Khatabat-eMaryam Vol 2

Khatabat-eMaryam Vol 2

خطابات مریم (جلد دوم)

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

اس کتاب میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ معروف بہ حضرت چھوٹی آپا رحمھا اللہ تعالیٰ کی تقاریر و تحریرات کو جمع کیا گیا ہے جو وقتاً فوقتاًالفضل، مصباح اور دیگر جماعتی رسائل میں شائع ہوتی رہیں۔ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ کی لخت جگر، ام المومنین حضرت اماں جان رضی اللہ عنہ کی بھتیجی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زوجیت کا شرف پانے والی اس مقدس ہستی نے احمدی مستورات کی تربیت کی خاطر مختلف مواقع پر جلسوں اور اجتماعات وغیرہ پر تقاریر فرمائیں۔ نیز مرکز سے باہر رہنے والی لجنات کو سالانہ اجتماعات اور اہم جلسوں پر پیغامات بھجوائے تا کہ انہیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی جاسکے۔ قارئین کی سہولت کی خاطر اس مجموعہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: (1)تحریرات ۔( 2) خطابات۔ (3) پیغامات۔ ( 4) نصائح حضرت چھوٹی آپا چونکہ حضرت مصلح موعودؓ سے براہ راست تربیت یافتہ وجود تھیں۔ آپ کی شخصیت، نرم مزاجی، شفقت و محبت اور عجز و انکسار کا عکس آپ کی تقریر و تحریر سے بھی عیاں ہے۔ سادہ و سلیس زبان میں بیان کی گئی نصائح اور ہدایات پڑھنے والوں کے دل میں اترتی محسوس ہوتی ہیں اور یہ نہیں لگتا کہ کوئی بات یا نصیحت آپ پر زبردستی مسلط کی جارہی ہے۔ ملت کا درد اور اصلاح معاشرہ کا عزم آپ کی نصائح میں جابجا پایا جاتا ہے۔ یہ مجموعہ 2جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد میں ابتداء سے لیکر 1972ء تک کاقیمتی مواد شامل ہے، باقی مواد 1973ءتا 1997ءکو جلد دوم میں پیش کیا گیا ہے۔  


Book Content

Page 1

خطابات مریم جلد دوم

Page 2

خطابات مریم تحریرات، خطابات، پیغامات اور نصائح حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ حرم سيدنا حضرت خليفة المسيح الثاني نور الله مرقده جلد دوم $1997- 1973

Page 3

نام کتاب جلد ایڈیشن خطابات مریم دوم اوّل سن تعداد $2011 2000

Page 4

دیباچه حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کی تقایر کا دوسرا مجموعہ آپ کے ہاتھ میں ہے.آپ سیدہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں.جماعت احمدیہ میں چھوٹی آپا کے نام سے معروف تھیں 7 اکتوبر 1918ء میں ایک صوفی منش فنافی اللہ انسان حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جو حضرت اماں جان کے بھائی تھے کے یہاں پیدا ہوئیں.آپ کے والد محترم نے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا.حضرت سیدہ فرماتی ہیں:.اکتوبر 1918ء کو میری پیدائش ہوئی چونکہ اور کوئی پہلے اولا د نہ تھی اس لئے میرے ابا جان نے مجھے ہی خدا تعالیٰ کے حضور وقف کر دیا.اس کا اظہار ابا جان نے اپنے کئی مضامین میں بھی کیا اور جب میری شادی ہوئی تو آپ نے مجھے کچھ نصائح نوٹ بک میں لکھ کر دیں.اس میں آپ نے تحریر فرمایا:.مریم صدیقہ جب تم پیدا ہوئیں تو میں نے تمہارا نام مریم اس نیت سے رکھا تھا کہ تم کو خدا تعالیٰ اور اس کے سلسلہ کے لئے وقف کر دوں اسی وجہ سے تمہارا دوسرا نام نذرانہی بھی تھا.“ (الفضل 25 مارچ 1966 ) اس فنافی اللہ باپ کی خدا تعالیٰ کے حضور شبانہ روز دعاؤں اور گریہ وزاری میں اپنی بیٹی کے وقف کو قبول فرمانے کی تڑپ کا اظہار تھا.ایک نظم جو آپ نے اپنی بیٹی (حضرت سیدہ) کی طرف سے کہی.وہ حضرت میر صاحب کی خواہشات اور حضرت سیدہ موصوفہ کی زندگی کی مکمل عکاسی کرتی ہے.اور احمدی بچوں میں بے حد مقبول ہے.ابھی مجھے سیدھا رستہ دکھا دے مری زندگی پاک و طیب بنا دے مجھے دین و دنیا کی خوبی عطا کر ہر اک درد اور دُکھ سے مجھ کو شفا دے زباں پر مری جھوٹ آئے نہ ہر گز کچھ ایسا سبق راستی کا پڑھا دے

Page 5

گناہوں سے نفرت ، بدی سے عداوت ہمیشہ رہیں دل میں اچھے ارادے ہر اک کی کروں خدمت اور خیر خواہی جو دیکھے وہ خوش ہو کے مجھ کو دعا دے بڑوں کا ادب اور چھوٹوں یہ شفقت سراسر محبت کی پتلی بنا دے بنوں نیک اور دوسروں کو بناؤں مجھے دین کا علم اتنا سکھا دے خوشی تیری ہو جائے مقصود میرا کچھ ایسی لگن دل میں اپنی لگا دے غنا دے ، سچا دے، حیا دے، وفا دے بدی دے ، چھٹی دے، لقا ے، لقا دے، رضا دے وو میرا نام ابا نے رکھا ہے مریم خُدایا تو صدیقہ مجھ کو بنا دے حضرت سیدہ اپنی شادی سے قبل کی زندگی کے بارہ میں تحریر فرماتی ہیں:.یہ سترہ سالہ زمانہ جو میں نے میکہ میں بسر کیا اس کا ایک ایک دن شاہد ہے کہ میری تعلیم وتربیت کرتے ہوئے حضرت ابا جان نے ہر وقت یہی کان میں ڈالا کہ ہر صورت تم نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے.“ سترہ سال کی عمر میں آپ حضرت مصلح موعودؓ کے عقد میں آئیں اس فرض کی ادائیگی پر حضرت میر صاحب تحریر فرماتے ہیں.وو...بہر حال 1935 میں خدا کا بڑا فضل ہوا کہ آخری نذر کو ان کے ایجنٹ 30 یوم دوشنبہ کو آکر میرے ہاں سے اٹھا کر لے گئے میں نے سجدہ ادا کیا.“ (الفضل 3 نومبر 1936 ) اس بابرکت شادی کے موقعہ پر آپ کے والد صاحب نے آپ کو چند نصائح ایک نوٹ بک پر تحریر کر کے دیں.ان کا کچھ حصہ پیش ہے.اب اس نکاح سے مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میرے بندہ نواز.خدا نے میری درخواست اور نذر کو واقعی قبول کر لیا تھا.اور تم کو ایسے خاوند کی زوجیت کا شرف بخشا جس کی زندگی اور اس کا ہر شعبہ اور

Page 6

ہر لحظہ خدا تعالیٰ کی خدمت اور عبادت کے لئے وقف ہے.پس اس بات پر بھی شکر کرو کہ تم کو خدا تعالیٰ نے قبول فرمالیا اور میری نذر کو پورا کر دیا.والحمد للہ...مریم صدیقہ ! خدا تعالیٰ کا شکر کرو کہ اس نے اپنے فضل سے تم کو وہ خاوند دیا ہے جو اس وقت روئے زمین پر بہترین شخص ہے اور جو دنیا میں اس کا خلیفہ ہے.دُنیا اور دین دونوں کے علوم کے لحاظ سے کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.خاندانی عزت اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا ہے اور جس کی بابت ان کی وحی یہ ہے ” فرزند دلبند گرامی ارجمند مظہر الحق والعلا کان اللہ نزل من السماء وہ جلد جلد بڑھے گا.دل کا حلیم سخت ذکی اور فہیم ہو گا.اسیروں کی رستگاری کرے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.فضل عمر بشیر الدین...علوم و ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.وغیرہ وغیرہ.پس تم اپنی خوش قسمتی پر جس قدر بھی ناز کرد بجا ہے.“ اسی تسلسل میں آگے چل کر آپ لکھتے ہیں :.مریم صدیقہ اتم انداز نہیں کرسکتیں کہ حضرت خلیفہ امسیح پر خدمت دین کا کتنا بوجھ اوراس دین کے ساتھ کس قدر ذمہ داریاں اور تفکرات اور ہموم و عموم وابستہ ہیں اور کس طرح وہ اکیلے تمام دنیا سے برسر پیکار ہیں اور اسلام کی ترقی اور سلسلہ احمدیہ کی بہبودی کا خیال ان کی زندگی کا مرکزی نکتہ ہے.پس اس مبارک وجود کو اگر تم کچھ بھی خوشی دے سکو اور کچھ بھی ان کی تھکان اور تفکرات کو اپنی بات چیت خدمت گزاری اور اطاعت سے ہلکا کر سکوتو سمجھ لوکہ تمہاری شادی اور تمہاری زندگی بڑی کامیاب ہے اور تمہارے نامہ اعمال میں وہ ثواب لکھا جائے گا جو بڑے سے بڑے مجاہدین کو ملتا ہے.“ (25 مارچ 1966) آپ سیدہ اس رشتے پر اپنی شکر گزاری کا اظہارا اپنی ایک تحریر میں فرماتی ہیں:.بچن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لئے سب سے پہلے یہ کرم ہے میرے جاناں تیرا ہزاروں درود اور سلام آنحضرت ﷺ پر جن کے طفیل ہمیں دین اسلام کی نعمت حاصل ہوئی اور پھر ہزاروں سلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو اسلام کو دوبارہ لائے اور ہم نے زندہ خدا کا وجود

Page 7

iv ان کے ذریعہ سے دیکھا اور حضور نے پر ان کی وجہ سے ایمان لانا نصیب ہوا اور مجھ پر بھاری احسان یہ ہے کہ اس نے مصلح موعودؓ کے زمانہ میں مجھے پیدا کیا نہ صرف ان کا زمانہ عطا فرمایا اس کی قدرت کے قربان جاؤں اس حقیر ناچیز ہستی پر کتنا بھاری انعام اور فضل کہ مجھے اس پاک و نورانی وجود اس قدرت و رحمت اور قربت کے نشان اور مثیل مسیح کے لئے چن لیا جن کے صحبت سے فیض حاصل کرنے جن کی تربیت میں زندگی گزار نے اور پھر اس عظیم وجود کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائی.خدا تعالیٰ کی کیا شان ہے دینے پر آئے تو جھولیاں بھر کر دیتا ہے میں کیا اور میری ہستی کیا.اللہ تعالیٰ کا یہ اتنا بڑا فضل ہے کہ اس کے احسان اور انعام کا تصور کر کے بھی عقل حیران رہ جاتی ہے.سر آستانہ الوہیت پر جھک جاتا ہے اور منہ سے بے اختیار نکل جاتا ہے.(25 مارچ 1966) میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگہ میں بار اس با برکت رشتہ کے ذریعہ آپ براہ راست حضرت مصلح موعوددؓ کی زیر تربیت آئیں.آپ فرماتی ہیں:.عام طور پر جس عمر میں لڑکیوں کی شادیاں ہوتی ہیں اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میری شادی خاصی چھوٹی عمر میں ہوئی تھی اس لئے بجا طور پر کہ سکتی ہوں کہ میں نے جو کچھ سیکھا اور جو کچھ حاصل کیا 66 اور جو کام بھی کیا وہ حضرت خلیفہ اسی کی تربیت صحبت فیض اور شفقت سے حاصل کیا.“ ( الفضل 25 مارچ 1966) آپ بلا شبہ ان خواتین مبارکہ میں سے تھیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.” خدائے کریم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہوگی....66 (اشتہار 20 فروری 1806ء) 1958ء تا 1997ء آپ 39 سال لجنہ مرکزیہ کی صدرر ہیں آپ نے لجنات کی ترقی کے لئے بیرون ملک و پاکستان کے بے شمار دورے کر کے ان کو منظم کیا.آپ کے بابرکت دور صدارت

Page 8

V میں نصرت انڈسٹریل ہوم وفضل عمر جونئیر ماڈل سکول و جامعہ نصرت میں سائنس بلاک کا آغاز ہوا.الازهار لذوات الخمار حضرت مصلح موعودؓ کے عورتوں سے خطابات ، المصابیح ا حضرت خلیفہ امسح الثالث کے عورتوں سے خطابات کو کتابی صورت میں شائع کروایا.تاریخ نجنہ کی پہلی پانچ جلدوں کی تدوین اور اشاعت کا شاندار کام آپ کے دور میں ہوا.آپ کی بے مثال قیادت میں لجنہ اماءاللہ نے ترقی کی شاندار منازل طے کیں.میں ذاتی طور پر اس بات کی گواہ ہوں کہ آپ کی زندگی کا لمحہ لمہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرتے ہوئے بسر ہوا.آپ نے جو فیض حضرت مصلح موعودؓ سے حاصل کیا اسے تقسیم کرتے ساری عمر گزاری.ایسا لگتا کہ آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ اپنی ذات کے لئے خاص نہیں ہے.جس کا جب دل چاہتا آپ کے گھر آتا.مہمان نوازی اور تواضع میں آپ کو کمال حاصل تھا.لیکن اس میں کسی قسم کا کوئی تصنع اور تکلف نہ تھا.کھانے پر جوموجود ہوتا اس کو شریک طعام کرتیں.جو پکا ہوتا وہ حاضر کر دیا کرتیں.جلسہ سالانہ کے موقع پر دو پہر کے اوقات میں بے شمار خواتین آپ کی طرف کھانا کھاتیں.آپ انتہائی محبت سے سب کی مہمان نوازی فرماتیں خود نمائی بالکل نہ تھی.قرآن کریم سے بے حد محبت تھی.جب تک صحت نے اجازت دی لڑکیوں کو روزانہ صبح قرآن مجید ترجمہ سے پڑھانے کا کام جاری رکھا.جماعت احمدیہ میں عموماً اور خاندانِ حضرت اقدس میں خصوصاً بڑے چھوٹے کی خوشی غمی میں سب سے پہلے شریک ہوتی تھیں.مرے قلم میں تو طاقت نہیں جو کہ آپ کی خوبیاں تحریر میں لاسکوں.آپ کی تقاریر اور تحریرات آپ کی سیرت کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ آپ کی زندگی کالمحہ لمحہ خدا کی راہ میں وقف تھا.خدا کرے کہ ہم سب ان تحریروں سے فیض پانے والے ہوں اور خدا ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 9

vi پیش لفظ خطابات مریم کی جلد اول 2008ء میں شائع کی گئی تھی.اس میں ابتداء سے لے کر 1972ء یعنی لجنہ اماءاللہ کی جو بلی کے سال تک حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کی نقار سری شامل کی گئی تھیں.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے خطابات مریم کی دوسری جلد شائع کی جارہی ہے.اس میں 1973 ء سے لے کر 1997 ء تک کی تقاریر شامل کی گئی ہیں.یہ تقاریر روز نامہ الفضل، ماہنامہ مصباح، لجنہ اماءاللہ کی سالانہ رپورٹس اور دیگر رسائل سے لی گئی ہیں.جلد دوم کو بھی جلد اول کی طرح چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے.(1) تحریرات (2) خطابات (3) پیغامات (3) پیغامات (4) نصائح حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ تو راللہ مرقدھا کی تمام تقاریر اور پیغامات میں نہ صرف ایک قیمتی علمی خزانہ موجود ہے.بلکہ آپ کی شخصیت کا نہایت اعلیٰ روحانی عکس بھی ان میں نمایاں ہے.آپ کی یہ ایمان افروز تقاریر بے بہا معلومات کا ذخیرہ اور لجنہ کی تمام کارکنات و ممبرات کے لیے کارآمد اور مشعل راہ ہیں.یہ تقاریر مرتب کرتے ہوئے 1982 ء کے بعد کا بہت سا مواد لجنہ اماءاللہ کی سالانہ رپورٹس سے خاص طور پر استفادہ کیا گیا ہے.مجموعی طور پر ان تمام مضامین میں حضرت سیدہ چھوٹی آپا رحمھا اللہ تعالیٰ کی علمی و عملی جھلک واضح نظر آتی ہے.وہ خوش نصیب خواتین جنہیں حضرت سیدہ کے زمانہ میں ان کی محبتیں اور پاک مجلسیں حاصل رہیں ان کے لئے تو یہ کتاب دلکش حسیں یادوں کا عظیم خزانہ ہے ہی آئندہ نسلوں کے لئے بھی یہ ایک بیش بہا ذخیرہ ہے.خدا کرے خطابات مریم کی اشاعت لجنہ اماءاللہ کی تمام نمبرات کے لیے مفید راہ عمل ثابت ہو.آمین

Page 10

3 87 611 871 انڈیکس تحریرات خطابات پیغامات زریں نصائح -1 -2 -3 -4

Page 11

فہرست مضامین i فہرست مضامین تحريرات انڈیکس نمبر شمار عناوین سن صفحہ نمبر 1 یاران تیز گام نے محمل کو جالیا 2 ماہنامہ مصباح 3 ماہنامہ مصباح کی ترقی ہر احمدی عورت کا فرض ہے 4 محترمه سراج بی بی صاحبہ مرحومه محترمه استانی میمونه صوفیه صاحبه مرحومه 6 7 8 مکرمہ امتہ الحکیم صاحبہ کلرک ماہنامہ مصباح کی وفات سیده منصورہ بیگم صاحبہ شاندار زندگی.شاندار موت حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ 9 دین کا ناصر 10 ہمارا جلسہ سالانہ اور احمدی خواتین کا فرض 11 وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا 12 میری پیاری بہن حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ 13 حضرت فضل عمر کی اہلی زندگی کی ایک جھلک 14 ناصرات الاحمدیہ 15 ناصرات الاحمدیہ ہمارا مستقبل 16 ہمارا جلسہ سالانہ 17 سیرت حضرت مصلح موعود امام جماعت الثانی کی ایک جھلک 3 1976 9 1976 11 1980 12 1980 14 1980 26 1982 28 1982 37 1982 44 1983 48 1983 50 1987 53 1988 59 1989 67 1989 69 1989 72 1992 75 1995 18 ماہنامہ مصباح کا مبارک آغاز.احمدی مستورات کا واحد آرگن 1996ء 81

Page 12

فہرست مضامین ii تحریرات خطابات 19 خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ 20 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 21 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 22 افتتاحی خطاب جلسه سالانه 23 خطاب تربیت جلسه لجنہ اماءاللہ کراچی 24 خطاب جلسہ سالانہ خواتین 25 خطاب جلسہ سالانہ خواتین 26 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ (مختصر) 27 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 28 خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 29 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 30 خطاب جلسہ سالانہ مستورات 1 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ مرکزیہ 32 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 33 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 34 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ مستورات 87 1973 91 |1973 102 1973 110 |1973 113 1975 122 1975 141 41 19 1976 157 1977 158 1977 160 1977 175 1977 176 1977 189 1978 190 1978 191 1978 192 1978 35 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ مرکزیہ (خلاصه) 1979 36 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 37 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 38 خطاب جلسہ سالانہ مستورات 39 تربیتی جلسہ لجنہ اماءاللہ لاہور 202 1979 216 1979 217 1979 228 1980

Page 13

فہرست مضامین !!! 40 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ مرکزیہ 41 | اختتامی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ مرکزیہ (خلاصه) 1980 42 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 43 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ خطابات 235 1980 237 238 1980 248 1980 249 44 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی بیرونی ممالک سے کامیاب واپسی 1980 پرسپاسنامه 45 خطاب جلسہ سالانہ مستورات 46 خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ضلع شیخوپورہ 47 لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کے تیسرے سالانہ اجتماع پر خطاب 251 1980 265 1981 267 1981 270 1981 273 1981 48 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 49 سيرة حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ( جلہ سالانہ ) 50 فضل عم تعلیم القرآن کلاس کی اختتامی تقریب میں طالبات سے خطاب 1982 51 تاریخ احمدیت لاہور کی اہمیت اور احمدی خواتین کی اہم ذمہ داریاں 1982 2 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ مرکزیہ افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 54 | اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ربوہ 55 الوداعی تقریب 56 ذکر حبیب خطاب جلسہ سالانہ مستورات 57 خطاب ممبرات لجنہ اماءاللہ برمنگھم محمود ہال لندن میں خواتین سے خطاب 59 ممبرات لجنہ اماءاللہ فرینکفرٹ سے خطاب 60 خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ انگلستان 293 298 309 1982 313 1982 326 1982 331 1982 333 1982 354 1983 360 1983 373 1983 379 1983

Page 14

فہرست مضامین iv خطابات 61 جماعت امریکہ کے سالانہ کنونشن میں مستورات سے خطاب 2 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ مرکز یہ افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ مرکزیہ 64 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 65 نئی تہذیب کے بداثرات اور احمدی عورت کا کردار ( جلسہ سالانہ ) 1983 66 ضلعی عہدیداران کے اجلاس کا انعقاد 67 خطاب عہدیداران شہر و اضلاع پاکستان 68 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 69 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 70 دورہ انڈونیشیا 71 دورہ ڈسکہ ضلع سیالکوٹ 72 خطاب از ممبرات لجنہ شاہ تاج شوگر ملز ضلع منڈی بہاؤالدین 73 دورہ ضلع جہلم 74 | دوره اوکاڑہ 75 | افتتاحی خطاب جلسہ کھاریاں 76 اختتامی خطاب جلسہ کھاریاں 77 تربیتی دورہ سیالکوٹ 78 خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ لجنہ ہال کے سنگ بنیاد کی بابرکت تقریب 80 دورہ بہاولنگر 81 دوره ضلع چکوال 82 خطاب ممبرات لجنہ اماءاللہ لندن 385 1983 394 1983 397 1983 398 1983 410 424 1984 426 1984 428 1985 439 1985 447 1986 450 452 1986 454 1986 457 1986 460 1986 463 1986 464 1986 468 1986 473 1987 476 1987 477 1987 479 1987

Page 15

فہرست مضامین V 83 خطاب تربیتی کلاس ناصرات الاحمدیہ جرمنی 84 لجنہ اماءاللہ فرینکفورٹ کی نیشنل اور لوکل عاملہ سے خطاب 85 خطاب ممبرات لجنہ اماءاللہ ڈنمارک 86 دورہ گوجرانوالہ 87 دوره ضلع میانوالی اجلاس ضلعی صدارت 89 دوره نارنگ منڈی ضلع شیخوپورہ 90 دوره فیصل آباد 91 دوره قائد آباد ضلع خوشاب 92 اجلاس ضلعی نمائندگان 93 تقریب سنگ بنیا د دفتر لجنہ اماء اللہ مقامی ربوہ 94 دورہ جہلم 95 خطاب مجلس مشاورت عہد یداران پاکستان 96 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع من سپیٹ ہالینڈ 97 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع نن سپیٹ ہالینڈ 98 خطاب ممبرات لجنہ فرینکفورٹ مغربی جرمنی 99 خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ پاکستان 100 خطاب مقامی اجتماع لجنہ اماءاللہ ربوہ 101 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ پاکستان 102 افتتاحی خطاب مجلس شور می نمائندگان اضلاع پاکستان 103 اختتامی خطاب مجلس شوری نمائندگان اضلاع پاکستان 104 دورہ بھیرہ ضلع سرگودھا خطابات 489 1987 490 1987 494 1987 497 1987 499 1987 501 1987 503 1988 505 1988 507 1988 509 1988 531 1989 532 1989 535 1989 538 1989 540 1989 541 1989 557 1989 559 1990 566 1990 567 1990 568 1990 569 1990

Page 16

فہرست مضامین vi 105 خطاب عہد یداران ضلع فیصل آباد 106 افتتاحی خطاب ضلعی صدارت شہر واضلاع پاکستان 107 اختتامی خطاب ضلعی صدرات شہر و اضلاع پاکستان 108 خطاب ضلعی اجلاس نور پورضلع قصور 109 ضلعی اجلاس لاہور 110 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ پاکستان 111 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ پاکستان 112 جلسه اصلاح وارشاد 113 ایک پر وقار تقریب 114 اجلاس عہد یداران اضلاع ( پنجاب، سرحد ) 115 تقریب تقسیم انعامات 116 | خطاب از عہدیداران لجنہ اماءاللہ ضلع فیصل آباد 117 خطاب نمائندگان مجلس مشاورت لجنہ پاکستان 118 دوره سرگودھا 119 شہر و اضلاع پاکستان کے عہدیداران سے خطاب 120 خطاب نمائندگان مجلس مشاورت لجنہ اماءاللہ پاکستان 121 جلسه کسوف و خسوف ضلع منڈی بہاؤالدین 122 خطاب عہدیداران شہر و اضلاع پاکستان 123 خطاب عہدیداران شہر و اضلاع پاکستان پیغامات 124 پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ.قادیان 125 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.سیرالیون خطابات 571 1990 574 1991 576 1991 577 1991 579 1991 580 1991 581 1991 585 1992 587 1992 592 1992 593 1992 595 1993 596 1993 598 1993 600 1993 601 1994 603 1994 605 1994 607 1995 611 1973 615 1974

Page 17

فہرست مضامین vii پیغامات 126 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ کنری پاکستان 127 پیغام برائے سالانہ جلسہ لجنہ اماءاللہ.امریکہ 128 پیغام برائے سالانہ جلسہ لجنہ اماءاللہ.نائیجیریا 129 پیغام برائے لجنہ ڈے لجنہ اماءاللہ.ماریشس 130 پیغام برائے جلسہ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم.جرمنی 131 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.جرمنی 132 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.گی آنا 133 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.ماریشس 6161975 617 1975 619 1975 620 1975 621 1976 623 1976 625 1976 626 1976 627 1976 134 پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ.قادیان 135 پیغام برائے جلسہ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم لجنہ اماءاللہ.جرمنی 1977ء 628 136 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.کوپن ہیگن ڈنمارک 1977 ء 630 137 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.امریکہ 138 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.سویڈن 139 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.گی آنا 140 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.انڈونیشیا 141 پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ.قادیان 142 پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ قادیان 143 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ قادیان 144 پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ.قادیان 145 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.قادیان 146 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.گیمبیا 147 پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ.کراچی 632 1977 634 1977 636 1977 638 1977 641 1978 643 1979 645 1979 647 1980 648 1980 650 1980 651 1980

Page 18

فہرست مضامین viii پیغامات 148 پیغام برائے ممبرات لجنہ اماءاللہ.سیالکوٹ 149 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.گیمبیا 653 1980 654 1981 150 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ایسٹرن ریجن گھانا مغربی افریقہ 1981ء 656 151 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.گی آنا 152 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.روز ہل ماریشس 153 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.ناروے 154 پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ.ٹورنٹو کنیڈا 155 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.کینیڈا 156 پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ.انگلستان 157 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.لنڈن 658 1982 660 1982 & 662 1982 663 1982 665 1982 667 1982 669 1982 & 158 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ ناصرات الاحمدیہ.ماریشس 1982ء 671 159 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.ماریشس 673 1982 160 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.ویسٹ کوسٹ امریکہ 1982ء 675 161 پیغام برائے سالانہ جلسہ لجنہ اماءاللہ.گیمبیا 162 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.نجی آئی لینڈ 163 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.قادیان 164 پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ.قادیان 165 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.سویڈن 166 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.فرینکفورٹ جرمنی 167 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.انڈونیشیا 168 پیغام برائے سالانہ جلسہ لجنہ اماءاللہ.بانجول گیمبیا 169 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.سویڈن 677 1982 679 1982 680 1982 683 1982 684 1982 686 1982 688 1983 690 1983 691 1983

Page 19

فہرست مضامین ix 170 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.کینیڈا 171 پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ.ماریشس 172 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.ماریشس 173 پیغام برائے سالانہ کنوینشن لجنہ اماءاللہ.ویسٹ کوسٹ 174 پیغام برائے سالانہ جلسہ لجنہ اماءاللہ.نجی 175 پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ.بھارت 176 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنات اماءاللہ.بھارت 177 پیغام برائے کیمپنگ لجنہ اماءاللہ.کینیڈا 178 پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ.ناروے 179 پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ.گیمبیا 180 پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ.ناروے 181 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.ناروے 182 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.سویڈن 183 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.ماریشس 184 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.نجی پیغامات 692 1983 694 1983 696 1983 697 1983 698 1983 700 1983 701 1983 703 1984 705 1984 706 1984 & 708 1984 710 1984 712 1984 714 1984 716 1984 185 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.سینٹ میری امریکہ 1984ء 718 186 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.لیگوس نائیجریا 187 پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ.قادیان 188 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنات اما ء اللہ.بھارت 189 پیغام برائے مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ.امریکہ 190 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.ناروے 191 پیغام برائے سالانہ اجتماع 719 1984 720 1984 722 1984 725 1985 726 1985 728 1985

Page 20

فہرست مضامین X 192 پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ.قادیان 193 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنات اما ء اللہ.بھارت 194 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.نجی 195 پیغام برائے جلسہ سالانہ.گیمبیا 196 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.ہالینڈ 197 پیغام برائے سالانہ کھیلیں لجنہ وناصرات.کینیڈا 198 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.انڈونیشیا 199 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.جرمنی 200 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.روز بل ماریشس پیغامات 730 1985 732 1985 733 1985 735 1985 736 1985 738 1986 740 1986 743 1986 745 1986 747 1986 201 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.گیمبیا 202 پیغام برائے سالانہ جلسہ لجنہ اماءاللہ.گیمبیا 203 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ فینکس 204 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.فرانس 205 پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ.بھارت 206 پیغام برائے پہلا مرکزی سالانہ اجتماع لجنات.بھارت 207 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنات.سیکنڈے نیویا 208 پیغام برائے سالانہ جلسہ لجنات اماءاللہ.امریکہ 209 پیغام برائے جلسہ سالانہ مغربی.جرمنی 748 1986 750 1986 752 1986 753 1986 754 1986 757 1987 760 1987 765 1987 210 پیغام برائے دوسرا مرکزی سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ.بھارت 1987 ء 766 211 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنات.بھارت 212 پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ.گیمبیا 213 پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ.نبی 767 1987 769 1988 770 1988

Page 21

پیغامات 772 1988 774 1988 776 1988 xi فہرست مضامین 214 پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ.مغربی جرمنی 215 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.ڈنمارک 216 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.قادیان 217 پیغام برائے مرکزی سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ.بھارت 1988ء 782 218 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ.اللہ فرانس 219 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ.کیپ ٹاؤن جنوبی افریقہ 220 پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ.یوگینڈا 785 1988 & 787 1988 788 1988 221 پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ.مغربی جرمنی 1988ء 789 790 1988 792 1989 & 794 1989 796 1989 798 1989 802 1989 803 1989 805 1989 807 1989 809 1989 811 1989 813 1989 815 1989 818 1989 222 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.سنگا پور 223 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.انڈونیشیا 224 پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ.جرمنی 225 پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ.آسٹریلیا 226 پیغام بر موقع صد سالہ جشن تشکر 227 پیغام عید تمام بیرونی ممالک 228 پیغام برائے رسالہ النصرت لجنہ اماءاللہ.انگلستان 229 پیغام برائے رسالہ لجنہ اماءاللہ.جرمنی 230 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.ماریشس 231 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.بنگلہ دیش 232 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.ہالینڈ 233 پیغام برائے رسالہ لجنہ اماءاللہ.نائیجیریا 234 پیغام برائے رسالہ النساء لجنہ اماءاللہ.کینیڈا 235 پیغام برائے سونیئر لجنہ اماءاللہ.ناروے

Page 22

پیغامات 821 1989 823 1989 825 1989 827 1989 829 1989 830 1989 832 1989 834 1989 838 1989 840 1990 & 844 1990 848 1991 851 1992 852 1995 871 $ 1973 872 $1973 873 $ 1973 874 * 1974 876 $ 1978 878 $ 1978 xii فہرست مضامین 236 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.کوئٹہ 237 پیغام برائے جشن تشکر لجنہ اماءاللہ.ڈنمارک 238 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.آسٹریلیا 239 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.نجی 240 پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمد یہ.کینیڈا 241 پیغام برائے مجلہ صد سالہ جشن تشکر 242 پیغام برائے جشن تشکر لجنہ اماءاللہ.بھارت 243 پیغام برائے جلسہ سالانہ 244 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ 245 پیغام برائے مرکزی سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.بھارت 246 پیغام برائے مرکزی سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.بھارت 247 پیغام برائے مرکزی سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.بھارت 248 لبنات اماءاللہ جماعت ہائے احمد یہ پاکستان کے نام ایک خصوصی پیغام 249 متفرق پیغامات زریں نصائح 250 جلسه یوم مصلح موعود لجنہ اماءاللہ ربوہ 251 مجلس شوریٰ الجنہ اماءاللہ مرکزیہ 252 دورہ سرگودھا میں ممبرات کو نصائح | 253 دورہ کراچی میں ممبرات کو نصائح 254 دورہ لاہور میں ممبرات کو نصائح 255 کراچی میں تشریف آوری

Page 23

فہرست مضامین 256 تربیتی دورہ راولپنڈی 257 مقامی اجتماع لجنہ اماءاللہ ربوہ xiii 25 لجنہ اماءاللہ راولپنڈی کی پہلی چودہ روزہ تربیتی کلاس پر اختتامی خطاب 1980ء 259 افتتاح پہلی آل پاکستان لجنہ اتھلیٹکس وٹورنامنٹ 260 جلسه لجنہ اماء اللہ دار الصدر شرقی نمبر 1و2 261 افتتاح دوسری آل پاکستان لجنہ اتھلیٹکس وٹورنا منٹ 262 اختتام دوسری آل پاکستان لجنہ اتھلیٹکس وٹورنامنٹ 263 جلسہ یوم مسیح موعود علیہ السلام لجنہ اماءاللہ ربوہ 264 افتتاح تعلیم القرآن کلاس برائے طالبات میٹرک 265 اختتام تعلیم القرآن کلاس برائے طالبات میٹرک 266 دوره اسلام آباد 267 دورہ واہ کینٹ 268 دوسری سالانہ تربیتی کلاس لجنہ اماءاللہ راولپنڈی 269 مجالس عاملہ اسلام آبا د وضلع راولپنڈی سے خطاب 270 دورہ گجرات 271 | دورہ جہلم 272 | دورہ برطانیہ میں ممبرات کو نصائح 273 افتتاح امتہ الحی لائبریری لندن 274 چوتھا آل پاکستان لجنہ ٹورنامنٹ 275 دوره گجرات 276 دوره کنری زریں نصائح 884 $ 1980 887 $ 1980 888 890 $ 1981 891 $ 1981 893 $ 1982 894 $ 1982 895 $1982 896 $ 1982 897 $ 1982 898 $ 1982 899 $ 1982 901 $ 1982 903 $ 1982 905 $ 1982 906 $ 1982 907 4 1983 918 $1983 919 41984 920 $ 1985 923 $ 1985

Page 24

فہرست مضامین 277 انتخاب صدر لجنہ لاہور xiv 278 دوره را ولپنڈی، اسلام آباد، واہ کینٹ 279 جلسه مجالس ضلع فیصل آباد 20 دورہ انڈونیشیا کے دوران مختلف مقامات پر ممبرات کو نصائح 1986ء 281 پانچویں آل پاکستان لجنہ اتھلیٹکس وٹورنا منٹ 282 دوره جھنگ 283 دارالذکر لاہور میں خطا 284 دوره خوشاب 285 | دورہ اٹک 286 متفرق نصائح لجنہ جرمنی 287 نیشنل و لوکل مجلس عاملہ فرینکفورٹ جرمنی سے خطاب 288 افتتاح چھٹی آل پاکستان لجنہ تھلیٹکس وٹورنا منٹ 289 | سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ربوہ 290 | دوره فاروق آباد 291 افتتاح ساتویں آل پاکستان لجنہ اتھلیٹکس وٹورنا منٹ 292 اختتامی خطاب ساتویں آل پاکستان لجنه اتھلیٹکس 293 دوره ضلع جھنگ | 294 افتتاح آٹھویں آل پاکستان بجہ تھلیٹکس 295 دوره را ولپنڈی ، اسلام آباد 296 سویڈن میں آمد زریں نصائح 924 1985 926 1985 927 $1985 928 931 $ 1986 932 $ 1986 933 $ 1986 935 $ 1986 936 $ 1987 937 $1987 942 $ 1987 943 $1987 944 1987 945 $ 1988 946 $ 1988 947 $ 1988 949 $1988 950 1989 951 1989 953 1989

Page 25

فہرست مضامین 297 آل پاکستان لجنہ میچز 298 دوره فیصل آباد xvi 299 ضلعی اجلاس سیالکوٹ بمقام نارووال 300 دوسری سالا نہ کھیلیں ناصرات الاحمدیہ پاکستان | 301 دسویں آل پاکستان لجنہ اتھلیٹکس 302 لاہور میں جلسہ اصلاح وارشاد 303 افتتاح بارہویں آل پاکستان لجنہ تھلیکس 304 افتتاح چودھویں آل پاکستان لجنہ اھلیٹکس وٹورنا منٹ 305 افتتاح پندرھویں آل پاکستان لجنہ اتھلیٹکس 306 افتتاح تربیتی کلاس برائے طالبات میٹرک 307 افتتاح سولہویں آل پاکستان لجنہ تھلیٹکس وٹور نامنٹ زریں نصائح 954 $ 1990 955 $ 1990 956 $ 1991 957 $ 1991 957 $ 1991 958 $ 1992 959 * 1993 960 1995 961 $ 1996 962 $ 1996 963 $ 1997

Page 26

خطابات مریم تحریرات

Page 27

Page 28

خطابات مریم 3 تحریرات یارانِ تیز گام نے محمل کو جالیا 1962ء میں جب میں نے تاریخ لجنہ اماءاللہ کی تدوین کا کام شروع کیا تو میں نے بہت سی پرانی کا رکنات کو خطوط لکھے کہ انہوں نے کب لجنہ اماءاللہ کی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور کہاں کہاں کام کیا؟ اور اعلان بھی کیا.انہیں کارکنات میں سے ایک احمدہ بیگم، بیگم صاحبہ چوہدری بشیر احمد صاحب بھی تھیں جن کی کچھ عرصہ گزرا ، وفات ہوئی ہے.آپ بے حد مخلص اور جذ بہ کے ساتھ کام کرنے والی خاتون تھیں.ظاہری دنیاوی تعلیم کے لحاظ سے آپ کی تعلیم معمولی تھی مگر جو کچھ سنتیں ، مشاہدہ کرتیں اور مطالعہ کرتی تھیں اس سے پورا پورا فائدہ اُٹھا تیں اور دوسروں تک پہنچاتیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے انہوں نے میرا اعلان پڑھ کر مجھے ایک خط لکھا جس میں لجنہ اماءاللہ کے ساتھ اپنی زندگی کے ابتدائی واقعات درج کئے وہ خط میرے پاس محفوظ ہے.انشاء اللہ تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد چہارم میں تفصیل سے تذکرہ آئے گا.ذیل میں ان کے خودنوشت حالات ان کے ہی الفاظ میں تحریر کرتی ہوں.مؤرخہ 17 / جنوری 1962ء کے الفضل اخبار میں’احمدی مستورات متوجہ ہوں“ کا عنوان پڑھا چونکہ بفضل خدا اپنے آقا مصلح موعود کی برکت اور نگاہ کرم کی بدولت خاکسار بھی لجنہ کی خدمات کی خواہش رکھتی ہے بلکہ حتی الوسع کوشاں رہتی ہے اس لئے ممکن ہے کہ آپ کے حکم کی تعمیل اس عاجزہ پر بھی فرض ہوا گر مندرجہ ذیل الفاظ اس غرض کو پورا کرنے میں مد ہوں تو میری خوش بختی ہے.دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ صحیح طور پر خدمت دین کی توفیق عطا کرے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اس نیک ارادے کو جلد از جلد تکمیل دے کر احمدی مستورات پر ایک اور احسان عظیم کرے کہ وہ لجنہ اماءاللہ کی تاریخ کا علم حاصل کر سکیں.اصل حالات تو وہ محترمات سپر د قلم فرمائیں گی جو لجنہ کے قیام کے وقت مرکز سے تعلق رکھتی رہیں.میرا تعلق لجنہ اماءاللہ سیالکوٹ سے شادی کے چند سال بعد 1925ء یا 1926ء میں پیدا

Page 29

خطابات مریم 4 تحریرات ہوا جو احمدی خاندان میں شادی ہونے کی برکت تھی.مجھے بیعت کرنے کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ نے اس لجنہ کی صدر محترمہ سیدہ فضیلت صاحبہ کی تحریک پر عطا فرمائی.اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا کرے.آمین 1931 ء میں بھیرہ ضلع سرگودھا میں اپنے شوہر چوہدری بشیر احمد صاحب کی ملازمت کے سلسلہ میں تعیناتی پر لجنہ اماء اللہ بھیرہ کے قائم کرنے کی توفیق پائی جو اس مبارک سرزمین کی برکت تھی جس سے وہ نور پیدا ہوا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو پھیلانے کیلئے اسم با مسمی ہو کر مسند خلافت کی رونق بنا.اللہ تعالیٰ ہزاروں ہزار رحمتیں دوسرے جہان میں بھی اپنے اس پاک بندے پر فر ما تار ہے.آمین اللھم آمین بھیرہ میں لجنہ کے قیام کو چند ماہ گزرنے پر چوہدری صاحب کے تبادلہ کی وجہ سے مظفر گڑھ جانا ہوا اُس وقت وہاں احمدیوں کی تعداد بہت کم ہونے کی وجہ سے لجنہ اماءاللہ تو کجا جماعت کا ابھی کوئی انتظام نہیں تھا.حتی کہ خاکسا رہنے ایک رسید بک حاصل کر کے احمدی بھائیوں سے چندہ وصول کرنا شروع کیا.عید کی نماز اور زنانہ جلسہ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اپنے مکان پر انتظام کرنے کی توفیق پائی.کم و بیش عرصہ ڈیڑھ سال گزرنے پر تبادلہ کے سلسلہ میں جگا دھری ضلع انبالہ گئی.جس کی آبادی میں اکثریت ہندوؤں کی تھی.ان دنوں ایک حق کے متلاشی ڈاکٹر صوفی صاحب نے بیعت کی توفیق پائی جن کو تبلیغ کرنے میں چوہدری صاحب کو بھی خدا نے حصہ عطا فرمایا.عید کی نماز کیلئے چوہدری صاحب سہارن پور جایا کرتے تھے اس جگہ بھی زنانہ جلسہ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم و پیشوایان مذاہب کا انتظام اپنے ہی غریب خانہ پر کرتی رہی.عیسائی مشن سکول کی پرنسپل و دیگر ہندو بہنوں سے اکثر مواقع تبلیغ کے نصیب ہوتے رہے.1943ء میں جب حضور ہماری روح رواں لجنہ اماء اللہ محترمہ سیدہ ام طاہر صاحبہ اور صاحبزادی ناصرہ بیگم کے علاج کی غرض سے دہلی تشریف فرما ہوئے تو حسن اتفاق سے خاکسار بھی وہیں تھی اور بفضل خدا حتی الوسع لجنہ اماء اللہ دہلی کے کاموں میں حصہ لینے میں کوشاں تھی.ایک روز جب کہ میں سیدہ ام طاہر مرحومہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور لجنہ اماءاللہ دہلی کا ذکر آیا تو حضور نے عاجزہ کے متعلق استفسار فرمایا کہ لجنہ میں کیا کام کرتی ہے؟ غرضیکہ اس موقعہ پر

Page 30

خطابات مریم 5 تحریرات جو زیر ہدایت حضرت اُمّ طاہر احمد صاحب لجنہ دہلی کا انتخاب ہوا تو خاکسار کو لجنہ اماءاللہ دہلی کی خدمت کا موقع عطا ہوا جو میری کسی استعداد کی بنیاد پر نہ تھا.محض میرے آقا حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور میری محسنہ حضرت اُم طاہر کے حسن ظن کا نتیجہ تھا.افسوس صد افسوس کہ میں اپنی قابلِ فخر محسنہ کے جلد ہی طویل علالت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے زیادہ مستفید نہ ہوسکی.اللہ تعالیٰ ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں فردوس بریں میں اُن پر نازل فرمائے اور اُن کی اولاد کا ہر لمحہ حامی و ناصر ہو کر اپنے فضلوں کا جاذب بنائے.مرحومہ کی وفات حسرت آیات کے کچھ دنوں بعد حضور دہلی کے جلسہ مصلح موعود کے موقعہ پر رونق افروز ہوئے تو اپنے کانوں سے خاکسار نے مصلح موعود کا اعلان حضور کے اپنے الفاظ مبارک میں سننے کا شرف پایا.آپ کو یاد ہوگا کہ کس قدر کثیر تعداد میں احمدی اور غیر احمدی مستورات شریک ہوئی تھیں.ایک بڑی تعداد مہمان بہنوں کی تھی اس وقت اپنی ذمہ داری کے فرائض کی اہمیت کو سوچتے ہوئے دل ضرور گھبرایا لیکن اس کا رساز ہستی نے مصلح موعود کی برکت سے جماعت احمدیہ کے حسن انتظام سے ہر عورت اور ہر بچی کو بحفاظت اپنے گھروں تک پہنچا دیا.ہمارے قمر الانبیاء حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے بہ نفس نفیس مستورات کی سواری کا انتظام فرمایا.خاکسار نے بھی اس وقت جب کہ سب بہنیں جلسہ گاہ سے روانہ ہو چکیں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی کوٹھی کا رُخ کیا جہاں حضرت مصلح موعود کی رہائش کا انتظام تھا.وہاں مستورات خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بخیریت پا کر سکون کے ساتھ گھر پہنچی جہاں گھر کے سامنے سڑک پر میرے شوہر چوہدری بشیر احمد صاحب کے بھائی بے حد متفکر انتظار میں کھڑے تھے.غالباً اس واقعہ کے دو تین روز بعد حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ صدر لجنہ کی صدارت میں احمدی مستورات دہلی کا جلسہ میرے غریب خانہ پر منعقد ہوا جس میں آپ نے (مراد عاجزہ ) لجنہ کے فرائض پر تقریر فرمائی.تقسیم پاکستان کا وقت بھولنے والا زمانہ نہیں جب کہ جماعت احمد یہ اپنے آقا کے حکم کی تعمیل میں پاکستان جانے کی تیاریاں کر رہی تھی تو اس جماعت کی عور تیں بھی لجنہ اماءاللہ دہلی کا

Page 31

خطابات مریم 6 تحریرات شیرازہ بکھرتے دیکھ کرحد درجہ غمگین تھیں.غرض کہ ہم احمدی عورتیں یہ عہد کرتے ہوئے دہلی سے پاکستان کے لئے روانہ ہوئیں کہ جہاں بھی قیام نصیب ہو تو اولین فرض اپنے احمدی بھائیوں اور بہنوں کی تلاش کو مدنظر رکھنا ہوگا.جس شام ہم دہلی سے کراچی (پاکستان) پہنچے اسی شام عید کا چاند نظر آیا.اس کے تھوڑی دیر بعد خبروں میں اس مقدس بستی سے جدائی کے اعلان نے ہمارے دلوں کو تڑپا دیا.مغموم صورتیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے عید کی نماز کے فرض کی ادائیگی میں کراچی کے گاندھی گارڈن میں جمع ہوئیں.لجنہ اماء اللہ دہلی کی بچھڑی ہوئی چند ممبرات نے یکجا ہو کر صدر لجنہ اماءاللہ کراچی بیگم صاحبہ چوہدری احمد جان صاحب سے ملاقات کی جنہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے بہنوں کو خوش آمدید کہا.خوش قسمتی سے مجھے گھر بھی حاجی خاں صاحب مرحوم امیر جماعت احمدیہ کراچی کے قریب ہی ملا.ایک دن ان کی بیگم صاحبہ کی وساطت سے صد ر لجنہ کراچی کے ہاں حاضر ہوئی تالجنہ کراچی کے اجلاسوں کے متعلق معلومات حاصل کر سکوں.چند اجلاسوں میں شرکت کی توفیق پائی.ہجرت کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کراچی کی تعداد میں ترقی کی بنا پر ممبرات لجنہ بھی کثیر تعداد کی صورت اختیار کر گئی جس کے لئے کسی بڑی جگہ کی تلاش ہوئی جہاں لجنہ کراچی کے اجلاس ہوسکیں.خوش قسمتی سے میرے غریب خانہ میں ایسا کمرہ تھا جسے یہ برکت نصیب ہوئی کہ چند سال وہاں اجلاس و جلسے ہوتے رہے.صدر لجنہ اماءاللہ کراچی نے لجنہ کراچی کی بڑھتی ہوئی تعداد وضروریات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے دو بچوں کی صحت کی کمزوری کی بنا پر صدارت کے فرائض کی ادائیگی میں معذوری کا اظہار فرمانے پر محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کے زیرانتظام لجنہ کراچی کے عہدہ داروں کا انتخاب عمل میں آیا.محترمہ موصوفہ اُن دنوں کچھ عرصہ کیلئے کراچی میں قیام فرما تھیں لہذا انہیں کے زیر ہدایت جلسے اور اجلاس ہوتے رہے تا وقتیکہ اُن کی مرکزی لجنہ میں واپسی نہیں ہوئی.الغرض پاکستان کے قیام پر لجنہ کراچی کی خدمات کا بوجھ مجھے عاجزہ کے کمزور کندھوں پر پڑا جو صدر لجنہ کراچی کی ذمہ داریوں کی شکل میں ظاہر ہوا اپنی کمزوریوں پر غور کرتے ہوئے اُس

Page 32

خطابات مریم 7 تحریرات قادر کریم ہستی کے حضور دست بدعا تھی کہ وہ اپنے رحم و کرم سے ہر لحاظ سے حافظ و ناصر ہو جس نے میرے آقا مصلح موعود جیسی ذات کو میرے متعلق حسن ظن عطا کیا.یہ محض میرے آقا کی دعاؤں کی برکت ہے جو لجنہ اماءاللہ کی خدمت کا موقعہ مجھ حقیر کو ملا ور نہ میں تو ایک عاجز بشر ہوں اس کے ساتھ بے علم بھی.لجنہ اماءاللہ کراچی بفضل خدا اس وقت ہر آن ترقی پر گامزن ہے جس کے تفصیلی حالات میں صحیح طور پر عرض نہیں کر سکتی.کاش کہ اس وقت کراچی ہوتی.( یہ خط بیگم چوہدری بشیر احمد صاحب نے مجھے ڈھاکہ سے لکھا تھا) اور لجنہ کراچی کے ریکارڈ سے معلومات بہم پہنچا سکتی.سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کلمہ طیبہ پر ایمان لاتے ہوئے حضرت مصلح موعود کی برکت سے مستفیض ہوتے ہوئے اپنے محترم بھائی چوہدری عبداللہ خان صاحب مرحوم امیر جماعت احمد یہ کراچی کے درجات کی بلندی کیلئے دعا گو ہوں میرے محسن کی برادرانہ ذات نے ہر موقع پر مشفق و مونس بن کر کرم فرمایا جو لجنہ کراچی کی ترقی کیلئے بہت بڑی رحمت اور نعمت ثابت ہوا اُنہیں کے حُسن انتظام کی بنا پر بفضل خدا جماعت احمدیہ کراچی کے ہر ذمہ دار فرد نے صحیح رنگ میں تعاون فرمایا اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے.وہ دن بہت بابرکت تھا جب لجنہ اماءاللہ کراچی کو دفتر بنانے کی توفیق ملی اور دفتر لجنہ کراچی کا افتتاح لجنہ اماءاللہ کی اقوال صدر مبارک ہستی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی بہو حرم اؤل حضرت خلیفۃ اسیح الثانی اصلح الموعود حضرت اُم ناصر نے اپنے مبارک ہاتھوں سے فرمایا.اللہ تعالیٰ فردوس بریں میں اعلیٰ مدارج نصیب کرے اور ہزاروں لاکھوں رحمتیں نازل فرمائے.آمین.لجنہ کراچی کے دفتر کے قیام پر جو ترقی عمل میں آئی ہے وہ دفتر کی ضرورت کا ثبوت ہے.یہ خواہش اس عاجزہ کی دیرینہ تھی جو خدا کے فضل سے پوری ہوئی اور مفید ثابت ہوئی.الحمد للہ دفتر کے ساتھ بلکہ اس سے پیشتر ہی جس ضرورت کو ایک بڑی لجنہ کے لئے محسوس کیا وہ عہد یداران کی معاونہ کی ضرورت تھی جس کا فرض ہو کہ وہ وقت پر دفتر کے کھولنے اور بند کرنے اور دیگر عائد کردہ احکام لجنہ مقامی کی پابندی کرے.سو اُس رحمن و رحیم نے لجنہ کراچی کو تو فیق عطا کی کہ مکرمہ مجیدہ بیگم صاحبہ اس کام کے لئے مقرر ہوئیں جو آج تک اپنا فرض ادا کرتی چلی

Page 33

خطابات مریم 8 تحریرات آ رہی ہیں.اللہ تعالیٰ بہتر کام کی تو فیق عطا کرے.لجنہ اماءاللہ کراچی بفضل خدا مرکزی لجنہ کے احکام کی پوری پابندی میں کوشاں رہی اور اپنے کام کی رپورٹ حتی الوسع باقاعدہ مرکز میں پیش کرتی رہی جو لجنہ کراچی کے عہدہ داران کے تعاون کا نتیجہ تھا سب سے پہلے سالانہ رپورٹ چھپوانے کا شرف لجنہ کراچی کو نصیب ہوا.الحمد للہ یہ لجنہ مرکزی مطالبات کو بفضل خدا پورے کرنا اپنا فرض سمجھتی رہی.ہر قسم کے چندہ جات کی ادائیگی میں پیش پیش رہی.چندہ کی وصولی کی مقدار اس کا بہت بڑا ثبوت ہے.لجنہ کراچی کو یہ شرف حاصل ہونے میں صاحبزادی امتہ السلام بیگم صاحبہ کی برکت کا بڑا حصہ ہے انہوں نے لجنہ کراچی کے قیام میں ہر اُس کام کو جو موصوفہ کے ذمہ مقرر ہوا باوجود ناسازی طبع کے نہایت توجہ سے سرانجام فرمایا جو ہم احمدی مستورات کیلئے مشعل راہ بنا.اللہ تعالیٰ ہر دینی و دنیاوی نعمت سے نوازے.آمین مجھے کراچی سے لاہور آئے پورے تین سال گزر چکے ہیں.یہ جدائی واللہ اعلم کیا مصلحت رکھتی ہے.لاہور میں حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ مدظلہ العالی کے حکم کی تعمیل میں حتی الوسع لجنہ لاہور کے فرائض کی ادائیگی میں کوشاں ہوں.میرے لئے لا ہو ر نسبتا نئی جگہ ہے.دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی مشکلات پر قابو پانے کی توفیق عطا کریں تا صحیح طور پر کچھ خدمت دین کرسکوں“.مکرمہ احمدہ بیگم، بیگم چوہدری بشیر احمد صاحب کے ان خود نوشت حالات سے ظاہر ہے کہ آپ کے دل میں خدمت دین کی کتنی بے لوث لگن تھی جو ہماری نئی تعلیم یافتہ نسل کے لئے ایک درس ہے.خدا کرے یہی جذبہ خدمت خلق آج لجنہ اماءاللہ کی ہر کارکن اور ہر احمدی بچی اور خاتون کے دل میں پیدا ہو جائے.اپنی بہنوں کی خدمت میں درخواست ہے کہ وہ مرحومہ کی بلندی درجات کے لئے دعا کرتی رہیں کہ یہی خراج تحسین ہے جو ہم اُن کو دے سکتے ہیں.(ماہنامہ مصباح ستمبر 1976ء) ☆☆

Page 34

خطابات مریم 9 تحریرات ماہنامہ مصباح اس وقت پاکستان میں خواتین کے بہت سے رسالے جاری ہیں لیکن احمدی خواتین کا تر جمان صرف ماہنامہ مصباح ہے گور سالہ با قاعدگی سے جاری ہے مگر جس شان کا یہ رسالہ ہونا چاہئے میں اس حقیقت کے اظہار سے رک نہیں سکتی کہ یہ اس شان کا حامل نہیں.اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اہل قلم اور تعلیم یافتہ خواتین اور بچیاں اس میں دلچسپی نہیں لیتیں.ایک رسالہ کی بقا کے لئے صرف پیسے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا معیار ایسا ہو کہ ایک بار پڑھ کر دوبارہ اس رسالے کو پڑھنے کو دل چاہے.یہ صرف مدیرہ کا ہی کام نہیں کہ رسالہ بھی ترتیب دے ، مضامین بھی خود لکھے یا اس کے لئے لوگوں سے کہے اور پھر اس کی اشاعت کی بھی کوشش کرے بلکہ احمدی اہل علم اور اہل قلم خواتین میں بھی یہ جذ بہ اور احساس پیدا ہونا چاہئے کہ یہ ہمارا رسالہ ہے اور اس کو زندہ رکھنا اور اس کے معیار کو بلند کرنا ہمارا ہی فرض ہے.آئیے مصباح کے ابتدائی دور میں جن خواتین نے اس کیلئے کوشش کی ان کا ذکر بھی ہو جائے تا کہ آپ کو احساس ہو کہ اس زمانہ میں جب کہ تعلیم اتنی عام نہ تھی.آپ سے پہلی خواتین میں آپ سے زیادہ جذبہ تھا کچھ عرصہ کیلئے الفضل میں بھی دو صفحات عورتوں کے لئے مخصوص کئے گئے.احمدی خاتون“ اور ” تادیب النساء رسائل بھی عرفانی صاحب نے جاری کئے جن میں احمدی خواتین کے مضامین شائع ہوتے رہے لیکن وہ کچھ عرصہ کے بعد مالی وسائل نہ ہونے کے باعث بند ہو گئے.احمدی بہنوں میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہوا کہ ایک زنانہ رسالہ کی بہت ضرورت ہے جسے لجنہ اماء اللہ چلائے.ایسے رسالہ کو جاری کرنے کی طرف جن بہنوں نے توجہ دلائی اور الفضل میں اس کے متعلق پر زور تحریک کی ان میں سے مندرجہ ذیل نام سر فہرست ہیں.(1) محترمہ سیدہ ام داؤ د صاحبہ (2) ب ، خ ، ن صاحبہ اور ( 3 ) استانی سکینم صاحبہ اہلیہ قاضی محمد اکمل صاحب.آخر احمدی بہنوں کی کوششیں ثمر آور ہوئیں اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی اجازت سے مصباح جاری ہوا اور اس کا پہلا پرچہ 15 دسمبر 1926ء کو شائع ہوا.

Page 35

خطابات مریم 10 تحریرات 1938ء میں قادیان میں دینیات کلاسز کی درجہ ثالثہ کی طالبات نے جس کی سیکرٹری امتہ السلام اختر تھیں اشاعت مصباح سوسائٹی کے نام سے ایک مجلس تشکیل دی جس میں انہوں نے جہاں ایک طرف مصباح کی اشاعت بڑھانے میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں وہاں اچھے مضامین لکھ کر اس کے معیار میں اضافہ کیا.1947ء میں ملکی تقسیم کے باعث مصباح بند ہو گیا اور 1950ء میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے اپنی نگرانی میں محترمہ امتہ اللہ خورشید مرحومہ کی ادارت میں اس پر چہ کو جاری کر دیا.گویا مصباح کو جاری ہوئے پورے پچاس سال گزر چکے ہیں.ان پچاس سالوں میں تعلیم کا معیار بہت بلند ہوا ہزاروں ہزار خواتین اور لڑکیوں نے اعلیٰ تعلیم اور قابلیت حاصل کی اس کے نتیجہ میں مصباح کا معیار بہت بلند ہو جانا چاہئے تھا.آج میں پھر اپنی بہنوں کو اس طرف توجہ دلاتی ہوں کہ اپنے رسالہ کے لئے ایک بار پھر بھر پور کوشش کریں.فی زمانہ ایک اچھا رسالہ نکالنا واقعی ایک مشکل کام ہے.روپیہ بھی خرچ ہو اور مقصد بھی ہاتھ نہ آئے تو کیا فائدہ.مصباح اس لئے جاری کیا گیا تھا کہ احمدی خواتین جہاں ایک طرف اس کے ذریعہ لجنہ اماءاللہ کی تحریکات اور ہدایات سے واقف ہوتی رہیں گی وہاں یہ رسالہ ان کے گھروں میں علم کی روشنی پھیلائے گا.پس اس کے مضامین ایسے ہونے چاہئیں جو بھی اس پر چہ کو پڑھے اس کے دینی، دنیوی علم میں اضافہ ہو.ہر قسم کے مضامین آپ کو اس کے لئے بھجوانے چاہئیں.مذہبی ،علمی، اخلاقی، معاشرتی ، اقتصادی، تمدنی، گھریلو مسائل کے متعلق خانہ داری ، سلائی ، کشیدہ کاری وغیرہ کے متعلق.دوسری زبانوں سے اچھے مضامین کے تراجم ، بچوں کی تربیت اور معلومات کے متعلق مضامین وغیرہ.اچھی نظمیں اور غزلیں ہوں اپنے ان بزرگوں کے حالات زندگی ہوں جنہوں نے لجنہ اماءاللہ کی خدمات سرانجام دیں.احمدیت کی خاطر قربانیاں دیں.بے مثال زندگی گزاری اور اپنی اولادوں کی اعلیٰ تربیت کی جس کے نتیجہ میں انہوں نے زندگیاں وقف کیں.میں امید کروں گی کہ اپنی بہنوں اور بچیوں سے میری یہ اپیل ضائع نہیں جائے گی اور آئندہ سے وہ خود بھی اس میں دلچسپی لیں گی اور مصباح کے معیار بلند کرنے اور اس کی اشاعت بڑھانے کیلئے پوری جد و جہد کریں گی.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.آمین (ماہنامہ مصباح دسمبر 1976ء)

Page 36

خطابات مریم 11 تحریرات ماہنامہ مصباح کی ترقی ہر احمدی عورت کا فرض ہے مصباح آپ کا رسالہ ہے اس کو جاری ہوئے بہت سال ہو چکے ہیں اس لمبے عرصہ میں اس نے احمدی خواتین کی تربیت میں نمایاں حصہ لیا ہے.اس کو ترقی دینا آپ کا کام ہے جس کی دوصورتیں ہیں.ނ پہلا فرض آپ سب بہنوں کا یہ ہے کہ اس کا معیار بڑھائیں.اللہ تعالیٰ کے فضل.جماعت میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین اور بچیوں کی کمی نہیں ہے لیکن لکھنے کی طرف ہماری بہنیں توجہ نہیں دیتیں.دینی ، علمی ، معاشرتی ، اقتصادی ، عورتوں اور بچیوں کی تربیت کے متعلق مضامین بھجوائیں.عورت کے مختلف مسائل پر لکھیں.خانہ داری طبی امداد، کشیدہ کاری ، سلائی اور نئے فنون کے متعلق لکھیں.ہر بہن کو جو ہنر آتا ہو وہ مصباح کے صفحات کے ذریعہ دوسری بہنوں کو سکھائے اس طرح کوشش کر کے مصباح کو صف اوّل کا پر چہ بنائیں ایسا پر چہ ہونا چاہئے کہ جس گھر میں جائے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے اور عورتیں اور بچیاں اسے یکساں دلچسپی سے پڑھیں.دوسری زبانوں کے مضامین کے ترجمے بھی دیئے جا سکتے ہیں لیکن اُس رسالہ کا نام ضرور لکھیں.دوسرا فرض آپ کا یہ ہے کہ اس کی خریداری بڑھائیں.اگر ہر احمدی گھرانہ میں کم از کم ایک مصباح جائے تو نمایاں خریداری ہو سکتی ہے ہر بہن جو مصباح کی خریدار ہے کم از کم ایک خریدار ضرور بنائے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے کہ سب مل کر رسالہ مصباح کو ترقی دیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ (مصباح مارچ 1980ء)

Page 37

خطابات مریم 12 تحریرات محترمه سراج بی بی صاحبہ مرحومه لجنہ اماءاللہ کی ایک کارکن کی حیثیت سے تمام خواتین سراج بی بی مرحومہ سے واقف تھیں.آپ کی والدہ ہاجرہ بیگم مرحومہ کو خاندان حضرت مسیح موعود میں رہنے اور خدمت کرنے کا موقعہ ملا.حضرت سیدہ ام وسیم مرحومہ کے گھر زیادہ وقت زندگی کا آپ نے گزارا ان کی دو ہی بیٹیاں تھیں.بڑی سراج بی بی صاحبہ اور چھوٹی عائشہ بیگم.سراج بی بی صاحبہ نے مڈل پاس کر کے د مینیات کلاسز میں داخلہ لے لیا اور تین سالہ کورس پاس کرنے والا جو سب سے پہلا پیج تھا آپ اس میں شامل تھیں.آپ کی شادی عبد اللہ صاحب ابن عبدالسمیع صاحب کپور تھلوی سے ہوئی.ایک بچی پیدا ہوئی جو جلد وفات پا گئی.آپ نے اس کی وفات پر بڑے صبر وشکر سے کام لیا کچھ عرصہ بعد دوسری بچی اللہ تعالیٰ نے عطا کی جن کا نام شمس النساء ہے جو خواجہ برکت اللہ صاحب طاہر کی بیوی ہیں.1944ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت مصلح موعود نے لجنہ اماءاللہ مرکز یہ قادیان کو توجہ دلائی کہ وہ با قاعدہ دفتر قائم کریں.کلرک رکھیں تا باہر کی لجنات سے خط و کتابت صحیح رنگ میں ہو سکے تو اس پر سراج بی بی صاحبہ نے اپنے آپ کو اس کام کیلئے پیش کیا.لجنہ اماءاللہ کا فنڈ اس زمانہ میں بہت ہی کم تھا.صرف ہیں روپے ماہوار لجنہ نے آپ کو پیش کئے اور آپ نے اسے قبول کر لیا.بہت محنت ، خلوص سے کام کرتی رہیں.کوئی وقت مقرر نہ تھا اگر سارا دن بھی کام کرنا پڑتا تو کرتیں.1947ء میں ہجرت ہوئی.لاہور آ کر عاجزہ نے سراج بی بی کو بلانے کی درخواست دی.چنانچہ کچھ ہی دنوں کے بعد وہ آ گئیں اور میرے اور حضرت سیدہ اُم داؤد احمد مرحومہ کے ساتھ مل کر رات دن کام میں لگی رہیں.ان دنوں زیادہ کام ہندوستان سے آنے والی خواتین اور گھرانوں کو کپڑے، بستر وغیرہ مہیا کرنا تھا.1945ء سے لے کر 1979 ء تک با وجود صحت بہت کمزور ہو جانے کے کام کرتی رہیں.6 اکتوبر 1979ء کو ان کا آپریشن فیصل آباد میں ہوا جب بھی کام سے فراغت کا ذکر آتا

Page 38

خطابات مریم 13 تحریرات یہی جواب دیتیں کہ اگر مجھے فارغ بھی کر دیا تب بھی یہیں دفتر ہی میں بیٹھی رہوں گی.پورے ایک سال کی علالت کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلا وا آ گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اليهِ رَاجِعُون.میں لجنہ اماءاللہ گوجرانوالہ کے جلسہ میں شرکت کیلئے 5 اکتو بر کو گئی اور اسی دن آپ کی وفات ہوگئی.واپس 6 کو آئی تو ان کی تدفین ہو چکی تھی.مرحومہ میں بہت خصوصیات تھیں.بہت دیندار، نیک ، عبادت گزار تھیں، احمدیت سے محبت تھی ، خلافت سے بے انتہا عقیدت تھی ، کسی قسم کا اعتراض برداشت نہ کر سکتی تھیں ، خود بہت دعائیں کرنے والی تھیں ، حافظہ اچھا تھا، لجنہ کے مرکز میں کام کرنے کی وجہ سے واقفیت بہت تھی.بیرون ربوہ سے آنے والی خواتین کو دفتر لجنہ کے عملہ میں سے سب سے زیادہ پہچانتی تھیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے اور ان کی اکلوتی بیٹی کا اور ان کی اولاد کا حافظ و ناصر رہے.آمین خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ حلى ☆.(مصباح نومبر 1980ء)

Page 39

خطابات مریم 14 تحریرات محترمه استانی میمونه صوفیه صاحبه مرحومه استانی جی مرحومہ کے متعلق میری سب سے پہلی یادداشت اند ز آسات یا آٹھ سال کی عمر کی ہے.میرے ابا جان مرحوم حضرت میر محمد اسماعیل صاحب سال میں ایک دفعہ چھٹی لے کر قادیان کچھ عرصہ گزارہ کرتے تھے میں غالباً تیسری جماعت میں پڑھتی تھی.حضرت ابا جان سب کو لے کر قادیان آئے اور مجھے سکول داخل کر دیا تا کہ پڑھائی کا حرج نہ ہو.قادیان کا سکول ان دنوں مدرستہ البنات کہلاتا تھا.دو منزلہ عمارت تھی.استانی میمونہ صاحب پڑھایا کرتی تھیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی صاحبزادی امتہ الحمید بیگم صاحبہ بھی اسی کلاس میں تھیں.پہلے دن ہی استانی جی نے مجھے اپنے گھٹنہ پر بڑے پیار سے بٹھایا اور دوسرے گھٹنہ پر امتہ الحمید کو بٹھالیا اور کہا کہ دونوں دوستی کر لو اور مل کر پڑھا کرو.ایک ڈیڑھ ماہ ہم قادیان رہ کر واپس چلے گئے.اس کے بعد مجھے اُستانی جی سے ملنا یا دنہیں.جلسہ سالانہ پر آتے بھی تو دور دور سے دیکھا ہوگا.1932 ء میں میں نے مڈل کا امتحان پاس کیا تو حضرت ابا جان نے مجھے رہتک سے قادیان بھجوا دیا تا میں اپنے نانا ابا مرزا محمد شفیع صاحب مرحوم کے گھر رہ کر گرلز ہائی سکول میں داخل ہو کر تعلیم حاصل کروں اور سکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کروں.قادیان کا سکول اس وقت ہائی ہو چکا تھا اور اس کی ہائی کلاسز چوہدری غلام حسین صاحب مرحوم کے مکان میں جو حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے مکان کے بالکل ساتھ ہے میں جاری کی گئی تھیں.میرے لئے میری سب ہم جماعتیں نئی تھیں.میری دوستی جاتے ہی حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی بیٹی امتہ الودود اور استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کی بیٹی صادقہ سے ہوگئی اور جب تک تعلیم جاری رہی سکول میں تینوں اکٹھے پڑھتے.صادقہ کی وجہ سے استانی جی کے گھر اکثر جاتی تھی اور وہ مجھ سے بیٹیوں کی طرح پیار کرتی تھیں.سکول میں طالبات کی تربیت میں سب سے زیادہ اور نمایاں کردار استانی جی کا تھا کسی کی ذراسی بھی بُری حرکت برداشت نہ کر سکتی

Page 40

خطابات مریم 15 تحریرات تھیں.اسی وقت ٹوک کر اصلاح کر دیتی تھیں.سکول میں ظہر کی باجماعت نماز استانی جی پڑھاتی تھیں.حضرت مسیح موعود کی کتب کے امتحانات نظارت تعلیم کی طرف سے ہوتے تھے تو استانی جی سب مڈل اور ہائی کی طالبات کو بٹھا کر کتاب پڑھایا کرتی تھیں اور جب نتیجہ نکلتا تو اُن کی پڑھائی ہوئی طالبات کے نمبر خودان سے زیادہ ہوا کرتے تھے.قرآن مجید سے عشق تھا بہت خوش الحانی سے بلند آواز سے تلاوت فرمایا کرتی تھیں.مگر پڑھتے پڑھتے جذبات پر قابو نہ رہتا تھا آواز بھرا جایا کرتی تھی.سینکڑوں لڑکیوں کو آپ نے ناظرہ اور ترجمہ پڑھایا.جب میں نے تاریخ لجنہ مرتب کی تو استانی جی نے فرمایا کہ 1918ء میں مدرسۃ البنات خاں صاحب مولوی فرزند علی خاں صاحب مرحوم کے مکان میں منتقل ہوا اور اسی سال سے آپ نے اس سکول میں پڑھانا شروع کیا.مزید کہا کہ ۱۹۱۹ ء سے لے کر آخر تک یعنی جب تک ان میں طاقت رہی انہوں نے ہر جلسہ سالانہ میں شرکت کی.1922 ء میں حضرت مصلح موعود نے لجنہ اماءاللہ کی بنیاد رکھی اور چودہ ممبرات سے ایک کا غذ پر ممبر بننے کے لئے دستخط کروائے گئے بارہویں نمبر پر آپ کا نام یوں درج ہے.(12) جناب میمونہ خاتون صوفیہ اہلیہ مولوی غلام محمد صاحب (احمدی خاتون سلسلة الجدید جلد نمبر 1 صفحہ 6) جو عہد کام کرنے کا آپ نے 1922ء میں باندھا وہ آخر وقت تک نبھایا.صحت خراب ہونے کے باعث آپ کے پاس کوئی عہدہ نہ رہا مگر کوئی نہ کوئی کام کرتی ہی رہتیں.آنے جانے اور ملنے والیوں کو چندوں کی ادائیگی کی طرف ہی توجہ دلا دیتیں.یہ چودہ ممبرات بنیاد تھیں لجنہ کی اور گویا اسے پہلی مجلس عاملہ بھی کہا جا سکتا ہے.ان میں سے ہی عہدہ دار چنی گئیں.حضرت سیدہ ام نا صر مرحومہ پہلی صدر اور حضرت سیدہ امتہ الحی پہلی سیکرٹری چنی گئیں اور استانی میمونہ صاحبہ کے ذمہ چندہ کی وصولی کا کام سپرد کیا گیا.گویا آپ سب سے پہلی سیکرٹری مال تھیں.1961ء تک سیکرٹری مال رہیں.سیکرٹری مال کے علاوہ قادیان کے محلہ دارالفضل میں بھی کام کیا ہے لجنہ مرکزیہ کی انسپکٹرس بھی رہیں.سٹور بھی چلایا ہے اور لجنہ مرکزیہ کی ہدایت کے متعلق لجنات

Page 41

خطابات مریم 16 تحریرات کے دورے بھی کئے ہیں.خواتین کے جھگڑے ہونے پر بہت سے امور کے تصفیہ کے لئے بھی آپ کو مقرر کیا جاتا رہا اور آپ بہت دانش مندی سے معاملات سلجھا دیا کرتی تھیں.بحیثیت سیکرٹری مال آپ کی گہری نظر ایک ایک پیسہ پر ہوتی تھی اور آپ کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ ایک پیسہ بھی ضائع نہ ہونے پائے.جب کسی خرچ کا سوال لجنہ کے اجلاس میں پیش ہوتا آپ کو منوانے کیلئے خاصی بحث کرنی پڑتی تھی.جلسوں کے ہنگامی کاموں میں آپ بہت کامیاب رہتی تھیں.آواز بلند تھی اعلان کرنا اکثر آپ کے سپرد ہوتا تھا.لجنہ اماءاللہ کے قیام کے بعد بحیثیت لجنہ اماءاللہ پہلی ذمہ داری لجنہ اماء اللہ کی مبرات پر جلسہ سالانہ کے انتظامات کی حضرت مصلح موعود نے ڈالی جسے انہوں نے احسن طور پر نبھایا.1922ء کے جلسہ سالانہ پر آپ نائبہ منتظمہ سٹیج و جلسہ گاہ تھیں.( تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 85) استانی جی کی ابتدائی تعلیم معلوم نہیں کیا تھی لیکن 14 مارچ 1925 ء کو احمدی خواتین کی اعلیٰ تعلیم کی خاطر اور اس غرض سے کہ اچھی استانیاں نصرت گرلز سکول کو میسر آ ئیں حضرت مصلح موعود نے مدرستہ الخواتین جاری فرمایا جس میں خود حضور بھی تعلیم دیا کرتے تھے اس میں جو طالبات داخل ہوئیں ان میں استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کا نام گرامی بھی شامل تھا.( تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 154) استانی جی نے 1930ء میں مولوی کا امتحان پاس کیا معلوم ہوتا ہے کہ شروع سے ہی آپ اچھی تقریر کر لیتی تھیں کیونکہ مدرستہ الخواتین کی رپورٹ بتاتی ہے کہ طالبات کو تقریری مشق کروانے کیلئے جو مجلس بنائی گئی آپ اس کی سیکرٹری منتخب ہوئیں.( تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 163) 1928ء کی مجلس مشاورت جو 6 ، 7، 8 اپریل کو منعقد ہوئی قادیان میں زنانہ ہوسٹل کھولنے کا معاملہ زیر بحث لایا گیا.بہت سے احباب نے اس بحث میں حصہ لیا.ان سب کی سن کر حضرت مصلح موعود نے فرمایا: وو یہ معاملہ جو اس وقت پیش ہے اس کا بہت بڑا تعلق عورتوں سے ہے اور میرے نزد یک وہ مستحق ہیں کہ ان کی رائے بھی ہم اس کے متعلق سنیں....اس خیال سے کہ انہیں یہ شکایت نہ ہو کہ انہیں بولنے کا موقعہ نہیں دیا گیا.میں انہیں موقع دیتا ہوں اگر

Page 42

خطابات مریم 17 تحریرات کوئی بولنا چاہے تو بولے“.چنانچہ حضور کی اجازت ملنے اور باہمی مشورہ کرنے کے بعد مکرمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے عورتوں کی طرف سے رائے کا اظہار کیا.( تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ 220، 221 ) پھر دوسری بار 1929ء کی شوریٰ میں عورتوں کو حق نمائندگی ملنے کی تجویز زیر بحث لائی گئی اس موقع پر حضرت مصلح موعود نے پھر عورتوں کو بولنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ جو چاہیں بول سکتی ہیں اس پر استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے حسب ذیل تقریر کی.سید نا وامامنا السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ میں صرف اتنا پوچھنا چاہتی ہوں جب ہمارے لئے درس گا ہیں اس لئے کھولی جا رہی ہیں کہ ہم علم حاصل کر کے تبلیغ اسلام کریں تو کیا یہ بات ہمارے لئے سدِ راہ نہ ہوگی کہ قوم ہمارے لئے فیصلہ کر دے کہ عورتوں کو مجلس مشاورت کی نمائندگی کا حق حاصل نہیں جب ہم عورتوں کے سامنے اپنے خیالات پیش کریں گے تو وہ یہ جواب دیں گی کہ تمہارے مذہب نے تو تمہارے لئے مشورہ کا حق بھی نہیں رکھا اس لئے تمہاری بات ہم نہیں سنتیں“.( تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 219) جلسہ سالانہ کا جہاں تک ریکارڈ محفوظ ہے.سب سے پہلی تقریر آپ نے 1918ء کے جلسہ سالانہ پر کی تھی.( تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ 230 ) لجنہ اماءاللہ امرتسر نے اپنا سالانہ جلسہ 7 / دسمبر 1929ء کو منعقد کیا جس میں قادیان سے استانی میمونہ صوفیہ صاحب بھی لیکچر دینے کیلئے گئیں.( تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 251) 1933 ء سے قریباً ہر جلسہ سالانہ پر استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے تقریر کی.شروع 1935ء میں مخالفت کا زور تھا اور ہر طرف سے مخالفین فتنہ اور شرارت پھیلا رہے تھے.ہفتہ کے دن حضرت مصلح موعود عورتوں میں قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے.درس کے دن عورتوں کا بہت ہجوم ہوتا تھا لجنہ نے فیصلہ کیا کہ حفاظت کے خیال سے ایسی عورتیں مقرر کی جائیں جو کسی اجنبی یا مشتبہ عورت کو قریب نہ بیٹھنے دیں.چنانچہ جن خواتین کو مقرر کیا ان میں سے ایک استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ بھی تھیں.اسی طرح درس القرآن جو حضرت مصلح موعود مستورات میں فرماتے

Page 43

خطابات مریم 18 تحریرات تھے اس کے نوٹ لینے کے لئے بھی جو خواتین مقرر کی گئیں ان میں سے ایک استانی جی مرحومہ بھی تھیں.1935ء میں استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے لجنہ کے اجلاس میں یہ تحریک کی کہ نصرت گرلز سکول میں لڑکیوں کے وضو کرنے کا کوئی انتظام نہیں حوض اور ٹوٹیوں کیلئے لجنہ نے چندہ دیا.تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 357) 1936ء میں قادیان میں محلہ وار لجنہ کا قیام ہوا اور مرکزی عہدیداروں میں استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ منتظمہ بیعت مقرر ہوئیں اور جب تک صحت رہی عورتوں کی جلسہ سالانہ کے موقعہ پر بیعت کرنے کا انتظام ان کے ہی سپر در با نیز محلہ دارالفضل کی سیکرٹری بھی مقرر ہوئیں.اسی سال حضرت مصلح موعود نے لجنہ اماء اللہ قادیان کے جلسہ میں تقریر فرمائی اور مستورات کو دستکاری سیکھنے اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی نصیحت فرمائی.چنانچہ حضور کی ہدایات کے مطابق دستکاری کا کام بھی بڑے پیمانہ پر شروع کر دیا گیا.دستکاری کا کام حضرت سیدہ اُم طاہر کی نگرانی میں ہوتا تھا سامان استانی میمونہ صاحبہ خرید کر لایا کرتی تھیں.یہ کام 1940ء تک جاری رہا.پہلے بھی ذکر آچکا ہے کہ شعبہ مال کا کام استانی جی کے سپر د تھا.علاوہ لجنہ کے چندوں کے تحریک جدید کا چندہ بھی آپ بڑے خلوص اور لگن سے جمع کیا کرتی تھیں اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ اپنے محلہ کی فہرست سب سے پہلے پیش کریں اور اضافہ کے ساتھ جس پر فنانشل سیکرٹری تحریک جدید اور خود حضرت مصلح موعود کی طرف سے بار ہا اظہار خوشنودی ہوا.1939ء میں خلافت جو بلی منائی گئی اس موقع پر جماعت احمدیہ کا جو جھنڈا بنا اس کا سوت جنہوں نے کا تا ان خوش قسمت بزرگ خواتین میں محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کا نام بھی ہے.1939 ء میں حضرت مصلح موعود نے تحریک جدید کی وصولی کرنے اور مطالبات تحریک جدید کی اہمیت واضح کرنے کیلئے اپنے خطبہ جمعہ 30 جون میں فرمایا کہ 15 اگست کو تحریک جدید کے جلسے کئے جائیں چنانچہ ہر جگہ لجنہ نے بھی جلسے کئے اور مرکزی لجنہ قادیان کے جلسہ میں جو 24 / جولا ئی کو منعقد ہوا استانی میمونہ صوفیہ نے تقریر کی اور اپنے پُر جوش انداز میں بہنوں کو تحریک جدید میں حصہ لینے کی

Page 44

خطابات مریم 19 طرف توجہ دلائی.(الفضل 26 جولائی 1939ء) تحریرات خلافت جو بلی کے موقعہ پر جب مستورات کے جلسہ میں حضرت مصلح موعود نے تشریف لا کر جھنڈا لہرایا تو استانی جی صاحبہ نے عورتوں میں نعرے لگوائے.یکم مارچ 1940ء کو لجنہ اماءاللہ قادیان نے نور ہسپتال قادیان کے لئے چندہ جمع کرنے کیلئے جلسہ کیا جس میں استانی میمونہ صاحبہ نے چندہ کی تحریک کی.1942ء میں حضرت سیدہ اُم طاہر مرحومہ صدر لجنہ منتخب ہو ئیں تو نئی مجلس عاملہ میں بھی آپ سیکرٹری مال مقرر ہوئیں.( تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 496) نیز محلہ دار الفضل کی لجنہ کی صدر بھی.1944 ء میں حضرت مصلح موعود نے جماعت سے سلسلہ احمدیہ کے لئے اپنی جائیدادیں وقف کرنے کا مطالبہ فرمایا چند گھنٹوں کے اندر قادیان کے اصحاب نے 40 لاکھ روپے کی جائیداد میں وقف کر دیں.ان وقف کرنے والیوں میں استانی جی بھی شامل تھیں.آپ نے اپنے ذاتی مکان کا 4/ 3 حصہ وقف کر دیا.1946ء میں الیکشن کے سلسلہ میں تعلیم بالغاں کی مہم شروع کی گئی اور کوشش کی گئی کہ قادیان کی ہر احمدی عورت خواندہ ہو جائے اس سلسلہ میں بھی استانی میمونہ صاحبہ نے نمایاں خدمات سرانجام دیں.حضرت سیدہ اُم داؤد کی زیر نگرانی قادیان اور اس کے گردو نواح میں دورے کئے.پڑھنا لکھنا سکھایا اور کام کی نگرانی کی.جلسہ سالانہ پر تقریر کرنے کے علاوہ 1944 ء کے بعد سے ہر سال جلسہ مصلح موعود میں بھی آپ تقریر فرمایا کرتی تھیں اور جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک اجلاس میں تو آپ تلاوت قرآن کریم ضرور کرتی تھیں.اسی طرح سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، یوم خلافت کے جلسوں میں بھی اور لجنہ کے تربیتی جلسوں میں بھی آپ کی تقریر ضرور ہوتی تھی.1947ء میں ملک تقسیم ہوا قادیان سے ہجرت کر کے احمدی پاکستان پہنچے مکرمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کی بیٹی ان دنوں کراچی تھیں آپ قادیان سے آ کر اپنی بیٹی کے پاس کراچی تشریف لے گئیں اور لجنہ کراچی کی تنظیم کی ، ملک کی تقسیم کی وجہ سے ہندوستان کے مختلف علاقوں

Page 45

خطابات مریم 20 20 تحریرات سے احمدی بھی ہجرت کر کے کراچی پہنچے تھے اور وہاں احمدی خواتین کی تعداد پہلے سے نمایاں زیادہ ہو چکی تھی.چنانچہ 17 ستمبر 1947ء کو ایک جلسہ مکرمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کی زیر صدارت محترمہ بیگم صاحبہ چوہدری بشیر احمد صاحب کی کوٹھی پر ہوا اس میں نئے انتخابات ہوئے.محترمه استانی میمونہ صاحبہ کو صدر منتخب کیا گیا اور محترمہ بیگم صاحبہ چوہدری بشیر احمد صاحب نائب صدر مقرر ہوئیں.محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ چونکہ عارضی طور پر کراچی میں مقیم تھیں اس لئے استانی جی کی نگرانی میں بیگم صاحبہ چوہدری بشیر احمد صاحب نے کام سیکھا اور استانی جی صاحبہ نے نہایت شفقت سے لجنہ کراچی کی تربیت اور راہ نمائی فرمائی.( تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ 45) 20 فروری 1948ء کو لجنہ کراچی نے زیر صدارت محترمه استانی میمونه صوفیه صاحبه جلسه مصلح موعود منعقد کیا.چند ماہ بعد نصرت گرلز سکول کا لا ہور رتن باغ میں چھوٹے پیمانہ پر اجراء کر دیا گیا اور پھر ربوہ کی زمین خریدنے پر 25 اپریل 1949 ء کور بوہ میں کچی عمارت میں سکول جاری ہو گیا تو استانی جی صاحبہ کراچی سے تعلیم دینے کیلئے پھر حاضر ہوگئیں.چنانچہ 1949ء کی جو مجلس عاملہ مرکز یہ بنائی گئی اس میں پھر استانی میمونہ صاحبہ سیکرٹری مال مقرر کی گئیں اور 1961ء تک اسی سے عہدہ پر رہیں.اس کے بعد آپ کو محاسبہ کا عہدہ دیا گیا جس میں آپ نے 1961 ء.1963 ء تک کام کیا.20 فروری 1949ء کو لاہور میں جلسہ مصلح موعود بہت بڑے پیمانہ پر منعقد کیا گیا اس وقت تک استانی جی صاحبہ لا ہور آ چکی تھیں اور اس جلسہ میں آپ نے بھی تلاوت قرآن کریم کی.ربوہ آباد ہونے پر وہ خواتین جن کے خاوند قادیان میں تھے ان کے لئے دارالخواتین کا انتظام کیا گیا اس کی نگرانی جن خواتین نے کی ان میں بھی استانی جی کا نام شامل ہے.31 مئی 1950ء کو لجنہ اماءاللہ کے دفتر کی بنیا د رکھی گئی لجنہ اماءاللہ کی کارکنات نے بھی بنیاد میں دعا کے ساتھ اینٹیں رکھیں مکرمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے بھی صحابیہ اور کارکن لجنہ ہونے کی حیثیت میں ایک اینٹ رکھی.25 مئی 1950 ء لجنہ مرکزیہ کی طرف سے لجنہ اماءاللہ فیصل آباد کا دورہ کیا گیا.عاجزہ

Page 46

خطابات مریم 21 تحریرات کے ساتھ استانی جی بھی تشریف لے گئیں.بیت الذکر احمد یہ فیصل آباد میں لجنہ کا جلسہ ہوا.آپ نے بھی تقریر کی.1951ء میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے مختلف شہروں میں اپنے وفود بھجوائے ہر وفد میں استانی میمونہ صاحبہ شامل تھیں.آپ نے وہاں جا کر عورتوں سے خطاب بھی کیا اور تبادلہ خیالات بھی.12 / جولائی 1954ء کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرف سے کپاس کی تین بوریاں لجنہ مرکزیہ کے سپرد کی گئیں تا کہ ایک اور لوائے احمدیت کی تیاری کیلئے اس میں سے بنولے الگ کریں اور روئی الگ.یہ کپاس ڈیڑھ من تھی چنانچہ محترمہ بھا بھی زینب صاحبہ مرحومہ کی نگرانی میں ہیں بزرگ خواتین نے انہیں بیلا.جن میں سے ایک استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ بھی تھیں.( تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ 373) 23 رمئی 1956ء کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے فیصلہ کیا کہ چونکہ محترمہ میمونہ صوفیہ صاحبہ نصرت گرلز سکول سے ریٹائرڈ ہوگئی ہیں اس لئے انہیں لجنہ مرکزیہ کی انسپکٹرس کے عہدہ پر با قاعدہ تنخواہ دار کارکن کی حیثیت سے مقرر کیا جائے چنانچہ اس عہدہ پر ان کا تقرر عمل میں لایا گیا اور محترمہ استانی صاحبہ موصوفہ انسپکٹرس کی حیثیت سے مختلف مقامات کی لجنات کے معائنہ اور دورہ کیلئے تشریف لے جانے لگیں.اپنے دورہ میں وہ نئی لجنات بھی قائم کرتی تھیں.30 ستمبر کو آپ نے ضلع گجرات کا دورہ کیا بارہ مقامات پر گئیں اور سات جگہ لجنہ کی تنظیم قائم کی.22 نومبر 1956 ء کو کراچی لجنہ کا دورہ کرنے اور ان کے پہلے سالانہ اجتماع میں شمولیت کی غرض سے بطور نمائندہ تشریف لے گئیں اس کے علاوہ سرگودھا کے بعض دیہات کا بھی آپ نے دورہ کیا.( تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ 424) 12 دسمبر 1956ء کو لجنہ اماء اللہ کراچی کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.اُستانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے بطور مرکزی نمائندہ اس جلسہ میں شرکت کی.19 / اکتوبر 1956 ء کو حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ نے لجنہ اماءاللہ کے زیر اہتمام نصرت جنرل سٹور کا افتتاح فرمایا.یہ سٹور کامیابی کے ساتھ مکرمہ استانی میمونہ صاحبہ چلاتی رہیں اور ہر سال معقول منافع حصہ داران میں تقسیم کیا جاتا رہا.ان کی صحت کی خرابی کے باعث یہ سٹور

Page 47

خطابات مریم 22 22 تحریرات 1972ء میں بند کر دیا گیا.لجنہ اماءاللہ کراچی کے دوسرے سالانہ جلسہ میں جو 17 /نومبر 1957ء کو منعقد ہوا محترمہ استانی جی صاحبه لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے بطور نمائندہ شریک ہوئیں.خطاب بھی فرمایا اور انعامات، سندات بھی تقسیم کیں.پھر ماہ نومبر 1958ء میں لجنہ اماءاللہ کراچی کے سالانہ جلسہ میں آپ نے مرکزی نمائندہ کی حیثیت سے شرکت کی.کئی دن ٹھہر کر لجنہ کراچی کے حلقہ جات کا دورہ کیا حسابات کی چیکنگ کی اور ان کی تنظیم کے سلسلہ میں بڑی محنت سے کام کیا.1958ء میں لجنہ مرکزیہ کے زیر اہتمام جو تعلیم القرآن کلاس لگائی گئی اس کی طالبات کو محترمه استانی میمونه صوفیہ صاحبہ نے بھی پڑھایا.اسی طرح 1959ء اور 1960ء کی منعقدہ کلاسوں میں بھی.1958ء میں آپ نے ضلع سرگودھا،ضلع فیصل آباد، ضلع گوجرانوالہ ،ضلع ،جہلم ، ضلع جھنگ ، ضلع سیالکوٹ، ضلع ساہیوال اور صوبہ سندھ کی 43 لجنات کا دورہ کیا.1959ء میں آپ نے 27 مقامات کے دورے کئے حسابات چیک کئے.حسابات رکھنے کا طریقہ سکھایا اور اپنی تقریروں سے ان لجنات میں مزید بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی.25 /اکتوبر 1959ء کو نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ کے سٹاف نے محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کو الوداعی پارٹی دی اور اس میں اجتماع پر آئی ہوئی بیرونی نمائندوں کو بھی شمولیت کی دعوت دی.چائے کے بعد سٹاف کی طرف سے استانی جی کی خدمت میں سپاس نامہ اور ایک سونے کی انگوٹھی بطور تحفہ پیش کی گئی.استانی جی صاحبہ مرحومہ نے سپاس نامہ کا جواب دیتے ہوئے سکول کے ساتھ مخلصانہ جذبات کا اظہار کیا.1960ء میں آپ نے 27 لجنات کا دورہ کیا.2 نومبر 1961ء کو آپ کراچی کے دورہ پر تشریف لے گئیں.5 /نومبر کو نا صرات الاحمدیہ کے اجتماع میں شرکت کی اور ناصرات الاحمدیہ کراچی سے خطاب فرمایا.12 نومبر کو لجنہ اماءاللہ کراچی کے اجتماع میں شرکت کی.( تاریخ لجنہ جلد سوم صفحہ 81) اکتوبر 1961ء میں لجنہ اماءاللہ پشاور کے سالانہ اجتماع میں شرکت فرمائی.وہاں خطاب فرماتے ہوئے آپ نے لجنہ اماء اللہ کے قیام کی غرض و غایت اپنی اور دوسروں کی تربیت ، قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے اور سکھانے کی طرف خاص توجہ دلائی.کراچی اور پشاور کے علاوہ کئی

Page 48

خطابات مریم 23 23 تحریرات T اور مقامات کے بھی اس سال دورے کئے.1961 ء میں منعقدہ تعلیم القرآن کلاس میں بھی آپ نے طالبات کو پڑھایا.1962ء میں عاجزہ کے ساتھ استانی جی صاحبہ لا ہور اور فیصل آباد تشریف لے گئیں.جون 1962 ء میں لجنہ لاہور نے تربیتی کلاس منعقد کی تو مرکز سے استانی جی کو بھی دیگر نمائندگان کے ساتھ بھجوایا گیا آپ نے کلاس میں تقاریر بھی کیں اور عہدہ داران لجنہ لاہور کے ساتھ لاہور کے حلقہ جات کے دورے بھی کئے.اس کے علاوہ دورانِ سال کئی اور لجنات میں بھی تشریف لے گئیں.1963ء میں بھی آپ نے بہت سے مقامات کے دورے کئے.1964ء میں آپ نے چند مقامات کا دورہ کیا.اب آپ کی صحت کمزور رہنے لگی تھی اس لئے دفتر میں بیٹھ کر حساب کی پڑتال کر لیا کرتی تھیں یا سٹور آپ کے ذمہ تھا.آپ کی کمزور صحت کی وجہ سے لجنہ مرکزیہ نے 1965 ء میں مرد انسپکٹر رکھا.دورے کروائے مگر وہ فائدہ حاصل نہ ہو سکا جو استانی جی کے دوروں کے نتیجہ میں ہوتا تھا کیونکہ عورتوں کے مسائل کو ایک عورت سمجھ سکتی ہے لیکن پھر بھی وقتاً فوقتاً آپ کے دوروں کا سلسلہ جاری رہا.1965ء میں بھی پ نے متعدد مقامات کے دورے کئے.1965ء کی تعلیم القرآن کلاس میں بھی طالبات کو آپ نے پڑھایا.اسی سال خواتین کو دینی علم سکھانے کیلئے بھی ایک کلاس کا انعقاد کیا گیا اس میں بھی استانی جی نے تعلیم دی.- 1966ء میں عاجزہ کے ساتھ استانی جی صاحبہ چک نمبر 9 پنیا ر شمالی کے جلسہ میں شمولیت کیلئے گئیں.نیز 1966ء میں لجنہ فیصل آباد کی تربیتی کلاس میں آپ نے شرکت کی جس کی اختتامی تقریب میں عاجزہ نے بھی شمولیت کی.پیچھے ذکر کیا جا چکا ہے کہ لوائے احمدیت کا کپڑا بنانے کیلئے بزرگ خواتین نے روئی کو صاف کیا.1966ء میں جب اس روئی سے کپڑا بنا گیا تو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر انتظام جن بزرگ خواتین سے سلوایا ان میں استانی جی بھی شامل تھیں.اس موقعہ پر لجنہ اماءاللہ نے ظہرانہ کا انتظام بھی کیا.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے بھی شمولیت فرمائی.

Page 49

خطابات مریم لله تحریرات 1967ء میں استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے شیخو پورہ ، سانگلہ ہل اور چند اور ضلع شیخو پورہ کی لجنات کا دورہ کیا.1969ء میں بھی آپ نے ضلع سرگودھا کی چند لجنات کا دورہ کیا اور اپنی نگرانی میں انتخاب کروایا.1970ء میں آپ نے چنیوٹ جا کر ان کی لجنہ کے عہدہ داروں کا انتخاب اپنی نگرانی میں کروایا.1971ء میں آپ نے ٹو بہ ٹیک سنگھ کا دورہ کیا.1972ء میں لجنہ مرکزیہ نے لجنہ کے قیام پر پچاس سال پورے ہونے پر جشن منایا اور فیصلہ کیا گیا کہ جن کارکنات نے دس سال یا اس سے زیادہ عرصہ کام کیا انہیں سند خوشنودی عطا کی جائے.چنانچہ جن کا رکنات کو سندات دی گئیں ان میں سرِ فہرست آپ کا نام تھا.پیچھے ذکر کیا جا چکا ہے کہ لوائے احمدیت کے لئے کپڑا سیا تھا اس کی کچھ سلائی رہتی تھی.چنانچہ 16 دسمبر 1972ء کو عاجزہ کی زیر نگرانی میں چھ بزرگ خواتین نے مل کر وہ سلائی کی جن میں استانی میمونہ صاحبہ شامل تھیں.3 / مارچ 1974ء کو لجنہ سیالکوٹ نے اپنے قیام پر پچاس برس پورے ہونے کی خوشی میں ایک خاص تقریب منعقد کی جس میں آپ بھی شامل ہوئیں.سٹور بند ہونے کے بعد استانی جی کی سرگرمیاں یقیناً کم ہوگئی تھیں صحت کمزور تھی مگر آپ صبح کا وقت دفتر میں ہی گزارا کرتیں بچیوں کو قرآن مجید پڑھا دیتیں.ربوہ کے جلسے اکثر آپ کی صدارت میں ہوتے.1974ء میں جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور جلسہ پیشگوئی مصلح موعود آپ کی صدارت میں ہی ہوا.آپ نے ساری عمر لجنہ کی خدمت میں گزاری آپ کا دل نہیں چاہتا تھا کہ وہاں سے جائیں بیماری کی وجہ سے مجبوراً چھوڑنا پڑا.اوپر جن خدمات کا ذکر کیا گیا ہے ان کے علاوہ خدمت خلق کے کاموں میں آپ نے بھر پور حصہ لیا کسی کے متعلق معلوم ہوتا کہ وہ ضرورت مند ہے اس کے لئے صاحب استطاعت لوگوں کو تحریک کر کے اس کی مدد کر دیتیں.مستحقین کیلئے لجنہ نے لحاف بنانے ہوتے یا عید کے موقع پر کپڑے تقسیم کرنے ہوتے کپڑا خرید کر لانا جب تک آپ چلنے پھرنے کے قابل رہیں آپ کی ذمہ داری تھی.2 جنوری 1900ء کو آپ پیدا ہوئیں اور 19 جون 1980ء کو قریباً 80 سال کی عمر میں

Page 50

خطابات مریم 25 25 تحریرات ایک بھر پور زندگی گزار کر اپنے مولائے حقیقی سے جاملیں بجا طور پر ان کے متعلق کہا جا سکتا ہے وَمِنْهُم مَن قضى نحبه اللہ تعالیٰ ان کو اعلیٰ مدارج عطا فرمائے اور سادگی ، غیرت دینی ، عبادت گزاری ، ہمدردی خلق کا جو جذ بہ آپ کے دل میں تھا وہ سب احمدی مستورات کے دلوں میں پیدا کرے.اپنا مضمون ختم کرنے سے قبل آپ کے کردار اور اخلاق کے متعلق بھی چند باتیں درج کرنا ضروری سمجھتی ہوں.آپ بہت عبادت گزار، شب بیدار اور بہت دعائیں کرنے والی خاتون تھیں.جوانی میں بیوہ ہو ئیں ، اپنی محنت سے کما کر اپنے اخراجات پورے کئے کبھی کسی سے مدد لینا گوارا نہ تھا.اولاد کی نیک تربیت کی ایک بیٹا ہونے کے باوجود اسے دین کی خاطر وقف کیا.خلافت کا بے انتہا احترام تھا کوئی اعتراض برداشت نہ کر سکتی تھیں بڑی سادہ اور پاکیزہ زندگی گزاری.مردانہ وار ساری مشکلات کا مقابلہ کیا اور حقیقت میں وہ کام کئے جو ایک مرد کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اچھا حافظہ عطا فرمایا تھا جب میں نے تاریخ لجنہ مرتب کرنی شروع کی تو ابتدائی چودہ ناموں کا یقینی طور پر پتہ نہیں چل رہا تھا.پرانی ممبرات بہت سی وفات پا چکی تھیں میں نے استانی سیکینہ صاحبہ، استانی مریم صاحبہ اور بہت سی ممبرات سے ناموں کی تفصیل پوچھی تلاش کرنے پر رسالہ احمدی خاتون سے جو حضرت عرفانی صاحب شائع فرمایا کرتے تھے وہ نام مل گئے تو سب سے زیادہ صحیح نام وہ تھے جو استانی میمونہ صاحبہ نے اپنے حافظہ کی مدد سے بتائے تھے.قرآن مجید کثرت سے پڑھتی تھیں.آخر عمر میں قرآن مجید کا اکثر حصہ حفظ ہو چکا تھا.قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ تھا غرضیکہ مومنانہ شان کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں.لجنہ اماء اللہ کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا اور ان کی قربانیاں بھی.اللہ تعالیٰ سب احمدی بہنوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی روح پر بے شمار فضلوں کی بارش فرمائے.آمین اللھم آمین (ماہنامہ مصباح دسمبر 1980ء جنوری 1981ء) ☆.☆

Page 51

خطابات مریم 26 26 تحریرات مکرمه امتہ الحکیم صاحبہ کلرک ماہنامہ مصباح کی وفات 30 جنوری 1982ء کی صبح لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی ایک دیر بینہ کا رکن امتہ الحکیم صاحبہ دل کا حملہ ہونے سے اچانک وفات پاگئیں.انا للہ و انا اليه راجعون آپ پیدائشی احمدی تھیں.آپ کے والد مکرم عبد الحکیم صاحب چیمہ اصحاب حضرت اقدس میں سے تھے.ہجرت سے قبل آپ کی شادی ملک نواب خان سے ہوئی جو ریلوے ہسپتال میں ڈسپنسر تھے.دو بچیاں پیدا ہوئیں ہجرت کے چند ماہ بعد 1948ء میں آپ کے خاوند کی وفات ہو گئی.رسالہ مصباح گو 1926 ء سے جاری ہوا تھا اور 1947ء میں لجنہ اماء اللہ کی زیر نگرانی دے دیا گیا تھا لیکن ہجرت اور نقل مکانی کے باعث پاکستان آ کر فوری طور پر جاری نہ کیا جا سکا.ربوہ میں دفتر منتقل ہونے کے بعد اپریل 1950 ء سے مصباح جاری ہو گیا اس وقت دفتر مصباح کے لئے ایک کلرک کی ضرورت پڑی تو امتہ الحکیم صاحبہ نے درخواست دی کہ نہ میری تعلیم زیادہ ہے نہ تجربہ لیکن جس طرح آپ کام سکھائیں گی کرنے کی کوشش کروں گی بہر حال ان کو رکھ لیا گیا اس سال انہوں نے فرلو ( رخصت قبل از ریٹائرمنٹ ) کی درخواست دی اور اس کے ختم ہونے پر انہوں نے ریٹائر ہونا تھا کہ 30 جنوری کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آ گیا.ساری جوانی بڑی پاکیزگی کے ساتھ اپنی بچیوں کی تعلیم و تربیت میں گزاری.دونوں بچیوں کو اعلی تعلیم ایم اے تک دلوائی ان کی شادیاں کیں اور سب کچھ اپنی محنت سے کیا.دفتر میں کام کرتے کرتے حساب کتاب پر اچھا عبور حاصل ہو گیا تھا اور اگر دفتر دیر سے پہنچتیں تو دفتر کے وقت کے بعد یا گھر جا کر کام کو پورا کر لیتی تھیں.1950ء سے وفات تک مصباح کا حساب، پر چه کی ترسیل ، انفرادی حساب رکھنا ( ہر خریدار کا ) یہ سب ان کے ہی ذمہ تھا.کچھ عرصے سے

Page 52

خطابات مریم 27 تحریرات صحت خراب ہو رہی تھی لیکن کام چھوڑنا نہ چاہتی تھیں.وفات کے وقت عمر 59 سال تھی.قریباً 32 سال لجنہ اماءاللہ کی خدمت سرانجام دی.پورے خلوص اور ہمت سے کام کیا.قریباً ایک سال سے کام بڑھ جانے کی وجہ سے عملہ دفتر مصباح میں دوسری کلرک کا اضافہ کیا گیا ورنہ اب تک سارا دفتری کام انہیں کے سپر درہا.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کی بیٹیوں اور عزیزوں کو صبر جمیل عطا فرمائے.آمین (ماہنامہ مصباح فروری 1982ء) ☆.

Page 53

خطابات مریم 28 سیده منصورہ بیگم نوراللہ مرقدها شاندار زندگی.شاندار موت تحریرات اللہ تعالیٰ کی بشارات اللہ تعالیٰ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو جب دوسری شادی کی بشارت دی تو بتایا کہ آپ کے ذریعہ ایک نئے خاندان کی بنیاد ڈالی جائے گی اس پیشگوئی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا.تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا“.(اشتہار 20 رفروری 1882ء) انہیں خواتین مبارکہ میں سے ایک سیدہ منصورہ بیگم بھی تھیں جو 27 /ستمبر 1911ء کو پیدا ہوئیں اور اس فانی دنیا میں اپنے فرائض احسن طور پر ادا کر کے 4،3 / دسمبر 1981ء کی درمیانی شب ساڑھے آٹھ بجے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئیں.انا للہ وانا اليه راجعون آپ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم نور اللہ مرقدہا کی پہلی نواسی اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی پہلی دختر تھیں.آپ کا نام قدرت ثانیہ کے پہلے مظہر حضرت مولوی نورالدین صاحب نے رکھا تھا.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ حضرت اقدس کی مبشر اولاد میں سے تھیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا.تنشَاءُ فی الحلیة“ وہ زیورات میں نشو و نما پائے گی.(حقیقۃ الوحی ) اسی طرح آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا:.مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا کہ ایسی آئی اے جنہیں مصیبت پائی‘ ( الحکم جلد 7 نمبر 21)

Page 54

خطابات مریم 29 29 تحریرات حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے شیعیت سے نکل کر احمدیت کو قبول کیا اور تمام رسوم کو چھوڑ کر ایک باوفا اور باصفا انسان کا نمونہ پیش کیا.ایمان اور عمل میں جلد جلد ترقی کرتے ہوئے جماعت میں بہت بڑا مقام حاصل کیا.اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام میں ان کو حجتہ اللہ قرار دیا.کشفی طور پر حضرت اقدس کو آپ کی گردن اونچی دکھائی گئی جو عزت اور اقبال مندی کی دلیل تھی.مکتوب بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحب 1891ء) ظاہر ہے کہ ایسے نیک اور مقدس ماں باپ کی گود میں پروان چڑھنے والی بچی خود کتنی نیک اور سعادت مند ہوگی.23 سال اپنے میکے میں ناز و نعمت کی زندگی گزاری.16 اگست 1934 ء کو حضرت مصلح موعود کی پہلی بہو کی حیثیت سے دارا مسیح میں قدم رکھا.1973ء میں میں نے چاہا کہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی ایک خواب حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے حالات قلمبند کروں اس سلسلہ میں روزانہ ایک گھنٹہ کیلئے ان کے پاس جانا شروع کیا بعض ناگزیر مجبوریوں کی وجہ سے وہ کتاب جو میں تقریباً مرتب کر چکی ہوں شائع نہیں ہوسکی دعا کریں اس سال شائع کر سکوں.میں نے حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ سے سوال کیا کہ بہت سے اہم واقعات خواب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر ظاہر کئے منصورہ بیگم کی شادی حضرت مرزا ناصر احمد صاحب سے ہوئی جنہوں نے اپنے وقت پر قدرت ثانیہ کے تیسرے مظہر بننا تھا کیا اس شادی کے سلسلہ میں بھی آپ نے کوئی خواب دیکھا تھا فرمایا کہ ” جب منصورہ جمل میں تھی خواب میں حضرت (بانی سلسلہ احمدیہ ) نے فرمایا کہ تمہاری بیٹی ہوگی اس کی شادی محمود کے بیٹے سے کرنا“.خطبہ نکاح حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کے نکاح کا اعلان 2 / جولائی 1934ء بروز دوشنبہ سیدہ منصورہ بیگم سے حضرت مصلح موعود نے کیا.آپ کے ساتھ ہی صاحبزادی ناصرہ بیگم کا نکاح بھی صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے ساتھ ہوا تھا.اس مبارک تقریب میں آپ نے ایک نہایت عارفانہ لطیف خطبہ دیا جس میں حضرت اقدس کی اولا د کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا.

Page 55

خطابات مریم 30 30 تحریرات میں آج اس امانت اور ذمہ داری کو ادا کرتا ہوں اور آج ان تمام افراد کو جو رجل فارس کی اولاد میں سے ہیں...اس فارسی النسل موعود کی اولا د دنیا کے لالچوں حرصوں اور ترقیات کو چھوڑ کر صرف ایک کام کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دے گی اور وہ کام یہ ہے کہ دنیا میں دین کا جھنڈا بلند کیا جائے ایمان کو ثریا سے واپس لایا جائے اور مخلوق کو آستانہ خدا پر گرایا جائے یہ امید ہے...اب میں ان پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں.خواہ میری اولا د ہو یا میرے بھائیوں کی وہ اپنے دلوں میں غور کر کے اپنی فطرتوں سے دریافت کریں کہ اس آواز کے بعد ان پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے.(روز نامہ الفضل 26 راگست 1934ء) حضرت مصلح موعود نے اس موقعہ پر مغربی تقلید سے منع کرتے ہوئے فرمایا:.ہم اور مغربیت ایک جگہ نہیں جمع ہو سکتے یا ہم زندہ رہیں گے یا مغربیت زندہ رہے گی“.حضور نے فرمایا:.حضرت...کی اولاد میں سے اگر کوئی شخص مغربیت کی نقل کا ذرا بھی مادہ اپنے اندر رکھتا ہے تو وہ کا حقیقی بیٹا نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس نے اس آواز کو نہیں سنا جسے پھیلانے کیلئے مبعوث ہوئے...پس یہی نہیں کہ تم سے امید کی جاتی ہے کہ تم مغربیت سے علیحدہ رہو گے تم سے امید کی جاتی ہے کہ تم دین کا جھنڈا ہمیشہ بلند رکھو گے تم سے امید کی جاتی ہے کہ تم نوع انسان کے خیر خواہ رہو گئے.خدا تعالیٰ شاہد ہے اور منصورہ بیگم کی ساری زندگی بتاتی ہے کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں گزاری جن کی طرف ان کے نکاح کے موقعہ پر حضرت مصلح موعود نے توجہ دلائی تھی.تقریب شادی آپ کی بارات 4 /اگست کو مالیر کوٹلہ گئی حضرت مصلح موعود 5 /اگست کو بحیثیت ماموں شرکت کیلئے بذریعہ کا ر تشریف لے گئے.6 اگست بروز دوشنبه برات مالیر کوٹلہ سے واپس قادیان پہنچی.حضرت مصلح موعود پہلے ہی واپس پہنچ چکے تھے

Page 56

خطابات مریم 31 تحریرات آپ نے سٹیشن پر استقبال کیا اور بارات کے ساتھ احمد یہ چوک پہنچے جہاں بیت مبارک میں تمام مجمع سمیت لمبی دعا فرمائی.8 را گست کو حضرت مصلح موعود نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی دعوت ولیمہ نہایت وسیع پیمانہ پر کی.شادی کے تھوڑے عرصہ کے بعد ہی حضرت صاحبزادہ ناصر احمد صاحب تکمیل تعلیم کی غرض سے 6 ستمبر 1934ء کو عازم انگلستان ہوئے.حضرت اماں جان نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو بیٹا بنایا ہوا تھا ان الہی بشارتوں کے مطابق کہ مبارک کا بدل دیا جائے گا حضرت اماں جان اس کا اظہار بھی فرمایا کرتی تھیں.آپ نے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی رہائش کے لئے محلہ دارالا نوار قادیان میں ایک کو ٹھی تعمیر کروائی تھی جو النصرت“ کے نام سے موسوم تھی شادی کے بعد آپ کی رہائش وہاں ہی رہی.شادی کے بعد کی زندگی شادی کے بعد جلد ہی حضرت مرزا ناصر احمد صاحب انگلستان روانہ ہو گئے.یقیناً ایک نئی دلہن نے آپ کی جدائی بہت زیادہ محسوس کی ہوگی مگر کسی قسم کا اظہار نہ کیا اور ایک واقف زندگی کی بیوی ہونے کی حیثیت سے بہترین نمونہ دکھایا.1936ء میں چند ماہ کے لئے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب واپس قادیان تشریف لائے اور پھر تکمیل تعلیم کے لئے چلے گئے اور 1938 ء میں واپسی ہوئی.یہ سارا زمانہ آپ نے بڑے تحمل اور صبر کے ساتھ گزارا.صحت پر اثر ضرور پڑا لیکن آپ کی طرف سے اظہار نہیں ہوا اور اپنے عظیم شوہر کے ساتھ قربانی میں شریک رہیں.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی واپسی کے بعد آپ ان کی ہر ذمہ داری میں برابر کی شریک رہیں.گھر کی ذمہ داری، خود ان کا خیال ، بچوں کی تربیت ، مہمان نوازی.یہ سب ذمہ داریاں احسن طریق سے ادا کیں.اس کے ساتھ ساتھ لجنہ اماءاللہ کی طرف سے جلسہ سالانہ پر مقرر شدہ ڈیوٹی باقاعدگی سے دیا کرتی تھیں.اپنے ماں باپ کی بہت پیاری بیٹی تھیں.بہن بھائیوں کی بہت عزیز بہن تھی.حضرت اماں جان کی طرف سے تو دو ہری محبت ملی بحیثیت نواسی کے اور پھر حضرت مرزا ناصر احمد کی بیوی ہونے کی

Page 57

خطابات مریم 32 32 تحریرات حیثیت سے.حضرت مصلح موعود بہت محبت فرماتے تھے اور وہ بھی اپنے ماموں جان سے خاصی بے تکلف تھیں.ان کا بہت خیال رکھتی تھیں.جب اپنی کوٹھی سے دارا مسیح آتیں اکثر ان کے لئے کچھ نہ کچھ پکا کر لایا کرتی تھیں یا حضرت اماں جان کے گھر آ کر رہتیں تو کوئی نہ کوئی چیز ضرور تیار کر دیتیں جسے حضرت مصلح موعود بہت خوشی سے کھاتے ایک دو دفعہ اپنے ہاتھ سے سویٹر بھی بن کر دیئے.اغلبا 1944ء میں آپ بیمار ہو گئی تھیں امۃ الحلیم کی پیدائش کے بعد حضرت مصلح موعود نے ان کو بغرض علاج دہلی بھیجا علاج لمبا چلا تو منصورہ بیگم کو بہت احساس تھا کہ ماموں جان پر بہت بوجھ میری وجہ سے پڑ رہا ہے.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی روایت ہے کہ انہوں نے لکھا کہ آپ پر اتنا خرچ میری وجہ سے پڑ رہا ہے.مجھے بہت شرم آتی ہے تو انہوں نے منصورہ ربیگم کو لکھا کہ تمہاری جان سے زیادہ مجھے روپیہ عزیز نہیں ہے تم ہزاروں کا کہتی ہو اگر ایک لاکھ بھی علاج پر خرچ ہو جائے تمہاری صحت کی خاطر مجھے پرواہ نہیں.بہت پیار کرنے والی بھاوج ثابت ہوئیں سب دیوروں نندوں سے بہن بھائیوں سے بڑھ کر سلوک کیا حضرت مصلح موعود کی سب بیویوں سے بہت عزت و محبت سے پیش آتی تھیں.سب سے اچھا تعلق رکھا میں تو اکثر ان سے کہتی تھی میرا اور آپ کا خالہ کا رشتہ ہے اور آپ کی امی جان سے مجھے بہت پیار ہے یہی قائم رہنے دیں ہنستی تھیں اور کہتی تھیں خالہ ہی سمجھتی ہوں تبھی تو بچوں سے آپ کو دادی خالہ کہلوایا ہے بڑی ہی محبت کرنے والی ماں تھیں اپنے بچوں کو کبھی نوکر پر نہیں چھوڑا خود سارے کام کئے بہترین تربیت کی اور یہی خواہش تھی کہ سلسلہ کی خدمت کریں.ان کے دل میں ہمیشہ احمدیت اور جماعت کی محبت کا جذبہ پیدا کیا بچوں کی شادیاں ہوئیں تو ایک مثالی ساس ثابت ہوئیں.اپنی بہوؤں سے بیٹیوں سے زیادہ پیار کیا ان پر اعتماد کیا جس کے نتیجہ میں ان کو بھی اپنی ماؤں سے بڑھ کر ان سے پیار تھا اور ہے.قابل رشک زندگی آپ نے قابل رشک زندگی گزاری اور ہر ذمہ داری کوسنوار کرادا کیا.سنوار کر نماز پڑھنے والی کثرت سے ذکر الہی کرنے والی - بہت دعائیں کرنے والی تھیں اور ان امور کی طرف اپنی تقاریر میں مستورات اور بچیوں کو توجہ بھی بہت دلایا کرتی تھیں آخری تقریر جو آپ نے لجنہ اماءاللہ کے سالانہ اجتماع 1981ء کے موقعہ

Page 58

خطابات مریم 33 33 تحریرات پر کی اس میں خصوصیت سے نئی نسل کو ذکر الہی کثرت سے کرنے کی طرف توجہ دلائی.ہماری چچی جان مرحومہ (حضرت سیدہ اُم داؤ د صاحبہ ) فرمایا کرتی تھیں مجھے منصورہ کی یہ بات بہت پسند ہے کہ نہا دھو کر اچھے کپڑے پہن کر خوب عطر لگا کر صاف جانماز بچھا کر نماز کیلئے کھڑی ہو جاتی ہے صدقہ کثرت سے دیا کرتی تھیں.اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا مقام عطا فرمایا عزت دی لیکن کسی قسم کا تکبر یا ر یا نہیں پایا جاتا تھا.جب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خلیفہ یار ہوئے تو آئندہ ذمہ داریوں کے خیال سے آپ تقریباً بیمار پڑ گئیں اُٹھا ہی نہیں جاتا تھا بہت رو رو کر دعائیں کیں ان دنوں.اور پھر ساری جماعت نے مشاہدہ کیا کہ وہ یکسر بدل گئیں اور انہوں نے اپنے آپ کو ان ذمہ داریوں کے اُٹھانے کیلئے پوری طرح تیار کر لیا اور پوری طرح نبھایا.بہت بلند حوصلہ تھیں، کوہ وقار تھیں اور ایثار مجسم.حضرت مصلح موعود کے گھر کی سب سے بڑی بہو تھیں.آپ ان پر بہت اعتماد کرتے تھے ہجرت کے بعد جب لاہور میں سب اکٹھے رہتے تھے آپ باہر تشریف لے جاتے تو گھر کا انتظام منصورہ بیگم کے سپر دہی کر جاتے.حضرت مصلح موعود جب ربوہ مستقل طور پر تشریف لے آئے ابھی حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کالج کی وجہ سے لاہور میں ہی قیام پذیر تھے آپ جب بھی لاہور جاتے تو ان کے پاس ہی قیام فرماتے اور وہ دل کھول کر سب کی مہمان نوازی کرتیں اور ہر ممکن خیال رکھتیں.آپ کے اخلاق کا سب سے بڑا پہلو تو کل علی اللہ اورصبر ورضا کا پہلو تھا.شادی ہوتے ہی ایک ماہ کے بعد حضرت مرزا ناصر احمد صاحب تعلیم کی خاطر انگلستان تشریف لے گئے.ایک نئی نویلی دلہن کیلئے یہ جدائی بہت تکلیف دہ تھی لیکن آپ نے اس کا اظہار نہ ہونے دیا.انس احمد کی پیدائش بھی آپ کی عدم موجودگی میں ہوئی.عورت کے لئے یہ وقت بڑا کٹھن ہوتا ہے اور منصورہ بیگم کے بچے خاص طور پر انس احمد کی ولادت بہت مشکل سے ہوئی تھی.اس موقعہ پر بھی آپ نے کسی قسم کی بے صبری کا اظہار نہ کیا.سب سے زیادہ تسلی ان کو اپنے ماموں جان ( حضرت مصلح موعود) سے ہوتی تھی.بس یہ خواہش کرتی تھیں کہ وہ قریب رہیں اور دعا کرتے رہیں.1953ء میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے جماعت کی خاطر قید و بند کی تکلیف اُٹھائی

Page 59

خطابات مریم 34 تحریرات آپ اس وقت حاملہ تھیں اور بیمار لیکن اللہ تعالیٰ کی خاطر آپ نے اس صدمہ کو بھی دلیری اور وقار سے برداشت کیا.قادیان سے ہجرت کے وقت ان کی خواہش پر حضرت مصلح موعود قادیان سے ہجرت نے ان کو قادیان ٹھہرنے کی اجازت دے دی.چونکہ میں ہر وقت حضور کے پاس ہوتی تھی حضرت مصلح موعود نے سارے خاندان کے افراد جو دارا مسیح میں مقیم تھے ان کے کھانے کا انتظام منصورہ بیگم کے سپر دفرمایا بہت احتیاط سے حضرت مصلح موعود کا اور میرا کھانا ناشتے کے وقت پر دفتر بھجوا دیا کرتی تھیں.جب حضرت مصلح موعود کے پاکستان آنے کا فیصلہ ہوا آپ چاہتی تھیں کہ میں نہ جاؤں لیکن جب جماعتی رنگ میں فیصلہ ہوا تو آپ واپس آ گئیں.اس تاریخی سفر میں ایک طرف میں تھی اور ایک طرف منصورہ بیگم درمیان میں حضرت مصلح موعود بیٹھے ہوئے تھے.منصورہ بیگم نے سامنے ایک ٹوکری میں کھانے کی چیزیں رکھی ہوئی تھیں جو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد نکال کر اپنے ماموں جان کو پیش کر دیتی تھیں.قادیان میں حضرت اماں جان کے پاس آپ آتی ہی رہتی تھیں.بہت قریب سے اس زمانہ میں آپ کی عادات و اخلاق کو دیکھنے کا موقع ملا اور ہر بات نے بہت متاثر کیا اور مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی جھجک نہیں کہ واقعی وہ اس مقام کی اہل تھیں جو ان کو حاصل ہوا اور انہوں نے اپنے فرائض کی بجا آوری سے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کر دیا.سب سے زیادہ کام آپ کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے بیرون پاکستان کے دوروں کے دنوں میں کرنا پڑا.جہاں جہاں آپ تشریف لے گئے وہاں کی خواتین سے ملنا ان کے مسائل کو سلجھانا ، ان کے بچوں سے پیار کرنا زیادہ سے زیادہ وقت ان کو دینا.یہ ان سے محبت کا سلوک ہی تھا جس کے نقوش آج ان قرار دادوں اور تعزیت کے خطوط میں نظر آ رہے ہیں جو بیرون پاکستان کی لجنات کی طرف سے موصول ہو رہے ہیں ایک عالم خاتون تھیں.دینی لحاظ سے بھی اور دنیوی لحاظ سے بھی.ادبی ذوق پایا جاتا تھا شاعرہ تھیں.تحریر صاف ستھری اور دلنشیں تھی.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی تحریر کا عکس ان کی تحریر میں نظر آتا تھا.عام عورتوں کا طریق ہے کہ جہاں چار عورتیں اکٹھی ہوئیں کپڑے زیور وغیرہ کی باتیں

Page 60

خطابات مریم 35 تحریرات شروع ہوگئیں وہ اس سے بری تھیں بہترین لباس پہنا بطور تحدیث نعمت کے مگر کبھی ان چیزوں کیلئے کسی قسم کی حرص و غیرہ ان میں نظر نہ آئی.طبیعت میں صفائی کا جذبہ انتہا پسندی تک تھا مگر سادگی کا پہلو لئے ہوئے.خوشبوؤں سے بہت پیار تھا کبھی یاد نہیں کہ آپ کے کپڑوں اور جسم میں سے خوشبو نہ آ رہی ہو.گھر اور ماحول کو صاف رکھتی تھیں.لجنہ اماءاللہ کی خدمات 1945 ء میں حضرت مصلح موعود نے پہلی مرتبہ لجنہ اماء اللہ مرکز یہ کی تشکیل کرنے کا ارشاد فرمایا.اس سے قبل قادیان کی لجنہ کو ہی لجنہ مرکز یہ سمجھا جاتا تھا.حضور کے ارشاد کے مطابق جو پہلی عاملہ تشکیل کی گئی اس میں سیدہ منصورہ بیگم کو سیکرٹری تربیت و اصلاح کا عہدہ دیا گیا جو اُنہوں نے بہت ذمہ داری سے نبھایا اور ہجرت تک آپ اسی عہدہ پر فائز رہیں.1946ء میں قادیان میں الیکشن کے دنوں میں بھی آپ نے بہت کام کیا عورتوں کے ووٹ ڈلوانے کے کام کی نگرانی کرنے کیلئے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی سیدہ منصورہ بیگم بھی اس کمیٹی کی مبر تھیں.1948ء میں آپ کے سپر د شعبہ خدمت خلق کیا گیا اور عارضی طور پر کچھ عرصہ آپ نے جنرل سیکرٹری کے فرائض بھی سرانجام دیئے.1952ء میں آپ لجنہ اماءاللہ لاہور کی صدر منتخب ہوئیں اور چار سال وہاں کی لجنہ اماءاللہ کی صدارت کے عہدہ پر فائز رہیں اور لجنہ اماء اللہ لا ہور کے کام کو ترقی دی.وہاں کی تنظیم فرمائی.اہم ترین خدمات ان کی اہم ترین خدمات کا سلسلہ حقیقت میں 1965ء سے شروع ہوتا ہے جب حضرت مرزا ناصر احمد صاحب مسند امامت پر متمکن ہوئے اور آپ کی ذمہ داریوں میں کئی سو گنا اضافہ ہو گیا.پاکستان کے مختلف شہروں کے علاوہ سات بیرونی ممالک کے دوروں میں آپ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہمسفر رہیں.آپ کی خدمت کے علاوہ وہاں کی مستورات سے ملنا ان کے جلسوں میں خطاب کرنا ان سے مصافحے کرنا ان کے بچوں سے پیار کرنا.ان کے مسائل کو سننا مفید مشورے دینا ان سات طول

Page 61

خطابات مریم تقاریر 36 36 تحریرات طویل سفروں کی داستان ایک الگ مضمون چاہتی ہے.اس لئے فی الحال ان کی تفصیل اس مختصر مضمون میں چھوڑ رہی ہوں.لیکن جہاں جہاں گئیں وہاں کی مستورات کے دلوں پر وہ نقش ثبت کئے کہ وہ کبھی ان کو بھول نہ سکیں گی اور جو تربیت ان کی سیدہ منصورہ بیگم کے جانے اور ان کا نمونہ دیکھ کر ہوئی ہے وہ سینکڑوں تقریروں سے بھی نہیں ہو سکتی تھی.مثلاً پردہ ہے جو پردہ کے خلاف ہیں وہ سب سے بڑی دلیل یہ دیتے ہیں کہ پردہ میں باہر کے ملکوں میں رہنا مشکل ،سفر مشکل اور پردہ ترقی کی راہ میں روک ہے وغیرہ.مگر انہوں نے اپنے نمونہ سے ثابت کر دیا کہ پر وہ کسی کام میں روک نہیں ہے.آپ پہلے تقریر نہیں کرتی تھیں مگر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خلیفہ ہونے کے بعد 1967ء کے جلسہ پر آپ نے پہلی دفعہ تقریر کی اور اس کے بعد سے اجتماع 1981ء تک قریباً ہر اجتماع اور ہر جلسہ پر تقریر کی سالانہ اجتماع 1981ء کے موقعہ پر بھی آپ نے تقریر کی اور اس سال لجنہ کی مجلس شوریٰ میں بھی پورے وقت شریک رہیں اور ہر تجویز پر ٹھوس رائے دی اور بدعات و رسومات کے خلاف بہنوں کو بہت تاکید فرماتی رہیں.اس وقت کسے معلوم تھا کہ یہ آخری موقع ہے جس میں بہنیں آپ کی نصیحتوں سے فیضیاب ہو رہی ہیں.اے جانے والی روح! تجھ پر سلام تو نے اس دنیا میں اپنے فرض کو خوب سمجھا اور نبھایا.ایک مثالی زندگی پیش کی اور جب تیرے رب کا بلاوا آیا تو لبیک کہتے ہوئے یوں رخصت ہوئی گویا اس دنیا اور دنیا والوں سے کوئی واسطہ ہی نہ تھا اور اپنے پیارے ماموں جان کے قریب جا سوئی.اس میں کیا شک ہے کہ آپ کی زندگی بڑی کامیاب اور شاندار گزری اور آپ کی وفات بھی شاندار تھی.اللَّهُمَّ نَوِّرها مَرْقَدَها وَارْفَعُها في أعلى عليين اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے آقا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو لمبی صحت والی زندگی عطا فرمائے اور آپ کے ذریعہ احمدیت کو زیادہ سے زیادہ ترقی عطا فرمائے.آمین اللھم آمین ماہنامہ مصباح فروری 1982ء) ☆

Page 62

خطابات مریم 37 تحریرات حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نور الله مَرْقَدَهُ مرا ناصر میرا فرزند اکبر ملا ہے جس کو حق سے تاج و افسر ( حضرت مصلح موعود ) حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ اور حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کے پہلے پوتے ، حضرت مصلح موعود کے سب سے بڑے بیٹے ، قدرت ثانیہ کے تیسرے مظہر حضرت مرزا ناصر احمد 15 نومبر 1909ء کو پیدا ہوئے اور 9 جون 1982ء کو اس دارِ فانی کو چھوڑ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون وہ وقت جس کے تصور سے اب بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.اتنا اچا نک آیا کہ عقل وشعور نے بھی ساتھ چھوڑ دیا.ایک زلزلہ تھا جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا.بس ایک ہی سوال تھا چہروں پر کہ یہ کیا ہو گیا ؟ لیکن اپنے آقا کے دیئے ہوئے سبق اور تربیت کی وجہ سے بڑا ، چھوٹا ، مرد، ت سب اپنے رب کی رضا پر راضی اور اس کی تقدیر پر شاکر اور اس کی عنایتوں کے امیدوار تھے چنانچہ اس انتہائی صدمہ کے بعد خلافت رابعہ کے انتخاب سے ان دلوں کو جو حضرت خلیفة المسیح الثالث کے وصال سے پریشان تھے غمگین تھے اللہ تعالیٰ نے سکون عطا فرمایا.اچھی یاد میں کبھی بھلائی نہیں جاسکتیں پھر ایسے پیارے وجود کا بھولنا آسان کام نہیں.ابھی تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا غم بھی نہیں بھولا تھا اُن کے لطف و احسان کی یاد تازہ تھی کہ جماعت پر اور اپنے خاندان پر ایک غم کا پہاڑ آ پڑا.میرے مولا! اگر تیرا سہارا نہ ہوتا تو پتہ نہیں کیا ہو جا تا کتنا پیارا ہے میرا رب جس نے حضرت مسیح الزمان کو دنیا کی اصلاح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کیلئے بھیجا اور اس مقصد عظیم کو مستقل طور پر جاری رکھنے کیلئے جماعت میں خلافت کا سلسلہ قائم کیا اور ہر خلیفہ کی وفات پر دوسری خلافت کے ذریعہ خوف کو

Page 63

خطابات مریم 38 88 تحریرات امن سے بدلا اور اسی پیارے سلوک کا مظاہرہ اس بار بھی ہوا.ناصر جیسا پیارا وجود اگر اس کی عمیق در عمیق حکمتوں کے باعث اس نے اپنے پاس بلا لیا تو ایک اور پیارا وجود طاہر کی شکل میں جماعت کو عطا کر دیا.الحمد للہ ثم الحمد للہ نوید احمد و تنویر محمود موعود این موعود ابن موعود ( نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ) احسان و مروّت کا سراپا ، عاجزی و انکساری کا مجسمہ، سادگی کا پیکر ، محبت کا ایک رواں چشمہ طبیعت میں مزاح ، نرمی ، حلیمی اور خودداری ، حوادث کے مقابلہ میں کوہ وقار، خود مسکرا کر دنیا کو مسکرانا سکھایا، انتہائی صابر و شاکر وجود.یہ تھے مرزا ناصر احمد جو حضرت اقدس کی پیشگوئیوں تری نسلاً بعیدا“ بھی دکھا دی اور نافلۃ لک“ کے مطابق ایک موعود و جود تھے.میرا بچپن حضرت ابا جان ( ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب) کی ملازمت کی وجہ سے قادیان سے باہر ہی گزرا لیکن چھٹی لے کر کبھی جلسہ سالانہ پر کبھی اور دنوں میں سال میں ایک مرتبہ ابا جان ضرور قادیان آیا کرتے تھے اور حضرت اماں جان کے پاس قیام ہوتا تھا.ایک دفعہ لمبے عرصہ کے لئے قادیان میں اس مکان میں رہے جس میں بعد میں حضرت سیدہ اُم طاہر رہا کرتی تھیں.اس وقت پہلی بار حضرت مرزا ناصر احمد کو حضرت اماں جان کے گھر دیکھا اور یہی سمجھا کہ حضرت اماں جان کے بیٹے ہیں.ذرا بڑی ہوئی تو معلوم ہوا کہ بیٹے نہیں پوتے ہیں لیکن اماں جان کی آغوش محبت میں پلے ہیں اور آپ کے پاس ہی رہتے ہیں.پھر کئی سال گزر گئے اور ہم 1934ء میں حضرت مرزا ناصر احمد کی شادی پر قادیان آئے.عمر میں مجھ سے بڑے تھے مگر جب کبھی ملنا ہوتا تو ہمیشہ پھوپھی کہہ کر ہم سب بہنوں سے مخاطب ہوتے.1934 ء میں شادی کے ایک ماہ بعد آپ تعلیم کیلئے انگلستان چلے گئے اور 1935ء میں میری شادی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بھتیجے سے میرا بیٹا بنا دیا.1936ء میں عارضی طور پر انگلستان سے واپس آئے.ان دنوں حضرت مصلح موعود دھر مسالہ مقیم تھے.حضور نے آپ کو اور منصورہ بیگم مرحومہ کو اپنے پاس بلا لیا اور قریباً ڈیڑھ دو ماہ آپ ہمارے ساتھ رہے.

Page 64

خطابات مریم 39 39 تحریرات شادی کے بعد سے مجھے آپا صدیقہ کہہ کر بلاتے تھے چونکہ حضرت سیدہ اُم طاہر کا نام مریم بیگم تھا اس لئے حضرت مصلح موعود مجھے نام کے پچھلے حصہ یعنی صدیقہ کہہ کر بلا یا کرتے تھے.حضرت مصلح موعود کے سب بچے مجھے چھوٹی آپا کہتے ہیں سوائے حضرت مرزا ناصر احمد کے آپ نے ہمیشہ آپا صدیقہ کہہ کر مخاطب کیا.ان کے بعد اب اس نام سے پکارنے والا کوئی نہیں رہا.ہمیشہ ہی بہت ادب احترام اور محبت کا سلوک رکھا اور خلیفہ ہونے کے بعد تو انہوں نے اتنے احسان کئے کہ میں گن نہیں سکتی.میں بھی شادی کے بعد حضرت اماں جان کے ساتھ رہی.حضرت مرزا ناصر احمد گو قادیان میں اپنی کوٹھی النصرت میں رہتے تھے لیکن قریباً روزانہ ہی اماں جان کے ہاں آیا کرتے تھے.جمعہ والے دن تو صبح ہی آ جاتے تھے اور ہم سب مل کر کھانا کھاتے.اماں جان خاص طور پر کہتیں آج میاں ناصر اور منصورہ سارا دن کیلئے آ رہے ہیں فلاں کھانا تیار کرلو.فلاں چیز ناصر احمد کو بہت پسند ہے مجھے یاد ہے زردہ خوب پستے بادام ڈال کر پکوایا کرتی تھیں کہ آپ کو بہت پسند تھا بعد میں جب آپ کو ذیا بیطیس کا مرض لاحق ہوا تو میٹھا کھانا آپ نے چھوڑ دیا.حضرت مصلح موعود کو حضرت مرزا ناصر احمد سے بہت گہری محبت تھی.عموماً جیسا کہ دستور ہے بڑے بیٹے سے ذرا تکلف ہوتا ہے.میں نے کبھی بہت بے تکلفی سے دونوں کو باتیں کرتے نہیں دیکھا لیکن جب جماعتی کام ہوتے تھے اس وقت سب سے پہلے ان کو ہی بلا کر کاموں کی ہدایت دینی.کام سپرد کرنے ، پورا اعتماد تھا ان پر لیکن آخری بیماری میں اس محبت کا جو حضرت مصلح موعود کو اپنے سب سے بڑے بیٹے سے تھی کھل کر اظہار ہوا.حضرت مصلح موعود کو حضرت خلیفہ اول سے بہت محبت تھی اور خلافت کا بے انتہا احترام اور یہی سبق آپ نے اپنی اولا د کو دیا.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو ایک خط میں یہ واقعہ لکھا اور میں نے خود آپ سے سنا بھی ہوا تھا.فرمایا کہ جب مرزا ناصر احمد چھوٹے سے تھے شاید سال ڈیڑھ سال کی عمر تھی تو بہت سخت بیمار ہو گئے اُدھر حضرت خلیفہ اول بیمار ہو گئے تو آپ اپنے بچہ کو چھوڑ کر حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہو گئے.بچہ کی حالت نازک ہو گئی گھر سے آدمی بلانے آیا آپ نہیں گئے.حضرت خلیفہ اول کے علم میں آیا تو آپ نے کہا جاؤ بچہ کے پاس

Page 65

خطابات مریم 40 تحریرات علاج وغیرہ بھی بتایا.آپ نے فرمایا میں آپ کو اس حال میں چھوڑ کر نہیں جا سکتا اس پر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.میاں وہ صرف تمہارا بیٹا ہی نہیں حضرت مسیح موعود کا پوتا بھی ہے.اس پر آپ گئے.اللہ تعالیٰ نے فضل کر دیا اور مرزا ناصر احمد شفایاب ہو گئے اس واقعہ سے جہاں حضرت مصلح موعود کی خلافت سے محبت کا اظہار ہوتا ہے کہ خلافت پر بیٹے کی محبت اور زندگی قربان کرنے کو تیار ہو گئے وہاں حضرت خلیفہ اول کی حضرت مسیح موعود کی اولاد سے شدید محبت بھی ظاہر ہوتی ہے.آج ان وجودوں میں سے ایک بھی نہیں لیکن یہ عظمت کے مینار نہ مٹنے والی یادیں اور قربانی کی عظیم راہیں ہمارے لئے استوار کر گئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے.خیر کم خیر کم لاھلہ تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل سے اچھا ہو.بڑے بڑے عالم اور لیڈر دنیا کے سامنے اخلاق کے متعلق تقریر میں کرتے ہیں لیکن گھروں میں بیویوں پر سختی اور ظلم کرتے دیکھے گئے ہیں.آپ نمونہ تھے اپنے اہل کے ساتھ بہترین سلوک کا.سیدہ منصورہ بیگم کے ساتھ آپ کی جو زندگی گزری وہ خود آپ کے قول کے مطابق دو وجودوں کی ایک زندگی تھا.بے حد محبت اور خیال رکھنے والے شوہر بے انتہا شفیق باپ تھے.گھریلو زندگی میں بیوی بچوں کی چھوٹی چھوٹی بات کا خیال رکھنا.سب عزیزوں سے درجہ بدرجہ تعلق رکھنا اور ان کے حقوق ادا کر کے آپ نے بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ کا پیارا وہی ہوتا ہے جو ایک طرف اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرے اور دوسری طرف حقوق العباد بھی.سیدہ منصورہ بیگم کی وفات پر غانا کی ایک عورت نے مجھے تعزیت کا خط لکھا اس میں اس نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہم نے اس بات کو خاص طور پر نوٹ کیا کہ جب بھی سیدہ منصورہ بیگم حضور کے ہمراہ تشریف لے جاتیں حضور اس وقت تک نہیں بیٹھتے تھے جب تک یہ تسلی نہیں ہو جاتی تھی کہ منصورہ بیگم بیٹھ گئیں ہیں اور اپنے نمونہ سے عورت کی عزت اور احترام قائم کرنے کا وہ مشورہ دیا جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے دیا تھا.سیده منصورہ بیگم کی وفات پر جس عظیم صبر کا آپ نے نمونہ دکھا یا وہ بھی اپنی مثال آپ تھا.سینتالیس سالہ رفیقہ حیات جدا ہو گئی ہے بچے تڑپ رہے ہیں آپ کہتے ہیں صبر کرو.الحمد للہ پڑھو.انا للہ پڑھو.رونا نہیں.جماعت کے لوگ آتے ہیں ان کو بھی یہی تلقین.منصورہ بیگم کی

Page 66

خطابات مریم 41 تحریرات وفات کے اگلے دن جمعہ تھا.اکثر کا خیال تھا کہ غم سے اتنے نڈھال ہیں اور کئی رات سے تیمارداری اور پریشانی کی وجہ سے سوئے نہیں اس لئے شائد جمعہ پڑھانے نہ جاسکیں لیکن جماعت کی تسلی کیلئے آپ گئے خطبہ دیا ، نماز پڑھائی، ساری جماعت کو صبر کی تلقین کی.اب تو میں محسوس کرتی ہوں کہ چونکہ چھ ماہ کے بعد ان کی اپنی وفات مقدر تھی.اللہ تعالیٰ جماعت کو اُن کے منہ سے صبر کی تلقین کروا کے آنے والے حادثہ کے لئے تیار کر رہا تھا.جب سیدہ منصورہ بیگم کی وفات کے بعد آپ نے دوسری شادی طاہرہ صدیقہ سلمہا سے کی تو پوری محبت اور وفاداری سے ان کے حقوق ادا کئے.اللہ تعالیٰ کی تقدیر دو ماہ بعد ہی وارد ہو گئی.لیکن دو ماہ کا عرصہ جو طاہرہ صدیقہ کے ساتھ گزرا محبت پیار اور خیال رکھنے کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہنے دیا.حضرت اماں جان سے بے حد پیار تھا اور میرے ابا جان اور چچا جان سے بھی جن کو حضرت مصلح موعود کی وجہ سے ان کے سب بچے بھی بڑے ماموں جان اور چھوٹے ماموں جان کہتے تھے.مئی 1982ء میں حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے میرے نواسے سید شعیب احمد کا نکاح پڑھایا جو حضرت میر محمد الحق صاحب کا پوتا ہے وہ آخری نکاح تھا جو اپنی خلافت میں آپ نے پڑھایا.خطبہ دیتے ہوئے حضرت اماں جان اور حضرت چچا جان کے ذکر پر بار بار آبدیدہ ہوتے تھے اور رقت طاری ہو جاتی تھی.نکاح کے بعد آپ قصر خلافت میں تشریف لائے.شام کو متین اور محمود ملنے گئے تو فرمانے لگے کہ متین ! اماں جان اور ماموں جان کی یاد سے میری عجیب کیفیت ہو گئی.یادیں آتی چلی گئیں اور اتنی رقت طاری ہوئی کہ خطبہ میں تمہارا ذکر بھی نہ کر سکا.خلیفہ خدا بناتا ہے اور اللہ تعالیٰ انتخاب کے وقت مومنین کے دلوں کو اس طرف پھیر دیتا ہے.ہر خلافت کے وقت ایسا ہی ہوا.حضرت مصلح موعود کی بیماری کے آخری ایام تھے.آخری بیماری میں جب آپ چلنے پھرنے کے قابل نہ رہے تھے جمعہ کے دن مؤذن پوچھنے آتا کہ جمعہ کون پڑھائے گا عموماً آپ فرماتے.شمس صاحب یعنی مولانا جلال الدین صاحب شمس کبھی شمس صاحب مرحوم ربوہ سے باہر گئے ہوتے تو فرماتے مولانا ابوالعطاء صاحب یا

Page 67

خطابات مریم 42 تحریرات قاضی محمد نذیر صاحب جمعہ پڑھا دیں.وفات سے دو تین دن پہلے جمعہ تھا.مؤذن پوچھنے آیا تو آپ نے فرمایا ناصر احمد مجھے اس وقت تعجب ہوا کہ اس سے پہلے مجھے یاد نہیں کبھی کہا ہو.دوبارہ پوچھا تو پھر یہی کہا کہ ناصر احمد.دفتر کا آدمی اطلاع دینے گیا تو حضرت مرزا ناصر احمد جمعہ پر جانے کے لئے تیار ہو رہے تھے.خیال بھی نہ تھا کہ جمعہ پڑھانا پڑے گا حکم کی تعمیل کی.یہ بھی یقیناً خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اشارہ تھا کہ آئندہ خلافت کی ذمہ داریاں ان پر پڑنے والی ہیں.بیرونی ممالک کے سات دورے کئے.دورہ کی جو رپورٹیں ان ملکوں کے اخباروں میں چھپتیں ضرور ایک دو اخباروں کے تراشے اپنے خط کے ساتھ بھیجتے.دورہ میں شدید مصروفیت کی وجہ سے مجھے توقع بھی نہ ہوتی تھی کہ خط لکھنے کے لئے وقت نکال سکیں گے لیکن ہر سفر میں چند خطوط ضرور مجھے ملتے تھے جو خوشی اور مسرت کا باعث بنتے تھے.فرخ کے نام بھی ضرور ایک آدھ کا رڈ آ جا تا تھا.اپنے بھائیوں اور بہنوں کی اولاد سے بہت محبت کی.ہر ایک سمجھتا ہے کہ ہم سے ہی سب سے زیادہ پیار تھا.اسی طرح چا زاد اور پھوپھی زاد بہن بھائیوں سے بھی.حضرت سیدہ اُمّم مظفر احمد کی وفات کے بعد ان کی اولا د کو بہت ہی شفقت دی.بہت مہمان نواز تھے.جب کالج کے پرنسپل تھے اور خدام الاحمدیہ کے صدر مجھے یاد ہے ان کے گھر خدام کی میٹنگیں ہوتیں.وقت بے وقت چائے کھانے کا خیال رکھنا.گرمیوں میں ڈلہوزی یا کسی اور پہاڑی مقام پر جانا تو چند خدام کو اس غرض سے ضرور ساتھ رکھا کرتے تھے کہ یہ لوگ جو پہاڑ پر نہیں آسکتے سیر و تفریح کر لیں.سب خرچ ان کا اُٹھاتے تھے.آپ نہایت بلند اخلاق تھے مگر ایک خوبی کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتی وہ تھی آپ کی خود داری.حضرت مصلح موعود تربیت کے نقطہ نظر سے اپنے سب ہی بچوں کو اتنا ہی خرچ دیا کرتے تھے کہ بس تنگی سے گزارہ ہوتا تھا.آپ پر بھی کئی دفعہ تنگی آئی لیکن کبھی آپ نے اپنے ابا جان سے نہیں مانگا دوسرے کئی بچے اپنی ضرورت کا اظہار کر دیتے تھے خود حضرت مصلح موعود کو علم ہوتا تو آپ نے ضرورت کے مطابق کچھ بھجوا دینا.خلیفہ ہونے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت دیا مگر اس کا اکثر حصہ غرباء پر خرچ کر دیتے تھے.مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ غریبوں اور

Page 68

خطابات مریم 43 تحریرات حاجت مندوں کی مدد کے لئے آپ کا دل بہت کھلا تھا.اس مختصر مضمون میں آپ کے کس کس وصف کا ذکر کروں.صبر اور شکر آپ کے اخلاق کی جان تھے.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بہت بلند فرمائے.سترہ سالہ خلافت میں آپ نے محبت سے سب کے دل جیتے اور اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ آپ کے دل میں محبت سب کے لئے تھی نفرت کسی کے لئے نہیں.ہمارا فرض ہے کہ آپ کی بلندی درجات کیلئے دعائیں کرتے رہیں آپ کی تحریکات کو عمل کے ذریعہ سے زندہ رکھیں.اے جانے والے! آپ پر سلام! آپ کی نیکیاں خوبیاں اور کارنامے رہتی دنیا تک زندہ رہیں گے اور سب سے بڑھ کر سپین میں ساڑھے سات سو سال کے بعد بیت کی بنیا درکھنا.خدا کرے کہ اسلام جلد سے جلد پین میں پھیلے اور جنت میں بھی آپ کو غلبہ کی خوشیاں پہنچتی رہیں جو آپ کا مقصد حیات تھا.آمین اھم آمین مدیرہ مصباح کے تقاضا پر چند سطور لکھ دی ہیں.سالانہ اجتماع پر آپ کے کا رہائے نمایاں کا تذکرہ کیا تھا جو مصباح میں چھپ چکا ہے.اس لئے ان واقعات کا دوبارہ ذکر نہیں کیا.حقیقت تو یہ ہے کہ...کی تاریخ لکھی ہی نہیں جاسکتی جب تک آپ کی غلبہ...کیلئے کوششوں پر آپ کو خراج تحسین نہ ادا کیا جائے.اللہ تعالیٰ اس جد و جہد کے تسلسل کو جاری رکھے تا وقتی...ساری دنیا میں پھیل جائے.آمین اللھم آمین (ماہنامہ مصباح دسمبر 1982ء) ☆.

Page 69

خطابات مریم 44 تحریرات دین کا ناصر پیارے ہو تم جانتے ہو کہ تشی کا یہ پر چہ حضرت خلیفتہ امیج الثالث تعالی کی یاد میں شائع کیا جا رہا ہے.آپ کی معلومات کے لیے چند سطر میں لکھ کر بھجوار ہی ہوں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث تعالیٰ کا نام مرزا ناصر احمد تھا.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے بڑے پوتے تھے اور حضرت مصلح موعود کے سب سے بڑے بیٹے.حضرت مصلح موعود نے قرآن مجید ناظرہ پڑھوانے کے بعد آپ کو قرآن مجید حفظ کروانا شروع کیا.ساتھ ساتھ دوسری تعلیم بھی ہوتی گئی.جب تک آپ قرآن مجید حفظ کرتے رہے، دوسری تعلیم کی طرف زیادہ توجہ نہ دی گئی.پھر آپ کو مدرسہ احمدیہ میں داخل کروایا گیا تا کہ آپ دینی تعلیم حاصل کریں.مدرسہ احمدیہ جس کی تعلیم دینی سکول کے برابر تھی مکمل کر کے آپ جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے.اعلیٰ نمبروں سے مولوی فاضل کیا پھر حضرت مصلح موعود نے انگریزی تعلیم حاصل کرنے کا ارشاد فرمایا.میٹرک ، ایف اے ، بی اے کر کے آپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور تعلیم کے بعد اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیا یوں تو حضرت مصلح موعود نے اپنی ساری اولا د کو ہی وقف کیا ہوا تھا لیکن اصل وقف وہ ہوتا ہے جو بچہ خود سوچ سمجھ کر کرے کہ میں نے دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے.جب حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنے ابا جان یعنی حضرت مصلح موعود کو لکھا کہ میں زندگی وقف کرتا ہوں تو آپ بہت خوش ہوئے اور آپ کو لکھا کہ میری تو شروع سے نیت تھی مگر میں اس انتظار میں تھا کہ تم خود وقف کرو اور ایک خط میں بہت خوشی کا اظہار کیا.جب آپ انگلستان سے تعلیم حاصل کر کے آئے تو حضرت مصلح موعود نے آپ کو جامعہ احمدیہ میں پڑھانے پر لگایا اور آپ نے آتے ہی کام شروع کر دیا بعد میں کالج کا پرنسپل مقرر کر دیا اور ہر جگہ آپ نے اطاعت امام کا بے نظیر نمونہ دکھایا جب آپ کالج کے پرنسپل تھے آپ نے کالج

Page 70

خطابات مریم 45 تحریرات کے لیے بے انتہا محنت کی اور تعلیم الاسلام کالج کے بچے ہر میدان میں آگے نکلے ان کی صحت ان کی تعلیم کا خیال اپنے بچوں سے بھی بڑھ کر رکھتے تھے.1965ء میں حضرت مصلح موعود کی وفات کے بعد آپ خلیفہ منتخب ہوئے.ایک نیا دور شروع ہوا جماعت نے آپ کی خلافت میں بہت ترقی کی.نئے مشن کھلے قرآن مجید کی بہت اشاعت ہوئی قرآن مجید کے تراجم ہوئے مساجد تعمیر ہوئیں اور سب سے بڑھ کر پین میں سات سوسال کے بعد مسجد کی تعمیر ہوئی.ا آپ نے بچوں کی طرف خصوصی توجہ فرمائی.خلیفہ ہونے کے کچھ عرصہ کے بعد ہی آپ نے مالی قربانی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے وقف جدید کی تحریک فرمائی کہ ہر بچہ اپنے خرچ میں سے ایک اٹھنی یعنی پچاس پیسے بچا کر دین کی خاطر جماعت کو دے.اچھی عادتیں بچپن میں ہی پڑتی ہیں قربانی کا جذبہ بھی بچپن سے ہی پڑتا ہے بچپن میں پیسے خرچ کرنے کا بچوں کو شوق ہوتا ہے آپ نے وقف جدید کا دفتر اطفال و ناصرات اس غرض سے شروع کیا تا بچپن سے ہی بچوں میں خیال پیدا ہو کہ ہم نے جماعت کی ترقی کے لیے کچھ کرنا ہے.بچوں میں تعلیم کا شوق پیدا کیا.ایک طرف تو جماعت کے مرد اور عورتوں کو یہ ہدایت دی کہ کوئی ایک فرد جماعت کا ایسا نہیں ہونا چاہئے جو قرآن نہ پڑھا ہوا ہو دوسری طرف ہر بچہ میں پڑھائی کا شوق پیدا کرنے کے لیے طلائی تمغوں اور وظائف کا سلسلہ شروع کیا ہر بچہ کو ارشاد فرمایا کہ اپنے سالانہ امتحان کے نتیجہ سے حضور کو آگاہ کرے حضور اس کا نتیجہ دیکھتے اور اس کے لئے دعا کرتے تھے.آپ نے جماعت کے بچوں کو ہر وقت مسکرانے کا سبق دیا ہے.1974ء کے فساد میں جب آپ کے پاس نوجوان آکر بتاتے تھے کہ فلاں کے ساتھ یہ ہوا فلاں کو یوں دکھ دیا گیا تو آپ اسے فرماتے کہ مسکرا کر بات کرو ہمت دلاتے ، پیار کرتے تسلی دیتے اور جب وہ آپ کے پاس سے جار ہا ہوتا تو اس کے دل میں ایک نیا عزم ہوتا ہے.اپنی ساری زندگی انہوں نے بچوں کو یہی سبق دیا کہ کیسے ہی خطرات پیش آئیں ہنستے ہوئے انہیں برداشت کرنا ہے.آپ نے ” محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں“ کا نعرہ بلند کر کے پیارے بچو! آپ کو

Page 71

خطابات مریم 46 46 تحریرات سبق دیا کہ اپنے دلوں میں ہر ایک کی محبت پیدا کرو.دشمنی کسی سے نہیں کرنی.حقیر کسی کو نہیں سمجھنا.نفرت احمد یہ جماعت کے بچے کسی سے نہیں کرتے.اسی عزم سے آگے بڑھتے جاؤ اپنے دشمنوں کے لیے بھی دعا کرو کیونکہ تم کسی کے دشمن نہیں.یہ سبق اپنی ساری خلافت میں حضرت خلیفہ اسیح نے آپ کو دیا.آپ نے بیرونی ممالک کے سات دورے کیے.آپ جہاں بھی گئے آپ نے بچوں سے بہت پیار کیا ، بہت شفقت فرمائی.ان کے ماں باپ کو ان کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دلائی.افریقہ کے بچوں کو گودوں میں لے لے کر ان کے منہ چومے، سینہ سے لگایا.وہ ممالک بہت پس ماندہ سمجھے جاتے ہیں گورے رنگوں والی قومیں ان کے سیاہ رنگ کی وجہ سے ان سے ذلت کا سلوک کرتی رہی ہیں.آپ نے انسانیت زندہ باد کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ان مظلوموں بے کسوں کو سہارا دیا.وہاں کے طلباء کے لیے وظائف مقرر کیے ان کی اعلیٰ تعلیم کے لیے.مغربی افریقہ کے قریباً سب ملکوں میں سکول کھولے، یہاں سے اساتذہ پڑھانے کے لیے بھجوائے ، تا علم کی دوڑ میں وہ دنیا کے دوسرے بچوں سے پیچھے نہ رہ جائیں.غرض آپ کا وجود جہاں ساری جماعت کے لیے ابر رحمت تھا وہاں بچوں کے لیے محبت کا ایک بحر بیکراں تھا.آپ نے مجلس شوری میں کئی بار اعلان فرمایا اگر کوئی بچہ بھی ایسا ہے جو ذہین ہے محنتی ہے لیکن مالی استطاعت نہیں رکھتا اعلیٰ تعلیم کی میں اس کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا ذمہ دار ہوں ایک بچہ بھی جو ذہین ہو اور اچھے نتائج اس کے ہوں اس کو صرف مالی کمی کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے ہر گز محروم نہیں رکھنا.چنانچہ سینکڑوں بچے ایسے ہیں جن کی تعلیم کی راہ نمائی بھی آپ نے فرمائی اور ان کی تعلیم کے خرچ کا انتظام بھی آپ نے فرمایا یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دیئے ہیں یہ فرق بھی نہ کیا کہ یہ احمدی ہے یا نہیں.بچوں کی صحت کی طرف بہت توجہ فرمائی.جب آپ کا لج میں پرنسپل تھے تو کالج کے بچے ہر میدان میں آگے نکلتے تھے تعلیم الاسلام کالج کا کشتی رانی کا مقابلہ تو شہرت پا چکا تھا اور کسی کو جرات نہیں تھی کہ تعلیم الاسلام کالج کی ٹیم کو ہرا سکے.آپ ہر حصہ لینے والے کھلاڑی کی غذا

Page 72

خطابات مریم 47 تحریرات کا خیال رکھتے تھے.کبھی اسے دودھ پلوانے کا انتظام ہے تو کبھی سویا بین کھلوا ر ہے ہیں غرض کہ ہر بچہ کی صحت کا خیال فرماتے اس کے مزاج اور ضرورت کے مطابق.پیارے بچو! آج وہ پاک وجود ہم سے رخصت ہو چکا ہے لیکن جو عظیم سبق انہوں نے آپ کو دیئے ان کو یا درکھنا آپ کا کام ہے اور ان کا خلاصہ یہ ہے کہ :.اپنی پڑھائی کی طرف بہت توجہ دیں وقت نہ ضائع کریں اعلیٰ نتائج دکھا ئیں اور پھر اپنے نتیجہ سے حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کو اطلاع دیں.اپنی تنظیم میں رہتے ہوئے جماعت کے کاموں میں بچپن سے ہی بشاشت سے حصہ لیں مالی قربانی حتی المقدور دیں.وقف جدید دفتر اطفال میں شرکت کریں.کوئی بچہ ایسا نہ رہے جس نے اس میں حصہ نہ لیا ہو.لڑائی جھگڑے سے دور رہیں آپ نے ہر ایک سے محبت کرنی ہے کسی سے لڑنا نہیں نفرت نہیں کرنی کسی کو بُرا نہیں سمجھنا ہے نہ بُرا کہنا ہے مظلوم کی حمایت کریں.ہر ضرورت مند کی حمایت کے لیے آگے آئیں.ان کے بوجھ خود اٹھا ئیں.خواہ وہ کوئی ہو.ہمت بلند کریں.بڑے سے بڑے خطرہ کے وقت بھی اسی طرح مسکراہٹیں بکھیر تے رہیں جس طرح حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بکھیریں.یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ سب ترقیاں اور برکتیں خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں اس لیے خلیفہ وقت کی ہمیشہ اطاعت کرو اور اپنی اپنی عمر کے مطابق خلیفہ وقت کے احکام کی تعمیل میں پوری محنت سے کام لو اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا کرے.☆.☆ (ماہنامہ تشحید الاذہان مئی 1983ء)

Page 73

خطابات مریم 48 ہمارا جلسہ سالانہ اور احمدی خواتین کا فرض تحریرات جلسہ سالانہ کی ابتداء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہوئی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر سال کا جلسہ سالانہ پہلے سے زیادہ کامیاب ہوتا ہے.جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں پر اللہ تعالیٰ کی بہت سی برکتوں کا نزول ہوتا ہے.بدقسمت ہے وہ شخص جو جلسہ سالانہ پر آئے اور اُن کو حاصل نہ کر سکے جو نقائص ہر سال سامنے آتے ہیں ان کی روشنی میں اپنی بہنوں کو توجہ دلائی جائے خصوصاً عہدیداران لجنہ اماءاللہ کو کہ ہر شہر ہر قصبہ ہر گاؤں میں وہ بہنوں کو یہ ہدایات دیں.1- جلسہ سالانہ پر آنے کی سب سے بڑی غرض حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب اور دیگر تقاریر کا سننا ہوتا ہے خواہ وہ مردانہ جلسہ گاہ سے ہو رہی ہوں یا زنانہ جلسہ گاہ میں عورتیں کر رہی ہوں بڑی محنت سے تقریریں تیار کی جاتی ہیں.اس لئے تیار کی جاتی ہیں کہ عورتیں اور لڑکیاں انہیں سنیں.ان کا علم بڑھے اور ان کی تربیت ہو اور وہ اپنی زندگیاں اس کے مطابق ڈھال سکیں.اگر وہ توجہ سے ان تقاریر کو سنیں گی ہی نہیں تو عمل کیسے کریں گی.پس اگر آپ نے جلسہ پر آنا ہے اور آپ کو ضرور آنا چاہئے معمولی بہانے آپ کو جلسہ پر آنے سے نہ روک سکیں تو یہ بھی عہد کر کے آئیں کہ ہم جلسہ سننے کی غرض سے جا رہے ہیں اور ہر قیمت پر توجہ سے جلسہ سنیں گے.خواہ ٹکٹ سٹیج کا ہے یا نہیں.خواہ حلقہ خاص یعنی کرسیوں کا ہے یا نہیں خواہ کسی جگہ سے مگر خود بھی جلسہ سنیں گے خاموش رہیں گے اور دوسروں کو بھی سننے دیں گے.سٹیج اور حلقہ خاص کے لئے قوانین الفضل میں شائع کئے جا چکے ہیں.اس کے مطابق جو ان معاہدوں پر پوری اُترتی ہو ہر شہر کی صدر ان کے نام بھجوا دے.سٹیج کے بھی اور حلقہ خاص کے بھی وقت کم ہے.نظارت اصلاح وارشاد سے منظوری کے بعد ٹکٹ جاری کئے جائیں گے.ٹکٹ جس کی منظوری آ چکی ہوگی اُس نے خود آ کر لینا ہوگا.ٹکٹ دوران جلسہ کسی کو نہیں ملے گا.اس لئے اصرار بھی نہ کریں خواہ وہ کہیں سے بھی آئی ہوں.اگر وہ اپنے آپ کو مستحق سمجھتی ہوں تو دو اجلاسوں کے درمیان لے سکتی ہیں.

Page 74

خطابات مریم 49 تحریرات 2- جلسہ گاہ میں جب تقریریں ہو رہی ہوں تو ہر عورت عزم کر کے آئے کہ باتیں نہیں کریں گی.کسی سے ملنے کے لئے نہیں اُٹھیں گی.قطاروں میں چلیں گی.جہاں جگہ مل جائے گی بیٹھ جائیں گی کارکنات کے ساتھ سخت کلامی نہیں کریں گی.بچوں کو اپنے پاس بٹھا ئیں گی.اگر راستہ رکا ہوا ہے تو انتظار کریں گی دھکے دے کر نہیں آگے جائیں گی.3- صفائی کا بہت خیال رکھیں.راستوں میں غلاظت نہ پھیلا ئیں ہر عورت سے درخواست ہے کہ وہ پلاسٹک کی تھیلی اپنے ساتھ لائے.دوران جلسہ کچھ کھا نا ہوتو چھلکے وغیرہ تھیلی میں ڈال کر کوڑے کے ڈرم جو لگوائے جائیں ان میں ڈال دے.بچوں کو کسیر پر پاخانہ نہ کروائیں.آنے والوں کے پاؤں گندے ہو جاتے ہیں.بیت الخلاء کو بھی صاف رکھیں.بچوں کے لئے پلاسٹک کی جانگیہ ساتھ لائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صفائی پر بہت زور دیا ہے خود صاف رہیں جگہ کو صاف رکھیں قیام گاہ اور جلسہ گاہ کہیں بھی آپ کی وجہ سے گندگی نہ پھیلے نہ راستوں میں.اپنے بچوں کی حفاظت کریں.چھوٹے بچوں کے گلوں یا جیبوں میں نام، پتہ لکھ کر ڈال دیں.4.جو عورتیں زنانہ انتظام میں قیام گاہوں میں ٹھہرتی ہیں وہ اپنا سامان الگ باندھ کر رکھیں.ان کے جب رشتے دار ملنے آتے ہیں تو بہت دقت کا سا منا ہوتا ہے.5.غرض چھوٹی چھوٹی تکلیفوں کی وجہ سے اگر وہ آپ کو پہنچیں تو ان برکتوں کو ضائع نہ کریں جو جلسہ میں شمولیت کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں.اصل مقصد جلسہ سننا اور عمل کرنا ہے.اس لئے بے وجہ وقت ضائع نہ کریں.ملاقاتیں گھروں میں جا کر کریں.راستوں میں مصافحے نہ کریں.جلسہ گاہ کا نظام درہم برہم کر کے سٹیج پر بڑھ کر مصافحہ کرنے کی کوشش نہ کریں.ابھی سے دعاؤں میں لگ جائیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو عمل کرنے کی توفیق دے اور عہدیداران لجنہ ان ہدایات کو زیادہ سے زیادہ مستورات تک پہنچانے کی کوشش کریں.خصوصاً دیہات کی جماعت کے مربیان صدروں اور امراء سے بھی میری درخواست ہے کہ جمعہ کے دن یہ ہدایات مستورات کے کانوں تک پہنچا دیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو جلسہ سالانہ کی برکات سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے.آمین (روز نامہ الفضل 21 دسمبر 1983ء)

Page 75

خطابات مریم 50 50 وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا تحریرات حضرت مصلح موعود 1889ء میں پیدا ہوئے آپ کی پیدائش سے بھی قبل اللہ تعالیٰ نے آپ کی ساری زندگی کا نقشہ کھینچ دیا تھا اور حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ نے وہ ساری تصویر دنیا کے سامنے رکھ دی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ ان صفات کا بیٹا اللہ تعالیٰ مجھے عطا کرے گا.مخالفتوں کی آندھیاں چلیں، اعتراضات کئے گئے لیکن اللہ تعالیٰ کی بات بھی کبھی ٹلی ہے چنانچہ آپ پیدا ہوئے باوجود کمزوری صحت کے اللہ تعالیٰ نے جن صفات کی نشاندہی کی تھی وہ دنیا کو آپ کے وجود میں نظر آنے لگیں.1914ء میں آپ جماعت کے امام منتخب ہوئے اور آپ کی اصلاحات کا دور شروع ہوا.آپ نے جتنے احسانات دوستوں ، دشمنوں، مردوں، عورتوں اور مُلک پر کئے ایک بہت لمبی داستان ہے آپ کا لمحہ لمحہ ملک کی بہتری ، جماعت کی ترقی میں گزرا.یہاں مجھے اس مختصر نوٹ میں صرف عورتوں پر جو احسانات کئے ان کا تذکرہ کرنا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی جو صفات آپ کی پیدائش سے بھی پہلے بتائی تھیں ان میں ایک یہ تھی کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.اسیر ظاہر طور پر بھی ہوتے ہیں اور ذہنی فکری طور پر بھی.اس زمانہ میں عورت بھی اسیر کا درجہ رکھتی تھی وہ آزادی جو مسلمان عورت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی.ہندوؤں کے ساتھ رہ کر وہ ختم ہو چکی تھی تعلیم بے حد کم تھی ملک اور قوم کی خدمت کا تصور بھی نہ تھا.حضرت مصلح موعود نے خلیفہ ہوتے ہی لڑکیوں کی تعلیم پر بے حد زور دیا.ان کے لئے کالج جاری کیا.احمدی جماعت میں تعلیم دینے والی استانیوں کی کمی تھی آپ نے مدرستہ الخواتین جاری فرمایا جس میں آپ بنفس نفیس تعلیم دیتے رہے اور چند سال کی تعلیم کے بعد وہ اس قابل ہو گئیں کہ سکول میں بچیوں کو تعلیم دے سکیں.پہلے پرائمری سکول تھا پھر مڈل ہوا.پھر اسے ہائی سکول کا درجہ دیا گیا اور جب ہائی سکول سے معقول تعداد بچیوں کی تعلیم پا کر فارغ ہونے لگی تو کالج جاری کیا گیا.دنیاوی تعلیم کے پہلو بہ پہلو د بینیات کا کالج بھی

Page 76

خطابات مریم 51 تحریرات جاری کیا گیا جس میں چھ سال پڑھ کر لڑکیاں خوب اچھی طرح دینی تعلیم سے واقف ہو جاتی تھیں تعلیم کے علاوہ آپ نے خطبات، تقاریر کے ذریعہ سے ان کے دلوں میں احساس ذمہ داری پیدا کیا.یہ بتاتے ہوئے کہ قومی ذمہ داریاں جس طرح مردوں پر عائد ہوتی ہیں اسی طرح عورتوں پر بھی.اس مقصد کے لئے 1922ء میں آپ نے لجنہ اماءاللہ قائم کی تا ایک تنظیم.منسلک ہو کر وہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکیں.شروع میں اس تنظیم کا ممبر بننا عورتوں کی اپنی مرضی پر تھا لیکن 1939ء میں آپ نے سب احمدی مستورات کے لئے لجنہ اماءاللہ کا ممبر بنا لازمی قرار دے دیا.حضور کی قیادت میں احمدی خواتین ترقی کرتی چلی گئیں قوم کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا کرنے کیلئے ان کے ذمہ کئی چندے لگائے مثلاً بیت الذکر لندن کا چندہ اور بیت الذکر ہالینڈ کا چندہ وغیرہ.آہستہ آہستہ وہ عورتیں جو کبھی اپنی ضروریات پر دینی ضروریات کو مقدم رکھنے کا تصور بھی نہیں رکھتی تھیں انہوں نے بیش قیمت زیورات حضور کی خدمت میں پیش کر دیئے.یہ قربانی صرف ان عورتوں نے نہیں کی جو امیر تھیں اور جن کے پاس دینے کو زیور اور روپے تھے بلکہ وہ غریب ترین عورتیں جن کے پاس کچھ نہیں تھا بلکہ جن کو گزارہ کیلئے انجمن سے رقوم ملتی تھیں انہوں نے بھی سب کچھ پیش کر دیا یہ تک نہ دیکھا کہ شام کے کھانے کے لئے بھی کچھ ہے یا نہیں.غرض احمدی عورت کے کردار کی تعمیر اور قربانیوں کا جذبہ پیدا کرنے کیلئے حضرت مصلح موعود نے بہت لمبا عرصہ کوشش کی.ایک سکیم ختم ہوتی دوسری شروع ہو جاتی.ناخواندہ کو خواندہ بنانے کا کام لجنہ اماءاللہ کے سپرد کیا اور اس وقت قادیان میں ایک عورت بھی ایسی نہ رہی جو پڑھ لکھ نہ سکتی ہو.عورتوں میں علم کا شوق اور اس علم کا اظہار تحریر کے ذریعہ کرنے کے لئے آپ نے مصباح جاری فرمایا.شروع میں اس کی ادارت مردوں کے ہاتھوں میں رہی.عورتیں مضمون لکھ کر بھجوا دیا کرتی تھیں لیکن 1947 ء سے گلی طور پر عورتوں نے اس کو بھی سنبھال لیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مصباح بہت باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے لیکن ابھی تک ہم اسے دوسرے رسالوں کے مقابلہ میں ایک معیاری رسالہ کے طور پر نہیں کر سکے.اس میں کوئی شک نہیں کہ لجنہ اس زمانہ سے آج بہت ترقی کر چکی ہے اور وہ ہر قربانی دینے کیلئے ہر وقت تیار رہتی ہیں.اس نوٹ کے ذریعہ میں اپنی تعلیم یافتہ ادب کا ذوق رکھنے والی اور جنہیں لکھنے کا شوق

Page 77

خطابات مریم 52 59 تحریرات ہے توجہ دلاتی ہوں کہ حضرت مصلح موعود کی اس یاد گار کو جو ہر جگہ اپنی روشنی پھیلا رہی ہے بجھنے نہ دیں بلکہ اس کی روشنی کو تیز سے تیز کرنے کی کوششیں کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ کا دفتر گرا کر دوبارہ تعمیر کیا جا چکا ہے اور عنقریب ہال کی تعمیر شروع ہونے والی ہے جس کے لئے 26 لاکھ روپے کی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 16 جنوری کو تحریک فرمائی ہے میں امید کرتی ہوں کہ جس نیک ظن کا اظہار آپ کے متعلق حضور نے فرمایا ہے اسے آپ پورا کریں گی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر قربانی پیش کریں گی.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ دو سال کے عرصہ میں یہ چندہ آپ جمع کرسکیں.آپ کی کوشش ہونی چاہئے کہ ہر احمدی بہن تک اس تحریک کو پہنچائیں تا کوئی احمدی بہن اس نیک تحریک میں شامل ہونے سے رہ نہ جائے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور جس معیار پر حضرت مصلح موعود آپ کو پہنچانا چاہتے تھے آپ پہنچیں اور نمونہ بنیں ساری دنیا کیلئے.☆.☆ (ماہنامہ مصباح فروری 1987ء)

Page 78

خطابات مریم 33 53 تحریرات میری پیاری بہن حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اس سال جماعت احمدیہ کو اور بالخصوص مستورات کو جو المناک صدمہ پہنچا وہ حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا وصال ہے جو اچانک 6 رمئی 1987 ء کو ہوا.آپ حضرت بانی سلسلہ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں.حضرت بانی سلسلہ کو مئی 1904ء میں الہام ہوا.” ذختِ کرام“.چنانچہ اس الہی بشارت کے مطابق حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ 25 / جون 1904ء کو پیدا ہوئیں.حقیقۃ الوحی صفحہ 208 پر حضرت بانی سلسلہ نے آپ کی پیدائش کو اپنی صداقت کا چالیسواں نشان قرار دیا ہے.کرام کریم کی جمع ہے جس کے معنی ہیں صاحب عزت، صاحب مرتبہ بھی لوگ.حضرت بانی سلسلہ کی ساری اولا د آپ کی صداقت کا عظیم الشان نشان تھی اور ہر ایک کے متعلق جو آپ کو خبر دی گئی وہ بڑی شان و شوکت کے ساتھ پوری ہوئی جب حضرت بانی سلسلہ کا وصال ہوا اس وقت آپ کے سبھی بچے چھوٹے تھے.حضرت فضل عمر ۱۹ سال کے اور حضرت سیده امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ صرف چار سال کی.کون دعویٰ سے اپنی اولاد کے متعلق کہہ سکتا ہے کہ میری اولا دایسی ہوگی ؟ سوائے ان کے جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بشارت دی گئی ہو چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ آپ کی ساری اولاد کے متعلق وہ تمام پیشگوئیاں جو آپ نے کی تھیں نہایت شان وشوکت کے ساتھ پوری ہوئیں.باوجود اس کے کہ حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے حضرت بانی سلسلہ سے کوئی تربیت حاصل نہیں کی بلکہ آپ اتنی چھوٹی تھیں کہ کوئی بات بھی یاد نہیں رہی.پھر بھی آپ کی شخصیت میں وہ تمام خوبیاں نمایاں طور پر اُبھریں جن کی حضرت بانی سلسلہ کو آپ کی ولادت سے قبل خبر دی گئی تھی.حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے اپنے بیٹوں میں سے حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب کیلئے آپ کا انتخاب کیا اس سلسلہ میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے حضرت نواب محمد عبداللہ خاں صاحب

Page 79

خطابات مریم 54 تحریرات کے حالات زندگی جو محترم ملک صلاح الدین صاحب نے اصحاب احمد کی بارہویں جلد میں مرتب کئے ہیں کا پیش لفظ تحریر کرتے ہوئے فرمایا.15،14 سال کی عمر سے ہی ان میں احمدیت کی پختگی اور سعادت دیکھ کر ان کے والد ( نواب محمد علی خاں مرحوم) نے ان کو چن لیا تھا.عزیزہ امتہ الحفیظ بیگم کیلئے رشتہ کا پیغام دینے کو.کہ میرا یہی لڑکا مناسب اور موزوں ہے.فرماتے تھے کہ حضرت بانی سلسلہ کی دختر کا پیام اس کیلئے دینے کی جرات کر سکتا ہوں جس کو ایمان و اخلاص اور احمدیت میں دوسروں سے بڑھ کر پاتا ہوں پھر یہ رشتہ ہو گیا اور مبارک ہوا.خود حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب کا بیان ہے کہ ” جب میری شادی حضرت بانی سلسلہ کے گھر ہونے لگی تو حضرت والد صاحب نے مجھے تحریر فرمایا کہ اپنا رشتہ ہونے پر بھی میں کس طرح حضرت اماں جان اور حضرت صاحب کی اولاد اور اولاد در اولاد کا احترام کرتا ہوں اور لکھا تھا کہ اگر یہی طرز تم بھی برت سکو تو پھر اگر تمہاری منشاء ہو تو میں اس کی تحریک اور استخارہ کروں ورنہ ایسے پاک وجودوں کی طرف خیال لے جانا بھی گناہ ہے“.(اصحاب احمد جلد 12) حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے اُس خط کے الفاظ میں درج کرتی ہوں جو آپ نے 9 رمئی 1914ء کو اپنے صاحبزادے نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کو لکھا تھا.اس خط کے الفاظ بتاتے ہیں کہ آپ کے دل میں حضرت بانی سلسلہ کی بیٹیوں کے لئے کتنی عزت اور احترام تھا.آپ کہتے ہیں :.”اب میں پھر رشتے کے متعلق لکھتا ہوں اس معاملہ میں ایک مشکل بھی ہے اگر تم اس مشکل کو برداشت کر سکتے ہو تو رشتے کی طرف توجہ کرنا ورنہ پھر بہتر ہے کہ تم ہاں نہ کرنا.دوسرے یہ کہ رشتہ کے بعد حضرت صاحب یا ان کے خاندان سے ہمسری اور ہم کفی کا خیال اکثر لوگ کر بیٹھتے ہیں اور اس سے ابتلاء آتا ہے.قابل غور امر یہ ہے کہ حضرت صاحب کے ساتھ رشتہ کیوں چاہا جاتا ہے صاف بات ہے کہ جب ان کے کپڑے تک بابرکت ہیں تو ان کے جگر کے ٹکڑے کیوں نہ با برکت ہوں گے“.

Page 80

خطابات مریم 55 55 تحریرات آپ کا نکاح حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب سے 17 جون 1915ء کو حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی مرحوم نے پڑھا اور 22 فروری 1917ء کو آپ کے رخصتانہ کی تقریب عمل میں آئی.اللہ تعالیٰ نے بے حد محبت کرنے والا قدر شناس خاوند اور سعادت مند اولا د عطا فرمائی.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب نے بار ہا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت بانی سلسلہ کی بیٹیوں کے زمین سنبھالنے کی وجہ سے میری آمد میں برکت ڈالی ہے ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا.” میرا دل چاہتا ہے کہ جو کچھ میرا ہے وہ سب اس کی خاطر قربان ہو جائے...در اصل عملی طور سے ہے بھی یہی.میں اپنے آپ کو حضرت صاحب کی دو بیٹیوں کا خادم سمجھتا ہوں.میری ساری کوشش اور محنت صرف اس لئے ہے کہ اُس پاک وجود کے جگر پارے آرام پائیں جن میں سے ایک کو اس نے میرے والد اور ایک کو میرے سپرد کیا ہے“.(اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 66) اپنی سب سے بڑی بیٹی عزیزہ طیبہ بیگم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی شادی پر آپ نے اپنی بیٹی کو نصائح کرتے ہوئے تحریر فرمایا :.تمہاری امی اس معاملہ میں بہترین نمونہ ہیں تم نے خود دیکھا کہ کس قدر تنگی انہوں نے میرے ساتھ اُٹھائی لیکن اس کو نہایت وفا اور محبت کے ساتھ گزار دیا.مجھے بڑی خوشی ہوگی اگر تم بھی اپنی امی کی طرز اختیار کرو وہ تمہارے لئے بہترین نمونہ ہیں.(اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 50) حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب دل کے شدید حملہ سے ایک لمبا عرصہ بیمار رہے.آپ کی بیماری میں حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے بے مثال خدمت کا نمونہ دکھایا.اسی خدمت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے آپ نے تحریر فرمایا.یہاں اگر اپنی بیوی حضرت ذختِ کرام امتہ الحفیظ بیگم کا ذکر نہ کروں تو نہایت ناشکری اور ظلم ہوگا.یہ نور کا ٹکڑا حضرت صاحب کا جگر گوشہ کسی خدمت اور کس

Page 81

خطابات مریم 56 56 تحریرات نیکی کے عوض مجھے حاصل ہوا ہے اس بات کو سوچ کر میں ورطۂ حیرت و استعجاب میں پڑ جاتا ہوں“.(اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 184) آپ حضرت اماں جان کی بہت پیاری بیٹی اور سب بہن بھائیوں کی بہت لاڈلی بہن تھیں.حضرت فضل عمر نے آپ سے بیٹوں کی طرح محبت کی.آپ نے قرآن مجید ختم کیا تو آپ کی آمین لکھی جس میں خدا تعالیٰ کے احسانوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے اپنے بہن بھائیوں کے لئے عظیم دعائیں کیں.آپ فرماتے ہیں.حفیظہ جو میری چھوٹی بہن ہے نہ اب تک وہ ہوئی تھی اس میں رنگیں ہوئی جب ہفت سالہ تو خدا نے پہنایا اسے بھی تاج زریں کو پڑھایا ہمارا پاسباں ہو کلام الله اللہ سب اس بنایا گلشن قرآن کا گل چیں الہی جیسی دولت عطا کی ہمیں توفیق دے صدق و صفا کی تیرے چاکر ہوں ہم پانچوں الہی ہمیں طاقت عطا کر تو وفا کی الہی تو ہمیں ہر وقت تو راحت رساں ہو ہمیں اپنے لئے مخصوص کرلے ہمارے دل میں آ کر مہماں ہو عطا کر جاہ و عزت دو جہاں میں ملے عظمت زمین و آسماں میں بنیں ہم بلبل بستان احمد ہے برکت ہمارے آشیاں میں بنیں ہم سب کے سب خدام احمد کلام اللہ پھیلائیں جہاں میں تاریخ گواہ ہے کہ جہاں حضرت بانی سلسلہ کی ساری بشارتیں آپ کی اولاد کے متعلق بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئیں وہاں حضرت فضل عمر کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی یہ دعائیں بھی مستجاب ہوئیں.حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ گو ایک لمبے عرصہ سے بیمار تھیں لیکن پھر بھی جماعت کی خواتین اور بچیاں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں اور آپ کی دعاؤں اور نصائح سے مستفیض ہوتیں جس سے اب ہم محروم ہو گئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک اور عظیم سعادت یہ عطا فرمائی تھی کہ بیرون پاکستان سوئٹر رلینڈ

Page 82

خطابات مریم 57 تحریرات کے بیت الذکر کا سنگ بنیاد آپ کے مبارک ہاتھوں سے رکھا گیا.آپ نے 24 /اگست 1962ء کو زیورچ میں خانہ خدا کی عمارت کا سنگ بنیاد اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ رکھنے کی توفیق پائی.قدرت ثانیہ کے مظہر ثالث کی وفات کے بعد جب حضرت مرزا طاہر احمد صاحب منتخب ہوئے تو آپ نے اپنے متبرک ہاتھوں سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی الیس الله بکاف عبدہ والی انگوٹھی آپ کو پہنائی.آپ بہت خوش خلق ، بہت منکسر المزاج، بہت ہمدرد ، بہت دعائیں کرنے والی ، بہت برکتیں رکھنے والی ہستی تھیں.جو ہم سے جدا ہو گئیں لیکن ہمارا خدا زندہ خدا ہے جو ہمہ وقت ہمارے ساتھ ہے.امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کے فرمان کے مطابق ہمیں اپنی قربانیوں اور اخلاص سے ان برکتوں کا مورد بننا چاہئے جو کبھی ختم نہ ہوں بلکہ ہمیشہ ہمیش جاری رہیں.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.آمین حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ میری پھوپھی زاد بہن تھیں.ہم دونوں میں عمر کا بہت فرق تھا.1932ء میں حضرت والد صاحب ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم سے جو ان دنوں رہتک میں سول سرجن لگے ہوئے تھے مجھے تعلیم کے لئے قادیان بھجوا دیا کچھ عرصہ تو میں اپنی نانی اماں کے گھر رہی.پھر باقی بہن بھائی بھی پڑھنے کیلئے قادیان آگئے اور والدہ صاحبہ بھی آگئیں.ان دنوں حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ حضرت اماں جان کے پاس مقیم تھیں اور ایف.اے انگریزی کے امتحان کی پرائیوٹ طور پر تیاری کر رہی تھیں.میری اچھی طرح جان پہچان اُن سے اِس عرصہ میں ہوئی.میں اکثر حضرت اماں جان کے ہاں جایا کرتی تھی آپ کی صحبت میں گزارے ہوئے وہ دن اب بھی بڑی شدت سے یاد آتے ہیں.عمر کے فرق کے باوجود ہم دونوں بہت بے تکلف تھیں.میری سلائی اچھی تھی آپ نے اپنی چھوٹی بچیوں کے کئی فراک مجھ سے سلوائے.پھر میری شادی ہوئی تو آپ سے نند کا رشتہ بھی ہو گیا.عمر کے ساتھ ساتھ میرے دل میں آپ کی عزت اور احترام بڑھتا ہی چلا گیا.جب حضرت اماں جان بہت بیمار ہوئیں تو انہی دنوں لاہور میں حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب بھی بہت علیل تھے.آپ کے لئے شوہر کو چھوڑنا بھی مشکل تھا اور اِدھر حضرت اماں جان کی طبیعت بھی

Page 83

خطابات مریم 58 تحریرات دن بدن گر رہی تھی.آخر اپنی بیٹی کو ان کے پاس چھوڑ کر آپ ربوہ آ گئیں اور حضرت اماں جان کی خدمت کرتی رہیں.حضرت اماں جان کی وفات اور تدفین کے اگلے روز آپ لاہور واپس چلی گئیں.حقیقت یہ ہے کہ میری تو تربیت ہی میرے سسرال میں ہوئی اور حضرت اماں جان کی ذاتی توجہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت سیدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ سے بہت کچھ سیکھا.آپ بہت وسیع القلب ، بہت خوش اخلاق اور بہت وسیع النظر تھیں.ایک دفعه بعض غلط فہمیوں کی بناء پر میرے اور میرے ایک عزیز کے درمیان کچھ کشیدگی ہو گئی.آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے اپنی خدا دادفراست سے کام لیتے ہوئے وہ کشیدگی فوراً دور کروا دی.آپ میں برداشت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.آپ نے اپنے شوہر اور داماد کی المناک وفات کے دو بڑے صدمے زندگی میں برداشت کئے جس سے آپ کی صحت دن بدن گرتی چلی گئی.خاندان حضرت بانی سلسلہ کی بنیاد جن ستونوں پر رکھی گئی آپ کا وجود ان میں سے آخری ستون تھا.گلشن احمد کے یہ پھول اپنی اپنی مہک دکھلا کر رخصت ہو گئے.اب ہم سب نے اِس مہک کو سدا قائم رکھنا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی روح پر اپنے بے شمار فضل نازل کرے اور ہمیں اپنی.ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ماہنامہ مصباح جنوری 1988ء) ☆.

Page 84

خطابات مریم 59 حضرت فضل عمر کی اہلی زندگی کی ایک جھلک تحریرات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کے لئے ایک نمونہ بنا کر بھیجا.اسی طرح آپ کے غلاموں میں سے جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا کیا ان کو بھی نمونہ بنایا اور انہوں نے زندگی کے ہر پہلو میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلنے کی کوشش کی.اہلی زندگی میں عورت سب سے زیادہ مرد کے قریب ہوتی ہے.حضرت فضل عمر نے بھی سات شادیاں کیں.ایک سے زیادہ بیویوں کو رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے.انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے دیکھا جائے تو زندگی گزارنا بہت مشکل امر ہے.آپ کی ہر شادی اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت کے ماتحت ہوئی اور آپ نے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کیا.میری پیدائش 7 / اکتوبر 1918 ء کو ہوئی.بظاہر ممکن نہیں نظر آتا تھا کہ آپ سے میری شادی ہوگی.حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ) کہا کرتی تھیں کہ میری خواہش ہے کہ میرے بھائی کے بیٹی ہو تو میں محمود کے لئے لوں لیکن حضرت ابا جان ( میر محمد اسماعیل صاحب) کی پہلی بیوی سے کوئی اولا د نہیں ہوئی پھر ۱۹۱۷ء میں ابا جان نے دوسری شادی کی جس سے اولاد ہوئی ابا جان نے میری پیدائش پر میرا تاریخی نام نکالا تو نذر الہی نکلا اور میں چھوٹی ہی تھی کہ ایک موقع پر انہوں نے مجھے وقف بھی کر دیا.میری پیدائش بھی کمزور تھی ہم جوڑا بہنیں پیدا ہوئی تھیں.میرا نام ابا جان نے مریم اور دوسری کا صدیقہ رکھا تھا جوڈھائی ماہ کی ہو کر وفات پاگئی اور یہ پورا نام ابا جان نے میرا رکھ دیا.اللہ تعالیٰ نے ابا جان کی دعاؤں اور قربانی کو قبول فرما لیا اور میری شادی 30 ستمبر 1935 ء کو جب کہ میں ابھی بارہویں جماعت میں پڑھ رہی تھی ہو گئی.میں ابھی سترہ سال کی بھی پوری نہیں ہوئی تھی اور یہ عمر ایسی نہیں تھی کہ میں اُن ذمہ داریوں کو اُٹھا سکتی جو ایک امام جماعت کے ساتھ شادی ہونے سے مجھ پر عائد ہوئی تھیں اور ایک بڑے گھرانہ میں جہاں پہلے

Page 85

خطابات مریم 60 60 تحریرات تین بیویاں موجود تھیں بچے بھی تھے اپنے فرائض کو ادا کر سکتی.ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں حضرت فضل عمر پر جنہوں نے قدم قدم پر میری راہ نمائی کی اور میری ہمت کو پست نہ ہونے دیا.عام طور پر یہ نظارہ دنیا میں نظر آتا ہے کہ اگر دوسری شادی کی ہے تو پہلی بیوی بے چاری الگ تھلگ ہو جاتی ہے.میاں کی اس طرف توجہ ہی نہیں رہتی.آپ نے بڑی بیویوں کا ہمیشہ ادب کروایا.آپ کا سلوک سب بیویوں سے اتنا اچھا تھا کہ ہر ایک یہی سمجھتی تھی کہ شاید مجھ سے ہی سب سے زیادہ تعلق ہے.بیماری میں خاص توجہ فرماتے تھے چونکہ وقت آپ کے پاس کم ہوتا تھا سارا دن ملاقاتوں، ڈاک پڑھنے ، جواب لکھوانے اور جماعتی ذمہ داریاں ادا کرنے میں گزر جاتا تھا.اس لئے بچوں کی طرف توجہ دینے کیلئے وہی وقت ہوتا تھا جب آپ کھانے پر تشریف لاتے تھے.اس مختصر سے وقت میں کھانا بھی کھانا ہنسی مذاق میں چٹکلے بھی اور بچوں کی تربیت بھی.سفروں پر جانا تو سب ساتھ ہی ہوتے تھے بڑا اچھا وقت گزرتا تھا.سیر و شکار کا بے حد شوق تھا.عموماً قادیان میں جلسہ کے بعد تھکان اُتارنے کے لئے راجپورہ جو دریا کے پاس ایک گاؤں تھا جاتے تھے.کچے گھر تھے وہاں جا کر گھوڑے کی سواری کرنی ، بچوں کو سواری سکھانی ، ہمیں سکھانی ، مچھلیاں پکڑنی ، مرغابیاں اورمنگ کا شکار کرتے ، مچھلیاں پکڑتے روزانہ وہاں سے آدمی شکار لے کر قادیان آتا تھا.اپنے رشتے داروں کے گھروں میں ، رفقائے حضرت بانی سلسلہ کے گھروں میں ، قدرت ثانیہ کے مظہر اول کے گھر میں اور بہت سے گھروں میں بھجواتے.اپنے گھروں میں شوق سے پکواتے ، پکنکوں پر جاتے تو مختلف چیزیں تقسیم کر دیتے.فلاں یہ بنائے گا اور فلاں یہ بنائے گا اور چھوٹی چھوٹی جزئیات میں اتنی دلچسپی لیتے کہ کسی اجنبی کو یہ محسوس ہوتا کہ شاید آپ کو اور کوئی کام ہی نہیں ہے.زندہ دلی اور شگفتگی آپ پر ختم تھی.ہنسی مذاق میں بھی ایک کڑی نظر ہر ایک پر رہتی تھی جہاں ذرا بھی وقار یا شریعت یا جماعت کی روایات کے خلاف کوئی بات نظر آتی.پھر کسی کا لحاظ نہیں کرتے تھے.بچوں کی عزت نفس کا بہت خیال کرتے تھے ایک دفعہ کسی بچہ کی سرزنش کی.میں آواز سن کر آ گئی اس وقت تو مجھے کچھ نہ کہا جب وہ بچہ چلا گیا تو کہنے لگے تمہیں نہیں آنا چاہئے تھا.میں نے اُسے سمجھانا تھا مگر تمہاری موجودگی میں اُسے ڈانٹ پڑی تو وہ شرمندہ ہورہا ہوگا.

Page 86

خطابات مریم 61 تحریرات ہر رشتہ دار کا حق ادا کیا خواہ وہ اپنا رشتے دار تھا یا بیویوں کا رشتہ دار.بیویوں کی سہیلیوں کے گھرانوں سے حسن سلوک کیا.مجھے تعلیم کا شوق تھا شادی ہوئی تو یہ خیال پیدا ہوا کہ بس اب تعلیم ختم ہو جائے گی لیکن حضرت فضل عمر نے میرے شوق کو دیکھتے ہوئے مجھے اجازت دے دی کہ پڑھائی جاری رکھوں بلکہ پڑھائی کا انتظام بھی کیا.صرف ایک شرط تھی کہ میری پڑھائی میری ذمہ داریوں میں حائل نہ ہوگی اور یہ کہ ایسا نہیں ہو کہ میں آؤں تو تم کتا بیں لے کر بیٹھی ہو.شعر و شاعری سے بہت دلچسپی تھی اکثر نظمیں آپ نے سفر کے دوران کہی ہیں یا جب قدرے فراغت ہو.کبھی ایسا ہوتا کہ کسی محاورہ کے متعلق آپ کو شک ہو تو مجھے کہنا ابھی لغت نکالو اور دیکھو یا کہنا حضرت اماں جان کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ کیا یہ محاورہ اس طرح بولا جاتا ہے.چونکہ میں تیز لکھتی تھی آپ نے ابتدا سے ہی مجھ سے لکھوانے کا کام لینا شروع کیا خط لکھوائے جلسہ سالانہ کی تقاریر کے نوٹ لکھوائے.تفسیر کبیر اور تفسیر صغیر کی املا کروائی لکھوا کے پھر مولانا محمد یعقوب صاحب کو صاف کرنے کیلئے دیا کرتے تھے.اسی طرح کلید القرآن سے آیات قرآنیہ نکلوانی اور یہ سب خود سکھا یا ور نہ اس سے پہلے مجھے کچھ نہیں آتا تھا.متین چھوٹی سی تھی تو اُسے ایک نظم لکھ کر دی اور کہا اسے یاد کر کے سناؤ جو کچھ اس طرح تھی.چوں چوں کرتی چڑیا چونچ میں اپنی آئی تنکا لائی پھر ایک اور نظم طوطے پر لکھ کر دی جو میں نے تفخیذ الا ذہان میں چند سال ہوئے چھپوا دی تھی.جب اور بڑی ہوئی تو اللہ تعالیٰ کے متعلق نظم لکھ کر دی جو کلام محمود میں اطفال کے ترانہ کے نام سے شائع ہوئی ہے.1948ء میں جب ہجرت کے بعد ہم کچھ عرصہ لاہور رہے مسلم لیگ کی خواتین بھی آبادکاری اور عورتوں کے مسائل حل کرنے میں لگی ہوئی تھیں.بیگم تصدق حسین ، بیگم شاہنواز وغیرہ کئی دفعہ ملنے آئیں اور اپنی کئی تقریبات میں ہمیں بلایا.اسی سلسلہ میں ایک مشاعرہ ہوا، دعوت نامہ لے کر آئیں اور بہت خواہش کی کہ آپ میں سے کوئی نظم بھی پڑھے طرحی مشاعرہ

Page 87

خطابات مریم 62 29 تحریرات تھا.میں نے حضور سے ذکر کیا تو کہنے لگے کیا حرج ہے.پڑھ دینا.میں نے کہا کونسی کہنے لگے میں لکھ دیتا ہوں میں نے کہا نہیں اگر اپنی ہوتی تو پڑھ دیتی فرمایا.کیوں.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے بزبان حضرت اماں جان نظم نہیں کہی ہوئی.خیر آپ نے ایک غزل کہی اور صاحبزادی امتہ الباسط نے وہ غزل عورتوں کے مشاعرہ میں خوش الحانی سے پڑھ کر سنائی.وہ غزل حضور کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی میرے پاس محفوظ ہے.ناصحانہ نظم تھی اور بہت پسند کی گئی.نظم یہ تھی.کیسے بچاؤں نوح کے طوفاں سے گھر کو میں رکتی نہیں ہے کیا کروں اس چشم تر کو میں مسجد کو چھوڑ ٹا کی کی جانب رواں ہوئی جانا تھا کس طرف کو چلی ہوں کدھر کو میں ہے وقف روئے غیر نظر تیری اے خدا ترسی ہوں سال سال تیری اک نظر کو میں جس سے بہار خانہ تھی جب وہ نہیں رہا اس کے بغیر کیا کروں دیوار و در کو میں روئے سحر ہی جب نہ نظر آئے اے ندیم پھر کیا کروں بتا تو نسیم سحر کو میں رہبر بھی مصطفی مرے دلبر بھی مصطفی جاتے تھے وہ جدھر کو چلوں گی اُدھر کو میں راہِ وفا میں موت سے ڈرنا خدا بچائے ملتی ہوں اپنے ہاتھ سے اپنے جگر کو میں ہے میری آبرو تیرے ہاتھوں میں اے خدا رکھتی ہوں تیرے پاؤں پہ لے اپنے سر کو میں

Page 88

خطابات مریم 63 تحریرات ہر لحظہ کارواں ہوا جاتا ہے دُور دُور حسرت سے تک رہی ہوں پڑی راہ گزر کو میں یا نوچ ڈال پر مرے یا کھول دے قفس قید قفس میں کیا کروں گی بال و پر کو میں گرمیوں میں ڈلہوزی جاتے تو اکثر قرآن مجید کا درس دیتے جس میں گھر والے بھی شامل ہوتے اور دوسرے لوگ بھی.مجھے بھی تاکید کرتے رہتے کہ بچوں کو عربی پڑھایا کرو.سب سے کرو.سب پہلے آپ نے کہا کہ قصیدہ یاد کرو اس وقت مجھے بھی یاد نہیں تھا چنانچہ خود ہی ساتھ ساتھ یاد کیا اور امتہ الحکیم ، امتہ الباسط اور امتہ النصیر کو یاد کروایا.عربی صرف و نحو بھی گھر میں ہم سب کو پڑھاتے رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ آپ سے صرف و نحو پڑھ کر پہلی دفعہ احساس ہوا کہ یہ تو مشکل مضمون ہی نہیں.قادیان میں درس القرآن سورہ کہف سے شروع کیا اصل غرض مجھے اور بچوں کو پڑھانا تھا.اس درس میں صاحبزادہ مرزا مبارک ،احمد صاحبزادہ مرزا منور احمد اور صاحبزادی امۃ القیوم ابتداء میں شامل ہوئے پھر آہستہ آہستہ اور گھر والوں نے شامل ہونا شروع کیا.جب لوگوں کو علم ہوا کہ حضور گھر میں درس دے رہے ہیں تو درخواستیں آنی شروع ہو گئیں کہ باہر بیت الذکر میں درس دیا کریں تا ہم بھی سنا کریں اس طرح آہستہ آہستہ درس بیت مبارک قادیان کے ساتھ والے کمرہ میں دیا جانے لگا اندر ہم ہوتے تھے اور باہر مرد بھی سن لیتے تھے.ماں سے محبت تو اولا د کو ہوتی ہی ہے لیکن جیسی محبت حضرت فضل عمر کو حضرت اماں جان سے تھی اس کی مثال ملنی مشکل ہے.آپ کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے.ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے اور بیویوں سے بھی یہی امید رکھتے کہ حضرت اماں جان کی جتنی ممکن ہو خدمت کریں گی.بہنوں اور بھائیوں سے بھی بہت محبت تھی.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے سب بہن بھائیوں سے زیادہ بے تکلفی تھی.جب آپ مالیر کوٹلہ سے قادیان آتیں تو بہت کوشش کر کے ان کے لئے وقت نکالتے.بہت سے سفروں میں ساتھ دیا ہے.حیدر آباد دکن اور دہلی کا وہ سفر جو 1938ء میں کیا اور جس میں آپ نے تعلق کے قلعہ پر کھڑے ہو کر کہا تھا ” میں نے

Page 89

خطابات مریم 64 تحریرات پا لیا، میں نے پا لیا اس سفر میں میں ، نواب مبارکہ بیگم اور امۃ القیوم آپ کے ساتھ تھیں.حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم سے بھی بہت محبت تھی وہ چونکہ چھوٹی ہیں اس لئے ان سے بالکل چھوٹی بہنوں والا پیار تھا.لیکن ان کی ذراسی تکلیف برداشت نہیں تھی مجھے آج بھی وہ نظارہ یاد ہے کہ ان کے آپریشن کا معلوم ہوا ہم لاہور گئے آپریشن ہو گیا تو واپس آگئے.واپس آتے ہی علم ہوا کہ پھر دوبارہ طبیعت خراب ہو گئی ہے ساری رات بے چین رہے سو نہ سکے اور صبح ہوتے ہی لا ہور روانہ ہوئے اور جب تک طبیعت نہ سنبھلی وہیں رہے.1947 ء میں ہجرت کے بعد قادیان سے لاہور پہنچے ایک ہی مکان میں سارا خاندان ٹھہرا ہوا تھا.اس وقت آپ نے سارے خاندان کے اخراجات کا بوجھ اُٹھایا اور جب تک حالات بہتر نہ ہوئے سب کا کھانا اکٹھا رہا لیکن انتہائی سادہ.فی کس ایک روٹی اور ایک وقت سالن اور ایک وقت دال.خود تو نصف روٹی بھی نہ کھاتے تھے.وہ بھی کسی بچہ کو جسے زیادہ بھوک لگی ہو دے دیتے تھے.اللہ تعالیٰ کا مجھ پر بڑا احسان ہے کہ جب یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب خاندان حضرت بانی سلسلہ کی مستورات کو لاہور بھجوا دیا جائے اور حضور خود قادیان ٹھہرے تو مجھے حضور کے ساتھ ٹھہرنے کی سعادت حاصل ہوئی.میرے علاوہ صاحبزادی منصورہ بیگم بھی پیچھے ٹھہریں تھیں.حضرت فضل عمر نے خرچ کی رقم ان کو دے دی کہ وہ کھانے کا انتظام کریں اور میں حضور کے ساتھ کام میں لگی رہتی تھی ان دنوں ہر وقت اِدھر اُدھر سے اطلاعات کے فون آتے تھے.آدھی رات حضور جاگتے تھے پھر مجھے جگا دیتے اور آپ آرام فرما لیتے.1955 ء سے حضور کی بیماری کا آغاز ہوا گو کمزوری ایک سال قبل جب 1954ء میں ایک بد بخت نے حضور پر قاتلانہ حملہ کیا تھا شروع ہوگئی تھی سارا گھر پریشان ، ساری جماعت غم زدہ لیکن حضور ایک ایک کو تسلی دیتے تھے کہ فکر نہ کرو میں ٹھیک ہوں.1955ء سے تو پھر میری ساری توجہ صرف آپ کی طرف ہوگئی.ڈاک سنانی ، جواب لکھنے ، آپ کی تیمار داری وغیرہ وقت ہی کسی اور کام کے لئے نہیں ملتا تھا.اسی بیماری میں ہی آپ نے تفسیر صغیر لکھوائی.ہر وقت فکر تھی کہ جلد مکمل ہو کبھی مجھ سے املا کرواتے تھے پھر مولوی یعقوب صاحب کو مسودہ صاف کرنے کیلئے

Page 90

خطابات مریم 59 65 تحریرات دیتے پھر اس کو دیکھتے.کبھی مولوی یعقوب صاحب کو ہی بلا کر لکھواتے.غرض ان دنوں جو قرآن مجید کا ترجمہ کرنے کی محنت کی اس نے صحت پر بہت بُرا اثر ڈالا.صحت کی پرواہ نہ کی اور رات دن لگ کر ترجمہ مکمل کیا.میں تو ایک ذرہ نا چیز ہوں اگر کوئی بھی جماعت کی خدمت میں نے کی تو دراصل اس کا سہرا حضرت فضل عمر ہی کے سر تھا کیونکہ تقریر کرنا، لجنہ کا کام کرنا، ہر بات میں حضور نے میری راہنمائی فرمائی.ربوہ آنے کے بعد 1951ء میں حضور نوراللہ مرقدہ نے بچیوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے جامعہ نصرت کا اجراء فرمایا.کوئی عمارت نہیں تھی اپنی کوٹھی کالج کے لئے دی.فرخندہ بیگم سید محمود اللہ شاہ صاحب کو لاہور ایم اے انگریزی کرنے کیلئے بھجوایا اور مجھے کالج کی ڈائریکٹر لیں مقرر کر کے کہا کہ کالج سنبھا لو.پہلے دوسال میرے علاوہ کالج میں سب مرد پڑھاتے رہے اور میں عربی پڑھاتی تھی اور کالج کے تمام انتظامی کام بھی کرتی تھی.دو سال بعد مسز شاہ آگئیں اور آہستہ آہستہ وہ لڑکیاں جنہوں نے جامعہ نصرت سے بی اے کیا ان کو مختلف مضامین میں ایم اے کروایا اور وہ کالج میں لیکچرار لگیں.روزانہ ہی مجھ سے کالج کی رپورٹ لینی.ہر بات پر راہنمائی کرنی.1955 ء میں آپ کی بیماری کے بعد پڑھانا میں نے چھوڑ دیا صرف نگرانی میری رہی.خود میں نے بھی ایم اے عربی ہجرت کے بعد کیا تھا.صرف سات ماہ کی پڑھائی کے بعد امتحان دیا.اس امتحان دینے کا حوصلہ بھی آپ نے مجھ میں پیدا کیا.1940ء میں میں نے بی اے کیا تھا پڑھائی چھوڑ کر دوبارہ شروع کرنی بہت مشکل ہوتی ہے.1947ء میں لاہور کے قیام میں لجنہ کے کسی کام کے سلسلہ میں بعض بچیاں ملیں جو ایم اے عربی فائنل کی تھیں.ان کی کتب دیکھیں تو مجھے بہت آسان لگیں.میں نے حضرت فضل عمر سے کیا تو آپ فرمانے لگے پھر یہاں لاہور رہتے ہوئے تم بھی امتحان دے دو.کتب ملتی نہیں تھیں یو نیورسٹی لائبریری سے قاضی محمد اسلم صاحب مرحوم کے ذریعہ سے لے کر ان کی نقلیں کروا ذکر کیا کے دیں اور جہاں سے کوئی بات سمجھ نہ آتی آپ خود سمجھا دیتے.30 سال کا عرصہ ان کے ساتھ گزارا کہنے کو تو تیس سال تھے لیکن میں تو یہی کہوں گی.روئے گل سیر نه دیدم که بهار آخر شد حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد

Page 91

خطابات مریم 66 99 تحریرات ہزاروں سلام اس پاک ہستی پر جو خود بھی جلد جلد بڑھا اور اپنے ساتھ چلنے والوں کو بھی تیز چلاتا رہا.اس کی پیدائش، اس کی ساری زندگی اور اس کی وفات بھی اس پیشگوئی کے مطابق ہوئی جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو دی تھی.وہ سراپا رحمت تھا کبھی کبھی آپ کی زندگی میں غصہ اور غضب کی لہریں نظر آتی ہیں مگر تربیت کی خاطر ور نہ وہ تو دل کا حلیم تھا.احباب سے دعا کی درخواست ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ابن مسیحا کے ساتھی کے طور پر چنا تھا تو میری غلطیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے اُس جہاں میں بھی ان کے ساتھ ہی رکھے.(ماہنامہ مصباح فروری 1989ء) ☆.

Page 92

خطابات مریم 67 20 تحریرات ناصرات الاحمدیہ روز نامه الفضل ربوہ 8 اکتوبر 1989 ء کے صفحہ 4 میں ناصرات الاحمدیہ کے آغاز کے سلسلہ میں ایک نوٹ مکرم خلیل احمد صاحب ناصر کی طرف سے شائع ہوا تھا جو اختصاراً درج ذیل ہے.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ پاکستان اس مضمون کے متعلق تحریر فرماتی ہیں جہاں تک مجھے یاد ہے کہ صاحبزادی امتہ الرشید بیگم صاحبہ جو ان دنوں دینیات کلاسز میں پڑھ رہی تھیں اُنہوں نے تحریک کی تھی اور ان لڑکیوں کی مجلس ناصرات الاحمدیہ کہلاتی رہی لیکن بعد میں جب 1945ء میں مجلس عاملہ مرکزیہ کی تشکیل ہوئی تو حضور نے ناصرات الاحمدیہ کے لئے بھی وہی عمر مقرر فرمائی جو اطفال کی ہے یعنی 8 سال سے پندرہ سال تک کی.ناصرات الاحمدیہ کے قیام پر اب قریباً پچاس سال ہونے کو آئے ہیں.اس طویل عرصہ میں ان کی یادیں بھی جو اُن خوشگوار اور مبارک ایام میں مرکز سلسلہ میں مقیم تھے کچھ نہ کچھ دھندلی ہونی شروع ہو جاتی ہیں لیکن بعد کی نسل کو بالواسطہ روایات پر انحصار کر کے تاریخ کو محفوظ کرنا پڑتا ہے.اس لئے طبعی امر ہے کہ بعض دفعہ پُرانے واقعات پوری صحت کے ساتھ نہیں لکھے جاتے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ ناصرات الاحمدیہ کے قیام کے سلسلے میں بھی بعض اہم تفاصیل واقعات کے مطابق شائع نہیں ہوئیں میرے لئے یہ امر باعث سعادت ہے کہ اس بارے میں بعض امور کا ذاتی طور پر براہ راست علم ہے جو مختصراً درج ذیل ہے.جماعت احمدیہ کی ہر چہار تنظیمیں لجنہ اماءاللہ ، خدام الاحمدیہ ، ناصرات الاحمدیہ اور انصار الله...حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے زمانہ امامت میں قائم ہوئیں.ان میں سے لجنہ اماء اللہ کا قیام تو ابتدائی سالوں میں ہی ہو گیا تھا لیکن خدام الاحمدیہ کی بنیا د حضور نے 19ء کے بعد رکھی...مجھے یاد ہے کہ ان دنوں صاحبزادی سیدہ امۃ الرشید صاحبہ نے مجھے

Page 93

خطابات مریم 80 68 تحریرات سے ایک سے زائد مرتبہ ذکر فرمایا کہ خدام الاحمدیہ کی بنیادوں پر احمدی لڑکیوں کی تنظیم قائم ہونی چاہئے.چنانچہ باہم مشورہ کے بعد یہ طے پایا کہ ایسی تنظیم کا اعلان فرمانے کے لئے صاحبزادی موصوفہ ایک خط کے ذریعہ حضور کی خدمت میں درخواست کریں اور یہ بھی کہ اس تنظیم کا نام حضور خود تجویز فرمائیں اس خط کا مسودہ تیار کرنے میں خاکسار کو خدمت کا موقع ملا مجھے یہ بھی یاد ہے کہ صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ اور خاکسار نے کچھ قیاس آرائی بھی کی حضور اس تنظیم کا کیا نام تجویز فرمائیں گے.حسن اتفاق سے ایک نام ناصرات الاحمدیہ بھی ذہن میں آیا.بہر کیف صاحبزادی موصوفہ کے حضور کی خدمت میں درخواست کے جلد بعد میں حضور نے احمدی لڑکیوں کی تنظیم کے قیام کا اعلان فرمایا اور ایک کاغذ پر اپنے دست مبارک سے اس کا نام ناصرات الاحمدیہ تجویز فرمایا اور اس طرح سے اس تنظیم کی ابتداء ہوئی.صاحبزادی سیده امۃ الرشید صاحب مستحق صد مبارک ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کے دل میں یہ مبارک تحریک ڈالی اور ان کی کوششیں بارآور ہوئیں.(ماہنامہ مصباح اکتوبر ونومبر 1989ء) ☆.☆

Page 94

خطابات مریم 69 69 تحریرات ناصرات الاحمدیہ ہمارا مستقبل 1922 ء میں حضرت فضل عمر نے احمدی عورتوں کی تنظیم لجنہ اماءاللہ کا قیام فرمایا.آپ اس یقین پر پوری طرح قائم تھے کہ کسی قوم کی ترقی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک اس قوم کی عورتیں بھی مردوں کے ساتھ مل کر اس کی ترقی میں حصہ لیں اور اس غرض کے لئے عورتوں کا تعلیم یا فتہ ہونا بہت ضروری ہے.آپ امام جماعت احمد یہ ہونے کے بعد اس کوشش میں لگے رہے کہ عورتوں میں تعلیم پھیلے.انہیں یہ شعور حاصل ہو کہ اُنہوں نے قوم کے لئے کچھ کرنا ہے.ان کے دلوں میں جذبہ پیدا ہو وہ قوم کا ایک مفید فرد بن سکیں.چنانچہ آپ نے ان کی تعلیم کیلئے سکول کالج جاری فرمائے.مدرستہ الخواتین بڑی عمر کی خواتین کی اعلیٰ تعلیم کیلئے جاری کیا.دینیات کلاسز جاری فرمائیں.عورتوں میں درس دیتے رہے.مختلف مواقع پر ان سے خطاب فرمائے اور ان کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے رہے.جب ایک حد تک ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہو گیا تو آپ نے ان کو اس طرف توجہ دلائی کہ اگر وہ اپنی قربانیوں کو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھنا چاہتی ہیں تو اپنی اولاد کی اعلیٰ تربیت کریں اور یہی جذبہ ناصرات الاحمدیہ کے قیام کا باعث بنا.جس کا با قاعدہ قیام 1945ء میں ہوا.گواس سے قبل قادیان میں بھی اور کئی اور شہروں میں ناصرات الاحمدیہ، خادمات الاحمدیہ، بنات الاحمدیہ کے نام سے بچیاں کام کر رہی تھیں آپ نے اپنی ایک تقریر میں عورتوں کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.”ماں کی تربیت ایک نہایت اہم چیز ہے مرد کا کام موجودہ زمانہ کی اصلاح کرنا ہے.عورت کا کام آئندہ زمانہ کی اصلاح کرنا ہے.یہ صاف ظاہر ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جاسکتی.بیشک موجودہ کام مرد کرتے ہیں لیکن وہ آئندہ دور کی تعمیر کرتی ہیں.اگر عورتوں نے آئندہ نسل کی صحیح تربیت نہیں کی

Page 95

خطابات مریم 70 تحریرات ہوگی اور ایسے قائم مقام پیدا نہیں کئے ہوں گے جو دین اور تقویٰ سے متاثر ہوں تو مردوں کی تمام کوششیں اکارت چلی جائیں گی.پس عورت کی ذمہ داری مرد سے کم نہیں“.(الازھار حصہ دوم صفحہ 96) غرض ناصرات الاحمدیہ کا قیام اس لئے کیا گیا تا اگلی نسل کی ذمہ داریاں اُٹھانے کیلئے چھوٹی عمر سے ہی بچیوں کو تیار کیا جائے ان کے دلوں میں مذہب سے محبت پیدا کی جائے اعلیٰ اخلاق ان میں پیدا کئے جائیں نیکی بدی کا فرق ان کو بتایا جائے آئندہ پڑے والی ذمہ داریوں کا احساس ان میں پیدا کیا جائے.یہی غرض ناصرات الاحمدیہ کے قیام کی ہے.دیکھا جائے تو ناصرات الاحمدیہ کی تربیت کرنا لجنہ اماءاللہ کے کاموں میں سے اہم ترین کام ہے جس کی طرف توجہ دینا ہر احمدی خاتون کا فرض ہے.بے شک عہدہ داران لجنات اپنی پوری کوشش اس سلسلے میں کر رہی ہیں لیکن اصل ذمہ داری ماؤں کی ہے جن کے پاس ان کا زیادہ وقت گزرتا ہے.اگر وہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کریں گی تو اپنے ماحول اور اپنے سکول سے وہ وہ باتیں سیکھیں گی جو ہماری اقدار اور ہماری روایات کے خلاف ہیں.پس احمدی بچیوں کو جنہوں نے اگلی نسل کی مائیں بننا ہے.بچپن سے ہی دینی تعلیم دیں پہلے قرآن کریم ناظرہ پڑھائیں پھر ترجمہ سکھائیں یا سکھانے کا انتظام کریں.اللہ تعالیٰ سے پیار پیدا کریں آنحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا تذکرہ کر کے آپ کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کر یں.اگر آپ یہ عہد کریں کہ اگلی نسل کو پہلوں سے زیادہ دیندار بنانا ہے تو شیطان کا کوئی تسلط آپ کی نسل پر نہیں ہو سکتا.اس زمانہ میں شیطان کا حملہ نت نئی شکلوں میں ہو رہا ہے.کہیں آزادی نسواں کے غلط علمبرداروں کے ذریعہ ، کہیں بے پردگی کے ذریعہ ، کہیں ننگے لباسوں کے ذریعہ، کہیں بیہودہ فلمیں دیکھنے کے ذریعہ کہ ان باتوں کے ذریعہ دین سے بے رغبتی ہو اور دنیا کی بظاہر چکا چوند کرنے والی چیزوں کی طرف رغبت ہو.ہماری جماعت کا مقصد دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے نہ کہ دنیا کو دین پر.پس بہت ضرورت ہے کہ اپنی بچیوں کو باقاعدگی سے ناصرات کے اجلاسوں میں بھیجا کریں.پندرہ سال سے بڑی ہو جائیں تو لجنہ اماءاللہ کے اجلاسوں میں.

Page 96

تحریرات 71 خطابات مریم ادارہ مصباح نے اس دفعہ ناصرات الاحمدیہ نمبر شائع کیا ہے خدا کرے سب بہنیں اسے توجہ سے پڑھیں جن کے ہاں مصباح نہیں آتا اُن کو پڑھنے کے لئے دیں.تا سب بہنیں اس کو پڑھ کر فائدہ اُٹھا سکیں.یہ ہر عورت کی ذمہ داری ہے.ہم نے اسے فردی حیثیت سے بھی اور اجتماعی حیثیت سے بھی ادا کرنا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے.ماہنامہ مصباح اکتوبر 1989ء) W......W......

Page 97

خطابات مریم 72 تحریرات ہمارا جلسہ سالانہ جلسہ سالانہ کی بناء حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے 1891ء میں ڈالی اور اس سال اس پر سو سال پورے ہو رہے ہیں درمیان میں بعض ناگزیر مجبوریوں کے باعث بعض جلسے ملتوی بھی ہوتے رہے.1946 ء تک یہ جلسہ قادیان میں ہوتا رہا.پھر جب 1947ء میں قادیان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تو ربوہ میں جلسہ سالانہ منعقد ہونا شروع ہوا.1983 ء تک ربوہ میں جلسہ سالانہ اپنی پوری شان کے ساتھ منعقد ہوتا رہا اور ہر سال زائرین کی تعداد بڑھتی گئی.ہجرت کے بعد قادیان میں بھی جلسہ سالانہ با قاعدگی سے منعقد ہوتا رہا گو اس کی مقررہ تاریخوں کی بجائے 18-19-20 دسمبر کو منعقد کیا جاتا تھا تا کہ بیرون پاکستان سے آنے والے دونوں جگہ شامل ہوا کریں لیکن گزشتہ سال سے حضرت امام جماعت احمدیہ نے فیصلہ فرمایا کہ انہی تاریخوں میں ہوا کرے جن میں ہجرت سے پہلے ہوا کرتا تھا یعنی 26-27-28 دسمبر.جماعت احمدیہ پر حضرت بانی سلسلہ کے جو احسانات ہیں ان میں سے ایک بہت بڑا احسان جلسہ سالانہ کا قیام ہے.جلسہ سالانہ کے قیام کا بہت بڑا دخل ہے جماعت احمدیہ کے افراد کی تربیت کا.جس میں مرد بھی شامل ہیں عورتیں بھی اور بچے بھی.اس کے ذریعہ بہت برکتیں حاصل ہوئیں.جماعت میں جذبہ اخوت ، اتحاد با ہمی مل کر کام کرنے اور خدمت کا جذبہ لوگوں میں پیدا ہوا.گزشتہ سالوں میں ربوہ میں جب سے بیرون پاکستان ممالک سے وفود آنے شروع ہوئے جور بوہ کے علاوہ قادیان کے جلسے میں بھی شرکت کرتے تھے ان کا آپس میں گہرا تعلق پیدا ہوا.عجیب نظارہ نظر آتا تھا کوئی شمال کا رہنے والا ، کوئی جنوب کا ، کوئی مشرق کا تو کوئی مغرب کا.کوئی براعظم امریکہ سے سفر کر کے پہنچتا تھا، تو کوئی عرب ممالک سے ، کوئی چین سے تو کوئی جاپان سے کوئی جزائر سے ، تو کوئی افریقن ممالک سے مگر جذ بہ سب کا ایک ہوتا تھا کہ محض رضائے الہی کے لئے یہ سفر اختیار کیا ہے.اس سرزمین پر آ کر اپنے امام کا خطاب سننے

Page 98

خطابات مریم 73 تحریرات کے لئے سب خاموشی سے دھوپ میں زمین پر بیٹھے رہتے تھے.دھوپ ہو یا بارش کوئی چیز ان کو وہاں سے سے اٹھنے نہ دیتی تھی باوجود زبان نہ جاننے کے آپس میں مرد مردوں سے بھائیوں کی طرح اور عورتیں عورتوں سے بہنوں کی طرح ملتی تھیں.ایک دوسرے کے پتے نوٹ کئے جاتے تھے.آئندہ ملنے کے وعدے ہوتے تحائف کا تبادلہ ہوتا.دعوتیں ہوتیں بزرگوں کے پاس ملنے جاتے دعا کے لئے کہتے اپنے امام سے ملنے کے لئے ہر ایک کی روح بے چین رہتی جب تک کہ ملاقات نہ ہو جاتی.ہر ملک کا الگ تمدن ہے.رہنے سہنے کے طریق مختلف ہیں.کھانا پینا مختلف ہے.مگر یہاں آ کر جو ملتا خوشی سے کھاتے اس جذبہ کے ساتھ کہ آج وہ بانی سلسلہ احمدیہ کے لنگر خانہ کا کھانا کھا رہے ہیں.کتنے خوش قسمت ہیں نہ کوئی شکوہ نہ شکایت ہر سینہ میں ایک دل دھڑک رہا ہوتا تھا ہر انسان کی ایک ہی خواہش ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ دعا ئیں ان دنوں میں کی جائیں.زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھایا جائے.اس مقصد کیلئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے جلسہ سالانہ کی ابتداء فرمائی تھی اور جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی غرض یہ بیان فرمائی تھی.کہ اس جلسہ سے مدعا اور مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دوسروں کیلئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راست بازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کیلئے سرگرمی اختیار کریں.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 439) اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان سو سالوں میں جلسہ سالانہ دنیا کے ہر بڑے ملک میں ہونے لگا ہے جو مرکزی جلسہ سالانہ کا ظل ہوتا ہے.امریکہ، کینیڈا، نائیجیریا، غانا، سیرالیون، گیمبیا، جرمنی ، یورپ کے دوسرے ممالک، ماریشس، انڈو نیشیا وغیرہ میں ہر سال جلسہ سالانہ پوری شان سے منعقد کیا جاتا ہے اور انگلستان میں تو جب سے ہمارے پیارے امام رہائش پذیر ہیں وہاں کا جلسہ سب جلسوں کی جان ہوتا ہے.پس جلسہ سالا نہ خواہ کسی ملک میں ہو رہا ہواس میں

Page 99

خطابات مریم 74 تحریرات شامل ہونے والوں کا مقصد وہی ہے جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے بیان فرمایا ہے.لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے اندر وہ تبدیلی پیدا کریں جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے بیان فرمائی ہے اور سب ایک لڑی کے موتیوں کی طرح ہو جائیں کسی سے کوئی دشمنی نہ ہو، عناد نہ ہو، نفرت نہ ہو ہر ایک کے لئے قربانی دینے اور خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں.اللہ تعالیٰ کے بندوں کی خدمت کریں اور اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والے بہنیں اور یہی جذبہ اپنی اولاد میں بھی پیدا کریں کیونکہ جلسہ سالانہ کا قیام ہمیں یہی سبق دیتا ہے کہ خدمت ، خدمت اور خدمت.چندسال سے ہم محروم ہیں کہ یہاں جلسہ منعقد نہیں ہورہا مگر جلسہ کا نہ ہونا ہماری روح میں کمزوری پیدا نہ کر دے.خدمت کرنے کا جذبہ ہمیشہ قائم رہے.ایک سے دوسری نسل میں یہ جذبہ اخوت اور خدمت منتقل ہوتا رہے جیسا کہ خود حضرت بانی سلسلہ نے فرمایا کہ:.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہر اوئے“.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 442) خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک ایسا ہی بن جائے.یہ شمع ہمیشہ جلتی رہے اور پروانے اس کے گرد گھومتے رہیں.اے اللہ تو ایسا ہی کر.(ماہنامہ مصباح جنوری 1992ء)

Page 100

خطابات مریم 75 سیرت حضرت مصلح موعود امام جماعت احمد یہ الثانی احمد یہ کی ایک جھلک تحریرات حضرت امام جماعت احمدیہ الثانی کو ہم سے جدا ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا لیکن آج بھی ان کی یا د دل کے تاروں کو ایسا جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے کہ بے اختیار دل چاہتا ہے کاش آپ کچھ عرصہ اور ہم میں رہتے لیکن جب اللہ تعالیٰ کا ارشاد كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجُهُ رَبِّكَ ذُو الجَلالِ وَالإِكْرَام (الرحمن : 28:27) یاد آ جاتا ہے تو روح آستانہ الہی پر سجدہ ریز ہوتے = ہوئے کہتی ہے.( یقیناً ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ) ہر بڑے انسان کی سیرت کچھ اعلیٰ اوصاف اور فضائل اپنے اندر رکھتی ہے لیکن دنیا میں بعض انسان ایسے بھی پیدا ہوئے ہیں جو قوموں کی تقدیریں بدلنے کیلئے آتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ دنیا میں نمونہ بنا کر بھجواتا ہے تا اس کی تقلید میں قوم میں بھی وہی اعلیٰ عادات اور فضائل پیدا ہوں.سید نا حضرت فضل عمر بھی ایسے وجودوں میں سے ایک تھے جن کی زندگی کا ہر ہر لمحہ بے نفسی کے ساتھ یاد خدا تعالیٰ اور خدا تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت میں گزرا.آپ کی زندگی کا ہر ہر واقعہ ایسا ہے جس پر مضامین لکھے جا سکتے ہیں اور سینکڑوں مضامین اس وقت تک لکھے بھی جاچکے ہیں لیکن 30 سال گزرنے پر بھی اب تک میرا حال یہ ہے کہ جب آپ کی سیرت کے متعلق کچھ لکھنے لگتی ہوں تو آنکھیں دھندلی اور دماغ ماؤف ہونے لگتا ہے قلم لڑکھڑانے لگتا ہے اور ایک حد تک سوچنے کے بعد دل اور دماغ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں.بہر حال کوشش کروں گی کہ مدیرہ مصباح کے اصرار پر حضرت فضل عمر کی سیرت کی ایک جھلک قارئین کے سامنے پیش کروں شاید میری یہ مساعی بہنوں کی اصلاح کا موجب ہو.اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا ہی اس لئے کیا ہے تا وہ اس کا سچا عبد بنے لوگ عبادت کرتے

Page 101

خطابات مریم 76 تحریرات ہیں نمازیں پڑھتے ہیں مگر ہر انسان کا نماز اور عبادت کا رنگ علیحدہ ہوتا ہے.نماز وہ نہیں کہ دوسروں کے سامنے تو لمبے سجدے کر لیے لیکن علیحدہ جلدی جلدی پڑھ لی.حضرت امام جماعت احمد یہ الثانی جب نماز باجماعت پڑھاتے تھے تو عموماً جلدی ختم کروا دیتے تھے کہ پیچھے نماز پڑھنے والوں میں بوڑھے اور کمزور بھی شامل ہوتے ہیں.بیماری کے باعث کبھی خود نما ز کو نہ جا سکتے تو نماز یا خطبہ دینے والے کو بھی حضور کا یہی ارشاد ہوا کرتا تھا کہ چھوٹا خطبہ دیں اور نماز بہت لمبی نہ پڑھائیں لیکن علیحدگی میں جب آپ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے تو آپ کو عبادت الہی میں اتنا انہاک ہوتا تھا کہ پاس بیٹھنے والا محسوس کرتا تھا کہ یہ شخص اس دنیا میں نہیں ہے.میں نے آپ کو اس طرح روتے کہ پاس بیٹھنے والا آواز سنے بہت کم دیکھا ہے لیکن آنکھوں سے رواں آنسو ہمیشہ نماز پڑھتے میں دیکھے.چہرہ کے جذبات سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ گویا اپنی جان اور اپنا دل ہتھیلی پر رکھے اللہ تعالیٰ کی نذر کر رہے ہیں اور اس وقت دنیا کا بڑے سے بڑا حادثہ اور بڑے سے بڑا واقعہ بھی آپ کی توجہ کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف سے ہٹا نہیں سکے گا.تہجد کی نماز بعض دفعہ اتنی لمبی ہو جاتی کہ مجھے حیرت ہوتی تھی کہ اتنا لمبا وقت آپ کھڑے کس طرح رہتے ہیں.میں نے سجدہ کی نسبت قیام میں آپ کو زیادہ دعائیں کرتے دیکھا ہے.بعض دفعہ ایک ایک رکعت میں ڈیڑھ دو گھنٹے کھڑے رہتے ہیں.تہجد میں آپ کا عموماً یہ طریق تھا کہ ایسے وقت میں تہجد پڑھتے کہ تہجد کی نماز ختم ہونے اور صبح کی نماز میں خاصا وقت ہوتا.تہجد پڑھ کر لیٹ جاتے اور تھوڑا سا سو بھی لیتے اور پھر اُٹھ کر صبح کی نماز پڑھتے.نماز با جماعت کا اتنا خیال تھا کہ جب بیمار ہوتے اور بیت نہ جا سکتے تو گھر ہی میں اپنے ساتھ عموماً مجھے کھڑا کر لیا کرتے اور جماعت سے نماز پڑھا دیتے تا کہ نماز با جماعت کی ادائیگی ہو جائے.سوائے گزشتہ چند سال کی بیماری کے کہ بالکل صاحب فراش ہو گئے تھے اور لیٹے لیٹے یا کرسی پر نماز پڑھتے تھے.ذکر الہی کرنے کی اتنی عادت تھی کہ رات کو سوتے ہوئے جب کروٹ بدلتے اور ہلکی سی آنکھ کھلتی تو ہمیشہ میں نے سبحان الله و بحمده سبحان اللہ العظیم کہتے ہوئے سنا ہے.جمعہ کے دن خاص اہتمام فرماتے تھے باقاعدگی سے نہانا، خوشبو لگانا ، اچھی اور نفیس خوشبو بہت

Page 102

خطابات مریم 77 تحریرات پسند تھی.ناک کی حس اتنی تیز تھی کہ معمولی سی بُو برداشت نہیں کر سکتے تھے اور بہت تیز خوشبو سے نزلہ یا سر درد ہو جاتا تھا.خوشبو سونگھتے ہی بتا دیتے تھے کہ کسی قسم کی خوشبو ہے.مجھے یاد ہے قادیان میں ایک انگریز حضور سے ملنے آیا وہ خوشبوؤں اور عطریات کا خاص ماہر تھا اسے اس سلسلہ میں اتنا بڑا دعوی تھا کہ اس نے اپنی ناک کئی ہزار پونڈ میں بیمہ کروائی ہوئی تھی.اس نے آکر بعض خوشبوئیں حضور کو سنگھا ئیں آپ نے جب ایک ایک کر کے اجزاء بتانے شروع کر دیئے تو اُسے بڑی حیرت ہوئی کہ مذہبی رہنما کو خوشبوؤں کے متعلق اتنا وسیع علم کیسے ہو گیا.کہنے لگا میں تو اس علم کا ماہر ہوں لیکن آپ کو مجھ سے بھی زیادہ علم ہے.بعض باتیں آپ نے مجھے ایسی بتائیں ہیں جو مجھے بھی معلوم نہ تھیں.جمعہ کے دن صرف غسل کرنے یا کپڑے بدلنے کا ہی اہتمام نہ فرماتے بلکہ کھانے وغیرہ کے متعلق بھی فرمایا کرتے تھے مسلمانوں کے لئے یہ عید کا دن ہے.دوسرے دنوں سے ہمیں اچھا کھانا کھانا چاہئے تا خوشی کا اظہار ہو.جب تحریک جدید جاری فرمائی تو آپ نے اپنے گھر میں بھی بڑی سختی فرمائی کہ ایک سے زائد کھانا نہ ہوا کرے.کبھی آپ کے خیال سے ہی ہم نے ایک سے زائد کھانا پکا لینا تو آپ نے ناراض ہونا کہ میں کبھی ایک سے زائد کھانا نہیں کھاؤں گا سوائے دعوت وغیرہ کے.لیکن جمعہ کا دن ہے آج بے شک ایک آدھ زائد چیز تیار کر لیا کرو.یوں تو قرآن مجید کی تلاوت جیسا کہ پچھلے مضمون میں میں بیان کر چکی ہوں.آپ کثرت سے فرماتے تھے اور عموماً زبانی بھی قرآنی دعائیں اور آیات بلند آواز سے پڑھتے رہتے تھے لیکن سب سے زیادہ اور بارہا جو آیات گھر میں ٹہلتے ہوئے سفر میں موٹر میں یاریل میں ہزاروں مرتبہ آپ کو بار بار پڑھتے سنی ہیں وہ سورۃ آل عمران کی آخری آیات ہیں.سفر کو جاتے ہوئے آپ کا قادیان تک یہ طریق رہا کہ جب کبھی باہر جانا ہوتا تو جانے والے دن بہشتی مقبرہ ضرور تشریف لے جاتے اور جانے سے تھوڑی دیر قبل بیت الدعا میں جا کر دو نفل پڑھ کر سب سے مل کر سب سے آخر میں حضرت اماں جان سے مل کر روانہ ہوتے.موٹر یا گاڑی میں بیٹھتے ہی دعائیں پڑھنی شروع کر دیتے.جہاں جانا ہوتا شہر کے نظر آتے ہی آپ ہمیشہ یہ مسنون دعا شروع کر دیتے اور اکثر بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے.اللَّهُم رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَمَا أَظْلَلُنَ وَ رَبِّ الْأَرْضِينَ السَّبْعِ

Page 103

خطابات مریم 78 تحریرات جب قادیان وا پسی ہوتی تب آپ گھر میں داخل ہو کر سب سے پہلے حضرت اماں جان سے ملتے پھر بیت الدعا میں نفل پڑھتے.قادیان سے ہجرت کے بعد بھی بیت الدعا تو نہ تھی لیکن سفر پر جاتے ہوئے گھر میں ہی دو نفل پڑھ کر روانہ ہوتے تھے.مجھے کبھی آپ کا سفر یاد نہیں کہ آپ یونہی روانہ ہوئے ہوں.حضرت اماں جان کی وفات کے بعد ا کثر مجھے یاد ہے کہ لا ہور وغیرہ جاتے ہوئے راستہ میں بہشتی مقبرہ ربوہ میں ٹھہر کر دعا کر کے روانہ ہوا کرتے تھے.سفر میں آپ کی جیب میں چھوٹی حمائل ہمیشہ رہتی اور اکثر راستہ میں قرآن مجید کی تلاوت فرماتے رہتے.قرآن مجید کے سلسلہ میں ایک واقعہ یاد آیا ایک دفعہ جلسہ کے لئے میں نے تقریر تیار کرنی تھی.میں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے سمجھ نہیں آتی.کس موضوع پر تقریر کروں فرمانے لگے یہ بھی کوئی مشکل بات ہے.قرآن مجید کھولو جس آیت پر سب سے پہلے نظر پڑے اس کے مطابق مضمون تیار کر لو.فرمانے لگے میرا تو یہی طریق رہا ہے.سوائے اس کے کہ کسی خاص سلسلہ میں خطبہ جمعہ میں کوئی مضمون بیان کرنا ہو عموماً جمعہ پر جاتے ہوئے قرآن مجید ہاتھ میں لے کر دعا کر کے کھولتا ہوں.جہاں سے ورق کھلتے ہیں جو آیات سب سے پہلی بار نظر آتی ہیں وہی مضمون بیان کر دیتا ہوں.طبیعت بے حد سادہ تھی نمائش سے گھبراتے تھے لیکن سادگی کے ساتھ.طبیعت میں نفاست بہت زیادہ تھی.کھانے پینے لباس ہر چیز میں نفاست پسند تھی.گندگی سے نفرت تھی ہم سب کو یہی تلقین تھی کہ سادہ رہولیکن صاف ستھرے رہو اور لباس سے خوش ذوقی کا اظہار ہو.کھانا سادہ پسند کرتے تھے مگر اچھا پکا ہوا.کھانا اکیلے بالکل نہیں کھا سکتے تھے کام کی وجہ سے خواہ کتنی بھی دیر ہو جائے جس بیوی کے گھر حضور کی باری ہوتی تھی وہ اور بچے آپ جب تک فارغ ہو کر آ نہ جائیں حضور کا انتظار کرتے رہتے تھے اور ساتھ کھاتے تھے.تربیت کی غرض سے خود فرمایا کرتے تھے کہ بچوں کو خود ساتھ بٹھایا کرو.یہی تو وقت ہوتا ہے جس میں بچوں کی عادات اور اخلاق کا میں مطالعہ کرتا ہوں.میری بچی امتہ المتین چھوٹی سی تھی ہم کھانا کھا رہے تھے آپ نے اُسے مخاطب ہو کر فرمایا متین دیکھو.تمہاری امی سے مجھے ہر قسم کی بات کرنی پڑتی ہے سلسلہ کے معاملات بھی ہوتے ہیں تم بھی موجود ہوتی ہو.کبھی ایسانہ کرنا کہ کوئی بات سنو تو آگے کر دو.اس طرح کھانے

Page 104

خطابات مریم 79 تحریرات کے موقع پر ہی عموماً بچوں کی تربیت کا موقع ملتا تھا.اولاد سے باوجود انتہائی محبت کے اگر کوئی ایسی بات ملاحظہ فرماتے جس میں احمدیت کے لئے غیرت کا سوال ہوتا تو بے حد ناراض ہوتے.ایک بچی کی شادی تھی.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے گھر کے سب بچے بچیوں کی شادیاں بہت ہی سادگی سے ہوئیں کبھی کوئی رسم وغیرہ نہیں ہوئی.اس نے سہیلیوں سے سنا کہ سہرا بھی کوئی چیز ہوتی ہے جو باندھتے ہیں.سہرا منگوالیا حضور کو پتہ لگا ناراض ہوئے کہ ہم نے تو دنیا کیلئے نمونہ بننا ہے اور رسوم اور بدعتوں کو مٹانا ہے ابھی سہرا میرے پاس لاؤ.آپ کے پاس پہنچا دیا گیا کہنے لگے میں ابھی جلا ؤں گا تا ہمارے گھر میں آئندہ سبق حاصل ہو کہ رسم نہیں ہو گی.آپ سہرا ہاتھ میں پکڑے ہوئے باورچی خانہ کی طرف جارہے تھے کہ چولہے میں ڈال دیں راستہ میں صحن میں حضرت اماں جان بیٹھی تھیں آپ نے دریافت فرمایا کیا معاملہ ہے؟ آپ نے سارا واقعہ بتا دیا.حضرت اماں جان فرمانے لگیں "میاں شادی کا سامان تو سہاگ کی نشانی ہوتا ہے.جلاؤ نہ پھینک دو.آپ نے اس پر جلایا تو نہیں مگر قیچی منگوا کر ذرہ ذرہ کر کے کوڑے کے پیہ میں ڈال دیا.اس واقعہ میں دو بڑے سبق ہیں ایک تو یہ کہ سہرا صرف گھر میں آیا تھا لگایا نہیں گیا تھا لیکن آپ نے اس غرض سے کہ جماعت اور خاندان کی تربیت ہو وہ رسوم چھوڑیں اس کو جلانے کا ارادہ کر لیا اور دوسری طرف حضرت اماں جان کا کتنا احترام تھا کہ جب آپ نے جلانے سے منع فرمایا تو آپ کے فرمانے کے مطابق عمل کیا لیکن افسوس ہے کہ اب بھی ہماری جماعت میں کثرت سے ایسے خاندان ہیں جن میں شادیوں پر بڑی رسوم ہوتی ہیں.خاص طور پر سسرال کو جوڑے دینے لڑکی والوں سے ان کی حیثیت سے زیادہ کے مطالبے کرنے جن کے متعلق کئی بار حضرت مصلح موعود نے شوریٰ میں منع فرمایا اور غریب گھرانے نمود و نمائش کی خاطر مالی بحران میں مبتلا ہو جاتے ہیں.کاش ہماری جماعت کے لوگ حضرت مصلح موعود کا نمونہ دیکھیں اور آپ کی نصائح اور نمونہ پر عمل کرتے ہوئے رسوم کو چھوڑ دیں جن رسوم کو دور کرنے اور بدعتوں سے پاک کرنے کے لئے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ تشریف لائے تھے.اسی طرح ایک دفعہ ایک بچی نے دکان سے ایک بلاؤز خرید لیا یہ خیال نہ کیا کہ نیم آستین.

Page 105

خطابات مریم 80 00 تحریرات ہے خوبصورت اور نئی قسم کی چیز تھی پہنا حضور نے دیکھ لیا اسی وقت کہا کہ ابھی جا کر بدلو اور یہ میرے پاس لے آؤ.جب اس بچی نے حضور کے حکم کی تعمیل کی تو وہ بلاؤز لے کر قینچی سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تا پھر کسی اور کو اس کی خلاف ورزی کرنے کی جرات نہ ہو.جب کبھی کسی خاص امر کے لئے دعا کر رہے ہوتے تو بیویوں اور بچوں کو بھی دعا کے لئے کہا کرتے تھے اور یہ بھی کہنا کہ آجکل اس معاملہ میں دعا کی بہت ضرورت ہے تم بھی دعا کرو اور اگر کوئی خواب آئے تو مجھے بتانا.چندہ کی تحریک کرنی تو اس بات کا خیال رکھنا کہ سب بچے وغیرہ کتنا کتنا چندہ لکھواتے ہیں.اگر کسی نے کم لکھوانا تو اس کو متوجہ کرنا کہ تم اس سے زیادہ قربانی کر سکتے ہو یا کسی نے چندہ لکھوا کر ادائیگی میں دیر کرنی تو ماؤں سے کہنا کہ تم بچوں کو توجہ دلا ؤ.جب حضور نے تحریک جدید شروع کی تو شروع میں تحریک جدید کا اعلان صرف تین سال کے لئے فرمایا تھا لوگوں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر قربانی دی تھی.تین سال کے بعد آپ نے اسے دس سال کے لئے بڑھا دیا اور فرمایا کہ اگر کوئی چاہے تو تیسرے سال کے وعدہ سے چوتھے سال کا وعدہ کم کر سکتا ہے.لیکن آئندہ ہر سال اس وعدہ میں اضافہ کرتا جائے میں نے کچھ حالات کی تنگی کے باعث اس سال کا وعدہ کم کر دیا آپ نے مجھے لکھا کہ بے شک اجازت میں نے دی تھی لیکن تم سے میں یہ امید نہیں رکھتا تھا کہ کم کر دو گی.جتنا میں تمہیں جیب خرچ دیتا ہوں اتنے میں بعض لوگ اپنے بیوی بچوں کا خرچ چلاتے ہیں ( اس زمانہ میں حضور ہمیں پندرہ روپے ماہوار بطور جیب خرچ دیتے تھے ) اس واقعہ کے بیان کرنے سے میری یہ غرض ہے کہ کس طرح آپ کو خیال تھا کہ جس طرح آپ دین کی خاطر تن من دھن قربان کر رہے ہیں آپ کی بیویاں اور بچے بھی اسی طرح دین کی خاطر ہر ممکن قربانی کریں.واقعات تو ہزاروں ہیں لیکن آجکل رمضان المبارک میں اتنی فرصت نہیں کہ کوئی لمبا مضمون لکھ سکوں.صرف چند واقعات پر اکتفا کرتے ہوئے قارئین مصباح کی خدمت میں دعا کی درخواست کرتی ہوں کہ میرا مولیٰ مجھ سے راضی ہو جائے.انجام بخیر ہو.اللہ تعالیٰ بغیر حساب کے بخش دے.اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں مصلح موعود کا ساتھی چنا تھا اُس ابدی زندگی میں بھی ان کا ساتھ نصیب ہو اور جو بقیہ زندگی ہے وہ خدمت احمدیت اور خدمت مخلوق خدا میں بسر ہو.(ماہنامہ مصباح فروری 1995ء)

Page 106

خطابات مریم 81 مصباح کا مبارک آغاز احمدی مستوارت کا واحد آرگن تحریرات مدیرہ صاحبہ نے خواہش کی کہ میں رسالہ مصباح کے بارہ میں کچھ لکھوں.جب میں مصباح جاری ہونے کا سوچنے لگی تو بعض ہستیوں کی شکلیں آنکھوں کے سامنے پھرنے لگیں جنہوں نے اس بات کی بہت کوشش کی کہ عورتوں کیلئے الگ رسالہ جاری ہو جس کے ذریعہ ان کی تربیت ہو.ان میں صفِ اوّل میں سیدہ اُم داؤد تھیں اور پھر استانی سکینۃ النساء اہلیہ قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل ممتاز حیثیت رکھتی ہیں.ان کے علاوہ اور بہنیں بھی وقتا فوقتا احمدی خاتون“ اور ” تادیب النساء“ میں اس سلسلہ میں لکھتی رہی ہیں.”احمدی خاتون مستورات کے لئے ایک رسالہ عرفانی صاحب نے جاری کیا تھا جس کا نام بعد میں حضرت امام جماعت احمد یہ الثانی نے تادیب النساء “ رکھ دیا تھا کچھ عرصہ بعد وہ بھی بند ہو گیا تو الفضل کے صفحات پر احمدی خواتین کے مضمون نظر آنے لگے جس میں لجنہ اماءاللہ کے لئے ایک رسالہ کی ضرورت کے سلسلہ میں اظہار کیا جاتا رہا.ایڈیٹر صاحب الفضل نے اعلان فرمایا کہ ایک صفحہ عورتوں کے مضامین کیلئے مخصوص کر دیا جائے گا.ایڈیٹر صاحب کے اس اعلان کے بعد کے الفضل کے صفحات پر نظر ڈالیں تو ہر پر چہ میں کسی نہ کسی خاتون کا مضمون نظر آتا ہے جس میں کوئی نہ کوئی تجویز عورتوں کی ترقی کی ہوتی تھی.احمدی بہنوں کو جو کچھ عرصہ سے ایک زنانہ اخبار کی ضرورت محسوس کر رہی تھیں اور اپنے خیالات کا اظہار بھی کر رہی تھیں.حضرت امام جماعت احمد یہ الثانی نے ایسے اخبار کی منظوری دے دی.رسالہ مصباح جاری ہونے سے کچھ قبل مکرمہ استانی سکینۃ النساء صاحبہ نے مستورات سے بھر پور تعاون اور امداد کیلئے بایں الفاظ اپیل کی :.

Page 107

خطابات مریم 82 تحریرات اے احمدی جماعت کی پُر ہمت خاتو نو! اور اے دین کو دنیا پر مقدم کرنے والی بہنو! بشارت ہو کہ ہمارے غمخوار اور خیر خواہ (امام) نے آپ کے لئے ہاں آپ کی نازک و پُر درد حالت پر رحم کھا کر آپ کے احساسات کو پُر لطف بنانے کے لئے ایک زنانہ اخبار جاری کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے.اب آپ پوری ہمت اور پورے جوش اور پورے استقلال سے اسے قدر دانی کے ساتھ ہاتھوں ہاتھ لیں جس طرح ( بیت) لندن کے چندے میں بے مثل ہمت اور بے نظیر قربانی کا ثواب احمدی خواتین کو ملا حتی کہ دوسری ہمسایہ قوموں نے مثال کے طور پر اپنی مستورات میں اس محدود غریب قوم کی حقیر جنس کو پیش کیا اور اسی طرح ہاں ٹھیک اسی طرح سے اب اپنے اخبار کو فروغ دو روزنامه الفضل 14 دسمبر 1926ء) آخر 15 دسمبر 1926ء کو اس کا پہلا پرچہ شائع ہوا اس رسالہ کا نام مصباح رکھا گیا.مصباح کی سب سے پہلی خریدار اہلیہ عبدالحفیظ صاحب ویر و وال ضلع امرتسر تھیں اور دوسری اہلیہ با بوعلی محمد صاحب شہر فیروز پور تھیں.یہ اخبار دو بار یکم اور پندرہ کو نکلتا تھا.حجم سولہ صفحے اور سالانہ قیمت اڑھائی روپے تھی.ایک کٹر آیہ سماجی اخبار تیج کی رائے مصباح کے متعلق یہ تھی کہ :.” میرے خیال میں یہ اخبار اس قابل ہے کہ ہر ایک آریہ سماجی اس کو دیکھے.اس کے مطالعہ سے انہیں احمدی عورتوں کے متعلق جو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ پردہ کے اندر بند رہتی ہیں اس لئے کچھ کام نہیں کرتیں فی الفور دور ہو جائے گی اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ عورتیں باوجود کے ظالمانہ حکم کے طفیل پر دہ کی قید میں رہنے کے کسی قدر کام کر رہی ہیں اور ان میں مذہبی احساس اور....جوش کس قدر ہے ہم استری سماج قائم کر کے مطمئن ہو چکے ہیں لیکن ہم کو معلوم ہونا چاہئے کہ احمدی عورتوں کی ہر جگہ با قاعدہ انجمنیں ہیں اور جو وہ کام کر رہی ہیں اس کے آگے ہمارے استری سماجوں کا کام بالکل بے حقیقت ہے.مصباح کو دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ احمدی عورتیں ہندوستان ، افریقہ، عرب، مصر، یورپ اور امریکہ میں کس طرح اور کس قدر کام کر رہی ہیں.ان کا مذہبی احساس اس قدر قابل تعریف ہے کہ ہم کو شرم آنی چاہئے.چند سال ہوئے ان کے امیر

Page 108

خطابات مریم 88 83 تحریرات نے ایک (بیت) کے لئے پچاس ہزار روپے کی اپیل کی اور یہ قید لگادی کہ یہ رقم صرف عورتوں کے چندے سے ہی پوری کی جائے.چنانچہ پندرہ روز کی قلیل مدت میں ان عورتوں نے پچاس ہزار کی بجائے پچپن ہزار (55,000 ) روپیہ جمع کر دیا.عورتوں کا یہ اخبار جو 15 / دسمبر 1926 ء کو جاری ہوا 1947 ء تک جاری رہا.شروع میں پندرہ روزہ تھا بعد میں ماہوار ہو گیا اس کے ایڈیٹر جناب قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحب، جناب مولوی یعقوب صاحب طاہر، خواجہ غلام نبی صاحب، جناب رحمت اللہ صاحب شاکر وغیرہ رہے.1947ء کے شروع میں لجنہ اماءاللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ لجنہ اس رسالہ کو اپنی نگرانی میں لے لےاور اس کا تمام خرچ خود برداشت کرے.چنانچہ حضرت امام جماعت احمد یہ الثانی سے اجازت لے کر لجنہ مرکزیہ نے اس کا اعلان کر دیا.ابھی تین پر چے شائع ہوئے تھے کہ ملکی تقسیم ہونے کے بعد قادیان سے ہجرت کرنی پڑی اور پاکستان آ کر کچھ عرصہ پر چہ بند رہا.آخر 1950ء میں دوبارہ مصباح ربوہ سے جاری ہوا جو اپنی پوری شان سے اللہ کے فضل سے جاری ہے اور عورتوں کا واحد ترجمان ہے.اس کی پہلی مدیدہ عزیز امتہ اللہ خورشید صاحبہ بنت مولا نا ابوالعطاء تھیں ان کی وفات کے بعد امۃ الرشید شوکت صاحبہ ان کے بعد امۃ اللطیف صاحبہ اہلیہ شیخ خورشید احمد صاحب اور اب ان کے بعد سلیمہ قمر ادارت کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں.ہماری بہنوں کو چاہئے کہ اپنے واحد رسالہ کو زیادہ سے زیادہ مفید بنائیں.عورتوں کے مسائل پر اس میں لکھا کریں.تاریخی ، معاشرتی مسائل پر خاص طور سے.خدا کرے میری خواہش آپ سب کے ذریعہ سے پوری ہو.(ماہنامہ مصباح جنوری 1996ء)

Page 109

== 84 خطابات مریم

Page 110

خطابات مریم خطابات 59 85

Page 111

86 98 خطابات مریم

Page 112

خطابات مریم 87 خطابات خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ 1973ء دعا،عہد ، تشہد اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میری عزیز بچیو! تم سب کو اپنے اجتماع میں شرکت کے لئے مرکز سلسلہ میں آنا مبارک ہو.میری دعا ہے کہ یہاں کے تین روزہ قیام میں تم اپنے اندر ایک عظیم تبدیلی محسوس کرو اور واپس جا کر جو کچھ یہاں سیکھو اور حاصل کرو وہ اپنی ہمجولیوں اور ملنے جلنے والیوں کو بتا اور سکھاسکو.جس طرح تمہاری بزرگ خواتین لجنہ اماء اللہ کے اجتماع میں بطور نمائندہ بن کر آتی ہیں اسی طرح باہر سے آنے والی تمام بچیاں اپنے شہر کی طرف سے بطور نمائندہ ہیں اس لئے سب سے پہلی نصیحت اپنی بچیوں کو میری یہ ہے کہ وہ اپنے اوقات ضائع نہ کریں.کھیلنے کے لئے سارا سال ہے ان تین دنوں سے اپنی عمر اور اپنی ذہانت کے مطابق فائدہ اُٹھاؤ.پروگراموں کو توجہ سے سننے کی کوشش کرو اگر سنجیدگی اور توجہ سے پروگراموں کو سنو گی تو بہت کچھ حاصل کر سکو گی.اجتماع ہو یا کھیل کا میدان ، سنجیدگی ، وقار اور اخلاق کا ہر قدم پر مظاہرہ کرو.کوئی غیر سنجیدہ حرکت ، کوئی وقار سے گرا ہوا فعل ناصرات الاحمدیہ کی شان کے شایاں نہیں.یہ یا درکھو کہ آج بیشک تم بچیاں ہو لیکن آئندہ قوم کا مستقبل تم سے وابستہ ہے.یہ سیکھنے کی عمر ہے اللہ تعالیٰ کا تم پر یہ عظیم الشان انعام ہے کہ تمہیں احمدی گھرانوں میں پیدا کیا.اسلام جیسی نعمت تمہیں عطا فرمائی مسیحائے زماں کی جماعت سے تمہیں وابستہ کیا.بیشک تم احمدی بچیاں ہو، ناصرات ہو لیکن حقیقت میں ناصرات الاحمدیہ کی مستحق تب کہلا سکتی ہو جب اپنے عمل اپنے کردار اپنے اخلاق اپنی زندگی اور اپنی قربانیوں سے اس بات کا ثبوت دوگی کہ تم واقعی ناصرات الاحمدیہ ہو.تم نے اسلامی تاریخ کے واقعات سنے ہوں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا دشمن ابو جہل تھا.جنگ بدر میں اس کو دو بچوں نے قتل کیا جو بارہ بارہ سال کے تھے کس جذبہ نے ان کو ابوجہل کے قتل پر اُکسایا.صرف اسلام کی محبت نے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق

Page 113

خطابات مریم 88 80 خطابات نے.پس ایسا ہی ایمان اور ایسا ہی عشق تمہارے اندر ہونا چاہئے.عشق اور محبت گہرے تعلق سے پیدا ہوتا ہے.تمہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے صحابہ، خلفاء، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے حالات کثرت سے پڑھنے اور سننے چاہئیں.جب تک علم نہ ہو جب تک پوری واقفیت نہ ہو ان احسانات کا علم نہ ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت پر کئے.آپ سے حقیقی محبت پیدا نہیں ہو سکتی.بچوں پر آپ کے بے انتہا احسان ہیں.آپ نے بچوں اور بچیوں کا ایک خاص مقام معاشرہ میں پیدا کیا.آپ سے پہلے عورت کی کوئی عزت نہیں تھی.لڑکی کو نفرت اور حقارت سے دیکھا جاتا تھا.آپ نے لڑکی کی عزت قائم کی.لڑکی کا ماں باپ کے ورثہ میں حصہ رکھا.لڑکی کی تعلیم ، اعلیٰ تربیت اور اچھی پرورش کی بے انتہا تا کید فرمائی.بار بار آپ کے احسانوں کا تذکرہ جب آپ سنیں یا پڑھیں گی تو خود بخود آپ کے دل میں آپ کے لئے محبت کا جذبہ پیدا ہوگا اور جب محبت کا جذبہ پیدا ہوگا تو اُس کے نتیجہ میں آپ کی اطاعت اور آپ کے ارشادات پر عمل کرنے کا شوق پیدا ہوگا.ایک بچی اپنے ماں باپ سے کیوں پیار کرتی ہے اس لئے کہ اُسے معلوم ہے کہ وہ اس سے محبت کرتے ہیں اس کے لئے قربانی دیتے ہیں.ہمارا رب ماں باپ سے بھی بڑھ کر رحیم اور شفیق ہے.اپنے ماں باپ سے بڑھ کر اپنے خدا سے محبت کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا چاہئے.اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کو شریعت کے سب احکام کا علم ہوتا غلطی سے یا لاعلمی میں آپ نافرمانی نہ کر بیٹھیں.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمۃ للعالمین تھے آپ کے ہر ارشاد کی تعمیل کرنی چاہئے کہ اگر آپ نہ آتے تو ہمیں اپنے خدا کا ہی کوئی علم نہ ہوتا آپ نے ہمیں بتایا کہ ہمارا ایک خدا ہے جس نے ہمیں پیدا کیا جس نے ساری کائنات پیدا کی.جس نے ہماری اصلاح کیلئے انبیاء بھجوائے پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت کا جذ بہ آپ کے دلوں میں پیدا ہو کہ آپ کے ذریعہ سے ہم نے صحیح اسلام کا چہرہ دیکھا.دنیا ایک بار پھر قرآن کو بھول کر اپنے خالق کو بھول کر اندھیروں میں پڑی ہوئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان اندھیروں سے ہمیں نکال کر قرآن کی روشنی سے ہمیں پھر منور کیا.ہمیں بتایا گیا کہ ہماری اصلاح صرف قرآن پر عمل کرنے سے ہو سکتی ہے.آپ نے ہمیں بتایا کہ اپنے رب سے ہمارا تعلق صرف قرآن مجید کے

Page 114

خطابات مریم 99 89 خطابات ذریعہ ہوسکتا ہے.پس میری بچیو! قرآن پڑھنے کی طرف پوری توجہ دو.ایک بھی احمدی بچی ایسی نہیں ہونی چاہئے جو ناظرہ قرآن صحیح نہ پڑھتی ہو.اگر تم اُردو انگریزی اور دوسری زبانیں بچپن میں سیکھ سکتی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ صحت سے قرآن مجید پڑھنا اور تلاوت کرنا نہ سیکھ سکو.پھر جوں جوں بڑی ہوتی جاؤ.نماز سیکھو نماز کے محض الفاظ یاد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں جب تک تمہیں معلوم نہ ہو کہ تم نماز میں اپنے رب سے کیا مانگ رہی ہو.نماز کا ترجمہ یاد کرو جب نماز کا ترجمہ یاد ہو جائے تو تھوڑا تھوڑا کر کے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنا شروع کرو.احمدیت کی تاریخ سے واقف ہو اپنے عقائد دلائل کے ساتھ آنے چاہئیں.اگر یہ سب باتیں تم سیکھ لو تو پھر تم اس قابل ہوسکتی ہو کہ احمدیت کے لئے قربانی دے سکو.بغیر علم کے عمل ممکن نہیں اور ایمان کو تازہ رکھنے کے لئے عمل بہت ضروری ہے.جس طرح پھول کے پودے کو زندہ رکھنے کیلئے بار بار پانی دینے کی ضرورت ہے اسی طرح ایمان کو زندہ رکھنے کیلئے بار بار قربانیوں کی ضرورت ہے.یہ قربانیاں وقت کی بھی ہوسکتی ہیں مال کی بھی ہوسکتی ہیں.بُری عادتیں چھوڑ کر نیک اخلاق اور نیک عادتیں اختیار کرنے کی صورت میں بھی ہوسکتی ہیں.احمدیت میں آنے والی کئی نسلیں قربانی پر قربانی دیتی چلی آئی ہیں.اب تمہارا زمانہ ہے اس وقت احمدیت کو ضرورت ہے تمہاری قربانیوں کی.پس خود دین سیکھوتا بڑی ہو کر دوسروں کو سکھا سکو.کفایت اور سادگی کی عادت ڈالو تا احمدیت کی ترقی کی خاطر چندے دے سکو.دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی عادت ڈالو اور سب سے بڑھ کر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا جذبہ پیدا کر و.آپ کی اطاعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت آنحضرت علﷺ کی اطاعت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے.آپ کے ہر ارشاد کی تعمیل کی بچپن سے عادت ڈالو اور اسی کو عبادت سمجھو.یا د رکھو کہ تمہاری ترقی خلافت کے قدموں سے وابستہ ہے.لغویات سے پر ہیز کرو ہمیشہ اچھی صحبت میں بیٹھو.صفائی کی عادت ڈالو.جسم اور کپڑے صاف ہوں تو دل میں بھی پاکیزگی پیدا ہوتی ہے.سچ کی عادت ڈالو تکبر اور غرور کو پاس نہ پھٹکنے دو.ہر ایک کی ہر صلى الله

Page 115

خطابات مریم 00 90 خطابات وقت مدد کرنے کیلئے تیار رہو مدد سے مراد محض پیسے سے مدد نہیں بلکہ اپنے ہاتھ سے مدد کرنے کیلئے رحم دلی اور خوش خلقی اور خوش گفتاری تمہارا وصف ہونا چاہئے.تمہاری پیشانیوں سے وہ نور چمکے کہ دور سے ہی دیکھ کر انسان کہہ اُٹھے کہ نہ صرف یہ ناصرات الاحد یہ ہیں بلکہ ناصرات انسانیت بھی ہیں.حضرت مصلح موعود کے اس شعر کو ہمیشہ اپنے مدنظر رکھو.جب گزر جائیں گے ہم تم پر پڑے گا سب بار ستیاں ترک کرد طالب آرام نہ ہو خدا کرے جب آپ کے عمل کا زمانہ آئے تو آپ حقیقت میں دین کا ستون ثابت ہوں.آمین.آپ کے مقرر کردہ پروگراموں کے علاوہ اس سال کے پروگرام میں ناصرات الاحمدیہ کیلئے سائیکل چلانا سیکھنا اور غلیل چلانی سیکھنی نصاب میں رکھی گئی ہے.میں امید کرتی ہوں کہ ہر جگہ ناصرات الاحمدیہ کی نگران اس کا انتظام کریں گی.ماہنامہ مصباح دسمبر 1973ء)

Page 116

خطابات مریم 91 خطابات لجنات اماء اللہ کے فرائض اور اُن کی اہم ذمہ داریاں افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 1973ء) میں لجنہ اماء اللہ کے سولہویں سالانہ اجتماع پر تمام آنے والی بہنوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں سلامتی کا تحفہ پیش کرتی ہوں.اللہ تعالیٰ مرکز سلسلہ میں ان کا آنا مبارک کرے اور جس مقصد کے لئے وہ یہاں جمع ہوئی ہیں وہ مقصد احسن طریق سے پورا ہو.ہمارا یہ اجتماع کوئی میلہ تماشا نہیں کوئی سیاسی اجتماع کے اغراض و مقاصد اجتماع نہیں.بلکہ اس کی غرض محض مستورات کی دینی تربیت ہے.ابتدائے اسلام میں دین سیکھنے کی غرض سے دور دراز سے چند لوگوں کا وفد آ جا تا تھا.وہ اسلام کے اصول سیکھتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک صحبت سے مستفیض ہوتے اور واپس جا کر اپنے شہر یا گاؤں کے لوگوں کو وہ کچھ سکھاتے جو خود سیکھ کر جاتے.اس مقصد کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.ومَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَةً، فَلَوْلا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةً ليتفقهوا في الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا الَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (التوبة: 122) فرمایا:.اور مومنوں کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ سب کے سب (اکٹھے ہو کر تعلیم دین کیلئے ) نکل پڑیں.پس کیوں نہ ہوا کہ ان کی جماعت میں سے ایک گروہ نکل پڑتا تا کہ وہ دین پوری طرح سیکھتے اور اپنی قوم کو واپس لوٹ کر ہشیار کرتے تا کہ وہ ڈرنے لگیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے کہ ان کا مقدم فرض دین سیکھنا ہے یہ

Page 117

خطابات مریم 92 42 خطابات ممکن ہی نہیں کہ ہر قصبہ اور گاؤں سے سب کے سب مرد اور عورتیں مرکز میں جا کر دین سیکھیں اس کا واحد طریق یہی ہے کہ سارے شہر قصبہ یا گاؤں سے چند لوگ مرکز میں جائیں وہیں دین سیکھیں اور واپس جا کر اپنے لوگوں کو وہ کچھ سکھائیں جو وہ خود سیکھ کر آئے ہیں اور جن باتوں سے بچنا چاہئے ان سے بچنے اور ہشیار رہنے کی تلقین کریں جن باتوں پر عمل کرنا چاہئے ان کو کرنے کی تلقین کریں مرکز میں چند دن گزار کر جو نیک اثر اپنی ذات پر ہوا سے پیچھے سب رہنے والوں میں بھی منتقل کرنے کی کوشش کریں.پس لجنہ اماءاللہ کے اجتماع پر بھی نمائندگان کے آنے کی یہی غرض ہے.اس لحاظ سے ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ان کی لجنات نے انہیں نمائندہ بنا کر بھجوایا ہے.اس لئے وہ اب پابند ہیں یہاں کے پروگراموں کے ایک ایک منٹ کی ان کو چاہئے کہ پورا پروگرام سنیں ضروری نوٹس ہدایات کے لیں.حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے پُر معارف خطاب کو توجہ سے سنیں جو بہنیں نوٹ لے سکتی ہیں وہ نوٹ بھی لیں اور واپس جا کر اس بات کا انتظار نہ کریں کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریر اخبار میں شائع ہو تو اسے پڑھ کر آپ اس پر عمل کریں یا کروائیں بلکہ بہنیں غور سے سنیں جا کر اپنی ممبرات کو سنا ئیں اس طریق پر کہ سب پیچھے رہنے والی بہنوں کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے آقا نے ہمیں کیا ارشادفرمایا اور ہم اس پر عمل کریں.عموماً نمائندگان اپنی اس اہم ذمہ داری کا احساس نہیں کرتیں جس کے نتیجہ میں آنے والے سال کا جو لائحہ عمل یہاں پیش کیا جاتا ہے.اس پر فوری طور پر عمل ہونا نہیں شروع ہوتا.پس نمائندگان کو سا را پروگرام خاموشی اور سکون سے سننا چاہئے کوئی بات سمجھ نہ آئے تو پوچھ سکتی ہیں اپنے ساتھ جن بچیوں کو لاتی ہیں ان کو بھی اپنے ساتھ سارا پروگرام سننے پر مجبور کریں وہ صرف تقریری مقابلوں میں حصہ نہیں لینے آتیں بلکہ یہاں سے سیکھنے اور کچھ حاصل کرنے بھی آتی ہیں.وہ بھی اپنی عمر کی بچیوں کی نمائندہ ہوتی ہیں جن تک سب باتیں اُنہوں نے پہنچانی ہونگیں.اجتماع میں ہر لجنہ کی نمائندگی ضروری ہے ہمارے سالانہ اجتماع منعقد کرنے ہے کا ارشاد حضرت مصلح موعود نے 27 / دسمبر 1944ء کو اپنی جلسہ سالانہ کی مستورات میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا.

Page 118

خطابات مریم 96 93 خطابات ہر جگہ لجنہ قائم کی جائے اور وہاں کی عورتوں کو منظم کیا جائے اس کے بعد جس طرح مردوں کے دو اجتماع ہوتے ہیں ایک یہ جلسہ سالانہ اور ایک مجلس شوری اس طرح عورتیں بھی اس جلسہ کے علاوہ کسی اور موقع پر اپنا ایک دوسرا اجتماع کیا کریں ہندوستان کی اور تمام لجنات کی طرف سے نمائندہ عورتیں اس اجتماع میں شامل ہو کر اپنے کاموں پر غور کریں اور ایسے قواعد مرتب کریں جن سے وہ مزید ترقی کرسکیں“.الازهار لذوات الخما رصفحہ 399) حضرت مصلح موعود کے اس ارشاد کی تعمیل میں 1965ء سے لجنہ اماءاللہ مرکز یہ سالانہ اجتماع کا انعقاد کر رہی ہے لیکن ابھی تک ساری لجنات کی نمائندگی نہیں ہورہی صحیح نمائندگی احمدی خواتین کی اس وقت ہو سکتی ہے جب ہر لجنہ سے خواہ ایک نمائندہ خاتون آئے لیکن ضرور شامل ہو اپنی مشکلات پیش کریں غور ہو حل تلاش کئے جائیں تالجنہ ترقی کرے.گزشتہ سال 146 مجالس سے 1001 مستورات نے شرکت کی تھی.اس دفعہ 149 لجنات کی 1033 مستورات اجتماع میں شامل ہوئی ہیں.ایک زندہ قوم کی شان کے شایاں نہیں کہ اتنے بڑے اجتماع میں اس کا تیسرا یا چوتھا حصہ شامل ہو.اس کا یہ مطلب ہے کہ جو کارروائیاں اس اجتماع میں ہونگیں اُن سے صرف تیرا یا چوتھا حصہ واقف ہوگا باقی نہیں.گزشتہ سال اجتماع کے موقع پر حضرت خلیفۃ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لجنات کو اس طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا تھا.پس یہ کیفیت کہ لجنہ کی بعض مجالس تو بڑی ایکٹو (Active) یعنی بہت کام کرنے والی اور بڑے اخلاص سے کام کرنے والی ہیں انہوں نے قربانیاں دے کر نہ صرف اپنی تنظیم کو زندہ رکھا بلکہ اس کو آگے سے آگے بڑھایا ہے مگر لجنہ کی بعض مجالس ایسی بھی ہیں جو کچھ کام تو کرتی ہیں لیکن اتنا کام نہیں کرتیں کہ ان کو تھرڈ ڈویژن میں بھی پاس ہونے کے قابل سمجھا جا سکے اس لئے ان کو بیدار کرنا اور ان کے اندر زندگی کی روح پیدا کرنا بڑا ضروری ہے اور جہاں جہاں بھی جماعت احمدیہ قائم ہے وہاں لجنہ اماء اللہ کی مجلس بھی قائم ہونی چاہئے گو جتنی جگہوں پر جماعت قائم ہوئی ہے وہ بھی کافی نہیں

Page 119

خطابات مریم 94 خطابات لیکن جہاں جہاں اس وقت تک جماعت قائم ہو چکی ہے وہاں لجنہ اماء اللہ ضرور قائم ہونی چاہئے.(المصابیح صفحہ 259) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تعمیل میں اس سال نمایاں اضافہ بجنات کی تعداد میں ہونا چاہئے تھا لیکن چونکہ حضور ایدہ اللہ کی تقریر خاصی دیر سے شائع ہوئی اس کے بعد ملک ایک خوفناک سیلاب کی زد میں آ گیا.دیہات میں اکثر جگہ لجنہ کا کام بند ہو گیا.بہت سی جگہوں سے بر اطلاع بھی ملی ہے کہ لجنہ کا ریکارڈ بھی ضائع ہو گیا.اس لئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تعمیل میں کوئی نمایاں کام نہیں کیا جا سکا مجالس کو بیدار کرنے اور ہر ضلع کی مجالس کی تعداد میں اضافہ کرنے کی ذمہ داری بھی ضلعی مجالس پر ڈالی گئی تھی.بہت کم لجنات ہیں جنہوں نے اپنے ضلع کے قصبات اور دیہات کے دورے کئے اس سلسلہ میں لجنہ اماء اللہ گوجرانوالہ، لجنہ لاہور، لجنہ اماءاللہ بشیر آبادسندھ قابل ذکر ہیں.اگر ایک طرف سے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی کوشش جاری رہے دوسری طرف سے ضلعی لجنات ان شہروں کے دورے کریں جہاں جماعت تو ہے مگر لجنہ نہیں تو بہت تھوڑے عرصہ میں تمام پاکستان میں جہاں جہاں جماعتیں ہیں بجنات کا قیام بھی ہوسکتا ہے.پس آئندہ سال کے لئے یا درکھیں سب کاموں سے مقدم اس مخصوص لائحہ عمل کی تعمیل ہے جو گزشتہ سالانہ اجتماع پر ہمارے پیارے امام نے ہمارے لئے مقررفرمایا تھا جس پر ان مجبوریوں کی وجہ سے جو میں پہلے بیان کر چکی ہوں عمل نہیں کیا جا سکا.ضلعی بجنات کی عہد یداران کو یہ بھی ہدایت دیتی ہوں کہ یہ کام معاً اجتماع کے بعد شروع کر دیا جائے.اس سلسلہ میں لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ان سے پورا تعاون کرے گی عمو ماً جو لائحہ عمل لجنات کو دیا جاتا ہے اگلا اجتماع آنے سے قبل کام شروع کرتی ہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے مرکز میں آ کر ایک نئی روح اور نیا عزم آپ میں پیدا ہوتا ہے اِس روح اور عزم کو قائم رکھئے اور واپس جا کر وہی جوش اپنی بہنوں میں پیدا کریں اور ان کے ساتھ مل کر نئے سال کے شروع سے ہی نئی منزل کی طرف رواں ہو جا ئیں.

Page 120

خطابات مریم 95 خطابات حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ میں اس تقریر میں اس لئحہ عمل کا خلاصہ بیان کرتی ہوں جو گزشتہ سال حضرت خلیفہ اسیح الثالث اللہ کا بیان فرمودہ لائحہ عمل ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پیش فرمایا تھا.سب سے پہلے تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی خواتین کو تہجد کی نماز کی باقاعدگی کی طرف توجہ دلائی تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمد یہ جماعت کی کثرت سے خواتین نماز تہجد کی عادی ہیں لیکن ضروری ہے اس نیکی کی لجنہ اماء اللہ کی طرف سے اس حد تک تلقین کی جائے اس موضوع پر تقاریر ہوں کہ سب بہنوں اور بچیوں کو اس نیکی کو اختیار کرنے کی رغبت پیدا ہو.یاد رکھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نیکی کی تحریک کرنے والے کو بھی نیکی کرنے والے کی طرح ثواب ملتا ہے.امت محمدیہ کی قرآن مجید میں بھی یہی خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ ولتكن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَا مُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عنِ الْمُنكَرِ، وَأُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ( سورۃ آل عمران : 105) اور تم میں سے ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے جس کا کام صرف یہ ہو کہ وہ (لوگوں کو ) نیکی کی طرف بلائے اور نیک باتوں کی تعلیم دے اور بدی سے رو کے اور یہی لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں.یعنی ایسی جماعت اپنے ہر مقصد میں کامیاب ہوگی.اس آیت میں مسلمانوں کی ترقی کے تین عظیم الشان گر بیان کئے گئے ہیں تبلیغ اسلام ، نیک کام کرتے رہنے کی تحریک کرتے رہنا اور بُرے اور نا پسندیدہ امور سے لوگوں کو روکتے رہنا.انسان کمز ور فطرت واقع ہوا ہے کبھی بدی کی تحریک اس پر غالب آ جاتی ہے کبھی نیکی کی.لیکن اگر اس کے کانوں میں ہر وقت اچھی اور نیک باتیں پڑتی رہیں اور بُرے کاموں کی نشان دہی کی جاتی رہے تو بہت سی روحیں برائیوں سے بچ جاتی ہیں.نماز تہجد کی جسے عادت پڑ جائے وہ بہت سی بُرائیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے.پس ایک منظم پروگرام بنایا جائے ہر اجلاس ہر جلسہ ہر محفل اور ہر مجلس میں مستورات کو تہجد پڑھنے کی تاکید کی جائے.

Page 121

خطابات مریم 96 96 خطابات دنیا جس تیزی سے مادہ پرستی کی طرف جھک رہی ہے اس کا علاج ہی یہی ہے کہ اُسی تیزی سے اس کا مقابلہ کیا جائے یہ مقابلہ صرف اُسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم دنیا کی بجائے دین کی طرف متوجہ ہوں ہماری روحانیت ترقی کرے ہماری زندگی کا مقصد دنیا نہ ہو بلکہ تمکنت دین اور اشاعت اسلام ہو.ہر طرف سے دجال اوچھے ہتھیاروں سے حملہ آور ہے کہیں یہ کہہ کر بے پردگی اختیار کی جارہی ہے کہ پردہ چہرہ کا نہیں پر دے کے وہ معنی نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء نے بیان فرمائے کہیں رسم و رواج کی آڑ میں شیطان کا حملہ ہے اسلام پر خواہ کیسا کڑا وقت آ جائے جماعت کو کتنی قربانیوں کی ضرورت ہو.ملک ایک کشمکش میں سے گزر رہا ہو لیکن برادری رشتہ داروں اور کنبہ میں بات رہ جائے کہیں حضرت مصلح موعود کے واضح ارشاد کے خلاف سیما بینی کا پرچار ہے کہ اگر سنیما نہ دیکھا تو نہ اپنے دماغ روشن ہونگے نہ اولاد کے.غرض ایک نہیں مختلف ہتھیاروں سے لیس ہو کر شیطان حملہ آور ہے ہمیں ان ہتھیاروں کا مقابلہ کرنا ہے.اپنی اگلی نسل کو بچانا ہے.ان کو آئندہ قربانیوں کے لئے تیار کرنا ہے ان میں اللہ تعالیٰ سے عشق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت پیدا کرنی ہے.ان کے دلوں میں قوم کا درد پیدا کرنا ہے.غرباء کی محبت پیدا کرنی ہے ملک کا وفادار بنانا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی اطاعت کا جذبہ ان کے دلوں میں پیدا کرنا ہے.احمدیت کی خاطر زندگیاں وقف کرنے کا شوق ان کے دلوں میں پیدا کرنا ہے اور یہ سب کچھ کرنے کے لئے دعائیں بھی کرنی ہیں اور اپنے بچوں کی صحیح اسلامی رنگ میں تربیت بھی کرنی ہے خود قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا کریں اپنی زندگیاں اُسوہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی صحابیات کے نمونہ کے مطابق گزاریں تا آپ کی زیر تربیت بچیاں بھی آپ کے رنگ میں رنگین ہوں.خدمت کو وسیع کرنے کی ضرورت حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے دوسرا ارشاد اپنے دائرہ خدمت کو وسیع کرنے کا فرمایا تھا.سال رواں میں سیلاب کی وجہ سے حتی الوسع لجنات نے انفرادی اور اجتماعی ہر دو رنگ میں سیلاب زدگان کی مدد کرنے میں حصہ لیا لیکن وہ ایک ہنگا می کام تھا.

Page 122

خطابات مریم 97 خطابات حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مستقل طور پر کام کرنے کا ہے دائرہ خدمت وسیع کرنے کا یہ سلسلہ بلا تفریق مذہب و ملت ہو محض انسانی ہمدردی میں.اس کی تفصیل حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنی گزشتہ سال کی تقریر میں بیان فرمائی تھی لجنہ اماءاللہ مرکز یہ نے یہ تقریر شائع کروا دی ہے لجنات نے منگوائی تو ہے لیکن بہت کم تعداد میں.ایک احمدی خاتون بھی ایسی نہیں ہونی چاہئے جو اُسے پڑھے بغیر رہے اس لئے جو بہنیں یہاں آتی ہیں وہ اس کتا بچہ کو خریدیں جس کی قیمت برائے نام صرف پچاس پیسے رکھی گئی ہے اور نمائندگان اپنی لجنات کیلئے لے کر جائیں پھر حضور کے ارشاد کے مطابق شروع سال سے ہی ایک وسیع پر وگرام بنایا جائے اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق کم از کم اس سال ہزار ممبرات لجنہ اماء اللہ اس پروگرام میں شرکت کرنے والی ہوں.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.یہ پروگرام ایسا ہے جس میں شہر، قصبہ، گاؤں ہر جگہ کی مبرات آسانی سے حصہ لے سکتی ہیں.بس مقدم تو یہ تین کام ہیں جو حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذمہ لگائے ہیں سالِ رواں میں ان کو انجام دینا آپ کی ذمہ داری ہے.گزشتہ سال لجنہ اماءاللہ کو پچاس سالہ تقریب مسرت منانے کی توفیق ملی جس میں نہ صرف پاکستان کے نمائندگان نے حصہ لیا بلکہ بیرون پاکستان ممالک سے بھی بہنوں نے شرکت کی.ان نمائندگان میں سے ایک نہایت ہی مخلص بہن امتہ الحئی صاحبہ جو ڈیٹن لجنہ اماءاللہ کی صدر تھیں یہاں سے جانے کے بعد وفات پاگئیں ان سے مل کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ہر احمدی بہن کا ایمان اور بڑھ جاتا تھا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت قدسیہ اور برکت ہی تھی کہ اتنی دور امریکہ میں اتنی مخلص اور فدائی خواتین پیدا ہو چکی ہیں جن کے اندر ہم میں سے کئی ایک سے زیادہ فدائیت اور اخلاص ہے جو اسلام کی خاطر ہر قربانی دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہیں.اللہ تعالیٰ امتہ الحئی صاحبہ مرحومہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور لجنہ اماءاللہ امریکہ کو ان جیسی مخلص اور انتھک کارکنات عطا فرمائے.لجنہ کی مطبوعات لجنہ اماء اللہ کے پچاس سالہ دور کی یاد کو زندہ رکھنے کیلئے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے لجنہ اماءاللہ کی پچاس سالہ تاریخ تین جلدوں میں شائع کی

Page 123

خطابات مریم 98 خطابات مجلہ شائع کیا اور انگریزی میں ایک رسالہ لجنہ سپیکس شائع کیا اس تقریب کی یاد کے طور پر ایک نشان بھی بنوایا.تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول تو ساری ختم ہو چکی ہے جلد دوم اور جلد سوم ابھی بہت کم فروخت ہوئی اسی طرح اُردو اور انگریزی دونوں مجھے بہت کم فروخت ہوئے ہیں.ہر عورت اور بچی کو لجنہ اماءاللہ کی تاریخ اور اپنی ماؤں، دادیوں، نانیوں کی قربانیوں اور خدمات کا علم ہونا چاہئے اگر وہ پڑھیں گی نہیں تو ان میں وہ جذبہ بھی پیدا نہیں ہو گا جو ان کی بزرگ خواتین کے دلوں میں تھا.پس ہر ماں کو چاہئے کہ وہ اپنی بچیوں کو تاریخ لجنہ اماءاللہ ضرور پڑھائے اور تمام لجنات کو ایسا پروگرام بنانا چاہئے کہ ہر احمدی گھرانہ میں یہ کتاب موجود ہو اس سال تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد چہارم شائع کرنے کا پروگرام تھا گو اس کا موادا کٹھا ہو چکا ہے لیکن جس رنگ میں میں چاہتی تھی کہ ہر لجنہ میں جن خواتین نے لجنہ اماءاللہ کی خدمات سرانجام دیں ان کا مفصل تذکرہ آ جائے وہ مکمل حالات لجنات نے نہیں بھیجوائے اس لئے اس جلد کی اشاعت آئندہ سال پر ملتوی کر دی ہے.میں امید کرتی ہوں کہ یہاں سے واپس جا کر ہر لجنہ اپنی ان کا رکنات کے جنہوں نے لمبا عرصہ لجنہ اماءاللہ کی خدمات سرانجام دی ہیں تفصیلی حالات لکھ کر بھجوائیں گی گذشتہ جلدوں میں بھی بعض لجنات کو یہ شکوہ ہے کہ جس رنگ میں ان کا ذکر آنا چاہئے تھا نہیں آیا.ان تین جلدوں میں صرف واقعات رکھے گئے تھے جلد چہارم میں الگ الگ ہر لجنہ کا تذکرہ مع کارکنات کے لایا جائے گا.اس لئے جلد سے جلد مجھے حالات بھجوائیں تا کہ اگلے اجتماع تک یہ جلد اللہ تعالیٰ کی توفیق سے شائع کی جا سکے.اُردو اور انگریزی مجلہ میں خلاصہ ہمارے عقائد اور لجنہ کی خدمات کا تذکرہ ہے اور لجنہ کے کاموں سے تعارف کرانے کا ایک بہت اچھا ذریعہ.ہر لجنہ اماء اللہ کے شعبہ اصلاح وارشاد کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ اپنی ملنے جلنے والیوں میں اس کی تقسیم کریں تا اس کے ذریعہ سے وہ غلط فہمیاں جو ہمارے متعلق مشہور کی جاتی ہیں دور ہوں.احمد یہ جماعت کی خواتین کی خدمات کا غیر از جماعت خواتین کو علم ہو.اسی طرح ابھی تک یادگاری نشان جو بنوایا گیا تھا وہ بھی کچھ موجود ہے جس بہن نے ابھی نہ خریدا ہو وہ خرید لے.بعد میں ان میں سے کوئی چیز نہیں مل سکے گی.

Page 124

خطابات مریم تعلیم 99 خطابات القرآن کی اہمیت ہماری جماعت کی اکثریت دیہات میں ہے دیہات میں لجنات کی بھی کثرت ہے لیکن بہت سی لجنات صرف اس وجہ سے رپورٹ نہیں بھجوا سکتیں کہ لکھنا نہیں آتا.حضرت مصلح موعود نے جب سے لجنہ اماء اللہ قائم فرمائی اپنی متعدد تقاریر میں اس بات پر زور دیا کہ ہر احمدی خاتون کو بچی ہو یا جوان یا بوڑھی کم از کم اُردو لکھنا پڑھنا اور قرآن مجید ناظرہ آنا چاہئے.چنانچہ 1944ء کے جلسہ سالانہ پر آپ نے لجنہ اماءاللہ کے سامنے ایک واضح اور ٹھوس پروگرام رکھا تھا اور فرمایا تھا کہ :.لجنہ اماءاللہ کا پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ جب ان کی تنظیم ہو جائے تو جماعت کی تمام عورتوں کو لکھنا اور پڑھنا سکھا دے.دوسرا قدم یہ ہونا چاہئے کہ نماز ، روزہ اور شریعت کے دوسرے موٹے موٹے احکام کے متعلق آسان اُردو زبان میں مسائل لکھ کر تمام عورتوں کو سکھا دئے جائیں اور پھر تیسرا قدم یہ ہونا چاہئے کہ ہر ایک عورت کو نماز کا ترجمہ یاد ہو جائے تاکہ ان کی نما ز طوطے کی طرح نہ ہو کہ وہ نماز پڑھ رہی ہوں مگران کو یہ علم نہ ہو کہ وہ نماز میں کیا کہہ رہی ہیں اور آخری اور اصل قدم یہ ہونا چاہئے کہ تمام عورتوں کو باترجمہ قرآن مجید آ جائے “.(الازھار لذوات الخمار صفحہ 369) بے شک شہری جماعتوں میں اعلی تعلیم یافتہ خواتین بھی موجود ہیں لیکن دیہات میں کثرت سے ایسی خواتین ہیں جو ابھی تک اُردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتیں.پس دیہات سے آنے والی نمائندگان کا یہ فرض ہے کہ وہ یہاں سے جانے کے بعد ایسا پروگرام بنائیں کہ ایک سال کے اندراندران کے گاؤں کی ہر عورت اور ہر بچی اُردو لکھنا پڑھنا سیکھ لے یہ بالکل مشکل کام نہیں لیسرنا القرآن اور قرآن مجید صحیح پڑھنے کے ساتھ اُردو خود آ جاتی ہے.لکھنے کی مشق چند دن کرنے سے معمولی لکھنا آ جاتا ہے.سرور کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو کلام الہی ہی ان الفاظ میں نازل ہوا تھا.اقْراً يا سُورَتِكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الانْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقرا وربك الأعرمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالقَلَمِن عَلَّمَ الإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْتُ (العلق : 2 تا 6 )

Page 125

خطابات مریم 100 خطابات ترجمہ: اپنے رب کا نام لے کر پڑھو جس نے سب اشیاء کو پیدا کیا اور جس نے انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ( پھر ہم کہتے ہیں ) کہ قرآن کو پڑھ کر سناتا رہ.کیونکہ تیرا رب بڑا کریم ہے وہ رب جس نے قلم کے ساتھ علم سکھایا اور آئندہ بھی سکھائے گا.اس نے انسان کو وہ کچھ سنایا جو وہ پہلے نہیں جانتا تھا.کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس رحمۃ للعالمین کی ہم نام لیوا ہیں جو علم کے خزانے ہمارے لئے لے کر آیا اس سلطان القلم کی جماعت میں سے ہیں جس کو سب سے بڑا ہتھیارقلم عطا کیا گیا اور جس نے ساری عمر قلم سے جہاد کیا اور ادیان عالم کے مقابلہ میں اسلام کی فوقیت ثابت کی اور ہم میں سے ایک عورت بھی ایسی نہ رہے جسے قرآن نہ آتا ہو، اُردولکھنا پڑھنا نہ آتا ہوگزشتہ سال حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس طرف بھی توجہ دلائی تھی اور فرمایا تھا کہ :.ضروری ہے کہ آپ کو قرآن کریم اور اس کا ترجمہ آتا ہو ہم اس سلسلہ میں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد کام شروع کرتے ہیں کچھ کام ہوتا ہے پھر بند ہو جاتا ہے.قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے کی طرف از سر نو توجہ دینی چاہئے.تعلیم بالغاں یعنی جو بڑی عمر کی عورتیں ہیں انہیں بھی اور جو احمدی نہیں ہیں ہم نے ان کو بھی پڑھانا ہے جب تک وہ پڑھیں گی نہیں اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار پڑھ کر کس طرح محظوظ ہوا کریں گی“.پس تمام شہری لجنات کو قرآن مجید با ترجمہ اور دیہاتی لجنات کو ناظرہ قرآن مجید ، شریعت کے مسائل اور اردو لکھنا پڑھنا سالِ رواں میں اپنی ممبرات اور بچیوں کو سکھانا ہے.کوئی احمدی بچی جاہل نہیں رہنی چاہئے ، کوئی احمدی بچی اور خاتون احکام شریعت سے بے خبر نہیں ہونی چاہئے ، کوئی احمدی بچی اور خاتون ایسی نہیں ہونی چاہئے جسے اپنی زبان میں پڑھنا اور لکھنا نہ آتا ہو.ہماری اصل منزل تو بہت آگے ہے یہ تو ابھی ابتدائی کام ہیں جب تک ہماری سو فیصدی عورتیں اُردو لکھنا پڑھنا اور قرآن مجید ناظرہ نہیں پڑھ لیتیں منزل تک پہنچنا بہت مشکل ہے وہ دن دور نہیں جب مغربی اقوام میں سے کثرت سے لوگ احمدیت کو قبول کریں گے ان خواتین کی

Page 126

خطابات مریم 101 خطابات تعلیم و تربیت کے لئے ابھی سے آپ نے اپنے کو تیار کرنا ہے.آپ میں خدا کا مسیح آیا آپ میں سے بہت نے خلفاء سے برکت حاصل کی اور اب حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ انتہائی شفقت اور محبت سے بار بار آپ کو سمجھا رہے ہیں.پس ایک طرف دینی علم سیکھنے کی طرف توجہ دیں اور دوسری طرف اپنے نفوس کی اصلاح کے ساتھ اپنی اولادوں کی بہترین تربیت کریں اور انہیں احمدیت کے جاں نثار خادم بنا ئیں.اے اللہ تو ایسا ہی کر.(الفضل 24 نومبر 1973ء)

Page 127

خطابات مریم 102 خطابات اختتامی خطاب بر موقعه سالانہ اجتماع منعقد ہ 4 /نومبر 1973ء) اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ (التحريم:7) اے مومنو! اپنے اہل کو بھی اور اپنی جانوں کو بھی دوزخ سے بچاؤ.جس کا ایندھن خاص لوگ یعنی کا فر ہوں گے اور اسی طرح پتھر ہوں گے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ یايُّهَا النَّاسُ یعنی اے لوگو بلکہ ان لوگوں کو مخاطب فرمایا ہے جو ایمان لا چکے ہیں اور اسلام کو قبول کر چکے ہیں.یعنی یہ نہ سمجھو کہ تمہارا صرف مان لینا تمہیں نجات دلا دے گا بلکہ جب تک تمہارے اعمال تمہارے ایمان کے مطابق نہ ہوں گے ڈر ہے کہ کسی قدم پر لغزش کھا کر تم جہنم میں نہ جاپڑ و خود بھی بچو اور اپنے اہل وعیال کو بھی محفوظ رکھو کیونکہ انسان کے لئے بعض وقت اس کے بیوی بچے بڑی آزمائش بن جاتے ہیں.ان کو اسی معیار پر لاؤ جس پر تم خود کھڑے ہو کبھی خاوند کی وجہ سے عورت کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں کبھی عورت کی وجہ سے خاوند فتنہ میں مبتلا ہو جاتا ہے.کبھی اولا دماں باپ کو آزمائش میں مبتلا کر دیتی ہے.اس لئے سارے گھر کی نجات کیلئے ضروری ہے کہ ہر خاوند اور ہر باپ اپنی بیوی اور بچوں کی صحیح نگرانی کرے کہ احکام شریعت اور دینی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں وہ اس کا ساتھ دے رہے ہیں یا نہیں.کل حضرت خلیفتہ امیج الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ شاہراہ غلبہ اسلام پر آپ کو بھی اپنے مردوں کے ساتھ ساتھ قدم بقدم چلنا پڑے گا اور

Page 128

خطابات مریم 103 خطابات اپنے بچوں کو بھی ساتھ چلانا پڑے گا ورنہ آپ ان انعامات کی وارث نہیں بن سکتیں جن کے وعدے اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح سے کئے ہیں.اپنے بزرگوں کی قربانیوں کے تسلسل کو آپ اسی وقت قائم رکھ سکتی ہیں.اب آپ میں بھی وہی قربانی کی روح اور وہی مر مٹنے کا جذ بہ اور وہی خدا تعالیٰ اور اس کے خلیفہ کی آواز پر لبیک کہنے کا جذبہ ہو جو آپ سے پہلی خواتین میں تھا اور وہی جذ بہ اور محبت اور قربانی کی رُوح اپنی اولادوں میں پیدا کریں تا اسلام کا جھنڈا جس کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے سپرد کی ہے ایک نسل کے بعد دوسری نسل بلند کرتی رہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں عذاب الیم سے بچنے کی طرف خود را ہنمائی فرماتا ہے.يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلَ ادْتُكُمْ عَلى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ في سَبِيلِ اللهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَ انْفُسِكُمْ ذلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (الصف: 12،11) اے مومنو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کی خبر دوں جو تم کو دردناک عذاب سے بچالے گی.(وہ تجارت یہ ہے ) کہ تم اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کے راستہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرو.اگر تم جانو تو یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے.یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عذاب الیم سے بچنے کیلئے ایک تجارت کرنی پڑے گی.وہ تجارت نہیں جس میں کبھی نفع ہوتا ہے کبھی نقصان بلکہ وہ تجارت جس کا نفع بڑھتا ہی جائے گا وہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اس عہد بیعت کو نبھانے کیلئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرو.جان سے مراد صرف وہ جہاد نہیں جو جنگ کی صورت میں کیا جاتا ہے.النفس میں انسان کی اپنی ذات بھی شامل ہے اولا د بھی شامل ہے اور اس کی ساری قوم بھی شامل ہے.یعنی خود دین کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دو یا دین کی خاطر اپنے اوقات اپنی صلاحیتیں اپنی عقل اپنی قوتیں خرچ کرو.اپنے بچوں کو تیار کرو کہ وہ خدمت اسلام کریں.اپنی قوم میں جذ بہ پیدا کرو کہ وہ سب متحد ہو کر غلبہ شاہراہ اسلام پر گامزن ہوں.تمہاری جان بھی اس کے لئے ہو ، تمہارا مال بھی اسی کے لئے ہو ، تمہاری اولادیں بھی اسی کی راہ میں وقف ہوں.غرض کہ إِنَّ صَلوتی وَ نُسُكِي وَ مَحْيَايَ وَمَمَاتِي (الانعام: 163) کے مطابق انسان

Page 129

خطابات مریم 104 خطابات کا سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہو جائے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ اپنا سب کچھ خرچ کرنے کو تیار ہو جائے تب وہ مقصدِ حیات حاصل کر سکتا ہے اور تبھی وہ سچا مسلمان کہلانے کا مستحق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.اسلام کے معنی ہیں ذبح ہونے کے لئے گردن آگے رکھ دینا.یعنی کامل رضا کے ساتھ اپنی روح کو خدا کے آستانہ پر رکھ دینا..ذبیح ہونے کے لئے اپنی دلی خوشی اور رضا سے گردن آگے رکھ دینا کامل محبت اور کامل عشق کو چاہتا ہے.روحانی خزائن جلد 20 لیکچر لا ہور صفحہ 152) خدا کا ارادہ اسلام کو پھر سے غالب کرنے کا ہے اور اسی غرض کیلئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھجوایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو بشارتیں اللہ تعالیٰ نے دیں ان میں سے ہم نے سینکڑوں ہزاروں کو پورا ہوتے اپنی آنکھ سے دیکھا.ہر صبح جو چڑھتی ہے وہ یہ گواہی دیتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعوئی میں بچے تھے اور ہر شام جو آتی ہے وہ آپ کی صداقت پر مہر ثبت کرتی ہے.وہ وقت جلد آنے والا ہے جب ساری دنیا آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے پناہ لے گی.لیکن اس غلبہ کے لئے جو قربانیاں ہمیں دینی چاہئیں اگر ہمارا حصہ ان قربانیوں میں نہ ہوا تو ہم بڑے ہی بد قسمت ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمارا محتاج نہیں ہے.اس کی نقذ بر تو ہر صورت میں پوری ہوگی.زمین اور آسمان مل سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح سے جو وعدے کئے ہیں وہ ٹل نہیں سکتے.ضرورت صرف استقامت کی ہے.ضرورت قربانیوں میں تسلسل پیدا کرنے کی ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ شیطان کسی سوراخ سے ہمارے دل اور دماغ پر قبضہ نہ کر سکے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ پیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائیگا پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوی بیعت میں صادق اور

Page 130

خطابات مریم کون کا ذب ہے.105 خطابات (روحانی خزائن جلد 20 ، رسالہ الوصیت صفحہ 309) ہم نے بھی اپنے خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے ایک عہد باندھا تھا.ہر عورت کو اس عہد بیعت کو تازہ کرتے رہنا چاہئے اور اپنے نفس کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ کیا میں اپنے دعویٰ بیعت میں صادق ہوں یا نہیں.بیعت کرتے ہوئے تو ہم نے کہا تھا کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائیں شرک سے مجتنب رہیں گے کیا کوئی ایسا کام تو ہم نہیں کر رہے جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا سے بڑھ کر کسی اور کی رضا مطلوب ہو اور اس طرح شرک خفی کے مرتکب ہو رہے ہیں.عہد تو یہ کیا تھا کہ نفسانی جوشوں کے وقت ان کی عقلیں مغلوب نہیں ہوں گی.جائزہ لینا چاہئے کہ کیا اپنی ذاتی اغراض کے لئے کسی فساد کے مرتکب تو نہیں ہو رہے کسی پر ظلم تو نہیں کر رہے کسی کی حق تلفی تو نہیں ہم سے ہو رہی.خلق اللہ کوتو ہم سے کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا.نہ ہماری زبان سے نہ ہاتھ سے کسی پر الزام تراشی تو نہیں کرتے.غیبت تو نہیں کرتے کسی کو دکھ تو نہیں پہنچاتے.پھر عہد تو یہ کیا تھا کہ ہر حال میں رنج اور راحت ،عسر اور میسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کریں گی اور ہر ایک ذلت اور دُکھ کو قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیار رہیں گی.اس سلسلہ میں مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نئے انتخابات کے سلسلہ میں بعض جگہ عہدہ داروں نے اچھا نمونہ نہیں دکھایا.بعض بہنیں سمجھتی ہیں کہ خواہ قومی جواب دے گئے ہوں ، کام کی ہمت نہ ہو یا مجبوریوں کے باعث کر نہ سکتی ہوں لیکن عہدہ ہاتھ سے نہیں چھوڑنا.عہدہ تو ایک ذمہ داری ہوتی ہے جو جماعت کی طرف سے لجنہ کی کسی عورت کے سپرد کی جاتی ہے.اگر وہ اس سے لے کر کسی اور کے سپرد کر دی جائے تب بھی اگر اسے اپنے دین سے پیار ہے اپنی قوم سے محبت ہے اور کام کرنا ہے تو اس کو جو بھی اس پر عہدہ دار اور افسر مقرر کئے جائیں ان کی کامل اطاعت کرنی چاہئے.یہ نہیں کہ جب تک عہدہ اپنے ہاتھ میں رہا کام کیا جب دوسری کسی خاتون کو عہدہ دار بنا دیا تو دلچسپی لینی چھوڑ دی.یہ ایک بڑا ہی غلط جذ بہ ہے جس کا مظاہرہ اس سال بعض مقامات پر مشاہدہ میں آیا ہے.ہمارا کام صرف اطاعت ہے اور جو بھی عہدہ دار مرکز کی طرف سے مقرر ہوں ان کی مکمل اطاعت کی جائے اور ان سے پورا

Page 131

خطابات مریم 106 خطابات تعاون ہو کیونکہ وہ مرکزی نمائندہ کی حیثیت رکھتے ہیں.پھر ہم نے یہ بھی عہد بیعت باندھا تھا کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز رہیں گی اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کریں گی اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنی ہر ایک راہ میں دستورالعمل قرار دیں گی.میری بہنو! اپنی زندگی، اپنی تقریبات، اپنی خوشیوں ، اپنے غموں میں یہ سوچ لیا کریں کہ ہم نے احمدی جماعت میں داخل ہوتے ہوئے یہ عہد کیا تھا کہ رسم کی پیروی نہیں کریں گی اور ہم پر حکومت قرآن کی ہوگی.ہم پر حکومت اللہ اور اس کے رسول کی ہوگی.کیا جو کمزوریاں ہماری جماعت کے ایک حصہ میں پیدا ہو چکی ہیں خواہ وہ ہزار میں سے ایک خاتون میں ہی ہوں وہ ہمارے اس عہد بیعت کو کمزور نہیں کر رہی ہیں جو ہم نے اپنے خدا سے کیا تھا.پھر یہ بھی عہد کیا تھا کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی اولا د اور اپنے ہر ایک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.یہ ہے وہ مقام در اصل جو ہمیں حاصل ہونا چاہئے کہ اپنی ضروریات پر دین کی ضروریات مقدم، اپنی عزت پر دین کی عزت مقدم، اپنی جان مال اور اولا د پر خدا اور اس کے خلیفہ کا حکم مقدم رکھیں.ان دو دنوں میں پردہ اور رسومات کے متعلق بہت کچھ کہا جا چکا ہے لیکن ربّ کریم کے ارشاد کے مطابق کہ تَأمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ (آل عمران : 111) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مطابق کہ کسی کو بُرائی کرتے دیکھو.اول تو ہاتھ سے روکو.ہاتھ سے نہ روک سکو تو زبان سے، زبان سے بھی روکنے کی جرات نہ کر سکو تو کم از کم دل میں تو بُرا منالیا کرو میں ان باتوں کو بار بار دہرانے سے رک نہیں سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض جیسا کہ آپ کو الہام میں بتایا گیا ہے.يحى الدين ويقيم الشريعة ( تذکرہ صفحہ (55) ہے.آپ دین پھر سے زندہ کریں گے اور شریعت کو پھر سے قائم کریں گے.آپ کوئی نیا دین نہیں لائے.ہمارا مذہب اسلام ہے، ہمارے نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، ہماری کتاب قرآن ہے، آپ کی بعثت کی غرض دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لانا اور قرآن پر چلانا ہے اور یہ کام قرآن پڑھے بغیر نہیں ہوسکتا اور وہ نیا آسمان اور نئی زمین جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ پیدا ہونی ہے وہ بھی اس

Page 132

خطابات مریم 107 خطابات وقت پورا ہوگا جب ہم میں سے ہر انسان ایک نیا انسان بن جائے جیسے انسان آج سے چودہ سو سال قبل قرآن کی تعلیم کے نتیجہ میں پیدا ہوئے تھے.پس قرآن پڑھیئے ، پڑھائیے اور قرآن کی تعلیم کی اتنی اشاعت کریں کہ ایک ایک بچی اور ایک ایک عورت قرآن کے مضامین اچھی طرح جانتی ہو اور مرنا پسند کرے لیکن قرآنی احکام کی نافرمانی برداشت نہ کر سکتی ہو.اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر عورت لجنہ کی ممبر بنے ، اپنے اجلاسوں اپنی کلاسوں میں جائے جمعوں کے خطبات سنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی کتب پڑھے.اس کے بغیر عمل بھی ہونا ناممکن ہے.کوئی وبا پھیلتی ہے آپ کتنی جلدی اپنے بچوں اور اپنے آپ کو ٹیکہ لگواتی ہیں لیکن روحانی وبا سے محفوظ رکھنے کا جو ٹیکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دیا ہے وہ آپ نہیں لگواتیں.میرا تا ثر ہے کہ با وجود تعلیم عام ہونے کے بعض بہنوں اور بچیوں کا دینی مطالعہ بہت کم ہے.بعض گاؤں کی عورتوں کا میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ اُردو نہیں آتی لیکن عام واقفیت بہت ہوتی ہے.اس کے برعکس شہروں والی بچیوں کا دینی علم کم ہے اس لئے میں بجنات کو کتب کی خرید کی طرف توجہ دلاتی رہتی ہوں علاوہ جماعت کے لٹریچر کے لجنہ اماءاللہ کا لٹریچر ضرور خریدیں.پڑھیں ، پڑھا ئیں غیر از جماعت بہنوں کو دیں خصوصاً مجلہ اور افریقہ سیکس.ایک اور کتا بچہ کی تحریک کرنا چاہتی ہوں یہ ایک چھوٹا سا رسالہ ہے مکرمی دوست محمد صاحب شاہد نے تفسیر صغیر کے معنوی وصوری کمالات پر لکھا ہے خدام الاحمدیہ لائل پور نے شائع کیا ہے.گول بازار میں ہر دوکان سے مل جائے گا قیمت صرف 70 پیسے ہے.یہ رسالہ اگر آپ خریدیں اور غیر احمدی بہنوں کو دیں تو ان کو معلوم ہوگا کہ قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ دوسرے علماء نے کیا کیا ہے اور حضرت مصلح موعود نے کس قدر آسان زبان میں اور کتنا اعلیٰ ترجمہ کیا ہے.وہی جو ہونا چاہئے تھا جس سے قرآن کی صحیح شان اور عظمت کا اظہار ہوتا ہے اور جس سے قرآن مجید پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا.آخر میں آپ کو اس طرف توجہ دلاتی ہوں کہ کل حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے جو انتباہ فرمایا ہے اس کے تدارک کیلئے یہاں سے جاتے ہی سرگرم عمل ہونا چاہئے.ضلعی سطح پر دورے کریں اور ہر لجنہ کے لئے لازمی قرار دیتی ہوں جو صدر خود نہ آئی یا نمائندہ اس نے نہ

Page 133

خطابات مریم 108 خطابات بھیجا.اس صدر کو آئندہ سال ہٹا دیا جائے گا.دورے کرنے سے لجنات میں بیداری ہوگی چندہ بڑھے گا.ان کی ضلعی لجنہ اور مرکزی لجنہ سے ان کا تعلق پیدا ہو گا کوشش کیجئے اس ارادہ کے ساتھ خدا سے دعائیں کرتے ہوئے کہ اگلے سال جتنی بجنات پاکستان میں ہیں.ان سب کی نمائندہ خواتین اس اجتماع میں موجود ہوں اللہ تعالیٰ توفیق عطا کرے.اب میں آپ سب کو خدا حافظ کہتی ہوں ان لجنات کو جنہوں نے انعامات حاصل کئے اور ان بچیوں کو جنہوں نے انعامات حاصل کئے مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کے لئے دعا کرتی ہوں اللہ تعالیٰ اس سے بڑھ کر ان کو توفیق دے.آمین آپ کے لئے تو اس اجتماع میں شرکت کرنی مشکل نہ تھی ہزاروں مخلص بہنیں اور بچیاں جو پاکستان سے باہر کے شہروں میں ہیں ان کے دلوں میں اس اجتماع میں آنے کی خواہش آپ سے کم نہیں.چشم تصور سے میں ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھتی ہوں.ان کا دل چاہتا ہوگا کہ وہ آتیں شرکت کرتیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب سنتیں ، کام میں حصہ لیتیں.پاکستان سے باہر رہنے والی سب ممبرات لجنہ اور کارکنات کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر رہے اور اپنے اپنے ملک میں ان کو اسلام کا جھنڈا بلند سے بلند تر کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین مبلغین اسلام اور ان کی بیویوں کے لئے بھی جو اپنے شوہروں کے ساتھ تبلیغ کے میدان میں سرگرم عمل ہیں دعا کریں.ربوہ کی ان بہنوں اور بچیوں کیلئے دعا کی درخواست ہے جنہوں نے آپ کی خدمت کی.یہ ان کا فرض ہے خدا تعالیٰ ہمیشہ ہی ان کو اپنے فرض کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ اور حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ، حضرت بیگم صاحبہ مرزا شریف احمد صاحب، سیدہ مہر آپا صاحبہ اور سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی صحت کے لئے بھی دعا کی درخواست ہے.پھر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی تمام عہدہ داروں کے لئے بھی درخواست ہے اور سب سے بڑھ کر حضرت خلیفۃ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت اور درازی عمر اور آپ کے مقاصد کی

Page 134

خطابات مریم 109 خطابات کامیابی کیلئے دعائیں کریں.بے حد دعا ئیں جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے غلبہ اسلام کی صبح طلوع ہو چکی ہے.غلبہ اسلام کا چمکتا ہوا سورج ہمیں دکھا دے اور ہم سب کو حضور کی ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.خلافت وہ عظیم الشان انعام ہے جس کا وعدہ اُمت محمدیہ سے کیا گیا تھا اور جو نعمت جماعت احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ملی ہے اس انعام کی قدر کرنا ہمارا فرض ہے کہ اس کے مطابق عمل کرنا اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہی اس کی قدر کرنا ہے.(ماہنامہ مصباح دسمبر 1973ء جنوری 1974ء)

Page 135

خطابات مریم 110 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1973ء خطابات آپ نے تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس آخری زمانہ میں حضرت مہدی موعود علیہ السلام کے ذریعہ غلبہ اسلام مقدر تھا جس کے اشارے اور پیشگوئیاں جا بجا قرآن مجید میں موجود ہیں اور جس کی آمد کی بشارتیں خود ہمارے آقا خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیں یہاں تک کہ آنے والے مہدی کو سلام بھی بھیجا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مختلف ممالک اور مختلف زمانوں میں صلحاء امت، امت محمدیہ کو آنے والے مہدی کی بشارتیں دیتے رہے اور اس کی آمد کا انتظار کرنے کی تاکید کرتے رہے جب مہدی علیہ السلام کے ظہور کا وقت آیا تو وہ علامات اور نشانیاں جو قرآن مجید میں بیان ہوئی تھیں اور جن کی نشاندہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھیں یکے بعد دیگرے پوری ہونی شروع ہوئیں.یہ وہ زمانہ تھا جب کہ مسلمان انتہائی مایوسی کا شکار ہورہے تھے ایک طرف عیسائیت اپنے تمام ہتھیاروں کے ساتھ اسلام پر حملہ آور تھی بلکہ یقین رکھتی تھی کہ سارے ہندوستان بلکہ آہستہ آہستہ (خدانخواستہ ) مکہ اور مدینہ پر بھی یسوع مسیح کا پرچم لہرا دیں گے.آپ نے عیسائیت یہودیت اور مخالفین اسلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود نے تمام مذاہب اور تمام دنیا کو چیلنج کرتے ہوئے اسلام کے غلبہ کی بشارت دی.حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے مقصد بعثت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرنے کے بعد تو حید خالص پر ایمان، قربانیوں میں جوش، تسلسل دین کو دنیا پر مقدم رکھنے اور تربیت اولاد، اوقات کو ضیاع سے بچانے ، مادہ پرستی سے اجتناب اور دعویٰ ایمان کے مطابق عمل کرنے کی طرف مستورات کو خصوصی توجہ دلائی.آپ نے فرمایا:.دنیا کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام پہنچ چکا ہے.آپ کے داعیان ہر طرف تثلیث سے جنگ کر کے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا پیغام پہنچارہے ہیں.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر جو مدے خدا نے اپنے مسیح سے کئے ہیں وہ ٹل نہیں سکتے.انشاء اللہ (افضل 6 جنوری 1974ء) وعد.

Page 136

خطابات مریم 111 خطابات اختتامی خطاب جلسہ سالانہ خواتین 1973ء آپ نے الوداعی خطاب میں فرمایا کہ گو آج جلسہ کا اختتامی دن ہے لیکن بعض بہنوں کو اس جلسہ اور اس کی عظمت کا احساس نہیں ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس غرض سے اس جلسہ کے انعقاد کا حکم فرمایا تھا وہ تبھی پوری ہوسکتی ہے جب ہم اپنے نمونہ سے اور اپنے قول و فعل سے ثابت کریں.ہم یہ جلسہ میلے اور تماشے کے لئے نہیں مناتے بلکہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے خلیفہ کی باتیں سننے اور ان پر عمل کرنے کے لئے مناتے ہیں.ہزاروں ایسی بہنیں ہوں گی جو مغربی افریقہ، انڈونیشیا، نجی، آئر لینڈ اور یورپ وغیرہ میں ہوں گی اور ان کے دل خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے لئے یہ سوچ کر تڑپ رہے ہوں گے کہ حضور ایدہ اللہ خطاب کر رہے ہوں گے چنانچہ بڑی مبارک ہیں وہ ہستیاں جنہوں نے ان تقاریر سے فائدہ اُٹھایا اور بڑی بد قسمت ہیں وہ ہستیاں جنہوں نے اپنا وقت کھانے پینے اور پھر نے میں صرف کیا.آپ نے تقویٰ اختیار کرنے ، اللہ تعالیٰ پر توکل رکھنے ، یاد الہی میں مصروف ہونے اور اپنے عہد کو صحیح طور پر نبھانے کی تلقین فرمائی اور کہا اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم صحت احمد بیت اور اسلام کی نعمت عطا کی ہے.میری بہنو! وقت کی قدر پہچانیں آپ کی قوت و صلاحیتیں اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی اشاعت کے لئے خرچ ہونی چاہئیں.اسی مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث کیا.اس لئے ضروری ہے اور بڑا ہی ضروری ہے کہ ہماری ہر بہن قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کرے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ظلمات سے نور کی طرف لے جانے کے لئے دنیا میں بھیجا.آپ نے فرمایا قرآن مجید کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنا ضروری ہے.آپ کسی قصبہ میں یا شہر میں کسی بھی عہدہ پر ہوں.آپ میں سے ہر ایک جس نے حضرت مسیح موعود

Page 137

خطابات مریم 112 خطابات علیہ السلام کی بیعت کی ہے.اس کا فرض ہے کہ وہ قرآن مجید کی اشاعت میں حصہ لے.سیکھے سکھائے ، ترجمہ پڑھائے اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر عمل کرے.قرآن کریم کی تعلیم آپ کے عمل، اخلاق، روزمرہ کی زندگی اور قول وفعل سے ثابت ہو.ظلمت سے نکال کر سینوں کو منور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود آئے تھے.آپ نے فرمایا لجنہ اماءاللہ کی تاریخ مکمل ہو چکی ہے.ہمارے ہراحمدی گھرانے میں اس کو موجود ہونا چاہئے تا کہ آپ کی قربانیوں کا تذکرہ آپ کی آکند و نسل پڑھے.خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی نسل کی تربیت کر سکیں........☆ (الفضل 14 جنوری 1973ء)

Page 138

خطابات مریم 113 حضرت چھوٹی آپا جان کی کراچی آمد (197529) خطابات کراچی قیادت نمبر 6 کے تربیتی جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :.جب پروگرام میرے سامنے رکھا گیا لجنہ اماءاللہ کراچی کی تمام قیادتوں کا.تو مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ قیادت نمبر 6 میں ماشاء اللہ نمبرات کی تعداد اتنی زیادہ ہے ورنہ میں ان کے لئے ایک سے زیادہ دن وقف کرتی کیونکہ جہاں لجنہ کی ممبرات اور ناصرات کی تعداد زیادہ ہو وہاں یقیناً زیادہ وقت اور زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ سیکھ سکیں.اب اگر انشاء اللہ تعالیٰ مجھے دوبارہ کراچی آنے کا موقع ملا تو میں کوشش کروں گی کہ اس قیادت کو زیادہ سے زیادہ ٹائم دے سکوں.میں نے ان کی رپورٹ سنی ہے ماشاء اللہ 250 تو اُن کی ممبرات ہیں اور 104 ناصرات کی تعداد ہے جن پر خلوص جذبات کا اظہار اس قیادت کی نگران نے کیا ہے میں اُس کیلئے ممنون ہوں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کیلئے ہمیشہ ہی محبت قائم رکھے اور ہم اُس اعلیٰ اور ارفع مقام کو حاصل کر سکیں جو ہماری لجنہ کی تنظیم کا مقصد ہے.تلاوت قرآن کریم کے بعد ایک بچی نے جو نظم پڑھی تھی اس میں ان جذبات کا اظہار کیا تھا کہ ہم مغربی اثرات کو قبول نہیں کریں گے یہ حقیقت ہے کہ فی زمانہ جس میں آپ لوگ زندگی گزار رہے ہیں اور جس ماحول میں ہماری نئی نسل پروان چڑھ رہی ہے بڑا ہی ضروری امر ہے کہ ہم نئی نسل کو مغربی اثرات سے محفوظ رکھیں.قاعدہ کلیہ کے طور پر ایک بات یہ یاد رکھنی چاہئے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ بعض لوگ اندھا دھند بات کرنے کے عادی ہوتے ہیں کہ ہر مغربی چیز بُری ہوتی ہے حالانکہ اسلام نہ تو مغربی ہے نہ مشرقی.اسلام تو عالمگیر مذہب ہے اسلام شمال کے رہنے والوں کیلئے بھی پیغام محبت لایا ہے اور جنوب کے رہنے والوں

Page 139

خطابات مریم 114 خطابات کیلئے اور مشرق کے رہنے والوں کے لئے بھی اور مغرب کے رہنے والوں کے لئے بھی.اس لئے کسی چیز کو بُرا سمجھنا کہ یہ مغربی یا مشرقی شمالی یا جنوبی ہے یہ ذہنیت نہیں ہونی چاہئے.ہم مغربیت کو جب بُرا کہتے ہیں اور مغربی تہذیب سے بچنے کیلئے اپنے بچوں کو کوئی نصیحت کرتے ہیں تو اُس کا مطلب ہوتا ہے عیسائی تہذیب کیونکہ اس وقت مغرب پر جس تہذیب کا اثر پڑ رہا ہے وہ عیسائیت کا ہے.عیسائیت کے تمدن کا ہے ورنہ انشاء اللہ تعالیٰ جب اسلام دنیا میں پھیلے گا تو مشرق میں بھی اسلام ہوگا اور مغرب میں بھی.جنوب میں بھی اسلام ہوگا اور شمال میں بھی اسلام کا بول بالا ہوگا اور یہی ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کا مقصد تھا جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مغربیت کے اثرات سے بچو.مغربی تہذیب کی پیروی نہ کروتو اُس کا مطلب ہوتا ہے کہ عیسائی مذہب نے جو غلط باتیں اپنے مذہب کے لوگوں میں پھیلا دی ہیں وہ دانستہ یا نا دانستہ تم اختیار نہ کرو.جب ہم کسی مذہب اور قوم کی تہذیب و تمدن کو اپناتے ہیں تو آہستہ آہستہ اُس مذہب کی محبت بھی ہمارے دلوں میں رچینی شروع ہو جاتی ہے ورنہ اچھی چیز جو نظر آئے.نبی کریم علی نے ارشادفرمایا.وہ لو.بُری چیز یا بُری بات ہمیں خواہ اپنے معاشرے میں بھی نظر آئے اُس کو ہم چھوڑ دیں گے.یہ بھی آپ نے فرمایا کہ ہر اچھی چیز دراصل مومن ہی کی گمشدہ چیز ہے اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان مغربی اقوام نے جو اچھائیاں اپنائی ہیں اور جو خوبیاں سیکھی ہیں اگر وہ حقیقت میں خوبیاں ہیں تو وہ اسلام کی ہی تعلیم سے لی گئی ہیں جن کو بد قسمتی سے مسلمان چھوڑ بیٹھے ہیں اور اُن اقوام نے اُنہیں اپنا کر اپنے سے منسوب کر لیا ہے مثلاً سچائی کی بات ہے اسلام نے جتنی شدت سے سچائی پر زور دیا ہے آپ کسی بھی مذہب کی کتاب اُٹھا کر دیکھ لیجئے کہیں بھی اتنی سچائی پر زور نہیں دیا گیا.اسلام نے جتنا صفائی پر زور دیا ہے اتنا کسی مذہب نے نہیں دیا لیکن افسوس اور دکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں میں اب کوئی صفائی کا معیار نظر نہیں آئے گا جو مغربی اقوام میں نظر آتا ہے.اب یہ کہنا کہ مغربی اقوام کی ان باتوں کی پیروی نہ کرو تو یہ ظلم ہوگا کیونکہ صفائی دراصل ہماری تعلیم تھی قرآن کی تعلیم تھی.نبی کریم علی کی تعلیم تھی.انہوں نے یہ تعلیم یاد رکھ لی.قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے جن خوبیوں کی بنا پر

Page 140

خطابات مریم 115 خطابات فتوحات حاصل کیں.اُنہوں نے وہ گر سیکھ لئے اُن کو یا درکھا اور انہیں اپنا کر آج ترقی کر گئے اور ہم پیچھے رہ گئے اب اس فرق کو سامنے رکھتے ہوئے میں یہ کہوں گی کہ مغربیت کی پیروی نہیں کرنی چاہئے تو وہ اس تہذیب کے اثرات سے منع کرنے کی میری خواہش ہوگی جو دراصل عیسائیت کی تعلیم کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے اور اُن کی تہذیب کا عکس اُن چیزوں میں نظر آتا ہے اور اس سے بھی کوئی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زمانے میں جو یہ آزادی کی رو چلی ہے اس میں بڑی حد تک ہماری نسل مغربیت کی پیروی کرنے میں زیادہ خوشی محسوس کرتی ہے اور یورپ اور امریکہ کی تہذیب سے کافی متاثر نظر آتی ہے بظاہر چمکتی ہوئی اور بہت روشن تہذیب لیکن اندر سے کھو کھلی تہذیب جس سے اس وقت خود یورپ اور امریکہ کے لوگ بھی بیزار نظر آتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان اُلجھنوں کا کوئی حل تلاش کریں لیکن جن اُلجھنوں سے نکل کر وہ کوئی حل ڈھونڈ رہے ہیں اُن اُلجھنوں میں ہماری قوم کے لوگ پڑتے ہوئے نظر آ رہے ہیں.اخلاقیات کا جو سبق قرآن سکھاتا ہے ایسا مکمل اور جامع سبق نہ کوئی اور مذہب پیش کرتا ہے اور نہ ہی دنیا کی کسی قوم نے آج تک پیش کیا ہے لیکن یہ بھی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس زمانے کے مسلمان اُن پر عمل نہیں کر رہے اگر ہم قرآن کی تعلیم پر عمل کریں تو مسلمان کی یہ حقیقت ہے کہ وہ دنیا کی کسی قوم سے شکست نہیں کھاتے یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ حضرت مہدی موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہم نے زندہ خدا کا چہرہ دیکھا.ہم نے آنکھوں سے صد ہا نشانات کو پورے ہوتے دیکھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے ذریعے سے خدا تعالیٰ کے وعدوں کو پورا ہوتے دیکھا.اس لئے احمدی جماعت کے مردوں اور ا عورتوں کو جس قد ر خدائے واحد پر ایمان ہو سکتا ہے اور ہے وہ اور کسی میں نہیں لیکن ہم میں سے بعض میں کمزوریاں ابھی باقی ہیں جن کو دور کرنا ہمارا فرض ہے.ہمارے مردوں کا بھی ہماری عورتوں کا بھی.ہمارے لڑکوں کا بھی اور ہماری لڑکیوں کا بھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی جماعت کی اصلاح کی فکر اور تڑپ تھی وہ آپ کے ان الفاظ سے کسی قدر ظا ہر ہوتی ہے.آپ فرماتے ہیں.” مجھے بہت سوز وگداز رہتا ہے کہ جماعت میں ایک پاک تبدیلی ہو جو نقشہ اپنی

Page 141

خطابات مریم 116 خطابات جماعت کی تبدیلی کا میرے دل میں ہے وہ ابھی پیدا نہیں ہوا اور اس حالت کو دیکھ کر میری وہی حالت ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ میں نہیں چاہتا کہ چند الفا ظ طوطے کی طرح بیعت کے وقت رٹ لئے جاویں اس سے کچھ فائدہ نہیں تزکیہ نفس کا علم حاصل کرو کہ ضرورت اسی کی ہے.تم اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرو اور بالکل ایک نئے انسان بن جاؤ.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 352) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو جو نصائح فرمائی ہیں اُن میں بار باراسی بات پر زور دیا ہے کہ میری بعثت کی غرض ہی یہی ہے کہ میں تم میں خدا تعالیٰ کا ایسا کامل ایمان پیدا کروں جس کے نتیجے میں ایک پاک تبدیلی تم میں پیدا ہوا اور تم بدیوں سے محفوظ رہو اور ایک نئی زندگی تمہیں حاصل ہو جائے.آپ فرماتے ہیں :.اس لئے میں خدا تعالیٰ پر ایسا ایمان پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ جو خدا تعالیٰ پر ایمان لائے وہ گناہ کے زہر سے بچ جاوئے اور اس کی فطرت اور سرشت میں ایک تبدیلی ہو جاوئے اس پر موت وارد ہو کر ایک نئی زندگی اُس کو ملے.گناہ سے لذت پانے کی بجائے اُس کے دل میں نفرت پیدا ہو.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 493) دیکھنا یہ ہے کہ واقعی ہم نے اس جماعت میں داخل ہو کر اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر کے پاک تبدیلی پیدا کی ہے یا نہیں کی اور نہیں کی تو کس طرح ہم وہ تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کا نتیجہ ہونی چاہئے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جو لوگ آپ پر ایمان لائے اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے آپ کا چہرہ مبارک دیکھا آپ کی باتیں سنیں.تازہ بتازہ نشانات دیکھے اور اُن کا ایمان ترقی کرتا گیا اور اُن کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی گئیں.وہ وقت گزر گیا نبی تو صرف تخم ریزی کرنے آتا ہے.آپ اپنا کام کر کے خالق کے پاس چلے گئے.دنیا نے سمجھا اب یہ جماعت ختم ہو جائے گی.ابتلا آئے ٹھو کر میں لگیں لیکن قدرت ثانیہ کے ذریعہ لوگوں نے مشاہدہ کر لیا کہ خدا کی مدد

Page 142

خطابات مریم 117 خطابات اسی جماعت کے ساتھ ہے بکھرتا ہوا شیرازہ پھر متحد ہو گیا اور جماعت اپنے خلیفہ کی قیادت میں پھر ترقی کرنے لگی.حضرت خلیفہ اول کی وفات پر جماعت کو پھر دھکا لگا اور قریب تھا کہ جماعت کا شیرازہ پھر بکھر جائے لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ خدا کی نصرت جسے حاصل ہو وہ تباہ نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا خلیفہ دیا جس نے اپنے قول اور فعل.جماعت میں ایک ایسی روح پھونکی کہ جماعت ترقی کرتی چلی گئی.خلافت ثانیہ کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے انہی برکات کو خلافت ثالثہ کے ذریعے سے جاری رکھا.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ نہیں پایا.آپ میں سے اکثر نے حضرت خلیفہ اول کا زمانہ بھی نہیں پایا بلکہ آپ میں سے کئی نے حضرت خلیفہ ثانی کا ابتدائی زمانہ بھی نہیں دیکھا جب جماعت ترقی کرتی ہے تو ہر قسم کے لوگ جماعت میں داخل ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ بہت سی روحانی کمزوریاں بھی لاتے ہیں جو کہ ہم جیسوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اسی کی طرف قرآن مجید کی یہ آیات بھی اشارہ کرتی ہیں.إذَا جَاء نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَانتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ افَوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ إنّهُ كَانَ تَوَّابًا (النصر : 2 تا 4) لیکن ہمارا ایمان زندہ خدا پر ہے.ہمیں چاہئے کہ ہم خدا تعالیٰ کے سچے بندے بنیں اور دنیا کے لئے کامل نمونہ بنیں تا یکبارگی دنیا کو نظر آ جائے کہ عبدیت کا نظارہ اس جماعت سے بڑھ کر اور کہیں نظر نہیں آ سکتا.خدا تعالیٰ کی محبت میں سرشار ہو کر خدا تعالیٰ کی خاطر خدا تعالیٰ کی مخلوق سے محبت کریں اُن کی بہبودی و اصلاح کی فکر کریں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی کا خلاصہ اِنَّ صَلوتِی وَنُسُكِی وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنُ (الانعام : 163) کے اندر آ جاتا ہے.یہی وہ مقصد اور نصب العین ہم سب کا ہونا چاہئے.ہماری زندگی ، ہماری عبادت، ہمارا جینا مرنا، ہماری قربانیاں اور ہمارے سب کام خدا تعالیٰ کی خاطر ہوں.ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی پوری طرح ادا کریں اور خدا تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن کو اس طرح پڑھیں کہ اس کے مطالب اچھی طرح ہماری سمجھ میں آ جائیں.احادیث پڑھیں تا

Page 143

خطابات مریم 118 خطابات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات کا ہمیں پوری طرح علم ہوتا آپ کے ہر قول اور فعل کی پیروی کر سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لٹریچر بکثرت پڑھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس رنگ میں ، جس محبت سے ، جس عشق سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو پیش کیا ہے اُس کے پڑھنے کے بعد ناممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی کو عشق اور محبت نہ پیدا ہو.ہمیں چاہئے کہ اُٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے دنیا کے کام کرتے ہر وقت اس بات کو مدنظر رکھیں کہ ہمارا کوئی فعل ہماری کوئی حرکت قرآن مجید کی تعلیم کے خلاف نہ ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کے منافی نہ ہو.اللہ تعالیٰ کی صفات کا ظہور اس دنیا میں آنحضرت ﷺ کے ذریعے ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنا بڑا درجہ عطا فرمایا کہ ساری دنیا کیلئے حکم صادر فرما دیا کہ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران 32) کہ اے لوگو! اگر تم اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنا چاہتے ہو ، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو، خدا تعالیٰ سے اپنی محبت کا ثبوت دینا چاہتے ہو تو ثبوت کے طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو.آپ کے اخلاق اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اُس سے محبت کرے گا.گویا محبت الہی کی شرط قیامت تک کے لئے اطاعت رسول پر ہوئی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ اطاعت سے باہر رہ کر اب کوئی خدا تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں کر سکتا اسی طرح اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( الاحزاب :22) محمد رسول اللہ کے طور طریقے سیکھو ، آپ کے اخلاق سیکھو.ایک کامل نمونہ تمہارے سامنے ہے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کے حکم پر عمل کیا اور اپنے آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ بنانے کی کوشش کی.جو ملک فتح کیا جہاں گئے وہاں درس اخلاق دیا.ایک نئی تہذیب اور نئے تمدن کی بنیاد ڈالی.آج یورپین اقوام اخلاق اخلاق کا شور مچاتی ہیں اور ظاہر یہ کرتی ہیں کہ یہ اخلاق کی تعلیم دنیا اُن سے حاصل کر رہی ہے اُنہوں نے یہ اخلاق کہاں سے سیکھے.مسلمانوں نے فتوحات پر فتوحات کیں.یونان ، روم، اسپین، افریقہ ان سب جگہوں پر حکومتیں قائم کیں اپنے اخلاق سے دنیا کو زیرنگیں کیا.جس ملک کو فتح کر کے وہاں سے جاتے تھے وہاں کے لوگ اُن کے لئے آنسو بہاتے تھے.موجودہ مغربی اقوام نے مسلمانوں سے درس اخلاق لیا لیکن

Page 144

خطابات مریم 119 خطابات افسوس کہ چودہ سو سال کے بعد مسلمان ان اخلاق کو بھول گئے جن کا سبق محمد رسول اللہ ﷺ نے اُن کو دیا اور دوسری اقوام نے اُن اخلاق کو اپنا لیا.چودہ سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر مسلمانوں کی دستگیری کی اور مخلوق پر رحم فرمایا اور اپنا مامور ہماری اصلاح کے لئے مبعوث فرمایا.یہ غلط خیال ہے کہ انسان کے اگر اخلاق بگڑ جائیں تو وہ اُن کے بدلنے پر قادر نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.لِكُلّ دَاءٍ دَوَاءٌ إِلَّا الْمَوْت جس طرح ظاہری امراض کا علاج ہو سکتا ہے روحانی امراض کا علاج بھی ہو سکتا ہے.شرط صرف کوشش ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.إنَّ اللهَ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمُ (الرعد: 12) یعنی اللہ تعالیٰ بھی کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اُس بُرائی کو دور کرنے کی کوشش نہ کرے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِ يَنَّهُمْ سُبُلَنا (العنكبوت : 70 ) کوشش کرنے والا آخر منزل مقصود کو پالیتا ہے.پس ہمیں بھی چاہئے کہ اپنی دینی ، روحانی اور اخلاقی کمزوریوں کو دور کرتے ہوئے اتنی ترقی کریں کہ ساری دنیا کیلئے شمع ہدایت بن جائیں.اپنی اصلاح کریں ، اپنی اولا دوں کی تربیت کریں انہیں علم دین سکھائیں اور سچے مسلمان بنا ئیں.اسلام کے شیدائی بنا ئیں دین کیلئے زندگیاں وقف کرنے والے بنائیں تا احمدیت کی فتح کا دن جلد سے جلد قریب آ جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالی کے وعدے یقینی ہیں یہ ہمارا کام ہے کہ ہم جلد سے جلد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بنیں.سچائی بہر حال پھیلنی ہے اور پھیل کر رہے گی.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں کہ اگر یہ سوال ہے کہ تم نے آ کر کیا بنایا.ہم کچھ نہیں کہہ سکتے دنیا کو خود معلوم ہو جائے گا کہ کیا بنا یا ہاں اتنا ہم ضرور کہتے ہیں کہ لوگ آکر ہمارے پاس تو بہ کرتے ہیں.ان میں انکسار اور فروتنی پیدا ہوتی ہے اور رذائل دور ہو کر اخلاق فاضلہ آنے لگتے ہیں اور سبزے کی طرح آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں اور اپنے اخلاق و عادات میں ترقی کرنے لگتے ہیں.انسان ایک دم ہی ترقی نہیں کر لیتا بلکہ دنیا میں قانون قدرت یہی ہے کہ ہر شئے تدریجی طور پر ترقی کرتی ہے اس سلسلے سے باہر کوئی شئے ہو

Page 145

خطابات مریم 120 خطابات ہی نہیں سکتی ہاں ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ سچائی پھیلے گی اور پاک تبدیلی ہوگی.یہ میرا کام نہیں بلکہ خدا کا کام ہے اُس نے ارادہ کیا ہے.یہ پاکیزگی پھیلے.دنیا کی حالت مسخ ہو چکی ہے اُسے کیڑا لگا ہوا ہے پوست ہی پوست باقی ہے مغز نہیں رہا.مگر خدا نے چاہا ہے کہ انسان پاک ہو جائے اُس پر کوئی داغ نہ رہے اس واسطے اُس نے محض اپنے فضل سے یہ سلسلہ قائم کیا ہے.پس دنیا کے لئے نمونہ بننے کے لئے ہمیں دو باتوں کی طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے.پہلی یہ کہ اپنے لباس و گفتار کا خیال رکھیں.شیریں گفتار ہوں ہماری بات چیت سے دوسرے متاثر ہوں.اپنا نقطہ نظر دوسروں کے سامنے پیش کرنا جس کے لئے گہرے دینی علم کی ضرورت ہے.اپنی وضع سے دوسروں کو متاثر کرنا اور اس سلسلے میں اپنے لباس کی طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے.اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ فلاں لباس پہنو فلاں نہ پہنو بلکہ عریاں لباس پہننے سے منع فرماتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کو ایمان کا ایک حصہ قرار دیا ہے.آج کل کی لڑکیاں اور عور تیں بھی عریانی کی رو میں بہہ گئیں ہیں.اس قسم کا لباس جو جسم کی نمائش کرتا ہو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایمان کے ایک حصے کی محرومی کا باعث ہے.آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بھی پڑھی ہوگی جو آپ نے آخری زمانے کے متعلق بطور پیشگوئی فرمائی کہ آخری زمانے میں ایسی عورتیں ہونگی جنہوں نے بظا ہر لباس پہنا ہو گا لیکن ننگی ہوں گی.ایسی عورتوں پر آپ نے لعنت فرمائی ہے.پس اپنی چال ڈھال اور لباس کو ایسا بنانا چاہئے جو شریعت اسلام کے خلاف نہ ہو.منہ سے ہم دعوی کریں اسلام کی طرف لانے کا اور عمل کریں مغرب کی پیروی کا.ان متضاد باتوں سے ہم دنیا کو جیت نہیں سکتے.اس کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس بھی بہت ضروری ہے.عبادت پر زور دیں ، نوافل پر زور دیں ، ذکر الہی کریں.اپنے بچوں کی اعلیٰ تربیت کریں ، رسوم چھوڑ میں خصوصاً ایسی رسوم جن میں وقت کا ضیاع بھی ہوتا ہے اور پیسے کا بھی ضیاع ہوتا ہے اور جن کا کوئی نتیجہ آخر میں نہیں نکلتا.یادرکھیں آپ مقناطیس بنے بغیر لوہے کو نہیں کھینچ سکتیں اپنے اندر ایسا جذب پیدا کریں کہ غیر خود آپ کے نمونے سے متاثر ہو کر کھنچتے چلے آئیں پھر آپس میں محبت ہو ایک دوسرے کی دلداری ہو ،حسن سلوک ہو، غریب پروری ہو ، اخوت ہو تمام بنی نوع انسان کیلئے شفقت ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 146

خطابات مریم 121 خطابات نے شرائط بیعت میں بھی ایک شرط یہ رکھی کہ تمام خلق اللہ سے ہمدردی رکھوں گا.خدا کی خاطر، خدا کے بندوں سے محبت رکھوں گا.کسی سے کینہ نہ رکھو کسی سے بغض نہ رکھو اور پھر ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ نظام کی کامل اطاعت ہو.نظام کا ہر فر دخلیفہ وقت کی طرف سے مقرر کردہ ہوتا ہے اُس کی نافرمانی کرنے سے خلیفہ وقت کی نافرمانی ہوتی ہے.اسلام کی ترقی کا راز ہی اطاعت میں ہے.نماز بھی ہمیں یہی سکھاتی ہے.کس طرح ہم امام کے ساتھ اُٹھتے ہیں ، بیٹھتے ہیں ساتھ ہی سجدے میں جاتے ہیں.اسلام کی ساری تعلیم گھومتی ہی اسی محور پر ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو، اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور تم پر جو حاکم مقرر کئے گئے ہیں اُن کی اطاعت کر و.نظام سے وابستگی رکھیں جماعت سے وابستگی اور اپنی اولادوں کے دلوں میں خلافت سے محبت اور عقیدت پیدا کریں یہ ایک بہت بڑا انعام ہے جو خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو عطا فرمایا ہے.یہ یاد رکھنا چاہئے میں پہلے بھی اپنی تقریر میں بتا چکی ہوں کہ یہ انعام جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.” مشروط انعام ہے جب تک کوئی قوم اپنے تئیں خلافت کے انعام کا حقدار رکھتی ہے وہ انعام اُن میں موجود رہتا ہے.پس ہمیں چاہئے کہ جہاں اس انعام کے مستحق اور لائق بن کر دکھا ئیں وہاں بے انتہا دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ کیلئے خلافت ہم میں قائم رکھے.اسلام کا غلبہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام پیشگوئیاں پوری شان و شوکت سے پوری ہوتی دیکھیں.خدا تعالیٰ کی محبت اور رضا ہمیں حاصل ہو اور ہماری اگلی نسل ہم سے زیادہ قربانی دینے والی اور کام کرنے والی، اسلام کا جھنڈا لے کر دنیا کے کونے کونے میں پہنچنے والی اور رب حقیقی اور خالق باری کیلئے اسلام کا پیغام دنیا کو پہنچانے والی ہو.وہ خدا کی محبت میں سرشار ہو.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والی اور آپ کے ہر قول کی اطاعت کرنے والی اور اسلام کی خاطر اپنی گردنیں کٹوانے میں فخر محسوس کرنے والی ہوں.اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اور سب کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہمارے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ ہو ہم جو کچھ اپنے منہ سے کہیں اُس پر عمل پیرا بھی ہوں.آمین (ماہنامہ مصباح اگست 1975ء)

Page 147

خطابات مریم 122 خطابات فرمایا:.خطاب جلسہ سالانہ خواتین 1975ء جماعت احمدیہ کا یہ تر اسیواں جلسہ سالانہ ہے جس میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم اور اسی کی دی ہوئی توفیق سے آپ کو شرکت کی توفیق ملی ہے.ان دنوں کو غنیمت جانیں اور بغیر ایک لمحہ ضائع کئے اس سے فائدہ اُٹھانے کی توفیق پائیں.اپنے آپ کو مہمان نہ سمجھیں.آپ کی خدمت ہمارے لئے باعث سعادت ہے لیکن آپ مہمان نہیں بلکہ سب ہی اپنے گھر آئی ہوئی ہیں.اس لئے آپ کی خدمت میں اگر کوئی کمی آئے تو اس کا خیال نہ کریں.اصل توجہ جلسہ کے پروگرام کی طرف ہو.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تقاریر توجہ سے سنیں.باقی سارا پروگرام سننے، اس کو ذہن نشین کرنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں.پورا عزم کریں کہ جو کچھ آپ کے فائدہ اور آپ کی ترقی کیلئے کیا جائے گا اس پر پوری طرح عمل کریں گی.اپنا وقت باتوں میں ضائع نہ کریں صفائی کا اور اپنی صحت کا خاص خیال رکھیں.خواہ کارکنات ہوں یا آئی ہوئی مہمان خواتین ہی سب باہمی تعاون اور چشم پوشی سے جلسہ کو کا میاب بنانے کی کوشش کریں اور دعاؤں میں لگی رہیں کہ یہ بہت بابرکت دن ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 1891ء میں جب سب سے پہلے جلسہ سالانہ کی بنیا د رکھی تو اس جلسہ پر احباب جماعت کو آنے کے لئے تحریک کرتے ہوئے اشتہار دیا.اس میں آپ فرماتے ہیں :.تمام مخلصین داخلین سلسلۂ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض دو یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکر وہ معلوم نہ ہولیکن اس غرض کے حصول کیلئے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا

Page 148

خطابات مریم 123 خطابات اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے تا اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو کسی برہان یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دور ہو اور یقین کامل پیدا ہو کر ذوق اور شوق اور ولولہ عشق پیدا ہو جائے...اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کیلئے ضروری ہیں اور نیز ان دوستوں کے لئے خاص دعا ئیں اور خاص توجہ ہوگی اور حتی الوسع بدرگاہ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک ا تبدیلی اُن میں بخشے.(روحانی خزائن جلد 4 ، اشتہار آسمانی فیصلہ صفحہ 352،351) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ صاف صاف ظاہر کر رہے ہیں کہ جلسہ سالانہ پر آنے کی غرض آنے والوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا کیا مقصد تھا ؟ اس کی وضاحت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.” جب خدا تعالیٰ نے زمانہ کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اور زمین کو طرح طرح کے فسق اور معصیت اور گمراہی سے بھرا ہوا پا کر مجھے تبلیغ حق اور اصلاح کے لئے مامور فرمایا اور یہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس دنیا کے لوگ تیرہویں صدی ہجری کو ختم کر کے چودہویں صدی کے سر پر پہنچ گئے تھے تب میں نے اس حکم کی پابندی سے عام لوگوں میں بذریعہ تحریری اشتہارات اور تقریروں کے یہ ندا کرنی شروع کی کہ اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدید دین کیلئے آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں تا وہ ایمان جو زمین پر سے اُٹھ گیا ہے اس کو دوبارہ قائم کروں اور خدا سے قوت پا کر اسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کو اصلاح اور تقویٰ اور راستبازی کی طرف کھینچوں اور ان کی اعتقادی اور عملی غلطیوں کو دور کروں اور پھر جب اس پر چند سال گزرے تو بذریعہ وحی الہی میرے پر بتفریح کھولا گیا کہ وہ مسیح جو اس اُمت کیلئے ابتداء سے موعود تھا اور وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور اس آسمانی مائدہ کو نئے سرے سے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا

Page 149

خطابات مریم 124 خطابات تقدیر الہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی وہ میں ہی ہوں“.(روحانی خزائن جلد 20.تذکرۃ الشہادتین صفحہ 4،3) یہ حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ جب دنیا انسانیت کے کامل نجات دہندہ کی بعثت پر لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد خالق حقیقی کو بھول گئی.قرآن پر عمل نہ رہا، اعتقادی اور عملی ہر دو قسم کی غلطیاں ان میں پیدا ہوگئیں تو وعدہ الہی اور مخبر صادق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ہوئی تا کہ آپ دنیا کو پھر تو حید پر قائم کریں.اللہ تعالیٰ سے ان کا تعلق قائم کریں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کی صداقت کو دنیا پر روز روشن کی طرح ثابت کر دیں تا دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نجات دہندہ تسلیم کرتے ہوئے آپ کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر رکھ لے.اس مقصد کو لے کر جب آپ کھڑے ہوئے تو آپ کے خلاف ایک شور اُٹھا.عیسائیت کو تثلیث کا بت ٹوٹتا نظر آیا تو انہوں نے پوری طاقت سے آپ کا مقابلہ کرنا شروع کیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ وفات مسیح کے مسئلہ میں آپ کے پاس ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی موجودگی میں وہ الوہیت مسیح کو دنیا کے سامنے ثابت نہیں کر سکتے.نہ صرف عیسائیوں کی طرف سے شدید مخالفت ہوئی بلکہ ہندوستان میں تمام مذاہب کی طرف سے مخالفت کا آغاز ہو گیا.کیا اپنے ، کیا پرائے سب ہی مخالف ہو گئے.لیکن حضرت مہدی موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ بڑے زور آور حملوں سے آپ کی مدد کرے گا.آپ کو کامیابی کی بشارتیں دی تھیں.چنانچہ ان وعدوں اور بشارتوں کو پورا ہو تے آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.ایک اکیلی آواز قادیان کی گمنام بستی سے اُٹھی لیکن آج اس آواز کی گونج آپ کو امریکہ کے دور دراز براعظم سے بھی سنائی دے رہی ہے.افریقہ سے بھی ، جزائر سے بھی ، یورپ اور انگلستان سے بھی وہی علاقے جن کے متعلق دعویٰ کیا جاتا تھا کہ اب وہاں عیسائیت کا غلبہ ہوگا آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں کی تعداد میں عیسائیت کو چھوڑ کر حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں اور رات دن محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اور ان میں سے بطور نمائندہ ایک خاص.

Page 150

خطابات مریم 125 خطابات تعداد دور دراز کا سفر کر کے مرکز سلسلہ میں آج موجود ہے کیا یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک زندہ نشان نہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ان مردہ روحوں نے واحد خدا کو پہچانا.محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر انہیں ایمان نصیب ہوا.اسلام کی صداقت ان پر کھلی ، قرآن مجید کے معارف سے ان کے ذہن اور دل منور ہوئے وہ جان گئے کہ قرآن ایک زندہ کتاب ہے.ایک ابدی صداقت ہے اور اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور دنیا کی ہر اُلجھن اور مشکل کا حل صرف اور صرف اسلام میں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کا حقیقی حسن دنیا کے سامنے پیش کیا.اس پر جو گرد پڑی ہوئی تھی اُسے دور کیا جو خوبیاں اس کی پوشیدہ ہو چکی تھیں ان کو دنیا کے سامنے اُجا گر کیا اور وہی مسلمان جو اپنے کو مسلمان کہتے شرماتے تھے اور اسلام کی ترقی سے مایوس تھے پُرامید ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعتقادی غلطیوں کو بھی دور کیا اور عملی غلطیوں کی بھی اصلاح فرمائی غرضیکہ اسلام پر جو اندرونی اور بیرونی دونوں طرف سے حملے ہورہے تھے ان کا پہلے دفاع کیا اور پھر جارحانہ طور پر غیر مذاہب پر ان کی خامیاں ظاہر کرتے ہوئے دعوی فرمایا کہ دنیا میں ایک ہی مذہب زندہ اور عالمگیر مذہب ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے اور وہ اسلام ہے اور غلبہ اسلام کیلئے ہی آپ کی بعثت ہوئی ہے.احمدیت کی تاریخ کا ہر دن اس بات پر گواہ ہے کہ جو وعدے اللہ تعالیٰ نے مہدی موعود سے کئے تھے ان میں سے بہت سے پورے ہو چکے ہیں.جو پورے ہو چکے ہیں ان کی طرف دیکھتے ہوئے ہمیں پورا ایمان اور یقین ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے نکلی ہوئی ایک ایک بات پوری ہو گئی.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بشارت دی تھی کہ :.ا بھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخمریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو

Page 151

خطابات مریم 126 خطابات اس کو روک سکے.روحانی خزائن جلد 20 - تذكرة الشہا دتین صفحہ 67) 1973ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کو بشارت دی تھی کہ جماعت کے قیام کی دوسری صدی میں انشاء اللہ العزیز غلبہ اسلام کے دور کا آغاز ہوگا.1889ء میں جماعت احمدیہ کا آغاز ہوا تھا.1989ء میں سو سال پورے ہوں گے.یہ 1975ء ختم ہو رہا ہے گویا تیرہ، چودہ سال صدی کے ختم ہونے میں باقی ہیں ایک زندہ رہنے اور ترقی کرنے والی قوم کی زندگی میں تیرہ، چودہ سال کا عرصہ کوئی لمبا عرصہ نہیں.خدائی وعدوں اور بشارتوں کے ساتھ ایک پہلوانذار کا ہمیشہ لگا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو بشارت دیتا ہے ان سے کامیابیوں کے وعدے فرماتا ہے تو وہ قربانیوں کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں.قرآن کریم میں اس کی مثالیں موجود ہیں.آنتمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ (آل عمران: 140) کی شرط قرآن مجید میں لگا دی گئی ہے کہ غلبہ کامل ایمان کے نتیجہ میں ملتا ہے.خلافت کے وعدوں کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے یہ شرط لگائی ہے کہ اگر ایمان پر قائم رہے اور اعمالِ صالحہ بجالاتے رہے تو خلافت کا انعام تم میں قائم رہے گا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے جماعت احمدیہ کو کامیابی اور اسلام کے غلبہ کی بشارت دی ہے لیکن اس کے لئے ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے پر کامل یقین اور ایمان ہو.انسان کوشش بھی اسی بات کے لئے کرتا ہے جب اس کے دل کو یقین ہو ورنہ اس میں کمزوری آ جاتی ہے.الہی وعدوں اور بشارتوں پر یقین رکھتے ہوئے مصائب سے نہیں گھبرانا چاہئے یہ تو چھوٹے چھوٹے امتحان ہیں جو پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے لیکن ہو گا وہی جو آسمان پر قرار پاچکا ہے زمین کی طاقت میں نہیں کہ اس کو محو کر سکے.عمل صالح بھی کامل یقین کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے کسی چیز کے حصول کا آپ کو یقین ہو تو آپ اس کے لئے کوشش بھی کریں گے ورنہ صحیح کوشش نہیں ہوگی.اگلے تیرہ چودہ سال ہمارے لئے ایک ایسے امتحان کی تیاری کا زمانہ ہے جس کے بعد کامیابی مقدر ہے.جس طرح ایک طالب علم چودہ سال کی محنت کے بعد بی.اے کی ڈگری حاصل کرتا ہے اگر وہ درمیان میں تھک

Page 152

خطابات مریم 127 خطابات پڑھنا چھوڑ دے تو اس منزل تک نہیں پہنچ سکتا.اسی طرح احمدی جماعت کے ہر مرد ، عورت، لڑکے، لڑکی ہر ایک کو شانہ بشانہ، قدم بقدم غلبہ اسلام کی شاہراہ پر چلنا ہے اور تیز چلنا ہے اور کہیں کمزوری نہیں آنے دینی.کمزوریاں کئی قسم کی ہوتی ہیں.اعتقادی بھی ہوتی ہیں عملی بھی ہوتی ہیں.اعتقادی طور پر کمزوری کا مطلب یہ ہے کہ غلط کام کو صحیح سمجھ کر شروع کر دیں.اس پر عمل کرنے لگ جائیں.اس تواتر سے کہ غلطی کا احساس ہی مٹ جائے.اسلام کے پہلے دور میں یہی ہوا جب فتوحات کا دور شروع ہوا اور اسلام میں کثرت سے لوگ داخل ہونے شروع ہوئے تو بعض کمزور اپنے ساتھ دوسرے مذاہب کے اعتقادات لے آئے.صحیح تربیت نہ ہو سکنے کے باعث نہ صرف یہ کہ باوجود مسلمان ہونے کے وہ باتیں ان میں باقی رہیں بلکہ دوسرے مسلمانوں میں بھی غلط عقائد پیدا ہوئے جنہوں نے آہستہ آہستہ اسلام کے حسن پر ایک پردہ ڈال دیا اور غیر مذاہب والوں کو اسلام پر اعتراضات کے مواقع ملنے لگے.یہ چیز اب نہیں دہرائی جانی چاہئے.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے جن کی بعثت کی غرض ہی يُحي الدين ويُقيم الشريعة ( تذکرہ صفحہ 55) ہے کہ آپ دین کو زندہ کریں گے اور شریعتِ محمدیہ کو قائم کریں گے.وہ سیدھی ، صاف خوبصورت تعلیم اسلام کی جو قرآن مجید نے پیش کی اور جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا اُس تعلیم کو اپنے نمونہ سے دنیا کے سامنے پیش کرنا جماعت احمدیہ کا فرض ہے.ہر زمانہ میں حالات بدلتے رہتے ہیں صرف دلائل سے آپ کسی کو قائل نہیں کر سکتیں.جب تک آپ کا عمل اس کے مطابق نہ ہو.یہی تعلیم کہ عمل اور عقائد کا چولی دامن کا ساتھ ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس قول سے ہمیں پتہ چلتا ہے.کسی نے حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق کچھ بتا ئیں.آپ نے فرمایا كَانَ خُلُقُهُ القُران ( مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 91) آپ کے اخلاق قرآن تھے.یعنی جو تعلیم قرآن میں دی گئی اس پر آپ کا عمل تھا.آپ کے اخلاق آئینہ تھے قرآن کا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا یہ پہلو ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمارے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہئے.جس قوم کے قول اور فعل میں تضاد ہو وہ قوم ترقی نہیں کر سکتی.دعویٰ ہمارا یہ ہو کہ ساری دنیا کو اسلام کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے اور خود نمازوں میں سستی ہو ، روزے

Page 153

خطابات مریم 128 خطابات رکھنے میں سستی ہو، چندے دینے میں سستی ہو.دعوئی ہمارا یہ ہو کہ ساری دنیا کو قرآن سکھانا ہے خود قرآن کے ایک لفظ کا ترجمہ نہ آتا ہو.دعویٰ ہمارا یہ ہو کہ ساری دنیا اسلام قبول کر کے اسلام کی تعلیم پر عمل کرے خود پتہ ہی نہیں کہ قرآن کس بات کے کرنے کو کہتا ہے اور کس بات سے منع کرتا ہے.پس میری بہنو! بشارتیں بہت بڑی ہیں وہ وقت نزدیک سے نزدیک آ رہا ہے.جب غلبہ اسلام کی صبح کی روشنی آپ کے سامنے نظر آ جائے گی.اس تعمیری دور کے لئے آپ نے ابھی سے قربانیاں دینی ہیں.قربانیاں اپنے وقت کی ، اپنی عادات کی، اپنی اولاد کی ، اپنے مال کی اور اپنی بچیوں کو تیار کرنا ہے اس جشن کی روح رواں بننے کیلئے اور آئندہ پڑنے والی ذمہ داریوں کا بار اُٹھانے کیلئے.میں آج جو مائیں ہیں اُن سے التجاء کرتی ہوں کہ وہ اپنی بچیوں کو دین سکھائیں.قرآن پڑھائیں ، قرآن کا ترجمہ پڑھائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھائیں، مذہب سے محبت پیدا کریں، اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ان کے دلوں میں پیدا کریں، محمد رسول اللہ علی سے عشق پیدا کریں، مہدی موعود علیہ السلام کی محبت دلوں میں پیدا کریں، دین کیلئے غیرت کا جذ بہ پیدا کریں، اسلام کی محبت دلوں میں پیدا کریں.دین کیلئے ان میں ارادہ اور عزم کی پختگی ہو جسے بڑے سے بڑا فتنہ متزلزل نہ کر سکے.خلیفہ وقت کی اطاعت کا جذ بہ پیدا کریں، صاف دل بنائیں ایسا صاف دل کہ کسی قسم کی منافقت اس میں پنپ نہ سکے.ان کے گھروں میں کپڑے، زیور، سنگھار کی چیزوں اور فرنیچر کی باتوں کی بجائے قرآن اور احادیث کا چرچا ہو.ایک دوسرے سے بڑھ کر دین کی خدمت کرنے کا ذکر ہو.گزشتہ دو سال سالانہ اجتماع نہ ہو سکنے کے باعث مجھے نظر آ رہا ہے کہ احمدی خواتین اور بچیوں کی تربیت میں کچھ خامیاں پیدا ہوگئی ہیں.انسان کی فطرت ہے کہ اسے نصیحت کی جاتی رہے تو اس کا اثر قبول کرتا ہے.اس لئے قرآن مجید میں بار بار ذکر کے الفاظ آتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے.فَذَكِّرت إنما انتَ مُذَكِّرُ (الغاشية: 22) نصیحت کرنا آپ کے ذمہ ہے.داروغہ آپ نہیں اس کے برعکس جب ہم بُرائی دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں تو واقعی

Page 154

خطابات مریم 129 خطابات خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مجرم قرار پاتے ہیں کہ کیوں نہیں سمجھایا کہ نصیحت کر کے اپنا فرض ادا کیا.اپنی اگلی نسل کو آگ سے بچانا جو دنیا میں مادیت پرستی کی شکل میں دنیا کے ہر ملک میں بھڑک رہی ہے.آپ کا فرض ہے کہ بچپن سے ان کے دل میں ڈالیں کہ دنیا تمہارا مقصد نہیں.دین کو تم نے دنیا پر مقدم کرنا ہے.دنیا کی محبت کو اپنے اور ان کے دلوں میں سرد کرنا آپ کا کام ہے جب آپ اپنے دنیاوی مشاغل پر دینی مصروفیتوں ، دینی مجالس، دینی صحبتوں کو ترجیح دیں گی اور بچوں کو بھی دینی کاموں کی طرف متوجہ کریں گی تو خود بخود دین کی محبت ان کے دلوں میں پیدا ہوگی اور دین کا پہلو غالب آتا جائے گا.اے میری بچیو! اور آئندہ کی ماؤں ! دراصل آج کی تقریر کی مخاطب میری آپ ہیں.اگلی صدی میں اسلام کے دامن میں پناہ لینے والوں کی تربیت آپ نے کرنی ہے.ہاں آپ نے ، آپ میں سے ہر بچی جو آج جلسہ میں موجود ہے وہ اپنی عمر میں تیرہ سال جمع کرے.ناصرات کی عمر آٹھ سال سے شروع ہوتی ہے.ناصرات کی جو سب سے چھوٹی بچی ہے وہ بھی انشاء اللہ العزیز صد سالہ جوبلی میں اکیس سال کی ہوگی اور یہی عمر کا م کی ہوگی.انہوں نے ہی اس جلسہ کا انتظام سنبھالنا ہوگا جو احمدیت کی تاریخ میں ایک عظیم الشان جلسہ اور سنگ میل کی حیثیت رکھے گا.اُنہوں نے ہی سب ذمہ داریاں ادا کرنی ہوں گی.انہوں نے ہی اگلی نسل کی تربیت کرنی ہوگی.پس اگر آج اور ابھی سے آپ میں یہ احساس پیدا نہ ہوگا کہ تیرہ سال کے بعد ہمارے ذمہ ان خواتین کو دین سکھانے کا کام سپرد ہو گا جو فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گی تو تیرہ سال کے بعد آپ کچھ نہیں کر سکتیں اور پھر یہ کہ آپ نے ان کو جو تعلیم دینی اور تربیت کرنی ہے اس کی شکل نہ بدلے.قرآن سکھانا ہے اور جس اسلامی تہذیب ، اخلاق اور تمدن کی بنیاد چودہ سو سال قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی اور جو معاشرہ قرآن وسنت کی بنیادوں پر قائم ہوا تھا وہی معاشرہ پھر سے قائم کرنا ہے.مغربی تہذیب کی چکا چوند سے آپ کی آنکھیں خیرہ نہ ہوں.ان کو اپنے سے بڑھ کر سمجھنے کا تصور بھی نہ کریں.جب حضرت مصلح موعود 1924ء میں انگلستان اور یورپ اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے تشریف لے گئے تو آپ کو سب سے بڑی فکر یہی تھی کہ ایسا نہ ہو یورپ کے لوگ مسلمان تو ہوں لیکن

Page 155

خطابات مریم 130 خطابات اسلامی تہذیب و تمدن کو قبول نہ کریں بلکہ اس کے برعکس مسلمان یورپی تہذیب جو اصل میں عیسائی تہذیب کا دوسرا نام ہے سے متاثر ہو جائیں.آپ کو ڈر تھا کہ اسلام ایک بدلی ہوئی صورت میں یورپ میں قائم نہ ہو جائے اور جس طرح یورپ نے مسیحیت کو تباہ کیا تھا وہ اسلام کو بھی دوستی کے جامہ میں تباہ نہ کر دے.آپ نے دورانِ سفر جو خطوط احباب جماعت کو لکھے ان میں اسی درد کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ہم سوائے خدا تعالیٰ کی مدد کے اس مشکل کو حل نہیں کر سکتے.مسلمان بنانا آسان ہے مگر اسلام کو ان سے بچانا مشکل ہے اور اس وقت میرے سفر کی یہی غرض ہے.آپ نے لکھا:.یورپ کے واقف کہتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے یورپ ضرور اسلام لائے گا مگر وہ ساتھ ہی اسلام کو بگاڑ دے گا اور اس کی شکل کو بالکل مسخ کر دے گا.بالکل ممکن ہے کہ یورپ میں چاروں طرف سے اللہ اکبر کی آوازیں آنے لگیں اور سب جگہ گرجوں کی جگہ مسجدیں بن جائیں لیکن یہ فرق ظاہر ہوگا لوگ تثلیث کی جگہ تو حید کا دعوی کریں گے.مسیح کی جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت زیادہ کریں گے.مسیح موعود پر ایمان لائیں گے.گرجوں کی جگہ مسجد میں بنائیں گے مگر ان میں وہی ناچ گھر ، وہی عورت اور مرد کا تعلق ، وہی شراب، وہی سامان عیش نظر آئیں گے...میری عقل یہی کہتی ہے کہ حالات ایسے ہی ہیں مگر میرا ایمان کہتا ہے کہ تیرا فرض ہے کہ تو اس مصیبت کو جواگر اسلام پر نازل ہوئی تو اس کو کچل دے.اسے دور کرنے کی کوشش کر غور کر اور فکر کر اور دعا کر.66 پھر آپ نے جماعت کو تنبیہ فرماتے ہوئے لکھا:.اگر میں زندہ رہا تو میں انشاء اللہ اس علم سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کروں گا.اگر میں اس جدو جہد میں مر گیا تو اے قوم ! میں ایک نذیر عریاں کی طرح تجھے تنبیہ کرتا ہوں کہ اس مصیبت کو کبھی نہ بھولنا.اسلام کی شکل کو کبھی نہ بدلنے دینا.جس خدا نے مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے وہ ضرور کوئی راستہ نجات کا نکال دے گا.پس کوشش نہ چھوڑنا ، نہ چھوڑنا ، نہ چھوڑنا ، آہ نہ چھوڑنا.میں کس طرح تم کو یقین دلاؤں کہ اسلام کا

Page 156

خطابات مریم 131 خطابات ہر ایک حکم نا قابل تبدیل ہے.خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا.جو چیز سنت سے ثابت ہو وہ ہرگز نہیں بدلی جا سکتی جو اس کو بدلتا ہے وہ اسلام کا دشمن ہے وہ اسلام کی تباہی کی پہلی بنیاد رکھتا ہے.کاش وہ پیدا نہ ہوتا“.(الفضل 16 اگست 1924ء) اب آئیے ! حضرت مصلح موعود کی اس تنبیہہ اور انذار کی روشنی میں اپنا جائزہ لیں.1924 ء سے اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے انگلستان ، یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک میں بہت بڑی جماعتیں پیدا ہو چکی ہیں.جہاں بڑے مخلص ، بڑی قربانی دینے والے، مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی جن کی پوری کوشش اور خواہش ہے کہ وہ صف اول کی قربانیاں دینے والوں میں ہوں.انہی ممالک میں ایسے خواتین بھی ہیں جو پاکستان سے جا کر وہاں رہائش اختیار کر چکی ہیں.اگر ان کا نمونہ ان ممالک کی خواتین کے سامنے وہ نہیں ہو گا جو اسلامی تعلیم کی عکاسی کر سکے تو یقیناً بہت سوں کیلئے ٹھوکر کا باعث ہوگا.پس میری احمدی بہنو! آپ دنیا کے کسی خطہ میں بھی بس رہی ہیں اور آپ نے حضرت مسیح موعود کو سچا سمجھ کر مانا ہے تو آپ کا فرض ہے کہ آپ صرف نام کی احمدی نہ کہلائیں بلکہ آپ کو مذہب سے شدید لگاؤ ہو.اسلام کے نام پر جان ، مال ، عزت اولا دسب کچھ قربان کرنے والی ہوں.اپنا نمونہ قرآنی تعلیم اور اُسوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق پیش کرنے والی ہوں.اپنے بچوں کی اعلیٰ تربیت کرنے والی ہوں.خود عبادت گزار دعائیں کرنے والی اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے والی ہوں تا کہ آپ کی گودوں سے پروان چڑھنے والی اولا د بھی آپ کے نقش قدم پر چلے.اگر دوسروں کو آپ میں احمدیت قبول کرنے کے بعد نیک تبدیلی نظر نہیں آتی تو کیا یہ چیز ان کے لئے کشش کا باعث ہوگی.بہت سی بہنیں یہاں بھی اور دوسرے ممالک میں بھی جا کر پردے سے لا پرواہ ہو جاتی ہیں اور لباس کے معاملہ میں وہ طریق اختیار کرتی ہیں جو غیر اسلامی ہوتا ہے گویا وہ اپنے عمل سے دنیا کو بتا رہی ہوتی ہیں کہ اسلام کے اس حکم پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے ان کی بچیاں جو ان کی تربیت میں پرورش پائیں گی وہ بھی ابتداء سے ہی اس جذبہ کے ساتھ بڑی ہوں گی کہ پردہ اسلام کے حکموں میں نہیں اور غیر اسلامی لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں.ایسی خواتین آہستہ آہستہ اسلام کی شکل تبدیل کر رہی

Page 157

خطابات مریم 132 خطابات ہوں گی اس سلسلہ میں مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیڑھ دو سال سے جماعت کی خواتین میں چادر کا فیشن چل پڑا ہے.اگر تو چادر پردہ کی غرض سے لی جاتی ہے تو بہت اچھی اور مبارک بات ہے لیکن اگر برقع سے بچنے کیلئے چادر کو اختیار کیا گیا ہے تو وہ نفس کا ایک بہانہ ہے جو آہستہ آہستہ بے پردگی کی طرف ان کو لے جا رہا ہے.اصل چیز پردہ ہے نہ کہ یہ نفع یا چادر.پس خود اپنے نفسوں کا جائزہ لیں اور پھر فیصلہ کریں کہ کیا آپ کا یہ اقدام صحیح ہے.1972ء میں جب لجنہ اماء اللہ نے اپنا پچاس سالہ جشن منایا تھا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خصوصی طور پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:.میں سوچ رہا ہوں اور دعائیں کر رہا ہوں کہ جو پندرہ بیس یا سو دو سو ایسے خاندان ہیں جو اسلامی احکام کی پابندی نہیں کرتے خواہ کوئی ہو ، بڑا ہو یا چھوٹا.اُن کو جماعت سے خارج کر دیا جائے لیکن اس کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے.انسان اللہ تعالیٰ ہی سے ہدایت طلب کرتا ہے اس کے لئے بڑے غور وفکر کی ضرورت ہے ہو سکتا ہے ہم ایسے خاندان کے اخراج کا فیصلہ کریں جن کو بغیر اخراج کے سنبھالا جا سکتا ہو.ہماری پہلی کوشش تو سنبھالنے کی ہونی چاہئے اور اصلاح کرنے کی ہونی چاہئے.کسی کے ساتھ ہماری کوئی دشمنی ہے نہ کسی کے خلاف غصہ ہے پہلے ان کی اصلاح کی کوشش کرنا ہمارا فرض ہے.پس آج میں نے ہنسی ہنسی میں آپ کو متنبہہ کر دیا ہے تا کہ کل آپ کو یہ شکایت نہ ہو کہ آپ ہمیں کہتے ، تو ہم اپنی اصلاح کر لیتیں.تم پردہ کرو اور اس کے لئے میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ برقعہ پہنو کیونکہ قرآن کریم نے برقعہ پہنے کا حکم نہیں دیا لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ پردہ کرو.تم جو زینت اپنے باپ اور خسر کے سامنے ظاہر کر سکتی ہو وہ غیر مرد کے سامنے ظاہر نہ کر ولوگوں نے ایک عجیب احمقانہ مسئلہ بنالیا ہے کہ چہرہ کا پردہ ہے یا نہیں، قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ جو زینت تم اپنے محرم کے سامنے ظاہر کرتی ہو وہ غیر محرم کے سامنے ظاہر نہ کرو...اب کونسی جوان عورت ہے جو اپنے باپ اور خسر کے سامنے بے حیائی سے بیٹھ جاتی ہے؟ تم اپنے باپ اور خسر کے سامنے کیا ظاہر کرتی ہو؟ ظاہر ہے تم ان کے سامنے اپنا چہرہ ہی ننگا رکھتی ہو.پس اگر

Page 158

خطابات مریم 133 خطابات باپ اور خسر کے سامنے صرف چہرہ ہی ظاہر کرتی ہو یا بغیر دستانوں کے ان کے سامنے آتی ہو تو عقل بھی کہتی ہے کہ غیر محرم کے سامنے چہرہ ڈھانپنا پڑے گا.یہ ایک بڑی واضح بات ہے بڑی کھلی بات ہے.اس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے.یہ کوئی اُلجھا ہوا مسئلہ نہیں ہے.یہ قرآن کا حکم ہے تمہیں اس کی پابندی کرنی چاہئے...اگر تم نے اپنی عصمت اور عزت کی ویسی حفاظت کرنی ہے جو خدا کی نگاہ میں اور اس کے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں اور اُس کے بندوں کی نگاہ میں ہے تو پھر تمہیں قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنا پڑے گا.اگر تم نے کتے کتیوں کی طرح زندگی گزارنی ہے تو پھر تمہاری مرضی لیکن اگر تم نے اس دنیا میں انسان بن کر رہنا ہے اور یقیناً انسان بن کر رہنا ہے تو پھر تمہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے ساتھ چمٹ کر زندگی گزارنی پڑے گی.تقریر حضرت خلیفة المسح الثالث برموقع سالانہ اجتماع 1972 ءالمصابیح صفحہ 253-254) پس بہت ضرورت ہے تربیت کی ہر جگہ یہاں پاکستان میں بھی ، ہندوستان میں بھی، انگلستان میں بھی ، یورپ میں بھی ، افریقہ اور امریکہ میں بھی اور جزائر میں رہنے والی خواتین کے لئے بھی.تربیت اور اصلاح کے تین بڑے اصول ہیں.علم ، عمل اور حفظ ما تقدم.اپنی اصلاح ہو یا معاشرہ کی یا اولاد کی سب سے پہلے علم کی ضرورت ہے.علم سے مراد مذہبی اور دینی علم ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی خواتین جاہل نہیں.اکثریت تعلیم یافتہ ہے لیکن ہم یہ دعوئی سے نہیں کہہ سکتے کہ اکثریت قرآن کریم کا ترجمہ جانتی ہے.ہر جگہ ہر لجنہ میں خواہ وہ گاؤں کی ہو یا قصبہ کی یا شہر کی آئندہ سالوں میں ایسا پروگرام ترتیب دینا ہے جس کے نتیجہ میں زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کا علم بہنوں اور بچیوں کو آئے.ہر عورت اور ہر بچی کونماز کا ترجمہ اور قرآن مجید کا ترجمہ آنا چاہئے.جب تک آپ کو اس کا علم ہی نہیں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے اللہ تعالیٰ کن باتوں کو پسند فرماتا ہے.کن باتوں کے کرنے کا اس نے حکم دیا ہے کن باتوں سے منع فرمایا ہے ، کن باتوں کو اختیار کرنے سے ہم محبت الہی کو حاصل کر سکتے ہیں اور کون سی باتوں میں پڑنے سے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے ) عذاب الہی کے مورد بھی بن

Page 159

خطابات مریم 134 خطابات سکتے ہیں ہم عمل نہیں کر سکتے.قرآن ہی وہ مکمل ضابطہ حیات ہے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت علی کو ساری دنیا کے لئے اور ہمیشہ کے لئے عطا فرمایا ہے اس کا ایک ایک حکم اٹل ہے.ہمیشہ کیلئے ہے ہر ایک کے لئے ہے.انسانی فطرت کے مطابق ہے.اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے اور ہر انسان کی فطرت کو جانتا ہے کوئی حکم اس میں ایسا نہیں رکھا جسے انسانی فطرت قبول نہ کرتی ہو.پس جب قرآن مجید کی ساری کی ساری تعلیم انسانیت کی بہبودی اور ترقی کیلئے ہے اور جس پر عمل کرنا مشکل بھی نہیں کسی ایک حکم کی خلاف ورزی کرنے سے بھی ہم اپنا نقصان خود کرتے اور اسلام کی ترقی میں روک بنتے ہیں.ہم نے باقی دنیا کی قوموں کی ریس نہیں کرنی وہ مادہ پرستی کی طرف بھاگ رہے ہیں.ہمارا نصب العین اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے اور یہ تعلق بغیر قربانی کے نہیں حاصل ہوسکتا.اس کی محبت کو حاصل کرنے کے لئے ہم نے دین سیکھنا اور اس کے مطابق مجاہدہ کرنا ہے.ہر بیماری کے لئے ڈاکٹر کوئی نسخہ تجویز کرتا ہے روحانی بیماریوں کا علاج قرآن مجید ہے.جیسا کہ فرماتا ہے فِيهِ شِفَاءٌ لِلنَّاس - (النحل : 70 ) جو دلوں کو صاف کرتا اور انسانوں کو با اخلاق انسان اور پھر باخدا انسان بنا دیتا ہے.پس اپنے دلوں میں بھی اور اپنے بچوں کے دلوں میں بھی قرآن کی عظمت پیدا کر و.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.جاننا چاہئے کہ اس زمانہ میں اسباب ضلالت میں سے ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اکثر لوگوں کی نظر میں عظمت قرآن شریف کی باقی نہیں رہی.(روحانی خزائن جلد 3 - ازالہ اوہام صفحہ 452) اور جب عظمت ہی باقی نہیں رہی تو عمل کیسے ممکن ہوگا.پس پہلے تو ضروری ہے کہ ہر احمدی عورت قرآن مجید کے ترجمہ، مطلب، اسلام کی تاریخ ، احمدیت کی تاریخ ، احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بخوبی واقفیت رکھتی ہو.ہر احمدی گھرانہ کو اپنی ذمہ داری کا اچھی طرح احساس پیدا ہونا چاہئے.ہر ماں کو اپنی اولاد کی دینی تعلیم اور تربیت کی فکر ہونی چاہئے اور ہر لجنہ کی عہدہ دار کو اور ناصرات کی عہدہ دار کو اپنی مبرات کی تربیت کا خیال ہونا چاہئے.آئیے ہم عزم کریں اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے ہوئے کہ ہم اگلی نسل کو

Page 160

خطابات مریم 135 خطابات ان ذمہ داریوں کو کماحقہ اُٹھانے کیلئے تیار کر دیں جن کا تقاضا آنے والے دن کر رہے ہیں.خدا کرے ایسا ہی ہو...علم کے بعد دوسرا قدم اصلاح کا عمل ہوتا ہے.اگر کسی بیماری میں طبیب آپ کے لئے نسخہ تو صحیح تجویز کر دے لیکن آپ اپنی سستی سے وہ نسخہ استعمال نہ کریں تو بیماری کو آرام نہیں آئے گا.یہی حال روحانی بیماریوں کا ہوتا ہے.آپ کو علم بھی ہو کہ ترقی کیسے ہوگی لیکن عمل نہ کریں تو آپ ترقی نہیں کر سکتیں.پس دینی علوم سیکھ کر قرآن مجید پڑھ کر اُن پر عمل کرنا اپنی زندگیاں قرآن مجید اور اُسوۂ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق گزارنے سے دینی اور دنیاوی ترقیات کا حصول ممکن ہے.ہر وقت جائزہ لیتی رہیں کہ کیا آپ کا کردار قرآنی تعلیم کے مطابق ہے کیا آپ کے اخلاق میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی جھلک نظر آتی ہے.کیا ہماری پیشانیوں سے نور ایمان جھلکتا ہے کیا ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق محبت ہے کہ :.قُل إن كان اباؤُكُمْ وَابنَاؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَازْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وامْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَ تِجَارَةً تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسْكِن تَرْضَوْنَهَا احب اليْكُم مِّنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ في سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بأَمْرِهِ وَاللهُ لا يَهْدِى الْقَوْمُ الفُسِقِينَ (التوبة:24) تو مومنوں سے کہہ دے کہ اگر تمہارے باپ دادے اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دوسرے ) رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارتیں جن کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور وہ مکان جن کو تم پسند کرتے ہو تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کے راستہ میں جہاد کرنے کی نسبت زیادہ پیارے ہیں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے فیصلہ کو ظاہر کر دے اور اللہ اطاعت سے نکلنے والی قوم کو کبھی کامیابی کا راستہ نہیں دکھاتا.اتنی محبت کہ ہم اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لئے قربان کر دینے کیلئے تیار ہیں.اگر یہ کیفیت ہمارے دلوں کی ہے اور یقیناً ہونی چاہئے تو ہمارا عمل بھی صحیح عمل ہوگا جس کے نتیجہ میں کامیابی ہمارے لئے مقدر ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض ایک

Page 161

خطابات مریم 136 خطابات پاک جماعت کا قیام تھا.ایک انقلاب اپنے ماننے والوں کی زندگیوں میں پیدا کرنا تھا جیسا کہ......وه آپ فرماتے ہیں :.یہ سلسلۂ بیعت محض بمراد فرا ہمی طائفہ متقین یعنی تقوی شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کیلئے ہے تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہو اور وہ برکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آ سکیں.ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں، قیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کیلئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو طیار ہوں اور تمام تر کوشش اس بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الہی اور ہمدردی بندگانِ خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آوے....اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان کے لئے جو داخل سلسلہ ہو کر صبر سے منتظر رہیں گے ایسا ہی ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کیلئے اور اپنی قدرت دکھانے کیلئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الہی اور تو بہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن و صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے.سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہوگا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا وہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا.وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کو نشو و نما دے گا یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ ٹھہریں گے.(روحانی خزائن جلد 3 ، ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 561 تا563)

Page 162

خطابات مریم 137 خطابات اے میری عزیز بہنو! یہ غرض تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کی تا آپ کے ماننے والوں کی زندگیوں میں ایک انقلاب عظیم پیدا ہو اور وہ اپنی روشنی چاروں طرف دنیا میں پھیلائیں.اپنے عمل سے، اپنی قربانیوں سے، اپنی برکات سے، اپنی جدو جہد سے اپنے اعلیٰ اخلاق سے، اپنی محبت سے اپنے کردار سے ایک نمونہ بنیں.اسلام کی اعلیٰ تعلیم کا نمونہ بنیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا نمونہ بنیں.آپ کے صحابہ اور صحابیات کا اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کا اور نمونہ بنیں اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اولین صحابہ کا.مکمل اصلاح اور اپنے معاشرہ کو بُرائیوں سے محفوظ رکھنے کا تیسر ا گر حفظ ما تقدم ہے جس طرح و با سے بچنے کیلئے انسان اپنے آپ کو بھی ٹیکہ کرواتا ہے بچوں کو بھی کرواتا ہے اور اس کا بھی انتظام کرتا ہے کہ اردگرد کے لوگ ٹیکہ کروائیں.بچوں کو اس جگہ جانے نہیں دیتا جہاں کوئی بیماری پھیلی ہوئی ہے.یہی حال روحانی بیماریوں اور اخلاقی کمزوریوں کا ہوتا ہے.آپ اپنے بچوں کو وہاں تو قدم بھی نہیں رکھنے دیں گی جہاں ہیضہ پھیلا ہے یا جہاں چیچک کا ڈر ہے یا اور کوئی متعدی بیماری پھیلی ہوئی ہے لیکن ان لوگوں سے بچانے کی کوشش نہیں کریں گی جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہ ہو.قرآن مجید کی محبت نہ ہو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا کوئی شوق نہ ہو.جو ناچ گانوں کے شوقین تو ہوں لیکن روزانہ قرآن مجید کا ایک رکوع پڑھنے کا خیال نہ ہو جو روپیہ کمانے کی فکر میں تو ہوں مگر قرآنی انوار سے جھولیاں بھرنے کی خواہش نہ ہو.جو مذہب کیلئے غیرت نہ رکھتے ہوں بلکہ مذہب کو ترقی کی راہ میں روک سمجھتے ہوں لازمی بات ہے کہ صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے.اسی لئے خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ کُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ (التوبة:119) سچوں اور صالحین کی صحبت سب سے بڑا گر ہے تربیت کا.آپ اچھی سوسائٹی مہیا کریں اپنے بچوں کیلئے ناچ گانوں ، ناولوں ، تماشوں کی بجائے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت ، اسلام کی محبت، وطن کی محبت، مذہب کے لئے غیرت، انسانی ہمدردی ، اعلیٰ اخلاق، سچائی، دیانتداری، انصاف، غریب پروری، شجاعت ، قناعت، دعا کرنے کی عادت ان کے اندر پیدا کریں تا وہ اس جذبہ کے ساتھ بڑھیں کہ اسلام کا جھنڈا ہمیشہ بلند رکھیں گے.قوم وہی زندہ رہتی ہے جس کی ہر نسل اگلی نسل کی جگہ لینے اور پہلی نسل سے بڑھ کر قربانیاں دینے کو تیار رہے.

Page 163

خطابات مریم 138 خطابات جس قوم میں تعطل پیدا ہو جائے وہ قوم ترقی نہیں کر سکتی ہمارے ساتھ ہمارے خدا کا وعدہ ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کو ترقی دے گا.لیکن اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کے دن کو قریب تر لانا ہمارا فرض ہے.جس کے لئے ہم نے ہر قسم کی قربانیاں دینی ہیں تا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو اورا اپنی اولاد کو بھی ان قربانیوں کیلئے تیار کرنا ہے تا قربانیوں کا ایک تسلسل قائم رہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی برکتیں بھی مسلسل جاری ہیں اس تسلسل کو قائم رکھنے کا ایک ذریعہ وقف زندگی ہے.مجھے احساس ہے اور خدا کرے کہ میرا یہ احساس غلط ہو کہ وقف زندگی کا جو جذ بہ جماعت میں پہلے تھا وہ کچھ کم ہو گیا ہے جب تک وقف کی روح کو ہم زندہ نہیں رکھتیں ہم منزل مقصود تک پہنچنے میں روک بنتی ہیں اور یہ کام صرف مائیں کر سکتی ہیں.بچوں میں وقف زندگی کا جذ بہ صرف اور صرف ما ئیں پیدا کر سکتی ہیں بچہ تو ایک صاف ذہن لے کر پیدا ہوتا ہے اس پر خوبصورت نقش پیدا کرنا آپ کا کام ہے.اگر آپ بچپن سے بچوں کے دلوں میں روپے کی محبت ، دنیا کمانے کی خواہش پیدا کریں گی تو بڑے ہو کر ان کے دلوں میں وقف کا جذ بہ نہیں پیدا ہو گا.آپ کا بیٹا بڑا ہو کر لاکھوں کمائے.کتنے دن کیلئے ؟ یہ زندگی فانی ہے اگلی نسل کو یہ بھی علم نہ ہو گا کہ کون تھا ؟ کس کا بیٹا تھا ؟ لیکن وہی بیٹا اگر دین کی خدمت کرے گا تو تاریخ میں اس کا نام محفوظ ہوگا.آنے والی نسلیں رہتی دنیا تک اس کا نام محبت سے لیں گی ، رشک سے لیں گی ، دعائیں کریں گی.کونسی زندگی بہتر ہے؟ خود جائزہ لیں اور سوچیں کتنا بڑا کردار ادا کرنا ہے آپ نے تاریخ احمدیت میں.وقف کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دنیا کے کاموں سے کوئی واسطہ ہی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہت خوبصورت الفاظ میں اس کی وضاحت فرمائی ہے.فرماتے ہیں:.کوئی یہ نہ سمجھ لیوے کہ انسان دنیا سے کوئی غرض اور واسطہ ہی نہ رکھے.میرا یہ مطلب نہیں ہے اور نہ اللہ تعالیٰ دنیا کے حصول سے منع کرتا ہے بلکہ اسلام نے رہبانیت کو منع فرمایا ہے.یہ بزدلوں کا کام ہے مومن کے تعلقات دنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں وہ اس کے مراتب عالیہ کا موجب ہوتے ہیں کیونکہ اس کا نصب العین دین ہوتا ہے اور دنیا اس کا مال و جاہ دین کا خادم ہوتا ہے.پس اصل بات یہ ہے کہ دنیا مقصود بالذات نہ ہو بلکہ حصول دنیا میں اصل غرض دین ہو اور ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا

Page 164

خطابات مریم 139 خطابات جاوے کہ وہ دین کی خادم ہو جیسے انسان کسی جگہ سے دوسری جگہ جانے کے واسطے سفر کے لئے سواری اور زادِ راہ کو ساتھ لیتا ہے تو اس کی اصل غرض منزل مقصود پر پہنچنا ہوتا ہے نہ خود سواری اور راستہ کی ضروریات اس طرح پر انسان دنیا کو حاصل کرے مگر دین کا خادم سمجھ کر.اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا تعلیم فرمائی ہے کہ دینا اتنا في الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً (البقرة: 202) اس میں بھی دنیا کو مقدم کیا ہے.لیکن کس دنیا کو؟ حَسَنَةٌ الدُّنیا کو جو آخرت میں حسنات کا موجب ہو جائے“.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 365،364) اسی طرح وقف کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.میں چونکہ خود تجربہ کار ہوں اور تجربہ کر چکا ہوں اور اس وقف کیلئے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ جوش عطا فرمایا ہے کہ اگر مجھے یہ بھی کہہ دیا جاوے کہ اس وقف میں کوئی ثواب اور فائدہ نہیں ہے بلکہ تکلیف اور دکھ ہو گا تب بھی میں اسلام کی خدمت سے رُک نہیں سکتا.اس لئے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں اور یہ بات پہنچا دوں.آئندہ ہر ایک کا اختیار ہے کہ وہ اسے سنے یا نہ سنے اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیات طیبہ یا ابدی زندگی کا طلب گار ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اس درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی، میری موت ، میری قربانیاں، میری نمازیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور حضرت ابراہیم کی طرح اس کی رُوح بول اُٹھے أسْلَمْتُ يربّ العلمي (البقرة: 132) جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا.خدا میں ہو کر نہیں مرتا وہ نئی زندگی پا نہیں سکتا.پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تم دیکھتے ہو کہ خدا کے لئے زندگی کا وقف میں اپنی زندگی کی اصل غرض سمجھتا ہوں پھر تم اپنے اندر دیکھو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو میرے اس فعل کو اپنے لئے پسند کرتے اور خدا کے لئے زندگی وقف کرنے کو عزیز رکھتے ہیں“.(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 370)

Page 165

خطابات مریم 140 خطابات پس وقف کی روح کو قائم رکھنا اپنی اولاد میں سے کم از کم ایک کو اسلام کی خاطر وقف کرنا ہر دیندار کا فرض ہے.ہے.بہنوں کو یہ بات کبھی بھولنی نہیں چاہئے کہ جماعت احمد یہ کوسب سے بڑا انعام اللہ تعالی نے خلافت کی صورت میں عطا فرمایا ہے اس انعام کی قدر کرنا ، اس کی بقا کے لئے دعائیں کرتے رہنا اس کے شانِ شایان قربانیاں دیتے رہنا.اس کے استحکام کے لئے جد و جہد کرتے رہنا ہر احمدی کا فرض ہے اپنی اولادوں کے دلوں میں خلافت کا احترام ، خلافت سے وابستگی ، خلیفہ وقت کی اطاعت، یہ یقین پیدا کرنا کہ خلافت کے ساتھ ہی جماعت کی ترقی وابستہ ہے.آپ کا فرض ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فرائض کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے اور ہم دنیا کو ایک پُر امن معاشرہ دے سکیں جس میں کوئی فساد نہ ہو.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی صحیح ادائیگی ہو.بنی نوع انسان کی سچی خیر خواہی ہو دنیا کی بڑی بڑی قوموں کو اپنی دولت ، اپنی ایجا دوں، اپنی طاقت پر ناز ہے.ہمیں اپنے خدا پر ناز ہے.خدا کے پیار پر ناز ہے.اپنی بے مائیگی اور غربت پر ناز ہے اور اپنے خدا کے ان وعدوں پر ناز ہے جو اس نے اپنے مسیح سے کئے ہیں جن کے متعلق ہمارے دل یقین سے پُر ہیں کہ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں لیکن خدا کے منہ سے نکلی ہوئی بات نہیں مل سکتی.پس دعائیں کریں اور کرتی چلی جائیں کہ اللہ تعالیٰ نے مہدی موعود کے ذریعہ جو بشارتیں ہمیں دی ہیں وہ پوری ہوں اور ہماری کوئی کمزوری ان بشارتوں کے پورا ہونے میں روک نہ بنے.ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کر دے اور ہم اور ہماری نسلیں اس کی محبت کے حصول کیلئے قربانیاں دیتی چلی جائیں یہاں تک کہ ساری دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جائے اور ساری دنیا کا ایک ہی کلمہ اور نعرہ ہو.لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ (الفضل 10،9 /جنوری 1976ء)

Page 166

خطابات مریم 141 خطابات ہمارا جلسہ سالانہ خطاب جلسہ سالانہ 1976ء ایک مذہبی ، روحانی اور تربیتی جلسہ ہوتا ہے تا ہر جگہ سے احمدی مرکز سلسلہ میں جمع ہوں.ان کی روحانیت ترقی کرے ان کا ایمان تازہ ہو.تربیت میں جو نقائص واقع ہوں ان کی اصلاح ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق جماعت کی ترقی کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں اس لئے ہماری بہنوں کو چاہئے کہ استقلال اور صبر کے ساتھ پورے پروگرام کو سنا جائے اور جلسہ کو میلہ کا رنگ نہ دیا جائے.مجالس میں انسان بسا اوقات بُرا اثر بھی لے لیتا ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ایسے موقعہ پر استغفار کثرت سے پڑھنے کا ہے.پس اپنی بہنوں اور بچیوں کو میری نصیحت ہے کہ ان تین دنوں کو ذکر الہی اور دعاؤں میں گزاریں.اجتماعی طور پر دعاؤں میں بڑی برکت ہوتی ہے تقاریر اور نصائح کو اور آئندہ سال کے لئے جو لائحہ عمل بتایا جائے اسے توجہ سے سنیں اور پورا سال اس پر عمل کرنے کی کوشش میں لگی رہیں.تین سال سے لجنہ اماءاللہ کا اجتماع منعقد نہیں کیا جا سکا.تمام لجنات اما ء اللہ کی نمائندگان کو باہم مل کر ایک دوسرے سے تبادلہ خیالات کا موقعہ نہیں ملا تا ہم ہر جگہ بجنات اپنی تنظیم کو بہتر بنانے اور لجنہ اماء اللہ کی غرض و غایت کو پورا کرنے میں منہمک رہی ہیں لیکن با وجود عہد یداران لجنہ کی پوری کوشش اور جدو جہد کے بہنوں اور بچیوں کی تربیت میں قدرے نقائص نظر آ رہے ہیں.انسان کی فطرت ہے کہ ایک چیز کا اثر لیتا ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد اس کے نقوش مدھم پڑنے لگتے ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ بار بار ا سے نصیحت کی جائے اسی لئے قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار نصیحت کرنے کا ارشاد ذکر کے الفاظ میں ہوا ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ ذاریات میں فرماتا ہے.وَذَكِّرْفَاتُ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الذاريات : 56)

Page 167

خطابات مریم 142 خطابات اے نبی یاد دلا تارہ کیونکہ یاددلا نا مومنوں کو نفع بخشتا ہے.پھر سورۃ اعلیٰ میں فرماتا ہے.فَذَيرُ إِن نَّفَعَتِ الذِّكْرَى سَيَذَكَرُ مَن يَخْشَى وَيَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى پس تم بھی نصیحت کرو.نصیحت کرنا ہمیشہ مفید ہی رہا ہے.جو خدا سے ڈرتا ہے وہ یقیناً نصیحت حاصل کر گیا اور اس کے برخلاف جو نہایت بد بخت ہوگا وہ اس سے گریز ہی کریگا.قرآن مجید کی یہ آیات ہماری راہ نمائی کرتی ہیں کہ معاشرہ کی اصلاح اور تربیت کیلئے ضروری ہے کہ بار بار نصیحت کی جائے.بُری باتوں سے روکا جائے ان کے فرائض کا احساس دلایا جائے.دلوں میں دین کی محبت اور اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کیا جائے کیونکہ قرآن مجید کی ان آیات کے مطابق نصیحت کا فائدہ وہی شخص اُٹھاتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ معاشرہ میں کسی فرد کو بُرائی کرتے دیکھو.اگر طاقت ہو تو ہاتھ سے روکو.ہاتھ سے نہ روک سکو تو زبان سے رو کو یعنی نصیحت کرو کہ بہن یہ کام آپ بُرا کر رہی ہیں.یا میری بچی یہ حرکت تمہاری ہماری روایات کے خلاف ہے اور زبان سے روکنے کی طاقت بھی نہ پاؤ تو کم از کم دل میں بُرا مان لو کہ یہ کم از کم نیکی ہے.چونکہ اس سال اجتماع منعقد نہیں ہو سکا.آئندہ سال کے لئے چند باتیں اس موقعہ پر بیان کرنی تھیں وہ آج بیان کروں گی.جلسہ سالانہ پر یوں بھی قریباً ہر جگہ سے خواتین آتی ہیں جن میں عہدیداران بھی ہوتی ہیں اور ممبرات بھی.سب ہی توجہ سے ان باتوں کو سنیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.سب سے پہلے میں اس چیز کی طرف توجہ دلاتی ہوں کہ جہاں بہت سی شہری اور دیہاتی بجنات اپنے فرائض احسن طور پر سر انجام دے رہی ہیں وہاں ایک بہت بڑی تعداد لجنات کی ایسی ہے جن کا مرکزی لجنہ اماء اللہ سے مضبوط تعلق قائم نہیں نہ وہ اپنی رپورٹ بھجواتی ہیں نہ اُن کی طرف سے چندہ آتا ہے.پاکستان میں چھ سو کے قریب لجنات قائم ہیں لیکن جو سال ختم ہوا اس میں 318 لجنات کی طرف سے چندہ لجنہ اماءاللہ کا آتا رہا ہے رپورٹ اس سے بھی کم تعداد میں.پس پہلی ہدایت آپ کی ترقی کیلئے یہ ہے کہ آپ منتظم ہوں.ہر احمدی خاتون لجنہ کی ممبر ہو.

Page 168

خطابات مریم 143 خطابات صرف نام کی نہیں بلکہ اُسے لجنہ اماءاللہ کی ترقی.جماعت کی بہبودی اور ترقی کی فکر ہو اور یہ سوچنے والی ہو کہ میرا اس میں کیا حصہ ہے.اس لئے جہاں عہدیداران کا یہ فرض ہے کہ وہ صحیح طور پر کام کریں اور اپنے کام کی مرکزی لجنہ کو رپورٹ دیتی رہیں.وہاں نمبرات کا یہ فرض ہے کہ وہ عہد یداران سے مکمل تعاون کریں اور یہ دیکھتی رہیں کہ ان کا مرکزی لجنہ سے رابطہ ہے یا نہیں.اگر آپ کی صدر اور سیکرٹری کام نہیں کرتیں یا کام تو کرتی ہیں مگر رپورٹ نہیں بھجوا تھیں تو وہ اس بات کی مستحق نہیں کہ آئندہ ان کو رکھا جائے.یوں بھی اس سال بجنات اماءاللہ کے سہ سالہ انتخابات ہونے ہیں.ان تمام لجنات میں جو فعال نہیں بہنوں کو فوراً ایسی صدر کا انتخاب کرنا چاہئے جو خود بھی کرنے کا جذبہ اور لگن رکھتی ہو اور دوسری مستورات اور بچیوں سے کام کروانے کا اُسے ڈھنگ بھی ہو اور اگر آپ اُسے منتخب کر لیں تو پھر آپ کی اہم ذمہ داری اس کے ساتھ مکمل تعاون کرنا ہے.بغیر اتحاد اور مکمل تعاون کے نہ کوئی مجلس ترقی کر سکتی ہے اور نہ کوئی قوم.رپورٹ بھجوانے کے سلسلہ میں مرکزی لجنہ اماءاللہ کی طرف سے بار بار جواب طلبی پر دیہاتی لجنات میں سے تو بہت سی لجنات کی طرف سے یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ بعض مقامات میں ایک عورت بھی لکھنا نہیں جانتی.اس لئے لجنہ اماء اللہ کے کاموں کی رپورٹ نہیں بھجوائی جاسکتی یہ ایک بہت بڑی کمی ہے جو دیہاتی مستورات میں پائی جاتی ہے اور اس خامی کو دور کرنا آپ کا کام ہے.علم ایک روشنی ہے اور علم کا سیکھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرد اور عورت پر فرض قرار دیا ہے.ہماری بد قسمتی ہے کہ مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث اور دیہات کے مخصوص ماحول کی وجہ سے ابھی تک دیہات میں تعلیم عام نہیں ہے لیکن ایک احمدی عورت کو دیگر خواتین سے ترقی کی دوڑ میں آگے ہونا چاہئے.حضرت مصلح موعود نے 1944ء میں اپنی جلسہ سالانہ کی تقریر میں ایک مکمل اور مربوط پر وگرام لجنہ اماءاللہ کے سامنے رکھا تھا جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ:.پس لجنہ اماءاللہ کا پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ جب ان کی تنظیم ہو جائے تو جماعت کی تمام عورتوں کولکھنا اور پڑھنا سکھا دے.

Page 169

خطابات مریم 144 دوسرا قدم یہ ہونا چاہئے کہ نماز روزہ اور شریعت کے دوسرے موٹے موٹے احکام کے متعلق آسان اُردو زبان میں مسائل لکھ کر تمام عورتوں کو سکھا دیئے جائیں اور پھر تیسرا قدم یہ ہونا چاہئے کہ ہر ایک عورت کو نماز کا ترجمہ یاد ہو جائے تا کہ اُن کی نماز طوطے کی طرح نہ ہو کہ وہ نماز پڑھ رہی ہوں مگر ان کو یہ علم نہ ہو کہ وہ نماز میں کیا کہہ رہی ہیں اور آخری اور اصل قدم یہ ہونا چاہئے کہ تمام عورتوں کو باترجمہ قرآن مجید آ جائے اور چند سالوں کے بعد ہماری جماعت میں سے کوئی عورت ایسی نہ نکلے جو قرآن مجید کا ترجمہ نہ جانتی ہو.خطابات الاز ہارلذوات الخمار صفحہ 399،398) حضرت مصلح موعود کی ان ہدایات پر 32 سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس عرصہ میں گو لجنہ اماءاللہ کی زیادہ توجہ تعلیم پھیلانے کی طرف ہی رہی ہے لیکن اس سال تعلیمی جائزہ لینے پر یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ بہت کم تعداد میں ایسی لجنات ہیں جہاں سو فیصدی مستورات ناظرہ قرآن مجید جانتی ہیں یا اُردو لکھنا پڑھنا جانتی ہیں اور ترجمہ تو سوائے چند لجنات کے چار پانچ فی صدی سے زائد مستورات نہیں جانتیں.بعض جگہ جب اس بات پر زور دیا جائے کہ اُردو لکھنا پڑھنا سکھاؤ یا قرآن مجید پڑھاؤ تو جواب ملتا ہے کہ یہ چند عورتیں جو نہیں جانتی یہ بہت بوڑھی ہیں.ان کو پڑھانا اب ناممکن ہے لیکن دیہات میں یہ صورت نہیں وہاں نوجوان عورتوں اور بچیوں میں سے ابھی بہت سی اُردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتیں.پس سال رواں کے لئے دیہاتی لجنات کے سپرد چندہ کے علاوہ صرف اور صرف ایک کام تجویز کروں گی.سو فیصدی عورتوں بچوں کو قرآن مجید ناظرہ پڑھانا اور اُردو لکھنا پڑھنا سکھانا.اگر پوری کوشش کی جائے اور سارا سال مکمل جد و جہد اس سلسلہ میں کی جائے تو مجھے یقین ہے کہ ایک سال میں نمایاں نتائج برآمد ہوں گے.اس سلسلہ میں مرکزی لجنہ اماء اللہ کی طرف سے مکمل تعاون کا یقین دلاتی ہوں بشر طیکہ مقامی لجنہ پورے عزم اور محنت سے کام کرے.ہر وہ عورت جو اردولکھنا پڑھنا جانتی ہے کم از کم ایک عورت کو سال میں اُردولکھنا پڑھنا سکھا دے.ہر سال خاصی تعداد میں مستورات اپنے آپ کو وقف عارضی کے طور پر بھی پیش کرتی ہیں وہ بھی اپنے عرصہ وقف کے دوران اس

Page 170

خطابات مریم 145 خطابات سلسلہ میں بھی کوشش کریں کہ ناخواندہ مستورات اور بچیوں کو اردولکھنا پڑھنا سکھائیں.پھر کالجوں اور سکولوں میں جو احمدی طالبات پڑھ رہی ہیں وہ اپنی گرمیوں کی تعطیلات کے زمانہ میں خواہ کہیں بھی وہ چھٹیاں گزاریں اس سلسلہ میں کوشش کریں کہ عورتوں اور بچیوں کو جو ناظرہ نہیں جانتیں ان کو ناظرہ اور جو اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتیں اُن کو اُردو لکھنا پڑھنا سکھا دیں اگر ہم ایک سال میں ستر فی صد احمدی مستورات اور بچوں کو بھی پڑھنا لکھنا سکھا دیتے ہیں تو یقیناً یہ آپ کا ایک کارنامہ ہوگا اور چھوٹی بچیوں یعنی ناصرات کی عمر کی تو ایک فی صد بھی ایسی نہیں ہونی چاہئے جواُردولکھنا پڑھنا نہ جانتی ہو.اُردو لکھنے پڑھنے کے علاوہ زبانی آپ ان کو تمام شریعت کے احکام سکھائیں خصوصاً وہ احکام جن کا معاشرہ اور اخلاق سے تعلق ہے اور جو ہماری زبان میں آداب کہلاتے ہیں.گزشتہ سال حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر اسلامی آداب و اخلاق کی اہمیت کو قرآن مجید احادیث نبویہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں واضح فرمایا اور اسلامی آداب واخلاق کو جلد سے جلد مدون کر کے بچوں اور نئی نسل کو انہیں سکھانے اور ان پر عمل کرانے کیلئے عظیم تربیتی جہاد کا اعلان فرمایا اور احباب جماعت کو نصیحت فرمائی تھی کہ وہ اس تربیتی اور عملی جہاد میں حصہ لینے کے لئے اپنی کمریں کس لیں اور کوشش کریں کہ جماعت احمدیہ کا ہر حصہ اور ہر طبقہ اسلامی آداب و اخلاق کے مختلف مدارج اور ان کی جزئیات سے جو پوری انسانی زندگی پر حاوی ہیں.اچھی طرح واقف ہو اور ان پر عمل کرنے والا ہوتا کہ ہما را عملی نمونہ غلبہ اسلام کے اس دن کو قریب سے قریب تر لانے کا موجب بنے جب کہ ساری دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی.(الفضل 29 دسمبر 1975ء) حضرت خلیفۃ امسح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس عظیم تر بیتی جہاد کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.انسان کو خدا تعالیٰ نے جو مختلف جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی قوتیں دی ہیں ان کے بارے میں ہمیں تفصیلی ہدایات دیتا ہے پہلے وہ اپنے ماننے والے کو وحشیانہ

Page 171

خطابات مریم 146 خطابات حالت سے اُٹھا کر انسان بناتا ہے اسے وہ ابتدائی اخلاق سکھا کر درجہ بدرجہ ترقی دیتا ہے اور آخر میں اُسے باخدا بنا کر روحانی ترقی کے اعلیٰ مدارج حاصل کرنے کے قابل بنا دیتا ہے.اسلام چھوٹے سے چھوٹے معاملہ سے لے کر بڑی سے بڑی چیز تک میں ہماری راہ نمائی کرتا ہے اور کھانے پینے چلنے پھرنے اور باتیں کرنے کے آداب بھی سکھاتا ہے اور پھر انسان کو باخدا انسان بنانے کی طرف راہنمائی کرتا ہے.ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان تمام اسلامی آداب و اخلاق کو پہلے سمجھیں اور سیکھیں اور پھر ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اس کے بغیر نہ ہم خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کر سکتے ہیں اور نہ دنیا میں اسلام کو قائم کر سکتے ہیں.یہ درست ہے کہ غلبہ اسلام بہر حال مقدر ہے لیکن یہ کام فرشتوں نے آ کر نہیں کرنا یہ ہم نے کرنا ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم صحیح ذرائع اختیار کریں.پہلے خود اسلامی آداب اور اخلاق کو سیکھیں اور پھر اپنی اولا دوں کو سکھائیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں....جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اس کے لئے ابھی سے تیار ہو جائیں اور اپنی کمریں کس لیں.ہمیں پہلے اپنی فکر کرنی چاہئے پھر اپنی عورتوں اور آئندہ نسلوں کی فکر کرنی چاہئے.خدا کرے ہم اس میں کامیاب ہو جائیں اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو ایسے طور پر ڈھالیں کہ ان میں اسلامی آداب و اخلاق کا نمونہ نظر آئے“.الفضل 29 دسمبر 1975ء صفحہ 2) اس تربیتی مجاہدہ کی ذمہ داری صرف مردوں پر نہیں ، بلکہ جتنی مردوں پر ہے اتنی ہی عورتوں پر بھی ہے بلکہ عورتوں پر زیادہ ہے کیونکہ بچوں کی تربیت ماں کی گود میں ہوتی ہے.اس لئے اگر آپ کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہے اور اس عظیم الشان مجاہدہ کی شمولیت کا شوق ہے جس کی شاہراہ منزل غلبہ اسلام تک پہنچتی ہے تو ہمیں تمام احکام اسلامی کا علم ہونا چاہئے کہ زندگی کے ہر موڑ ہر منزل ہر قدم اور ہر کام کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے؟ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کیا تفصیل بیان فرمائی ہے؟ کیا ہدایات دی ہیں؟ پھر اپنے نفس کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہمارا اس پر عمل ہے یا نہیں اور ہمارے بچے ان پر عمل کرتے ہیں یا نہیں اگر نہیں تو آج سے

Page 172

خطابات مریم 147 خطابات آپ کو عزم کر لینا چاہئے کہ ہم اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو ان احکام آداب و اخلاق کا پابند بنائیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ اسلامی شریعت کے دو حصے ہیں ایک وہ احکام جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی سے ہے ان کو ہم عبادات کے نام سے موسوم کرتے ہیں.دوسرے وہ احکام جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہے ان کو ہم اخلاق کے نام سے پکارتے ہیں.کامل مومن وہی شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کے حقوق کی بجا آوری بھی صحیح طور پر کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی بجا آوری بھی صحیح طور پر کرے.ایک انسان نمازیں تو رو رو کر پڑھے، روزے بھی سارے رمضان کے رکھے لیکن کسی کی حق تلفی کرے، ظلم کرے، بداخلاقی سے پیش آئے وہ مومن نہیں کہلا سکتا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اسلام ایک قلیل عرصہ میں آپ کے اعلیٰ اخلاق غریب امیر سب سے یکساں سلوک ، دشمنوں سے عفو کا سلوک ، صلہ رحمی ، ہمدردی ، پڑوسیوں کے حقوق کی حفاظت انسان کو انسان سمجھنے اور اس کی عزت کرنے کی وجہ سے پھیلا.دنیا مجبور ہو گئی اسلام کے آگے سر جھکانے پر کہ اخلاق کی جو تعلیم اسلام نے دی وہ کسی مذہب نے نہیں دی اور جو عملی نمونہ مسلمانوں نے دکھایا وہ کسی اور قوم نے نہیں دکھایا اور اس عملی نمونہ کا ہی نتیجہ تھا کہ مسلمان بہت تھوڑے وقت میں ساری معلوم دنیا پر چھا گئے اور ہر براعظم میں انہوں نے دنیا کو درس انسانیت دیا.آج جو ترقی یافتہ قومیں کہلاتی ہیں اور اخلاق اخلاق کے نعرے لگاتی ہیں خواہ خود اس پر عمل نہ کریں.سب خوشہ چیں ہیں اسلام کی تعلیم کے.مسلمان جس جس ملک میں گئے وہاں کے رہنے والوں کو اخلاق سکھائے ، مساوات کی تعلیم دی ، عزت نفس کی تعلیم دی ، ان کی خود داری کو بلند کیا لیکن آہستہ آہستہ جب قرآن پڑھنا چھوڑا اس پر عمل کرنا بھی چھوڑ دیا.حضرت مہدی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے احیاء دین کیلئے بھیجا ہے تا کہ ان گم گشتہ اخلاق اور نیکیوں کو جن کی تعلیم اسلام نے دی لیکن عملاً ان پر عمل نہیں ہوتا تھا پھر سے قائم کر یں.جس طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی تعریف میں تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ کے الفاظ بیان فرمائے ہیں کہ ہر وہ نیکی اور خوبی جو دنیا سے کھوگئی تھی آپ اس کو خود کر کے پھر سے قائم کر رہے ہیں.

Page 173

خطابات مریم 148 خطابات جماعت احمدیہ کے مرد و خواتین کا سب سے بڑا کام اخلاق فاضلہ کو قائم کرنا ہے.بہت سی غلطیاں انسان لاعلمی میں کرتا ہے گناہ کو گناہ نہیں سمجھتا، غلطی کو غلطی نہیں سمجھتا.جب غلطی کرتا ہے تو اپنی عقل سے یہ سمجھتا ہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں ٹھیک ہے.خاص طور پر چھوٹے اور نو عمر بچے ان کو اسلامی احکام آداب اور اخلاق سے روشناس کروانا ان کو اسلامی آداب اور اخلاق کے متعلق تعلیم دینا آپ کا اور صرف آپ کا فرض ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض احیائے اسلام تھی.دلائل ، واقعات اور عمل کے ساتھ آپ نے ثابت فرمایا کہ اسلام ہی واحد زندہ مذہب ہے جس پر گامزن رہ کر نجات اور امن حاصل ہو سکتا ہے.اسی لئے اپنی تصنیف کشتی نوح میں جو حقیقت میں اس زمانہ کے دجل اور گمراہی کے عظیم سیلاب میں کشتی نوح ہی ثابت ہوئی فرمایا :." یہ مت خیال کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر بیعت کر لی ہے ظاہر کچھ چیز نہیں خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور اُسی کے موافق تم سے معاملہ کرے گا.دیکھو میں یہ کہہ کر فرض تبلیغ سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ گناہ ایک زہر ہے اُس کو مت کھاؤ.خدا کی نافرمانی ایک گندی موت ہے اس سے بچو دعا کرو تا تمہیں طاقت ملے جو شخص دعا کے وقت خدا کو ہر ایک بات پر قادر نہیں سمجھتا بجز وعدہ کی مستثنیات کے وہ میری جماعت میں سے نہیں جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتاوہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بد عملی سے یعنی شراب سے قمار بازی سے بد نظری سے اور خیانت سے رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرف سے تو بہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص پنجگانہ نماز کا التزام نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص دعا میں لگا نہیں رہتا اور انکسار سے خدا کو یاد نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص بدرفیق کو نہیں چھوڑتا جو اس پر بداثر ڈالتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت

Page 174

خطابات مریم 149 خطابات نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں اُن کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعهد خدمت سے لا پروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص اپنی اہلیہ اور اُس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص اپنے ہمسایہ کو ادنی ادنیٰ خیر سے بھی محروم رکھتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص نہیں چاہتا کہ اپنے قصور وار کا گناہ بخشے اور کینہ پرور آدمی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص اُس عہد کو جو اُس نے بیعت کے وقت کیا تھا کسی پہلو سے توڑتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں“.(روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 19،18) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان کا حق ادا کرے اور کسی قسم کا ظلم اس پر نہ کرے.دنیا میں تمام فتنہ وفسا ظلم کی وجہ سے ہوتے ہیں اگر ایک انسان کم از کم اس درجہ پر پہنچ جائے جس میں وہ ترک شہر پر قادر ہو جائے یعنی اگر نیکی نہ بھی کر سکے تو کم از کم کسی سے بُرائی نہ کرے تو اخلاق کا یہ درجہ گوسب سے نچلا درجہ ہو گا لیکن اس کی زبان یا ہا تھ سے تو کسی کو تکلیف نہیں پہنچے گی.لیکن اس سے بڑھ کر درجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ صرف تکلیف اس سے کسی وجود کو نہ پہنچے بلکہ خیر اس کے ذریعہ سے دوسروں کو پہنچے اور اسی کا ہے.نام خلق ہے.ترک شر میں وہ تمام باتیں آجائیں گی جس کے ذریعہ سے ایک انسان کوشش کرتا ہے کہ میرے ذریعہ کسی کے مال کو ، کسی کی جان کو ، کسی کی عزت کو شہرت کو اور وقار کو کوئی بھی نقصان نہ پہنچے.کسی کو اس پر بدظنی کرنے کا موقعہ نہ ملے اسی لئے اسلام نے غیبت سے روکا ہے.بہتان لگانے سے منع کیا ہے.بدظنی کرنے سے منع کیا.امانت و دیانت پر زور دیا ہے.افواہ پر یقین کرنے سے منع کیا ہے جب تک ثبوت نہ ہو.خراب سامان فروخت کرنے سے روکا ہے، پورا ماپ اور پورا وزن دینے کی تاکید فرمائی ہے کیونکہ ان باتوں کی خلاف ورزی ظلم ہے اور ظلم کسی صورت میں جائز نہیں اس لئے ہر انسان کی پہلی کوشش تو یہی ہونی چاہئے کہ وہ ترک شر پر قادر

Page 175

خطابات مریم 150 خطابات ہو جائے اس کے وجود سے کسی کو نقصان نہ پہنچے.قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ ہو یہ ایک زریں نصیحت ہے جو میں اپنے آپ کو بھی کرتی ہوں اور اپنی سب بہنوں کو بھی کہ جب تک قول اور فعل میں ہمارے تضاد باقی رہے گا ہماری بات دوسرے کے دل پر اثر انداز نہ ہوگی لیکن جس دن یہ تضاد ختم ہوا اور قرآنی تعلیم کا نمونہ ہمارے وجود بن گئے خود بخود آپ کے بچے، ملنے جلنے والے آپ کے پیچھے چلیں گے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نظر ڈالیں ساری زندگی کے واقعات پڑھ کر ایک بات بھی ایسی نہیں ملے گی کہ آپ کی اور دوسروں کی مصلحتیں ایک ہی ہوں.مگر پھر بھی آپ نے دوسروں کے لئے اور حکم دیا ہو اور اپنے لئے کچھ اور تجویز کیا ہو.پھر بعض انسان ایسے ہوتے ہیں کہ تنگی آئے یا تکلیف ہو تو بدخلق ہو جاتے ہیں بعض عیش میں خدا تعالیٰ کا احسان بھول جاتے ہیں تکبر پیدا ہو جاتا ہے اور بدخلق ہو جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ دونوں حالتیں عسر اور میسر کی وارد ہوئیں.پورے کمال کے ساتھ وارد ہوئیں اور دونوں حالتوں میں آپ اعلیٰ اخلاق کے مقام پر فائز رہے.اُس مقام پر کہ کوئی انسان آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا.لیکن جوں جوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے دوری ہوتی گئی اسلام کی زریں تعلیم پر عمل کرنا مسلمان بھولتے گئے وہی قرآن جس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں مسلمانوں نے ساری دنیا پر فوقیت حاصل کی اس قرآن کا دامن جب چھوڑا، پڑھا تو سہی مگر عمل نہ کیا تو مسلمان تنزل کے گڑھے میں گرتے چلے گئے مگر رب العالمین جو انسان کو بھٹکتا ہوا نہیں چھوڑ سکتا اس کی رحمت پھر جوش میں آئی پھر قرآن کی تعلیم کو رائج کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے مہدی علیہ السلام کو بھیجا کہ آپ دنیا کو بتائیں کہ کامل تعلیم ، زندہ تعلیم ، پر امن معاشرہ قائم کرنے والی تعلیم ، دنیا میں امن اور محبت پیدا کرنے والی تعلیم ، انسان کو با اخلاق اور پھر با اخلاق سے با خدا بنانے والی تعلیم صرف اور صرف قرآن کی تعلیم ہے اور یہی تعلیم باقی رہنے والی تعلیم ہے اور باقی رہے گی.حضرت مصلح موعود نے اپنی تقاریر میں اخلاق پر بڑی سیر کن بحث فرمائی ہے آپ نے قرآن مجید کی یہ آیت اخلاق کی تعریف کے طور پر پیش فرمائی ہے.فَأَمَّا مَن ثَقُلتُ مَوَازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَّاضِيَةٍ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ

Page 176

خطابات مریم 151 خطابات فاتُه مَاويّة (القارعة 7 تا 10 کہ جس کی نیکیاں زیادہ ہوں وہ اچھے اخلاق والا ہے اور جس کی بدیاں زیادہ ہوں وہ بداخلاق ہے.پس ہمیں پوری کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ نیکی کرنے کا چھوٹے سے چھوٹا موقعہ بھی ضائع نہ ہونے دیں تا کہ نیکیوں کے پلڑے کا وزن بھاری ہوتا چلا جائے.بعض لوگوں کے نزدیک اخلاق کی اصلاح ممکن نہیں یہ غلط ہے.قرآن کی تعلیم کے مطابق اخلاق کی اصلاح ممکن ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.نذیر اِن نَفَعَتِ الذِّكْرَى (الاعلى: 10) کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ لوگوں کو نصیحت کیا کریں.کیونکہ نصیحت ہمیشہ ہی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے.پس اس آیت کی رُو سے نصیحت کے ذریعہ اخلاق کی اصلاح ہر حالت میں ہوسکتی ہے.ہاں نصیحت اعتراض کے رنگ میں نہ ہو بلکہ اصلاح کی خاطر محبت اور خلوص اور درد کی جھلک لئے ہوئے ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سلسلہ میں جو الفاظ فرمائے ہیں وہ روحانی زندگی میں دل کو اُمید سے پُر کر دینے والے ہیں آپ فرماتے ہیں:.یہ خیال نہ کرو کہ ہم گناہ گار ہیں.ہماری دعا کیونکر قبول ہوگی انسان خطا کرتا ہے مگر دعا کے ساتھ آخر نفس پر غالب آ جاتا ہے اور نفس کو پامال کر دیتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کے اندر یہ قوت بھی فطرتا رکھ دی ہے کہ وہ نفس پر غالب آ جائے دیکھو پانی کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ آگ کو بجھا دے.پس پانی کو کیسا ہی گرم کرو اور آگ کی طرح کر دو پھر بھی جب وہ آگ پر پڑے گا تو ضرور ہے کہ آگ کو بجھا دے جیسا کہ پانی کی فطرت میں برودت ہے ایسا ہی انسان کی فطرت میں پاکیزگی ہے.ہر ایک شخص میں خدا تعالیٰ نے پاکیزگی کامادہ رکھ دیا ہوا ہے.اس سے مت گھبراؤ کہ ہم گناہ میں ملوث ہیں.گناہ اس میل کی طرح ہے جو کپڑے پر ہوتی ہے اور دور کی جاسکتی ہے.تمہارے طبائع کیسے ہی جذبات نفسانی کے ماتحت ہوں خدا تعالیٰ سے کر دعا کرتے رہو تو وہ ضائع نہیں کرے گا وہ علیم ہے وہ غفور الرحیم ہے“.سے رور ( بدر 17 / جنوری 1907ء) پس اس سارے مضمون کا خلاصہ یہ ہوا کہ اگر انسان کے اخلاق پست ہو جائیں وہ گنا ہوں

Page 177

خطابات مریم 152 خطابات میں گھر بھی جائے کبھی مایوس نہ ہو جس طرح کپڑے کو دھونے سے میل اُتر جاتی ہے اور ایک بار پھر کپڑا صاف ہو جاتا ہے.اسی طرح نیکیوں کے کرنے اور بدی نہ کرنے کا عہد کرنے سے اور سب سے بڑھ کر دعاؤں سے گنا ہوں اور بداخلاقیوں کا میل اُتر جاتا ہے.پس اپنے با اخلاق اور نیک بننے کے لئے اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں کرتے رہنا چاہئے کہ ہمیشہ اس کی رضا حاصل رہے اور اس کے احکام پر چلنے کی توفیق ملتی رہے.نہ صرف اپنے لئے دعائیں کرتا رہے بلکہ اپنے دوستوں کے لئے اپنی اولادوں کے لئے اور آئندہ نسلوں کے لئے بھی.چونکہ میرے مضمون کا تعلق حقوق العباد سے ہے اس لئے میں صرف ان نیکیوں یا اخلاق کا ذکر کروں گی جو دوسرے انسانوں سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ ہم میں ہونی چاہئیں.وہ یہ ہیں.عدل ، احسان ، احسان کا شکریہ ادا کرنا ، صفائی پسندی، سخاوت، وفاداری ، عملاً رحم کرنا ، سچی دوستی ، علم یعنی اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو اس کے جو نیک پہلو ہوں ان کو سوچ کر چھوڑ دینا.عفو یعنی واقعی قصور ہو تو اُسے قصور وار سمجھ کر معاف کر دینا.ایثار، قرض دینا ، صدقہ دینا، تعاون کرنا ، دیانتداری، صلح کی کوشش میں لگے رہنا، عہد کی پابندی کرنا، گرے ہوئے لوگوں کو بلند کرنے کی کوشش کرنا ، برابر والوں کی عزت کرنا ، بڑوں کا ادب کرنا ، چھوٹوں پر شفقت کرنا، ہر ایک کو اپنے جیسا انسان اور بھائی سمجھنا ، کسی کا راز محفوظ رکھنا ، ہر ایک سے بشاشت اور خندہ پیشانی سے پیش آنا اور خدمت خلق میں لگے رہنا.کچھ نیکیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا تعلق ایک فرد سے نہیں ہوتا بلکہ ساری قوم اور جماعت سے ہوتا ہے ان کی ادائیگی نہ کرنے سے معاشرہ میں خرابی پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے.وہ نیکیاں جن کو قومی نیکیاں کہنا چاہئے یہ ہیں.زکوۃ کی ادائیگی قومی ضرورت کیلئے مالی قربانی کرنے کیلئے تیار رہنا ، مہمان نوازی ، قومی خدمت میں حصہ لینا، حکام کی اطاعت، ملک کی حفاظت اپنا فرض سمجھ کر کرنا ، ذمہ داری کا احساس یعنی جو کام سپرد کیا جائے اُسے پوری ذمہ داری سے انجام تک پہنچانا، نامکمل نہ چھوڑ نا ، غلطی پر خوشی سے سزا برداشت کر لینا، اشاعت حسنات یعنی لوگوں کی نیکیوں کو پھیلا نا اور برائیوں کی اشاعت نہ کرنا، دشمنان قوم سے اجتناب کرنا ، قومی عزت کی حفاظت کرنا، اپنے فرائض کو دیانت داری سے ادا کرنا.اسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِين

Page 178

خطابات مریم 153 خطابات کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے.قوم کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھنا.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ نفس کی اصلاح اور اپنے میں سے عیوب دُور کرنے اور اخلاق پیدا کرنے کیلئے کیا ذرائع اختیار کئے جائیں.حضرت مصلح موعود نے اپنی ایک تقریر میں اس پر روشنی ڈالی ہے.جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :.سب سے پہلے تو ہر انسان کو اپنی بُرائیوں کا خود علم ہونا چاہئے کیونکہ غلطی کو غلطی سمجھ کر کوئی نہیں کرتا نہ کر سکتا ہے.اس احساس کو پیدا کرنے کیلئے ہر انسان کو اپنا محاسبہ نفس کرنا چاہئے جب انسان کو معلوم ہو جائے کہ یہ بدی ہے، یہ نیکی ہے تو غور کرے کہ ان میں سے کونسی بدی ہے جو اس میں پائی جاتی ہے یا کونسی نیکی ہے جو نہیں پائی جاتی.جو بُرائی پائی جاتی ہوا سے اپنے میں سے دُور کرنے کی کوشش کرے جو نیکی نہ پائی جاتی ہوا سے حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہے.دوسرا طریق حضرت مصلح موعود نے یہ بتایا ہے کہ اپنے کسی گہرے دوست سے کہے کہ اس کے نفس کا مطالعہ کرے کیونکہ کبھی انسان اپنا عیب آپ نہیں معلوم کر سکتا اور عیب معلوم ہونے پر دُور کرنے کی کوشش کرے.تیسرا طریق یہ اختیار کرے کہ جو عیب اسے خود دوسروں میں نظر آتے ہوں ان کے متعلق اپنے نفس کا جائزہ لے اور دیکھے کہ وہ خود اس میں تو نہیں پائے جاتے اور اس بات پر بھی غور کرتا رہے کہ دوسروں میں جو نیکیاں اور اخلاق نظر آتے ہیں وہ خود اس میں بھی ہیں یا نہیں.چوتھے اور سب سے بڑھ کر یہ بھی غور کرے کہ اس کے دشمن اس پر کیا عیب لگاتے ہیں اور جو عیب لگاتے ہیں وہ واقعی اس میں پائے جاتے ہیں یا نہیں.پانچواں طریق یہ ہے کہ تلاوت قرآن کریم سمجھ کر کرے جہاں وہ عیب پڑھے جو خدا تعالیٰ نے پہلی قوموں کے بیان کئے ہیں غور کرے مجھ میں تو نہیں پائے جاتے.جہاں نیکیوں کا ذکر آئے غور کرے مجھ میں یہ پائی جاتی ہیں یا نہیں.تلاوت کے وقت چونکہ خشیت اللہ پیدا ہوتی ہے اس لئے بدیوں سے بچنے اور نیکیوں کے اختیار کرنے میں بہت مدد ملے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جن لوگوں نے مانا اور بیعت کی انہوں نے آپ کے مبارک چہرہ کو دیکھا آپ کی صحبت پائی اور آپ کے کوچہ میں دھونی رمالی.انہوں نے آپ کے رنگ

Page 179

خطابات مریم 154 خطابات میں اپنے کو رنگین کرنے کی کوشش کی کامیاب رہے اور دنیا نے پھر ایک مرتبہ آج سے چودہ سو سال قبل کا زمانہ دیکھ لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت نے زندگیوں میں ایک مکمل انقلاب بر پا کر دیا.پھر وہ لوگ آئے جنہوں نے ان صحابہ سے تربیت حاصل کی پھر ایک اور نسل آئی اور آہستہ آہستہ زمانہ لمبا ہونے کی وجہ سے تربیت میں کمی آگئی کیونکہ احمدیت کی نعمت ان کو ان کی کسی کوشش کے نتیجہ میں نہیں ملی بلکہ وہ پیدائشی طور پر احمدی تھے.ماں باپ صحیح تربیت نہ کر سکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے زمانہ کا بعد بڑھ گیا اور بہت سی کمزوریاں ہم میں پیدا ہو گئیں جن کو دور کرنے اور ان کی تلافی کیلئے ہمیں کوئی تدبیر سوچنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روحانی چہرہ کو دیکھنے والے اور آپ کی صحبت سے مستفیض ہونے والے بہت کم رہ گئے ہیں جو کڑی ہیں ہمارے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان.ان کی زندگیوں سے فائدہ اُٹھانا ہمارا فرض اور ان کے نقش قدم پر چلنا ہماری ذمہ داری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ نے یہ مقام عشق و وفا ایک تلخ موت وارد کر کے حاصل کیا تھا.موت وارد کی تھی اپنے جذبات پر اپنی خواہشات پر اپنی انا پر اور گردن رکھ دی تھی رضائے الہی کی چھری پر اور پیش نظر تھا صرف اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اطاعت مسیح موعود علیہ السلام.اب بھی اپنی زندگیوں میں انقلاب اسی طرح لایا جا سکتا ہے اور کام آسان نہیں مشکل اور بے انتہا مشکل ہے مگر ایسا نہیں کہ ممکن ہی نہ ہو خصوصاً اس زمانہ میں جب کہ شیطان کا حملہ کبھی بے پردگی کی شکل میں، کبھی مغربیت کی تقلید کی شکل میں، کبھی غیر اسلامی روایات و عادات اختیار کرنے کی شکل میں، کبھی دین سے بے پروائی اور بے اعتنائی کی شکل میں ، کبھی قرآن سے لا تعلقی کی شکل میں ، کبھی نظام پر اعتراضات کی صورت میں ہر طرف سے ہو رہا ہے.اپنا دامن بچانا دہریت اور لا مذ ہبیت اور شیطان کے نت نئے حملوں سے اپنے کو محفوظ رکھنا واقعی مشکل کام ہے.ہماری مثال تو اس شعر کی ہے.جے درمیان قعر دریا تخته بندم کرده ای باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہوشیار باش لیکن ہم نے ہر حالت میں اپنے دامن کو بھیگنے نہیں دینا بلکہ خلافت سے اپنا مضبوط تعلق قائم کر کے

Page 180

خطابات مریم 155 خطابات حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنا عہد بیعت نبھاتے ہوئے شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھنا ہے کیونکہ ایک نئے آسمان اور نئی زمین کی تخلیق جماعت احمدیہ سے ہی وابستہ ہے.اس سلسلہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا ایک نوٹ پیش کرتی ہوں جو آپ نے اپنے ایک مضمون میں جماعت کے نوجوان طبقہ سے مخاطب ہوتے ہوئے لکھا تھا.آپ فرماتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کشتی نوح کو دیکھو اس پیمانہ پر کتنے احمدی نو جوانوں کو معیاری احمدی سمجھا جا سکتا ہے مجھے جواب دینے کی ضرورت نہیں.اپنی آنکھوں سے دیکھو اور اپنے دل سے جواب مانگو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں یہ تعداد خدا کے فضل سے بہت کافی تھی مگر اس کے بعد زمانہ کی دوری اور مخلص صحابیوں کی اموات کی کثرت نے قدیم سنت کے مطابق آہستہ آہستہ نقشہ بدلنا شروع کر دیا حتی کہ باغ احمد میں شیریں پیوندی پودوں کی جگہ ملے جلے کھٹے میٹھے تھی پودوں یعنی نسلی احمدیوں کی کثرت شروع ہو گئی اور اس کی وجہ سے نیکی کی روح میں انحطاط قربانی کے جذبہ میں کمی، باہمی اختلافات اور عملی کمزوریاں معاشرہ میں اُبھرنے لگیں.انہیں باتوں کے دور کرنے کیلئے ہمارے آقا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دفعہ جب جنگوں کے بعد کچھ فرصت میسر آئی اور آپ نے محسوس کیا کہ وقتی فراغت سے صحابہ کی جماعت سست نہ ہو جائے آپ نے کمال حکمت سے فرمایا.رَجَعْنَا مِنَ الجِهَادِ الأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الأَكْبَر.اب ہم چھوٹے جہا د یعنی جنگوں سے فارغ ہو کر بڑے جہاد یعنی اخلاقی اور روحانی تربیت کی طرف لوٹ رہے ہیں.( تاريخ بغداد للخطيب جلد 13 صفحہ 493) پس اس زمانہ میں ہمارا سب سے بڑا کام اور فرض جماعت کے بچوں کی تربیت کرنا ، ان میں دین سے محبت ، دین کے لئے غیرت اور دین کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا کرنا ہے.انہیں شیطانی حملوں سے بچانا ہے تا کہ جب وہ بڑے ہوں ان کے دل دین کی محبت سے سرشار ہوں.ایمان ان کے چہروں سے جھلکے.قرآن کی عظمت ان کے دلوں میں ہو.اُسوہ رسول اللہ علی

Page 181

خطابات مریم 156 خطابات علیہ وسلم پر عمل کرنے کے وہ دیوانے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کسی حکم کو توڑنے سے مر جانا بہتر سمجھتے ہوں.خلیفہ وقت کی مکمل اطاعت کرنے والے ہوں.بااخلاق ہوں ،عفو اور رحم سے کام لینے والے ہوں.خدا کرے ہم اپنی آنکھوں سے اپنی آئندہ نسل کو ایسا پھولتا پھلتا دیکھیں اور اطمینان کی سانس لیتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوں.اپنی تقریر ختم کرنے سے قبل میں مہمان خانہ مستورات برائے جلسہ سالانہ جس کی تعمیر شروع ہو چکی ہے کے چندہ کی جلد وصولی کی بھی تاکید کرتی ہوں تا جلسہ سالانہ پر آنے والی بہنوں کے قیام کا بہتر انتظام ہو سکے.امید ہے کہ تمام لجنات اپنی اس ذمہ داری کو احسن طور پر ادا کریں گی اور جہاں بجنات قائم نہیں بہنیں از خود اپنا چندہ بھجوا دیں گی.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آمین (ماہنامہ مصباح فروری 1977ء)

Page 182

خطابات مریم 157 خطابات افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ 1977ء محترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ: اجتماع میں آپ کی شمولیت کا مقصد باہمی محبت کو فروغ دینا ہے.دین کی خدمت کرنا اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کا جذبہ پیدا کرنا ہے.آپ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں.خلوص و محبت کا پیکر ہوں اور غلبہ اسلام کی مہم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے مالی قربانی کرنے والی ہوں.شرم و حیا آپ کا زیور ہو.اسلام کے تمام احکام کو دل و جان سے ماننے والی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام نصائح پر عمل کرنے والی ہوں.(الفضل 14 نومبر 1977ء)

Page 183

خطابات مریم 158 خطابات لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1977ء پر افتتاحی خطاب محترمہ صدر صاحبہ نے اپنے افتتاحی خطاب میں فرمایا : یہ تین دن بہت بابرکت ہوتے ہیں ان دنوں میں آپ اپنا وقت ضائع نہ کریں اور دعاؤں پر بہت زور دیں.صفائی کا خیال رکھنے اور تلاوت قرآن مجید خاموشی سے سننے کی نصیحت فرمائی.اس کے بعد آپ نے اس سال گزرنے والے سب سے المناک سانحہ حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مبشر اولاد میں سے تھیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچپن سے ہی رؤیا اور کشف کی نعمت سے نوازا تھا.آپ کی پیدائش سے قبل ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کے اعلیٰ بخت کی خبر دے دی گئی تھی اور آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو خبر بھی دی وہ حرف بحرف پوری ہوئی.آپ نماز میں غیر معمولی شغف رکھتی تھیں یہاں تک کہ بہت زیادہ بیماری میں لیٹے لیٹے اتنی لمبی نماز پڑہتیں کہ بعض اوقات ضعف ہو جا تا.آپ جماعت اور جماعت کے ہر فرد کیلئے خواہ اس نے دعا کی درخواست کی ہو یا نہ کی ہو در د دل سے دعا فرماتی تھیں.آپ کو خلافت سے بے انتہا عقیدت و احترام تھا.تمام خلفاء کا بے انتہا ادب کرتی تھیں اگر کبھی آپ محسوس فرماتیں کہ کوئی ادب کے مقام سے ہٹ کر گفتگو کر رہا ہے تو سرزنش کرتیں.آپ کا وجود ساری جماعت کیلئے نمونہ تھا.آپ کا ساری جماعت خصوصاً عورتوں پر بہت احسان تھا کیونکہ آپ کے ذریعہ سے جماعت کی خواتین کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گھریلو زندگی کی باتوں کا علم ہوتا تھا.ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی زندگیاں اُسی طرح گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے.آپ کو اپنے بچوں کی طرف خاص توجہ دینی

Page 184

خطابات مریم 159 خطابات چاہئے.بچوں کو نماز میں شغف، خلافت کا احترام، محبت اور حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مکمل اطاعت کرنے کی تلقین کرنی چاہئے.آپ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انسانیت پر بہت بڑا احسان ہے.آپ نے روحانی طور پر اندھوں کو راہ دکھائی.حقیقی خدا کا پتہ دیا اور خدا تعالیٰ سے ملنے کا نہ صرف طریق بتایا بلکہ خود عمل کر کے دکھایا اور اب ان حسین باتوں کو دوبارہ بیان کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا.آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں پیدا کی اور قرآن مجید کی طرف توجہ دلائی.اب حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز بھی قرآن مجید کی تعلیم کی طرف بہت زور دے رہے ہیں.قرآن مجید آپ کے ذہنوں میں وہ جلا پیدا کرے گا جس سے دنیا وی علوم بھی آپ پر آسان ہو جا ئیں گے.آپ نے فرمایا کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس کی تفصیل قرآن مجید نے بیان فرمائی ہے.قرآن مجید پر عمل کر کے تمام بُرائیاں مٹ سکتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری کتب قرآن مجید کی تفسیر کا انمول خزانہ ہیں.پس قرآن کو سکھانے کیلئے اگر آپ کو اپنی اولاد پر سختی بھی کرنی پڑے تو کریں.پھر آپ نے مستورات کو اللہ تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور نظام کی اطاعت کی طرف توجہ دلائی.آپ نے تاریخ لجنہ کی جلد چہارم کی تالیف کے سلسلہ میں بہنوں سے اس کتاب کیلئے مواد مہیا کرنے کو کہا اور مہمان خانہ مستورات کیلئے زیادہ سے زیادہ چندہ جمع کرنے کی تحریک فرمائی.آخر میں آپ نے بے پردگی کو دور کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اپنے آپ کو ، اپنے گھروں کو اور آئندہ نسلوں کو مادہ پرستی کی آگ سے بچاؤ.خدا کرے کہ آپ اپنی زندگیاں قرآنی تعلیم کے مطابق گزارنے والی ہوں.آمین الفضل 20 نومبر 1977ء)

Page 185

خطابات مریم 160 خطابات خطاب بر موقعہ سالانہ اجتماع لجنہ اماء الله مرکز یہ 1977ء تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا :.ا اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال 3 سال کے وقفہ کے بعد سالانہ اجتماع کا انعقاد ہو رہا ہے.آخری بار ہمارا اجتماع 1973 ء میں ہوا تھا.1974 ، 1975 اور 1976ء میں ناگزیر مجبوریوں کے باعث اجتماع نہیں ہو سکا اس وقت تک 102 لجنات کی 750 خواتین و ناصرات آچکی ہیں.1973 ء کے اجتماع پر 149 لجنات کی 1033 شامل ہوئیں.اجتماع کے آخر تک 130 لجنات کی طرف سے 1013 ممبرات و ناصرات کی تعداد شمار کی جا چکی تھی جو بہنیں رشتہ داروں کے پاس گھروں میں ٹھہریں وہ بھی اپنے نام درج کروائیں تا ریکا رڈ ر ہے.اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس سال ہم اجتماع منعقد کرنے کے قابل ہوئے ہیں.میں آپ کو خوش آمدید کہتی ہوں.اللہ تعالیٰ ہمارے اس اجتماع کو بہت مبارک کرے اور اجتماع کی غرض یعنی خواتین اور بچیوں کی تربیت پوری ہو.اس اجتماع کے نتیجہ میں ہمارے دلوں میں ایک خوشگوار تبدیلی ہو.ہم اپنی ذمہ داری کو پہچانیں اور ان کی بجا آوری کی پوری کوشش کریں.آپ سب ایک نئی امنگ اور نئے عزم کے ساتھ واپس جائیں اور آئندہ سال سب ممبرات کے تعاون کے ساتھ پہلے سے بڑھ کر خدمت دین کی توفیق پائیں.ان تین دنوں میں چند باتوں کا خیال رکھیں.1- اپنے یہاں کے قیام میں دعائیں کرتی رہیں.اجتماعی دعاؤں میں بہت برکت ہوتی ہے.ذکر الہی پر بہت زور دیں.آج خطبہ جمعہ میں بھی حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی آپ کو اس کی تاکید کی ہے کہ

Page 186

خطابات مریم چاہیں.161 خطابات کثرت سے درود شریف پڑھیں ، استغفار پڑھیں اور ہر قدم پر اپنے رب سے مدد 2- اپنا وقت ضائع نہ کریں ربوہ کی ہوں یا باہر کی ، اجتماع کے پروگرام کا ایک ایک لفظ خصوصاً حضرت خلیفۃ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریر سننے اور پھر عمل کرنے کی کوشش کریں.اپنی بچیوں کو اپنے ساتھ بٹھا ئیں.گزشتہ سالوں سے یہ میرا مشاہدہ ہے کہ اچھی خاصی بڑی لڑکیاں جلسہ گاہ سے باہر پھر رہی ہوتی ہیں.وقار ا یک احمدی خاتون کا امتیاز ہونا چاہئے اس کو قائم رکھنا آپ کا فرض ہے.3- صفائی کا خیال رکھیں.-4 جس وقت قرآن مجید کی تلاوت ہو رہی ہو خا موشی اختیار کرنی چاہئے کا رکنات بھی خواہ کتنا ضروری کام کیوں نہ ہو تلاوت قرآن کریم کے ختم ہونے کے بعد اپنے کام کے متعلق بات کریں.سال رواں کے کاموں پر ایک نظر ڈالنے سے قبل میں اس سال کے سب سے اہم واقعہ کا ذکر کروں گی.اس سال کا سب سے اہم اور المناک واقعہ حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ کی وفات ہے.آپ کا وجود مستورات کیلئے بہت ہی بابرکت وجود تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری اولا دہی اللہ تعالیٰ کے نشانات کی مظہر ہے.چودہ سو سال قبل اللہ تعالیٰ نے حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو آنے والے مہدی موعود کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا تھا که يتزوج ويولدلۂ کہ مہدی موعود شادی کرے گا اور اس کے اولا د بھی ہو گی.شادیاں بھی دنیا میں ہوتی ہیں اور اولاد بھی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کا کسی کے متعلق شادی اور اولاد کی بشارت دینے کا یہ مطلب تھا کہ یہ شادی عام شادیوں کی طرح نہیں ہو گی ایک خاص مقصد اور خاص غرض سے ہوگی اور وہ مقصد یہ تھا کہ ایک نئے خاندان کی بنیاد آپ کے ذریعہ سے پڑے.ایک ایسے خاندان کی بنیاد جس کی غرض دنیا میں توحید کا قیام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تو حید کو دنیا میں پھیلانا ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ

Page 187

خطابات مریم 162 خطابات وتوكرة المُشْرِكُونَ (الصف: (10) اور تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلام کا یہ غلبہ آخری زمانہ میں مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہونا مقدر تھا.غلبہ اسلام کے کام کو سرانجام دینے کیلئے ایک نئے خاندان کی بنیاد ڈالی گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی ساری اولاد کے متعلق الہی بشارات دی گئیں جن کے ذریعہ ایک اُجڑا ہوا گھر آباد ہوا اور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دیا گیا انہی بابرکت وجودوں میں سے ایک وجود حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنے بے انتہاء فضل کئے بچپن کی عمر سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ر ڈ یا وکشوف کی نعمت سے نوازا اور بڑی اہم باتوں کی آپ کو قبل از وقت خبر دی گئی.اس عمر میں جب کہ آپ کو خود بھی ان باتوں کی سمجھ نہ ہو گی.آسمان سے آپ کو نواب مبار کہ بیگم کے نام سے یاد کیا گیا.آپ کے اعلیٰ بخت کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کی پیدائش سے بھی قبل دی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کے متعلق بشارت دی گئی کہ تُنَشَّاءَ فِي الْحِلْيَةِ یعنی زیور میں نشو ونما پائے گی.یعنی نہ وہ خوردسالی میں وفات پائے گی نہ تنگی دیکھے گی.(حقیقۃ الوحی صفحہ 217) خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اشعار میں فرمایا: ہوا اک خواب میں مجھ پر اظہر کہ اس کو بھی ملے گا بخت برتر لقب عزت کا پاوے مقرر وہ یہی روز ازل ہے مقدر احمدیت کی تاریخ گواہ ہے کہ جو کچھ آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خبر دی وہ حرف بحرف پوری ہوئی.دنیاوی اور دینی انعامات سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالا مال کیا.27 مئی 1977ء کے خطبہ میں حضرت خلیفہ امسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کا ارفع مقام بیان کرتے ہوئے کہا تھا.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ بہت خادمانہ اور بلند مقام کی حامل تھیں“.

Page 188

خطابات مریم 163 خطابات آپ الَیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدُہ کے مفہوم اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے والی بڑی ہی بے نفس اور مردوزن کیلئے ایک نمونہ تھیں اور وو ہر احمدی مرد اور عورت کا فرض ہے کہ وہ اس نمونہ کی پیروی کرے اور بے لوث رنگ میں الہی احکام کی بجا آوری کی طرف توجہ کرے.حضرت نواب مبارکہ بیگم کی سیرت و کردار میں تین باتیں بہت نمایاں نظر آتی ہیں.انسانی زندگی کا حقیقی مقصد اللہ تعالیٰ کا سچا عبد بننا ہے حضرت نواب مبارکہ بیگم کی زندگی میں یہ پہلو بہت نمایاں ہے.اللہ تعالیٰ کی عبادت یعنی نماز میں غیر معمولی شغف اور انہماک آپ کی زندگی کا مقصد تھا.بہت توجہ اور خشوع و خضوع سے اللہ تعالیٰ کے دربار میں دل لگا کر عبادت کرنا آپ کی عادت تھا.صرف یہ نہیں کہ کبھی لمبی نماز پڑھ لی ، کبھی بے پروائی کر لی.جس نے بھی آپ کی سیرت کا گہرا مطالعہ کیا یہ اعلیٰ وصف اس کو آپ میں نظر آیا.یہاں تک کہ جب آپ بہت زیادہ بیمار ہو گئیں اور بیٹھ کر بھی نماز پڑھنے کے قابل نہ رہیں تو لیٹے لیٹے ہی اتنی لمبی نماز پڑہتیں کہ بسا اوقات ضعف ہو جایا کرتا تھا.آپ کی سیرت کا دوسرا نمایاں پہلو جماعت کیلئے کثرت سے دعائیں کرنا تھا.اسلام کا خلاصہ ہی دو باتیں ہیں اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی ، بے شک خدا تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے بہت سے طریق اور ذرائع ہیں لیکن سب سے بڑا ذریعہ ان کے حقوق کی ادائیگی اور خیر خواہی کا ان کے لئے دعا کرنا ہے.اپنے عزیزوں رشتہ داروں ، مبلغین ، کارکنوں ، واقفوں ، جو خطوط دعا کے لئے لکھتے تھے ان کیلئے بھی جو نہیں لکھ سکتے تھے ان کے لئے بھی دعائیں کیا کرتی تھیں.لکھنے والے جب مقصد حل ہو جاتا جس غرض کے لئے دعا کی درخواست کی ہوتی پوری ہو جاتی.ان کا لکھنا بھی کئی دفعہ بھول جاتے لیکن وہ اسی توجہ اور یا د سے ان کے لئے دعا کر رہی ہوتی تھیں.تیسرا امر جو ان کی زندگی کا ایک روشن پہلو ہے وہ آپ میں خلافت سے انتہائی احترام و عقیدت کا جذبہ تھا.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ پایا.آپ سے فیض حاصل کیا.حضرت خلیفہ اول کی شفقت دیکھی آپ سے علم حاصل کیا.حضرت مصلح موعود کی نہایت پیاری

Page 189

خطابات مریم 164 خطابات اور بے تکلف بہن تھیں.حضرت خلیفہ امسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی پھوپھی جان اور ساس تھیں اور خود ان کے لئے بھی قابل عزت اور قابل احترام.اتنے قریبی رشتوں بے تکلف رشتوں کے با وجود مقام خلافت کا آپ کے دل میں بے حد ادب اور احترام تھا.یہ شعر آپ پر پوری طرح صادق آتا تھا.ب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں اگر کسی کی بات سے ان کو ذرا بھی احساس ہوتا کہ اس کی بات کرنے کا طریق ایسا ہے جو مقام ادب کے خلاف ہے تو آپ سرزنش فرما دیتیں کہ یہ طریق ٹھیک نہیں ہے.اعتراض کرنے کی عادت کو آپ نے ہمیشہ نا پسند فرمایا اور اپنی تقریروں اور مضامین میں اس امر پر زور دیا.1961ء کے لجنہ کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر آپ نے جو تقریر فرمائی تھی اس کا ایک اقتباس پیش کرتی ہوں جس میں آپ نے خواتین کو زبان سے بے احتیاطی کے کلمات نکالنے اور اعتراضات کرنے سے منع کیا تھا.آپ نے نصیحت کی تھی کہ :.” مجھے چند باتیں آپ سے اور بھی اس موقعہ پر کہنی ہیں ذرا غور سے سنیئے.سبھی جانتے ہیں کہ حسد، بدگمانی ، زبان کی بے احتیاطی اور اعتراض ایسی بدخصلتیں ہیں جن کا زہر دور دور پھیل کر دوسروں کو بھی خراب کرتا ہے اور جس میں یہ مرض جڑ پکڑ جائے اس کیلئے تو ہے ہی تباہ گن.غرض جب معمولی زندگی یعنی خاندانی برادری اور محلہ داری کے تعلقات میں یہ باتیں گھروں کا امن اُٹھا کر ان کو اُجاڑ سکتی ہیں.دلوں کو پھاڑ سکتی ہیں تو آپ سوچیں اور غور کریں کہ قومی، دینی ، روحانی تعلقات اور نظام سلسلہ کے معاملات میں اس صورت کی دریدہ دہنی کا نتیجہ کس قدر خطرناک نہ ہوگا؟ مجھے افسوس ہے کہ با وجو دسید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے اپنی طبیعت کے خلاف سالہا سال کے صبر کے بعد محض جماعت کی آئندہ بہبود کی خاطر اس پکے پھوڑے کو مجبور ہو کر نشتر دے کر مواد صاف کرنے کے اب تک یہ مرض ناحق بد گمانی بے وجہ عادتاً اعتراض کا ہماری جماعت کے بعض افراد میں نظر آرہا ہے اور انہوں نے اب تک سبق حاصل نہیں کیا.مجھے بھی کسی نہ کسی طرح کبھی کبھی خبر ایسی پہنچ جاتی ہے اور سخت صدمہ کا موجب ہوتی ہے.اپنی

Page 190

خطابات مریم 165 خطابات بہنوں سے بھی یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آپ ہوشیار ہو جا ئیں.اپنے اہل کو آگ سے بچانے کا حکم صرف مردوں کیلئے نہیں آپ کیلئے بھی ہے.آپ کا بھی فرض ہے کہ اپنے شوہروں ، اپنے بیٹوں ، اپنے بھائیوں بلکہ اپنے باپوں تک کے منہ بند کر دیں.اگر وہ کسی مجلس یا کسی شخص کی صحبت کے زیر اثر معترضانہ باتیں کرنا شروع کریں.یا درکھیں کہ خدا کے فضل سے کثرت ایسے لوگوں کی نہیں ہے مگر ایک کیڑا پلیگ کی طرح پھیل کر بہت کمزور طبائع کو لے مرنے کا موجب ہو سکتا ہے".(الفضل 26 /اکتوبر 1961ء) غرضیکہ ساری احمد یہ جماعت کیلئے آپ کا وجود ایک نمونہ تھا جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا کہ ہم بت پرست نہیں ہیں.ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں.ان کی حسین یاد آتی ہے تو دل غم سے بھر ضرور آتا ہے لیکن روح آستانہ الہی پر جھکتے ہوئے کہتی ہے کہ راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تیری رضا ہو بڑا احسان تھا ان کا ساری جماعت پر اور خاص طور پر عورتوں پر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ان کے ذریعہ ہمیں بہت سی باتوں کا علم ہوا.خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گھریلو زندگی کے متعلق باتیں.میں زیادہ تفصیل سے آپ کی سیرت پر اس وقت نہیں کہہ سکتی.ایک تو وقت محدود ہے دوسرے آپ کی زندگی کے حالات مرتب کر رہی ہوں.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو آئندہ سال کتاب شائع کی جائے گی.آپ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ صحت کے ساتھ مجھے یہ خدمت سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے.ہمیں چاہئے کہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی زندگیاں اسی طرح گزار ہیں اور اپنے بچوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ دیں.عبادت الہی میں شغف ، نماز وقت پر اور توجہ سے ادا کرنے کی بچوں کو تلقین کریں اپنے بچوں اپنے دوستوں ساری جماعت کی بہودی کیلئے دعا کرتے رہیں.بچوں میں خلافت کا احترام ، محبت ، حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کامل اطاعت آپ کے ارشادات پر عمل کرنے کی تلقین ، آپ کی تحریکات میں

Page 191

خطابات مریم 166 خطابات شامل ہونے کا شوق اپنی اولاد میں پیدا کریں تا احمدیت کی ہر نسل اپنی پہلی نسل سے بڑھ کر اسلام واحمدیت کیلئے قربانیاں پیش کرتی چلی جائے اور وہ دن جلد آئے جب اسلام تمام ادیان پر غالب ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کی غرض تھی.بہت بڑی ضرورت ہے جماعت کی خواتین کی تربیت کی اور نئی نسل کے دلوں کو علم دین سے منور کرنے کی.مجھے اپنی بہنوں اور بچیوں سے بہت محبت ہے اس لئے اگر کسی میں احمدیت کی روایات کے خلاف کوئی بات نظر آئے تو بہت تکلیف ہوتی ہے.پھر بحیثیت صدر لجنہ اماءاللہ میرے لئے بہت ہی خوف کا مقام ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق که كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ( بخاری کتاب الجمعہ ) کہ تم میں سے ہر شخص ایک چرواہے کی حیثیت رکھتا ہے جس سے اس کے ریوڑ کے متعلق سوال کیا جائے گا.اپنی کمزوریوں اور وقت پر اپنی بچیوں بہنوں کو برائیوں سے آگاہ نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ نہ ہونا پڑے.میری عزیز بہنو اور بچیو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انسانیت پر بہت بڑا احسان ہے.آپ نہ آتے تو اس دنیا سے ہم اندھے ہی جاتے.یعنی روحانی طور پر اند ھے.آپ نے ہمیں حقیقی خدا کا پتہ دیا.اس سے ملنے کا طریق بتایا.اس طریق پر خود چل کر دکھایا.ہدایت کی را ہیں ہمارے لئے کھولیں لیکن دنیا نے ان حسین راستوں پر اتنا گردوغبار لا ڈالا کہ وہ راستے آنکھ سے اوجھل ہو گئے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا.آپ نے ہمارے دلوں میں ہمارے آقا رحمتہ للعالمین کی محبت پیدا کی.اسلام کا صحیح اور حسین چہرہ دکھایا.ہمیں قرآن مجید پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلائی اور آپ کے ذریعہ وہ بابرکت نظام خلافت جاری ہوا جس کے ذریعہ اسلام کا غلبہ مقدر ہے.حضرت خلیفۃ اصبح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کا ترجمہ سیکھنے کی طرف بہت توجہ دلا رہے ہیں اور آپ سے پہلے خلفاء کے ذریعہ بھی جماعت میں قرآن مجید کی تعلیم کا بہت چرچا رہا ہے لیکن لڑکیوں کے متعلق مجھے افسوس کا اظہار کرنا پڑ رہا ہے کہ چند سال سے قرآن مجید کا ترجمہ سیکھنے کی طرف ان کی توجہ کم ہو رہی ہے اور اس کے بالمقابل دنیوی تعلیم حاصل کرنے کی طرف توجہ بڑھ رہی ہے.

Page 192

خطابات مریم 167 خطابات میری عزیزہ بچیو! دنیوی تعلیم سے آپ کو کوئی نہیں روکتا لیکن یہ مد نظر رہے کہ دنیا کے جتنے علوم ہیں سب قرآن مجید کے پاک چشمہ سے نکلی ہوئی نہریں ہیں.تمام علوم کا منبع قرآن مجید ہے.آپ اصل کو چھوڑ دیتی ہیں اور نقل اختیار کر لیتی ہیں قرآن سیکھیں گی تو اللہ تعالیٰ آپ کے ذہنوں میں وہ جلا پیدا کرے گا جس سے دنیوی علوم آپ پر آسان ہو جائیں گے.حضرت مصلح موعود نے اپنی ایک تقریر سیر روحانی میں جماعت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا.پس اے دوستو ! میں اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان خزانہ سے تمہیں مطلع کرتا ہوں.دنیا کے علوم اس کے مقابلہ میں بیچ ہیں.دنیا کی تمام تحقیقا تیں اس کے مقابلہ میں بیچ ہیں اور دنیا کی تمام سائنس اس کے مقابلہ میں اتنی حقیقت بھی نہیں رکھتی جتنی سورج کے مقابلہ میں ایک کرم شب تاب حقیقت رکھتا ہے.دنیا کے علوم قرآن کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں، قرآن ایک زندہ خدا کا زندہ کلام ہے اور وہ غیر محدود معارف و حقائق کا حامل ہے.یہ قرآن جیسے پہلے لوگوں کے لئے کھلا تھا اسی طرح آج ہمارے لئے کھلا ہے، یہ ابو بکر کے لئے بھی کھلا تھا ، یہ عمر کے لئے بھی کھلا تھا، یہ عثمان کے لئے بھی کھلا تھا ، یہ علی کے لئے بھی کھلا تھا یہ بعد میں آنے والے ہزار ہا اولیاء وصلحاء کے لئے بھی کھلا تھا اور آج جب کہ دنیا کے علوم میں ترقی ہو رہی ہے یہ پھر بھی کھلا ہے بلکہ جس طرح د نیوی علوم میں آجکل زیادتی ہو رہی ہے اسی طرح قرآنی معارف بھی آجکل نئے سے نئے نکل رہے ہیں.یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے اچھا تاجر پہلے اپنا مال مخفی رکھتا ہے، مگر جب مقابلہ آ پڑتا ہے تو پہلے ایک تھان نکالتا ہے پھر دوسرا تھان نکالتا ہے پھر تیسرا تھان نکالتا ہے اور یکے بعد دیگرے نکالتا ہی جاتا ہے یہاں تک کہ تھانوں کا انبار لگ جاتا ہے.اسی طرح جب بھی دنیا ظاہری علوم میں ترقی کر جانے کے گھمنڈ میں قرآن کا مقابلہ کرنا چاہے گی ، قرآن اپنے ماننے والوں سے کہے گا میاں! ذرا میرے فلاں کمرہ کو تو کھولنا.اسے کھولا جائے گا تو دنیا کے تمام علوم اس کے مقابلہ میں بیچ ہو کر رہ جائیں گے.پھر ضرورت پر وہ دوسرا کمرہ کھولے گا اور پھر تیسرا اور اس طرح ہمیشہ ہی دنیا کو

Page 193

خطابات مریم 168 خطابات اس کے مقابل پر زک پہنچے گی اور ہمیشہ ہی قرآن نئے سے نئے علوم پیش کرتا رہے گا.یہی وہ چیز ہے جس کو پیش کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور یہی وہ چیز ہے جس کو پیش کرنا ہماری جماعت کا اولین فرض ہے اور ہم حتی المقدور اپنے اس فرض کو ادا بھی کر رہے ہیں.دنیا ہماری اسی لئے مخالف ہے کہ وہ کہتی ہے کہ تم قرآن کی خوبیاں لوگوں کے سامنے کیوں پیش کرتے ہو، مگر ہم کہتے ہیں ، اسی وجہ سے تو خدا کی غیرت بھڑ کی اور جب اس نے دیکھا کہ تم اس کی کتاب کو صندوقوں اور غلافوں میں بند کر کے بیٹھ گئے ہو تو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور آپ کو حکم دیا کہ جاؤ اور قرآن کے معارف اور علوم سے دنیا کو روشناس کرو.یہی وہ خزائن ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقسیم کئے اور یہی وہ خزائن ہیں جو آج ہم تقسیم کر رہے ہیں.دنیا اگر حملہ کرتی ہے تو پرواہ نہیں ، وہ دشمنی کرتی ہے تو سو بار کرے، وہ عداوت اور عناد کا مظاہرہ کرتی ہے تو لاکھ بار کرے ہم اپنے فرض کی ادائیگی سے غافل ہونے والے نہیں ہم انہیں کہتے ہیں کہ تم بے شک ہمارے سینوں میں خنجر مارے جاؤ اگر ہم مر گئے تو یہ کہتے ہوئے مریں گے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے مارے گئے ہیں اور اگر ہم جیت گئے تو یہ کہتے ہوئے جیتیں گے کہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں بلند کر دیا“.(انوار العلوم جلد 15، سیر روحانی صفحہ 349،348) پس میری عزیز بہنو اور بچیو! اسلام صرف چند عقائد کا نام نہیں.اسلام تو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس ضابطہ حیات کی مکمل تفصیل قرآن نے ہی بیان کی ہے.اگر آپ اس کا ترجمہ سیکھنے اور سمجھنے کی طرف توجہ نہیں کریں گی تو عمل کیسے ممکن ہے.نہ آپ میں وہ اخلاق پیدا ہوں گے جو قرآن پڑھنے کے نتیجہ میں پیدا ہو سکتے ہیں.نہ آپ کا کردار ایک مثالی مسلمان کا بن سکتا ہے نہ معاشرہ سے وہ بُرائیاں دور ہو سکتی ہیں جو قرآنی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں مٹ سکتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری کتب قرآن مجید کی تفسیر کا ایک انمول خزانہ ہیں.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھیں اور بار بار پڑھیں.قرآن مجید کے

Page 194

خطابات مریم 169 خطابات مطالب سمجھنے آپ پر بہت آسان ہو جائیں گے.کیا اس زمانہ میں حضرت مہدی علیہ السلام کی زبانی خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ آپ کو یاد نہیں کہ ”جو قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.دنیا میں بھی آپ کو عزت قرآن کی تعلیم پر عمل کرنے سے مل سکتی ہے اور آسمان پر بھی.قرآن ہی ایک ذریعہ امتیاز ہے ہم میں اور دوسروں میں قرآن ہی ہمارے لئے ذریعہ ہے روحانی ترقی کا.قرآن ہی واحد ذریعہ ہے غلبہ اسلام کا اور اسی کو چھوڑ کر اُمت محمدیہ پر ادبار آیا تھا.قرونِ اولیٰ میں بھی قرآن کی تعلیم پر عمل کر کے مسلمانوں نے ترقی کی اور جب قرآن کو بھلایا تو قعر مذلت میں جا گرے.پھر مہدی علیہ السلام نے قرآن کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا کی اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت قرآن کی تعلیم پر عمل کرنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے حاصل ہوسکتی ہے.میری عزیز بہنو ! آپ کا فرض ہے کہ اپنی اولاد کی نگرانی کریں کہ وہ قرآن پڑھتے ہیں یا نہیں.صرف نگرانی نہیں اُن کو پڑھانے یا پڑھوانے کا انتظام کرنا آپ کا کام ہے.سکولوں اور کالجوں میں بھیج کر مطمئن نہ ہو جائیں اس لحاظ سے ان پر سختی بھی کرنی پڑے تو کریں.اکثر یہ شکایت سننے میں آتی ہے کہ پڑھانے والیاں پڑھانا چاہتی ہیں لیکن پڑھنے والیوں میں شوق نہیں.میں سب کو نہیں کہہ رہی اکثریت شوق رکھتی ہیں اور پڑھنا چاہتی ہیں.ان کو پڑھانے کا انتظام کرنا لجنہ کی تنظیم کا کام ہے.اس وقت اکثر لجنات کی نمائندگان یہاں موجود ہیں ان کا سب سے بڑا کام اپنی اپنی لجنہ اپنے اپنے شہر قصبہ اور گاؤں میں قرآن پڑھانے کا انتظام کرنا ہے.چندے جمع کرنا تو ثانوی کام ہے اصل کام دین کی تعلیم دینا اور اسلامی رنگ میں اپنی اولاد کی تربیت کرنا ہے خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں تو شرمسار نہ ہوں بلکہ سرخرو ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام شہادت القرآن میں بیان فرماتے ہیں :.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيته وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعلّهم والحكمة (الجمعه : 3) اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کے بڑے فائدے دو ہیں جن کے پہنچانے کیلئے آنحضرت

Page 195

خطابات مریم 170 خطابات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے.ایک حکمت فرقان یعنی معارف و دقائق قرآن دوسری تا ثیر قرآن جو موجب تزکیۂ نفس ہے“.(شہادت القرآن صفحہ 42) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض قرآن جو مکمل اور آخری شریعت ہے کی تعلیم کو دنیا تک پہنچانا اور اس کا حامل بنا کر اہلِ دنیا کے نفوس کو پاک کر کے ان کا تعلق ان کے رب سے قائم کرنا تھا اور اس کے لئے ضروری تھا کہ خدا کے خلیفہ دنیا میں مبعوث ہوتے رہیں کیونکہ ان کے ذریعہ سے حفاظت قرآن کا کام ہونا تھا.یہی مقصد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا تھا جیسا کہ الہاماً بھی آپ کو بتایا گیا تھا کہ یحی الدین ویقیم الشریعۃ کہ آپ کے ذریعہ دین اسلام کے باغ میں پھر سے بہار آئے گی اور آپ کے ذریعہ سے دنیا اسلام کے اصولوں پر چلے گی اور اس کے قوانین اور اصولوں کو اپنائے گی اور پھر وہ لوگ جو خدا سے دور ہو گئے تھے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کریں گے.اسی غرض سے اللہ تعالیٰ نے نظام خلافت جاری فرمایا.پس خلافت کی قدر کرنا خلیفہ وقت سے وابستہ رہنا آپ کے ہر حکم کی بشاشت قلب سے تعمیل کرنا.آپ کی ہر تحریک پر لبیک کہنا.تعلیم القرآن کے متعلق آپ نے جو ارشادات فرمائے ہیں ان پر عمل کرتے ہوئے خود قرآن پڑھنا ترجمہ اور تفسیر سیکھنی.اپنے گھروں میں قرآن کا چرچا کرنا اور اس کے نتیجہ میں اپنی عملی اصلاح آپ میں سے ہر عورت اور ہرلڑکی کا فرض ہے.ایک اور بات کی طرف میں عہدیداران لجنات کو توجہ دلانا چاہتی ہوں.اسلام کی تعلیم کا محور ہے اطِيعُوا اللهَ وَاطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أولى الآمْرِ مِنْكُمْ (النساء: 60) اللہ تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور نظام کی اطاعت اور ہر شہر میں جو امرام یا صدر جماعت مقرر ہوتے ہیں خواہ پاکستان میں ہوں یا بیرونی ممالک میں وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس جگہ نمائندے ہیں.بحیثیت ایک احمدی ہونے کے آپ پر خواہ آپ لجنہ اماءاللہ کی عہدہ دار ہیں یا ایک ممبر اُن کی مکمل اطاعت واجب ہے.ہر جگہ تو نہیں لیکن کہیں سے کبھی کبھی اس قسم کی شکایت آ جاتی ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے.یہ ہمارے نظام کی مرکزی روح اور جماعت احمدیہ کے وقار کے خلاف ہے.اس سے وحدت جماعت کی روح کو نقصان پہنچتا ہے.اس لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ

Page 196

خطابات مریم 171 خطابات کی طرف سے جو بھی امیر مقرر ہوں ان کی پوری پوری اطاعت کرنا آپ پر واجب اور ضروری ہے.تمام ممبرات لجنہ اماءاللہ اور عہدیداران کو حضرت مصلح موعود کے بیان فرمودہ لجنہ اماءاللہ کی ابتدائی تحریک میں یہ مقصد اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے.آپ نے فرمایا تھا کہ :.اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کیلئے جو بھی خلیفہ وقت ہو اس کی تیار کردہ سکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مدنظر رکھ کر تمام کارروائیاں ہوں اور اس امر کی ضرورت ہے کہ تم اتحاد جماعت کو بڑھانے کیلئے ایسی ہی کوشاں رہو جیسے کہ ہر مسلمان کا فرض قرآن کریم ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مقرر فرمایا ہے اور اس کے لئے ہر ایک قربانی کو تیار رہو.الازھار لذوات الخمار صفحہ 53) اب میں سال رواں کے بعض اور کاموں کا ذکر کرتی ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ کے قیام پر 55 سال پورے ہو جائیں گے.1970ء، 1971ءاور 1972ء میں لجنہ اماءاللہ کی پچاس سالہ تاریخ شائع کی جا چکی ہے.پچاس سالہ تاریخ کے بعد تجویز کیا گیا تھا کہ اب شہروں کی تاریخ اور وہاں نمایاں خدمت سر انجام دینے والی بہنوں کے حالات پر ایک جلد شائع کی جائے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مرکزی شعبہ تالیف لجنہ نے اس سلسلہ میں بہت محنت کی لیکن ان شہروں کی کارکنات نے مرکزی لجنہ سے تعاون نہ کیا اس لئے یہ کام ابھی تشنہ ہے اور جب تک مواد ہر طرح کا دستیاب نہ ہو جائے کتاب شائع نہیں کی جاسکتی لیکن انشاء اللہ تاریخ لجنہ اماءاللہ چہارم جس میں جشن پچاس سالہ کے بعد سے اب تک کے حالات ہونگے قریباً لکھی جا چکی ہے صرف نظر ثانی کا کام باقی ہے جو سالا نہ اجتماع کے بعد انشاء اللہ کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو جلد ہی آپ کی خدمت میں پیش کی جائے گی.میرا یہ تلخ تجربہ ہے کہ جب کتاب شائع کی جاتی ہے تو اس وقت بہنیں خریدتی نہیں جب ختم ہو جاتی ہے تو دور دور سے خط آتے ہیں کہ کہیں سے ڈھونڈھ کر بھجوا دیں.الازھار ، تاریخ لجنہ جلد اوّل ، دوم اور احمد یہ مسلمز بالکل ختم ہو چکی ہیں.صرف تاریخ لجنہ سوم کی جلد میں تھوڑی تعداد میں باقی ہیں

Page 197

خطابات مریم 172 خطابات اور مجلہ لجنہ ، لجنہ سیکس بھی باقی ہے مجلہ اور لجنہ سپیکس تو ایک یادگاری چیز تھی جس کا ہر گھر میں ہونا ضروری تھا تا بچیاں پڑھیں اور اپنی بزرگ خواتین کی قربانیوں سے روشناس ہوں.لجنہ کو دوسروں سے تعارف کا بھی ایک اچھا ذریعہ تھا.سال رواں میں انشاء اللہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی مستورات میں جتنی بھی تقاریر ہوئی ہیں ان کا مجموعہ کتابی صورت میں شائع کیا جائے گا.انشاء اللہ العزیز نیز حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی سوانح اور سیرت پر ایک کتاب زیر ترتیب ہے، آپ دعا بھی کریں کہ یہ سب کام پایہ تکمیل کو پہنچیں اور بہنیں ان کو پڑھ کر فائدہ بھی اُٹھا ئیں.کسی قوم کی ترقی کیلئے اچھا اور پاکیزہ لٹریچر بہت ضروری چیز ہے.ہماری بہنوں کا فرض ہے کہ جماعت اور لجنہ کا لٹریچر اپنے گھروں میں رکھیں.خود پڑھیں بچوں کو پڑھائیں اور ان سے پورا پورا فائدہ اُٹھا ئیں.چندے کے متعلق بھی بعض امور کی طرف توجہ دلانا چاہتی ہوں.پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے 617 لجنات ہیں.اس سال 343 لجنات کی طرف سے ممبری کا چندہ آیا ہے.گویا 274 لجنات نام کی تو بجنات ہیں لیکن وہ عملاً نظام جماعت کی کڑی نہیں.اس سلسلہ میں ہر ضلع اور ہر تحصیل کی لجنہ کو توجہ دلانا چاہتی ہوں کہ ان کا فرض ہے کہ سال میں ایک دو بار اپنے ضلع کی لجنات کا دورہ کر کے خواب غفلت میں سوئی ہوئی لجنات کو بیدار کریں.مرکزی لجنہ کی طرف سے ہر شہر، قصبہ ، گاؤں میں اس غرض کیلئے کسی کو بھجوانا ناممکن ہے.اگر ہر ضلع اس ذمہ داری کو سمجھے اور ان کو ان ذمہ داریوں کا احساس دلا کر ان کو منظم کیا جائے تو بہت مفید نتائج پیدا ہو سکتے ہیں اس سال لجنہ سرگودھا نے اس سلسلہ میں نمایاں کام کیا.لجنہ گوجرانوالہ کی صدر صاحبہ کئی سال سے دورے کرتی ہیں اور اپنے ضلع کی بجنات کو بیدار کرنے میں سعی کرتی رہی ہیں.صوبہ سندھ ، بلوچستان اور صوبہ سرحد کی لجنات پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ خواتین کو دور بھجوا نا بہت مشکل ہے ہر ضلع کی صدرا اپنے ضلع کی لجنات کا دورہ کرے.گزشتہ سال حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ پر ذمہ داری ڈالی کہ جلسہ سالانہ پر ٹھہر نے والی خواتین کیلئے مہمان خانہ بنانے کے لئے چندہ جمع کریں.اس سے قبل

Page 198

خطابات مریم 173 خطابات زنانہ کالج اور زنانہ سکول میں مستورات ٹھہرا کرتی تھیں.لیکن سکول و کالج قومی تحویل میں لئے جانے کے باعث وہاں اب مہمان خواتین کا ٹھہر ناممکن نہ رہا.گزشتہ سال تمام خواتین کا انتظام جو لجنہ کے زیر انتظام ٹھہرتی ہیں خیموں میں کیا گیا.احمدی بڑی قربانی دینے والے ہیں لیکن بارش کی وجہ سے اور تیز ہوا چلنے کی وجہ سے عورتوں کو جن کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہوتے ہیں خیموں میں خاصی تکلیف پہنچنے کا ڈر رہا.گزشتہ سال ہی مہمان خانہ کی تعمیر شروع کر دی گئی اس وقت تک 2،07،881 روپے جمع ہو چکے ہیں اور مہمان خانہ کی تکمیل کے لئے گل 3،28،500 روپے کی ضرورت ہے.ابھی آپ نے 619 ، 20 ، 1 روپے اور جمع کرنے ہیں.ہماری وہ بہنیں جو جماعت کی ہر تحریک پر لبیک کہنے کی عادی ہیں اور تین مساجد انگلستان و یورپ میں تعمیر کروا چکی ہیں ان کے لئے یہ رقم کوئی بڑی رقم نہیں.اس کی تحریک زیادہ تر الفضل کے ذریعہ کی جاتی رہی ہے.ہو سکتا ہے کہ جن گھرانوں میں الفضل نہ جاتا ہو ان تک یہ تحریک نہ پہنچ سکی ہو اس لئے بجنات کا فرض ہے کہ ہر احمدی خاتون تک یہ تحریک پہنچائیں تا بعد میں کسی کو یہ افسوس نہ ہو کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی اس تحریک میں شمولیت سے میں محروم رہ گئی.گو یہ تحریک صرف پاکستان کی خواتین سے کی گئی تھی لیکن بہت سی غیر ملکی خواتین نے جن میں سے اکثریت امریکن نو مسلم خواتین کی تھی مجھے لکھا کہ ہمیں الفضل سے بعض پاکستان سے گئی ہوئی خواتین نے پڑھ کر بتایا کہ ربوہ میں عورتوں کیلئے مہمان خانہ بن رہا ہے.آپ نے ہمیں ثواب سے کیوں محروم رکھا کس نے ان کے دلوں میں یہ جذبہ پیدا کیا.صرف حضرت مہدی علیہ السلام کو مان کر اسلام قبول کر کے وہ لوگ جو دنیاوی تکلفات کے عادی اور دین کیلئے ایک سینٹ خرچ کرنا نہ جانتے تھے آج خود خواہش ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیں ثواب کا موقعہ دیا جائے جو کام شروع کیا جائے قربانی دینے والے آگے آجاتے ہیں اور کام مکمل ہو جاتا ہے لیکن جو وقت پر قربانی نہیں دیتا وہ پیچھے رہ جاتا ہے.میں ہر اُس بہن کو جس نے ابھی تک اس میں حصہ نہیں لیا تحریک کرتی ہوں کہ وہ جلد سے جلد حصہ لیں.خود بھی اور دوسروں کو بھی تحریک کریں جلسہ سالانہ تک یہ کمل ہو جائے.یہ مہمان خانہ بھی ہماری ضرورتوں کے لئے کافی نہیں.اس کے بعد کوئی تجویز آپ کے

Page 199

خطابات مریم 174 خطابات سامنے آئے گی لیکن پہلے اس کو مکمل کرنا سب احمدی بہنوں کا کام ہے.ابھی صرف چار قطاریں کمروں کی بنی ہیں اور دفاتر کی بنی ہیں ٹیوب ویل لگتا ہے اور کئی کام ہیں جن کے لئے رقم کی ضرورت ہے جس کو آپ نے پورا کرنا ہے.آخر میں میں پھر آپ کی خدمت میں گزارش کروں گی کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو یاد رکھیں.قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا ( التحريم : 7 ) کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ.اس زمانہ میں شیطان نے نت نئے حربوں سے اسلام پر ایک بھر پور حملہ کیا ہے.ایک پرکشش حملہ دنیا کی نظر میں جن میں سے سر فہرست بے پردگی کا بڑھنا ہے.پر وہ ایک اسلامی حکم ہے عورت کے لئے جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ کا حکم دیا.ازواج مطہرات اور صحابیات نے اس پر عمل کیا.پردہ کی کیا شکل ہو میں سمجھتی ہوں خود انسان کا ضمیر ہی اگر وہ دھو کہ نہیں دے رہا تو فیصلہ کر سکتا ہے کہ میں ٹھیک پردہ کر رہی ہوں یا نہیں لیکن اسلام کا کوئی حکم نہیں کہ پردہ نہ کرو.صرف مغربیت کی آزادی کے زیر اثر ایک طبقہ پردہ کو ضروری نہیں سمجھ رہا اور گزشتہ چند سالوں سے ان کی تعداد بڑھی ہے.آپ کا فرض ہے کہ بہنوں کو سمجھا ئیں.قرآن کے حوالہ سے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی تحریرات اور نصائح کی روشنی میں.حضرت خلیفۃ اصبح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی 1972 ء کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر آپ کو متنبہ کیا تھا ایسی خواتین اور لڑکیاں یقیناً احمدیت کے نام پر ایک دھبہ ہیں.کاش انہیں سمجھ آ جائے یقیناً ان کا یہ فعل علم دین اور قرآن سے ناواقفیت کی وجہ سے ہے.پس بچائیں اپنے آپ کو ، اپنی اگلی نسل کو.اس مادہ پرستی کی آگ سے جو آپ کے گھروں کے اردگرد بھڑک رہی ہے اور اس سے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنا ہر احمدی ماں باپ کا فرض ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والی اور اپنی اولاد کی تربیت کرنے والی ہوں.وَ آخِرُ دَعُونَا أَنِ الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَلَمين ( تاریخ لجنہ جلد چہارم صفحہ 604،591)

Page 200

خطابات مریم 175 خطابات اختتامی خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنه مرکز یہ 1977ء آپ نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ جلسہ سالانہ و سالانہ اجتماع کا ایک مقصد جذبۂ اطاعت اور تنظیم پیدا کرنا بھی ہے.1974ء سے غیر ملکی احمدی خواتین ہمارے اجتماعات میں بہت زیادہ آ رہی ہیں جن کی نظریں ہماری ایک ایک بات کو دیکھتی ہیں اس لئے ہمیں اپنی چھوٹی سے چھوٹی بات کی بھی اصلاح کرنے کی سخت ضرورت ہے.نظم وضبط اور جذ بہ اطاعت کا تعلق اس دنیا کی پیدائش سے ہے تخلیق آدم کے وقت اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آدم کی اطاعت کا حکم دیا.یہ حکم آسمانوں پر تھا لیکن زمین پر جب بھی گمراہی پھیلی اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لئے اپنے پاک نبی بھیجے اور انسانوں کو ان کی اطاعت اور نظام سے وابستگی کا حکم دیا.یہاں تک کہ آنحضور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ نے اطاعت کا سب سے پہلا سبق نماز میں دیتے ہوئے فرمایا کہ امام کی ہر آواز اور حرکت کے ساتھ تمہاری حرکت ہونی چاہئے.محترمہ صدر صاحبہ نے فرمایا کہ امام کے نمائندے امام کی جگہ امیر ہوتے ہیں اس لئے ان کی اطاعت بھی لازم ہے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اطاعت کا جذبہ پیدا کرنے کیلئے چھوٹی چھوٹی بات میں بھی کبھی بڑوں اور کبھی چھوٹے بچوں کو سب پر امیر بنایا.نماز ، روزہ ، زکوۃ، حج غرضیکہ ہر اسلامی کام میں قوانین کی پابندی لازم ہے.آپ نے فرمایا آپ کو خلیفہ وقت کی ہر آواز پر لبیک کہنا چاہئے اور اپنے بچوں کی تربیت اس طرح کرنی چاہئے کہ وہ ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.بچے اپنی ضروریات کم کر کے چندہ دیں.آپ نے خاص طور پر وقف جدید ناصرات کے چندے کی ادائیگی کی طرف بچیوں کو توجہ دلائی.آخر میں آپ نے فرمایا کہ میں دعا کرتی ہوں کہ آپ میں باہمی تعاون کا جذبہ فروغ پائے اور آپ اپنے آپ کو جماعت احمدیہ کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید وجود بنا ئیں.(الفضل24 نومبر 1977ء)

Page 201

خطابات مریم 176 خطابات خطاب بر موقع جلسه سالانه احمدی خواتین (26 دسمبر 1977ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو انسانیت کے نجات دہندہ تھے ساری دنیا کیلئے رحمت تھے اور خاص طور پر عورت کے لئے جس کا کوئی مقام اسلام سے پہلے نہ تھا اس دنیا میں اس لئے بھیجا کہ آپ کے ذریعہ انسان اپنے رب کو پہچانے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ پر خود عمل کر کے خدا تعالیٰ کا قرب اور پیار حاصل کر سکے جو آپ پر ایمان لائے انہوں نے بہت قلیل عرصہ میں دنیاوی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی ترقیات حاصل کیں اور ساری دنیا پر چھا گئے.اسلام کی تاریخ اور جغرافیہ بتاتا ہے کہ صرف قرآن کی تعلیم پر عمل کرنے سے کسقد ر جلد انہوں نے ترقی کی.آج کی مغربی دنیا نے جو ترقی حاصل کی وہ سب اسلام کی مرہون منت ہے جو کچھ سیکھا مسلمانوں سے سیکھا.ہر علم اور ہرفن کی ابتداء مسلمانوں سے ہوئی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء کے بعد جوں جوں زمانہ گزرتا گیا مسلمانوں میں تقویٰ میں کمی آنی شروع ہوئی.روحانیت میں کمی آئی ، قرآن کی تعلیم پر عمل کرنا کم ہوا.قرآن پڑھنے پڑھانے کا چرچا کم ہوا اور جہالت کا دور شروع ہوتا گیا یہاں تک کہ پھر ایک بار مسلمان جہالت اور گمراہی کا شکار ہو گئے.اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اپنے بندوں کو جنہیں وہ بہت پیار کرتا ہے بھٹکتا نہیں چھوڑتا اس کا وعدہ تھا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ وہ آپ کی اُمت کو تباہ نہیں ہونے دے گا اور ان کی اصلاح کے لئے ان کو پھر سے خدا تعالیٰ کے قریب لانے کے لئے ایک وجود کو بھیجے گا.چنانچہ اس نے اپنے وعدہ کے مطابق جب چودہویں صدی کا ظہور ہونے لگا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا.چنانچہ آپ نے دعوی فرمایا :.

Page 202

خطابات مریم 177 خطابات ”وہ میں ہی ہوں تا وہ ایمان جو زمین پر سے اُٹھ گیا ہے اس کو دوبارہ قائم کروں اور خدا سے قوت پا کر اسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کو اصلاح اور تقویٰ اور راستبازی کی طرف کھینچوں اور اُن کی اعتقادی اور عملی غلطیوں کو دور کروں.پھر آپ فرماتے ہیں:.(روحانی خزائن جلد 20- تذکرۃ الشہادتین صفحہ 3) د میں ہر ایک مسلمان کی خدمت میں نصیحاً کہتا ہوں کہ اسلام کے لئے جاگو که اسلام سخت فتنہ میں پڑا ہے اس کی مدد کرو کہ اب یہ غریب ہے اور میں اسی لئے آیا ہوں اور مجھے خدا تعالیٰ نے علیم قرآن بخشا ہے اور حقائق معارف اپنی کتاب کے میرے پر کھولے ہیں اور خوارق مجھے عطا کئے ہیں سو میری طرف آؤ تا اس نعمت سے تم بھی حصہ پاؤ ہر ایک جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا اُس وقت کے علماء کی ناسمجھی اُس کی سد راہ ہوئی آخر جب وہ پہچانا گیا تو اپنے کاموں سے پہچانا گیا کہ تلخ درخت شیریں پھل نہیں لا سکتا اور خدا غیر کو وہ برکتیں نہیں دیتا جو خاصوں کو دی جاتی ہیں“.(روحانی خزائن جلد 6 - برکات الد عاصفحہ 36 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آج سے اٹھاسی سال قبل دعوی کیا کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.آپ اکیلے تھے، دوستوں نے ساتھ چھوڑا ، دشمنوں نے ہنسی اُڑائی.دنیا حیران تھی کہ یہ کیسا دعویٰ ہے جو ایک اکیلا انسان کر رہا ہے.دنیا بجھتی تھی کہ چار دن کی بات ہے پھر یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ خدا کے منہ سے نکلی ہوئی بات پوری ہو کر رہتی ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی تھی.” وہ وقت دور نہیں بلکہ بہت قریب ہے کہ جب تم فرشتوں کی فوجیں آسمان سے اُترتی اور ایشیا یورپ اور امریکہ کے دلوں پر نازل ہوتی دیکھو گے“.(روحانی خزائن جلد 3 - فتح اسلام صفحہ 13 حاشیہ ) پھر اپنی بعثت کی غرض بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :.

Page 203

خطابات مریم 178 اس تاریکی کے زمانہ کا نور میں ہی ہوں جو شخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لئے تیار کئے ہیں مجھے اس نے بھیجا ہے کہ تا میں امن اور حلم کے ساتھ دنیا کو سچے خدا کی طرف رہبری کروں اور اسلام میں اخلاقی حالتوں کو دوبارہ قائم کروں“.خطابات (روحانی خزائن جلد 15 مسیح ہندوستان میں صفحہ 11) آئیے ہم جائزہ لیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کے وقت اسلام اور مسلمان کس آزمائشی دور میں سے گزر رہے تھے اور تین ربع صدی میں آپ کی بعثت کا مقصد کس شان سے پورا ہوا.اللہ تعالیٰ کی آخری اور کامل شریعت اور الہی قانون مکمل صورت میں وادی بطحا میں سرتاج اولین و آخرین فخر الانبیاء والمرسلین حضرت محمد مصطفی عملے کے مقدس ترین وجود پر نازل ہوا اور د رہتی دنیا تک اسی نے رہنا ہے.اس تعلیم میں ایسی کشش تھی کہ لوگ اس کی طرف کھنچتے چلے گئے اور اسلام ساری دنیا پر غالب آ گیا لیکن بعد میں خود مسلمانوں کی سرد مہری اور بے تو جہگی سے وہ تعلیم تو باقی رہی مگر صرف قرآن مجید کے الفاظ میں مسلمانوں کا عمل اس پر سے جاتا رہا.اخلاقیات کی جو اعلی ترین تعلیم اسلام نے دی تھی وہ صرف اصولوں کی شکل میں رہ گئی مسلمانوں کا اس سے دُور کا واسطہ بھی نہ رہا.روحانیت باقی نہ رہی.اسلام پر ہر طرف سے حملے ہونے شروع ہو گئے اور مختلف مذاہب نے اسلام کو اپنا شکار سمجھ کر مسلمانوں کو اسلام سے بد دل کرنے کیلئے مختلف حربے استعمال کرنے شروع کئے جس کے نتیجہ میں کثرت سے مسلمانوں نے اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی.جنہوں نے مذہب نہیں چھوڑا وہ بھی مذہب سے دُور جا پڑے اور متنفر ہو گئے.سب سے بڑا حملہ اسلام پر عیسائیت کا تھا اور عیسائی اس سلسلہ میں اتنے پر امید تھے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ نعوذ باللہ مکہ مدینہ کی فتح کے خواب دیکھنے لگے.ہندومت، آریہ مذہب، برہمو سماج، فلسفہ، دہریت ان سب نے مشترکہ طور پر اسلام پر حملے کئے.غرض جس طرف نظر اٹھتی تھی تاریکی ہی تاریکی تھی اندھیرا ہی اندھیرا تھا.اس زمانہ میں جو ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ کا نمونہ پیش کر رہا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ہوئی جن کی بعثت کا مقصد اسلام کا

Page 204

خطابات مریم 179 خطابات احیاء تھا جن کی دلی تڑپ صرف اور صرف یہ تھی کہ ع اس دیں کی شان و شوکت یا رب مجھے دکھا دے سب جھوٹے دیں مٹا دے میری دعا یہی ہے پ نے جہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ کے حضور درد دل سے دعائیں کیں کہ اسلام کو تمام ادیان پر غالب فرما وہاں دلائل قاطعہ کے ساتھ ایک طرف عیسائیت کا مقابلہ کیا دوسری طرف آریوں کو شکست دی.دہریہ اور فلسفی خیالات رکھنے والوں کا توڑ کیا یہاں تک کہ احمدیت کے قیام سے صرف پانچ سال بعد ہی 1894ء میں پادریوں کی ایک کانفرنس میں اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا کہ اسلام میں ایک نئی حرکت کے آثار نمایاں ہیں.ہر میدان میں قرآن مجید کے دلائل کے ساتھ آپ نے ایسی علمی جنگ لڑی کہ مد مقابل آنے والا گھبرانے لگا اور وہ لوگ جو اسلام کی ترقی سے مایوس ہونے لگے تھے ان کے دلوں میں بھی امید کی کرنیں پھوٹنے لگیں.ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں ایک ایک کر کے فدائی اور محبت کرنے والے جمع ہونے لگے یہاں تک کہ آپ کے وصال کے بعد ہندوستان کے بڑے بڑے مذہبی لیڈروں نے آپ کی اسلام کے لئے خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا.آپ کی آواز ہندوستان سے نکل کر دوسرے ممالک میں پہنچی اور اٹھاسی سال کے عرصہ میں ہر دن جو چڑھا اور ہر رات جو آئی اس نے تصدیق کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعویٰ میں سچے تھے کون کہہ سکتا تھا کہ وہ آواز جو قادیان کی گمنام بستی سے اُٹھی تھی وہ دنیا کے کونے کونے تک پہنچ جائے گی اور ایشیا امریکہ یورپ افریقہ اور جزائر کے رہنے والے آپ پر درود و سلام بھیجیں گے.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے برطانیہ، یورپ، امریکہ، مشرقی و مغربی افریقہ، جزائر کون سا ملک ہے جہاں احمدی موجود نہیں.بہت قربانی دینے والے، اسلام سے عشق رکھنے والے، اسلام کا درد رکھنے والے اور آپ کی صداقت کا زندہ ثبوت آج ہم اپنی آنکھوں سے ان بہنوں بھائیوں کے زندہ وجودوں سے دیکھ رہے ہیں جو دور دراز کا سفر کر کے اس جلسہ سالانہ میں شرکت کرنے آئے ہیں.اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكَ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ

Page 205

خطابات مریم 180 خطابات دنیا کا یہ دستور ہے اور پہلے بھی تاریخ نے اس کا مشاہدہ کیا ہے کہ جوں جوں نبی کے زمانہ سے بعد ہوتا جاتا ہے انسانی طبائع میں کمزوری واقع ہو جاتی ہے.عمل میں کمزوری آ جاتی ہے جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی آنکھ سے دیکھا آپ کی صحبت پائی آپ کی باتیں سنیں ان کی تو شان ہی اور تھی بعض نے اپنی جان کی قربانی دی جیسے شاہ عبداللطیف صاحب کا آخری لمحہ تک ایمان متزلزل نہ ہوا.بعض نے اپنے مکان بیچ دیئے وطنوں عزیزوں کو چھوڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں رہنے کو دنیا کمانے پر ترجیح دی.بہت سے ایسے تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک آواز پر اپنا سارا مال و دولت لا کر آپ کے قدموں میں ڈال دیا.وہ دور گزر گیا بہت کم صحابہ اب باقی ہیں.آپ میں سے اکثر وہ ہیں جنہوں نے احمدیت کی نعمت کو ورثہ میں پایا.اس نعمت کو حاصل کرنے کے لئے انہیں کوئی قربانی دینی نہیں پڑی.اللہ تعالیٰ کا کتنا عظیم الشان فضل اور احسان ہے جماعت احمدیہ پر کہ خلافت احمد یہ کے ذریعہ اس نے ان برکات کو جماعت میں جاری رکھا جن کا وعدہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ سے کیا تھا اور جب تک جماعت احمد یہ خلافت کی قدر کرتی رہے گی اور اپنی اطاعت شعاری ، وفاداری اور قربانیوں کے ذریعہ اپنے کو اس انعام کا حق دار ثابت کرتی رہے گی ان برکات سے فائدہ بھی اُٹھائے گی اور ان انعامات کی بھی وارث ہوگی جن کی بشارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی گئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو یہ فرمایا تھا کہ : جو شخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لئے تیار کئے ہیں.(روحانی خزائن جلد 15 مسیح ہندوستان میں صفحہ 11) آپ کا یہ ارشاد قرآن مجید کی اس آیت کی تفسیر ہے.كتب الله إليكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمتِ إلى النُّورِة بإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (سورۃ ابراہیم : 2 ) ترجمہ: یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے تجھ پر اس لئے اُتارا ہے کہ تو تمام لوگوں کو ان کے

Page 206

خطابات مریم 181 خطابات رب کے حکم سے ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے آئے یعنی غالب اور تعریفوں والے خدا کے راستہ کی طرف.دوسری جگہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : قد انْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذكرال رَسُولًا يَتْلُوا عَلَيْكُمْ أَيْتِ اللَّهِ مُبَيِّنَةٍ ليُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلحت من الظلمتِ إِلى التَّوْدِ (الطلاق: 12،11) ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے شرف کا سامان یعنی رسول اُتارا ہے جو تم کو اللہ کی ایسی آیات سناتا ہے جو ( ہر نیکی اور بدی کو ) کھول دیتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مومن لوگ جو اپنے ایمان کے مطابق عمل کرتے ہیں وہ اندھیروں سے نکل کر نور میں آ جاتے ہیں.قرآن مجید کی ان دو آیات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قول کے مطابق آنحضرت مع کی اطاعت اور آپ کی تعلیم یعنی قرآن مجید پر عمل کرنے کے نتیجہ میں مومن اندھیروں سے نکل کر روشنی اور نور میں آجائیں گے اور یہی چیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے کہ آپ کی پیروی کرنے والے کو ( کیونکہ آپ کی پیروی کرنا آنحضرت ﷺ کی پیروی کرنا ہے ) ان گڑھوں اور خندوقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کیلئے تیار کئے ہیں.سب سے بڑی ظلمت اللہ تعالیٰ سے دُوری ہے جو شخص اپنے رب کو نہیں پہچانتا اپنے رب کو اپنے قریب محسوس نہیں کرتا اس کے احکام پر چلنے کی بجائے شیطان کے طریق اختیار کرتا ہے وہ خواہ دیکھنے میں کتنا ترقی یافتہ نظر آئے حقیقت میں اندھیروں میں گھرا ہوا ہے اور اس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ اختیار نہ کرے اور قرآن پر عمل نہ کرے.پہلی آیت کی تشریح میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں :.اس آیت میں بتایا ہے کہ قرآن کریم ایک روشنی ہے جس کے ذریعہ محمد رسول اللہ لوگوں کو اندھیرے سے روشنی کی طرف نکال لے جائیں گے پھر روشنی کی تشريح إلى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ سے کی یعنی عزیز و حمید خدا کا راستہ ہی اصل روشنی ہے.ہم دیکھتے ہیں روشنی کو تو ہر ایک پسند کرتا ہے لیکن روشنی کی تشریح میں لوگوں کو اختلاف ہوتا ہے.آج کل لوگ کہتے ہیں یہ نئی روشنی کے آدمی ہیں اور مراد

Page 207

خطابات مریم 182 خطابات.جدید فلسفہ اور تہذیب اور اباحت اور لا مذہبی کی اتباع ہوتی ہے.کوئی کہتا ہے مسیحیت خدا کا نور ہے.کوئی ہندو مذہب کو.کوئی اسلام کو خدا کا نور قرار دیتا ہے.اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ رسم و رواج اور قشر اور چھلکا خدا کا نور نہیں کہلا سکتا نور تو خدا تعالیٰ کی طرف جانے کا نام ہے جس کا قدم خدا تعالیٰ کی طرف نہیں اُٹھا اُسے نور کا حاصل کرنے والا کسی صورت میں نہیں کہہ سکتے نور کو وہی پاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف قدم بڑھاتا ہے.وجود باری پر دلالت کرنے کیلئے اس جگہ دو صفات کا ذکر کیا گیا ہے.عزیز اور حمید - عزیز کے معنی غالب اور حمید کے معنی قابل تعریف کے ہیں.ان دو صفات کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے کہ ایک عملی روشنی پر دلالت کرتا ہے اور دوسرا علمی پر.عزیز سے مل کر انسان اپنے دشمنوں پر غالب آتا ہے اور ظاہری اندھیرے یعنی تکالیف اور مصائب دور ہو جاتے ہیں اور حمید سے مل کر انسان اپنے اندرونی شیطان پر غالب آ جاتا ہے اور باطنی اندھیرے یعنی وساوس اور شبہات اور جہالت دور ہو جاتے ہیں.( تفسیر کبیر جلد 3 سورہ ابراہیم صفحہ 438) اللہ تعالیٰ نے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور حضرت مہدی علیہ السلام پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی ہے ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ ہے کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ کی اطاعت کرنے اور قرآن مجید پر عمل کرنے کے نتیجہ میں ظاہری اور باطنی اندھیروں سے نجات حاصل ہوسکتی ہے کیا یہ مقصد ہم نے حاصل کر لیا ہے اور کیا واقعی ہماری کمزوریاں دور ہو چکی ہیں؟ باطنی اندھیرے کئی قسم کے ہیں.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ظلمتوں کی کئی قسمیں ہیں.ظلمت عادات ، ظلمت رسم، ظلمت جہل اور ظلمت عدم استقلال.علم کی طرف سب سے زیادہ توجہ اسلام نے دی ہے کہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر علم حاصل کر نا فرض قرار دیا ہے.علم سے مراد صرف دنیاوی علم نہیں بلکہ اصل علم قرآن کا علم ہے.ایک احمدی اور جہالت میں آسمان زمین کا بعد ہونا چاہئے.باوجود بہت زور دینے کے دیہات میں کثرت سے خواتین اور بچیاں علم سے بے بہرہ ہیں.آپ نے مہدی موعود کو مانا ہے.آپ

Page 208

خطابات مریم 183 خطابات میں اور دوسروں میں فرق ہونا چاہئے.آپ کا فرض ہے کہ قرآن پڑھیں اور قرآن پڑھائیں.ایک احمدی عورت بھی جاہل نہیں ہونی چاہئے.ایک احمدی عورت بھی ایسی نہیں ہونی چاہئے جسے قرآن نہ آتا ہو جسے قرآن کا مطلب نہ آتا ہو.اس لئے میں خاص طور پر دیہات کی خواتین سے کہتی ہوں کہ وہ اُردو لکھنے پڑھنے اور قرآن پڑھنے پڑھانے کا خاص انتظام کریں اور ایسی کوشش کریں کہ آئندہ چند سال میں کوئی عورت نا خواندہ نہ رہے اور یہی سب سے بڑا کام دیہات کی لجنات کا ہے.عادات کی ظلمت کو بھی دور کرنا چاہئے.کوئی عادت انسان میں ایسی نہ ہونی چاہئے جو چھوڑی نہ جاسکے.بُری سے بُری عادت بھی ایمان کی شمع دل میں منور ہونے سے چھوڑی جاسکتی ہے.اسلام کی تاریخ میں اس کی کتنی مثالیں موجود ہیں.مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک آواز پر بڑے بڑے شراب پینے والوں نے یک لخت شراب چھوڑ دی یہاں تک کہ روایات میں آتا ہے کہ لوگوں نے اپنے مکے توڑ دیئے اور شراب مدینہ کی گلیوں میں بہتی پھرتی تھی.اسی لئے قرآن مجید میں مومنوں کی بنیادی صفت یہ بیان ہوئی ہے کہ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ لغویات سے پر ہیز کرتے ہیں.ان چیزوں سے بچتے ہیں جو انہیں یا دالہی سے غافل کرتی ہیں.اسی طرح رسوم کی زنجیریں ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ان زنجیروں کو جو لوگوں کی گردنوں میں پڑی تھیں ان سے ان کو آزاد کرنے آئے تھے لیکن افسوس آتا ہے ان خاندانوں پر اور ان خواتین پر جو احمدیت سے وابستہ ہوتے ہوئے بھی رسومات کو چھوڑ نہیں پاتیں.پہلے صرف دیہات میں رسومات کا زیادہ زور تھا اب کچھ عرصہ سے شہروں سے کثرت سے شکایات موصول ہونے لگی ہیں.ایک احمدی کی زندگی خواہ مرد ہو یا عورت سادہ اور بے تکلف زندگی ہونی چاہئے.یہی احمدیت کی غرض ہے اور یہی تحریک جدید کی غرض و غایت ہے.رسومات سے جہاں ہماری معاشرتی زندگی میں روز بروز اُلجھنیں پیدا ہورہی ہیں وہاں ہماری اقتصادی زندگی پر بھی یہ اثر انداز ہو رہی ہیں اور وہ اخوت اور محبت کا جذ بہ جو بھائی بھائی اور بہن بہن میں ہونا چاہئے وہ کمزور پڑتا جا رہا ہے.کہیں شادیوں پر زیادہ جہیز کا مطالبہ یا جہیز میں خاص خاص چیزوں کا مطالبہ کہیں سسرال والوں کو جوڑے یا زیور نہ دینے پر آنے والی دلہن سے بُر اسلوک

Page 209

خطابات مریم 184 خطابات اور ناک بھوں چڑھانا، کہیں لڑکے کو کم سلامی یا حسب خواہش چیزیں نہ دینے پر اعتراض.کہیں سسرال والوں کی طرف سے کم سامان لانے پر لڑکی والوں کے اعتراضات کہیں لڑکے والوں سے لڑکی کے مطالبات.یا د رکھیں یہ باتیں دن بدن معاشرہ میں صفائی قلب اور پیار و محبت کو کمزور کرتی جائیں گی اور دن بدن معاشرہ کی مشکلات بڑھتی جائیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب بیعت لینی شروع کی تو شرائط بیعت میں سے ایک شرط یہ بھی مقرر فرمائی تھی کہ بیعت کرنے والا یہ پختہ عہد کرے کہ وہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنی ہر ایک راہ میں دستور العمل قرار دے گا.(اشتہار تکمیل تبلیغ 12 جنوری 1889ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض ہی يحي الدين و يقيم الشريعة (تذكر صحي 55) تھی آپ کوئی نئی تعلیم نہیں لائے آپ کا تو دعوی ہی یہ تھا کہ آپ دنیا کا تعلق اپنے رب سے قائم کریں اور ہر انسان جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہے وہ آپ کی اطاعت کرے آپ کے کہنے پر چلے اپنی زندگی آپ کے بتائے ہوئے طریق پر گزارے اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا تھا کہ كان خلقه القرآن (مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 91) ہر مسلمان کی زندگی کان خلقه القرآن کے مطابق ہو.غلبہ اسلام کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ جماعت جو اس بات کا دعویٰ رکھتی ہے کہ خدمت اسلام کے لئے اسے کھڑا کیا گیا ہے اس کے افراد کی اپنی زندگیاں سادہ ہوں اور رسومات کا ان کی زندگیوں میں دخل نہ ہو.رسومات کو اپناتے ہوئے آپ ترقی نہیں کر سکتیں.ترقی کیلئے ضروری ہے کہ عملی میدان میں آپ قدم بقدم مل کر چلیں اور مل کر قربانیاں دیں.رسومات میں پھنس کر آپ میں وہ جنہ یہ اخوت نہیں رہے گا.جس کے نتیجہ میں سب یکساں قربانی دے سکتے ہیں آپ کو یا د ہونا چاہئے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ سے خاص طور پر مخاطب ہو کر فرمایا تھا:.میں بڑی تاکید کے ساتھ آپ میں سے ہر ایک کو کہتا ہوں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ

Page 210

خطابات مریم 185 خطابات نے تعلیمی لحاظ سے قرآن کریم کے اس اعلان کے ذریعہ ان رسوم کو یک قلم ہٹا دیا ہے آپ اپنے گھروں سے اور اپنی زندگیوں سے ان رسوم کو اور بد عادات کو یکسر اور یک قلم ہٹا دیں اور دنیا اور دنیا داروں کی پرواہ نہ کریں اور اپنے رب کی رضا کی پرواہ کریں تمہاری زندگی میں کوئی اسراف نہیں ہونا چاہئے تمہاری زندگی میں کوئی رسم نہیں ہونی چاہئے.خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے علاوہ ہماری عزت کے لئے اور کوئی راہ نہیں.خدا تعالیٰ کے اس مقام عزت کے بغیر کہ جس میں وہ ہمیں کھڑا کرنا چاہتا ہے ہمارے لئے اور کوئی مقام عزت نہیں.دنیا نے جن مقامات کو عزت کی نگاہ سے دیکھا ہے ان سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں اور نہ کوئی سروکار ہے.یہ ذہنیت اپنے اندر پیدا کرو تا خدا تعالیٰ کے فضلوں کی زیادہ سے زیادہ وارث ہوتی چلی جاؤ تا تمہارا انجام بخیر ہو.تاہم جب اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے پیدا کرنے والے کے پاس پہنچیں ( جہاں ساری دنیا مل کر بھی ہمیں کوئی مدد یا فائدہ نہیں پہنچا سکتی ) تو وہ اپنی رضا کی جنتوں میں ہمیں رکھے وہ ہم سے ناراض ہو کر ہمیں اپنے قہر اور اپنی لعنت کی جہنم میں نہ پھینک دے.خدا کرے اس کی رضا ہمارے استقبال کو آئے اور جہنم کے فرشتے ہماری راہ نہ دیکھ رہے ہوں.مگر یہ مقام آپ اس وقت حاصل کر سکتی ہیں جب آپ اس قسم کی بد رسوم اور بد عادتوں کو کلیہ اور پورے طور پر انتہائی نفرت کے ساتھ چھوڑ دیں.(المصابیح صفحہ 32 تا34) پھر 23 جون 1967ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ میں اعلان فرمایا :.میں ہر گھر کے دروازہ پر کھڑے ہو کر اور ہر گھرانہ کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں.اور جو احمدی گھرانہ بھی آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوششوں کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہو گا وہ یہ یادر کھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے وہ اس طرح جماعت سے نکال کے باہر پھینک دیا جائے گا جس طرح دودھ سے

Page 211

خطابات مریم 186 خطابات مکھی پس قبل اس کے کہ خدا کا عذاب کسی قہری رنگ میں آپ پر وارد ہو یا اس کا قہر جماعتی نظام کی تعزیر کے رنگ میں آپ پر وارد ہو اپنی اصلاح کی فکر کرو اور خدا سے ڈرو اور اس دن کے عذاب سے بچو کہ جس دن کا ایک لحظہ کا عذاب بھی ساری عمر کی لذتوں کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے کہ اگر یہ لذتیں اور عمریں قربان کر دی جائیں اور انسان اس سے بچ سکے تو تب بھی وہ مہنگا سودا نہیں سستا سودا ہے“.خطبات ناصر جلد اوّل صفحہ 762-763) کیا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کے بعد بھی رسومات کے سلسلہ میں کچھ کہنے کو باقی رہ جاتا ہے.تیسری بڑی ظلمت عادات کی ہے یعنی اچھے اخلاق کا اور اچھے کردار کا مالک نہ ہو.اسلام نے اخلاق پر جتنا زور دیا ہے کسی مذہب نے نہیں دیا لیکن افسوس آتا ہے کہ اسلام کے علمبر دار ہی اعلیٰ اخلاق پر عمل کرتے ہوئے نظر نہیں آتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.ایک دفعہ کشفی رنگ میں میں نے دیکھا کہ میں نے نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کیا ہے اور پھر میں نے کہا کہ آؤ اب انسان کو پیدا کریں اس پر نا دان مولویوں نے شور مچایا کہ دیکھو اب اس شخص نے خدائی کا دعوی کیا حالانکہ اس کشف سے مطلب یہ تھا کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے اور حقیقی انسان پیدا ہوں گے.(چشمہ مسیحی صفحہ 376 حاشیہ.روحانی خزائن جلد 20) حقیقی انسان یعنی ایسے انسان جن کا ایک طرف اپنے رب سے پیار کا تعلق قائم ہو دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے بندوں سے وہ بہت محبت کرنے والے ہوں.آپ کے فیض اور تربیت سے پیدا ہونے مقدر تھے اور ہوئے اور یہی مقصد ہے نظام جماعت کا بھی.وہ اعلیٰ اخلاق جو اسلام نے قائم فرمائے لیکن اپنی غفلت سے مسلمان بھول چکے تھے ان کو پھر سے رائج کرنا ہماری جماعت کا کام ہے.ہماری ہر تنظیم کا فرض ہے اور عورتوں کا خصوصاً کہ وہ اپنی توجہ اور تربیت سے بچوں میں اسلامی اخلاق پیدا کریں اور ان کی تربیت قرآن مجید کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق کریں تا ہر احمدی کے اخلاق اور کردار

Page 212

خطابات مریم 187 خطابات قرآن مجید کی تعلیم کے گرد گھومتے ہوں.سچائی ، امانت ، ایفائے عہد ،صلہ رحمی ، مروت ، خوش اخلاقی ، عفو، عیب پوشی ، وقت کی پابندی، محنت، تعاون، ہمدردی ، غریبوں سے سلوک کسی کا دل دکھانے سے بچنا.ان سب اخلاق میں احمدیوں کی مثال کہیں اور نہ پائی جائے اور ہم میں ہماری اولا دوں میں ایک ایسی تبدیلی پیدا ہو کہ واقعی نئی زمین اور نیا آسمان اور ایک بالکل نئی دنیا نظر آئے.احمدیت کے مستقبل کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بہت بشارتیں دی ہیں.لیکن بہت بد قسمت ہوں گی اگر ہمارا حصہ ان میں نہ ہو.پس قربانیاں دیں اور دیتی چلی جائیں اور اپنی اولادوں کو ان قربانیوں کیلئے تیار کرتی جائیں جو آپ کو اپنی منزل سے قریب تر لے جائے.آمین اللھم آمین اختتام مضمون پر چند باتیں اپنی بہنوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتی ہوں.گزشتہ سال حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماءاللہ کو ارشادفرمایا تھا کہ جلسہ سالانہ پر آنے والی بہنوں کے لئے مہمان خانہ تعمیر کیا جائے.چنانچہ چندہ کی تحریک کی گئی اور مہمان خانہ کی تعمیر شروع کر دی گئی.رقم کی کمی کے باعث وہ اس سال مکمل نہ ہو سکا ابھی سوالاکھ یا ڈیڑھ لاکھ روپے کی اور ضرورت ہے تمام لجنات کو چاہئے کہ بہنوں تک اس تحریک کو پہنچائیں اور اس میں چندہ دیں تا اس سال یہ مہمان خانہ مکمل ہو سکے اور بہنوں کو رہائش کی تکلیف نہ ہو.اس عمارت کے علاوہ دارالضیافت میں بھی قریباً دو ہزار بہنوں کی رہائش کے لئے کچھ کمروں اور کچھ خیموں کا انتظام کیا گیا تھا لیکن کثیر تعداد میں آنے کے باعث اور ایک دن پہلے بارش ہو جانے کی وجہ سے خیموں کی چھتوں سے پانی ٹپکنے لگا.جگہ کی دقت ہوئی تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ لجنہ اماءاللہ کے ہال میں جو دستکاری نمائش لگائی گئی ہے وہ اُٹھا کر مہمان خواتین کو ٹھہرایا جائے (اس فوری تبدیلی سے پہلے روز نمائش نہ لگائی جاسکی اور دوسرے دن متبادل انتظام کر کے نمائش لگائی گئی جس سے بہنوں کو تکلیف بھی ہوئی اور مالی نقصان بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے آنے والی بہنوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوگا اس لئے آپ نے صرف یہی مہمان خانہ نہیں بلکہ اور بھی تعمیر کرنے ہیں اس لئے کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ چندہ بھجوائیں اور ہر احمدی عورت کو اس میں شامل کریں تا ایک حد تک رہائش کا تسلی بخش انتظام آئندہ سال ہو سکے.

Page 213

خطابات مریم 188 خطابات شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ نے اس سال تاریخ لجنہ جلد چہارم کی تالیف کی.بعض ناگزیر مجبوریوں کے باعث جلسہ سالانہ کے موقعہ پر تاریخ لجنہ کی چوتھی جلد آپ کی خدمت میں پیش نہیں کی جاسکی اُمید ہے کہ آخر جنوری تک شائع ہو جائے گی.اس کو خریدنا اور پڑھنا ہر احمدی خاتون کا فرض ہے.دینی کتا بیں ایک قوم کا عظیم سرمایہ ہوتی ہیں اگر ہم اپنی تاریخ کو خود نہیں پڑھیں گی اپنے بچوں کے پڑھنے کیلئے نہیں خریدیں گی تو ان کو کچھ علم نہ ہوگا کہ ہم سے پہلی بہنوں نے احمدیت اور لجنہ کی ترقی میں کیا کردار ادا کیا.تاریخ لجنہ کی پہلی اور دوسری جلد بالکل ختم ہو چکی ہے تیسری بہت تھوڑی تعداد میں موجود ہے.لٹریچر کو ہمیشہ وقت پر خرید لینا چاہئے.ہر روز بہنوں کی طرف سے خطوط آتے ہیں کہ ہمیں پہلی اور دوسری جلد چاہئے اگر وہ وقت پر خرید لیتیں تو انہیں اس وقت افسوس نہ ہوتا کہ ہمارے پاس کتا بیں موجود نہیں.آخر میں لجنہ کی تنظیم کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتی ہوں سارے پاکستان میں بجنات قائم تو ہیں لیکن ایسے قیام سے کیا فائدہ جہاں سے نہ چندہ آئے نہ رپورٹ جس سے پتہ لگے کہ آپ کیا کام کر رہی ہیں.لجنہ کی عہدیداران کے لئے سالانہ اجتماع میں شمولیت لازمی اور ضروری ہے.اس میں شریک نہ ہونے سے ان کی عدم دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے.پس ہر لجنہ کو قر با نیوں اور قومی جدوجہد کے لحاظ سے یکساں طور پر سر گرم عمل ہونا چاہئے.اس سلسلہ میں ہر ضلع کی لجنہ کو توجہ دلاتی ہوں کہ وہ اس سال دورہ کر کے کوشش کریں جو لجنات سست ہیں وہ بیدار ہو جائیں اور مرکزی لجنہ سے ان کا رابطہ قائم ہو.جہاں بجنات نہیں وہاں لجنہ کا قیام ہو.ہر مجلس سے لجنہ کا چندہ با قاعدہ آئے.ابھی تک نصف کے قریب لجنات نادہند ہیں.پھر دیہات کی لجنات کو خاص طور پر توجہ دلاتی ہوں کہ وہ قرآن کریم ناظرہ اور اردو لکھنے پڑھنے کی طرف بہت توجہ دیں اور ایک بھی احمدی بچی اور عورت جاہل نہیں رہنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق عطا فرمائے کہ حضرت خلیفتہ امسح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قیادت میں آپ کی اطاعت کرتے ہوئے شاہراہ غلبہ اسلام پر قدم بقدم رواں دواں رہیں اور اللہ تعالیٰ احمدیت کی ترقی ہمیں اپنی آنکھوں سے دکھا دے.آمین اللھم آمین.(ماہنامہ مصباح فروری 1978ء)

Page 214

خطابات مریم 189 خطابات افتتاحی خطاب بر موقع سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ مرکزیہ (20 /اکتوبر 1978ء) عہد نامہ کے بعد مکرمہ محترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے ناصرات الاحمدیہ سے افتتاحی خطاب فرمایا.آپ نے فرمایا کہ اجتماع کا ایک بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی اجتماعی حیثیت کا احساس دلایا جائے نیکیوں کی طرف مائل کیا جائے.اجتماع کا دوسرا بڑا مقصد آپ کے دل میں مرکز کی محبت پیدا کرنا ہے.یہاں آ کر آپ کو بزرگوں کی محبت حاصل کرنے ، دعائیں کرنے ، مرکز کی برکتیں حاصل کرنے ، حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ارشادات سننے اور ایک آواز پر اکٹھا ہونے کا موقع ملتا ہے.مرکز سے وابستگی سب سے اہم چیز ہے.آپ نے سچائی ، سادگی ، دیانتداری، خدمت خلق، محنت کی عادت ، ایک دوسرے سے تعاون و ہمدردی و معافی کا جذبہ، صفائی ، کسی کو دکھ نہ دینا، اپنے رب سے محبت ، مذہب و وطن سے محبت، نظم و ضبط، پابندی وقت وغیرہ خوبیوں کے پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ عہدیداران کا بھی فرض ہے کہ وہ بچوں میں ایسی خوبیاں پیدا کریں.آخر میں آپ نے مطالعہ قرآن مجید، حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ان پر عمل کر کے آپ کی شان مسلمہ، قانتہ ، مومنہ اور صابرہ عورت کی شان ہوگی.(روز نامه الفضل مورخہ 19 نومبر 1978ء)

Page 215

خطابات مریم 190 خطابات افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ 1978ء تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے سالانہ اجتماع پر تشریف لانے والی تمام احمدی خواتین کو السلام علیکم کا تحفہ پیش کیا.آپ نے اس بات پر خدا تعالیٰ کا شکر اور خوشی کا اظہار فرمایا کہ امسال پچھلے سالوں کی نسبت باہر سے آنے والی ممبرات کی تعداد زیادہ ہے.دوران سال اپنی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے اور کام زیادہ نہ ہو سکنے کی معذرت کے بعد آپ نے دورانِ سال اور آئندہ سال شائع ہونے والی کتب کا ذکر فرمایا اور ان کی خریداری کی طرف توجہ دلائی.آپ نے فرمایا کہ اس سال ہمارا بجٹ -/217656 روپے تھا لیکن خدا کے فضل سے آمد 258553/23 روپے ہوئی.اس طرح اس سال پچھلے سال کی نسبت آمد میں 60919/20 روپے اضافہ ہوا لیکن چندہ دہندگان لجنات کی تعداد کم ہوگئی ہے جس کی طرف ضلعی عہدیداران کو توجہ دلائی اور اس تعداد کو 400 تک پہنچانے کی خواہش کا اظہار فرمایا.بچیوں اور ممبرات لجنہ کو قرآن مجید اور کتب سلسلہ عالیہ احمد یہ پڑھنے کی طرف بہت توجہ دلائی.نئی نسل کی تربیت ، آپس میں اتفاق و محبت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور مردوں سے زیادہ قربانیاں دینے پر زور دیا.آخر میں آپ نے تلقین فرمائی کہ اپنے قول و عمل میں ہرگز تضاد نہ ہونے دیں.(الفضل 20 /نومبر 1978ء)

Page 216

خطابات مریم 191 خطابات اختتامی خطاب بر موقع سالانہ اجتماع 1978 ء لجنات اما ء اللہ وناصرات الاحمدیہ آپ نے فرمایا ! خدا تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج کامیابی سے ہمارا اجتماع اختتام پذیر ہوا اس اجتماع کو زیادہ بابرکت اور مفید بنانے کیلئے اگر آپ کے ذہن میں کوئی مشورے ہوں تو آپ بتایا کریں.آپ نے انعامات حاصل کرنے والی بچیوں اور خواتین کو مبارکباد دینے کے بعد فرمایا کہ یہ انعامات ہماری منزل نہیں ہیں.ہماری منزل اور ہمارا مقصد بہت اعلیٰ وارفع ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسلام کا جھنڈا ساری دنیا میں لہرانے کیلئے بھیجا تھا اور اب ان کے خلفاء اور جماعت یہ کام کر رہی ہے.پس لجنہ اماءاللہ کا مقصد دین کو دنیا پر غالب کرنا، تمام انسانوں کے دل میں خدا کی محبت پیدا کرنا، محبت اور امن وسکون کی متلاشی دنیا کو اسلام کے سائے تلے جمع کرنا ہے.آپ نے فرمایا کہ خلافت بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرو اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات پر عمل کرو.روح کی غذا، بشارتوں اور ترقیوں سے بھرے ہوئے قرآن مجید کو پڑھو اور پڑھاؤ.اس پر غور کرو، بے چین و بے سکون دنیا کو قرآن حکیم کا نمونہ پیش کرو کہ دنیا عمل کی متلاشی ہے.اپنے آپ کو گھر ، محلے اور شہر کو اسلامی نمونے کے مطابق ڈھالو، نظم و ضبط پیدا کرو، اولاد کی بہترین تربیت کرو، عہد یداران کا کہنا مانو ، اگر لجنہ ارادہ کر لے کہ آئندہ سال وہ ہر شعبے میں دس فیصد ترقی کرے گی تو آپ کا قدم ترقی کی طرف تیزی سے اُٹھتا چلا جائے گا.خدا کرے کہ ہم اور ہماری نسلیں اپنے آپ کو خدا اور قرآن کے مطابق ڈھال لیں اور ہماری نسلیں پہلوں سے بھی زیادہ قربانیاں دینے والی ہو.اجتماعی دعا کے بعد آپ نے سب کو اپنی دعاؤں کے ساتھ خدا حافظ کیا.روزنامه الفضل مورخہ 24 نومبر 1978ء)

Page 217

خطابات مریم 192 خطابات ہمارا جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کے پورا ہونے کا ایک زندہ ثبوت ہے (جلسہ سالانہ 1978ء ( خواتین ) کے موقع پر افتتاحی خطاب ) میری عزیز بہنو اور بچیو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج سے قریباً نوے سال قبل قادیان کی گمنام بستی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام پا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعلان فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو دعوی سے بھی بہت قبل بشارتیں دیں کہ :.میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“.( تذکرہ صفحہ 8 ) يَاتِيكَ مِن كل فَجٍّ عَمِيقٍ وَ ياتون مِن كُلِّ فَجٍّ عميق“ اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن را ہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہو جائیں گے“.(تذکرہ صفحہ 39) پھر اللہ تعالیٰ نے بشارت دی :.يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُّوحِيَ إِلَيْهِمُ مِنَ السَّمَاءِ.تیری مددوہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے.( تذکرہ صفحہ 39) إِنِّي نَاصِرُكَ إِنِّي حافِظُك - إِنِّي جَاعِلُكَ للناس اماما - أَكَانَ للناس عجبًا - قُل هُوَ اللهُ عَجِيْبٌ“.(براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد 1 حاشیہ صفحہ 604) میں تیری مدد کروں گا.میں تیری حفاظت کروں گا.میں تجھے لوگوں کے لئے پیش

Page 218

خطابات مریم 193 خطابات 66 رو بناؤں گا کیا لوگوں کو تعجب ہوا کہ خداذ والعجائب ہے.” خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مراد میں تجھے دے گا“.( تذکره صفحه 148) میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا“.( تذکره صفحه 81) دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا“.( تذکرہ صفحہ 81) "I SHALL GIVE YOU A LARGE PARTY OF ISLAM" (تذکره صفحه 80) غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارتیں دی گئیں اور اُس وقت دی گئیں جب کہ اپنے گھر میں بھی آپ کا کوئی مقام نہ تھا.گمنامی کی زندگی آپ بسر کر رہے تھے بہت کم لوگ آپ کو جانتے تھے.آپ نے مامور بیت کا دعویٰ کیا تو دوست دشمن ہو گئے اپنے بیگانے ہو گئے.ہر طرف سے اعتراضات کا نشانہ آپ کو بنایا گیا.لوگ ہنتے تھے کہ اس شخص کے پاس نہ مال ہے نہ دولت نہ ظاہری دنیاوی ڈگریاں.مخالف یہ دعوی کرتے تھے کہ چند روز کی بات ہے یہ جماعت اور سلسلہ ختم ہو جائے گا لیکن قادر خدا کے منہ کی نکلی ہوئی باتیں ٹلا نہیں کرتیں.یہ الہی سنت ہے کہ لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِ الله - خدا تعالیٰ جو کہتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے.اگر ایسا نہ ہو تو اس کے برگزیدہ بندے دوسروں کے مقابلہ میں ممتاز کس طرح ہوں.اللہ تعالیٰ کی نصرت اس کی مدد اور حالات میں ان کی کامیابی سے ہی تو پتہ لگتا ہے کہ خدا کی مددکس کے ساتھ ہے.احمدیت کی ساری تاریخ اس بات پر گواہی دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا سایہ اور اس کے فضل کا ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے سر پر رہا.مشکلات آئیں ، مصائب کی آندھیاں چلیں.ایسے ایسے طوفان آئے کہ احمدیت کی کشتی دشمنوں کو ڈولتی نظر آئی لیکن ہر

Page 219

خطابات مریم 194 خطابات طوفان سے ہر منجدھار سے اللہ تعالیٰ کی نصرت اسے بچالے گئی اور آج سے تقریباً نوے سال پہلے جس جماعت کی ابتداء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ کی گئی تھی آج اس کے افراد پاکستان کے کونے کونے میں ہیں.بھارت میں ہیں ، انگلستان میں ہیں ) یورپ کے اکثر ممالک میں ہیں، مشرق قریب اور مشرق بعید کے ممالک میں ہیں، امریکہ، کینیڈا میں ہیں ، جزائر میں ہیں اور آج علی الاعلان ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ احمد بیت پر سورج غروب نہیں ہوتا.ہمارا جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ کی ان بشارتوں کا جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیں.ایک زندہ ثبوت ہے جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا.یہ کوئی میلہ نہیں عرس نہیں.اسلام کی سربلندی کی خاطر اور جماعت کی تربیت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ جلسہ ہونا قرار دیا تھا اور حضور علیہ السلام کی زندگی میں سب سے پہلے جلسہ میں پچھتر اشخاص نے شرکت کی تھی.آج اسی جلسہ پر پونے دو لاکھ کے قریب لوگ شرکت کرتے ہیں.الحمد للہ علی ذلک کیا کسی انسان میں طاقت ہے کہ وہ اپنی جانب سے یہ پیشگوئی کر دے کہ ایک وقت آئے گا جب تیری جماعت ملکوں میں پھیل جائے گی.ایک انسان تو گل کی بات بھی نہیں کر سکتا لیکن یہ صرف خدا تعالیٰ کے فرستادہ ہوتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ آئندہ کی پیشگوئیاں بتا تا ہے اور وہ کامل یقین کے ساتھ دنیا میں ان کا اعلان کرتے ہیں.پس یہ جلسہ سالا نہ ہمارے لئے ایمانوں کو بڑھانے اور ان میں تازگی پیدا کرنے کا ذریعہ ہونا چاہئے مجھے افسوس ہوتا ہے اپنی بعض عورتوں اور بچیوں پر جو دور دور سے سردی کی تکلیف اُٹھا کر آتی ہیں یہاں بھی وہ آرام نہیں مل سکتا جو گھروں میں ملتا ہے لیکن یہاں آ کر اپنا وقت ضائع کرتی ہیں ان کا آنا ان کی محبت کی دلیل ہے ان کی قربانی کی دلیل ہے لیکن تربیت کی کمی کی وجہ سے وہ پورا فائدہ نہیں اُٹھا تیں.پس میری عزیز بہنو اور بچیو! جلسہ سالانہ ایک بہت بڑی نعمت ہے اور برکت ہے.خدائی بشارتوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے جاری فرمایا اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی برکتیں اور فائدے بیان فرمائے ہیں.میرے دل میں کئی دفعہ خیال آتا ہے کہ اگر جلسہ سالانہ نہ ہوا کرتا تو بہت سی باتوں سے ہم محروم رہتے.ایک دوسرے سے تعارف نہ ہوتا واقفیت نہ ہوتی.اخوت کا جذبہ نہ پیدا ہوتا.تنظیمی صلاحیتیں نہ اُبھر تیں اور نہ اتنی دور دور سے

Page 220

خطابات مریم 195 خطابات لوگ ایک جگہ جمع ہوتے.کون جانتا ہے کہ آئندہ سال اس نے زندہ رہنا ہے یا نہیں.بس آپس میں باتیں کرنے اور ادھر ادھر پھرنے میں اپنے وقت ضائع نہ کر وہ تقریر میں غور سے سنو ، ان پر تدبر کرو، اپنے نفسوں کا جائزہ لو کہ جو کچھ کہا جاتا ہے ہم میں ہے یا نہیں.پھر اپنے میں عزم پیدا کرو کہ ایک نیک تبدیلی اس جلسہ کے نتیجہ میں ہم اپنے میں پیدا کریں گی.سب سے بڑھ کر یہ کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطابات خاموشی اور غور سے سنو.احمدیت کی تاریخ نے جس طرح یہ ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بتائی ہوئی ایک ایک بات پوری ہوئی.اسی طرح ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کامل یقین ہے کہ آپ کی جو پیشگوئیاں آئندہ کے متعلق ہیں وہ سب بھی اپنے وقت پر جس طرح آپ نے بیان کیا ہے پوری ہوں گی.انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی ہے.”اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رُو سے سب پر اُن کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامرا در کھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی.اگر اب مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تو اس ٹھٹھے سے کیا نقصان کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا..پھر آپ فرماتے ہیں:.(روحانی خزائن جلد 20.تذکرۃ الشہادتین صفحہ 66 ) ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑ دیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سومیرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو

Page 221

خطابات مریم 196 خطابات اس کو روک سکے.(روحانی خزائن جلد 20 - تذکرۃ الشہادتین صفحہ 67) ہمیں کامل یقین ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتائی ہوئی خبریں اب تک اپنی پوری شان سے پوری ہو چکی ہیں اسی طرح یہ بھی من وعن پوری ہوں گی اور کوئی طاقت نہیں جو ان پیشگوئیوں کو پورا ہونے سے روک سکے.بلکہ ان کے پورا ہونے کے آثار بھی ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں.جس کی بشارتیں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کئی سال سے دے رہے ہیں کہ اگلی صدی غلبہ اسلام کی صدی ہو گی.مگر ہر کامیابی کے ساتھ ابتلا بھی ہوتے ہیں اور قربانیاں بھی.بغیر قربانیوں کے کوئی جماعت اپنے نصب العین کو حاصل نہیں کر سکتی.مسلسل جد و جہد، لگا تار کوشش کبھی ہمت نہ ہارنا، اپنی تربیت واصلاح وہ امور ہیں جو منزل کو قریب کر دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فرماتے ہیں :." یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوئی بیعت میں صادق اور کون کا ذب ہے.وہ جو کسی ابتلاء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اُس کو جہنم تک پہنچائے گی اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اُس کے لئے اچھا تھا مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور اُن پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قو میں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا اُن سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتحیاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے اُن پر کھولے جائیں گے“.(روحانی خزائن جلد 20.رسالہ الوصیت صفحہ 309) پس میری عزیز بہنو اور بچیو! ان برکات اور فضلوں کو حاصل کرنے کیلئے ہمیں اپنے میں ایک

Page 222

خطابات مریم 197 خطابات نیا عزم کرنے کی ضرورت ہے.اپنی اصلاح کی ضرورت ہے اپنے نفسوں کو ٹولنے اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے ، اپنی تربیت کی ضرورت ہے، اپنے اخلاق کو درست کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے کردار کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے.یہ صیح ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے آپ کی جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے.آپ کے خلفاء کے ہاتھ پر بیعت کی ہے لیکن ابھی ہم میں بہت سی کمزوریاں باقی ہیں جس کی طرف توجہ دینا ہر عورت کا کام ہے.قاعدہ ہے کہ مامور کے زمانہ سے جوں جوں بعد ہوتا جائے کمزوریاں نئے آنے والوں کے ساتھ آ جاتی ہیں.ان کمزوریوں کو دعا استغفار اور عمل کے ساتھ دور کر نا ہم سب کا فرض ہے.انسان فرشتہ نہیں ہوتا پیار و محبت سے سمجھا کر اصلاح کرنی چاہئے.اس سلسلہ میں مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ بسا اوقات میرے نام ایک گمنام خط آ جاتا ہے کہ آپ کے خاندان کے فلاں میں یہ نقص ہے یا فلاں لجنہ کی فلاں عہدہ دار ایسا کرتی ہے.میں چاہوں بھی تو اس خط کا جواب نہیں دے سکتی کیونکہ اس پر لکھنے والی یا والے کا نام پتہ نہیں ہوتا یا نام تو لکھا لیکن واضح نہیں.پتہ نہیں ایک نام کی کئی بہنیں ہو سکتی ہیں.یہ طریق اختیار کرنا مومنانہ شان کے خلاف ہے.کسی سے شکایت ہے تو صاف شکایت لکھیں.اصلاح کی غرض سے لکھیں.ثبوت کے ساتھ لکھیں اور اپنا نام پتہ لکھیں تا که تحقیق کی جا سکے ثبوت لیا جا سکے.اس طرح کی شکایتوں کا فائدہ کوئی نہیں ہوتا.عام طور پر جو سب سے بڑی شکایت آتی ہے وہ یہ ہے کہ جماعت کے سرکردہ گھروں میں سے بہنیں پردہ صحیح نہیں کرتیں اور یہ میرا مشاہدہ بھی ہے کہ کچھ عرصہ سے پردہ کے سلسلہ میں بے احتیاطی شروع ہوگئی ہے برقع سے بڑی کھلی چادر شروع ہوئی.بڑی چادر سے چھوٹی چادر اور چھوٹی چادر سے ایک رومال رہ گیا.میری بہنو! پردہ اسلامی حکم ہے جو قرآن میں واضح طور پر درج ہے اور پردہ کی غرض عورت کی عزت و عصمت کی حفاظت ہے.پر وہ ایسا ہو جس میں چہرہ اور جسم اور عورت کی زینت پوشیدہ رہے.اگر چادر لے کر اپنا سارا چہرہ آپ کھول دیتی ہیں تو وہ پر دہ نہیں.ایک اسلامی حکم سے مذاق ہے یہ یا درکھیں کہ بے شک بشارتیں اپنی جگہ ہیں لیکن ان کا مستحق اور حق دار بننا آپ کا فرض ہے.ہم سے بڑھ کر قربانی نیک نمونہ ، قرآن اور دین پر عمل کرنے والی عورتیں کسی اور

Page 223

خطابات مریم 198 خطابات ملک اور براعظم میں پیدا ہو سکتی ہیں جو ہم سے آگے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث ہوسکتی ہیں اور عورتوں کی تربیت کی قیادت ان کے ہاتھ میں ہوسکتی ہے.آج ان کی نگا ہیں آپ پر ہیں کہ یہ مرکز سلسلہ اور اس کے قریب رہنے والوں میں ہم نے ان کا نمونہ دیکھنا ہے اور جس کا نمونہ ان کو اسلام کے مطابق نظر نہیں آتا ان کے چہرے اُتر جاتے ہیں..پس اصلاح کریں اپنی اپنے لئے اپنی نسلوں کیلئے دوسروں کیلئے تا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو زیادہ سے زیادہ جذب کر سکیں.دوسری چیز جو بالکل جماعت میں سے ختم ہو چکی تھی پھر جماعت کے بعض حصوں میں آ رہی ہے اور وہ ہے رسومات.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد يحي الدين و يقيم الشريعة ( تذكره صفحه 55 ) تھا.یعنی اسلام کے باغ کو پھر سے تر و تازہ کرنا.شریعت اسلامی کا قیام اور اس پر چلانا اور آپ کو ماننے کے نتیجہ میں آپ کے متبعین نے صحیح اسلام پر عمل کر دکھایا.ہر طرح کا تکلف رسومات بدعات ، خلاف شریعت با توں کو انہوں نے اپنے گھروں سے جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیا.پھر حضرت مصلح موعود نے تحریک جدید کے ذریعہ جماعت میں سادگی کی رو دوڑا دی.لیکن کچھ عرصہ سے یہ شکار بیتیں آنے لگی ہیں که مختلف مواقع پر خواہ شادی کے ہوں یا اور قسم کی تقریبات وہ رسومات جن کو جماعت احمدیہ بالکل چھوڑ چکی تھی ان پر عمل ہونے لگا ہے.رسم سادگی کی ضد ہے.معاشرہ کو تباہ کرنے والی چیز ہے.آہستہ آہستہ معمولی معمولی رسمیں بدعات کی شکل اختیار کر جاتی ہیں اور ان پر عمل کرنے والا گھرانہ اسلام سے دور جا پڑتا ہے.اسلام سادگی سکھاتا ہے اسلام تکلیف و تکلف سے بچاتا ہے.اسلام تو کل سکھاتا ہے.اسلام کا بنیادی نکتہ تو حید ہے اور ایک موحد بیہودہ رسموں سے دور بھاگتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی شرائط بیعت میں چھٹی شرط یہ قرار دی تھی کہ :.اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا“.اشتہار تکمیل تبلیغ 12 جنوری 1889ء) پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کے مطابق ہمارا فرض ہے کہ رسومات کی

Page 224

خطابات مریم 199 خطابات بیخ کنی کریں اور ان کو اپنے معاشرہ میں پہنچنے نہ دیں.ہم ایک غریب جماعت ہیں جس کی غرض تو حید الہی کی تعلیم دینا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو پھیلانا اور آپ کی تعلیم پر عمل کرنا ہے.اگر ہم نے رسومات کو نہ چھوڑا تو آہستہ آہستہ اسلام سے دور جا پڑیں گے اور رضائے الہی کے لئے قربانی دینے کی روح جاتی رہے گی.جماعت احمدیہ کا قیام غلبہ اسلام کی خاطر ہوا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو قربانی دینی ہوگی.قربانی اپنی خواہشات کی اپنے مال کی اپنی اولادوں کی اور خود اپنے نفس کی تا اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کر سکیں اور اس کا قرب اور اس کا پیار حاصل ہو.اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کا واحد ذریعہ آنحضرت علی کی کامل اتباع کرنا ہے.جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُوني (آل عمران: 32) ہر مرحلہ میں ہر قدم پر ہم نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی ہے.کتنی ہیں ہم میں سے جو اس چیز کا خیال رکھتی ہیں ابھی تو ہماری بہت اصلاح ہونے والی ہے.آپس میں نا اتفاقی ، تعاون نہ کرنا ، ہمدردی کی کمی ، بچوں کی صحیح تربیت نہ کرنا ، موجودہ مغربیت کی ظاہری جگمگاہٹ سے متاثر ہوتے ہوئے اسلامی احکام کی پرواہ نہ کرنا جن میں سے ایک ضروری حکم پردہ کا ہے.ان سب باتوں کی اصلاح کیلئے ضروری ہے کہ ہمیں قرآن آتا ہو ہمارے بچوں کو قرآن آتا ہو.دین سے محبت ہو دین پر چلنے کا شوق ہو.دین کیلئے غیرت ہو.اگر آج آپ خود قرآن نہیں پڑھیں گی تو آئندہ آپ کی نسل دین سے بالکل بے بہرہ ہوگی.جس قدر زور اسلام نے اخلاقیات پر دیا ہے کسی مذہب نے نہیں دیا اور آج مسلمان اخلاقی لحاظ سے دوسری قوموں سے کم نظر آتے ہیں اس کی وجہ قرآن نہ پڑھنا ہے.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اپنے رب کو پہچانا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر صحیح ایمان کی توفیق پائی ہے.ہمارا عمل دوسروں سے مختلف ہونا چاہئے.ہمارے اخلاق قرآنی اخلاق کے مطابق ہونے چاہئیں.ہمارا کردار قرآن کے بیان کردہ نمونہ کے مطابق ہونا چاہئے.ہمارے دلوں میں انسانیت کی محبت اور ان کی اصلاح کی تڑپ ہونی چاہئے.

Page 225

خطابات مریم 200 خطابات حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.باہم بخل اور کینہ اور حسد اور بغض اور بے مہری چھوڑ دو اور ایک ہو جاؤ.قرآن شریف کے بڑے حکم دو ہی ہیں ایک توحید و محبت و اطاعت باری عزاسمہ دوسری ہمدردی اپنے بھائیوں اور بنی نوع کی.(روحانی خزائن جلد 3.ازالہ اوہام صفحہ 550) پس ہر احمدی عورت کی زندگی کامل نمونہ ہونا چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس قول کی کہ ایک طرف عبادت کے لحاظ سے وہ مکمل ہو.قرآن جانتی ہو قرآن پر عمل ہو اور قرآن کی تعلیم کے مطابق بنی نوع انسان کی ہمدردی ہو کسی کو دکھ نہ پہنچانے والی ہو بلکہ اس کے وجود سے اس کے اردگرد رہنے والے ہر لحاظ سے فائدہ اُٹھانے والے ہوں، دوسرے کو تکلیف پہنچانے کا سب سے بڑا باعث بدظنی ہے.بدظنی نہ کی جائے تو دل میں دوسرے کے خلاف غصہ نہیں آتا اور جب غصہ نہیں آتا تو اس کے نتیجہ میں ظلم نہیں ہوتا.اس لحاظ سے بجنات پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے دینی تعلیم دینا اور اس کا انتظام کرنا ان کا اولین فرض ہے باقی سب کام ثانوی حیثیت رکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گئے.(روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحه 13) پس ہمارا فرض ہے کہ خود بھی عامل قرآن ہوں اور دوسروں کو بھی قرآن کی تعلیم پر عمل کرنے کی تلقین کریں خود بھی قرآن پڑھیں اور دوسروں کو بھی پڑھا ئیں تا ہم سب کا عمل قرآن کی تعلیم کے مطابق ہو.(ماہنامہ مصباح فروری 1979ء)

Page 226

خطابات مریم 201 خطابات افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ مرکز یہ 1979ء تلاوت کے بعد آپ نے اس امر پر خوشی کا اظہار فرمایا کہ ناصرات میں بیداری اور ذمہ داری کا احساس اجتماع میں شامل ہونے اور حصہ لینے کا شوق پہلے کی نسبت بڑھ رہا ہے.آپ نے ناصرات الاحمدیہ کی بچیوں کو امانت، دیانت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا.دیانتداری کے معنی بہت وسیع ہیں آپ کو جائزہ لینا ہوگا کہ آپ خود اپنے آپ سے اپنی تعلیم ، ملک وقوم اور ناصرات کی دوسری بچیوں سے دیانتداری کرتی ہیں یا نہیں.آپ نے سیکرٹریان ناصرات الاحمدیہ کو بھی نصیحت فرمائی کہ اس سال دیانتداری سے متعلق کثرت سے مضامین سنائے جائیں اور یہ بات راسخ کی جائے کہ ایک زندہ قوم کے لئے دوسرے اوصاف کی طرح دیانتداری لازمی جزو ہے.آخر میں آپ نے ناصرات الاحمدیہ کے مقرر کردہ نصاب اور لائحہ عمل پر عمل کرنے اور نیز چندہ وقف جدید کی طرف خصوصاً توجہ دلائی.(الفضل 5 رنومبر 1979ء).......

Page 227

خطابات مریم 202 خطابات افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 1979ء میری عزیز بہنو ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا انیسواں سالانہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے.آئیے ہم پر خلوص دعاؤں کے ساتھ اپنے اجتماع کو شروع کریں اور اس کے پروگرام سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں.1978-79ء کا سال الحمد للہ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا.تمام شعبہ جات کی سیکرٹریان اپنے اپنے فرائض محنت سے سرانجام دیتی رہیں اور لجنات بھی مرکز سے تعاون کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی رہیں.لجنہ اماء اللہ کا سالانہ بجٹ گزشتہ سال-/2,70,048 کا منظور کیا گیا تھا لیکن کل آمد - 2,66,514 ہوئی.لجنہ مرکز یہ با وجودا اپنی پوری کوشش کے اس بجٹ کو پورا نہ کرسکی.گو یہ آمد 78-1977ء کی مجموعی آمد سے سات ہزار چار سو اکسٹھ روپے زائد ہے.4,534 کی کمی کچھ تو سالانہ اجتماع کے چندہ میں کمی کے باعث ہوئی اور کچھ مصباح کے پبلشر محمد شفیق قیصر صاحب کے وفات پا جانے کے باعث.الحمد للہ چھ ماہ کے التوا کے بعد عین اجتماع سے قبل اجازت حاصل ہوئی ہے.چنانچہ پر چہ شائع کر دیا گیا ہے تا کہ باہر سے آنے والی بہنیں اپنے ساتھ لے جائیں.آمد میں کمی ہونے کی وجہ سے اخراجات میں بھی مناسب کمی کر دی گئی تا کہ ہمارا بجٹ خسارہ کا بجٹ نہ رہے.اس سال لجنہ مرکزیہ کے شعبہ مال کی عہد یداران نے پوری کوشش کی کہ کم از کم چندہ دہندہ لجنات کی تعداد چار صد تک پہنچ جائے لیکن اس ٹارگٹ کو حاصل نہ کر سکے.اس سال 343 لجنات نے چندہ دیا ہے گزشتہ سال کی تعداد کے مقابلہ میں 10 لجنات کا اضافہ ہوا ہے.بعض لجنات کے چندے چارا کتوبر کے بعد وصول ہوئے ہیں.اگر وقت پر بھجوا دیتیں تو شاید یہ تعداد اور بڑھ جاتی.وہ لجنات جو نہ چندہ دیتی ہیں نہ ان کی طرف سے رپورٹ آتی ہے.ان کے لئے کوئی ایسی سکیم آئندہ بنانی پڑے گی جس سے ان میں

Page 228

خطابات مریم 203 خطابات بیداری پیدا ہو اور بے حسی دور ہو اور وہ بھی سرگرم عمل ہوسکیں.شعبہ جات میں سے شعبہ ناصرات ، شعبہ مال اور شعبہ تعلیم میں ترقی کے آثار ہیں.باقی بھی محنت تو کرتی ہیں لیکن اس کے نمایاں نتائج سامنے نہیں آتے.شعبہ اشاعت نے اس سال حضرت خلیفۃ المسح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ابتدائے خلافت سے اب تک کی تقاریر کتابی شکل میں شائع کرنے کا انتظام کیا.کا غذ اور چھپائی بہت مہنگی ہے لیکن اگر لجنات سب کتاب خرید لیں تو اس رقم سے اگلے سال ایک اور کتاب شائع کروائی جا سکتی ہے.آئندہ سال انشاء اللہ الازھار کا تیسرا ایڈیشن شائع کروانا زیر غور ہے اور لجنہ لا ہور کی تاریخ بھی بشر طیکہ لجنہ لاہور کا مکمل تعاون حاصل ہو.نیز حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے حالات زندگی کی اشاعت بھی زیر غور ہے.میری عزیز بہنو! آپ میں سے اکثر اپنی لجنہ کی طرف سے نمائندہ بن کر یہاں آئی ہیں.آپ کا فرض ہے کہ اپنا وقت ضائع نہ کریں.پروگرام سنیں ، ہدایات کو نوٹ کریں تا آئندہ ان پر عمل کر سکیں اور بہترین مشورے آئندہ ترقی کیلئے دیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے.وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَانَةٌ، فَلَوْا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةً لِيَتَفَقَهُوا في الدين وليُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا الَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ - (سورۃ التوبہ: 122) ترجمہ: اور مومنوں کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ سب کے سب ( اکٹھے ہو کر تعلیم دین کیلئے ) نکل پڑیں.پس کیوں نہ ہوا کہ ان کی جماعت میں سے ایک گروہ نکل پڑتا تا کہ وہ دین پوری طرح سیکھتے اور اپنی قوم کو واپس لوٹ کر (بے دینی سے ) ہوشیار کرتے تا کہ وہ ( گمراہی سے ) ڈرنے لگیں.یہ قرآنی طریق ہے کہ دین سیکھنے کی خاطر مرکز میں نمائندے آئیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی جماعتیں ہر جگہ موجود ہیں اور اسی طرح لجنات بھی کسی اجتماع پر بھی ساری احمدی خواتین کا آنا ممکن نہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر اس جماعت میں سے ایک منتخب گروہ ہی آ سکتا ہے.یہ ایک نمائندہ بھی ہو سکتا ہے اور زیادہ بھی جس طرح چھپیں پر

Page 229

خطابات مریم 204 خطابات ایک نمائندہ کا طریق لجنہ اماء اللہ نے جاری کیا ہے.ہر نمائندہ پر جو منتخب کیا جاتا ہے بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مرکز میں آکر خود جو سکھایا جائے سیکھے اور واپس آ کر اپنی لجنہ کی باقی ممبرات کو وہ سب کچھ سکھائیں اگر یہ فرض آپ ادا نہیں کرتیں یا کر نہیں سکتیں تو آپ کے آنے کا قطعی کوئی فائدہ نہیں.یہ کام صرف لجنہ کی صدر یا سیکرٹری کا نہیں بلکہ ہر نمائندہ جو آتی ہے اس کا فرض ہے اس زمانہ میں تو نئی نئی ایجادوں سے آسانیاں بھی بہت پیدا ہوگئی ہیں.اگر ہر ضلع کی لجنہ اپنے فنڈ میں سے ایک ایک ٹیپ ریکارڈ خرید لیں اور یہاں کی کارروائی ریکارڈ کر کے لے جائیں.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب، درس القرآن، درس حدیث ، ذکر حبیب ، لجنہ کی عہدیداران کی ہدایات وغیرہ اور وہاں جا کر اپنے اجلاسوں میں سنا ئیں تو بہت فائدہ ہو سکتا ہے.جب اچھی طرح سنا لیں، سمجھا لیں تو پھر جائزہ لیتی رہیں سارا سال کہ ان پر عمل بھی ہو رہا ہے یا نہیں.احمدی مستورات نظام جماعت کا ایک اہم حصہ ہیں اور ان کی کوئی بھی کمزوری جماعت کی ترقی میں روک بن سکتی ہے.اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اسلام کا غلبہ ہوگا اور یہ غلبہ جماعت احمد یہ کے ساتھ وابستہ ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ سورۃ صف میں فرماتا ہے.اور هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف: ١٠) مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ غلبہ اسلام آخری زمانہ میں ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے بشارتیں پا کر فرمایا :.ھے اک بڑی مدت سے دیں کو کفر تھا کھاتا رہا اب یقیں سمجھو کہ آئے کفر کو کھانے کے دن اور آپ نے دنیا کو بشارت دی کہ :.سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا

Page 230

خطابات مریم 205 خطابات کہ پہلے چڑھ چکا ہے“.(روحانی خزائن جلد 3 - فتح اسلام صفحہ 10) پھر آپ نے فرمایا :.خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا بہت سی روکیں پیدا ہونگی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اُٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409 تجلیات الہیہ صفحہ 17) یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو چکی ہے کہ اسلام کا غلبہ مقدر ہے اور اس کا غلبہ جماعت احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہے.جماعت کے قیام پر پہلی صدی ختم ہونے والی ہے.دس سال کے بعد دوسری صدی جسے حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز غلبہ اسلام کی صدی سے موسوم فرماتے ہیں شروع ہونے والی ہے.دس سال کا عرصہ ایک زندہ رہنے والی قوم کی زندگی میں کیا حیثیت رکھتا ہے.دیکھنا اور سوچنا یہ ہے کہ اگلی صدی میں داخل ہونے کے لئے ہم نے کیا تیاری کی ہے اور کیا کرنی ہے.گزشتہ چند سال میں ہی آپ دیکھ رہی ہیں کہ دنیا کے مختلف ممالک سے مردوں اور عورتوں کے وفود جلسہ سالانہ پر آنے شروع ہوئے ہیں اور ہر سال ان میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے وہ دین سیکھنے کی خواہش مند ہیں اور جتنے دن وہ یہاں رہتی ہیں ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنا وقت ضائع نہ کریں ان کا اگر وقت ضائع ہوتا ہے تو یہاں کی کارکنات اور ملنے جلنے والیاں کرتی ہیں مرکز میں رہنے والی خواتین کی ذمہ داری دو ہری ہے اور اس کے بعد پاکستان کے مختلف مقامات کی خواتین کی کہ تعلیم اور تربیت کے لحاظ سے اگلی صدی کی ذمہ داریوں کو احسن طور پر سنبھال سکیں لیکن جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہر شہر

Page 231

خطابات مریم 206 خطابات میں نمایاں تعداد ایسی خواتین کی نظر آتی ہے جو ناظرہ نہیں جانتیں.ترجمہ نہیں جانتیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا انہیں کوئی علم نہیں.ایسی خواتین کیا فائدہ پہنچا سکتی ہیں جماعت کو.پس میری بہنو ! آپ کی بہت بڑی ذمہ داری ہے وقت کم اور کام زیادہ ہے ہم نے حضرت مہدی علیہ السلام کو مانا ہے جنہوں نے ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے جن کے ذریعہ ہم نے اپنے رب کو پہچانا ہے لیکن صرف زبان یا دل سے مان لینا کافی نہیں جب تک عمل ہمارے قول کا ساتھ نہ دے.جماعتی جد و جہد میں حصہ لینے اور عظیم قربانیاں پیش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایمان میں کمزوری نہ آنے پائے.اس یقین پر ہمیشہ قائم رہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ ہمارے شامل حال رہے گا بشرطیکہ ہمارے قدم مستحکم رہیں ان میں کسی قسم کی لغزش نہ آئے.اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے گھروں میں اور ہمارے بچوں کے سامنے تاریخ احمدیت ، تاریخ اسلام کے واقعات بیان کئے جائیں ان کے دل میں مذہب سے گہری محبت اور مذہب کیلئے غیرت پیدا کی جائے تا جب وہ بڑے ہوں تو سلسلہ کی خاطر ہر قربانی دے سکیں.پھر یہ بھی خیال رکھا جائے کہ ان کو دینی تعلیم مل رہی ہے یا نہیں.اگر آپ اپنے بچوں کو دینی تعلیم نہیں دیتیں تو دہریت اور دجالیت کی آگ سے ان کو محفوظ نہیں رکھ سکتیں.جن کو دین کا کچھ علم نہیں ہو گا وہ بُری سوسائٹی کا اثر جلد قبول کرتے ہیں.پس بچائیے اپنے بچوں کو اُخروی آگ اور اس دنیا کی آگ سے بھی اور اچھے انسان بنائیے جو ہر قسم کے فتنہ وفساد سے دور رہنے والے ہوں جن کے دلوں میں بنی نوع انسان کی محبت ہو.جن کے دلوں میں دکھی انسانیت کا درد ہو جو ہر ایک کے ہمدرد ہوں اور خدمت خلق کا جذبہ رکھتے ہوں.ایسے انسان کہاں سے آئیں گے آپ کی گودوں کے پالے اور پرورش کئے ہوئے تربیت یافتہ.اگر اگلے دس سال میں مائیں اپنے وقت لغو باتوں میں ضائع کرنے کی بجائے اس اعلیٰ مقصد کو سامنے رکھیں کہ انہوں نے بھر پور کوشش کرنی ہے اپنے بچوں اور بچیوں کی تربیت کی تو یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ان کا ہوگا لیکن اس کے لئے ان کو پہلے اپنی اصلاح کرنی ہوگی.ایک نیک نمونہ پیش کرنا ہو گا.اب جو مائیں خود پردہ میں بے پروائی کرتی ہیں وہ کیسے امید رکھ

Page 232

خطابات مریم 207 خطابات سکتی ہیں کہ ان کی بچیاں پردہ کے سلسلہ میں ان کی کوئی نصیحت مانیں گی جو خود نماز ، روزہ کی طرف ، قرآن مجید کی تلاوت، قرآن کا ترجمہ پڑھنے کی طرف توجہ نہ کریں گی وہ اپنی بچیوں اور بچوں کو کیا سکھا سکیں گی.اس لئے میری بہنو اور عہدیداران لجنہ اماءاللہ آپ سب کیلئے ضروری ہے کہ آپ کی لجنہ میں جو بہنیں دین کا علم نہیں رکھتیں ان کو ان کی استطاعت کے مطابق علم دین حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائیں جو بہنیں دینی لحاظ سے سست ہیں ان کی سستیاں دور کرنے کی کوشش کریں اجلاسوں میں آنے کے لحاظ سے مالی قربانی کے لحاظ سے علمی ترقی کے لحاظ سے اور کوشش کریں کہ ہر لجنہ اماءاللہ کی تمام ممبرات ایک سطح پر آجائیں.دیہاتی لجنات کو اس طرف توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے.پھر آپ میں اتفاق کی ضرورت ہے.متحد ہونے کی ضرورت ہے باہمی تعاون کی ضرورت ہے.کئی بجنات سے اس قسم کی شکایتیں ملتی رہتی ہیں کہ فلاں کے گھر اجلاس ہوا تو ہم نہیں جائیں گے ان کو سوچنا چاہئے کہ خدا کی خاطر آپ اجلاس میں جاتی ہیں یا فلاں کو خوش کرنے کیلئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عورتوں کی اصلاح اور ترقی اور جماعت کے لئے مفید وجود بننے کے لئے کئی پروگرام آپ کے سامنے رکھے ہیں ان پر عمل کر کے آپ ترقی کر سکتی ہیں.1.خلافت پر متمکن ہونے کے بعد جو پہلا خطاب آپ نے فرمایا اس میں آپ نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اپنا وقت ضائع نہ کریں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے البهام فرمایا تھا.انتَ الْمَسِيحُ الَّذِى لا يُضَاعُ وَقْتَهُ ( تذكره صفحه 304) حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس خطاب میں مستورات کی ان چیزوں کی طرف راہنمائی کی تھی جن سے عورتوں کے وقت ضائع ہوتے ہیں کسی کے گھر بغیر اجازت کے جانا یا ایسے وقت جانا جو اس کے کام کے اوقات ہوں.تجسس کی عادت ، دوسروں کے عیوب کی ٹوہ میں رہنا اور پھر اس کا تذکرہ دوسری بہنوں سے کرنا، غیبت کی عادت ، زینت کی نمائش پر وقت ضائع کرنا.ہمارا فرض ہے کہ ان عیوب کو دور کریں اپنے گھروں کے ماحول کو خوشگوار بنائیں اور نہ اپنے وقت ضائع کریں نہ دوسروں کے.2 حضرت خلیفۃ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی تربیت پر بہت زور دیتے ہوئے

Page 233

خطابات مریم 208 خطابات ان کے لئے دعائیں کرنے کی بہت تاکید کی ہے کہ :.اللہ تعالیٰ اسے نیک بنائے دین کا خادم بنائے اسے اپنی محبت دے اور اپنے فضلوں کا وارث بنائے.اس کے علاوہ ہزاروں اور دعائیں ہیں جو آپ اپنے بچوں کے لئے کر سکتی ہیں اللہ تعالیٰ آپ کے جذبہ کو دیکھ کر آپ کی دعاؤں کو بھی قبول کرے گا اور آپ کی اولاد آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی.غرض بچوں کے لئے بھی دعائیں کریں اور ان کی تربیت کا بڑا خیال رکھیں.آپ بہنوں پر اس سلسلہ میں بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے“.(ماہنامہ مصباح مارچ 1966ء) 3.تیسرا قرآن کریم پڑھانے کی طرف احمدی مستورات کو شروع خلافت سے توجہ دلا رہے ہیں کوئی ایسی عورت نہ ہو جو ناظرہ نہ پڑھی ہوئی ہو اور کوئی ایسی عورت نہ ہو جو تر جمہ نہ جانتی ہو.1966ء کے اجتماع پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عورتوں کو قرآن پڑھانے کی طرف خصوصی توجہ دلائی تھی اور اس کے بعد بھی دلا رہے ہیں.آپ نے فرمایا تھا.آپ کے لئے اللہ تعالیٰ نے بڑا ہی عجیب موقعہ بہم پہنچایا ہے.آپ اس موقعہ سے فائدہ اُٹھا ئیں اور اپنی نسلوں میں قرآن کریم کا عشق اس طرح بھر دیں کہ دنیا کی کوئی لذت اور کوئی سرور انہیں اپنی طرف متوجہ نہ کرے وہ ساری توجہ کے ساتھ قرآن کریم کے عاشق ہو جائیں اور وہ ہر خیر اس سے حاصل کرنے والے ہوں اور وہ دنیا کے لئے ایک نمونہ بنیں تا قیامت تک آپ کے نام زندہ رہیں اور آنے والی نسلیں حیران ہو کر آپ کی تاریخ کو پڑھیں اور کہیں کہ کیسی عورتیں تھیں اُس زمانہ کی جنہوں نے دنیا کے تمام لالچوں کے باوجود دنیا کے تمام بد اثرات کے باوجود دنیا کو ٹھکرا دیا اور دنیا کی طرف اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نور کو اپنے گرد اس طرح لپیٹا کہ وہ جہاں بھی رہیں اور جہاں بھی گئیں وہ اور ان کا ماحول اس نور سے منور رہا جگمگاتا رہا.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور ہم کو بھی ہمیشہ اس کی توفیق عطا کرتا رہے“.(المصابیح صفحہ 31)

Page 234

خطابات مریم 209 خطابات ایک اور بہت ضروری پروگرام جو لجنہ اماء اللہ کے سامنے ہمارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ نے رکھا تھا اور بہت ہی تاکید کی تھی اور گزشتہ سال جلسہ سالانہ کے موقعہ پر بھی آپ نے اس سلسلہ میں بڑے زور دار الفاظ میں نصیحت فرمائی تھی وہ رسومات و بدعات کی بیخ کنی کرنا ہے.آپ نے فرمایا تھا کہ:.حضرت مصلح موعود نے جماعت میں اور خصوصاً جماعت کی مستورات میں ایک مہم جاری کی تھی اور اس نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی اور وہ مہم یہ تھی کہ جماعت بد رسوم اور بُری عادتوں کو چھوڑ دے اور بے تکلف زندگی اور اسلامی زندگی گزارنے کی عادی ہو جائے ایک وقت جماعت پر ایسا آیا کہ حضورا اپنی کوششوں میں کامیاب ہوئے اور جماعت بد رسموں سے اور بد رسموں کے بد نتائج سے محفوظ ہو گئی لیکن اب پھر جماعت کا ایک حصہ اس طرف سے غفلت برت رہا ہے خصوصاً وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیوی مال یا دنیوی و جاہتیں عطا کی ہیں وہ بجائے اس کے کہ اپنے رب کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیوں کے دن گزار تے لوگوں کی خوشنودی کے حصول کی خاطر اور اس عزت کے لئے جو حقیقت میں ذلت سے بھی زیادہ ذلیل ہے اس دنیا کی عزت اور بد رسوم کی طرف ایک حد تک مائل ہو رہے ہیں یہ بک رسوم شادی بیاہ کے موقع پر بھی کی جاتی ہیں اور موت فوت کے موقعہ پر بھی ہمیں انہیں کلیۂ چھوڑنا پڑے گا ور نہ رسوم کے وہ طوق جو پہلے ہمارے گلوں میں پڑے ہوئے تھے بد رسوم اور بد عادتوں کی وہ بیٹیاں جو پہلے ہمارے پاؤں اور ہاتھوں میں تھیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا.يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالأَعْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ (الاعراف: 158) وہ ہم اپنے ہاتھوں سے پھر واپس لا کر اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو ان میں باندھ دیں گے اور ان طوقوں کو اپنے گلوں میں دوبارہ ڈال لیں گے پھر ہم ان راہوں پر کیسے دوڑیں گے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کی ہم پر کھولی ہیں“.(المصابیح صفحہ 32،31) حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی اس قدر پُر در دنصیحت کے باوجود بہت سے

Page 235

خطابات مریم 210 خطابات احمدی گھرانوں میں شادی کے موقع پر خصوصاً رسوم سے اجتناب نہیں کیا جاتا.کیا ہم نے احمدی ہوتے ہوئے یہ عہد نہیں دہرایا تھا کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے.لیکن بیٹے کا رشتہ تلاش کرتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑکی جہیز میں کیا لائے گی؟ لڑکے والوں کو جوڑے کتنے میں گے.تھوڑا ہی عرصہ ہوا کسی بہن سے باتوں باتوں میں مجھے یہ علم ہوا کہ ایک احمدی گھرانہ نے دوسرے احمدی گھرانہ سے رشتہ کرنے سے صرف اس وجہ سے انکار کر دیا کہ ان کا گھر معمولی سا اور شہر کے اندر تھا اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر وہ کوئی کوٹھی کرایہ پر لے لیں تو ہم رشتہ کر لیں گے میں نے کہا ہرگز نہ کرنا اگر لڑکی کا دین انہوں نے نہیں دیکھا اعلیٰ اخلاق نہیں دیکھے اچھی تربیت نہیں دیکھی تو وہ لیں بھی تو آپ انکار کر دیں کہ ہم نے بیٹی دینی ہے کو بھی نہیں.یہ تو صرف ایک مثال ہے، وقت نہیں بیسیوں مثالیں ایسی ہیں جو میرے مشاہدہ اور علم میں آ چکی ہیں.میری بہنو! دنیا کتنی ترقی کر چکی ہے.بجائے علم وفضل میں آگے بڑھنے ، بجائے علوم میں تحقیقات کرنے ، علمی کاموں میں حصہ لینے ، دینی امور میں دوسروں کی راہنمائی کرنے والے بننے کے اس دلدل میں ہم پھنسے ہوئے ہیں.ان باتوں سے نہ عزت حاصل ہوگی نہ بزرگی.عزت قرآن پڑھنے سے ملے گی.عزت قرآن پر عمل کرنے سے ملے گی.عزت قرآن کی تعلیم دینے سے ملے گی.عزت اعلیٰ اخلاق کے اظہار سے ملے گی.عزت خدا تعالیٰ دیتا ہے اس کے مقرب بننے سے ملے گی اور اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَّ لَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّةٍ اَحَدًا (الكهف:111) پس جو شخص اپنے رب سے ملنے کی امید رکھتا ہو اُسے چاہئے کہ نیک اور مناسب حال کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے.یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کیلئے ایمان کے مناسب حال کام کرنے ضروری ہیں وہ قربانیاں جن کا امام تقاضا کرے وہ کام جن کے کرنے کا خلیفہ وقت کا ارشاد ہو پھر قرآن مجید میں ایک گر بتا دیا گیا ہے اور اس میں مرد اور عورت کی کوئی تفریق نہیں.اللہ تعالیٰ کی محبت ہر ایک حاصل کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ قرآن کے بتائے ہوئے راستہ پر چلے اور وہ یہ ہے کہ

Page 236

خطابات مریم 211 خطابات من عمل صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أو أنثى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيوةٌ طَيِّبَةً ولَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (النمل: 98) جو کوئی مومن ہونے کی حالت میں نیک اور مناسب حال عمل کرے گا مرد ہو کہ عورت ہم اس کو یقیناً ایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ہم اُن تمام لوگوں کو ان کے بہترین عمل کے مطابق ان کے تمام اعمال صالحہ کا بدلہ دیں گے.پھر اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں یہ بھی فرماتا ہے.د ما اموالكم ولا اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ مَن وَعَمِلَ صَالِحًا ، فأول لَهُمْ جَزاءُ الضعف بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الغرفت امنُونَ (سورة سبا : 38) ترجمہ: اور تمہارے مال اور تمہاری اولادیں ایسی چیزیں نہیں کہ تم کو ہمارا مقرب بنا دیں ہاں جو ایمان لاتا ہے اور اس کے مناسب حال عمل کرتا ہے وہی ہمارا مقرب ہوتا ہے اور ایسے ہی لوگوں کو اُن کے اچھے اعمال کی وجہ سے بڑھ چڑھ کر بدلے ملیں گے اور وہ بالا خانوں میں امن سے زندگی بسر کریں گے.بے شک مال بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت ہے اور اولا دبھی لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت صرف اعمال صالحہ کی ادائیگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت اور حضرت خلیفہ المسح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے ان احکامات پر چلنے سے جو انہوں نے آپ کے لئے جاری کئے ہیں مل سکتی ہے جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکی ہوں کہ آپ نمائندہ کی حیثیت سے آئی ہیں.یہاں سے واپس جا کر کوشش کریں جائزہ لیں اور سب بہنوں کا تعاون حاصل کر کے کوشش کریں کہ ہر لجنہ اماءاللہ کی ممبر سرگرم عمل ہو جائے ہم میں جو بُرائیاں ہیں ان کو دور کریں اپنی اولا د اور اگلی نسل کی تربیت میں لگ جائیں.اپنے معاشرہ میں کسی بدعت اور رسم کو پنپنے نہ دیں.اپنی تعلیم کی طرف، دین سیکھنے کی طرف ، قرآن کریم کے مطابق اپنی ندگیاں ڈھالنے کی طرف اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے کی طرف پوری پوری توجہ دیں جیسا کہ حضرت خلیفۃ اصبح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گزشتہ سال جلسہ سالانہ کے موقعہ پر

Page 237

خطابات مریم فرمایا تھا: 212 خطابات ”ہماری روحانی زندگی اور جماعت احمدیہ کی روحانی اجتماعی زندگی محمد ﷺ کی محبت میں فنا ہو کر زندہ رہنا ہے انسان کمزوری کر جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن تو بہ اور استغفار کا دروازہ خدا تعالیٰ نے کھولا ہے تا کہ ہم پھر اس کی طرف واپس لوٹیں لیکن ہماری زندگی قائم نہیں رہ سکتی اگر ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن چھوڑ کر دنیا کا خیال کریں اور دنیا دارانہ تعلقات کو ترجیح دیں اور جو تعلق ہمارا خدا اور اس کے رسول محمدعلی سے ہے اس تعلق محبت کو اس تعلق عشق کو اس تعلق فدائیت اور ایثار کو اس جذ بہ کو کہ اگر ہزار زندگیاں بھی ملیں ہمیں تو ہم خدا پر اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کر دیں گے اس تعلق کو دنیا کی کوئی کشش دنیا کا کوئی جاد و قطع نہیں کر سکتا.(المصابیح صفحہ 348) میری عزیز بہنو! آپ نے تو ساری دنیا کے لئے نمونہ بننا ہے یہ کام ہے ہمارالجنہ کا.آپ نے معلمات بننا ہے ان مستورات کے لئے جو جماعت میں آئندہ داخل ہوں گی.ان کو علم دین سکھانا ، مسائل سمجھانے ، اسلامی اخلاق و آداب کی تعلیم آپ نے دینی ہوگی اور اس کیلئے اگلے چند سالوں میں آپ نے تیاری کرنی ہے.ایک لڑکی جس کا ارادہ ایم.اے یا پی.ایچ.ڈی کرنے کا ہوتا ہے وہ چھٹی ساتویں جماعت سے ہی محنت اور کوشش کرتی ہے کہ ہر امتحان میں اچھے نمبروں پر پاس ہوتی چلی جائے اور اپنی منزل کو پا سکے.ہماری منزل بھی یہی ہے کہ ہم وہ دن دیکھیں جب اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے گا اور پچھلوں کا کام ہوگا کہ آنے والوں کو دین کا علم سکھائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو علوم کے خزانے لٹانے آئے تھے جیسا کہ آپ نے فرمایا :.وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امید وار ان خزائن سے پہلے اپنی جھولیاں بھریں اور پھر آنے والوں میں تقسیم کریں تا وہ بھی ان سے فائدہ اُٹھا ئیں.

Page 238

خطابات مریم 213 خطابات ہمارے عزائم بڑے ہیں مقاصد ارفع و اعلیٰ ہیں لیکن کمزوریاں ابھی بہت ہیں اس کے لئے سب سے قبل ہم نے ہر لجنہ کو منظم کرنا ہے اس کا مرکزی لجنہ سے رابطہ قائم کرنا ہے کثرت سے لجنات سے نہ رپورٹ آتی ہے نہ چندہ.جہاں لجنہ قائم نہیں جماعت قائم ہے وہاں لجنہ کا بھی قیام کرنا ہے اور ہر جگہ اس طرح تنظیم قائم کرنی ہے کہ آپس میں محبت، پیار، اخوت با ہمی اور ہمدردی کا جذبہ لے کر سب کام کریں.لڑائی جھگڑے سے باز رہیں.دیہات کی لجنات کی اصلاح کی بہت ضرورت ہے.اب تو دیہات میں بھی تعلیم عام ہے لیکن ایک عام نقص دیہات میں یہ ہے اگر ایک صدر بن جائے اور وہ کام کے قابل بھی نہ رہے تب بھی کسی اور کو صدر بنانے کے لئے ممبرات آمادہ نہیں ہوتیں.اس سلسلہ میں کسی لحاظ کی ضرورت نہیں جو کام اور خدمت کرنے کی اہل ہوا سے عہدہ دیں نہ کہ کسی کو خوش کرنے کیلئے.اس سلسلہ میں کئی سال سے میں توجہ دلا رہی ہوں کہ ضلعی لجنات اپنے ضلع کے انتظام کو مضبوط کر لیں.دورے کریں ، کروائیں.اس سال ضلع گوجرانوالہ، سیالکوٹ، سرگودھا، سانگھڑ، پشاور اور قصور نے کئے ہیں.اس کے علاوہ بشیر آباد کی صدر نے بھی ضلع گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور سرگودھا نے ضلعی سطح پر میٹنگز بھی بلائی ہیں.پشاور نے صوبائی اجتماع منعقد کیا ہے.ان چند کے سوا دیگر اضلاع کی صدروں نے مثلاً راولپنڈی، جہلم ، گجرات، لائل پور، ملتان ، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازیخان ، سا ہی وال ، جھنگ اور بہاولپور نے اس طرف بالکل توجہ نہیں دی.کسی ایک صدر یا ایک عہدہ دار کے دن رات کام کرنے سے ترقی نہیں ہو سکتی جب تک تمام عہدیداران اور تمام ممبرات مل کر قدم بقدم نہ چلیں.سب کے لئے کام کا معیار یکساں ہو.قربانی کا جذبہ ایک ہو اور یوں محسوس ہو کہ سب کے جسموں میں ایک دل دھڑک رہا ہے.تمام ضلعی بجنات کی صدروں کی ذمہ داری ہے اگر اس سال وہ دورے نہیں کریں گی اپنے ضلع کی نگرانی کا کام نہیں سنبھالیں گی تو ان کو کام سے ہٹانا پڑے گا.لجنہ اماءاللہ مرکز یہ جو ہر سال لجنات کے لئے لائحہ عمل تجویز کرتی ہے کم از کم اس پر سو فیصد عمل کیا جائے.لائحہ عمل کا یہ مطلب نہیں کہ صرف یہ کام کرنا ہے یہ تو کم سے کم معیار بتایا جاتا ہے اس سے بڑھ چڑھ کر کرنا چاہئے.شعبہ تعلیم کی طرف سے کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 239

خطابات مریم 214 خطابات مطالعہ کے لئے مقرر کی گئی ہیں.ایک سال میں چھ کتب یعنی ہر دو ماہ میں ایک کتاب یہ کوئی زیادہ نہیں.کوشش کریں کہ ہر خواندہ عورت اور لڑکی ان کو پڑھے.جسے سمجھ نہ آئے وہ اپنی عہدہ داروں اور سیکرٹری تعلیم سے سمجھے ان کو اجلاسوں میں سمجھایا جائے اور اس طرح کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پر عبور حاصل ہو ان کے ذریعہ آپ کو قرآن کریم کا فہم حاصل ہوگا.ہر شہری لجنہ کی کم از کم چالیس فی صد ممبرات کو یہ مقررہ نصاب پڑھوانا چاہئے.خلاصہ کر کے آسان زبان میں اجلاسوں میں پڑھائیں تا جو خود نہ پڑھ سکیں وہ سن کر مطلب سمجھ لیں.یہی وہ خزانے ہیں جو مہدی علیہ السلام نے تقسیم کئے لیکن ہم پورا فائدہ نہیں اٹھا ر ہیں.دوسرے ممالک کی خواہش کرتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا ترجمہ کر کے ان تک پہنچایا جائے تا وہ پڑھیں لیکن جن کے سامنے معارف کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا دریا بہہ رہا ہے وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا تیں عمل کے لئے علم کا ہونا ضروری ہے اور علم حاصل ہوگا آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے جو تفسیر ہیں قرآن عظیم کی اور جو دلیل ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و عظمت کی.کوشش کریں علم کو پھیلانے کی احمدی خواتین میں.احمدی عورت جاہل نہیں ہونی چاہئے.احمدی عورت دینی علم سے بے بہرہ نہیں ہونی چاہئے.احمدی عورت کے اخلاق اعلیٰ اور اس کا کردار بے عیب ہونا چاہئے اور آپس میں اتفاق ہونا چاہئے کیونکہ نا اتفاقی سے ہم اپنے بلند مقاصد حاصل نہیں کر سکتیں پھر تمام شاخہائے لجنہ اماء اللہ کا مرکزی لجنہ اماءاللہ سے گہرا تعلق ہونا چاہئے تا وہ قدم قدم پر ان کی راہ نمائی کر سکے.اس سلسلہ میں جہاں میں لجنات کو توجہ دلاتی ہوں کہ وہ مرکزی لجنہ کی عہد یداران سے گہرا رابطہ قائم کریں صرف رپورٹ اور چندہ بھیج دینا کافی نہیں وہاں عہد یداران سے بھی کہوں گی کہ ان کا تعلق ہر لجنہ سے ایسا ہونا چاہئے کہ وہ ان کے مسائل کو سمجھ سکیں اور سمجھ کر ان کی صحیح راہنمائی کر سکیں.انتخابات کے سلسلہ میں قانون کی پابندی کی جائے.لجنہ کی عہد یداران کے انتخابات کے قوانین بنائے جاچکے ہیں.صدر وہ منتخب کی جائے جو قرآن کا ترجمہ جانتی ہو.سب سے آخر میں اس طرف توجہ دلاتی ہوں کہ دعاؤں پر بہت زور دیں اسلام کی ترقی

Page 240

خطابات مریم 215 خطابات کیلئے جماعت کی ترقی کیلئے لجنہ کی ترقی کیلئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت اور اپنے مقاصد میں کامیابی کیلئے اپنی اولاد کیلئے اپنے کاموں میں کامیابی کیلئے اپنے کاموں کی بہتری اور ترقی کیلئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے رب کی محبت ہم سب کو حاصل ہو.اس کے فضل کے سایہ تلے ہم سب آ جائیں وہ ہم سے راضی ہو جائے اور ہم اس کی رضا کو حاصل کر کے خوش ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کی غرض يُحي الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَة (تذکرہ صفحہ 55) پوری ہو.آمین اللهم آمین (ماہنامہ مصباح دسمبر 1979ء ، جنوری 1980ء)

Page 241

خطابات مریم 216 خطابات اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 1979ء تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ اور رَبَّنَا لَا تُوخِذْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (البقرة: 287) کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے آئندہ سال کیلئے صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی ذمہ داری عاجزہ پر ڈالی ہے.خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری غلطیوں کو دور فرماتے ہوئے ذمہ داری اُٹھانے کی ہمت عطا فرمائے.کوئی لمحہ ایسا نہ آئے جس میں ہم خدا کی ناراضگی کا موجب بنیں.پھر فرمایا کہ صدر لجنہ مرکزیہ کے انتخاب کے سلسلہ میں حضور ایدہ اللہ نے یہ اصول مقرر فرمایا ہے کہ آئندہ صدر لجنہ مرکز یہ کا انتخاب ایک سال کیلئے ہوا کرے گا.حضور نے نائب صدر کیلئے صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ کا نام منظور فرمایا ہے.محترمہ سیدہ صدر صاحبہ لجنہ مرکزیہ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد يخي الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ ( تذکرہ صفحہ 55) ہے اس لئے سب کا مقصد اور مطمع نظر ایک ہے کہ اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے.اس ضمن میں ہمارا اولین فرض خلیفہ وقت کی اطاعت ہے کیونکہ خلافت یا جماعت سے جدا رہ کر ترقی کرنا ناممکن ہے.ازاں بعد فرمایا کہ ہمیں یقین کامل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کا ایک ایک لفظ پورا ہوگا.اگر ان اعلیٰ ترقیات میں ہم خواتین جماعت کا حصہ نہ ہوگا تو ہم بدقسمت ہونگی.آپ نے آخر میں نمائندگان کو نصیحت فرمائی کہ وہ مرکز کے ساتھ پورا تعاون کریں.مرکز کی ہر ہدایت پر عمل کریں، ہر اجتماع اور ہر جلسہ میں نظم و ضبط کی تربیت دیں نیز ذمہ داریوں کو به احسن پورا کرنے کی طرف توجہ دلائی.(الفضل10،9 نومبر 1979ء)

Page 242

خطابات مریم 217 خطابات احمدی عورت کا کردار (خطاب بر موقع جلسہ سالانہ 1979ء) میری تقریر کا عنوان ہے غلبہ اسلام کی مہم میں احمدی عورت کا کردار.اس عنوان میں تین باتیں زیر غور ہیں.ایک غلبہ اسلام دوسرے اس کی مہم تیسرے اس مہم میں احمدی عورت کا کردار کیا ہونا چاہئے.غلبہ اسلام کی مہم میں صحیح طور پر کردار ادا کرنے والے انسان کے دل میں سب سے پہلے یہ یقین کامل ہونا چاہئے کہ انشاء اللہ اسلام کا غلبہ ضرور ہوگا.اگر یہ کامل یقین پیدا نہ ہو تو اس کے مطابق قربانی اور عمل ناممکن ہے اور نہ ہی اس مہم میں احمدی خاتون کے کردار کی نشاندہی کی جا سکتی ہے.غلبہ اسلام کے متعلق سب سے پہلے ہم نے قرآن مجید پر غور کرنا ہے کہ قرآن مجید میں غلبہ اسلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کیا وعدہ ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف: 10) وہ خدا ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے خواہ مشرک کتنا ہی نا پسند کریں.تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ غلبہ مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہوگا.کشاف میں صاف طور پر لکھا ہے اور تفسیر ابن جریر میں بھی کہ یہ غلبہ مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہوگا.پھر سورہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کو اور زیادہ معین صورت میں بیان فرمایا کہ هُوَ الَّذي بعث في الأمّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَلَتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَ

Page 243

خطابات مریم 218 يُعلّمُهُمُ اب والحكمة ، وإن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِينٍ - خطابات وأَخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الجمع : 4،3) b ترجمہ: وہی خدا ہے جس نے ایک ان پڑھ قوم کی طرف اُسی میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا ( جو با وجود ان پڑھ ہونے کے ) اُن کو خدا کے احکام سناتا ہے.اور اُن کو پاک کرتا ہے اور اُن کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے گو وہ اس سے پہلے بڑی بھول میں تھے اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی وہ اس کو بھیجے گا جو ابھی تک اُن سے ملی نہیں اور وہ غالب اور حکمت والا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ یہ آخرین کون ہیں؟ تو آپ نے سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا.لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِند الثرِيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَوَلَاءِ (بخارى كتاب التفسير سورة الجمعة) یعنی اگر ایک وقت ایمان ثریا تک بھی اُڑ گیا تو اہل فارس کی نسل سے ایک یا ایک سے زیادہ لوگ اُسے واپس لے آئیں گے.اس حدیث میں مسیح موعود کی خبر دی گئی تھی.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور قرآنی بشارتوں کے مطابق حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تا آپ کے ذریعہ اس زمانہ میں اسلام کا غلبہ تمام ادیان پر ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے قبل مسلمان صرف نام کے مسلمان تھے.عیسائیت ، دہریت، آریہ دھرم، برہمو سماج ہر مذہب اپنے تمام حربوں کے ساتھ اسلام پر حملہ آور تھا اور ان حملوں کا جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دفاع کیا اور پھر خو داسلام کی حقانیت کے دلائل کے ساتھ نہ صرف اسلام پر اعتراضات کرنے والوں کا منہ بند کیا بلکہ اسلام کی صداقت کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کیا کہ کوئی جواب نہ دے سکا.مایوس دلوں میں امید کی شمعیں جلنے لگیں اور دنیا کو نظر آنے لگ گیا کہ اسلام زندہ مذہب ہے اسے شکست نہیں دی جا سکتی.اللہ تعالیٰ نے بشارتوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا کہ خدا آپ کے ساتھ ہے اور اس کے وعدے اپنے وقت پر پورے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کس یقین

Page 244

خطابات مریم 219 خطابات کے ساتھ فرماتے ہیں :.اس زمانہ میں جو مذہب اور علم کی نہایت سرگرمی سے لڑائی ہورہی ہے اس کو دیکھ کر اور علم کے مذہب پر حملے مشاہدہ کر کے بے دل نہیں ہونا چاہئے کہ اب کیا کریں.یقیناً سمجھو کہ اس لڑائی میں اسلام کو مغلوب اور عاجز دشمن کی طرح صلح جوئی کی حاجت نہیں بلکہ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے.جیسا کہ وہ پہلے کسی وقت اپنی ظاہری طاقت دکھلا چکا ہے.یہ پیشگوئی یاد رکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلّت کے ساتھ پسپا ہوگا اور اسلام فتح پائے گا حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زور آور حملے کریں کیسے ہی نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ بڑھ چڑھ کر آئیں مگر انجام کار ان کے لئے ہزیمت ہے“.(روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 254 حاشیہ ) پھر آپ فرماتے ہیں:.دو نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہوگا اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو بچے خدا کا پتہ لگے گا اور بعد اس کے تو بہ کا دروازہ بند ہوگا کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام اور سب حر بے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ کند ہو گا جب تک کہ دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے“.( تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ 8) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان بشارتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیں فرماتے ہیں :.” خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب

Page 245

خطابات مریم 220 خطابات کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اُٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے“.(روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409 - تجلیات الہیہ صفحہ 17) یہ چند اقتباس ہیں اُن اَن گنت بشارتوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیں.ہر احمدی کو یقین ہے اپنے رب بزرگ و برتر کے وعدوں پر کہ وہ جو کہتا ہے کرتا ہے کہ یہ غلبہ جس کے آثار صبح صادق کی طرح سب کو نظر آ رہے ہیں اسی طرح ہوگا جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح کو بشارت دی ہے کہ :.ا بھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.(روحانی خزائن جلد 20- تذکرۃ الشہادتین صفحه 67) حضرت خلیفة اصبح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی اللہ تعالیٰ سے بشارتیں پا کر جماعت کو اس طرف کئی بار توجہ دلا چکے ہیں کہ قیام احمدیت پر دوسری صدی غلبہ اسلام کی صدی ہوگی جس کے شروع ہونے میں صرف دس سال باقی ہیں.ہمارے دل اس یقین سے پُر ہیں کہ اسلام کا غلبہ ان بشارتوں کے مطابق ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے میسج کو دی ہیں.لیکن دیکھنا یہ ہے کہ غلبہ اسلام کی مہم جو مہدی موعود نے شروع کی تھی اس میں احمدی عورت کا کردار کیا ہونا چاہئے.ہر کام اور ہر قربانی میں اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت پر یکساں ذمہ داری ڈالی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.منْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنَ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيُوةٌ طَيِّبَةً

Page 246

خطابات مریم 221 خطابات ولنجزِيَنَّهُمْ أَجْرُهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (النحل: 98) ترجمہ : جو کوئی مومن ہونے کی حالت میں نیک اور مناسب حال عمل کرے گا مرد ہو کہ عورت ہم اس کو یقیناً ایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ہم اُن تمام لوگوں کو اُن کے بہترین عمل کے مطابق ان کے تمام اعمال صالحہ کا بدلہ دیں گے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کوئی تفریق نہیں کی کہ مرد کو زیادہ قربانی دینی چاہئے یا عورت کو کم.نیک اور مناسب حال اعمال کرنے کے نتیجہ میں یکساں بشارت دی ہے اور مناسب حال عمل وہی قربانی ہوتی ہے جس کی اس زمانہ میں ضرورت ہو.غلبہ اسلام کی جو مہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ شروع ہوئی اور جس کو آپ کے خلفاء وسعت دیتے رہے وہ کوئی تلوار کی جنگ نہیں تھی بلکہ روحانیت علم قربانی اور دعا کی مہم تھی جس کے نتیجہ میں غلبہ اسلام کا دن نزدیک سے نزدیک تر آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ساری دنیا کے سامنے اسلام کی صداقت کو دلائل کے ساتھ پیش کیا.اسلام کے غلبہ کے لئے دعائیں مانگیں.آپ کی تربیت اور تعلیم کے نتیجہ میں آپ کے متبعین کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوا کہ انہوں نے خدا کی خاطر جانیں بھی دے دیں اور پرواہ نہیں کی.حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کا واقعہ کس کو معلوم نہیں جس نے آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا وہ ایک نیا انسان بن گیا.انہیں قربانیوں کے سلسلہ کو آپ کے خلفاء نے جاری رکھا.تربیت، تعلیم، تبلیغ، تعمیر مساجد، بیرون ممالک میں اسلام کی تبلیغ کے لئے مبلغین و معلمین کا بھیجوانا اور یہ سب کام کامیابی کے ساتھ ہوتے رہے ہیں اور ہر قدم ترقی کی طرف اُٹھ رہا ہے.ہر سال جلسه سالانہ پر سینکڑوں کی تعداد میں بیرونی ممالک سے اسلام کے فدائی پہنچ رہے ہیں.ان میں سے ہر آنے والا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی دلیل بن کر آتا ہے اور ہمارے ایمان میں زیادتی کا موجب بنتا ہے لیکن غلبہ اسلام کی مہم کو تیز تر کرنے کیلئے ہم نے سوچنا ہے کہ کیا ہماری جماعت کی ہر احمدی عورت صحیح کر دار ادا کر رہی ہے کیا اس کے وجود اور اس کے عمل و قربانی سے اسے تقویت مل رہی ہے اگر نہیں تو اس کیلئے ہمیں کیا کرنا ہے.میری عزیز بہنو ! صرف منہ سے کہہ دینا کہ ہمیں اسلام سے محبت ہے کافی نہیں جب تک

Page 247

خطابات مریم 222 خطابات اس محبت کا ثبوت دینے کیلئے ہمارا عمل نہیں.دین سے محبت کا ثبوت آپ دین سیکھ کر دینی تعلیم حاصل کر کے دین کیلئے اپنے میں غیرت پیدا کر کے دین کی خاطر قربانیاں دے کر دین کے اصولوں پر چل کر دے سکتی ہیں.ان میں سے سرِ فہرست دینی تعلیم حاصل کرنا ہے.جس چیز کا آپ کو صحیح علم نہیں معرفت نہیں آپ دوسرے کو اس کے متعلق کیا بتا سکتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی صورت میں ایک مکمل شریعت مکمل ضابطۂ حیات مسلمانوں کو عطا فرمایا ہے جس سے باہر کوئی علم نہیں.انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک کے تمام مسائل کا حل اس میں موجود ہے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے طریق اس میں بتائے گئے ہیں.روحانی اور مادی ترقی کے حصول کے ذرائع اس میں بیان کئے گئے ہیں.اس لئے جو قرآن نہیں پڑھتا اسے نہیں سمجھتا وہ خود اپنی ترقی کا دروازہ بند کرتا ہے.عمل کا درجہ دوسرے نمبر پر ہے علم ہوگا تو عمل بھی ہو گا علم ہی نہ ہوگا تو عمل کے لئے قدم ہی کیسے اُٹھائے گا.پس ہر احمدی عورت کا فرض اولین ہے علم حاصل کرنا.اسے قرآن با تر جمہ آنا چاہئے اور اس کی طرف ابھی تک بہت سستی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی جماعت کا تعلیم کا معیار بلند ہو رہا ہے لیکن بہت افسوس ہوتا ہے بعض دفعہ یہ دیکھ کر کہ ان کو قرآن مجید کا ترجمہ نہیں آتا.جب مطلب نہیں آئے گا تو غور و تدبر کیسے ہو گا عمل کس طرح کریں گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں قرآن مجید کے مطالب اور تفاسیر اس طرح بیان فرمائی ہیں کہ ہر ایک اُن کو سمجھ سکتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی کتب کثرت سے پڑھیں تا کہ ان کے ذریعہ قرآن سمجھنے میں مدد ملے.یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو آپ نے کرنا ہے کہ قرآن مجید پڑھیں تا آپ جماعت میں نئی شامل ہونے والیوں کو قرآن پڑھا سکیں.ساری دنیا میں اب ایک جستجو صداقت کی شروع ہو چکی ہے.عیسائیت سے بے زار ہو کر لوگ اسلام کی طرف آرہے ہیں.جیسے جیسے اسلام قبول کریں گے ان کی تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہوگی اور آنے والی خواتین لازماً آپ سے امید رکھیں گی کہ آپ ان کو سکھائیں گی کیونکہ آپ کو یہ نعمت ان سے پہلے مل چکی ہے.میری بہنو وقت کی قدر کریں اور اپنے وقت کو فضولیات میں ضائع کرنے کی بجائے دین سیکھنے میں خرچ کریں.دین

Page 248

خطابات مریم 223 خطابات کی محبت تقاضا کرتی ہے کہ آپ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیعت لیتے ہوئے یہ عہد لیا کرتے تھے کہ دین اور دنیا کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولا د اور اپنے ہر ایک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.یہ وہی عہد ہے جس کی طرف قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قل ان كان اباؤُكُمْ وَابْنَاؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَازْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَ تُكُمْ وَامْوالُ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَ تِجَارَةً تَخْشَونَ كَسَادَهَا وَمَسْكِنُ تَرْضَوْنَهَا احَبَّ إِلَيْكُمْ مِّنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ باشرة، والله لا يَهْدِى الْقَوْمُ الفَسِقِينَ (التوبه: 24) اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا ہے کہ تو مومنوں سے کہہ دے کہ اگر تمہارے باپ دادے اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے دوسرے رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارتیں جن کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور وہ مکان جن کو تم پسند کرتے ہو تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کے راستہ میں جہاد کرنے کی نسبت زیادہ پیارے ہیں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنے فیصلہ کو ظاہر کر دے اور اللہ اطاعت سے نکلنے والی قوم کو کبھی کامیابی کا راستہ نہیں دکھاتا.پس غلبہ اسلام کی مہم میں ہر احمدی عورت کا کردار یہ بھی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے عزیز ہوں اور ان کے مقابلہ میں ماں باپ عزت مال جان سب پیچ ہوں جس کی قربانی کی ضرورت پڑے اسے قربان کرنا مشکل نہ ہو.غلبہ اسلام کی مہم کے لئے جہاں مال کی ضرورت پڑے آپ مال حاضر کر دیں.جہاں وقت دینے کا سوال ہو اپنے ضروری کام گھریلو ذمہ داریاں چھوڑ کر بھی اسلام کی ترقی کی خاطر وقت دیں جہاں اولاد کی قربانی کا سوال ہو جماعت کی ترقی اور مبلغین تیار کرنے کیلئے اپنی اولاد کو وقف کریں جہاں غیرت دینی دکھانے کے لئے اپنے دوستوں اقربا سے قطع تعلق کرنا پڑے کریں لیکن مقصود ہو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت اور دین کو دنیا پر مقدم کرنا.میرے نزدیک اس وقت سب سے بڑی قربانی اولاد کی تربیت کرنا ہے جس زمانہ میں سے ہم گزر رہے

Page 249

خطابات مریم 224 خطابات ہیں ایک قربانی دینے والی نسل ختم ہو رہی ہے.وہ بزرگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فیض حاصل کیا یا حضرت خلیفہ اول کا زمانہ پایا یا حضرت مصلح موعود کا ابتدائی زمانہ دیکھا ان میں سے بہت سے رخصت ہو چکے ہیں جو بچے ہیں وہ خود بھی تربیت کے محتاج ہیں وہ خواتین جو ان بزرگوں کی بیٹیاں اور بہوئیں ہیں اور اگلی نسل کی مائیں ہیں ان پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اگر آپ ان کی طرف توجہ نہیں دیں گی ان میں مذہب کی محبت پیدا نہیں کریں گی ان میں فدائیت کا جذبہ پیدا نہیں کریں گی.اللہ تعالیٰ کی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا شوق پیدا نہیں کریں گی تو وہ ایک مثالی احمدی بننے کی بجائے اردگرد کے ماحول سے متاثر ہوں گے.پس آپ کی سب سے بڑی ذمہ داری سب سے بڑا کام اپنی اولا د کو دیندار بنانا ہے.اچھے انسان بنانا ہے، اعلیٰ اخلاق ان میں پیدا کرنے ہیں.قرآن مجید کا عامل بنانا ہے.خاص طور پر لڑکیوں کو کیونکہ لڑکی نے اگلی نسل کی ماں بننا ہوتا ہے.اس زمانہ میں احمد یہ جماعت کی خواتین اور بچیاں جس دجالی حربہ سے متاثر ہوئی ہیں وہ بے پردگی کا حربہ ہے.ہر زمانہ میں آدم کے مقابلہ پر شیطان نے کوئی نہ کوئی حربہ استعمال کیا ہے اس زمانہ میں اُن حربوں میں سے ایک حربہ بے پردگی کا ہے.گویا دوسرے الفاظ میں دنیا کو دین پر مقدم رکھنے کی تعلیم ہے.اللہ تعالیٰ کے حکم کی صریح نافرمانی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی خلاف ورزی.قرآن کے ایک حکم کو توڑنا غیر مسلموں کو اپنے پر ہنسنے کا موقع دینا کہ دعویٰ تو اسلام کا مگر قرآن کے ایک حکم پر ان کا اپنا ہی عمل نہیں اور یا درکھیں کہ کبھی بھی ہم ترقی نہیں کر سکتے جب تک ہمارے قول اور فعل میں کوئی تضاد ہوگا.صرف پر وہ ہی نہیں اگر ایک احمدی بچی یا عورت سچ نہیں بولتی تو وہ اپنے عمل سے دنیا کو بتا رہی ہے کہ میں قرآن پر عمل نہیں کر رہی.اس کی بات کا کیا اثر ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور شان کا اظہار حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک چھوٹے سے فقرہ سے کیا.جب کسی نے پوچھا کہ آپ کے اخلاق کے متعلق کچھ بتا ئیں تو آپ نے کہا.کان خلقه القرآن (مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 91) جو قرآن کی تعلیم وہ دے رہے ہیں اسی پر آپ کا عمل ہے.جو اخلاق قرآن میں بیان کئے گئے ہیں آپ میں سب پائے

Page 250

خطابات مریم 225 خطابات جاتے ہیں.یہی خلاصہ ہے اسلام کی ساری تعلیم کا کہ عمل ایمان اور علم کے مطابق ہونا چاہئے جس کے لئے قرآن مجید کے گہرے مطالعہ کی ضرورت ہے.پختہ ایمان کی ضرورت ہے.پختہ ارادہ کی ضرورت ہے دعاؤں کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسے کی ضرورت ہے اپنی زندگیوں کو اس سانچہ میں ڈھالنے کی ضرورت ہے جس میں حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام آپ کو ڈھالنا چاہتے تھے.وہ عشق کا سانچہ ہے محبت الہی کا سانچہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی ہے.خود آنحضرت عﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں اپنے بچوں کو ان کی عمروں اور ذہنوں کے مطابق واقعات سنا کر بتا کران کے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کے نقش قدم پر چلنے کا شوق پیدا کریں.ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جنہیں یہ خواہش اور شوق ہے کہ ہمارا بچہ دین کی خاطر زندگی وقف کرے ان کے ذہنوں میں ہم میں سے کتنے یہ بات ڈالتے ہیں ان کے لئے کتنی ہیں جو ایسا ماحول پیدا کرتی ہیں کہ بڑے ہو کر وہ دنیا پر دین کو مقدم رکھنے والے اور دین کی خاطر قربانی کرنے والے بنیں.اگلے دس سال ہمارے لئے لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتے ہیں کہ اگلی صدی کے استقبال کے لئے ہم نے کیا تیاری کی ہے.یہ بچے جو دس سال میں جوان ہوں گے کیا یہ اس قابل ہوں گے کہ عظیم ذمہ داریوں کو سنبھال سکیں.پس بہت ضرورت ہے خود اپنے میں ایک تبدیلی پیدا کرنے کی.اللہ تعالیٰ سورہ صف میں فرماتا ہے.يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابِ اليْم تُؤْمِنُونَ باللهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَ انْفُسِكُمْ ذلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (الصف: 11، 12) اے مومنو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کی خبر دوں جو تم کو دردناک عذاب سے بچالے گی اور وہ تجارت یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرو اگر تم جانو تو یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے ساتھ مال اور جان سے جہاد کا حکم ہے.جان سے جہاد کا مطلب ہے کہ نفس کو مارو.نفس کی قربانی دو.اپنی

Page 251

خطابات مریم 226 خطابات جانوں کو قرآن کی تعلیم میں لگاؤ.اسلام کی اشاعت میں لگاؤ ایسے کاموں میں لگاؤ جس سے دین کو تقویت ملے.دین کی خاطر زندگیاں وقف کرو دین کے کاموں کے لئے اپنے اوقات میں سے کچھ وقت صرف کرو اور جہاں دین کی عزت اور سر بلندی کا سوال آئے وہاں اپنے جذبات کو قربان کرو.عموماً مستورات کے متعلق اس قسم کی شکایتیں ملتی ہیں کہ فلاں کے گھر اجلاس ہوا تو شامل نہیں ہونا.فلاں صدر یا سیکرٹری ہوئی تو اس کے ساتھ مل کر کام نہیں کرنا کیونکہ اس سے ہمارا جھگڑا ہے ہماری سب محبتیں بھی خدا تعالیٰ کی خاطر ہونی چاہئیں اور ہماری نفرت بھی خدا تعالیٰ کی خاطر.اللہ تعالیٰ تو کسی سے بھی نفرت اور دشمنی کی اجازت نہیں دیتا خواہ بڑے سے بڑا دشمن ہو.صرف جو خدا کا دشمن ہے اس سے دوستی رکھنے کی اجازت نہیں.قومی ترقی کا بنیادی گر اتحاد اور باہمی تعاون ہے.ہماری سب بہنوں میں بھی یہی روح ہونی چاہئے.ہر کام مل کر کریں ایک دوسرے سے تعاون کریں اور سلسلہ کے کام کرتے ہوئے اگر کسی قسم کی آپس میں رنجش ہو تو اسے بھول جائیں.ان سب باتوں کے ساتھ یہ مرکزی نکتہ یا درکھیں کہ غلبہ اسلام اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ وابستہ ہے اور غلبہ اسلام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کا انعام عطا فرمایا ہے سلسلہ خلافت کے ذریعہ گلشن احمد کی آبیاری مقدر ہے.اس نعمت کی قدر کرنا اور اپنے آپ کو اس کا مستحق قرار دینا احمدی جماعت کا فرض ہے.ہر احمدی خاتون کا فرض ہے کہ اس کا خلافت سے تعلق مضبوط ہو.خلیفہ وقت کے احکام پر بشاشت سے چلنے والی ہو.آپ کے فیصلوں کو بشاشت قلب سے قبول کرنے والی ہو.اپنی اولاد کے دل میں خلافت سے عقیدت اور محبت پیدا کرے.نظام سلسلہ پر اعتراض کرنے والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے.ہر زمانہ میں منافقین پیدا ہوتے ہیں.ہمیں ہر وقت جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ کسی قسم کا اثر ان کی باتوں کا ہم پر اور ہماری اولاد پر نہ ہو.اپنی اولا دکوان کے اثر سے محفوظ رکھیں.خلیفہ خدا بناتا ہے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوتا ہے.اس کی قیادت میں جماعت کی ترقی مقدر ہے اس لئے خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے اور خلیفہ وقت کے مطیع اور فرمانبردار رہنے سے ہی جماعت کی ترقی ہے.یہ سنہری گر جماعت کی مستورات کے ذہنوں میں ہر وقت

Page 252

خطابات مریم 227 خطابات رہنا چاہئے.سلسلہ کی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ کیسے کیسے نامساعد حالات کے باوجود خلافت کے ذریعہ جماعت ترقی کی راہ پر گامزن رہی اور ہر نیا دن جو چڑھا وہ جماعت کے لئے مزید ترقی کے سامان لے کر چڑھا.خلافت سے عقیدت و احترام ، خلافت کے لئے قربانیاں جو دراصل اسلام کی خاطر قربانیاں ہیں آپ کو غلبہ اسلام کی مہم میں حصہ دار بنا سکتی ہیں.پھر یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کا نیک نمونہ ہوتا نئے اسلام لانے والے آپ کے نمونہ کو دیکھ کر آپ کی طرف جھکیں.آپ کے نمونہ کو مثال کے طور پر پیش کیا جائے.نمونہ اپنے کردار کے لحاظ سے، نمونہ اپنے اعلیٰ اخلاق کے لحاظ سے ، نمونہ اپنی اولاد کی تربیت کے لحاظ سے، نمونہ مالی قربانی کے لحاظ سے، نمونہ خدمت جماعت اور خدمت انسانیت کے لحاظ سے ، نمونہ آپ کے علم اور فضل کے لحاظ سے، نمونہ حقیقی تقویٰ اور خشیت اللہ کے لحاظ سے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر احمدی خاتون کا سراپنے رب کے سامنے ہر وقت دعا کے لئے جھکا ر ہے کہ الہی جلد سے جلد تو اسلام کے باغ کو پھر سے ہرا کر دے جو تو نے وعدے اپنے مسیح سے کئے ہیں وہ جلد سے جلد پورے ہوں ہم اپنی آنکھوں سے اس چمن کی بہار کو دیکھیں.فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہوں اور ساری دنیا غلبہ اسلام پر چلنے کے لئے کوششوں سے قربانیوں سے اور دعاؤں سے.اللہ تعالیٰ وہ دن جلد لائے کہ اسلام کا سورج تمام دنیا کو منور کر دے اور صداقت کی متلاشی روحیں صداقت کو پالیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دی ہوئی یہ بشارت پوری ہو.دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.(روحانی خزائن جلد 20 - تذکرۃ الشہادتین صفحہ 67) (ماہنامہ مصباح جنوری، فروری 1980ء)

Page 253

خطابات مریم 228 خطابات ہمیں صحیح اسلامی تعلیم کا نمونہ پیش کرنا چاہئے دین میں بدعات اور رسوم کو رواج دینا اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے انحراف کے مترادف ہے 22 فروری 1980ء کو دارالذکر لاہور میں لجنہ اماءاللہ لاہور کا جو اہم جلسہ منعقد ہوا اس میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ مدظلہ العالی صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے مندرجہ ذیل خطاب فرمایا.تیرا نبی جو آیا اُس نے خدا دکھایا دین قویم لایا بدعات کو مٹایا حق کی طرف بلایا، مل کر خدا ملایا یہ روز کر مبارک سبحان من يران ( در ثمین صفحه 38) میری عزیز بہنو! آج اس موقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کچھ باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتی ہوں.قاعدہ ہے کہ مامور کے زمانہ سے جوں جوں دوری ہوتی ہے جماعت میں کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں اور جب نئے نئے لوگ جماعت میں داخل ہوتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ کمزوریاں بھی لے آتے ہیں اور وہ رائج ہو جاتی ہیں.اسی چیز کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :.إِذَا جَاء نَصْرُ اللهِ وَالفَتْحُ وَراتَ النّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ افواجال فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوابَاتُ ( النصر : 2 تا 4) ترجمہ : جب اللہ کی مدد اور کامل غلبہ آ جائے گا اور تو اس بات کے آثار دیکھ لے گا کہ اللہ کے دین میں لوگ فوج در فوج داخل ہوں گے اس وقت تو اپنے رب کی تعریف کے ساتھ ساتھ

Page 254

خطابات مریم 229 خطابات اس کی پاکیزگی بیان کرنے میں بھی مشغول ہو جائیو (اور مسلمانوں کی تربیت میں جو کوتاہیاں ہوئی ہوں ان پر ) اس (خدا) سے پردہ ڈالنے کی دعا کیجیو وہ یقیناً اپنے بندہ کی طرف رحمت کے ساتھ لوٹ کر آنے والا ہے.یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ جوں جوں لوگ اسلام میں کثرت سے داخل ہوں گے ان میں کمزوریاں پیدا ہوں گی اور جس وقت کوئی قوم ترقی کرتی اور کثرت سے پھیلتی ہے وہی زمانہ اس کے تنزل اور انحطاط کے آغاز کا بھی ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی لئے دعاؤں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ آپ دعاؤں میں لگ جائیں اور اللہ تعالیٰ سے التجا کریں کہ وہ نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کی حفاظت کرے اور ان کی نصرت کرتا رہے بلکہ اسلام میں نئے داخل ہونے والوں کی بھی خود تربیت کا سامان کرے اور ایسی صورت پیدا کرے کہ تمام مسلمان ٹھوکر اور غلطیوں سے بچتے رہیں.اس زمانہ میں غلبہ اسلام کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تا آپ دنیا کو اسلام کا صحیح چہرہ دکھا ئیں.اسلام پر غیر مسلموں کی طرف سے جو اعتراضات ہوتے ہیں ان کا دفاع کریں اور آپ کے ذریعہ سے اسلام کا پھر غلبہ ہو.لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں جماعت ترقی کر رہی ہے ہر ملک میں احمدیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہاں تربیتی لحاظ سے کچھ کمزوریاں بھی واقع ہو رہی ہیں.جب کسی کو منع کرو ایسا نہ کرو یا ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا تو جواب ملتا ہے اس میں کیا حرج ہے.یہ کام تو ایسے ہی دل خوش کر نے کو کیا تھا.میری بہنو ! اصولی طور پر یا درکھیں کہ ہمارے لئے تعلیم کا سر چشمہ قرآن مجید ہے.پھر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.پھر آپ کی احادیث ہیں اور اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے خلفاء اور آپ کے صحابہ صحابیات کا عمل ہے.اگر کسی کام کا ثبوت آپ کو ان سب سے نہیں ملتا تو آپ کیوں کریں اس کام کو؟ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرماتے تھے.ترجمہ : حلال بھی بیان ہو چکا ہے اور حرام بھی بیان ہو چکا ہے اور ان دونوں کے

Page 255

خطابات مریم 230 خطابات درمیان کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں کہ مشابہ ہیں انہیں اکثر لوگ نہیں جانتے.پس جو کوئی شبہات سے بچا اس نے اپنی عزت اور دین کو بچالیا اور جو کوئی ان شبہات میں پڑ گیا اس کی مثال ایک چرواہے کی ہے جو بادشاہ کی رکھ کے اردگرد اپنے جانوروں کو چرا تا ہے قریب ہے کہ اپنے جانوروں کو اندر ڈال دے.خبر دار ہر ایک بادشاہ کی ایک رکھ ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کی رکھ اس کی زمین میں اس کے محارم ہیں خبر دار جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو تو سب جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جائے تو سب جسم خراب ہو جاتا ہے.خبر دار وہ گوشت کا ٹکڑا دل ہے“.( بخاری کتاب الایمان ) پس ایک مومن اور متقی کا یہی کام ہے کہ وہ محرمات کے ساتھ ساتھ ان کاموں سے بھی بچے اور محفوظ رہے جنہیں محرمات میں شامل تو نہیں کیا جاتا لیکن ان کے کرنے کے ساتھ ڈر ہے کہ جس طرح ایک چرواہا رکھ کے اندر جانور ڈال سکتا ہے انسان کا قدم گناہوں کی دلدل میں ایسا نہ پڑ جائے کہ نکل ہی نہ سکے اور اس کو ہی تقویٰ کا نام دیا گیا ہے.متقی نیک کو نہیں کہتے.متقی وہ ہے جو اپنے آپ کو بُرائیوں سے بچا کر رکھے.قرآن کریم میں تقویٰ کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کے بارہ میں حضرت ابو ہریرہ سے کسی نے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ کانٹوں والی جگہ پر سے گزرو تو کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا یا اس سے پہلو بچا کر چلا جاتا ہوں یا اس سے پیچھے رہ جاتا ہوں یا آگے نکل جاتا ہوں.انہوں نے کہا بس اسی کا نام تقویٰ ہے.یعنی انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے مقام پر کھڑا نہ ہو اور ہر طرح اس سے بچنے کی کوشش کرے.ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے.لَا تَحْقِرَنَّ صَغِيرَةً إِنَّ الْجِبَالَ مِنَ الْحَصَى تو چھوٹے گناہ کو حقیر نہ سمجھ کہ یہ ذراسی بات ہے کیا ہو گیا.یہ یاد رکھ کہ بڑے بڑے پہاڑ چھوٹی کنکریوں سے ہی بنے ہوئے ہیں.پس اپنی اصلاح اور اپنے رشتہ داروں، دوستوں و معاشرہ کی اصلاح کے لئے پہلا قدم یہ ہے کہ انسان کثرت سے استغفار پڑھے اپنی غلطیوں پر اپنے دوست احباب رشتہ داروں سب

Page 256

خطابات مریم 231 خطابات کے لئے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان غلطیوں کو ڈھانپ لے.دوسرا ضروری امر یہ ہے کہ انسان انسان ہے فرشتہ نہیں کہ اس سے غلطی نہ ہو.اگر کوئی قصور ہو ، اخلاقی جرم ہو تو اس پر ندامت کا اظہار ضرور ہو.دل میں پشیمانی ہو خدا کے حضور جھکے کہ غلطی ہوگئی معاف کر دے دوبارہ نہ کرنے کا ارادہ اور عزم کرے غلطی پر اصرار نہ کرے.بہت سی غلطیاں معاشرہ میں اس لئے ہوتی ہیں کہ احساس گناہ مٹ جاتا ہے اور یہ سب سے خطرناک امر ہے جب تک انسان میں یہ احساس رہے گا اور اس کا ضمیر اس کو ملامت کرتا رہے گا کہ تم نے فلاں کام غلط کیا اپنی ناسمجھی کی بنا پر اس کی اصلاح کی صورت باقی رہتی ہے.اسی لئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نفس لوامہ کو بطور شہادت پیش کیا ہے اور اسلامی اصول کی فلاسفی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی بڑی لطیف تشریح فرمائی ہے.انگریزی میں کا نشس اور اُردو میں ضمیر کا لفظ عام بولا جاتا ہے.ہر کام کرتے وقت انسان کا ضمیر اگر وہ بگڑ نہیں چکا تو ضرور را ہنمائی کرتا ہے کہ یہ کام کرنا چاہئے یا نہیں.بُرا کام کر بھی لے گا تو ضمیر کی ملامت سے نہیں بچ سکتا.یکم فروری 1980ء حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت کو آپ کے ہی شہر میں تنبیہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار رہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو دین میں بدعات اور بدرسوم کو رواج دینے اور ان کی پیروی کرنے کی ہلاکت آفرینی سے خبر دار فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے.حضور نے فرمایا تھا کہ احباب جماعت پہلے خود اسلامی تعلیم پر عمل پیرا ہو کر اپنی زندگیوں میں انقلاب عظیم پیدا کریں.پھر بنی نوع انسان کی زندگیوں میں انقلاب بر پا کرنا ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورہ انعام کی آیات کا مضمون بیان فرمایا تھا کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ اعلان کروایا ہے کہ میں سب سے بڑا فرمانبردار ہوں اور اگر میں نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.پس ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ اگر جسم نے ذراسی بھی نافرمانی کی خدا تعالیٰ کے احکام کی تو یوم عظیم کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکتا.

Page 257

خطابات مریم 232 خطابات حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ جو لوگ ایمان لانے کے باوجود دین میں بدعات داخل کرتے یا بد رسوم کی پیروی کرتے ہیں وہ منہ سے کہیں یا نہ کہیں زبان حال سے بھی وہ یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ خدائی احکام کو ان کی مرضی کے مطابق بدل دیا جائے.سچی مسلمہ یعنی فرمانبردار بننے کی کوشش کریں.یہی مقام ہے جس کے لئے آپ نے جد و جہد کرنی ہے ایسا نہ ہو کہ خلیفہ وقت کی ناراضگی اور پھر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی موجب بنیں.اس کی ذمہ داری لجنہ اماء اللہ کی عہدیداران پر بھی ہے اور ہر احمدی گھرانہ پر ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّته ( بخاری کتاب الجمعۃ ) تم میں سے ہر شخص کی حیثیت ایک چرواہے کی ہے جس سے اس کے ریوڑ کے متعلق سوال کیا جائے گا.پس دعائیں کریں اپنے لئے اپنی اگلی نسل کے لئے کہ غلط تربیت کے نتیجہ میں آپ ان کو جہنم میں جھونکنے والی نہ ہوں.نگرانی کریں اُن کی صحیح نگرانی اور اصلاح کی کوشش کریں.محبت اور پیار سے.اعتراض کرنے سے نہیں ان میں دین سے محبت حکمت اور دین کے اصولوں میں چلنے کا شوق پیدا کرے.انسان کو پتہ نہیں لگتا کس وقت وہ نفس کے پھندے میں آ جائے.اس لئے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں یہ دعا سکھائی گئی ہے.اللَّهُمَّ اَحْفِظْنَا مِنْ شَرِوُرِ انْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا.( بخاری کتاب الجمعه ) نفس کے پوشیدہ شر اور اعمال کے بُرے نتائج سے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے.انسان کا مال اور اولا دانسان کیلئے سب سے بڑے فتنہ کا باعث ہے.جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُ كُمْ فِتْنَةٌ ( الانفال: 29) اولاد کی ناجائز محبت میں انسان دوسرے کی حق تلفی کر جاتا ہے نا جائز کام کر جاتا ہے اسی طرح زیادتی مال بُرے کاموں پر اُکسا دیتی ہے.اس سے بچے رہنا اور دعائیں کرتے رہنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.پس کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا نہیں کر سکتا جب تک با وجود اولاد کے بے اولاد نہ ہو اور باوجود مال کے دل میں مفلس ومحتاج نہ ہو اور باوجود دوستوں

Page 258

خطابات مریم 233 خطابات کے بے یار و مددگار نہ ہو.یہ ایک مشکل مقام ہے جو انسان کو حاصل کرنا چاہئے.اسی مقام پر پہنچ کر وہ سچا خدا پرست بنتا ہے“.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 97) پس ہمیں چاہئے کہ ہمارے ہر کام اور ہر تقریب میں سادگی ہو، تکلف نہ ہو، کوئی بدعت اور رسم جنم نہ پائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.جو چیز بُری ہے وہ حرام ہے اور جو چیز پاک ہے وہ حلال.خدا تعالیٰ کسی پاک چیز کو حرام قرار نہیں دیتا بلکہ تمام پاک چیزوں کو حلال فرماتا ہے.ہاں جب پاک چیزوں میں ہی بُری اور گندی چیزیں ملائی جاتی ہیں تو وہ حرام ہو جاتی ہیں اب شادی کو رف کے ساتھ شہرت کرنا جائز رکھا گیا ہے لیکن اس میں جب ناچ وغیرہ شامل ہو گیا تو وہ منع ہو گیا اگر اسی طرح پر کیا جائے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کوئی حرام نہیں“.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 355،354) غرض جماعت احمدیہ کے مرد ہوں یا عورت ان کی زندگیاں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں گزرنی چاہئیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس وقت ایک صادق کو بھیج کر چاہا کہ ایسی جماعت تیار کرے جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرے اور اسے اللہ تعالیٰ کی محبت کی لذت ساری لذتوں سے بڑھ کر حاصل ہو.خودحضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.میں یہی نمونہ صحابہ کا اپنی جماعت میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو وہ مقدم کر لیں اور کوئی امران کی راہ میں روک نہ ہو وہ اپنے مال و جان کو بیچ سمجھیں.پھر آپ فرماتے ہیں:.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 422) اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایک ایسی جماعت بنائے گا جو ہر جہت میں سب پر فوقیت رکھے گی اللہ تعالیٰ ہر طرح کا فضل کرے گا مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شخص اپنے نفس کا تزکیہ کرے ہاں کمزوری میں اللہ تعالیٰ معاف کرتا ہے جو شخص کمزور ہے اور ہاتھ اُٹھاتا ہے کہ کوئی اس کو پکڑے اور اُٹھائے اس کو اُٹھایا جائے گا“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 505)

Page 259

خطابات مریم 234 خطابات یہ تزکیہ نفس کیسے ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ کے احکام کی حد بندی کرنے سے خود حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :.خدا تعالیٰ خود ایسی جماعت تیار کر رہا ہے جو قرآن شریف کی ماننے والی ہوگی.ہر ایک قسم کی ملونی اس میں سے نکال دی جائے گی اور ایک خالص گروہ پیدا کیا جاوے گا اور وہ یہی جماعت ہے.اس لئے میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کے احکام کے پورے پابند ہو جاؤ اور اپنی زندگیوں میں ایسی تبدیلی کرو جو صحابہ کرام نے کی تھی ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں دیکھ کر ٹھو کر کھائے“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 468) اس سلسلہ میں مجھ پر اور سب عہدہ داروں پر اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین پر اور جماعت کے سرکردہ احباب کی خواتین پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ہر لحاظ سے اپنا نیک نمونہ دکھانے کی اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کریں اور کوشش بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو احسن طور پر ادا کرنے کی توفیق دے کہ نہ ہم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنیں نہ کسی کے لئے ٹھوکر کا.پردہ کی طرف سے بہت بے پروائی ہورہی ہے جب نیکی کی اہمیت کا احساس کم ہو جائے تو بُرائی کا احساس بھی مٹ جاتا ہے لیکن جب یہ احساس پیدا ہو جائے کہ پردہ ہم لوگوں کی خاطر نہیں کرتے خدا تعالیٰ کے حکم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق آپ کی سنت کے اتباع میں کرتے ہیں تو بات اور ہو جاتی ہے.میری بہنو! آپ کے طور طریق سے خدا نہ کرے اسلام کی اصل تصویر میں کوئی تبدیلی پیدا ہو اور اگلی نسلوں کیلئے تباہی کا موجب بنیں.دعائیں کریں ، کوشش کریں کہ آپ خود بھی اچھا نمونہ پیش کریں اور اپنی اولاد کی بھی صحیح تربیت کر سکیں.خصوصاً بیٹیوں کی جنہوں نے اگلی نسل کی ماں بننا ہے.آئندہ مستورات کی ترقی اور تربیت کا انحصار موجودہ نسل کی صحیح تربیت پر ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.(ماہنامہ مصباح اپریل 1980ء) ☆☆☆

Page 260

خطابات مریم 235 خطابات افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ 1980ء میری پیاری بچیو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تم سب سے مل کر اور دیکھ کر دل بے حد خوش ہے کہ گلشن احمد میں بہار آئی ہوئی ہے.جگہ جگہ سے چھوٹی چھوٹی پیاری بچیاں اپنے اجتماع میں شامل ہونے کے لئے آئی ہیں.سب کے دل میں ایک ہی جذبہ ہے مرکز سلسلہ میں آنا ایک دوسرے سے بڑھ کر مقابلوں میں حصہ لینے کا، دین سیکھنے کا.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی یہ جذبہ تم میں قائم رکھے اور ہمیشہ ہی مسابقت کی یہ روح تم میں قائم رہے جو آج قائم ہے یہ مسابقت کی روح صرف اور صرف مقابلہ جات کے لئے ہی نہ ہو، کھیلیوں ہی کیلئے نہ ہو بلکہ ہر نیکی اور ہر خوبی اور ہر بھلائی کے حاصل کرنے کیلئے ہو کہ میں ہی سب سے زیادہ نمازوں کی پابند ہوں.سب سے زیادہ دعائیں کرنے والی ہوں.سب سے زیادہ صفائی پسند ہوں ، سب سے زیادہ محنت کرنے والی ہوں ،سب سے آگے تعلیم میں نکلنے والی ہوں، سب سے زیادہ قرآن مجید کا ترجمہ سکھنے والی ہوں، سب سے زیادہ دینی علم سیکھنے والی ہوں.ہر ایک کی کوشش ہو کہ اخلاق میرے سب سے اچھے ہوں، سب سے زیادہ سچ بولنے والی ، دیانتدار، خوش خلق ، غریبوں کی مدد کرنے والی ، صدقہ دینے والی، رحم کرنے والی اور انسان دوست ہو.تا اسلام و احمدیت کا لگایا ہوا یہ باغ مختلف قسم کی خوشبوؤں سے ہر وقت مہکتا رہے اور اس پر کبھی خزاں نہ آئے.میری پیاری بچیو! اس باغ کو ہرا بھرا رکھنے کیلئے ضرورت ہے کہ آپ میں اپنی ذمہ داری کا احساس ہو، دل میں دین کا درد ہو، اللہ تعالیٰ سے پیار ہو ، اس کے احکام پر عمل کرنے کا شوق ہو اور سب سے بڑھ کر یہ احساس ہو کہ سب سے بڑھ چڑھ کر میں نے کام کرنا ہے اگر میں نے کام نہ کیا تو دین کو نقصان پہنچے گا.اس لئے ضروری ہے کہ بچپن سے آپ کو کام کرنے کی تربیت دی جائے.غلبہ اسلام کی

Page 261

خطابات مریم 236 خطابات صدی شروع ہونے میں صرف آٹھ سال باقی ہیں.آج جو بچی ناصرات میں داخل ہو رہی ہے وہ ٹھیک آٹھ سال کے بعد لجنہ اماء اللہ میں داخل ہوگی اور لجنہ اماءاللہ کی ممبر بنتے ہی اس پر بہت سی ذمہ داریاں آپڑیں گی.اس لئے میری پیاری اور عزیز بچیو تم اپنے کو ایک عام بچی نہ سمجھو تم احمدی بچی ہو جس نے غلبہ اسلام کی مہم میں عظیم الشان کردارادا کرنا ہے.خود کی مسلمان بنو تائی آنے والیوں کو اسلام سکھا سکو.خود با اخلاق ہوتا دنیا کو اسلام کی اخلاقی تعلیم کا نمونہ بن کر دکھا سکو.آنحضرت ﷺ نے اپنا اعلیٰ نمونہ پیش کر کے ایک انقلاب برپا کیا.ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کے اُسوہ حسنہ کی پیروی کریں.اللهم صل على محمد وآل محمد پس میری بچیو! اپنی تعلیم کی طرف بہت توجہ دو.دینی تعلیم کی طرف بھی ہر بچی جو لجنہ کی مبر بننے کی عمر کو پہنچے کم از کم پانچ پارے ترجمہ اُسے آتا ہو.نماز کا ترجمہ آتا ہو.اسلام کے سب احکام کا علم ہو.اس کی عادتیں اچھی ہوں اخلاق اعلیٰ ہوں.کام کرنے کا جذ بہ ہو قوم کو تمہاری ضرورت ہے اس لئے قدم بڑھاتی آگے ہی آگے بڑھتی جاؤ اور آئندہ ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے اپنے آپ کو پوری طرح تیار کرو.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے تمہیں بھی تمہارے والدین کو بھی تمہاری نگرانوں کو بھی اور ہم سب کو اپنا فرض ادا کرنے کی.آمین (ماہنامہ مصباح دسمبر 1980ء)......☆.......

Page 262

خطابات مریم 237 خطابات الوداعی خطاب بر موقع سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ 1980ء) آپ نے فرمایا کہ تم احمدی ناصرات بچیاں ہو تمہارا یہ فرض ہے کہ تم ساری دنیا کیلئے ایک عمدہ نمونہ بنو اور غلبہ اسلام میں کچھ عرصہ باقی ہے اس وقت تم ایک ذمہ دار لجنہ میں شامل ہوگی.لہذا تمہیں ابھی اور اسی عمر میں اپنی عادات اور اخلاق سنوارنا ہوں گے تا کہ جب تم لجنہ میں داخل ہو تو تم ہر دوسرے شخص کے لئے ایک نمونہ بنو.ہر نیکی کے کام میں ،صدقہ وخیرات میں اور اپنے اخلاق سنوارنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کرو.اپنے اندر نظم وضبط پیدا کرو اور یہاں پر جو تم اتنی دور سے نیکی کی باتیں سیکھنے آئی ہو انہیں غور سے سنو.اب جاؤ خدا تمہارا حافظ و ناصر ہوا اور تمہیں اپنی رحمتوں اور نعمتوں کا وارث بنائے.آمین (الفضل 29 /جنوری 1981ء) ☆.............

Page 263

خطابات مریم 238 خطابات چند وفات یافته مخلص ہستیوں کا ذکر ، کارگزاری کا جائزہ ، اہم نصائح اور ہدایات افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکز یہ 1980ء) آج دعاؤں کے ساتھ ہم اپنے بیسویں سالانہ اجتماع کا آغاز کر رہے ہیں کہ یہ تربیتی اجتماع بہت بابرکت اور اپنی اغراض کو پورا کرنے والا ہو لجنہ اماءاللہ کے قیام پر اس سال 58 سال گزر جائیں گے یہ ایک طویل عرصہ ہے.جن چودہ بہنوں نے لجنہ کی بنیا د رکھی تھی ان میں سے اب صرف دو زندہ ہیں.سالِ رواں میں ممبرات لجنہ اماء اللہ کو اپنی چند مخلص ہستیوں کا صدمہ اُٹھانا پڑا.صاحبزادی امتہ السلام بیگم جو حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی پہلی پوتی تھیں اور جنہوں نے آپ سے برکت پائی تھی گو وہ ابتدائی ممبرات میں سے تو نہیں تھیں مگر لجنہ اماءاللہ کے کاموں سے دلچسپی رکھتی تھیں.کراچی کے اپنے لمبے قیام میں انہوں نے عملاً لجنہ اماءاللہ کے کاموں میں حصہ لیا.کراچی کی خواتین کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دی لاہور کے قیام میں بھی لجنہ اماء اللہ کے کاموں میں دلچسپی لیتی رہیں.پھر استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کی وفات ہوئی جو ابتدائی چودہ ممبرات میں سے تھیں.اپنی پوری زندگی قرآن مجید پڑھانے اور لجنہ کے کاموں میں گزاری.تاریخ لجنہ اماء اللہ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا اور آنے والی نسلیں ہمیشہ عزت و احترام سے ان کا نام لیں گی آپ کے کردار کے بعض پہلو بہت نمایاں ہیں.سادگی ، غیرت دینی وغیرہ.پھرا بھی حال ہی میں دفتر لجنہ اماءاللہ کی بالکل ابتدائی کارکن سراج بی بی صاحبہ وفات پا گئیں.اجتماع پر آنے والی شاید ہی کوئی بہن ہوگی جو ان سے واقف نہ ہو.1944ء میں جب حضرت مصلح موعود نے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی تشکیل اور لجنہ کا با قاعدہ دفتر بنانے کا ارشاد فرمایا تو سراج بی بی صاحبہ نے اپنی خدمات پیش

Page 264

خطابات مریم 239 خطابات کیں اور لمبا عرصہ تک قلیل مشاہرہ پر کام کیا.جب تک طاقت رہی کام نہ چھوڑا.فَمِنْهُمْ مِّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مِّن يَنْتَظِرُ (الاحزاب: 24) وہ اپنا فرض ادا کر گئیں.اللہ تعالیٰ ہمیں احسن طور پر اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.لجنہ اماءاللہ نے اپنی زندگی کا ایک سال اور پورا کیا.تمام کارکنات لجنہ مرکز یہ پوری مستعدی سے سارا سال کام کرتی رہی ہیں اور بہت سی شاخہائے لجنات بھی.جن لجنات نے اچھا کام کیا اللہ تعالیٰ آئندہ اس سے بھی بڑھ کر ان کو توفیق عطا فرمائے اور جو لجنات ابھی ست ہیں اللہ تعالی آئندہ ان کی اس کمی کو دور فرمائے اور وہ فعال ہوسکیں.مالی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال ہمارا قدم آگے اُٹھ رہا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے چار سو بجنات چندہ دہندہ ہیں گو لجنات کی تعداد چھ صد سے زائد ہے مگر قابل فکر یہ بات ہے کہ ان چارسو لجنات میں سے صرف قریباً ایک سو لجنات ایسی ہیں جو اپنے کام کی رپورٹ بھجواتی ہیں.اگر کوئی لجنہ کام کرتی ہے اور رپورٹ نہیں بھجواتی تو مرکزی لجنہ کو اس کے کام کا کچھ علم نہیں ہوسکتا.باوجود بار بار خط لکھنے کے، جماعتوں کے صدروں کو توجہ دلانے کے، الفضل میں اعلان کرنے کے، ابھی ہم اس بات میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ سب لجنات کا مرکزی لجنہ سے گہرا رابطہ قائم ہو.ضلعی سطح پر سب سے زیادہ ضلع سرگودھا اور ضلع سیالکوٹ کی لجنات کی رپورٹیں موصول ہوئی ہیں.لجنہ کی تنظیم کو بہتر بنانے کے لئے سال رواں میں عاجز ہ کو بھی چند مقامات پر جانے کا موقع ملا.ضلعی سطح پر دورے کرنے اور ضلعی انتظام کو بہتر بنانے کی پوری کوشش کی گئی مگر سب ضلعوں نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی.اس سلسلہ میں سر فہرست لجنہ گوجرانوالہ ہے.پھر لجنہ پشاور، سیالکوٹ ، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، نواب شاہ ہیں.میں نے گزشتہ سال اس طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ دوروں کے علاوہ ضلعی سطح پر یا تحصیل کی سطح پر سال میں ایک یا دو مرتبہ میٹنگ کی جائے جس میں سب دیہات کی عہدہ دار آئیں.ان کو کام کرنا سکھایا جائے.اس کی طرف بھی زیادہ توجہ نہیں کی گئی.ضلع گوجرانوالہ ضلع سرگودھا اور ضلع سیالکوٹ نے ایسی میٹنگیں کی ہیں.لجنہ اماءاللہ کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد حضرت مصلح موعود نے یہ تجویز فرمایا تھا کہ :.اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کیلئے جو بھی

Page 265

خطابات مریم 240 خطابات خلیفہ وقت ہو اس کی تیار کردہ سکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مدنظر رکھ کر تمام کارروائیاں ہوں“.الازهار لذوات الخمار صفحہ 53) چنانچہ خلیفہ وقت کی پیش کردہ تحریک پر عمل کرنا دوسرے کاموں سے زیادہ ضروری ہے.ایک ضروری تحریک جو جماعت کی سب تنظیموں کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے کی گئی تھی وہ بک کلب بنانے اور جماعت کی خواتین تک تفسیر صغیر اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تفسیروں کا پہنچانا تھا.یہ صحیح ہے کہ احمدی گھرانوں میں تفسیر میں پہلے سے بھی ہونگی اور انصار، خدام اور جماعت کے ذریعہ بھی پہنچی ہوں گی.مگر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ کو بھی ارشاد فرمایا تھا.اس میں سر فہرست لجنہ سرگودھا ہے جس نے 18,876 روپے کے ہدیہ سے 78 عدد تفسیر صغیر 124 تفسیر سورہ فاتحہ 130 سورہ بقرہ کی تفسیر 116 سورہ آل عمران کی 108 سورہ نساء وسورہ مائندہ کی اور 118 پانچوں خرید کر تقسیم کیں.بک کلب میں پانچ ہزار روپے صاحب استطاعت خواتین نے چندہ دیا جس سے بہت سی ایسی بہنوں کو بھی تفسیر میں لے کر دی گئیں جو خود نہ خرید سکتی تھیں.لجنہ راولپنڈی نے 50 خریدیں 30 کے لئے ہدایات جمع ہو چکی ہیں.ربوہ 4841 روپے کی تفاسیر ، کراچی نے ایک سو جلد میں خریدنے کا لکھا تھا لیکن کتنے گھروں میں تفسیر پہنچی ہے اس کی کوئی رپورٹ نہیں.باقی بجنات نے اس طرف توجہ نہیں دی.حضور ایدہ اللہ نے تفسیریں خریدنے کا اس لئے ارشاد فرمایا تھا کہ بہنیں تفسیر صغیر سے ترجمہ سیکھیں اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تفسیروں کو پڑھ کر اپنا علم بڑھا ئیں.اسی لئے لجنہ اماءاللہ نے بھی اس سال مطالعہ کتب کے لئے سال میں چھ کتب مقرر کی تھیں.اکثر لجنات نے اس سلسلہ میں بہت کوشش کی ہے لیکن ان کی کوشش اس حد تک ہے کہ اجلاسوں میں کتب پڑھ کر سنا دی گئیں اور سمجھا دی گئیں.انفرادی مطالعہ کی رپورٹ کم ہے.سوائے چند لجنات کے جن میں سے سرفہرست لجنہ ربوہ ہے، پھر لا ہور ، راولپنڈی اور سرگودھا نے تعداد دی ہے.لجنات سے خط و کتابت اور دوروں کے نتیجہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رپورٹ نہ آنے اور مرکز سے مقامی لجنات کا تعلق نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کی کمی ہے.ہماری جماعتیں زیادہ تر دیہاتی ہیں.ضلع کی لجنہ کی صدر دورہ کر

Page 266

خطابات مریم 241 خطابات کے سمجھا کر بھی آتی ہیں پھر بھی بعض دیہات ایسے ہیں جہاں ایک بھی پڑھی ہوئی نہیں.یا ہیں تو برائے نام یہ حالت افسوسناک ہے اور آئندہ کیلئے قابل فکر.احمدی عورت جاہل نہیں ہونی چاہئے اسے پڑھنا لکھنا آنا چاہئے تا اُسے کام کا شعور پیدا ہو.پس آئندہ سال کے لئے میں لجنات سے یہ درخواست کروں گی کہ وہ کوشش کر کے ہر عورت کو خواندہ بنا دیں.یہ کام بہت مشکل نہیں ایک سال میں میسر نا القرآن پڑھا کر ہر عورت کو معمولی لکھنا پڑھنا سکھا دیں.ہر شہر ہر قصبہ ہر گاؤں میں تھوڑا بہت لکھنا پڑھنا آ گیا تو خود ہی شوق پیدا ہوگا اور جو پڑھنا چاہیں گی وہ پڑھ لیں گی.گاؤں میں کوئی نہ کوئی پڑھی لکھی ضرور مل جائے گی اگر کسی گاؤں میں ایک بھی لکھی پڑھی نہیں وہ مرکز سے رابطہ قائم کریں کچھ نہ کچھ کوشش اس سلسلہ میں کریں گے.صبح کو گھروں میں کام ہوتے ہیں دو پہر یا شام کو ایک گھنٹہ بھی اس سلسلہ میں کوشش کی جائے تو بہت کامیابی ہو سکتی ہے.علم کے حصول کے لئے بنیادی چیز یہ ہے کہ کلمہ، نماز اور قرآن کے ساتھ اُردو لکھنا پڑھنا ضرور آتا ہوتا اپنی اپنی استطاعت اور ذوق کے مطابق انسان علم حاصل کر سکے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب سب سے پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ کو پڑھنے کا حکم ہوا.اقرا باشم رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقرا وَرَبُّكَ الأَكْرَمُلُ الَّذِي عَلم بالقلون (العلق : 2 تا 5) گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہر مسلمان کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ پڑھے اور علم حاصل کرے.ایک مسلمان اور جہالت دو متضاد چیزیں ہونی چاہئیں.لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے علم کے حصول کی طرف اتنی توجہ نہ دی جو دینی چاہئے تھی اور دوسری قو میں علم میں آگے نکل گئیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر علم کے دروازے پھر سے کھولے اور اس سال تو خصوصیت سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پڑھنے کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ ہر احمدی بچہ تعلیم حاصل کرے اور مڈل سے کم کسی احمدی بچی کی تعلیم نہیں ہونی چاہئے.اقرا کے دو معنی ہیں.ایک لکھے ہوئے کو پڑھنا.دوسرے اعلان کرنا.اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے ذریعہ ساری اُمت محمدیہ کو ارشاد ہوا کہ آپ دنیا کو بتا

Page 267

خطابات مریم 242 خطابات دیں کہ اُسے اُس کا رب بلاتا ہے اور یہ پیغام کسی ایک شخص کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے اور ساری دنیا ہی اس کی مخاطب ہے.چنانچہ اس کی تعمیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری دنیا کو اپنے رب کی طرف دعوت دی اور کہا کہ رات رسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: 189) دوسرے معنوں کے لحاظ سے یہ پیشگوئی تھی کہ قرآن لکھا جائے گا اور ہمیشہ کے لئے محفوظ رہے گا.جس کے سامان ابتداء سے ہی کر دیئے گئے کوئی بھی انسان جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور قرآن نہیں پڑھ سکتا.اس کیلئے لمحہ فکر یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا جو اقرا میں بیان کیا گیا ہے نافرمانی کر رہا ہے.پس بہت بڑا اور وسیع کام ہے ہمارے سامنے کہ ہماری پوری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہر اس عورت کو جو بالکل ہی ارذل العمر کو نہیں پہنچ گئی اور ہر اس بچی کو جو پڑھنے کی عمر تک پہنچ گئی ہو قرآن مجید پڑھائیں اور اردولکھنا پڑھنا سکھا دیں.پس لجنات کا فرض ہے اجتماعی رنگ میں اور ہر ممبر لجنہ کا فرض ہے انفرادی طور پر اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے کہ وہ اپنی مصروفیت میں سے ایک گھنٹہ یا نصف گھنٹہ وقف کرے اس کام کے لئے کہ جہالت کو ہم نے دور کرنا ہے اور ہمارے اردگرد ہمارے گاؤں ، قصبہ یا شہر میں کوئی ایک عورت بھی ایسی ہے جو پڑھی ہوئی نہیں تو اُسے اُردو لکھنا پڑھنا سکھا دینا ہے.اقرا باسم ربك الذي خَلَقَ کہہ کر فرما دیا کہ پڑھنے کی غرض یہی ہے کہ اپنے رب کے نام کا اعلان کر اور دنیا کو اس رب کی طرف دعوت دے جس نے ساری کائنات کو پیدا کیا.پس حقیقی تو حید کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے جس کی طرف توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے.یہ نہیں کہ چند عورتیں تو بہت پڑھ گئیں اور باقی جاہل رہ جائیں.احمدی عورتوں کو سو فیصدی ابتدائی دینی معلومات ہونی چاہئیں.اپنی زبان میں لکھنا پڑھنا آنا چاہئے اور لجنات کو اس سال اور آئندہ آنے والے سالوں میں اس طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.کئی سال سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جماعت کو اس بات کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ انشاء اللہ احمدیت کی اگلی صدی غلبہ اسلام کی صدی ہوگی.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے 1889ء میں دعوی فرما یا.آپ اکیلے تھے اسلام پر ہر طرف سے حملہ ہو رہا تھا کیا عیسائی کیا ہندو کیا آریہ کیا دہر یہ ہر ایک کی کوشش تھی کہ اسلام

Page 268

خطابات مریم 243 خطابات نیست و نابود ہو جائے.اس کا نام باقی نہ رہے مسلمانوں کی کمزوری کا یہ عالم تھا کہ مسلمان اپنے کو مسلمان کہتے شرماتا تھا.اسلام کے غلبہ کا تصور بھی کسی کے دل میں نہ تھا.اسلام کو ایک ٹمٹماتی شمع سمجھا جاتا تھا کہ آج بھی بجھا اور کل بھی.مولانا حالی نے اسی عالم میں کہا ہے اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے اس زمانہ میں صرف ایک وجود تھا جو رو رو کر اپنے مولا کے حضور تڑپ رہا تھا کہ مجھے اسلام کی فتح کا دن دکھا دے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو غالب کر دے.وہ مایوس نہ تھا کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں وعدہ فرمایا تھا.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وتوكرة الْمُشْرِكُونَ (سورۃ الصف : 10) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی تھی کہ جو غلبہ آخری زمانہ میں مہدی کے ذریعہ سے ہوگا اور تیرہ صدیوں سے علماء وصلحاء امت آنے والے مہدی کا انتظار کرتے اور اس کے آنے کی بشارت دیتے چلے گئے چودہویں صدی آئی مہدی جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام بھیجا تھا وہ اپنے وقت پر آیا.ان پیشگوئیوں اور علامتوں کے مطابق آیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھیں.چودہویں صدی گزرتی چلی گئی.وہ ایک آواز جو قادیان کی سرزمین سے اٹھی تھی قادیان کی بستی سے نکلی اردگرد کے شہروں میں پہنچی وہاں سے دور کے شہروں میں پہنچی.ہندوستان کی سرزمین سے اس کی گونج یورپ میں پہنچی ، امریکہ میں پہنچی ، افریقہ کے تاریک براعظم میں پہنچی ، جزائر میں پہنچی.کوئی براعظم اور کوئی ملک دنیا کا ایسا نہ رہا جہاں احمدیت کی آواز نہ پہنچی.جہاں احمدیت کے ذریعہ اسلام کی تعلیم اللہ تعالیٰ کی توحید کا پیغام نہ پہنچا ہو.جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو انسانیت کے نجات دہندہ اور امن کے علمبردار تھے کا پیغام نہ پہنچا ہو.کون سی کوشش تھی جو اس آواز کو دبانے کے لئے نہ کی گئی ہو مگر انسان کی کوشش اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے آگے باطل ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ کے حسن کے آگے کوئی کچھ نہیں کر سکتا اور جب کہ چودہویں صدی ختم ہو رہی ہے ہم اس بات پر خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فرستادہ کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی.ہم

Page 269

خطابات مریم 244 خطابات خوش ہیں کہ اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکا ہے.ہم خوش ہیں کہ اس سرزمین پر جہاں اسلام کا آٹھ سو سال غلبہ رہا یعنی سپین کا ملک جہاں پانچ سو سال کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دست مبارک سے مسجد کی بنیاد رکھی ہم خوش ہیں کہ یورپ کے ان ممالک میں جہاں تین خداؤں کی پرستش ہوتی تھی پانچ وقت لا اله الا اللہ کی آواز بلند ہوتی ہے جہاں ہر وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جاتا ہے.قطب شمالی کے قریب شہروں تک میں اسلام کا پیغام پہنچ چکا ہے اور جیسا کہ گزشتہ جمعہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا لا ریب احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا الحمد لله الحمد للہ علی ذلک ہر ان چند دنوں میں جیسا کہ انصار اللہ کے اجتماع میں حضور نے فرمایا تھا کہ لَا اِلهَ إِلَّا الله وقت کہتی رہیں اس کے ساتھ چودہویں صدی ختم ہو اور اس ورد کے ساتھ پندرہویں صدی کا استقبال کریں.ایک زندہ رہنے والی جماعت کی زندگی میں نشیب وفراز آتے ہیں.جماعت کی تاریخ میں بھی بڑے کٹھن وقت آئے لیکن حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت کرے گا.آپ کی مدد کرے گا.جیسا کہ فرمایا.لَا إِنْ نَصْرِ اللهِ قريب - يَنْصُرَكَ الله من عِنده يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاء إِنِّي مُهِينٌ مَنْ ارادَ اهانتک میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.ایک ایک الہام اپنی پوری شان سے پورا ہوا اور ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے اور وہ بشارتیں جو جماعت احمدیہ کے مستقبل کے لئے ہیں اسی شان سے پوری ہوں گی.بہت ضرورت ہے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے کی جس کی طرف گزشتہ جمعہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے.جب اللہ تعالیٰ اپنا انعام کسی قوم کو دیتا ہے تو اس کے ساتھ اس پر ذمہ داریاں بھی وابستہ ہوتی ہیں.ان انعامات جن کی بارش ہوتے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی.ان کا تقاضا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے راستے میں زیادہ سے زیادہ قربانیاں دیں.ہماری جد و جہد پہلے سے بڑھ کر ہو.ہم اپنی ذمہ داریوں کو پہلے سے بڑھ کر ادا کریں تا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش پہلے سے زیادہ ہم پر ہو.بے شک ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے

Page 270

خطابات مریم 245 خطابات وعدے جو اگلی صدی کے ساتھ وابستہ ہیں وہ پورے ہوں گے.لیکن ہمارا بھی تو فرض ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بندیاں ہونے کے لحاظ سے جو فرض ہم پر عائد ہوتا ہے وہ ادا کریں.اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کریں اس کی بھیجی ہوئی تعلیم پر عمل کریں اس کی نعمتوں کی قدر کریں.اس دنیا کی بھلائی اور تربیت کے لئے جو کامل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا تھا اس پر عمل کریں اور اپنے نمونہ سے اپنے علم سے اپنے اخلاق سے اپنے کردار سے اپنی قربانیوں سے بنی نوع انسان سے محبت سے دنیا پر ثابت کر دیں کہ اسلام ہی زندہ مذہب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں جن سے وابستہ ہو کر ہی دنیا سے نفرت مٹائی جاسکتی ہے اور محبت ، امن اور آشتی قائم ہوسکتی ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی بعثت کی تو غرض ہی يحي الدين ويقيم الشريعة ( تذكره صفحہ 55) تھی اور اسی پر چلنا ہمارا کام ہے.دین اسلام کے باغ کی آبیاری اور شریعت کے احکام پر دنیا کو چلانا یہ جماعت احمدیہ کے افراد کا کام ہے اور جو اس پر قائم رہیں گے ان کے لئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وَجَاعِلُ الّذینَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إلى يَوْمِ القِيمة ( ال عمران : 56) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں.” اور یہ آیت کہ وجَاعِلُ الّذینَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إلى يوم القيمة بار بار الہام ہوئی اور اس قدر متواتر ہوئی کہ جس کا شمار خدا ہی کو معلوم ہے اور اس قدر زور سے ہوئی کہ میخ فولاد کی طرح دل کے اندر داخل ہوگئی اس سے یقیناً معلوم ہوا کہ خدا وند کریم ان سب دوستوں کو جو اس عاجز کے طریق پر قدم ماریں بہت سی برکتیں دے گا اور ان کو دوسرے طریقوں کے لوگوں پر غلبہ بخشے گا اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گا اور اس عاجز کے بعد کوئی مقبول ایسا آنے والا نہیں کہ جو اس طریق کے مخالف قدم مارے“.( مکتوب 12 جون 1883ء) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ بے شمار فضلوں کا مشاہدہ جماعت نے کیا اور کر رہی ہے.آپ کے زمانہ میں آپ کے خلفاء کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ اب پ کے خلفاء کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ اپنے احسان سے ہر روک دور کرتا چلا گیا اور انعام پر انعام عطا فرمائے.ہماری ذمہ داری ہے کہ خدا کا دامن تھامے رہیں

Page 271

خطابات مریم 246 خطابات کبھی بھی اس سے بے وفائی نہ کریں.اس کی محبت حاصل کرنے کی خاطر محمد رسول اللہ ﷺ کی کامل اطاعت کریں.آپ کی سنت پر چلیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور آپ کے خلفاء نے جو ہماری ترقی کیلئے راہ عمل تجویز کی ہے اسے اختیار کریں.اپنی اولاد کے دل میں قربانی کا جذبہ پیدا کریں اور انہیں تیار کریں آئندہ کی ذمہ داریوں کو اُٹھانے کے لئے پندرہویں صدی شروع ہونے والی ہے اور آٹھ سال بعد جماعت احمدیہ کے قیام پر بھی ایک صدی گزر جائے گی.یہ آٹھ سال ہماری زندگی کے نازک سال ہیں اور ان آٹھ سالوں میں لجنہ کو احمدی بچیوں کی تعلیم اور تربیت پر بہت زیادہ توجہ دینی چاہئے.ان کی دینی تعلیم پر ان کی تربیت پر.آج جو ناصرات کی عمر میں داخل ہوئی ہے وہ آٹھ سال کے بعد ناصرات کی تربیت حاصل کر کے لجنہ اماءاللہ کی ممبر ہوگی.اس لئے ناصرات الاحمدیہ کو ہر جگہ مستعد ہونا چاہئے.ابھی تک تو ہر جگہ جہاں لجنہ ہے وہاں ناصرات کا قیام بھی نہیں ہوا.اگر ہم چاہتی ہیں کہ غلبہ اسلام میں ہم بھی حصہ دار ہوں.ہماری قربانیوں کا بھی حصہ ہو تو آپ کو ابھی سے اس کے لئے کام کرنا ہوگا.دین اور قوم کی خاطر وقت دینا، دنیا کے عیش و عشرت کو دین کی خاطر قربان کرنا.اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بغداد کی تباہی کا باعث گانا بجانا اور عیش وعشرت تھا.اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں ہماری ذمہ داری ہونی چاہئے کہ اسلام کے باغ کی حفاظت کریں اور جس طرح ایک سمجھدار واقف مالی جب کوئی پودا جل جاتا ہے، خراب ہو جاتا ہے تو نیا پودا لگا دیتا ہے تا کہ پودوں کا تسلسل قائم رہے.اسی طرح قربانیوں کے تسلسل کو قائم رکھنا ہمارا فرض ہے.بڑی عورتیں جوان بچیاں سب میں یکساں روح قربانی ہونی چاہئے.یکساں اخلاص کا جذبہ ہونا چاہئے.وقف زندگی کی روح جماعت میں کم ہو رہی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ جنہوں نے زندگی وقف کی ہے وہ بڑی قربانی کر رہے ہیں لیکن جس رفتار سے جماعت ترقی کر رہی ہے اس رفتار سے واقفین کی تعداد نہیں بڑھ رہی.آخر یہ واقفین کہاں سے آنے ہیں خدا تعالیٰ کی جو بشارتیں ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان زندگی وقف کریں لیکن وہ واقفین آئیں گے کہاں سے.آپ کی گودوں کے پالے جن کے دلوں میں آپ دین کی محبت پیدا کریں گی.جن کے دلوں میں آپ قربانی کا جذبہ پیدا کریں گی جن کے دلوں میں دین کے

Page 272

خطابات مریم 247 خطابات کام کرنے کا شوق پیدا کریں گی.اپنے رب سے پیار پیدا کریں گی.اسی طرح بچیوں کی تربیت اس رنگ میں کریں گی کہ وہ بڑی ہو کر نیک بیویاں اور نیک مائیں بہنیں اور اگلی صدی جس کی بشارتیں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے دی ہیں اس میں اُن کا نمایاں حصہ ہو.میں اپنی تقریر کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے اس اقتباس کے ساتھ ختم کرتی ہوں.”اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان کو بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رُو سے سب پر اُن کو غلبہ بخشے گا.(روحانی خزائن جلد 20- تذکرۃ الشہادتین صفحہ 66 ) (ماہنامہ مصباح دسمبر 1980ء)......W

Page 273

خطابات مریم 248 خطابات اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 1980ء تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے انعامات حاصل کرنے والی بہنوں اور بچیوں کو مبارک باد دی اور ست لجنات کو نصیحت فرمائی کہ وہ اپنی کا ر کر دگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں.آپ نے فرمایا کہ کل سے پندرہویں صدی شروع ہو رہی ہے اس صدی کے متعلق عظیم بشارتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ہیں.آپ نے بہنوں کو نصیحت فرمائی کہ اپنی اصلاح کریں اور نظم و ضبط کا جذبہ پیدا کریں.خدا تعالیٰ نے احمدی خواتین کو دنیا کی معلمات بنایا ہے.استاد بننے کیلئے ضروری ہے کہ اخلاق وکردار کا نمونہ پیش کریں.آپس کے جھگڑوں کو ختم کریں.اس سلسلہ میں آپ نے عہدیداران کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ کارکنات کے ساتھ محبت و ہمدردی کا سلوک کریں.اسی طرح کا رکنات کا فرض ہے کہ اَطِيْعُوا اللَّه وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ (ال عمران: 33) کے تحت اطاعت کا جذبہ اپنے اندر پیدا کریں.جب کسی کے سپرد کام کیا جائے تو خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر کریں.اس شکرانے کے ساتھ کام کریں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں جماعت احمدیہ میں پیدا کیا ہے.آپ نے بہنوں کو نصیحت فرمائی کہ ہر وقت یہ دعا کریں کہ ہمارے ایمانوں میں کبھی پیدا نہ ہو.آخر دم تک ایمان سلامت رہے.دعاؤں اور ہمت کے ساتھ نئی صدی کا استقبال کریں غلبہ اسلام کیلئے جن قربانیوں کی ضرورت ہے ہمارا بھی اس میں حصہ ہو.آخر میں آپ نے بہنوں کو نصائح فرما ئیں کہ وقت ضائع نہ کریں آپس کے جھگڑوں کو ختم کر کے جہالت کو دور کریں احکام دین سے لجنات کو روشناس کروائیں رسوم و بدعات ترک کر کے اور صحیح اسلامی پردہ کرنے کی طرف توجہ دلائی.(الفضل 23 نومبر 1980ء)

Page 274

خطابات مریم 249 خطابات سید نا حضرت اقدس خلیفہ المسیح الثالث" کی بیرون ممالک سے کامیاب واپسی پر سپاسنامہ حضرت فاریہ اسح الثالف جب 8 نومبر 1980ء کو سالانہ اجتماع کے موقع پر خواتین سے خطاب فرمانے کے لئے تشریف لائے تو حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے تمام نمائندگان اجتماع کی طرف سے حضور کی خدمت میں آپ کی بیرون ممالک سے کامیاب مراجعت پر درج ذیل سپاسنامہ پیش کیا.سید نا وا مامنا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته میں لجنہ اماءاللہ مرکز یہ اور تمام نمائندگان لجنہ اماءاللہ کی طرف سے حضور کی خدمت میں یورپ، امریکہ اور افریقہ کے کامیاب دورہ سے واپسی پر اور چین میں مسجد کی بنیا در کھنے پر ہدیہ تبریک پیش کرتی ہوں.سید نا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے فرمایا تھا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا.وہ باتیں جو دنیا کو انہونی نظر آتی تھیں.دنیا نے دیکھ لیا کہ کس شان سے پوری ہوئیں.سچائی کا آفتاب طلوع ہو چکا ہے اور انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب خدا کی سچی تو حید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی.حضور کا اس سال کا دورہ بھی غلبہ اسلام کی مہم کی ایک منزل تھی حضور نے مسلسل چار ماہ دن اور رات کلمۃ اللہ اور اسلام کی حسین تعلیم کو ان ممالک کے رہنے والوں تک پہنچانے میں صرف کئے.پریس کانفرنسیں ہوئیں جس کے نتیجہ میں اسلام کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام

Page 275

خطابات مریم 250 خطابات اُن ممالک کے رہنے والوں تک پہنچا.اسلام کی تبلیغ کو زیادہ مستحکم بنیادوں پر قائم کرنے کیلئے مساجد اور مشن ہاؤسز کی بنیاد رکھی.سرزمین ناروے میں احمد یہ مشن اور مسجد کا شاندار افتتاح ہوا، نائیجیریا میں مساجد کا افتتاح ہوا اور ایک ہسپتال کی لیبارٹری بلاک کا سنگ بنیا د حضور کے دست مبارک سے رکھا گیا.اکرہ ( غانا ) میں نو تعمیر شدہ مسجد کا حضور نے افتتاح فرمایا اور ایک ہسپتال کی نئی عمارت کا سنگ بنیا د رکھا اور سب سے بڑھ کر نئی زمین اور نئے آسمان کے قیام کے لئے سپین کی سرزمین کے لئے ساڑھے سات سو سال کے بعد مسجد کی بنیا د حضور کے ذریعہ رکھی گئی.وہ سرز مین جہاں تقریباً آٹھ سو سال مسلمانوں نے بڑی شان سے حکومت کی لیکن پھر وہ مغلوب ہوئے اور جبراً نکال دیے گئے یہاں تک کہ ایک بھی مسلمان باقی نہ رہا.اللہ تعالیٰ نے حضور کو تسلی دی تھی کہ آخر تو حید کی فتح ہے اور توحید کی فتح کا ایک نشان سپین میں مسجد کا سنگِ بنیا د رکھا جاتا ہے.1924ء میں حضرت مصلح موعود نے بشارت دی تھی کہ بچے مسلمان پھر پہین پہنچے گے اور وہاں اسلام کا جھنڈا گاڑیں گے.اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت حضور کے حصہ میں رکھی تھی کہ حضور سپین میں مسجد کا سنگ بنیاد متضرعانہ دعاؤں کے ساتھ رکھیں.اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو قبول فرمائے اور تعمیر مسجد کے ساتھ انشاء اللہ اسلام کو جو ترقی ہوگی اسے ہمیشہ قائم و دائم رکھے اور مسلمان پھر کبھی مغلوب نہ ہوں.وہاں اللہ اکبر کی صدائیں گونجیں.سعید روحیں حضرت خاتم النبین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں اور پسین کا ایک ایک شخص جن کے آباؤ اجداد کو زبردستی عیسائی بنایا گیا تھا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہو.سپین میں مسجد کا سنگ بنیا د رکھا جانا اسلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان نشان ہے جس پر ساری اُمت مسلمہ جتنی بھی خوشی کا اظہار کرے کم ہے.(سالانہ رپورٹ 1980 ءصفحہ 23)

Page 276

خطابات مریم 251 خطابات دعا کی اہمیت اور برکات خطاب بر موقع جلسہ سالانہ 1980ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات پیدا کی ہے انسان ہوں یا حیوان یا جمادات سب اس کی ربوبیت کے محتاج ہیں.انسان اس ساری کائنات میں ایک ذرہ ناچیز ہے لیکن اس میں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی صلاحیتیں رکھی ہیں جن سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کا طالب ہوتے ہوئے وہ اعلیٰ سے اعلیٰ ترقی کر سکتا ہے.دعا اللہ تعالیٰ اور بندہ کے درمیان ایک رشتہ ہے ایک ذریعہ ہے تعلق کا.دعا کے ذریعہ بندہ اپنے رب کو پکارتا ہے اس سے اپنی حاجتیں بیان کرتا ہے اور جس طرح ایک ماں بچہ کے بلانے پر تڑپ اُٹھتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ جو ماں اور باپ سے بڑھ کر پیار کرنے والا ہے بندوں کی پکار سنتا ہے.خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَا يَعْبَؤُبِكُمُ رَبِّي لَوْلَا دُعَاءُ كُمُ (الفرقان : 78 ) اگر تم اُسے نہ پکارتے تو وہ تو بے نیاز ہے اسے تمہاری کیا پر واہ.اگر دعا کا رشتہ اللہ تعالیٰ اور بندہ میں قائم نہ ہوتا تو انسان بہت بے بس ہو جاتا.اللہ تعالیٰ نے خود بندہ کو اِذنِ دعا عطا فرمایا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (المؤمن : 61) ترجمہ: اور تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعا سنوں گا جو لوگ ہماری عبادت ط کے معاملہ میں تکبر سے کام لیتے ہیں وہ ضرور جہنم میں رُسوا ہو کر داخل ہوں گے.یہ آیت بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندہ کو اجازت دی کہ اپنی ہر ضرورت مجھ سے مانگو اور وعدہ کیا ہے کہ میں قبول کروں گا.آیت کا اگلا حصہ وضاحت کرتا ہے کہ دعا نہ کرنا تکبر کی نشانی

Page 277

خطابات مریم 252 خطابات ہے اور متکبر کا ٹھکانہ جہنم ہے.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ دعا کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں :.” ہر ایک شے کی ایک اُتم ہوتی ہے.میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ کے جو انعامات ہیں اُن کی اُتم کیا ہے خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ اُن کی أمَّادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : 61) ہے.کوئی انسان بدی سے بچ نہیں سکتا جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو.پس ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ فرما کر یہ جتلا دیا کہ عاصم وہی ہے اسی کی طرف رجوع کرو“.پھر فرماتے ہیں :.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 333 نیا ایڈیشن) توفیق کا ملنا یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے دیکھا گیا ہے اور تجربہ سے دیکھا گیا ہے کہ انسان سعی سے کچھ نہیں کر سکتا نہ وہ صلحاء، سعداء اور شہداء میں داخل ہو سکتا ہے اور نہ اور برکات اور فیوض کو پا سکتا ہے غرض نہ بزور نہ بزاری نہ بزرمے آید.بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ گوہر مقصود ملتا ہے اور حصول فضل کا اقرب طریق دعا ہے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 397 نیا ایڈیشن) پھر آپ دعا کی اہمیت کے بارہ میں فرماتے ہیں:.یقیناً سمجھو کہ دعا بڑی دولت ہے جو شخص دعا کو نہیں چھوڑتا اس کے دین اور دنیا پر آفت نہ آئے گی وہ ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہے جس کے اردگرد مسلح سپاہی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں لیکن جو دعاؤں سے لاپر واہ ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو خود بے ہتھیار ہے اور اس پر کمزور بھی ہے اور پھر ایسے جنگل میں ہے جو درندوں اور موذی جانوروں سے بھرا ہوا ہے“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 148 نیا ایڈیشن) دعا کی اہمیت کے متعلق حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا ایک اور اقتباس پیش کرتی ہوں.

Page 278

خطابات مریم 253 خطابات دعا کی مثال ایک چشمہ شیریں کی طرح ہے جس پر مومن بیٹھا ہوا ہے وہ جب چاہے اس چشمہ سے اپنے آپ کو سیراب کر سکتا ہے جس طرح ایک مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح مومن کا پانی دعا ہے کہ جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 45 نیا ایڈیشن ) حضور نے دعا کو فتح کا ہتھیار قرار دیا ہے.آپ فرماتے ہیں:.دعا ہی ایک ہتھیار ہے جس سے مومن ہر کام میں فتح پاسکتا ہے“.پھر فرماتے ہیں :.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 39 نیا ایڈیشن ) ”ہم نہ تلوار سے جیت سکتے ہیں اور نہ کسی اور قوت سے.ہمارا ہتھیار صرف دعا ہے اور دلوں کی پاکیز گی‘.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 299 ) قبولیت دعا کے متعلق قرآن مجید میں دوسرا الہی فرمان یہ ہے.فرماتا ہے.وإذا سألكَ عِبَادِي عَنِّي فَإنّي قريب أجيب دعوة الداع اذا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقره: 187) ترجمہ: اور اے رسول جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو تو جواب دے کہ میں اُن کے پاس ہی ہوں جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اُس کی دعا قبول کرتا ہوں سو چاہئے کہ وہ دعا کرنے والے بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں.اس آیت میں بھی اپنے بندوں سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں دعا قبول کروں گا لیکن اس کے ساتھ ایک شرط یہ ہے کہ مجھ پر کامل ایمان ہو اور دوسری یہ کہ میرے حکم کو قبول کرنے والا ہو.یہ دوشرطیں ہیں جو قبولیت دعا میں ممد ہیں.اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھنا کہ وہ قادر ہے وہ کریم ہے وہ دعائیں سنتا ہے وہ جو چاہے دے سکتا ہے.اس پر کامل ایمان رکھے اس کو موجود، سمیع ، بصیر، خبیر، علیم، متصرف اور قادر سمجھے.دوسری شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کو نہ توڑے اس کے حکموں پر چلے

Page 279

خطابات مریم 254 خطابات اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ صاف ہو.حضور فرماتے ہیں :.دو میں اگر کسی کے لئے دعا کروں اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کا معاملہ صاف نہیں وہ اس سے سچا تعلق نہیں رکھتا تو میری دعا اس کو کیا فائدہ دے گی“.بعض لوگ کہتے ہیں کہ دعا کی تھی قبول نہیں ہوئی.اس ضمن میں یا درکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے ہمارا مالک ہے.کبھی وہ ہماری مانتا ہے کبھی اپنی منواتا ہے.جہاں وہ بندوں کی دعائیں سنتا ہے وہاں وہ اپنے بندوں کو آزماتا بھی ہے.کبھی اپنی منواتا ہے.جہاں وہ بندوں کی دعائیں سنتا ہے وہاں وہ اپنے بندوں کو آزماتا بھی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ:.وَلَنَبْلُوَ نَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّن الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ و الثَّمَراتِ ، وبشر الصبرين الله (البقره: 156) ترجمہ: اور ہم تمہیں کس قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی کے ذریعہ ضرور آزمائیں گے اور اے رسول تو ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادے.قرآن مجید کی کوئی آیت کسی دوسری آیت کے متضاد نہیں بلکہ اسے حل کرتی ہے.جہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے وعدہ فرماتا ہے کہ مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا.وہاں دوسری طرف یہ بھی کہتا ہے کہ تمہاری آزمائش وقتا فوقتا ہوتی رہے گی.کبھی خوف کے حالات پیدا ہوں گے کبھی غربت کا شکار ہو گے مالی تنگیاں آئیں گی ، کبھی کسی عزیز کی وفات کا صدمہ اُٹھانا پڑے گا، کبھی کاروبار میں نقصان ہوگا، کبھی کوئی حادثہ پیش آ جائے گا اور ایسے موقعوں پر جو صبر دکھا ئیں گے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے بشارتیں ہیں گویا اللہ تعالیٰ کبھی مانتا ہے کبھی منواتا ہے یہ دیکھنے کے لئے کہ بندہ خدا تعالیٰ کی تقدیر پر راضی اور شاکر ہے یا نہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں :.اس سے بڑھ کر انسان کے لئے فخر نہیں کہ وہ خدا کا ہو کر رہے اور جو اس سے تعلق رکھتے ہوں وہ ان سے مساوات بنالیتا ہے کبھی ان کی مانتا ہے اور کبھی اپنی منوا تا ہے.ایک طرف فرماتا ہے ادْعُوني استجب لكم دوسری طرف فرماتا ہے

Page 280

خطابات مریم 255 خطابات ولنبلو تكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ (البقرة : 156) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک مقام دعا کا نہیں ہوتا.نَبْلُوَنَّكُمْ کے موقع پر انا لله وانا اليو رُجِعُونَ (البقرة: 157) کہنا پڑے گا.یہ مقام صبر اور رضا کے ہوتے ہیں.لوگ ایسے موقع پر دھو کہ کھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دعا کیوں قبول نہیں ہوتی.ان کا خیال ہے کہ خدا ہماری مٹھی میں ہے جب چاہیں گے منوا لیں گے.بھلا امام حسین علیہ السلام پر جو ابتلا آیا تو کیا انہوں نے دعا نہ مانگی ہوگی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قدر بچے فوت ہوئے تو کیا آپ نے دعا نہ کی ہوگی.بات یہ ہے کہ یہ مقام صبر اور رضا کے ہوتے ہیں“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 443) پھر مسلمان اس غلط فہمی کا بھی شکار ہوئے.دعا کے ساتھ ساتھ تدابیر کو اختیار نہ کیا تقدیر پر اتنا بھروسا کیا کہ جد و جہد ہی چھوڑ دی.حالانکہ دعا کے ساتھ تدبیر اختیار کرنا دعا کے لوازمات میں سے ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ والَّذِينَ جَاهَدُوا فينا لنهدينهم سبلنا العنکبوت: 70) جو ہم سے ملنے کی کوشش میں لگا رہے گا ہم اس کے لئے راہیں کھول دیں گے خود اپنے ملنے کے راستے بتائیں گے گویا ادْعُوني استجب لکم میں تاکید فرمائی کہ مجھ سے مانگو ہر حالت میں مانگو اور والذين جاهدوا فينا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا میں تاکید کی کہ مقصد حاصل کرنے کے لئے منزل تک پہنچنے کیلئے برابر کوشش میں لگے رہنا تدبیریں اختیار کرنی ہوں گی.اسی مضمون کو حضور نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ دعا تدبیر ہے اور تد بیر دعا ہے“.ایک شرط دعا کی یہ بھی ہے کہ دعا مانگنے سے تھکے نہیں.مایوس کبھی نہ ہو.دعاؤں میں لگا رہے کیونکہ دعا صرف لفظوں کا نام نہیں بلکہ اصل میں ایک موت ہے کہ انسان سوز وگداز میں اپنی حالت موت تک پہنچا دے.حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ جب صبر اور صدق سے دعا انتہا کو پہنچے تو وہ قبول ہو جاتی ہے.ایک بزرگ کا واقعہ ہے کہ تمہیں سال تک دعا قبول نہ ہوئی.تمیں سال بعد الہام ہوا کہ تمیں سال کی ساری دعائیں قبول ہوگئیں.تو اللہ تعالیٰ سے کبھی نا اُمید نہیں ہونا چاہئے.

Page 281

خطابات مریم 256 خطابات دعا میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی شرط نہیں کرنی چاہئے.ایک دفعہ حضور کو کسی خاتون کی طرف سے پیغام دیا گیا کہ وہ کہتی ہے کہ اگر میر افلاں فلاں کام ہو جائے تو میرا سب جان و مال آپ پر قربان ہے.حضرت نے فرمایا کہ:.” خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی قسم کی شرط نہیں کرنی چاہئے اور نہ خدا تعالیٰ رشوت چاہتا ہے ہم بھی دعا کریں گے اور اُن کو بھی چاہئے کہ بعجز وانکسار سے اس کی بارگاہ میں دعا کریں.حضور نے ایک مجلس میں فرمایا :.دعا کی قبولیت میں تا خیر ڈالنے والے یا دعا کے ثمرات سے محروم کرنے والے بعض مکروہات ہوتے ہیں جن سے انسان کو بچنا لازم ہے“.یہی وہ مضمون ہے جو قرآن مجید میں یوں بیان ہوا ہے کہ قال لا قتلنّكَ ، قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقين (مائده: 28) یعنی اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعا قبول کرتا ہے.متقی کون ہیں؟ جو اپنے آپ کو مکروہات دنیا سے محفوظ رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں.ہر اس کام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں نا پسندیدہ ہو.پس قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے کہ انسان سے ایسا کوئی فعل سرزد نہ ہو جو اس کی نظر میں نا پسندیدہ ہو.تقویٰ کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ متقی کے معنی یہ نہیں کہ وہ بڑا نیک ہے متقی کے معنی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اپنی ڈھال بنالے جو اپنے کو ہر بُرائی سے محفوظ رکھنے کی کوشش میں لگار ہے.ایسی تدابیر اختیار کرے کہ گناہ کے کنارہ تک نہ پہنچے.حضور فرماتے ہیں :.تدابیر انسان کو ظاہری گناہ سے بچاتی ہیں لیکن ایک کشمکش اندر قلب میں باقی رہ جاتی ہے اور دل ان مکروہات کی طرف ڈانواں ڈول ہوتا رہتا ہے.اُن سے نجات پانے کے لئے دعا کام آتی ہے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 568) پھر حضور فرماتے ہیں :.تد بیر اور دعا دونوں کا پورا حق ادا کرنا چاہئے.تدبیر کر کے سوچے اور غور کرے کہ میں کیا شے ہوں فضل ہمیشہ خدا کی طرف سے آتا ہے.ہزار تد بیر کرو ہرگز کام نہ

Page 282

خطابات مریم 257 خطابات آوے گی جب تک آنسو نہ ہیں.سانپ کے زہر کی طرح انسان میں زہر ہے اس کا تریاق دعا ہے جس کے ذریعہ سے آسمان سے چشمہ جاری ہوتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 591) دعا کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ دل درد سے بھر جائے.دعا کے لوازمات رقت ، اضطراب اور گداز کا ہونا ہے.جو دعا عاجزی اضطراب اور شکستہ دل سے بھری ہوئی ہو وہ خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لاتی ہے.یہی مضمون قرآن مجید کی سورہ نمل میں اللہ تعالیٰ نے بیان b فرمایا ہے کہ وہ قبولیت دعا کو اپنی ہستی کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے.فرماتا ہے.ا من يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلفاء الْأَرْضِ إِلهُ مِّعَ اللهِ ، قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ (النمل: 63) ترجمہ : بتاؤ تو کون بے کس کی دعا سنتا ہے.جب وہ خدا سے دعا کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے اور وہ تو دعا کرنے والے انسانوں کو ایک دن ساری زمین کا وارث بنا دے گا.کیا اس قادر مطلق اللہ کے سوا کوئی معبود ہے؟ تم بالکل نصیحت حاصل نہیں کرتے.بڑی زبر دست پیشگوئی بھی اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہ اگر تم اپنے رب کے حضور جھکتے رہو گے تو تمہیں اس دنیا کا وارث بنادے گا.یہ رقت اور اضطراب جس کی دعا کے لئے ضرورت ہے یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اگر دل پر قبض کی حالت طاری ہو تب بھی یہی دعا کرتا رہے کہ الہی دل تیرے ہی قبضہ اور تصرف میں ہے تو اس کو صاف کر دے.دعاؤں کی قبولیت کے لئے مامور زمانہ یا اس کے خلفاء کو کثرت سے دعا کے لئے لکھنا چاہئے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے بڑے لطیف پیرائے میں یہ مضمون بیان فرمایا کہ بیمار شخص اپنا علاج آپ نہیں کر سکتا.اس کا علاج تو دوسرا ہی کرے گا اس لئے اللہ تعالیٰ نے تطہیر ( یعنی پاک کرنے ) کیلئے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور مامور کی دعا ئیں تطہیر کا بہت بڑا ذریعہ ہوتی ہیں“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 100) اس سوال کے جواب میں کہ بعض دعا ئیں خطا جاتی ہیں اور ان کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا.حضور نے اپنی تصنیف برکات الدعا میں فرمایا ہے کہ :.

Page 283

خطابات مریم 258 خطابات یہی حال دواؤں کا بھی ہے.کیا دواؤں نے موت کا دروازہ بند کر دیا ہے ؟ یا اُن کا خطا جانا غیر ممکن ہے مگر کیا باوجود اس بات کے کوئی اُن کی تاثیر سے انکار کر سکتا ہے ؟ (روحانی خزائن جلد 6 برکات الد عاصفحہ 11) کتنی دفعہ دعا اس لئے بھی قبول نہیں ہوتی کہ اس کا قبول ہونا اس مانگنے والے کے لئے فائدہ مند نہیں ہوتا.مثلاً اگر کسی ماں کا پیارا بچہ بہت روئے گڑ گڑائے کہ وہ آگ اُسے پکڑا دے یا سانپ کا بچہ اس کے ہاتھ میں دے دے یا زہرا سے کھانے دے تو کیا اس کی ماں اس بچہ کی خواہش کو پورا کر دے گی اور اگر بچہ کی ضد پر کوئی احمق ماں پورا کر دے اور بچہ کی جان بچ بھی جائے تو وہ بچہ بڑے ہو کر ماں سے نفرت کرنے لگے گا.دعا کی کیفیت بالکل اس پیج کی طرح ہوتی ہے جسے ایک زمیندار ایک کھیت میں ڈالتا ہے ظاہراً تو یہی نظر آتا ہے کہ زمیندار نے مٹی کے اندر بیج کو پھینک دیا.اس وقت دیکھنے والا یہ تصور نہیں کر سکتا کہ یہ بیچ اندرہی اندر پودا کی صورت اختیار کر رہا ہے.پھوٹے گا ، بڑھے گا اور کسی وقت تناور درخت بنے گا.یہی حال دعا کا ہے.جلد باز تھک جاتے ہیں اور صبر کرنے والے مقصد کو پالیتے ہیں.حضور فرماتے ہیں :.دیکھو ابراہیم علیہ السلام نے ایک دعا کی تھی کہ اُس کی اولاد میں سے عرب میں ایک نبی ہو پھر کیا وہ اُسی وقت قبول ہو گئی ابراہیم علیہ السلام کے بعد ایک عرصہ دراز تک کسی کو خیال بھی نہیں آیا کہ اس دعا کا کیا اثر ہوا لیکن رسول اللہ ﷺ کی بعثت کی صورت میں وہ دعا پوری ہوئی اور پھر کس شان کے ساتھ پوری ہوئی“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 415 نیا ایڈیشن) دعاؤں سے انسان کو بہت برکات حاصل ہوتی ہیں.اس سے انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے.اندرونی غلاظتیں دھل جاتی ہیں اس کی روح پچھلتی ہے اور آستانہ حضرت احدیت پر گرتی ہے.دعا کا سب سے بڑا مقام نماز ہے.اس لئے سب سے زیادہ دعا نماز میں مانگنی چاہئے بلکہ نماز تو خود دعا ہے جس کو یہ نصیب نہیں کہ نماز میں دعا کرے اس کی نماز ہی نہیں دعا نماز کا مغز اور روح ہے.

Page 284

خطابات مریم 259 خطابات سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دعا کرنی چاہئے اور کون سی دعائیں کرنی چاہئیں.اللہ تعالیٰ نے ایک کامل اور مکمل دعا قرآن کے شروع میں ہی سکھائی ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کہ ہمیشہ سیدھے راستہ پر چلیں کبھی نہ بھنکیں گویا ہمیشہ ثابت قدمی کی دعا اللہ تعالیٰ سے مانگنی چاہئے.مثلاً ربنا افرغ علينا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (البقره 251) اور ربنا لا تزغ قلوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الوهاب (ال عمران: 9) اسی طرح وہ تمام مسنون دعائیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیں.کھانا کھانے کی دعا ، کھانا ختم کرنے کی دعا، صبح اُٹھ کر دعا، سوتے وقت کی دعا، نیا کپڑا پہننے کی دعا، بیوی کے پاس جاتے ہوئے دعا، مسجد میں داخل ہونے کی دعا، مسجد سے نکلتے ہوئے دعا، سفر کی دعا، کسی بستی میں داخل ہوتے ہوئے دعا، سواری میں بیٹھتے ہوئے دعا، بلندی پر چڑھتے ہوئے دعا، بلندی سے اُترتے ہوئے دعا ، بیت الخلاء جانے کی دعا، آئینہ دیکھتے ہوئے دعا غرض زندگی کا کوئی مقام اور منزل نہیں صبح اور شام کے ہر کام کے ابتداء اور اختتام کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائیں کیں جو ہمیں سیکھنی چاہئیں ان کا مطلب آنا چاہئے اپنے بچوں کو سکھانی چاہئیں.حضور فرماتے ہیں :.یہ قاعدہ یا درکھو کہ جب دعا سے باز نہیں آتا اور اس میں لگا رہتا ہے تو آخر دعا قبول ہوتی ہے مگر یہ بھی یادر ہے کہ باقی ہر قسم کی دعائیں طفیلی ہیں اصل دعائیں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے واسطے کرنی چاہئیں باقی دعائیں خود بخو دقبول ہو جائیں گی“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 602 ) ہر انسان کو مشکلات پیش آتی ہیں اس لئے اپنے لئے ، اپنے بیوی بچوں کے لئے اپنی آئندہ نسل کے لئے دوستوں کے لئے بلکہ دشمنوں کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب کرے.دعا کا دائرہ بہت وسیع کرنا چاہئے.یہ سب سے بڑی خدمت ہے جو انسان دوسرے کی کر سکتا ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں.”ساری عقدہ کشائیاں دعا کے ساتھ ہو جاتی ہیں.ہمارے ہاتھ میں بھی اگر کسی

Page 285

خطابات مریم 260 خطابات کی خیر خواہی ہے تو کیا ہے.صرف ایک دعا کا آلہ ہی ہے جو خدا نے ہمیں دیا ہے کیا دوست کے لئے اور کیا دشمن کیلئے “.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 132) اسلام کی ترقی کیلئے دعا کرنا ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلام کا غلبہ ہمیں دکھا دے.حضور فرماتے ہیں کہ:.”ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتداء میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے زیر کیا تھا اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلط عطا کرے گا.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 190) حضور نے اپنے اشعار میں جو اپنی اولاد اور اسلام کی ترقی کیلئے دعائیں مانگی ہیں وہ دعا ئیں بھی ہمیں کثرت سے مانگنی چاہئیں کہ جو درد، الحاح اور تڑپ آپ کے الفاظ میں ہے اس سے بڑھ کر تڑپ کسی اور کے الفاظ میں نہیں مل سکتی.غرض اللہ تعالیٰ کا دعا کی اجازت دینا اس کے بندوں پر ایک بہت بڑا احسان ہے.یارا نہیں پاتی ہے زباں شکر و ثنا کا احسان سے بندوں کو دیا اذن دُعا کا کیا کرتے جو حاصل یہ وسیلہ بھی نہ ہوتا یہ آپ سے دو باتوں کا حیلہ بھی نہ ہوتا سکتی تسکین دل و راحت جاں مل ہی نہ آلام زمانه سے اماں مل ہی نہ سکتی پرواہ نہیں باقی نہ ہو بے شک کوئی چارا کافی ہے ترے دامنِ رحمت کا سہارا مایوس کبھی تیرے سوالی نہیں پھرتے بندے تری درگاہ سے خالی نہیں پھرتے حضور نے احمدیوں کو بشارت دی کہ اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ نے دنیا کو محروم نہیں چھوڑا اور ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور اس نے اپنے ہاتھ سے ایک بندہ کو کھڑا کیا.خدا تعالیٰ کے

Page 286

خطابات مریم 261 خطابات نزول و رحمت کا وقت ہے دعائیں مانگو، استقامت چاہو اور درودشریف جو حصول استقامت کا زبر دست ذریعہ ہے.بکثرت پڑھو مگر رسم اور عادت کے طور پر نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے حسن اور احسان کو مدنظر رکھ کر اور آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کیلئے اور آپ کی کامیابیوں کیلئے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قبولیت دعا کا شیر میں پھل تم کو ملے گا.آپ نے قبولیت دعا کے تین ذریعہ بیان فرمائے.پہلا.اطاعت رسول : اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ (ال عمران:11) اگر اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعوی ہے اور اس کا پیار تم اس سے مانگتے ہو اس کی رضا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی طریق ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کرو.آپ کے نقش قدم پر چلو ہر کام میں آپ کا طریق اختیار کرو.ہر بات میں آپ کی نقل کرو.اللہ تعالیٰ تم سے پیار کرے گا تمہاری دعائیں سنے گا.دوسرا طریق: درود شریف کثرت سے پڑھنا ہے جس کا حکم قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ دیتا ہے کہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب : 57) درود شریف میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدارج اور مراتب کیلئے دعا نہیں ساری امت محمد یہ اورخوداپنے لئے بھی دعا ہے.تیسرا ذریعہ موہبت الہی ہے یعنی جس پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہو جائے.یہ وہ درجہ ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کو حاصل ہوتا ہے.پس دعا کرنے سے پہلے درود شریف ضرور پڑھنا چاہئے اور خود جائزہ لینا چاہئے کہ ہم منہ سے تو دعا کر رہے ہیں درود شریف پڑھ رہے ہیں لیکن کیا ہما را عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور عمل کے مطابق ہے یا نہیں ہمارے قول اور فعل میں تضاد تو نہیں اگر ہے تو اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت امصلح الموعود نے بعض خطبات جمعہ میں قبولیت دعا کے گر بیان فرمائے ہیں ان کا خلاصہ میں اپنے الفاظ میں بیان کرتی ہوں.ان میں سے کئی کا ذکر ابتداء میں آچکا ہے.پہلا طریق : فَلْيَسْتَجِيبُوالی میں بیان ہوا ہے.تم میری ہر ایک بات مان لیا کرو.جو حکم

Page 287

خطابات مریم 262 خطابات ہم نے تمہارے لئے بھیجے ہیں ان پر عمل کرو اور اپنی حرکات سکنات کو شریعت کے ماتحت لے آؤ یا درکھو خادم کو انعام اسی وقت ملتا ہے جب آقا خوش ہو.آقا کو ناراض کر کے کوئی کیسے امید رکھ سکتا ہے.یعنی بندوں اور اللہ تعالیٰ کے درمیان معاملہ ہے.ماں بھی اسی بچہ سے زیادہ پیار کرتی ہے جو کہنا مانتے ہیں.استاد بھی اپنے کہنا ماننے والے طالب علم کی طرف زیادہ توجہ دیتا ہے.دوسرا طریق: وَلْيُؤْمِنُوبی میں بیان ہوا ہے.یہاں ایمان لانے سے مراد خدا پر ایمان لا نا نہیں بلکہ اس بات پر ایمان لانا ہے کہ خدا تعالیٰ دعائیں قبول کرتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو.تیسرا طریق : اللہ تعالیٰ انسانوں سے بہت محبت کرتا ہے.اگر اللہ کے بندوں پر کوئی احسان کرتا ہے، رحم کرتا ہے تو خدا بھی اس پر رحم کرتا ہے.اگر اپنا دکھ اور مشکل دور کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہو تو اس کے بندوں کے دکھ دور کرو.کوشش کرو کہ جو مصیبت میں ہواس کی مصیبت کے دور کرنے کیلئے تم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے.چوتھا طریق: کثرت سے آنحضرت ﷺ پر درود بھیجو.آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے ہیں.اللہ تعالیٰ نے کلمہ توحید کے ساتھ آپ کا نام بھی رکھا.پس خدا کی رحمت کو جوش میں لانے کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ مرتبہ دعا سے پہلے درود بھیجنا ضروری ہے.پانچواں طریق: دعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرو.ایک انسان دوسرے انسان سے مانگنے جاتا ہے تو اس کی تعریف کرتا ہے.آپ یوں ہیں، ایسے ہیں.وہ جو سب سے بڑا حاجت روا اور دینے والا ہے اس کی تو سب سے زیادہ تعریف ہونی چاہئے اور حقیقی تعریف سورہ فاتحہ میں بیان ہوئی ہے اس لئے دعا سے پہلے حمد کرو.چھٹا طریق: دعا کی قبولیت کے لئے یہ بھی یاد رکھو کہ دعا کرنے سے پہلے اپنے کپڑوں اور بدن کو صاف کرو.چونکہ روح کی صفائی دل کی صفائی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لئے ضروری ہے کہ جسم پاک ہو تا روح پر بھی اس کا پاک اثر پڑے.اسلام نے تمام عبادتوں کیلئے صفائی کی شرط ضروری قرار دی ہے.

Page 288

خطابات مریم 263 خطابات ساتواں طریق: دعا کے لئے ایسا وقت انتخاب کیا جائے جب کہ خاموشی ہو.خیالات پرا گندہ نہ ہوں.آٹھواں طریق: جب کسی معاملہ کے متعلق انسان دعا کرے تو پہلے اپنے نفس کی کمزوریوں کا مطالعہ کرے اپنی کمزوریوں کو تلاش کرے نفس کو گرا دے.یہ بندے اور خدا میں تعلق پیدا ہونے کا ایک ذریعہ ہے.نواں طریق : دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے انعامات کو اپنی آنکھوں کے سامنے لائے اس کا شکر ادا کرے.دسواں طریق: جس طرح خدا تعالیٰ کے انعامات کو نظر کے سامنے لائے اسی طرح اس کے غضب کو بھی سامنے لایا جائے.گیارہواں طریق : دعا کرنے لگو تو اپنی حالت کو چست بناؤ.جسم پر مردنی ہو تو روح پر بھی اثر پڑتا ہے.بارہواں طریق: اصل مقصد کے لئے دعا کرنے سے قبل اور دعائیں ہوں تا دعاؤں کا جوش پیدا ہو.تیرہواں طریق: ایسی جگہ دعا مانگی جائے جو بابرکت ہو.جگہ کا بھی قبولیت دعا سے تعلق ہوتا ہے.چودھواں طریق : ہر ایک دعا کا اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات سے تعلق ہے.(حقیقۃ الد عاصفحہ 6 تا 8 ) میں اس تقریر کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ان الفاظ پر ختم کرتی ہوں.مبارک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کیلئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اُٹھانے کیلئے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا.وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم و رحیم ، حیا والا ، صادق،

Page 289

خطابات مریم 264 خطابات وفادار، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے.پس تم بھی وفا دار بن جاؤ اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا.دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جاؤ اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو.خدا کے لئے ہارا ختیار کرلو اور شکست کو قبول کرلوتا بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ.دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائے گی.دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے.دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک روحانی ختنه ائن جلد 20 لیکچر سیالکوٹ صفحہ 223) (ماہنامہ مصباح فروری 1981ء)......W

Page 290

خطابات مریم 265 یک روزہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ضلع شیخو پوره تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میری بہنو اور پیاری بچیو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ خطابات انسان کی روحانی تکمیل کیلئے 1400 سال قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے اور آپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کیلئے ایک زندہ کتاب قرآن مجید کی صورت میں عطا فرمائی جو ہر زمانہ اور ہر طبقہ کیلئے ہے.آپ نے فرمایا.ہم نے اپنی آنکھوں سے الہی وعدوں کو پورے ہوتے دیکھا ہے اور یقین ہے کہ آج سے تیسری صدی پوری نہ ہوگی کہ مسیح علیہ السلام کے ماننے والے اسلام کی طرف رجوع کریں گے اور اسلام کا غلبہ شروع ہو جائے گا.زمین و آسمان تو ٹل سکتے ہیں مگر یہ وعدے نہیں مل سکتے.اس غلبہ کی بشارت کے ساتھ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کے متعلق سوچنا ہے اور اس نعمت کو اپنی آئندہ نسلوں میں منتقل کرنا ہے.پس جماعت کی خواتین ہونے کے لحاظ سے سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ وہ اس نعمت سے خود بھی فائدہ اُٹھائیں اور آئندہ نسلوں کو بھی اس سے متمتع کریں.دوسری اہم چیز جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتی ہوں وہ قرآن کریم کا یہ حکم ہے کہ اطِيعُوا اللهَ وَاطِيْعُوا الرَّسُولَ وَ أولى الأمْرِ مِنْكُمْ (ال عمران : 33) ہمیں بحیثیت احمدی ہونے کے یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم صرف منہ سے ہی تو دعوی نہیں کرتے کیا ہماری دن اور رات کی زندگی اس کے متعلق گواہی دیتی ہے کہ ہم اپنے وعدوں پر عمل بھی کرنے والے ہیں؟ پس احکام الہی کی پابندی کرتے ہوئے حقوق اللہ کی ادائیگی کرنی چاہئے.ایسی چیزیں جو دشمنی کا دروازہ کھولتی ہیں ان سے بچنا چاہئے اور اپنی زندگیوں میں ایک عظیم انقلاب پیدا کرنا چاہئے کیونکہ حضرت اقدس کی بعثت کا اصل مقصد يُحْي الدّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَة ( تذكره صفحه 55) ہے.شریعت کے قوانین کو پھر دنیا میں قائم کریں اور قرآن کریم کو پڑھیں اور اس کا ترجمہ پڑھیں.اگر ہم قرآن نہ پڑھیں تو کیسے پتہ چلے گا کہ کون کونسے احکام اسلام کو پورا کر رہے ہیں اور کن کن احکام کو چھوڑ رہے ہیں؟ بہت سی عورتیں قرآن کے احکام کو اس لئے چھوڑ دیتی ہیں کہ

Page 291

خطابات مریم 266 خطابات ان کو علم ہی نہیں ہوتا کہ قرآن نے کیا فرمایا ہے.مثلاً پردہ کا حکم ہے ہر وقت ڈر رہتا ہے کہ شیطان کسی طرف سے حملہ آور ہو.اس زمانہ میں میں سمجھتی ہوں کہ یہ سب سے بڑا حملہ ہے کہ شیطان یہ وسوسہ ڈال رہا ہے کہ پردہ چھوڑ دو حالانکہ قرآن میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ پردہ کرو اور اگر سمجھ لو کہ خدا کا حکم سب سے بڑھ کر ہے تو کوئی چیز نیکی کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی.ماؤں کو اپنے بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کرنی چاہئے اور ان میں اور اپنے اندر قربانی کی وہ روح پیدا کرنی چاہئے جس کی مثالیں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ملتی ہیں.عہد یداران کو بھی ان قربانیوں میں برابر کا شریک ہونا چاہئے خواہ وہ مالی قربانی ہو ، جانی قربانی ہو یا وقت کی ہو ہمیں اس طرح اتحاد سے زندہ رہنا چاہئے جس طرح ایک ہاتھ کی انگلیاں یا کنگھی کے دندانے ، ساری جماعت کی خواتین میں محبت کا جذبہ ہونا چاہئے ، کوتا ہیاں ہر ایک سے ہوتی ہیں کھلے دل سے غلطیاں معاف کرنا سیکھیں.عیب چینی اور بُرائی کی تشہیر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں.ہر بچہ اور عورت کو قرآن کریم کا ترجمہ آنا چاہئے کیونکہ یہ سب تعلیموں سے بڑھ کر تعلیم ہے اور اسی سے دوسری تمام تعلیمیں نکلتی ہیں.آپ نے فرمایا ایک اور امر جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ ہر بہن اپنی تعلیمی صلاحیت کے مطابق مطالعہ کتب حضرت اقدس کی طرف توجہ دے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے امسال مجلس مشاورت کے موقع پر بھی اس کی طرف بڑی توجہ دلائی ہے.پس ایک دوسرے کے تعاون کے ساتھ عمل کریں اور ایک زنجیر اور موتیوں کی لڑیوں کی طرح اپنی زندگیاں بنائیں تاہم میں کسی قسم کی کمزوری اور انتشار پیدا نہ ہو اور ہم خدا کے حضور سرخرو ہوں.قربانی کے جذبہ کو اپنی نسل میں زندہ رکھیئے تا کہ جہاں بھی وہ جائیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دنیا تک پہنچانے والے ہوں.بچوں کو وقف کریں تا وہ احمدیت کے سچے خادم اور مبشر ثابت ہوں.خدا کرے کہ جلد وہ دن آئے کہ ہم اسلام کا سورج اپنی آنکھوں سے دیکھیں تا دنیا میں ایک ہی مذہب ہو ، اسلام اور ایک ہی کلمہ ہوَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ( الفضل 12 مئی 1981ء)

Page 292

خطابات مریم 267 خطابات لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کے تیسرے سالانہ اجتماع کا خطاب (16/اگست 1981ء) آپ نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.......میری عزیز بہنو اور بچیو مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی.میں آج آپ کو اس بات کی نصیحت کرنا چاہتی ہوں کہ آپ نقالی سے بچیں اور اپنی زندگیوں کو خالص...( دینی ) رنگ میں ڈھالیں.میری بہنوں آپ بچوں کی صحیح تربیت کریں قرآن حکیم کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کریں آپ خود اپنے گھروں میں قرآن کریم کا چرچا کریں آپ اپنے ان بچوں کے لئے جو حساب میں انگریزی میں یا سائنس میں کمزور ہوتے ہیں پیسے بچا کر پڑھانے کا انتظام کرتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ یہ بھی نگرانی نہ کریں کہ آپ کا بیٹا قرآن کریم کا ترجمہ بھی سیکھ رہا ہے اور جب تک آپ خود قرآن کریم نہیں سیکھیں گی آپ کو معلوم نہیں ہوگا کہ اس میں کیا لکھا ہے جو غلطیاں ہوتی ہیں وہ عدم علم اور عدم واقفیت کی وجہ سے ہوتی ہیں آپ قرآن کریم کو پڑھ کر معلوم کر سکتی ہیں کہ کن باتوں پر عمل کر کے روحانی ترقی حاصل کر سکتی ہیں اور اپنے معاشرے کو بہتر بناسکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتی ہیں.قرآن مشکل نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَقَدْ يَرْنَا الْقُرآن (القمر: (18) ہم نے قرآن کو آسان بنایا ہے.اگر پانچ سال کا بچہ قرآن کریم ناظرہ پڑھ سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ 14-15 سال کی عمر میں ترجمہ نہ سیکھ لے.آج کل بچے بڑی بڑی مشکل چیزیں سیکھ رہے ہیں.سائنس میں ، میڈیکل میں ، لاء میں ، انجنیئر نگ میں غرض کو نسا شعبہ ہے جس میں وہ اعلیٰ نمبر نہیں حاصل کر رہے صرف اگر غفلت ہے تو قرآن کریم سے ہے.اس لئے کہ آپ پر قرآن کریم کا مقام نہیں کھلا ، قرآن کی عظمت نہیں واضح ہوئی آپ کے دل میں یہ درد پیدا ہونا چاہئے کہ ہم اور کچھ سکھائیں یا نہ سکھائیں قرآن کریم

Page 293

خطابات مریم 268 خطابات ضرور سکھانا ہے کیونکہ قرآن کی تعلیم اور قرآن کی اشاعت کیلئے...حضرت اقدس ) تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور عنایت سے جماعت احمدیہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قدرت ثانیہ ) کا قرب عطا کیا ہے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں ، بچوں کی تربیت کریں اسلام کے احکام سکھائیں.یہ پردے کی طرف جو بے تو جہگی ہے یہ محض نقالی ہے.میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ آج امریکہ کی اور دوسرے ممالک کی عورتیں برقع پہن کر یہاں آئیں تو آج جو آپ میں سے برقع اُتار چکی ہیں دوبارہ برقع سلالیں گی کیونکہ آپ سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک کی عورتیں برقع پہنے ہوئے قرآن پڑھتی ہوئی نظر آئیں گی پھر آپ کو احساس ہوگا کہ ہم سے جو اتنے دور تھے انہوں نے ہم سے زیادہ قرآن سیکھ لیا زیادہ احادیث سیکھ لیں اور زیادہ حضرت...اقدس) کی کتب کا علم حاصل کر لیا اور یہ حقیقت ہے کہ ان ملکوں میں جو اسلام قبول کر رہے ہیں وہ سمجھ کر اور عیسائیت سے بیزار ہو کر قبول کر رہے ہیں آپ ان سے بات کر کے دیکھیں وہ آپ سے زیادہ جانتے ہیں کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ راہ نجات اسلام کے ساتھ وابستہ ہے اب راہ نجات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے ساتھ وابستہ ہے.پس میری بہنو اور بچیو غلبہ اسلام کا وقت قریب ہے آپ قربانیاں دیں اس راستہ میں آپ کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی ہو سکتا ہے کہ ایسا وقت آئے کہ ان قربانیوں کی ضرورت باقی نہ رہے.اس وقت جماعت کو ضرورت ہے آپ کی قربانیوں کی ، نقالی چھوڑ دیں اور جو صحیح راستہ اسلام کا ہے اس کو اختیار کریں اور جس شاہراہ اسلام پر آپ کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز چلانا چاہتے ہیں ضروری ہے کہ جماعت کے مرد اور عور تیں پورے عزم اور اطاعت کے ساتھ آپ کے پیچھے چلیں.بُرائیوں کو چھوڑ کر نقالی کو چھوڑ کر پاک صاف اور بدعتوں سے پاک معاشرہ پیدا کریں جس میں قرآن کریم کی آوازیں گونجیں قرآن کریم کا چرچا ہو قرآن کی تعلیم ہو جس طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچھا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے تو آپ نے فرمایا كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنُ (مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 91) آپ قرآن پر عمل کرتے اور اسی پر عمل کرنے کو کہتے جو قرآن کی آیات میں درج ہے اسی طرح ہمارا عمل ہو میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی برائیوں سے محفوظ رکھے ہمارے دلوں میں کبھی

Page 294

خطابات مریم 269 خطابات کبھی نہ آئے ایک دفعہ خدا تعالیٰ نے ہم کو ہدایت کی راہ دکھا دی ہے اس پر ہم ہمیشہ قائم رہیں.اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (سورۃ الفاتحہ: 6) کی دعا اور ربنا لا تزغ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا (ال عمران (9) کی دعا بڑی کثرت سے ہر بہن کو پڑھنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی قربانیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس کی راہ میں مقبول ہوں، ہم کبھی نہ بھٹکیں ، ہماری اولادیں کبھی نہ بھٹکیں ، احمدیت کی ترقی کا دن ہم دیکھیں اسلام کے غلبہ کا دن ہم اور ہماری نسلیں دیکھیں ، خدا تعالیٰ کسی کا پابند نہیں ہے اگر کوئی قوم قربانی نہ دے تو ضرور اس کو ترقی دیتا چلا جائے.بے شک ہمیں بہت سی بشارتیں ملی ہیں لیکن اگر ہم کمزوری دکھائیں گے تو خدا تعالیٰ کسی اور قوم کو کھڑا کر دے گا ہر ملک اور ہر براعظم میں احمدی پیدا ہور ہے ہیں اپنے فرض کو پہچانیں اور دینی تعلیم کی طرف بہت توجہ دیں یہی دو بڑے کام ہیں مالی قربانیاں اور جلسے اجلاس سب ثانوی کام ہیں.سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ ہر ماں اپنے گھر میں قرآن کا مدرسہ بنائے.آپ نہیں سکھائیں گی تو وہ بے دینی کی باتیں کہیں نہ کہیں سے سیکھیں گے وہ غلط باتیں سیکھیں گے اور دوسروں سے متاثر ہوں گے پھر آپ کو اور مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا.اس لئے آپ خود صحیح عقائد سکھا ئیں اور غلط باتوں کے متعلق بتائیں کہ یہ باتیں نہیں کرنی ان کے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کریں اور وہ بھی آپ کر سکتی ہیں جب کہ خود آپ کے اخلاق اسلام کی تعلیم کے مطابق ہوں آپ میں اخوت کا جذبہ ہو آپ میں سچائی ہو.آپ میں ایمان ہو اور آپ اپنے عہد کی پابند ہوں.آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلنے والی ہوں.یہی اسلام کی نشانی ہے خدا تعالیٰ ہمیں بھی اور آپ سب کو تو فیق عطا فرمائے.آمین (ماہنامہ مصباح دسمبر 1981ء) ☆☆......

Page 295

خطابات مریم 270 خطابات لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے اکیسویں سالانہ اجتماع کے موقع پر افتتاحی خطاب 1981ء آپ نے اپنے خطاب کے آغاز میں فرمایا :.الحمد لله الحمد لله ثم الحمد للہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان اور.....( قدرت ثانیہ ) کی برکات کے نتیجہ میں آج لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے اکیسویں سالانہ اجتماع کا آغاز ہورہا ہے لجنہ اماءاللہ کے قیام پر 59 سال پورے ہو رہے ہیں جو ایک خاصہ لمبا عرصہ ہے.ایک طویل سفر طے کر کے لجنہ اماءاللہ اس مقام تک پہنچی ہے لیکن اب بھی ہم میں بہت سی خامیاں ہیں کمزوریاں ہیں جن کا جائزہ لینا اور انہیں دور کرنے کے پروگرام بنانا ہمارے اجتماع کے پروگراموں کا ایک حصہ ہونا چاہئے.جب تک ہمارے پیش نظر ہمارا مقصد حیات نہیں رہتا اور اپنی منزل مقصود کو ہم اپنے سامنے نہیں رکھتے نہ ہم اپنی تربیت کر سکتی ہیں نہ دوسروں کی.آپ نے فرمایا: قرآن مجید نے اس مقصد حیات کو قُل اِنّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَ مماتي لله رب العلمین (الانعام: (163) کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ میری نماز میری قربانیاں میری زندگی اور میری موت سب رب العالمین کے لئے ہی ہے.یہی وہ مقصدِ حیات ہے جو ہراحمدی کے پیش نظر رہنا چاہئے.آپ نے حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب کے متعد دحوالے پڑھ کر سنائے جن میں حضور نے اپنی بعثت کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا اور حقیقی تعلق قائم کرنا میری بعثت کی غرض ہے اور یہ تعلق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بچے دل سے پیروی کرنے اور آپ کے اُسوہ حسنہ کو اختیار کئے بغیر قائم نہیں ہوسکتا.

Page 296

خطابات مریم 271 خطابات چنانچہ حضور نے فرمایا کہ: ” میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپ سے محبت رکھنا انجام کا رانسان کو خدا کا پیارا بنادیتا ہے“.(روحانی خزائن جلد 22 حقیقۃ الوحی صفحہ 67) آپ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کو جو سب سے بڑی نعمت عطا فرمائی ہے وہ....(قدرت ثانیہ ) کی عظیم نعمت ہے.ہماری ترقی ، ہماری اندرونی تنظیموں کی ترقی اور غلبہ اسلام کی عظیم مہم میں کامیابی یہ سب کچھ قدرت ثانیہ ) سے ہی وابستہ ہے.ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے اور اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ واقعی ہم اس کی قدر کرتے ہیں.اس کا طریق یہ ہے کہ ہم حضور کی مکمل اطاعت کریں آپ کے ہر فیصلے کو بشاشت قلب کے ساتھ قبول کریں اور اپنے بچوں کے دلوں میں بھی (قدرت ثانیہ ) کی محبت پیدا کی جائے.آپ نے فرمایا:....قدرت ثانیہ ) کی برکات کی ایک زندہ مثال اس اجتماع کے موقع پر آپ کا اتنی بھاری تعداد میں یہاں آنا ہے امسال حضور نے تحریک فرمائی کہ ہر مجلس اور ہر لجنہ کے نمائندے اپنے سالانہ اجتماع میں شریک ہوں حضور کے ارشاد پر اس کے لئے امرائے جماعت اور مربیان سلسلہ نے بھی کوشش کی اور لجنہ کی تنظیم نے بھی مقدور بھر کوشش کی.اللہ تعالیٰ نے حضور کی اس تحریک میں اتنی برکت ڈالی کہ خدا کے فضل سے بھاری تعداد میں لجنات کے نمائندوں کو اس اجتماع میں آنے کی توفیق حاصل ہوئی چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال اجتماع پر 450 لجنات سے 2030 نمائندگان اور کل 8480 ممبرات شامل ہوئیں جن میں سے 3500 بیرون از ربوہ آئیں جب کہ گزشتہ سال 239 لجنات میں سے 682 نمائندگان اور بیرون از ربوہ سے آنے والوں کی کل تعداد 2861 تھی.ناصرات کے اجتماع میں 145 مجالس سے 2660 بچیاں شامل ہوئیں جن میں سے 800 بیرون از ربوہ کی تھیں جب کہ گزشتہ سال 84 مقامات کی 500 بچیاں شامل ہوئیں.

Page 297

خطابات مریم 272 خطابات مالی لحاظ سے بھی یہ سال نمایاں حیثیت رکھتا ہے.گزشتہ سال 400 لجنات چندہ دہندہ تھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے شعبہ مال کی سیکرٹری ان کی کارکنات اور ضلعی صدروں کی محنت کو قبول فرمایا اس میں برکت ڈالی اور نہ ہم تو عاجز بندے ہیں سب کچھ اسی کا فضل ہے کہ 71 لجنات نے گزشتہ سال سے زائد چندہ دیا جس میں ضلع کے لحاظ سے ضلع گوجرانوالہ سر فہرست ہے کہ ان کی کوئی لجنہ نادہند نہیں گویا اس سال 471 لجنات چندہ دہندہ ہیں کل تعداد ہمارے ریکارڈ کے مطابق 627 ہے.ابھی 165 لجنات ایسی ہیں جن سے چندہ نہیں آتا ان میں قومی زندگی کی روح پیدا کرنی آپ کا کام ہے.ایک لجنہ بھی ایسی نہیں ہونی چاہئے جس کا چندہ نہ آتا ہو، ایک لجنہ بھی ایسی نہیں ہونی چاہئے جس کی اجتماع پر نمائندگی نہ ہوا ایک لجنہ بھی ایسی نہیں ہونی چاہئے جس کی رپورٹ نہ آئی ہور پورٹ کے سلسلہ میں اکثر دیہات کی شکایت آتی ہے کہ پڑھی ہوئی نہیں.آخر آپ پڑھنا لکھنا کیوں نہیں سیکھتیں اگر بوڑھی عورتوں کو پڑھنا نہیں آتا لکھنا نہیں آ تا نو جوان لڑکیاں پڑھنا لکھنا سیکھیں اور کام سنبھالیں آئندہ آپ پر ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں آپ کیوں جاہل رہنا پسند کرتی ہیں اگلے سال کیلئے دیہات پر خصوصی طور پر میں یہ ذمہ داری ڈالوں گی کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو تعلیم دلوائیں.کوئی گاؤں ایسا نہ رہے جہاں لڑکیاں اچھی طرح اُردو پڑھنا لکھنا نہ جانتی ہوں ، قرآن مجید اچھی طرح پڑھ سکتی ہوں ، مذہبی بنیادی اصول اچھی طرح آتے ہوں ، ہمارے ملک کا زیادہ حصہ دیہات پر مشتمل ہے ان کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ ہر عورت اور ہر بچی اُردو لکھنا پڑھنا جانتی ہو.ہمت کریں، عزم کریں اور خدا تعالیٰ کی خاطر علم حاصل کریں اس لئے حاصل کریں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے ہمت اور ارادہ کریں گی تو اللہ تعالیٰ سامان بھی پیدا کر دے گا.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.(ماہنامہ مصباح نومبر 1981ء)

Page 298

خطابات مریم 273 خطابات سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ( بر موقع جلسہ سالانہ 1981ء) حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم سید نا حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی زوجہ محترمہ تھیں جن کو حضور کی زوجیت کیلئے خود باری تعالیٰ نے منتخب فرمایا تھا تا آپ دونوں کے ذریعہ سے ایک نئے خاندان کی بنیا د رکھی جائے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اشاعت دین کا کام لینا تھا.آنحضرت مہ نے آنیوالے مسیح کے متعلق فرمایا تھا: يتزوج ويولد له حضرت اقدس ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 337 میں بیان فرماتے ہیں.وو ' جناب رسول اللہ اللہ نے بھی پہلے سے ایک پیشگوئی فرمائی ہے کہ یتزوج ويولد له یعنی وہ بیوی کرے گا اور نیز وہ صاحب اولاد ہو گا اب ظاہر ہے کہ یتزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں کیونکہ عام طور پر ہر ایک شادی کرتا اور اولا د بھی ہوتی ہے اس میں کچھ خوبی نہیں بلکہ یتزوج سے مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا اور اولاد سے مراد وہ خاص اولا د ہے جسکی نسبت اس عاجز کی پیشگوئی موجود ہے گویا اس جگہ رسول اللہ لیے ان سیہ دل منکروں کو ان کے شبہات کا جواب دے رہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہوں گی.“ قبل اس کے کہ میں وہ بشارتیں بیان کروں جو اس شادی سے قبل حضور کو دی گئی تھیں حضرت اماں جان کے خاندان کے متعلق کچھ بیان کروں گی.حضور کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بیان فرمایا کہ:.66 " الحمد لله الذي جعل لكم الصهر والنسب» (تذكره صفحه 37)

Page 299

خطابات مریم 274 خطابات آپ فرماتے ہیں :.,, قریباً اٹھارہ برس سے ایک یہ پیشگوئی ہے الحمد لله الذي جعل لكم الصهر والنسب.وہ خدا سچا خدا ہے جس نے تمہارا دامادی کا تعلق ایک شریف قوم سے جو سید تھے کیا اور خود تمہاری نسب کو شریف بنایا جو فارسی خاندان اور سادات سے معجون مرکب ہے.اس پیشگوئی کو دوسرے الہامات میں اور بھی تصریح سے بیان کیا گیا ہے یہاں تک کہ اس شہر کا نام بھی لیا گیا تھا جو دہلی ہے.اور یہ پیشگوئی بہت سے لوگوں کو سنائی گئی تھی.اور جیسا کہ لکھا تھا ایسا ہی ظہور میں آیا کیونکہ بغیر سابق تعلقات قرابت اور رشتہ کے دہلی میں ایک شریف اور مشہور خاندان سیادت میں میری شادی ہو گئی اور یہ خاندان خواجہ میر درد کی لڑکی کی اولاد میں سے ہے جو مشاہیرا کا بر سادات دہلی میں 66 سے ہے.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 272-273) حضرت اماں جان کے جد امجد حضرت خواجہ محمد ناصر دہلوی بارہویں صدی ہجری کے بہت بڑے ولی کامل مانے گئے ہیں آپ کے ذریعہ ایک نئے سلسلہ کی بنیاد پڑی تھی آپکو پیشگوئی کی گئی تھی کہ یہ ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی اس کی ابتداء تجھ پر ہوئی اور انجام اس کا مہدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ہوگا یہ سلسلہ مجددیہ کہلایا.چنانچہ 1865ء میں حضرت میر ناصر نواب کے گھر میں سید ہ نصرت جہاں کی ولادت ہوئی اور 1884ء میں حضرت سیدہ نصرت جہاں کے ذریعہ یہ روشنی مہدی موعود کی روشنی میں ضم ہوگئی اور اس طرح دو پرانے مشہور خاندان مٹ کر ایک نئی نسل کا آغاز آپ دونوں کے وجود سے ہوا.اور اللہ تعالیٰ کی یہ بشارت پوری ہوئی کہ :.میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا.ایک اُجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا اور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گا.“ (تذکرہ صفحہ 112،111.اشتہار 20 رفروری 1882ء) آپ کی شادی کی خبر حضور کو بہت پہلے دی گئی تھی اپنی پہلی بیوی سے آپ کا کوئی تعلق باقی نہ

Page 300

خطابات مریم 275 خطابات تھا اللہ تعالیٰ نے بشارت دی اور الہاما فر مایا تھا.ہر چہ باید نو عروسی را ہماں ساماں کنم ، یعنی اس شادی میں تجھے کچھ فکر نہیں کرنا چاہیے ان تمام ضروریات کا رفع کرنا میرے ذمہ رہے گا آپ فرماتے ہیں.سو قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے اپنے وعدہ کے موافق اس شادی کے بعد ہر ایک بار شادی سے مجھے سبکدوش رکھا اور مجھے بہت آرام پہنچایا کوئی باپ دنیا میں کسی بیٹے کی پرورش نہیں کرتا جیسا کہ اس نے میری کی.اور کوئی والدہ پوری ہوشیاری سے دن رات اپنے بچہ کی ایسی خبر نہیں رکھتی جیسا کہ اس نے میری رکھی اور جیسا کہ اس نے بہت عرصہ پہلے سے براہین احمدیہ میں یہ وعدہ کیا تھا کریا احمد اسکن انت وزوجك الجنۃ ایسا ہی وہ بجالا یا.معاش کا غم کرنے کیلئے کوئی گھڑی اس نے میرے لئے خالی نہ رکھی اور خانہ داری کے مہمات کیلئے کوئی اضطراب اس نے میرے نزدیک نہ آنے دیا (روحانی خزائن جلد 15.تریاق القلوب صفحہ 203) اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کو مخاطب کر کے فرمایا: " أشْكُرَ نِعْمَتِي رأيت خَدِيجَتِي ، " تذکرہ صفحہ 29.براہین احمدیہ صفحہ 558) حضور فرماتے ہیں:.خدیجہ اس لئے میری بیوی کا نام رکھا کہ وہ ایک مبارک نسل کی ماں ہے جیسا کہ اس جگہ میں مبارک نسل کا وعدہ تھا“.(روحانی خزائن جلد 18 نزول مسیح صلح 524) آپ فرماتے ہیں:.چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیا د حمایت دین حق کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا اس لئے اُس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے

Page 301

خطابات مریم 276 خطابات وہ اولاد پیدا کرے جو اِن نوروں کو جنگی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا دے اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے یہ تفاول کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہاں کی مدد کیلئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے.روحانی خزائن جلد 15 تریاق القلوب صفحہ 275) حضور سے سیدہ نصرت جہاں بیگم کی شادی خدائی فیصلہ تھا جیسا کہ اس نے الہاماً فرمایا.میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں یہ سب سامان میں خود ہی کروں گا اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہیں ہوگی.(تذکرہ صفحہ 30) ان تمام پیشگوئیوں سے اس عظمت اور شان کا پتہ لگتا ہے جو حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم کو حاصل ہونے والی تھی.ایک خاص مقصد سے آپ کی پیدائش ہوئی اور وہ خاص مقصد یہی تھا کہ غلبہ دین کی جو ذمہ داریاں اللہ تعالی نے حضور پر ڈالی ہیں ان میں آپکی شریک کا رہوں اور آپ کے پاک وجود سے ایک نئے خاندان کی بنا ڈالی جائے.1865ء میں آپ کی پیدائش ہوئی اور 1884ء میں آپ حضرت اقدس کے عقد میں آئیں.حضرت میر ناصر نواب صاحب یعنی آپ کے والد ملازمت کے سلسلہ میں ضلع گورداسپور کے کئی مقامات پر رہے اور وہیں آپ کی واقفیت حضور کے بھائی مرزا غلام قادر صاحب سے ہوئی.حضرت نانی اماں یعنی حضرت اماں جان کی والدہ صاحبہ بیمار ہوگئیں تو مرزا غلام قادر صاحب نے مشورہ دیا کہ بغرض طبی مشورہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کے پاس لے جائیں ( جو کہ حضرت اقدس کے والد تھے ) اس طرح پہلی بار آپ کا قادیان آنا ہوا اور وہاں رہ کر آپ کی طبیعت پر حضرت اقدس کی نیکی تقویٰ اور توکل علی اللہ کا بہت اچھا اثر پڑا.جب حضرت اقدس نے براہین احمدیہ کھی اور طبع ہوئی تو حضرت میر صاحب نے براہین احمدیہ کا ایک نسخہ منگوایا اور اس کا اثر یہ ہوا کہ حضرت میر صاحب نے حضور کو دعا کیلئے خط لکھا جس میں

Page 302

خطابات مریم 277 خطابات سے ایک امر یہ تھا :.دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے نیک اور صالح داماد عطا کرے“.ادھر حضرت میر صاحب کی تڑپ کہ اللہ تعالیٰ مجھے نیک اور صالح داماد عطا فرمائے ادھر اللہ تعالیٰ اپنے عرش سے حضرت اقدس کو ایک اور شادی کی بشارتیں دے رہا ہے.حضرت اقدس نے اپنے رشتہ کی حضرت میر صاحب کو تحریک کی جو کچھ تر ڈد کے بعد منظور ہو گئی.حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی نے ایک دفعہ حضرت میر صاحب سے سوال کیا.حضرت یہ مقام جو آپ کو حاصل ہوا اس میں کیا راز ہے وہ کون سی بات تھی جو آپ کو اس جگہ لے آئی.حضرت میر صاحب کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے اور بھرائی ہوئی آواز میں فرمایا :.”میرے ہاں جب یہ بلند ا قبال لڑکی پیدا ہوئی اس وقت میرا دل مرغ مذبوح کی طرح نہ پا اور میں پانی کی طرح بہہ کر آستانہ الہی پر گر گیا میں نے اس وقت بہت دردو سوز سے دعائیں کیں کہ اے خدا تو ہی اس کے لئے سب کام بنا ئیو معلوم نہیں اس وقت کیسی قبولیت کا وقت تھا کہ اللہ تعالیٰ اس بیٹی کے صدقہ میں مجھے یہاں لے آیا.سیرت حضرت اماں جان صفحہ 232) نہایت سادگی سے آپ کی شادی ہوئی.حضرت اقدس اپنے ساتھ کوئی زیور اور کپڑا نہیں لے کر گئے تھے.صرف ڈھائی سو روپے نقد تھا اس پر بھی رشتہ داروں نے بہت طعن کئے کہ اچھا نکاح کیا ہے کہ نہ کوئی زیور ہے نہ کپڑا کسی قسم کی رسم نہیں کی گئی.جہیز کا سامان ایک صندوق میں بند کر کے کنجی حضرت صاحب کو دے دی گئی اور حضرت اقدس رخصتا نہ کروا کے حضرت اماں جان کو قادیان لے آئے.نئی دلہنوں کی سرال میں آؤ بھگت ہوتی ہے.مگر حضرت اماں جان ایسی جگہ اور ایسے حالات میں شادی ہو کر آئی تھیں کہ حضرت اقدس کے سب رشتہ دار آپ کے مخالف تھے.گھر میں کوئی نئی دلہن کو خوش آمدید کہنے والا بھی نہیں تھا.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے اپنے ایک مضمون میں حضرت اماں جان کی ایک روایت بیان فرمائی ہے کہ.”اماں جان نے ایک دفعہ ذکر فرمایا جب تمہارے ابا مجھے بیاہ کر لائے تو سب کنبہ سخت مخالف تھا (اس وقت تک شادی

Page 303

خطابات مریم 278 خطابات ہی کی وجہ سے غالباً) دو چار خادم مرد تھے اور پیچھے ان بے چاروں کی بھی گھر والوں نے روٹی بند کر رکھی تھی گھر میں عورت کوئی نہ تھی صرف میرے ساتھ فاطمہ بیگم تھیں وہ کسی کی زبان نہ سمجھتی تھیں نہ ان کی کوئی سمجھے.شام کا وقت بلکہ رات تھی جب ہم پہنچے.تنہائی کا عالم ، بیگانہ وطن.میرے دل کی عجیب حالت تھی اور روتے روتے میرا بُرا حال ہو گیا تھا نہ کوئی اپنا تسلی دینے والا نہ منہ دُھلانے والا نہ کھلانے پلانے والا کنبہ، اکیلی حیرانی پریشانی میں آن کراتری کمرے میں ایک کھتری چار پائی پڑی تھی جس کی پاکتی پہ ایک کپڑا پڑا تھا اس پر تھکی ہاری جو پڑی ہوں تو صبح ہو گئی.یہ آپ کا بستر عروسی تھا اور سسرال کے گھر میں پہلی رات تھی مگر خدا کی رحمت کے فرشتے پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ اے کھری چار پائی پر سونے والی پہلے دن کی دلہن !دیکھ تو سہی دو جہاں کی نعمتیں ہونگی اور تو ہوگی بلکہ ایک دن تاج شاہی تیرے قدموں سے لگے ہوں گے.انشاء اللہ.جس خاتون کے ذریعہ ایک نئے خاندان کی بنیاد پڑنی تھی ظاہر ہے وہ کوئی معمولی خاتون نہیں تھیں اللہ تعالیٰ نے ان میں وہ صلاحیتیں اور وہ قو تیں رکھی تھیں جن کے ذریعہ آپ نے آئندہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا تھا.آپ اعلیٰ درجہ کے ایمان پر قائم تھیں.نہایت عبادت گزار وقت پر نماز ادا کرنے والی.تہجد گزار.اشراق بھی پڑھا کرتی تھیں.نوافل کثرت سے ادا کر نے والی.نماز سنوار کر خشوع و خضوع سے ادا کرنے والی تھیں حضرت اقدس اور آپ کے دعاوی پر آپ کو مکمل ایمان تھا آپ نے خدا تعالیٰ کی تازہ وحی کو سناء اللہ تعالیٰ کی ہستی کے زبر دست نشان دیکھے ، صداقت کے دلائل کو بروقت سنا اور جانچا اور مانا.ہزاروں پیشگوئیوں کو پورے ہوتے دیکھا.جب حضرت اقدس نے محمدی بیگم کے اپنے نکاح میں آنے کی پیشگوئی فرمائی تو حضرت اماں جان نے رو رو کر خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہو.آپ نے بار ہا خدا کی قسم کھا کر کہا کہ گومیری زنانہ فطرت کراہت کرتی ہے مگر صدق دل اور شرح صدر سے چاہتی ہوں کہ خدا کے منہ کی باتیں پوری ہوں اور ان سے جھوٹ کا زوال و ابطال ہو.اس واقعہ کی تہہ میں بہت سی باتیں پوشیدہ ہیں.

Page 304

خطابات مریم 279 1 حضرت اقدس کی ذات پر اور آپ کے دعوئی پر ایمان.2 شوہر کی سچی محبت.3 دین حق سے سچا پیار.4 دعاؤں پر ایمان اور دین کی عزت کیلئے ہر تکلیف کو برداشت کرنا.حضرت مولا نا عبدالکریم صاحب تحریر فرماتے ہیں.خطابات میں دیکھتا ہوں کہ حضرت اقدس کو آپ کی بی بی صاحبہ صدق دل سے...مانتی ہیں اور آپ کی تبشیر ات سے خوش ہوتی اور انذارات سے ڈرتی ہیں.غرض اس برگزیدہ ساتھی کو 66 برگزیدہ خدا سے سچا تعلق اور پورا اتفاق ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کو مخاطب کر کے فرمایا : تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی.(اشتہار 22 / مارچ 1886ء.تذکرہ صفحہ 11) پھر اولاد میں سے ایک اولوالعزم بیٹے کی بشارت بھی دی.اس بیٹے کی پیدائش کے نشان کو قدرت ، رحمت ، قربت ، فضل اور احسان کا نشان قرار دیا.فتح اور ظفر کی کلید کہا اور اس نشان کی غرض یہ بتائی کہ تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجے سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آئیں اور تادین حق کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو.اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.”سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ایک زکی غلام تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت ونسل ہوگا“.( تذکره صفحه 109) جن دنوں یہ پیشگوئی کی گئی حضرت سیدہ نصرت جہاں حمل کی حالت میں تھیں مئی 1886ء میں آپ کے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی جسکا نام ” عصمت“ رکھا گیا.لڑکی کا پیدا ہونا تھا کہ

Page 305

خطابات مریم 280 خطابات حضرت اقدس کے خلاف مخالفت کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی.حضرت اماں جان نے بڑے حوصلہ سے سارے اعتراضات اور شور و غوغا کو سنا مگر اپنے ایمان میں ذرا جنبش نہیں ہوئی.یہ بچی پانچ سال زندہ رہی اور جب یہ بچی وفات پا گئی تو آپ نے کسی گھبراہٹ کا اظہار نہ کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہیں.حضرت اماں جان کے بطن سے پھر بشیر اول پیدا ہوئے جن کی پیدائش 7 اگست 1887ء کو ہوئی.ابتداء میں حضرت اقدس نے بھی یہی سمجھا کہ موعود بیٹا یہی ہے.لیکن خدا تعالیٰ کی پیشگوئی میں اس بچہ کے متعلق الفاظ تھے ” خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے یہ بچہ 4 نومبر 1888ء کو وفات پا گیا اور اس کی وفات کے ساتھ پھر مخالفت کا طوفان اُٹھا.حتی کہ حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کا خیال تھا کہ ایسا زلزلہ عامۃ الناس کے لئے نہ اس سے قبل کہیں آیا تھا نہ اس کے بعد آیا.حضرت اماں جان نے اس کی وفات پر بھی راضی بہ رضا ہونے کا نمونہ دکھایا آپ نے جب دیکھا کہ بچہ کے بچنے کی کوئی صورت نہیں تو پھر فرمایا کہ میں اپنی نماز کیوں قضا کروں چنانچہ آپ نے وضو کر کے نماز شروع کر دی اور نہایت اطمینان کے ساتھ نماز ادا کر کے دریافت فرمایا کہ بچہ کا کیا حال ہے؟ جواب میں بتایا گیا کہ بچہ فوت ہو گیا تو آپ...پڑھ کر خاموش ہو گئیں.آپ نے جس ایمان اور صبر کا نمونہ دکھایا تھا اس کا انعام بھی اللہ تعالیٰ نے عطا کیا.اللہ تعالیٰ نے 12 جنوری 1889ء کو وہ لڑکا عطا فرمایا جس کے متعلق بتایا گیا تھا کہ دین کا چراغ ہوگا.اولوالعزم ہو گا دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کو اتنی لمبی عمر عطا فرمائی کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی اس پیشگوئی کو ظہور میں آتے دیکھا حضرت مصلح موعود کا اپنے مصلح موعود ا ہونے کے دعویٰ کا اعلان سنا.کتنی عظیم تھی وہ خاتون جس کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے مامور کیلئے چنا اور کتنی عظیم تھی وہ خاتون جس کے بطن سے مصلح موعود پیدا ہوا اور کتنی عظیم تھی وہ خاتون جس کی گود میں آپ کے موعود پوتے ( یعنی حضرت خلیفہ اسیح الثالث ) نے پرورش پائی.قیامت تک آنے والی قومیں اس عظیم الشان خاتون پر سلام بھیجیں گی آپ کی ساری اولا دہی مبشر او لا دتھی.ہر بچہ کے متعلق بشارتیں دی گئیں اور وہ پوری ہوئیں.

Page 306

خطابات مریم 281 خطابات صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب حضرت اماں جان کے بطن سے آٹھویں بچے تھے وو آپ کی پیدائش 1899 ء میں ہوئی اور آپ 1907 ء میں وفات پاگئے.اس وفات پر حضرت اقدس اور حضرت اماں جان نے انتہائی صبر اور رضا بالقضاء کا نمونہ دکھایا حضرت اقدس کو الہام ہوا تھا.” ہے تو بھاری مگر خدائی امتحان کو قبول کر“ جب مبارک احمد کی وفات ہوئی تو حضرت اماں جان کی زبان سے پہلا کلمہ یہی نکلا.اور کہا میں خدا کی تقدیر پر راضی ہوں.آپ کے صبر پر اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوا اور حضرت اقدس کو الہام ہوا.” خدا خوش ہو گیا ( تذکرہ صفحہ 619) حضرت اقدس نے یہ الہام جب حضرت اماں جان کو سنایا تو آپ نے فرمایا.” مجھے اس الہام سے اسقدر خوشی ہوئی ہے کہ دو ہزار مبارک احمد بھی مرجا تا تو میں پرواہ نہ کرتی “.مبارک احمد کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کو الہاماً بتایا : " انا نبشرك بغلام اسمه یحیی ( تذکرہ صفحہ 626) ، “ ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جسکا نام بیچی ہو گا.اسی طرح الہام ہوا.إِنَّا نُبَشِّرك بغلامٍ حَلِيمٍ يَنْزِلُ مَنْزِلُ الْمُبَارَک ( تذکره صفحه 622) ہم تجھے ایک حلیم لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ مبارک احمد کی شبیہ ہو گا جب حضرت مرزا ناصر احمد صاحب پیدا ہوئے تو حضرت اماں جان نے اس پیشگوئی کا مصداق انہیں سمجھا اور اپنا چوتھا بیٹا سمجھ کر ہی پرورش کی اور تربیت کی.بچپن میں آپ انہیں کبھی بیٹی کہہ کر بھی بلاتی تھیں اور یہ کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے مبارک کی جگہ یہ مجھے دیا ہے.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے بھی ایک خواب میں دیکھا تھا جسے یوں بیان فرمایا :.مجھے مبارک احمد کی وفات کے تین روز بعد ہی خواب آیا کہ مبارک احمد تیز تیز قدموں سے چلا آ رہا ہے اور دونوں ہاتھوں پر ایک بچہ اُٹھائے ہوئے اس نے آکر میری گود میں وہ بچہ ڈال دیا جولڑ کا ہے اور کہا ” لو آپا یہ میرا بدلہ ہے.(الفضل 12 دسمبر 1968ء)

Page 307

خطابات مریم اخلاق 282 خطابات بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت بلند مقام عطا فرمایا تھا لیکن ایک بیوی ہونے کی حیثیت سے آپ بیحد محبت کرنے والی اور نہایت فرض شناس بیوی تھیں.حسن صورت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ درجہ کا حسن سیرت بھی آپ کو عطا فرمایا تھا.ہر کام میں اپنے عظیم شوہر کی پوری پوری مددگار و معاون تھیں جب سلسلہ کے لئے کسی کام کی ضرورت پڑتی آپ اپنا زیور نکال کر دے دیتیں کہ اس سے خرچ پورے کر لیں.حضرت اماں جان کے بلند مقام اور آپکی عظمت کے متعلق خود آپ کے لخت جگر حضرت مصلح موعود کے الفاظ سنئے.ایک خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود نے اپنے خاندان کے افراد کو زندگیاں وقف کر نیکی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: حضرت ( اقدس ) جب فوت ہوئے اس وقت ہمارے پاس اپنے گزارے کا کوئی سامان نہ تھا.والدہ سے اس کے ہر بچہ کو محبت ہوتی ہے لیکن میرے دل میں نہ صرف اپنی والدہ ہونے کے لحاظ سے حضرت...اماں جان ) کی عظمت تھی بلکہ حضرت...( اقدس) کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے آپکی دوہری عزت میرے قلب میں موجود ہے.اس کے علاوہ جس چیز نے میرے دل پر خاص اثر کیا وہ یہ ہے کہ حضرت...اقدس ) جب فوت ہوئے اس وقت آپ پر کچھ قرض تھا آپ نے یہ نہیں کیا کہ جماعت کے لوگوں سے کہیں کہ حضرت...( اقدس ) پر اس قدر قرض ہے یہ ادا کر دو بلکہ آپکے پاس جو زیور تھا اسے آپ نے بیچ کر ( حضور ) کے قرض کو ادا کر دیا.میں اس وقت بچہ تھا اور میرے لئے ان کی خدمت کرنے کا کوئی موقعہ نہ تھا مگر میرے دل پر ہمیشہ یہ اثر رہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس ) کو کتنا محبت کر نیوالا اور آپ سے تعاون کرنے والا ساتھی دیا ہے“.(الفضل 10 / مارچ 1944ء) بے حد مہمان نواز تھیں.ابتداء میں جب مہمان آتے تو خود بھی روٹی پکانے بیٹھ جاتیں اپنے ہاتھ سے پکا کر کھلانے میں آپ بہت خوشی محسوس کرتیں.پرانے لوگوں میں سے جوخواتین موجود ہیں وہ اس بات کی گواہ ہیں کہ انہوں نے اکثر آپ کو باورچی خانے میں بیٹھے اور کھانا

Page 308

خطابات مریم 283 خطابات پکاتے دیکھا ہوگا اور حضرت اماں جان کے ساتھ کھانا بھی کھایا ہوگا.بہت با سلیقہ اور باذوق تھیں سادہ مزاج مگر خوش پوش تھیں.خوشبو اور پھولوں سے عشق تھا بہت پاکیزہ طبیعت بے حد صاف ستھری رہنے والی تھیں کبھی کسی نے ان کو خستہ حالت میں نہیں دیکھا.شکوہ اور چغلی سے آپ کو از حد نفرت تھی نہ سننا پسند کرتی تھیں نہ خود کسی سے شکوہ کیا.انتہائی ہمدرد غرباء محتاجوں ، یتامی کا خیال رکھنے والی صدقہ وخیرات کثرت سے کرنے والی.اپنے ہاتھ سے لحاف سی کر تقسیم کیا کرتی تھیں.بغیر مانگے گھر بیٹھے جس کے متعلق علم ہوتا کہ ضرورت مند ہے کچھ رقم بھجوا دیا کرتیں.کئی یتیم بچوں کو پالا پرورش کی ، شادیاں کیں ، گھر بنا کر دیئے ، اپنے بچوں کی طرح محبت کی ، ان کے وقار کو قائم رکھا ، جماعت کی خواتین سے ملنا ان کے گھروں میں جانا ، بیمار پرسی کرنا ان کے گھروں میں جا کر محبت اور بے تکلفی سے پیش آنا خود خواہش کر کے کھا لینا جس سے خود بھی مسرت محسوس کرتی تھیں اور جن کے گھروں میں جاتی تھیں وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے.سیر کو باقاعدہ جاتی تھیں سوائے کمزوری کے ایام کے آپ کا یہ طریق جاری رہا.سلسلہ کی ہر مالی تحریک میں سب سے پہلے بشاشت سے حصہ لیتی تھیں.حضرت مصلح موعود نے اخبار الفضل کا اجراء کیا تو آپ کو بہت فکر تھی کہ اس کے جاری کرنے کے لئے کہاں سے رقم آئے گی.حضرت اُمّم ناصر مرحومہ کے علاوہ حضرت اماں جان نے بھی اس کے لئے بہت قربانی دی جو آپ حضرت مصلح موعود کے الفاظ میں ہی سنئے آپ نے فرمایا :.دوسری تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان ) کے دل میں پیدا کی اور آپ نے اپنی ایک زمین جو قریباً ایک ہزار روپے میں بکی الفضل کے لئے دے دی مائیں دنیا میں خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں مگر ہماری والدہ کو ایک خصوصیت حاصل ہے اور وہ یہ کہ احسان صرف ان کے حصہ میں آیا ہے اور احسان مندی صرف ہمارے حصہ میں آئی ہے.دوسری ماؤں کے بچے بڑے ہو کر ان کی خدمت کرتے ہیں مگر ہمیں یا تو اس کی تو فیق ہی نہیں ملی کہ ان کی خدمت کر سکیں یا شکر گزار دل ہی نہیں ملے جو ان کا شکر یہ ادا کر سکیں بہر حال جو کچھ بھی ہو اب تک احسان کرنا انہی کے حصہ میں ہے اور

Page 309

خطابات مریم 284 خطابات حسرت و ندامت ہمارے حصہ میں وہ اب بھی ہمارے لئے تکلیف اٹھاتی ہیں اور ہم اب بھی کئی طرح ان پر بار ہیں.دنیا میں لوگ یا مال سے اپنے والدین کی خدمت کرتے ہیں یا پھر جسم سے خدمت کرتے ہیں کم سے کم میرے پاس دونوں نہیں مال نہیں که خدمت کرسکوں یا شاید احساس نہیں کہ بچی قربانی دے سکوں.جسم ہے مگر کیسا جسم؟ صبح سے شام تک جس کو ایک نہ ختم ہونے والے کام میں مشغول ہونا پڑتا ہے.بلکہ راتوں کو بھی.پس بار منت کے اُٹھانے کے سوا اور کوئی صورت نہیں.میں جب سوچتا ہوں حسرت و ندامت کے آنسو بہاتا ہوں.“ (الفضل 4 / جولائی 1924ء) مجھے یاد ہے کہ تحریک جدید جاری ہوئی اور حضرت مصلح موعود نومبر میں ہر سال تحریک کا اعلان فرمایا کرتے تھے.قادیان میں جمعہ پر جانے کے لئے حضرت اماں جان کے گھر میں سے گزر کر جایا کرتے تھے.حضرت اماں جان نے جب آپ گزر کر جا رہے ہوتے آواز دے کر 66 کہنا ” میاں آج آپ نے تحریک جدید کا اعلان کرنا ہے میری طرف سے اتنا وعد ہ لکھ لیں.‘“ منارة امسیح کے متعلق حضرت اقدس نے 28 رمئی 1900ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں منارہ کی برکات اور ثمرات کا تفصیل سے ذکر فرمایا.اس کی تعمیر کا اندازہ دس ہزار روپے کیا گیا تھا.آپ نے اس رقم کے پورا کرنے کے لئے ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں اپنی جماعت کے خالص گروہ کو مخاطب فرمایا اور فرمایا کہ جماعت کے ایک سو ایک خدام ایک ایک سوروپے ادا کریں.سلسلہ کی تاریخ میں یہ پہلی خاص تحریک تھی اس تحریک میں حضرت اماں جان نے شاندار قربانی کی آپ نے اس چندہ کا 10 / 1 ادا کیا اور یہ رقم اپنی ایک جائیداد واقع دہلی کو فروخت کر کے ادا کی اسی طرح ایک اور واقعہ ہے حضرت اقدس کو 1898ء کی پہلی ششماہی کے آخر میں بعض اہم دینی ضروریات کے لئے رقم کی ضرورت پڑی آپ نے فرمایا ”باہر سے قرضہ لینے کی کیا ضرورت ہے میرے پاس ایک ہزار نقد ہے اور کچھ زیورات ہیں وہ آپ لے لیں.‘‘ آپ نے فرمایا میں بطور قرضہ لے لیتا ہوں اور اس کے عوض باغ رہن کر دیتا ہوں گو حضرت اماں جان اس رقم کو پیش کر رہی تھیں مگر حضور نے جماعت کو سبق دینے کے لئے کہ

Page 310

خطابات مریم 285 خطابات بیویوں کا مال ان کا اپنا مال ہوتا ہے قرض کے طور پر لیا.خلافت کا احترام حضور کے وصال کے بعد جب قدرت ثانیہ کا قیام ہوا تو آپ نے حضرت خلیفہ اول کا اسی طرح احترام کیا جیسا کرنا چاہیے تھا حضرت اقدس کے وصال کے بعد جب انتخاب ہوا تو آپ کے عالی مقام کے مد نظر آپ سے بھی مشورہ لیا گیا.حضرت مصلح موعود اندر تشریف لائے اور حضرت اماں جان سے کہا کہ دفن ہونے سے پہلے خلیفہ منتخب ہونا ضروری ہے سب کی رائے حضرت مولوی صاحب کے لئے ہے.خواجہ صاحب نے مجھے بھیجا ہے کہ حضرت اماں جان سے بھی پوچھ آؤ آیا یہ انتخاب ان کو بھی پسند ہے.حضرت اماں جان نے فرمایا ”بہت بہتر ہے.یہی مناسب ہے“ حضرت مولوی صاحب سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت اماں جان نے مجھے کہا کہ میں خدا تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے چاہتی ہوں کہ آپ کا کوئی کام کروں.حضرت مولوی صاحب نے ایک طالبعلم کی پھٹی ہوئی رضا ئی مرمت کیلئے بھجوا دی جسے حضرت اماں جان نے اپنے ہاتھ سے دھو کر مرمت کر کے واپس بھجوایا.گو حضرت مصلح موعود آپ کے بیٹے تھے اور آپ کی بے حد عزت کرتے تھے لیکن آپ اُن کے مقام کا بہت ادب اور احترام فرماتی تھیں.سب سے بڑا امتحان کا وقت آپ کے لئے حضرت اقدس کا وصال تھا.حضرت اماں جان نے اس وقت جو نمونہ دکھایا اس سے آپ کے صبر و رضا اور ایمان کا کسی قدر اندازہ ہو سکتا ہے.سید محمد حسین شاہ صاحب کی روایت ہے کہ :.آپ برقع پہنے خدمت میں حاضر ر ہیں اور کبھی سجدہ میں گر جاتیں اور بار بار یہی کہتیں کہ اے حی و قیوم خدا اے میرے پیارے خدا.اے قادر مطلق خدا.اے مُردوں کے زندہ کرنے والے خدا تو ہماری مدد کر.اے وحدہ لاشریک خدا اے خدا میرے گناہوں کو بخش میں گناہگار ہوں اے میرے مولیٰ میری زندگی بھی تو ان کو دیدے میری زندگی کس کام کی ہے.یہ تو دین کی خدمت کرتے ہیں.بار بار یہی الفاظ آپ کی زبان پر تھے کسی قسم کی جزع فزع آپ نے نہیں فرمائی اور آخر میں جب کہ انجام بہت قریب تھا آپ نے فرمایا.

Page 311

خطابات مریم 286 خطابات ”اے میرے پیارے خدا یہ تو ہمیں چھوڑتے ہیں مگر تو ہمیں نہ چھوڑ یو.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی روایت ہے کہ ایک اور بات جو میں نے سنی اور یا درہی وہ یہ ہے کہ آپ کے جسدِ مبارک کے پاس بیٹھے ہوئے میں سامنے پٹی کے پاس زمین پر بیٹھی تھی.بڑے درد سے بڑے جوش سے آپ نے فرمایا تھا کہ :.” میرے بچو! یہ نہ سمجھنا کہ ہمارے باپ نے ہمارے لئے کچھ نہیں چھوڑا وہ تمہارے لئے بہت بڑا خزانہ دعاؤں کا آسمان پر چھوڑ گیا ہے جو ہمیشہ وقتا فوقتا ئم کو ملتا رہے گا.“ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مزید فرماتی ہیں کہ : پھر تیاری سامان کا باندھنا ، چلنا ، قافلہ سالار راہ میں چھوڑ کر اپنے سب - پیارے کے پاس جا چکا تھا اس کے یتیم بچے.اس کی مقدس و مبارک بیوی.اس کی عاشق جماعت سب بظاہر بے سہارے ، بے سروسامانوں کی طرح ششدر حیران تھے مگر دل کو اس کی باتیں اس کی دعائیں اس کی تسلیاں یاد آ کر اس کی اللہ تعالیٰ سے خاص محبت جو دلوں میں بٹھا گیا تھا جو ایمان وہ سکھا گیا تھا تسکین بخشتی تھیں کہ اس کا سچے وعدوں والا خدا ہمارے ساتھ ہے.غم جدائی کے سوا اور ہمیں کسی قسم کا غم و فکر پاس نہیں آنے دینا چاہئے واقعی یہی کیفیت تھی اور خصوصاً حضرت اماں جان کی رات بھر تڑپ نے صابرانہ دعاؤں کی طرف اب رخ بدل لیا تھا اسباب رکھتے وقت حضرت اماں جان نے فرمایا ( میں پاس کھڑی تھی آپ ٹرنک بند کر رہی تھیں ) کہ کہتے تھے تین امتحان ہوں گے تمہارے دو ہو چکے (مبارک احمد کی وفات اور حضرت اقدس کا وصال ) اب تیسرا باقی ہے.یہ لفظ سن کر مجھے ہمیشہ و ہم رہتا کہ اس وقت چھوٹے بھائی صاحب کے کپڑے رکھ رہی تھیں ان کا غم نہ پہنچے.مگر آخر وہ وقت آیا ہجرت قادیان سے ہونا اور حضرت اماں جان کو یہ صدمہ بہت سخت پہنچنا اور مجھے سب یاد آ گیا اور یقین ہوا کہ وہ تیسرا امتحان حضرت اقدس کا فرمودہ یہی تھا.( تقریر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ماہنامہ مصباح سالنامہ 1980ء)

Page 312

خطابات مریم 287 خطابات جب حضرت اقدس کی وفات ہوگئی اور آپ کا جنازہ قادیان لایا گیا اور باغ کے بڑے کمرے میں رکھا گیا.آپ پائنتی کی طرف کھڑی تھیں اور نہایت درد ناک آواز میں فرمایا :.تیرے سبب سے میرے گھر میں فرشتے اترتے تھے.(سیرت جلد 20) آپ ایک شفیق ماں تھیں ، ایک شفیق بہن تھیں، آپ کے اخلاق و عادات بھائیوں سے اتنی محبت کی کہ وہ بھی آپ پر جان چھڑ کہتے تھے.بہت شکر کرنے والی ہر وقت کلمات شکر آپ کی زبان پر رہتے تھے.دعاؤں کی بہت عادی تھیں.غریبوں کیلئے خاص تڑپ دل میں رکھتی تھیں.ساری جماعت کے لئے درد وسوز کے ساتھ دعا فرمایا کرتی تھیں اور..اور احمدیت کی ترقی کے لئے ان کے دل میں غیر معمولی تڑپ تھی یتیموں کی پرورش کی طرف خاص توجہ تھی.کوئی نہ کوئی یتیم لڑکی یا لڑکا ہمیشہ آپ کے زیر سایہ پلتا رہا.مہمان نوازی آپ کے اخلاق کا طرہ امتیاز غریب امیر جس کا علم ہوتا یاد ہے پوچھنے ضرور جاتیں.طبیعت میں بالکل تکلف نہیں تھا.اسراف سے پر ہیز کرتی تھیں اس زمانہ میں عورتوں میں تعلیم بہت کم تھی مگر آپ بہت باعمل خاتون تھیں.ہر مسئلہ کو اچھی طرح سمجھتی تھیں قرآن مجید کی بہت سی سورتیں حفظ تھیں اردو تو آپ کے گھر کی لونڈی تھی.اردو زبان کے محاورات پر بہت عبور حاصل تھا.خاندان کی بچیوں سے اکثر کتابیں پڑھوا کر سنتیں اور جہاں کوئی بچی غلطی کرتی اصلاح فرما دیتیں صحیح تلفظ بتا تیں اس طرح بچیوں کو صحیح سکھانے کے لحاظ سے ان پر آپ کا بہت بڑا احسان ہے.میرے سامنے کئی دفعہ حضرت مصلح موعود نے کوئی نظم کہتے ہوئے حضرت اماں جان سے پوچھا کہ یہ محاورہ یوں استعمال ہوتا ہے؟ اور جب آپ تصدیق فرما دیتیں تو تسلی ہو جاتی.کسی کام کے کرنے سے عار نہ تھا گھر کی صفائی کرواتیں.چرخہ کا تنا، چکی پیسنا سب کا م کر لیتی تھیں.میری جب شادی ہوئی تو میری عمر سترہ سال کی تھی.کچھ بھی آتا جاتا نہ تھا مگر حضرت اماں جان نے مجھے اس طرح سکھایا کہ معلوم بھی نہیں ہوا کبھی یہ نہیں پوچھا کہ تمہیں یہ چیز پکانی آتی ہے یا نہیں بلکہ ہمیشہ یہ کہا آؤ یہ کام کریں یہ کھانا تیار کریں خود پکانے لگنا میں پاس بیٹھی دیکھتی رہی خود بخود آ گیا دوبارہ کہا جیسا اس دن تم نے پکا یا پھر پکاؤ حالانکہ پہلی دفعہ خود انہوں نے پکایا تھا

Page 313

خطابات مریم 288 خطابات میں نے نہیں.نصیحت کرنے کا انداز بڑا دلنشین تھا.میری شادی کے وقت عمر کم تھی.بہت سی باتوں کی سمجھ ہی نہیں تھی.بڑے پیار سے کہا کرتی تھیں دیکھو اس طرح رہا کرویوں کپڑے پہنا کرومیاں کو فلاں فلاں بات پسند ہے فلاں نا پسند.مجھے ماں سے بڑھ کر محبت دی.پیار میں اکثر کہا کرتی تھیں ماں بیٹی دو ذات پھوپھی بھیجی ایک ذات.حضرت اماں جان کے متعلق حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی ایک تحریر سناتی ہوں جو ان کے مقام اور اخلاق پر گہری روشنی ڈالتی ہے آپ نے فرمایا.اس مبارک وجود کے لئے حضرت...( اقدس) نے جو مصرع تحریر فرما دیا وہی ایسا جامع ہے کہ اس سے بڑھکر تعریف نہیں ہو سکتی یعنی چن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لئے اللہ تعالیٰ کا کسی کو چن لینا کیا چیز ہے.اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اس محسن خدا نے کیا کیا جو ہر اس روح میں رکھ دیئے ہونگے جس کو اس نے اپنے مسیحا کے لئے تخلیق کیا میں ان کی تعریف اس لئے نہیں کرونگی کہ وہ میری والدہ تھیں بلکہ اس نظر سے کہ وہ فی زمانہ مومنوں کی ماں ہیں اور خدا کو حاضر و ناظر جان کر اس امر کی گواہی ہمیشہ دونگی کہ وہ اس منصب کے قابل ہیں خدا نے میری والدہ پر فضل و احسان فرمایا کہ ان کو اپنے مسیحا کے لئے چن لیا مگر انہوں نے بھی خدا کی ہی نصرت کے ساتھ دکھا دیا کہ وہ اس کی اہل ہیں.اور اس انعام اور احسان خداوندی کی بے قدری و ناشکری ان سے کبھی ظہور میں نہیں آئی اور خدا کا شکر ہے کہ یہ بارانِ رحمت بے جگہ نہیں برسا بلکہ بارآور زمین اس سے فیض یاب ہوئی.آپ کی چند خصوصیات اور خو بیوں کا ذکر کر رہی ہوں.حضرت اقدس کے زمانہ تک بے شک ہمارے دلوں پر آپ کی شفقت کا اثر والدہ صاحبہ سے زیادہ تھا مگر آپ کے بعد آپ کو دنیا کی بہترین شفیق ماں پایا.مجھے آپ کا سختی کرنا کبھی یاد نہیں پھر بھی آپ کا خاص رعب تھا اور ہم بہ نسبت آپ کے حضرت اقدس سے دنیا کے عام قاعدہ کے خلاف بہت زیادہ بے تکلف تھے اور مجھے یاد ہے کہ حضرت اقدس کی حضرت والدہ صاحبہ کی بے حد قد رو محبت کر نیکی وجہ سے آپ کی قدر میرے دل میں بھی رہا کرتی تھی.آخر میں بار بار وفات کے متعلق الہامات ہوئے تو ان دنوں بہت غمگین

Page 314

خطابات مریم 289 خطابات رہتیں اور کئی بار میں نے آپ کو اور حضرت اقدس کو اس امر کے متعلق باتیں کرتے سنا.ایک بار مجھے یاد ہے کہ حضرت والدہ صاحبہ نے حضرت اقدس سے کہا کہ ”میں ہمیشہ دعا کرتی ہوں کہ خدا مجھے آپ کا غم نہ دکھائے اور مجھے پہلے اُٹھائے یہ سن کر حضرت اقدس نے فرمایا:.” اور میں ہمیشہ یہ دعا کرتا ہوں کہ تم میرے بعد زندہ رہو اور میں تم کو سلامت چھوڑ جاؤں.اللہ تعالیٰ کی نظر میں حضرت اماں جان کا کتنا بلند حضرت اماں جان کا بلند مقام مقام تھا وہ حضرت اقدس کے ان الہامات سے ظاہر ہوتا ہے.انّی مَعَکَ و مَعَ اَهْلِكَ (تذکره صفحه 731) اس الہام کے متعلق حضرت مصلح موعود نے فرمایا میں نے خود حضرت صاحب سے سنا ہے فرماتے تھے کہ : انّى مَعَ الرّسُولِ اقوم اور اِنّى مَعَکَ و مَعَ اَهْلِک یہ دونوں الہامات ایک ایک رات میں ہزار ہا دفعہ ہوئے.اور فرمایا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ تکیہ پر سر رکھا اور ان الہامات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور صبح کی نماز کے لئے اُٹھے تو سلسلہ جاری تھا“.روز نامہ الفضل 31 /اکتوبر 1961ء) 19 / مارچ 1907ء کو خواب میں دیکھا کہ میری بیوی کہتی ہے میں نے خدا کی مرضی کے لئے اپنی مرضی چھوڑ دی اس پر میں نے ان کو جواب میں یہ کہا کہ اسی سے تو تم پر حسن چڑھا ہے یہ فقرہ اس فقرہ سے مشابہ ہے جو ز بور میں ہے کہ تو حسن میں بنی آدم سے کہیں زیادہ ہے.(تذکره صفحه 707) آپ کے جماعت پر احسانات میں سے یہ بھی ایک بہت بڑا احسان ہے کہ آپ نے حضرت اقدس کے متعلق بہت سی روایات بیان کی ہیں بیوی مرد کی سب سے بڑی راز دار ہوتی ہے اور اس کی نظر اپنے خاوند کے افعال پر بڑی گہری ہوتی ہے.اسی طرح آپ نے بھی ان روایات میں حضرت اقدس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو روشناس کروایا ہے.غرض حضرت اماں جان کا وجود بہت ہی بابرکت وجود تھا اور آپ اس کا اظہار بھی کر دیا

Page 315

خطابات مریم 290 خطابات کرتی تھیں.حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ ” مجھے خوب یاد ہے اس وقت تو بُر امحسوس ہوتا تھا لیکن اب اپنے زائد علم کے ماتحت اس سے مزا آتا ہے اس وقت میری عمر بہت چھوٹی تھی مگر یہ خدا کا فضل تھا جب سے ہوش سنبھالا حضرت اقدس ) پر کامل یقین اور ایمان تھا اگر اس وقت والدہ صاحبہ کوئی ایسی بات کرتیں جو میرے نزدیک حضرت (اقدس) کی شان کے شایان نہ ہوتی تو میں یہ نہ دیکھتا کہ ان کا میاں بیوی کا تعلق ہے اور میرا ان کا ماں بچہ کا تعلق ہے بلکہ میرے سامنے پیر اور مرید کا تعلق ہوتا حالانکہ میں کبھی حضرت اقدس ) سے کچھ نہ مانگتا تھا والدہ صاحبہ ہی میری ضروریات کا خیال رکھتی تھی باوجود اس کے کہ والدہ صاحبہ کی طرف سے کوئی بات ہوتی تو مجھے گراں گزرتی مثلاً خدا کے فضل کا ذکر ہوتا تو والدہ صاحبہ کہتیں میرے آنے پر ہی خدا کی یہ برکت نازل ہوئی.اس قسم کا فقرہ میں نے والدہ صاحبہ کے منہ سے کم از کم سات آٹھ دفعہ سنا اور جب بھی سنتا گراں گزرتا میں اسے حضرت...( اقدس) کی بے ادبی سمجھتا لیکن اب درست معلوم ہوتا ہے اور حضرت...( اقدس ) بھی اس فقرہ سے لذت پاتے کیونکہ وہ برکت اس الہام کے ماتحت پائی کہ یا ادم اسکن انت وزوجك الجنّة پہلا آدم تو نکاح کے بعد جنت سے نکالا گیا مگر اس زمانہ کے آدم کے لئے نکاح جنت کا موجب بنایا گیا چنانچہ نکاح کے بعد ہی آپ کی ماموریت کا سلسلہ جاری ہوا خدا تعالیٰ نے بڑی عظیم الشان پیشگوئیاں کرائیں اور آپ کے ذریعہ دنیا میں نو ر نازل کیا اور اس طرح آپ کی جنت وسیع ہوتی گئی.“ یہ با برکت وجود جماعت پر پون صدی تک ابر رحمت کی طرح برستا رہا اور آخر 20 را پریل 1952ء کو اتوار اور پیر کی درمیانی شب ساڑھے گیارہ بجے ربوہ میں اس جہان فانی سے رخصت ہو کر خالق حقیقی سے جاملا.حضرت مصلح موعود نے 1952ء کی تقریر میں آپ کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.اس سال احمدیت کی تاریخ کا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہوا ہے اور وہ ہے حضرت...اماں جان ) کی وفات.ان کا وجود ہمارے اور حضرت اقدس) کے درمیان میں ایک زنجیر کی طرح تھا اولاد کے ذریعہ بھی ایک تعلق اور واسطہ ہوتا ہے مگر وہ اور طرح کا ہوتا ہے اولا د کو ہم ایک درخت کا پھول تو کہہ سکتے ہیں مگر اسے اس 66

Page 316

خطابات مریم 291 خطابات درخت کا اپنا حصہ نہیں کہا جاسکتا.پس حضرت اماں جان ہمارے اور حضرت اقدس ) کے درمیان ایک زندہ واسطہ تھیں اور یہ واسطہ ان کی وفات سے ختم ہو گیا.“ حضرت اماں جان کے پیارے بھائی حضرت میر محمد اسمعیل صاحب نے آپ کی سیرت کے متعلق چند الفاظ میں جو بیان کیا ہے وہ اس قابل ہے کہ آپ کے گوش گزار کیا جائے وہ صفات جو ہر احمدی خاتون میں ہونی چاہئیں.آپ نے فرمایا: 1 آپ بہت صدقہ خیرات کر نیوالی.2 ہر خیر میں شریک ہو نیوالی.3 اول وقت اور پوری توجہ اور انہماک سے پنجوقتہ نماز ادا کر نیوالی.صحت اور قوت کے زمانہ میں تہجد کا التزام رکھتی تھیں.5 خدا کے خوف سے معمور 6 صفائی پسند.7 شاعر با مذاق.8 مخصوص زنانہ جہالت کی باتوں سے سے دور.و گھر کی عمدہ منتظم.10 اولاد پر از حد شفیق.11 خاوند کی فرمانبردار.12 کینہ نہ رکھنے والی.13 عورتوں کا مشہور وصف ان کی تر یا ہٹ ہے مگر میں نے حضرت ممدوحہ کو اس عیب سے ہمیشہ پاک اور بری دیکھا.“ حضرت اقدس کی نظروں میں آپ کا بہت بلند مقام تھا.اور آپ حضرت اماں جان کو شعائر اللہ میں سے سمجھتے تھے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی ایک روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت اماں جان نے مکان میں کوئی تبدیلی کروانی چاہی.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے اس کی مخالفت کی کہ اس طرح کرنے سے صحن تنگ ہو جائے گا اور ہوا نہیں آئے گی اس پر

Page 317

خطابات مریم حضور نے فرمایا:.292 خطابات کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وعدوں کے فرزند اس بی بی سے عطا کئے ہیں جو شعائر اللہ میں سے ہیں اس واسطے اس کی خاطر داری ضروری ہے اور ایسے امور میں اس کا کہنا ماننا ضروری ہے.66 آپ کی زندگی نے ثابت کر دیا کہ واقعی آپ کے ذریعہ سے ایک مبارک نسل کا آغاز ہوا جو پھولی پھلی پھولیگی اور پھلے گی.اللہ تعالیٰ ان کو ان اہم ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.(ماہنامہ مصباح مئی 1982ء)

Page 318

خطابات مریم 293 خطابات فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کی اختتامی تقریب میں طالبات سے خطاب اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.وَهذَا كِتُبُ أَنْزَلْنَهُ مُبْرَكَ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الانعام: 156) اور یہ ( قرآن ) ایسی کتاب ہے جسے ہم نے اُتارا ہے اور یہ برکت والی ہے.پس اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.اس آیت میں بہت سے دعوے ہیں.پہلا تو یہ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کتاب کے اُتارنے والے ہم ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی راہنمائی کے لئے نازل ہوا جس میں کوئی ملاوٹ کوئی بات ایسی نہیں ہوگی جو بنی نوع انسان کو کسی پہلو سے نقصان پہنچا سکے.مبارک ہے اس میں برکت ہی برکت ہے جو اسے پڑھے گا ، جو پڑھائے گا، جو اس پر عمل کرے گا اللہ تعالیٰ کی برکتیں اس پر نازل ہوں گی.ایک اور معنی ہیں برکۃ یعنی تالاب کو کہتے ہیں.پس مبارک کے معنی ہوئے کہ ہر قسم کی برکتوں اور خیر کا مجموعہ.پھر کہا گیا اس کی پیروی کرو.قرآن صرف اس لئے نہیں کہ اس کو برکت کے لئے ناظرہ پڑھ لیا جائے.ختم ہونے کے بعد کھول کر نہ دیکھا جائے.صرف الفاظ سے آپ کیا سمجھ سکتی ہیں جب تک مطلب نہ معلوم ہو.پس عمل کے لئے ضروری ہے کہ ترجمہ سیکھو، مطلب سمجھو اس کی گہرائیوں تک جانے کی کوشش کرو اور ساتھ ہی تقویٰ بھی اختیار کرو کیونکہ تقویٰ اختیار کئے بغیر صحیح طور پر قرآن مجید کی تعلیم پر عمل کرنا مشکل کام ہے.تقویٰ کیا ہے؟ وقی کہتے ہیں بچنے کو.یعنی کوشش کر کے ہر بُرائی سے بچنا اور اپنے کو محفوظ رکھنا.جب انسان بُرائیوں سے بچنے کی توفیق اللہ تعالیٰ کے فضل سے پا لیتا ہے تو پھر نیکیوں میں بڑھنے کی توفیق بھی مل جاتی ہے.اللہ تعالیٰ مذکورہ آیت میں فرماتا ہے کہ

Page 319

خطابات مریم 294 خطابات اس کے نتیجے میں تم پر رحم کیا جائے گا.یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے وارث بنو گے اور اس کی وجہ سے ترقی بھی کر سکو گے.گویا قرآن مجید وہ عظیم الشان نعمت ہے جس کے ذریعہ سے مسلمانوں نے ترقی کی اور جب قرآن مجید کو بھلا دیا.اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو دنیا کی ذلیل ترین قوموں میں شمار ہونے لگ گئے.نہ عزت باقی رہی نہ حکومت ، نہ غلبہ.دوسری قومیں ان سے بہت آگے نکل گئیں.پھر حضرت (موعود آخر الزمان ) کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بشارتیں دی ہیں مگر وعدہ یہی ہے کہ قرآن پر عمل ہو.قرآن سے محبت ہو جیسا کہ حضرت موعود آخر الزمان فرماتے ہیں.دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآن کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے نیز آپ بشارت دیتے ہیں کہ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گئے.حضور فرماتے ہیں :.(روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحه 13) ہم اس بات کے گواہ ہیں اور تمام دنیا کے سامنے اس شہادت کو ادا کرتے ہیں کہ ہم نے اس حقیقت کو جوخدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا.پھر آپ فرماتے ہیں:.(روحانی خزائن جلد 13 کتاب البریہ صفحہ 65) ” اس لئے میں ہر ایک پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ وہ کتاب جوان ضرورتوں کو پورا کرتی ہے وہ قرآن شریف ہے.اس کے ذریعہ سے خدا کی طرف انسان کو ایک کشش پیدا ہو جاتی ہے اور دنیا کی محبت سرد ہو جاتی ہے.اسی طرح آپ فرماتے ہیں :.(روحانی خزائن جلد 23 چشمہ معرفت صفحه 307) س طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر آنکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر کا نوں کے سن سکیں یا

Page 320

خطابات مریم 295 خطابات بغیر زبان کے بول سکیں اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ بغیر قرآن کے اس پیارے محبوب کا منہ دیکھ سکیں.(روحانی خزائن جلد 10 اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 443) اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے.فَبِدَالِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُون اس آیت کا ترجمہ حضور نے یوں فرمایا ہے.یہ قرآن ایک بیش قیمت مال ہے سو اس کو تم خوشی سے قبول کرو.یہ ان مالوں سے اچھا ہے جو تم جمع کرتے ہو.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ علم و حکمت کی مانند کوئی مال نہیں.یہ وہی مال ہے جس کی نسبت پیشگوئی کے طور پر لکھا تھا کہ مسیح دنیا میں آکر اس مال کو اس قدر تقسیم کرے گا کہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں گے.(روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام صفحہ 454) پھر کشتی نوح میں حضور نے جماعت کو ہوشیار کرتے ہوئے فرمایا :.تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اُٹھاؤ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے.حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولی اور باقی سب اس کے ظل تھے.سوتم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو.کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا الخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرآن که تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.(روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحہ 26) میری عزیز بچیو! جب تک آپ قرآن مجید کا ترجمہ نہیں سیکھیں گی اس کے مطالب پر غور نہیں کریں گی.بار بار پڑھیں گی نہیں تو کیسے آپ کو علم ہوگا کہ کیا کیا احکام اس میں بیان کئے گئے ہیں.کن باتوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور کن باتوں کے کرنے سے منع کیا گیا ہے.جب تک قرآن مجید کی برکات اور خوبیوں اور معارف کا علم نہ ہوگا کیسے تمہارے دلوں میں قرآن کی محبت پیدا ہوگی ؟

Page 321

خطابات مریم 296 خطابات یہی غرض حضور کی بعثت کی تھی کہ وہ دین کو پھر سے تازہ کریں.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لگائے ہوئے گلشن میں بہار آئے اور یہ بہار یہ تازگی وابستہ تھی.قرآن کی تعلیم سے جس کو مسلمانوں نے بھلا دیا تھا اور اس کا استعمال صرف مردوں پر پڑھے جانے یا ان کو بخشے جانے یا قسمیں کھانے تک محدود تھا.بڑی تکلیف ہوتی ہے جب جہالت اور نا واقعی سے دیہات کی بعض احمدی عورتیں بھی دوسروں کو دیکھ کر ان بدعات کی مرتکب ہوتی ہیں.اگر ایسی کوئی بات بھی جائز ہوتی تو خود قرآن میں درج ہوتی.اس کی راہنمائی ہوتی یہ نتیجہ ہے قرآن نہ پڑھنے اور اپنی اولا د کو نہ پڑھانے کا.ہزاروں ہزار درود و سلام ہوں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر جن کے ذریعہ یہ عظیم نعمت ہمیں ملی.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں.شه لولاک نعمت پاتے تو اس دنیا سے ہم اندھے ہی جاتے کجا ہم ہم اور کجا مولا کی باتیں کجا دن اور کجا تاریک راتیں رسائی کب تھی ہم کو آسماں تک جو اُڑتے بھی تو ہم اُڑتے کہاں تک خدا ہی تھا کہ جس نے دی محمد ہی تھے جو لائے نعمت خلعت پس اے میرے عزیزو میرے بچو دل و جاں اسے محبوب رکھو ہزاروں رحمتیں اور سلام حضرت اقدس پر جنہوں نے قرآن پر ہونے والے تمام اعتراضات کو دور کر کے اس کا جگمگاتا چہرہ دنیا کو دکھایا اور ہزاروں رحمتیں خلفائے احمدیت پر جن کی ساری زندگیاں قرآن کی درس و تدریس میں گزریں جن کا ہر خطبہ قرآن کی آیات کی

Page 322

خطابات مریم تفسیر ہوتا تھا.297 خطابات ہماری جماعت کے ہر فرد کا بھی یہی فرض ہے کہ وہ قرآن سیکھے اور اس پر عمل کرے.ہمارے سارے پروگرام جن میں سے یہ کلاس ( فضل عمر تعلیم القرآن کلاس ) بھی ایک اہم شق ہے اسی مقصد کے گرد گھومتے ہیں کہ ہم قرآن سیکھیں، سکھا ئیں.ہر احمدی گھرانہ تعلیم قرآن کا ایک مدرسہ بن جائے.ہر باپ ہر ماں کا فرض ہے کہ اپنی اولا د کو قرآن کریم اور اس کا ترجمہ سکھانے کی پوری پوری کوشش کرے اور ہر بچہ کا فرض ہے کہ وہ سیکھنے کی پوری کوشش کرے.آپ حساب ، سائنس، جغرافیہ، تاریخ، عربی ، اُردو، فارسی ، انگریزی اور بعض بچیاں تو اور زبانیں بھی سیکھنے کے لئے کوشش کرتی رہتی ہیں.وہ بھی سیکھیں مگر سب پر مقدم قرآن سیکھنا ہو.اور یہ بھی تجربہ کر دیکھیں جو بچی قرآن مجید غور سے پڑھے گی ،ترجمہ سیکھے گی اس کے دل میں ایک نور پیدا ہو گا.اس کا دماغ تیز ہو جائے گا حافظہ بہتر ہو جائے گا اور دوسرے علوم سیکھنے بھی اس پر زیادہ آسان ہو جائیں گے.یہ کلاس تو بیج ڈالنے کے مترادف ہے.اچھی کھاد اور اچھی دیکھ بھال ہو تو پھول پھل نکلتے ہیں.خدا تعالیٰ آپ کو قرآن کریم سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین (ماہنامہ مصباح ستمبر 1982ء).......

Page 323

خطابات مریم 298 خطابات تاریخ احمدیت میں لاہور کی اہمیت اور احمدی خواتین کی اہم ذمہ داریاں مورخہ 16 ستمبر 1982 ء کو لجنہ اماءاللہ لا ہور نے دارالذکر میں اپنا ہال تعمیر کر کے اپنے دفتر کی تکمیل کو مکمل کیا.اس تقریب پر لجنہ لاہور کی دعوت پر حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی صدر لجنہ اماء الله مرکز یہ ممبرات مجلس عاملہ مرکزیہ کی معیت میں لا ہور تشریف لے گئیں.اس موقع پر آپ نے جو اہم خطاب فرمایا وہ درج ذیل کیا جاتا ہے.تشہد اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آپ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے دفتر کی تکمیل کر کے ایک اور منزل کی طرف قدم بڑھایا ہے.آپ کا نیا انتخاب بھی ہوا ہے اور ہر تبدیلی کے وقت زیادہ ہوشیار زیادہ چوکس رہنے اور قدم آگے بڑھانے کی بھی ضرورت ہوتی ہے.اس لئے اس موقع پر میں آپ کو آپ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتی ہوں مگر اس سے قبل جس شہر میں احمدیت کا پیغام ہر عورت تک آپ نے پہنچانا ہے اس کی اہمیت کا ذکر کروں گی تاریخ احمدیت میں لا ہور شہر کو بڑی اہمیت حاصل ہے.حضرت اقدس موعود آخر الزمان کا لا ہور کثرت سے آنا جانا رہا اور آپ یہاں قیام فرماتے رہے.حضور کا لا ہور آنا اپنے والد صاحب کے زمانہ سے شروع ہو گیا تھا.ابتداء سے ہی ایک ایسی جماعت لاہور شہر میں پیدا ہوگئی تھی جو حضور سے اخلاص رکھتی تھی.حضرت مصلح موعود کا جب حضور نے عقیقہ کیا تو خاص طور پر لاہور کے دوستوں کو دعوت دی.دعویٰ ماموریت کے بعد سب سے پہلے آپ جنوری 1892ء میں لوگوں پر اتمام حجت کے لئے لا ہور تشریف لائے اور 31 جنوری کو آپ نے ایک عام لیکچر دیا اور اپنادعویٰ پیش کیا.یہی وہ شہر ہے جہاں فیروز پور سے واپسی پر 14 / دسمبر 1893 ء کو لاہور اسٹیشن کے پاس

Page 324

خطابات مریم 299 خطابات ایک مسجد میں حضور وضوفر ما ر ہے تھے کہ پنڈت لیکھرام نے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کہا مگر حضور نے کوئی جواب نہ دیا.اس نے اس خیال سے کہ آپ نے سنا نہیں پھر سلام کیا.کسی نے حضور سے کہا کہ پنڈت لیکھرام آیا تھا اور سلام کرتا تھا.حضور نے یہ سنتے ہی بڑی غیرت کے ساتھ فرمایا.ا سے شرم نہیں آتی ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے“.لاہور میں جلسہ مذاہب عالم کے ذریعہ مشہور و معروف نشان ظاہر ہوا.آپ کو الہا ماً بتایا گیا کہ آپ کا مضمون سب سے بالا رہے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.لا ہور ہی وہ مقام ہے جہاں مشہور آریہ لیکھر ام اسلام اور بانی اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف اپنی بدزبانی کی پاداش میں اللہ تعالیٰ کے قہر کا نشان بنا اور اس طرح وہ حضور کی صداقت پر مہر کر گیا.اسی شہر میں 1904 ء میں وہ واقعہ گزرا جب حضور جماعت لاہور کے اصرار پر لاہور تشریف لائے تو چند نو جوانوں نے مشورہ کیا کہ دوسری قوموں کے بڑے بڑے لیڈر جب یہاں آتے ہیں تو ان کی قوموں کے نو جوان گھوڑوں کی بجائے خود ان کی گاڑی کھینچتے ہیں اور ہمیں جو لیڈر اللہ تعالیٰ نے عطا کیا بڑے بڑے بادشاہ اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے.پس آج ہم بھی حضور کی گاڑی کھینچیں گے.حضور جب اسٹیشن سے باہر تشریف لائے تو گاڑی دیکھ کر فرمایا کہ گھوڑے کہاں ہیں نوجوانوں نے کہا حضور ہم خود گاڑی کھینچیں گے اس پر حضور نے فرمایا:.فوراً گھوڑے جو تو ہم انسان کو حیوان بنانے کیلئے دنیا میں نہیں آئے بلکہ حیوانوں کو انسان بنانے کیلئے آئے ہیں“.روایت میاں عبدالعزیز صاحب بحوالہ حیات طیبہ صفحہ 456) اسی زمین پر حضور نے 1904ء میں مشہور لیکچر اسلام اور اس ملک کے دوسرے مذا ہب“ کے نام سے طبع کروایا یعنی لیکچر لاہور جو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے ہزاروں کے مجمع میں بلند آواز سے پڑھ کر سنایا.

Page 325

خطابات مریم 300 خطابات حضور نے حضرت مصلح موعود کا رشتہ بھی لاہور کے ایک مشہور خاندان میں کیا اور یہی وہ شہر ہے جہاں حضور نے اپنا آخری سفر اختیار کیا.آپ نے اپنا مضمون پیغام صلح مکمل کیا اور اسی شہر میں آپ کا وصال مقد ر تھا.شد 26 اپریل 1908ء کی صبح حضور کو الہام ہوا ” مباش ایمن از بازی روزگار ( تذکره صفحه: 638) اس پر حضور اس دن سفر ملتوی کر کے ٹھہر گئے اور 27 /اپریل کو لا ہور روانہ ہو گئے.دوروز بٹالہ ٹھرے.گاڑی ریز رو ہونے پر 29 / اپریل کو لاہور روانہ ہوئے خواجہ کمال دین صاحب مرحوم کے مکان پر قیام فرمایا.ان دنوں آپ کی مخالفت بھی شدت کے ساتھ ہوئی اور حضور احباب کو نصیحت فرماتے رہے کہ ان گالیوں کو صبر سے برداشت کرتے رہیں.۹ رمئی کو آپ کو پھر الہام ہوا.الرحيلُ ثُمَّ الرَّحِيلُ إِنَّ الله يَحْمِلُ كُلَّ حَمْلٍ ( تذکرہ صفحہ 639) یعنی کوچ اور پھر کوچ.اللہ تعالیٰ سارا بوجھ خود اٹھائے گا.اس الہام میں صاف اشارہ وفات کی طرف تھا مگر حضور اپنے کام میں مشغول رہے کسی قسم کی گھبراہٹ، بے چینی کا اظہار نہیں فرمایا.ظاہری شکل میں الہام پورا کرنے کیلئے آپ نے اپنی قیام گاہ تبدیل فرمالی اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں تشریف لے گئے.اسی لاہور کی سرزمین پر 14 مئی کو آپ کو پھر الہام ہوا مکن تکیه برعم نا پائیدار ( تذکرہ صفحہ 640) جس سے صاف ظاہر تھا کہ وفات کا وقت قریب ہے.حضور چاہتے تھے کہ لاہور کے رؤسا اور بڑے بڑے لوگوں تک اپنا دعویٰ پہنچائیں.آپ نے 17 مئی کو ایک دعوتِ طعام کا انتظام کیا اور سب لوگوں کے جمع ہونے پر گیارہ بجے سے ایک بجے تک تقریر فرمائی اور تمام اعتراضات کے جوابات دیئے.یہ تقریر ایک محدود طبقہ کے لئے تھی بعض معززین نے تجویز پیش کی کہ حضور ایک پبلک لیکچر دیں حضور نے تجویز منظور فرمالی اور ایک مضمون لکھنا شروع فرمایا جس کا عنوان تھا ”پیغام صلح، لیکن ابھی مضمون کے سنائے جانے کیلئے دن بھی مقرر نہیں ہوا تھا کہ 26 رمئی کو حضور کا وصال ہو گیا اور حضور کے وصال کے بعد یہ لیکچر 21 جون کو یو نیورسٹی ہال میں خواجہ کمال دین صاحب نے سنایا.اور یہی وہ مقام تھا جہاں حضرت مصلح موعود نے 19 سال کی عمر میں حضرت اقدس...کی وفات کے بعد آپ کے سرہانے کھڑے ہو کر اپنے رب سے عہد کیا تھا کہ :.

Page 326

خطابات مریم 301 خطابات ”اے خدا میں تجھ کو حاضر و ناظر جان کر تجھ سے سچے دل سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت احمدیت سے پھر جائے تب بھی وہ پیغام جو حضرت اقدس.....) کے ذریعہ تو نے نازل فرمایا ہے میں اس کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلا ؤں گا“.ان واقعات کو بیان کرنے سے میری یہ غرض ہے کہ لا ہور میں رہنے والی احمدی خواتین اس شہر کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور ان کی بجا آوری میں لگ جائیں.لاہور میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا بھی کثرت سے آنا جانا رہا.یہیں آپ پر اللہ تعالیٰ نے رؤیا کے ذریعہ ظاہر فرمایا کہ آپ ہی وہ مصلح موعود ہیں جن کی بشارت اللہ تعالیٰ نے حضور بانی سلسلہ احمدیہ کو آپ کی پیدائش سے بھی قبل دی تھی.آپ نے لاہور میں ایک بہت بڑے جلسے میں اس کا اعلان بھی فرمایا.حضرت مصلح موعود نے جب مصلح موعود ہونے کا لاہور میں دعوی فرما یا تو احباب لا ہور کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :.اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہمیشہ قربانیوں کا تقاضا کیا کرتا ہے.میں یہاں کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس جگہ مصلح موعود کی پیشگوئی کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر انکشاف کا ہونا لا ہور کی جماعت کی ذمہ داریوں کو بہت بڑھا دیتا ہے.یہیں سے پیغامی فتنہ نے سر اُٹھایا اور یہیں ان کا مرکز ہے.یہیں سے احراری فتنہ اُٹھا اور یہیں اُن کا مرکز ہے اور بھی جس قدر فتنے اُٹھے ان میں زیادہ تر لا ہورہی کا حصہ ہے.حضرت اقدس کو بھی زیادہ تر چینج لا ہور ہی سے ملا کرتے تھے اور یا پھر امرتسر سے.امرتسر سے کم اور لاہور سے زیادہ.پھر اس وقت پنجاب کا سیاسی مرکز بھی لاہور ہی ہے.پس بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں جو یہاں کی جماعت پر عائد ہوتی ہیں.ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے ہی تمہیں ان برکات سے حصہ مل سکتا ہے جو خاص مقامات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب خدا کسی مقام کو اپنی برکتوں کے لئے مخصوص قرار دے دیتا ہے تو وہاں کے رہنے والوں کو اپنے انعامات سے بھی زیادہ حصہ دیا کرتا ہے مگر اس میں بھی کوئی محبہ نہیں کہ ان مقامات کے

Page 327

خطابات مریم 302 خطابات رہنے والوں کو قربانیاں بھی دوسروں سے زیادہ کرنی پڑتی ہیں جو قربانیاں مکہ اور مدینہ والوں کو کرنی پڑیں وہ کسی اور جگہ کے رہنے والوں کو نہیں کرنی پڑیں مگر جو انعامات مہاجرین اور انصار کو ملے وہ بھی کسی اور کو نہیں ملے.یہ خیال کرنا کہ مکہ اور مدینہ والوں کو اللہ تعالیٰ نے یونہی انعام دے دیا ہوگا ایک پاگل پن کی بات ہے انہوں نے اس قدر قربانیاں کیں کہ بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے انہوں نے اپنے آپ کو فنا کر دیا اُنہوں نے خدا کے لئے اپنے آپ کو خاک میں ملایا اور پھر اپنی خاک کو بھی اس کی رضا کے حصول کیلئے اُڑا دیا تب انہیں انعامات حاصل ہوئے تب وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مستحق ہوئے.پس جماعت لاہور کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے.اپنے اندر تغیر پیدا کرے اپنے اخلاص اور اپنی نیکی میں ترقی کرے اور خدا تعالیٰ کی محبت اپنے قلوب میں پیدا کرے“.(الفضل 21 جون 1944ء) جماعت کی ترقی کیلئے سب سے بڑا اور ضروری امر جماعت میں وحدت کی رُوح کا قائم رہنا ہے.حضرت مصلح موعود نے 1922ء میں عورتوں کی تربیت کی غرض سے جب لجنہ اماءاللہ قائم کی تو اس کے لئے چند بنیادی اصول مقرر فرمائے.ان میں سے سب سے اہم اصل یہی بیان فرمایا کہ:.اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کیلئے جو بھی خلیفہ وقت ہو اس کی تیار کردہ سکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مدنظر رکھ کر تمام کارروائیاں ہوں.(الازھار لذوات الخمار صفحہ 53) حضور نے مزید فرمایا:.اس امر کی ضرورت ہے کہ تم اتحاد جماعت کو بڑھانے کیلئے ایسی ہی کوشاں رہو جیسے کہ ہر مسلمان کا فرض.قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اور پھر حضرت اقدس نے مقرر فرمایا ہے اور اس کے لئے ہر ایک قربانی کو تیار رہو.الازھار لذوات الخمار صفحہ 53) پس ہمیشہ یہ نصب العین مد نظر رہے کہ جماعت کی وحدت پر ہر چیز کو قربان کر دینا ہے.اپنی

Page 328

خطابات مریم 303 خطابات ذاتی مخالفتیں ہوں یا خیالات کا فرق ہر چیز پر جماعت کا اتحاد مقدم ہے.قرون اولیٰ میں مسلمان بہت تھوڑے عرصہ میں غالب آ گئے.مگر اتحاد قائم نہ رہنے کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے کا گلا کاٹنے لگے اور دنیا نے ان کی وہ تباہی بھی دیکھی کہ اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.نظام جماعت پر اعتراضات، عہد یداروں پر اعتراضات وغیرہ جماعت کی جڑیں کھوکھلی کر دیتے ہیں اور بڑھتے بڑھتے خلافت اور خلیفہ وقت پر بھی اعتراضات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے نتیجہ میں نفاق کا داغ دل کو لگتا جاتا ہے جو بڑھتے بڑھتے اپنی جڑیں مضبوط کر لیتا ہے.میری بہنو! آپ کی ذمہ داریاں مردوں سے بھی زیادہ ہیں کیونکہ اگلی نسل آپ کی گود سے پروان چڑھ کر ذمہ داریاں اُٹھانے کیلئے آگے آئے گی.اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ اپنی دنیا کو جنت بنا دیں یا جہنم اور آپ اپنی اولا دکو اللہ تعالیٰ کے وفادار عاشق رسول اور اسلام پر جان دینے والے بنا ئیں یا مذ ہب سے دور بھاگنے والے.جماعت کی خواتین اُس وقت ہی ترقی کر سکتی اور اپنی ذمہ داریوں کو احسن طور پر ادا کر سکتی ہیں جب وہ متحد ہوں ایک دوسرے سے محبت اور پیار کا سلوک کرتے ہوئے ایک دوسرے کی غلطیوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے ایک دوسرے سے نیکی اور تقویٰ کے کاموں پر تعاون کرتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتی جائیں مگر ان کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہنی چاہئیں کہ کہیں بھی نفاق کا بیج ذرا سا بھی نظر آ جائے تو اس کو اسی وقت کچل دیں اور پہنچنے نہ دیں لیکن آپس میں رحماء ہونا چاہئے.نرمی ، پیار کا سلوک ، غلطیوں سے درگزر.خلافت کے قیام کی بھی یہی غرض ہے کہ متحد ہوں ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی کیسی بہار دیتے ہیں لیکن جب وہ ٹوٹ کر بکھر جائیں تو ان کی کوئی قیمت ہی باقی نہیں رہتی.پس بہت قدر کر و خلافت کی.یہ بہت بڑا انعام ہے جو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو عطا فرمایا ہے.اپنا تعلق خلافت سے بہت مضبوط رکھو اتنا مضبوط کہ شیطان کا بڑے سے بڑا حملہ اس تعلق کو ذرا سا بھی کاٹ نہ سکے.یہ صرف عہدہ داروں کا فرض نہیں بلکہ ہر احمدی خاتون کا فرض ہے، اس کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولا د اور اپنے زیر اثر افراد کی صحیح تربیت کرے.حضرت خلیفۃ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماءاللہ کو اس طرف توجہ دلائی کہ تبلیغ کی

Page 329

خطابات مریم 304 خطابات طرف بہت توجہ دیں یہ فرض مرد تو ادا کر رہے ہیں مگر عورتوں کا عملی قدم اس میدان میں سُست ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.وَلتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَا مُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ المُنكَرِ، وَأوتيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (ال عمران : 105) اے لوگو تم میں سے ایک ایسی جماعت ہو جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے اور معروف کا حکم دے اور منکر سے منع کرے اور یہ وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہو جائیں گے.یعنی ایسی جماعت اپنے مقصد میں کا میاب ہوگی.حضرت مصلح موعود اس آیت کے سلسلہ میں اپنی ایک تقریر میں عورتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں.آب بتلاؤ کون نہیں چاہتا کہ میں کامیاب ہو جاؤں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم دین کی اشاعت اور تبلیغ کرو گی تو میں تمہیں کامیاب کروں گا.لوگ مال کی تلاش میں عمر میں گنوا دیتے ہیں لیکن بالآخر وہ بھی کام نہیں آتا.دوست اور رشتہ داروں کے لئے جان تک قربان کر دی جاتی ہے لیکن اکثر وہ بھی کوئی مدد نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا میں کئی تکلیفیں آتی ہیں باپ، بھائی، بیٹے ، خاوند پر مصیبتیں نازل ہوتی ہیں اور اس طرح تمہیں کئی دُکھ اُٹھانے پڑتے ہیں لیکن جو اللہ تعالیٰ کیلئے ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا ہو جاتا ہے...پس ایسی عورتوں کو دین بھی مل جاتا ہے اور دنیا بھی کیونکہ جس طرح جو بادشاہ کا دوست ہو جائے اسے کوئی دُکھ نہیں پہنچا سکتا اسی طرح جس کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو جائے اس کو بھی کوئی تکلیف نہیں دے سکتا“.(الازھار لذوات الخمار صفحہ 13) پس ہمارا فرض ہے کہ اپنا دائرہ خدمت وسیع کریں.احمدیت پر کئے جانے والے اعتراضات اور غلط فہمیوں کو دور کریں جیسا کہ حضرت مصلح موعود نے لجنہ اماءاللہ کے قیام کے وقت فرمایا تھا کہ :.دشمنانِ اسلام میں عورتوں کی کوشش سے جو روح بچوں میں پیدا کی جاتی ہے

Page 330

خطابات مریم 305 خطابات اور جو بدگمانی اسلام کی نسبت پھیلائی جاتی ہے اس کا اگر کوئی تو ڑ ہو سکتا ہے تو وہ عورتوں ہی کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے.(الازھار لذوات الخمار صفحہ 52) اس آیت میں تین اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے.(1) يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ (۲) يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ (۳) يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ یعنی مسلمانوں میں ان تین صفات کا پایا جانا بے حد ضروری ہے.وہ نیکی کی طرف بلائیں، صداقت کی اطلاع دنیا کو دیں جو نعمت آپ کے پاس ہے اس کا علم ان تک پہنچانے کی کوشش کریں جن کے پاس نہیں ہے.خیر کی طرف وہی دوسروں کو دعوت دے سکتا ہے جو خود مجسم خیر ہو.جس طرح سچ کے مقابل جھوٹ کا لفظ ہے.اسی طرح عربی میں خیر کے مقابلہ کا لفظ شریا ضرر ہے یعنی تمہارے وجود سے کسی کو نہ دکھ پہنچے نہ کوئی شر اور بُرائی تم میں پائی جائے نہ تمہارے وجود سے کسی کو نقصان پہنچے نہ اس کے حقوق کی حق تلفی ہو.تم خود خیر بن جاؤ اور مجسم خیر بن کر جو سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کے بننا مشکل ہے ، دوسروں کو خیر بننے کی دعوت دو.میں نے ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سے سنا آپ نے فرمایا کہ حضرت مصلح موعود نے جو اپنی اولاد کے لئے دعائیں کیں ان میں سے سب سے مکمل.دعا یہ ہے.اس میں ہزاروں دعائیں آ جاتی ہیں کہ الہی خیر ہی دیکھیں نگا ہیں.ہماری نگاہیں دوسروں میں عیوب ڈھونڈنے کی بجائے اپنے میں عیب اور نقص ڈھونڈ نے کی عادی ہوں گی تو اپنی برائی کی طرف بھی متوجہ ہوں گی اور اپنے کو ساری دنیا کیلئے.بنانے کی کوشش کریں گی.يَدْعُون إلى الخير میں کو اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ آپ کو جو نعمت اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے آپ خاموش کیوں ہیں کیوں نہیں دنیا کو بتا ئیں اتنی عظیم الشان نعمت آپ کو ملی ہے.آؤ تمہیں بھی بتاؤں جس طرح حضرت اقدس موعود آخر الزمان نے فرمایا تھا کہ:.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس دف سے

Page 331

خطابات مریم 306 خطابات میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سُن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کیلئے لوگوں کے کان کھلیں“.(روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوع صفحه 22) اسی طرح آپ سب کو ہر وقت یہ گھبراہٹ رہنی چاہئے کہ کس طرح کس ذریعہ کو اختیار کروں تا حضور کی بعثت اور آپ کی صداقت آپ کے دلائل کو دنیا کے سامنے پیش کر سکوں اسلام کی تاریخ ہمارے سامنے ہے.عورتوں نے ماریں کھائیں.شہید ہوئیں، ظلم سہے، وطن چھوڑے مگر اللہ تعالیٰ کے نام کو چھپانا پسند نہ کیا.حضرت عمرؓ بھی تو اپنی بہن کی تبلیغ پر ایمان لائے تھے.حضرت مصلح موعود نے 1946ء میں احمدی خواتین کو اس طرف خصوصی توجہ دلاتے ہوئے فرمایا تھا کہ:.تم میں سے کتنی ہیں جو باقاعدہ طور پر تبلیغ کرتی ہیں؟ میرا خیال ہے کہ عورتوں کی تبلیغ سے ہزار میں سے ایک عورت بھی ایسی نہیں جو کسی احمدی عورت کی تبلیغ کی وجہ سے احمدی ہوئی ہو تمہارے ہمسایہ میں ہزاروں ہزار عورتیں رہتی ہیں مرد عورتوں کو تبلیغ نہیں کر سکتے عورتیں ہی عورتوں کو تبلیغ کر سکتی ہیں.حضور نے مزید فرمایا تھا:.الازهار لذوات الخمار جلد اوّل صفحہ 421) میں تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا تم نے کبھی تبلیغ کیلئے اپنے دل میں درد محسوس کیا ہے اور کیا کبھی تم نے یہ سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے کہ احمدیت میں داخل ہونے کی وجہ سے تم پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.پھر آپ نے اس خطاب میں فرمایا :.الازھار لذوات الخمار جلد اوّل صفحہ 422) دو پس ہوشیار ہو جاؤ اور سستیوں کو ترک کرو.جب تک عورتیں مردوں کے ساتھ ہر کام میں اُن کے دوش بدوش نہیں چلتیں اس وقت تک تبلیغ کامیاب نہیں ہوسکتی اور اس وقت تک اسلام دنیا پر غالب نہیں آ سکتا.االازھار لذوات الخمار جلد اوّل صفحہ 240) خیر کے اور بھی کئی معنی ہیں لیکن وقت کی تنگی سب کو بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتی.اللہ

Page 332

خطابات مریم 307 خطابات تعالیٰ نے اس زمانہ کی اصلاح کی خاطر حضرت اقدس کے ذریعہ اعلان فرمایا کہ ہر قسم کی برکت قرآن کریم میں ہے.الخَيْرُ كُلَّهُ فِي القُرآن.پس مجسم خیر بننے اور خیر کی طرف دعوت دینے کیلئے ضروری ہے کہ قرآن کریم پڑھو اور اس پر عمل کرو بغیر قرآن پڑھے اس کا ترجمہ سکھے نہ خود آپ خیر حاصل کر سکتی ہیں نہ دوسروں کو خیر پہنچا سکتی ہیں.حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی جماعت کو قرآن سکھانے اور پڑھانے کی بہت کوشش کی.آپ نے اپنی سالانہ اجتماع 1966 ء کی تقریر میں فرمایا :.اپنی نسلوں میں قرآن کریم کا عشق اس طرح بھر دیں کہ دنیا کی کوئی لذت اور کوئی سرور انہیں اپنی طرف متوجہ نہ کرے.وہ ساری توجہ کے ساتھ قرآن کریم کے عاشق ہو جائیں اور وہ ہر خیر اس سے حاصل کرنے والے ہوں اور وہ دنیا کے لئے ایک نمونہ بنیں تا قیامت تک آپ کے نام زندہ رہیں اور آنے والی نسلیں حیران ہو کر آپ کی تاریخ کو پڑھیں اور کہیں کہ کیسی عورتیں تھیں اس زمانہ کی جنہوں نے دنیا کے تمام لالچوں کے باوجود دنیا کے تمام بداثرات کے باوجود دنیا کوٹھکرا دیا اور دنیا کی طرف اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے نور کو اپنے گرد اس طرح لپیٹا کہ وہ جہاں بھی رہیں اور جہاں بھی گئیں وہ اور ان کا ماحول اس نور سے منور رہا اور جگمگاتا رہا.(المصابیح صفحہ 31) اس آیت میں دوسری چیز جس کی طرف توجہ دلائی گئی وہ ہے یا مُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وہ معروف کا حکم دیں.امام راغب نے معروف کے معنی کئے ہیں ہرایسا کام وفعل جس کی خوبی عقل و شرح سے معلوم ہو جائے اور تیسری بات جو بیان کی گئی ہے وہ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ہے منکر کے معنی ہیں ہر فعل جو عقل و شریعت کے نزدیک ناپسندیدہ ہو.یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وه يَدْعُونَ إلى الخیر کے علاوہ ایسے کام کرنے کا حکم دیتے ہیں جو عقل اور شرح کی رو سے فائدہ مند ہوں اور ان کاموں سے روکتے ہیں جو شریعت و عقل کی رو سے ناپسندیدہ ہوں.پس ہر احمدی خاتون اپنے گھر کی راعی اور سر براہ ہوتی ہے وہ ذمہ دار ہے کہ جن پر اس کی اخلاقی

Page 333

خطابات مریم 308 خطابات حکومت ہے ان کو نیک کام کرنے کی تلقین کرتی رہے بتاتی رہے کہ نیکی یہ ہے اور بُرائی یہ اور جہاں بھی کوئی نا پسندیدہ کام ہوتا دیکھے اسے رو کے یہی تربیت کا سب سے بڑا اصول ہے اور عہدہ داروں کو بھی لجنہ کی ممبرات کی تربیت کرتے وقت اسے مدنظر رکھنا چاہئے.خاص طور پر اس زمانہ میں جب کہ بہت سی نئی نئی بُرائیاں جنم لے رہی ہیں.ہماری بچیاں ٹیلی ویژن سے یا اپنی جماعت سے باہر ملنے جلنے سے نئی نئی بدعتیں اپنے ساتھ جماعت میں لے آتی ہیں.ہمارے لئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہی کافی ہے.ہر چیز کی کسوٹی آنحضرت ﷺ کا نمونہ ہے.اگر آپ کے نمونہ کی کسوٹی پر وہ کام پورا اترتا ہے تو کرو اور اگر آپ کی سنت اور عمل اس کام کو ر ڈ کرتا ہے تو تم بھی رڈ کر دو اور ہمارا عمل قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران : 32) کے مطابق ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی سے ہی ہم ترقی کر سکتی ہیں اور اپنے رب کا پیار حاصل کر سکتی ہیں.اللہ تعالیٰ ان تین باتوں کے متعلق فرماتا ہے کہ اگر اُمت ان تین باتوں پر عمل کرے گی تو کامیاب ہوگی.پس میری بہنو! غلبہ اسلام کی مہم سر کرنے کیلئے ہم میں سے ہر ایک کا عمل اس کے مطابق ہونا چاہئے اور لجنہ اماء اللہ کے سارے پروگرام بھی اسی آیت کے اردگرد گھومنے چاہئیں.پس جماعت کی عورتوں کے جوان طبقہ کو میں خاص طور پر توجہ دلاتی ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.لجنہ کے کاموں میں حصہ لیں اور جتنا وقت بھی وہ دے سکتی ہوں لجنہ کے کاموں میں خرچ کریں.اے میرے رب تیری یہ چھوٹی سی جماعت جو تیرے مامور پر ایمان لائی اور ہر خلافت میں اس نے اسلام کے جھنڈے کو اونچار کھنے کی کوشش کی اسے ضائع نہ کیجیؤ بلکہ حضرت اقدس موعود آخر الزمان کو جو تو نے بشارتیں غلبہ اسلام کی دی ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنے وقت پر پوری ہوں گی ان میں ہمارا بھی حصہ ہو.آمین یا رب العالمین (ماہنامہ مصباح نومبر 1982ء)

Page 334

خطابات مریم 309 خطابات افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ مرکز یہ 1982ء صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ آپ کو مرکز میں لایا تا کہ آپ میں اس اجتماع میں شامل ہو کر نیا عزم اور نیا جوش پیدا ہو.ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کریں اس کے لئے ایک تو میں یہ اعلان کرتی ہیں کہ آئندہ سال سے ایک انعام اس بچی کو دیا جائے گا جس کے متعلق اس کے شہر، قصبہ یا دیہات کی لجنہ یہ فیصلہ کرے گی کہ یہ بچی ہماری بچیوں میں بہترین بچی ہے اور یہ فیصلہ صرف مقامی لجنہ کی صدر کا نہیں ہوگا بلکہ ان کی کم از کم تین عہد یدار جن میں ایک سیکرٹری ناصرات بھی ہوں گی یہ فیصلہ کریں گی.کسی بچی کو بہترین بچی قرار دئیے جانے کے صرف یہی بات مدنظر نہیں ہوگی کہ اس نے ناصرات کا نصاب ختم کر لیا ہے.امتحان میں شرکت کی ہے بلکہ اس کے اخلاق کو بھی مدنظر رکھا جائے گا یعنی اس بچی کی تعلیمی کارروائی اس کے اعلیٰ اخلاق اور اس کے عمل کو دیکھ کر یہ انعام دیا جائے گا اور جب اس مرحلہ پر ہم کامیابی حاصل کر لیں گے تو سارے پاکستان کی بہترین ناصرات کا مقابلہ کروا کے ایک گولڈ میڈل اس بچی کو دیا جایا کرے گا جو سارے پاکستان میں اول قرار دی جائے گی اس کے لئے عنقریب قوانین بنا کر تمام لجنات کو بھجوا دیئے جائیں گے.اس سلسلہ میں سیکرٹریان ناصرات اپنی رائے بھجوائیں.حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ نے ناصرات کے لئے پانچ اہم نکات مقرر فرمائے جن پر آئندہ ناصرات کی عہدیدار بچیوں کو عمل کروائیں گی.1.سب سے پہلے آپ نے قرآن کریم کا ترجمہ سکھانے کی طرف توجہ دلائی آپ نے فرمایا کہ اگر بارہ سال کی عمر میں ناصرات ترجمہ شروع کریں اور باقاعدگی سے پڑھیں تو پندرہ سال کی عمر تک کم از کم پانچ سیپارے ترجمہ سے پڑھ سکتی ہیں.اس طرح آئندہ لجنہ کی ممبرات زیادہ آسانی سے ترجمہ قرآن سیکھ سکیں گی.2- ناصرات کی عمر میں بچیوں کو پردے کی طرف توجہ دلانی چاہئے اور عمر اور اُٹھان کے

Page 335

خطابات مریم 310 خطابات مطابق چادر یا برقعہ اوڑھایا جائے تا کہ جب وہ لجنہ کی ممبر بنیں تو ان کے متعلق بے پردگی کی شکایت نہ ہو.3 بچیوں کو ہر حال میں سچ بولنے کی عادت ڈالی جائے.4.بچیوں کو صفائی رکھنے اور خود صاف ستھرا رہنے کی مشق کروائی جائے تا کہ وہ اپنے گھروں، مساجد اور مجالس میں صفائی رکھیں.اس کے علاوہ اپنے لباس ، بستر ، کتا بیں غرض ہر چیز میں صفائی کو مدنظر رکھیں.5 - بچیوں کو سکھایا جائے کہ مسجدوں میں نماز پڑھتے ہوئے صفیں سیدھی رکھیں اور کندھے سے کندھا ملا ئیں تا کہ دین کا کام بھی مل کر کرنے کی تربیت حاصل ہو.صف بندی کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت تاکید فرمائی ہے.نماز کی صف میں پہلے خالی جگہوں کو پُر کیا جائے.آپ نے فرمایا آج سے ساڑھے چھ سال بعد جماعت کے قیام پر سو سال پورے ہو جائیں گے اگلی صدی احمدیت کی ترقی کی صدی ہے (انشاء اللہ ) ان ساڑھے چھ سالوں میں ہر جگہ نا صرات کی تربیت پر پوری توجہ دی جائے تا کہ وہ آئندہ ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہو سکیں.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.آمین (از سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ 1982ء) ☆.............

Page 336

خطابات مریم 311 خطابات اختتامی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ 1982ء آپ نے فرمایا کہ تھوڑی دیر قبل جب میں یہاں آئی تھی تو بیرون ربوہ کی ناصرات زیادہ تعداد میں تھیں اور ربوہ کی کم تعداد میں حالانکہ ربوہ کی بچیاں زیادہ ہونی چاہئے تھیں ناصرات کی سیکرٹریوں کا فرض ہے کہ خود ناصرات کو انتظام کے تحت لائیں جن اشیاء کی انہیں ضرورت ہو سکتی ہے اس کا پہلے سے بندو بست کر لیں تا کہ اجتماع پر آنے والی بچیوں کا بار بار باہر اُٹھ کر جانے کی وجہ سے وقت ضائع نہ ہو اور وہ مختلف پروگرام سننے سے محروم نہ رہ جائیں.بچیاں بے مقصد پھرتی ہیں یا لجنہ کی اجتماع گاہ کے پاس باتیں کرتی ہیں جس سے شور ہوتا ہے اس لئے اگر اُن کی تربیت کی طرف ابھی سے پوری توجہ نہ دی گئی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ لجنہ کی تربیت کرنے میں بہت دشواری ہوگی.ناصرات کو مخاطب کر کے آپ نے فرمایا کہ آپ کے لئے مرکز میں منتخب پروگرام اس لئے ترتیب دیئے جاتے ہیں کہ جس طرح آپ کھیلوں میں پورے جوش و خروش سے حصہ لے کر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہیں ان دینی پروگراموں میں بھی اسی نظم و ضبط کے ساتھ حصہ لے کر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں.اگر آپ اجتماع میں شامل ہو کر توجہ سے پروگرام نہ سنیں گی تو آنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے.اسلام تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی بشارتوں کے مطابق ساری دنیا میں غالب آئے گا.یہ وعدہ اٹل ہے.(انشاء اللہ ) اور بیرون پاکستان، امریکہ، افریقہ وغیرہ سے ہزاروں کی تعداد میں خواتین اور بچیاں آئیں گی تو چند سال بعد جب آپ میں سے کچھ بچیاں بڑی ہو چکی ہوں گی تو آنے والی بچیوں کی دینی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری آپ پر ہوگی تو کیا وقت ضائع کرنے والی ناصرات یہ فرض پورا کر سکیں گی ؟ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا یہ گزرتا ہی جاتا ہے.اس کی قدر کریں جو بچیاں پروگرام نہیں سنتیں وہ اجتماع گاہ میں آنے کی تکلیف ہی نہ کیا کریں.بچیاں

Page 337

خطابات مریم 312 خطابات اجتماع گاہ اور اردگر دصفائی کا خیال رکھیں اپنے جلسہ گاہ میں کاغذ اور کوڑا نہ پھیلائیں مجالس کے آداب سیکھیں.اب آئندہ انعامات کی فہرست میں ایک انعام ایسا بھی ہونا چاہئے جو ایسی لجنات کی بچیوں کو دیا جائے گا جو تمام وقت خاموشی سے بیٹھ کر پروگرام سنیں بچیوں کو تمیز سکھانا سیکرٹریوں ، عہدیداروں اور ناصرات کی ماؤں کا فرض ہے اسلام کی ترقی اور غلبہ کے وعدے بالکل سچے ہیں.زمین آسمان ٹل سکتے ہیں مگر یہ وعدے نہیں مل سکتے.آپ اپنی تربیت کی طرف توجہ دیں تا کہ آپ مثالی بچیاں بن سکیں اور دوسری بچیوں کے لئے بطور نمونہ ہوں.میں اپنی تقریر حضرت مصلح موعود کے اس شعر پر ختم کرتی ہوں.ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں سلسلہ بدنام نہ ہو ( روزنامه الفضل 8 /نومبر 1982ء)

Page 338

خطابات مریم 313 خطابات افتتاحی خطاب بائیسواں سالانہ اجتماع 1982ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا آج ہمارا بائیسواں سالانہ اجتماع جو خلافت رابعہ کا پہلا سالانہ اجتماع ہے شروع ہو رہا ہے.اس موقع پر میں سب شامل ہونے والیوں کو اهلاً وسهلاً کہتے ہوئے دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع سے انہیں فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور جو بہنیں مجبوری کے باعث اجتماع پر نہیں آسکیں ان کو بھی آپ دعاؤں میں یا درکھیں اور آپ کے ذریعہ ان تک تمام کا رروائی پہنچے.ہر شامل ہونے والی اپنی جماعت کی خواتین کی نمائندہ بن کر آتی ہے.اس لئے اس کا فرض ہے کہ نہ آنے والی بہنوں تک یہ سب باتیں پہنچائیں تا وہ ان پر عمل کر سکیں.خصوصاً حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات جو آپ انشاء اللہ کل دیں گے.اس سال 418 مجالس میں سے 1041 نمائندگان ہیں.شامل ہونے والیوں کی کل تعداد 8768 ہے.بیرونی ممالک میں سے امریکہ، انگلستان مغربی جرمنی ، کینیڈا ، عرب امارات اور افریقہ کے کئی ممالک کی لجنات نمائندگان شامل ہوئیں.سالِ رواں میں جماعت کو دو بڑے صدمے اُٹھانے پڑے.3 / دسمبر 1981ء کو سیده منصوره بیگم صاحبہ ایک مختصر علالت کے بعد وفات پاگئیں.جماعت کی خواتین کے لئے یہ صدمہ دہرا تھا ایک اپنا ذاتی غم ، ایک یہ احساس کہ ہمارے پیارے خلیفہ کو ایک شدید غم سے دو چار ہونا پڑا.لجنہ اماءاللہ کی خواتین ایک نیک بزرگ دعائیں کرنے والی نصیحتیں کرنے والی ہمدرد خاتون سے محروم ہو گئیں.ابھی یہ صدمہ تازہ ہی تھا کہ 9 جون 1982 ء کو ہمارے جان سے پیارے آقا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ چند روز کی بیماری کے بعد اس دار فانی سے رخصت ہو کر اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئے.اس صدمہ نے زلزلہ کی طرح جماعت کو ہلا کر رکھ دیا.ایک پیارا وجود ایک محبت کرنے والا وجود ہمارے دکھوں پر تڑپ جانے والا وجود ہم سے جدا ہو گیا.انا للہ و انا الیه راجعون.اس سال کو عام الحزن کہنا نا مناسب نہ ہو گا.

Page 339

خطابات مریم لیکن ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں.بلانے والا ہے 314 پیارا خطابات اسی اے دل تو جاں فدا کر بہت ہی بابرکت وجود تھا جو ایک ابر رحمت کی طرح قریباً سترہ سال جماعت پر برستا رہا.حضرت مصلح موعود کے لمبے دور خلافت کے بعد آٹھ نومبر 1965ء کو آپ نے مسند خلافت پر قدم رکھا اور آخری سانس تک دین اسلام کی سربلندی کے لئے آپ کا ہرلمحہ وقف رہا.آپ کی پیدائش سے بہت پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی خلافت کی خبر دی گئی تھی.طالمود میں اللہ تعالیٰ نے آنے والے مسیح کے متعلق پیشگوئی کی تھی کہ اس کے بعد اس کا بیٹا اور پھر پوتا جانشین ہو گا.اس کے علاوہ خود حضرت موعود آخرالزمان کو اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا.إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَافِلَةً لَّک ہم ایک پوتے کی تجھے بشارت دیتے ہیں.( تذکرہ صفحہ 519) نيزانَا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَافِلَةٌ لَّكَ نَافِلَةٌ مِنْ عِنْدِی ( تذکرہ صفحہ 500 ) اس کے علاوہ حضرت اقدس کو آپ کے متعلق اور بھی الہامات ہوئے جن میں آپ کے متعلق بشارت دی گئی.اِنَا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَلِيمٌ ( تذکره صفحه 619) اور دوبارہ اسی الہام کے ساتھ یہ بشارت بھی دی گئی کہ يَنزِلُ مَنْزِلَ المبارک ( تذکرہ صفحہ 622 ) وہ مبارک احمد کی شبیہ ہوگا.پھر بشارت دی سَاهَبُ لَكَ غُلَامًا زَكِيَّا رَبِّ هَبْ لِى ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يحى ( تذکرہ صفحہ 626) میں تجھے ایک پاک لڑکا دوں گا.اے میرے رب مجھے پاک اولاد عطا فرما.ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام کي ہوگا.چنانچہ حضرت ب مبارکہ بیگم صاحبہ سے روایت ہے کہ اس الہام کے مطابق حضرت اماں جان حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو بچپن میں کبھی کبھی بیچی کہہ کر بھی بلا یا کرتی تھیں.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ان آسمانی بشارتوں کے مصداق اور حضرت اقدس کے نافلہ موعود تھے.حضرت سیدہ اماں جان نے بچپن سے ہی آپ کو اپنی تربیت میں لے لیا تھا.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی ایک روایت ہے وہ لکھتی ہیں.عزیزی ناصر احمد کو پہلے قرآن مجید حفظ کروایا گیا دوسری تعلیم برائے نام ساتھ

Page 340

خطابات مریم 315 خطابات ساتھ چلتی تھی ایک دن حضرت اماں جان کے پاس محمد احمد ،منصور احمد اور ناصر احمد تینوں بیٹھے تھے میں بھی تھی.بچوں نے بات کی شاید حساب یا انگریزی ناصر احمد کو سمجھ نہیں آتا ہمیں زیادہ آتا ہے.اتنے میں حضرت بھائی صاحب ( حضرت مصلح موعود ) تشریف لائے.حضرت اماں جان نے فرمایا کہ ”میاں ! قرآن شریف تو ضرور حفظ کراؤ مگر دوسری پڑھائی کا بھی انتظام ساتھ ساتھ ہو جائے.کہیں ناصر احمد دوسرے بچوں سے پیچھے نہ رہ جائے مجھے یہ فکر ہے.اس پر جس طرح آپ مسکرائے تھے اور جو جواب آپ نے حضرت اماں جان کو دیا تھا وہ آج تک میرے کانوں میں گونجتا ہے.فرمایا.اماں جان آپ اس کا فکر بالکل نہ کریں.ایک دن یہ سب سے آگے ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ.اب سوچتی ہوں کہ کیسی ان کے منہ کی بات خدا تعالیٰ نے پوری کر دی علم عام بھی اور علم خاص دینی بھی اور آب قبائے خلافت عطا فرما کر سب کے آگے کر دیا.(ماہنامہ مصباح نومبر دسمبر 1978ء) حضرت مصلح موعود کو بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی پیدائش کی خبر دی ہوئی تھی کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہوگا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہوگا.8 /نومبر 1965ء کو آپ خلیفہ ہوئے اور 9 نومبر کی شام کو حضرت مصلح موعود کا جنازہ پڑھانے سے قبل آپ نے ایک عہد کیا اسی طرح جس طرح حضرت مصلح موعود نے حضرت اقدس کے جسد مبارک کے سرہانے کھڑے ہو کر کیا تھا.حضرت خلیفۃ اصبح الثالث نے فرمایا :.میں چاہتا ہوں کہ نماز جنازہ ادا کرنے سے قبل ہم سب مل کر اپنے رب رؤف کو گواہ بنا کر اس مقدس منہ کی خاطر جو چند گھڑیوں میں ہماری آنکھوں سے اوجھل ہونے والا ہے اپنے ایک عہد کی تجدید کریں اور وہ عہد یہ ہے کہ ہم دین اور دین کے مصالح کو دنیا اور اس کے سب سامانوں اور اس کی ثروت اور وجاہت پر ہر حال میں مقدم رکھیں گے اور دنیا میں دین کی سر بلندی کے لئے مقدور بھر کوشش کرتے رہیں گئے“.(الفضل 11 نومبر 1965ء) اے جانے والے ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے اپنے سترہ سالہ دور خلافت میں اپنے

Page 341

خطابات مریم 316 خطابات اس عہد کو پورا کیا اور آپ اپنے آخری سانس تک دین کی سر بلندی کے لئے کوشش کرتے رہے.مسجد سپین جس کا افتتاح آپ کی وفات کے بعد ہوا آپ کی زندگی میں مکمل ہو کر افتتاح کے متعلق انتظامات ہو چکے تھے اسی طرح مغربی افریقہ کے ملک ٹوگو میں آپ کی وفات سے صرف تین دن قبل یعنی 6 جون کو پہلی مسجد کا افتتاح ہوا.8 /نومبر 1965ء کو خلیفہ ہوتے ہی آپ نے اپنے رب سے قبولیت دعا کا نشان مانگا.جس کا اظہار آپ نے اپنی خلافت کے پہلے خطبہ جمعہ میں 12 رنومبر 1965ء کو کیا.آپ نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں آپ کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرسکوں.اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں آپ کے دکھوں اور غموں کو اپنی دعاؤں سے دور کرسکوں میں تو انتخاب کے وقت سے ہی خاص طور پر یہ دعا کر رہا ہوں کہ اے خدا میری دعاؤں کو قبول کر.چونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے ہزاروں ایسے ہوں گے کہ چھوٹی یا بڑی تکلیف میں مجھے لکھیں گے اور کہیں گے کہ ہمارے لئے دعا کریں تو میری یہ دعا ہے کہ ایسے موقع پر میرا خدا مجھے شرمندہ نہ کرے بلکہ اس ذمہ داری کے نبھانے کے لئے قبولیت دعا کی جو ضرورت ہے وہ قبولیت دعا کا نشان مجھے عطا کرے.اس لئے نہیں کہ میں اس ذریعہ سے دنیا کے مال و اسباب حاصل کرنا چاہتا ہوں بلکہ اس لئے کہ میں آپ کے دکھوں اور دردوں اور تکلیفوں کو دور کر سکوں اور آپ کی ترقیات کی جو خواہش میرے دل میں پیدا کی گئی ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے سامان پیدا ہو جائیں اور خدا کرے ہمارا یہ قافلہ اسی اتحاد اور اتفاق کے ساتھ دنیا کے تمام ملکوں میں دنیا کے تمام شہروں اور ان شہروں کے ہر گلی کوچہ میں بڑھتا چلا جائے اور خدا تعالیٰ کا یہ منشاء پورا ہو کہ اسلام دنیا میں پھر غالب آ جائے گا.(الفضل 18 نومبر 1965ء) زمین و آسمان گواہ ہیں کہ قبولیت دعا کے نشان کو پوری شان سے چمکتے ہوئے دنیا نے دیکھا اور اس سے بہرہ ور ہوئی.

Page 342

خطابات مریم 317 خطابات جس طرح حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں اسلامی حکومت کی سرحدیں بہت دور تک پھیل گئی تھیں اور ان میں وسعت پیدا ہوئی.کئی ملک فتح ہوئے اسی طرح آپ کے دور خلافت میں جماعت نے نمایاں ترقی کی.186 نئی مساجد تعمیر ہوئیں.9 ممالک میں نئے مشن کھولے گئے.افریقہ کے ممالک میں متعدد ہسپتال اور سکول کھولے گئے.بیرون پاکستان بہت بڑی جماعتیں قائم ہوئیں.جماعت کی ترقی کا اظہار نمایاں طور پر اس امر سے ہوتا ہے کہ 1965ء کے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد اسی ہزار تھی اور 1981ء کے جلسہ سالانہ میں دولاکھ سے زائد.ایک مختصر سا جائزہ ان تحریکات کا جو آپ نے اپنے دورِ خلافت میں جاری کیں پیش کرتی ہوں.خلیفہ منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلی تحریک آپ نے فضل عمر فاؤنڈیشن کی جاری کی.تا کہ وہ منصوبے جو حضرت مصلح موعود نے شروع فرمائے تھے ان کی تکمیل ہو اس کے تحت کئی لاکھ کے خرچ سے فضل عمر فاؤنڈیشن کا دفتر ، خلافت لائبریری کی عمارت اور ایک گیسٹ ہاؤس تعمیر ہوا.حضرت مصلح موعود کے خطبات عید ، عید الفطر، عیدالاضحیہ اور خطبات النکاح شائع ہوئے اور آپ کی سوانح کی ایک جلد شائع ہو چکی ہے.1970ء میں جب آپ نے مغربی افریقہ کا دورہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت جہاں ریز روفنڈ کی سکیم آپ کے دل میں ڈالی گئی اور آپ نے وہاں سے واپسی پر نصرت جہاں لیپ فارورڈ پروگرام جماعت کے سامنے رکھا جو تمام کا تمام مغربی افریقہ کے باشندوں کی بھلائی اور بہتری کے لئے تھا.جس کے نتیجہ میں اس سکیم کے ماتحت نائیجریا میں چھ میڈیکل سینٹر، دس سکول، غانا میں پانچ میڈیکل سینٹر اور چھ سیکنڈری سکول ، لائبیریا میں ایک میڈیکل سینٹر اور ایک سیکنڈری سکول گیمبیا میں چار نئے میڈیکل سینٹر اور سیرالیون میں چار میڈیکل سینٹر اور سات سیکنڈری سکول کھل چکے ہیں.کل 19 ہسپتال اور 24 سکول ہیں.اس کے علاوہ تحریک جدید دفتر سوم کا اجراء.وقف جدید دفتر اطفال کا اجراء.رسومات کے خلاف جہاد کی تحریک.یہ تحریک کہ اس بات کی نگرانی کی جائے کہ کوئی رات کو بھوکا نہ سوئے.وقف عارضی کی سکیم تنظیم موصیان و موصیات کا قیام ، قرآن مجید پڑھانے کی تحریک کہ

Page 343

خطابات مریم 318 خطابات کوئی بچہ ناظرہ پڑھنے سے محروم نہ رہ جائے اور ترجمہ پڑھنے والی عمر میں ترجمہ پڑھایا جائے.بورڈ اور یونیورسٹی کے امتحانوں میں اوّل ، دوم، سوم آنے والے طلباء اور طالبات کو طلائی تمغہ جات دینے کا فیصلہ نیز یہ ہدایت کہ ہر بچہ اپنا سالانہ نتیجہ خلیفہ وقت کو بھجوائے اور ہر لڑ کا کم از کم میٹرک اور ہرلڑ کی کم از کم مڈل تک ضرور پڑھے.آپ کے خلیفہ منتخب ہونے کے کچھ عرصہ بعد حضرت اقدس کی یہ پیشگوئی کہ 'بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈ میں گئے پوری ہوئی.گیمبیا کے سر براہ مملکت ایف.ایم.سنگھائے نے احمدیت قبول کر کے حضرت اقدس کے کپڑوں سے برکت پائی جو حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اُن کے لئے بھجوائے.آپ کے دور خلافت میں قرآن مجید کی کثیر اشاعت ہوئی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاما بھی فرمایا تھا کہ آپ کی خلافت میں سب خلافتوں سے زیادہ قرآن مجید کی اشاعت ہوگی.چھ زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ شائع ہوا.فریج اور ڈینش میں ترجمہ تیار ہے.ہوٹلوں، لائبریریوں میں ہزاروں کی تعداد میں قرآن مجید رکھوائے گئے.ہر ملک میں فولڈرز کی اشاعت بہت کثیر تعداد میں ان کی زبان میں کی گئی جس سے احمدیت کا مختصر تعارف اُن کی اپنی زبان میں ہو گیا.28 جولائی 1967ء کو آپ نے لندن میں امن کا پیغام اور حرف انتباہ کے نام سے تقریر فرمائی جس میں حضور نے یورپ کو ہوشیار کیا کہ اگر انہوں نے اپنی اصلاح نہ کی تو تیسری جنگ عظیم سے انہیں دو چار ہونا پڑے گا اور تیسری جنگ عظیم کا خاتمہ اسلام کی فتح کے آغاز پر ہو گا.آپ کی تحریکات میں سب سے بڑی تحریک صد سالہ جو بلی فنڈ کی تحریک تھی جس کا اعلان آپ نے جلسہ سالانہ 1973ء کے موقع پر فرمایا یہ کہتے ہوئے کہ 23 مارچ 1989 ءکو جب جماعت کے قیام کو ایک سو سال پورے ہو جائیں گے جماعت صد سالہ جوبلی منائے گی.درمیانی 16 سالہ عرصہ کے لئے آپ نے تبلیغ اور اشاعت کا ایک جامع منصوبہ جماعت کے سامنے پیش فرمایا.جو مشتمل تھا تمام ممالک میں مشنوں کے قیام، مساجد کی تعمیر ، قرآن کریم کے تراجم اور کم از کم سو زبانوں میں اسلام کے لٹریچر کی اشاعت اور قرآن کریم کی اشاعت جہاں بھی براڈ کاسٹنگ سٹیشن کی اجازت ملے اس کے لگانے پر.اس کے ماتحت سویڈن، ناروے،

Page 344

خطابات مریم 319 خطابات سپین میں مساجد تعمیر ہوئیں.انگلستان میں پانچ نئے مراکز بن چکے ہیں.جاپان میں نیا مشن ہاؤس نا گویا میں خریدا گیا.کینیڈا میں کیلگری میں مسجد اور دار التبلیغ کے لئے زمین خریدی جا چکی ہے.تراجم کچھ شائع ہوئے کچھ ہونے والے ہیں.اس سکیم کا دوسرا حصہ روحانی پروگرام پر مشتمل تھا یعنی ہر ماہ کے آخر میں ایک روزہ با قاعدگی سے رکھنا اور دعاؤں کا پروگرام.1974 ء کا سال جماعت احمدیہ کے لئے ایک ابتلاء کا سال تھا کئی لوگ شہید ہوئے کئی گھر لوٹے گئے جماعت کو مصائب کے طوفانوں میں سے گذرنا پڑا.آپ نے ان دنوں مسکراتے چہرہ کے ساتھ جماعت کو اس طوفان میں سے جس طرح گزار اوہ آپ ہی کا حصہ تھا.نفرت کے بدلہ پیار، ظلم کے بدلہ احسان کا سبق دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر وقت مسکراتے رہو کوئی تمہاری مسکراہٹ نہ چھین سکے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً فرمایا وَسِعُ مَكَانَكَ إِنَّا كَفيناكَ الْمُسْتَهْزِئين کس شان سے پورا ہوا.ہم نے خود استہزا کرنے والوں کا انجام دیکھا.حضرت مصلح موعود نے سچ فرمایا تھا کہ میں اس شخص کو جسے خدا خلیفہ ثالث بنائے گا ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ....جو بھی اس سے ٹکر لے گا.ریزہ ریزہ ہو جائے گا.کس شان سے اللہ تعالیٰ کی یہ بات پوری ہو گئی.الحمد للہ الحمد للہ.1978 ء میں لندن میں کسر صلیب کا نفرنس کا انعقاد آپ کا ایک بہت عظیم کا رنامہ ہے.عیسائیوں کی طرف سے دیئے گئے مناظرہ کے چیلنج کو قبول فرمایا لیکن آج تک مقابلہ کیلئے کوئی تیار نہیں ہوا.1980 ء کے دورہ میں محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں کا نعرہ آپ نے بلند کیا.جس کو سن کر دنیا چونک پڑی اور خصوصا وہ قومیں جو ہمیشہ ہی طاقتوروں کا شکار ہوتی چلی آئی ہیں.آپ کی خلافت میں ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو نوبل پرائز ملا اور حضرت موعود آخر الزمان کی یہ پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی کہ :.” میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے“.(روحانی خزائن جلد 20 ، تجلیات الہیہ صفحہ 409) سات دورے آپ نے غیر ممالک کے کئے اور ہر دورے کے بعد ان ملکوں کے کام اور

Page 345

خطابات مریم 320 خطابات جماعت کی ترقی کی رفتار میں نمایاں اضافہ ہوا.ہر دورے میں قریباً ہر ملک میں پریس کانفرنسیں ہوئیں جہاں اسلام کے دشمنوں نے بڑی شوخی سے اسلام پر اعتراضات کئے لیکن ہر جگہ آپ کی اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی اور مدلل و مسکت جوابات سے ان کے منہ بند کر کے اسلام کی فوقیت عیسائیت اور دیگر مذاہب پر ثابت کی.غرض اللہ تعالیٰ نے ہر قدم پر آپ کو اپنے دورِ خلافت میں فتوحات عطا فرمائیں اور حضرت مصلح موعود کے منہ سے نکلی ہوئی بات بڑی شان سے پوری ہوئی کہ دیکھو میں بھی آدمی ہوں اور جو میرے بعد آئے گا وہ بھی آدمی ہو گا جس کے زمانہ میں فتوحات ہونگی اور ہم خلافت ثالثہ کے بابرکت دور کی عظیم الشان فتوحات کے عینی شاہد ہیں جس کا دائرہ افریقہ سے لے کر سپین تک امریکہ کینیڈا جزائر میں پھیلا ہوا ہے جس سے احمدیت کی سچائی صاف ظاہر ہوتی ہے.دوصدیوں پر آپ کا دورِ خلافت پھیلا ہوا ہونے کی وجہ سے آپ نے خلیفہ ذوالقرنین کا لقب پایا.لیکن سب سے بڑا کارنامہ اس مرد مجاہد کا سپین میں مسجد کی تعمیر ہے جس کی وجہ سے آنے والی نسلیں ابدالاباد تک آپ پر سلامتی بھیجیں گی اور آپ کیلئے دعا کریں گی.ساڑھے سات سو سال سے جس سرزمین پر کبھی خدائے واحد کا نام نہ لیا گیا مسلمانوں کو جہاں سے زبردستی نکالا گیا اور شدید ترین مظالم ان پر توڑے گئے.ہاں اس سرزمین پر جہاں بڑی شان سے مسلمانوں نے حکومت کی تھی.بڑے بڑے فلاسفر اور سائنس دان اس سرزمین نے پیدا کئے تھے اور پھر اس شان و شوکت کے بعد دنیا نے وہاں شرک کے اندھیرے بھی دیکھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے 1970 ء میں رو رو کر اپنے رب سے دعائیں مانگیں اور اپنے آنسوؤں سے اس سرزمین کو تر کر دیا کہ خدا یا کوئی صورت نکال کہ مسلمان پھر اس سرزمین پر اپنے قدم رکھیں پھر تیرا نام یہاں بلند ہو اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو سنا.تسلی دی کہ آپ کی دعائیں ضرور پوری ہونگی.مگر اس کے لئے ایک وقت مقرر ہے.چنانچہ 1980ء میں دس سال بعد وہ وقت آ گیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت ا و رحمت سے بڑی دعاؤں کے ساتھ آپ نے مسجد کا سنگ بنیا د رکھتے ہوئے آئندہ اسلام کی فتوحات کا بیج بویا.مسجد تعمیر ہوگئی اور 10 ستمبر کو حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کا پُر سوز دعاؤں سے افتتاح فرمایا.اس دن جہاں ہر دل خوشی سے اللہ تعالیٰ کی حمد کے

Page 346

خطابات مریم 321 خطابات ترانے گا رہا تھا وہاں ہر دل حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی یاد میں غمگین بھی تھا اور اس مرد مجاہد کے لئے دعائیں کر رہا تھا جس نے مسجد کی بناء ڈالی تھی.اللهم ارفع درجاته و ادخله في اعلیٰ علیین.آپ کا وجو دساری جماعت کے مرد عورتوں بچوں کے لئے ایک ابر رحمت کی طرح تھا.بچوں نے تو خصوصاً آپ سے بہت ہی پیار حاصل کیا.ساری جماعت نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار نشان اور پیار کے جلوے دیکھے اور صرف آپ کی زندگی میں ہی نہیں بلکہ آپ کی وفات کے بعد بھی جب کہ کیفیت یہ تھی کہ بے حد تیز رفتاری سے چلتی ہوئی سواری یک لخت رُک جائے اور سر چھت سے یا آپس میں ٹکرا جائیں.کچھ اس قسم کی کیفیت احمدیوں کی تھی مگر ہمارا صادق الوعد خدا جس کا وعدہ ہے کہ وہ خوف کو امن سے بدل دیتا ہے اور جماعت کو خلافت کے ذریعہ تمکنت دیتا ہے جس نے نہ پہلے کبھی جماعت کو لاوارث چھوڑا نہ آئندہ چھوڑے گا اپنے وعدوں کے مطابق غمگین دلوں کو سہارا دیتے ہوئے ساری جماعت کو پھر ایک ہاتھ پر متحد کر دیا اور ایک بار پھر یہ راز دنیا پر آشکار کر دیا کہ خلافت قومی اتحاد کی جان ہے اور ہماری ساری ترقیاں خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں.اے جانے والے تجھ پر سلام کہ تو نے اپنے عہد کو خوب نبھایا اور اے آنے والے اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کرے اور تیرے عہد میں پہلے سے بہت بڑھ کر جماعت کو ترقی ہو.تیری قیادت میں ہمیں شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھنے کی اور قربانیاں پیش کرنے کی توفیق ملے.ہمارا رب ہم سے راضی ہو ہم عہد کرتے ہیں کہ ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہتے ہوئے حضور کی اطاعت کریں گی.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.لجنہ اماءاللہ کے قیام پر ساٹھ سال پورے ہو رہے ہیں.ایک طویل عرصہ ہے جس کا لمحہ لمحہ ممبرات لجنہ اماءاللہ کی قربانیوں پر محیط ہے لیکن ابھی تک اپنا مقصد کہ سو فیصد عورتوں کی اصلاح ہو اور صحیح رنگ میں تربیت ہو حاصل نہ کر سکیں ہر عورت اتنی دینی تعلیم سے واقف ہو کہ ایک مبلغ بن جائے اور اس کا نمونہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہو جس کو دیکھ کر دوسری خواتین یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ ہم ان کو کہتے تو غیر مسلم ہیں لیکن اگر اسلام کا نمونہ دیکھنا ہے تو اس جماعت کی خواتین میں جا کر دیکھو.یہ مقام ابھی دور ہے اور اس کی طرف توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے.صرف سات سال کا عرصہ جماعت کے قیام کی پہلی صدی ختم ہونے میں رہ گیا ہے.ان

Page 347

خطابات مریم 322 خطابات سات سالوں میں بہت ضرورت ہے محنت کی.یوں تو ہر سال لجنہ کے کاموں کے لئے اس سال کا لائحہ عمل شائع کیا جاتا ہے لیکن اس سال چند باتوں کی طرف میں خصوصی توجہ دلاتی ہوں.اور آپ سے امید کرتی ہوں کہ میرے ساتھ پورا پورا تعاون کریں گی.1.سب سے پہلے تو پاکستان کے ہر شہر، قصبہ اور گاؤں میں لجنہ منظم ہو.ہمارے رجسٹر پر پاکستان کی 656 لجنات کے پتے درج ہیں لیکن ماہانہ رپورٹیں کم و بیش 164 لجنات کی طرف سے آتی رہی ہیں.سالانہ رپورٹیں اس سال 115 گذشتہ سال 108 لجنات کی طرف سے آئی ہیں.اجتماع پر نمائندگی بھی سو فیصد بجنات کی طرف سے نہیں ہوئی جب تک آپ اپنی زندگی کا ثبوت نہیں دیں گی کیسے ہمیں آپ کے کاموں اور ترقی کی رفتار کا علم ہوسکتا ہے.پس اس سال ہر ضلع کی صدر مرکزی سیکر ٹریان اور خود ہر لجنہ کوشش کرے کہ مرکزی لجنہ سے اس کا مضبوط تعلق قائم ہو.خلافت سے اس کا مضبوط تعلق قائم ہو.ہر صدر لجنہ ضلع اپنے امیر ضلع سے جماعتوں کی فہرست لے کر اتنی ہی لجنات قائم کرے.یہ امر بے شک خوشی کا موجب ہے کہ اس دفعہ چندہ دہندہ لجنات کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے.656 لجنات میں سے 562 لجنات نے اس سال چندہ دیا ہے اور گذشتہ سال کی چندہ دہندہ لجنات سے 91 لجنات کا اضافہ ہوا ہے صرف 94 لجنات ایسی باقی رہ گئی ہیں جن کی طرف سے اس سال کا چندہ نہیں آیا.اس کا سہرا صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ سیکرٹری مال اور ان کے عملہ اور ان ضلعی صدروں کے سر پر ہے جنہوں نے دورے کر کے اپنی بجنات سے چندے وصول کر کے بھجوائے.صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ تین سال سے سیکرٹری مال ہیں اور اس شعبہ نے ان کی زیر قیادت نمایاں ترقی کی ہے.ضلعی صدروں میں سے صادقہ میر صاحبہ گوجرانوالہ کا کام قابل تعریف ہے.ضلع گوجرانوالہ میں ساٹھ جماعتیں ہیں مگر انہوں نے اپنی کوشش سے 71 مقامات پر لجنہ کا قیام کر دیا.ان صدروں کو چاہئے کہ اپنے ضلع میں صرف چندوں پر ہی زور نہ دیں بلکہ قرآن مجید کی تعلیم اور تربیت پر بھی بہت زور دیں.ان کے ضلع سے سو فیصد لجنات نے چندہ دیا ہے ان کے علاوہ ضلع سرگودھا، گجرات ، لا ہور ، وہاڑی، قـ ، قصور، راولپنڈی ، اٹک، پشاور ، سکھر اور کراچی کی مجالس نے بھی سو فیصد چندہ ادا کیا ہے.اللہ تعالیٰ

Page 348

خطابات مریم 323 خطابات ان کی اور سب کا رکنات کی قربانی قبول فرمائے.لیکن مجھے ہر شہری لجنہ پر ابھی شک ہے کہ آپ پوری تعداد نہیں ظاہر کرتے صرف چندہ دہندگان کی تعداد دیتی ہیں.یہ تو اپنے آپ سے بھی دھوکہ ہے اور اپنے رب سے بھی.اس سال ماہنامہ مصباح کے شعبہ نے بھی نمایاں ترقی کی ہے.خریداروں کے ذمہ کئی کئی سال کے بقایا جات تھے وہ ان سے وصول کئے گئے.خریداری میں بھی اضافہ ہوا ہے.پر چہ کا معیار پہلے سے بہتر ہوا.گو اب بھی جیسا ہونا چاہئے نہیں ہے.قرضہ کے جال میں سے پرچہ نکلا اور ادارت اور مینیجری کا انتظام الگ الگ کر دیا گیا.منصورہ بیگم نمبر کا خصوصی ایڈیشن شائع کیا گیا اور دسمبر میں انشاء اللہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی یاد اور سیرت پر مشتمل پر چہ مرتب کیا جا رہا ہے.صاحب قلم بہنیں پوری طرح تعاون کریں.اسی طرح دوسرے شعبہ جات کی سیکرٹریوں کو بھی محنت کرنی چاہئے اور ہر ست لجنہ کو بیدار کرتے ہوئے تربیت کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے.باقی شعبہ جات میں سے شعبہ تعلیم اور ناصرات ترقی پر ہیں.دوسرا اہم امر جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلاتی ہوں یہ ہے کہ 1978ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اپنی اجتماعی زندگی کو بدعات سے پاک وصاف کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا تھا." مجھے جو فکر دامن گیر رہتا ہے وہ یہ ہے کہ دس گیارہ سال کے بعد ہم اپنی زندگی کی اس صدی میں داخل ہو رہے ہیں جس صدی کو ہم اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق اور اپنی فراست کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ غلبہ اسلام کی صدی ہے تو یہ جو ہماری جماعتی زندگی کی دوسری صدی شروع ہونے والی ہے جس سے قبل قریباً دس سال رہتے ہیں (آب ساڑھے چھ سال رہ گئے ہیں ) ان دس سالوں میں (لجنہ اماءاللہ کا پروگرام میں یہ بنا رہا ہوں جس کا آج اعلان کر رہا ہوں ) عالمگیر جماعت احمدیہ کی اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کو ہرقسم کی بڑی یا چھوٹی بدعت سے پاک کیا جائے گا یا پھر علیحدہ ہو جاؤ.مسیح پاک کی اس پاک جماعت سے“.(المصابیح صفحہ 350) حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی راہ نمائی میں ہماری بھر پور کوشش ہو کہ ہمارے

Page 349

خطابات مریم 324 خطابات معاشرہ میں کوئی بدعت نہ رہے خصوصاً دیہات کی لجنات کو اس طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.عاجزہ نے اپنی ایک گذشتہ تقریر رسومات کے متعلق مزید حوالہ جات کے اضافوں کے ساتھ شائع کروائی ہے ہر لجنہ اپنے ساتھ وہ لے کر جائے اور کوشش کریں کہ علاوہ اجلاسوں میں سنانے کے ہر گھر میں یہ رسالہ پڑھا جائے اور لجنہ اماءاللہ اس کا اتنا چرچا کرے کہ بہنوں کو سمجھ آ جائے کہ کیا بدعات ہیں کن باتوں پر ہم نے عمل کرنا ہے اور کن سے بچنا ہے.اور جہاں بھی کوئی ایک بھی رسم یا بدعت پائی جاتی ہوا سے ترک کر دیا جائے.عدم علم کی وجہ سے اور جہالت کی وجہ سے بدعات پھیلتی ہیں جب اصل مسائل کا علم ہو جائے.قرآن مجید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے فتاوی کی روشنی میں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط تو جان بوجھ کر کوئی زہر نہیں کھاتا.کسی صدر کے علم میں کوئی واقعہ آئے تو وہ چین نہ لے جب تک اس کی اصلاح نہ کر لے.تیسری بات جس کی طرف خصوصی توجہ تمام عہدیداران کو دلاتی ہوں وہ یہ ہے کہ عورتیں اپنے دائرہ ملاقات میں تبلیغ کی طرف بہت توجہ دیں.غلط فہمیاں دور کریں آپ کی ہر ملنے جلنے والی کو آپ کے صحیح عقائد کا علم ہونا چاہئے اور جماعت احمدیہ پر جو غلط اعتراضات لوگ کرتے ہیں ان کی تردید کرنی چاہئے.جماعت کے متعلق بجائے تحقیق کرنے کے سنی سنائی بات لوگ دہرا دیتے ہیں.اس لئے ہر احمدی عورت اپنا دائرہ تعلقات بڑھائے اور ان کی احمدیت کے متعلق غلط فہمیاں دور کر کے اس تک احمدیت کا پیغام پہنچائے.چوتھی چیز جس کی طرف آپ کو توجہ دلانی چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ عورتوں میں تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود لکھنے کی طرف بہت کم توجہ ہے میں چاہتی ہوں جس طرح خدام الاحمدیہ نے بچوں کے لئے کتب لکھوا کر شائع کی ہیں.اسی طرح ہماری تعلیم یافتہ خواتین ازواج مطہرات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابیات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابیات حضرت اقدس کے متعلق چھوٹی چھوٹی آسان زبان میں کتب لکھیں لیکن جو بھی لکھے وہ پہلے لجنہ مرکز یہ سے منظوری لے لے تا کہ ایک عنوان پر ہی کئی بہنیں لکھنا نہ شروع کر دیں.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا کرے کہ ہم اپنی زندگیاں اسلام کی تعلیم کے مطابق ڈھالیں اور

Page 350

خطابات مریم 325 خطابات ہمارا معاشرہ اس دنیا میں جنت بن جائے.جس کو دیکھ کر دوسری قو میں بھی اس کی طرف پناہ لینے کو دوڑیں.پس بہت ضرورت ہے اپنی اولاد کی تربیت کی ، ان کو وقف کرنے کی ، ان کو اپنی تعلیم سے واقف کرانے اور قربانیاں دینے کی تا وہ دن جلد آئے جب حضرت اقدس کی یہ پیشگوئی پوری شان کے ساتھ پوری ہو کہ :.”اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کی رُو سے سب پران کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلے میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک جو اس کے معدوم کرنے کی فکر رکھتا ہے نا مراد رکھے گا.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.( تذکرۃ الشہادتین صفحه 66) (ماہنامہ مصباح نومبر 1982ء)

Page 351

خطابات مریم 326 خطابات اجتماعی زندگی کے دوا ہم خلق سچ بولنا اور بدظنی سے اجتناب (لجنہ اماءاللہ ربوہ کے سالانہ اجتماع 1982ء کے موقع پر اختتامی خطاب ) اپنی بہنوں کو میں دو باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتی ہوں اور یہ ہماری اجتماعی زندگی میں بہت بڑی اہمیت کی حامل ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کو آپ کے آنے کی غرض اِن الفاظ میں بیان فرمائی کہ يُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَة ( تذکرہ صفحہ 55) یعنی آپ اسلام کو پھر سے زندہ کریں گے.قرآن مجید کی تعلیم پر پھر اپنے ماننے والوں کو چلائیں گے اور قرآن کی حکومت کو ان کے دلوں پر قائم کریں گے.حضرت اقدس کے ماننے والوں نے صحابہ کرام کا نمونہ دنیا کو اپنے عمل سے دکھا دیا.اللہ تعالیٰ کے مقرب بنے خلفائے سلسلہ کے زمانہ میں جماعت نے ترقی کی.جہاں کامل مومن قربانی دینے والے پیدا ہوئے ایسے وجود جن کو بطور نمونہ پیش کیا جا سکتا ہے.وہاں کمزور عمل والے بھی ہیں اس لئے ہم سب کا فرض ہے جہاں عملی کمزوری دیکھیں اسے پورے طور پر اپنے معاشرہ سے دور کرنے کی کوشش کریں.لجنہ اماءاللہ کے عہدہ داروں کا یہ ایک اہم فرض ہے.آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے جہاں ذراسی بھی بُرائی دیکھو اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت رکھتے ہو تو ہاتھ سے روکو.ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے روکو یعنی نصیحت کے ذریعہ ورنہ دل میں ہی اُسے بُرا سمجھو.جن دو باتوں کی طرف میں توجہ دلانا چاہتی ہوں ان میں سے ایک خلق جو تمام اعلیٰ اخلاق کی بنیاد ہے سچ بولنا ہے.قرآن کریم نے سچ بولنے اور بچوں کی صحبت اختیار کرنے پر بہت زور دیا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصديقين (توبة (119) اے مومنو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کی جماعت میں شامل ہو جاؤ.

Page 352

خطابات مریم 327 خطابات اسی طرح فرماتا ہے.قف فاذا عزم الأمرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللهَ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ (محمد :22) اگر وہ اللہ کے حضور سچے بنتے یعنی جو اطاعت کا وعدہ کیا تھا پورا کر دیتے تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا.اسی طرح فرماتا ہے :.قُولُو قَوْلاً سَدِيدًا (احزاب (71) ایچ بیچ والی دھوکہ دینے والی بات ایسی بات جس سے منافقت کی بو آئے نہ کہو.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت کی عورتوں اور بچیوں میں صداقت کا وہ بلند معیار قائم نہیں رہا جو قرآن کا معیار ہے جو آنحضرت ﷺ کا پیش کردہ معیار ہے ایک زمانہ تھا کہ باوجود اختلاف عقائد کے اگر گواہی کا سوال ہوتا تھا تو سب سے سچی اور قابل اعتبار گواہی ایک احمدی کی سمجھی جاتی تھی صرف اس لئے کہ وہ احمدی ہے جھوٹ نہیں بولے گا.آنحضرت ﷺ نے سچ بولنے کی بہت تاکید فرمائی ہے اور جھوٹ کی بے حد مذمت کی ہے.آپ فرماتے ہیں سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف اور جو انسان ہمیشہ سچ بولے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ صدیق لکھا جاتا ہے اور گناہ فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق و فجور جہنم کی طرف اور جو آدمی ہمیشہ جھوٹ بولے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب لکھا جاتا ہے.ایک اور حدیث ہے.حضرت حسن بن علی بیان کرتے ہیں کہ مجھے آنحضرت ﷺ کا یہ فرمان اچھی طرح یاد ہے کہ شک میں ڈالنے والی باتوں کو چھوڑ دو.شک سے مبرا یقین کو اختیار کرو کیونکہ یقین بخش سچائی اطمینان کا باعث بنتی ہے اور جھوٹ اضطراب اور پریشانی کا موجب ہوتا ہے.جھوٹ کی مذمت کے متعلق حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا انسان کے جھوٹے ہونے کیلئے یہی علامت کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات لوگوں میں بیان کرتا پھرے.ایک اور حدیث بہت ہی اہم ہے حضرت ابوبکر بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے

Page 353

خطابات مریم 328 خطابات فرمایا کہ میں تمہیں سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں ہم نے عرض کیا حضور ضرور بتائیں آپ نے فرمایا کہ اللہ کا شریک ٹھہرانا والدین کی نافرمانی کرنا.آپ تکیہ کا سہارا لئے ہوئے تھے جوش میں اُٹھ کر بیٹھ گئے اور بڑے زور سے فرمایا الا وقول الزُورِ دیکھو تیسرا بڑا گناہ جھوٹ ہے آپ نے اس بات کو اتنی دفعہ دہرایا کہ ہم نے چاہا کہ کاش حضور خاموش ہو جائیں.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں عباد الرحمن کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے.وَالَّذِينَ لا يَشْهَدُونَ الرُّور (الفرقان : 73) وہ لوگ جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے.اسی طرح تاکید فرماتا ہے.وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّوْرِ (الحج: 32) جھوٹ سے بچو.احادیث میں ایک شخص کا واقعہ آتا ہے کہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیں جو میں چھوڑ دوں تا میری اصلاح ہو.آپ نے فرمایا صرف جھوٹ چھوڑ دو.اب وہ جس وقت کوئی بُرا کام کرنے لگتا اُسے خیال آتا کہ رسول کریم ع کو پتہ لگ گیا اور آپ نے مجھ سے پوچھا تو جھوٹ میں نے بولنا نہیں اس لئے یہ کام میں نہیں کرتا اسی طرح آہستہ آہستہ تمام برائیاں اس سے دور ہو گئیں.غرض سچ میں بڑی طاقت ہے جیسا کہ حضرت اقدس بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ فرماتے ہیں.راستی کے سامنے کب جھوٹ پھلتا ہے بھلا قدر کیا پتھر کی لعل بے بہا کے سامنے دوسری بات جس کی طرف ہماری خواتین کو خصوصی توجہ کرنی چاہئے وہ ہے افواہیں پھیلانے اور ایک دوسرے تک پہنچانے کی عادت کو ترک کرنا.یہ عادت احمدی خواتین میں نہیں ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماما تا ہے.واذا جاءَهُمُ امْرين الآمن او الْخَوْفِ أَذَاعُوْا بِهِ ، وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أولي الأمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ

Page 354

خطابات مریم 329 خطابات عليْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لا تَبَعْتُمُ الشَّيْطن الاقلِيلاً (النساء : 84) ترجمہ: اور جب بھی اُن کے پاس امن کی یا خوف کی کوئی بات پہنچی تو وہ اسے مشہور کر دیتے اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور اپنے حکام کی طرف لے جاتے تو ان میں سے جو لوگ اس یعنی مقررہ بات کی اصلیت کو معلوم کر لیا کرتے ہیں اس کی حقیقت کو پالیتے اور اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو سوائے چند ایک کے باقی لوگ شیطان کے پیچھے چل پڑتے.ہر ایک سے کہنے سے بُرائی کا سد باب نہیں ہوسکتا ذمہ دار شخص تک بات پہنچانی چاہئے تاوہ اس کا حل سوچیں اور اس بُرائی کو دور کرنے کی کوشش کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی منع فرمایا ہے کہ سنی ہوئی بات جب تک تحقیق نہ کر لومت پہنچاؤ.فرماتے ہیں.نہیں ہے سنی سنائی بات دیکھنے کی طرح اگر دیکھ بھی لی ہے تو بیان نہ کرتے پھر و پردہ پوشی کرو.افواہیں پھیلانے کا سب سے بڑا سبب بدظنی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مَّنَ الظَّنِ رَانٌ بَعْضَ الظَّةِ اثْمَّ (الحجرات: 13) ترجمہ: اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچتے رہا کرو کیونکہ بعض گمان گناہ بن جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے ایک دوسرے کے عیب کی ٹوہ میں نہ رہو.تجسس نہ کرو ا چھی چیز ہتھیانے کی حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، دشمنی نہ رکھو، بے رخی نہ بر تو جس طرح اس نے حکم دیا ہے اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو.مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے وہ اسے رسوا نہیں کرتا اور اسے حقیر نہیں جانتا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بدظنی سے منع فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں:.اگر دل میں تمہارے شر نہیں ہے تو پھر کیوں ظن بد سے ڈر ڈر نہیں ہے کوئی جو ظن رکھتا بد ہے عادت بدی خود وہ رکھتا ہے ارادت

Page 355

خطابات مریم اسی طرح آپ فرماتے ہیں :.330 جو لوگ بد گمانی کو شیوہ بناتے ہیں خطابات تقویٰ کی راہ سے وہ بہت دور جاتے ہیں ہے بے احتیاط ان کی زباں وار کرتی اک دم میں اس علیم کو بے زار کرتی ہے اسی لئے اپنی زبان کی حفاظت بہت ضروری ہے.حضور فرماتے ہیں : دلل دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کر بچائے گا سیدھا خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا وہ اک زباں ہے عضو نہانی ہے دوسرا ہے حدیث سیدنا سید الوری حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ نجات کیسے حاصل ہو.آپ نے فرمایا اپنی زبان روک کے رکھو اسی طرح آنحضرت علی نے عیوب کی پردہ پوشی کرنے کی بڑی تاکید کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اُس کی پردہ پوشی کرے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور آپ کے ارشادات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.(ماہنامہ مصباح مارچ 1983ء)

Page 356

خطابات مریم 331 خطابات الوداعی تقریب مؤرخہ 3 نومبر 1982ء کو لجنہ اماءاللہ لاہور کی مجلس عاملہ نے اپنی سابقہ صدر محترمہ صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ کے جانے پر ایک الوداعی تقریب کا اہتمام کیا جس میں لاہور کے تمام حلقوں کی صدور اور سیکرٹریوں نے شرکت کی چونکہ محترمہ صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ نے نہایت محنت و جانفشانی کے ساتھ بہت ہی مشفقانہ انداز میں ایک طویل عرصہ تک اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ پورے کئے ہیں.چنانچہ آپ کی دینی خدمات کے پیش نظر اس تقریب میں مرکز سے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کو مدعو کیا گیا.تقریب کے اختتام پر آپ نے مختصر خطاب فرمایا : آپ نے یاد دلایا کہ کس طرح لجنہ اماء اللہ کے قیام کے دو سال بعد لجنہ اماءاللہ لا ہور کا قیام عمل میں آیا.پھر وہ دور بھی آیا جس پر ہمیشہ لجنہ لا ہور کو فخر رہے گا کہ حضرت اقدس کی دختر نیک اختر حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ لجنہ لاہور میں صدارت کے منصب ں پر مکن ہوئیں.آپ نے ہمیشہ ہی اپنی بیش قیمت نصائح اور مشوروں سے لجنہ کو نوازا اور ہمیشہ اس کی ترقی کیلئے کوشاں رہیں.آپ کے بعد جب حضرت مصلح موعود کی دختر محترم صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ صدارت کے عہدہ پر فائز ہوئیں تو پورے سترہ برس نہایت دلجمعی ، توجہ، دلچسپی اور خوشدلی کے ساتھ ان تھک جدو جہد کی.یہی وجہ ہے کہ آج لجنہ لا ہور ترقی کی راہ پر گامزن نظر آتی ہیں.آپ نے ایک اور خوبی کا بھی تذکرہ یوں کیا کہ اتنے طویل عرصہ میں لجنہ لاہور کی جانب سے کبھی کسی ناخوشگوار واقعہ کی مرکز میں رپورٹ نہیں آئی اور اس کا سہرا خود صدر لا ہور صاحبزادی امتہ العزیز بیگم کے سر پر ہے کہ انہوں نے نہایت فہم و تد بر تحمل و برد باری اپنی ذاتی خوش اخلاقی کے ساتھ تمام امور نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دیئے کہ ذاتی رنجشوں اور جھگڑے بکھیڑوں کی کبھی نوبت ہی نہ آئی.اس طرح سے آپ ہمیشہ اپنی ممبرات اور کارکنات میں

Page 357

خطابات مریم 332 خطابات ہر دلعزیز سی رہی ہیں.اسی طرح آپ نے نئی صدر سیدہ بشری بیگم صاحبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ نہایت ہی مخلص متقی خاتون محترمہ حضرت اُمّم داؤد صاحبہ اہلیہ حضرت میر محمد اسحق صاحب کی بیٹی ہیں جن کی ساری عمر خدمت دین ہی کے لئے وقف رہی.یہ خود بھی حد درجہ دینی غیرت رکھتی ہیں جہاں بھی رہیں جو بھی کام دین کا سپر د ہوا بڑی تندہی سے بجالائیں آپ نے امید ظاہر فرمائی کہ اب بھی انشاء اللہ تعالیٰ اسی جذ بہ اور لگن کے ساتھ اپنی خدمت بجالائیں گی.آخر میں آپ نے سب بہنوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی نئی سکیم کے تحت اپنی زندگی خدمت دین کیلئے وقف کر دیں یعنی ہر عورت اپنی حیثیت و توفیق کے مطابق خدمت دین بجالائے.خدمت دین تو ایک فضل الہی ہے.کوشش کریں کہ یہ فضل حاصل کرنے والی ہوں پھر آپ نے دعا کی اور یوں یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی.الفضل 20 نومبر 1982ء)

Page 358

خطابات مریم 333 خطابات ذكر حبيب تقریر جلسہ سالانہ خواتین 1982ء) میری آج کی تقریر کا موضوع ذکر حبیب ہے.ذکر حبیب پر تقریر تو اس منہ سے ہی حجتی ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہو اور آپ کی باتیں سنی ہوں میں نے جو کچھ سنا ان صحابہ یا صحابیات سے سنا جنہوں نے وہ باتیں خود حضرت مسیح موعود سے سنی ہیں جو کچھ دیکھا وہ ان آنکھوں سے دیکھا جن آنکھوں نے حضرت مسیح موعود کے مقدس چہرہ کا نظارہ کیا.اللہ تعالیٰ کی ہزاروں رحمتیں نازل ہوں ان پاک وجودوں پر جن کے ذریعہ سے یہ قیمتی سرمایہ ہم تک پہنچا اور جن کے پڑھنے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت آپ کے اخلاق عالیہ سے ہم واقف ہوئے.ان صحابہ کرام میں دو ہستیاں سب سے زیادہ جماعت کے شکریہ کی مستحق ہیں.ایک حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور دوسری حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ جنہوں نے گہری نظر سے آپ کی سیرت کے ایک ایک پہلو کو بیان کیا آپ کا اُٹھنا بیٹھنا، عبادت الہی ، اللہ تعالیٰ پر توکل ، آپ کے اخلاق مخلوق خدا سے سلوک، اسلام کے لئے غیرت ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق.ہم میں سے جو کوئی بھی اس مضمون کو بیان کرے گا وہ انہی ہستیوں اور صحابہ وصحابیات کے بیان کئے ہوئے واقعات میں سے ہی چنے پر مجبور ہوگا اور ان کی بلندی درجات کیلئے دعا کرے گا.واقعات کا انتخاب کرتے ہوئے میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں ان الفاظ کا انتخاب کروں جو خود حضرت مہدی کے منہ سے اپنے بارے میں نکلے ہیں اور جو آپ کی سیرت پر روشنی ڈالتے ہیں چنانچہ اس تقریر میں اکثریت ان حوالہ جات کی ہی ہے جو حضرت مسیح موعود کے بیان فرمودہ ہیں.اللهم صل عـلـى مـحـمـد و علی آل محمد و علی عبدک المسیح الموعود

Page 359

خطابات مریم 334 خطابات کسی انسان کی سیرت بیان کرنے سے قبل اس کے مقصد زندگی کا علم ہو تو سیرت پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کے نتائج کھل کر سامنے آجاتے ہیں کہ وہ انسان جس غرض کے لئے اُٹھا، کیا وہ غرض اس کے وجود سے پوری ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے تا کہ میں زندہ ایمان زندہ خدا پر پیدا ہیں.کرنے کی راہ بتلاؤں‘.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 328) پھر آپ نے فرمایا:.” ہمارا کام اور ہماری غرض ابھی اس سے بہت دور ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرو اور بالکل ایک نئے انسان بن جاؤ“.پھر آپ فرماتے ہیں :.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 352) اللہ تعالیٰ نے ہر زمانہ میں اس کی (یعنی رسول کی.ناقل ) زندگی کا ثبوت دیا ہے چنانچہ اس زمانہ میں بھی اس نے اپنے فضل سے اس سلسلہ کو اسی لئے قائم کیا ہے تا وہ اسلام کے زندہ مذہب ہونے پر گواہ ہو تا خدا کی معرفت بڑھے اور اس پر ایسا یقین پیدا ہو جو گناہ اور گندگی کو بھسم کر جاتا ہے اور نیکی اور پاکیزگی پھیلا تا ہوں“.اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کی سیرت کے چار پہلو بہت ہی نمایاں اور درخشاں 1- اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس پر تو کل -2- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی عشق.3 اسلام کے غلبہ کی شدید تڑپ اور اس کے لئے دعا و جد و جہد 4 بنی نوع انسان کی اصلاح کی تڑپ اور اس کے لئے خود آپ کا نمونہ سب سے پہلا پہلو آپ کی اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کی ذات پر تو کل کا بیان کرنا ہے آپ نے اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ثبوت کے طور پر پیش فرمایا ہے.فرماتے ہیں :

Page 360

خطابات مریم 335 خطابات ” ہماری غرض بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ لوگوں کو اس خدا کی طرف راہ نمائی کریں جسے ہم نے خود دیکھا ہے.سنی سنائی بات اور قصہ کے رنگ میں ہم خدا کو دکھانا نہیں چاہتے بلکہ ہم اپنی ذات اور اپنے وجود کو پیش کر کے دنیا کو خدا تعالیٰ کا وجود منوانا چاہتے ہیں.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 212) کسی ایسے وجود سے انسان محبت نہیں کر سکتا جس سے اس کا ذاتی تعلق نہ ہواس کے اس پر احسان نہ ہوں جس طرح ایک معزز آدمی کے عزیزوں کی بھی لوگ عزت کرنے لگ جاتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے کے لئے بھی خدا تعالیٰ کے نشانات ظاہر ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.غرض ہم جو اشتہار دے دے کر لوگوں کو بلاتے ہیں تو ہماری یہی آرزو ہے کہ ان کو اس خدا کا پتہ دیں جسے ہم نے پایا اور دیکھا ہے اور وہ اقرب راہ بتلائیں جس سے انسان جلد با خدا ہو جاتا ہے.(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 213) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس پر تو کل کا ایک واقعہ سنئے.یہ 1899 ء سے قبل کا واقعہ ہے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بلند پایہ صحابی تھے.لکھتے ہیں کہ قادیان میں حضرت مسیح موعود کے مکان کی تلاشی لینے ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ آئے اس سے پہلے ان کے آنے کی کوئی اطلاع نہ تھی.حضرت میر صاحب نے سنا کہ آج وارنٹ ہتھکڑی سمیت آئے گا تو آپ بے حد پریشان ہو گئے حضرت مسیح موعود کے پاس دوڑے دوڑے گئے حضرت مسیح موعود اس وقت ”نورالقرآن“ لکھ رہے تھے سر اُٹھایا اور مسکرا کر فرمایا:.وو میر صاحب لوگ دنیا کی خوشیوں میں چاندی سونے کے کنگن پہنا ہی کرتے ہیں ہم سمجھ لیں گے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں لوہے کے کنگن پہن لئے.پھر ذرا تامل کے بعد فرمایا:.مگر ایسا نہ ہوگا کیونکہ خدا تعالی کی اپنی گورنمنٹ کے مصالح ہوتے ہیں وہ اپنے خلفائے مامورین کی ایسی رسوائی پسند نہیں کرتا“.(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 202)

Page 361

خطابات مریم 336 خطابات کتنا راضی بر رضا ر ہنے کا جذبہ ہے اپنے آقا کی خاطر ہر تکلیف برداشت کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن ساتھ ہی کتنا تو کل ہے اللہ تعالیٰ پر کہ وہ کبھی آپ کو رسوا نہیں ہونے دے گا.جس سے محبت ہوتی ہے اس کی مرضی مقدم ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کی مرضی مقدم ہونے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.ابتلاء کے وقت ہمیں اندیشہ اپنی جماعت کے بعض ضعیف دلوں کا ہوتا ہے میرا تو یہ حال ہے کہ اگر مجھے صاف آواز آوے کہ تو مخذول ہے اور تیری کوئی مراد ہم پوری نہ کریں گے تو مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ اس عشق اور محبت الہی اور خدمت دین میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی اس لئے کہ میں تو اسے دیکھ چکا ہوں“.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 302) یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے محبت کرتا تھا تو آپ کو اللہ تعالیٰ کا خوف نہ تھا یہ قاعدہ ہے کہ جتنا زیادہ قرب حاصل ہوتا ہے اتنا ہی ڈر بھی ہوتا ہے کہ کوئی غلطی نہ ہو جائے.آپ فرماتے ہیں : رات کے وقت جب ہر طرف خاموشی ہوتی ہے اور ہم اکیلے ہوتے ہیں اس 66 وقت بھی خدا کی یاد میں دل ڈرتا رہتا ہے کہ وہ بے نیاز ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 306) حضرت اقدس کی ساری زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ کی ایک ایک تحریر تقریر نظم و نثر سب عشق الہی میں ڈوبی نظر آتی ہے.ابھی آپ نے دعوئی بھی نہیں کیا تھا آپ خلوت پسند تھے اور پبلک زندگی اختیار نہیں کی جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نہیں ہوا آپ یا مسجد میں رہتے یا الگ تھلگ اپنے کمرہ میں اور دن رات کا بیشتر حصہ عبادت الہی میں بسر ہوتا تھا.آپ کے والد صاحب کو فکر تھی کہ آپ کوئی کام کریں گزارا کیسے ہوگا.بار بار والد صاحب کی طرف سے اصرار ہوتا ، پر آپ نے کہا کہ میری نوکری کی فکر نہ کریں میں نے جہاں نو کر ہونا تھا ہو چکا ہوں جس پر آپ کے والد صاحب خاموش ہو گئے اور کہا اچھا اگر وہ ایسا کہتا ہے تو پھر اللہ اُسے ضائع نہیں کرے گا.(سیرت المہدی جلد اوّل)

Page 362

خطابات مریم 337 خطابات حضرت اقدس کے والد صاحب کی وفات سے قبل آپ کو بھی انسان ہونے کی حیثیت سے کسی قد رفکر ہوا لیکن اللہ تعالیٰ بہت ہی وفادار اور قدر شناس ہے اسی وقت الہام ہوا.اليس الله بکاف عبدہ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کیلئے کافی نہیں.( تذکرہ صفحہ 20) کیوں فکر کرتے ہو حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری زندگی اس الہام کی صداقت پر مہر لگاتی رہی ہے.وہ شخص جس کو گھر والے بچے کھچے ٹکڑے کھانے کیلئے بھجوا دیتے تھے آج اس کے دستر خوان سے صرف جلسہ سالانہ پر ہی ڈیڑھ دو لاکھ آدمی کھانا کھا رہے ہیں جلسہ سالانہ پر آنے والا ہر مرد اور عورت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت بزبان حال بیان کر رہا ہوتا ہے اور یہ صرف اس وعدہ کا ایفاء ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے بندہ ے الیس الله بکاف عبدہ کے الفاظ میں کیا تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو نعمتوں پر نعمتیں عطا فرما ئیں مگر آپ کے دل سے یہی آواز نکلی.در رو عالم مرا و آنچه میخواهم عزیز توئی از تو تو نیز توئی یعنی دونوں جہانوں میں میرا تو بس تو ہی محبوب ہے اور میں تجھ سے صرف تیرے ہی وصال کا آرزو مند ہوں.اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کی محبت کو نوازا اور پیار بھرے الفاظ میں فرمایا:.اَنْتَ مِنِى بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيدِى وَتَفْرِيدِي أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ وَلَدِى (تذکرہ صفحہ 442) ان الہامات کی تشریح حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب کے الفاظ میں کرتی ہوں.آپ فرماتے ہیں:.یعنی چونکہ اس زمانہ میں تو میری توحید کا علمبردار ہے اور توحید کے کھوئے ہوئے مقام کو دنیا میں دوبارہ قائم کر رہا ہے اس لئے اے مسیح محمدی تو مجھے ایسا ہی پیارا ہے جیسے کہ میری توحید اور تفرید اور چونکہ عیسائیوں نے جھوٹ اور افترا کے طور پر اپنے مسیح کو خدا کا اصل بیٹا بنا رکھا ہے اس لئے میری غیرت نے تقاضا کیا کہ میں تیرے

Page 363

خطابات مریم 338 خطابات ساتھ ایسا پیار کروں کہ جو اولاد کا حق ہوتا ہے تا کہ دنیا پر ظاہر ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد تک اطفال کے مقام کو پہنچ سکتے ہیں اور چونکہ تو میرے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خدمت میں رات دن مستغرق اور اس کی محبت میں محو ہے اس لئے میں تجھے اپنے اس محبوب کے روحانی فرزند کی حیثیت میں اپنی لازوال محبت اور اپنی دائگی معیت کے تمغہ سے نوازتا ہوں“.( تقریر سیرت طیبہ صفحہ 18،17) جس سے محبت ہو اس کی محبت پر ناز بھی ہوتا ہے اور اس کے لئے غیرت بھی ہوتی ہے.1904 ء یا پانچ میں مولوی کرم دین والے مقدمہ میں یہ اطلاع ملی کہ ہند و مجسٹریٹ کی نیت ٹھیک نہیں اور وہ آپ کو قید میں ڈالنے کی تدابیر اختیار کر رہا ہے آپ لیٹے ہوئے تھے یہ سنتے ہی اُٹھ کر بیٹھ گئے اور بڑے جلال سے فرمایا کہ:.وہ خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے“.آپ نے اپنے ان اشعار میں بھی اس جذ بہ کا اظہار فرمایا ہے.جو خدا کا اُسے للکارنا اچھا نہیں ہے ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہ زار و نزار نیز یہ کہ:.کہتا ہے تو بنده عالی جناب ہے مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے اللہ تعالیٰ پر توکل کے متعلق ایک اور حوالہ پیش کرتی ہوں.ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں جو تو کل کی بات چل پڑی جس پر آپ نے فرمایا :.میں اپنے قلب کی عجیب کیفیت پاتا ہوں جیسے سخت جس ہوتا اور گرمی کمال شدت کو پہنچ جاتی ہے تو لوگ وثوق سے امید کرتے ہیں کہ اب بارش ہو گی.ایسا ہی جب میں اپنی صندوقچی کو خالی دیکھتا ہوں تو مجھے خدا کے فضل پر یقین واثق ہوتا ہے کہ اب یہ بھرے گی اور ایسا ہی ہوتا ہے“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 216 نیا ایڈیشن )

Page 364

خطابات مریم 339 آپ نے تو سچے مسلمان کی تعریف یوں بیان فرمائی ہے.مسلمان وہ ہے جو اپنے تمام وجود کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے وقف کر دے اور سپر د کر دے اور اعتقادی اور عملی طور پر اس کا مقصود اور غرض اللہ تعالیٰ کی ہی رضا اور خوشنودی ہو.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 133) خطابات آپ کی سیرت کا دوسرا عظیم پہلو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی عشق ہے اس میدان میں جو آپ کا مقام تھا وہ آپ کے اس شعر سے واضح ہو کر سامنے آجاتا ہے فرماتے ہیں :.بعد از خدا بعشق محمد محمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم یعنی میں خدا تعالیٰ کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مخمور ہوں اگر میرا یہ عشق کسی کی نظر میں کفر ہے تو خدا کی قسم میں بہت بڑا کا فر ہوں.محبوب کے لئے غیرت ایک فطری امر ہے حضرت اقدس کی بعثت کا زمانہ وہ ہے جب کہ پادریوں نے اسلام کے خلاف ایک خطر ناک جنگ شروع کی ہوئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی پر اعتراضات ، امہات المومنین پر دل آزارانه اعتراضات، اسلام پر اعتراضات ان کا روز کا کام تھا اور اس کا اگر دفاع کیا اور مقابلہ کیا تو صرف اور صرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے.آپ فرماتے ہیں:.د میں حلفاً کہتا ہوں کہ جب کوئی ایسی کتاب نظر پڑتی ہے تو دنیا اور مافیھا ایک مکھی کے برابر نظر نہیں آتی میں پوچھتا ہوں کہ جس کو وقت پر جوش نہیں آتا کیا وہ مسلمان ٹھہر سکتا ہے کسی کے باپ کو بُرا بھلا کہا جائے تو وہ مرنے مارنے کو تیار ہو جاتا ہے لیکن اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی جائیں تو ان کی رگ حمیت میں جنبش بھی نہ آوے اور پر واہ بھی نہ کریں یہ کیا ایمان ہے؟ پھر کس منہ سے مرکر خدا کے پاس جائیں گے“.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 142) ایک اور موقعہ پر آپ نے فرمایا:.میں تو سچ کہتا ہوں اللہ تعالیٰ گواہ ہے کہ مجھے اپنی دشمنی اور اپنی توہین یا عزت اور

Page 365

خطابات مریم 340 خطابات تعظیم کا تو کچھ بھی خیال نہیں ہے میرے لئے جو امر سخت ناگوار ہے اور ملال خاطر کا موجب ہمیشہ رہا ہے وہ یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے کامل اور پاک انسان کی توہین کی جاتی ہے.(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 482) پنڈت لیکھرام والا واقعہ شاید ہی کوئی احمدی ہو جس نے نہ سنا ہو پنڈت لیکھر ام اسلام کا بہت بڑا دشمن تھا جس کی زبان اسلام اور مقدس بانی اسلام کی مخالفت میں قینچی کی طرح چلتی تھی.حضرت مسیح موعود کسی سفر میں سٹیشن پر گاڑی کا انتظار فرما رہے تھے اتفاقاً پنڈت لیکھرام بھی وہاں جا پہنچا اور یہ معلوم کر کے کہ آپ بھی وہاں تشریف فرما ہیں آپ کو آ کر سلام کہا آپ وضو فرما رہے تھے آپ نے جواب نہ دیا.دوسری دفعہ پھر سلام کیا آپ نے پھر بھی جواب نہ دیا.لیکھر ام مایوس ہو کر لوٹ گیا کسی نے اس خیال سے کہ شاید آپ نے سنانہیں کہا لیکھر ام آیا تھا اور سلام کرتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی غیرت کے ساتھ فرمایا کہ:.” ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے.(سیرت المہدی ) اسی طرح ایک اور واقعہ ہے لاہور میں آریوں نے ایک جلسہ منعقد کیا اور اس میں سب مذاہب کو شرکت کی دعوت دی اور وعدہ کیا کہ جلسہ میں کوئی خلاف تہذیب بات نہ ہوگی اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولانا نور الدین صاحب کو بہت سے احمدیوں کے ساتھ بھجوایا اور ایک مضمون بھی لکھ کر بھیجا.جب آریوں کے نمائندہ کے مضمون پڑھنے کی باری آئی تو سب وعدے بھلا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایسا گند اُچھالا کہ خدا کی پناہ.جب اس واقعہ کی اطلاع حضرت مسیح موعود کو ہوئی اور جلسہ میں شامل ہونے والے لوگ واپس آئے تو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ جس مجلس میں ہمارے رسول اللہ کو بُرا بھلا کہا گیا تم اس مجلس میں بیٹھے ہی کیوں رہے واپس کیوں نہ آگئے پھر قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی.إِذَا سَمِعْتُمْ أَيْتِ اللهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِةٍ (النساء : 141) یعنی اے مومنو! جب تم سنو کہ خدا کی آیات کا دل آزارا نہ رنگ میں کفر کیا جاتا اور اُن پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے تو تم ایسی مجلس سے فوراً اُٹھ جایا کرو تا وقتیکہ لوگ کسی مہذبانہ انداز گفتگو کو

Page 366

خطابات مریم اختیار کریں.341 خطابات آپ کا تو دعوی ہی یہ تھا کہ آپ نے جو کچھ حاصل کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں اور آپ کے فیض سے حاصل کیا آپ فرماتے ہیں :.تیرے منہ کی ہی قسم اے میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اُٹھایا ہم نے تیری الفت سے ہے معمور مرا ہر ذرہ اپنے سینہ میں اک شہر بسایا ہم نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی روایت ہے کہ میں نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب سے جو حضرت مسیح موعود کے سب سے بڑے بیٹے تھے اس وقت جب کہ ابھی انہوں نے احمدیت کو قبول نہیں کیا تھا حضرت مسیح موعود کے ابتدائی زمانہ کے اخلاق و عادات کے متعلق دریافت کیا آپ نے فرمایا:.ایک بات میں نے والد صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود ) میں خاص طور پر یہ دیکھی ہے وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف والد صاحب ذراسی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ذراسی بات بھی کہتا تھا تو والد صاحب کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور غصے سے آنکھیں متغیر ہونے لگتی تھیں اور فوراً ایسی مجلس سے اُٹھ کر چلے جاتے تھے.(سیرت المہدی حصہ اوّل) آئینہ کمالات اسلام میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.عیسائی مشنریوں نے ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بے شمار بہتان گھڑے ہیں اور اپنے اس دجل کے ذریعہ ایک خلق کثیر کو گمراہ کر کے رکھ دیا ہے میرے دل کو کسی چیز نے کبھی اتنا دکھ نہیں پہنچایا جتنا کہ ان لوگوں کے اس ہنسی ٹھٹھانے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کرتے رہتے ہیں ان کے دل آزار طعن و تشنیع نے جو وہ حضرت خیر البشر کی ذات والا صفات کے خلاف

Page 367

خطابات مریم 342 خطابات کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کر رکھا ہے خدا کی قسم اگر میری ساری اولا داور اولاد کی اولا داور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دیئے جائیں اور خود میرے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے اور میں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لئے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے ناپاک حملے کئے جائیں.پس اے میرے آسمانی آقا تو ہم پر اپنی رحمت اور نصرت کی نظر فرما اور ہمیں اس ابتلاء عظیم سے نجات بخش “.ترجمه عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام صفحہ 15) آپ کا سارا کلام نظم ہے یا نثر اردو میں ہے یا فارسی یا عربی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت اور فدائیت کے جذبات سے بھرا پڑا ہے.آپ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی دلیل ہی یہ دیتے ہیں کہ ان کے عاشق بن جاؤ.اگر خواہی دلیلے عاشقش باش محمد ئبر ہان محمد آپ کا مندرجہ ذیل اقتباس ہی ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا بلند مقام تھا ایسی تعریف تو چودہ سو سال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی نے نہیں کی جتنی آپ نے کی ،فرماتے ہیں.وو وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملائک میں نہیں تھا نجوم میں نہیں تھا.قمر میں نہیں تھا.آفتاب میں بھی نہیں تھا.وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یا قوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں.جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولی سید الانبیاء سید الا حیاء

Page 368

خطابات مریم 343 خطابات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں“.(روحانی خزائن جلد 5 آئینہ کمالات اسلام صفحہ 160) دنیا ہم پر یہ الزام لگاتی ہے کہ احمدی نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ سے بڑا درجہ دیتے ہیں لیکن خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس عشق کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کی آل و اولاد اور آپکے صحابہ کے ساتھ بھی بے انتہا محبت تھی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ جب محرم کا مہینہ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے باغ میں ایک چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے آپ نے حضرت نواب مبارکہ بیگم اور مبارک احمد مرحوم کو جو اس وقت سب بہن بھائیوں میں چھوٹے تھے سے فرمایا :."آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں پھر آپ نے بڑے دردناک انداز میں حضرت امام حسین کی شہادت کے واقعات سنائے آپ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اس دردناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپ نے بڑے درد سے فرمایا.یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریم ﷺ کے نواسے پر کروایا مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا“.آپ کی سیرت کا تیسرا پہلو اسلام کی ترقی اور غلبہ کی شدید ترپ حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد جیسا کہ خود آپ کو بھی الہا ماً بتایا گیا.يُحي الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَة تھا کہ آپ کے ذریعہ اسلام کے باغ میں پھر سے بہار آئے اور شریعت محمدی جو آخری شریعت ہے اس کا پھر سے دنیا میں قیام ہو اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے اس مقصد کے لئے آپ کی ساری زندگی وقف رہی دعاؤں کے ذریعہ سے بھی اور

Page 369

خطابات مریم 344 خطابات کوششوں کے ذریعہ سے بھی.آپ کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ حضرت عیسی وفات پا چکے ہیں.وفات مسیح کو جہاں آپ نے قرآن مجید اور احادیث رسول سے ثابت کیا وہاں تاریخی طور پر بھی حضرت مسیح کے کشمیر جانے اور وہاں وفات پانے اور آپ کی قبر کے متعلق علم دنیا تک پہنچایا.10 جولائی 1899ء کو ایک چٹھی حضرت مسیح موعود کے نام آئی اس میں پختہ ثبوت اور تفصیل سے لکھا تھا کہ جلال آباد ( علاقہ کابل) کے علاقہ میں یوز آسف نبی کا چبوترہ موجود ہے اور وہاں مشہور ہے کہ دو ہزار برس ہوئے کہ یہ نبی شام سے یہاں آیا تھا اور سر کا ر کا بل کی طرف سے کچھ جاگیر بھی اس چبوترہ کے نام ہے اس خط کو پڑھ کر حضرت اقدس نے فرمایا.اللہ تعالیٰ گواہ اور علیم ہے کہ اگر مجھے کوئی کروڑوں روپے لا دیتا تو میں کبھی اتنا خوش نہ ہوتا جیسا اس خط نے مجھے خوشی بخشی ہے“.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 203) اسی طرح حضرت مفتی محمد صادق صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت مخلص صحابی تھے سے روایت ہے کہ ایک دفعہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک کمرہ میں بیٹھے تھے اور حضور کوئی تصنیف فرما رہے تھے کہ کسی شخص نے بڑے زور سے دروازہ پر دستک دی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مفتی صاحب سے فرمایا کہ آپ دروازہ پر جا کر معلوم کریں کہ کون ہے اور کیا پیغام لایا ہے مفتی صاحب نے دروازہ کھولا تو دستک دینے والے نے بتایا کہ مجھے مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نے بھجوایا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ خوشخبری ان کو سناؤں کہ فلاں شہر میں ایک غیر احمدی مولوی کے ساتھ مولوی صاحب کا مناظرہ ہوا اور مولوی صاحب نے اسے مناظرہ میں شکست فاش دی ہے مفتی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں یہ بات پہنچائی تو حضور نے فرمایا :.د میں اس زور دار دستک سے سمجھا تھا کہ یورپ مسلمان ہو گیا ہے اور یہ اس کی خبر لائے ہیں.(سیرت المہدی روایت 132) اس واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کو کتنی شدت سے خواہش تھی کہ سارا یورپ م ہو جائے اور اسی جذبہ سے آپ نے فرمایا :.مسلمان

Page 370

خطابات مریم 345 خطابات آسماں پر دعوت حق کیلئے اک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اُتار آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگہ زندہ وار تائید دین کیلئے جو بھی قلم اُٹھا تا حضرت مسیح موعود اس کی بہت قدر فرماتے تھے.آپ فرماتے ہیں.اگر کوئی تائید دین کیلئے ایک لفظ نکال کر ہمیں دے دے تو ہمیں موتیوں اور اشرفیوں کی جھولی سے بھی زیادہ بیش قیمت معلوم ہوتا ہے جو شخص چاہے کہ ہم اس سے پیار کریں اور ہماری دعائیں نیاز مندی اور سوز سے اس کے حق میں آسمان پر جائیں تو وہ ہمیں اس بات کا یقین دلا دے کہ وہ خادم دین ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے.بارہا قسم کھا کر فرمایا کہ ہم ہر ایک شے سے محض اللہ تعالیٰ کے لئے پیار کرتے ہیں بیوی ہو بچے ہوں دوست ہوں سب سے ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ کے لئے ہے“.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 311) تکلفات میں وقت ضائع کرنا حضور کو نا پسند تھا اور خواہش تھی کہ یہ وقت بھی دین کے کاموں میں صرف ہو ، فرماتے ہیں :.” میرا تو یہ حال ہے کہ پاخانہ، پیشاب پر بھی مجھے افسوس آتا ہے کہ اتنا وقت ضائع جاتا ہے.یہ بھی کسی دینی کام میں لگ جائے اور فرمایا.کوئی مشغولی اور تصرف جو دینی کاموں میں حارج ہو اور وقت کا کوئی حصہ لے، مجھے سخت ناگوار ہے اور فرمایا جب کوئی دینی ضروری کام آ پڑے تو میں اپنے اوپر کھانا پینا اور سونا حرام کر لیتا ہوں جب تک وہ کام نہ ہو جائے.فرمایا: ہم دین کیلئے ہیں اور دین کی خاطر زندگی بسر کرتے ہیں پس دین کی راہ میں ہمیں کوئی روک نہ ہونی چاہئے“.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 310) اسلام کی تبلیغ اور اس کی اشاعت کی اتنی شدید خواہش تھی کہ آپ فرماتے ہیں:.

Page 371

خطابات مریم 346 خطابات ”ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر خدا تعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اس ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچالیں“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 219) حرمات اللہ کی ہتک آپ کو گوارا نہ تھی.اس بارہ میں فرمایا :.” میری جائیداد کا تباہ ہونا اور میرے بچوں کا آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے ہونا مجھ پر آسان ہے بہ نسبت دین کی ہتک اور استخفاف کے دیکھنے اور اس پر صبر کرنے کے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 302) عیسائیت کے غلط عقائد اور اس کی عیسائی جو تبلیغ کرتے تھے اور مسلمان ان کے پھندے میں پھنس جاتے تھے کا حضرت مسیح موعود کو بہت دکھ تھا آپ بڑے کرب سے بے قرار ہو کر فرماتے ہیں.میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا ہے اور میری جان عجیب تنگی میں ہے اس سے بڑھ کر اور کون سا دلی درد کا مقام ہوگا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا اور ایک مشتِ خاک کو رب العالمین سمجھا گیا ہے میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جا تا اگر میرا مولیٰ اور میرا قادر وتو انا خدا مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر تو حید کی فتح ہوگی وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو بچے خدا کا پتہ لگے گا.وقت قریب ہے کہ خدا کی کچی تو حید جس کو بیابانوں کے رہنے والے بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا‘.(اشتہار 14 جنوری 1897ء) آپ اس یقین پر قائم تھے کہ ہمارا قادر خدا ہے ہمارا مذ ہب زندہ مذہب ہے اور اب بھی اسی قسم کے معجزات ظاہر ہو سکتے ہیں جیسے پہلے انبیاء کے زمانہ میں ظاہر ہوتے رہے.ایک آریہ نے اسلام پر اعتراض کیا کہ قرآن نے حضرت ابراہیم کے متعلق یہ بات قانونِ قدرت کے خلاف بیان کی ہے اس لئے وہ قابل قبول نہیں کہ جب دشمنوں نے ان کو آگ میں ڈالا تو خدا کے حکم سے آگ ان پر ٹھنڈی ہوگئی اور حضرت مولوی نورالدین صاحب نے اس اعتراض کے

Page 372

خطابات مریم 347 خطابات جواب میں یہ لکھا کہ یہاں آگ سے حقیقی آگ مراد نہیں دشمنی اور شرارت کی آگ مراد ہے.جب حضرت مولوی صاحب کے اس جواب کی اطلاع حضرت مسیح موعود کو پہنچی تو آپ نے بڑے جلال کے ساتھ فرمایا کہ مولوی صاحب کو اس تاویل کی ضرورت نہیں تھی خدا کے بنائے ہوئے قانون کا احاطہ کون کر سکتا ہے.آپ نے بڑی تحدی کے ساتھ فرمایا اگر خدا نے اپنے کسی خاص الخاص تصرف سے اپنے پیارے بندے ابراہیم کے لئے دشمنوں کی لگائی ہوئی آگ کو سچ سچ ٹھنڈا کر دیا ہو تو اس میں ہرگز کوئی تعجب کی بات نہیں.ہم خدا کی طرف سے اس زمانہ میں موجود ہیں ہمیں کوئی دشمن آگ میں ڈال کر دیکھ لے خدا کے فضل سے ہم پر بھی آگ ٹھنڈی ہو گی.(سیرت المہدی روایت 147) ایک اور واقعہ سنئے.مسٹر چند ولال مجسٹریٹ نے ایک دن عدالت میں لوگوں کا زیادہ ہجوم دیکھ کر عدالت کے کمرے سے باہر کھلے میدان میں عدالت کی کارروائی شروع کی اور نہ معلوم کس خیال سے عدالت کی کارروائی کے دوران میں حضرت اقدس سے پوچھا.کیا آپ کو نشان نمائی کا دعوی ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جواب میں فرمایا ہاں خدا میرے ہاتھ پر نشان ظاہر فرماتا ہے.مجسٹریٹ کے اس سوال میں طعن کا رنگ تھا حضرت مسیح موعود نے تھوڑے سکوت کے بعد فرمایا.جو نشان آپ چاہیں میں اسی وقت دکھا سکتا ہوں“.مجسٹریٹ حضور کا جواب سن کر سناٹے میں آ گیا اور پھر اُسے سوال کی جرات نہیں ہوئی.(اصحاب احمد جلد 4 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا چوتھا عظیم پہلو بنی نوع انسان سے ہمدردی اور ان کی اصلاح کی تڑپ ہے.اسلام کی تعلیم کے دو ہی بڑے ستون ہیں.حقوق اللہ اور حقوق العباد.حقوق العباد کی ادائیگی میں حضرت مسیح موعود اپنے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح کمال تک پہنچے ہوئے تھے احسان کرنے میں آپ بلا تفریق مذہب و ملت دوست دشمن سب سے ہی حسن سلوک کرتے تھے.آپ فرماتے ہیں :.احسان ایک نہایت عمدہ چیز ہے اس سے انسان اپنے بڑے بڑے مخالفوں کو زیر

Page 373

خطابات مریم 348 خطابات کر لیتا ہے.چنانچہ سیالکوٹ میں ایک شخص تھا جو کہ تمام لوگوں سے لڑائی رکھتا تھا اور کوئی ایسا آدمی نہ ملتا تھا جس سے اس کی صلح ہو یہاں تک کہ اس کے بھائی اور عزیز واقارب بھی اس سے تنگ آچکے تھے اس سے میں نے بعض دفعہ معمولی سا سلوک کیا اور وہ اس کے بدلہ میں کبھی ہم سے بُرائی سے پیش نہ آ تا بلکہ جب ملتا تو بڑے ادب سے گفتگو کرتا“.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 232 نیا ایڈیشن ) اکثر لوگ آپ سے دوائی لینے بھی آیا کرتے تھے آپ ان کے لئے دوائیاں رکھتے تھے اور بُرا نہ مانتے تھے.ایک دن فرمایا.آج میں نے کام میں بہت توجہ کی سر میں درد تھا ریزش بھی ہے اور گلا بھی پکا ہوا ہے جیسے کسی نے چیرا ہوا ہو اور مریض بھی بہت آئے اگر چہ حکیم نورالدین صاحب کو علاج کیلئے مقرر کیا ہوا ہے مگر بعض اپنے اعتقاد کے خیال سے مجھ سے ہی علاج کراتے ہیں“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 491 نیا ایڈیشن) آپ سائل کو رڈ نہ فرماتے تھے ایک دن ایک سائل نے بعد فراغت نماز جب کہ آپ اندرون خانہ تشریف لے جا رہے تھے سوال کیا مگر ہجوم کے باعث اس کی آواز اچھی طرح نہ سنی جاسکی اندر جا کر جلد واپس تشریف لائے اور خدام کو سوالی کے بُلانے کیلئے ادھر ادھر دوڑ ایا مگر وہ نہ ملا.شام کو وہ پھر آیا اس کے سوال کرنے پر آپ نے اپنی جیب سے نکال کر کچھ دیا چند یوم کے بعد کسی تقریب پر فرمایا : - اُس دن جو وہ سائل نہ ملا میرے دل پر ایسا بوجھ تھا کہ جس نے مجھے سخت بے قرار کر رکھا تھا اور میں ڈرتا تھا کہ مجھ سے معصیت سرزد ہوئی ہے کہ میں نے سائل کی طرف دھیان نہیں کیا اور یوں جلدی اندر چلا گیا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ شام کو واپس آ گیا ورنہ خدا جانے میں کس اضطراب میں پڑا رہتا اور میں نے دعا بھی کی تھی کہ اللہ اسے واپس لائے“.( از خط مولوی عبد الکریم صاحب 6 فروری 1900ء) بنی نوع انسان کی ہمدردی خصوصاً اپنے بھائیوں کی ہمدردی اور جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا :.

Page 374

خطابات مریم 349 خطابات ” میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جائے تو میں تو یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر ان کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں.یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جائے اگر تم کچھ بھی اس کے لئے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو.اپنے تو درکنار میں تو یہ کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو.آپ نے مزید فرمایا :.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 305) ایک مرتبہ میں باہر سیر کو جا رہا تھا تو ایک پٹواری عبد الکریم میرے ساتھ تھا وہ ذرا آگے اور میں پیچھے راستہ میں ایک بڑھیا کوئی ستر پچھتر برس کی ضعیفہ ملی اس نے ایک خط اُسے پڑھنے کو کہا مگر اس نے اسے جھڑ کیاں دے کر ہٹا دیا میرے دل پر چوٹ سی لگی اس نے وہ خط مجھے دیا میں اس کو لے کر ٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا اس پر پٹواری کو بہت شرمندہ ہونا پڑا کیونکہ ٹھہر نا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 305) آپ بہت مہمان نواز تھے اور مہمان نوازی کا اسلامی تعلیم کے مطابق پورا پورا حق ادا فرماتے تھے سید حبیب احمد صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا :.آج میری طبیعت علیل تھی اور میں باہر آنے کے قابل نہ تھا مگر آپ کی اطلاع ہونے پر میں نے سوچا کہ مہمان کا حق ہوتا ہے جو تکلیف اُٹھا کر آیا ہے اس واسطے میں اس حق کو ادا کرنے کیلئے باہر آ گیا ہوں“.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 163) دوسروں کے آرام کا اتنا خیال تھا کہ ایک دفعہ مولوی عبد الکریم صاحب نئے مکان میں ایک چار پائی پر سو رہے تھے وہاں حضرت مسیح موعود ٹہل رہے تھے تھوڑی دیر بعد جاگے تو دیکھا حضور فرش پر چار پائی کے نیچے لیٹے ہوئے تھے.مولوی صاحب ادب سے اٹھ کھڑے ہوئے حضور نے

Page 375

خطابات مریم 350 خطابات محبت سے پوچھا کیوں اُٹھ بیٹھے اُنہوں نے پاس ادب کا غذر کیا اس پر حضور فرماتے ہیں:.میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا لڑ کے شور کرتے تھے.انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے“.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 310) ایک اور موقعہ پر آپ نے فرمایا:.” میرا ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو بلکہ اس کے لئے ہمیشہ تاکید کرتا رہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جاوے مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذراسی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے.اس سے پیشتر میں نے یہ انتظام کیا ہوا تھا کہ خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاتا تھا مگر جب سے بیماری نے ترقی کی اور پر ہیزی کھانا کھانا پڑا پھر وہ التزام نہ رہا.ساتھ ہی مہمانوں کی کثرت اس قدر ہوگئی کہ جگہ کافی نہ ہوتی تھی اس لئے مجبوری علیحدگی ہوئی.ہماری طرف سے ہر ایک کو اجازت ہے کہ اپنی تکلیف کو پیش کر دیا کرے.بعض لوگ بیمار ہوتے ہیں ان کے واسطے الگ کھانے کا انتظام ہوسکتا ہے“.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 292) حضرت مسیح موعود میں کمال درجہ کا تحمل اور برداشت کا مادہ پایا جا تا تھا آپ فرمایا کرتے تھے کہ:.لوگوں کی گالیوں سے ہمارا نفس جوش میں نہیں آتا “.( ملفوظات جلد اول صفحہ 6) آپ فرماتے تھے میں سب کے لئے دعا کرتا ہوں.(اول) اپنے نفس کیلئے ( دوم ) اپنے گھر والوں کیلئے (سوم) اپنے بچوں کیلئے (چہارم ) اپنے خلص دوستوں کیلئے نام بنام ( پنجم) اور پھر ان سب کے لئے جو اس سلسلہ سے وابستہ ہیں خواہ ہم انہیں جانتے ہیں یا نہیں.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 309) آپ نے نوع انسان سے ہمدردی کی تعلیم دی اور بار ہا فرمایا یا درکھو کہ :.” خدا تعالیٰ کے دو حکم ہیں اول یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور دوسرے نوع انسان سے ہمدردی کرو اور احسان سے یہ مراد نہیں کہ اپنے بھائیوں اور رشتے داروں ہی سے کرو بلکہ کوئی ہو آدم زاد ہو اور خدا تعالیٰ کی مخلوق میں کوئی بھی ہومت

Page 376

خطابات مریم 351 خطابات خیال کرو وہ ہندو ہے یا عیسائی“.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 130) آپ کو اپنے نفس پر اتنا قا بو تھا کہ فرمایا: - میں اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھر میرے سامنے میرے نفس کو گندی سے گندی گالیاں دیتا رہے آخر وہی شرمندہ ہوگا اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اُکھاڑ نہ سکا.(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 302) حضرت اقدس سرا پا شفقت و رحمت تھے.اربعین میں فرماتے ہیں:.میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے میں بنی نوع انسان سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر.میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بد عملی اور نا انصافی اور بداخلاقی سے بے زاری میرا اصول“.(روحانی خزائن جلد 17 اربعین نمبر 1 صفحہ 344) یہ صرف زبانی دعوی نہ تھا حضرت مولوی عبد الکریم سے روایت ہے جن دنوں پنجاب میں طاعون کا زور تھا آپ نے حضرت مسیح موعود کو علیحدگی میں دعا کرتے سنا.آپ ان الفاظ میں نہایت ہی درد سے دعا کر رہے تھے کہ :.الہی اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو گئے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا“.(سیرت حضرت مسیح موعو دمرتبه شیخ یعقوب عرفانی ) یہ ویسی ہی دعا تھی جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی جنگ میں اپنے ربّ سے مانگی تھی کہ اے اللہ اگر یہ تھوڑے سے لوگ بھی ہلاک ہو گئے تو تیری عبادت کون کرے گا.غرض آپ کی محبت اور حسن و احسان کا یہ نتیجہ تھا کہ آپ کے ماننے والوں کے دل میں آپ کی بے حد محبت تھی وہ پروانے تھے آپ کے اور آپ کی پاک صحبت نے ان میں ایک عظیم الشان تبدیلی پیدا کر دی.

Page 377

خطابات مریم 352 خطابات غالباً 1915 ء یا 1916ء کی بات ہے کہ قادیان میں آل انڈیا سینگ مین کرسچن ایسوسی ایشن کے سیکرٹری مسٹر ایچ اے والٹر آئے وہ کٹر عیسائی تھے اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق کتاب لکھنا چاہتے تھے قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے ملے پھر قادیان کے ادارہ جات دیکھنے کے بعد خواہش کی کہ میں بانی سلسلہ احمدیہ کے کسی پرانے صحبت یا فتہ عقیدتمند کو دیکھنا چاہتا ہوں.چنانچہ مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابی منشی محمد اروڑ ا صاحب سے ان کی ملاقات کروائی گئی مسٹر والٹر نے منشی صاحب سے پوچھا کہ آپ مرزا صاحب کو کب سے جانتے ہیں اور آپ نے ان کو کس دلیل سے مانا اور ان کی کس بات نے آپ پر زیادہ اثر کیا.منشی صاحب نے جواب میں بڑی سادگی سے کہا:.میں حضرت صاحب کو ان کے دعوی سے پہلے کا جانتا ہوں میں نے ایسا پاک اور نورانی انسان کوئی نہیں دیکھا ان کا نور اور ان کی مقناطیسی شخصیت ہی میرے لئے ان کی سب سے بڑی دلیل تھی ہم تو ان کے منہ کے بھوکے تھے“.یہ کہہ کر حضرت منشی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد میں بے چین ہو کر رونے لگے جیسے ایک بچہ اپنی ماں کی جدائی میں پلک پلک کر روتا ہے.اس وقت مسٹر والٹر کا یہ حال تھا کہ یہ نظارہ دیکھ کر ان کا رنگ سفید پڑ گیا اور وہ حیرت سے منشی صاحب کی طرف دیکھتے رہے بعد میں اُنہوں نے اپنی کتاب احمدیہ موومنٹ میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ مرزا صاحب کو ہم غلطی خوردہ کہہ سکتے ہیں مگر جس شخص کی صحبت نے اپنے مریدوں پر ایسا گہرا اثر پیدا کیا ہے اسے ہم دھوکہ باز ہرگز نہیں کہہ سکتے.آپ کی پاک صحبت نے حضرت مولانا نورالدین صاحب حضرت صاحبزادہ عبداللطیف جیسے فدائی پیدا کئے.اللهم صل على محمد وعلى آل محمد وعلى عبدك المسيح الموعود حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اپنی تصنیف دعوۃ الا میر میں جو آپ نے امیر امان اللہ والی کابل کو مخاطب کر کے تحریر فرمائی تھی اور جس میں حضرت مسیح موعود کی صداقت کے بارہ میں دلائل بیان فرمائے ہیں حضرت مسیح موعود کی صداقت کی بارہویں دلیل آپ کی قوتِ احیاء کی دی ہے آپ فرماتے ہیں :.

Page 378

خطابات مریم 353 خطابات آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک کل انبیاء اسی غرض کے لئے مبعوث کئے گئے تھے کہ مردوں کو زندہ کریں اور اولوالعزم انبیاء کی صداقت پر کھنے کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ ان کے ہاتھوں سے مردے زندہ ہوں (یعنی روحانی طور پر ) اور اگر کوئی یہ معجزہ نہ دکھا سکے تو اس کا دعویٰ نبوت ضرور مشکوک ہو جاتا ہے اور جو شخص اس قسم کے مردے زندہ کر کے دکھا دے وہ یقینا اللہ تعالیٰ کا فرستادہ ہے.انوار العلوم جلد 7 دعوۃ الا میر صفحہ 582) کیا یہ زندگی کی علامت نہیں کہ چالیس کروڑ مسلمانوں میں سے کوئی نظر نہیں آتا جو تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کے لئے اپنے گھر سے نکلا ہو لیکن ایک مٹھی بھر احمد یوں میں سے سینکڑوں اس کام پر لگے ہوئے ہیں اور ان ممالک میں تبلیغ کر رہے ہیں اور ان لوگوں کو مسلمان بنارہے ہیں جن کی نسبت خیال بھی نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ اسلام کا نام بھی سنیں گے.( انوار العلوم جلد 7 صفحہ 586) حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں:.غرض حضرت اقدس نے نہ صرف مردے ہی زندہ کئے بلکہ ایسے لوگ پیدا کر دیئے جو خود بھی مُردے زندہ کرنے والے ہیں اور یہ کام سوائے ان بزرگ انبیاء علیہم السلام کے جو اللہ تعالیٰ کے خاص پیارے ہوتے ہیں اور کوئی نہیں کر سکتا اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہ سب فیض آپ کو رسول کریم ﷺ سے ملا اور آپ کا کام در حقیقت رسول کریم ہے کا ہی کام تھا.كُلُّ بَرَكَةٍ مِّن مُحَمَّدٍ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ (انوارالعلوم جلد 7 دعوۃ الامیر صفحہ 588) (الفضل 29 جنوری 1983ء)

Page 379

خطابات مریم 354 خطابات خطاب ممبرات لجنہ اماءاللہ برمنگھم محترمہ چھوٹی آپا حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے برطانیہ میں اپنے دورانِ قیام لجنہ اماءاللہ برمنگھم کی درخواست کو شرف قبولیت بخشا اور آپ کے اعزاز میں دار البرکات مشن ہاؤس برمنگھم میں ایک مبارک تقریب منعقد ہوئی اس موقع پر حضرت سیدہ ممدوحہ نے اپنے اعلیٰ اور قیمتی خطاب سے نوازا جس کا مکمل متن مندرجہ ذیل ہے.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا:.میری عزیز بہنو اور پیاری بچیو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جن جذبات کا آپ نے سپاسنامہ میں اظہار کیا ہے میں آپ سب کی تہہ دل سے مشکور ہوں.مجھے آپ سے مل کر بے حد خوشی محسوس ہو رہی ہے بظاہر میرا برمنگھم آنے کا موقع نظر نہیں آ رہا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا فرما دیے کہ اپنی خواہش کے مطابق اور بہنوں کی خواہش کے مطابق میں یہاں ضرور آؤں مجھے اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا کر دی یہاں آنے کی.ہر جگہ جہاں بھی جانا ہوا ہے مجھے بہنوں سے مل کر اپنی تنظیم کو ترقی کی راہوں پر گا مزن دیکھ کر بے انتہا دل کی گہرائیوں کے ساتھ زبان پر سب سے پہلے اللهم صلی علی محمد وعلى آل محمد کے الفاظ آتے ہیں کہ یہ اسلام کی نعمت ہمارے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے اور اگر یہ نعمت ہمیں آپ کے ذریعے سے نہ ملتی ، آپ انسانیت تک اسلام کا پیغام نہ پہنچاتے تو پتہ نہیں ہمارا کیا حشر ہو رہا ہوتا.ہم کہاں بھٹک رہے ہوتے تو سب سے پہلے تو خدا تعالیٰ جورب العالمین ہے جس نے انبیاء کو اس غرض سے بھیجا کہ اس دنیا میں صحیح اور سیدھا راستہ اپنے بندوں کو دکھا ئیں اور اللہ تعالیٰ سے بندوں کا تعلق پیدا کریں.خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے.پھر رسول پاک پر کثرت کے ساتھ درود بھیجتے رہنا چاہئے.مجھے یقین ہے کہ آپ ضرور بھیجتی ہونگیں کیونکہ کوئی مسلمان ایسا نہیں کہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے بغیر رہ سکے.لیکن بہت زیادہ درود

Page 380

خطابات مریم 355 خطابات بھیجنا چاہئے تا کہ اس درود کی برکتوں سے آپ بھی ترقی حاصل کریں اور اس ملک میں جو گڑھ ہے دجالیت کا.جلد سے جلد اسلام پھیلے اور لوگوں کا اسلام کی طرف دھیان ہو یہاں صرف ایک ہی کلمہ ہو.لا الہ الا الله محمد رسول الله اور ساری دنیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آجائے کیونکہ انسانیت کے اصل نجات دہندہ انسان ، نجات دہندہ نبی اور انسانیت کے محسن کہلانے کے مستحق صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.جب تک مسلمان قرآن مجید پر عمل کرتے رہے وہ دنیا میں آگے سے آگے ہی بڑھتے چلے گئے انہوں نے فتوحات کیں ، دوسرے ملکوں میں پھیلے، دوسرے لوگوں کو اسلام میں داخل کیا.دنیا کو ایک نئے طرز تمدن اور تہذیب سے روشناس کیا.آپ میں سے جو بہنیں بھی پین کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر گئیں ہونگی آج بھی وہاں مسلمانوں کے غلبہ کے آثار پائے جاتے ہیں.باوجود اس کے کہ اتنا عرصہ گزر گیا ہے لیکن خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو جو خود اس کو چھوڑ دیتے ہیں کبھی مستقلا گمراہ نہیں چھوڑتا.جب مسلمانوں نے قرآن مجید پر عمل کرنا چھوڑ دیا جب مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کو بھول گئے.اسلام کی تعلیم پر عمل نہ رہا تو پھر اُن کے زوال کی داستان بھی بڑی دردناک ہے لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی بھی مستقل طور پر گمراہ نہیں چھوڑتا.اُس کی رحمت کے دروازے کبھی بھی بند نہیں ہوتے.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس غرض سے بھیجا کہ آپ کے ذریعے سے پھر اسلام کا غلبہ ہو.آپ کے ذریعہ سے پھر اسلام کے باغ میں بہار آئے.آپ کے ذریعہ سے پھر بھولے ہوئے لوگ صحیح اسلام کو اختیار کریں اور سچے مسلمان کہلائیں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آج سے پچانوے سال قبل قادیان میں دعویٰ کیا تھا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اس لئے بھیجا گیا ہوں اور خدا تعالیٰ نے مجھے بشارتیں دی ہیں کہ تمہارے ذریعہ سے پھر اسلام کا غلبہ ہو گا اور وہ دن آئے گا کہ ساری دنیا اسلام میں داخل ہو جائے گی تو آپ اس وقت اکیلے تھے.آپ کے دوست اور رشتہ دار بھی آپ کے اس دعوی سے بدظن ہو چکے تھے دنیا کہتی تھی کہ یہ آواز دبائی جائے گی کبھی عیسائی حملہ کرتے تھے کہ ساری دنیا کو عیسائی بنایا جائے گا ایک طرف ہندو تھے کہ ہندوستان میں اسلام کا ہمدرد آج کون کھڑا ہو گیا ہے اس کو فنا کر دو اور خود مسلمان اپنے آپ کو مسلمان کہتے

Page 381

خطابات مریم 356 خطابات ہوئے شرماتے تھے اور مایوس تھے اسلام کی ترقی سے.ان کیلئے بھی چونکنے والی بات تھی کہ اس وقت کوئی دردمند مسلمان نہیں اُٹھا جس نے اسلام کے دلائل کیلئے ایسی کتابیں لکھی ہوں جس طرح حضرت مسیح مهدی موعود نے لکھیں جس کی مثال براہین احمدیہ ہے لیکن دیکھتے کیا ہیں کہ خدا تعالی کا جو یہ وعدہ ہے تحتب الله لاغلب آنا و رُسُلي (مجادلة: 22) کہ میں اور میرے رسول آکر ہمیشہ غالب رہیں گے یہی ایک آخری دلیل ہے کسی کی صداقت کی.خدا تعالیٰ کی نصرت نے دکھا دیا کہ آپ اکیلے تھے اور ابھی پچانوے سال کا عرصہ گزرتا ہے کہ نہ صرف ہندوستان ، پاکستان بلکه انگلستان ، افریقہ (مغربی ، مشرقی ، شمالی ، جنوبی ) امریکہ، جنوبی امریکہ، کینیڈا، ماریشس میں دنیا کا کوئی حصہ زمین ایسا نہیں جہاں پر آپ اور آپ کے خلفاء کی بنائی تعلیم کے مطابق جماعتیں قائم نہ کی گئی ہوں اور اسلام کی تبلیغ نہ کی جارہی ہو.خدا تعالیٰ نے آپ سے جو وعدے کئے تھے اور جو بشارتیں دیں تھیں کہ آج سے تین صدیاں نہیں گزریں گی کہ ساری دنیا اسلام قبول کر چکے گی.عیسائی بیزار ہو جائیں گے دوسرے مذاہب والے بھی.آخر سب کا رجوع پھر اسلام کی طرف ہوگا.یہ وعدے بچے ہیں ، اٹل ہیں خدا کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا جو اس نے اپنے مسیح سے کیا تھا.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں لیکن ان وعدوں میں فرق نہیں پڑسکتا.یہ ہمارا ایمان ہے لیکن دیکھنا ہم نے یہ ہے کہ اس غلبہ اسلام کے لئے جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں کیا ہماری جماعت کی خواتین ان ذمہ داریوں کو اُٹھانے کیلئے اپنے آپ کو تیار کر رہی ہیں؟ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے ولتنظرْ نَفْسٌ مَّا نَةٌ مِّتْ لِغَدٍ (الحشر: 19) کہ یہ انسان کو دیکھتے رہنا چاہئے کہ اس نے اپنے کل کیلئے کیا آگے بھیجا.کل سے مراد کل کا دن بھی ہوسکتا ہے.کل سے مراد مستقبل بھی ہو سکتا ہے.کل سے مراد قیامت کا دن بھی ہوسکتا ہے.جب خدا کے حضور پیش ہوگا لیکن سب سے بڑے اور اچھے معنی میرے نزدیک اور جن پر خلیفة المسیح الرابع نے بھی توجہ دلائی یہ ہیں کہ آپ نے اپنی اگلی نسل کیلئے کیا تیاری کی ؟ آج آپ کے بچے چھوٹے ہیں یہاں پر کوئی پاکستان سے اور کوئی ہندوستان سے آ کر آباد ہوئی ہیں.آپ لوگوں نے اپنے ماں باپ سے، نانا نانی سے، دادا دادی سے، اپنے بزرگوں کے

Page 382

خطابات مریم 357 خطابات واقعات اور اُن کی قربانیوں کے قصے سنے ہونگے لیکن یہاں پر جو نسل پروان چڑھ رہی ہے اگر اُس کی ذمہ داری آپ نے نہ اُٹھائی اُن کو علم سے یعنی قرآن پاک کے علم سے اُن کے دل منور نہ کئے.اُن کو حدیث نہ سکھائی اُن کو اسلام کی تعلیم پوری طرح نہ دی تو یہ ایک بہت بڑا گناہ ہوگا جو آپ سرانجام دے رہی ہونگی.کیونکہ آج جو نسل پروان چڑھ رہی ہے کل کو تمام قوم کی ذمہ داریاں انہی پر پڑنے والی ہیں اس لئے اگر آپ چاہتی ہیں کہ اگلی نسل مخلص ہو، نیک ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والی ہو.اُن کی گودوں سے مجاہد پیدا ہوں وہ ہر طرح کی قربانیاں کرنے والے ہوں تو میری بہنو اس کے لئے آپ کو خود قربانی دینی پڑے گی.اپنا نیک نمونہ دکھانا پڑے گا ایسا نمونہ جو ایک کچی نیک اور دیندار عورت کا ہوتا ہے.اس ملک میں ا رہتے ہوئے اگر آپ کے بچے یہ دیکھیں گے کہ اُن کے گھروں میں نماز پڑھی جاتی ہے قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ خود بخود سیکھیں گے کہ ہمیں بھی ایسا کرنا چاہئے لیکن جو مائیں اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی کریں گی اُن کے بچے بھی ویسے ہی نکلیں گے.جیسے کہ برطانیہ کے دوسرے بچے.یہ بہت بڑی بات ہے بہت بڑی خدمت سرانجام دینی ہے بہنو آپ نے.اس لئے اپنے فرض کو پہچانیں ، اپنی ذمہ داری کو نبھا ئیں ، اپنے بچوں کے اندر خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کریں، اُن کے اندر اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کریں ، اُن کی اطاعت کا جذبہ پیدا کریں کہ جو بات وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنیں اُن پر عمل کریں.اُن کے اندر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت پیدا کریں.اُن کی اطاعت کا جذبہ پیدا کریں.نظام جماعت کی اطاعت کا جذبہ پیدا کریں کیونکہ کوئی بھی مبلغ ہو یا جماعت کا پریذیڈنٹ ہو بہر حال وہ خلیفہ وقت کا نمائندہ ہوتا ہے اور جب تک آپ اپنے عہدہ داروں کا اور خاص طور پر مبلغ کا کہنا نہیں مانیں گی، اُس کے بنائے ہوئے پروگرام پر عمل نہیں کریں گی تو نہ خود ترقی کر سکیں گی اور نہ آپ کے بچے ترقی کر سکیں گے.ابھی میری جس بہن نے حضرت مصلح موعود کی نظم پڑھی تھی اُس میں ایک شعر یہ تھا کہ آپ کے ہاتھ میں قرآن ہوا اور آپ کے دلوں میں نور ہو تو ہاتھوں میں قرآن کا مطلب یہ ہے کہ آپ نمونہ قرآن ہوں.جس طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے سوال کیا کہ ہمیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق

Page 383

خطابات مریم 358 خطابات کچھ بتا ئیں تو آپ نے فرمایا: کہ آپ کے اخلاق قرآن تھے آپ جو تعلیم دیتے تھے اُس پر آپ خود عمل کرتے تھے.آپ کے قول و فعل میں کسی قسم کا تضاد نہ تھا.یہی ہمارا طریقہ اور اصول ہونا چاہئے.ہم اپنے دلوں کو ٹولتے رہیں کہ آیا جو ہم کہتے ہیں اُس پر عمل بھی کرتے ہیں یا نہیں.مثلاً قرآن مجید میں آیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ عورت اپنی زینت کو دوسروں پر ظاہر نہ کرے.پردے کا حکم ہے.بے شک بعضوں کو کام بھی کرنا پڑتا ہے باہر بھی جانا پڑتا ہے تو اپنی زینت کو چھپا کر یہ سب کچھ کیا جاسکتا ہے.اب ایک طرف بہنیں جو اپنی زینت جو چھپانی چاہئے نہیں چھپاتیں وہ گلی کوچوں میں پھر رہی ہیں تو دوسرے الفاظ میں وہ اعلان کر رہی ہیں کہ قرآن مجید نعوذ باللہ پورے کا پورا قابل عمل نہیں ہے.قرآن کے ایک حکم کو توڑا بھی جا سکتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو ہمیشہ کیلئے ساری دنیا کے رہنے والوں کیلئے خواہ وہ شمال کے رہنے والے ہوں یا جنوب کے مشرق کے ہوں یا مغرب کے گورے ہوں یا کالے.سب کیلئے یکساں بنایا ہے.یہ وہ مکمل ضابطہ حیات ہے جس پر عمل کر کے مسلمانوں نے ترقی کی تھی اور آئندہ بھی ترقی کر سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپ نعوذ باللہ کوئی نئی شریعت لائے حالانکہ آپ کی تو نظم ، نثر ہر جگہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمد، تعریف اور قرآن کریم کے فضائل بیان کئے گئے ہیں.آپ کہتے ہیں کہ میں نے جو کچھ حاصل کیا ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور اطاعت سے حاصل کیا ہے.اگر میں آپ کی اُمت میں نہ ہوتا، آپ کی غلامی میں نہ ہوتا تو خواہ کتنی بھی کوشش کرتا یہ سب کچھ نہ حاصل کر سکتا.مجھے جو کچھ ملا ہے آپ کی ہی طفیل ملا ہے.آپ نے اپنے آنے کا مقصد ہی یہ بیان کیا ہے کہ خدا اور خدا کے بندے کے درمیان سے جو رشتہ کٹ گیا تھا میں یہ دور کرنے کیلئے آیا ہوں تا کہ لوگ اپنے رب کو پہچانیں اور اس سے محبت کریں.وہ خدا کے دین سے پیار کریں.پس میری بہنو کوشش کریں، قرآن مجید پڑھنے کی اس کا ترجمہ سیکھنے کی اور سمجھنے کی اور پھر کوشش کریں کہ ہم نے قرآن کریم اور ترجمہ صرف کہانی کے طور پر نہیں پڑھنا بلکہ اس پر عمل بھی کرنا ہے کیونکہ یہ عقائد کا نام نہیں بلکہ اس میں انسان کی زندگی کے مسائل رکھے گئے ہیں.اس کی پیدائش سے لے کر موت تک کے

Page 384

خطابات مریم 359 خطابات اس میں ہرا لجھن ہر مسئلے کا حل بیان ہے اور ہماری ترقی بھی اسی سے وابستہ ہے.اپنی اگلی نسل کیلئے خواہ وہ لڑکے ہیں یا لڑکیاں سب کی ذمہ دار مائیں ہیں.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اور ایک حدیث میں ہے کُلُّكُمْ رَاعٍ وكُلَكُمْ مَسْؤُلٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ یعنی تم میں سے ہر ایک چروا ہے یا گڈریے کی سی حیثیت رکھتا ہے اور اُس سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا گھر کی نگہبان تو عورت ہی ہوتی ہے کیونکہ آدمی تو روزی کمانے کیلئے باہر نکل جاتا ہے.اس لئے اپنے پیارے پیارے بچوں کو مسلمان بنا ئیں.اُن کے اندر دین کی محبت پیدا کریں.دین کی خاطر قربانی کا جذبہ پیدا کریں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر عمل کرنے کا شوق پیدا کریں.اُن کو پیاری پیاری کہانیاں سنا کر آپ کی زندگی کے حالات سنائیں اُن کے صحابہ کی زندگیوں کے حالات سنائیں تا کہ اُن کے دلوں میں وہ واقعات رچ جائیں اور وہ اُن پر عمل کر سکیں.اُن کے اندر یہ احساس پیدا کریں کہ بے شک تم برطانیہ میں رہ رہے ہو لیکن تم وہ نہیں ہو جیسے یہاں کے دوسرے رہنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ نے تمہیں خاص مقصد دے کر پیدا کیا ہے اور وہ مقصد ہے غلبہ اسلام.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی نئی نسل کو یہاں کی گمراہی سے بچاتے ہوئے بُرے ماحول سے الگ رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ دین اسلام کو ترقی......کرتے ہوئے اور جلد سے جلد اسلام کا جھنڈا اس ملک میں لہراتے ہوئے دیکھیں اور اس کے جس قسم کی بھی قربانی کی ہمارے رب کو ضرورت ہو ہمارے مرد بھی اور بچے بھی اور عورتیں بھی اُن قربانیوں پر لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں.آمین (صدر لجنہ اماءاللہ برمنگھم 1983ء) ( الفضل 8 اگست 1983ء) ☆☆......☆

Page 385

خطابات مریم 360 خطابات محمود ہال لندن میں خواتین سے خطاب میری پیاری بہنو اور عزیز بچیو! مجھے آپ سے ملنے کی خواہش تھی.الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے یہ خواہش پوری کر دی.دعا کریں میرا یہاں آنا اور رہنا میرے لئے اور آپ کیلئے فائدہ مند اور با برکت ہو.اللہ تعالیٰ نے اسلام کا غلبہ آخری زمانہ میں مقدر کر رکھا ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِة الْمُشْرِكُونَ (الصف: ١٠) ترجمہ: وہ خدا ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تا کہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے اور خواہ مشرک کتنا ہی نا پسند کریں.تمام مفسرین اور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اسلام کا غلبہ مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہوگا ہم دل سے یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اپنے وقت پر ضرور پورا ہوگا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کی بشارتیں دی تھیں وہ بھی ضرور اپنے وقت پر پوری ہونگی.حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جب یورپ کا پہلا سفر کیا تو یہاں کے رہنے والوں کو ہوشیار کیا تھا اور آپ کا یہ پیغام (A Working) کے نام سے بھی شائع ہو چکا ہے کہ اس وقت دنیا میں امن صرف اسلام سے وابستہ ہے اور آپ نے بتایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں بتاتی ہیں کہ اگلی صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے.1989ء میں جماعت کے قیام پر پورے سو سال گزر جائیں گے ہم یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے مسیح کو جو بشارتیں دیں وہ سب پوری ہونگی لیکن ہم نے بھی تو سوچنا ہے اور اپنا جائزہ لینا ہے کہ ہم نے اس

Page 386

خطابات مریم 361 خطابات کے لئے کیا تیاری کی ہے جب عیسائیت ، لامذہبیت اور دوسرے مذا ہب سے بے زار ہو کر لوگ کثیر تعداد میں اسلام کے دامن میں پناہ ڈھونڈیں گے اور اسلام قبول کریں گے تو وہ بھی تو تیار ہونے چاہئیں جو ان کی تربیت کر سکیں اور ان کو دین سکھا سکیں.یہاں کی جماعت کی موجودہ احمدی خواتین اور بچیاں جن پر بڑے ہو کر زیادہ ذمہ داری پڑنے والی ہے تیار نہیں ہونگی تو کیسے اخلاق کی تعلیم دیں گی ، کیسے ان کی تربیت کریں گی ، اس آنے والے دن کی تیاری میں آج سے لگ جانا چاہئے.جہاں ہمارا یہ فرض ہے کہ احمدیت جو حقیقی اسلام ہے اس کا پیغام غیر احمد یوں اور غیر مسلموں تک پہنچائیں وہاں ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ اپنے آپ کو ان کے سامنے ایک نمونہ بنائیں اور خود کو تیار کریں تا وہ اسلام قبول کر کے جماعت میں نئے داخل ہونے والوں کی تربیت کر سکیں.جس طرح ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلتا ہے اسی طرح تربیت کا تسلسل جاری رہنا چاہئے اگر یہ تسلسل جاری نہ رہے تو قوم کمزور ہو جاتی ہے اور خلا پیدا ہو جاتا ہے.دوسری چیز ضروری یہ ہے کہ ہماری قومی ترقیوں کا معیار یکساں ہو کہ ایک قوم سے آٹھ دس خواتین چندہ کے لحاظ سے، کام کرنے کے لحاظ سے ، تقویٰ کے لحاظ سے اعلیٰ معیار کا نمونہ پیش کر رہی ہوں اور باقی سوئی ہوئی ہوں ان کو احساس ہی نہ ہو کہ احمدیت ہم سے کن قربانیوں کا مطالبہ کر رہی ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا في التسليم كافة (البقره: 209) اے مومنو تم سب فرمانبرداری کے دائرہ میں آ جاؤ.اس زمانہ میں احمدیت کو اللہ تعالیٰ نے عافیت کا حصار قرار دیا تھا اور مکمل فرمانبرداری کے ساتھ ہی اس حصار عافیت میں داخل ہوا جا سکتا ہے.عربی میں اسلام کے معنی فرمانبرداری کے ہوتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ کے ہر حکم کو بجالا نا اور جس سے منع کیا ہے اس سے رک جانا یہ اسلام ہے.قرآن مجید کہتا ہے کہ فرمانبرداری کا معیار ساری قوم کا یکساں ہو.یہ نہیں کہ کوئی فرمانبردار ہے اور کوئی نہیں اور اسلام پر اعتراض کر رہا ہے کوئی کم فرمانبردار ہے اور کوئی زیادہ.ترقی اس وقت شروع ہوگی جب اطاعت کا معیار یکساں سب کا بلند ہوتا جائے گا.فرمانبرداری اختیار کرنا تو دراصل پہلا قدم ہے اس زینہ پر قدم رکھنے کیلئے پھر ترقی کے اور زمینوں پر چڑھنا ہے یہاں تک کہ انسان اپنا مقصد حیات پالے.

Page 387

خطابات مریم 362 خطابات یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لے اگر کوئی مذہب اس طرف رہنمائی نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کا پیار کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے اس کے قرب کی راہیں کیا ہیں تو وہ مذہب زندہ مذہب نہیں اسلام ہی وہ مذہب ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ ہمارا خدا زندہ خدا، ہمارا مذہب زندہ مذہب اور ہمارے پیارے نبی ﷺ زندہ نبی ہیں اور اپنی زندگی کا ثبوت ہر زمانہ میں اس نے دیا ہے اور وہ اپنے بندوں کو گمراہ نہیں ہوتا دیکھ سکتا.اس نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس لئے بھیجا کہ آپ کے ذریعہ سے اسلام کے غلبہ کا سامان ہو.دنیا کی محبت میں ڈوبے ہوئے لوگ آپ کو مان کر دین کو دنیا پر مقدم کریں.نفرت کی بجائے پیار، دشمنی کی بجائے دوستی اور ایک دوسرے سے ہمدردی پیدا ہو اس لئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.ليس البران تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ المَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ البِرِّ مَنْ أمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرَةِ الْمَلَكَةِ وَالْكِتَبِ وَالنَّبِينَ وَإِلَى الْمَالَ عَلَى حُتِهِ ذوى الْقُرْبى وَالْيَثْمى وَالْمَسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَ السَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ و اقام الصلوة والّى الزَّعُوةَ : وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِ هم اذا عَاهَدُواء و الشبرين في البأساء وَالضَّرَّاء وَ حِين البأس أوليك الذينَ صَدَقُوا وأوليك هُمُ الْمُتَّقُونَ - (البقرة : 178) تمہارا مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنا کوئی بڑی نیکی نہیں لیکن کامل نیک وہ شخص ہے جو اللہ ، یوم آخرت ، ملائک ، الہی کتاب اور سب نبیوں پر ایمان لایا اور اللہ کی محبت کی وجہ سے رشتہ داروں اور یتیموں، مسکینوں اور مسافروں اور سوالیوں اور غلاموں کی آزادی کیلئے اپنا مال دیا اور نماز کو قائم رکھا اور زکوۃ ادا کی اور اپنے عہد کو جب عہد کیا پورا کرنے والے ہیں اور تنگی اور بیماری میں اور جنگ کے دنوں میں برداشت سے کام لینے والے کامل نیک ہیں یہی لوگ ہیں جو اپنے قول کے بچے نکلے اور یہی لوگ متقی ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ صرف مذہب کو مان لینا ہی کافی نہیں بلکہ جب تک عمل نہ کیا جائے اور عمل کے لحاظ سے حقیقی نیک انسان وہی قرار پاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی پوری طرح ادا کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی پوری

Page 388

خطابات مریم 363 خطابات طرح ادا کرے اس قرآنی حکم کے مطابق ایک ایسا شخص جو تمام ارکان اسلام بجالا تا ہے مگر کسی کا حق چھینتا ہے ، کسی پر ظلم کرتا ہے ، کسی کو تکلیف دیتا ہے ، وعدہ کر کے مکر جاتا ہے ، جو حقوق اللہ تعالیٰ نے اس کے رشتہ داروں ہمسائیوں اور ملنے جلنے والوں پر رکھے ہیں ادا نہیں کرتا وہ نیک نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلنے کے نتیجہ میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی بیعت کرنے کے بعد ہم میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہونی چاہئے ایسی تبدیلی جو دنیا کو نظر آئے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر بھی ہم میں تبدیلی پیدا نہ ہو تو کیا فائدہ.ایسی تبدیلی ہو کہ احساس ہو کہ زندہ خدا کے ساتھ تعلق پیدا ہو گیا ہے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ :.”ہماری جماعت کیلئے یہ سوال کوئی معمولی سوال نہیں بلکہ ان کی زندگی اور موت کا سوال ہے کیونکہ اس وقت خدا کا ایک نبی آیا جسے ہم نے قبول کیا اگر ان کو مان کر بھی ہم گندے رہے تو اس کو ماننے کا فائدہ ؟".حضرت مسیح موعود علیہ السلام تزکیہ نفس کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.تزکیہ نفس اسے کہتے ہیں کہ خالق اور مخلوق دونوں طرف کے حقوق کی رعایت کرنے والا ہو.خدا تعالیٰ کا حق ہے کہ جیسا زبان سے وحدہ لاشریک اسے مانا جائے ایسا ہی عملی طور پر اسے مانیں مخلوق کے ساتھ برابر نہ کیا جائے اور مخلوق کا حق یہ ہے کہ کسی سے ذاتی طور پر بغض نہ ہو، تعصب نہ ہو ، شرارت انگیزی نہ ہومگر یہ مرحلہ دور ہے ابھی تمہارے معاملات آپس میں صاف نہیں.غیبتیں بھی ہوتی ہیں ایک دوسرے کے حقوق بھی دباتے ہو.” پس خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ جب تک تم ایک وجود کی طرح بھائی بھائی نہ بن جاؤ گے تو فلاح نہ پاؤ گے.انسان کا جب بھائیوں سے معاملہ صاف نہیں تو خدا سے بھی نہیں بے شک خدا تعالیٰ کا حق بڑا ہے مگر اس بات کو پہچاننے کا آئینہ کہ خدا کا.حق ادا کیا جا رہا ہے یہ ہے کہ مخلوق کا حق بھی ادا کر رہا ہے یا نہیں جو شخص اپنے بھائیوں سے معاملہ صاف نہیں رکھ سکتا وہ خدا سے بھی صاف نہیں رکھتا...سچی محبت اور چیز ہے اور منافقانہ اور.دیکھو مومن کے مومن پر بڑے حقوق ہیں.جب وہ بیمار پڑے تو

Page 389

خطابات مریم 364 خطابات عیادت کو جائے اور جب مرے تو اس کے جنازہ پر جائے ادنی ادنی باتوں پر جھگڑا نہ کرے بلکہ درگزر سے کام لے خدا کا یہ منشاء نہیں کہ تم ایسے رہو.اگر سچی اخوت نہیں تو جماعت تباہ ہو جائے گی“.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 406) میری بہنو! یہ وہ ابتدائی نقشہ ہے جو ایک قوم کے لئے جنہوں نے ترقی کرنی ہے ضروری ہے انہوں نے دوسروں کی تربیت کرنی ہے ان کو بتانا ہے کہ احمدیت قبول کرو یہی حقیقی اسلام ہے.اس میں ہی تمہاری نجات ہے اپنے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تو دوسرے کو کس منہ سے نصیحت کرو گے اس سلسلے میں مجھے افسوس ہے کہ باوجود بڑی منظم، بڑی مخلص اور قربانی کرنے والی جماعت کے یہاں بھی عورتوں میں آپس میں بدظنی ، جھگڑا ، فساد پایا جاتا ہے حالانکہ ان باتوں کا تو سایہ بھی تم پر نہیں پڑنا چاہئے.جماعت احمدیہ میں داخل ہوتے وقت ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ جو کام آپ بتائیں گے ہم اس پر عمل کریں گے.بیعت فارم پر دستخط کرتے وقت کبھی غور کیا ہے کہ آپ بیعت کی جو دس شرائط ہیں اس پر عمل کر رہی ہیں یا نہیں ہر شرط میں اتنا وسیع مضمون ہے کہ اتنے تھوڑے وقت میں بیان بھی نہیں کیا جا سکتا صرف چند باتوں کی طرف توجہ دلاتی ہوں ہر وقت یہ بات ذہن میں رکھیں کہ آپ مسلمان ہیں اور مسلمان کی تعریف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں فرمائی ہے.الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِه (بخاری کتاب الایمان ) یعنی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور جس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں.سوچا کریں کہ آپ احمدی ہیں آپ نے اس زمانہ کے امام کو مانا ہے اور اس کے خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے.بیعت کی تعریف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان الفاظ میں فرماتے ہیں :.” بیعت کرنے والا اپنے نفس کو مع اس کے تمام لوازم کے ایک رہبر کے ہاتھ میں اس غرض سے نیچے کہ تا اس کے عوض میں وہ معارف حقہ اور برکات کا ملہ حاصل کرے جو موجب معرفت اور نجات اور رضامندی باری تعالیٰ ہوں“.(روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 498.ضرورت الامام) اور اس رتبہ کو حاصل کرنے کیلئے اس امتحان کو پاس کرنا ہو گا جو شرائط بیعت کا امتحان ہے.

Page 390

خطابات مریم 365 خطابات شرائط بیعت میں سے دوسری شرط جس کا تعلق مخلوق خدا سے ہے کہ جھوٹ ، زنا ، بدنظری اور ہر قسم کے فسق و فجور، طمع ، خیانت، فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہوگا اگر چہ کیسا ہی جذ بہ کیوں نہ پیش آوے.اس شرط کی تفصیل پر غور کریں ان میں سے جس گناہ کا بھی انسان مرتکب ہوتا ہے اس کے نتیجہ میں کسی انسان کو نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کی بہت مذمت فرمائی ہے کیونکہ کوئی معاملہ بھی صفائی کے ساتھ طے نہیں پاسکتا جب تک قُولُوقَولاً سَدِيداً (احزاب: 71) پر عمل نہ کیا جائے.پھر چوتھی شرط بیعت کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ عام خلق اللہ کوعموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا نہ زبان سے نہ ہاتھ سے اور نہ کسی اور طرح سے.چھٹی شرط بیعت کی شرائط میں سے یہ ہے کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن کریم کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنی ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا.یہ بڑی ہی ضروری چیز ہے کہ ہماری زندگیوں میں مقصد ہی یہ ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق کام کریں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو انسانیت کے سرتاج تھے ان کی زندگی کو اپنا اُسوہ بنا ئیں.خدا تعالیٰ نے زمین اور آسمان بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیدا کئے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آپ کو پیدا نہ کیا جاتا تو یہ زمین اور آسمان بھی پیدا نہ کئے جاتے.ایک کامل نمونہ ایک کامل اُسوہ خدا نے دنیا کے لئے بنا کر دکھایا کہ کوئی نقص ، کوئی کمی اس وجود میں نہیں یہ تعلیم ہمیشہ قائم رہے گی اور آپ کے ذریعہ مکمل تعلیم امت محمدیہ کو عطا فرمائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض بھی قرآن کریم کی تعلیم کو پھیلا نا ، قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت کرنا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی ہی طرف دنیا کو بلانا تھا.آپ کوئی نئی چیز دنیا میں لے کر نہیں آئے بلکہ آپ کی نثر کا ایک ایک فقرہ آپ کے اشعار کا ایک ایک شعر پڑھ کر دیکھیں آپ کی تفسیر دیکھیں سب کچھ قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں اور احادیث کی روشنی میں آپ نے لکھا ہے اور کچھ بھی نہیں.ہماری جماعت کے بننے کی غرض،

Page 391

خطابات مریم 366 خطابات ہمارے جلسوں کی غرض ، ہماری تعلیم کی غرض ، ہماری تنظیموں کی غرض اور ہمارے کاموں کی غرض صرف یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم پر سب لوگ عمل کر نے لگ جائیں اور دنیا میں مکمل امن قائم ہو جائے.لیکن منہ سے تو ہم یہ کہہ دیں گے کہ ہم قال اللہ اور قال الرسول کو دستور العمل بنائیں گے مگر یہ دستور العمل ہم تبھی اختیار کر سکتے ہیں کہ قرآن کریم پڑھا ہو قرآن کریم سمجھا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کن باتوں سے منع فرمایا ہے کون سی مثالیں دے کر ہمیں بتایا ہے کہ پہلی قومیں ان کے کرنے سے تباہ ہو گئی تھیں اور کون سے ذرائع ہیں جن پر عمل کر کے اسلام ترقی کر سکتا ہے.میری بہنو! اپنی زندگیوں کا سب سے بڑا مقصد یہ قرار دیں کہ ہم نے قرآن کو پڑھنا ہے ان کے معانی پر غور کرنا ہے قرآن کریم کو اپنی زندگیوں میں داخل کرنا ہے قرآن کی حکومت جبھی دنیا میں قائم ہو سکتی ہے کہ پہلے آپ کے دلوں میں قرآن کی حکومت قائم ہو آپ کے گھروں میں قرآن کی حکومت قائم ہو آپ کے بچے قرآن پڑھنے والے ہوں.قرآن سمجھنے والے ہوں.تبھی آپ قرآن پر عمل کر سکیں گی ورنہ بغیر پڑھے آپ کا یہ عہد دہرانا کہ ہم قال اللہ اور قال الرسول کو دستور العمل بنائیں گے مگر آپ کو تو پتہ ہی نہیں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے اور اللہ کے رسول نے کیا فرمایا ہے اس شرط میں اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آنے کا عہد بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر احمدی سے لیا ہے.رسمیں کیوں کی جاتی ہیں خدا کو چھوڑ کر بعض انسانوں کو خوش کرنے کیلئے اپنے آپ کو دوسروں کی نظر میں کوئی بڑی اور اہم چیز ثابت کرنے کیلئے حالانکہ وہی روپیہ جو رسموں پر خرچ ہو رہا ہے اگر خدا کی مخلوق کی بہبودی پر خرچ ہوتا تو انسانوں کو فائدہ بھی پہنچتا اور اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل ہوتی.شرائط بیعت میں سے ساتویں شرط یہ ہے کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.تکبر بھی ایک ایسی بُرائی ہے جو دوسرے انسانوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور خوش خلقی سے دوسرے انسان فائدہ اُٹھاتے ہیں.آپ سب ہمیشہ ہی ہر ایک سے مسکراتے چہرے کے ساتھ اور خوش اخلاقی سے ملا کریں.آپ کی تبلیغ تب ہی اثر کرے گی کہ جب دوسرے کو یہ احساس

Page 392

خطابات مریم 367 خطابات ہوگا کہ یہ لوگ ہم سے زیادہ اسلام پر عمل کرتے ہیں اور ہمیں صحیح راہ دکھانا چاہتے ہیں.نویں شرط یہ عہد ہے کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.یہ شرط جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احمدیوں کے لئے تجویز فرمائی كُنتُمْ خَيْرٌ أُمَّةٍ أخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (ال عمران : 111) تم بہترین اُمت ہو جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی مگر یہ یاد رکھو کہ تمہارے وجود انسانوں کے لئے فائدہ مند ہونے چاہئیں.اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ لوگوں کی بہبودی ، لوگوں کی بھلائی ، لوگوں کے دکھ درددلوں میں سمیٹنے کیلئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے نہ کہ کسی کو دکھ پہنچانے کیلئے اپنے آپ کو ایسا بناؤ کہ بغیر کسی تفریق کے ہمدردی اور محبت کرو یہ نہیں کہ صرف احمدیوں کیلئے تمہارے دلوں میں ہمدردی ہو.احمدی تو آپس میں بھائی بھائی بلکہ بھائیوں سے بھی بڑھ کر ہونے چاہئیں بلکہ ہر انسان جو خدا کا بندہ ہے خدا نے اس کو پیدا کیا ہے خواہ وہ کوئی مذہب رکھتا ہو یا کوئی بھی مذہب نہ رکھتا ہو.مگر خدا نے اس کو پیدا کیا ہے اور خدا کو اپنے بندے بہت پیارے ہیں اور خدا کوسب سے زیادہ تکلیف اس بات سے ہوتی ہے کہ اس کے بندے کو تکلیف پہنچائی جائے آپ کا سب پر احسان ہونا چاہئے.آپ کو سب کا ہمدرد ہونا چاہئے اور یہ ہمدردی ہی تو ہے کہ جو یہ اسلام کی نعمت آپ کو عطا کی ہے اس کا یہ پیغام نہیں پہنچا آپ اس تک پہنچا ئیں.ان غلط فہمیوں کو دور کریں جو ہماری طرف سے لوگوں کے دلوں میں پیدا کی گئیں لیکن نرمی سے ، پیار سے ، محبت سے ،حسن اخلاق سے سختی سے نہیں ، ڈنڈے سے نہیں گویا اسلام کی تعلیم کے دونوں ستونوں یعنی اللہ سے اور اللہ کے بندوں سے پیار کرنا ان کو فائدہ پہنچانے پر جب تک ہر مرد اور عورت دوام اختیار نہیں کرتا وہ اپنے آپ کو حقیقی مسلمان نہیں کہہ سکتا جس کی تفصیل بیعت کی شرائط میں بیان ہوئی ہے ہر احمدی بہن کو یہ شرائط اپنے ذہن میں رکھنی چاہئیں یہ شرائط لکھی ہوئی ہوں اور گھر میں ایسی جگہ اسے رکھنا چاہئے جہاں دن میں ایک بار ان کو پڑھ سکے غور کر سکے اپنا جائزہ لے سکے کہ واقعی جو عہد میں نے اپنے رب سے باندھا تھا میں اس پر پوری اترتی ہوں یا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں:.

Page 393

خطابات مریم 368 خطابات ” یہ سلسلہ بیعت محض بمرادفراہمی طائفہ متقین یعنی تقوی شعارلوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کیلئے ہے تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کیلئے برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہو اور وہ با برکت کلمہ واحدۂ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آ سکیں اور ایک کاہل اور بخیل اور بے مصرف مسلمان نہ ہوں اور نہ ان نالائق لوگوں کی طرح جنہوں نے اپنے تفرقہ و نا اتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے...وہ ایسی قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں، یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کیلئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوشش اس بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الہی اور ہمدردی بندگان خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آ وے“.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 196) ہے آپ کے مستقبل کا.ایسا دیکھنا چاہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو اس لئے اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں اور اس کا واحد طریق یہ ہے کہ خلیفہ وقت کے حکموں پر حضرت خلیفة أمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماء اللہ کے ذمہ بہت کام لگائے ہیں جس کی غرض آپ میں قربانی کی روح پیدا کرنا ہے.احمدیت کے پیغام کو اُن تک پہنچانا جن تک ابھی کیا تیاری کی ہے آپ نے؟ نہیں پہنچا اور اپنی تربیت کیلئے ثبت قدم اٹھانا ہے کیا تیاری کی ہے آپ نے اس وقت کیلئے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق احمدیت کی طرف عام رجوع ہوگا.کثرت سے لوگ آئیں گے ان کی تربیت کیلئے آپ نے اپنے آپ کو تیار کرنا ہے اپنا ایک نمونہ پیش کرنا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں چھوٹے چھوٹے جھگڑوں سے اجتناب کریں.فتنہ فساد سے دور رہیں ایک دوسرے سے محبت اور اتفاق سے رہیں ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور تقویٰ کے کاموں پر تعاون کریں تا آپ کا معاشرہ ایک

Page 394

خطابات مریم 369 خطابات جنت کا نمونہ نظر آئے اور احمدیت میں داخل ہونے والا ہر شخص اپنے آپ کو عافیت کے حصار میں ہی سمجھے.اس لئے جہاں اپنی روحانیت میں ترقی کریں وہاں اپنے اخلاق کی درستگی کی طرف بھی توجہ دیں.اپنے بچوں کے اخلاق کی طرف بھی توجہ دیں.وہ اخلاق جو قرآن سکھاتا ہے اور دین تو روحانیت اور اخلاق کے مجموعہ کا ہی نام ہے.اس ملک میں رہتے ہوئے جہاں مادیت کا دور ہے لوگ خدا سے دور جا چکے ہیں انسانیت کی اقدار ختم ہو چکی ہیں.اسلام کا پرچم بلند رکھنا ، اپنی روایات کو قائم رکھنا اسلامی معاشرہ کو قائم رکھنا ہماری بہنوں کا کام ہے اور سب سے بڑی چیز جس کی طرف آپ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اپنی اولاد کی اعلیٰ تربیت ہوتا کہ آپ کی اگلی نسل آپ کی جگہ لینے کو تیار ہو.وہ دنیا کی ظاہری چمک پر فدا ہونے والی نہ ہو.بلکہ ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو، مذہب سے محبت ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو آپ کی اطاعت کا جذبہ ہو.بہت بڑا کام ہے بہت بڑا وسیع میدان قربانی کا کھلا ہے آپ کے لئے اور اگر آپ اس معیار میں پوری اُتریں گی تو آنے والی نسلیں آپ پر سلامتی بھیجیں گی اور آپ کے نام تاریخ احمد بیت میں سنہری حروف میں لکھے جائیں گے.اس سلسلے میں پردہ کے متعلق بھی مجھے کچھ کہنا ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جب سے پردہ کے متعلق سختی شروع کی ہے خدا کے فضل سے بہت بہنیں جو یہاں پر اور کچھ وہاں پر جو پردہ میں کمزور تھیں پردہ شروع کیا ہے کہ پردہ کرنا کوئی مشکل نہیں ہے.آپ پردے کے ساتھ کام بھی کر سکتی ہیں صرف یہ ایک دل کی اپنی ہی کمزوری ہے کہ انسان اپنے آپ کو بجائے اونچا سمجھنے کے نیچا سمجھنے لگ جاتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ نجانے لوگ مجھے کیا سمجھ رہے ہوں گے حالانکہ جو اپنی روایات پر عمل کر رہا ہو اپنے دین پر عمل کر رہا ہو دنیا اُسے ذلیل نہیں سمجھتی بلکہ دنیا کی نظر میں ان کی زیادہ قدر ہوتی ہے کہ دیکھو یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے عہد باندھا کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے.یہ اپنے ہر کام میں دین کو پہلے دیکھتے ہیں اور دنیا بعد میں جب انسان دین کو دنیا پر مقدم کرے تو دنیا اس کے پیچھے خود بھاگتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ کی زبان اور آپ کی تبلیغ میں بھی اس وقت اثر ہوگا جب کہ آپ خود اس پر عمل کریں

Page 395

خطابات مریم 370 خطابات اور آپ پر خود اس تعلیم کے اثرات نمایاں ہوں.آپ کے لباس پر ، آپ کے اخلاق پر ، آپ کے کردار پر خواہ آپ قرآن کریم کی تعلیم دوسروں کو بتائیں کہ یوں ہونا چاہئے یوں نہیں لیکن آپ کا اپنا عمل نہ ہو تو وہ نہیں مانیں گے قول اور فعل کے تضاد کی وجہ سے.خدا کرے جو عہد آپ نے اپنے رب سے کیا ہے جو عہد بیعت کرتے وقت اپنے خلیفہ سے کیا اس پر آپ پوری اُتریں اس کے لئے بہت کوشش کی ضرورت ہے اور بہت دعاؤں کی بھی.انسان کتنی ہی کوشش کرے پھر بھی بعض دفعہ بھٹک جاتا ہے اس لئے بہت دعائیں کیا کریں اپنے لئے ، اپنی بہنوں کیلئے ، اپنے بچوں کیلئے یہ بھی ایک ذریعہ ہے ایک دوسرے کی محبت دل میں پیدا کرنے کا.ایک دوسرے پر بدظنی کرنا چھوڑ دیں.صرف محبت اور پیار کا راستہ اختیار کریں آپ عمل کر کے دیکھیں تو کام بہت آسان ہو جائے گا ہم نے تو دشمنوں سے بھی پیار کرنا ہے تو اپنوں سے تو اس سے بڑھ کر سلوک کرنا ہوگا.رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ کا نمونہ پیش کرنا ہوگا.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.اپنی اولاد اور اپنی اولاد کی تربیت کے ساتھ تبلیغ کی ذمہ داریوں کو زیادہ سے زیادہ ادا کریں.قرآن مجید میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فل کہا گیا یعنی یہ بات دوسروں کو بتا ئیں تو یہ حکم صرف آپ کے لئے نہیں تھا بلکہ ہر مسلمان کے لئے تھا اور ہر زمانہ کے مسلمان کے لئے تھا اور ہر زمانہ کے مسلمان کیلئے ہے کہ وہ اس تعلیم کو نہ جاننے والے تک پہنچائے.ہراحمدی کو خودا پنی بنیادی تعلیم سے واقفیت ہونی چاہئے تا کہ وہ ہر اعتراض کا جواب دے سکے اور اسلام کی حسین تعلیم کو اس ملک میں رہنے والی خواتین تک پہنچایا جائے.ان میں نہ روحانیت ہے نہ تقویٰ ہے نہ اللہ تعالیٰ کا قرب ہے نہ اعلیٰ اخلاق ہیں یہ لوگ صرف مادہ پرست ہیں اور دنیاوی لحاظ سے ترقی کر رہے ہیں.اس ترقی کی دوڑ میں اعلیٰ اقدار اور اخلاق کو بھولتے جا رہے ہیں اور گندگیوں میں گرفتار ہیں آپ نے ان بچوں کو ان گندگیوں سے دور رکھنا ہے اور ان کو اسلام کی خوبصورت ، دل پر اثر کرنے والی تعلیم سے روشناس کرانا ہے اب تیزی سے کام کرنے کا وقت ہے اور یہ کام صرف ایک صدر یا سیکریٹری یا مجلس عاملہ کی عہدہ داروں نے نہیں کرنا بلکہ ہر احمدی عورت کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملنے جلنے والیوں میں تبلیغ کرے اور اپنا اتنا اچھا نمونہ پیش

Page 396

خطابات مریم 371 خطابات کرے کہ وہ مجبور ہو جائیں ماننے پر کہ یہ نتیجہ ہے احمدیت قبول کرنے کا تبلیغ بھی ، محبت بھی ، پیار، حکمت اور دلائل سے ہونی چاہئے تا کہ آپ کے دلائل دوسرے کے دل پر اثر کریں آپ کی لجنہ کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے باقی سارے یورپ میں چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں آپ کو کام کے لحاظ سے باقی ساری لجنات کے لئے بھی نمونہ ہونا چاہئے لیکن رپورٹ کی با قاعدگی اور مرکزی لجنہ کے تعلق کے لحاظ سے باقی لجنات کا تعلق زیادہ مضبوط ہے ہر احمدی عورت کو سلسلہ کے لئے ایک مفید کارآمد وجود بنا ئیں.ہر ایک سے کام لیں ہر ایک کے دل میں کام کرنے کا شوق پیدا کریں.یو.کے کی مجلس عاملہ کا فرض ہے کہ یہاں رہنے والی ہر احمدی عورت کو ایک مفید اور کار آمد وجود بنا ئیں.سب مل کر کام کریں مل کر کوشش کریں اور دعاؤں کے ساتھ اس کے فضل کی طالب ہوں تو انشاء اللہ جلد آپ کی کوششوں میں برکت ڈالے گا.اے اللہ تو ایسا ہی کر.آمین مالی قربانی مالی قربانی دینے سے بلکلی نہ ڈریں یا درکھیں جتنا زیادہ اللہ کی راہ میں دیں گی اللہ تعالیٰ آپ کے اموال میں برکت ڈالے گا.ساری احمدیت کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے اور 1974ء کا زمانہ ابھی نہیں بھولا.جن کے گھر جلے ، جن کے گھر لوٹے اُنہوں نے خدا کی راہ میں اموال پیش کئے دیکھئے آج عام لوگوں کی نسبت ان کے پاس زیادہ اموال ہیں.اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑھ کر اموال دیئے ہیں.خدا تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں وہ جتنا لیتا اطاعت ہے اس سے زیادہ بڑھا کر واپس کرتا ہے.سب سے آخر میں میں آپ کو اس طرف زیادہ توجہ دلانا چاہتی ہوں کہ اپنے عہدہ داروں کی مکمل اطاعت کریں.اسلام کی تعلیم تو اس محور کے گرد گھومتی ہے.أطِيعُوا اللهَ وَاطِيْعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (النساء: 60) اگر اپنے عہدہ داروں کی مکمل اطاعت نہیں کریں گی تو خلافت کے ساتھ بھی آپ کا تعلق مضبوط نہیں ہوگا اور خلافت کی برکت سے آپ پورا فائدہ نہیں اُٹھا سکیں گی کیونکہ خلیفہ وقت کے مقرر کردہ افسروں یا عہدہ داروں کی اطاعت کرنا خلیفہ وقت کی ہی اطاعت ہے لیکن دوسری طرف میں عہدہ داروں کو بھی یہ نصیحت کروں گی کہ جب وہ نئی بچیوں کو کاموں میں لائیں تو انہیں کام محبت سے سکھائیں ایسی

Page 397

خطابات مریم 372 خطابات بچیاں شروع میں غلطیاں بھی کریں گی مگر عہدہ داروں کو چاہئے کہ انہیں بڑے پیار سے سمجھا ئیں اور آپ دونوں کے درمیان ایسا اخوت کا مضبوط رشتہ قائم ہو جائے گا جس کو دنیا کی کوئی مضبوط سے مضبوط طاقت بھی نہیں توڑ سکے گی.پس عزم کریں کام کرنے کا عزم کریں قربانیاں دینے کا اس کی راہ میں عزم کریں اسلام کے احکام پر عمل کرنے کا عزم کریں کہ ہم نے دنیا کی دوسری عورتوں سے زیادہ ترقی کرنی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلام کے غلبہ کی خاطر جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود اور مہدی موعود علیہ السلام کو دنیا میں بھجوایا تھا.اس غلبہ میں ہماری بھی کچھ قربانیاں شامل ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو اور جلد سے جلد اسلام کی ترقی کا سورج چڑھتا ہم دیکھیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس راہ میں قربانیاں کرتے چلے جائیں ساری دنیا میں ایک ہی کلمہ لا الہ الا اللہ ہو اور ساری دنیا میں آنحضرت علی کی حکومت ہو اور وہ تخت جو عیسائیوں نے چھین کر اپنے مسیح کو دیا تھا وہ حضرت مهدی موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جائے اور ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرنے کی توفیق ملے تا اسلام جلد از جلد دنیا پر غالب آ جائے.دعائیں کریں اپنی اولاد کے لئے کہ اس سرزمین پر رہتے ہوئے سچا اور پاک اور حقیقی مسلمان بنائے اور آپ کی گودوں سے وہ طارق اور خالد پیدا ہوں جو اسلام کا جھنڈا لے کر دنیا کے کونے کونے میں جائیں.آمین الفضل 23، 24 ستمبر 1983ء)

Page 398

خطابات مریم 373 خطابات یورپ میں بسنے والی احمدی خواتین کو کار آمد نصائح ممبرات لجنہ اماءاللہ فرینکفرٹ سے خطاب) آپ نے 3 / جولائی 1983ء کو لجنہ اماءاللہ فرینکفورٹ ( مغربی جرمنی ) سے جو خطاب فرمایا وہ درج ذیل کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.تبْرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ : وَ هُوَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ - الَّذِي خَلَقَ المَوْتَ وَالْحَيوة لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا، وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغُفُورُ - (الملک : 2 ،3) ترجمہ: بہت برکت والا ہے وہ خدا جس کے قبضہ میں بادشاہت ہے اور وہ ہر ایک ارادہ کے پورا کرنے پر قادر ہے اس نے موت اور زندگی کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کون زیادہ اچھا عمل کرنے والا ہے.اور وہ غالب اور بہت بخشنے والا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے نظام کائنات کی غرض کو بیان فرماتا ہے کہ اس کا ئنات میں موت اور زندگی کا سلسلہ اس لئے جاری فرمایا کہ معلوم ہو کہ کون اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مزہ اُٹھاتے ہوئے صحیح راستہ اختیار کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرتا ہے اور کون اس راستہ پر نہیں چلتا جو اللہ تعالیٰ کی طرف جاتا ہے.اس کا شکر گزار بندہ نہیں بنتا.اس مضمون کو سورۃ کہف میں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے.إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً (الكهف : 8) ہم نے دنیا میں اعلیٰ سے اعلیٰ چیزیں پیدا کر کے انسان کو اس میں مقرر کیا تا کہ ہم یہ دیکھیں کہ انسانوں میں سے کون زیادہ خوبصورت عمل کرتا ہے.یعنی کون کس قدر خدا تعالیٰ کی صفات کو

Page 399

خطابات مریم 374 خطابات اپنے اندر پیدا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ پر بڑے فضل کئے ہیں آپ کو احمدی جماعت میں پیدا کیا یا احمدیت کی نعمت کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.ظاہری لحاظ سے بہت فضل کیا اور دنیاوی نعمتوں کی فروانی عطا کی لیکن خدا تعالیٰ کا پیار وہی حاصل کرے گا جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کی دی ہوئی قوتوں کو اور اس کی دی ہوئی نعمتوں کو خرچ کرے گا.زیادہ سے زیادہ قربانی دے گا.یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قربانی کا معیار کیا ہے جس پر ایک احمدی کو پورا اُترنا چاہئے تو میری پیاری بہنو! اللہ تعالیٰ نے قربانی کا معیار خود قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے اللہ تعالیٰ سورۃ تو بہ میں فرماتا ہے.قدان كان اباؤُكُمْ وَابْنَاؤُكُمْ وَاخْوَانُكُمْ وَازْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَامْوالُ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَ تِجَارَةً تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسْكِنُ تَرْضَوْنَهَا احب اليْكُمْ مِّنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بامرِها ، وَاللهُ لا يَهْدِى الْقَوْم الفسِقِينَ - (التوبه :24) ترجمہ: کہہ دے اگر تمہارے ماں باپ اور اولاد اور بھائی بہنیں اور میاں بیوی یا تمہاری برادری اور وہ مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے خراب ہونے سے تم ڈرتے ہو اور رہائش کی جگہیں یا وطن جن کو تم پسند کرتے ہو خدا اور اس کے رسول اور دین کیلئے کوشش کرنے کی نسبت تم کو زیادہ پسند ہیں تو تم اس وقت تک انتظار کرو جب تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے متعلق کوئی فیصلہ کرلے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنی ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں.یہ آیت پیمانہ ہے یا کسوٹی ہے جاننے کے لئے کہ اس کی قربانیوں کا معیار کیا ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں خود ماں باپ کی عزت کرنے اور ان کی خدمت کرنے کی تاکید فرماتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کے قدموں کے نیچے جنت قرار دی ہے.بھائی بہنوں سے محبت اور ان کے حقوق ادا کرنے کا حکم ہے.خاوند کو بیوی سے نیک سلوک کرنے کا اور بیوی کو خاوند کے حقوق ادا کرنے کا حکم ہے.اولاد کی عزت کرنے ان کی اعلیٰ تربیت کرنے اور اُن کا ہر لحاظ سے خیال رکھنے کا حکم ہے.روپیہ کمانے سے منع نہیں کیا.مکان بنانے سے منع نہیں

Page 400

خطابات مریم 375 خطابات کیا.ہماری جماعت کو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ وسع مکانک کا حکم ہے اس لئے مکانوں میں وسعت دو تا کہ مہمان ٹھہریں.ہر محبت اپنی جگہ ہے خدا سے خدا کی شان کے مطابق محبت کرو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رسول کی شان کے مطابق ، دین سے اس کی اہمیت کے مطابق ، والدین سے ان کے درجہ کے مطابق ، اولاد سے اس کے تعلق کے مطابق غرضیکہ ہر ایک کے درجہ کو مدنظر رکھا جائے اور کہیں بھی ان مذکورہ بالا کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اس کی راہ میں کوشش اور قربانی کرنے سے نہ ٹکرائے.اگر کہیں ان کی محبتیں خدا تعالیٰ کی محبت سے ٹکراتی ہیں اور اس کی راہ میں قربانی دینے میں حائل ہوتی ہیں تو پھر ان محبتوں کو قربان کرنا ہو گا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو ترجیح دینی ہوگی.آپ سب اس معیار کو اپنے سامنے رکھیں آپ میں سے اکثریت پاکستان سے آ کر یہاں آباد ہوئی ہے.یہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے رزق کے دروازے کھولے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کے مال میں برکت ڈالے مگر آپ اس بات کا جائزہ لیتی رہیں کہ اتنی دور آ کر آپ اپنے فرائض سے غافل تو نہیں ہو رہی ہیں.ایک احمدی مسلمان ہونے کی حیثیت سے سب سے بڑا فرض تو آپ کا یہ ہے کہ جہاں آپ عبادت کے لئے اللہ تعالیٰ سے کبھی غافل نہ ہوں یعنی آپ کا دنیا کمانا، اس ملک میں نوکری کرنا آپ کو ان فرائض سے غافل نہ کر دے جو بحیثیت مسلمان آپ پر فرض ہیں.نماز ، ذکر الہی وغیرہ اس میں غفلت نہ ہو وہاں آپ کا ظاہر بھی مسلمان ہی نظر آئے.آپ یہاں کے رہنے والوں کے طور طریق سیکھ کر ایسی شکل نہ اختیار کر لیں جو ایک مسلمان عورت کا طریق نہیں.پھر اس ملک میں رہتے ہوئے آپ پر یہ بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ اس بات کی نگرانی رکھیں کہ آپ اور آپ کے خاوند صحیح طور پر جماعت کی خدمت کر رہے ہیں یا نہیں.آپ کا مالی قربانی کا معیار آپ کے وقت کی قربانی کا معیار وہی ہے جو ہونا چاہئے.آپ کی یہ بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس ملک میں رہتے ہوئے اپنی اولاد کی صحیح تربیت کریں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا - ( التحريم : 7) اے مومنو! اپنے آپ کو اور اپنی بیویوں اور بچوں کو ہلاکت سے بچاؤ.

Page 401

خطابات مریم 376 خطابات ہر وقت نظر رکھیں کہ آپ کے بیٹے اور بیٹیاں بگڑ تو نہیں رہیں.مغربی دنیا کی بظاہر جگمگاتی لیکن اندر سے اندھیری دنیا کو دیکھ کر.سب سے بڑی غلطی تو ماں باپ یہ کرتے ہیں کہ بچوں کو سکولوں میں بھجوا کر غافل ہو جاتے ہیں اپنی زبان نہیں سکھاتے جب تک آپ جس ملک میں رہیں گے آپ کے لئے ضروری ہے کہ اس کی زبان سیکھیں تا یہاں کے رہنے والوں پر اپنا نقطہ نظر واضح کر سکیں.مگر اپنی زبان ہر حال میں سکھانی چاہئے ورنہ مرکز سے تعلق قائم نہیں رہ سکتا.ہما را با برکت لٹریچر اردو میں ہے اُردو نہیں آئے گی تو بڑے ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لڑیچر ، سلسلہ کے اخبار نہیں پڑھ سکیں گے.ان مغربی ممالک میں جو آزادی ہے جس نے اخلاقی اقدار کو ختم کر کے رکھ دیا ہے اس سے خود بچنا اور اپنی نسل کو بچانا آپ کا فرض ہے.جب تک دین کی محبت ان کے دلوں میں پیدا نہیں کریں گے غلط اور صحیح کا تصور ان کے دلوں میں پیدا نہیں ہوگا.وہ پھر یہاں کے رنگ میں رچتے جائیں گے جو روحانی طور پر گندگیاں یہاں پھیلی ہوئی ہیں ان سے بچنا اور اپنے گھروں کا پاکیزہ ماحول پیدا کرنا آپ کا کام ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.کلکم راع و كلكم مسئول عن رعيته.( بخاری کتاب الجمعہ ) تم میں سے ہر شخص ایک چرواہا ہے جس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا اس حدیث کی رُو سے ہر ماں اپنے بچہ کے متعلق جوابدہ ہوگی.پس میری بہنو اللہ تعالیٰ نے زندگی کی نعمت دی مال دیا اولا د دی سب نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش کرو تا اللہ تعالیٰ کی نظروں میں قابل قدر وجود گنے جاؤ.سب سے زیادہ اثر انسان کے اخلاق کا دوسروں پر پڑتا ہے آپ کے اعلیٰ اخلاق اعلیٰ نمونہ ہی غیر مسلموں اور غیر احمدیوں کو احمدیت کی طرف متوجہ کر سکتا ہے کہ ان کی زندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر کیا انقلاب آیا.جب تک واضح طور پر آپ دوسروں سے ان کو نمایاں نظر نہیں آئیں گی آپ کی بات کا اثر بھی نہیں ہوگا نیز بہت ضروری ہے کہ آپ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ ہو جو آپ قرآن کی خوبیاں تعلیم اخلاق کے متعلق لوگوں کو بتائیں خود آپ اور آپ کی اولاد میں بھی تو ان کا پایا جانا ضروری ہے.اسلام چند عقائد کے مجموعہ کا

Page 402

خطابات مریم 377 خطابات نام نہیں اسلام تو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں ایک انسان کی پیدائش سے مرنے تک کی مکمل ہدایات موجود ہیں.ہر شعبہ زندگی کے متعلق راہ نمائی کی گئی ہے جو تعلیم اسلام نے ہر زندگی کے شعبہ کیلئے دی ہے وہ سب مذاہب کی تعلیم سے اعلیٰ اور افضل ہے اس سے واقف ہوں.قرآن پڑھیں ترجمہ دیکھیں.آپ کو علم ہو کہ آپ پر کیا ذمہ داریاں ہیں.آپ نے معاشرہ میں کیا کردار ادا کرنا ہے کس کس بات کے کرنے کا آپ کو حکم دیا گیا ہے کس کس بات سے روکا گیا ہے ہم دن میں کئی کئی بار خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں محض اس لئے کہ علم نہیں ہوتا.قرآن مجید کی تعلیم کے ساتھ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی ، آپ کے احسانات، آپ کے اخلاق ، آپ نے جو تعلیم دی، آپ کے ارشادات کا علم ہونا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن مجید کی تعلیم کو پھر سے دنیا میں پھیلانے اور اسلام کو دنیا کے تمام مذاہب پر غالب کرنے کیلئے بھیجے گئے تھے.اس لئے بہت ضروری ہے کہ جس حد تک آپ کی لیاقت ہے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کریں.آپ کی کتب قرآن مجید کی تفسیر ہیں اور قرآن کی تفسیر سیکھنے کے لئے کتب کا پڑھنا ضروری ہے.پھر آپ کے خلفاء کا لٹریچر پڑھیں اور اپنے بچوں کو پڑھائیں.اس ملک میں رہتے ہوئے اگر اپنی اور اپنے بچوں کی دینی تعلیم اور تربیت کا خیال نہ رکھا تو آپ کے وجود احمدیت کی ترقی میں روک ثابت ہوں گے.پھر آپ کی طرز زندگی اُٹھنا بیٹھنا، ملنا جلنا سب کچھ قرآن کی تعلیم کے مطابق ہونا چاہئے.جو احکام ایک مسلمان عورت کے متعلق اسلام نے دیئے ہیں ان پر عمل ہونا چاہئے.سب سے پہلے تو ایک عورت کیلئے یہی حکم ہے کہ وہ اپنی زینت کو چھپائے نہ کہ مردوں کے سامنے اپنی زینت کو ظاہر کرتی پھرے یہ کوئی دلیل نہیں کہ اس ملک میں پردہ کرنا مشکل ہے.کہیں بھی مشکل نہیں اسلام ساری دنیا کیلئے ہے اور پردہ قرآن کا حکم ہے.کیا آپ نے بیعت کرتے ہوئے یہ عہد نہیں کیا تھا کہ آپ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گی ؟ کیا آپ نے یہ عہد نہیں کیا تھا کہ خلیفہ وقت جو نیک کام آپ کو بتائیں گے آپ اس پر عمل کریں گی؟ کیا آپ نے بیعت کرتے ہوئے یہ عہد نہیں کیا تھا کہ ہر حال رنج اور راحت اور عسر اور میسر اور نعمت و ابتلاء میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کریں گی اور ہر ایک ذلت اور دکھ کو قبول کرنے کیلئے اس کی راہ میں تیار رہیں گی اور کسی

Page 403

خطابات مریم 378 خطابات مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیریں گی؟ کیا آپ نے یہ عہد نہیں کیا تھا کہ قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کریں گی اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنی ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دیں گی.آپ جائزہ لیں اپنا کہ اس عہد بیعت پر آپ کس قدر پوری اترتی ہیں کیا اپنے آئینہ میں آپ کو وہ چہرہ نظر آتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو بنانا چاہتے ہیں.جو ایک احمدی عورت کا چہرہ ہونا چاہئے اگر نہیں تو اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور اپنے آپ کو قرآن وحدیث کی تعلیم کے مطابق بنا ئیں ہمارے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل نمونہ موجود ہے زندگی کی ہر راہ کیلئے ہدایتیں موجود ہیں ان کو پڑھیں اور ان پر عمل کریں اور دیکھیں کہ آپ خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول کی نافرمان تو نہیں بنتیں.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا کرے کہ اس ملک میں رہتے ہوئے آپ اچھا نمونہ پیش کریں جو دوسروں کی توجہ کھینچنے والا ہو.اس کے بغیر آپ حقیقی رنگ میں داعی الی اللہ نہیں بن سکتیں جو آ پکی زندگی کی غرض ہے.(الفضل 10 اکتوبر 1983ء)

Page 404

خطابات مریم 379 خطابات خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ انگلستان (31 جولائی 1983ء) وَ هُذَا كِتُبُ الزِّلْنَهُ مُبرِّكَ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الانعام : 156) ترجمہ: اور یہ ( قرآن ) ایسی کتاب ہے جسے ہم نے اُتارا ہے (اور یہ ) برکت والی ہے پس اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج آپ کا چھٹا سالانہ اجتماع ہے جو میں نے دیکھا اور جس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے شمولیت کی توفیق ملی ہے.کل رات لجنہ اماء اللہ انگلستان کی مجلس شوری میں بعض باتوں کی وجہ سے مجھ پر اچھا تاثر نہیں پڑا تھا.گو میں جانتی ہوں ( مکرمی مولانا شیخ مبارک احمد صاحب انچارج مشنری جماعت ہائے انگلستان ) نے بھی اپنی تقریر میں بہنوں کی قربانی کا ذکر فرمایا ہے کہ یہاں کی احمدی عورتوں نے مساجد اور مشن ہاؤسز کیلئے بہت چندہ دیا ہے اور ساری جماعت نے ہی بڑی قربانی دی ہے لیکن پھر بھی بعض بہنوں کی طرف سے ایسا تاثر تھا کہ گویا وہ مالی قربانی سے گریز کر رہی ہیں میرے لئے یہ تکلیف دہ بات تھی.ہم میں یہ کمی نہیں ہونی چاہئے.ایک طرف تو ہم اپنے رب سے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہر چیز جان ، مال، وقت اور اولاد کو تیری راہ میں قربان کریں گے دوسری طرف جب مطالبہ کیا جائے دین کیلئے اولا دکو قربان کیا جائے تو اس سے گریز کرنا ، مطالبہ کیا جائے مال قربان کرنے کا تو اس سے بچنا یہ مومن کی شان نہیں.اللہ تعالیٰ آپ میں اخلاص اور جذبہ پیدا کرے اور بڑھ چڑھ کر قربانی دینے کی توفیق عطا فرمائے.آمین یہ ایک حقیقت ہے کہ یورپ میں آپ کی لجنہ مرکزی لجنہ ہے جس وقت سے اجتماع شروع.

Page 405

خطابات مریم 380 خطابات ہوا ہے میں سوچ رہی تھی کہ یورپ میں باقی جگہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں جس طرح ربوہ میں سب جگہ تربیتی کلاسوں اور اجتماع کے موقع پر بچیاں آتی ہیں تا ان کی تربیت ہو اسی طرح لندن میں یہ انتظام ہونا چاہئے کہ تمام یورپین ممالک سے احمدی بچیاں تربیتی کلاسوں اور اجتماع کے موقع پر آ ئیں جہاں مقابلہ جات میں شرکت کریں اور انگلستان کی لجنہ مرکز یہ ان کی تعلیم و تربیت کی نگرانی کرے پس میں اس امر کی تائید کرتی ہوں کہ لجنہ برطانیہ ان کو آہستہ آہستہ اپنے پروگراموں میں شمولیت کی دعوت دیں اور جہاں بھی انگریزی جاننے والی بچیاں ہیں وہ ان میں شامل ہو کر فائدہ اُٹھائیں لیکن یا درکھیں کہ تربیت کا سب سے بڑا ذریعہ قرآن شریف ہے.حضرت مصلح موعود کا ایک شعر ہے جو آپ نے اپنے بچوں کی آمین پر کہا تھا.شہر لولاک نعمت لاتے تو اس دنیا سے ہم اندھے ہی جاتے یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر یہ نعمت ہمیں نہ ملتی قرآن نہ ہوتا تو ہم روحانی اندھے ہوتے.نہ ہمارا اپنے رب سے تعلق ہوتا نہ روحانی ترقی.پس ضروری ہے کہ قرآن پڑھا جائے اور اس کا ترجمہ سیکھا جائے.میں نے جو آیت پڑھی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کتاب یعنی قرآن مجید ہم نے نازل کی ہے جس کتاب کو نازل کرنے والا خدا ہے اسی نے سب کو پیدا کیا ہے اس کو انسان کی ہر ضرورت کا علم ہے اس لئے جو بھی مسئلہ پیدا ہو قرآن سے اس کا حل تلاش کرو وہیں ملے گا اس کی پیروی کرنے سے اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہوگا.اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ اگر تم مومن رہے تو ساری دنیا پر غالب رہو گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمان پہلے ساری دنیا پر چھا گئے.یکے بعد دیگرے ممالک فتح کئے.علوم کے چشمے بہائے.قرآن کی بدولت جاہل اور بگڑے ہوئے انسان با اخلاق اور پھر باخدا انسان بنے لیکن افسوس جب انہوں نے خود قرآن پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو انتہائی تنزل کی حالت میں جا گرے اور یہ سب کچھ قرآنی پیشگوئیوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے عین مطابق ہوا.اللہ تعالیٰ نے آخری زمانہ میں مہدی موعود کے غلبہ کے ساتھ وابستہ رکھا تھا اور قرآن مجید میں فرمایا تھا کہ آخرین کی تربیت اور تزکیہ نفس آپ کے ذریعے ہوگا صحابہ نے پوچھا

Page 406

خطابات مریم 381 خطابات یا رسول اللہ وہ کون سی جماعت ہوگی تو آپ نے سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریا ستارہ پر بھی چلا جائے گا تو یہ لوگ ایمان کو وہاں سے واپس لے آئیں گے.اسی وعدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مہدی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تا کہ آپ کے ذریعہ سے اسلام کا غلبہ ہو.آپ کے ذریعے بھٹکی ہوئی انسانیت پھر اپنے رب کا پیار حاصل کر سکے اور روحانی طور پر وحشی درندے پھر باخدا اور خدا نما انسان بن جائیں اور ساری دنیا کی ہدایت کا فریضہ سرانجام دیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاما آپ کے آنے کی غرض یہ بتائی تھی کہ يُحْيِ الدّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَة ( تذکرہ صفحہ 55) آپ کوئی نیا دین نہیں لائے کوئی نئی شریعت نہیں بنائی آپ کے آنے کی غرض تو پھر سے دین اسلام کا احیاء اور شریعت کا قیام تھا.آپ نے تو فرمایا میں نے جو کچھ پایا ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں پایا ہے.آپ کے آنے کی غرض صرف یہ تھی کہ گلستان محمد میں پھر سے بہار آئے.وہ درخت جوسو کھے پڑے ہیں وہ ہرے ہو جائیں پھلیں پھولیں اور دنیا ان کے پھولوں کی خوشبو سے مہک اُٹھے.اس کام کو سرانجام دینے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو سمجھیں ہم میں ہر بہن قرآن کریم کا ترجمہ جانتی ہو.علم کے بغیر عمل ناممکن ہے کیونکہ اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے فاتبعوہ اس کی پیروی کرو.عمل تبھی ہو سکتا ہے جب آپ کو معلوم ہو کہ قرآن میں لکھا کیا ہے ہم ان میں سے کئی بار قرآنی احکام تو ڑ دیتے ہیں محض نادانی اور جہالت سے کہ ہمیں علم نہیں تھا کہ اس سلسلہ میں قرآن کریم کا کیا حکم تھا اور کس بات کے کرنے سے منع کیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :."سوتم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے“.(روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحه 26) بڑا انذار ہے اس میں میری بہنو! میں آپ کو توجہ دلاتی ہوں کہ آپ ساری کوشش قرآن مجید کا ترجمہ سیکھنے اور سکھانے کیلئے کریں ہر حلقہ کی لجنہ اپنے حلقہ میں ترجمہ سکھانے کی

Page 407

خطابات مریم 382 خطابات کوشش کرے.بہت بڑا کام ہوگا یہاں کی لجنہ کا اگر وہ بہنوں کو تر جمہ سکھا دیں.فاتبعوہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے تربیت کی طرف خصوصی توجہ دلائی ہے.قرآن کریم کی پیروی کے لئے ضروری ہے کہ انسان کے اندر تقویٰ بھی ہو.بعض لوگ تقویٰ کے معنی سمجھتے ہیں کہ نیکی کو تقوی کہا جا سکتا ہے.حضرت ابو ہریرہ سے کسی نے پوچھا کہ تقوی کیا ہے.آپ نے فرمایا کہ راستہ میں کانٹے اور جھاڑیاں ہوں اور آپ نے گزرنا ہوتو کیا کرو گے اس نے کہا کہ میں پہلو بچا کر گزروں گا.آپ نے کہا یہی تقویٰ ہے ہر بُرائی سے پر ہیز کرنا جس میں ملوث ہو کر انسان گناہ کی طرف چلا جاتا ہے.پوری کوشش ہونی چاہئے کہ چھوٹی چھوٹی بُرائیوں سے بچو یہ نہیں کہ کسی بُرائی سے روکا گیا تو جواب دیا کہ یہ کر لیا تو کیا ہوگا.اس میں کیا ہرج ہے.یاد رکھیں بُرائی کا ایک ڈر ہوتا ہے جب وہ دور ہو جائے تو پھر انسان کا قدم بُرائیوں کی دلدل میں جا پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن مجید کی پیروی اور تقویٰ اختیار کرنے کے نتیجہ میں تم پر رحم کیا جائے گا.اللہ تعالیٰ کے آپ پر بڑے احسانات ہیں احمدیت کی نعمت آپ کو ملی اس کی قدر کریں.اپنے رب کا پیار حاصل کریں اس کی بھیجی ہوئی کتاب جو انسانیت کے لئے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس کے بغیر آپ ترقی نہیں کر سکتیں جس میں خدا تعالیٰ نے انسانیت کے لئے ہدایت کی راہیں کھولی ہیں اس کو پڑھیں ، بکثرت پڑھیں اور پڑھا ئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ سب سے بہتر انسان وہ ہے جو قرآن پڑھتا ہے اور پڑھاتا ہے.جب آپ غور سے قرآن مجید پڑھیں گے اس پر عمل کریں گے تو آپ خود محسوس کریں گی کہ آپ کی زندگیوں میں انقلاب بر پا ہو چکا ہے وہی انقلاب جس کو بر پا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تھے.تربیت کے سلسلے میں مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ جہاں آپ کے اجتماع کا معیار میرے اندازے سے بڑھ کر نظر آیا ہے.وہاں نظم اور ضبط کی کمی بھی نظر آئی ہے.ایک پُر وقار منظم جماعت کی خواتین میں اعلیٰ درجہ کا نظم وضبط ہونا چاہئے آپ کے اندر اس قسم کا نظم و ضبط ہونا چاہئے کہ کوئی بھی غیر اگر آپ کی تقریبات میں آئے اس کا عقیدہ خواہ کچھ بھی ہو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہے کہ یہ وہ جماعت ہے جو اسلام کی تعلیم کو پھیلانے کا

Page 408

خطابات مریم 383 خطابات دعویٰ لے کر کھڑی ہوئی ہے نمونہ کا جتنا اثر ہوتا ہے اتنا زبانی باتوں کا نہیں ہوتا.مجھے لندن کے بہت سے حلقہ جات اور انگلستان کی کئی اور جماعتوں کے اجلاسوں میں آپ سے خطاب کرنے کا موقع ملا ہے ہر جگہ آپ کو توجہ دلائی ہے اور اب پھر توجہ دلاتی ہوں کہ آپس کی رنجشوں کو ترک کریں ہمارا مقصد بہت اعلیٰ ہے کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام جلد غالب آ جائے.ساری دنیا کو علم ہو جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آچکے ہیں اور ساری دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لے اگر آپ چھوٹی چھوٹی باتوں، بھٹوں اور شکووں میں لگی رہیں تو یہ اعلیٰ اور ارفع مقصد کہ آپ نے ہر شخص تک جاء ابیح جاء اصبح کا پیغام پہنچانا ہے پورا نہیں ہوسکتا.تبلیغ کی طرف توجہ دیں آپ کے اندر جنون ہونا چاہئے کہ اسلام اور احمدیت کے پیغام کو دنیا تک پہنچائیں.اپنے قول اور اخلاق کے ذریعے سے اپنی حسین اور جنتی زندگی کا نمونہ پیش کرنے کے ذریعہ سے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنی بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں آپ کی قربانیوں کا معیار بھی یکساں ہونا چاہئے.جس کی طرف میں اپنی پچھلی تقریر میں توجہ دلا چکی ہوں کہ چند عہدیداروں کے کام کرنے سے کام ترقی نہیں کرتا جب تک آپ ساری کی ساری بہنیں جو یہاں موجود ہیں ان میں ایک سا جذ بہ نہ ہو ایک سی لگن ہو یکساں کام کرنے کا شوق ہو یکساں اخلاق ہو جس کی قربانی کا مطالبہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے ہو وہ سب قربانی پیش کر دیں.اس ملک میں رہتے ہوئے دجالیت سے اپنے کو محفوظ کر میں اپنے بچوں کو بچائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بچوں کی آمین میں اپنی اولاد کے لئے یہ دعا کی ہے.نہ آئے ان کے گھر تک رعب دجال حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو آئے ہی دجال کو مٹانے کے لئے تھے اور یہی غرض آپ کی جماعت کی ہے اس ملک میں رہتے ہوئے جو د جالیت کا مرکز ہے.آپ نے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا ہے اپنی نسلوں کو محفوظ کرنا ہے تا آپ نیک نمونہ سے دنیا کو اسلام کی طرف رجوع کریں.حضرت مصلح موعود جب 1924 ء میں یہاں تشریف لائے اور مسجد فضل لندن کی بنیا درکھی تو آپ نے اپنے ایک خط میں فرمایا کہ میں نے انگلستان کا دورہ کیا ہے میں مایوس نہیں ہوں

Page 409

خطابات مریم 384 خطابات مجھے یقین ہے کہ سارا یورپ ایک دن اسلام قبول کرے گا لیکن مجھے خوف ہے کہ کہیں وہ بگڑی ہوئی شکل کا اسلام قبول نہ کر لے.آپ کی مراد یہی تھی کہ اگر عورتیں پردہ نہ کریں گی تو جونئی اسلام لائیں گی وہ یہی سمجھیں گی کہ اسلام کا پردہ یہی ہے.میری بہنو! اگر آپ کو اپنے رب سے پیار ہے اگر آپ کو اسلام سے محبت ہے اگر آپ میں خلیفہ وقت کی اطاعت کا جذبہ ہے تو اسلام کی شکل نہ بگڑنے دیں بلکہ اسی پر عمل کریں جو قرآن نے شکل پیش کی ہے اور جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کر کے دکھایا اور آپ کے صحابہ صحابیات نے عمل کیا اور جس کو پھر زندہ کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے تھے اور جس کے لئے آپ کے خلفاء جد و جہد کرتے رہے اور جس کے لئے حضرت خلیفہ امسیح الرابع آپ کو بار بار توجہ دلا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی توفیق دے اور مجھے بھی توفیق دے کہ ہمارے نیک نمونوں سے دوسرے ہماری طرف کھینچے چلے آئیں.آمین از ماہنامہ مصباح نومبر 1983ء)

Page 410

خطابات مریم 385 خطابات وہ زندگی گزاریں جس کی ہدایت قرآن دیتا ہے ہمارا اعلیٰ نمونہ ایسا ہونا چاہئے جس کو دیکھ کر دنیا یہ کہے کہ یہ سب سے جدا انسان ہیں حضرت سیدہ ام امتین مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا نے جماعت امریکہ کے سالانہ کنونشن منعقدہ 13 اگست 1983ء بمقام ڈیٹرائٹ جو خطاب لجنہ اماء اللہ کے جلسے میں فرمایا وہ ذیل میں پیش کیا جا تا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ ادْتُكُمْ عَلى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ تُؤْمِنُونَ باللهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَ انْفُسِكُمْ ذلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (الصف: 11، 12) ترجمہ: اے مومنو کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کی خبر دوں جو تم کو دردناک عذاب سے بچائے گا وہ تجارت یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کے رستہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کر وا گر تم جانو یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے.تجارة کہتے ہیں ایک چیز سے لے کر دوسری چیز حاصل کرنا.پیسے دے کر کپڑ الینا یا کوئی بھی چیز خریدنا.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ایک تجارت کی اطلاع مومنوں کو دیتا ہے جس کے نتیجہ میں کچھ خرچ کر کے انسان عذاب سے بچتا اور اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرتا ہے وہ تجارت ہے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ایمان رکھنا اور اللہ تعالی کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرنا.اس میں دو قسم کے کام بتائے ہیں.ایک اعتقاد سے تعلق رکھتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر

Page 411

خطابات مریم 386 خطابات ایمان.دوسرے عمل کی طرف توجہ دلائی ایمان اور عمل دونوں مل کر انسان کو کامل مومن بناتے ہیں.ایمان کی مثال ایک درخت کی ہے جس کو عمل کا پانی دیا جائے تو ایمان ترقی کرتا ہے یعنی ایمان کی مضبوطی کیلئے بار بار قربانیوں کی ضرورت ہے.اس آیت میں جہاد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.جہاد کے معنی کوشش کے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کا قرب حاصل کرنے کیلئے اپنے مال اور اپنی جان کے ساتھ کوشش کئے جاؤ.بدقسمتی سے جہاد کا لفظ مسلمانوں میں صرف مذہبی جنگوں کیلئے وقف ہو کر رہ گیا ہے حالانکہ قرآن مجید میں جنگ کے علاوہ تبلیغ اور نفس کی اصلاح کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے.تین قسم کے جہاد کی طرف قرآن مجید راہ نمائی کرتا ہے جہاد اصغر.جہادا کبر.اور جہاد کبیر.جہاد اصغر سے مراد وہی جہاد ہے جو عام طور پر اصطلاحی لحاظ سے بولا جاتا ہے یعنی جنگیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لڑی گئیں اور جن کیلئے بعض مخصوص شرائط ہیں ہر جنگ جہاد نہیں کہلا سکتی.جہاد اکبر سے مراد نفس کا جہاد ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنگ سے واپس آئے تو آپ نے فرمایا :.رَجَعْنَا مِنَ الجِهَادِ الأَصْغَرِ إِلى الجِهادِ الأَكْبَرِ تاريخ بغداد للخطيب البغدادی صفحه 13) ہم چھوٹے جہاد یعنی جنگوں سے فارغ ہوئے ہیں اب ہم بڑا جہاد کریں گے یعنی نفوس کی تربیت.سورۃ حج آیت 79 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَجَاهِدُوا فِي اللَّه حق جهاده ترجمہ:.اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایسی کوشش کرو جو بالکل مکمل ہو.اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ جنگ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لئے پوری کوشش کرو ہمت نہ ہا ر و وہ طریقے اختیار کرو جن سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے وہ کام کرو جو ا سے پسندیدہ ہیں ان سے رُک جاؤ جنہیں وہ نا پسند کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام الوصیت میں فرماتے ہیں:.ہر ایک راہ نیکی کی اختیار کرو نہ معلوم کس راہ سے تم قبول کئے جاؤ گے.“ (روحانی خزائن جلد 20.رسالہ الوصیت صفحہ 308)

Page 412

خطابات مریم 387 خطابات ان معنوں کی رو سے دیکھا جائے تو لفظ جہاد بڑے وسیع معنے رکھتا ہے.تمام وہ کوششیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کی جائیں.عبادتیں:.مخلوق خدا کی خدمت ، قومی ترقی کے لئے قربانی ، اپنی اصلاح اور اسلام کی اشاعت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں وہ سارے ارکان اسلام آجاتے ہیں جو ایک مسلمان کے لئے ضروری ہیں نماز.روزہ.زکوۃ وغیرہ ہر ایک کی شرائط مقرر ہیں.ہر عبادت کو پورے خلوص سے ادا کرنا چاہئے لیکن عبادتوں میں سر فہرست نماز ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء والمنكر (العنكبوت: 46) برائیوں سے بچنے کا ذریعہ نماز ہے.دل لگا کر پوری توجہ سے با قاعدگی سے نماز پڑھی جائے تو بہت سی بے حیائیوں اور برائیوں اور ناپسندیدہ باتوں سے انسان بچ جاتا ہے.کیونکہ نما ز انسان کو پاک کر دیتی ہے.عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق آتے ہیں.صرف عبادتوں سے اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہوتا جب تک اس کے بندوں کے حقوق پورے طور پر ادا نہ کئے جائیں.اس لئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ بار بار انسانوں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کبھی ماں باپ کے حقوق کی طرف کبھی بہن بھائیوں کے حقوق کی طرف ، رشتہ داروں کے حقوق کی طرف ، اولاد کے حقوق کی طرف، ہمسایوں کے حقوق کی طرف، مسافروں کے حقوق کی طرف، ملنے جلنے والے اور پاس بیٹھنے والوں کے حقوق کی طرف کہ جو حق کسی کا ہے اسے دو کسی پر ظلم نہ کرو.کسی پر بہتان نہ لگاؤ.غیبت نہ کرو.دکھ نہ دو.کسی کے جذبات کو تکلیف نہ پہنچاؤ.بدظنی نہ کرو.تجسس نہ کرو.برے ناموں سے نہ پکا رو.جھگڑا فساد والی باتیں نہ کرو.یا درکھیں ظلم پیدا ہوتا ہے حق تلفی سے جب کسی کو اس کے حقوق نہ دیئے جائیں اس پر ظلم ہوگا تو اس میں غصہ پیدا ہوگا وہ بدلہ لینے پر آمادہ ہو گا اور اس سے فساد واقع ہوگا.اسلام نے ہر ایک کے حقوق مقرر کئے ہیں.وہ جائز حقوق اس کو ملنے چاہئیں.کسی مذہب نے حقوق کے سلسلہ میں اتنی مکمل طور پر راہ نمائی نہیں کی جتنی اسلام نے کی.مثلاً بچوں کے متعلق آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے.ان کی عزت کرو، اکرام کرو، ان کو تعلیم دو، ان کی تربیت کرو، ان کو بے مہار نہ

Page 413

خطابات مریم 388 خطابات چھوڑ دو.غلط آزادی کے نتیجہ میں آج یہ حال ہے کہ ماں کو بیٹی کی ہوش نہیں.باپ کو بیٹے کی خبر نہیں.باپ کسی غلط بات سے بیٹے کو منع کرے تو وہ گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے ماں بیٹی کو کچھ کہے تو وہ مقابلہ پر کھڑی ہو جاتی ہے.یہ نتیجہ ہے بچوں کو ضرورت سے زیادہ آزادی دینے کا اور غلط قسم کے دوستوں سے ملنے جلنے کا اسی لئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ (توبة: 119) صادقین کی صحبت اختیار کرو.اچھے دوستوں کی صحبت سے بچہ نہیں بگڑتا.آپ کے ملک میں جہاں حد سے زیادہ آزادی کے نتیجہ میں جوان نسل غلط راستے پر چل رہی ہے احمدی ماؤں کو اپنے بچوں کی تربیت کی طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.ہوش سنبھالتے ہی ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اللہ تعالیٰ کا خوف.مذہب کا احساس.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت آپ کے احسانات کا تذکرہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلیفہ سے محبت کا جذ بہ پیدا کیا جائے اور یہ صرف ماؤں کا کام ہے.اس کے لئے خود اپنے نفس کا جہاد آپ کو کرنا پڑے گا.اس جہاد کے بغیر آپ ترقی نہیں کر سکتیں.جب تک اگلی نسل کی اخلاقی روحانی حفاظت کی گارنٹی آپ حاصل نہیں کرتیں آپ کی ترقی میں روک پڑتی جائے گی اور جب تک اگلی نسل آپ کی جگہ لینے کے لئے تیار نہیں ہو گی آپ کی قربانیاں بھی بیکا ر جائیں گی.اس وقت ہم سب اقلیت کی صورت میں ہیں ہماری تعداد بہت کم ہے.اس کے لئے بھی آپ نے تبلیغ کا جہاد کرنا ہے وہ جہاد جسے قرآن مجید میں جہاد کبیر کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.و جَاهِدُهُمْ بِه جِهَادًا كبيرًا (الفرقان : 53) اس قرآن کے ذریعہ ان سے بڑا جہاد کر.قرآن مجید ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک کے متعلق اصول و ہدایات درج ہیں زندگی کے ہر مرحلہ پر قرآن مجید نے روشنی ڈالی ہے اس لئے جہاں ایک طرف ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن مجید پڑھیں اس پر غور کریں اس کے احکام پر عمل کریں وہاں ہمارے لئے ضروری ہے

Page 414

خطابات مریم 389 خطابات کہ جن خاندانوں تک یہ نعمت نہیں پہنچتی ان کو اس کی طرف بلائیں.انہیں اس سے روشناس کرائیں کہ ایک مکمل تعلیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آچکی ہے جس پر عمل کرنے میں تمہارے لئے نجات ہے آؤ اس تعلیم پر غور کرو اور اسے قبول کر و حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.جو قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے“ قرآن کریم کو عزت دینے سے یہی مراد ہے کہ یہ عزم کریں کہ ہم قرآن کی تعلیم کو دنیا میں پھیلائیں گے اور ہم خود بھی اس پر عمل کریں گے تا ہمارا اعلیٰ نمونہ دیکھ کر دنیا ہماری طرف متوجہ ہو اور اس بات کو ماننے پر مجبور ہو کہ یہ انسان جو قرآن کی تعلیم پر عمل کر رہے ہیں.یہ باقی ساری دنیا سے جدا انسان ہیں اور ان کی تعلیم واقعی اس قابل ہے کہ دنیا اس پر عمل کرے.اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ سب قرآن مجید کا ترجمہ سیکھیں اس پر غور کریں.ہر مسئلہ کے متعلق آپ کو معلوم ہو.قرآن مجید کیا تعلیم دیتا ہے پھر اس تعلیم پر عمل کریں.ان اخلاق کو اپنا ئیں جن کی تعلیم قرآن نے دی ہے.ان باتوں سے رک جائیں جن کو قرآن مجید نے روکا ہے.ان قربانیوں کی طرف متوجہ ہوں جو اسلام کی ترقی آپ سے مطالبہ کرتی ہے.وہ زندگی گزاریں جس زندگی کی ہدایت قرآن دیتا ہے اور جس کا نمونہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتا ہے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیا کیلئے ایک کامل نمونہ بنا کر بھیجا ہے اور آپ کی اطاعت سے ہی اللہ تعالیٰ کی محبت ہمیں حاصل ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران : 32) اگر تمہارا یہ دعوی سچا ہے کہ تم اللہ سے پیار کرتے ہو تو اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو بتا دیں کہ اس دعوی کا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے دینا ہے آنحضرت علی کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ بھی تم سے پیار کرے گا کہنے کو بڑا آسان طریقہ ہے مگر عمل کے لحاظ سے مشکل.زندگی کے ہر شعبہ میں دیکھا ہے کوئی کام تو ہم سنت رسول اور اسوہ رسول اللہ علی کے خلاف نہیں کرتے.قرآن مجید کی تعلیم اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی فرق نہیں اس لئے تو جب کسی نے حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق بتا ئیں تو آپ نے جواب دیا.

Page 415

خطابات مریم 390 خطابات كانَ خُلُقُهُ القُرآن - ( مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 91) آپ کے اخلاق قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق تھے جو تعلیم آپ دیتے تھے اس پر آپ کا اپنا عمل تھا.آپ کی زندگی ہمیں سبق دیتی ہے کہ ہماری زندگیوں میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہئے ہمارے قول اور فعل میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے ورنہ آپ کی بات اثر نہیں کرے گی اور قرآن مجید کا جہاد بھی اسی وقت کا میاب ہوگا.یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اس زمانہ کی بُرائیوں سے محفوظ رہنے کیلئے صرف انسان کی کوشش ہی کافی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے رحم اور فضل کی بھی ضرورت جسے حاصل کرنے کا ذریعہ دعا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورۃ عنکبوت میں فرماتا ہے.والَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَاِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ (العنكبوت: 70) ترجمہ.اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے اور اللہ یقینا محسنوں کے ساتھ ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے جو بھی کوشش ہو وہ کرو اس میں ہمت نہ ہارو.خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ خود اپنی طرف آنے کی تمہیں توفیق دے گا جہاں روک پڑے اس سے اس کا فضل مانگو اس کے حضور میں جھک جاؤ کہ تیرے دین کی اشاعت کی خاطر ہم تکلیف اُٹھاتے ہیں کوشش کرتے ہیں اے ہمارے رب تو ہماری کوششوں کو کامیاب بنا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مقصد میں کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے تین گر بیان فرمائے ہیں آپ فرماتے ہیں.اول ضروری ہے کہ انسان دیدہ دانستہ اپنے آپ کو گناہ کے گڑھے میں نہ ڈالے ورنہ وہ ضرور ہلاک ہو گا.جو شخص دیدہ دانستہ بد راہ اختیار کرتا ہے یا کنویں میں گرتا ہے اور زہر کھاتا ہے وہ یقیناً ہلاک ہوگا ایسا شخص نہ دنیا کے نزدیک اور نہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل رحم ٹھہر سکتا ہے.اس لئے یہ ضروری اور بہت ضروری ہے خصوصاً ہماری جماعت کے لئے (جس کو اللہ تعالیٰ نمونہ کے طور پر انتخاب کرتا ہے.اور وہ چاہتا

Page 416

خطابات مریم 391 خطابات ہے کہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک نمونہ ٹھہرے) کہ جہاں تک ممکن ہے بدصحبتوں اور بد عادتوں سے پر ہیز کریں ( جو اس کی روحانیت پر برا اثر ڈالتے ہیں ) اور اپنے آپ کو نیکی کی طرف لگائیں.اور اپنے ہر ایک فعل اور حرکت وسکون میں نگاہ رکھیں.کہ وہ اس کے ذریعہ سے دوسروں کے لئے ایک ہدایت کا نمونہ قائم کرتا ہے یا نہیں؟ اس مقصد کے حاصل کرنے کے واسطے جہاں تک تدبیر کا حق ہے تدبیر کرنی چاہئے اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرنا چاہئے.“ تقویٰ اور نیکی کے حصول کے لئے تدابیر کی جستجو میں لگے رہنا یہ بھی ایک عبادت ہے.اور جب انسان اس کوشش میں لگا رہتا ہے تو عادت اللہ یہی ہے کہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی راہ کھول دی جاتی ہے.“ 66 ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 201) اسی تقریر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ حقیقی پاکیزگی حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ دعا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود وعدہ فرمایا ہے.ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : 61) تم مجھ سے دعا کرو میں تمہارے لئے قبول کروں گا.دعا کی حقیقت اور فلاسفی کو بیان کرنا خود ایک مضمون ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.دعا ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کو فخر کرنا چاہئے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه 202) ایک عیسائی جو کفارہ اور خون مسیح پر ایمان لا کر سارے گنا ہوں کو معاف شدہ سمجھتا ہے اسے کیا ضرورت پڑتی ہے کہ دعا کرے.ایک ہندو کیوں دعا کرے گا جسے یقین ہی نہیں کہ تو بہ قبول ہوتی ہے....دعا کے ساتھ کوشش جاری رکھو.ہمت نہ ہارو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.

Page 417

خطابات مریم 392 خطابات دعائد بیر ہے اور تد بیر دعا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.وو دعا بڑی دولت اور طاقت ہے اور قرآن شریف میں جابجا اس کی ترغیب دی اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں.جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنی مشکلات سے نجات پائی.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو.“ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 207) میں پہلے ذکر کر چکی ہوں کہ دو قسم کے جہاد ہم نے کرنے ہیں ایک اپنی تربیت واصلاح کا جہاد.دوسرا اسلام کی تبلیغ کا جہاد.ان دونوں کو کامیاب بنانے کے لئے یہ دو گروہ جن کا ذکر کیا گیا بڑے کامیاب رہیں گے.ان کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اخلاقی تزکیہ کے لئے ایک تیسری بات بھی بیان فرمائی ہے اور وہ ہے صحبت صادقین اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ (التوبة: 119) اے ایمان والو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور تقویٰ جب حاصل ہوسکتا ہے کہ صادقین کے ساتھ رہا کرو.اس لئے امام کی بیعت کا حکم ہے کہ امام اس کے لئے ایک ڈھال بن جاتا ہے.اس لئے سب سے بڑھ کر خلافت کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرو.ان کی ہدایتوں پر عمل کرو.تمام وہ تحریکیں جو آپ کی طرف سے کی جائیں ان پر بشاشت سے عمل پیرا ہو جاؤ.اللہ تعالیٰ آپ کو اور مجھے تو فیق عطا فرمائے کہ ہم میں سے ہر ایک حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کی خواہش کے مطابق داعیہ الی اللہ بنے اور ہماری سب کی کوششیں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی ہوں اور آپ کے ملک میں جلد سے جلد احمدیت پھیلے اور اسلام کے نور سے یہ ساری سرزمین منور ہو.لوگ اپنے حقیقی رب کی طرف جھکیں بُرائیاں مٹ جائیں.قرآن کی حکومت قائم ہو.میں ان بہنوں کو خاص طور پر نصیحت کرنا چاہتی ہوں جو پاکستان سے آکر یہاں آباد ہوئی ہیں جنہوں نے مرکز سلسلہ کے قریب رہ کر تربیت پائی مگر یہاں کی بظاہر چکا چوند تہذیب سے

Page 418

خطابات مریم 393 خطابات متاثر ہو کر پر دے اتار دیئے اور یہاں کی رہنے والیوں کے رنگ میں رنگی گئیں.حالانکہ ان کو نمونہ بننا چاہئے تھا نئی اسلام قبول کرنی والی بہنوں کے لئے وہ سوچیں اور غور کریں کہ ان کا عمل احمدیت کے نام پر دھبہ ہے.ان کو چاہئے کہ وہ اپنی اصلاح کریں.مذہب کے سب اصولوں پر چلیں اپنے آپ کو نمونہ بنائیں اور اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا (التحريم: 7) اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو آگ سے بچاؤ.کیا موجودہ آزادی اور بے راہ روی ایک آگ نہیں ہے جو ہر طرف بھڑک رہی ہے اور اس سے اپنے گھر والوں کو بچانا اور خود بچنا آپ کا کام نہیں ہے.آپ پر دوہری ذمہ داری ہے جب تک آپ خود اپنی اصلاح نہیں کرتیں آپ دوسروں کی اصلاح کیسے کر سکتی ہیں.اپنی اصلاح کے ساتھ اپنی لجنہ کے کاموں میں آگے آئیں محنت کریں اور یہاں کی رہنے والیاں اور آپ مل کر احمدیت کی تعلیم کو پھیلانے اور تربیت کے کام کو وسیع کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھ پوری پوری معاون ثابت ہوں.آپ کے ملک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کا نشان ظاہر ہوا جو ہمیشہ کے لئے ثابت کر گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچے تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے کہ اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح ادا کر سکیں.( آمین ) (الفضل 2 نومبر 1983ء)

Page 419

خطابات مریم 394 افتتاحی خطاب بر موقع سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ مرکز یہ 1983ء میری نہایت ہی پیاری بچیو ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ خطابات پ سب کا اجتماع میں آنا مبارک ہو خدا کرے آپ کا یہاں چند دن قیام کرنا آپ کے لئے فائدہ مند ثابت ہو.آپ یہاں سے کچھ سیکھ کر جائیں، کچھ تربیت حاصل کر کے جائیں آپ کے دلوں میں دین کا کام کرنے کا شوق پیدا ہو، قربانی اور خدمت کا جذبہ پیدا ہو.آپ کا نام ناصرات ہے.ناصرہ کہتے ہیں مدد کرنے والی کو.سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس کی مدد آپ نے کرنی ہے تا حقیقت میں آپ اپنے نام کی مستحق ہوں.سو میری بچیو! آپ نے ایک طرف دین کے کاموں میں اپنی بڑی بہنوں کا ہاتھ بٹانا ہے.دوسری طرف آپ نے اللہ تعالیٰ کے بندوں کی خدمت کرنی ہے.یا درکھیں کہ اسلام کے دو بڑے پہلو ہیں ایک خدا تعالیٰ کے حقوق ادا کرنا یعنی جو عبادت اللہ تعالیٰ نے جس عمر میں انسان پر فرض کی ہے وہ ادا کرنا.دوسرے اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنا.یعنی اس سے کسی دوسرے کو دکھ نہ پہنچے.کوئی تکلیف نہ پہنچے.نہ اس کی زبان سے نہ ہاتھ سے.صرف اس پر خوش نہیں ہونا چاہئے کہ ہم کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے بلکہ اس وقت آپ مطمئن ہوں جب آپ کے وجود سے دوسرے کو فائدہ پہنچ رہا ہو.آپ ابھی چھوٹی ہیں اس لئے تکلیف پہنچانے والی بعض باتیں آپ کے سامنے رکھوں گی کہ ہر جگہ ناصرات اس کی مشق کریں.آج دنیا کے سب ممالک ان باتوں پر عمل کر رہے ہیں جن کی ہدایت اسلام نے دی ہے.اسلام نے سب سے پہلے نماز میں صف بندی کا حکم دیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس طرح قطار بناؤ کہ کوئی خلا نہ رہے کسی کے

Page 420

خطابات مریم 395 خطابات کندھے پر سے پھلانگتے ہوئے آگے نہ جاؤ.لیکن ہم مسجد میں یہ نظارہ دیکھتے ہیں کہ دو ایک جگہ بیٹھ گئیں دو ایک جگہ بیٹھ گئیں اور بعد میں آنے والی دوسروں کو دھکے دے کر آگے جانے کی کوشش کریں گی.نماز ختم ہونے کے بعد ابھی حضور تشریف بھی نہیں لے گئے ہوتے کہ بچیاں اُٹھ کر بھاگنے کی کوشش کریں گی.کیوں؟ آپ کسی ملک میں جا کر دیکھیں کھیل ہو تماشہ بازار ہو یا ہسپتال ، عبادت گاہ ہو یا سنیما ہاؤس ہر جگہ داخلہ قطار کے ساتھ ہو رہا ہوتا ہے.کوئی کسی کو دھکا دے کر آگے جا کر کھڑا ہونے کی جرات ہی نہیں کر سکتا.حالانکہ اس کا اصل سبق نماز سے اسلام نے شروع کیا ہے مسلمانوں سے اسلام کی اچھی باتیں ان لوگوں نے اپنالیں.ہم بھول گئے.پس اس سال کے لئے میں ناصرات کو پروگرام دیتی ہوں کہ ہر شہر، قصبہ اور گاؤں میں عہد یدران لجنہ بھی اور عہدیدران ناصرات بھی بچیوں کو سکھائیں کہ جو پہلے جا رہا ہے اس کا آگے جانے کا حق ہے.پیچھے سے دھکا دے کر نہیں گزرنا.یہ عادت صبر کرنا بھی سکھاتی ہے نماز میں بھی اول تو پہلے آنے والی پہلی صف میں بیٹھے لیکن اگر آخر سے بنانی شروع کی تو کندھے سے کندھا جوڑ کر بیٹھے.وقفہ کسی صورت میں نہیں چھوڑنا پھر مسجد کے دوسرے آداب آپ ان کو اس طرح رٹا ئیں کہ وہ پھر نہ بھولیں.مثلاً دوران خطبہ نہ بولنا مسجد کی طرف نہ بھاگتے ہوئے آنا نہ بھاگتے ہوئے جانا.چلتے ہوئے کسی کو دھکا دے کر نہ گزرنا.مسجد کی صفائی کا خیال رکھنا.کچھ کھا کر کاغذ زمین پر پھینک دینا احمدی بچی کی شان نہیں.کھا کر وہ کاغذ جو کوڑا کرکٹ پھینکنے کا ڈرم ہے اس میں ڈالیں سیکرٹریان اور مائیں اگر بچیوں کی طرف پوری طرح توجہ دیں گی تو کل یہی تربیت یافتہ ممبرات لجنہ اور قوم کی مائیں قوم کو ملیں گی.گزشتہ سال میں نے اعلان کیا تھا کہ ہر لجنہ جسے اپنی بہترین بچی قرار دے گی اسے انعام دیا جائے گا.ان کے ناموں کا اعلان تو انشاء اللہ جو اس سال نام آئے ہیں کیا جائے گا.سندات دی جائیں گی.لیکن جو طریق بنایا گیا ہے اس پر لجنات نے پوری طرح عمل نہیں کیا ہر نام تین عہدیداروں نے منتخب کرنا تھا اور رپورٹ پر ان تینوں کے دستخط آنے چاہئیں تھے اور اس کی بہترین بچی منتخب کرنے کی وجو ہات لکھنی چاہئے تھیں جس کے ساتھ رپورٹ نہیں آئے گی صرف نام بھیجنے پر اسے انعام نہیں ملے گا اور سارے پاکستان میں بہترین بچی کے گولڈ میڈل کا فیصلہ اس وقت ہوگا جب ساری شرائط لجنات پوری

Page 421

خطابات مریم 396 خطابات کریں گی.انشاء اللہ لجنہ کا اجتماع اور ناصرات کا اجتماع ساتھ ساتھ جاری رہے گا مجھے بچیاں میدان میں پھرتی قطعا نظر نہ آئیں.ہر دو گھنٹہ کے بعد چند بڑی بچیوں کی ایک ٹیم بھجوا دیا کریں جو میدان میں گرے ہوئے کا غذ یا چھلکے اٹھا کر ڈبوں میں ڈال دیا کریں.پیاری بچیو! اللہ نے آپ کو یہ نعمت عطا کی ہے کہ آپ احمدی گھرانوں میں پیدا ہوئیں.بہت بڑی ذمہ داریاں آپ نے اٹھانی ہیں.ابھی سے آپ اس کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں دوامریکن بچیاں یہاں صرف دین سیکھنے کے لئے آئی ہوئی ہیں کتنی بڑی قربانی ہے.آپ کو سکھایا جاتا ہے اور بعض نہیں سیکھتیں یہ عمر بھی ایک نعمت ہے زیادہ علم سیکھیں اپنے دل میں دین کی محبت پیدا کریں.سلسلہ کے کسی کام کی طرف بلایا جائے فوراً لبیک کہیں اور اپنا نام پیش کر کے آپ کے قدم پیچھے نہ ہٹیں اور اس عادت کو ختم کر دیں کہ اپنی مرضی سے کام کرنا ہے مجھے خط ملتے ہیں کہ ہم سٹیج پر ڈیوٹی دیں گے.اگر کسی اور جگہ نام لگا دو تو کام سے ہی انکار کر دیتی ہیں.یہ طریق غلط ہے اگر کام کے لئے نام پیش کرنا ہے تو شرط نہیں لگانی.ورنہ نہ پیش کریں.آپ میں سے دس پندرہ نہ کریں گی اللہ تعالیٰ اس سے بڑھ کر کام کرنے والیاں پیدا کر دے گا.پس اپنے نام کو یعنی ناصرات الاحمدیہ کو اپنے عمل سے ثابت کر دکھائیں کہ آپ واقعی ناصرات ہی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے ناصرات الاحمدیہ بننے کی اور ہمیں توفیق عطا فرمائے آپ کی صحیح تربیت کرنے کی.(الفضل 10 نومبر 1983ء)

Page 422

خطابات مریم 397 خطابات اختتامی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ مرکز یہ 1983ء) خطاب سے قبل آپ نے ہیں مجالس سے منتخب شدہ بہترین بچیوں میں سے پہلی آٹھ کو سند خوشنودی عطا فرمائیں.آپ نے ناصرات سے فرمایا کہ اجتماع کی غرض آپ کی تربیت ہے تاکہ مستقبل میں آپ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر سکیں اسلام میں صف بندی کا حکم ہے لہذا آج آپ قطاروں ہی میں جلسہ گاہ سے باہر جائیں.چھوٹی چھوٹی باتیں مثلاً مساجد اور مجالس کے آداب اگر آپ کو نہیں آتے تو دوسروں کو کیا بتائیں گی جب میں آتی ہوں تو بہت سی لڑکیاں چلتے ہوئے راستہ روک لیتی ہیں کام کرتے ہوئے روکنا احمدی بچیوں کی شان نہیں اس کے علاوہ آپ نے فرمایا کہ آپس میں صلح صفائی سے رہا کرو تمہارے دل صاف ہونے چاہئیں.بدظنی نہ کرو، بُرائی سن کر آگے بیان نہ کرو ا چھی باتیں تلاش کرو تب ہی جماعت ترقی کر سکتی ہے.سچ بولنا اور صفائی کا خدا نے سب سے پہلے حکم دیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاظت سے نفرت فرمائی ہے.اسلام کی اعلی تعلیم اور اعلیٰ اخلاق پر عمل کرنے کی کوشش کریں اپنے آپ میں وقار اور شائستگی پیدا کریں.آپ کا نام ناصرات الاحمدیہ ہے، احمدیت کی مدد کر نے والیاں.سیکرٹریان ناصرات ، بچیوں کی تربیت کرنے کی کوشش کریں.میں دعا کرتی ہوں کہ خدا سب کو مثالی بنا دے تاکہ ساری دنیا کو ہم کہہ سکیں کہ یہ وہ بچیاں ہیں جو ہم نے نمونہ کے لئے پیش کرنی ہیں.بعد ازاں آپ نے ناصرات کا عہد دہرایا اور الوداعی دعا کروائی.از سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پا مرکز یہ 1983ء) ☆☆

Page 423

خطابات مریم 398 خطابات آپ موم کی ناک نہ بنیں بلکہ عزم واستقلال کی پتلیاں بنیں جنہیں بڑے سے بڑا طوفان بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹا سکے وه افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع 21 /اکتوبر 1983ء) اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور دعاؤں کے ساتھ ہم آج تئیسویں سالانہ اجتماع کا آغاز کر رہے ہیں میں لجنہ اماء الله مرکز یہ اور تمام مستورات ربوہ کی طرف سے آنے والی بہنوں کو أَهْلاً وَّسَهُلا و مرحبا کہتی ہوں.اس دفعہ 1972ء کے بعد پہلی دفعہ بیرون پاکستان کی لجنات سے نمائندگان بھی شرکت کر رہی ہیں.امریکہ، انگلستان، جاپان، ہالینڈ اور سویڈن کی لجنات کی نمائندہ شرکت کر رہی ہیں.امریکن احمدی خاتون عائشہ شریف صاحبہ لجنہ اماء اللہ کی سیکرٹری اشاعت ہیں اور بہت مخلص اور محنت سے کام کرنے والی خاتون ہیں.پردہ کی بہت پابند اور آپ سب کے لئے نمونہ ہیں.سالِ رواں میں ساڑھے تین ماہ کے قریب پاکستان سے باہر رہی میری عدم موجودگی میں سیده مهر آپا صاحبه با وجو د شدید گرمی اور طبیعت خراب رہنے کے نہایت خوش اسلوبی سے سارے کام سرانجام دیتی رہیں.خاص طور پر فضل عمر کلاس کی نگرانی کا کام.جزاها اللہ احسن الجزاء میرا باہر جانا بطور لجنہ اماءاللہ کے دورے کے نہیں تھا.سب سے بڑھ کر سپین کی مسجد دیکھنے کا شوق تھا جو آٹھ سو سال کے بعد سپین میں بنی.سپین کے علاوہ جرمنی ، سوئٹرز لینڈ ، ہالینڈ، انگلستان، امریکہ اور کینیڈا جانے کا موقع بھی ملا چونکہ ہر جگہ جماعتیں ہیں اور لجنات بھی قائم ہیں اس لئے بحیثیت صدر ہونے کے ان سے غافل نہیں رہ سکتی تھی.لجنات کے اجلاسوں اور اجتماعوں میں شرکت کی توفیق ملی ان کے کاموں سے نقائص سامنے آئے جن کی اصلاح کی

Page 424

خطابات مریم 399 خطابات طرف توجہ دلائی گئی.خاص طور پر ہر جگہ ہی صحیح پردہ کی طرف میں نے بھی توجہ دلائی اور صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ نائبہ صدر لجنہ اماء الله مرکز یہ وسیکرٹری شعبہ تربیت نے بھی.اس امر پر بہت افسوس ہوتا تھا کہ ربوہ کی تربیت یافتہ بچیاں بیرون ممالک جا کر فورا ہی پردہ اُتار دیتی ہیں اور ہمارے لئے شرم کا باعث بنتی ہیں.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کی جلسہ سالانہ کی تقریر کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی ہے.اچھی خاصی تعداد نے با قاعدہ پر دہ شروع کر دیا ہے لیکن ابھی بہت ضرورت ہے کہ جد و جہد جاری رکھی جائے اور وہاں کی سب بہنیں اسلام کی تعلیم کا عملی نمونہ ہوں.تربیت کی کمی با وجود بڑی مخلص بڑی قربانی دینے والی بہنیں ہیں.جس ملک میں بھی گئی ہر جگہ پہنچ کر اپنی جماعت کی ترقی اس ملک میں دیکھ کر ، ان کی قربانیاں دیکھ کر بے اختیار دل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود بھیجنے کو دل چاہتا تھا.میری آنکھوں کے سامنے اور ذہن میں ایک فلم چلنی شروع ہو جاتی تھی کہ آج سے 94 سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق بھیجا ہے تا میرے ذریعہ دنیا میں پھر اسلام کا غلبہ ہو آپ کے اس دعوی کو دنیا نے ایک دیوانے کی بڑ قرار دیا.اسلام سے دشمنی رکھنے والوں نے آپ کی شدید مخالفت شروع کر دی یہ وہ زمانہ تھا جب عیسائی دنیا سارے ہندوستان اور پھر خدانخواستہ مکہ اور مدینہ میں عیسائیت پھیلانے کے خواب دیکھ رہی تھی اور برٹش گورنمنٹ کی مددان کو حاصل تھی.اسلام کے غلبہ اور ترقی سے مسلمان مایوس ہو چکے تھے اور بڑے بڑے خاندانوں کے لوگ عیسائی ہونے لگے تھے جو عیسائی نہیں ہوئے وہ بھی نام کے مسلمان تھے ان کو کچھ بھی دین کا پتہ نہ تھا.عقائد میں بگاڑ آ چکا تھا جس کی وجہ سے دشمنانِ اسلام کو اسلام پر اعتراضات کرنے کا موقع ملتا تھا.صرف اور صرف ایک ہستی تھی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کے دل میں درد تھا.مسلمانوں کی حالت دیکھ کر کہ اُن کی اصلاح ہو جو ساری ساری رات اپنے رب کے حضور سجدہ میں گر کر دعا کرتے تھے کہ اس دیں کی شان و شوکت یا ربّ مجھے دکھا دے سب جھوٹے دیں مٹا دے میری دعا یہی ہے

Page 425

خطابات مریم دین کے غم میں بے اختیار فرماتے ہیں :.400 دیں کے غموں نے مارا اب دل ہے پارہ پارہ دلبر کا ہے سہارا ورنہ فنا یہی ہے خطابات ایک طرف ساری دنیا آپ کی مخالف تھی.اقرباء اور دوستوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا تھا دوسری طرف اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام کے غلبہ کی بشارتیں دے رہا تھا اور وعدے فرمارہا تھا کہ وہ تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں دنیا نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا.آپ پر مقدمے کئے گئے.آپ کے مشن کو نا کام کرنے کی ہر کوشش کی گئی لیکن ہر دن جو چڑھا اور ہر رات جو آئی اس نے گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ کا وعده که كتب الله لا غلبت أنا ورُسُلي (المجادلہ : 22) جس طرح پہلے انبیاء کے ساتھ پورا ہوتا رہا ہے اسی شان کے ساتھ اب بھی پورا ہوا.ابھی ایک صدی ختم نہیں ہوئی کہ دنیا کے کونے ا کونے میں احمدی جماعتیں پیدا ہو چکی ہیں جو ان ذمہ داریوں کو ادا کر رہی ہیں جو بحیثیت احمد یہ جماعت کے ان پر عائد ہوتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ یاد آتے تھے کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو ضرور ان کی جان توڑ کوششوں سے یہ تمام سلسلہ تباہ ہو جاتا کیا کوئی نظیر دے سکتا ہے کہ اس قدر کوششیں کسی جھوٹے کی نسبت کی گئیں اور پھر وہ تباہ نہ ہوا بلکہ پہلے سے ہزار چند ترقی کر گیا پس کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کہ کوششیں تو اس غرض سے کی گئیں کہ یہ تم جو بویا گیا ہے اندر ہی اندر نابود ہو جائے اور صفحہ ہستی پر اس کا نام ونشان نہ رہے مگر وہ تم بڑھا اور پھولا اور ایک درخت بنا اور اس کی شاخیں دور دور چلی گئیں اور اب وہ درخت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہزار ہا پرند اس پر آرام کر رہے ہیں.(روحانی خزائن جلد 18 نزول مسیح صفحہ 384 ) براہین احمدیہ میں بطور پیش گوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دعا سکھائی گئی رَبِّ لَا تَذَرُنِي فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِين -

Page 426

خطابات مریم 401 خطابات حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.کہ جب یہ پیش گوئی خدا تعالیٰ نے فرمائی اور براہین احمدیہ میں درج کر کے شائع کی گئی اس وقت جیسا کہ خدا نے فرمایا میں اکیلا تھا اور بجز خدا کے میرے ساتھ کوئی نہ تھا.میں اپنے خویشوں کی نگاہ میں بھی حقیر تھا کیونکہ ان کی راہیں اور تھیں اور میری راہ اور تھی اور قادیان کے تمام ہندو بھی باوجود سخت مخالفت کے اس گواہی کے دینے کیلئے مجبور ہوں گے کہ میں در حقیقت اس زمانہ میں ایک گمنامی کی حالت میں بسر کرتا تھا اور کوئی نشان اس بات کا موجود نہ تھا کہ اس قدر ارادت اور محبت اور جانفشانی کا تعلق رکھنے والے میرے ساتھ شامل ہو جائیں گے.اب کہو کیا یہ پیشگوئی کرامت نہیں ہے.کیا انسان اس پر قادر ہے اور اگر قادر ہے تو زمانہ حال یا سابق زمانہ میں سے اس کی کوئی نظیر پیش کرو فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 250 حقیقۃ الوحی) ان ہی پیش گوئیوں کے پورا ہونے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام براہین احمدیہ حصہ پنجم میں فرماتے ہیں :.و تم دیکھتے ہو کہ باوجود تمہاری سخت مخالفت اور مخالفانہ دعاؤں کے اس نے مجھے نہیں چھوڑا اور ہر میدان میں وہ میرا حامی رہا.ہر ایک پتھر جو میرے پر چلایا گیا اس نے اپنے ہاتھوں پر لیا.ہر ایک تیر جو مجھے مارا گیا اس نے وہی تیر دشمنوں کی طرف لوٹا دیا.میں بے کس تھا اس نے مجھے پناہ دی، میں اکیلا تھا اس نے مجھے اپنے دامن میں لے لیا.میں کچھ بھی چیز نہ تھا مجھے اس نے عزت کے ساتھ شہرت دی اور لاکھوں انسانوں کو میرا ارادت مند کر دیا پھر وہ اس مقدس وحی میں فرماتا ہے کہ جب میری مدد تمہیں پہنچے گی اور میرے منہ کی باتیں پوری ہو جائیں گی یعنی خلق اللہ کا رجوع ہو جائے گا اور مالی نصرتیں ظہور میں آئیں گی تب منکروں کو کہا جائے گا کہ دیکھو کیا وہ باتیں پوری نہیں ہو گئیں جن کے بارے میں تم جلدی کرتے تھے.چنانچہ آج وہ سب باتیں

Page 427

خطابات مریم 402 خطابات پوری ہو گئیں.اس بات کے بیان کرنے کی حاجت نہیں کہ خدا نے اپنے عہد کو یاد کر کے لاکھوں انسانوں کو میری طرف رجوع دے دیا اور وہ مالی نصرتیں کیں جو کسی کے خواب و خیال میں نہ تھیں.پس اے مخالفو! خدا تم پر رحم کرے اور تمہاری آنکھیں کھوئے“.(روحانی خزائن جلد 21 براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 79) آپ کے بعد اللہ تعالیٰ نے خلافت کا سلسلہ جاری فرمایا اور تمام خلفاء کی زندگیوں کا مقصد بھی وہی تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جاشار جماعتیں دنیا کے ہر ملک میں پیدا کر دیں اور جس آواز کو دبانے کی دنیا نے بھر پور کوشش کی اور خدا کا فیصلہ تھا کہ وہ نہیں دبے گی آج وہی آواز دنیا کے ہر خطہ میں گونجتی سنائی دیتی ہے اور دل یقین سے پُر ہو جاتے ہیں کہ احمدیت کی فتح اور غلبہ اسلام کے وہ وعدے جن کی بشارتیں قریباً ایک صدی قبل اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی تھیں وہ ضرور پوری ہونگی اور دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو ان کو پورا ہونے سے روک سکے.خلفائے احمدیت نے اپنے خون سے چمن احمدیت کو سینچا ان کے دلوں کی تڑپ ان کی جد و جہد اور ان کی دعاؤں کے نتیجے آج ہر ملک میں مخلص جماعتوں ، مشن ہاؤس، مساجد اور تراجم قرآن مجید کی اشاعت کی صورت میں نظر آتے ہیں وہ سنگلاخ سرزمین جہاں سے مسلمانوں کا نام مٹا دیا گیا تھا یعنی سپین اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں مسجد تعمیر ہوئی جہاں سے پانچوں وقت اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان کیا جاتا ہے.ابھی حال ہی میں دنیا کے اس کنارہ کا جو جغرافیائی لحاظ سے بھی دنیا کا کنارہ کہلاتا ہے حضرت خلیفتہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نہایت کامیاب دورہ کر کے اور آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں پہلی احمد یہ مسلم مسجد کی بنیاد رکھ کر واپس تشریف لائے ہیں اور ایک بار پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی نہایت شان سے پوری ہوئی کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.خدا کرے بہت جلد وہاں کے لوگ اسلام کی طرف رجوع کریں اور دنیا وَيَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا (النصر : 3) کا نظارہ دیکھے جماعت کی ترقی اپنے ساتھ بڑھتی ہوئی ذمہ داریاں بھی عائد کرتی ہے جن کی ادائیگی مرد عورتوں پر یکساں فرض ہے بلکہ بعض لحاظ سے عورت کی ذمہ داری زیادہ ہے کیونکہ اگلی

Page 428

خطابات مریم 403 خطابات نسل ماں کی گود سے پروان چڑھتی ہے.لجنہ اماءاللہ کا کارواں اپنی زندگی کا اکسٹھواں سال ختم لجنہ اماءاللہ کا 61 واں سال کر کے نئے سال میں داخل ہو رہا ہے یہ سال کئی لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے اس سال محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماء اللہ کا قدم ترقی کی طرف گامزن رہا ہے.تمام سیکرٹریوں اور خصوصاً جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ نے عاجزہ کے ساتھ مکمل تعاون کیا اسی طرح لجنات کی عہدیداروں نے بھی ضلعی نظام کو اس سال مضبوط کرنے کی پوری پوری کوشش کی مجلس مشاورت کے دنوں میں ضلعی صدروں کی پہلی میٹنگ منعقد کی گئی اور کام کرنے کی ہدایات دی گئیں اکثر ضلعوں کی صدروں نے بہت محنت کی جس کے نتیجہ میں نئی بجنات کا قیام ہوا.چندہ دہند مجالس کی تعداد میں اضافہ ہوا اور چندہ کی مقدار میں بھی اضافہ ہوا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے.اس سال 34 ضلعوں میں ضلعی صدر میں نامزد کی گئیں.شعبہ مال کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بلجنات کی تعداد 656 تھی اس سال 818 ہے گویا 162 لجنات کا اضافہ ہوا لبعض نئی قائم ہوئیں بعض کا احیاء کیا گیا گزشتہ سال چندہ دہند لجنات کی تعداد 562 تھی اور اس سال 740 ہے یعنی 178 کا اضافہ ہوا نا دہند لجنات کی تعداد گزشتہ سال 84 تھی اس سال 78 ہے گویا 6 کی کمی آئی.بعض لجنات کا قیام ہی ستمبر میں ہوا ہے وہ انشاء اللہ نئے سال سے بھجوا نا شروع کریں گی.لجنہ اماء اللہ کی آمد میں گزشتہ سال کی نسبت 739 ،3،26 روپے کا اضافہ ہوا ہے.جنوری 1983 ء سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی تعمیل میں لجنہ اماء اللہ کے تمام کارکنان کے مشاہروں میں 33 فیصدی کا اضافہ کیا گیا ہے اور گزشتہ سال مجلس شوری کے فیصلہ کے مطابق ہر ضلع کے چندہ کا پانچ فیصد ضلعی صدروں کو اخراجات کیلئے دیا گیا.گزشتہ سال اجتماع پر میں نے تحریک کی تھی کہ ناصرات کے لئے بہنیں چھوٹی چھوٹی کتب کتابیں لکھیں جو اسلام اور احمدیت کی تاریخ سے متعلق ہوں.اس پر عمل کرتے ہوئے صرف پانچ بہنوں نے 9 کتب کے مسودات بھجوائے ہیں.علماء کو دکھانے کے بعد ان میں سے ایک کتابچہ پہلی مسلمان عورت یعنی حضرت خدیجہ کے حالات زندگی جو مکر مہ خالدہ آفتاب صاحبہ

Page 429

خطابات مریم 404 خطابات شیخو پورہ نے لکھا ہے شائع کر دیا گیا اس کو ناصرات الاحمدیہ کے اس سال کے نصاب میں رکھا گیا ہے.سیکرٹریان خرید کر ساتھ لے جائیں بعد میں ملنا مشکل ہوگا اس کے علاوہ بیرونی ناصرات کے لئے احمد یہ مسلم کتاب انگریزی میں شائع کی گئی یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے اس میں ابتداء سے خلافت رابعہ تک کی احمدیت کی تاریخ مختصر طور پر بیان کی گئی ہے.انگریزی بولنے والے علاقوں میں بچیوں اور عورتوں کے لئے یکساں مفید ہے.دوسرا کتا بچہ صحابہؓ کی کہانیاں خالدہ آفتاب صاحبہ کا ہی لکھا ہوا طباعت کے لئے دے دیا گیا ہے انشاء اللہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر آپ کے ہاتھوں میں ہوگا.مزید کتب نئے سال میں شائع کرنے کی کوشش کی جائے گی.بیرونی لجنات کی طرف سے انگریزی میں لٹریچر کا بہت مطالبہ ہے جو آسان زبان میں بچوں کے لئے ہو.ہماری وہ بہنیں جو اچھی انگریزی جانتی ہیں اس میدان میں آئیں اور چھوٹے چھوٹے کتابچے لکھیں اور حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کی تحریک جو ٹیسٹس تیار کرنے کے متعلق ہے وہ بھی انگریزی میں تیار کریں.سوال و جواب کے رنگ میں خصوصاً ایسے کیسٹس انگریزی زبان میں تیار کرنے کی بہت ضرورت ہے جن میں عورتوں کے حقوق کے متعلق غیر مسلموں نے جو اعتراضات کئے ہیں وہ جمع کر کے قرآن مجید کے ذریعہ ان کے جوابات بتائے جائیں تا کہ وہ کیسٹ باہر کے ممالک کی لجنہ کو بھجوائے جائیں اور ان کے ذریعہ غیر مسلم عورتوں میں تبلیغ ہو.تعلیمی لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے نمایاں ترقی ہوئی ہے.1982ء میں 1041 طالبات نے فضل عمر کلاس کا امتحان دیا تھا.اس سال 1569 نے گویا 528 کا اضافہ ہے.میٹرک کی فارغ شدہ طالبات کی تربیتی کلاس تین سال سے جاری ہے.1982ء میں 168 طالبات نے شرکت کی اس سال 249 نے لجنہ کے امتحان میں گزشتہ سال 52 لجنات کی 1628 طالبات نے شرکت کی اس سال 70 لجنات کی طرف سے 2264 ممبرات نے شمولیت کی.اس سال لجنہ کے امتحان کا طریقہ کا ر بھی بدل رہے ہیں بجائے سالانہ نصاب کے سہ ماہی نصاب آپ کو ملے گا آپ کوشش کریں کہ ہر بہن وہ پڑھ لے یا سن لے بہر حال اسے یاد ہو جائے.ان پڑھ کو بھی سنا کر یاد کروایا جائے.یہ سہ ماہی ختم ہونے پر اگلی سہ ماہی کا نصاب

Page 430

خطابات مریم 405 خطابات دیا جائے گا.ہر سہ ماہی کے بعد آپ سرسری سا امتحان لے کر مرکز کو رپورٹ دیں کہ کتنی ممبرات نصاب یاد کر چکی ہیں.اس سال میں مصباح کی خریداری میں بھی 1300 کا اضافہ ہوا ہے.گزشتہ سال 5 نومبر 1982ء کو خطبہ جمعہ میں خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ پر ایک اور ذمہ داری ڈالی تھی یعنی تحریک جدید دفتر سوم کے چندوں کی ذمہ داری.اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنات نے پوری سعی اس سلسلہ میں کی گو کام کا پورے طور پر ان کو علم نہ تھا ان کی جد و جہد کے نتیجہ میں چندہ میں نمایاں اضافہ ہوا.گزشتہ سال 5،80،000 کے وعدوں کے مقابلہ میں اس سال 15،43،411 کے وعدے ہوئے اور گزشتہ سال 391 ،8 افراد کے مقابلہ میں 30،987 افراد نے شمولیت کی.دفتر تحریک جدید کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 83 لجنات نے با قاعدہ رپورٹ دی ہے پاکستان سے باہر لجنات نے بھی بہت محنت سے وعدے بھجوائے ہیں آئندہ سال تمام لجنات اس ذمہ داری کو اس سے بہتر طریق سے پورا کریں.گزشتہ سال اجتماع کے موقعہ پر حضرت خلیفہ اصیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماءاللہ کے سامنے داعی الی اللہ بننے کا ایک نیا لائحہ عمل رکھا تھا.آپ نے فرمایا تھا کہ احمدی مستورات کو تبلیغی جہاد میں مردوں کے دوش بدوش حصہ لینا چاہئے.اس سلسلہ میں با قاعدہ منصوبہ بندی کر کے مرکز کو بھجوائیں.اس تبلیغی جہاد کے لئے لٹریچر مہیا کریں اور صوتی ذرائع سے کام لیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس خطاب کو چھپوا کر سارے پاکستان کی لجنات کو بھجوایا گیا کہ ایک ایک کاپی ہر احمدی گھرانہ میں پہنچادیں.بیرون پاکستان میں بھی بھجوائے گئے.انگلستان اور امریکہ کی لجنات کو ان کے ترجمے انگریزی میں کروا کے بھجوائیں کہ وہ خود وہاں چھپوا کر تقسیم کریں.پاکستان میں بھی اور بیرونی لجنات میں بھی نمایاں سرگرمی اس سلسلہ میں نظر آئی ہے.لیکن ابھی تک ہم پوری طرح حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہدایات پر عمل نہیں کر سکیں.کیسٹ پروگرام کے سلسلہ میں ابھی تک صرف ایک کیسٹ تیار ہوئی ہے.منظوری کے بعد باہر کی لجنات کو بھجوایا جائے گا.بعض لجنات نے اپنے طور پر بھی تیار کی ہیں مگر بین الاقوامی سطح پر ابھی کوئی ٹھوس کام ہم نے نہیں کیا ہر لجنہ جو کیسٹ تیار کرے اسے مرکز کو بھجوائے تا کہ مرکز اس کی زیادہ سے زیادہ کا پیاں کروا کے دوسرے شہروں اور دوسرے ملکوں میں بھجوا سکے.اچھی انگریزی

Page 431

خطابات مریم 406 خطابات جاننے والی بہنیں انگریزی میں تیار کر کے بطور نمونہ مرکز کو بھجوائیں جن میں سوال و جواب کے رنگ میں بچیوں کے لئے اسباق ہوں اور ایسی ضروری دینی تعلیم جو بچیوں کو دینی ضروری ہوتی ہے اسے سنایا جائے.کیونکہ سن کر یاد کر نا پڑھنے کی نسبت بہت آسان ہے.گزشتہ جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے جو معرکۃ الآراء خطاب بہنوں میں فرمایا تھا.جس میں احمدی بچیوں اور بہنوں کو پردہ قائم رکھنے کی توجہ دلائی تھی.لجنہ مرکز یہ نے فوری چھپوا کر ہر جگہ بھجوایا.پاکستان میں بھی اور پاکستان سے باہر بھی.دو تین دفعہ چھپوایا گیا تا کہ کوئی بہن ایسی نہ رہ جائے جو حضور کے ارشاد سے ناواقف ہو.الحمد للہ اس کے بعد ایک نمایاں تبدیلی احمدی جماعت کی خواتین اور بچیوں میں پیدا ہوئی ہے لیکن اپنے امام کی آواز پر لبیک کہنا ہر احمدی بچی اور خاتون کا فرض تھا.سالانہ رپورٹیں ظاہر کرتی ہیں کہ ابھی تک گو تھوڑی تعداد میں مگر ایسی عورتیں موجود ہیں جو صحیح طور پر پردہ نہیں کرتیں اور جنہوں نے چادر چھوڑ کر بھی برقعہ نہیں لیا.میری بہنو اسلام کی تعلیم کا محور اطاعت ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور پھر خلیفہ وقت کی اطاعت غیر مشروط اطاعت یہود اور منافقین والی نہیں جن کے متعلق قرآن مجید میں آتا ہے جو کہتے تھے کہ تمہارے مطلب کا حکم دیا جائے تو مان لیا کرو ورنہ نہیں.اگر ایک عورت بھی ایسی نکلتی ہے جس کے کانوں تک خلیفہ وقت کی آواز پہنچتی ہے اور وہ اس پر عمل نہیں کرتی تو حقیقت میں وہ احمدی جماعت میں نہیں.کیونکہ بیعت کرتے وقت آپ عہد کرتی ہیں کہ جو آپ نیک کام بتائیں گے ہم اس پر عمل کریں گی.ہمارا شعار ہمارا نعرہ تو صرف اور صرف سَمِعْنَا وَ أَطَعْنَا ہونا چاہئے.پاکستان سے باہر بہت سی جگہ بے پر دہ خواتین کو دیکھ کر انتہائی تکلیف پہنچی کہ ایک طرف تو ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ساری دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچانا ہے دوسری طرف خود اسلام کے ایک حکم کی صریحاً نافرمانی کر رہی ہیں اور خصوصاً ان بچیوں کو دیکھ کر جور بوہ سے شادی ہو کر باہرگئی ہیں.اس وقت ربوہ سلسلہ کا مرکز ہے جتنی یہاں دینی تعلیم اور تربیت کی طرف توجہ دی جارہی ہے اتنی کسی اور جگہ نہیں دی جا سکتی.ہر جمعہ آپ حضرت خلیفۃ المسح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطبہ سنتی ہیں.پس میں تمام خواتین کو لیکن خواتین ربوہ ا

Page 432

خطابات مریم 407 خطابات کوخصوصاً اس طرف توجہ دلاتی ہوں کہ وہ اپنی بچیوں کی صحیح تربیت کریں.وہ خود یا ان کی بیٹیاں یا بہوئیں پاکستان سے باہر جائیں تو جاتے ہی دوسروں کی نقل میں اپنی اقدار کو ترک نہ کریں.خدا تعالیٰ تو آپ کو موقع دیتا ہے وہاں جا کر معلم بنے کا اور دوسروں کے لئے نمونہ بننے کا اور آپ کا یہ حال کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا.الہی بشارتوں کے مطابق اگلی صدی انشاء اللہ غلبہ اسلام کی صدی ہے ہر جگہ اسلام کی طرف لوگوں کا رجوع ہو رہا ہے نئے نئے لوگ اسلام میں داخل ہور ہے ہیں آپ نے ان کا استاد بننا ہے آپ نے ان کو دین سکھانا ہے آپ نے ان کے لئے نمونہ بننا ہے اس لئے آپ کی بھی بہت تربیت کی ضرورت ہے تا آپ اپنی بچیوں کی تربیت کر سکیں.موم کی ناک نہ بنیں بلکہ عزم اور استقلال کی پتلیاں بنیں جن کو بڑے سے بڑا طوفان بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹا سکے.بعض جگہ میں نے عہد یداران سے بعض بچیوں کے متعلق پوچھا کہ فلاں فلاں بچی پڑھی لکھی ہے اس سے کام لیں اس پر مجھے جواب ملا کہ لجنہ مرکزیہ کا فیصلہ ہے کہ بے پردہ کو عہدہ نہیں دینا.یہ پردہ نہیں کرتیں اور ان کے جواب سے میرا سر شرم سے جھک گیا.کیونکہ ان میں کئی ایسی تھی جو ربوہ سے تعلیم حاصل کر کے گئی ہوتی ہیں.ماں باپ کا بھی فرض ہے کہ اپنی بچیوں کی اعلیٰ تربیت کریں ان کے کیریکٹر کو مضبوط کریں ان میں امام کی اطاعت اور غیرت دینی کا جذبہ پیدا کریں تا جب ان کی شادیاں ہوں تو قوم کا ستون بنیں.شعبہ تربیت کی طرف سے تربیت کے سلسلہ میں فولڈرز شائع کر کے تقسیم کئے گئے اور رسومات کے متعلق میری ایک تقریر جو پہلے شائع ہو چکی ہے مزید اضافہ جات کے ساتھ شائع کی گئی ہے.کئی جگہ مجھ سے یہاں بھی اور باہر بھی بہنوں کی طرف سے وہی سوالات کئے گئے جن کے جوابات تفصیل سے میں نے اس کتابچہ میں دیئے ہوئے ہیں.اس کا مطلب ہے کہ لجنات نے کم تعداد میں کتاب لی ہے اور اگر لی ہے تو بہنوں اور بچیوں نے پڑھی نہیں.تمام لجنات کوشش کریں کہ ہر پڑھی لکھی عورت اسے پڑھے اور دیہات میں صدر میں سبق کے طور پر اجلاسوں میں پڑھ کر سنا ئیں اور پھر نظر رکھیں جائزہ لیتی رہیں کہ جن باتوں سے روکا گیا ہے اس سے بہنیں رک گئیں یا نہیں جو خط دوران سال مجھے ملتے رہتے ہیں ان میں جماعت کے کئی

Page 433

خطابات مریم 408 خطابات اصحاب نے مجھے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ شادیوں کے موقعوں پر ابھی تک ہماری جماعت میں بہت سی رسوم ادا کی جاتی ہیں دور سموں کے متعلق تو جماعت احمدیہ کی مجلس شوری فیصلہ کر چکی ہے وہ نقص کہیں نظر آئے تو ان کی فوری رپورٹ کرنی چاہئے.ایک تو یہ کہ لڑکے والوں کے گھر سے لڑکی کے گھر مہندی لے کر نہیں جانا.حضرت مصلح موعود نے منع فرمایا ہے اور پھر شوری نے اُسے منظور کیا.لڑکی کو مہندی ضرور لگائیں مگر لڑکے والے لڑکی کے گھر مہندی لے کر نہ جائیں.دوسرے لڑکی والے لڑکے کے رشتہ داروں کو جوڑے نہ دیں جب منع کیا جاتا ہے تو لڑکی والے کہتے ہیں کہ لڑکے والے مطالبہ کرتے ہیں.انتہائی شرم کی بات ہے خدا تعالیٰ نے مرد کو قوام بنایا ہے لڑکے نے لڑکی کے لئے گھر بنانا ہوتا ہے نہ کہ لڑکی کے ساتھ ان کے گھر والوں کے لئے جوڑے آئیں سالہا سال سے اس لئے کوشش ہو رہی ہے مگر ابھی تک شہروں سے بھی اور دیہات سے بھی ان واقعات کی اطلاع ملتی رہتی ہے.لجنات کا کام تربیت کرنا ہے ہر گھر کے متعلق جائزہ لینا ہے اور ان کو بتانا ہے کہ آپ غلطی کر رہی ہیں خلیفہ وقت نے اس اس بات سے روکا ہے.ہماری ترقی میں یہ چھوٹے چھوٹے نقائص حائل رہیں گے جب تک ہم ان کو نہیں چھوڑیں گے.یاد رکھیں اطاعت اور اتحاد میں ہی طاقت ہے پیار محبت سے ایک دوسرے کے قصوروں کو معاف کرتے ہوئے اسلام کی ترقی کے لئے کام کریں.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.وَلا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ (الانفال: 47) اور آپس میں اختلاف نہ کیا کرو اگر ایسا کرو گے تو دل چھوڑ بیٹھو گے اور تمہاری طاقت جاتی رہے گی اور صبر کرتے رہو.اللہ یقیناً صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.ہم سب نے مل کر اسلام کی فتح کے لئے کوشش کرنی ہے اور قربانیاں دینی ہیں وہ قربانیاں جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذیل کے الفاظ میں کیا ہے آپ فرماتے ہیں.سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو

Page 434

خطابات مریم 409 خطابات پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے لیکن ابھی ایسا نہیں ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے رو کے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھودیں اور اعزاز اسلام کے لئے ساری ذلتیں قبول نہ کر لیں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے“.(روحانی خزائن جلد 3 فتح اسلام صفحہ 11،10) اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس معیار کے مطابق قربانیاں کرنے کی توفیق دے تا اس کے نتیجہ میں ہم اپنے رب کا پیار حاصل کر سکیں اور اسلام کے غلبہ کے دن بھی نزدیک سے نزدیک تر آتے چلے جائیں.آمین اللھم آمین روزنامه الفضل 29 /اکتوبر 1983ء)

Page 435

خطابات مریم 410 خطابات نئی تہذیب کے بداثرات اور احمدی عورت کا کردار مورخہ 26 دسمبر 1983ء کو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ نے احمدی خواتین کے جلسہ سالانہ پر جو اہم خطاب فرمایا اس کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے.آج اپنی بہنوں کے سامنے اپنی تقریر میں میں نے بتانا ہے کہ نئی تہذیب کے کیا بد اثرات ہیں اور اس کے مقابل میں احمدی خواتین کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور انہوں نے کیا کردارادا کرنا ہے.تہذیب کی تعریف تک کے پہلے میں لفظ تہذیب کی تعریف بیان کروں گی کہ تہذیب کسے کہتے ہیں.تہذیب کی تعریف حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے دیباچہ قرآن مجید میں نہایت آسان اور عمدہ طریق پر بیان فرمائی ہے اس لئے میں وہ تعریف حضور کے الفاظ میں ہی بیان کرتی ہوں آپ فرماتے ہیں:.میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تمدن یعنی Civilization اور تہذیب یعنی کلچر سے میری کیا مراد ہے.میرے نزدیک تمدن ایک خالص مادی نقطہ نگاہ ہے مادی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی اعمال میں جو یکسانیت اور سہولت پیدا ہو جاتی ہے وہ میرے نزدیک تمدن کہلاتی ہے.انسانی اعمال کے نتیجہ میں جس قسم کی اور جس قدر پیداوار دنیا میں ہو اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لئے نقل و حرکت کے جتنے ذرائع موجود ہوں.مال کو سہولت کے ساتھ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی طرف منتقل کرنے کے لئے جتنی تدبیریں کی گئی ہوں، تعلیم جتنی رائج ہو، صنعت و حرفت کو جتنا منظم کر لیا گیا ہو، سائنس کی طرف قوم میں جتنا میلان پایا جا تا ہوا اور ملک میں امن کے قیام کیلئے جس حد تک قومی تنظیم کی گئی ہو.یہ چیزیں لازمی طور پر انسان کے اعمال پر اثر ڈالتی ہیں اور ان چیزوں میں جو ملک ترقی یافتہ ہو اس کے افراد کی زندگی دوسری اقوام کے افراد کی زندگی

Page 436

خطابات مریم 411 خطابات سے نمایاں طور پر الگ نظر آتی ہے اور میرے نزدیک اسی کو تمدن یا سویلائز یشن کہتے ہیں.ایک ادنی تدبر سے یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ زندگیوں کا یہ فرق محض زراعت، صنعت و حرفت ، سائنس اور تعلیم کے فرق کا نتیجہ ہے مگر فرق اتنا بڑا ہے کہ ایک قسم کی زندگی کے عادی لوگ دوسری قسم کی زندگی کے عادی لوگوں کے ساتھ مل کر بیٹھنا بھی برداشت نہیں کر سکیں گے.یہی چیز میرے نزدیک تمدن یعنی سویلائز یشن کہلاتی ہے اور اس کے اختلافات پر دنیا کی صلح اور جنگ کا بہت کچھ انحصار ہے.یعنی تمدن آخر امپیریل ازم اور خواہش عالمگیر انسان کے دل میں پیدا کرتا ہے.دوسری چیز تہذیب یعنی کلچر ہے اس کو تمدن سے وہی نسبت ہے جو روح کو جسم سے ہے.تمدن مادی ترقی کا نتیجہ ہے اور تہذیب دماغی ترقی کا نتیجہ ہے.تہذیب یعنی کلچر اُن افکار اور اُن خیالات کا نتیجہ ہے جو کسی قوم میں مذہب یا اخلاق کے اثر کے نیچے پیدا ہوتے ہیں.مذہب ایک بنیاد قائم کرتا ہے اور مذہب کے پیرو اُس بنیاد پر ایک عمارت کھڑی کرتے ہیں خواہ وہ بنیا د رکھنے والے کے خیالات سے کتنے بھی دور چلے جائیں وہ بنیا دکو چھوڑ نہیں سکتے “.(دیباچہ تفسیر القرآن کریم صفحہ 17،16) مغربی تہذیب سے کیا مراد ہے اس تعریف کو سامنے رکھ کر آپ مشاہدہ کریں تو آپ کو دنیا میں یہ نظارہ نظر آئے گا کہ ایک عیسائی کہلانے والا ، دہریہ اور ایک متعصب عیسائی کے درمیان جو جوڑ اور اتفاق ہو جاتا ہے وہ اتفاق اس کا ایک مسلمان کے ساتھ نہیں ہوتا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایک عیسائی کہلانے والے دہریہ کی فکر تو عیسائیت سے آزاد ہو گئی مگر اس کی طبیعت اور افعال عیسائیت کی تہذیب سے آزاد نہیں ہوئے.پس جب ہم نئی تہذیب کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو مراد وہ تہذیب ہوتی ہے جو عیسائیوں کے ماتحت ایک لمبا عرصہ رہنے کی وجہ سے ہماری تہذیب پر اثر انداز ہوئی یا ترقی یافتہ ممالک جو سب عیسائی ہیں، کی بڑھتی ہوئی آزادی کے زیر اثر نمودار ہوئی گویا نئی تہذیب یا مغربی تہذیب سے مراد وہ تہذیب ہے جس پر عیسائیت کی چھاپ لگی ہوئی ہو اور ایک مسلمان عورت اگر اس کی تقلید کرے گی تو دوسرے الفاظ میں وہ عیسائی طرز فکر کی نقل کر رہی

Page 437

خطابات مریم 412 خطابات ہوگی.اس فرق کو کچھ تفصیل سے بیان کروں گی عیسائیوں کے عقائد کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صلیب پر چڑھ کر ان کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ہے.اب وہ کچھ بھی کریں کوئی پوچھ گچھ نہیں.نیکی اور گناہ کا تصور ہی ختم کر دیا لیکن ایک مسلمان جس کا عقیدہ ہے کہ ایک دن آنے والا ہے جب وہ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے نیک اعمال کی جزا اور بداعمال کی سزا ملے گی لیکن اللہ تعالیٰ مالک یوم الدین ہے غفور الرحیم ہے وہ جسے چاہے بخش بھی دے گا وہ اپنی زندگی میں لازماً نیکی اختیار کرنے اور بُرائی سے بچنے کی کوشش کرے گا.ایک ہندو جس کا یہ عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد روح کو ایک اور جون ملتی ہے اور ان کا پر میشر کسی کو معاف ہی نہیں کر سکتا.وہ اپنے رب سے کبھی دعا نہیں مانگے گا دعا وہی انسان مانگے گا جس کو یہ یقین ہو کہ میرا رب دعائیں سنتا ہے وہ قادر ہے وہ مالک ہے سب اختیارات اس کے ہیں.ان باتوں کو سامنے رکھنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہماری تہذیب وہ ہونی چاہئے جو قرآن مجید کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی اور آپ کے ارشادات کا عکس ہو اور اس کی تصویر یقیناً مغربی تہذیب سے جدا گانہ ہو گی.اس زمانہ میں ہماری عورتوں اور بچیوں پر مغربی تہذیب کے کیا اثرات ہیں.ان کا تجزیہ کرنے کے بعد پھر میں احمدی خواتین کی ذمہ داریوں کی طرف آؤنگی.مغربی تہذیب کے تباہ کن اثرات سب سے پہلے تو مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ جانے والی خواتین پردہ کی مخالف ہو جاتی ہیں اور وہی اعتراض شروع کر دیتی ہیں جو ایک عیسائی اعتراض کرتا ہے کہ پردہ سے عورت کی صحت خراب ہوتی ہے یا پردہ کے ساتھ اعلی تعلیم حاصل نہیں ہو سکتی یا پردہ سے عورت ترقی نہیں کر سکتی.کام نہیں ہو سکتا وغیرہ وغیرہ.ان سب باتوں کے پیچھے موجودہ زمانہ کی بظاہر جگمگاتی تہذیب جس میں مرد اور عورت کا آزادانہ ملنا جلنا ہے ان کو مجبور کر رہا ہوتا ہے کہ وہ ان کی نقل کریں.نقل کرنے کے لئے ان کا نفس مجبور کر رہا ہوتا ہے کہ پہلے اعتراض کرو نقص نکالو، پھر پردہ چھوڑو اور دوسروں کو بھی اس بے راہ روی پر چلنے کی تلقین کرو.وہ بھول جاتی ہیں کہ اس طرح تو وہ عیسائیوں اور دوسرے مذاہب کے پیرؤوں کے ( جو ہرگز نہیں چاہتے کو اسلام

Page 438

خطابات مریم 413 خطابات ترقی کرے اور اس پر اعتراض کرتے رہتے ہیں ) ہاتھ مضبوط کرنے کا موجب بنتی ہیں.پردہ چھوڑ کر آزادانہ میل ملاپ شروع ہوتا ہے اور گھر کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے.ایک مسلمان کا گھر جو اس کی عزت اس کی بیوی اور بیٹیوں کی عزت کے تحفظ کا ضامن ہوتا ہے اس کی فضا ہی بدل جاتی ہے آزادانہ اس کے گھر میں مرد آئیں گے اور اس گھر کی خواتین اور بچیاں بھی دوسروں کے گھروں میں آزادانہ جائیں گی جس کا نتیجہ وہی نکلے گا جو آج یورپ اور امریکہ کے آزاد گھروں کا نظر آتا ہے کہ کسی کے گھر کی بیٹی بھاگ گئی جا کر شادی کر لی یا کسی کے بغیر شادی ہی بچہ ہو گیا اور ساری عمر کے لئے ماں باپ دکھ میں مبتلا ہو گئے وغیرہ وغیرہ گویا موجودہ تہذیب سب سے بڑا تصور اس آزادی کا دیتی ہے جس کی نہ مذہب اجازت دیتا ہے نہ اسلامی شعائر ، حقیقی آزادی مسلمان عورت کو اسلام نے ہی دی ہے لیکن وہ آزادی جس کے علمبر دار یورپ و امریکہ ہیں اس آزادی کی اجازت اسلام نہیں دیتا.اسلام نے عورتوں کے حقوق اسلام کی طرف سے عائد کردہ حد بندیاں کے ساتھ اس پر حد بندیاں بھی لگائی ہیں اور جو ان حد بندیوں کو توڑے گی وہ بُرا نتیجہ دیکھے گی.حد بندیاں یہی ہیں کہ جب لڑکی جوان ہو وہ پردہ کرے عورت مرد کا آزادانہ ایک دوسرے سے ملنا ، گھروں میں آنے جانے کی اسلام اجازت نہیں دیتا.قرآن تو کہتا ہے جب بچے جوان ہوں تو ماں باپ کے کمرہ میں بھی صبح اور رات کو بغیر اجازت نہ جائیں.گھروں میں داخل ہو تو السلام علیکم کہو.اگر گھر والا کہے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس چلے جاؤ.کوئی دعوت کرے تو کھانا کھا کر جلد واپس چلے جاؤ دیر تک نہ بیٹھے رہا کرو.عورتیں پس پر وہ مرد سے بات کر سکتی ہیں مگر اس طرح چبا چبا کر اور نخرے سے نہیں کہ بات کرنے والے کے دل میں کوئی بُرا خیال پیدا ہو.معاشرہ کو پاک رکھنے کیلئے حکم ہے کہ لڑکی بغیر ولی کی منظوری کے شادی نہیں کر سکتی قوم کوحکم ہے کہ بیواؤں کی شادیاں کرواؤ.غرض معاشرہ میں ہر وہ سوراخ جس سے گندگی ، بے حیائی فحش پھیلنے کا ڈر ہے اس پر بند باندھا گیا ہے اس سے روکا گیا ہے.عورت کی عزت کو اتنا محفوظ کیا گیا ہے کہ اس پر کوئی الزام لگاوے تو حکم ہے کہ جب تک چار گواہ نہ ہوں بات نہ مانی جائے.اس لئے ضروری ہے کہ

Page 439

خطابات مریم 414 خطابات عورتوں کو اسلام نے جو ان کے حقوق دیئے ہیں اور جو ان پر ذمہ داریاں عائد کی ہیں اور جن باتوں سے روکا ہے اور حد بندیاں مقرر کی ہیں ان سے پوری طرح روشناس کرایا جائے تا ان کے ذہنوں سے اس حد سے بڑھی ہوئی آزادی کا تصور ختم ہو جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا.گھر میں ماں باپ کی صحیح تربیت اور دین کے اصولوں سے بچوں کو واقف نہ کرانے کے باعث جب کوئی لڑکی شادی ہو کر پاکستان سے باہر جاتی ہے یکدم برقع اتار پھینکتی ہے اور بعض تو لباس بھی ایسا پہنتی ہیں جو ایک مسلمان عورت کو زیب نہیں دیتا.ملازمتیں موجودہ آزادی نے عورتوں میں نوکریاں کرنے کی طرف بہت زیادہ رحجان پیدا کر دیا ہے.اسلام اس سے روکتا نہیں.مجبوری کی اور بات ہے مگر بے وجہ لڑکیوں کی ملازمتیں کرنا ان کے گھرانے کے لئے بُرے نتائج پیدا کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے مرد کو قوام بنایا ہے گھر کا خرچ دینا مرد کے ذمہ ہے.عورت کے اخراجات کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ نے مرد کو بنایا ہے اپنی بیوی سے نوکری کروانا ایک غیرت مند مسلمان کو زیب نہیں دیتا اور نہ ہی عورت کو چاہئے کہ بغیر ضرورت کے صرف شوقیہ نوکری کرے.دونوں کی نوکری سے آپس میں جھگڑے بھی ہوتے ہیں بچوں کی تربیت اثر انداز ہوتی ہے.ریڈیو اور ٹی وی ایک مسلمان خاندان کی زندگی بڑی معمور الاوقات ہوتی ہے.جس میں سب سے پہلے پانچوں نمازوں کے اوقات ہیں اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو نوافل کی ادائیگی ہے پھر جسے اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو تہجد کی ادائیگی ہے.مغربی تہذیب یا موجودہ تہذیب کچھ بھی کہہ لیں ، کے زیر اثر آج کل مرد، عورتیں اور بچے رات کو دیر تک ٹی وی کے آگے بیٹھے رہنا پسند کرتے ہیں میں یہ نہیں کہتی کہ ٹی وی کے سارے پروگرام اچھے نہیں ہوتے.بڑے اچھے علمی پروگرام بھی ہوتے ہیں لیکن جو بچہ دیر تک رات کوئی وی دیکھتا رہے گا وہ صبح کی نماز کے لئے وقت پر نہیں اُٹھ سکے گا اس گھر کے رہنے والے تہجد کے لئے نہیں جاگ سکیں گے.ٹی وی موجودہ زمانہ کی ایک مفید ایجاد ہے اور اس سے یقیناً بہت مفید کام لئے جا سکتے ہیں.

Page 440

خطابات مریم 415 خطابات کیسٹس کا مفید استعمال اسی طرح ریڈیو ٹرانسٹر، ٹیپ ریکارڈر سب ہی بڑے مفید ہیں اور اب تو حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے ویڈیو اور کیسٹس سے بہت مفید کام شروع کروائے ہیں جو لوگ پہلے ہر وقت ٹیپ ریکارڈر پر ، میری گانے سننے کے عادی تھے وہ ان پر حضور کے خطبے اور سوال و جواب کی محفلوں کے ٹیسٹس سن کر جہاں اپنا علم بڑھاتے ہیں وہاں دوسروں کو سنا کر داعی الی اللہ ہونے کا فریضہ بھی ادا کر تے ہیں.انگلستان میں خصوصاً میں نے دیکھا کہ جہاں بھی گئی ہر گھر میں بھی اور جس کار میں جاتی تھی اس میں کئی کئی لیسٹس حضور کے خطبات کی رکھی ہوتی تھیں اور دو تین گھنٹے کے سفر میں ہم وہ سن لیتے تھے.حضور کے وہ خطبے جو حضور مرکز میں دیتے ہیں چند دن بعد وہاں پہنچ جاتے تھے اور حضور ہی کی دلنشین آواز میں سن کر روح وجد میں آ جاتی تھی.ایک خاتون نے مجھے بتایا کہ ان کے بھانجے کو گانا سننے کی بہت عادت تھی جب سے ہم نے اپنے گھر میں حضور کے سوال و جواب اور خطبات کی کیسٹس رکھی ہیں وہ گانوں کی بجائے وہی سنتا ہے.پس ان سے بہنوں کو بہت فائدہ اُٹھانا چاہئے.سینما کی لعنت موجودہ زمانہ میں سینما بھی ایک بڑی لعنت ہے.حضرت مصلح موعود نے جب تحریک جدید جاری فرمائی تو جماعت کی مالی حالت بہت کمزور تھی کئی جگہ پر مشن کھل رہے تھے ان کے اخراجات جماعت نے برداشت کرنے تھے حضور نے جماعت پر پابندی لگائی کہ اپنی خواہشات پر قدغن لگا ؤ سینما نہ دیکھو، ایک طرف پیسے بچا کر تم چندوں میں دو گے جن سے مساجد تعمیر ہوں گی ،مشن ہاؤس بنیں گے، سکول، ہسپتال بنیں گے دوسری طرف ان اخلاقی بُرائیوں سے محفوظ رہو گے جن کی محرک سینما کی فضا اور فضول فلمیں ہوتی ہیں.ساری جماعت نے بلا استثناء لبیک کہا اور ایک لمبے عرصہ تک شاید ہی کوئی احمدی ہو جس نے سینما ہاؤس میں قدم بھی رکھا ہو مگر وقت کے ساتھ بعض دفعہ کمزوریاں بھی آ جاتی ہیں جس کے لئے بار بار نصیحت کرنا اور توجہ دلانا ضروری ہے.احمدی بچوں کے ماں باپ کو ان کے سامنے سینما کی بُرائیاں رکھنی چاہئیں.حضرت مصلح موعود کا حکم بتانا چاہئے اور منع فرمانے کی حکمت بیان کرنی چاہئے تا وہ اس بُرائی سے محفوظ رہیں.سینما جانے کی مستقل عادت فضول

Page 441

خطابات مریم 416 خطابات خرچی کی عادت پیدا کرتی ہے وہی رقم چندوں میں خرچ ہو، بیوی بچوں پر خرچ ہو.طالب علم اس عادت کی وجہ سے پڑھائی کی طرف توجہ نہیں کرتے جس پر ان کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے.فیشن کی اندھی تقلید موجودہ زمانہ کی ایک برائی فیشن کی اندھی تقلید ہے.فیشن کے پیچھے آنکھ بند کر کے چلنے سے اسراف کی عادت پڑتی ہے جس سے اسلام نے منع فرمایا ہے.اسلام نے جہاں بخل سے منع کیا ہے وہاں اسراف سے بھی منع فرمایا ہے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے كُلوا واشربوا ولا تسرفوا ہر جائز چیز کے کھانے کی اجازت ہے اپنی توفیق کے مطابق بس یہ مد نظر رکھو کہ اسراف نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.ایک مسلمان اگر مال رکھتا ہے اس کی بیوی کے پاس زیور ہے تو اسے سالانہ زکوۃ بھی دینی ہوگی.احمدی ہے تو اسے زکوۃ کے علاوہ 16 / 1 اپنی آمد اور اگر موصی ہے تو 1/10 چندہ دینا ہوگا.اس کے علاوہ تحریک جدید ، وقف جدید ، جو بلی فنڈ اور دیگر تنظیموں کے چندے بھی ہیں اگر اس کے بیوی بچے اس پر اپنے نا واجب مطالبات کا بوجھ ڈال دیں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ چندوں میں کمزور ہو جائے گا حالانکہ بیعت کرتے وقت تو اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور امام کی اطاعت کا عہد کیا تھا.اپنی خواہشات اور جذبات پر جماعت کے مفاد کو مقدم رکھنے کا عہد کیا تھا.لڑکیوں میں خصوصاً یہ عادت بڑھ رہی ہے کوئی نیا کپڑا بازار میں دیکھا خواہ گھر میں اتنے کپڑے ہوں کہ آرام سے سال گزرسکتا ہو فو ر آ خرید نے کی فرمائش ماں سے کر دی کہ نیا نمونہ بازار میں آیا ہے یا اس قسم کے کپڑے کا فیشن ہے خواہ ماں باپ میں اس وقت لے کر دینے کی سکت بھی نہ ہو.عورتیں بھی ایک دوسرے سے فیشن میں سبقت لے جانے کی خاطر اپنے خاوندوں پر نا واجب بوجھ ڈال دیتی ہیں.کبھی زیور کا مطالبہ کبھی کپڑے کا کبھی کسی اور چیز کا کہ فلاں چیز میری ملنے والی کے گھر میں ہے میرے گھر میں نہیں ضرور آنی چاہئے اور اس طرح خاوند بے چارا حیران ہو جاتا ہے کہ کہاں سے خرچ لاؤں جس سے یہ مطالبات پورے ہوں.جب پورے نہیں کر سکتا تو میاں بیوی میں جھگڑا شروع ہو جاتا ہے اور کئی دفعہ یہ جھگڑے لڑائیاں اور علیحدگی کی صورت بھی اختیار کر لیتی ہیں اور عورت کی بے وقوفی سے ایک گھر جہنم بن جاتا ہے اور ایک کفایت شعار عقلمندی سے خرچ کرنے والی عورت

Page 442

خطابات مریم 417 خطابات کے ذریعہ اس کا گھر جنت بن جاتا ہے.ایک اور بُرائی جو مغربی تہذیب کے زیر اثر نمایاں نظر آتی ہے نئی نسل کی آزاد خیالی سوائے ان گھرانوں کے جہاں ماں باپ اولاد کی تربیت کا بہت خیال رکھتے ہیں وہ نئی نسل کی آزاد خیالی اور بڑوں کا جو ادب لحاظ ان کو کرنا چاہئے اس کی کمی ہے اور اس کو وہ Generation Gap کا نام دیتے ہیں حالانکہ دونسلوں میں کوئی GAP نہیں.ایک نسل کے بعد دوسری نسل آتی ہے کوئی اپنی اگلی نسل کو اپنے سے بہتر بنا جاتی ہے کوئی تربیت کی کمی کی وجہ سے پہلے سی بھی کم تر.امریکہ یورپ میں آپ دیکھیں نو جوان لڑکے لڑکیاں گھروں سے چلے جاتے ہیں.پڑھائی کی طرف توجہ نہیں ماں باپ کی پرواہ نہیں کہیں کام مل گیا کر لیا نہ ملا تو لوٹ مار کر کے اپنا پیٹ بھر لیا.نشوں کی عادتیں پڑ رہی ہیں کوئی کیریکٹر نہیں رہا.اس لئے کہ نہ ماں باپ کو اپنے کاموں سے فرصت ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کریں نہ بچوں کی یہ تربیت کی گئی ہے کہ ماں باپ کا ادب کریں.ماں باپ کے پیار سے محروم یہ بچے نفسیاتی بیمار بن رہے ہیں.ہمارے ملک میں بھی طلباء کا طبقہ اپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھتا ہے اور اخباروں میں آپ پڑھتے ہیں کہیں موٹر میں جلا دیں، ہڑتالیں کر دیں وغیرہ وغیرہ.وہ بچے بھی کسی ماں باپ کے ہوتے ہیں کیوں ماں باپ ان کی تربیت نہیں کرتے کہ اپنے ملک کو نقصان کیوں پہنچاتے ہیں.طالبات میں اور بعض جگہ افسوس ہوتا ہے کہ احمدی طالبات میں بھی خودسری نظر آتی ہے اگر سمجھایا جائے کہ کم از کم یہ چھچھوری حرکتیں کرنا احمدیت کے وقار کے خلاف ہیں تو بُرا مان جاتی ہیں.مہمان نوازی کی کمی ایک اور کمزوری جو موجودہ تہذیب کی پیداوار ہے مہمان نوازی کی کمی ہے.مہمان نوازی ایک اعلیٰ اسلامی خلق ہے جس کا اعلیٰ ترین نمونہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ملتا ہے.پھر اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے عمل سے مہمان نوازی پر بے حد زور دیا اور جماعت میں لنگر خانہ جاری کر کے یہ ثابت کر دیا کہ احمد یہ جماعت مہمان نواز ہے مگر وہ لوگ جو سادگی چھوڑ کر تکلفات میں پڑ گئے ہیں ان کے جذ بہ مہمان نوازی میں کمی واقع ہو گئی ہے.حضرت خلیفۃ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ

Page 443

خطابات مریم 418 خطابات نے اس سال جلسہ سالانہ سے قبل اس ذمہ داری کا احساس جماعت کو دلایا ہے کہ احمد یہ جماعت میں یہ خلق بہت نمایاں طور پر پایا جانا چاہئے.ان بُرائیوں سے بچنے کا علاج صرف اور ان بُرائیوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے صرف اسلام کی تعلیم پر عمل کرتا ہے جس کے احیاء کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانہ میں تشریف لائے اور جس کا عملی نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے دکھایا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو اس زمانہ کا حصن حصین قرار دیا ہے.عافیت کا حصار قرار دیا ہے کہ بُرائیوں سے بچنا ہے تو میری جماعت میں شامل ہو.صرف ظاہری طور پر بیعت کرنا مراد نہیں بلکہ عمل بھی ہو.اس زمانہ کی ہلاکت سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے احمدی جماعت کو کشتی نوح قرار دیا ہے.مگر افسوس ہے کہ اگر اس کشتی میں بیٹھ کر بھی ہلاکت سے ہم محفوظ نہ رہیں.ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آنے کی غرض مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرماتے انبیاء علیہم السلام کی دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اسی زندگی سے جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں نجات پائیں.حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد اُن کے آگے ہوتا ہے.پس اس وقت بھی جو خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تو میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی یعنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے بلکہ دکھانا چاہتا ہوں اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف راہبری کرتا ہوں“.( ملفوظات جلد دوم صفحه 8، 9) موجودہ زمانہ کی انتہائی آزادی اور بے راہ روی کی زندگی سے بڑھ کر کون سی گناہ آلود زندگی ہے جس سے خود کو محفوظ رکھنا اور اپنی اولاد کو بچانا ہمارا فرض ہے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں

Page 444

خطابات مریم 419 خطابات فرماتا ہے قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا ( تحریم : 7) اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ.وہ آگ جو ہمارے ارد گرد آزادی کی صورت میں ہے وہ آزادی جو دجالیت کی روح ہے اپنی اولا دکو اس سے بچانا ہمارا فرض ہے.اسلام کی بنیادی تعلیم.توحید اسلام کی بنیادی تعلیم تو حید ہے کہ اللہ تعالی ایک ہے ذات میں بھی اور صفات میں بھی.جب اس جیسا دوسرا کوئی ہے ہی نہیں تو پھر ہر بات میں اس کی رضا کو مقدم رکھنے میں ہی نجات ہے اور : اس کی تعلیم پر چلنے میں ہی ترقیات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.یہ خدا ہے جو ہمارے سلسلہ کی شرط ہے اس پر ایمان لاؤ اور اپنے نفس پر اور اپنے آراموں پر اور اپنے کل تعلقات پر اُس کو مقدم رکھو اور عملی طور پر بہادری کے ساتھ اس کی راہ میں صدق و وفا دکھلاؤ دنیا اپنے اسباب اور اپنے عزیزوں پر اس کو ا مقدم نہیں رکھتی مگر تم اُس کو مقدم رکھو تا تم آسمان پر اس کی جماعت لکھے جاؤ.رحمت کے نشان دکھلانا قدیم سے خدا کی عادت ہے.مگر تم اُس حالت میں اس عادت سے حصہ لے سکتے ہو کہ تم میں اور اس میں کچھ جدائی نہ رہے اور تمہاری مرضی اس کی مرضی اور تمہاری خواہشیں اس کی خواہشیں ہو جائیں اور تمہارا سر ہر ایک وقت اور ہر ایک حالت مرادیابی اور نا مرادی میں اُس کے آستانہ پر پڑا ر ہے.(روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحه 11) نقل انسان دوسرے کی اس وقت کرتا ہے جب اس سے مرعوب ہوتا ہے.اپنے سے بالا کی نقل کرتا ہے فیشن میں جب کسی کی تقلید کوئی عورت کرتی ہے تو جس کی وہ نقل کرتی ہے اس کے متعلق اسے یقین ہوتا ہے کہ یہ ہم سے بالا ہے.اس پر دنیا کی نظر ہے شائد ہم اس کی نقل کریں تو ہمیں بھی دنیا کوئی بالا ہستی سمجھے.غرض مقصد دنیا پرستی اور دنیا حاصل کرنا ہوتا ہے لیکن ایک احمدی مسلمان کے لئے سب سے پہلے اس کا رب ہے جس کا اس نے حکم ماننا ہے.اس کی رضا کو مقدم رکھنا ہے.پھر وہ بے نظیر ہستی ہے صلی اللہ علیہ وسلم جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کیلئے نمونہ بنا کر بھیجا اور فرمایاد لقد كان لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أسْوَةً حَسَنَةً (احزاب: 22) ایک مسلمان

Page 445

خطابات مریم 420 خطابات خواہ کسی ملک میں رہے اگر وہ واقعی دل سے مسلمان ہے اور اسے اپنے رب سے پیار ہے توحید کامل پر یقین رکھتا ہے تو اس کی زندگی کا مقصد محض اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا کے بغیر اطاعت رسول حاصل نہیں کی جاسکتی جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ( آل عمران : 32) اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ دنیا کو بتا دیں کہ اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو اور چاہتے ہو کہ وہ بھی تم سے محبت کرے تو اس کا ایک ہی نسخہ ہے میری اطاعت کرو.میرے نقش قدم پر چلو، ویسی زندگی گزارو جیسی میں نے گزاری تو خدا تعالیٰ بھی تم سے محبت کرے گا.پس میری بہنو! اس زمانہ میں جب کہ ہر طرف مغرب کی ماڈی ترقی دنیا کی تہذیب اور افکار پر اثر انداز ہو رہی ہے اور ماڈی طور پر ترقی یافتہ قوموں کو دیکھ کر مسلمان بھی ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ایک احمدی خاتون کو اپنے گھر اور اپنے معاشرہ کی اقدار کو قائم رکھنے کی فکر کرنی چاہئے.جماعت احمد یہ دنیا کے ہر ملک میں پھیل رہی ہے اور ہر جگہ ہی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں جن میں وہ لوگ بھی ہیں جو یہاں سے جا کر آباد ہوئے ہیں اور وہ بھی ہیں جو وہاں کے رہنے والے ہیں اور انہوں نے اسلام قبول کیا ہے.اسلامی تعلیم پرعمل کرنا سب کا فرض ہے.حضرت خلیفۃ امسیح الرابع کی زریں نصائح حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایده اللہ تعالیٰ نے 30 رستمبر کو سڈنی میں جو جمعہ کا خطبہ دیا تھا اس میں وہاں کی جماعت کو اپنی اقدار اور روحانیت کو باقی رکھنے کیلئے جو نصائح فرمائی ہیں ہر ملک میں رہنے والے احمدیوں کے لئے بڑی ہی زریں نصائح ہیں خاص طور پر عورتوں کے لئے کیونکہ کسی قوم کے عروج و زوال میں عورت بہت بھاری کردار ادا کرتی ہے.حضور فرماتے ہیں:.جتنا زیادہ دہریانہ ماحول ہو، جتنی زیادہ دنیا پرستی ہو اتنا ہی احمدی کو کسی لباس کی تلاش کرنی چاہئے.اس لباس کے بغیر وہ اس ماحول کی موت کی سردی سے بچ نہیں سکتا وہ کونسا لباس ہے جو اس کو بچا سکتا ہے قرآن کریم نے اس لباس کا نام لیا اور فرمایا

Page 446

خطابات مریم 421 ولِبَاسُ التَّقْوى ذلك خير (الاعراف: 27) پھر آپ فرماتے ہیں :.خطابات (الفضل 22 نومبر 1983ء) تقویٰ ایسے خوف کو کہتے ہیں جو محبت کرنے والے کے پیار کو کھو دینے کا ڈر ہوتا ہے ہمیشہ یہ خطرہ دامن گیر ہو کہ میں کوئی ایسا فعل نہ کروں میری سوچ کوئی ایسی راہ اختیار نہ کرے کہ جس سے میرا پیارا اور محبوب خدا مجھ سے ناراض ہو جائے.اس کا نام تقویٰ ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم یہ طرز فکر اختیار کرو گے تو دنیا کے پردہ پر جہاں بھی جاؤ گے یہ طرز فکر تمہاری زندگی کی حفاظت کرے گی.تمہارا لباس بھی بن جائے گی تمہاری خوراک بھی ہو جائے گی اور پھر تم کسی غیر اللہ کے شر سے خوف کھانے کے فکر میں مبتلا نہیں ہو سکتے کبھی غیر کے شر کے خوف میں مبتلا نہیں ہو سکتے کیونکہ خدا کا خوف ہر دوسرے خوف پر غالب آ جاتا ہے“.(الفضل 22 نومبر 1983ء) ہماری کوئی احمدی عورت ملک سے احمدی ماں کی سب سے بڑی ذمہ داری باہر جا کر یا اپنے ملک میں اگر پردہ چھوڑتی ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ لاشعوری طور پر خوفزدہ ہوتی ہے کہ ہمارے ملنے والیاں اُسے اچھا نہیں سمجھیں گی لیکن اس کو اگر اپنے مذہب کی غیرت ہوتی تو اس میں احساس برتری ہوتا کہ قرآن کی تعلیم سب سے اعلیٰ ہے جو ہم کر رہے ہیں وہ صحیح ہے چونکہ اس کو گھر سے اچھی تربیت نہیں ملی ہوتی.اس لئے وہ گھبراتی ہے پس سب سے بڑی ذمہ داری ہر ماں کی یہ ہے کہ خود بھی علم دین سے واقف ہو اور اپنی اولا دکو بھی دین سے واقف کرائے.تمام وہ اعلیٰ اخلاق جن کی تعلیم قرآن مجید میں ہے اور جن کو عملاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھایا ان کو اپنائے اور دنیا کے سامنے پیش کئے بغیر ہم اس تہذیب کو قائم نہیں کر سکے جو اسلامی تہذیب ہے جس میں ایک طرف حقوق اللہ کی ادائیگی ہے دوسری طرف حقوق العباد کی ادائیگی ہے.ایسے ہی معاشرہ کے قیام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی کہ ایک نئی زمین اور ایک نیا آسمان آپ کے ذریعہ قائم کیا جائے گا.اللہ تعالیٰ نے آپ کے آنے

Page 447

خطابات مریم 422 خطابات کی غرض الباماً بتائی کہ یعنى يُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ (تذکرہ: صفحه 55) کہ آپ کے ذریعہ اسلام پھر زندہ ہو گا یعنی اسلام کی تعلیم پر دنیا عمل کرنے لگ جائے گی اور شریعت کے احکام قائم کئے جائیں گے اور یہ سب کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ پر چل کر ہی ہوسکتا ہے.ان اعلیٰ اقدار اور اخلاق کو رائج کرنے سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کئے ظاہری اور باطنی صفائی ، کھانے پینے میں سادگی ، لباس اور زیور میں سادگی، رہائش میں سادگی ، اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس پر تو کل، بنی نوع انسان سے حسن سلوک حمل ، انصاف، دوسرے کے جذبات کا احترام، غرباء کا خیال اور ان کے جذبات کا احترام، ہمسایوں سے سلوک ، ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں سے حسن سلوک، نیک صحبت اختیار کرنا ، لوگوں کے ایمان کی حفاظت کا خیال یعنی کوئی ایسی حرکت نہ کرنا جس سے دوسرے کو ٹھوکر لگے، دوسروں کے عیوب کو چھپانا ، تکلیف پر صبر کرنا ، تعاون باہمی ، چشم پوشی، سچائی کا قیام ، تجس سے بچنا اور نیک ظنی کرنا، خرید و فروخت میں دھوکا بازی سے بچنا اور فریب دینے سے نفرت، مایوسی قوم میں پیدا نہ ہونے دینا ، وفائے عہد یہ وہ اوصاف ہیں جن کو قائم کرنے سے ایک حسین معاشرہ قائم ہو سکتا ہے اور جن پر عمل کرنے سے دنیا ہماری طرف جھکنے پر مجبور ہوگی نہ کہ ہم ان کی نقل کرنے پر.ان امور کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ قرآن پڑھیں قرآن کو عزت دیں، قرآن کی تعلیم پر عمل کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر چلیں آپ کی زندگی کو اپنے لئے نمونہ بنا ئیں.حضرت مصلح موعود کی بیان فرمودہ بشارت حضرت مصلح موعود نے دیباچہ قرآن مجید میں تحریر فرماتے ہوئے دنیا کو یہ بشارت دی تھی کہ:.”ہمارے ذریعہ سے پھر قرآنی حکومت کا جھنڈا اونچا کیا جا رہا ہے اور خدا تعالیٰ کے کلاموں اور الہاموں سے یقین اور ایمان حاصل کرتے ہوئے ہم دنیا کے سامنے پھر قرآنی فضیلت کو پیش کر رہے ہیں.دنیا خواہ کتنا ہی زور لگائے ، مخالفت میں کتنی ہی بڑھ جائے.گو دنیا کے ذرائع ہماری نسبت کروڑوں کروڑ گنے زیادہ ہیں لیکن یہ ایک

Page 448

خطابات مریم 423 خطابات قطعی اور یقینی بات ہے کہ سورج ٹل سکتا ہے ،ستارے اپنی جگہ چھوڑ سکتے ہیں ، زمین اپنی حرکت سے رک سکتی ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی فتح میں آب کوئی شخص روک نہیں بن سکتا.قرآن کی حکومت دوبارہ قائم کی جائے گی...اسلام کی حکومت پھر قائم کر دی جائے گی.ایسی طرح کہ پھر اس کی جڑوں کا ہلا نا انسان کیلئے ناممکن ہو جائے گا اس شیطان کے برباد کر دہ دنیا کے جنگل میں خدا نے پھر ایک بیج بویا ہے.میں ایک ہوشیار کرنے والے کی صورت میں دنیا کو ہوشیار کرتا ہوں کہ یہ پیج بڑھے گا ، ترقی کرے گا، پھیلے گا اور پھلے گا اور وہ روحیں جو بلند پروازی کا اشتیاق رکھتی ہیں جن کے دلوں کے مخفی گوشوں میں خدا تعالیٰ کے ساتھ ملنے کی تڑپ ہے وہ ایک دن اپنی مادی خوابوں سے بیدار ہوں گی اور بیتاب ہو کر اس درخت کی ٹہنیوں پر بیٹھنے کیلئے دوڑیں گی تب اس دنیا کے فساد دور ہو جائیں گے.(دیباچہ تفسیر القرآن صفحه 324) خدا کرے وہ دن جلد آئے کہ یہ بشارتیں پوری ہوں.ہر احمدی مرد اور عورت قرآن مجید کی تعلیم کا چلتا پھرتا نمونہ ہو.وہ اپنے نمونہ اور اپنے عمل اور اپنے حسن کلام اور اپنے اعلیٰ اخلاق سے تمام بنی نوع انسان کی اصلاح کرنے والے ہوں.دنیا ان سے متاثر ہو نہ کہ وہ کسی کا اثر لیں.وہ موجودہ تہذیب کا دھارا موڑ کر ایک نئی تہذیب کو جنم دیں.وہ تہذیب جو آنحضرت ﷺ کے ذریعہ مدینہ میں قائم ہوئی اور وہاں سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل گئی.اللهم صل على محمد وعلی ال محمد و بارک وسلم (ماہنامہ مصباح فروری 1984ء) ☆☆......

Page 449

خطابات مریم 424 خطابات ضلعی عہد یداران کے اجلاس کا انعقاد مورخہ 30 / مارچ 1984ء بروز جمعۃ المبارک بعد نماز مغرب پاکستان کے اضلاع کی صدر صاحبات کا ضروری اجلاس زیر صدارت حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ منعقد ہوا.حضرت سیدہ صاحبہ صدر لجنہ مرکزیہ نے فرمایا کہ جب سے ضلع کی علیحدہ صدر میں منتخب کی گئی ہیں ضلع کے کام میں بیداری پیدا ہوئی ہے مگر اتنی نہیں جتنی ہونی چاہئے تھی بعض اضلاع نے وہ کام کرنا شروع کر دیا ہے جو فی الحقیقت شہر کی صدروں کا کام تھا ضلعی صدروں کی ذمہ داریاں یہ ہیں کہ جہاں بھی احمدی مستورات ہیں اور لجنہ قائم نہیں وہاں لجنہ قائم کی جائے.مجالس کے دورے کر کے ان کی مکمل رہنمائی کریں نئی مجالس کو تمام کام سکھائیں تجنید کا کام مکمل کریں.بیشتر مجالس ایسی ہیں جن کی طرف سے ابھی تک تجنید کی کوئی فہرست موصول نہیں ہوئی.تمام صدروں کو چاہئے کہ وہ اپنی مجالس کے لئے نئے نئے شائع شدہ مجنید فارم لے کر جائیں اور اس کے مطابق فہرست مرتب کر کے بھجوائیں.نیز فرمایا کہ بعض لجنات دفتر صدرانجمن احمد یہ میں اپنے چندہ جات بلا تفصیل بھجوا دیتی ہیں جس کی وجہ سے دفتر لجنہ کو اندراج میں بڑی مشکل پیش آتی ہے کبھی دو تین ماہ کے بعد تفصیل ملتی ہے اور کبھی ملتی ہی نہیں.اسی طرح جماعتی چندے دفتر لجنہ میں بھجوانے کی بجائے براہ راست خزانہ صدر انجمن میں جمع کروا ئیں.سیدہ موصوفہ نے فرمایا کہ ممبری چندہ ناصرات اور اجتماع لجنہ میں ابھی کافی کمی ہے مجالس کو اس طرف توجہ دلائی جائے ہر مجلس اپنا سالانہ بجٹ بنا کر بھجوائے.پھر آپ نے اس شکایت کا ذکر فرمایا جس سے دفتر لجنہ کی کارکنات کو بڑی مشکل پیش آتی ہے جو یہ ہے کہ ضلع کی صدر ایک نئی مجلس قائم کر کے مرکز سے اس کی منظوری حاصل کرتی ہے اور پھر کچھ دیر بعد ہی دفتر کو اطلاع دی جاتی ہے کہ اسے بند کر دیا جائے یا فلاں مجلس کے ساتھ ملا دیا جائے.قیام سے پہلے پورے حالات کا جائزہ لے کر پھر دفتر

Page 450

خطابات مریم 425 خطابات کو منظوری کیلئے لکھا جائے.سیدہ صدر صاحبہ نے فرمایا کہ ضلعی سطح پر جلسہ جات کا انعقاد ضلعی صدروں کا کام نہیں بلکہ ہر مقامی لجنہ جلسے (سیرۃ النبی ہے مصلح موعود ) منعقد کرے.آپ نے فرمایا کہ ضلعی عہدیداران یہاں سے جا کر اپنے اجلاس کریں ان میں جشن صد سالہ کی تقریبات کیلئے تجاویز سوچ کر مرکز کو بھجوائیں.تحریک جدید کے کام کی طرف خصوصی توجہ دیں اور وعدہ جات کے مطابق وصولی کی کوشش کی جائے اور ہر احمدی خاتون کو اس میں شامل کیا جائے.(ماہنامہ مصباح اپریل 1984ء)

Page 451

خطابات مریم 426 خطابات خطاب عہد یداران شہر واضلاع پاکستان منعقدہ 3 نومبر 1984ء آپ نے اس میٹنگ کے انعقاد کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر سال سالانہ اجتماع کے موقع پر بیرون سے آنے والی مجالس کی عہدیداران کو نئے سال کے لئے ہدایات دی جاتی تھیں.اس سال حالات کی وجہ سے اجتماع منعقد نہ ہو سکا جس کی وجہ سے عہد یداران کو یہاں بلانا پڑا.آپ نے عہدیداران پر واضح فرمایا کہ موجودہ حالات ہمارے لئے بڑے ابتلاء اور آزمائش ہیں کیونکہ ہمارے امام ہم سے بہت دور ہو گئے ہیں.قریب رہ کر ہم خلیفہ وقت سے جو فیض حاصل کر رہی تھیں اس سے اب محروم ہیں.گولیسٹس کے ذریعہ ہم تک آپ کے ارشادات پہنچ رہے ہیں.یہ جدائی ہمارے لئے بڑی ابتلاء ہے.آپ نے فرمایا حالات کا تقاضہ ہے کہ حضور جب بھی ہمارے درمیان واپس آئیں تو وہ ہم سے خوش ہوں.جماعت کمزور نہیں سو ہمارے قدم پھیلنے نہیں چاہئیں بلکہ ہمیں اس آزمائش پر پورا اترنا چاہئے.مالی قربانیاں پیش کرنا تو ہمارا وطیرہ رہا ہے لیکن اصل چیز اپنے ایمانوں کو سلامت رکھنا ہے.ہمارے اندر بہت کمزوریاں پیدا ہو چکی ہیں.مجھے ڈر ہے کہ وہ کمزوریاں آئندہ نسل میں منتقل نہ ہو جائیں لہذا ہمیں اپنی تربیت کی طرف سب سے پہلے توجہ دینی ہوگی.نیز فرمایا اپنے حالات کا جائزہ لیں.اپنی لجنات کی کمزور نمبرات کو نہایت پیار سے سمجھا ئیں ہر احمدی خاتون کا اپنی تنظیم سے تعلق ہونا چاہئے.آپس کے تمام اختلافات اور جھگڑوں کو بھول جائیں.پہلے سے بڑھ کر منتظم اور متحد ہو جائیں.تربیتی امور کی طرف توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے.یہ بھی کافی نہ سمجھیں کہ ہم نے چندہ بھیج دیا یا چیزیں بھیج دیں اور کتابیں پڑھ لیں

Page 452

خطابات مریم 427 خطابات بس ٹھیک ہے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھ کر اپنے نفسوں کا جائزہ لیں.نئے سال میں آپ کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ آپ اپنے نقائص کو دور کریں جو بہنیں جھگڑوں کی وجہ سے حاضر نہیں ہوتیں اُنہیں سمجھنے کی پوری کوشش کریں.احمدیت کی ترقی اور رضائے الہی کے حصول کے لئے نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنے جھگڑوں کو بھول کر متحد ہو کر کام کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا اصل مقصد ہی احیائے اسلام ہے.خدا تعالیٰ ہمیں اس مقصد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین (از سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 85-1984ء)

Page 453

خطابات مریم 428 خطابات افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ ( منعقدہ 1985ء) سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارا چوبیسواں سالانہ اجتماع ایک سال کے وقفہ سے شروع ہو رہا ہے میں سب آنے والی بہنوں کو اپنی طرف سے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے اور ربوہ کی رہنے والی مستورات کی طرف سے اھلا و سهلا و مرحبا کہتی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے اس سہ روزہ قیام کو مبارک کرے اور آپ یہاں سے ایمان، علم اور عزم کے موتیوں سے جھولیاں بھر کر جائیں.اپنی تقریر سے قبل تمام خواتین اور بچیوں کو اس طرف توجہ دلاتی ہوں کہ وہ اپنے وقت کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کریں، بے فائدہ نہ پھریں، آپس میں ملنے ملانے، باتیں کرنے ، کھانے پینے کے لئے بہت وقت ہے اجتماع کے پروگرام کو توجہ سے سنیں.نمائندگان اور عہدیداران تمام باتوں کو جو آگے اپنی لجنہ میں اُنہوں نے پہنچانی ہیں نوٹ کر لیں.اگر وہ جا کر نہ آنے والی بہنوں تک یہاں کی کارروائی نہیں پہنچا تیں تو ان کی نمائندگی کا کوئی فائدہ نہیں.یہ اجتماع ایک سال کے وقفہ سے ہو رہا ہے 1983 ء کے اجتماع میں 482 مجالس کی طرف سے 4265 خواتین نے اجتماع میں شرکت کی تھی جن میں سے 1035 نمائندگان تھیں.ربوہ کی تعداد اس کے علاوہ تھی.اس سال 520 مجالس کی طرف سے 851 نمائندگان نے شرکت کی اور کل تعداد بیرون از ربوہ آنے والیوں کی 3244 ہے گویا مجالس کی تعداد میں اضافہ ہے لیکن نمائندگان کی تعداد میں کچھ کمی ہے.ناصرات کی تعداد 1983ء میں 241 مجالس کی طرف سے بیرون از ربوہ 1029 تھی اور اس سال 110 مجالس کی طرف سے 760 ناصرات نے شرکت کی ہے.لجنہ

Page 454

خطابات مریم 429 خطابات ربوہ کی کل تعداد جنہوں نے داخلہ کا ٹکٹ لیا ہے کی تعداد 6307 ہے اس میں 254 نمائندگان میں ربوہ کی 2400 ناصرات نے شرکت کی.چونکہ 1984ء میں اجتماع نہیں ہو سکا اس لئے اپنی تقریر میں میں دونوں سالوں کا جائزہ لوں گی.1984ء میں حضرت امام جماعت احمد یہ لندن تشریف لے گئے آپ کی جدائی نے جو زخم دلوں میں ڈالے ہیں ان کی تکلیف سے ہر بہن آگاہ ہے ہمارا سب سے بڑا فرض حضور ایدہ اللہ کی صحت کے لئے اور لمبی عمر پانے کے لئے اور احمدیت کی ترقی کیلئے دعا کرنا اور کرتے چلے جانا ہے.ایسی دعا ئیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی ہوں ایسی دعا ئیں جو عرش کو ہلا دینے والی ہوں.ان دو سالوں میں بہت سی عظیم ہستیاں ہم سے بچھڑ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئیں.وہ ہستیاں جو جماعت احمدیہ کے بہت پیارے وجود تھے ان میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی لیکن یہ چونکہ عورتوں کا اجتماع ہے اور لجنہ کے کاموں کا تذکرہ ہو رہا ہے اس لئے صرف خواتین کا ہی ذکر کروں گی.حضرت بانی سلسلہ عالیہ کی بہو یعنی آپ کے سب سے چھوٹے صاحبزادے حضرت مرزا شریف احمد صاحب رحمہ اللہ کی بیگم صاحبہ 24 / اگست 1984ء کو ایک لمبی بیماری کے بعد وفات پا گئیں.آپ حضرت نواب محمد علی خان صاحب نوراللہ مرقدہ کی سب سے بڑی بیٹی تھیں اور خدائی بشا رات کے ماتحت جن خواتین مبارکہ کا خاندان سید نا حضرت اقدس میں داخل ہونا مقدر تھا اس میں آپ کو ایک ممتاز مقام حاصل تھا.سید نا حضرت بانی سلسلہ نے اپنے صاحبزادے کے لئے خود آپ کا رشتہ تجویز فرمایا اور حضور کی زندگی میں ہی حضرت مولانا نورالدین صاحب نے آپ کا نکاح پڑھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو لمبی زندگی عطا فرمائی.نیک فرمانبردار، خادم دین اولاد سے نوازا اور تری نسلاً بعیدا کی پیشگوئی کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھا.آپ کی وفات سے احمدی خواتین ایک بزرگ اور مقدس خاتون کی صحبت سے محروم ہو گئیں.15 جون 1984ء کو سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ جو میر محمد الحق صاحب کی دختر اور صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب مرحوم کی بیگم تھیں وفات پا گئیں بہت کم ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے ماں اور باپ دونوں کو خدمت دین کی توفیق ملی ہو اور ان کی نسل میں بھی خدمت دین کا تسلسل

Page 455

خطابات مریم 430 خطابات جاری ہو.آپا نصیرہ ( کہ جماعت میں وہ اسی نام سے پکاری جاتی تھیں ) ایسی ہی خوش بخت خاتون اور ایسے ہی خوش بخت والدین کی بیٹی تھیں.بچپن سے اپنی والدہ حضرت سیدہ اُم داؤ د کو لجنہ کا کام کرتے دیکھا اور ان سے تربیت حاصل کی.سیدہ اُم داؤ د مرحومہ کا نام لجنہ اماءاللہ کی خدمات کے سلسلہ میں نمایاں نظر آتا ہے تعلیم و تربیت کے میدان میں بھی اور تنظیمی صلاحیتیں اُجاگر کرنے کے میدان میں بھی یعنی جلسہ سالانہ کے موقع پر عورتوں میں مہمان نوازی کے تمام مرحلے ان کی راہ نمائی میں سرانجام پاتے تھے.اب بھی جب جلسہ سالانہ کے انتظامات شروع ہوتے ہیں تو چشم تصور ان کو ہدایتیں دیتے ، نقشے بناتے ،نگرانی کرتے دیکھتی ہے.آپا نصیرہ چونکہ شادی ہوکر قادیان سے باہر چلی گئیں تھیں اس لئے ان کی خدمات کا سلسلہ صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد جب آپ نے قادیان میں مستقل رہائش اختیار کر لی شروع ہوتا ہے.قادیان میں 1946ء میں الیکشن کے موقع پر ان کے گھر کو کام کرنے کا مرکز بنایا گیا.خواتین کی خاصی بڑی تعداد روزانہ جمع ہوتی اور سیدہ اُمّم داؤد صاحبہ ان کو ہدا یتیں دیتیں.صبح سے شام تک کام ہوتا اور آپا نصیرہ تمام آنے والی خواتین کی مہمان نوازی کرتیں.چائے ، کھانے وغیرہ کا خیال کرتیں تمام خرج اپنے پاس سے کیا.ایک پیسہ بھی اس زمانہ میں لجنہ نے خرچ نہیں کیا خاصی بڑی تعداد مبرات کی جو وہاں بیٹھ کر کام کرتی ان کے دو پہر کے کھانے اور شام کی چائے کی مکمل ذمہ داری نہایت خوش دلی سے اُنہوں نے اُٹھائی.1945ء میں حلقہ بیت الفضل قادیان کی ممبرات کو خواندہ بنانے کے کام کی ذمہ داری اور نگرانی کی.اس کے علاوہ 1945ء میں جلسہ سالانہ سے اُنہوں نے بطور نائبہ ناظمہ مستورات کام کرنا بھی شروع کیا پھر پارٹیشن ہوئی اور وہ بھی لاہور آ گئیں.لاہور آ کر یہاں لاہور کی لجنہ کی تنظیم کی طرف توجہ دی گئی وہاں قادیان سے آئی ہوئی مہاجرات کی تنظیم بھی کی گئی اس عرصہ تک جب وہ کہیں مستقل طور پر قیام پذیر ہوں ان کا سنبھالنا اور تعلیم و تربیت کا خیال رکھنا ایک بڑا کام تھا.اس تنظیم کی صدر سیده ام داؤد صاحبہ اور سیکرٹری آپا نصیرہ تھیں اُنہی دنوں فرقان فورس کے مجاہد کشمیر میں دا دشجاعت پارہے تھے ان کی وردیوں اور جرابوں کی مرمت کا کام لجنہ کے سپر دکھا اور یہ کام بھی آپ دونوں کی نگرانی میں ہوتا تھا.1949ء میں ربوہ منتقل ہونے پر آپ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی

Page 456

خطابات مریم 431 خطابات سیکرٹری تربیت و اصلاح مقرر ہوئیں.نیز ربوہ میں دوسری تعلیم القرآن کلاس کی طالبات کی رہائش کے انتظامات کی نگران بھی رہیں.جب تک صحت جواب نہ دے گئی لجنہ اماءاللہ کے کسی نہ کسی عہدہ پر رہیں.چار سال جنرل سیکرٹری کے عہدہ پر بھی کام کیا لیکن سب سے نمایاں خدمات اُنہوں نے بحیثیت ناظمہ جلسہ سالانہ اور ناظمہ اجتماع لجنہ اماءاللہ کے سرانجام دیں ان دنوں میں اپنے گھر کی ذمہ داریوں سے بکلی سبکدوش ہوکر سارا سارا دن اور دیر تک رات کو دفتر میں ٹھہر تی تھیں.بلڈ پریشر کی مریضہ تھیں لنگر خانہ کا کھانا کھانے کی وجہ سے اکثر جلسے اور اجتماع کے بعد بیمار پڑ جاتی تھیں غرض کہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے لحاظ سے محسنین میں ان کا وجو دشمار ہوتا ہے اور مَنْ قَضَى نَحْبَهُ کے زمرہ میں آپ کا وجود آتا ہے.سینکڑوں لڑکیوں کو قرآن مجید سادہ اور باترجمہ پڑھا یا شدید بیماری سے بہت تھوڑا عرصہ قبل تک پڑھاتی رہیں بے حد عبادت گزار، شب بیدار، کثرت سے نوافل ادا کرنے والی اور بہت دعائیں کرنے والی تھیں.غرض ان کی وفات جماعت احمدیہ کی خواتین اور ممبرات لجنہ اماءاللہ کے لئے ایک عظیم نقصان تھی.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کی روح پر اپنے فضلوں کی بارش برسا تا ر ہے.آمین اس سال یعنی 12 / جولائی 1985ء کو حضرت استانی مریم صاحبہ جو حضرت حافظ روشن علی صاحب کی اہلیہ تھیں اور لجنہ اماءاللہ کی ابتدائی چودہ ممبرات میں سے ایک تھیں.ایک طویل بیماری کے بعد وفات پا گئیں.حضرت فضل عمر نے جب 1922ء میں لجنہ اماءاللہ کی بنیادرکھی تو ایک مضمون جو ابتدائی تحریک کے نام سے تاریخ لجنہ اماءاللہ میں موسوم کیا جاتا ہے لکھ کر احمدی مستورات کو تحریک کی کہ جو اس میں خوشی سے شامل ہونا چاہے شامل ہوا اور اس پر دستخط کرے اس فہرست کے آٹھویں نمبر پر ان کا نام درج ہے اور ان کی وفات کے بعد اب ان چودہ میں سے کوئی بھی زندہ باقی نہیں.اللہ تعالیٰ ان ابتدائی نمبرات پر اپنے رحم وفضل کی بارش برساتا رہے جنہوں نے قربانیوں کی ابتدا کر کے ہمارے لئے عمل کی راہیں استوار کیں.آپ نے قادیان میں لجنہ اماء اللہ کے بہت سے عہدوں پر کام کیا ہے.نائب صدر ر ہیں، قائمقام سیکرٹری کا فریضہ انجام دیا، خزانچی رہیں ، دستکاری کا کام کیا ، جلسہ سالانہ کے موقع پر مختلف فرائض سرانجام دیتی رہیں.الفضل میں کثرت سے مضامین لکھے جلسوں میں تقریریں بھی کرتی رہیں اور ہزارہا

Page 457

خطابات مریم 432 خطابات بچوں کو قرآن کریم پڑھایا عاجزہ کو بھی کچھ عرصہ آپ سے پڑھنے کا شرف حاصل ہے.لجنہ اماء اللہ کے جاری ہونے کے بعد عورتوں اور بچوں کی دینی تعلیم کے لئے جو انتظامات کئے گئے ان میں سے ایک درس گاہ آپ کا گھر بھی تھا جس کا تفصیلی ذکر لجنہ اماءاللہ کی سب سے پہلی رپورٹ میں کیا گیا ہے.غرض اپنے وقت میں انہوں نے مختلف رنگ میں لجنہ اماءاللہ کی کثیر خدمات انجام دیں.اللہ تعالیٰ ان کی شاگردوں کے ذریعہ ان کی نیکیوں کو زندہ رکھے ان کے محلہ کی خواتین نے ان کی بہت خدمت کی.جزاهم الله احسن الجزاء 1983-84 ء میں کل لجنات کی تعداد 866 تھی ان میں سے 388 لجنات کی طرف سے ماہانہ رپورٹیں موصول ہوتی رہیں یعنی تقریباً 45 فیصد ان میں بعض وہ لجنات بھی شامل ہیں جن کی طرف سے صرف ایک رپورٹ ہی سال میں موصول ہوئی اور سالانہ رپورٹ 29 ضلعوں کی 129 لجنات کی طرف سے آئیں اور اس سال میں چندہ دینے والی لجنات کی تعداد 787 رہی.یعنی 9 ء90 فیصد اس سال یعنی 84 - 1985 ء میں کل لجنات کی تعداد 891 ہو گئی ہے ان میں سے ماہانہ رپورٹ بھیجوانے والی بجنات کی تعداد دوران سال 487 رہی اور سالانہ رپورٹ 32 ضلعوں میں سے 173 لجنات کی طرف سے وصول ہوئی.چندہ دہندہ لجنات کی تعداد اس سال 777 رہی ہے.چندہ الحمد للہ سال گزشتہ سے زیادہ نمایاں رہا ہے لیکن چندہ دہندگان لجنات کی تعداد میں کمی آئی ہے یعنی 5 78 فیصد رہی اس کمی کی وجہ یہ ہے کہ قریباً چھپیں یا تھیں لجنات کا چندہ 3 راکتو بر جو حساب بند کرنے کی آخری تاریخ تھی اس کے بعد وصول ہوا اگر پہلے وصول ہو جا تا تو حساب میں آجاتا اور بہت سی لجنات کا چندہ بغیر تفصیل وصول ہوا آخر کس مد میں اسے ڈالتے چندہ وقت پر اور تفصیل ساتھ ہی بھجوایا کریں.لجنہ اماء اللہ کے کام کو ترقی دینے کے لئے جہاں مرکزی سیکرٹریان نے جن میں سے بعض میں میں بھی شامل تھی دورے کئے اور بعض مقامات پر ضلعی میٹنگز منعقد کی گئیں جن میں ضلع ملتان ، مظفر گڑھ ، وہاڑی ، ڈیرہ غازیخان ، جھنگ ، فیصل آباد، سرگودھا، گجرات اور جہلم قابل ذکر ہیں اسی سال انشاء اللہ زیادہ سے زیادہ ممکن تعداد میں دورے کرنے کا پروگرام لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر نظر ہے اس سلسلہ میں ضلعی صدر یں ، جنرل سیکرٹری صاحبہ سے پروگرام طے کر کے

Page 458

خطابات مریم 433 خطابات جائیں.الحمد للہ اس سال لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے دفتر کی از سر نو بنیا درکھی گئی سابقہ دفتر کی عمارت گرائی جا رہی ہے جس کی بنیاد 31 مئی 1950ء کو حضرت فضل عمر نے رکھی تھی اس کی حالت بہت خراب ہو چکی تھی چنانچہ نئے نقشہ کے مطابق 3 رمئی 1985ء کو سنگ بنیاد رکھا گیا اور تعمیر شروع ہوگئی ہے بجٹ میں سے پانچ لاکھ روپے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے ادا کئے ہیں باقی رقم حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت بطور قرض جو بلی فنڈ سے عطا فرمائی.ابھی اس عمارت کے چندہ کی تحریک کی اجازت حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ملی کیونکہ یورپین مراکز کے چندہ کا ابھی جماعت پر بوجھ ہے جب بھی حضور تحریک فرما ئیں گے میں امید کرتی ہوں کہ ہماری احمدی بہنیں اپنی پرانی روایات کو پھر سے زندہ کر دیں گی.صحت جسمانی کی جو سکیم حضور کے پیش نظر ہے اس کی پرا جیکٹ کی تعمیر کے لئے سوالاکھ روپیہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے ذمہ ڈالا گیا تھا جس میں سے لجنہ مرکزیہ نے چار قسطیں یعنی ایک لاکھ ادا کر دیئے ہیں.صرف ایک قسط باقی ہے جو آئندہ سال انشاء اللہ ادا کی جائے گی.گھٹیالیاں سکول کی مرمت کے لئے پچیس ہزار روپے دیئے گئے ہیں دس ہزار بیوت الحمد سکیم میں مزید دیئے گئے.گیارہ ہزار میں اس سال لجنہ نے ٹیپ ریکارڈنگ ڈیک خریدا ہے تا اس پر تعلیمی اور تربیتی کیسٹ تیار کئے جائیں.گزشتہ سال حضور نے یورپین مراکز کے لئے چندہ کی تحریک فرمائی جو ساری دنیا کے احمدیوں کیلئے تھی.احمدی خواتین نے اپنے زیور اور رقوم کھلے دل کے ساتھ اپنے امام کے قدموں میں ڈال کر ثابت کر دیا کہ احمدی مستورات ایک زندہ قوم کی عورتیں اور دین کی سر بلندی کی خاطر مال قربان کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتی ہیں.بڑی پیاری مثالیں سامنے آئیں جن میں سے بعض کا تذکرہ حضور بھی اپنے خطبات میں بیان فرما چکے ہیں.ان واقعات کو محفوظ رکھنا ہمارا فرض ہے تا کہ آئندہ نسل کے لئے مشعل راہ ہو.اس سلسلہ میں تمام لجنات ایسے واقعات ناموں اور پتوں کے ساتھ جمع کریں اور مجھے دستی یا رجسٹر ڈ بھجوائیں.اس کے علاوہ موجودہ حالات میں بھی جو قربانی ہماری جماعت کی خواتین نے دی ہے ان میں چیدہ چیدہ مثالیں لکھیں.

Page 459

خطابات مریم 434 خطابات حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے لندن جانے کی وجہ سے وہاں کام بے حد بڑھ گیا ہے یہاں سے تو کام کرنے والے ساتھ نہیں گئے جیسا کہ حضور نے خود جماعت انگلستان کے اس سال کے جلسہ سالانہ کے موقع پر فرمایا ہے کہ وہاں کے لوگوں نے اپنا وقت قربان کر کے سارا بوجھ اُٹھایا.ان کام کرنے والوں میں جہاں مرد تھے وہاں عورتیں بھی تھیں اور اب انگلستان کی عورتوں کی ایک خاصی تعدا د روزانہ خطوط وغیرہ لکھنے اور متفرق کاموں کے سرانجام دہی میں مصروف ہے.دیر سے یہ معاملہ لجنہ اماءاللہ کے زیر غور تھا کہ ربوہ میں دستکاری کے کاموں کو فروغ دینا چاہئے تا وہ عورتیں جو غربت سے پریشان ہو کر دستِ سوال دراز کرتی ہیں اپنی خود کوئی آمد پیدا کر سکیں.سلائی سکول تو جاری ہے مگر گنتی کی طالبات آتی تھیں سکول کا خرچ بہت تھا.آمد نہ ہونے کے برابر اور وہ لڑکیاں آڈر کا کام بھی نہیں کرتی تھیں.صرف ڈپلومہ لے کر چلی جاتی تھیں.اس سال لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے فیصلہ کیا کہ ڈپلومہ بند کر کے اس میں کام اس رنگ میں سکھایا جائے کہ سیکھنے والی مستورات کام سیکھ کر اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکیں.چنانچہ گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد اس طریق پر ابتداء کر دی گئی ہے اور فی الحال سکولوں کے یونیفارم کے سوئیٹرز تیار کئے جارہے ہیں آپ سب نے تعاون کیا تو امید ہے کہ شعبہ دستکاری اپنی ترقی کی راہوں پر گامزن ہو جائے گا.اجتماع کے موقع پر ایک چھوٹی سی نمائش بھی لگائی گئی ہے.1984ء میں تو جلسہ سالانہ نہیں ہو سکا لیکن 1983 ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر جلسہ گاہ کے انتظامات میں لجنہ اماءاللہ کراچی نے نمایاں خدمات سرانجام دی تھیں اور ڈاکٹر ز بیدہ صاحبہ کی نگرانی میں کارکنات نے بہت اچھا کام کیا جس کا فرق گذشتہ سالوں سے نمایاں نظر آتا ہے اسی طرح حلقہ خاص کے کام کی ذمہ دار لجنہ لا ہور نے بھی اچھی طرح ڈیوٹی ادا کی.1983 ء کے اجتماع کے بعد حضور کی ہدایت کے مطابق مجلس انصار اللہ مجلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کے نمائندگان کی کئی میٹنگیں اس غرض سے ہوئیں کہ سالانہ کام کا جائزہ لینے کا تینوں تنظیموں کا ایک معیار مقرر ہو اور جو لجنات اس معیار پر پوری اتریں صرف ان لجنات کو مقابلہ میں شامل کیا جائے چنانچہ گزشتہ سال سے اس پر عمل ہو رہا ہے.1983ء سے حضور نے عورتوں کو مجلس مشاورت میں براہ راست نمائندگی عطا فرمائی.

Page 460

خطابات مریم 435 خطابات 1984ء اور 1985ء میں مرکزی نمائندگان اور سب ضلعوں کی نمائندگان شمولیت کرتی اور اپنی لجنات کی طرف سے نمائندگی کرتی رہیں.عورتوں اور بچوں کی تربیت کے خاص مواقع ہوئے ہیں اجتماع ، جلسہ سالانہ ، فضل عمر تربیتی کلاس ، میٹرک کے بعد کی تعلیمی کلاس اور کھیلوں کے مقابلوں کا ٹورنا منٹ جن میں جسمانی صحت کے علاوہ اخلاقی لحاظ سے بھی مقابلہ ہوتا ہے.84.1985ء میں مستورات اور بچیاں اس سے محروم رہیں اس لئے تمام لجنات کا فرض ہے کہ وہ اپنی بہنوں اور بچیوں کی تربیت کی طرف بہت زیادہ توجہ دیں اگر مرکز میں کلاسیں نہ لگ سکیں تو ہر لجنہ لگائے بڑے شہروں میں ایک جگہ جمع نہ ہو سکیں تو ہر قیادت یا محلہ میں لگائیں اور ان کی دینی تعلیم اور اخلاقی تربیت کی طرف بہت توجہ دیں.خدا کے مامور کشتی کا کام دیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے.ترجمہ : کیا تو نے نہیں دیکھا کہ کشتیاں اللہ کی نعمت کے ساتھ سمندر میں چلتی ہیں تا کہ وہ اپنے نشانات دکھائے اس میں ہر بڑے صابر اور ہر بڑے شکر گزار کے لئے بہت نشان ہیں.( سورة لقمان : 32) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے بھی فرمایا ہے.واللہ کہ ہم چو کشتی نو حم کردگار بے دولت آنکه دور بماند ز لنگرم ترجمہ: بخدا میں اپنے پروردگار کی طرف سے نوح کی کشتی کی طرح ہوں بدقسمت ہے وہ جو میرے لنگر سے دور ہوتا ہے.اس میں بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف جانے کیلئے مامورین کا مقام بمنزلہ کشتی کے ہوتا ہے جس میں سوار ہو کر وہ خدا تک پہنچتے ہیں اسی لئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں :.انبیاء کے دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی سے جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں نجات پائیں یعنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں اور گناہ سے......

Page 461

خطابات مریم 436 خطابات بچنے کی راہ کی طرف راہبری کرتا ہوں“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 8 ) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے بھی ایک کشتی کا ڈھانچہ تیار کیا کہ جو اس کشتی میں سوار ہو کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اس کشتی میں سوار ہو جائے لیکن ہر سواری کا ٹکٹ یا پاس ہوتا ہے اس کشتی میں داخل ہونے کے لئے بھی ایک پاس آپ نے جاری کیا تھا وہ پاس کیا تھا آپ کے اپنے الفاظ میں سنئے.واضح رہے کہ صرف زبان سے بیعت کا اقرار کرنا کچھ چیز نہیں ہے جب تک دل کی عزیمت سے اس پر پورا پورا عمل نہ ہو.(روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحه 10) خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلیل کرو تاتم بخشے جاؤ“.(روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحہ 12) پھر آپ فرماتے ہیں :.” جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بدعملی سے یعنی شراب سے اور قمار بازی سے بدنظری سے اور خیانت سے رشوت سے اور ہر ایک نا جائز تصرف سے تو بہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص پنجگانہ نماز کا التزام نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص دعا میں لگا نہیں رہتا اور انکسار سے خدا کو یاد نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جوشخص بدرفیق کو نہیں چھوڑتا جو اس پر بداثر ڈالتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص اپنے

Page 462

خطابات مریم 437 خطابات ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں اُن کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعمید خدمت سے لا پروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو خص اپنی اہلیہ اور اُس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص اپنے ہمسایہ کو ادنی ادنیٰ خیر سے بھی محروم رکھتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص نہیں چاہتا کہ اپنے قصور وار کا گناہ بخشے اور کینہ پرور آدمی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے...اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے تو بہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے یہ سب زہریں ہیں تم ان زہروں کو کھا کر کسی طرح بچ نہیں سکتے اور تاریکی اور روشنی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی“.(روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحہ 19,18) پیاری بہنو! ہم نے ظلمت کو چھوڑ کر نور کے سایہ تلے آنا ہے اور نو راختیار کرنے کا طریق حضور نے بتا دیا ہے کہ یہ یہ برائیاں چھوڑ کر اعلیٰ اخلاق اپنانے ہوں گے اور اس راستہ پر چلنا ہو گا جوصراط العزیز الحمید ہے اور اس راستہ پر صرف قرآن مجید کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی چلا جا سکتا ہے جیسا کہ سورۃ ابراہیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : ترجمہ: یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے تجھ پر اس لئے اُتارا ہے کہ تو تمام لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے آئے یعنی غالب اور تعریفوں والے خدا کے راستہ کی طرف.(سورۃ ابراہیم :2) پس کتاب الہیہ کا علم حاصل کرنا آپ کے لئے بہت ضروری ہے ورنہ وہ اخلاقی اور روحانی تبدیلی جو حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ آپ میں پیدا کرنی چاہتے تھے نہیں پیدا ہو سکتی.آپ فرماتے ہیں :.تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے“.(روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحہ 13)

Page 463

خطابات مریم 438 خطابات پس قرآن پڑھو اور اس پر عمل کرو.اس کے مطالب سمجھو اور اس کو اپنی زندگیوں پر حاوی کروتا اس کے نتیجہ میں تمہارا اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق پیدا ہو.ایسا مضبوط تعلق جس کو کوئی توڑ نہ سکے ہم کوشش کریں کہ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اس کے نتیجہ میں گناہ آلو د زندگی سے نجات پا کر اپنی زندگی کا حقیقی مقصد حاصل کریں.اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے سامنے وہ شرائط رہیں جن پر ہم نے بیعت کی وہ غرض رہے جس کے لئے ہم نے ایک ہاتھ پر بیعت کی اور جائزہ لیتے رہے کہ اس کو پورا کر رہے ہیں یا نہیں.میری بہنو اور بچیو! ان تین دنوں میں اپنا وقت ضائع نہ کرو توجہ سے پروگرام سنو اور ان سے فائدہ اُٹھاؤ.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے رپورٹیں دیکھ کر کہ ہمارا کم سے کم معیار ہر کام میں پچاس فیصد ہونا چاہئے ترجمہ قرآن کریم کے لحاظ سے ہم ابھی اس معیار پر نہیں پہنچیں آپ یہ کہتی ہیں کہ ہم بوڑھے طوطوں کو نہیں پڑھا سکتے لیکن اگر آپ نوجوان بچیوں اور ناصرات کی طرف پوری توجہ دیں تو اگلی نسل خود بخودسو فیصد تعلیم یافتہ مل جائے گی جسے دین پر عبور حاصل ہوگا.میں دیہات کی لجنات کو خاص طور پر توجہ دلاتی ہوں کہ اگر ترقی کرنی ہے تو اپنے بچوں کو پڑھائیں اگر ایک لڑکی بھی آپ کی نہیں پڑھتی تو آپ گناہ کرتے ہیں.جماعت احمدیہ کی خواندگی یعنی پڑھے لکھے ہونے کا معیار سو فیصد ہونا چاہئے.ناظرہ اور ترجمہ نماز باترجمہ کا معیار بھی اسی فیصد ہونا چاہئے پھر مزید علمی ترقی کی طرف قدم اُٹھایا جا سکے ابھی تو بہت سی لجنات ابتدائی سیڑھیاں چڑھ رہی ہیں ایک سطح پر سب کو لانے کی کوشش کریں تعلیمی لحاظ سے تربیتی لحاظ سے، خدمت خلق کے لحاظ سے ، اعلیٰ اخلاق کے لحاظ سے، اعلیٰ کردار کے لحاظ سے، قربانی دینے کے لحاظ سے، داعی الی اللہ ہونے کے لحاظ سے تا آپ مل کر وہ عظیم الشان اخلاقی اور روحانی انقلاب لا سکیں جو ہمارا مقصد ہے اور جس کی نشاندہی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتاب کشتی نوح میں فرمائی ہے ہر احمدی بہن کو یہ کتاب غور سے پڑھنی اور پھر اپنا جائزہ لینا چاہئے اور اس کے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ ہمیں وہ ایسا بنادے.آمین اللھم آمین (ماہنامہ مصباح نومبر 1985ء صفحہ 8 تا 17)

Page 464

خطابات مریم 439 خطابات اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنه مرکز یہ 1985ء تشہد وتعوذ کے اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خط جو میرے نام آیا ہے اس میں آپ نے اظہار فرمایا ہے.عمومی طور پر بجنات پہلے سے زیادہ مستعد اور سرگرم عمل ہیں مگر بعض اطلاعات کے مطابق...د دین کی حفاظت کے سلسلہ میں بعض شہری جماعتوں میں کچھ کمزوری کے آثار بتلائے گئے ہیں.خدا کرے کہ یہ رپورٹیں غلط ہوں لیکن اگر سچی ہیں تو آپ کا فرض ہے کہ شروع ہی میں ان احتمالات کی بیخ کنی کر دیں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.میری بہنو! دین کے کسی حکم کی ایک بہن بھی نافرمانی کرتی ہے تو وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ دین حقہ کی تعلیم کو اس زمانہ میں ناقابل عمل سمجھتی ہے ، ضروری نہیں سمجھتی.زندہ اور عالمگیر تعلیم نہیں سمجھتی.ایک بہن اور بچی کا یہ فعل دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب بن سکتا ہے.حضرت بانی سلسلہ نے جب بیعت کے لئے حق کے طالبوں کو بلا یا تو یکم دسمبر 1889ء کو ایک اشتہار شائع کیا اور اس کی دس شرائط رکھیں جو خلاصہ یہ تھیں.1- سچے دل سے عہد کرنا کہ شرک نہیں کرے گا.-2 جھوٹ ، فسق و فجور، خیانت اور فساد کے طریقوں سے بچے گا.- پنجوقتہ نماز ادا کرے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجے گا اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہے گا.-4 کسی کو تکلیف نہیں دے گا نہ زبان سے نہ ہاتھ سے.5 ہر حال میں خدا تعالیٰ سے وفا داری کرے گا.-6 اتباع رسم سے باز آئے گا اور قرآن کی حکومت کو قبول کرے گا.

Page 465

خطابات مریم 440 خطابات 7 تکبر سے باز رہے گا.عاجزی اور انکساری کی زندگی بسر کرے گا..دین اور دین کی عزت کو اپنی عزت سے زیادہ عزیز رکھے گا.9 عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض خدا تعالیٰ کی خاطر لگا رہے گا.10.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے بیعت کرتے ہوئے یہ عہد کرے گا کہ جو نیک کام وہ بتائیں گے ان پر عمل کرے گا.یعنی مکمل طور پر آپ کا فرمانبردار ر ہے گا.میری احمدی بہنیں اس عہد نامہ کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں جو بہنیں شعائر دین میں سے کسی ایک کی بھی حفاظت نہیں کرتیں مثلاً پر وہ ہے جس کا واضح حکم قرآن مجید میں موجود ہے اس سے لا پرواہی اور بے نیازی ظاہر کرتی ہیں وہ اس عہد کو تو ڑ رہی ہوتی ہیں.ان تین دنوں میں مجھے بہت سی لجنات سے گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے جنہوں نے بہت دکھ سے یہ بات بتائی ہے کہ کئی جوان لڑکیوں کو سروں پر نہیں بلکہ گلوں میں دوپٹے ڈال کر ہم نے دکانوں پر اپنی آنکھوں سے گھومتے دیکھا ہے.تھوڑا سا پر دہ ہوتا ہے وہ بھی یہ کہ صدر سے منہ چھپایا جاتا ہے کہ وہ نہ دیکھ لے خدا کا خوف نہیں.خدا کے رسول کا خوف نہیں ، حضرت بانی سلسلہ کا خوف نہیں ، خلیفہ وقت کا خوف نہیں.اول تو سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ حکم کسی خلیفہ نے آ کر نہیں دیا.حضرت بانی سلسلہ نے آ کر یہ حکم نہیں دیا.یہ تو حکم قرآن کریم میں موجود ہے اور ان حکموں میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر عورتوں کے لئے بیان کیا ہے.کیا وہ اس شرط بیعت کو توڑ نہیں رہی کہ قال اللہ اور قال الرسول کو اپنا دستور العمل قرار دے گی تو کیا پردہ اس میں شامل نہیں.کیوں اس سے لا پرواہی ہوتی ہے کیوں اس سے بے نیازی ہوتی ہے کہ ہم نے پردہ نہیں کرنا.ہمارے اخلاق بھی اچھے ہیں، تقریر میں بھی بڑھ چڑھ کر سٹیج پر کرتی ہیں لیکن ایک ایسے واضح حکم کی ایک ایسی واضح تعلیم کی جو ہمارے عقائد کا حصہ ہیں اور اس تعلیم کا حصہ ہیں جن کو پھیلانے کے لئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ تشریف لائے.یوں چھوڑ دیتی ہیں جیسے وہ بات، وہ حکم قابل توجہ ہی نہ ہو.میں تو یہی کہوں گی کہ قصور بچیوں سے زیادہ ان کی ماؤں اور باپوں کا ہے جو انہیں اپنے گھروں میں پال رہے ہیں.کیوں وہ حتی نہیں کرتے اپنی اولاد پر کہ مذہب پر ہم نے پہلے عمل کروانا ہے اور تعلیم بعد میں دلوانی ہے.

Page 466

خطابات مریم 441 خطابات پردہ کے بعد دوسری چیز ہے جس میں ہماری دیہات کی بھی ، شہروں کی بھی اور بہت سی قصبات وغیرہ کی بھی عورتیں ملوث ہیں وہ ہیں بدعات اور رسومات جن کو چھوڑنے اور جن کے بوجھ گلوں سے اُتارنے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بھیجتا ہے اور جن کو چھڑوانے کے لئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ تشریف لائے تھے وہ طوق بھی ان کے گلوں میں ہیں وہ زنجیر میں بھی ان کے گلوں میں ہیں جو رسوم نہیں چھوڑتیں، ایسی مجالس میں شامل ہوتی ہیں جو شرک اور بدعت کی مجالس ہوتی ہیں جن کی نہ قرآن نے اجازت دی نہ سنت رسول پاک سے ثابت ہے نہ کسی حدیث سے جواز ملتا ہے.کیا وہ اپنے عہد بیعت پر پوری اُتر رہی ہیں؟ انہی دنوں میں مجھے ایک لجنہ کی صدر غالباً ضلع لاہور کی انہوں نے خط لکھا کہ آپ اپنی تقریر میں اس چیز پر بھی روشنی ڈالیں کہ بعض لوگ رشتہ داروں کی وفات پر جو بہت قریبی ہوتے ہیں بدعتیں کرتے ہیں اور ہم مجبور ہو جاتے ہیں شامل ہونے پر کیا ہما را عمل ہونا چاہئے ؟ میں کیا بتاؤں اس کا جواب.اس کا جواب تو ہمارے مولیٰ نے خود قرآن کریم میں بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے کر فرمایا تھا کہ ساری دنیا کو آپ سنا دیجئے کہ قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسْكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِهِ وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفُسِقِينَ (التوبہ: 24) اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ دنیا کو بتا دیں کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے ،تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں ( زوج خاوند اور بیوی دونوں کے لئے آتا ہے ) اور تمہاری برادریاں اور تمہارے وہ مال جو تم کماتے ہو.تمہاری وہ تجارتیں جن کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے وہ گھر جو تمہیں بہت محبوب اور پسندیدہ ہیں اور شوق سے بنوائے ہیں تمہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہیں تو پھر تمہارا کوئی علاج نہیں.تم اس دن کا انتظار کرو جس دن اللہ تمہارے بارے میں اپنا فیصلہ صادر کر دے گا اور یہ یا درکھو کہ اللہ تعالی عہد توڑنے والوں کو کبھی کامیاب نہیں کرتا.فاسق اُسے کہتے ہیں جو عہد

Page 467

خطابات مریم 442 خطابات باند ھے اور اس پر عمل نہ کرے.میری بہنو ! آپ نے ایک ہاتھ پر بیعت کی ہے اور اس ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے یہ عہد اپنے سامنے رکھتے ہوئے بھی آپ پر دہ کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور آپ رسومات میں بھی ابھی تک جکڑی ہوئی ہیں اور ان کو چھوڑنے کا نام نہیں لیتیں بلکہ کوئی ادھر سے جواز پیش کر دیتی ہیں اور کوئی اُدھر سے جواز پیش کر دیتی ہیں.ایسی کمزور بہنیں ہماری ترقی میں روک ہیں بہت زیادہ لیکن ہم آپ کو چھوڑ نہیں سکتے.شاید کوئی یہ کہہ دے کہ کمزور بچیوں سے جو پردہ نہیں کرتیں یا ایسی بہنوں سے جو خود ان کمزوریوں میں مبتلا ہیں ان کو کیوں لجنہ میں رکھا ہوا ہے؟ ان کو کیوں جماعت میں رکھا ہوا ہے؟ میری بہنو! ہماری محبت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم آپ کو رکھیں اپنے اندر.پوری پوری کوشش کریں پیارے سے، خلوص سے، محبت سے آپ کی تربیت کرنے کی کیونکہ تربیت کی کمی ہے جو آپ سے ایسے بُرے افعال کرا رہی ہے.میں ماننے کے لئے کبھی تیار نہیں کہ ایک حقیقت کی سمجھ انسان کو آ جائے اور پھر وہ اس کے خلاف کرے.جب تک اس کی اہمیت اس پر واضح نہیں ہوتی.جب تک دل میں اس کی حقیقت جم نہیں جاتی.اس کو سمجھ نہیں آ جاتی کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے انسان باطل کی طرف کئی دفعہ جھک جاتا ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم مایوس نہ ہوں ہم کوشش کریں انہیں سمجھا ئیں پیار سے، محبت سے، ایک ماں کی حیثیت سے، ایک بڑی بہن کے ناطے سے ان کی اصلاح کی کوشش کریں اور ان کے لئے اگر کوشش ناکام ہو تو اپنی سجدہ گاہوں کو تر کر دیں کہ ان کوششوں میں ہم ناکام ہو گئی ہیں.اے مولیٰ ! تو ان کے دل پھیر دے صداقت کی طرف اور وہ عمل کرنے لگ جائیں.ہماری صدر میں ہماری سیکرٹریان ہمارے عہدہ دار ہر کام کو دعا سے شروع کریں.کوششوں میں صرف یہ لکھ دینا کافی نہیں کہ ہم نے سمجھایا لیکن سمجھ نہیں آئی.جس دن اس کو سمجھ آگئی وہ ہماری کامیابی کا دن ہوگا.بہت دعا کریں ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے کہ ان کی اصلاح کرے.خدا تعالیٰ کا اپنے مامور سے وعدہ ہے کہ وہ اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا اور خود اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کو نشو ونما دے گا یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی.وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا

Page 468

خطابات مریم 443 خطابات جاتا ہے دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ ٹھہریں گے.وہ اس سلسلہ کے کامل متبعین کو ہر ایک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک ان میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی.اس رب جلیل نے یہی چاہا وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.ہر ایک طاقت اور قدرت اسی کو ہے..یہ آیت قرآن مجید کی جو آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ آپ نے خدا کے پیار میں، خدا کی فرمانبرداری میں اور رسول کی فرمانبرداری میں ہر ایک رشتہ داری کو پیچھے رکھنا ہے.اپنے جذبات کو پیچھے رکھنا ہے.اپنے دوستوں کو پیچھے رکھنا ہے وہ چیز جو آپ کو محبوب ہے اس کو پیچھے رکھنا ہے.مقدم صرف خدا ہونا چاہئے مقدم صرف ہمارا رب ہونا چاہئے جس نے ہمیں پیدا کیا اور پھر ہمیں عظیم الشان نعمت عطا کی یعنی یہ دین حق.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ آتے تو گہرے گڑھوں اور تاریکیوں میں ہم بھٹکتے پھر رہے ہوتے اور پھر آپ کے فرزند جلیل جس کی بشارت دی گئی تھی تشریف نہ لاتے تو ہمارا کیا حال ہوتا ؟ تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.اس نعمت کا شکر ہم نے اپنے عمل سے کرنا ہے اور عمل یہی کہ خدا کا شکر ہم نے اپنے عمل سے کرنا ہے اور عمل یہی کہ خدا اور خدا کے رسول کے اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تعلیم کے مطابق اپنے اندر انقلاب بر پا کرنا ہے.امام وقت کے کہنے پر چلیں اور کوئی شکایت ہماری آپ کو دکھ پہنچانے والی نہ ہو.کتنے درد سے آپ نے لکھا ہے اپنے خط میں کہ خدا کرے یہ شکایات غلط ہوں.شکایت جب کی جاتی ہے تو اکثر صحیح ہوتی ہے اس سے پیشتر آپ فرماتے ہیں کہ یہ بُرائیاں پھیلیں جہاں جہاں جن لجنات کی یہ رپورٹیں ملی ہیں ان کی بیخ کنی کرنی ہماری لجنہ کی عہدہ داروں کا کام ہے.پس میری بہنو! مایوس نہ ہو.اس قا در خدا پر یقین رکھیں جس نے ہمیں پیدا کیا.کیا کبھی اُس نے اپنے پیاروں کو ضائع کیا؟ کیا حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں آپ کے ماننے والوں کو طوفان سے محفوظ نہیں رکھا ؟ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کو زندہ جاوید نہیں بنا دیا.کیا حضرت موسی علیہ السلام اور

Page 469

خطابات مریم 444 خطابات آپ کے ماننے والوں کو طوفان کی لہروں سے نجات نہیں دی.اُس زمانے میں جب فرعون کا یہ حکم تھا کہ لڑ کے ذبح کر دیئے جائیں اور لڑکیاں زندہ رکھی جائیں.ایک عورت ہی تھی جسے خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی کہ اپنے بیٹے کو بکس میں بند کر کے دریا میں بہا دے.جب بھی میں قرآن کریم میں اس واقعہ کو پڑھتی ہوں تو دل میں بڑا شدید احساس ہوتا ہے کہ حیرت انگیز ایمان تھا حضرت اُم موسی کا.ذرا ایک ماں کے دل کے جذبات کو سامنے رکھ کر دیکھیں کہ کوئی آپ کو کہے کہ دریا میں پھینک دو اور اس کو کچھ پتہ نہیں کہ ڈوب جائے گا یا کیا ہوگا.لیکن خدا کی وحی کو انہوں نے پورا کیا.اللہ تعالیٰ نے پھر کتنے فضل نازل کئے اور یقیناً جتنے فضل اس قوم پر نازل ہوئے وہ اُسی قربانی کے نتیجے میں ہوئے ہیں.ایسا ایمان پیدا کرنا ہے زندہ ایمان اُس قادر مطلق ہستی پر ایسا ایمان پیدا کرنا ہے.اپنے پیارے رب پر.فضلوں کی بارش ہوتی رہی ہے اور ہوتی چلی جارہی ہے.کیا اس خدا نے حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب سے نہیں بچایا کہ قوم نے آپ کو صلیب پر چڑھا دیا تھا اور پھر اس کے ماننے والوں کو تین سو انیس سال غاروں میں نسلاً بعد نسل قربانی کے نتیجہ میں ان کا ساتھ چھوڑا ؟ اور پھر سب سے بڑھ کر انسانیت کے نجات دہندہ خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی دینے والوں کے ناموں کو ابد الآباد تک زندہ کر دیا.میری بہنو! جو اس سے وفا کرتا ہے وہ اُس سے بے وفائی نہیں کرتا.اس کی نصرت اور پیار کی طلبگار رہیں اور اپنا جائزہ لیں اپنے دلوں کو ٹولیں کہ کیا اس کے ہر حکم کو مان رہی ہیں؟ یہ پردہ میرا بنایا ہوا حکم نہیں، خلیفہ وقت کا بنایا ہوا حکم نہیں اور جب اپنے جائزہ لینے کے بعد دیکھیں کہ ہم اب تک بعض احکام سے غافل رہی ہیں.اصلاح کریں اور اس کے فضل کو جذب کرنے کے لئے جو عہد اس کے ساتھ باندھا ہے اس کو نبھا ئیں کیونکہ بیعت کرنا اللہ تعالیٰ سے عہد باندھنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (الفتح: 11) اس عہد پر پوری اُتریں.اپنی کمزوریوں کو دور کریں.اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کریں.دین کے علم سے دلوں کو منور کریں.آپ کے گھروں میں دین کا چرچا ہو صرف زبانی نہیں عمل کے ذریعہ سے.پھر دیکھیں نصرت الہی کے نظارے آپ کو قدم قدم پر نظر آئیں گے.

Page 470

خطابات مریم 445 خطابات بڑا اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے دو سال کے وقفہ کے بعد ہمیں اجتماع منعقد کرنے کی توفیق دی.گو اس سال گزشتہ سال کی نسبت نمائندگان کی تعداد میں بھی کمی رہی.مجالس کی تعداد میں بھی 1983ء میں 1085 نمائندگان بیرون از ربوہ تشریف لائی تھیں.اب 911 ہیں گویا 174 کی کمی ہے.1983ء میں جو مجالس یہاں آئی تھیں وہ 482 تھیں اور اس سال 348 گویا 134 کی کمی رہی لیکن ہم امید کرتی ہیں کہ آئندہ اجتماع میں اپنی مستیاں دور کریں گی اور ضلعی صدر ان بھی کوشش کریں گی کہ ہماری کوئی ایک مجلس بھی مرکز سے غیر حاضر نہ رہے جو آ ئیں گی نہیں ان کو پتہ نہیں چلے گا کہ کس کس بات کی نصیحت کی گئی ہے کن باتوں کے کرنے کو کہا گیا ہے.کیا لائحہ عمل بنایا گیا ہے.کیا پروگرام بنائے گئے ہیں ان کا عمل کیسے ہوگا اور جو نمائندگان آئی ہیں ان کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اُن بہنوں تک یہ باتیں پہنچائیں جو اجتماع میں نہیں آئیں.خاص طور پر حضور کے پیغام کو.اے میرے اللہ ! ہم کمزور ہیں ، ہم بے کس ہیں.ہم میں ہمت پیدا کر کہ ہم اپنی کمزوریوں کو دور کریں اور تیرے کہنے پر چلیں جو تیرے مامور کے ساتھ ہم نے عہد بیعت باندھا ہے اُس کو پورا کر نے والے ہوں.تیری راہ میں جو بھی مصیبت یا تکلیف آئے اُسے برداشت کرنے والے ہوں.تیری راہ میں ہر قربانی دینے کے لئے تیار رہیں اور ہر تکلیف کو بشاشت سے قبول کریں.ہم تیری ناچیز بندیاں ہیں تم ہمیں نہ چھوڑ یو، نہ چھوڑ یو.اے میرے مولا ہمیں کبھی نہ چھوڑ یو.دعا کریں اپنے پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت کے لئے لمبی عمر کے لئے اپنے مقاصد میں کامیابی کے لئے اور یہ کہ ہماری طرف سے آپ کو خوشی کی خبریں ملیں اور اپنے کو اہل بنائیں ہر ذمہ داری کو سنبھالنے کے لئے.یہ عارضی جدائی جلد دور ہو کہ اب دل میں طاقت نہیں رہی.تیرے دین کی سر بلندی کے لئے اور خدمت کے لئے آپ نے یہ عارضی جدائی اختیار کی ہے.میرے خدا تو انہیں کامیاب کر.ہماری کوششوں میں برکت ڈال کہ کوشش تبھی کا میاب ہوتی ہے جب تیرا فضل شامل ہو اور نتیجہ بھی اُسی وقت اچھا نکلتا ہے جب تو چا ہے.اے ابن فارس کی جسمانی اور روحانی بیٹیو! اپنی ذمہ داری کو ادا کرو تا خدا کی رضا حاصل کر سکو.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ

Page 471

خطابات مریم 446 خطابات ہو.اس سے زیادہ کہنے کی تاب اپنے دل میں نہیں رکھتی اور السلام علیکم کا تحفہ پیش کرتے ہوئے اس اجتماع کے خاتمہ کا اعلان کرتی ہوں اور اپنی بہنوں اور بچیوں کو خدا حافظ کہتی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو خیریت سے پہنچائے.ایک نیا عزم، ولولہ، ایک نیا جوش ، ایک امنگ کام کرنے کی یہاں سے لے کر جائیں.ایسا کہ جنہیں پیچھے چھوڑ کر آئی ہیں.خدا کرے کہ میری یہ آواز سدا بصحرا ثابت نہ ہو اور آپ کو یہاں سے جانے کے بعد اپنے میں نمایاں تبدیلی نظر آئے.(ماہنامہ مصباح جنوری 1986ء)

Page 472

خطابات مریم 447 خطابات دورہ انڈونیشیا آپ نے اپنے دورہ کے دوران ممبرات لجنہ اماءاللہ انڈونیشیا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.سب سے پہلے میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے مجھے یہاں آنے کی توفیق دی.پھر حضرت خلیفہ امسیح الرابع کا جنہوں نے آنے کی اجازت فرمائی.آپ کو ہدایات دینے سے قبل میں آپ کی سابقہ صدر کی وفات پر اظہار افسوس کرتی ہوں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی اولاد کو نیک بنائے اور صبر جمیل عطا فرمائے.مجھے امید ہے کہ میرے دورے کا فائدہ ضرور آپ کو ہوگا.آپ نے ہمیشہ کہا ہے کہ ایک سو ساٹھ کروڑ کے مقابلہ میں آپ کی جماعت کی کوئی حیثیت نہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے چھوٹی جماعت بڑی جماعت پر غالب ثابت کی ہے.مذہب کی تاریخ کہتی ہے زمانہ حضرت نوح علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، عیسی علیہ السلام تمام نبیوں کے زمانہ کو دیکھیں جو اخیر میں سب ترقی کر گئیں.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضور کو مکہ کی فتح سے نوازا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خوشخبری دی تھی.آپ نہ گھبرائیں کہ آپ کم ہیں.آپ انشاء اللہ ترقی کر جائیں گی حضرت مسیح موعود سے جو وعدہ جات ہیں کہ آج سے تیسری صدی شروع نہیں ہوگی.آپ کو غلبہ دیا جائے گا خدا کا وعدہ ٹل نہیں سکتا.اس کامیابی کو حاصل کرنے کیلئے آپ کو اپنے اندر پوری تبدیلی کرنی ہوگی تا خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.خدا تعالیٰ آپ کو توفیق دے.آپ نے جو مشکلات پیش کی ہیں ان پر روشنی ڈالنی ہے.1 تبلیغی شعبہ : حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے بار بار فرمایا ہے کہ آپ داعی الی اللہ بن جائیں.قرآن کریم میں کہا گیا ہے.آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر نقش قدم پر چلو.ہر لحاظ سے ہمیں نمونہ پیش کرنا ہے.عبادت، اخلاق، تعلیم و تربیت، حسن سلوک،

Page 473

خطابات مریم 448 خطابات اعلیٰ اخلاق سے ، دنیا جتنی بھی خلاف ہو مگر جب وہ دیکھیں گے ان جیسی کوئی عبادت نہیں کرتا بچوں کی تعلیم و تربیت اور پھر حسن سلوک اخلاق اعلیٰ سے لوگ ہمارے گرویدہ ہو جائیں گے.میری مجلس عاملہ کو ہدایت ہے وہ خود عملی نمونہ نہیں.پھر آپ نے کہا ہے لجنہ صرف پندرہ فیصد ایکٹو ہیں ہمارے نزدیک پچاس فیصد معیار ہے کیونکہ حضرت مصلح موعود نے فرمایا پچاس فیصد معیار کم از کم ہر کام میں ، چندہ جات میں بھی.2.تعلیم : عمل کرنے کیلئے علم حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے ورنہ آپ تبلیغ نہیں کرسکتیں.قرآن مجید علم کا خزانہ ہے.آپ اس پر عمل کیسے کریں گی اگر آپ کو اس کا ترجمہ نہیں آتا.حضرت مسیح موعود نے فرمایا اس میں سات صدا احکام ہیں اگر ایک کو بھی توڑا جائے اس کا مطلب ایک دروازہ بند ہو گیا.سو قرآن پاک کے احکام جاننے کیلئے اس کا ترجمہ جاننا نہایت ضروری ہے.قرآن مجید کے متعلق رپورٹ نہیں دی گئی کہ کتنی ہیں جو تر جمہ جانتی ہیں اور اب تک یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتنی کتابوں کا ترجمہ شائع ہوا ہے یہ کتا بیں اُردو میں ہیں اگر تر جمہ نہ ہوا تو آپ کو کیسے علم ہوگا.3.تربیت : تربیت میں پردہ کا ذکر ہے.موجودہ پردہ ایک حد تک صحیح ہے مگر چہرہ چھپانا ضروری ہے اور افضل ہے.دفتر میں کام کرنے والیوں کیلئے اگر وردی ضروری ہے تو دفتر کے بعد کے اوقات میں پردہ کا خیال رکھیں.آپ نے بچوں کی تربیت کے خوف کا اظہار کیا ہے.آپ ان کو گھروں میں صحیح تعلیم دیں تا وہ باہر کے شر سے محفوظ رہیں.گھر کے اندران کو مذہب کی تعلیم دیں.ہر ماں کا فرض ہے پوری کوشش کرے کہ احمدیت کی تعلیم ان کو پوری طرح سے دیں.زیادہ سے زیادہ بچوں کی چھوٹی سے چھوٹی کتابیں چھاہیں.مرکز سے لٹریچر آپ کی مانگ پر بھیجا جائے گا.تاریخ لجنہ اماءاللہ شائع ہوئی ہے اس کا ترجمہ کر کے مرکز بھجوا ئیں.4.شعبہ امور عامہ: سکولز نرسری اور کلینک کی صرف خواہش ہی کافی نہیں اس میں چندہ کی ضرورت ہوتی ہے.آپ کا یہ لوکل مسئلہ ہے اس کی رپورٹ امیر کے ذریعے حضور کی خدمت میں بھیج سکتی ہیں.میرا خیال ہے آپ خدمت خلق میں واقعی ٹھوس اقدام لیں تا آپ ثابت کر دیں کہ حکومت سے تعاون کرتی ہیں.

Page 474

خطابات مریم 449 خطابات 5.رشتہ ناطہ یہ انٹرنیشنل مسئلہ ہے.رشتہ کیلئے صرف بیعت ہی کافی نہیں ہوتی آپ ایسا نہ کریں کیونکہ اس سے مشکلات اور پیدا ہو جائیں گی.آپ بچوں کو پوری تعلیم دیں کہ با ہر شادی نہ کریں.اٹھہتر شاخوں میں سب کوشش کریں.حضور کولکھا جائے اس طرح انٹر نیشنل رشتہ ہو.سنگا پور اور دوسری جماعتیں حقیقتا کوشش کریں کم تعلیم یا مالی لحاظ سے کمزور پر تر ڈ دنہ کیا جائے.6.شعبہ مال : چندہ لجنہ اماءاللہ کے متعلق نہیں بتایا گیا.مرکز میں قانون ہے چندہ حیثیت کے مطابق دیں جس کی آمد ہو ایک فیصد یعنی سو روپیہ پر ایک روپیہ دیں.اس طرح چندہ کی مد میں آمد بڑھ جائے گی.7.شعبہ ناصرات: یہ شعبہ بہت اہم ہے کیونکہ مستقبل میں جماعت کے کاموں کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہے تا وہ آئندہ نسلوں کو تیار کریں.آپ کی بجنات کافی اچھی ہیں اگر آپ کو کوئی مسئلہ پیش ہو لکھیں جواب دیا جائے گا.صرف رپورٹ ہی کافی نہیں ہے بلکہ ہر قسم کے مسئلہ پر غور کیا جائے گا.آپ سب مل کر کام کریں خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈالے گا.میں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ اس تنگ وقت میں سب خدمت میں لگی ہوئی ہیں اور میں یہ دعا کرتی ہوں کہ یہ دورہ کامیاب ہو........رپورٹ دورہ انڈونیشیا 1986ء)

Page 475

خطابات مریم 450 دورہ ڈسکہ ضلع سیالکوٹ خطابات 6 فروری 1986 ء کو عہدیداران کے اجلاس میں آپ نے فرمایا کہ ایک لمبی مدت کے بعد میں یہاں حاضر ہوئی ہوں آپ نے بھی غفلت دکھائی اور ہم سے بھی کوتاہی ہوئی جس کی وجہ سے یہ ضلع بہت پیچھے رہ گیا ہے آپ نے اس امر کو واضح فرمایا کہ جس لجنہ سے زیادہ رابطہ رکھا جائے اس میں بیداری پیدا ہوتی ہے گاہے بگا ہے جھنجوڑ نا ضروری ہوتا ہے صدر ضلع نے اس ضلع کا دورہ کرنے کی طرف توجہ نہیں دلائی موجودہ دور میں رابطہ اور بھی زیادہ ضروری ہو چکا ہے انہی حالات میں کئی ضلعوں کا دورہ کیا گیا ہے جہاں بہت بڑے بڑے جلسے بھی کیسے گئے لیکن سیالکوٹ میں بہت محدود پروگرام ہے زیادہ سے زیادہ مجالس کو اس میں شرکت کر کے فائدہ اٹھانا چاہئے تھا.حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے فرمایا کہ میری تمام گزارشات غیر حاضر عہدیداران کو بھی پہنچائی جائیں نیز ان سے نہ حاضر ہونے کی وجہ دریافت کر کے مجھے اس کی اطلاع دی جائے خطاب جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ موجودہ حالات میں تو ہماری ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا ہے عورتوں اور مردوں کو مل کر کام کرنا چاہئے اگر یہی سستی اور جمود طاری رہا تو اس سے وہ مقصد پورا نہیں ہوگا جس کے لیے حضرت مسیح موعود تشریف لائے صرف چندہ جمع کر لینا ہی کام نہیں اصل چیز یہ ہے کہ ہم اسلام کی ترقی کے مقاصد کو پورا کرنے والی بنیں آپ نے خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور جن نیک باتوں اور شرائط کا عہد کیا ہے اسے پورا کرنے میں کو تا ہی دکھا رہی ہیں.فرمایا کہ لجنہ کی تنظیم کے تحت شوق ، جذبہ اور لگن کے ساتھ کام کریں تمام صدر میں اپنے اپنے دیہات میں جہالت کا مکمل طور پر خاتمہ کریں اور اس بات کی نگرانی کریں کہ کوئی لجنہ اس تعلیم سے جتنی دیہات میں موجود ہے اس سے محروم نہ رہ جائے.احمدی گھرانوں کا سروے کریں اور ہر بچہ کوتعلیم کی طرف توجہ دلائیں کیونکہ چراغ سے چراغ روشن ہوتا ہے آپ کی شکایت جائز نہیں کہ ہمیں کیسٹس نہیں ملتیں آپ امیر ضلع سے رابطہ رکھیں اور لجنہ کی مجالس خود کیسٹ خریدیں.اجلاسوں میں بھی اور انفرادی طور پر بھی اس کو سنوانے کا انتظام کریں.آپ

Page 476

خطابات مریم 451 خطابات کو تو اس وقت تک چین نہیں آنا چاہئے جب تک آپ تک خلیفہ وقت کے تازہ ارشادات نہ پہنچ جائیں.آپ بھی دوسری مجالس کی طرح ٹیسٹس کی لائبریری اور مرکز سے رابطہ قائم کر کے کیسٹ منگوائیں.حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے فرمایا کہ اپنے اندر فرض کا احساس پیدا کریں جس تیزی سے ہمارے خلیفہ قدم اٹھا ر ہے ہیں اسی تیزی سے آپ بھی قدم آگے بڑھائیں آپ کی سستی کی خبریں اگر خلیفہ وقت تک پہنچیں تو وہ آپ کیلئے کس قدر تکلیف کا باعث ہونگی حضرت مسیح موعود نے سیالکوٹ کو اپنا دوسرا وطن کہا تھا اس ضلع کا اتنا پیچھے رہ جانا بڑے شرم کا مقام ہے.حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے اس امر پر خوشی کا اظہار فرمایا کہ جلسہ میں عہد یداران کا جوان طبقہ زیادہ نظر آ رہا ہے اور اس عمر میں ہمت کے ساتھ ساتھ جذ بہ بھی زیادہ ہوتا ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم آئندہ ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے لیے نئی نسل کو تیار کریں آپ نے فرمایا کہ میں امید کرتی ہوں کہ میرا آنا یہاں بیکا ر ثابت نہیں ہو گا اور جب میں آئندہ یہاں آؤں گی تو مجالس کی کارکردگی کو بہت بہتر محسوس کرونگی خدا کی تقدیر جب مجھے دوبارہ آپ کے پاس لائے تو خدا کرے آپ بہت حد تک اپنی اصلاح کر چکی ہوں خدا کی تقدیر سے دنیاوی تدابیر ہرگز نہیں ٹکرا سکتیں.دشمن لاکھ تدابیر کرے آپ اپنا کام جاری رکھیں جب تک ساری دنیا اسلام قبول نہیں کر لیتی آپ کا مشن ختم نہیں ہوگا.پھر آپ نے دیہات میں ہونے والی بد رسومات اور بدعات کا ذکر کرتے ہوئے اس سے اجتناب کی تلقین فرمائی اور ہدایت فرمائی کہ آپ قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل کریں احمدی گھرانوں میں بدعات کا مکمل خاتمہ کرنے کی کوشش کریں تا وہ ہمارے پاؤں کی زنجیریں نہ بن سکیں اور خدانخواستہ ہماری ترقی کی راہ میں حائل نہ ہو جائیں کوئی ایسی برائی ہمارے درمیان جنم نہ لے جو جڑ پکڑ جائے.آپ گھر جا کر اپنی تعلیم کو واضح کریں کہ ہم نے یہ کام کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا.آخر میں آپ نے رپورٹ اور چندہ جات باقاعدگی کے ساتھ مرکز بھجوانے اور مرکز سے مسلسل رابطہ رکھنے کی طرف توجہ دلائی پھر اجتماعی دعا کے بعد اجلاس ختم ہوا.(رپورٹ لجنہ سیالکوٹ )

Page 477

خطابات مریم 452 خطابات خطاب از ممبرات لجنه شاہ تاج شوگر ملز ضلع منڈی بہاؤالدین 12 مارچ1986ء خطاب میں سب سے پہلے آپ نے اپنی خدمت میں پیش کئے جانے والے سپاسنامہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے نزدیک یہ پسندیدہ امر نہیں ہے.سب سے پہلی بات جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتی ہوں وہ اطاعت ہے.خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ تم خدا، اس کے رسول اور اس کے مقرر کردہ خلفاء کی اطاعت کرو.نیز جو تم پر نگران یا حاکم بنایا جائے اس کی اطاعت کرو.لجنہ مرکزیہ نے صدر کے انتخاب کیلئے جو قوانین بنائے تھے.مقامی طور پر ان کی پابندی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے یہاں پر بعض اختلافات پیدا ہوئے.قانون بنایا گیا ہے کہ جو صد ر دو بار مسلسل منتخب ہو جائے تیسری بار اس کا نام پیش نہ کیا جائے کیونکہ بعض جگہ سالہا سال ایک ہی صدر کے ہونے کی وجہ سے بعض قباحتیں پیدا ہو جاتی تھیں.حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے فرمایا کہ نئی نسل کو بھی آگے آنے کا موقعہ دینا چاہئے.جس صدر کے لئے مرکز سے جتنے عرصہ کے لئے منظوری آئے اس میں وہ خلوص نیت اور دیانتداری سے کام کرے اس کے بعد ہر طرح سے عہدیداران سے تعاون کرنے اور لجنہ کی ممبر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور لجنہ کی ممبر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے ، چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہم میں اختلاف پیدا نہیں ہونے چاہئے.اپنے اپنے عہد بیعت کو ہر وقت مدنظر رکھیں.اسیران ساہیوال اور سکھر کے لئے خصوصی دعائیں کریں.جنہوں نے خدا اور خدا کے رسول کی خاطر اتنی تکالیف برداشت کیں اور اپنی جانیں خدا کے حضور پیش کرنے کے لئے تیار ہیں.انہوں نے تو اپنے عہد کو سچ کر دکھایا.بیوی، بچوں، والدین اور بہن بھائیوں کی پرواہ نہیں کی.صرف خدا اور خدا کے رسول کی رضا کو مقدم سمجھا.آپ نے فرمایا کہ قربانیاں پیش کر نا صرف چندا فراد کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی ذمہ داریوں

Page 478

خطابات مریم 453 خطابات کا احساس ہونا چاہئے.آپ نے اس ابتلاء کے دور میں اگر لا پرواہی اور بے تو جنگی برتی تو آپ کے بچے بھی ست ہو جائیں گے کیونکہ بچے اپنے والدین کا نمونہ اپناتے ہیں.جماعت اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ آپ میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داری کو ادا کر نے والا نہ ہو.اطاعت کا جذبہ اپنے اندر ، اپنے بچوں کے اندر اور اپنے مردوں کے اندر پیدا کریں.خدا کو ہر بات پر مقدم رکھیں.اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی طرف توجہ دیں.آپ کی کوشش ہونی چاہئے کہ آپ کا ہر بچہ سکول داخل ہونے سے قبل قرآن کریم ختم کرے.قرآن ہماری روحانی غذا ہے.قرآن کریم کو پڑھنے سمجھنے اور عمل کئے بغیر ہم سیدھی راہ پر چل نہیں سکتیں جو شخص قرآن کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتا وہ خود اپنے اوپر جنت کا دروازہ بند کر لیتا ہے.آپ نے فرمایا کہ جہالت اور دینی علم کی کمی کی وجہ سے ہمیں بعض شکایات ملتی ہیں جو بہت تکلیف دہ امر ہے.بعض احمدی خواتین ابھی تک رسم و رواج میں گھری ہوئی ہیں حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انہی رسوم و بدعات کو ختم کرنے کے لئے تشریف لائے تھے.آپ کی بعثت کا مقصد ہی یہ تھا کہ چودہ سو سال میں پیدا ہونے والے مسائل اور شرک کا خاتمہ ہو اور حضرت محمد ملی کے باغ میں ایک بار پھر سے بہار آ جائے.آپ نے فرمایا کہ معاشرہ افراد سے بنتا ہے اس کی اصلاح میں زیادہ ہاتھ عورت کا ہو سکتا ہے کیونکہ جو مائیں اپنے بچوں کے دلوں میں دین کی محبت اور نیک با تیں ڈالتی ہیں انہی کے بچے خادم دین بنتے ہیں.چراغ سے چراغ جلتا ہے اور وہی قوم ترقی کر سکتی ہے جس کی آئندہ نسل جگہ لینے کے لئے پوری طرح تیار ہو.پس اپنی سستیوں کو چھوڑ دیں اپنے بچوں، خاوندوں اور بھائیوں کی طرف توجہ رکھیں.انہیں نمازوں کا پابند بنا ئیں ان میں یہ احساس پیدا کریں کہ ہم نے ہر دم اپنے عہد بیعت کو نبھانا ہے.جب ہر عورت یہ عہد کرلے تو انشاء اللہ ترقی کے دن بہت قریب آئیں گے.آخر میں آپ نے حضور ایدہ اللہ کی جلد واپسی اور جماعت کی ترقی کے لئے دعائیں کرنے پر بہت زور دیا.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 87-1986ء)

Page 479

خطابات مریم 454 خطابات دوره ضلع جہلم 13 مارچ1986ء آپ نے فرمایا کہ جہلم وہ شہر ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدم پڑے اور آپ نے یہاں بہت دعائیں کیں.کثیر افراد نے بیعت کی پھر آپ کے خلفاء بھی یہاں آتے رہے اور افراد جماعت کو ان کے ارشادات سننے کا موقع ملتا رہا.اس شہر کی کارکردگی کو ان شہروں کے مقابلہ میں بہت ممتاز ہونا چاہئے تھا جہاں خلفاء کو جانے کا موقع نہیں مل سکا.لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ شہر کا ر کر دگی کے لحاظ سے بہت پیچھے ہے.اس شہر میں بہت سے بزرگان پیدا ہوئے جنہوں نے اعلیٰ قربانیاں پیش کیں.حضرت سیدہ موصوفہ نے فرمایا کہ آج کے ہمارے حالات بہت مخدوش ہیں کئی لوگ کلمہ کی خاطر مصائب و تکالیف برداشت کر رہے ہیں.بعض نے اپنی جانیں خدا کے حضور پیش کر دی ہیں.آپ کو بھی ایسی قربانیاں پیش کرنی چاہئیں کیونکہ اس قوم کو دوام ملتا ہے جہاں قربانیوں میں یکسانیت پائی جائے.مردوں اور عورتوں کو مل کر کام کرنا چاہئے ہم مہدی موعود پر ایمان لائی ہیں اور احمدیت میں داخل ہوئی ہیں.احمدیت دراصل اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہے.ہمارا عمل ہمارے عقیدے کے مطابق ہونا چاہئے ہماری رہائش اور طرز عمل سے ظاہر ہونا چاہئے کہ ہمارا ہر فعل اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے.اگر ہم قرآن کریم پڑھیں گی تو تب ہی اس پر عمل کر سکتی ہیں.آپ نے فرمایا کہ مومن ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں.مرد کو عورت اور عورت کو مرد کا ان ذمہ داریوں کے لئے جو ہماری ترقی کے لئے ضروری ہیں ایک دوسرے کا ولی ہونا چاہئے.متحدہ کوششوں سے ہی دراصل صحیح نتائج نکلتے ہیں.آجکل آپ دنیاوی کاموں کے لئے وقت نکال سکتی ہیں اور محنت کر سکتی ہیں لیکن مذہب خدا کے نام اور جماعت کی ترقی کے لئے کوئی کام کرنا ہو تو بہت سے بہانے ڈھونڈ لیتی ہیں.آپ کا عہد اگر دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا ہے تو پھر کسی پس و پیش کی گنجائش نہیں

Page 480

خطابات مریم 455 خطابات دیا ہو سکتی کسی احمدی عورت کو فرائض سے چھٹی نہیں مل سکتی.صرف عہد یداران کے ہی فرائض نہیں ہر ایک کا تعاون شامل ہونا چاہئے.آپ نے فرمایا کہ اتحاد اور تعاون کے ساتھ ساتھ قرآن نے اطاعت پر بھی بہت زور دیا ہے.ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ میں اطاعت کا سبق یا گیا ہے کہ آدم کو سجدہ کرو.یہاں سجدہ سے مراد مکمل طور پر اطاعت وفرماں برداری ہے.آپ کو معلوم ہے کہ جنہوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا وہ ابلیس کہلائے.آدم کا سجدہ آپ کو سبق دیتا ہے کہ آپ عہدیداران کی اطاعت کریں کسی عہدہ دار کا حکم ذاتی حیثیت نہیں رکھتا.اس کی اطاعت ہر احمدی عورت اور بچی پر فرض ہے.ہماری منزل اور ہمار نصب العین ایک ہے اس لئے ہمارے درمیان کوئی جھگڑا اور پارٹی بازی نہیں ہونی چاہئے.ہمیں موتیوں کی لڑی کی طرح اتحاد پیدا کرنا چاہئے.آپ نے فرمایا کہ ذاتی جھگڑوں کو دین پر قربان کر دیں.ہمارا مطمح نظر ہی یہ ہے کہ احمدیت کو ترقی حاصل ہو.یہ جھگڑے جماعت کی ترقی کو چند قدم پیچھے لے جاتے ہیں اور ان جھگڑوں میں عورت کا زیادہ ہاتھ ہے.اگر مردوں اور بچوں کی وجہ سے جھگڑے پیدا ہوں تو عورت کو چاہئے کہ وہ محبت اور شفقت کے ساتھ آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش کرے کیونکہ حقیقی مومن مردوں اور عورتوں کی پہچان ہی یہی ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی طرف توجہ رکھتے ہیں.حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے فرمایا کہ آپ اپنی تربیت اور اصلاح کی طرف توجہ دیں.ہماری بہت سی مستورات ابھی تک رسوم و بدعات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں جن سے نجات دلانے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تھے.حضرت رسول کریم علی کے ذریعہ سے دنیا میں ایک نہایت حسین معاشرہ قائم ہوا تھا کہ مشرکین بھی اقرار پر مجبور تھے کہ ایسا انقلاب کسی اور سے ممکن نہیں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کی دو بڑی اغراض تھیں.ایک یہ کہ مکمل تو حید قائم ہوا اور دوسرے یہ کہ آپس میں باہمی ہمدردی کے ذریعہ معاشرہ کی اصلاح کی جائے.جماعت احمد یہ دوسرے شرکوں سے تو پاک ہے لیکن کچھ نہایت مخفی شرک ابھی پائے جاتے ہیں.آپ ہر اس رسم کو چھوڑ دیں جس سے تو حید پر زد پڑے.آجکل مذہب

Page 481

خطابات مریم 456 خطابات سے دوری کی جو آگ لگی ہوئی ہے اس پر آپ کا دل دکھنا چاہئے رسومات ہمیں مذہب سے دور لے جاتی ہیں.رسومات کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے خلفاء کے واضح ارشادت اور فتاویٰ موجود ہیں.جہاں بھی لجنہ کی عہدیداران کوئی رسم دیکھیں ان کا فرض ہے کہ وہ فوراً خواتین کو ان سے روکیں جو خاتون کسی جماعتی کام میں روک بنتی ہے وہ اپنے عمل سے یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کا جماعت سے کوئی تعلق نہیں.آپ نے فرمایا کہ ابتلاء کے زمانے آتے ہیں اور ہم ابتلاؤں سے نکل کر ہی ترقی کریں گے.آپ نے فرمایا کہ خدا کے وعدے ضرور پورے ہو نگے.اگر ہم خدانخواستہ تھک کر رستے میں رہ گئے تو آنے والے آ کر جگہ لے لیں گے اور اپنی ذمہ داریاں اُٹھائیں گے اور انہی لوگوں کے نام تاریخ میں باقی رہیں گے جو اپنے آپ کو قربانیوں کے لئے پیش کریں گے.پس ہمارا اولین فرض خدا کی رضا کو حاصل کرنا ہونا چاہئے.نماز ایک مؤکد فریضہ ہے اور حضور ایدہ اللہ نے اس کی طرف بہت توجہ دلائی ہے.خواتین کو چاہئے کہ وہ اس طرف توجہ دیں.اپنے بچوں ، بھائیوں اور خاوندوں کو بھی اس طرف توجہ دلائیں.بچے اپنی ماؤں کا نمونہ دیکھتے ہیں اگر مائیں نمازی ہوگی تو ان کے بچے بھی نمازی ہونگے اگر مائیں مالی قربانی میں حصہ لیں گی تو ان کے بچے بھی مالی قربانی میں حصہ لیں گے.ماؤں کو چاہئے کہ وہ اپنا صحیح نمونہ پیش کریں اور بچیوں کی تربیت کریں.معاشرہ خود بخو دسنور جائے گا.اللہ اور رسول کی اطاعت جو ترقی کا محور ہے اس طرف توجہ رکھیں.ہر کام جس کی بناء ڈال رہی ہیں اس سے پہلے سوچیں کہ اس کا اثر نسلاً بعد نسل کیا ظاہر ہوگا.پس قال اللہ اور قال الرسول کے مطابق زندگیاں گزاریں.اپنے عہد بیعت کو ہر وقت یا درکھیں اور اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں.جب ہم اس پر عمل کریں گی تو ہم اپنا نصب العین حاصل کر لیں گی.آجکل کے حالات متقاضی ہیں کہ ہر گھر اپنی اصلاح کرے.ہماری کوتا ہیاں ہمارے مقاصد کے درمیان حائل ہو رہی ہیں.ان کو فورا ترک کر دیں.بہت دعائیں کریں.خاص طور پر حضور کے لئے اور اسیران سکھر اور ساہیوال کے لئے کہ خدا تعالیٰ جلد کوئی بہتر راہ نکال دے (از سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ 87-1986ء)

Page 482

خطابات مریم 457 خطابات دوره اوکاڑہ 30 جون 1986ء تشہد وتعوذ کے بعد آپ نے فرمایا کہ مجھے ایک لمبے عرصہ کے بعد یہاں آ کر ملنے اور کام کا جائزہ لینے کا موقع ملا ہے.آپ کا کام صرف یہ نہیں کہ جلسہ میں آئیں اور سن کر چلی جائیں بلکہ جو کام کی باتیں سنیں انہیں دوسروں تک پہنچائیں اور خود بھی اس پر عمل کریں.پھر حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے سورۃ الصف کی آیات تلاوت فرمائیں اور خواتین کو تلقین فرمائی کہ اپنی آخرت کو سنوارنے کی کوشش کریں.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ہم اپنے اموال اور نفوس کے ذریعہ جہاد کریں.قرآن مجید سے ثابت ہے کہ جہاد تین قسم کے ہیں.تلوار کا جہاد جہاد اصغر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس تشریف لائے اور فرمایا کہ ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد یعنی تربیت کی طرف آئے ہیں.قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے ساتھ جہاد کا حکم دیا گیا ہے.آپ نے فرمایا کہ آپ کو مالوں کی قربانی کے ساتھ ساتھ وقت کی قربانی بھی دینی ہوگی.احمدیت پھیلانے کے لئے مال اور نفوس قربان کرنے پڑیں گے.آپ مالی قربانی میں تو جب بھی کوئی تحریک خلیفہ وقت کی طرف سے اُٹھے لبیک کہتی ہیں اور اپنا مال خدا کے حضور پیش کر دیتی ہیں.دوسرے عہد پر نفس کی قربانی ہے جس میں ابھی آپ پیچھے ہیں.پہلے وقتوں میں بزرگوں نے قربانیاں پیش کیں.اب بھی مختلف جگہوں میں احمدی راہِ مولیٰ میں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں.خود اس شہر اوکاڑہ میں بھی ایک قربانی پیش کی گئی ہے.ان دنوں خدا کے نام کی خاطر آپ سے قربانی کا تقاضہ کیا جا رہا ہے.بے شک جان کی قربانی بہت عظیم قربانی ہے لیکن اپنے نفس کو ہر وقت قربانی کے لئے تیار رکھیں.ابھی ہماری جماعت میں بہت سی اخلاقی کمزوریاں پائی جاتی ہیں.خصوصاً عورتوں میں یہ کمزوری زیادہ ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کی

Page 483

خطابات مریم 458 خطابات غرض و غایت ہی یہ تھی کہ آپ قرآن کریم کی تعلیم دیں اور اس اخلاقی تعلیم کو دنیا میں دوبارہ رائج کریں جو بڑی اعلیٰ وارفع ہے تا کہ اس چمن میں پھر سے پھول کھلیں اور پھر سے بہار آ جائے.ہمارے سامنے تین ستون ہیں.قرآن، سنت اور حدیث ہمیں انہی پر عمل کرنا ہوگا.خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں کامل نمونہ بنا کر بھیجا تھا.آپ کے صحابہؓ نے آپ کی مکمل اتباع کی اور ایسا نمونہ دکھایا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارہ میں فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں.جو ان کے راستہ پر چلیں گے فلاح پائیں گے.حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے فرمایا کہ وہ مالی قربانی اور تقلید کا معیاراب موجود نہیں.جوں جوں جماعتیں بڑھتی ہیں ان میں کمزوریاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں.کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے نفسوں کی اصلاح کریں اور آئندہ نسل کی حفاظت کریں اور انہیں آئندہ ذمہ داریوں کے لئے پوری طرح تیار کریں.بچوں کی صحیح تربیت کے لئے اپنے آپ کو بطور نمونہ پیش کریں کیونکہ جو کچھ مائیں کرتی ہیں وہی کچھ اولا د کرتی ہے اُن کے اندر جماعت کے لئے غیرت اور اطاعت کا جذبہ پیدا کریں.اگر آپ نے اپنے بچوں کی اصلاح کرلی تو مستقبل کے لئے اچھی نسل تیار ہو گی.ہمارے پیارے امام اس وقت ہم سے بہت دُور ہیں آپ ہر وقت دعا کرتی رہیں کہ خدا تعالیٰ کامیابیوں اور کامرانیوں سے اُنہیں جلد بخیریت واپس لائے.اس کے ساتھ ہی اپنے نفسوں کا جائزہ بھی لیتی رہیں کہ اُن میں کوئی کمزوری تو پیدا نہیں ہو گئی.ہماری ہر مجلس خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی بنیان مرصوص کی طرح ہونی چاہئے.قرآن کریم کی تعلیم کا محور اطِیعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمُ (النساء: 60) ہے.پس نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کریں.عہدیداران ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھیں کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے.خود خادم بن کر خدمت کریں اور پھر دوسروں سے اطاعت کی امید رکھیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اصلاح معاشرہ کے متعلق بہت سے خطبات ارشاد فرمائے ہیں اُن پر عمل کریں اور ساری دنیا کے سامنے اپنا ایسا نمونہ پیش کریں کہ دشمن بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ دنیا میں قرآن اور اسلام کے احکامات پر عمل کرنے والی جماعت صرف احمدی جماعت

Page 484

خطابات مریم 459 خطابات ہے.آخر میں اپنے رسوم و بدعات کا ذکر کرتے ہوئے ہر اس کام سے اجتناب کی تلقین فرمائی جس کا جواز قرآن، حدیث اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ملتا ہو.آپ نے فرمایا کہ فَاسْتَبِقُوا الخَیرات پر آپ کا عمل ہونا چاہئے کیونکہ آپ نے نہ صرف اپنی اصلاح کرنی ہے بلکہ دوسروں کی بھی اصلاح کرنی ہے.ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرتے ہوئے ایک ساتھ مل کر قدم اُٹھائیں.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ 1986ء)

Page 485

خطابات مریم 460 خطابات دورہ کھاریاں ضلع گجرات 30 ستمبر 1986ء اپنے خطاب میں آپ نے اجتماعات کی غرض و غایت بیان فرمائی اور اس ضمن میں سورۃ توبہ کی آیت مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (التوبۃ : 122) تلاوت فرمائی اور بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومنوں کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ سب کے سب اکٹھے ہو کر تعلیم دین کے لئے نکلیں.پس ایک گروہ نکل پڑتا تا کہ وہ پوری طرح دین سیکھ کر اپنی قوم میں واپس لوٹ کر دوسروں کو بے دینی سے ہوشیار کرتا تا وہ گمراہی سے ڈرنے لگتے.یہی طریق ہمارے لئے ہے کہ ہم اپنے اجتماعات میں نمائندگی کے اصول کو اپناتے ہوئے شرکت کریں.ہماری دینی مجالس کے انعقاد کی بڑی غرض یہ ہے کہ ہم مل بیٹھ کر اپنی ذمہ داریوں کی طرف نگاہ کریں اور دیکھیں کہ کونسی سستیاں اور غفلتیں ہمارے اندر پائی جاتی ہیں اور ہماری ترقی کی راہ میں روک بنی ہوئی ہیں اور پھر ان کی اصلاح کی کوشش کریں.آپ نے فرمایا کہ اس اجتماع پر جو بچی اور بہن آئی ہے وہ اپنی مجلس کی نمائندگی کر رہی ہے اس کا فرض ہوگا کہ وہ جو کچھ یہاں سے سیکھے اور حاصل کرے وہ جا کر دوسروں کو بھی سکھائے.ہر امتحان کے لئے ایک معیار ہوتا ہے.آپ اپنے میعار کو مدنظر رکھیں اور سوچیں کہ ہمارا معیار کن دینی خدمات اور قربانیوں کا متقاضی ہے.آپ نے فرمایا کہ ہماری زندگیوں میں ایک روحانی انقلاب بر پا ہونا چاہئے کیونکہ ہم نے زندہ نبی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ " قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله (آل عمران: 32) پس آپ کو چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو دیکھیں اور اسے اپنانے کا تہیہ کریں کیونکہ

Page 486

خطابات مریم 461 خطابات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کر کے ہی خدا تعالیٰ کی محبت اور توجہ حاصل ہوسکتی ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان سے لوگوں کو بتایا کہ قُلْ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُـکـی وَ مَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ العَالَمين (الانعام (163) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری نماز، میری قربانیاں، میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.یہی ہونا چاہئے.حضرت سیدہ موصوفہ نے فرمایا کہ حضرت بانی سلسلہ احمد یہ بھی کوئی نئی شریعت نہیں لائے.آپ کے آنے کی غرض ہی یہی تھی کہ وہ آنحضرت کے لائے ہوئے دین کو تازہ کریں اور باغ محمد میں جو خزاں آچکی تھی اس میں پھر سے ایک بار بہار آ جائے.آپ حضرت بانی سلسلہ اور آپ کے خلفاء کا نمونہ اپنا ئیں جن کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگ راہ راست پر آ ئیں اور وہ معاشرہ قائم ہو جو آج سے چودہ سو سال پہلے قائم تھا.خواتین سے فرمایا کہ حضرت بانی سلسلہ کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے نفسوں کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کیا ہم اپنے معیار کے مطابق قربانیوں میں حصہ لے رہی ہیں.آپ نے فرمایا کہ حضرت بانی سلسلہ کے اپنے معیار کے مطابق احمدی مردوں اور عورتوں کی قربانی کا معیار ایک ہونا چاہئے.ہماری ہر خاتون کو اس طرح توجہ رکھنی چاہئے کہ اگر اُس نے تساہل اختیار کیا تو خدانخواستہ ہماری ترقی پیچھے نہ چلی جائے.خدا تعالیٰ کے وعدے اور بشارتیں برحق ہیں.زمین و آسمان ختم ہو سکتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے وعدے نہیں مل سکتے.اس لئے اپنی مستیوں کو دور کریں.دینی مجالس اور اجلاسوں میں با قاعدہ حاضر ہوں.ہمارے اجلاسوں کی حاضری خواہ وہ شہر ہوں یا دیہات سو فیصد ہونی چاہئے.پھر آپ نے سورۃ توبہ کی آیت قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَ تُكُمْ وَاَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِهِ وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفُسِقِينَ (التوبة :24) کی تفسیر کی روشنی میں فائدہ مند تجارت کی طرف توجہ دلائی.نیز فرمایا کہ آپ ہر دم اپنے عہد بیعت کو نبھا ئیں اور جو زنجیریں اور بیڑیاں آپ کے پاؤں میں پڑی ہوئی ہیں انہیں تو ڑپھینکیں

Page 487

خطابات مریم 462 خطابات اور مالی قربانی کے ساتھ ساتھ وقت کی قربانی بھی کریں.اپنے نفسوں کی اصلاح کریں.اپنی آئندہ نسل کی طرف توجہ دیں.اپنے گھر میں اپنا صحیح نمونہ پیش کریں.آپ کو بچیوں کی شادی اور تعلیم کی فکر تو ہوتی ہے لیکن ان کی تربیت کی طرف خاص توجہ نہیں دیتیں.آپ نے فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ میرے پاس بہت سے گھریلو جھگڑوں کی شکایات پہنچتی ہیں.اپنی بچوں کے اندر حوصلہ صبر و تحمل پیدا کریں.آپ نے فرمایا کہ ہمارے اندر بہترین اخلاق نمایاں طور پر موجود ہونے چاہئیں.بداخلاقی کی کوئی بو ہم سے نہیں آنی چاہئے.پس آپ صرف زبان سے ہی نہیں بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے عمل سے داعی الی اللہ بننے کی کوشش کریں.......W سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ 1986ء)

Page 488

خطابات مریم 463 اختتامی خطاب جلسہ کھاریاں ضلع گجرات خطابات تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے خواتین کو جو نصائح فرمائیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے.آپ نے فرمایا کہ میں نے اس اجتماع میں آپ کی خواہش کے مطابق شرکت کی.میرے آنے کی غرض یہی تھی کہ آپ کے کام کا جائزہ لوں اور آپ کے نقائص کی طرف توجہ دلاؤں.فرمایا کہ ہمارے اجتماعات کے پروگرام اس طریق پر بنائے جاتے ہیں کہ اس میں زیادہ سے زیادہ تربیتی پروگرام ہوں.آپ نے فرمایا کہ اگر پوری توجہ سے پروگرام نہ سنا جائے تو اس کا مقصد ختم ہو کر رہ جاتا ہے.آپ نے گزشتہ روز کے اجلاس کے آخری وقت میں پیدا ہونے والے شور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے نظم و ضبط ، صف بندی اور دینی محافل کے آداب برقرار رکھنے کی طرف توجہ دلائی.آپ نے انڈونیشیاء میں منعقد ہونے والے سات مقامات کے اجلاسوں کے نظم و ضبط کی بہت تعریف فرمائی اور مرکز اور جماعتوں میں منعقد ہونے والے اجتماعات اور جلسہ سالانہ کے مواقع پر صحیح نمونہ کا مظاہرہ نہ ہونے پر افسوس کا اظہار فرماتے ہوئے خواتین کو تاکید فرمائی کہ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی ایسے رنگ میں تربیت کریں کہ وہ بھی جماعتی جلسوں میں ایسا ہی نمونہ پیش کریں جو بیرون کے اجتماعات میں دیکھنے میں آتا ہے.پھر آپ نے حاضرات کو عہدیداران کی اطاعت کی طرف توجہ دلائی.آپ نے فرمایا کہ تقریر میں کر لینا اور سن لینا ہی کافی نہیں.بہترین معاشرہ کے قیام کے لئے گھر کی تربیت بہت ضروری ہے.ایسے رنگ میں تربیت ہو کہ اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آئے.حضرت سیدہ موصوفہ نے خطاب جاری رکھتے ہوئے حاضرات کو قرآن مجید کا علم سیکھنے اور اس کے احکامات پر چلنے کی تلقین فرمائی اور بتایا کہ یہی ہمارا اصل دستور حیات ہے.اسی تعلیم پر عمل کرنے سے ہماری کامیابیاں وابستہ ہیں.ہر ماں اور باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے گھر میں بچیوں کے لئے قرآن کریم کی تعلیم رائج کریں.آپ نے فرمایا کہ خدا کرے کہ میری آواز صدا بصحرا ثابت نہ ہو.ہمارے بچے اور آئندہ نسل ہم سے بڑھ کر مخلص ہو.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ 1986ء)

Page 489

خطابات مریم 464 تربیتی دورہ سیالکوٹ خطابات (3 /دسمبر 1986ء) 14 دسمبر کو صبح دس بج کر پچیس منٹ پر اجلاس عام منعقد کیا گیا جس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا کہ میں بارہ سال کے بعد اس شہر میں آئی ہوں.حالات کو الزام دینے کی بجائے میں اپنی سستی تسلیم کرتی ہوں کہ اس جماعت کو بہت توجہ کی ضرورت تھی جو نہیں دی جاسکی.آپ نے فرمایا کہ سیالکوٹ کی جماعت بہت محنتی اور فعال تھی.حضرت فضل عمر اس کی مثال دوسری بجنات کے سامنے پیش فرمایا کرتے تھے.بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جس لجنہ کا شمار صف اول میں ہوتا تھا آج وہ انتہائی سستی اور جمود کا شکار ہو چکی ہے اور آپس میں بہت سے اختلافات پیدا ہو چکے ہیں.آپ نے فرمایا کہ سب سے پہلی بات جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ تمام خواتین اور عہدیداران آپس میں اتفاق پیدا کریں کیونکہ جھگڑوں سے کام میں تنزل آ جاتا ہے اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے.آپ نے فرمایا کہ میں اپنی کمزوری صحت کے باوجود یہاں بار بار آنے کی کوشش کروں گی تا آپ کی اصلاح کے لئے کچھ کوشش کر سکوں.آپ نے فرمایا کہ ایک ترقی کرنے والی جماعت کے اندر جن خصوصیات اور اتفاق کا پایا جانا ضروری ہے وہ آپ کے اندر موجود نہیں.اس ضمن میں آپ نے امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ خطبہ جمعہ کے ارشادات کی طرف توجہ دلائی.آپ نے فرمایا کہ عہد بار بار دہرانے کے باوجود آپ اس پر عمل کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتیں.اپنی مجلس کو آگے بڑھانے اور

Page 490

خطابات مریم 465 خطابات ترقی دینے کیلئے آپ کو خود کوشش کرنی ہوگی.دوسری مجالس نے آ کر آپ کا کام نہیں کرنا.اس لئے آپ مل بیٹھ کر سوچیں کہ اپنے اندرونی اختلافات اور نقائص کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے؟ اپنی اصلاح کی طرف فوری توجہ دیں.آپ نے فرمایا کہ ہر انسان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کا خالق اس سے راضی ہو.تقویٰ کے بغیر ہم خدا تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں کر سکتیں.آپ نے ازالہ اوہام سے اقتباسات پیش فرمائے اور تقویٰ کا مفہوم واضح فرمایا.فرمایا کہ شعوری طور پر ہم سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہونا چاہئے تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنے سے ہم روحانیت میں ترقی کر سکتی ہیں.ایک معیاری انسان بننے کیلئے تقویٰ بہت ضروری ہے اور یہی ایک نسخہ کیمیا ہے جس سے ترقی حاصل ہوسکتی ہے.پھر آپ نے حضرت بانی سلسلہ کی تحریرات کی روشنی میں تقویٰ کے حصول کے ذرائع بیان فرمائے.آپ نے خطاب جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ خدمت دین کو اک فضل الہی جانو عہدہ کوئی فخر کی جانہیں بلکہ یہ تو سرا سر خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے کہ اس نے خدمت کیلئے موقع دیا ہے.سب سے بڑا خلق یہ ہے کہ اپنے آپ کو سب سے کمتر سمجھا جائے اور ہر قسم کے تکبر سے بچا جائے کیونکہ تکبر انسان کو خدا سے بہت دور لے جاتا ہے.خدا کے احسانات کو یا در کھتے ہوئے آپ کو انکساری اختیار کرنی چاہئے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ سَيِّدُ القَومِ خَادِمُهُم قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے.تمام خواتین اپنے اند را نکساری پیدا کریں.عہد یداران خصوصاً اس طرف توجہ دیں ہر روز اپنی غلطیوں کا جائزہ لیں اور اپنے نفس کا محاسبہ کریں.صوفیائے کرام نے بھی اس طرف بہت زور دیا ہے.انسان اپنا سب سے بڑا امتحن خود ہوتا ہے وہ دوسروں سے تو سب کچھ چھپا سکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ سے اور اپنے نفس سے وہ کچھ نہیں چھپا سکتا.سو اپنی غلطیوں کا جائزہ لیں اپنے عہد کو پیش نظر رکھتے ہوئے وقت کی قربانی دیں اور اجلاسوں میں حاضری کی کمی کی شکایت کو دور کریں.فرمایا کہ ہر احمدی خاتون کا فرض ہے کہ وہ اپنے عہدہ داروں کی اطاعت کرے جتنی ذمہ داریاں عہد یداران کی ہوتی ہیں اُتنی ہی عام

Page 491

خطابات مریم 466 خطابات خواتین کی بھی ہوتی ہیں.عہدیداران آپ کے تعاون کے بغیر اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھا سکتیں.اگر خواتین یہ سوچیں کہ کام کرنا صرف عہدہ داروں کی ہی ذمہ داری ہے تو پھر وہ آپ کے تعاون کے بغیر کوشش کے باوجود اپنے کام کو آگے نہیں بڑھا سکیں گی.آپ نے فرمایا کہ اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کا شمار پھر صف اول کی مجالس میں ہوا ور حضور ایدہ اللہ کی اطاعت کرنے والی ہوں تو پھر ہر دم اپنے عہد کو مد نظر رکھیں.وقت کو قربان کریں اجلاسوں میں با قاعدہ حاضر ہوں جو خواتین یہاں نہیں پہنچ سکیں ان تک بھی میری آواز پہنچا ئیں اور خدا کرے کہ میری آواز صدا بصحرا ثابت نہ ہو.حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ تو صرف اس لئے دنیا میں تشریف لائے تھے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو تازہ کریں.آپ نے ہر مذہب کا مقابلہ کیا.حضرت سیدہ موصوفہ نے فرمایا کہ سیالکوٹ تو بہت برکت والا شہر ہے کیونکہ حضرت بانی سلسلہ نے اسے اپنا دوسرا وطن قرار دیا ہے.آپ اس وقت ہی اس برکت سے حصہ لے سکتی ہیں جب آپ کا عمل دوسروں سے ممتاز ہوگا اور آپ کا قدم دوسری مجالس سے بہت آگے ہوگا.پھر آپ نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ میں سب سے بڑا انعام قدرت ثانیہ کا انعام ہے اور یہ مشروط انعام ہے تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جن اقوام نے اس نعمت کی شرائط کو نظر انداز کیا اُن سے یہ انعام واپس لے لیا گیا.پس اس انعام کی قدر کریں اپنے دل میں لجنہ کی تنظیم کے لئے اور اپنی بہنوں کے لئے ایک درد پیدا کریں.اس درد کے ساتھ آپ کے اندر عمل کی قوت پیدا ہوگی آپ نے دعا کی طرف بہت توجہ دلائی اور فرمایا کہ حضور ایدہ اللہ کی جلد کامیاب وکامران واپسی کیلئے اور ہر تنظیم کیلئے خواہ وہ لجنہ کی ہو، انصار کی ہو یا خدام الاحمدیہ کی ، دعا پر بہت زور دیں دعا کریں کہ ہمیں وہ قومی حاصل ہوں جن سے ہم عمل کی طرف راغب ہو سکیں.ہمارے قول وفعل میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہئے.آپ نے فرمایا کہ اُسوہ رسول کو اپنا ئیں جن کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سنہری الفاظ موجود ہیں کہ كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآن (مسند احمد بن حنبل جلد6 صفحه 90) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو چلتے پھرتے قرآن تھے.سو آپ قرآن کریم کی تعلیم حاصل کریں

Page 492

خطابات مریم 467 خطابات - کیونکہ اس کے بغیر آپ کو اوامر و نواہی کا علم حاصل نہیں ہوسکتا.گناہ زہر ہوتا ہے بہت سے چھوٹے چھوٹے گناہ ایسے ہیں جنہیں اختیار کر کے آپ یہ زہر کھا رہی ہوتی ہیں.اس لئے اُن کا علم حاصل کرنے کیلئے قرآن کریم کا گہرا مطالعہ بہت ضروری ہے.قرآن تمام لوگوں اور تمام زمانوں کیلئے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو سب تک پہنچانا ہمارا فرض ہے.پھر آپ نے نماز کی پابندی اور سچائی اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ مجھ تک بہت سے ایسے گھریلو جھگڑے پہنچتے ہیں جس میں فریقین قول سدید سے کام نہیں لے رہے ہوتے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خاندان اور معاشرے میں ایسا اختلاف پیدا ہو جاتا ہے کہ پھر اس پر بند باندھنا ہی مشکل ہو جاتا ہے.حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے فرمایا کہ حسد کو چھوڑ دیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اس سے منع فرمایا ہے.رشک تو ضرور کریں لیکن حسد پیدا نہ کریں کیونکہ حسد کی وجہ سے بہت سی بد اخلاقیاں رونما ہونا شروع ہو جاتی ہیں.بے مہری اختیار نہ کریں حسد اور بے صبری کے ساتھ ہم کبھی متحد نہیں ہوسکتیں اور دل صاف کئے بغیر رنجشیں ختم نہیں ہوسکتیں.ہمیں کنگھی کے دندانوں اور موتیوں کی لڑی کی طرح ہونا چاہئے اور بنیان مرصوص بننا چاہئے.حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے دوا ہم ارشادات جن کو ہمیں اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کی طرف توجہ دلائی.پہلا حکم تو شرک کے خاتمہ اور توحید باری کے قیام کا ہے اور دوسرا بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی پیدا کرنے کا.فرمایا کہ ہر ایک کی تکلیف کا احساس اپنے اندر پیدا کریں اور ان تمام نقائص اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں جو آپ کی لجنہ میں پیدا ہو چکی ہیں.آپس میں متحد ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اپنے قدم آگے بڑھانے کی کوشش کریں تا دین کو غلبہ حاصل ہو.نئی نسل کو آئندہ ذمہ داریوں کیلئے تیار کریں.یہ سرزمین ایسی ہے جس نے مسیحا کے قدم چومے تھے اس لئے آپ کا معیار بہت بہتر ہونا چاہئے ایک دوسرے کو معاف کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کریں.(ماہنامہ مصباح جنوری 1987ء)

Page 493

خطابات مریم 468 خطابات خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 1986ء 1985ء میں ایک بار پھر صدارت کا بوجھ میرے کمزور کندھوں پر ڈالا گیا.سال رواں کے کاموں کا اختصار سے جائزہ لوں گی.3 مئی 1985 ء کو دعاؤں کے ساتھ لجنہ اماءاللہ کے دفتر کی بنیاد رکھی گئی تھی.آپ سب جانتے ہیں کہ پہلی دفعہ دفتر لجنہ اماء اللہ کی بنیاد 31 مئی 1955ء کو حضرت مصلح موعود نے اپنے مبارک ہاتھوں سے رکھی تھی اور اس کی سب تفصیل لجنہ اماءاللہ کی تاریخ جلد دوم صفحہ 183 میں درج ہے.چونکہ اس وقت یہاں کی زمین کے نقائص کا صحیح علم نہیں تھا کہ اس میں کلر بہت ہے اس لئے وہ احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جاسکیں اس لئے کچھ عرصہ کے بعد ہی با وجود بار بار مرمت کرانے کے دفتر اس قابل نہ رہا کہ اس پر مزید رقم خرچ کی جائے اور حضرت خلیفۃ امسیح الرابع کے ارشاد کے مطابق کہ اس کو گرا کر از سر نو تعمیر کروایا جائے نقشہ منظور کروا کے دفتر کی تعمیر شروع کی گئی اس کے دو حصے ہیں ایک دفتر جس کی اوپر کی منزل پر گیسٹ ہاؤس بھی ہے اور دوسرا ہال.فیصلہ یہ کیا گیا کہ ایک وقت میں دونوں حصے شروع کرنے کی بجائے پہلے ایک حصہ بنا لیا جائے اس پر پندرہ لاکھ خرچ آیا ہے جس میں سے 5 لاکھ روپے لجنہ اماءاللہ نے جو رقم تحریک خاص کے چندہ کی جمع تھی اور لجنہ کی بچت سے ادا کیا تھا اور دس لاکھ روپے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جو بلی فنڈ سے قرضہ دیا تھا اس دس لاکھ میں سے بھی لجنہ چار لاکھ واپس کر چکی ہے.اور چھ لاکھ لجنہ کے ذمہ قرضہ ہے جو آپ نے ادا کرنا ہے ہال کی تعمیر کا کام عنقریب نقشہ مکمل ہونے پر انشاء اللہ شروع کر دیا جائے گا.دعا بھی کریں اور کوشش بھی کہ یہ دفتر ہمارے لئے بہت بابرکت ہو اور ہم صحیح رنگ میں کام کریں.دعا اور صدقہ کے بعد یکم اکتو بر سے دفتر میں منتقلی شروع کر دی گئی تھی.میں نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ حضور تعمیر دفتر لجنہ کے چندہ کا اعلان فرما دیں کسی خطبہ میں.حضور نے فرمایا تھا کہ ابھی جماعت پر دوسرے چندوں کا بوجھ ہے مناسب وقت پر تحریک کروں گا آپ کام جاری رکھیں

Page 494

خطابات مریم 469 خطابات جتنی ضرورت ہوگی رقم بطور قرضہ دے دی جائے گی اس لئے ایک طرف تو آپ دعا کریں کہ جلد سے جلد دفتر کی تکمیل ہوا اور دفتر بننا بہت مبارک ہو اور ہر کارکن کو صحیح رنگ میں خدمت دین کی توفیق ملے اور جب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعمیر دفتر لجنہ اماءاللہ کے چندہ کی تحریک کی جائے تو ہر بہن لبیک کہتے ہوئے جلد سے جلد اس قرضہ کو جو ہم پر ہے اور ابھی ہال کی تعمیر میں ہوگا ادا کر دے.دوران سال ایک کوارٹر بھی لجنہ کے عملہ کے لئے تعمیر کروایا گیا.اللہ تعالیٰ نے عاجزہ کو اس سال تو فیق عطا کی کہ بیرون پاکستان جا کر لجنہ اماءاللہ انڈو نیشیا وسنگا پور کا دورہ کر سکے.اجتماع 1983 ء کے موقعہ پر حضرت خلیفۃ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لجنہ کو ارشاد فرمایا تھا.عورتوں کے بارے میں اسلام پر کئے جانے والے اعتراضات کا جواب دینا عورتوں کی ذمہ داری ہے ساری دنیا کی احمدی لجنات کا یکساں مزاج اور معیار پیدا کیا جانا ضروری ہے 66 اس لئے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے تحت احمدی خواتین کے عالمی دورے کروائے جائیں.“ 1984ء کے شروع سے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ اس تجویز پر عمل نہیں کروایا جا سکا.اس سال کے شروع میں حضور ایدہ اللہ سے اس حوالہ کے ساتھ اجازت کی درخواست کی گئی جو حضور نے منظور فرمالی اور پھر جانے کا پروگرام بنایا گیا.انڈونیشیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ کی بہت بڑی تعداد 1985ء کی رپورٹ میں ساڑھے پانچ ہزار سے زائد ان کے نام رجسٹرڈ ہیں اور 105 شاخیں ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین ہزار خواتین سے ملاقات کا موقع ملا اور جلسوں میں 80 لجنات کی نمائندگی ہوئی.جاوا میں چھ مقامات میں اور سماٹرا میں ایک جگہ جلسہ کا انتظام کیا گیا اور جس لجنہ کی ممبرات اس مقام کے قریب تھیں وہ وہاں پہنچ گئیں مجلس عاملہ کے دو اجلاس ہوئے.پروگرام کے بعد سوال و جواب کی محفل ہوئی.انڈونیشیا میں جماعت نے جامعہ احمدیہ بھی کھولا جس میں وہاں کی دینی ضرورت کے لئے مبلغین تیار ہوتے ہیں.پانچ لڑکیاں بھی پڑھ رہی ہیں.تین سالہ کورس ہے.ماشاء اللہ وہاں کی عورتوں کا انتظام اور نظم وضبط یہاں سے بہت زیادہ ہے.سات جگہ جلسے ہوئے کھانے کا بھی ہر جگہ لوکل جماعت کی طرف سے انتظام ہوتا تھا کسی جگہ گند نظر نہیں آیا کوئی کاغذ پھل کا چھلکا وغیرہ کہیں نہیں دیکھا.کھانا کھا کر

Page 495

خطابات مریم 470 خطابات سب گند اُن ڈبوں میں ڈال دیتی تھیں جو گند ڈالنے کے لئے رکھے جاتے تھے قطار میں آ کر ایک ایک عورت اور ایک ایک بچی ملی ہے کسی نے قطار توڑ کر آگے آنے کی کوشش نہیں کی.کسی نے ایک دفعہ مل کر دوسری دفعہ ملنے کی کوشش نہیں کی.ان کے کاموں میں بھی ہماری طرح بہت سی مشکلات تھیں جن کو انہوں نے پیش کیا اور ان پر غور کیا گیا.یہاں کے احمدیوں کے لئے ان کے دل دردمند اور فکر مند تھے.زبان کے فرق سے بات چیت کی تو آسانی نہیں تھی مگر جو کام کر رہی ہیں وہ بہت اچھا کر رہی ہیں.اور اپنی اگلی نسل کی ان کو بہت فکر ہے کہ یہ بے راہ رو نہ ہو جائے.آپ بھی دعا کریں کہ میرا وہاں جانا ان کے لئے فائدہ مند ہو.سنگا پور کی لجنہ کی تعداد پچاس کے لگ بھگ ہے.بیرون پاکستان کے دورہ کے علاوہ پاکستان کے مندرجہ ذیل مقامات کا سال رواں میں دورہ کرنے کا موقع ملا.لاہور دو دفعہ.اس کے علاوہ اسلام آباد، راولپنڈی، واہ کینٹ تحصیل سیالکوٹ و تحصیل ڈسکہ کی.ڈسکہ میں عہدیداران کی میٹنگ میں شمولیت، شیخو پورہ، تحصیل پھالیہ ضلع گجرات کی میٹنگ بمقام شاہ تاج شوگر ملز ، جہلم ، جھنگ ، خوشاب، اوکاڑہ اور ضلع گجرات کے اجتماع میں شمولیت کھاریاں میں.1981ء میں ہماری بعض غلطیوں کی وجہ سے حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اما اللہ کراچی کا الحاق مرکزی لجنہ سے تو ڑ کر اسے براہ راست اپنی نگرانی میں لے لیا تھا.آپ کے بعد بھی حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے وہی طریق جاری رکھا اور پانچ سال کراچی کی لجنہ دو خلفاء کی براہ راست ہدایات حاصل کرتی رہیں اور فیض یاب ہوتی رہیں.اب حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ کراچی کا الحاق پھر لجنہ مرکزیہ سے منظور فرمالیا ہے.اسی لئے انڈونیشیا سے واپسی پر عاجزہ نے ایک دن کراچی قیام کیا اور ان کی مجلس عاملہ کا پہلا اجلاس عاجزہ کی صدارت میں ہوا اور ان کو ہدایات دی گئیں.گذشته سال شوری میں لجنہ کے لئے ایک وین کی منظوری شوری نے دی تھی جسے حضور نے بھی منظور فرمالیا تھا.ارادہ تو شوری کے معا بعد نئی خرید لینے کا تھا لیکن جو ہم چاہتی تھیں وہ مل نہیں رہی الحمد للہ اب لے لی گئی ہے چھ اکتو بر کو آئی ہے.یہ سال مالی لحاظ سے اہم سال رہا ہے.منظور شدہ بجٹ کے علاوہ بچت میں سے

Page 496

خطابات مریم 471 خطابات 7,04,010 خرچ کئے گئے.واپسی قرضہ 3,00,000...گذشتہ سال کی بچت میں سے لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے 25000- شعبہ صحت جسمانی کی آخری قسط ادا کی اور اس طرح سوالاکھ روپے جو لجنہ اماء اللہ کے ذمہ حضور نے لگائے تھے وہ ادا ہو گئے.اس کے علاوہ دس ہزار روپے سیدنا بلال فنڈ میں لجنہ کے فنڈ سے ادا کئے گئے.لجنہ اماءاللہ کے کاموں کے لئے ایک فوٹوسٹیٹ مشین - 40,410 روپے میں خریدی گئی.اس سال نیا دفتر تعمیر ہونے کی وجہ سے اس کے فرنیچر ، پردوں ، فٹنگ وغیرہ پر خاصی رقم خرچ ہوگئی.اس لئے لجنات کو چاہئے کہ اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے نہ صرف بجٹ پورا کرنے کی کوشش کریں بلکہ پہلے سے بڑھ کر چندے ادا کریں.نیر دوران سال حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر کارکنات کی تنخواہوں میں %20 کا اضافہ کیا گیا تھا.اس سال کا اہم ترین واقعہ جس کا ذکر مجھے ابتداء میں کرنا چاہئے تھا وہ یہ کہ ایک احمدی خاتون نے خدا کی راہ میں جان دے کر قربانیوں کے دور میں نئے باب اور نئے سنگ میل کا اضافہ کیا ہے.اس کی تفصیل دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ سب کو علم ہی ہے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے 25 جون کے خطبہ میں حضور نے فرمایا کہ: سب سے پہلے پاکستان سے آنے والی پُر در دخبر سے مطلع کرنا چاہتا ہوں یہ خبر درد ناک تو ضرور ہے مگر ویسی ہی درد ناک ہے جیسی اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں درد میں لپٹی ہوئی سعادتیں نصیب ہوتی رہی ہیں.یہ سعادت دردناک اس پہلو سے ہے کہ واقعہ جب راہ مولیٰ میں محض اللہ کی محبت کی خاطر جان کی قربانی پیش کرنے کی خبر سنی جاتی ہے تو ایک طبعی سچا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ دل کو دکھ پہنچتا ہے لیکن ایسا دکھ نہیں جس کے ساتھ شکوہ اور واویلا وابستہ ہو بلکہ یہ ایسا دکھ ہوتا ہے جسے باوجود دکھ ہونے کے مومن اپنے دل و جان سے اس طرح چمٹا لیتا ہے جیسے کسی اپنے پیارے عزیز کو چمٹایا جاتا ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.لہذا یہ وہ سعادت ہے جس کی خبر میں دینا چاہتا ہوں جو نہ مٹنے والی سعادت ہے

Page 497

خطابات مریم 472 خطابات جو اس درد کی قربانیوں میں ایک نئے باب کا اضافہ کر رہی ہے ایک نیا سنگ میل رکھ رہی ہے کیونکہ احمدی خواتین میں سے وہ پہلی خاتون ہیں جنہیں اس دور میں اللہ کی خاطر جان دینے کی سعادت نصیب ہوئی ہے ان کا نام رخسانہ تھا“.احمدی خواتین قربانیوں میں ہرگز اپنے مردوں سے پیچھے نہیں ہیں وہ بیوگان جو پیچھے رہ گئیں ان کے متعلق یہ گمان کرنا کہ وہ قربانی کے ثواب سے محروم رہ گئیں یہ غلط خیال ہے.مردوں کو خدا کی راہ میں جانی قربانی کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی عظمت کے اندران بیواؤں کی عظمت بھی شامل ہوتی ہے.اسی طرح سب مائیں جن کے بیٹے اور بہنیں جن کے ویر خدا کی راہ میں مارے گئے یہ قربانیوں میں شامل ہیں اور عورتیں ہرگز قربانیوں میں مردوں سے پیچھے نہیں ہیں.1986 ء ختم ہونے والا ہے اور دو سال بعد اس سال کا سورج طلوع ہوگا جب جماعت احمدیہ کے قیام پر انشاء اللہ سو سال پورے ہو جائیں گے.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو جشن صد سالہ کی تقریبات منانے کی ہدایات فرمائی تھیں اور اسی غرض سے 1973 ء میں ایک عالمگیر منصوبہ کا اعلان جلسہ سالانہ پر فرمایا تھا.جس کیلئے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اڑھائی کروڑ روپے کی جماعت سے اپیل کی تھی اب چونکہ اس عالمگیر منصوبہ کی تکمیل کا وقت قریب آ رہا ہے ان کاموں کی تکمیل کے لئے جماعت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو اس سال کے پروگرام بنا رہی ہے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے بھی ایک کمیٹی تشکیل کی ہے جس کی سیکرٹری سعیدہ احسن ہیں اور دو اور ممبرات میں نسیم سعید صاحبہ صدر لجنہ راولپنڈی اور امتہ المجیب صاحب ملتان.انہوں نے کئی اجلاس کر کے تجاویز مرتب کی ہیں.امتہ المجیب نے اب معذرت کر دی ہے والدہ کی بیماری کی وجہ سے ان پروگراموں میں سے اہم ترین پروگرام تاریخ لجنہ کی 1978 ء سے آگے کی اشاعت ، تاریخ لجنہ کے انگریزی ترجمہ کی اشاعت.جشن صد سالہ کے موقع پر ایک مجلہ اُردو میں اور ایک انگریزی میں شائع کرنا ہے.اس سلسلہ میں بہنیں اور تعلیم یافتہ بچیاں آگے آئیں اور اپنی خدمات پیش کریں.یہ سارا کام 1988ء کے شروع تک اگر مکمل ہو جائے تو 1989 ء کے شروع تک شائع ہوسکتا ہے ورنہ نہیں.رپورٹ سالانہ اجتماع 1986ء)

Page 498

خطابات مریم 473 خطابات 20 فروری 1987ء لجنہ ہال کے سنگ بنیاد کی بابرکت تقریب میری پیاری بہنو جو پاکستان کی تمام لجنات کی نمائندگان کی طرف سے یہاں لجنہ اما اللہ کے ہال کا سنگ بنیا د نصب کرنے کی تقریب میں جمع ہیں.آج کا دن بہت مبارک ہے کیونکہ آج کے دن حضرت بانی سلسلہ نے مصلح موعود کی پیشگوئی شائع فرمائی تھی.1951ء میں لجنہ اماءاللہ کے دفتر و ہال کی بنیاد حضرت فضل عمر نے رکھی تھی.1922ء میں آپ نے لجنہ کا قیام فرمایا.بے شک اُس وقت لجنہ کی تعداد بھی تھوڑی تھی اور کام میں بھی اتنی وسعت نہ تھی لیکن یاد رکھیں بڑی سے بڑی عمارت کی مضبوطی کا انحصار اس کی بنیادوں پر ہوتا ہے.آج سے 66 سال قبل لجنہ کی جو بنیا د حضرت فضل عمر کے ذریعہ رکھی گئی اور ان بنیادوں کو مضبوط بنانے کے لئے جو قربانیاں اس زمانہ کی خواتین نے دیں.ہم ان کو سلام کرتے ہیں.ہماری بہنوں کا فرض ہے کہ وہ ہمیشہ ہی ابتدائی خدمات سرانجام دینے والی ممبرات کا تذکرہ کرتی رہیں.ان کی خدمات اور قربانیوں سے نئی نسل کو واقف کراتی رہیں اور اس طرح قربانیوں کا ایک تسلسل جاری رہے.حضرت فضل عمر نے 1945ء میں لجنہ کو اپنا دفتر بنانے کی ہدایت دی.جس کے لئے چندہ جمع کرنا شروع کر دیا گیا تھا لیکن 1947ء میں ملک تقسیم ہو گیا اور قادیان کے احمدی اپنے گھر ، سامان سب چھوڑ چھاڑ کر ادھر آ گئے.جماعت کی مالی حالت انتہائی طور پر کمزور ہونے کے باوجود حضرت فضل عمر کی ہدایات پر لجنہ نے ربوہ آباد ہوتے ہی پہلے ایک کچا مکان بنوا کر اپنا دفتر بنایا اور کام شروع کر دیا.پھر جیسا کہ میں ذکر کر چکی ہوں اس دفتر اور ہال کی بنیا د رکھی گئی جس میں لمبا عرصہ ہم سب کو جمع ہونے اور کام کرنے کی توفیق ملی.لیکن اب اس عمارت کی حالت بہت خستہ ہو چکی تھی اور ضروریات بھی زیادہ ہوگئی تھیں.قدرت ثانیہ کے

Page 499

خطابات مریم 474 خطابات چوتھے مظہر حضرت امام جماعت احمدیہ کے ارشاد کے مطابق 3 مئی 1985 ء کو موجودہ دفتر کی بنیا د رکھی گئی یہ مکمل ہوا مگر کام کی وسعت کے لحاظ سے ابھی سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ یہ جگہ بھی کم ہے.دفتر پر پندرہ لاکھ کے قریب خرچ ہوا جس میں سے 10 لاکھ امام جماعت احمدیہ نے از راہ شفقت لجنہ کو جو بلی فنڈ سے قرض دلوا دیا.الحمد للہ 9لاکھ روپے لجنہ واپس کر چکی ہے صرف ایک لاکھ باقی ہے جو انشاء اللہ عنقریب ادا کر دیا جائے گا.تعمیر ہال کے لئے جب حضور کی خدمت میں درخواست کی گئی کہ چندہ جمع کرنے کی تحریک فرما دیں تو حضور نے اپنے خطبہ 16 جولا ئی 1987ء میں فرمایا:.میں نے سوچا ہے کہ اُن کی طرف سے عالمی لجنات کو تحریک کی جائے کہ حسب توفیق جتنا بھی وہ بوجھ اُٹھا سکتی ہیں وہ اس چندہ میں حصہ لیں گذشتہ دو سال میں جماعت میں بار بار ایسی تحریکات کی گئیں اس کے نتیجہ میں جماعت نے غیر معمولی قربانی دی ہے مجھے یقین ہے کہ ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ جماعت کی جیبیں بھی بھرتا چلا جاتا ہے اور استعداد بھی بڑھاتا چلا جاتا ہے لیکن جہاں تک ظاہری فوری طور پر جائزے کا تعلق ہے میرا خیال ہے کہ خواتین اس وقت ان حالات میں اتنا بڑا بوجھ ڈالنا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ پچھلی تحریکات میں مالی قربانی میں عورتوں نے خصوصیت کے ساتھ اتنا بھر پور حصہ لیا ہے کہ فوری طور پر اتنی بڑی تحریک کر دینا کہ خواتین خود ہی طاقت سے یہ بوجھ اُٹھا ئیں یہ مناسب معلوم نہیں ہوگا“.حضور نے فرمایا:.اس کے علاوہ میں نے سوچا ہے کہ چونکہ مردوں پر بھی بہت بوجھ ہیں اس لئے اس موقع پر انجمنیں بھی کچھ نہ کچھ حصہ لیں اور ذیلی تنظیمیں بھی کچھ نہ کچھ حصہ لیں.خواتین کے معاملہ میں بہت احتیاط اس لئے کر رہا ہوں کہ میرا یہ تجربہ ہے کہ جب اُن کو مخاطب کر کے کوئی تحریک کی جائے تو بالعموم وہ اپنی جان پر ظلم پر بھی آمادہ ہو جاتی ہیں لیکن آواز پر لبیک کہتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی خاتون میں اتنا قربانی کا مادہ ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ اگر اُن کی طاقت سے بڑھ کر تحریک کروں گا تو وہ اپنی جان توڑ

Page 500

خطابات مریم 475 خطابات دیں گی لیکن اس تحریک میں ضرور حصہ لیں گی“.چنانچہ حضور پُر نور کی اس تحریک میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکت ڈالی خدا تعالیٰ کے فضل سے چالیس لاکھ سے زائد وعدے آچکے ہیں اور 26 لاکھ اکسٹھ ہزار رقم جمع ہو چکی ہے.حضور کے ارشاد کے مطابق پانچ لاکھ صدرانجمن احمدیہ نے دولاکھ تحریک جدید نے پچاس ہزار مجلس انصار اللہ نے ایک لاکھ انجمن وقف جدید نے اور ایک لاکھ خدام الاحمدیہ نے ادا کر دیا ہے.اس کے علاوہ جماعت سیالکوٹ نے دس ہزار دیا ہے.لجنہ ان سب کی ممنون ہے.بیرون لجنات کے وعدے اس میں شامل نہیں.دعا کریں کہ ہال کی تعمیر جلد ہو اچھی ہو اور اس ہال میں اس وقت میں احمدی خواتین اور لجنہ کی نمبرات کو احمدیت کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی توفیق ملے.انشاء اللہ ارادہ ہے کہ بہت جلد ربوہ کے علیحدہ دفتر کی بنیاد بھی رکھ دی جائے.ربوہ کی لجنہ کا کام بہت وسعت اختیار کر چکا ہے.ضرورت ہے کہ ان کا دفتر سٹور اور ان کی سیکرٹریوں کے لئے الگ کمرے ہوں.ربوہ کی بہنیں اور محلوں کی عہدہ دار کوشش کریں کہ جلد سے جلد ادائیگی ہو.جو بلی سے قبل ہال اور دفاتر مکمل ہو جائیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہال کے انداز آخرچ سے زائد رقم جمع ہو چکی ہے.الحمد للہ.یادر ہے کہ عمارتوں کا بن جانا بے شک خوشی کا موجب ہوتا ہے لیکن اس سے زیادہ خوشی کا موجب یہ امر ہے کہ ہمارے دلوں میں تبدیلی پیدا ہو اور ہم ویسے بن جائیں جیسے حضرت بانی سلسلہ ہمیں دیکھنا چاہتے تھے.دعا میں اپنی اُن پہلی اور انتھک کام کرنے والی بہنوں کو نہ بھولیں جنہوں نے لجنہ کو ترقی دینے کے لئے بے لوث قربانیاں دیں.اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ان پر نازل ہوں بے شک آج وہ ہم میں نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہماری خوشی کی خبر میں پہنچا دے گا.میری دعا ہے کہ جب ہم اس دنیا کو چھوڑیں تو سرخرو ہوں اور لجنہ کا قافلہ ترقیات کی منازل طے کرتا ہوا اسی طرح رواں دواں چلتا چلا جائے اور مستورات کی تربیت کرنے میں کامیابی حاصل کرے تا کہ آئندہ آنے والی نسلیں سلام بھیجیں آپ پر کہ یہ وہ مائیں تھیں جنہوں نے اپنی آنے والی نسل کا رُخ نیکیوں اور قربانی کی طرف موڑا.خدا کرے ایسا ہی ہو.رپورٹ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ 1987ء)

Page 501

خطابات مریم 476 خطابات دورہ بہاولنگر محترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے فرمایا کہ جس طرح دنیا کے کاموں میں ہر ممکن کوشش کرتی ہیں کہ ان میں کوئی نقص باقی نہ رہ جائے.اسی طرح دین کے بارے میں کیوں نہیں سوچتیں.مجھے بے حد افسوس ہوا کہ اکثر مجالس کی طرف سے ایک نمائندہ بھی شامل نہ ہوسکا.وعدہ تو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا ہے اور عمل اس قدر اس کے برعکس اور جو اس وقت موجود ہیں وہ تقریباً ساری عہدیدار ہیں آپ کو شکایت ہے کہ اجلاسوں میں حاضری بہت کم ہوتی ہے اس کی وجہ معلوم کرنا بھی تو آپ کا کام ہے.پروگرام دلچسپ بنائیں ان کو شوق دلائیں کہ وہ اس میں شامل ہوں.اگر ہمارے دل شمع ایمان سے منور ہو چکے ہیں تو ہم کام سے پیچھے نہیں ہٹیں گے.کیا یہ ممکن ہے کہ احمدی مرد تو دین کی خاطر ہر تکلیف اُٹھائے اور احمدی عورت ہر ذمہ داری سے ہی آزاد ہو جائے کیا یہ دین ہے کہ دنیا کے تو سارے کام کرنے ہیں لیکن دین کے کام کیلئے کوئی معمولی سی کوشش بھی نہیں کرنی ؟ پھر فرمایا کہ بیعت کے مقصد کو سامنے رکھیں.ثابت قدم اور متحد ہو کر چلیں تو بڑے سے بڑا دشمن بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا.اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے آگے اپنی ساری محبتوں کو قربان کر دیں.سمعنا واطعنا کا سبق سیکھیں.خدا کی خاطر جو بھی عہد یدار مقرر ہو اس کے ساتھ تعاون کریں اور انکساری پیدا کریں.سَیّدُ الْقَوْمِ خَادِمُهُمُ اگر آپ سب کا ایک مقصد ہو تو لڑائی جھگڑے کا تو ماحول پیدا ہو ہی نہیں سکتا.آخر میں آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرواؤں گی کہ خدا تعالیٰ کی طرف جو ہدایت نامہ آیا ہے وہ قرآن مجید ہے جب تک اس کا ترجمہ نہیں سیکھیں گی ہدایت کے راستہ پر کیسے چل سکیں گی.ہم نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری اور ارشاد سے قرآن مجید کا ترجمہ تلاوت کی ایک کیسٹ تیار کی ہے.دعا کریں کہ ہم قرآن مجید کا پورا ترجمہ کیسٹ کے ذریعے آپ تک پہنچا سکیں.انشاء اللہ.پیارے آقا کی وطن واپسی کے لئے ہر دم دعا گور ہیں تا وہ بہاروں کے دن پھر واپس آ سکیں.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور مجھے بھی دین کی خدمت کی توفیق عطا فرما دے.آمین (ماہنامہ مصباح مارچ 1987ء)

Page 502

خطابات مریم 477 خطابات دوره ضلع چکوال 9 مارچ 1987ء کو حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ مرکز یہ ضلع چکوال کے دورہ کے لئے دوالمیال تشریف لے گئیں آپ نے حاضر مجالس کی عہدیداران کو ان کی کارکردگی سے آگاہ کرتے ہوئے ضروری نصائح فرمائیں.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا کہ موجودہ حالات میں جلسے اور اجتماعات بند ہونے کی وجہ سے ملاقات کے ذرائع بند ہو گئے ہیں.دور کی مجالس کا مرکز میں آنا بھی کم ہوتا ہے اس لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہر گاؤں اور قصبہ میں پہنچنا تو مشکل ہے لہذا مختلف مقامات پر ضلعی اجلاس بلوائے جائیں اور دورہ کر کے کام کو تیز تر کرنے کی کوشش کی جائے.یہ دورہ بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے.آپ نے فرمایا کہ آپ بہت خوش قسمت ہیں اس مہدی کو مانا ہے جس کی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ میں آنے کی بشارت دی تھی.آپ کو یہ نعمت ورثہ میں ملی ہے.آپ کے آباؤ اجداد نے بہت سی قربانیاں دی تھیں.اب جس زمانہ سے ہم گزر رہے ہیں وہ بھی بہت سے قربانیوں کا متقاضی ہے آپ اپنے نفسوں کا جائزہ لیں کہ کیا آپ کے اعمال بھی ویسے ہی ہیں جیسا کہ آپ کے بزرگوں کے تھے اگر ایسا نہیں تو سوچیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے؟ نیز فرمایا کہ قرآن کریم میں جس جس جگہ ایمان کا ذکر ہے وہاں ساتھ ہی اعمال صالحہ کا ذکر موجود ہے.جب تک ایمان کے پودے کو عمل کے پانی سے نہ سینچا جائے اس وقت تک یہ پودا نشو و نما نہیں پاتا.پھر آپ نے خواتین کو خدا کے لئے تقویٰ کی باریک راہوں کو اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی اور اس سلسلہ میں حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے تقویٰ سے متعلق ارشادات پیش فرمائے.نیز آپ نے قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلائی.چھوٹی چھوٹی غفلتیں اور سستیاں جو انسان کو ترقی کی راہوں

Page 503

خطابات مریم 478 خطابات سے دور لے جاتی ہیں انہیں چھوڑنے کی تلقین فرمائی.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی مصروفیات کا ذکر فرمایا اور آپ کے لئے بہت زیادہ دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلائی تا خدا تعالیٰ جلد کامیاب و کامران واپسی کے اسباب مہیا فرمائے.آپ نے فرمایا کہ خواتین کے قدم مردوں سے بھی زیادہ تیز ہونے چاہئیں کیونکہ خدا نے عورت کو مرد سے زیادہ درجے دیئے ہیں کبھی وہ ماں ہے ، بیوی ہے ، بہن ہے، بیٹی ہے ہر روپ میں اس کی علیحدہ ذمہ داریاں ہیں جب کہ ماں اپنے بچوں کے سامنے اپنے عمل کا صحیح نمونہ پیش نہیں کرے گی اس کے بچے صحیح تربیت حاصل نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی اُن میں قربانی کی روح پیدا ہو سکے گی.آپ اُس نعمت کی قدر کریں جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ذریعے آپ کو ملی.آپ نے ہی ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور پیار پیدا کیا.جس کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ کائنات پیدا کی.پس آپ کی تعلیمات پر عمل کریں.بدرسم اور بدعت کو چھوڑ دیں.خدا تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا کریں.آپ کا ہر عمل حضرت بانی سلسلہ کے اس شعر کا مصداق ہو کہ تیرے منہ کی ہی قسم اے میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اُٹھایا ہم نے خدا کرے کہ ہم سرخرو ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح بھی ہم سے خوش ہو کہ ہم نے اپنی تمام ذمہ داریوں کو پورا کر دکھایا.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ 1987ء)

Page 504

خطابات مریم 479 خطابات خطاب لجنہ اماءاللہ لندن 1987ء تشہد،تعوذ کے بعد فرمایا:.ہر انسان مذہب اس لئے اختیار کرتا ہے کیونکہ اس کو جستجو ہوتی ہے کہ مذہب کیا ہے.وہ راستہ جس پر انسان چلتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ”سرمہ چشم آریہ میں فرماتے ہیں.مذہب کی جڑ خدا شناسی ہے.مذہب انسان کو خدا تک نہیں پہنچا سکتا وہ سچا مذ ہب نہیں ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ مذہب لائے.جو اسلام ایک زندہ مذہب ہے.اسلام ایک ایسا مذ ہب ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے بھٹکے ہوئے انسانوں کے لئے اپنے بندوں کو مبعوث کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.میں بنی نوع انسان کو اس راستے پر چلانے آیا ہوں جس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چلایا.آپ کوئی نیامد ہب نہیں لائے.درخت کے ساتھ اس کی شاخیں ہیں، پھول ہیں ان کی احتیاط کرنی پڑتی ہے اس کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ ضائع نہ ہو جائے.بعض لوگ درخت لگاتے ہیں لیکن ان کے پھل ان کی اولا دیں کھاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پھل کی وجہ سے ہم میں کون سی تبدیلیاں آئیں.احمدیت ایک سچا مذ ہب ہے.اگر ہم میں تبدیلی نہیں آتی جیسا کہ ہم نے ایک سچا مذہب اختیار کیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے اعمال صحیح نہیں ہیں.اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے.جب تک کہ ہمارے اعمال صحیح نہیں ہوتے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک آواز پر مدینہ کی گلیوں میں شراب بہا دی گئی لیکن ہم میں ایسی تبدیلی سالہا سال کے بعد بھی نظر نہیں آتی.عمل صالح نیک عمل کو کہتے ہیں یہ وہ عمل ہیں جن کی زمانے میں ضرورت ہو.مثال کے طور پر ایک آدمی نماز پڑھنی شروع کر دے تو اس کو عمل صالح کہیں گے جبکہ جان بچانے کی ضرورت ہو تو ایک شخص نماز نہیں تو ڑتا تو یہ عمل صالح نہیں ہے.مختلف وقتوں میں مختلف قربانی کی ضرورت ہے.حضور اقدس علیہ السلام نے کئی بار تحریکیں

Page 505

خطابات مریم 480 خطابات کیں اس میں عورتوں نے اپنے زیور دیئے.کئی ایسے خطبے ہیں جس میں حضور اقدس نے اپنے اخلاق بہتر بنانے کی تحریک کی.اسی طرح حضور اقدس نے حال ہی میں اپنی اولا دوں کو وقف کرنے کی تحریک کی ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا واقعہ ہے کہ کئی صحابہ روزہ رکھ کر بیٹھ گئے جن کے روزے نہیں تھے وہ زیادہ کام کرتے رہے تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج روزہ دار سے زیادہ غیر روزہ دار ثواب لے گئے “ اعمال صالحہ وہ اعمال ہیں جن میں وقت کی قربانی صف اول میں آتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.مذہب کے پھول اخلاق فاضلہ ہیں.عیسائیت کہتی ہے کہ اگر ایک تھپڑ مارو تو دوسرا بھی آگے کر دو.کتنے ہیں جو اس بات پر آجکل عمل کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلامی اصول کی فلاسفی میں خلق اور خلق میں فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.ایک شخص طبعا نرم ہے جو کہ ایک بلی کو بھی مار نہیں سکتا.وہ خلق ہے.یہ ایک بزدل انسان ہے لیکن ایک ایسا شخص سخت طبیعت ہونے پر بھی اپنے غصے پر قابو پا لیتا ہے وہ خلق ہے.مذہب کے اختیار کرنے کے نتیجے میں وہ اخلاق جس کی تعلیم قرآن مجید نے دی ہے اس پر عمل کرو.آپ کو جھوٹ سے نفرت تھی.آپ نے بار بار فرمایا کہ جھوٹ نہ بولو.ہمسائیوں کے حقوق کی تعلیم دی.اپنے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرو.ایسے ہزاروں واقعات ہیں کہ بیٹے ہزاروں میں کھیل رہے ہیں ماں دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہے.ماں، باپ، ہمسائے ، دور کے رشتہ داروں سے اخلاق سے پیش آؤ.اسلام نے ایسا اصول بنایا ہے جس میں ہم کنگھی کے دانوں کی طرح ہیں اگر اس کا ایک دانہ ٹوٹ جائے تو سارے ٹوٹ جائیں.اسی تعلیم کے لئے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ نے اس وقت اسلام کے لئے جنگیں لڑیں.جب ہندو اور عیسائی کہتے تھے کہ ہم غلبہ حاصل کریں گے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا کہ گلشن احمد میں بہار آئے گی.میں شریعت کو قائم کرنے آیا ہوں دین کے سوکھے باغ کی آبیاری کرنے آیا ہوں.اسلام کے دو حقوق ہیں ایک حقوق خدا کے حقوق ہیں اور دوسرے بندوں کے حقوق ہیں.ایک طرف اللہ

Page 506

خطابات مریم 481 خطابات کے حقوق ادا کرو دوسری طرف بندوں کے حقوق ادا کر و.آپ نے حضرت مسیح کا واقعہ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے پوچھے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا.میں نگا تھا تم نے کپڑا نہیں دیا.اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ بھو کا یا نگا تھا.اس کا مطلب ہے کہ میرا بندہ بھوکا تھا تم نے کھانا نہیں کھلایا.میرا بندہ نگا تھا تم نے کپڑا نہیں دیا.یہ ایک مثال ہے لیکن عبادت اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک بندوں کے حقوق ادا نہ کر دئے جائیں.ایک دفعہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے علم اور اخلاق کے متعلق پوچھا گیا آپ نے فرمایا کہ قرآن پڑھ کر دیکھو.آپ جو بھی تعلیم دیتے تھے خود اس پر عمل کرتے تھے.آپ کے اخلاق فاضلہ میں یہ چیزیں نظر آتی ہیں.دشمنوں کو معاف کرنا، ہمسایوں سے سلوک کرنا ، یتیموں کے ساتھ سلوک کرنا ، کون سا ایسا کام ہے جس کا نمونہ آپ کی زندگی سے نہیں ملتا.ان سب باتوں کو تازہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا اور خلافت کا سلسلہ جاری کیا کہ سب باتیں تازہ رہیں.ہمارے اخلاق اور عمل اس بات کی گواہی دیں کہ حضرت مهدی موعود بچے ہیں اور لوگ یہ کہ سکیں کہ اگر نمونہ دیکھنا ہے تو جماعت احمدیہ میں دیکھو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ درخت کے پھل برکات روحانیہ ہیں.درخت کے پھل کی سب سے زیادہ قدر ہوتی ہے اگر سب برکات ظاہر ہو جائیں تو دیکھنا ہے کہ پھل کیسے ہیں صرف یہی کہ دینا کہ ہم احمدی ہیں کافی نہیں.اس سے مذہب کی غرض پوری نہیں ہوتی.ان اعمال کے سلسلہ میں ایسے پھل اور پھول پیدا نہیں ہوتے جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.سب سے زیادہ پیار کرنے والی ہستی خدا تعالیٰ کی ذات ہے.ہر ایک انسان کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ کیسے اس کی رضا حاصل ہو.سورۃ تو بہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہاری اولاد اور تمہاری دولت تمہیں خدا تعالیٰ کے حصول سے پیارے ہیں تو اس دن کا انتظار کرو جب خدا تعالیٰ اس کا فیصلہ کرے.انسان میں صرف اور صرف خدا کا پیار ہونا چاہئے.اگر انسان کو یہ حاصل ہو جائے تو سب کچھ حاصل ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس پھل سے فائدہ اُٹھا نا مطمئنہ ہے.خدا تعالیٰ کی معرفت تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی.بعض لوگ تقویٰ بہت بڑی نیکی کو کہتے -

Page 507

خطابات مریم 482 خطابات ہیں.تقویٰ کیا ہے.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ چھوٹی چھوٹی بداخلاقیوں سے بچنے کو تقویٰ کہتے ہیں.ہر چھوٹی سے چھوٹی بُرائی سے بچنا چاہئے.چھوٹی بُرائی بڑی بُرائی کی طرف لے جاتی ہے چھوٹی نیکی بڑی نیکی کی طرف لے جاتی ہے.محبت حسن سے یا احسان سے پیدا ہوتی ہے.ایک خوبصورت چیز کو دیکھ کر دوبارہ دیکھیں گے.خدا تعالیٰ کی معرفت اس کے حسن اور احسان سے پہچانی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو کیا کیا انعام دئے ہیں.یہ صفت رحمن ہے.رحیمیت کی صفت اس کے انعامات ہیں.رحمن اور رحیمیت خدا تعالی کی دوصفات ہیں.جب تک ان دونوں کو نہ پہچانو اس وقت تک خدا تعالیٰ سے سچی محبت پیدا نہیں ہوتی.جتنی معرفت خدا تعالیٰ سے پیدا ہوگی اتنی ہی محبت اللہ تعالیٰ کے لئے پیدا ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام تمام برکات دینیہ کا مجموعہ ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر کر دیا ہے کہ جو قرآن پڑھیں گے عزت پائیں گے.قرآن پڑھو اور پڑھاؤ.بچیاں مشکل سے مشکل کام کرتی ہیں صرف مشکل لگتا ہے تو قرآن.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے قرآن کو آسان بنا یا پڑھنے کے لحاظ سے بھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلی سٹیج خادم اور مخدوم والی ہے.جیسا کہ ایک نوکر اس وقت اچھا ہوتا ہے جب وہ مالک کی مرضی کے مطابق کام کرے.یعنی بندے جب اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کریں تو اس کے مقرب بندے ہوتے ہیں.دوسری سٹیج باپ اور بیٹے کی مناسبت ہوتی ہے باپ جیسا کام کرتا ہے بیٹا ویسا کام کرتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کو ایسے یاد کرو جیسے کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو یا اس سے زیادہ یاد کرو.تیسری سٹیج انبیاء کی صفت معاف کرنا ہے.چاہے کسی نے ستایا ہو.ہر کوئی اپنے پیمانے اور درجے کے مطابق پیار حاصل کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) دنیا والوں کو بتا دو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ تم سے پیار کرے تو صرف اورصرف ایک ہی راستہ اختیار کرو وہ یہ کہ اس کی بتائی ہوئی راہوں پر چلو.یہ بات بہت ضروری ہے کہ ترجمہ سیکھو اِس

Page 508

خطابات مریم 483 خطابات بات کا جائزہ لیا کرو کہ ان چیزوں پر عمل کرتی ہوں کہ نہیں.قرآن کریم میں 700 احکام ہیں.اگر کوئی ایک بھی تو ڑتا ہے تو بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے.قرآن کریم میں پہلی قوموں کے زوال کے اسباب ہم لوگوں کے لئے سبق حاصل کرنے کو بیان کئے گئے ہیں.ہزاروں درود و سلام ہوں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو آئے ، ورنہ ہم اندھے ہی جاتے.ہزاروں سلام ہوں مہدی موعود پر جن کی وجہ سے ہم سچے انسان بنے.سچا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ سے دوسروں کو ایذاء نہ پہنچے.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ سب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بتائی ہوئی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آخر میں آپ نے ماؤں سے تاکید کی کہ بچیوں کو ہر کام چھڑا کر بھی کلاس کے لئے بھیجیں کیونکہ یہ اگلی صدی کی مائیں ہیں.میں امید کرتی ہوں کہ آپ سب اس طرف توجہ دیں گی.از رپورٹ لجنہ اماء اللہ لندن 1987ء)

Page 509

خطابات مریم 484 خطابات خطاب ناصرات الاحمدیہ جرمنی (18 ستمبر 1987ء) اشهد ان لا اله الا الله وحده لاشريك له واشهد ان محمد عبده و رسوله اما بعد فاعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم سورۃ فاتحہ کے بعد آپ نے فرمایا: میری بہت ہی پیاری عزیز بچیو ! السلام علیکم آپ سب کو مل کر اور دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے اور خدا کے فضل سے اچھی خاصی تعداد میں تربیتی کلاس لگی ہوئی ہے.اس میں شامل ہونے والی بچیوں اور ان کے نتائج معلوم ہونے سے بڑی مسرت محسوس کر رہی ہوں.پروگرام تو تھا میں نے لکھا ہوا تھا لیکن یہ کہ عین اس وقت میں یہاں یعنی جب کہ آپ کی کلاس کا افتتاح ہو رہا ہے.سب سے پہلا پروگرام آپ ہی کا ہے اس لئے اپنی بچیوں سے کچھ باتیں کروں گی میں امید کرتی ہوں کہ وہ توجہ سے سنیں گی.سمجھنے کی اور عمل کرنے کی کوشش کریں گی.آج سے اٹھانوے سال پہلے قادیان کی بستی میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو بھیجا اس لئے بھیجا کہ لوگ اسلام سے دور جا چکے تھے.اپنے پیدا کرنے والے رب سے ان کا کوئی تعلق نہیں رہا تھا.مختلف قسم کی بُرائیوں اور گندگیوں میں وہ مبتلا ہو گئے تھے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو بھیجا وہ اکیلے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے بہت وعدے کئے کہا ” میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا آج سے اٹھانوے سال پہلے جو آدمی ہوں گے اس وقت وہ سوچتے ہوں گے کہ یہ کوئی دیوانے کی باتیں ہیں.کوئی شاید پاگل شخص ہے اتنی بڑی بات کہ ساری دنیا مجھے ماننے لگ جائے گی اور دور دور تک تیری تبلیغ پہنچے

Page 510

خطابات مریم 485 خطابات گی.تیری آواز پہنچے کی تیری تعلیم پہنچے گی.خدا لوگوں کے دلوں میں الہام کرے گا جو تیری مدد کریں گے لوگ دور دور سے آئیں گے جو تجھ پر سلام بھیجیں گے بظاہر یہ کہانیاں سی لگتی تھیں لگتی ہوں گی اس وقت.اس وقت تو نہیں لگتیں.لیکن آج ہم خود اپنی نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ قادیان سے جو جماعت شروع ہوئی تھی وہ دنیا کے کونے کونے میں پھیلتی چلی گئی کون سا ایسا ملک ہے آج کہ جہاں احمدیت نہیں پھیل چکی جہاں ہمارے مبلغین نہیں پہنچ رہے.آپ کو اس کا احساس ہونا چاہئے کہ آپ میں سے ایک ایک بچی کا وجود صداقت ہے حضرت مسیح موعود کی سچائیوں پر.کیونکہ آپ لوگوں کی یہاں موجودگی ثابت کرتی ہے کہ آپ سچے تھے.ان کو تو نہیں پتہ تھا کہ اتنے عرصہ میں احمدی جا بسیں گے جرمنی میں ، ڈنمارک میں ، کوئی ناروے میں ، کوئی سویڈن میں کوئی ہالینڈ اور اسپین میں کوئی تحکیم اور کوئی انگلستان میں جابسیں گے.تو میری بچیو جہاں آپ کا وجود آپ کا ہونا اس ملک میں رہائش اختیار کرنا آپ کا اس ملک میں اور یہاں احمدیت پھیلانے کا موجب بنا حضرت مسیح موعود کی صداقت کی دلیل ہے وہاں آپ پر بہت ذمہ داریاں آپڑتی ہیں.ابھی چھوٹی ہیں اس لئے ممکن ہے کہ میری تقریر کو بعض نہ پوری طرح سمجھ سکیں میں کوشش کر رہی ہوں اور آسان زبان میں بول رہی ہوں لیکن بحیثیت احمدی ہونے کے آپ مسلمان ہیں بڑے ہو کر آپ نے ان ذمہ داریوں کو سنبھالنا ہے اور آپ نے احمدیت کو پھیلانا ہے پورے نمونے سے پورے اخلاق سے اپنی تعلیم سے، اپنی انسانیت کی خدمت کرنے سے تو جو کام آپ نے کرنا ہے اس کی تیاری ابھی سے کرنی پڑے گی.آپ سکول جاتی ہیں جو آپ نے آخری امتحان سکول کا پاس کرنا ہوگا جب پہلی جماعت میں آپ داخل ہوتی ہیں اس وقت سے آپ کی تیاری شروع ہو جاتی ہے.پہلی سے دوسری میں تیسری میں ، تیسری سے چوتھی میں جائیں گی ہوتے ہوتے جو آپ کی آخری کلاس ہوگی تبھی آپ وہاں سے نکل کر کالج جاسکتی ہیں.پھر یو نیورسٹی جا سکتی ہیں یہ نہیں ہوتا کہ ایک سیڑھی پر تو قدم نہ رکھو اور دوسری سیڑھی پر پھلانگ کر چڑھ جائے آدمی.یہ دنیا کا قاعدہ ہے کہ قدم بقدم چلا جاتا ہے.نیچے سے اوپر چڑھا جاتا ہے جو کام آپ نے آج سے دس سال بعد کرنا ہے جو کام آپ نے پندرہ سال بعد کرنا ہے جن ذمہ داریوں کو اُٹھانا ہے تیاری اس کی بچیو آج کرنی ہے اور اس کے لئے پہلی چیز علم دین کا

Page 511

خطابات مریم 486 خطابات سیکھنا ہے.ٹھیک ہے دنیاوی تعلیم آپ کی بڑی اعلی طریق پر ہو رہی ہوگی بہترین سکولوں میں آپ پڑھ رہی ہوں گی لیکن دنیاوی تعلیم سے نہ آپ کو دین سے محبت ہو سکتی ہے نہ آپ دین کی ذمہ داریاں اُٹھا سکتی ہیں.جب تک آپ خود دین کو نہ سیکھیں ، اپنی عقل عمر اور سمجھ کے مطابق اس کے لئے جہاں ایک طرف آپ کی سیکر ٹریان ناصرات ہیں اور عہدے دار ہیں ان کا فرض ہے کہ آپ کو سکھائیں اور ماؤں کی سب سے زیادہ بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ اجلاس تو سیکرٹری کے ساتھ آٹھ یا پندرہ دن کے بعد ہو جائے گا جو بھی مقرر ہے وہ کبھی کبھی یا تو کلاس لگا لے گی روزانہ تو آپ کی ذمہ دار مائیں ہی ہوتی ہیں اور مائیں یہاں بہت کم ہیں.ان سے تو انشاء اللہ تعالی کل خطاب کرنے کا موقع ملے گا لیکن آپ کا بھی فرض ہے کہ جو بھی آپ کو سکھایا جائے جو دینی بات آپ کو سکھائی جائے آپ اس کو اچھی طرح یاد رکھیں اور بھولیں نہ حالانکہ آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جس ملک میں آپ رہتی ہیں ان کی نقل نہیں کرنی ہے.ان کو دین سکھانے آئے ہیں یہاں آپ نے اس تعلیم پر عمل کرنا ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم لائے تھے جس کو پھر سے پھیلانے کیلئے حضرت مسیح موعود دنیا میں آئے اور جس کو آپ کے خلفاء کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں جس مقصد کیلئے مبلغ بھیجے جاتے ہیں اور لجنہ قائم ہوئی ہے انصار اللہ اور اطفال الاحمدیہ قائم ہوئی ہیں ان سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہم اپنے بچوں اور بچیوں کو سچے مسلمان بنا ئیں.خدا سے محبت کرنے والے بنائیں.مذہب کی غیرت رکھنے والے اور محبت رکھنے والے ہوں لڑکیوں پر تو لڑکوں سے زیادہ ذمہ داریاں پڑتی ہیں کیونکہ آگے قوم کی ذمہ داریاں عورتوں کے سر زیادہ ہوتی ہیں.مرد تو باہر رہتے ہیں.سارا دن کے تھکے ہارے آئے جس کو توفیق ملی کام کیا.لیکن وہ مائیں آج کی بچیاں تو جو کل کی مائیں بنیں گی اگر وہ آج دین میں اچھی طرح ہوں گی اگر اچھی طرح انہیں دین نہیں آئے گا وہ کیسے باقی لوگوں کو تعلیم دے سکتی ہیں تو یہ نہ سمجھو کہ ابھی ہم بہت چھوٹی ہیں.جس طرح پہلی کلاس پاس کئے بغیر آپ دوسری کلاس میں نہیں جاسکتیں اسی طرح میری پیاری بچیوا بھی سے آپ نماز قرآن حدیث جو کچھ بھی اپنی اپنی عمر کے مطابق ہے اپنے دین کی واقفیت.کیا اختلاف ہے ہمارا دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اور اسلام کی خوبی کے دلائل اپنی اپنی عمر کے مطابق سیکھیں اور

Page 512

خطابات مریم 487 خطابات سمجھیں.پندرہ سال کی عمر ناصرات کی عمر ہے.پندرہ سال تک بچیوں کو اتنا ہو جانا چاہئے کہ جب وہ لجنہ میں قدم رکھیں تو پوری طرح اپنی ذمہ داریوں کو سنبھالنے والی ہوں.یہ ٹھیک ہے کہ عمر کے ساتھ انسان کا تجربہ بڑھتا ہے.علم بڑھتا ہے مشاہدہ بڑھتا ہے وہ تو بڑھتا رہے گا آپ کا لیکن جن بچیوں نے بچپن میں ناصرات کی ٹریننگ نہیں حاصل کی ہوگی اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس بچپن میں نہیں کیا ہوگا وہ اس تنظیم کی ذمہ داریوں کو نہیں اُٹھا سکیں گی.رسول اللہ علی کے ذریعے ایک نئے معاشرے کی بنیاد رکھی گئی تھی.ایک ایسا معاشرہ جو دنیا میں مثالی معاشرہ تھا.آپ جب بڑی ہو کر تاریخ اسلام پڑھیں گی تو آپ کو علم ہوگا کہ آج کی جو ترقی یافتہ قومیں ہیں انگریز ہیں یا جرمن یا فرانسیسی ہیں جو بڑی پرانی قو میں سمجھی جاتی ہیں انہوں نے جو کچھ سیکھا اور سب سے بڑی ROME کی EMPIRE تھی اس زمانے میں سب مسلمانوں سے سیکھا.مسلمانوں کے زمانے میں جو انگریزوں کی حالت تھی جس طرح شہروں میں رہنے والے دوسروں کو جانگلی (جنگلی ) کہتے ہیں لیکن افسوس کہ مسلمان جو ساری دنیا پر چھائے تھے جنہوں نے ملک پر ملک فتح کئے تھے.فرانس کے بارڈر تک پہنچ گئے تھے انہوں نے جب اسلام پر عمل کرنا چھوڑا تو وہی مسلمان جو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے تھے وہ ذلت کے گڑھے میں جا پڑے جب تک وہ قرآن مجید کے حکموں پر چلتے رہے وہ ترقی کرتے گئے جب اُنہوں نے قرآن کی تعلیم کو چھوڑا تو اللہ تعالیٰ نے بھی اُن کو چھوڑ دیا لیکن خدا اپنے بندوں کو کبھی گمراہ نہیں چھوڑتا.کبھی انہیں بھٹکتا ہوا نہیں چھوڑتا.اسے بڑا پیار ہے اپنے بندوں سے اور بچیو تم سے تو بہت ہی پیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ.تمہیں بھی اس سے اتنا ہی پیار کرنا چاہئے وہ سمجھتا ہے کہ بچے معصوم ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو بھیجا اس لئے بھیجا کہ وہ باغ جو آنحضرت نے لگایا تھا ( اور میری بچیو یا درکھو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا جائے تو ان پر در و دضرور بھیجا کرو ) وہ سوکھ گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے سے پھر اس باغ میں بہار آئی.آپ اس کے ننھے منے پھول غنچے ، شگوفے ہیں جس طرح درختوں پر پھول کھلتے ہیں.ننھی منھی کلیاں ہوتی ہیں.بڑی ہماری نظریں ہیں آپ پر.بڑی امیدیں وابستہ ہیں اپنی بچیوں سے جب آپ بڑی ہوں گی اور یہ کام سنبھالیں گی بڑی نسل میں سے کئی ایسی ہیں جو پڑھی لکھی ہیں.تعلیم نہیں ہے ان کی اس

Page 513

خطابات مریم 488 خطابات تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھا نہیں سکتیں لیکن آج کے دور میں ہر لڑکا اور لڑکی تعلیم حاصل کر رہا ہے لیکن صرف دنیاوی تعلیم کافی نہیں دینی تعلیم کا آنا بھی ضروری ہے.جس حد تک ممکن ہو اسے شوق سے پڑھیں.یہ نہ میں سنوں کہ یہ بچی اپنی کلاس میں تو بڑی ہوشیار ہے لیکن قرآن شوق سے نہیں پڑھتی جن بچیوں نے ابھی تک ناظرہ نہیں پڑھا وہ ناظرہ پڑھیں.ناظرہ کے بعد آپ ترجمہ پڑھیں اور اُردو میں پڑھ سکیں بہت اچھا ہے.اُردو ہماری زبان ہے اسے بھولنا نہیں چاہئے جن کو نہیں آتی انہیں سکھانی چاہئے تا جرمن بھی سیکھیں انگریزی اُردو بھی بول سکیں لوگ بڑی زبانیں سیکھ لیتے ہیں.اس لئے کہ ہمارا لٹریچر اُردو میں ہے.پھر آپ کو پڑھا نا مشکل ہو جاتا ہے لیکن جو یہیں پیدا ہوئی ہیں کم اُردو آتی ہے تو جرمن میں ہی ترجمہ پڑھ لیں آہستہ آہستہ عمر کے مطابق اس کا ترجمہ سیکھیں.تاریخ اسلام کا علم حاصل کریں جو جو کتابیں یہاں پر چھپتی ہیں اور یہاں ملتی ہیں ان کا مطالعہ کریں اور جو پڑھانے والیاں اور عہدیدار آپ کو سکھائیں ان کی پوری پوری اطاعت کرتے ہوئے آپ ان کو سیکھیں اور ان کے ساتھ تعاون کریں.میں مبارک باد دیتی ہوں ان بچیوں کو جنہوں نے سٹیفکیٹ حاصل کئے اور جنہوں نے اچھے نمبر حاصل نہیں کئے ان سے بھی امید رکھتی ہوں کہ وہ آئندہ سال محنت کر کے آگے نکلنے کی کوشش کریں گی اور اگلی کلاس میں اس سے بھی زیادہ تعداد ہوگی کیونکہ جرمنی میں بفضل خدا بہت جماعت پھیل چکی ہے اور اکثریت یہاں پاکستان سے آئی ہوئی ہے خواتین اور مردوں کی مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے خاص طور پر ناصرات کو دیکھ کر کیونکہ ہمیشہ ترقی کرنے والی قو میں حال کو نہیں بلکہ مستقبل کو دیکھتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا.ہر شخص کو چاہئے کہ وہ دیکھتار ہے کہ کل کے لئے اس نے کیا کیا.اس میں مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے کہ تم یہ نہ دیکھو تمہارا آج کا زمانہ کیسا گزر رہا ہے تم کیسے ہو.اپنی ترقیوں پر خوش نہ ہو جانا تم یہ دیکھو کہ کل کے لئے تم نے کیا کیا ہے.تمہاری قربانیاں اگر اگلی نسل دینے کو تیار نہ ہوئی تو ضائع چلی جائیں گی وہ ایک نسل تک محدود ہو جائیں گی اور کوئی زندہ رہنے والی قوم ایک نسل پر خوش نہیں ہوتی.اس کی ہر اگلی نسل پہلے سے زیادہ ترقی یافتہ پہلے سے زیادہ قربانی دینے والی پہلے سے زیادہ خلیفہ وقت کے احکام پر لبیک کہنے والی پہلے سے

Page 514

خطابات مریم 489 خطابات زیادہ مذہب سے محبت کرنے والی اور مذہب کیلئے غیرت رکھنے والی پیدا ہوگی.خدا کرے کہ یہ نصیحتیں آپ کو یا در ہیں اور اس روشنی میں سیکرٹریاں بھی آپ کی تربیت کی طرف توجہ دیتی رہیں اور آپ خود بھی اور یہ بات ہمیشہ مد نظر رکھیں کہ ہم نے جرمن کی نقل نہیں کرنی کہ ہم جرمنی میں آ گئی ہیں اس لئے جو یہاں لوگ کرتے ہیں ان جیسا لباس پہنے لگ جائیں ان جیسی حرکتیں کرنے لگ جائیں یہ لوگ تو دین سے دور جا پڑے ہیں.حضرت مسیح موعود کے خلفاء آپ کے مقرر کردہ مشنز اس لئے قائم کئے گئے ہیں اس لئے مبلغ یہاں بھیجے جاتے ہیں تا کہ ان کو توجہ دلائیں کہ اپنے حقیقی رب کی طرف توجہ کریں لیکن آپ کو بڑی نعمت عطا ہوئی ہے کہ آپ احمدی گھرانوں میں پیدا ہوئی ہیں.کتنی بڑی نعمت ہے شکر کریں اللہ کا آپ احمدی ہیں شکر کریں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو احمدی ماں باپ کے گھر میں پیدا کیا ہے اور حضرت مسیح موعود کی جماعت میں پیدا کیا ہے.ٹھیک ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہی حکم ہے کہ رزق کی تلاش میں اللہ کی زمین بہت بڑی ہے کہیں بھی جانا پڑے رہو، لیکن اپنے اصولوں کو مد نظر رکھ کر رہو.ہم مسلمان ہیں احمدی ہیں ہم حضرت مسیح موعود کی جماعت میں سے ہیں ہم نے ان لوگوں کی نقل نہیں کرنی ہے.ہم نے ان کو اپنا نیک نمونہ دکھانا ہے تا کہ وہ ہمیں دیکھ کر کہنے پر مجبور ہو جائیں.ان کے عقائد کچھ سہی مگر یہ حقیقت میں ایک زندہ رہنے والی قوم ہیں.خدا کرے ایسا ہی ہو.از تاریخ لجنہ جرمنی 165 تا 169)

Page 515

خطابات مریم 490 خطابات لجنہ اماءاللہ فرینکفورٹ کی نیشنل اور لوکل عاملہ سے خطاب جرمنی میں دوروں کے دوران سیدہ صدر صاحبہ کے ناقابل فراموش خطابات کا خلاصہ درج ذیل ہے.آپ نے فرمایا: مذہب کی جڑ خدا شناسی اور معرفت نعماء الہی ہے اور اس کی شاخیں اعمال صالحہ اور اس کے پھول اخلاق فاضلہ ہیں اور اس کا پھل برکات روحانیہ اور نہایت لطیف محبت ہے جو رب اور اس کے بندہ میں پیدا ہو جاتی ہے اور اس پھل سے متمتع ہونا روحانی نقدس و پاکیزگی کا مثمر ہے“.(روحانی خزائن جلد 2 ، سُرمه چشم آریہ صفحہ 281) آپ نے فرمایا کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل دنیا پر روحانی اور اخلاقی اندھیرے تھے آپ اپنے ساتھ مکمل طریقہ حیات قرآن پاک کی صورت میں لائے اور دنیا کو تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے گئے.آج کے تہذیب یافتہ لوگ جدید فلسفے یا عیسائیت کی تعلیم کو روشنی سمجھتے ہیں.جدید تہذیب روشنی نہیں جس کے ساتھ عزیز خدا ہے وہ دشمنوں پر غالب ہے ظاہر اندھیرے نہیں جس کے ساتھ خدا ہے وہ اندرونی اندھیروں پر بھی غالب ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ دونوں قرآنی وعدے پورے ہوئے اور مسلمان دنیا پر نہ صرف غالب ہوئے بلکہ علوم کی بنیاد ڈالنے والے ہوئے لیکن جب انہوں نے قرآنی تعلیم پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو ذلت کے گڑھے میں گر گئے اور خدا تعالیٰ کے رحم نے جوش مارتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا کہ وہ لوگوں کو قرآنی تعلیم کے ذریعہ پھر سے جگائیں.آپ کی حیثیت ایک بیج کی طرح ہے جس طرح باغ میں بیج لگایا جا تا ہے پانی دیا جا تا ہے

Page 516

خطابات مریم 491 خطابات بڑا ہو کر تناور درخت بن جاتا ہے جس کی چھاؤں میں سینکڑوں لوگ پناہ لیتے ہیں.خدا تعالیٰ آپ کو یہاں مصلحتوں کے تحت لایا ہے ان ترقی یافتہ قوموں سے گھبرائیں نہ کہ ہم تعداد میں تھوڑے ہیں.آپ دعائیں کریں کہ آپ کے قدم مضبوط ہوں.آپ کے ایمان میں برکت ہو اور بڑی مضبوط جماعتیں قائم ہوں.ہمیشہ چھوٹی جماعتوں کو بڑی جماعتوں پر غلبہ حاصل ہوتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قلیل جماعت کو اس لئے غلبہ حاصل ہوتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے.آپ نے سورہ تو بہ اور سورۃ المومنون سے حوالے دیتے ہوئے فرمایا کہ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں.ان کے اندر جھگڑا نہیں ہوتا.ایک دوسرے کی بُرائیاں نہیں کرتے.غیبت نہیں کرتے ، دینی و دنیاوی کاموں میں مدد کرتے ہیں اور وہ ہاتھ کی پانچ انگلیاں ہیں اچھے کاموں کا ایک دوسرے کو حکم دیتے ہیں پس خدا کی رضا کو حاصل کریں.ایک دوسرے کی معاون بنیں اکڑنا نہیں، تکبر نہیں کرنا.دوسرے کا سہارا بننا ہے.دین کا مطلب ہے کہ دوسروں کی بُرائیاں چھڑوا دو اور نیکیوں میں مدد دو.حدیث قدسی ہے کہ بُرا کام ہاتھ سے روکو اگر اس کی طاقت نہیں تو زبان سے روکو اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو کم از کم دل میں بُرا سمجھیں اور یہ ایمان کا کمزور درجہ ہے.آپ یہاں کی نقالی ہرگز نہ کریں.ان کی تہذیب اور مذہب اور ہے ہمارا اور ہے کہ اگر ہم نے پردہ نہیں کیا تو کیا ہو جائے گا.اگر ہم نے اجلاس اٹینڈ نہیں کئے تو کیا ہو جائے گا ؟ اگر ہم نے چندہ نہ دیا تو کیا ہو جائے گا ؟ اُمت محمدیہ کو یہ حکم دیا گیا کہ ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دو.بُرائیوں سے روکو، نماز قائم کرو، نماز وہ نیکی ہے جس کو اگر با قاعدگی سے ادا کیا جائے تو انسان بہت سی بُرائیوں سے بچ جاتا ہے.نماز کی روحانی طاقت بُرائی سے بچالیتی ہے.ایمان بغیر عمل کے نہیں پنپتا خدا کا پیار حاصل کرنے کیلئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں.جذبات، اولاد، وقت اور مال کی قربانی.چندہ دینے والی جماعت کیلئے اگر یہ تسلسل ٹوٹ جائے تو ان کے اندر وہ زندگی قائم نہیں رہ سکتی.مومن مرد اور مومن عورت کی نشانی ہے کہ وہ خدا اور رسول کی مکمل اطاعت کرتے ہیں.قرآن کریم پر غور کریں وہ عدل وانصاف، غیروں سے محبت کا سلوک اب بھی نظر آنا چاہئے مائیں تربیت اولاد پر توجہ دیں.خود اعتمادی اور محنت کا جذبہ ان میں پیدا کر یں.تب ہی خدا کا پیارا نہیں مل سکتا ہے

Page 517

خطابات مریم 492 خطابات آپ جماعت کی نمائندہ ہیں اپنی زینت کو چھپائیں.اپنی انفرادیت کو قائم رکھیں.قرآنی اخلاق پیدا کریں.ہماری تنظیمیں موجودہ دور میں اسلامی معاشرہ قائم کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن کامیابی کا زیادہ تر دارو مدار لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کی عملی کوششوں پر ہے جتنی زیادہ تربیت ہوگی اتنی ہی کامیابی نصیب ہوگی.خدا تعالیٰ وہ وقت لائے کہ اللہ کے فضلوں اور رحمتوں کی بارش اس رنگ میں اس ملک پر پڑے کہ یہاں کے لوگ اسلام قبول کریں.جنہوں نے یہاں اسلام قبول کیا ہے اُنہوں نے پاکستانیوں سے بہتر نمونہ دکھایا ہے وہ اُردو بھی سیکھ رہی ہیں وہ پر وہ بھی کر رہی ہیں وہ تبلیغ بھی کر رہی ہیں.آپ کے سامنے ترقی کرنے کیلئے مقصد ایک ہو کہ ہم نے اسلام کی خاطر زندگی صرف کرنی ہے.سیدہ صدر صاحبہ نے تقویٰ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ: تقویٰ کے معنی نیکی کے نہیں بلکہ اس کے معنی گنا ہوں سے بچنا ہے متقی ہر قدم پر ڈرتا ہے اور خدا کی رضا کو حاصل کرتا ہے.کسی نے حضرت ابو ہریرہ سے پوچھا تقویٰ کیا ہے؟ آپ نے یوں فرمایا.راستے میں کانٹے ہوں گے تو کیا کرو گے؟ اس نے کہا میں ان سے بچ کر نکل جاؤں گا.آپ نے فرمایا یہی تقویمی ہے.پس عزیز بہنو اپنی زندگیوں کو قرآن مجید کے مطابق ڈھالو اپنے والدین کے ساتھ احسان کرو.رشتہ داروں سے احسان کرو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عملی کردار سے قرآنی تعلیم کی تشریح کی.آپ کا قول، فعل اور عمل قرآنی تعلیم کے مطابق تھا.خلیفہ وقت کی نصائح کو سنیں اور عمل کریں.اسلام کو زندہ رکھنے کیلئے اپنی بچیوں کی اچھی تربیت کریں.اگلی نسل کی تیاری کیلئے قربانیاں مسلسل ہوں.بچوں میں خدا تعالیٰ کی محبت ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی محبت اور جذ بہ اطاعت پیدا کریں.جو ماں خود نماز پڑھے گی جمعہ پر جائے گی ، اجلاسوں میں جائے گی ، چندے دے گی اس کا بچہ بھی اس کی پیروی کرے گا.آپ نے فرمایا کہ ماں کا فرض تو مبلغ سے بھی زیادہ ہے کہ اس نے اپنے بچوں کو بُرے ماحول سے بچانا ہوتا ہے.اگلی نسل کی تقدیر آپ کے ہاتھ میں ہے اگلی نسل کو تیار کریں کہ وہ گزشتہ کی قربانیاں برقرار رکھیں بلکہ آگے بڑھا ئیں.احمدیت کی چوتھی نسل اخلاق فاضلہ کے

Page 518

خطابات مریم 493 خطابات ذریعہ اور قربانیوں کے ذریعہ دنیا کے ہر کونے میں اسلام کا جھنڈا گاڑ دے اور دنیا کو صراط مستقیم پر چلانے والی ہو.آپ نے اس امر کی طرف خصوصی توجہ دلائی کہ ایسا نہ ہو کہ نئے آنے والے آپ کے غلط نمونے کو دیکھ کر اسلامی تصویر ہی بدل دیں وہ تو اسلام کی اصل تصویر دیکھنا چاہتے ہیں.آج احمدیت پر عیسائی دنیا کی طرف سے یہی اعتراض ہے کہ اگر تم لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ حقیقی اسلام کے دعوے دار ہم ہیں تو پھر وہی نمونہ دکھاؤ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مسلمانوں کا تھا.وہی سچائی ، وہی خوش خلقی ، وہی صفائی ، وہی عدل و انصاف اور غیروں سے محبت کا سلوک اب بھی نظر آنا چاہئے.حضرت خلیفتہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس ارشاد کو مدنظر رکھیں کہ نئی صدی میں ہم نے اپنی کمزوریوں کو چھوڑ کر داخل ہونا ہے.خدا کے وعدے اور بشارتیں پوری ہوں گی.درمیان میں ابتلاء آئیں گے مگر خدا تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق جو اس نے اپنے مسیح کے ساتھ کئے وہ تمہیں ضائع نہیں کرے گا.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے فرائض احسن رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا کرے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بوئے ہوئے بیج کو وہ تناور درخت بنادے جس کے سائے تلے تمام دنیا پناہ لے سکے.آمین تاریخ لجنہ جرمنی 172 تا 175)

Page 519

خطابات مریم 494 خطابات خطاب لجنہ اماءاللہ ڈنمارک 1987ء حضرت سیدہ چھوٹی آپا صاحبہ نے ڈنمارک میں اپنے دورہ کے دوران ایک اجلاس میں ممبرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:.پچھلے سال حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے خاص ارشاد پر سنگا پور اور انڈونیشیاء کی لجنات کا دورہ کیا تھا.اور اس سال ڈنمارک.ناروے.سویڈن اور ویسٹ افریقہ.جرمنی کے دورہ کا پروگرام ہے.حضور کا منشاء ایک تو یہ ہے کہ بیرون ممالک کی لجنہ کے حالات خود دیکھے جائیں اور پھر ان کے مطابق تربیتی پروگرام بنائے جائیں.دوسرا یہ کہ ہر لجنہ کا مزاج ایک جیسا ہونا چاہئے چاہے وہ یورپ کی لجنہ ہو یا امریکہ کی یا افریقہ کی.مزاج کا یہ مطلب ہے کہ ہم سب کا مقصد ایک ہی ہونا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس لئے مبعوث فرمایا کہ قرآن کریم کی تعلیم کو دوبارہ رائج کیا جائے.جو نعمت آپ کو ملی ہے اس سے دنیا کو روشناس کروایا جائے.اور پھر اس پر عمل بھی کروایا جائے.صرف زبانی دعوی سے دنیا آپ کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتی.جب تک کہ آپ کا عمل بھی اس تعلیم کے مطابق نہ ہو جو تعلیم آپ دنیا کو دے رہے ہیں.مختلف جگہوں پر رہنے والوں کا لباس اور کچر مختلف ہوتا ہے.لیکن سب کا مقصد ایک ہی ہونا چاہیے.ہم میں سے ہر ایک کو واقفیت ہونی چاہیے کہ اسلام پر کیا اعتراض پڑتے ہیں.ہمیں اُن کا جواب آنا چاہیے وہ اعتراضات بھی اپنے عمل سے دُور کرنے چاہئیں.ہر جگہ کی بجنات اس بات کو فرض قرار دے لیں کہ اپنے نمونہ سے انہوں نے اپنے دعوئی کو ثابت کرنا ہے.حضور نے فرمایا ہے کہ آئندہ صدی میں داخل ہونے سے پہلے ہمیں اپنی سب کمزوریوں کو دور کر دینا چاہیے.ناصرات اور اطفال کی تربیت پر بہت توجہ دینی چاہیے.کیونکہ آئندہ چند سال میں انہوں نے ہی جماعتی ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں.میرا فرض ہے کہ میں آپ کو آپکی کمزوریوں کی طرف توجہ دلاؤں.اور امید ہے کہ آپ میری باتوں پر عمل بھی

Page 520

خطابات مریم کریں گی.495 خطابات آپ نے فرمایا سب سے بڑی خیر اسلام کی نعمت ہے اور اس زمانہ میں احمدیت چونکہ حقیقی اسلام ہے حضرت مہدی موعود کے آنے کی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی بشارت دی ہے.اور اپنے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بشارت دی.آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو مہدی موعود کی جماعت میں داخل ہونے کی توفیق ملی.اس میں دوسروں کو بھی شامل ہونے کی دعوت دینا سب سے بڑی خیر ہے.اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق ہی سب سے بڑی نعمت ہے اس نعمت میں دوسروں کو بھی شامل کریں.نیکی کا حکم دینے والے بنیں.سب سے بڑی نیکی اعلیٰ اخلاق ہیں.اس لئے اعلیٰ درجہ کا اخلاق سیکھیں ہر ایک کے لئے اپنے اندر پیار اور محبت پیدا کریں.کیونکہ اس کے بغیر ہم دوسروں کی اصلاح نہیں کر سکتے.اسی لئے حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے ہمیں یہ ماٹو دیا ہے.Love For All Hatred For None ہم سب کا مقصد ایک ہی ہے اس لئے ہم سب کو آپس میں اعلیٰ اخلاق اور محبت سے رہنا چاہیے.ہماری محبت بھی خدا کے لئے ہونی چاہیے اور ہماری نفرت بھی خدا کے لئے ہی ہونی چاہیے.حضرت خلیفہ المسیح کی مکمل اطاعت کریں.پھر خلیفتہ امسیح کے مقرر کردہ امیر اور دوسرے مق نمائندگان سب عہدہ داروں سے مکمل تعاون کریں اگر امیر کی نافرمانی کریں گی تو بات خدا تعالیٰ کی نافرمانی تک پہنچتی ہے.ہماری ترقی کا راز ہی اطاعت میں ہے.نا کام وہی ہوگا جو اطاعت سے گریز کریگا آپس میں مکمل تعاون اور اعتما دضروری ہے.بُرائیوں سے منع کرنا تیسر ا حکم ہے بعض لوگ اپنی اصلاح تو کر لیتے ہیں لیکن دوسروں کو بُرائی کرنے سے نہیں روکتے اس لئے کہ اس طرح دوسرا شخص ناراض ہو جائیگا.اپنی زبان ہاتھ یا کسی ذریعہ سے دوسرے کی جان مال یا جذبات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے.اپنے اندر انکساری پیدا کریں شاید یہ بات ہی اللہ تعالیٰ کو پسند آ جائے.تکبر.غیبت.بدظنی یہ سب فساد کی جڑیں ہیں ان سے بچیں.آپس میں صلح سے رہیں محبت سے رہیں.محبت سے نصیحت کریں.معاف کرنا

Page 521

496 خطابات خطابات مریم سیکھیں.نیکی کے بھی تین درجے ہیں.اللہ تعالیٰ عدل.احسان اور قریبی رشتہ داروں سے حسن سلوک کا حکم دیتا ہے.بے حیائی.برائی اور بغاوت سے روکتا ہے.آپ نے پردہ کے متعلق بھی توجہ دلائی.کہ برقع ہر قسم کے حالات کے مطابق پہنا جا سکتا ہے.پردہ کی اصل روح کو قائم رکھنا چاہیے.مردوں کے ساتھ مکسنگ نہیں کرنی.غیر محرم ہماری زینت اور شکل نہ دیکھے.کوٹ کے اوپر نقاب پہن لیں.حضور نے بھی یہی ارشاد فرمایا ہے کہ پردہ کی اصل روح قائم رکھی جائے.پر وہ ہر جگہ کرنا چاہیے صرف مشن ہاؤس میں ہی نہیں.آپ نے پر دہ خدا کے لئے کرنا ہے.نہ کہ امام صاحب کے لئے.پردہ اس لئے کریں کہ یہ خدا کا حکم ہے.قرآن کریم کا علم حاصل کریں تا عمل کر سکیں.لاعلمی کی وجہ سے بہت سے گناہ ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.( آمین ) (از رپورٹ دورہ ڈنمارک)

Page 522

خطابات مریم 497 خطابات دورہ گوجرانوالہ 1987ء محترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے مجالس کی عہد یداران کو فر مایا کہ اگر یہ مقصد آپ کے ذہن نشین ہو جائے تو آپ کی طرف سے تساہل کا اظہار نہ ہو.مرد اور عورت گاڑی کے دو پیسے ہوتے ہیں.اگر مرد کام کریں اور عور تیں پیچھے رہ جائیں تو یہ گاڑی نہیں چل سکتی.اور ہم مردوں کے کام میں بھی رکاوٹ کھڑی کرنے والی ہوں گی.آپ نے فرمایا حضرت اقدس ) مہدی علیہ السلام اس وقت دنیا میں تشریف لائے جب بہت سے عقائد اور بد رسوم نے جنم لے لیا تھا.جیسے ایک باغ جگہ جگہ جڑی بوٹیوں سے بھر کر اپنا حسن کھو دیتا ہے.یہی حال اس وقت دنیا کا ہو چکا تھا.مسلمان خود کو مسلمان کہتے ہوئے شرماتا تھا.حضرت مسیح موعود کو خدا تعالیٰ نے الہا ماً بتایا تھا.کہ آپ کا کام يُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَة ( تذکرہ صفحہ 55) ہے اس مقصد کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے اور آ کر معاشرہ کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا.حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ اسلام قبول کر لینا اور ایمان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچنے میں بڑا فرق ہے.ہمیں اپنے اخلاق سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہم ہی صحیح مسلمان ہیں.دیانت داری سے اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں.کام کا موقع ملنا آپ کیلئے کوئی فخر کی بات نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے.اس کی قدر کریں.لجنہ کے قیام کو 65 سال کا عرصہ گزر چکا ہے.چار خلفاء آپ کی تربیت کر چکے ہیں لیکن مجالس ابھی ابتدائی حالت سے گزر رہی ہوں.بہت کم رپورٹیں مرکز میں پہنچ رہی ہیں.ان کی طرف توجہ دیں اور کام میں با قاعدگی اختیار کریں.پھر حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے حضرت مسیح موعود کا تقویٰ سے متعلق ارشاد پیش کرتے ہوئے فرمایا یہ ایک بہت اہم حوالہ ہے اور آپ کی جماعت سے محبت کو ناپنے کا ایک آلہ ہے.فرمایا کہ آپ ان لوگوں کو بیدار کریں جن کا اپنے رب کریم سے تعاون کمزور ہو چکا ہے.خدا

Page 523

خطابات مریم تعالیٰ فرماتا ہے.498 خطابات " قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله (آل عمران : 32) پس اس ارشاد کی روشنی میں آپ اپنے نفسوں کا جائزہ لیں کہ آپ کس حد تک آنحضرت ﷺ کے اُسوہ پر عمل کر رہی ہیں.آپ میں بیشتر ایسی ہیں جنہیں قرآن کریم کا ترجمہ بھی نہیں آتا.اور نہ ہی پتہ ہے کہ قرآن کریم ہمیں کن باتوں کے کرنے کا حکم دیتا ہے اور کن باتوں سے منع کرتا ہے.آپ نے فرمایا دیہات میں اب بھی بہت سی رسوم نے جنم لے لیا ہے اگر ہم نے بھی وہی کچھ کرنا ہے جو دوسرے کرتے ہیں تو ہم میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا.آپ اپنی زندگیوں میں انقلاب پیدا کریں.پھر آپ نے حضرت مسیح موعود کی کتاب انوار الاسلام کا حوالہ دیا.جس میں آپ نے فرمایا ہے جو میرے ساتھ چلنا نہیں چاہتا وہ مجھ سے علیحدگی اختیار کر لے.اور ساتھ ہی آپ نے اس زمانہ کے مصائب کا نقشہ کھینچ دیا تھا.پس مومن وہی ہے جوان مشکلات کے دور میں سچا اور ثابت قدم رہے گا.اس لئے آپ اپنی سستیوں کو ترک کر دیں.اپنی آئندہ نسل کو تمام بُرائیوں سے بچالیں اور بہترین رنگ میں ان کی تربیت کریں.کیونکہ انہوں نے ہی آئندہ کی ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں پھر آپ نے خواتین کو اپنے اندر اطاعت اور قربانی کا جذبہ پیدا کرنے کی اور اصلاح معاشرہ کی طرف توجہ دلائی.جس پر حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز بہت زور دے رہے ہیں.اگر ہم صحیح بیج بوئیں اور صحیح رنگ میں درخت کی آبیاری کریں تو وہ ہمیشہ شیریں پھل دیتا ہے.اس طرح کی کوشش سے اپنی آئندہ نسل کی حفاظت کریں اور اُنہیں باخدا انسان بنا ئیں.☆ ☆☆......(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ 1987ء)

Page 524

خطابات مریم 499 خطابات حضرت سیدہ صدر صاحبه لجند مرکز یہ کا دورہ ضلع میانوالی مورخہ 26،25 نومبر 1987ء " تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا کہ ” عہد یداران سے تو ضلعی اجلاسوں میں ملاقات ہو جاتی تھی لیکن جلسہ سالانہ اور اجتماعات منعقد نہ ہو سکنے کی وجہ سے خواتین سے براہِ راست ملاقات کا موقعہ نہیں مل سکا.اسلئے دورہ کا پروگرام بنایا گیا.آپ نے فرمایا کہ گومیانوالی میں جماعت کی تعداد کم ہے لیکن آپ خود کو کمزور نہ سمجھیں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے وعدہ فرمایا ہے کہ ابھی تیسری صدی بھی پوری نہیں ہوگی کہ جماعت احمدیہ کو غلبہ حاصل ہو جائیگا.قرآن کریم میں بھی ارشاد موجود ہے کہ :.كَمُ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً (البقرة: 240) پھر فرمایا یا درکھیں کہ جب کوئی بیج بویا جائے تو درخت بنے تک اُسے بہت محنت اور توجہ درکار ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود نے بیج بویا تھا اور اُس کی آبیاری فرمائی.اب قدرت ثانیہ ہمارے درمیان موجود ہے.پھر آپ نے حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی جماعتی اہم مصروفیات بیان فرما ئیں.جس کے بعد خواتین کو تلقین فرمائی کہ آپ مخالفت کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتی چلی جائیں.ایک خاتوں بھی کسی نیکی کا بیج ڈالیگی تو وہ ایک وقت میں تناور درخت بن سکتا ہے.کام کرنا صرف صدر اور سیکرٹری ہی کی ذمہ داری نہیں اس کے لئے ممبرات کا تعاون بھی ضرور ہے.اگر کہیں کوئی ممبر کمزوری دکھائے گی تو اس سے لجنہ کو نقصان ہوگا.اور جب لجنہ کو نقصان ہو تو جماعت کو نقصان پہنچ سکتا ہے.آپ اپنے لیے اور پوری جماعت کیلئے خدا تعالیٰ سے طاقت اور قوت کی دعائیں کریں کہ وہ آپ کی تعداد کی کمی کو ترقی میں بدل دے.آپ نے خواتین کو اپنے بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کر نیکی طرف توجہ دلائی تا آئندہ

Page 525

خطابات مریم 500 خطابات آنے والی نسل اپنی ذمہ داریوں کو بہتر رنگ میں پورا کر سکے.پھر فرمایا کہ: آپس کے اختلافات ختم کر کے متحد ہو کر کام کریں تو بڑے سے بڑا دشمن بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا.ایک دوسرے کو کام کیلئے اُبھاریں خدا اور خدا کے رسول کو ہر حال میں مقدم رکھیں.ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملیں.گھریلو جھگڑے ہماری ترقی کی راہ میں روک نہیں بننے چاہئیں.ہم نے تو اُس وقت تک قربانیاں دیتے ہی چلے جانا ہے جس وقت کی ہمیں بشارت دی گئی ہے.ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ بہتر اور مخلص اولا د چھوڑ کر جائے.خدام واطفال کی ترقی بھی دراصل خواتین کی ہی صحیح تربیت سے وابستہ ہے.اولاد ہمیشہ وہی کچھ سیکھتی ہے جو والدین کا نمونہ دیکھتی ہے.بچوں کو سلسلہ کی تعلیم دیں.جماعت کیلئے مجسم قربانی بن جائیں.داعی الی اللہ بنیں.عجز وانکساری اختیار کرتے ہوئے تمام وہ راہیں اختیار کریں جن سے خدا کی خوشنودی حاصل ہو.خدا فرماتا ہے کہ میں اور میرا رسول ہی ہمیشہ غالب آئینگے.خدا کی تقدیر کبھی بدل نہیں سکتی.خواہ کتنی ہی تکالیف، تنگیاں اور آزمائشیں آئیں صحیح نمونہ ، اعلیٰ اخلاق ، اور خدمت خلق ہمارا شعار ہونا چاہیے ہمارا کردار دوسروں کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دے کہ در حقیقت یہ ہی سچے مسلمان ہیں.اُسوہ رسول اور اُسوہ صحابہ اپنا لیں تو ہمیں کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی“.ماہنامہ مصباح دسمبر 1987ء)

Page 526

خطابات مریم آپ نے فرمایا :.501 اجلاس ضلعی صدرات 26/اکتوبر 1987ء خطابات آپ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ حالات اس سے زیادہ بھی بگڑ سکتے ہیں.آپ نے کام کرنا ہے اور کسی قیمت پر کام نہیں چھوڑنا.رپورٹ فارم میں یا نہ ملیں ، پروگرام ملے یا نہ ملے، بجٹ فارم ملیں یا نہ ملیں اتنے عرصہ سے لجنہ قائم ہے آپ کو مقاصد معلوم ہیں آپ نے پہلے سے زیادہ تندہی سے کام کرنا ہے اور اپنی تنظیم کو کمزور نہیں ہونے دینا.آپ کی دعاؤں پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتا آپ کے عمل پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتا.دینی علم حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتا.خود زیادہ سے زیادہ دینی علم سیکھیں ، بہنوں کو سکھائیں، بچیوں کو سکھائیں، تعلیمی پروگرام اگر کسی وقت مرکز سے نہ بھجوایا جا سکے تو خود بتا ئیں اصل مقصد تو قرآن وحدیث کی تعلیم اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب کا پڑھنا ہے.فطری اصولوں کے مطابق تربیت پر کون پابندی لگا سکتا ہے.قرآن کی تعلیم پر عمل نہیں قرآن کے مطابق نمونہ نہیں تو لجنہ کی تنظیم یا ممبر بننے کا بھی کوئی فائدہ نہیں.موجودہ حالات میں زیادہ سے زیادہ اصلاح کی ضرورت ہے.قرآن مجید کی تعلیم اور اُسوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے کی ضرورت ہے.اعلیٰ اخلاق اپنانے اور اتحاد کی بہت ضرورت ہے.بھول جائیں لڑائی جھگڑوں کو ، آپس کے اختلاف کو اور رنجشوں کو اور محبت کے ساتھ اپنی اپنی بجنات میں محبت ، اخلاص، اتحاد اور تعاون با ہمی کی روح کو قائم کریں تربیت کیلئے انفرادی کوشش شروع کریں بجائے تقریر میں کرنے کے.حضرت بانی سلسلہ ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں:.” خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کیلئے اور اپنی قدرت دکھانے کیلئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الہی اور تو بہ نصوح اور پاکیزگی

Page 527

خطابات مریم 502 خطابات اور حقیقی نیکی اور امن و صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے.سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہوگا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا وہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا.وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کو نشو و نما دے گا یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اُونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے.“ (روحانی خزائن جلد 3.ازالہ اوہام صفحہ 563،562) یہ ہے وہ حقیقی مقصد جو ہم نے حاصل کرنا ہے.ہر احمدی عورت نے اس مقام کو سمجھ کر اپنی اصلاح کرنی ہے تا وہ دوسروں تک اپنے اعلیٰ اخلاق کی روشنی پھیلا سکے.(ماہنامہ مصباح نومبر 1987ء)

Page 528

خطابات مریم 503 خطابات دورہ نارنگ منڈی مورخہ 21 جنوری 1988ء تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہمارے لئے ایک کامل نمونہ ہے.خود آپ نے فرمایا ہے.قُلْ اِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله فَاتَّبِعُونِي (آل عمران: 32) انسان کی زندگی کا محور اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.خدا تعالیٰ کا قرب ہم اُس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جبتک کہ ہم آنحضرت ﷺ کے اُسوہ کو نہ اپنا ئیں اور آپ کی تعلیمات پر عمل نہ کریں.اگر آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعوی ہے تو اپنے نفسوں کا تجزیہ کریں اور جائزہ لیں کہ آپ کس حد تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کر رہی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل دنیا تاریکی اور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی.کوئی حسن اور خوبی موجود نہ تھی.زندگی جانوروں سے بدتر تھی لیکن نبی کریم ﷺ کی آمد - تھوڑے ہی عرصہ میں انسان کی کایا پلٹ گئی.اور پھر وہ انسان سے باخدا اور خدا نما انسان بن گئے.ہم نے بھی اپنی زندگیاں اسی طرح گزارنی ہیں اور دنیا کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سے روشناس کروانا ہے.آپ کے اعلیٰ اخلاق و اوصاف اور ان کی باریکیاں اپنے عمل سے دنیا کو دکھانی ہیں.صرف مضامین اور نعمتوں پر ہی اکتفا نہیں کرنا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عورتوں پر اس قدر احسانات ہیں کہ ایک عورت رات دن مسلسل آپ پر درود پڑھتی رہے تو پھر بھی اِن احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتی.آنحضرت مے جھوٹ کو بالکل برداشت نہیں فرماتے تھے لیکن افسوس ہے کہ جماعت میں اب بھی خواہ تھوڑی ہی تعداد میں ہوں خواتین اس برائی کو چھوڑ نہیں رہیں.اور آپ کی تعلیم کی نفی کر رہی ہیں.آپ نے فرمایا کہ اگر آپ نے آنحضرت ﷺ کو مانا ہے تو آپ کی نجات صرف آنحضرت عیہ کی

Page 529

خطابات مریم 504 خطابات غلامی میں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی کتاب کشتی نوح اور ملفوظات میں، جھوٹ ، تجسس اور غیبت سے منع فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر عمل تھا.مگر آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے ہاتھ پر بیعت کر کے اور تنظیموں کا عہدد ہرا کر بھی اپنی کمزوریوں کو چھوڑ نہیں رہیں.آپ نے خواتین کو تاکید فرمائی کہ قرآن کریم پڑھیں اور اس کا ترجمہ سیکھیں.اپنے بچوں کو بھی اس طرف توجہ دلائیں.جب تک آپ ترجمہ نہیں سیکھیں گی آپ کو اوامر و نواہی کا علم نہیں ہو سکے گا.اور اُسوہ رسول ﷺ کو اپنا نہیں سکیں گی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کئے بغیر نجات حاصل نہیں ہوسکتی.سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں اور جماعت سے منسلک ہونے کا اصل مقصد یہ ہے کہ اپنی زندگیاں قرآنِ مجید کے مطابق ڈھالیں.فرمایا کہ خدا کی طرف سے ملنے والی بشارتیں ضرور پوری ہونگی لیکن اس کے لیے بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے.جب تک ہم اپنے نفسوں پر موت وارد نہیں کر لیتے جماعت ترقی نہیں کر سکتی.حضرت خلیفہ اسیح الرابع ہر خطبہ میں بُرائیوں کو چھوڑنے کی طرف توجہ دلا رہے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ہم اس کی طرف پوری توجہ نہیں دے رہے.یہ ہمارا بہت بڑا کارنامہ ہوگا اگر ہم اپنے پیچھے ایسی نسل چھوڑ کر جائیں گی جو ہم سے زیادہ مخلص اور دین کیلئے غیرت رکھنے والی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرنے والی ہو.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ 1988ء)

Page 530

خطابات مریم 505 خطابات دوره فیصل آباد (11/فروری1988ء) حضرت سیدہ صد ر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے حاضرین کو اپنے خطاب سے نوازا.آپنے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.تقریباً ساڑھے چار سال کے بعد فیصل آباد کی بہنوں سے کچھ کہنے کا موقع ملا ہے.آپ نے فرمایا.اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیا کیلئے اُسوہ حسنہ بنا کر بھیجا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کے اُسوہ کو اپنائے بغیر ہم کسی کی تربیت کر ہی نہیں سکتے.کسی کی تربیت کرنے کیلئے آپ کی کامل ذات ہی نمونہ کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے.اس لئے لجنہ کو کثرت سے سیرت پاک کے جلسے کرنے چاہئیں جیسا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے ارشاد فرمایا ہے.آپ نے کہا دین فطرت انسان کی ساری زندگی پر حاوی ہے اور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے.اس کے اصولوں پر چلنے سے دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے اور معاشرہ کی اصلاح ہو سکتی ہے اگر ہر تنظیم کے افراد اپنی تنظیم کے کاموں میں دلچسپی لیں تو بہت جلد جماعت کو ترقی حاصل ہوسکتی ہے.یہ شکایت عام ہے کہ اجلاسوں میں حاضری کم ہوتی ہے.اجلاسوں کے پروگرام اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ تمام ممبرات کو ساری باتوں کا علم نہیں ہوتا اگر کچھ لوگوں کو ان باتوں کا علم بھی ہو تو انہیں اجلاسوں میں جانے سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ وہاں تو انہوں نے خدا کی خاطر آنا ہے.دین حق کی سر بلندی اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی جماعت کی مضبوطی کیلئے آنا ہے اور قدرت ثانیہ کے مظاہر کی اطاعت کی خاطر آنا ہے.مالی قربانی تو ثانوی حیثیت رکھتی ہے حقیقی قربانی تو وقت اور جان کی قربانی ہے.پس اپنی مستیوں اور کوتاہیوں کو چھوڑ دیں ہم بہت بد قسمت ہوں گے اگر احمدیت کی ترقی میں ہماری کوششیں شامل نہ ہوں.انسان کی پیدائش کی غرض اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا ہے.پاک معاشرہ کا قیام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا احسان ہے اور پاکیزگی صرف جسمانی نہیں بلکہ روحانی صفائی ہے جس میں گھر، جسم اور دل کی صفائی شامل ہے.

Page 531

خطابات مریم 506 خطابات لفظ زکوۃ بھی یز کی سے نکلا ہے ہماری جماعت میں ادا ئیگی زکوۃ کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.زکوۃ دینے سے مال پاک ہو جاتا ہے اور اس میں برکت پیدا ہو جاتی ہے.آپ نے سورۃ الممتحنہ کی یہ آیت تلاوت کی جس میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عورتوں کی بیعت کی شرائط بتائی گئی ہیں جن میں (1) شرک نہ کرنا (2) اولاد کو قتل نہ کرنا اور ان کی تربیت کرنا (3) زنانہ کرنا (4) جھوٹ نہ بولنا ( 5 ) چوری نہ کرنا شامل ہیں.آپ نے فرمایا اگر ان شرائط کو پورا کیا جائے تو ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے اور حضرت بانی سلسلہ نے بھی تقریباً انہی باتوں کو شرائط بیعت میں شامل کیا ہے.آپ نے ممبرات کی توجہ ان باتوں کی طرف بھی دلائی کہ ہمیشہ اپنی زبان پر قابو رکھنا چاہئے.سنی سنائی بات پر یقین نہ کریں آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کریں بلکہ لڑنے والوں کی آپس میں صلح کروائیں.بدگمانی سے بچیں، تکبر نہ کریں ، دل کی مسکین بن جائیں اور دلوں میں انکسار اور اخلاص پیدا کر یں.نیز غیبت سے بھی بچنا چاہئے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ارشاد کے مطابق قول و فعل اور لین دین میں سچائی اختیار کریں اور قولِ سدید پر قائم رہیں.آپ نے فرمایا شادی بیاہ کی رسمیں چھوڑ دیں، سادگی اختیار کریں، اسراف سے بچیں، بچوں کی دینی اور اخلاقی تربیت کی طرف توجہ دیں ان کے دلوں میں دین کی محبت اور اللہ تعالیٰ کا پیار پیدا کریں.ان کے لئے ایسا نمونہ بنیں کہ وہ آپ کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں.آپ نے فرمایا ایک اہم مسئلہ پردہ کا ہے.پردہ کی طرف سے بے پرواہی کی جاتی ہے.قرآن کریم میں واضح طور پر پردہ کا حکم ہے.چند روزہ دنیا کی خاطر پر دہ کو نہ چھوڑیں.ہم نے تو دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے.ہمارا دعویٰ کچھ اور عمل کچھ اور نہیں ہونا چاہئے.چاہئے کہ ہمارا فعل ہمارے قول کی شہادت دے اور ہمارا عمل ہمارے ایمان اور عقیدے کی شہادت دے.آپ نے پر شوکت الفاظ میں فرمایا کہ اب جب کہ ہمارا قدم دوسری صدی کی جانب بڑھ رہا ہے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی تمام کمزوریاں ، تمام کو تا ہیاں اور تمام غفلتیں خدا اور اس کے رسول کی خاطر چھوڑتے ہوئے آگے نئی صدی میں قدم بڑھا ئیں اور دنیا کیلئے نمونہ بنیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(ماہنامہ مصباح مئی 1988ء)

Page 532

خطابات مریم 507 خطابات تربیتی دوره قائد آباد ضلع خوشاب مورخہ 14 فروری 1988ء لجنہ سے خطاب فرماتے ہوئے فرمایا کہ لجنہ خوشاب کے علاوہ باقی پور اضلع بہت ہی ست ہے.موجودہ دور میں جبکہ احمدیت کی شدید مخالفت ہو رہی ہے ہمیں اپنی کمزوریاں دور کرنی چاہئیں.ہم نے اُس مہدی کو مانا ہے جس کی بشارت خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی.حضرت مسیح موعود کا دعویٰ آپ کی بشارتوں کے عین مطابق ہے.کوئی خدائی جماعت ایسی نہیں جس کی مخالفت نہ ہوئی ہو.آپ نے فرمایا کہ یہ مخالفت ہمارے لیے سچائی کی دلیل ہے.بڑی سے بڑی تکالیف آئیں اور آخر کار فتح ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے.تکالیف کے باعث اپنے عزم سے منہ پھیر لینا باعث شرم ہے.خواتین کو مردوں کی نسبت زیادہ طاقتور ہونا چاہیے کیونکہ انہوں نے آئندہ نسل کو تیار کرنا ہے اور آگے بڑھانا ہے.خطاب جاری رکھتے ہوئے حضرت سیدہ موصوفہ نے فرمایا کہ انسانی فطرت ہے کہ بچہ جو کچھ بڑوں کو کرتے دیکھتا ہے وہی کچھ اپنا تا ہے.اس لئے آپ اپنے بچوں میں دین کیلئے غیرت پیدا کریں.آنحضرت کے زمانہ میں خواتین نے بہت سی قربانیاں دیں.آپ بھی صحابیات اور اُمہات المومنین کا نمونہ اپنائیں جنہوں نے مال، وقت ، اولا داور عزت کی قربانی دی اور مردوں کے ساتھ ساتھ تبلیغ اسلام کا فریضہ سر انجام دیا.1400 سال کے بعد خدا تعالیٰ نے ہم پر کرم فرمایا اور مہدی کو مبعوث فرمایا.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے جو کچھ بھی ملا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور محبت سے ملا ہے.آپ قرآن کریم کی تعلیم دینے اور بدعتوں کے خاتمہ کیلئے آئے تھے.چنانچہ آپ بھی اپنے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیں.اس کے احکامات پر خود بھی عمل کریں اور بچوں کو بھی اس کا عامل بنا ئیں.حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے فرمایا.کہ آپ ہرگز یہ نہ سوچیں کہ آپ کی تعداد کم ہے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.كَمُ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةٌ (البقرة: 240)

Page 533

خطابات مریم 508 خطابات تعدا د کوئی چیز نہیں اصل چیز ایمان ہے.یقین کے ساتھ کام کریں.آپس میں اتفاق و اتحاد پیدا کریں.لڑائی جھگڑوں میں اپنی طاقت ضائع کرنے کی بجائے اسے دشمنوں کے خلاف تبلیغ میں صرف کریں.آپ کی آج کی کمزوریاں خدانخواستہ آئندہ نسل کو نہ لے ڈو ہیں.جرات ہمت سے کام لیں.احمدیت کا برملا اظہار کریں.بلکہ اپنے بہترین نمونہ کے ذریعہ دوسروں کو تبلیغ کریں.حسن سلوک ، نیک عمل اور ہمدردی سے آپ دوسروں کے دل جیت سکتی ہیں آئندہ نسل کی طرف بھر پور توجہ دیں کیونکہ ہمیشہ وہی قوم ترقی کر سکتی ہے جس کی آئندہ نسل پچھلے لوگوں کی جگہ لینے کیلئے تیار ہو.خدائی بشارات ضرور پوری ہونگی.آپ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خلوص نیت سے کام کرتی چلی جائیں.(از سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1988ء)......W

Page 534

خطابات مریم 509 خطابات اجلاس ضلعی نمائندگان نومبر 1988ء تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا :.اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماء اللہ کا کارواں اپنی عمر کی چھیاسٹھ منزلیں پوری کر کے ستاسٹھویں منزل میں داخل ہو رہا ہے.اور جماعت احمد یہ چند ماہ تک اپنی پہلی صدی پوری کر کے 23 مارچ 1989 ء کونئی صدی میں قدم رکھے گی.ان سوسالوں میں جماعت احمد یہ پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسانات بارش کی طرح بڑھے ہیں.ابتلاء بھی آئے ہیں مگر جیسا کہ قرآن مجید میں آتا ہے کہ کون خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اور کون نہیں اللہ تعالیٰ نے زبر دست نشانات بھی دکھائے احمدیت کی صداقت میں جنکی تفصیل میں جانیکی ضرورت نہیں.آپ سب کو علم ہے 1972ء میں جب لجند نے اپنا پچاس سالہ جشن منایا تھا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے لجنہ کو ایک پروگرام عطا فرمایا تھا.حمد وثنا اور دعا کا.آپ نے فرمایا تھا:.ہم احمدی مسلمانوں کا جشن ہماری عید اور ہماری خوشی کا دن حمد و ثنا اور متضرعانہ دعاؤں کا ایک حسین امتزاج ہے.(المصابیح صفحہ 244) ہمارے دل اپنے رب کی حمد سے اسلئے بھی معمور ہیں اور ہماری زبانوں پر اس کی حمد کے ترانے اس لئے بھی جاری ہیں کہ اُس نے ہم عاجز بندوں اور عاجز بندیوں کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ ہم اس ابتلاء اور امتحان کی دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا سے نگاہ موڑ کر اس رب کریم کی طرف متوجہ ہوں.آپ نے فرمایا تھا کہ حمد کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بحیثیت جماعت بھی اور بحیثیت لجنہ بھی اپنی قربانیوں میں تسلسل قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائی.آپ نے دعا پر زور دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہمارے دل آج خدا تعالیٰ کی حمد سے معمور ہیں اور اس کے ساتھ ہماری متضرعانہ دعا ئیں بھی اس کے حضور پیش ہیں.آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ :.وو پس ہماری پہلی دعا یہ ہے کہ اے ہمارے رب تو ہماری کوششوں کو قبول فرما اور

Page 535

خطابات مریم 510 خطابات ان کے وہ نتائج نکال جو ہماری خواہش اور تیری مرضی نکالنا چاہتی ہے اور دعا کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اے خدا تو آئندہ بھی ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم پہلے سے زیادہ پیار کے ساتھ تیرے حضور قربانیاں پیش کرتے چلے جائیں.آج اس موقعہ پر جبکہ احمدیت پر ایک صدی ختم ہو نیوالی ہے ہمیں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو یا درکھنا چاہیے.اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ حمد کریں.اس کے احسانات پر زیادہ سے زیادہ اس کا شکر کریں.اور آئندہ صدی کے لیے اپنی اصلاح کا عزم کریں.اور ویسا بننے کا عزم کریں.جو مہدی علیہ السلام کی بعثت کی غرض تھی.اور اس مقصد کے لیے متواتر دعائیں کرتے چلے جائیں.سب سے بڑھ کر اس بات پر اللہ تعالیٰ کی حمد کریں اور آپ کے سر اس کے آگے شکر سے جھکے رہیں.کہ اس نے آپ کو احمدیت قبول کر نیکی سعادت عطا فرمائی یا احمدی گھرانوں میں پیدا کیا اور اس جماعت میں شامل فرمایا جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۃ جمعہ میں یوں فرمایا تھا.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُوْلًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِيْنَ - وَّاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوبِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ ۖ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم (سورة الجمعة : 3 تا 5) ترجمہ: وہی خدا ہے جسے ایک ان پڑھ قوم کی طرف اسی میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا ( جو باوجود ان پڑھ ہونے کے ) ان کو خدا کے احکام سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے گو وہ اس سے پہلے بڑی بھول میں تھے.اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی وہ اس کو بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب اور حکمت والا ہے.یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے.اور اللہ بڑا فضل والا ہے.“ احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ سے صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ یہ آخرین ط ط کون ہیں تو آپ نے سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا.لَوْ كَانَ الإِيْمَانَ مُعَلَّقاً بالثّرِيَّا لَنَالَهُ رُجُلٌ أَوْ رِجَالٌ مِنْ فَارِسَ ( بخاری کتاب الجمعه )

Page 536

خطابات مریم 511 خطابات یعنی اگر ایک وقت ایمان ثریا تک بھی اُٹھ گیا تو اہل فارس کی نسل سے ایک یا ایک سے زیادہ لوگ اُسے واپس لے آئیں گے.قرآن مجید کی اس آیت میں حضرت محمد مے کی دوسری بعثت کی طرف اشارہ تھا.اور یہ خبر دی گئی تھی کہ آنیوالا آنحضرت ﷺ کا ہی نمائندہ اور ظل ہو گا.اور اس آیت میں آنحضرت علی کی بعثت کی جو اغراض بتائی گئی ہیں ان پر وہ عمل کرے گا.یہ پیشگوئی حضرت مرزا غلام احمد صحابه ملا صد الله مہدی موعوڈ کے آنے سے پوری ہوئی.اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:.جب مجھ کو پایا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے.پس بہت شکر کریں بہت حمد کریں اللہ تعالیٰ کی بلکہ مجسم حمد و شکر بن جائیں کہ وہ نعمت جس کا انتظار کرتے کرتے نسلوں کے بعد نسلیں گزرگئیں جسکی بشارت چودہ سوسال میں ہزاروں اولیاء و اصفیاء اور بزرگ دیتے چلے آئے تھے آپ کو وہ نعمت مل گئی.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ.اس نعمت کی قدر کرنا اور اس کے مطابق اعمال صالحہ بجالا نا ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے.شکر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف زبان سے شکر ادا کر دیا جائے بلکہ ہمارے جسم کا ایک ایک عضو ہمارے دن رات کا ایک ایک لمحہ اور ہما را عمل اس بات کی گواہی دے رہا ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر صحیح رنگ میں ادا کر رہے ہیں.اب میں اس سال کے کاموں کا جائزہ لے کر پھر آئندہ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاؤں گی.شعبه مال مالی لحاظ سے یہ ایک مشکل سال تھا کیونکہ لجنہ کے اپنے لازمی چندوں کے علاوہ اور جماعتی چندوں کے علاوہ عورتوں کے لیے دو خصوصی مالی تحریکیں بھی تھیں.ایک تعمیر ہال لجنہ اماء اللہ کا چندہ جس کی تحریک خود حضور ایدہ اللہ نے فرمائی تھی.دوسرا سو سال جماعت پر پورا ہو نیکی خوشی میں اللہ تعالیٰ کے حضور سندھ کے ایک بہت ہی کمزور علاقہ نگر پارکر میں جہاں طبی سہولتیں میسر نہیں

Page 537

خطابات مریم 512 خطابات ایک طبی مرکز کے قیام کے لیے چندہ جمع کرنا تھا.تعمیر ہال کی تحریک حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے 16 جنوری 1987ء کے خطبہ جمعہ میں فرمائی تھی.اس تحریک کے بعد لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے دنیا کی تمام لجنات کو اس کی اطلاع کر دی گئی.بہنوں نے بھر پور حصہ لیا اور اب تک تعمیر ہال کے کل وعدے 45,03,232/75 روپے کے ہو چکے ہیں.جن میں سے 36,48,983/39 روپے جمع ہو چکے ہیں.یہ ساری وصولی تقریباً پاکستان کی ہے سوائے چند کے جنہوں نے پاکستانی رقم میں یہاں ادائیگی کی ہے باقی ابھی و ہیں جمع ہے.دس لاکھ روپے تعمیر کے لیے ٹیکنیکی کمیٹی کو دیے جاچکے ہیں.20 فروری 1988 یوم مصلح موعود کو ہال کی بنیا د رکھی جا چکی ہے.کام کی رفتار تیز نہیں کیونکہ بعض حصوں کی ڈرائنگ بھی تیار ہو رہی ہے.دعا کریں کہ جشن صد سالہ تک یہ مکمل ہو جائے اور اس سال کے پروگراموں میں ہم اسے استعمال کر سکیں.لجنات پوری کوشش کریں کہ اس سال مکمل ادائیگی ہو جائے.ضلعی بجنات اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ ان کے ضلع میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی لجنہ بھی ایسی نہ رہ جائے جس تک یہ تحریک نہ پہنچے.اور ہر بہن خواہ تھوڑی سے تھوڑی رقم ادا کرے لیکن شامل ہو جائے.148 حباب ومستورات نے اس میں پانچ ہزار یا اس سے زائد ادا کیا ہے.جن کے نام انشاء اللہ کنندہ کروائے جائینگے.ہال کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ارادہ ہے کہ لجنہ ربوہ کے لیے بھی الگ دفتر تعمیر ہو جائے.اس کا نقشہ بن رہا ہے.تیار ہوتے ہی حضور ایدہ اللہ سے منظوری کے بعد اس کی بنیاد بھی رکھی جائیگی.دوسری اہم تحریک نگر پارکر سندھ کے طبی مرکز کی تھی.اس کے لیے دس لاکھ روپے اندازہ بتایا گیا تھا.حضور ایدہ اللہ کی طرف سے 30 مئی کو منظوری آنے پر 12 جون 1988 کو اس کی تحریک لجنات کو بھجوائی گئی.الحمد للہ اس وقت تک 7,08,127 روپے کے وعدہ جات آچکے ہیں.اور 3,60,928 روپے وصولی ہو چکی ہے طبی مرکز بنانے کا کام حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے وقف جدید کے سپرد کر دیا ہے.عنقریب مکرمی اللہ بخش صاحب صادق ناظم وقف جدید اس علاقہ میں جا کر اس مرکز کے لیے زمین خریدیں گے.پھر تعمیر کا کام شروع ہوگا یہ ایک مستقل صدقہ جاریہ سب احمدی بہنوں کی طرف سے ہو گا.اس لیے اس میں بھی جلد سے جلد

Page 538

خطابات مریم 513 خطابات حصہ لیں اور اس میں ضلع کی لجنہ جائزہ لے کہ کوئی بہن لاعلمی کی وجہ سے محروم نہ رہ جائے.87-88ء کا بجٹ 00-11,42,184 روپے تجویز کیا گیا تھا.الحمد للہ 88-87ء کی کل آمد 12,88,723,43 روپے ہوئی ہے.اور 88-87 ء کا کل خرچ 10,08,316,83 روپے ہوا.گویا اس سال کل بچت 2,79,806,60 روپے ہوئی 1987-88ء میں دو لاکھ روپے جو بلی فنڈ کا قرض بھی ادا کیا گیا.جب دفتر لجنہ کی تعمیر شروع ہوئی تھی تو لجنہ کے پاس اتنی رقم نہیں تھی.دس لاکھ روپے حضور نے جو بلی فنڈ سے دلوایا.اس شرط کے ساتھ کہ جو بلی والے سال سے قبل واپس کر دیا جائے اور دفتر کے چندہ کے لیے کوئی تحریک نہیں کرنی.عمومی بچت سے ادا کیا جائے.پانچ لاکھ روپے لجنہ اماءاللہ کے پاس تحریک خاص کا تھا.مگر اس میں سے بھی کچھ خرچ ہو چکا تھا.ساٹھ ہزار روپے لجنہ لا ہور نے صدر کے دفتر کیلئے دیا تھا.60 ہزار روپے مکر مہ ناصرہ صاحبہ کراچی نے ایک کمرہ کیلئے دیا تھا.کمیٹی روم ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے.باقی سارا قرضہ الحمد للہ وقت کے اندر اندر بچت سے ہی ادا ہو جائیگا.الحمد للہ ثم الحمد للہ.ناصرہ بشیر صاحبہ نے کچھ رقم کمیٹی روم میں ائر کنڈ یشنز لگانے کے لیے بھی دی ہے.عنقریب ادا کر دیں گی.1986ء میں لجنہ اماءاللہ نے Mitsubishi وین بھی خریدی تھی.اس میں کچھ نقص پیدا ہونے پر لجنہ نے اس سال اسے فروخت کر کے ٹیوٹا Hiace خریدی.یہ مہنگی ہے جس کی وجہ سے پرانی وین کی قیمت پر 2,91,850 روپے زائد خرچ کرنے پڑے.یہ رقم فی الحال تعمیر ہال کے فنڈ سے لے لی گئی ہے.اس میں سے بھی اس سال کی بچت میں سے=/75000 روپے واپس کر دیے گئے.گویا / 2,16,850 روپے اور ادا کرنے باقی ہیں.امید ہے دوران سال باقی رقم بھی ادا ہو جائے گی.عمومی اخراجات کے علاوہ اس سال دفتر لجنہ کی عمارت پر Paint کروایا گیا.جس پر 58,332/25 روپے خرچ آیا پندرہ لاکھ روپے جو دفتر کی عمارت کے خرچ کے لیے ٹیکنیکی کمیٹی کو دیئے گئے اس میں سے بچی ہوئی رقم کو ادا کر کے باقی 23,794/68 روپے لجنہ کے فنڈ میں سے

Page 539

خطابات مریم 514 خطابات خرچ کیا.نیز دفتر کے لیے ٹھنڈے پانی کاElectric Cooler-/7550 روپے میں خریدا گیا.پاکستان میں کل لجنات مال کے شعبہ میں 953 درج ہیں جن میں سے 858 لجنات نے اس سال چندہ ادا کیا گویا %90.03 نے چندہ دیا.95 لجنات نادہند ہیں ان کی تفصیل ضلعی صدروں کو دی جا رہی ہے.202 لجنات کا چندہ بجٹ سے کم ہے.شعبہ سمعی بصری بہت اہم شعبہ ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے 1982ء کے اجتماع کے موقعہ پر لجنہ کو اس شعبہ کے قیام کی طرف توجہ دلائی تھی.کام تو اسی وقت شروع کر دیا گیا تھا.لیکن نا تجربہ کاری کی وجہ سے کسی مستقل سکیم کے تحت کام نہیں ہو رہا تھا.ایک Dek خریدا گیا.ایک ڈیک کوئٹہ کی ایک ممبر نے لجنہ کو تحفہ بھجوایا.اب انشاء اللہ ایک Copier بھی خریدنا ہے.بازار سے کا پیاں کروانی پڑتی ہیں.حضور ایدہ اللہ سے منظوری حاصل کرنے کے بعد قرآن مجید کے ترجمہ کے کیسٹ تیار کرنے شروع کر دیئے ہیں.الحمد للہ 10 پاروں کے کیسٹ تیار ہو چکے ہیں.لیکن سالانہ رپورٹ پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی تک بہنوں نے تیسرے یا چوتھے پارہ سے آگے کیسٹ نہیں خریدے.اور جنہوں نے لیے ہیں انہوں نے بھی اس طرف توجہ نہیں کی کہ کتنی عورتوں نے انہیں سن کر ترجمہ یاد کیا بلکہ رپورٹ میں یہ ہے کہ اجلاس میں سنایا گیا.اجلاس میں ایک دفعہ سنانے سے یاد نہیں ہو سکتا.یہ تو اس لیے شروع کئے گئے تھے کہ بہت سی لجنات کو یہ شکایت تھی کہ ترجمہ پڑھانے والا کوئی نہیں ملتا.ان میں ترجمہ پڑھایا گیا ہے.سیکھنے والی بہنیں اور بچیاں اسی طرح قرآن مجید کو کھول کر سامنے رکھیں.جس طرح پڑھانے والے سے پڑھتے وقت رکھتی ہیں اور تھوڑا تھوڑا بار بار سن کر یاد کریں اور اس طرح کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ ترجمہ ان کو آجائے.دعا بھی کریں اللہ تعالیٰ صحت کے ساتھ عاجزہ سیده مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ مرکزیہ ) کو پورے قرآن مجید کا ترجمہ ریکارڈ کروانے کی توفیق عطا فرمائے.( آمین ) اس کے علاوہ نظموں کے اور تعلیمی تربیتی کیسٹ بھی ہیں جن سے

Page 540

خطابات مریم 515 خطابات فائدہ اُٹھا ئیں.بے شک اس پر خرچ تو کرنا پڑیگا.لیکن گھر بیٹھے ترجمہ سیکھنا بھی تو آسان ہو گیا ہے.اگلے سال رپورٹوں میں آپ نے یہ رپورٹ دینی ہے کہ کیسٹ کے ذریعہ سے کتنی بہنوں نے کتنے پاروں کا ترجمہ سیکھا.یہ کام بھی بہت محنت طلب ہے جنہوں نے ریکارڈ کروایا اور جنہوں نے ریکارڈ کیا سب کو دعاؤں میں یا درکھیں.شعبہ ناصرات نے بھی تاریخ احمدیت کے سوال و جواب ریکارڈ کرنے کے لیے تیار کئے ہیں.عنقریب ریکا رڈ کروائے جائیں گے.دورے.ا سال گذشتہ سالوں کی نسبت دورے کم ہوئے ہیں.جس کی وجہ ملکی حالات ہیں.کئی دوروں کا پروگرام بنایا گیا تھا.مگر امیر صاحب سے اجازت نہ ملنے پر ملتوی کر دئے گئے.عاجزہ نے میانوالی ، داؤدخیل، ملتان ، وہاڑی ، مظفر گڑھ ،علی پور، لیہ، فاروق آباد ضلع شیخو پورہ، نارنگ منڈی ، فیصل آباد، اور قائد آباد کا دورہ کیا.جس میں میرے ساتھ سیکرٹریان بھی گئیں.اس کے علاوہ سیکرٹریوں نے کھاریاں، قصور، احمد نگر ، سرگودھا اور گوجرانوالہ کے اجتماعوں میں شرکت کی.ضلعی سطح پر سب سے زیادہ دورے جو ضلعی صدروں نے کئے ضلع سرگودھا، جھنگ، گوجرانوالہ اور حیدرآباد کے علی الترتیب ہیں.ضلع کے دورے کے لحاظ سے میں اس بات کی طرف توجہ دلاتی ہوں کہ مرکز سے جو ہر سہ ماہی کا جائزہ ملے اس کی روشنی میں دورے کریں.بعض لجنات خود بھی بیدار ہوتی ہیں.اور ضلعی صدروں کو اور مرکزی عہدیداران کو بھی بار بار آنے کی دعوت دیتی رہتی ہیں.جو کمزور ہوتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ مرکز سے کوئی آئے ہی نہ تا کہ ہماری کمزوریاں ان پر ظاہر نہ ہوں.اس لئے شروع سال میں ہی ہر ضلع کی صدر ایک پروگرام بنائے کہ ان لجنات کی طرف زیادہ توجہ کرنی ہے.کام سکھانا ہے.رپورٹ لکھنے کا طریقہ بتانا ہے.چندوں کی تفصیل اور ہر کام ان کو سکھانا ہے.اور جہاں ضرورت ہو ایک سے زیادہ دفعہ جائیں.کم از کم ایک ضلعی میٹنگ ضرور ہو اور سال میں ایک دفعہ ہر تحصیل کی میٹنگ تحصیل میں ہو.اس لئے جن ضلعوں میں تحصیل کی نگران کے ذمہ کام کریں اس طرح سے اگر ضلع میں آنا مشکل ہوا پنی تحصیل میں تو آسانی سے جاسکیں گی.

Page 541

خطابات مریم 516 خطابات ނ اس سلسلہ میں یہ بھی عرض کرونگی جو لجنات کی تعداد ہمارے پاس در ج اور منظور شدہ ہے.وہ 950 ہے اور جتنے مقامات سے چندہ آیا ہے ان کی تعداد 853 بنتی ہے.بعض دفعہ ایسی جگہ سے چندہ آ جا تا ہے.جہاں لجنہ اماء اللہ کی ممبرات کی تعداد 3 سے کم ہوتی ہے.لجنہ قائم نہیں ہوتی مگر چندہ بھجوا دیتی ہیں.ضلعی صدروں کو چاہیے کہ اگر تو تعداد تین سے زائد ہے تو لجنہ قائم کر کے منظوری لیں.اگر لجنہ قائم نہیں تو اس گاؤں کی عورتوں کو کسی ساتھ کے گاؤں سے منسلک کریں.جہاں وہ اپنا چندہ دیں.دوروں کی اصل غرض لجنات کو بیدار کرنا اور مرکزی لجنہ - اس کے تعلق کو مضبوط کرنا ہے.لیکن نتیجہ یہ ہے کہ گذشتہ سال کے مقابلہ میں پہلے چار ماہ کی رپورٹوں کی تعداد کم ہے.پھر دو ماہ قریباً برابر اور مئی 1988 ء سے تعداد میں اضافہ ہوا ہے.سالانہ رپورٹیں صرف 157 لجنات کی طرف سے موصول ہوئی ہیں یہ کل تعداد کا %16.9 بنتا ہے.جو آپ کی ستی پر دلالت کرتا ہے.قرآن مجید کی روشنی میں تو کم از کم پچاس فیصد کام ضرور ہونا چاہیے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود کو الہاماً فرمایا تھا کہ پچاس فیصد عورتوں کی اصلاح کر لو تو احمدیت کو ترقی حاصل ہو جائیگی.آپ کی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ ابھی تو پچاس فی صد کے معیار سے بھی ہم بہت دور ہیں.اس طرف توجہ کی ضرورت ہے.تعلیم اور تربیت دونوں نہایت ہی اہم شعبے ہیں.اور ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں.جب تک دین کا صحیح علم نہیں ہوتا ہم عمل بھی نہیں کر سکتے.اور جب تک عمل نہیں کر سکتے تو سیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں.گویا شعبہ تعلیم کے سپر د دینی تعلیم دینا اور شعبہ تربیت کے ذمہ ان اصولوں پر عمل کرنا ہے.مذہب کا سب سے بڑا مقصد حقیقی توحید کا قیام ہے.ہر نبی نے تو حید کی تعلیم دی لیکن جس شان سے حضرت محمد ﷺ نے توحید کا قیام فرمایا اس کی مثال نہیں ملتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں :.میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے.

Page 542

خطابات مریم 517 خطابات ہزاروں ہزار درود اور سلام اس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے.اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ تو حید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اُس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی.(روحانی خزائن جلد 22، حقیقۃ الوحی صفحہ 118-119) حضرت مسیح موعود کی بعثت کا اولین مقصد بھی تو حید کا قیام تھا.اُس خالص تو حید کا جس میں کسی قسم کے شرک اور بدعت کی ملونی نہ ہو.الحمد للہ جماعت اب تک تو حید کے اعلیٰ مقام پر قائم رہی ہے.لیکن جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ النصر میں توجہ دلائی ہے.کہ جب آپ دیکھیں کہ لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں.تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں.اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگیں اس میں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جب کثرت سے لوگ اسلام قبول کرینگے تو بہت سے ان میں سے اپنے سابقہ مذہب اور سوسائٹی کی کمزوریاں بھی ساتھ لے آئیں گے.جس سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی ہے.ہر زمانہ میں ایسا ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کے نشانات ظاہر ہورہے ہیں.باوجو د مخالفت کے کثرت سے لوگ احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں.اگر ان کی تربیت نہ کی گئی تو ڈر ہے کہ جو بُرائیاں نئے آنے والے اپنے ساتھ لائیں وہ معاشرہ میں پھیل نہ جائیں.مجھے کہنے کی ضرورت نہیں آپ جانتی ہیں کہ پاکستان میں اسلام کی محبت کا دعوی کر نیوالوں میں کئی قسم کی بدعتیں شرک کی حد تک پھیل چکی ہیں.قبروں پر جا کر مانگنا، چادر میں اور پھول چڑھانا، مرنے والے کی فاتحہ خوانی کرنا، قل، چالیسواں وغیرہ جن کا ثبوت نہ قرآن مجید سے ملتا ہے نہ آنحضرت ﷺ کی سنت سے نہ آپ کے قول سے اور نہ ان بدعتوں کے وجود کا ثبوت آپ کے عرصہ بعد تک کے زمانے میں پائے جانے کا ملتا ہے.مسلمانوں نے کچھ رسومات عیسائیوں سے لیں کچھ ہندؤوں سے دوسرے ممالک میں بھی ان کا وجود نہیں ملتا.

Page 543

خطابات مریم 518 خطابات اللہ تعالیٰ نے حضرت مہدی علیہ السلام کو اسی لئے مبعوث فرمایا کہ ہماری ہدایت کے ذرائع قرآن ، سنت رسول اللہ ﷺ اور احادیث نبی ﷺ ہیں.جس بات کا ثبوت ان تین ذرائع سے نہ ملے وہی بدعت ہے اور ہمارے لیے حرام ہے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ غیر احمد یوں سے ملنے جلنے کے نتیجہ میں وہ بہنیں جنھیں خود اپنے عقائد کا صحیح علم نہیں ان کی نقل کرنے لگتی ہیں.کئی شہروں اور دیہات سے ایسی شکایات موصول ہوتی ہیں کہ وہ قرآن خوانی.فاتحہ خوانی اور ނ قل کی مجالس میں شرکت کرتی ہیں.اور بعض نے خود بھی کیں.اور کروائیں.جہاں شکایت مل جائے وہاں تو ان کو سمجھا دیا جاتا ہے لیکن جہاں کا علم ہی نہ ہو سکے وہاں مجبوری ہے.عبہ تعلیم اور تربیت کی سیکرٹریان کو چاہیے کہ اس طرف بہت توجہ دیں.شعبہ تعلیم کا کام ہے کہ ہر مسئلہ کو کھول کر ان کو سمجھا ئیں تا ان کو علم ہو کیا غلط ہے کیا صحیح ہے.لجنہ مرکزیہ نے میری ایک تقریر کتا بچہ کی صورت میں شائع کروائی ہے.جن صدروں کو خود بھی علم نہ ہو وہ اسے خود پڑھیں اور بہنوں کو بتائیں اور شعبہ تربیت کا کام ہے کہ نگرانی رکھیں ایک ایک احمدی گھرانے کی.بہت بڑی ذمہ داری ہے.اگر اس سے آنکھیں بند کی گئیں تو ڈر ہے کہ جماعت میں بدرسومات جاری نہ ہو جائیں.اس سال حضرت خلیفتہ اسیح لرابع یدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے کئی خطبات میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ بے شک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دشمن کو اللہ تعالیٰ نے غرق کیا.آپ کو فتح عطاء فرمائی لیکن آپ کی قوم کے کچھ لوگ جب آپ کچھ دن کے لیے اپنی قوم سے الگ ہو کر عبادت کے لئے گئے تو بگڑ بھی گئے.اور شرک اختیار کر لیا.حضور نے بُرائیوں کو دور کرنے اور آئندہ نسل کی تربیت کے طریقے بھی بیان فرمائے جن میں سر فہرست اپنی نئی نسل کو نماز پر قائم کرنا ہے.اس سال جلسہ سالانہ برطانیہ کے پہلے دن خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ جماعت احمدیہ کی تاریخ کے سو سال عنقریب پورے ہونے کو ہیں.جوں جوں اگلی صدی قریب آتی جارہی ہے میں جماعت کو مختلف رنگ میں تربیتی امور کی طرف متوجہ کر رہا ہوں ان میں سے سب سے اہم اور جسکی طرف میں جماعت احمد یہ عالمگیر کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ نماز با جماعت کے قیام سے متعلق ہے.نماز عبادتوں کی روح اور ان کی

Page 544

خطابات مریم 519 خطابات پیدائش کا مقصد ہے.آپ نے مزید فرمایا کہ مجھے یہ دیکھ کر تکلیف پہنچتی ہے کہ ہم ابھی تک نماز کے سلسلہ میں اپنی آئندہ نسلوں کی ذمہ داری ادا نہیں کر سکے.یہی وہ امر ہے جو پہلی صدی کے آخر پر میرے لئے سب سے زیادہ فکر کا موجب بن رہا ہے.جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا اگر جماعت اگلی صدی میں اس حال میں داخل ہو کہ ہماری اگلی نسلیں نماز سے غافل ہوں.اس میں کوئی شک نہیں.کہ جماعت کے اخلاص کا عمومی معیار اس ابتلاء کے باوجود اس دور میں بہت بلند ہوا ہے لیکن یہ اخلاص اپنی ذات میں محفوظ نہیں اگر اس کو نماز اور عبادت کے برتنوں میں محفوظ نہ کیا جائے.حضور نے اس مقصد کے حصول کے لیے دعا کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ یہ عظیم الشان کام دعا کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتا.آپ اپنی نسلوں کو کبھی نمازوں پر قائم نہیں کر سکیں گے.جب تک آپ ان کے لیے در دمحسوس نہیں کرینگے.بس انہیں اس طرح نمازوں کی طرف متوجہ کریں کہ وہ رفتہ رفتہ آگے بڑھیں.آپ بھی اپنے پروگراموں میں سر فہرست نماز کے قیام کو رکھیں.تعلیم وتربیت اور ناصرات کے شعبہ جات کو خصوصاً اس مقصد کے حصول کے لیے کوشش کرنی چاہیے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نیتوں کی صفائی پر بہت زور دیا ہے.کیونکہ اعمال کے نتیجے نیتوں کی صفائی پر منحص ہیں.لڑائی جھگڑے اور فسادسب نیتوں کی برائی کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں.اگلی صدی صرف جشن منانے کے لیے نہیں ہے بلکہ بہت بھاری ذمہ داریاں اپنے ساتھ لا رہی ہے.ہر گھر ایک مدرسہ بن جانا چاہیے.دینی تعلیم و تربیت کا.قرآن مجید ناظرہ اور ترجمہ سیکھنے کی طرف توجہ دیں اجتماع جلسے بند ہونے کی وجہ سے بھی بہت سی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں.عہد یداروں کا کام ہے کہ وہ اپنی ہر عہدہ دار بلکہ ہر ممبر تک یہ باتیں پہنچا ئیں اور پھر نگرانی کریں اور صحیح رپورٹ بھی دیں.شعبه تجني کئی سالوں سے لجنہ مرکز یہ اس بات پر زور دے رہی ہے کہ تمام لبنات کے مکمل اعداد و شمار لجنہ مرکزیہ کے پاس ہونے چاہیے.یہ سہ ماہی کا گوشوارہ ضلعی لجنات کو بھجوایا گیا.ضلعی صدروں

Page 545

خطابات مریم 520 خطابات اور مرکز کی کوشش کے باوجود ابھی تک 81 لجنات ایسی ہیں جن کی تجنید نہیں آئی.اس تعداد میں سب سے بڑی تعداد ضلع سیالکوٹ کی ہے.یہ تفصیل پھر ضلعی نمائندگان کو دی جارہی ہے.پہلی سہ ماہی میں مرکز یہ لجنہ کو بھجوانی ان کی ذمہ داری ہے.(جنوری تک ) یعنی جن جن ضلعوں کی رہ گئی ہے مکمل جائزہ تیار ہونے پر جو نتائج سامنے آئے ہیں ان کی روشنی میں ہر ضلع کو ہدایات دی جائینگی.: تک کسی لجنہ کے متعلق مکمل کوائف کا علم نہ ہو اس کی طرف توجہ نہیں دی جاسکتی.جتنی تجنید آچکی ہے اس میں ضلع وارخواندگی.ناظرہ.باترجمہ.موصیات.چندہ دہندگان اور تحریک جدید کی شمولیت کی فیصدیوں ہے.ضلع پشاور میں خواندگی کا تناسب %96 ہے.بعض چھوٹے ضلعوں اٹک اور کوہاٹ میں %100% بھی ہے.کراچی کی %95 ہے.ناظرہ قرآن مجید صرف اٹک اور میانوالی کا %100 ہے.کراچی %97، ربوہ %96،حیدرآبادہ%91، ڈیرہ غازیخان 95%،سانگھڑ %92، ساہیوال %91، قصور %91، فیصل آبادہ %91، کوئٹہ %95 ، لا ہور %90، مظفر آباد %93 ، مظفر گڑھ %95 ، چکوال %96.باترجمہ کا تناسب : کو ہاٹ %60 ، چکوال %41 ، ربوہ %39 ، لا ہور %38 ، موصیات ربوہ 19 ، اسلام آباد %14 ، پشاور %13 ، حیدر آباد %11 ، راولپنڈی %10 ، سکھر %14 ، کراچی %15 ،کوئٹہ %13 ،لاہور %14 ، ہزارہ %13، تحریک جدید : ربوہ % 99، اٹک %100 ، سانگھڑ %96 ، کراچی %42 ،مظفر آباد %93، راولپنڈی %61 ، اسلام آباد %80 ، پشاور %88، خیر پور %88.شعبه اصلاح وارشاد تحریک جدید تنظیم موصیات اور خدمت خلق نے بھی ٹھیک کام کیا ہے.اور پوری محنت کی ہے.اصلاح وارشاد کے کام میں جور کا وٹیں

Page 546

خطابات مریم 521 خطابات ہیں.وہ آپ کو معلوم ہی ہیں.نہ کوئی اعلان شائع کیا جاسکتا ہے.نہ ڈاک میں پوری طرف ہدایات دی جاسکتی ہیں.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس شعبہ کی اہمیت کو نہ سمجھا جائے.یہ تو آپ کی اولین توجہ چاہتا ہے.جو نعمت اور سچائی اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہے اس سے دوسروں کو کیوں محروم رکھیں پھر ہمارے متعلق اتنی غلط فہمیاں پھیلا دی گئی ہیں.کہ اپنے عمل سے اپنے اعلیٰ اخلاق سے آپ نے ان کو دور کرنا ہے.یہ ایک مسلسل جہاد ہے جو آپ نے اس سلسلہ میں کرنا ہے.صحت جسمانی کے شعبہ نے پہلے سے نمایاں ترقی کی ہے.لیکن کھیلوں کا معیار اس سے بہت بلند ہونا چاہیے.جو بھی حصہ لیں گی اول دوم سوم تو کوئی نہ کوئی آئیگا اصل چیز کھیل کا معیار ہے گذشتہ کھیلوں پر کثرت سے بچیاں اور عورتیں محض تماشہ دیکھنے آ گئیں عملاً انکا کوئی حصہ نہ تھا.جس کی وجہ سے بڑی گڑ بڑ ہوتی رہی.صرف کھیلنے والیاں اور ان کی نگران آئیں.بچہ کوئی ساتھ نہ لائے اور جو اصول مقرر کر کے چھپوا دئے گئے ہیں ان پر سختی سے عمل ہو.یہ نہیں کہ ادھر کھیلوں کا افتتاح ہو رہا ہے اُدھر لڑ کیاں آرہی ہیں کہ اُن کے نام لکھ لئے جائیں.جس نے ضرور شامل ہونا ہے وہ اگر اس دن سے پہلے بھی فیس اور فارم جمع کرانیکی مقرر کی جائے تو جمع کراسکتی ہیں.ممکن ہے یہ قصور کھیلنے والیوں کا نہ ہو بلکہ ان کی صدروں اور سیکرٹریان کا ہو.بہر حال شعبہ صحت جسمانی کو بھی سختی سے اس کی پابندی کرنی چاہیے.بدانتظامی بھی اس سے پیدا ہوتی ہے.اور کھلاڑی اور ان کی منتظمات کی عادتیں بھی بگڑتی ہیں.کہ اس دفعہ لے لیا تو آئندہ بھی لے لیں گے.ان بے پر وا ہوں کو چھوڑیں اور جو ہدائتیں دی جائیں ان پر عمل کریں.جو دن تاریخ اور وقت مقرر کیا جائے اس وقت تک مکمل فارم مع رقم جمع کروا دیا جائے.اور بچیوں میں یہ جذ بہ پیدا کریں کہ پوری محنت سے مقابلہ کرنا ہے ہارنے کے نتیجہ میں لڑنا جھگڑنا نہیں.اگر کھیلیں احمدی بچیوں میں آپس میں نفرت کا موجب بن جائیں تو ان کھیلوں کا کیا فائدہ؟ آئندہ سال انشاء اللہ ناصرات کی کھیلیں بھی کروائی جائیں گی.فروری میں الگ الگ پرائمری.مڈل.اور میٹرک کے امتحانات ہوتے ہیں.اس لیے ہمارا خیال ہے کہ نومبر میں منعقد

Page 547

خطابات مریم 522 خطابات کی جائیں اس سلسلہ میں آپ مشورہ دیں تا معتین فیصلہ کر کے آپ کو پروگرام بنا کر بھجوایا جائے یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ بطور نمونہ آخر نومبر یا شروع دسمبر 88ء میں صرف ربوہ کی کھیلیں کروالیں.1986 ء میں لجنہ اماءاللہ نے دستکاری کا کام اس لیے شروع کیا تھا کہ غریب عورتوں کو جن کا کوئی روز گار نہیں کام مہیا کیا جائے.اس کے لیے 20000 روپے دستکاری مرکز کو دیے گئے تھے.جس سے انھوں نے ریڈی میڈ جوڑے بنا کر فروخت کئے.اس میں انھیں اس وقت تک کل /6834 روپے کا منافع ہوا ہے.اس وقت تک 55 لڑکیاں اور خواتین نے کام کیا ہے.کچھ جب کام سیکھ جاتی ہیں.تو چھوڑ دیتی ہیں.ایک وقت میں عموماً بارہ تیرہ لڑکیاں کام کر رہی ہوتی ہیں.اور تین چار گھر پر لے جاتی ہیں.اس طرح اوسطاً سولہ لڑکیاں روزانہ کام کر رہی ہوتی ہیں.چونکہ کام سکھانے والیاں کم ہیں اس لیے فی الحال اس سے زیادہ نہیں دیا جا سکتا.ورنہ کام لینے کی خاصی بڑی تعداد خواہش مند ہے.دستدکاری نمائش مرکز میں تو بڑے پیمانے پر نہیں لگائی جاسکی چونکہ 1983 ء کے بعد جلسہ سالانہ منعقد نہیں ہوا.صرف 1985 میں اجتماع ہوا تھا.لجنہ ربوہ سال میں ایک یا دو بار نمائش لگاتی ہے.اس اجتماع پر بھی لگائی.ساتھ ہی مرکز کا تیار کردہ سامان بھی رکھا گیا اور انڈسٹریل سکول کا بھی.لجنات نے اپنے شہر اور ضلع میں نمائش لگائی اور مرکز کو منافع دیا.اس سلسلہ میں پھر آپ سے یہ کہوں گی کہ اصل کام رقم دینا نہیں بلکہ اصل کام یہ ہے کہ عورتوں سے کام کروائیں.آپ کی رپورٹ میں یہ بھی ہونا چاہیے کہ دستکاری کا کام کرنے والی کتنی عورتوں نے محنت کی.اجرت لے کر یا بلا اُجرت.آپ ان اصولوں پر کام کریں جن اغراض کے ماتحت حضرت مصلح موعود نے نمائش کا کام لجنہ کے سپرد کیا تھا.1934ء کے جلسہ سالانہ کی تقریب میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:."1936 ء فروری سے نمائش ہوا کرے اور اس میں سب جگہ کی عورتیں چیزیں بھیجا کریں.وہاں یہ چیزیں بک سکتی ہیں.اور یہ لاہور میں نمائش ہو.اس میں ہر جگہ کی عورتیں شامل ہوں.حیدر آباد دکن، بنگال، یوپی، سرحد، پنجاب کی عورتیں بھی آئیں

Page 548

خطابات مریم 523 خطابات اور اس وقت جو مخالفت ہو رہی ہے اس کے جواب میں ہماری عورتیں عورتوں کو تبلیغ کریں.اور اس کا نفرنس نمائش میں قصور، اوتر ، فیروز پور، گوجرانوالہ، ہر ضلع کی عورتیں ہوں.لیکچراروں کو عمدگی سے لیکچروں کے لیے تیار کرایا جائے.میں اس کی مدد کیلئے مرد بھی مقرر کر دوں گا“.آج تک حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی تجویز پر لجنہ عمل نہیں کرسکی.میری خواہش ہے کہ کم از کم جشن صد سالہ کے موقعہ پر اس ٹائپ کی ایک نمائش لاہور میں لگائی جائے جہاں دستکاری کا کام بھی ہو.کھانے پینے کی دوکانیں بھی ہوں.لٹریچر بھی ہو اور اگر انتظام ہو سکے تو ویڈیو کے ذیعہ سے جماعت کی ترقی ، حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے دورہ جات کی فلمیں دکھائی جائیں.آنحضرت ﷺ کی تعریف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات ، اشعار، جگہ جگہ لکھ کر آویزاں کئے جائیں.غور کرنے سے بہت سی تفصیلات اور تجاویز سامنے آسکتی ہیں.سب سے آخر میں میں جس شعبہ کا ذکر کرنے لگی ہوں وہ ہے شعبہ ناصرات الاحمد یہ جو سب سے اہم شعبہ ہے.لجنہ اماء اللہ کی یہ وہ اینٹیں ہیں جو بنیاد میں رکھی جاتی ہیں.اگر پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھی جائے تو ساری عمارت ٹیڑھی بن جاتی ہے.جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے شت اول چون نهد معمار کج تا ثریا ے رود دیوار کج عموماً لجنات کی عہدیداران کو اس شعبہ کی طرف اتنی توجہ نہیں جتنی ان کو دینی چاہیے.وہ نگرانوں پر کام چھوڑ کر بے فکر ہو جاتی ہیں.یہی وقت ہے جب ان کی دینی تعلیم ہوتی ہے.یہی وقت ان کی تربیت کا ہے.مثل مشہور ہے کہ کچھی شاخ تو موڑی جاسکتی ہے.لیکن سخت ہونے پر موڑا تو ٹوٹ جائیں گی.اگلی صدی کی تمام ذمہ داریاں نوجوان نسل پر پڑیں گی.آج کی بچیاں کل کی مائیں ہونگیں.ان کی نگرانی کریں بچیاں اجلاسوں میں آتی ہیں یا نہیں.دینی کاموں میں دلچسپی لیتی ہیں یا نہیں.یہ آپ کا وہ سرمایہ ہے کہ جس کی طرف توجہ دینے سے آپ کو نفع ہی نفع ہے.آج ان کو ناصرات کے کاموں میں دلچسپی ہوگی تو کل وہی لجنہ کی ذمہ دار کا رکن بنیں گی.نماز کی عادت ڈالیں.سچ بولنے کی عادت ڈالیں.جھوٹ سے نفرت پیدا کر یں.چوری

Page 549

خطابات مریم 524 خطابات سے نفرت پیدا کریں.غیبت سے نفرت پیدا کریں.اعلیٰ اخلاق ان میں پیدا کریں.بے شک اس سلسلہ میں تربیت کی بڑی ذمہ داری ماں باپ کی ہے.مگر لجنہ کی تنظیم کی ذمہ داری بھی کچھ کم نہیں.ان پھولوں کو مرجھانے نہ دیں بلکہ ایسی نشو ونما کریں کہ ان کی خوشبو سے گلستانِ عالم مہک اُٹھے.آئندہ جب مرکز سے عاجزہ کو یا سیکرٹریان کو دعوت دیں تو ناصرات الاحمدیہ کا پروگرام ضرور باقی پروگراموں کے ساتھ ہو خواہ الگ ہو یا لجنہ کیساتھ.وقت کی مناسبت سے لیکن ہو ضرور.اسی طرح آئندہ انشاء اللہ مرکز میں جو میٹنگز ہوں یا ضلعی سطح یا تحصیل کی سطح پر ہوں سیکرٹری ناصرات کو ضرور بلوایا کریں.چندہ وقف جدید کی طرف توجہ دیں آمد کی رفتار کم ہے.واپس جا کر کوشش کریں کہ اسی ماہ یہ چندہ ناصرات ختم ہو جائے.مجھے آپ سے یہ بھی کہنا ہے کہ ہر شہر کی ساری مجلس عاملہ کو پورے لائحہ عمل کا مطالعہ کرنا چاہیے انہی امور کی ہدایات قصبات اور دیہات کو بھی دینی ہیں.اور ان جائزوں کا بھی مطالعہ کریں جو آپ کو دئے جاتے ہیں.گذشتہ میٹنگ 26 اکتوبر کو ہوئی تھی اس مرکزی میٹنگ کے علاوہ مرکز میں ضلع جھنگ.ڈسکہ.پسرور کی لجنات نے ان ہدایات اور فیصلوں پر عمل نہیں کیا.نیا سال شروع ہے.آپ سب لائحہ عمل کا اچھی طرح مطالعہ کریں تو کام میں آسانی ہوگی اور ایک عہدہ دار دوسری کو مشورہ دے سکے گی.اپنے ضلع میں لائحہ عمل اس ماہ میں ہر لجنہ تک پہنچانے کی کوشش اور انتظام کریں اور ان کو بھی یہ تاکید کریں کہ اچھی طرح پڑھیں.بعض دفعہ سال ختم ہونے پر ہوتا ہے.اور لجنات کی طرف سے خط آتا ہے کہ ابھی تک لائحہ عمل نہیں آیا اگر کسی وجہ سے نہیں بھی پہنچتا تو ان کا کام ہے بار بار لکھ کر منگوا ئیں.سارا سال سوئی رہتی ہیں اور جب سالانہ رپورٹ بھجوانے کا وقت آتا ہے تو لکھتی ہیں کہ لائحہ عمل ہی نہ تھا کام کس طرح کرتے.آپ جانتی ہیں کہ جماعت احمدیہ کی مجلس مشاورت میں لجنہ کو بھی نمائندگی حاصل ہوتی ہے.1988ء کی مشاورت میں لجنہ اماءاللہ کی 30 نمائندگان نے شرکت کی اور لجنہ اماءاللہ کی طرف سے بھجوائی ہوئی تجاویز میں سے تین تجاویز لجنہ مرکز یہ لجنہ ربوہ اور لجنہ گوجرانوالہ کے ایجنڈے پر رکھی گئیں.

Page 550

خطابات مریم 525 خطابات اب میں بیرون پاکستان لجنات کے سلسلہ میں چند خوشخبریاں آپ کو سناؤں گی.پہلی تو یہ ہے کہ ہماری سویڈش احمدی بہن قانتہ جو ڈنمارک اور جرمنی کی لجنات کی صدر بھی رہ چکی ہیں.وہ کچھ عرصہ سے قرآن کریم کا سویڈش زبان میں ترجمہ کر رہی تھیں مکمل ہونے پر الحمد للہ اس سال وہ شائع ہوا جس کا ذکر حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر بھی کیا.انہوں نے خواہش کی کہ وہ قرآن مجید کی پہلی کا پی خود حضور کی خدمت میں پیش کرنا چاہتی ہیں.چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لنڈن جانے کا انتظام کیا گیا.اور انہوں نے وہ حضور کی خدمت میں پیش کی.ایک چھوٹی سی تقریب کی صورت ہوگئی.فوٹو بھی کھینچا گیا.( فوٹو اجلاس میں دکھائے گئے ) حضور نے ان کو مبارکباددی اور مٹھائی کھلائی.گو یہ ترجمہ کا کام حضور ایدہ اللہ کی براہ راست ہدایات کے مطابق انہوں نے کیا لیکن ہم خوش ہیں بہت خوش کہ اس عظیم اور نیک کام کی سعادت ایک عورت اور ممبر لجنہ کو حاصل ہوئی.ہم انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں.اللہ تعالی اس سے بڑھ کر ان کو خدمات کی توفیق عطا فرمائے ( آمین ) اسی طرح امریکہ کے دورہ میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے حضرت مصلح موعود کی دیباچہ تفسیر القرآن انگریزی کا انڈیکس بنانے کی عورتوں کو تحریک فرمائی.جس پر امریکہ کی لجنہ نے یہ ذمہ داری اُٹھائی اس کی تفصیل خود حضور کی زبانی سنئے.یہ تفصیل ضمیمہ ماہنامہ خالد میں ( خدمت قرآن میں احمدی خواتین کا حصہ) کے عنوان سے ستمبر 1988ء میں شائع ہو چکی ہے حضور نے فرمایا :.اس ضمن میں ایک نہایت ہی اہم دعا کی درخواست آپ سے کرنی چاہتا ہوں.اس کمنٹری میں ( بعض انگریزی میں قرآن مجید کی کمنی جو پانچ جلدوں میں ہے جو حضرت مصلح موعود کے نوٹوں پر مشتمل ہے ) ایک ایسی تھی جو اہل علم کے نزدیک ایک بڑا استقم تھا اور وہ یہ تھا کہ اس کے پیچھے کوئی انڈیکس نہ تھا.پانچ Volume کی کمنٹری ہوا نڈ میکس نہ ہو تو مختلف علم سے تعلق رکھنے والے علماء جو تحقیق کرتے رہتے ہیں وہ اس چیز کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے گھڑی لگی ہوئی ہو.اس کی مشین تو کام کر رہی ہو لیکن اس کی سوئیاں نہ ہوں اور وہ وقت نہ بتا سکے.آج کے زمانہ میں اتنا وقت علماء کو ملتا ہی نہیں کہ ساری کتابیں الف سے آخر تک پڑھ سکیں گے.وہ انڈیکس

Page 551

خطابات مریم 526 خطابات کے ذریعہ مضامین تلاش کرتے اور مضمون تک پہنچتے ہیں.پانچ والیوم میں وہ انڈیکس نہیں تھا جب مجھے پتہ چلا کہ یہ حالت ہے اور اس وقت کتاب چھپنے کے قریب تھی بہت تھوڑا وقت رہ گیا تھا.اور پر لیس نے کہا کہ ہم زیادہ انتظار نہیں کر سکتے ہمارا کنٹریکٹ ہے.آپ کو جرمانہ پڑنا شروع ہو جائیگا.لیکن یہ ضرورت اتنی شدید تھی کہ میں نے امریکہ کی احمدی خواتین سے درخواست کی کہ وہ اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کریں.ورنہ ہمارے پاس اور کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ یہ انڈیکس تیار کر سکیں.چنانچہ مسز عائشہ شریف کی قیادت میں امریکہ کی احمدی خواتین کو یہ توفیق ملی کہ بہت تھوڑے عرصہ میں دن رات کمپیوٹر پر کام کر کے ایک نہایت ہی اعلیٰ اور جامع و مانع انڈیکس تیار کر دیا ہے.اس میں جن خواتین نے حصہ لیا ہے ان کے نام دعا کی تحریک کے طور پر پڑھنا چاہتا ہوں.مسز عائشہ شریف ،نیم یعقوب ، عائشہ حکیم ، شکورہ نور یہ سلمی غنی ، خدیجتہ الہادی ، رفیعہ راما ، خلعت الہ دین ، طاہرہ عظمی سعید، فرزانه قادر، فاطمه حنیف اس کے علاوہ اس انڈیکس کو چھپوانے کے وقت پروف ریڈنگ کی بہت ضرورت تھی کیونکہ کام جب بہت تیزی سے کیا جائے تو بعض دفعہ کئی خلاء رہ جاتے ہیں.اس لیے بہت احتیاط کی ضرورت تھی.چنانچہ منیر الدین شمس اور ظفر محمود ( یہ ہمارے صوفی ابراہیم صاحب کے صاحبزادے ہیں ) انہوں نے مل کر محنت کی.اور بعض احمدی بچیوں نے یہاں بھی ان کا ساتھ دیا.ان کے نام بھی دعا کی خاطر پیش کرتا ہوں.شازیہ شاہ، مینا رشید، فوزیہ رشید، نبیله مجید، امته الصبور اعجاز ، رعنا ملک سیمین طیبہ.پس آپ جب دیکھیں گے تو آپ کے دل سے خود دعائیں نکلیں گی کہ کتنا اچھا خوبصورت انڈیکس ماشاء اللہ اس کمنٹری کے ساتھ تیار ہو چکا ہے.“ اس سال لجنہ اماءاللہ انگلستان کو حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اپنا دفتر اور ہال وغیرہ بنانے کیلئے اسلام آباد انگلستان میں ایک قطعہ زمین عطا فرمایا اور 21 /اگست 1988ء کو اس کا سنگ بنیاد بھی رکھا جو مصباح میں چھپ چکا ہے.تفصیل بھی اگلے کسی پر چہ میں آجائے گی.لجنہ یو.کے کے علاوہ لجنہ نائجیریا نے کافی عرصہ سے ایک قطعہ زمین او جوکور د.میں جو

Page 552

خطابات مریم 527 خطابات جماعت احمدیہ نائیجیریا کا صدر مقام ہے خریدا ہوا تھا اس کے اردگرد چار دیواری اور شیڈ بنوایا ہوا تھا.میرے قیام کے دوران بھی ایک تقریب وہاں ہوئی تھی.20 رفروری 1988ء کو حضرت خلیفۃ اسیح الرابع نے جب آپ اس ملک کا دورہ فرما رہے تھے سنگ بنیا درکھا.تمام بیرونی لجنات کو کہا گیا تھا کہ جشن تشکر صد سالہ سے قبل اپنے ملک کی تاریخ شائع کریں انڈونیشیا کی لجنہ اپنی تاریخ شائع کر چکی ہیں.لجنہ ماریشس.جرمنی.گیمبیا اور ہالینڈ کی لجنات نے اپنی اپنی لجنہ کی تاریخ لکھ لی ہے.اپنی زبان میں ترجمہ کے بعد اگلے سال تک امید ہے کہ شائع کر دی جائینگی باقی بجنات بھی تیاری کر رہی ہیں.لجنہ مرکزیہ کی تاریخ 1977 ء تک شائع شدہ ہے.1977ء سے 1982ء تک کے حالات پر پانچویں جلد کا کام شروع کر دیا گیا ہے.اور پوری کوشش کی جائے گی کہ خلافت ثالثہ کے اختتام تک کے حالات پر مشتمل یہ جلد اگلے سال شائع ہو جائے.تین لڑکیاں فی الحال اس کام کو محنت کے ساتھ کر رہی ہیں.انشاء اللہ اب اس میٹنگ کے بعد خصوصی توجہ اس کام کی طرف دوں گی.اس عرصہ میں کام کرنے والی اچھی کارکنات کے حالات یا خصوصی کاموں کا تذکرہ ضرور بھجوائیں شامل کیا جائیگا.یعنی 1977ء سے 1982 تک کے.اس کے علاوہ ہر لجنہ کے متعلق کہ کب قائم ہوئی.کون پہلی صد تھی لجنات کوسرکر بھجوایا تھا.اس میں ہمارے ساتھ تعاون کی ضرورت ہے.اس سال پاکستان میں شدید سیلاب آیا جس کی تفصیلات کا آپ کو علم ہی ہے.سیلاب کی وجہ سے ہی اجتماعات ملتوی کر دئے گئے.دیہات سے بہنوں کو پہنچنا مشکل تھا.خدام الاحمدیہ نے ہر جگہ اپنے کیمپ لگائے.اور خدام الاحمدیہ اور لجنہ نے مل کر سیلاب زدگان کے لیے کام کیا.ضرورت خدام کی طرف سے لجنہ کو بتادی جاتی تھی.گندم.کپڑے.کھانا پکا کر.بستر جمع کرنے لجنہ کا کام تھا.اور جہاں جہاں سیلاب آیا ان ضلعوں کی لجنہ نے بہت کام کیا.مکرمی صدر صاحب خدام الاحمدیہ نے مجھے یہ بتایا کہ اس طرح کام کرنا بہت کامیاب رہا ہے.کہتے ہیں کہ سب سے اچھا کام سیالکوٹ کا رہا.پھر ضلع شیخو پورہ کا.پھر ساہیوال کا.اور اس کے بعد ملتان اور گوجرانوالہ کا.لجنہ کی سالانہ رپورٹ میں ہمیں سیلاب کی رپورٹیں صرف گوجرانوالہ، فاروق آباد، ضلع شیخوپورہ، داتہ زید کا ضلع سیالکوٹ ، جلیل ٹاؤن ضلع گوجرانوالہ ،شہر شیخو پورہ، شہر وضلع

Page 553

خطابات مریم 528 خطابات سیالکوٹ اور مظفر گڑھ کی ملی ہیں.اب میں کچھ اگلے سال کے کاموں کے سلسلہ میں کہنا چاہتی ہوں.ہدایات تو شائع کر دی گئی ہیں.مارچ 1989 ء سے جشن تشکر صد سالہ شروع ہو رہا ہے.جو احمدیت کی تاریخ میں ایک عظیم سال شمار ہوگا.کتنی ہستیاں اس سال کے انتظار میں رخصت ہوگئیں.اور آنے والی نسلیں جب تاریخ میں ان کا ذکر پڑھیں گی تو ان پر رشک کریں گی جن کا اس میں حصہ ہو گا.میری بہنو! اللہ تعالیٰ آپ سب کو زندگی عطا کرے.اور یہ خوشی کا موقعہ آپ کو دیکھنے اور حصہ لینے کی سعادت عطاء فرمائے.لیکن یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ایک دو دن میں ہم اس کی تیاری کرلیں گی.سارا پروگرام آپ کو پہلے بھی بھجوایا جا چکا ہے.لائحہ عمل میں بھی شائع کر دیا گیا ہے.ہر ماہ کی رپورٹ میں اُس کی تیاری کا ذکر کرنا چاہیے.علاوہ دستکاری کی نمائش کے ایک اور نمائش دس دسمبر 1989 ء سے 15 جنوری 1990 ء تک لگائی جائے گی.جو لجنہ اور جماعت کی ترقی کو ظاہر کریگی.اجتماع پر بھی لگائی جائے گی.یہ نمائش مرکزی لجنہ کے زیر انتظام لگے گی.اگر ہر لجنہ اپنی ضلعی سطح پر بھی لگائے تو غور کریں.احمدیوں کے سوا دوسروں کو بھی بلا کر دکھا ئیں.تو بہت فائدہ ہوگا.اس نمائش کی انچارج بیگم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب کو بنایا گیا ہے.اس میں جب سے لجنہ قائم ہوئی اس وقت سے اب تک کی تمام کا رکنات جو اپنے اپنے زمانہ میں خدمات بجالا رہی ہیں.ان کا مختصر ذکر اگر فوٹو بھی مہیا ہو سکے.اس کے ساتھ آویزاں کئے جائینگے.ہر ضلع کوشش کرے کہ ان کے شہر اور ضلع میں سے جو بہت نمایاں کام کرنے والی گذری ہیں ان کے مختصر حالات اور اگر فو ٹو بھی مل جائے تو بھجوا ئیں کوئی تاریخی تصویر ہو تو وہ بھی.نمائش ختم ہونے پر بے شک واپس لے لیں.اس نمائش میں جماعت احمدیہ کی خواتین کی تعلیمی ترقی بھی دکھائی جائیگی.جس نے بھی بور ڈ یا یو نیورسٹی میں اول، دوم، سوم پوزیشن لی ہو.میڈل لئے ہوں ان کے سرٹیفکیٹ کی فوٹوسٹیٹ بھجوا ئیں.آپ کی طرف سے مفید تجاویز کا خیر مقدم کیا جائے گا.لجنہ مرکزیہ کی طرف سے ایک مجلہ بھی شائع کیا جائیگا.تیاری ہو رہی ہے.اس سلسلہ میں بھی بہنوں نے پورا تعاون نہیں کیا.مصباح کے بھی دو خصوصی نمبر ہو نگے.ایک مارچ میں اور

Page 554

خطابات مریم 529 خطابات ایک جلسہ سالانہ کے موقعہ پر اس میں بھی آپ کے تعاون کی ضرورت ہے.مصباح کا چندہ 3 روپے سالانہ کر دیا گیا ہے.آئندہ سال کے پروگرام تو اس سال کے لائحہ عمل میں شائع کر دیئے گئے ہیں.ان کی روشنی میں ہر لجنہ اپنے پروگرام بنائے.اور اس کے نتائج مرکز کو بھجوائے.لیکن ظاہری طور پر جشن منانے اور خوشی کے اظہار کے ساتھ ساتھ دلوں میں تبدیلی پیدا کریں.اپنے آپ کو دنیا کیلئے نمونہ بنائیں.اللہ تعالیٰ بھی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک ان کے دلوں میں تبدیلی پیدا نہیں کرتا جب تک کہ وہ خود دلوں میں تبدیلی پیدا نہ کریں.حضرت خلیفۃ امسیح الرابع بھی اگلی صدی کے آنے سے قبل جماعت کو تربیتی امور کی طرف بار بار توجہ دلا رہے ہیں.نماز کے قیام کی طرف کئی خطبات میں توجہ دلائی.نیتوں کی صفائی پر بھی.اب 21 /اکتوبر کے خطبہ میں لین دین کی صفائی پر زور دیا ہے.اور فرمایا جس نے اصلاح نہ کی اس کے خلاف جماعتی کارروائی کی جائے گی.درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود سرمہ چشم آریہ میں فرماتے ہیں.مذہب کی جڑھ خدا شناسی اور معرفت نعماء الہی ہے اور اس کی شاخیں اعمال صالحہ اور اس کے پھول اخلاق فاضلہ اور اس کا پھل برکات روحانیہ اور نہایت لطیف محبت ہے جو رب اور اس کے بندہ میں پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے پھل سے متمتع ہونا روحانی تقدس و پاکیزگی کا مثمر ہے.(روحانی خزائن جلد 2 ، سرمه چشم آریہ صفحہ 281) ان چند سطروں میں حضرت مسیح موعود نے ایک وسیع مضمون بیان کیا ہے کہ مذہب کی جڑ کیا ہے.اور وہ کیا ذرائع ہیں جن سے پہچانا جا سکے کہ واقعی یہ شخص صداقت پر ہے اور کیا اس مذہب کو ماننے کے نتیجہ میں اس میں وہ عظیم الشان تبدیلی پیدا ہوئی ہے یا نہیں؟ پس احمدیت کی صداقت کے ثبوت میں ہم نے اپنے اخلاق فاضلہ اور روحانی برکات کو احمدیت کے پھولوں اور پھلوں کے طور پر پیش کرنا ہے.حضرت مسیح موعودؓ کو ماننے اور احمدی جماعت میں شامل ہونے کے ذریعے کیا انقلاب ہماری زندگیوں میں رونما ہوئے.اگر کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی تو مانے کا کیا فائدہ وہ تبدیلی اتنی نمایاں ہونی چاہیے کہ ہمیں کا فر ہی کہیں

Page 555

خطابات مریم 530 خطابات مگر اس تبدیلی کا اقرار کریں.اس وقت تو ہماری ساری دنیا سے روحانی جنگ چھڑی ہوئی ہے.اور نئی صدی شروع ہونے والی ہے پس کوشش کریں اور کرتی چلی جائیں کہ ہم اپنی اصلاح کریں اور اپنے بچوں کی اصلاح کریں.اپنی روایات اور اقدار چھوڑ کر دوسروں کی نقل نہ کریں صداقت ہمارے ساتھ ہے لیکن اللہ تعالی کے فضل کو جذب کرنے کے لیے ہمارے اعمال ہمارے دعوی کے مطابق ہونے چاہیے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے خطبات سنیں.اور اپنی اپنی لجنہ میں کوشش کریں.کہ کوئی بہن اس سے محروم نہ رہے.پھر ان پر عمل کرنے کی تاکید کریں.خاص طور پر نئی نسل کی تربیت کی طرف بہت توجہ کریں.ہمت نہ ہاریں.ان کے دلوں میں ذمہ داری کا احساس پیدا کریں.اس کے لیے خود نمونہ دکھانا پڑے گا.قربانی دینی ہوگی.تب آپ کے بچے آپ کے نقش قدم پر چلیں گے.اسلام کی شکل کو بدلنے نہ دیں.اس کے احکام پر خود چلیں اور سب کے لیے نمونہ بنیں.انشاء اللہ اگلی صدی ہمارے لیے خوشیاں لائے گی.ترقیات اور کامیابیوں کی.شعبہ تربیت کو چاہیے کہ حضور کے خطبات کے اقتباسات پمفلٹ کی صورت میں شائع کریں:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس اقتباس پر اپنی تقریر ختم کرتی ہوں آپ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لیے اور اپنی قدرت دکھانے کے لیے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الہی اور تو بہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن و صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا وے...جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے.اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا“.(روحانی خزائن جلد 3 ، ازالہ اوہام صفحہ 562) ” وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے.دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لیے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے.“ اے اللہ تو ایسا ہی کر.(روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام صفحہ 563) (ازرپورٹ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ )

Page 556

خطابات مریم 531 خطابات تقریب سنگ بنیا د دفتر لجنہ اماء اللہ مقامی ربوہ تشہد وتعوذ کے بعد آپ نے فرمایا :.خدا کا احسان اور اس کا فضل ہے کہ احمدیت کی نئی صدی شروع ہونے کے ساتھ خدا خوشیوں پر خوشیاں دکھا رہا ہے بے شک ظاہری صورت میں ہم کو روشنیاں کرنے کی اجازت نہیں ملی لیکن جو روشنیاں ہمارے دلوں میں ہیں ان کو نہ بجھنے دیں وہ جلتی رہیں گی تو آپ سارے معاشرے کو روشن کرتی چلی جائیں گی.آج خدا نے ہمیں توفیق عطا فرمائی ہے کہ لجنہ ربوہ کے دفتر کی بنیاد رکھی گئی ہے میں سب بہنوں کو ربوہ کی صدر صاحبہ اور تمام ممبرات ربوہ کو مبارک باد دیتی ہوں اللہ تعالیٰ ان کو اس کی تکمیل ہوتی دکھائے اور اس میں زیادہ سے زیادہ محنت و قربانی سے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہر چیز کی ابتداء پیج سے ہوتی ہے لجنہ کی بنیا د 1922ء میں رکھی گئی آج لجنہ خدا کے فضل سے بہت ترقی کر چکی ہے اور دنیا کے بہت سارے ممالک میں قائم ہو چکی ہے.ہم سلام کرتی ہیں ان تمام خواتین کو جنہوں نے اس کی داغ بیل ڈالی.حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم صاحبہ سے لے کر ان چودہ خواتین کو جن پر مجلس عاملہ مشتمل تھی.پھر جو ان کے بعد آئیں اور ہمیں خدا توفیق دیتا چلا جائے کہ خدا کی رضا کی خاطر ہم کسی قربانی میں کوتا ہی نہ کریں.اس کے بعد حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے خلافت سے وابستگی اور اس کی اہمیت واضح کی اور اس صدی میں احمدی خواتین پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.بچوں کی تربیت پر زور دیا قرآن کریم پڑھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی تاکید کی.(ماہنامہ مصباح جون 1989ء)

Page 557

خطابات مریم 532 خطابات دورہ جہلم 12 مارچ 1989ء تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا کہ جہلم وہ جگہ ہے جس نے حضرت مسیح موعود کی قدم بوسی کا شرف حاصل کیا ہے.پاکستان میں تین مقامات لاہور، سیالکوٹ اور جہلم کو یہ سعادت حاصل ہے.جہلم میں حضور مولوی کرم دین کے مقدمہ کے سلسلہ میں تشریف لائے تھے.مخالفین آپ کے خلاف حربوں میں مصروف تھے.لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کی اس رنگ میں معاونت فرمائی کہ ایک ہزار کے قریب افراد نے اُس وقت آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.1903ء میں مقدمہ کی پیشی پر اس قدر مخلوق آپ کے چہرہ مبارک کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بے تاب تھی کہ انتظام کرنے والوں کیلئے بہت دشواری پیش آئی تھی.بزرگ افراد نے بیعت کے بعد بہت سی قربانیاں پیش کیں.مجھے افسوس ہے کہ یہاں کے بزرگوں نے اس قدر قربانیاں دیں لیکن ان کی نسلوں میں سے بعض نے ویسی استقامت نہ دکھائی اور احمدیت سے پھر گئے.یہاں تعداد کی جو کمی ہے اُسے دعاؤں سے بدلنے کی کوشش کریں.اب سے چند دنوں کے بعد جماعت احمد یہ انشاء اللہ نئی صدی میں داخل ہوگی.خدا تعالیٰ کا اپنے نبی سے وعدہ ہے کہ میں احمدیت کو غلبہ عطاء کرونگا.حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میں تو صرف تخم ریزی کیلئے آیا ہوں.یہ پیج خوب بڑھے گا اور پھلے پھولے گا.خدا کی بشارات پوری ہوں گی آسمان و زمین مل سکتے ہیں لیکن خدا کا وعدہ ہر گز نہیں ٹل سکتا.آپ کو معلوم ہے کہ قادیان کی بستی سے جو گونج اُٹھی تھی وہ خدا کے فضل سے پھیلتی چلی گئی اور اب دنیا کے ممالک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت پھیل چکی ہے.آپ نے قربانیاں دینے والوں کے متعلق فرمایا کہ ان کا کسی طرح مقابلہ نہیں کیا جا سکتا.سابقون ہمیشہ سابقون ہی ہوتے ہیں.اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے تقویٰ اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی.اور

Page 558

خطابات مریم 533 خطابات فرمایا کہ تقویٰ نیکی کو ہی نہیں بلکہ بدی سے بچنے اور ہر اُس راستہ کو چھوڑنے کو کہتے ہیں جو خدا سے دور لے جانے والا ہو.تقویٰ کی سب سے پہلی راہ حضور اقدس نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جس خیال اور عادت کو ردی پاؤ اس کو کاٹ کر پھینک دو.اگر ہمیں دنیا کی اصلاح کرنی ہے تو ہمیں سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرنی ہوگی.ہمارے اندر کوئی جھگڑا ، بغض، اور کینہ نہیں ہونا چاہیے اگر دو، چار عہدیداران قربانی کرنے والی ہوں اور تمام ممبرات میں سستی اور تساہل موجود ہو تو جماعت ترقی نہیں کر سکے گی.جب تک تمام خواتین کا تعاون حاصل نہ ہو ہم شاہراہ غلبہ اسلام کی طرف گامزن نہیں ہو سکتیں.ہر احمدی خاتون کو اجلاسوں میں حاضر ہونا ہوگا.اور وقت کی قربانی دینی ہوگی.اگر آپ کے دل میں صحیح جذ بہ اور حضور سے سچی محبت کی لگن پیدا ہو جائے تو آپ کبھی بھی دینی محافل سے غیر حاضر نہیں ہوسکتیں.حضور ایدہ اللہ کی ہر تحریک پر لبیک کہیں.اپنے نفسوں کو ٹولیں کہ آپ میں کیا کیا کمزوریاں پائی جاتی ہیں.پھر ان کو دور کرنے کی کوشش کریں.آپ غور کریں کہ بحیثیت احمدی ہونے اور لجنہ کی ممبر ہونے کے آپ پر کیا فرائض عائد ہوتے ہیں.پھر ان کی انجام دہی کیلئے کوشش کریں.کبھی اپنے اندر یہ احساس پیدا نہ ہونے دیں کہ آپ اپنی ہمت سے کچھ کر سکتی ہیں.تمام کام دعا سے کامیابی تک پہنچتے ہیں.دعا کے ذریعہ اپنی کوششوں میں برکت پیدا کرنے کی کوشش کریں خطاب جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودؓ کی کتب کے مطالعہ کی طرف بہت توجہ دیں.نئی نسل کو اس طرف توجہ دلائیں.دعا کریں کہ احمدیت کی ترقی کیلئے جو خواہشات آپ کے اندر پائی جاتی ہیں خدا تعالیٰ اُسے پورا فرمائے.پھر آپ نے حضور ایدہ اللہ کے اس خطبہ جمعہ کا ذکر فرمایا:.جس میں آپ نے شیطانی آیات کو اسلام کیلئے ایک بہت بڑی سازش قرار دیا ہے.فرمایا کہ احمدی کبھی جھوٹا اور دھوکہ باز نہیں ہو سکتا یہ بات آپ کے عملوں سے ظاہر ہونی چاہیے.اگلی صدی میں خدا تعالیٰ ہم سے وہ کام لے جو صرف خدا کی رضا حاصل کر نے کیلئے ہوں.حضرت مسیح موعود نے خدا کی رضا حاصل کرنے کا بہترین طریق یہ بیان فرمایا ہے کہ قرآن کریم کا جوا اپنی گردنوں پر رکھو.جب تک قرآن کریم کا ترجمہ نہیں پڑھیں گے آپ اس کی تعلیمات پر عمل

Page 559

خطابات مریم 534 خطابات بھی نہیں کر سکیں گی.کیونکہ ترجمہ سیکھے بغیر آپ کو اوامر و نواہی کا علم نہیں ہو سکتا.قرآن کریم ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے.ہر ماں باپ کا فرض ہے کہ آئندہ نسل کی دینی تعلیم کیطرف توجہ دیں.پھر آپ نے نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ نماز تمام سعادتوں کی کنجی ہے.بچپن سے نماز کی عادت ڈالیں.کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اُس کے قول و فعل میں تضاد ہو.خدا تعالیٰ نے جماعت کو خلافت کی عظیم نعمت سے نوازا ہے اس کی قدر کریں.حضور اصلاح معاشرہ کی طرف بہت توجہ دلا رہے ہیں اس لیے اس طرف خاص توجہ رکھیں.نماز کے ساتھ ساتھ ہمیشہ سچائی کا راستہ اختیار کریں کیونکہ صرف سچا عمل ہی خدا کی خوشنودی کا باعث ہوتا ہے.خدا کے بندوں کی خدمت کرنا ہمارا فرض ہے.اپنے اندر اتحاد و یگانگت پیدا کریں.لڑائی جھگڑے سے نفرت اور تفرقہ پیدا ہوتا ہے.ہم سب کا مقصد اور منزل ایک ہے.ایک عہد ہے اس کو اپنائیں.کسی کو اپنی زبان اور ہاتھ سے تکلیف نہ پہنچا ئیں.بزرگوں نے نیکیوں کا تسلسل قائم رکھ کر خلافت کی نعمت ہم تک پہنچائی ہے.اس کی قدر کریں اور اس تسلسل کو برقرار رکھیں.سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی نئی نسل کو آئندہ آنے والی ذمہ داریاں اُٹھانے کیلئے پوری طرح تیار کریں.احمدیت کو قائم رکھنے کیلئے خلافت کا قلعہ قیامت تک جاری رکھنا ہے.صدی ختم ہونے پر صرف جشن ہی نہیں منانا بلکہ اپنے دلوں میں چراغاں پیدا کرنا ہے.یہ جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا ہے کہ اگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے اپنی تمام کمزوریاں چھوڑ دینی ہیں.اپنے دلوں میں خدا اور خدا کے رسول اور خلفاء کیلئے محبت پیدا کریں تا اپنی آنکھوں سے غلبہ اسلام دیکھ سکیں خدا کرے کہ وہ دن بہت جلد آ جائے.آمین سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ 1989ء)

Page 560

خطابات مریم 535 خطابات مجلس مشاورت عہدیداران پاکستان 2 /اپریل 1989ء تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا کہ نئی صدی کا پہلا اجلاس ہے آپ سب اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے آپ کا فرض ہے کہ اپنے نفس کا جائزہ لیں اور جو عہد بیعت آپ نے کیا تھا آپ پورا کر رہی ہیں یا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء سے ہمیں اس بات کا علم ہوا ہے.کہ آئندہ صدی غلبہ اسلام کی صدی ہو گی.میں ہر احمدی عورت اور عہدہ دار کو بتانا چاہتی ہوں کہ صرف ظاہری طور پر جشن منا کر ہی نہیں بیٹھ جانا بلکہ ہمیں اپنی تمام سستیوں اور غفلتوں کو اس صدی میں چھوڑ نا ہوگا.فرمایا کہ جب سے میں صدر کی حیثیت سے کام کر رہی ہوں ایک مسلسل شکایت مجھے اجلاسوں میں حاضر نہ ہونے کی ملتی ہے.عہدیداران کوشش کریں کہ شروع صدی میں ہی اس خامی پر قابو پالیا جائے.اجلاس کی اہمیت سب پر واضح کی جائے کہ مال جان اور وقت کو قربان کرنے کا عہد کس حد تک پورا کیا جا رہا ہے.وقت کی قربانی تو سب سے کم قربانی ہے اس لیے اس طرف بہت توجہ دیں.دوسری بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتی ہوں.وہ آپس میں مل جل کر محبت سے کام کرنے کی ہے.عہدیداران سخت رویہ اپنانے کی بجائے نرمی اور محبت سے کام لیں.ممبرات کو الزام دینے کی بجائے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کریں.پھر آپ نے قرآن کریم پڑھنے کی بہت تاکید فرمائی نیز فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کی بعثت کی غرض بھی یہی تھی کہ آپ قرآن کی تعلیم لوگوں کو دیں.آپ کو الہاماً فرمایا گیا تھا کہ "يُحْيِ الدَيْنَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ “ (تذكره: 55) سواس یا درکھیں..،، اسلامی تاریخ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جب تک مسلمانوں نے قرآن کریم پر عمل رکھا وہ

Page 561

خطابات مریم 536 خطابات کامیاب ہوئے.اور جب انہوں نے قرآن کی تعلیمات کو بھلا دیا تو انھیں ذلت نصیب ہوئی.احمدیت کی اصل غرض قرآن کی تعلیمات کو دنیا میں رائج کرنا ہے.اس لیے صدی کا ایک دن ضائع کیے بغیر ہر جگہ یہ پیغام پہنچانا چاہیے کہ قرآن ہر جگہ ہر گاؤں اور ہر گھر میں پڑھا جائے.آپ نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ آجکل والدین اپنے ڈھائی سال کے بچہ کو دنیا کی تعلیم شروع کر وا دیتے ہیں.لیکن قرآن کریم کی طرف توجہ نہیں دیتے پھر آپ نے قرآن کریم کا ترجمہ سکھنے کی تلقین فرمائی کیونکہ ترجمہ پڑھے بغیر ہمیں اوامر و نواہی کا علم نہیں ہوسکتا.اس ضمن میں آپ نے مرکز کی تیار کردہ قرآن کریم کے ترجمہ کی ٹیسٹس سے فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ دلائی اب تک 10 سپاروں کی لیسٹس تیار ہو چکی ہیں.اور 5 کی انشاء اللہ جلدی تیار ہو جائیں گی.ماہوار رپورٹ میں اس بات کا ذکر ہونا چاہیے کہ کتنی مہرات نے اس سے استفادہ کیا یا کر رہی ہیں.فرمایا کہ گانے بجانے کی بجائے ان ٹیسٹس کی ایک رو چلائی جانی چاہیے.تیسری چیز جس کی طرف توجہ دلانا چاہتی ہوں وہ جہالت کا خاتمہ ہے.بعض پڑھ لکھ کر بھی جاہل ہوتے ہیں.یہاں میری مراد نا خواندگی سے ہے.چالیس پینتالیس سال کی عورت بھی کوشش کرے تو پڑھنا لکھنا سیکھ سکتی ہے.دیہات میں پچپیں تھیں سال کی عمر کی خواتین کی طرف بھی توجہ دی جائے کم از کم ان میں اتنا شعور پیدا کر دیا جائے کہ اگر وہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب نہ پڑھ سکیں تو کم از کم دوسروں سے سن کر ہی سمجھ سکیں.پھر آپ نے بے پردگی کی رو سے اجتناب برتنے اور پردہ کو غلط طور پر پیش کرنے کی ممانعت فرمائی.قرآن اور احادیث نبویہ کی روشنی میں اس کی اہمیت واضح فرمائی.شادی بیاہ کے مواقع پر مردوں اور بیروں کو کام پر لگانے کی بجائے خواتین کے حصہ میں بچیوں کو خود کام کرنے کی نصیحت فرمائی.خطاب جاری رکھتے ہوئے آپ نے تعمیر ہال کے چندہ کی ادائیگی اور ضلعی صدران کو سو فیصد تجنید مکمل کرنے کی طرف توجہ دلائی نیز آپ نے فرمایا کہ آئندہ عہد یداران جنوری کے مہینہ میں بھجوا دیا کریں.( تجاویز سوچ کر اور بغیر مرکز کے تقاضا کے ) شوری کیلئے نمائندگان کے نام بھی تجویز کر کے بھجوا دئیے جائیں.جو پورا وقت دے سکتی ہوں کیونکہ اس سلسلہ میں مرکز

Page 562

خطابات مریم 537 خطابات کے پاس بہت کم وقت ہوتا ہے کہ وہ خط لکھ کر دریافت کر سکیں کیونکہ اس کے بعد حضور ایدہ اللہ سے اس کی منظوری حاصل کرنی ہوتی ہے.پھر آپ نے دعاؤں پر زور دیا کہ اس سے ہرگز غافل نہ ہوں.حمد کے ترانے گاتے ہوئے نئی صدی میں داخل ہوں.آج خدا تعالیٰ کے فضل سے 122 ممالک میں ایک کروڑ احمدی پیدا ہو چکے ہیں.ہر احمدی کا عہد ہے کہ جو نیک کام بتایا جائے گا اس پر عمل کریں گے.آپ اس عہد کو یا د رکھیں.دعا کریں ہماری باقی زندگی خدا کی رضا حاصل کرتے ہوئے گزرے اور جب ہم اس دنیا سے رخصت ہوں تو ہمارا خدا ہم سے راضی ہو.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ 1989ء)

Page 563

خطابات مریم 538 خطابات افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع من سپیٹ ہالینڈ 1989ء سیده مریم صدیقہ صاحبہ المعروف چھوٹی آپا جان صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے لجنہ ہالینڈ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمان مردوں اور مسلمانوں عورتوں کی ڈیوٹیوں کا چارٹ بنا دیا ہے.اس کی وضاحت میں آپ نے قرآن کریم کی سورۃ احزاب کی آیت نمبر 36 پڑھی اور اس کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان آیات میں ان اعتراضات کی وضاحت کی گئی ہے کہ دوسرے مذاہب نے عورت کو جو مقام دے رکھا ہے.اسلام نے عورت کو وہ مناسب مقام نہیں دیا.آپ نے فرمایا کہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں مختلف میدانوں میں اپنا اپنا کام کرتے ہیں.کچھ مواقع ایسے بھی آتے ہیں کہ جب انہیں مل کر کام کرنا ہوتا ہے اور اس آیت میں انہیں حقیقت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ کسی قوم کی دینی دنیاوی اور روحانی ترقی کے لئے مردوں اور عورتوں میں ان دس خصوصیات کا ہونا ضروری ہے.آپ نے مزید فرمایا کی پہلی خصوصیت جو مرد اورعورت کی ہے وہ اس کا اسلام قبول کرنا ہے.دوسری خصوصیت اپنے عمل کو اسلام کے مطابق بنانا ہے.ایک مسلمان مرد اور مسلمان عورت کی تیسری خصوصیت اس کا مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہونا ہے.فرمانبرداری کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کی اس نے میری فرمانبرداری کی.چوتھی خصوصیت مرد اور عورت کی اس آیت میں جو بیان ہوئی وہ اس کے قول و عمل میں صداقت کا ہونا ہے.پانچویں خصوصیت جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے وہ صبر کے ساتھ عمل کرنا ہےمبر صرف غم اور پریشانی میں ہی نہیں بلکہ اپنی خواہشات پر کنٹرول بھی صبر میں شامل ہے.چھٹی خصوصیت جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے وہ مرد اور عورت کی انکساری ہے.یعنی کہ

Page 564

خطابات مریم 539 خطابات مسلمان جو بھی کام کرے وہ یہ ہی سوچے کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا ہے نہ کہ اس کے اپنے قوت بازو سے.ساتویں خصوصیت صدقہ دینا ہے.صدقہ دینے سے مراد یہ ہے کہ ضرورت مند کی ضرورت پوری ہو اور اللہ کے حقوق کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا گیا ہو.آٹھویں خصوصیت اس آیت میں جو بیان ہوئی ہے وہ روزے رکھنا ہے.یعنی اپنے آپ کو خواہش کے مطابق کھانے پینے اور دوسرے بہت سے اعمال سے باز رکھنا ہے اور دوسرے انسان کو نقصان پہنچانے کا خیال بھی دل میں نہ لانا ہے.نویں خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو جسم دیا ہے اس کی صحیح حفاظت کریں.زبان قدرت کا ایک خاص تحفہ ہے.اسے بری باتوں کے لئے استعمال نہ کریں.کان سننے کے لئے دیئے گئے.لیکن ان سے برائیاں نہ سنیں.دماغ سے دوسروں کو نقصان پہنچانے والی سکیمیں نہ بنا ئیں.ناک سونگھنے کے لئے دیا گیا ہے اسے دوسروں کے معاملات میں تجسس کیلئے استعمال نہ کریں.آنکھیں دیکھنے اور قدرت کا نظارہ کرنے کے لئے اور اس کی پہچان کیلئے دی گئی ہیں کہ انسان اپنی پیدائش کی غرض کو پہچان سکے.ان کو دوسروں میں بُرائیاں تلاش کرنے کیلئے کام میں نہیں لانا چاہئے.مزید یہ بھی ضروری ہے کہ ہر مرد اور ہر عورت اپنی عزت و عصمت و پاکیزگی کی حفاظت کرے.دسویں خصوصیت جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے مرد اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والی عورتیں ہیں.آپ نے فرمایا ذکر سے مراد سبحان الله ، الحمد لله ، اللہ اکبر کا بار بار دہرانا ہی نہیں ہے.بلکہ اس بات کا یقین رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام صفات کا مالک ہے اور اس نے ہمارے لئے جو چیزیں بنائی ہیں.ان کے لئے اس کا شکر گزار ہوتے ہوئے ان سے صحیح فائدہ اُٹھانا اور اللہ تعالیٰ کو ہر لمحہ یا درکھنا ہے اور اس آیت میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ جو انسان ان تمام چیزوں کو اپنے اندر رکھتا ہے اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور وہ اس دنیا میں اور آخری دنیا میں عظیم انعام سے نوازا جائے گا.(از سالانہ رپورٹ لجنہ ہالینڈ 1989ء)

Page 565

خطابات مریم 540 اختتامی خطاب از ممبرات لجنہ نن سپیٹ ہالینڈ خطابات محترمه سیده مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے فرمایا کہ میں چھ سال بعد ہالینڈ آئی ہوں.اس وقت لجنہ کی تعداد بہت کم تھی اب خدا کے فضل سے بڑھ گئی ہے اس بات کی خوشی ہو رہی ہے.آپ نے مزید فرمایا ” آپ کا اجتماع کامیاب رہا ہے اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا ہے آپ نے اپنی تقریر میں اس بات پر بھی خوشی کا اظہار کیا کہ بڑی لجنات نے بھی پروگرام کو کامیاب بنانے کے لئے حصہ لیا ہے.اس سلسلہ میں آپ نے مسز جمن بخش صاحبہ کی کوشش کو سراہا اور اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ صد سالہ جشن تشکر کی تقریب ساری دنیا میں منائی گئی ہے آپ نے بھی منائی.احمدیت کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچ چکا ہے.آپ نے فرمایا امریکہ کے کسی علاقہ میں ایک احمدی رہتا ہے وہاں بھی مسجد بنائی گئی ہے.اس کے علاوہ جو بلی کے پروگرام میں حصہ لینے والی ان بہنوں کو بھی انعام دیئے گئے جن کو اس وقت نہ دیئے جا سکے تھے.ان میں عزیزہ محمودہ فرحاخن نے سیدھی دوڑ ، مسز ثروت منصور نے رکاوٹ دوڑ ، مسٹر اکمل صاحبہ نے تین ٹانگوں کی دوڑ ، مسز جمن بخش نے میوزیکل چیئر اور ٹرڈم کی ٹیم کی کیپٹن بشری جلیل نے ریلے ریس، مسز حامد کریم نے تلاوت ،مسز اکمل نے تقریر اور مسز شمیم شاہد نے نظم میں انعام حاصل کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کچھ پیشگوئیاں پہلی صدی میں پوری ہوئیں ہیں کچھ نئی صدی میں ہوں گی.لیکن ایک بات یا درکھیں کہ قربانی کے بغیر کامیابی نہیں ہوتی.محنت کریں اور اپنے لڑکوں اور اپنی لڑکیوں کو بُرائیوں سے بچائیں.ہم مسلمان ہیں احمدی ہیں.ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلنا ہے.ہم نے ان لوگوں کی نقل نہیں کرنی نئی صدی نئی نسل کی صدی ہے.اب تم لوگوں نے بوجھ اُٹھانے ہیں تب ہی ہم اس دنیا سے یہ سوچ کر رخصت ہو سکتے ہیں کہ تم میں احساس پیدا ہو گیا ہے.کام کرنے والے دوسروں کو کام سکھائیں.تا کہ یہ نہ ہو کہ ایک کے بعد دوسری کام نہ چلا سکے اور کام میں خلاء پیدا ہو جائے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس ملک میں ہم نے اسلام کا جھنڈا گاڑنا ہے.جس کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہے دلوں میں کینہ نہ رکھیں.محبت سے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کام کرتی چلی جائیں.آمین (سالانہ رپورٹ لجنہ ہالینڈ 1989ء)

Page 566

خطابات مریم 541 خطابات خطاب ( بمقام بونا میں سینٹر فرینکفرٹ مغربی جرمنی 29 جولائی 1989ء) میری پیاری بہنو اور بچیو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ سیده مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے تیسری بار جرمنی آنے کا موقعہ ملا ہے اور ہر دفعہ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ ہر جماعت پہلے سے بڑھی ہے کم نہیں ہوئی اور اس سال تو یہ خاص سال جس میں ہم نے جشن صد سالہ منایا ہے جماعت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر اور آپ کے جلسہ میں حضرت خلیفۃ امسیح الرابع ایده اللہ تعالیٰ شامل ہوئے ہیں ان کا خطاب سننے کی سعادت حاصل ہوئی ہے.آپ نے جماعت احمدیہ کے کاموں پر اور اس کی ترقی پر بڑی خوشی کا اظہار فرمایا ہے میں اس لئے آپ کو مبارکباد دیتی ہوں خدا کرے کہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تمام توقعات آپ کے متعلق پوری ہوں اور اسی طرح آپ سب مرد بھی اور عورتیں بھی اور بچے بھی اپنی اپنی تنظیموں میں، اپنے اپنے کاموں میں ، اپنے مقاصد میں آگے ترقی کرتے چلے جائیں.بے شک ہم خوش ہیں کہ جماعت احمدیہ کے قیام پر ایک سو سال ہو چکے ہیں.قادیان کی ایک چھوٹی سی بستی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو بتایا کہ میں خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اس غرض سے بھیجا گیا ہوں کہ اس باغ کی آبیاری کروں جس کو حضرت نبی کریم صلی اللہ وسلم نے بویا.آپ اکیلے تھے کوئی آپ کا ساتھ نہیں دے رہا تھا نہ آپ کے رشتہ دار نہ آپ کے ملنے والے نہ دوست بلکہ ہر طرف سے آپ پر مخالفانہ وار ہوتے تھے اور لوگ سمجھتے تھے کہ یہ سلسلہ اگر چلا بھی تو بہت اتنا ہو گا کہ آپ کی زندگی تک چل جائے لیکن خدا تعالیٰ آپ کو بڑے پیار سے کہہ رہا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.میں تیری مدد کروں گا میں لوگوں

Page 567

خطابات مریم 542 خطابات کے دلوں میں وحی کروں گا جو تیری مدد کریں گے چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس شان وشوکت سے وہ پیشگوئی سو سال میں پوری ہوئی ہے کہ خدا تعالیٰ نے کوئی دنیا کا کنارہ نہیں چھوڑا جہاں احمدیت اور اسلام کا پیغام نہ پہنچا ہو.ہم نے صرف خوشی نہیں منانی بلکہ اپنے آپ کا جائزہ لینا ہے لیکن میری پیاری بہنو اور پیاری بچیو! آپ لوگوں کو یہ غور کرنا چاہئے کہ ہم نے صرف خوشی نہیں منانی بلکہ اب یہ بھی دیکھنا ہے اپنے آپ کا جائزہ لینا ہے کہ جن مقاصد کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے تھے دنیا کی اصلاح کے لئے کیا وہ مقاصد ہمارے وجودوں کے ذریعے پورے ہو رہے ہیں یا نہیں.جماعت احمدیہ کو قائم ہوئے ایک سو سال ہو گئے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماء اللہ کے قیام پر بھی چھیاسٹھ سال پورے ہو چکے ہیں.گویا کہ دو تہائی صدی کے برابر ہے اور یہ خاصہ لمبا عرصہ ہے کہ ایک طویل سفر طے کر کے لجنہ اماءاللہ اس مقام تک پہنچی ہے لیکن اب بھی ہم میں بہت سی خامیاں ہیں بہت سی کمزوریاں ہیں جن کا جائزہ لینا اور ان کو دور کرنے کا پروگرام بنانا ہمارے جلسوں اور ہمارے اجتماعوں اور ہماری میٹنگوں کے پروگرام کا حصہ ہونا چاہئے.جب تک ہمارے پیش نظر ہمارا مقصد حیات نہیں رہتا ، اپنی منزل مقصود کو ہم سامنے نہیں رکھتیں ، نہ اپنی تربیت کر سکتی ہیں اور نہ دوسروں کی.اللہ تعالیٰ نے دنیا میں رسالت کا سلسلہ جاری کیا تھا تا رسولوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی توحید قائم ہو.تمام مذاہب اسی غرض سے آئے لیکن جب ان میں کمزوریاں پیدا ہوئیں تو مذہب میں ایسی ایسی باتیں مل گئیں جن سے ان مذاہب کی اصل غرض ہی ختم ہو گئی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے افضل الرسل خاتم النبین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مکمل ہمہ گیر دائمی شریعت کے ساتھ بھیجا.آپ نے دنیا کو زندہ خدا کا پتہ دیا اور ان کے دلوں میں اپنے رب کی وہ محبت پیدا کی جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتی.یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے ، اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں:.میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ہزار ہزار درود اور سلام اس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم

Page 568

خطابات مریم 543 خطابات نہیں ہوسکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا وہ تو حید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.ہم کا فر نعمت ہونگے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ تو حید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے.“ (روحانی خزائن جلد 22 حقیقۃ الوحی صفحہ 118-119) یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کہنا ہے پس جاننا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تو حید کامل کا ظہور ہوا ، اسلام کا غلبہ ہوا.ایک اعلیٰ ارفع نظام دنیا میں رائج ہوا.مسلمان جب تک خالص تو حید پر قائم رہے اور قرآن مجید کے اصولوں پر عمل کرتے رہے تو ساری دنیا پر چھائے رہے لیکن جونہی ان میں کمزوریاں پیدا ہونی شروع ہوئیں قرآن عظیم کی تعلیم پر ان کا عمل نہ رہا وہ مغلوب ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ وہ وقت بھی آگیا کہ ایک مسلمان اپنے آپ کومسلمان کہتے ہوئے شرما تا تھا.نہ حرارت ایمانی تھی ، نہ غیرت دینی ، نہ علم رہا نہ عمل رہا.اس زمانے میں جب ہر طرف اسلام پر حملے ہو رہے تھے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے غلبے کے لئے اور اس حقیقی تو حید کے قیام کی خاطر حضرت مہدی علیہ السلام کو اپنے وعدوں اور آنحضرت عیہ کی بشارتوں کے مطابق مبعوث فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی بعثت کی غرض یہی بتائی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی سے جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلو د زندگی کہتے ہیں نجات پائیں.چنانچہ حضور فرماتے ہیں حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد ان کے آگے ہوتا ہے پس اس وقت بھی خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اس کے لئے مجھے مبعوث فرمایا ہے ، تو میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی یعنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے بلکہ دکھانا چاہتا ہوں اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف راہبری کرتا ہوں“.ایک دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آنے کی غرض یوں بیان فرماتے ہیں.

Page 569

خطابات مریم 544 خطابات میں بھیجا گیا ہوں تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آئے.میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قومی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ ومراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اس کو بھروسہ دنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اور یہ بھروسہ ہرگز اس کو خدا تعالیٰ اور آخرت پر نہیں.زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے.حضرت مسیح نے اسی حالت میں یہود کو پایا تھا اور جیسا کہ ضعف ایمان کا خاصہ ہے یہود کی اخلاقی حالت بھی بہت خراب ہو گئی تھی اور خدا کی محبت ٹھنڈی ہوگئی تھی اب میرے زمانہ میں بھی یہی حالت ہے سو میں بھیجا گیا ہوں تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو.“ (روحانی خزائن جلد 13 - کتاب البریہ حاشیہ صفحہ 291 تا 293) ایک اور مقام پر آپ نے فرمایا ہے :.وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہو گئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں.اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ سے نہ محض قال سے ان کی کیفیت بیان کروں اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی تو حید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جواب نابود ہو چکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہوگا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہو گا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے.66 (روحانی خزائن جلد 20 لیکچر لاہور صفحہ 180) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بعثت کی جو غرض بتائی تھی سب دنیا نے وہ نشان دیکھا کہ خالص اور چمکتی ہوئی تو حید کا دائگی پودا آپ کے ذریعے لگایا گیا.گناہ آلود زندگی سے ان لوگوں نے نجات پائی جنہوں نے مسیح موعود کو مانا اور آپ کی صحبت پائی.آپ کی صحبت میں پاکیزہ زندگی اختیار کی اور وہ دنیا کیلئے نمونہ بنے پھر انہی صداقتوں کو قائم رکھنے کیلئے اللہ تعالیٰ

Page 570

خطابات مریم 545 خطابات نے آپ کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری فرمایا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ دائمی ہوگا.جب کسی جماعت کی تعداد بڑھتی ہے اور نبی کے زمانے سے دوری ہوتی ہے تو کچھ نہ کچھ کمزوریاں صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہو جاتی ہیں.اس لحاظ سے ہماری جماعت کیلئے لحہ فکر یہ ہے کہ ہم میں کسی قسم کی کمزوریاں جماعتی طور پر واقع نہیں ہونی چاہئیں.ان کمزوریوں کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سے ایک دینی علم سے پورے طور پر واقفیت نہ ہونا اور دوسروں کے دیکھا دیکھی ان کی باتیں اور رسوم اختیار کرنا ہے جس سے اگر روکا نہ جائے تو بہت بڑی مصیبت کا باعث بن سکتی ہے اس کے لئے سب سے پہلی بات ہماری خواتین اور بچیوں کو یہ اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حکم اور عدل بنا کر بھیجا ہے یعنی وہ امور وہ باتیں جن میں اختلاف ہے جو کسی کی سمجھ میں نہیں آتیں ان میں آخری فیصلہ وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہے اپنے قول کے ذریعہ سے کیا یا اپنے فعل کے ذریعہ سے کیا اس پر ہمارا عمل ہونا چاہئے دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت علی کی پیشگوئی کے مطابق علوم کے خزانے لٹائے ہیں.ان سے اپنی جھولیاں بھریں.اس سے باہر جانے کا تصور بھی نہیں ہونا چاہئے اس سلسلے میں ہمارا پہلا قدم نفسانی خواہشات سے چھڑا کر نجات کے سرچشمے تک پہنچانا ہے اور اپنی اصلاح کی طرف پہلا قدم اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق قائم کرنا ، اس کی رضا کو ہر حال میں مقدم رکھنا اس کی خاطر ہر کام کرنا اور اس کی کامل اطاعت کرنا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ قرآن کریم پڑھیں اور اس کا ترجمہ سیکھیں تا ہمیں پتہ ہو کہ کس کام کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اور کس کام کے کرنے سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے جب علم ہی نہیں ہوگا تو عمل کیسے ہوگا.کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کی پھر اپنی زندگیوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں.آپ کو راہنمائی نہ فرمائی ہو اللہ تعالیٰ نے کامل نمونہ دنیا کیلئے بنا کر بھیجا.کوئی مسئلہ نہیں جس میں آپ نے قرآن سے راہنمائی نہ فرمائی ہو آپ کی پیروی سے ہی اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوسکتی ہے.جب کہ خود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ

Page 571

خطابات مریم 546 خطابات فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران: 32) کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ دنیا کو بتا دیں اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے پیچھے چلو.میرے نقش قدم کو اختیار کرو، میری پیروی کرو جو میں کرتا ہوں وہ تم کرو تو پھر خدا تم سے خود پیار کرے گا.یہ مشکل نہیں ہے اگر انسان کچی نیت کر لے کہ ہم نے اپنی زندگیاں اسی طرح گزارنی ہیں جس کا نمونہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی گزار کر اور زندگی کے ہر شعبہ میں کر کے دکھایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں.” میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپ سے محبت رکھنا انجام کا رانسان کو خدا کا پیارا بنادیتا ہے.اس طرح پر کہ خوداس کے دل میں محبت الہی کی ایک سوزش پیدا کر دیتا ہے تب ایسا شخص ہر ایک چیز سے دل برداشتہ ہو کر خدا کی طرف جھک جاتا ہے اور اس کا اُنس وشوق صرف خدا تعالیٰ سے باقی رہ جاتا ہے تب محبت الہی کی ایک خاص تجلی اس پر پڑتی ہے اور اس کو ایک پورا رنگ عشق اور محبت کا دے کر قومی جذبہ کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے تب جذبات نفسانیہ پر وہ غالب آ جاتا ہے.(روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 67 ، حقیقۃ الوحی) پھر اس زمانہ کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے مطابق ہم سب پر فرض ہے جیسا کہ بتا چکی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم اور عدل بنا کر بھیجا تھا.قرآن کریم کی واقفیت ہونی چاہئے کہ ہماری ہر عورت اور ہر بچی کو اپنے دین سے پوری واقفیت ہو.تمام مسائل کا ان کو پوری طرح علم ہونا چاہئے کیا جائز ہے کیا نا جائز ہے.ہم کسی کی نقل کیوں کریں جب ایمانی حالت مضبوط نہیں ہوتی علمی حالت کمزور ہو جاتی ہے تو انسان دوسروں کی نقل کرتا ہے.ہم کسی کی نقل کیوں کریں اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق ملی.آپ کے ذریعے سے ہم نے زندہ خدا کی بجلی دیکھی ، زندہ رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سچا ایمان لانے اور آپ سے محبت کرنے کی توفیق ملی جو تعریف حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 572

خطابات مریم 547 خطابات نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کی ہے جو عشق آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ویسی محبت اور ویسی تعریف چودہ سو سال میں کسی نے نہیں کی.ہماری نئی پود بسا اوقات ٹیلی ویژن پر مختلف پروگرام دیکھ کر ساری نہیں تو کوئی بد قسمتی سے ان سے متاثر ہو کر اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتی ہے.ان کو سمجھانا چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ تو ہم نے یہ سیکھا کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے.آپ نے جو بدعات رسول یا مذہب کے نام پر کی جاتی تھیں کو نکال کے باہر پھینک دیا.اپنی روایات یعنی احمدیت کی روایات، جماعت کی روایات کو ہمیں قائم کرنا چاہئے.احمدیت حقیقی اسلام کا دوسرا نام ہے، احمدیت اس روح کا نام ہے جو اسلام ایک مسلمان کے دل میں پیدا کرتا ہے ، اس عمل کا نام ہے جو ایک مسلمان کا صحیح عمل ہے جو نعمت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ملی ہے اس کا شکر ادا کرنے کی یہی صورت ہے کہ ہمارا عمل صحیح ہو، ہمارا کردار ایک بچے احمدی کا کردار بنے ہم دوسرے کی نقالی سے بچیں.ہم نے تو دوسروں کے لئے نمونہ بننا ہے، نمونہ بننا ہے ایمان کے لحاظ سے بھی.ہمارا کوئی فعل تو حید کے خلاف نہیں ہونا چاہئے.نمونہ بننا ہے عمل کے لحاظ سے ہمارا عمل اُسوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو.نمونہ بننا ہے کردار کے لحاظ سے نمونہ بننا ہے اخلاق کے لحاظ سے ہمارے قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہئے کہ (تلقین ) کچھ کریں اور ہمارا عمل کچھ ہو.کہیں کچھ اور کر یں کچھ.اس لئے ضروری ہے کہ ہر کام صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر نیک نیتی سے کیا جائے اسی میں برکت ہوتی ہے.دین کو دنیا پر مقدم رکھا جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ انجمنیں قائم کرنا ، مدارس کھولنا ہی تائید دین کیلئے کافی ہے مگر وہ نہیں سمجھتے کہ دین کس چیز کا نام ہے اور اس ہماری ہستی کی انتہائی اغراض کیا ہیں اور کیونکر کن راہوں سے وہ اغراض حاصل ہوسکتی ہیں سو انہیں آیات کی جو تفسیر آپ نے کی ان پر عمل کرنا اور ان کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہمارا فرض ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب کتب قرآن کریم کی تفاسیر سے بھری پڑی ہیں یہ ایک نادر اور انمول خزانہ ہے کہ اگر نہ ہوتیں تو قرآن کریم کے مطالب بھی ہم پر حل نہ ہوتے.اس سے فائدہ اُٹھانا ہر احمدی عورت اور بچی کا کام ہے.ان کو پڑھ کر آپ کے دماغ اور دلوں میں نور بھرے گا.بار بار

Page 573

خطابات مریم 548 خطابات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنے علم اور سمجھ کے مطابق کتابیں پڑھیں.بار بار پڑھیں، سمجھیں غور کریں اور ان کو پڑھ کر آپ کے دماغ اور دلوں میں نور بھرے گا اور دلائل کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ آپ کو مل جائے گا.جس کے ذریعہ آپ کبھی مغلوب نہیں ہو سکتیں اور اب تو آپ کیلئے بڑی آسانی ہوگئی ہے کیونکہ انگلستان میں کتا بیں چھپنے لگ گئی ہیں.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو جو سب سے بڑی نعمت عطا فرمائی ہے وہ خلافت کی نعمت ہے جو میں پہلے ذکر کر چکی ہوں ہماری اندرونی تنظیموں کی ترقی بھی اور غلبہ اسلام سب کچھ خلافت کے ساتھ وابستہ ہے اس کی قدر پہچانیں.قدر پہچاننے کا یہ مطلب نہیں کہ صرف منہ سے کہہ دیں کہ ہم بہت قدر کرتے ہیں بلکہ اپنے عمل سے ثابت کریں کہ واقعی اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی جو قدر کرنی چاہئے ہم کر رہے ہیں اور اس کا طریق یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی مکمل اطاعت کی جائے ، خلیفہ وقت کے ہر فیصلے کو بشاشت قلب کے ساتھ قبول کیا جائے.جو لوگ خلیفہ پر یا نظام جماعت پر اعتراض کرتے ہیں ان کا ساتھ نہ دیا جائے.خلیفہ وقت کی صحت و عافیت اور خلافت کی برکات قائم رہنے اور جماعت کے استحکام اور ترقی کیلئے دعائیں کی جائیں.اپنے بچوں کے دلوں میں خلافت کی محبت پیدا کی جائے.خلیفہ سے ذاتی تعلق قائم کیا جائے.ان سب اصولوں پر پہلے خود چلیں پھر اپنے بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کریں.یہ باتیں ان میں پیدا کرنے کی کوشش کریں تا چراغ سے چراغ جلتا چلا جائے اور نسلاً بعد نسل اسلام کے فدائی ، اسلام کا درد اور محبت رکھنے والے پیدا ہوتے رہیں.سچی محبت رکھنے والے.یہ اسلام نہیں جو آج کل مذہب کے نام پر نظر آتے ہیں.کہیں میلاد کے نام پر کہیں قرآن خوانی ، کہیں نیاز کہیں فاتحہ خوانی.یہاں تو نہیں مگر پاکستان میں سب کچھ ہوتا ہے.نہ خلفاء کے قول سے کہیں نظر آتا ہے اور یہ باتیں دھبہ ہیں اسلام کے نام پر اسلام جو دین فطرت ہے تو حید کا علمبردار ہے تو حید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ نا چاہئے اور اپنے مذہب کا خلاصہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ ہے اسی پر ہمیشہ قائم رہنا چاہئے اور یہ ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اسلام صرف عقائد کا مذہب نہیں ہے بلکہ انسان کی ساری زندگی پر حاوی ہے.اسلام نے ایک ایسے معاشرے کی بناء ڈالی جس معاشرے کو مثالی قرار دیا جا سکتا ہے اور اس کے اصولوں پر چلنے سے دنیا میں امن قائم رہ سکتا

Page 574

خطابات مریم 549 خطابات ہے.اس معاشرے کے خدو خال بیان کرنے سے قبل یہ بات بتانی ضروری سمجھتی ہوں کہ معاشرہ افراد سے بنتا ہے اور ہر فرد معاشرے کا ایک یونٹ ہے ایک اکائی ہے ایک گھر میں رہنے والے افراد قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق چلیں اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس ان میں پیدا ہو جائے آہستہ آہستہ ایک گھر سے دوسرے گھر اور دوسرے گھر سے تیسرے گھر کی اصلاح ہوتی چلی جاتی ہے اور معاشرے کی اصلاح ہو جاتی ہے.اس سلسلہ میں سب سے بڑی ذمہ داری مرد کی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قوام بنایا ہے کہ وہ دیکھے اس کی بیوی اور بچے اس تعلیم پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں جس تعلیم کا وہ دعوے دار ہے اور ان کی تربیت ان کے مطابق ہو رہی ہے یا نہیں.بیشک مرد قوام ہے اور پہلا ذمے دار اپنے گھر کی اصلاح کا وہی ہے.مگر اولاد کی پرورش میں زیادہ ذمہ داری عورت پر پڑتی ہے کیونکہ مرد کا زیادہ وقت گھر سے باہر گزرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے سب سے مخاطب ہو کر فرمایا ايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا (التحریم: 7) اے مومنو اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ اور اپنے گھر والوں کو بھی آگ سے بچاؤ.صرف یہ نہیں دیکھنا کہ تم خدا تعالیٰ کے کہنے پر چل رہے ہو بلکہ اپنے گھر والوں کی تربیت کا بھی تم نے خیال رکھنا ہے.ایک انسان کی ذاتی نیکی اور ذاتی قربانی صرف اس کی زندگی تک جاری رہتی ہے لیکن جو شخص اپنی اولاد کی تربیت کرتا ہے لڑکوں کی کرتا ہے اور لڑکیوں کی بھی ان کے ذریعہ سے اس کی نیکیاں اور قربانیاں لمبے عرصے تک قائم رہتی ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اس کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے.حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب بندہ مرجاتا ہے تو اس کے عمل منقطع ہو جاتے ہیں سوائے تین اعمال کے ایک صدقہ جاریہ دوسرا ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اُٹھا ئیں اور تیسرے نیک بچہ جو ماں باپ کے لئے دعا کرتا رہے.پس کتنی بڑی خوشخبری ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان لوگوں کے لئے جو اپنے گھر والوں کی تربیت کی طرف پوری توجہ دیتے ہیں.انسان کی پیدائش کی غرض خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا ہے.تمام انبیا ء اسی لئے آئے کہ انسان کو پاک بنائیں تا وہ خدا تعالیٰ کا قرب اور پیار حاصل کر سکیں.لیکن انبیاء کا سب سے بڑا کمال اور فضیلت ہمارے آقا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے جن کے

Page 575

خطابات مریم 550 خطابات آنے کی اغراض میں ایک غرض معاشرے کو پاک کرنا بھی تھا.جیسا کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.جس طرح ہم نے تم میں ایک رسول بھیجا تمہیں میں سے جو ہماری آیات تمہیں پڑھ کر سنا تا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور تمہیں وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے.یہ آیت بتاتی ہے کہ پاک معاشرے کا قیام اپنی تعلیم اور نصیحت سے کرنا بہت اہم فریضہ تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اور اب بھی آپ کی بیان کردہ نصائح اور تعلیم پر عمل کریں گی آپ کی پیروی کریں گی آپ کا راستہ اختیار کریں گی تو یقیناً پاک قرار دی جائیں گی.پاکیزگی سے مراد صرف جسمانی صفائی اور طہارت نہیں بلکہ روحانی صفائی بھی مراد ہے یعنی جسم بھی پاک ہو ، گھر بھی پاک ہو، کپڑے بھی پاک ہوں، خیالات بھی پاک ہوں ، جذبات بھی پاک ہوں، دل میں کسی کے لئے نفرت نہ ہو ، دل میں کسی کے لئے حسد نہ ہو.مجھے بڑا افسوس ہوتا ہے جب لجنات سے بعض وقت میں خاص یہاں کی بات نہیں کر رہی ہر جگہ ہی جاتی رہی ہوں بعض ملکوں میں بھی اور پاکستان کے شہر شہر گاؤں گاؤں میں بھی اکثر جگہ اس قسم کی شکایتیں ہیں کہ بہنیں تعاون نہیں کرتیں.کہیں یہ ہے کہ اس کے گھر میں اجلاس کیوں ہوتا ہے ہمارے گھر میں ہو.مطلب یہ کہ بہت چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر آپس میں اختلافات شروع ہو جاتے ہیں.خود ہی انتخاب صدر کا کیا ہوگا اور خود ہی اس کی مخالف ہو جائیں گی.شکایتیں آنی شروع ہو جائیں گی حالانکہ اسلام کی تعلیم کا محور اطاعت ہے.جس کو آپ کا صدر بنایا جائے چاہے وہ کتنا ہی کم علم ہو کتنا ہی کم فہم آپ سے علم میں عقل میں کم ہے لیکن جب آپ نے ایک دفعہ انتخاب کر لیا اس کا تو جب تک وہ اس عہدے پر قائم ہے اس کی پوری پوری اطاعت کی ذمہ داری ہے آپ پر.یہ بڑا ہی ضروری اور سنہری اصول ہے قرآن کریم کا جو ہر بہن کو یا د رکھنا چاہئے کہ اطاعت محور ہے ہماری اسلام میں ترقی کا جہاں اطاعت کی بجائے نافرمانی شروع ہو جائے ، عدم تعاون ہوا اپنی صدر سے یا سیکرٹری سے یا کوئی بھی عہدے دار ہو خواہ وہ مرد ہوں عورتیں ہوں یا لڑکیاں ہوں اس لجنہ میں یا مردوں کی تنظیم ہے تو اس میں کمزوری واقع ہو جاتی ہے.وہی جماعت ترقی کرتی

Page 576

خطابات مریم 551 خطابات ہے وہی جماعت زندہ رہتی ہے جو جب تک اس کے اوپر جو حکم مقرر کیا جائے جو افسر مقرر کیا جائے خواہ مردوں کا صدر ہو یا عورتوں کا یا ایک جماعت کا امیر ہو اس کی مکمل اطاعت کریں.ایک بہن کی غلطی سے بعض اوقات آپ کو اس اصول کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایک ساری قوم کو نقصان پہنچ سکتا ہے بہن کی غلطی سے بعض اوقات ساری قوم کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس لئے کبھی بھی اس کے ساتھ عدم تعاون نہ کریں.آپ ترقی تعاون کے ساتھ کر سکتی ہیں آپ ترقی اتحاد کے ساتھ کرسکتی ہیں.ایک دوسرے کی شکایتیں یا کمزور یاں بیان کرنے سے ترقی کبھی نہیں ہوتی.اولاد کے قتل سے مراد اس کی اسی غرض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بیعت کا حکم ہوا عورتوں سے بیعت لینے کا تو آپ صحیح تربیت نہ کرنا ہے نے فرمایا:.اے نبی تیرے پاس جو عورتیں مسلمان ہو کر آئیں اور بیعت کرنے کی خواہش کریں اس شرط پر جو اللہ کا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں گی ، نہ ہی چوری کریں گی ، نہ ہی زنا کریں گی ، نہ ہی اولاد کو قتل کریں گی نہ ہی کوئی جھوٹا بہتان کسی پر باندھیں گی اور نیک باتوں میں تیری نافرمانی نہیں کریں گی تو تو ان سے بیعت لے لے اور ان کے لئے استغفار کیا کر.اللہ بہت بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے.اسلام میں داخلے کیلئے ابتدائی شرائط جن کا پابند ایک عورت کو رہنا تھا اور جن شرائط کو پورا کرنے کے بعد جو روحانی ترقی حاصل کر سکتی تھی یہ تمام شرائط ایسی ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر معاشرے کو پاکیزہ بنایا جاسکتا ہے.پہلی شرط شرک نہ کرنا ہے یعنی دوسرے الفاظ میں خدا تعالیٰ کو رب اور معبود سمجھتے ہوئے اس کے پورے پورے حق ادا کرنے ہیں.خدا تعالیٰ کی کسی صفت میں بھی کسی انسان کو شریک نہیں کرنا خدا تعالیٰ شافی ہے شفا خدا تعالیٰ دیتا ہے انسان نہیں.بعض دفعہ انسان کے منہ سے کچھ ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں کہ فلاں دوائی سے شفا ہوئی یا فلاں ڈاکٹر کے ہاتھ سے شفا ہوئی.یہ بھی ایک چھپا ہوا شرک ہے.

Page 577

خطابات مریم 552 خطابات چوری کرنا ، بدکاری کرنا ، اولاد کی تربیت نہ کرنا اور جھوٹ بولنا یہ سب انسان کے حقوق کی حق تلفی ہے.جب کوئی انسان چوری کرتا ہے تو دوسرے کے مال پر قبضہ جماتا ہے.جب انسان کوئی بے حیائی کرتا ہے تو اس میں دوسرے کو بھی ملوث کرتا ہے.جھوٹ بولتا ہے تب بھی دوسرا انسان اس کے ظلم کا شکار ہو رہا ہوتا ہے.اولاد کے قتل سے مراد اس کی صحیح تربیت نہ کرنا ہے.پیارے پیارے بچوں کی تعلیم و تربیت ان کے قومی ، ان کے ٹیلنٹس کو نہ اُبھار نا ان کی حق تلفی اور ناقدری ہے.یہ سب امور ظلم میں شامل ہوتے ہیں.ظلم کے معنی دوسرے کے حق مارنے کے ہیں.کم از کم احمدیوں کی شان یہ نہیں کہ ان میں سے کسی ایک کا حق مارا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی شرائط بیعت میں ان امور کو شامل فرمایا.پہلی شرط تو یہ ہے کہ بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے پر ہیز کرے گا.دوسری شرط یہ ہے کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر قسم کے فسق و فجو راور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا.اگر چہ کیسا ہی جذبہ پیش آئے.چوتھی شرط مخلوق کے حقوق کے متعلق ہے کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا.نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح.یہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی تشریح ہے.اَلْمُسْلِم مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ( بخاری کتاب الایمان باب مسلم ) کہ مسلمان حقیقی وہی ہے جس کے ہاتھ سے یا جس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ر ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت کی شرائط شائع کر کے فرمایا جو لوگ اس ابتلاء کی حالت میں اس دعوت بیعت کو قبول کر کے اس سلسلہ مبارکہ میں داخل ہو جائیں وہ ہماری جماعت سمجھے جائیں.وہ ہمارے خالص دوست متصور ہوں اور وہی ہیں جن کے حق میں خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں انہیں ان کے غیروں پر قیامت تک فوقیت دوں گا اور برکت اور رحمت ان کے شامل حال رہے گی اور یہ مجھے فرمایا کہ تو میری اجازت سے میری آنکھوں کے

Page 578

خطابات مریم 553 خطابات سامنے کشتی تیار کر جو لوگ تیری بیعت کریں گے خدا تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوگا.احمدیت کی وجہ سے کافر کا لقب آپ بھی بیعت کر کے احمدی جماعت میں داخل ہوئی ہیں.ان شرائط کو پورا کرنے کی طرف توجہ ملا غیر مسلم کا خطاب ملا دینا آپ کا فرض ہے تا اپنے عہد کو نہ پورا کرنے کے باعث فاسقون میں آپ کا شمار نہ ہو.احمدیت کی وجہ سے کافر کا لقب ملا غیر مسلم کا خطاب ملا ، بائیکاٹ کئے گئے ، قید میں ڈالے گئے ، پھانسی پر چڑھائے گئے ، سنگسار کئے گئے کیوں ! صرف اس لئے کہ ہم احمدی ہیں اور ہم نے امام الزماں کو پہچانا ہے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کی ہے.اتنی سختی اور تکلیفوں کے باوجود اگر ہمارا عمل قرآن کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق نہ ہو تو ہم پر بہت افسوس ہے.یہ ساری بُرائیاں جن کا میں ذکر کر چکی ہوں ان سے معاشرے کا امن تباہ ہوتا ہے، ان سے بچنا ضروری ہے ان کے جو عوامل اور وجوہات ہیں ان کا ذکر خدا تعالیٰ نے سورۃ حجرات میں بیان فرمایا ہے.يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْما بجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَدِمِينَ (الحجرات: 7) کوئی فاسق تمہارے دوستوں ملنے جلنے والوں یا کسی کے متعلق کوئی بات تمہیں بتائے تو ایسا نہ ہو کہ اس کے خلاف بغیر تحقیق کے ایکشن لینے لگ جاؤ اور بعد میں شرمندگی اُٹھانی پڑے.تحقیق کرو بسا اوقات ایک آدمی کسی رنگ میں بات کرتا ہے اور جاننے والا اسے دوسرا رنگ دے دیتا ہے بس معاشرے میں ہر ایک سے پیار محبت ، تعاون باہمی ، اتحاد کی بنا ڈالنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے.اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ آخَوَيْكُمْ (الحجرات: 11) مومن سب آپس میں بھائی بھائی ہیں.اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کروا دو.جب آپس میں دیکھو ایک انسان دوسرے سے جھگڑتا ہے اس کا جھگڑا ہو گیا ہے.بہنیں ان میں صلح کروا دیا کریں.اکثر جگہ لڑائیاں جھگڑے اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ ایسا گھر جہاں اجلاس ہو اس کی جماعت کا صدر ہو

Page 579

خطابات مریم 554 خطابات کوئی جھگڑا ہے تو وہ جانا چھوڑ دیتی ہیں بھول جاتی ہیں کہ اجلاس میں ہم نے خدا کی خاطر جانا تھا دین سیکھنے اور تربیت کیلئے جانا تھا.تمسخر اُڑانے سے اللہ تعالیٰ نے منع ایک قوم دوسری قوم کی ہنسی نہ اُڑائے فرمایا ہے.ایک قوم دوسری قوم کی ہنسی نہ اُڑائے عورتیں دوسری عورتوں کی ہنسی نہ اُڑائیں.تمہیں کیا معلوم کہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا کتنا پیار ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی بندیاں ہیں اور خدا تعالیٰ انہیں پسند کرتا ہے اور خدا تعالیٰ پسند نہیں کرتا کہ اس کے بندوں کو کوئی تکلیف پہنچائے خواہ جذباتی تکلیف ہو یا جسمانی، جھگڑے اور فساد کی ایک اور وجہ بدظنی ہے اس لئے منع فرماتا ہے کہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الضّانّ بَعْضَ الاِثْمَّ (الحجرات: 13) اے مومنو بدگمانی سے بچو، بہت سی بدگمانیاں گناہ میں مبتلا کر دیتی ہیں بدظنی پیدا ہونے کے نتیجہ میں انسان تجسس کرتا ہے جس کا نتیجہ بعض دفعہ بہت بُرا نکلتا ہے.تجسس ختم کرنے کیلئے الہی ارشاد کے مطابق گھروں میں اجازت لے کر جاؤ.تین وقت صبح دو پہر اور عشاء کے بعد جب مرد گھر میں ہوتے ہیں ایسے وقت ہوتے ہیں کہ عورتوں کو نہیں جانا چاہئے.اگر کسی سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ نہیں مل سکتے تو بُرا منانے کی کوئی بات نہیں.پھر تجس کے نتیجہ میں کسی کے علم میں کوئی بُرائی آ جاتی ہے اگلا دوسرے کو بتا دیتا ہے اسی کو غیبت کہتے ہیں.اگر ایک عورت میں بُرائی پائی جاتی ہے اس کے متعلق دوسروں کو بتایا نہیں جاتا اور ہو سکتا ہے کہ کسی وقت اس کو احساس ہو اور وہ اسے چھوڑ دے اور اس کو دوسروں کے بتانے سے خود اس کے دل میں بھی بُرائی کا احساس مٹ جائے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے غیبت ایسا ہی فعل ہے جیسا کہ مردہ بھائی کے جسم سے گوشت کاٹ کر کھانا.ہماری ترقی کیلئے اور معاشرے کی اصلاح کے لئے یہ ضروری ہے کہ آپس میں دل صاف ہوں.صلح کے ساتھ رہیں اور وہ طاقت جو غیروں کے مقابلے پر خرچ کرنی ہے وہ اپنوں سے لڑنے میں خرچ نہ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کشتی نوح میں کہ :.تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ

Page 580

خطابات مریم 555 خطابات انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاؤ“.(روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحه 12) ابتداء میں عاجزہ نے عرض کیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد قوم کو پاک کرنا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فرماتے ہیں پاک دل بننے کے سوا نجات نہیں ، سو تم پاک بن جاؤ.اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئی شخص کا فرنہ رہتا نفسانی چیزوں سے الگ ہو جاؤ انسان کے نفس امارہ میں کئی قسم کی پلید گیاں ہوتی ہیں مگر سب سے زیادہ تکبر کی پلیدگی ہے، اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئی شخص کا فر نہ رہتا.سوتم دل کے مسکین بن جاؤ اور عام طور پر بنی نوع انسان کی ہمدردی کرو.پھر آپ فرماتے ہیں.”سب سے اول اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو اور سچ سچ دلوں کے حلیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ.کہ ہر یک خیر اور شر کا پیج پہلے دل میں ہی پیدا 66 ہوتا ہے.اگر تیرا دل شر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہوگی.“ (روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام صفحہ 547) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.پھر بعد اس کے کوشش کرو اور نیز خدا تعالیٰ سے قوت اور ہمت مانگو کہ تمہارے دلوں کے پاک ارادے پاک خیالات اور پاک جذبات اور پاک خواہشیں تمہارے اعضاء اور تمہارے تمام قوی کے ذریعے سے ظہور پذیر اور تکمیل پذیر ہوں تا تمہاری نیکیاں کمال تک پہنچیں، سچائی اختیار کرو، سچائی اختیار کرو کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے دل کیسے ہیں.(روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام صفحہ 548) سچائی کی بہت ضرورت ہے معاشرے کو پاکیزہ بنانے کیلئے.قول میں سچائی ، فعل میں

Page 581

خطابات مریم 556 خطابات سچائی ، لین دین میں سچائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں سچائی اختیار کرو، سچائی اختیار کرو وہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے دل کیسے ہیں.کیا انسان اس کو بھی دھوکہ دے سکتا ہے.ہم سچائی کا عہد تو اپنے ہر کام میں دہراتے ہیں لیکن پھر بعد میں بھول جاتے ہیں اور جماعت کی ترقی کیلئے احمدیت کی ترقی کے لئے لجنہ کی ترقی کیلئے خود اپنے نفس کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ ان تمام بُرائیوں کو چھوڑتے ہوئے ہم پاک صاف ہو جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس پاک جماعت کے قیام کیلئے مبعوث ہوئے ویسے بن جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان کے مطابق چاہئے کہ اسلام کی ساری تصویر تمہارے وجود میں نمودار ہو اور تمہاری پیشانیوں میں اثر سجود نظر آئے اور خدا تعالیٰ کی بزرگی تم پر طاری ہو.پس کوشش بھی کریں اور دعا بھی کریں کہ ہمارا عمل ہمارے ایمان کی گواہی دے ہم متحد ہو کر احمدیت کی ترقی کیلئے کام کریں نہ کہ ہمارے وجو در وک بنیں.اولاد کی تربیت کی طرف بہت زیادہ توجہ دیں کیونکہ ان کی تربیت کے ساتھ ہی آپ کی قوم کی زندگی قائم رہ سکتی ہے اور ہماری قربانیوں کا تسلسل جاری رہ سکتا ہے.کل مجلس عاملہ میں بھی اس چیز کی طرف توجہ دلا چکی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے.ہر انسان اس بات کا جائزہ لیتا ر ہے کہ اس نے کل کیلئے کیا تیاری کی ہے.کل سے مراد کل سے لے کر قیامت تک کا زمانہ ہے اور موت کے بعد کی زندگی بھی.جو قوم اپنی اگلی نسل کو آئندہ پڑنے والی ذمہ داریاں اُٹھانے کیلئے تیار کرتی ہے وہ اپنی زندگی کا سامان کر لیتی ہے.پس بچوں کی دینی تعلیم ان کی اخلاقی تعلیم ، ان کے اندر دینی محبت پیدا کرنا ، ان کے اندر مذہب کیلئے عزت پیدا کرنا ، مذہب سے محبت پیدا کرنا ، مذہب کیلئے قربانی کا جذبہ پیدا کرنا آپ کا کام ہے اور یہ کام آپ بغیر اپنا نمونہ پیش کئے نہیں کر سکتیں اس لئے پہلے خود کو ایسا بنا ئیں اور پھر اپنے نمونے کے ذریعے اپنی اولادوں کی تربیت کریں.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.آمین از تاریخ لجنہ جرمنی صفحه 250 تا 263)

Page 582

خطابات مریم 557 خطابات خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ پاکستان 1989ء تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد محترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اپنا 67 واں سال مکمل کر چکی ہے امسال نا مناسب حالات کی وجہ سے دورے بھی کم کئے گئے ہیں چونکہ یہ سال صد سالہ جشن تشکر کا تھا.اس وجہ سے مجالس بھی کافی مصروف رہیں اور حسب حالات بڑی شان سے اسے منانے کی کوشش کی گئی لجنہ پاکستان نے مرکزی طور پر پوری تیاری کی تھی لیکن حکومت کی طرف سے پابندی لگا دی گئی روشنیاں لگائی گئیں.دفتر کے اندرونی حصہ کو سجایا گیا دعوت کی تمام تیاری کر لی گئی تھی جو کہ پابندی کے بعد ملتوی کر دی گئی لجنہ لا ہور اور کراچی نے اس موقعہ پر کئی کتب شائع کیں اور چیزیں بنوائیں مثلاً بیجز.پلیٹ.Key Rings وغیرہ.مرکز پاکستان کا مجلہ زیر اشاعت ہے جو عنقریب چھپ کر آجائیگا.آپ نے عہدیداران کو ہدایت فرمائی کہ ہرممبر کیلئے مجلہ اور سکارف خریدا جائے کیونکہ یہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بطور یادگار ہوگا فرمایا کہ 28,27,26 دسمبر کو دستکاری نمائش لگائی جائیگی جس میں قریب کی مجالس شامل ہو سکتی ہیں اس کے علاوہ ایک نمائش لجنہ کی تدریجی ترقی پر مشتمل گرافس چارٹ اور اہم فوٹو گرافس کی ہوگی جو مارچ 1990 ء تک جاری رہے گی زیادہ سے زیادہ ممبرات اس کو دیکھنے کے لیے ربوہ آئیں.خطاب جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ 1987ء میں لجنہ ہال کی تحریک کی گئی تھی 45 لاکھ کے قریب و عدہ جاتے کیے گئے جس میں سے 40 لاکھ روپے کی وصولی ہو چکی ہے جنہوں نے اس تحریک میں حصہ نہیں لیا وہ بھی اس میں حصہ لیں چندہ ممبری کی شرح 50 پیسے فی ممبر سے بڑھا کر ایک روپیہ فی ممبر کر دی گئی ہے.عہدیداران اس کے مطابق وصولیاں کر کے تمام چند 300 ستمبر سے پہلے بھجوا دیا کریں ضلعی صدر صاحبات کو تاکید فرمائی گئی کہ وہ اپنے ضلع کی کمزور مجالس کا دورہ کریں سیکرٹریان تعلیم کو ہدایت فرمائی کہ حضور نے حفظ قرآن کی جو تحریک فرمائی ہے اس

Page 583

خطابات مریم 558 خطابات 61 - طرف پوری توجہ دیں ممبرات نصف پارے کا آخر زبانی یاد کریں اسی طرح قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی طرف بھی توجہ دیں.لجنہ پاکستان نے اب تک بارہ پاروں کے ترجمہ اور ناصرات کی نظموں اور ضروری سوال و جواب کی ٹیسٹس تیار کی ہیں ان سے فائدہ اُٹھا ئیں جن ممبرات نے قرآن مجید حفظ کیا ہو سال ختم ہونے پر ان کا نام ولدیت یا زوجیت عمرا اور کتنی سورتیں حفظ کی ہیں ان کی فہرستیں بنا کر بھجوائیں ناصرات کا بڑا گروپ نصف پارہ اور چھوٹا گروپ اپنی طاقت کے مطابق حفظ کرے لجنہ کے کورس میں اس سال مسیح ہندوستان میں رکھی گئی تھی جن کو یہ کتاب نہ ملے وہ ”تذکرۃ الشہادتین پڑھیں.27, 28, 29 جنوری کو لجنہ و ناصرات کی کھیلیں ہونگی ہدایات اور کوائف فارم بھجوا دیے گئے ہیں لاؤڈ سپیکر کے استعمال کی اجازت نہ بھی ملی تو کھیلیں ضرور ہوں گی بہترین کھلاڑیوں کو بھجوائیں ہر مجلس دفتر مرکزیہ میں اطلاع بھجوائے کہ ان کے ہاں موصیات کی تنظیمیں قائم ہیں یا نہیں اور کیا نائب صدر موصیات کا انتخاب ہو چکا ہے لجنہ کی ماہوار رپورٹیں با قاعدہ بھجوائی جائیں سالانہ رپورٹ بھی ضرور آنی چاہیے.حضور نے اس سال ذیلی تنظیموں کے بارہ میں جو فیصلہ فرمایا ہے اس کے مطابق اب ہمارا مقابلہ دوسرے ممالک سے ہوگا امریکہ، کینڈا اور خاص طور پر لجنہ انگلستان بہت کام کر رہی ہیں آپ نے بھی اپنی کوشش اور محنت کو جاری رکھنا ہے اور معیار کو گرنے نہیں دینا.ناصرات جن پر آئندہ کی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں اس طرف خاص توجہ دینی ہے.(از سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ 1989ء)

Page 584

خطابات مریم فرمایا:.559 خطاب مقامی اجتماع لجنہ اماءاللہ ربوہ ( منعقدہ 29 ،30 ستمبر 1990ء) خطابات آج آپ کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا ہے.ہمارا اجتماع نہ کوئی دنیوی میلہ ہے نہ کوئی سیاسی اجتماع ہے.یہ خالص طور پر مذہبی اور تربیتی اجتماع ہے.اگر اس کے نتیجہ میں آپ میں تربیتی اور اخلاقی اور روحانی لحاظ سے کوئی تبدیلی پیدا نہ ہو تو پھر اجتماع منعقد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں.ایک انسان جو ایک طرف یہ دعویٰ کرے کہ اس نے صداقت کو پہچان لیا ہے اس کے عمل سے وہ آثار ظاہر ہونے چاہئیں جو سچائی کو ماننے کے نتیجہ میں ظاہر ہوا کرتے ہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا ایک بہت ہی پیارا حوالہ ہے جب پڑھوں ہر دفعہ ایک نیا لطف آتا ہے.نئے مضامین ذہن میں آتے ہیں.چند فقرات میں عظیم الشان مضمون بیان فرمایا ہے جسے کہتے ہیں کہ کوزہ میں دریا کو بند کر دیا.اس حوالے کے الفاظ یہ ہیں.مذہب کی جڑ خدا شناسی اور معرفت نعمائے الہی ہے اور اس کی شاخیں اعمالِ صالحہ اور اس کے پھول اخلاق فاضلہ ہیں اور اس کا پھل برکاتِ روحانیہ اور نہایت لطیف محبت ہے جو رب اور اس کے بندہ میں پیدا ہو جاتی ہے اور اس پھل سے متمتع ہونا روحانی تقدس و پاکیزگی کا مثمر ہے“.(روحانی خزائن جلد 2 سرمه چشم آریہ صفحہ 281) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے مذہب کو ایک درخت سے مثال دی ہے جس کی جڑ بھی ہوتی ہے اس میں شاخیں بھی ہوتی ہیں.پھر اس میں پھول لگتے ہیں پھر پھل لگتا ہے اور جو پھل کھاتا ہے وہ اس کا مزہ اُٹھاتا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ جس طرح ہر درخت کی ایک جڑ ہوتی ہے جس پر وہ قائم رہتا ہے.

Page 585

خطابات مریم 560 خطابات مذہب کی جڑ خدا شناسی اور معرفت نعمائے الہی ہے یعنی اگر آپ نے ایک مذہب کو سچا سمجھ کر اسے دل سے مانا ہے تو اس کو ماننے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کے نتیجہ میں آپ میں خدا شناسی پیدا ہونی چاہئے.یعنی آپ کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو جو انعامات آپ پر نازل ہوئے ہوں ان کی پہچان اور قدر آپ کے دل میں ہو.مذہب حقہ کا سارا دائرہ عمل اللہ تعالیٰ کے حقوق کی بجا آوری اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی بجا آوری کے گردگھومتا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم پر صحیح عمل کرنے والا وہی انسان ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی عبادت صحیح رنگ میں کرنے اور اس کے بندوں ، اس کی مخلوق کا خیال رکھنے والا ہو.اس کے ہاتھ سے نہ صرف یہ کہ انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے بلکہ اس کے وجود سے انہیں آرام اور سکھ پہنچے تو مذہب کی جڑ دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:.آپ دنیا کو بتا دیں میرا کوئی اپنا وجود ہی نہیں.میری عبادت میری قربانی ، میری زندگی اور میری موت اللہ تعالیٰ ہی کی خاطر ہے.پس ہم جن کو سب سے زیادہ آنحضرت ﷺ سے محبت کا دعویٰ ہے اور اس کی جماعت میں ہیں جس نے کہا تھا.بعد از خدا بعشق گر کفر این بود محمد محمرم بخدا سخت کا فرم کہ میں تو اللہ تعالیٰ کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مخمور ہوں.تم اسے کفر کہتے ہو تو بخدا میں سب سے بڑا کافر ہوں.ہمیں بھی سوچنا اور جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہماری زندگیاں خدا تعالیٰ کی خاطر گزر رہی ہیں کیا ہما را صبح سے شام کرنا اور شام سے صبح کرنا محض اللہ تعالیٰ کے لئے ہے.ہم کوئی فعل کوئی عمل ایسا تو نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ سے ناراض کرنے والا ہے اور یہ رضا اس کے حکموں پر چلنے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے.جس میں سے سب سے بڑا فرض جماعتی اتحاد ہے کہ ہم سب ایک ہار کے دانوں یا ایک کنگھی کے دندانوں کی طرح ہوں اور کسی ماں کی بے راہ روی کی وجہ سے اس کے گھر میں نفاق داخل نہ ہو جائے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ اس کی شاخیں اعمالِ صالحہ ہیں یعنی جب جڑ مضبوط ہوگی تبھی

Page 586

خطابات مریم 561 خطابات شاخیں نکلیں گی.آپ نے کئی دفعہ دیکھا ہو گا کہ جب پورا چھوٹا سا ہوتا ہے کوئی جانور پر جاتا ہے تیز ہوا اُسے اُکھاڑ کر پھینک دیتی ہے کیونکہ ابھی جڑ مضبوط نہیں ہوتی لیکن جڑ مضبوط ہو جائے تو پھر پودا بڑھتا ہے اس میں شاخیں نکلتی ہیں.پھول نکلتے ہیں پھل لگتے ہیں.شاخوں کی جن میں پھل اور پھول لگتے ہیں آپ نے مثال اعمالِ صالحہ سے دی ہے کہ اگر اعمالِ صالحہ ہوں گے تو پھر پھول بھی لگیں گے اور پھل بھی لگیں گے گویا اعمالِ صالحہ کے نتیجہ میں یہ سب برکات حاصل ہو سکتی ہیں.قرآنِ مجید میں جہاں ایمان کا ذکر آتا ہے ساتھ اعمالِ صالحہ کا ذکر بھی ہوتا ہے کیونکہ اگر اعمال صالحہ کا پانی ایمان کو نہ دیا جائے تو ایمان محض ایک خشک جھاڑی کی طرح ہو جاتا ہے.ایمان کی مضبوطی اور ترقی کیلئے اپنے اعمال کا جائزہ ضرور لینا چاہئے کہ ہمارا عمل اللہ تعالیٰ کے احکام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہے یا نہیں.عمل صالح سے مراد وہ اعمال ہیں جو موقع اور محل کے مطابق ہوں اور جن کی طرف جماعت کے امام خصوصیت سے توجہ دلا رہے ہوں.آج کل بھی حضرت امام جماعت احمدیہ (الرابع ) خصوصیت سے بعض اہم تربیتی امور کی طرف توجہ دلا رہے ہیں.جن میں سے سب سے ضروری نماز کی باقاعدگی اور اپنی اولاد کو نماز پر قائم رکھنا ہے اس کے علاوہ پانچ امور کی طرف خصوصی توجہ دلائی جن میں سے 1 پہلا سچائی پر قائم رہنا، جھوٹ کبھی نہ بولنا.2 نرم لہجہ اور پاک زبان استعمال کرنا.وسعت حوصلہ اور نقصان سے بچنے کی کوشش کرنا.4 دوسروں کی تکلیف کا احساس کر کے ازالہ کی کوشش کرنا.5 ہمیشہ مضبوط عزم اور ہمت سے کام لینا.عہد یداروں کو خصوصاً توجہ اس طرف کرنی چاہئے.نماز تو ہماری روح اور جان ہونی چاہئے اس کے بغیر تو معرفتِ الہی کا تصور بھی نہیں ہو سکتا.سب سے پہلا اور ضروری حق جو اللہ تعالیٰ کا ادا کرنا ہے وہ نماز کی ادائیگی ہے اور اسی معیار پر جماعت کو مستقل طور پر قائم رکھنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو پختگی

Page 587

خطابات مریم 562 خطابات سے نمازوں پر قائم کریں.وقت پر سوچ سمجھ کر وہ نماز ادا کریں.پھر پہلی بات سچائی کا قیام ہے ایک زمانہ تھا کہ کوئی بھی احمدی خواہ عمل میں کمزور ہوتا تھا مگر اس کی سچائی کی قسم کھائی جاسکتی تھی.ہمارے دشمن بھی اس کا اقرار کرتے تھے کہ احمدی جھوٹ نہیں بولتے مگر جوں جوں جماعت بڑھی ایسا عصر بھی جماعت میں داخل ہوا جنہوں نے اپنے بچوں کی صحیح تربیت نہ کی اور وہ سچائی سے دور چلے گئے اس کی اصلاح بہت ضروری ہے.ہماری جماعت کو اسی معیار پر لانا ہماری عورتوں کا فرض ہے جن کی گودوں میں لڑکے بھی پلتے ہیں اور لڑکیاں بھی.دوسری بات جس کی طرف حضور نے بہت توجہ دلائی ہے وہ ہے نرم زبان کا استعمال.قرآن کریم نے اس بات کی طرف خصوصی توجہ دلائی ہے فرماتا ہے قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرة: 84) بات وہ کہو جس میں حسن ہو.کوئی طعن و تشنیع نہ ہو کسی کی غیبت نہ ہو کسی پر اعتراض نہ ہو.بات جو ڈانٹ ڈپٹ سے کی جائے اتنا اثر نہیں رکھتی جو نرم زبان اور پیار سے سمجھا کر کی جائے.تعلقات خراب ہونے میں زبان کا بڑا دخل ہے اور ہم نے قومی اتحاد کو قائم رکھنے کیلئے اس میں اتحاد اور تعاون پیدا کرنا ہے اگر ذاتی کمزوریاں ہوں گی آپس کے تعلقات خراب ہونگے تو قومی طور پر متحد ہو کر قربانیاں بھی دینے کے قابل نہ رہیں گے.تیسری بات جس کی طرف حضور نے توجہ دلائی ہے وہ وسعتِ حوصلہ اپنے اندر پیدا کرنا اور نقصان سے بچنے کی کوشش کرنا ہے.انسان میں اتنا حمل اور اتنا حوصلہ ہونا چاہئے کہ وہ کسی کی شکایتوں کوسن بھی سکے اور پھر اپنے نفس پر غور کرے کہ اگر واقعی میرا قصور ہے یا مجھ میں یہ بُرائی ہے تو میں اصلاح کروں.چوتھی بات جس کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے وہ دوسروں کی تکلیف معلوم ہونے پر اس کو دور کرنے کی کوشش کرنا تکلیف کی تو تعریف ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے که الْمُسْلِم مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ) بخاری کتاب الایمان ) که حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہتے ہیں.تکلیف نہ پہنچنا یا محفوظ رہنا تو منفی نیکی ہے.اصل چیز یہ ہے کہ ان کے ذریعہ سے دوسروں کو فائدہ پہنچے اس لئے اللہ

Page 588

خطابات مریم 563 خطابات تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ تمہیں تو دنیا کو فائدہ پہنچانے کیلئے بھیجا گیا ہے.پس بغیر اس کے کہ کوئی اپنی تکلیف بتائے ناداروں کی حقیقی ضرورتوں پر نظر رکھیں اور ان کی تکالیف دور کرنے کی کوشش کیا کریں.پانچویں بات اور ان سب باتوں پر عمل کرنے کے لئے عزم چاہئے.مضبوط ارادہ کام کرنے کا.مجھے افسوس ہے کہ بعض دفعہ کسی عہدہ دار کو مقرر کیا جائے تو وہ کہتی ہیں کہ فلاں یہ اعتراض کرتا ہے، فلاں یہ اعتراض کرتا ہے.اعتراض کرنے والوں نے تو نہ نبیوں کو چھوڑا ہے نہ ان کے جانشینوں کو لیکن ان کے ارادوں میں ذرا بھی کمی نہیں آئی.خدا تعالیٰ کے وعدوں اور اس کی نصرت پر یقین رکھتے ہوئے وہ بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں.پس لجنہ کی سب عہدہ داروں کو بھی اگر وہ اپنے عہدوں میں بچی ہیں اپنے کام پختہ ارادوں کے ساتھ اور ہمت کے ساتھ کرتے چلے جانا چاہئے.اس سال کیلئے لجنہ اماءاللہ پاکستان نے تمام پاکستان کیلئے تربیت کا بھی یہی لائحہ عمل رکھا ہے خود کوئی لائحہ عمل بنانے کی بجائے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہمارا سب سے پہلا فرض ہے.پس آپ کی پوری کوشش ہونی چاہئے کہ جلدی سے جلدی ہم خود بھی ان اخلاق اور عادات کو اپنا ئیں اور ہر عورت اور ہر بچے میں ان باتوں کو پیدا کرنے کی کوشش کریں.تدبیر کے ساتھ دعا نہ ہو تو تدبیریں ناکام ہو جاتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل رکھتے ہوئے عاجزانہ دعا کرتے ہوئے اپنی کوششوں کو تیز کر دیں جو حوالہ میں نے ابتداء میں پڑھا ہے اس میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں کہ ان کے پھول اخلاق فاضلہ ہیں یعنی جس طرح ایک درخت میں پھول لگتے ہیں اردگرد کی فضا میں ان پھولوں کی خوشبو رچ جاتی ہے.اسی طرح مذہب کی سچائی کا علم اس مذہب کے ماننے والوں کے اعلیٰ اخلاق سے ثابت ہوتا ہے.اخلاق فاضلہ کیا ہیں یہ وہ حقوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ایک انسان نے ادا کرنے ہوتے ہیں.دنیا میں ظلم اور فساداسی وقت پھیلتا ہے جب کوئی انسان دوسرے کا حق مار لیتا ہے.اگر کوئی شخص کسی کی بُرائی نہ کرے اسے تکلیف نہ دے.اس کے حقوق نہ چھینے تو کوئی وجہ نہیں کہ فساد پیدا ہو.بُرائیاں پھیلتی ہیں تجسس سے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجرات میں فرمایا ہے کہ تجس

Page 589

خطابات مریم 564 خطابات ، ، سے کام نہ لیا کرو.ایک دوسرے کی عیب کی ٹوہ میں نہ رہا کرو.اس کی بجائے پیارو محبت سے اصلاح کرو.بجائے اس کے کہ اپنی ملنے جلنے والیوں کے عیوب پر نظر رکھو.ان کی اچھائیاں ڈھونڈو اور جو خوبیاں ان میں ہیں ان کے ذریعہ ان سے کام لینے کی کوشش کرو.اگر کسی میں ایک عیب ہے تو اس میں دس اچھی باتیں ضرور ہوتی ہیں.ہماری نظر عیب پر تو پڑ جاتی ہے ان خوبیوں پر نہیں پڑتی.احمدیت تو ایک روحانی انقلاب عظیم کا نام ہے ہمارا کام ہے اپنے میں بھی اعلیٰ اخلاق پیدا کریں.وہ جن کا نمونہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا اور اپنی اگلی نسل میں بھی وہی اخلاق اور خوبیاں پیدا کریں.اس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر لندن میں حضور انور نے عورتوں سے خطاب فرماتے ہوئے فرمایا کہ اپنے گھروں کی تعمیر نو کرو.ان کو جنت بناؤ جس میں کوئی جھگڑا نہ ہو فساد نہ ہو.رنجش نہ ہو، لڑائیاں نہ ہوں، طعن و تشنیع نہ ہوا اتنا سکون ہو گھروں میں کہ گھر ہی جنت بن جائے اور گھروں کو جنت بنانے میں سب سے بڑی ذمہ داری عورت کی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو نیک خدا پرست بنا کر اعلیٰ اخلاق ان میں پیدا کر کے قوم کے ستون بناسکتی ہیں وہ بھی ماؤں کی آنکھوں کے تارے ہی ہوتے ہیں جو کسی گاڑی یا بس میں بم رکھ دیتے ہیں کسی کو قتل کر دیتے ہیں کسی کے بچہ کو اغوا کر لیتے ہیں اور ان کی وجہ سے گھر دکھی ہو جاتے ہیں.ان کی ماؤں نے ان کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت اور ہمدردی نہیں پیدا کی اس کے برعکس وہ ایسے دوستوں کی صحبت میں پڑ گئے جو خود بھی تخریب کا ر ہوتے ہیں اور ان سے بھی کرواتے ہیں.احمد یہ جماعت نے تو دنیا کے دل جیتنے ہیں اور یہ کام صرف اور صرف اعلیٰ اخلاق کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے.مذہب کی مثال درخت سے دیتے ہوئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں اور اس کا پھل برکاتِ روحانیہ اور نہایت لطیف محبت ہے جو رب اور اس کے بندہ کے درمیان پیدا ہو جاتی ہے.پھل سب سے آخر میں لگا کرتا ہے جب انسان میں اخلاق فاضلہ پیدا ہو جاتے ہیں تو پھر پھل نکلتے ہیں.کہا جاتا ہے کہ درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اعلیٰ اخلاق کے نتیجہ میں پھر جو پھل لگتے ہیں وہ روحانی برکات ہوتی ہیں جو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہوتا ہے اس دنیا میں اسے لقاء حاصل ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کر لیتا ہے.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.

Page 590

خطابات مریم 565 خطابات کہ اے محمد ! رسول اللہ آپ دنیا کو بتا دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو پہلے میرے نقش قدم پر چلو میری پیروی کرو.میرے اخلاق اپنے اندر پیدا کرو اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا پیار تمہیں حاصل ہو گا.پس اپنے معاشرہ کی صفائی اور پاکیزگی کا کام اپنے گھروں سے شروع کرو اور اپنے گھروں کے بعد پھر محبت سے دل صاف رکھتے ہوئے جائزہ لو، دوسروں کا اور جہاں بُرائی نظر آئے اس کی اصلاح کی کوشش کرو.سب سے بڑی شکایت تو عورتوں سے یہ ہے کہ اپنے اجلاسوں میں ہیں ، پچیس فیصد سے زیادہ حاضر نہیں ہوتیں جس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان کے کانوں تک وہ تحریکیں پہنچ نہیں پاتیں جو حضور پُر نور کی طرف سے آتی ہیں اور جن پر عمل کروانا لجنہ پاکستان کا کام ہے.جو سرکلر بھی کسی لجنہ یا لجنہ کے کسی حلقہ کو جائے گا وہ صرف ان خواتین اور بچیوں تک پہنچے گا جو وہاں آتی ہوں گی پس آپ ہفتہ میں ایک دفعہ دو گھنٹے اللہ تعالیٰ کی خاطر وقف کریں خواہ کتنا ضروری کام ہوا سے دوسرے وقت پر ڈال کر اجلاسوں میں ضرور جایا کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.یہ یاد رکھیں کہ ہر کام میں مرکز سلسلہ کی خواتین کو نمونہ بننا ہے.سب دنیا کی خواتین کی نظریں ان کی طرف لگی ہوئی ہیں یہ کیسی ہیں کس طرح بچوں کی تربیت کرتی ہیں قومی ذمہ داریوں میں کتنا حصہ لیتی ہیں.ایک صدی گزر چکی ہے دوسری صدی کا آغاز ہے.آپ کے بڑوں نے قربانیاں دیں آپ اگر اس معیار کو قائم نہیں رکھیں گی تو ان کی قربانیوں کی اہمیت کو بھی کم کرنے والی ہوں گی.پس احساس ذمہ داری اپنے میں پیدا کریں کہ اگر میں اجلاس میں نہ گئی اگر میں نے اپنے فرض کو ادا نہ کیا اگر بچوں کی تربیت کی طرف سے غافل رہی تو میں احمدیت کو نقصان پہنچانے والی ہوں گی.جو کچھ کرنا ہے میں نے کرنا ہے اگر ہر عورت کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو ہم بہت جلد ترقی کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم میں یہ احساس ذمہ داری بھی پیدا کرے اور عمل کی بھی توفیق دے ایسا عمل جس سے وہ راضی ہو جائے.آمین (ماہنامہ مصباح نومبر 1990ء)

Page 591

خطابات مریم 566 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ پاکستان $1990 خطابات تشہد وتعوذ کے بعد آپ نے فرمایا.آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ ہمارے اجتماع کی اجازت کو منسوخ کر دیا گیا ہے لیکن چونکہ لڑکیوں نے تیاری کی ہوئی ہے اس لیے ہم نے کہا ہم مقابلے کروالیں.اللہ تعالیٰ مومنوں کو کئی طریقوں سے آزماتا ہے.کبھی مالی نقصان سے کبھی جذبات کو تکلیف پہنچنے سے ، مومن وہی ہے جو ان تکالیف کے باوجود ثابت قدم رہے اور ابتلاؤں سے نہ گھبرائے حضور اقدس نے فرمایا ہے کہ تمام امراء و عہدیدران ہر کام دعا سے شروع کریں کہ ہم نے کام شروع کیا ہے اس میں برکت ڈال.شاید ہماری دعاؤں میں کوئی کمی رہ گئی ہو.مومن کا کام صبر کرنا ہے.اس کا قدم پیچھے نہیں جاتا اس لئے اگر اجتماع کی اجازت اس سال منسوخ ہو گئی ہے تو آئندہ یہ سوچ کر کہ اجازت نہیں ملتی آپ نہ آئیں بلکہ جب بھی آپ کو مرکز سے آواز آئے تو لبیک کہیں.یہی روح اپنی بچیوں میں پیدا کریں کہ چاہے ہمیں تکلیف ہو چاہے نقصان ہو ہم نے حکم ماننا ہے اور اطاعت کرنی ہے.اس کے بعد آپ نے حاضرات کو نصیحت فرمائی کہ گروپ کی صورت میں باہر نہ نکلیں اور نہ ہی گروپ میں آئیں پہچ نہ لگائیں.تھوڑی تھوڑی کر کے جائیں.دعائیں کریں.یہاں پر بھی خاموشی سے سنیں لاؤڈ سپیکر نہیں ہے یہ بھی آزمائش ہے اور عادت ڈالنے کے لیے ہے کہ سکون سے سننے کی عادت ہو جائے.(از سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1990ء)

Page 592

خطابات مریم 567 خطابات افتتاحی خطاب مجلس شوری منعقدہ 10 نومبر 1990ء اس میں لجنہ پاکستان کی اجتماع کے لیے آئی ہوئی صدران اور دیگر نمائندگان نے شرکت کی.اس کے علاوہ مجلس عاملہ ربوہ کی ممبرات بھی شامل ہوئیں.تشهد وتعوذ کے بعد آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ کے قیام پر 68 سال گزرچکے ہیں اور 14 نمبرات کا یہ قافلہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں رواں دواں ہے.گذشتہ سال ایک تبدیلی یہ آئی کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کو اپنے ماتحت لے لیا.اور لجنہ مرکز یہ کو ہٹا کر تمام ملکوں کو علیحدہ لجنہ بنادیا.دوسری اہم بات یہ کہ گذشتہ سال صدسالہ جو بلی کا سال تھا اس اہمیت کے اعتبار سے سارا سال بجنات نے جلسے کیے.خوشی میں سیرۃ النبی کے جلسے کئے بعض جماعتوں نے غیر احمدی خواتین کو ان جلسوں میں بلا یا لجنہ کی تدریجی ترقی کی نمائش لجنہ ہال میں لجنہ پاکستان کی طرف سے لگائی گئی.جس کا افتتاح حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے رفیق مکرم مولوی محمد حسین صاحب نے کیا.صد سالہ جشن کی انچارج محترمہ سعیدہ احسن تھیں جن کے ساتھ مکرمہ قدسیہ مجید صاحبہ نے محنت سے کام کیا.ربوہ کی منتخب خواتین کو یہ نمائش دکھائی گئی.لاہور میں بھی اس قسم کی نمائش لگائی گئی جو کامیاب رہی اس سال لجنہ کا مجلہ بھی شائع ہوا جو کافی پابندیوں کے بعد چھپا ہے.“ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس مجلہ کو بہت پسند فرمایا:.جنہوں نے نہیں منگوایا وہ منگوالیں.صد سالہ جشن کے تحت نمایاں کام کرنے والی خواتین کو سندات خوشنودی بھی دی گئیں جو 874 تھیں.نیز بتایا کہ اس سال 124 لجنات کے انتخابات ہوئے.اس سال آپ نے باہر کی لجنات سے کہا کہ ربوہ میں ہونے والے مقابلہ جات میں ہم باہر کی جز لیں.لجنات ہمیں نام قبل از وقت بھجوا دیا کریں.اب کھیلیں آ رہی ہیں اگر اس مقصد کیلئے آپ دینا چاہیں تو ان کے نام پہلے سے بھجوا دیں.شعبہ صحت جسمانی کے ضمن میں آپ نے فرمایا کہ اس سال یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ میچز اور کھیل میں الگ الگ لڑکیاں حصہ لیں گی.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1990ء)

Page 593

خطابات مریم 568 خطابات اختتامی خطاب مجلس شوری 1990ء تشہد اور تعوذ کے بعد آپ نے فرمایا :.اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے قدرت ثانیہ کا سلسلہ جاری فرمایا.حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ کی ایک مجسم قدرت ہوں میرے بعد بعض اور وجود ہونگے جو دوسری قدرت کا مظہر ہونگے پس یا درکھیں کہ جماعت کی ساری ترقی قدرت ثانیہ سے وابستہ رہنے اور اطاعت میں مضمر ہے اپنی اولادوں کو بھی یہ بتاتی رہیں.حضور نے فرمایا کہ ”مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے آخر ان پر برکتوں کے دروازے کھولے جائیں گے“.(روحانی خزائن جلد 20 الوصیت صفحہ 309) یہ وعدے جو بہت پہلے کئے گئے تھے یہ ہم کو کتنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلا رہے ہیں ہم دوسری صدی میں داخل ہو چکے ہیں ہم نے اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو زندہ کرنا ہے اس کا ایک طریق یہ ہے کہ اگلی نسل کے دلوں میں ایمان کی شمعیں جلائیں ان کے دلوں میں خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کا جذبہ پیدا کریں اس زمانہ مین جب لوگ دین سے دور ہو رہے ہیں اپنے بچوں کو دین سے محبت کروانا آپ کا فرض ہے.احمدی عورت پر بڑی ذمہ داری ہے اپنے بچوں کے دلوں میں دین کی اقدار پیدا کریں بچوں کی تربیت کریں انہیں تقویٰ کی راہوں پر چلا ئیں.حضور فرماتے ہیں اپنے گھروں کو جنت بناؤ نماز کی عادت ڈالوسچائی کو قائم کر و صلہ رحمی کرو.نرم زبان کا ستعمال کرو تربیت کا ایک وسیع میدان ہے جو ہم نے سر کرنا ہے اس میں غفلت نہ کریں تا کہ اولا د بگڑنے کی بجائے دین کا ستون بنے.نئے سال کا کام پورے جوش و عزم کے ساتھ سرانجام دیں ہم سب کا مقصد ایک ہے اس لیے ایک دوسرے سے حسد نہ کریں کہ فلاں نے انعام حاصل کر لیا.سب یہ سوچیں کہ ہمارے قدم نہ ست ہوں اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1990ء)

Page 594

خطابات مریم 569 خطابات دوره بصیر ضلع سرگودها تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا کہ مجھے بھیرہ آنے کا بہت شوق تھا مگر اس میں کچھ رکاوٹ پیدا ہوتی رہی اب مجھے خدا نے یہاں آنے کا موقع دیا ہے اور میں خلیفہ امسیح الاوّل کی سرزمین کو سلام پیش کرتی ہوں.آپ نے فرمایا کہ نظارت اصلاح وارشاد نے ہمیں اس مجلس کے دورہ کی طرف توجہ دلائی تھی اور میں نے خود یہاں آنے کا فیصلہ کیا اس لیے میری گزارشات کو غور سے سن کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں.آپ نے سورۃ توبہ کی آیات کی تلاوت فرمائی اور بہنوں کو بتایا کہ خدا تعالیٰ سے عہد باندھ کر جو اس کا انکار کرتا ہے اسے کبھی کامیابی نصیب نہیں ہوتی آپ نے بھی بیعت کر کے ایک عہد باندھا ہے جسے پورا کرنا آپ کا فرض ہے پھر آپ نے فرمایا کہ حضرت خلیفۃ اصیح الرابع نے اپنے بیشتر خطبات میں عورتوں کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ بچوں کی تربیت میں زیادہ ہاتھ ماں کا ہوتا ہے اگر مائیں بچوں سے غفلت برتیں تو نئی نسل آئندہ آنیوالی ذمہ داریوں کو اُٹھانے کیلئے تیار نہیں ہو سکے گی.اور وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی جس کی آئندہ نسل پچھلی نسل سے تیز نہ ہو آپ نے فرمایا کہ ہر احمدی کی جان کی بہت قیمت ہے ہر ماں کو یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا اس کا بچہ خدا اور اس کے رسول اس کے خلفاء کا مطیع و فرمانبردار ہے یا نہیں ہمیں اکثر رپورٹوں کے ذریعے اجلاسوں کی حاضری کی کمی کی شکایات ملتی ہیں آپ اپنے نفسوں کا جائزہ لیں کہ آپ کتنا وقت دین کے کاموں میں صرف کر رہی ہیں.آپ پر دوہری ذمہ داری ہے ایک لجنہ کی ممبر ہونے کی حیثیت سے اور دوسرے بھیرہ کی سرزمین سے تعلق رکھنے کی وجہ سے آپ اتنے بڑے بزرگ اور طبیب کی سرزمین سے تعلق رکھتی ہیں جنہیں اس بات پر کامل یقین تھا کہ ہر اس کام میں برکت حاصل ہوتی ہے جو اطاعت کے دائرہ میں رہ کر کیا جائے.اس لیے آپ کو چاہیے کہ

Page 595

خطابات مریم 570 خطابات اپنے اندر اطاعت کا جذبہ پیدا کریں.آپ کے بچے آپ سے نمونہ حاصل کرینگے پھر آپ نے خواتین کو اپنے بچوں میں سچائی نماز اور خوش خلقی کے اوصاف پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی.ناصرات کے ساتھ ساتھ اطفال کی تربیت کی طرف بھی توجہ دلائی انہیں قرآن کریم ناظرہ اور با تر جمہ پڑھانے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی تلقین فرمائی.فاستبقو الخیرات کو ماٹو بناتے ہوئے اپنے قدم آگے بڑھانے کی طرف توجہ دلائی.تاکہ لجنہ کو آگے بڑھنے اور اُبھرنے کا موقع مل سکے.آخر میں حضور انور کی تمام تحریکات پر پوری طرح عمل کرنے کی توجہ دلائی.☆ (سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1990ء)

Page 596

خطابات مریم 571 خطابات خطاب عہدیداران ضلع فیصل آباد سب سے پہلے تو آپ نے اجلاس میں عہدیداران کی کم حاضری پر اظہار تشویش فرمایا اور تلقین کی کہ آئندہ یہ حاضری پوری ہونی چاہیے.کیونکہ اجلاسوں کا اصل مقصد ہی یہی ہے کہ آپ میں بیداری پیدا ہو اور تربیت کی جائے.ایک تو ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ اپنا مال، جان وقت اور اولاد کو قربان کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہیں گے.لیکن پھر جب اجلاسوں کے لیے وقت کی تھوڑی سی قربانی دینی پڑتی ہے تو پھر پیچھے کیوں ہٹ جاتی ہیں.لہذا اجلاسوں میں حاضری زیادہ بڑھا ئیں ، اصلاح نفس کریں اور ان چھوٹی چھوٹی کمزوریوں کو دور کریں.کیونکہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اجتماع کے موقع پر لجنات کو جو پیغام بھجوایا ہے وہ یہی ہے حضور فرماتے ہیں کہ ” پاکستان اپنی اولیت کو قائم رکھے کیونکہ باہر کی جماعتیں اتنی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں کہ مجھے ڈر ہے کہ وہ پاکستان کی لجنہ کو پیچھے نہ چھوڑ دیں“.پھر آپ نے فرمایا کہ دیہات کے لوگوں کو خاص طور پر یہ شکایت رہتی ہے کہ اس اجلاس میں تو جائیں گے لیکن اس گھر میں نہیں جانا کیونکہ برادری کا جھگڑا ہے.لیکن حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تعلیم تو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ محبت بھی خدا کے لیے ہے اور نفرت بھی خدا کیلئے ہے اگر کسی سے دشمنی یا بغض ہے تو محض اس لیے کہ وہ خدا اور اس کے دین کا دشمن ہے.لیکن جو اس خدا اور رسول پر ایمان رکھتا ہے اور اسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو اس سے دشمنی جائز نہیں.ہمیں اپنی برادریاں خدا اور اس کے رسول کی تعلیمات سے پیاری نہیں ہونی چاہیں.یہ تو زندہ جماعت کی شان کے خلاف ہے پھر آپ نے دیہات کی عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اکثر جھگڑے زیادہ تر عورتوں سے اُٹھتے ہیں جو بعد میں بڑھ کر برادری کے جھگڑوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں.احمدی عورتوں کو تو ساری دنیا کی تربیت کرنی ہے.اسی لیے تو حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے لجنہ کی تنظیم کو

Page 597

خطابات مریم 572 خطابات قائم کیا آپ اس یقین پر قائم تھے کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کے مرد اور عورتیں برابر کوشش نہ کریں اور قربانیاں نہ دیں.وہ قوم جس کو کھڑا ہی اس لیے کیا گیا کہ اس نے صرف اپنی ہی نہیں بلکہ ساری قوم کی اصلاح کرنی ہے اور اسلام پھیلانا ہے حضرت اقدس کا پیغام دنیا تک پہنچانا ہے اور دنیا کو صداقت کی طرف لانا ہے انہیں تو سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرنی ہے.جہالت کے سلسلہ میں آپ نے اس جانب ممبرات کی توجہ مبذول فرمائی کہ احمدی بچہ جاہل نہیں رہنا چاہیے.خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی.چاہیے کہ ہر ایک کو قرآن نہ صرف ناظرہ بلکہ با تر جمہ آتا ہو.کیونکہ صرف عربی کے الفاظ دُہرانے سے اصلاح ممکن نہیں.تلفظ درست ہوں.مائیں اپنے بچوں کی نگرانی کریں.اگر ہر احمدی عورت یہ عہد کر لے کہ ہم اپنی اولا دکو جاہل نہیں رکھیں گے ان کو تعلیم دلوائیں گے تاکہ اُن کے دماغ روشن ہوں اور انہیں اپنے فرائض کا احساس ہو.پھر آپ نے فرمایا کہ حضرت خلیفہ اصیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے نئے سال کیلئے تربیت کا بہت بڑا پروگرام بنایا ہے جس میں سر فہرست ”نماز ہے.نمازوں میں ست نہ ہوں.عورت تو گھر کی ملکہ ہوتی ہے اُسے چاہیے کہ اپنے خاوندوں اور اپنے بچوں کی نگرانی کرے.عورت کی سستی اور کمزوری سے ایک گھر نہیں تباہ ہوتا بلکہ ایک نسل تباہ ہوتی ہے جس کا پھر واپس آنا بہت مشکل ہوتا ہے.دوسری بات جس کی طرف حضور پر نور نے توجہ دلائی ہے وہ وسعت حوصلہ ہے.چھوٹی چھوٹی باتوں کیلئے حوصلہ پیدا کریں اور احمدی عورتوں کے دل تو بہت مضبوط ہیں وہ تو بڑی تکالیف کو برداشت کر لیتی ہیں پھر یہ برادریوں کے جھگڑے کیوں ختم نہیں کرتیں.آپ نے فرمایا کہ ایک بڑی رقم جو خدمت دین میں لگائی جاسکتی ہے وہ رسومات میں خرچ.کر دی جاتی ہے رسومات اور بدعات سے پر ہیز کریں.چندہ کی بابت فرمایا کہ چندہ دینے کا جتنا جذ بہ احمدی عورتوں میں ہے شاید ہی دنیا کی کسی اور قوم میں ہو.لیکن چاہیے کہ آپ وقت پر چندہ بھجوائیں کیونکہ ہماری اصلاح کے لیے چندہ دینا اور جلسے کرنا ضروری ہے.ستی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں لجنہ کی اہمیت واضح نہیں.

Page 598

خطابات مریم 573 خطابات پھر آپ نے فرمایا کہ احمدی جہاں بھی جائیں اخلاقی لحاظ سے اپنی حیثیت منوائیں دوسرے لوگوں سے منفرد ہوں.احمدی نمایاں ہوں اپنی اسلامی تعلیمات کے اعتبار سے کہ دشمن بھی اقرار کرے کہ اگر چہ ہم انہیں کا فر کہتے ہیں لیکن اسلامی تعلیمات کا صحیح نمونہ صرف احمدیوں ہی میں ہے.پھر آپ نے اس طرف توجہ دلائی کہ اجلاسوں میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات سنائے جائیں اور پیغامات پڑھ کر سنوائے جائیں.عہد یداران سے آخر میں آپ نے یہ فرمایا کہ آپ نے میرا یہ پیغام تمام جماعتوں کو آگے پہنچانا ہے.اور میں امید کرتی ہوں کہ آپ اپنی جماعتوں کے پاس ایک نیا جذ بہ لے کر جائیں گی.پھر آپ نے فرمایا کہ میں انشاء اللہ جب بھی آپ نے بلوایا تو میں ضرور آؤنگی.“ رپورٹ لجنہ اماءاللہ ضلع فیصل آباد 1990ء).......☆

Page 599

خطابات مریم 574 خطابات خطاب ضلعی صدرات شہر واضلاع پاکستان (26 /اپریل 1991ء) تشہد وتعوذ کے بعد آپ نے فرمایا کہ شوری پر نمائندگان نے آنا ہی تھا ہم نے ضلعی صدروں کو بھی مدعو کر لیا.پچھلے چھ ماہ کے کام کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے قدم ترقی کی طرف بڑھتے نظر نہیں آتے.بہت کم لجنات رپورٹس بھیجتی ہیں.ضلعی صدروں کے تقرر کی وجہ ہی یہ تھی کہ وہ کام میں بیداری پیدا کریں.مرکز سے تعلق کو مضبوط کریں اپنے علاقوں کے دورے کریں اور جلسوں کا انعقاد کرتے ہوئے اپنے ضلع کی ست لجنات کو بیدا کریں لیکن جب تک آپ اپنے کاموں کی رپورٹس نہیں بھیجیں گی کام مکمل نہیں ہوگا.پاکستان میں نو سو پچاس مجالس ہیں جن میں سے ڈیڑھ سو یا دو سو اپنے کام کی رپورٹ بھیجتی ہیں.یہ رجحان دیکھتے ہوئے کہا نہیں جا سکتا کہ جماعتی نظام عمدگی کے ساتھ چل رہا ہے.یہ درست ہے کہ شہری لجنات عمدگی سے کام کر رہی ہیں لیکن جب تک سارے ضلع کو ہمراہ لے کر نہیں چلیں گی اس وقت تک کاموں میں وسعت پیدا نہیں ہوگی لجنہ کے نظام کے تحت چھ ماہ گزر چکے ہیں لیکن سیالکوٹ اور فیصل آباد جیسے بڑے اضلاع سے پانچ یا چھ رپورٹیں موصول ہوئیں ہیں یہ تعداد اگر پچاس یا ساٹھ ہو کہا جا سکتا ہے کہ کام ہو رہا ہے اور محنت کی جا رہی ہے.چھ ماہ کی رپورٹس کے مطابق دوروں کی تعداد بے حد کم ہے ضلع کی صدر کو چاہئے کہ وہ تحصیل وار چھوٹے شہروں کا دورہ کریں.اگلے دو تین ماہ میں دوروں کا پروگرام رکھیں.فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ مئی جون جولائی میں دوروں کا پروگرام رکھوں.لیکن ان دوروں کی تعداد خود مقرر نہ کریں.بلکہ پہلے ہم سے منظوری حاصل کریں پھر تاریخ مقرر کریں.رپورٹس کے بارہ میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان میں غیر ضروری باتیں بہت ہوتی ہیں لیکن

Page 600

خطابات مریم 575 خطابات سب سے اہم بات کا ذکر کہیں نہیں ہوتا کہ ان دوروں کا کیا اثر ہوا.آپ مربی صاحبان یا خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کی مقتدر شخصیات کو مدعو کریں اور بتائیں کہ اس شعبہ میں اصلاح کی ضرورت ہے اہم باتوں کی طرف ان کو توجہ دلائیں.عورتوں کو اس کی تلقین کریں.حضرت مسیح موعود کی بعثت کا اصل مقصد ہی یہ تھا کہ يُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَة ( تذکره صفحه : 55) یعنی ایسی پاک جماعت کی بنیاد ڈالنا جو اسلام اور سنت محمدیہ کی پیروی کرنے والی ہو.اس کام کو جاری رکھنے کیلئے اور لوگوں کی زندگی میں انقلاب لانے کیلئے خلافت کے نظام کو جاری کیا گیا.ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی جد و جہد میں اتنے فعال ہوں کہ جماعت کے لیے کارآمد پرزہ بن سکیں.آپ نے فرمایا حضرت مصلح موعود کا ارشاد ہے کہ روحانی نظام جسمانی نظام کے تابع ہوتا ہے جب کوئی بیماری پھیلتی ہے تو اس سے تمام گاؤں یا شہر متاثر ہوتا ہے اور بعض اوقات وبا کے خلاف قوت مدافعت کے لیے ٹیکے لگائے جاتے ہیں اسی طرح روحانی و بائیں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں ان سے بچتے ہوئے ہمارے قدم آگے بڑھنے چاہئیں عہد یدار تر بیت پر زور دیں اور محنت کے ساتھ ساتھ دعاؤں پر بھی زور دیں صرف سمجھا نا ہی کافی نہیں بار بار نصیحت کریں.پیار سے سمجھا ئیں مسلسل کوشش کریں.تربیت کے بارہ میں حضور کے خطبات آتے ہیں نماز عبادات اور تربیت پر حضور انور لگا تار خطبات دے رہے ہیں ہر عورت کو حضور کے خطبات سننے چاہئیں جب تک آپ سنیں گی نہیں عمل کیسے کریں گی.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1991ء)

Page 601

خطابات مریم 576 خطابات اختتامی خطاب صدرات شہر و اضلاع پاکستان 1991ء آپ نے فرمایا کہ ایڈ منسٹریٹر فضل عمر ہسپتال نے بتایا ہے کہ ہسپتال میں نرسز کی سات آسامیاں خالی ہیں خدمت خلق کے جذبے سے معمور میٹرک پاس لڑکیاں درخواست بھجوائیں.درخواست بھیجوانے کی آخری تاریخ 5 مئی ہے.انٹرویو 6 مئی کو ہوگا.آپ نے ایک بار پھر فرمایا کہ رپورٹس فارم کے مطابق بھجوایا کریں صرف یہ نہ لکھا کریں کہ دورہ کیا گیا.تفصیل سے لکھیں کہ کس شہر ، گاؤں یا تحصیل کا دورہ کیا.اور کس نے کیا.حضور انور نے تجنید کی سالانہ رپورٹ دیکھ کر فرمایا کہ تعداد لجنہ میں بہت گنجائش ہے.معلوم ہوتا ہے کہ تمام کوائف شہروں سے اکٹھے کیے گئے ہیں دیہات کی طرف زیادہ توجہ دیں.اور آئندہ چھ ماہ میں اس کام کو تیز تر کریں.آپ نے فرمایا ضلعی صدر سال میں کم از کم ایک دورہ مرکزی کر کے ہدایات حاصل کیا کریں.آپ نے ایک نازک امر کی طرف توجہ دلائی کہ بعض والدین اپنی اولادوں کی صحیح رنگ میں تربیت نہیں کر پارہے جس کی وجہ سے احمدی لڑکیوں نے غیر از جماعت لڑکوں سے تعلقات بڑھا رکھے ہیں اور حضور انور سے شادی کی اجازت مانگتی ہیں اور ایسے واقعات کثرت سے ہو رہے ہیں.اس سلسلہ میں تمام مجالس میں تربیتی سرکلر بھجوائے جاچکے ہیں کہ والدین اپنی بچیوں کی بہتر انداز میں روحانی اور ذہنی تربیت کریں تا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے.حضور نے ناظر صاحب اصلاح و ارشاد کے نام خط میں تحریر فرمایا ہے کہ پاکستان میں دعوت الی اللہ کے ماتحت واقفین کی تعداد 58 ہزار ہے جبکہ بیعتیں معدود چند.اس کام میں ترقی مسلسل رابطہ اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ہر داعی الی اللہ کی کوششوں کو ثمر آور بنانے کے لیے پر خلوص کوشش کی جائے.مجالس اور ضلعوں کے درمیان مقابلہ کروایا جائے اور ایک سال کے اندراندر بہترین نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جائے.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1991ء)

Page 602

خطابات مریم 577 خطابات خطاب ضلعی اجلاس نور پور ضلع قصور 12 مئی 1991ء آپ نے فرمایا کہ جب سے یہ ضلع لاہور سے علیحدہ ہوا ہے مجھے بھی خواہش رہی بلکہ اس امر کی ضرورت رہی کہ خدا مجھے آنے کی توفیق عطا فرمائے تا میں آپ کی کوئی خدمت کرسکوں لیکن اکثر کوئی نہ کوئی روک پڑ جاتی تھی اس مرتبہ رات بھر دعا کرتی رہی کہ خیریت رہے اور اللہ تعالیٰ ہر رکاوٹ کو دور فرمائے ہمارا آنا اور جانا خیریت سے ہو اور باعث برکت ہو الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دونوں طرف کی خواہش کو پائیہ تکمیل تک پہنچایا.بعد ازاں آپ نے فرمایا کہ جو جائزہ پیش کیا ہے اس میں بارہ مجالس کی رپورٹ کا ذکر ہے حالانکہ ہمارے دفتری ریکارڈ کے مطابق مجالس کی تعداد 13 ہے کمی بیشی کی اطلاع مرکز کو دینی چاہیے اس امر سے خوشی ہے کہ حاضری اچھی ہے لیکن جہاں تک ان کی کارکردگی کا تعلق ہے.نہایت غیر تسلی بخش ہے صرف چندہ دینا ہی کام نہیں باقی امور کی طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے.مرکز سے تعلق کی ایک ہی صورت ہے رپورٹ بھیجی جائے اس میں بہت ستی ہے لجنہ کی تنظیم کو قائم ہوئے آدھی صدی سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اور یہ وہ ابتدائی کام ہیں جن کے بارہ میں یہ مسئلہ پیدا ہونا ہی نہیں چاہیے تھا تعلیمی حالت سے بھی تشویش ہوئی.حضرت خلیفۃ المسیح لثالث کا ارشاد ہے کہ ہر احمدی لڑکا میٹرک اور لڑکی مڈل تک تعلیم حاصل کرے یہی ترقی کا ذریعہ ہے.احمدیت کی روح کیلئے ضروری ہے کہ خلفاء کے ارشادات پر عمل کیا جائے بیعت کرتے وقت اس کو دہرایا جاتا ہے کہ جو نیک کام بتائیں گے وہ کریں گے بہت بڑا ظلم ہے اگر نئی نسل کو تعلیم سے محروم رکھیں گے پھر اگر قرآن مجید اور نماز کا ترجمہ نہیں آتا تو کس طرح آپ خلیفہ وقت کی صحیح اطاعت کر رہی ہیں کچھ عرصہ سے حضرت خلیفہ امسیح الرابع تربیتی خطبات دے رہے ہیں سچائی پر قائم رہنے پر خاص طور پر زور دے رہے ہیں بچپن سے ہی اس امر کی طرف نگرانی کریں اس طرح وقف نو کی تحریک میں سب بہنوں کی شمولیت سے دلی خوشی ہوتی ہے لیکن اصل کام تربیت کا

Page 603

خطابات مریم 578 خطابات ہے اس کی طرف ابتداء سے ہی توجہ اور محنت کی ضرورت ہے کوشش کریں کہ کوئی بچہ ناقص تربیت کی وجہ سے ضائع نہ ہو ساری دنیا کو حضرت مسیح موعود کا پیغام پہنچانا ہے یہ خدا کے وعدے ہیں جو پورے ہوں گے لیکن خوشی اس وقت ہوگی جب اس میں ہمارا حصہ بھی ہوگا.تعلیم حاصل کرنے کا عزم کریں قادیان میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم اور خواہش پر ہر احمدی عورت نے دو ماہ کے عرصہ میں قاعدہ ختم اور دستخط کر نے سیکھ لیے.دیواروں پر اپنا نام لکھ کر بھی مشق کی اس لئے کہ اس وقت الیکشن میں اپنا نام لکھ کر دستخط کرنے کی ضرورت تھی عورتوں کی اس کاوش پر حضور نے خوشی کا اظہار بھی فرمایا اور مردوں کو شرمندہ بھی کیا کہ اگر عورتیں ساٹھ سال سے او پر عمر میں کرشمہ دکھا سکتی ہیں تو مرد کیوں پیچھے رہیں.آج حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے زور دیا کہ نماز سوچ سمجھ کر پڑھیں یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ترجمہ آتا ہو پس غفلت اور ستی دور کریں اپنی اولادوں کو ہر برائی سے دور رکھیں اسی سے جماعت کو زندگی حاصل ہوتی ہے.بچے احمدی کی ماں زندہ باد “ بننے کے نعرے کی اہل بننے کی کوشش کریں.(از سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1991ء)

Page 604

خطابات مریم 579 ضلعی اجلاس لاہور 13 مئی 1991ء خطابات اپنے پر معارف خطاب سے حاضرات کو فیضیاب کرتے ہوئے آپ نے قرآن مجید کی آیت مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكْرِ أَوْ أُنْثَى....(النحل : (98) کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ اس سے قبل اصل مضمون کی طرف توجہ دلاؤں اس بات کا اظہار ضروری سمجھتی ہوں کہ ضلع لاہور کی لجنہ کا کام تسلی بخش ہے لیکن مزید ترقی کیلئے ضروری ہے کہ سال کے شروع میں دوروں کا پروگرام بنائیں تا کہ ہر مبر اس سے فائدہ حاصل کر سکے اس وقت جو تلاوت کی گئی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسلام میں نیک کام کرنے کیلئے مرد عورت میں کوئی تخصیص نہیں جو بھی نیک کام کریگا اُسے پاک زندگی عطا کی جائیگی.کتنا بڑا وعدہ ہے جس طرح قرآن مجید کے ساتھ اچھی آواز کا ذکر ہے اسی طرح عمل صالح کے ساتھ مناسب حال عمل کا ذکر ہے خلیفہ وقت جس امر کیلئے آواز دے رہا ہو اس پر لبیک کہنا حیات طیبہ کا وارث بنادیتا ہے.تقویٰ کی راہیں اختیار کریں آپ نے نہایت عمدہ طریق سے تقویٰ کی راہوں کی وضاحت فرمائی.وہ دن دور نہیں جب فوج در فوج لوگ احمدیت میں داخل ونگے اگر وہ اپنے عیوب ساتھ لائے تو کیا ہوگا.ناصرات الاحمدیہ کو اس رنگ میں تیار کریں کہ وہ صحیح راستے پر چلنے والی ہوں دعاؤں کو اپنی زندگی کے لیے ناگزیر بنا ئیں ہر ممبر دعاؤں کو اپناتے ہوئے میدان عمل میں سرگرم نظر آئے.خدا کا پیار چاہیے تو قرآن کا جوا اپنی گردنوں پر رکھ لیں قرآن مجید میں سات سو احکام ہیں کسی ایک حکم کو بھی پس پشت نہ ڈالیں حضور انور متواتر خطبات میں نماز کی طرف خصوصی توجہ دلا رہے ہیں.میں بھی سال کے باقی وقت میں لجنہ لاہور کو نماز کا ترجمہ سیکھنے کی طرف توجہ دلاتی ہوں.اسی طرح سچائی کو اپنا مالو بنا ئیں اسلام کی ساری تصویر آپ کے وجودوں میں نظر آئے لوگ لاکھ آپ کو کا فر غیر مسلم کہیں لیکن آپ کا عمل عین اسلام کے مطابق ہوتا کہ ساری دنیا کی لیڈر بن سکیں اور خدا کا پیار حاصل کر سکیں.لاہور کی لجنہ کو اہمیت حاصل ہے.یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت مسیح موعود تشریف لائے.وفات پائی.یہاں پر آپ کے خلفاء بھی آتے رہے اس عظمت کو بھی یادرکھیں آپ کے عمل کے نتائج سامنے آئیں دعا ئیں بہت کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے مقبول خدمت لے.آمین.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1991ء) ہو

Page 605

خطابات مریم 580 خطابات افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ پاکستان 1991ء مورخہ 19 اکتوبر 1991ء کو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ پاکستان نے مختصر خطاب فرمایا.تشہد وتعوذ کے بعد حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے پہلے اجتماع کی اجازت دینے اور پھر اس کی منسوخی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.کہ خدا تعالیٰ ہمیں آزمانا چاہتا ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اندر ہر قسم کی ہنگامی صورت حال کا مقابلہ کرنے کی عادت ڈالیں.آپ نے فرمایا کہ نماز ہمیں صبر اور نظم و ضبط سکھاتی ہے.امام کی آواز پر کھڑے ہونا اور بیٹھنا ہی ایمان کی اصل روح ہے.آپ نے اس موقع پر ہونے والی بدنظمی کے مظاہروں پر افسوس کا اظہار فرمایا.اور تربیت اولاد کی طرف توجہ دلائی اور بچوں کو مجالس اور مساجد کے آداب سکھانے پر بھی زور دیا.آپ نے فرمایا کہ مومن کا ہر قدم آگے بڑھتا چلا جائیگا کیونکہ مومن کے کام خدا تعالیٰ کے کام ہیں جو کبھی رکتے نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : اگر سب لوگ مجھے چھوڑ دیں تو خدا ایک اور قوم پیدا کرے گا.(روحانی خزائن جلد 21 ضمیمہ براہین احمدیہ صفحہ 295) اسی طرح ہم پر پابندیاں لگا دی جائیں گی تو ہر احمدی کا گھر مدرسہ بن جائے گا.آپ نے فرمایا کہ خواتین اپنی دعاؤں میں اور تیزی پیدا کریں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے اجتماعات اور جلسے اسی شان سے دوبارہ منعقد ہونے لگیں اور گلشن احمد میں اتنی بہار آئے که ساری دنیا اس کی خوشبو محسوس کرے.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 92-1991)

Page 606

خطابات مریم 581 خطابات خطاب سالانہ اجتماع پاکستان 1991ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ اپنی زندگی کے 69 سال کامیابی کے ساتھ گزار کر سترہویں سال میں داخل ہو رہی ہے.یعنی قریباً ایک صدی کا تین چوتھائی حصہ.ایک قوم کی زندگی میں یہ عرصہ کچھ کم نہیں.ابھی حال ہی میں جماعت احمدیہ نے قیام احمدیت کے سوسال گزرنے پر جشن تشکر منایا ہے.ان تذکروں کے ساتھ جو سو سال میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کے نشان بن کر ظاہر ہوئے.اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ ایک ننھے پودے کو دنیا نے بڑھتے اور تناور درخت بنتے دیکھا.جس کے سایہ میں قو میں پناہ لینے کے لئے داخل ہورہی ہیں اور یہ سب کچھ اچانک نہیں ہو گیا اسی طرح ہوا جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا.- ” اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ قبل اس کے جو میں اس دنیا سے گزر جاؤں.میں اپنے اُسی حقیقی آقا کے سوا دوسرے کا محتاج نہیں ہوں گا اور وہ ہر ایک دشمن سے مجھے اپنی پناہ میں رکھے گا.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ میری مدد کرے گا.اور وہ مجھے ہر گز ہرگز ضائع نہیں کرے گا.اگر تمام دنیا میری مخالفت میں درندوں سے بدتر ہو جائے تب بھی وہ میری حمایت کرے گا.میں نامرادی کے ساتھ ہرگز قبر میں نہیں اتروں گا کیونکہ میرا خدا میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے اور میں اس کے ساتھ ہوں.میرے اندرون کا جو اس کو علم ہے کسی کو بھی علم نہیں.اگر سب لوگ مجھے چھوڑ دیں تو خدا ایک اور قوم پیدا کرے گا جو میرے رفیق ہونگے.نادان مخالف خیال کرتا ہے کہ میرے مکروں اور منصوبوں سے یہ بات بگڑ جائے گی اور سلسلہ درہم برہم ہو جائے گا مگر یہ نادان نہیں جانتا کہ جو آسمان پر قرار پا چکا ہے زمین کی طاقت میں نہیں کہ اس کو محو کر سکے.(ضمیمہ براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 294، 295)

Page 607

خطابات مریم 582 خطابات چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ کیا ہوا؟ کیا اس کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو کہا تھا یا اس کے مطابق جو مخالفین ہمارے متعلق کہتے تھے.اس میں کوئی شک نہیں کہ مشکلات کی آندھیاں بھی چلیں.مصائب کے زلزلے آئے.لوگوں کو شہید اور قید کیا گیا.بے گھر کئے گئے.لیکن ہر تکلیف کے بعد ان کے منہ سے یہی نکلا کہ خدا اور خدا کے رسول نے سچ کہا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کے مسیح نے پہلے ہی کہہ دیا تھا.یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوئی بیعت میں صادق اور کون کا ذب ہے.مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قو میں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گئے“.(روحانی خزائن جلد 20 الوصیت صفحہ 309) پس آئیے جائزہ لیں کون اپنے عہد بیعت میں سچا ہے اور کون جھوٹا.جماعت کے کام میں مدد کرنے کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تنظیموں کا قیام فرمایا جن میں سے سب سے پرانی تنظیم لجنہ اماءاللہ کی ہے.کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اس یقین پر قائم تھے کہ جب تک گاڑی کے دونوں پہیئے یعنی مرد اور عورت کی قربانیوں کا معیار یکساں نہیں ہوتا ہم ترقی نہیں کر سکتے.چنانچہ آپ کی اور بعد میں آنے والے خلفاء کی ہدایات کی روشنی میں کام کرتے ہوئے لجنہ الحمد للہ اس مقام تک پہنچی ہے.اس موقع پر میں یہ کہنا بھی ضروری سمجھتی ہوں کہ تمام لجنات میں آپ حضور کی 31 اگست

Page 608

خطابات مریم 583 خطابات 1991ء کی وہ تقریر جو آپ نے جرمنی میں مستورات سے خطاب کرتے ہوئے فرمائی تھی اپنی لجنہ کو اور خصوصاً عہدیداروں کو ضرور سنائیں.اس میں حضور نے عہدہ داروں کو ہدایات دی ہیں کہ آپ کو کیسا ہونا چاہئے.وہ سنیں اور اس کے مطابق بنے کی کوشش کریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے.اگر میں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں بلکہ مجھے چاہئے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کروں اور اپنی نمازوں میں اس کے لئے رو رو کر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمار ہے“.آپ فرماتے ہیں :.(روحانی خزائن جلد 6 شہادت القرآن صفحہ 396) کوئی سچا مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو“.(شہادت القرآن صفحہ 396) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے 1922ء میں جب بلجنہ اماءاللہ کا قیام فرمایا تو اس کے کچھ مقاصد بھی بیان فرمائے جن میں سے ایک یہ بھی تھا.اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لئے جو بھی خلیفہ وقت ہو اس کی تیار کردہ سکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مدنظر رکھ کر تمام 66 کارروائیاں ہوں.“ اور پھر فرمایا:.اس امر کی ضرورت ہے کہ تم اتحاد جماعت کے بڑھانے کے لئے ایسی ہی کوشاں رہو جیسے کہ ہر مسلمان کا فرض قرآن کریم.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مقرر فرمایا ہے اور اس کے لئے ہر ایک قربانی کو تیار رہو.(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 67) خلاصہ کلام یہ کہ ہمارا لائحہ عمل وہی ہے جس کی تلقین عورتوں کو حضور وقتا فوقتا کر رہے ہیں کہ

Page 609

خطابات مریم 584 خطابات وہ اپنی اصلاح کریں.اپنے گھروں کو جنت بنا ئیں سب کے لئے نمونہ بنیں اپنے اخلاق کی درستگی کی طرف توجہ دیں.تقویٰ اختیار کریں اور دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے لجنہ اماءاللہ کی ناؤ کو کھینچتی چلی جائیں جس کے لئے پہلے اپنا نمونہ پیش کرنا ہوگا.سب سے پہلے نماز کی پابندی نماز میں دل لگا نا اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے حسن سلوک اور پھر اپنی نئی نسل کی تربیت ہے.جلسے اور اجتماع بھی اسی لئے منعقد کئے جاتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں اصلاح ہو.اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہو.خدا ترسی انکسار اور تواضع کا جذبہ پیدا ہو اور دین کی خدمت کا شوق بھی.پس اجتماع کو معمولی چیز نہ سمجھیں اجتماع اور جلسے جن کی بنیاد خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھی تھی.تربیت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہوتے ہیں بشرطیکہ پوری توجہ سے پروگرام سنا جائے جائزہ لیا جائے اور پھر اس پر عمل کیا جائے.پس ثمرات ظاہر ہونے چاہئیں ورنہ اجتماع کا ہونا ہی بے فائدہ ہے.پس لجنہ کا قیام اور جلسے منعقد کرنے کی غرض بہنوں اور بچوں کی تربیت ہے اور کام کا شوق پیدا کرنا ہے.اپنی تمام سیکرٹریان اور کارکنات کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے میرے ساتھ پورا پورا تعاون کیا.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1991ء)

Page 610

خطابات مریم 585 خطابات جلسه اصلاح وارشاد حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ پاکستان نے فرمایا یہ اجلاس خاص طور پر اصلاح و ارشاد کے کاموں کے لیے کیا گیا تھا لیکن صرف 16 شہروں کی نمائندگان آئی ہیں.ایسی اہم میٹنگ میں %100 نمائندگی بہت ضروری ہے.اگر کسی وجہ سے صد ر صاحبہ نہ بھی آسکیں تو کوئی اور نمائندہ بھیجا جا سکتا ہے.تا کہ کارروائی صدر تک پہنچ جائے.ہر ماہ کیونکہ رپورٹ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو جاتی ہے اس لیے صدر ضلع کی ذمہ داری ہے کہ وہ لجنات کو احساس دلائیں کہ رپورٹ ضرور بھیجنی چاہیے.ضلع کی صدر کو چاہیے کہ دورے کرتے وقت جن کو رپورٹ لکھنی نہیں آتی انہیں رپورٹ لکھنی سکھا دیں.ہر مہینہ کی رپورٹ بھیجتے وقت پچھلے مہینہ کی رپورٹ سے مقابلہ کرنا چاہیے.تا کہ اپنی ترقی کا جائزہ لیا جا سکے.اسی طرح سالانہ رپورٹ میں بھی گذشتہ رپورٹ سے موازنہ کرنا چاہیے.آپ نے فرمایا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان میں تین باتوں پر خاص طور پر بہت زور دیا ہے.-1- کثرت سے سیرۃ النبی کے جلسے کیے جائیں جن میں اس تعلق اور محبت کا ذکر ہو جو حضرت مسیح موعود کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی.آپ اپنی محبت کا بھی اظہار کریں تا کہ یہ تاثر دور ہو کہ احمدی آپ سے محبت نہیں کرتے.ان جلسوں میں زیادہ سے زیادہ غیر از جماعت کو بھی شامل کریں.ان کےسوالات کے جوابات دیں اور اگر وہ دلچسپی سے شامل ہوں تو ان کو بار بار ایسے جلسوں میں شمولیت کا موقع دیں.-2- نماز کا ترجمہ سکھانے پر خصوصی توجہ دیں.کوئی ممبر بھی ایسی نہیں ہونی چاہیے جسے نماز کا ترجمہ نہ آتا ہو اور رپورٹ میں ہر ماہ نماز کا ترجمہ سیکھنے والیوں کی تعداد کا ذکر ہونا چاہیے.

Page 611

خطابات مریم 586 خطابات -3 قرآن مجید پڑھانے کیلئے استاد تیار کیے جائیں.یعنی ہر شہر میں ایسی لڑکیاں تیار کی جائیں.جن کا تلفظ صحیح ہوتا کہ تلفظ درست کر وایا جا سکے.فرمایا کہ 27-28 فروری کو نمائش لگ رہی ہے.قریب کے اضلاع اس میں بھر پور شرکت آپ نے فرمایا کہ کامیابی حاصل کرنے کیلئے عمل اور نمونہ اچھا ہونا چاہیے.اس لیے اپنے اخلاق کو درست کریں.نمایاں فرق اخلاق کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کریں.ہر بدی کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کریں اور دعاؤں پر زور دیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بیگم صاحبہ کیلئے بھی دعا کریں.کہ خدا تعالیٰ انہیں صحت والی اور کام کرنے والی لمبی عمر عطا فرماے.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 92-1991)......W

Page 612

خطابات مریم 587 خطابات ایک پر وقار تقریب خطاب حضرت سیدہ صد ر صاحبہ لجنہ اماءاللہ پاکستان نوٹ : 25 رمئی 1992ء کو لجنہ اماءاللہ پاکستان کی طرف سے ایک پر وقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ کو نا ئب صدر لجنہ اماءاللہ پاکستان کے عہدہ سے سبکدوش ہونے اور حضرت سیدہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کو لمبا عرصہ تک بطور صدر لجنہ اماءاللہ ربوہ شاندار خدمات بجالانے کے بعد اس عہدہ سے بوجہ خرابی صحت فارغ ہونے پر آپ کی خدمات کا شاندار الفاظ میں جو تذکرہ فرمایا درج ذیل کیا جاتا ہے.ایک عظیم باپ نے اپنی عظیم بیٹی کو اپنے شعروں میں یوں خراج تحسین دیا ہے.وہ مری ناصره وہ نیک اختر جوہر عقیلہ با سعادت پاک ان سے بڑھ کر اور الفاظ میں آپ کی تعریف نہیں کی جاسکتی.صاحبزادی ناصرہ بیگم جو حضرت فضل عمر کی سب سے بڑی بیٹی ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت لمبا عرصہ لجنہ اماءاللہ کی خدمت کی توفیق عطا فرمائی.یہ توفیق بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی مل سکتی ہے.اس سعادت بزور بازو نه بخشد خدائے نیست بخشنده اس میں ماں باپ کی تربیت اور دعاؤں کا بھی بہت بڑا حصہ ہے.حضرت فضل عمر نے 1925ء میں مستورات کی تعلیم کیلئے مدرستہ الخواتین قادیان میں جاری فرمایا جس میں حضور خود بھی پڑھایا کرتے تھے اور سلسلہ احمدیہ کے چوٹی کے علماء تعلیم دیتے تھے.چارسال بعد 1929ء میں ان طالبات نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا جس میں سے ایک آپ بھی تھیں.1931ء میں آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1931ء میں نصرت گرلز سکول قادیان کے ساتھ ہی

Page 613

خطابات مریم 588 خطابات ایف اے کی کلاس جاری کر دی گئی جس میں ایف اے تک آپ نے تعلیم حاصل کی.مدرستہ الخواتین میں دوران تعلیم آپ انعام بھی حاصل کرتی رہیں.خاص طور پر عربی اور جغرافیہ میں.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ کی تحریر بہت اچھی ہے.مضمون لکھتی رہی ہیں سب سے پہلا مضمون 1929ء کے الفضل کے ایک خاص نمبر میں آپ کا نظر آتا ہے پھر 1931 ء اور 1933 ء کے اخباروں میں بھی.لجنہ اماء اللہ کی نمائش میں جو جلسہ سالانہ پر لگائی جاتی تھی 1929ء میں آپ نے سلور میڈل حاصل کیا.ابتدائی کام جہاں سے آپ کا پبلک سے واسطہ اور جماعت کی خدمت کا پتہ لگتا ہے وہ قادیان میں جلسہ سالانہ کے موقع پر ٹھہری ہوئی عورتوں کی مہمان نوازی کی خدمت ہے.مصباح اور الفضل سے جو ریکارڈ تاریخ کیلئے لیا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ 1933 ء میں آپ قادیان کی منتظمہ تھیں اور شادی تک رہیں.لیکن میرا اندازہ ہے کہ اس سے پہلے آپ انتظام کرتی رہی ہیں مجھے اپنی یادداشت میں اس کی جھلک نظر آتی ہے کہ آپ کام کرتی ہی رہی ہیں.آپ نے بتایا کہ آپ نے دس سال کی عمر سے یہ کام شروع کیا تھا.آپ کی شادی 26 /اگست 1934 ء کو ہوئی.لجنہ کی عہدہ دار کے طور پر شادی کے بعد آپ سرگرم نظر آتی ہیں.1935 ء میں آپ نے منتظمہ نمائش قادیان کے عہدہ پر کام کیا ہے.1936ء میں آپ محلہ دارالفضل جہاں آپ شادی کے بعد رہتی تھیں کی صدر منتخب ہوئیں.1942ء میں پھر آپ کو نمائش کا کام دیا گیا معلوم ہوتا ہے شروع سے ہی آپ کو اس کام سے دلچسپی تھی جس کا اظہار ہجرت کے بعد نمائش کے کام کو ترقی دینے سے ظاہر ہوتا ہے.1945ء میں نصرت گرلز ہائی سکول قادیان کی اصلاح کے کام کے لئے لجنہ نے ایک بورڈ بنایا جس کی آپ بھی ممبر تھیں.1947ء میں قادیان چھوڑ کر پاکستان آئے.آپ کا قیام کچھ عرصہ ماڈل ٹاؤن رہا اور کچھ عرصہ آپ کراچی بھی رہیں.ماڈل ٹاؤن میں لجنہ ماڈل ٹاؤن کے کام کو بہتر بنانے کی کوشش کے علاوہ آپ نے وہاں رمضان میں قرآن مجید کا درس بھی دیا اسی طرح کراچی میں بھی سب سے پہلا درس رمضان المبارک میں آپ نے دیا.

Page 614

589 خطابات خطابات مریم ربوہ آنے کے بعد 1951ء میں آپ نائب جنرل سیکرٹری بھی رہی ہیں.عاجزہ ان دنوں جنرل سیکرٹری تھی.1952ء سے انہیں جلسہ سالانہ کے شعبہ جلسہ گاہ کا انتظام سپرد کیا گیا اور 1972 ء تک یہ ذمہ داری آپ نے اُٹھائی.عمومی انتظامات اور نگرانی کے علاوہ سٹیج کا ٹکٹ آپ خود انتہائی ذمہ داری سے دیتی تھیں اور جس کو مستحق نہ بجھتی تھیں نہیں دیتی تھیں.اس سلسلہ میں کسی کا لحاظ نہیں کرتی تھیں.لوگ بُرا بھی مان جاتے تھے مگر جو اصول لجنہ نے بنائے تھے ان پر پورا پورا عمل کرتی تھیں.1953 ء میں لجنہ اماءاللہ ربوہ کو الگ کر دیا گیا اور آپ اس کی صدر منتخب ہوئیں.اس سے پہلے ربوہ کی لجنہ مرکزی لجنہ میں شامل تھی.آپ کی خدمات بحیثیت صدر 39 سال کے لمبے عرصہ پر محیط ہیں.آپ نے اس طرح لجنہ ربوہ کو ترقی دی جیسے ایک چھوٹے پودے کی پرداخت کی جاتی ہے جب تک وہ تناور درخت نہ بن جائے.اس لمبے عرصہ میں آپ نے ربوہ کی لجنہ کو ترقی دینے اور تربیت کرنے میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے لجنہ اماءاللہ بلکہ سلسلہ احمدیہ کی تاریخ بھی اسے کبھی نہیں بھول سکتی.جوں جوں ربوہ کی آبادی بڑھتی گئی آپ کے لئے نت نئے مسائل پیدا ہوتے گئے جو آپ خوش اسلوبی سے حل کرتی گئیں.یوں تو سارے کام کی ذمہ داری صدر پر ہی ہوتی ہے مگر دو کاموں کی طرف خصوصی طور پر آپ کی ذاتی توجہ رہی ان میں سے ایک شعبہ خدمت خلق کا کام ہے.ذاتی طور پر مستحق کے حالات کا پتہ لگانا اور اس کی جائز ضروریات کا پورا کرنا اس کے لئے اگر اپنے فنڈ میں رقم نہیں تو جمع کرنا اور صاحب ثروت خواتین کو اس میں ہ لینے کی طرف توجہ دلائی.یہاں تک کہ آپ نے اس میں بہت وسعت پیدا کر دی یہ سارے اخراجات مثلاً عیدین کے موقع پر مستحقین کیلئے کپڑے بنوائے سردیوں میں گرم کپڑے.ان کے بچوں کی فیس کتب وغیرہ دیتیں اور ہزاروں ضرورتیں عورتوں کی پوری کرتیں.لڑکیوں کی شادیوں پر امداد ایک بہت بڑا فریضہ تھا جسے نہایت خوش اسلوبی سے اب تک نبھاتی چلی آئی ہیں.دوسرا کام جس کی طرف آپ نے بہت توجہ کی وہ نمائش کا شعبہ تھا.عورتوں سے کام لینا ہی نہیں بلکہ ان کو پہلے کام سکھانا، سکھوانا جو چیز بنوانی پہلے اس کا کپڑا اور دھاگہ خود خرید کر لانا ، ڈیزائن بنائے.اب یہ شعبہ بہت زیادہ ترقی کر چکا ہے اور بعد میں آنے حصــ

Page 615

خطابات مریم 590 خطابات والی سیکرٹریان نے اچھی طرح سنبھال لیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ساری ترقی کا انحصاران کی اکیلی ذات پر تھا.یہ ایک خاکہ ہے انتہائی مختصر ان کے کاموں کا اس کے علاوہ ربوہ کی ساری خواتین کو تربیت اور تعلیم اور مالی قربانیوں کی طرف توجہ دلانے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں.جب سے ربوہ کی لجنہ الگ قائم ہوئی سوائے ایک دفعہ یا شاید دو دفعہ کے لجنہ ربوہ ہی قریباً ہر کام میں اول آتی رہی ہیں.بے شک یہاں فاصلے کم ہیں جمع ہونا آسان ہے لیکن ہر روز اِدھر اُدھر سے نئے لوگ یہاں آ کر قیام کرتے ہیں.ان پڑھ ، قرآن بھی نہیں پڑھا ہوتا.اپنے دیہات سے مختلف رسوم و غیرہ ساتھ لاتے ہیں ان کی طرف توجہ دینا ان کی تربیت کرنا آسان کام نہیں اور جو حالات ۱۹۷۴ء میں پیدا ہوئے اور چلتے چلے آرہے ہیں نئی نئی پابندیاں لگتی جا رہی ہیں ان میں کام کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں.دل کی گہرائیوں سے یہ دعا نکل رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت والی لمبی زندگی عطا کرے اور ربوہ کی بچیوں کو ان کی تقلید کی توفیق عطا کرے بہت قیمتی وجود ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی پوتی اور حضرت فضل عمر کی بیٹی کا.اللہ تعالیٰ ہر شر سے محفوظ رکھے اور خوشیاں عطا فرماتا رہے.آج کی دعوت سے قبل صاحبزادی ناصرہ بیگم کے ساتھ ہی مجھے سیدہ مہر آپا کی خدمات کا بھی تذکرہ کرنا ہے.عاجزہ 1944ء میں لجنہ اماء اللہ کی جنرل سیکرٹری مقرر ہوئی.حضرت سیدہ اُم طاہر احمد کی وفات کے بعد اسی سال مہر آپا کی شادی ہوئی.1945ء میں آپ نے لجنہ کا کام شروع کیا.1945ء میں سب سے پہلے امتہ الحی لائبریری کی ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی.1946ء میں نائب جنرل سیکرٹری مقرر ہوئیں.1950ء میں خدمت خلق کا کام ان کے سپرد کیا گیا.1951ء میں حلقہ خاص کے ٹکٹوں کا کام ربوہ آنے کے بعد آپ کے سپر د رہا اور 1966ء میں نائب صدر مقرر ہوئیں.اس وقت سے باوجود بار بار بیمار ہونے کے اب تک جب کہ حضور کی طرف سے ان کا نام منظور نہیں ہوا آپ نائبہ صدر کے عہدہ پر سرفراز رہیں.حضرت فضل عمر لمبا عرصہ بیمار رہے اور ہم میں سے ایک کا ان کے پاس رہنا ضروری ہوتا تھا.اس لئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ کسی جگہ ہم دونوں اکٹھے جاسکیں.میں دفتر آتی یا دورہ پر جاتی یا کسی جلسہ میں شمولیت کرتی تو وہ گھر پر رہتیں.وہ جاتیں تو میں رہتی.ہر کام میں

Page 616

خطابات مریم 591 خطابات اُنہوں نے میرے ساتھ مکمل تعاون کیا.مفید مشورے بھی دیئے.یہ ایک بہت بڑا احسان ہے اللہ تعالیٰ کا کہ جس نے بھی لجنہ کا کام کیا اس نے اپنے ذاتی رشتوں کو بھلا کر کیا.میں نے حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ کے ماتحت بھی سیکرٹری کے طور پر کام کیا اور حضرت سیدہ اُم طاہر احمد کے ماتحت بھی.مجھے نہیں یاد کہ کہیں بھی لجنہ کے کام کے سلسلہ میں ان میں سے کوئی مجھ سے ناراض ہوا ہو یا میں نے کسی قسم کی حکم عدولی کی ہو اور جب میں صدر بنی اور سیدہ مہر آپا کی طرف سے مجھے کوئی شکایت نہیں ہوئی.میری عدم موجودگی میں بہت اچھی طرح سنوار کر اپنا فرض ادا کرتی تھیں.آپ سب سے درخواست ہے کہ ان کی صحت کیلئے دعا کریں.چونکہ ہدایت ملی تھی کہ لمبا چوڑا ایڈریس نہ ہو اس لئے تعریفوں کا حصہ چھوڑتے ہوئے حقیقت حال بیان کر دی ہے.صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ نے اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے اس سال انتخاب میں نام پیش کئے جانے کی معذرت کر دی تھی ان کی جگہ عزیزہ طاہرہ صدیقہ سلمہا اللہ تعالیٰ صدر منتخب ہوئی ہیں میں اپنی اور مجلس عاملہ پاکستان کی طرف سے انہیں خوش آمدید کہتی ہوں اللہ تعالیٰ ان کو صحیح رنگ میں کام کرنے اور لجنہ ربوہ کو خوب سے خوب تر بنانے کی توفیق عطا فرمائے.(اے اللہ تو ایسا ہی کر ) (ماہنامہ مصباح جولائی 1992ء) ☆.............

Page 617

خطابات مریم 592 خطابات خطاب صدر اضلاع ( پنچاب - سرحد ) مورخہ یکم اکتوبر 1992ء حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ لجنہ اماء اللہ کے قیام کو 70 سال گذر گئے اس کے سو سالہ جشن کیلئے ظاہری نہیں باطنی تیاری کریں اپنی اصلاح کریں.اپنی اولاد کی بہترین تربیت کریں اور اپنے اعمال صالحہ سے دنیا پر یہ ثابت کر دیں کہ احمد بیت ہی اصل اسلام ہے.آجکل حضور اقدس کے خطابات متواتر تقویٰ اور تربیت کے متعلق ہورہے ہیں.ہر ممبر تک پہنچانے کی کوشش کریں ان پر مکمل طور پر عمل کرتے ہوئے روحانی جنگ لڑتے ہوئے اپنے بچوں کو ان برائیوں سے بچائیں اپنے نقائص دور کریں اور ہمیں اس کی رپورٹ دیں.صرف چندہ لے لینا اور تھوڑی تربیت کرنا ہمارا مقصد نہیں ہمارا مقصد تو انقلاب عظیم لانا ہے بیرون از پاکستان کی جماعتوں میں زبر دست بیداری پیدا ہو رہی ہے اپنی اقلیت کو نہ کھوئیں اور ترقی کی راہوں پر آگے بڑھتے چلے جائیں اللہ تعالیٰ وہ دن جلد لائے جب حضور اقدس ہمارے درمیان جلد واپس آجائیں.لائحہ عمل پر عمل کریں رپورٹ باقاعدگی سے بھجوائیں ناخواندگی ختم کر کے بھر پور توجہ دیں دعاؤں کے ساتھ نئے سال کا استقبال کریں.سالانہ رپورٹ جلد بھجوائیں.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1992ء)

Page 618

خطابات مریم 593 خطابات تقریب تقسیم انعامات منعقدہ 5 دسمبر 1992ء تشہد وتعوذ کے بعد آپ نے فرمایا کہ میں اپنی ان بہنوں اور بچیوں کو مبارکباد دیتی ہوں جنہوں نے لجنہ کی کارگزاری میں نمایاں حصہ لیا.آپ سب کا مرکز میں آنا بابرکت ہو.1984ء کے بعد سے حالات اس قدر خراب ہیں کہ جلسوں اور اجتماعات کی اجازت مل بھی جائے تو عین وقت پر اجازت کینسل کر دی جاتی ہے.اسی لیے آپ کو میٹنگ بلوا کر ہدایات دی جاتی ہیں.29 نومبر کو کچھ صدرمیں ربوہ آئیں.انہیں ضروری امور سمجھائے گئے ان حالات میں ہم پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہمارے عمل اور قربانیوں میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہ ہو.ہر ضلع ، شہر اور قصبہ کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے مقامات پر مرکزی پروگرام کے مطابق اجتماع منعقد کر کے دفتر لجنہ پاکستان میں اس کی رپورٹس بھجوائیں.حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے فرمایا کہ آج کی میٹنگ کا انعقاد صرف اس غرض سے کیا گیا ہے کہ آپ کو گذشتہ سال کی کارگزاری پر اسناد و انعامات دیئے جائیں.تا کہ آپ میں مسابقت کی روح پیدا ہو.آپ نے فرمایا کہ لجنہ کے قیام کو 70 سال پورے ہو چکے ہیں.یہ عرصہ کوئی تھوڑا انہیں.پہلے زمانہ میں ماؤں نے کام کیا اب ان کی بچیاں کام کر رہی ہیں.اس تسلسل کو ٹوٹنے نہ دیں.اپنی اولادوں کو آئندہ ذمہ داریوں کے لیے تیار کریں.اپنے اندر قربانی کا جذ بہ پیدا کریں.ان حالات میں لجنہ کی تنظیم ہی ہے جونئی نسل کی صحیح رنگ میں تربیت کر سکے.اگر چہ بہت سی بندشیں اور رکاوٹیں ہیں ان کو اپنے کاموں کے درمیان حائل نہ ہونے دیں.الفضل میں کام سے متعلق اعلانات پڑھیں ان پر فوری عمل درآمد کروائیں.مرکز میں آنے جانے والے احباب کے ذریعے رپورٹس رسید بک اور چندہ جات بھجواتی اور منگواتی رہا کریں.کسی روک کو آڑے نہ آنے دیں.رسید بک کا صحیح استعمال کریں.

Page 619

خطابات مریم 594 خطابات پھر آپ نے نمایاں قربانی کرنے والی خواتین کے حالات جمع کرنے کی تحریک فرمائی.نیز نماز کا ترجمہ قرآن کریم کا صحیح تلفظ سیکھنے کی طرف توجہ دلائی.نیز حضور کی طرف سے کارکنوں کی تنخواہوں میں کئے جانے والے اضافے کی وجہ سے چندہ جات بڑھانے کی طرف بھی توجہ دلائی.تا اخراجات پر قابو پایا جا سکے.سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 93-1992)

Page 620

خطابات مریم 595 خطابات خطاب عہد یداران لجنہ اماءاللہ ضلع فیصل آباد مورخہ 18 جنوری 1993ء کو دفتر لجنہ پاکستان میں عہد یداران فیصل آباد سے آپ نے خطاب فرمایا کہ حالات کی وجہ سے جلسے اور اجتماعات نہیں ہور ہے.ارادہ ہے کہ سارے شہروں کی عاملہ کو باری باری مرکز میں مدعو کر کے اجلاس کئے جائیں اور ان کو کام سکھایا جائے.جو شہر اچھا کام نہیں کر رہے ان کو خصوصی طور پر بلا کر ہدایت دینے کی ضرورت ہے.آپ نے فرمایا کہ لائحہ عمل کی ہر شق کو اچھی طرح سمجھ کر اس کے مطابق کام کیا جائے.سب سیکرٹریان ایک دوسرے سے تعاون کریں.کیونکہ تمام شعبوں کا محور ایک ہی ہے.قرآن کریم صحیح تلفظ کے ساتھ سیکھیں.نماز با ترجمہ کھائیں.کیونکہ نماز کا ترجمہ آنے کے بعد عبادت کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا ہے.آنحضرت عمیہ کی تعلیمات کو دنیا میں پھیلانا ہی ہمارا اصل مشن ہے.احمدیوں کی راہ میں بہت رکاوٹیں ہیں.حضور کے ارشادات پر فوری عمل کریں چھوٹی مجالس رپورٹ بھجوانے میں سست ہیں.ان کی طرف توجہ دیں.مالی ، جانی اور وقتی قربانی کرنے والی خواتین کے واقعات جمع کر کے بھجوائیں.آخر میں آپ نے نصیحت فرمائی کہ اپنی ستیاں دور کریں.اپنے اندرا خلاق کا جذبہ پیدا کریں.صحیح وقت پر بچیوں کو پردہ کروائیں.مجلس عاملہ کا ہر ماہ ایک اجلاس ضرور منعقد کریں.جس میں داعی الی اللہ کے کام پر غور کریں.زیادہ سے زیادہ سیرت النبی کے جلسوں کا انعقاد کریں.غیر از جماعت کو ضرور مدعو کریں.ان کے غلط تاثر کو ختم کیا جائے کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود نے خود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر قرار دیا ہے.آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم کا تلفظ درست کروائیں اس سلسلہ میں تیار کردہ آڈیو اور ویڈیو کیسٹس سے مدد حاصل کریں.اپنے اجلاسوں کے پروگرامز کو دلچسپ بنا ئیں.عام فہم زبان میں موقع کی مناسبت سے تقاریر کروائیں.ناصرات الاحمدیہ کی طرف خصوصی توجہ دیں.بچیوں کی بہترین رنگ میں تربیت کریں.ان کے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت مسیح موعود اور آپ کے خلفاء کی محبت پیدا کریں.احمدیت کی فتح کیلئے تمام خواتین ، مرد اور بچے مل کر کوشش کریں.اپنی محنت اور قربانی میں کسی قسم کی کمی نہ آنے دیں.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 93-1992ء)

Page 621

خطابات مریم 596 خطابات خطاب نمائندگان و عہد یداران مجلس مشاورت 1993ء تشہد وتعوذ کے بعد آپ نے خلیفہ امسیح الرابع کا ارشاد پڑھ کر سنایا جس کے بعد آپ نے فرمایا کہ شوریٰ کی کچھ اقدار ہوتی ہیں.حضور انور کے ارشاد کے ماتحت تقویٰ کی بنیادوں کو مد نظر رکھتے ہوئے شوری کے نمائندگان کا انتخاب کریں اور جس کو نمائندگی دی جائے وہ ضرور اس میں شامل ہوں کسی کو وہ اپنی جگہ نمائندہ بنا کر نہیں بھجواسکتی کیونکہ اس کی منظوری حضور دیتے ہیں.ہم سب ہمیشہ حضور کی منظوری سے قبل پوچھتے ہیں کہ آیا آپ پورا وقت شوری میں شامل ہو سکیں گی یا نہیں آپ کی طرف سے اقرار کے بعد حضور کی خدمت میں نام منظوری کے لیے بھجوائے جاتے ہیں.لیکن بعض دفعہ عین وقت پر اطلاع ملتی ہے کہ ہم شامل نہیں ہونگیں یہ طریق بہت غلط ہے آئندہ احتیاط کی جائے امسال چھ نمائندگان غیر حاضر رہیں جو کہ انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت ہے اس کے بعد حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے فرمایا کہ ڈش انٹینا پر حضور کے خطابات ہمارے لیے بہت بڑی نعمت ہیں زیادہ سے زیادہ ممبرات انہیں سنیں اور پھر اس پر عمل کریں.بوسنیا کیلئے رقم اور کپڑے بھجوائے گئے ہیں.لجنات ماہوار رپورٹ میں بھی اس کا ذکر کیا کر میں حضور کے ارشاد کے ماتحت غرباء کا بھی بہت خیال رکھا کریں غریب بچیوں کی شادیوں میں شرکت کریں ہر طرح کا ان سے تعاون کریں اپنے اپنے حالات کے مطابق اپنی اپنی مجالس میں یہ کام سرانجام دیں.پھر حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے بتایا کہ ہال کا افتتاح عمل میں آچکا ہے.جس میں ناظران و وکلاء نے شرکت کی تھی ستمبر یا اکتوبر میں خواتین کی تقریب ہوگی ہال کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے مگر ابھی پینٹ (Paint) اور دیگر اخراجات باقی ہیں.اس کیلئے اپنی اپنی مجالس میں چندہ کی تحریک کریں.مجلّہ اور سکارف بھی خریدیں یہ تاریخی چیزیں ہیں ہر گھر میں ایک مجلہ اور ہر ممبر کو ایک سکارف دیں.23 اپریل سے 17 مئی تک میٹرک کی کلاس ہو گی اس کیلئے طالبات کو بھجوائیں انہیں سمجھا

Page 622

خطابات مریم 597 خطابات کر بھجوائیں کہ گھر جانے کی اجازت ہوگی جن کیلئے ان کے والدین کی طرف سے تحریری اجازت نامہ ہو گا.بستر ہر طالبہ کو خو د ساتھ لے کر آنا ہوگا.پھر آپ نے فرمایا کہ حضور کی ہدایت کے مطابق دینی اخلاص کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی ممبرات کے نام جنہوں نے خاص نمایاں خدمات اور قربانیاں دی ہیں لکھ کر بھجوائیں بمعہ واقعات.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1993ء)

Page 623

خطابات مریم 598 خطابات دورہ سرگودھا مورخه 5 نومبر 1993ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا کہ میں اپنی بیماری کی وجہ سے بڑی دیر کے بعد یہاں آئی ہوں مجھے آپ کی حاضری دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی ہے.آپ نے فرمایا کہ سب سے پہلی بات جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ آپ منافقت سے بچیں خاص طور پر عہدیداران ان سے پر ہیز کریں.جس قوم میں منافقت نہ ہو وہ بہت جلد ترقی کرے گی.آنحضرت کے زمانہ میں بھی اسی وجہ سے اسلام نے بہت زیادہ ترقی کی کہ آپ کے اصحاب میں بہت اتحاد اور اتفاق پایا جاتا تھا.منافقت کی وجہ سے اُبھرنے کا جذ بہ ختم ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ سے قوم بہت پیچھے رہ جاتی ہے آپ نے فرمایا مجھے خوشی ہے کہ یہ ضلع چند سالوں سے اپنے کام میں بہت اچھا جا رہا ہے خصوصاً دعوت الی اللہ کے کام میں ، لیکن افسوس ، ہے کہ ضلع کا ہیڈ کوارٹر کمزور ہے ضلع کی صدر مقام کی کارکردگی تو بہت اچھی ہونی چاہیے.بلکہ ہر مجلس ہی اچھی ہو.میری خواہش ہے کہ آپ میں سے ہر ایک قربانیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؓ سے احیائے دین کا وعدہ فرمایا تھا اور آپ کے ذمہيُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةُ ( تذکرہ صفحہ 55) کا کام لگایا تھا ہمارا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ساری دنیا میں پھیل جائے اپنے اندراس طرح اتحاد و اتفاق پیدا کریں جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا آپ کے تمام صحابہ ایک پروئی ہوئی لڑی کی طرح تھے.حضرت سیدہ صد ر صاحبہ نے خطاب جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ دوسری اہم بات جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتی ہوں وہ اپنے نفسوں کی اصلاح ہے اس کے لیے قرآن کریم کا علم ہونا بہت ضروری ہے.اس کا ترجمہ سیکھنے کی طرف توجہ دیں کیونکہ آپ قرآن کریم کے مطالب جانے بغیر کچھ نہیں کر سکتیں جب تک آپ کو یہ علم نہ ہوگا کہ قرآن کریم نے ہمیں کن

Page 624

خطابات مریم 599 خطابات باتوں کے کرنے کا حکم دیا ہے اور کن باتوں سے منع کیا ہے تو ہم کیسے قدم آگے بڑھا سکتی ہیں اور کس طرح اپنے نفسوں کی اصلاح کر سکتی ہیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنی آئندہ نسل کو زندہ رکھیں وہی نسل بہتر اور اپنی نیکیوں میں آگے نکلنے والی ہوتی ہے جسے مذہب سے محبت ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ہو.حضرت مسیح موعود کی تعلیمات پر عمل کرنے والی ہو، آپ کے خلفاء سے پیار کرنے والی ہو.ان خصوصیات کو اپنا کر ہی آپ آئندہ نسل اچھی تیار کرسکتی ہیں اگر آپ ان باتوں کو نظر انداز کریں گی تو کئی سال پیچھے چلی جائیں گی اور اپنی نئی نسل کو بھی کھو دیں گی فرمایا آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی جماعت میں پیدا ہوئیں اور اب آپ خلفاء کا زمانہ پا رہی ہیں.ہمارے لیے حضور ایدہ اللہ کے تازہ ارشادات بہترین لائحہ عمل ہیں لہذا خود بھی با قاعدگی سے حضور کے خطبات سنیں اور اس پر عمل کریں اور دوسروں کو بھی سنوا ئیں دعاؤں کے ساتھ دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اپنی کوششوں کو بہت تیز کریں تا ہم حضور ایدہ اللہ کے نئے ٹارگٹ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں نماز کی طرف بہت توجہ دیں ہر وقت گھر میں نیک باتوں کا چرچا کرتی رہیں بچپن سے ہی بچوں میں نیکیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں.بچوں کو جو اچھی عادت بچپن میں ڈالی جائے وہی بڑے ہو کر پختہ ہوتی ہے اس لیے چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو نماز کا عادی بنائیں بلکہ باجماعت نماز کی عادت ڈالیں.حضور کے خطبات میں بھی اس طرف بہت توجہ دلائی گئی ہے آپ سب مل جل کر کام کرتے ہوئے آگے قدم بڑھانے کی کوشش کریں.خدا تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کرنے اور نئی نسل کو نکھارنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین (از سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1993ء)

Page 625

خطابات مریم 600 خطابات شہر و اضلاع پاکستان کی عہدیداران سے خطاب 5 دسمبر 1993ء آپ نے اپنے خطاب میں افسوس کا اظہار کیا کہ سالانہ رپورٹس کی تعداد 300 سے بھی کم تھی حالانکہ بجنات کی تعداد 977 ہے.اسی طرح ماہانہ رپورٹس کی تعداد بھی بے حد کم ہوتی ہے.اس طرف خصوصی توجہ دی جائے.دیہاتی اور قصباتی لجنات کو بیدار کیا جائے.اصلاح وارشاد کے منصوبہ کے تحت بیعتوں کے ہدف کو پورا کرنے کی بھر پورسعی کی جائے.چندہ نادہندگان سے وصولی کی جائے.حضور اقدس کے ارشاد کے مطابق قربانی دینے والی خواتین اور شہداء و اسیران راہِ مولیٰ کے اہل خانہ کے حالات لکھ کر بھجوائے جائیں.ربوہ کے علاوہ باقی لجنات بھی اس پر توجہ دیں.آپ نے فرمایا کہ رپورٹس باقاعدگی سے ارسال کی جائیں اور تقابلی جائزے کے ساتھ ارسال کی جائیں.لجنہ ہال کی کرسیوں کی رقم 90 ہزار میں سے 86 ہزار وصول ہو چکے ہیں.جبکہ مزید 200 کرسیوں کی ضرورت ہے.اس کیلئے بھی حسب استطاعت چندہ کا وعدہ کیا جائے.تحریک جدید کے چندہ میں ہر عورت لازمی طور پر شامل ہو.آپ نے فرمایا کہ مرکز میں وفو دلائے جائیں.کیونکہ اس کا بے حد مثبت اثر ہوتا ہے.آپ نے حضور اقدس کے تازہ خطبہ کے مطابق پردہ کی روح کو قائم رکھنے کی مساعی کرنے کی تلقین کی.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1993ء)

Page 626

خطابات مریم 601 خطابات خطاب نمائندگان مشاورت و مجالس عاملہ لجنہ اماءاللہ منعقدہ 15 اپریل 1994ء " فرمایا چونکہ موجودہ حالات میں سارے پاکستان کی عہدیداران کو بلا نا مشکل ہوتا ہے.اس لیے مختلف حصوں کے عہدیداران کو باری باری بلا کر ان کے ساتھ اجلاس کیا جاتا ہے.اور ان تک ہدایات پہنچائی جاتی ہیں.آج شوری کی نمائندگان کے ساتھ یہ اجلاس منعقد کیا گیا ہے حضور اقدس کا آج کا خطبہ نہ صرف ممبران شوری بلکہ تمام شہروں کی مجلس عاملہ کے لیے بھی ضروری ہے.یہ خطبہ اپنی اپنی جماعتوں میں سنوانے کا انتظام کریں.آپ نے حضور اقدس کے خطوط پڑھ کر سنائے.جن میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ نومبائعین کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے.کسی بھی شعبہ میں ایک یا دو ایڈیشنل سیکرٹریان کا تقرر کیا جاسکتا ہے.جو ان کی تربیت کا انتظام کریں مگر الگ سے شعبہ نہ قائم کیا جائے اسی طرح ایک شعبہ کے دو ہیڈ نہیں ہو سکتے.آپ نے ہدایت دی کہ نومبا ئعات کی ہر ماہ رپورٹ دیا کریں اور ڈش پر خطبہ دیکھنے اور سننے والوں کی رپورٹ بھی دیا کریں.وقف نو کے بچے بچیاں جو اطفال ناصرات میں شامل ہو رہے ہیں.ان ناصرات کی الگ سے رپورٹ ارسال کریں.سالانہ رپورٹ میں تحریر کریں کہ امسال اتنی بچیاں ناصرات میں

Page 627

خطابات مریم 602 خطابات آئیں.نیز ان کی تعلیم اور تربیت کی رپورٹ بھی دیں.اپنے ممبری چندہ میں دوروپے کا اضافہ کر دیں تا کہ اس روپے سے لجنہ کی جانب سے سیٹلائٹ کا چندہ دیا جا سکے.سیٹیلائٹ کے پروگرامز تیار کر کے بھجوائیں.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1994ء)

Page 628

خطابات مریم 603 خطابات جلسه کسوف و خسوف ضلع منڈی بہاؤالدین منعقدہ 20 اپریل 1994ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا کہ آنے والے مہدی کا کام يُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَة ( تذکرہ صفحہ 55) بیان فرمایا ہے.خدا کے نیک بندے اس لیے دنیا میں آتے ہیں کہ دنیا کے کمزور بندوں کو راہ راست پر لائیں.برے کاموں سے روک کر نیکی کی راہ دکھا ئیں.ہماری تربیت کیلئے بہت ضروری ہے کہ ہم آنحضرت کی سیرت کو دیکھیں اور اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزاریں اس کے بغیر ہماری تربیت نہیں ہو سکتی.آپ نے فرمایا بُعِثْتُ لا تَمِّمَ مَكَارِمَ الاخلاق حضور صفات الہیہ کے مکمل مظہر تھے.آپ تمام دنیا کیلئے رحمت کا بادل بن کر بر سے فرمایا إِنِّي رَسُولَ الله اليكم جميعاً (الاعراف: 159) تمام دنیا کی اصلاح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہوئی.اصلاح کی راہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کونسی تکلیف نہیں دی گئی.لیکن آپ نے اپنے کام میں بالکل کوئی رخنہ نہیں آنے دیا.حضرت خدیجہ نے بھی آپ کے متعلق جو گواہی دی وہ بہت عظیم الشان ہے.پھر صلہ رحمی کی صفت بیان فرمائی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل وسیع اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نظر آتا ہے.جس میں اپنے اور غیروں کیلئے بہت محبت تھی.آپ ہر مذہب اور غیر مذہب والے کی مہمان نوازی فرماتے تھے.اپنے عمل سے آپ نے یہ بات ثابت کر دی کہ نسلی تعصب کو بالکل ختم کر دیا.تمام اخلاق قرآن کریم کے آپ میں موجود تھے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں.كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآن ( مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 91) آپ کا قول و فعل ایک تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں نیا آسمان اور نئی زمین پیدا کی.آپ نے اپنی وسیع نظری سے ہر طبقے کی کفالت فرمائی.

Page 629

خطابات مریم 604 خطابات نئے نئے علوم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ظاہر ہوئے.اور یہی چیز دنیا کی ترقی کیلئے ضروری ہوتی ہے.اور انہی علوم کے ذریعے نئی دنیا اور نیا آسمان ظاہر ہوا.آنحضرت کے صحابہ پر کلمہ پڑھنے کی وجہ سے ہر قسم کی سختی کی گئی.لیکن کسی کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی.صفت مالکیت بھی آپ کے ذریعہ ظاہر ہوئی.تمام تاریخ عالم پر نظر ڈالیں ایسا عظیم الشان نمونہ کہیں اور نظر نہیں آتا.آپ نے فرمایا ہر صدی میں ایک مجدد آئے گا.آپ کی پیشگوئی کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود تشریف لائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو اس دنیا میں دوبارہ زندہ فرمایا.خدا تعالیٰ ہم سب کو ان تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے.آمین.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1994ء) ☆

Page 630

خطابات مریم 605 خطابات شہر و اضلاع پاکستان کی عہدیداران سے خطاب 23 جون 1994ء فرمایا کہ تبلیغ کے سلسلہ میں ممبرات لجنہ اماءاللہ ربوہ اور بیرون ربوہ پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے ہمیں اُن سے عہدہ برآ ہونے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے.ٹارگٹ کے لحاظ سے بیعتوں میں بے حد کمی ہے جلسہ سالانہ انگلستان سے دو دن قبل تصدیق شہدہ بیعتیں بھجواسکتی ہیں.صدر ضلع کی ذمہ داری ہے کہ وہ لائحہ عمل اور دی جانیوالی ہدایات کے مطابق کام کرے.اور ہر ماہ اصلاح وارشاد کے سلسلے میں دو اجلاس رکھے جائیں.لجنہ کے عہد میں وقت کی قربانی شامل ہے چنانچہ وقت کی قربانی دیں.ڈش پر حضور اقدس جو اعتراضات کے جوابات دے رہے ہیں خود بھی غور سے سنیں تا آپ دوسروں کو ان کے تسلی بخش جوابات دینے کے قابل ہوں اور غیر از جماعت افراد کو بھی سنائیں ان کو لٹریچر پڑھوائیں اور بیعت کے بعد عمدہ رنگ میں ان کی تربیت کرنے کی کوشش کریں.جو حضرت مسیح موعود کی جماعت کا اصل رنگ ہے.ان کی تربیت کے سلسلہ میں جو اقدامات کریں ان کی مکمل رپورٹ دیا کریں.سیٹلائٹ پروگرام کے لیے مد امانت تربیت کے علاوہ بھی جو بہنیں تحفہ چندہ دینا چاہیں یا استطاعت رکھتی ہوں ان سے چندہ وصول کریں ایسا نہ ہو کہ ہماری کسی کمزوری کے تحت تبلیغ کا یہ عظیم الشان کام رک جائے بلکہ ہمیں اس کی ترقی کی راہ ہموار کرنی چاہیے لجنہ کے چندہ میں اضافہ کیا جائے.تاہم بچت میں سے 3,2لاکھ چندہ دے سکیں تمام اضلاع کی صدرات یہ ہدایات ہر عہدیدار اور ہر ممبر تک پہنچا ئیں.اس سلسلہ میں ضلعی میٹنگ کا انعقاد کریں اور رپورٹ میں لکھیں کہ آپ نے یہ پیغام ہر ممبر تک پہنچا دیا ہے.اگر عہد یداران آئندہ سال کے لائحہ عمل میں کوئی تبدیلی چاہیں یا کوئی تجویز دینا چاہیں تو رپورٹ کے ساتھ ہی لکھ کر بھجوا دیں.ماہانہ رپورٹس میں اہم کاموں کی تفصیل بھی لکھا کریں اور سالانہ رپورٹس میں مکمل جائزہ لکھیں کہ شروع سال میں قرآن مجید پڑھنے والیوں کی تعداد کیا تھی اور

Page 631

خطابات مریم 606 خطابات اختتام پر کیا.تقابلی جائزہ کے ساتھ رپورٹ ارسال کریں رپورٹ بھجواتے وقت جگہ اور ضلع کا نام ضرور لکھا کریں.یہ امر باعث تشویش ہے کہ 900 سے زائد بجنات میں سے آنے والی رپورٹس کی تعداد 300 سے بھی کم ہوتی ہے.ضلعی صدرات دوروں کا پروگرام بنا ئیں اور کمزور لجنات منتخب کر کے ان پر سارا سال محنت کریں تا کہ ترقی کا سفر زینہ بہ زینہ طے کیا جا سکے.از سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ 94-1993ء)

Page 632

خطابات مریم 607 خطابات خطاب عہدیداران شهر و اضلاع پاکستان 4 نومبر 1995ء تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا کہ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کا اولین مقصد حضور ایدہ اللہ کی اطاعت میں ان کی ہدایات کے مطابق کام کرنا ہے.گذشتہ سال ہماری یہ کوشش تھی کہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں لجنہ کی ماہوار ر پورٹس کی تعداد میں اضافہ تو ہوا ہے لیکن جتنا اضافہ ہونا چاہیے اس ٹارگٹ تک ہم ابھی نہیں پہنچ سکے.آئندہ آپ کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اس میں نمایاں اضافہ ہو.نئے سرے سے تجنید بنا کر بھجوائیں.تعلیم القرآن کلاس میں آنے والی بچیاں کچھ بے قاعدگیاں کرتی رہتی ہیں.انہیں آئندہ اچھی طرح سمجھا کر بھجوایا کریں.تا آئندہ ٹورنا منٹ میں یہ شکایت پیدا نہ ہو.دعوت الی اللہ کے کام کی طرف زیادہ توجہ دیں.جن اضلاع سے کسی بیعت کی اطلاع نہیں آئی وہ فوری طور پر اس طرف توجہ کریں.حضور کے خطبات اور درس القرآن سے با قاعدگی سے استفادہ کریں.(از سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 96-1995ء)

Page 633

608 خطابات مریم

Page 634

خطابات مریم 609 پیغامات

Page 635

610 خطابات مریم

Page 636

خطابات مریم 611 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ.قادیان 1973ء السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه اللہ تعالیٰ تمہارا یہ سالانہ اجتماع مبارک کرے.بچیوں کو میری پہلی نصیحت یہ ہے کہ وہ اپنے اوقات کو ضائع نہ کریں.کھیلنے کے لئے سارا سال ہے اس تھوڑے سے وقت میں اپنی عمر اور اپنی ذہانت کے مطابق فائدہ اُٹھاؤ.پروگراموں کو توجہ سے سننے کی کوشش کرو.اگر سنجیدگی اور توجہ سے پروگراموں کو سنو گی تو بہت کچھ حاصل کر سکو گی.اجتماع ہو یا کھیل کا میدان.سنجیدگی وقار اور اخلاق کا ہر قدم پر مظاہرہ کرو.کوئی غیر سنجیدہ بات کوئی وقار سے گرا ہوا فعل ناصرات الاحمد یہ کی شان کے شایاں نہیں.یہ یا درکھو کہ آج بے شک تم بچیاں ہو لیکن آئندہ قوم کا مستقبل تم سے وابستہ ہے.یہ سیکھنے کی عمر ہے یاد رکھنے کی عمر ہے ، اللہ تعالیٰ کا تم پر یہ عظیم الشان انعام ہے کہ تمہیں احمدی گھرانوں میں پیدا کیا.اسلام جیسی نعمت تمہیں عطا فرمائی.مسیحائے زمان کی جماعت سے تمہیں وابستہ کیا بے شک تم احمدی بچیاں ہونا صرات ہو لیکن حقیقت میں ناصرات الاحمدیہ نام کی مستحق تب کہلا سکتی ہو جب اپنے عمل ، اپنے کردار، اپنے اخلاق ، اپنی زندگی اور اپنی قربانیوں سے اس بات کا ثبوت دو گی کہ تم واقعی ناصرات الاحمدیہ ہو.تم نے اسلامی تاریخ کے واقعات سنے ہونگے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا دشمن ابو جہل تھا جنگ بدر میں اس کو دو بچوں نے قتل کیا تھا جو بارہ بارہ سال کے تھے کسی جذبہ نے ان کو ابو جہل کے قتل پر اکسایا ؟ صرف اسلام کی محبت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق نے.پس ایسا ہی ایمان اور ایسا ہی عشق تمہارے اندر ہونا چاہئے.عشق اور محبت گہرے تعلق سے پیدا ہوتا ہے تمہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے ا

Page 637

خطابات مریم 612 پیغامات صحابه، خلفائر اشدین ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے حالات کثرت سے پڑھنے اور سننے چاہئیں.جب تک علم نہ ہو جب تک پوری واقفیت نہ ہو ان احسانات کا علم نہ ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت پر کئے آپ سے حقیقی محبت پیدا نہیں ہو سکتی.بچوں پر آپ کے بے انتہا احسان ہیں.آپ نے بچوں اور بچیوں کا ایک خاص مقام معاشرہ میں پیدا کیا.آپ سے پہلے عورت کی کوئی عزت نہیں تھی لڑکی کو نفرت اور حقارت سے دیکھا جاتا تھا.آپ نے لڑکی کی عزت قائم کی لڑکی کا ماں باپ کے ورثہ میں حصہ رکھا لڑکی کی تعلیم اعلی تربیت اور اچھی پرورش کی.بے انتہا تا کید فرمائی بار بار آپ کے احسانوں کا تذکرہ جب آپ سنیں یا پڑھیں گی تو خود بخود آپ کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے محبت کا جذ بہ پیدا ہوگا اور جب محبت کا جذبہ پیدا ہو گا تو اس کے نتیجہ میں آپ کی اطاعت اور آپ کے ارشادات پر عمل کرنے کا شوق پیدا ہوگا.ایک بچی اپنے ماں باپ سے کیوں پیار کرتی ہے اس لئے کہ اسے معلوم ہے کہ وہ اس سے محبت کرتے ہیں اس کے لئے قربانی دیتے ہیں.ہمارا رب ماں باپ سے بھی بڑھ کر رحیم اور شفیق ہے.اپنے ماں باپ سے بڑھ کر اپنے خدا سے محبت کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا چاہئے.اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کو شریعت کے سب احکام کا علم ہو، تا غلطی سے یا لاعلمی میں آپ نا فرمانی نہ کر بیٹھیں.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمۃ للعلمین تھے آپ کے ہر ارشاد کی تعمیل کرنی چاہئے کہ اگر آپ نہ آتے تو ہمیں اپنے خدا کا ہی کوئی علم نہ ہوتا.آپ نے ہمیں بتایا کہ ہمارا ایک خدا ہے جس نے ہمیں پیدا کیا جس نے ساری کائنات پیدا کی.جس نے ہماری اصلاح کے لئے انبیاء بھجوائے پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت کا جذ بہ آپ کے دلوں میں پیدا ہو کہ آپ کے ذریعہ ہم نے صحیح اسلام کا چہرہ دیکھا.دنیا ایک بار پھر قرآن کو بھول کر اپنے خالق کو بھول کر اندھیروں میں پڑی ہوئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان اندھیروں سے ہمیں نکال کر قرآن کی روشنی سے ہمیں پھر منور کیا ہمیں بتایا کہ ہماری اصلاح صرف قرآن مجید پر عمل کرنے سے ہوسکتی ہے.آپ نے ہمیں بتایا کہ اپنے رب سے ہمارا تعلق صرف قرآن مجید کے ذریعہ ہوسکتا ہے پس میری بچیو! قرآن پڑھنے کی

Page 638

خطابات مریم 613 پیغامات طرف پوری توجہ دو.ایک احمدی بچی بھی ایسی نہیں ہونی چاہئے جو ناظرہ قرآن مجید نہ پڑھتی ہو.اگر تم اُردو، انگریزی اور دوسری زبانیں بچپن میں سیکھ سکتی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ صحت سے قرآن مجید پڑھنا اور تلاوت کرنا نہ سیکھ سکو.پھر جوں جوں بڑی ہوتی جاؤ نماز سیکھو، نماز کے محض الفاظ یا د کر نے کا کوئی فائدہ نہیں جب تک تمہیں معلوم نہ ہو کہ تم نماز میں اپنے رب سے کیا مانگ رہی ہو.نماز کا ترجمہ یاد کرو.جب نماز کا ترجمہ یاد ہو جائے تو تھوڑا تھوڑا کر کے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنا شروع کرو.احمدیت کی تاریخ سے واقف ہو.اپنے عقائد دلائل کے ساتھ آنے چاہئیں اگر یہ سب باتیں تم سیکھ لو تو پھر تم اس قابل ہو سکتی ہو کہ احمدیت کے لئے قربانی دے سکو.بغیر علم کے عمل ممکن نہیں اور ایمان کو تازہ رکھنے کے لئے عمل بہت ضروری ہے جس طرح پھول کے پودے کو زندہ رکھنے کے لئے بار بار قربانیوں کی ضرورت ہے.یہ قربانیاں وقت کی بھی ہو سکتی ہیں مالی بھی ہوسکتی ہیں.بُری عادتیں چھوڑ کر نیک اخلاق اور نیک عادتیں اختیار کرنے کی صورت میں بھی ہوسکتی ہیں.احمدیت میں آنے والی کئی نسلیں قربانی پر قربانی دیتی چلی آئی ہیں.اب تمہارا زمانہ ہے اس وقت احمدیت کو ضرورت ہے تمہاری قربانیوں کی پس خود دین سیکھو تا بڑی ہو کر دوسروں کو سکھا سکو.کفایت اور سادگی کی عادت ڈالو تا احمدیت کی ترقی کی خاطر چندے دے سکو.دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی عادت ڈالو اور سب سے بڑھ کر حضرت خلیفتہ امسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرو.آپ کی اطاعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے.آپ کے ہر ارشاد کی تعمیل کی بچپن سے عادت ڈالو اور اسی کو سعادت سمجھو.یاد رکھو کہ تمہاری ترقی خلافت کے قدموں سے وابستہ ہےلغو بات سے پر ہیز کرو.ہمیشہ اچھی صحبت میں بیٹھو.صفائی کی عادت ڈالو.جسم اور کپڑے صاف ہوں تو دل میں بھی پاکیزگی پیدا ہوتی ہے.سچ کی عادت ڈالو.تکبر اور غرور کو پاس نہ پھٹکنے دو.ہر ایک کی ہر وقت مدد کرنے کے لئے تیار رہو.مدد سے مراد محض پیسے سے مدد نہیں بلکہ اپنے ہاتھ سے مدد کرنے کے لئے تیار رہو.رحم دلی اور خوش خلقی اور خوش گفتاری تمہارا

Page 639

خطابات مریم 614 پیغامات وصف ہونا چاہئے تمہاری پیشانیوں سے وہ نور چمکے کہ دور سے ہی دیکھ کر ایک انسان کہہ اُٹھے کہ نہ صرف یہ ناصرات الاحد یہ ہیں بلکہ ناصرات انسانیت بھی ہیں.حضرت مصلح موعود کے اس شعر کو ہمیشہ اپنے مدنظر رکھو.ب گزر جائیں گے ہم تم پہ پڑے گا سب بار ستیاں ترک کرو طالب آرام نہ ہو خدا کرے جب آپ کا عمل کا زمانہ آئے تو آپ حقیقت میں دین کا ستون ثابت ہوں.آمین والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 640

خطابات مریم 615 پیغامات ” لجنہ اماءاللہ.سیرالیون کے سالانہ اجتماع پر پیغام مجھے یہ علم ہوا ہے کہ آپ کا سالانہ اجتماع عنقریب ہورہا ہے.خدا کرے کہ کامیاب ہو اور غیر مسلموں کی توجہ کا مرکز بنے.1922ء میں حضرت مصلح موعود نے لجنہ اماء اللہ کا آغاز فرمایا.اس مقصد کے پیش نظر کہ عورتیں بھی مردوں کے ساتھ ساتھ اسلام پھیلانے کی کوشش کریں اور اسی مقصد کو سامنے رکھ کر اس کے قیام کے ساتھ ہی تمام پروگرام بنایا گیا تا کہ احمدیت پھیلے اور لوگ حقیقی اسلام سے روشناس ہوں.آپ کے ذمے بہت کام ہیں.آپ کا فرض ہے کہ اپنے ماہانہ وسالا نہ جلسوں میں غور وفکر کریں.ورنہ آپ احمدیت کی ترقی میں کس طرح حصہ لے سکتی ہیں.اس کے لئے چند ایک باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے سب سے پہلی اور ضروری بات اپنے امیر جماعت کی اطاعت کرنا ہے.کیونکہ وہ آپ کے ملک میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے نمائندہ ہیں.امیر جماعت کی فرمانبرداری حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہے.اس کے علاوہ درج ذیل دوسری باتوں پر عمل کریں.(1) ماہانہ اجلاسوں میں با قاعدہ شرکت کریں.خواہ آپ کو ذاتی کتنا ہی ضروری کام کیوں نہ ہو.(2) عہدیداران کو جماعتی ترقی و بہتری کے لئے مفید مشورے دیں.(3) احمد یہ لٹریچر کا باقاعدگی سے مطالعہ کریں.آپ کو اسلام کا مکمل نمونہ ہونا چاہئے.کیونکہ اگر آپ کے قول اور عمل میں تضاد ہوگا تو آپ کی تبلیغ کچھ اثر نہ کرے گی.اگر چہ کتنی ہی اچھی طرح کی گئی ہو.علاوہ ازیں مستقبل کے لئے سب سے اہم کام آپ کا اپنے بچوں کی اسلامی ماحول میں پرورش کرنا ہے.تا کہ وہ بڑے ہو کر اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھ سکیں.جسمانی طور پر میں آپ سے بہت دور ہوں.لیکن میرا دل اور دعائیں آپ کے ساتھ ہیں.خدا آپ کے ساتھ ہو.والسلام خاکسار.مریم صدیقہ.صدر لجنہ مرکزیہ.1974ء

Page 641

خطابات مریم 616 پیغامات کنری ( ضلع تھر پارکر ) کے سالانہ اجتماع پر پیغام میری عزیر بہنو! بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمُ السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی صدر صاحبہ نے اطلاع دی ہے کہ آپ کا سالانہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس تقریب کو بہت کامیاب اور بابرکت کرے اور اس کے ذریعہ آپ سب بہنوں میں باہمی محبت، اتحاد اور تعاون بڑھے.اجتماعوں کی سب سے بڑی غرض تربیت ہوتی ہے.ان چھوٹے چھوٹے اجتماعوں میں عہدیداران کو اور بچیوں کو نظام کے ماتحت کام کرنے ، وقت کی پابندی اور اپنی مجلس میں ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کا سبق سکھانا چاہئے.بچیوں کو بجائے ادھر اُدھر پھرنے کے ماؤں کو اپنے ساتھ بٹھانا چاہئے تاکہ ان کے کان میں نیکی کی باتیں پڑیں.اگر ہر شہر میں لجنات اپنے اجتماعوں میں بہنوں کی تربیت کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ہم ضبط اور تنظیم کا عظیم الشان مظاہرہ نہ کرسکیں.اسلام صرف اعتقادات کا نام نہیں.بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور ہم حقیقی مسلمان تبھی کہلا سکتے ہیں جبکہ زندگی کے ہر شعبہ میں اسلامی اقدار اور روایات پر عامل ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور مجھے بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم شاہراہ غلبہ اسلام پر اپنے امام کی اطاعت کرتے ہوئے آگے ہی آگے نکلتے چلے جائیں.آمین والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ مرکزیہ

Page 642

خطابات مریم 617 پیغامات لجنہ اماءاللہ امریکہ کے سالانہ جلسہ پر پیغام میری پیاری بہنو ! بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه مجھے مکر می جناب مولوی صدیق صاحب شاہد قیم لجنہ کے ذریعہ علم ہوا ہے کہ اس ماہ کے آخر میں آپ کی CONVENTION منعقد ہورہی ہے.اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو بہت مبارک کرے اور یہ موقعہ احمدی بہنوں کی تربیت، آپس میں ایک دوسرے سے محبت پیدا کرنے کے لئے مفید ثابت ہو نیز آئندہ اپنی لجنہ کے لئے ایسے فیصلے کی توفیق ملے جو آپ کی ترقی کا موجب ہو.گو میں آپ سے بہت دور ہوں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہم سب ایک ایسی زنجیر میں پروئے گئے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم میں کوئی دوری نہیں اور فاصلے کی لمبائی کے باوجود ہمارے دل ایک دوسرے سے قریب ہیں.میں دل کی آنکھوں سے اس کنوینشن میں بہنوں کے مسکراتے چہروں اور آئندہ کے لئے غور و تد بر کو محسوس کر رہی ہوں.اسلام کا جھنڈا اس ملک میں بلند رکھنا آپ کا فرض ہے اور ہر ملک میں مسلمانوں کا یہ فرض ہے.اسلام کی تعلیم کو پھیلانے کے لئے بہت ضروری ہے کہ قرآن مجید سے گہری واقفیت ہو.اسلامی تاریخ اور احمدیت پر عبور ہو.تا وہ ایک طرف اپنا نمونہ اچھا بنا ئیں.دوسری طرف اپنے بچوں کی اسلامی ماحول میں تربیت کر سکیں.اس سلسلہ میں میں اپنی ان بہنوں سے جو پاکستان سے وہاں گئی ہوئی ہیں استدعا کروں گی کہ ان کو مرکز میں رہنے یا آنے جانے کا زیادہ موقع ملا ہے.ان کو اپنا ایسا اچھا نمونہ پیش کرنا چاہیے جو نئے آنے والوں کے لئے قابل تقلید ہو.لجنہ کے کاموں میں دلچسپی لیں تعلیم یافتہ خواتین زیادہ سے زیادہ لٹریچر کی کوشش کریں اور اس کے لئے ایک علیحدہ فنڈ قائم کرنے کی کوشش کریں تا ایسا لٹریچر شائع کیا جا سکے جو بچوں اور خواتین کو

Page 643

خطابات مریم 618 پیغامات اسلامی تعلیم سے روشناس کرا سکے.اس فنڈ میں ہر بہن حسب استطاعت حصہ لے.تا ہر سال دو تین کتب شائع ہوسکیں.ان دنوں میں بہت دعائیں کریں.غلبہ اسلام کے لئے اور حضرت خلیفہ اصبح الثالث کی مکمل صحت یابی کے لئے وہ ایک عرصہ سے بیمار ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کی قیادت میں قربانیاں کرنے کی توفیق دیتا چلا جائے.( آمین ) خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 18-08-1975

Page 644

خطابات مریم 619 پیغامات پیاری بہنو ! نائیجیریا کی لجنات کے جلسہ پر پیغام السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه مکرمی اجمل صاحب شاہد کے ذریعہ اس بات کا علم ہوا ہے کہ آپ کی سالانہ کانفرنس 29، 30 31 مارچ کولیگوس میں منعقد ہورہی ہے.اللہ تعالیٰ اس کا نفرنس کو کامیاب کرے اور اس کے بہترین نتائج نکالے.کانفرنس کی غرض جہاں اعلائے کلمۃ اللہ ہے وہاں آپ کی تنظیم بھی ہے مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گذشتہ سال لجنہ اماءاللہ کی ایک رپورٹ بھی موصول نہیں ہوئی.ایک اصول یا درکھیں شاخوں کے سرسبز رہنے کے لئے ضروری ہے کہ جڑ سے اس کا تعلق ہو.پس مرکزی لجنہ سے اپنا ٹھوس تعلق قائم رکھیں.مرکزی لجنہ کو آپ کی کارروائیوں کا صحیح علم ہو اور وہ ہدایات دے سکیں آپ مجھ سے بہت دور ہیں لیکن جو تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہمارا آپس میں ہے وہ بہت قریبی تعلق ہے.میں آپ سب کے لئے دعا کرتی رہتی ہوں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اُسوہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.ہمیں اور ہماری نسلوں کو اسلام کا جھنڈا بلند رکھنے کی توفیق دے اور ہم سے وہ قربانی اور خدمت لے جو اسے قبول ہو.سب بہنوں کو محبت بھر اسلام.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا در کھیئے.خاکسار صدر لجنه مرکزیہ $1975

Page 645

خطابات مریم 620 پیغامات میری عزیز بہنو ! لجنہ ماریشس کے لجنہ ڈے پر پیغام السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی صدر صاحبہ کے ذریعے علم ہوا ہے کہ 27 دسمبر کو لجنہ ماریشس اپنا لجنہ ڈے منارہی ہے.اسی دن یہاں مرکز میں بھی جلسہ سالانہ کا دوسرا دن ہو گا اور حضرت خلیفتہ امسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ عورتوں سے خطاب فرما رہے ہوں گے.احمدی خواہ پاکستان میں ہوں یا ماریشس میں، یورپ میں ہوں یا امریکہ میں ان کا مقصد حیات صرف اور صرف ایک ہے کہ دنیا کے ہر گوشہ میں توحید الہی کا قیام ہو اور انسان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لے.اسلام کا جھنڈا سب جھنڈوں سے اُونچا ہو اور جب تک یہ مقصد پورا نہیں ہو جا تا احمدی اپنے جان و مال، عزت ہر چیز کو اسلام کے غلبہ کے لئے قربان کرتے رہیں گے.مہدی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کی جو بشارتیں دی ہیں وہ انشاء اللہ تعالیٰ اپنے وقت پر پوری ہو کر رہیں گی.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اپنی تربیت اور اصلاح کی طرف توجہ دیں تا کہ اپنے وقت پر اپنی ذمہ داریوں کو اُٹھانے کے قابل ہوسکیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.آمین خدا کرے یہاں جلسہ سالانہ میں ہونے والی سب دعائیں اور آپ کے اجتماع میں ہونے والی سب دعائیں شرف قبولیت پائیں.آمین.خاکسار صدر لجنه مرکزیہ 17-12-75

Page 646

خطابات مریم 621 پیغامات مغربی جرمنی میں جلسہ سیرۃ النبی کے موقع پر پیغام کا ترجمہ پیاری بہنو ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه مجھے آپ کی صدر صاحبہ کے خط سے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی ہے کہ آپ 13 / مارچ 1976 ء کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں ایک اجتماع منعقد کر رہی ہیں یہ دن دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے بہت خوشی کا باعث ہے.کیونکہ یہ ان نبیوں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرۃ طیبہ کو ذہن نشین کرانے کا موقع بہم پہنچاتا ہے.ہاں وہی جو تمام بنی نوع انسان کے لئے نجات دہندہ کے طور پر معبوث کیا گیا.آپ دنیا میں وہ پہلے انسان تھے جنہوں نے انسانی حقوق کی ادائیگی میں مساوات کا اصول سکھایا اور رنگ اور مذہب سے پیدا ہونے والے امتیاز کو دور کر کے قرآن کریم میں نازل ہونے والی وحی ربانی کے مطابق إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمُ کا سبق دیا.لیکن سال میں ایک مرتبہ اس قسم کا دن منانا کسی لحاظ سے بھی کافی نہیں ہے جب تک دلوں میں وہ آگ نہ منور کی جائے جوسارا سال روشن رہے.ہر مسلمان اور بالخصوص احمدی مسلمانوں کا فرض ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں ایسی تبدیلی پیدا کریں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا عملی نمونہ بن جائیں.ہمیں مقدور بھر کوشش کرنی چاہئے کہ آپ کے اخلاق حسنہ کے رنگ میں رنگین ہو جائیں.آپ کا خلق وہ تھا جسے حضرت عائشہ نے کانَ خُلُقُهُ القُرآن کے الفاظ میں بیان کیا.یعنی آپ نے قرآن کریم کے ہر لفظ کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنا کر دوسروں کو اس کی تقلید کرنے کی ہدایت فرمائی.آپ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ تھا.آئیے ! ہم قرآن کریم کی اس ہدایت پر غور کریں کہ کوئی قوم حقیقی معنوں میں کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس کے زبانی دعووں اور اعمال میں پوری مطابقت نہ ہو اور جب تک وہ ہمیشہ ایسی تبدیلیوں کو

Page 647

خطابات مریم 622 پیغامات اپنانے کے لئے تیار نہ ہو جو بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے ضروری ہوں.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو دنیا کا کامل ترین انسان ثابت کر کے دکھایا.اپنے عملی نمونہ سے ہمیں اس حقیقت سے روشناس کرایا کہ عملی زندگی ہی دوسروں کو متاثر کرنے کا واحد ذریعہ ہے.پیاری بہنو! اگر چہ جرمنی میں آپ کی تعداد بہت کم ہے تا ہم آپ اس امر کو یا درکھیں کہ آپ کو اس زمانہ میں دنیا کا معلم بننے کی سعادت نصیب ہوئی ہے.اس فریضہ کی ادائیگی کا بہترین اور مؤثر ذریعہ آپ کا عملی نمونہ ہی ہے اور اسی ذریعہ سے آپ دنیا پر یہ ثابت کر سکتی ہیں کہ اسلام ہی ایک زندہ مذہب ہے.آج کے دن ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس عظیم پیغمبر کے پیغام کو پھر سے تازہ کریں.بالخصوص اس پیغام کو جو زندگی میں عورت کے مقام سے متعلق ہے.کیا ہم اس عظیم وجود کو ہمیشہ اپنے دل و دماغ میں زندہ نہیں رکھ سکتے جس نے عورت کو پست مقام سے اُٹھا کر نقطہ عروج تک پہنچایا ہے.آج کی تہذیب کے ترقی یافتہ معیار کے باوجود مغربی اقوام عورت کے حقوق کی حفاظت کے لئے وہ حسین ضابطہ حیات تیار نہ کر سکیں جو اسلام کی اس پاک تعلیم کے اندر ہے جس کا نزول آنحضرت عے پر آج سے چودہ سو برس قبل ہوا.آپ کی پاک روح پر ہزاروں ہزار سلام اور رحمتیں نازل ہوں جس نے ہمیں وہ طریق بتا دیا جس کو اپنا کر ہم اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی برکات حاصل کر سکتے ہیں.$ 1976 صدر لجنه مرکزیہ

Page 648

خطابات مریم 623 پیغامات جرمنی کے دوسرے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر پیغام لجنہ اماءاللہ جرمنی کی ممبرات پیاری بہنو! السلام علیکم بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ آپ کی صدر کی طرف سے آمدہ اطلاع سے یہ جان کر مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ آپ سالانہ اجتماع 10 جولا ئی 1976 ء کو منعقد کر رہی ہیں.میری دلی دعا ہے کہ یہ کامیابی سے اختتام پذیر ہوا اور آپ کی مساعی سے احمدیت پھیلے.پیاری بہنو! فرانکفرٹ ایک نہایت اہم مقام پر واقع ہے یورپ کے بہت سے رستے اس میں سے ہو کر گزرتے ہیں.یورپ میں سفر کرتے ہوئے لوگ اس میں سے گزرتے ہیں یا یہاں پر تھوڑی دیر قیام کرتے ہیں.آپ لوگوں کو یہ موقع حاصل ہے کہ ان لوگوں تک احمدیت کا پیغام پہنچا ئیں.آپ لوگ ان سے ذاتی طور پر رابطہ قائم کر کے اسلام اور احمدیت کے بارے میں لٹریچر ان تک پہنچا سکتی ہیں.اگر ہماری فرانکفرٹ کی بہنیں اسلام کی تبلیغ کے بارے میں اپنی ذمہ داری کو پوری طرح محسوس کریں تو وہ ملک میں ایک روحانی انقلاب لا سکتی ہیں.لیکن سب سے پہلے انہیں اپنی زندگی کو بدلنا ہوگا.اگر ان کا اخلاق مثالی ہو گا تو لوگ خود بخود ان کی طرف مائل ہوں گے اگر ان کے اعمال و افعال میں قرآنی احکام کی جھلک ہوگی تو ان کے ملنے والے لازماً ان کی طرف اور اسلام کی طرف جھکیں گے.آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح و مہدی موعود کا مقصد اسلام کو دوبارہ بحال کرنا اور شریعت کو نافذ کرنا ہے.وہ اس لئے آئے تھے کہ مسلمانوں اور باقی بنی نوع انسان کو اسلام کی آغوش میں لے آئیں.مسلمان اسلام اور شریعت سے دور ہو گئے تھے ان کی آمد کا واحد مقصد یہی تھا کہ ان مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دیں.اُنہوں نے یہ مشن کامیابی سے نبھایا اب

Page 649

خطابات مریم 624 پیغامات یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ باقی انسانوں تک یہ پیغام پہنچائیں.ہم جو ان کے متبعین ہیں.ہمارے پاس یہ کام ایک مقدس امانت ہے اس کے لئے ہمیں اپنی ہر چیز قربان کر دینی چاہئے.ہمیں تو اس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ انسانیت کو اپنے خالق کی طرف واپس لانے کا عظیم اور مقدس کام ہمیں سونپا گیا ہے.لیکن سب سے پہلے ہمیں اپنے دل کو ٹولنا پڑے گا اور اپنے اندر جھانکنا پڑے گا کہ ہمارے افعال ہمارے اقوال کے مطابق ہیں یا نہیں.کیا ہمارا عہد بیعت ایک حقیقت ہے یا محض ایک نعرہ.ہماری زندگیوں پر اسلامی اخلاق کی گہری چھاپ ہونی چاہئے.ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہمارا اخلاق اپنے ملنے جلنے والوں سے ہمارا برتاؤ ہمارا طریق زندگی سب کچھ قرآنی احکام کے مطابق ہے.یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم قرآن کریم کے مطالب کو سمجھتے ہوں اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوں.خدا کرے کہ آپ یہ چیزیں سیکھ لیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق تمام انسانوں کی زندگیوں میں روحانی اور اخلاقی انقلاب لاسکیں.آمین والسلام مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 21/جون 1976ء

Page 650

خطابات مریم 625 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ.گی آنا میری عزیز بہنو! اور ممبرات لجنہ گی آنا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ یکم اگست 1976ء کو اپنا پہلا سالانہ اجتماع اور دستکاری کی نمائش منعقد کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو بہت بہت مبارک کرے.اسلام اور انسانیت کی خدمت کی توفیق عطا کرے.میں امید رکھتی ہوں کہ آپ کا یہ پہلا سالانہ اجتماع دوسری خواتین کو اسلام کی طرف لانے کا موجب بنے گا.آپ نے مہدی علیہ السلام کو مانا ہے جو اس زمانے میں اسلام کو پھر سے زندہ مذہب ثابت کرنے کے لئے اور انسان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے کے لئے آئے تھے.آپ کی جماعت میں شامل ہونے والیوں کا فرض ہی یہی ہے کہ وہ اپنے قول و فعل سے ثابت کریں کہ دنیا میں امن صرف اسلام سے وابستگی کے ساتھ حاصل ہو سکتا ہے.اس کے لئے جہاں آپ کو اسلام کی تبلیغ کرنی پڑے گی وہاں اپنے نمونہ کے ذریعہ سے بھی لوگوں کی توجہ کو جذب کرنا ہو گا.دوسروں کو دین سکھانے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ خود دین کا علم آتا ہو آپ کوشش کریں کہ آپ کی ہر عورت اور ہر بچی قرآن مجید کا ترجمہ سیکھے اور مذہبی کتب کا مطالعہ کرے اور اسلام کی صداقت کے دلائل یا دکرے.لہذا ایک بات ہر وقت آپ کو مد نظر رکھنی چاہئے کہ اسلام صرف عقائد کا نام نہیں بلکہ اسلام نے زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق ہدایات دی ہیں.اپنے اخلاق.کردار.لباس.رہن سہن کو اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالیں اور اپنے بچوں کی صحیح تربیت کریں تا کہ وہ بڑے ہو کر پکے مسلمان بنیں.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ $ 1976

Page 651

خطابات مریم 626 پیغامات عزیز بہنو ! پیغام برائے اجتماع لجنہ ماریشس السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه لجنہ ماریشس کی PHOENIX برانچ کا سالانہ اجتماع 13 نومبر 1976ء کو ہو رہا ہے.میری طرف سے دلی مبارکباد قبول کریں.میری دلی دعا ہے کہ آپ کا یہ اجتماع بہت بابرکت ہو اور نیک نتائج کا حامل ہو.اجتماعات کے قیام کی سب سے بڑی غرض تربیت کرنا ہے.ہمارے اجتماعات میں نظم وضبط و اطاعت کا مظاہرہ اتنا شاندار ہونا چاہئے.جو مثالی ہو اور ہمارے اخلاق وکردار اور لباس و گفتار ہر بات عین اسلام کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے مطابق ہو.تا ہمارے قول اور فعل میں کسی قسم کا تضاد نہ ہو.قوم وہی ترقی کرتی ہے اور کرتی رہی ہے جس کا فعل و عمل اس کے دعوئی اور قول کے مطابق رہا ہو.صرف پڑھ لینا چندے جمع کر لینے سے ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتیں.جب تک اپنے عمل سے اپنے کو ایک پکا مسلمان نہیں بنا تیں اور ہمارا عمل قرآن مجید کی تعلیم اور آنحضرت عیے کے ارشادات کے مطابق ہو اور اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت قرآن وحدیث کی روشنی میں کریں.اسلام کی محبت، قرآن سے عشق، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کے اسوہ پر چلنے کا شوق.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء سے محبت.ان کے لئے اور اُن کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرنا آپ کا اور صرف آپ کا کام ہے.یہ جرأت ایمانی صرف آپ اپنے بچوں میں پیدا کر سکتی ہیں.ان کو قرآن مجید پڑھائیے.ترجمہ سکھائیے.نماز کا پابند بنائیے.تمام اسلامی اخلاق ان میں پیدا کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.آمین والسلام.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنه مرکزیہ 11-10-76

Page 652

خطابات مریم 627 پیغامات سالانہ اجتماع 1976 ء ناصرات الاحمدیہ.قادیان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُه وَنَصَلَّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوعُود میری پیاری بچیو! ناصرات الاحمدیہ قادیان السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه مجھ کو معلوم ہوا ہے کہ دسمبر کے آخر میں آپ اپنا اجتماع کر رہی ہیں.اللہ تعالیٰ مبارک کرے اور آپ کی نگرانوں و آپ کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.1973 ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو بشارت دی کہ انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ صدی غلبہ اسلام کی صدی ہوگی اور پہلی صدی ختم ہونے پر جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے جشن منائے.صدی پوری ہونے میں چودہ سال باقی ہیں.دراصل یہ خوشیوں کا زمانہ آپ کا زمانہ ہوگا.آج جو نھی منی بچیاں ہیں ہر بچی اپنی عمر میں چودہ سال جمع کر لے اور اس بات کا احساس کرے کہ چودہ سال کے بعد تمام ذمہ داریاں ہم نے اُٹھانی ہیں.اس لئے ابھی سے ان ذمہ داریوں کو اُٹھانے کے لئے تیار ہوں.ہر بچی اپنے مذہب سے محبت کرنے والی ہو.ہر بچی علم دین سیکھنے کا شوق رکھتی ہو.ہر بچی کے دل میں یہ تڑپ ہو کہ قرآن کریم کی تعلیم کا عملی نمونہ بنوں.اپنی دنیاوی تعلیم سے زیادہ قرآن مجید اور حدیث سیکھنے کی طرف توجہ دیں.نور ایمان آپ کی پیشانیوں سے جھلکتا ہو.اللہ تعالیٰ اور محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت آپ کا شعار ہو ہمدردی خلق آپ کا جز وطبیعت ہو اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جھک کر دعا کرنا آپ کی عادت ہو.اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ آپ صرف نام کی ناصرات الاحمدیہ نہ ہوں.بلکہ عملاً بھی ناصرات الاحمدیہ ثابت ہوں.دستخط مریم صدیقہ ) صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 653

خطابات مریم 628 پیغامات ممبرات لجنہ اماءاللہ جرمنی کو یوم سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر پیغام میری عزیز بہنو ! السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی صدر لجنہ نے خواہش کی ہے کہ ان کی سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کانفرنس کے موقعہ پر ان کے لئے کوئی پیغام بھجوا ؤں.جلسہ ہائے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کی تھی اور اس کی بہت تاکید فرمائی تھی تا ایسے جلسوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور اوصاف کا تذکرہ کیا جائے.تا دنیا کو معلوم ہو کہ آپ ہی تمام انسان اور دنیا کے نجات دہندہ تھے اور آپ پر ایمان لا کر آپ کی اطاعت کر کے آپ کی پیروی کر کے ہی انسان خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله (ال عمران : 32) اے محمد رسول اللہ دنیا کو بتادیں کہ گر اللہ تعالیٰ کی محبت چاہتے ہو تو میری پیروی کرو.میرے پیچھے پیچھے چلو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا.اس میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ دنیا کو صحیح معنوں میں جنت بنانے کے لئے ایک کامل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا.آپ نے قرآن مجید کے ہر حکم پر خود عمل کر کے دکھایا اور ہر حیثیت میں دنیا کے سامنے ایک مثالی کردار بن کر ظاہر ہوئے ایک کامل انسان.اللہ تعالیٰ سے انتہائی محبت رکھنے والے بندوں سے انتہائی شفقت کرنے والے.انتہائی اعلیٰ اخلاق کے مالک.دنیاوی معاملات میں نہایت صاف.دوستوں سے وفادار اور دشمنوں کا انتہائی قصور بھی معاف کر دینے والے.غرض کہ کسی پہلو پر بھی نظر ڈالو ایک کامل نمونہ ساری دنیا کے لئے اور جس کے نمونہ پر

Page 654

خطابات مریم 629 پیغامات چلنے سے ہی انسان بُرائیوں سے محفوظ ہو سکتا ہے نیکی میں ترقی کر کے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کر سکتا ہے.پس ضروری ہے کہ ہم سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی کا مطالعہ کرتے رہیں.آپ کے ارشادات کا علم حاصل کریں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں خود عمل کر کے دوسروں کو بھی اسلام کی پاکیزہ تعلیم اور ابدی صداقت سے روشناس کرانے کی کوشش کریں.غیر مسلم بھی اسلام کی تعلیم کی طرف اس وقت کشش محسوس کر رہے ہیں جب آپ کے عمل اخلاق اور طرز زندگی میں انہیں قرآن کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی جھلک نظر آئے گی.اس ملک میں رہتے ہوئے آپ پر بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ آپ مادہ پرستی سے دور رہتے ہوئے اپنے مذہب کے احکام پر چلیں.اپنے بچوں کی صحیح تربیت کریں ان کے دلوں میں آنحضرت مے سے اتنی محبت پیدا کریں کہ وہ آپ کے کسی حکم کی خلاف ورزی کر ہی نہ سکیں.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ $1977

Page 655

خطابات مریم 630 پیغامات لجنہ اماءاللہ کوپن ہیگن کے اجتماع پر پیغام میری عزیز بہنو! ممبرات لجنہ اماءاللہ کوپن ہیگن السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی سیکرٹری صاحبہ نے اطلاع دی ہے کہ 28 رمئی کو آپ کا سالانہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے.ڈنمارک کی سرزمین میں آپ کا یہ اجتماع اللہ تعالیٰ مبارک کرے اور اس کے ذریعہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام غیر مسلموں تک پہنچے اور ان کو اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اجتماع کی اصل غرض تربیت ہے اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے.جس نے زندگی کے ہر شعبہ میں انسان کی ایسی راہ نمائی کی ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے اور ان سنہرے اُصولوں پر عمل کرنے سے ہی ایک پر امن معاشرہ اور پر امن ماحول دنیا میں قائم ہوسکتا ہے.انہی کے ذریعہ نفرت ، تعصب ، عناد کی جڑیں کاٹی جا سکتی ہیں اسلام وہ واحد مذہب ہے جو کسی انسان کو بحیثیت انسان کسی دوسرے پر فوقیت نہیں دیتا.سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور وہ سب کی یکساں ربوبیت کرتا ہے.اس لئے ہر انسان کا سلوک خدا تعالیٰ کے بندوں سے یکساں اور رحم و شفقت کا ہونا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے احکام پر چلنے والی ایک جماعت قائم کی ہے جس کی ایک کڑی آپ بھی ہیں آپ کا فرض ہے کہ اپنا جائزہ لیتی رہیں کہ آپ کا عمل اسلام کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق ہے یا نہیں کہیں آپ کے قول اور فعل میں تضاد تو نہیں.اگر آپ کے دعوے اور عمل میں تضاد ہے تو آپ کی بات دوسروں پر اثر انداز نہیں ہو سکتی.آپ نے خود اپنے کو اسلام کے مطابق ڈھالنا ہے اپنے بچوں کو سچے مسلمان، مذہب کے پابند، اسلام کے لئے غیرت اور محبت رکھنے والے اسلام کی خاطر قربانی دینے والا بنانا ہے.پس اپنے اجتماع میں ان امور کو زیر بحث لائیں.جن کے نتیجہ میں آپ کی تنظیم زیادہ سے

Page 656

خطابات مریم 631 پیغامات زیادہ سرگرم عمل ہو سکے اور زیادہ خواتین اور بچوں کی تربیت ہو سکے.اللہ تعالیٰ آپ کو اور ہر خطہ زمین میں بسنے والی خواتین کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین ! میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ $1977

Page 657

خطابات مریم 632 پیغامات لجنہ اماءاللہ.امریکہ کے اجتماع پر پیغام میری عزیز بہنو! ممبرات لجنہ اماءاللہ امریکہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه یہ معلوم ہو کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ کی سالانہ کنوینشن جولائی کے پہلے ہفتہ میں منعقد ہو رہی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ آپ کے اس اجتماع کو بہت بہت مبارک کرے.آپ کے ذریعہ اسلام کا پیغام امریکہ کے دور دراز کونوں تک پہنچے.آپ کی زندگیوں میں ایسا انقلاب بر پا ہو.جس کو دیکھ کر لوگوں کے دل اسلام کی پیاری اور پرکشش تعلیم کی طرف متوجہ ہوں.گزشتہ سال آپ کے لئے بہت ہی مبارک تھا کہ حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے امریکہ کا دورہ کیا تو آپ نے ان کی زیارت کی ان کے مبارک ارشادات سنے اور فائدہ اُٹھایا.اس دورہ کے نتیجہ میں یقیناً آپ میں بیداری پیدا ہونی چاہئے تھی اور ہوئی ہوگی اس تبدیلی کو اپنے میں قائم رکھنا آپ کا فرض ہے.اسلام صرف چند اُصولوں کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبہ کی مکمل راہ نمائی کرتا ہے اگر آپ اصولاً تو اسلام کو مانتی ہیں لیکن عملاً نہیں تو حقیقی مسلمان نہیں کہلا سکتیں اسلام ایک زندہ مذہب ہے ہمیشہ کے لئے ہے اور دین فطرت ہے اس کا کوئی حکم ایسا نہیں جس پر عمل کرنا مشکل ہو.پس قرآن کے ہر حکم پر عمل کرنے کی کوشش کریں کہ اسی میں حقیقی نجات ہے.پردہ اسلام کا ایک حکم ہے جس حد تک جہاں تک ممکن ہو ایک احمدی خاتون کو اسلام کے اس حکم پر عمل کرنا چاہئے لیکن بہت ہی بہنیں یہاں پر دو کرتی ہیں اور جب امریکہ جاتی ہیں تو ایسا لباس پہنا شروع کر دیتی ہیں جو سراسر اسلام کی تعلیم کے خلاف ہوتا ہے.اگر ان کو اپنے مذہب سے گہری محبت ہوتی اور وہ اس یقین پر قائم ہوتیں کہ اسلام کے ہر حکم پر عمل کرنا ضروری ہے تو وہ ایسا نہ کرتیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.

Page 658

خطابات مریم 633 "سنو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے.وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے.سو تم قرآن کو مذ ہبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو.“ پیغامات (روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحہ 26 نیا ایڈیشن) اس سلسلہ میں نیشنل لجنہ اماءاللہ امریکہ کو ایک قدم ضرور اٹھانا چاہئے کہ لجنہ اماءاللہ امریکہ کی عہد یداران اور شاخوں کی صدر کم از کم ایسی خواتین منتخب ہونی چاہئیں جو اسلام کے اُصولوں چلنے والی ہوں اور خود دوسری خواتین کے لئے نمونہ ہوں.یہ ضروری نہیں کہ ایک عورت اچھی تقریر کرتی ہے اس لئے وہ کسی شاخ کی صدر مقرر ہو.بلکہ اس لئے اس کا انتخاب کیا جائے کہ وہ اس حلقہ کی باقی خواتین کے لئے نمونہ ہو.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے اور اس کی محبت کو ہم پاسکیں.خاکسار سیده مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 10-6-77

Page 659

خطابات مریم 634 پیغامات سویڈن کی ممبرات لجنہ اماءاللہ کو اجتماع کے موقع پر ممبرات لجنہ اماءاللہ سویڈن ! پیغام 1977ء السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه مجھے یہ معلوم ہو کر بڑی خوشی ہوئی ہے کہ اس سال سویڈن کی لجنہ اماءاللہ اپنا پہلا اجتماع منعقد کر رہی ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ سکنڈے نیوین ممالک میں جن میں سے سویڈن بھی ایک ملک ہے اسلام کا پیغام جماعت احمدیہ کے ذریعہ پہنچا اور جماعتوں کے قیام کے بعد لجنہ کا قیام بھی ان ملکوں میں ہوا.جو ظاہر کرتا ہے کہ احمدی خواتین خواہ کسی ملک میں ہوں انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے.آپ کی صدر صاحبہ کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ڈنمارک اور پھر مغربی جرمنی میں قابل قدرخدمات بجالانے کی توفیق عطا فرمائی ہے.آج سے 86 سال قبل جب حضرت مرزا غلام احمد نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو لوگوں نے آپ کی شدید مخالفت کی.آپ کے مشن میں روڑے اٹکائے گئے.آپ کی ہنسی اُڑائی گئی اور دنیا نے سمجھا کہ چند دن کے بعد ہی آپ کا کام اور نام تمام دنیا سے مٹ جائے گا.لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کو الہا ما بتایا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہ کیا.لیکن خدا اُسے قبول کرے گا وو اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ (روحانی خزائن جلد 1 براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 665 حاشیہ در حاشیہ) پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی.خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.‘‘ ( تذکرہ صفحہ 112)

Page 660

خطابات مریم 635 پیغامات دنیا کی تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ جو بیج آج سے 88 سال قبل قادیان کی کسی بستی میں بویا گیا.آج وہ تناور درخت ہے اور اس کا سایہ دنیا کے کناروں تک پہنچ گیا ہے سویڈن بھی دنیا کے کناروں میں سے ایک کنارہ ہے.وہاں بھی ایک مخلص جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہو چکی ہے جو ہر روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود بھیجتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت ڈالی جائے گی.اللہ تعالیٰ نے فرمایا - يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمُ مِنَ السَّمَاءِ کہ ایسے لوگ جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ آسمان سے وحی کے ذریعہ مسیح موعود علیہ السلام کی محبت ڈالے گا مسیح موعود علیہ السلام کی مدد کریں گے کس شان سے پوری ہوئی.مسیح موعود اور اسلام سے محبت کرنے والوں نے عملاً سویڈن کی مسجد بنا کر ثابت کر دیا کہ وہ ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں.یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچے تھے خدا کی طرف سے تھے.جب کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا.آپ اکیلے تھے اور آج 88 سال گزرنے پر احمدیت آپ کے اور آپ کے خلفاء کے ذریعہ دنیا کے کناروں تک پہنچ چکی ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا تھا کہ ونئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہوگا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف چڑھے گا اور یورپ کو بچے خدا کا پتہ لگے گا.( تذکره صفحه 209) چنانچہ اس پیشگوئی کو ہم نے اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھا اور وہ دن قریب ہے جب یورپ میں بسنے والی قو میں جان لیں گی کہ اب نجات کا دروازہ صرف اور صرف اسلام ہے.اپنے مقاصد کیلئے سرگرم عمل ، اسلام کی تعلیم کو غیر مسلموں کے سامنے رکھنا اور اس تعلیم پر خود عمل کر کے اس کو دکھانا آپ کا کام ہے.خدا کرے اپنے مقصد میں آپ کا میاب ہوں اور آپ کے اعلیٰ اخلاق ، کردار اور نمونہ سے لوگوں کے دل آپ کی طرف کھنچیں تا جلد سے جلد وہ نئی زمین اور نیا آسمان قائم ہو جس کی بشارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ آپ کو مل چکی ہے.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ )

Page 661

خطابات مریم 636 پیغامات لجنہ اماءاللہ گی آنا کے دوسرے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر پیغام میری عزیز بہنو! ممبرات لجنہ اماءاللہ ڈچ گیانا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه مکرمی محمد اسلم صاحب کے ذریعہ معلوم ہوا کہ 31 جولائی کو آپ اپنا دوسرا سالانہ اجتماع اور دستکاری کی نمائش منعقد کر رہی ہیں.اللہ تعالیٰ ہر دو کا انعقاد بہت بہت مبارک کرے اور اسلام کا پیغام آپ کے ذریعہ سارے ملک میں پہنچے.احمدی خواہ کسی ملک کے رہنے والے ہوں ان کی زندگیوں کا مقصد ایک ہی ہے.اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور اطاعت کے بغیر ممکن نہیں اور اسلام کو دنیا میں پھیلانا.اس لئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله (ال عمران : 32) اے محمد رسول اللہ ! دنیا کو بتادیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت چاہتے ہو تو میرے پیچھے پیچھے چلو.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے ہر شعبہ میں کامل ہدایات دی ہیں.قرآن مجید کے ہر حکم پر خود عمل کر کے دکھایا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے ان میں غلط رسوم اور بدعتیں شامل کر دیں اور ایسی ایسی باتوں پر عمل ہونے لگا جن کا نہ قرآن مجید میں کوئی حکم نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور ارشاد سے ثبوت ملتا ہے.قرآن کریم کے مطالب کو شبہات سے صاف کرنے اور صحیح تصویر اسلام کی دنیا کو دکھانے کے لئے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے.آپ کی بعثت کی غرض دنیا میں قرآن کی تعلیم کو عام کرنا تھا تا ہر شخص قرآن پڑھے اور قرآن پر عمل کرے اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارے.جس کے نتیجہ میں دنیا میں ایک نیا پر امن معاشرہ اُبھرے جس کی جھلک آج سے چودہ سو سال قبل کی تاریخ میں ہمیں نظر آتی ہے.اس مقصد کی تکمیل کے لئے ہمارا فرض ہے کہ ہماری ہر عورت اور بچی کو قرآن مجید اور اس کا ترجمہ

Page 662

خطابات مریم 637 پیغامات آتا ہو اسلام کے اُصولوں کا علم ہو.ان احکام کا علم ہو جو زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام نے دیئے ہیں.جن باتوں کا آپ کو یا آپ کی بچیوں کو علم نہ ہوگا اس پر وہ عمل کیسے کریں گی.بچیوں کا لفظ میں نے خاص طور پر اس لئے استعمال کیا کہ قوم کی بنیاد عورت ہوتی ہے.اگلی نسل کی جن ماؤں نے تربیت کرنی ہے.وہ آج بچیاں ہیں جب تک یہ خود دین سے گہری طور واقف نہ ہوں گی.یہ اگلی نسل کی تربیت کا اہم کام سرانجام نہیں دے سکیں گی.میری بہنو! احمدیت میں شمولیت کے ساتھ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو نعمت اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہے اس نعمت کا وارث بنا ئیں اپنی اولادوں کو خود قرآن پڑھیں عمل کریں تا آپ کے بچوں میں بھی قرآن سے اتنی محبت پیدا ہو کہ وہ قرآن کے کسی حکم کو توڑنے سے پہلے مرنا پسند کریں لیکن قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کوتوڑنا نہیں گوارا نہ ہو.اس لئے اس اجتماع پر جو بہنیں اور نمائندگان شامل ہیں وہ غور کریں کہ وہ کیا ذرائع اختیار کر سکتی ہیں جن کے ذریعہ آپ خود بھی دینی تعلیم زیادہ سے زیادہ حاصل کریں اور آپ کے بچے بھی.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر رہے اور اسلام کی خدمت کی توفیق عطا کرتا جائے.آمین مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 5-7-1977

Page 663

خطابات مریم 638 پیغامات انڈونیشیا کے تیسرے سالانہ اجتماع پر پیغام میری عزیز بہنو ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی جنرل سیکرٹری کے خط سے معلوم ہوا ہے کہ نومبر کے آخری ہفتہ میں آپ اپنا سالانہ اجتماع منعقد کر رہی ہیں.اللہ تعالیٰ اس اجتماع کے انعقاد کو بہت بہت مبارک کرے اور ایسے پروگرام بنانے کی توفیق عطا فرمائے.جن سے اس ملک میں لجنہ کی تنظیم مضبوط ہو اور غلبہ اسلام کے مقصد میں لجنہ اماءاللہ جماعت احمدیہ کی پوری پوری معاون بن سکے.لجنہ اماءاللہ کی بنیاد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 1922ء میں رکھی تھی.آپ پورے یقین سے اس بات پر قائم تھے کہ کوئی قوم اس وقت تک پورے طور پر ترقی نہیں کرسکتی.جب تک اس کی عورتیں تعلیم یافتہ اپنے نصب العین کو سمجھنے والی اور اپنے مقصد میں پوری طرح کوشاں نہ ہوں.اس تنظیم کو قائم کرنے سے آپ کا یہی مقصد تھا کہ اس کے ذریعہ سے مستورات اپنے دینی علم کو ترقی دیں.ترقی کرنے کی مشق پیدا ہو.خدمت دین کا جذبہ پیدا ہو.اپنے علم اور عمل سے وہ جماعت کے لئے مفید وجود بن سکیں اور اپنی آئندہ نسلوں کی بہترین طور پر تربیت اور ان کی حفاظت کر سکیں اور اپنی زندگی کے حقیقی مقصد یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکیں.اسی لئے لجنہ اماءاللہ کے قیام کے وقت حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.” ہماری پیدائش کی جو غرض و غایت ہے اس کو پورا کرنے کے لئے عورتوں کی کوششوں کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح مردوں کی ہے.جہاں تک میرا خیال ہے عورتوں میں ابھی تک اس کا احساس پیدا نہیں ہوا کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے ہماری زندگی کس طرح صرف ہونی چاہئے.جس سے ہم بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر کے مرنے کے بعد بلکہ اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث ہوسکیں.اگر غور کیا جائے تو اکثر عورتیں اس امر کو محسوس نہیں کریں گی کہ روز مرہ کے کاموں

Page 664

خطابات مریم 639 پیغامات کے سوا کوئی اور کام بھی کرنے کے قابل ہے یا نہیں ، دشمنانِ اسلام میں عورتوں کی کوشش سے جو روح بچوں میں پیدا کی جاتی ہے اور جو بد گمانی اسلام کی نسبت پھیلائی جاتی ہے اس کا اگر کوئی توڑ ہوسکتا ہے تو وہ عورتوں کے ذریعہ سے ہی ہوسکتا ہے.اور بچوں میں اگر قربانی کا مادہ پیدا کیا جا سکتا ہے تو وہ بھی ماں ہی کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے.پس علاوہ اپنی روحانی و علمی ترقی کے آئندہ جماعت کی ترقی کا انحصار بھی زیادہ تر عورتوں ہی کی کوشش پر ہے.چونکہ بڑے ہو کر جواثر بچے قبول کر سکتے ہیں وہ ایسا گہرا نہیں ہوتا جو بچپن میں قبول کرتے ہیں.اسی طرح عورتوں کی اصلاح بھی عورتوں کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے“.(الازھار جلداول: صفحہ 52) حضرت مصلح الموعود خلیفہ المسیح الثانی جو بانی تھے لجنہ اماءاللہ کے اور جن کے طبقہ نسواں پر ان گنت احسانات ہیں کے ان الفاظ سے لجنہ اماءاللہ کے چار بڑے مقاصد سامنے آتے ہیں.1 اپنی علمی وروحانی ترقی سے ہمارا وجوداسلام کے لئے مفید ثابت ہو.2 اپنے معاشرہ کی اصلاح اپنے ملنے جلنے والیوں کی ترقی کے لئے کوشش کرنی چاہئے.3 اپنے بچوں کی صحیح تربیت ان کے اندر مذہب کی محبت ، مذہب کے لئے غیرت اور قربانی کا جذ بہ پیدا کرنا.جو اعتراضات غیر مسلموں کی طرف سے اسلام پر ہوئے ہیں ان کے علمی رنگ میں جواب دینے اور اپنے عمل سے ثابت کرنا کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اسلام کے اُصولوں پر چل کر ہی ہم روحانی ترقی کر سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں.میں اُمید کرتی ہوں کہ ان چار مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے ہماری سب بہنیں پوری کوشش کریں گی اور صرف نام کی مسلمان نہیں کہلائیں گی بلکہ قرآن کریم کے احکام اور آنحضرت ملے کے ارشادات پر عمل کرنے والی بنیں گی اور اپنے نیک نمونہ سے اپنے بچوں کو بھی ایسا ہی بنائیں گی.ایک قوم کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ قربانیوں کا ایک تسلسل جاری رہے اور ہر ایک آنے والی نسل پہلی نسل کی جگہ لینے کو تیار رہے.میں آپ سے بہت دور ہوں.لیکن اس محبت کی وجہ سے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے

Page 665

خطابات مریم 640 پیغامات ذریعہ سب احمدیوں کے دلوں میں ہے.آپ سب کو اپنی دعاؤں میں یا درکھتی ہوں.آپ بھی میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مل کر اسلام کی خاطر قربانیاں دینے کی توفیق عطا فرما تا چلا جائے اور ہم اس کی رضا کو حاصل کر سکیں.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ 10-10-1977

Page 666

خطابات مریم 641 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ قادیان.1978ء پیاری ناصرات الاحمدیہ قادیان السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه اللہ تعالیٰ آپ کے گیارھویں سالانہ اجتماع کا انعقاد بہت بہت مبارک کرے اور اس کے اچھے نتائج نکلیں.بظاہر آپ کی عمر کھیلنے کودنے کی ہے لیکن حقیقت میں یہی وہ زمانہ ہے جس میں آپ کی ساری زندگی کی بنیا درکھی جائے گی اور جڑیں مضبوط ہوں گی.ہر قوم کی ترقی میں نمایاں کر دار عورت کا ہوتا ہے لیکن اس قربانی میں جو عورت اپنے مذہب اور قوم کے لئے دیتی ہے اس کی بچپن کی تربیت کو بہت دخل ہوتا ہے.پس کبھی یہ خیال نہ ہو کہ خود بخود کام کرنا آجائے گا ابھی سے تربیت کی کیا ضرورت ہے.یہ غلط خیال ہے اسی عمر سے مذہب سے محبت پیدا ہونی چاہئے یہ احساس زندہ رہنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی انسانیت کے نجات دہندہ ہیں.آپ کی اطاعت اور آپ کے پیچھے چلے بغیر اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں ہو سکتی.دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے.دین کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے اور یہی جذبہ پیدا کرنے کے لئے بچیوں کے اجلاس کروائے جاتے ہیں.بچیوں کو اس بات کی تحریک کی جاتی ہے کہ اپنے جیب خرچوں میں سے پیسے بچا کر خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں اسی غرض سے حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ناصرات وقف جدید کی تحریک بھی جاری فرمائی ہوئی ہے.پس میری بچیو! آپ مسلمان بچیاں ہیں آپ کے دل میں اسلام کا درد ہونا چاہئے.آپ کو بچپن سے غلط اور صحیح کی پہچان ہونی چاہئے آپ کو علم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے کن کا موں کے کرنے کو کہا ہے اور کن کاموں سے روکا ہے.بہت سی بچیاں بڑی ہو کر پردہ نہیں کرتیں یا غلط کام کرتی ہیں اس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ ان کو بچپن میں بتایا ہی نہیں جاتا کہ اس سلسلہ میں

Page 667

خطابات مریم خدائی حکم کیا ہے.642 پیغامات ماں باپ اور عہدہ داران ناصرات کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی بچیوں کی تربیت پر بہت زور دیں کہ آئندہ قومی ذمہ داریاں ان پر پڑیں گی.وہ اعلیٰ کردار کی اعلیٰ اخلاق کی حامل ہوں وہ بچے بولنے والیاں ہوں محنت کرنے والیاں ہوں.عہد کی پابند ہوں.لڑائی جھگڑے سے نفرت کرنے والیاں ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر دل و جان سے عمل کرنے والیاں ہوں.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ کے احکام پر چلنے والیاں ہوں.یہ ایک حقیقت ہے کہ لجنہ اماءاللہ کا سب سے بڑا فرض بچیوں کی تربیت کرنا ہے تا آئندہ نسل اس نسل کی جگہ لینے کو تیا ر ر ہے خدا کرے ایسا ہی ہو.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 668

خطابات مریم 643 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ قادیان.1979ء میری پیاری منخصی منی بچیو ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آج آپ کا اجتماع ہے.چشم تصور میں صاف ستھرے لباس پہنے اپنے اپنے مجوزہ فرائض کو سرانجام دینے کے لئے آپ کو بشاشت قلب سے آمادہ دیکھ رہی ہیں.میری پیاری بچیو! جب ہم نے کوئی اہم کام کرنا ہو تو سکولوں کالجوں میں اس کی ریہرسل کروائی جاتی ہے تا کہ وقت پر بچیاں صحیح کام کر سکیں.یہ اجتماع بھی ایک ریہرسل ہے.اس زمانے کے لئے وو جب گذر جائیں گے ہم تم پر پڑے گا سب بار آپ نے ابھی سے تیاری کرنی ہے اور وہ تیاری کیا ہے آپ میں دین کی محبت ہو، مذہب سے بیگانگی نہ ہو.دین کے لئے غیرت ہو.دین کے لئے قربانی کا جذبہ ہو.فرض کی ادائیگی کا احساس ہو.جو کام آپ کے سپرد کیا جائے اس کو صحیح طور پر پوری ذمہ داری سے ادا کریں.دین کا علم حاصل کریں.آپ میں اعلیٰ اخلاق ہوں.کسی نیکی کرنے کے موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں نیکیوں کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہے.نیک نمونہ بنیں دوسروں کے لئے ہر لحاظ سے.بنی نوع انسان سے محبت کریں.رحم دل بہنیں.کسی سے نفرت نہ ہو.بغض نہ ہو.ہر ایک کی ہمدردی آپ کے دل میں ہو.ہر ایک کی خدمت کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہیں.آئندہ آپ کی معلمہ کی حیثیت ہوگی اس کے لیے آپ نے دین کا علم خود سیکھنا ہے تا بڑے ہو کر دوسروں کو سکھا سکیں.آپ نے ایسا نمونہ دکھانا ہے کہ آپ کو دیکھ کر خود بخود دنیا آپ کی طرف متوجہ ہو.اور یہ کہنے پر مجبور ہو کہ اگر اسلام کا عملی نمونہ دیکھنا ہے تو احمدیوں میں دیکھو ان کی عورتوں ، بچیوں اور بچوں میں دیکھو.خدا کرے آپ پر ہماری توقعات پوری ہوں اور اپنے اجتماع میں تربیت حاصل کر کے آنے والے

Page 669

خطابات مریم 644 پیغامات زمانہ میں دین سکھانے اور تربیت کے میدان میں آپ واقعی معلمات اور سچی معلمات بن سکیں.میرے لیے بھی دعا کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ آخری سانس تک دین کی خدمت کی توفیق دیتا چلا جائے.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 670

خطابات مریم 645 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ قادیان 1979ء میری عزیز بہنو ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آج ان چند سطور کے ذریعہ آپ کے سالانہ اجتماع میں شرکت کرنے کی توفیق پا رہی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے اس اجتماع کو جس کے انعقاد کی غرض خود کو شاہراہ غلبہ اسلام پر تیز چلنے کی تربیت دینا اور تیاری کرنا ہے، مبارک کرے.نیک نتائج نکلیں.اسلام زندہ مذہب ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں اور قرآن کریم زندہ کتاب ہے لیکن ہم بھی زندہ ہیں.اس کا ثبوت قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کر کے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے صحابہ اور صحابیات رضی اللہ تعالیٰ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم نے دینا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مہدی علیہ السلام کو غلبہ اسلام کی عظیم بشارتیں دی ہیں جس کے آثار صبح صادق کی طرح نظر آ رہے ہیں.غلبہ اسلام کی صدی شروع ہونے میں صرف دس سال باقی ہیں اور ایک زندہ قوم کی زندگی میں یہ عرصہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا.وقت کم ہے اور کام زیادہ.اس صدی کے استقبال کے لیے ہم نے بہت قربانیاں دینی ہیں اور دوسری اقوام کو علم دین سکھانے کے لیے اپنے آپ کو اور بچیوں کو تیار کرنا ہے.پس بہت زور دیں قرآن مجید کا ترجمہ سکھانے پر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھانے پر اور جائزہ لیں خود اپنا بھی اور اپنی بہنوں کا بھی اور بچیوں کا بھی.کیا ہمارا کردار اور ہمارے اخلاق قرآن مجید کی تعلیم کے عین مطابق ہیں یا نہیں ؟ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کے اصولوں پر چل کر امن قائم ہوسکتا ہے.اور بنی نوع انسان ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں.پس لجنہ اماءاللہ کی مہرات کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر انسان سے بلا تفریق مذہب و ملت محبت کریں.صحیح راہ دکھانے والی ہوں.اپنے عمل سے ، اپنے حسن اخلاق سے ، اپنے کردار سے ، اپنے حسن سلوک سے، اپنی محبت سے دنیا کے دلوں کو موہ کر

Page 671

خطابات مریم 646 پیغامات آنحضرت ﷺ کے قدموں میں لا ڈالنے والی ہوں.اپنے بچوں کو دین سکھائیں.دین سے گہری محبت ان کے دلوں میں پیدا ہو.دین کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دے سکیں.اعلیٰ اخلاق اُن میں پیدا ہوں اور وہ نمونہ بنیں قرآن مجید کی تعلیم کا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ اور قرآن مجید کی تعلیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 672

خطابات مریم 647 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ قادیان.1980ء ناصرات الاحمدیہ قادیان السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه اللہ تعالیٰ آپ کا اجتماع مبارک کرے.آپ چھوٹی چھوٹی ہیں لیکن کبھی اپنی زندگی کے مقصد کو نہ بھولیں.آپ کے ذہن میں ہر وقت یہ بات رہنی چاہئے کہ آپ احمدی ہیں.احمدیت کے معنی حقیقی اسلام.اگر آپ کا عمل اسلام پر نہیں اور قرآن مجید کے اصولوں پر نہیں چلتیں تو آپ کا دعویٰ غلط ہے.ہر احمدی بچی کچی ہو اعلیٰ اخلاق رکھنے والی ہو ہر ایک کی خدمت کرنے والی ہو.ہر ایک کے دکھ درد میں کام آنے والی ہو.اللہ تعالیٰ آپ کو سچ سچ کی ناصرات بننے کی توفیق عطا فرمائے.آمین والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 673

خطابات مریم 648 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ قادیان.1980ء میری عزیز بہنو ! السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کا سالانہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ مبارک کرے اور اچھے نتائج نکلیں.ہر اجتماع کی کوئی غرض ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں سورۃ النساء آیت 115 میں فرماتا ہے.لا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَّجُوهُمُ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحِ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا (نساء: 115) اسلام ایک مکمل اور عالمگیر مذہب ہے جس نے زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں.اجتماعوں اور مجالس کے متعلق اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ صرف تین قسم کے اجتماع دنیا کے لئے فائدہ مند ہو سکتے ہیں.اوّل مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ جو انجمنیں اپنے اجلاس کریں یا اجتماع بلائیں ان کا مقصد غرباء کی خبر گیری اور حاجت مندوں کی حاجت روائی ہو.دوم : مَنْ أَمَرَ بِمَعْرُوفٍ.اس اجتماع میں نیک امور کی تلقین کی جائے.تعلیم دینی و دنیوی کی اشاعت اعلیٰ اخلاق کا قائم کرنا اس کے اندر آ جاتا ہے.سوم : مَنْ أَمَرَ بِإِصْلَاحِ بَيْنَ النَّاسِ.اس کا مقصد لوگوں کی اصلاح کرنا ہو.پس ہمارے اجتماع میں ان مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے پروگرام بننے چاہئیں.پروگرام کا بھی ایک مقصد ہونا چاہئے کہ گذشتہ سال کے کاموں کا جائزہ لیا جائے اور آئندہ پروگرام بنائے جائیں گذشتہ سال کا موازنہ اس سے پہلے سال سے کیا جائے کہ کتنے فی صد ترقی کی ہے.مومن کا قدم ہمیشہ ترقی کی طرف اُٹھتا ہے، رکتا نہیں پس با ہمی تعاون اور اتحاد ایک دوسرے کے عیب سے چشم پوشی کرتے ہوئے ہر ایک سے ہمدردی اور محبت کا رویہ اختیار کرتے ہوئے شاہراہ غلبہ اسلام پر

Page 674

خطابات مریم 649 پیغامات آگے سے آگے بڑھتے جائیں.ہم قرآن مجید پڑھیں.اس پر عمل کریں اس کی روشنی کو دنیا میں پھیلا ئیں.اس کی تعلیم کو اپنا کر اس کے اصولوں پر چل کر اپنا کردار اور اخلاق اس کی تعلیم کے مطابق بنا کر بنی نوع انسان کی بھلائی کی تڑپ رکھتے ہوئے ہر ایک سے خیر خواہی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے مقاصد کو پا سکیں.دلی دعا ئیں آپ سب کے ساتھ ہیں.آپ سب بھی مجھے اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 675

خطابات مریم 650 پیغامات پہلا جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ گیمبیا 1980ء میری پیاری بہنو السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه سب سے بہترین اور مکمل پیغام قرآن مجید ہے جو ابتداء سے لے کر آج تک مسلمانوں کے لئے ہمیشہ باعث ہدایت رہا ہے.یہ وہ نور ہے اور وہ روشنی ہے جو سب کے لئے یکساں ہے.مگر ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہم نے قرآن کو بھلا دیا.دنیا میں بے چینی اور اضطراب کی وجہ بھی یہ ہی ہے کہ ہم نے قرآن کی تعلیمات بھلا ڈالی ہیں.اب خدا تعالیٰ نے احمدیت کے ذریعہ انسانیت کو زندہ کرنا چاہا ہے لہذا ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اس دنیا کو یاد کروائیں کہ قرآن کریم کی عزت کرنے والے ہوں.اس وجہ سے ہر احمدی عورت کو قرآن کریم آنا چاہئے.ناظرہ یا ترجمہ کے ساتھ ہو.ہمیں اپنا عمل بھی قرآن کے مطابق بنانا ہے.قرآن سے محبت کرنا سیکھیں اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ جذبہ پیدا کریں اور تعلیم قرآن کو رواج دیں.آمین والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 676

خطابات مریم 651 پیغام سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ کراچی 1980 ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم وَعَلَى عَبْدِهِ الْمُسَيَحَ الْمُوَعُود پیاری بہنو السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه پیغامات آپ کا تربیت اور تقسیم اسناد کا جلسہ آج ہو رہا ہے اور اس پیغام کے ذریعہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہورہی ہوں.جن بہنوں اور بچیوں نے اپنی سالانہ کارگزاری کے لحاظ سے سندات حاصل کی ہیں.میں ان کو مبارک باد پیش کرتی ہوں.اللہ تعالیٰ اس سے بڑھ کر خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے.ہماری یعنی لجنہ کی توجہ آپ کی تربیت کی طرف کم تھی.موجودہ سائنسی دور میں دلائل اور بحث سے منوانے کا اثر دوسرے پر کم ہوتا ہے اچھے نمونے کا زیادہ ہوتا ہے.اگر ہمارا عمل ہمارے دعوئی کے مطابق ہے.قرآن مجید کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق ہے تو خود بخود دنیا کے دل ہماری طرف مائل ہونگے.دنیا کے دوسرے ممالک اور مذاہب کی خواتین تو اس لئے حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں کہ ان کو جائز حقوق حاصل نہیں.مسلمان خاتون کو تو چودہ سو سال قبل وہ حقوق حاصل ہو چکے ہیں جو آج بعض جگہ ترقی یافتہ ملک کی خواتین کو بھی نصیب نہیں لیکن حقوق کے ساتھ ساتھ دوسری چیز ذمہ داری ہے.اسی چیز کو قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان فرمایا - وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعْروفِ جس طرح عورتوں پر کچھ ذمہ داریاں ہیں ایسے ہی مطابق دستور انہیں بھی کچھ حقوق حاصل ہیں یعنی قرآن کریم یہ تعلیم دیتا ہے کہ حقوق لینے کے ساتھ ساتھ اپنی شخصی اور قومی ذمہ داریوں کا بھی احساس کرو.عورت اگلی نسل کی ماں ہے.مرد سے زیادہ اس کی تعلیم و تربیت ہونی چاہئے اور صحیح تربیت کے لئے ضروری ہے کہ دین سے پوری طرح واقف ہو.ایک ماں جسے خود دین سے دلچپسی

Page 677

خطابات مریم 652 پیغامات نہیں.مذہب کے اصولوں پر عمل نہیں کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ اس کی گود سے اسلام کے فدائی پیدا ہو نگے.بس بہت زور دیں بچیوں کو دین سکھانے پر قرآن کا ترجمہ جس کا مرکزی نقطہ ہے.پھر قرآن وحدیث کے مطابق عمل کرنے پر.آپ صرف ایک قیادت یا شہر کی تربیت ہی نہیں کر رہیں.غور کریں تو پوری نسل کی تربیت ان کے ذریعہ سے ہوگی.تاریخ احمدیت میں اگلے نو سال بے انتہا اہمیت کے حامل ہیں ایک بچی بھی ایسی نہیں ہماری جماعت میں ہونی چاہئے جو نا خواندہ ہو یا جسے قرآن ناظرہ نہ آتا ہو.پھر اپنی عمر کے مطابق اسے ترجمہ اور دینی تعلیم سے واقفیت نہ ہو.خدا کرے ہماری کارکنات اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں اور خدا کرے بچیوں اور ان کی ماؤں میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ اصل تعلیم دینی ہے اور ہم نے دنیا کے لئے نمونہ بننا ہے.دعا ہے کہ کراچی کے حلقہ جات کو اس سلسلہ میں نمایاں کام کرنے اور قربانی دینے کی توفیق ملے.

Page 678

خطابات مریم 653 پیغام برائے لجنہ اماءاللہ سیالکوٹ 1980ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ میری عزیز بہنو ممبرات لجنہ اماءاللہ سیالکوٹ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه پیغامات سیالکوٹ ان شہروں میں سے ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا دوسرا وطن قرار دیا ہے.سیالکوٹ کی لجنہ ابتداء سے ہی بہت مستعد، بیدار اور قربانی دینے والی رہی ہے.جس کا سہرا سیدہ فضیلت بیگم صاحبہ مرحومہ کے سر تھا.حضرت مصلح موعود نے اپنی کئی تقاریر میں قادیان اور دوسرے شہروں کی مستورات کو سیالکوٹ کی احمدی خواتین کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین فرمائی.لیکن اب ایک عرصہ سے سیالکوٹ کی لجنہ اپنے سابقہ مقام سے بہت دور جا چکی ہے اور سرفہرست لجنات میں اس کا شمار نہیں رہا جس کی یقینی وجہ نمبرات کی سستی ہے.نمایاں کام وہی لجنہ کر سکتی ہے جسے عہدیداروں کا، تمام مہرات کا تعاون حاصل ہوا اور عہد یدار اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ممبرات میں روح پھونکنے والی ہوں.میری بہنو! جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ تمام جماعت کو اس طرف توجہ دلا چکے ہیں کہ اگلی صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے.اس کے استقبال کی تیاری میں ہر احمدی مرد عورت اور بچہ کو لگ جانا چاہئے.ہمیں بھی اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کیا کر رہے ہیں.ہم تو ایک کام کرتے ہیں منزل کے قریب پہنچتے ہیں پھر نئے سرے سے وہ کام شروع کرتے ہیں.نہ ہماری عورتوں میں دینی تعلیم کا وہ معیار ہے جو ہونا چاہئے نہ تربیتی لحاظ سے وہ اعلیٰ درجہ کے معیار پر قائم ہیں.اگر آپ میں دینی جوش نہ ہوگا آپ کے بچوں میں کیسے پیدا ہو گا.اگر آپ میں قربانی کا جذ بہ نہ ہو گا وہ اپنے وقت پر کیسے قربانی کریں گے.پس میری عزیز بہنو اور بچیو! اپنے عمل اور اپنے کردار اور اپنی قربانیوں سے یہ ثابت کرو کہ تم ایک زندہ قوم کی خواتین ہو اور تم میں وہی جذبہ موجود ہے جو چودہ سو سال پہلے کی مسلمان خواتین میں تھا.خدا کرے ایسا ہی ہو.والسلام.خاکسار.مریم صدیقہ ( رجسٹر رپورٹ 1980ء)

Page 679

خطابات مریم 654 پیغامات لجنہ اماءاللہ گیمبیا کا دوسرا جلسہ سالانہ 1981ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ میری عزیز بہنو ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی صدر بشری صاحبہ نے اطلاع دی ہے کہ آپ کا سالانہ جلسہ 17 /1اپریل کو منعقد ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ یہ جلسہ بہت مبارک کرے پندرہویں صدی شروع ہونے پر یہ آپ کا پہلا جلسہ ہو رہا ہے.خدا کرے آپ سب مل کر ایسے پروگرام بنا ئیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو زیادہ سے زیادہ جذب کرنے والے ہوں اور اس ملک میں احمدیت کے پھیلنے میں ممد ہوں.ہم دنیا کے کسی بھی کو نہ میں بستے ہوں ہمارا فرض ایک ہی ہے کہ غلبہ دین حق کے لئے کوشش کریں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کو ہر ایک تک پہنچانے کی کوشش کریں کہ اس سے بڑھ کر کوئی تعلیم نہیں.مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم خود بھی قرآن مجید کو سمجھتے ہوں اور اس پر عمل کرتے ہوں.اس لئے سب سے پہلا فرض تو آپ کا یہ ہے کہ خود قرآن مجید کا ترجمہ سیکھیں.مطلب سمجھیں.پھر اس پر عمل ہو پھر اس کی تعلیم سے اپنے بچوں کو واقف کرائیں.ان کے دلوں میں مذہب کی محبت پیدا کریں تا آپ کی اگلی نسل آئندہ پڑنے والی ذمہ داری کو سنبھالنے کے لئے تیار ہو.میں آپ سے بہت دور ہوں.لیکن دل سے آپ سے نزدیک ہوں آپ سب کو اپنی دعاؤں میں یا د رکھتی ہوں آپ بھی مجھے اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.کئی سال سے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ممالک بیرون سے خواتین کے وفود آرہے ہیں اور اپنی آنکھوں سے ان دنوں کی برکات کا مشاہدہ کرتے ہیں لیکن ابھی تک گیمبیا سے کوئی عورت جلسہ پر نہیں آئی کوشش کریں کہ اس سال کے جلسہ سالانہ پر ایک دو عورتیں ضرور آئیں.گھانا.نائیجیر یا اور سیرالیون سے تو کچھ نہ کچھ خواتین آجاتی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی حفاظت میں رکھے اور دین حق کی ترقی کے لئے

Page 680

خطابات مریم 655 زیادہ سے زیادہ قربانیاں دینے کی توفیق عطا فرمائے.والسلام آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ الفضل 8 جولائی 1981ء پیغامات

Page 681

خطابات مریم 656 پیغامات لجنہ اماءاللہ ایسٹرن ریجن گھانا کا پہلا سالانہ اجتماع میری پیاری بہنو ! بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 30 رمئی 1981ء السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ لجنہ اماءاللہ ایسٹرن ریجن گھانا پہلی مرتبہ اپنا سالانہ اجتماع منعقد کر رہی ہے.میں اس ریجن کی بہنوں کو اس پہلے اجتماع کے موقع پر مبارکباد دیتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کے بہترین نتائج پیدا فرمائے.آمین.اس کانفرنس (اجتماع) کا سب سے اہم مقصد یہ ہونا چاہئے کہ لجنہ کی ممبرات اپنے سارے سال کے کام کا جائزہ لیں اور معلوم کریں کہ گزشتہ سال کی نسبت انہوں نے کس قدر اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی ہے اور پھر آئندہ کے لئے ایسا لائحہ عمل تجویز کریں کہ جس سے کامیابی حاصل ہو.ہر احمدی کا مطمع نظر خواہ وہ ( مرد یا عورت) کسی بھی ملک میں رہتا ہو دین حق کی اشاعت ہے اور یہ دوطریقوں سے ہو سکتا ہے ایک تو یہ کہ دین حق کی صداقت دوسرے مذاہب کے سامنے دلائل کے ساتھ پیش کی جائے اور دوسرے یہ کہ اسلامی تعلیم پورے طور پر اپنا کر دنیا کے سامنے عملی نمونہ پیش کیا جائے.پہلے اُصول پر عمل پیرا ہونے کے لئے صرف قرآن کریم کا پڑھنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ترجمہ وتفسیر بھی جاننا ضروری ہے اور ان دلائل کا مطالعہ جو اسلام کی صداقت سے متعلق ہیں کا جاننا اور پھر ان کا دنیا کے سامنے صحیح طور پر پیش کرنے کا طریق جاننا بھی از بس ضروری ہے کیونکہ اگر تم خود ہی مذہب کے متعلق کچھ نہیں جانتیں تو پھر دوسروں کو سکھا نہیں سکتیں.دوسرے طریق کو اپنانے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ تم اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو کیونکہ تمہارے اعمال اور تمہارے الفاظ میں تضاد نہیں ہونا چاہئے.تمہیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ آیا تم اسلامی احکام پر عمل پیرا ہو یا نہیں.کیونکہ اگر ہم خود ہی اسلامی احکام پر عمل نہیں

Page 682

خطابات مریم 657 پیغامات کریں گے تو پھر دوسروں کو بھی منو انہیں سکیں گے اور جس سے وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ جب تم خود ہی اسلامی تعلیمات و احکام پر عمل نہیں کر سکتے تو پھر ہمیں کس طرح ان کو تسلیم کرنے کا کہہ سکتے ہو یا پھر وہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ اسلام ایک زندہ مذہب نہیں ہے اور یہ کہ اس کے بعض احکامات اس موجودہ دور میں عمل کرنے کے لائق نہیں ہیں.اس لئے میں اپنی بہنوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتی ہوں کہ وہ مذہب کے مطالعہ کی طرف خصوصی توجہ دیں.ایک شخص کو مذہب سے گہر اعلم اور اس کی تفاصیل جانتے ہوئے اخلاص کے ساتھ اور پوری محنت کے ساتھ اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرنی چاہئے.اپنے بچوں کی تربیت ایسے طریق سے کریں کہ ان کے دلوں میں دین حق کی محبت پیدا ہو جائے اور اس طرح گھانا کا ہر احمدی خواہ مرد یا عورت نسلاً بعد نسل دین حق کے جھنڈے کی حفاظت کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو ان ہدایات پر عمل کرنے کی طاقت بخشے.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام آپ کی مخلصہ مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ الفضل 4 /اگست 1981ء

Page 683

خطابات مریم 658 پیغامات پیغام برائے چوتھا سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ گی آنا میری بہنو ! گی آنا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه مکرمی محتر می جناب محمد اسلم صاحب قریشی کے ذریعہ معلوم ہوا کہ آپ کا سالانہ اجتماع اور دستکاری کی نمائش 28 فروری 1982 ء کو منعقد ہو رہی ہے.ان کی خواہش پر اس پیغام کے ذریعہ آپ کے اس اجتماع میں شرکت کر رہی ہوں.ہماری بہنیں دنیا کے کسی حصہ میں بھی آباد ہوں ان کا ایک ہی کام ہے تو حید باری تعالیٰ کا قیام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو معبوث فرمایا تھا.ہم منہ سے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں لیکن ہمیں خصوصاً عورتوں کو ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ کیا ہمارا عمل ہمارے قول کے مطابق ہے.اس میں کوئی تضاد تو نہیں ہماری زندگیاں ہر قسم کی شرک و بدعت سے پاک ہونی چاہئیں اور قرآن مجید کے متعلق کسی نے حضرت عائشہ سے پوچھا تھا کہ آپ کے اخلاق کے متعلق کچھ بتا ئیں تو آپ نے فرمایا تھا کانَ خُلُقُهُ القُرآن یعنی قرآن مجید کی جو تعلیم آپ دنیا کو دیتے تھے اس پر خود بھی عمل تھا.کوئی تضاد آپ کی تعلیم اور آپ کے عمل میں نہ تھا.قرآن مجید کی عملی تفسیر آپ نے اپنی زندگی کے ہر فعل سے پیش فرما دی.پس میری بہنو آپ کا سب سے بڑا فرض یہی ہے کہ آپ خود قرآن پڑھیں اور اس کا ترجمہ سیکھیں تفسیر سیکھیں تا آپ اس پر عمل بھی کر سکیں جب آپ خود عمل کریں گی تو آپ کے بچے بھی آپ کی نقل کریں گے اور اس طرح ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلتا رہے گا.حضرت خلیفة المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کئی سال سے جماعت کو غلبہ اسلام کی

Page 684

659 پیغامات خطابات مریم بشارتیں دے رہے ہیں کہ اگلی صدی غلبہ اسلام کی صدی ہوگی لیکن بڑی بد قسمت ہم ہوں گی اگر اس غلبہ کے لانے میں اور قربانیوں میں ہمارا کوئی حصہ نہ ہو.پس بہت توجہ دیں اپنی دینی تعلیم کی طرف آپ کا کوئی فعل ایسا نہیں ہونا چاہئے جو دھبہ بنے آپ کی وجہ سے جماعت احمدیہ پر.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.اس کے لئے دعا ئیں بھی بہت کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہم سب کو حاصل ہو اور مقبول خدمت کی توفیق ملے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور اس ملک میں رہتے ہوئے آپ کو اسلام کی خدمت کی زیادہ سے زیادہ توفیق ملے.میں آپ سب کے لئے دعا کرتی ہوں آپ بھی مجھے اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 685

خطابات مریم 660 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ.روز بل.ماریشس 1982 ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم ممبرات لجنہ اماء اللہ روز ہل السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه آج ۱۹ / مارچ کو آپ کی صدر صاحبہ کی طرف سے اطلاع ملی کہ روز ہل میں لجنہ اماءاللہ کا اجتماع دو اپریل کو منعقد ہو رہا ہے.لیکن ترجمہ کرنے ، اس کی کاپی تیار کرنے اور پوسٹ کرنے کے لئے ایک دو دن چاہئے ہوتے ہیں اس لئے آئندہ اس بات کی احتیاط کی جائے کہ وقت سے کم از کم تین ہفتہ یا مہینہ پہلے پیغام کے لئے لکھا جائے بہر حال مختصر سا پیغام ارسال ہے اور پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں ذہنی لحاظ سے اور دعاؤں کے لحاظ سے شامل ہو رہی ہوں.سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کے ان احسانوں کا شکر ادا کرتی ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے نتیجہ میں اس نے ہمارے دلوں میں اپنی محبت پیدا کی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کی اور اسلام کی خاطر قربانی دینے کا جذبہ پیدا کیا.پھر میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ جس غرض سے آپ اجتماع منعقد کر رہی ہیں وہ پوری ہو.اجتماع کی سب سے بڑی غرض آپ میں محبت و اخوت کا جذبہ، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جذ بہ بغیر دوسرے سے حسد کئے اور تکلیف دیے پیدا کرنا ہے نیز سارے سال کے کاموں کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے پر غور کرنا کہ جو پروگرام گزشتہ سال آپ نے بنائے تھے ان پر سو فیصد عمل ہو چکا ہے یا نہیں اور کس کس شعبہ میں کیا کیا کمی رہ گئی اس کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ کے لئے پروگرام بنا ئیں ایک وسیع پروگرام ایک جامع پروگرام جس کے نتیجہ میں آپ جہاں اپنی مستورات اور بچیوں کی تربیت و تعلیم کا انتظام کر سکیں وہاں غیر مسلموں تک اسلام کا پیغام اور

Page 686

خطابات مریم 661 پیغامات غیر احمد یوں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچا ئیں.اس لئے دو باتوں کو آپ کو مدنظر رکھنا ہوگا ایک تو یہ کہ آپ کو خود ان باتوں پر عبور حاصل ہو جو آپ دوسروں تک پہنچانا چاہتی ہیں دوسرے آپ کے قول اور فعل میں تضاد نہ ہو آپ کا اپنا نمونہ بہت حسین بہت پیارا ہو.مجھے خوشی ہے کہ بشری سعادت صاحبہ سیکرٹری ناصرات بہت تند ہی سے کام کر رہی ہیں اللہ تعالیٰ تمام شعبہ جات کی سیکرٹریان کو اسی جذبہ اور خلوص سے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.کام نیک نیتی سے ہو باہمی تعاون سے ہو ایک دوسرے پر کوئی اعتراض نہ ہو پیار سے اس طرح بڑھیں کہ سب کے قدم ایک ساتھ اُٹھتے جائیں.حضرت خلیفہ اسیح تو چاہتے ہیں کہ آپ دوڑیں تیزی کے ساتھ اور ایک ایک عورت آپ میں سے داعی الی اللہ بن جائے ، مبلغ بن جائے اس کے لئے آپ کو بہت تیاری کی ضرورت ہے بہت محنت کی ضرورت ہے ایک نئے عزم اور جوش کی ضرورت ہے خدا کرے احمدی عورتیں دنیا کے کسی ملک میں ہوں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ قربانیاں دیتی چلی جائیں تا اسلام کی فتح کا دن آ جائے.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 687

خطابات مریم 662 پیغامات پیغام برائے دوسرا سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ناروے 1982ء اس پیغام میں حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے دعاؤں کے بعد تحریر فرمایا کہ جماعت احمدیہ کے افراد دنیا کے کسی کونے میں ہوں ان سب کا مقصد ایک ہی ہے کہ اسلام کا غلبہ ہو، تو حید کا قیام ہو اور سب دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن تلے آ جائے.اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے ہماری پوری پوری کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارے قول و فعل اور ہمارے کردار کامل توحید کا اعلان کر رہے ہوں.ہمارے قول وفعل میں کوئی تضاد نہ ہو ہمارا بھروسہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ پر ہو.ہماری زندگی کی راہیں قرآن مجید کی عظیم تعلیم کے مطابق ہوں ہمارے عمل میں اُسوہ حسنہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلک ہو.آپ نے فرمایا.اس ملک میں رہتے ہوئے بہت بھاری ذمہ داری آپ پر اپنی نئی نسل کی تربیت کی ہے کہ وہ آج کی مادہ پرست دنیا کی رنگینیوں میں نہ ڈوب جائیں.بلکہ ان میں خدا تعالیٰ کا خوف ہو ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو ان کے دل میں حضرت اقدس اور آپ کے خلفاء کی محبت ہو وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے ہوں.اگر آپ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی تربیت ان اُصولوں پر کریں تو بہت خدمت جماعت کی آپ انجام دیں گی ورنہ ایک نسل بھی بھٹک گئی تو انہیں سیدھے راستے پر لانا بہت مشکل ہو جائے گا آخر پر آپ نے فرمایا بہت دعا کریں خود بھی اللہ تعالیٰ آپ کو صراط مستقیم پر قائم رکھے اور دعا کی عادت ڈالیں اپنے بچوں کو ابھی سے تارت حقیقی سے آپ کا اور ان کا تعلق قائم ہو.“ (الفضل 13 اکتوبر 1982ء)

Page 688

خطابات مریم 663 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ کینیڈا 1982ء پیاری ناصرات الاحمدیہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه ٹورنٹو.برنیٹ فورڈ اور بریملی کی ناصرات آج اپنے اجتماع کے لئے جمع ہیں اور میں بھی اس مختصر سے پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں شامل ہو رہی ہوں.پیاری بچیو! آپ کا اجتماع کوئی میلہ نہیں کوئی تماشا نہیں یہ اجتماع اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس سے چھوٹی سی عمر سے ہی آپ کو احساس دلایا جائے کہ آپ باقی ساری دنیا کی بچیوں.مختلف ہیں.ایک زندہ جماعت کی بچیاں ہیں اس جماعت کی بچیاں جس کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کا غلبہ اس جماعت کے ساتھ مقدر کر رکھا ہے.جب اللہ تعالیٰ نے غلبہ دینا ہے تو اس کے لئے ہمیں بھی تو کچھ کرنا ہے.کبھی سوچا ہے کیا کرنا ہے اور آپ کی کیا ذمہ داریاں ہیں.اسلام کے غلبہ کا مطلب ہے کہ ساری دنیا مسلمان ہو جائے اور اسلام کے احکام پر عمل کرنے لگ جائے اس تعلیم پر جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت علی نازل کی تھی.تو دوسروں کو سکھانے کے لئے پہلے تو خود عمل کرنا ہے اس لئے بچپن سے ہی آپ کوشش کریں کہ مذہب کو زیادہ سے زیادہ سیکھ سکیں پھر جو کچھ پڑھیں جو کچھ سیکھیں خود جائزہ لیتی رہیں کہ اس پر خود بھی عمل کریں.جوں جوں آپ بڑی ہوتی جائیں گی آپ کی ذمہ داریاں بڑھیں گی.اس لئے ابھی سے آپ کے دلوں میں اسلام کی محبت مذہب کے لئے قربانی کا جذبہ اپنا وقت ، پیسے ، مذہب کی خاطر قربان کرنے کا جذبہ ہو.اپنے اخلاق اسلام کی تعلیم کے مطابق بنائیں.جس کام سے ہمارا مذہب روکتا ہے اس کے قریب بھی نہ جائیں خواہ ساری دنیا اسے کر رہی ہو.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور آپ جلد سے جلد اس قابل ہوں کہ آئندہ پڑنے والی ذمہ داریوں کو اُٹھا سکیں اور ہمارے دلوں کو اطمینان حاصل ہو کہ ہماری اگلی نسل ہم

Page 689

خطابات مریم 664 سے بہت کام کرنے اور قربانی دینے والی تیار ہوگئی ہو.خدا کرے ایسا ہی ہو.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.خاکسار آپ سے پیار کرنے والی مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ پیغامات

Page 690

خطابات مریم 665 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ کینیڈا 1982ء ممبرات لجنہ اماءاللہ.کینیڈا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه آپ کے سالانہ اجتماع پر اس پیغام کے ذریعہ شرکت کر رہی ہوں.اس سال کا اہم ترین واقعہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا اس دنیا سے رخصت ہونا ہے.آپ کا وجود ایک ابر رحمت کی طرح تھا.جو لگا تار ساڑھے سولہ سال ہم پر برستا رہا.آپ نے جماعت کو ہر حال میں مسکرانا سکھا یا ہر ایک سے محبت کرنی سکھائی.آپ کی خلافت میں جماعت نے بہت ترقی کی دنیا کے کونے کونے تک تبلیغ پھیلی اور قرآن مجید کی اشاعت ہوئی.آپ سے جدائی ایک زلزلہ کی طرح تھی لیکن اس موقع پر بھی ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو آسمان سے بارش کی طرح برستے دیکھا.اللہ تعالیٰ بہت وفادار ہے وہ اس وقت تک کسی کو نہیں چھوڑ تا جب تک بندہ خودا سے نہ چھوڑے.اس نے احمدیوں کو اپنے فضل سے اپنے وعدوں کے مطابق پھر ایک ہاتھ پر جمع کر کے اپنی قدرت نمائی کا ثبوت دیا اور قدرت ثانیہ کا پھر ایک بار پوری شان سے ظہور ہوا.آپ سب کو چاہئے کہ نظام خلافت سے ہمیشہ وابستہ رہیں کہ نظام خلافت سے وابستہ رہے بغیر ہم ترقی کر ہی نہیں سکتے احمدیت کی ترقی وابستہ ہے نظام خلافت کے ساتھ.حضرت خلیفتہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے تمام احکام پر آپ کے مقررہ کردہ عہدہ داروں کے تمام اجتماع پر عمل کرنا آپ کا فرض ہے.اپنے بچوں کی بھی تربیت کریں اور جہاں نظام خلافت کے خلاف کوئی عصر دیکھیں اس سے خود بھی بچیں اور اپنی اولا د کو بھی ایسے عناصر سے محفوظ رکھیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.غلبہ اسلام کی صدی انشاء اللہ عنقریب شروع ہونے والی ہے یہ کبھی نہ بھولیں کہ آپ کے بھی کچھ فرائض ہیں اور وہ یہی کہ آپ نے قرآن کریم کی تعلیم کو اپنے نمونہ سے پھیلانا ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ آپ خود قرآن پڑھیں سمجھیں اور اس کے مطابق عمل کریں.اپنے کو

Page 691

خطابات مریم 666 پیغامات قرآن کا ترجمہ سکھائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب قرآن مجید کی بہترین تفسیر ہیں.ان کو پڑھیں اور بار بار پڑھیں.جتنا مرکز سے کوئی دور ہو اتنا ہی اس میں خرابی کا زیادہ احتمال ہوتا ہے.زیادہ سے زیادہ مرکز آنے کی کوشش کریں اور وہاں رہتے ہوئے اپنے جماعتی کاموں میں حصہ لیں.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.آمین والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 692

خطابات مریم 667 پیغامات سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ انگلستان 1982ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ میری بہت پیاری بچیو ناصرات الاحمدیہ انگلستان نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه آج آپ کا اجتماع ہے اور اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں شرکت کر رہی ہوں.آپ کا نام ناصرات ہے جو ناصرہ کی جمع ہے.یعنی مدد کر نے والی ناصرات الاحمدیہ کے معنی ہیں احمدیت کی مدد کرنے والیاں.سوچیں آپ سلسلہ کی کیا مدد کر رہی ہیں اور کون کون کر رہی ہے کون نہیں کر رہی.جب یہ نام آپ کو دیا گیا ہے تو سب کو ہی دیا گیا ہے چند کو نہیں تو سب کو ہی اپنے آپ کو اس نام کا مصداق قرار دینا چاہئے.آپ کیا مدد کر سکتی ہیں.کس حد تک کر سکتی ہیں اس پر آپ کو غور کرنا چاہئے اور غور کرنے کے لئے پہلے آپ کو اپنی منزل کا تعین کرنا ہو گا کہ آپ کی منزل کیا ہے تو بچیو ہماری منزل تو احمدیت کا غلبہ ہے ساری دنیا احمدی مسلمان ہو جائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے ذریعہ وہ اپنے رب کو پہچان جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ساری دنیا کی نجات کے لئے آئے تھے مان لے.قرآن کے اُصولوں پر چلنے لگے.اور یہ دنیا ایک مثالی دنیا اور جنت بن جائے اسی کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا اور اسی مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری کیا.جس کی وجہ سے جماعت میں برکات نازل ہوتی آپ نے بھی دیکھی ہونگی.ہمارے بہت ہی پیارے خلیفہ اللہ تعالیٰ کے بلانے پر ان کے پاس چلے گئے اور اللہ تعالیٰ نے ہم سے محبت کرنے کے لئے ہمیں ایک اور خلیفہ عطا کر دیا.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے بھی بچوں سے بہت ہی پیار کیا اور یہ بھی بہت پیار کرتے ہیں.اس لئے آپ کا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور دین کو دنیا پر مقدم کریں کس طرح ؟

Page 693

خطابات مریم 668 پیغامات -1 ہر وقت دل میں احساس پیدا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے اس کی ہماری ہر حرکت پر نظر ہے کوئی بُرا کام نہ کریں.2 کوشش کر کے نیکیاں کریں.3- اپنے اخلاق درست کریں.-4 قرآن مجید پڑھیں عمر کے مطابق ترجمہ سیکھیں.5- دین کے احکام پر عمل کریں.6- اپنے میں اطاعت کا جذبہ پیدا کریں پہلے ماں باپ پھر عہدہ داران سب سے بڑھ کر خلیفہ وقت کی اطاعت.- نماز با قاعدگی سے اور وقت پر پڑھا کریں بچپن سے مال کی قربانی کی عادت ڈالیں.اگر آپ میں یہ خوبیاں پیدا ہو جائیں تو بڑی ہو کر آپ لجنہ اماءاللہ اور جماعت کی ایک اچھی کا رکن بنیں گی.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.والسلام آپ سے محبت کرنی والی مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 694

خطابات مریم 669 پیغامات سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ لنڈن 1982ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم وعلى عبده المسيح الموعود میری عزیز بہنو ! لنڈن السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه اس مختصر پیغام کے ذریعہ اور دعاؤں کے ذریعہ آپ کے سالانہ اجتماع میں شمولیت کر رہی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں میں برکت ڈالے اور آپ کے اس اجتماع کو بہت بابرکت کرے.مفید نتائج نکلیں نیا عزم پیدا ہو اور آئندہ سال آپ پورے خلوص اور لگن کے ساتھ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لئے کام کر سکیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مہدی علیہ السلام کو غلبہ اسلام اور جماعت کی ترقی کی بہت بشارتیں دی تھیں.آپ نے جب دعوئی فرمایا آپ کہتے تھے.ہزاروں لوگ یقین کے ساتھ اس وقت کہتے ہوں گے کہ ان کی وفات کے ساتھ یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا اور ایک کہانی بن جائے گی مگر اللہ تعالیٰ کے منہ سے نکلی ہوئی بات پوری ہو کر رہتی ہے کہ ہم تو اس کی قدرت اور خدائی کا ثبوت ہیں وہ فرماتا ہے لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی.میں اور میرے رسول غالب آ کر رہیں گے.بڑی سے بڑی روک بھی اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے مقابلہ میں جھاگ کی طرح ختم ہو جاتی ہے.احمدیت کی 93 سالہ تاریخ کے ہر دن اور ہر رات نے یہ گواہی دی اور آج جو انسان اکیلا تھا وہ ایک کروڑ بن چکا ہے.پھر اس سلسلہ کی روحانی زندگی کیلئے حضرت مہدی علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ آپ ایک انسان ہیں وفات پائیں گے.لیکن آپ کے بعد قدرت ثانیہ آئی گی جو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی بشرطیکہ ہم ایمان بالخلافت پر قائم رہے اور ہمارے اعمال اس کے مطابق ہوتے رہے اور اس کے قیام کے لئے ہم قربانیاں دیتے چلے گئے خلیفہ انسان ہوتا ہے وہ اپنے وقت پر جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر وارد ہوتی ہے اس دنیا سے منہ موڑ کر اپنے رب حقیقی کے حضور حاضر ہو جاتا ہے لیکن خلافت ہمیشہ زندہ رہے گی انشاءاللہ.حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی وفات بھی زلزلہ کی طرح تھی ایک بہت ہی پیارا وجود تھا جو

Page 695

خطابات مریم 670 پیغامات ہمیں سوگوار کر گیا.انہوں نے 17 سال میں جو عظیم الشان خدمات اسلام کی ہیں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گی جماعت نے خلافت ثانیہ میں نمایاں ترقی کی لیکن اللہ تعالیٰ جس کا مومنین سے وعدہ تھا کہ وہ ان میں خلیفہ کھڑا کرتا رہے گا اس نے اپنی قدرت نمائی کا ثبوت دیتے ہوئے.جماعت کو ایک ہاتھ پر کھڑا کر دیا.پس آپ سب کا فرض ہے کہ خلافت کی اطاعت کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ قربانیاں پیش کریں.کوئی جماعت ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کے مرد اور عورتیں یکساں قربانیاں نہ دیں جس طرح مرد کام کر رہے ہیں تبلیغ کر رہے ہیں اسی طرح آپ کو اپنا فرض ادا کرنا چاہئے ہر عورت کو اپنے دائرہ میں تبلیغ پر بہت زور دینا چاہئے اور اپنے عمل سے اپنے قول کو ثابت کرنا چاہئے جب تک غیروں پر یہ اتمام حجت آپ نہیں کرتیں کہ جو نعمت ہمارے پاس ہے وہ آپ کی تعلیم سے بہتر ہے اور آپ کا عمل اس پر مہر نہیں لگا تا کہ جو آپ کہہ رہی ہیں وہ سچ ہے آپ کی زبان میں بھی اثر نہیں ہوگا.اگلی صدی احمدیت کی ترقی کی صدی ہے.میری بہنو کوشش کریں کہ آپ کا اس میں نمایاں حصہ ہو پھر سب سے بڑی ذمہ داری جہاں آپ کی یہ ہے کہ آپ اسلام کی تعلیم کا چلتا پھرتا نمونہ اپنے کو بنائیں اسی طرح اگلی نسل کی تربیت کی بہت بڑی ذمہ داری آپ پر ہے آپ چاہیں تو اپنی بچیوں کو آنے والی نسل کی ایک بنیاد بناسکتی ہیں اور چاہیں تو اسلام سے بھی برگشتہ کر سکتی ہیں اور خدا نہ کرے ایک نسل بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل گئی تو صدیوں تک اصلاح ممکن نہیں آپ بہت توجہ دیں گھروں میں ان کی تربیت کی ان میں دین کی محبت پیدا کرنے کی دین سیکھنے کی ان پر عمل کرنے کی.محبت پیدا کریں ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی.جذ بہ پیدا کریں خلیفہ وقت کی مکمل اطاعت اور آپ سے وفاداری کا.شوق پیدا کریں ان میں قربانیوں کا اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے تا آپ کی قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل آپ کو حاصل ہو اور تاریخ احمدیت میں ہمیشہ آپ کے نام زندہ رہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام.آپ کی بہن.مریم صدیقہ.صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ

Page 696

خطابات مریم 671 پیغامات پیغام ناصرات الاحمدیہ ماریشس 1982ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم نَحْمَدُه وَنَصَلَّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ناصرات الاحمدیہ ماریشس السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آپ کی سیکرٹری صاحبہ نے اطلاع دی ہے کہ آپ کا سالانہ اجتماع ہو رہا ہے اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کی مجلس میں شامل ہورہی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کا اجتماع مبارک کرے اور اس کے صحیح نتائج نکلیں.اجتماع کے بہت فائدے ہیں آپ سب اکٹھی ہوتی ہیں ایک دوسری سے واقفیت ہوتی ہے.آپس کے تعلقات بڑھتے ہیں مقابلوں میں حصہ لیتی ہیں آگے بڑھنے کی روح پیدا ہوتی ہے.یہ اجتماع آپ کو سبق دیتے ہیں کہ آپ نے نہ صرف تقریری تحریری مقابلوں میں آگے بڑھنا ہے اور نہ صرف اپنی جماعت کی لڑکیوں سے آگے بڑھنا ہے بلکہ آپ نے دنیا کی ہر قوم کی بچیوں سے علم میں اخلاق میں اور ہر خوبی میں آگے بڑھنا ہے.اس لئے جو آپ کی عہدہ دار سکھائیں.وہ شوق سے سیکھیں.پھر اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کا عمل آپ کی تعلیم کے مطابق ہو.یہ نہیں کہ کہیں کچھ اور کریں کچھ.ہم خواہ کسی ملک میں ہوں ہم سب کا مقصد ایک ہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا کہ جلد سے جلد اسلام کا غلبہ روئے زمین پر ہو.اس غلبہ میں ہماری کوششوں کا دخل بھی ہونا چاہئے اور وہ یہ کہ ہم دین سیکھیں اس کے احکامات پر عمل کریں اور دوسروں کے لئے آپ پیارا نمونہ نہیں کہ ہمیں دیکھ کر ان کے دلوں میں اسلام کی کشش پیدا ہو اور وہ مجبور ہوں یہ کہنے پر کہ سب سے اعلیٰ مذہب اسلام ہی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے اور بہت دعا کیا کریں اپنے لئے کہ اللہ تعالیٰ سچا مسلمان بنے کی توفیق عطا فرمائے.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 697

خطابات مریم 672 پیغام 1982ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیاری ناصرات الاحمدیہ ماریشس السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه اس مختصر پیغام کے ذریعہ تمہارے اجتماع میں شامل ہو رہی ہوں.پیغامات خدا کرے کہ بہت کامیاب اجتماع ہو.جس کے ذریعہ تمہاری ایسی تربیت ہو کہ پہلے سے بڑھ کر تم دین کے کاموں میں حصہ لے سکو یا تمہارے دلوں میں ایسی محبت پیدا ہو جائے کہ با وجود کم عمر ہونے کے تم ہر کام میں اللہ تعالیٰ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دین کو دنیا پر مقدم کر سکو.کہ یہی مقصد انسان کی زندگی کا ہے اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے بھیجا ہے اس لئے نہیں کہ وہ کھائے پیئے عیش کرے اور دنیا سے رخصت ہو جائے.ہر وہ انسان قابل تعریف ہے جو اپنے پیچھے اچھی نسل چھوڑ کر جاتا ہے.تم بھی احساس کرو کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا ہے اور کیا تم اپنی اپنی عمر کے مطابق وہ غرض پوری کر رہی ہو یا نہیں؟ تمہارے دلوں میں ہر وقت یہ خواہش تو پیدا نہیں ہوتی کہ اچھے کپڑے پہننے کو ملیں کھیل کو د میں وقت گزرے یا یہ کہ زیادہ سے زیادہ دین سیکھیں اعلیٰ اخلاق سیکھیں سچائی ، دیانت، نماز کی پابندی ، اعلیٰ اخلاق ، ہر ایک کی ہمدردی ، خلوص دل میں ہوا گر یہ اوصاف دل میں پیدا ہو جائیں تو یقیناً ہم اس دنیا سے جاتے ہوئے خوشی محسوس کریں گے کہ اے رب ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا اور ہماری اگلی نسل ہماری جگہ لینے کو بخوبی تیار ہے.اس ملک میں جہاں بہت سی قو میں آباد ہیں آپ نے اپنے عمل سے ثابت کرنا ہے کہ احمدیت کچی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو احیاء اسلام کے لئے بھیجا ہے.اگر عمل نہ ہوں تو کچھ نہیں اس لئے جو سیکھیں اس پر عمل کر کے دکھا ئیں ابھی سے بہت دعا کرنے کی عادت ڈالیں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 698

خطابات مریم 673 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ.ماریشس 1982 ء بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میری عزیز بہنو ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ماریشس کی...شاخ لجنه Mantagne Blanche چھ مارچ کو اپنا پہلا اجتماع منعقد کر رہی ہے.ان کی نئی صدر صاحبہ نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں پیغام بھجوا ؤں چنانچہ اس پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں شرکت کر رہی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کا یہ اجتماع کا میاب کرے اور اس کے اچھے نتائج نکلیں.کام وہی کامیاب سمجھا جاتا ہے جس کے نتائج اچھے نکلیں.اپنے اس اجتماع میں آپ کو اپنے گزشتہ سال کے کاموں کا جائزہ لینا چاہئے اور گزشتہ سال کی رپورٹ کو سامنے رکھ کر آئندہ کے پروگرام بنانے چاہئیں.تا ہر سال آپ کی قوم ترقی کی طرف جائے پھر پروگرام بناتے وقت یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ ہمارے سارے سال کے پروگرام اسلام کی تبلیغ اور بہنوں اور بچیوں کی تربیت کو مدنظر رکھ کر ہوں کہ جہاں ایک طرف غیر مسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچایا جائے وہاں دوسری طرف اس بات کا بھی جائزہ لیا جاتا رہے کہ ہماری بہنیں بچیاں دینی علم سیکھ رہی ہیں یا نہیں اور ان کا عمل اور نمونہ بھی اس کے مطابق ہے یا نہیں.اس کے لئے ایک تو بہت ضروری ہے کہ اُردو زبان ضرور اپنے بچوں بچیوں کو پڑھائیں تا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لٹریچر پڑھ سکیں اور سمجھ سکیں.اس زمانہ میں تربیت کی بہت ضرورت ہے جس کی موجودہ نسل کی بچیوں میں کمی نظر آتی ہے.جس کی وجہ پورے طور پر احکام دین سے ناواقفیت ہے جان بوجھ کر کوئی غلطی نہیں کرتا.پس اچھی طرح دین کے احکام سکھائیں اور تا کہ ان پر عمل کر سکیں اور باقی دنیا کے لئے نمونہ بن سکیں.آج کا دن یوں بھی تاریخ احمدیت میں ایک یادگار دن ہے 6 مارچ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دشمن جس نے آپ کی شدید مخالفت کی اور جس کی زبان آپ کے خلاف تلوار کی

Page 699

خطابات مریم 674 پیغامات طرح چلی آپ کی پیشگوئی کے مطابق مارا گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہوئی کہ جو تیری اہانت کرے گا اُسے میں ذلیل کروں گا.آپ لوگ ہم سے دور ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ساری جماعت کو ایک ایسی محبت کی لڑی میں پرو دیا ہے کہ خواہ یورپ کی رہنے والی ہو خواہ امریکہ کی خواہ افریقہ کی اور خواہ ماریشس کی سب کے دلوں میں ایک دوسرے سے پیار ہے جس کا نمونہ جلسہ سالانہ پر آنے والی بہنیں مشاہدہ کرتی ہیں.پس میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی زندگی کے حقیقی مقصد کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.آپ کے ذریعہ اس جزیرہ میں احمدیت پھیلے اور اسلام کی صحیح تعلیم آپ ان کو دینے والیاں ہوں اپنے قول فعل اور نمونہ سے.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ پنڈت لیکھرام

Page 700

خطابات مریم 675 پیغامات پیغام برائے لجنہ اماءاللہ ویسٹ کوسٹ امریکہ 1982ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ممبرات لجنہ اماءاللہ ویسٹ کوسٹ امریکہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ ویسٹ کوسٹ کے حلقہ لجنہ کا پہلا اجتماع اس سال منعقد ہو رہا ہے.الحمد للہ.امریکہ بہت بڑا ملک ہے مغربی کنارہ پر بسنے والی بہنوں کے لئے اپنے سالانہ کنوینشن میں شمولیت مشکل ضرور ہے گونمائندگان کی اپنے سالانہ کنوینشن میں حاضری لازمی ہے مگر ویسٹ کوسٹ پر الگ اپنی کنوینشن کرنے سے زیادہ تعداد میں بہنیں شامل ہو سکیں گی اور زیادہ تعداد میں پروگراموں میں حصہ لے سکیں گی.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ویسٹ کوسٹ پر رہنے والی بہنیں اتنی محبت اور دلچسپی رکھنے والی نہیں ہیں جتنا دوسرے شہروں کی.خدا کرے یہ قدم جو اٹھایا گیا ہے بابرکت ہو اور ہر سال مختلف شہروں میں ایسا اجتماع ہوا کرے.اس طرح میزبانی کی ذمہ داری بھی مختلف شہروں کی لجنات پر پڑے گی.اجتماع کی سب سے بڑی غرض یہ ہے کہ آپ جائزہ لیں کہ آپ اپنے فرائض صحیح طور پر ادا کر رہی ہیں یا نہیں اور آپ کے حقیقی مقاصد یعنی غلبہ اسلام کے دن طلوع ہونے کے لئے آپ کیا کوشش کر رہی ہیں.انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی.کیا آپ کا عملی نمونہ آپ کے اخلاق.آپ بنی نوع انسان سے، اپنے سلوک سے، آپ قرآن مجید کی تعلیم کو عیسائیوں کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں اگر نہیں تو پھر جائزہ لیں اپنے آپ کا اپنے ماحول کا اپنے بچوں کا کہ کہیں آپ نے تو ان کا ماحول نہیں اپنا لیا یعنی وہ ماحول جو عیسائیت کا پیش کردہ ہے.اسلام صرف عقائد کا نام نہیں اسلام تو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کی پیدائش سے لے کر انسان کی وفات تک پر گہری نظر رکھتا اور مکمل تعلیم دیتا ہے اگر ہم تعلیم تو لوگوں کو دیں قرآن کی اور عمل ہمارے اس کے خلاف ہوں تو کون توجہ دے گا ہماری باتوں کی طرف.

Page 701

خطابات مریم 676 پیغامات پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور آپس میں تعاون کرتے ہوئے اپنی عہدہ داروں کے ساتھ مل کر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں.یہ نہ سمجھیں کہ ساری ذمہ داری صرف عہدہ داروں پر ہے پس غلبہ اسلام کا وعدہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا گیا ہے اس مہم کی ذمہ داری ہر احمدی مرد اور عورت پر ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ آپ کے ذریعہ سے جلد سے جلد اسلام اس علاقہ میں پھیلے.آمین.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 702

خطابات مریم 677 پیغامات پیغام ممبرات لجنہ اماءاللہ گیمبیا 1982ء بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ممبرات لجنہ اماءاللہ گیمبیا السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی لجنہ اماءاللہ کا تیسرا سالانہ جلسہ منعقد ہو رہا ہے.اس مختصر سے پیغام کے ذریعے اس میں شرکت کر رہی ہوں.ہر ملک میں جہاں جماعت کا سالانہ جلسہ منعقد کیا جائے وہ اس سالانہ جلسہ کا ہی ایک حصہ ہوتا ہے جس کی بنیا د حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھی اور جس سے جماعت نے بہت فوائد حاصل کئے.یہی دعا ہے کہ آپ کا یہ جلسہ بہت کامیاب ہو ان تمام مقاصد کے ساتھ جو ان کے ہیں اور اس ملک میں آپ کے ذریعہ سے اسلام پھیلے.آپ کی تقریروں کے ذریعہ سے، آپ کی باتوں کے ذریعہ سے اور سب سے زیادہ آپ کے نمونہ کے ذریعہ سے قرآن مجید کامل کتاب ہے اور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے.جب تک آپ قرآن نہیں پڑھتیں اس کے مطالب نہیں سمجھتیں آپ اس پر عمل نہیں کر سکتیں اور آج کے ترقی یافتہ دور میں پیدا ہونے والے نئے نئے مسائل کا حل قرآن کے ذریعہ سے تلاش نہیں کر سکتیں.پس میری بہنو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے.جن کا اس دنیا میں آنے کا مقصد اسلام کا غلبہ پھر سے کرنا تھا.یہی مقصد آپ کے خلفاء کا رہا ہے.پس ہمیں بھی جلسوں میں اسی مقصد کو یا درکھنا چاہئے کہ غلبہ اسلام کی مہم میں ہم کیا کردارادا کر سکتے ہیں کیا قربانیاں کر سکتے ہیں تا جلد سے جلد اسلام اس ملک میں پھیلے اور اس ملک کا ہر فرد اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے والا ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر دل و جان سے عمل کرنے والا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فرمانبردار اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے احکامات کی مکمل اطاعت کرنے والا ہونا چاہئے اور یہ جذ بہ صرف مردوں میں نہیں بلکہ ہر عورت اور ہر بچہ میں پیدا ہونا چاہئے.1974 ء سے حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر مختلف ممالک

Page 703

خطابات مریم 678 پیغامات سے جلسہ سالانہ پر وفود آنے شروع ہوئے جن کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے.اب تک جہاں مجھے یاد ہے گیمبیا سے کوئی خاتون جلسہ پر نہیں آئی میری خواہش ہے کہ اس سال ایک یا دو خواتین آئیں جب وہ واپس جا کر یہاں کے چشم دید واقعات سنائیں گی تو باقی خواتین میں بھی یہ جذبہ پیدا ہو گا.اللہ تعالیٰ سب کا حافظ و ناصر رہے.آپ کو زیادہ سے زیادہ محنت اور قربانیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا آنے والی نسلیں آپ کا نام فخر سے لے سکیں.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 704

خطابات مریم 679 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ بی آئی لینڈ 1982ء بسم الله الرحمن الرحيم ممبرات لجنہ اماءاللہ نبی آئی لینڈ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مکرمہ تاجہ خاں کے خط سے معلوم ہوا کہ آپ کا اجتماع گیارہ بارہ اپریل کو ہو رہا ہے.کل 6 اپریل کی ڈاک میں یہ خط ملا ہے بظاہر امید تو نہیں کہ اجتماع تک میرا پیغام مل سکے.بہر حال ارسال ہے اگر اجتماع ہو چکا ہو تو اجلاس میں پڑھ کر سنا دیں.ہراحمدی خاتون اور لجنہ اماءاللہ کی ممبر پر بعض ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن کی ادائیگی کے ساتھ اس کا وجود جماعت کی ایک فرد ہونے کی حیثیت سے قائم رہتا ہے.احمدی خواتین خواہ دنیا کے کسی ملک میں بھی ہوں ان کی ذمہ داریاں یکساں ہیں.جماعت کے ایک فرد ہونے کی حیثیت سے جماعت کے سارے کاموں میں سرگرمی سے حصہ لینا ، اپنی اگلی نسل کی تربیت اچھی طرح کرنا، خود دین کا علم حاصل کرنا ، جماعتی تحریکات خواہ وہ مالی ہوں یا علمی ان پر عمل کرنا اور قربانی کی اعلیٰ مثال قائم کرنا پھر اپنے گھروں کے ماحول کو اسلامی بنا نا قرآن کی تعلیم پر خود عمل کرنا بچیوں سے کروانا ہمارا فرض ہے.فنجی کی بہنیں مرکز سے بہت دور ہیں مرکز میں ان کا آنا بھی دوسری خواتین کی نسبت کم ہے شاید اسی وجہ سے ابھی ان کے اندر کام کا جوش نہیں پایا جاتا جو دوسرے ممالک کی خواتین میں ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے غلبہ اسلام کے جو وعدے کئے ہیں وہ انشاءاللہ بہت جلد پورے ہونگے اس کے آثار نظر آ رہے ہیں.پس کوشش کریں کہ قربانی کا اعلیٰ معیار آپ پیش کر سکیں.قرآن پڑھیں ترجمہ سیکھیں دین کا علم حاصل کریں تا احمدیت میں نئی شامل ہونے والیوں کو آپ تعلیم دے سکیں.صحیح نمونہ پیش کر سکیں.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.میں آپ سب کے لئے دعا کرتی ہوں آپ مجھے اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.مریم صدیقہ.صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 705

خطابات مریم 680 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ قادیان 1982ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وعلى عبده المسيح الموعود میری عزیز بہنو ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه پیغامات آمین.اللہ تعالیٰ آپ کے سالانہ اجتماع کو با برکت کرے اور اس کی اغراض کو پورا کرے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض آپ کو الہاماً يُــخـــي الـديـن وَيُقِيمُ الشَّرِيعَة بیان فرمائی تھی یعنی آپ دین اسلام کو پھر سے زندہ کریں گے.اسلام کا مکمل غلبہ آپ کے ذریعہ ہو گا اور شریعت اسلامیہ کا قیام بھی آپ کے ذریعہ سے ہو گا.چنانچہ اسلام کی سر بلندی کے لئے جو کچھ آپ نے کیا وہ ایک کھلی حقیقت ہے.یہ مقصد آپ کے خلفاء اور آپ کی جماعت کا ہے آپ کے بعد آنے والے خلفاء اپنی ساری طاقتیں اسی مقصد کے لئے خرچ کرتے رہے ہیں اور خدا تعالیٰ ان کے ذریعہ سے تمکنت دین عطا فرما تا رہا ہے.سپین کی مسجد کی تعمیر اور افتتاح تمکنت دین کی ایک بین دلیل ہے.اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اور جماعت کے مفید رکن بننے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے سامنے ہر وقت یہ مقصد ر ہے کہ غلبہ اسلام کی مہم میں ہمارا بھی حصہ ہو.ان بشارتوں سے ہمیں بھی حصہ ملے جو حضرت مہدی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دی تھیں.اس کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ ہمارا خلافت کے ساتھ مضبوط تعلق ہو جس میں کوئی رخنہ حائل نہ ہو سکے.بغیر مضبوط تعلق کے ہم ترقی نہیں کر سکتے احمدیت کی ترقی خلافت کے ساتھ وابستہ ہے یہ مضمون ہمیشہ ذہن نشین رہنا چاہئے اور بچوں کو ذہن نشین کرواتے رہنا چاہئے.پھر دین کے غلبہ کے لئے ضروری ہے کہ ہم خود دین پر عمل کریں.اس طرح کہ قرآن مجید

Page 706

خطابات مریم 681 پیغامات سکھیں.پر عمل کرنے والے ہوں اور اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ خود قرآن مجید کا ترجمہ مطالب پر غور کریں تدبر کریں.ہمیں علم ہو کے قرآن میں کن باتوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور کن باتوں کے کرنے سے روکا گیا ہے.جب تک علم نہ ہو عمل ممکن نہیں اور عمل کے بغیر نہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر سکتی ہیں نہ اپنا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر سکتی ہیں.اس کے لئے قرآن پڑھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پڑھیں اور ان کے مطابق زندگیاں گزاریں.ہمارے قول اور عمل میں کوئی تضاد نہ ہو.کوئی بدعت ہمارے صاف ستھرے معاشرے میں جنم نہ لے.ہماری زندگیاں قرآن کریم کی تعلیم اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات کے مطابق گزریں.ہم اس عہد بیعت کو پورا کرنے والیاں ہوں جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ آپ کے خلفاء کے ہاتھ پر باندھا ہے کہ جو آپ نیک کام بتائیں گے اس پر عمل کریں گی.میری بہنو اور بچیو! غلبہ اسلام کا سورج چڑھ چکا ہے اور وہ دن دور نہیں جب وہ نصف النہار پر پہنچ جائے گا مگر بڑے بد قسمت ہوں گے ہم اگر ہماری کوششوں اور قربانیوں کا لہواس میں شامل نہ ہو.بہت ضرورت ہے اپنی نئی نسل کو دینی تعلیم سے روشناس کروانے اور ان میں دین کی محبت پیدا کرنے دین کے لئے قربانیاں دینے کا شوق پیدا کرنے کی ، ہماری بچیاں بڑی ہو کر اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کر سکیں اور نسل کے بعد نسل قربانیاں دیتی چلی جائے جب تک کہ اسلام ساری دنیا میں غالب نہ آ جائے.حضرت خلیفہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی مکمل اطاعت کریں کہ اطاعت ہی اسلام کے احکام کی ماں ہے اور اطاعت سے ذرا بھی اعتراف کرنے والا صحیح راستہ بھٹک سکتا ہے.اس کا سبق جومحور ہے اسلام کی تعلیم کا اطیعوا اللهَ وَاطیعوا الرسول میں دیا گیا ہے یہی آیت نظام کی پابندی کا سبق دیتی ہے جو نظام جماعت میں قائم ہے خواہ انصار اللہ کا یا صرف ناصرات کا یا خدام الاحمدیہ کا یا اطفال الاحمدیہ کا سب جماعت کے ہی حصے میں اور ہر تنظیم کے لئے اپنے اپنے عہدہ داروں کی مکمل اطاعت لازمی ہے.کیونکہ وہ خلیفہ وقت کی منظوری سے مقرر کئے جاتے ہیں اور ان کی

Page 707

خطابات مریم 682 پیغامات اطاعت کرنا خلیفہ وقت کی اطاعت کرنا ہے.پس میری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ سب کو اپنی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی پوری پوری توفیق عطا فرمائے.بہت دعائیں کریں غلبہ اسلام حضرت خلیفہ اصیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی اپنے مقاصد میں کامیابی کی اور ساری جماعت کے لئے ہم اپنے مقاصد کو حاصل کر سکیں اور ہمارا رب ہم سے راضی ہو.آمین خاکسار آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 708

خطابات مریم 683 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ قادیان 1982ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میری پیاری بچیو! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه اس مختصر پیغام کے ذریعہ تمہارے اجتماع میں شامل ہورہی ہوں تم احمدی بچیاں ہو اور ناصرات الاحمد یہ ہونے کا دعوئی ہے.خدا کرے اپنے نمونہ اپنے کردار اپنے عمل سے اپنے آپ کو ناصرات ثابت کر سکو.بچپن کی عمر ہی سیکھنے اور تربیت اور تعلیم حاصل کرنے کی ہوتی ہے.جو عادت بچپن میں پڑ جائے وہ واضح ہو جاتی ہے کہ عمل کا زمانہ ناصرات سے نکلنے کے بعد آئے گا ابھی تو تم نے سیکھنا ہے علم حاصل کرنا ہے اس لئے سب سے پہلی نصیحت تو یہ کرتی ہوں کہ اپنی تعلیم کی طرف توجہ دو کہ وقت پھر ہاتھ نہیں آتا.محنت کی عادت ڈالو تعلیم سے مراد تمہارے سکولوں کی تعلیم بھی ہے اور دینی تعلیم بھی اس عمر میں جلدی یاد ہوتا ہے حافظہ اچھا ہوتا ہے کوئی بچی ایسی نہیں ہونی چاہئے جسے قرآن ناظرہ نماز با ترجمہ نہ آتی ہو اور اپنے بنیادی عقائد کا علم نہ ہو.اپنی مذہبی کتب جتنی بھی بچوں کے لئے شائع کی گئی ہیں سب پڑھنی چاہئیں.پھر سچائی کی عادت سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے.جس پر آئندہ زندگی کی عظمت کا انحصار ہو تمہیں سچائی کی اتنی پختہ عادت ہو کہ کبھی بھی تمہارے قدم نہ ڈگمگائیں.جھوٹ سے نفرت ہو بدعہدی سے نفرت ہو کبھی کسی کو دکھ نہ دو نہ اپنے ہاتھ سے نہ اپنی زبان سے تم سے سب کو سکھ پہنچے.تمہاری دوستوں کو بھی والدین کو بھی ملے.ملنے جلنے والیوں کو بھی.ہر وقت مسکراتی رہو ہر ایک سے مسکرا کر ملو.ان امور کی طرف توجہ کرو گی تو انشاء اللہ حقیقی طور پر ناصرات الاحمدیہ ثابت ہو گی خدا کرے اور بچپن سے ہی اپنی اچھی قسمت اپنے اعلیٰ اخلاق اور دین سیکھنے اور سکھانے اور وقت آنے پر قربانیاں دینے اور ذمہ داریاں سنبھالنے کیلئے دعا کرو.بڑی خوش قسمت ہے وہ بچی جسے بچپن سے دعا کی عادت ہو اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو.والسلام.خاکسار.مریم صدیقہ.صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 709

خطابات مریم 684 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ سویڈن 1982 ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وعلى عبده المسيح الموعود ممبرات لجنہ اماءاللہ.سویڈن السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ نے اپنے پہلے سالانہ اجتماع کے لئے مجھ سے پیغام مانگا ہے ایسے موقعہ پر جب کہ ہمارے محبوب امام حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی جدائی سے دل زخمی ہیں وہ جس نے جماعت کو شاہراہ غلبہ اسلام پر تیزی سے چلنا سکھایا اور اللہ تعالیٰ سے بشارتیں پا کر ہمیں غلبہ اسلام کی بشارتیں دیں جو ہنس ہنس کر ہر تیر سہتا رہا اور اپنی جماعت کو ہنسنا سکھاتا رہا اور یہی درس دیتا رہا کہ سب سے محبت کرو.نفرت کسی سے نہیں کرنی.اور محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کو بتاؤ سیدھا راستہ کونسا ہے.آج وہ پیارا وجود ہم میں نہیں.ہمارا فرض ہے کہ ان کی بلندی درجات کی دعائیں مانگنی کبھی نہ بھولیں.ان کی بیگم اور بچوں کو ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یا درکھیں اور اپنے رب کے حضور قربانی پیش کرنے اور وفاداری کا جو سبق اس نے ہمیں سکھایا ہے اس پر عمل کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ مومنوں کی جماعت سے پہلے بھی اپنا وعدہ پورا کرتا چلا آیا ہے اور ابھی بھی خوف کی حالت کو اس نے امن سے بدلا اور ساری جماعت کو ایک ہاتھ پر متحد کر کے ہمیں بتایا کہ جو خدا تعالیٰ کے وفادار ہیں وہ کبھی ضائع نہیں ہوتے پس جہاں جانے والے کی یاد سے ہمارے دل غمگین ہیں وہاں اپنے رب کے احسانات کی وجہ سے خوش اور بہت خوش ہیں کہ وہی ہمارا آقا ہے.پس آپ کو میری یہی نصیحت ہے کہ خلافت سے اپنے کو وابستہ رکھیں کہ یہ بہت بڑی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کو عطا کی ہے کسی قسم کی منافقت اور اتحاد کو کم کرنے والی بات کو برداشت نہ کریں.اپنے بچوں کو بھی خلافت سے محبت اور خلیفہ وقت کی اطاعت کا سبق دیتی رہیں کہ جماعت احمدیہ کی ساری ترقیات صرف خلافت کے ساتھ وابستہ

Page 710

خطابات مریم ہیں.685 پیغامات اللہ تعالیٰ جلد وہ دن لائے جب ساری دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہو جائے اور اسلام کا جھنڈا ہر جگہ لہرانے لگے اس کے لئے بہت ضرورت ہے قربانیوں کی.اپنے جذبات کی ، اپنے مال کو اپنی اولاد کی ان کو وقف کر کے اور پوری کوشش کی اللہ تعالیٰ ان میں برکت ڈالے کہ آپ کا خود اسلام کے احکام پر عمل ہو اور آپ کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ ہو.آپ اور آپ کے بچے غرضیکہ احمد یہ جماعت کا ہر فرد عملی تفسیر ہو قرآن مجید کی.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 711

خطابات مریم 686 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ فرینکفرٹ جرمنی 1982ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ممبرات لجنہ اماءاللہ.فرینکفرٹ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی طرف سے پیغام اور اپنے اجتماع کی تاریخ کا علم کل صدر صاحبہ مغربی جرمنی کے خط سے ہوا.پیغام بھجوا رہی ہوں خدا کرے وقت پر مل جائے کیونکہ ڈاک بعض دفعہ وقت پر نہیں ملتی ذرا وقت سے پہلے لکھا کریں.پرسوں انشاء اللہ مرکزی اجتماع بھی شروع ہو رہا ہے.آپ کو اپنے اجتماع کا انعقاد مبارک ہو لجنہ ترقی کرے اور جماعت بھی.اس دفعہ تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا دورہ بھی ہوا ہے.بہنوں کو حضور کی نصائح سننے کا موقعہ ملا ہو گا.خدا کرے آپ ان سب پر عمل کریں اجتماع پر سب سے ضروری بات تو گزشتہ سال کے کاموں سے اس سال کے کاموں کا موازنہ ہے کہ آپ نے سال رواں میں کتنی ترقی کی مالی لحاظ سے ، تعداد کے لحاظ سے تعلیم کے لحاظ سے، تبلیغ کے لحاظ سے اور تربیت کے لحاظ سے اور آئندہ سال کا پروگرام بنا ئیں انہیں امور کی روشنی میں.حضرت خلیفہ مسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے سپین میں بجنات کے متعلق جو ہدایات دی ہیں ان پر عمل کروانا آپ کا سب سے اولین فرض ہے.آپ میں سے ہر عورت اس ملک میں جماعت کی نمائندہ ہے.اگر آپ کا عمل قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق نہیں ہوگا تو آپ کا وجود احمدیت کی ترقی کی راہ میں روک ہوگا.آپ میں سے ہر ایک کا علم اتنا ہونا چاہئے کہ وہ تبلیغ کر سکے اپنے دائرہ ملاقات میں.اگر نہیں ہے تو اپنی کتب پڑھیں اور لجنہ ان کی دینی تعلیم کا انتظام کرے پھر عمل قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق ہونا چاہئے کہ جن کو تبلیغ کی جائے وہ یہ نہ کہیں کہ یہ کہتی کچھ ہیں کرتی کچھ ہیں.پردہ کی پابند ہوں.اعلیٰ اخلاق کی مالک ہوں اور سب سے بڑھ کر اپنی اولاد کی صحیح تربیت کریں اس ملک میں رہتے ہوئے ان کو قرآن پڑھائیں اُردو سکھائیں اور عمر کے مطابق دینی تعلیم دیں.ایسا نہ ہو کہ آپ

Page 712

خطابات مریم 687 پیغامات کی انگلی نسل آپ کے ہاتھوں سے نکل جائے ان میں احمدیت سے محبت ، خلافت سے محبت ، دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جذبہ پیدا کریں آپ کا اور صرف آپ کا کام ہے خدا کرے آپ اس پر عمل کریں اور جماعت کی ترقی میں آپ کا وجود مفید ثابت ہو.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 713

خطابات مریم 688 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ انڈونیشیا 1983ء بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ممبرات لجنہ اماءاللہ انڈونیشیا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کا سالانہ اجتماع 15 ، 16 ، 17 جنوری کو ہو رہا ہے اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں شرکت کر رہی ہوں.گزشتہ سال جماعت احمدیہ پر ایک بہت بڑا صدمہ آیا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا یعنی حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی اچانک وفات.لیکن ہمارا رب بڑا رحیم ہے اس کا وعدہ ہے کہ وہ جماعت کو لا وارث نہیں چھوڑے گا.چنانچہ اس نے حضرت مصلح موعود کے ہی ایک اور بیٹے کو جماعت کی قیادت کے لئے کھڑا کر دیا اور بتا دیا کہ ہمارا خدا سچے وعدوں والا خدا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس نے اسلام کے غلبہ کے لئے دنیا میں بھجوایا تھا وہ دنیا جو اپنے رب کو بھول چکی تھی اپنے رب کو پہچاننے اور آنحضرت عے پر ایمان لانے آپ کے کاموں کو جاری رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے خلافت کا سلسلہ جاری فرمایا تا کہ وہی کام تا ابد جاری رہیں جن کاموں کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تھا اور وہ کام ہے تبلیغ اسلام کا کام.جنہ اماءاللہ مرکز یہ کے سالانہ اجتماع پر حضرت خلیفہ مسیح الرابع ایدہ اللہ تعالی نے ایک جامع مبسوط اور عالمگیر منصو بہ تبلیغ کا بیان فرمایا ہے اس تاکید کے ساتھ کہ اب اس کام میں ہر مرد اور عورت کو لگ جانا چاہئے.جس کے نتیجہ میں جلد از جلد ایک انقلاب رونما ہو آپ نے اس میں تمام تفاصیل بیان فرمائی ہیں جو تمام بجنات کو بھجوائی جا چکی ہیں لجنہ اماء اللہ انڈونیشیا بڑی منظم جماعت ہے اور ان کے لئے تبلیغ کا بہت بڑا میدان ہے کوشش کریں کہ اپنے پیارے خلیفہ کے اعتماد پر پوری اُتریں اس کے لئے تین باتیں بہت ضروری ہیں.ایک تو اپنا نمونہ اسلام کے مطابق ہو.دوسرے مسلمانوں سے دنیا کو آپ میں زیادہ

Page 714

خطابات مریم 689 خوبیاں نظر آئیں گی تب ہی وہ آپ کی طرف جھکے گی.پیغامات دوسرے جو کام آپ کریں رپورٹ ہر ماہ با قاعدگی سے حضرت خلیفہ امسیح الرابع اور لجنہ مرکزیہ کو بھیجتی رہیں.زبان کا اختلاف ہونے کی وجہ سے آپ کی لجنہ کا اس طرح مرکزی لجنہ سے رابطہ قائم نہیں جس طرح دنیا کی دوسری لجنات کا ہے.تیسرے تبلیغ کے لئے اپنا علم صحیح ہونا چاہئے اگر ایک اعتراض کا آپ کو جواب نہیں آتا.بنیادی عقائد کا علم نہیں تو آپ اعتراض کرنے والے کو صحیح جواب دے کر مطمئن نہیں کر سکیں گی.پس ان سب باتوں کی طرف توجہ کریں اپنی قربانیوں کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے اپنی بچیوں کی تعلیم اور تربیت کی طرف بہت توجہ دیں تا ہمیشہ کے لئے آپ کے نام اور آپ کی قربانیاں زندہ رہیں.میں آپ کو اپنی دعاؤں میں یا د رکھتی ہوں آپ مجھے اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 715

خطابات مریم 690 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ بانجول گیمبیا 1983ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میری پیاری بہنو ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کی سیکرٹری صاحبہ نے اطلاع دی ہے کہ خواتین جماعت احمدیہ کا چوتھا سالانہ جلسہ انشاء اللہ 2 اپریل کو منعقد ہو رہا ہے اور خواہش ظاہر کی ہے کہ میں اس کے لئے کوئی پیغام دوں.ہر جگہ جہاں بھی جلسہ سالانہ ہوتا ہے وہ اس جلسہ سالانہ کی تائید میں ہوتا ہے جس کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈالی اور جس میں شامل ہونا محض اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے مقصد میں کامیاب کرے اور آپ کا جلسہ بہت کامیاب ہو.جس کے نتیجہ میں پیاسی روحیں اسلام کی طرف مائل ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئے تھے آپ کے آنے کی غرض اسلام کو جو بہت بیکسی کی حالت میں تھا.پھر اس بات پر ایمان لانا کہ خدا زندہ خدا ہے قرآن زندہ کتاب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں.آپ کی برکات زندہ ہیں اور آپ کے دامن سے وابستہ رہ کر آپ کی اطاعت کر کے ہی اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کی جاسکتی ہے.میری بہنو اس دعوی کے ساتھ ضروری ہے کہ آپ کا عمل قرآن مجید کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق ہوتا آپ کے عمل میں دنیا اسلام کی حسین تعلیم کی جھلک دیکھ کر اسلام کی طرف جھکے اور اس کی آغوش میں پناہ لے.اگر قول اور فعل میں تضاد ہو تو تبلیغ کا اثر نہیں ہوگا.آپ کی تبلیغ کا اثر بھی دوسروں پر اسی وقت ہوگا جبکہ آپ کے اخلاق اور آپ کے عمل مین قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق یہ صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے یہ غلبہ ضرور ہو گا.انشاء اللہ لیکن بہت خوش قسمت ہم ہوں گے اگر اس میں ہماری قربانیاں اور کوشش بھی شامل ہو.خدا کرے ایسا ہی ہو مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.خاکسار.مریم صدیقہ.صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ - 83-2-18

Page 716

خطابات مریم 691 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ سویڈن 1983ء ممبرات لجنہ اماءاللہ سویڈن ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کا اجتماع 21 مئی کو ہو رہا ہے.اس مختصر پیغام کے ذریعے اس میں شرکت کر رہی ہوں.پاکستان کی رہنے والی خواتین ہوں یا یورپ اور انگلستان کی سب پر یکساں اطاعت واجب ہے.حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی مستورات کی ترقی کے لئے جب سے آپ خلیفہ ہوئے بہت سے پروگرام جاری کئے بہت سی ہدایات دی ہیں ، ان پر عمل کریں ، ان سے بڑھ کر کوئی پیغام میں نہیں دے سکتی.ایک پروگرام اپنے نفس کے جہاد کا ہے تو دوسرا دین کی اشاعت کے جہاد کا ہے.اپنے نفس کے جہاد کا پروگرام پردہ کی پابندی ہے کہ صحیح اسلامی پردہ کیا جائے.جس میں اپنا جسم اور چہرہ غیر مردوں کی نظر سے چھپایا جائے.دوسرا پروگرام دین کا پروگرام ہے کہ زیادہ سے زیادہ غیر مسلموں تک احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچا ئیں.پس ان دونوں جہادوں میں ہر عورت کو پورے طور پر حصہ لینا چاہئے اور غلبہ اسلام کی شاہراہ پر آگے ہی آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 717

خطابات مریم 692 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ کینیڈا 1983ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پیاری بہنو! ممبرات لجنہ اماءاللہ کینیڈا مشرقی زون السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی صدر صاحبہ کا خط ملا جس سے معلوم ہوا کہ آپ اپنا سالانہ اجتماع منعقد کر رہی ہیں.میری عاجزانہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو بہت بابر کت کرے مفید نتائج نکالے اور آپ کے ذریعے سے وہاں جلد سے جلد احمدیت پھیلے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيُوةً طَيِّبَةٌ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (سورة النحل: 98) ترجمہ: جو کوئی مومن ہونے کی حالت میں نیک اور مناسب حال عمل کرے گا مرد ہو کہ عورت ہم اس کو یقیناً ایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ہم ان تمام لوگوں کو ان کے بہترین عمل کے مطابق ان کے تمام اعمال صالحہ ) کا بدلہ دیں گے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ مومنین سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ عمل کرو جو نیک ہو.جو ضرورتِ زمانہ کے مطابق ہو یا درکھو اگر تم وہ قربانیاں دیتے رہو گے جو وقت کا تقاضا ہیں جن کی طرف امام وقت تمہیں بلا رہا ہے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایسی قربانیاں دینے والا خواہ مرد ہو خواہ عورت اسے ایک پاکیزہ زندگی ملے گی ایک باعزت زندگی ملے گی.ہر شخص کی قدرتی خواہش ہے کہ پاک زندگی عطا ہو.جس کے نتیجہ میں اس کی پاک نسل چلے جو دنیا کی غلاظتوں سے محفوظ رہے.لیکن اس کے لئے پہلے آپ کو قربانی دینی ہوگی اپنے جذبات کی قربانی اپنے وقت کی قربانی اپنے مال کی قربانی تا کہ اس کے نتیجہ میں روحانی لذتیں نصیب ہوں.اس سال اپنی بہنوں سے مل کر خوشی ہوئی ہے گو وقت بہت کم تھا.لیکن بہت سی باتوں کا اندازہ ہوا.نقائص

Page 718

خطابات مریم 693 پیغامات سامنے آئے.آپ کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ آپ خودان نقائص کو دور کرنے کی کوشش کریں.جو قوم اپنے آپ کو خود نہیں بدلتی.اللہ تعالیٰ بھی ان میں تبدیلی نہیں کرتا.بظاہر وہاں کی دنیا اور اس کی نعمتیں آپ کی آنکھوں میں چمک پیدا کر دیتی ہوں گی لیکن یاد رکھیں اصل نعمت اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے جب اس کے احکام پر چلا جائے اور نیک عمل کئے جائیں.عورتوں کو اس زمانہ میں سب سے بڑی قربانی جس کی طرف حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ للہ تعالیٰ نے آپ کو بلایا ہے وہ جذبات کی قربانی ہے یعنی پردہ کو اختیار کرنا ایک دفعہ آپ میں سے بہتوں نے پردہ کو چھوڑ دیا.اس کی عادت پڑ گئی اب اس عادت کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے حکم پر چلنا ہے حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنی ہے اور حضور کے اس ارشاد کی تعمیل کرنی ہے اور یہی ہمارا مقصد ہے.ساری دنیا میں اسلامی پردہ کی حفاظت کا سہرا احمدی بچیوں کے سر رہے گا انشاء اللہ ہم سب نے کھوئی ہوئی اقدار کو واپس حاصل کرنا ہے.ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاشرے کی حفاظت نہیں کریں گے اور اسے دوبارہ دنیا میں قائم اور نافذ نہیں کریں گے.(الفضل 24 مارچ 1983ء) میری بہنو اور بچیو آپ کے امام جس بات کی آپ سے توقع کر رہے ہیں کوشش کریں کہ سو فیصد اس پر پوری توجہ دیں اور کینڈا کی سرزمین میں آپ کے ذریعہ سے وہ معاشرہ قائم ہو جس کا نقشہ قرآن مجید نے کھینچا ہے اور جو چودہ سو سال قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے قائم ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی تو فیق عطا کرے.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.میں آپ سب کے لئے دعا کرتی ہوں.مجھے آپ سب سے بہت پیار ہے اور اسی پیار کے نتیجہ میں جب کوئی شکایت ملتی ہے.کسی نقص کا علم ہوتا ہے تو بہت تکلیف ہوتی ہے.اپنی اگلی نسل کو بچانے کے لئے آپ کو یقیناً قربانی دینی ہوگی.نمونہ بننا ہو گا خدا کرے آپ اس معیار پر پوری اُتریں.آمین.خاکسار.آپ کی بہن.مریم صدیقہ.صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ

Page 719

خطابات مریم 694 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ ماریشس 1983ء ناصرات الاحمدیہ ماریشس السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا سالانہ اجتماع ہو رہا ہے جس میں اس پیغام کے ذریعہ شامل ہو رہی ہوں.آپ نے اپنی منزل کی طرف ایک قدم اور اُٹھایا ہے ایک سال اپنی عمر کا علم سیکھنے میں گزارا ہے اس اجتماع پر آپ اور آپ کی عہدہ دار یہ جائزہ لیں کہ واقعی آپ لوگوں نے وقت ضائع تو نہیں کیا وقت ایک نعمت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی الہا ما فر مایا گیا تھا کہ انتَ الشَيْحُ المَسِيحُ الذى لا يُضَاعُ وَقْتُه - آپ وہ بزرگ مسیح ہیں جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا.پس وقت کی قدر پہچانو یہ زمانہ تمہارے سیکھنے کا زمانہ ہے.سیکھوگی تو جب عمل کا زمانہ آئے گا میدانِ عمل میں اترنے کے قابل ہوگی.اس عمر میں اپنے مذہب کے تمام بنیادی اُصولوں کا علم ہوتا ہے وہ بنیادی مسائل جن میں ہمارا اور غیر احمدیوں کا اختلاف ہے مختصراً آپ کو ان کا علم ہونا چاہئے نماز کا ترجمہ آنا چاہئے تا کہ آپ کو علم ہو کہ آپ اپنے رب کے حضور میں کیا عرض کر رہی ہیں.قرآن مجید کا ترجمہ اپنی عمر کے مطابق سیکھنا شروع کر دیں.جماعت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے میں صرف چھ سال باقی ہیں 1989 ء کا سال جماعت احمدیہ کے لئے ایک خوشی کا سال ہوگا.کیا آپ اس کے انتظامات کو سنبھالنے کے لئے تیاری کر رہی ہیں.آپ میں سے بہت سی بچیاں چھ سال میں لجنہ کے کام سبنھالنے کے لائق ہو جائیں گی لیکن اگر آپ نے دین کا علم نہ سیکھا کام کرنے کی تربیت حاصل نہ کی تو آپ کے وجود سے جماعت فائدہ نہیں اُٹھا سکے گی.اس لئے علم حاصل کریں اور عمل کے لئے اپنے کو تیار کریں جس میں آپ کے اعلیٰ اخلاق اور آپ کا ذاتی نمونہ سرفہرست ہیں اور آپ کا نمونہ اتنا پیارا ہونا چاہئے کہ دوسرے آپ کو دیکھ کر کشش محسوس کریں اور خواہش کریں کہ ان کی بچیاں بھی آپ کی

Page 720

خطابات مریم 695 پیغامات نگرانوں کے زیر تربیت آجائیں.آج کی دنیا بے راہ روی کی طرف جارہی ہے ان کی نقل نہ کریں.ہم نے تو اس دنیا کا نقشہ پیش کرنا ہے جس کا نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتا ہے.وہی محبت بنی نوع انسان سے وہی اخلاق.ہر ایک کے دکھ دور کر نے کا جذبہ.دشمن سے بھی اعلی ترین نیک سلوک ، آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات پڑھیں اور اپنے کو اسی رنگ میں رنگنے کی کوشش کریں.خدا کرے ہماری اگلی نسل جس کی بنیاد آپ پر رکھی جائے گی ہم سے بڑھ کر دین سے محبت کرنے والی دین کی خاطر قربانیاں دینے والی ہو اور ایک کے بعد دوسری نسل دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بلند کرتی چلی جائے.آمین والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 721

خطابات مریم 696 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ماریشس 1983ء بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں جو 4 جون کو ہورہا ہے شرکت کر رہی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کا یہ اجتماع مبارک کرے اور اس کے اعلیٰ نتائج ظاہر ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ماریشس میں اچھی خاصی جماعت ہے.ماریشس ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے.آپ کے ذریعہ احمدیت کا پیغام جو حقیقی اسلام ہے ہر گھرانہ تک پہنچ جانا چاہئے.یہ پیغام خواہ زبانی دیا جائے یا اپنے جلسوں میں بلا کر دیا جائے یا لٹریچر کے ذریعہ سے سنایا جائے.پس اپنے اس اجتماع میں اپنے پچھلے کاموں کا جائزہ لیتے ہوئے آئندہ کے لئے وسیع اور پر اثر پروگرام بنا ئیں.ایسے پروگرام جس میں یہ صرف صدر سیکرٹریاں ہی عملدرآمد نہ کر رہی ہوں.بلکہ ہر لجنہ کی ممبر نظام کا ایک کارآمد پرزہ بن جائے.حضرت خلیفہ اصیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ کے لئے جو تربیتی پروگرام تجویز فرمائے ہیں ان کی طرف بھر پور توجہ دیں اور اپنی بچیوں میں ابھی سے داعی الی اللہ بننے کا شوق پیدا کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 722

خطابات مریم 697 پیغامات پیغام برائے سالانہ کنوینشن لجنہ اماءاللہ ویسٹ کوسٹ 1983ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ممبرات ویسٹ کوسٹ لجنہ اماءاللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ نے اپنی کنوینشن کے موقع پر مجھ سے پیغام کی خواہش کی ہے آپ کا خط بہت لیٹ ملا مختصر پیغام ارسال ہے خدا کرے وقت پر مل جائے.ٹیپ میں اس لئے نہیں بھجواسکتی کہ ڈاک میں ٹیپ نہیں جا سکتی.کوئی جانے والا ہوتا تو بھجوا دیتی پھر کسی موقع پر انشاء اللہ بجھوا دوں گی.اللہ تعالیٰ آپ کی سالانہ کنوینشن کو کامیاب کرے اور آپ سب مل کر اپنی لجنہ اور جماعت کی ترقی کے ذرائع پر غور کریں اور پھر عمل بھی کریں.ہر جگہ سے عموماً ایک ہی شکایت آتی ہے کہ حاضری کم ہوتی ہے.جو آپ کی اپنی جماعت کے کاموں اور اس کے لئے وقت کی قربانی دینے کی سنتی پر دلالت کرتی ہے.احمدیت کے غلبہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بانی سلسلہ احمدیہ کو بہت بشارتیں دی ہیں.لیکن ہر بشارت اپنے ساتھ قربانی چاہتی ہے.پس آپ محنت کریں اپنے قدم تیز کریں اپنے امام کی اطاعت کریں مکمل طور پر تو کامیابیاں آپ کے قدم چومیں گی.میں آپ سب کے لئے دعا کرتی ہوں آپ بھی میرے لئے دعا کریں.والسلام آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 723

خطابات مریم 698 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ فی 1983ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پیاری بہنو ممبرات لجنہ اماءاللہ بھی السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی صدر صاحبہ کا خط یکم دسمبر کو مجھے ملا ہے کہ 25 اور 26 دسمبر کو آپ کا سالانہ جلسہ منعقد ہو رہا ہے اور میں اس موقعہ پر کوئی پیغام بھجوا دوں.خدا کرے وقت پر مل جائے خط کافی دیرہ میں ملا اس سے بہت پہلے کہنا چاہئے تھا.بہر حال اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے جلسہ میں شرکت کر رہی ہوں.حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی بعثت کی غرض مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کی ہے.انبیاء علیہم السلام کے دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی سے جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں نجات پائیں حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد ان کے آگے ہوتا ہے پس اس وقت بھی جو خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تو میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی یعنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے بلکہ دکھانا چاہتا ہوں اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف راہبری کرتا ہوں.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 8-9) اس میں آپ نے یہ بتایا کہ جو آپ کی بیعت میں داخل ہوں ان کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو.اللہ تعالیٰ سے دعاؤں کے ذریعہ ذاتی تعلق پیدا ہو.اگر یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو بیعت کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں.پس آپ سب کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا آپ کا عمل وہ ہے یا نہیں جس کی تاکید حضرت مسیح موعود نے شرائط بیعت میں کی ہے اور آپ اپنی زندگیاں اسی

Page 724

خطابات مریم 699 پیغامات طرح گزار رہی ہیں جس کی تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشتی نوح میں دی ہے.جلسہ کرنے کا مقصد صرف یہ نہیں کہ چند تقریریں ہو جائیں بلکہ یہ بھی ہے کہ آپ سب غور کریں کہ ہم میں کیا نقائص پائے جاتے ہیں اور وہ کس طرح دور کئے جا سکتے ہیں.ہم اپنی اصلاح کس طرح کر سکتے ہیں.اپنے بچوں کی تربیت کس طرح کر سکتی ہیں.ان سب امور پر غور کریں ان پر تقاریر ہوں ایک لائحہ عمل بنایا جائے اور اس کے مطابق عمل کریں تا آپ کی انگلی نسل موجودہ نسل سے زیادہ قربانی دینے والی ہو.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 725

خطابات مریم 700 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ بھارت 1983ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میری پیاری ناصرات الاحمدیہ ! السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ نے اپنے اجتماع کے لئے مجھ سے پیغام مانگا ہے.آپ ناصرات ہیں.ناصرہ کے معنی مدد کرنے والی.کس کی؟ آپ نے اپنے آپ کو تیار کرنا ہے کہ آپ نے دین کے کاموں میں جماعت کی مدد گار بنا ہے.ہر انسان کا دکھ درد دور کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا ہے.مسلمان کی تعریف ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان کی ہے کہ اس کے نہ ہاتھ سے کسی کو تکلیف پہنچے نہ زبان سے.جماعت کے کاموں میں مددگار بننے کی مشق بچپن سے آپ نے کرنی ہے.باقاعدگی سے اپنے اجلاسوں میں وقت کی پابندی سے آئیں.جو سکھایا جائے محنت سے سیکھیں.اس پر عمل کریں.عمر کے ساتھ ساتھ ناظرہ قرآن کریم پھر ترجمہ سے قرآن مجید پڑھنا سیکھیں.کیونکہ ترجمہ سیکھنے کے بغیر آپ عمل نہیں کر سکتیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حقیقی رنگ میں ناصرات الاحمدیہ بنائے.آمین خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 726

خطابات مریم 701 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنات اما ء اللہ بھارت 1983ء ممبرات لجنہ اماءاللہ بھارت ! بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه میری عزیز بہنو ! آج کل آپ اپنے سالانہ اجتماع منعقد کر رہی ہیں.اللہ تعالیٰ ان اجتماعات کو بہت بہت با برکت کرے اور اعلیٰ نتائج پیدا کرے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.لَا خَيْرَ فِى كَثِيرٍ مِنْ نَجُوبِهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا (النساء: 115) ( ترجمہ ) ان لوگوں کو مستی کر کے جو صدقہ یا نیک بات یا لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے کا حکم دیتے ہیں ان کے بہت سے مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی اور جو شخص اللہ کی رضا جوئی کے لئے ایسا کرے یعنی نیک مشورے کرے ہم اسے جلد ہی بہت بڑا اجر دیں گے.اس آیت میں کانفرنسوں اور مجالس کے متعلق اسلام نے ان کے انعقاد کی تین غرضیں بیان کی ہیں :.اوّل: مَنْ آمَرَ بِصَدَقَةٍ یعنی ان کے فیصلے ایسے ہوں کہ جن کے نتیجہ میں غرباء کی خبر گیری اور حاجت مندوں کی حاجت روائی ہو.اس سال مجلس شوری کے موقع پر حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایده اللہ تعالیٰ نے جماعت کو یہ خصوصی ہدایت فرمائی تھی کہ احمدیوں کو بلا تفریق مذہب وملت حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرنی چاہئے.وہ خود مانگنے والے نہ ہوں دینے والے ہوں اور اس سلسلہ میں آپ نے جہاں ایسے لوگوں کے لئے جن کے پاس مکان نہیں بیوت الحمد کا منصو بہ جماعت کو عطا فرمایا ہے دوسری طرف ان کے حالات بہتر بنانے کے متعلق ہدایات دی ہیں.ہر جلسہ میں لجنہ کو اپنے پیش نظر یہ مقصد رکھنا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ خدمت خلق کریں.لیکن ہر جگہ کوشش کرنی ہے کہ احمدی اپنے پاؤں

Page 727

خطابات مریم 702 پیغامات پر کھڑے ہوں اور دوسروں کے لئے ہر موقع پر دینے والے ہوں.خود لینے والے نہ ہوں.اس آیت میں دوسری غرض بیان کی گئی ہے مَنْ اَمْرَ بَمَعْرُوفٍ یہ ایک وسیع مضمون ہے.نیکی کی تلقین علم وفنون کی تحقیق اولاد کی تربیت.بہنوں کی تربیت ان سب باتوں کی طرف اجتماعوں کے فیصلوں اور پروگراموں میں توجہ دی جائے.آپ کے پروگرام ایسے ہوں جن میں بہنوں اور بچیوں کی تربیت ان کی تعلیم.ان میں قرآن مجید کا ترجمہ سیکھنے کا شوق.مسابقت کی روح.دین کے لئے قربانیاں دینے کا جذبہ پیدا کیا جائے.تا ہماری آنے والی نسل دین سے بے بہرہ نہ ہو.بلکہ اپنے رب سے محبت کرنی والی.اس کی خاطر قربانیاں دینے والی.اسلام کی تعلیم کا نمونہ اور دنیا کو اپنے رب کی طرف سے دعوت دینے والی ہو.تیسری غرض یہ بیان کی گئی ہے مَنْ اَمَرَ بِا صلاحٍ بَيْنَ النَّاسِ کہ ہمارے اجتماع اور کانفرنسوں کی غرض یہ ہے کہ آپس کے جھگڑے دور کریں.اخوت کا جذ بہ پیدا کریں.اسلام اس کا پیغام ہے.اس لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے LOVE FOR ALL HATRED FOR NONE محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں.اس کا پر چار آپ نے ہر جگہ کرنا ہے اور اس پر خود عمل کرنا ہے اور اس کی تعلیم اپنے بچوں کو دینی ہے.قرآن مجید نے ایمان کے ساتھ عمل صالح پر بہت زور دیا ہے اور عمل صالح کا مطلب ہے کہ جب جس قربانی کی ضرورت ہو.آپ کے امام نے آپ کو پکارا ہے کہ ہر عورت داعی الی اللہ ہے.پس حضور کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے آپ کو تبلیغ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام جن تک نہیں پہنچا ان تک پہنچانے کی پوری سعی کرنی چاہئے.اس کے لئے آپ کو اپنا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ آپ خود قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کر رہی ہیں یا نہیں ورنہ آپ کی بات میں اثر نہیں ہوگا.اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح طور پر عمل کرنے کی توفیق دے.عمل اور قربانی جس سے ہمارا رب ہم سب سے راضی ہو جائے اور ہماری قربانیوں کو قبول کرے.آمین.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.خاکسار.مریم صدیقہ.صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ

Page 728

خطابات مریم 703 پیغامات پیغام برائے کیمپنگ لجنہ اماءاللہ کینیڈا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میری عزیز بہنو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مکرمہ نعیمہ مرزا صاحبہ نے اطلاع دی ہے کہ لجنہ اماءاللہ کینیڈا اور ناصرات الاحمدیہ کی دو روزہ کیمپنگ ہو رہی ہے اور اس موقع کے لئے میں کوئی پیغام بھجواؤں.رمضان میں درس دینے کی وجہ سے بہت مصروف ہوں تا ہم آپ کی خواہش پر مختصر سا پیغام ارسال ہے.دنیا کے عام لوگ تو کیمپنگ تفریح کے لئے کرتے ہیں کسی جگہ اکٹھے ہوئے ہل کر رہے کھانا پکا یا مختلف کاموں کی تربیت حاصل کی بے شک اس کے بھی بہت فائدے ہیں لیکن ہماری جماعت دینی جماعت ہے ہر کام کرتے ہوئے ہم نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے ہماری کیمپنگ بھی روحانی کیمپنگ ہونی چاہئے اس کے پروگرام بھی مندرجہ ذیل باتوں کے سکھانے پر مشتمل ہونے چاہئیں.1- نماز کو وقت پر ادا کرنے کی تکمیل.-2 دینی کاموں کو دنیاوی کاموں پر ترجیح دینا.3- امیر کی اطاعت جو اسلام کی تعلیم کی روح ہے.4 اختلاف ہونے پر جو فیصلہ امیر کا ہو اس سے اختلاف نہ کرنا اور شرح صدر کے ساتھ اس کی اطاعت کرنا.5 لجنہ کی عہدہ داروں کی عزت ادب و احترام کرنا کیونکہ وہ بھی خلیفہ وقت کی طرف سے مقرر ہوتی ہیں.ہر کام میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا.خدا تعالیٰ کے اس حکم کو ذہن میں رکھنا کہ تَعَاوَنُوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقْوی کہ نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون

Page 729

خطابات مریم کیا کرو.704 پیغامات اکٹھے کام کرتے ہوئے ایک دوسرے سے غلطیاں ہو جاتی ہیں اپنے سے چھوٹوں کی غلطی کو معاف کرنا.- اخلاق فاضلہ سیکھنے کی طرف توجہ دینی ہر ایک سے مسکرا کر بات کرنی.9- کسی کے خلاف دل میں کینہ نہ رکھنا.10- ہر کام دعا سے شروع کرنا اور ہر ایک کی بھلائی کے لئے دعا کرنا.سب سے بڑھ کر احمدیت کی ترقی اور غلبہ کی دعائیں کریں.خدا کرے یہ کیمپنگ کا میاب ہو اور دو دن میں سب باتیں آپ سیکھ کر نکلیں اور آپ میں سے ہر ایک کا وجود نمو نہ ہو وہاں کے لوگوں کے لئے اس تعلیم کا جس کی دعوت آپ دیتی ہیں.میں سب بہنوں کو دعا میں یا درکھتی ہوں آپ بھی مجھے اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ $1984

Page 730

خطابات مریم 705 پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ ناروے 1984ء ممبرات لجنہ اماءاللہ ناروے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه پیغامات آپ کا سالانہ جلسہ 8 اپریل کو ہو رہا ہے.اس مختصر پیغام کے ذریعہ اس میں شرکت کر رہی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے جلسے کو بہت بہت مبارک کرے اور آپ کا یہ چھوٹا جلسہ سالانہ ان اغراض کو پورا کرنے والا ہو.جن اغراض کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ سالانہ کی بنیا درکھی تھی اللہ تعالیٰ آپ سب میں اخوت اور محبت اور ایک دوسرے کے لئے قربانی کا جذ بہ پیدا کرے اور آپ کا نمونہ اتنا اچھا ہو، قرآن مجید کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان کردہ تعلیم کے مطابق کہ خود بخود اسے دیکھ کر لوگوں کے دل کھینچیں اور وہ آپ کے متعلق تحقیق کرنے پر آمادہ ہوں.آپ کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہئے.اس ملک میں رہتے ہوئے آپ نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے کردار اور اخلاق کی حفاظت کرنی ہے یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے ان کو صاف سچے کھرے مسلمان بنانا ہے.ان دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنی ہے.محبت کے بغیر وہ اطاعت نہیں کر سکتے اور پھر خود عمل کر کے ان سے عمل کروانا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے.ایک نسل کی بقاء کا انحصار خود آپ کے عمل اور کردار پر ہے سب بہنوں کو محبت بھرا سلام مجھے بھی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام صدر لجنه مرکزیہ خاکسار مریم صدیقہ 26-3-84

Page 731

خطابات مریم 706 پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ گیمبیا 1984ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پیاری بہنوممبرات لجنہ اماءاللہ گیمبیا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه پیغامات آپ کا سالانہ جلسہ 22 اپریل 1984ء کو منعقد ہو رہا ہے اور اس مختصر پیغام کے ذریعہ میں آپ کے جلسہ میں شرکت کر رہی ہوں.سالانہ جلسہ کی بنیا د حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھی تھی.آج آپ کا جلسہ بھی اس جلسہ کی کڑی ہے اس کے بہت مقاصد تھے احمدی سال میں ایک مرتبہ مرکز میں جمع ہوں ان میں اخوت اور محبت کا جذبہ پیدا ہو ایک دوسرے سے واقفیت ہو.مل کر آئندہ ترقی کے پروگرام طے کریں.آج آپ کی تعداد کم ہے مگر جلد وہ دن آنے والا ہے کہ ان وعدوں کے مطابق اور ان بشارتوں کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے سارا گیمبیا اسلام کی طرف رجوع کرے گا اور جس طرح آج ربوہ میں سارے پاکستان سے احمدی جمع ہوتے ہیں اسی طرح سارے گیمبیا کے احمدی ایک جگہ جمع ہو کر آئیں گے.آپ نے نئے آنے والے دوسرے احمدیوں کی تربیت کے لئے ابھی سے خود کو تیار کرنا ہے.دوسروں کی تربیت اور تعلیم کے لئے ضروری ہے کہ پہلے آپ خود دین سیکھیں پوری واقفیت دین سے ہو اور احکام اسلام پر عمل بھی ہو.اگر عمل نہیں آپ کا نمونہ اس تعلیم کے مطابق جس کی تبلیغ آپ کر رہی ہیں نہیں تو آپ کی زبان میں اثر نہیں ہوگا.آپ کے قول اور فعل میں تضاد ہو گا اور کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ کسی قسم کا تضاد آپ کے قول اور فعل میں نہ پایا جائے.جس صداقت کو آپ نے مانا ہے اس کی اشاعت میں بھر پور حصہ لیتے ہوئے آپ میں سے ہر ایک داعی الی اللہ بنے.یہ دنیا چند روزہ ہے اس کے حصول کے لئے ہم میں سے ہر ایک پریشان رہتا ہے لیکن اعلیٰ ترین مقصد کہ اپنے رب سے زندہ تعلق پیدا ہو اس کی فکر کم کو ہی ہوتی ہے.اس کے لئے جہاں کوشش کرنی چاہئے وہاں بہت دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری زندگی میں احمدیت کو فتح

Page 732

خطابات مریم 707 پیغامات یب کرے.زیادہ سے زیادہ لوگ اسلام میں داخل ہوں حضرت مسیح موعود کو مانیں جن کی بعثت کی غرض ہی یہ تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو دنیا میں پھیلائیں.آپ کا فرض ہے کہ بچوں کی تربیت کریں کہ وہ دین کو سیکھ رہے ہیں نماز کا پابند بنائیں.دین کے لئے غیرت کا جذبہ پیدا کریں.اللہ تعالیٰ کی محبت.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کریں.دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جذبہ پیدا کریں تا آپ کی اگلی نسل آپ سے زیادہ کام کرنے والی اور قربانی دینے والی ہو.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یادرکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 733

خطابات مریم 708 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ ناروے 1984ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ میری پیاری بچیو نا صرات الاحمدیہ ناروے السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی سیکرٹری صاحبہ نے اطلاع دی ہے کہ آپ کا اجتماع 20 مئی کو منعقد ہو رہا ہے اس مختصر پیغام کے ذریعہ اس میں شرکت کر رہی ہوں.پیاری بچیو! آپ کسی ملک میں رہیں اس بات کو نہ بھولیں کہ آپ احمدی مسلمان بچیاں ہیں.درخت اپنے پھل اور پھولوں سے پہچانا جاتا ہے اور ا یک انسان اپنے اعلیٰ اخلاق سے.آپ کے علم ، آپ کے عمل ، آپ کے اخلاق سے دنیا کو جماعت احمدیہ کی صداقت کا علم ہونا چاہئے.آپ کو دیکھ کر وہ غور کرنے پر مجبور ہوں کہ یہ پیارے پیارے بچے جو اپنے رب سے محبت کرنے والے ہیں.جو خدا تعالیٰ کے دوسرے بندوں سے اچھا سلوک کرنے والے ہوں.جس جماعت کے ہیں ہم اس کو سمجھنے اور اس پر غور کرنے کی کوشش کریں.پس آپ کو جو سکھایا جائے وہ سیکھیں اس کے لئے محنت کریں اور اس کے مطابق عمل کریں.مثلاً آپ کو نماز پڑھنی سکھائی جاتی ہے آپ باقاعدگی سے نماز پڑھا کریں.آپ کو سکھایا جاتا ہے سچ بولیں کسی کو دھو کے نہ دیں تو آپ اس پر عمل بھی کریں اور وہاں کے رہنے والے بچوں کی نقل نہ کریں.ان کا دین اور ہے اور آپ کا دین اور ہے اور آپ نے ان باتوں پر عمل کرنا ہے جو اسلام نے بتائی ہیں اور ان کو چھوڑنا ہے جس سے اسلام نے روکا ہے آپ کی تنظیم کا نام ناصرات الاحمدیہ ہے.یعنی احمدیت کی مدد کرنے والی.جب تک بچپن سے آپ اپنے آپ کو تیار نہیں کریں گی بڑی ہو کر مدد کرنے والی نہیں بن سکتیں.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.بہت دعا کیا کریں اللہ تعالیٰ آپ کو کچی احمدی بچیاں بنائے.اُردو میں ہی پیغام بھجوا دیا ہے.اگر بچیاں اُردو مجھتی ہیں تو اردو میں سنادیں ورنہ وہاں کی زبان میں ترجمہ کر دیں.آپ نے ایک

Page 734

خطابات مریم 709 پیغامات بچی کا ذکر کیا ہے کہ نماز سے یاد نہیں ہوتی اس کا آسان طریق یہ ہے کہ صاف لہجے میں کیسٹ پر ٹیپ کر دیں اور اسے دے دیں اور اسے کہیں کہ بار بار چلا کر سنا کرے یاد ہو جائے گی بلکہ بچوں کے اسباق سب کو ہی اگر اس طرح دیا کریں تو بہت فائدہ ہوگا سب بہنوں کو اسلام علیکم بچوں کو دعا پیار.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 21-4-84

Page 735

خطابات مریم 710 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ناروے 1984ء ممبرات لجنہ اماءاللہ ناروے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه اللہ تعالیٰ آپ کے اجتماع کو مبارک کرے اور اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں شمولیت کر رہی ہوں.ناروے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمد یہ جماعت بھی قائم ہو چکی ہے اور لجنہ بھی قائم ہے.بے شک آپ وہاں کی آبادی کے لحاظ سے آٹے میں نمک کے برابر ہیں اتنے تھوڑے نمک کے کہ ابھی اس کے ذائقہ کا علم بھی نہیں مگر اس سے ڈرنا نہیں چاہئے اور اب لوگوں کی نقل بالکل نہیں کرنی چاہئے کیونکہ صداقت آپ کے پاس ہے اور اسلام کا غلبہ مہدی علیہ السلام کے زمانہ کے ساتھ مقدر ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مہدی علیہ السلام کو بشارت دی تھی کہ آج سے تیسری صدی ختم نہیں ہو گی کہ ساری دنیا اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی.یہ تو ہو کر رہنا ہے ہم نے تو اپنا جائزہ لینا ہے کہ غلبہ اسلام کی کوششوں میں ہمارا کیا حصہ ہے.آپ اس ملک میں رہتے ہوئے احمدیت جو حقیقی اسلام ہے کی نمائندہ ہیں اگر آپ سے کوئی اخلاقی غلطی ہوئی تو آپ اسلام کے نام پر دھبہ لگانے والی ہوں گی.پس اگر آپ چاہتی ہیں کہ غلبہ اسلام کی جد و جہد میں آپ کا نمایاں حصہ ہوں تو آپ کا نمونہ قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق ہو.قرآن مجید کے کسی حکم کی نافرمانی کرنے والی نہ ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد کی نافرمانی نہ ہو اور اپنے عہد بیعت کے پورا کرنے والی ہوں جو جماعت احمدیہ میں داخل ہوتے وقت کیا تھا کہ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم کریں گی.اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں میں برکت ڈالے اور ناروے میں جلد سے جلد اسلام پھیلے عیسائیت سے بے زار ہو کر اسلام کے جھنڈے تلے سکون پائیں.نئے آنے والوں کی تربیت کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں.دین کا علم سیکھیں.آپ کا

Page 736

خطابات مریم 711 پیغامات نمونہ قرآن و حدیث کی تعلیم کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کی طرف بہت توجہ دیں تا کہ وہ آئندہ پڑنے والی ذمہ داریوں کو اٹھا سکیں.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یادرکھیں.خاکسار آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 737

خطابات مریم 712 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ سویڈن 1984ء بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ممبرات لجنہ اماءاللہ سویڈن السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی صدر صاحبہ نے اطلاع دی ہے کہ آپ کا سالانہ اجتماع 26 ، 27 مئی کو منعقد ہو رہا ہے.اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں شامل ہورہی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے اجتماع کو با برکت کرے اور مفید نتائج برآمد ہوں.اجتماع کی بہت سی اغراض ہیں اگر وہ اغراض پوری ہو رہی ہوں تو اجتماع کے نتائج یقیناً اچھے نکلیں گے.سب سے پہلی بات تو یہ کہ اجتماع اس لئے کئے جاتے ہیں کہ سب بہنیں اس موقعہ پر ملیں ان میں اخوت اور محبت کا جذبہ پیدا ہو.سب ایک مقصد کے لئے کام کرنے کا عزم کریں.اگر کسی کو کسی سے رنجش ہو بھی تو خدا کی خاطر اسے دل سے معاف کر دیں.پھر اس اجتماع میں سب مل کر اپنی ترقی اور اگلی منازل طے کرنے کے لئے ذرائع سوچیں کہ اس ملک میں ہم کس طرح تبلیغ کر سکتے ہیں.کس طرح اپنا علم بڑھا سکتے ہیں؟ کس طرح اپنی تنظیم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اور منظم بنا سکتے ہیں.کس طرح اپنے بچوں کی تربیت اچھے ماحول میں کر سکتے ہیں.یہ سب باتیں آپ نے سوچنی ہیں اور پھر وہ تدابیر اختیار کرنی ہیں.آپ احمدیت کا نمائندہ ہیں اس ملک میں اگر آپ کوئی غلطی کریں گی تو احمدیت کے نام پر دھبہ لگانے والی ہوں گی.ہمارے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہئے.ایک طرف ہمارا دعویٰ کہ اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام اس زمانہ میں مہدی موعود کے ذریعہ مقدر رکھا دوسری طرف اس جماعت میں رہتے ہوئے ہمارا عمل اس کے مطابق نہ ہو تو بڑے شرم کی بات ہے.جماعت کے قیام پر 95 سال ہونے والے ہیں لجنہ کی تنظیم پر اکسٹھ سال ہو چکے ہیں.

Page 738

خطابات مریم 713 پیغامات بے شک آپ کی تعداد وہاں کم ہے لیکن یاد رکھیں درخت ایک بیج سے بنتا ہے اور عزم ، دعاؤں، خلوص ، قربانی ، تعاون کے ساتھ آپ نے ترقی کرنی ہے.دوسروں کو اپنے نمونہ کے ذریعہ اسلام کی طرف کھینچنا ہے.اللہ تعالیٰ توفیق عطا کرے مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 739

خطابات مریم 714 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ماریشس 1984ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پیاری بہنوں ممبرات لجنہ اماءاللہ ماریشس السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی خواہش پر ایک مختصر پیغام آپ کے لئے ارسال ہے.اجتماع کی سب سے بڑی غرض یہ ہے کہ ایک جگہ سب بہنیں بچیاں جمع ہوں.اس میں ملکر کام کرنے کا مادہ پیدا ہو.تعاون با ہمی کی روح پیدا ہو.اپنی عہدہ داروں کی صحیح اطاعت کرنے کا جذ بہ پیدا ہو اور وہ سب مل کر یہ بھی جائزہ لیں کہ ہم نے سال بھر میں کیا ترقی کی ہے اور کون سی باتیں ہیں جو کرنی چاہئے تھیں اور اپنی مستی کی وجہ سے ہم نے نہیں کیں.اگر ہر سال کام کا مقابلہ اور موزانہ نہ کیا جائے تو کام کی ترقی کا علم نہیں ہوسکتا.آپ نے حضرت مسیح موعود کو سچا مانا ہے.تو جب تک آپ اپنے عمل سے اپنے دعوی کو ثابت نہیں کرتیں آپ کا دعویٰ صرف منہ کی بات رہ جاتا ہے.حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے البا ما فرمایا تھا.يُحْيِ الدَيْنَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَة - آپ کوئی نئی شریعت نہیں لائے کوئی نیا دین نہیں بنایا بلکہ لوگ عملاً اسلام سے دور جا رہے تھے ان کو پھر سے قرآن مجید کی تعلیم پر چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھجوایا تھا.جب تک ہم اپنے عمل سے یہ نہ ثابت کر دیں کہ روئے زمین پر یہی ایک واحد جماعت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرتی ہے.ہما را دعویٰ صرف منہ کی بات رہ جاتا ہے.جس پر عمل کرنا ہو اس کا پورا علم ہونا چاہیے.ڈاکٹر آپ کے لئے ایک نسخہ دوائی کا تجویز کرتا ہے آپ کو جب تک ٹھیک طور پر علم نہیں ہوتا کہ کب دوائی کھانی ہے کتنی دفعہ کھانی ہے کتنی خوراک کھانی ہے آپ کو دوائی فائدہ نہیں دے گی یہی حال عمل کا ہے اگر آپ کو یہ علم ہی نہیں کہ قرآن مجید میں کیا لکھا ہے کن باتوں کے کرنے کی وجہ سے پہلی قوموں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا.

Page 740

خطابات مریم 715 پیغامات کون سی باتیں اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں کیا پیشگوئیاں آئندہ کے متعلق قرآن مجید میں بیان کی گئی ہیں تو آپ ان پر عمل نہیں کر سکتیں.پس بہت ضروری ہے کہ آپ قرآن پڑھیں.اس کا ترجمہ سیکھیں.آپ میں سے کتنی ہیں جن کو قرآن مجید کا ترجمہ آتا ہے آپ کی بچیاں بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان علوم کے سیکھنے میں تو اپنی ساری طاقتیں خرچ کر رہے ہیں جو قرآن سے نکلی ہوئی نہریں ہیں لیکن جو منبع ہے سارے علوم کا اس کی طرف توجہ نہیں دیتے.پس مہم چلائیں قرآن مجید کا ترجمہ سیکھنے کی کہ یہ سب سے بڑا کام ہے.آپ کا اور لجنہ کا.انفرادی اور اجتماعی اور جائزہ لیں کہ قرآن مجید کی تعلیم کو اپنی زندگیوں میں بھی آپ لوگ اپناتے ہیں یا نہیں آپ کے بچے ان پر عمل کرتے ہیں یا نہیں آپ کے اخلاق قرآن مجید کی تعلیم اور آنحضرت ﷺ کے اُسوہ حسنہ کے مطابق ہیں یا نہیں.قرآن مجید سیکھنے کے لئے حضرت مسیح موعود کی کتب کا پڑھنا بہت ضروری ہے کہ آپ کی کتب پڑھ کر قرآن مجید کی تفسیر کا مجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا تھا:.مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کی طرف سے توجہ ہٹالی ہے اور دوسری طرف چلے گئے ہیں.حالانکہ یہ ایک نہایت ہی قیمتی چیز خدا تعالیٰ کی طرف سے عظیم الشان نعمت کے طور پر مسلمانوں کو ملی تھی اب جماعت احمدیہ کو اس کی طرف پوری توجہ کرنی چاہئے اور ہمارا کوئی 66 آدمی ایسا نہیں ہونا چاہئے جو قرآن کریم نہ پڑھ سکتا ہو اور جسے اس کا ترجمہ نہ آتا ہو.“ اللہ تعالیٰ آپ کو اس پر عمل کرنے کی توفیق دے.بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو نمونہ بنائے اور اپنے خلیفہ کی اطاعت کرتے ہوئے صحیح معنوں میں داعی الی اللہ بننے کی توفیق دے.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام.خاکسار آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 741

خطابات مریم 716 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ نبی 1984ء ممبرات لجنہ اماءاللہ منفی بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پیغامات آج لجنہ اماء اللہ نبی کا چھٹا سالانہ اجتماع ہو رہا ہے اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں حاضر ہو رہی ہوں.آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ گزشتہ سال پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک خلیفہ آپ کے ملک میں تشریف لے گئے نجفی کی سرزمین نے برکت پائی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام پوری شان سے پورا ہوا کہ ” میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے لَئِن شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمُ اگر تم شکر ادا کرتے رہو گے تو میں اور زیادہ برکتیں تم پر نازل کروں گا.شکر زبانی بھی ہوتا ہے اور عملی بھی اگر ہمارا عمل اس کے خلاف ہو تو زبانی شکر ادا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اگر دل سے اور زبان سے ہم اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا کرتے ہیں تو اس کے مزید احسانات حاصل کرنے کا مصداق اس طرح اپنے کو بنانا ہے کہ اس کی مکمل اطاعت کی جائے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کو علم ہو کہ کن باتوں کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور کن باتوں سے منع فرمایا ہے.یہ کس طرح معلوم ہوگا.قرآن وہ مکمل شریعت ہے جو انسانوں کی ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہے.قرآن پڑھنے اور سمجھنے کے بعد ہی عمل ممکن ہے جو قرآن پڑھے گا نہیں ، اس کے مطالب جاننے کی کوشش نہیں کرے گا اس کے لئے قرآنی تعلیم جس کو پھیلانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں پر عمل بھی ممکن نہ ہوگا.پس میری بہنو اگر آپ نے دل سے اسلام کو ایک ابدی صداقت کے طور پر قبول کیا ہے اگر آپ یقین رکھتی ہوں کہ قرآن مجید ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اگر آپ یہ یقین رکھتی ہیں کہ

Page 742

خطابات مریم 717 پیغامات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے لئے نجات دہندہ ہیں.اگر آپ یہ یقین رکھتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھیجا ہے کہ وہ اسلام کو سارے دینوں پر غالب کریں تو آپ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرنا ہو گا.خود دین سیکھنا ہو گا اس پر خود عمل کر کے دنیا کو دکھانا ہو گا.اپنے اعلیٰ اخلاق ، اپنے عمل ، اپنے نمونہ ، اپنے بچوں کی اعلیٰ تربیت سے اسلام کی اس ملک میں اشاعت کرنی ہوگی.پس قرآن کا ترجمہ سیکھنے کی پوری پوری کوشش کریں.اس کا مطلب سمجھیں پھر آپ کا اس پر عمل بھی ہے یا نہیں اگر آپ خود اس پر عمل نہیں کر رہیں تو دوسروں کے سامنے کس منہ سے کہیں گی کہ قرآن کی تعلیم دوسری سب تعلیموں سے اعلیٰ ہے.اس کا افضل ہونا آپ نے اپنے نمونہ سے ثابت کرنا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی تو فیق عطا کرے.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 743

خطابات مریم 718 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ سینٹ میری امریکہ 1984ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ممبرات لجنات اما ء اللہ نیشنل سینٹ میری آپ کا سالانہ اجتماع سات جولائی کو ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو بہت بابرکت کرے اور جس نیک مقصد سے یہ اجتماع کیا جا رہا ہے.اس کو پورا کر نے والا ہو.انسان کا سب سے پہلے اپنے نفس پر حق ہوتا ہے اس لئے اپنی تربیت پر پہلے توجہ دیں.تا کہ دوسروں کی تربیت کر سکیں.جب تک آپ میں کوئی بھی کمزوری یا نقص باقی رہتا ہے آپ دوسروں کے لئے نمونہ نہیں بن سکتیں.اس لئے بہت توجہ کی ضرورت ہے کہ وہ تدابیر اور ذرائع سوچیں جس سے آپ اور آپ کے بچے دوسری اقوام کے اثر سے محفوظ رہ سکیں اور خالص دینی ماحول میں تربیت حاصل کریں اور ترقی کر سکیں.خاص طور پر چھوٹے چھوٹے بچوں اور جوان بچیوں کی تربیت کی بہت ضرورت ہے کہ آئندہ نسل کی ذمہ داریاں ان پر پڑنے والی ہیں.ہمارے لئے اصل معیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت آپ کے اخلاق اور آپ کا نمونہ ہے.حضور کی سیرت سے ہر بچے کو واقف کرانا آپ کا کام ہے اور پھر خود عمل کر کے ان سے عمل کروانا آپ کا فرض ہے.جب تک بچوں کو صحیح اور غلط کا فرق نہیں بتایا جائے گا ان کا عمل بھی اس پر نہیں ہو گا.داعی الی اللہ بننے کے لئے ان اخلاق ان صفات کا آپ میں پیدا ہونا ضروری ہے جو قرآن نے بیان کئے ہیں.اس کی کامل تعلیم کو دوسروں تک پہنچانا ہمارا فرض ہے.اپنے قول کے ذریعہ سے بھی اور اپنے فعل کے ذریعہ سے بھی اور یہی بہت بڑی آپ کی ذمہ داری ہے.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 744

خطابات مریم 719 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ لیگوس نائیجیر یا1984ء ممبرات لجنہ اماءاللہ لیگوس السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی طرف سے سالانہ اجتماع پر پیغام بھجوانے کی تار لیٹ ملی تار تو دے دی ہے.یہ پیغام بھی ارسال ہے خدا کرے وقت پر مل جائے.میری دعا ہے کہ یہ اجتماع بہت بابرکت ثابت ہو.ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہم میں سے الگ الگ کسی کا وجود نہیں ہم احمد یہ جماعت کے افراد ہیں اور ہم مل کر اپنی ترقی کی کوشش کریں تو کامیاب ہو سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کی غرض پھر سے دنیا کو صحیح اسلام کی شکل پیش کرنی اور اس پر عمل کروانا تھا.قرآن مجید انسانوں کے ہر مسئلہ کا حل لے کر آیا تھا.لیکن افسوس مسلمانوں نے اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا.جس کے نتیجہ میں ان کی ترقیاں رک گئیں اور ان کو زوال شروع ہو گیا.اب اللہ تعالیٰ کی تقدیر یہ ہے اور اس کا وعدہ ہے کہ اس جماعت کے ذریعہ اسلام پھر غالب آئے گا بشرطیکہ ہم قرآن پر عمل کرنے والے ہوں.صالح ہوں اور قرآن مجید کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کریں اللہ تعالیٰ نے قومی ترقی کے لئے ہر مرد اور عورت پر برابر ذمہ داری ڈالی ہے.آپ کوشش کریں کہ آپ کا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہو.آپ کا عمل قرآن کے مطابق ہو.جس کے لئے ضروری ہے کہ آپ قرآن پڑھیں ترجمہ سیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھیں ہر بات کے متعلق آپ کو معلوم ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق کیا فرمایا ہے اور پھر جائزہ لیں کہ کیا آپ کا عمل بھی اس کے مطابق ہے یا نہیں اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے اور جلد سے جلد سارے افریقہ میں اسلام کی کرنیں پھیل جائیں اور ان کا میابیوں میں آپ کی کوششوں کا بھی دخل ہو.آپ سب اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے والے ہوں.آمین.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 745

خطابات مریم 720 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ قادیان 1984ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیاری ناصرات الاحمدیہ السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه میں چشم تصور سے آپ کو اپنے اجتماع کے لئے اکٹھی ہوتا دیکھ رہی ہوں کہ آپ میں سے ہر ایک میں ایک شوق ہے کہ میں ہر اس مقابلہ میں جس میں میں شریک ہو رہی ہوں اوّل آؤں.پیاری بچیو! اللہ تعالیٰ یہ حسین اجتماع منعقد ہونا مبارک کرے اور آپ کی عہدہ داروں کو توفیق دے کہ وہ آپ کی صحیح تربیت کریں اور صحیح راہیں ترقی کرنے کی آپ کو دکھا ئیں.میری بچیو! یہ اجتماع صرف اس لئے نہیں منعقد ہوتے کہ کوئی تلاوت قرآن کے مقابلہ میں اول آ جائے ، کوئی نظم میں اول آ جائے ، کوئی تقریر میں اوّل آ جائے یہ سب تو مختلف سیٹرھیاں ہیں جن پر چڑھ کر آپ نے بلندیوں کو حاصل کرنا ہے جس طرح پہلی جماعت پاس کئے بغیر آپ دوسری میں نہیں جاسکتیں اور دوسری پاس کئے بغیر تیسری میں نہیں جاسکتیں یہی طریقہ ہر ترقی کے میدان کے حاصل کرنے کا ہے.قربانی اور عمل کے بغیر آپ ترقی کی آخری منزل کو نہیں پہنچ سکتیں اور زبان اور عمل کی روح پیدا کرنے کے لئے ہی یہ اجتماع منعقد کئے جاتے ہیں تا آپ میں ایک دوسرے سے نیکیوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہو ہر لڑکی میں یہ جذ بہ ہو کہ جب بھی جماعتی قربانی کا مطالبہ ہوگا میں اس میں سب سے آگے ہوں اگر وقت کی قربانی کا مطالبہ ہو تو میں سب سے بڑھ کر ہوں ، اگر یہ دیکھا جائے کہ کون سب سے با اخلاق ہے تو میں ہوں، کون سب سے زیادہ صحیح قرآن مجید پڑھنے والی، زیادہ سے زیادہ سورتیں حفظ کرنے والی ،ترجمہ سیکھنے والی ہے تو میرا نام سب سے آگے ہو.سب سے زیادہ صفائی پسند، سب سے زیادہ دین

Page 746

خطابات مریم 721 پیغامات کے لئے غیرت رکھنے والی ، سب سے زیادہ سچ بولنے والی ، سب سے زیادہ جھوٹ سے نفرت کرنے والی ، سب سے زیادہ محنت کرنے والی ، سب سے زیادہ اپنی ذمہ داری کو جو اسے دی جائے ادا کرنے والی ،سب سے زیادہ وقت کی پابند میں ہوں.یہ جذ بہ مسابقت ہے جو ہم نے اپنی ناصرات میں پیدا کرنا ہے اور اگر ہماری مائیں اور لجنہ اماءاللہ کی عہدہ دار اپنی ناصرات میں یہ جذبہ پیدا کر دیتی ہیں اور بچیاں بھی اس پر عمل کرنے لگتی ہیں تو یقیناً جس مقصد سے ناصرات الاحمدیہ قائم کی گئی ہے ہم اس کو پورا کرنے والی ہوں.پیاری بچیو! اللہ تعالیٰ آپ کی زندگیوں میں برکت دے اور آپ بڑی ہو کر اپنی پہلی نسل سے زیادہ قربانیاں دینے والی ہوں.اپنی اپنی عمر کے مطابق جو کچھ آپ کو سکھایا جائے سیکھیں اور دعا کیا کریں اپنے رب سے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی ذمہ داریوں کو اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین اللھم آمین خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 4-10-1984

Page 747

خطابات مریم 722 پیغامات سالانہ اجتماع لجنات اماءاللہ بھارت 1984ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میری پیاری بہنو ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں شرکت کر رہی ہوں اللہ تعالیٰ آپ کے سالانہ اجتماع کو مبارک کرے اور اللہ تعالیٰ اس کے بہترین نتائج ظاہر کرے.آپ لجنہ اماءاللہ کی مہرات ہیں.یعنی اپنے کو اللہ تعالیٰ کی لونڈیاں کہلانا اپنے لئے فخر کا موجب سمجھتی ہیں.ایک لونڈی اپنے آقا کی اطاعت سے باہر نہیں رہ سکتی.دنیاوی غلام اور لونڈیاں تو زبر دستی بنائے جاتے ہیں وہ اپنے آقا کے حکم پر جان بھی قربان کر دیں تو ثواب نہیں ملتا کیونکہ اس اطاعت میں ان کی رضا شامل نہیں ہوتی لیکن ہم نے تو خود اپنی گردن اس کی رضا کے سامنے رکھ دی ہے جس پر جب وہ چاہے چھری چلا دے.ہمارا کچھ نہیں سب اسی کا ہے.جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُون ہاں جو بھی اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دے اور وہ نیک کام کرنے والا بھی ہو تو اس کے رب کے ہاں اس کے لئے بدلہ مقرر ہے اور ان لوگوں کو نہ آئندہ کے متعلق کسی قسم کا خوف ہوگا اور نہ وہ کسی سابق نقصان پر غمگین ہونگے.حقیقت میں اسلام کی صحیح تعریف اس آیت میں بیان کی گئی ہے.حضرت امام جماعت احمد یہ اسلامی اصول کی فلاسفی میں فرماتے ہیں:.دو یعنی نجات یافتہ وہ شخص ہے جو اپنے وجود کو خدا کے لئے اور خدا کی راہ میں قربانی کی طرح رکھ دے اور نہ صرف نیت سے بلکہ نیک کاموں سے اپنے صدق کو دکھلا دے جو شخص ایسا کرے اس کا بدلہ خدا کے نزدیک مقر ر ہو چکا اور ایسے لوگوں پر نہ کچھ

Page 748

خطابات مریم 723 پیغامات خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہونگے.(روحانی خزائن جلد 10 اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 325 نیا ایڈیشن) اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم میں سے کتنی ہیں جو اپنے کو لجنہ اماءاللہ کی ایک ممبر کہلانے کا تو دعویٰ کرتی ہیں لیکن جو قربانی اسلام ان سے طلب کرتا ہے اس معیار قربانی پر پوری نہیں اترتیں.ہمیں اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی پوری پوری فرمانبردار ہیں یا نہیں.اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا پیمانہ بھی خود قرآن مجید نے بیان فرمایا ہے.فرماتا ہے.مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ اَطَاعَ اللَّهَ ترجمہ : جو رسول کی اطاعت کرے تو سمجھو کہ اس نے اللہ کی اطاعت کی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لئے کامل نمونہ ہے.زندگی کے ہر شعبہ میں آپ نے کامل راہ نمائی فرمائی ہے اور جو آپ کی مکمل فرمانبرداری کرتا ہے وہ بے شک حقیقی طور پر کہہ سکتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا مطیع وفرمانبردار ہوں.پس اپنی زندگیاں ان راہوں کے مطابق گزار دوں جن راہوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود چل کر تمہارے لئے روشن اور نمایاں کر دی ہیں.ہزاروں سلام اور درود اس پاک ہستی پر حقیقت یہ ہے کہ شه لولاک نعمت لاتے تو اس دنیا سے ہم اندھے ہی جاتے پس روحانی بینائی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ قرآن مجید کو پڑھنا سمجھنا اور اُس پر عمل کرنا ہے اور جن بُرائیوں سے قرآن نے روکا جن پر عمل کرنے کی وجہ سے پہلی قوموں پر عذاب نازل ہوا ان سے بچنا جن نیکیوں کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اور جن کو کرنے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے ان کا کرنا ہی ہمارا مقصد زندگی ہونا چاہئے.کسی وقت بھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے ہمارے دل خالی نہ ہوں.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ (منافقون: 10) ترجمہ: اے مومنو! تم کو تمہارے مال اور تمہاری اولادیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں.

Page 749

خطابات مریم 724 پیغامات مال ہے تو وہ اللہ کی راہ میں خرچ کریں اولاد ہے تو اس کی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصولوں پر تربیت کریں کہ وہ بڑے ہو کے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کریں اور اس کے دین کے جھنڈے کو بلند کرنے والے ہوں.پس میری بہنو! جو اماء اللہ ہونے کا دعویٰ رکھتی ہیں اپنے کو اس کا حقدار ثابت کریں اور اپنی اولاد کی تربیت کی طرف بہت توجہ کریں تا وہ آئندہ آنے والی ذمہ داریوں کو آپ سے بھی بڑھ کر اُٹھا سکیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.خاکسار آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 750

خطابات مریم 725 پیغامات ممبرات مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ یونائیٹڈ سٹیٹ امریکہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی 1984-85ء کے لئے جو عہدہ دار مقرر کی گئی ہیں ان کی فہرست پہنچی.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اللہ تعالیٰ کی خاطر بہترین کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ابتدائے قرآن میں ہی اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ رحیم ہے سچی محبت کرنے والوں کو ضائع نہیں کرتا.قانون قدرت میں اس کا جزا سزا کا قانون ہر جگہ نظر آتا ہے.پس یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ سچی محبت کریں اور اس کی جزا آپ کو نہ ملے اور یہ بھی یا درکھیں جو ثواب ابتدائی کام کرنے والوں کو ملتا ہے جب ترقی ہو جائے بعد میں آنے والے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے مشہور ہے کہ اگر عمارت کی بنیاد ٹیڑھی رکھی جائے تو ساری عمارت ٹیڑھی بنتی ہے.آپ لوگ تو بنیاد میں کام کرنے والے ہیں اس کے لئے دو تین ضروری ہدا یتیں دیتی ہوں.1.ہر کام کرتے وقت دعا کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے کام میں برکت دے اور جو بھی کام کی توفیق ملے اس سے آپ میں کبھی تکبر پیدا نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی حمد کریں کہ اس نے اپنے فضل سے آپ کو کام کی توفیق عطا کی.2.اپنی ممبرات ماتحت افسر جن سے بھی آپ نے کام لینا ہے ان کو پیار محبت نرمی سے کام کی ترغیب دیں اگر کسی سے ذاتی اختلاف ہے بھی تو وہ آپ کے کام کی رفتار میں حائل نہیں ہونا چاہئے خدا کی خاطر ذاتی جھگڑے بھول جائیں اور معاف کرنا سیکھیں.3.ایک انچارچ یا سیکرٹری یا لیڈر کو اپنا نمونہ بہترین دکھانا چاہئے اس کے لئے کوشش کریں کہ جس بات کی آپ تلقین کرنا چاہتی ہیں پہلے آپ کا اپنا عمل اس پر ہو پھر دوسروں کو کہیں.، مجھے امید ہے کہ ان تین امور کو آپ میں سے ہر ایک مدنظر رکھے گی تو یقیناً وہ ایک اچھی عہد یدار ثابت ہو گی.خاکسار.آپ کی بہن.مریم صدیقہ.صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ

Page 751

خطابات مریم 726 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ناروے 1985ء بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مکرمہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ.ناروے میری پیاری بہنو ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه 23 فروری کو آپ کا سالانہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو بابرکت کرے اور اس کے مقصد کو پورا کرے.جلسوں کا مطلب صرف یہ نہیں ہوتا کہ آپ تقریریں سن لیں جو تقریر میں کر دیں ان کی تعریف کر دیں اور جلسوں میں شامل ہو کر سمجھیں بہت بڑا کام کرلیا ہے.اس ملک میں آپ سب خلیفتہ امسیح کی نمائندہ ہیں اور آپ کا مقصد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کو پیش کرتے ہوئے اپنے قول و عمل سے دنیا پر ثابت کرنا کہ اسلام زندہ مذہب ہے.اس کے لئے خود آپ کو ہر وقت اپنے نفس کا جائزہ لینا ہوگا کہ میر اعمل دعوے کے مطابق ہے یا نہیں.میں قرآن مجید کے ایک ایک قول پر عمل کرتی ہوں یا نہیں.اگر خود آپ کا عمل قرآن مجید کی تعلیم پر نہیں اگر آپ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل نہیں کر رہیں تو آپ کے قول و فعل میں تضاد واقع ہو جاتا ہے اور جب کسی قوم کے عمل وفعل میں تضاد ہو تو وہ کامیاب نہیں ہوا کرتی.آپس میں اتحاد ر ہے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں.ایک دوسرے کی غلطیوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے ایک ساتھ بڑھنے کی کوشش کریں.بچوں کی تربیت کی طرف خصوصی توجہ دیں اپنے بچوں کے ہاتھ میں اگلی نسل کی باگ ڈور ہو گی اگر آپ کی نئی نسل دین سے ناواقف ہوئی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین کی محبت اور آپ کے لئے غیرت دلوں میں نہ ہوئی تو وہ دین سے بہت دور جا پڑیں گے.پس میری بہنو! بچوں کے دلوں میں دین کے لئے محبت پیدا کریں.دین کے لئے غیرت

Page 752

خطابات مریم 727 پیغامات P پیدا کریں.خدا تعالیٰ کے احکام پر چلنے کا شوق پیدا کر یں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلام حضرت مسیح موعود سے محبت پیدا کریں دین سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کا شوق پیدا کریں.اگر آپ ایک نسل کو مذہب کی سچی شیدائی بنا لیتی ہیں تو یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ تاریخ احمدیت میں آپ کے نام سنہری حروف سے لکھے جائیں گے.خدا کرے ایسا ہی ہو.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 753

خطابات مریم 728 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ 1985ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میری عزیز بہنو ! اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں شامل ہو رہی ہوں جو چار جماعتوں کا اکٹھا ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو بہت بہت مبارک کرے اور اجتماع کی جو حقیقی غرض ہے وہ پوری ہو.ہر سال اجتماع اس لئے کئے جاتے ہیں کہ سب بہنیں بچیاں ایک جگہ جمع ہوں ان کو ایک دوسرے کے مزاج سے واقفیت ہو ایک دوسری سے محبت، پیار اور ایک دوسری کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا ہو اور جس کام کے کرنے کا اجتماع میں فیصلہ کیا جائے سب ایک عزم کے ساتھ مل کر اس کو کر یں.آپس میں کسی قسم کا اختلاف نہ ہو.جس طرح کھیل کی ٹیم جیت نہیں سکتی جب تک دل لگا کر سب ایک سانہ کھیلیں اور اپنے کیپٹن کی مکمل اطاعت نہ کریں یا ایک جہاز کامیابی سے نہیں اپنی منزل مقصود پر پہنچ سکتا جب تک اس کے کیپٹین کے اشارے پر سارے کام نہ کر رہے ہوں.کرنا یہی حال روحانی جماعتوں کا ہے اپنے خلیفہ اور خلیفہ کے مقرر کردہ افسروں کی مکمل اطاعت سب سے پہلا فرض ہے خواہ وہ افسر جماعت کے ہوں، انصار اللہ کے لجنہ کے یا خدام الاحمدیہ کے اپنی اپنی تنظیم میں خود بھی اطاعت کریں اور اپنے بچوں کو بھی اطاعت کرنا سکھائیں.پھر آپس میں اتحاد ہو.اختلاف رائے ہو سکتا ہے.لیکن وہ اختلاف لجنہ یا جماعت کی ترقی میں حائل نہ ہوں.آپس میں حسد نہ ہو ، حسد محبت کو کھا جاتا ہے.بڑے چھوٹوں سے شفقت سے پیش آئیں چھوٹے بڑوں کی عزت کریں ان کا حکم مانیں.اجتماع میں گزشتہ سال کی جو سال ختم ہو کام کی ترقی کا مقابلہ کیا جائے اور جہاں جہاں کمی رہ گئی ہو اس کو دور کرنے کی تدابیر اختیار کی جائیں.غور کیا جائے کہ جو سکیم گزشتہ سال بنائی تھی

Page 754

خطابات مریم 729 پیغامات اس پر کس وجہ سے عمل نہیں ہوسکا.آئندہ کے لئے سیکم بنائیں جس میں عورتوں بچوں کی دینی تعلیم اور تربیت پر زیادہ توجہ ہو.اسلام صرف عقائد کا نام نہیں.وہ تو انسان کی ساری زندگی پر حاوی ہے.ہر کام کرتے ہوئے معلوم ہونا چاہئے کہ کیا ہمارے عمل قرآن مجید کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے خلاف تو نہیں اور یہی ہمارا مقصد ہے اللہ تعالیٰ اس مقصد کے حصول کے لئے اس اجتماع میں آپ کو مفید تدابیر اختیار کرنے کی توفیق عطا کرے.بہت دعائیں کریں.حضرت خلیفہ اسیح الرابع کیلئے اپنے لئے ساری دنیا میں رہنے والے احمدیوں کیلئے.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 755

خطابات مریم 730 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ قادیان 1985ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیاری ناصرات الاحمدیہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه اللہ تعالیٰ تمہارے اجتماع کو مبارک کرے ابھی تم بچیاں ہو لیکن آئندہ بہت بھاری ذمہ داریوں کو اُٹھانا ہے جس کی تیاری تم نے ابھی سے کرنی ہے.اس سلسلہ میں میری نصیحت ہے کہ اس عمر میں اپنے اندر انتظامی صلاحیتیں پیدا کرو.اتنی اعلیٰ صلاحیتیں کہ جب کوئی اہم کام سپرد کیا جائے تو اس کی ادا ئیگی میں کبھی بھی کوئی جھول نہ ہو.اس کے لئے بعض اوصاف کا ہونا ضروری ہے.1.اپنے سے بالا افسر کی مکمل اور غیر مشروط اطاعت.کسی بات پر الجھنا نہیں جو حکم ہے اس کی ادائیگی کے بعد آرام کا سانس لینا ہے.2.جو حکم دیا جائے جو کام کرنے کو دیا جائے.اسے پوری طرح سمجھنا چاہئے بعض دفعہ نہ سمجھنے کی وجہ سے وقت اور محنت صرف ہوتی ہے.مگر کام اس طرح انجام نہیں پاتا جس طرح ہونا چاہئے.3.اپنے سے چھوٹوں یا ماتختوں جن سے کام لینا ہو ان کو بھی پوری طرح سمجھانا چاہئے اور شفقت اور پیار سے کام لیں.4 کام کرنے والی ساری ٹیم میں آپس میں اتفاق ، اتحاد اور تعاون ہو.5.جو کام سپرد ہو اس کو فوری کرنا چاہئے یہ نہیں کہ کر لیں گے.بعض دفعہ ٹالنے کے بعد جب کام کرنا شروع کیا جاتا ہے تو احساس ہوتا ہے اب وقت تھوڑا رہ گیا یا بسا اوقات کام کرنے والا بیمار ہو جاتا ہے اور اپنا فرض ادا نہیں کر سکتا.مثلاً ایک طالب علم سارا سال پڑھائی نہ کرے اور آخر میں پڑھ کر پاس نہیں ہوسکتا.

Page 756

خطابات مریم 731 پیغامات 6.کسی کام کو کسی ذمہ داری کو غیر اہم نہیں سمجھنا چاہئے.7.محنت ا محنت اور صحیح محنت کی عادت ڈالیں.بغیر محنت کے آپ کبھی نہیں کر سکتیں خواہ امتحان پاس کرنا ہو یا کوئی بھی قومی ذمہ داری ہو.ابھی تو آپ کی حالت کلیوں کی ہے.جب پھول بن کر کھلیں گی تو ہم امید رکھتی ہیں کہ آپ کی خوشبو ، اعلیٰ کردار، اعلیٰ اخلاق ، اعلیٰ اوصاف اور آپ کی خوبیوں اور حسن سیرت سے گلشن احمدیت مہک اُٹھے گا.خدا کرے آپ کی عہدہ داران کو آپ کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق ملے اور آپ کو ان پر عمل کرنے کی.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 757

خطابات مریم 732 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ بھارت 1985ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیاری بہنو السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ اپنے سالانہ اجتماع کے لئے قادیان دارلامان میں جمع ہیں اللہ تعالیٰ پوری طرح قادیان کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.جماعت ایک فیصلہ کن لیکن بظاہر تکلیف دہ دور سے گزر رہی ہے.ہمیں پورا یقین ہے کہ وہ تمام بشارتیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح کو دی ہیں پوری ہوں گی اور صداقت ظاہر ہو کر رہے گی.لیکن ہم نے جائزہ لینا ہے کہ ان بشارتوں اور فضلوں کو جذب کرنے میں ہمارا کتنا حصہ ہے.جماعت کے مخلصین نے ثابت کر دیا کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں انہوں نے جان و مال وقت اور اولاد کو پیش کر دیا پھر بھی منتظر رہے کہ اور قربانی ان سے لی جائے ایسے وقت میں جبکہ نہایت نازک دور سے جماعت گزر رہی ہے جو ایک تاریخ ساز دور ہے ہماری ہر عورت کو ہر قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے.سستیاں کوتاہیاں چھوڑ دینی چاہیں اور تیز قدم کرنے کے لئے سب سے بڑی چیز آپس کا اتفاق اتحاد اور تعاون با ہمی ہے.ہر قسم کے اختلافات کو بھول جانا چاہئے.پس ایک مقصد سامنے ہو کہ احمدیت ترقی کرے اللہ تعالیٰ کا فضل زیادہ سے زیادہ نازل ہو.کوئی دراڑ ہم میں ایسی نہ پڑے جہاں سے شیطان داخل ہو کر فتنہ پھیلا سکے.جہاں ہر قربانی دینے کے لئے خود تیار رہیں وہاں اپنی اگلی نسل کی دینی تربیت کی طرف بے حد توجہ دینے کی ضرورت ہے اور قرآنی ارشاد وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ہر عورت کا فرض ہے کہ سوچے غور کرے کہ اگلی نسل کو سنوار نے اور ان کو ذمہ داریاں سنبھالنے کا اہل بنانے میں وہ کیا کر دار ادا کر رہی ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.بہت دعائیں کریں اللہ تعالیٰ جلد فتح مبین ظاہر کرے.والسلام.خاکسار.صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ

Page 758

خطابات مریم 733 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ نبی 1985ء پیاری بہنو ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں شامل ہو رہی ہوں.اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو بہت مبارک کرے اور آئندہ ترقی کے لئے ایک نئی منزل ثابت کرے اور اس طرح ترقی کرتے ہوئے آپ اپنے مقصد کو حاصل کر سکیں.ابھی تک آپ کی لجنہ اماءاللہ منظم بھی نہیں ہوئی اس نے ان مقاصد کو سامنے نہیں رکھا جس کے لئے لجنہ اماء اللہ کا قیام کیا گیا تھا اس لئے ان میں تربیت کی بہت کمی ہے لجنہ اماءاللہ کا قیام اس لئے کیا گیا تھا کہ جماعت کی ترقی میں وہ نمایاں حصہ لے سکیں اور مردوں کے قدم بقدم تبلیغ تربیت میں حصہ لے سکیں.اسی طرح حضرت مصلح موعود نے اپنی ایک تقریر میں احمدیت کی عمارت کی ایک دیوار لجنہ اماءاللہ کو قرار دیا تھا.جماعت کا کوئی حصہ بھی کمزور ہوگا تو جماعت ترقی نہیں کر سکے گی اور جب کوئی کام کریں اس کا نتیجہ دیکھیں بچہ امتحان دیتا ہے اگر فیل ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے اس نے سارا سال صحیح محنت نہیں کی.اگر آپ کے کام کا نتیجہ نہیں نکلتا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اس کے لئے صحیح محنت نہیں کی.پس ضروری ہے کہ جو بھی پروگرام اپنی ترقی تعلیم اور تربیت کے آپ بنا ئیں دیکھیں ان کا نتیجہ نکلا ہے یا نہیں.جب دنیوی کام بے نتیجہ نہیں ہوتے تو کس طرح سمجھ لیا جائے کہ اخلاقی اور روحانی کام بغیر نتیجہ کے ہو سکتے ہیں.صحیح عمل کے لئے علم کا ہونا ضروری ہے اس علم کا خزانہ صرف اور صرف قرآن مجید ہے.کیا آپ کی ہر عورت قرآن مجید ناظرہ صحیح پڑھ سکتی اور اس کا ترجمہ جانتی ہے.اگر نہیں تو اس کام کو کریں ایک سکیم کے ماتحت کہ اتنے عرصہ میں آپ ہر عورت ہر بچی کو اس کی عمر کے مطابق قرآن مجید ناظرہ اور ترجمہ پڑھا دیں گی.جب تک سیڑھی کے پہلے قدم پر آپ پاؤں نہیں رکھیں گی او پر تک کیسے پہنچ سکتی ہیں.یہ تو پہلا زینہ ہے ترقی کا پھر جب پڑھ لیں تو ساتھ ساتھ اس بات کو دیکھیں کہ قرآن کے

Page 759

خطابات مریم 734 پیغامات ہر لفظ ہر حکم پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں یہاں تک کہ ہماری زندگیوں میں اسی طرح قرآن جاری ہو جائے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت عائشہ نے فرمایا تھا كَانَ خُلُقُهُ القُرآن یعنی جو آپ تعلیم دیتے تھے دنیا کو اُس پر خود عمل کرتے تھے.آپ کے اخلاق وہی تھے جن کی تعلیم قرآن مجید دیتا ہے پس قرآن مجید کی تعلیم کی اشاعت جماعت احمدیہ کے قیام کا سب سے بڑا مقصد ہے اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے آپ میں سے ہر ایک کو قرآن مجید با ترجمہ آنا چاہئے.یہ کام ایک دن میں نہیں ہوگا بلکہ ایک سکیم بنائیں کہ کتنے عرصہ میں کتنا قرآن مجید کا ترجمہ ہم سکھا سکتے ہیں اور اس کے لئے کیا کیا ذرائع اختیار کئے جائیں.اب تو کیسٹ کے ذریعہ پڑھانا آسان ہو گیا ہے.جہاں کوئی ترجمہ سکھانے والا نہ ملے آپ کی زبان میں تھوڑا تھوڑا ترجمہ تفسیر کے ساتھ آپ کے مربی سبق بنا کر ٹیپ کر دیں اور اس کی نقل ہر گھرانے تک پہنچا دی جائے پھر جب وہ اچھی طرح یاد کر لیں تو دوسرا سبق پھر تیسرا اس طرح قدم آگے بڑھاتی جائیں.ہر سال پیغام مانگنے کے ساتھ آپ لوگ اپنی رپورٹ بھی دیا کریں کہ گزشتہ سال آپ نے یہ پیغام دیا تھا ہماری لجنہ نے کس حد تک اس پر عمل کیا.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 760

خطابات مریم 735 پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ گیمبیا 1985ء بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عزیز بہنو! السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه.پیغامات اس مختصر سے پیغام کے ذریعہ آپ کے جلسہ میں شرکت کر رہی ہوں.اللہ تعالیٰ جلسہ کو کامیاب کرے اور جلسہ منعقد کرنے کا مقصد پورا ہو.جلسہ کے انعقاد کی دو بڑی غرضیں ہیں ایک تو یہ کہ احمدیت کا پیغام غیر مسلموں تک پہنچایا جائے اور دوسرے اپنوں کی تربیت اور آئندہ کے لئے ترقی کرنے کی تجاویز.خدا کرے آپ کی آوازوں میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے وہ مضامین سمجھائے جو دوسروں پر اثر کرنے والے ہوں.پھر آپ کا عمل بھی ایسا ہو کہ آپ کو دیکھ کر ہر ایک آپ کو دنیا میں سب سے بالا سمجھے اور یقین رکھے کہ یہی ہیں جو حقیقی اسلام پر عمل کرنے والے ہیں اس کے لئے اپنی تربیت کریں اور دیکھیں آپ کا جو دعویٰ ہے اس پر آپ کا عمل بھی ہے یا نہیں کوئی آپ کے عمل میں سے ایسا تو نہیں جو قرآن کی تعلیم کے خلاف ہے.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادت کے خلاف تو نہیں اگر آپ کا اپنا عمل قرآن اور حدیث کے مطابق نہیں تو دوسروں کی تربیت آپ کیا کریں گی پھر آئندہ ترقی کے لئے آپ نے اپنی اگلی نسل کو بھی محفوظ رکھنا ہے وہ دجالی تہذیب کی چکا چوند سے متاثر نہ ہو جائیں اس ملک میں رہتے ہوئے بھی وہ اپنی تہذیب اپنی تعلیم کو نہ بھولنے یا ئیں.حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت زندگی اور اپنے مقصد میں کامیابی کے لئے بہت دعا کریں.وہی مقصد آپ سب نے اپنے اپنے ممالک میں حاصل کرنا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے جو وعدے کئے ہیں جو بشارتیں دی ہیں وہ تو بہر حال پوری ہونی ہیں ہماری کمزوریاں ان کے پورا ہونے میں روک نہ بنیں اس لئے یہی وقت ہے جس میں ہم نے اپنی کمزوریوں کو دور کرنا ہے تا جلد سے جلد اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کر سکیں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام.خاکسار.مریم صدیقہ.صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 761

خطابات مریم 736 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ہالینڈ 1985ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ممبرات لجنہ اماءاللہ ہالینڈ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کو ہالینڈ میں نئے مشن کی بہت بہت مبارک ہوا اللہ تعالیٰ اس کو جماعت کے پھیلنے کا ذریعہ بنائے اور ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو دین اور انسانیت کے لئے مفید ہوں.لوگ اپنے خالق حقیقی کو بھول کر دنیا کے پھندوں میں پھنستے چلے جارہے ہیں.اپنے رب سے ان کا رشتہ منقطع ہوتا جا رہا ہے.وہ صرف مادی آسائشوں کو ہی حاصل زندگی سمجھتے ہیں لیکن مادی آسائشیں حاصل کر کے بھی سکون اور اطمینان حاصل نہیں ان کی اگلی نسلیں ان کے ہاتھوں سے نکلتی چلی جارہی ہیں جس کا کوئی حل ان کے پاس نہیں.حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کے آنے کی غرض یہی تھی کہ وہ کدورت جو انسان اور اس کے رب کے رشتے میں واقع ہو چکی تھی اس کو دور کریں اور انسان کی زندگی کا حقیقی مقصد اسے حاصل ہو.میری بہنو! آپ نے اس پیاری تعلیم کو دنیا تک پہنچانا ہے ہر ایک نے داعی الی اللہ بننا ہے.اس پیارے خزانہ کا پتہ ان کو بتانا ہے اس چشمہ تک ان کو لے کر جانا ہے تا وہ اس سے بھر بھر کر پانی پئیں.سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح؟ سب سے پہلے تو آپ نے خود علم حاصل کرنا ہے اور اعتراضات کے جوابات آپ کو آنے چاہئیں ہر اعتراض اسلام کے چمک دار چہرہ پر جو کرے اُسے دور کریں.دلائل سے ، پھر اپنے نمونہ سے.آپ کا نمونہ اتنا پیارا اتنا حسین ہو کہ ہالینڈ کے صفائی پسند اور حسن پرست لوگ مجبور ہو جائیں یہ کہنے پر کہ حقیقی دل کا حسن.روح کا حسن.اخلاق کا حسن.سیرت کا حسن.معاشرہ کا حسن صرف اور صرف اس جماعت میں نظر آتا ہے.اس وقت آپ تھوڑی تعداد میں ہیں اس لئے آپ کا یہ بھی فرض ہے کہ اپنی بہنوں بچیوں اور

Page 762

خطابات مریم 737 پیغامات بیٹیوں کو اس سحر سے بچائیں جس میں وہاں کے لوگ مبتلا ہیں.ان کی دینی تعلیم وتربیت کا بے حد خیال رکھیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو آپ کی مدد کرے اور وہاں کی جماعت جلد جلد ترقی کرے کہ نیا مشن ہاؤس بھی جلد تنگ ہو جائے.آپ کے وجود وہاں لوگوں کے لئے نافع الناس بنیں.ان کے بہی خواہ ہوں.اس لئے آپ سب اپنے اجلاسوں میں آنے اور کاموں میں کبھی سستی نہ کریں اور مشن کے کام کو اپنے سب کاموں پر مقدم رکھیں تا وہ غرض جلد سے جلد حاصل ہو.جس غرض کو پورا کر نے حضرت مسیح موعود آئے تھے.میں سب بہنوں کو اپنی دعاؤں میں یا درکھتی ہوں آپ بھی مجھے اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.22 نومبر کو میرا دماغ اور میری روح اور میرا دل آپ کے اجتماع میں آپ کے ساتھ شرکت کرے گا.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 763

خطابات مریم 738 پیغامات پیغام برائے سالانہ کھیلیں لجنہ و ناصرات کینیڈا 1986ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ممبرات لجنہ اماءاللہ و ناصرات الاحمدیہ جماعت کینیڈا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کی کھیلوں کی تقریب میں شامل ہو رہی ہوں غالباً کینیڈا میں اس قسم کی یہ پہلی تقریب منعقد ہو رہی ہے.اللہ تعالیٰ نے جسمانی اور روحانی سلسلوں میں مطابقت رکھی ہے.اگر صحت ٹھیک نہ ہو تو انسان دینی فرائض بھی صحیح ادا نہیں کر سکتا اور اس کا عملی سبق نماز کے ذریعہ سے دیا ہے نماز ہمیں سکھاتی ہے کہ ایک امام کی آواز پر ہم نے کھڑے ہونا ہے بیٹھنا ہے رکوع میں جانا ہے سجدہ میں جانا ہے.اپنی مرضی سے باجماعت نماز میں کسی کو یہ اجازت نہیں کہ امام کے سجدہ یا رکوع میں جانے سے قبل سجدہ یا رکوع میں چلا جائے.غرض نماز ہمیں ایک امام کی مکمل اطاعت کرنا سکھاتی ہے اور یہی سبق کھیل کا میدان دیتا ہے کہ جب تک whistle نہ ہو دوڑنا نہیں چاہئے.گویا نماز ایک انسان کے لئے روحانی پریڈ ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا وَلِكُلِّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلِيُّهَا ہے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ ہر انسان کا ایک مقصد ہوتا ہے نصب العین ہو جس کی طرف وہ اپنا رُخ رکھتا ہے تا کہ اسے حاصل کر سکے اے مومنو تم نیکیوں کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھو.استباق کہتے ہیں ایک دوسرے سے دوڑ میں آگے نکلنا.کھیل کا میدان آپ کو یہ سبق دیتا ہے کہ آپ نے ایک دوسرے سے ہر نیکی اور ہر خوبی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے مگر دوسرے کو نقصان پہنچائے بغیر.چندوں کی ادائیگی میں اجلاسوں کی حاضری میں قرآن پڑھنے اور پڑھانے میں.قرآن مجید کی تعلیم پر عمل کرنے میں.اللہ تعالیٰ کے بندوں سے حسن سلوک کرنے میں.اعلیٰ اخلاق سیکھنے اور سکھانے میں.دنیا کے لئے نمونہ بننے میں.دعوت الی اللہ کرنے میں ، جماعت کے لئے قربانیاں دینے میں.ہر ممبر لجنہ اور ہر ناصرہ کوشش کرے کہ میں

Page 764

خطابات مریم 739 پیغامات اول آؤں لیکن یہ آگے بڑھنا ایسا ہو کہ دوسرے سے حسد نہ ہو بلکہ اس کو بھی اپنے ساتھ گھسیٹنے اور آگے لے جانے کی کوشش ہو.اللہ تعالیٰ آپ سب کو تو فیق دے کہ اپنے نصب العین کو حاصل کر سکیں.اس کے لئے بہت سی بُرائیوں کو کوشش کر کے ، اپنا جائزہ لے کر آپ کو چھوڑ نا ہوگا.جب تک بُرائیوں کو نہ چھوڑا جائے نیکیاں نہیں کر سکتا.عدم تعاون ، نا اتفاقی ، غیبت، چغلی، بدظنی وغیرہ وہ بُرائیاں ہیں جو عموماً عورتوں میں پائی جاتی ہیں.ہم نے تو بنیان مرصوص بننا ہے تب ہی غلبہ اسلام کی شاہراہ پر ریس لگا سکتے ہیں.خدا کرے آپ ترقی کریں دینی لحاظ سے، روحانی لحاظ سے، قربانیوں کے لحاظ سے ، اخلاقی لحاظ سے اور تربیتی لحاظ سے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 765

خطابات مریم 740 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ انڈونیشیا 1986ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میری پیاری بہنو! ممبرات لجنہ اماءاللہ انڈونیشیا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی صدر کا خط ملا ہے کہ 5 ، 6 ، 7 اپریل کو بانڈ ونگ میں آپ کا اجتماع منعقد ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو بہت بہت مبارک کرے اور وہاں اس کے ذریعہ لجنہ اماءاللہ کی ترقی کا راستہ کھولے.دو سال سے ربوہ میں جلسہ سالا نہ بھی نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے کئی سال سے انڈونیشین بہنیں جو ر بوہ آیا کرتی تھیں وہ بھی نہیں آرہیں اور ان سے ملنا نہیں ہوتا اس موقع پر لجنہ اماءاللہ انڈونیشیا کی عہدہ دار اپنے بہت سے مسائل پیش کر کے ان کا حل پوچھا کرتی تھیں.زبان الگ ہونے کی وجہ سے بھی زیادہ خط و کتابت لجنہ مرکزیہ کے ساتھ نہیں ہے اب ایک دو سال سے انگریزی میں رپورٹ آنے لگی ہے تو کچھ تفصیل سے آپ کے کاموں کا پتہ چلنے لگا ہے.لجنہ اماءاللہ کے قواعد اُردو میں چھپے ہوئے ہیں اور انگریزی میں بھی.آپ میں سے جو بہنیں انگریزی جانتی ہیں اس میں سے الیکشن اور دوسرے کاموں کے متعلق قواعد بنا سکتی ہیں لجنہ خواہ کسی ملک کی بھی ہو اُس کے قواعد وہی ہونے چاہئیں جو مرکزی لجنہ کے منظور شدہ ہیں.میری پیاری بہنو ! حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے آنے کی غرض ایک پاک جماعت کا قیام ہے اس لئے آپ نے بار بار جماعت کو اس طرف توجہ دلائی آپ فرماتے ہیں.”اے میرے دوستو ! جو میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو خدا ہمیں اور تمہیں ان باتوں کی توفیق دے جن سے وہ راضی ہو جائے آج تم تھوڑے ہو اور تحقیر کی نظر سے دیکھے گئے ہو اور ایک ابتلا کا وقت تم پر ہے اسی سنت اللہ کے موافق جو قدیم سے جاری ہے ہر ایک طرف سے کوشش ہو گی کہ تم ٹھوکر کھاؤ اور تم ہر طرح سے ستائے جاؤ گے اور

Page 766

خطابات مریم 741 طرح طرح کی باتیں تمہیں سننی پڑیں گی اور ہر یک جو تمہیں زبان یا ہاتھ سے دکھ دے گا وہ خیال کرے گا کہ اسلام کی حمایت کر رہا ہے اور کچھ آسمانی ابتلا بھی تم پر آئیں گے تاتم ہر طرح سے آزمائے جاؤ“.پھر حضور فرماتے ہیں :.پیغامات (روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام صفحہ 547,546) ہم کیونکر خدا تعالیٰ کو راضی کریں اور کیونکر وہ ہمارے ساتھ ہو اس کا اُس نے بار بار مجھے یہی جواب دیا کہ تقویٰ سے.سواے میرے پیارے بھائیو کوشش کرو تا متقی بن جاؤ.بغیر عمل کے سب باتیں بیچ ہیں اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل مقبول نہیں.سو تقویٰ یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بیچ کر خدا تعالیٰ کی طرف قدم اُٹھاؤ اور پر ہیز گاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو اور سچ مچ دلوں کے حلیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ“.(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 547) پھر بعد اس کے کوشش کرو اور نیز خدا تعالیٰ سے قوت اور ہمت مانگو کہ تمہارے دلوں کے پاک ارادے اور پاک خیالات اور پاک جذبات اور پاک خواہشیں تمہارے اعضاء اور تمہارے تمام قومی کے ذریعہ سے ظہور پذیر اور تکمیل پذیر ہوں تا تمہاری نیکیاں کمال تک پہنچیں“.(روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام صفحہ 548) اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.”خدا بڑی دولت ہے اس کے پانے کیلئے مصیبتوں کیلئے تیار ہو جاؤ.وہ بڑی مراد ہے.اس کے حاصل کرنے کیلئے جانوں کو فدا کرو.عزیز و! خدا تعالیٰ کے حکموں کو بے قدری سے نہ دیکھو موجودہ فلسفہ کی زہر تم پر اثر نہ کرے ایک بچے کی طرح بن کر اس کے حکموں کے نیچے چلو، نماز پڑھو، نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی کنجی ہے“.(روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام صفحہ 549)

Page 767

خطابات مریم پھر فرماتے ہیں:.742 پیغامات باہم بخل اور کینہ اور حسد اور بغض اور بے مہری چھوڑ دو اور ایک ہو جاؤ قرآن شریف کے بڑے حکم دو ہی ہیں ایک تو حید و محبت واطاعت باری عزاسمہ دوسری ہمدردی اپنے بھائیوں اور اپنے بنی نوع کی.(ازالہ اوہام صفحہ 550 روحانی خزائن جلد 3) میری بہنوں کوشش کریں کہ حضرت مسیح موعود کی ان نصائح پر عمل کر کے آپ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکیں.پیار، محبت اور ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ترقی کر سکیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 768

خطابات مریم 743 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی 1986ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ممبرات لجنہ اماءاللہ جرمنی السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کا سالانہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے اور اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں شرکت کر رہی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے اجتماع کو بہت مبارک کرے اور اس کے نیک نتائج آپ سب اس بات پر غور کریں اور جائزہ لیں کہ احمد یہ جماعت میں شامل ہو کر کیا آپ نے اس مقصد کو پا لیا ہے جو حضرت مسیح موعود کا احمد یہ جماعت بنانے کا تھا.آپ کے ہی الفاظ میں اس مقصد کو بیان کرتی ہوں.آپ فرماتے ہیں :.سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہو گا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا وہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے کہ اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کونشو و نما دے گا یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اُس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے“.(روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام صفحہ 563،562) میری بہنو آپ کے وجود حضرت اقدس کے ان الفاظ کے مطابق ہونے چاہئیں کہ وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے.اپنے میں وہ روشنی پیدا کریں جو پھیلے اور دنیا کو منور کرے وہ اعلیٰ اخلاق پیدا کریں جو دنیا کے

Page 769

خطابات مریم 744 پیغامات لئے بطور نمونہ ہو.آپ کا عمل قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق ہو آپ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ ہو.آپ کی زندگیاں نمونہ ہوں اس دعوئی اور تعلیم کا جو آپ دوسروں کو دیتی ہیں اگر آپ تعلیم اور دے رہی ہوں گی اور خود آپ کا اس پر عمل نہ ہوگا تو کوئی آپ کی طرف متوجہ نہ ہوگا.بہت سی بہنیں جب باہر کسی ملک میں جاتی ہیں تو وہاں کی ظاہری چکا چوند سے متاثر ہو کر پردہ اُتار دیتی ہیں.بچوں کی دینی تعلیم اور اپنی زبان سکھانے سے غافل ہو جاتی ہیں اور اس دجالی تہذیب کو اختیار کر لیتی ہیں جس کو دور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود آئے تھے.مذہب کی اصل غرض اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم ہونا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.انتہائی غرض اس زندگی کی خدا تعالیٰ سے وہ سچا اور یقینی پیوند حاصل کرنا ہے جو 66 تعلقات نفسانیہ سے چھڑا کر نجات کے سرچشمہ تک پہنچاتا ہے.پس میری پیاری بہنو! اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا پیوند لگاؤ.آپ نے دیکھا ہے کہ درخت کو پیوند جب لگاتے ہیں تو اس درخت کے ساتھ پودے کو باندھ دیتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ پیوند ہونے کا مطلب ہے کہ اس کی رضا پر سب کچھ قربان کر دو اور وہی کرو جو اس نے کیا ہے اس کی محبت سب محبتوں سے بالا.اس کا حکم سب سے زیادہ قابل قبول ہو.قرآن پڑھیں ترجمہ سیکھیں اور غور کریں کہ اللہ تعالیٰ کس بات کے کرنے کا حکم دیتا ہے اور کس بات کے کرنے سے منع فرماتا ہے.جن سے منع فرماتا ہے ان سے اس طرح دور رہیں جس طرح سانپ اور درندے سے دور رہتے ہیں اور جن کا حکم دیتا ہے ان پر عمل کرنے میں ہر ایک کوشش کرے کہ میں سب سے پہلی بنوں.روزانہ جائزہ لیتی رہیں کہ کیا ہمارا دن اس تعلیم کے مطابق گزرا ہے.اگر نہیں تو کوشش کریں اپنے میں تبدیلی پیدا کرنے کی اور دعا کریں سچے دل سے کہ وہ تبدیلی آپ میں پیدا ہو.اللہ تعالیٰ وہاں کی جماعت کو بہت ترقی دے اور وہاں کے رہنے والوں کی ہدایت کا ذریعہ بنائے.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.آمین.والسلام خاکسار.مریم صدیقہ.صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 770

خطابات مریم 745 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ روز بل ماریشس 1986ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ ممبرات لجنہ اماء اللہ روز ہل ماریشس السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کا اجتماع 3 رمئی کو ہو رہا ہے آپ کی خواہش پر مختصر سا پیغام بھجوا رہی ہوں.معلوم نہیں یہ وقت پر پہنچتا ہے یا نہیں.حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں.یا ہم بجل اور کینہ اور حسد اور بغض اور بے مہری چھوڑ دو اور ایک ہو جاؤ.قرآن شریف کے بڑے حکم دو ہی ہیں ایک تو حید و محبت و اطاعت باری عز اسمہ دوسرے ہمدردی اپنے بھائیوں اور اپنے بنی نوع کی.(روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام صفحہ 550) میں آپ کی توجہ حضرت اقدس کے اس ارشاد کی طرف کراتی ہوں.بعض لوگ دیکھنے میں بڑے عبادت گزار ہوتے ہیں چندے بھی دیتے ہیں لیکن اپنے بہن بھائیوں سے ان کا سلوک اچھا نہیں ہوتا.ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ کا پیار وہی حاصل کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بندوں سے بھی پیار کرتے ہیں ان کو کوئی تکلیف نہیں پہنچاتے نہ زبان سے نہ ہاتھ سے.صرف یہی نہیں کہ تکلیف نہیں دیتے بلکہ ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہیں کسی کو دکھ میں نہیں دیکھ سکتے.ان کے آرام کو اپنے آرام پر ترجیح دیتے ہیں.اس جذبہ کے بغیر جماعت میں اتحاد پیدا نہیں ہوسکتا وہ ایک نہیں ہو سکتے.پس میری بہنو مجھے کسی لجنہ سے بھی اگر کسی لڑائی جھگڑے کی اطلاع ملے تو بہت تکلیف ہوتی ہے.ہماری ساری طاقت تو لڑائی جھگڑوں سے ضائع ہو جائے گی.اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ سب بہنوں میں تعاون ہو.عہدیداروں کی مکمل اطاعت کی جائے.دینی کاموں میں تعاون کیا جائے اور جماعتی کا موں کو اپنے گھر یلو فرائض پر مقدم رکھا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.

Page 771

خطابات مریم 746 پیغامات خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے.جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا.تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں.وہ کا ٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے.تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور بچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلیل کرو تا تم بخشے جاؤ.(روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحه 12) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت اقدس کے نصائح پر چلنے کی توفیق دے اور ہم حقیقت میں دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے بنیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آمین خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 772

خطابات مریم 747 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ گیمبیا 1986ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ممبرات لجنہ اماءاللہ گیمبیا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے سالانہ اجتماع میں شرکت کر رہی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے جمع ہونے کو بہت مبارک کرے اور آپ سب ایسی تدابیر سوچیں جن سے اس ملک میں زیادہ سے زیادہ احمدیت پھیلے اور اس کا سب سے بڑا طریق یہی ہے کہ ہر ممبر آپ کی داعی الی اللہ ہو دین کے کاموں میں حصہ لینے اور قربانی دینے والی ہو.اس کا اپنا نمونہ دین کی تعلیم کے مطابق ہو.اس کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ ہو.دوسرا بڑا فرض آپ کا بچوں کی اعلیٰ تربیت کرنا ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا پیار پیدا کرنا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کرنا ، آپ کی اطاعت کرنا جماعت کے لئے محبت اور غیرت پیدا کرنا اور خلیفہ وقت کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرنا ہے.اگر اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کی آپ اعلی تربیت کریں گی اور ان میں ذمہ داریوں کا احساس پیدا کریں گی تو انشاء اللہ آپ کا ملک ترقی کرتا جائے گا.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور بحیثیت ایک شہری اور بحیثیت احمدی کے جو بھی آپ کی ذمہ داریاں ہیں احسن طور پر بجالانے کی تو فیق عطا فرمائے.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 773

خطابات مریم 748 پیغامات پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ گیمبیا 1986ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ میری پیاری بہنو ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کا جلسہ سالانہ منعقد ہونے والا ہے.اللہ تعالیٰ تمام بہنوں کو اس میں شامل ہونے اور اس سے برکت حاصل کرنے کی توفیق دے.جلسہ چاہے آپ کے ملک میں ہو یا کہیں اور.اس کا مقصد وہی ہے جو مرکزی جلسہ سالانہ کا ہوتا ہے.جس کی ابتدا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہوئی.اس کا مقصد احمدیوں کی تربیت، باہمی ملاقات، بھائی چارہ اور محبت پیدا کرنا ہوتا ہے.ایک دوسرے کو نیکی کے راستہ پر گامزن ہونے کی ترغیب دینا ہے.تمام اچھی چیزیں جو بتائی جاتی ہیں ان پر عمل کرنا.ہمیشہ سچائی کے راستہ پر چلیں.آپ کے قدم بالکل نہ ڈگمگائیں خدا کے اس وعدے کو ہمیشہ یاد رکھیں جو حضرت مسیح موعود کے ساتھ فرمایا.دنیا میں ایک نذیر آیا.پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور.بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا“.( تذکرہ صفحہ 238) یہ حقیقت یقیناً پوری ہوگی اور ہورہی ہے.ہمیں ہر حال میں خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا ہے اور اپنی کمزوریوں کو دور کر کے بچے خادم بننا ہے.آئیں ہم انسانیت سے پیار کرنا سیکھیں اور ان میں سے نہ ہوں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں ہم آپس میں اتحاد قائم کریں.خدا کے لئے سب کچھ قربان کرنا سیکھیں اور خدا کے لئے تمام مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا سیکھیں.اس خدا نے ہم پر بہت فضل فرمائے اور سچائی کو پھیلانے کی توفیق دی.

Page 774

خطابات مریم 749 پیغامات پس میری بہنو! آئیں ہم داعی الی اللہ بن جائیں.سب سے پہلے دین کا علم خود حاصل کریں.پھر دنیا میں پھیلائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے.آمین والسلام آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 17-5-1986

Page 775

خطابات مریم 750 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ فیس ماریشس 1986ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ممبرات لجنہ اماءاللہ فیکس ماریشس اور دوسری لجنات السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی جنرل سیکرٹری صاحبہ نے اطلاع دی ہے کہ 5 / جولائی 1986ء کو آپ کا سالانہ اجتماع ہو رہا ہے میرے خیال میں تو جب سارے ماریشس کا اجتماع ہو تو اس پر ایک پیغام کا جانا ہی کافی ہے لیکن چونکہ آپ نے خواہش کی ہے اس لئے بھجوا رہی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے اجتماع کو کامیاب کرے اجتماع کو پہلے کی طرح نہ منائیں بلکہ کوئی مقصد سامنے رکھ کر منعقد کریں اور مقصد یہی ہے کہ آپ جلد سے جلد ترقی کریں اس لئے اپنے سارے سال کے کام کو سامنے رکھ کر سوچیں اور غور کریں کہ کیا جو آپ نے کام کئے ہیں ان کی بناء پر آپ کا قدم ترقی کی طرف اُٹھ سکتا ہے ابھی تو بڑے ابتدائی کام ہیں جو لجنہ کر رہی ہے.اکثر کو قرآن مجید کا ترجمہ نہیں آتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بہت سی بہنوں نے نہیں پڑھی ہونگی.بہت سوں کو بنیادی علم نہیں ہوگا اور جب اپنے عقائد کے متعلق پختہ علم نہ ہو تو انسان دوسروں کی نقل کرنے لگ جاتا ہے.اس لئے بہت اور بے حد ضروری ہے کہ آپ دینی علم سیکھنے کی طرف توجہ دیں اپنی اپنی عمر، صحت ، طاقت اور علم کے مطابق لیکن ہر عورت دن میں کم از کم ایک گھنٹہ دین کا علم سیکھنے پر خرچ کرے خود مطالعہ کرنے سے، دوسرے کے پڑھنے ،سوال جواب کے ذریعہ تحقیق کرنے سے اور پھر یہ بھی جائزہ لیں کہ جو ہم سیکھ رہے ہیں یا جو ہمیں علم ہے کیا اس پر ہمارا عمل بھی ہے.یادرکھیں قرآن مجید کے مطابق ایمان کی نشو و نما عمل کے پانی سے ہوتی ہے جس طرح درخت کو پانی نہ دو تو سوکھ جاتا ہے اسی طرح علم عمل کے بغیر بیکا ر ہے آہستہ آہستہ مردہ ہو جاتا ہے بس عمل کی طرف توجہ دیں کہ جو آپ کا دعوی ہے آپ کا کردار آپ کے اخلاق ، آپ کے گھر ، آپ کا ملنا جلنا ، آپ کے کام، بچوں کی تربیت اس کے مطابق ہو رہی ہے

Page 776

خطابات مریم 751 پیغامات یا نہیں.اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر علم کا کیا فائدہ.موجودہ حالات میں آپ نے اپنے آپ تو کو ایسا ہی بنانا ہے جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دی ہے جس کا نمونہ آنحضرت نے چودہ سو سال پہلے دکھایا تھا اور جس تعلیم کو پھر پھیلانے کے لئے حضرت مسیح موعود کی بعثت ہوئی.میری بہنو! بہت ضرورت ہے کہ آپ کی زندگیاں قرآن کی تعلیم اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات کے مطابق گزریں.اپنی زندگی کی قدر کریں اس کا ایک لمحہ نہ ضائع ہونے دیں اور اپنی سب طاقتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ ہوں آپ اس کے کہے پر چلنے والیاں ہوں اس کی راہ میں قربانی دینے والیاں ہوں اس کی رضا اور اس کا پیار حاصل کر سکیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 17-5-1986

Page 777

خطابات مریم 752 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ فرانس 1986ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ 10-8-1986 میری پیاری بہنو ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی خواہش پر ایک مختصر پیغام آپ کے پہلے اجتماع کے لئے بھجوا رہی ہوں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ فرانس میں بھی ایک چھوٹی سی جماعت قائم ہو چکی ہے اور ایک مشن ہاؤس بھی ہے.آپ اس ملک میں رہتی ہیں جہاں روحانیت کا نام ونشان نہیں اور صرف مادہ پرستی ہے.دنیا کے فیشنوں میں وہاں کے لوگ بہت آگے بڑھ چکے ہیں اور اپنے رب سے دور چلے گئے ہیں.ایسے حالات میں آپ سب پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنا جائزہ لیتی رہیں کہ آپ کی زندگیاں احمدیت کی تعلیم کے مطابق گزر رہی ہیں یا نہیں اور آپ پر تو ان کا اثر نہیں ہو رہا.آپ کے بچے اور بچیاں بہت زیادہ آپ کی توجہ کی محتاج ہیں بچپن سے دین سکھانا ، دین کی طرف متوجہ کرنا ، دین کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کرنا ، دین کے احکام پر چلنے کا شوق پیدا کرنا آپ کا کام ہے.بہت توجہ دیں اولاد کی تربیت کی طرف کہ وہ بگڑنے نہ پائیں اور بہت دعائیں کریں.اس ملک کے رہنے والوں کے لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی ہدایت دے.آپ تعداد میں ابھی بہت کم ہیں مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں ایک بیج سے ایک تناور درخت بنتا ہے بیج بکھیرنے سے ہی لہلہاتے کھیت نکلتے ہیں اسی طرح آج فرانس کی سرزمین میں جو چند پیج ڈالے گئے ہیں وہ انشاء اللہ پھولیں گے پھیلیں گے بڑھیں گے اور پھیلتے ہی جائیں گے.خلافت بہت بڑی نعمت ہے اس سے اپنا تعلق مضبوط رکھیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 778

خطابات مریم 753 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ بھارت 1986ء بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ناصرات الاحمدیہ بھارت و قادیان السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه اللہ تعالیٰ آپ کے اجتماع کو بہت بہت مبارک کرے اور ان تین دنوں میں آپ وہ سب کچھ سیکھیں جو آئندہ زندگی میں جب آپ پر ذمہ داریاں پڑیں گی اٹھانے کے قابل ہو جائیں.آپ کو سب سے بڑی نصیحت تو یہ ہے کہ یہ عمر آپ کے سیکھنے کی ہے اپنا وقت ضائع نہ کریں.تعلیم کی طرف توجہ دیں.دینی تعلیم بھی دنیاوی تعلیم بھی.محنت اور توجہ سے پڑھائی کریں.صرف امتحان پاس کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ علم سیکھنے کی نیت سے اپنی عمر کے مطابق قرآن مجید کا ترجمہ سیکھیں دینی کتب زیادہ سے زیادہ پڑھیں.دوسری چیز جس کی طرف توجہ دلاتی ہوں اعلیٰ اخلاق سیکھیں.احمدی بچیوں کو دنیا کی سب بچیوں سے نمایاں ہونا چاہئے.سچائی ، دیانت داری ، وعدہ کا وفا کرنا، ہر ایک سے ہمدردی، مظلوم کی حمایت ، صفائی آپ کا شعار ہونا چاہئے.جھوٹ ، گندگی ، بد دیانتی ، کسی کو ستانے اور تکلیف دینے سے آپ کو نفرت ہونی چاہئے.لڑنے جھگڑنے کی عادت نہیں ہونی چاہئے.آج دنیا کے ہر ملک میں صف بندی جسے کیو (que) کہتے ہیں کا رواج ہو چکا ہے نظم وضبط قائم رکھنے کا سے پہلا قدم ہے اس کی عادت ڈالیں حالانکہ اسلام نے نماز کے ذریعہ صف بندی کا طریقہ سے پہلے سکھایا تھا مگر دوسری اقوام نے اسے اپنا لیا اور ہم نے چھوڑ دیا.اس عمر سے خاموشی سے اجتماعوں میں بیٹھنے، مقام اجتماع کی صفائی کا خیال رکھنے ، صف بندی کرنے ، سکون سے پروگرام سننے کی عادت ڈالیں اور جو سنیں اس کو یا درکھیں خود عمل کریں دوسروں تک ان باتوں کو پہنچائیں.خدا کرے جب آپ بڑی ہوں تو اتنی اچھی طرح ذمہ داریوں کو سنبھالیں کہ ہم خوش ہوں کہ آپ کی صحیح تربیت ہوئی ہے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے.آمین خاکسار.مریم صدیقہ.صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 779

خطابات مریم 754 پیغام برائے پہلا مرکزی سالانہ اجتماع لجنات اماءاللہ بھارت 1986ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ نمائندگان اجتماع و ممبرات السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه پیغامات اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کی خدمت میں حاضر ہورہی ہوں خدا کرے لجنات بھارت کا یہ پہلا اجتماع انتہائی کامیاب ہو اور بہترین نتائج نکلیں.اس سے قبل صرف قادیان کی ممبرات لجنہ اماءاللہ کا اجتماع ہوتا رہا کیونکہ دور دور سے اجتماع اور پھر جلسہ سالانہ پر آنا مشکل تھا بہر حال اس سال وہاں کی لجنہ اماءاللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بھی امسال اجتماع منعقد کریں.اس وقت اس اجتماع میں امید کرتی ہوں کہ اچھی تعداد میں لجنات کی نمائندگان نے شمولیت کی ہوگی.ہر نمائندہ اپنی لجنہ کی طرف سے منتخب ہو کر آتی ہے اور اس کا فرض ہے کہ جو تر بیت اس کو دی جائے یا جو مشورے کئے جائیں یا جو باتیں سکھائی جائیں ان سے واپس جا کر تمام ممبرات لجنہ اماء اللہ کو فائدہ پہنچا ئیں.قرآن مجید اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ومَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَغْفِرُوا كَانَةٌ ، فَلَوْلا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مُهُم طَائِفَةً ہے.ليَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا الَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (سورۃ التوبہ: 122) ترجمہ : اور مومنوں کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ سب کے سب ( اکٹھے ہو کر تعلیم دین کے لئے ) نکل پڑیں پس کیوں نہ ہوا کہ اُن کی جماعت میں سے ایک گروہ نکل پڑتا تا کہ وہ دین پوری طرح سیکھتے اور اپنی قوم کو واپس لوٹ کر ہوشیار کرتے تا کہ وہ (گمراہی سے ) ڈرنے لگیں.یہ آیت اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ مرکز تعلیم دین کے لئے ہوتا ہے جہاں آکر افراد کو دین سیکھنا چاہئے لیکن چونکہ ہر شخص کا وہاں تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے اس لئے یہ طریق اختیار کرنا

Page 780

خطابات مریم 755 پیغامات چاہئے کہ ہر جماعت میں سے کچھ لوگ مرکز میں آیا کریں دینی تعلیم حاصل کریں جو مسائل یا باتیں سمجھ نہیں آتیں وہ ان عہدہ داروں سے سمجھیں اور پھر جب واپس جائیں تو جو نہیں جا سکے ان کو سکھائیں اور اس طرح وہ مسائل سب کو سمجھ آجائیں.قادیان کی مبارک بستی جہاں بانی سلسلہ احمدیہ پیدا ہوئے اور جہاں آپ کا مزار مبارک ہے.ہندوستان کی جماعتوں کا مرکز ہے.وہاں آنا اور وہاں رہ کر تربیت حاصل کرنا ایک بہت ضروری امر ہے.جب بھی موقعہ ملے اور جب بھی آپ آئیں وہاں رہ کر اپنے وقت سے پورا پورا فائدہ حاصل کریں.یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک وقت میں روحانی تربیت حاصل کرنے کے لئے سارے کے سارے افراد کا آنا ممکن ہی نہیں اور اس کا یہی طریق ہونا چاہئے کہ باری باری کچھ منتخب افراد مرکز میں آیا کریں لیکن مرکز میں آنے کی نیت سیر و تفریح نہ ہو بلکہ تفقہ فی الدین ہو.وہ جتنے دن رہیں جو ان کو نہ آتا ہو اس کے متعلق معلومات حاصل کریں جو سکھایا جائے اس کی طرف پوری توجہ دیں اور پھر اس طرح سیکھیں کہ ہر بات ذہن نشین ہو جائے کیونکہ اصل غرض یہ ہے کہ واپس جا کر اُنہوں نے ان افراد کو سکھانا ہے جو آ نہیں سکے اور اس طرح سکھانا ہے کہ جو غلطیاں وہ کرتے رہے ہیں آئندہ وہ نہ کریں.تو میری بہنو اجتماع کی یہ اصل غرض ہے.ہر بات اور ہر عمل ، تربیت کا جو آپ سنیں گی یا سیکھیں گی پھر آپ کا پورا پورا فرض ہے کہ اس پر واپس جا کر اپنی لجنہ کو عمل کروائیں.اگر صرف دو یا تین روز کے اجتماع کے پروگرام میں شرکت کر کے آپ سمجھیں کہ آپ کے آنے کا مقصد بس یہی تھا کہ واپس جا کر کچھ نہیں کرنا تو آپ کی نمائندگی کی غرض پوری نہیں ہوئی.ہر تنظیم کو ترقی دینے کے چند اصول ہوتے ہیں جن پر چلنا ضرور.سب سے پہلا اصول اپنی عہدہ داروں کی مکمل اطاعت ہے اور عہدہ داروں کے لئے باقی ممبرات سے محبت اور شفقت کا سلوک ان کے دکھ سکھ میں شرکت ان کے جذبات کا خیال رکھنا ہے.پھر ڈسپلن ہے جو بد قسمتی سے ان قوموں میں جو مذہب سے دُور جاچکے ہیں زیادہ ہے اور ہم میں کم ہے جس کا سبق اسلام نے نماز کے ذریعہ مسلمانوں کو دیا لیکن ہماری محفلوں اور اجتماعوں

Page 781

خطابات مریم 756 پیغامات میں نظم وضبط کا وہ نمونہ نظر نہیں آتا جو آنا چاہئے اور نظم وضبط کی کمی کی وجہ سے پوری توجہ کے ساتھ.پروگرام بھی نہیں سن سکتیں.خود نظم و ضبط کی عادت ڈالیں اور بچوں کو اس کی تربیت دیں.تیسرا بڑا اصول ترقی کا یہ ہے کہ یہ جائزہ لیتی جائیں کہ ہماری ترقی کی رفتار ہمارے مقصد کے مطابق جاری ہے یا نہیں.اپنے مقصد اور منزل کی تعین کے بعد پروگرام بنائیں اور ایک سال گزرنے پر جائزہ لیا کریں کہ کیا اس سال میں جو ہم نے کام کئے ہیں یہی کرنے چاہئیں تھے یا نہیں ترقی کی رفتار سست رہی ہے جمود تو طاری نہیں ہوا.پھر سارا سال کام کی رفتار یکساں ہونی چاہئے یہ نہیں کہ سارا سال سوتے رہے اور جب سال ختم ہونے آیا تو رپورٹ تیار کرنے کے لئے جلدی جلدی چندے جمع کئے اجتماع کیا اور چند اور کام کر کے رپورٹ لکھ دی.آخری وقت کام کرنا روح کو کچل دیتا ہے اگر جذ بہ ہے کام کرنے کی لگن ہے تو سارا سال ان کاموں کی طرف توجہ کرنی چاہئے.چوتھا اور سب سے بڑا اصول ترقی کا اگلی نسل کو یہ ذمہ داریاں اُٹھانے کے لئے تیار کرنا ہے کیونکہ مستقل ترقی اور کامیابی اسی اصول سے وابستہ ہے کہ چراغ سے چراغ جلتا ر.رہے اور کہیں خلاء پیدا نہ ہو.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے.وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ کہ ہر نفس کو اس پر غور کرتے رہنا چاہئے کہ اس نے کل کے لئے کیا تیاری کی ہے.غد" سے مراد کل بھی ہے اور مستقبل بھی اور روز حشر بھی اس لئے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں جب وہ بڑے ہوں تو ان میں دین کے لئے قربانی دینے کا جذبہ ہم سے بھی بڑھ چڑھ کر ہو.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 782

خطابات مریم 757 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنات سیکینڈے نیویا 1987ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ نمائندگان لجنات سیکنڈے نیویا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ ڈنمارک کے خط سے معلوم ہوا کہ تینوں ملکوں ڈنمارک، سویڈن اور ناروے کا اجتماع ڈنمارک میں ہو رہا ہے.الحمد لله عَلی ذَلِكَ ایک اچھا قدم آپ نے اُٹھایا ہے اس طرح آپ سب ملک ان ملکوں میں لجنہ کے کام کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اور اس وقت تک کے کام کا جائزہ لیں کہ کیوں ابھی تک ان ملکوں میں کام کی نہ رفتار تیز ہوئی ہے اور نہ نمایاں طور پر زندگی نظر آتی ہے.جو نقائص غور کرنے پر سامنے آئیں انہیں دور کرنے کا عہد کریں اور محنت سے کام کریں تا زندگی کی ایک لہران میں دوڑ جائے.میرے نزدیک ان ممالک کی لجنات میں جو نقائص ہیں ان کا تجزیہ ان رپورٹوں کی روشنی میں یا اپنے تجزیہ کی روشنی میں پیش کرتی ہوں.ایک زندہ قوم کے افراد بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہونے چاہئیں.مجھے افسوس ہے کہ ان ممالک میں ممبرات لجنہ اماءاللہ میں وہ مثالی اتفاق کی جھلک نظر نہیں آتی جو آنی چاہئے.کسی کام کو کرنے کے لئے ابتداء میں جو محنت کرنی چاہئے اس کی کمی ہے.ان نقائص کو دور کریں.آپس میں مثالی اتفاق ہو.جب سب کی منزل ایک ، مقصد ایک ہو تو لڑائی جھگڑے کا امکان بھی نہیں ہونا چاہئے ہر کام خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر کیا جائے.عہدہ جس کو ملے اسے اللہ کا شکر کرنا چاہئے یہ کہتے ہوئے کہ خدمت دین کو اک فضل الہی جانو اس کے بدلے میں کبھی طالب انعام نہ ہو

Page 783

خطابات مریم 758 پیغامات اور ایک ممبر کی حیثیت سے اپنی عہدہ داروں کی مکمل اطاعت کریں ساری کامیابیاں اللہ تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے وابستہ ہیں.ہم نے اپنی ہر ضرورت اور ہر خواہش پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو مقدم رکھنا ہے کیونکہ یہی معیار ہے ایک مومن کا جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قل إن كان اباؤُكُمْ وَابْنَاؤُكُمْ وَاخْوَانُكُمْ وَازْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَ تُكُمْ وَامْوالُ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَ تِجَارَةً تَخْشَونَ كَسَاءَهَا وَمَسْكِن تَرْضَوْنَهَا احب اليْكُمْ مِّنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادِ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بامرِهِ ، وَاللّهُ لا يَهْدِى الْقَوْمُ الفُسِقِينَ (التوبه :24) ترجمہ: تو (مومنوں سے ) کہہ دے کہ اگر تمہارے باپ دادے اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے دوسرے رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارتیں جن کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور وہ مکان جن کو تم پسند کرتے ہو تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کے راستہ میں جہاد کرنے کی نسبت زیادہ پیارے ہیں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنے فیصلہ کو ظاہر کر دے اور اللہ اطاعت سے نکلنے والی قوم کو بھی کامیابی کا راستہ نہیں دکھاتا.یہی معیار ہمارا ہونا چاہئے ہر محبت سے بالا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت ہونی چاہئے.ایک طرف ہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم کریں گے دوسری طرف دین کے کاموں میں حصہ لینے سے گریز کرنا دنیا کے کاموں اور مشاغل میں زیادہ حصہ لینا احمدی خواتین کو زیبا نہیں.خدا کرے ان ممالک میں احمدیت جلد سے جلد پھیلے.جماعت ترقی کرے لیکن یہ یاد رکھیں کہ جب کثرت سے لوگ آتے ہیں تو اپنی کمزوریاں بھی ساتھ لے آتے ہیں تربیت کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.قرآن پڑھیں ترجمہ سیکھیں اور اپنی زندگیوں کو قرآن کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں.عہدہ دار ممبرات کو نصیحت ضرور کریں مگر اعتراض کے رنگ میں نہیں بلکہ پیار سے سمجھا ئیں اور سب سے بڑھ کر نئی نسل کی تربیت کریں ان کی دینی تعلیم کا انتظام کر نالجنہ کا اولین فرض ہے تا اگلی نسل ان ذمہ داریوں کو جو آئندہ ان پر

Page 784

خطابات مریم 759 پیغامات پڑنے والی ہیں اُٹھانے کے قابل ہو.میں آپ سب کو دعاؤں میں یا د رکھتی ہوں آپ بھی میری صحت اور انجام بخیر کے لئے دعا کریں.اللہ تعالیٰ مقبول خدمت کی توفیق دیتا چلا جائے.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 785

خطابات مریم 760 پیغامات پیغام برائے سالانہ جلسہ لجنات اما ء اللہ امریکہ 1987ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ میری عزیز بہنو ممبرات لجنات اما ء اللہ امریکہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه الحمد للہ کہ آپ کا سالانہ کنوینشن منعقد ہو رہا ہے جس میں اس مختصر پیغام کے ذریعہ شرکت کر رہی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کا یہ کنوینشن مبارک کرے اور اس کے اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج ظاہر ہوں.میری بہنو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کے قیام پرستانوے سال گزر چکے ہیں گو امریکہ میں احمدیت کی بازگشت حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی پہنچ چکی تھی.لیکن با قاعدہ جماعت کا قیام 1920 ء میں ہوا.الحمد للہ اب ایک مضبوط جماعت قائم ہو چکی ہے.کئی مشن ہاؤس ہیں.گوا مریکہ کے وسیع ملک کے لحاظ سے احمدیوں کی تعداد بہت ہی کم آٹے میں نمک کے برابر ہے بلکہ اس سے بھی کم لیکن جب ہم مذاہب عالم کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصُّبِرِينَ ( سورة البقره: 250) بڑی شان سے پورا ہوتا نظر آتا ہے.ترجمہ : بہت سی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آچکی ہیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اگر تم تمام مذاہب کی تاریخ پر نظر ڈالو تو کہیں بھی مذہب کی فتح طاقت کے زور پر نہیں ہو گی.یہی نظارہ نظر آتا ہے کہ تھوڑوں کو بہتوں پر غلبہ حاصل ہوا اور ہاں شرط صبر کی ہے.تکلیفوں سے گھبرانا نہیں.حضرت نوح کا زمانہ دیکھ لیں.اللہ تعالیٰ کی مدد حضرت نوح کو حاصل ہوئی یا آپ کے مخالفوں کو.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وہ شہرت حاصل ہوئی کہ دنیا کے ہر کونے سے مسلمان

Page 786

خطابات مریم 761 پیغامات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں ساتھ حضرت ابراہیم پر بھی بھیجتے ہیں بلکہ آج دنیا میں حضرت ابراہیم ہی کی نسل دنیا کے زیادہ حصے پر پھیلی ہوئی ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دشمن فرعون کتنی زبر دست طاقت رکھتا تھا مگر اس کے ظلم کے نتیجہ سے کس طرح بچایا گیا.اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی کو نجات دی.بے شک بظاہر آپ کے دشمنوں کو صلیب پر چڑھادیا مگر کوئی کہ سکتا ہے آپ نا کام ہوئے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو مرنے نہیں دیا، آپ صلیب سے اتارے گئے ، کشمیر گئے، اپنی تعلیم کو پھیلایا اور ایک لمبی عمر پا کر وفات پائی اور آج آپ کے ماننے والے ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر نصرت الہی کا نمونہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتا ہے اس کی مثال کہیں نظر نہیں آتی.کیوں صرف اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے كَتَبَ اللَّهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِی کہ اللہ تعالیٰ کا یہ مقصد ہے کہ میں اور میرے رسول ہمیشہ غالب آئیں گے.اگر ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے اور اس زمانہ کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود کو بھیجا ہے تو ہمیں اس یقین پر قائم رہنا چاہئے کہ فتح احمدیت کی ہوگی اور غلبہ احمد بیت کو حاصل ہوگا.احمدیت کے مستقبل کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.”اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برھان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نا مراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.....یاد رکھو! کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے کوئی بھی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولا د مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان

Page 787

خطابات مریم 762 پیغامات سے اترتے نہیں دیکھے گی تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اُترا.تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومیدا اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تختم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.(روحانی خزائن جلد 20 تذکرۃ الشہادتین صفحہ 66-67) اسی طرح الوصیت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا تم خدا کے ہاتھ کا ایک پیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوی بیعت میں صادق اور کون کا ذب ہے وہ جو کسی ابتلاء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بد بختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قو میں ہنسی ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے.“ (روحانی خزائن جلد 20 رسالہ الوصیت صفحہ 309) یہ دو حوالے جو میں نے آپ کے سامنے بیان کئے ہیں ان میں چند باتیں کھول کر بیان کر 66 دی گئی ہیں.1- حضرت عیسی وفات پاچکے ہیں خواہ ساری عمر دنیا انتظار کرتی رہے انہوں نے آسمان سے

Page 788

خطابات مریم نہیں اُتر تا.763 پیغامات 2 تیسری صدی ختم ہونے سے قبل دنیا اس عقیدہ سے بیزار ہو جائے گی.-3 احمد یہ جماعت تمام ملکوں میں پھیل جائے گی اور اللہ تعالیٰ اس کو غلبہ عطا کرے گا.4- دنیا کا ایک ہی مذہب ہو گا جو عزت سے یا د کیا جائے گا یعنی اسلام.درمیانی عرصہ میں جماعت پر بڑے بڑے ابتلاء آ ئیں گے جس کے نتیجہ میں ظاہر ہو جائے گا کہ کون سچا ہے کون جھوٹا.جو صبر کریں گے ان پر اللہ تعالیٰ کی برکتیں نازل ہوں گی.میری بہنو غور کریں ان پیشگوئیوں کے مطابق جو آج سے قریباً یکصد سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ کو بتائی تھیں.بہت سی پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں.جن میں سے ایک کی صداقت یہ کہ آپ کا اپنا ملک گواہ ہے یعنی ڈوئی کی پیشگوئی.کیا اس کے مطابق جماعت پر ابتلاء نہیں آئے کیونکہ امتحان لینا بھی تو ضروری ہوتا ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم صبر کریں.دعائیں کریں اور ان امتحانوں میں پوری اُتریں.امتحان میں پوری اُترنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم اپنے نفسوں کا فوری جائزہ لیں اور لجنہ بھی اس چیز کو دیکھتی رہے کہ کیا ہمارا عمل ہمارے دعوے کے مطابق ہے کیا ہماری زندگیاں ہمارے اخلاق ، ہمارا دوسروں سے سلوک قرآن مجید کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق ہے.حضرت مسیح موعود قرآن کی تعلیم کو پھیلانے اور اس کی تعلیم پر عمل کروانے کے لئے آئے تھے.اس لئے آئے تھے کہ بندوں کو اپنے پیدا کرنے والے سے تعلق ہو اور اس تعلیم کی طرف ہم دنیا کو دعوت دے رہے ہیں.اگر ہمارا اپنا نمونہ قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق نہ ہوا تو ہم دوسروں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے.اگر ہم میں وہ اعلیٰ صفات نہیں پائی جاتیں جن کی قرآن مجید تعلیم دیتا ہے مثلاً سچائی ، دیانت داری، صفائی ، ایفائے عہد متحمل ، خوش خلقی ، عدل ، رحم ، صبر ، ہمدردی ، تعاون باہمی اتحاد، حسن سلوک اور مصیبت زدوں کی مدد کرنا تو کیا اس کے خلاف ہمیں کرتے دیکھ کر کوئی ہماری بات سننا پسند کرے گا.

Page 789

خطابات مریم 764 پیغامات پس ضروری ہے کہ آپ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ ہو.اس ملک میں آپ احمدیت کے نمائندہ کے طور پر ہیں.اس لئے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اس بات کو مدنظر رکھیں کہ کوئی جماعت کا میاب نہیں ہو سکتی اگر اس جماعت کے افراد میں آپس میں جھگڑے ہوں صلح نہ ہو.پس آپس میں صلح رکھیں اور ایک دوسرے کے قصوروں کو معاف کرنے کی عادت ڈالیں.ایک دوسری سے تعاون کریں.اتحاد میں بہت بڑی طاقت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں." تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور با ہمی ناراضگی جانے دو اور بچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاؤ“.(روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحہ 12) قرآن مجید کی تعلیم پر عمل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کو غور سے پڑھا جائے اس کے مطلب کو سمجھا جائے اور پھر اس پر عمل کیا جائے.جو قرآن پڑھے گا ہی نہیں اور اسے ترجمہ نہیں آتا ہوگا وہ عمل کیسے کرے گا پس قرآن کو عزت دو تا آسمان پر عزت پاؤ.میرے دل میں آپ کی گہری محبت ہے اور میں آپ سب کے لئے دعا کرتی ہوں آپ بھی میرے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے بھی اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق دے اور میرا رب مجھ سے راضی ہو جائے.اس کنوینشن میں شامل ہونے والی سب بہنوں اور بچیوں کو میرا سلام اور پیار پہنچے اور جو کسی مجبوری کے باعث شامل نہیں ہوتیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی مجبوریاں دُور کرتے ہوئے انہیں بھی جماعت کے کاموں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے.دعائیں کریں اور دعائیں کریں تا اللہ تعالیٰ یہ ابتلا جلد دور کرے اور ہم اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورا ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھیں.آمین اللھم آمین.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 790

خطابات مریم 765 پیغامات پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ مغربی جرمنی 1987ء صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے پیغام کا خلاصہ درج ذیل ہے.یہ پیغام سورۃ النصر پر مشتمل تھا.جب لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گے.تو بہت خوف کا مقام ہے کہ وہ نئی نئی کمزوریاں لے کر آئیں گے.وہ تمام مسلمانوں میں جڑ نہ پکڑ جائیں اور مسلمان عقیدہ میں کمزور نہ پڑ جا ئیں.آخر میں آپ نے تحریر فرمایا :.پس عورتوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے ان کا اپنا نمونہ درست نہ ہوگا تو ان کی بچیاں بھی ویسی ہی ہوں گی.اسلامی اقدار کی حفاظت کرنی ہے اسلامی اخلاق کی حفاظت کرنی ہے.پس دینی علم حاصل کریں.قرآن کریم کا ترجمہ سیکھیں اور جائزہ لیتی رہیں کہ کیا آپ کا عمل قرآن کریم کے مطابق ہے.آپ کے قول اور فعل میں فرق تو نہیں اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا کے لئے نمونہ بنائے.آمین.(از تاریخ لجنه جرمنی صفحه 160)

Page 791

خطابات مریم 766 پیغامات پیغام برائے دوسرا مرکزی سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ پیاری ناصرات الاحمدیہ ! بھارت 1987ء السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه گلشن احمد کی نھی منی کلیو! سدا مسکراتی رہو اور اللہ تعالیٰ تمہیں تو فیق عطا کرے کہ تم حقیقی معنوں میں ناصرات کہلانے کی مستحق بنو.ناصرات الاحمدیہ یعنی احمدیت کی مدد کرنے والیاں.کس لحاظ سے ؟ اعلیٰ اخلاق اور کردار کے لحاظ سے.قربانیوں کے لحاظ سے.جماعت میں نام کرنے کے لحاظ سے.ذمہ داریوں کے ادا کرنے کے لحاظ سے.جماعت کے کاموں میں حصہ لینے کے لحاظ سے.پس ابھی سے ناصرات الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ اور جماعت احمدیہ کے کاموں میں حصہ لینے کی کوشش کریں.اور جو کام اپنے ذمہ لیں اسے اس طرح پورا کریں جو پورا کرنے کا حق ہے.اس عمر سے اگر جماعتی کاموں کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کریں گی تو جب بڑی ہوں گی جماعت کی اچھی کا رکن ثابت ہوں گی.اللہ تعالیٰ توفیق عطا کرے.آمین والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 23-9-87

Page 792

خطابات مریم 767 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنات اما ء اللہ بھارت 1987ء میری پیاری بہنو ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس مختصر سے پیغام کے ساتھ آپ کے اجتماع میں شریک ہو رہی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے اس اجتماع کو جو قادیان کی مقدس سرزمین میں ہورہا ہے بہت بابرکت کرے.آپ اجتماع میں شرکت کے لئے آئی ہیں تو غور کریں کہ اجتماع کی غرض و غایت کیا ہے اور آپ کی شمولیت اس مقصد کو پورا کرتی ہے یا نہیں.سالانہ اجتماع کوئی میلہ ، تماشا، دعوت یا پارٹی نہیں ہے.لجنہ اماء اللہ کا سالانہ اجتماع اس لئے منعقد کیا جاتا ہے کہ آپ سب مل کر سارے سال کے کاموں پر غور کریں جائزہ لیں کہ جس غرض سے حضرت مصلح موعود نے لجنہ قائم کی تھی کیا ہم اس غرض کو پورا کر رہی ہیں اور کیا ہر سال کام میں ترقی ہو رہی ہے یا نہیں اور اگر ہم اس معیار تک ابھی نہیں پہنچیں تو اس کو حاصل کر نے.کے لئے ہم کیا کریں.لجنہ اماء اللہ کا قیام 1922ء میں حضرت مصلح موعود نے اس غرض سے فرمایا تھا تا احمدی عورتیں بھی اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو احمدیت کے لئے مفید وجود بنا ئیں.اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.دوسری بہنوں کو بیدار کریں اور اپنی اولاد کی اعلیٰ تربیت کریں.وہ یہ سمجھیں کہ قومی ذمہ داریوں میں نصف ذمہ داری عورت کی ہے.لجنہ اماءاللہ کی تنظیم ایک حصہ ہے احمد یہ جماعت کا.ایک تقریر میں حضرت مصلح موعود نے جو خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں فرمائی تھی.آپ نے کہا تھا کہ احمدیت کی عمارت کی چار دیواریں ہیں.چاروں دیواروں میں سے ایک دیوار لجنہ اماءاللہ کی ہے.ایک دیوار بھی کمزور ہو جائے تو عمارت کے گرنے کا ڈر ہو جاتا ہے.پس عہدیداران لجنہ اماءاللہ کو خصوصاً اور نمبرات لجنہ اماءاللہ کو عموماً اپنی ذمہ داریوں کا پورا پورا احساس ہونا چاہئے کہ ہماری معمولی سی کوتاہی بھی ہماری ترقی کی رفتار میں روک بن سکتی

Page 793

خطابات مریم 768 پیغامات ہے.کہنے کو معمولی کمزوریاں ہوتی ہیں.مثلاً آپس کے جھگڑے جو ہوتے تو ذاتی ہیں مگر ان کو ہوا دے کر جماعتی بنا لیا جاتا ہے اور اس کا نتیجہ جماعتی نقصان ہوتا ہے.پس ہر عہدہ دار اور ہر ممبر لجنہ اپنی اصلاح کے لئے کوشش کرے اپنے اخلاق اور کردار اور نمونہ کو اعلیٰ ترین بنانے کی اور اپنی اصلاح کے بعد دوسروں کی اصلاح کے لئے کوشش کریں مگر ڈانٹ ڈپٹ سے نہیں پیار سے محبت سے نصیحت سے.معاف کرنا سیکھیں.ایک دوسرے سے تعاون کریں.تعاون کے بغیر کوئی کامیابی آپ حاصل نہیں کر سکتیں.اپنے بچوں کی صحیح تربیت کریں ان میں آئندہ ذمہ داریوں کے اُٹھانے کا جذبہ پیدا کریں.ہر قسم کی بُرائی سے ان کو بچانے کی کوشش کریں اور ہر قسم کی نیکی ان میں پیدا کرنے کی کوشش کریں تا اگلی نسل ہم سے زیادہ قربانی دینے والی اور نمونہ ہو دنیا کے لئے اور اس کے لئے آپ نے خود اپنا نمونہ اچھا پیش کرنا ہے.قادیان سے جو نور نکلا تھا آج دنیا کے کناروں تک پہنچ چکا ہے اس پیغام کو پہنچانے کا یوں تو ہر احمدی کا فرض ہے لیکن آپ جن کا براہِ راست اس مرکز سے تعلق ہے آپ پر دوہری ذمہ داری ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 23-9-87

Page 794

خطابات مریم 769 پیغامات پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ گیمبیا 1988ء پیاری بہنو ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے جلسہ سالانہ میں شریک ہورہی ہوں.یہ سال تو آپ کی تاریخ میں بہت مبارک سال ہے کہ حضرت خلیفہ اصیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ آپ کے ملک میں تشریف لائے.اللہ تعالیٰ آپ کے آنے کو بہت مبارک کرے اور آپ کی جماعت بڑھتی چلی جائے.ترقیات اپنے ساتھ بہت سی ذمہ داریاں لاتی ہیں اور اس صورت میں جبکہ جماعت پر ایک سو سال ہونے میں صرف ایک سال باقی رہ گیا ہمیں جہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ احمدیت پر ایک صدی پوری ہونے والی ہے وہاں اس کے مطابق قربانیاں بھی دینی چاہئیں تا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.اپنے علم کو بڑھائیں اور اس کے مطابق عمل کریں اور اپنی اولاد کی دینی تربیت کریں تا کہ ایک بچہ بھی ضائع نہ ہو.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 795

خطابات مریم 770 پیغامات پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ بھی 1958ء ممبران لجنہ اماءاللہ نبی ! بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی صدر صاحبہ نے اطلاع دی ہے کہ آپ کا جلسہ سالانہ 25 اور 26 دسمبر کو ہو رہا ہے.اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے جلسہ میں شامل ہورہی ہوں.جلسہ سالانہ خواہ کہیں بھی ہو در اصل اس جلسہ سالانہ کا حل ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جاری فرمایا تھا.اس کی نسبت بہت سی برکتیں ہیں.سال میں ایک مرتبہ تمام احمدی بھائی بہنیں ایک مقام پر جمع ہوتے ہیں ملتے ہیں محبت پیدا ہوتی ہے.دوران سال جو وفات پا جائیں ان کے لئے دعا کرتے ہیں.سارے سال کے کاموں پر غور و فکر کرتے ہیں آئندہ کے لئے پروگرام بنتے ہیں.اجتماعی ذکر الہی اور دعائیں ہوتی ہیں.تربیتی و تعلیمی تقاریر ہوتی ہیں جن کے سننے سے علم بھی بڑھتا ہے اور تربیت کی طرف توجہ ہوتی ہے.پس آج سب کو پھر یہ موقع ملا ہے کہ آپ جمع ہوں اور یہ ساری برکتیں حاصل کریں.صرف مان لینا کافی نہیں ایمان کے درخت کو اگر عمل کا پانی نہ دیا جائے تو وہ مرجھا جاتا ہے.قربانیوں اور نیک عمل کے ساتھ ہی آپ ترقی کر سکتی ہیں خود نیک نمونہ دکھا ئیں تا کہ آپ کی اگلی نسل جگہ لینے کے لئے تیار رہے.آپ پر اپنے بچوں اور بچیوں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے ہر ماں پر ہر باپ پر ذمہ داری ہے اپنے بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کریں ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کریں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار اور آپ کی اطاعت کا جذبہ پیدا کریں.جماعت کی خدمت کا جذبہ پیدا کریں.خلیفہ وقت کی اطاعت کرنے کا احساس پیدا کریں.آپ بے شک مرکز سے دور ہیں لیکن وہاں اپنے جزائر میں آپ نے وہ انقلاب اپنے عمل سے پیدا کر کے دنیا کو دکھانا ہے جس

Page 796

خطابات مریم 771 پیغامات انقلاب کو پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے تھے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق عطا فرمائے سب بہنوں کو میرا محبت بھر اسلام.میں انہیں اپنی دعاؤں میں یا درکھتی ہوں آپ بھی مجھے اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 797

خطابات مریم 772 پیغامات پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ ویسٹ جرمنی 1988ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیاری بہنو ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے جلسہ سالانہ میں شرکت کر رہی ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگلے سال جماعت احمدیہ کے تمام افراد جشن تشکر منائیں گے اللہ تعالیٰ کے احسانات جواس نے لگا تارسوسال جماعت احمدیہ پر کئے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.لَئِنُ شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمْ اگر تم شکر ادا کرتے رہو گے میں تمہیں زیادہ دوں گا.پس شکر کا جذ بہ ہر احمدی خاتون میں ہونا چاہئے اس لئے بجنات کی عہدہ داران کا فرض ہے کہ عورتوں کے سامنے اپنوں کے بھی غیروں کے بھی ، ان ترقیات کا ذکر بطور شکر کے کرتے رہنا چائے جو سو سال میں بارش کی طرح اللہ تعالیٰ نے جماعت احمد یہ پر برسائی ہیں اور انفرادی طور پر ہر عورت کو جائزہ لینا چاہئے کہ کیا میں شکر گزار بندی ثابت ہو رہی ہوں یا نہیں ؟ شکر کرنے کے کئی طریقے ہیں.ایک زبان سے اظہار کرنا دوسرے اپنے عمل کے ذریعہ سے اظہار کرنا.زبان سے اظہار بھی تو ہر ایک کرتا ہے مگر یہ کافی نہیں جب تک آپ کا عمل ، آپ کی قربانیاں، آپ کا بنی نوع انسان سے سلوک آپ کے دعوی کا ساتھ نہ دیں.آپ منہ سے تو کہیں اللہ تعالیٰ کا شکر ہے لیکن کوئی ابتلا آ جائے کوئی تکلیف پہنچے تو گھبرا جائیں.اس ملک میں آپ لوگ جا بسے ہیں اللہ تعالیٰ نے رزق کے دروازے آپ پر کھولے ہیں حقیقی شکر کا عملی مقام آپ کو اس وقت ہی حاصل ہوسکتا ہے.جب آپ اپنے ذاتی اخراجات پر جماعت کے لئے خرچ کرنے کو احمدیت کی ترقی کیلئے خرچ کرنے کو مقدم سمجھیں گی خود تنگی بھی اُٹھانی پڑے تو ترجیح دیں گی احمدیت کی ترقی کے لئے جو تحریکات حضور کی طرف سے پیش ہوتی رہتی ہیں ان میں شمولیت کرنے سے بلکہ شامل ہونے والوں میں صت اوّل میں آنے سے.

Page 798

خطابات مریم 773 پیغامات اللہ تعالیٰ نے آپ کو احمدیت کی نعمت سے نوازا ہے.آپ نے صرف اپنے تک اس نعمت کو محدود نہیں رکھنا خدا کے اس احسان کا شکر اس طرح ادا کرنا ہے کہ ان لوگوں تک جو اس نعمت سے محروم ہیں اس کا پیغام پہنچانا ہے اور خود اپنے گھروں میں اپنے بچوں میں ایمان اور یقین کو قائم رکھنا ہے.وہاں کے آزاد ماحول سے اپنی اولا د کو بچا کر اسلام کے نمونہ پر قائم رکھنا بہت ضروری ہے ورنہ جو نعمت اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہے اس سے محرومی کا خوف بھی ہوسکتا ہے.اگر آپ کے گھر میں دین پر عمل نہ ہوگا اور صحیح نمونہ قرآن مجید کی تعلیم کا آپ وہاں کے رہنے والوں کے سامنے پیش نہیں کریں گی تو آپ کی نصیحت کا بھی کوئی اثر نہ ہوگا.پس دوسروں تک احمدیت کا پیغام پہنچانے سے پہلے اپنی اصلاح کریں اپنے گھر کی اصلاح کریں اپنے بچوں کی اصلاح کریں.میری بہنوں.مردوں کو اپنی روزی کمانے کے لئے بہت وقت دینا پڑتا ہے گھروں میں دینی ماحول قائم رکھنے کی ذمہ داری آپ کی ہے اس لئے سب سے پہلے آپ نے اپنا نیک نمونہ پیش کرنا ہے مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک بہنوں میں جھگڑے بھی ہوتے ہیں شکوے بھی ہوتے ہیں حالانکہ تمام جھگڑے فساد، شکوے شکایتیں چھوڑ کر ایک مقصد کے لئے متحد ہو کر کام کرنا چاہئے اور وہ مقصد ہے کہ جرمنی میں اسلام پھیل جائے دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لے.ایک خدا کی عبادت کرنے لگ جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تسلیم کر لے.پس ماؤں کا فرض ہے اپنے بچوں کی دینی تعلیم اور تربیت پر بہت توجہ دیں.اس ملک میں رہ کر پردہ سے غافل نہ ہو تمام اسلامی احکام پر عمل کریں تانئے احمدیت میں داخل ہونے والے آپ کی نقل کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.خاکسار آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 799

خطابات مریم 774 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ڈنمارک 1988ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ممبرات لجنہ اماءاللہ ڈنمارک السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه اس پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں شرکت کر رہی ہوں.خدا کرے آپ کا اجتماع بہت بابرکت ہو.ہر اجتماع یا جلسہ پر آپ پیغام تو منگوا لیتی ہیں لیکن یہ علم نہیں ہوتا کہ اس پر عمل بھی ہوتا ہے یا نہیں.کوئی پیغام بھی صرف سننے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ عمل کرنے کیلئے ہوتا ہے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لجنہ ڈنمارک ابھی فعال لجنہ بن کر نہیں اُبھری.کام کے پیچھے خاص روح نظر نہیں آتی.بے شک آپ تھوڑی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی اس بشارت کو ہمیشہ یاد رکھیں.تعدا د کوئی چیز نہیں غلبہ کے لئے روح ہونی چاہئے زندگی ہونی چاہئے.اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں.جب تک مسلمانوں میں مر مٹنے کا جذبہ تھا وہ بڑھتے گئے کامیاب ہو گئے جب تعداد میں بڑھ گئے مگر قربانی کی روح ختم ہو گئی تو ذلت کا سامنا کرنا پڑا اور بڑی بڑی حکومتیں ختم ہو کر رہ ان کی روح ختم ہوگی گئیں.پس میری بہنو آپ نے تو ایک نھی سے شمع لے کر اسے بجھنے سے بچا کر سارے ڈنمارک کو روشنی دینی ہے.پس اپنے میں ایک نئی زندگی پیدا کریں.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جذ بہ پیدا کریں.چھوٹے چھوٹے بہانوں سے عورتیں اجلاسوں جمعوں اور دوسرے جماعتی کاموں سے پیچھے رہ جاتی ہیں.حالانکہ بیعت کرتے وقت یہ کہا جاتا تھا کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گی.پس اجتماع کے دنوں میں سب مل کر جائزہ لیں کیسے ترقی کر سکتی ہیں کیا ہم میں کمزوریاں ہیں کیسے دُور کی جاسکتی ہیں.اپنے بچوں کی تربیت کی بہت بڑی ذمہ داری آپ پر ہے کہ وہاں کے سکولوں سے جو سیکھ کر آئیں گے ان عقائد اور باتوں کو مٹا کر اپنے مذہب کے گہرے نقوش

Page 800

خطابات مریم 775 پیغامات ن کے دلوں پر نقش کرنے ہیں.جب تک خود آپ کا نمونہ صحیح نہ ہوگا اخلاق ، اعلیٰ زندگی ،عبادت اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں آپ نمایاں نہ ہوں گی آپ اگلی نسل کی تربیت نہیں کر سکتیں.دجالیت کی آگ سے اپنی نسل کو بچانا آپ کا اولین فرض ہے.خدا کرے اپنے اس فرض سے آپ سب صحیح طور پر سبکدوش ہوں.آپ سب کو اپنی دعاؤں میں یا درکھتی ہوں آپ بھی میرے لئے دعا کریں.والسلام مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 801

خطابات مریم 776 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ قادیان 1988ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد فرمایا :.میری پیاری بہنو! جو اجتماع پر تشریف لائی ہیں اور جو نہیں آ سکیں سب کو میری طرف سے السلام عليكم ورحمة الله وبركاته کا تحفہ پہنچے.اللہ تعالیٰ نے آپ میں سے بہتوں کو اُس بستی میں رہنے کی توفیق عطا فرمائی ہے جو خدا کے پاک مسیح کی بستی ہے اور جو وہاں نہیں رہ رہیں وہ بھی اپنے سالانہ اجتماع یا جلسہ سالانہ پر آ جاتی ہیں.ہاں اُس بستی میں جس میں آج سے قریباً ایک سو سال قبل ایک شخص کی آوازسنی گئی جس کے دل میں اسلام کا بے حد درد تھا.جو رات دن یہ دعائیں کرتا تھا.اس دیں کی شان و شوکت یا رب مجھے دکھا دے سب جھوٹے دیں مٹا دے، میری دعا یہی ہے اللہ تعالیٰ نے اُس کی دعا کو سنا اور اس کو مامور فرمایا.اس مقصد سے کہ وہ دنیا میں حقیقی تو حید قائم کرے.وہ بُرائیاں جو مسلمانوں میں پھیل گئی تھیں انہیں دور کرے اور دین کی تجدید کا کام کرے.آپ نے دعوئی فرمایا کہ اس صدی کا مجدد میں ہوں.آپ نے یہ بھی دعوی فرما یا کہ یہ عقیدہ جو تم لوگ رکھتے ہو کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر اُٹھا لئے گئے ہیں یہ غلط ہے.آپ صلیب سے زندہ اُترے تھے اور لمبی زندگی پا کر کشمیر میں وفات پائی اور وہاں مدفون ہیں اور اُنہوں نے آسمان سے نہیں اترنا بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس مقصد کے ساتھ کھڑا کیا ہے کہ عیسائیت کا مقابلہ کریں اور روشن دلائل کے ساتھ اسلام کی فضیلت عیسائیت اور دوسرے مذاہب پر ظاہر کر دیں.آپ نے یہ بھی دعویٰ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے مطابق آپ کو مہدی بنا کر بھیجا ہے جس کی آمد کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ چودہ صدیوں کے صالحین اُمت بھی دیتے چلے آئے

Page 802

خطابات مریم 777 پیغامات تھے.آپ نے یہ بھی دعوی فرمایا کہ ہر مذہب میں آخری زمانہ میں ایک موعود کے آنے کی خبر دی گئی تھی اور وہ موعود آپ ہی ہیں.دنیا کے کانوں میں جب یہ آواز پڑنی شروع ہوئی تو مخالفت کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جو غلط عقائد اُن کے دلوں میں بیٹھ گئے تھے اُن کو چھوڑنے کے لئے وہ تیار نہ تھے حالانکہ مہدی کی آمد کا اُن کو انتظار تھا.مگر آپ کو ماننے کو تیار نہیں تھے ہر قسم کا الزام آپ پر لگایا گیا یہاں تک کہ آپ کی مخالفت کرنے میں اُنہوں نے عیسائیوں کے ہاتھ مضبوط کئے.ہندوؤں کا ساتھ دیا اور یہ نہ سوچا کہ اس سے اُن کے اپنے مذہب پر ضرب پڑے گی اور کمزوری کا باعث ہوگا.کیا مسلمان ، کیا عیسائی ، کیا ہندو ، کیا آریہ، کیا سکھ ، ہر ایک آپ کا مخالف تھا.پہلے تو یہ خیال تھا کہ یہ چند روز کی بات ہے آہستہ آہستہ یہ آواز مدہم پڑ جائے گی لیکن وہ یہ نہ جانتے تھے کہ یہ انسان کی سکیم نہیں یہ الہی سکیم تھی اور اللہ تعالیٰ کا اپنے نبیوں کے متعلق یہ فیصلہ ہے.كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی یہ میری تقدیر ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آ کر رہتے ہیں.خواہ مخالفتوں کی آندھیاں چلیں ، خواہ شیطان کے چیلے اُن کے راستوں میں کتنی ہی رُکاوٹیں ڈالیں.خواہ اُن کی جان پر حملے کریں مگر اللہ کی نصرت اُن کے دائیں بھی ہوتی ہے بائیں بھی ہوتی ہے.آگے بھی ہوتی ہے اور پیچھے بھی ہوتی ہے.چنانچہ جب دنیا آپ کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھی اللہ تعالیٰ آپ سے بڑے پیار سے مخاطب ہورہا تھا کہ آپ لمبی عمر پائیں گے.1865ء میں الہام ہوا.آپ فرماتے ہیں چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ دشمن میری موت کی تمنا کریں گے تا یہ نتیجہ نکا لیں کہ جھوٹا تھا تبھی مر گیا.اس لئے پہلے ہی سے اُس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا:.ثَمَا نِينَ حَوْلًا أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَلِكَ اَوْ نَزِيْدُ عَلَيْهِ سِنِيْنًا وَ تَرَى نَسُلًا بَعِيدًا.( تذکره صفحه 5) یعنی تیری عمر اسی برس کی ہوگی یا دو چار سال کم یا چند سال زیادہ اور تو اس قدر عمر پائے گا کہ تو ایک دُور کی نسل کو دیکھ لے گا.پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے چند سال بعد فرمایا:.

Page 803

خطابات مریم 778 پیغامات میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“.( تذکرہ صفحہ 8 ) آپ کی کفالت کا ذمہ لیتے ہوئے آپ کے والد صاحب کی وفات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :- الَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ( تذکرہ صفحہ 72) یعنی کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اس الہام نے عجیب سکینت اور اطمینان بخشا اور فولادی میخ کی طرح میرے دل میں دھنس گیا.پس مجھے اُس خدائے عزوجل کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اُس نے اپنے مبشر الہام کو ایسے طور سے مجھے سچا کر کے دکھلایا کہ میرے خیال اور گمان میں بھی نہ تھا میرا وہ رب متکفل ہوا کہ کبھی کسی کا باپ ہرگز ایسا متکفل نہیں ہوگا.پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو پیشگوئی کی کہ :.إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ اهَانَتَكَ ( تذکره صفحه 27) یعنی میں اُس کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کرے گا.تاریخ احمدیت کا ایک ایک دن اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ یہ پیشگوئی کس شان سے پوری ہوتی رہی اور اب تک پوری ہوتی چلی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ سے نصرت کا وعدہ کرتے ہوئے فرمایا :.يَنصُرُكَ اللهُ مِنْ عِنْدِهِ يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمُ مِّنَ السَّمَاءِ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَتِ اللَّهِ - ( تذکره صفحه 39) خدا اپنی طرف سے تیری مدد کرے گا.تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے.خدا کی باتوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا.پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب ہو کر فرمایا:.إِنِّي نَاصِرُكَ إِنِّي حافِظك - إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا - أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا قُلْ هُوَ اللهُ عَجِيْب - يَجْتَبِي مَنْ يَّشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ.( تذکره صفحه 65) یعنی میں تیری مدد کروں گا، میں تیری حفاظت کروں گا.میں تجھے لوگوں کے لئے پیش رو

Page 804

خطابات مریم 779 پیغامات بناؤں گا.کیا لوگوں کو تعجب ہوا کہ خداذ والعجائب ہے.ہمیشہ عجیب کام ظہور میں لاتا ہے جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے چن لیتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ بھی وعدہ فرمایا:.يُظِلُّ رَبُّكَ عَلَيْكَ وَيُغْيِتَكَ وَيَرْحَمُكَ وَإِنْ لَّمْ يَعْصِمُكَ النَّاسُ فَيَعْصِمُكَ اللهُ مِنْ عِنْدِهِ يَعْصِمُكَ اللهُ مِنْ عِنْدِهِ وَإِنْ لَّمْ يَعْصِمُكَ النَّاسُ ( تذکرہ صفحہ 68) خدا تعالیٰ اپنی رحمت کا تجھ پر سایہ کرے گا اور نیز تیرا فریا درس ہوگا اور تجھ پر رحم کرے گا اور اگر تمام لوگ تیرے بچانے سے دریغ کریں گے مگر خدا تجھے بچائے گا اور خدا تجھے ضرور اپنی مدد سے بچائے گا اگر چہ تمام لوگ دریغ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک متحد کوشش کی گئی.آپ کی جان لینے کی کوشش کی گئی.مقدمات بنائے گئے.آپ تک پہنچنے سے لوگوں کو روکا گیا لیکن خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ تھا.اُس نے ہر قدم پر نہ صرف آپ کی حفاظت کی ، نصرت کی، بلکہ جو آپ کے مقابل اُٹھے وہ سب ذلیل کئے گئے کیونکہ یہ آپ کا کاروبار نہ تھا.یہ خدا تعالیٰ کا کاروبار تھا اُس نے جس عظیم مقصد کے لئے آپ کو بھیجا تھا کیے ممکن تھا کہ آپ اُس میں ناکام رہتے.آپ اکیلے تھے دنیا سمجھتی تھی کہ سب سلسلہ آپ کی زندگی کے ساتھ ہے.دشمنوں نے آپ کی وفات پر خوشیاں منائیں لیکن اُنہوں نے دیکھ لیا کہ وہ اس سلسلہ کا کچھ بھی تو نہ بگاڑ سکے.آج اُس ایک آواز کی گونج جو قادیان میں سنائی دی تھی ، دنیا کے ہر ملک میں ہر جزیرے میں بلکہ ہر شہر میں سنائی دے رہی ہے.دنیا کے 117 ملکوں میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور ہر ملک میں بڑی تعداد میں جماعتیں ہیں جو رات دن اللہ تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں دیتی رہتی ہیں کیونکہ یہ سچا راستہ اُن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ حاصل ہوا.اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزارا احسان ہے کہ احمدیت کے قیام پر سو سال پورے ہونے والے ہیں اور چند ماہ میں ہی جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے احسانوں کا شکر کرتے ہوئے اُس کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہوئے نئی صدی میں قدم رکھے گی.میری بہنو! ہم نے بارش کی طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اپنی جماعت پر برستے دیکھا ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کیونکہ اُسی کا فرمان ہے

Page 805

خطابات مریم 780 پیغامات 66 لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُم اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا.شکر صرف زبان سے شکر ہے کہنے کا نام نہیں.شکر کے آثار ہمارے جسم سے ، ہمارے عمل سے، ہمارے ہر کام سے ظاہر ہونے چاہئیں اور وہ اس طرح کہ ہم پہلے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اختیار کریں اس کے احکام پر چلیں جن باتوں سے اُس نے منع فرمایا ہے اُن کے قریب بھی نہ جائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ پر چلیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کو دنیا کے لئے اُسوہ حسنہ قرار دیا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہی اپنا یہ اصول دنیا کو بتایا ہے.قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله کہ اے محمد رسول اللہ ! آپ دنیا کو بتادیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو، چاہتے ہو کہ خدا بھی تم سے محبت کرے، اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ میری پیروی کرو.میرے پیچھے پیچھے چلو.میری راہ اختیار کرو.اس کے نتیجہ میں اللہ بھی تم سے محبت کرے گا.گویا ہمیشہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے اطاعتِ رسول کو اپنی محبت کا سب سے بڑا ذریعہ قرار دے دیا ہے.میری بہنو! نئی صدی ہمارے لئے بہت بڑی ذمہ داریاں لا رہی ہے.جہاں آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں وہاں یہ جائزہ بھی لیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جیسا انسان ہمیں بنانے کے لئے آئے تھے کیا ہم ویسے بن چکے ہیں.اگر نہیں تو اپنے نفس کا خود جائزہ لیں کہ ہم میں کیا کمزوریاں ہیں.حَاسِبُوا قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا اِس سے پہلے کہ تمہارا حساب لیا جائے خود اپنا حساب کرو اور پھر جب دل میں احساس ہو جائے کہ فلاں فلاں کمزوری ہم میں ہے اُس کو دور کرنے کی کوشش کرے.ذرا ذرا سی بات پر شکایت پیدا ہو جاتی ہے.لڑائی جھگڑا ہو جاتا ہے.دین کے کاموں کے لئے سستیاں ہیں.دین کو دنیا پر مقدم رکھنا جو ہمارا فرض اولین ہے اس کی طرف بے تو جنگی ہے.دنیا داری ، رسومات کو مقدم رکھا جاتا ہے.ہمارا محبوب اور مطلوب تو صرف خدا تعالیٰ ہے.اُس کی رضا، اُس کے احکامات کو مقدم رکھنا ہمارا فرض ہے.اپنی اصلاح کریں.اپنی بہنوں کی اصلاح کریں.محبت سے، شفقت سے ، معاف کرتے ہوئے اور سب بہنوں کو چاہئے کہ عہد یداروں کے ساتھ مکمل تعاون کریں اور مل کر اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں اور مل کر شاہراہ غلبہ اسلام کی طرف قدم اُٹھائیں.

Page 806

خطابات مریم 781 پیغامات اگلی صدی کی ذمہ داریاں زیادہ تر نئی نسل پر پڑیں گی اس لئے بچوں کی دینی تعلیم وتربیت پر توجہ دینے کی از حد ضرورت ہے.اپنے بچوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کریں.دین کیلئے غیرت پیدا کریں.انسانیت کی محبت اُن کے دلوں میں پیدا کریں.محمد مصطفی ﷺ کی اطاعت کا جذبہ اور آپ سے محبت اُن کے دلوں میں پیدا کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت ، آپ کے خلفاء سے محبت اور حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہر حکم پر لبیک کہنے والے ہوں.ہم کسی سے نفرت نہیں کرتے ہم کسی کے دشمن نہیں.اس لئے ہماری کوئی کتنی بھی مخالفت کرے، ہم نے اس کی بہتری ہی سوچتی ہے.ہمارا کام تو انسانیت کی خدمت کرنا ہے.انسان کو سکھ پہنچانا ہے دکھ نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سچے مسلمان کی تعریف بھی یہی فرمائی ہے.الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسانِهِ وَيَدِهِ کہ سچا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور جس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں.( بخاری کتاب الایمان ) پس میری عزیز بہنو ! تیار ہو جاؤ اُن ذمہ داریوں کو اُٹھانے کے لئے جو آئندہ صدی میں آپ پر پڑنے والی ہیں اور تیار کریں اپنے بچوں کو ان ذمہ داریوں کو اُٹھانے کے لئے.اعلیٰ تربیت کریں اُن کی اور اعلیٰ اخلاق پیدا کریں اُن میں.تا وہ رہنما بنیں ساری دنیا کے لئے.اللہ تعالیٰ آپ کو ان ذمہ داریوں کو اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.آپ کے ساتھ ہو اپنی حفاظت میں رکھے اور اپنے مقصد میں کامیاب کرے.آمین مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.خدا حافظ مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 807

خطابات مریم 782 پیغامات پیغام برائے مرکزی سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ بھارت 1988ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد فرمایا.میری بہت ہی پیاری بچیو! السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی صدر صاحبہ کی خواہش کے مطابق میں آپ کے اجتماع کے لئے ایک مختصر سا پیغام ریکارڈ کروا کر بھجوا رہی ہوں.میری دعا ہے کہ آپ کا اجتماع بہت کامیاب اور بابرکت ہو.الحمد لله ، انشاء اللہ تعالیٰ آپ چند ماہ میں نئی صدی میں داخل ہوں گی جو اپنے ساتھ آپ کے لئے بہت عظیم ذمہ داریاں لا رہی ہے.ہر تقریب میں جانے اور اس میں شمولیت کے لئے ہر ایک کا دل چاہتا ہے کہ وہ اچھے کپڑے پہنے.اپنے کو سجائے ، کوئی زیور پہنے، سونے کا نہیں تو موتیوں کا ہی ہو.تمہارے لئے بھی یہ تقریب جو 23 / مارچ 1989 ء سے شروع ہونے والی ہے ایک ایسی عظیم تقریب ہے کہ تم سج بن کر اس میں شامل ہو.مگر میری یہ مراد نہیں کہ تم اچھے اچھے کپڑے سلوانے شروع کر دو بلکہ اُس لباس کو پہننے کی تیاری کرو جس کا ذکر اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بیان فرماتا ہے کہ وَلِبَاسُ التَّقْوى ذَلِكَ خَيْر - تقویٰ کا لباس سب سے اچھا لباس ہے.تقویٰ کے معنی کیا ہیں؟ تقوی کہتے ہیں ہر بُری بات سے بچنے کو.جب انسان بُری باتوں سے بیچنے لگ جائے اور اُن کے قریب جانے سے بچے تو پھر اُس کا قدم نیکیوں کی طرف اُٹھنے لگتا ہے.اللہ تعالیٰ نے تمہیں دنیا کی بھلائی کے لئے پیدا کیا ہے.اس لئے تم نے اپنے آپ کو دنیا کے لئے نمونہ بنانا ہے.تم نے اچھے اخلاق کا زیور پہننا ہے اور بُری باتوں کو تم نے چھوڑ دینا ہے.سچ تمہارا شعار ہو.جھوٹ سے تمہیں نفرت ہو تم اتنی دیانت دار ہو کہ انتہائی مجبوری میں بھی کسی کی کوئی چیز بغیر اس کی اجازت کے نہ استعمال کرو.بددیانتی کا تصور بھی نہ کرسکتی ہو.ہر ایک کی بھلائی کا سوچتی ہو کسی کو تکلیف دینا تم برداشت ہی نہ کر سکو.ہر ایک سے مسکراتے چہرے

Page 808

خطابات مریم 783 پیغامات سے ملو.خوش خلقی تمہارا جو ہر ہو.بڑوں کا ادب کرنا سیکھو اور اُن کی نصیحت پر عمل کرو.اپنے ماں باپ سے احسان کرو اور اُن کی مکمل اطاعت کرو.اپنے بہن بھائیوں سے محبت اور شفقت کا سلوک کرو جو اپنے گھر میں لڑے جھگڑے گا وہ معاشرے میں بھی اتحاد اور اچھے سلوک کی روح قائم نہیں رکھ سکتا.ان سو سالوں میں اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی نعمت سے تمہیں نوازا.احمدی گھرانوں میں تمہیں پیدا کیا اس نعمت کے ملنے پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرو اور سب سے پہلے اپنے رب کے حقوق ادا کیا کرو.نماز وقت پر پڑھنے کی عادت ڈالو کیونکہ نماز کی عادت سب بُرائیوں کو دور کر دیتی ہے اور جب بُرائیاں دور ہو جائیں تو پھر نیکی کی طرف طبیعت راغب ہونے لگ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرو.ماں باپ کے حقوق ، رشتہ داروں کے حقوق ، پڑوسیوں کے حقوق، غریبوں اور مسکینوں کے حقوق، ہر ایک کو ادا کرو جو تمہیں آتا ہے دوسروں کو سکھاؤ.کبھی نیک باتیں بتانے اور علم سکھانے میں کسی سے بخل نہ کرو.پس میری بچیو! ان سو سالوں میں تمہارے بزرگوں نے قربانیاں دیں.اب تمہارے لئے وقت آ رہا ہے کہ تم ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہو جاؤ.اگلی نسل کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری تم پر پڑنے والی ہے.ہاں تم پر اور تم پر.ان کے لئے تیار ہو.دینی تعلیم سے آراستہ ، لباس التقویٰ پہنے ہوئے ، شرم و حیا کا زیور پہنے ہوئے ، دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے ، اعلیٰ اخلاق کے پھولوں سے بھی ہوئی جن کی خوشبو ہر طرف پھیل رہی ہو تم ہر ذمہ داری اُٹھانے کے لئے تیار ہو جاؤ اور دنیا دیکھ لے کہ احمدیوں سے بڑھ کر کوئی دنیا کا خیر خواہ نہیں.احمدی سے بڑھ کر کوئی سچا اور وفادار نہیں.احمدی سے بڑھ کر کوئی خوش اخلاق نہیں.احمدی سے بڑھ کر کوئی دوسرے کے دکھ سکھ میں شامل ہونے والا نہیں.تم نے استاد بننا ہے نئی احمدی خواتین کا.جب تک خود دین کا علم نہیں سیکھو گی دوسروں کو کیسے سکھاؤ گی؟ پس خدا تعالیٰ کا عمل سے بھی شکر ادا کرو کہ چونکہ اس نے تمہیں احمدیت کی نعمت عطا کی ہے.تم اس کی فرمانبردار بنو.اس کی محبت میں غریبوں کا خیال رکھو.اُس کے ہر حکم پر چلو.اگلے سارے سال تم نے ان باتوں کا عملی مظاہرہ کرنا ہے.تربیت حاصل کرنی ہے اور احمد یہ تاریخ کو اچھی طرح سیکھنا ہے.اپنی تاریخ سیکھے بغیر تم میں غیرت اور

Page 809

خطابات مریم 784 پیغامات ہمت نہیں پیدا ہوسکتی.تمہاری منتظمات کو بھی چاہئے کہ پورے سال میں احمد یہ تاریخ کو تمہارے اجلاسوں میں دہرائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں سنائیں کس کس طرح پوری ہوئیں اور پوری ہو رہی ہیں.جماعت احمدیہ کو کیسے کیسے کٹھن مرحلوں سے گزرنا پڑا اور کس طرح اُس نے ہر مرحلے سے گزر کر کامیابی حاصل کی.انشاء اللہ اگلی صدی ہمارے لئے بشارتیں لائے گی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سے کسی قربانی کا مطالبہ نہیں ہوگا.ضرور ہوگا اور وہی ان بشارتوں کا حقدار بھی ہو گا جو اپنے کو قربانیوں کے لئے پیش کرے گا.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور آئندہ پڑنے والی ذمہ داریوں کو تم سب بشاشت قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اُٹھاؤ اس کی مدد اور نصرت تمہارے شریک رہے.ہماری روحیں شرمندہ نہ ہوں کہ ہم تمہاری صحیح تربیت نہ کر سکے بلکہ تمہاری کامیابی سے ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی وجہ سے جب ہم اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جائیں تو تمہاری طرف سے خوشیاں ہمیں پہنچیں.آج اس اجتماع میں ایک باغ کی ننھی ننھی کلیوں کی طرح تم نظر آ رہی ہولیکن اپنے رب کے فضل سے امید ہے کہ یہ سب کلیاں کھلیں گی اور ان کی خوشبوؤں سے گلشن احمدیت معطر ہو جائے گا اور یہ خوشبو صرف ایک جگہ نہ رہے گی بلکہ دنیا کے کونے کونے تک پہنچے گی.انشاء اللہ العزیز اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو، اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو، اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو.خاکسار آپ کے لئے دعا کرنے والی مریم صدیقہ

Page 810

خطابات مریم 785 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ فرانس 1988 پیاری بہنو ! بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کے اجتماع میں اس مختصر پیغام کے ذریعہ شرکت کر رہی ہوں.قادیان میں ہجرت سے قبل جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مبلغین کی ایک ٹیم بیرونی ممالک میں بھجوائی تو ملک عطا الرحمان صاحب کو فرانس میں متعین کیا اس وقت سارے فرانس میں کوئی احمدی نہ تھا.عاجزہ نے تمام مبلغین کو لجنہ کے قواعد بھجوا دیئے انہوں نے مجھے کہا کہ میں نے ایک فائل لجنہ کا بنا کر دفتر میں رکھ دیا ہے اس دعا کے ساتھ کہ جلد جماعت بڑھے اور لجنہ بھی قائم ہو.اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ وقت آچکا ہے کہ وہاں جماعت بھی قائم ہو چکی ہے اور لجنہ اماءاللہ بھی قائم ہوگئی ہے اور مشن ہاؤس بھی خریدا جا چکا ہے.الحمد للہ علی ذلک.بے شک اس وقت ایک چھوٹی سے جماعت ہے لیکن یاد رکھیں ہر بڑے کام کی ابتدا ایک بیج سے ہوتی ہے ،مٹی میں بیج ڈالا جاتا ہے، پانی دیتے پودا نکلتا ہے، لگانے والا ڈرتا ہے کہ کوئی جانور نہ کھالے کوئی پودے کو پاؤں تلے نہ مسل دے، وہ اس کی حفاظت کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی جڑ پر قائم ہو جاتا ہے اور مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ تناور درخت بن جاتا ہے.یہی طریق ایسی جماعتوں کا ہوتا ہے.ابتدا میں دشمن سمجھتے ہیں کہ چند دن کی بات ہے مسل کر رکھ دیں گے لیکن خدائی نصرت ان کے پیچھے ہوتی ہے.وہ بڑھتے چلے جاتے ہیں اللہ کے فضل سے اگلے سال جماعت احمد یہ کے قیام پر ایک سو سال ہو جائیں گے.اس لئے اس خوشی کو منانے کے لئے بہت ضروری ہے کہ ہم روحانی طور پر بھی مضبوط ہوں اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق ہو اس کا پیار ہمیں حاصل ہو.اس لئے اپنی اور اپنے بچوں کی تربیت کا بہت خیال رکھیں تقویٰ اختیار کریں.اگر ہم نے اپنی اولاد کی اخلاقی لحاظ سے اور دینی لحاظ سے تربیت نہ کی تو وہ آئندہ پڑنے والی ذمہ داریوں کو اُٹھا نہیں

Page 811

خطابات مریم 786 پیغامات سکیں گی.ماؤں پر تو بہت زیادہ ذمہ داری ہے اس ملک میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کو ان برائیوں سے محفوظ رکھیں.جو ان ممالک میں پائی جاتی ہیں ان کے دلوں میں مذہب کی محبت پیدا کریں اللہ تعالیٰ سے پیار کریں دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جذبہ پیدا کریں.یہ ماں ہی ہے جو بچہ کو نیک بناتی ہے یہ ماں ہی ہے جو بچہ کو بگاڑتی ہے.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ہر عورت کوشش کرے کہ وہ خود بھی نمونہ بنے اور بچوں کی بھی اعلیٰ تربیت کرے.اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بار بار جماعت کو ہدا ئیتیں دے رہے ہیں آپ کی ہدا یتوں پر عمل کریں.اللہ تعالیٰ اس ملک میں دین حق کو جلد تر پھیلا دے آمین.والسلام آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 2-8-88

Page 812

خطابات مریم 787 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ کیپ ٹاؤن 1988ء ممبرات لجنہ کیپ ٹاؤن.جنوبی افریقہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کا خط ملا کہ آپ اپنا دوسرا سالانہ اجتماع 13 دسمبر کو منعقد کر رہی ہیں.بہت خوشی ہوئی اللہ تعالیٰ مبارک کرے اور ایسے کام اور فیصلے کرنے کی توفیق ملے جو انسانیت کے لئے بے حد مفید ہوں.اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے مغربی افریقہ کے دوملکوں نائیجریا اور گھانا کا دورہ کرنے کی توفیق ملی ماشاء اللہ.ہر دو ممالک میں بہت بڑی جماعتیں اور قربانی دینے والی بہنیں ہیں.لیکن تریبت کے لحاظ سے ابھی بہت کمی ہے گو عہدہ دار اس کے لئے بہت محنت کر رہی ہیں.پس آپ کو میں توجہ دلاتی ہوں کہ آپ بھی اپنی بچیوں کی خصوصی تربیت قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق کریں.جو ہمارا دعویٰ ہے کہ ہمارا عمل اس کے مطابق ہونا چاہئے ہمارانمونہ وہی ہو جو ہم بیان کرتے ہیں ہمارے قول و فعل میں فرق نہ ہو.تب آپ کی دعوت الی اللہ انشاءاللہ کامیاب ہوگی.تربیت کے لئے علم ضروری ہے جب تک ان کو یہ معلوم نہ ہو کہ قرآن مجید کیا تعلیم دیتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بات کے متعلق کیا ارشاد ہے وہ عمل نہیں کریں گی.پس مکمل دینی تعلیم دیں تربیت کریں تا کہ بچیاں جب بڑی ہوں جماعتی ذمے داریوں کو اُٹھا سکیں اور آپ سے بہتر اٹھا سکیں.یہ آپ کی بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آپ نے پوری کرنی ہے.سب بہنوں کو میرا محبت بھر اسلام پہنچے.میں آپ کے لئے دعا کرتی ہوں آپ بھی مجھے دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 813

خطابات مریم 788 پیغامات پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ یوگینڈا 1988ء ممبرات لجنہ اماءاللہ یوگینڈا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی صدر صاحبہ نے اطلاع دی ہے کہ جنوری 1988ء میں آپ کا جلسہ سالانہ منعقد ہو رہا ہے اور وہاں کی لجنہ اپنا الگ Session کر رہی ہیں.یہ معلوم ہوکر بہت خوشی ہوئی اللہ تعالیٰ آپ کے جلسہ کو بہت بہت مبارک کرے اور اس کا منعقد ہونا وہاں کی لجنہ جماعت اور ملک کے لئے با برکت ہو.وہاں کی احمدی مستورات کو اپنی ڈیوٹیاں ادا کرنے کی صحیح رنگ میں تو فیق عطا فرمائے اور اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے کی.اپنے ملک میں آپ نے ہی صداقت کے پیغام کو سب تک پہنچانا ہے اور اس کیلئے پہلے خود کو نمونہ بنانا ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ کے آنے سے آپ میں کیا تبدیلی پیدا ہوئی احمدیت سے آپ نے کیا پایا؟ آپ کا نمونہ ایسا ہونا چاہئے کہ دیکھنے والے خود متوجہ ہوں.آپ کا نمونہ قرآن مجید کی تعلیم اور نبی کریم ہے اسوہ کے مطابق ہو اس لئے ضروری ہے کہ آپ خود قرآن مجید پڑھیں اس کا ترجمہ سیکھیں.انگریزی میں یا اپنی زبان میں اور پھر اُس پر عمل کریں.اپنے آپ کو تصویر بنا ئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی.خدا کرے آپ اس کی توفیق پائیں.اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے مغربی افریقہ کے دو ملکوں میں جانے کی توفیق پائی نائیجریا اور گھانا میں بڑی مخلص خواتین وہاں دیکھیں بہت خواہش ہے کہ مشرقی افریقہ بھی آسکوں اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا تو وہ خود انتظام کر دے گا.سب بہنوں کو میرا السلام علیکم ہو اور دعا کی درخواست.میں آپ سب کو اپنی دعاؤں میں یا درکھتی ہوں.والسلام.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 814

خطابات مریم 789 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ مغربی جرمنی 1988 ء پیاری ناصرات الاحمدیہ مغربی جرمنی السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه مجھے معلوم ہوا کہ لجنہ اماء اللہ مغربی جرمنی کے اجتماع کے ساتھ آپ کا اجتماع بھی ہو رہا ہے.آپ ابھی بچیاں ہیں اور یہ زمانہ آپ کا سکھنے کا زمانہ ہے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ آپ احمدی بچیاں ہیں اور آپ نے اپنے نمونہ سے اپنے اعلیٰ اخلاق سے اپنے عمدہ کردار سے دوسرے مذاہب کی بچیوں کو اپنی طرف کھینچنا ہے.پس پوری توجہ دیں قرآن مجید پڑھنے پر قرآن مجید کا ترجمہ اپنی عمر کے مطابق سیکھنے پر ، دینی کتب سیکھنے پر ، بنیادی مسائل سیکھنے پر اور پھر قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے پر.آپ سچ بولنے والی ہوں ، پابند ہوں ، ہمدرد ہوں ، خوش اخلاق ہوں ، دکھ اور تکلیف میں پڑے ہوؤں کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کریں.سب سے ضروری یہ کہ اس ملک میں رہتے ہوئے اپنے مذہب کے اصولوں پر سختی سے عمل کریں.ننگے لباس نہ پہنیں.آپ کے سر ڈھکے ہوں.جب پردہ کی عمر آئے تو پردہ کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو نمونہ بنے کی توفیق دے.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 815

خطابات مریم 790 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ سنگا پور 1988ء ممبرات لجنہ اماءاللہ سنگا پور بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں شامل ہو رہی ہوں خدا کرے آپ کا اجتماع بہت مبارک ہو اور لجنہ سنگا پور کی ممبرات میں اس کے ذریعہ بیداری پیدا ہو.مجھے احساس ہے کہ ابھی تک سنگا پور کی خواتین میں احساس ذمہ داری پیدا نہیں ہوا جو بحیثیت ممبرات لجنہ ان میں ہونا چاہئے تھا.کسی جماعت اور قوم کی طاقت اس کی تعداد پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ اس کی روحانی اور اخلاقی طاقت اور اس کی قربانیوں پر منحصر ہوتی ہے.بے شک آپ تعداد میں بہت کم ہیں مگر قرآن مجید کی اس آیت كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةِ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً (البقرة: 250) بہت سی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غالب آ جاتی ہیں.یاد رکھیں یہ غلبہ ظاہری طاقت یا ہتھیاروں کے ذریعہ نہیں ہوتا آج تک کسی مذہبی جماعت نے طاقت کے ذریعہ غلبہ حاصل نہیں کیا.یہ غلبہ ہمیشہ اعلیٰ اخلاق، عمدہ کردار، دوسروں کے دل جیتنے اور دعاؤں کے ذریعہ ہوتا ہے.پس کوشش کریں کہ آپ باقی لوگوں سے جو وہاں رہتے ہیں اخلاق اور کردار کے لحاظ سے نمایاں نظر آئیں اپنے اعلیٰ اخلاق ، اعلیٰ نمونہ اور محبت سے دوسروں کے دل جیتنے والی ہوں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ تمہارے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ایک مکمل نمونہ ہے اور آپ کی اطاعت اور آپ کے نقش قدم پر چلنے سے ہی اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوتی ہے.پس قرآن کا ترجمہ سیکھیں، اپنی زندگیوں کو قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق گزاریں، اپنے نمونہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور احسان کو دنیا پر ظاہر کریں.

Page 816

خطابات مریم 791 پیغامات صرف عہدہ داران کا فرض نہیں ہر احمدی کا یہ فرض ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آپ کی ستیاں دور ہوں اور لجنہ اماء اللہ کے کاموں کی ذمہ داری اُٹھانے کے لئے ہر ممبر آگے آئے.جب تک سب ممبرات میں یکساں بیداری پیدا نہیں ہوتی آپ ترقی نہیں کر سکتیں.جب سے سنگارپور سے واپس آئی ہوں آپ کی ایک رپورٹ بھی مجھے موصول نہیں ہوئی.کام خواہ تھوڑا ہی کیا ہور پورٹ ہر ماہ با قاعدگی سے آنی ضروری ہے ورنہ مرکزی لجنہ کو اس کا علم نہیں ہوتا.میں آپ سب کو اپنی دعاؤں میں یا د رکھتی ہوں آپ بھی میرے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق دے اور ہم سے راضی ہو جائے.والسلام مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 817

خطابات مریم 792 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ انڈونیشیا 1989ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکرمہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ انڈونیشیا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کا دسواں اجتماع جو احمدیت کی دوسری صدی کا پہلا اجتماع ہے میں اس مختصر پیغام کے ساتھ شرکت کر رہی ہوں آپ سب کو بلکہ ساری انڈونیشین جماعت کو بہت بہت مبارک ہو کہ جماعت احمد یہ اپنی پہلی صدی ختم کر کے دوسری صدی میں داخل ہو گئی ہے.ایک سو سال قبل قادیان سے ایک آواز بلند ہوئی کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں.یہ حضرت مرزا غلام احمد بانی سلسلہ کی آواز تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مہدی موعود اور مسیح موعود بنا کر بھیجا ہے.آپ کی اس آواز کے بلند ہوتے ہی آپ کی شدید مخالفت شروع ہو گئی لیکن ساتھ ہی نیک طبیعتوں کا اس طرف رجوع شروع ہوا اور صداقت کے قبول کرنے والوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھتی چلی گئی اور آج وہی آواز دنیا کے ہر براعظم ہر جزیرہ اور ملک میں سنائی دے رہی ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی تھی کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی تھی کہ میں تجھے برکت پر برکت دونگا حتی کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی نصرت کا وعدہ فرمایا تھا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ جو آپ کی ذلت چاہے گا میں اسے ذلیل کروں گا.سو سال میں جہاں جماعت کی بے حد مخالفت ہوئی تکلیفیں دی گئیں وہاں نصرت الہی کے جلوے قدم قدم پر نظر آتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسانات بارش کی طرح بر سے ہیں اور ایک دن بھی جماعت پر ایسا نہیں آیا کہ جماعت کی ترقی کا قدم آگے نہ بڑھا ہو.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے ساتھ ہی نصرت کا وعدہ نہیں فرمایا بلکہ جو آپ سے محبت کرتا ہے اس کے ساتھ بھی فرمایا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی إِنِّي مَعَكَ وَمَعَ اَهْلِكَ وَمَعَ كُلِّ مَنْ أَحَبَّكَ یقیناً میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں اور ہر ایک کے ساتھ جو تجھ

Page 818

خطابات مریم 793 پیغامات سے پیار کرتا ہے.ہم خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نشانات کو پورا ہوتے ہم نے دیکھا.ہم خوش ہیں کہ کامیابی کے ساتھ جماعت احمدیہ نے اپنی پہلی صدی پوری کی.ہم خوش ہیں کہ بادشاہوں نے آپ کے کپڑوں سے برکت حاصل کی.ہم خوش ہیں احمد یہ جماعت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا اور ہمیں یقین ہے کہ وہ تمام بشارتیں جو احمدیت کے مستقبل کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہیں وہ سب اپنے وقت پر پوری ہونگی.نئی صدی اپنے ساتھ بہت بھاری ذمہ داریاں بھی آپ کیلئے لا رہی ہے اسلئے سستیاں چھوڑ دیں.باہمی اتفاق اور تعاون کے ساتھ ایک دوسرے کے عیبوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے ہم دین کی ترقی کیلئے آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں.بہت ضرورت ہے اپنی نئی نسل کی دینی تعلیم اور تربیت کی اور ان کو تیار کرنے کی کہ جب ان پر قوم کی ذمہ داریاں پڑیں تو وہ اسے اچھی طرح بجالا سکیں.آیئے اس موقع پر تجدید عہد کریں اس عہد کی جو آپ نے بیعت کرتے ہوئے باندھا تھا کہ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اور اپنی قربانیوں اپنی کوششوں اور دعاؤں کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت میں حصہ لیں گے.ہماری ساری محبتیں خدا تعالیٰ کے لئے ہونگیں ہم کسی سے نفرت نہیں کرتے نفرت صرف اس بُرائی سے کرتی ہیں جو کسی میں پائی جاتی ہے اس لئے اگر کسی میں بُرائی دیکھیں تو اس سے نفرت نہ کریں بلکہ محبت سے پیار سے خلوص سے اپنی چھوٹی بہن سمجھتے ہوئے اس کی اصلاح کی کوشش کریں.سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنا نمونہ قرآن مجید اور اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگا ہوا ہو.ایسا نمونہ دوسرے کے لئے باعث کشش ہو.پھر اس کامیابی کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں اجتماعی بھی اور انفرادی بھی کہ اس کی مدد کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا.اس موقع پر ان سب کا رکنات لجنہ کو سلام پیش کرتی ہوں جن کی قربانیوں اور محبت کے نتیجہ میں آج لجنہ اس مقام کو پہنچی آج وہ ہم میں نہیں لیکن ان کی قربانیاں ہمیشہ زندہ رہیں گی اور آنے والی نسلیں ان پر سلام بھیجیں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں وہ کام کرنے کی توفیق دے جس سے اس کی رضا حاصل ہو.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.خاکسار.مریم صدیقہ.صدر لجنہ اماءاللہ پاکستان

Page 819

خطابات مریم 794 پیغامات پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ جرمنی 1989ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میری پیاری بہنو ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے سالانہ جلسہ میں شرکت کر رہی ہوں.جلسہ سالانہ کی بنیا د حضرت مسیح موعود نے 1891ء میں ڈالی اور جہاں بھی اور جس ملک میں جلسہ سالانہ منعقد ہوگا وہ دراصل اس کا ہی ظل ہو گا.اس پہلے جلسے میں صرف 75 اشخاص شامل ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج چھوٹی چھوٹی جگہوں پر بھی اس سے زیادہ تعداد میں لوگ شامل ہوتے ہیں کیا یہ حضرت مسیح موعود کی صداقت کی دلیل نہیں کہ اس نے اپنے مسیح سے وعدہ کیا تھا يَنْصُرُكَ رِجالٌ نُوحى إِلَيْهِمُ مِنَ السَّمَاءِ تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے.جلسہ سالانہ کی بنیا د رکھنے سے بھی پہلے 1883ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا.”دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا“.( تذکرہ صفحہ 238) پس آپ سب کا بھاری تعداد میں جمع ہونا حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کی ہدایت کا ایک زبر دست ثبوت ہے اب تو عنقریب جماعت کے قیام پر سو سال پورے ہونے والے ہیں اور جرمنی کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے جماعت کی تعداد کا ہر فرد اپنے ساتھ بہت ذمہ داریاں لاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوسورۃ النصر میں اسی طرف توجہ دلائی گئی تھی کہ اب فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہوں گے آپ استغفار پڑھتے رہیں

Page 820

خطابات مریم 795 پیغامات کہ نئے آنے والے جو اپنی کمزوریاں ساتھ لائیں وہ دور ہوں اور اسلام کی ترقی کو متاثر نہ کریں پس آپ میں سے ہر عورت کا فرض ہے کہ وہ جائزہ لیتی رہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر رہی ہے یا نہیں.سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ سمجھیں کہ اس ملک میں آپ نے احمدیت کا جیتا جاگتا نمونہ اپنے وجود سے پیش کرنا ہے یہ نہیں کہ دعوئی اور ہے اور عمل اور ہے اگر قول اور فعل میں تضاد ہو تو اس کا اثر نہیں ہوتا.اسلام کی تعلیم کتنی حسین اور دلکش ہے ہر ملک کے لئے ہے، عالمگیر ہے ، آخری شریعت ہے اس میں کبھی بھی کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی لیکن اگر آپ کا عمل اس پر نہیں تو دوسرے الفاظ میں آپ کا فعل آپ کی اس بات کی تردید کر رہا ہوگا کہ قرآن مجید کی تعلیم ہمیشہ کے لئے ہے خود آپ کسی حکم پر عمل نہیں کر رہی تو دوسرے کو کیا تلقین کریں گے.پس آپ نے زندہ نمونہ بننا ہے اور اپنے دعویٰ کو اپنے عمل سے سجا کر دکھانا ہے.دوسرے ہر کام میں آپ یہ سمجھیں کہ ساری ذمہ داری آپ پر ہے اگر آپ نے فرائض میں ستی کی تو جماعت کو اور احمدیت کو نقصان پہنچے گا.تیسرے اپنی اولاد کی طرف بے حد توجہ دیں اس نسل پر آئندہ ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں اگر آپ نے اپنے بچوں کی صحیح تربیت نہ کی ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت آنحضرت ﷺ کی محبت مذہب کی محبت اور اس کے لئے غیرت پیدا نہ کی.بانی سلسلہ سے محبت اور خلیفہ وقت کی اطاعت کا جذبہ پیدا نہ کیا تو آئندہ آپ کس طرح امید رکھ سکتی ہیں کہ وہ نئی پڑنے والی ذمہ داریوں کو سنبھالیں گے.یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے اسی کی طرف قرآن مجید میں توجہ دلائی گئی ہے کہ اپنے آپ کو اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ اس دہریت اور دجالیت کی آگ سے جو مغربی ممالک میں بھڑک رہی ہے خود کو بھی بچانا ہے اور اپنی اولا د کو بھی محفوظ رکھنا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آپ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والیاں ہوں اور اپنے نمونہ اور اعلیٰ اخلاق سے دوسروں کو اپنی طرف کھینچنے والیاں ہوں.آمین مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام.خاکسار.مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 821

خطابات مریم 796 پیغامات پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ آسٹریلیا 1989ء ممبرات لجنہ اماءاللہ آسٹریلیا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكاتُه آپ کا جلسہ سالا نہ ہو رہا ہے اور اس مختصر پیغام کے ذریعہ میں اس جلسہ میں شرکت کر رہی ہوں مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.براعظم آسٹریلیا میں آج جماعت کی تعداد بہت ہی کم ہے لیکن یہ یاد رکھیں کہ ایک گھنے درخت کے لئے صرف ایک پیج ہی ڈالا جاتا ہے.مالی قربانی کے نتیجہ میں ترقی کی مثال اللہ تعالیٰ دیتے ہوئے قرآن مجید میں یوں فرماتا ہے.مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (البقرة : 262) یعنی جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے اس فعل کی حالت اس دانہ کی حالت کے مشابہ ہے جو سات بالیں اُگائے اور ہر بالی میں سو دانہ ہو اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے اسے بڑھا کر دیتا ہے اور اللہ وسعت دینے والا اور بہت جاننے والا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ قربانی دینے والوں کو بتاتا ہے کہ اگر سچے دل سے وہ قربانی کریں گے تو سات سو گنا اس کا بدلہ ملے گا.سائنس نے آج ثابت کر دیا ہے کہ اس آیت میں چودہ سو سال قبل اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا تھا وہ سچ ہے جس طرح ایک دانہ سے سات سو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر دانے پیدا کئے جا سکتے ہیں اسی طرح ایک انسان کی محنت اور سچی قربانی سے سات سو افراد احمدیت میں لائے جا سکتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مومنین سے یہ بھی فرمایا ہے کہ

Page 822

خطابات مریم 797 پیغامات كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بہت سی چھوٹی جماعتوں نے عام حالات کے خلاف بڑی جماعتوں پر غلبہ حاصل کیا ہے.پس اس وعدہ الہی کے مطابق آپ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کا مستحق بنا ئیں.جماعت کی خواہش بچوں کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ وہ آئندہ پڑنے والی ذمہ داریوں کو اُٹھانے کے لئے تیار ہوں.یہی آپ کا سب سے بڑا فرض اور ذمہ داری ہے.خود اسلام کے اصولوں پر عمل کریں اور اسلام کی شکل کو بگڑنے نہ دیں.حضرت مصلح موعود جب 1924ء میں انگلستان ویمبلے کا نفرنس میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے تو آپ نے وہاں سے ایک خط میں اس فکر کا اظہار فرمایا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یورپ اسلام کو تو قبول کر لے مگر اسلامی تمدن اپنانے سے انکار کر دے اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو اسلام کی بدلی ہوئی صورت پہلے یورپ میں پھر ساری دنیا میں قائم ہو جائے گی اور مسیحیت کی طرح اسلام بھی مسخ ہو جائیگا (خدانخواستہ) پس میری بہنو بہت بڑی ذمہ داری آپ پر ہے آپ ان ابتدائی لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے وطن چھوڑ کر آسٹریلیا کی زمین کو اپنا گھر بنایا آپ کا فرض ہے کہ نہ عقائد کے لحاظ سے نہ تمدن کے لحاظ سے اسلام کی شکل کو بگڑنے دیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کی مددفرمائے.خاکسار آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 823

خطابات مریم 798 پیغامات پیغام بر موقع صد سالہ جشن تشکر 1989ء صد سالہ جشن تشکر کے ایمان افروز موقع پر میں تمام احمدی جماعت کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتی ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ پہلی صدی پوری کر کے دوسری صدی میں داخل ہو چکی ہے.ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے اپنے وعدوں کے مطابق ہمیں یہ خوشی دکھائی.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے تذکرۃ الشہا دتین میں فرمایا تھا.”اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور بُرہان کی رو سے سب پر اُن کو غلبہ بخشے گا وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کر نے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی“.(روحانی خزائن جلد 20 تذکرۃ الشہادتین صفحه 66) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے جب یہ اعلان فرمایا تھا صرف ہندوستان میں ایک مختصرسی جماعت تھی لیکن اب دنیا کے 117 ملکوں میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور دنیا کے کناروں تک آپ کا نام پہنچ چکا ہے.آپ کی اور آپ کے مظاہر کی تربیت سے بڑے بڑے فدائی پیدا ہوئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کی خاطر نہ جان کی پرواہ کی نہ عزت کی نہ مال کی اور نہ اولاد کی.ان تمام مردوں اور عورتوں کو ہم سلام پیش کرتے ہیں جن کی قربانیاں احمدیت کے گھنے درخت کے لئے بطور کھاد کے تھیں.یہ درخت پھولتا اور پھلتا رہے گا اور قومیں اس کے سایہ تلے پناہ لیں گی.حضرت اقدس نے انجام آتھم صفحہ 64 “ میں فرمایا تھا:.

Page 824

خطابات مریم 799 اور اگر چہ یہ جماعت به نسبت تمہاری جماعتوں کے تھوڑی سی اور فِئَةٌ قَلِيلة ہے اور شاید اس وقت تک چار ہزار یا پانچ ہزار سے زیادہ نہ ہوگی تاہم یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے.خدا اس کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا وہ راضی نہیں ہوگا جب تک اس کو کمال تک نہ پہنچا دے اور وہ اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کے گرد احاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز ترقیات دے گا کیا تم نے کچھ کم زور لگایا پس اگر یہ انسان کا کام ہوتا تو کبھی کا یہ درخت کاٹا جاتا اور اس کا نام ونشان باقی نہ رہتا.پیغامات (روحانی خزائن جلد 11 - انجام آتھم صفحہ 64) ہمیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے کیونکہ یہ پودا اس کا لگایا ہوا تھا انسان کا نہیں جس طرح سو سال میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بارش کی طرح برستے دیکھا اسی طرح ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ جماعت کے مستقبل کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ ضرور پوری ہوں گی.نئی صدی ہم سے عظیم ذمہ داریوں کا مطالبہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو راضی کریں.اپنے اعمال سے، قربانیوں سے ، اعلیٰ اخلاق سے ، دلی اخلاص سے، تقویٰ سے اور دعاؤں سے اور اپنے اعلیٰ نمونہ سے اپنی نئی نسل کی تربیت کریں تا وہ اس صدی میں پڑنے والی ذمہ داریوں کو احسن طور پر ادا کر سکیں.حضرت بانی سلسلہ ازالہ اوہام میں اسی مقصد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :.ہم کیونکر خدا تعالیٰ کو راضی کریں اور کیونکر وہ ہمارے ساتھ ہو اس کا اس نے مجھے بار بار یہی جواب دیا ہے کہ تقویٰ سے.سواے میرے پیارے بھائیو! کوشش کروتا متقی بن جاؤ.بغیر عمل کے سب باتیں بیچ ہیں اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل مقبول نہیں سو تقویٰ یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بیچ کر خدا تعالیٰ کی طرف قدم اُٹھاؤ اور پر ہیز گاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو.(روحانی خزائن جلد 3 - ازالہ اوہام صفحہ 547) وہ را ہیں کیا ہیں حضرت اقدس خود ازالہ اوہام میں راہنمائی فرماتے ہیں :.(1) سب سے اوّل اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کر واور سچ سچ

Page 825

خطابات مریم 800 پیغامات......دلوں کے علیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ کہ ہر یک خیر اور شر کا پیج پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اگر تیرا دل شر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہوگی...سوا اپنے دلوں کو ہر دم ٹولتے رہو.اپنے دلوں کے مخفی خیالات اور مخفی عادات اور مخفی جذبات اور مخفی ملکات کو اپنی نظر کے سامنے پھیرتے رہو اور جس خیال یا عادت یا ملکہ کور ڈی پاؤ اس کو کاٹ کر باہر پھینکو.(روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام صفحہ 547) اس مقصد کے حصول کے لئے دوسرے نمبر پر حضرت بانی سلسلہ نے دعا کے ذریعہ یہ ہمت اور قوت حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے.آپ فرماتے ہیں:.(2) پھر بعد اس کے کوشش کرو اور نیز خدا تعالیٰ سے قوت اور ہمت مانگو کہ تمہارے دلوں کے پاک ارادے اور پاک خیالات اور پاک جذبات اور پاک خواہشیں تمہارے اعضاء اور تمہارے تمام قومی کے ذریعہ سے ظہور پذیر اور تکمیل پذیر ہوں تا تمہاری نیکیاں کمال تک پہنچیں.پھر تیسری راہ آپ یوں بیان فرماتے ہیں :.(روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام صفحہ 548) (3) اگر نجات چاہتے ہو تو دین العجائز اختیار کرو.اور مسکینی سے قرآن کریم کا جوا اپنی گردنوں پر اُٹھاؤ“.(روحانی خزائن جلد 3 - ازالہ اوہام صفحہ 548) خدا بڑی دولت ہے اس کے پانے کے لئے مصیبتوں کے لئے تیار ہو جاؤ.نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی کنجی ہے“.(روحانی خزائن جلد 3- ازالہ اوہام صفحہ 549) چوتھا راستہ اس مقصد کے حصول کا آپ نے یوں بیان فرمایا کہ:.(4) سچائی اختیار کرو، وہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے دل کیسے ہیں نا انصافی پر ضد کر کے سچائی کا خون نہ کرو حق کو قبول کرلو“.9966 (روحانی خزائن جلد 3.ازالہ اوہام صفحہ 550)

Page 826

خطابات مریم پھر فرماتے ہیں:.801 پیغامات باہم بخل اور کینہ اور حسد اور بغض اور بے مہری چھوڑ دو اور ایک ہو جاؤ.قرآن شریف کے بڑے حکم دو ہی ہیں ایک توحید و محبت و اطاعت باری عزاسمہ دوسری ہمدردی اپنے بھائیوں اور اپنے بنی نوع کی.(روحانی خزائن جلد 3 - ازالہ اوہام صفحہ 550) بس ہمیں چاہئے کہ اس صدی میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے رضائے الہی حاصل کرنے کی جو راہیں بیان فرمائی ہیں ان پر خود عمل کریں اور اپنی اگلی نسل کی بھی تربیت اسی نہج پر کریں.اگلی نسل کی تربیت کی بہت بھاری ذمہ داری احمدی ماؤں پر ہے.خدا کرے کہ وہ اس ذمہ داری کو ادا کر کے سرخرو ہوں.آمین والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ (مصباح مارچ 1989ء)

Page 827

خطابات مریم 802 پیغامات پیغام عید تمام بیرونی ممالک 1989ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ آج کے دن دنیا بھر کے احمدی مرد وزن پورے جوش وخروش سے عید الفطر منا رہے ہیں.یہ عید اس شکرانے کے طور پر منائی جاتی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان المبارک کے اخلاقی اور روحانی پروگرام پر عمل کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائی.اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی روحانی خوشی اور مسرت کا ہی نام عید ہے.خوشی کے اس موقعہ پر میں آپ سب کو دلی عید مبارک پیش کرتی ہوں.ہم انشاء اللہ بہت جلد احمدیت کی نئی صدی میں داخل ہونے والے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم اگلی صدی کے تقاضے پورے کرنے والے ہوں اور احمدیت کے لئے بیش قدر قربانیاں پیش کرنے والے ہوں.عید کے دن اسیرانِ راہ مولیٰ کو خاص طور پر اپنی دعاؤں میں یادرکھیں جو محض احمدیت کی خاطر جیلوں اور قید کی سختیاں برداشت کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ جلد تر اسیروں کی رستگاری کے سامان پیدا فرمائے.اسی طرح اپنے تمام ان بھائی بہنوں کو بھی یا درکھیں جو مفلس اور ضرورتمند ہیں اور انہیں بھی جو بیمار اور علیل ہیں.ایک بار پھر آپ سب کو دلی عید مبارک پیش کرتی ہوں.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 828

خطابات مریم 803 پیغامات پیغام برائے رسالہ النصرت لجنہ اماءاللہ انگلستان 1989ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ لجنہ اماءاللہ انگلستان صد سالہ جشن تشکر کے آغاز سے ایک رسالہ جاری کر رہی ہے جس کا نام ”النصرت“ ہوگا انہوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں اس کے لئے آپ کو کوئی پیغام دوں.اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے احمد یہ جماعت کو کامیابی کے ساتھ پہلی صدی کا سفر ختم کرنے اور دوسری صدی میں داخل ہونے کی توفیق عطا کی ہے.یہ سفر ایک سو سال قبل 23 مارچ 1889ء کو شروع ہوا جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمد یا کیلے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بیعت لینے کا حکم ہوا.یہ قافلہ آہستہ آہستہ بڑھتا چلا گیا.مخالفت کی آندھیاں اُٹھیں.دنیا نے پورا زور لگایا کہ احمدیت کو ختم کر دیں مگر اللہ تعالیٰ جس کو کھڑا کرے وہ نا کام نہیں ہوتا کیونکہ اس کی نصرت اس کے شامل حال ہوتی ہے.آپ نے دعوی کیا آپ اکیلے تھے اور آج سو سال ختم ہونے پر جماعت احمد یہ 117 ممالک میں قائم ہو چکی ہے.ان سو سالوں میں جماعت احمدیہ نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانات کو بارش کی طرح برستے دیکھا ہے.ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی نصرت جماعت کو حاصل رہی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاما فرمایا تھا.مَنْ كَانَ فِي نُصَرِةِ اللَّهِ كَانَ اللَّهُ فِي نُصَرَتِهِ ( تذکرہ صفحہ 618) یعنی جو شخص خدا کے دین کی مدد میں لگ جاتا ہے خدا اس کی مدد میں لگ جاتا ہے.پس اس عظیم خوشی کے موقع پر لجنہ اماءاللہ انگلستان کا ایک رسالہ عورتوں کی تربیت کے لئے جاری کرنا ایک اچھا اور مبارک قدم ہے.خدا کرے یہ رسالہ احمدی عورتوں کی تربیت اور عورتوں میں تبلیغ کے لئے مفید ثابت ہو.لجنہ اماءاللہ کی ممبرات اور عہدیداروں کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نصرت حاصل ہوتی رہے.

Page 829

خطابات مریم 804 پیغامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے یہ وعدہ بھی فرمایا کہ نَصَرْتُكَ مِنْ لَّدُنّی ( تذکرہ صفحہ 84) یعنی میں اپنی طرف سے تجھے مدد دونگا.چنانچہ پوری ایک صدی اس نصرت البہی کو دوستوں نے بھی دیکھا اور دشمنوں نے بھی اور کسی میں یہ جرأت نہیں ہوئی کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ نصرت کا دروازہ بند کر سکے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو زندگی کی شریک سفر عطا فرمائی ان کا نام بھی نصرت تھا یہ رسالہ جو اُن کے نام پر جاری کیا گیا ہے اس میں آپ کی سیرت اور اخلاق کا تذکرہ بھی ہونا چاہئے اور ان ذمہ داریوں کا بھی جو دوسری صدی میں آپ نے ادا کرنی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 830

خطابات مریم 805 پیغامات پیغام برائے رسالہ لجنہ اماءاللہ جرمنی 1989ء پیاری بہنو ! بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه مجھے خوشی ہوئی ہے کہ آپ کی لجنہ باقاعدگی سے ایک رسالہ جاری کر رہی ہے.خدا کرے با قاعدگی سے رسالہ جاری رہے بہنیں دلچسپی لیں مالی لحاظ سے بھی اور قلمی لحاظ سے بھی.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کو سلطان القلم کا خطاب دیا ہے اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس زمانہ کا جہاد قلمی جہاد ہوگا.دلوں کو دلائل سے فتح کیا جائے گا.اس لئے ہمارا بھی فرض ہے کہ دین کی اشاعت میں قلم کو استعمال کریں.اس کے ذریعہ اسلام کی صداقت اور حقانیت کو دنیا کے سامنے ثابت کریں.اسلام کی فضیلت کو دوسرے مذاہب پر ثابت کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کو دنیا کے سامنے پیش کریں.دنیا کے نعروں سے آپ کا جو حسن پوشیدہ ہے وہ ظاہر کریں.ان اعتراضات کا جواب دیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر عیسائی مشرکین کرتے رہتے ہیں.ان کا ایک بہت بڑا اعتراض اسلام پر یہ بھی ہے کہ اسلام نے عورت کو آزادی نہیں دی دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں کم مقام عطا کیا ہے.آپ نے قرآن مجید احادیث کے حوالوں سے ثابت کرنا ہے کہ چودہ سو سال قبل جو مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو دیا تھا.اس تک تو آج کی ترقی یافتہ قو میں بھی نہیں پہنچیں.پھر اس رسالہ کے ذریعہ سے آپ نے ان معاشرتی برائیوں کی طرف بھی احمدی خواتین کو توجہ دلانی ہے جن میں آج کی دنیا گرفتار ہے اور ہوشیار کرنا ہے کہ وہ ان سے خود بھی بچیں اور اپنی اولا دکو بھی بچا ئیں.یہ اہم فریضہ آپ نے اپنے رسالہ سے ادا کرنا ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے انہوں نے ایسا معاشرہ پیدا کرنا

Page 831

خطابات مریم 806 پیغامات ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معاشرہ تھا.پھر وہاں رہنے والی خواتین کا فرض ہے کہ ایک بہن بھی ایسی نہ ہو جواپنے رسالہ کی خریدار نہ ہو.کوئی احمدی گھرانہ ایسا نہ ہو جس میں یہ رسالہ نہ آئے خود پڑھیں بچوں کو پڑھا ئیں اور ملنے جلنے والی خواتین کو پڑھا کر اسے ذریعہ تبلیغ بنا ئیں.یہ بھی یا درکھیں اگر آپ کا نمونہ ایسا نہ ہو جس کی تعلیم آپ رسالہ میں دیں گی تو آپ کی تبلیغ کا اثر بھی نہیں ہوگا.پس مبارک ہو آپ کو اور آپ کی لجنہ کو کہ اپنی ترقی کی منزل کی طرف ایک اور قدم اٹھارہی ہے.میری دعا ہے کہ یہ قدم بہت مبارک ہو.آپ کا رسالہ اپنی پوری شان سے نکلتا رہے اور اس مقصد کو پورا کرتی رہیں جو اس رسالہ کے شائع کرنے کا ہے.مجھے یہ بھی خوشی ہے کہ لجنہ نے جرمنی زبان میں بھی ایک شمارہ نکالا ہے.یہ بھی ایک ضروری قدم ہے جو آپ کی لجنہ نے اُٹھایا ہے کیونکہ نو مسلم جرمن خواتین کی اسلامی رنگ میں تربیت کے لئے ضروری تھا کہ ان کے لئے لٹریچر شائع کیا جائے جو ان کی زبان میں ہو اور جسے وہ پڑھیں اور پھر اس پر عمل کریں.آپ سب سے امید رکھتی ہوں کہ آپ پورا تعاون رسالہ کی مدیرہ کے ساتھ کریں گی اور رسالہ خریدنے میں بھی تعاون کریں گی.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.کفرستان کے گڑھ میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے کی توفیق دے اور نئی صدی میں آپ کے قدم تیز سے تیز تر ہوتے چلے جائیں.آمین والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 832

خطابات مریم 807 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ماریشس 1989ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وعلى عبده المسيح الموعود میری پیاری بہنو ممبرات لجنہ اماءاللہ ماریشس السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی سیکرٹری نے اطلاع دی ہے کہ 5 مارچ کو پورٹ لوئی (Portloy) کا دو اور مقامات کے ساتھ سالانہ اجتماع ہو رہا ہے اور اس موقع پر انہوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں آپ کو پیغام بھجوا ؤں.میری بہنو! سالانہ اجتماع کی غرض یہی ہے کہ آپ سارے سال کے کاموں کا جائزہ لیں جو خامیاں کمزوریاں ان میں رہ گئی ہیں ان کو نوٹ کیا جائے اور آئندہ کام کرنے کا عزم کیا جائے.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی مستورات کو بھی مردوں کے ساتھ اس بات کی تاکید فرمائی ہے کہ وہ اسلام کا پیغام غیر مسلم عورتوں تک پہنچا ئیں اور تبلیغ اسلام کے جہاد میں پورے جوش اور اخلاص سے لگ جائیں کوئی ایک عورت بھی ایسی نہ ہو جو یہ فرض ادانہ کر رہی ہو.اس کے لئے تجاویز سوچیں اور پروگرام بنا کر اس پر عمل کریں.اس عظیم الشان جہاد کے لئے آپ کو پورے طور پر تیاری کرنی ہوگی جس طرح بغیر ہتھیاروں کے انسان لڑ نہیں سکتا اسی طرح روحانی جہاد میں سب سے پہلا ہتھیا رتو دعا ہے کہ ہر وقت دعا کریں اللہ تعالیٰ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرے اور آپ کو خدمت اور قربانی کا موقعہ ملے.پھر وہ دلائل ہیں جو صداقت احمدیت جو حقیقی اسلام ہے کے آپ نے دنیا کے سامنے رکھنے ہیں.اگر خود آپ کو صحیح علم نہ ہوگا تو آپ دوسروں کو کیسے قائل کر سکتی ہیں.تیسری

Page 833

خطابات مریم 808 پیغامات چیز اپنا نمونہ ہے ایک طرف آپ قرآن مجید کی تعلیم کی برتری دنیا پر ثابت کرنا چاہتی ہیں دوسری طرف آپ کا اپنا عمل قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق نہیں اور آپ کے قول و فعل میں تضاد ہے تو کس طرح آپ کی بات میں اثر پیدا ہو سکتا ہے.پس دنیا کو بتائیے کہ سب سے اعلیٰ تعلیم قرآن مجید کی ہے جس کا نمونہ ہم پیش کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 834

خطابات مریم 809 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ بنگلہ دیش 1989ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میری عزیز بہنو ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ سب کو مبارک ہو کہ احمد یہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسری صدی میں داخل ہو چکی ہے.اس عرصہ میں احمد یہ جماعت کی مخالفت ہوئی تکلیفیں دی گئیں لیکن یہ کوئی نئی چیز نہ تھی خدائی جماعتوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائشیں آتی رہتی ہیں.حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ اپنی کتاب سرمہ چشم آریہ میں فرماتے ہیں :.ہر ایک مومن اور پاک باطن اپنے ذاتی تجربہ سے اس بات کا گواہ ہے کہ جو لوگ صدق دل سے اپنے مولیٰ کریم جل شانہ سے کامل وفاداری اختیار کرتے ہیں وہ اپنے ایمان اور صبر کے اندازہ پر مصیبتوں میں ڈالے جاتے ہیں اور سخت سخت آزمائشوں میں مبتلا ہوتے ہیں ان کو بد باطن لوگوں سے بہت کچھ رنج دہ باتیں سننی پڑتی ہیں اور انواع و اقسام کی مصائب و شدائد کو اُٹھانا پڑتا ہے اور نا اہل لوگ طرح طرح کے منصوبے اور رنگا رنگ کے بہتان ان کے حق میں باندھتے ہیں اور ان کے نابود کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں.یہی عادت اللہ اُن لوگوں سے جاری ہے جن پر اس کی نظر عنایت ہے غرض جو اس کی نگاہ میں راستباز اور صادق ہیں وہ ہمیشہ جاہلوں کی زبان اور ہاتھ سے تکلیفیں اُٹھاتے چلے آئے ہیں سو چونکہ سنت اللہ قدیم سے یہی ہے اس لئے اگر ہم بھی خویش بیگانہ سے کچھ آزار اُٹھا ئیں تو ہمیں شکر بجا لانا چاہئے اور خوش ہونا چاہئے کہ ہم اُس محبوب حقیقی کی نظر میں اس لائق تو ٹھہرے کہ اس کی راہ میں دکھ دیے جائیں اور ستائے جائیں“.(روحانی خزائن جلد 2 سرمه چشم آریہ صفحہ 315)

Page 835

خطابات مریم 810 پیغامات پس قابل مبارک باد ہیں وہ لوگ جن کو احمدیت کی وجہ سے تکلیفیں پہنچیں کہ اس کی تو فیق بھی اس کو ملتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی نظروں میں اس لائق ہو.ان سو سالوں میں جہاں مخالفتوں کی آندھیاں چلیں وہاں بے شمار احسانات اللہ تعالیٰ کے جماعت احمد یہ پر ہوئے جو سچائی حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ لے کر کھڑے ہوئے تھے باوجود اس کے کہ آپ اکیلے تھے ظاہری سامان آپ کے پاس نہ تھے مگر اس سچائی کی کشش کو دنیا نے محسوس کیا اور آہستہ آہستہ جماعت بڑھتی گئی.اپنا جان مال وقت اور اولاد کو قربان کرنے والے شامل ہوتے رہے اور ایک دور افتادہ بستی سے اُٹھنے والی سچائی کی آواز آج 117 ممالک میں پھیل چکی ہے اور کوئی نہیں جو اس آواز کوروک سکے.بے شک ابھی ہم تھوڑے ہیں لیکن روحانی غلبہ کے لئے تعداد کوئی چیز نہیں.ضرورت ہے ایمان کی ضرورت ہے صحیح عمل کی ضرورت ہے قربانیوں کی ضرورت ہے اعلیٰ اخلاق اپنے میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے اپنا اعلیٰ نمونہ پیش کرنے کی ضرورت ہے ہر ایک سے محبت کرتے ہوئے ان تک اس سچائی کو پہنچانے کی اور ضرورت ہے اپنی نسلوں کی اعلیٰ تربیت کی.سچائی کی فتح ضرور ہوگی یہ خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے لیکن ہم نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مستحق بنانا ہے.اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے اور اپنی اگلی نسل کو آئندہ پڑنے والی ذمہ داریوں کو اُٹھانے کے لئے پوری طرح تیار کرنا ہے ان کی دینی تعلیم اور تربیت سے غافل نہ ہوں.یہ بہت بڑا کام ماؤں کے ذمہ ہے اگر آپ اس میں کامیاب ہو گئیں تو آنے والی نسلیں آپ پر سلام بھیجیں گی.پس آپ سب کو مبارک ہو.اللہ تعالیٰ اس مقصد میں آپ کو کامیاب کرے اور ان بہنوں کو دعاؤں میں یا درکھیں جو آج ہم میں موجود نہیں مگر ابتدائی بنیادوں میں ان کا خون شامل ہے.کبھی ان کی قربانیوں کو نہ بھولیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 09-03-1989

Page 836

خطابات مریم 811 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ہالینڈ 1989ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیاری بہنوممبرات لجنہ اماءاللہ ہالینڈ پیغام السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے سالانہ اجتماع میں شرکت کر رہی ہوں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اجتماع کو بہت بابر کت کرے دُور رس نتائج نکلیں.ہر کام کرتے وقت اپنی زندگی اور تنظیم کے مقصد کو سامنے رکھنا چاہئے.ہمارا مقصد وہی ہے جو جماعت احمدیہ کا ہے یعنی اسلام کی صحیح شکل کو دنیا کے سامنے پیش کرنا.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہماری کوششیں شامل ہوں اور زیادہ سے زیادہ الہی فضل کو جذب کر سکیں یہ یاد رکھیں کہ ہماری بات کا غیر مسلموں پر اس وقت اثر ممکن ہے جب ان کو یقین ہو کہ جو چیز ہم ان کے سامنے رکھ رہے ہیں وہ اس سے بہتر ہے جو اُن کے پاس ہے.پھر وہ توجہ بھی دیں گے.یہ ضروری ہے کہ عیسائیت پر آپ اسلام کی فضیلت دلائل کے ساتھ پیش کریں وہاں آپ کا اپنا عمل اور نمونہ آپ کے قول اور دعویٰ کو ثابت کر رہا ہو.اگر آپ کا نمونہ وہ نہیں جس کی آپ ان کو تبلیغ کر رہی ہیں تو وہ آپ کی بات کی طرف توجہ نہیں دیں گے کہ ان کا تو اپنا نمونہ ہی ان کی تعلیم کے خلاف ہے.اس لئے ضروری ہے کہ آپ قرآن مجید کا ترجمہ پڑھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھیں اور پھر جائزہ لیں کہ کیا ہمارا عمل قرآن مجید کے مطابق ہے یا نہیں اور ہر وقت اپنا جائزہ لیا کریں خصوصاً اخلاق بنی نوع انسان سے شفقت اور حسن سلوک کے سلسلہ میں.آپ کا ہر عمل آپ کی ہر حرکت قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق ہونا چاہئے گویا آپ کا نمونہ حضرت عائشہ

Page 837

خطابات مریم 812 پیغامات کے اس قول کے مطابق جو آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں فرمایا تھا کہ کانَ خُلُقُهُ القُرآن.آپ کے اخلاق قرآن کے عین مطابق ہیں جو آپ تعلیم دیتے ہیں اس پر خود پہلے عمل کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا اسلام کی طرف متوجہ ہو رہی ہے آپ سب کا بھی فرض ہے کہ تبلیغ کے کاموں میں اتنا ہی حصہ لیں جتنا جماعت کے مرد لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں پر یکساں دینی ذمہ داریاں ڈالی ہیں.مرد مردوں میں تبلیغ کریں اور عورتیں اپنے اپنے حلقہ میں کریں.لٹریچر تقسیم کر کے، زبانی ، اپنے عمل سے پیار و محبت کے ساتھ کوئی موقع ان تک اسلام کی تعلیم پہنچانے کا نہ چھوڑیں.پھر دوسرا عظیم الشان فرض آپ کا اپنی اولاد کی تربیت ہے.وہاں کے مادہ پرست ماحول میں اپنی اولاد کی تربیت کرنا ہے ان میں مذہب کی محبت پیدا کرنی ، ان کو دین سکھانا ، ان میں مذہب کو سمجھنے کا صحیح شعور پیدا کرنا ، ان کو سمجھانا کہ اسلامی معاشرہ اور ہے اور باقی لوگوں کا اور ، اخلاق ان میں پیدا کرنے ، مسجد میں باقاعدگی سے جانا، نمازوں میں با قاعدگی کی طرف توجہ دینا، خلافت کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کرنا.یہ سب وہ امور ہیں جن کی طرف سے بچپن میں توجہ دینی چاہئے تا آپ کے بچے بڑے ہو کر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان کو ادا کرنے کے قابل ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے.سب بہنوں کو محبت بھرا سلام.میں بھی آپ سب کو اپنی دعاؤں میں یا درکھتی ہوں آپ بھی میرے لئے دعا کریں.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 838

خطابات مریم 813 پیغامات پیغام برائے رسالہ لجنہ اماءاللہ نائیجیر یا 1989ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ممبرات لجنہ اماءاللہ نائیجیریا السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه لجنہ نائیجیر یا اپنے سہ ماہی رسالہ کا خاص نمبر احمد یہ جشن صد سالہ کے موقع پر شائع کر رہی ہے.نئی صدی میں داخل ہونا آپ سب کو بہت مبارک ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابھی آپ نے دعویٰ بھی نہیں فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بشارت دی اور فرمایا.میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“.( تذکرہ صفحہ 8) براعظم افریقہ اور آپ کا ملک گواہ ہے کہ کس شان سے یہ پیشگوئی جو سو سال سے بھی قبل کی گئی تھی پوری ہوئی اور آپ کے ملک کے بادشاہوں نے بانی سلسلہ احمدیہ کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈی.ہم اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سو سال کے عرصہ میں جماعت احمد یہ پر بے شمار فضل کئے اور ہر قسم کی مخالفتوں کے باوجود جماعت کو ترقی دیتا گیا.جب آپ نے دعویٰ کیا آپ اکیلے تھے ایک سو سال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمد یہ جماعت دنیا کے اکثر ممالک میں پھیل چکی ہے اور براعظم افریقہ میں احمدیت کا نام بہت عزت واحترام سے لیا جاتا ہے.اگلی صدی آپ کے لئے بہت ذمہ داریاں لا رہی ہے.اگلی صدی جو غلبہ اسلام کی صدی ہوگی اس میں خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں.دین کا علم سیکھنے کی طرف بہت توجہ اور پھر سکھانے اور عمل کرنے کی طرف بھی.خاص طور پر اپنی اگلی نسل کی دینی تعلیم اور تربیت کی طرف بہت توجہ دیں تا وہ نئی پڑنے والی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کر سکیں اور وہ

Page 839

خطابات مریم 814 پیغامات نیا آسمان اور نئی زمین جلد پیدا ہو جس کے بنانے کے لئے حضرت مسیح موعود آئے تھے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں :.جب تک تم ترقی نہ کرو دین کامیاب نہیں ہو سکتا ہماری ترقیاں ہماری قربانیاں زیادہ سے زیادہ ہیں یا چھپیں سال تک رہیں گی لیکن اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو تو قیامت تک اس ترقی کو قائم رکھ سکتی ہو کیونکہ آئندہ نسلوں کو سکھانے والی تم ہی ہو.ہمارا اثر ظاہری ہے تمہارا اثر دائمی ہے اس سے تم سمجھ لو کہ تمہارے اوپر زیادہ بوجھ ہے ( اور کوئی مرد ایسی ذمہ داری نہیں لے سکتا جتنی کہ عورت لے سکتی ہے مرد ہار جاتا ہے اور عورت جیت جاتی ہے ) یہ تمہی ہو کہ اسلام کو قائم رکھ سکتی ہو شیطان کا سرکاٹ سکتی ہو“.الفضل 22 جنوری 1923ء.الازھار لذوات الخمار صفحہ 62) میں امید کرتی ہوں کہ آپ سب اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنے بچوں کی دینی تعلیم اور تربیت کی طرف پوری پوری توجہ دیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 840

خطابات مریم 815 پیغامات پیغام برائے رسالہ النساء لجنہ اماءاللہ کینیڈا 1989ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میری پیاری بہنو ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی صدر صاحبہ نے خواہش ظاہر کی ہے کہ آپ کے میگزین’النساء کے لئے کوئی پیغام بھجواؤں.میری بہنو! آپ سب کو اور دنیا میں رہنے والے دوسرے ہر احمدی کو مبارک ہو کہ جماعت احمد یہ ایک صدی پوری کر کے دوسری صدی میں داخل ہوئی ہے.صدیاں گزرتی ہیں کوئی قوم زندہ ہوتی ہے اور کوئی مرتی ہے لیکن ہم اس لئے خوشی منارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا احمد یہ جماعت ,, سے ترقی اور غلبہ کا وعدہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام الوصیت میں فرماتے ہیں.یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے کہ یہ پیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوی بیعت میں صادق اور کون کا ذب ہے.وہ جو کسی ابتلا سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اُس کو جہنم تک پہنچائے گی اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اُس کے لئے اچھا تھا مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور اُن پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا اُن سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے

Page 841

خطابات مریم 816 پیغامات.اُن پر کھولے جائیں گے“.(روحانی خزائن جلد 20 رسالہ الوصیت صفحہ 309) اللہ تعالیٰ نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مامور فر مایا آپ اکیلے تھے اور مذکورہ بالا بشارت کے مطابق آج وہ کا رواں بڑھ چکا ہے اور دنیا کے 117 ممالک میں احمدی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں.گزری ہوئی صدی میں جماعت احمدیہ پر بے شمار مصائب بھی آئے لیکن الہی نصرت شامل حال رہی اور ہر فتنہ اور تکلیف کے بعد برکتوں کے دروازے ان پر کھولے گئے.ہمارا خدا سچا خدا ہے دیکھنا یہ ہے کہ کیا جو ہم نے اس سے عہد کئے ہیں ہم بھی ان میں سچے ہیں یا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیعت لینے کا ارشاد ہوا تو آپ نے یکم دسمبر 1888ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں آپ نے بیعت کے لئے دس شرائط بیان فرمائیں.یہی دس شرائط ہمارا دستور العمل ہیں اور ان پر عمل کرنے والوں کیلئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ” میں انہیں اُن کے غیروں پر قیامت تک فوقیت دوں گا اور برکت اور رحمت اُن کے شامل حال رہے گی.ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم تو حید کے اس اعلیٰ مقام پر قائم ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کیا ہم نے تمام بُرائیاں بیعت کرنے کے بعد چھوڑی ہیں.جھوٹ ، فسق فجور، ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے ہر طریق کو ہم نے چھوڑ دیا ہے.پانچ وقت نماز پابندی سے پڑھتے ہیں اور حتی الوسع نماز تہجد کی ادائیگی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور استغفار کرنے میں باقاعدہ ہیں ہمارے ہاتھ یا زبان یا کسی طریق سے بھی مخلوق کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً کوئی تکلیف تو نہیں پہنچتی.خوشی میں بھی اور تنگی میں سکھ میں بھی اور دکھ میں بھی ہم اللہ تعالیٰ کا دامن تو نہیں چھوڑ دیتے.کیا ہمارا عمل قرآن کریم کے احکام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق ہے ہم میں تکبر اور رعونت تو نہیں اور کیا ہم عاجزی اور مسکینی کی زندگی کی راہیں اختیار کرتے ہیں ہر ایک سے خوشی خلقی سے پیش آتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے تمام وہ حق جو ہمارے ذمہ ہیں جو قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں ہم ادا کرتے ہیں بنی نوع انسان کی ہمدردی ہمارے دلوں میں بھری ہوئی ہے کیا ہم ہر ایک سے

Page 842

خطابات مریم 817 پیغامات محبت کرتے ہیں کسی سے نفرت تو نہیں کرتے.ان سب امور پر عمل کے ساتھ ساتھ ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اور آپ کے خلفاء کے ساتھ ایسا اعلیٰ درجہ کا عقد اخوت ہو کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں میں نہ پائی جاتی ہو.یہ نقشہ ہے اس انقلاب کا جو ہر احمدی کی زندگی میں برپا ہونا چاہئے.اب نئی صدی میں یہی نقشہ آپ کی زندگیوں کا ہونا چاہئے.عورتوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اپنی اولاد کی تربیت کی جو آج بچے ہیں آئندہ ان پر ہی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں.پس ہر ماں اپنے بچوں کو ان ذمہ داریوں کو سرانجام دینے کیلئے پوری طرح تیار کرے نصیحت کریں اپنے عمل کا نمونہ پیش کریں ان کی صحیح تربیت کریں ان کیلئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی اور آپ کو بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق دے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 843

خطابات مریم 818 پیغامات پیغام برائے سونیئر لجنہ اماءاللہ ناروے 1989ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مکر مہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ ناروے السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه جشن تشکر صد سالہ کے موقع پر ناروے کی جماعت ایک سونیئر شائع کر رہی ہے آپ کی خواہش پر اس کے لئے ایک پیغام بھجوا رہی ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمد یہ جماعت پہلی صدی ختم کر کے دوسری صدی میں داخل ہو چکی ہے آپ سب کو مبارک ہو.اس ایک صدی میں جماعت احمدیہ نے اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو دیکھا اور جو وعدے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے تھے ان میں سے کثرت سے پورے ہوئے اور جو مستقبل کے متعلق ہیں وہ بھی پوری شان سے انشاء اللہ پورے ہونگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوصیت میں فرمایا تھا.” یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوی بیعت میں صادق اور کون کا ذب ہے.وہ جو کسی ابتلا سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بد بختی اُس کو جہنم تک پہنچائے گی اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اُس کے لئے اچھا تھا مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور اُن پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا اُن سے سخت

Page 844

خطابات مریم 819 پیغامات کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے اُن پر کھولے جائیں گے“.(روحانی خزائن جلد 20 رساله الوصیت صفحہ 309) اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مامور فرمایا تو آپ اکیلے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کے مطابق وہ کارواں جو 1889ء کو روانہ ہوا تھا بڑھتا چلا گیا اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے 117 ممالک میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس اقتباس کے مطابق جماعت کی مخالفت ہوئی لوگ قتل بھی کئے گئے قید بھی کئے گئے اُن کے مال واسباب بھی لوٹے گئے ان کے خلاف ہر قسم کی الزام تراشی بھی کی گئی ہر طرح سے ستایا گیا دکھ دیئے گئے مگر جو بیج خدا تعالیٰ نے ڈالا تھا وہ پھلتا اور پھولتا چلا گیا اور آج ایک ایسا تناور درخت بن چکا ہے جس کی شاخیں دنیا کے ہر ملک پر چھائی ہوئی ہیں.آئندہ کی ترقی بھی وابستہ ہے اس بات سے کہ ہم دیکھیں کون اپنے دعوی بیعت میں سچا ہے اور کون جھوٹا.بیعت لینے سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت شائع فرما ئیں تھیں ہر احمدی کا فرض ہے کہ ان کو پڑھتا ر ہے بلکہ چاہئے کہ لکھ کر اپنے گھر میں نمایاں جگہ پر لگائے اور جائزہ لیتا ر ہے کہ کیا ہمارا عمل ان شرائط پر ہے یا نہیں.کیا وہ تبدیلی ہم میں پیدا ہو گئی ہے جو احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے پیدا ہونی چاہئے تھی.اگر نہیں تو ہمیں اپنی فکر کرنی چاہئے.نئی صدی بہت بھاری ذمہ داریاں اپنے ساتھ لائی ہے الہی بشارتوں کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیس ہمیں قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق خود نمونہ بنا ہے تانے آنے والوں کی تربیت کر سکیں اس میں عورتوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اعلیٰ تربیت کریں ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کریں.آنحضرت لعل الله محبت پیدا کریں اور آپ کے ارشادات پر عمل کرنے کا شوق بھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے فرمانبردار ہوں.حضرت خلیفہ امسیح الرابع جو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جانشین ہیں ان کے کامل فرمانبردار ہوں.اپنی اولا د کو وہی علم سکھائیں اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے بنیں تا جلد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی پوری ہو آپ

Page 845

خطابات مریم فرماتے ہیں.820 پیغامات جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے کہ اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا اور اُس کو نشو ونما دیگا یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گئے“.(روحانی خزائن جلد 3 - ازالہ اوہام صفحہ 563) پس آپ سب کو مبارک ہو.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خوشی کا دن دکھایا.اس لئے خدا کے حضور شکر ادا کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک احمدیت کا پیغام پہنچا ئیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 846

خطابات مریم 821 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ کوئٹہ 1989ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ممبرات لجنہ اماءاللہ کوئٹہ السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ آپ کے اجتماع پر کوئی پیغام آپ کو بھجواؤں.یہ اجتماع دوسری صدی کا جس میں جماعت احمدیہ 23 / مارچ 1989 ء کو داخل ہو رہی ہے پہلا اجتماع ہے.ہم خوش ہیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کے نشانوں کو پورا ہوتے دیکھا جو وعدے اللہ تعالیٰ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے کئے وہ ایک ایک کر کے پورے ہوئے ہر مخالفت کے باوجود پورے ہوئے غیر معمولی حالات میں پورے ہوئے اور ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ احمدیت کے مستقبل کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو بشارتیں دی ہیں وہ سب پوری ہونگی.انشاء اللہ ہم نے دیکھنا ہے اور جائزہ لینا ہے کہ کیا ہم اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا کر رہے ہیں.اس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ سب سے اہم کام وہ ہے جس کی طرف امام وقت توجہ دلاتے ہیں.ہماری ترقی کا راز ہی اطاعت امام میں ہے.حضرت خلیفۃ اصیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جماعت کی ترقی کے لئے بار بار اخلاقی لحاظ سے اصلاح کی طرف توجہ دلا رہے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت احمدیہ کے افراد بہت قربانی دینے والے ہیں لیکن ہم میں بہت سی اخلاقی اور معاشرتی کمزوریاں پائی جاتی ہیں جن کا اپنے میں سے دور کرنا اپنی اور اپنی اولاد کی اصلاح کی طرف توجہ دینا ہمارا فرض ہے.بہت سی کمزوریاں ایسی ہیں جن سے معاشرہ کا حسن تباہ ہو جاتا ہے اور گھروں کا امن اُٹھ جاتا ہے اور قوم میں محبت اور پیار اور اتحاد اور تعاون با ہمی کی روح ختم ہو جاتی ہے جس کا ایک زندہ قوم میں ہونا ضروری ہے.یہ کمزوریاں آپس کے جھگڑے ہیں جو کبھی ساس بہو میں پیدا ہو

Page 847

خطابات مریم 822 پیغامات تے ہیں کبھی خاوند بیوی میں کبھی برادری رشتہ داروں کے آپس کے جھگڑے اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ ان کی ترقی پر اثر انداز ہونے لگتے ہیں جس سے جھگڑا ہے اگر وہ کوئی عہدہ دار ہے تو اس سے تعاون نہ کرنا اس کے گھر اگر اجلاس ہوتا ہے نہ جانا یہ سب امور قومی ترقی پر اثر انداز ہوتے ہیں.پس بہت ضرورت ہے کہ حضرت خلیفۃ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کرتے ہوئے اپنی برادری اور گھروں کے جھگڑے مٹائیں.ایک دوسرے سے محبت اور خلوص کا جذبہ پیدا کریں.تجسس ، بدظنی ، غیبت کی عادت کو چھوڑ ہیں.صاف تازہ فضا میں سانس لیں.گھروں میں کوئی کشیدگی نہ رہے.بچوں میں بڑوں کا احترام ہو.بڑوں کی شفقت اپنے بچوں چھوٹے عزیزوں پر ہو زینت کا پہلو رکھتے ہوئے ان کے اندر دین کی محبت پیدا کریں.دین پر عمل کا شوق پیدا کریں جو آج آپ کے بچے ہیں اس صدی میں اُنہوں نے ہی دین کا ستون بننا ہے اگر آپ نے پوری توجہ اپنی نئی نسل کی تربیت اور دینی تعلیم کی طرف دی اور اگر نہ دی تو ساری جماعت کے لئے نقصان کا موجب ہوگا پس اپنے آئندہ سال کے پروگراموں میں اصلاح معاشرہ اور اعلیٰ اخلاق کی تربیت کے پروگراموں پر بہت زور دیں اور ناصرات کی طرف بہت توجہ دیں تا بچپن سے ہی بچوں کے دلوں میں دین کی محبت ، دین کے لئے غیرت ، عبادت کا شوق، دین کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا ہو.یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آپ نے ادا کرنی ہے اور مل کر ادا کرنی ہے اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا کرے.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 848

خطابات مریم 823 پیغامات پیغام برائے جشن تشکر لجنہ اماءاللہ ڈنمارک 1989ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ممبرات لجنہ اماءاللہ ڈنمارک السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ سب کو صد سالہ جشن تشکر مبارک ہو کہ 23 مارچ 1989 ء کو جماعت احمدیہ نے دوسری صدی میں قدم رکھا ہے.آپ کا ملک اور آپ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے شاہد ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بشارت دی تھی ” میں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دوں گا“.آپ کا ملک دنیا کا ایک کنارہ ہے صرف اسی کنارہ تک سو سال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام نہیں پہنچا بلکہ دنیا کے ہر کنارہ تک پہنچ چکا ہے اور اس ملک میں بسنے والے احمدی اس کے گواہ ہیں کہ آپ بچے تھے آپ نے یہ دعوی اس وقت کیا کہ آپ کو کوئی جانتا بھی نہ تھا آپ اکیلے تھے ایک دور افتادہ بستی میں آپ رہتے تھے جہاں ریل بھی نہیں جاتی تھی لیکن خدا تعالیٰ جس کو عزت دینا چاہتا ہے اُسے عزت دیتا ہے آپ کی آواز قادیان کی بستی سے بلند ہوئی اور بلند ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گئی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمد یہ جماعت قائم ہوئے پورے سو سال گذر چکے ہیں اس عرصہ میں جماعت پر بہت سے ابتلا بھی آئے لیکن اس کے مقابلہ پر اللہ تعالیٰ کے فضل بھی بے انتہا ہوئے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ غلبہ اسلام کی جو پیشگوئیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی ہیں وہ سب حرف بحرف پوری ہونگی ہمارا خدا قادر خدا ہے.نئی صدی اپنے ساتھ عظیم ذمہ داریاں بھی لا رہی ہے.ان لوگوں تک جو اپنے ربّ کو بھولے ہوئے ہیں اور دنیا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں صداقت کا پیغام پہنچانا آپ کا کام ہے.

Page 849

خطابات مریم 824 پیغامات پیار سے، محبت سے نصیحت سے اور اپنے اعلیٰ نمونہ سے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.وو مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے“.کشتی نوح صفحہ 61 - روحانی خزائن جلد 19) اس تاریکی سے نکال کر نور کی طرف راستہ دکھانا آپ کا فرض اولین ہے دوسروں کے سامنے آپ کا اتنا اچھا نمونہ ہونا چاہئے کہ وہ خود بغیر کچھ کہے متاثر ہوں کہ یہ تبدیلی ان لوگوں میں کس طرح پیدا ہوئی.آپ کا نمونہ آپ کا کردار آپ کی بنی نوع انسان سے محبت.آپ کا اللہ تعالیٰ سے پیار اور تعلق ان پر اثر انداز ہونا چاہئے.اس لئے بہت ضرورت ہے کہ آپ قرآن مجید کا ترجمہ تفسیر پڑھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کریں اور ان کے مطابق زندگیاں بسر کریں.یہ دوسری صدی کامل غلبہ کی شاہراہ ہے اس شاہراہ پر آپ نے تیز تیز چلنا ہے اللہ تعالیٰ آپ سب کو تو فیق عطا فرمائے.خاکسار آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 850

خطابات مریم 825 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ آسٹریلیا 1989ء ممبرات لجنہ آسٹریلیا بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكاتُه اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں شامل ہو رہی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے اجتماع کو با برکت کرے اور جماعت کی ترقی اور مضبوطی کا باعث بنائے.آپ مرکز سے بہت دور رہتی ہیں لیکن اپنی ذمہ داریوں کو کبھی نہ بھولیں جب ہما را دعوی ہے کہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے تو اپنے عمل سے بھی تو ہم نے یہی ثابت کرنا ہے کہ ہمارے اخلاق ہمارا کردار بنی نوع انسان سے سلوک ، ہمارا رہن سہن سب قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق ہے اور ہماری زندگیاں جس طرح کہ آنحضرت ﷺ نے گزاریں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے کہ قُلْ إِنَّ صَلاتِي وَ نُسُکی وَ مَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ العلمین.دنیا کو بتادیں کہ میری نماز میری قربانیاں میری زندگی اور میری موت سب اللہ کی خاطر گزر رہی ہے جو رب العلمین ہے.ہے.اسی طرح ہماری زندگیاں ہماری خدمات، ہماری قربانیاں، ہماری سب سرگرمیاں محض اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہوں.اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کو دین کا پوری طرح علم ہو.اگر علم نہ ہوگا تو آپ عمل نہیں کر سکتیں.پھر اپنی اولاد کی صحیح تربیت قرآن و حدیث کی روشنی میں کریں.آج کل مادہ پرستی سے اپنے بچوں کو بچائیں.ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت آپ کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلنے کا شوق اور دین کے لئے غیرت اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جذبہ پیدا کریں.اگر اگلی نسل کو آپ نے قربانیوں کے لئے تیار نہ کیا تو آپ کی قربانیاں بھی بیکا ر رہ جائیں گی.جس طرح ایک چراغ سے دوسرا

Page 851

خطابات مریم 826 پیغامات چراغ جلتا ہے اسی طرح قوم وہی زندہ رہتی ہے جو اپنی اگلی نسل کو اگلی پڑنے والی ذمہ داریاں اُٹھانے کے لئے تیار کرے اور اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ آپ کا اپنا نمونہ بہت اچھا ہو.بچہ وہی سیکھتا ہے جو ماں باپ کو کرتے دیکھتا ہے.اللہ تعالیٰ وہاں کی ساری مستورات کو اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آپ لوگ مجھ سے دور ہیں لیکن دل سے دور نہیں سارے احمدی خواہ کرہ ارض کے کسی حصہ میں بھی ہوں موتیوں کی لڑی کے دانوں کی طرح ہیں کیونکہ سب کا مقصد اور مطمع نظر ایک ہے.میں آپ سب کو اپنی دعاؤں میں یا د رکھتی ہوں آپ بھی میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو انجام بخیر ہوا اور آخر دم تک اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق ملے.خاکسار آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 852

خطابات مریم 827 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ نبی 1989ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ممبرات لجنہ اماءاللہ مینی السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه پیغامات یہ معلوم ہو کر کہ آپ کی لجنہ اماءاللہ کا سالانہ اجتماع 28 ، 29 مارچ کو منعقد ہو رہا ہے خوشی ہوئی اس موقعہ پر آپ کے لئے ایک مختصر پیغام بھجوا رہی ہوں.پہلی بات جس کی طرف توجہ دلانا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ نجی کی لجنہ کا مرکزی لجنہ سے گہرا رابطہ ابھی تک قائم نہیں ہوا.کبھی کبھار رپورٹ آ جاتی ہے یا صرف سالانہ رپورٹ آ جاتی ہے.آپ بے شک کام کرتی ہوگی لیکن چند ر پورٹس آپ کی صحیح تصویر نہیں کھینچ سکتیں.جن لجنات کی ماہانہ رپورٹ باقاعدہ آتی ہے اور ہر بات جو سمجھ نہیں آتی وہ پوچھتی رہتی ہیں ان کے حالات کا زیادہ علم ہوتا رہتا ہے اور ان کو مرکزی لجنہ جس بات کی کمی ہوتی ہے ہدایات دیتی رہتی ہے.پس مرکزی لجنہ کے ساتھ ایک مضبوط تعلق قائم کریں.دوسری بات یہ کہ صرف اجلاس کروانا ہی اصل مقصد نہیں بلکہ اصل مقصد مستورات اور بچیوں کی دینی تعلیم اور تربیت ہے اس سلسلہ میں آپ سب کو سوچنا چاہئے کیونکہ سوچنا صرف عہدہ داروں کا کام نہیں سب ممبرات کا بھی کام ہے.سوچیں غور کریں کہ جماعت کے قیام پر ایک سو سال ہونے والے ہیں ہم نے کیا کیا اور کیا کرنا ہے.اپنی ذمہ داریوں کا پورا پورا احساس اپنے میں پیدا کریں اور اپنی بچیوں میں بھی پیدا کریں تا وہ آئندہ آنے والی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے قابل بنیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو عظیم بشارتیں عطا کی ہیں اور آپ نے فرمایا : میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.(روحانی خزائن جلد 20 تذکرۃ الشہادتین صفحه 67)

Page 853

خطابات مریم 828 پیغامات چنانچہ نبی کی سرزمین میں یہ تم بویا جا چکا ہے پھول پتے نکل رہے ہیں اور ہم امید کرتی ہیں کہ ہمارا رب جلد از جلد جماعت کو اپنے وعدوں کے مطابق وہاں ترقی دیگا لیکن اس ترقی میں ہماری قربانیاں شامل ہونی چاہئیں ہم میں سے ہر ایک کو سلسلہ کی ترقی کے لئے اپنے رب کی رضا حاصل کرنی چاہئے اور اس کا بھی یہی طریق ہے کہ آپ کی زندگیاں اپنے ربّ کو خوش کرنے کے لئے گزریں.آپ کی زندگیاں قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق گزریں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ قرآن کریم پڑھیں اس کا ترجمہ اور مطلب سیکھیں آپ کو علم ہونا چاہئے کہ کس بات کے کرنے کا قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے اور کس سے روکا گیا ہے.آپ مادی دنیا کی ظاہری چمک سے مرعوب نہ ہوں.سچ آپ کے پاس ہے آپ نے اپنے نمونہ سے دوسروں کو اپنی طرف کھینچنا ہے.پس اپنے کاموں کا جائزہ لیں اور کاموں میں تیزی پیدا کرنے کے لئے ایسی تجاویز سوچیں جن سے آپ کے تعلیمی اور تربیتی پروگراموں میں تیزی آئے آپ میں سے ہر بہن داعی الی اللہ کا فرض ادا کرنے والی ہو.دعائیں کریں بہت کہ اللہ تعالی ساری جماعت پر اپنے فضلوں اور انعاموں کی بارش کرے ہماری کمزوریاں دور کرے اور ہم اس کی راہ میں زیادہ سے زیادہ قربانیاں دے کر اس کی رضا کو حاصل کر سکیں.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 854

خطابات مریم 829 پیغام برائے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ کینیڈا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پیاری ناصرات کینیڈا السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه پیغامات اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں شامل ہورہی ہوں.خدا کرے آپ کا اجتماع کامیاب ہوا اور اجتماع کرنے کی جو غرض ہے وہ بھی پوری ہو.اس ملک میں رہتے ہوئے آپ کی نگرانوں کی پوری کوشش ہونی چاہئے کہ آپ کی دینی تعلیم صحیح ہورہی ہے یا نہیں دینی تعلیم کا حاصل کرنا دنیاوی تعلیم سے زیادہ ضروری ہے.آنحضرت ﷺ نے علم کے حصول کو مرد اور عورت دونوں کیلئے لازمی قرار دیا ہے.اگر آپ کو خود اپنے مذہب کا علم نہ ہو گا تو دوسروں کو کیا بتا سکتی ہیں اور ان کے اعتراضات کا کیا جواب دے سکتی ہیں.پھر جس کے لئے علم ہی ضروری نہیں بلکہ عمل بھی ضروری ہے جن باتوں پر آپ خود عمل نہیں کرتیں دوسروں کو اس کی کیسے تلقین کر سکتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس دنیا میں اس کی صفات کا اظہار اپنے عمل سے کرے اور وہ اعلیٰ اخلاق جن کی تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نمونہ سے دنیا کو دی.ہر خلق کو اپنے اندر پیدا کریں.سچائی.جھوٹ سے نفرت.دیانت داری.لڑائی جھگڑے سے نفرت.تعاون کرنا.بنی نوع انسان کی خدمت.انسان سے اچھا سلوک کرنا.ضرورت مند کی مدد کرنا.تکلیف زدہ کی تکلیف دور کرنا.خود تکلیف پہنچے تو صبر کرنا.ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا.ماں باپ کی اطاعت کرنا وغیرہ یہ اخلاق آپ میں پیدا ہو جائیں تو یقیناً آپ دلوں کو جیت سکتی ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمايا الحياء من الايمان - حیاء ایمان کا حصہ ہے.اس ملک میں رہتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہم دوسروں سے مختلف ہیں ہم نے اس راہ پر نہیں چلنا جس پر لوگ چل رہے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ صراط مستقیم پر قائم رکھے.آمین.والسلام.خاکسار.مریم صدیقہ.صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 855

خطابات مریم 830 پیغامات w پیغام برائے مجلہ صد سالہ جشن تشکر 1989ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اس موقع پر سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے یہ مبارک دن دکھایا.پھر حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا طاہر احمد صاحب کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتی ہوں کہ ان کی قیادت میں جماعت احمد یہ پہلی صدی ختم کر کے دوسری صدی میں داخل ہوئی ہے.پھر ساری جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کو مبارکباد پیش کرتی ہوں اور ان سب کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں جنہوں نے احمدیت کی خاطر جانیں قربان کیں.عزتوں کی پرواہ نہ کی.مال پیش کیا اور اولاد پیش کی اور اس گروہ میں شامل ہو گئے جن کے متعلق ارشاد ہے.ان...سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اس وعدہ کو جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا سچا کر دیا.پس بعض تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنی نیت کو پورا کر دیا اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو ابھی انتظار کر رہے ہیں اور اپنے ارادہ میں کوئی تزلزل اُنہوں نے نہیں آنے دیا“.(الاحزاب : 24) کس کس کا نام لیا جائے اس رسالہ کا حجم بھی اس طویل فہرست کا متحمل نہیں ہوسکتا جنہوں نے ہر قدم پر خدا تعالیٰ کے مامور کی آواز پر لبیک کہا اور سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دیا.آج سے سو سال پہلے کا تصور کیجئے قادیان کی چھوٹی سی پس ماندہ بستی جہاں نہ ریل تھی نہ ڈاکخانہ نہ تار گھر نہ فون نہ تعلیم کا کوئی انتظام تھا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو مبعوث فرمایا.آپ اکیلے تھے کوئی ساتھ دینے والا نہ تھا.اپنے خاندان کے لوگ بھی آپ کی دنیا سے بیزاری اور دین سے رغبت دیکھ کر آپ سے چڑتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ دنیا میں کیا کرے گا لیکن اللہ تعالیٰ بڑے پیار اور محبت سے آپ کو بتا رہا تھا کہ :.وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ھونڈیں گے“.(تذکرہ صفحہ 8)

Page 856

خطابات مریم 831 پیغامات آج ہمارے دل خوش ہیں کہ پہلی صدی کے ختم ہونے سے قبل ایک نہیں بلکہ کئی بادشاہوں نے بانی سلسلہ احمدیہ کے کپڑوں سے برکت حاصل کی.اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا : " إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ اهَانَتَک“ (تذکره صفحه 27) یہ ایک نہایت پر شوکت وحی اور پیشگوئی ہے جس کا ظہور مختلف پیرایوں اور مختلف قوموں میں ہوتا رہا ہے اور جس کسی نے اس سلسلہ کو ذلیل کرنے کی کوشش کی وہ خود ذلیل اور نا کام ہوا.(روحانی خزائن جلد 18 نزول اسیح صفحہ 189) احمدیت کی تاریخ کے سو سال کا ہر دن اس پر گواہی دے رہا ہے کہ یہ پیشگوئی بار بار پوری ہوئی اور ہر بار پوری شان کے ساتھ پوری ہوگی.خدا تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی تھی کہ: " تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے.خدا کی باتوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا.آپ اکیلے تھے لیکن اللہ تعالیٰ آپ کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتا گیا.نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں.آج روئے زمین کے 117 ملکوں میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں جن کا ہر فرد حضرت امام جماعت احمدیہ کی آواز پر لبیک کہہ رہا ہے.میری عزیز بہنو! اس موقع پر ہم پر عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو تمہیں اور دوں گا.ہر لمحہ اس کی خاطر زندگیاں گزارنی چاہئیں.نیک نیتوں کے ساتھ ، صاف اور پاک زندگیاں جس کے ہر لمحہ میں اللہ تعالیٰ سے محبت اور اللہ تعالیٰ کے بندوں سے محبت کا اظہار ہو.ہم اپنا وقت ضائع نہ کریں.خود بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کوسامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالیں اور اپنے بچوں کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ وہ بڑے ہو کر اپنی ذمہ داریوں کو اُٹھانے کے قابل ہو جائیں.اگلی نسل کی تربیت کرنا آپ کی اہم ترین ذمہ داری ہے اس سے غافل نہ ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.خاکسار.مریم صدیقہ.صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ (مجله جشن تشکر صفحہ 14 تا 16)

Page 857

خطابات مریم 832 پیغامات پیغام برائے جشن تشکر لجنہ اماءاللہ بھارت 1989ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مکرمہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ بھارت 1989ء السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آج کا دن آپ سب بہنوں کو اور ساری جماعت احمدیہ کو مبارک ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم سے جماعت احمد یہ آج پہلی صدی کامیابی سے گزار کر دوسری صدی میں داخل ہو رہی ہے.اے قادیان کی بستی تجھے بھی بہت مبارک ہو کہ تیری سرزمین پر مہدی موعود پیدا ہوئے ہاں وہ مہدی موعود جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال قبل سلام بھیجا تھا اور اسی سرزمین میں آپ مدفون ہیں.یہیں سے وہ نور پھوٹا پھیلا اور پھیلتا چلا گیا اور آج دنیا کے کناروں تک اس کے کونے کونے تک پھیل چکا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوئی فرما یا آپ بالکل گمنام تھے.قادیان کی بستی بھی بالکل ایک طرف تھی نہ ریل جاتی تھی نہ بجلی تھی نہ ٹیلی فون نہ ڈاکخانہ نہ تار گھر لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو بشارت پر بشارت دے رہا تھا کہ ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا آپ کو بشارت آئی کہ خدا تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا.تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.آپ نے اپنی آنکھوں سے ان پیشگوئیوں کو پورا ہوتے دیکھا اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے 117 ممالک میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور قادیان جو ایک چھوٹی سی بستی تھی اس کے متعلق یا تیک مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ وَيَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمیق کی پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی.سلام ان پر جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابتداء میں مانا آپ کے ہاتھ پر

Page 858

خطابات مریم 833 پیغامات بیعت کی اور اپنا سب کچھ اس راہ میں قربان کر دیا اور ان بعد میں آنے والوں پر بھی جو آئے تو بعد میں مگر اپنی قربانیوں میں بعض پہلوں سے بھی بڑھ گئے اور ہرا بتلا کے بعد کندن بن کر نکلے.آج ہم خوش ہیں اور اس یقین پر قائم ہیں کہ احمدیت کے غلبہ کی پیشگوئیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی ہیں وہ بھی لفظ لفظ پوری ہوگی انشاء اللہ.آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ قادیان میں رہتے ہیں.بہت شکر ادا کریں اپنے عمل سے اپنے نمونہ سے اپنے اعلیٰ اخلاق سے اگلی صدی آپ کے لئے بہت بھاری ذمہ داریاں لا رہی ہے.جن میں سے سب سے بڑی ذمہ داری اگلی نسل کی تربیت کی ہے ان میں دین کی محبت پیدا کرنی اللہ تعالیٰ کا پیار ان کے دلوں میں پیدا کرنا.دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جذبہ پیدا کرنا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کی زندگی کو اپنے لئے اسوہ بنانے کا جذ بہ پیدا کر نا حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا جذبہ پیدا کریں.عورتوں پر بڑی ذمہ داری اپنی اولاد کی ہے تا وہ بڑے ہو کر ان سب ذمہ داریوں کو عمدگی سے اُٹھا سکیں جو آپ سے ان کی طرف منتقل ہونگی.پس عزم کریں اس روحانی انقلاب کے وقت کو قریب سے قریب لانے کا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہو چکا ہے اور جسے کوئی بدل نہیں سکتا.عاجزی سے دعاؤں سے گریہ وزاری سے محنت سے قربانیوں سے تا اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے اور دنیا سے ظلمتیں دور ہو جائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا نور ساری دنیا میں پھیل جائے.آمین والسلام مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 859

خطابات مریم 834 پیغامات پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ 1989ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میری عزیز بہنو السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کا جلسہ سالانہ منعقد ہو رہا ہے اور اس مختصر پیغام کے ذریعہ میں بھی اس میں شامل ہو رہی ہوں.چند ماہ تک انشاء اللہ تعالیٰ سلسلہ احمدیہ کے قیام پر ایک سو سال پورے ہو جائیں گے.دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے ہمارا جشن تشکر صرف ظاہری جشن نہیں ہونا چاہئے بلکہ حقیقی طور پر روح اور دل کی صفائی کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرنا ہے کہ اے ہمارے خدا تو نے ہماری اصلاح کے لئے مہدی کو بھیجا جس کے ذریعہ سے یہ جماعت قائم ہوئی جو دنیا کی اصلاح کا جھنڈا لے کر کھڑی ہوئی ہے.اس جماعت کے قیام پر ایک سو سال پورے ہونے والے ہیں تو ہمیں ویسا ہی بنا دے جیسا بنانے کے لئے تیرا مہدی آیا اس سلسلہ میں جب ہم غور کرتے ہیں کہ ہمیں کیسا ہونا چاہئے تو اس کا جواب ذیل کی سطور میں پاتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.میری تمام جماعت جو اس جگہ حاضر ہے یا اپنے مقامات میں بود و باش رکھتے ہیں اس وصیت کو توجہ سے سنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بد چلنی ان کے نزدیک نہ آ سکے.وہ پنج وقت نماز با جماعت کے پابند ہوں وہ جھوٹ نہ بولیں وہ کسی کو زبان سے ایذاء نہ دیں وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور نا کر دنی

Page 860

خطابات مریم 835 پیغامات اور نا گفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بے جا حرکات سے مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیں اور کوئی زہریلا خمیر ان کے وجود میں نہ رہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 46) یہ ہے وہ تصویر جو ایک احمدی کی ہونی چاہئے کہ جہاں وہ اللہ تعالی کے حقوق صبیح رنگ میں ادا کرنے والا ہو وہاں خدا تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی صحیح طور پر ادا کرنے والا ہو.کسی کے متعلق غلط بات نہ کہے کسی کو دکھ نہ پہنچائے نہ ہاتھ سے نہ زبان سے.رشتہ داروں، ہمسائیوں سب کے حقوق ادا کرنے والا ہو وغیرہ.غرض احمدی جماعت کی خواتین جہاں بھی ہوں ان کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ خود نمونہ بنیں اور اپنی اولاد کی صحیح تربیت کریں.وہ قرآن مجید کی تعلیم اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات پر عمل کرنے والے ہوں.اگلی نسل جس پر عظیم ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں ان کی تربیت آج آپ نے کرنی ہے.اپنے قول سے عمل سے اور اپنے نمونہ سے.پس نہ بھولیں اپنی ذمہ داریوں کو اور اگلی صدی میں پاک اور صاف دلوں کے ساتھ داخل ہوں تا نئے آنے والوں کی تربیت کر سکیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.خاکسار آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 861

خطابات مریم عزیز بہنو! 836 پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه پیغامات آپ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر اس مختصر پیغام کے ذریعہ شمولت کر رہی ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے ملک میں جماعت نمایاں ترقی کر رہی ہے اور یا درکھیں جب ترقی ہوتی ہے تو یہ بھی ڈر ہوتا ہے کہ نئے آنے والے اپنی کمزوریاں ساتھ نہ لے آئیں یا پرانے کمزور نئے آنے والوں کو بھی اپنے رنگ میں نہ رنگ لیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورہ نصر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا ہے.إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًان فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًان ترجمہ: جب اللہ کی مدد اور کامل غلبہ آ جائے گا اور تو اس بات کے آثار دیکھ لے گا کہ اللہ کے دین میں لوگ فوج در فوج داخل ہو نگے پس اس وقت تو اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکیزگی بھی بیان کرنے میں مشغول ہو جائیو اور اس سے اپنی قومی تربیت کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی دعا کیجیو وہ یقیناً اپنے بندے کی طرف رحمت کے ساتھ لوٹ کر آنے والا ہے.اس سورۃ میں اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تمام عیوب اور نقائص سے پاک ہے.وہ اپنے بندوں کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا اور نہ اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے.پس فَسَبِّحُ بِحَمْدِ رَبِّكَ کے الفاظ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اے مسلما نو تم اعلان کر دو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق ہماری نصرت کر کے ایک طرف اپنی ذات کو تمام الزامات سے بری ٹھہرا لیا ہے اور دوسری طرف اپنی ذات کو حمد کا مستحق قرار دیا ہے.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں استغفار کے کیا معنی ہیں.پہلی دو آیات میں وعدہ تھا کہ.

Page 862

خطابات مریم 837 پیغامات ہزاروں ہزار لوگ اسلام میں داخل ہونگے اور ظاہر ہے کہ جب کسی قوم کو فتح حاصل ہوتی ہے اور مفتوح قوم کے ساتھ فاتح قوم کے تعلقات قائم ہوتے ہیں تو ان میں جو بدیاں اور بُرائیاں ہوتی ہیں وہ فاتح قوم میں بھی آنا شروع ہو جاتی ہیں.جب کوئی قوم ترقی کرتی ہے اور کثرت سے پھیلتی ہے وہی زمانہ اس کے تنزل اور انحطاط کا بھی ہوتا ہے.اگلی آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ آپ نے اپنی ذمہ داری کو ادا کر دیا تربیت اور تزکیہ نفس کے کام میں لگے رہے.آپ دعاؤں میں لگ جائیں اور اللہ تعالیٰ سے التجا کریں کہ وہ مسلمانوں کی حفاظت اور نصرت کرتا چلا جائے اور نئے داخل ہونے والوں کی تربیت کا سامان خود کرے.اس میں استغفار اُمت کے لئے ہے چنانچہ جب کثرت سے عیسائی مسلمان ہوئے تو حیات مسیح کا عقیدہ ساتھ لے آئے وہ اتنا پھیلا کہ اکثریت مسلمانوں کی اس عقیدہ کو ماننے لگی آخر اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ کو مٹانے کے لئے اور اُمت کی حفاظت کے لئے حضرت مسیح موعود کو بھجوایا اور آپ کے ذریعہ اسلام کا دفاع کروایا.ایک زمانہ تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو مسلمان کہتے شرما تا تھا یا آج عیسائی مقابل میں نہیں آتے.پس آج بھی یہ سورۃ دعوت دیتی ہے کہ جہاں ہم اپنی کمزوریوں پر نظر رکھیں کہ ہماری کمزوریاں نئے آنے والوں کے لئے فتنہ کا موجب نہ بن جائیں وہاں دعائیں کرتے رہنا چاہیئے اور کثرت سے استغفار کرتے رہنا چاہئے اور کچھ اپنی اصلاح کی کوشش میں بھی لگے رہنا چاہئے کہ اپنے عمل سے ہم اس انقلاب کو ظاہر کرنے والے ہوں جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ہونا تھا.عورتوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے ان کا اپنا نمونہ درست نہ ہوگا تو آئندہ ان کی بچیاں بھی ویسے ہی ہونگی اسلامی اقدار کی حفاظت کرنی ہے اسلامی اخلاق کی حفاظت کرنی ہے پس دینی علم حاصل کریں قرآن کریم کا ترجمہ سیکھیں اور جائزہ لیتی رہیں کہ کیا آپ کا عمل قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق ہے یا نہیں اور آپ کے قول اور فعل میں کوئی فرق تو نہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا کے لئے نمونہ بنائے.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 863

خطابات مریم 838 پیغامات پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ 1990ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میری پیاری بہنو ! السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ نے اپنے اجتماع کے لئے پیغام کی خواہش کی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے اجتماع کو بہت مبارک کرے وہ اپنے مقاصد کو پورا کرنے والا ہو اور بہترین ثمرات ظاہر ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ اپنی پہلی صدی نہایت کامیابی سے ختم کر کے نئی صدی میں داخل ہو چکی ہے اور پہلی صدی ختم ہونے پر سال گذشتہ میں جشن تشکر بھی منا چکی ہے.ہم نے دیکھنا ہے کہ کیا یہ جشن ہم نے دنیاوی اور ظاہری رنگ میں منایا ہے اور خوشیاں منا کر آرام سے گھروں میں بیٹھ گئے ہیں یا اگلی صدی میں آنے والی ذمہ داریوں کے لئے اپنے کو تیار کر لیا ہے.جماعت کی تعداد بڑھ چکی ہے.دنیا کے 124 ممالک میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں دنیا کے نقشوں میں تبدیلیاں آ رہی ہیں روحانی طور پر دنیا پیاسی ہے.سکون چاہتی ہے ایسے نمونے چاہتی ہے جس کے پیچھے وہ چل سکیں.حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ متواتر ایسے خطبات دے رہے ہیں جن سے ہماری اصلاح ہو ہماری تربیت ہو ہمارے اخلاق اعلیٰ ہوں ہماری قدریں بلند ہوں ہمارا کردار نمایاں ہو کر دنیا کے سامنے آئے اور دنیا پکار اٹھے کہ ان کو دیکھو ان کے گھران کا معاشرہ جنت ہے.ان کی پیروی کرو اور ان سے سیکھو لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم میں ابھی بہت کمزوریاں ہیں.آپس کے تعلقات صحیح نہیں.اتحاد نہیں تعاون با ہمی نہیں ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنے کی عادت نہیں.چشم پوشی نہیں.سب سے بڑی بات یہ کہ ابھی تک لجنہ اماءاللہ کے قیام کی اہمیت دلوں میں پیدا نہیں ہوئی.جس کی وجہ سے حاضری کی شکایت اکثر جگہ سے آتی رہتی ہے میری عزیز بہنو! حضور کے ہر ارشاد پر لبیک کہتے ہوئے اپنی اصلاح کی

Page 864

خطابات مریم 839 پیغامات کوشش کریں.ہر بہن حضور کا خطبہ سنے اگر دارالذکر میں سنایا جائے یا اجلاسوں میں تو پوری توجہ سے سنیں اور عہد کریں کہ ان باتوں پر عمل کر کے دکھا ئیں گی اور جو اجلاسوں پر نہ آسکیں یا جمعہ پر نہ جاسکیں وہ اپنے گھر خطبہ کی کیسٹ منگوا کر خودسنیں بچوں کو سنوا ئیں.میری عزیز بہنو اگر آپ ان سب باتوں پر عمل کریں اعلیٰ اخلاق کو اپنا لیں تو آپ کا عمل وہی ہوگا جو اطیعوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ میں فرمان ہے.آپ اللہ کی کامل فرمانبردار اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل فرمانبردار بن جائیں گی اور ساری دنیا کے لئے ایک نمونہ ہونگی.احمدیت صرف عقائد کا نام نہیں عمل کا نام ہے اب تو آگے بڑھنے بلکہ دوڑنے کا وقت جب آپ اپنی اصلاح کرلیں گی تو اللہ تعالیٰ آپ کے کاموں میں برکت ڈالے گا.پہلی نسل نے جو قربانیاں دیں ہیں جو محنت کی ہے آپ نے ان کو ضائع نہیں ہونے دینا اور ان قربانیوں کے تسلسل کو جاری رکھنا ہے.اس اجتماع کے موقع پر آپ سب عزم کریں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمت عطا فرمائے سب ذمہ داریاں اُٹھانے کی.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 865

خطابات مریم 840 پیغامات پیغام برائے مرکزی سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ بھارت 1990ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میری پیاری بہنو ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه جماعت احمدیہ کی دوسری صدی کا پہلا اجتماع قادیان میں آپ منعقد کرنے کی توفیق پا رہی ہیں.الحمد للہ.اجتماع کے یہ دن اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرتے گزاریں اس کے ان احسانات کو یاد کرتے اور کراتے جو گذشتہ صدی میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمد یہ پر کئے اور جن کو جماعت احمدیہ نے بارش کی طرح برستے دیکھا.ایک سو سال قبل اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور آپ کو آپ کی مقبولیت اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی کی بشارتیں بھی دیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.میں تجھے عزت دونگا اور بڑھاؤں گا اور تیرے آثار میں برکت رکھ دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے“.(تذکره صفحه 157) جب آپ کو یہ الہام ہوا آپ اکیلے تھے.کوئی آپ کا ساتھ نہ دے رہا تھا آہستہ آہستہ گنتی کے لوگ سلسلہ میں داخل ہوئے.اپنے رشتہ دار مخالف ہو گئے دوستوں نے دشمنی اختیار کر لی مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ اکیلے نہ تھے اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ تھا جو ہر مشکل میں آپ کی مدد کر رہا تھا آپ کی حفاظت کر رہا تھا اور مستقبل کی بشارتیں دے رہا تھا.دنیا بجھتی تھی کہ یہ سلسلہ زیادہ سے زیادہ آپ کی زندگی تک چلے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات سے قبل بشارت دی کہ :.قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سواب ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت

Page 866

خطابات مریم 841 پیغامات ترک کر دیوے اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں“.(روحانی خزائن جلد 20 رسالہ الوصیت صفحہ 305) چونکہ اس پیشگوئی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی خبر دی گئی اور آپ کے بعد دوسری قدرت کے ظاہر ہونے کی اور طبعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی خبر سے جماعت غمگین تھی کہ خدا تعالیٰ کا لگایا ہوا یہ پودا کہیں ضائع نہ ہو جائے.اللہ تعالیٰ نے بشارت دی.یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوی بیعت میں صادق اور کون کا ذب ہے.وہ جو کسی ابتلا سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اُس کو جہنم تک پہنچائے گی اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اُس کے لئے اچھا تھا مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور اُن پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا اُن سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے اُن پر کھولے جائیں گے“.روحانی خزائن جلد 20 رسالہ الوصیت صفحہ 309) ان سو سالوں میں ان پیشگوئیوں کے مطابق جماعت پر مصائب آئے.ابتلا آئے کئی فتنے اُٹھے.لوگ قید کئے گئے ، شہید کئے گئے لیکن ہر ابتلا کے بعد اور ہر فتنہ کے بعد جماعت کا قدم ترقی کی طرف ہی اُٹھا اور وہ آواز جو ایک آدمی کی آواز تھی پھیلتی چلی گئی اور آج دنیا کے ہر ملک

Page 867

خطابات مریم 842 پیغامات اور ہر کونے سے اس آواز کی گونج سنائی دے رہی ہے اور وہی جماعت جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے ساتھ ختم ہو جائے گی اللہ تعالیٰ نے اس کی عزت کو دنیا میں قائم کر دیا اور کسی کی طاقت نہیں جو اس عزت کو مٹا دے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں سے بادشاہوں نے برکت ڈھونڈی اور آئندہ بھی ڈھونڈیں گے.یہ برکات کا سلسلہ قدرت ثانیہ کے ذریعہ جاری رہے گا تا وقتیکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے.ان برکات کو جلد سے جلد حاصل کرنے کے لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری میں اپنے کو کمال تک پہنچا دیں جس کا بہترین طریق اُسوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواختیار کرنا اور آپ کے نقش قدم پر چلنا ہے.قرآن کریم کے مطالب کو حاصل کرنا اور قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنی ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس سال کے اکثر خطبات جماعت کے مرد و زن کو اس طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ جماعت میں سچائی کا معیار بلند ہونا چاہئے.آپس میں جھگڑے نہیں ہونے چاہئیں.اگلی نسل کی دینی تعلیم خصوصاًنمازوں کی باقاعدہ اور بروقت ادائیگی کی تربیت ہونی چاہئے.اس کے لئے ضروری ہے که خودان سب باتوں پر عمل کریں اور پھر اپنے نمونہ کو اپنی اولاد کے سامنے اس طرح رکھیں کہ وہ بھی آپ کے نمونہ کو اختیار کریں.یادرکھیں قوم وہی زندہ رہتی ہے جس کی ہر اگلی نسل پہلی نسل کی ذمہ داریوں کو اُٹھانے کیلئے تیار ہو.پس اس صدی میں اپنی اولاد کو تیار کریں آئندہ ذمہ داریاں اُٹھانے کے لئے اور دعائیں بھی کریں بہت زیادہ کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے.قادیان میں رہتے ہوئے آپ پر دوہری ذمہ داری ہے ایک احمدی ہوتے ہوئے دوسرے قادیان میں رہنے کی وجہ سے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیدا ہوئے جہاں آپ کو بشارتیں ملیں جہاں سے یہ سلسلہ شروع ہوا.آپ نے یہ شمع جلائے رکھی ہے تا اس کی روشنی دیکھ کر دوسرے لوگ کھینچے ہوئے آپ کا نیک نمونہ دیکھنے آئیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.ہم خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سو سال پورے ہونے کی خوشی ہمیں دکھائی لیکن خوشیاں

Page 868

خطابات مریم 843 پیغامات منانے کے ساتھ دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ قدرت ثانیہ کے انعام کو ہمیشہ ہم میں جاری رکھے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کو صحت والی لمبی عمر اور کامیابیاں عطا فرمائے اور ہمیں آپ کی اطاعت کرنے کی توفیق ملے.آپ کی قیادت میں یہ قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے.آمین والسلام مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ پاکستان

Page 869

خطابات مریم 844 پیغامات پیغام برائے مرکزی سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ بھارت 1991ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکرمہ صدر صاحبه لجنہ اماءاللہ بھارت و حاضرات جلسہ السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه مکرمہ صدر صاحبه لجنہ بھارت نے خواہش ظاہر کی کہ میں آپ کے سالانہ اجتماع میں بذریعہ پیغام شرکت کروں سوان کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے چند باتیں آپ سے کرنا چاہتی ہوں.آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کا اجتماع اُس سرزمین پر ہو رہا ہے اور بہت سی آپ میں سے وہاں رہتی بھی ہیں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے مطابق حضرت مہدی علیہ السلام پیدا ہوئے اور جہاں آپ نے اپنی ساری زندگی گزاری.آپ فرماتے ہیں :.انبیاء علیہم السلام کے دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور اُن کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی سے جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں نجات پائیں حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد ان کے آگے ہوتا ہے پس اس وقت بھی جوخدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تو میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی یعنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف راہبری کرتا ہوں“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 8-9) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جنہوں نے مانا آپ کی صحبت میں رہے.دنیا نے حیرت سے دیکھا کہ ان کی زندگیوں میں ایک انقلاب آیا جس نے ان کو یکسر بدل کر رکھ دیا.ان کے دلوں سے دنیا کی محبت مٹ گئی صرف اللہ تعالیٰ کا پیار اور اس کی راہ میں قربانی دینے کا جذبہ رہ

Page 870

خطابات مریم 845 پیغامات گیا کیوں؟ محض اس لئے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو شناخت کر لیا اور وہ دولت حاصل کر لی جس کے سامنے سب دولتیں بیچ ہیں.انہوں نے اپنی آنکھ سے دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے اللہ تعالیٰ نے ہر اُس ہاتھ کو کاٹ دیا جو آپ کی طرف بڑھا اور ہر وہ سر جو تکبر سے آپ کے خلاف اُٹھا اسے جھکا دیا گیا.تاریخ احمدیت ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے.قدم قدم پر نشانات ظاہر ہوئے جو آپ کی روحانی فتح تھی خداتعالی کی نصرت اور پیار سے آپ نے اللہ تعالیٰ سے تعلق کو ظاہر کیا اور آپ کے ماننے والوں نے بھی آپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کو شناخت کیا.آج انہی برکات اور نصرت الہی کا ظہور خلافت جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے جاری ہے احمد یہ جماعت نے ایک سو سال لگا تار نشانات دیکھے ہیں اور نصرت الہی کے نظارے کئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے اور نصرت حاصل کرنے کا بھی تقاضا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا حکم مانیں اور اس کی مکمل اطاعت کریں جیسا کہ خود قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِبْوالِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ لا (البقرة:187) اور اے رسول ! جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو ( تو جواب دے کہ ) میں (ان کے ) پاس (ہی) ہوں جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اُس کی دعا قبول کرتا ہوں سو چاہئے کہ وہ ( دعا کرنے والے ہیں ) میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں.اس میں یہی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ دعاضر ورسنتا ہے مگر اس کی جو اس کے حکموں پر چلتا ہے اور اس پر ایمان لاتا ہے.یعنی دل سے اللہ تعالیٰ کی ہر صفت پر ایمان اور یقین رکھتا ہے اور اس کی نظر کبھی غیر اللہ کی طرف نہ اُٹھتی ہو.تمہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے تعلق ہو جو بغیر مکمل اطاعت اور کامل فرمانبرداری کے حاصل نہیں ہو سکتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اپنی محبت کے حصول کا یہ طریق بیان فرماتا ہے.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ

Page 871

خطابات مریم 846 پیغامات ط ذُنُوبَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (آل عمران : 32) ترجمہ : ( اللہ تعالٰی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتا ہے کہ ) تو کہہ کہ (اے لوگو ) اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو (اس صورت میں ) وہ ( بھی ) تم سے محبت کرے گا اور تمہارے قصور بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.گویا اللہ تعالیٰ کی محبت نہیں ہو سکتی جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم بقدم نہ چلا جائے.آپ کے ارشادات کی پیروی نہ کی جائے اور وہ اخلاق اپنے اندر نہ پیدا کئے جائیں جو آپ میں پائے جاتے تھے اور آپ کے نمونہ کو اختیار نہ کیا جائے.پس میری بہنو ہمیں دیکھنا ہے کہ ہماری زندگیاں کس طرح گزر رہی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کس حد تک ہم پیروی کرتی ہیں.یہ نہیں کہ دعوی تو اللہ تعالیٰ سے محبت کا کرتے ہیں مگر ہمارا عمل اس کے خلاف ہو نہ وہ اخلاق ہم میں پائے جاتے ہوں جن کا اپنے میں پیدا کرنے کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور جس کا نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دکھایا یہی وجہ ہے کہ اسلام اتنی جلدی پھیلا.پس میری عزیز بہنو ذاتی نمونہ بہت بڑی تبلیغ ہے جو دوسرے کا دل کھینچنے والا ہے.آپ سب کوشش کریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کریں آپ کے ارشادات سے واقفیت حاصل کریں اور ان پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں.اللہ تعالیٰ کے بندوں سے اچھا سلوک کریں ان کے دکھ سکھ میں کام آئیں.میں اس سلسلہ میں آپ کو سب کو قرآن مجید کا ترجمہ سیکھنے کی طرف بھی توجہ دلاتی ہوں.قرآن مجید وہ کامل ضابطہ حیات ہے جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی زندگیاں سنوار نے کے لئے عطا فرمایا ہے.ایک مکمل ہدایت نامہ ہے ہمیشہ کے لئے ہے ہر قوم کے لئے ہے.جب تک مسلمانوں کا قرآن مجید پر عمل رہا وہ دنیا میں غالب رہے جب اُنہوں نے قرآن پر عمل چھوڑ دیا تو مسلمانوں کا جو حال ہے وہ تاریخ کی ایک المناک داستان ہے.اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں حضرت مہدی علیہ السلام کو بھیجاتا آپ قرآن سکھائیں اور یہی آپ کی جماعت کا کام ہے.قرآن پڑھے بغیر ہمیں علم ہی نہیں ہو سکتا کہ کن کاموں سے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کن باتوں سے منع فرمایا ہے.کون سی وہ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے پہلی قوموں پر عذاب آیا اور

Page 872

خطابات مریم 847 پیغامات ہمیں ان سے بچنا چاہئے.پس قرآن پڑھیں پڑھا ئیں اور اس پر عمل کریں اور اپنے بچوں کو قرآن پڑھائیں ترجمہ سکھائیں.عمل کی تلقین اور نگرانی کریں کیونکہ اگلی نسل کی بنیاد آج رکھی جانی ہے اور وہ بچے جن پر مکمل ذمہ داریاں پڑنی ہیں آپ کی گودوں میں پرورش پا رہے ہیں.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز متواتر جماعت کو توجہ دلا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق پیدا کرو نماز کے ذریعہ سے اور اپنے بچوں کو نماز کا پابند بناؤ ان میں اعلیٰ اخلاق پیدا کر و.اسی میں جماعتی ترقی کا راز ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا کرے نہ صرف آپ سب کو بلکہ ہر احمدی عورت کو اپنی ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق دے.خلافت سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں کہ اس سے پھر قدم ڈگمگانے کا خطرہ نہیں رہتا.میں آپ سب سے اپنے لئے دعا کی درخواست کر کے رخصت ہوتی ہوں کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جائے اور میرا انجام بخیر کرے.خاکسار آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ / پاکستان نوٹ : یہ پیغام بذریعہ کیسٹ آپ کی آواز میں لجنہ نے سنا.

Page 873

خطابات مریم 848 پیغامات پیغام برائے مرکزی سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ بھارت 1992ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وعلى عبده المسيح الموعود نمائندگان بجنات اماءاللہ بھارت وسامعات السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه ، صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ بھارت نے اپنے اجتماع کے لئے مجھ سے پیغام کی خواہش کی ہے چنانچہ اُن کی خواہش پوری کرتے ہوئے چند سطور ارسال ہیں.ہر قوم جو ترقی کی خواہش رکھتی ہے اس کا ایک مقصد ہوتا ہے ہم جس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اس کو تو اللہ تعالیٰ نے خود ایک عظیم مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور اس سلسلہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد کو اسی غرض سے مبعوث فرمایا کہ آپ کے ذریعہ ایک پاک جماعت کا قیام ہو جو عملی نمونہ ہو قر آن مجید کی تعلیم کا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.انتہائی غرض اس زندگی کی خدا تعالیٰ سے وہ سچا اور یقینی پیوند حاصل کرنا ہے جو تعلقات نفسانیہ سے چھڑا کر نجات کے سرچشمہ تک پہنچاتا ہے.سو اس یقین کامل کی را ہیں انسانی بناوٹوں اور تدبیروں سے ہر گز کھل نہیں سکتیں اور انسانوں کا گھڑا ہوا فلسفہ اس جگہ کچھ فائدہ نہیں پہنچا تا بلکہ یہ روشنی ہمیشہ خدا تعالیٰ اپنے خاص بندوں کے ذریعہ سے ظلمت کے وقت میں آسمان سے نازل کرتے ہیں“.پیاری بہنو اس غرض کو پورا کرنے کیلئے ہی جماعت احمدیہ کی بنیا درکھی گئی ہے اور اسی غرض کو پورا کرنے کے لئے تنظیمیں بنائی گئی ہیں تا وہ تلقین کرتی رہیں بُرائیوں سے روکتی رہیں اور سب کو توجہ دلاتی رہیں کہ اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ان پر عمل کرو جن سے اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر سکو اور اس پیار کو حاصل کرنے کا طریق خود اللہ تعالیٰ نے

Page 874

خطابات مریم 849 پیغامات لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ کہہ کر بھی بتایا ہے کہ تمہارے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک اعلیٰ نمونہ کے طور پر ہے وہ کامل انسان ہے جن کی پیروی ہر انسان پر فرض ہے.ہر اعلیٰ خوبی آپ میں موجود تھی.آپ کی نقل کرنا آپ کے قدم بقدم چلنے میں ہی نجات ہے پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ اگر تم اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنا چاہتے ہو تو میری پیروی کرو.اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا گویا ایک کامیاب نسخہ ایک آسان راہ اللہ تعالیٰ نے اپنا پیار حاصل کرنے کی خود ہی بتا دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے چلے جاؤ.آپ کے اخلاق اپنا ؤ.آپ کی سیرت کا مطالعہ کرو.اس رنگ میں اپنے کو رنگین کر و.تمہیں اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہو جائے گا.ہیں :.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اسی غرض سے بھجوایا ہے.آپ خود فرماتے ایسا ہی یہ عاجز بھی اسی کام کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا قرآن شریف کے احکام بہ وضاحت بیان کر دیوے“.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی سے زیادہ کتا بیں لکھیں جو قرآن مجید کی تفسیر پر مشتمل ہیں اور جواب 23 جلدوں میں شائع ہو چکی ہیں ایک لہریں مارتا ہوا سمندر ہے علم قرآن کا.اپنا علم بڑھانے کے لئے ان پر عمل کر کے اپنی اصلاح کرنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک جو اُردو پڑھنا جانتا ہے وہ ان کتابوں کو پڑھے ، سمجھے ،غور کرے ، عمل کرے ان کے مطابق اپنی اصلاح کرے بلکہ دوسروں کے لئے نمونہ بنے اور دعائیں کرتا رہے کہ تو اپنے خاص فضل سے اس مقصد کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما جس مقصد کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے.آپ پر تو دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس شہر اور ملک کی جماعت میں سے بنایا ہے جہاں خدا تعالیٰ کا فرستادہ ظاہر ہوا جس کی مٹی کے ذرہ ذرہ کو اللہ تعالیٰ نے برکت دی ہے.پس نمونہ نہیں نہ صرف اپنے ملک کی خواہش کے لئے بلکہ ساری دنیا کی

Page 875

خطابات مریم خواہش کے لئے.850 پیغامات جماعت احمدیہ کی زندگی میں جو دن بھی طلوع ہوا اس نے اس بات کو ثابت کر دکھایا کہ احمدیت کچی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تائید اس کو حاصل ہے.یہ وہ درخت ہے جو کبھی نہیں سو کھے گا بلکہ پھل دیتا چلا جائے گا اور کوئی زمانہ ایسا نہیں آئے گا جو اس کے پھلوں سے محروم رہے.یہ نعمت آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے دی اس کو اپنی نسلوں میں جاری رکھنا اور ان کے کردار اور اخلاق اور زندگیوں کو اس کی تعلیم کے مطابق ڈھالنا آپ کا کام اور آپ کا فرض ہے یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ چراغ سے چراغ جلتا ہے جو روشنی آپ کو نصیب ہوئی ہے اس کو ہمیشہ جلتے رکھنا آپ کا کام ہے کبھی نہ بجھے کبھی دھیمی نہ ہو بلکہ روشن سے روشن تر ہوتی چلی جائے اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرنا آپ کا بہت بڑا فرض ہے.ان کو اصلاح کرنے کے لئے خود قربانی دینی پڑے گی.خودنمونہ بنا ہو گا اور خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے ہر قربانی کرنی ہوگی.ہر بُرے ماحول سے اُن کو بچانا ہوگا.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی اور ساری دنیا کے لئے نمونہ بننے کی.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جائے میرے گناہ بخش دے اور اچھا انجام فرمائے.سب بہنوں اور بچیوں کو میرا محبت بھرا سلام پہنچے.خاکسار آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ پاکستان 10-10-1992

Page 876

خطابات مریم 851 پیغامات لجنات اماءاللہ جماعت ہائے احمد یہ پاکستان کے نام ایک خصوصی پیغام 1995ء سید نا حضرت امام جماعت احمدیہ الرابع کے خطبہ جمعہ بتاریخ 3 نومبر 1995ء کے ذریعہ بہنوں نے سن لیا ہو گا کہ تحریک جدید اپنی عظمت اور وسیع ذمہ داریوں کے باعث جملہ جماعتوں کی خصوصی توجہ کی مستحق ہے.اس خصوصی تحریک میں بفضل خدا لجنات بھی بھر پور حصہ لے رہی ہیں.تا ہم حالات متقاضی ہیں کہ بجنات پہلے سے زیادہ تعاون کریں.ہر گھر کے بچوں کی طرف سے بھی وعدے پیش کئے جائیں.زیادہ سے زیادہ بہنیں خصوصی معاونات میں شامل ہونے کی کوشش کریں.جس میں شمولیت کا معیار کم از کم 500 روپے سالانہ ہے.وعدہ جات پیش کرنے کے معابعد وصولی کی بھر پور کوشش کی جائے.اللہ تعالیٰ سب کا حامی و ناصر ہو اور حسنات دارین سے نوازے.آمین (صدر لجنہ اماءاللہ پاکستان )

Page 877

خطابات مریم 852 پیغامات پیاری بہنو ! متفرق پیغامات بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کا جلسہ سالانہ منعقد ہو رہا ہے.کسی جگہ کا بھی جلسہ سالا نہ ہو وہ مرکزی جلسہ سالانہ کا ہی ظل ہوتا ہے حضرت مسیح موعود نے جلسہ سالانہ کی بنیاد 1891ء میں ڈالی تھی اور اس کی بہت سی اغراض تھیں جن میں سے ایک غرض یہ تھی کہ احمدی سال میں ایک بار ملیں گے ایک دوسرے سے تعارف ہو گا اور تعلقات اخوت مضبوط ہونگے.جو اشتہار آپ نے جلسہ کا دیا تھا اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ اس جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں کیونکہ اب یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سفید لوگ اسلام کے قبول کرنے کیلئے تیار ہورہے ہیں.حضرت مسیح موعود کی یہ خواہش پوری ہو چکی ہے دنیا کے اکثر ملکوں میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں گو تھوڑی ہیں مگر بڑے قربانی دینے والے احمدی ہیں اپنے رب سے پیار کرنے والے ہیں.چنانچہ جلسہ سالانہ خواہ کسی ملک میں ہو معمولی بات نہیں یہی موقعہ ہے جس میں ہر احمدی کو شامل ہونا چاہئے پورے وقار اور خاموشی سے سارا پروگرام سننا چاہئے اور اپنی ترقی اور تربیت کی تدابیر سوچنی چاہئیں دعائیں کرنی چاہئیں اپنے نقائص پر غور کر کے اصلاح کرنی ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور آپ اپنے ملک میں احمدیت کی ترقی کے لئے کوشاں رہیں داعی الی اللہ بنیں اور صداقت کو دوسروں تک پہنچائیں اللہ تعالیٰ تو فیق عطا فرمائے.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 878

خطابات مریم 853 پیغامات بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ میری عزیز بہنو! ممبرات لجنہ اماء اللہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کی لجنہ اماء اللہ کے سالانہ اجتماع میں اس مختصر پیغام کے ذریعہ شامل ہو رہی ہوں.اللہ تعالیٰ یہ اجتماع بہت با برکت کرے مفید نتائج برآمد ہوں.انسانیت اپنے دکھوں سے نجات پائے اخلاق سنوار میں اور اپنے رب کی طرف جھکیں اور اس کا پیار حاصل کریں.ہم نے غیر قوموں کی ریس نہیں کرنی وہ تو دنیا حاصل کرنے کے پیچھے لگی ہوئی ہیں.ہمارا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے پیار کو حاصل کرنا ہے ان ممالک میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو سنبھال کر رکھنا ہے کہ قدم نہ ڈگمگا جائیں اور اپنی اولاد کی اس رنگ میں تربیت کرنی ہے کہ وہ اپنے دین سے محبت کریں اس کے لئے ان کے دلوں میں غیرت ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ہو آپ کے نقش قدم پر چلنے کا شوق ہو.یہ مقام کیسے حاصل ہو یہ سب آپ کی ذمہ داری ہے.بچپن سے ہی بچوں کو سکھائیں کہ تم اس دنیا کے لوگ نہیں تم نے تو ان کو دین سکھانا ہے خدا تعالیٰ کی آواز ان تک پہنچانی ہے تم نے داعی الی اللہ بنا ہے ان ممالک کے رہنے والوں کو اس عظیم خزانہ کا پتہ دینا ہے.سکولوں کی تعلیم پر نہ چھوڑیں گھروں میں اپنے بچوں کی دینی تعلیم اور تربیت دینے کی آپ ذمہ دار ہیں یا درکھیں آگ میں ذرا سا بھی کپڑا گر جائے تو فوراً آگ لگ جاتی ہے ان کے اردگرد دجالیت، عیسائیت ، بے دینی کی آگ سلگ رہی ہے اس سے خود بھی محفوظ رہنا ہے اور اپنے بچوں کو بھی محفوظ رکھنا ہے.مرکز سے تعلق قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کو اردو سکھائی جائے تا وہ مرکز سے آیا ہوا لٹر پچر پڑھ سکیں.خلافت سے تعلق مضبوط کریں اور کسی مرحلہ پر بھی اس کی مضبوطی میں فرق نہ پڑنے دیں جوں جوں جماعت بڑھے گی آپ کی ذمہ داریاں بھی بڑھیں گی اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں آپ وہاں نمائندہ ہیں جماعت کی اور نگران ہیں اپنی اولاد کی اور قیامت کے

Page 879

خطابات مریم 854 دن ہر نگر ان سے اس کے جو ماتحت ہیں ان سے متعلق سوال ہوگا.پیغامات اس لئے بہت دعا کریں اللہ تعالیٰ اس ملک میں رہتے ہوئے آپ کو صحیح رنگ میں دینی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق دے.ہماری کمزوریوں سے درگز رفرمائے اور صراط مستقیم سے بھٹکنے نہ دے.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ پاکستان

Page 880

خطابات مریم 855 پیغامات بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عزیز بہنو !.السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کا سالانہ جلسہ کو ہو رہا ہے اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے کنوینشن میں شامل ہو رہی ہوں.سال میں ایک بار تمام ممبرات یا نمائندگان کا ایک جگہ جمع ہونا اور اپنی ترقی کی رفتار پر غور کرنا بہت ہی ضروری ہے اس لئے اس کنوینشن میں ہر لجنہ کی نمائندگی خواہ ایک ممبر سے ہی ہو.ضرور ہونی چاہئے تا جن باتوں پر جلسہ میں غور کیا جائے اس کو وہ دوسری بہنوں تک پہنچا سکیں.کنونشن میں آپ کو گزشتہ سارے سال کی کارروائی کا جائزہ لینا چاہئے اور یہ نتیجہ نکالنا چاہئے کہ کون کون سے کام ہمارے لئے کرنے ضروری تھے ان میں سے کتنے ہم نے کئے اور کتنے ہم کر نہ سکے.جو نہیں کر سکے ان کی وجوہات کیا تھیں اور کس طرح ان مشکلات پر قابو پا کر ہم آئندہ سال ان کا موں کو کر سکتے ہیں نیز آئندہ سال کے پروگرام بنائیں.دو اہم کام ہر احمدی مسٹر کے ذمہ ہیں ایک اپنے ماحول اور اپنے گھر کی تربیت اگر وہ شادی شدہ ہے.دوسرے حقیقی اسلام کا پیغام غیر مسلموں تک پہنچانا.پہلی چیز یعنی اپنی تربیت بغیر دینی تعلیم اور قرآن مجید پڑھے ممکن نہیں.قرآن مجید ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں انسان کے لئے ہر قسم کی بنیادی ہدایات موجود ہیں.پھر ان کی تفصیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہیں اس لئے صرف احمدیت کو قبول کرنے سے آپ نمونہ نہیں بن سکتیں جب تک قرآن مجید کا ترجمہ نہ پڑھیں گی اور آپ کو یہ علم نہیں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے کن باتوں کے کرنے کا حکم دیا ہے اور کن باتوں سے روکا ہے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے لئے اُسوہ حسنہ اور نمونہ بنایا ہے..لائف ہسٹری پڑھیں آپ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کریں.آج آپ تھوڑی تعداد میں ہیں آئندہ جب کثرت سے احمدیت میں لوگ داخل ہوں گے تو آپ کو ان کا استاد بننا ہوگا پھر جن کے بچے ہیں ان کو اپنے بچوں کو اسلام کی تعلیم بچپن سے دینی ہے ورنہ وہ

Page 881

خطابات مریم 856 پیغامات وہاں کے گندے ماحول میں آپ سے دور چلے جائیں گے اس لئے جو دین سیکھیں اس پر عمل کریں تا دوسروں کو سکھانے کے قابل ہوسکیں.دوسری چیز تبلیغ ہے کسی انسان کو جب کوئی نعمت حاصل ہوتی ہے اس کی کوشش ہوتی ہے وہ دوسروں کو دکھائے بتائے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ صحیح اسلام آپ تک پہنچایا ہے اور آپ کو ایک خدا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا نصیب ہوا ہے ایک سچائی آپ کو ملی ہے کیوں دوسروں کو اس سے محروم رکھیں جہاں جہاں تک آپ کا دائرہ ہے ان کے کانوں تک یہ بات پہنچا دیں کہ حقیقی خوشی اور عزت اسلام کے دامن سے وابستہ ہے ان تک لٹریچر پہنچائیں زبانی تبلیغ کریں اپنی کوششوں کو جاری رکھیں کبھی مایوس نہ ہوں اس طرح اگر ایک طرف مرد اپنی کوششوں کو جاری رکھیں دوسری طرف عورتیں تو بہت جلد ترقی ہو سکتی ہے.عیسائیت میں غلط عقائد کی خاطر بھی اُن کی عورتوں نے بہت قربانیاں دی ہیں تو ہمارے پاس تو صداقت ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدے بھی ہیں جن کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے آپ دیکھ رہی ہیں.سپین میں ہی مسجد کا بنبنا اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک انعام ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو ان دونوں مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے آئندہ پروگرام بنانے کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.میرے لئے بھی دعا کریں.والسلام آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ / پاکستان

Page 882

خطابات مریم 857 پیغامات بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیاری احمدی بہنو! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آج آپ کے سالانہ جلسہ میں اس مختصر پیغام کے ذریعہ شرکت کر رہی ہوں.حضرت مسیح موعود امام جماعت احمدیہ نے جلسہ سالانہ کی بنیاد 1891ء میں رکھی جس میں ابتداء میں 75 آدمی شامل ہوئے.گو بعض دفعہ ناگزیر مجبوریوں کے باعث جلسہ نہ ہو سکا لیکن ان وقفوں کو چھوڑ کر یہ جلسہ ہوتا رہا ہے اور آنے والوں کی تعداد جماعت کی ترقی کو ظاہر کرتی رہی ہے.پہلے یہ جلسہ صرف مرکز میں ہوتا تھا اب بیرون پاکستان جماعتیں بھی پوری شان سے جلسہ کا انعقاد کرتی ہیں اور ہر ملک میں جلسہ منعقد کرنے کی وہی اغراض ہیں جو مرکز میں جلسہ کرنے کی ہیں تا کہ بھائی اور بہنیں ایک جگہ جمع ہوں.آپس میں تعارف حاصل ہو جس کی وجہ سے آپس میں محبت اور اخوت اور تعاون با ہمی کا جذبہ پیدا ہو جو بھائی بہن دوران سال وفات پا جائیں ان کے لئے جلسہ میں شامل ہونے والے احباب دعا کریں.دوران سال اللہ تعالیٰ کے جو نشانات ظاہر ہوئے ہوں ان کا ذکر کر کے ایمان کو تازہ کیا جائے اور آئندہ سال کام کرنے کا عزم کیا جائے اور اس کے لئے سب بہن بھائیوں کو تیار کیا جائے.پس میں امید کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے جلسہ کو کامیاب کرے اور حضرت مسیح موعود کی بعثت کے مقاصد کو آپ سب پورا کرنے والی ہوں آپ کا عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ اور آپ کے ارشادات کے مطابق ہو.اس لئے ضروری ہے کہ آپ میں سے ہر ایک عورت زیادہ سے زیادہ علم دین سیکھے اور اس پر عمل کرے.ان اخلاق کو اپنائے جن کی قرآن تعلیم دیتا ہے اور سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ آپ اپنی اگلی نسل کو اپنے سے بہتر طور پر قربانیوں اور ان ذمہ داریوں کو اُٹھانے کے لئے تیار کریں جو بحیثیت افراد جماعت ہم پر عائد ہوتی ہیں.ہم سب میں ہزاروں میل کا فاصلہ ہے لیکن دلوں میں دوری نہیں.حضرت مسیح موعود نے

Page 883

خطابات مریم 858 پیغامات ہمیں ایک موتیوں کی لڑی میں پرو دیا ہے ہم سب کا ایک مقصد اور ایک منزل ہے.ان دنوں میں دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ کا سایہ اور اس کی رضا ہم سب کو حاصل ہو اور جسے اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہو جائے اسے کوئی مٹا نہیں سکتا.میں سب بہنوں کو دعاؤں میں یا درکھتی ہوں آپ بھی مجھے دعاؤں میں یا درکھیں.میں پھر ایک بار اس بات کی طرف توجہ دلاتی ہوں کہ اپنی بچیوں کو اس زمانہ کی آزادی اور مغربی تہذیب میں رنگے جانے سے بچائیں اور ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا پیار اس کی عظمت اس کا خوف پیدا کریں اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جذبہ پیدا کریں کہ یہ آپ کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ پاکستان

Page 884

خطابات مریم 859 پیغامات بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میری عزیز بہنو ! السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کا سالانہ اجتماع آج 13 / مارچ کو منعقد ہو رہا ہے آپ کی صدر صاحبہ نے خواہش کی ہے کہ اس موقعہ پر پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں شرکت کروں.میری بہنو! میرا پیغام آپ سب کے لئے یہ ہے کہ خلافت کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھو اسی میں آپ کی زندگی ہے.13 / مارچ کا دن سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں بڑا اہم دن ہے.13 / مارچ 1914 ء کو حضرت مولانا نورالدین صاحب جو حضرت مسیح موعود کے پہلے خلیفہ تھے کی وفات ہوئی اور اس دن کھل کر ایک سازش سامنے آئی جو اپنی پوری طاقت سے خلافت کو ختم کرنا چاہتی تھی.منکرین خلافت نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح خلیفہ کا انتخاب نہ ہولیکن حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے کہا کہ جب حضرت مسیح موعود کے بعد خلیفہ کا فوری انتخاب ہوا تھا تو اب کیوں نہ ہو.آخر جماعت کی بھاری اکثریت نے 14 مارچ 1914ء کو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو خلیفہ اسیح الثانی منتخب کر کے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی اس یقین پر قائم تھے کہ خلافت کے بغیر کوئی ترقی نہیں ہو سکتی آپ نے خلیفہ بنتے ہی وہ تدابیر اختیار کیں کہ آئندہ اس قسم کے فتنے جماعت میں پیدا نہ ہوں تقریروں کے ذریعہ تحریر کے ذریعہ خلافت کی اہمیت جماعت پر واضح کی خلافت کی برکات بتا ئیں جو کوششیں استحکام خلافت کے لئے آپ نے فرما ئیں وہ ایک زریں باب ہے تاریخ احمدیت کا.آپ نے خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1959ء کے موقع پر جماعت کے افراد کو کھڑا کر کے عہد بھی لیا تھا کہ :.ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخری دم تک جد و جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولا د کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی

Page 885

خطابات مریم 860 پیغامات برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تا کہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما.(مشعلِ راہ جلد اول صفحه 807) پس میری بہنو! اس عہد کو ہر موقع پر تازہ کرنا اور اپنی اولاد در اولاد کی تربیت اس رنگ میں کرنا اور اس کو اس یقین پر قائم کرنا کہ تمام برکات اور ترقیات خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں.ہمارا اہم ترین فریضہ ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم حضرت مصلح موعود کے اس ارشاد کو ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے رکھیں اور خلافت کی حفاظت کے لئے اس کے دائیں بھی لڑیں ، بائیں بھی لڑیں ، سامنے بھی لڑیں اور پیچھے بھی لڑیں اور شیطان کا کوئی حملہ بھی ہم پر کارگر نہ ہو.خدا کرے خلافت زندہ رہے اور خلافت کا جھنڈا بلند رکھنے کے لئے ہم ہر طرح قربانیاں کرتے جائیں.خلافت بہت بڑی نعمت ہے اور بہت بڑی برکت ہے اس کی قدر کریں اور اپنے عمل سے اپنے کو اس کا مستحق ثابت کریں.خلافت کے دائی قیام کے لئے دعا ئیں کریں حضرت خلیفۃ اصیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کامل فرمانبرداری کریں آپ کی تحریکات پر لبیک کہیں اپنی اولاد کے دلوں میں خلافت سے پیار اور محبت پیدا کر یں اور ان کو جانثاران خلافت بنا ئیں.ہماری تمام تر قیات خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں خلافت کی اطاعت کے ذریعہ سب ترقیات حاصل کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت کرے اور آپ کو ویساہی بنادے جیسا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کے لوگوں کو دیکھنا چاہتے تھے.آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 886

خطابات مریم 861 پیغامات بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیاری بہنو ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آپ کے سالانہ کنونشن میں اس مختصر پیغام کے ذریعہ شرکت کر رہی ہوں.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے.إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَنْ نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عُهَدَ ج عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيْهِ أَجْرًا عَظِيمًا (الفتح :11) ترجمہ : وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ صرف اللہ کی بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہے پس جو کوئی اس عہد کو توڑے گا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی حالت پر پڑ گیا اور جو کوئی اس عہد کو جو اس نے خدا سے کیا تھا پورا کرے گا اللہ اس کو بہت بڑا اجر دے گا.ہراحمدی جماعت احمدیہ میں داخل ہوتے ہوئے ایک عہد کرتا ہے.جس کی شرائط خود بانی سلسلہ احمدیہ نے مقرر فرمائی ہیں.حضرت مسیح موعود نے کوئی نیا دعوی نہیں کیا آپ کی بعثت کی غرض لوگوں کا اپنے رب سے تعلق قائم کرنا اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروانا تھا.گو یا حضرت مسیح موعود کی اطاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے اور شرائط بیعت کا پورا کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اپنے عہد کو نبھانا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنا خدا تعالیٰ کی بیعت کرنا ہے.پس یا درکھیں جو کوئی اس عہد بیعت کو توڑتا اور خلاف ورزی کرتا ہے اس کو توڑنے کا وبال اس کی جان پر پڑے گا اور جو کوئی اس عہد کو جو اس نے خدا تعالیٰ سے کیا تھا پورا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو بہت بڑا اجر دے گا.ہم منہ سے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم احمدیت کی خاطر اپنی جان، مال ، وقت اور اولا د کو قربان

Page 887

خطابات مریم 862 پیغامات کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن کیا ہم اپنا جائزہ بھی لیتے ہیں کہ ہم نے جو عہد بیعت کیا تھا اس پر پورا بھی اُتر رہے ہیں یا نہیں.حضرت مسیح موعود نے جماعت کے لئے دس شرائط بیعت قرار دی تھیں اس وقت میں اُن میں سے صرف چھٹی شرط بیعت کی طرف توجہ دلاتی ہوں جو یہ ہے.یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قال اللہ وقال الرسول کو اپنی ہر ایک راہ میں دستور العمل قرار دے گا.اشتہار تکمیل تبلیغ 12 جنوری 1889ء) اگر ہر احمدی عورت صرف اس شق پر بھی عمل کرنے لگ جائے تو اس کی پوری زندگی سنور سکتی ہے.اس شرط کا خلاصہ یہ ہے کہ ہماری زندگیاں قرآن مجید کی تعلیم کے عین مطابق اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور نمونہ کے مطابق گزریں.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ تمہارے لئے محمد رسول اللہ کی زندگی ایک نمونہ ہے اس کے مطابق چلو.اسی بات کی طرف حضرت عائشہ کا ایک قول بھی توجہ دلاتا ہے.کسی نے حضرت عائشہ سے پوچھا ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق کچھ بتا ئیں.آپ نے ایک چھوٹے سے فقرہ میں جواب دیا اور وہ چھوٹا سا فقرہ اپنے اندر علوم و نصائح کا ایک سمندر رکھتا ہے.آپ نے فرمایا کسان خُلُقُهُ القرآن.آپ کے اخلاق قرآن ہی تو تھے.یعنی جو قرآن میں لکھا ہے ان پر آپ نے عمل کر کے دکھا دیا.آپ کے نمونہ اور قرآن مجید کی تعلیم میں کوئی فرق کوئی تضاد نہ تھا.جس طرح کسی حکومت میں رہتے ہوئے انسان اس حکومت کے قانون کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا اور اگر قانون کو توڑے تو اُسے سزا ملتی ہے ایک احمدی کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ قرآن شریف کی حکومت کو اپنے لئے قبول کرے یعنی قرآن مجید میں جتنے احکام ہیں ان پر عمل کرے اور جن باتوں سے منع کیا گیا ہے ان سے رُک جائے.

Page 888

خطابات مریم 863 پیغامات قرآن مجید پر عمل کرنا پوری طرح اُسی وقت ممکن ہے جب آپ کو قرآن مجید کا ترجمہ آتا ہو آپ کو معلوم ہو قرآن مجید میں کیا احکام دئے گئے ہیں کن باتوں سے روکا گیا ہے ترقی کے کیا ذرائع بتائے گئے ہیں.ان قوموں کو جن پر عذاب آیا ان کی وجوہات بیان کی گئی ہیں تا آئندہ لوگ ان باتوں سے بچیں اور ہلاکت سے محفوظ رہیں.معاشرتی زندگی کے بھی سب اصول قرآن مجید میں بیان کئے گئے ہیں جن کی تفصیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے.پس قرآن کریم پر عمل کرنے کے لئے میری بہنو بہت ضروری ہے کہ آپ کو قرآن کا علم ہو آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی اور آپ کے ان تمام احسانات کا جو آپ نے بنی نوع انسان پر کئے پورا علم ہو اس کے بغیر عمل ممکن ہی نہیں.پس آپ کو آئندہ اپنے پروگرام تجویز کرتے ہوئے اس امر پر قرآن مجید کا علم زیادہ سے زیادہ سیکھنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی اور احسانات سے روشناس کرانے کے لئے کیا کیا طریقہ اختیار کیا جائے.حضرت خلیفۃ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیر نے بھی اپنے ایک خطبہ میں اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ نئی صدی میں داخل ہونے سے پہلے کثرت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر جلسے کئے جائیں تا دنیا کو علم ہو کہ آپ کے بنی نوع انسان پر کتنے احسانات ہیں.آپ کی لجنہ ابھی ابتدائی دور سے گزر رہی ہے.انشاء اللہ خدائی وعدوں کے مطابق کثرت سے لوگ احمدیت میں داخل ہو نگے.ان کو دین سکھانے کے لئے آپ کی اس نسل کو دین کا پورا علم ہونا چاہئے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی دینی تعلیم اور تربیت کی طرف بھی پوری توجہ دیں کہ وہ وہاں کے لادینی ماحول میں بگڑنے نہ پائیں کیونکہ آئندہ ان پر ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں.جب آپ نے حضرت مسیح موعود کو مانا ہے اور آپ کے خلفاء کی بیعت کی ہے تو صرف زبان سے اقرار بیعت کافی نہیں آپ کا عمل آپ کے ایمان پر گواہی دے.آپ کا عمل اس عہد بیعت کی گواہی دے جو احمدی ہوتے وقت آپ نے کیا ہے.آپ کے ذریعہ ایک صاف ستھرا معاشرہ وہاں قائم ہونا چاہئے ایسا پاک صاف پیارا معاشرہ جو دوسروں کی توجہ کو کھینچنے والا ہو.

Page 889

خطابات مریم 864 پیغامات جہاں ہر شخص دوسرے کے حقوق کو ادا کرنے والا ہو.کوئی کسی پر ظلم نہ کرے، نہ ہاتھ سے، نہ زبان سے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق عطا فرمائے کہ آپ سب مل کر حضرت مہدی علیہ السلام کے آنے کی غرض کو پورا کرنے والیاں ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والیاں بنیں.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 890

خطابات مریم 865 پیغامات میری بہنو اور بچیو! بسم الله الرحمن الرحيم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 29 / اکتوبر کو آپ اپنا جلسہ سالانہ منعقد کر رہی ہیں اللہ تعالیٰ آپ کے جلسہ کو کامیاب کرے با برکت کرے اس میں شامل ہونے والیوں کی زندگی میں انقلاب بر پا کرے اور روحانی انقلاب جس کو بر پا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تھے آج دنیا اپنی بداعمالیوں اور خدا تعالیٰ کے احکام پر نہ چلنے کے باعث ایک جہنم میں پڑی ہوئی ہے نہ کوئی امن ہے، نہ محبت اور پیار.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنانے کے لئے مبعوث فرمایا یعنی آپ کے ذریعہ سے ایک مثالی معاشرہ کا قیام ہو احمدیت قبول کرنے والوں کی زندگیوں میں ایک انقلاب آ جائے وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کر کے اس کی رضا حاصل کرنے والے ہوں اور اس کے بندوں کے ہمدرد اور بہی خواہ ہوں اور اللہ تعالیٰ کے رحم کا مورد ٹھہریں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَهَذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الانعام : 156) ترجمہ: اور یہ قرآن ایسی کتاب ہے جسے ہم نے اُتارا ہے اور یہ برکت والی ہے پس اسی کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو کہ تم پر رحم کیا جائے.یہ آیت بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے کے لئے دو باتیں ضروری ہیں اول قرآن مجید کی پیروی کرنا اس کے احکام پر چلنا.دوم تقویٰ اختیار کرنا.پس ہم نے دیکھنا ہے کہ کیا ہماری زندگیاں قرآن کی تعلیم کے مطابق ہیں یا نہیں؟ دوسرے تقوی اختیار کرنا بھی ہر بُرائی سے اپنے کو محفوظ رکھنا ہے تا اس کے نتیجہ میں نیکی میں ترقی کریں.قرآن مجید کی مکمل اتباع آپ اسی وقت کر سکتی ہیں جب اسوہ محمدی کو اختیار کریں کیونکہ آپ کی ذات قرآن مجید کی تعلیم کا نمونہ تھی.حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:.

Page 891

خطابات مریم 866 پیغامات وو پس یہ وہ جماعت ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا ہوئی ہے کوئی ہے دنیا میں طاقت جو خدا کی ایسی جماعت کو مٹا سکے جس میں اُسوہ محمدی زندہ ہو اس کو دنیا کی کونسی طاقت مٹا سکتی ہے آپ کی ساری ضمانت آپ کی ساری حفاظت اُسوہ محمدی میں مضمر ہے.اس اُسوہ کو حرز جان بنالیں اس کو اپنی رگ و پے میں رچالیں.پھر آپ ہمیشہ کی زندگی پا جائیں گے ایسی زندگی پائیں گے جس کے اوپر موت کو کوئی دخل نہیں رہتا“.( الفضل 24 مارچ 1983ء) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت خلیفۃ المسح الرابع ایدہ اللہ تعالی کے اس ارشاد پر پورا اتر تے ابد ہوئے اللہ تعالیٰ کی نیک بندیاں بنے اور اس کی محبت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین.مجھے اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.خاکسار آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ / پاکستان

Page 892

خطابات مریم 867 پیغامات بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ممبرات لجنہ اماءاللہ کینیڈا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آج آپ کا پہلا اجتماع ہے اور کینیڈا کی ہر لجنہ سے بہنیں اس موقع پر آئی ہوں گی اس مختصر پیغام کے ذریعہ آپ کے اجتماع میں شمولیت کر رہی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کا اجتماع کامیاب کرے اور اس کے حقیقی مقصد کو پورا کرنے والا ہو.اس ملک میں اس وقت آپ کی تعداد بہت کم ہے مگر قرآن مجید کی اس آیت کو کبھی نہ بھولیں کہ تھوڑے ہی بہتوں پر غالب آتے رہے ہیں اس زمانہ میں غلبہ اسلام کا وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا گیا ہے آج سے تیرہ سوسال قبل جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت پا کر جماعت کی بنیاد رکھی آپ بالکل اکیلے تھے.لیکن ابھی جماعت کے قیام کو ایک صدی ختم نہیں ہوئی کہ دنیا کے ہر براعظم میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں کتنا بڑا نشان ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا.جب اللہ تعالیٰ انعام کرتا ہے تو انسانوں پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے اور وہ ذمہ داریاں ہیں خلیفہ وقت اور اس کے مقرر کردہ کارکنوں کی مکمل اطاعت، نظام سے گہری وابستگی اور اطاعت اور جو تعلیم ہم پیش کرتے ہیں یعنی قرآن مجید اس کے مطابق اپنا نمونہ.آج دنیا عیسائیت سے بیزار ہو چکی ہے اس کو صرف اسلام کی آغوش میں پناہ مل سکتی ہے لیکن قرآن پڑھنے کے بعد اگر ہم میں سے کسی کا نمونہ اسلام کی تعلیم کے خلاف ان کو نظر آئے تو یہ امران کے اسلام کے نزدیک آنے میں روک بنے گا.آپ میں سے ہر ایک نمائندہ ہے جماعت احمد یہ اور لجنہ کا وہاں اس لئے جائزہ لیں کہ آپ اور آپ کی بچیاں اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی گزار رہی ہیں.سب سے بڑی شکایت باہر ملکوں میں جانے والی بہنوں سے یہ ہوتی ہے کہ وہ پردہ چھوڑ دیتی ہیں.یہ طریق غلط ہے اگر ہم قرآن کو ایک مکمل ہدایت نامہ سمجھتی ہیں اور اسکے احکام اللہ نے ہماری بھلائی اور بہتری کے لئے نازل فرمائے ہیں تو اُسی حکم پر کیسے ایک ملک میں عمل ہو سکتا ہے اور دوسرے میں نہیں وہ تو دنیا کے ہر ملک کے ہونے والوں کے لئے یکساں قابل عمل ہے.

Page 893

خطابات مریم 868 پیغامات پھر بیرون ممالک میں رہنے والی خواتین کو اپنے بچوں کی اعلیٰ تربیت کرنے کی طرف بہت توجہ کرنی چاہئے ان کے دلوں میں مذہب سے محبت اللہ تعالیٰ سے محبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کے ارشادات پر عمل کرنے کا شوق ان کے دلوں میں پیدا کریں تا وہ سچے عاشق رسول بنیں اور جماعت احمدیہ کے قربانی دینے والے عظیم کارکن.وہاں جماعت ابھی ابتدائی حالت میں ہے لیکن ایک دن وہ آنے والا ہے جب سارا کا سارا ملک اسلام لے آئے گا اس وقت لوگ آپ میں سے جنہوں نے قربانیاں دی ہوں گی ان پر سلامتیاں بھیجیں گے ان کے نام ہمیشہ تاریخ احمدیت میں زندہ رہیں گے لیکن جوست اور پیچھے رہنے والے یا تعاون نہ کرنے والے ہیں ان کی نسلیں پچھتائیں گی.پس قومی ترقی کے لئے سب سے بڑی اور ضروری چیز اتحاد اور تعاون با ہمی ہے کسی صورت میں یہ اتحادٹوٹنے نہ پائے.قومی اور مذہبی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر محبت کے ساتھ ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے ہوئے اپنے امام ایدہ اللہ تعالیٰ کی قیادت میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں حتی کہ وہ دن آ جائے جس کا وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا تھا.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.والسلام خاکسار آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 894

خطابات مریم 869 زریں نصائح

Page 895

خطابات مریم 870 زریں نصائح

Page 896

خطابات مریم 871 زریں نصائح جلسہ یوم مصلح موعود لجنہ اماءاللہ ربوہ 20 فروری 1973ء کو یوم مصلح موعود کی مبارک تقریب میں جلسہ کی صدارت کے فرائض حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے سرانجام دیئے.آخر میں آپ نے اپنے خطاب میں اس پیشگوئی کو آئندہ نسلوں پر واضح کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ ہم یہ دن اس لئے مناتے ہیں تا کہ دلوں کا زنگ دور ہو.عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نشانات تازہ ہوں اور دنیا کو بتایا جائے کہ یہ پیشگوئی عام نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے قادر ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو بیان کرتی ہے.نیز آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ہر بچی کو یہ پیشگوئی زبانی آنی چاہئے اور خواتین کو ہدایت کی کہ وہ اپنی اولادوں کی تربیت اپنی لائنوں پر کریں تا کہ غلبہ اسلام کی مہم کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے.دعا کے بعد اجلاس اختتام پذیر ہوا.(مصباح اپریل 1973 ء)

Page 897

خطابات مریم 872 زریں نصائح مجلس شوریٰ لجنہ اماءاللہ کی ستائیسویں مجلس شوری 3 نومبر 1973ءکو منعقد ہوئی.سیدہ صدر صاحبہ لجنہ مرکزیہ نے چند ضروری امور کے بارے میں وضاحت فرمائی.پردہ سے آپ نے فرمایا:.متعدد لجنات کی طرف سے شوری کے لئے چند ایک ہی قسم کی تجاویز موصول ہوئی تھیں جو سے متعلق تھیں.انہیں ایجنڈے میں اس لئے نہیں رکھا گیا کہ وہ کم اہمیت کی حامل تھیں بلکہ صرف اس وجہ سے نہیں رکھی گئیں کہ بجائے اس کے کہ ان پر یہاں دو دو گھنٹے بحث کی جائے اور اگلے سال انہیں پھر ایجنڈے میں رکھ دیں بلکہ ہمیں پردے کے احکام کو قرآنی حکم جان کر ان پر عمل کرنا اور کروانا چاہئے.پردے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بڑے واضح الفاظ میں زینت چھپانے کا حکم دیا ہے.پس ایک واضح قرآنی حکم پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ جس طرح دیگر قرآنی احکام پر عمل کرنا ہمارا فرض ہے اسی طرح اس حکم پر عمل کرنے کے لئے ہمیں پوری کوشش کرنی چاہئے.اپنی بہنوں اور بچیوں کو اس کا احساس دلائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام و حضرت مصلح موعود اور حضرت خلیفۃ اصسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات بار بار بہنوں کو سنائیں اور اُن کے ذہن نشین کر وا دیں.شادی بیاہ کے موقع پر جوڑے لینے دینے کی رسم کے متعلق آپ نے فرمایا کہ اصل چیز اپنے اپنے حالات کے مطابق سادگی اختیار کرنا اور جماعت کی اقتصادی حالت درست کرنا ہے.آپ لوگ ہر موقع پر ان باتوں کو اتنا بیان کریں کہ ذہنیت بدل جائے.اگر سارا سال ان چیزوں کے متعلق سمجھایا جائے تو امید ہے کہ ایک حد تک جوڑے لینے دینے کی رسم کم ہو جائے گی.اس کے بعد ایجنڈے پر بحث شروع ہوئی.(مصباح دسمبر 1973ء)

Page 898

خطابات مریم 873 زریں نصائح دوره سرگودھا 12 دسمبر 1973ء کو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ مرکزیہ نے لجنہ سرگودھا کے دورہ میں ممبرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :.منتخب شدہ عہدیداران کو اپنے آپ کو قوم کا خادم سمجھنا چاہئے اور ہر امیر وغریب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہئے.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کے ارشاد کے مطابق اپنے دائرہ خدمت میں وسعت پیدا کریں.آپ نے نئی منتخب شدہ صدر کو ضلعی بجنات کی تنظیم اور بیداری کی طرف توجہ دلائی.دیہاتی خواتین کے دلوں میں شوق و جذبہ کی کمی نہیں.لہذا ان کو بھی اُن قربانیوں اور جد و جہد میں شریک کریں.جن کا مطالبہ آج اسلام ہم سے کر رہا ہے.نیز فرمایا:.قرآن مجید کی تعلیم کو سمجھنے کے لئے کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مطالعہ ناگزیر ہے تا مردوں کے ساتھ ساتھ احمدی مستورات بھی شاہراہ غلبہ اسلام پر گا مزن ہوسکیں.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ 1973-1974ء)

Page 899

خطابات مریم 874 زریں نصائح دورہ کراچی حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ 18 مئی 1974ء کو کراچی کے دورہ پر تشریف لے گئیں.استقبالیہ کی تقریب کے آخر میں آپ نے عہدیداران کو نصیحت فرمائی کہ :.اپنا ذاتی نمونہ پیش کر کے دوسروں کی اصلاح کی جائے.صاف سیدھی بات کہیں اور قرآنی احکام کو ہمیشہ مدنظر رکھیں تا نوجوان نسل کی تربیت اسلام کے اصولوں کے مطابق کی جا سکے.قرآن مجید ہی ہماری روحانی محبت کا ضامن ہے.نیز روحانی فیض حاصل کرنے کے لئے کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے استفادہ حاصل کرنا ہی از بس ضروری ہے“.صدر لجنه مرکز یہ ضلع کراچی کی عہدیداران کے ساتھ ہر قیادت کے پروگرام میں بھی شرکت کے لئے تشریف لے گئیں اور اپنے بصیرت افروز خطاب سے ہر قیادت کو نوازا.ان تقاریر میں آپ نے بحیثیت مجموعی مندرجہ ذیل اہم باتوں کی طرف خصوصی توجہ دلائی.-1 نئی نسل کی تربیت اسلام کے احکام کے مطابق کریں.جان ، مال ، وقت اور اولاد کی قربانی کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تمام تحریکات پر بدل و جان عمل کرنا.خاص طور پر نوافل کی ادائیگی اور ذکر الہی وغیرہ کو اپنا معمول بنایا جائے.4- قرآن مجید سیکھنے اور سکھانے کی طرف خصوصی توجہ دی جائے.5- امیر وغریب میں مساوات پیدا کرنے کی عملی کوشش کی جائے.6 پروگراموں میں جدت پیدا کی جائے اور نوجوان لجنہ کی ممبرات سے بھی مشورہ کر لیا جائے تا کہ نئی نسل اجلاسوں میں دلچسپی لے سکے.- بلند نصب العین رکھیں.ہر حاجت پر اللہ تعالیٰ سے مانگیں.تقویٰ ، انصاف، صبر ،صحبت صالحین، شکر گزاری اور سادہ زندگی گزارنے کی عادت ڈالیں.

Page 900

خطابات مریم 875 8.سستیاں ترک کر کے اپنے آپ کو مستعد بنانے کی کوشش کریں.زریں نصائح اطاعت و فرمانبرداری کو اپنا شعار بنا ئیں.خاص طور پر خلیفہ وقت کی ہر تحریک پر خوش دلی سے لبیک کہیں.10- پردہ کی پابندی کی طرف توجہ دیں.11- تہذیب یعنی مغربی تہذیب کی تقلید سے پر ہیز کیا جائے.خاص طور پر نئی نسل کو مسموم فضا سے بچانا ماؤں کا فرض ہے.خود بھی نیک نمونہ پیش کریں اور اپنے بچوں کو بھی اسلام کا سچا سپاہی بنا ئیں.رپورٹ لجنہ کراچی.جون 1974ء)

Page 901

خطابات مریم 876 زریں نصائح دورہ لاہور حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ مرکزیہ کے دورہ لاہور میں ممبرات کو نصائح.دار الذکر میں خطاب تلاوت اور عہد نامہ دہرانے کے بعد حضرت سیدہ صدر صاحبہ مرکزیہ نے خطاب فرمایا.سب سے پہلے آپ نے شہر لاہور کا ذکر کیا کہ اس شہر کو احمدیت کی تاریخ میں ہمیشہ ہی بڑا اہم مقام حاصل رہا ہے.بعد ازاں آپ نے عہدیداران کو اپنی ذمہ داریاں صحیح طریق پر نبھانے اور فرائض کو پہچاننے کی طرف متوجہ کیا.آپ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا بیان فرمودہ یہ فقرہ بیان کیا کہ جماعت پر آزمائش کا کڑا دور بھی آئے گا“.حضور نے جماعت کے افراد کو ثابت قدم رہنے اور استقامت دکھانے کی پُر زور تلقین فرمائی تھی.حضرت سیدہ موصوفہ نے جماعت کی خواتین کو حضرت امام جماعت احمدیہ کے خطبات سے مستفیض ہونے کی تاکید کی.آپ نے اپنی تقریر میں متعدد بار عہدیداران کو اس بات کی خصوصی ہدایت فرمائی کہ سب سے پہلے وہ خود کو تربیت کی خاطر نمونہ بنائیں.ان کے قول وفعل میں تضاد نہ ہو.پروگراموں کو دلچسپ بنانے کا سوچیں ، ذاتی توجہ ، محنت اور سچی لگن کے ساتھ دینی کاموں میں حصہ لیں کیونکہ سچی محنت کو خدا تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا.آپ نے نہایت پُر زور الفاظ میں واضح کیا کہ دنیا والوں کی باتوں کی پرواہ کئے بغیر ہمیں اپنے مشن پر رواں دواں رہنا ہے.پھر آپ نے پردہ کی اہمیت تفصیلاً بیان فرمائی کہ یہ حکم خداوندی ہے جس کی تعمیل کرنی اور کروانی ہمارا فرض ہے.آپ نے ناصرات کی تربیت کی طرف خاص توجہ دینے کی پُر زور تاکید فرمائی.آخر میں آپ نے اس امر کی طرف خصوصی طور پر متوجہ کیا کہ ہم سب کے پیش نظر تو حید باری تعالیٰ اور حقوق العباد کی ادائیگی رہنی چاہئے کہ یہی دین کے دو بڑے ستون ہیں.ہر ایک کی ہمدردی کرنا ہمارا شیوہ رہے.کسی کو ہماری طرف سے کوئی دکھ اور تکلیف

Page 902

خطابات مریم 877 زریں نصائح نہ پہنچے.اپنے مسائل کو خود کوشش ، توجہ اور محنت سے حل کرنے کی ہدایت کی.آپ نے فرمایا کہ جب ممبرات اپنی عہدیداران کو محنت لگن اور جذبے کے ساتھ کام کرنا بتائیں گی تو انشاء اللہ تعالیٰ وہ بھی خود بخود دینی کاموں میں شوق سے حصہ لینے لگیں گی.قیادت اسلامیہ پارک میں خطاب اس موقع پر آپ نے پردہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور ماؤں کی توجہ اس طرف مبذول کروائی کہ بچیوں کو چھوٹی عمر ہی سے پردے کا عادی بنائیں تا کہ بڑے ہو کر پردہ کرنے میں انقباض محسوس نہ کریں.آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے سارے حکموں پر عمل کرنا ہمارا فرض ہے اور پردہ بھی حکم الہی ہے.اس پر عمل کرنا ہم پر واجب ہے.اس کے بعد آپ نے تمام عہد یداران کو صدر کے ساتھ پورا پورا تعاون کرنے کی تلقین فرمائی.آپ نے فرمایا کہ اکیلی صدر تو سب کچھ نہیں کر سکتی.اس پر سارا کام ڈالنا کسی طرح مناسب نہیں.سب سیکرٹریان اپنے اپنے فرائض کو سمجھیں اور صحیح طریق پر کام سرانجام دیں.آپ نے ممبرات کو اجلاسوں میں حاضر ہونے کی تاکید کی.آپ نے اس بات کی خاص طور پر ہدایت کی کہ سارے کام آپس میں تعاون محنت اور کوشش سے ہوا کر تے ہیں.قیادت سلطان پورہ میں خطاب آپ نے اپنی تقریر میں مختلف تربیتی امور پر روشنی ڈالی.آداب مجلس، آداب بیوت الحمد اور آداب نماز پر بالخصوص توجہ دلائی.آپ نے اس امر کی خاص ہدایت کی کہ خطبہ جمعہ اور عیدین کے خطبات کے دوران مکمل خاموشی ہونی چاہئے.آپ نے ماؤں کو اولاد کی اصلاح و تربیت کی ذمہ داری ادا کرنے کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی.آپ نے تمام احمدی خواتین کو اخلاق فاضلہ اپنانے کی پُر زور تلقین فرمائی اور فرمایا جھوٹ سے اجتناب اور سچائی ہمارا شعار ہونا چاہئے.(1978)

Page 903

خطابات مریم 878 زریں نصائح حضرت سیدہ محترمہ مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی کراچی میں تشریف آوری اور مصروفیات 1978ء میں حضرت سیدہ محترمہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ 23 اگست کو کراچی تبدیلی آب و ہوا کیلئے آئیں.طبیعت ٹھیک ہونے پر لجنہ اماءاللہ کے پروگرام شروع کر دیئے.ذیل میں ان تقریبات کی قدرے تفصیل پیش کی جاتی ہے.پہلی تقریب احمدیہ ہال میں 9رستمبر 1978ء کو صدر لجنہ کراچی کے انتخاب کی تھی.انتخاب کے بعد آپ نے عہدہ داران سے خطاب فرمایا جس کا مخص ذیل میں دیا جا تا ہے.آپ نے اس بات پر خوشی کا اظہار فرمایا کہ کبھی ساری لجنہ کراچی کی تعداد اس ہال میں اتنی ہوتی تھی جتنی آج عہدیداران کی ہے.آپ نے خطاب جاری رکھتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ اسلام کی تعلیم کا محور اطیعوا الله وأطيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِى الاَمرِ مِنْكُمُ ہے.اللہ تعالیٰ کی اطاعت پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کی اطاعت اور خلفاء کی اطاعت کے بعد خلیفہ وقت کے مقرر کردہ افسروں کی اطاعت.یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جس سے ذرا سا انحراف کر کے انسان قعر مذلت میں گر جاتا ہے.دوسری چیز جس کی طرف آپ نے توجہ دلائی وہ ایک دوسرے کے عیوب سے چشم پوشی کرنا اور قصور معاف کرنا ہے.اس کے لئے ضروری ہے کہ آپس میں اتفاق ہو اور تعاون ہو.جماعتی کاموں کی خاطر اپنی رنجشیں بھول جائیں.پھر آپ نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ چار سال کے عرصہ میں بے پردگی کی طرف بہت زیادہ رحجان پیدا ہوا ہے.اس کے تدارک کے لئے کوشش کرنی چاہئے جوان بچیوں کی تربیت کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.عہدہ دار اپنا نمونہ اچھا دکھا ئیں اگر صحیح پردہ

Page 904

خطابات مریم 879 زریں نصائح نہیں کرسکتیں تو اپنا عہدہ واپس کر دیں یا اپنا عمل صحیح کریں.دو چار یا دس عہدہ داروں کے ہٹنے سے کمی نہیں آ جائے گی اللہ تعالیٰ ان عورتوں کے دلوں میں کام کرنے کا جذبہ پیدا کر دے گا جو ٹھیک پردہ کرتی ہیں.اجلاس قیادت نمبر 3.مورخہ 10 ستمبر 1978ء آپ کی تقریر کا خلاصہ درج ذیل ہے.آپ نے فرمایا.احمدیت میں لجنہ اماءاللہ کی اہمیت یہ ہے کہ اس نے آئندہ نسل کو تیار کرنا ہے.جس طرح گزشتہ صحابیات نے اپنے عمل اور قول سے اس نسل کی تربیت کی.اولین کام احمدی عورتوں کا یہ ہے کہ وہ تربیت کی طرف سب سے زیادہ توجہ دیں اور اسلام کی صحیح تعلیم سے روشناس کرائیں کیونکہ احمدیت اسلام سے الگ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کا مقصد صرف اس کی تجدید ہے.قرآن کریم اور اسلام کی تعلیم کو جو لوگ بھول گئے ہیں ان میں نئی روح پھونکنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مامور فرمایا ہے.ہماری تنظیم کا مقصد صرف جلسہ کرنا نہیں ہے.بے دینی اور دہریت کی جو آگ بھڑک رہی ہے اس کو ختم کرنا ہے.بچوں کی تربیت بہترین طریقہ سے کریں ان کو پانچ وقت نمازوں کی تلقین کریں اور پھر ایسا معاشرہ تشکیل پائے کہ لوگ ہمیں کا فر کہتے ہوئے بھی ہمارے اعمال کی تعریف کرنے پر مجبور ہوں.بچوں کے دلوں میں خدا کی محبت ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت اور جماعت کی تنظیم سے محبت پیدا کریں.اگر ہم اس قابل ہوتے ہیں تو ہم فخر محسوس کریں گے.حضور نے فرمایا.بچیوں اور بچوں کو دین سکھانا عورت کا ہی کام ہے.ان کی تربیت میں لڑکیوں کی تربیت لڑکوں سے زیادہ اہم ہونی چاہئے.آئندہ نسلیں عورت کی ہی گود میں پرورش پائیں گی.اس کے بعد فرمایا کہ میں آخر میں دعا کرتی ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم صحابیات کے نقش قدم پر چل سکیں.آمین

Page 905

خطابات مریم 880 زریں نصائح تمام بہنوں کو چاہئے کہ کم از کم قرآن کریم ناظرہ کا اہتمام کریں.ہر گھر میں ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم ہر طرح کی برکات حاصل کر سکتی ہیں.66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا جو قرآن کو عزت دیں گے خدا ان کو عزت دے گا.“ اللہ تعالیٰ دین سکھانے کے فرائض کو احسن طریق پر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین تقریب قیادت نمبر 2-12 ستمبر آپ نے اپنے خطاب میں قیادت نمبر 2 کی عہدہ داران اور ممبرات کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ لجنہ کراچی کی قیادتوں میں سے سب سے ست یہی قیادت ہے.اجلاسوں میں حاضری کم ہونے کی شکایت ہے.اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.انسان میں کمزوریاں ضرور ہوتی ہیں لیکن اس کے اس اصول فَلَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ پر کار بندر ہے اور نیکیوں کا پلڑا بھاری رکھنے کی کوشش کرے.اجلاسوں میں شرکت کی ایک غرض آپس میں محبت پیدا کرنا بھی ہے.مذہب کی خاطر وقت کی قربانی دینا بھی جس کا آپ نے عہد بھی کیا ہے.دنیا کا عام طریق ہے کہ لوگ خوشحال لوگوں کے پیچھے زیادہ چلتے ہیں.اس لحاظ سے بھی آپ پر بڑی ذمہ داری ہے.آپ کی قیادت میں بے پردگی پہلے سے بہت زیادہ ہے یہ بہت افسوسناک بات ہے.لجنہ کا کام صرف چندے دینا نہیں.قرآن پاک کی تعلیم دینا اور تربیت کرنا ہے.پس صحیح رنگ میں اپنی اولاد کی تربیت کرنا آپ کا سب سے بڑا کام ہے.اس کی طرف توجہ دیں.قیادت نمبر 1 کا جلسہ 13 / ستمبر بروز بدھ چار بجے شام احمدیہ ہال میں قیادت نمبر 1 کا جلسہ منعقد ہوا.صدر صاحبہ لجنہ مرکزیہ نے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر خوشنودی کا اظہار کیا کہ آپ کی قیادت لجنہ کراچی کی بہترین قیادتوں میں سے ایک ہے.آپ نے اس طرف ممبرات کو توجہ دلائی کہ ایک یا دو افراد کے کام کرنے سے کامیابی نہیں ہوتی بلکہ کامیابی کے لئے ٹیم ورک کی اور استقلال کی ضرورت ہوتی ہے.پھر جوان بچیوں کو کام کرنے کی عادت ڈالیں کہ جوانی کا زمانہ ہی کام کا زمانہ ہوتا ہے.اپنے معاشرہ اپنے گھروں کی اصلاح کی طرف توجہ دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 906

خطابات مریم 881 زریں نصائح نے اصلاح کے تین گر بیان فرمائے ہیں.مجاہدہ یعنی کوشش اور تدبیر، صحبت صالحین اور دعا.انہی تینوں اصولوں پر عمل کریں اور اپنی زندگیاں اسلام کی تعلیم کے مطابق گزاریں قرآن کریم پڑھنے پر بہت زور دیں.ہر قیادت کی نگران کو چاہئے کہ وہ اپنی قیادت کے مناسب حال ایک نصاب مقرر کرے اور اس کے بھی مستورات کے تعلیمی معیار کے مطابق مختلف معیار ہوں.ایک سال کے اندر ہر معیار میں شامل ہونے والی بہن اپنا نصاب مکمل کرے اور پھر آئندہ سال نیا نصاب مقرر کیا جائے.قیادت نمبر 5-14 ستمبر صدر صاحبه لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے حاضرات سے خطاب کیا اور آنحضرت ﷺ کی بعثت کی اغراض يَتْلُوا عَلَيْهِمُ الله وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتبِ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمُ (سورة الجمعة: 3) کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ دینی علم سیکھنے کے ساتھ تزکیۂ نفس بہت ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض بھی یہی تھی اور آپ کے خلفاء بھی یہی کام سرانجام دیتے رہے ہیں کہ دلوں کو پاک کریں اور انسانوں کا تعلق اپنے رب سے پیدا ہو.جب تک دلوں میں صفائی نہ ہو باقی کام بے حقیقت ہیں.دینی تعلیم حاصل کرنے کے نتیجہ میں انکسار، خاکساری، تقویٰ اور پر ہیز گاری انسان میں پیدا ہونی چاہئے.مخلوق خدا کے ساتھ محبت پیدا ہونی چاہئے.اگر ہمارا اپنا عمل قرآن کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کے خلاف ہوگا تو ہم تضاد پیدا کر رہے ہوں گے اور کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی جب اس کے افراد کے عمل اور قول میں تضاد ہو.ہماری جماعت جو ابتداء سے سادہ زندگی پر عمل کرتی تھی اب اس میں رسومات بھی جنم لے رہی ہیں.اپنے معاشرہ کو سادہ بنائیں رسومات سے پر ہیز کر یں اور سادہ پُر امن معاشرہ قائم کرنے میں اپنا کردارادا کریں.

Page 907

خطابات مریم 882 زریں نصائح قیادت نمبر 6-16 ستمبر صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ نے حاضرات سے اپنے خطاب میں حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی پر بہت زور دیا.قرآن مجید اور احادیث سے مثالیں دے کر آپ نے کہا کہ کسی کی عزت پر حملہ کرنا یا کسی کے دل کو ٹھیس پہنچانا بھی اتنا ہی تکلیف دہ امر ہے جیسے کسی کا مال لوٹ لیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی شرائط بیعت میں عہد لیا ہے کہ ہمدردی خلائق کو مدنظر رکھے گا.فتنہ فساد جھگڑے پیدا ہی ہو تے اس بات سے ہیں کہ کسی کو تکلیف پہنچے.جس کا اثر ہوتے بڑھتے بڑھتے تنظیم پر پڑتا ہے اور جماعتی اتحاد مجروح ہوتا ہے.احمدیت کی ترقی کے لئے آپ کو وقت کی بھی قربانی دینی ہوگی ، اولاد کی قربانی بھی دینی ہوگی ، جذبات کی قربانی بھی دینی ہوگی ، مال کی قربانی بھی دینی ہوگی اور یہ سب قربانیاں دے کر آپ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کر سکیں گی.آئندہ صدی جو انشاء اللہ غلبہ اسلام کی صدی ہوگی کی تیاری کے لئے ابھی سے بچیوں کی تربیت کریں.انہیں قرآن کا ترجمہ سکھائیں، دین پر ان کا عمل ہو، دین سے محبت ہو ، دین کے لئے قربانی کا جذبہ ہو، دین کی غیرت ہو اور قوم ہمیشہ وہی زندہ رہتی ہے جو اگلی نسل کو مزید قربانیوں کے لئے تیار کرتی رہے.اس کے لئے لگا تار جد وجہد کی ضرورت ہے.جس کے لئے صاف دلوں کے ساتھ مل کر کوشش کرنی ہوگی.قیادت نمبر 4.17 ستمبر آپ نے اپنے خطاب میں حضرت مصلح موعود کے الہام ”اگر پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح ہو جائے تو اسلام کو ترقی حاصل ہو سکتی ہے“ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کو جماعت کا ایک کارآمد پرزہ بننے اور خواتین اور بچیوں میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے پر زور دیا.آپس میں اتحاد ہونا چاہئے جس طرح ماں بچے کو سزا بھی دیتی ہے اور پھر گلے سے بھی لگا لیتی ہے.کام کرنے والیوں میں مسابقت کی روح ضرور ہولیکن کسی کا رستہ روک

Page 908

خطابات مریم 883 زریں نصائح کر نہیں.کسی دوسرے کے خلاف غلط پراپیگنڈا نہ ہو.کسی کو دوسروں کی نظر سے اُتارنے کی کوشش نہ کی جائے.جب ہماری منزل اور مقصد ایک ہے تو پھر کسی قسم کی وجہ مخالفت نہ ہونی چاہئے.ہم سب کی عبادت، قربانیاں، زندگی ، موت اللہ تعالیٰ کی خاطر ہونی چاہئیں.اس مقصد کو سامنے رکھیں تو آپس میں محبت ، خلوص اور اتحاد کا جذبہ پیدا ہوگا.اس جذبہ کے ساتھ اپنی بہنوں اپنی بچیوں کی تربیت اور اصلاح میں کوشاں رہیں ان کو مغربیت کے اثر سے بچائیں.اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والیاں ہوں اور ہمارا معاشرہ پُر امن اور محبت کرنے والا معاشرہ ہو.ہر ماں ہر عہدہ دار کو اپنی نسل کوخرابیوں سے بچانے کی فکر کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ تو فیق عطا فرمائے.(رپورٹ لجنہ کراچی.ماہ ستمبر 1978ء) ☆

Page 909

خطابات مریم 884 زریں نصائح تربیتی دورہ راولپنڈی 21 /اگست 1980ء کو مسجد نور راولپنڈی میں ایک تربیتی اجلاس منعقد ہوا جس میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے تشہد اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.”میری عزیر بہنو! جن جذبات کا اظہار آپ نے اپنے سپاسنامہ اور استقبالیہ نظم میں کیا ہے.ان کے لئے میں تہہ دل سے ممنون ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جزائے خیر دے اور ان تمام باتوں پر صحیح رنگ میں عمل کرنے کی توفیق دے.آمین آپ نے اس امر پر اظہار افسوس کیا کہ حاضری کم ہے اس کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے اور یہ عہدیداروں اور ممبرات کے تعاون سے ہی تسلی بخش ہوسکتی ہے.اس کے بعد آپ نے مومنوں کی ان دس خصوصیات کا ذکر تفصیلاً نہایت سادہ اور دلنشیں انداز میں بیان فرمایا جو قرآن مجید کی سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں.آپ نے تلقین فرمائی کہ مومن کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کا جائزہ ان کے مطابق لے اور جد و جہد کرے کہ اس کی زندگی قرآن مجید کی ان آیات کے عین مطابق ہو.صرف زبان سے اقرار نہ کر رہا ہو بلکہ دل سے کامل فرمانبردار ہو.مطمئن ہو کہ اس نے اپنا سب کچھ خدا کے راستہ میں قربان کر دیا.دعا کا دامن تھامے رکھنا چاہئے کہ عسر میں یسر میں خوشی میں مصائب میں انسان کا ایمان متزلزل نہ ہو نیکی میں رغبت پیدا کریں کیونکہ نیکیاں بدیوں کو دور کر دیتی ہیں.ذکر الہی کثرت سے کرنے والی بہنیں.اپنے رُوح پرور خطاب کے آخر میں آپ نے درد بھرے انداز میں فرمایا.خدا کرے یہ تمام صفات ہم میں پیدا ہوں تا ہم اس اجر عظیم کو حاصل کرنے والی ہوں جس کا وعدہ خدا نے فرمایا ہے اور یہ تسلسل کبھی نہ ٹوٹے.آئندہ نسل کی تربیت اس رنگ میں کرنے کی توفیق ملے کہ وہ دین سے محبت کرنے والی ہو.ہم اللہ کے ہوں اور اللہ ہمارا ہو.آمین 25 اگست 1980 ء جلسہ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم منعقد کیا گیا.حضرت سیدہ مدوحہ نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.چونکہ یہ سیرۃ النبی ﷺ کی محفل ہے اس لئے مجھے بھی اس عظیم الشان نبی جو کہ کامل انسان تھا

Page 910

خطابات مریم 885 زریں نصائح کے بارے میں اظہار خیال کرنا ہے.وہ ہستی صرف 1400 سال پہلے کیلئے نہیں تھی وہ تا قیامت ہر زمانہ کیلئے ہے.پس ہمارے لئے راہ نجات یہی ہے کہ آپ کی سنت پر چلیں وہی اوصاف اپنا ئیں.خطاب کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:.آپ نے وہ کامل مذہب پیش کیا جو تمام خوبیوں کا حامل ہے اور جو ایک زندہ مذہب ہے.اس کی تعلیم زندہ اور کامل ہے.پس ہمیں بھی اپنے کردار سے اپنی روحانی زندگی کا ثبوت دینا چاہئے.26 /اگست 1980ء کو صبح حضرت سیدہ صاحبہ مردان تشریف لے گئیں.آخر میں حضرت سیدہ ممدوحہ نے ممبرات سے خطاب فرمایا.آپ نے تَبارَكَ الّذى بِيَدِهِ الْمُلْكُ.....کی آیات تلاوت فرمائیں اور بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات کو سونے سے قبل تلاوت فرماتے تھے.ہمیں بھی آپ کی سنت پر عمل کرنا چاہئے.زندگی ایک نعمت ہے اس کی قدر کرنا فرض ہے.موت ایک حقیقت ہے.زندگی موت کا سلسلہ ازل سے جاری ہے تا کہ پر کھا جائے کہ خدا کے بندے نے زندگی کیسے گزاری؟ قرآن مجید جیسی کامل کتاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی.اس کی حفاظت کا ذمہ خود خدا نے لیا جو پورا کیا.ہر زمانے کے لئے اس میں رہنمائی اور ہدایت ہے.حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام احکام پر عمل کر کے دکھا دیا.اس میں آئندہ کے متعلق پیشگوئیاں ہیں.ہر مسئلہ کا حل موجود ہے صرف تدبر کی ضرورت ہے.ہر زمانے کی ضرورت کو پورا کیا گیا ہے.قرآن پر عمل کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا ہے.ہمیں چاہئے کہ بچے عبد بنیں.27 /اگست 1980ء نوشہرہ میں حضرت سیدہ ممدوحہ صاحبہ نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.انسانی زندگی کے تین دور ہوتے ہیں.بچپن، جوانی ، بڑھاپا.اس میں درمیانی زمانہ عمل کا وقت ہے.اس زمانے میں خدا نے حضرت مسیح موعود کو مبعوث فرمایا ہے جس کی غرض فقط احیاء اسلام ہے اور اس میں عورتوں کی ذمہ داری زیادہ ہے.ہر انسان کی دو زندگیاں ہوتی ہیں انفرادی اور اجتماعی دونوں میں فرائض ادا کرنے پڑتے ہیں.ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے لجنہ کی تنظیم میں تعاون کو مدنظر رکھنا اولین فرض

Page 911

خطابات مریم 886 زریں نصائح ہے.یہ کام صرف عہدیداروں کا نہیں.ہر ممبر کی ذمہ داری ہے.آپ نے نہایت دلنشیں انداز میں انفرادی اور اجتماعی اصلاح اور تربیت کے اصولوں کی طرف توجہ دلائی.صحبت صالحین اور دعا کی اہمیت بھی واضح فرمائی آخر میں مقامی اجتماع میں پوزیشن لینے والی ممبرات کو انعامات تقسیم کئے.دعا کے بعد اجلاس برخاست ہوا.28 / اگست کو ایبٹ آباد میں حضرت سیدہ صدر صاحبہ ممدوحہ نے ممبرات سے خطاب فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی طرف توجہ دلائی.فرمایا:.آپ کی کامل اطاعت میں خدا کی اطاعت ہے.دنیا میں فلاح کے دو راستے ہیں.سچا عبد بننا اور مخلوق خدا سے محبت رکھنا.ہر قسم کا علم قرآن میں موجود ہے جو خدا نے اس لئے نازل کیا تا انسان اس کا قرب حاصل کر سکے.قرآن کو عزت دینا کامیابی ہے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو یہ کامل کتاب پڑھانے کا انتظام کریں تا ان پر واضح ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام زندگی مکمل عبادت تھی.جو دعائیں آپ نے زندگی کے ہر شعبہ میں کیں وہ یاد کرنا اور پڑھنا راہ نجات ہے.آپ اپنی تعداد کو کم نہ سمجھیں اپنے عمل سے تعداد کو بڑھائیے.آج خلیفہ وقت منادی کر رہے ہیں کہ اگلی صدی غلبہ اسلام کی صدی ہوگی جس کے شروع ہونے میں صرف نو سال باقی رہ گئے ہیں.میری عزیز بہنو! بچیو! کوشش کرو کہ تمہارا حصہ اس صدی میں ہو.مؤرخہ 29 /اگست 1980 ء کو تربیلا ڈیم میں نماز جمعہ ادا کی.تقریباً 10 ممبرات تشریف لائیں.حضرت سیدہ ممدوحہ نے توجہ دلائی کہ آپ جہاں بھی ہوں حضرت مسیح موعود کا نمائندہ ہیں اس لئے باقاعدہ لجنہ کی تنظیم میں شامل ہوں باہم مل بیٹھیں.خلوص و محبت ، پیار کے جلوے دیکھیں.ہم نے ایک ہاتھ پر بیعت کی ہے.قرآن ہماری آخری کتاب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احیائے اسلام کے لئے دن رات دعائیں کیں جو قبول ہوئیں.خدا نے آپ کی کوششوں میں برکت ڈالی.وہی برکت ہے کہ آج ہم یہاں بھی دینی باتیں کر رہے ہیں.سوچئے اسلام کے غلبہ میں آپ کا کیا کردار ہے.ایک ساتھ قدم ملا کر چلئے.عورت کی گود بچے کا مدرسہ ہے پس پہلے مدرسے میں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و قرآن سے الفت ، خدا سے پیار سکھائیے.(مصباح اکتوبر 1980ء)

Page 912

خطابات مریم 887 زریں نصائح مقامی اجتماع لجنہ اماءاللہ ربوہ 29/اکتوبر 1980ء کو لجنہ اماء اللہ ربوہ کا مقامی اجتماع زیر صدارت حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ہوا.آپ نے اپنے افتتاحی خطاب میں وقت کی قدر ، خدا اور سول سے محبت ، اجتماع و جلسہ میں شمولیت ، خاموشی سے جلسہ سننے نظم وضبط اور صفائی اور اپنے فرائض خوش اسلوبی سے سرانجام دینے کی طرف توجہ دلائی.( رپورٹ اکتوبر 1980ء) ☆

Page 913

خطابات مریم 888 زریں نصائح لجنہ اماءاللہ راولپنڈی کی پہلی چودہ روزہ تربیتی کلاس پر اختتامی خطاب 30 / اگست کو مسجد نور راولپنڈی میں لجنہ اماءاللہ راولپنڈی کی پہلی چودہ روزہ تربیتی کلاس خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کے ساتھ انتہائی کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی.آپ نے اپنے خطاب میں اسناد لینے والی ممبرات کو مبارک باد دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے اس چودہ روزہ تربیتی کلاس میں جو کچھ سیکھا ہے اس کو بھلائے نہیں اس کو دہرا ئیں اور ذہن نشین کریں بلکہ جن کو نہیں آتا اُن کو بھی سکھائیں اور بتائیں کیونکہ مومن کی صفت مِمَّا رَزَقْنهُمُ يُنفِقُونَ ہے جو علم خدا تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے جو عقل و سمجھ دی جو خوبی اور صلاحیت دی اس سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا ئیں.آپ نے مزید فرمایا کہ تربیتی کلاس میں جو تقاریر ہوئیں وہ صرف بہت اچھی کہہ کر سننے کیلئے نہیں بلکہ عمل کرنے کیلئے تھیں.آپ نے طالبات پر قرآنی علوم حاصل کرنے کیلئے زور دیتے ہوئے فرمایا کہ جو لفظی ترجمہ قرآن کریم کا آپ نے پڑھا ہے اس کی مدد سے اپنے طور پر روزانہ چند آیات ترجمہ سے پڑھنے کا اس میں اضافہ کریں کیونکہ آپ نے دنیا کو قرآن کریم پڑھانا اور عمل کرانا ہے.اگر خود ترجمہ نہ آتا ہوگا تو کیسے عمل کریں اور کرائیں گی.آپ نے ممبرات لجنہ پر زور دیا کہ وہ تقویٰ کی زندگی گزاریں کیونکہ ہر نیکی کی جڑ اور اصل تقویٰ ہے.آپ نے فرمایا تقویٰ ایمان کی اعلیٰ معراج نہیں بلکہ نیکی کی طرف یہ تو پہلا قدم ہے.آپ نے موجودہ نسل کی تعلیم و تربیت پر خصوصی زور دیا کہ احمدیت کی خاطر قربانی کا جذ بہ و محبت نئی نسل کے دلوں میں آپ نے پیدا کرنا ہے.آخر میں آپ نے کلاس کی تاریخی کامیابی پر اظہار مسرت کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ یہ نہ.

Page 914

خطابات مریم 889 زریں نصائح سوچیں کہ بس ہم نے یہ تربیتی کلاس لگالی اور شرکت کر لی کافی ہے.نہیں ! اب یہ تربیتی کلاس ہر سال پہلے سے زیادہ وسیع پیمانے پر لگائی جانی چاہئے اور نئے جوش ولولے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اس میں شریک ہوں.اس تقریب میں اسلام آباد سے آئی ہوئی عہد یداروں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اگر آپ اپنے طور پر تربیتی کلاس نہیں لگا سکتیں تو پنڈی کی تربیتی کلاس میں شریک ہو جایا کریں.روزنامه الفضل 13 ستمبر 1980ء)

Page 915

خطابات مریم 890 زریں نصائح افتتاح پہلی آل پاکستان لجنہ تھلیٹکس وٹورنامنٹ 1981ء تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ:.میں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ آج لجنہ کی پہلی کھیلوں کا افتتاح کرتی ہو آپ نے فرمایا کہ لجنہ مرکزیہ نے اس سال فیصلہ کیا کہ مسابقت کی روح کیلئے کھیلوں اور ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا جائے لیکن بجنات کی اکثریت نے کہا کہ یہ کھیلیں مارچ کی بجائے کسی اور مہینے میں رکھی جائیں کیونکہ ان دنوں کئی قسم کی مصروفیات کے باعث بچیاں زیادہ تعداد میں حصہ نہیں لے سکتیں اس لئے بہت کم لجنات کی طرف سے بچیاں اس سال شامل ہوئی ہیں.آپ نے فرمایا کہ آئندہ سال اجتماع کے موقع پر غور کیا جائے گا کہ کون کون سے دن زیادہ مناسب ہیں تا کہ بچیاں زیادہ سے زیادہ حصہ لے سکیں.حضرت سید ہ موصوفہ نے فرمایا کہ جس طرح روحانی ترقی کے لئے روحانی ریاضتوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح جسمانی نشو ونما کیلئے کھیلیں ضروری ہیں.جس طرح نما ز نظم وضبط اور اطاعت امام کا سبق دیتی ہے اسی طرح کھیل میں بھی نظم وضبط اور عہدیداران کی اطاعت کا مظاہرہ ہونا چاہئے تا ان کی ڈھال کے پیچھے آپ اپنے مقاصد کو جاری رکھ سکیں.آپ نے مزید فرمایا کہ خدا کرے کہ آج کا ٹورنامنٹ کامیاب ہو اور مثالی ہو.جس طرح ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دوڑ میں آگے ہو اسی طرح قرآن ، عبادت الہی اور مالی دوڑ میں بھی ایک دوسری سے سبقت لے جانے والی ہو.آج جو آغاز یہ کھلاڑی کر رہی ہیں مثالی ہو.خدا تعالیٰ آئندہ ہر سال بہتر سے بہتر انتظام کرنے اور انعقاد کرنے کی توفیق دے.(الفضل 12 اپریل 1981ء)

Page 916

خطابات مریم 891 زریں نصائح خواتین کی اصلاح کے دو راستے مؤرخہ 17 مارچ 1981 ء لجنہ اماء اللہ دار الصدر شرقی نمبر 1 اور 2 کا مشترکہ تربیتی جلسہ زیر صدارت محترمہ سیدہ صدر صاحبه لجنہ اماء الله مرکز یہ بر مکان محترم مولانا عبدالمالک خان صاحب ناظر اصلاح وارشاد منعقد ہوا.دونوں حلقوں کی خواتین و ناصرات نے کثیر تعداد میں شرکت کی.تلاوت قرآن کریم سے جلسہ کا آغاز ہوا بعد ازاں حضرت سیدہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے اپنے خطاب میں فرمایا :.میری پیاری بچیو اور بہنو! السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه آج آپ کا تربیتی جلسہ منعقد ہو رہا ہے جس کی اصل غرض یہ ہے کہ مائیں اور بچیاں جائزہ لیں کہ کیا ان کی تربیت اچھی ہو رہی ہے اگر نہیں تو پھر ہمیں اپنی تربیت ایسی کرنی ہوگی جس کی ہمارے خلفاء تاکید کرتے ہیں کیونکہ ایسی تقریریں اور جلسے منعقد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں جب تک ہم اپنی اصلاح نہ کریں.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں :.”ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کی ترقی حاصل ہو جائے گی.(الفضل 29 راپریل 1944ء) اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر اگر ہم اپنی تربیت اور اصلاح نہ کریں گی تو اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنے والی ہونگی.آپ نے فرمایا کہ اصلاح کے دو راستے ہیں.ایک صحیح علم دوسرے عزم.اگر صحیح علم ہمیں حاصل نہ ہو تو بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہیں.یہ اجلاس جلسے اس لئے منعقد کئے جاتے ہیں تا کہ صحیح علم سے ہماری غلط فہمیاں دور ہوں اور ہم اپنی اصلاح کی طرف توجہ کر سکیں.دوسرا یہ کہ ہم میں یہ عزم ہونا چاہئے کہ ہم ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم کریں گے جب

Page 917

خطابات مریم 892 زریں نصائح تک عمل کا ارادہ نہ کیا جائے اس وقت تک ان تقریروں کا کچھ فائدہ نہ ہوگا.آئندہ قوم کی تربیت مائیں ہی کر سکتی ہیں جب تک ماؤں کے اندر یہ جذ بہ وعزم نہ ہو کہ ہم اسلام واحمدیت کی خاطر اپنی جان، مال، اولا د اور وقت کی قربانی کریں گی اس وقت تک ہم اپنے بچوں کی صحیح تربیت نہیں کر سکتیں.آپ نے فرمایا:.اگر آپ چاہتی ہیں کہ حضرت اقدس کی پیشگوئیاں پوری ہوں اور اسلام ترقی کرے تو اپنے خلفاء کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرو.اس دور میں جب کہ دنیا مادہ پرستی کی طرف لوگوں کو بھینچتی چلی آ رہی ہے اور شیطان کا غلبہ ہے ہمیں چاہئے کہ ہم خود دنیا والوں کو اپنے اعمال واخلاق سے اپنی طرف کھینچیں تا کہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا میں بول بالا ہو.ہم اجلاس میں عہد اس لئے دُہراتے ہیں کہ ہم اپنا سب کچھ خدا اور اس کے رسول کی خاطر قربان کر دیں.اس لئے ہمارے قدم دین کی راہ میں کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹنے چاہئیں.پس بہت ضرورت ہے کہ اپنے بچوں کے اندر دین کا جذبہ اور شوق پیدا کریں.اصل تعلیم قرآن ہے.بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہماری لڑکیوں کو یہ نہیں پتہ کہ قرآن کی تعلیم کیا ہے.حضور فرماتے ہیں :.” جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے.(روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحه 26) ہمیں حضرت اقدس کی کتب کا مطالعہ کثرت سے کرنا چاہئے.اتنے خزانے بھرے ہوئے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں کہ اگر ہم ان پر عمل کریں تو احمدیت ترقی کر سکتی ہے اگر لجنہ کی عہدیدار اور ہم سب یہی کوشش کریں تو بہت جلدا سلام کو ترقی کرتے ہوئے ہم دیکھیں گے.بعد ازاں آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ ہم سب کو اپنے خلفاء کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلائے.(الفضل 22 / مارچ 1981ء)

Page 918

خطابات مریم 893 زریں نصائح افتتاح دوسری آل پاکستان لجنہ تھلیکس دوسری آل پاکستان لجنہ تھلیٹکس وٹورنا منٹ منعقدہ 13-14 فروری1982ء کے افتتاح کے موقع پر مہمان خصوصی حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ لجنہ مرکزیہ نے کھلاڑی لڑکیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.میں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ آج لجنہ کی دوسری سالانہ کھیلوں کا افتتاح کرتی ہوں.آپ نے فرمایا اس سال کی کھیلوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ سالانہ اجتماع کے موقع پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی بچیوں اور عورتوں کو صحت قائم رکھنے کے لئے تحصیلوں اور ضلعوں میں کلب قائم کر کے ورزش جسمانی اور کھیلوں کی طرف توجہ دلائی تھی.اسی کے تحت آج مرکزی سالانہ کھیلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے.گزشتہ سال ہماری پہلی کوشش تھی.اس سال گزشتہ سال کی نسبت کوشش میں اضافہ کیا گیا ہے امید ہے کہ آئندہ مزیدہ کوشش کریں گی.آخر میں آپ نے کھیلوں کے مقاصد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح روحانی ورزشوں میں نماز کے وقت انسان خدا تعالیٰ کے آگے سر جھکا دیتا ہے اسی طرح کھیل کے میدان میں بھی اطاعت کا عملی نمونہ دکھانا چاہئے.یہی سبق ہے جو کھیل کا میدان سکھاتا ہے تا آئندہ زندگی میں جب معاشرہ میں آپ ذمہ دار فرد ہوں گی اطاعت اور مکمل اطاعت کی تعلیم آپ کو مل چکی ہو.(مصباح مئی 1982ء)......

Page 919

خطابات مریم 894 زریں نصائح اختتامی خطاب بر موقع دوسری آل پاکستان لجنه تھلیٹکس وٹورنا منٹ 1982ء صدر صاحبه لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے پوزیشن حاصل کرنے والی کھلاڑی لڑکیوں میں انعامات تقسیم فرمائے اور اختتامی خطاب فرمایا جس میں آپ نے سب سے پہلے مقابلوں میں انعامات حاصل کرنے والی لڑکیوں کو مبارکبادی.بعد ازاں آپ نے فرمایا:.امسال حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد مبارک کے مطابق کھیلوں کا انعقاد کیا گیا ہے.اگر چہ ابھی پوری طرح صحیح مقصد حاصل نہیں ہوا تا ہم بچیوں کی کوشش سے ظاہر ہے کہ آئندہ مزید کوشش کر کے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں گی.بعد ازاں آپ نے وَلِكُلّ وِجهة هُوَمُوَفِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الخَيرات کی مختصر تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر انسان کا ایک مطمع نظر ہوتا ہے جسے حاصل کرنے کے لئے ہر انسان ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے.ہمارا نصب العین نیکیوں میں آگے بڑھنا ہونا چاہئے.کھیل کے میدان میں بھی حسن اخلاق کا مظاہرہ ہو اور نظم و ضبط کا ایک بہترین نمونہ قائم ہو.آخر میں آپ نے تمام کارکنات کا شکر یہ ادا کیا.(ماہنامہ مصباح مئی 1982ء)

Page 920

خطابات مریم 895 زریں نصائح جلسہ یوم مسیح موعود علیہ السلام لجنہ اماءاللہ ربوہ لجنہ اماء اللہ مقامی ربوہ کے زیر اہتمام جلسہ یوم حضرت اقدس علیہ السلام 23 / مارچ 1982 ء زیر صدارت حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ منعقد ہوا.جلسہ کے آخر میں آپ نے حاضر مبرات سے خطاب فرمایا.آپ نے حضرت اقدس کی آمد اور آغاز بیعت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے شرائط بیعت پر تفصیلی روشنی ڈالی اور بتایا کہ ان شرائط کا مقصد ایسی جماعت کا قیام تھا جو اپنے قول و فعل میں ایک ہو.آپ نے نصیحت فرمائی کہ عہد بیعت ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین رکھتے ہوئے اس کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق گزاریں اور کسی بھی حالت میں خدا تعالیٰ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں.خدا کے فضلوں کے مورد بننے اور نجات حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک بچے احمدی کی حیثیت سے اپنی زندگیاں قرآن کریم کے مطابق بنائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کریں.آپ پر درود بھیجتے رہیں.ہر قسم کی بدعات سے پر ہیز کریں.تکبر و نخوت سے بچیں اور عاجزی و انکساری کو اپنا شعار بنائیں ہر ایک سے ہمدردی و محبت کا سلوک کریں اور اپنے بچوں کو بھی یہی تعلیم دیں.(مصباح اپریل 1982ء) ☆

Page 921

خطابات مریم 896 زریں نصائح افتتاح تعلیم القرآن کلاس برائے طالبات میٹرک 23 /1اپریل کو حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے کلاس کی طالبات سے خطاب فرمایا :.آپ نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر ما یا گزشتہ سال لجنہ اماءاللہ مرکز یہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میٹرک کا امتحان دے کر فارغ ہونے والی طالبات کی کلاس لگائی جائے کیونکہ یہی وقت ہوتا ہے جب بچیاں کالج میں داخلہ سے پہلے فارغ ہوتی ہیں اور اس عرصہ میں وہ بنیادی دینی باتیں سیکھ سکتی ہیں تا کہ وہ کالج میں جا کر اپنے اوپر کئے جانے والے اعتراضات کا صحیح رنگ میں جواب دے سکیں.گزشتہ سال صرف ربوہ کی طالبات کی کلاس لگائی گئی تھی.اس سال مجلس شوریٰ میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ بیرون ربوہ کی طالبات کو بھی اس میں شامل کیا جانا چاہئے.چنانچہ اسی فیصلہ کے مدنظر امسال باہر کی طالبات بھی اس کلاس میں شرکت کر رہی ہیں.حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ مرکزیہ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علم حاصل کرنے کی بڑی تاکید فرمائی ہے.اس لئے میں بچیوں سے توقع کرتی ہوں کہ وہ اپنے وقت کا صحیح مصرف کریں گی اور وقت ضائع کرنے کی بجائے ذوق وشوق اور لگن سے علم حاصل کر کے اپنے اندر ایک نمایاں تبدیلی پیدا کریں گی.آپ نے اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا کہ آپ جب کلاس کے اختتام پر گھروں میں واپس جائیں تو آپ کے والدین اور لجنہ کی عہدیداران بھی آپ کے اندر پیدا شدہ اس تبدیلی کو محسوس کریں.آپ نے باہر کی طالبات کو نماز با جماعت کے التزام کی طرف بھی توجہ دلائی اور طالبات کو تلقین کی کہ ان کے ذہنوں میں جو سوال آئیں وہ بلا جھجک اپنے اساتذہ سے پوچھیں اور علوم سے اپنی جھولیاں بھر کر یہاں سے رخصت ہوں.اس خطاب کے بعد حضرت سیدہ موصوفہ نے کلاس میں کامیابی کے لئے اجتماعی دعا کروائی.(الفضل 29 اپریل 1982ء)

Page 922

خطابات مریم 897 زریں نصائح اختتامی خطاب تعلیم القرآن کلاس برائے طالبات میٹرک اختتامی خطاب میں آپ نے طالبات کو یاد دلایا کہ یہ تربیتی کلاس آج کے زمانہ کی ایجاد نہیں ہے بلکہ اس کا منبع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ذات اور آپ کا زمانہ ہے.مدینہ کے اطراف و جوانب سے وفود آپ کی ذات بابرکات سے فیضیاب ہونے کے لیے آتے رہتے.آپ کی ہر حرکت کا مشاہدہ کرتے اور پھر اس پر عمل پیرا ہو جاتے تھے علم کو یا د ر کھنے اور پھیلانے کا یہی ایک طریق ہے آپ نے طالبات کو تلقین فرمائی کہ وہ بھی واپس جا کر اپنی دوسری بہنوں کو دین کی باتوں سے آگاہ کریں آپ نے یہ بھی کہا کہ ان ایام میں آپ کے دلوں میں دین کی جو محبت پیدا ہوئی ہے وہ قائم رہنی چاہئے بلکہ اس میں اور جلا پیدا کریں.دینی علم کا حصول بہت ضروری ہے اور اصل اصولی علم قرآن کا ہے.آپ زیادہ سے زیادہ قرآن کے علم کو سیکھیں اور دوسروں کو سکھائیں آپ نے مزید فرمایا کہ انسان کی پیدائش کا مقصد خدا کا پیار حاصل کرنا ہے اور یہ پیار صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر ہی حاصل ہوسکتا ہے.کسی احمدی بچی کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہئے آپ نے طالبات کو بہترین عملی نمونہ پیش کرنے کی تاکید فرمائی کیونکہ کوئی قوم اس کے بغیر شاہراہ ترقی پر گامزن نہیں ہو سکتی اس دوران آپ نے ربوہ کی طالبات کو خصوصی توجہ دلائی کہ انہیں ہر لحاظ سے اپنا بہترین عملی نمونہ پیش کرنا چاہئے.(الفضل 20 مئی 1982ء)

Page 923

خطابات مریم 898 زریں نصائح دورہ اسلام آباد 13 اگست 1982ء کو اسلام آباد میں حضرت سیدہ موصوفہ نے اپنی تقریر میں سب سے پہلے آیت قرآنی كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ کی تلاوت فرمائی.پھر آپ نے خلیفہ وقت کی اطاعت وفرمانبرداری ، وفاداری، جماعت کا اتحاد اور آپس میں گھل مل کر رہنے کی تلقین فرمائی پھر تلاوت شدہ آیت کے مضمون کی نہایت دلکش اور پر اثر انداز میں وضاحت فرمائی اور حضرت خلیفۃ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خواہش اور فرمان کے مطابق ہر مبر لجنہ کو تاکید کی کہ وہ ہر وقت ، ہر موقع ، ہر گھڑی اصلاح وارشاد کے لئے اپنے آپ کو مستعد اور تیار رکھے.ہر ملنے والی غیر احمدی دوست کو سچے اسلام یعنی احمدیت کے متعلق کچھ نہ کچھ بتائے.چھوٹی چھوٹی تقاریب اور اجتماعات کا بندوبست کرنا چاہئے.مگر یہ اس وقت ممکن ہو گا اگر آپ مطالعہ کتب حضرت اقدس کو اپنا شعار بنائیں.خود بھی کتب سلسلہ کا مطالعہ کریں اور اپنے گھر اور زیر اثر لوگوں کو بھی تاکید کریں.تعلیم القرآن، فہم القرآن اور قرآن کریم پر عمل کرنے اور کروانے کی بھر پور کوشش کریں.قرآن کریم میں مندرج سات سو احکامات میں سے ہر ایک کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے نہایت تندہی فکر ولگن سے کوشش کریں.پہلے خود عبور حاصل کریں پھر حتی المقدور دوسروں کو بھی ذہن نشین کروائیں.(الفضل 25 ستمبر 1982ء) ☆☆.....☆

Page 924

خطابات مریم 899 زریں نصائح دورہ واہ کینٹ 14/اگست 1982 ء کو واہ کینٹ میں سپاسنامہ کے بعد سیدہ صدر صاحبہ نے بہنوں کو قیمتی نصائح سے نوازا.آپ نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.میری عزیز بہنو اور بچیو مجھے آپ لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی.اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہر انسان کا مقصدِ حیات ہے خود اس نے اپنا قرب حاصل کرنے کے لئے بڑا آسان اور سیدھا راستہ بتایا ہے اور وہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع.رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی ہمارے لئے نمونہ ہے.اگر ہم خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کر لیں تو ہماری زندگی بیکا نہیں جائے گی اس لئے ضروری ہے کہ قرآن پاک پڑھیں اس پر تدبر کریں.اُسوہ حسنہ پر چل کر دنیا کو اسلام کی اصل شکل دکھا دیں جیسا کہ پہلے اسلام غالب آ گیا تھا، وہ اب بھی غالب آ جائے گا.اپنے عہد بیعت کو یاد رکھیں اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ خدا کی بیعت کرتے ہیں اجلاسوں میں بیعت کے الفاظ دہرانے چاہئیں.انسانی فطرت بھول جاتی ہے اس لئے بار بار یاد کروانا چاہئے اور عہد کرنا چاہئے کہ ایک دوسرے پر بہتان نہیں باندھیں گی ، غیبت نہیں کریں گی ہماری پوری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم ہر ایک کے ہمدرد اور ہر ایک کے خیر خواہ ہوں.اپنا دائرہ خدمت وسیع کریں جو نعمت اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہے وہ دوسروں تک پہنچا ئیں.اپنے حسن سلوک اور خدمت خلق کا دائرہ وسیع کر دیں.جب لوگ یہ محسوس کریں گے کہ یہ ہمارے محسن ہیں تو محسن سے کوئی نفرت نہیں کرتا.اپنے عہد نامہ کو یا درکھیں خالی الفاظ ہی نہیں دُہرانے چاہئیں بلکہ اس پر عمل بھی کرنا چاہیئے جان و مال وقت اور اولاد کو قربان کرنے کے لئے تیار رہیں.اپنی مستیاں دور کرنی چاہئیں نو جوان بچیوں کو اپنے ساتھ کام پر رکھنا چاہئے تا کہ اگر کوئی ممبر کہیں چلی جاتی ہے یا فوت ہو جاتی ہے تو خلا پیدا نہیں ہو گا.آپ کی ذمہ داری اور صدر کی ذمہ داری الگ الگ

Page 925

900 زریں نصائح خطابات مریم نہیں ہے.ہر ایک اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھے لجنہ اماءاللہ کے قیام پر ساٹھ سال ہو گئے ہیں.اس عرصہ میں تین چار نسلیں گزر چکی ہیں.ہر ایک عورت کو قرآن پاک کا ترجمہ آنا چاہیے قرآن کے بغیر ترقی ممکن نہیں اگر قرآن کو چھوڑ دیں گے تو کس نعمت کو قرآن کے سامنے پیش کریں گی.قوموں کو مردوں کی نسبت ایک عورت سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے کیونکہ بچہ ماں سے ہی بہت کچھ سیکھتا ہے.ہمارا سب سے بڑا کام قرآن کریم کی تعلیم ہے.اگلی صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے.دین سیکھنے کے لئے ہر بچی قرآن پاک ترجمہ سے پڑھے اور روزانہ حضرت اقدس کی کتاب کے پانچ صفحے پڑھے اسی لئے کتابوں کے امتحان بھی لیے جاتے ہیں.ہر لجنہ بھی نگرانی کرے اور مائیں بھی اپنی بچیوں کی دینی تعلیم پر توجہ دیں.کیا آپ نہیں چاہتیں کہ غلبہ اسلام میں آپ کا حصہ ہو؟ خلافت عظیم الشان برکت ہے، بہت بڑا انعام ہے، بہت بڑی نعمت ہے، اس کو ہمیشہ اپنے ذہنوں میں رکھیں.خلافت کے دامن کو تھامے رکھیں.جماعت کے خلاف کوئی بات نہ سنیں اور خلیفہ وقت کی لمبی عمر اور غلبہ اسلام کے لئے ہر نماز میں دعا کریں.ہر حکم کو تسلیم کریں.خلیفہ وقت کی تحریک پر سب سے پہلے عمل کرنے والیوں میں سے ہوں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے میں اور میرا رسول غالب رہیں گے.آیئے ہم عہد کریں کہ جماعت کی ترقی میں پورے خلوص اور لگن کے ساتھ کام کریں گی اور قرآن کریم پڑھیں گی اور پڑھائیں گی.وہ دن جلد آئے جب ایک ہی جھنڈا ہوگا ایک ہی دین ہوگا صرف اورصرف اسلام.( الفضل 3 اکتوبر 1982ء)

Page 926

خطابات مریم 901 زریں نصائح دوسری سالانہ تربیتی کلاس لجنہ اماءاللہ راولپنڈی لجنہ اماء اللہ راولپنڈی کی دوسری سالانہ پندرہ روزہ تربیتی کلاس کے اختتامی اجلاس سے 15 اگست 1982 ء بروز اتوار دس بجے صبح حضرت سیدہ اُم متین صاحبہ نوراللہ مرقد ھالجنہ اماء الله مرکزیہ نے سورۃ ابراہیم کی پہلی آیت لف الر كِتَبُ أَنْزَلْنَهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (سورۃ ابراہیم :1) تلاوت فرمائی.ترجمہ: ” میں اللہ دیکھنے والا ہوں یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے تجھ پر اس لئے اُتارا ہے کہ تو تمام لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے آئے یعنی غالب اور تعریفوں والے خدا کے راستہ کی طرف.آپ نے فرمایا دنیا کی تعلیم کی روشنی اصل اور حقیقی روشنی ہونی چاہئے جو قرآن کریم کے علوم سیکھنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.آپ نے ممبرات لجنہ پر زور دیا کہ وہ بچیوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے کوشاں اور خواہشمند رہتی ہیں.اُن کی بچیاں فزکس، کیمسٹری، بیالوجی اور میتھیمیٹکس سب مضامین پڑھا اور سمجھ لیتی ہیں لیکن قرآن کریم کا ترجمہ اور علوم سکھانے کے وقت کہ دیتی ہیں کہ یہ بہت مشکل ہے اُن کے پاس وقت نہیں کہ وہ اس مشکل علم کو پڑھ سکیں.آپ نے فرمایا دنیا کے علوم بغیر قرآنی علوم کے بے کار اور بے فائدہ ہیں.آپ نے احمدی ماؤں کو تاکید فرمائی کہ اپنی بچیوں کی دینی تعلیم و تربیت پر بہت زور دیں کیونکہ انہی بچیوں نے آگے چل کر احمدیت کے لئے بہترین نسل پیدا کرنی ہیں.دعائیں کریں، دعا ئیں اور تربیت کریں کہ ہماری ہر نسل پہلی نسل سے آگے بڑھتی چلی جائے.آپ نے طالبات پر زور دیا کہ بار بار وہ ایسی تربیتی کلاسوں میں شرکت کریں تا کہ ان

Page 927

خطابات مریم 902 زریں نصائح کلاسوں سے حقیقی معنوں میں وہ فائدہ اُٹھا سکیں.آپ نے فرمایا کہ چند پاروں کا ترجمہ آ جائے تو پورے قرآن کریم کا ترجمہ بہت آسان ہو جاتا ہے.فرمایا کہ قرآن کریم نہیں پڑھو گی اُس کا ترجمہ نہیں سیکھو گی تو اس پر عمل کیسے کرو گی.قرآنی تعلیم بہت بابرکت ہے اس کے نورانی رستہ پر چلتے ہوئے تم عزیز وحمید خدا کا قرب حاصل کرسکو گی.آپ نے دعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ اس کلاس کو بہت کامیاب کرے اور وہ حقیقی مقصد حاصل ہو جو ان کلاسوں کے پیچھے ہے یعنی قرآن کریم سیکھنا سکھانا ، عمل کرنا ، کرانا.آپ نے ممبرات لجنہ کو خلافت کی برکات و اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ خلیفہ خدا تعالیٰ کا سب سے برگزیدہ بندہ ہوتا ہے.خدا تعالیٰ خود اس کو خلیفہ بنا تا ہے ہم جب تک اُس سے وابستہ ہیں خدا تعالیٰ کے انعامات اور افضال کے مستحق ہیں.آپ خلافت کے دامن کو مضبوطی سے پکڑ لیں.غلبہ اسلام کی شاہراہ پر خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قدم بقدم چلئے.خلیفہ کی دعاؤں کے ساتھ اپنی دعائیں شامل کیجئے کہ اے خدا مسیح محمدی کی اس چھوٹی سی جماعت کو تو نے عالمگیر غلبہ اسلام کی جو بشارتیں دی ہیں وہ ہمارے پیارے خلیفہ کے ہاتھوں پوری فرما.حضور کے سفر و حضر و صحت اور عمر کے لئے دعائیں کیجئے.آپ نے ممبرات لجنہ سے فرمایا کہ جوں جوں جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے پھیلتی جا رہی ہے نئے لوگ داخل ہو رہے ہیں جن کے ساتھ ساتھ غیر اسلامی رسمیں اور بدعتیں بھی آ رہی ہیں.اگر آپ اپنی اور بچیوں کی دینی تعلیم و تربیت سے غافل رہیں گی تو ان رسموں اور بدعتوں سے اسلامی معاشرے کو کیسے صاف کر سکیں گی.(الفضل 1982ء)

Page 928

خطابات مریم 903 زریں نصائح صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا مجالس عاملہ اسلام آباد ضلع راولپنڈی سے خطاب لجنہ اماءاللہ راولپنڈی ، اسلام آباد اور ضلع راولپنڈی کی مجالس عاملہ سے حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے 15 اگست 1982 ء دو پہر مسجد نور را ولپنڈی میں خطاب فرمایا.آپ نے فرمایا کہ عہدیدار صدر ہو یا سیکرٹری مرکز کے منظور کئے گئے ہوتے ہیں.معروف کاموں میں اُن کی اطاعت ضروری ہے ان کی اطاعت مرکز کی اطاعت ہے.آپ نے فرمایا کہ کام ٹیم ورک کے تحت ہونا چاہئے.آپ نے فرمایا اکیلی صدر اورا کیلی سیکرٹری کچھ بھی نہیں کر سکتیں جب تک سب عہدیدارا اپنی ذمہ داریاں محسوس نہ کریں.مشترکہ تعاون اور باہمی پیار و محبت سے اسلام اور احمدیت کی ترقی و بہبود کے لئے لجنہ کی تنظیم کے تحت کام کریں.آپ نے اچھے عہدیدار کی خصوصیت بتاتے ہوئے تلقین فرمائی کہ خود ہی کام کرتے جانا کوئی خوبی نہیں.کام دوسرے عہدیداروں کو بھی سکھائیں نئی نسل کی جوان بچیوں کو جنہوں نے آگے چل کر عظیم ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں کام سکھائیں تا کہ اچھی عہد یدار جب بوڑھی ہو یا اُس شہر سے تبدیل ہو جائے تو کام میں تعطل پیدا نہ ہو بلکہ زیر تربیت اُس کام کو سنبھالنے کے قابل ہو جائے.آپ نے عہدیداروں پر زور دیا کہ تعلیم القرآن کا جس قدر کام وہ کر سکتی ہیں ہر حلقہ میں پوری ذمہ داری سے کریں کیونکہ یہی اصل چیز ہے آپ نے فرمایا لجنہ کے مختلف کاموں کی مصروفیت کے باوجود وہ اب تک سینکڑوں لڑکیوں کو قرآن کریم اور ترجمہ پڑھا چکی ہیں.اصلاح وارشاد کی سیکرٹریوں کو فرمایا کہ وہ اپنا علم وسیع کریں تا کہ بنیادی اختلافی مسائل ممبرات کو سمجھا سکیں.خود بھی تبلیغ کریں اور ممبرات کو بھی تبلیغ کے لئے تیار کریں اور اس کے لئے

Page 929

خطابات مریم 904 زریں نصائح اپنا دائرہ وسیع کریں.غیر از جماعت مستورات سے میل جول رکھیں اپنے عمدہ نمونے اور اخلاق سے اُن پر اچھا اثر ڈالیں.بُرے اثرات کو قبول نہ کریں.حضرت سیدہ موصوفہ نے سیکرٹریان کو تاکید کی کہ وہ بد رسومات کے خلاف جہاد کریں اور نوجوان نسل کی تربیت کی طرف خاص زور دیں.اجلاسوں میں حاضری کم ہونے کی شکایت عمدہ اچھے پروگرام بنانے اور اپنے حلقہ کی ممبرات کے دکھ سکھ میں ساتھ دینے سے دور کی جا سکتی ہے اس کے علاوہ ہر کام کے لئے دعا کریں پھر یقیناً کامیابی ہوگی.حضرت خلیفہ امسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیر کی ہر تحریک اور آپ کی ہر آواز پر عمل کریں اور کرائیں.( الفضل 3 اکتوبر 1982ء).......☆

Page 930

خطابات مریم 905 زریں نصائح صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا دورہ گجرات لجنہ اماء اللہ ضلع گجرات کی شدید خواہش کے پیش نظر محترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 16-15 نومبر کو ضلع گجرات کے دورہ پر تشریف لے گئیں.تلاوت اور عہد دہرانے کے بعد آپ کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا گیا.اس کے بعد محترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے خطاب فرمایا.آپ نے تربیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور ممبرات کو قیمتی نصائح سے نوازا.آپ نے فرمایا ہر احمدی عورت کو اپنا مقام پہچاننا چاہئے اپنے علم کو بڑھاکر تبلیغی جہاد میں حصہ لینا چاہئے اس سال سید نا حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیر نے تحریک جدید دفتر سوم کی ذمہ داری لجنہ اماءاللہ پر ڈالی ہے ہر احمدی عورت کو اس ذمہ داری کو بڑے اچھے طریق سے ادا کرنا چاہئے آپ نے اس بات پر خوشنودی کا اظہار کیا کہ بہنوں نے جلسہ کی کارروائی کو نہایت خاموشی سے سنا اور جلسہ سالانہ کے موقع پر بہنوں کو اسی طرح خاموشی سے تقریر کو سننا چاہئے جو بڑی محنت سے تیار کی جاتی ہے.(الفضل 20 / دسمبر 1982ء)

Page 931

خطابات مریم 906 زریں نصائح دورہ جہلم سیده مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ 17 /نومبر 1982ء کو تربیتی دورہ پر جہلم تشریف لے گئیں.آپ نے اپنے خطاب میں خواتین کو بیش قیمت نصائح سے نوازا اور جہلم شہر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہ سر زمین ہے جس نے حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے قدم چومے تھے.جب حضرت اقدس یہاں تشریف لاتے رہے تو سینکڑوں مردوں اور عورتوں نے بیعت کا شرف حاصل کیا جہلم شہر میں آپ کے خلفاء بھی تشریف لاتے رہے.سیدہ موصوفہ نے فرمایا کہ یہ تین شہر ان تینوں شہروں میں سیالکوٹ ، جہلم اور سرگودھا شامل ہے جن کے متعلق حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان کے رہنے والوں کا رحجان احمدیت کی طرف ہے.اس لئے یہاں تبلیغ ہونی چاہئے.اس تبلیغی جہاد میں پوری مستعدی سے حصہ لیں.آخر میں آپ نے بدعات و رسوم کو ترک کرنے کی تلقین فرمائی (الفضل 20 دسمبر 1982ء)......

Page 932

خطابات مریم حلقہ لنڈن 907 دورہ برطانیہ میں ممبرات کو نصائح آپ 7 جون 1983 ء کو اس حلقہ میں تشریف لا ئیں.زریں نصائح آپ نے ایڈریس کے جواب میں فرمایا یہ صرف آپ کی ہی نہیں میری بھی خواہش اور تمنا تھی کہ میں اپنی پیاری بہنوں اور بچیوں سے ملوں.سوخدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے میری خواہش پوری کی.آپ نے بتایا کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اطاعت کرنا سیکھیں جب کہ قرآن کریم میں آیا ہے فاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله - کہ اگر میرا پیار چاہتے ہو تو میری اور میرے رسول کی پیروی کرو پس جو خدا کو پیار کرتا ہے وہ اس کے رسول کی پیروی کرے گا.اس طرح وہ ان سب احکامات پر عمل کرے گا جو ہمارے رسول نے ہمیں بتائے اور یہی اطاعت اسے خدا تعالیٰ کا پیار عطا کرے گی اس ضمن میں علم سیکھنا بھی بہت ضروری ہے.سومیری یہ نصیحت ہے کہ علم سیکھیں اور دوسروں کو سکھائیں مزید بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تعلیم ہمیں دی وہ اسلام ہی کی تعلیم ہے پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اس تعلیم پر عمل کرتے ہوئے بچے احمدی بنیں.کیونکہ علم بغیر عمل کے بیکار ہے اپنی سب سے پہلے اصلاح کریں.آخر میں فرمایا کہ ایک دوسرے سے تعاون کرنا سیکھیں.کیونکہ جماعت کی ترقی کا راز اسی میں مضمر ہے.مدل سیکس لنڈن ( 8 جون 1983ء) تشہد وتعوذ کے بعد آپ نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت فرمائی اور فرمایا ! اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.

Page 933

خطابات مریم 908 زریں نصائح كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ کہ تم لوگوں کے لیے بہترین امت قرار دیئے گئے ہو ہر وہ چیز جس میں کسی قسم کی تکلیف کا پہلونہ ہوا سے خیر کہتے ہیں.پس ہر احمدی مسلمان کو مجسم خیر ہونا چاہئے اسلام نے بچے مسلمان کی تعریف.المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسانِهِ وَيَدِهِ کہہ کر کی ہے.سچا مسلمان وہ ہے جس کے زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے.اس میں دو باتوں کی طرف نشاندہی کی گئی ہے ایک تو داعی الی الخیر بننا اور دوسرے برائی سے روکنا.پس برائیوں کا قلع قمع کرنا اور مجسم خیر اور مجسم خیر و برکت بن جانا ایک احمدی خاتون کا فرض ہے اور اسی کی تربیت ہونی چاہئے کہ آپ کے وجود سے خیر و برکت کے چشمے نکلیں.آپ سب کو چاہئے کہ آپ اسلامی تاریخ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے آپ کے اخلاق سے آگاہی حاصل کریں آپ اس وقت تک عمل نہیں کر سکتیں جب تک صحیح آگا ہی نہ ہو، اپنی دینی تعلیم بہتر کریں اور اپنی بچیوں کو بھی اس طرف متوجہ کریں کیونکہ اگر ایک نسل میں کمزوری آجائے تو قربانیوں کا تسلسل قائم نہیں رہتا.اب پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کے چمن میں بہار آنے والی ہے بلکہ آثار نمودار ہو چکے ہیں جس کی ایک مثال سپین کی مسجد کے افتتاح کی صورت میں نمودار ہوئی ہے.کیا یہ ایک دلیل اس بات کے لیے کافی نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بشارتیں اپنے وقت پر ضرور پوری ہونگی لیکن اگر کوششوں میں ہمارا دخل نہیں ہوگا تو ہم بہت بد قسمت ہونگے.اپنی اصلاح کریں اپنی اولادوں کے دل میں خدا اور اس کے رسول کی محبت پیدا کر دیں.ان کے دل میں یہ احساس پیدا کر دیں کہ ہم دوسروں سے مختلف ہیں ہم نے صرف اسلام کے لیے مرنا جینا ہے.اگر یہ چیزیں سامنے رکھ کر پروگرام بنا ئیں تو یقینا اللہ کا فضل آپ کے شامل حال ہو گا.اسلام کا پیغام دوسروں تک پہنچانا صرف صدر اور سیکرٹری کا کام نہیں آپ کو اپنے فرائض سمجھنے چاہئیں.آپ کا سب سے بڑا فرض اسلام کی تبلیغ ہے اس کے لیے ہمیشہ مد نظر رکھیں کہ آپ کے قول اور فعل میں تضاد نہ ہو آپ خود اپنا نمونہ پیش کریں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پردہ کے متعلق خاص طور پر ہدایت فرمائی ہے بہت سی عورتیں جو

Page 934

خطابات مریم 909 زریں نصائح پہلے پر دہ نہیں کرتی تھیں اب کرنے لگ گئی ہیں لیکن زیادہ خوشی اس وقت ہوگی جب یہ رپورٹ ہوگی کہ 100 فی صد عورتیں پردہ کرتیں ہیں.اسلام کی تعلیم عالمگیر تعلیم ہے جب آپ دعوی کرتی ہیں کہ قرآن کے ہر حکم پر عمل ضروری ہے آپ کو اپنی زندگیوں کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ آیا ہم پورا عمل کر رہی ہیں یا نہیں.قرآن کریم کا مطالعہ کریں ترجمہ و تفسیر سے آگاہی حاصل کریں.خدا کرے کہ وہ دن جلد آئے جب اس سارے ملک میں اسلام کا جھنڈا لہرا رہا ہو اور ہر طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی آوازیں آرہی ہوں دعا ئیں بھی کریں اس لیے کہ یہ کوئی معمولی کام نہیں.یہی مقصد لے کر ہماری جماعت کھڑی ہونی چاہئے اسی مقصد کے لیے تنظیمیں بنائیں جارہی ہیں اور اسی کے لیے مبلغین بھیجے جارہے ہیں تنظیمیں اس وقت تک کام نہیں کرسکتیں جب تک ہم میں سے ہر ایک اس کے لیے نہ کھڑا ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے مقاصد میں کامیاب کرے.کرائڈن 9 جون 1983 ء کو لجنہ کرائڈن کے خطاب میں پیش کردہ مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے فرمایا کہ تربیت اولاد کی ذمہ داری نہ صرف ماں پر عائد ہوتی ہے بلکہ باپ پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے مردوں کو اپنے اہل پر نگران بنایا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمُ من النار کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچالو.یعنی ہر اس آگ سے بچا لو جو انسان کی اخلاقی اقدار کو تباہ کرنے والی اور مذہب سے دور لے جانے والی ہے.فرمایا ہمارے ارد گرد جو بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں اپنے عیال کو ان بیماریوں سے بچائیں اور ان کے دلوں میں اللہ رسول اور اپنے مذہب اسلام کی محبت پیدا کر یں.خواہ کتنی بھی مصروفیت کیوں نہ ہو بچوں کی تربیت کے لیے وقت ضرور نکالیں.

Page 935

خطابات مریم 910 زریں نصائح حلقہ کنگسٹن 9 جون 1983ء حلقہ کی رپورٹ پیش کرنے کے بعد آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ جس محبت اور خلوص سے آپ نے مجھے اپنے حلقہ میں بلایا ہے.مجھے اس کی بڑی خوشی ہے آپ نے مزید فرمایا کہ میں جس عہدے پر ہوں جس کا ذکر محترمہ ناصرہ ندیم صاحبہ نے اپنی نظم میں کیا ہے میں اپنے آپ کو اتنا اونچا نہیں سمجھتی اور نہ ہی مجھ میں اس عہدے کو سنبھالنے کی ہمت تھی.یہ سب حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی کوششوں کا نتیجہ ہے انہوں نے ہی مجھے یہ سب کام سکھایا.آپ نے قرآن کریم کی ایک آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے فرما یا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مومنو! کیا میں تمہیں ایسی تجارت نہ بتاؤں جو تمہیں عذاب الیم سے نجات دلائے.پس اس تجارت سے مراد قربانی ہے یہ قربانی کئی قسم کی ہوتی ہے جن میں جان کی قربانی ، وقت کی قربانی ، مال کی قربانی اور اولاد کی قربانی شامل ہے.انہی قربانیوں سے اسلام پھیلے گا.آپ نے فرمایا کہ ہمارے پیش نظر ہمیشہ ہر وقت آنحضرت کا اسوہ حسنہ ہونا چاہئے کیونکہ قرآن پاک میں سے جو احکام بتائے گئے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر خود عمل کر کے دنیا کے سامنے ایک مثال قائم کر دی.قرآن کریم میں 700 احکامات ہیں جن پر عمل کرنا ہمارا فرض ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے ایک حکم کی بھی نافرمانی کی اس پر جنت کا دروازہ بند ہو جاتا ہے ہم نہ جانے دن میں کتنے احکام توڑتے ہیں اور یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ ہمیں قرآن پاک کا ترجمہ نہیں آتا پس ہمیں اس کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے اور اپنی زندگیاں اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں تا کہ ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے اور سب کی زبان پر ایک ہی کلمہ ہو اور وہ لا اله الا الله محمد رسول اللہ ہو.حلقہ ہڈرزفیلڈ 10 جون 1983ء ہڈرز فیلڈ میں تشریف لائیں تلاوت اور نظم کے بعد درج ذیل خطاب فرمایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کتاب یعنی قرآن کریم ہم نے نازل کی ہے اور اس کے نازل

Page 936

خطابات مریم 911 زریں نصائح کرنے کی غرض یہ ہے کہ یہ کتاب انسان کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتی ہے اور روشنی کا راستہ وہ ہے جو ہمارے رب کا راستہ ہے اسی طرح جب ہم تاریخ اسلام پر نظر ڈالتے ہیں تو بڑی واضح بات یہ نظر آتی ہے کہ بیشک مسلمان قرآن کریم پر عمل کرتے رہے وہ دنیا کے لیے ایک نمونہ بنے رہے.کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ایک دستور زندگی اور ایک ایسا طریق جس پر عمل کر کے ہماری زندگی سنور سکتی ہے.پس اس ضمن میں ہمیں خاص طور پر قرآن کریم اور اس کا ترجمہ پڑھنے کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے.کیونکہ اس دوڑ میں جو پیچھے رہ جائے گا اس کے لیے آگے ترقی کا اور کوئی راستہ نہ ہوگا کیونکہ قرآن کریم کی تعلیم کے بغیر کوئی انسان روحانی ترقی نہیں کر سکتا.مسلمانوں نے جب تک قرآن سے وابستگی رکھی انہوں نے دنیا میں بہت جگہ حکومت کی لیکن جب قرآن کو پس پشت ڈال دیا وہ تنزل میں گر گئے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا کہ آپ پھر سے اسلام کی حکومت کو قائم کریں اور اسلام کو زندہ کر کے شریعت محمدی کو دنیا کے کونوں میں پھیلا دیں.پس اگر آپ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنا چاہتی ہیں تو اپنے نفوس کا جائزہ لیں اپنی کمزوریوں کو ختم کریں اور عزم کے ساتھ احکام خداوندی پر عمل کریں تا کہ احمدیت کی ترقی میں ہمارا نمایاں حصہ ہو.آمین حلقہ ساؤتھ فیلڈ 11 جون کو حلقہ ساؤتھ فیلڈ میں تشریف لائیں چونکہ رمضان کا مہینہ تھا اس لیے افطاری کا پروگرام رکھا گیا تھا.حلقہ کی طرف سے ایڈریس پیش کیے جانے کے بعد آپ نے خطاب فرمایا.چونکہ یہ ماہ رمضان ہے اس لیے اس وقت میں سورۃ اخلاص کی تشریح آپ کے سامنے پیش کروں گی.چنانچہ آپ نے سورۃ اخلاص کی تلاوت کے بعد اس کا ترجمہ بیان کیا اور پھر تشریح بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ سورۃ اپنے معانی کے لحاظ سے قرآن مجید کا ثلث ہے کیونکہ اس میں سب سے اہم چیز تو حید بیان کی گئی ہے جیسا کہ اس کے معانی میں بتایا گیا ہے کہ اللہ ایک ہے.

Page 937

خطابات مریم 912 زریں نصائح اللہ بے نیاز ہے.نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ ہی اس کا کوئی باپ ہے اور کوئی اس کی برابری کرنے والا نہیں ہے پس یہی تو حید ہے اور اصل چیز ہے توحید کا قیام.اب اگر ہم اس کا کوئی شریک ٹھہراتے ہیں تو یہ شرک ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن سب گناہ بخش دیئے جائیں گے سوائے شرک کے.پس شرک بہت بڑا گناہ ہے جیسے بعض لوگ قبروں پر جا کر دعائیں مانگتے ہیں، چڑھاوے چڑھاتے ہیں ہنتیں مانگتے ہیں کہ اس طرح ہماری مرادیں پوری ہونگی.سو یہ بہت بڑا گناہ ہے اور یہی شرک ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور سے کچھ مانگا جائے.ایک فوت شدہ انسان کسی کو کیا دے سکتا ہے جبکہ ہم دن میں پانچ بار تو زبان سے یہ کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے سب قدرت اس کے ہاتھ میں اور پھر شرک بھی کرتے ہیں پس ہمارے قول اور عمل میں تضاد نہیں ہونا چاہئے اور ہمیں ہر وقت یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہم اسی وحدہ لاشریک کے آگے سر جھکا ئیں تا کہ اس دنیا کے ساتھ ساتھ ہماری عاقبت بھی سنور جائے.آمین حلقہ انر پارک روڈ 12 جون 1983 ء سیدہ صدر صاحبہ اس حلقہ میں تشریف لائیں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا کہ مجھے یہاں آکر بہت خوشی ہوئی ہے بے شک یہ حلقہ چھوٹا ہے لیکن اچھا کام کر رہا ہے سو میں جہاں بھی جاتی ہوں ہر جگہ میرے ذہن میں ایک ہی نقشہ آتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو آپ اکیلے تھے دوستوں اور رشتہ داروں نے بھی ساتھ نہ دیا.لیکن بعد میں آپ کو ایسے غمخوار ملے جن کی مثال نہیں ملتی اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ کی آواز دنیا کے ہر کونے اور خطے میں گونج رہی ہے.مجھے وہ وقت بھی یاد آ رہا ہے جبکہ میں 1955ء میں حضرت مصلح موعود کے ساتھ یہاں آئی تھی اس وقت یہاں تین یا چار عورتیں تھیں آج خدا کے فضل سے کافی بڑی لجنہ قائم ہے لجنہ کے کئی حلقے ہیں اور میں سمجھتی ہوں کہ عورتوں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ گھروں میں اسلامی ماحول قائم کریں اور بچوں کے اندر مذہب سے محبت پیدا کریں.

Page 938

خطابات مریم 913 زریں نصائح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا کریں تا کہ آپ کی اولادیں نیک اور دیندار بنیں جس طرح ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلتا ہے اس طرح اگلی نسل نے پوری ذمہ داریاں اُٹھانی ہیں پس میری دعا ہے کہ آپ کی گودوں میں پلنے والے بچے قاسم اور طارق کی طرح اور صحابہ کی طرح جماعت کی خدمت کرنے والے اور زندگیاں وقف کرنے والے بنیں اور آپ ایسے مجاہد اپنی گودوں میں پروان چڑھائیں.آمین یو کے 83-1982ء 12 جون 1983ء کو حضرت سیدہ چھوٹی آپا صاحبہ نے لجنہ یو.کے کی ممبرات سے اپنے خطاب میں لجنہ اور ناصرات کو قرآن کریم سیکھنے سکھانے کی نصائح فرمائیں اور فرمایا کہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے ارشادات کے مطابق داعی الی اللہ بنیں اور وہ سارے اوصاف اپنے اندر پیدا کریں جو ایک داعی الی اللہ میں ہونے چاہئیں.آپ نے فرمایا کہ لجنہ صرف صد رسیکرٹری کا نام نہیں نہ یہ ہے کہ صرف چند بہنوں نے کام کرنا ہے لجنہ آپ سب کا نام ہے آپ سب نے مل کر کام کرنا ہے آپ نے امام وقت کی اطاعت پر بڑا زور دیا اسی طرح جتنے اولی الامر ہیں ان کی اطاعت کی تلقین فرمائی.آپ نے کہا پیشگوئیوں سے پتہ چلتا ہے کہ اگلی صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے جب کثیر تعدا دلوگ اسلام کے دامن میں پناہ ڈھونڈیں گے اور اسلام قبول کریں گے تو وہ لوگ بھی تیار ہونے چاہئیں جو ان کی تربیت کر سکیں.دوسرے ترقی کا معیار یکساں ہونا چاہئیے چندہ کے لحاظ سے قربانی کے لحاظ سے تقویٰ کے لحاظ سے نیز ہر احمدی کو خود اپنی بنیادی تعلیم سے واقفیت ہونی چاہئے.تا کہ وہ ہر اعتراض کا جواب دے سکے.آپ کی لجنہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے کام کے لحاظ سے بھی باقی بجنات کے لیے نمونہ ہونا چاہئے ہر احمدی عورت کو سلسلہ کے لیے ایک مفید اور کارآمد وجود بنائیں مل کر کام کرنے کی کوشش کریں.حلقہ ویسٹ ہل 13 جون 1983ء کو اس حلقہ میں تشریف لائیں سورۃ حشر کی تلاوت کی گئی آپ نے اس

Page 939

خطابات مریم 914 زریں نصائح آیت کی تشریح کو لے کر نصیحت فرمائی کہ انسان کو ہر وقت یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اس نے آخرت کے لیے کیا سامان کیا ہے اور اپنے لیے کیا زاد راہ تیار کیا ہے.اس لیے عبادت الہی کی طرف خاص توجہ دی جائے اور عبادت بھی صحیح رنگ میں جوانی میں کی جاتی ہے کیونکہ بڑھاپے میں قومی رہ جاتے ہیں تو عبادت صحیح رنگ میں نہیں کی جاسکتی.پس ہر احمدی بہن اس چیز کو مدنظر رکھے تو ہماری زندگیاں جنت کا نمونہ بن سکتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین اس کے علاوہ بچوں میں بھی شروع سے تقویٰ پر قائم رہنے اور دین کی باتوں پر چلنے کی تلقین کرتی رہا کریں.تا کہ ان کی تربیت صحیح رنگ میں ہو سکے.والتهم سئو 14 / جون 1983 ء کو والتھم سٹو کے ایک اجلاس میں سپاسنامہ کے بعد حضرت سیدہ چھوٹی آپا صاحبہ نے خطاب فرمایا آپ نے سورۃ توبہ کے رکوع نمبر 9 کی آیات تلاوت فرمائیں اور ان کا ترجمہ بھی بتایا.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قربانیوں کا ایک معیار قرآن مجید میں مقرر فرمایا ہے اور سورۃ تو بہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی تو مومنوں سے کہہ دے کہ تمہارے باپ دادے، تمہارے بیٹے ، تمہارے خاوند ، جو مال کماتے ہیں وہ مال خدا کے رستہ میں جہاد کرنے کی نسبت تمہیں زیادہ پسند ہیں تو تم انتظار کرو.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اپنے فیصلہ کو ظاہر کر دے یہ وہ معیار ہے جس پر آپ کی قربانیاں پر کھی جائیں گی.آپ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام کا مطلب ہی یہ ہے کہ آئندہ وہ ہر بات پر خدا اور اس کے رسول کو افضل سمجھے گا.ہر نیک کام کے لیے ہمہ تن گوش رہے گا اور پھر اسی طرح ہر احمدی جب بیعت کرتا ہے تو یہ عہد کرتا ہے کہ ہر کام میں مکمل اطاعت کرے گا.آپ نے بچیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ بچے اپنے ماں باپ اور بڑوں کا کہنا اس لیے مانتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ان کی بھلائی چاہتے ہیں اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ساری انسانیت کی بھلائی کے لیے آئے تھے.

Page 940

خطابات مریم 915 زریں نصائح اس ملک میں رہتے ہوئے آپ کا اولین فرض یہی ہے کہ آپ اپنے بچوں کو احساس ن دلائیں کہ انسانیت کے سب سے بڑے محسن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو تعلیم آپ نے دنیا کے سامنے پیش کی وہ ہر لحاظ سے جامع اور مکمل تھی.جتنی بچوں کو دین سے واقفیت ہوگی اتنا ہی ان میں شوق پیدا ہو گا.جوانی میں انسان میں زیادہ کام کرنے کی لگن ہوتی ہے اور ہمت ہوتی ہے آپ جو کام بھی کریں اس کے لیے پوری کوشش کریں جب تک آپ کوشش نہیں کریں گی کام میں کامیابی ممکن نہیں.دنیاوی امتحانوں میں بھی جب تک آپ محنت اور کوشش نہیں کرتیں اس وقت تک امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکتیں خدا تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ ہم نے دین کو آسان بنایا ہے یہ خدا تعالیٰ کا دعوی ہے آپ بچپن سے ہی مذہب سیکھنے کی کوشش کریں لیکن ہر کوشش کے ساتھ تد بیر ضروری ہے اور تدبیر کے ساتھ دعا کرنی ضروری ہے پس کوشش اور دعا کے ساتھ کامیابی حاصل ہوتی ہے.ہمارا سب کا مقصد ایک ہی ہے دنیا کے کسی بھی خطہ میں رہنے والی عورت کا مقصد یہی ہے کہ اس نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقصد بھی یہی تھا کہ اسلام کا جھنڈا دنیا پر لہرائے.آپ کو جو نعمت خدا تعالیٰ نے دی ہے اس نعمت سے دنیا کو روشناس کروا ئیں اور پھر آپ پر بڑی ذمہ داری بچیوں کی تربیت ہے اگر اس وقت بچیوں کی طرف سے بے توجہی کی تو ڈر ہے کہ ترقی رک نہ جائے.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ فرمایا ہے کہ زمین و آسمان تو ٹل سکتے ہیں لیکن خدائی وعدے نہیں مل سکتے.اگلی صدی انشاء اللہ اسلام کی فتح کی صدی ہوگی اس لیے جتنا ممکن ہو سکتا ہے کوشش کریں اور دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ ہمیں دین اسلام کے لیے زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین لجنہ بریڈ فورڈ آپ 4 اگست 1983ء بریڈ فورڈ بیت الحمد مشن ہاؤس تشریف لائیں یہاں پر زیادہ تعداد ان بہنوں کی تھی جنہوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ حضرت آپا جان کو دیکھا تھا.

Page 941

خطابات مریم 916 زریں نصائح بعد ازاں آپ نے اپنے خطاب میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا اس زندگی کے سلسلہ کو جاری رکھنے کا مقصد یہ ہے تا وہ تمہیں پر کھتا رہے کہ کون اچھے کام کرتا ہے اور کون بُرے.یہ دنیا انسان کے لیے دارالعمل ہے جس کا نتیجہ خدا تعالیٰ تمہیں آخرت میں بتائے گا.جو عمل کے میدان میں پیچھے رہ جائے گا خدا کے پیار سے محروم رہے گا.ہزاروں درود و سلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جن کے توسط سے ہمیں اسلام جیسی نعمت ملی اور ہزاروں درودوسلام حضرت مسیح موعود پر جنہوں نے اسلام کے غلبہ کی مہم دوبارہ شروع کی اس کے بعد ہمیں خلافت جیسی نعمت ملی.جس کی برکات ہمارے سامنے ہیں.برطانیہ چونکہ تثلیث کا گڑھ تھا جس کی پارلیمنٹ میں اسلام کے خلاف سکیمیں بنائی گئیں کہ نعوذ باللہ مکہ پر صلیب گاڑ دینے کا وقت دور نہیں اور یہ کہ تھوڑے ہی عرصہ میں سارا ہندوستان عیسائی بنالو اس کا مقابلہ صرف اور صرف حضرت مسیح موعود اور آپ کی جماعت نے کیا آپ نے بہنوں کو توجہ دلائی کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں.دین کی خدمت کریں عورتوں اور بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں عمل کے لیے علم کا ہونا بہت ضروری ہے ، قرآن کریم سب سے بڑا خزانہ ہے اسے پڑھیں اور ترجمہ سیکھیں.حضرت مسیح موعود کی کتب پڑھیں.سلسلہ کا لٹریچر اور خلفاء کی کتابیں ہیں ان سب کو پڑھیں اور اپنی بچیوں کو پڑھائیں آپ نے عورتوں کو پردہ کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ یہ حکم صرف عرب یا پاکستان والوں کے لیے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لیے آیا ہے آپ نے اطاعت کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صحابی کی مثال دی جو حضور کے اس حکم پر کہ بیٹھ جاؤ گلی میں ہی بیٹھ گئے.5 اگست لجنہ اماءاللہ گلاسگو کی ممبرات سے خطاب آپ نے اپنے خطاب میں اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ مجھے سب ممبرات سے ملکر بہت خوشی ہوئی ہے اور خاص طور پر ان ممبرات سے جنہوں نے مجھے ابھی تک دیکھا بھی نہ تھا حضرت مسیح موعود کی دعا ئیں آج میں اپنی آنکھوں سے پوری ہوتی دیکھ رہی ہوں دنیا کے کونے کونے میں جماعت احمدیہ کے مشن آباد ہیں جن میں سے آپ بھی ہیں.

Page 942

خطابات مریم 917 زریں نصائح اسلام کا پیغام گھر گھر پہنچانا آپ سب کا فرض ہے اچھے اور نیک عمل کریں قرآن کریم خود پڑھیں اور سیکھیں اپنے بچوں کی صحیح طور پر اسلامی اصول کے مطابق تربیت کریں انہیں اُردو سکھائیں.اپنی زبان کا سیکھنا بہت ضروری ہے.قرآن کریم کو صحیح پڑھنا اور سیکھنا بھی بہت ضروری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام بصورت نظمیں اپنے بچوں کو سکھائیں ان پر عمل کرنے کے لیے کیسٹ تیار کریں تا بچے گھر پر ہی سیکھ لیں اس امر کے.لیے عہدیداران کی مدد کریں ہر ایک کا صح نظر ایک ہی ہو.مل کر کام کرنا.اختلاف رائے ضرور ہو سکتا ہے لیکن آپ سب میں کام کرنے میں سبقت کی روح ہونی چاہئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو وعدہ جات کیسے ہیں ان کو بہر حال دنیا میں پورا کر کے دکھانا ہے.اللہ کرے آپ کا ان میں وافر حصہ ہو.حلقہ ٹوٹنگ نصائح کرتے ہوئے فرمایا :.آج کی بچیاں کل کی نسل کی مائیں ہونگی.اگر ان بچیوں کی تربیت صحیح رنگ میں نہ کی گئی تو اگلی نسل دین کے معاملہ میں بہت پیچھے رہ جائے گی بعض والدین خود تو جماعتی کاموں میں پیش پیش ہیں لیکن ان کی اولادیں اس ضمن میں بہت پیچھے ہیں ان کو اپنی اولادوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے تا کہ اگلی نسل ان ذمہ داریوں کو اُٹھانے کے لیے تیار ہو جو ان کے کندھوں پر پڑنے والی ہیں اور وہی قوم کامیاب ہوتی ہے جو اپنی نسل کو آئندہ ذمہ داریوں کے لیے تیار کرتی ہے پس وہ بہنیں جو ابھی زندگی کے ابتدائی مراحل میں ہیں ان کو شروع دن سے ہی دعاؤں اور ان کی تربیت کی طرف توجہ کرنی چاہئے تا کہ ان کی اولا داپنے مذہب سے محبت کرنے والی ہو اور دین پر جان قربان کرنے والی ہو.اللہ تعالیٰ آپ سب کو تو فیق عطا فرمائے.آمین.رپورٹ لجنہ برطانیہ.جون 1983ء)

Page 943

خطابات مریم 918 زریں نصائح افتتاح امتہ اٹھی لائبر مری لندن 1983ء صدر صاحبہ نے خطاب میں فرمایا.لجنہ اماءاللہ کے زیرا ہتمام امتہ الحئی لائبریری کا افتتاح کرنے کے لئے ہم جمع ہوئے ہیں.حدیث ہے کہ ہر عورت اور مرد پر علم کا حاصل کرنا فرض ہے.علم حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ مطالعہ ہے.کتابوں کا خزانہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملا ہے.پیشگوئی ہے کہ امام مہدی علم کی دولت بانٹے گا.چھوٹی سی ابتداء ہے مگر لجنہ برطانیہ بڑی ہمت اور قربانی کرنے والی ہے اس لئے کوشش کریں اور برطانیہ کی ممبر اس میں مدد کریں.لندن کی لجنہ بھی عطا یا اور کتابوں کے عطیات بھی دیں.ہر علم کی کتاب اس لائبریری میں ہونی چاہئے.میں دعا کے ساتھ اس لائبریری کا افتتاح کرتی ہوں.کل میں یہاں سے رخصت ہو رہی ہوں مجھے امید ہے کہ میں جہاں جہاں بھی گئی ہوں آپ اُن کہی ہوئی باتوں پر عمل کریں گی اور آپس میں صلح، محبت اور اتفاق سے رہیں گی.آپس میں ایک دوسرے کو معاف کریں گی جس طرح ماں اپنے بچوں کو معاف کر دیتی ہے اسی طرح آپ بھی ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کر دیا کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.(از لجنہ اماءاللہ برطانیہ )

Page 944

خطابات مریم 919 زریں نصائح چوتھا آل پاکستان لجنہ ٹورنامنٹ 1984ء صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ نے اپنے خطاب کے ساتھ چوتھے آل پاکستان لجند تھلیٹکس کا افتتاح فرمایا.آپ نے افتتاحی تقریر میں فرمایا کہ ہر انسان کا ایک مطمع نظر ہوتا ہے اور ایک مسلمان کے لئے خدا تعالیٰ نے فَاسْتَبِقُوا الخَیرات کا صح نظر پیش کیا ہے اپنے کھلاڑیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ کھیل کا میدان بھی مسابقت اطاعت اور فرمانبرداری کی روح آپ میں پیدا کرتا ہے.آپ جس مقصد کے لئے اس ٹورنا منٹ میں شرکت کیلئے آئی ہیں.وہ مقصد بڑا ہی اعلیٰ ، ارفع اور شان والا ہے اور وہ مقصد یہی ہے کہ ہم نے اسلام کا جھنڈا ساری دنیا کے جھنڈوں سے بلند رکھنا ہے.جہاں کھیل سے انسان کی صحت بہتر ہوتی ہے وہاں اس کی روح بھی پاک اور مستعد ہو جاتی ہے اور اس میں نیک جذبات، اتحاد واتفاق اور عاجزی و مسکینی پیدا ہوتی ہے.میں امید کرتی ہوں کہ یہ ٹورنا منٹ پہلے تمام ٹورنامنٹس سے کامیاب ہوگا.بڑی محبت و پیار سے کھیلیں.نہ جیتنے والے میں رکبر پیدا ہواور نہ ہارنے والا ہمت ہارے.نیز کھیلوں کے اختتام پر آپ نے فرمایا:.میں امید رکھتی ہوں کہ ایک دن آئے گا جب نہ صرف پاکستان بلکہ تمام دنیا سے کھلاڑی لڑکیاں مرکز میں اس تقریب میں شرکت کے لئے آئیں گی اور اس پر فخر محسوس کریں گی.(الفضل 5 / مارچ 1984ء) ☆☆☆

Page 945

خطابات مریم 920 زریں نصائح دورہ گجرات 2 مئی 1985 ء کو آپ نے ضلع گجرات کی ممبرات سے اپنے دورہ کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم سے جن قربانی کا مظاہرہ ہونا چاہئے اس سے ابھی ہم محروم ہیں آرڈینینس نے ہمیں بعض معاملات میں مجبور کر کے رکھ دیا ہے ان حالات کی وجہ سے لجنہ مرکزیہ نے فیصلہ کیا کہ ضلعی سطح پر میٹنگز منعقد کر کے خواتین کو بیدار کیا جائے.آپ نے مجالس کی عہدیداران کو نصائح کرتے ہوئے فرمایا ہمیں پہلی وحی میں پڑھنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے مجھے یہ سن کر تکلیف ہوئی ہے کہ بعض جگہوں پر کسی ایک کو بھی قرآن کریم ناظرہ نہیں آتا آپ کوشش کریں کہ 30 سال تک کی عمر کی ہر ناخواندہ عورت کو پڑھانے کا انتظام کریں.ہر احمدی عورت کو قرآن کریم ناظرہ اور نماز آنی چاہیئے نماز میں با قاعدگی اختیار کریں جہاں کوتا ہی ہو اس کی طرف صدر ضلع توجہ کریں اپنے عمل صحیح کریں کیونکہ ایمان کو جب تک عمل کا پانی نہ ملے ایمان نہیں بڑھ سکتا.آپ کی کوئی بیٹی بیٹا مرد عورت جاہل نہیں ہونا چاہئے.علم کے بغیر نہ ہم ترقی کر سکتی ہیں اور نہ ہی صحیح تربیت کر سکتی ہیں.آپ نے فرمایا ہماری تعلیم ہمارے عمل سے ظاہر ہونی چاہئے جن اخلاق پر ہم زور دے رہی ہیں ہمیں سوچنا چاہئے کہ کیا ہم خود بھی اس پر عمل کر رہی ہیں آپ کی ذمہ داری ہے کہ خواتین میں حصول علم کا شوق پیدا کریں.حضرت سیدہ نے موجودہ حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہمیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ تم اپنے آپ کو مسلمان نہ کہو ہم اپنے منہ سے کچھ کہیں یا نہ کہیں ہمارے اعمال سے ہمارا صحیح مسلمان ہونا ظاہر ہونا چاہئے.غیر لوگ بھی ہمارا عمل دیکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ یہ واقعی مسلمان ہیں.اپنے بچوں اور بچیوں کو نیکی کی طرف مائل کریں اگر ہماری یہ نسل خدانخواستہ کمزور رہ گئی تو

Page 946

خطابات مریم 921 زریں نصائح اس سے ہمارا مستقبل متاثر ہو گا.حضور جب ہم میں تشریف لائیں تو وہ ہم میں کسی قسم کی کمزوری نہ پائیں ہماری جماعت ایک منفرد جماعت ہے.ہماری تعلیم وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں زمانہ گزرنے کے بعد بہت سی بدعات اور کمزوریاں اسلام میں پیدا ہو چکی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو ختم کرنے کے لیے تشریف لائے.آپ کی اور آپ کے تمام خلفاء کی کوشش ہے کہ معاشرہ کو تمام بدعات اور شرک سے مکمل طور پر پاک کیا جائے پس ہمیں چاہئے کہ رسومات سے مکمل طور پر اجتناب کیا جائے معاشرہ کو صاف ستھرا بنایا جائے.لین دین اور مطالبات کی رسمیں ختم کی جائیں سادہ زندگی اپنا ئیں.احمدیت کی ترقی میں جو رسومات روک بنی ہوئی ہیں ان کا خاتمہ کیا جائے.ایک ایک احمدی بنیان مرصوص ہونا چاہئے.اپنے اندر اتفاق اور محبت کی روح پیدا کریں.بچے احمدی بننے کے لیے ہمیں صحیح عمل پیش کرنا ہوگا.سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ 1984/85ء)

Page 947

خطابات مریم 922 زریں نصائح شہر گجرات کے جلسہ میں نصائح حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے مقامی مسائل حل کرنے کے لیے جو مفید اور قابل عمل تجاویز پیش فرمائیں درج ذیل کی جاتی ہیں.آپ نے فرمایا.ہر سال تعلیم القرآن کلاس لگتی تھی اجتماع ہوتا تھا جس کی وجہ سے مرکز سے رابطہ رہتا تھا مگر حالات نے ہم سے یہ موقع چھین لیا.آپ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ جلد ہمارے یہ حالات بدل دے.عہدیداران ہر قسم کا تساہل دور کریں قربانی صرف مال کی ہی نہیں ہوتی وقت بھی دینا پڑتا ہے آپ کی دو تین سیکرٹریان ہیں اور کوئی کام کرنے کے لیے آگے نہیں آتی.آپ نے کام کرنے کے لیے عہدیداران باہر سے نہیں لانے آپ کو خود اپنا آپ پیش کرنا ہو گا.خدا اور خدا کے رسول کو مقدم رکھنا ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی تعلیم کو زندہ کرنے کے لیے تشریف لائے تھے.جو کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا وہی آپ کے خلفاء کرتے چلے آ رہے ہیں ان کے پاؤں کسی قسم کے حالات اور مصائب میں بھی اکھڑنے نہیں پائے پاکستان کے موجودہ حالات میں جہاں قتل کیا جا رہا ہے ، قید کیا جا رہا ہے، مسلمان کہنے پر پابندی لگائی جارہی ہے ہمیں اپنے آپ کو بیدار کرنا ہو گا.سستیاں ترک کرنی ہونگی ہمیں اپنے عمل کو بہتر کرنا ہو گا کام کرنے والے ہر حال میں کام کرتے ہیں کام کو تقسیم کیا جائے تا کہ کام چلتا رہے.شہر کو مختلف حلقوں میں تقسیم کیا جائے ہر حلقہ ہفتہ وار اجلاس منعقد کر کے لائحہ عمل کے مطابق کام کرے.عہد یداران کو تلقین کی کہ پیار و محبت سے کام چلائیں کسی پر سختی نہ کریں جو کام تشکیل دیا گیا ہے خدا کرے صحیح رنگ میں جاری رہے.نئی خواتین کو کام سکھایا جائے.دعا کریں کہ ہمارا یہ آزمائش کا دور جلد ختم ہو.احمدیت کا پودا مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے اور دشمن یہ رائے قائم کرنے پر مجبور ہو جائے کہ ہم نے اس درخت کو اکھیڑنے کی بہت کوشش کی مگر اس کی جڑیں بہت مضبوط ہیں ہم اُسے اکھاڑ نہیں سکتے.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 1984/85ء)

Page 948

خطابات مریم 923 زریں نصائح حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ کا کنری میں ورودِ مسعود مورخہ 10 جولائی 1985ء کو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یه مختصر دورے پر کنزی تشریف لے گئیں.مجلس عاملہ کی تمام اراکین اور ناصرات الاحمدیہ کی تمام بچیوں نے قطار در قطار کھڑے ہو کر آپ کا استقبال کیا اور اھلاً وسهلاً و مرحبا کہا.سپاسنامہ کے بعد حضرت سیدہ نے خطاب فرمایا.آپ نے اپنے خطاب میں لجنہ اماءاللہ کنری کی ترقی کے بارے میں خوشنودی کا اظہار کیا.آپ نے فرمایا.آپ نے جو قربانیاں پیش کیں وہ قابل فخر ہیں.ہم نے بیعت کی تو ہم نے یہ عہد کیا تھا کہ ہم ہر قسم کی قربانیاں پیش کریں گے.انہی قربانیوں کا ہم نے عہد کیا تھا.ہمیں اپنے عمل کے ساتھ دنیا کے سامنے نمونہ پیش کرنا ہے.اس کے بعد آپ نے تربیت اولاد کے موضوع پر خاص زور دیا.آپ نے فرمایا کہ آپ اپنی اولاد کی تربیت کریں اور ان کو دنیاوی علم کے ساتھ ساتھ دینی علم بھی دلوائیں.کہتے ہیں کہ سونا بھٹی سے ہی کندن بن کر نکلتا ہے.لہذا آپ اپنی اولا دوں کو آنے والے وقت کے لئے تیار کیجئے.(مصباح ، اگست 1985ء) ☆

Page 949

خطابات مریم انتخاب کے بعد فر مایا :.924 انتخاب صدر لجنہ لاہور زریں نصائح ہمیں سب سے پہلے خدا تعالیٰ کا شکر بجالانا چاہئے جس نے دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائی.ہم میں تکبر کی بجائے عاجزی اور انکساری پیدا ہونی چاہئے نیز آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد جو ہستی میری زندگی میں مشعل راہ ثابت ہوئی وہ حضرت مصلح موعود کی ذات تھی.آپ نے مجھے ایک بچے کی طرح انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا.آپ نے فرمایا صرف صدر کے کام سے اور تقریر سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ ساری عاملہ مل کر کام کرتی ہے.ہر کام کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ عاملہ کی تمام ممبرات، پیار، عفو اور در گذر سے کام لیں.لاہور کی جماعت میں فردی قوت کا نقص ہے.اتنی بڑی جماعت جہاں تعلیم کی کمی نہیں کام کرنے والیاں کم ہیں.ہر انسان فانی ہے جہاں نئے کام کرنے والے نہیں آئیں گے پرانے کب تک کام کریں گے.جماعتیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب ہر عہدہ دار یا صدر کی جگہ لینے کو 10 تیار ہوں.لہذا افرادی قوت کی کمی نہیں ہونی چاہئے.ناصرات کی تنظیم کا بہت فائدہ ہے.7 سال کی عمر سے تربیت شروع ہو جاتی ہے.ناصرات کو حلقوں میں کام کروایا کریں.جتنا کام سکھائیں گی وہ سیکھ جائیں گی.عہد نامہ میں وقت کی قربانی مانگی جاتی ہے اور اولاد کی قربانی مانگی جاتی ہے.آپ نے فرمایا کہ اجلاسوں میں نہ آنے کے ہزاروں بہانے ہوتے ہیں.آپ نے ان کے دلوں میں جذ بہ پیدا کرنا ہے.دلیل سے جماعت ترقی نہیں کرتی بلکہ جذ بہ اور لگن سے ترقی ہوتی ہے.یہ روح اور اخلاص ناصرات کی بچیوں میں پیدا کرنا شروع کریں.ماں باپ بچیوں میں جذبہ پیدا کریں.اولا دو ہیں لا پر اوہ ہوتی ہے جہاں ماں باپ کمزور ہوں.آپ نے نہ صرف یہ کہ اپنی لجنہ کو ترقی دینی ہے بلکہ ایک اچھی کا رکن تیار کرنی ہے.آپ کی ممبرات سو فیصد تعلیم یافتہ ہیں.زیادہ سے زیادہ کارکنوں کو کام پر لگائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے کہ تین

Page 950

خطابات مریم 925 زریں نصائح سو سال تک احمدیت پھیل جائے گی.یہ صدی شاہراہ غلبہ اسلام کی صدی ہے.یہ وعدے ضرور پورے ہونگے.افراد کی کمزوریاں ان کی راہوں میں حائل نہ ہوں.پھر ان مخصوص حالات میں جب کہ حضور ایدہ اللہ ہم سے دور ہیں ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے اندر کمزوری نہ آنے دیں.اگر ہماری لبنات ست پڑ جائیں تو یہ بڑی قابل شرم بات ہوگی.اختلاف رائے ہو مگر اتحاد نہیں ٹوٹنا چاہئے.جہاں بھی کوئی رخنہ پڑے گا اتحاد ختم ہونے کا امکان ہوگا.آپ کے درمیان کتنا بڑا اختلاف بھی ہو اُسے جماعت کی خاطر قربان کر دیں.ثابت قدمی سے اپنا عہد بیعت نبھا ئیں.لڑائی جھگڑے عیب چینی اور فساد کو ختم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود تشریف لائے تھے.ہم نے وہ اخلاق پیدا کرنا ہے جو قرآن اور سنت رسول کے مطابق ہے.فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام پیشگوئیاں پوری ہو رہی ہیں اور انشاء اللہ ہونگی مگر..اے میرے اہل وفا سست کبھی گام نہ ہو ( رپورٹ دورہ جات 1985ء)

Page 951

خطابات مریم 926 زریں نصائح دورہ راولپنڈی، اسلام آباد، واہ کینٹ 1985ء صدر راولپنڈی نے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور دورہ کی اہمیت بیان کی.بعد ازاں حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے اپنے خطاب میں تشہد وتعوذ کے بعد سورۃ التوبہ کی آیات تلاوت فرمائیں.آپ نے ان آیات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ آیات صرف آنحضرت علی کے زمانہ کے مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے ہی نہیں ہیں بلکہ قرآن کی تعلیم ہر زمانہ کے لئے اور سارے عالم کے لئے یکساں ہے.جس طرح اس زمانہ میں مؤمنات نے ایسے عمل کئے اور اللہ کی رضا کو حاصل کیا اسی طرح اس زمانہ میں بھی جو نیک اعمال کرے گا وہ خدا کی رضا کو حاصل کرے گا اور الہی بشارتوں کا وارث ہوگا.آپ نے فرمایا کہ اس وقت ہماری جماعت ایک آزمائش سے گزر رہی ہے لیکن آزمائش تو ہر قوم پر ہی آتی ہے.سب سے بڑھ کر تکالیف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دی گئی تھیں.اُنہوں نے ہر حالت میں ثابت قدمی کا ثبوت دیا اور پھر خدا کے وعدے پورے ہو کر رہے.خدا کے پیار اور رحمت کے وعدے اس وقت پورے ہوتے ہیں جب قوم بھٹی سے گزرتی ہے.پس اس آزمائش کے وقت ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بھی اپنے خدا سے کئے وعدے پر قائم رہیں اور ثابت کر دیں کہ ہم خدا کے بندے ہیں اور شیطان ہمیں خدا سے روک نہیں سکتا.قرآن کی تعلیم حاصل کریں اور اس پر عمل کریں.آپس میں اتحاد رکھیں.اپنے اعمال کو قرآن ، حدیث اور سنت رسول کے مطابق ڈھالیں.جماعتی احکام کی پابندی کریں.پردے میں کمزوری نہ کریں.رسومات و بدعات سے قطعی پر ہیز کریں.معاشرے کی برائیوں کو اپنے گھروں میں داخل نہ ہونے دیں.اپنی اولاد کی بہتر تربیت کریں.ان کے دل میں بھی قربانی کا جذبہ پیدا کریں.حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ اور حضرت سیدہ نصرت جہاں والا جذ بہ اپنے اندر پیدا کریں تا ہم بھی خدا کی رضا کو حاصل کرنے والی ہوں.(سالانہ رپورٹ 1985ء)

Page 952

خطابات مریم 927 زریں نصائح جلسه مجالس فیصل آباد (فیصل آباد کی 26 مجالس نے شرکت کی ) حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ مرکزیہ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ہمارا سب سے بڑا مقصد ینی تعلیم دینا اور دینی فرائض صحیح طور پر سرانجام دینا ہے ہمارے تمام احمدی گھرانوں میں جہالت کا مکمل طور پر خاتمہ ہونا چاہئے.حاضرات سے فرمایا آپ ہر روز یہ سوچیں کہ آپ نے اپنے پورے دن میں اپنے دین کے کاموں کے لیے کتنا وقت دیا اور کیا کیا ؟ آپ کے بچوں کی سوسائٹی کیسی ہے انہیں بتائیں کہ آپ نے کیوں احمدیت قبول کی ان کے لیے صاف ستھرا ماحول پیدا کر یں.کام کی مکمل رپورٹ با قاعدگی کے ساتھ مرکز میں بھجوائیں اور رسومات کے خاتمہ کی طرف توجہ دلائی.آپ نے اپنے خطاب میں یہ بھی تلقین فرمائی کہ بچوں کو اعتراضات کے جوابات سکھائے جائیں عورتیں خود بھی اس طرف توجہ دیں دیہات میں بہت سی بدعتیں اور رسوم پائی جاتی ہیں دو رسمیں ایسی ہیں جن کے متعلق شوری میں بھی فیصلہ ہو چکا ہے.ایک یہ کہ لڑکے والوں کو جوڑے نہیں دینے اور دوسرے یہ کہ مہندی کی رسم نہیں کرنی.شادی کے موقع پر عہدیداران یہ رو چلائیں کہ لڑکے والوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ خود لڑکی والوں سے جوڑے لینے سے انکار کریں.دیہات میں تعویز گنڈے اور احمدیت کی تعلیم کے خلاف عمل کیا جاتا ہے اس کی طرف توجہ کریں.شرک کا مکمل طور پر خاتمہ ہونا چاہئے خود بھی دین سیکھیں اور دوسروں کو بھی ذہن نشین کروائیں.مقامی مربیان سے مدد لیں.آپس کی تمام دشمنیوں اور لڑائی جھگڑوں کو ختم کریں.یہی جھگڑے آپ کے پاؤں کی زنجیریں بن کر ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے.(سالانہ رپورٹ 85-1984ء)

Page 953

خطابات مریم 928 زریں نصائح دورہ انڈونیشیا کے دوران مختلف مقامات پر ممبرات کو نصائح 1.آپ نے فرمایا آج سے ستانوے سال پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ آپ کی جماعت ساری دنیا میں پھیل جائے گی کتنا بڑا ثبوت ہے صداقت حضرت مسیح موعود کا.آئندہ بھی یہ پیشگوئیاں پوری ہونگی آج میں پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پوری ہوتی دیکھتی ہوں.میں بہت کمزور ہوں.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور میں آپ کو دیکھ رہی ہوں یہاں کی مخلص جماعت کو دیکھ کر میرے ایمان کو تقویت ملی ہے میری دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو طاقت دے تا آپ کا وجود جماعت کے لیے برکت کا باعث ہو اپنے اندر روحانی انقلاب پیدا کر یں.ہماری بہنیں یاد رکھیں جماعت پرستانوے سال گزر گئے ہیں تین سال کے بعد صد سالہ جشن تشکر ہوگا جس کی تیار ہمیں پوری کرنی چاہئے اپنے اندر روحانی تبدیلی پیدا کر میں اور پوری طرح تیار ہو جائیں.پاکستان میں حالات تکلیف دہ ہیں اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے مذہبی آزادی جو ہم سے چھن گئی ہے دوبارہ حاصل ہو جائے اور ہم اس راستے میں ہر قسم کی قربانیاں دیں تا خدا تعالیٰ قبول فرمائے اس کے لیے ضروری ہے ہم اپنا جائزہ لیں اور اپنی کمزوریوں کو دور کریں اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو رہنمائی کے لیے چنا ہے آپ کبھی ایسا قدم نہ لیں جس سے لوگ نقل میں غلطی کر جائیں آپ کو ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہونا چاہئے کیونکہ ہمارے سامنے بڑ اعظیم مقصد ہے اس کو حاصل کر نے کے لیے قدم سے قدم ملا کر چلیں جماعت کی ذمہ داری صرف عہد یداران پر نہیں بلکہ سب پر عائد ہوتی ہے آپ متفق ہو کر کام کریں قرآن کریم میں امراء کی اطاعت کا حکم ہے خدا تعالیٰ میرا آنا با برکت فرمائے اور بے فائدہ نہ ہو خدا تعالیٰ ہم سب کو ہر قسم کی قربانی کی توفیق دے اور ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے.آمین

Page 954

خطابات مریم 929 زریں نصائح 2.حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے فرمایا وہ خدا تعالیٰ کی حمد وثناء کرتی ہیں کہ انہیں اس دورہ کی توفیق ملی آپ نے جماعت احمدیہ انڈونیشیاء اور نمبرات لجنہ کا استقبال کے لیے شکریہ ادا کیا بعد ازاں آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ احمدیت کو دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا.انڈونیشیا کا دورہ اس پیشگوئی کی سچائی ثابت کرتا ہے.آپ نے امید ظاہر فرمائی کہ ممبرات لجنہ آپ کی نصائح کو پوری توجہ سے سنیں گی اور ہر ممبر اپنے اندر انقلاب پیدا کر کے جماعت کی بہتر رنگ میں خدمت کر سکے گی نیز ان نصائح کو ان بہنوں تک پہنچائیں گی جو حاضر نہیں ہیں.آپ نے فرمایا جماعت احمدیہ کی ہر جگہ مخالفت ہورہی ہے تا ہم اگر لوگ ہمارے خلاف ہیں تو ہمیں ان کے خلاف نہیں ہونا چاہئے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمام دنیا میں نیکی کو پھیلانا ہے بہترین امت ہونے کے لحاظ سے ہم نے لوگوں کو اچھے کام کرنے کی تلقین کرنی ہے اور بُرے کاموں سے روکنا ہے ہمیں اپنے نفس کا محاسبہ کرنا ہے مثالی بننے کے لیے ہمیں قرآن کریم کا ترجمہ کے ساتھ بغور مطالعہ کرنا چاہئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلنا چاہئے آپ سب کو بحیثیت ممبرات اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے.جب تک آپ میں یہ احساس ذمہ داری نہ ہو جماعت کے لیے آپ کی زندگی بے معنی ہے آپ سب کا فرض ہے کہ قرآن کریم کا مطالعہ خود بھی کریں اور اپنی اولادوں کو بھی اس کی عادت ڈالیں.قرآن کریم کے احکامات پر عمل کریں آپ کو قبول احمدیت کے انعام کو دوسروں تک پہنچانا ہے اپنی اولادوں میں جماعتی ذمہ داریوں کو انجام دینے کا جذبہ پیدا کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں کی عورتوں نے قربانیاں دی ہیں لیکن ابھی کچھ کمزوریاں باقی ہیں.قرآن کریم کی سورۃ نور میں بیان فرمودہ احکامات پر توجہ دیں جس میں پردہ کا حکم دیا گیا ہے قرآن کی تمام ہدایات کی حتی الامکان پا بندی کریں اپنے آپ اور اپنی نسلوں میں نیکی پیدا کرنے کی کوشش کریں ہر کام میں ہمیں دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے اصول کی پابندی کرنی ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہمارا نصب العین ہے اگر کسی کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت اپنے بچوں اور والدین کی محبت سے زیادہ نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے

Page 955

خطابات مریم 930 زریں نصائح کہ اس کا ایمان مکمل ہیں.تبلیغ انتہائی ضروری ہے ہمیں دنیا کے سامنے اچھا نمونہ پیش کرنا ہے ہرا حمدی خاتون کو شادی کے معاملہ میں قربانی کا مظاہرہ کرنا چاہئے حضرت مصلح موعود نے احمدی لڑکی کو غیر احمدی مرد کے ساتھ شادی کی اجازت نہیں دی.امارت اور تعلیم اس میں رکاوٹ نہیں بننی چاہئے اس طرح سے جماعت کو نقصان پہنچتا ہے حضرت امام جماعت احمدیہ نے فرمایا ہے کہ ہر احمدی گھر جنت کا نمونہ پیش کرے اس سکیم کو کامیاب بنانا ہر احمدی کا فرض ہے امام سے تعلقات مضبوط کریں حضور کے لیے مسلسل دعائیں کریں آنے والے سال جماعت کے لیے بہت اہم ہیں.1989ء میں جماعت کے قیام پر ایک صدی پوری ہو جائے گی اس لیے ان تین سالوں میں بہت ترقی ہونی چاہئے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گہری محبت پیدا کریں صحابیات کا نمونہ اپنا ئیں آپس میں اتحاد واتفاق کو بڑھا کر بہتر تعاون پیش کریں آپ نے پاکستانی خواتین کے لیے بھی دعا کی تحریک کی کہ خدا تعالیٰ انہیں ہر آزمائش میں کامیاب کرے.(سالانہ رپورٹ لجنہ انڈونیشیا1986ء)

Page 956

خطابات مریم 931 زریں نصائح پانچویں آل پاکستان لجنہ الیکس وٹورنامنٹ ات 16-15 فروری1986ء مکرمہ سیدہ صدر صاحبہ لجنہ مرکزیہ نے تشہد و تعوذ کے بعد لجنہ کے پانچویں سالانہ ٹورنامنٹ کا افتتاح ان الفاظ سے فرمایا:.میں خدا تعالیٰ کے پاک نام کے ساتھ جو بڑا مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے لجنہ کے پانچویں سالانہ ٹورنا منٹ کا افتتاح کرتی ہوں.محنت اور کوشش کے بغیر کوئی منزل حاصل نہیں ہوتی.قرآن کریم نے بھی اس کی اہمیت بیان فرمائی ہے جب تک کھلاڑی اپنی کوشش نہیں کرتا جیتنے کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا.پھر مل کر کھیلنے کے لئے میچز میں جہاں ایک لمحہ کی تاخیر سے کھیل کا پانسہ پلٹ جاتا ہے سب کھلاڑیوں کی مجموعی کوشش سے ہی ٹیم کامیاب ہوتی ہے.آپ نے کھلاڑیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ کھیل کا میدان بھی اطاعت فرمانبرداری اور مسابقت کی روح پیدا کرتا ہے.آپ جس مقصد کے لئے ٹورنامنٹ میں شرکت کے لئے آئی ہیں وہ بہت ہی اعلیٰ اور ارفع ہے.ہم نے ہر میدان میں بچیوں کی صحیح تربیت کرنی ہے جس کوشش لگن اور جذ بہ سے آپ کھیلتی ہیں اسی جذبہ سے اعلیٰ اخلاق، سچائی کی بلندی اور معاشرہ کی اصلاح کی کوشش کریں تو ہم یہ میدان بھی فتح کر سکتی ہیں.خدا تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین (سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ )

Page 957

خطابات مریم 932 زریں نصائح تشہد ، تعوذ کے بعد فرمایا:.دورہ جھنگ 1986ء جھنگ والوں نے بلانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن جب خدا تعالیٰ کی رضا ہو اسی وقت کام ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کی توفیق سے آج موقعہ ملا ہے کہ کچھ آپ سے سنا جائے اور کچھ آپ کو سنایا جائے.بعد ازاں آپ نے سرمہ چشمہ آریہ کا اقتباس پیش کیا.جس میں حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مذہب کی جڑ خدا شناسی ہے اور درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.مذہب اسلام کی جڑ بھی یہی ہے کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی پہچان اور اس کی محبت حاصل ہو.مکرمہ حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے اصلاح معاشرہ پر بہت زور دیا ہے اور تاکید فرمائی ہے کہ صلہ رحمی کرو اور قول سدید اختیار کرو.آپ کا فرض ہے کہ اس طرف توجہ رکھیں.سادگی کو اپنا شعار بنائیں.ہم نے اس معاشرہ کو زندہ کرنا ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے کا معاشرہ تھا فرمایا کہ لجنہ کی تنظیم کا یہ کام ہے کہ بچوں کی صحیح تربیت کریں خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کریں اور آپ کے دین کی سر بلندی اور غلبہ کے لئے ہر قسم کی قربانی اور ذلت سہنے کے لئے تیار ہوں.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ ) ☆

Page 958

خطابات مریم 933 زریں نصائح دارالذکر لاہور میں خطاب مورخہ 23 اپریل صبح دس بجے حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ مرکز یہ دارالذکر تشریف لائیں جہاں لا ہور شہر کے 52 حلقہ جات کی صدر یں، سیکرٹریان گیارہ قیادتوں کی نگران صدر میں، ناصرات الاحمدیہ کی نگران اور مکرمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ صدر لجنہ لا ہور موجود تھیں.حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ مرکزیہ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ لا ہور شہر کو احمدیت کی تاریخ میں ہمیشہ ہی بڑا اہم مقام حاصل رہا ہے.یہاں بانی سلسلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر تشریف لاتے رہے.آپ کے بعد حضرت مصلح موعود بھی متعدد بار یہاں تشریف لائے.کئی اہم تحریکات یہاں سے اُٹھیں پھر حضرت خلیفۃ امسیح الثالث بھی یہاں تشریف لاتے رہے اور اب حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بھی اس شہر سے گہرا تعلق رکھتے ہیں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمودہ بیان کو یاد دلایا کہ جماعت پر آزمائش کا کڑا دور بھی آئے گا اور اس پر آپ نے جماعت کے افراد کو ثابت قدم رہنے اور استقامت دکھانے کی پُر زور تلقین فرمائی.آپ نے اپنی تقریر میں عہدہ داران کو اس بات کی خصوصی ہدایت فرمائی کہ سب سے پہلے وہ خود کو تربیت کی خاطر نمونہ بنائیں.ان کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو.ذاتی توجہ ، محنت اور سچی لگن کے ساتھ دینی کاموں میں حصہ لیں کیونکہ سچی محنت کو خدا تعالیٰ ہرگز ضائع نہیں کرتا.پھر آپ نے پردہ کی اہمیت بیان فرمائی کہ یہ حکم خداوندی ہے جس کی تعمیل کرنی اور کروانی ہمارا فرض ہے.ہم سب کے پیش نظر ہمیشہ تو حید باری تعالیٰ اور حقوق العباد کی ادائیگی رہنی چاہئے کہ یہی دین اسلام کے دو بڑے ستون ہیں.ہر ایک کی ہمدردی کرنا ہمارا شیوہ رہے.کسی کو ہماری طرف سے کوئی دُکھ اور تکلیف نہ پہنچے.آمین قیادت اسلامیہ پارک میں خطاب 23 /اپریل 1986ء کو حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ مرکز قیادت اسلامیہ پارک تشریف

Page 959

خطابات مریم 934 زریں نصائح لے گئیں.اس موقعہ پر آپ نے پردہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی.آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کے سب حکموں پر عمل کرنا ہمارا فرض ہے اور پر وہ بھی حکم الہی ہے اس پر عمل کرنا ہم پر واجب ہے.اس کے بعد آپ نے تمام عہدیداروں کو صدر کے ساتھ پورا پورا تعاون کرنے کی تلقین فرمائی.ممبرات کو اجلاسوں میں با قاعدہ حاضر ہونے کی تلقین فرمائی.آپ نے خاص طور پر ہدایت کی کہ تمام کام آپس میں تعاون، محنت اور کوشش سے ہوا کرتے ہیں.خدا کرے کہ بیداری کے آثار پیدا ہوں.قیادت سلطانپورہ میں خطاب مؤرخہ 24 / اپریل سیدہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ پاکستان قیادت سلطانپورہ تشریف لے گئیں.سپاسنامہ کے بعد آپ نے خطاب فرمایا.اس میں آپ نے مختلف تربیتی امور ، آداب مجلس، آداب بیوت اور آداب نماز کی طرف توجہ دلائی.آپ نے اس امر کی خاص ہدایت فرمائی کہ خطبات جمعہ اور خطبات عیدین کے دوران مکمل خاموشی ہونی چاہئے.ماؤں کو اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرنے کی طرف توجہ دلائی.نیز فرمایا جھوٹ سے اجتناب اور سچائی ہمارا شعار ہونا چاہئے.تمام عورتوں کو پندرہ روزہ اجلاسوں میں حاضر ہونے کی تلقین کی.رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1986ء)

Page 960

خطابات مریم 935 زریں نصائح دوره خوشاب مؤرخہ 7 مئی 1986 ء کو حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ مرکز یہ مکرم رضیہ درد صاحبہ کے ہمراہ ضلع خوشاب کے دورہ پر تشریف لے گئیں.اس اجلاس میں عہدہ داران کو اپنے مسائل پیش کرنے کا موقع دیا گیا جس کے بعد حضرت سیدہ صدر صاحب لجنہ مرکزیہ نے حاضرات سے اپنے خطاب میں فرمایا ضلع خوشاب میں ممبرات کی دینی کام کرنے کی طرف توجہ بہت کم ہے.آپ نے چونکہ احمدیت کو ورثہ میں پایا ہے شاید اس لئے اس کی قدر نہیں کہ کتنی بڑی صداقت اور نعمت آپ کے پاس ہے.بیعت کرتے وقت جو عہد آپ دو ہراتی ہیں وہ کیوں آپ کے عمل سے ظاہر نہیں ہو رہا.رسم و رواج، بدعات اور لغو باتوں سے اجتناب کریں.ایک دوسرے کی اصلاح محبت و پیار سے کریں.مرکز سے رابطہ رکھیں.جہالت کو دور کرنے کے لئے تعلیم کی طرف بھر پور توجہ دیں.تدریس قرآن کریم کے اہم فریضہ کو اپنا نصب العین بنائیں کہ یہ سب علوم کا منبع ہے.اختتامی دعا کے بعد فرد افردا ممبرات کو ملاقات اور مصافحہ کا شرف بخشا.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ )

Page 961

خطابات مریم 936 زریں نصائح سیدہ صدر صاحبه لجنہ مرکز یہ کا دورہ اٹک ، پشاور، نوشہرہ اور تر بیلا 2/ فروری 1987ء کو ضلعی اجلاس میں مجلس عاملہ کی ممبرات اور کارکنات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:.وہ اپنے کام میں تیزی پیدا کریں اور مرکزی ہدایات پر عمل کریں.مرکز اور خلیفہ وقت سے رابطہ رکھیں.اپنے عہد پر غور کر کے عمل کریں.دعا کے بعد اجلاس برخاست ہوا.بعد ازاں سیدہ صدر صاحبہ نے اجلاس عام میں ممبرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا.احمدیت کی جو نعمت آپ کو دی گئی ہے اس کی قدر کریں اپنے بچوں کی صحیح تربیت کریں تا کہ آئندہ یہ بچے جماعت کے اچھے کارکن ثابت ہوں.3 رفروری کو سیدہ صدر صاحبہ نے نوشہرہ میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :.بچوں کو قرآن کریم کا ترجمہ سکھنے اس پر عمل کرنے والدین کو بچوں کی صحیح تربیت کرنے.حسن اخلاق کا نمونہ پیش کرنے عفو و درگزر سے کام لینے اور اپنے اندر عظیم انقلاب پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی“.(مصباح اپریل 1987ء)......W

Page 962

خطابات مریم 937 زریں نصائح متفرق نصائح لجنہ جرمنی خطاب صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ (لجنہ جرمنی میونخ ) 12 جولا ئی 1987ء کو حضرت چھوٹی آپا صاحبہ صدر لجنہ اماء الله مرکز یہ پاکستان نیشنل صدر لجنہ اماءاللہ مغربی جرمنی، نائب صدر مسز مریم ناز اور انچارج لائبریری مسز شمیم امینی کے ساتھ میونخ کے دورہ پر تشریف لے گئیں.آپ کے پُر جوش استقبال کے بعد آپ کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا گیا بعد ازاں آپ نے ممبرات کو نصائح فرمائیں.آپ نے فرمایا کہ:.خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر چھوڑا کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب آئیں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے کہ ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا ضرور پورا ہوگا.مگر ہماری بدقسمتی ہوگی اگر ان وعدہ جات کو پورا کرنے میں ہماری کوششیں شامل نہ ہوں.اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم دعاؤں پر زور دیں.اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو اخلاق حسنہ کے زیور سے آراستہ کریں.صحیح اسلامی تربیت کریں کوئی عورت کمزوری نہ دکھائے.ایک عورت کی کمزوری سے پوری لجنہ پر حرف آ سکتا ہے.خصوصاً یورپ کے ماحول میں تربیت پر زور دیں.(از تاریخ لجنہ جرمنی صفحہ 29) ☆

Page 963

خطابات مریم 938 زریں نصائح خطاب لجنہ اماءاللہ جرمنی برلن 23 جولائی 1987ء کو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماء الله مرکز یہ برلن تشریف لے گئیں ان کے ہمراہ نیشنل صدر مکر مہ کوثر شاہین صاحبہ، نائب صدر مسز نا ز صاحبہ اور مسز شمیم امینی صاحبہ بھی تھیں.خطاب میں آپ نے فرمایا :.خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمد یہ دنیا میں ہر جگہ قائم ہو چکی ہے.ہر احمدی جماعت احمدیہ کا نمائندہ ہے.صرف زبان سے یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ہم احمدی ہیں جب تک عمل بھی ساتھ نہ ہو.آپ نے قرآن کریم کی تعلیم پر زور دیا اور فرمایا کہ قرآن کریم ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس کی پیروی اُسی وقت کی جا سکتی ہے جب قرآن کریم آتا ہو اور پھر یہ کہ قرآن کریم کا ترجمہ بھی آنا چاہئے تا کہ معلوم ہو کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کن باتوں کے کرنے کا حکم دیا ہے اور کن باتوں کو کرنے سے روکا گیا ہے.قرآن کریم کی محبت اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی جب تک اسے پڑھا اور سمجھا نہ جائے.آپ نے فرمایا :.اگر ہم چاہتی ہیں کہ ہم ترقی کریں تو ہمیں قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنا ہوگا اور سب احمدیوں کا مقصد یہی ہے کہ اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے.آپ نے تقویٰ اختیار کرنے پر زور دیا اور فرمایا کہ ہمارا قول اور فعل ایک ہونا چاہئے.اس میں تضاد نہیں ہونا چاہئے.آپ نے فرمایا کہ اپنی زندگیوں کو قرآن کریم کی تعلیم اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں.آپ نے مزید فرمایا کہ اسلام کو زندہ رکھنے اور اپنی روحانی ترقی کے لئے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں اپنے بچوں میں خدا تعالیٰ کا پیار اور مذہب سے محبت پیدا کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت پیدا کریں.مذہب کی غیرت پیدا کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت پیدا کریں.خلفاء کے احکام پر چلنے کا شوق اور جذ بہ پیدا کریں.یہ کام بچپن سے کریں بڑے ہونے پر بچوں کی اصلاح مشکل ہو جاتی ہے.

Page 964

خطابات مریم 939 زریں نصائح ایک ماں کے مبلغ سے بھی زیادہ کام اور فرائض ہیں.بچوں کی ہر وقت نگرانی کریں ان کو بُرے ماحول سے بچائیں یہاں مغربی ممالک میں جو بد اخلاقیاں پھیلی ہوئی ہیں اپنے بچوں کو ان سے محفوظ رکھیں.انہیں بتائیں کہ تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو.تم احمدی ہو.تم مسلمان ہو.تمہارا کردار، تمہاری عادتیں اسلام کے مطابق ہونی چاہئیں.آپ نے فرمایا کہ:.آپ کی قربانیاں آپ کے ساتھ ہی ختم ہو جائیں گی اگر آپ نے اپنی نسل کو تیار نہ کیا.نیز آپ نے خواتین کو پردہ کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ عورتیں اپنی زینت کو چھپائیں.آپ نے جرمن احمدی خواتین کو پردہ ( برقعہ ) میں دیکھ کر بہت مسرت اور خوشی کا اظہار کیا.آخر میں آپ نے دعا کی کہ یہاں اللہ تعالیٰ ایک مضبوط جماعت قائم کرے جو باقی قوم کے لئے ہدایت کا موجب ہو.ہیمبرگ از تاریخ لجنہ جرمنی جرمنی صفحه 21-22) 24 جولائی 1987ء کو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ محتر مہ کوثر شاہین ملک صاحبہ نیشنل صدر لجنہ اماءاللہ جرمنی کے ہمراہ ہیمبرگ کے دورہ پر تشریف لائیں اس روز آپ نے لجنہ کے اجلاس میں جو خطاب فرمایا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے.آپ نے فرمایا کہ:.عہدہ کوئی فخر والی چیز نہیں بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے کہ اس نے خدمت کا موقعہ دیا.سب سے بڑا خلق یہ ہے کہ اپنے آپ کو سب سے کم تر سمجھا جائے اور ہر قسم کے تکبر سے بچا جائے کیونکہ تکبر انسان کو خدا سے بہت دور لے جاتا ہے.آپ نے فرمایا مبلغ اور صدر کی اطاعت کریں اور ہر ایک کے دکھ درد میں شریک ہوں اور آپس میں اتفاق اور اتحاد ہونا چاہئے.قرآن پاک کی تعلیم کے مطابق کام کریں اپنا اچھا نمونہ پیش کریں.(از تاریخ لجنہ جرمنی صفحہ 12)

Page 965

خطابات مریم 940 زریں نصائح خطاب لجنہ جرمنی 25 جولا ئی 1987 ء اس اجلاس میں ہیمبرگ اور اردگرد کے علاقہ سے کثیر تعداد نے شرکت کی اور آپ کی قیمتی نصائح کو سنے کا شرف حاصل کیا.آپ نے فرمایا :.احکام خداوندی اور احکام رسول پر صحیح طور پر عمل کریں.آپ نے قرآنی آیات کے حوالے دے کر بتایا کہ جس طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مومنات نے اعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ کی رضا کو حاصل کیا.اسی طرح اس زمانہ میں بھی جو نیک اعمال کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرے گا.اس وقت ہماری جماعت آزمائش کے دور سے گزر رہی ہے لیکن آزمائش تو ہر الہی جماعت پر آتی ہے.سب سے بڑھ کر تکالیف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو دی گئیں مگر انہوں نے ہر حال میں ثابت قدمی دکھائی اور پھر خدا تعالیٰ نے اپنے وعدے پورے کئے.آپ بہنیں بھی قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کریں.آپ کو اگر لفظی ترجمہ نہیں آتا تو آپ تلاوت کر کے ہر آیت کا ترجمہ غور سے پڑھیں.آپس میں اتحاد رکھیں اپنے اعمال قرآن وسنت کے مطابق ڈھالیں جماعتی احکام کی پابندی کریں.رسومات اور بدعات سے قطعی پر ہیز کریں.معاشرہ کی بُرائیوں کو اپنے گھروں میں داخل نہ ہونے دیں.اپنی اولاد کی نیک تربیت کریں تا ہم بھی خدا کی رضا کو حاصل کرنے والی ہوں.(از تاریخ لجنہ جرمنی صفحه 13)

Page 966

خطابات مریم 941 زریں نصائح خطاب لجنہ جرمنی کولون 26 جولائی 1987 ء کو حضرت سیدہ چھوٹی آپا جان مریم صدیقہ صاحبہ نے کولون جماعت کا دورہ کیا.کولون جماعت کی ممبرات کی طرف سے سپاسنامہ پیش کئے جانے کے بعد آپ نے لجنہ اماء اللہ کولون کے کام کو بہت سراہا اور آپ نے سورۃ ابراہیم کی آیت کی روشنی میں تمام بہنوں کو قرآنی تعلیم کو اپنے اوپر نافذ کرنے کی تلقین فرمائی.اسی طرح سورۃ مائدہ کی ایک آیت کی روشنی میں آپ نے فرمایا قرآن کریم اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جانے والی کتاب ہے.اسی میں دونوں جہانوں کے فوائد ہیں.جب تک مسلمان اس پر عمل کرتے رہے اور اپنی زندگیاں قرآن مجید کے مطابق گزارتے رہے وہ ساری دنیا پر چھائے رہے.اسی ضمن میں نصائح کرتے ہوئے فرمایا کاش جماعت احمد یہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور اسلام کے کھوئے ہوئے وقار کو پھر واپس لائے اور پھر وہی اخلاق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں دنیا پھر دیکھے جنہیں دیکھ کر انسان کو خدا تعالیٰ یاد آ جاتا ہے.وہ امین ہوں تو ایسے امین کہ خود اور بیوی بچے بھوکے مر جائیں لیکن دوسروں کی امانت میں خیانت نہ ہو.وہ سچے ہوں تو ایسے بچے کہ مال و دولت جائے ، جان جائے ، عہدہ جائے لیکن جھوٹ کا ایک لفظ زبان پر نہ آئے.وعدہ کریں تو جان کے ساتھ نبھائیں اور ارادہ کریں تو سر ہتھیلی پر رکھ کر اسے پورا کریں.احمدی مرد اور عورتیں خواہ وہ کسی بھی ملک میں ہوں سچے دل سے احمدیت کو قبول کیا ہے تو ان کے اخلاق کردار اور انسانوں سے سلوک اور ان کا معاشرہ سب قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہونا چاہئے.(از تاریخ لجنہ جرمنی صفحہ 18)

Page 967

خطابات مریم 942 زریں نصائح نیشنل و لوکل ممبر مجلس عاملہ فرینکفرٹ جرمنی سے خطاب 27 جولا ئی 1987 ء آپ نے ممبرز عاملہ کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ.آپ سب ممبرات کی تربیت اور خصوصاً عہدیداران کی خاص تربیت کی طرف توجہ دیں.اپنے اجلاسوں میں تربیتی امور کو مدنظر رکھیں ہر نئے سال کا گزشتہ سال سے مقابلہ کریں تا کہ گزشتہ خامیوں کو دور کر سکیں.آپ نے فرمایا:.جب مقصد ایک ہو منزل ایک ہو تو اختلافات کیسے؟ مرکزی عاملہ ممبرز کو خصوصی کردار کا حامل ہونا چاہئے.حفظ مراتب کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور اپنے سینئرز کی تابعداری کا جذبہ پیدا کریں.ممبرات کو پردے کی طرف توجہ دلائیں.جاسوسی ، غیبت اور الزام تراشی سے گریز کریں.جرمن احمدی قیمتی ہیروں سے مشابہ ہیں ان کی قدر کریں.آپ نے شعبہ مال اور شعبہ تجنید کو بھی خصوصی توجہ دلائی کہ چندوں کی وصولی تجنید کے مطابق ہونی چاہئے کیونکہ بجٹ کے مطابق چندوں کی وصولی کم ہے.اسی طرح شعبہ اشاعت کو چھوٹی چھوٹی کتب کے جرمن ترجمے کرنے کی طرف بھی خصوصی توجہ دلائی.آخر میں آپ نے جرمنی کی لجنات کے محبت بھرے جذبات اور والہانہ استقبال کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور دعا کی اللہ تعالیٰ ان دوروں کے عملی نتائج دکھائے اور جرمنی کی لجنات کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرے.(از تاریخ لجنہ جرمنی صفحہ 175)

Page 968

خطابات مریم 943 زریں نصائح افتتاح چھٹی آل پاکستان لجنہ تھلیٹکس وٹورنامنٹ منعقدہ 14-15 فروری 1987ء آپ نے تشہد، تعوذ اور تسمیہ کے بعد لجنہ کے چھٹے سالا نہ ٹورنامنٹ کا افتتاح ان الفاظ سے فرمایا :.میں خدا تعالیٰ کے پاک نام کے ساتھ جو بڑا مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے لجنہ کے چھٹے آل پاکستان ٹورنا منٹ کا افتتاح کرتی ہوں.افتتاح کے بعد آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ 1981ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے شعبہ صحت جسمانی کا آغاز فرمایا تھا.ماسوائے ایک سال کے لجنہ کے ٹورنامنٹ باقاعدگی سے منعقد ہو رہے ہیں.بچیاں ذوق و شوق سے حصہ لے رہی ہیں.آئندہ سوچ رہے ہیں کہ نہ صرف ربوہ میں بلکہ سب جگہوں پر یہ ٹورنا منٹ منعقد کئے جائیں.خدا کرے کہ یہ ٹورنا منٹ کا میاب ہو.آپ نے مزید فرمایا کہ نماز میں اطاعت اور منظم رہنے کا سبق ہے جسمانی اور روحانی نظام ساتھ ساتھ چلتے ہیں.صحت کو ٹھیک رکھنے کے لئے ورزش اور کھیلوں کا جاری رہنا ضروری ہے لجنہ کوشش کر رہی ہے کہ دیگر شعبہ جات کے ساتھ ساتھ یہ شعبہ بھی مزید ترقی کرے.آمین (سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ )

Page 969

خطابات مریم 944 زریں نصائح اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ربوہ منعقدہ 30 ستمبر 1987ء آپ نے لجنہ اماءاللہ کے اجتماع پر خوشی کا اظہار فرمایا نیز آپ نے عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ میں یہ جذبہ ہونا چاہئے کہ علم سے اپنی جھولیاں جتنی بھر سکتی ہیں بھر لیں ماؤں کو بچوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہئے ان کو بجائے ادھر اُدھر پھرنے کے نظم و ضبط سکھائیں تا کہ اجتماعات کا میاب ہوں.ربوہ مرکز ہے جو ذمہ داریاں آپ پر ہیں ان سے غافل نہیں رہنا چاہئے اس لئے اجتماع کومیلہ نہ بنائیں بلکہ وقت سے پورا فائدہ اُٹھا ئیں نہ صرف خود سیکھیں بلکہ بچوں کو بھی ساتھ رکھیں تا کہ ان کے کانوں میں ابھی سے نیکی اور تقویٰ کی باتیں پڑیں پھر آپ نے صفائی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ پوری صفائی کا خیال رکھنا چاہئے.ہر احمدی عورت کا فرض ہے کہ گھروں کو صاف رکھیں اور اجتماعی طور پر خیال رکھیں کہ اجتماع وغیرہ میں صفائی رہے.آپ نے پردہ کی جانب توجہ مبذول کرواتے وقت فرمایا کہ مرکز میں رہتے ہوئے صحیح پردہ کر نار بوہ کی بچیوں کا فرض ہے دوسروں کی نقل نہ کریں اپنی ذمہ داری سمجھیں.صحیح نمونہ پردہ کا پیش کریں خدا نے آپ کو قیادت کے لئے بنایا ہے.ہم میں کمزوریاں نہیں ہونی چاہئے.(مصباح ستمبر 1988ء)

Page 970

خطابات مریم 945 زریں نصائح دوره فاروق آباد مورخہ 7 جنوری 1988ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا ہمارے اوپر عام طور پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم نعوذ باللہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ درجہ نہیں دیتے جو حضرت مسیح موعود کو دیتے ہیں یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کا ایک ایک لفظ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوبا ہوا ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ اگر میں آپ کی غلامی کا دعویٰ نہ کرتا اور آپ کی محبت کا دم نہ بھرتا تو میں کبھی یہ مقام حاصل نہ کر سکتا.حضرت مسیح موعود نے خود فرمایا ہے کہ بعد از خدا بعشق محمد متخمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے فرمایا کہ سیرت کے جلسے کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ اصل مقصد اُسوہ رسول پر عمل کرنا ہے.پھر آپ نے درود شریف کی برکت اور فضلیت بیان فرماتے ہوئے اس کا ورد کرنے کی طرف توجہ دلائی بعد ازاں قرآن کریم ناظرہ صحت تلفظ کے ساتھ پڑھنے اور اس کا ترجمہ سیکھنے کی تلقین فرمائی.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی اہمیت واضح فرمائی.(از سالانہ رپورٹ لجنہ مرکز یہ 1988ء)

Page 971

خطابات مریم 946 زریں نصائح افتتاح ساتویں آل پاکستان لجنہ اتھلیٹکس وٹورنا منٹ منعقدہ 6 فروری 1988ء تشہد تعوذ اور تسمیہ کے بعد لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے ساتویں آل پاکستان ٹورنامنٹ کا افتتاح فرماتے ہوئے ممبرات سے خطاب کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس سال کھیلوں کے انعقاد کا موقع فراہم فرمایا.قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا الإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ کہ اے انسان! تو سخت محنت کر کے اپنے رب کی طرف جانے والا ہے پھر اس سے ملنے والا ہے.تمام کا وشوں سے اللہ تعالیٰ سے ملنے کے لئے آپ نے محنت کرنی ہے.یہ تمام کاوشیں اس لیے ہیں کہ انسان کا اللہ تعالیٰ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو.کھیل کا میدان ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم نے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے نہ صرف کھیل کے میدان بلکہ ہر میدان میں چاہے وہ تعلیم ہو آگے بڑھیں.کھیل کا میدان یہ سبق دیتا ہے کہ محنت سے گھبرانا نہیں بلکہ آگے سے آگے بڑھنا ہے.میں امید کرتی ہوں کہ آج کھیل میں کسی قسم کی بدنظمی نہیں ہوگی اطاعت کے جذ بہ کو شعار بناتے ہوئے کسی شکایت کا موقع نہ دیں گی جو جز کا فیصلہ ہوگا وہ آخری فیصلہ ہوگا میرے کان تک شکایت نہ پہنچے.محترمہ سیدہ صدر صاحبہ نے اس بات کا اظہار فرمایا کہ بعض لجنات سے ناصرات ان کھیلوں میں شامل ہو جاتی ہیں آپ نے فرمایا کہ جن صدروں نے اگر کوئی ناصرات بھیجنی ہے تو بجائے اس کے کہ ہم لڑکیوں کا چناؤ کریں بلکہ وہ خود منتخب کر کے بہترین لڑکیاں بھجوایا کریں آئندہ ناصرات کے لیے کھیلوں کے پروگرام کے بارہ میں بھی توجہ کر رہے ہیں اگر ناصرات آئی ہیں تو وہ کھیلیں دیکھیں Enjoy کریں لیکن شامل نہیں ہوسکتیں.میری دعا ہے کہ کھیلوں کا دو روزہ اجتماع کامیاب ہوا اور جس نے صحیح کھیل کی ہے وہ اس (از سالانہ رپورٹ لجنہ مرکز یہ 1988ء) کا پھل پائے.آمین

Page 972

خطابات مریم 947 زریں نصائح اختتامی خطاب ساتویں آل پاکستان لجنہ اتھلیٹکس وٹورنامنٹ منعقدہ 1988ء تشہد اور تعوذ و تسمیہ کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کے ساتھ لجنہ کا ساتواں سالانہ ٹورنامنٹ اختتام کو پہنچ رہا ہے.بیشتر اس کے کہ تقسیم انعامات کی تقریب عمل میں لائی جائے میں تمام بچیوں کو مبارکباد پیش کرتی ہوں اللہ تعالیٰ ہمیں بہتر ٹورنامنٹ منعقد کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین آپ نے فرمایا کہ ٹورنا منٹ کا مقصد صرف انعام حاصل کرنا ہی نہیں بلکہ لجنہ کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ بجنات اپنی بچیوں کی تربیت کا خیال رکھیں.اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے.لِكُلِّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُو الخَيرَاتُ.کہ ہر شخص کا ایک مطمع نظر ہوتا ہے اور وہ اس کی طرف کوشش کرنے والا ہوتا ہے.(اے مسلمانو) تمہارا مطمع نظر یہ ہو کہ تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو.ہمیں دنیا کی قوموں میں اپنے آپ کو صف اول میں لانا ہے اس لیے یہ مواقع بہم پہنچائے جاتے ہیں.مجموعی طور پر یہ انتظام اچھا ہے مگر کہیں کہیں رکاوٹیں بھی آجاتی ہیں بعض دفعہ بدمزگیاں ہو جاتی ہیں بعض دفعہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہمارے ساتھ نا انصافی کی گئی ہے حالانکہ جنہیں مقرر کیا جاتا ہے انہیں اصول معلوم ہوتے ہیں.آپ نے وقت کی پابندی کی طرف خصوصی توجہ دلائی اور فرمایا کہ اگر ترقی کرنی ہے تو وقت کی پابند ہوں میں خود وقت پر آنے کی پابند ہوں مگر یہاں آدھا گھنٹہ انتظار کرنا پڑتا ہے.آپ نے فرمایا کہ آپ کے دل میں حسد پیدا نہ ہو کہ فلاں جیتا میں ہاری.ہار جیت تو کھیل

Page 973

خطابات مریم 948 زریں نصائح کے میدان میں لگی رہتی ہے اسے دل میں نہیں لانا چاہئے.اس کے بعد آپ نے تمام نگرانات اور منتظمات کا شکریہ ادا کیا اور سب بچیوں کو مبارکباد پیش کی اور اس کے بعد انہیں یہ ہدایت بھی فرمائی کہ آئندہ سال کے لئے بچیوں کو اچھی طرح تیاری کروائیں پھر مقابلہ جات کے لئے بھجوائیں فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے میں تمام کا رکنات کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں.(از سالانہ رپورٹ لجنہ مرکز یہ 1988ء)

Page 974

خطابات مریم 949 زریں نصائح دورہ ضلع جھنگ 3 دسمبر 1988ء ضلع جھنگ کی مجالس کی حاضر ممبرات کو نصائح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ جماعت کے قیام کو ایک صدی پوری ہو چلی ہے اپنا جائزہ لیں کہ آپ نے اس عرصہ میں کیا کچھ کیا.حضرت مسیح موعود کی بعثت کی غرض و غایت بتاتے ہوئے اپنی کمزوریوں اور برائیوں کو دور کرنے کی طرف توجہ دلائی فرمایا کہ قربانی کرنے والے ہی انعامات کے مستحق ہوتے ہیں ایسا جذبہ اور بیداری اپنے اندر پیدا کریں کہ کام میں کوئی چیز آڑے نہ آئے.عہد یداران اپنا بہترین نمونہ دوسروں کے سامنے پیش کریں بہترین عمل کے ساتھ نئی صدی میں شامل ہوں دوسروں کی کمزوریوں سے بچتے ہوئے اپنی نیکیاں دوسروں میں منتقل کریں.ناصرات کی عمر کی اور جوان بچیوں کی طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے بدعات و رسوم چھوڑ کر پاک معاشرہ قائم کریں.دعا کریں کہ ایسی حکومت سامنے آئے جو ہمارے ملک کے لیے اور ہمارے لیے بہتر ثابت ہو.حضور ایدہ اللہ پوری کامیابی اور شان و شوکت سے جلد واپس تشریف لائیں.پھر آپ نے قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلائی.(از سالانہ رپورٹ لجنہ مرکز یہ 1988ء)

Page 975

خطابات مریم 950 زریں نصائح افتتاح آٹھویں آل پاکستان لجنہ اتھلیٹکس ٹورنامنٹ منعقدہ 15-16 فروری1989ء آپ نے تشہد وتعوذ اور تسمیہ کے بعد حاضرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:.ذہنی جلا اور اچھی سوچ کے لئے اچھی صحت کا ہونا ضروری ہے.اسی لیے لجنہ مرکزیہ کے شعبہ صحت جسمانی نے کھیلوں کا انتظام کیا ہے.آپ نے فرمایا ان دو دنوں میں ہی نہیں بلکہ سارا سال آپ کوشش کرتے ہوئے کھیل جاری رکھیں.آپ نے فرمایا انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اسی لیے زندگی کی ہر دوڑ میں تعلیم حاصل کرنے اور دعاؤں میں ہر بچی کو آگے آنے کی کوشش کرنی چاہئے نیز آپ نے دیانت داری کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا دیانتداری کو اپنا شعار بنا ئیں اگر کھیل کے میدان میں آپ بد دیانتی کریں گی تو زندگی کی دوڑ میں آگے نہیں بڑھ سکیں گی.کھلاڑی اپنی منتظمات کی اطاعت کریں.خدا آپ کے ساتھ ہو.سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان )

Page 976

خطابات مریم 951 زریں نصائح دورہ راولپنڈی، اسلام آباد 1- دورہ راولپنڈی (27 فروری 1989ء) حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ مرکز یہ اور مکرمہ صاحبزادی امتہ المتین صاحبہ 26 فروری کو راولپنڈی کے دورہ پر تشریف لے گئیں.27 فروری 1989 ء کو بیت الحمد مری روڈ میں حضرت سیده مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ مرکزیہ کی زیر صدارت جلسہ منعقد ہوا جس میں راولپنڈی لجنہ کی صدر کا انتخاب عمل میں آیا کاروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا عہد نامہ کے بعد تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ احمدیت کے قیام پر ایک صدی پوری ہو رہی ہے بہت سی مبارک ہستیاں ہم سے جدا ہو چکی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو جشن تشکر منانے کی توفیق عطا فرمائے.آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ نے مسیح موعود کا زمانہ پایا اور آپ کے خلفاء کا زمانہ پایا لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ احمدیت کیوں قبول کی ہے؟ فرمایا کہ مذہب کی کوئی غرض ہوتی ہے سچائی کو قبول کرنے کے لیے اس کے نتائج کو دیکھنا ہوتا ہے.پھر آپ نے حضرت مسیح موعود کے وہ ارشادات بیان فرمائے جس میں آپ نے احمدیت کی غرض بیان فرمائی اور فرمایا تھا کہ مذہب کی جڑ خدا شناسی.اس کی شاخیں اعمال صالحہ.اس کے پھول اخلاق فاضلہ اس کا پھل ذات روحانیہ اور نہایت عمیق محبت ہے جو خدا اور اس کے بندے کے درمیان پائی جاتی ہے.فرمایا کہ نجات کا راستہ صرف ہمارے مذہب کے لیے کھلا ہے لیکن آپ کو اپنے اندر روحانی تبدیلی پیدا کرنی ہوگی اور اپنے فکس کی اصلاح کرنی ہوگی.2- دوره اسلام آباد 28 فروری کو حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجند مرکز یہ اسلام آبا دتشریف لے گئیں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.جماعت احمدیہ کی پہلی صدی

Page 977

خطابات مریم 952 زریں نصائح کے اختتام اور دوسری صدی کے شروع ہونے کا ذکر فرمایا.آپ نے بتایا کہ حضرت مسیح الموعود کے مخالفین کا خیال تھا کہ آپ کی وفات کے ساتھ ہی یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا.لیکن خدا تعالیٰ نے ہر طرح سے آپ کی تائید و نصرت فرمائی.حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے فرمایا کہ صدی کے خاتمہ پر ہم نے خوب خوشیاں منانی ہیں.مگر عین دینی رنگ میں.دعاؤں پر زور دیں.تضرع اختیار کریں.صدقات دیں دکھی انسانوں کی خدمت ، بیماروں کی مزاج پرسی ، قیموں بیواؤں کی امداد، صدقہ و خیرات، جانوروں کی قربانی وغیرہ کی طرف تاکید فرمائی.فرمایا کہ ناصرات و اطفال کی اعلیٰ تربیت کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے ان کو نئی صدی کے تقاضوں کے لیے تیار کریں تا وہ آئندہ ذمہ داریوں کو احسن طریق سے نبھا سکیں.تاریخ احمدیت تمام بچوں کے ذہن نشین کروائی جائے.مطالعہ کا شوق ان کے اندر پیدا کریں.تا وہ اس کے ذریعہ اپنے دل اور دماغوں کو روشن کر سکے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فعل اصلاح معاشرہ کے لیے مشعل راہ ہے.پھر آپ نے شرائط بیعت پر روشنی ڈالتے ہوئے ان پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی.موجودہ زمانہ میں احمدیوں پر سختیوں اور قربانیوں کا ذکر آپ نے بڑے احسن رنگ میں بیان فرمایا مگر ساتھ ہی ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور اخوت کے ساتھ پیش آنے کی تلقین فرمائی نماز پر پابندی سے عمل پیرا ہونے ، پردہ کرنے اور نیک صالح عمل اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان )

Page 978

خطابات مریم 953 زریں نصائح حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنه مرکزیہ کی سویڈن میں آمد 2 / اگست 1989 ء کو حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ اپنی انتہائی مصروفیت کے باوجود پہلی مرتبہ سویڈن تشریف لے گئیں.آپ نے حضرت بانی سلسلہ کا قیام اور دعوی کے موضوع پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے جماعت کی بنیاد رکھی.آپ کا دعویٰ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کا کیا مقام ہے.آپ نے حضور کے حالات زندگی قدرے تفصیل کے ساتھ نہایت ایمان افروز طور پر بیان فرمائے.آپ نے فرمایا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی آمد کا مقصد تو حید کی طرف بلانا اور نیک فطرت بندوں کو دین واحد پر جمع کرنا تھا.سو آپ اس مقصد کی پیروی کریں مگر نرمی ، اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے.پھر آپ نے نصائح فرمائیں کہ اپنا فرض ادا کریں اور دعاؤں صبر و استقامت اور اپنی اصلاح کر کے اللہ تعالیٰ کا فضل جذب کریں.اپنے بچوں کی صحیح تربیت کریں ان میں احمدیت کے لئے غیرت کا جذبہ پیدا کریں.اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کریں.(رپورٹ لجنہ سویڈن.1989ء) ☆

Page 979

خطابات مریم 954 آل پاکستان لجنہ میچز منعقدہ دسمبر 1990ء زریں نصائح حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے مختصر افتتاحی خطاب میں فرمایا کہ امسال اجتماع کے لیٹ ہونے اور امتحانات کی وجہ سے کھلاڑی لڑکیوں کی تعداد کافی کم ہے لہذا آپ جب واپس جائیں تو عہد یداران کو جا کر پیغام دیں کہ ہمیں اپنی مناسب آراء بھجوائیں کہ کھیلوں کے لیے کونسا مہینہ مناسب ہوگا یہ مقابلے موسم گرما میں نہیں کروائے جا سکتے.اوّل تو پنجاب میں گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے اور دوسرے ہال میں پنکھے چلانے بھی ممکن نہیں لہذا مناسب مشورے تحریر کر کے ارسال کریں.بعد ازاں آپ نے فرمایا کہ فَاسْتَبِقُوا الخَیرات کو ہمیشہ مدنظر رکھیں ہر نیکی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں خواہ وہ تعلیم ہو عبادت ہو یا خدمت خلق ہو.ہماری کھیلیں بھی اسی زمرے میں آتی ہیں کیونکہ آپ کو یہاں پر اچھا ماحول میسر آتا ہے اور صحت مند مقابلہ کی فضاء ہوتی ہے لہذا آپ تکلیف پہنچائے بغیر اس میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور اگر کسی ضیف کی کوئی بات غلط محسوس ہو تو بھی ان کے فیصلے کو ماننے کی کوشش کریں جس بات سے منع کیا جائے وہ نہ کریں بعض کھلاڑیوں کو Draws وغیرہ پر اعتراض ہوتا ہے حالانکہ یہ میرے سامنے نکالے جاتے ہیں اس میں کسی کی پسند نا پسند کا دخل نہیں ہوتا لہذا یہ اعتراض بے بنیاد ہے.تقریب تقسیم انعامات حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ پاکستان نے تقریب کے اختتام پر کھلاڑی لڑکیوں سے خطاب فرمایا جس میں آپ نے فرمایا کہ میں نے قبل ازیں یہ بھی بتایا تھا کہ میچز کے لیے یہ مہینہ مناسب نہیں کیونکہ اس عرصہ میں تعلیمی مصروفیات بہت زیادہ ہوتی ہیں لیکن میچز کا الگ انعقاد اس لیے کیا گیا تھا کہ دونوں مقابلوں سے لطف اندوز ہوا جا سکے.آپ نے فرمایا کہ جتنی جان آپ بچیاں کھیل میں لڑاتی ہیں اگر اس سے آدھی جان آپ قرآن مجید کا ترجمہ سکھنے کی طرف صرف کریں تو آپ کو اس میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی لہذا آپ دوسری نیکیوں کی سرانجام دہی کے لیے بھی ایسے ہی جانیں لڑائیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کا قیام اسی لیے فرمایا ہے کہ دنیا سے نا پا کی ختم ہو اللہ تعالیٰ آپ کو یہ ذمہ داری اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین (سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1991ء)

Page 980

خطابات مریم 955 زریں نصائح دوره فیصل آباد مورخہ 13 ستمبر 1990ء) آپ نے فرمایا کہ ہم نے حضرت مسیح موعود کو صدق دل سے مانا اور سینکڑوں بشارتوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھا ہر صبح جو چڑھتی ہے گواہی دیتی ہے کہ آپکا دعوی سچا تھا ہر شام آپ کی صداقت پر مہر ثبت کرتی ہے خدا کرے کہ وہ وقت جلد آئے جب ساری دنیا آنحضرت علی کے جھنڈے تلے پناہ لے.لیکن اس غلبہ کے لئے جو قربانیاں ہمیں دینی چاہئیں ان کی رفتا را گر یہی رہی کہ آج 81 مجالس میں سے صرف 19 مجالس نے نمائندگی کی ہے ہمارا حصہ ان قربانیوں میں نہ ہوا تو ہم بڑے ہی بد قسمت ہو نگے اللہ تعالیٰ ہمارا محتاج نہیں اس کی تقدیر تو ہر صورت میں پوری ہوگی زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے وعدے جو اللہ نے مسیح موعودؓ سے کیسے مل نہیں سکتے.لیکن ان کے لیے استقامت کی ضرورت ہے تا کہ کسی سوراخ سے شیطان ہمارے دل اور دماغ پر قبضہ نہ کر سکے ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے یہ تو مومن کی آزمائش کے لیے آتے ہیں تا یہ معلوم ہو سکے کہ کون اپنے دعوی بیعت میں صادق ہے اور کون کا ذب ہے ہر عورت کو اس عہد کو تازہ کرتے رہنا چاہئے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق بخشے اور آئندہ آپ کی غفلتوں اور سستیوں کو اپنے فضل سے دور فرمائے ( آمین ) (سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1991ء)

Page 981

خطابات مریم 956 زریں نصائح ضلعی اجلاس سیالکوٹ منعقدہ بمقام نارووال (مورخہ یکم فروری 1991ء) آپ نے فرمایا آج دنیا کو ضرورت ہے کہ ان کی اولادوں کے دلوں میں دین کی محبت ڈالیں تا وہ عمل صالح کی ادائیگی سے پاک زندگیاں گزارنے کے قابل ہوں ابتدا میں جو جذ بہ اور جوش سیالکوٹ کی لجنہ میں کارفرما تھا اب وہ نہیں رہا یہ قابل افسوس امر ہے مومن کا قدم آگے بڑھتا ہے پیچھے نہیں ہوتا ہر عورت اپنا جائزہ لے اور اپنی سستی کو دور کرنے کی کوشش کرے اگر ہر کوئی عہد کر لے کہ اجلاس نہیں چھوڑے گی کام کی رپورٹ بھجوائے گی تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی نہ ہو.آپ جانتی ہیں کہ وقف نو کی تحریک کتنی با برکت تحریک ہے لیکن صرف اس کی تحریک میں شامل ہو جانا ہی کافی نہیں وہی ماں اپنے بچے کی بھی تربیت کر سکتی ہے جس کے دل میں دین سے پیار ہو جو خود دین کے کاموں میں حصہ نہیں لیتی عمل نہیں کرتی کس طرح اس بچے کی حفاظت کر سکتی ہے.ان میں اعلیٰ اخلاق بچپن سے ہی پیدا کرنے کی طرف توجہ دیں حضور کے پانچ نکاتی پروگرام کو اپنا لائحہ عمل بنائیں.دعوت الی اللہ کی طرف بھر پور توجہ دیں بے پردگی کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے محبت و پیار نرمی اور حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے اس بات کو واضح کریں کہ یہ قرآن کا حکم ہے اس لیے اس سے غفلت کا نتیجہ اچھا نہ ہو گا نو جوان بچیوں کو اپنے ساتھ کام میں لگا ئیں.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1991ء)

Page 982

خطابات مریم 957 زریں نصائح دوسری سالانہ کھیلیں ناصرات الاحمدیہ پاکستان 1991ء تشہد اور تعوذ کے بعد آپ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ لجنہ کی دسویں اور ناصرات کی دوسری آل پاکستان کھیلوں کی افتتاحی تقریب کا اعلان کرتی ہوں آج ناصرات کی کھیلوں کا آغاز ہو رہا ہے.بچیوں کو زیادہ شوق اور جذ بہ ہوتا ہے اگر چہ امتحانوں کے باعث گزشتہ سال کی نسبت کھلاڑیوں کی تعداد پہلے سے کم ہے تاہم میں بچیوں کو یہ نصیحت کرتی ہوں کہ کھیل کا میدان تربیت کا میدان ہے ان کھیلوں کے انعقاد کا مقصد بھی ایسی تربیت کرنا ہے جو ایک احمدی کی ہونی چاہئے آج ساری دنیا وقت کی پابندی اور صف بندی کی تلقین کر رہی ہے یہ ساری تعلیم ہمارے دین نے ہمیں پہلے سے دے رکھی ہے پس بچیوں میں نظم وضبط پیدا کرنا چاہئے.لڑائی جھگڑے سے بچیں.چھوٹی چھوٹی باتوں پر جز کے خلاف شکایت نہ ہو دعا بھی کریں.مرکز میں قیام کے دوران سنجیدگی اور آگے بڑھنے کا جذبہ قائم ہو جب آپ واپس جائیں تو آپ کے والدین کو احساس ہو کہ آپ کچھ سیکھ کر آئی ہیں.دوسرا روز لجنہ اماءاللہ کی دسویں سالانہ کھیلوں کا افتتاح حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ پاکستان نے لجنہ کی کھلاڑیوں سے مختصر خطاب فرمایا.آپ نے فرمایا کہ نا مساعد حالات میں کھیلیں ہو رہی ہیں ایک طرف بارش.لاؤڈ سپیکر کی اجازت نہیں ملی جو دلچپسی اس کے ساتھ ہوتی ہے اتنی دلچسپی سے پروگرام نہیں ہو سکتے اس کے باوجود انتظام بہت بہتر ہے.کھلاڑی لجنہ کی تعداد میں کمی امتحان کی وجہ سے ہے مشورہ دیں کہ آئندہ سال کھیلوں کے لیے کونسا ہفتہ رکھا جائے سیکرٹری صحت جسمانی سے مشورہ کریں اور لائحہ عمل شائع ہونے سے قبل تجاویز اور مشورے مل جائیں.تھلیٹکس میچز کے ساتھ نہیں ہوں گی دونوں پر غور کر کے مشورہ دیں تا کہ ناصرات بھی بآسانی شامل ہو سکیں لڑائی جھگڑا نہ کریں.مسابقت ہو لیکن ایک دوسرے کو تنگ کر کے نہیں بلکہ جدو جہد کے ساتھ بدظنی اور جھوٹ سے بچیں جس نئی کھیل میں حصہ لینا ہو پہلے اطلاع دیں.روحانی صحت کے لیے جسمانی صحت کا ہونا ضروری ہے.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1992ء)

Page 983

خطابات مریم 958 زریں نصائح لاہور میں جلسہ اصلاح وارشاد تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین داعی الی اللہ بنے کی توفیق دے.نصیحت کا حق بھی اسی کو حاصل ہے جو خو د داعی الی اللہ ہو.یہ بہت مشکل کام ہے اسے لگن کے ساتھ سرانجام دیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تبلیغ کا بہت خیال رہتا تھا اس لیے جو بھی داعی الی اللہ بنے.وہ صرف نام کی نہ ہو بلکہ اس کے دل میں تڑپ ہو.اک آگ لگی ہوئی ہو.وہ انتظار نہ کرے کہ کوئی اس کے پاس آئے بلکہ وہ خود موقع ڈھونڈے حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے فرمایا ہے کہ بار بار پیچھا کیے جاؤ مگر یہ ضرور جان لو کہ زمین زرخیز ہے کہ نہیں.ورنہ پیچھا چھوڑ دو اور نئے لوگوں کی طرف رجوع کرو اپنے لوگوں کی غلط فہمیاں دور کرنی ہیں اس لیے اپنا بہترین نمونہ پیش کریں.مطالعہ کی عادت ڈالیں ، خلفاء کی کتب کا خاص طور پر مطالعہ کریں اپنی اور اپنی اولادوں کی اصلاح کریں تا انقلاب نظر آئے اور گھر جنت کا نمونہ بن جائیں.قرآن کریم پر عمل کریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اپنا ئیں.سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 92-1991ء)

Page 984

خطابات مریم 959 تھلیٹکس افتتاح بارہویں آل پاکستان ا آپ نے فرمایا کہ:.منعقدہ 6-7-8 فروری 1993ء زریں نصائح قرآن کریم کی تعلیم ہے فَاسْتَبِقُوا الخَیرات یعنی ہر نیکی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو.یعنی ہم نے مسابقت کی روح پیدا کرنی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمت کا ساتھ نہ چھوڑیں.استقلال پر قائم رہنا.ہر فرض جو سپر د کیا جائے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہمارا کام ہے لیکن اس کے نتیجہ میں بغض و عناد کو پیدا نہیں ہونے دینا، پیار و محبت اور صلح سے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرنا ہے.آپ نے فرمایا کہ:.دین کے کام ہوں یا دنیا کے کام ہوں ہر کام خدا کی خاطر کیا جائے.خدا نے فرمایا ہر نیکی کا کام تمہارا وجود حاصل کرے اور اس میں ایک دوسرے سے سبقت لے جائیں.مختلف شہروں سے لڑکیاں کھیلوں میں شامل ہوئی ہیں.بعض مرتبہ ان کو احساس ہو جاتا ہے کہ شاید ہمارے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے حالانکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے.جن کے سپر د ڈیوٹی کی جاتی ہے وہ نا انصافی نہیں کر سکتے کیونکہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ انصاف اور امانت کو قائم کرنے کی طرف خصوصی توجہ دلا رہے ہیں.اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو ادا کرنا بھی امانت ہے اصل چیز جو کھیلوں میں ضروری ہے محنت ہے.ایک لڑکی جو سارا سال محنت کرتی ہے وہ آگے نکل جاتی ہے اور یہی جذ بہ ہونا چاہئے کہ محنت کر کے آگے بڑھیں.آخر میں آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ آپ کے کاموں میں برکت ڈالے.آپ کی کوششوں میں ترقی دے اور آپ دنیا کی دوسری خواتین سے پیچھے نہ رہیں.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان )

Page 985

خطابات مریم 960 افتتاح چودھویں آل پاکستان زریں نصائح تھلیٹکس 1995ء 22 جنوری 1995ء کو لجنہ اماءاللہ پاکستان کی چودھویں سالانہ کھیلوں کا افتتاح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :.کھیلوں کے میدان کے علاوہ اور بھی میدان ہیں جن میں آپ کو آگے نکلنا ہے ہر نیکی میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں.حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے خطابات سنیں اور غور کریں کہ آ کہاں تک ان پر عمل پیرا ہیں.آپ کا وجود ایک خوشبو کی طرح ہونا چاہئے دوسروں کی استاد بنیں ان کی نقل کرنے والی نہ ہوں ہر نیکی کے کام میں آگے بڑھیں.ہراچھے کام کی اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے.سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 95-1994ء)

Page 986

خطابات مریم 961 زریں نصائح افتتاح پندرھویں آل پاکستان تھلیٹکس وٹورنامنٹ.منعقدہ 13-14-15 جنوری 1996ء یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ کے پندرھویں سالا نہ ٹورنامنٹ کے افتتاح کی سعادت مجھے حاصل ہوئی.پیاری بچیو! ہر کام کا ایک مقصد ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.لِكُلِّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُو الخَيرَاث ہر انسان کا ایک مطمح نظر ہوتا ہے.بہت سارے مقاصد ہوتے ہیں جن کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.لیکن سب سے اعلیٰ مقصد یہ ہے کہ تم نے نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے.جتنا بڑا مقصد بیان کیا گیا ہے اتنی ہی کوشش کی ضرورت ہے.ہم کو چاہئے کہ اس کھیل کے میدان میں بھی اس کو یاد رکھیں.ہمارا مقصد صرف کھیل جیتنا نہیں ہونا چاہئے بلکہ تمام اعلیٰ اخلاق تمام نیکیاں ان میں ہم نے آگے بڑھنا ہے.تم سے زیادہ اعلیٰ اخلاق والا اور کوئی نہ ہو.دیکھنے والے دیکھیں کہ یہ احمدی ہیں کھیل کے میدان میں کھیل کے ساتھ ساتھ تمام نیکیاں تمام اعلیٰ اخلاق کی باتیں آپ میں پیدا ہوں.ہر پہلو میں خواہ وہ تعلیمی ہو ، معاشرتی پہلو ہو یا اخلاقی پہلو ہو اس میں آگے رہنا ہے.آج کی بارش نے بھی دکھا دیا ہے کہ آپ جس مقصد کے لئے آئی ہیں کس قدر مخلص ہیں تو یاد رکھیں کہ دنیا میں آپ کا کردار ایک نمونہ ہو.بعض بچیاں نماز سے غافل ہوتی ہیں اور اس کی طرف توجہ نہیں دیتیں.سفر میں ہوں یا جہاں بھی ہوں نما ز ا ولین فرض ہے اس پر خصوصی توجہ دیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سب لڑکیاں اس نصیحت کو یا درکھیں.(سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1996ء) ☆

Page 987

خطابات مریم 962 زریں نصائح افتتاح تربیتی کلاس برائے طالبات میٹرک 1996ء کلاس کی افتتاحی تقریب میں آپ نے طالبات کو ضروری نصائح کرتے ہوئے فرمایا :.جو پروگرام کلاس کے بنائے گئے ہیں میں امید کرتی ہوں کہ آپ اس میں بھر پور حصہ لیں گی.آپ نے بچیوں کو وقت پر نماز ادا کرنے کی تلقین کی.اپنے اندر اخلاق اور تقویٰ کی روح پیدا کریں.باقاعدگی سے M.T.A پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات سنیں.اپنے بیر کس کے قیام کے دوران اپنے آپ کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ آپ کے معمولات میں فرق پڑا ہے یا نہیں؟ نیز یہاں آنے کا آپ کو کتنا فائدہ حاصل ہوا ہے؟ (سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 96-1995ء)

Page 988

خطابات مریم 963 زریں نصائح افتتاح سولہویں آل پاکستان لجنہ تھلیکس وٹورنا منٹ منعقدہ جنوری 1997ء آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے لجنہ کے سولہویں کھیل منعقد ہو رہے ہیں.بظاہر یہ ایک دنیاوی چیز لگتی ہے.دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ کھیل تماشے ہیں لیکن جو بھی کام ہم کرتے ہیں اس میں روحانیت ضرور ہوتی ہے اس لئے میری بچیو! جو کھیل لجنہ کے تحت کروائے جائیں ان سے ضرور کچھ نہ کچھ سیکھیں.یہ ظاہری چیز نہیں ہے اس میں بھی تنظیم سیکھ سکتی ہیں اور بہت سی دوسری اچھی باتیں سیکھ سکتی ہیں.میں سمجھتی ہوں کہ یہ بھی ہماری روحانی تربیت کا ذریعہ ہے اور خاص طور پر آپ سب کے لئے.اللہ آپ کو توفیق دے کہ جس مقصد کے لئے کھیل منعقد کئے گئے ہیں وہ پورا ہو.آمین (از سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ پاکستان 1997ء)

Page 988