کچھ نہیں سامنے ہو کر دیکھ لو آنکھوں میں بھی کچھ نہیں.میں یہ تماشا قدرت کا دیکھ رہا ہوں تم اب کسی اور کو بلا کر علاج کرائو.میں علاج نہیں کر سکتا.اس وقت میں نے ان کو کہا کہ تمہارے گھر میں فلاں عورت ہے اس کو بلائو.وہ نہایت خوبصورت اور نوجوان تھی جب وہ آئی تو میں نے اس کو مرنے والی کی حالت دکھا کر کہا.اس کو دیکھ لو اگر توبہ کر لو تو بہتر ہے ورنہ میں اور فتویٰ دیتا ہوں.یہ لوگ ایسی باتوں کے بہت معتقد ہوتے ہیں وہ ڈر گئی اور اس نے کہا کہ توبہ کرتی ہوں.تب میں نے اس لڑکے کو کہا کہ اگر تم وہ پانچ سو جو روٹی پر صرف ہوتا ہے خرچ نہ کرو تو کنجر ہی برا کہیں گے کوئی شریف برا نہ کہے گا اور مادہ فاسد اب توبہ کرتی ہے تم کھانا موقوف کر دو.اب خواہ ان کنجروں کی تعریف حاصل کرلو خواہ شرفاء کی.خدا نے اس کو سمجھ دے دی اور اس نے مان لیا اور کہا کہ پانچ سو بچ گیا دوسرے بھائی کو کہا اس نے بھی مان لیا.مسلمان مرو: میری غرض تمہیں داستان سنانا نہیں اس واقعہ سے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو لوگ کہتے ہیں مرتے وقت توبہ کر لیں گے وہ جھوٹے ہیں اس وقت کس کو ہوش رہتی ہے.اس وقت کوئی فہم نہیں ہوتا.ہاں خدا تعالیٰ کے بعض بندے ہوتے ہیں جن کو دیکھا ہے کہ مرتے ہوئے بھی کچھ کہتے جاتے ہیں‘ ان میں ہندوئوں کو بھی دیکھا ہے.جب یہ حالت ہے کہ انسان کے اپنے اختیار میں نہیں کہ مرتا ہوا مسلمان مرے تو اس کی آج فکر کرو.مسلمانی کی موت تب ہی ہو سکتی ہے.ابھی سے تیاری ہو پھر جس وقت چاہے موت آجاوے.اس کا گُر اس آیت میں بتایا ہے کہ متقی بن جائو.مسلمان مرنے کا طریق تقویٰ ہے.پس میں بھی چاہتا ہوں کہ تقویٰ اختیار کرو اور ایسا تقویٰ جو تقویٰ اللہ کا حق ہے.عقائد اسلامی: تقویٰ کیا ہے؟ عقائد صحیحہ ہوں اور ان کے موافق اعمال صالحہ ہوں اور اخلاق فاضلہ ہوں.عقائد صحیحہ کیا ہیں؟ ہمارے عقائد بہت آسان ہیں.
اول ایمان باللہ! اللہ تعالیٰ کو تمام صفات کاملہ سے موصوف اور تمام محامد اور اسماء حسنیٰ کا مجموعہ اور مسمیٰ اور تمام بدیوں سے منزہ یقین کرنا‘ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور وجود اور ہستی سے امید وبیم نہ رکھنا اور کسی کو اس کا شریک اور ندّنہ ماننا وہ اپنی ذات میں یکتا اپنی صفات میں بے ہمتا.اپنے اسماء اور افعال میں (الشوریٰ :۱۲) ہے اٹھتے بیٹھتے اسی کا نام لینا اسی کو نافع اور ضارّ یقین کرنا اور کسی سے اللہ کے سوا تعلق نہ ہو.پھر ملائکہ پر ایمان لانا ضروری ہے جو تمام نیک تحریکوں کے محرک ہیں اور ان پر ایمان لانے کی یہی غرض ہے کہ انسان ان پاک تحریکوں پر عمل کرے.پھر اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے پھر اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وقتاً فوقتاً دنیا کی اصلاح اور بھلائی کے لئے اپنے پاک نبیوں کو بھیجا.اور ہم ان تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے یا جن کا ذکر نہیں ہوااور ان انبیاء کی نبوت اور بعثت میں ہم کوئی فرق نہیں کرتے.اس پاک گروہ نے خدا تعالیٰ کا کلام مخلوق کو پہنچایا پھر جزا وسزا پر ایمان لانا یعنی مسئلہ تقدیر کو ماننا کہ وہ حق ہے جزا وسزا حق ہے.حشر نشر، پل صراط، جنت ونارسب حق ہیں یہ تو عقائد صحیحہ ہیں.اس کے بعد ایمان صالحہ ہیں کیونکہ زندہ اور مثمر ایمان وہی ہے جس کے ساتھ اعمال صالحہ ہوں.ان میں نماز ہے‘ زکوٰۃ ہے‘ حج اور روزہ ہے.اخلاق فاضلہ کو حاصل کرنا اور رذائل سے بچنا ہے قرابت داروں، یتامیٰ، مساکین سے اپنے مال سے سلوک کرنا‘ مسافر نوازی کرنا.بعض اوقات مسافروں کے ریل پر پیسہ نہیں رہتے ایسے لوگوں سے سلوک کرنا ضروری ہے.نمازوں کو قائم رکھنا.عسریسر مقدمہ ہو یا صلح، راحت ہو یا رنج، افلاس اور غریبی ہو یا امیری.ان تمام مرحلوں میں اللہ کو ناراض نہ کرنا یہ تمام امور مختصراً تقویٰ کے اصول ہیں.جو شخص ان پر کاربند ہو گا وہ متقی ہو گا.تقویٰ کے نتائج بہت ہیں مگر ایک ان میں سے یہ ہے کہ متقی کی موت مسلمان کی موت ہو گی.اعتصام بحبل اللّٰہ: اس اصل کو قائم رکھنے کے لئے ایک اور قاعدہ اللہ تعالیٰنے بتایا ہے اور وہ یہ ہے ٓ(آلِ عمران :۱۰۴) سب کے سب حبل اللّٰہ کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو.مدرسوں میں
رسہ کشی کا ایک کھیل ہوتا ہے اور تم نے دیکھا ہو گا اس میں دو پارٹیاں ہوتی ہیں.ایک ایک طرف دوسری دوسری طرف.جس طرف کے لڑکے وحدت کے ساتھ مل کر زور نہ لگائیں وہ جیت نہیں سکتے.یہ لڑکوں کی فطرت میں ایک امر رکھ دیا ہے.مسلمانوں کو بھی ایک حبل اللّٰہ دیا گیا ہے ان کا فرض ہے کہ وہ سب کے سب مل کر زو ر لگائیں.اب قرآن کریم کے اعتصام کے مسلمان مدعی ہیں.ایک طرف جڑ کاٹنے کے لئے آریہ، برہمو ،سناتنی، مسیحی، دہریہ، ملحداس رسہ کو کھینچ رہے ہیں اور زور لگا کر اپنی طرف لے جانا چاہتے ہیں.دوسری طرف تم نے اس حبل اللّٰہ کو پکڑنے کا دعویٰ کیا ہے ان مخالف اقوام میں سے برہمو سب سے زیادہ خطرناک ہے.لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بڑے نرم ہیں مگر میں ان کو سب سے بڑا دشمن اسلام سمجھتا ہوں.کیونکہ انبیاء علیہم السلام کو مکالمہ الٰہی میں دغاباز اور جھوٹے قرار دیتے ہیں (نعوذ باللہ) اور یا پاگل اور کم عقل کہتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ وہ دروغ مصلحت آمیز پر عمل کرتے تھے اسی طرح ملائکہ کے وجود کو شرک قرار دیتے ہیں.حالانکہ نبوت کے کارخانہ کا مدار ملائکہ پر ہے اور بھی باتیں ہیں جن کے بیان کی اس وقت ضرورت نہیں.مجھے برہمو لوگوں سے گفتگو کرنے کا اتفاق ہوا ہے انہوں نے یہ تسلیم کیا ہے.ایسا ہی سناتن لوگ پہلے اعتراض نہ کرتے تھے مگر اب وہ بھی کرنے لگے ہیں.مسیحی لوگوں نے تو اس قدر کوشش کی ہے کہ عقل، وہم، فکر میں نہیں آسکتی.تین ہزار اعتراض انہوں نے اسلام پر کیا ہے اور شبہ ڈالتے ہیں.مالی طمع دیتے ہیں اور بہت سے ذریعے لوگوں کو مسیحی بنانے کے اختیار کر رکھے ہیں.ضلع سیالکوٹ میں ایک شخص پر خطرناک مقدمہ تھا.اس کو کہا گیا کہ عیسائی ہو جائو تو شاید بچ جائو.چنانچہ وہ مسیحی ہو گیا اور روئیداد مقدمہ میں یہ امر بھی آگیا کہ مسیحی ہونے کی وجہ سے شبہ کیا جاتا ہے اور گواہی میں مخالفانہ شہادت تعصب مذہبی کے باعث ہے.اس سے وہ بچ گیا کیونکہ مجسٹریٹ نے فیصلہ میں لکھ دیا کہ گو شہادت قوی ہے مگر مذہبی عداوت کا رنگ رکھتی ہے.بعد میں اس نے چاہا کہ مسجد جو اس نے بنائی تھی اسے توڑ کر گرجا بنا دے.میرا ایک دوست لاٹ صاحب سے ملنے گیا ملاقات کے دوران میں لاٹ صاحب نے خود اٹھ کر ایک نہایت خوبصورت بائبل لا کر دی.اس امیر نے مجھ سے ذکر کیا تو میں نے کہا کہ کیا کبھی تم نے
بھی کسی اپنے ملنے والے غیر مذہب کے آدمی کو کہا کہ قرآن پڑھا کرو.وہ بولا ہم تو یہ کام ملانوں ہی کا سمجھتے رہے ہیں.اب مسیحیوں نے اپنے مذہب کی اشاعت کا جدید طریق اختیار کیا ہے.سڑکوں پر دائرہ اور تکیہ بناتے ہیں تاکہ وہاں آنے جانے والوں کو تبلیغ کریں.سوچو کہ وہ کس قدر کوششیں قرآن کریم کے برخلاف کر رہے ہیں.مگر مسلمانوں کی حالت اس سے بالکل جدا ہے.انہیں خبر بھی نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے.پس یاد رکھو کہ اگر پوری طاقت وہمت اور یکجہتی سے اس حبل اللّٰہ کو مضبوط نہ پکڑو گے تو مخالفین اسلام اس رسہ کو لے جائیں گے (خدانہ کرے ایسا ہو) اس رسہ کو مضبوط پکڑنے سے یہ مطلب ہے کہ قرآن مجید تمہارا دستور العمل ہو.تمہاری زندگی اس کی ہدایتوں کی ماتحت ہو.تمہارے ہر ایک کام، ہرحرکت وسکون میں جو چیز تم پر حکمران ہو وہ خدا تعالیٰ کی یہ پاک کتاب ہو جو شفا اور نور ہے.یاد رکھو! دنیا ایک مدرسہ ہے اس مدرسہ کی رسہ کشی میں وہی کامیاب ہو گا جوحبل اللّٰہ کو ہاتھ سے نہ دے گا.پس اس وقت ضرورت ہے کہ تم میں عملی زندگی پیدا ہو اور تفرقہ نہ ہو.میں پھر تمہیں اللہ کا حکم سناتا ہوں.(اٰل عمران :۱۰۴).مسلمانوں کی موجودہ حالت: افسوس ہے کہ مسلمانوں میں اب ان امور پر سوچنے کی بھی فرصت نہیں ان کے مشاغل ہی اور ہیں.کہیں وہ پولیٹیکل امور میں الجھے ہوئے ہیں اور کہیں انجمنوں کے فکر ہیں.کوئی کہتا ہے قوم اس وقت سدھر جاوے گی جب وہ دوسری قوموں کی طرح ایجیٹیشن کرے گی اور اپنے حقوق کے لئے اپنی طاقت پر بھروسہ کرے گی.دوسرا کہتا ہے نہیں قوم کو جو نقصان پہنچا ہے وہ اس لئے پہنچا ہے کہ وہ سود نہیں لیتی مسلمانوں کا لاکھوں نہیں کروڑوں روپیہ رائیگاں جاتا ہے.ایک کہتا ہے کہ اخبار میں یہ آرٹیکل نہ لکھا تو کچھ نہیں.دوسرا کہتا ہے کہ یہ رسالہ نہ ہوا تو کچھ بھی نہیں ہو گا.قوم میں اگر کوئی خوبی پیدا ہو سکتی ہے تو اسی راہ سے ہو گی.غرض جو جس کے جی میں آتا ہے کہہ دیتا ہے.میں تمہیں کہتا ہوں یہ نجات کی راہیں نہیں.ان باتوں سے کچھ نہ بنے گا ایک ہی راہ ہے کہ
حبل اللّٰہ کو مضبوط پکڑو جب تک قرآن مجید کی ہدایات کے مطابق تمہارا عمل درآمد نہ ہو گا.اور اس حبل اللّٰہ کو مضبوطی سے نہ پکڑے رہو گے تم کامیاب نہیں ہو سکتے.پس تفرقہ نہ کرو.تم اعداء تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک ہوئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آگ کے کنارے سے نکلے ہو.آئندہ اس آگ سے بچو.بحث خلافت: تم کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے بادشاہ حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک کیا اور پھر اس کے بعد میرے ہاتھ پر تم کو تفرقہ سے بچایا.اس نعمت کی قدر کرو اور نکمی بحثوں میں نہ پڑو.میں نے دیکھا ہے کہ آج بھی کسی نے کہا کہ خلافت کے متعلق بڑا اختلاف ہے حق کسی کا تھا اور دی گئی کسی اور کو.میں نے کہا کہ کسی رافضی کو جا کر کہہ دو کہ علی کا حق تھا ابوبکرؓ نے لے لیا.میں نہیں سمجھتا کہ اس قسم کی بحثوں سے تمہیں کیا اخلاقی یا روحانی فائدہ پہنچتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نے چاہا خلیفہ بنا دیا اور تمہاری گردنیں اس کے سامنے جھکا دیں.خدا تعالیٰ کے اس فعل کے بعد بھی تم اس پر بحث کرو تو سخت حماقت ہے.میں نے تمہیں بارہا کہا ہے اور قرآن مجید سے دکھایا ہے کہ خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.آدم کو خلیفہ بنایا کس نے؟ اللہ تعالیٰ نے (البقرۃ :۳۱) اس خلافت آدم پر فرشتوں نے اعتراض کیا کہ حضور وہ مفسد فی الارض اور مسفک الدم ہے مگر انہوں نے اعتراض کر کے کیا پھل پایا.تم قرآن مجید میں پڑھ لو کہ آخر انہیں آدم کے لئے سجدہ کرنا پڑا.پس اگر کوئی مجھ پر اعتراض کرے اور وہ اعتراض کرنے والا فرشتہ بھی ہو تو میں اسے کہہ دوں گا کہ آدم کی خلافت کے سامنے مسجود ہو جائو تو بہتر ہے.اگر وہ ابٰی اور استکبار کو اپنا شعار بنا کر ابلیس بنتا ہے تو پھر یاد رکھے کہ ابلیس کو آدم کی مخالفت نے کیا پھل دیا.میں پھر کہتا ہوں کہ اگر کوئی فرشتہ بن کر بھی میری خلافت پر اعتراض کرتا ہے تو سعادت مند فطرت اسے (البقرۃ:۳۵)کی طرف لے آئے گی اور اگر ابلیس ہے تو وہ اس دربار
سے نکل جائے گا.پھر دوسرا خلیفہ دائود تھا (صٓ:۲۷) دائود کو بھی خدا ہی نے خلیفہ بنایا.ان کی مخالفت کرنے والوں نے تو یہاں تک ایجی ٹیشن کی کہ وہ انارکسٹ لوگ آپ کے قلعے پر حملہ آور ہوئے اور کود پڑے مگر جس کو خدا نے خلیفہ بنایا تھا کون تھا جو اس کی مخالفت کر کے نیک نتیجہ دیکھ سکے.پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو خلیفہ بنایا.رافضی اب تک اس خلافت کا ماتم کر رہے ہیں مگر کیا تم نہیں دیکھتے کروڑوں انسان ہیں جو ابوبکر عمر رضی اللہ عنہما پر درود پڑھتے ہیں.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا ہی نے خلیفہ بنایا ہے.یہ وہ مسجد ہے جس نے میرے دل کو بہت خوش کیا اس کے بانیوں اور امداد کنندوں کے لئے میں نے بہت دعا کی ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ میری دعائیں عرش تک پہنچی ہیں.پس اس مسجد میں کھڑے ہو کر جس نے مجھے بہت خوش کیا اور اس شہر میں آکر اس مسجد میں آنے سے خوشی ہوئی ہے میں اس کو ظاہر کرتا ہوں کہ جس طرح پر آدم ودائود اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اسی طرح اللہ تعالی ہی نے مجھے خلیفہ بنایا ہے.اگر کوئی کہے کہ انجمن نے خلیفہ بنایا ہے تو وہ جھوٹا ہے.اس قسم کے خیالات ہلاکت کی حد تک پہنچاتے ہیں تم ان سے بچو.پھر سن لو کہ مجھے نہ کسی انسان نے نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے.پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی ردا کو مجھ سے چھین لے.اب سوال ہوتا ہے کہ خلافت حق کس کا ہے؟ ایک میرا نہایت ہی پیارا محمود ہے جو میرے آقا اور محسن کا بیٹا ہے پھر دامادی کے لحاظ سے نواب محمد علی خان کو کہہ دیں پھر خسر کی حیثیت سے ناصر نواب کا حق ہے یا ام المومنینؓ کا حق ہے جو حضرت صاحب کی بیوی ہیں.یہی لوگ ہیں جو خلافت کے حق دار ہو سکتے ہیں مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جو لوگ خلافت کے متعلق بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا حق کسی اور نے لے لیا وہ اتنا نہیں سوچتے کہ یہ سب کے سب میرے
فرمانبردار اور وفادار ہیں اور انہوں نے اپنا دعویٰ میرے سامنے پیش نہیں کیا.مجھے بدر کے ایک فقرہ سے بہت رنج ہوا کہ کوئی مرزا صاحب کا رشتہ دار نور الدین کا مرید نہیں.یہ سخت غلطی ہے جو کی گئی ہے مرزا صاحب کی اولاد دل سے میری فدائی ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ جتنی فرمانبرداری میرا پیارا محمود، بشیر، شریف، نواب ناصر، نواب محمد علی خان کرتا ہے تم میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا.میں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ میں ایک امر واقعہ کا اعلان کرتا ہوں ان کو خدا کی رضا کے لئے محبت ہے.بیوی صاحب کے منہ سے بیسیوں مرتبہ میں نے سنا ہے کہ میں تو آپ کی لونڈی ہوں.ایڈیٹر بدر کا فرض تھا کہ وہ ایسی تحریر کی فوراً تردید کرتا اور لکھ دیتا کہ یہ جھوٹ ہے میاں محمود بالغ ہے اس سے پوچھ لو کہ وہ سچا فرمانبردار ہے.ہاں ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ سچا فرمانبردار نہیں مگر نہیں میں خوب جانتا ہوں کہ وہ میرا سچا فرمانبردار ہے اور ایسا فرمانبردار کہ تم میں ایک بھی نہیں جس طرح پر علی، فاطمہ، عباس نے ابوبکر کی بیعت کی تھی اس سے بھی بڑھ کر مرزا صاحب کے خاندان نے میری فرمانبرداری کی ہے.اور ایک ایک ان میں سے مجھ پر فدا ہے کہ مجھے کبھی وہم بھی نہیں آسکتا کہ میرے متعلق انہیں کوئی وہم آتا ہو.سنو! میرے دل میں کبھی یہ غرض نہ تھی کہ میں خلیفہ بنتا.میں جب مرزا صاحب کا مرید نہ تھا تب بھی میرا یہی لباس تھا.میں امرا کے پاس گیا اور معزز حیثیت میں گیا مگر تب بھی یہی لباس تھا مرید ہو کر بھی میں اسی حالت میں رہا.مرزا صاحب کی وفات کے بعد جو کچھ کیا خدا تعالیٰ نے کیا.میرے خیال ووہم میں بھی یہ بات نہ تھی مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت نے چاہا اور اپنے مصالح سے چاہا مجھے تمہارا امام اور خلیفہ بنا دیا اور جو تمہارے خیال میں حقدار تھے ان کو بھی میرے سامنے جھکا دیا.اب تم اعتراض کرنے والے کون ہو.اگر اعتراض ہے تو جائو خدا پر اعتراض کرو.مگر اس گستاخی اور بے ادبی کے وبال سے بھی آگاہ رہو.اس اخبار کو جس نے ایسا غلط واقعہ لکھا ہے اب بھی تلافی کرنی چاہئے ا ور ایسے طور پر کہ ہمارے پیارے محمود اور اس کے بھائیوں سے پوچھ کر تلافی کرے.میں کسی کا خوشامدی نہیں مجھے کسی کے سلام کی بھی ضرورت نہیں اور نہ تمہاری نذور اور پرورش کا محتاج ہوں
اور خدا تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ ایسا وہم بھی میرے دل میں گزرے.اللہ تعالیٰ نے مخفی در مخفی خزانہ مجھے دیا ہے کوئی انسان اور بندہ اس سے واقف نہیں.میری بیوی بچے تم میں سے کسی کے محتاج نہیں اللہ تعالیٰ آپ ان کا کفیل ہے تم کسی کی کیا کفالت کرو گے جبکہ تم فقرا ہو.(محمد :۳۹).جو سنتا ہے وہ سن لے اور خوب سن لے اور جو نہیں سنتا اس کو سننے والے پہنچا دیں کہ یہ اعتراض کرنا کہ خلافت حقدار کو نہیں پہنچی رافضیوں کا عقیدہ ہے.اس سے توبہ کر لو.اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے جس کو حقدار سمجھا خلیفہ بنا دیا.جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ جھوٹا اور فاسق ہے فرشتے بن کر اطاعت وفرمانبرداری اختیار کرو ابلیس نہ بنو.مسئلہ اکفار: دوسرا مسئلہ جس پر اختلاف ہوتا ہے وہ اکفار کا مسئلہ ہے اپنے مخالفوں کو کیا سمجھنا چاہئے؟ اس مسئلہ کے متعلق تم آپس میں جھگڑتے ہو.ہمارے بادشاہ ہمارے آقا مرزا صاحب نے اس کو کھول کر بیان کر دیا ہے مگر تم پھر بھی جھگڑتے ہو.سنو! ایک امام مثنوی روم کے مصنف ہیں وہ علم کلام کی کتاب ہے مگر وحدت وجود والے ان کے ہر قول کو وحدت وجود میں لے آتے ہیں.اس نے ایک جگہ مذاہب کے اختلاف کو بیان کر کے لکھا ہے.وحدۃ اندر وحدۃ است ایں مثنوی کیا مطلب مثنوی ایک راہ بتائے گی اور یہ مثنوی وحدت سے باہر نہیں جائے گی.آگے اس کے معنی کوئی اور کرے یہ اس کا اختیار ہے ایک جگہ وہ کہتا ہے.بشنواز نَے چوں حکایت مے کند وزجدائی ہا شکایت مے کند نَیمیں کوئی بولتا ہے تو وہ بھی بولتی ہے.یہ انبیاء علیہم السلام کی شان ہے وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں بولتے بلکہ خدا تعالیٰ کے بلانے سے بولتے ہیں اسی لئے قرآن مجید میں فرمایا : (النساء :۸۱) خدا تعالیٰ کے رسولوں کی اتباع خدا تعالیٰ کی اتباع ہے اور ان کی اتباع سے منحرف ہونا اور انکار کرنا اللہ تعالیٰ کا انکار ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کبھی مکمل اور موثر نہیں ہوتا.جب تک انبیاء
علیہم السلام کی نبوت پر یقین اور ایمان نہ ہو.انبیاء علیہم السلام کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کا پتا لگ جاوے اور چونکہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے وقت لوگ خدا تعالیٰ سے غافل اور دور ہوتے ہیں اور ان میں اور خدا تعالیٰ میں ایک تفرقہ اور جدائی ہوتی ہے اس لئے وزجدا ئی ہا شکایت مے کند وہ نبوی نئے اس تفرقہ اور جدائی کی شکایت کرتی ہے.یہ بہت دقیق اور طویل مضمون ہے اس وقت اس پر زیادہ نہیں کہتا.انبیاء کی ضرورت اور ان پر ایمان کے متعلق قرآن مجید نے کھول کر بیان کیا ہے.غرض مثنوی کے مصنف نے ایک حکایت لکھی ہے کہ پچھلی قوم کو ایک ہادی کے ماننے میں سہولت ہوتی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کس وقت آتے ہیں؟ ان کی آیات ، کرامات، معجزات کیا ہوتے ہیں؟ کیونکہ پہلے انبیاء کی ایک جماعت آچکی ہوتی ہے مگر پہلوں کو مشکل ہوتی ہے ان کے مقابلہ میں پچھلوں کو سہولت اور آسانی ہوتی ہے.وہ پہلوں کی تعلیم پیش کردیتا ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ باوجود یہ کہ پہلے نبی پچھلوں کے لئے راہ صاف کر جاتے ہیں مگر پھر بھی پیچھے آنے والوں پر ان کی قوم اعتراض کر دیتی اور ان کا انکار کر دیتی ہے.پس یہ کیسی صاف راہ ہے ہر نبی کے زمانہ میں لوگوں کے کفر اور ایمان کے اصول کلام الٰہی میں موجود ہیں.جب کوئی نبی آیا اس کے ماننے اور نہ ماننے والوں کے متعلق کیا دقت رہ جاتی ہے؟ ایچاپیچی کرنی اور بات ہے ورنہ اللہ تعالیٰ نے کفر، ایمان اور شرک کو کھول کر بیان کر دیا ہے.پہلے نبی آتے رہے ان کے وقت میں دو ہی قومیں تھیں‘ ماننے والے اور نہ ماننے والے.کیا ان کے متعلق کوئی شبہ تمہیں پیدا ہوا؟ اور کوئی سوال اٹھا کہ نہ ماننے والوں کو کیا کہیں جو اب تم کہتے ہو کہ مرزا صاحب کے نہ ماننے والوں کو کیا کہیں ؟ قرآن مجید میں ایک مثال اللہ تعالیٰ نے دی ہے.
(ابراہیم :۲۵ تا ۲۸) فرمایا ایمان ہو یا کفر ہو، شرک ہو، فسق ہو، نفاق ہو ان کی مثال ایک درخت کی سی ہے.ایمان کی مثال ایک پاک درخت کی سی ہے اور کفر، شرک، فسق، نفاق وغیرہ کی مثال ایک خبیث درخت کی سی ہے جب وہ زمین میں بویا جاوے تو ایک لو نکلتی کوئی اس کو دیکھ کر نہیں کہہ سکتا کہ گھاس جتنا ہو گا یا بڑ کے درخت جتنا ہو گا.پھر وہ بڑھتے بڑھتے ایک زمانہ میں اپنی حقیقت خود بتا دے گا.جب وہ بڑکا درخت ہو گا تو بڑ کی طرح بڑھے گا اور پھلے گا اور آخر بڑ ہی کہلائے گا اب اگر اس کے ایک دو پتّا توڑ ڈالو تو کیا کہہ دو گے کہ بڑ سوکھ گیا.جب ہزار دو ہزار پتّا توڑ کر لے آئو گے تو اسی درجہ تک اس کی حیثیت کم ہو جائے گی پھر جب لاکھ دو لاکھ پتے اتار لو گے تو اور بھی گھٹے گا پھر جب اس کی ڈالیاں اور شاخیں کاٹ دو گے تو اور بھی.دیکھو اونٹوں والے پیپل کے درخت کو کاٹ لیتے ہیں.ڈالیاں کاٹنے سے ابھی درخت موجود ہوتا ہے اور جڑ کٹ جاوے تو کچھ نہیں رہتا.اسی طرح کفر، شرک، فسق اور نفاق ہے.ایک شخص اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتا.دوسرا کہے مانتا ہوں اس میں اللہ تعالیٰ کو ماننے والا مقدم ہے اب ایک اور ہے جو اللہ تعالیٰ کو ماننے کے ساتھ ساتھ کہتا ہے بت کو بھی سجدہ کر لو مگر دوسرا کہتا ہے بت پرستی نہیں کرنی چاہئے.اب یہ موحد اس مشرک کے مقابل میں مقدم ہے پھر ایک اور ہیں جو نبیوں کو مانتے ہیں اور دوسرے نہیں مانتے اب نبیوں کو ماننے والا منکر سے مقدم ہوگا.ایک قوم ہے جو ادریس اور یحیٰ کو مانتی ہے قرآن شریف ان کو صابی کہتا ہے یہ قوم اب بھی ہے.یہود بہت سے نبیوں کو مانتے ہیں مگر مسیح کا انکار کرتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو مسیح کا بھی اقرار کرتے ہیں.پس جو مسیح کو مانتے ہیں وہ ان کے منکروں سے قریب ہو گئے.پھر عیسائیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اقرار کر دیا.ابوبکر ان سب سے افضل ہو گیا.اب صحابہ، تابعین، تبع تابعین، اولیاء اللہ، چشتی ، قادری، سُہروردی ہوں یا نقشبندی ہوں، رفاعی ہوں یا احمدی ہوں ان میں راستبازوں کے ماننے والے اور ٹھٹھے کرنے والے اپنے مراتب رکھیں گے جو انکار راستباز کا کرتا جاوے گا وہ گرتا جاوے گا.
یہ بنیاد رافضیوں نے رکھی ایک رافضی نے مجھے ایک رسالہ دکھایا جس کا نام طریق نجات تھا اس نے تمام اولیاء پر ایک لعنت کا باب الگ رکھا ہے تمام محدثین پر لعنت کا باب الگ.میں نے اسے دیکھ کر کہا کہ تم نے حد کر دی ہے تمہیں کچھ بھی نصیب نہ ہو گا وہ جھوٹا ہی مر گیا.جیسا میں نے ابھی کہا ہے یہ رفض کا شبہ ہے جو خلافت کی بحث تم چھیڑتے ہو.یہ تو خدا سے شکوہ کرنا چاہئے کہ بھیرہ کا رہنے والا خلیفہ ہو گیا.کوئی کہتا ہے خلیفہ کرتا ہی کیا ہے؟ لڑکوں کو پڑھاتا ہے.کوئی کہتا ہے کہ کتابوں کا عشق ہے اسی میں مبتلا رہتا ہے.ہزار نالائقیاں مجھ پر تھوپو.مجھ پر نہیں یہ خدا پر لگیں گی جس نے مجھے خلیفہ بنایا یہ لوگ ایسے ہیں جیسے رافضی ہیں.جو ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما پر اعتراض کرتے ہیں.غرض کفر وایمان کے اصول تم کو بتا دئیے گئے ہیں.حضرت صاحب خدا کے مرسل ہیں اگر وہ نبی کا لفظ اپنی نسبت نہ بولتے.تو بخاری کی حدیث کو نعوذ باللہ غلط قرار دیتے جس میں آنے والے کا نام نبی اللہ رکھا ہے پس وہ نبی کا لفظ بولنے پر مجبور ہیں.اب ان کے ماننے اور انکار کا مسئلہ صاف ہے.عربی بولی میں کفر انکار ہی کو کہتے ہیں ایک شخص اسلام کو مانتا ہے اس حصہ میں اس کو اپنا قریبی سمجھ لو.جس طرح پر یہود کے مقابلہ میں عیسائیوں کو قریبی سمجھتے ہو اسی طرح پر یہ مرزا صاحب کا انکار کر کے بھی ہمارے قریبی ہو سکتے ہیں اور پھر مرزا صاحب کے بعد میرا انکار ایسا ہی ہے جیسے رافضی صحابہ کا کرتے ہیں.ایسا صاف مسئلہ ہے مگر نکمے لوگ اس میں بھی جھگڑتے رہتے ہیں.نکمے لوگ ہیں اور کام نہیں ایسی باتوں میں لگے رہتے ہیں ایک تو وہ ہیں جو قلعے فتح کرتے ہیں اور ایک یہ ہیں.کیا کوئی خلافت کے کام میں روک ہے: تیسری بات یہ ہے کہ بعضلوگوں کا خیال ہے اور وہ میرے دوست کہلاتے ہیں اور میرے دوست ہیں وہ کہتے ہیں کہ خلافت کے کام میں روک لاہور کے لوگ ڈالتے ہیں.میں نے قرآن کریم اور حدیث کو استاد سے پڑھا ہے اور میں دل سے اسے مانتا ہوں.میرے دل میں قرآن اور حدیث صحیح کی محبت بھری ہوئی ہے.سیرۃ کی کتابیں ہزاروں روپیہ خرچ کر
کے لیتا ہوں ان کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے اور یہی میرا ایمان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو کوئی اس کو روک نہیں سکتا.آدم اور دائود کا خلیفہ ہونا میں نے پہلے بیان کیا اور پھر اپنی سرکار کے خلیفہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کا ذکر کیا اور یہ بھی بتایا کہ جس طرح پر ابوبکر اور عمر خلیفہ ہوئے رضی اللہ عنہما اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے مجھے مرزا صاحب کے بعد خلیفہ کیا اب اور سنو (یونس :۱۵) تم سب کو بھی زمین میں اللہ تعالیٰ نے ہی خلیفہ کیا یہ خلافت اور رنگ کی ہے پس جب خلیفہ بنانا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے تو کسی اور کی کیا طاقت ہے کہ اس کے کام میں روک ڈالے.لاہور میرا گھر نہیں میرا گھر بھیرہ میں تھا یا اب قادیان میں ہے میں تمہیں بتاتا ہوں کہ لاہور کا کوئی آدمی نہ میرے امر خلافت میں روک بنا ہے نہ بن سکتا ہے پس تم ان پر بدظنی نہ کرو.قرآن مجید میں فرمایا ہے (الحجرات :۱۳) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث.(صحیح بخاری.کتاب الوصایا.باب قول اللہ تعالٰی من بعد وصیۃ یوصی..) اللہ تعالیٰ نے یہی تعلیم دی ہے بدظنی سے ہٹ جائو.یہ بدکار کر دے گی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدظن بڑا جھوٹا ہوتا ہے پس تم بدظنی نہ کرو.اب بھی میرے ہاتھ میں ایک رقعہ ہے وہ لکھتا ہے کہ لاہور کی جماعت خلافت میں ایک روک ہے.میں ایسا اعتراض کرنے والوں کو کہتا ہوں کہ یہ بدظنی ہے اس کو چھوڑ دو.تم پہلے ان جیسا اپنے آپ کو مخلص بنائو.لاہور کے لوگ مخلص ہیں حضرت صاحب سے انہیں محبت ہے.غلطی انسان کا کام ہے.اس سے ہو جاتی ہے ان سے بھی غلطی ہوتی ہے یہ جُدی بات ہے مگر ان لوگوں نے جو کام کئے ہیں تم بھی کر کے دکھلائو.میں بلند آواز سے کہتا ہوں کہ جو لاہوریوں پر بدظن ہے کہ وہ خلافت میں روک ہیںاسے یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بدظنی کرنے والے کو یہ سروپا ملتا ہے ان الظن اکذب الحدیثاور اللہ جلشانہ نے فرمایا: وہاں
سے اثم کا خطاب ملتا ہے.بدظنی سے پھر غیبت نصیب ہوتی ہے اور اس کے متعلق فرمایا:(الحجرات :۱۳) پس مخلصوں پر بدظنی کرتے ہو اور میرا دل دکھاتے ہو.خدا سے ڈرو.تمہارے لئے میں دعائیں کرتا ہوں ان سے محروم نہ بنو.اگر مان لیا ہے تو شکر کرو.نہیں تو صبر کی دوا موجود ہے.میں باوجود اس بیماری کے جو مجھے کھڑا ہونا تکلیف دیتا ہے اس رقعہ کو دیکھ کر سمجھاتا ہوں کہ خلافت کیسری کی دوکان کا سوڈا واٹر نہیں.تم اس بکھیڑے سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے.نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے.میں جب مر جائوں گا (اللّٰہم متعنا بطول حیاتہٖ.ایڈیٹر) تو پھر وہی کھڑا ہو گا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کر دے گا.تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں تم خلافت کا نام نہ لو.مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے.اگر تم زیادہ زور دو گے تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے.دیکھو! میری دعائیں عرش میں بھی سنی جاتی ہیں میرا مولیٰ میرے کام میری دعا سے بھی پہلے کر دیتا ہے.میرے ساتھ لڑائی کرنا خدا سے لڑائی کرنا ہے.تم ایسی باتوں کو چھوڑ دو اور توبہ کر لو.وہ اخبار نویس جو لکھتا ہے کہ کوئی رشتہ دار میرا معتقد٭ نہیں توبہ کر لے وہ مرزا صاحب کے رشتہ داروں سے پوچھ لے.مرزا سلطان احمد صاحب کی بیوی اور بچے تک تو میرے مرید ہیں.اور وہ آپ حضرت صاحب کی زندگی میں بھی میرا معتقد تھا.پس جو ایسا کہتے ہیں کہ رشتہ دار میرے مرید نہیں جھوٹ کہتے ہیں.
کیا کفر کا لفظ بھیانک معنے رکھتا ہے اور کفر بمعنے انکار نہیں؟ اگر کہو کہ لاہور کے لوگ خلافت میں روک ہیں تو میرے مخلص دوستوں پر بدظنی ہوتی ہے اسے چھوڑ دو جو شخص کسی پر بدظنی کرتا ہے وہ نہیں مرتا جب تک اس میں مبتلا نہ ہو.میں سنتا ہوں تم آپس میں اختلاف کرتے ہو.اختلاف انسان کی فطرت میں ہے یہ ہٹ نہیں سکتا مگر اس کو شغل نہ بنائو.جس امر پر اللہ تعالیٰ نے تم کو جمع کر دیا ہے اس وحدت کے مرکز کو نہ چھوڑو.کبھی کبھی مجھے ان حالتوں کو دیکھ کر بددعا کا جوش آتا ہے مگر پھر رحم سے کام لیتا ہوں.توبہ کر لو.ہماری زندگی میں چھوڑ دو.تھوڑے دن صبر کرو.پھر جو پیچھے آئے گا اللہ تعالیٰ جیسا چاہے گا وہ تم سے معاملہ کرے گا.سنو! تمہاری نزاعیں تین قسم کی ہیں.اول ان امور اور مسائل کے متعلق ہیں جن کا فیصلہ حضرت صاحب نے کر دیا ہے جو حضرت صاحب کے فیصلہ کے خلاف کرتا ہے وہ احمدی نہیں جن پر حضرت صاحب نے گفتگو نہیں کی.ان پر بولنے کا تمہیں خود کوئی حق نہیں جب تک ہمارے دربار سے تم کو اجازت نہ ملے.پس جب تک خلیفہ نہیں بولتا یا خلیفہ کا خلیفہ دنیا میں نہیں آتا ان پر رائے زنی نہ کرو.جن پر ہمارے امام اور مقتدا نے قلم نہیں اٹھایا تم ان پر جرات نہ کرو.ورنہ تمہاری تحریریں اور کاغذ ردی کر دیں گے.تم میں سے کوئی تصنیف کرتا ہے اور اگر کہو کہ تمہارا قلم نہیں لکھ سکتا تو کیا ہم بھی نہ لکھیں تو نورالدین، تصدیق، فصل الخطاب، ابطال الوہیت مسیح کو پڑھو.مجھے لکھنا آتا ہے اور خوب آتا ہے مگر خدا تعالیٰ کی ایک مصلحت نے روک رکھا ہے اور ہاں خدا نے روکا ہے.اب بھی تمہارے رسائل میں غلطیاں ہوتی ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ان میں غلطیاں ہوتی ہیں مگر خدا نے چاہا ہے کہ خاموش رہوں.تم کیا ہستی رکھتے ہو کہ جو نہ میرے دربار سے اجازت ہوتی ہے نہ خدا کی طرف سے تمہیں امر ہوتا ہے اور تم جرات کرتے ہو.دیکھو یاد رکھو! تمہاری کوئی جماعت نہ بنے گی تم لکھ رکھو کوئی ایسی جماعت نہ بنا سکو گے.پس میری بات کو یاد رکھو اور بدظنی چھوڑ دو.تفرقہ نہ کرو.حضرت صاحب نے جو فیصلہ جس امر میں کر دیا ہے اس کے خلاف نہ کہو نہ کرو.ورنہ احمدی نہ رہو گے.یہ خیال چھوڑ دو کہ لاہور
کے لوگ خلافت کے امر میں روک ہیں.اگر ایسا نہ کرو گے تو پھر خدا مسیلمہ کا سا معاملہ کرے گا.جماعت کے ساتھ نمازیں پڑھو.درود اور استغفار پڑھو.حلال طیب کمائو اور کھائو.ان بیہودہ باتوں سے کوئی نفع نہیں اٹھا سکتے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان نکما نہیں بیٹھ سکتا.میں نئے تجربہ کی سپارش نہیں کرتا بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ حالت ایسی ہی ہے کہ اگر بیوی اچھی خوبصورت مل گئی تو صرف شہوانی کام رہ گیا.اسی شہر میں ایک بڑاآدمی گزرا ہے.ایک انگریز اس سے ملنے کو آیا اس کو اس نے اپنی فوج کا معائنہ کرایا.رسالے،پیادے، توپخانہ وغیرہ دکھا کر پوچھا کہ کیسی فوج ہے اس نے شکریہ ادا کیا اور اظہار مسرت کیا.فوج سامنے کھڑی تھی مگر حکم دیاکہ خاصہ کی فوج لائو.اندر سے بڑی خوبصورت عورتیں ہتھیار لگائے ہوئے آگئیں اس انگریز سے پوچھا کہ ایسی فوج بھی دیکھی ہے اس نے کہا کبھی نہیں.اس پر اس رئیس نے کہا کہ پہلی فوج میری ہے اگر وہ بغاوت کر دے تو میں اکیلا اسے تباہ کر سکتا ہوں، مگر اس فوج کے مقابلہ میں ہمیشہ شکست کھاتا ہوں.غرض کچھ مسلمان تو اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور تیار ہیں اور کچھ وہ ہیں جو نکمے ہیں سارا دن مباحثات کرتے ہیں ان سے پوچھو فرشتوں نے اعتراض کر کے کیا لیا تھا.پس تم ان جھگڑوں کو چھوڑ دو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(اٰل عمران :۱۰۵) تم میں ایسے لوگ ہوں جو خیر مسلّم کی طرف بلانے والے ہوں.پسندیدہ اور بھلائی کے کاموں کا امر کریں اور ناپسندیدہ باتوں کو روکیں اور وہ مظفر ومنصور ہوں گے.اب میں پھر نصیحت کرتا ہوں میرے بڑھاپے اور بیماری کو دیکھ لو اپنے اختلافوں کو دیکھ لو کیا یہ تمہیں خد اسے ملا دیں گے.اگر نہیں تو پھر ہماری بات مانو اور محبت سے رہو.اور اس طرح پر رہو کہ میں تمہیں دیکھ کر اسی طرح خوش ہو جائوں جس طرح پر مسجد کو دیکھ کر خوش ہوا.جس طرح شہر میں داخل ہو کر مسجد کو دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی.خدا کرے کہ جاتے ہوئے مجھے یہ آواز دے کہ تم باہم ایک ہو اور تم محبت سے رہتے ہو.تم بھی دعائوں سے کام لو میں بھی تمہارے لئے دعا کروں گا.وباللّٰہ التوفیق (الحکم ۲۱، ۲۸؍جون ۱۹۱۲ء.صفحہ ۱۴ تا ۲۲)
احسان عام کی اسلامی تعلیم {تقریر فرمودہ۱۶؍جون۱۹۱۲ء بوقت ۶ بجے شام} ۱۶؍جون ۱۹۱۲ء کو چھ بجے شام کے حضرت خلیفۃ المسیح نے ایک پبلک تقریر فرمائی جس کے لئے ایک اعلان شائع کیا گیا تھا.وقت مقررہ پر آپ نے احمدیہ بلڈنگز کی مسجد میں کھڑے ہوکر مندرجہ ذیل تقریر فرمائی چونکہ وقت بہت تنگ تھا اس لئے ۱۷ کی صبح کو ایک تیسری تقریر اور آپ نے کی.یہ تقریر بھی حسب معمول حضرت خلیفۃ المسیح کی اصلاح کے بعد شائع کی جاتی ہے.( ایڈیٹر) (الفاتحۃ :۲تا۷) یہ چند آیات جو میں نے پڑھی ہیں.یہ قرآن کریم کے ابتداء میں لکھی ہیں.غالباً ہر ایک مسلمان یا یوں کہو کہ ہر ایک مسلمان جو کبھی نماز پڑھتا ہو ان کو یاد رکھتا ہے.یہ آیتیں تمام مذاہب اسلام میں جس قدر بھی وہ ہوں اور تم جانتے ہو کہ کم از کم میںمذاہب اسلام کو جانتا ہوں وہ شیعہ ہوں یا ناصبی ہوں، سنی ہوں یا صوفی ہوں.مذاہب اربعہ کے پابند ہوں یا گروہ اہل حدیث سے ہوں.سب کے سب عملی طور پر نماز میں اس سورۃ کو پڑھتے ہیں.بعض اس کے پڑھنے میں لفظ فرض کا کہہ لیتے ہیں اور بعض واجب کا.پھر بعض اَئمہ فرض اور واجب میں فرق نہیں سمجھتے اور بعض کچھ فرق نکال کر اعتقادی طور پر فرق کرلیتے ہیں نہ عملی طور پر.اسلام کا احسان عام: اس سورۃ میں کی دعا واقعہ ہوئی ہے اور اس سورۃ پر غوراور تدبر کرنے سے مجھے ایک اور ایک دو کی طرح (اور اس سے بھی زیادہ کیونکہ کہتے ہیں آنکھ کے ایک مرض میں ایک کے دو نظر آتے ہیں) کامل یقین ہے کہ اسی آیت نے دنیا پر احسان عام کرنا چاہا ہے.
یہ آیت ایک مسلمان کو نوع انسان کے تمام راستبازوں اور برگزیدوں کی اتباع کی تعلیم دیتی ہے.وہ خواہ کسی ملک اور کسی قوم میں ہوتے ہوں کیونکہ اس میں یہ نہیں کہا کہ ان لوگوں کی راہ بتا دو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبع ہیں یا صحابہ اور تبع تابعین کے متبع ہیں یا ان کی راہ جو اجماع اور قیاس صحیح کے قائل ہیں یا احادیث کے قائل ہیں یا صوفی مشرب ہیں کسی خاص قوم اور فرقہ کا نام نہیں لیا بلکہ کوئی ہوں‘.ہاں منعم علیہ ہوں.وہ یہودیوں میں ہوں‘ عیسائیوں میں ہوں‘ مجوسیوں میں ہوں‘ آریہ ورت میں ہوں.کینفوشس لیوٹ کے متبع ہوں، کسی قوم اور کسی ملک میں ہوں.کتنا وسیع خیال اور عام احسان ہے.جس کی تعلیم اسلام دیتا ہے.جو نعمت تیرے حضور مسلّم ہے اور جو انعامات تو نے اپنے اس برگزیدہ لوگوں پر خواہ وہ کہیں بھی ہوں کئے ہیں.انہیں لوگوں کی راہ ہم مانگتے ہیں کہ اس کی آگاہی عطا کرو.یہ تو تم جانتے ہو کہ زمین گول ہے.اور یہ بھی جانتے ہو کہ ہر جگہ ہر وقت کوئی نہ کوئی نماز کا وقت ضرور رہتا ہے.کہیں عصر، کہیں مغرب، کہیں ظہر، کہیں عشا اور کہیں فجر.غرض ایک جگہ ایک نماز کا وقت، دوسری جگہ دوسری نمازوں کے اوقات ہوں گے.پس گویا ہر وقت یہ آیت پڑھی جاتی ہے.اس غوروفکر کے بعد میں نے اپنی خوشی کی کئی باتیں اس سے نکال لیں.اول.تمام مذاہب میں جن سے میری مراد تاریخی مذہب ہیں یا صاف الفاظ میں یوں کہو جو کسی نبی کے ماتحت سمجھے جاتے ہیں.دعا ایک ایسی چیز ہے کہ اگر اس کا انکار کیا جاوے تو ساری نبوتیں باطل ہوجاتی ہیں کیونکہ نبوتوں کی بنیادہی دعا پر ہے.میں آپ بھی دعائوں کا بہت ہی قائل اور معتقد ہوں اور میں نے دعائوں کی قبولیت کے ایسے نظارے دیکھے ہیں کہ کوئی فلسفہ اور سائنس میرے سامنے دعا کو باطل نہیں کرسکتا.دوم.اس دعا نے دنیا کے تمام راستبازوں اور برگزیدہ لوگوں کی تعظیم و اطاعت کی تعلیم ہر مسلمان کو دی ہے.اب جبکہ رات اور دن کا کوئی وقت نہیں گزرتا جبکہ یہ دعا نہیں مانگی جاتی کہ منعم علیہ کی راہ دکھا دو اور تمام مذاہب دعا کے قائل ہیں اور یہ دعا اس قدر مانگی گئی ہے جس کی حد نہیں کم از کم پانچ نمازوں میں جو ہر وقت دنیا میں پڑھی جاتی ہیں.مسلمان یہ دعا مانگتے رہتے ہیں
اور دعا میں یہ خاصیت ہے کہ جب وہ اضطراب اور توجہ تام سے مانگی جاوے تو ضرور قبول ہوتی ہے.دعا اور کوشش: بعض لوگ دعا کے منکر ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ زبان سے کہہ دینے سے کیا بنتا ہے مگر مجھے تعجب ہے کہ تمام خواہشیں جب دل سے اٹھتی ہیں تو پھر وہ زبان پر آتی ہیں اور اس کے بعد ان کا اثر تمام اعضاء پر پڑتا ہے.کم سے کم بعض معاملات میں وکلاء کو اور کورٹ فیس کے لئے روپیہ دینا پڑتا ہے.یہ تمام کرشمے اس ایک خواہش کے ہیں.جو دل میں پیدا ہوئی.پھر کیا یہ تعجب کی بات ہے کہ دل کی خواہش باقی اعضاء پر متاثر ہوکر ان کی مساعی سے بارآور ہوجاوے اور زبان سے اگر اللہ تعالیٰ کے حضور التجا اوردعا کی جاوے، تو وہ کامیاب نہ ہو اسے بے اثر اور فضول قرار دیا جاوے.وہ تمام مساعی جو ایک شخص کسی مطلب کے لئے کرتا ہے اور ادھر ادھر ہاتھ پائوں مارتا ہے.یہاں تک کہ ایک شخص جو بیٹھا ہوا سربگریباں کسی امر کے متعلق سوچ رہا ہے.یہ سب کے سب دعا ہی کے عجائبات ہیں.مگر ایک محجوب انسان سمجھ نہیں سکتا.یہ غوروفکر اور کوشش ایک محجوب کی دعا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑانا اور پکارنا عارف کی دعا ہے.جس سے انکار نہیں ہوسکتا.وہ لوگ جھوٹے ہیں جو نبیوں کے بتائے ہوئے اصل سے انکار کرتے ہیں.کوشش کو مقدم کیا ہے اور دراصل کوشش بھی ایک قسم کی دعا ہی ہوتی ہے لیکن یہ ابتدائی درجہ دعا کا ہے.جب انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ پر ایمان لاتا ہے اور اسباب کی زنجیروں سے نکل جاتا ہے وہ اس کی عارفانہ زندگی ہوتی ہے.اس مقام پر وہ بے اختیار ہوکر ہی پکارتا ہے.وضو: غرض یہ دعا ہی ہے.مسلمان جب دعا کے لئے تیار ہوکر آتا ہے.تو سب سے پہلاکام وضو ہے.غالب گناہ ہاتھ پائوں کے متعلق ہوتے ہیں.اس لئے ان کو وضو میں دھوتا ہے.گویا یہ بتاتا ہے کہ جہاں جہاں میرا ہاتھ پہنچنا ہے.میں اس کو دھونے کو تیار ہوں.باقی کے لئے آپ مدد کریں.وضو کی ظاہری حالت کے نیچے ہے اور اس کی اصل حقیقت اور روح جو اندرونی طہارت اور باطنی پاکیزگی ہے.وہ کے ماتحت ہے.اذان میں اصول اسلام کا اعلان: پھر نماز میں آنے سے پہلے کوشش کی اور بھی حد کردی.پانچ وقت نمازوں کے یا اس اصل
کے موافق جو میں نے ابھی بتایا ہر وقت ہی دنیا کے ہر حصہ میں اسلام کے اصول پیش کرتا ہے اور وہ یہ کہ بلند مناروں پر چڑھ کر اذان دیتا ہے.اس کے معنے اعلان کے ہیں.پہلے بتاتا ہے کہ ہم ہیں کون؟ اللّٰہ اکبر کہہ کر بتاتا ہے کہ ہم اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں.جو اللہ کو سب سے بڑا سمجھتی ہے.تمام صفات کاملہ سے موصوف اور تمام بدیوں سے منزّہاسے یقین کرتی ہے.اسی کا ہم دنیا میں اعلان کرتے ہیں اور بڑی بھاری شہادت چار مرتبہ ہوتی ہے.اس لئے یہ بھی اللّٰہ اکبرچار مرتبہ کہتا ہے.پھر اور تشریح کرتا ہے کیونکہ شاید کوئی اور بھی اللّٰہ اکبر کہتا ہو اس لئے بتاتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو تمام حاجت روائیوں کا مرکز اور اپنے آپ کو کامل محتاج یقین کرتے ہیں اس لئے دل سے کہتے ہیں.اشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ اس کلمہ نے ایک مومن مسلمان کو تمام دنیا سے ناامید کردیا ہے.کیونکہ الٰہ کے مفہوم میں داخل ہے کہ کوئی معبود نہیں کوئی محبوب اور مطاع نہیں.مگر اللہ نبی کریمؐ کی خاص عظمت: پھر دنیا میں راستباز ضرور آئے ہیں اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی عظمت کے اظہار کے لئے کوئی کسرنہیں رکھی.اس مقصد کے لئے عزت، آبرو، جان و مال اور عزیز وطن کی کوئی پرواہ نہیں رکھی.اس کو پہنچایا اور بہتوں کو منوایا.مگر تھوڑا ہی عرصہ ان پر گزرا کہ ان کے متبعین نے ان کو معبود قرار دے دیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو آخر میں آئے.آپؐ نے سوچا کہ میرے بہت سے بھائی جو لا الٰہ الا اللّٰہ کے خادم تھے.بڑے خاکسار اور شریف الطبع اور نہایت ملنسار اور بااخلاق طبیعت کا انسان مسیح تھا.مگر عقلمندوں نے ان کو بھی خدا بنا کر چھوڑا.اس دانش و عقل پر کہ ایک انسان کو خدا بنالیا.اب کہتے ہیں ہمارے ذریعہ روشنی پہنچتی ہے.یہ اچھی روشنی ہے روشنی کا قاعدہ جہاں تک مجھ کو معلوم ہے.اس کے اندر کار بن ہوتی ہے اور وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتی رہتی ہے.ملت ابراہیمی کے مقتدا اور مقتدی اولاد ابراہیم تھے مگر انہوں نے اللہ کے سوا اوروں کو معبود بنالیا.اس غلطی میں دنیا کو مبتلا دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے متعلق ہمیشہ کے لئے شرک کی بنیاد اکھیڑ دی اور ہر وقت اس کا عام اعلان کرایا.اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ اس پاک کلمہ نے ایسی احتیاط
کردی کہ آیندہ یہ غلطی نہیں ہوسکتی.آپؐ نے یہ کھول کر بتادیا کہ میں عبد ہوں اور رسول ہوں.اذان میں اس کلمہ کو رکھنے سے یہی غرض ہے کہ ہادیان مذہب کو معبود بنانے کی غلطی اس قوم میں پیدا نہ ہو.پھر جامع تعظیمات الٰہیہ کی دعا نماز ہے اور تمام ان راہوں سے جو مظفر و منصور ہونے کی راہیں ہیں حی علی الفلاح کہہ کر واقف کیا.اس کو اس قدر بلند آواز سے پہنچایا کہ خلقت کو کبھی شبہ نہ رہے.مخفی مذاہب: میں نے ایسے مذاہب دیکھے ہیں جو اپنی تعلیم کو مخفی رکھتے ہیں.ان میں بڑا مذہب فری میسن ہے.اس کی تعلیم اور حالات عام نہیں ہوتے.اس میں بعض مصالح ملکی بھی ہیں.اس لئے بڑے بڑے عہدہ دار اس میں شامل ہوتے ہیں.لوگوں نے فریمیسنر ی کے متعلق عجیب عجیب باتیں سنائی ہیں.مگر فریمیسن ان کو سن کر ہنس دیتے ہیں.شاکت مت: پھر ہندوئوں میں ایک قوم ہے جو اپنے مذہب کو مخفی رکھتی ہے.لاہور اور امرتسر میں وہ دو،تین ہوں گے.وہ بھی اپنے مذہب کو بہت ہی مخفی رکھتے ہیں.میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ جو تعلیم تعظیم الٰہیہ اور شفقت علی خلق اللہ پر مبنی اصول رکھتی ہو اس کے چھپانے کی ضرورت ہوسکتی ہے.میں نے بہت سوچا ہے مگر یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی.اس لئے ان تمام مخفی مذاہب کے مقابلہ میں اسلام پانچ وقت روزانہ بلند آواز سے اپنے کل عقائد کو کھول کر بیان کرتا ہے.اسلام کا امتیاز: کیونکہ اسلام میں کوئی مخفی راز نہیں اگر کسی نے شخصی ضرورتوں کے لئے کوئی ایسی انجمن بنائی ہو تو اس کا ہمیں علم نہیں مگر یہ میں جانتا ہوں کہ اسلام کسی مخفی سوسائٹی کی تعلیم نہیں دیتا اور جہاں تک میں نے اسلام کو سمجھا ہے اس کی کوئی ایسی بات نہیں جو مخفی رکھی گئی ہو.بہرحال ہمارا مذہب تو ایسا کھلا ہے کہ پانچ وقت پہنچایا جاتاہے.زمین چونکہ گول ہے اس لئے یہ کہنا درست ہے کہ ہر وقت اس کے اصولوں کو کھول کر سنایا جاتا ہے.اس پر تیس ۳۰سال گزر گئے ہیں اور یہ برابر سنایا جاتا ہے.غرض اس آیت میں اسلام کے احسان عام کی تعلیم ہے جس سے دنیا میں ایک امن اور سلامتی پیدا ہو سکتی ہے جبکہ یہ تعلیم دی ہے کہ ہمیں منعم علیہ کی راہ دکھائو.اس میں کسی قوم اور ملک کو مخصوص نہیں
کیا.پس ہم کہتے ہیں جو بھی تیرے حضور ہیں ان کے قدم بقدم چلائو.اسلام کی تعلیم میں عالمگیر صلح کا دوسرا اصل: پھر ایک اور احسان عام اسلام نے یہ کیا کہ اپنے متبعین کو یہ تعلیم دی.(الانعام :۱۰۹).فرمایا کوئی معبود کسی قوم کا ہو کسی کو گالی مت دو.قرآن کریم چونکہ اپنے دعویٰ کے ساتھ دلائل بیان کرتا ہے.اس لئے اس تعلیم کی خوبی عقلی دلیل سے سمجھائی کہ جو لوگ اللہ کے سوا اور معبودوں کو پکارتے ہیں تم ان کے معبودوں کو گالی نہ دو.کیونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو وہ اللہ تعالیٰ کو گالی دیں گے.اس عقلی دلیل سے ہماری قوم کو بتایا ہے کہ کسی دوسری قوم کے معبود کو ہم گالی نہیں دے سکتے اور یہ فخر صرف قرآن مجید کو حاصل ہے.کوئی کہے تم کیا جانتے ہو؟ میں کہتا ہوں کہ میں نے بائبل کو پڑھا ہے اور کثرت سے پڑھا ہے.اس میں یہ تعلیم نہیں.تین وید پڑھے ہیں (پڑھوا کر سنے ہیں) اور خوب پڑھے ہیں.ژنداوستا، گاتھ، سفرنگ کو خود پڑھا ہے اور خوب پڑھا ہے مگر یہ تعلیم کہ کسی اہل مذہب کے معبود کو گالی نہ دو.ان میں نہیں.قرآن کریم نے صداقت اور ہدایت کے لئے مسلمانوں کو ایسا وسیع الحوصلہ ہونے کی تعلیم دی کہ کی دعا سکھائی.تمام مذاہب پر یہ احسان عام کیا کہ ان کے معبودوں کو گالی دینے سے منع فرمایا.اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ معبودان باطلہ کی تردید منع کی.اس کے لئے الگ اصول اور طریقے تعلیم کئے.یہاں صرف وہ بات بتائی جو امن اور سلامتی کو قائم رکھتی ہے.پھر ان احسانات کے ساتھ ایک اور احسان اسلام نے کیا جو میرے خیال میں دنیا کے کسی ریفارمر اور مصلح کو نہیں سوجھا وہ یہ ہے.(الحج :۴۱) ہم بعض اوقات خود حفاظتی کا حکم دیتے ہیں اور اس سے غرض یہ ہے کہ اگر یہ نہ ہو تو گرجے تباہ ہوجاویں.دھرم سالے اور یہودیوں کے معبد تباہ ہوجاویں اور ہم نہیں چاہتے کہ وہ تباہ ہوں.کیا یہ سنہری اصل دنیا کی کسی مذہبی کتاب میں پایا جاتا ہے؟ اگر یہ فقرہ انجیل میں ہوتا تو مسیحی لوگوں
نے جو سلوک اپنے مخالف لوگوں کے معبدوں سے کیا ہے وہ نہ ہوتا.میتھالوجی کو پڑھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ مسیحی لوگوں سے پہلے کس قدر معبد تھے.جن کا آج نام و نشان بھی نہیں.مثلاً پڑاموں کا بڑا عظیم الشان مندر تھا.جہاں سکندر اعظم پیادہ حج کرنے آیا تھا.مگر آج کوئی بتا نہیں سکتا کے وہ مندر کہاں تھا؟ اس قدر تنگ دلی، ضد اور تعصب اور ہٹ اسلام پسند نہیں کرتا کہ معبد گرادیئے جاویں.مسلمانوں نے جہاں آٹھ سو برس، ہزار اور بارہ سو برس بھی راج کیا ہے.اس ملک کے معابد اب تک موجود ہیں اور ان کو تباہ نہیں کیا مگر بڑی روشنی سکھانے والی قوم سے پوچھیں کہ پڑاموں کا مندر کہاں تھا؟ تو نہیں بتاسکتے نشان تک مٹا دئیے بلکہ یروشلم جیسی جگہ جو بائبل میں بھی مقدس سمجھی گئی تھی.پاش پاش کردی گئی اور وہاں سور کی قربانی کی گئی.شاید کوئی کہہ دے کہ سور ناپاک نہیں.مگر بائبل پڑھیں گے تو اس کے خلاف پائیں گے.اس کے بالمقابل دیکھو کہ سپین اور فلسطین میں کیسی پُرشوکت اسلامی سلطنت تھی مگر دیکھ لو پرانے سے پرانے معبدوں کو چھیڑا نہیں بلکہ فاروق اعظم کے زمانہ میں جب وہ یروشلم تشریف لے گئے تو وہاں کے بشپ نے کہا کہ یہاں نماز پڑھ لو.انہوں نے فرمایاکہ تم بڑے ناعاقبت اندیش ہو اگرمیں یہاں نماز پڑھ لوں تو مسلمان اس گرجے کو مسجد بنا لیںگے.ہماری سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور نجران کے عیسائی آئے اور اتوار کا دن تھا.آپؐ نے فرمایا میری ہی مسجد میں گرجا کرلو.وہ لوگ رومن کیتھلک ہوں گے مگر کس حوصلہ کے ساتھ ان کو اجازت دی.اس سے پایا جاتا ہے جہاں وہ احسان عام کرتے تھے وہاں ابقائے عام بھی ان کا مذہب تھا.خواہ ہندوستان میں پہلی صدی ہجری میں عرب آئے اور کم از کم ساڑھے گیارہ سو سال تک اسلامی سلطنت یہاں رہی.قصہ تو مشہور ہے کہ عالمگیر سوامن جینو روزانہ اترواکر کھانا کھاتے تھے مگر یہ الزام دینے والوں سے اگر حساب پوچھیں کہ تم حساب دان ہو.مہربانی کرکے بتائو کہ سوامن جینو پہننے والے کس قدر انسان ہوتے ہیں اور عالمگیر کی سلطنت پر اس حساب کو پھیلائیں تو پھر ہندوستان کیا ساری دنیا کو بھی پورا کردیتے.اس عرصہ دراز میں ہندوستان کے معابد پر اسلامی سلطنت نے کیا اثر کیا؟ ان کی موجودگی خود ظاہر کرتی ہے.
ہاں آزادی کو نہیں روکا.قبول مذہب میں اسلام نے آزادی کو قائم رکھا جب کہ کہا.(البقرۃ :۲۵۷) اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے اسلام میں داخل ہوجاوے تو اس کا اختیار ہے.پھر بھی بڑے بڑے قیود ساتھ رکھے.ظاہر میں اگر مسلمان ہو اور دل میں نہ ہو ہم لوگ اسے منافق کہیں گے اور اس کے متعلق فتویٰ پر ہے.(النساء :۱۴۶) ایسے لوگ کبھی کسی اعزاز اسلام میں شریک نہیں کئے جاتے.غور کرو کیسی خطرناک قید ہے.سوائے اس کے کہ شرح صدر سے داخل اسلام ہوں کوئی تحریک مسلمان بنانے کی نہ تھی اور میرے خیال میں تو اسلام میں داخل ہونے کے لئے کچھ روکیں بھی تھیں.جزیہ: منجملہ ان کے ایک جزیہ ہے ناواقف لوگوں نے جزیہ پر اعتراض کئے ہیں مگر میںکہتا ہوں کہ جزیہ تو اسلام سے روکنے کا موید تھا.جزیہ ایک ٹیکس ہے جو ہر ایسے شخص سے وصول کیا جاتا جو مسلمان نہ تھا مگر مسلمانوں کے ملک میں امن اور چین سے تجارت کرناچاہے تو جہاں مسلمانوں کو ۴۰/۱، ۲۰/۱، ۱۰/۱ اپنے اموال کا دینے کاحکم ہے وہاں اس غیر مسلم کو ۱۲ ۴ ماشہ سونے سے زیادہ نہ دینا پڑے اور حسب حیثیت کم ہوجاوے.مسلمانوں کے مقررہ حصہ زکوٰۃ کے علاوہ اور صدقات بھی دینے پڑتے بلکہ جان بھی دینی پڑتی مگر اس قوم کو جو مسلم نہیں اپنی حفاظت جان و مال کے بدلہ میں ایک نہایت ہی خفیف ٹیکس دینا پڑے اور اس پر بھی اعتراض ہو تعجب! میں نے کہا ہے جزیہ اسلام سے روکنے کی تائید کرتا ہے.غور کرو کہ ایک مسلمان جس کے پاس دس کروڑ ہو تو وہ پچیس لاکھ زکوٰۃ دے.مگر جو مسلمان نہیں وہ صرف ساڑھے چار ماشہ سونا جو چھ سات روپے کا ہو دے کر مخلصی کراسکتا ہے.اب ایک دنیادار تو یہی کہے گا کہ جزیہ دینا ضروری ہے کیونکہ مسلمان ہونے سے بڑی بھاری مالی قربانی کرنی پڑے گی اور اگر اس پہلو کو چھوڑ کر بھی جزیہ پر غور کریں تو کوئی متمدن سلطنت ایسی نہیں جو ٹیکس کو ضروری نہ سمجھتی ہو اور آج کل تو ٹیکسوں کی وہ بھرمار ہے کہ انسان حیران ہوجاتا ہے اور پھر وہ سب ضروری ہیں.روز بروز تمدنی ضروریات کی وجہ سے رنگ برنگ کی تدبیروں سے ٹیکس لگاتے ہیں.ہوا، مکانات، پانی پر ٹیکس، ِحرفوں پر ٹیکس‘ مکانوں پر ٹیکس، خوردنی اشیاء پر ٹیکس، گاڑیوں پر ٹیکس، کتوں پر ٹیکس، جانوروں پر ٹیکس مگر جس قدر جزیہ کو برا سمجھا
جاتا ہے ٹیکس کو برا نہیں سمجھا جاتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض تعصب اور ہٹ کا نتیجہ ہے.انصاف اور غور کو اس میں دخل نہیں ورنہ یہ جزیہ بھی احسان عام میں داخل سمجھا جاتا.اسلامی جنگوں پر ایک نظر: یہ تو جزیہ کی حقیقت ہے.رہیں لڑائیاں، وہ الگ چیز ہیں.ان کے تعلقات دین سے نہیں ہوتے.مثلاً آج جو تم لوگوں کے خیال میں روشنی کا زمانہ ہے اور امن اور صلح کا عہد ہے.کیا لڑائیاں مٹ گئیں بلکہ جس قدر بحری اور برّی لڑائیوں کے ہتھیاروں کی ایجاد ہوئی ہے.پہلے زمانوں میں اس کی نظیر بھی نہیں ملتی.سمندر میں جائو، ہوا میں جائو، قاتل ہتھیار تمہارے لئے موجود ہیں.بعض ہتھیاروں کے موجد سے کہا گیا کہ یہ بدامنی کی راہ ہے.انہوں نے جواب دیا کہ ان ہتھیاروں سے جنگ کا دامن لمبا نہیں ہوتا جلد فیصلہ ہوجاتا ہے.پھر جب ہم غور کرتے ہیں تو کیا کوئی زمانہ لڑائیوں سے خالی گیا ہے.اگر عام جنگیں نہ ہوں تو خانہ جنگیاں ہی شروع ہوجاتی ہیں.بوئروں کی جنگ ابھی چھڑی نہ تھی.ایک میرے دوست نے کہا کہ اب جنگ کا خاتمہ ہے.تھوڑے دنوں کے بعد بوئروں کی جنگ چھڑ گئی.تب میں نے اس سے پوچھا کہ کیوں صاحب جنگ کا خاتمہ ہوگیا؟ بہر حال پھر میں نے کہا کہ دونوں ہی پراٹسٹنٹ ہیں.اس نے کہا ہاں آپ کا اعتراض درست ہے.جاپان کو کچھ اگر معزز بنایا تو جنگ نے.غرض جنگ دنیا سے کبھی دور نہیں ہوئی اور یہ ایک اٹل چیز ہے اس کے اسباب الگ ہیں.ہندو قوم میں جنگیں: ہندو اگر جنگوں پر اعتراض کرتے ہیں تو ان سے ہم پوچھتیہیں کہ کرشن جی پہلے تھے یا رام چندر جی.جب مہا بھارت اور گیتا کو پڑھتے ہیں تو راما اوتار کا ذکر نہیں پاتے اور رامائن کو پڑھتے ہیں تو اس میں کرشن جی کا ذکر نہیں.بالبک مفصل تاریخ رام کی ہے اور تلسی رامائن عام فہم تاریخ ہے مگر اس میں کرشن دیو کا ذکر نہیں اور مہا بھارت گیتا میں کرشن کا بہت بڑا تذکرہ ہے مگر راما اوتار کا نہیں.ان دونوں کے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو بڑے ہی ہر دل عزیز ہیں.جوگ بششٹ سے رام چندر جی کی تعلیم کا پتا لگتا ہے وہ ان کے استاد کی کتاب ہے وہ بہت نرم چلنے والے تھے اگر گرم ہوتے تو بن باس کے وقت فوج کو گانٹھ سکتے تھے اور اجودھیا میں خون کی ندیاں بہادیتے.عورت کا مقابلہ چیز ہی کیا تھا.مگر اپنا وطن
چھوڑ دیا.جنگل میں رہنا اختیار کیا.باوجود اس نرمی کے دیکھو جنگ کیسی اٹل ہے جنگل میں بھی جنگ کرنی پڑی اس حد تک مخالف قوموں کو نیچا دکھایا کہ دکن کی جن لوگوں نے سیاحت کی ہے.وہاں دہیڑ قوم چوہڑوں سے بھی زیادہ بدتر ہے.وہ راون کے طرفدار تھے.اب رام لیلا پر چاہے مسلمانوں سے مقدمات کریں مگر مجھے ایک واقعہ یاد ہے کہ ایک جگہ بڑی رام لیلا ہوتی تھی ایک بڑے عالم و ودان اس میں شریک نہ تھے.میں نے پوچھا کہ آج آپ نہ تھے اس نے کہا کہ وہ بڑے ملیچھ ہیں.برہمن کو مارا اور یہ بھی کہا کہ راجہ سے پوچھو کہ رام لیلا کے بعد پراشچت کیوں کرتا ہے.دوسرے دن مجھے موقع ملا تو میں نے اس رئیس سے پوچھا کہ کل بڑا تماشاہوا اس نے کہا ہاں اگلے سال زندہ رہے تو پھر راون کو ماریں گے.اس پر میں نے کہا کہ آپ تو بڑے مضبوط ارادے رکھتے ہیں.مگر رات کو کیا رسم ہوئی تھی.کہا ہاں پراشچت ہے.راون برہمن تھا برہمن کو مارنا بڑا گناہ ہے اس لئے پراشچت کرنی پڑی.میں نے کہا آپ گناہ بھی سمجھتے ہیں اور کرتے بھی ہیں.تو کہا یہ اور بات تھی اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑائیاں اور چیز ہیں ان کے اسباب الگ ہوتے ہیں اور وہ اٹل ہوتی ہیں.کرشن جی گوپال تھے.متھرا میں بارش کے دنوں میں عجیب نظارے نظر آتے ہیں.انہوں نے ایک قوم کے آگے ایک قوم کی سفارش کی تھی اور سفارش بھی اتنی کہ ان کو پانچ گائوں دے دو، کو روکے سامنے پانڈو کی سفارش کی تھی مگر مصلحت ملکی سے انہوں نے نہ مانا.آخر مہابھارت کی جنگ جیسی خطرناک تھی.اسے ہمارے ہندو دوست خوب جانتے ہیں ہمیں تو کہا جاتا ہے کہ بڑا ظلم کیا مگر اس وقت کیا ہوا.سکھوں کا عہد: ہماری آنکھوں کے سامنے پنجاب اور پھر لاہور ہے.گرو گرنتھ صاحب کے بچن کیسے نرم ہیں اور باوا صاحب کے شاگردوں کا نام سکھ تھا جو اچھی باتیں سیکھ کر عمل کرتے ہیں مگر دسویں خلیفہ کے وقت بات کہاں تک جا پہنچی.سکھ کی بجائے آئندہ سنگھ کہلائے جس کے معنے شیر کے ہیں یہ جنگی رنگ تھا.یہ بالکل سچی بات ہے کہ جنگی امور اور مصالح پر مبنی ہوتے ہیں.میں نے کہا ہے کہ اسلام میں مروت عام ہے اور وہ مذاہب کا ابقا چاہتا ہے پھر اگر کوئی کہے کہ جنگ کیوں کئے تو میں نے تاریخی واقعات سے بتایا ہے کہ صوفیوں کو بھی کرنے پڑے ہیں.
عیسائی قوم: اب وہ قوم باقی ہے جو کہتی ہے مبارک وہ جو دل کے غریب اور حلیم ہیں اور ایک گال پر طمانچہ کھاکر دوسری پھیر دو.کوئی چادر مانگے تو کُرتا بھی دے دو.ایک میل بگار کے لئے لے جاوے تو دو میل چلا جاوے.مگر باوجود اس تعلیم کے گولیوں، ریفلوں، جنگی جہازوں اور تار پیڈو دیکھ لئے.آئے دن کی جنگی ایجادوں کو دیکھ لو.پھر پتالگ جاوے گا وہ تعلیم اب کہاں ہے؟ غرض تمام مذاہب جو اسلام کی جنگوں پر اعتراض کرتے ہیں.وہ خود اس میں مبتلاہیں باوجود اس کے اسلام کی لڑائیاں دفاعی تھیں چنانچہ فرمایا: (البقرۃ :۱۹۱).تاریخ ہند کی غلطیاں: ہاں ہمارے بچے بہت معذور ہوسکتے ہیں.میں نے ایک بچے کے ہاتھ میں تاریخ ہند دیکھی اس میں سیوا جی مرہٹہ اور عالمگیر کے حالات کو دیکھا.سیواجی نے کہیں خوشامد سے کام لیا ہے اور کہیں دھمکی سے، مؤرخ وہاں کہتا ہے کہ سپاہیا نہ طرز ہے.سیواجی بڑا بے نظیر سپاہی تھا.کیسی ترکیب کی ہے پہاڑوں اور راستوں کا بڑا ماہر تھا.فلاں موقع پر کیسا مخفی ہوا.پھر وہی لفظ جب عالمگیر کے متعلق استعمال کرنے پڑے تو کہتا ہے گربہ مزاج کیسا شتر مُرغ سا کام کیا ہے.میں نے اس بچہ سے پوچھا تم نے تاریخ پڑھی ہے.سیواجی بڑا تھا یا عالمگیر ، اس نے کہا سیواجی بڑا بہادر سپاہی تھا وہ بڑا تجربہ کار اور ہوشیار تھا اور عالمگیر مکار تھا.اس کا کام گربگی کاہے.میں نے جب سیواجی کے متعلق اس کو وہی کام دکھائے جو عالمگیر کے نام پر آنے سے مکاری بنتے ہیں اور سیواجی ان کے ذریعہ بہادر اور تجربہ کار سپاہی بتایا جاتا ہے.تو وہ حیران سا ہوگیا اور کہا کہ دونوں کی ایک ہی بات ہے پھر میں نے کہا کہ یہ کیوں فرق کرتا ہے.دواں کی سوانح عمری پڑھ کر بتائو اس نے کہا میں نے سمجھ لیا ہے.دونوں کو لڑاتا ہے.میں نے کہا کہ ہمارا نکتہ یاد رکھو جب تم بہت پڑھ لو گے تو حقیقت معلوم ہوجائے گی.اسلامی تاریخ کا ایک واقعہ: غرض قوموں میں ایسے انقلاب آجاتے ہیں کہ انہیں جنگ سے کام لینا پڑتا ہے.میں نے تاریخ میں
پڑھا ہے کہ مسلمانوں کے وقت امتحان اور مقدمات کتنی جلد طے ہوتے تھے.اصمعی ایک بڑا لغت کا امام تھا.بخاری اور مسلم بھی اسے لغت کا امام مانتے ہیں.اصمعی کے استادنے ہارون رشید کے حضور کہا کہ اصمعی تیار ہوگیا ہے اس کا امتحان لے لینا چاہئے.ہارون رشید نے کہا کہ جب ہم کل سوار ہوں تو اس کا امتحان لیں گے ایک افراتفری اس پر پڑی کہ خداجانے کس چیز پر سوار ہوں بہرحال وقت مقررہ پر ہارون رشید باہر آیا.لغت کے استاد کھڑے ہوئے تھے.انہوں نے اصمعی کو پیش کیا.ہارون رشید نے پوچھا کہ کیا تم تیار ہو اس نے جواب دیا کہ ہاں.تب ہارون رشید نے گھوڑے کے پٹھے میں ہاتھ رکھ کر کہا کہ اس کو کیا کہتے ہیں.اصمعی نام بتاتا گیا اور اس کی سند میں شعر پڑھتا گیا.ہارون رشید نیچے تک ہاتھ لے گیا اور اصمعی فوراً بتاتا گیا.جب ختم کرچکا تو پھر پٹھے پر ہاتھ رکھ کر آگے کی طرف چلا گیا اور کہا کہ منہ تک جائو اور نام لیتے جائو کہا کہ جلدی کرو کہ میں نے باہر جانا ہے.اصمعی بتاتا گیا.آخر ہارون نے کہا پاس امام اللغت، ایک آن میں امتحان بھی ہوگیا نتیجہ بھی نکل آیا اور ڈپلومہ بھی مل گیا.اب دیکھ لو کہ جس قدر روشنی بڑھتی جاتی ہے مشکلات بڑھ رہے ہیں.مقدمات کے متعلق جو حال ہے وہ تم جانتے ہو.میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ سویلیزیشن کے کیا معنی ہیں؟ اس نے کہا کہ ایک روپیہ کے مقدمہ کے لئے پریوی کونسل تک پہنچے.ملکی مقدمہ بازی اور سویلیزیشن پر ریمارک: جس قدر قومیںتمہاری نگاہ میں تہذیب سے گری ہوئی ہیں ان میں مقدمہ بازی نہیں ہوتی وہ اپنی پنچایت آپ کر لیتے ہیں.مگر جعلسازی، جعلی نوٹ اور چیک بنانا یہ سویلیزیشن کا کام سمجھا گیا ہے.ایک شخص تین مہینے تک میرے گھر میں ر ہا اور خوب کھاتا پیتا رہا.آخر کہا کہ مہمان نوازی بھی سویلیزیشن کے خلاف ہے.میں نے اس کو کہا کہ تو ہمیں احمق بناتا ہے.اس پر اس نے بڑی بڑی کہانیاں سنائیں کہ فدائی دوست اور عزیز بھی ہوں تو بھی سویلیزیشن کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہوٹل میں اتریں‘ ان کا مخلص دوست زیادہ سے زیادہ یہ کرے کہ اپنے دوست کے آنر میں ایک ڈنر دے دے.اس طرح پر اس نے انگریزی سوسائٹی کے آداب اور مشکلات کو سنایا.میں نے ان کو کہا کہ تم نماز کی پابندی نہیں کرتے اور قرآن مجید کے قوانین کی
پابندی نہیں کرتے.حالانکہ سوسائٹی کے قوانین تو قرآن مجید سے بھی بڑھ جاتے ہیں.اس نے کہا کہ بڑی مشکل سے ان قوانین تہذیب کو سیکھا ہے.اب میں چھوڑ سکتا ہوں؟ غرض دنیا کی عجیب حالت ہے، بات کہاں سے کہاں چلی گئی.میں بتا رہا تھا کہ اسلام احسان عام کی تعلیم دیتا ہے.اس کے ضمن میں اسلامی جنگوں کی بحث آگئی.تب مجھے جنگ کی عام حالت پر کچھ کہنا پڑا.ہدایت: اسلام نے اس سورۃ میں کی راہ کی ہدایت کی دعا سکھائی ہے اور پھر عمل سے بھی یہی بتایا اور کہا. (البقرۃ :۳۹).عمل بڑا کارخانہ ہے اور دنیا ایک عملی دنیا ہے جو انسان ہدایت کی اطاعت کرتا ہے وہ کبھی خوف و حزن میں مبتلا نہیں ہوسکتا اور الٰہی ہدایت ہمیشہ دنیا میںا ٓتی رہتی ہے.حزن گذشتہ کا خوف ہوتا ہے اور خوف آئندہ کے نقصان کے لئے ہوتا ہے.اسی خوف و حزن پر ساری دوستیوں اور مخلوق کا مدار ہے.اللہ جلشانہ‘ فرماتا ہے کہ خوف اور حزن سے بچنے کی ایک راہ ہے اور وہ اتباع ہدایت.سے ظاہر ہوتا ہے.میری طرف سے ہدایت نامے ملا کریں گے.ہدایت نامہ تو ایک ہی ہوتا ہے مگر زمانہ کی نیرنگیاں، نئی تعلیم، ترقی، تنزل، زبان کی حالت چاہتی ہے کہ پیرایہ جدید ہو.اس لئے فرماتا ہے (النساء :۳).یہ معلم فطرت کوجگانے کے لئے آتے ہیں.اس لئے ان کا نام ذکر ہوتا ہے وہ آکر فطری قویٰ کو جگاتے ہیں. جو ہدایت نامہ تم نے مانگا تھا.وہ قرآن مجید کی صورت میں دیا گیا ہے اور بتایا کہ (البقرہ:۳).ریب کے دو ترجمہ ہیں (۱) ہلاکت، (۲) شک و شبہ اور دونوں درست ہیں.تعلیمات الٰہیہ میں کوئی تعلیم ایسی نہیں جس سے ہلاکت کی راہ پیدا ہو بلکہ قرآن کے بیان سے یہ یقینا ثابت ہوتا ہے کہ وہ یقینا شفائٌللناس ہے اور اس کے عملدرآمد سے میں علیٰ وجہ البصیرۃ کہتا ہوں کہ اس پر عمل کرنے سے انسان کا مصداق ہوسکتا ہے.ہاں اس تعلیم کی خلاف ورزی سے غلطی میں مبتلا ہوجاتا ہے اوربڑے بڑے نقصان اس کو اٹھانے پڑتے ہیں.جہاں تک میری نظر جاتی ہے اور میں نے غور کیا ہے یہ بالکل امر
واقعی ہے.ہوسکتا ہے تمہارے علوم، تجربے اور معلومات میں وسعت ہو.ہوسکتا ہے میرے بیان میں کمزوری ہو.ہوسکتا ہے تمہیں ایک واقعہ معلوم ہو اور مجھے نہ ہو مگر یہ بات کہ میری عمر بڑی ہوچکی ہے اور قویٰ ضعیف ہوچکے ہیں اگرچہ میرے کان، زبان وہ طاقت نہ رکھتے ہو ں مگر یہ یقینی بات ہے کہ قرآن مجید پر عمل انسان کو خوف و حزن سے نکال دیتاہے.میں نے اپنی تمام عمر میں تجربہ کیا ہے اور جہاں تک میںقرآن کریم کی تعلیم کو سمجھتا ہوں انسان خوف و حزن سے بچ جاتا ہے.میرے دوست بے شک کہہ د یں کہ کیا میں کبھی غمگین ہوا ہوں یا انہوں نے مجھے کسی خوف سے روتے دیکھا ہے.وہ برسوں سے میرے پاس رہتے ہیں.انہوں نے مجھے خوف اور حزن میں نہیں دیکھا پس اگر تم خوف و حزن سے بچنا چاہو اور اس کا علاج کرنا چاہو تو قرآن کریم کی اتباع سے ہوتا ہے مگر ایک شرط سے.وہ یہ ہے کہ علم صحیح ہو اور اس کے ساتھ عمل ہو.علم بدون عمل کے کچھ فائدہ نہیں دیتا.مثلاً یہاں کنواں ہے کوئی شخص جو اس کا علم صحیح رکھتا ہے وہ اس میں نہیں گرے گا.مسلمانوں کو یہ صحیح علم ہے کہ قران مجید کی تعلیم کے ذریعہ وہ خوف و حزن سے محفوظ رکھے گئے لیکن جب تک عمل نہ ہو کچھ فائدہ نہیں.میں اب بس کرتا ہوں ایک تو وقت ایسا تنگ ہے کہ بولنے کی زیادہ گنجائش نہیں.(ایڈیٹر.مغرب کا وقت قریب ہوگیا تھا) دوسرے جب سننے والوں میں کسی وجہ سے گھبراہٹ ہو تو بولنے والے کو خود مزہ نہیں آتا.(البدر ۱۸؍جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳ تا ۷) ٭ … ٭ … ٭
منعم علیہ اور مغضوب وضال {تقریرفرمودہ ۱۷؍جون ۱۹۱۲ء صبح بمقام مسجد احمدیہ بلڈنگس لاہور} دوسری تقریر کا تتمہ.بعد اصلاح حضرت خلیفۃ المسیحؓ شائع ہوئی.(الفاتحۃ :۶،۷) انعامات الٰہیہ: کل میں نے یہی آیت پڑھی تھی مگر انہوں نے ایسا وقت رکھا کہ بولا جانا مشکل معلوم ہوا.اللہ تعالیٰ عدم سے ہم کو نکال کے لاتا ہے اور وجود بخشتا ہے یہ بھی اس کا انعام ہے ہم پر، جو انعامات الہٰیہ ہیں ان کی کوئی حد نہیں.ایک آیت پر غور کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے فرماتا ہے (ابراہیم :۳۵) اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو ہرگز اس کے شمار و حدبست پر قادر نہیں ہو سکتے.پھر یہ کس قدر اس کے فضل کی بات ہے کہ تمہاری تمام فطرتی خواہشوں کے سامان اس لئے عطا فرمائے ہیں.(ابراہیم :۳۵) جو کچھ تمہاری حالت نے مانگا اس نے عطا کیا.خدا تعالیٰ کے انعامات بے حد.ایک طرف انسان کی فطرتی ضرورتوں کا پورا ہونا دوسری طرف، پھر میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب مجید میں فرماتا ہے.(الانعام : ۱۹) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر حکمران ہے.اس آیت پر تدبّر کرتے ہوئے ایک مرتبہ میں حیران ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ تو تمام کائنات کے ذرّہ ذرّہ پر حکمران ہے.جمادات، نباتات، حیوانات، فرشتوں، سورج، چاند تمام فلکیات پر حکمران ہے.یہ کیا فرمایا خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر حکمران ہے؟ قرآن کریم کا طریق استدلال: میں اس آیت پر بہت سوچتا رہا آخرمیں اس طرف متوجہ کیا گیا کہ قرآن کریم کا طرز استدلال کیا ہے؟یورپ ، امریکہ، ہندوستان اور چائنا کے متکلم ہمیشہ استدلال بالمثل کرتے ہیں.مثلاً وہ
کہتے ہیں کہ سٹیم نے فلاں جگہ یوں کام کیا ہے.اس لئے یہاں اس طرح پر ہو گا کیونکہ اسی قسم کے سامان موجود ہیں.اسی استدلال بالمثل میں بہت سی غلطیاں ہو جاتی ہیں او رصحیح نتائج پیدا نہیں ہوتے.قرآن کریم اپنے استدلال کے طریق میں استدلال بالاولیٰ سے کام لیتا ہے.مثلاً ایک شمع مصفّا اگر فرض کریں کہ دو بالشت سے ایسی روشنی دیتی ہے کہ انسان آسانی سے اس میں پڑھ سکتا ہے پھر اگر اسی حیثیت کی سو شمع اس جگہ جمع کر دیں تو اس کی روشنی بدرجہ اولیٰ اتنی ہو گی کہ انسان آسانی سے پڑھ سکے.یہ استدلال یقینی ہوتا ہے اور قرآن مجید اسی سے کام لیتا ہے.میں قرآن مجید سے اس کی ایک دو مثالیں دیتا ہوں تا کہ تم اچھی طرح سمجھ جائو.ایک جگہ فرمایا کہ ماں باپ کی ایسی عزت کرو کہ ان کو اف تک نہ کہو.جب اف کی اجازت نہیں تو مارنے کی کس طرح ہو سکتی ہے؟ یہ استدلال بالاولیٰ ہے.پھر ایک جگہ ایک قوم نے اپنے ہادی سے کہا کہ ہمیں بھی ایسے ٹھاکر بنا دو جیسے دوسری قوموں کے ہیں تا کہ ہم بھی ان بتوں کی پوجا کریں.ان کے اس لغو خیال کی تردید یوں فرمائی.(الاعراف :۱۴۱) یعنی یہ بت جن چیزوں سے بنے ہیں وہ تو تمہاری خادم ہیں یا وہ چیزیں جن کی یہ پرستش کرتے ہیں تمہاری خادم ہیں جیسے آگ، پتھر، مٹی، سورج، چاند وغیرہ یہ سب تمہارے خادم ہیں.پھر خادم تو مخدوم نہیں ہو سکتے معبود کیونکر ہوں گے؟ اس طرح پر بت پرستی کی تردید کی.اس طریق استدلال بالاولیٰ کے رنگ میں یہاں (الانعام :۱۹) میں نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان تمام دنیا کی چیزوں پر حکمرانی کرتا ہے میں نے دیکھا ہے کہ ہاتھی کو انگوٹھے سے چلاتا ہے‘ اونٹ کو ایک نکیل سے اور گھوڑے کو لگام سے.بیل کے ناک میں رسی ڈال کر اس سے کام لے لیتا ہے.پہاڑوں کو کاٹ لیتا ہے‘ سمندروں پر جہازوں کے ذریعہ حکمرانی کرتا ہے.عناصر کی کوئی چیز نہیں جو اس کے قبضہ واقتدار میں نہ ہو.انسان کی اتنی بڑی طاقت بتا کر کہا کہ ہم ایسے غالب حکمران ہیں کہ عناصر پر حکومت کرنے والے انسان پر بھی ہماری ہی حکومت ہے
انسان کی بلند پروازیاں: انسان کو ایسا عجیب مخلوقات پیدا کیا ہے کہ پرندوں جنگلی درندوں پر حکومت کرتا ہے.کبوتر ہوا میں چلے جاتے ہیں میں نے ایسے کبوتر دیکھے ہیں جو چوبیس گھنٹے تک ہوا میں اڑتے رہتے ہیں.مگر انسان کے حکم کے نیچے وہ اڑتے ہیں.شیر کیسا خطرناک جانور ہے‘ چیتے کا حملہ نہایت چستی سے ہوتا ہے مگر انسان شیر سے شکار کراتا ہے پھر وہ مالک کے حکم کے انتظار میں رہتا ہے اگر کہہ دے چھوڑ دو تو چھوڑ کے چلا جاتا ہے اور اگر کہا جاوے کہ اس کو پکڑے رکھو تو کھڑا رہتا ہے.باز کیسا ہوا میں اڑتا ہے انسان کے قابو سے نکل جاتا ہے باوجود اس آزادی کے شکار پکڑتے پکڑتے اگر اس کو کہہ دیا جاوے کہ واپس آجائو تو چھوڑ کر آجاتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بڑی طاقت دی ہے کہ وہ کائنات پر حکومت کرتا ہے.پھر جب سے انسانی نسل جاری ہوئی ہے حفظ صحت اور حفظ بقا کے لئے اس نے کیا کیا تجویزیں کی ہوں گی.بادشاہوں نے اپنے رنگ میں، انبیاء واولیاء نے اپنی دعائوں کے رنگ میں اس کی بقا کا انتظام سوچا مگر قاہر علی العباد کی زبردست حکومت کا کتنا بڑا اثر ہے کہ موت کا ہاتھ سب پر چلتا ہے.بعض لوگوں نے اپنی غلط فہمی سے مسیح کو موت سے مستثنیٰ کیا تھا مگر مرزا کی جماعت نے اس پر بھی حملہ کر دیا اور ایسا حملہ کیا کہ اب مسیح کی حیات کا ماننا ایک نادانی کا کام رہ گیا ہے.غرض انسان بڑی طاقت اور قدرت کا نام ہے اس نے تمام دنیا پر حکومت کی ہے اور کائنات کی کسی چیز کو اس نے بے تراش خراش نہیں چھوڑا.تمہارے اس شہر میں ایک شخص نے کسی سے کوہ نور ہیرا لیا تھا مگر جب اسے کام میں لانے لگے تو اس پر تراش خراش کا عمل جاری ہوا.یہ جو مبارک حویلی ہے یہاں ہی اس کا سودا ہوا تھا بکنا کیا تھا اس کی قیمت پوچھی تھی تو جو اب میں جوتی کھوسڑا ہی بتایا گیا.غرض تمام اشیاء پر انسان کی حکومت ہے اور جناب الٰہی کی اس پر بھی حکومت ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان پر بڑے بڑے انعامات کئے ہیں.یہ کیا کم انعام ہے کہ اس کو ایسی قوت دی کہ تمام چیزوں پر حکمرانی کرتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ وہ سورج کی کرنوں اور ایتھر سے حالانکہ اس کو دیکھا
نہیں کام لیتا ہے.ایتھر کی لچک سے بڑے بڑے کام نکالتا ہے.بڑی بڑی آفتوں کے علاج سوچتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کی ایک جماعت ہے.ایک بیمار تندرستی کے انعام کو چاہتا ہے.مقدمہ باز مقدمہ جیتنے کا، مفلس مفلسی کے دور ہونے اور آسودگی، محب حصول محبوب کے لئے کوشش کرتا ہے.غرض ہر شخص مختلف انعام چاہتا ہے اور انعام اس قسم کی چیز ہے کہ انسان اس کو گن نہیں سکتا.اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ انسان پر بڑے بڑے انعام کئے ہیں.اس دعا کا سلسلہ اس واسطے بڑا وسیع ہے.مفلس آرام ودولت چاہتا ہے.پورٹ بلیروالا چاہتا ہے کہ ایسی تقریب پیدا ہو کہ واپس آجائو.تاجر بڑا منافع چاہتا ہے.زمیندار چاہتا ہے زمین آباد ہو جائے غرض کے نیچے سارا جہان چلتا ہے کسی کی اولاد ہے ہزاروں مصیبتیں کھڑی ہیں لڑکا نیک ہو‘ بدکار نہ ہو.ایسی جگہ شادی ہو کہ لڑکی نیک اور تندرست ہو پھر اس کی اولاد نیک ہو بڑھاپے میں آرام پائوں.کس قدر مطالب ایک ایک چیز سے وابستہ ہیں.پھر خود انسان کی اپنی حالت پر غور کریں تو کس قدر اعضاء بدن میں ہیں ہر ایک عضو نشوونما کا محتاج ہے.پٹھوں کی کثرت کی انتہا نہیں یہ سب کی صحت چاہتا ہے.ایک انعام انبیاء، صدیق، شہداء اور صالحین پر ہوتا ہے.اس کا بھی محتاج ہے پھر کبھی یہ ہوتا ہے کہ بڑے بڑے انعامات کے سلسلہ میں کوئی مصیبت آجاتی ہے.مثلاً لڑکا بااقبال ہو‘ آسودہ اور معزز ہو.وہ کسی بیماری یا مقدمہ میں مبتلا ہو جاتا ہے تب ساری خوشی غم سے مبدل ہو جاتی ہے.سارا گھر اسی سے وابستہ ہے اس لئے سب حیران.غرض انسان انعامات کا محتاج ہے بڑے بڑے متکبر جنہوں نے خدا تعالیٰ کی ہستی نہیں مانی گھبرا کر وہ بھی انعام ہی چاہتے ہیں لیکن جیسا کہ ابھی اوپر کہا ہے کہ بعض وقت انعامات میں ایک تکلیف پیدا ہوجاتی ہے.اس دعا کی تکمیل اس طرح پر فرمائی کہ (الفاتحۃ :۷) مغضوب وضال: ہم منعم علیہ تو ہو جاویں مگر انعام پا کر مغضوب اور ضال نہ بن جاویں.مغضوب اور ضال کس کو کہتے ہیں؟ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ سچائی کو خوب جانتے ہیں.برہمو لوگوں سے پوچھو تو وہ کہتے ہیں کہ ساری سچائیوں کا علم انسان کے
اندر ہی ہے.قانون اور شریعت پھر تجربہ اور عبرت بتاتی ہے ایک کو کسی فعل سے تکلیف ہوئی تو دوسرا سمجھتا ہے کہ ایسا فعل ہم نہ کریں.انسان کا خاصہ ہے کہ کبھی انعام سے غضب کے نیچے آجاتے ہیں.پہلے مسلمانوں کو دیکھو کیسے فاتح اور معزز ومکرم تھے لوگ ان پر رشک کرتے تھے ان پر بڑے بڑے انعامات تھے.جدھر توجہ کرتے تھے ایک مہینے کی دور راہ پر لوگ کانپ اٹھتے تھے.آج ان کی جو حالت ہو رہی ہے وہ ظاہر ہے ہر جگہ ذلیل ہو رہے ہیں.غرض مغضوب علیھم وہ ہوتے ہیں جن کو علم ہوتا ہے مگر اس علم پر عمل نہیں ہوتا یا بے جا غضب اور عداوت کا شوق ہوتا ہے.امرتسر میں ایک شخص میرا بڑا ہی معتقد تھا.دس بجے تک میں باہر رہا اور وہ میرے ساتھ رہا جب ہم واپس لوٹے تو کہنے لگا کہ آپ کا پاجامہ ٹخنوں سے نیچے ہے‘ آپ سنت کے متبع نہیں.میں نے کہا کہ ہزاروں صداقتیں میں نے تمہارے سامنے پیش کی ہیں.انہوں نے تمہیں کچھ فائدہ نہیں دیا.بولا میں تو یہی دیکھتا رہا مجھے خبر بھی نہیں آپ نے کیا بیان کیا ؟میں اسی میں لگا رہا کہ آپ بدعت کرتے ہیں کیونکہ پاجامہ گھٹنے سے نیچے پڑا ہوا تھا.اس قسم کا بغض بے جا ہوتا ہے جو انسان کو مغضوب بنا دیتا ہے یہ بغض بے جا یا تو بدفطرت وبدصحبت کے سبب سے پیدا ہو جاتا ہے یا انسان نکمی کتابیں پڑھتا ہے ان سے متاثر ہو جاتا ہے اور محرکات بد ہوتے ہیں.میرا پاجامہ اب بھی نیچے گرا ہوا ہے میں تعہد بھی کرتا ہوں شاید تم اس کو سولائیزیشن ( Civilization)کے خلاف کہو کہ میں اب تمہارے سامنے اس کو درست کرتا ہوں (ایڈیٹر.کیا ہوا صدیقؓ کاتہ بند بھی گرا رہتا تھا.یہ کچھ ایسی ہی مماثلت معلوم ہوتی ہے) پس بے جا عداوت یا علم ہو اور اس پر عمل نہ ہو یہ مغضوب لوگوں کا خاصہ ہے.بحث کفر: تم میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے آپ کو مرزا صاحب کی جماعت میں داخل سمجھتے ہیں اب غور کرو.مولوی تو ہم پر کفر کا فتویٰ دیتے ہیں اور عوام بھی ان کی پیروی سیہمیں کافر کہتے ہیں.ہم ان کا پتھر جب ان کو واپس دیتے ہیں تو پھر بھی ہم پر ہی اعتراض کرتے ہیں کہ تم ہم کو کافر کہتے ہو.ہم پھر کہتے ہیں کہ جو نعمت تم نے ہمیں دی تھی ہم تو وہی واپس کرتے ہیں مگر ہمیں کافر کہنے کے لئے تو بڑی جرأت کرتے ہیں اور ہمارے اس پتھر کو واپس کرنے پر چلّاتے ہیں.حالانکہ میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے کہ وہ اسماء حسنیٰ کا مسمّٰی اور نقائص سے منزہ ہے وہ واحد حقیقی ہے اور میں اسے ایسا ہی یقین کرتا ہوں.
اپنے عقائد: اپنے عقائد میں اس کے اسماء، افعال، صفات میں کسی کو شریک نہیں مانتا اور اس کی تعظیم میں خواہ وہ عادتاً یا عبادتاً شریک نہیں مانتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء اور خاتم کمالات انسانی مانتا ہوں اور قرآن مجید کو خاتم الکتب.ایسا ہی جزاء وسزا کو حق اور جنت ونار کو حق.ملائکہ اور کتب الٰہی پر ایمان رکھتا ہوں.باوجود اس کے بھی جو ہمیں کہتا ہے کہ تم بڑے بے ایمان ہو تو ہم اسے اتنا ہی کہیں گے کہ تم ہمارے دل کے ذمہ وار نہیں.ہم کو تمہارا خوف اور طمع کیا ہے؟ میں اپنی جان میں دل سے شہادت دیتا ہوں کہ اپنی آنکھ سے فرشتوں کو دیکھا ہے اس لئے میں انکار نہیں کر سکتا.تم اس بات کو سن کر خواہ ہنس دو مگر میں تو اپنی آنکھ سے انہیں دیکھ چکا ہوں اور ان کی محبت واحسان کو اپنی آنکھ سے دیکھا اور اپنے کانوں سے انہیں یہ کہتے سنا ہے.(حٰمٓ السّجدۃ :۳۲) تم کہتے ہو مر کر پتا لگے گا میں کہتا ہوں کہ ہم نے تو اسی دنیا میں دیکھا ہے.ان کی پاک محبت، پاک تحریکوں اور احسان کو دیکھا ہے میں ان کی قدر کرتا ہوں اور ایمان لاتا ہوں.جو کہتے ہیں کہ ملائکہ صرف قوتیں ہوتی ہیں میں ان کی اس بات کو کیونکر تسلیم کر لوں جبکہ میں نے اپنی آنکھ سے انہیں دیکھا ہے قوتیں کہنے والے خود جانیں.پھر میں اللہ کے انبیاء علیہم السلام میں سے ہر ایک کو محبوب سمجھتا ہوں ان میں جامع کمالات انسانیہ، مکانیہ، زمانیہ اور جامع کمالات نبوت خاتم الرسل اور خاتم الانبیاء بلکہ خاتم کمالات انسانی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.ہمارے بادشاہ مرزا صاحب کو جو کچھ ملا ہے یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور کامل محبت سے ملا ہے اور یہی ختم نبوت کا راز ہے کہ آئندہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں گم اور فنا ہونے کے بغیر کوئی نبوت نہیں مل سکتی.الٰہی فضل کی کوئی بھی راہ نہیں ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور راہ کے خلاف مل سکے.حضرت مرزا صاحب اسی امر کا ایک نشان اور ثبوت تھے.ا نہوں نے خود ظاہر کیا کہ جو کچھ انہیں ملا ہے.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کامل محبت اور آپؐ پر درود شریف پڑھنے سے ملا ہے خدا تعالیٰ نے قبل اس کے کہ وہ دعویٰ کرتا اس کا نام ہی غلام احمد رکھا (علیہ الصلوٰۃ والسلام) آپؑ کو اس نام سے ایسی محبت تھی کہ آپؑ نے احمدؐ کے سوا کسی اور نام سے بیعت نہیں لی.اس واسطے مرزا صاحبؑ کی نبوت نبوت محمدی سے الگ کوئی
مستقل چیز نہیں.بلکہ نبوۃ محمدیہ کا ایک پھل اور نتیجہ ہے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بخاری میں اس کا نام نبی اللہ رکھا.پھر جزاوسزا کو بھی ہم مانتے ہیں.نمازیں اسی طرح فرض جانتے ہیں جس طرح مسلمانوں میں پیشتر سے فرض ہیں.اسی طرح زکوٰۃ، حج اور رمضان کے روزہ کو اسی طرح فرض جانتے ہیں جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھ کر دکھادئیے.باوجود ان باتوں کے جو ہمیں کافر کہتے ہیں.ہم یہ ان کی نعمت کفر اُن کو ہی واپس کرتے ہیں تم ہی رکھو یہ ہمارے کام کی چیز نہیں.ہم اس امر میں ابتدا نہیں کرتے.اگر مرزا صاحبؑ کو خدا کا مامورومرسل ماننے سے تم ہم کو کافر بناتے ہو تو تم خود سوچ لو کہ ایک مامور مرسل کے انکار سے تم کیا بن سکتے ہو.کفر تو نہ ماننے کا نام ہے ماننے والے تو مومن ہی کہلاتے ہیں.غرض کے مقابل میں جب انسان بے جا عداوت کرتا ہے اور علم کے بعد عمل نہیں کرتا تو ہوجاتا ہے.پس میں تمہیں جو مرزا صاحبؑ کو نہیں مانتے کہتا ہوں کہ مرزا کا مصداق ہے تم اس سے بے جا عداوت کرکے نہ بنو.اس نعمت کی قدر کرو.پہلے انکار کرنے والوں نے کیا پھل پایا جو تم امید کرتے ہو اور تم جو مرزا صاحبؑ کو مان کر مخالف مولویوں کے منہ سے اور ان کے اتباع سے عام لوگوں سے کفر کا فتویٰ بھی سنتے ہو اور پھر اس نعمت اور سچائی کی اطلاع رکھ کر علم کے موافق عمل نہیں کرتے ہو تو اندیشہ ہے کہ تم بھی نہ بن جائو.پس نہ ماننے والے خدا تعالیٰ کے اس مامور کے انکار سے ہوجائیں گے اور ماننے والے اگر عمل نہ کریں گے تو وہ بھی خطرہ سے خالی نہیں.اس لئے ڈرنے کا مقام ہے.مجھے تعجب ہے کہ تمہارے اس شہر میں کل مذاہب کے لوگ ہیں.دہریہ گوروبھگوان کی باضابطہ ایک جماعت ہے ان کی کتابیں اور رسالے شائع ہوتے ہیں.ایک اخبار جاری ہے.آرین سناتن، سکھ، براہمو، شاکت سب موجو د ہیں.یہ شاکت لوگ ایک وقت گائے کا گوشت بھی کھاسکتے ہیں.میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ انہیں شاکت لوگوں میں ایک شخص نے دو سو آدمی کا کھانا پکایا.آدمی زیادہ تھے.گرو سے جب کہا گیا تو اس نے کہا کہ کچھ حرج نہیں میں نے سمجھا کہ کوئی کرامت
ہوگی کھانا بڑھ جاوے گا.جب اندھیرا ہوگیا اور لوگ آنے لگے میں تو حیران ہوگیا جب معلوم ہوا کہ موچی دروازے کے نان بائیوں سے کھانا لے آئے ہیں.میں نومرید تھا اس لئے سمجھا کہ شاید منتر سے شدھ کرلیا ہوگا.پھر عیسائی موجود ہیں.یہودی جن کا گندے سے گندہ نمونہ اسی شہر میں ہے.آزاد الخیال لوگ بھی ہیں جو ہم کو دقیا نوسی کہتے ہیں.بی،ٹی پڑھ کر ہمیں کہتے ہیں کہ اولڈ فیشن اور اس کا مطلب وہ یہ لیتے ہیں کہ انگریزی پڑھے ہوئے نہیں ہیں.ان کے اعمال دیکھو تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو.دنیا کی حرص کتنی ہے اور اپنے اغراض کو دین کے مقابلہ میں کتنا مقدم کرتے ہیں.ان سب کو اتنا برا نہیں سمجھتے جس قدر ہمیں.مگر ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے.ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک صادق کو مانا ہے.لیکن تم جو مانتے ہو اپنے آپ کو دیکھو اگر تم بھی انہیں باتوں میں مبتلا ہو جن میں یہ لوگ ہیں تو پھر تم میں اور ان میں کیا فرق؟ مولویوں نے تم پر کفر کے فتوے دئیے اور تم اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے الگ بھی ہوئے مگر تم نے کوئی پاک تبدیلی نہ کی تو کیا فائدہ؟ جماعت کو نصیحت: میں دیکھتا ہوں چھوٹی سی جماعت ہے پھر آپس ہی میں مقابلہ ہوتے ہیں اور مباحثہ ہوتے ہیں.یہ احمق اتنا نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں مامور نہیں کیا کہ مباحثہ کرو.میرے پاس بڑے بڑے جوشیلے خط آتے ہیں کہ فلاں نے یوں کیا اور فلاں نے ووں.کیا میں لکھ دیتا ہوں تم کب ٹھیکہ دار ہو تم خود نمونہ بنو.میں نے سیاہ کار لوگوں کو بھی دیکھا ہے کہ وہ دوسروں پر اعتراض کردیتے ہیں اور اپنے کسی معاملہ پر ریویو نہیں کرتے.اس لئے میں تم کو محبت اور پھر درددل سے کہتا ہوں کہ اللہ کے راضی کرنے میں کوشش کرو.ہمیں وقت ہی کب مل سکتا ہے کہ دوسروں سے جھگڑتے رہیں.حلال کی کمائی کرو.خود کھائو اور کھلائو.والدین اور بچوں کی خدمت سے فارغ ہوکر اللہ کی کتاب پڑھو اور عمل درآمد کرو.نکمے کاموں کے لئے پھر تمہیں وقت کب مل سکتا ہے؟ میں حیران ہوں کہ میں اس قدر آسودگی رکھتا ہوں کہ تمہارے خیال میں بھی نہیں آسکتی.باوجود اس کے کہ سولہ، سترہ، اٹھارہ گھنٹہ روزانہ کام کرتا ہوں.پھر بعض ایسے نکمے ہیں کہ وہ اپنے
کاموں میں ایسا طرزعمل اختیار کرتے ہیں کہ گویا دہریہ ہیں.میں نے بہت سے جیل خانے اس غرض سے دیکھے ہیں کہ غیر قوموں کی تعداد زیادہ ہے یا اپنی قوم کی تو مسلمانوں کی تعداد زیادہ پائی.اپنی قوم اس لئے کہا کہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کہتے ہیں.پھر ہماری قوم میں کیوں داخل نہیں (ایڈیٹر.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس شعر کی تشریح ہے.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگہدار کاخر کنند دعویٔ حُبِّ پیمبرم) غرض کون ہوتے ہیں جو بے جا عداوت کریں یا علم رکھ کر عمل نہ کریں.اب تم خود سوچ لو کہ کیا تمہیں خدا تعالیٰ کے کسی مامور و مرسل سے محبت ہے یا بے جا عداوت اور اس کے بعد اپنے لئے آپ فیصلہ کرلو.ہم کسی کلمہ گو کو کافر کہنے کی ابتدا اور جرأت نہیں کرتے مگر تم آپ اپنے حال پر نظر کرو اور دیکھو کہ مامور کے انکار سے تم کیا بن گئے ہو؟ اور اگر تم نے کسی مامور کا انکار نہیں کیا بلکہ مرزا صاحبؑ کو مان کر اس کی جماعت میں داخل ہو تو پھر دیکھو کہ تمہارے گھر کے جو لوگ عاقل بالغ ہیں کیا ان کا عمل درآمد انہیں ہدایتوں پر ہے جو مرزا صاحبؑ نے دی ہیں.مرزا صاحبؑ نے جو اسی طرح کے رسالے لکھے ہیں تم نے عمل درآمد کرکے دکھادیا.کیا تمہارے اشغال ان لوگوں کے سے تو نہیں جو سلسلہ میں داخل نہیں؟ کیا تمہارے حسدوکینہ اور بغض اُسی قسم کے تو نہیں؟میں تو جب رات کو سوتا ہوں تو کسی کا بغض اور کینہ لے کر نہیں سوتا.دنیا سے بالکل الگ ہوکر سوتا ہوں.اس وقت بی بی، اولاد ،یاروبیگانہ کسی کی کوئی فہرست نہیں ہوتی.بعض وقت بی بی کہتی ہے کیا کرتے ہو تم تو کسی آدمی سے ملنا ہی نہیں چاہتے.میں کہہ دیتا ہوں کہ پھر جئیں گے تو ملاقات کرلیں گے‘ اب تو مرنے کو ہیں.تم اس طرح کا حال بنائو اور حضرت صاحب کی کتابوں کے ماتحت اپنا چال چلن بنائو.جب تم ایسے ہوجائو گے تو تمہارے سارے کاموں کا ذمہ وار اللہ تعالیٰ ہوگا.پس اب تم سمجھ گئے کہ کس کو کہتے ہیں.بیجا عداوت اور سچائی کا علم ہو اور عمل نہ ہو
یہ دونوں باتیں بنادیتی ہیں.آج کل عام مسلمانوں کی حالت دیکھی نہیں جاتی مگر ان کی حالت اپنی کرتوت کا نتیجہ ہے (الشوریٰ :۳۱) مسلمانوں کی کیسی گت بن رہی ہے.سارا جہاں بحیرہ روم میں پھرتا ہے مگر رومیوں کے ایک سپاہی کو بھی اجازت نہیں.ابھی ایک نے جانا تھا لوگوں نے اس کے پیچھے پولیس لگادی.کچھ پولیس واقف نہیں ہوتی اس لئے اس نے ایک جگہ آکر فرانسیسی لباس پہن لیا اور نوکر کو ترکی لباس پہنا دیا.جب ہوٹل میں آئے تو اسے فرانسیسی سمجھ کر چھوڑ دیا اور نوکر کو پکڑ کرلے گئے.خود تمہیں معلوم ہے کہ حسین کامی کے اشتہار میں حضرت صاحبؑ نے لکھا تھا کہ حرمین ان کی حفاظت کرتے ہیں یہ حرمین کے محافظ کیا ہوں گے.جب تک اسلام کے نام لیوا رہے کچھ بنا ہوا تھا.مگر جب دستوری حکومت ہوئی اور انہوں نے کہا کہ اسلامی حکومت نام نہیں رکھتے تاکہ یورپ شورش نہ کرے.اللہ تعالیٰ نے (الرعد :۴۲) کا نظارہ دکھا دیا اور یورپ نے دبوچ لیا.اب جوتے کھا کر عربی تعلیم کو جاری کیا.اب امید ہے کہ تم نے سمجھ لیا ہوگا کہ مغضوب کون ہوتا ہے؟ عداوت کے لئے یوں تو انسان کوئی وجہ تراش لیتا مگر وہ جھوٹی ہی ہوتی ہے.اس لئے بیجا عداوت سے بچو اور حلم پر عمل کرو.ضال کون ہوتے ہیں؟ ضال کون ہوتے ہیں؟ جو علوم الٰہیہ سے بالکل بے خبر ہوں.بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ وہ علوم الٰہیہ کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے.میں نے ایک لڑکے کودیکھا کہ نماز کے وقت اس نے اپنے کورس کی کتاب کھول کر سامنے رکھ لی.نماز تو اس نے پڑھنی تھی کیونکہ مجبور تھا مگر میں نے دیکھا کہ وہ رکوع سجود میں کتاب ہی پڑھتا رہا.میں نے کہا کہ کیا آج ہی ڈپٹی کمشنر بننا تھا.کہا کہ کچھ تو بنوں گا ہی اسی واسطے محنت کرتا ہوں.میں تمہیں کیا سنائوں آخر وہ محکمہ وٹرنری میں کمپونڈر ہوا.مجھے ایک مرتبہ مل گیا تو میں نے پوچھا کہ کیا وہ بات یاد ہے کہنے لگا ہاں خوب یاد ہے.پھر میں نے کہا وہ بنی تو نہیں.اس نے کہا جو روپیہ جمع کرتا ہوں جب سو کے قریب ہوجاتا ہے تو کوئی افسر آجاتا ہے اور وہ لے جاتا ہے وہ افسر ہوتا ہے میں اس سے مانگ نہیں سکتا.جب اس کی تبدیلی ہوتی ہے تو کسی کی چارپائی اور کسی کی کوئی اور ایسی
ہی چیز مل جاتی ہے اور میں ویسا ہی رہ جاتا ہوں.میں نے کہا تم روپیہ دینا چھوڑ دو.کہنے لگا شرم آجاتی ہے.میں نے کہا شرم نہیں اس کاسرّ اور ہے تم جو دولت کے پیچھے ایسے پڑے کہ نماز چھوڑ دی تو اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ جب تک ہم نہ دیں کچھ نہ ہوگا.پس علوم الٰہیہ سے بے خبری ضال کا نشان ہے.بعض ہم کو بھی پھر احمق سمجھتے ہیں جب انہیں ایسی نصیحت کرتے ہیں.ہمارے گول کمرے میں ایک مرتبہ کچھ انگریزی خوان جمع تھے اوپر میری چارپائی تھی رات کو بڑی دیر تک ٹریں مارتے رہے میں نے تھک کر آخر وہاں سے چارپائی اٹھوالی.جب رات کو اتنی دیر تک جاگتے رہیں تو فجر کی نماز کے لئے پھر کس نے اٹھنا ہے.اس واسطے صبح کو اٹھنے کی میعاد آٹھ، نو، دس بجے رکھی ہے.ایسی عادتوں کو چھوڑ دو.پس ایسے لوگوں کو سچے علوم سے کب بہرہ مل سکتا ہے اور آج کل ایک اور مصیبت ہے.کچھ تو لوگوں کو علوم الٰہیہ کی طرف توجہ نہیں اور کچھ جو پڑھے لکھے ہیں ان کی سیہ کاریوں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ علم کا نتیجہ ہے.ان کی سیہ کاریاں انہیں معظم نہیں ہونے دیتیں.اس لئے وہ دلیل پیدا کر لیتے ہیں کہ ان علوم کا پڑھنا ہی بے فائدہ ہے.میں نے ایک آدمی کو کہا تم کو اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ دیا ہے تم قرآن پڑھو تو اس نے کہا کہ میری شان کے موافق مجھے کوئی حمائل دو.میرا مولیٰ تو مجھے ہر قسم کے انعامات سے نوازتا ہے.اس نے مجھے ایک نہایت عمدہ حمائل بھیجی.میں نے اس کو دی.یہی واقعہ میں نے اس لئے بتایا کہ لوگ دنیا کے لئے ہزاروں روپیہ خرچ کرنے کو تیار رہتے ہیں مگر قرآن مجید کے لئے باوجود مقدرت کے بھی مضائقہ کرتے ہیں.اسی طرح کالجوں کے طالب علم بعض وقت لکھ دیتے ہیں کہ میں نے امتحان میں عربی لی ہے کتابیں بھیج دو.انگریزی کی کتابیں تو بے انت لینے کو تیار ہیں مگر عربی کی کتابیں مانگتے ہیں.میں نے ایسے طالب علم ایم اے کے دیکھے ہیں.ان حالات سے تم اندازہ کرسکتے ہو کہ الٰہی علوم کی طرف سے کس قدر غفلت ہے.اس کے علاوہ بہت سے لوگ بیجا محبت میں گرفتار ہوگئے ہیں.ان کو اس لئے سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں.
پس تم سورۃ فاتحہ کو پڑھو اوردیکھو کہ کی راہ پر چلتے ہو یا مغضوب اور ضال کی راہ پر.اس کے لئے تم دعا سے کام لو تاکہ تمہیں کی راہ کا علم ہو.پھر اس علم کے مطابق عمل ہو تاکہ تم نہ ہو جائو.کسی مامور سے بیجا عداوت نہ کرو.اس سے بھی ہوجائو گے.یہ بڑی ضرورت ہے کہ تم علوم الٰہیہ سے بے علم نہ رہو.کسی سے بیجا محبت نہ کرو.اس سے پہلے چالیس مرتبہ اقرار کیا ہے.فرض اور سنت نفل ملا کر چالیس رکعت نماز میں، سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس دعا میں اقرار کیا ہے کہ صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیری ہی مدد چاہتے ہیں.اس معاہدہ کو دیکھو اور آٹھ پہر کے عملدر آمد کو دیکھو ہاتھ باندھ کر اور قبلہ رخ ہوکر معاہدہ کیا ہے کہ قبلہ کی طرف سے جو آواز آتی ہے اس کے فرمانبردار ہیں.اول تو بدوں علم کے یہ چیز نہیں آسکتی.لوگ آج کل کے فلسفہ کو مشاہدات پر رکھتے ہیں.ہم کہتے ہیں ہماری تعلیم تو یہی ہے.(العصر :۴).پھر اعمال کی ضرورت ہے دیکھو تمہارے معاملات کیسے ہیں؟ دو بیویاں ہیں تو عدل کیا کرتے ہو.لین دین ہے تو کیا لینے میں دینے کا خیال رہتا ہے.ملازمت ہے تو کیسی چستی سے کرتے ہیں.حرفہ والا دیکھے کہ جھوٹ نہیں کرتے.یہ سب باتیں نیک صحبت میں بیٹھنے سے حاصل ہوتی ہیں اور دعا سے حاصل ہوتی ہیں خود کرو.نہیں تو کسی سے کرائو.اللہ تعالیٰ تمہیں نیک اعمال کی توفیق دے.آمین آخری بات: میں لاہور میں داخل ہوا تو اس مسجد کو دیکھ کر بڑی ہی خوشی ہوئی.اس کا اظہار میںالفاظ میں نہیں کرسکتا.آج میں یہاں سے جانے والا ہوں اگر ارادہ الٰہی ہوا.میرا جی چاہتا ہے جیسے آتے ہی خوشی ہوئی ہے اب جو میں جانے والا ہوں کچھ بڑھاپا ہے اور کچھ ایک عجیب زخم ہے.کچھ بیمار رہتا ہوں.مگر دل کی خواہش ہے کہ جاتے ہوئے بھی تم سے بہت خوش ہوکر جائوں.اس کا ایک ذریعہ ہے.مجھے روپیہ کی ضرورت نہیں نہ آج نہ اس سے پہلے اور نہ آئندہ.مجھے اپنے مولیٰ پر بھروسہ ہے.مجھے اپنی ذات کے لئے اپنے فضل و کرم سے بہت کچھ دیا اور رحم کیا ہے.مجھ پر اتنی نعمتیں نازل کیں کہ سچ مچ لاتعداد کا مصداق ہیں.بہت ہی فضل میرے ساتھ ہوئے.
ایک وقت مجھے کسی نے کہا کہ کوئی ایک دعا کرو منظور ہوگی.میں نے اس وقت کہا کہ عمر چھوٹی ہے دشمن نہیں‘ دوست نہیں‘ بیوی بچہ نہیں کیا دعا ہوگی.مگر اس نے کہا کہ جھٹ پٹ کوئی دعا کرلو.تب میں نے کہا کہ یہ دعا کرتا ہوں کہ ضرورت کے وقت میری دعائیں قبول ہوجاویں.پس میں مخلوق سے خدا کے فضل سے بے پرواہ ہوں.تمہاری بھلائی چاہتا ہوں.آتے ہوئے تو مسجد کو دیکھ کر خوش ہوا اور جاتے ہوئے یہ آواز میرے کان میں آوے کہ ہم نے بغض کینے چھوڑ دئیے ہیں.تمہیں اور رسالے کتابیں تصنیف کرنے کی کیا ضرورت ہے.حضرت صاحب کی کتابیں تھوڑی ہیں وہ پڑھو.قرآن پڑھو‘بخاری ہے اسے پڑھو‘ اللہ تعالیٰ تمہیں باہم محبت عطا کرے اور آپس کے بغض اور کینہ دور ہوجاویں.(آمین) (الحکم ۲۱، ۲۸؍جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۲ تا ۶)
قرآنی قسموں کی حقیقت {تقریر فرمودہ ۱۷؍ جون۱۹۱۲ء قبل ازنماز مغرب بمقام امرتسر} لاہور سے واپسی پر چند گھنٹہ کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح نے جون ۱۹۱۲ء کو امرتسر قیام فرمایا.امرتسر کے قیام میں آپ کی غرض صرف یہ تھی کہ وہاں کی جماعت کو خصوصیت سے کچھ نصائح کریں جو باہمی اتحاد اور اصلاح حالت پر مبنی ہو مگر جماعت امرتسر کی بدقسمتی کہ وہ ان قیمتی ہدایتوں سے محروم رہی.ان کے لئے یہ ایک فضل تھا کہ ان کا امام سخت گرمی میں باوجود اس ضعف اور پیرانہ سالی کے ان کے گھر گیا مگر وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے.بعض لوگوں سے تو ایسی حرکت سرزد ہوئی جو میرے اپنے ایمان کے موافق سخت بیہودہ اور خلاف ادب مرشد ہے.انہوں نے (الجمعۃ:۱۲) کا نمونہ دکھایا.امرتسر کے وہ لوگ جو اس نوٹ کو پڑھیں وہ انہیں نصحِ دینی کے لئے سمجھائیں کہ وہ استغفار کریں اور صدقہ دیں ورنہ اندیشہ ہے کہ ایسے لوگ کسی دکھ میں مبتلا ہوں یا ایمانی رنگ میں نقصان اٹھائیں.اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے.آمین بہر حال حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں بعض غیر احمدی لوگوں کی تحریک پر ایک تقریر کے لئے عرض کیا گیا تو آپ نے قبل مغرب جبکہ عصر کی نماز سے فارغ ہوچکے تھے سورۃ عصر پر وعظ فرمایا.(ایڈیٹر) میرے دوستوں نے مجھے کچھ وعظ کہنے کے لئے فرمائش کی ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی توفیق دی ہے کہ تم لوگوں کو کچھ سنادوں.میں اترا بھی اسی غرض سے ہوں کہ کوئی آدمی کوئی بات سن لے اور اللہ تعالیٰ نفع دے. (العصر:۱تا۴) یہ ایک چھوٹی سی سورۃ ہے اور میں نے اسی نظارہ پر اس کو پڑھا ہے کہ اس میں عصر کا ذکر آتا ہے
.یہ وقت عصر کا ہے اوردن کا آخری حصہ ہے اور میں اس سورہ شریف کو عصر کے وقت شروع کرتا ہوں.اس نظارہ نے مجھے ادھر ہی متوجہ کردیا کہ شاید اتنے وقت میں پوری ہوجاوے جو سورج غروب ہو.عصر کے معنی : اس سورۃ کے ابتداء میں عصر کا لفظ آیا ہے.عصر مطلق زمانہ کا نام ہے.ہماری زبان میں بھی یہ لفظ ان معنوں پر بولاجاتا ہے.فلاں میرا ہمعصر ہے.اخبار نویس بھی یہ لفظ بولتے ہیںوہ کہتے ہیں ہمارے عصر نے یہ لکھا ہے.غرض زمانہ کو بھی عصر کہتے ہیں.پھر عصر نچوڑنے کو کہتے ہیں.(یوسف:۳۷) عصر اس حصہ کو کہتے ہیں جو ظہر کے بعد نماز کے لئے مقرر ہے.یہ وہی وقت ہے جس کی ابھی نماز پڑھی ہے.پس عصر کے تین معنی ہیں.زمانہ، نچوڑنا اور بعد ظہر نماز کا وقت.قسمہائے قرآنی کی حقیقت : قرآن کریم میں جہاں بڑے بڑے عجائبات ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض سورتوں کے شروع میں اوربعض کے درمیان قسموں کا ذکر کیا گیا ہے.میں نے قرآن مجید کی ان قسموں پر بڑا غور کیا ہے تو میں نے یہ پایا ہے کہ قرآن مجید کی قسمیں معجزانہ رنگ رکھتی ہیں اور وہ یہ ہے کہ جہاں تک میں نے دیکھا ہے دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں.عوام، پھر ان سے بڑھ کر سمجھدار پھر ان سے بھی بڑھ کر حکومت پیشہ لوگ.عوام میں یہ بات مشہور ہے (اگرچہ اس زمانہ میں اس کے خلاف ثبوت موجود ہے) کہ قسم کھانا جھوٹوں کا کام ہے.پڑھے لکھے نو تعلیم یافتہ بھی کہتے ہیں کہ سویلزیشن کے خلاف ہے، بیہودہ امر ہے.بہت قسمیں کھانے والے کا اعتبار نہیں کرتے.قرآن مجید میں بھی ایک جگہ اس کی طرف اشارہ ہے. (القلم: ۱۱) مگر باوجود اس کے قرآن میں قسمیں موجود ہیں.میری سمجھ میں ان قسموں میں کچھ حصہ عوام کا ہے کچھ خواص کا اور کچھ حکام کا ہے.عرب میں اس جہالت کا دور دورہ تھا ان کا اعتقاد تھا کہ قسم ذلیل کردیتی ہے.ان میں ایک ضرب المثل یا کہاوت تھی.کہاوت یا ضرب المثل ایک فقرہ ہوتا ہے جو بڑے تجربوں کا نچوڑ ہوتا ہے.وہ ضرب المثل جوعربوں میں قسم کے متعلق تھی یہ ہے.ان الاَیمان تدع الارض بلاقع.
قسمیں ملک کو ویران کردیتی ہیں اور قسمیں کھانے والے کی عزت نہیں رہتی.اب قابل غور یہ امر ہے کہ جن لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ قسمیں ذلیل کردیتی ہیں اور ملک کو تباہ کردیتی ہیں ان کے سامنے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے قسمیں نکلوائیں اور اس طرح پر ان کے اپنے مسلمہ عقیدہ کے رو سے حجت پوری کی کہ عوام کے خیال کے موافق تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (نعوذ باللہ) ذلیل اور ہلاک ہوجاتے مگر آپ روز افزوں ترقی کرتے گئے یہاں تک کہ آپ کے اقبال سے شاہان وقت لرزہ کھا جاتے تھے.پس عوام کے لئے یہ معجزہ بلکہ آیت اللہ اور سلطان مبین ہے.حکام کے لئے بادشاہ وقت تک تخت پر بغیر قسم کے نہیں بیٹھ سکتا.وزراء، پارلیمنٹ کے ممبر قسم کے بغیر اپنے عہدہ پر متعین نہیں ہوتے.بڑے بڑے عہدہ داران جیسے چیف کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج ہیں ان سے بھی قسم لی جاتی ہے.یہ شخصی بات سہی مگر ہماری فاتح قوم نے تو حد کردی اس کے قانون میں یہ بات لازم ہے کہ مسیحی آدمی قسم کھائے اور باقی کے لئے اقرارصالح کافی ہے.غرض عوام کا وہ حال ہے اور حکام کا یہ.بیچ میں رہے فلاسفرز لوگ ان کے لئے قرآن کریم کی قسمیں عجائبات پر مبنی ہیں.سنن الٰہیہ یا لاز آف نیچر سے جب قرآن کریم استدلال کرتا ہے تو فلسفی کا دماغ بھی ا س کے ماننے پر تیار ہوجاتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قسم میں فلسفی مضمون ہوتا ہے جس کے ماننے میںعقلمند کو مضائقہ نہیں ہوتا اور یہ قسمیں بطور شواہد اور دلائل کے ہوتی ہیں.میں قرآن مجید سے ایک دو قسموں کے مقام تمہیں سناتا ہوں.(الّیل :۲تا۵) اس سورۃ کو بھی قسم سے شروع کیا ہے اور اس میں رات دن کے قدرتی مناظر اور ان کے مختلف نتائج اور عورت و مرد کے باہمی تفاوت اور پھر تعلقات اور نتائج کو بطور شاہد پیش کرکے مسئلہ جزائے اعمال کا ثبوت دیا ہے کیونکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کا کیا پتاہے.نیکوں کو دکھ اور بدوں کو سکھ مل جاتے ہیں.اس مضمون کو ایک فقیر نے ادا کیا ہے اس کے معنی تو لطیف ہوسکتے ہیں مگر عوام نے اس سے اباحت اور جرأت سیکھی ہے.
اوتھے گھاڑ گھڑیندے ہور.پکڑن سادھ تے چھڈن چور لیکھا بے پروائیاں دا یعنی دنیا اعتبار کے قابل نہیں ایسے مضامین کبھی لوگ غلط سمجھ لیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ حقائق صحیحہ اور نتائج صحیحہ واقعی ہیں یاوہم ہیں.اس پر دو قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جو مذہب کے پابند ہیں اور بعض مذہب کے پابند نہیں رہے.بہت سے لوگ ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مذہب کا بڑا پابند ظاہر کرتے ہیں اور اگر ذرا بھی بے ادبی اپنے مقتدا کے خلاف دیکھیں تو جان تک خطرہ میں ڈال دیتے ہیں مگر عمل کچھ نہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عملی رنگ میں جزا و سزائے اعمال کے منکر ہیں.یہاں اللہ تعالیٰ اس سورۃ میں اس عقیدہ باطلہ کو رد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ جیسے اسباب مہیا کروگے ویسے ہی نتائج ہوں گے.اس دعویٰ کا ثبوت ایک قدرتی نظارہ سے دیا جاتا ہے..رات کی طرف دیکھو اس کے صفات اور آثار الگ ہیں.جو باغ دن کو راحت بخش ہیں اور جن سے دن کو آکسیجن نکلتی ہے وہی باغات رات کو راحت بخش نہیں اور اب انہیں درختوں سے کاربن نکلتی ہے جو قاطع حیات ہے اور بچوں کے لئے تو وہ خوبصورت درخت رات کو ہوّے نظر آتے ہیں.دانا کہتے ہیں کہ درختوں سے رات کو کاربن نکلتی ہے.مذہب منع کرتا ہے کہ رات کو درختوں کے نیچے نہیں سونا چاہیے.دن کی تاثیریں اور عجائبات بالکل جدا ہیں.وہی درخت جو رات کو کاربن نکالتے تھے دن کوآکسیجن چھوڑتے ہیں اور ہندئووں نے تو درختوں کے متعلق مذہبی قواعد بنا دئیے بہت دانائی اور عاقبت اندیشی کی.اس گرم ملک میں بڑ اور پیپل خدا کی نعمت ہے ان کی حفاظت ایسی نہ ہوتی جیسی اب مذہبی پیرائے میں ہورہی ہے.غرض رات اور دن کے جدا جدا لوازمات ہیں.اگر کوئی کہے کہ رات کو درختوں کے نیچے سویا کریں تو وہ نقصان اٹھائے گا.دن کو باغات کی سیر کرنے اور ان کے نیچے سونے کو پسند کیا جاتا ہے اور اس سے طبیعت میں خوشی پیدا ہوتی ہے.پھر اگر کوئی اتنا باریک علم نہ رکھتا ہو تو دن اور رات کے خواص اور تاثیرات پر فلسفی نظر نہ رکھتا ہو تو فرمایا..
عورت و مرد کے مساوات والے پڑھیں: عورت اور مرد کی بناوٹ پر غور کرو.دو جدا جدا ہستیاں ایک ہی نوع کی ہیںمگر ہر دوکے اعمال اور قدرتی فرائض جدا جدا ہیں.آج کل تھوڑی تعلیم کے لوگ مساوات کی بحث کرتے ہیں وہ صریح غلطی پر ہیں.میں ایک مرتبہ کشمیر میں ایک دوست کے مکان پر بلا تکلف چلاگیا.وہاں ایک بڑا ڈاکٹر موجود تھا.ڈاکٹر سے مراد علم طب کا ماہر نہیں بلکہ عالم مراد ہے.اس نے عورتوں اور مردوں کے حقوق کی مساوات پر بحث کی.اس نے دو مرتبہ کہا کہ عورت اور مرد باہم برابر ہیں.تب میں نے اس کو مخاطب کیا اور پوچھا.آپ کا کوئی بیٹا ہے؟ پہلے تو اس نے مکروہ سمجھا کہ میں نے بدوں انٹروڈیوس اس سے خطاب کیا مگر جب اس نے دیکھا کہ صاحب مکان میری تکریم کرتا ہے تو اس نے جواب دینا پسند کیا اور بڑی خوشی سے کہا کہ ہاں.میں نے نہایت بے تکلفی سے اس کی چھاتی پر ہاتھ مار کر ٹٹولا اور کہا کہ اب تو آپ کی باری بچہ جننے کی ہو گی.میری اس حرکت سے اس نے سمجھ لیا کہ یہ بڑی جرأت والا آدمی ہے اس لئے اس نے گھر والے سے پوچھا کہ یہ کون ہے.اس نے کہا کہ یہ آپ ہی کہہ دیںگے میری تو جرأت نہیں کہ بتائوں.پھر اس کو پتا لگ گیا.میرے اس عملی اعتراض پر وہ بہت گھبرایا اور آخر اسے ماننا پڑاکہ عورت اور مرد باہم مساوی نہیں.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مرد اور عورت کے خواص الگ ہیں اور ان کے فرائض جدا جدا.اگر ان امور پر تم نظر کرو گے تو تمہیں صاف معلوم ہوجائے گا .جب کام جدا جدا ہیں تو ان کے نتیجے بھی الگ الگ ہوں گے.اسی طرح پر نیکی اور بدی میں تفاوت ہے.نیکی کا نتیجہ نیک اور بدی کا نتیجہ بد ہوگا.اس کے مطابق اب مسئلہ سزا و جزا کا حل ہوگیا.اس طرح پر قرآن مجید کی قسمیں بڑے بڑے مسائل کا حل کرتی ہیں.۳۵ مقامات پر قسمیں آئی ہیں اور وہ حقیقت مدعا کی مثبت ہیں. میں جو قسم ہے وہ بھی ایک امر کی مثبت ہے.فرمایا عصر کو دیکھو.انسان گھٹیل حالت میں ہے.ہر گھڑی جو اس پر آتی ہے وہ اس کو کچھ کم ہی کرتی ہے.ماں کے ہاں جب بچہ پیدا ہوتا ہے
اور پھر وہ ایک دو سال کا ہوتا ہے تو لوگ مبارک باد دیتے ہیں کہ بچہ بڑا ہوگیا مگر غور کرو تو دو سال اس کی عمر سے کم ہوگئے اور دن بدن وہ گھٹتا جاتا ہے.انسان گویابرف کا سوداگر ہے ہر لحظہ اس کو کم کررہا ہے اسی طرح پر انسان کی عمر گھٹتی چلی جاتی ہے تو اب سوال ہوتا ہے کہ کیا اس کی تلافی کا بھی کوئی انتظام ہے؟ خواہ عصر کے کچھ ہی معنے کرو.یہاں بتایا ہے کہ اس کی تلافی کی صورت ہے وہ کیا؟ (العصر:۴) کچھ لوگ ہیں جو گھاٹے سے بچائے جاتے ہیں وہ کون ہیں جو مومن اور اعمال صالحہ کرنے والے ہیں.اب اگر عصر کے معنی زمانہ کے کرو تو اس سے یہ مراد ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو عصر سے تشبیہ دی ہے کیونکہ پہلے تو ایک نبی آتا تھا اور شریعت لاتا تھا اور نئی راہیں خدا کی رضامندی کی ظاہر ہوتی تھیں مگر اب تو عصر کا وقت ہے پھر سورج غروب ہوگا.آپؐ جامع کمالات نبوت ، جامع کمالات انسانیت اور خاتم کمالات نبوت اور خاتم کمالات انسانیت تھے پھر عصر کے لفظ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ نچوڑنے سے مصفّٰی چیز الگ ہوجاتی ہے اور اس کا ردی حصہ تہ نشین ہوجاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت لائے وہ خالص اور تمام صداقتوں کا نچوڑ ہے.دنیا میں کثرت سے انبیاء آئے ہیں..(المؤمن:۷۹).پھر جو آئے ہیں تو کچھ معلوم نہیں کہ ان کی کتابیں محفوظ ہیں یا نہیں.پھر وہ کتابیں کمی بیشی، تغیر و تبدل سے پاک ہیں یا نہیں؟غرض بیسیوں شبہات وارد ہوتے ہیں.پھر انسانی تاریخ کا پتا نہیں.عیسائی تو پانچ چھ ہزار برس سے پرے کچھ کرنے نہیں دیتے.حد سات ہزار برس بتاتے ہیں.آریوں نے چارارب کے اند رخدا کی بادشاہی کو محدود کیا ہے.زرتشت کے اتباع نے مہاں سنکھ کے آگے سترہ صفر بڑھادئیے ہیں.مگر ہمارے مولا کے خالق، مالک، حی ّ، قیوم اور رازق ہونے کے لئے کسی وقت کی حد بست کرنا سخت جہالت ہے.اس لئے ہماری مقدس کتاب قرآن کریم نے کوئی تاریخ نہیں دی.پھر نچوڑنے کے معنوں کو مد نظر رکھ کر فرمایا.(البینۃ:۴) تمام صداقتوں کا مضمون قرآن مجید میں موجود ہے.کوئی صداقت اس پاک کتاب سے باہر نہیں.ہم نے مختلف
رنگوں میںدنیا کے سامنے اس سوال کو پیش کیا ہے کہ تم کوئی صداقت بتائو جو قرآن کریم میں نہ ہو.اولاد ، بیوی، والدین، اپنی قوم اور دوسری قوموں کے تعلقات اور خدا کے ساتھ تعلقات کی کوئی جامع کتاب بتائو.میری عمر بہت ہوگئی ہے اور مذاہب کی تحقیقات کا اتنا شوق رہا ہے کہ میں نے اپنے ہم جولیوں میں نہیں دیکھا.پھر مدد الٰہی ایسی پہنچی کہ دوسرے مذاہب کی کتابوں کے خریدنے کے لئے اموال کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایسا فضل کیا کہ وہ مجھے ایسے مخفی طور سے دیتا ہے کہ انسان کی طاقت نہیں کہ معلوم کرسکے.ان تمام اسباب سے میں نے اس صداقت کو ہمیشہ لا نظیر پایا..غرض اس سورۃ میں تلافی کے چار قاعدے بتائے جن پر عمل کرنے سے انسان خسارہ سے محفوظ رہ سکتا ہے.اول.ایمان ہو.سچی باتوں کا علم ہو.عقائد صحیحہ ہوں.دوم.اس علم اور عقائد کے موافق اعمال ہوں.سوم.وہ سچی باتیں اور عقائد صحیحہ.پاک تعلیمات جن پر ایمان لاتا ہے اور عمل کرتا ہے.دوسروں کو پہنچائے اس کا نام وصیت الحق ہے.چہارم.چونکہ سچائی کے پھیلانے میں دشمن ضرور ہوں گے اس لئے اس کی مخالفت میں صبر و استقلال سے کام لے.یہ چار قاعدے ہیں جو شخص ان پر عمل کرے گا وہ خسارہ سے محفوظ رہے گا.اس نسخہ کو صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین اور اکابر اولیا و آئمہ نے استعمال کیا.اس زمانہ میں ہماری سرکار مرزا صاحب نے تجربہ کیا لیکن جب مسلمانوں نے اس نسخہ کو چھوڑ نا شروع کیا اسی وقت سے ان پر زوال آنے لگا.سب سے پہلے مسلمانوںنے ایسی جامع کتاب کا پڑھنا چھوڑ دیا.ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں میں ہاں! ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں میں سے کتنے ہیں جو اس کو پڑھتے ہوں اور پھر اس کے مطلب کی تہ کو پہنچ کر عمل کرتے ہوں؟ پھر اس کے حقائق پہنچاتے ہوں اور ان حقائق کے پہنچانے میں جو تکلیفات پیش آئیں صبرو استقلال سے اس کا مقابلہ کرتے ہوں؟
موجودہ حالت: چار قومیں ہمارے سامنے ہیں.ایک زمیندار ہیں جو صبح سے شام تک گویا مزدوری پیشہ ہیں.ان کو کون سا وقت ملتا ہے کہ وہ قرآن مجید کو پڑھیں اور سمجھیں.پھر امراء ہیں انہوں نے اول تو نماز چھوڑ دی ہے اگر پڑھیں بھی تو انہیں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مشکل ہورہا ہے.گھر میں موقع مل گیا تو پڑھ لی نہیں تو نہیں.ہاں ایسا دیکھا ہے کہ اگر کوئی افسر مال ہو اور وہ نماز پڑھنے لگے تو کم از کم ذیلدار پڑھ لیتا ہے وضو ہو یا نہ ہو.پھر علماء اور گدی نشینوں کے قبضہ قدرت میں بڑی مخلوق ہے.ان کا جو حال ہے اس کو دنیا خوب جانتی ہے.ایک چیز ان کے بغل میں ہے کفر کا فتویٰ یا عورتوں کے حلالے کرنا.اسی سے ان کا کام خوب چلتا ہے.رہی عزت وہ جو کچھ بھی ہے لوگ خوب جانتے ہیں.رہے گدی نشین.میں خدا کے فضل سے دونوں میں داخل ہوں.اللہ کا فضل دستگیری کرے توبات بنتی ہے.کوئی سات سو برس کی بات ہے.ایک نازک خیال فہیم کہتا ہے.مشکلے دارم ز دانشمند مجلس باز پر س توبہ فرمایاں چراخود توبہ کمترمی کنند بڑے دانائوں اور ان کی مجلسوں کے پریسیڈنٹوںسے پوچھو مجھے تو بڑی حیرت ہے یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا کہ توبہ فرماآپ کیوں توبہ کم کرتے ہیں.ساری کتاب میں اس سوال کا جواب نہیں دیاگیا وہاں ایک جگہ وہ چوٹ کر کے کہتاہے.واعظاںکیں جلوہ بر محراب ومنبرمی کنند چوں بہ خلوت روند آں کار دیگر می کنند اس کو شناس سمجھتے ہیں.اب قرآن کریم کا پڑھنا اور پھر اس پر عمل کرنا اور پھر دوسروں کو پہنچانا اور بالمقابل جب لوگ فتویٰ دیں اور توتیاں بجانے والوں کے مقابلہ میں صبر کرے تو گھاٹے میں نہیں رہتا.یہ بھی شہر ہے اور بہت بڑا شہر ہے.بہت مخلوق اس میں ہے یہاں مسلمانوں کے کئی گروہ ہیں.ایک گروہ غزنویوں کے قبضہ ء قدرت میں ہے.ایک اہل فقہ کی جماعت ہے.کچھ حصہ ثناء اللہ کے
ساتھ ہے اور کچھ پیر کشمیر سے آجاتے ہیں.ان میں باہم بغض و عناد اور دشمنی ہے اور قرآن مجیدسے اس کا پتا لگتاہے.(المائدۃ:۱۵) تو جنمیں دشمنیاں تو ہم دیکھتے ہیں پھر شاید یہ بے ادبی ہو اگر ہم ان کو کہیں کہ تم نے قرآن چھوڑ دیا ہے مگر ہم کیا کریں ایسا کہنے پر ہم بھی مجبور ہیں.کیونکہ قرآن مجید یہی فرماتا ہے اگر کوئی عداوت اور کینہ ہے تو صاف ظاہر ہے کہ قرآن مجید کو چھوڑدیا ہے.میرا ارادہ تھا کہ تمہیں والعصرسنادوں.خدا کے فضل اور توفیق سے میں نے سنادی ہے البتہ میری یہ خواہش ہے اور زبر دست خواہش ہے کہ جب مسلمان دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم قرآن کریم پر ایمان لاتے ہیں تو وہ اس کو پڑھیں اور اس پر عمل کریں پھر وہ لوگوں کو پہنچائیں اور اگر مخالفت ہو تو صبرواستقلال سے مقابلہ کریں.اللہ تعالیٰ کی ہی تو فیق سے یہ ہو سکتا ہے.مجھے کبھی بھی اس بات کا خیال نہیں ہوتا کہ سننے والے بہت آدمی ہیں یا تھوڑے وہ اعلیٰ طبقہ کے ہیں یا عوام ہیں.خدا تعالیٰ نے میرے دل سے ان باتوں کو نکال دیا ہے.میں تو خدا کا کلام پہنچانا چاہتا ہوں خواہ کوئی ایک ہی سننے والا ہو.یہ بھی یاد رکھو کہ جو بڑے آدمی ہیں وہ ہمارے ساتھ سردست تعلق نہیں رکھ سکتے ہاں وقت آجائے گا کہ بڑے بڑے لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں گے.ہماری سرکار (حضرت مسیح موعودؑ) سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.مگر اس وقت یہ نہیں ہوسکتا کہ جارج پنجم قادیان میں آجاوے اور آکر مرید ہوجاوے کیونکہ اگر وہ آئے تو اس کے آنے سے پہلے سڑک ، مکان ، تارگھر وغیرہ سب کچھ فوراً تیار ہوجاوے اور جب وہ وہاں آکر یہ سوچے کہ میرے آنے سے قادیان والوں کو کیا فائدہ ہوا اور مجھ کو قادیان سے کیا فائدہ ہوا؟ تو یہی کہے گا کہ ان غریبوں کے پاس پہلے ہی کیا تھا.میری وجہ سے ان کو یہ فائدہ پہنچا ، وہ نفع ہوا وہ اس پاک صحبت کی قدر نہیں کرسکتا.پس یہی حال بڑے آدمیوں کا ہوتاہے.اس لئے سنت اللہ اسی طرح پر چلی آتی ہے کہ جب کوئی مامور و مرسل دنیا میں آتا ہے تو اولاً اس کو غریب اور ضعیف لوگ قبول کرتے ہیں اور بڑے بڑے لوگ قطع تعلق کرلیتے ہیں.(الانعام:۱۲۴)اکابر ماموروں کے
ساتھ نہیں ہوئے.غریب اور مسکین ان کے ساتھ ہوتے ہیں.پھر ان چھوٹوں کو ان سے نفع پہنچتے ہیں.میں بھی ایک نمونہ ہوں.میرا گھر جہاں تھا میرے اب وہ وہم و گمان میں بھی نہیں آتا.میری ماں اعوان قوم کی ایک زمیندارنی تھی.اپنی قوم میں وہ اکیلی پڑھی ہوئی تھی اور کوئی مرد یا عورت پڑھے ہوئے نہیں تھے.قرآن مجید سے اس کو بہت محبت تھی اور ہمیشہ قرآن پڑھا یاکرتی تھی.خدا تعالیٰ نے میری غذا بھی کلام پاک ہی بنائی ہے میں ہمیشہ اس کو سنا کر جیتا ہوں.میرا باپ ایک غریب اور مسکین آدمی تھا.اپنی ضرورت کے موافق تجارت کرلیتا تھا.میں اپنا حال جانتا ہوں اورمیںخوب سمجھ سکتا ہوں کہ مرزا صاحب کی صحبت میںمَیں نے کیا پایا.میں نے وہ کچھ پایا جو اہل دنیا اس کو سمجھ ہی نہیں سکتے.مرزا نے مجھے کتنا بڑا آدمی بنا دیا.جارج کی سمجھ ہی میں یہ بات نہیں آسکتی.اس لئے ارادہ الٰہی اسی طرح ہوتا ہے کہ وہ غرباء کو ماموروں کی صحبت میں بھیج دیتا ہے اور اکابر ان فیوض سے محروم رہ جاتے ہیں.عبداللہ بن ابی بن سلول اور ابوجہل بڑے آدمی تھے وہ اگر مسلمان ہوجاتے تو پھر اپنی ہی خوبی جتاتے.اسلام کے احسان اور فضل کو کبھی تسلیم نہ کرتے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے غرباء کو ساتھ کردیا اور وہی غرباء آخر مقوقس اور ہرقل کے مقابلے میں آئے اور دنیا کے فاتح کہلائے.میرے تو دل میں کبھی آتا ہی نہیں کہ امیر کیوں الٰہی سلسلوں میں نہیں آتے.پس میں تمہیں اللہ ہی کے سپرد کرتا ہوں.(الحکم ۱۴،۲۱؍اگست ۱۹۱۲ء.صفحہ ۱تا۴)
اتباعِ قرآن کے منافع {تقریر فرمودہ ۱۹؍جون ۱۹۱۲ء بمقام بٹالہ} حضرت خلیفہ المسیحؑ نے جو تقریر بٹالہ میں کی تھی اسے اپنی یاد داشت اور نوٹوں سے اپنے الفاظ میں لکھ کر ہمارے مکرم دوست ماسٹر محمد طفیل خاں صاحب نے اخبار میں چھاپنے کے واسطے ہمارے پاس بھیجا ہے جسے ہم شکریہ کے ساتھ ہدیہ ناظرین کرتے ہیں.ماسٹر صاحب اپنے خط میں لکھتے ہیں.’’اسے اپنے اخبار کے کسی کالم میں جگہ دیں تا کہ تمام احباب اس سے فائدہ اٹھا سکیں یہ اس لیکچر کا اقتباس ہے جو کہ حضور نے یہاں خدام کی استدعا پر بٹالہ میں بتاریخ ۱۹؍جون۱۹۱۲ بوقت ساڑھے چھ بجے شام دیا تھا‘‘.(ایڈیٹر الحکم) اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ.اَمَّابَعْدُ اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطُانِ الرَّجِیْمِ. (البقرۃ :۲تا۹) مسلمان ایک گروہ کا نام ہے جس طرح تمہارے ملک میں ہندو ایک گروہ کا نام ہے اسی طرح مسلمان بھی ایک گروہ ہے.اب اس وقت مسیحی لوگ جس طرح سے اپنے مذہب کی اشاعت کرنے میں کوشش کرتے ہیں.آپ بالکل یک دل اور یکسو ہو کر سوچیں کہ کیا اس سے بڑھ کر بھی اور کوئی ترکیب ہے جس ترکیب پر وہ عمل کر رہے ہیں؟ اگر آپ سوچیں اور کتنا ہی سوچیں اس سے بڑھ کر اور
کوئی ترکیب نہ سوجھے گی.ایک میرا دوست تھا اس کو ایک دفعہ جناب نواب لفٹننٹ گورنر بہادر پنجاب سے ملنے کا اتفاق ہوا.جب وہ نواب صاحب بہادر سے ملاقات کر چکا اور اٹھنے کا وقت قریب ہوا تو نواب صاحب بہادر موصوف نے پوچھا کہ کیا آپ اردو فارسی بھی پڑھے ہوئے ہیں اس نے کہا حضور پڑھا ہوا ہوں.اس پر اس نے ایک خوش وضع اور خوش نما جلد کی اور نہایت عمدہ کاغذ پر خوشخط چھپی ہوئی ایک انجیل دی اور کہا کہ اگر آپ میری محبت کی قدر کرتے ہیں تو میں اپنی محبت کے لحاظ سے آپ سے امید رکھتا ہوں کہ آپ اسے ضرور پڑھیں گے.وہ مسلمان تھا اور بڑا امیر با اثر اور صاحب ثروت مسلمان تھا.میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے نواب صاحب بہادر موصوف کی اس بات سے کچھ فائدہ بھی اٹھایا یا نہیں؟ اس نے جواب دیا کہ اس سے میں نے صرف اتنا ہی سمجھا ہے کہ یہ لوگ نہایت کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کچھ ہی کیوں نہ ہو اپنے مذہب کی اشاعت ضرور ہو.میں نے کہا کہ دیکھو یہ کتنے بڑے بادشاہ ہیں.جناب نواب لفٹننٹ گورنر بہادر کی حکومت سکھوں کے بادشاہ کی حکومت سے کئی درجے بڑھ کر ہے.مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں سرحد میں ستلج کا دوسرا کنارہ اور اٹک علیحدہ تھی اسے نصیب نہ ہوا کہ دہلی پر بھی حکومت کر سکے.نابھہ.جیند وغیرہ ریاستوں پر بھی تصرف نہ تھا.مگر یہ شخص اتنی بڑی سلطنت کا مالک ہو کر اپنی کتاب کی اشاعت میں کس طرح لگا ہے.تم بھی امیر ہو با اثر ہو، صاحب ثروت اور وجاہت ہو، اللہ کے فضل سے تمہیں سب کچھ میسر ہے پر سچ کہنا کہ کیا قرآن کریم کے لئے بھی تم نے کبھی ایسی کوشش کی ہے جیسی یہ لوگ کر رہے ہیں؟ میرے عزیزو! تم جو اب یہاں بیٹھے ہو.ذرا انصاف سے خدا لگتی کہنا یہ بچے تو کیا سمجھیں گے تم میں سے جو ذرا عمر میں بڑے ہیں البتہ وہ غور کر سکتے ہیں وہ خوب غور کریں اور بتائیں کہ کیا یہ جواب ہم کرتے ہیں اور کر رہے ہیں اگر ایسی ہی اور اسی جوش اور سرگرمی سے پچھلے زمانے کے بڑے بڑے آدمی بھی کوششیں کرتے تو کیا اسلام پھیل سکتا؟ کیا اس کی اشاعت یوں دنیا بھر میں ہو جاتی کیا اس کی آواز بٹالہ تک پہنچ جاتی؟ نہیں نہیں ہرگز نہیں.بات یہ ہے کہ وہ مہتم بالشان اور مہتم بالارادہ اشخاص نہایت ہی عظیم الشان کوششیں کرتے تھے اور یہ انہی کی قابل تعریف کوششوں کا
نتیجہ ہے کہ اسلام کو اب تم اپنے گھروں میں پاتے ہو.آج خود گھر کے لوگ اس پر ہنسی اڑاتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ اسلام دنیا میں پھیلا ہی کیوں اور کس طرح؟ کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے (جو کہ اسلام کو پیش کرتا ہے) پڑھنے سے نہ تو ملازمت ہی ملتی ہے نہ آسودگی ہوتی ہے نہ مکان عالی شان ملتے ہیں پھر اسے پڑھیں تو کیوں پڑھیں.ایک شخص انگریزی پڑھنے میں اس قدر محو تھا کہ وہ ہر وقت انگریزی ہی کو رٹتا رہتا.اگر وہ نماز کے لئے بھی اٹھتا تو قیام میں بھی انگریزی، رکوع اور سجود میں بھی انگریزی.غرض ہر وقت اور ہر حال میں انگریزی ہی پڑھتا دکھائی دیتا.میں نے اس سے پوچھا کہ کیوں تو ایسا کرتا ہے اس نے جواب دیا کہ انگریزی اس وقت ہماری گورنمنٹ کی زبان ہے دفاتر کی زبان ہے اس کے پڑھنے سے ہماری بہتری ہے بتائیے کہ ہمیں اور کہیں سے کیا مل سکتا ہے؟ ہماری یہ حالت کیوں ہوئی ہم نے اپنی یہ حالت خود بنائی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری ہم عصر قومیں ترقی کر رہی ہیں اور ہم خواب غفلت میں پڑے خراٹے لے رہے ہیں.وہی قومیں جو ذلیل تھیں اور جن کو ہم ذلت اور حقارت سے دیکھتے تھے آج وہ ہماری سردار ہیں.دیکھو ایک پکوڑے بیچتا ہے تم اس پر ہنسی کرتے ہو.پھر چند دنوں کے بعد تم سب اسے شاہ جی شاہ جی کہنے لگ جاتے ہو اور اس کے سامنے اپنی ساری ضرورتیں لے جا کر اس سے روپیہ طلب کرتے ہو.میں جس وقت مسلمانوں کی حالت پر غور کرتا ہوں تو میرا دل لرز جاتا ہے.اپنے اپنے افعال اور اعمال کا خوب خوب موازنہ کرو اور دیکھو کہ اگر دنیا کے خراب لوگ چوری کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، زنا کرتے ہیں، غصب حقوق کرتے ہیں، جوا کھیلتے ہیں، قماربازی کرتے ہیں اور دیگر زمانے بھر کے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں تو کیا تم لوگ وہ ساری باتیں نہیں کرتے؟ کیا تم میں ایسے بہت سے لوگ نہیں جو نہایت قبیح افعال کے مرتکب ہوتے ہیں؟ اللہ کریم نے ہمیں ایک کتاب بخشی تھی جن بزرگوں نے اس پر عمل کیا وہ تو سربرآوردہ ہو گئے.دنیا ان کا لوہا مان گئی.دنیا اور اس کے بادشاہوں کے لئے وہ باعث رشک ہو گئے اپنے گھروں میں ہوتے یا بادشاہوں کے درباروں میں جاتے ہر ایک جگہ ان کا رعب ہوتا اور بڑا رعب ہوتا.اب وہ کتاب تو موجود ہے جس سے یہ تمام برکات پیدا ہوئی تھیں جس
سے یہ رعب اور یہ عزت ہم کو ملی تھی.مگر بات تو یہ ہے کہ اب اپنا اس پر عملدرآمد ہی نہیں رہا.اب تو یہ حالت ہو گئی ہے کہ جب کبھی اس کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو جواب یہ ملتا ہے کہ ہم غریب ہو گئے، نادار ہو گئے، بے سروسامان ہو گئے اس لئے اب اتنی فرصت ہی نہیں کہ اس کے درس تدریس کا سلسلہ باقاعدہ جاری رکھا جاوے.دیکھو تم اپنی رسموں کے پورا کرنے کے لئے تو روپیہ کو پانی کی طرح بہا دو اور اپنے بیاہ شادی کے موقع پر اس قدر خرچ کر دو کہ مقروض ہو جائو مگر جس بات پر تمہاری ترقی، تمہاری عزت، تمہاری بہبودی منحصر ہو اس کا خیال تک بھی نہ ہو.وہ قومیں جو کبھی تمہارے خیال میں ذلیل تھیں وہی تم کو اب بڑی حقارت سے دیکھتی ہیں کیا تم جانتے ہو کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تم اس عظیم الشان کتاب کی حقیقت سے بکلّی بے بہرہ ہو گئے ہو.یہ کتاب تمہیں بڑا بنانے کے لئے آئی تھی.بڑا بننا اب تمہارے اختیار میں ہے.صحابہ کرامؓ قرآن کریم کی اتباع سے کتنے بڑے آدمی بن گئے.اس نسخہ پر اب پھر بڑی بھاری عملدرآمد کی ضرورت ہے.جو صحابہ کرام کے زیر عمل تھا.اللہ کریم فرماتا ہے یہی ایک کتاب ہے جس کی ساری کی ساری باتیں حکمت سے بھری ہوئی ہیں.اسے تم شروع سے لے کر اخیر تک بڑے غور سے پڑھ جائو مگر تمہیں ایک بھی ایسی بات نہ ملے گی جو ہلاکت کی راہ بتاتی ہو.جو کچھ بھی وہ بتاتی ہے تمام سُکھ کی راہیں بتاتی ہے.کیا اس میں کوئی ایسی بات ہے کوئی ایسا عمل ہے جس پر کاربند ہونے سے ہمارا نام ۹ نمبر یا ۱۰ نمبر کے بدمعاشوں میں لکھا جاوے.کیا کوئی ایسی راہ ہے جس پر چلنے سے ہم آتشک میں مبتلا ہو جاویں.میں بوڑھا ہوں، ۴۷ برس سے یا ۵۰ برس سے طب کرتا ہوں میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ قرآن کریم کی تعلیم اور اس پر عملدرآمد کرنے سے کوئی شخص آتشک یا ایک خاص قسم کا سوزاک ہے اس میں مبتلا ہو گیا ہو.پر کیا مسلمانوں میں اب آتشک نہیں؟ کیا کوئی مسلمان اب اس سوزاک میں مبتلا نہیں؟ کیا کوئی مسلمان جیل میں نہیں؟ پھر کیا بات ہے قرآن کریم تو اس لئے نازل ہوا تھا کہ تم کو مسلمان اور بڑا بنا دے، سکھی بنا دے، امن چین کے راستے پر قائم کردے پر تم بڑے کیوں نہیں بنے، سُکھی کیوں نہیں ہوئے؟ غور کرو اور خوب غور کرو کہ کیا یہ ذلت، یہ خفّت، یہ بربادی، یہ ہلاکت اس کے احکام پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے؟ نہیں ہرگز نہیں.قرآن کریم
میں تو ہلاکت کی راہ ہی نہیں یہ تو ہمیں امیر، باعزت، صاحب جاہ وجلال اور بڑا بنانے کے لئے نازل ہوا تھا نہ کہ ذلت دینے اور ذلیل کرنے کو.پھر کیا وجہ ہے کہ آج درس تدریس کرنے والے اذلّ ترین مخلوق سمجھے گئے ہیں.اس کی وجہ میں بتاتا ہوں.میں ایک طبیب ہوں.طب کا بڑا حصہ تو ڈاکٹروں کے پاس ہے.پھر اس کا بہت سا حصہ عورتوں نے لے لیا.کچھ حصہ دائیوں کے پاس ہے، کچھ حلوائیوں کے پاس پھر کچھ حصہ کنجروں، ڈوموں اور مراسیوں نے لے لیا ہے.ہمیں بھی ایک حصہ ملا ہوا ہے اس حصے کے ذریعے سے امیر، غریب، شریف، رذیل، نیک، بد، بچے، جوان، بوڑھے غرض ہر قسم کی مخلوق سے ملاقات رہی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ امراء کے لئے کوئی شریعت نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم عیش وعشرت کرنے اورگُل چھڑے اڑانے کے لئے پیدا ہوئے ہیں.ہم نے رنڈی بازی کرنی ہے اور ہم نے شراب بھی پینی ہے.وہ محلہ میں مسجد کے ملّا سے مل کر کسی عورت کا نکاح دو دفعہ کرا دیں، چار دفعہ کرا دیویں کوئی ان کے روبرو انہیں مطعون نہیں کرتا.امیر مسجد میں جاتے ہی نہیں.ان میں سے جو نیک ہیں وہ نماز اگر پڑھتے بھی ہیں تو گھروں ہی میں کبھی کبھی پڑھ لیتے ہیں مگر مسجد میں آنے کو وہ باعث خفت وحقارت سمجھتے ہیں.امامت جو بڑا عظیم الشان کام تھا وہ اب اذلّ ترین کام سمجھا جاتا ہے.میں نے سادات سے پوچھا ہے کہ تم نے امامت کیوں چھوڑ دی؟ جواب میں مجھے ہر دفعہ یہی بتایا گیا کہ یہ شرفا کا کام نہیں.یہ تو کمینہ قوم کے لوگوں مشٹنڈے، جولاہوں، ملانوں وغیرہ کا کام ہے.اس کو یہاں تک حقیر سمجھا گیا ہے کہ بڑے بڑے سادات اور امیر نمازوں میں آنا عار سمجھنے لگے.اس کی وجہ یہ ہے کہ احکام کتاب اللہ پر عملدرآمد جاتا رہا.یہ تو ان کا ذکر ہے جو کچھ زمانہ دیکھ چکے ہیں جو آگے تیار ہو رہے ہیں ان کی حالت اللہ کے سپرد ہے.کئی لاکھ لڑکے کالجوں میں پڑھتے ہیں ان کو کبھی برائے نام بھی خدا کی ذات وصفات کے متعلق فکر کرنے کا موقع نہیں ملتا سوائے اس کے کہ اپنے لباس کا خیال ہو.اپنے کوٹ، پتلون، بوٹ کا خیال ہو یا اپنی انگریزی تعلیم کا خیال ہو انہیں اور کوئی خیال ہی نہیں ہوتا.ہزاروں ہزار مسلمان لنڈن کو جاتے ہیں، جب وہ اپنے سفر کے متعلق ذکر کرتے ہیں تو پہلے اپنی ٹھاٹھ کا ذکر کرتے ہیں اور بڑے مزے سے چٹکیاں لے کر کہا کرتے ہیں کہ ہمیں اسٹیشن پر چھوڑنے کے لئے اس قدر مخلوق تھی.اس
قدر تھی کہ سارا اسٹیشن ہی بھرا پڑا تھا.پھر بمبئی کا ذکر کرتے ہیں پھر آگے چل کر پورٹ سعید کا ذکر کرتے ہیں مگر مکّہ شریف کا ذکر ان کی زبان پر کبھی آتا ہی نہیں.گویا مکّہ شریف ان کے راستے ہی میں نہیں پڑتا.کیا کبھی آپ نے ان کی زبانی اس پاک اور مقدس جگہ کا نام بھی سنا؟ نہیں پھر یہ کیوں؟ اس لئے کہ انہیں اسلام سے محبت نہیں ،درد نہیں، وہ نام کے مسلمان ہیں.قرآن کریم کی محبت کے سرد ہونے کا نقشہ قرآن کریم نے یوں کھینچا ہے فرمایا کہ جب حضور فخر کائنات اور فخر رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کو مضطرب پائیں گے تو فرمائیں گے.(الفرقان :۳۱).آپ لوگوں کی یہ حالت بد انہیں کیوں دیکھنی نصیب ہو گی.اس لئے کہ آپ نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا اس کی تعلیم سے آپ نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا.اپنے گھر کی حالت کو دیکھو ہر ایک چیز کا وزن کرو تمہاری عورتوں کو کپڑے کی ضرورت ہے.اعلیٰ سے اعلیٰ زیور وہ پہنتی ہیں پھر ظاہری بنائو سنگار کے لئے انہیں منہ دیکھنے کے شیشے کی بھی ضرورت ہے مگر قرآن کریم سے ان کو مس نہیں.اس کی اتباع کی انہیں فکر نہیں.کیوں؟ اس لئے کہ وہ اپنے خاوندوں کو اپنے بیٹوں کو اور اپنے بھائیوں کو دیکھتی ہیں کہ ان کو بھی عزیزو مجید کتاب سے محبت نہیں.قرآن کریم جو ہمیں بڑا بنانے کے لئے، خوشحال بنانے کے لئے، بادشاہ بنانے کے لئے، باعزت اور با اثر بنانے کے لئے آیا تھا اس کی حقارت ہوتی ہے اگر آج قرآن کریم سنایا جاتا ہے تو صرف مُردوں کو سنایا جاتا ہے یا ان مریضوں کو جو قریب المرگ ہو گئے ہیں.میں نے ایک ملاں کی زبانی سنا کہ جس طاعون سے ہمیں مرزا ڈراتا ہے وہ طاعون تو ہمارے لئے نعمت ہے.مجھے تعجب ہوا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس نے کہا کہ آپ حیران کیوں ہوتے ہیں کوئی بیمار اچھا ہو یا نہ ہو ہمیں تو اپنے مطلب سے مطلب ہے.ہم تو اپنے ختم قرآن کی پوری رقم لے ہی لیتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ جو لوگ قرآن کریم کو پڑھتے بھی ہیں وہ اپنے آپ کو آپ کی نظر میں قابل اعتبار بنا کر نہیں دکھا سکتے اب اگر لوگوں کو قرآن کریم کے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی خواہش ہو تو کیونکر اور کس طرح پر؟ جو نمونہ وہ قرآن کریم کے پڑھنے والوں کا پاتے ہیں وہ تو ایسا ہے ہی نہیں کہ جس پر چل کر انسان کسی قسم کی کامیابی کی امید کر سکے.
شروع شروع میں جب میں مدرس تھا.سکول میں چار سو لڑکا پڑھتا تھا.ان دنوں کوئی فیس مقرر نہ تھی تھوڑے دنوں کے بعد فیس کے جاری کرنے کا جو حکم ہوا اور ہم نے فیس کے لئے عادت ڈالنی چاہی تو صرف پندرہ آنے ان چار سو لڑکوں سے وصول ہوئے تِس پر بھی ایسی دقت کا سامنا ہوا ایسی مصیبت اٹھانی پڑی کہ سارے کے سارے شہر کے لوگ غل مچانے لگے اور چاروں طرف سے شور اٹھا کہ لڑکے اپنے کھانے پینے کے لئے جو پیسے گھر سے لے جاتے ہیں انہیں استاد چھین لیتا ہے ایک تو وہ وقت تھا کہ ۴۰۰ لڑکوں سے ۱۵ ؍(آنے)بھی مشکل سے وصول ہوئے اور ایک یہ وقت ہے کہ آج اگر (ایک روپیہ)فی لڑکا بھی لیا جائے (جو نہایت ہی کم درجہ کی اوسط ہے) تو کم از کم چار سو روپیہ فیس کا ہو جاتا ہے اور لوگ خوشی سے دیتے ہیں یہ کیوں؟ اس لئے کہ لوگوں نے مدرسہ کی تعلیم سے بڑے بڑے فائدے اٹھائے اور عمدہ عمدہ نتیجے دیکھے.اب چاہے گھر بک جاوے مگر لوگ اپنی بہتری اسی میں دیکھتے ہیں کہ تنگ ترش رہ کر بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں اور خوب اعلیٰ تعلیم دلائیں.میں نے ایک زمیندار کو دیکھا اس نے اپنی ساری زمین بیچ کر اپنے لڑکوں کو ولایت بھیجا کسی نے کہا کہ تم نے بڑی غلطی کی.اس زمین کی طفیل تم نواب بنے بیٹھے تھے اس نے کہا کہ بے شک ہے تو یونہی مگر میں نے اس وقت اسی میں فائدہ دیکھا کہ اپنے بچوں کی خاطر زمین کو قربان کر دوں اگر ان کی قسمت میں ہے تو وہ خود اپنی لیاقت اور علم سے نوابی کو حاصل کر لیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا جب وہ لڑکے ولایت سے واپس ہوئے تو انہوں نے اپنی لیاقت اور اللہ کریم کے فضل سے کئی کئی لاکھ بیگھ زمین پیدا کی اور اصلی معنوں میں نواب بن بیٹھے.لوگ دنیاوی تعلیم کا نتیجہ دیکھتے ہیں اسی لئے اس کے حصول کے لئے اس قدر ہاتھ پائوں مارتے ہیں.مسجد کے ملاں دکھا نہیں سکتے کہ اسلام کیا ہے اور اس کے اصول کی پابندی سے انسان کیسا عظیم الشان انسان بن جاتا ہے اور وہ دکھائیں بھی کیا؟ آئے دن انہیں مقدمات رہتے ہیں جن سے انہیں فرصت ہی نہیں ملتی پھر وہ کریں تو کیا کریں؟ بڑی مصیبت کا وقت ہے اگر کان رکھتے ہو تو سنو! اور خوب غور سے سنو کہ یہ قومیں تم کو حقارت سے دیکھتی ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ سوچو.میرے ایک دوست نے منصفی کا امتحان دینا تھا میں نے اس سے کہا کہ دس برس سے کوئی مسلمان اس
امتحان میں پاس نہیں ہوا اس لئے تم بھی پاس نہیں ہو سکتے.پہلے تو اس نے اس بات کو معمولی جانا مگر جب وہ پاس نہ ہوا تو پھر اسے بڑا ہی تعجب ہوا اور کہنے لگا کہ آپ کو غیب کا علم ہے.میں نے کہا ممتحن ایک ہندو ہے اس نے اپنے دل میں وعدہ کیا ہوا ہے کہ کسی مسلمان کو پاس نہ کروں گا اس لئے کوئی مسلمان پاس نہیں ہوتا.جب مسلمانوں کے واویلا مچانے سے وہ ممتحن الگ کیا گیا تو کہنے لگا کہ کیا ہوا میں اپنے فرائض کو بڑی اچھی طرح سے ادا کر چکا ہوں.آج تک میں نے ہندو منصف صاحبان کے توسط سے (جن کو میں نے پاس کیا ہے) مسلمانوں کے بر خلاف کروڑوں ڈگریاں کروا ڈالی ہوں گی.مسلمانوں کی یہ گَت کیوں ہوئی اس لئے اور محض اس لئے کہ انہوں نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا.اگر میں تمہارے سامنے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھ کر پوچھوں کہ اس کا کیا مطلب ہے تو مجھے خوف ہے کہ تم سے بہت ہی کم ایسے نکلیں گے جو اس کا مطلب بیان کر سکیں.صحابہ کرامؓ نے قرآن کریم کو پڑھا سمجھا اس پر عمل درآمد کیا وہ صرف بادشاہ ہی نہ بنے بلکہ بادشاہ ان کے خدمت گزار بنے.یہ کیوں اس لئے کہ انہوں نے اپنے عمل کو قرآن کریم کی تعلیم سے عین مطابق کر دکھایا.اب اپنی عملی حالت کا اندازہ اس طرح سے ہو سکتا ہے اول تو تم نماز پڑھتے ہی نہیں اگر پڑھتے بھی ہو تو نہایت کسل اور بے دلی سے.ایک عورت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آئی اس نے حضور کو ایک سو روپیہ دیا اس کے ساتھ ایک جوان لڑکی بھی تھی جو اس کی دختر تھی میں نے اسے کہا تم نے ایک بڑی رقم حضور کو دی اس نے کہا کہ ہاں جی.آپ بھی دعا کریں کہ میرے ہاں اولاد ہو میں نے اس سے پوچھا کہ یہ لڑکی کس کی ہے.کہنے لگی لڑکی تو میری ہی ہے پر پرایا مال ہے یہ میری کیا لگتی ہے.دعا کریں کہ میرے گھر اولاد ہو.میرا جی چاہا کہ اسے سمجھائوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ایک لڑکی تھی یہ سادات کی اتنی بڑی قوم اسی کی اولاد ہے اس لئے میں نے کہا کہ مائی! کیا تو میرے مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں تو نہیں جانتی علم والے جانتے ہوں گے اس کے اس جواب سے میں بہت حیران ہوا جو میں نے تجویز اس کے سمجھانے کے لئے سوچی تھی وہ غلط نکلی.پھر میں نے کہا کہ تو کلمہ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ سمجھتی ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں میں تو نہیں سمجھتی.پڑھے ہوئے جانتے ہوں
میرا میاں شاید اسے پڑھا کرتا ہے مجھے اور بھی حیرانی ہوئی پر میں نے سوچا کہ اسے کسی نہ کسی طرح ضرور سمجھانا چاہیے اس لئے میں نے بات کو اس طرح سے چلایا.میں نے کہا کہ بھلا بتلائو تو زمین اور آسمان کو کس نے بنایا؟ اس نے کہا بنانے والے جانتے ہوں گے مجھے تو ان کے بنانے والا کبھی ملا نہیں.اب میری حیرانی کی کوئی انتہاء نہ رہی اور میں نے کہا کہ بھلا اب اسے میں کس طرح سمجھائوں الغرض مجھے ایک اور بات سوجھی اور میں نے کہا کہ اچھا مرزا کو تم نے سو روپیہ کیوں دیا؟ اس نے کہا کہ میرا میاں کہتا ہے کہ وہ اچھے آدمی ہیں یہاں بھی میرے علم نے کام نہ کیا.پر میں نے پوچھا کہ تم ان کو کیا سمجھتی ہو اس نے کہا کہ مجھے کیا خبر مجھے تو وہ آدمی ہی دکھائی دیتے ہیں.ایک اور آدمی سے میں نے پوچھا کہ بھائی کیا تم بتا سکتے ہو کہ میں کس طرح اس عورت کو سمجھائوں؟ یہی حالت اب مسلمانوں کی ہے ایک سو روپیہ تو نذر کا دیا پر عقل یہاں تک کہ اتنی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ بیٹی بھی اولاد ہوا کرتی ہے.پھر میں نے اس عورت کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ تم نے جو کچھ کیا اچھا کیا پر حضرت صاحب لڑکی کا لڑکا تو نہیں بنا سکتے.تم کو اس سے زیادہ کیا نصیحت کروں کہ مسلمان بنو اور قرآن کریم کی اتباع سے وہ تمام منافع حاصل کرو جو اصحاب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاصل کئے.بعض کہتے ہیں کہ ہم تو سب کچھ مانتے ہیں.قرآن کریم کو مانتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مانتے ہیں.اسی لئے ہم کسی کی بیعت کرنا پسند نہیں کرتے نہ ہم کو کسی سے ارادت کی حاجت ہے ان کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک درخت ہو اس کی کسی شاخ کو کاٹ کر پانی میں ڈال دو.مگر وہ کسی جڑ سے وابستہ نہ ہو اگرچہ وہ شاخ پانی میں رہے گی ہر طرح سے اس کی حفاظت کا سامان مہیا ہو گا مگر وہ ہر روز خشک ہوتی رہے گی وہ ممکن نہیں کہ نشوونما پا سکے اور پتوں اور پھل والی بن سکے.ہمیں ایک نہ ایک امام اور پیش رو کی ضرورت ہے.دنیا اور اس کے کارخانے پر غور کرو.ہر گھر میں ایک بااثر شخص ہوتا ہے ہر محلہ میں ایک چودھری ہوتا ہے.ہر گائوں میں ایک نمبردار اور ایک ذیلدار ہوتا ہے.ہر کمیٹی کا ایک پریزیڈنٹ ہوتا ہے اور اللہ کریم نے حکام کے اوپر حکام بنائے.فرض کرو کہ ایک شخص ایک جرم کرتا ہے اس کے جرم کرنے کے موقع پر صاحب ڈپٹی کمشنر موجود ہیں.کیا صاحب بہادر اس مجرم کو اس
جرم کے ارتکاب سے روک دیں گے.نہیں ہرگز نہیں بلکہ وہ بھی کہیں گے کہ جب مقدمہ ہمارے پاس آئے گا ہم دیکھ لیں گے اس وقت ہم کچھ نہیں کر سکتے ہمارا کانسٹیبل ذمہ دار ہے.اللہ تعالیٰ نے روحانیت کا سلسلہ بھی ایسا بنایا ہے.میرے آقا رسالت مآب کے ساتھ ایک بڑی مخلوق وابستہ تھی جب آپؐ کا وصال ہوا آپ کی وفات پر فوراً اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے ایک سردار قائم کر دیا جس کے سامنے سب کی گردنیں جھکا دیں اور مسند خلافت پر حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بٹھا دیا مجھے اور لوگوں کی طرح زیادہ تقریر کرنے کی ضرورت نہیں.میں بات کو خواہ مخواہ رنگا رنگ کی مثالوں سے طول دینا نہیں چاہتا.میں نے ایک بات بتلائی ہے اور نہایت ضروری بات بتلائی ہے.وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کو پڑھو، سنو، سمجھو اور اس پر عمل کرو.میں شاید اور کہتا.پر اصل بات یہی ہے جو میں کہہ چکا.دنیا میں میں نے دیکھا ہے کہ لیکچرار اپنے اپنے لیکچروں کو کئی قسم میں تقسیم کر دیتے ہیں ان لاکھوں قسموں میں سے ایک حصہ میں نے بھی چن لیا ہے میر اجی یہی چاہتا ہے کہ اپنے گھر کے لوگوں …… اور متعلقین میں اسی کا وعظ کہوں اور کہتا ہوں کہ قرآن کریم پڑھو، قرآن کریم پڑھو اور اس پر عمل کرو اللہ کریم تم سب کو توفیق دیوے.(البدر ۲۵؍جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۲تا ۵)
ترُکی چندہ کے متعلق قولِ فیصل میں نے سنا ہے کہ تم لوگوں کا خیال ہے کہ ترکی چندے کے متعلق میں نے کوئی قول فیصل نہیں دیا.یہ تمہاری نافہمی ہے.میں کھول کر سناتا ہوں کہ ہر نیک کام میں چندہ دینے کو میں اچھا سمجھتا ہوں ادنیٰ سے ادنیٰ نیکی میں بھی میں آپ چندہ دینا چاہتا ہوں لیکن یہ معاملات مجھے معلوم نہیں ہوتے اس لئے ان میں معذور ہوں.تمہارا خیال ہوگا کہ میں چپ بیٹھا ہوں ہرگز نہیں.دیکھو میں نے بہت کوشش کی تاکہ مجھے یہ معلوم ہوسکے کہ غریب مسلمانوں کا روپیہ ضائع نہ ہو اور ترکی مجروحین کو پہنچ جانے کا ثبوت مل جائے اس لئے میں نے کرانچی ‘مدراس‘ کلکتہ ‘ برہما ‘ کولمبوقونصلوں کو ضروری خطوط لکھے.ان میں سے کسی نے جواب نہ دیا.ہاں البتہ کولمبو والے نے اتنا جواب دیا کہ عبدالحمید ظالم تھا اب جو بادشاہ ہیں بڑے نیک ہیں.میرابڑا جی چاہا کہ اگر ایک بھی اور گواہ ہوجائے مگر مجھے تو میسر نہ ہوا.البتہ اب تم اگر اس سے زیادہ تحقیقات کر کے اطمینان حاصل کرسکتے ہو کہ یہ روپیہ ترُک مجروحین کو پہنچ جائے گا تو اس چندے میں حصہ لو.اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے.تم سے دو کروڑ مانگا جاتا ہے.میں کہتا ہوں کہ اگر چودہ کروڑ بھی دینے سے ایک مسلمان سلطنت بچ جائے تو پھر بھی یہ سودا سستا ہے.کشمیر کو قریباًکروڑ روپے سے ہندوراجہ نے مول لیا تھا.ترُکی سلطنت اگر دو کروڑ سے بچتی ہے توخوشی کی بات ہے.میں نے مولوی محمد علی سے کہا تھا کہ (المائدۃ:۳)نہایت پاک کلمہ ہے.ہر ایک نیکی میں ،نیک کام میں، تقویٰ میں مدد کرنا چاہیے.اگرچہ تاریخ میں میں نے نہیں سنا کہ جب ہندوستان کے مسلمان غرق ہونے لگے تھے تو ترکوں نے کچھ ہماری مدد کی تھی اور کیا کچھ چندہ دیا تھا.لیکن ہم کو صرف اتنی سی بات سے نیکی کرنے سے نہیں رکنا چاہیے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ نیک سلوک نہ کیا لیکن یہ اطمینان ہونا ضروری ہے کہ چندہ وہاں پہنچتاہے اور پھر وہ مجروحین ہی
کی مرہم پٹی میں دیانت و امانت کے ساتھ خرچ ہوتا ہے.دوم : یہ کہ ریا و سمعہ سے نہ ہو.نہ تو اس سے طلب شہرت مقصود ہو.جیسا کہ میں آج کل یہ مرض پھیلا ہوا دیکھتا ہوں اور نہ اس میں کوئی اور ذاتی غرض ہو.سوم کے جواب میں (البقرۃ:۲۲۰)فرمایا یعنی اپنی حاجات سے زیادہ.دیکھو! میں نے ابھی سنا ہے کہ مدرسہ احمدیہ کے بہت سے بورڈ ر اس جاڑے کے موسم میں رات کو بغیر لحاف و توشک کے سوتے ہیں.تمہارا خیال ترکی چندہ تک تو جاپہنچا مگر گھر کی خبر نہیں.ان کے لئے تم نے کیا انتظا م کیا ؟ ان کے منتظم سے میں نے پوچھا اس نے کوئی معقول جواب نہیں دیا.یہ کہا کہ صدر انجمن کی طرف سے جواب ملا گنجائش نہیں.اجی گنجائش نہیں تو کیا تم نے چندہ کی فہرست کھولی.اگر تم کچھ نہیں کر سکتے تو پھر ان کو یہاں قید کیوں کر رکھا ہے.ملک خدا تنگ نیست.میں تو طالب علم کو روٹی کھلا دینا،بستر کا انتظام کر دینا سب سے ضروری سمجھتا ہوں.تم نے اس سے کوتاہی کی.اسی طرح سلسلہ کی ضرورتیں ہیں.اور یہ جو قربانیوں کی نسبت کہتے ہیں.قربانی چھوڑنا ہر گز جائز نہیں.یہ لوگ قسطنطنیہ سے ہی فتویٰ منگا دیکھیں کیونکہ حالت تو وہاں کی نازک بیان کی جاتی ہے.سب سے پہلے قربانیاں ان کو چھوڑنی چاہئیں.پھر مکہ معظمہ میں کئی لاکھ قربانیاں ہوتی ہیں.پہلے وہ قربانیاں موقوف کراتے.مصر ہی سے فتویٰ منگاتے.ہم نے تو ترکی چندے کے متعلق مصر بھی خط لکھا مگر اس کا تشفی بخش جواب نہ آیا.دیکھو تم ایسی ایسی باتوں پر اختلاف نہ کیا کرو.میں ترکی چندے کا ہر گز مخالف نہیں البتہ یہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہاں جو غریب ہیں رات کو اوڑھنے کے لئے بھی نہیں رکھتے اور ہمارے پاس زخمی بھی آجاتے ہیں.دیکھو.ابھی کل مولوی محمد علی کے ایک آدمی کو زخم لگاہے.ان کے لئے تو تمہیں جوش نہیں آتا اور وہاں کے لئے جوش ہے.کیا اس میں کوئی ریاوسمعہ تو نہیں.یہاں تو ذات الریہ سے مر جائیں تمہیں فکر نہ ہو.اور ایسی جگہ کے لئے جہاں چندہ پہنچنے کا یقین بھی نہیں تم مجھ سے استفتاء کرتے ہو.یہاں کی ضرورتوں اور یہاں کے مجروحوں کے لئے تمہاری جیبوں میں کچھ نہیں مگر باہر کے لئے ہے.مجھے تمہارے اختلافوں کی خبر سن کر بہت دکھ پہنچتا ہے اور جب تم اس میں حد سے بڑھنے لگتے ہو تو مجھے الزام دیتے ہو کہ میں قول فیصل نہیں دیتا.حالانکہ میں حق کہنے سے نہیں ڈرتااور
ر نہ کسی سے دبتا ہوں.اہل فقہ نے لکھا ہے کہ میں موم کی ناک ہوں اور خواجہ صاحب کے آنے سے پہلے مجھے فتویٰ دے لینا چاہیے.میں بار ہا تم کوسنا چکاہوں کہ میں تمہارے نذرانوں ،تمہارے سلاموں ، تمہارے اٹھنے بیٹھنے کا ذرہ بھی محتاج نہیں.مجھے خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اور میں تم میں سے کسی کا بھی احسان مند نہیں جسے یقین نہ ہو وہ مقابلہ پر آکر دیکھ لے.(الحکم ۱۴؍دسمبر۱۹۱۲ء صفحہ۷)
قرآن کو دستور العمل بنائو.دین کو دنیا پر مقدم کرو { تقریر فرمودہ ۲۵ ؍ دسمبر ۱۹۱۲ء بعد نماز ظہر بمقام مسجد اقصیٰ قادیان } جلسہ کے موقع پر یہ حضرت صاحب کی پہلی تقریر ہے جسے مخدومی اخویم محمد اکبر شاہ خان صاحب نے ساتھ ساتھ لکھا تھا اور اب صاف کیا ہے.چھپنے سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح کو اس کا مسودہ دکھلا لیا گیا ہے اور میں خان صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے ایسا عمدہ اور صحیح لکھا ہے کہ حضرت نے بہت کم کہیں درست کیا ہے.( ایڈیٹر البدر) اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم. (آل عمران: ۱۰۳ تا ۱۰۵) یہ آیت شریفہ جس کو میں نے پڑھا ہے چوتھے پارہ اور دوسری سورۃ آل عمران میں ہے.میرے خیال میں اس وقت اس آیت کے پڑھنے کی ضرورت ہے اور اس میں ایک علاج لکھا ہے.اس پر عملدرآمد کی ضرورت ہے.اس ضرورت کے خیال پر میں نے بھی اس آیت کریمہ کو پڑھا ہے.یہ بات تو تم جانتے ہو کہ پاک مقدس نیک آدمی کبھی ناپاک اور غیرمقدس کے ساتھ تعلق نہیں رکھ سکتا.پلید اور پاک کا تعلق محال ہے.خدا تعالیٰ ہر ایک عیب، ہر ایک نقص اور ہر ایک بدی سے پاک ہے.پس جہاں تک کوئی نقصوں کو دور کرتا چلا جائے اسی قدر بے نقص سے قرب حاصل کر سکتا ہے.وہ انسان جو تندرستی کا طالب ہے ایسی جگہ کو جو نشیب اور رطوبت والی ہو اور جہاں موذی جانور
بہت رہتے ہوں چھوڑنا ضروری سمجھتا ہے.نشیب میں بیماریاں بہت ہوتی ہیں.اسی طرح جہاں موذی جانور بہت رہتے ہوں وہاں بھی بیماریاں بہت ہوتی ہیں.اسی طرح جہاں ہوا کا گزر کم ہے یا جو مکان تنگ و تاریک ہے بہت سی بیماریوں کی جڑ ہے.اس کے لئے مختصر ضروری، متفق علیہ علاج اونچی جگہ جہاںہوا مصفّا ہو، موذی جانوروں کا گزر کم ہو، رطوبت کم ہو، روشنی خوب ہو، یہ بڑے ضروری امور ہیں.موٹی سی ایک مثال اس وقت میرے خیال میں آئی ہے میں نے اپنے گھر کے بہت سے حصہ میں پکّا فرش رکھوایا ہے.جن کوٹھوں میں اور مکان کے جس حصہ میں میں زیادہ تر رہتا ہوں وہاں پکا فرش ہے گو دیواریں کچی ہیں.میں اکثر ان کو صاف کراتا رہتا ہوں مگر ہر روز ایک حصہ مٹی کا جس کو ہمارے یہاں کلر کہتے ہیں جھاڑو دینے والی نکالتی ہے.میں نے اس سے سوال کیا یہ کہاں سے آجاتا ہے؟ اس نے کہا ہر ایک چیز اسی طرح ہو جاتی ہے.اسی مٹی کو جب تنگ وتاریک جگہ سے نکال کر کھیت میں ڈالتے ہیں جہاں عمدہ ہوائیں چلتی ہیں.چار پانچ روز کے بعد وہ ایسی عمدہ زمین ہو جاتی ہے کہ بعض اوقات دل چاہتا ہے کہ اللہ! تیرے آگے سجدہ کروں اور یہاں میں نماز پڑھ لوں.وہی جگہ ایک ہفتہ پہلے ایسی ناپاک تھی کہ اس کے پاس سے بھی گزرنا ناگوار تھا.یہ کیسی سیدھی مثال ہے.اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ مرغیوں، بطخوں کے رہنے کے مقام اور جہاں ہمارے گھریلو جانور گائے، بھینس، گھوڑے وغیرہ رہتے ہیں وہاں قسم قسم کی نجاستیں جمع ہو جاتی ہیں.جہاں مصفا ہوا اور کھلے میدان میں اس کو رکھا وہی حصہ بڑا عمدہ بن جاتا ہے.اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ جس قدر کوئی عمدہ چیز سے تعلق پیدا کرتا جاتا ہے اس کا نقص گھٹتا جاتا ہے.قرآن کریم میں جناب الٰہی نے جب انسان کی بناوٹ پر ذکر فرمایا ہے تو فرمایا ہے (المؤمنون :۱۳) یعنی تم کو خلاصہ در خلاصہ بنایا ہے.جب انسان کھانا کھاتا ہے اس میں سے بڑا حصہ ناپاکی کا علیحدہ کیا جاتا ہے.پیشاب الگ کیا جاتا ہے.قسم قسم کی بھاپ، پسینے، کان، آنکھ، ناک، منہ وغیرہ سے فضلے نکل کر کہیں کا کہیں خلاصہ بن کر آدمی کا نطفہ بنتا ہے.پھر ماں کے پیٹ میں بڑے تغیرات آتے ہیں.پھر وہ بچہ بنتا ہے انسان کا بچہ بنتا ہے.پھر ممکن ہے کہ وہ مسلم ہو اور ممکن ہے کہ وہ کافر ہو، دہریہ ہو.پھر کیسا عظیم الشان بن جاتا ہے.دریائوں کے چیرنے کی طاقت رکھتا ہے، پہاڑوں کو اڑانے کی
طاقت رکھتا ہے، ویل مچھلی کو قابو میں لاتا ہے.میں نے اپنی آنکھ سے وہ لوگ دیکھے ہیں جنہوں نے شیروں کو اس طرح قابو کیا ہے کہ شیر کو بھوکا رکھ کر اس کے منہ میں حلق تک اپنا ہاتھ ڈال دیا.بھلا مجال ہے کہ وہ منہ بند کرے.میں نے اس شخص سے کہا کہ کمال کیا ہے؟ اس نے کہا کمال کیا انسان ہی جو ہے ہاتھی کو انگوٹھے کے اشارے سے چلاتا ہے، اونٹوں کو نکیل کے ذریعہ سے، بھینسے اور بیل کو قابو میں لا کر ناک میں رسی ڈال دی ہے.مجال ہے جو ہل سکے.یہ انسان کی حالت ہے.(التین :۵) کیسا قوام بنایا ہے اور کیسی طاقت دی ہے.اب انسانوں میں کیسا تفاوت ہے.یہاں بہت تھوڑے سے آدمی ہیں مگر دیکھ لو آواز، چہرے، بال، پگڑی، لباس، خوراک سب کی جدا جدا ہے.اللہ کی شان ہے اور یہ اس کا نشان ہے کہ تمہاری زبان اور رنگ کا آپس میں اختلاف ہے.قرآن کریم میں ہے (الروم :۲۳) پھر فرماتا ہے. (البقرۃ : ۲۱۴)اس کا ترجمہ میری سمجھ میں یہی ہے کہ سب آدمی ایک جماعت ہیں جس طرح تمام دنیا کی اشیاء کی جماعت بندی ہے انسان بھی ایک جماعت ہے.اس میں مومن، کافر، مسلمان، شریر سب ہی ہیں صلح جو بھی ہیں شرارت پیشہ بھی ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ فرمایا ہے قریش میں امام ہیں شریروں کے شریر او ر خیار کے خیار.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا سمجھانے والا، ابوجہل جیسا انکار کرنے والا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے تیرہ برس تک کیسے کیسے دلائل اور سلطان سنے مگر اس کے دل پر ذرا بھی اثر نہ ہوا.ایک دفعہ ایک نوجوان نے مجھ سے کہا کہ میں مصر جانا چاہتا ہوں تا کہ وہاں جا کر عربی سیکھوں اور پھر دین سیکھوں کیونکہ ہمارا دین عربی میں ہے اور بغیر عربی کے دین نہیں آسکتا.میں نے کہا تم ابوجہل سے بڑھ کر زبان دان نہیں بن سکتے.مصر جائو.روم میں جائو یا شام میں ابوجہل کو جیسی عربی زبان آتی تھی ویسی تم کو نہ آئے گی لیکن ابوجہل مسلمان نہ ہوا.یہ دنیا کے عجائبات ہیں سب لوگ ایک جماعت ہیں پھر باوجود یکتائی کے کس قدر تفاوت اور فرق ہے کوئی اس کو بیان نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ کے منکر بھی دنیا میں موجود ہیں.لاہور میں ان کی ایک باضابطہ جماعت ہے ایک اخبار بھی نکلتا ہے.ایک مذہب ایسا ہے وہ
کہتے ہیں پتا نہیں لگتا کہ دنیا کیا ہے؟ لاہور میں حضرت صاحب سے سید مٹھا میں ایک شخص مباحثہ کرنے آیا.اس نے کہا مجھ کو کوئی شخص ہرا نہیں سکتا کیونکہ تم جو دلائل دیتے ہو ہم ان دلیلوں کے بھی قائل نہیں.میں بھی دور سے سنتا تھا تھوڑی دیر کے بعد وہ اٹھا.میں نے باہر جا کر اس سے کہا کہ آپ جیسے آدمیوں کے عقائد کا حال میں نے کتابوں میں پڑھا ہے مگر کوئی آدمی دیکھا نہیں تھا.اب آپ کو دیکھ کر میں خوش ہوا ہوں اور آپ سے ملنا چاہتا ہوں لیکن معلوم نہیں آپ کا دفتر کہاں ہے.میرا جی چاہتا تھا کہ اس کو ابھی ہلاک کر دوں.اس نے کہا کوڑی باغ میں ہمارا دفتر ہے.کوئی آدمی انار کلی سے سیدھا فلاں سمت کو چلا جائے تو وہاں پہنچ جاتا ہے.میں نے اپنے دل میں سمجھا کہ یہ احمق ہے، میں نے اس سے کہا کہ آپ وہاں کَے بجے جاتے ہیں؟ کہنے لگا کہ میں وہاں دس بجے جاتا ہوں.میں نے سوچا کہ اب اس کو آگے چلانے کی ضرورت نہیں.تب میں نے کہا بابو صاحب جیسے دس بجے دن کے ویسے دس بجے رات کے.جیسے دن کے بارہ بجے ویسے رات کے.جیسے انار کلی جیسے راوی کا دریا جیسا شاہدرہ جیسا کوڑی باغ.کیا آپ ہم لوگوں کی ہی طرح دس بجے نکلتے ہیں؟ کیوں آپ انار کلی سے کوڑی باغ میں ہی جا کر ٹھہرتے ہیں کبھی راوی کی طرف جا کر شاہدرہ جا کر ٹھہرا کریں ایک ہی ہے نا!؟ مجھ کو دیکھ کر کہنے لگا میں آپ سے پھر ملوں گا.میں نے کہا کس جگہ ملو گے؟ پس پھر تو وہ شرمندہ ہو گیا اور چل ہی دیا میں نے دیکھا کہ عملدرآمد کرنے میں وہ ہماری طرح چلتا ہے.لاہور کا ایک بڑا پنڈت میرے پاس آیا، اس کا بچہ بیمار تھا.کوچہ بندی تک وہ اپنے بیٹے کی تکلیف بیان کرتا ہوا میرے ساتھ گیا.اس سے پہلے وہ بیان کر چکا تھا کہ اعتبار کے قابل کوئی چیز بھی نہیں.مسیح کے قتل کا فتویٰ جب یروشلم میں دیا گیا تو یروشلم میں اتفاق تھا ،اب اس کو ظلم سمجھتے ہیں.ہم نہیں جانتے کہ وہ ظلم تھا یا یہ ظلم ہے.سقراط کو جب زہر کا پیالہ پلایا گیا تو کوئی نہ بولا اب اس کو اچھا نہیں جانتے.ہم نہیں جانتے وہ سچے تھے یا یہ سچے ہیں.میں نے کہا پنڈت جی آپ میرے پاس کیوں آئے ہیں؟ کہا میرا بیٹا بیمار ہے.میں نے کہا جب قوم کی بات کا آپ کو اعتبار نہیں تو آپ کی بات کا ہم کیسے اعتبار کریں.کہنے لگا بیٹا کہتا ہے.میں نے کہا اچھا اب آپ دو ہو گئے.پھر…
(البقرۃ : ۲۵۹) معلوم ہوا خدا ئے تعالیٰ کی بات تو بڑی ہے نفس مخلوق پر بھی لوگ اعتراض کرتے ہیں.ایک شخص نے مجھ سے کہا مخلوق ہر آن میں تباہ ہو جاتی ہے.میں نے اس سے بہت باتیں پوچھیں مگر کوئی حقیقت تک پہنچانے والی بات اس کے منہ سے نہ نکلی.اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ انسانی جماعت میں اس پاک گروہ کے بھی لوگ منکر ہیں جن کو انبیاء علیہم السلام کہتے ہیں اور جن کے سبب سے دنیا میں بڑے بڑے عیش اور امن اور راحتیں قائم ہیں.برہمو لوگ انبیاء کی پاک جماعت کے منکر ہیں.ایک برہمو نے مجھ سے کہا کہ دیکھو ہم بڑے پریم اور نرمی سے بات کرتے ہیں.میں نے کہا تم بڑے ظالم ہو.کہا کبھی آریوں کو بھی سنا ہے؟ میں نے کہا آریہ تم سے بہت نرم ہیں.کہا مسلمان؟ میں نے کہا وہ تو تمہاری نسبت بہت ہی نرم ہیں.کہنے لگا ہماری پلیدی بتائو؟ میں نے کہا سچائی پھیلانے اور سچ قائم کرنے کے لئے دنیا کے ہر پردہ پر نبی آئے ہیں اور انہوں نے صداقت کو قائم کرنے کے لئے اپنی جانیں ہلاکت میں ڈالیں اور بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کیں.تم نے ایسا غضب ڈھایا کہ ان کو کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے باتیں نہیں کرتا.کیسا ظلم ہے کہ تم کہتے ہو یا انہوں نے (انبیاء نے) جھوٹ بولا، یا دھوکا کھایا یا دوسروں کو الّو بنایا یا مصلحت عامہ کا خیال کیا.میں نے کہا تم نے نبیوں کے حق میں جھوٹ بولنے، دغا بازی کرنے، دھوکا دینے کے الزام لگائے اور پھر کہتے ہو ہم بڑے نرم ہیں.کہنے لگا پہلے تو ہم نے کبھی اس باریک بات کا خیال ہی نہیں کیا.میں نے کہا اب خیال کر لو.کہا ہاں بات تو زبردست ہے.میں نے کہا اچھا اب مانتے ہو؟ کہنے لگا نہیں بات کچھ ایسی ہی ہے.میں نے کہا تم ملائکہ کے ماننے کو شرک سمجھتے ہو اور کہتے ہو کہ ملائکہ کا ماننا مشرکانہ اعتقاد ہے حالانکہ ملائکہ کا ماننا بڑا پاک اعتقاد ہے.وہی راستباز اور پاک جماعت کہتی ہے کہ ہم سے ملائکہ نے باتیں کیں، ملائکہ ہم سے ملے، ملائکہ نے ہم کو فائدے پہنچائے اور تم ان کو جھوٹا کہتے ہو.ایمان بالملائکہ کا ایک نکتہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا ہے.میں نے بارہا اپنے دوستوں کو سمجھایا ہے لیکن لوگ بھلی بات کی طرف توجہ کم کرتے ہیں.کوئی وقت ہوتا ہے اور موقع نیکی کا ہوتا ہے اس وقت فرشتہ انسان کو نیکی کی تحریک کرتا ہے اور بدکاروں کو فرشتہ کبھی بدکاری کے وقت ملامت
کرتا ہے.اسی واسطے بعض بدکاروں کے کبھی بڑی نیک اولاد پیدا ہوتی ہے کیونکہ وہ ملامت کے ساتھ ہوتی ہے.اگر انسان مَلِک کی اس تحریک کو مان لے تو مَلِک کو اس سے تعلق ہو جاتا ہے.وہ فرشتہ اپنے حلقہ کی تمام نیکیاں تحریک کرتا ہے.پھر وہ ایک دوسرے فرشتہ سے جو اس کا قریب کا ہوتا ہے تعلق کراتا ہے کہ تم بھی اس کو تحریک کرو.یہاں تک کہ ایک حدیث میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب کسی آدمی کا اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھتا جاتا ہے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم ہوتا ہے کہ اس سے تعلق پیدا کرو.اس طرح جبرائیلی رنگ کی مخلوق سے تعلق اور قبولیت کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے.اب وہ قصہ ایک کہانی کی طرح ہو گیا.بدظنی مت کرو، بڑائی، شیخی اور فخر کے لئے نہیں تحدیث نعمت کے لئے کہتا ہوں کہ میں نے خود ایسے فرشتوں کو دیکھا ہے اور انہوں نے ایسی مدد کی ہے کہ عقل، فکر، وہم میں نہیں آسکتی اور انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ دیکھو ہم کس طرح اس معاملہ میں تمہاری مدد کرتے ہیں.انبیاء ،اولیاء، غوث، ابدال کی پاک جماعت کا فرمانا اس معاملہ میں خلاف ہو سکتا ہے؟ کبھی نہیں.جس طرح گندا کوڑا کرکٹ اعلیٰ مقامات میں جا کر اچھا ہو جاتا ہے اسی طرح اچھی صحبت میں گندہ انسان اپنی حالت کو تبدیل کر لیتا ہے.اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (التوبۃ :۱۱۹) راستبازوں کا ساتھ ہونا کوئی معمولی بات نہیں.وہ خشن پوش عرب جو سوائے اونٹ چرانے کے کچھ نہیں جانتے تھے جب انہوں نے دنیا میں اسلام کا نور پھیلایا تو کس طرح خدا ئے تعالیٰ نے ان پر فضل وکرم فرمایا اور انہوں نے کیسی عزت حاصل کی.وہ صحبت کا نتیجہ تھا.یہ نہ کہو کہ خدا تعالیٰ کی رحمت کے خزانے خشک ہو گئے.یہ جناب الٰہی پر بدظنی ہے.خدائے تعالیٰ کے فضل ورحمت میں کبھی کوئی نقص نہیں.قرآن کریم میں جہاں کہیں نیک آدمی کا ذکر آتا ہے آگے فرماتا ہے (الانعام :۸۵) ہر ایک محسن کے لئے ایسی ہی جزا ہے خدائے تعالیٰ کی رحمت کے خزانہ میں کوئی کمی نہیں، کوئی دریغ اور مضائقہ قطعاً نہیں.یاس اور نا امیدی خود بڑا خطرناک گناہ ہے.طالب علمی میں ہمارے ایک دوست تھے ہم کو ان پر بڑا حسن ظن تھا جتنے ہم ان کے ساتھ پڑھتے تھے ان کو بہت ہی نیک خیال کرتے تھے.حضرت صاحب کے دعوے کے وقت وہ مجھ کو ملے.میں نے کہا آپ نے مرزا صاحب کی آواز سنی ہے؟ کہنے لگے ہاں
وہ کہتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ سے باتیں کرتا ہوں پھر کہا کہ آپ مجھ کو جانتے ہیں میں نے کبھی کوئی بدی نہیں کی اور ساری عمر نہیں کی لیکن مجھ کو کبھی الہام نہیں ہوا اور مرزا صاحب کو الہام ہو گیا.میں یہ سن کر کچھ دیر چپ رہا اور دعا مانگتا رہا کہ مولا اس کو کیا جواب دوں.پھر میں نے عرض کیا کہ آپ ہم میں کیسا نیک نمونہ ہیں کہ ہم آپ کے لنگوٹیا یار ہیں اور پھر بھی آپ کا کوئی عیب نہیں بتا سکتے.اب بتائیں آپ نے کبھی نماز میں الحمد شریف پڑھی ہے؟ کہا روز.میں نے کہا اس میں آپ نے (الفاتحۃ :۶،۷) پڑھا انہوں نے کہا ہاں.میں نے کہا کیا کوئی منعم علیہم ہیں؟ کہا ضرور ہیں.میں نے کہا اللہ تعالیٰ ان سے باتیں کرتا تھا اور آپ سے نہیں کرتا؟ کہنے لگے بھلا ہم بدکاروں سے اللہ تعالیٰ کب بات کرتا ہے.میں نے کہا تو آپ بدکار ہیں؟ ہم کو تو علم نہیں تھا.کہا بندہ گنہگار سیہ کار ہے.میں نے کہا تو آپ ایسے بدکار اور سیہ کار ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے باتیں نہیں کرتا.آپ نے اللہ تعالیٰ پر بدظنی کی اور یہ کہ آپ نے تمام نیکیاں کیں اور پھر بھی اللہ تعالیٰ نہیں بولا گویا وہ ظالم ہے.آپ نے تو بڑا ظلم کیا کہ اللہ تعالیٰ پر بدظنی کی پھر وہ کس طرح بولتا.کہا ہاں یہی سبب ہے.میں نے کہا تو پھر قصور تو آپ ہی کا ہے.ملائکہ اسباب الٰہی میں سے ایک سبب ہیں اور کتب الٰہیہ انسان کو آگاہ کرنے کے لئے بھیجی گئی ہیں اور انسان کو سچائی سمجھانے کے لئے نازل ہوئی ہیں.(اٰل عمران :۱۰۳) حق تقویٰ کا ادا کرو.اللہ تعالیٰ کی ذات پاک مقدس مطہر عیب سے بری ہے.وہ یکتا ہے.اپنے اوصاف ومحامد میں بے ہمتا ہے.اللہ جلشانہ کے افعال وعبادات وتعظیمات میں کوئی بھی شریک نہیں وہ وحدہ لاشریک ہے.میری تحقیقات اور سمجھ نے جہاں تک کام دیا ہے قرآن کریم جیسی کتاب میں نے نہ دیکھی نہ سنی اور نہ کسی منہ سے کوئی چیز ایسی مجھ تک پہنچی.ایک مشہور برہمو یہاں آئے میں نے ان سے کہا کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟ کہا کہ ہر ایک مذہب کی اچھی بات ہم لے لیتے ہیں.میں نے کہا بڑا اعلیٰ سے اعلیٰ اصل آپ کا کیا کیا ہے؟ کہا دعا اور یہی تمام مذاہب میں بڑی اعلیٰ چیز ہے.میں نے کہا آپ نے تمام مذاہب کی دعائوں کا انتخاب
کیا ہے ان میں اتفاق رائے سے جو سب سے اعلیٰ دعا ہو وہ مجھ کو سنائو.کہنے لگے آپ اپنی دعا سنائیں.میں نے کہا آپ نے تو تمام مذاہب کی دعائوں کا انتخاب کیا ہے تعجب ہے کہ اسلام کی دعائوں کو نہیں جانتے.کہا ہاں یہ غلطی تو ہے پھر کہنے لگا کہ جنرل بوتھ نے دس گھنٹے دعا مانگی اور میرے سامنے مانگی.میں نے کہا اس دعا کا کوئی فقرہ آپ دس سیکنڈ میں سنا دیں کہنے لگا دور سے آواز نہیں آتی تھی.میں نے کہا ممکن ہے وہ شراب کے نشہ میں سورہا ہو.غرض وہ ادھر نہ آیا یہی کہتا رہا وہ بڑی جماعت کا مقتدا ہے.میں نے کہا اس نے کوئی دعا نہیں کی ورنہ ایک فقرہ ہی سنائو.میں نے کہا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تھے تو ایک آیت اونچی پڑھ دیتے تا کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ فلاں سورۃ پڑھتے ہیں.انجیل میں مسیح کی آخری دعا تو یہی ہے کہ ایلی ایلی لما سبقتنی او خدا تو نے مجھ کو کیوں چھوڑ دیا.میں نے اس کو بہت ہی مجبور کیا کہ اپنی دعا مجھ کو سنائو لیکن اس نے کہا پہلے آپ سنائیں پیچھے میں سنائوں گا.میں نے کہا اچھا آئو پہلے ہماری ہی دعا سنو پھر میں نے سورۃ فاتحہ انہیں( ہندئووں کی) زبان میں جو مجھ کو کچھ آتی ہے ترجمہ کر کے سنائی.سن کر فوراً نوٹ بک نکال کر کہنے لگا کہ اس کو اپنے ہاتھ سے لکھ دیں اس جیسی تو کوئی دعا ہو ہی نہیں سکتی.میں نے کہا اب تم سنائو کہا کہ مجھ کو تو اب ان تمام دعائوں سے شرم آتی ہے اس دعا کے مقابلہ میں ہرگز کوئی دعا سنانے کے قابل ہے ہی نہیں.ہم پر کیا احسان ہوا ہے.کیا شان ہے اس کتاب کی جس کی تعریف ہے (حٰم السّجدۃ :۴۳) (الواقعۃ:۸۱) اس کے آگے پیچھے بطلان آسکتا ہی نہیں سب تحقیقاتوں کے مقابلہ میں یہی قرآن ہے آئندہ جو ہوں گی ان کے لئے بھی یہی قرآن ہے.ربّ العالمین کی یہ تنزیل ہے.بہت سے لوگ انجمنیں بناتے ہیں وہ کیوں کامیاب نہیں ہوتے؟ وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اصل الاصول میں لا الہ الا اللّٰہ کو نہیں رکھتے کوئی ہمدردئ حیوانات، کوئی موت فنڈ، کوئی زندگی کا بیمہ.اگر سب سے مقدم خدائے تعالیٰ کو کر لیتے تو خدا ئے تعالیٰ ان کو مقدم کر لیتا (اٰل عمران :۱۰۳) تم فرمانبردار ہو کر مرو.(اٰل عمران :۱۰۴).اللہ تعالیٰ نے الزام کے طور پر ہر مدرسہ
میں رسہ کھینچنے کا ایک انتظام کیا ہے.یہ رسہ میری سمجھ میں اس لئے بنایا گیا ہے کہ اس آیت کی طرف توجہ ہو.یہ جناب الٰہی کا رسہ قرآن کریم آگیا.ایک طرف تمام دشمنان خدا اور اعداء نبی کریم اس کو کھینچنا چاہتے ہیں کوئی تاریخی طور پر کوئی سائنس اور مشاہدہ کے ذریعہ سے الزام لگانا چاہتا ہے کوئی اس کوشش میں ہے کہ اس کے اسباب کے نتائج کا خلاف کیا جائے.خدا تعالیٰ اور اس کے نبیوں کے منکر ایک طرف کھینچتے ہیں.تمام مسلمانوں کو حکم ہے کہ تم ایک دم اپنا سارا زور لگائو کیونکہ اس میں تمہارا بچائو ہے.اس میں تو اتفاق کر لو تفرقے چھوڑ دو.آپس میں محبت بڑھائو.اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان محبت ڈالی ہے.اللہ تعالیٰ کا تم پر فضل ہوا ہے.تم لوگ کس طرح آپس میں عداوت رکھتے تھے.جناب الٰہی نے تم میں الفتیں پیدا کر دی ہیں.اندرونی مذاہب میں شیعہ تمام اصحاب کرام کو گالیاں دیتے ہیں اور خوارج اہل بیت کو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہارے درمیان الفتیں پیدا کر دیں ہیں تو کم سے کم سورئہ آل عمران کے زمانہ میں جس قدر صحابہ تھے وہ تو سب ضرور آپس میں محبت رکھتے تھے.جو اس کے خلاف کہتا ہے وہ قرآن کریم کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے اَلَّفَ کے بعد اِخْوَانًا فرمایا ہے کیونکہ کبھی کبھی بھائیوں میں کدورتیں بھی ہو جاتی ہیں.اس جماعت صحابہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت معزز کیا ہے.اگر ان میں اختلاف ہوتا تو تمام بلاد کے فتوحات کس طرح ہوتے.اگر وہ ایک نہ ہوتے تو لا الٰہ الا اللّٰہ کے خلاف ہوتا.میں نے اپنے ایک دوست سے کہا بھلا تم کلینی تو پڑھ کر دیکھو.کہا اپنی تردید کے لئے یہی کافی ہے.خدا تعالیٰ کے اس فضل کو یاد کرو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں کون کون لوگ تھے حبشیوں میں بلال، رومیوں میں صہیب، حسن بصری جیسے بصرہ کے.یہ اشارہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو ماننے کے لئے ہم نے عرب وعجم کی مخلوق ایک کر دی ہے.تم ایک آگ کے گڑھے پر تھے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ باتیں اس لئے سنائی ہیں کہ تم ہدایت پائو.اب بھی دیکھو لوگ باہم کس قدر نقار میں تھے.مقلد، غیر مقلد، شیعہ، خارجی، ایک گائوں قادیان میں ہم کو اللہ تعالیٰ نے جمع کر دیا.نمونے دکھا دئیے.اب بھی وہی بن سکتے ہو جو پہلے صحابہ کرام بنے.یہ باتیں کیوں سناتا ہے؟ (اٰل عمران :۱۰۴).
اب تم سوچو حضرت صاحبؑ کیوں آئے تھے؟ کیا غرض تھی کیا کام تھا کیا ضرورت پیش آئی تھی؟ بہت سے لوگ یہ کہہ دیں گے.وفات مسیح کا مسئلہ حل کر دیا.وفات مسیح کے سارے صحابہ سارے آئمہ قائل ہیں.بیشک بطور غلطی کے یہ مسئلہ بھی تھا.ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر فوت ہوئے ایک مسیح علیہ السلام بھی فوت ہو گئے تو کیا ہوا.حضرت صاحب ایک خاص غرض کے لئے آئے تھے.وہ غرض دین کو دنیا پر مقدم کرنا تھی.لوگوں نے دنیا کو دین پر مقدم کیا ہے اور ایسا مقدم کیا ہے کہ قرآن شریف کو کچہریوں میں جھوٹی قسمیں کھانے کا آلہ بنایا گیا ہے.دھوکا دینے کے لئے قرآن شریف کو ذریعہ بنایا گیا ہے.ایک شخص کی کوہاٹ میں بدلی ہوئی.بڑا موٹا قرآن شریف اور ایک بڑی سی رحل اس نے خریدی.لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو قرآن کریم سے بڑی محبت ہے.کہنے لگا کہ سفر میں تو یہ میری گاڑی کا پائدان ہو گا اور وہاں جا کر رحل پر رکھ دوں گا سرحدی لوگ مجھ کو بڑا دیندار سمجھیں گے.میں قرآن شریف کو مانتا نہیں ہوں.اگر خشیۃ اللّٰہ ہو، اگر تقویٰ ہو، اگر انسان کا خدا تعالیٰ پر ایمان ہو، اگر مرنے کا اس کو خیال ہو تو یہ جھوٹ، یہ دغا، یہ فریب، یہ جعلسازیاں، یہ بدمعاشیاں، یہ لین دین میں بدمعاملگی کیوں ہو.تم خوب یاد رکھو کہ صرف منہ سے کہہ دینے سے آدمی مسلمان نہیں بنتا،منہ سے مسلمان تو منافق بھی بن سکتا ہے.تقویٰ اور عمل سے آدمی مومن بن سکتا ہے.اگر دنیا کو دین پر مقدم رکھتے ہو.اگر اپنے اغراض کو پورا کرنے کے لئے دغا، فریب اور بدمعاشیوں کو روا رکھتے ہو تو یہ کوئی عقلمندی نہیں.ہمارے بزرگوں کے مکانات عرب میں بھی ہوں گے کیونکہ وہ عرب سے آئے تھے پھر انہوں نے بلخ میں کابل میں مکانات بنائے.پشاور اور یوسف زئی کے علاقہ میں وہ رہے پھر لاہور میں قصور میں مکانات بنائے.پھر کھنی وال (علاقہ بہاولپور) اور میانوالی سکونت اختیار کی.بھیرہ میں خود میں نے اپنے ہاتھ سے مکانات بنائے.ان سب مقامات میں ہمارے مکانات تھے پھر یہاں (قادیان) بھی میں نے مکانات بنائے پھر کیا ان مکانوں کو میں سر پر اٹھا کر لے جائوں گا؟ مومن دین کو دنیا پر مقدم رکھتا ہے دنیا کو مقدم نہیں کرتا.یہ معاہدہ کرنا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا اور جب معاملہ پڑے یا کوئی مقدمہ آجائے تو دنیا کو مقدم کر لیا.بھلا یہ معاہدہ ہی کیا ہوا؟
قرآن شریف میں ورثہ کا بیان فرماتے ہوئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے (النساء :۱۴، ۱۵) یہ میری حد بندی ہے جو میری حد بندی پر نہ چلے گا میں اس کو ذلیل کر دوں گا.اب اپنے اپنے گائوں کے حالات پر غور کرو.عورتوں کو حقوق کس قدر دئیے جاتے ہیں.تم لوگ اکثر عورتوں کو حصہ نہیں دیتے.عورت کی بھلائی کا قانون سوائے قرآن کریم کے اور کہیں دنیا میں ہے ہی نہیں.میں نے بڑے بڑے واقف کاروں سے پوچھا ہے لنڈن میں بھی عورتوں کی بھلائی کا کوئی قانون نہیں نکلا.ایک خاوند نہ چھوڑنا چاہے، نہ رکھنا چاہے اب عورت مجبور ہے زیادہ سے زیادہ یہ کہ نان ونفقہ کی ڈگری حاصل کرے پھر اس ڈگری کا اجرا کرانا دشوار.میں نے بڑی کوشش اور تلاش کے بعد بھی کوئی قانون ایسا نہیں دیکھا جس میں عورتوں کے حقوق کا لحاظ کیا گیا ہو.قرآن کے قاعدے خود مسلمانوں نے ہی چھوڑ دئیے ہیں.(البقرۃ :۲۲۹) عورت کی بہتری کے سامان اسی قدر ہیں جس قدر تمہارے.ایک عورت مجھ سے کہنے لگی آپ کے قاعدے کے موافق آدھا مال خاوند کا ہے اور آدھا بیوی کا مگر اب تو تمام گھر کی مالک میں ہی ہوں.میں نے کہا کبھی تمہارے میاں تم پر ناراض بھی ہوئے ہیں.کہا ہاں ایک مرتبہ ناراض ہوئے تھے.چوٹی پکڑ کر گھر سے باہر نکال دیا تھا.میں نے کہا کبھی تم نے بھی اس کو گھر سے نکال دیا ہے یا تم صرف حفاظت ہی کرتی ہو اور دخل کچھ بھی نہیں.کہنے لگی ہاں اب سمجھ گئی ہوں.ہمارے ملک والوں نے عورت کا نام جوتی رکھا ہے حق وراثت میں کوئی حصہ اس کے لئے قائم نہیں.ایک عورت نے مجھ کو خط لکھا کہ مہدی بھی آیا، مسیح بھی آیا بتائو ہم کیوں مانیں اس نے ہمارا کیا کام کیا؟ میں نے اس کو لکھا کہ مسیح علیہ السلام قرآن کی طرف متوجہ کرتے ہیں.اس نے لکھا کہ میرا خاوند قسم کھاتا ہے کہ میں تم کو کبھی سکھ کی حالت میں نہ دیکھوں گا.میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا آپ ہنس پڑے اور کہا کہ لوگ قرآن مانیں.میں نے اس عورت کو لکھ دیا کہ تم چالیس دن
سچی استغفار اور توبہ کرو یا وہ مر جائے گا یا تمہارا چھٹکارا ہو جائے گا.اللہ جلشانہ نے تمہارے لئے ایسا واعظ بھیجا کہ دین کو دنیا پر مقدم کرو.ہم نے لوگوں کے کفر کے فتوے بھی اپنے اوپر لئے پھر بھی اگر تمہارے معاملات صاف نہیں تو تم نے دین کو دنیا پر مقدم کہاں کیا.ایک اور مشکل پیش کرتا ہوں.وہ یہ کہ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ جو لوگ معاہدہ کر کے خلاف کرتے ہیں ہم نے ان کی یہ سزا رکھی ہے کہ وہ منافق ہو کر مرتے ہیں اب ہم نے بھی تو اتنا بڑا معاہدہ (اقرار بیعت) کیا ہے.میرا دل نہیں چاہتا کہ ہماری جماعت میں منافق ہوں.میرا جی چاہتا ہے کہ میری بات کے سننے والے عمل کرنے والے ہوں یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ منافق اکٹھے ہو جائیں.میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا (ھود: ۳۰) بلکہ اس عہدہ پر آکر مجھ کو خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے جو پہلے نہیں ہوتا تھا.ایک سائل آتا ہے وہ کہتا ہے کہ میں ابھی جاتا ہوں اور میرے پاس خرچ سفر نہیں.اب میں اس سے یہ کہاں کہہ سکتا ہوں کہ میری چٹھی بنام انجمن لے جائو.انجمن کہے گی مہینہ کے بعد ہمارا اجلاس ہو گا.پھر بڑے اہلکار چھوٹے اہلکاروں کے نام حکم لکھیں گے اور اس طرح اس کی تعمیل میں مہینے گزر جائیں گے اور وہ فوراً رخصت ہونا چاہتا ہے.میں نے اس دکھ کو بڑا محسوس کیا ہے.جب دنیا کے لوگوں نے مجھ سے کہا کہ ہم نے تم کو نمبردار بنایا ہے.آپ کا ماہوار خرچ کیا ہو گا؟ میں نے کہا اے مولیٰ! تو نے مجھے کبھی کسی کا محتاج نہیں بنایا اور موت کے قریب بندوں کا محتاج بناتے ہو؟ مجھ کو بڑا مزہ آیا جب کہ میں نے ایک آدمی سے کچھ مانگا.چند عرصہ کے بعد اس نے کہا میں تو بھول ہی گیا میرا ایمان بہت بڑھ گیا.اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا ہی فضل کیا ہے اور وہاں سے رزق دیا جہاں سے میرا وہم وگمان بھی نہ تھا.باقی یہ کہ میں دو چار عربی کے فقرے اور ضرب المثلیں بیان کروں اس کی ضرورت نہیں.میں چاہتا ہوں کہ تم دین کو دنیا پر مقدم کرو، لالچ، دغا، شرارت بالکل نہ کرو.قرآن کا سمجھنا بڑا ضروری ہے سمجھ کر اس پر عمل کرنا اور جناب الٰہی سے دعا مانگنا کہ اسی پر خاتمہ بالخیر ہو.یورپ میں بہت کتابیں نکلی ہیں کہ اگر نمونہ کے طور پر صرف ان کے ٹائٹل پیج کیا اگر ان کے ناموں کی فہرست بھی پڑھنا چاہیں توطاقت نہیں.ان سب کے بالمقابل قرآن شریف کو پڑھو
.یہ سب پر غالب اور سب سے بڑھ کر رہے گا.اس کتاب قرآن کریم کا ایک نمونہ دنیا میں آیا.اس کا نام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھا.اس نے قرآن کریم پر عمل کر کے دکھا دیا کہ اس پر عمل کرنا انسان کی طاقت سے باہر نہیں.پھر آپ ہی عمل نہیں کیا بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی عمل کرا کر دکھا دیا حضرت عبداللہ بن مسعود کا مسجد کے قریب سے گزر ہوا اس وقت حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے.آپ نے لوگوں کو فرمایا بیٹھ جائو.حضرت عبداللہ بن مسعود نے گلی میں اس آواز کو سنا وہیں بیٹھ گئے کسی نے پوچھا یہ کیا کیا؟ آپ نے کہا شاید مسجد میں جانے تک جان نکل جائے اور حکم کی تعمیل رہ جائے.کیا فرمانبرداری تھی.پھر اس فرمانبرداری کے ساتھ ایک دعویٰ بھی ہے (اٰل عمران :۳۲) اگر تم اللہ تعالیٰ کے پیارے بننا چاہتے ہو تو تم میرے تابع ہو جائو.اللہ تعالیٰ تم سے پیار کرے گا اللہ تعالیٰ کا محبوب بن کر انسان کو ذلت ورسوائی اور ناکامی نہیں ہو سکتی اور آدمی ذلیل ترین کبھی نہیں بن سکتا.اللہ تعالیٰ کا محبوب بننا اتباع نبی کریم پر منحصر ہے اور وہ اتباع انسان کر سکتا ہے.اس اتباع کے لئے صحابہ کرام کا نمونہ موجود ہے اور تم سب کر سکتے ہو.میں نے بارہا قرآن کریم اس غرض سے پڑھا ہے کہ اس میں کوئی ایسا بھی حکم ہے جس پر ہم عمل نہیں کر سکتے.مگر میں نے کوئی قرآنی حکم ایسا نہیں دیکھا جس پر عمل کرنا دشوار ہو.قرآن کریم کے خلاف عمل کرنے میں روپیہ بھی زیادہ خرچ ہوتا ہے.قرآن کریم کی فرمانبرداری میں روپیہ بھی زیادہ خرچ نہیں ہوتا.امریکہ جانے کا خرچ، پیرس، جرمن، لنڈن جانے کا خرچ اور اس کے مقابلہ میں مکہ جانے کا خرچ دیکھو.نماز کے خرچ اور اُسترے کے خرچ کا مقابلہ کرو.روزے اور شراب کے خرچ کا مقابلہ کرو پتا لگ جائے گا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں انسان جناب الٰہی کا محبوب بن سکتا ہے.مجھ کو آج تک کوئی بات ایسی نظر نہیں آئی کہ جناب الٰہی یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری میں تکلیف ہو.ابھی چند روز ہوئے میں نے ایک کتاب پڑھی اس میں چوہڑوں کا نام حلال خور پڑھ کر قریب تھا کہ میری چیخ نکل جاتی.چونکہ مسلمان سود خوار جعلسازی سے حرام کھانے والے جھوٹ سے حرام کھانے والے ہر قسم کے حرام خور بن گئے اور وہ تو ایک ہی حرام کھاتے ہیں اس لئے ان کا نام
حلال خور رکھا.دَ ین مہر کے ایک مقدمہ میں وکیل نے مہر معجل کی جگہ مہر موجل اور موجل کی جگہ معجل پڑھ کر قانون میں دکھا دیا.انگریزی پڑھے ہوئے آدمی دونوں لفظوں میں مشکل سے فرق سمجھ سکتے ہیں.آخر جج دھوکا کھا گیا اور غلط فیصلہ لکھ دیا.باہر نکل کر ایک آدمی نے اس وکیل سے کہا کہ یہ تو تم نے بڑا دھوکا دیا.وہ کہنے لگا یہی تو ہمارا کمال ہے.ایک شخص میرے پاس آکر کہنے لگا کہ فلاں خاندان میں مقدمات ہونے والے ہیں آپ کوشش کر دیں کہ فلاں وکیل فلاں جانب پیروی کرے.میں نے مقدمات کا حال سنا کہ ماں بیٹے میں جھگڑا ہونے والا ہے.میں نے کہا کہ جب ماں بیٹے کا معاملہ ہے تو مقدمات کی ضرورت ہی کیا ہے.وہ کہنے لگا کہ مقدمہ تو ہم ضرور کرا دیں گے مگر اندیشہ صرف اس قدر ہے کہ محنت تو ہم کریں اور پھل کوئی اور کھا جائے.میں نے کہا کہ بس اب پھر میرے پاس نہ آنا.کہنے لگا کہ یہ تو ہم شرط باندھ کر کہتے ہیں کہ ضرور لڑا دیں گے.دیکھو تو سہی کیسے مشکلات ہیں دین کو دنیا پر مقدم کرنا کس قدر دشوار ہے، نفاق کس قدر بڑھ گیا ہے.میرا ایک دوست تھا میں اس کے مکان پر اس سے ملنے گیا وہ پہلے سے ایک شخص کو کچھ نصیحت کر رہا تھا.میرے پہنچنے پر اس شخص نے کہا اچھا اب رخصت ہوتا ہوں.میرے اس دوست نے کہا کہ اچھا رخصت مگر ہماری نصیحت کو بھولنا نہیں.وہ چلا گیا تو میں نے پوچھا کہ آپ نے کیا نصیحت کی ہے؟ کہا میں نے اس کو سمجھایا ہے کہ تم جہاں تبدیل ہو کر جاتے ہو وہاں سب سے ملنا اور دل میں کینہ رکھنا، فلاں فلاں اشخاص سے خوب دوستی پیدا کر کے ان کو جڑ سے اکھیڑ کر پھینک دینا.میں نے کہا یہ آپ نے خوب نصیحت کی یعنی نفاق کی تعلیم دی، کہا یہ پالیسی ہے.میں نے کہا آپ عالم فاضل ہیں ذرا پالیسی کے معنے بتا دیجئے کہ پالیسی اور نفاق میں کیا فرق ہے.کہا آپ نہیں جانتے دنیا میں غفلت بہت بڑھ گئی ہے.میرا ایک دوست اور شاگرد تھا.اس نے ایک انگریزی دان شخص سے کہا کہ ہم کو بھی اپنی سوسائٹی میں شریک کر لو.وہ انگریزی دان انگریزوں کی سوسائٹی میں شامل تھا ان میں ایک برات تھی.اس نے ان مولوی صاحب سے کہا کہ آپ ایک سوٹ باقاعدہ بنوائیں تو آپ کو برات میں شریک کریں گے.ان کے پاس ستر روپیہ تھے وہ اس کو دے دئیے اس نے ستر روپیہ میں ان کو ایک باقاعدہ سوٹ بنوا دیا اور اپنے ہمراہ برات میں لے گیا.جب برات پہنچی تو وہاں شکار کے لئے
سب لوگ گئے.مولوی صاحب سے کہا کہ آپ شکار کا سوٹ پہن لیں.انہوں نے کہا میرے پاس تو وہی ستر روپیہ تھے اور تو کوئی سوٹ نہیں.اسی طرح وہاں فٹ بال کا علیحدہ سوٹ چاہئے تھا کھانے کا علیحدہ سوٹ تھا.ان کے دوست نے کہا کہ مولوی صاحب آپ بیمار بن جائیں اور لحاف اوڑھ کر لیٹ جائیں.وہاں تین دن برات ٹھہری اور مولوی صاحب بیمار بنے پڑے رہے جب برات رخصت ہوئی تو مولوی صاحب تندرست ہو گئے اور ان کا وہ سوٹ کام آیا.افسوس ان کو جھوٹ ہی بولنا پڑا.اسلام پر کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا.جو لوگ کراچی، بغداد، دیار بکر، جرمن، آسٹریا وغیرہ ہوتے ہوئے لنڈن پہنچے اور پھر فرانس ہوتے ہوئے مصر کی سیر کرتے ہوئے گھر آئے ہیں میں نے ان سے حالات پوچھے ہیں اور دریافت کیا ہے کہ رستہ میں کوئی آواز سنی ہے کہ مکہ بھی ایک شہر ہے؟ کہا کچھ خیال ہی نہیں آیا.افسوس کس قدر غفلت اور نفاق ہے اور کس قدر مداہنت ہے.سود کے رسالے لکھے ہیں کہ جائز ہے.ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ اگر سود نہ لینے کا تیرا مسئلہ مان لیا جائے تو دنیا برباد ہو جائے.میں نے کہا تیرہ سو برس سے تو دنیا برباد ہوئی نہیں اب برباد ہو جائے گی؟ ایک مرتبہ ہمارے بورڈنگ کے بعض لڑکوں نے عرضی دی کہ آپ ہم کو اجازت دیں کہ صبح کی نماز تیمم سے پڑھ لیا کریں یا نماز معاف ہی کرا دیں.میں نے کہا پانی گرم ہو سکتا ہے جواب دیا کہ وضو سے نکٹائی خراب ہو جاتی ہے.آجکل جھوٹا گواہ بنا لینا ایک معمولی سی بات ہے.ایک واعظ آسٹریلیا تک تو جاتا ہے لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ (ھود :۵۲)حالانکہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ایک کوڑی خرچ کرنے سے کروڑوں حاصل ہوتا ہے.حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے والد ماجد نے اگر نبی کریمؐ کی کوئی خدمت کی ہے تو یہی کہ نبی کریمؐ کی دس بارہ برس مشکلات میں مدد کی.آج کوئی دیکھے کہ ایک سیدانی کے پیٹ سے بچہ نکلتے ہی سید کہلاتا ہے اور قیامت تک کے لئے یہ فخر حاصل ہے.قرآن کریم یہ بھی بتاتا ہے کہ تم میں اختلاف کیوں ہے (المائدۃ :۱۵) جب ہمارے حکم
کو بھول گئے تو ہم نے ان کے درمیان بغض ڈال دیا.اپنے گھروں کو دیکھو اپنی برادری کو دیکھو اور دکھ سے کہتا ہوں کہ بعض بعض احمدیوں کو بھی دیکھو کہ ان میں بغض اور کینہ موجود ہے ابھی تم کچھ ہوئے بھی نہیں پھر بھی تم میں وہی فساد ہے جو پہلے تھا جب اللہ تعالیٰ کی نصیحتوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو بغض اور عداوت پیدا ہو جاتا ہے.اگر تمہارے اندر بغض اور عداوت ہے تو تم نے اللہ تعالیٰ کی نصیحتوں کو چھوڑ دیا.ایک جگہ آتا ہے کہ کفار کو فجار کے عذاب دینے کے لئے ہم نے پیدا کیا.تمہارے مکان کی ذرا سی زمین تمہارے ہاتھ سے جاتی رہتی ہے تو تمہاری جان نکل جاتی ہے لیکن ملکوں پر ملک تمہارے قبضہ سے نکلتے چلے جاتے ہیں، سمر قند، بخارا، دہلی، لکھنو، مصر، مسقط، زنجبار، مراکش، تیونس، طرابلس، ایران وغیرہ بارہ سلطنتیں مسلمانوں کی میرے دیکھتے دیکھتے تباہ ہوئیں اور اب قسطنطنیہ پر بھی دانت ہے.یہ کیوں ہوا؟ قرآن میں اس کا سبب لکھا ہے (الانفال :۴۷) باہم جھگڑے چھوڑ دوتم سست ہو جائو گے تمہاری ہوا بگڑ جائے گی یہ سب کچھ تم نے دیکھ لیا ہے تم کہو گے ہم نے طرابلس میں چندہ دیا.بیشک نیک کام کیا لیکن اصل چیز تو خشیۃ اللّٰہ تھی.تمہارے دل میں خشیۃ اللّٰہ پیدا ہوئی.تم نے قرآن کے جوے کے نیچے اپنی گردن کو رکھا؟ اس کا جواب نہیں.میرے ڈیرے میں لوگ بعض اوقات گھبرائے ہوئے ہوتے ہیں کہ میری بیوی بیمار ہے، میرا بچہ بیمار ہے، میرا بھائی بیمار ہے.جب ان کو دیکھتا ہوں تو بے دین.میں نے بہتوں سے پوچھا ہے کہ تم کو ان کی بے دینی کا بھی غم ہے؟ کہا اس کے بے دین ہونے کا فکر نہیں مگر اس کے درد کا فکر ہے.جسمانی امراض، لباس، خوراک، مکانات کا تو فکر ہے لیکن روحانی امراض کا مطلق فکر نہیں.کیا انبیاء علیہم السلام دنیا میں عبث آئے تھے؟ شکر کے مقام میں ہر جگہ شکر ادا کرو اور صبر سے بھی کام لیا کرو.ہر جگہ خدا تعالیٰ پر ہی دعویٰ کرتے ہو کہ ہمارے ساتھ یہ نہیں کیا یہ نہیں کیا.اس کے احسانات وانعامات کو سوچو.اب مجھ کو خطرہ ہو رہا ہے کہ لوگ صبح سے لیکچر سن رہے ہیں بہت سے لوگوں کو پیشاب پاخانے کی بھی حاجت ہو گی.اللہ تعالیٰ نے مجھ کو توفیق دی تو پھر سنائوں گا.اس وقت آیت کو پورا نہیں کر سکا اس کا قاعدہ آگے بتاتا ہے کہ تم مفلح کس طرح ہو سکتے ہو
(اٰل عمران :۱۰۵) کچھ آدمی بنائو جو نیکی کی طرف لوگوں کو بلائیں جب تک ایسی جماعت تم میں نہ ہو کچھ فائدہ نہیں.تم کو ملالت نہ ہو اس واسطے اس تقریر کو ادھورا ہی چھوڑتا ہوں.اللہ تعالیٰ تم کو اس بات کی توفیق دے کہ قرآن کریم تمہارا دستور العمل ہو، اللہ تعالیٰ کو رضامند کرنے میں خوب کوشاں رہو.تمہارا خاتمہ اسی میں ہو مجھ کو کوئی دنیا کی غرض نہیں.تم کو بہت سے درد سے سمجھاتا ہوں اگر وقت اور ہوتا تو یہ رکوع پورا کرتا.ہاں! ایک بات اور بھی ہے میں نے سنا ہے کہ لاہور میں لیکچر ہوئے ہیں عیسائیوں نے اس پر زور دیا ہے کہ ہماری سلطنت بڑھنے کا سبب اتباع انجیل ہے.میں نے انجیل کو دیکھا ہے اسی میں یہ نکتہ حل کیا ہوا ہے کہ شیطان نے حضرت مسیح سے کہا کہ اگر تم مجھ کو سجدہ کرو گے تو میں تم کو دنیا کی تمام سلطنتیں دے دوں گا.حضرت مسیح نے کہا کہ میں نہیں لیتا تو دور ہو جا.معلوم ہوتا ہے کہ یورپ والوں نے اس نکتہ کو سمجھ لیا ہے اور شیطان کے آگے سجدہ کر کے وہ سلطنتوں کے مالک ہو گئے ہیں.پھر انجیل میں لکھا ہے کہ اونٹ اگر سوئی کے ناکے سے نکل جائے تو یہ ممکن ہے مگر یہ ہو نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں دولتمند کا گزر ہو.پھر ایک اور جگہ مسیح نے فرمایا کہ تم اپنا خزانہ زمین پر نہ رکھو آسمان پر سارا خزانہ رکھو وغیرہ ان یورپین نے دیکھا کہ یوں تو بات نہیں بنتی.شیطان کو سجدہ کرنے سے کام چل جاتا ہے.مسیح کی تعلیمات کے خلاف تمام معاہدات کو توڑ کر عمل کرنا شروع کر دیا.انجیل کی اسی قسم کی چند آیتیں جمع کر کے ایک چھوٹا سا ٹریکٹ نکل جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ مفید ہو گا.(البدر ۳۰؍جنوری ۱۹۱۳ء صفحہ ۳ تا ۸)
اللہ تعالیٰ نے قران کریم کو آسان بنایا ہے نیز گزشتہ تقریر کا تتمہ (ایام جلسہ میں دوسری تقریر فرمودہ۲۶؍ دسمبر۱۹۱۲ء بعد نماز ظہر) اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَـہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ.اَمَّا بَعْدُ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (اس موقع پر کسی شخص نے ایک کارڈ پر پنسل سے یہ الفاظ لکھے ہوئے آپ کے سامنے پیش کئے.’’کچھ لوگوں کا منشاء ہے کہ آپ کچھ قرآن پڑھیں ‘‘اس تحریر پر کسی کا نام نہ تھا اور چونکہ دست بدست کئی واسطوں سے پہنچی.اس لئے فرمائش کنندہ کا حال معلوم نہ ہواکہ کون تھے.وہ کارڈ اس وقت موجود ہے ) کوئی مجھے کہتا ہے کہ تم قرآن شریف سنائو.قرآن شریف سنانا اور خوش آوازی سے پڑھنا تو جوانوں اور قاریوں کا کام ہے.میں جو کچھ سناتا ہوں درد مند دل لے کر سنا تا ہوں.میں ایک دردِدل رکھتا ہوں مجھ کو َکن رس باتوں سے دلچسپی نہیں.دل رس باتوں سے دلچسپی ہے.مگر قدرت کی بات ہے کہ اس وقت جو منشاء ظاہر کرنا تھا اس میں بھی تلاو ت کا ہی لفظ آتا ہے..
(العنکبوت:۴۶تا۵۲) کل کی تقریر پر ہی میں بقیہ بیان کرنا چاہتا تھا اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی.فہم ، فراست ، وقت، زبان، صحت عطا ہوئی تو میں اس حصہ کے پورا کرنے کا اب بھی ارادہ رکھتا ہوں لیکن اس وقت کسی نے کہا قرآن پڑھ کر سنائو.اللہ تعالیٰ نے مجھ کو توفیق دی اور کہا.میری کتاب پڑھ دو.اللہ تعالیٰ کی کتاب ایسی ہے (حٰم السجدۃ:۴۳)نہ آئندہ اس کو کوئی چیز باطل کرنے والی پیدا ہوگی نہ پہلے کوئی ایسی چیز پیدا ہوئی ہے جس سے یہ باطل ہوتی ہو.ایسی کتاب کے پڑھنے میں ہم کو کوئی شرم نہیں آتی جو مذہب ہم نے پیش کیا ہے اس کے پیش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہو سکتا.میرے دل میں کامل ایمان اور یقین سے یہ بات ہے کہ اس کتاب کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف پر مجھے ایمان اور اس پر کامل محبت ہے اور اس کے کسی ایک حرف پر بھی مجھ کو کبھی اعتراض ہوا ہی نہیں.محبوب کی ساری کی ساری ہی ادائیں دلربا ہوتی ہیں.کوئی کہتا ہے ؎ زفرق تابقدم ہر کجا کہ مے نگرم کرشمہ دامن دل میکشد کہ جا اینجاست قرآن کریم میں جہاں دیکھتے ہیں دلربا بات موجود ہے میں نے اس کتاب کے سمجھنے میں دھوکا نہیں کھایا میں نے اس کے سمجھنے میں جلد بازی نہیں کی.میں نے قرآن کریم سے محبت کرنے میں عاقبت اندیشیوں سے کام لیا ہے.ایک سہل بات بتاتا ہوں اس کتاب پر عمل کر کے صحابہ کرامؓ دنیا میں کیسے عظیم الشان ہوئے.صحابہؓنے اس پاک کتاب کی اتباع سے دنیا میں زلزلہ ڈال دیا.بڑے بڑے بہادر سور ما ان کے سامنے کس طرح ذلیل ہوتے تھے یہ نتیجہ اسی بات کا تھا کہ وہ اس کتاب پر عملدرآمدکرتے تھے.اس کتاب کو پڑھ کر ہزاروں غوث بن گئے قطب ،ولی بن گئے.اس کتاب کی طفیل لوگوں نے خدائے تعالیٰ سے باتیں کیں اور خدا تعالیٰ نے ان سے کیں.یہ کہنا کہ ہم سائنس
پڑھیں تب ا س سے نفع اٹھائیں غلط بات ہے.تم جانتے ہو وہ غوث ، قطب، نبی ، ولی جو کروڑوں مخلوق کے ہادی بنے کیا وہ سائنس پڑھ کر بنے.سائنس والے آج ایک بات پرزور دیتے ہیں، دوسرے دن اسی کو جھوٹ ٹھہرا دیتے ہیں.ایک یقین پر کبھی ٹھہرتے ہی نہیں.پُرانے لوگ کہتے ہیں زمین ساکن ہے آسمان متحرک ہے.اب کہتے ہیں آسمان ساکن ہے زمین متحرک ہے.یہ ان کا حال ہے بڑا مسئلہ ان کے نزدیک مادہ کا تھا.مادہ کی حقیقت بیان کرنے میں اگلے پچھلے سب حیران ہیں کہ وہ ہے کیا ؟اسی واسطے اس قوم کی کوئی جماعت دنیا میں قائم نہیں ہوئی.پھر خشیۃ اللّٰہ کا حصہ پاک عادات کا حصہ، خدائے تعالیٰ سے مکالمہ کا حصہ.خدائے تعالیٰ کی جناب میں دعائوں کی قبولیت کا حصہ ان کو نصیب ہی نہیں ہوا.اس کتاب یعنی قرآن کریم کو ماننے والے کئی گروہ ہو سکتے ہیں.ایک عامی لوگ اگر اس کو مانیں اور اس پر عامل ہوں تو مکالمہ الٰہی سے مشرف ہو سکتے ہیں.سچی خوابیں آتی ہیں، فرشتے باتیں کرتے ہیں.اگر کوئی اس بات کو نہ پہنچا ہو تو کم سے کم اس کی نسبت یہ تو ضرور کہا جاتا ہے کہ یہ نیک آدمی ہے، خدا پرست آدمی ہے یہ دغا باز آدمی نہیں، یہ بد معاش آدمی نہیں ، یہ قابل اعتماد انسان ہے جو جھوٹ نہیں بولے گا ،فریب نہیں کرے گا، دنیا کو دین پر مقدم نہیں کرے گا، کوئی جعلسازی نہ کرے گا ،کسی کا حق نہیں رکھے گا.تو ایسی کوئی قوم نہیں کہ اس کو کہے کہ یہ بُرا آدمی ہے.پس قرآن کا عمل ہر شخص کے لئے بڑا دلربا ہے.ایک وہ لوگ ہیں جو صرف ونحو اور اس کی فصاحت و بلاغت کی طرف متوجہ ہیں.کوئی معانی وبیان وبدیع کی طرف متوجہ ہے.یہ تو دنیا میں اعلیٰ ترین مخلوق ہوئی.ایک وہ ہیں کہ ان کی فراست اور ان کے عملدرآمدکے قانون کے لئے قرآن کریم کافی کتاب ہے.خدائے تعالیٰ فرماتا ہے یہ میری کتاب ہے پڑھ کر سنادو..اس کتاب سے نفع وہ اٹھاتے ہیں جو نماز کو بڑا مضبوط کرتے ہیں.نماز تمام بے حیائیوں سے روک لیتی ہے جو شخص سارے جہاں کو چھوڑ کر (الفاتحۃ:۵)کہے گا وہ قانون الٰہی کی خلاف ورزی کب کر سکے گا.قرآن کریم میں ایک سورۃ کو خاص کیا ہے اس میں باربار فرمایا ہے (القمر:۱۸)ہم نے تو بڑی آسان کتاب بھیجی ہے
عملدرآمد کے لئے بڑی سہل ہے.کوئی تم میں ہے جو قرآن شریف پر عمل کرنے کا نفع اُٹھائے ؟ قرآن کو تو بڑا ہی آسان بنایا ہے کوئی تم میں ہے جو اس بات کو سمجھے ؟میرا جی چاہتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک کہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق دے.پھر فرمایاکہ اپنے افعال ، حرکات ، سکنات ، عملدرآمد میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھا کرو اور حضرت حق سبحانہٗ تعالیٰ کی مخالفت نہ کرو پھر دیکھو ہم تم کو کتنا بڑا بنا دیں گے.اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت بڑا ہے اس کے پاس پہنچنے والا بھی ہوا.یہ ہونے کی کنجی ہے کہ اس یقین کو پیدا کرو.باقی مباحثہ کرنا ہر ایک شخص کا کام نہیں.اول ان اپنے مذاہب سے تامہ واقفیت ہو.جن کی طرف سے یا جن کے ساتھ مباحثہ کرتا ہے.اپنی واقفیت تامہ کے بعد جس کو خطاب کرنا ہے وہ عیسائی ہو، یہودی ہو ،مجوسی ہو ،ویدوں کا ماننے والا، گیتا کا پیرو ، مہا بھارت کا پیرو ہو ، جینیوںکی پہاڑیوں کو جانتا ہو ، چار واک کو سمجھتا ہو.غرض کوئی ہو اس کی کتاب کا علم بھی جب تک نہ ہوگا تم مباحثہ نہیں کرسکتے.ہماری جماعت کا ہر ایک آدمی مختلف مذاق پیدا کرے جس فن میں اللہ تعالیٰ یمن وبرکت دے اس میں مباحثہ کرے.ایسا نہ ہو کہ دوسرا کہہ دے کہ تم تو واقف ہی نہیں.یا پاس والے کہہ دیں کہ تم تو اسلام سے بھی واقف نہیں.اپنے ڈھکوسلوں سے مقابلہ نہ کرو.ظالم سے اعراض کرو ، پرواہ ہی نہ کرو.اس کے سامنے کہہ دو .ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے تم جھگڑتے کیوں ہو.اُلُّو کے پٹھے سے آدمی کہاں مقابلہ کر سکتا ہے.ایک دفعہ میں نے ایک شخص سے کہا کہ یہ معمولی سنن الہدیٰ میں سے ایک مسئلہ ہے چونکہ اس کے دل میں شرارت تھی وہ شرارت سے کہنے لگا کہ لوگو! سنت رسول تو سنتے رہے تھے اب سنت خدا سن لو.سنن الہدیٰ کو اس نے سنن خدا کہہ دیا.منکر کو کوئی کیا سمجھا ئے گا وحدت دنیا میں نبیوں سے ہوئی نہیں.آج سائنس کا ایک مسئلہ آگیا اس کے مطابق کیا کل کو ا س کی بجائے دوسرا مسئلہ سائنس نے نکالا تو پھر اس کے مطابق آیت چاہئے ایسے پارہ مزاج سائنس دانوں کے ساتھ تم کہاں تک مقابلہ کر سکتے ہو.اپنے فہم کے مطابق مباحثہ کرو.ہر شخص کو کہاں مجاز ہے کہ مباحثہ کرےفرمایا.شہر مکہ میں کوئی یونیورسٹی نہیں
جس میں تو پڑھا ہو.یہاں کوئی لائبریری بھی نہ تھی کوئی ترجمہ کا محکمہ بھی نہیں.ینابیع الاسلام کے لکھنے والوں نے اور بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کو پختہ کر دیا.قرآن کریم کو حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کسی کے مشورہ سے بنایا؟ کوئی تمام زبانوں کا جاننے والا مکہ میں تھا ؟ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے تو نے تو کسی کتاب کو پڑھا ہی نہیں.یہ مبطل کیا اعتراض کرتے ہیں ؟ علم والے اس بھید کو سمجھتے ہیں اور ظالم تو انکار ہی کرتے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیسا پاک انسان تھا کہ اپنی پاک قوتوں سے اپنی پاک تاثیرات سے عرب میں وحدت پھیلادی.جنابِ الٰہی کے نام کو ایسا بلند کیا کہ بلند میناروں پر چڑھ چڑھ کر اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتے ہیں.ایک گارڈن پادری تھا مجھ سے بہت ملا کرتا تھا اور احمق اتنا تھا کہ ہر مرتبہ اس کو یقین ہوا کرتا تھا کہ نوردین اب کی مرتبہ ضرور بپتسمہ لے لے.گا ہمارے گھر کی باسی روٹیاں بھی کھا لیتا تھا.مجھ سے کہنے لگا یورپ نے کیسی ترقی کی ہے.میں نے کہا ہم نے تو کوئی ترقی نہیں دیکھی.کہا آپ نے نہیں دیکھی؟ میں نے کہا ترقی یورپ کر ہی کیا سکتا ہے.میں نے کہا تو تو عالم اورپادری آدمی ہے میں کہتا ہوں کہ یورپ نے نہ ترقی کی ہے نہ آئندہ کر سکتا ہے.کہنے لگا یہ بات کیاہے.میں نے کہا نادان انسان تو خداوند مسیح کو ماننے والا.بتا تو سہی کہ اکبر کے پرے کیا نام تجویز کر سکتے ہو.اکبرکے بعد ترقی کر کے کیا دکھلا سکتے ہو اوراس اکبر کو جس طرح ہم مسجد کے میناروں پر چڑھ کر سناتے ہیں.تم کیا سنائو گے تم سوائے گھنٹے بجانے کے اور کیا جانتے ہو.اکبر کے لفظ نے ترقی روک دی.کہنے لگا دیکھو کپڑے کیسے بناتے ہیں.میں نے کہا جو لاہے بنے.کہنے لگا کیسے کیسے جہاز بنائے.میں نے کہا لوہار بنے.وہ رُک گیا.میں نے کہا پادری دنیوی ترقی کو مسیح نے کب الٰہی قرب کی ترقی فرمایا ہے.میں نے کہا انجیل موجود ہے دیکھ لو.اکبر کے پرے کوئی لفظ نہیں قلم تو ٹوٹ گیا.تواضع میں تم ہماری ہمسری نہیں کر سکتے.ہم زمین پر سجدہ کرتے ہیں.اب اس سے نیچے اور کہاں جائیں جہاں تک ہماری طاقت تھی ہم نیچے گر گئے اس سے زیادہ تم کیا کرو گے پھر ہمارے الفاظ کو دیکھو.سبحان ربی الاعلٰی.سبحان ربی العظیم.سبحان سے آگے پاکیزگی کے لئے کونسا لفظ ہو سکتا ہے.وہ سن سن کر بھوچکا سارہ گیا.(البقرۃ:۲۵۹)یاد رکھو جو
کچھ دین اسلام نے ہم کو سکھایا ہے وہ ایساہے کہ ہمارے مقابلہ میں دوسرا ٹھہر ہی نہیں سکتا.نیوگ کی باریکی اور اس کی ضرورت کہاں مجلسوں میں بیان کی جاسکتی ہے.عیسائیوں کے خدا کی یہ حالت ہے کہ یہودیوں نے پکڑ کر سولی پر چڑھا دیا اور خدا کی خدائی غارت کر دی.پھر وہ مجھ سے نبی کریم ؐ کے معجزات کے متعلق کچھ کہنے لگا میں نے معجزات آنکھوں کے سامنے دکھلا دیئے کیا ابھی ان کو یہ کتاب میری کافی نہیں جو ان کو کھل کر سنائی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ رحم کرے میرا ایک بچہ ہے اس کو ایک آریہ نے پکڑا کہ مباحثہ کر لے اس نے کہا کر لے.میرے بچہ کے ہاتھ میں کتاب اللہ تھی کہا یہ ہمای کتاب ہے اگر عربی نہیں آتی تو نیچے اردو ترجمہ لکھا ہے.تمہارے وید تو لحافوں میں چھپے ہوئے ہیں وہ کبھی باہر نکلے ہی نہیں.پھر اس آریہ سے کہااچھا تو یہ بتا کہ تونے وید کو پڑھا ؟ اس نے کہا نہیں.کہا ان کو سمجھا.کہا نہیں.یہ تو کافی کتاب ہے چھپی ہوئی نہیں.جہان کے سامنے پڑھی جاتی ہے .میں ساری رحمتیں دینے کو تیارہوں میری بات کو مان لو بڑے سے بڑا بنانے کو تیار ہوں ایمان دار بنو اور میرے خط کو پڑھو.اب دیکھ لو بڑا حصہ زمینداروں کا ہے وہ قرآن کو کتنا پڑھتے ہیں.بڑا حصہ تاجروں اور پیشہ والوں کا ہے وہ کتنا قرآن پڑھتے ہیں.پھر بڑا حصہ نو کر چاکرلوگ ہیںنو بجے تک سوئے ہوئے اٹھے دس بجے دفتر گئے وہاں سے چار بجے آئے تو چور ہو کر آئے.پھر ہوا خوری پھر دوست آگئے باتیں ہونے لگیں رات کے بارہ بج گئے یاگپیں لگاتے ہوئے دو بج گئے.قرآن کس وقت پڑھا جائے؟ کوئی موقع نہیں.قرآنی عربی زبان ایسی آسان زبان ہے کہ ابتداء سے انتہا تک میں نے بعض اشخاص کو چارماہ میں پڑھا دی، اب خوب پڑھ لیتے ہیں.پھر میں نے ان سے پوچھا کہ انگریزی کم سے کم کتنے دنو ںمیں پڑھ سکتے ہو.کہا دس برس میں.میں نے کہا عربی سہل ہوئی یا تمہاری انگریزی زبان.اورقرآن کریم اس سے تین مرتبہ سہل ہے کیونکہ ایک حصہ زیر زبر کے لئے ہے وہ لگے ہوئے ہیں پھر وہ الفاظ جن کے معنے سیکھنے ہیں دو ہزار کے قریب قریب ہیں.میری اصل زبان ضلع شاہ پور کی ہے مگر وہ اب مجھ سے بولی نہیں جاتی.کئی ہزار الفاظ مجھ کو اردو زبان کے یاد ہو گئے ہوں گے.قرآن کریم میں
صرف آٹھ سو لفظ ہیں جو کہ نئے ہیں اگر انسان اس کو بھی نہ سمجھے تو لَایَلُومن اِلَّا نَفْسَہٗ.ایک ہمارے دوست کا بچہ سامنے آگیا ہے وہ اپنے باپ سے کہنے لگا کہ مولوی صاحب عالم ہیں مگر قرآن تو غلط ہی پڑھتے ہیں.یہ حافظ و قاری باپ کا بیٹا ہے.قرآن کریم خاص رحمت ہے.مومن کے لئے کافی ذخیرہ ہے.ہم تو جب سے پیدا ہوئے ہم کو کوئی شبہ و تردد کبھی ہوا ہی نہیں.ایک وقت میں نے حضرت مرزا صاحب ؑ سے دریافت کیا تھا کہ مقابلہ کے وقت قرآن کے بعض مشکلات ہوتے ہیں ان کا کیا کیا جائے ؟ کہنے لگے تم نے کیا سوچا.میں نے کہا یا تو ان کا ذکر ہی چھوڑ دیا جائے یا الزامی جواب دے کر ٹال دیا جائے ہنس کر کہنے لگے کہ جو بات خود نہیں مانتے دوسروں کو کیوں منواتے ہو.پھر فرمایا ہم تم کو ایک گُر بتائیں جو سوالات تم کونہیں آتے ان کو خوشخط لکھ کر جہاں تمہارا زیادہ گزر ہے وہاں لٹکا دو تاکہ بار بار اس پر نظر پڑے خدائے تعالیٰ خود ہی سمجھا دے گا.میں نے اس کا مطلب صوفیانہ رنگ میں لے لیا کہ دل میں لٹکاتے ہیں یعنی ان سوالات کا ہر وقت تصوررکھیں گے.مجھے اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے سب سوالات سمجھا دئے جو میری تصانیف میں بھی موجود ہیں.مجھ کو خدائے تعالیٰ نے دو علم بخشے ہیں ایک قرآن کا اور دوسرا طب.اب تو میری بیوی نے بھی طب سیکھ لی ہے اب ہم دو کمانے والے ہو گئے.۴۵،۴۶ برس میں طب کے پیشہ کو کیا طب کا ۲۰؍۱حصہ میرے حصہ میں آیا پھر بھی معقول گذارہ ہم کو مل جاتا ہے.اس ۴۶ برس میں ایک بھی نسخہ مجھ کو ایسا نہیں ملا جس کے چھپانے کی ضرورت ہوئی ہو.کوئی نسخہ ملا ہی نہیں جس کو حیض کی طرح چھپائوں.ہاں کسی خاص بیمار سے خاص وقت میں ایک نسخہ چھپانا اور بات ہے اسی طرح خدائے تعالیٰ نے قرآن مجھ کو دیا.اس میں بھی کوئی چھپانے والی بات نہیں.پھر جو گُر مجھ کو حضرت صاحب نے بتایا وہ میں کہہ آیا ہوں.میں نے دل پرخوشخط لکھ کر لٹکا لیا.کچھ دنوں کے بعد ایسا انشراح ہوا کہ .کی تفسیر میری کتابوں میں دیکھو یہ اسی ترکیب کو استعمال کرنے کا نتیجہ ہے پھر اس کے بعد مجھ کو خدائے تعالیٰ نے الہام کیا کہ اگر کوئی منکر قرآن ، قرآن پر تجھ سے اعتراض کرے اور تجھ کو نہ آتاہو تو ہم اسی وقت تجھ کو اس کا مطلب بتادیں گے.ہمارا معلم خدائے تعالیٰ ہے ہمیں کس کا ڈر ہو سکتا ہے.دھرمپال نے جب ترکِ اسلام کتاب لکھی تو اس میں اس نے مقطعات قرآنیہ پر
اعتراض کیا ہے.میں چھوٹی مسجد میں مغرب کی سنتیں پڑھ رہا تھا ایک سجدے سے سر اٹھایا میں نے کہا.مولا! گو وہ سامنے نہیں مگر کتاب تو اس نے بھیجی ہے.پس دوسرے سجدے میں جانے سے پہلے پہلے یعنی دونوں سجدوں کے درمیانی وقفہ میں سارے مقطعات قرآنی کا علم مجھ کو دیا گیا.میںنے جب لکھا تو میں خود بھی حیران تھا کہ میں نے اس کا ایساجواب لکھا کہ کسی نے آج تک ایسا نہیں لکھا.میں تکبرنہیں کرتا، ریا نہیں کرتا یہ لعنتی کا کام ہے.میری غرض تم کو سمجھانے کی ہے قرآن کو کبھی مشکل نہ سمجھو.اگر دشمن کوئی اعتراض کرے تو اس کو لکھ کر لٹکا لو خدائے تعالیٰ ایسا علم عطا کرے گا کہ وہ دشمن لاجواب اور خاموش ہو جائے گا.جموں میں مجھ سے ایک آدمی نے حدیث نزول الربّ کی بابت سوال کیا کہ زمین گول ہے اور کہیں نہ کہیں رات ہر وقت ہوتی ہے تو نزول ربّ بھی ہر وقت ہوا پھر (طٰہٰ:۶)سے کیا مطلب ہوا ؟میں نے کہا پانچ سات روز کے بعد جواب دیں گے.اس نے کہا اچھا سات روز کے بعد ہی آپ جواب دیں.جُوں جُوںدن گزرتے میرا دل دھڑکتا.بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ قبل از روز مقرر یاغستان کے ملک سے بذریعہ ڈاک میرے پاس ایک کتاب آئی اس کو کھولا تو وہ اسی حدیث کی شرح تھی اور بڑے ہی فلسفیانہ مذاق کی تھی.میں نے اس کو پڑھا تو اس معترض کے تمام سوالا ت اُڑ گئے.وہ معترض آیا کہ کیوں صاحب تیار ہو گئے ؟میں نے کہا ہاں تیار ہیں تم بھی تیار ہو جائو.میں نے جب اس کے سامنے بیان کرنا شروع کیا تو ابھی اس کتاب کا دو تین ہی صفحہ کا مضمون ادا ہوا تھا کہ وہ کہنے لگا.بس میری تسلی ہو گئی اب آپ اور زیادہ بیان نہ فرمائیں.میں نے کہا میں تو بڑا لمبا بیان کرنے کو تھا.بعد میں مَیں نے وہ کتاب چھپوا دی.مَیں نے یہ بات خدائے تعالیٰ کے فضل کو بیان کرنے کے لئے کہی ہے.خدائے تعالیٰ بڑا قادر ہے وہ جب بندے کو سکھاتا ہے دیوار سے آواز آ جاتی ہے.ستون سے آواز آجاتی ہے.ایک مرتبہ میں ایک شہر میں تھا میرے پاس ایک پیسہ تک نہ تھااوربھوک بھی بہت لگی.عشاء کا وقت ہو گیا ، میں نماز کے لئے مسجد کو چلا.ایک سپاہی نے راستہ میں مجھ سے کہا کہ ہمارے آقا بُلاتے ہیں.میں نے کہا میں تمہارے سردار کے پاس اس وقت تو نہیںجاسکتا.اس نے کہا کہ میں تو سپاہی آدمی ہوں میرے آقا نے آپ کو بلایا ہے.آپ خوشی سے نہ جائیں گے تو میں
جبراًلے جائوں گا.خیر میں اس کے ساتھ اس کے آقا کے پاس چلا گیا.وہاں بہت سی جلیبیاں رکھی تھیں اس امیر نے کہا کہ آپ ان کو کھائیں.ہندوستان کاایک حلوائی آگیا ہے اس نے بنائی ہیں.میں نے اس لئے آپ کو بلایا کہ آپ ہی ان کوخوب پہچان سکتے ہیں.میں نے کہا نماز کا وقت ہے.اس نے کہا میرا آدمی مسجد کے دروازے پر کھڑا رہے گا.جس وقت تکبیر ہو گی وہ فوراًاطلاع دے دے گا آپ اطمینان سے کھانا شروع کریں.چنانچہ میں نے کھانی شروع کیں اور جب میں خوب سیر ہو چکا تو فوراًاس کے آدمی نے اطلاع دی کہ تکبیر اقامت ہو رہی ہے چنانچہ میں جلدی سے مسجد کو چلا گیا.دوسرے دن پھر سامان کوئی نہ تھا.تم یاد رکھو میں نے اس وقت تک کبھی کوئی نقدی گری ہوئی نہیں پائی.میں تو فارغ آدمی تھا روٹی کا فکر نہ تھا.میں چٹائی جھاڑ کر بچھانے لگا.چٹائی اٹھائی تو ایک اشرفی پڑی ہوئی نظر آئی.میں نے کہا یہاں کسی دوسرے آدمی کی آمد ورفت ہے ہی نہیں.میرا یہ مکان ہے.میں اب کس سے پوچھوں کہ یہ اشرفی کس کی ہے.پھر میری سمجھ میں آیا کہ رات میں نے جلیبیاں کھائی ہیں.اب یہ اللہ تعالیٰ ہی نے بھجوائی ہے.اللہ تعالیٰ دینے پر آئے تو اس طرح دے دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(البقرۃ:۲۸۳).تم تقویٰ اختیار کرو ہم علم دیں گے.قرآن میں کوئی اشکال ہے ہی نہیں.اگر اتفاق سے کوئی مشکل آپڑے تو اس کو خوشخط لکھ کر ایسی جگہ لٹکا دو کہ بار بارپیش نظرہوسکے اللہ تعالیٰ اس کا حل تمہارے دل میں ڈال دے گا.یہ ایسا گُر ہے کہ ہر مشکل کے وقت تم کو مدد دے گا.اگر یہ جھوٹی بات ہوتی تو میں تم کو سناتا ہی نہیں.ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ بڑے بڑے عالم اعتراض کرتے ہیں.میں نے کہا کہ وہ خود ہی ناقص ہیں قرآن کریم کی مشکل کو اسی طرح حل کرو.مگر یاد رکھو خدائے تعالیٰ کو آزمانے کے لئے نہیں بلکہ ضعیف ہو کر، محتاج ہو کر، فقیر ہو کر سائل بنو اور خدا تعالیٰ کاامتحان نہ کرو ورنہ وہ پرواہ نہیں کرے گا.ایک مرتبہ میں وزیر آباد کے اسٹیشن پر پہنچا.وہاں ایک وکیل ملاجو اس طرف کارہنے والا تھا.مجھ سے کہنے لگا کہ کیا قرآن پڑھنا بہت ہی ضروری ہے.میں نے کہا ہاں.کہا کہ ہم بچوں کی طرح قرآن پڑھیں.ہم سے اب صرف ونحو نہیں پڑھی جاتی.میں نے کہا کہ قرآن میں قَوَلَ نہیں پہلے ہی قال موجود ہے
یَقْوُلُ نہیں یَقُوْلُ پہلے ہی موجود ہے صرف کی ضرورت نہیں.کہنے لگانحو.میں نے کہا قرآن کریم میں زیر وزبر پہلے ہی سے لگے ہوئے ہوتے ہیں.کہنے لگا، لغت.میں نے کہا کہ قرآن کے لغت مشکل نہیں.تم کوئی مشکل لغت پوچھو.اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اس کی زبان پر یہ جاری کیا (الاحزاب:۷۱) میں نے کہا یہ تو بڑی سیدھی بات ہے تمہارے جموں کی زبان میں ’’گلائو گل سِدّھی ‘‘کہنے لگا تسلیمات.میں ضرور قرآن پڑھوں گا.حضرت صاحبؑ کے پاس ایک آدمی آیا.بڑی جلدی جلدی اس کی زبان چلتی تھی.حضرت صاحب سے کہنے لگا کہ جیسی انگریزی زبان ہے ایسی اچھی آپ کی زبانیں نہیں.یہ بھی کہا کہ انگریزی زبان جیسی مختصر ہے آپ کی زبانیں اس قدر مختصر بھی نہیں.حضرت صاحب نے کہا.میراپانی کی انگریزی کیا ہوتی ہے اس نے کہا مائی واٹر(My water).حضرت صاحب نے کہا کہ صاحب ہماری زبان میں صرف مائی سے کام چل جاتا ہے، واٹر کی ضرورت نہیں.آپ کی زبان میں پورا ایک لفظ زیادہ بولنا پڑتا ہے.اگر تمہارے دل میں کسی نے یہ وہم ڈالا ہو کہ قرآن کریم پر سائنس کے حملے ہوتے ہیں تو تم اس سے وہ اعتراض جو وہ بیان کرتا ہے دریافت کر کے خوشخط لکھ کر سامنے لٹکا لو اللہ تعالیٰ تم کو سمجھا دے گا.جو عام لوگ ہیں ان کو مباحثہ کی ضرورت نہیں.۲۵؍ دسمبرکا بقیہ مضمون کل کی آیت (آل عمران:۱۰۵).تم میں سے ایک گروہ ہونا چاہئے جو نیکیوں کی طرف بلائے بدی سے تم کو بچائے قرآن کریم نے ہر ایک نیکی کو پسند کیا اور ہر ایک بدی کو ناپسند ٹھہرایا ہے یہاں ایک مدرسہ ہے وہ مدرسہ احمدیہ کہلاتا ہے اس میں لڑکوں کو جمع تو کر لیا ہے مگر ان کے کپڑوں کا ان کی روٹی کا کوئی بندوبست نہیں، ان کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں.سردی کا موسم آیا تو انہوں نے میرے کپڑے اتارنے شروع کئے.وہ کب تک اس قابل بنیں گے اور واعظ ہوں گے.ہم تو نہ ہوں گے اگر ہماری عمر کے بعد بنے تو ہم کو کیا خوشی.تم میں سے عقلمند ایسا کرتے جب تک میرے پٹھے درست ہیں،میری زبان جب تک چلتی ہے ،میرا دماغ کام کرتا ہے،میرا دل جب تک اللہ تعالیٰ
سے محبت کرنے والا ہے مجھ سے قرآن کریم پڑھتے.میں تین چار مہینہ میں قرآن شریف پڑھا سکتا ہوں.ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ مجھ جیسے کو بھی آپ اتنی مدت میں قرآن شریف پڑھا دیں گے.میں نے کہا ہاں وہ چارماہ کی چھٹی لے کر آیا اور مجھ سے قرآن پڑھا.کہنے لگا کہ اب میں کسی سے نہیں ڈرتا.ایک چھوٹی سی جماعت ہو خواہ پانچ یا سات آدمی ہوں میں بعض کو تین ماہ میں پڑھا سکتا ہوں.قرآن کریم کو میں سمجھتا ہوں اور خوب سمجھتا ہوں.مجھ کو قرآن کریم سے محبت ہے.میں نے قرآن کریم پر ہونے والے اعتراض بھی بہت سنے ہیں لیکن مجھے کسی نے گھبرایا نہیں.تم میں سے ایک گروہ ہونا چاہئے جو نیکی کی ترغیب دے اور بدی سے منع کرے وہ مظفر ومنصور ہو جائیں گے.میں نے کل خواجہ صاحب کی تقریر کا آخری حصہ سنا ہے میں اس کو ذرا بھی مشکل نہیں سمجھتا روپیہ اس قدرکہاںسے آئے گا مجھ کو اس کی مطلق فکرنہیں.سائنس کا معاملہ میں لغو سمجھتا ہوں اگر سارا یورپ بھی ہمارے سامنے آئے تو توپ ان کے پاس ہوگی لیکن وہ انجیل کو ہمارے سامنے نہیں لا سکتے.میرے دوستو!تم میں سے ضرور کچھ نہ کچھ قرآن کے ماہر ہوں سب کا تو میں نہیں کہہ سکتا مگر ہاں کچھ نہ کچھ خرچ کا میں بھی متحمل ہو سکتا ہوں.ہمارے دوستوں کو واجب ہے کہ کوئی بات تو ہماری بھی مان لیں.دیکھو تیسرا سال ہے، میں بیمار تھا،آنکھ کے قریب اب بھی ناسور ہے.کل تھوڑا سالکھا تو تھک گیا.اب بھی کبھی یہ پائوں رکھتا ہوں کبھی دوسرا کبھی ٹیک لگاتاہوں.یہ سب کمزوری کی بات ہے ورنہ میںپانچ پانچ گھنٹہ برابر کھڑے ہو کر بولتا رہا ہوں.تم کچھ صبر کرو اور شکر کرنا سیکھو اگر تم شکر گزار ہو تو اللہ تعالیٰ نعمت کو بڑھائے گا(ابراھیم:۸).اگرشکر کے عادی بنو گے تو ایک پیسے سے بیس پیسے، بیس سے سو،سو سے دو سو ہو جائیں گے.صبر بھی بہت کرو.تقویٰ اختیار کرو ، قناعت اختیار کرو.سخاوت اختیارکرو.اللہ تعالیٰ کا خوف، حسن خلق ،سچائی اختیار کرو.کس قدر مقدمات میں جھوٹ بولا جاتا ہے ؟ مقدمات سے بہت بچو.اخلاص اختیار کرو.خدائے تعالیٰ کے احسانات دیکھو.آنکھ ،ناک، کان، زبان، اس کی نعمتوں کو کوئی شمار کر سکتا ہے ؟ میں تو اتنا روپیہ نہیں رکھتاکہ تم کو چائے پلادوں ،تمہاری ضیافت کر دوں.ابھی اگر بارش ہو جائے تو میرے درس کے لئے کوئی مکان نہیں.سچائی ،اخلاص، اللہ تعالیٰ
سے خوف ورجارکھو.یہ دعوت ہے جو میں تمہاری کرنا چاہتا ہوں اگر ایک لقمہ بھی اس دعوت سے کھا لوتو پھر مجھ کو خط لکھو کہ تم کو اس سے نفع ہوا یا نقصان.ایک مرتبہ ایک عورت نے علاج کے معاوضہ میں مجھ کو سکھوں کے زمانہ کا ایک پیسہ دیا.میں نے سمجھا کہ یہ تو خدائے تعالیٰ نے دیا ہے.میں نے کہا مولیٰ میں اس کو تیری راہ میں دے دوں تو اس کے سات سو پیسے بن جائیں.میں نے وہ پیسہ بڑے شکر کے ساتھ لے لیا پھر مجھ کو اللہ تعالیٰ نے لاکھوں روپیہ دیئے.شکر کرو، سخاوت کرو.یہ نعمت بڑھنے کا نسخہ ہے.تم اللہ تعالیٰ کے بن جائو ، اللہ تعالیٰ تمہارا ہو گا.ہمیشہ اپنے آپ کو جناب الہٰی کا محتاج سمجھو.مخلوق کی تعریف کی پروا نہ کرو.مخلوق ہستی ہی کیا رکھتی ہے ہم نے بچپن میں ایک کتاب پڑھی تھی اس میں لکھا ہے:من نمانم ایں بماند یادگار.اب میں دیکھتا ہوں خدائے تعالیٰ نے اس کی بھی جڑ کاٹ دی کہ تم اس کویاد گار بناتے ہو.یادگار ہوتی کیا ہے ؟ ہمارے کس قدر دوست حکیم ہیں، کس قدر ڈاکٹر ہیں.سوئی کے ناکے کے برابر زخم ہے تین سال سے وہ اچھا نہیں ہوا.مسلمانوں کو کبریائی اور تکبر نے بڑا نقصان پہنچایا ہے، ان کا رہ ہی کیا گیا ہے.لایعنی باتوں پر بہت غور کرنا، فخر کرنا یہ سب غلطیاں ہیں.دیکھو کسی کے ماں باپ کو بے ادبی کا کلمہ کہا جائے تو کس قدر جو ش آتا ہے مگر خدا ورسول کی بے ادبی ہوتی ہے، ان بے ادبوں کے سامنے ایسا غیظ و غضب تم کونہیں آتا.تم میں ایک ایسا گروہ ہونا چاہئے جو نیکی کی طرف بلائے اور بدی سے روکے.یہ بھی یاد رکھو بدظنی کا کوئی علاج نہیں.ایک آدمی کے دل میں میری تقریر سن کر یہ خیال آئے کہ یہ ریا ہے تو یہ اس کی غلطی ہے تم ہمارے اعمال کے اور ہم تمہارے اعمال کے ذمہ وار نہیں.ہمارا یہ کام ہے کہ ہم بھلی بات تم کو بتادیں اور بتانے میں دھوکا نہ دیں.تم بڑی دور سے آئے ہو ، ہمارے معتقدہو، بعض نہیں بھی ہیں.میں تم سب کو یقین دلاتا ہوں کہ لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پر ایمان رکھو.خدائے تعالیٰ کے مقابلہ میں کوئی پیارا محبوب نہ ہو لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے حقیقی معنے ہی ہیں کہ بندہ ہرآن میں اللہ تعالیٰ کا اس قدر محتاج ہے کہ ان محتاجی کی چیزوں کو گِن بھی نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ کو راضی کرو.کتابوں میں قرآن شریف بے نظیر، پاک اور بے عیب کتاب ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرو اس کی اتباع میں یہ شان ہے کہ تم اللہ تعالی کے محبوب بن جائو گے.قرآن شریف سیدھی سادی
کتا ب ہے.قرآن شریف پر کوئی اعتراض کرے تو اس کے مقابلہ میں ذَبّ کرنے والا بڑا نفع اٹھاتا ہے اسی طرح حضر ت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کوئی اعتراض کرے تو اس کا ذَبّ کرنے والا بہت نفع پاتا ہے.جزاء وسزا مر کر بدلا ملے گا.ہمارے اعمال تو لے جائیں گے.ہر ایک چیز کی میزان ہوتی ہے تم بھی میزان سے غافل نہ رہو تمہارے اعمال کی میزان ہوگی تم نے ہمارے ساتھ بھی تعلق پیدا کیا ہے.افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لین دین کے کچے ،زبان کے کچے ، ذرا ذرا سی بات پر وہی فساد کرتے ہیں جوقبل احمدیت انہوں نے کئے تھے.اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرو ،اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر شفقت کرو.ہماری پیاری پیاری باتیں سن کر ان کی قدر کرو،عمل کرو ، اللہ تعالیٰ کو راضی کرو.اللہ تعالیٰ تم کو راضی کرے.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو.(آمین) (پھر دعا ہوئی) (البدر ۱۳؍مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۰تا ۱۴) ٭
اسلام کیا چیز ہے ؟ (تقریر فرمودہ ۲۲؍مارچ ۱۹۱۳ء) مورخہ ۲۲؍مارچ ۱۹۱۳ء کو شیخ عبداللہ صاحب نو مسلم سابق ڈاکٹربھگوان داس کشتہ، ستارہ ہند عیسائی ہیڈماسٹر سکول سہارن پور حضرت خلیفۃ المسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں مشرف باسلام ہونے کے لئے پیش ہوئے تو حضرت خلیفۃ المسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک وعظ فرمایا جس میں کلمہ اور اسلام کی حقیقت کو بیان فرمایا اس وعظ کا خلاصہ ہدیہ ناظرین کیا جاتاہے.(ایڈیٹرالبدر) حضرت صاحب نے فرمایا کہ:.اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ اس میں بھول بھلیاں نہیں ہیں.اسلام کا خدا وہی خدا ہے جس کے متعلق حضرت مسیح نے کہا کہ مجھے نیک نہ کہو، نیک وہی ایک ہے یعنی خدا.ہندئوں میں اس کو پرم ایشور یعنی بڑے سے بڑا ایشور کہتے ہیں.اسلام اسی کو دنیا میں لایا ہے اور اس کو اشہد ان لاالٰہ الا اللّٰہ کے رنگ میں پیش کیا جس کے معنے ہیں کہ اللہ کے سوائے پرستش کے لائق کوئی چیزنہیں.دنیا نے درختوں کو،پانی کو ،سورج وچاند کو، جانوروں کو، پتھروں اور آدمیوں کو معبود بنایا لیکن اسلام نے لااِلٰہ الَّااللّٰہ کہہ کر تما م شرکوں کی جڑ کاٹ دی کہ ان چیزوں میں سے کوئی چیز بھی پرستش کے لائق نہیں ہے.بعض لوگوںنے َگرڈ(نیل کنٹھ )کو بھی خدا کہا ہے اور اس کو سب جانوروں کا بادشاہ کہتے ہیں اور عیسائیوں نے تو اور بھی غضب ڈھایا ہے کہ ایک آدمی کو جو کھانے پینے اور دیگر تمام حوائج انسانی کا محتاج تھا خدا بنا دیا اور انسان کو خدا بنایا.ایک پُرانا مسئلہ ہے جب کوئی پیشوا بن کر آیا اور اس نے اصلاح کی اور پھر وہ کامیاب ہو گیا تو اس کو خدا بنا دیا گیا لیکن افسوس ہے کہ حضرت مسیح تو کامیاب بھی نہ ہوئے بلکہ اس کو یہودیوں نے پکڑ کر صلیب پر چڑھا دیا لیکن پھر بھی اس کو خدا بنادیا گیا.لااِلٰہ الَّااللّٰہکے معنے ہی یہی ہیں کہ صرف اللہ ہی ہے جو کہ انسان کی ضروریات کی تمام چیزیں مہیا کرتا ہے اور ان کو پیدا کرتا ہے اس کے سوا کسی اور کی پرستش نہ کرنا اور کسی اور کو معبود نہ جاننا اور اِلٰہ کے معنے معبود ہیں.خدا کے سوا غیرکو پوجنا اور سجدہ کرنااس کانام شرک ہے لیکن اسلام نے جہاں اشہد ان محمدا عبدہٗ ورسولہبھی رکھا ہے اور اس کا بھید یہ ہے کہ چونکہ دنیا میں جب کبھی
کوئی را ستباز آیا تو تھوڑے عرصہ کے بعد اس کے ماننے والوں نے اس کو خدا ٹھہرا لیا.رامچندرجی کو خدا بنایا گیا، کرشن جی کو خدا ٹھہرا یاگیا اور حضرت مسیح کو بھی خدا اور خدا کا بیٹا بنایا گیا ہے حالانکہ حضرت مسیح نے کہا بھی تھا کہ مجھے اچھا نہ کہو بلکہ اچھاایک ہی ہے جس کو خدا کہتے ہیں.اس لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نکتہ تجویز فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ مجھے بھی ان کی ہی طرح بنا یا جاوے تو لا الٰہ الااللّٰہ کے ساتھ اپنا عبد اور رسول ہونا بھی رکھ دیا اور اسی امر کو مد نظر رکھا ااور اس کی وجہ یہی ہے کہ توحید یعنی لاالٰہ الا اللّٰہ کے ساتھ محمد رسول اللہ رکھا تھا تاکہ توحید ہمیشہ مدِّنظر رہے اور کسی زمانہ میں مجھے خدا نہ بنایا جاوے.لوگ قبروں پر طواف کرتے ہیں ،سجدہ کرتے ہیں اور بعض ملانوں نے لوگوں کی خوشامد کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اپنی دنیا میں کمی نہ آنے کی وجہ سے اس کو سجدہ تعظیم کہہ کر جائز بھی کر دیاحالانکہ یہ بالکل غلط ہے.گویا لوگ توحید پر قائم ہونے کے بعد پھر عیسائی بنتے ہیں اور ان کی راہ کو اختیار کرتے ہیں.توحید اصل ہے اسلام کا اور اس امر کو پورا کرنے کے لئے یہ آواز بلند اذان میں اللہ اکبر ،اللہ اکبر رکھا ہے اوراکبر ایسا کلمہ ہے کہ اس میں خدا کی اعلیٰ درجہ کی تعظیم ہے.اکبرسے بڑھ کر اور کیا لفظ ہو سکتا ہے پھر اسلام کا دوسرا پہلو شفقت علی خلق اللہ ہے.سو زکوٰۃ اور حج کا حکم کر کے عام لوگوں پر شفقت کرنا سکھایا اور نماز ،روزہ کا حکم کر کے اپنی جان پر شفقت کرنا سکھایا.روزہ بڑی بابرکت چیز ہے اور ا س میں انسان کومشق کرائی جاتی ہے کہ وہ اپنی جان کے لئے ناجائز طور پر کوئی چیز استعمال نہ کرے کیونکہ جب روزہ میں جائز چیزوں کو چھوڑنا سیکھے گا تو محمد رسو ل اللہ کو سچا سمجھتا ہوا اس کی نا جائز کردہ چیزوں کو تو ضرورہی چھوڑ دے گا.غرض نتیجہ کلمہ شہادت سے یہ نکلا کہ اللہ کے سوائے کسی اور کو معبود نہ جانو اور محمد ؐ اللہ کا رسول اور بندہ ہے اور نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ میں انسان کی اپنی جان کی بھلائی اور دیگر عام مخلوق کی بھلائی ہے ورنہ کسی کو اپنے مذہب میں داخل کرتے وقت پانی چھڑکنے سے کیا فائدہ ،اور دنیا کے متعلق تو حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں داخل ہونا آسان ہے لیکن دولتمند کا خدائی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہے.آخر میں دعا فرمائی اور ماسٹرصاحب کا نام عبداللہ پسند فرمایا.(البدر۱۲؍جون ۱۹۱۳ء صفحہ۵)
تفرقہ کے اسباب اور چندہ کی چندتحریکیں (پہلی تقریرجلسہ سالانہ ۲۷؍دسمبر۱۹۱۳ء) حضرت خلیفۃ المسیح رضی اللہ عنہ کی تقریر یں حسب معمول میں نے صاف کر کے بغرض اصلاح آپ کی خدمت میں پیش کر دی تھیں لیکن جب یہ تقریر یں مجھے واپس ملیں تو پہلی تقریر کا صرف آخری حصہ ملااور ابتدائی حصہ آپ کے کاغذات میں کہیں مل گیا یا کسی بچہ کے ہاتھ آگیا اور وہ جاتا رہا.اس تقریر میں حضور نے تفرقہ کے اسباب پر بھی کچھ بحث فرمائی تھی اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ جس قدر حصہ بھی مجھے مل گیا ہے میں اسے شائع کر دوں یہ حصہ کسی قدر اپیل کے متعلق ہے اور سب سے پہلے جس کے لئے آپ نے اپیل کیا وہ آپ کا خادم الحکم ہے حضر ت خلیفۃ المسیح رضی اللہ عنہ نے چھ ہزار روپیہ کا اپیل قوم سے کیاہے ؟ ایک حق پرست اور محسن کی قدر کرنے والی قوم اگر اس اپیل کو ناتمام رہنے دے گی تو وہ یاد رکھے کہ قیامت کو حضرت خلیفۃ المسیح کے سامنے بھی اسے ہونا ہے حضرت نے فرمایا تھا کہ سبکدوش کرنے کی فکر کرو یہ کام کسی شخص واحد کا نہیں بلکہ انجمنوں میں اس سوال کو پیش کر کے فیصلہ کرنا چاہئے.کیا ان کی زندگی میں یہ اپیل بلاجواب رہ سکتاتھا.میں دیکھوں گا کہ سب سے اول اس اپیل کے لئے کہاں سے صدائے لبیک بلند ہوتی ہے.(ایڈیٹر) فرمایا:.مذہب کا تو جب بھی تفرقہ بڑھاتا ہے، آسودگی کا خیال بڑھ جاتا ہے تو پھر حاجتیں بڑھتی ہیں.ان کے پورا کرنے کے لئے بعض اوقات خود غرضیاں بڑھ جاتی ہیں عجز وکسل بڑھ جاتا ہے.اسباب میسر نہ کرنے کو عجز کہتے ہیں اور اسباب مہیا شدہ سے کام نہ لینے کو کسل کہتے ہیں.بعض دوست ایسے ہیں کہ وہ ان دونوں بیماریوں میں گرفتارہیں نہ تو اسباب مہیا کرتے ہیں اور نہ مہیا شدہ سے کا م لیتے ہیں.اٹکل بازیاں بھی مفید نہیں ہوتیں ہیں.میری جب نئی نئی دوسری شادی ہوئی تو ایک دن میں نے دیکھا کہ میری بیوی نقشہ سا بنا رہی ہے.میں نے پوچھا کیا کر رہی ہو ؟تو کہا ضبط اوقات کا نقشہ بنا رہی ہو ں.میں نے کہا کہ اس میں مجھے بھی شامل کر لو انہوں نے کہا تمہارا اس میں
کیا تعلق ہے.میں تو خاموش ہو رہا ، انہوں نے نقشہ بنا لیا.میں نے ظہر کے بعد انہیں بلا لیا.اب دوسرے دن دیکھتا ہوں کہ وہ پھر بنا رہی ہیں.میں نے پھر دریافت کیا تو وہی جواب ملا.اب پھر میں نے کہا کہ ہماری شمولیت بھی کرو.انہوں نے کہا کہ کل کا انضباط تو درست نہ رہا اب ظہر کے بعد کا وقت آپ کے لئے رکھ لیا ہے، درست ہو گیا ہے.اتفاق ایسا ہوا دوسرے دن ایک دوست آگیا.اس کی خاطر مدارات میں انتظام کرنے میں وہ نقشہ پھر بدل گیا.تیسرے دن پھر بدلنے لگی.میں نے کہا اب بھی ہمیں شریک کرو تو کہا کہ ہر روز آپ کے دوست تھوڑا آتے ہیں، کبھی کوئی آگیا.اب یہ درست ہو جاوے گا مگر وہ ہر روز اسے بناتی اور ہر روز غلط ہو جاتا.آخر میں نے کہا اب بس کرو یہ نقشہ درست نہیں ہو گا جب تک مجھے شریک نہ کرو گی.جب اولاد ہو جاوے گی تو اور مشکلات بڑھ جائیں گی اور ابھی تو ایک بڑی بھاری منزل باقی ہے اس وقت تک میں نے ان کو اپنی پہلی بیوی سے نہیں ملایا تھا.پوچھا وہ کیا میں نے کہا ابھی ایک اور پہاڑ ہے میری پہلی بیوی ہے.انہوں نے کہا پھر مجھے کیا تعلق ؟میں نے کہا یہ بھی بتائیں گے.غرض اٹکل بازیوں سے کام نہیں چلتا.غرض میں نے سنایا کہ اختلاف تو ہے اور رہے گا اور یہ اختلاف منشاء الہی کے ماتحت بہت سے مصالح پر مبنی ہے.باوجود اس اختلاف کے دنیا میں اتحاد بھی ہے، اس واسطے تم بھی اتحاد کرو.اللہ تعالیٰ کے اسماء، افعال اور عبادت میں متحد ہو جائو.ملائکہ کو ماننے اور ان کی پاک تحریکوں پر عمل کرنے میں وحدت اختیار کرو.اللہ تعالیٰ کی کتابوں کے ماننے میں جزا و سزا کے مسئلہ کے ماننے میں وحدت اختیار کرو.پھر میں نے تمہیں وہ نکتے بتائے ہیں جن سے قرآن کریم سمجھ میں آتا ہے اور وہ اسباب بتائے ہیں جن سے تفرقہ پیدا ہوتا ہے ان اسباب کا نمونہ پیغام صلح کی کھلی چٹھی ہے.اس گندکے دور کرنے کے واسطے ہمارے دوستوں کو بڑا خون جگر کھانا پڑا اور قربانیاں کرنی پڑیں.اگر پہلے ہی اس خبیث کا ہاتھ پکڑا جاتا تو اس قدرتکلیف کیوں ہوتی ؟ ایک نکتہ اور بتاتا ہوں اور وہ بھی مجھے قرآن کریم ہی سے ملا ہے.میں نے قرآن کریم بہت پڑھا ہے اور اب تو میری غذا ہے اگر آٹھ پہر میں خودنہ پڑھوں اور نہ پڑھائوں اور میرا بیٹا میرے سامنے آکر نہ پڑھے تو میں اس کا وجود بھی نہیں سمجھتا.سونے سے پہلے وہ آدھ سپارہ مجھے سنادیتا ہے
.غرض میں قرآن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا وہ میری غذا ہے اس لئے اس نکتہ کو غور سے سنو! جہاں کوئی بڑی عمارت بنتی ہے جیسے یہی ہے (مدرسہ کی طرف اشارہ کرکے کہا )یہ کوئی بڑی عمارت نہیں میں نے تو ایک شخص کا اتنا بڑا گھر دیکھا ہے جس میں ساری قادیا ن آجاوے.ساتند جودر کا اتنا بڑا گھر تھا میں نے تو گھوڑے پر سوار ہو کر کوشش کی کہ اس کو ختم کروں گا مگر نہ کر سکا.ایک شاعر اس در کے پاس گیا اور اس سے سوال کیا میں اس شاعر کو جانتا ہوں وہ میرے پاس بھی آیا کرتا تھا رئیس اس وقت خالی ہاتھ تھا اس نے اس سے کہا کہ تم ہر وقت سوال کرتے رہتے ہو.اس نے جواب دیا کہ گلستان والا سکھا گیا ہے اس نے مصیبت میں ڈال دیاہے وہ کہتا ہے ؎ رزق ہر چند بے گماں برسد شرط عقل است جستن از درہا اس پر اس رئیس نے اپنے آدمیوں کو کہا کہ خواہ قرض لے کر دو کسی طرح دو ، اس کودو.چنانچہ اسے دیا گیا.پس میں اس وقت اللہ کی رضا کے لئے اور تمہیں نیکی سکھانے کے واسطے چند تحریکیں کرتا ہوں.میرا ارادہ ہے کہ اس تقریر کو پورا کروں اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور میں زندہ رہا اور پھر صحت و طاقت ملی اور قوت قائم رہی تو کل پورا کروں گا.بیچ میں کچھ ضرورتیں ہیں وہ پیش کرتا ہوں.اوّل ایک ہمارے دوست ہیں، حضرت صاحب کے زمانہ سے دوست ہیں جماعت کے اول اتحاد میں ہیں اور سلسلہ کی انہوں نے بڑی خدمت کی ہے.وہ صاحب الحکم ہیں.وہ اپنی غلطیوں سے (وہ سمجھتے نہیں اورنہ مانیںگے)ابتلاء میں ہیں.میں نے جب ان کے لئے دعا کے واسطے ہاتھ اٹھائے ہیں اور بڑی تڑپ سے ان کے لئے دعا کی ہے تو مجھ پر ظاہر ہوا کہ ابتلاء ہے.بہر حال الحکم زیر بار ہے اور انسان کو جو تکلیف پہنچتی ہے اپنے ہی اعمال سے تکلیف ہوتی ہے.اس زیر باری کے دور کرنے کے واسطے چھ ہزار کی اپیل کرتا ہوں.نور دین کے پاس ہے یا نہیں وہ بھی ان کو سبکدوش کرنے میں قوم کے ساتھ شریک ہوگا.تم بتائو کیا تجویز ہے؟ اس کے پاس کتابوں کے ڈھیر ہیں مگر کتابوں کے متعلق میرا تجربہ ہے میرے پاس تو لاکھوں کی ہیں اگر ضرورت کے وقت ایک لاکھ پانچ سو کی بھی بیچنا چاہیں تو نہیں بکتیں.میں اس دوست کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جس قیمت پر بک سکتی ہیں بیچ دیں اور تم لوگ خرید لواور فکر کرو کہ اس کو سبکدوش کر دیا جائے وہ استغفار بہت کریں تاکہ تلافی ہو.تمہیں
نصیحت کرتا ہو ں کہ تم اس کو سبکدوش کرنے کی فکر بھی کرو اور خود بھی اس کے لئے دعا اور استغفار کرو.اللہ تعالیٰ قادر ہے میں نے دنیا میں دیکھا ہے اور خود تجربہ کیا ہے کہ دعائو ں سے بڑے بڑے انقلاب ہو جاتے ہیں، یہ تو کیا چیز ہے.میں جموں سے جب آیا تو دو لاکھ کا زیر بار تھا ایک لاکھ پچانوے ہزار ایک کا تھا اور پانچ ہزار ایک دوسرے کا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے یونہی ادا کرا دیا.تو تم لوگ ان کے لئے دعا اور استغفار کرو.میں نے ایک کتاب ایک دفعہ کو لی.مجھے ضرورت تھی میں نے مولوی غلام نبی کو کہا پر بیچ دو اور ایک دفعہ کو ایک قیمتی پشمینہ کی چادر بیچ ڈالی اور اسے غنیمت سمجھا.پس ہمارے وہ دوست استغفار کریں اور دوسرے دوست بھی ان کے لئے استغفار کریں اوردعا کریں اور میں نے جو چھ ہزار کی اپیل کی ہے اس کے پورا کرنے کی فکر کرو.دوم بدر کے متعلق بھی ایک مشکل پیش آئی ہے اور یہ مشکلات نئی نہیں ہر بڑے کام کے لئے مشکل ہوتی ہے چند روز کے لئے تمہیں بدر سے صبر کرنا پڑے گا.لیکن خدا تعالیٰ اپنے فضل سے سب مشکلا ت دور کر دے گا.گورنمنٹ پنجاب اور گورنمنٹ کے پاس درخواست بھیجنی چاہیے.سوم الحق پر بھی مشکلات ہیں.وہ جوان ہیں، شاعر ہیں، ہاشمی خون ان میں ہے مگر وہ میری بات مان لیں کسی خاص شخص کو نشانہ نہ بنائیں.مامور کو اپنے اوپر قیاس نہ کریں اور اپنے لٹریچر کو بدل لیں.وہ کہتے ہیں ماہوار کا نقصان ہے یہ بڑی بات نہیں.اس کو پورا کر دو اور اس کے خریدار بڑھائو.چہارم ایک اور کام ہے.ہے تو بہت ضروری مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ تم نے اسے اپنے ہاتھ میں نہیں لیا.امرتسر میں ایک انجمن ترقی تعلیم ہے وہ ہمارے احمدی بچوں کو بھی تعلیم کے لئے وظائف دیتی ہے.میں نے سنا ہے کہ ڈاکٹر عباداللہ کو بھی مدددی ہے، اس میں چندہ دینا قبیح نہیں ہے.پنجم ایک اور مشکل ہے میرے پاس بعض سائل آتے ہیں اور کہتے ہیں تو سرکار ہے، بادشاہ ہے، میں کہتا ہوںغریب آدمی ہوں مگر وہ کب مانتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور
ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما بیت المال سے دو دو سو اونٹ بخش دیتے تھے اور کسی کی مجال نہ تھی کہ چوں کرے اور کہہ دے کہ ایک پیسہ نہ دیں گے.یہاں ایک مکان کے متعلق کسی نے مجھ سے رعایت چاہی تو کسی نے کہہ دیا کہ تو اپنے فرض کو نہیں سمجھتا.میں نے کہا کہ میں تو اپنے گھر کی کھاتا ہوں، میرے گھر میں لکڑی ،آٹا، بھوسہ سب میرا اپنا ہوتا ہے اور میرا مولیٰ مجھے خوب دیتا ہے.بہر حال ایسے سائل آتے ہیں اور مجھے جواب دینے کی عادت نہیں.میرا جی چاہتا ہے کہ حاجتمندوں کو مدد دوں.ششم یہاں کے لڑکے سمجھتے ہیں کہ میں امیرالمؤمنین ہونے کے ساتھ امیر بھی ہوں وہ میرے پاس کاپی اور کپڑوں کے واسطے درخواستیں دیتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی کہہ دیتے ہیں کہ ابھی ضرورت ہے.آپ لکھ دیں کہ دے دیا جاوے پھر ان کے بڑے بڑے بل آتے ہیں.ہمارے دوست اپنے بچوں کے اپنے پرانے کپڑے جوتے وغیرہ یہاں بھیج دیا کریں تاکہ ایسے بچوں کے کام آسکیں.ہفتم لنگر خانہ ساڑھے چار ہزار کا مقروض ہے.ایک دوست نے لنگر خانہ کے متعلق خط لکھا کہ قادیان میں جو لنگر سے کھاتے ہیں بڑے حرام خور ہیں.میں نے کہا کاش وہ یہاں رہتا تو اسے معلوم ہو جاتا اب تمہارے دل میں جو حیرت ہو گی کہ کیا دال ساڑھے چار ہزار کھا گئی؟ اس کے سا تھ ہی میںخوش خبری سنا تا ہوں کہ ہمارا ایک دوست پرانا مخلص حامد شاہ سیالکوٹ کا رہنے والا ہے وہ اس قرض کے ادا کر دینے کا اقرار کرتا ہے کہ سیالکوٹ والے ادا کر دیں گے.ہشتم یہ عمارت ہے جس کی کمر ٹوٹ گئی ہے اس کو ساڑھے سات ہزار میں نے دیا تھا اور کچھ شیخ رحمت اللہ اور لاہوری حضرات نے اور ایک ہزار ایک اور مخلص دوست کو کہہ دیا اس نے دے دیا مگر اس کو دے دیا گیا ہے اور میرا اب بھی تینتیس سو ہے.غرض یہ عمارت آٹھ ہزار پچھلا مانگتی ہے اور اس کی کمر کے لئے مومیائی کی ضرورت ہے دو انجمنیں بول پڑیں تو یہ رقم پوری ہو جاوے.نہم مقبر ہ بہشتی اڑہائی ہزار کا مقروض ہے (حکیم محمد حسین مفرح عنبریں کے موجد کہتے ہیںکہ یہ لاہور کی جماعت ادا کر دے گی )اشاعت میں ایک ہزاراور سب سے مقدم ایک مدرسہ ہے جواحمدؐ کے نام پر قائم کیا گیا ہے اور وہ بارہ سو کا مقروض ہے (اشاعت کے لئے قادیان والوں نے کہہ دیا ہے کہ ہم دے دیں گے اور مدرسہ احمدیہ کے لئے فیروزپور نے.اس کے بعد چندہ
ہونے لگا.ایڈیٹر) آخری نصیحت خدا کے فضل سے بہت سا حصہ تو اس قرض کا پورا ہوگیا اور باقی بھی تم خدا کے فضل اور توفیق سے پورا کردوگے اب میں تمہیں یہ نصیحت کرتاہوں کہ بدظنی چھوڑ دو.سارے قرآن میں ابو جہل کا نام نہیں حالانکہ وہ بڑا دشمن تھا.یہ نام نہ اس نے خود نہ اس کے ماں باپ نے رکھا.اللہ پاک نے پسند نہ کیا کہ یہ نام قرآن میں ہوتا.ابولہب ایک لفظ قرآن میں آیا ہے لوگوں نے ایک شخص کو گڈّا بنا لیا مگر مجھے تو پتا نہیں لگا کہ یہ کس کا نام ہے حَمَّالَۃَ الْحَطَب بھی کسی کا نام نہیں.میاں صاحب نے ایک خط کا ذکر کیا ہے یہ سچ بات ہے کہ وہ خط میں نے ہی ان کو دیا ہے وہ بڑا ہوگا تو اپنے گھر کا ہوگا.اب لوگ ٹوہ لگاتے ہیں کہ وہ کون ہے.ایسی باتوں کو چھوڑ دو وہ صدر انجمن کا ممبر نہیں.بد ظنی سے بچ جائو اور اس برُے آدمی کی کھوج نہ لگائو.میاں صاحب نے اس کانام نہیں لیا اور میں ان کو قسم دیتا ہوں کہ وہ نام نہ لیں.ممکن ہے یہ اس کو خط لکھیں تو سیدھا ہو جاوے اور اگر تم میں سے کوئی کچھ کہے تو شاید اس کی وہ حالت ہو جاوے.منہ توں لتھی لوئی توکیا کرے گا کوئی.بد ظنی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑاسخت لفظ بولا ہے ایاک والظن ان الظن اکذب الحدیث(صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ) مجھے میرے مولا نے خوب سمجھایا ہے اور واقعات سے اس حقیقت کو کھول دیا ہے.ایک کتاب مجھے بہت پسند تھی اسے بہت پڑھتا.اس کو میں نے الماری پر رکھ دیا پھر جو دیکھا تو وہاں نہیں.برسوں تلاش کی مجھے بدظنی ہوئی کہ کوئی چرالے گیا جب جموں سے چلنے لگا اور اس الماری کو اکھاڑا تو پیچھے سے مل گئی اس واقعہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے بتا دیا کہ تم تو بدظنی کرتے تھے کہ کسی نے چرالی.ایسا ہی ایک ٹوپی کے متعلق خیال گزرا مگر وہ ٹوپی ایک نیک بی بی نے میرے بستر کی ایک تہ کے نیچے رکھ دی تھی.غرض بد ظنی نہ کرو اس سے بہت خرابیاں پیدا ہوتی ہیں.دوم تفرقہ نہ کرو.سوم کسی امر کو جو خوف یا امن کا ہو امام کے پاس پہنچائو.تم خود اس کو جماعت میں نہ پھیلائو.اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے.(آمین) (الحکم ۲۱؍۲۸؍فروری ۱۹۱۵ء صفحہ۲،۳)
پیدائش جسمانی اور تکوین روحانی کے مدارجِ ستہ (تقریر فرمودہ ۲۸؍دسمبر۱۹۱۳ء بعد نماز ظہر بمقام مسجد نور قادیان) حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کی دوسری تقریرجو ۲۸؍دسمبر۱۹۱۳ء کو مسجد نور میں بعد نماز ظہر فرمائی تھی اور اب تک شائع نہیں ہوئی تھی.اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غیر مطبوع مضامین شائع کر دیئے جائیں گے.(ایڈیٹر) اَشْھَدُ اَنّ لَّا اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ..
(المؤمنون:۱تا۲۳) سلسلہ کلام کل میں نے تم کو ایک بات بتائی تھی اور وہ بات تھی ایمان کے متعلق اور ایمان کے اصول بتائے تھے.ان میں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء، صفات اور افعال پر ایمان لانا اور ان میں کسی دوسرے کو شریک نہ سمجھنا اور نہ اس کی عبادات و تعظیم میں کسی اور کوشریک ٹھہرانا.پھر صفات الٰہیہ کے مظاہر اول ملائکہ پر ایمان لانا اوران کی پاک تحریکوں پر عمل کرنے کی کوشش کرنا کیونکہ ان تحریکوں پر عمل کرنے سے ملائکہ کا تعلق بڑھتا ہے اور وہ نیکیوں کی اور تحریک کرتے ہیں.پھر نبیوں پر ایمان لانا پھر جزاو سزا کے مسئلہ پر ایمان لانا اور قیامت پر ایمان رکھنا.پھر بتایا تھا کہ قرآن کریم حبل اللہہے اس کو سب مل کر ایک وحدت کے نیچے مضبوط پکڑے رہنا اور یہ دو طرح پر ہوتا ہے اول قرآن کریم کی تعلیم وہدایت کی فرمانبرداری اور عملی زندگی دوسرے قرآن کریم کے خلاف کوشش کرنے والوں کے حملوں کا دفعیہ.پھر قرآن کریم کے سمجھنے کے اصول بتائے تھے ان اصولوں کے سمجھنے سے ہی عملی زندگی اور قرآن کریم کے دشمنوں کے حملوں کے جواب کی توفیق ملتی ہے اور پھر جب انسان قرآن کریم کو سمجھتا ہے تو مومن بنتا ہے.اب اس مومن کو یہاں خطاب ہے.ایسے ہی مومن کو خطاب کرتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ پھر کامیابی اور مظفر ومنصور ہونے کا دستور العمل کیا ہے؟ کل میرا مضمون نصف رہ گیا تھا آج اس ایمان کے برگ و بار ، ثمرا ت یا یوں کہو کہ لوازمات وتکمیل کا ذکر کرتاہوں اس رکوع میں اسی کو مد نظر رکھا گیا ہے.مومن ہونے کے کل اصول بتائے تھے آج بتایا .ایمان کامیابی کی کلید ہے مومن کی فطرت میں ہے کہ وہ کامیاب ہو جاوے.کامل مومن کبھی اس کے بغیر رہ نہیں سکتا.پس اگر تم مومن ہو تو تمہاری بھی کچھ خواہشیں ہوں گی اور ان خواہشوں کا خلاصہ ہوگا کہ تم اپنے مقاصد میں مظفر و منصور ہو جائو اور فتح مند
بن جائو.تمام کامیابیوں کا گُر یہاں بتایا ہے فتح مند ہونے کی لوگوں نے مختلف تدبیریں سوچی ہیں مگر فتح مندی کا تاج سر پر رکھنے کے لئے جواصل قرآنِ کریم نے بتایاہے وہ یقینی اور ناقابل خطاہے.بعض تو اپنی جگہ سودے بناتے رہتے ہیں اورشیخ چلیّ کے سے منصوبے سوچتے رہتے ہیں.ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ بازار میں سر اور انگلیوں کو ہلا تا چلاجاتا ہے مجھے پہلے خبر نہ تھی میں نے سمجھا کہ مصیبت میں مبتلا ہے اس سے نکلنا چاہتا ہے مگر معلوم ہوا کہ خیالی پلائو پکار ہا ہے.ہمارے ملک میں شیخ چلّیکی ایک کہانی مشہورہے کہ وہ کسی شخص کے مزدور ہوئے اور سر پر ایک ٹوکرا اٹھایا ہوا تھا.راستہ میںاس مزدوری کے پیسوں پر ایک خیالی سلسلہ جو مشہور ہے اور سب جانتے ہیں اس نے شروع کیا اور ایک موقع پر اسی سلسلہ میں وہ ٹوکرا گر گیا اور مالک کا نقصان ہو گیا.اس نے ڈانٹا تو کہا کہ تم اس اسباب کے نقصان کو روتے ہو میرا سارا کنبہ ہی تباہ ہو گیا ایسے لوگوں کا انجام اسی قسم کا ہوتا ہے.یہ خیالی تدبیریں اور منصوبے کامیابی کی منزل پر نہیں پہنچاتے ہیں.کامیابی مومن کا حصہ ہے جو لوگ محض بڑے بڑے خیالات اٹھاتے رہتے ہیں وہ کامیابی کا منہ نہیں دیکھتے.پس میرے دوستو!تم اٹکل بازیوں اور منصوبوں کو چھوڑ دو.کامیابی کا گُر وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کیونکہ دنیا کے اسباب اور کامیابیوں کا آ پ ہی خالق ہے اس لئے اللہ پر بھروسہ کرو.کامیابی کا پہلا گُر میں بتایا کہ ہم کامیابی کی تدبیر بتاتے ہیں ایسی تدبیر جو قطعی اور یقینی ہے اور وہ یہ ہے .پہلی تدبیر یہ ہے کہ نمازوں میں خشوع کرو.نمازوں میںخشوع کیا ہوتا ہے ؟یہ ایک حالت ہے جب انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے اس کی مثال اور حقیقت اس طرح پر بیان کی ہے (الحج:۶) زمین جب ویران ہوتی ہے نہ اس پر پودے اگتے ہیں نہ پھل پھول ہوتے ہیں اس میں کوئی دلربائی نہیں ہوتی، نہ سبزہ لہلہاتا ہے نہ پرند چہچہاتے ہیں.پس جب تم نماز پڑھو تو اپنے آپ کو ایسا ہی سمجھو جب تم اپنی حالت اس طرز کی بنائو گے تو پھر جیسے اجڑی ہوئی زمین پر رحمت کی بارش ہو کر اسے سبزہ زار بنا دیتی ہے اور اس میں پڑے ہوئے بیجوں کو نشوو نما بخشتی ہے اسی طرح پر
اللہ تعالیٰ کا فضل تمہاری ان مخفی قوتوں کو ایک نشوونما عطا کرے گا اور برکات کے ثمرات پیدا ہوں گے.پس پہلی تدبیر یہ کہ تم فرمانبردار ہو کر نمازوں میں خشوع پیدا کرو اوروہ دعا ہے.لوگ نماز کا ڈھانچہ تو بنا لیتے ہیں مگر اس ڈھانچے کے اندر حقیقت کی روح خشوع سے پیدا ہوگی اور خشوع کا پیدا کرنا عجائبات سے ہے.اس کا ایک قاعدہ ہے اور اس کو اسی رکوع میں اسی آیت کے بالمقابل رکھ کر بتایا ہے (المؤمنون:۱۳) روحانی اور جسمانی پیدائش اس روحانی پیدائش کے مقابل میں اس کا ایک مثیل جسمانی پیدائش کے رنگ میں دکھایا ہے ان عناصرمیں نہ حسن ہے نہ دلربائی.لیکن جب اکٹھے ہوتے ہیں تو اس اتحاد کی برکت سے ان میں ایک خاص صلاحیت پیدا ہو کر وہ غذابنتے ہیںپھر اس کے ساتھ مختلف قسم کے مضرات بھی ہوتے ہیں لیکن جب وہی عناصر غذا کا رنگ اختیار کر کے انسان کے اندر جاتے ہیںپھر ان کا ایک تجزیہ شروع ہوتا ہے اور مضر ذرات یا اجزاء کو الگ کرنے کا ایک بہت بڑا سلسلہ شروع ہوتاہے کہیں پیشاب کے ذریعہ زہریں الگ ہو رہی ہیں ،کہیں پاخانہ کے ذریعہ، کبھی پسینہ کے رنگ میں.غرض تمام مضر اشیاء اس سے الگ ہو کر ایک مفید حصہ غذا کا خون بنتاہے پھر وہ مختلف چکروں اور عملو ںکے نیچے رہ کر اپنے مضر اشیاء کو الگ کرتا ہوا حیوانا ت منی (سپرمٹوزا )کی صور ت اختیار کرتے ہیں اب اگر اللہ تعالیٰ کے فضل کی بارش نہ ہو تو اس قدر عملوں کے بعد بھی وہ حیوانات منی کی شکل اختیار نہ کریں.بہت سے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو چالیس چالیس بر س سے شادی کئے ہوئے ہیں اور بلاناغہ جماع کرتے رہے ہیں.مگر ایک جونک بھی پیدا نہیں ہوئی.اس لئے یاد رکھو کہ جب تک فضل الہٰی کی بارش نہ ہو یہ حیات بھی حاصل نہیں ہوتی.جب اس کا فضل ہوتا ہے تو سپر مٹوزا پیدا ہوتے اور کام دیتے ہیں.پس اس روحانی پیدائش کے لئے ضروری ہے کہ تمہاری نمازوں میں خشوع ہو.جب پانچ دفعہ روزانہ تم خدا کے حضور خشوع کے ساتھ حاضر ہوگے تو ایک نطفہ کی صورت پیداہوگی.انسانی نطفہ جوہوتا ہے اس کو بھی ہزاروںبلائیں جفائیںلگی ہوتی ہیں.اس کے ساتھ منی کا پانی اورلزوجت ہوتی ہے اس کو پھر ایک اور کمال عطا ہوتا ہے.نطفہ صراط مستقیم پر چلنے کا عادی ہوتا ہے اس مضمون کو ڈاکٹر لوگ شاید اچھی
طرح سمجھ سکیں اور بیان کر سکیں غرض وہ نطفہ صراط مستقیم پر چلنے کا عادی ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ قسم قسم کی بلائیں جفائیں ہوتی ہیں مگر محبّل ان قسم قسم کی چیزوں کو پھینک دیتی ہے یہ رحم کے باہر ایک میدان ہوتا ہے اس طرح پر نطفہ صراط مستقیم پر چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ رحم کے اندر کسی مقام پر جاکر عورت کے مادہ سے مل جاتا ہے اور ترقی کرتا ہے اس کے ہر ضلعے پر دائرہ ۲.۴.۱۶.۳۲.۶۴.۱۲۸تک مل جاتے ہیں اور وہ لغو فضلوں کو الگ کر کے اسے جائز اور مناسب نشوونما عطا کرتا ہے یہاں تک کہ پھر ایک ۲.۳اور ایک کے چاربھی دیکھے ہیںبچوں کی شکل میں پیدا ہوتا ہے.اب غور کرو عناصر کو انسان کی صورت میں ترقی کرنے کے لئے کس قدر منازل سے گزرنا ہوتا ہے اگر ہر منزل اور مرحلہ پر ان لغویات کو جو اس حالت اور حصہ میں ساتھ ہوتی ہیں وہ الگ نہ کریں تو اس قدر ترقی حاصل نہیں ہوتی اسی طرح پر انسان کا روحانی خلق اور نشوونما ہو نہیں سکتا جب تک وہ لغویات سے نہ بچے.وا لّاوہ نطفہ گر جاتاہے.اس کو اس پیدائش کے لئے رِحم سے ایک تعلق رکھنا چاہیے.اس لئے مومنین کو بھی فرمایا کہ رحم سے تعلق ہو اور رحم سے تعلق کی مانع چیزوں کو ہٹادے اور یہی وجہ ہے کہ روحانی تعلیم کے لئے اس کا نام علق رکھا.علق تعلق ہی سے نکلاہے.دوسرا ذریعہ یا گُر اس لئے جیسے نطفہ کو اس سے ترقی کیلئے لغویات سے الگ رہنا ضروری ہے اسی طرح ایک مومن روحانی پیدائش اور نشوونما کے لئے خشوع کی حالت سے گزر کر آئندہ لغویات سے پرہیز کرے چنانچہ فرمایا:.مومن ہر چند نماز بھی پڑھتا ہو.لیکن ترقی کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس کی نماز میں خشوع ہو اپنے آپ کو وہ بالکل ایک مردہ زمین تصور کر کے فضل الہٰی کی بارش کا امید وار ہو.تب اس کے اندر خوبیوں کے بیج نشوونما پائیں گے اور ان تخموں کے نشوونما کے لئے ضروری ہے کہ مضر اور لغو حصوں سے الگ رہے.لغویات کو دور کرنے کا نظارہ بھی عجیب ہے.کسان کس طرح لغو چیزوں کو کھیتوں سے الگ کر دیتے ہیں اسی طرح مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ لغویات کو ترک کرے.اسی کا نام روحانی اصطلاح میں ترک شر بھی ہے اور نواہی سے بچنا بھی ہے.پس کامیابی اور مظفر ومنصور ہونے کا دوسرا گُر یہ ہے کہ لغویات سے بچ کر جنابِ الہٰی سے تعلق رکھے.یہی تعلق ہے جو جسمانی پیدائش
میں (المؤمنون:۱۵)کہلاتا ہے جنابِ الٰہی سے ایسا تعلق ہو کہ ہر حالت میں وہ جنابِ الہٰی کاسچا فرمانبردار ہو.کسی کی دوستی،دشمنی ،غریبی،امیری ،مقدمات غرض کوئی بھی حالت ہو جنابِ الٰہی کا فرمانبردار ہو اور ہر قسم کی نافرمانیوںسے بچنے والا ہو.ایک جگہ اس کی تصریح بھی فرمائی ہے.(البقرۃ:۱۷۸) گویا مومن وہی ہوتے ہین جو ہر قسم کے دکھوں تکلیفوں اور مقدمات میں اللہ تعالیٰ کو ناراض نہیں کرتے.اب تم اپنی عمر کو دیکھو اور غور کرو کہ تمہاری زندگی میں جب اس قسم کی حالتیں تم پر آئیں تم نے کیا کیا ؟ ہماری حالت کا نقشہ اور بھی سوچو کہ اپنیلحافوں میں گھستے ہوئے جب تک تم جاگتے ہو تم کیا کرتے ہو کیا اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہو یا منصوبے بازیوں میں وقت گزار دیتے ہو.میں تمہیں ایک مثال سناتا ہوں جس سے تم کو معلوم ہوگا کہ پر کہاں تک عمل ہوتا ہے.ایک جگہ میری چارپائی تھی اس سے نیچے ایک مکان میں انگریزی خوان احداث تھے.عشاء کی نماز کے بعد میں جب اپنی چارپائی پر لیٹا تو ان میں سے ایک نے بڑی لمبی تقریر کی جب وہ ختم کر چکا تودوسرے نے کہا اومیری تو سنو !یہ کہہ کر وہ ایک بکواس کرتا رہا.پھر تیسرے نے شروع کردی.میں تنگ آگیااور اپنی بیوی کو کہا کہ چارپائی یہاں سے دوسری جگہ لے چلو.اس نے کہا کہ ابھی تو یہ لوگ گرم ہوئے ہیں.خیر میں تو وہاں سے اٹھا اور سو گیا.مجھے دوسرے دن رپورٹ پہنچی کہ تین بجے سوئے تھے.یہ سب کچھ لغو تھا.ایسی باتوں سے اعراض کرنا چاہیئے.ایسا ہی ایک شخص کو میں نے کہا کہ ملازمت کر لو تمہارے حق میں بہتر ہے.اس نے خیالی منصوبے بنائے ہوئے تھے.کہنے لگا اس ملازمت سے کیا ہوتا ہے میں تجارت کروں گا.تین برس کے بعد وہ مجھے ملا میں نے اس کو کہا کہ کیا کمایا.کہنے لگا ابھی ایک دوست کا پانچ سوروپیہ تباہ کر کے آیا ہوں مگر اب مجھے سمجھ آگئی ہے کہ تجارت اس طرح پر کرنی چاہئے.میں نے کہا کہ اگر تم ملازمت کرتے تواس وقت تک دس روپیہ کے حساب سے تم کو تین سو ساٹھ روپیہ تو مل چکے ہوتے.اب
ایک ہزار کسی اور دوست سے لے کر غرق کرو.غرض لوگ صحیح اور دردِ دل سے دیئے ہوئے مشورہ کو تو مانتے نہیں اور اپنی خیالی تجویز وں پر اڑے رہ کر نقصان اٹھاتے ہیں.یہ اٹکل بازیاں بھی لغو ہیں اور کامیابی کی راہ میں روک ہیںان کو چھوڑ دو کیونکہ مومن لغو سے بچتا ہے.اسی طرح میں نے ایک دوست کو کہا کہ یہ کام کر لو مجھے کہنے لگا کہ اعلیٰ پیمانہ پر تجارت کروںگا.میں نے کہا کہ تجارت تو ایک علم ہے تم اس سے ناواقف ہو.مگر پرواہ نہ کی.تجارت فی الحقیقت ایک علم ہے.میں نے عربی میں ایک کتاب پڑھی جوکسی ماہر ایم.اے نے لکھی ہے وہ کہتا ہے کہ پانچ برس تک میں ایک کوٹھی میں تجارت کرتا رہا.تب سمجھ آئی کہ تجارت کیا چیز ہے ؟یہ ایک بڑا کارخانہ ہے اب میں دنیا کے ہر جگہ سے مال منگوا سکتا ہوں اور میں بھلے مانس اور بد معاش دیانتدار اور بد معاملہ تاجروں کو جانتا ہوں.پس جب تک اس علم سے انسان واقف نہ ہو تجارت کے اعلیٰ پیمانہ پر کرنے کی تجویزیں اور منصوبے لغویات ہوں گے.اس لئے تم یاد رکھو کہ کامیابی اور مظفر و منصور ہونے کے لئے دوسرا ذریعہ یہ ہے کہ مومن لغویات سے بچتا رہے ایسا ہی ایک قسم لغو کی یہ بھی ہے کہ جب کوئی بات کہی جاوے تو اس پر بد ظنی کر کے عمل نہ کیااور اپنی ہواوہوس کے ماتحت ہو کر ایک بات کر لی اور جب کہا گیا توہنس کر کہہ دیا کہ غلط فہمی ہو گئی اس قسم کی باتوں سے پرہیز کرو.جب تک لغویات سے نہیں بچتے ہو کامیابی اور فتح مندی تمہیں حاصل نہیں ہو سکتی.خلاصہ یہ ہو ا کہ مومن کی دوسری شان یہ ہے کہ لغویات سے بچے.جیسے نطفہ مضر اشیاء سے بچتا ہے.مومن نمازیں پڑھتا ہے اور نمازوں میں خشوع سے کام لیتا ہے اور پھر لغویات سے بچتا ہے کیونکہ اگر وہ لغویات سے نہ بچے تو جنابِ الہٰی سے تعلق نہیں ہوتا.ایک بات اور یاد رکھو دنیا کا ایک عام نظارہ ہے کوئی پھل ،پَتّا، درخت، ٹہنی اللہ تعالیٰ نے لغو پیدا نہیں کی.(آلِ عمران:۱۹۲)بلکہ حق وحکمت سے بھر پور ہے.جن لوگوں نے حق وحکمت کی اس مخلوق سے کام لیا انہوں نے مالی اور مادی فائدہ اٹھایا.یہ مضمون بھی وسیع ہے اور تمام علوم پر حاوی ہے.دیکھو ایک قوم نے ان تمام اشیاء کو جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں
حقائق کے رنگ میں دیکھا اور ان کے خواص وصفات معلوم کر کے کس قدر فوائد ان سے حاصل کئے.آئے دن کی ایجادات اور مادی ترقیاں اسی کا نتیجہ ہے اور وہ تمام دنیا پر حکومت کر رہی ہے.لیکن جنہوں نے انادی سمجھ کر چھوڑ دیا وہ مفلس اور محکوم ہے.پس جہاں تم لغو سے اعراض کر و وہاں حقائق الاشیاء کو ترک نہ کرو.اس واسطے جنابِ الہٰی کے حضور جب کہا جاتا ہے لغو سے بچو تو اس کی بڑی بڑی شاخیں یہ سمجھی جاتی ہیں.خیالات بے جا، بے ہودہ ارادے ، دوست بے ہودہ ، اسی میں بے ہودہ کتابیں بھی داخل ہیں.بیہودہ دوست اسی طور پر دوست بنتے ہیں کہ انسان سمجھتا ہے کہ ان کا وجود ہمارے دین دنیا کے لئے مفید ہے لیکن دراصل وہ سخت مضر ہوتے ہیں اور وہ دین ودنیا دونوں کو غر ق کر دیتے ہیں.میں پھر یاد دلاتا ہوں کہ تم میں ایمان ہو.یہ حالت نطفہ سے مشابہ ہے کیونکہ نطفہ تھوڑی سی چیز ہی کو کہتے ہیں پھر جیسے نطفہ رحم سے تعلق رکھتاہے اور اسے آئندہ ترقی اور نشوونما کے لئے ضروری ہے کہ رحم سے تعلق رکھے.اسی طرح مومن کو جناب الہٰی سے تعلق رکھنا چاہئیے اور وہ تعلق نماز سے قائم رہتا ہے اور نماز میں خشوع ہو تو ترقی کے راستے کھل جاتے ہیں پھر جیسے نطفہ کو اپنے اس تعلق میں (برنگِ علقہ) لغویات سے الگ رہنا چاہئیے ورنہ وہ گر جاتا ہے.اسی طرح اس مومن کو لغویات سے بچنا ضروری ہے و الّاوہ اس ترقی سے رہ جاتا ہے جس کی طرف وہ ایمانی حالت کے بعد جارہاتھا.تیسراذریعہ یا گُر نطفہ رحم میں قرار پکڑنے کے بعد علقہ کی صور ت اختیار کر چکنے کے بعد ایک وقت تک بڑھتا رہتا ہے اسی طرح انسان روحانی پیدائش میں ترقی کرتے کرتے آگے چلتا ہے مال بھی انسان کے لئے ایک عجیب چیز ہے اور اس کے معاملات عجائبات سے بھرے ہوئے ہیں.صرف مال کے متعلق ایک الگ پہلو کی ضرورت ہے جب کسی قوم کے پاس مال آتاہے تو اس کی حالت بدل جاتی ہے.حضرت موسیٰ ،حضرت مسیح علیہما السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوموں نے کہا افلاس ہے لیکن جب انہیں کثرت اموال ہوئی تو پھر دیکھ لو کیا حال ہوا.دنیا کی رغبت جب انسان کو پیدا ہوتی ہے تو پھر عجیب و غریب کرشمے دیکھنے میں آتے ہیں.میں نے تو دنیا کما کر دیکھی ہے مگر اس میں مجھے کبھی مزہ نہیں آیا.ہر قسم کی سواریاں،
صحبتیں، لباس، کھانے، مکانات اور مخلوقات دیکھی.گویا یہ شعر میرے ہی حق میں ہے ؎ من بہر جمعیتے نالاں شدم! جفت خوشحالاں و بد حالاں شدم ہر کسے از ظن خود شد یار من وز دروں من نجست اسرار من مال کی وجہ سے عجیب عجیب واقعات دنیا میں آتے ہیں اور جبکہ قرآن مجید کامیابی اور فتح مندی کے اصول بتا رہا ہے تو قدرتی طور پر کامیابی کے ساتھ اموال کی ترقی ہونی ضروری تھی اس لئے اس کے مناسب حال یہ اصل اس سے آگے ترقی کابتایا..میں نے بتا یا ہے کہ لوگ لغو سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے اور اس کے بالمقابل حقائق الاشیاء کو ترک کر دیتے ہیں تو ہر چیز کو لغو سمجھ کر چھوڑ دیتے اور اس کے مفاد سے بے بہرہ رہ جاتے ہیں اور یا تو بے ہودہ خیالات سوچتے رہتے یا بیہودہ مجلسوں میں بیٹھے ٹریں مارتے رہتے ہیں.سب سے بڑا درد مجھے ایک دفعہ ایک عالم کو دیکھ کر ہوا جو ایک جگہ بکواس کر رہا تھا.میں نے اس کو کہا کم عقل تو کیا کرتا ہے.مجھے نہایت ہی افسوس ہوا جب اس نے کہا الگپ والشپ طراوت المغز.میں حیرا ن ہو گیا کہ یہ عربی کہاں سے بنا لی.ایک بیہودگی سے منع کرنے پر بجائے باز رہنے کے ایک اور لغو حرکت کر دی.میں نے کہا کہ تمہارا یہ بکواس کتے خصّی سے بھی بد تر ہوا جاتا ہے.غرض لغویات سے بچ کر جب انسان ترقی کرتا ہے تو پھر تیسرا مرحلہ اس کے مال کے متعلق آتاہے یہ حالت گویا جسمانی پیدائش میں مضغہ سے ملتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے تصر ف کے نیچے آتا ہے.اسلام کے دو ہی عظیم الشان شعبے ہیں اور ایمان کی تکمیل انہیں دو سے ہوتی ہے تعظیم لامر اللہ اور شفقت علیٰ خلق اللہ.پہلے تعظیم لامراللہ کے متعلق بتایا ایمان ہو اور اس کے بعدنمازوں میں خشوع ہو اور اس خشوع کے پیدا کرنے کے لئے لغویات سے احتراز ہو.اب بتایا کہ شفقت علٰی خلق اللہ کے لئے زکوٰ ۃ دو.جس بد بخت میں مخلوق پر شفقت نہیں وہ کسی بھی کام کانہیں.انفاق فی سبیل اللہ کی حقیقت اور اس کے اسرار قرآن مجید اور احادیث میں اور آ ثار میں بہت ملتے ہیں.ایک موقع پر فرمایا ہے(البقرۃ:۱۹۶).فرمایا اپنے اموال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو اگر نہیں کرو گے تو اپنے آپ کو ہلاکت میں
ڈال دو گے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا انسان کو ہلاکت سے بچاتاہے مخلوق الٰہی سے احسان کرنے کے نتائج و ثمرات کے قصے میں تمہیں کیا سنائوں اور کہاں تک سنائوں ان سے تو ایک کتاب بنتی ہے تا ہم میں تمہیں دو گواہیاں سناتا ہوں اور اگر اپنی شہادتیں سنائو ں تو کہو گے باتیں بناتا ہے (نعوذ باللہ من ذالک.ایڈیٹر) رابعہ بصری کے پاس ایک مرتبہ بیس مہمان آگئے.ان کے گھر میں اس وقت صرف دو روٹیاں تھیں انہوں نے سوچا کہ ان دو روٹیوں سے ان مہمانوں کو تو کچھ بھی نہ ہو گا بہتر ہے کہ اللہ سے سودا کر لوں.اتنے میں کوئی سائل آیا اور انہوں نے وہ دو روٹیاں اپنے نوکر کی معرفت اس کو دے دیں.نوکر حیران ہواکہ دو بھی ہاتھ سے دے دیں.مگر رابعہ جانتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے(الانعام:۱۶۱) کاوعدہ کیا ہوا ہے.تھوڑی دیر کے بعد ایک خادمہ کھانا لے کر آئی کسی بیوی نے ان کے گھر میں بھیجا تھا.رابعہ نے اس خادمہ سے پوچھا کہ کتنی روٹیاں ہیں اس نے کہا ،۱۸.تب رابعہ نے کہا لے جائو.یہ میری نہیں ہیں.انہیں تو اللہ تعالیٰ پر ایمان تھا کہ دو کی بجائے بیس آنی چاہئیں.غرض وہ خادمہ جب لوٹ کر گئی تو اس کی مالکہ نے اسے ڈانٹا کہ تو اتنی دیر کہاں رہی میں نے رابعہ کے گھر کھا نا بھجوانا تھا.اس لونڈی نے وہ قصہ سنا یا تو مالکہ نے کہا کہ وہ حصہ تو رابعہ کا نہ تھا.پھر و ہ بیس روٹیاں لے کر گئی تو رابعہ نے لے لیں اور ان مہمانوں کو کھلادیں جس سے وہ سیر ہو گئے.بعض جگہ ایک روٹی اتنی بڑی ہوتی ہے کہ ایک آدمی مشکل سے کھا سکتا ہے.میری خالہ اتنی بڑی روٹی پکاتی تھیں کہ محلہ میں بانٹ دیتے.غرض رابعہ جانتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے (الانعام:۱۶۱) وہ لونڈی اس راز سے آگا ہ نہ تھی.اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ کرشمہ دکھادیا.ایسا ہی ایک شخص کو پھانسی کا حکم ہوا اسے ایک آدمی راستہ میں ملا تو اس نے اس کو دو پیسے کا سوال کر دیا اس نے اس کو دو پیسے دے دیئے.سپاہیوں نے بھی تعرض نہ کیا وہ جانتے تھے کہ اب تو اس کو پھانسی کی سزا ہو گئی ہے.آگے نان بائی کی دوکان تھی وہاں سے اس نے دو پیسہ کی روٹی خرید لی جب اور آگے گئے تو اس کے کان میں ایک سوالی کی آوازآئی.
تیرا دوہیں جہانیں بھلاہو کچھ کھلا دے؟ اس نے اس کو دونوں روٹیاں دے دیں.ادھر یہ واقعہ پیش آیا کہ جب یہ شخص پھانسی کے مقام پر پہنچا اور اس کے تختہ پر قدم رکھا.بادشاہ کو کسی نے کہا کہ اس مقدمہ کی اصلیت تو یہ ہے.بادشاہ نے یہ سن کر فوراً سوار بھیجا کہ اس کو پھانسی نہ دی جاوے تحقیقات ہوگی اور اس طرح پر اس صدقہ نے اس کو بچا دیا.یہ واقعات ہیں مگر ان کے ماننے کے لئے ایمان کی ضرورت ہے.میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے ایک ہمارا محسن اور آشنا تھا وہ مارا گیا.جس روز وہ مارا گیا اس کے ایک ملازم نے مجھے کہا کہ آج نہیں جانا میں نے انکار کر دیا راستہ میں اس کو دشمن نے مار ڈالا.ہمارے ساتھ اس کے بڑے بڑے سلوک تھے اس کے مقدمہ کی تحقیقات ہونے لگی.مجھے اس جج سے ملنے کا موقع ملاجس نے تحقیقات کی تھی.اس نے بتایا کہ اس مقدمہ کی اصلیت ہم نے معلوم کر لی ہے اور کل اتنے آدمیوں کو پھانسی لگ جاوے گی.میں اس کے پاس سے اُٹھا تو ایک غلبہ نیند کا ہوا.میں لیٹ گیا تو میں نے دیکھاکہ جن کے متعلق پھانسی کا حکم دیا گیا تھا.وہ چارپائی پر بیٹھے ہیں اور کچھ سکھ مجھ کو دکھا ئے گئے جو زمین پر بیٹھے تھے.میں نے اس کی تعبیر یہ کہی کہ یہ سب چھوٹ جاویں گے اور اس کے قاتل وہ سکھ ہیں جو سزا پائیں گے.میں نے اس جج سے جاکر کہا کہ آپ کا فتویٰ جھوٹ ہے اس نے کہا کہ کل ۹بجے دیکھ لینا.میں نے اس کو کہا کہ ہم کو بھی کسی نے بتا دیا ہے.اس نے کہا تمہیں خبر نہیں میرے فیصلہ کی اپیل بھی نہیں وہ اب چھوٹ نہیں سکتے.میں نے کہا کچھ ہو وہ مجرم نہیں قاتل اور ہیں اور یہ چھوٹ جاویں گے اور مرتے نہیں.ان گرفتاروں میں بعض میرے بھی آشنا تھے.ٹھیک ۹بجے جب کہ ان کی پھانسی کا مقررہ وقت تھا.سیالکوٹ سے تار آگیا کہ اصل مجرم پکڑے گئے ہیں ان کو یہاں بھیج دو.مقدمہ یہاں منتقل کر دو.میں نے اس جج کو کہا کہ اب تو چھوٹ گئے.اس نے کہا کچھ پرواہ نہیں مقدمہ وہاں چلاجاوے.میں نے ایسے وجوہات لکھے ہیں کہ یہ بچ سکتے ہی نہیں.مگر وہاں تحقیقات پر مقدمہ نئی طرز کا ہوگیا اور وہ رہا ہوگئے.تب وہ جج کہنے لگا بڑاآشچرج ہے.تب اس نے پوچھاکہ اب کون سزا پائے گا میں نے کہا دو سکھ ہیں.ان مجرموں میں ایک سرکاری گواہ وعدہ معافی پر بن گیا.وہ بچ گیا اور باقی پھانسی پاگئے.اس پر اس جج نے کہا کہ ایک تو بچ گیا.میں نے کہا
کہ مجھے تو یہ نہیں دکھایاگیا کہ یہ بچے.چنانچہ اس نے وہاں سے نکل کر خوشی میں شراب پی اور شراب پی کر ایک لڑکی کو چھیڑا.اس کے رشتہ داروں نے وہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا.اس قسم کے عجائبات بہت ہوتے ہیں.صدقات اور خیرات واقعی انسان کو بہت سے عذابوں سے بچالیتے ہیں اور یہ انسانی فطرت اور عام اقوام کے طرز عمل میں داخل ہے جو لوگ اپنے اموال میں سے خیرات کا حصہ نہیں نکالتے وہ ہلاکت کی طرف چلے جاتے ہیں.اس لئے قرآن مجید نے کامیابی کا یہ اصل تعلیم کیا کہ مومن کامیاب ہو نے والے مومن اپنے اموال سے زکوٰۃ دیتے ہیں.اس لئے مومن کا یہ کام ہونا چاہئے.اپنی سر گزشت رابعہ بصری کے قصہ کامیں آپ بھی تجربہ کارہوں.طالب علمی کے زمانہ میں ایک مرتبہ میں نے نہایت عمدہ صوف لے کر دو صدریاں بنوائیں اور انہیں الگنیپر رکھ دیا.مگر ایک کسی نے چرالی.میں نے اس کے چوری جانے پر خدا کے فضل سے اپنے دل میں کوئی تکلیف محسوس نہ کی بلکہ میں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے بہتر بنادینا چاہتا ہے.تب میں نے شرح صدر سے اناللّٰہ و اناالیہ راجعونپڑھااور اس صبر کے شکریہ میں دوسری کسی حاجتمندکو دے دی.چندروز ہی اس واقعہ پر گزرے تھے کہ شہر کے ایک امیر زادہ کو سوزاک ہوا اور اس نے ایک شخص سے جو میرابھی آشنا تھا کہا کہ کوئی ایسا شخص لائو جو طبیب مشہور نہ ہو اور کوئی ایسی دوا بتاوے جس کو میں خود بنا لوں.وہ میرے پاس آیا اور مجھے اس کے پاس لے گیا.میںنے سن کر کہا کہ یہ کچھ بھی نہیں صدری ہے.میں جب وہاں پہنچاتو وہ اپنے باغ میں بیٹھا تھا میں اس کے پاس کرسی پر جا بیٹھا تو اس نے اپنی حالت کو بیان کر کے کہا کہ ایسا نسخہ تجویز کر دیں جو میں خودہی بنالوں.میں نے کہا ہاں ہو سکتا ہے جہاں ہم بیٹھے تھے وہاں کیلے کے درخت تھے میں نے اس کو کہا کہ کیلے کا پانی ۵تولہ لے کر اس میں ایک ماشہ شورہ قلمی ملا کر پی لو.اس نے جھٹ اس کی تعمیل کر لی کیونکہ شورہ بھی موجود تھا، اپنے ہاتھ سے دوائی بنا کر پی لی.میں چلا آیا.دوسرے دن پھر میں گیا تو اس نے کہا کہ مجھے تو ایک ہی مرتبہ پینے سے آرام ہو گیا ہے.اب حاجت ہی نہیں رہی.میں تو جانتا تھا کہ یہ موقع محض اللہ تعالیٰ کے فضل نے پیدا کر دیا ہے اور آپ ہی میری توجہ اس علاج کی طرف پھیر دی.میں تو
پھر چلا آیا مگر اس نے میرے دوست کوبلا کر زربفت، کمخواب وغیرہ کے قیمتی لباس اور بہت سے روپے میرے پاس بھیجے.جب وہ میرے پاس لایا تو میں نے اس کو کہا کہ یہ وہی صدری ہے.وہ حیران تھا کہ صدری کا کیا معاملہ ہے؟ آخرسارا قصہ اس کو بتایا اور اس کو میں نے کہا کہ زربفت وغیرہ تو ہم پہنتے نہیں اس کو بازار میں بیچ لائو.چنانچہ وہ بہت قیمت پر بیچ لایا.اب میرے پاس اتناروپیہ ہوگیا کہ حج فرض ہو گیا.اس لئے میںنے اس کو کہا کہ اب حج کو جاتے ہیں کیونکہ حج فرض ہو گیا ہے.غرض اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کو کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا ہاں اس میں دنیا کی ملونی نہیں چاہئے.بلکہ خالصاًلوجہ اللہ ہو اللہ کی رضا مقصود ہو اور اس کی مخلوق پر شفقت ملحوظ ہو.پس تم مظفر ومنصور ہونے کے لئے نمازوں میں خشوع پیدا کرو.لغویات سے بچو اور پھر اپنے اموال سے زکوٰۃ دو.چوتھاذریعہ اس کے بعد ایک بہت بڑا معاملہ آتا ہے جس کے مقابلہ میں مال کی قربانی کچھ بھی چیز نہیں.یہ ایک دوزخ کا نمونہ ہے انسان اس سے خدا کے فضل سے ہی بچتا ہے ،یہ شہوت ہے.میں نے اس دوزخ کو دیکھا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے لئے وہ بہشت ہے.اس لئے مظفر ومنصور ہونے کے بعد مال سے بھی زیادہ جس قربانی کی ضرورت ہے وہ شہو ت کے مقابلہ میں عفت سے کام لینا ہے اور خدا تعالیٰ کی اس کتاب میں اس کو ان لفظوں میں ادا کیا گیا ہے یہاں ایک جامع لفظ رکھا ہے.جن سوراخوں کے ذریعہ شہوت کی آگ تیز ہوتی اور انسان کو بھڑکاتی ہے ان تمام کی حفاظت ضروری ہے کبھی یہ کانوں سے آتی ہے.کبھی باتوں سے اور آنکھوںسے اور بالآخر ان فروج سے اس کی تکمیل ہوتی جو اس کے مظاہر ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ کی مجیدکتاب میں فروج کا لفظ بول کر تمام کی حفاظت ونگہداشت کی تعلیم دی.پس مومن کو چوتھے مرتبہ پر چاہئے کہ حفاظت فروج کرے.ہاں اپنی بیویوں اور مملوکہ پر وہ تمتع اٹھا سکتاہے.جب انسان فروج کی حفاظت کرتا ہے تو اس کے اندر ایک نور پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو بڑھاتا ہے.اس لئے اس پیدائش کے مقابلہ میں ادھر رکھا .
میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ انسان اپنی فروج کی حفاظت سے بڑے نفع اٹھاتا ہے.میں نے ۳۰.۳۲ برس کی عمر میں شادی کی تھی اور میں ان مشکلات سے واقف تھا.اس لئے میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ بچوں کی شادی جلدی کر دو.میں نے اس سمندر کو تیر کر دیکھا ہے اور میں جانتا ہوں کہ کس قدر مشکل ہے.مجھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بچایا.میر ی فطرت میں مطالعہ کتب کا شوق رکھ دیا.اس شوق کی وجہ سے میرا کوئی دوست نہیں بن سکتا تھا کیونکہ میں بناتا ہی نہ تھا.سمجھتا تھا کہ وقت ضائع ہوگا.مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ منزل بڑی سخت ہے.اس لئے تم اگر مومن ہوکر مظفر و منصور ہونا چاہتے ہو تو اپنی فروج کی حفاظت کر و اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ بامراد نہیں ہو سکتا.پانچواں و چھٹا گُر اس کے بعد ایک اور مرتبہ ہے وہ ادائے امانت کا ہے انسان جب ان مدارج سے گزر جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل اس کے شامل حال ہو جاتے ہیں.لوگ امانت کے معنے صرف اموال تک محدود کرتے ہیں مگر مجھے جو اللہ تعالیٰ نے سمجھایا ہے وہ یہی ہے کہ امانت کے معنے ماتحت ، نوکر ، رعایا ، میں اس کے یہی معنے کرتا ہوں.انسان کو چاہئیے کہ اللہ نے جن وجود وں پر اسے حکومت دی ہے اور جن کو اپنے علم کے نیچے اس کے ماتحت رکھا ہے ان سے پاک سلوک کرے اور ان کے دین ودنیا کی بھلائی اور نفع رسانی میں کوشش کرے.ہاں اگر کوئی شخص کسی کے پاس کوئی امانت رکھے تو اس میں خیانت نہ کرے.پھر اس کے ساتھ ہی معاہدات کی رعایت بھی ضروری چیز ہے جب کسی قسم کی حکومت انسان کو ملتی ہے تو اس کے ساتھ ہی معاہدات کا باب بھی کھل جاتا ہے.اس لئے ان دونوں کو ایک ہی جگہ جمع کر کے فرمایا:..معاہدات کی رعایت بڑی بات ہے.میں تمہارے معاہدات کا ایک ورق پیش کرتا ہوں.غور تو کرو تم کہاں تک اس کی رعایت وحفاظت کرتے ہو.ایک تو وہ معاہدہ ہے جو تم میرے ہاتھ پر کرتے ہو.پھر تم ہی میں سے وہ بد بخت بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ خلیفہ کیا چیز ہے بڑھاپے کی وجہ سے ہوش ماری گئی.دیکھو سنو اور یاد رکھو مجھے خدا تعالیٰ نے آپ خلیفہ بنایا ہے اور میں تم میں سے کسی کا بھی
خدا کے فضل سے محتاج نہیں اور میں نے اس سے دعا کی ہے کہ مجھے ارذل العمر کے نتائج سے محفوظ رکھے اور اس نے رکھا ہے.اپنے کلام کا فہم مجھے عطا فرمایا ہے یہ باتیں خدا تعالیٰ کو پسند نہیں ہیں وہ میرے لئے ایک غیرت رکھتا ہے اس واسطے ایسے خیالات سے توبہ کرو.اس نے میرے قویٰ کو ہر طرح سلامت اور محفوظ رکھا ہے (الحمد للہ علیٰ ذٰ لک ) پھر یہ ایک کاغذہے جو میرے ایک دوست نے دیا ہے.اس کی دوکان سے گیارہ سو روپیہ کاقرض لیا اور وقت پر ادا نہیں ہوا جس کی وجہ سے دوکان مشکلات میں پھنس گئی.وہ کہتا ہے سپارش کرو لوگ قرضہ ادا کر دیں.میں تمہیں ایک بات سناتا ہوں لوگ کہتے کہ فلاں شخص نے جنازہ نہیں پڑھا.میں نے پوچھا جس نے پڑھا اس نے کیا پڑھا تو کہا اس کی خبر نہیں.آخر میں نیت خیر کہہ کر چلے آتے ہیں.احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص مر جاتاتو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے کہ اس کے ذمہ قرض تو نہیں اگر کہتے ہے تو کہہ دیتے تم جانو !اور ایک کی بابت کہاکہ اس کے گھر میں مال ہے اور ایک کی نسبت ایک صحابی نے کہا کہ میں اس کے قرضہ کا ذمہ دار ہوں.تو آپؐ نے فرمایا میں تم سے لوںگا اور پھر جب صفیں درست ہوئیں تب پھر آپ نے مکرر اس صحابی کو کہا کہ تم سے لوں گا.جب اس نے مجبوراً اقرار کیا تو جنازہ پڑھا.میری اپنی یہ حالت ہے کہ تم میں سے ایک میرا دوست ہے وہ مجھے علیحدہ ملا اور اس نے مجھے دس روپیہ نذر کئے.میں نے کہا بہت روپیہ مل گئے ہیں تو کہا کہ آپ کی دعا سے کیا پرواہ ہے.اس پر میں نے اس کو کہا کہ تم نے فلاں شخص کے پانچ سو روپیہ دینے ہیں تم ہمارے دوست ہو، مرید ہو اس پانچ سو میں سے یہ دس دے دو لینے والا بھی یہاں ہی تھا.وہ میرے پاس سے اٹھ کر اس کے پاس گیا اور کہا کہ دوسو ابھی لے لو.وہ لے کر دوڑتا ہوا میرے پاس آیا کہ مولوی صاحب تم نے اس کو کہا ہے.غرض میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اس غریب مہاجر سے لیتے ہو تو دیتے کیوں نہیں اس کو ادا کر دو.وہ کہتا ہے میں نے کوٹ خریدے تھے فروخت کے لئے ان کی بھی سپارش کر دو.میںسپارش کرتا ہوں کہ خرید لو.الغرض امانات اور معاہدات کی رعایت کرو.اس سے تمہارے اندر ایک اور کمال پیدا ہوگا.
جیسے نطفہ ترقی کر کے ایک انتہائی نقطہ پر پہنچتا ہے پیدائش جسمانی کے مراتب ستہ گزارنے کے بعد انسانیت کی روح اس کے اندر آتی ہے اسی طرح روحانی تکوین کے ان چھ مدارج کو طے کر کے بھی انسان کامل بنتا ہے اور اس کے مقابل میں کو رکھا ہے.پھر روحانی کمال کا مرتبہ وہی نماز ہے جس سے شروع کیا اور اب اسی پر ختم کر کے کہا جیسے بچہ پیٹ ہی میں سے گزر کر نکلتا ہے اسی طرح پرتم اگلے جہاں تک جانے میں اپنی عمر نماز ہی میں گزاردو اور پانچ وقت کی نماز سنو ار کرپڑھو.یہ فروع ہیں جو میں ایمان پر مترتب سمجھتا ہوں.ان میں سے بعض انسان کے قویٰ اور جسم پر مؤثر ہیں بعض اس کے اموال پر.اس کے ساتھ ہی میں تمہیں کہتا ہوں کہ بد ظنیاں چھوڑ دو بد ظنی بہت بری بلا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (الحجرات:۱۳) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایاکم و الظن ان الظن اکذب الحدیث(صحیح بخاری کتاب الفرائض،باب تعلیم الفرائض) بد ظنی کرنے والا جھوٹا ہوتا ہے.او ر یہ جو کہا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو پھیلایا نہ کرو اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کیا ہے.امن یا خوف کی کوئی بات تم پھیلانے کے مجاز نہیں بلکہ اسے اپنے امیر اور سر گروہ کے پاس پہنچا دو وہ جو مناسب سمجھے گا کرلے گا.دیکھو جس شخص نے اظہار الحق کے دو نمبر نکالے اور جنہوں نے کھلی چٹھی انصار اللہ کے نام شائع کی اور جنہوں نے خلافت کے متعلق مباحثہ کیا ان کا کوئی حق نہ تھا.اس کھلی چٹھی نے تو میرے دل کو کھول دیا.ایسا ہی ایک شخص نے ایک چھپا ہوا کارڈ میرے پاس بھیجا اور پوچھا کہ اشاعت کی اجازت دیتے ہو.میں نے کہا کمبخت تو نے قرآن کے خلاف کیا.چھاپ کر بھیجتے ہو اور پھر اشاعت کی اجازت مانگتے ہو.اس قسم کے لوگ قرآن کے خلاف کرتے ہیں اور وہ قوم میں جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک ہاتھ پر جمع کیا تھا تفرقہ ڈلوانا چاہتے ہیں ان سے بچو.پھر کسی نے کہا گھوڑی سے گرے ہیں، یہ گھوڑی خلافت کی گھوڑی ہے.استقامت میں فرق آگیا.ایسے شریر جھوٹے ہیں خدا نے مجھے اس کا جواب سمجھا دیا ہے وہ لمبا جواب ہے.میں تمہیں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں سے بچتے رہو اور بد ظنیاں چھوڑ دو.آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
کہ جو مومن ان صفات کو اختیار کرتے ہیں وہ کامیاب اور بامراد ہو جاویں گے..اب میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہوں اور تم میں سے جو رخصت ہونا چاہتے ہیںان کے لئے بھی دعا کرتا ہوں.(اوردعاسے پیشتر شیخ رحیم بخش نو مسلم کی کتاب’’آیات بینات‘ ‘کی خریداری کے لئے سپارش کی اور آخر میں لمبی دعا کی جزاہ اللہ احسن الجزاء.) (الحکم ۷،۱۴؍فروری ۱۹۱۵ء صفحہ ۳تا۸) ٭…٭…٭
قرآنِ مجید کا نزول کیو ں ضروری تھا؟ (مطبوعہ ریویو آف ریلیجنز ستمبر۱۹۲۳ء) پہلی ضرورت اللہ تعالیٰ کا وہ فضل ، ارادہ، علم اور قدرت جس سے وہ مخلوق کو پیدا کرتا اور عزت کے لائقوںکو عزت دیتا ہے.اس کی تکمیل اور اس کا پورا ہونا ایک لابدی امر ہے کیونکہ اس کا کوئی مانع نہیں.جب سیدنا نبی عربؐ کو اس نے اپنے خاص فضل اور رحمت سے نبی رسول، رسولوں کا سردار، رسولوں کا خاتم بنایا اور اسے قرآن جیسی پاک کتاب دینی چاہی تو اس قادر مطلق کے فضل وارادہ کا کون مانع ہے.یہ دنیا اور دنیا کے لوگ اس کا ملک اور مِلک ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے ملک کی رعایا پر مختلف جسمانی حکام بنایا کرتا ہے تو کہ ان کاا نتظام دنیا میں کسی قدر امن کو قائم رکھے.روحانی انتظام جسمانی انتظام سے زیادہ ضروری اور توجہ کے قابل ہے اگر دنیا کے انتظام کے واسطے اللہ تعالیٰ نے مختلف ناظم بھیج دیئے تو دنیوی انتظام سے زیادہ دینی روحانی انتظام کے واسطے کئی ناظموں کا آنا ضروری نہیں ؟ دوسری ضرورت جزیرہ نما عرب کے لوگ الٰہیہ مواعظ سے مدت تک محروم رہے.توریت اور انجیل نے عرب کے جیتنے میں کوئی کامیابی نہ دکھائی.بھلا ویدجس کی تعلیم سے ہم آریہ ورتی لوگ باوجود کوشش کے بھی واقف نہیں ہو سکے، کیونکر فائدہ اٹھاتے.تجربہ نے ثابت کر دیا ہے کہ تمام بلاد کے لوگ بیرونی یااندرونی یا دونوں قسم کے معلموں کی تعلیمات کو قبول کرتے اور مان سکتے ہیں اور جیسی جسمانی فتوحات میں بیرونی لوگوں کے محکوم بن جاتے ہیں ویسے ہی روحانی فتوحات میں بیرونی فاتحوں کے ماتحت ہو سکتے ہیں.یورپ ، افریقہ ، امریکہ پر جو اثر شامی مذہب کا پڑا ہے اس سے ظاہر ہے کہ اصل اور پاک عیسائیت درکنار اور سید نا مسیح علیہ السلام کا رسول ماننا کیا یہ لوگ ابن اللہ بلکہ خدا ماننے کو تیار ہیں.ہند، سندھ، افغانستان ، چین کے حالات ظاہر ہیں کہ چین والے تو نہایت کمزور قوم آریہ ورتوں سے
ایک شخص گوتم کی تعلیم ماننے کے لئے بھی تیارہیں اور بلاد کی حالت پر اگر نگاہ کو دوڑائواور افریقہ کی اندرونی اس پھیلائو پر نظر کرو جس میں اسلام سر توڑ اور کچھ عیسائی مذہب ترقی کر رہا ہے تو میری اس عرض کی صداقت پر ناظرین کو کلام نہ ہوگا.تجربہ اور مشاہدہ نے صاف طو ر پر ظاہر کر دیا ہے کہ صرف عرب کے بلکہ قریش اور ان میں بھی حجازی اور اہل مکہ ہی بخصوصیت اس دنیا میں ایسے لوگ ہیں جن پر عام طور سے غیر قوموں کی ظاہری یا باطنی تاثیر نے اثرنہیں کیا (دیکھویرمیاہ کی کتاب ).دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس کے مرکز پر بیرونی حملوں کے زدکا اثر نہیں پہنچا ہم نے ایشیا، یورپ ، افریقہ ،امریکہ ، نیوہالینڈ، نیوزی لینڈ وغیرہ اور ان کی یرو شلم اور پیٹراموں کے معبد ، پارسیوں کے ایرانی آتش کدہ ، بابل ، کانشی جی ، لاسہ ، انطاکیہ وغیرہ کو دیکھ لیا.کسی میں مکہ یا مکہ والوں کی آن نہ دیکھی جب دنیا پر اور دنیا کے ہادیوں پر اور ہادیوں کے جان نثار مشنریوں پر حجت کے طور پر ثابت ہو گیا کہ کوئی بھی عر ب کے مرکز تک راستبازی کو کامل طور نہ پہنچا سکا.جب پہلے اُپدیشکوں اور مشنریوں نے اس قوم عرب کی نسبت یہ کمزوری دکھائی اور ان پر اتمام حجت نہ کر سکے تو اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم نے جو ش مارا اور اس قوم کو محروم نہ رکھا بلکہ وہاں ایسا ہادی پیدا کر دیا اور اسے قرآن جیسی کتا ب دی.جس کی قوی تاثیر نے وہ تمام صداقتیں اور راستبازیاں جو دنیابھر کے ملہموں کے پاس اور پاک کتابوں میں مندر ج تھیں مرکز عرب کو بھی پہنچا دیں اور اس طرح جو الزام دنیا کے راستباز مشنریوں پر تھا کہ انہوں نے اپنا پورا کام نہ کیا یعنی مرکز عرب کو نہ جیتا اس کو اُٹھا دیا اور ان راستبازوں اور راستبازیوں کے بدلہ میں حضرت نبی عرب اور قرآن کریم نے کفایت کی اور راستبازوں کے سچے ارادے کی تکمیل قرآنی ضرورت نے ثابت کردی.ترقی چونکہ بتدریج دنیا میں پھیلتی ہے اس لئے وہ تمام صداقتیں ہمارے سیّد ومولیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طفیل اوّل عرب کے مرکز اور تمام عرب میں پھیلیں پھر اس کے جانشینوں کی وساطت سے اور بلاد میں پھیل رہی ہیں اور امید ہے آہستہ آہستہ تمام دنیا پر اس مجموعہ صداقتوں کی حجت قائم ہو جائے گی.چونکہ تجربہ ،پھر مشاہدہ نے ثابت کر دیا ہے کہ اور لوگوں پر اور ان کے مر کز پر مختلف مشنریوں کا اثر پڑتا رہا
اور ان مشنریوں پر اور ان کے مرکز پر عرب کا اثر پڑ سکتا ہے تو اس نیچر کے تجربہ اور مشاہدہ سے پورا یقین ہے کہ تشریعی نبوت ختم ہو چکی کیونکہ اب کوئی بر اعظم نہیں رہا جس کے عام باشندے ایسے ہوں کہ ان پر کسی قوی الہمۃ مشن کا اثر نہ پڑ سکے بلکہ کل دنیا کا اثر دوسرے پر اور عرب کا اثر دنیا پر ثابت ہو چکا.اب موجودہ دنیا پر ثابت ہو چکا ہے کہ عرب کا درہ مستقل، وفادار ،راستباز مشن قائم ہو تو تمام قومیں اس کی بات ماننے کو تیار ہیں اس مضمون کو قرآن کریم اس طرح بیان فرماتا ہے:..(الانعام:۱۵۶تا۱۵۸) (۲)(البینۃ:۲تا ۴) عرب جو دنیا بھر کو عجم کا خطاب دیتے تھے کیا نہیں کہہ سکتے تھے ہم عجموں گونگوں کی کب مانیں.کس نے عرب کو کاحکم دے کر(آلِ عمران:۱۰۴) کا لقب دیا.(الاعراف:۱۵۹) کس نے کہا.ذرااس کا نشان دو.تیسری ضرورت دنیا میں ہمارے سادات انبیاء علیہم الصلوٰ ۃ والسلام تشریف لائے اور انہوں نے بقدر امکان راستی اور راستبازی کو دُنیا میں پھیلایا مگر ان کے نا عاقبت اندیش اور جھوٹے بلکہ ناسمجھ پیروئو ں نے ان کی پاک تعلیم میں نا فہمیوں کومِلادیا اور اس میں اختلاف مچایا.ہندوئوں نے اللہ تعالیٰ کو معاذاللہ کئی اوتاروں کچھ َمچھ اور سؤر کے اشکال پر دنیا میں آنا اعتقاد کیا.عیسائیوں نے اللہ تعالیٰ کے خاکسار بندے حضرت مسیح علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کو خدا یا خدا کا ازلی بیٹا
یقین کیا بلکہ ان میں رومن کیتھولک نے سیدنا مسیحؑ کی والدہ صدیقہ مریم کو بھی معبود ٹھہرایا.یہودیوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات میں تشبیہ تک نوبت پہنچائی.آریہ بیچارے تو یہاں تک گرے کہ باری تعالیٰ کی ہمہ قدرت سرب شکتیمان ذات کو اپنے پر قیاس کر کے کہہ دیا جیسے بدوں میٹر اور مادہ کے مخلوق میں کوئی شخص کو ئی چیز نہیں بنا سکتا، باری تعالیٰ سے بھی بدوں مادہ کے کسی چیز کا بننا اَسَنْبھواور محال ہے اور اس فاسد قیاس کے باعث کروڑوں کروڑ ذرّات عالم کو غیر مخلوق ، کروڑ کروڑ ارواح کو غیر مخلوق کہہ بیٹھے.ابدی نجات کی سچی طلب ہر سلیم الفطرت کے قلب میں موجود ہے اس کے حصول کے واسطے لوگ کیسے بھول بھولیّاں میں پڑے ہیں.یہود نے تو یقین کر لیا ہم ابراہیمؑ راستباز کے فرزند ہیں صرف اسی رشتہ کے باعث نجات پا جائیں گے جیسے کہتے ہیں.(البقرۃ:۸۱) عیسائی تو ایسی حالت میں جاپڑے کہ اپنی ساری لعنتوں ملا متوں کے بدلہ میں حضرت سید نا مسیح علیہ الصلوٰۃ و السلام کو معاذاللہ ملعون بنا یا.(دیکھونامہ گلتیاں۳باب ۱۳.) اور بعض نے مع بعض آریہ ورتی سادھوئوں کے رہبانیت اختیار کی.آریہ جو گھبرائے اور بھولے تو تناسخ کے قائل ہو کر ابدی نجات کے ہی منکر ہو بیٹھے.اور بعض آریہ ورتیوں نے تو اپنی نجات کے واسطے باری تعالیٰ کو سؤر اور کچھ اور مچھ تک او تار لینے والا مان لیا.ایسے لوگوں کے واسطے ضرور تھا کہ ایک زبردست ملہم والہام آوے جو ان لوگوں کو ان عظیم الشان غلطیوں سے بچاوے یاآگاہ تو کر دے اور وہ ہمارا ہادی اور ہمارا قرآن تھا.جس نے ان بطلانوں کا بطلان فرمایا.غرض ایسی ضرورت کی نسبت فرمایا.(النمل:۷۷) (النحل:۶۵) (الطارق:۱۴،۱۵)
چوتھی ضرورت: اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے دنیا میں آئے اور انہوں نے الہٰی الہام سے لوگوں کو بت پرستی سے روکا.مگر آخر کار لوگوں کی سابقہ بُت پر ستی ہادیوں کی حجت کے ساتھ ایسی ملی کہ ہادی ہی معبود بنائے گئے.دیکھو حالات حضرت سید نا مسیح علیہ السلام اور رام چندر جی اور سری کرشن جی کے.مگر ہادی اسلام نے اس دعوت توحید کو ا س طرح پورا کیا کہ اپنی عبودیت کو الٰہی توحید کا لازمی جزو قرار دیا اور کھول کھو ل کر سنا یا.(حٰم السجدۃ:۷) پانچویں ضرورت: حضرات انبیاء اور اور رسولوں (صلوات اللہ علیہم وسلامہ )کی وساطت او ر ان کے جان نثار پیروئو ں کی کو شش سے صدا قتیں اور راستبازیاں دنیا میں پھیلتی رہیں اور لوگوں کی استعداد اور ترقی مختلف ملکوں میں مختلف وقتوں پر اللہ تعالیٰ نے صداقتوں کے لانے والے راستبازیوں کے پھیلانے والے پیدا کئے مگر ہر ایک ہادی نے جہاں وہ روحانی قوانین اور ضروری جسمانی قاعدے الٰہی الہام سے سکھائے جو انسانی نوع کے لئے مشترک النفع تھے وہاں ہر ایک نبی نے اپنی اپنی قوم کو کچھ قواعد و ضوابط مختص الزمان اور مختص المقام بھی تعلیم کئے.علاوہ بریں ترقی یافتہ قوم جس کو کبھی الٰہی الہام نصیب ہوا آخر وہ الٰہی نافرمانیوں کے باعث ادبار میں آگئی.ان سے الہام کی حفاظت ہی نہ ہو سکی یا وہ لٹریچر اور زبان ہی مر گئی جس میں وہ الہام ہوا تھا یہاں تک وہ قوم ادبار میں پھنسی کہ اس میں اپنے ہادی کے جانشین ملہم اور مقدس لوگ جو اس زبان کو ہمیشہ زندہ رکھیں اور تعلیمات کو مختلف تدابیر سے پھیلا یا کریں ان کا آنا بھی موقوف ہو گیا.جیسے آریہ اور عیسائیوں میں اور ان کے بعد یہودیوں، پارسیوں وغیرہ میں مشاہدہ کیا جاتا ہے اور اس قدیم الہام کی تفاسیر بھی ایسی مختلط ہو گئیں کہ حق کا باطل سے جُدا کرنا محال ہوا اور قوی التاثیر مخلص ملہم جس کو اللہ کی طرف سے تائید ہواس قوم میں پیدا نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ اور قوم کو جو صداقتیں پھیلاوے الہام فرماتا ہے اور اسے قوت بخشتا ہے تمام قرآنی صداقتیں اگر دنیا کی مختلف کتابوں اولڈ ٹسٹمنٹ، نیوٹسٹمنٹ، سقراط کے ملفوظات، چار وید ، ژند ، وستا ، دساتیر وغیرہ سے عبری ، یونانی ، ویدک ، سنسکرت،
دری ، کالڈی ، چین وغیرہ السنہ سے لینی پڑتیں اور ان میں ان کے مفسرین کے غلط خیالات کو الگ کرنا پڑتا تو کیسا مشکل بلکہ محال کام ہوتا پھر اگر کوئی ایسا جان باز ہوتا بھی اور وہ شب و روز کی محنتوں سے کسی حد تک پہنچ بھی جاتا تو اس کو دوسروں کے تسلیم کرانے میں کتنی دقتیں ہوتیں تامّل کرو !جو کچھ کھیتیوں میں سے ہم لاتے ہیں جو لطیف دودھ خون و گوبر کے درمیان سے چار پایوں کی وساطت سے ہمیں ملتا ہے جو لطیف لطیف میوے راحت بخش میوے ہم باغوں سے لاتے ہیں اور وہ نہایت صحت بخش چیز جو شہد کی مکھی کی وساطت سے ہمیں ملتی ہے اگرہم اپنی کیمسٹری آلات کے ذریعہ لینا چاہتے تو کتنی مشقت، پھر غلطی و نافہمی میں مبتلا ہوتے.اللہ تعالیٰ نے تمام تعلیمات کو قرآن میں یکجا جمع کر دیا ہے اور ہمیں مختلف السنہ اور اقسام اقسام کی کتب کے جابجا ایک آسان کتاب پڑھ لینا کافی ہے.الحمد للّٰہ.اب ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ کوئی روحانی صداقت قرآن سے باہر نہیں اسی ضرورت کی طرف قرآن شریف اشارہ فرماتا ہے.(دیکھو پارہ ۱۴ سورۂ نحل رکوع ۱۴)اور اس کے علاوہ (المائدۃ:۴۹)اور فرمایا.(۲)(البینۃ:۲تا ۴) چھٹی ضرورت : جس میں سوال کے اس حصہ کا جواب بھی ہے کہ قرآن میں کیا ایسی صداقتیں بھی ہیں جو مادر کتب میں موجود تھیں.صداقتیں راستباز یاں قرآن کریم سے پہلے بھی دنیا کی مختلف اقوام کے پاس موجود تھیں گو محرف و مخلوط ہی کیوں نہ ہوں مگر پھر بھی وہ صداقتیں صرف دعوے ہی تھے جن کی عوام کو حاجت تھی.علی العموم سابقہ کتب میں ان دعووں کے دلائل موجود نہ تھے اگر کچھ ان دعووں کے دلائل تھے بھی تو پہلی کتابوں میں آنے والے باطلہ مذاہب کی تردید میںمدلل گفتگو کا سامان بخلاف قرآن کے موجود نہ تھا بلکہ یونہی کہئے کہ قرآن ایسی صداقتوں کی جامع کتاب نازل ہوا ہے جس کی جمعیت کے سامنے کسی نئی اور پرانی پستک کو
مقابلہ کی تاب نہیں.میں نے کئی دفعہ تمدن کے ایک ضروری مسئلہ نکاح پر عیسائیوں، سکھوں ، ہندوئوں سے سوال کیا کہ کس رشتہ میں نکاح کی ممانعت ہے اس ممانعت پر کوئی خاص قول جناب سیدنا مسیح ؑ کا یا اس کے رسول بنانے والے کا اپنی کامل کتاب انجیل سے پیش کرو.گورونانک جی کے گرنتھ صاحب سے بتائو.وید کی خالص شرتی سے یا شرتی کے خاص ملہموں کے اقوال سے دکھائو کسی نے بھی آج تک تو کوئی نشان بھی نہیں دکھایا جب ایسے ضروری مسائل پر بھی بحث نہیں تو ہماری کل روحانی ضرورتوں کو کیونکر یہ کتابیں پورا کر سکتی ہیں اور اگر ایسے مسائل میں جن کا ذکر اوپر گزرا برہموئوں یا نیچرلسٹ لوگوں کے قواعد سے کام لینا ہے.تو اپنی کتاب کے کامل ہونے کا دعویٰ مت کرو.غرض اگر صداقتوں کا یکجا جمع ہونا اور ان کا مدلل ہونا عقلاء کے نزدیک کوئی ضروری امر ہے اور ہے تو قرآن کریم کا نازل ہونا بھی ضروری ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ موجود ہے ایک ضروری مسئلہ ہے جس پر قرآن نے یہ دلیل دی ہے.(آل عمران:۱۹۱) اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں.ایک دوسرا مسئلہ ہے اس پر قرآن فرماتا ہے:.ہے:.(الانبیاء:۲۳) قرآن کی کلامِ الٰہی ہونے کی دلیل، فرماتا ہے :.(البقرۃ:۲۴)اور فرماتا ہے:.(بنی اسرائیل:۸۹)اور فرمایا ہے :.(النساء:۸۳)یاد رہے ،اختلاف دو قسم کا ہوا کرتا ہے.اوّل یہ کہ ایک آیت دوسری آیت کے خلاف ہو.دوم یہ کہ کوئی قرآنی مضمون نیچرل فلسفی یا کسی سچے علوم کے خلاف ہو.قرآن میں ہر دو قسم میں سے کسی قسم کا اختلاف نہیں اس تیرہ سو برس میں نیچرل فلسفی کی کتنی سر توڑ ترقی ہوئی مگر کچھ بھی قرآنی بیان کی غلطی ثابت نہ ہو سکی.ہاںعامہ قرآنی دلائل کو تو عامہ علماء اسلام اور متکلمین ملۃ خیر الانام علیہ وآلہٖ الصلوٰ ۃ والسلام بیان کرتے رہے اور کرتے ہیں اور کریں گے مگر
مگر قرآنی آیات بینا ت تو ایسے بھی ہیں کہ ان کی پر زور تاثیرات سے ہمیشہ ظلی طور پر اس قسم کے نمونے اسلام میں پیدا ہوتے رہتے ہیں جو اپنی پاک تاثیرات سے دنیا میں الٰہی سچی توحید او ر اپنی کتاب کے فاضلہ اخلاق کو پھیلایا کرتے ہیں اور غیر قوموں پر مختلف پیرائیوں سے اس الہٰی حجت اور فضل کو پورا کیا کرتے ہیں جن کے لئے ملہموں اور کتابوںکا آنا الٰہی کتاب ماننے والے مذاہب میں ضروری ہے.ہمیشہ ہر صدی میں اس تحریف اور ایزاد اور نقص کو دور کرتے ہیں جو انسانی آزادی کے باعث سچے مذہب میں آجاتی ہے اور ہمیشہ قوم کو جگاتے اور اصل کتاب کو پھیلاتے ہیں.حال ہی کے اہل اسلام کو دیکھ لو کیسے کمزور ہیں ضعیف ہیں مگراپنی کتاب کا درس اس کی اصلی زبان میں کس قدر دے رہے ہیں.عیسائی،آریہ ، پارسی ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھیں اور منہ پر سے پردہ اٹھاویں.لاتزال طائفۃ من امتی ظاھر ین علی الحق (صحیح بخاری ، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لاتزال...) اور ان اللّٰہ یبعث لھذہ الامۃ علٰی رأْس کل مِائَۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا(سنن ابی داؤد ، کتاب الملاحم،باب ما یذکر فی قرن المائۃ )کا مصداق بن کر اسلام کی طرح اپنی صداقت کو کون ظاہر کرتا ہے.عملی حالت پر نگاہ کرو ادھر کوئی اسلام میں شریک ہوا مسلمانوں کا بھائی بن گیا.جماعت اسلام میں شریک کھانے میں ،مصافحہ کا ہاتھ ملانے میں آزاد، قرآن پڑھنے میں قوم کا مساوی مستحق ، مسجد میں غرض ہر امر میں جماعت اسلام کے بادشاہ کا بھی اسلام میں ہم پلہ.یوروپین چرچ میں نیٹو عیسائیوں کے لئے عملی ممانعت، کھانے میں ان کی تحقیر کو ہم ذکر کرکے آریہ کے حالا ت سے چشم پوشی ہی کرنامناسب سمجھتے ہیں کیونکہ آج تک انہوں نے نہ کسی غیر قوم کو وید پڑھایا اور نہ وید کو پڑھا کر اپنے سا تھ بے تکلف ،آریہ کے حقوق میں کسی کو مساوی حقدار کیا.ایسی ہی عملی اور علمی ضرورتوں کے پورا کرنے کے واسطے قرآن نازل ہوا جیسے فرماتا ہے :.(النساء:۱۷۵)اور فرماتا ہے :.(آل عمران:۱۰۴).ساتویں ضرورت: قرآن والی صداقتیں مختلف بلاد ، مختلف کتابوں میں اگر مان لیں پہلے بھی موجود تھیں مگر اول تو ان کتابوں کا غیر محرف ہم تک بہم پہنچنا اور پھر
ان صداقتوں پر نہایت پُر انی بولیوں کے ذریعہ واقف ہونا اور ان کی تفاسیر میں سے غلط کو صحیح سے الگ کرناکیسا مشکل اور محال ہوتا.پھر آخر ان صداقتوں کے مجموعہ کو بھی کسی نہ کسی پیرایہ میں بیان کرنا ہی پڑتا.علاوہ بریں جو ایک پیرایہ میں نہ جانے اسے دوسرے پیرایہ میں بتانا بلحاظ رحم اگر ضروری ہے تو اسی ضرورت پر قرآن نے فرمایا ہے :.(القصص:۴۷)اور فرماتا ہے :.(الشوریٰ:۸).آٹھویںضرورت: جب اللہ تعالیٰ زمین و آسمان اور ان کے درمیان غرض جو انسانی ضرورت کی اشیاء تھیں پیدا کر چکا تو اس نے انسان کو جس کا وجود بقا ان اشیاء پر موقوف تھا پیدا کیا اور اس میں علاوہ ان قویٰ کے جو جمادات، نباتات میں موجود ہیں نیک وبد علوم واخلاق کا مادہ بھی رکھ دیا.علمی حصہ میں انسان ان سوشل ، مارل ، پولیٹیکل قواعد و ضوابط کا محتاج تھا.جن کے باعث اکل، شرب ، لباس، آسائش ، آرام ، جماع ، اور تمدن وامن میں ،ابتداء، انجام ، نشیب وفراز، پھر شائستگی ، آخر ،افادہ واستفادہ ہی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہبی علوم لینے کا حقدار ہو جاتا ہے اور عملی حصہ میں انسان ارادہ استطاعت کو لے کر کبھی باری تعالیٰ سے انس و محبت پیدا کر کے استقلال، استقامت ، فراخ حوصلگی ، نفع رسانی ، عاقبت اندیشی سے ایسا پاکیزہ باطن بنتا ہے کہ ظاہری نجاست کے ساتھ بھی بارگاہِ الٰہی میں مناجات نہیں کرتا ، مگر کبھی انسان شتر بے مہار ، ہر ایک ضرورت میں ناعاقبت اندیش ، رہبان، فرعون ، مضطرب ، تنگدل، بخیل ، ایسا گندہ کہ پاکیزگی کا نام بھی نہ جانے ہو جاتاہے.فطرت کے موافق سچی آرام دہ اشیاء کا نام نیکی اور مخالف اشیاء کا نام بدی ہے مگر رسم ، رواج، آب وہوا ، ناقص تعلیم ، افلاس ، دولتمندی ،حکومت کی بری تاثیرا نسان کو ایسے پھندے میں پھنساتی ہے کہ مخالف اشیاء کو موافق اور موافق کو مخالف سمجھ کر عقل وتمیز کوکھو بیٹھتا ہے.فطری ممیزہ قوت اور نور ایمان اور کانشنس جسے نفس لوامہ کہئے وہ ایک بیج کی طرح ایسے کمزور ہو جاتی ہے کہ اس میں ایجاد کیا تمیز ہی نہیں رہتی.غرض جب ان اسباب سے جن کا ذکر اوپر ہوا تمیز ٹھیک نہیں رہتی تو انسان کو یقینی آرام دہ
مقنّن وممیز کے ملنے کا سوال پیدا ہوتا ہے تب ہمہ قدرت ،ہمہ فضل ، ہمہ طاقت اللہ تعالیٰ جس کے گھر میں بخل نہیں اس کی طر ف سے الہام ہوتا ہے.پھر جو کچھ ایک ملک میں الہام سے سکھایا ممکن ہے دوسرے ملک میں اس الہامی تعلیم کا اثر نہ پھیلے اس لئے دوسری قوموں میں اللہ تعالیٰ ملہم بھیجتا ہے.جیسے فرماتا ہے :.(فاطر:۲۵)اورفرمایا (بنی اسرائیل:۱۶).دنیامیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کو ملہم رسول بھیجے اور ان کو صداقتیں بتائیں اور ان ملہموں کو ان صداقتوں کے پھیلانے کی لو لگادی مگر ان تعلیمات کے پھیلانے میں انبیاء ورسل کو کوئی اور حد بندی نہیں کر دی گئی کہ فلاں مدت تک فلاں ملک تک اس ہدایت کو پھیلائو پھیلانے کا ثواب ملے گا.انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی مقدس روح بھی سُتَنْتَرآزاد بنائی گئی تھی.وہ مجبور نہیں تھی.جب ایک ملہم کے ہدایات وتعلیمات کے پھیلائو میں ظاہری یا باطنی یا دونوںصورت میں کچھ ذرا کمزوری ہوئی اور اس کا پورا اثر اس کی تلامیذ یا قوم یا ملک تک بھی ایسا نہ ہوا جس کے بعد قوم کا عذر نہ رہے تو اور پاک شخص اس عہدہ پر ممتاز کیا گیا.غور کرو حضرت سیدنا مسیح علیہ السلام کی تاثیر کیسی کمزور ثابت ہوئی.جناب کے حواریوں سے فسٹ نمبر کے حواری عیسائی کلیسیا کے فائونڈیشن سٹون سیدنا مسیح علیہ السلام کو ملعو ن کہہ بیٹھے اور جو کچھ یہودا اسکریوطی نے سلوک کیا وہ دنیا سے مخفی نہیں اور جو کچھ روحانیت آپ کی پاک تعلیم سے آپ کی قوم کو حاصل ہے معلوم.سوچو!حضرت سیدنا مسیح علیہ السلام کا وہ قول کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے سے نکلنا اس سے آسان ہے کہ دولتمند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو (متی ۱۹باب ۲۴).اور یورپ وامریکہ کی دنیا داری.سید نا موسیٰ علیہ السلام کے مخاطب ایسے تھے کہ جب ان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر کے آہنی تنور(یرمیا.۱۱باب۴)سے نکال لائے اور حکم کیا کہ کنعان کو چلو تو انکار کر بیٹھے.قرآن کریم اس قصہ کو عبرت کے لئے نقل فرماتا ہے.آخر بدوں یوشعؑ بن نون اور کالب بن یفنہ کے کوئی بھی فرمانبردار نہ نکلا(دیکھو گنتی ۱۴باب۳۰).سبحان اللہ کسی نے بھی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے حکم ماننے میں دلیری نہ دکھائی.وید والے سورج ، وایو ، اگنی ،اگھرہ کتنے ہیں ان کی نسبت کوئی شہادت نہیں دے سکتا.کون تھے
کہاں کے رہنے والے ،کیسے چال چلن کے تھے اور یہ کہ انہوں نے اگر ملہم تھے اور وید سچے الہامات ہیں تو کس قدر ویدوں کا اثر دنیا میں پھیلایا.رہے ان کے جانشین اور جانشینوں کے تعلیم یافتہ.سو موجب دعویٰ آریہ کے قریباً دو ارب برس گزرتے ہیںکہ ویدوں نے دنیا میں ظہور پایا اور اس عرصہ میں وید کے اتباع میں کسی نے ان کا صحیح ترجمہ بھی نہ کر دکھا یا.دوسروں سے کیا اپنے لوگوں سے بھی اخفا کرتے ہیں.رہی یہ بات کہ ویدوں پر عمل درآمد رہا سو آریہ کا چال چلن ہی بتاتا ہے کہ کس قدر وید پر عمل کرتے ہیں.غرض جب کسی نبی کی پاک تعلیم نے دنیا پر اپنا قوی اثر نہ دکھا یا اور نہ اس نبی کے جانشین نے اپنی پاک تعلیمات کو جگت پر ظاہر کیا تو اللہ تعالیٰ کے رحم وفضل نے اور کو یہ عہدہ عطا کر دیا.یہاں تک کہ ایک ایسا آدمی دنیا پر ظاہر ہوا جس نے ان تعلیمات کو پھیلایا اور اشاعت میں جو کسر باقی رہی اس کی تلافی وہ جانشین کرنے لگے.جن کی کرامات وپاک تاثیرات کے اثبات میں علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل(تفسیر الرازی.سورۃ فصلت ’’حٰم السجدۃ‘‘زیر آیت:۳۳تا۳۶) کی پیشین گوئی ہو چکی تھی اور چونکہ الدال علی الخیر کفاعلہ(سنن ترمذی،کتاب العلم ،باب الدال علی الخیر کفاعلہ) کے رو سے جانشینوں کی پاک کوششوں کاثواب ان ہادیوں کے نامہ اعمال میں بھی انصافاًدرج ہوتا ہے اس واسطے یہ سب آپ کی کوششیں ہیں.صلی اللہ علیہ وسلم.روحانی ہدایت وترقی…… مخلوق کے فرد فرد کے لئے کسی مذہب میں ضروری نہیں.امید ہے کہ جس طرح عرب و شام ومصر وروم اور ہند و سندھ، تاتار پر بلا واسطہ یا بالواسطہ حجت قائم ہو گئی اسی طرح تمام دنیا پر حجت قائم ہو جائے گی.جب سب دنیا کو مجموعہ صداقتوں کا پہنچ گیا اور ان پر حجت قائم ہو گئی تو یہ حصہ احکام سنانے کا پورا ہوگیا.ا ب ان کی جزا سزا کا وقت آ جاوے گا اسی ضرورت کی طرف قرآن شریف اشارہ فرماتا ہے.(آل عمران:۱۶۵) (ریویو آف ریلیجنز ستمبر ۱۹۲۳ ء صفحہ ۹تا۱۸) ٭…٭…٭