Khatabat-eMaryam Vol 1

Khatabat-eMaryam Vol 1

خطابات مریم (جلد اوّل)

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

اس کتاب میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ معروف بہ حضرت چھوٹی آپا رحمھا اللہ تعالیٰ کی تقاریر و تحریرات کو جمع کیا گیا ہے جو وقتاً فوقتاًالفضل، مصباح اور دیگر جماعتی رسائل میں شائع ہوتی رہیں۔ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ کی لخت جگر، ام المومنین حضرت اماں جان رضی اللہ عنہ کی بھتیجی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زوجیت کا شرف پانے والی اس مقدس ہستی نے احمدی مستورات کی تربیت کی خاطر مختلف مواقع پر جلسوں اور اجتماعات وغیرہ پر تقاریر فرمائیں۔ نیز مرکز سے باہر رہنے والی لجنات کو سالانہ اجتماعات اور اہم جلسوں پر پیغامات بھجوائے تا کہ انہیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی جاسکے۔ قارئین کی سہولت کی خاطر اس مجموعہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: (1)تحریرات ۔( 2) خطابات۔ (3) پیغامات۔ ( 4) نصائح حضرت چھوٹی آپا چونکہ حضرت مصلح موعودؓ سے براہ راست تربیت یافتہ وجود تھیں۔ آپ کی شخصیت، نرم مزاجی، شفقت و محبت اور عجز و انکسار کا عکس آپ کی تقریر و تحریر سے بھی عیاں ہے۔ سادہ و سلیس زبان میں بیان کی گئی نصائح اور ہدایات پڑھنے والوں کے دل میں اترتی محسوس ہوتی ہیں اور یہ نہیں لگتا کہ کوئی بات یا نصیحت آپ پر زبردستی مسلط کی جارہی ہے۔ ملت کا درد اور اصلاح معاشرہ کا عزم آپ کی نصائح میں جابجا پایا جاتا ہے۔ یہ مجموعہ 2جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد میں ابتداء سے لیکر 1972ء تک کاقیمتی مواد شامل ہے، باقی مواد 1973ءتا 1997ءکو جلد دوم میں پیش کیا گیا ہے۔  


Book Content

Page 1

خطابات مریم جلد اوّل

Page 2

خطابات مریم تحریرات،خطابات، پیغامات اور نصائح حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ حرم سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقده جلد اوّل

Page 3

بسم الله الرحمن الرحيم حضرت سیدہ چھوٹی آپا کی تقاریر وتحریرات کا مجموعہ گزشتہ کئی سال سے تیاری کے مراحل میں تھا.عجب حسن اتفاق ہے کہ خلافت احمد یہ جو بلی کے مبارک سال میں اس کی طباعت ممکن ہو سکی ہے.آپ سیدہ کو خلافت احمدیہ کے ادب واحترم اور اطاعت میں بے حد بلند مقام حاصل تھا اور خلافت سے تو گویا عشق تھا.بہت چھوٹی عمر میں آپ حضرت مصلح موعود کے عقد میں آئیں اور زندگی ایک قرینے سے گزرنے لگی.اپنی شادی کے متعلق آپ خود تحریر فرماتی ہیں عموماً شادیاں ہوتی ہیں دلہا دلہن ملتے ہیں تو سوائے عشق و محبت کی باتوں کے اور کچھ نہیں ہوتا لیکن مجھے یاد ہے کہ میری شادی کی پہلی رات بے شک عشق و محبت کی باتیں بھی ہوئیں مگر زیادہ تر عشق الہی کی باتیں تھیں آپ کی باتوں کا لب لباب یہ تھا اور مجھ سے ایک طرح یہ عہد لیا جار ہا تھا کہ میں دعاؤں اور ذکر الہی کی عادت ڈالوں دین کی خدمت کروں اور حضرت خلیفہ اسیح کی عظیم ذمہ داریوں میں آپ کا ہاتھ بٹاؤں بار بار آپ نے اس کا اظہار فرمایا کہ میں نے تم سے شادی اسی غرض سے طے کی ہے اور میں خود بھی اپنے والد کے گھر سے یہی جذبہ لے کر آئی.شادی کے بعد حضور نے میری تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور بی اے کے بعد دینی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا اور قرآن کریم کا کچھ حصہ سبقاً پڑھنا نوٹس لینے کی عادت بھی آپ ہی نے مجھے ڈالی جو بعد میں حضور ملاحظہ فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے ایک ایک لفظ لکھنا ہے بعد میں دیکھوں گا آہستہ آہستہ اتنا تیز لکھنے کی عادت ہوگئی کہ حضور کے جلسہ کی تقریر بھی نوٹ کر لیتی تھی.1947ء کے بعد تو تقریباً ہر خط مضمون اور تقریر کے نوٹ مجھ سے ہی املاء کرواتے تفسیر

Page 4

صغیر مسودہ کا اکثر حصہ مجھ سے ہی املاء کر وایا قرآن مجید پڑھاتے ہوئے اس بات پر زور دیتے تھے کہ خود غور کرنے کی عادت ڈالو صرف و نحو کل آپ نے خود پڑھائی اور ایسے سادہ طریق سے پڑھائی کہ یہ مضمون بھی مشکل ہی نہ لگا تقریر کرنا آپ نے خود سکھایا جب آپ نے مجھ سے جلسہ سالانہ پر تقریر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو میں نے عرض کیا کہ آپ لکھ دیں میں پڑھ دوں گی فرمایا اس طرح تمہیں کبھی تقریر کرنی نہیں آئیگی.اس موضوع پر میں تمہارے سامنے تقریر کرتا ہوں تم غور سے سنوضروری حوالہ جات وغیرہ نوٹ کرو پھر انہی کی مدد سے تقریر کرو میں سنوں گا.(الفضل 25 مارچ 1966 ) فرماتی تھیں کہ شادی کے اگلے دن ہی حضرت مصلح موعود نے کچھ لکھوانے کے لئے قلم دیا اور پھر مجھے قلم تھاہی دیا.حضرت مصلح موعود کی وفات کے بعد حضرت مرزا ناصر احمد صاحب اور پھر حضرت مرزا طاہر احمد صاحب مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے.دونوں رشتہ میں آپ کے بیٹے تھے لیکن آپ کا ان سے تعلق عجیب فدایت کا رنگ لئے ہوتا ہمحبت کا اظہار انتہائی خادمانہ ہوتا تھا.دربارِ خلافت کے ہر حکم کو مکمل شرح صدر سے ماننا اور عمل کرنا آپ کا وطیرہ تھا.آپ کی تقاریر اور تحریرات کے اس بیش بہا خزانہ میں اس کا رنگ بے حد نمایاں ہے.

Page 5

دیباچه چھوٹی آپا کے نام سے معروف حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کے گھر 1918ء میں پیدا ہوئیں حضرت ڈاکٹر صاحب دلی کے مشہور بزرگ حضرت خواجہ میر درد کی اولاد تھے.حضرت میر ناصر نواب صاحب کے فرزند ارجمند اور اماں جان حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ حرم سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھائی تھے آپ ایک عارف باللہ، صوفی منش، صاف دل اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص راز و نیاز کا تعلق رکھنے والے بزرگ تھے اپنے ایک مضمون بعنوان ”صنم خانہ عشق میں ایک رات میں رقمطراز ہیں:.آدھی رات تو ہو چکی تھی میں چوکھٹ پر سر رکھے پڑا تھا اور اٹھنے کا خواہش مند تھا کہ اٹھنے کی اجازت لی اور یوں محسوس ہوا کہ کوئی پوچھتا ہے کیا چاہتا ہے میں نے عرض کیا.اے سوئے در رو خداوند درگاه من گنا ہم بخش بخش خویش عالم مرا عزیز توئی راہم از تو نیز توئی و آنچه می خواہم ” مفت؟“ میں نے کہا میں کیا پیش کر سکتا ہوں جو کچھ ہے وہ آپکا ہی دیا ہوا ہے.” جان اور ایک چیز سب سے عزیز میں نے ویسی فجر کی نماز ساری عمر نہیں پڑھی اُف وہ خوشی وہ عجیب اور نئی قسم کی خوشی.ز ہے نصیب.وہ اور مجھ سے میری جان کا مطالبہ کریں وہ اور مجھ سے ایک اور عزیز چیز کی نذر طلب کریں“ چنانچہ اٹھتے ہی آپ نے پہلے دو بکرے صدقہ کیے پھر اپنا ذاتی مکان انجمن کے نام کر دیا آپ فرماتے ہیں.ان باتوں سے فارغ ہو کر گھر گیا تو ایک اور عزیز چیز نظر آئی جس کا نام مریم صدیقہ تھا.میں نے اُسے اٹھا کر کہا کہ اس کا نام ہی شاہد ہے میرا پہلے سے بھی ارادہ تھا اب اسے بھی قبول فرمائیے“ یہ واقعہ 1921ء کا ہے جب حضرت چھوٹی آپا کی عمر تقریباً تین سال تھی.حضرت سیدہ چھوٹی آپا فرماتی ہیں کہ میری شادی پر ابا نے میری نوٹ بک میں لکھ کر دیا:.مریم صدیقہ جب تم پیدا ہوئیں تو میں نے تمہارا نام مریم اس نیت سے رکھا تھا کہ تم کو خدا تعالیٰ اور اس کے سلسلہ کے لئے وقف کر دوں اسی وجہ سے تمہارا دوسرا نام ”نذرالہی بھی تھا.“

Page 6

30 ستمبر 1935ء کو آپ حضرت مصلح موعود کے عقد میں آئیں اور آپ کی تربیت کا ایک نیا دور شروع ہوا.شادی کے بعد آپ نے ایف اے سے ایم اے عربی تک تعلیم حاصل کی اس کے علاوہ دینیات کلاس اور علیمیہ کے امتحان بھی پاس کئے.عربی زبان اور صرف و نحو اور قرآن مجید کا ترجمہ وتفسیر آپ نے حضرت مصلح موعود مرقدہ سے سیکھے.بعد ازاں ساری زندگی آپ نے قرآن کریم پڑھانے کے لئے وقف کر دی.آپ نے 1942ء میں لجنہ کے کام کا آغاز حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ کے ساتھ بطور جنرل سیکرٹری کیا.حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ کی وفات کے بعد صدر لجنہ اماءاللہ کے عہدہ پر فائز ہوئیں اور 1999 ء تک مسلسل قابل قدر تاریخ ساز خدمت کی توفیق پائی.آپ کے دور صدارت کے چند اہم کاموں میں نصرت انڈسٹریل ہوم کا قیام ربوہ میں فضل عمر ماڈل سکول کا اجراء جامعہ نصرت سائنس بلاک کا آغاز علم، دوستی کی مثال ہیں آپ جامعہ نصرت برائے خواتین میں ڈائر یکٹریس کے عہدہ پر بھی فائز رہیں تاری لجنہ کی پہلی 5 جلدیں بھی آپ کی محنت اور کاوش کا زندہ ثبوت ہیں آپ بہترین انتظامی صلاحیتوں کی مالک تھیں.حسن اخلاق اور اعلیٰ کردار کے لحاظ سے آپ احمدی خواتین کے لئے قابل نمونہ تھیں.آپ تقوی شعار، خدا ترس، با اخلاق ، سادہ مزاج، زیرک ، معاملہ فہم اور عاشق قرآن بزرگ تھیں.خلافت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا رنگ آپ کی ذات میں جھلکتا ہے آپ کی ذات کی ایک نمایاں خوبی جو بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے آپ کی بے نفس تھی باوجود اپنی طبیعت کی خرابی کے ہر ایک کی شادی غمی میں شریک ہوتیں.ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک اور شفقت آپ کا طرہ امتیاز تھا.خدا تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ اللہ ہمیشہ آپ کی روح پر اپنی برکتیں اور رحمتیں نازل فرماتار ہے.آمین.کا سرمہ تمہاری شرم زینت شفیق شفیق سی و حیا مسکان تمہاری آنکھ تمہارے چہرے کی تمہاری ذات کی خوبی تمہاری ہے نفسی جھومر ނ ہر قدم اُٹھا تمہارے ماتھے کا ہو کس طرح تمہارا خدا کرے کہ وہاں بھی تم اُن کے ساتھ تمہارا نام ہے منسوب جن کے نام کے ساتھ ہے دین کا عرفان اطاعت گزاریوں کا شمار فقط امام کے ساتھ رہو

Page 7

پیش لفظ خطابات مریم حضرت چھوٹی آپارتمھا اللہ تعالیٰ کی تقاریر وتحریرات کا مجموعہ ہے جو وقتا فوقتا الفضل، مصباح اور دیگر رسالہ جات میں شائع ہوتی رہیں.مستورات کی تربیت کی خاطر حضرت چھوٹی آپا نے مختلف اوقات میں جلسوں اور اجتماعات پر تقاریر فرمائیں.نیز بیرونی لجنات کو ان کے سالانہ اجتماعات اور جلسوں پر پیغامات بھی بھجوائے تا کہ انھیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی جاسکے.آپ کے مجموعہ تقاریر کی پہلی جلد پیش خدمت ہے جس میں ابتدا سے لے کر 1972 ء تک کی تقاریر شامل ہیں.جو تقاریر مکمل دستیاب نہیں ہو سکیں ان کا خلاصہ شامل کیا گیا ہے اس مجموعہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے.(1) تحریرات (2) خطابات (3) پیغامات (4) نصائح حضرت چھوٹی آپا کی شخصیت ، آپ کی نرم مزاجی، شفقت و محبت، عجز وانکسار کا عکس آپ کی تقاریر و تحریرات میں بھی خوب نظر آتا ہے.سادہ اور سلیس زبان میں بیان کی گئی نصائح اور ہدایات پڑھنے والے کے دل میں اترتی محسوس ہوتی ہیں یہ نہیں لگتا کہ کوئی بات یا کوئی نصیحت آپ پر زبر دستی مسلط کی جارہی ہے.بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ صحیح سمت کی طرف راہنمائی ہے جو انتہائی پیار اور درد بھرے انداز میں کی جارہی ہے.ملت کا در داور اس کو ابھارنے کا عزم آپ کی نصائح میں جابجا پایا جاتا ہے.پوری کوشش کی گئی ہے کہ اس مجموعہ میں الفضل، مصباح اور دوسرے رسالہ جات میں شائع شدہ ہر تقریر شامل ہو جائے لیکن اگر آپ کے علم میں ایسی تقریر یا پیغام آئے جو اس مجموعہ میں شامل ہونے سے رہ گیا ہے تو ضرور اطلاع دیں تا کہ اسے آئندہ ایڈیشن میں شامل کیا جاسکے.

Page 8

نمبر شمار 1 2 3 4 5 6 7 8 9 تحریرات مضمون حضرت خلیفہ آسیح الثانی کے احسانات طبقہ نسواں پر لجنہ اماءاللہ کے قیام کی ضرورت اور اہمیت عربی صحافت کی تاریخ تقوى پیشگوئی مصلح موعود پر ایک طائرانہ نظر اسلام میں پردہ کی اہمیت آنحضرت ﷺ کی بے مثال قوت قدسیہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی مقدس سیرت کی جھلکیاں نظام وصیت میں احمدی خواتین کی شمولیت سن صفحہ نمبر 10 سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے اقوال کی روشنی میں 1966 ء | 11 12 13 14 15 16 17 18 19 پردہ میں بے پردگی تعلیم نسواں کے متعلق حضرت مصلح موعود کا نظریہ 2 1939 6 $1945 9 $1950 12 $1950 20 $1955 24 $1965 38 $1965 55 $1966 77 $1966 80 101 $1966 106 $1966 114 132 $1967 138 $1967 142 $1967 145 $1968 164 $1968 167 $1971 168 آنحضرت ﷺ کے اخلاق فاضلہ صفات الہیہ کے مظہر میں 1966ء سیرت حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی کی ایک جھلک ایک ضروری تحریک.ترک رسومات تحریک جدید دفتر سوم اور لجنات اما ء اللہ کا فرض اسلام ہی زندہ مذہب ہے تین سال قبل کی ایک رات تنظیم موصیات 20 تاریخ احمدیت جلد گیارہ حضرت مصلح موعود کی اولوالعزمی کی خوبصورت | 1971ء تصویر ہے

Page 9

نمبر شمار مضمون خطابات سن صفحہ نمبر 1 اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی! 1944 ء 2 امتہ الحی لائبریری کا احیاء 172 181 $1950 بیرونی ممالک سے آنیوالی اور وہاں جانیوالی احمدی بہنوں کی 1951ء 183 خدمت میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے سپاسنامہ حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کا احمدی بہنوں سے خطاب جامعہ نصرت ربوہ کی سالانہ رپورٹ بر موقع تقسیم انعامات افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 26 دسمبر 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے پہلے سالانہ اجتماع میں خطاب خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ خطاب 27 دسمبر جلسہ سالانہ مستورات خطاب جلسه سالانه مستورات افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ اختتامی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماء الله خطاب صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ جلسہ سالانہ 1959ء افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ خطاب جلسہ سالانہ ”وقف زندگی کی اہمیت افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 185 $1952 186 $1952 192 $1954 193 $1956 195 $1957 197 $1957 199 $1958 203 $1959 205 $1959 207 $1959 جنوری 209 1960 210 $1960 214 $1960 218 $1960 220 $1960 222 $1961

Page 10

نمبر شمار 20 21 مضمون اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ خطاب جلسہ سالانہ مستورات من صفحہ نمبر 22 سرور کائنات حضرت محمد مصطفی امت کے عدیم المثال فضائل ومحامد 1962 ء خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ مرکزیہ 23 24 25 26 27 28 29 29 30 31 32 33 33 34 35 36 37 38 39 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِين خطاب جلسہ سیرت النبی ﷺ لجنه کراچی افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ خطاب جلسہ سالانہ پردہ کی اہمیت“ آنحضرت ﷺ کے اخلاق فاضلہ افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 224 $1961 226 $1961 228 244 $1962 245 1962 253 1962 277 1962 280 $1963 283 $1963 286 $1964 307 $1964 310 $1964 313 $1964 315 322 $1966 325 $1966 351 $1966 357 $1966 362 $1966 370 $1966 اختتامی خطاب صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ جلسہ سالانہ جلسہ سالانہ 1965ء کے موقع پر تقریر بذریعہ ٹیپ ریکارڈ 1965 ء | صل الله خطاب جلسہ سیرت النبی ﷺ لجنہ اماءاللہ ایبٹ آباد دس شرائط بیعت......ہمارا دستور العمل احمدی طالبات کی اہم دینی ذمہ داریاں خطاب طالبات نصرت گرلز سکول لاہور خطاب طالبات فضل عمر تعلیم القرآن کلاس افتتاحی خطاب بر موقعه سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ

Page 11

نمبر شمار 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 مضمون افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماء الله اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ خطاب تعلیم القرآن کلاس لجنه سرگودھا سن صفحہ نمبر عرض حال رسومات کے متعلق اسلامی تعلیم جلسہ سالانہ خطاب جلسہ سالانہ 1966 ء رسومات کے متعلق اسلامی تعلیم | 1967ء حضرت خلیفہ اسیح الثالث مات مٹانے کے متعلق تحریکات مسجد نصرت جہاں کو پن ھیکن کے افتتاح کے موقع پر خطاب 1967 ء الوادعی خطاب فضل عمر تعلیم القرآن کلاس افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ سپاسنامه بحضور سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث اختتامی خطاب بر موقع سالانہ اجتماع خطاب احمدی خواتین کی ذمہ داریاں جلسہ سالانہ جنوری خطاب طالبات فضل عم تعلیم القرآن کلاس خطاب سالانہ اجتماع راولپنڈی افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ افتتاحی خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ خطاب بر موقعه جلسہ سالانہ مرکزیہ افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ 373 $1966 385 1966 389 $1966 396 $1967 397 404 $1967 434 447 $1967 462 $1967 463 $1967 472 $1967 475 $1967 477 1968 497 1968 509 $1968 527 $1968 528 $1968 544 $1968 546 $1968 549 1969

Page 12

نمبر شمار مضمون سالانہ اجتماع کے موقع پر افتتاحی خطاب 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ دعا اور اس کا فلسفہ افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ اختتامی خطاب بر موقع جلسه سالانه خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ افتتاحی خطاب بر موقع سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ خطاب بر موقع افتتاح سائنس بلاک جامعه نصرت سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ سے افتتاحی خطاب افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ سن صفحہ نمبر 551 $1969 558 1969 560 $1969 572 1969 580 $1970 582 $1970 592 $1970 594 $1971 595 $1971 604 $1971 612 $1972 614 $1972 616 $1972 623 625 $1972 631 $1972 640 1972 73 الجنہ اماءاللہ کی طرف سے ایڈریس بحضور سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث 1972 ء 74 75 76 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ جلسہ سالانہ (خواتین) کے موقع پر افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1972ء میں خواتین سے الوداعی خطاب

Page 13

پیغامات حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نمبر شمار مضمون سن صفحہ نمبر پیغام برائے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ کراچی کے لئے پیغام 1 2 3 ما 5 co 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 ناصرات الاحمد یہ راولپنڈی کے پہلے سالانہ اجتماع کے لئے پیغام 1960ء صدر لجنہ مرکزیہ کا پیغام بنام لجنہ کراچی پیغام برائے تربیتی کلاس پیغام جلسہ برائے ممبرات لجنہ اماءاللہ کنری پیغام احمدیہ انٹر کالجیٹ ویمن ایسوسی ایشن راولپنڈی پیغام بر موقعہ پہلا سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ قادیان پیغام لجنات بیرون پاکستان پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ماریشس پیغام برائے اجتماع لجنہ اماءاللہ نیروبی پیغام برائے اجتماع لجنہ اماءاللہ متحدہ امریکہ پیغام برائے طالبات فضل عمر تعلیم القرآن کلاس پیغام بنام عہدیداران لجنہ اماءاللہ راولپنڈی پیغام بر موقع دوسرا سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ قادیان پیغام جلسه سالانه مستورات قادیان پیغام بر موقعہ صوبائی کا نفرنس لجنہ اماءاللہ شاہ جہانپور پیغام بر موقعہ چوتھا سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ قادیان پیغام برائے لجنہ اماء اللہ دینی 643 $1956 645 647 1961 649 $1965 651 $1966 653 $1966 656 1966 657 $1967 659 $1967 661 $1967 663 $1967 665 $1967 667 1967 669 $1967 670 $1967 672 $1968 674 $1969 675 $1969 677 پیغام بر موقعہ پانچواں سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ قادیان | 1970 ء

Page 14

نمبر شمار 20 21 22 مضمون احمدی خواتین کے نام اہم پیغام (مجله جشن تشکر ) پیغام بر موقع پچاس سالہ تقریب جشن لجنہ اماءاللہ مرکز یہ قادیان پیغام برائے جلسہ سالانہ مستورات قادیان سن صفحہ نمبر 679 $1972 681 $1972 683 1972

Page 15

نمبر شمار | 1 2 3 4 5 LO 6 7 9 10 11 12 زریں نصائح مضمون عملی زندگی میں اصلاح کی ضرورت چندہ ترجمۃ القرآن اور لجنہ اماءاللہ انسانی پیدائش کی غرض اور ہماری ذمہ داریاں“ ایک دوسری پر تہمت نہ لگائیں گی (جلسہ سالانہ ) افتتاح سالانہ کھیلیں جامعہ نصرت تربیتی جلسہ لجنہ اماءاللہ ربوہ فضل عمر جونئیر ماڈل سکول میں ناصرات الاحمدیہ کا قیام سن صفحہ نمبر حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا سیالکوٹ میں ورود 1961 ء | ایک تقریب کا انعقاد سالانہ تربیتی کلاس لجنہ اماءاللہ لاہور افتتاح نمائش ناصرات الاحمدیہ کراچی نصائح 686 $1942 687 $1945 688 $1946 689 $1947 690 $1959 691 $1960 692 $1961 693 694 $1961 695 $1962 696 $1962 697 $1963 698 699 $1963 700 $1964 701 $1964 702 $1965 703 $1965 704 $1965 13 جواب تعزیتی ریزولیوشن (حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) 1963 ء | خطاب قیام گاه مستورات جلسه سالانه 14 15 16 16 17 18 19 لجنہ اماءاللہ منٹگمری (ساہیوال) کے کام پر اظہار خوشنودی تقسیم انعامات فضل عمر جونیئر ماڈل سکول خطاب جلسہ یوم خلافت را ولپنڈی احمدی خواتین کا ملکی دفاع میں حصہ احباب جماعت کا شکریہ اور درخواست دعا

Page 16

نمبر شمار 20 21 مضمون چنده مسجد ڈنمارک اور لجنات اما ء اللہ چندہ مسجد ڈنمارک اور مستورات جماعت احمدیہ کا فرض سن صفحہ نمبر 22 بچوں کو قرآن مجید ناظرہ پڑھانے کا انتظام اور بجنات اماء اللہ کا فرض 1966 ء | 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 خطاب لجنہ اماءاللہ پشاور یو نیورسٹی کیمپس ( پشاور ) میں جلسہ جلسه لجنہ اماءاللہ کیمبل پور خطاب جلسہ راولپنڈی لجنہ اماءاللہ اجتماع لجنہ واہ کینٹ خطاب لجنہ اماءاللہ پشاور صوبہ سرحد لجنہ اماء الله رسالپور کا جلسہ عام الله جلسه سیرت النبی عه لجنہ اماءاللہ ایبٹ آباد خطاب جلسه لجنہ اماءاللہ چک 9 پنیار ضلع سرگودہا پیراں غیب (ملتان) میں جلسہ خطاب جلسہ سیرت النبی لجنہ اماءاللہ ملتان جلسہ حسین آگاہی ملتان خطاب ممبرات لجنہ اماءاللہ خانیوال تحریک جدید کا دفتر سوم اور احمدی خواتین کا فرض فضل عمر فاؤنڈیشن اور لجنہ اماءاللہ کا فرض تحریک بابت چندہ مسجد ڈنمارک چندہ مسجد ڈنمارک اور خواتین جماعت احمدیہ 706 $1966 707 1966 710 711 $1966 712 $1966 713 $1966 714 $1966 715 $1966 716 $1966 717 1966 718 $1966 719 $1966 720 $1966 721 1966 723 $1966 725 $1966 726 $1966 728 $1966 730 $1966 734 $1966

Page 17

نمبر شمار مضمون ناظرہ قرآن مجید کی سکیم اور لجنہ اماءاللہ کا فرض خطاب لجنہ اماءاللہ لاکپور (فیصل آباد) 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 5552 50 51 52 53 54 55 56 57 58 ناصرات الاحمدیہ کے لئے ضروری اعلان جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ شیخو پوره ناصرات الاحمدیہ اور چندہ وقف جدید نئے سال کے لئے نیا عزم خطاب بر موقعہ جلسہ تقسیم انعامات فضل عمر جونیئر ماڈل سکول ربوہ خطاب لجنہ اماءاللہ گجرات خطاب ممبرات لجنہ اماءاللہ کھاریاں خطاب لجنہ اماءاللہ منڈی بہاؤالدین تحریک جدید دفتر سوم اور لجنہ اماءاللہ کا فرض خطاب جلسہ پیشگوئی مصلح موعود لجنہ اماءاللہ ربوہ تحریک جدید اور لجنہ اماءاللہ کا فرض چنده وقف جدید اور ناصرات الاحمدیہ تحریک وقف عارضی اور احمدی مستورات الوداعی تقریب تعلیم القرآن کلاس گھٹیالیاں ( ضلع سیالکوٹ ) میں احمدی مستورات سے خطاب مجلس دینیات جامعہ نصرت ربوہ سے خطاب ممبرات لجنہ اماءاللہ جامعہ نصرت ربوہ سے خطاب سن صفحہ نمبر 736 $1966 740 $1966 741 1966 743 $1966 745 $1966 746 $1967 747 $1967 748 $1967 752 $1967 755 $1967 756 $1967 759 $1968 760 1968 761 $1969 763 $1969 764 1969 765 $1969 767 1970 770 $1970

Page 18

سن صفحہ نمبر 771 $1970 773 $1970 774 $1970 776 $1970 777 $1971 778 779 $1971 781 $1972 783 $1972 نمبر شمار مضمون لائل پور میں احمدی مستورات سے اہم خطاب اور قیمتی نصائح جلسہ تقسیم انعامات فضل عمر جونئیر ماڈل سکول ربوہ لاہور میں لجنہ اماءاللہ کے سالانہ تربیتی اجتماع سے خطاب تربیتی اجتماع لجنہ اماءاللہ شیخو پوره جامعہ نصرت میں تقریب یوم الامہات دینیات سوسائٹی جامعہ نصرت کی ایک میٹنگ میں طالبات کو نصیحت 1971ء خطاب ممبرات لجنہ اماءاللہ کو کھو وال نیا سال نیا عزم“ الوداعی خطاب طالبات تعلیم القرآن کلاس 59 60 61 62 63 64 65 66 67 20

Page 19

16 تحریرات

Page 20

626 حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے احسانات طبقہ نسواں پر ہندوستان میں مستورات کی پستی ایک مسلمہ چیز ہے.بڑے بڑے اچھے اور با اخلاق لوگ بھی مستورات کے حقوق کو پامال کرتے ہوئے یہ خیال کرتے تھے کہ وہ کوئی بڑی نیکی کا کام کر رہے ہیں.ان کی دینی یا دنیوی بہبود کی طرف توجہ کرنے کا کیا ذکر.حالانکہ محض بچوں کی تربیت کا ہی سارا بار نہیں بلکہ قوموں کی تربیت میں بھی عورت کا ہاتھ ایک بڑا نمایاں کام کرتا ہوا نظر آتا ہے.بایں ہمہ عورتوں کا وجود مردوں کی طرف سے نا قابل التفات رہا مگر خوش قسمتی سے طبقہ نسواں کے لئے حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا وجود ایک ابر رحمت ثابت ہوا.حضور نے عورتوں کے حصہ کی تمام شقوں کو کامل طور پر قائم فرمایا.مثلاً شریعت کے قیام کے لئے مردوں کے ساتھ عورتوں کو برابر کا حصہ دار قرار دیا ہے.سلسلہ عالیہ احمد یہ میں بھی ایک زمانہ تک مستورات کی طرف پوری توجہ نہیں ہوئی.اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے طرز عمل سے اپنے گھر میں وہ تمام حقوق دے رکھے تھے.جو شریعت حقہ کی رو سے مستورات کو مل سکتے تھے.مگر عام لوگوں کی توجہ اس طرف نہ تھی.لیکن حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مستورات سلسلہ کو اس قدر بلند کیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے آپ کی ذات کے طفیل سر بلند ہو گئیں.چنانچہ سب سے پہلا اعلان لجنہ اماءاللہ کا قیام ہے.1922ء میں آپ نے لجنہ اماءاللہ یعنی احمدی مستورات کی ایک انجمن قائم کی.اس انجمن کے ذریعے آپ نے مستورات کی تربیت فرما کر ان میں احساس پیدا کیا کہ وہ بھی بنی نوع انسان کا ایک جزو لا ینفک ہیں اور قوموں کی ترقی و تنزل میں ان کا بھی ہاتھ ہے.ان میں آپ نے علمی ذوق پیدا کیا.اُن کو اجتماع کی برکات بتلائیں.ان میں اپنی قوتوں سے کام لینے کے ڈھنگ سکھلائے.اور ان کو لجنہ کے ذریعے فن تقریر سے آگاہ کیا.لجنہ اماءاللہ کا صیغہ دست کاری بیوہ اور بے کس عورتیں یہ خیال کرتی تھیں کہ ہم تو صرف خیرات پر ہی پرورش پاسکتی ہیں مگر آپ نے لجنہ کے ماتحت ایک صیغہ دست کاری قائم فرما کر ایسی عورتوں کے لئے ایک سبیل معاش پیدا کر کے ان میں خود داری کا مادہ پیدا کر دیا.چنانچہ وہ عورتیں جو قومی خیرات پر پلنا ہی اپنا ذ ریعہ معاش خیال کرتی تھیں.اور اس طرح اُن کے اور ان کے بچوں میں ایک پستی پیدا ہوئی تھی.اب وہ صیغہ دستکاری کے ذریعہ کئی قسم کے

Page 21

636 کام کر کے اپنی معاش پیدا کرتی ہوئی ایک خوشی محسوس کرتی ہیں.اور ان کے اخلاق بجائے پستی کی طرف جانے کے بلندی کی طرف جاتے ہیں.اور آج قادیان میں بہت سی عورتیں ایسی ہیں جو اپنے ہاتھ سے کام کر کے اپنی زندگی بسر کر رہی ہیں.قومی کاموں میں حصہ 1933ء میں حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مستورات کو برلن میں ایک مسجد قائم کرنے کے لئے تحریک کی.اور اس مسجد میں خالص مستورات سے چندہ مانگا.مستورات نے حضور کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے 72 ہزار روپیہ جمع کر دیا.یہ رقم خالص مستورات کی جیب سے نکلی.جو بعد میں لنڈن مسجد کی تعمیر پر خرچ کی گئی.اور اس طرح حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے احمدی مستورات کے سر کو قیامت تک بلند کر دیا اگر حضور پسند فرماتے تو مردوں ہی سے یہ رقم لے لیتے مگر آپ چاہتے تھے کہ قوم کے اس حصہ کو اٹھا ئیں جسے عام دنیا پس ماندہ خیال کر رہی ہے اور عیسائی اور مغربی دنیا یہ بجھتی ہے کہ اسلام میں عورت کی کوئی حیثیت یا جائداد نہیں.وہ محض مردوں کی غلام ہیں.چنانچہ آپ نے اسے ایسا اٹھایا کہ قیامت تک لوگ مستورات کی اس قربانی کو دیکھ کر سراہتے رہیں گے.الغرض حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ذات کے طفیل عورتوں کو یہ سعادت حاصل ہوئی.مستورات کو تعلیم حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے احمدیہ جماعت کی ترقی کے لئے اس امر کو ضروری سمجھا کہ مستورات میں علم کی اشاعت ہو.کیونکہ ابتدائی زمانہ میں قادیان میں سوائے چند مستورات کے کوئی تعلیم یافتہ نہ تھی.استانیوں کی ایسی قلت تھی کہ دو تین عورتیں بمشکل پڑھانے والی تھی اور وہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہ تھیں.مگر حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی توجہ سے وہ چھوٹا سا پرائمری مدرسہ اس قدر بڑھا کہ وہ ایک شاندار ہائی سکول بن گیا.اور تعلیم اس قدر عام ہوئی کہ اس مدرسہ سے نکل کر کئی طالبات بی.اے اور بی.ٹی ہوگئیں اور کئی ڈاکٹر ہیں.شاخ دینیات چونکہ مستورات کی تعلیم کی غرض ملا زمت نہیں اس لئے آپ نے تعلیم کے لئے نصرت گرلز سکول میں ایک شاخ دینیات قائم فرمائی تا کہ وہ علم دین سے بہرہ ور ہو کر نہ صرف دیندار ما ئیں اور بیٹیاں بنیں بلکہ

Page 22

سلسلہ کی اچھی مبلغہ بن سکیں.نا خواند و بوڑھی خواتین کی تعلیم حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مستورات میں علم کی اشاعت کو اس قدر عام کر دیا کہ لجنہ اماءاللہ کے ماتحت ایک خاص سکیم بنا کر بوڑھی خواتین کی تعلیم کا انتظام فرمایا.جس سے ایک بڑی تعداد ایسی خواتین کی جنہوں نے ساری عمر ایک نقطہ تک نہ پڑھا تھا پڑھنے لگ گئیں.حضور کے اپنے درس مستورات پر آپ کا اس قدر احسان ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ کی گوناگوں مصروفیتیں ہیں.آپ مردوں کو درس نہیں دے سکتے.مگر آپ نے اس کمزور نا تواں طبقہ کو اٹھانے کے لئے اپنے اوقات گرامی میں سے ایک خاص وقت نکال کر ہفتہ کے دن قرآن شریف کا باقاعدہ درس فرماتے ہیں اور یہ ایسی سعادت ہے کہ عورتیں اس کے لئے جس قدر بھی شکر گزار ہوں کم ہے.مستورات کا سالانہ جلسہ پہلے مستورات کے سالانہ جلسہ پر کوئی انتظام نہ تھا.اور وہ قادیان میں ایام جلسہ میں آکر یونہی پھر کر چلی جاتی تھیں.مگر آپ نے اپنے زمانہ کے شروع میں ہی مستورات کی اس دینی ضرورت کا شدت سے احساس کیا.اور عورتوں کے لئے الگ جلسہ کی بنیا د رکھی پہلے اس جلسہ کی بنیاد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان میں رکھی گئی پھر یہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے مکان میں ہوتا رہا.اس کے بعد جب مستورات کی کثرت ہو گئی تو دارالا نوار کے راستہ میں صدر انجمن کے وسیع احاطہ میں اور اب ہائی سکول کے وسیع میدان میں مغرب کی جانب ہوتا ہے اس جلسہ کا سارا انتظام مستورات ہی کرتی ہیں.مستورات ہزارہا کی تعداد میں باہر سے آتی ہیں اور روحانی فیض سے مالا مال ہوتی ہیں.احمدیہ مستورات کا اخبار حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مستورات کی ایک اور ضرورت کو محسوس فرماتے ہوئے ان کے لئے ایک اخبار جاری فرمایا.جس کا پہلا نام تا دیب النساء رکھا.اور اسی کے نقش قدم پر مصباح جاری ہوا.جو خدا کے فضل سے ترقی کر رہا ہے.

Page 23

5 تحریک جدید میں مستورات کا حصہ وہ مستورات جو یہ جانتی نہ تھیں کہ ہم پر کوئی چندہ بھی فرض ہے وہ حضور کی تربیت کے ماتحت ہر شعبے میں چندہ دینے لگیں.اور قربانیاں کرنے لگیں مسجد برلن اور مسجد لنڈن کا تو پہلے ہی ذکر آچکا ہے تحریک جدید کے پہلے سال میں مستورات نے /4240 روپیہ چندہ دیا.اور اب ہر سال بڑھ رہا ہے.عام طور پر مستورات نے تحریک جدید کے انتشار کے ماتحت حد درجہ کی سادگی اختیار کر لی ہے.اور گوشه کناری زیورات وغیرہ اپنی مرغوب اشیاء کے استعمال کو سلسلہ کے مفاد کی خاطر قربان کر دیا ہے.وصیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مومنوں اور مومنات کے لئے خدا کی وحی کے ماتحت ایک مقبرہ بہشتی کا انتظام فرمایا.اس میں بھی عورتوں نے آپ کے زمانہ میں خوب حصہ لیا.چنانچہ اس وقت تک 1470 مستورات موصیہ ہو چکی ہیں.خلافت جو بلی فنڈ خلافت جو بلی فنڈ میں بھی مستورات نے نہایت خوشی سے حصہ لیا اور اس میدان میں بھی مردوں کے دوش بدوش حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے عقیدت کا اظہار کیا.احمد یہ مجلس مشاورت میں حق نمائندگی آپ کا یہ بھی ایک بڑا احسان ہے کہ آپ نے مستورات کو اپنی قومی مجلس شوریٰ میں حق نمائندگی عطا فرمایا.اور یہ ایسا اقدام ہے جو ہندوستان کی کسی قوم کی عورتوں کو بھی حاصل نہیں اس کے علاوہ آپ کے اور بھی بیسیوں احسانات ہیں مثلاً بچوں کی تربیت کے لئے ناصرات الاحمدیہ کا قیام فرمایا.عورتوں کا حق وراثت دلوانے کا مردوں سے عہد لیا بعض جاہل مردوں کے مظالم سے بچانے کے لئے محکمہ قضاء کے دروازے کھولے.الغرض احمدی عورت نے علم میں عمل میں، قربانی میں، نیکی میں تقویٰ اور طہارت میں حضور کے زیر سایہ جس قدر ترقی کی اس کی مثال کسی قوم میں نہیں مل سکتی.اس لئے احمدی مستورات کا فرض ہے کہ ایسے محسن آقا کے لئے دن اور رات دعاؤں میں مشغول رہیں تا اللہ تعالیٰ ان کی زندگی میں برکت دے اور ان کے ارادوں اور عزائم کو پورا کرے.اے خدا تو ایسا ہی کر.(الحکم جوبلی نمبر 1939ء)

Page 24

666 لجنہ اماء اللہ کے قیام کی ضرورت اور اہمیت جس طرح ایک گاڑی اس وقت تک ٹھیک نہیں چل سکتی.جب تک اس کے دونوں پیسے بالکل درست نہ ہوں.اور اگر خفیف سا نقص بھی کسی ایک پہیہ میں پایا جائے.تو ایسی گاڑی اچھی طرح نہیں چل سکے گی.بعینہ یہی حال دنیا میں مرد و عورت کا ہے.جب تک یہ دونوں دنیائے عمل میں قدم بقدم اور پہلو بہ پہلو نہ چلیں.ان کا ترقی کے زینہ تک پہنچنا مشکل ہے.بلکہ جس طرح گاڑی کے ایک طرف کا پہیہ ناقص ہو کر دوسری طرف کے پہیہ کے چلنے میں بھی روک ڈال دیتا ہے.اسی طرح اگر عورت ترقی کے میدان میں چلنے کے قابل نہ ہو تو مرد کے ترقی کرنے میں روک ہوگی.ی از لی قانون قوموں اور ملکوں اور خاندانوں میں یکساں طور پر چلتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عورت کی تعلیم و تربیت پر خاص زور دیا ہے.علاوہ اس کے کہ عورت مرد کے کام میں بہت سی سہولت کا باعث بن سکتی ہے.عورت کی گود آئندہ نسل کا گہوارہ بھی ہے.پس اگر عورتیں اچھی تربیت یافتہ نہ ہوں.تو اولاد بھی اچھی اور قابل نہ ہوگی.اور جب اولا دا چھی نہ ہوئی.تو قوم پروان کس طرح چڑھے گی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں.حقیقت یہی ہے کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کے بغیر کام نہیں چل سکتا.مجھے خدا تعالیٰ نے الہا ما فرمایا ہے کہ اگر پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو.تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی.گویا خدا تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کو تمہاری اصلاح کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے.جب تک تم اپنی اصلاح نہ کر لو ہمارے مبلغ خواہ کچھ کریں کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.الازهار لذوات الخمار صفحه 391 حضور عورتوں کو مخاطب کر کے مزید فرماتے ہیں: یہ کام ہمارے بس کا نہیں بلکہ یہ کام تمہارے ہی ہاتھوں سے ہو سکتا ہے.جب تک ہماری مدد نہ کرو اور ہمارے ساتھ تعاون نہ کرو.اور جب تک تم اپنی زندگیوں کو اسلام کے فائدہ کے لئے نہ لگاؤ گی.اس وقت تک ہم کچھ نہیں کر سکتے اللہ تعالیٰ نے انسان کے دو حصے کر کے اس کے اندر الگ الگ جذبات پیدا کئے ہیں.عورت مرد کے جذبات کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتی اور مر دعورت کے جذبات کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتا.پس چونکہ ہم ایک دوسرے کے جذبات کو پہچاننے سے قاصر ہیں.اس لئے مردوں کی صحیح تربیت مرد ہی کر سکتے ہیں اور عورتوں کی صحیح تربیت عورتیں ہی کر سکتی ہیں.“ (الازھار لذوات الخمار صفحہ: 392)

Page 25

676 چونکہ یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ عورتوں کی اصلاح اور تربیت بہتر صورت میں عورتیں ہی کر سکتی ہیں اس لئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماءاللہ قائم فرمائی.پس لجنہ اماءاللہ ایک کڑی ہے اس بابرکت نظام کی جس کے ساتھ محکم وابستگی کے بغیر ہم خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں بن سکتے.لہذا احمدی بہنوں کو چاہیے کہ وہ لجنہ اماءاللہ میں شامل ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قائم فرمودہ نظام سے وابستہ ہوں.لجنہ اماءاللہ بائیس سال سے قائم ہے.مگر ابھی تک اس کی طرف احمدی مستورات نے بہت کم توجہ کی ہے.حالانکہ کوئی ترقی نظام کے بغیر نہیں ہوسکتی.اس وقت تک اگر خواتین میں کچھ بیداری ہے.تو وہ زیادہ تر قادیان کی مستورات میں یا معدودے چند اور جگہوں میں جہاں لجنہ قائم ہے.حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا الہام ”اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی.کسی ایک شہر یا قصبہ کے لئے مخصوص نہیں بلکہ ساری دنیا کی احمدی عورتوں کے لئے ہے اور یہ اصلاح بغیر منتظم ہوئے اور بغیر آپس میں تعاون کئے نہیں ہوسکتی.جب تک ہر ایک احمدی عورت یہ نہ سمجھ لے کہ میرا انفرادی وجود کوئی حیثیت نہیں رکھتا.بلکہ میرا وجود دوسرے وجودوں کے ساتھ مل کر ہی طاقت اور قوت پا سکتا ہے.اس وقت تک وہ ترقی نہیں کر سکتی.اور ظاہر ہے کہ عورتوں کیلئے واحد طریقہ منظم ہونے کا صرف لجنہ اماءاللہ ہے.پس ہر احمدی عورت کو چاہیے کہ وہ لجنہ میں شامل ہو اور ہر شہر یا قصبہ یا گاؤں میں جہاں دو یا دو سے زیادہ احمدی عورتیں رہتی ہوں وہ مل کر لجنہ قائم کر لیں.اور ایک دوسرے کے ساتھ پورا پورا تعاون کرتے ہوئے ایک دوسرے کی کمزوریوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے صبر استقلال اور ہمت کے ساتھ اصلاح کی کوشش کریں.میں امید رکھتی ہوں کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کی تعمیل میں ایک سال کے اندر اندر سارے ہندوستان میں بجنات قائم ہو جائیں گی.پس جہاں جہاں اس وقت تک لجنہ قائم نہیں وہاں کی عورتیں بہت جلد اپنے ہاں لجنہ قائم کر کے لجنہ مرکز یہ قادیان کو اطلاع دیں.اللہ تعالیٰ کے کام کبھی نہیں رکھتے.اور بہر حال ہو کر رہیں گے.کیونکہ وہ علیم وقدیر ہے.اور جو چاہتا ہے کر کے رہتا ہے کسی قسم کی روک اس کے منشاء کو پورا کرنے میں حائل نہیں ہوسکتی پس اپنا کام تو اس نے کرنا ہی ہے.اور اپنی قدیم سنت کے مطابق کرنا بھی انسانی ہاتھوں سے ہے.پھر کیوں نہ وہ ہاتھ ہمارے ہی ہاتھ ہوں.جن سے خدائی کام انجام پاسکیں.اور کیوں نہ وہ مبارک ہستیاں ہم ہی ہوں.جن سے الہی منشاء ظہور پذیر ہو احمدیت کا مقصد اور منتہی ابھی بہت دور ہے.جس طرح ایک سیڑھی کے آخری قدم تک

Page 26

8 نہیں پہنچا جا سکتا جب تک کہ اس کی ایک ایک سیڑھی پر قدم نہ رکھا جائے.اسی طرح ہمیں کرنا ہوگا جس زینہ پر ہم نے چڑھنا ہے.اس کا پہلا قدم لجنہ اماءاللہ کا قیام ہے.اگر پہلا قدم نہ اٹھایا گیا.تو ہم اس مقام تک کیونکر پہنچ سکیں گی.جو ہمارا مقصد اور نصب العین ہے.میں امید کرتی ہوں کہ میری اس مختصر اور سادہ اپیل پر ہماری بہنیں خود ہی توجہ دے کر اپنی اپنی جگہ لجنہ قائم کریں گی.اور اس خدائی نظام کا مفید پرزہ بنے کی کوشش کریں گی.جس کے ساتھ ملنے سے ہی ہمارے لئے سب برکت و رحمت کے دروازے کھل سکتے ہیں.مصباح فروری 1945 ء

Page 27

696 عربی صحافت کی تاریخ دنیا میں باضابطہ طور پر صحافت کی بنیاد رکھنے والے چینی سمجھے جاتے ہیں.جنہوں نے 11 9 قبل مسیح میں ایک اخبار جاری کیا.یہ اخبار سر کاری احکام اور خبروں پر مشتمل شائع ہوا کرتا تھا.رومیوں نے جولیس سینرر کے عہد میں میدان صحافت میں قدم رکھا.اس زمانہ میں ان کا ایک روزانہ اخبار جس کا نام ڈیونا تھا.شائع ہوا کرتا تھا.جس میں عموماً گورنمنٹ کی طرف سے ضروری احکام اور خبریں شائع کی جایا کرتی تھیں یہ اخبار 491 قبل مسیح میں جاری ہوا تھا.جہاں تک موجودہ صحافت کا تعلق ہے اس کی بنیاد پندرھویں صدی کے نصف میں چھاپہ خانہ کی ایجاد کے بعد جرمنی میں پڑی.انگریزوں نے 1622ء میں میدان صحافت میں قدم رکھا.اور ان کے بعد فرانسیسیوں نے.باقی تمام اقوام نے اس کے بعد.عربی صحافت کی ابتدا سب سے پہلے مصر میں ہوئی.عربی صحافت کی تاریخ کو ہم چار دوروں میں تقسیم کر سکتے ہیں.۲.محمد علی پاشا کے زمانہ میں عربی صحافت کی ابتداء.محمد علی پاشا اور اسمعیل پاشا کے زمانوں میں عربی صحافت کی ترقی..اسماعیل پاشا کے عہد حکومت سے لے کر انگریزی اقتدار تک کا زمانہ..انگریزی اقتدار کے بعد کا زمانہ.مصر میں عربی صحافت کی ابتدا فرانسیسیوں کے اثر کی وجہ سے ہوئی جن کا زمانہ 6 179ء سے 1801ء عیسوی تک رہا.اس زمانہ میں دو فرانسیسی اخبار جاری ہوئے.لیکن دونوں اخبار فرانسیسیوں کے مصر چھوڑتے ہی بند ہو گئے.پہلا عربی اخبار جومحمد علی پاشا نے جاری کیا الوقاية المصرية تھا یہ اخبار 1828ء میں نکلنا شروع ہوا.پہلے صرف ترکی زبان میں شائع ہونا شروع ہوا.بعد میں ترکی اور عربی دونوں زبانوں میں.بعد ازاں صرف عربی میں.یہ اخبار ہفتہ میں تین بار شائع ہوا کرتا تھا.پہلی جنگ عظیم شروع ہونے تک یہ اخبار جاری رہا.دوسرا اخبار 1837ء میں فرانسیسی حکومت نے المبشر نامی الجزائر سے جاری کیا.یہ اخبار فرانسیسی اور عربی دونوں زبانوں میں شائع ہوا کرتا تھا.یہ پندرہ روزہ اخبار تھا.

Page 28

عربی صحافت کے دوسرے دور کا زمانہ 1849ء سے 1863ء تک ہے.صحافت کے لحاظ.زمانہ جمود کا زمانہ تھا جس کی وجہ عنان حکومت کا محمد علی پاشا کے جانشینوں عباس اور سعید پاشا کے ہاتھوں آنا تھا.جنہوں نے عربی صحافت کی ترقی میں بالکل حصہ نہ لیا.مصریوں کی اس بے تو جہگی نے شامیوں کو آگے آنے کا موقع دے دیا.اور انہوں نے 1855ء میں ”مراۃ الاحوال “ نام سے ایک عربی اخبار جاری کیا.لیکن یہ اخبار زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا.جس کی وجہ اخبار کی پالیسی ٹرکش گورنمنٹ کے خلاف ہونا تھا.1858ء میں ایک اخبار ”حدیقۃ الاخبار “ نامی بیروت سے شائع ہونا شروع ہوا.اس اخبار کے جاری ہونے کے دو سال بعد یعنی 1860ء میں شام سے شورش پیدا ہونا شروع ہوئی.جس کی وجہ سے گورنمنٹ نے اس اخبار کو خلیل الغوری کی ادارت میں دے دیا.یہ اخبار 1909 ء تک جاری رہا.1860ء میں قسطنطنیہ سے پہلا عربی اخبار الجوائب نامی جاری ہوا.اس اخبار کے ایڈیٹر کا نام احمد فارسی تھا.اسی سال ٹیونس سے الرائد التونسی اور پیرس سے البر جیسی نامی اخبار جاری ہوئے.عربی صحافت کے تیسرے دور کا زمانہ 1863ء سے 1882 ء تک تھا.اس زمانہ کی بڑی خصوصیت یہ تھی کہ مصریوں نے صحافت میں دلچسپی لینی شروع کر دی."الوقاية المصرية “ کے بعد دوسرا مشہور اخبار الیا سوب“ نامی جاری ہوا.یہ ماہنامہ تھا جو 1865ء میں محمد علی اور ابراہیم الاسوتی کی مشترک ادارت میں شائع ہونا شروع ہوا.لیکن زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا.غیر سرکاری سیاسی اخباروں کے لحاظ سے پہلا اخبار وادی النیل نامی 1866ء میں قاہرہ سے شائع ہونا شروع ہوا.یہ اخبار ہفتہ میں دوبار ابومسعود آفندی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا.1878ء میں ایڈیٹر کی وفات پر یہ اخبار بند ہو گیا.اس کے بعد ایک ہفتہ وار اخبار نزهة الافکار جاری ہوا.ابھی اس اخبار کے دو پرچے ہی نکلنے پائے تھے.کہ اسمعیل پاشا کے حکم سے جو اس اخبار کی پالیسی سے ڈرتا تھا.اخبار بند کر دیا گیا.بعض شامی صحیفہ نگاروں کی کوششوں سے جو مصر میں آکر آباد ہو گئے تھے.1876ء میں ایک اخبار دو بھائیوں کی مشترکہ ادارت میں جن کے نام سلیم اور بشارت تھے.الاهرام کے نام سے جاری ہوا.یہ اخبار ہر لحاظ سے بہت کامیاب رہا.آج کل بھی یہ اخبار کثیر التعداد شائع ہونے والے اخباروں میں سے ایک ہے.1866ء میں حلب سے بھی ایک عربی اخبار جاری ہوا تھا.عربی صحافت کا چوتھا دور 1882 ء سے شروع ہوتا ہے.سیاسی سرگرمیوں کا مرکز قاہرہ بن گیا.چنانچہ قاہرہ سے ایک روزانہ اخبار النھان نامی 1888ء میں جاری ہوا.اسی سال دو اور اخبار المعظم اور الموید بھی

Page 29

جاری ہوئے.ان دونوں اخباروں کا ملک میں کافی اثر تھا.ہفتہ وار اخباروں میں مشہور اخبار البـــرهــان.البيان اورمراۃ الشرف تھے.مصری پریس اب اپنے ملک کے معاملات میں بہت دلچسپی لینے لگ گئے تھے.بعض اخبار ترکوں کی حمایت کرتے تھے.بعض انگریزوں کی اور بعض فرانسیسیوں کی الزمان اور المعظم دونوں اخبار انگریزوں کی حمایت کیا کرتے تھے.ان اخباروں کے خیالات کا سد باب کرنے کے لئے وطن پرست مصریوں نے مشہور اخبار الموید جاری کیا.اس اخبار کے ایڈیٹر الشیخ علی یوسف تھے.عربی صحافت کی تاریخ میں اس اخبار کا اجراء ایک نہایت اہم حیثیت رکھتا ہے.اس اخبار نے دوسرے نیشنلسٹ اخباروں کے لئے راستہ صاف کر دیا.اس زمانہ کی صحافت تین دوروں میں سے گزرتی ہے.پہلا دور 1892ء سے 1902 ء تک جبکہ اللواء جاری ہوا.اس دور میں بہت سے ہفتہ واری اخبار جاری ہوئے.جنہوں نے پالیسی کے لحاظ سے الموید یا المعظم کی نقل کی.اس دور میں جاری ہونے والے اخباروں کی تعداد ڈیڑھ صد تک پہنچتی ہے.اتنی زیادہ تعداد میں اخبار اور رسالے شائع ہونے کی وجہ مصری پریس کا آزاد ہونا تھا.اس دور میں اخبار ادبی زیادہ اور سیاسی کم ہوتے تھے.دوسرا دور 1902ء سے شروع ہو کر 1910ء میں ختم ہوتا ہے.اس دور کی خصوصیت مصر میں تحریک قومی کا پھیلنا تھا.جو حکومت برطانیہ کے خلاف اٹھی تھی.اس دور کا روح رواں مصطفیٰ کامل تھا.جو اللواء کا ایڈیٹر تھا.اور جس نے مصریوں میں قومی شعور پیدا کیا.اور مصریوں کو اس بات کے لئے ابھارا کہ وہ انگریزوں سے اپنی حکومت ختم کرنے کا ان کے وعدے کے مطابق مطالبہ کریں.اللواء نے جس شدت سے انگریزوں سے مصر سے چلے جانے کا مطالبہ کیا.اس کی نظیر پہلے کہیں نہیں ملتی.بہت سے دولت مند مصریوں نے کئی کمپنیاں اس غرض سے قائم کیں کہ قومی اخباروں کو ان کے ذریعہ سے مددملتی رہے.بہت سی مجالس اسی غرض سے قائم کی گئیں جن میں سے سب سے مشہور الحزب الوطنی ہے.اس کا لیڈر مصطفی کامل تھا.قومی اخباروں کی تعداد نمایاں طور پر بڑھ گئی اور جس کے نتیجہ میں میدان صحافت مکمل طور پر مصریوں کے ہاتھ میں آ گیا.تیسرا دور لارڈ کر امر کی آزادی پریس کی پالیسی کے خلاف رد عمل سے شروع ہوتا ہے.لارڈ کچھر کے عہد حکومت میں مصری پریس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں.جس کے نتیجہ میں بہت سے اخبارات بند کر دیئے گئے.مصر کے علاوہ اور ملکوں سے بھی عربی اخبارات شائع ہوئے مثلاً مکہ سے ام القریٰ.عمان سے الحکمت بغداد سے الفتح.وغیرہ وغیرہ.مصباح اپریل 1950

Page 30

تقویٰ عربی زبان میں تقویٰ کے لغوی معنے بچنے اور پر ہیز کرنے کے ہیں.لیکن مذہبی اصطلاح میں یہ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جو دل میں خیر و شر کی تمیز کی خلش اور خیر کی طرف رغبت اور شر سے نفرت پیدا کرتی ہے.یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ تقویٰ اس احساس کا نام ہے جس کی وجہ سے ہر کام میں خدا کے حکم کے مطابق عمل کرنے کی شدید خواہش اور اس کے حکم کے خلاف کرنے سے شدید نفرت پیدا ہوتی ہے.قرآن مجید کی اس آیت وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ (الحج 33) سے معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ کا اصل مقام دل ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کے مجمع میں ارشاد فرمایا التَّقْوى ههنا (مسلم کتاب البر وصلتة والآداب) اور یہ کہ کر دل کی طرف اشارہ فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جو تمام نیکیوں کی محرک ہے.تمام اسلامی احکام کی علت غائی تقویٰ ہے اسلام کی ہر تعلیم کا مقصد انسانی عمل میں تقویٰ کی روح کو پیدا کرنا ہے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرہ:3) یہ کتاب متقیوں کو ہدایت دیتی ہے.اسلامی عبادت کا مقصد بھی تقویٰ کا حصول ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يايها الناس اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرہ:22) یعنی اے لوگو اپنے اس رب کی جس نے تم کو اور ان لوگوں کو جو تم سے پہلے تھے پیدا کیا.عبادت کرو.تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو.گویا اس آیت میں عبادت کی اصل غرض تقویٰ کا حصول قرار دیا ہے.عبادت کے ارکان میں سے ایک رکن روزہ ہے.چنانچہ روزوں کے متعلق قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ - (البقره: 184) یعنی تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے اور ان روزوں کے فرض کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ تم متقی بنو.اسی طرح احکام اسلامی کا ایک ضروری رکن حج ہے.اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ يُعَظِمُ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ (ال: 33) یعنی جوکوئی اللہ تعالیٰ کے نشانات کی تعظیم کرتا ہے تو یقیناً یہ دلوں کا تقویٰ ہے.ان تمام آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی عبادت میں تمام ارکان نماز ، روزہ، زکوۃ، حج سب کی غرض انسانی دلوں میں تقویٰ کی روح پیدا کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.” تقوئی خلاصہ ہے تمام صحف مقدسہ اور توریت وانجیل کی تعلیمات کا.قرآن کریم نے ایک

Page 31

ہی لفظ میں خدا تعالیٰ کی عظیم الشان مرضی اور پوری رضا کا اظہار کر دیا.اسی طرح ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ” تقوی کوئی چھوٹی چیز نہیں اس کے ذریعہ سے ان تمام شیطانوں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے جو انسان کی ہر ایک اندرونی طاقت وقوت پر غلبہ پائے ہوئے ہیں.یہ تمام قو تیں نفس امارہ کی حالت میں انسان کے اندر شیطان ہیں.اگر اصلاح نہ پائیں گی تو انسان کو غلام کر لیں گی.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 21 نیا ایڈیشن) اسلام میں برتری کا معیار تقوی:.اسلام کے نزدیک وہی برتر ہے جو متقی ہے.تمام نسلی ، خاندانی ، مالی اور حسب و نسب کے امتیازات کو مٹا کر اسلام نے ایک ہی امتیاز قائم کیا ہے جس کا نام تقویٰ ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے اِن اَكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ اتفكم (الحجرات : 14) یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے معزز وہی ہے جو تم میں سے سب سے زیادہ تقویٰ والا ہو.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت کے ساتھ فرما دیا ہے کہ خواہ کوئی شخص کتنا ہی مالدار ہو.حسب و نسب کے لحاظ سے کتنا ہی اونچا ہوا گر متقی نہیں تو قابل عزت نہیں.اور اگر اس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں.کھانے کو میسر نہیں.نسلی برتری حاصل نہیں.لیکن متقی ہے.تو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ شخص نہایت معزز ہے.احکامات کی تفصیلات میں جاتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ فرماتا بے وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقوى (البقرہ: 198) کہ سفر میں زادراہ لے کر چلو اور سب سے اچھا زاد راہ تقویٰ ہے.یعنی سفر کو جاتے ہوئے کچھ سامان ضرور ساتھ رکھنا چاہیے.لیکن تقویٰ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں.اگر تم متقی ہو.تو پھر تمہیں کسی بات کا ڈر نہیں.یہ زاد راہ تمہارے لئے تمام ساز و سامان سے بڑھ کر ثابت ہوگی.اس طرح تقویٰ کی فضیلت اس آیت سے بھی ثابت ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلِبَاسُ التَّقْوى ذَلِكَ خَيْرٌ (الاعراف :27) کہ سب سے اچھا لباس تقویٰ کا لباس ہے.اچھے لباس کی خواہش ہر انسان کے دل میں موجود ہوتی ہے.اسی لئے مشہور ہے کہ کھائیے من بھاتا اور پہنئے جگ بھاتا یعنی وہ لباس پہنے جو دنیا پسند کرے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے پاس تقویٰ کا لباس موجود ہے تو پھر خواہ تمہارے پاس ظاہری کپڑے پھٹے ہوئے اور چیتھڑے ہی کیوں نہ ہوں.ہماری نظر میں وہ دوسرے لوگوں کے کمخواب کے لباسوں سے زیادہ قیمتی ہیں.اسی طرح قرآن مجید کی اس آیت لَنْ يُنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاءُ هَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ (الحج : 38) سے تقویٰ کی اہمیت واضح ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ

Page 32

14 فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچا بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے.یعنی خواہ تم کتنی ہی قربانیاں دیدو.اگر تمہاری نیت نیک نہیں تو اس کا ثواب تمہیں نہیں ملے گا.اصل چیز نیت ہے.اس نیت کے پیچھے اگر تقویٰ ہے تو اس کے مطابق ثواب بھی ملے گا.نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں الْكَرَمُ التَّقْوَى یعنی بزرگی تقویٰ کا نام ہے جو زیادہ متقی ہے.وہی زیادہ بزرگ ہے.(جامع العلوم والحكم جز اول صفحہ: 333) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کتاب ایام اصلح صفحہ 105 پر لکھتے ہیں ” قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پر ہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے.وجہ یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے اور اس قدر تا کید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصن حصین ہے.ایک متقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطرناک جھگڑوں سے بچ سکتا ہے.جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہو کر بسا اوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں.“ تقویٰ کے اجزاء:.قرآن مجید کی رو سے تقویٰ کے مندرجہ ذیل اجزاء معلوم ہوتے ہیں.عدل.صبر کمسن کا قصور ہو جائے تو معاف کر دینا وغیرہ وغیرہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (المائده:9) انصاف کرو یہ تقویٰ کے بہت قریب ہے.گویا اللہ تعالیٰ عدل کو تقویٰ کا ایک حصہ قرار دیتا ہے.پھر متقیوں کی علامات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالصَّبِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَ حِيْنَ البأس (البقره: 178) یعنی تنگی، تکلیف اور جنگ کے وقت میں صبر کرنا تقویٰ کی ایک کڑی ہے.اسی طرح متقیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ (ال عمران : 135) کہ کسی سے قصور ہو جائے تو اس کو معاف کر دینا بھی تقویٰ میں سے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں.محجب، خود پسندی، مال حرام سے پر ہیز اور بداخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے جو شخص اچھے اخلاق ظاہر کرتا ہے.اس کے دشمن بھی دوست ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ادْفَعُ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ( حم السجدة: 35) اب خیال کرو کہ یہ ہدایت کیا تعلیم دیتی ہے؟ اس ہدایت میں اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہے کہ اگر مخالف گالی بھی دے تو اس کا جواب گالی سے نہ دیا جائے.بلکہ اس پر صبر کیا

Page 33

جائے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مخالف تمہاری فضیلت کا قائل ہو کر خود ہی نادم اور شرمندہ ہوگا.اور یہ سزا اس سزا سے بہت بڑھ کر ہوگی.جو انتظامی طور پر تم اس کو دے سکتے ہو.یوں تو ایک ذرا سا آدمی اقدام قتل تک نوبت پہنچا سکتا ہے.لیکن انسانیت کا تقاضا اور تقویٰ کا منشاء یہ نہیں ہے ، خوش اخلاقی ایک ایسا جو ہر ہے کہ موذی انسان پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے.کسی نے کیا اچھا کہا ہے کہ لطف کن لطف کہ بیگانہ شود حلقہ بگوش ملفوظات جلد اول صفحہ 50 تقویٰ کی برکات.تقویٰ کی اہمیت اور عظمت معلوم ہو جانے کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ متقیوں کو قرآن مجید کی رو سے کیا کیا انعامات ملتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے انعامات میں سے ایک انعام یہ رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہات دنیا سے آزاد کر دیتا ہے اور اس کے کاموں کا خود متکفل بن جاتا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے وَمَن يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (اطلاق: 4,3) یعنی اللہ تعالیٰ متقی کو ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا.اس کی ضرورتیں خود پوری کرتا ہے اور اس کے لئے روزی کے ایسے سامان بہم پہنچاتا ہے.جو اس کے وہم وگمان سے بالا ہوتے ہیں.دوسرا انعام جو حقیقت میں سب سے بڑا انعام ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنْ اَوْلِيَاءُ هُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ (الانفال: 35) کہ اللہ تعالیٰ صرف متقیوں کو دوست بناتا ہے.پس کتنا بڑا انعام ہے جو ایک متقی کو ملتا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کا قرب کسی شخص کو اپنے کسی افسر کا ذرا سا بھی قرب میسر آجائے تو وہ کتنا فخر کرتا پھرتا ہے اور دوستوں کو بتاتا پھرتا ہے اور اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھنے لگتا ہے.لیکن وہ شخص کتنا خوش قسمت ہوگا جسے خدا تعالیٰ کی دوستی اور اس کا قرب میسر آ جائے.ایک اور آیت بھی اسی مضمون پر دلالت کرتی ہے اور وہ یہ ہے فَاِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (آل عمران: 77) یعنی اہل تقویٰ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوتے ہیں.تیسرا انعام جو قرآن مجید سے ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ متقیوں کو اسی دنیا میں بشارتیں ملتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں متقی کے لئے ایک اور بھی وعدہ ہے لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ (یونس : 65) یعنی جو متقی ہوتے ہیں.ان کو اس دنیا میں بشارتیں بچے خوابوں کے ذریعہ ملتی ہیں.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ صاحب مکاشفات ہو جاتے ہیں.مکالمۃ اللہ کا شرف حاصل کرتے ہیں.ملفوظات جلد اوّل صفحہ 10

Page 34

16 چوتھا انعام یہ ہے کہ متقی تمام اخروی نعمتوں کے مستحق ہوں گے جیسا کہ قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات سے ظاہر ہوتا ہے.اِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنْتٍ وَنَعِيمٍ (الطور :18) یقینا متقی باغوں میں اور نعمتوں میں ہوں گے.اِنَّ الْمُتَّقِينَ فِى جَنْتٍ وَعُيُونِ (الذاریات: 16) یقینا متقی باغوں میں اور چشموں میں ہوں گے.اِن لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا (الانبياء :32) بیشک متقیوں کے لئے کامیابیاں ہیں.پانچواں انعام جو متقیوں کو ملتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعائیں سنتا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ اور لوگوں کی دعائیں نہیں سنتا.بلکہ یہ کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو متقی ہو گا.اس کی دعائیں ضرور سنی جائیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.دو پس ہمارے دوستوں کے لئے لازم ہے کہ وہ ہماری دعاؤں کو ضائع ہونے سے بچاویں.ان کو چاہئے کہ وہ تقویٰ کی راہ اختیار کریں.کیونکہ تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں.اور اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں.تو مغز شریعت تقویٰ ہی ہو سکتا ہے تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت سے ہیں.لیکن اگر طالب صادق ہو کر ابتدائی مراتب اور استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اور طلب صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پالیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.انما يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (المائده: 28) گویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے یہ گویا اس کا وعدہ ہے اور اس کے وعدوں میں متخلف نہیں ہوتا.جیسا کہ فرمایا ہے ”إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ “ (الرعد: 32) ملفوظات جلد اوّل صفحہ 68 نیا ایڈیشن کے یہ چند موٹے موٹے انعامات ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے.ورنہ قرآن مجید سے اور انعامات کا پتہ بھی چلتا ہے جو متقیوں کو ملتے ہیں سب سے بڑا انعام تو یہی ہے کہ انسان کا ہر لحاظ سے انجام اچھا ہو.دنیوی لحاظ سے بھی اور دینی لحاظ سے بھی.متقیوں کے متعلق قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ گوان کو وقتی طور پر تکالیف کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے.ابتلاء بھی آتے ہیں لیکن انجام کار دونوں جگہ کامیابی اور فلاح ان کی قسمت میں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (القصص: 84) يَا وَالْآخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ (زخرف: 36) اور وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى (طه : 133) متقیوں کی علامات :.اب دیکھنا یہ ہے کہ قرآن مجید سے ہمیں متقیوں کی علامات کیا کیا ملتی ہیں.جن سے ہم اہل تقویٰ کو

Page 35

غیر اہل تقویٰ سے ممتاز کر سکیں.سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتا ہے.فرماتا ہے:.وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَئِكَةِ وَالْكِتْبِ وَالنَّبِيِّنَ ، وَأَتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِى الْقُرْبَى وَالْيَتمَى وَالْمَسَاكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ ج وَاقَامَ الصَّلوةَ وَالَى الزَّكَوةَ ، وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ج وَالصَّبِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِيْنَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (البقره: 178) (ترجمہ) لیکن ( کامل ) نیکی اسی کی ہے.جو اللہ تعالیٰ پر یوم آخرت پر ، فرشتوں پر اور انبیاء پر ایمان لائے اور مال کو باوجود اس کی محبت کے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سوال کرنے والوں اور گردنوں کے چھڑانے میں دے.نماز باجماعت پڑھے.زکوۃ دے اور جو جب وہ عہد کریں.تو اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہوں.اور تنگی اور تکلیف اور جنگ کے وقت میں صبر کرنے والے ہوں.یہ وہ لوگ ہیں.جنہوں نے سچ کر دکھایا.(اپنا اقرار بیعت ) اور یہی لوگ متقی ہیں.ان آیات کو پڑھ کر متقیوں کا ایک ایک خدو خال نمایاں نظر آ جاتا ہے.گویا یہ معیار ہے.متقیوں کو پر رکھنے کا جو اس معیار پر پورا اترتا ہے.وہ متقی ہے اور جو نہیں اترتا وہ تقویٰ کے بلند مقام تک ابھی نہیں پہنچا.اس تفصیلی نقشہ کے علاوہ جوان آیات میں اللہ تعالیٰ نے متقیوں کا کھینچا ہے اور آیات بھی ہیں جن سے متقیوں کی مزید صفات بھی معلوم ہوتی ہیں.مثلاً سورۃ زمر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالَّذِى جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (الزمر: 34) اور وہ جو بچ لایا.اور جس نے اس کی تصدیق کی یہ لوگ ہی متقی ہیں یعنی متقی وہ ہے جو اپنی زندگی کے ہر شعبہ اور ہر پہلو میں سچائی کا اظہار کرے.اگر اسے کسی کام میں ظاہری طور پر نقصان بھی ہوتا ہو.تب بھی راہ راست سے بال برابر نہ ہے.سورۃ آل عمران رکوع 14 میں بھی اللہ تعالیٰ متقیوں کی بعض صفات بیان فرماتا ہے وَالَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (ال عمران: 135) (ترجمہ) وہ جو فراخی اور تنگی میں خرچ کرتے ہیں اور جو غصہ کو پی جانے والے ہیں اور لوگوں سے درگزر کر جانے والے ہیں.اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.گویا اللہ تعالیٰ مندرجہ ذیل علامات متقیوں کی قرار دیتا ہے.متقی وہ ہے:.ا.جو اسلام کے تمام ارکان پر ایمان لائے.اپنے مال کو با وجود مال سے محبت رکھنے کے اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے رشتہ داروں، یتیموں،

Page 36

مساکین، مسافروں ، سوال کر نیوالوں اور غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کرے..۴.._A و.نماز با جماعت پڑھے.اگر ز کوۃ فرض ہو تو ادا کرے.اگر کسی سے وعدہ کرے تو ہر قیمت پر وعدہ کو پورا کرے.تنگی ، تکلیف اور جنگ کے وقت میں صبر دکھائے.قولاً اور فعلاً راستباز ہو.فرائض اور تنگی ہر دو حالتوں میں صدقہ و خیرات کرے.اپنے غصہ کو ضبط کرے.۱۰.اگر کسی سے اس کا کوئی قصور ہو جائے تو درگزر کرے تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ) حصول تقوی کے ذرائع:- متقیوں کی صفات جان لینے کے بعد اب یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ تقویٰ کے حصول کے کیا کیا ذرائع ہیں انسان کس طرح متقی بن سکتا ہے.اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ایک تقریر میں دیا ہے.آپ فرماتے ہیں.”اصل زہد اور تقویٰ تو ہے ہی وہی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے......حقیقی پاکیزگی اور حقیقی تقویٰ اور طہارت کے حصول کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسی زمانہ شباب و جوانی میں انسان کوشش کرے.جبکہ قومی میں قوت اور طاقت اور دل میں ایک اُمنگ اور جوش ہوتا ہے.....(اول) ضروری ہے کہ انسان دیدہ دانستہ اپنے آپ کو گناہ کے گڑھے میں نہ ڈالے.ورنہ وہ ضرور ہلاک ہو گا.اپنے آپ کو نیکی کی طرف لگائیں.اور اپنے ہر ایک فعل اور حرکت وسکون میں نگاہ رکھے.کہ وہ اس کے ذریعہ سے دوسروں کے لئے ایک ہدایت کا نمونہ قائم کرتا ہے.یا کہ نہیں.پس حقیقی تقویٰ اور طہارت حاصل کرنے کے واسطے اول یہ ضروری شرط ہے کہ جہاں تک بس چل سکے تدابیر بدیوں سے بچنے اور نیکی وتقوی وطہارت حاصل کرنے کے لئے برابر کرتے رہو.دوسرا طریق حقیقی پاکیزگی کے حاصل کرنے اور خاتمہ بالخیر کے لئے جو خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے جو دراصل سب سے مقدم ہے وہ دعا ہے.اس لئے جس قدر ہو سکے دعا کرو.یہ طریق بھی اعلیٰ درجہ کا مجرب اور مفید ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے خود وعدہ فرمایا ہے اُدْعُونِی اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن : 61) تم مجھے

Page 37

619 سے دعا کرو.میں تمہارے لئے قبول کروں گا.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 202 نیا ایڈیشن) مگر یہ یا درکھو کہ یہ دعا صرف زبانی بک بک کا نام نہیں ہے.بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے اور دعا کرنے والے کی روح پانی کی طرح بہہ کر آستانہ الو ہیت پر گرتی ہے اور اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کے لئے قومی اور مقتدر خدا سے طاقت اور قوت اور مغفرت چاہتی ہے.ملفوظات جلد چہارم صفحہ 203 نیا ایڈیشن کے تیسرا طریق جو قرآن مجید سے ثابت ہے صحبت و معیت صادقین ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : يأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبہ: 119) یعنی اے ایمان والو.تقویٰ اختیار کرو اور تقویٰ جب حاصل ہو سکتا ہے کہ صادقین کے ساتھ معیت اختیار کرو.صادقوں کی صحبت میں ایک خاص اثر ہوتا ہے.غرض یہ تین ذرائع ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حصول تقوی کے بیان فرمائے ہیں.جن کے ذریعہ سے ایک انسان با خدا اور متقی انسان بن سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصیحت جماعت کو :.اپنی جماعت کی خیر خواہی کے لئے زیادہ ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوے.کیونکہ یہ بات عقلمند کے نزدیک ظاہر ہے.کہ بجز تقویٰ کے اور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ - (نحل: 129) ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلہ بیعت میں ہیں.جس کا دعوی ماموریت کا ہے.تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی روبہ دنیا تھے.ان تمام آفات سے نجات پاویں.ملفوظات جلد اوّل صفحہ 7 نیا ایڈیشن کے یا درکھو کہ تمہاری فتح تقومی سے ہے ورنہ عرب تو نزے لیکچرار ، خطیب اور شاعر ہی تھے.انہوں نے تقویٰ اختیار کیا.خدا تعالیٰ نے اپنے فرشتے ان کی امداد کے لئے نازل کئے...اس لئے اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَّالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ - (انحل: 129) ملفوظات جلد اول صفحہ 114) دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.تا ہم بھی خدا تعالیٰ کے مقرب اور محبوب بندے بن سکیں.آمین اللهم آمین مصباح دسمبر 1950

Page 38

20 پیشگوئی مصلح موعود پر ایک طائرانہ نظر ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے ثبوتوں میں سے سب سے بڑا ثبوت آپ کی صداقت اور آپ کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا پیشگوئی مصلح موعود ہے.جو اپنے وقت پر جا کر نہایت آب و تاب اور شان و شوکت کے ساتھ پوری ہوئی.1886ء میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا.میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے.اور فتح و ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو.اور اس قدرت اور رحمت اور قربت کے نشان کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ کس طرح پورا ہو گا وہ اس طرح که سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ایک زکی غلام تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہوگا..اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکتوں سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا....وغیرہ تذکرہ صفحہ 109-110 کوئی انسان خاص طور پر جس کی عمر بڑی ہو چکی ہو کبھی اپنے متعلق دعوی نہیں کر سکتا کہ میرے اولاد ہو گی بھی یا نہیں.پھر اگر اولاد ہونے کے آثار ظاہر ہو بھی جائیں تو کون کہہ سکتا ہے کہ اس حمل سے زندہ بچہ پیدا ہوگا یا درمیان میں حمل ضائع ہو جائے گا.پھر بچہ پیدا ہو بھی جائے تو کون کہہ سکتا ہے کہ یہ زندہ بھی رہے گا.یہ جوان بھی ہوگا اور بڑا ہو کر قابل بھی ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ اسلام کی صداقت کے نشان کے طور پر بتاتا ہے کہ آپ کے ہاں ایک لڑکا ہوگا.نو سال کی میعاد کے اندر ہو گا.لمبی عمر پائے گا.صاحب شکوہ اور عظمت ہوگا.سخت ذہین و فہیم ہو گا.خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.قو میں اس سے برکت پائیں گی.

Page 39

21 پیشگوئی کے مطابق 12 جنوری 1889ء کو وہ لڑکا پیدا ہوتا ہے.ظاہری صحت کمزور ہے.کبھی آنکھیں دیکھنے آجاتی ہیں.کبھی کوئی اور تکلیف ستانے لگتی ہے.بظاہر حالات کوئی خاص امید نہیں کی جاسکتی کہ یہ بچہ زندہ بھی رہے گا.لیکن خدا کا سایہ اس کے سر پر ہے.بیماریاں آتی ہیں اور اپنا زور دکھا کر چلی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہر بیماری سے شفا دیتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ عمر آجاتی ہے جس میں بچہ کی تعلیم کا انتظام کیا جاتا ہے.چونکہ بچہ کی آنکھیں اکثر دکھتی رہتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہتے ہیں چلو صرف قرآن اور حدیث پڑھ لے اور پڑھ کر کیا کرتا ہے.کسی دن پڑھنے جاتا ہے کسی دن نہیں.کئی کئی نافعے پڑھائی میں ہو جاتے ہیں.نہ استادوں ہی کی طرف سے اور نہ والدین کی طرف سے زور ڈالا جاتا ہے اور اسی حالت میں اس بچہ کی عمر 19 سال ہوتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ اپنے پاس بلا لیتا ہے.دشمن شور مچاتا ہے کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی.اس لڑکے کی پیدائش سے اسلام کی ترقی کو وابستہ کیا گیا تھا.اب مرزا صاحب کی وفات کے ساتھ جماعت بھی ختم ہو جائے گی اور چٹکیوں میں احمدیت کو مسل کر رکھ دیا جائے گا.لیکن احمدیت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا تھا.اللہ تعالیٰ اس جماعت کی باگ ڈور حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ میں دے دیتا ہے.جن فتنوں نے سر نکالا تھاوہ بھی وقتی طور پر دب جاتے ہیں.لیکن ابھی چھ سال کا عرصہ ہی گزرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول بھی وفات پا جاتے ہیں اور جماعت کی اکثریت اسی پچیس سالہ نوجوان کو جماعت کا خلیفہ منتخب کر لیتی ہے.جماعت دو حصوں میں بٹ جاتی ہے.دشمن کہتا ہے کہ سارا کام جماعت کا مولوی نورالدین صاحب کیا کرتے تھے.اب یہ جماعت دو دن کی مہمان ہے.جماعت کا باغی طبقہ شور مچاتا ہے کہ ہم نے اس بچہ کی بیعت نہیں کرنی جماعت کے سرکردہ لوگ الگ ہو جاتے ہیں.اور آپ کی معیت سے انکار کر دیتے ہیں.مگر خدا کا وعدہ سچا تھا.خدا کا سایہ آپ کے سر پر تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو صاحب شکوہ اور عظمت بتایا تھا آپ اس شدید فتنہ کے بھنور میں سے جو خلافت کے متعلق شروع ہو گیا تھا.اپنی کشتی پار نکال کر لے جاتے ہیں نہ صرف یہی کہ وقتی طور پر جماعت اس فتنہ سے بیچ نکلتی ہے بلکہ اس کے بعد جماعت کا ہر قدم ترقی کی طرف جاتا ہے.نئے مشن کھلتے ہیں.بہت سے مبلغین تیار کر کے باہر ملکوں میں تبلیغ کے لئے بھجوائے جاتے ہیں.انگلستان کی سرزمین میں اللہ کا نام بلند کرنے کے لئے بیت اللہ تعمیر ہوتی ہے.جماعت کے چندے اور جماعت کا فنڈ روز بروز بڑھتا ہی جاتا ہے.دشمن ہر طرح کے وار جماعت کے سر پر کرتا ہے لیکن جماعت کی کشتی کا یہ نوجوان ناخدا ہر نئے بھنور سے جس میں کشتی پڑتی ہے نکال کر لے جاتا ہے.آپ کے متعلق یہ بھی پیشگوئی تھی کہ وہ اولوالعزم ہوگا.کبھی غریبوں کی شکل میں کوئی

Page 40

22 فتنہ رونما ہوتا ہے اور کبھی امراء کی شکل میں.مخالفتوں کی آندھیاں چلیں.فتنوں کے سیلاب آئے اور ہر دفعہ دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ جماعت جس کو وہ چند روزہ مہمان سمجھتے تھے اس کی جڑیں زیادہ سے زیادہ مضبوط ہوتی چلی گئیں اور اس کا درخت زیادہ سے زیادہ پھیلتا چلا گیا یہاں تک کہ ایک مضبوط تناور درخت بن گیا جس کی کوئی شاخ امریکہ کوئی لندن کوئی سپین کوئی جرمنی کوئی انڈونیشیا کوئی برما کوئی عراق اور عرب اور کوئی افریقہ میں جا پہنچی.ادھر جماعت ترقی کے راستہ پر گامزن رہی یہاں تک کہ جماعت کو وہ عظیم الشان دھکا پہنچا جس سے نہ صرف دنیا بلکہ خود جماعت کے بعض کمزور طبیعت والے لوگوں کو خیال ہو گیا کہ اب جماعت کے لئے حقیقی خطرہ ہے اور یہ دھکا جماعت کی جڑیں ہلا دے گا مگر اللہ تعالیٰ جو سچے وعدوں والا ہے اور جس نے اپنے نبی کوفر مایا تھا کہ تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت ونسل سے ایک ایسا لڑکا دوں گا جس کے سر پر خدا کا سایہ ہوگا.جو جلد جلد بڑھے گا اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا.یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ خدا نے جو وعدہ اپنے نبی سے کیا تھا وہ پورا نہ ہو.اور اسلام کی صداقت پر یہ نشان ظاہر نہ ہو.چنانچہ ایسا ہی ہوا.یہ دھکا جو ہجرت کا دھکا تھا جماعت نے بری طرح محسوس کیا.دیکھنے والوں نے یہی محسوس کیا کہ جماعت کی جڑیں ہل گئیں.مگر نہیں ، جماعت کی جڑیں اور زیادہ گہری ہو گئیں.بے شک جماعت کو اپنا مرکز عارضی طور پر چھوڑنا پڑا.لیکن خدا نے بہت جلد ان کو ایک اور مرکز دے دیا جہاں وہ جمع ہو گئی.سارے مشرقی پنجاب سے لوگ نکلے اور مختلف جگہ بکھر گئے کوئی ایک شہر.ایک قصبہ اور ایک گاؤں کے لوگ بھی اکٹھے آباد نہ ہو سکے.مشرقی پنجاب سے نکلتے وقت جو کچھ لوگوں کے ساتھ پیش آیا اور جس جس طرح لوگوں کی عزتیں لوٹی گئیں وہ اپنی جگہ تلخ داستان ہے مگر مصلح موعود کی قیادت میں جماعت امن کے ساتھ ، عزت کے ساتھ نکلی اور پھر منتشر نہیں ہوئی بلکہ ایک آب و گیاہ زمین کو جہاں پانی کی شکل بھی نہ دکھائی دیتی تھی اسی اولوالعزم کی قیادت میں از سر نو آباد ہو گئی.نہ صرف یہ کہ آباد ہوگئی بلکہ تین چار سال کے قلیل عرصہ میں ان کے مکانات بھی بن گئے ، دفاتر بھی تعمیر ہو گئے سکول اور کالج بھی جاری ہو گئے اور ربوہ بزبان حال چیلنج کر رہا ہے کہ اولوالعزمی کی ایسی زندہ مثال کوئی اور ہو تو دکھا دو.اللہ تعالیٰ کے موعودوں کے لئے مخالفتیں مقدر ہوتی ہیں.چنانچہ اب کے مخالفت ایک نئے رنگ میں نمودار ہوئی جس کا نام ” تحریک ختم نبوت رکھا گیا.مگر خدا نے جماعت کی ترقی اپنے موعود خلیفہ کے ساتھ مقدر کر رکھی تھی.اس لئے گو مخالفتوں کے جھکڑ چلے اور شیطانی طاقتوں نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ حملے کئے.احمدیوں پر حملے کئے گئے ان کے گھر لوٹے گئے ان کو شہید کیا گیا مگر احمدیوں کے خون کا جہاں ایک

Page 41

23 قطرہ گرا اللہ تعالیٰ نے ایک ایک قطرے کی بجائے ایک ایک مضبوط جماعت احمدیوں کی پیدا کر دی.دنیا نے تبلیغ بند کرنی چاہی خدا نے خود تبلیغ کروائی.یہاں تک کہ دنیا کو پھر ایک بار اعتراف کرنا پڑا کہ ” خدا کا سایہ اس کے سر پر ہے اور ہم خدا کا مقابلہ نہیں کر سکتے.بعض لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ جماعت کی تنظیم کو ہم نہیں توڑ سکتے تو انہوں نے چاہا کہ جماعت کے سپہ سالار کو ختم کرنے کی کوشش کرو.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شخص نے 10 مارچ 1954ء کو آپ کی جان پر حملہ کیا.اس نیت سے کہ میں ختم کر کے رکھ دوں گا.مگر اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو بھی جماعت کی طاقت اور عظمت کا موجب بنا دیا.کیونکہ مصلح موعود کو پیشگوئی میں فضل عمر بھی کہا گیا تھا.کیسے ممکن تھا کہ حضرت عمر پر حملہ ہوتا اور فضل عمر پر نہ ہوتا.خدا تعالیٰ نے مشابہت ما پوری کر دی اور چونکہ فضل عمر کہا تھا اس لئے حضرت عمر پر فوقیت یہ دی کہ حضرت عمرؓ تو شہید ہو گئے تھے مگر فضل عمر کو خدا تعالیٰ نے بچالیا.اس واقعہ نے جہاں جماعت کے ایمان کو زیادہ کیا وہاں دنیا پر بھی حجت تمام کر دی کہ مصلح موعود کی پیدائش کو اسلام کی ترقی اور اسلام کے غلبہ کے ساتھ وابستہ کیا گیا تھا.یہ حقیقت ہے کہ اب اسلام کا غلبہ مصلح موعود کے ساتھ وابستہ ہے.وہی فلاح پائے گا جو احمد بیت کے دامن میں پناہ لے گا.احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی اس سے واضح اور روشن کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ آفتاب تو چمک رہا ہے کوئی جان بوجھ کر اپنی آنکھیں بند کرے اور کہے کہ مجھے روشنی نظر نہیں آتی ہے تو ایسے انسان کا علاج تو کسی کے پاس بھی نہیں ہے.مصباح فروری 1955ء صفحہ 9

Page 42

24 اسلام میں پردہ کی اہمیت الله آنحضرت ﷺ کا ایک اہم ارشاد آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں مَن رأى مِنْكُمْ مُنكَرًا فَلْيُغَيِّرُهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيْمَانِ.(مسلم کتاب الایمان باب بیان کون النهي عن المنكر من الایمان) تم میں سے جو شخص کوئی خلاف اخلاق یا خلاف دین بات دیکھے تو اسے چاہئے کہ اس بات کو اپنے ہاتھ سے بدل دے لیکن اگر اسے یہ طاقت حاصل نہ ہو تو اپنی زبان سے اس کے متعلق اصلاح کی کوشش کرے اور اگر اسے یہ طاقت بھی نہ ہوتو کم از کم اپنے دل میں ہی اسے بُراسمجھ کر دعا کے ذریعہ بہتری کی کوشش کرے لیکن یہ آخری صورت سب سے کمزور قسم کا ایمان ہے.پردہ اسلامی احکام میں سے ایک اہم حکم ہے.قرآن مجید میں صاف الفاظ میں پردے کا حکم ہے احادیث اور روایات سے صریحاً ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات اور صحابیات نے قرآن کے اس حکم کو سمجھا اور اس پر عمل فرمایا.موجودہ زمانہ میں مسلمانوں میں سے بہت بھاری تعداد مستورات کی اس حکم پر مائل نظر نہیں آرہی.اور ان کی تقلید میں بعض احمدی مستورات بھی اس رو میں بہتی نظر آ رہی ہیں کہ پردہ ضروری نہیں اس بُرائی کو جماعت کی مستورات میں سے دور کرنے کے لئے جو یقیناً خلاف دین و خلاف شریعت ہے.میں آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل میں کہ تم میں سے جو شخص کوئی خلاف دین بات دیکھے تو اسے چاہئے کہ اس بات کو اپنے ہاتھ سے بدل دے.لیکن اگر یہ طاقت حاصل نہ ہو تو اس کے متعلق اپنی زبان سے اصلاح کی کوشش کرے اور یہ بھی طاقت نہ ہو تو پھر اسے دل میں بُرا جانتے ہوئے اظہار نفرت ہی کرے.بے پردگی کی موجودہ رو کے متعلق خواتین جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے اصلاح کی کوشش کروں گی.ممکن ہے کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ اگر کوئی بے پردہ ہو تو تمہیں مضمون کیا ؟ اس اعتراض کو ہی دور کرنے کے لئے میں نے اپنے مضمون کی ابتدا ہی حدیث سے کی ہے.بُرائیاں کس طرح پھیلتی ہیں : اس حدیث میں بھی یہی بیان کیا گیا ہے کہ بہت سی برائیاں صرف اس لئے پھیلتی ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور انکے ازالہ کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا.اس طرح برائی کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے ایک شخص برائی

Page 43

25 کرتا ہے اسے روکا نہیں جاتا جس کے نمونہ سے اور بھی خراب ہو جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ لوگوں کے دلوں سے بُرائی کا رعب کم ہونے لگتا ہے کسی سوسائٹی میں سے کسی برائی کو دور کرنے کے دو ہی طریق ہیں.ایک یہ کہ کسی کو کوئی بُرا کام کرتے دیکھ کر سمجھانا اور نصیحت کرنا.جو لوگ گندگی کی دلدل میں پوری طرح داخل نہیں ہوتے وہ نصیحت کے ذریعہ سنبھل جاتے ہیں.دوسرا ذریعہ بدی سے بچنے کا وہ رعب ہے یا بدنامی کا ڈر ہے جو اس بُرائی کے متعلق کسی سوسائٹی میں پایا جاتا ہو ایک انسان اس لئے بھی بُرائی سے محفوظ رہتا ہے کہ اگر میں نے یہ بُر افعل کیا تو میری سوسائٹی اور میرے ملنے جلنے والے اسے بُرا افعل سمجھیں گے لیکن اگر اس کے بُرے فعل پر اس کے ملنے جلنے والے نفرت کا اظہار نہ کریں تو آہستہ آہستہ بُرائی کا رعب اس کے دل سے نکل جائے گا.موجودہ زمانہ میں مغربی تہذیب کے زیر اثر ہمارے ہاں بھی یہ کمزوری پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے کہ ایک شخص خلاف اخلاق یا خلاف دین حرکت کرتا ہے مگر دیکھنے والے خاموش رہتے ہیں اس بُرائی کے سد باب کی کوشش نہیں کرتے محض اس خیال سے کہ ہم کیوں اپنے کسی عزیز دوست یا سہیلی سے جھگڑا مول لیں ہمیں ان کے ذاتی افعال سے کیا سروکار.وہ یہ نہیں سوچتے کہ جس بدی پر آج وہ اپنے کسی عزیز یا دوست کو نہیں روکتے کل کو وہ پھیلے گی اور ان کا گھر بھی اس کا شکار ہوگا جو آگ آج کسی اور کے گھر میں لگی ہے کل کو ان کے گھر میں بھی ضرور لگے گی.بے پردگی کی موجودہ رو :.بے پردگی کی رو جو اس وقت عورتوں میں پھیل رہی ہے وہ بھی آگ کی طرح ہے جو آہستہ آہستہ سلگ رہی ہے اگر آج ہمارے ہمسایہ کا گھر اس آگ سے جل رہا ہے اور اس آگ کو ہم نے روکنے اور بجھانے کی کوشش نہ کی تو کل یقیناً ہمارا گھر بھی یہ آگ بھسم کر دے گی.پس میری بہنو! اس آگ کو بجھانے میں ہمارے ہاتھ بھی جلیں گے اور کپڑے بھی تعلقات بھی خراب ہوں گے.دوستیاں بھی چھوڑنی پڑیں گی.ملنے والیوں کے منہ بھی بنیں گے.طعنے بھی سننے پڑیں گے.لیکن کس کی خاطر ؟ اپنے پیدا کرنے والے رب کی خاطر جس نے ہمیں پیدا کیا.دنیا کی نعمتوں سے نوازا اور بطور احسان پردہ کا واضح حکم قرآن مجید میں نازل فرمایا اور اپنے آقا محمد رسول اللہ ﷺ کی خاطر جو دنیا کے لئے اور خاص طور پر طبقہ نسواں کے لئے رحمت کا بادل بن کر آئے ہزاروں درود اور سلام اس محسن پر جس نے عورت کی ہستی کو جو دنیا بھر میں ایک ذلیل ہستی سمجھی جاتی تھی خاک سے پاک کیا.اس کو سوسائٹی کا ایک قابل قدر اور قابل احترام وجود بنا دیا.اس کو اتنا بلند مقام عطا فرمایا کہ ماں کی خدمت کو جنت قرار دے دیا گیا.لیکن وہی عورت اعلیٰ اور ارفع مقام حاصل کر کے اپنے اسی محسن کے حکموں کی صریحاً خلاف ورزی کر رہی ہے جس

Page 44

26 کی بدولت اس نے یہ مقام حاصل کیا محض عیسائی اقوام کی عورتوں کی اندھی تقلید میں مغربی دنیا عرصہ دراز تک عورت کو مظالم کا تختہ مشق بناتی رہی ہے.آج وہاں اس کا رد عمل ہو رہا ہے.لیکن اسلام فطرت کا مذہب ہے.مسلمان عورتوں کو مغربی مستورات کی نقل میں اسلام کے واضح احکام کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہی ان پر رحم فرمائے اور انکو سمجھ عطا فرمائے.آمین.بے پردگی کی وجوہ : اس تمہید کے بعد اس سوال کی طرف آتی ہوں کہ اسلام کے ایک صریح حکم کی خلاف ورزی کرنے اور پھر اس پر اصرار کرنے کی کیا وجہ ہے.اور اس کی اصلاح کی کیا صورت ہوسکتی ہے.بے پردگی جس کا رجحان دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے.دراصل اس کی وجہ اسلام کی تعلیم سے ناواقفیت اور مغربیت کا تتبع ہے.ایک لمبے عرصہ تک مسلمان ہندوؤں کے ہمسایہ رہے ان کی صحبت میں پردہ کے معاملہ میں مردوں نے عورتوں پر اتنی سختی کی کہ وہ بالکل بے دست و پا ہو کر رہ گئیں.جہالت ان میں عام ہوگئی.علم وعمل سے وہ بالکل بے بہرہ ہو گئیں.انگریزوں کی حکومت میں آہستہ آہستہ تعلیم کا پھر رواج ہوا.اور مسلمان عورتوں نے بھی ہر بات میں انگریزوں کی تقلید شروع کر دی.اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہوا کہ انگریز اس ملک سے چلے گئے.غلامی کی زنجیریں کٹ گئیں.مسلمانوں کو آزادی ملی مگر ظاہری آزادی.ان کی روح ابھی غلام ہے کیونکہ جب تک کسی قوم کا ذہن غلام رہے وہ قوم آزاد نہیں سمجھی جاسکتی.مسلمان قوم بظا ہر آزاد ہو گئی لیکن فیشن اور مغربیت کی تقلید کی لعنت میں ایسی گرفتار ہوئی کہ آہستہ آہستہ ان کی تقلید میں مذہبی احکام کو بھی پس پشت ڈال دیا.پر وہ ایک اسلامی حکم ہے.مسلمان عورتوں نے مغربی عورتوں کی بے پردگی کو اپنا کر اسلام کے ایک حکم سے لا پرواہی اختیار کر لی.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ من تَشَبِّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ( مسند احمد بن مقبل جلد 2 صفحه (50) کہ جو شخص اپنی ملت اور قوم کا طریق چھوڑ کر کسی دوسری قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے وہ اسی قوم میں سے سمجھا جائے گا.اس مختصر سی لیکن نہایت پر حکمت حدیث میں آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو ہوشیار فرمایا ہے کہ وہ کبھی کسی دوسری قوم کی تہذیب اور تمدن کے نقال نہ بنیں بلکہ اس یقین کے ساتھ ترقی کی طرف قدم اٹھاتے جائیں کہ اسلامی تمدن ہی بہترین تمدن ہے اور اسلامی شعار پر قائم رہتے ہوئے ہی وہ فتح پاسکیں گے.ورنہ ذہنی طور پر غلام اور محکوم ہو جائیں گے.مگر افسوس کہ اپنے آقا ﷺ کی اس اعلیٰ درجہ کی حکیمانہ تعلیم کے باوجود آج کل کے مسلمان مرد بھی اور عورتیں بھی اپنی انفرادیت کو کھو کر مغربی ممالک کے ذہنی طور پر غلام بن چکے ہیں.مسلمان مردوں کی داڑھیاں غائب ہوئیں اور عورتیں گھر کی زینت بنے کی بجائے سڑکوں کی زینت بننے کے لئے بے پردہ

Page 45

ہو کر باہر نکل آئیں.27 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے جو دعا ئیں فرمائی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے نہ آئے ان کے گھر تک رعب دجال“ آپ سب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحانی اولاد ہیں کم از کم ہماری جماعت کی عورتوں کو تو ایسے افعال سے پر ہیز کرنا چاہئے اور اپنے تئیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس دعا کا مستحق ثابت کرنا چاہئے.عام طور پر یہ خیال پیدا ہو چکا ہے کہ بغیر مغربی اقوام کی تقلید کے ہم ترقی نہیں کر سکتے اس کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.قومی ترقی قومی ترقی کے گیت تو گاتے ہیں لیکن کوئی مجھ کو یہ بتائے کہ کیا پہلے زمانہ میں جب قوم بنی تھی وہ یورپ کے اتباع سے بنی تھی؟ کیا مغربی قوموں کے نقش قدم پر چل کر انہوں نے ساری ترقیاں کی تھیں اگر یہ ثابت ہو جاوے کہ ہاں اسی طرح ترقی کی تھی تو بے شک گناہ ہو گا کہ اگر ہم اہل یورپ کے نقش قدم پر نہ چلیں لیکن اگر ثابت نہ ہو اور ہرگز ثابت نہ ہوگا پھر کس قدر ظلم ہے کہ اسلام کے اصولوں کو چھوڑ کر قرآن کو چھوڑ کر جس نے ایک وحشی دنیا کو انسان اور انسان سے باخدا انسان بنایا.ایک دنیا پرست قوم کی پیروی کی جائے جولوگ اسلام کی بہتری اور زندگی مغربی دنیا کو قبلہ بنا کر چاہتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے.کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کے ماتحت چلتے ہیں قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے.اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں.جب تک مسلمانوں کا رجوع قرآن شریف کی طرف نہ ہو گا ان میں وہ ایمان پیدا نہ ہوگا یہ تندرست نہ ہوں گے.عزت اور عروج اسی راہ سے آئے گا.جس راہ سے پہلے آیا.“ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 409-410 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحریر سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ جب تک مسلمان قوم کے مرد اور عورتیں قرآن کے احکام پر عمل نہیں کریں گے وہ ترقی نہیں کر سکتے.بے پردگی کی دوسری وجہ یہ بھی ہے جو عورتیں پر وہ ترک کرتی ہیں یا پر وہ صحیح نہیں کرتیں وہ اس حکم کی صحیح تعریف نہیں سمجھ رہی ہوتیں.ایک طبقہ وہ ہے جو کہتا ہے قرآن مجید میں پردہ کا حکم ہے ہی نہیں دوسرا طبقہ کہتا

Page 46

28 ہے حکم تو ہے لیکن وہ ایک عارضی حکم تھا.جو صرف اس زمانہ کے لئے تھا یا آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کے لئے تھا.تیسرا طبقہ کہتا ہے کہ پردہ سے مراد یہ نہیں منہ ڈھانپو بلکہ یہ کہ صرف جسم ڈھانپ لویا مردوں سے خلا ملا نہ کرو.وہ ایک واضح حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھی یہ سمجھ رہی ہوتی ہیں کہ ہم نے خلاف ورزی نہیں کی اور کوئی گناہ نہیں کیا.قرآن مجید میں پردہ کا حکم پردہ کا حکم قرآن مجید میں ان آیات میں نازل ہوا تھا.يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لَازْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَالِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا - (الاحزاب:60) ترجمہ:.اے نبی ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مومنوں کی بیویوں سے کہہ دے کہ (جب وہ باہر نکلیں ) اپنی بڑی چادروں کو سروں سے گھسیٹ کر اپنے سینوں تک لے آیا کریں.یہ امر اس بات کو ممکن بنا دیتا ہے کہ پہچانی جائیں اور ان کو تکلیف نہ دی جائے اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.پردہ کا حکم ان آیات میں اس بنا پر نازل ہوا کہ مردوں نے عورتوں کو اذیت پہنچائی اور شرارتیں کیں.یہ حالت اب بھی اسی طرح قائم ہے اور جب تک دنیا میں ان دونوں جنسوں کا وجود ہے قائم رہے گی.کہا جا سکتا ہے کہ اب وہ زمانہ نہیں کہ عورتوں کو کوئی ایذا دے لیکن ایڈا کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں مکر وفریب اور عورتوں کو دھوکا دے کر ایذا پہنچائی جاتی ہے اور اس ایڈا سے بڑھ کر کون سی ایذا ہوگی کہ ایک عورت کی عزت پر حرف آ جائے اور اس کی تمام زندگی خراب ہو جائے پھر یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اب وہ زمانہ نہیں کہ عورتوں کو کوئی ایذا دے سکے.اخبارات کا مطالعہ کر نیوالے جانتے ہیں کہ شاید ہی کوئی دن ناغہ ہوتا ہوگا.جس دن اس قسم کی کوئی خبر نہ ہو جس میں موجودہ بے راہ روی اختیار کرنے والی عورت کا کسی کی ہوا و ہوس کا شکار بن جانے کا ذکر نہ ہو.ظاہری ایڈا کو قانون اور حکومت روک سکتی ہے.لیکن کسی عورت کی عزت پر حرف آنے کو صرف اخلاق کا قانون ہی روک سکتا ہے.جب ان قوانین میں کوئی ایسی دفعہ نہ ہو جس سے کلی طور پر عورت کی عزت محفوظ رہ سکے تو پردہ کے سوا اور کون سا ذریعہ ہے اور پردہ بھی ویسا ہو جیسا کہ امہات المومنین یا صحابیات کیا کرتی تھیں اور امہات المومنین اور صحابیات کے نقش قدم پر چلنا ہی آج بھی ہر مسلمان عورت اور لڑکی کا فرض ہے یہ کہنا بھی غلط ہے کہ پردہ صرف ازواج مطہرات کے لئے تھا قرآن مجید دائمی شریعت ہے اور اس کا ہر حکم ہر زمانہ کے لئے ہے مذکورہ بالا آیات کے الفاظ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِين صاف بتاتے ہیں کہ ہر مسلمان اور مومن عورت کے لئے پردہ کا حکم تھا.جو بہنیں پردہ ترک کرتی ہیں وہ قرآن کے ان الفاظ

Page 47

29 کے مطابق کسی صورت میں بھی نِسَاءِ الْمُؤمِنِین کہلانے کی مستحق قرار نہیں پاسکتیں.میری بہنو! اللہ تعالیٰ کا آپ پر کتنا فضل ہے کہ اس نے آپ کو مسلمان گھروں میں پیدا کیا.مسلمانوں کی بیویاں اور بیٹیاں بنایا.لیکن آپ ایک قرآنی حکم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اپنے آپ کو مومنوں کی بیویاں نہیں کہلاسکتیں کیونکہ مومنین کی بیویوں کے لئے تو خدا اور اس کے رسول کے حکم کی اطاعت کے طور پر لازم ہے کہ وہ پردہ کریں.اسلام نے اگر عورتوں کو مردوں میں خلا ملا کرنے سے باز رہنے کا حکم دیا ہے تو ان کو ایسے اعلیٰ حقوق بھی عطا فرمائے ہیں جو باوجود تہذیب و تمدن کے انتہائی کمال تک پہنچنے کے ابھی تک مغربی ممالک کی عورتوں کو حاصل نہیں اور جن کو مغربی ممالک کی خواتین باوجود اپنے پر زور مطالبات کے آج بھی پوری طرح حاصل نہیں کر سکیں.اگر یہی سمجھ لیا جائے کہ پر وہ ایک قید ہے تو یہ حقوق اس قید کا ایسا نعم البدل ہیں جن پر ہزار آزادیاں قربان.اور اگر وہ حقوق صحیح طور پر ادا کئے جائیں تو عورت کو کبھی کوئی تکلیف جسمانی یا روحانی نہیں ہو سکتی.مغرب کی عورت جس کی تقلید آج مسلمان عورت بھی کرنے کی کوشش کر رہی ہے مرد کے دوش بدوش ہر محکمہ میں نظر آ رہی ہے.لیکن آج مغرب کی عورت کی ظاہری ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی انحطاط اور تنزل جو ہو رہا ہے وہ روز روشن کی طرح نظر آرہا ہے جس کی وجہ سے مغرب کی دنیائے تمدن میں ایک ہل چل پڑ چکی ہے جس پر ان ممالک کے بڑے بڑے مصلحین غور کر رہے ہیں اور افسوس کرتے ہیں کہ کیوں صنف نازک کو مدنی زندگی میں یہ مرتبہ دیا گیا.جس کی وجہ سے وہ ہر کام میں آزادی سے حصہ لیتی نظر آتی ہے.انشاء اللہ وہ وقت آنے والا ہے.جب دنیا اسلام کے لائے ہوئے اصولوں کے سامنے سر جھکا دے گی.کیونکہ وہی فطرت کے عین مطابق ہیں.مسلمان عورتوں کے فرائض : مسلمان عورتوں کے فرائض کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں توجہ دلائی ہے.وَمِنْ ايتةٍ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَالِكَ لَايَتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ - (الروم :22) عورت اپنے شوہر کے لئے تسکین کا باعث ہو.بچوں کی تربیت اور پرورش اعلیٰ درجہ کی کرے گھر کو سارے خاندان کے لئے راحت کدہ بنائے.آپ غور کریں کیا یہ ممکن ہے کہ عورت بے پردہ ہو.دفتروں میں ملازمتوں کے سلسلہ میں دھکے کھاتی ہو.اور وہ اپنے مذکورہ بالا فرائض کو صحیح رنگ میں ادا کر سکے؟ مردوں کے ساتھ آزادانہ خلاملا کے ساتھ وہ اس معیار پر کیسے پوری اتر سکتی ہے جو اسلام اس کے لئے مقرر کرتا ہے.

Page 48

30 یہ ایک بدیہی بات ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے نوع انسان کو دو اصناف میں پیدا کیا تو خود یہ تقسیم اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں کے فرائض جدا اور دونوں کا میدان عمل الگ الگ ہے اور اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ عورت اپنے میدان عمل سے باہر نہ جائے اور یہی پردہ کی غرض ہے.آنحضرت ﷺ کی ایک پیشگوئی : موجودہ زمانہ کی بے پردگی اور ایسا لباس پہننے کے متعلق جو قریب ننگا لباس ہے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی بھی ہے آپ فرماتے ہیں.نِسَاء كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيَّلَاتٌ مَائِلَاتٌ لَا يَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ (مسلم کتاب الباس والزينة ) کہ آخری زمانہ میں ایسی عورتیں ہوں گی جو بظاہر لباس پہنیں گی مگر فی الحقیقت عریاں ہوں گی.لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے والی ہوں گی.اور خود ان کی طرف مائل ہونے والی ہوں گی.ایسی عورتوں کے متعلق آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی.اللہ تعالیٰ ہماری مستورات کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اس حدیث کو جو اس زمانہ کے متعلق آنحضرت نے آج سے چودہ سو سال قبل بیان فرمائی تھی اور جس میں موجودہ زمانہ کی عورتوں کا صحیح نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے جو اسلام کی صداقت اور آنحضرت ﷺ کی صداقت کی ایک بھاری دلیل ہے اپنے سامنے رکھیں اور جس انجام کی طرف اس حدیث میں توجہ دلائی گئی ہے اس سے بچیں.اللہ تعالیٰ ہی ان کو سمجھ اور عقل عطا فرمائے کہ وہ اسلام کے حکموں پر چلیں.ان کے دلوں میں مغرب کی اقتد ا سے نفرت ہو اسلام کے احکام پر ہی چلنا وہ فخر سمجھیں.جس میں ہماری نجات ہے.ہماری اولادوں کی نجات ہے اور ساری دنیا کے لئے نجات ہے.کیا چهره چھپانا ضروری نھیں ؟ ایک طبقہ جیسا کہ میں پہلے بھی ذکر کر چکی ہوں یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اسلام میں پردہ تو ہے.لیکن چہرہ کا چھپانا ضروری نہیں.یہ ایک غلط خیال اور عقیدہ ہے جو ان کے دلوں میں جم گیا ہے اور جس کی نہ قرآن تصدیق کرتا ہے نہ حدیث نہ صحابیات کے عمل سے اس عقیدہ کی تصدیق ہوتی ہے.قرآن مجید صاف صاف فرماتا ہے لا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ (النور 32) وه زینوں کو ظاہر نہ کریں سب سے زیادہ زینت کی چیز عورت کا چہرہ ہے.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ چہرہ چھپانے کا حکم نہیں.وہ آخر پھر زینت کس چیز کو قرار دیتے ہیں.جس کے چھپانے کا حکم دیا گیا ہے.اسی سلسلہ میں مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ جو بہنیں پر وہ تو کرتی ہیں لیکن اپنا برقعہ ایسا سلواتی ہیں جن سے ان کے جسم کا حصہ نمایاں نظر آتا ہے.وہ بھی اسلامی پردہ پر عمل نہیں کرتیں.پردہ خواہ چادر سے کیا جائے یا برقعہ سے

Page 49

31 اس کی غرض یہ ہے کہ عورت کی زینت کو ظاہر نہ کرے سوائے ان لوگوں کے جن کے سامنے زینت کے اظہار کرنے کی قرآن مجید میں اجازت ہے.ہماری جماعت کی مستورات کو ایسے برقعے پہنے سے احتراز کرنا چاہئے.بخاری کی ایک حدیث اس عقیدہ کے متعلق کہ چہرہ کا پردہ ہے یا نہیں ایک فیصلہ کن حدیث ہے اور اس حدیث میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے.یہ پردہ کے احکام نازل ہونے کے بعد کا واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ حدیث یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ قبیلہ بنو مصطلق کی شرارتوں کے انسداد کے لئے مدینہ سے نکلے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے ہمراہ تھیں.سفر سے واپسی پر ایک جگہ رات کے وقت آرام کی خاطر قیام فرمایا.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ میں رفع حاجت کے لئے ایک طرف گئی.واپس آ کر مجھے معلوم ہوا کہ میرے گلے کا ہار غائب ہے اس خیال سے کہ میرا ہارگر نہ گیا ہو.میں پھر اسی طرف واپس گئی.اسی اثنا میں آنحضرت ﷺ نے روانگی کا حکم فرما دیا.لوگوں نے حضرت عائشہ کا خالی کجاوہ اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا.اس زمانہ میں حضرت عائشہ کی عمر چھوٹی اور جسم دبلا تھا.کجاوہ اٹھا کر لانے والوں کو اس بات کا احساس نہ ہوا کہ وہ خالی ہے.قافلہ روانہ ہو گیا.اور حضرت عائشہ پیچھے رہ گئیں.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ قافلہ روانہ ہو چکا ہے تو میں بہت گھبرائی.میں نے یہی مناسب سمجھا کہ اب یہاں سے چلنا ٹھیک نہیں.کیونکہ جب آنحضرت ﷺ کو میرے پیچھے رہنے کا علم ہوگا تو آپ کے ضرور اس جگہ تشریف لائیں گے.چنانچہ میں وہیں بیٹھی رہی.بیٹی کہ مجھے نیند آگئی.صبح کے قریب ایک صحابی صفوان بن معطل وہاں پہنچے.آنحضرت ﷺ نے آپ کو قافلہ سے پیچھے رہنے کا اس لئے حکم دیا تھا تا گری پڑی چیزوں کا خیال رکھیں.جب صفوان نے مجھے وہاں اکیلے سوئے ہوئے دیکھا تو فوراً پہچان لیا.کیونکہ وہ پردہ کے احکام نازل ہونے سے قبل مجھے دیکھ چکے ہوئے تھے.انہوں نے گھبرا کر إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا.ان کی آواز سے میں جاگ پڑی اور میں نے جھٹ اپنا منہ چادر سے ڈھانپ لیا.پھر انہوں نے اونٹ پر مجھے بٹھا کر اور خود ساتھ پیدل چل کر قافلہ تک پہنچا دیا.( بخاری کتاب الشهادات ) یہ حدیث بخاری کی ہے جو اسلام میں قرآن مجید کے بعد کتب میں سب سے بڑا درجہ رکھتی ہے اور اس کی راو یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہے.جن کے متعلق خود آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ نصف دین عائشہؓ سے سیکھو.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے فَعَرَفَنِي حِيْنَ رَانِي وَكَانَ رَانِي قَبْلَ الحِجَاب - ( صحیح بخاری کتاب المغازی) یعنی صفوان نے مجھے دیکھ کر اس لئے پہچان لیا کہ وہ پر دے ย

Page 50

32 کے احکام نازل ہونے سے پہلے مجھے دیکھ چکا تھا سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پردہ خواہ کسی طرح بھی کیا جائے.اس کے ہوتے ہوئے کسی عورت کی شناخت ممکن نہ تھی.پھر اسی حدیث کے یہ الفاظ کہ فَخَمْرُتُ وَجْهِيَ بِجِلْبَابِی یعنی میں نے صفوان کے الفاظ سنے تو میں نے فوراً اپنا چہرہ چادر سے ڈھانپ لیا.اس بات کا قطعی ثبوت ہیں کہ اسلامی پردہ میں چہرہ کا چھپانا ضروری ہے اگر اسلام چہرہ کو چھپانے کا حکم نہ دیتا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کیوں منہ ڈھانکتیں.اور کیوں یہ الفاظ فرماتیں پردہ کے احکام کی تفصیل میں جانے کے لئے ہمیں بہر حال یہی دیکھنا پڑے گا کہ جس زمانہ میں پردہ کے احکام نازل ہوئے اس زمانہ کی مستورات نے آنحضرت ﷺ کے فرمان کے مطابق قرآنی احکام کو کس طرح سمجھا.اور کس طرح عمل کیا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت ایک فیصلہ کن روایت ہے آپ نے براہ راست آنحضرت ﷺ سے تربیت حاصل کی آپکا عمل عین قرآنی احکام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشادات کے مطابق تھا.یہاں یہ بھی یا درکھنا ضروری ہے کہ جلبات کا لفظ عربی زبان میں دو پٹہ کے لئے نہیں آتا.بلکہ اس کپڑے یا برقعہ کے لئے آتا ہے جو عورت زینت والے لباس کے اوپر اس لئے اوڑھے کہ اس کی زینت چھپ جائے.اس لئے ضروری ہے کہ برقعہ -: ایسا ہو جوزینت چھپانے والا ہو نہ کہ ایک نئی زینت کو پیدا کرنے والا جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے.صحابیات کے درخشنده کارنامے :.غرض اسلامی پردہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عورتوں کو قیدیوں کی طرح گھروں کی چار دیواری میں محصور رکھا جائے.جس طرح آج کی بے پردگی انتہا پر جا پہنچی ہے اسی طرح آج سے کچھ عرصہ قبل کا سخت پردہ بھی اسلام کی تعلیم کے خلاف تھا.اسلام افراط اور تفریط سے روکتا ہے.اسلام اگر ایک طرف عورتوں اور مردوں کے نا واجب اختلاط کو روکتا ہے تو دوسری طرف وہ عورتوں کو جائز آزادی عطا کرتا ہے.چنانچہ اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ پردہ کی پابندی کے باوجود صحابیات سفروں میں مردوں کے ساتھ جاتیں سواری کرتیں.جنگوں میں حصہ لیتیں.جنگوں میں مریضوں کو مرہم پٹی کرتیں پانی پلاتیں وغیرہ.اسی طرح علمی میدان میں بھی وہ کسی سے کم نہ تھیں.جو جو کام صحابیات نے پردہ کے ساتھ سرانجام دیئے.اس کا عشر عشیر بھی آج کی عورتوں میں نظر نہیں آتا.اور یہ دعویٰ ہے کہ ترقی کا زمانہ ہے اور پردہ ترقی کی راہ میں روک ہے.اگر ترقی سے مراد مردوں سے آزادانہ خلا ملا.مردوں کی مجالس میں شرکت ہے تو بے شک ایسی ترقی میں پردہ روک ہے لیکن اگر ترقی سے مراد اس مثالی معاشرہ کا پھر سے قیام ہے جو آنحضرت ﷺ کے ذریعہ قائم ہوا اور جس کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنے کے لئے

Page 51

33 حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تو اس ترقی میں پردہ روک نہیں کیونکہ آپ کی بعثت کی غرض اللہ تعالیٰ نے الہام آپ کو یہ بتائی تھی کہ يُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ آپ دنیا میں حقیقی اسلام کو جس کا صرف نام دنیا میں باقی رہ گیا تھا اور اسلام کی روح غائب ہو گئی پھر سے قائم کریں گے اور قرآنی شریعت کے احکام کو دنیا میں پھر سے رائج کریں گے.کیونکہ قرآنی شریعت کے احکام پر عمل کرنے سے دنیا کی نجات اور ترقی وابستہ ہے.جس قسم کی قربانیاں صحابیات نے دیں.کیا ہماری بہنیں دعویٰ کر سکتی ہیں کہ پر وہ چھوڑ کر بھی اس قسم کے کام کسی نے کئے ہیں.اسلامی تاریخ جن قربانیوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے اس قسم کا ایک کام بھی پردہ چھوڑنے والی عورتوں کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا.جنگ یرموک میں عیسائی لشکر نے جب یکدم حملہ کیا تو اسلامی لشکر مقابلہ کی تاب نہ لا کر وقتی طور پر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا.اس وقت مسلمان عورتوں نے خیمے تو ڑتوڑکر ان کی لکڑیاں ہاتھوں میں پکڑ لیں اور مسلمان سپاہیوں کے گھوڑوں کے منہ پر مار مار کر ان کو واپس دشمن کے لشکر کی طرف دھکیل دیا.ان عورتوں میں سے ایک ہندہ بنت عقبہ بن ربیعہ بھی تھیں جو کسی زمانہ میں اسلام کی شدید دشمن رہ چکی تھیں.پیچھے ہٹنے والے مسلمان سپاہیوں میں ابوسفیان بھی تھے جو ہندہ کے خاوند تھے.ہندہ نے ان کے گھوڑے کو خیمہ کی لکڑی سے مارا اور کہا کہ آنحضرت ﷺ کی مخالفت میں تو تم سب سے آگے تھے.اب اسلام قبول کر کے میدان جنگ سے بھاگتے ہو! جب ابوسفیان اور ان کے ساتھیوں نے یہ نظارہ دیکھا تو کہا واپس چلو دشمن کی تلواروں سے مسلمان عورتوں کے ڈنڈے زیادہ سخت ہیں.چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ لشکر واپس لوٹا اور فتح پائی.اسی طرح اسی جنگ کا واقعہ ہے کہ ایک شب اسلامی لشکر کے کمانڈر حضرت ابو عبیدہ چکر لگانے کے لئے باہر نکلے تو انہوں نے محسوس کیا کہ اسلامی لشکر کے ارد گرد دو شخص پھر رہے ہیں آپ کو شبہ ہوا کہ دشمن کے جاسوس نہ ہوں.چنانچہ آپ تفتیش کے لئے آگے بڑھے اور آواز دی ” کون ہے؟ اس پر حضرت زبیر آگے بڑھے.ان کے ساتھ ان کی اہلیہ حضرت اسماء بنت ابوبکر تھیں.انہوں نے کہا کہ آج مسلمان چونکہ تھکے ہوئے تھے.اس لئے میں اور میری بیوی دونوں پہرہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے.کیا آج کی بے پردہ خواتین میں قومی خدمت کا یہ جذ بہ یا کام کرنے کی یہ روح موجود ہے یا وہ محض دنیاداری فیشن اور مغربیت کا شکار ہو کر رہ گئی ہیں.ایک اسلامی حکم چھوڑنے کے ساتھ وہ بہت سی نیکیوں سے محروم ہو کر رہ گئی ہیں.اللہ تعالیٰ کی نافرمانی آنحضرت ﷺ کی نافرمانی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نافرمانی کی مرتکب ہو رہی ہے.اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے.

Page 52

34 اطاعت امام کی اهمیت : اسلام کی تعلیم اطاعت امام کے محور پر گھومتی ہے.اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِى الأمْرِ مِنْكُمُ (النساء:60 ) میں بھی یہی تعلیم دی گئی ہے کہ کوئی شخص نجات حاصل نہیں کر سکتا.جب تک وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کے ساتھ محمد رسول اللہ علی اور آپ کے خلفاء کا کامل فرمانبردار نہ ہو.اس کی تعلیم قرآن میں ہے اسی کی تعلیم حدیث میں ہے.جب آنحضرت ﷺ کو عورتوں سے بیعت لینے کا ارشاد ہوا تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.يأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنتُ يُبَايِعُنَكَ عَلَى أَنْ لَّا يُشْرِكُنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقُنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانِ يَفْتَرِيْنَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعُهُنَّ وَاسْتَغْفِرُ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ - (سورة المتري : 13) کہ اگر یہ عورتیں یہ وعدہ کریں کہ آپ ﷺ کی امر معروف میں نافرمانی نہیں کریں گی تو آپ ان کی بیعت لے لیں.گویا آنحضرت ﷺ کی بیعت کے لئے علاوہ دوسری شرائط کے مندرجہ بالا آیت میں بیان کی گئی ہیں ایک ضروری شرط یہ بھی ہے کہ بیعت کرنے والی عورت یہ عہد کرے کہ آپ کی اطاعت کامل طور پر کرے گی.اور کسی امر میں نافرمانی کی مرتکب نہ ہوگی اور آپ کے تتبع میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے خلفاء بیعت کے وقت یہ الفاظ دہراتے رہے ہیں کہ جو آپ نیک کام بتائیں گے اس پر عمل کروں گی.ٹھنڈے دل سے غور کرنے والی بات ہے کہ کیا پردہ کرنا نیک کام ہے یا پردہ چھوڑنا نیک کام ہے.اگر ہماری وہ بہنیں جو پردہ کرنے کے معاملہ میں سست ہیں ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کریں گی کہ کیا وہ شرائط بیعت پر پوری اترتی ہیں.تو وہ ضرور ندامت محسوس کریں گی اور ان کو احساس ہوگا کہ اس طرح وہ اپنے خلیفہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام.آنحضرت ﷺ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمان ہیں.بیعت کرتے وقت تو انہوں نے کہا تھا کہ جو آپ نیک کام بتائیں گے ان میں آپ کی فرمانبرداری کروں گی.لیکن عمل ان کا اس کے خلاف ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کشتی نوح میں فرماتے ہیں:.جو شخص امور معروفہ میں میری اطاعت کرنے کے لئے طیار نہیں ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 119 کیا پردہ کرنا امور معروفہ میں سے نہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند ارشادات : ممکن ہے کہ کسی کو خیال پیدا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پردہ کے معاملہ میں سختی کا اظہار نہیں فرمایا تو ان کی غلط فہمی کو دور کرنے کے

Page 53

35 لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند حوالہ جات پیش کرتی ہوں.الحکم 3 اکتوبر 1903ء میں فرماتے ہیں.ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا نہ کرے کہ مسلمانوں پر وہ دن آئے کہ ان کے مردوں اور عورتوں کی ایسی زندگی ہو جیسی کہ اہل یورپ مثلاً خاص لنڈن اور پیرس میں نمونہ پایا جاتا ہے.چونکہ زمانہ اپنی تاریکی کی انتہا تک پہنچ گیا ہے.اس لئے اکثر لوگوں کی آنکھوں سے اسلامی خوبیاں مخفی ہوگئی ہیں.وہ چاہتے ہیں کہ یورپ کے قدم بقدم چلیں یہاں تک کہ حکم قرآن قُلُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِهِمْ (النور: 31) کو بھی الوداع کہہ کر اپنی پاک دامن عورتوں کو ان عورتوں کی طرح بنا دیں جن کو نیم بازاری کہہ سکتے ہیں.“ ملفوظات جلد چہارم صفحہ 104 نیا ایڈیشن کے پھر آپ فرماتے ہیں:.یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں.لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا ان کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو.اگر اس آزادی اور بے پردگی سے ان کی عفت اور پاک دامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں.لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطر ناک ہوں گے.“ پھر آپ فرماتے ہیں:." آج کل پردہ پر حملے کئے جاتے ہیں لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی پردہ سے مراد زندان نہیں بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے.جب پردہ ہو گا ٹھوکر سے بچیں گے.انہی بد نتائج کو روکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجازت گے.ہی نہ دی جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں.ایسے موقع پر یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح غیر محرم مرد و عورت ہر دو جمع ہوں تیسرا ان میں شیطان ہوتا ہے.ان ناپاک نتائج پر غور کرو.جو یورپ اس خلیع الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے.بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفانہ زندگی بسر کی جارہی ہے.یہ انہیں تعلیمات کا نتیجہ ہے.اگر کسی چیز کو خیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو.لیکن اگر حفاظت نہ کرو اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں تو یا درکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہوگی.اسلامی تعلیم کیسی پاکیزہ علیم ہے.جس نے مرد وعورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تاریخ نہیں

Page 54

36 کی.ملفوظات جلد 1 صفحہ 21-22 نیا ایڈیشن کے ان حوالہ جات سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پردہ کو کتنی اہمیت دی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے مبعوث فرمایا کہ آپ اسلام کو پھر سے زندہ کریں.قرآن مجید کے ایک ایک حکم پر دنیا کو عمل کروائیں.کتنے افسوس کی بات ہے کہ بعض عورتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہیں اور آپ کو خدا تعالیٰ کا فرستادہ اور نبی تسلیم کرتی ہیں جو بیعت کرتے وقت کہتی ہیں کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گی.ایک واضح اور صاف قرآنی حکم پر عمل نہیں کرتیں اور پردہ کے معاملہ میں کمزوری دکھا کر جماعت کی بدنامی کا موجب بنتی ہیں.حضرت آدم کے وقت سے اب تک شیطان مختلف طریقوں سے نسل انسانی کو بہکا تا رہا ہے.جیسا کہ قرآن مجید کی سورہ حجر میں آتا ہے:.قَالَ رَبِّ فَانْظِرْنِى إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ O قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ إِلَى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ O قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَا زَيَّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ 0 إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ 0 سورہ الحجر آیت 37 تا 41) شیطان کا بھرپور حملہ : اس زمانہ میں جو آخری زمانہ ہے شیطان نے پھر ایک بھر پور حملہ کیا ہے.اس نے دعوی کیا تھا کہ اے میرے رب چونکہ تو نے مجھے گمراہ قرار دیا ہے میں ضرور تیرے بندوں کے لئے دنیا میں گمراہی کو خوبصورت کر کے دکھاؤں گا.اور ان سب کو گمراہ کروں گا.مگر جو تیرے برگزیدہ بندے ہیں اور جو میرے فریب میں نہیں آ سکتے وہ بچ جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا تھا کہ جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا کبھی بھی تسلط نہیں ہوگا.ہاں ایسے افراد جو تیرے پیچھے چلیں یعنی خود گمراہ ہوں وہ مستی ہیں اور یقینا جہنم ان سب کے لئے وعدہ کی جگہ ہے.اس زمانہ میں شیطان کا یہ حملہ بے پردگی خلاف شریعت فیشن اور بے جا آزادی کے رنگ میں ظاہر ہوا ہے اور اس کا شکار عورتیں ہو رہی ہیں.میں اپنی ان بہنوں سے دکھے دل کے ساتھ فریاد کرتی ہوں کہ خُدا را جب انہوں نے اسلام کو سچا مذ ہب سمجھ کر قبول کیا ہے جب وہ بجھتی ہیں کہ ہماری نجات اس مذہب سے وابستہ ہے تو پھر انہیں یہ بھی غور کرنا پڑے گا کہ جس کو اپنا امام اور مطاع مانا ہے.اس کے ہر حکم پر بلا چون و چر اسر تسلیم خم کرنا پڑے گا.فلاح اور نجات اس طرح حاصل نہیں ہو سکتی کہ دعوے تو بہت ہوں لیکن عمل اپنی مرضی کے مطابق ہو.اس طرح آپ نہ دنیا کی رہیں گی نہ دین کی.امید ہے کہ میری بہنیں کوشش کریں گی کہ ان کے افعال اسلام اور احمدیت کے دامن پر دھبہ نہ ثابت ہوں.ورنہ پھر ساری جماعت کو غور کرنا پڑے گا کہ وہ ان کا

Page 55

37 ساتھ دیں جو احکام قرآنی پر عمل نہ کرنے والی ہیں یا خدا اور اس کے رسول ﷺ اور خلفیہ وقت کا.احمدی بھائیوں کی خدمت میں : آخر میں مجھے اپنے بھائیوں کی خدمت میں کچھ عرض کرنا ہے اگر کوئی عورت یا بچی پر دہ چھوڑتی ہے تو وہ عورت یا بچی کسی نہ کسی کی بیوی.بہن یا بیٹی ہوتی ہے اور اپنے باپ.بھائی یا خاوند کی بغیر مرضی اور اجازت اس فعل کی مرتکب نہیں ہو سکتی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء ( النساء 35) کا درجہ عطا فرمایا ہے.اور آنحضرت ﷺ نے كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ( بخاری کتاب الجمعة ) فرما کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر آپ کی بیویاں بہنیں یا بیٹیاں خلاف شریعت کام کریں گی تو اللہ تعالیٰ کے حضور ان کے افعال کی آپ سے بھی پوچھ کچھ ضرور ہوگی.اس لئے ان کو شریعت کے احکام سے واقف کرانا اور ان پر عمل کروانا آپ کا کام ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں:.جو لوگ اپنی بیویوں کو بے پردہ باہر لے جاتے اور کس پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اگر وہ احمدی ہیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم ان سے کوئی تعلق نہ رکھو.ان کی قوم اس فعل کی وجہ سے انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے.“ " اسی طرح آپ نے اپنے خطبہ مورخہ 6.جون 1958ء میں جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ:.با وجود اتنے بڑے انعام کے کہ خدا تعالیٰ نے لوگوں کی سہولت کے لئے ہر قسم کے احکام دے دیئے ہیں.اگر کوئی شخص پر دہ چھوڑتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ قرآن کی ہتک کرتا ہے ایسے انسان سے ہمارا کیا تعلق ہو سکتا ہے.ہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے احمدی مردوں اور ایسی احمدی عورتوں سے کوئی تعلق نہ رکھیں.“ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہمارا ظاہر و باطن ایک جیسا ہو.اور اپنے عمل کے ذریعہ سے صداقت کی متلاشی روحوں کو اسلام کی طرف کھینچنے والی ہوں.اور ہمارا ہر عمل اور ہماری ہر حرکت اللہ تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کی تعلیم کے مطابق ہو.آمین - اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - مصباح جون 1965

Page 56

38 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثال قوت قدسیہ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب : 57) کمال ترین وجود :.اللہ تعالیٰ کی قدیم سے سنت چلی آئی ہے کہ جب کبھی دنیا پر تاریکی چھائی جب کبھی روحانی طور پر ظلمت کا دور دورا ہوا اور اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق میں پردے حائل ہو گئے.خدا تعالیٰ کی رحمت نے جوش مارا.اور خدا تعالیٰ کے بندوں کی اصلاح کیلئے انبیاء مبعوث ہوتے رہے.ہر ملک اور ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء آتے رہے ہیں اور کبھی بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بھٹکتا ہوا نہیں چھوڑا.جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے.وَإِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (فاطر: 25) اور ان سب انبیاء پر ایمان لانا خواہ ہمیں ان کا علم ہو یا نہیں ہمارے لئے ضروری ہے.ارشاد خداوندی (البقره:286) لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهِ کے مطابق ہم ان کو ماننے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں کر سکتے کہ کس پر ایمان لانے کی کم ضرورت ہے اور کس پر ایمان لانے کی زیادہ ہے.اصولی طور پر سب ہی پر ایمان لانا ہمارے لئے ضروری ہے.لیکن باوجود اس اصول کے کہ سب انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے.اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تمام انبیاء کا ایک مقام نہیں.خود اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے.جس کا ذکر اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اس طرح فرماتا ہے.تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعَضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ (البقره: 254) جب ہم قرآن مجید پڑھتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ کے حسن کی شعائیں آنکھوں کو چکا چوند کر دیتی ہیں اور بے اختیار منہ سے نکل جاتا ہے.وہ پیشوا ہمارا جس ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے

Page 57

39 پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے پہلوں سے خوبتر ہے خوبی میں اک قمر ہے اس پر ہر اک نظر ہے بدر الدجی یہی ہے فخر موجودات خاتم النبین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سیرت پر مختصر وقت میں کچھ بیان کرنا ایسا ہی ہے.جیسے دریا کو کوزہ میں بند کر دینا.اور آپ ﷺ کی سیرت کا مطالعہ تو ایک ایسا بحر ذخار ہے.جس کی گہرائی کا کوئی اندازہ نہیں.جتنے غوطے اس میں لگائے جائیں.آبدار موتی نکلتے ہی آتے ہیں.اس وقت میں آپ کی قوت قدسیہ کے متعلق کچھ بیان کرونگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” جب خدا تعالٰی انبیاء علیہم السلام کو دنیا میں مامور کر کے بھیجتا ہے تو اس وقت دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جوان کی باتوں پر توجہ کرتے ہیں اور کان دھرتے ہیں.اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اسے پورے غور سے سنتے ہیں.یہ فریق وہ ہوتا ہے جو فائدہ اُٹھاتا ہے اور بچی نیکی اور اس کی برکات وثمرات کو پالیتا ہے.دوسرا فریق وہ ہوتا ہے جو ان کی باتوں کو توجہ اور غور سے سننا تو ایک طرف رہا.ان پر ہنسی کرتے اور ان کو دُکھ دینے کیلئے منصوبے سوچتے اور کوشش کرتے ہیں.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو اس وقت بھی اسی قاعدہ کے موافق دو فریق تھے.ایک وہ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو سنا اور پورے غور سے سنا اور پھر آپ کی باتوں سے ایسے متاثر ہوئے اور آپ پر ایسے فدا ہوئے کہ والدین اور اولاد.احباء اور اعزہ غرض دنیا میں جو چیز انہیں عزیز ترین ہوسکتی تھی.اس پر آپ کے وجود کو مقدم کر لیا.اچھے بھلے آرام سے بیٹھے تھے.برادری کے تعلقات اور احباب کے تعلقات سے اپنے خیال کے موافق لطف اُٹھا رہے تھے.مگر اس پاک وجود کے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہی وہ سارے رشتے دار اور تعلق ان کو چھورنے پڑے.اور ان سے الگ ہونے میں انہوں نے ذرا بھی تکلیف محسوس نہ کی.بلکہ راحت اور خوشی سمجھی.اب غور کرنا چاہئے کہ ہمارے نبی کریم ﷺ کے پاس وہ کیا چیز تھی.جن سے ان لوگوں کو اپنا ایسا گرویدہ بنالیا کہ وہ اپنی جانیں دینے کیلئے تیار ہو گئے.اپنے تمام دنیوی مفاد اور منافع اور تمام قومی اور ملکی تعلقات کو قطع کرنے کیلئے آمادہ ہوئے نہ صرف آمادہ بلکہ انہوں نے قطع کر کے اور اپنی جانوں کو دے کر دکھا دیا کہ وہ آپ کے ساتھ کس خلوص اور ارادت سے ہوئے تھے.بظاہر آپ کے پاس کوئی مال ودولت نہ

Page 58

تھا.جو ایک دنیا دار انسان کیلئے تحریص اور ترغیب کا موجب ہو سکے.خود آپ نے ہی یتیمی میں پرورش پائی بے شک آپ کے پاس کوئی مال و دولت اور دنیوی تحریص و ترغیب کا ذریعہ نہ تھا اور ہر گز نہ تھا لیکن آپ کے پاس دوز بر دست چیزیں جو حقیقی اور اصلی مؤثر اور جاذب میں تھیں وہی انہوں نے پیش کیں.اور انہوں نے ہی دنیا کو آپ ﷺ کی طرف کھینچا.وہ تھیں حق اور کشش.یہ دو چیزیں ہی ہوتی ہیں جن کو انبیاء علیھم السلام لے کر آتے ہیں.جب تک یہ دونوں موجود نہ ہوں انسان کسی ایک سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا اور نہ پہنچا سکتا ہے.حق ہوکشش نہ ہو کیا حاصل؟ کشش ہو لیکن حق نہ ہو اس سے کیا فائدہ؟ ملفوظات جلد دوم صفحہ 104-105 نیا ایڈیشن کے اس اصول کو سامنے رکھ کر آنحضرت ﷺ کی سیرت پر نظر ڈالی جائے تو آپ کا وجود ہی کامل ترین نظر آتا ہے.آپ نے انسانوں تک وہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم پہنچائی جس نے ان کو خدا سے ملا دیا اور جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ (بنی اسرئیل :82 ) کا نظارہ دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا.اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا.المائدہ: 4 دنیا کے لئے فیصلہ کر دیا کہ قیامت تک کے لئے کامل شریعت آنحضرت ﷺ کے ذریعہ نازل ہو چکی ہے.اور یہ شریعت کسی ایک قوم یا کسی ایک ملک یا کسی ایک زمانہ کیلئے نہیں بلکہ تمام دنیا کے لئے ہے.غرضیکہ حق تمام تر آپ اللہ کے ساتھ تھا.اور اس حق کے ذریعہ دنیا کی اصلاح کے لئے آپ کی جان اس حد تک گداز ہوئی کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: 4 فَلا تَذْهَبُ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ فاطر: 9 کہ کیا تو اس غم میں اپنے تئیں ہلاک کر دے گا کہ یہ لوگ حق کو قبول نہیں کرتے تو حسرتیں کھا کھا کر اپنی جان دے دے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی نوع انسان کی ہمدردی میں اپنی جان کو وقف کر دیا تھا.دعا کے ساتھ تبلیغ کے ساتھ اور مناسب اور حکیمانہ طریق کے ساتھ اپنی جان اور اپنے آرام کو ان کی بہبودی کے لئے لگا دیا تھا.اور ان کی تربیت کیلئے ایسے ارشادات فرمائے جس سے نہ صرف وہ خود با خدا انسان بن گئے.بلکہ آئندہ ان کی نسلیں بھی جاں نثار ثابت ہوئیں.غرضیکہ حق بھی آپ کے ساتھ تھا اور

Page 59

جذب بھی.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ قوت قدسی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.ہمارے پیغمبرﷺ کی قوت قدسی اس درجہ پر پہنچی ہے کہ اگر تم انبیا علیہم السلام کے مقابلہ میں دیکھیں تو معلوم ہوگا.کہ کسی نے آپ ﷺ کے مقابلہ میں کچھ نہیں کیا.آنحضرت ﷺ کی تیار کردہ جماعت کو اگر دیکھا جائے تو وہ ہمہ تن خداہی کیلئے نظر آتے ہیں اور اپنی عملی زندگی میں کوئی نظیر نہیں رکھتے.آنحضرت ﷺ کی مبارک اور کامیاب زندگی کی تصویر یہ ہے کہ آپ ایک کام کے لئے آئے اور اسے پورا کر کے اس وقت دنیا سے رخصت ہوئے.جس طرح بند و بست والے پورے کا غذات پانچ برس میں مرتب کر کے آخری رپورٹ کرتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں.اسی طرح پر رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں نظر آتا ہے.اس دن سے لے کر جب قُمُ فَانْذِرُ (المدثر : 3 ) کی آواز آئی.پھر إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ (النصر : 2) اور الْيَوْمَ أكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُم (المائدہ:4) کے دن تک نظر کریں تو آپ کی لا نظیر کا میابی کا پتہ ملتا ہے.ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے.کہ آپ ﷺ خاص طور پر مامور تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی زندگی میں وہ کامیابی نصیب نہ ہوئی جو ان کی رسالت کا منتہا تھی.وہ ارض مقدس اور موعود سر زمین کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ سکے بلکہ راہ میں ہی فوت ہو گئے...ایسا ہی مسیح علیہ السلام کی زندگی پر نظر کرو.ساری رات خود دعا کرتے رہے دوستوں سے کراتے رہے.آخر شکوہ پر اتر آئے اور ایلی ایلی لِمَا سَبَقْتَنِی بھی کہہ دیا.یعنی اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا اور ایسی حسرت بھری حالت کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ مامور من اللہ ہے جو نقشہ پادریوں نے مسیح کی آخری حالت کا جما کر دکھایا ہے وہ تو بالکل مایوسی بخشا ہے...اسکے مقابل ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیسا پکا کام ہے اس وقت سے جب سے کہا کہ میں ایک کام کرنے کیلئے آیا ہوں.جب تک یہ نہ سن لیا کہ الْيَوْم اكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المائده:4) آپ دنیا سے نہ اُٹھے جیسے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اِنِّی رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: 159)اس دعوئی کے مناسب حال یہ ضروری تھا کہ کل دنیا کے مکر و مکائد متفق طور پر آپ کی مخالفت میں کئے جاتے.آپ نے کس حوصلہ اور دلیری کے ساتھ مخالفوں کو مخاطب کر کے کہا کہ فكِيدوني جَمِيعًا (هود: 56) یعنی کوئی دقیقہ مکر ک باقی نہ رکھو سارے فریب مکر استعمال کرو قتل کے منصوبے کرو.

Page 60

اخراج اور قید کی تدبیریں کرو مگر یا درکھو.سَيْهُزَمُ الْجَمْعُ ويُوَلُّونَ الدُّبُرَ ( القمر: 46) آخری فتح میری ہے تمہارے سارے منصوبے خاک میں مل جائیں گے.تمہاری ساری جماعتیں منتشر اور پراگندہ ہو جاویں گی...جیسے وہ عظیم الشان دعویٰ اِنِّی رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: 159) کسی نے نہیں کیا اور جیسے فَكِيدُونِی جَمِيعًا (ھود:56) کہنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی یہ بھی کسی کے منہ سے نہ نکلا.سَيُهْزَمُ الجَمْعُ وَيُوَلَّوْنَ الدُّبُر (القمر : 46) یہ الفاظ اسی کے منہ سے نکلے جو خدا تعالیٰ کے سایہ کے نیچے الوہیت کی چادر میں لپٹا ہوا تھا.ملفوظات جلد اول صفحہ 344-345 نیا ایڈیشن ) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ عربوں کی حالت میں عظیم انقلاب: ہم جب عرب کی ابتدائی حالت پر نظر ڈالتے ہیں تو عرب کے لوگ تحت الثر کئی میں پڑے نظر آتے ہیں.بت پرستی میں منہمک لڑائی جھگڑے میں ایک دوسرے سے بڑھ کر.لڑائیاں شروع ہوتیں تو قبیلے اور افراد سوسوسال تک ایک دوسرے کے خونی دشمن چلے جاتے کسی برائی کے کام سے عار نہ تھا.چوری قتل ڈاکہ زنی بالکل معمولی باتیں سمجھی جاتی تھیں کوئی اخلاق نہ تھے.نہ عورت کا احترام، برائیوں پر دلیر غرضیکہ سر سے پاؤں تک نجاست میں غرق تھے.اسی ماحول میں آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے اور آپ کی قوت قدسیہ نے چند سال میں عرب کی ایسی کا یا پلٹ دی کہ بتوں کے پوجنے والے ایک خدا کے آگے سر جھکانے لگ گئے.توحید پر اس قدر مضبوطی سے قائم ہوئے کہ ہر وقت یہی خیال غالب رہتا تھا کہ کوئی ایسا فعل بھی سرزد نہ ہو جائے جس میں مخفی در مخفی شرک کی بو بھی آتی ہو.وہی لوگ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ایک دوسرے کے ہمدرد.یہی خواہ اور غمخوار بن گئے.ایثار، قربانی، اطاعت اور فرمانبرداری کا ایسا جذبہ ان کے اندر پیدا ہوا کہ روئے زمین پر اس کی مثال نہیں ملتی آنحضرت ﷺ نے اپنے صحابہ کی ایسی اعلیٰ تربیت فرمائی اور آپ ﷺ کے صحابہ نے بھی ایسا اعلیٰ درجہ کی جاں نثاری، محبت، اخلاص، اطاعت، وفا اور استقامت کا نمونہ دکھایا کہ اس کی مثال بھی دنیا کی کوئی تاریخ پیش نہیں کر سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس شعر میں اس زمانہ کی حالت کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے.صَادَفْتَهُمْ قَوْمًا كَرَوْثٍ ذِلَّةٌ فَجَعَلْتَهُمْ كَسَبِيكَةِ العِقْيانِ

Page 61

ترجمہ: اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے ایک قوم کو پایا جو گو بر کی طرح ذلیل تھل.مگر آپ نے اپنی قوت قدسیہ کے ذریعہ اس کو سونے کی ڈلی کی مانند بنادیا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ آنحضرت ﷺ نے عرب کے ان لوگوں میں جن میں انتہا درجہ پر نسلی تعصب پایا جاتا تھا اِنّى رَسُولُ اللهُ إِلَيْكُمُ جَمِيعًا الاعراف: 159 کا اعلان کر کے فیصلہ فرما دیا کہ میں سب کے لئے رسول ہوں اور خدا کے سب بندے ایک جیسے ہیں.آپ نے دنیا کو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سنایا کہ يَايُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَّ انْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ اكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمُ - الحجرات : 14 کہ سب انسان ایک ہی جیسے ہیں ان میں خاندان اور قبیلے محض شناخت کے لئے بنائے گئے ہیں.ور نہ کسی کو کسی پر فضیلت اس لئے نہیں کہ وہ اعلیٰ خاندانوں سے ہے.کسی کو اس لئے فضلیت حاصل نہیں کہ وہ مالدار ہے بلکہ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمُ (الحجرات: 14) تم میں سے جو سب سے زیادہ پاکیزہ اور متقی ہے وہی سب سے زیادہ قابل احترام ہے.آپ نے نہ صرف زبانی تعلیم دی بلکہ حضرت زینب کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زیڈ سے کر کے اپنی اس تعلیم کا عملی ثبوت بھی بہم پہنچادیا اور حضرت عائشہ کے قول پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وہی ہیں جن کی قرآن تعلیم دیتا ہے اپنے عمل سے مہر لگادی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.رسول اللہ میں وہ ساری قوتیں اور طاقتیں رکھی گئی ہیں جو محمد ﷺ بنادیتی ہیں تا کہ بالقوۃ باتیں بالفعل میں بھی آجاویں.اس لئے آپ ﷺ نے یہ دعویٰ کیا کہ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ اَلِيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: 159) ایک قوم کے ساتھ جو مشقت کرنی پڑتی ہے تو کس قدر مشکلات پیش آتی.ایک خدمت گار شریر ہو تو اس کا درست کرنا مشکل ہو جاتا ہے مگر وہ جو مختلف قوموں کی اصلاح کیلئے بھیجا گیا.سوچو تو سہی کس قدر کامل اور زبر دست قومی کا مالک ہوگا.مختلف طبیعت کے لوگ مختلف عمروں، مختلف ملکوں، مختلف خیال،

Page 62

مختلف قوی کی مخلوق کو ایک ہی تعلیم کے نیچے رکھنا اور پھر ان سب کی تربیت کر کے دکھا دینا اور وہ تربیت بھی کوئی جسمانی نہیں بلکہ روحانی تربیت، خداشناسی اور معرفت کی باریک سے باریک باتوں اور اسرار سے پورا واقف بنادینا اور نری تعلیم ہی نہیں بلکہ عامل بھی بنا دینا یہ کوئی چھوٹی سی بات نہیں.“ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 421-422 نیا ایڈیشن کے اسلامی تعلیم کا وسیع اثر : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کسی نبی یا کسی مذہب نے اس عالمگیر مساوات اور انسانی اخوت کی تعلیم نہیں دی.اسی تعلیم نے آپ ﷺ پر ایمان لانے والوں میں وہ جذ بہ عشق پیدا کر دیا کہ انہوں نے توحید کی خاطر ہر قسم کی تکلیف اُٹھائی.ماریں کھائیں جلتے ہوئے پتھروں پر گھسیٹے گئے قتل ہوئے عورتوں کو بے عزت کیا گیا.مگر اللہ تعالیٰ پر جو ایمان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عشق ان کے دلوں میں پیدا ہو چکا تھا.اس میں بال نہ آسکا.کیا ہی اعلیٰ درجہ کی قوت قدسیہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوعطا فرمائی تھی کہ آپ پر ایمان لا کر صحابہ نے اپنے خون سے دین پر مہر لگادی.وہی لوگ جب شرک سے بے زار ہوئے اور توحید کی دولت سے مالا مال تو ہر وقت یہی خیال غالب تھا کہ توحید غالب ہو.ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمر و بن العاص کی وفات کا وقت آیا تو رونے لگے.حضرت عبداللہ ان کے صاحبزادے نے کہا کہ آپ روئے کیوں ہیں.آپ نے فتوحات کیں نیک کام کئے تو آپ نے جواب دیا تم نے سب سے بہتر چیز شہادت لا اله الا اللہ کو تو چھوڑ ہی دیا.جولوگ ہر وقت شراب کے نشے میں چور رہتے تھے اور شراب پینے پر فخر کرتے تھے جن کے قصیدوں کا بیشتر حصہ شراب کی تعریف اور اس کے پینے پلانے کے ذکر سے پر ہوتا تھا اب وہ محبت الہی کی شراب پینے لگے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.تَرَكُوا الْغَبُوقَ وَبَدَّلُوا مِنْ ذَوْقِهِ ذَوُقَ الدُّعَاءِ بِلَيْلَةِ الْأَحْزَانِ ترجمہ: انہوں نے شام کی شراب چھوڑ دی اور اس کے ذوق کی جگہ غم کی راتوں میں دعا کی لذت اختیار کر لی اور جس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ آج سے شراب تم پر حرام کی جاتی ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ لوگوں نے اپنے ملکے تو ڑ دیئے شراب مدینہ کی گلیوں میں بہتی پھرتی تھی.اس دن

Page 63

کے بعد پھر کبھی کسی نے شراب کو منہ نہ لگایا.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو ایک گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا تھا.لیکن جس جس طرح بنی اسرائیل حیلہ جوئی سے کام لیتے رہے اور قربانی کو ٹالتے رہے وہ تاریخ کا ایک کھلا ورق ہے اور اس کی تفصیل قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے.اسی طرح جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو ارض مقدسہ میں داخل ہونے کا حکم دیا تو انہوں نے صاف جواب دے دیا کہ فَاذْهَبُ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُنَا قَاعِدُونَ ﴿المائده : 25 اے موسیٰ آپ اور آپ کا رب جا کر دشمن سے لڑتے پھریں ہم تو یہیں بیٹھیں گے.حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کا کیا حال تھا وہ حواری جو بڑی محنت سے طیار کئے گئے تھے جن کو رات اور دن آپ کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا وہ بھی وفادار ثابت نہ ہوئے اور خود حضرت مسیح علیہ السلام کو ان کے ایمان پر شک رہا.یہاں تک کہ آخری وقت میں وہ حواری ان کو چھوڑ کر چلے گئے.ایک نے تو گرفتار کروادیا اور دوسرے نے سامنے کھڑے ہو کر تین مرتبہ لعنت بھیجی اس سے بڑھ کر اور نا کامی کیا ہوسکتی ہے.لیکن ہزاروں ہزار درود و سلام اس رحمت للعالمین پر...جنہوں نے اپنی قوت قدسیہ سے ہزاروں لاکھوں نفوس کا تزکیہ کیا اور ان سے ایسی محبت کی اور ان پر ایسی شفقت فرمائی کہ مسلمانوں کا ہر مرد عورت اور بچہ آپ کی جنبش لب پر اپنی گردنیں کٹوادینا فخر سمجھتا تھا ان کی زندگی کا مقصد محض اور محض اطاعت الہی اور اطاعت رسول ﷺ باقی رہ گیا.انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح یہ نہیں کہہ دیا کہ جاؤ تم اور تمہارا رب لڑو ہم یہاں سے نہیں جائیں گے بلکہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ہم آپ ﷺ کے دائیں بھی لڑیں گے.ہم آپ کے بائیں بھی لڑیں گے.ہم آپ کے سامنے بھی لڑیں گے اور ہم آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے اور اگر آپ اشارہ بھی فرما دیں تو ہم اپنے گھوڑے سامنے سمندر میں ڈال دیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ آئے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ بدکاری عرب میں اس قدر عام تھی کہ اس بُرائی کا قطعاً اہل عرب میں کوئی احساس نہ پایا جاتا تھا بلکہ اپنے بُرے افعال کو بطور کارناموں کے فخریہ مجالس میں سناتے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تربیت سے ان کی ایسی کایا پلٹ دی کہ ان میں عورت کے متعلق احترام پیدا ہو گیا.بدکاری سے قطعاً مجتنب ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی خشیت اس درجہ کی پیدا ہوگئی کہ اگر کسی شخص سے کسی ایسے فعل کا ارتکاب ہو بھی جاتا تو

Page 64

وہ فور أرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے گناہ کا اعتراف کر کے آپ سے شرعی سزا کی درخواست کرتا تا اس دنیا میں سزا پالے اور آخرت کی سزا سے محفوظ رہے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے تھے کہ مجھے یہ پسند ہے کہ میری ناک بد بو سے بھر جائے لیکن یہ پسند نہیں کہ اس میں کسی اجنبی عورت کی خوشبو آئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس شعر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.كَانَ الْحِجَازَ مَغَازِلَ الْغِزُلَانِ فَجَعَلْتَهُمْ فَانِينَ فِي الرَّحْمَانِ ترجمہ:.اہل حجاز جو خو بصورت عشق بازی میں محو تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فانی فی اللہ بنادیا.جس طرح اعلیٰ درجہ کا طبیب وہی سمجھا جائے گا جو بظاہر نا قابل علاج بیماریوں کا علاج کر کے مریض کو اچھا کردے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزاروں روحانی مریضوں کا علاج کیا جن روحانی امراض میں اہل عرب گرفتار تھے ان کا تصور کر کے پھر ان کے اخلاق و عادات میں جو عظیم الشان تبدیلی ہوئی اس کو دیکھنے میں اسی قدر آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی کا اقرار کرنا پڑتا ہے.آپ نے تَخَلَّقُوا بِأَخْلاقِ الله کا کامل نمونہ بن کر دنیا کو دکھایا جس کے نتیجہ میں آپ پر ایمان لانے والے میں وہ اعلیٰ درجہ کے اخلاق پیدا ہوئے جنہوں نے انہیں خدا سے جاملا یا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.آپ ﷺ کیا بلحاظ اپنے اخلاق فاضلہ کے اور کیا بلحاظ اپنی قوت قدسی اور عقد ہمت کے اور کیا بلحاظ اپنی تعلیم کی خوبی اور تکمیل کے اور کیا بلحاظ اپنے کامل نمونہ اور دعاؤں کی قبولیت کے غرض ہر طرح اور ہر پہلو میں چمکتے ہوئے شواہد اور آیات اپنے ساتھ رکھتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر ایک غیبی سے نبی انسان بھی بشرطیکہ اس کے دل میں بیجا ضد اور عداوت نہ ہو صاف طور پر مان لیتا ہے کہ آپ ﷺ تَخَلَّفُوا بِاخْلاقِ اللہ کا کامل نمونہ اور کامل انسان ہیں.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ: 121 نیا ایڈیشن) قربانی اور ایثار کا بینظیر جذبہ: آپ ﷺ کی شفقت علی خلق اللہ کے نتیجہ میں صحابہ میں ایک دوسرے کیلئے قربانی اور ایثار کا جذبہ

Page 65

پیدا ہوا جس کا نقشہ قرآن کریم ان الفاظ میں کھینچتا ہے.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا (الفتح: 30 کہ اصحاب محمد رسول اللہ لہ کفار کے مقابلہ میں تو بڑے سخت ہیں لیکن آپس میں ایک دوسرے کیلئے بڑے ہی رحیم بڑے ہی شفیق اور بڑے ہی مہربان ہیں.ایک جنگ کا واقعہ ہے کہ حضرت عکرمہ حضرت حارث اور حضرت سہیل زخمی ہو گئے حالت خطر ناک تھی.ایک شخص پانی لایا حضرت عکرمہ کو پانی پلانا چاہا انہوں نے کہا پہلے سہیل کو جا کر پلاؤ سہیل کے پاس پانی لے کر گیا تو کہنے لگے پہلے حارث کو پلاؤ.حارث کے پاس پانی لے کر پہنچا تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ مکرمہ کو پلاؤ.جب پھر عکرمہ کے پاس پہنچاتو دیکھا کہ ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی ہے.سہیل ٹیک گیا تو وہ بھی اس دنیائے فانی سے رخصت ہو چکے تھے آخر میں حارث کے پاس پہنچا تو اتنے عرصہ میں وہ بھی بغیر پانی پئے ختم ہو چکے تھے.ان میں ایثار کا جذبہ کس نے پیدا کیا کس نے ان کو وحشی انسان سے با اخلاق انسان اور باخلاق انسان سے باخدا انسان بنا دیا.یہ صرف رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کا نتیجہ تھا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.کہتے ہیں یورپ کے نادان نبی کامل نہیں وحشیوں میں دیں کا پھیلانا یہ کیا مشکل تھا کار یہ بتاتا آدمی وحشی کو ہے اک معجزه معني راز نبوت ہے اسی آشکار نور لائے آسماں خود بھی وہ اک نور تھے قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار یہ بھی اللہ تعالیٰ کے انبیاء کی صداقت کا ایک بین ثبوت ہے کہ جب وہ اپنے انبیاء دنیا میں بھجواتا ہے تو ان کے ماننے والوں میں آپس میں محبت پیدا کر دیتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:.هَـوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ وَالَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا الفتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ الَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ

Page 66

حَكِيمٌ.الانفال: 64,63 جو فرقے یا سوسائٹیاں اپنے طور پر اور اپنی تدبیروں سے بنتے ہیں ان میں جلد ہی تفرقہ پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ ان کی بنیاد انسانی خیال پر ہوتی ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مانے والوں میں اس درجہ کی محبت اور الفت اور ایثار کا پیدا ہو جانا جہاں آپ ﷺ کی اعلیٰ درجہ کی قوت قدسیہ پر دلالت کرتا ہے وہاں آپ ﷺ کی صداقت اور اللہ تعالیٰ کی ہستی کو روز روشن کی طرح ثابت کرتا ہے.بے نظیر محبت :.انحضرت ﷺ کی بے مثال قوت قدسیہ کے نتیجہ میں جو بے نظیر محبت آپ ﷺ کے صحابہ کو آپ ﷺ کی ذات سے پیدا ہوئی اس کی ایک مثال جنگ احد کا وہ واقعہ ہے جب غلطی سے صحابہ میں یہ خبر مشہور ہوگئی تھی کہ آنحضرت ﷺ شہید ہو گئے ہیں.حضرت عمر یہ خبر سن کر رونے لگ گئے مالک نامی ایک صحابی بیٹھے کھجور کھا رہے تھے.ان کو جنگ کے بعد کے بدلے ہوئے حالات کا علم نہ تھا وہ سمجھ رہے تھے کہ مسلمان فتح پاچکے ہیں انہوں نے حضرت عمرؓ سے سوال کیا عمر کیوں رور ہے ہو؟ حضرت عمر نے کہا شاید تمہیں معلوم نہیں مسلمانوں کو شکست ہوئی ہے اور آنحضرت ﷺ شہید ہو گئے ہیں وہ کہنے لگےعمر! پھر اس میں رونے کی کیا بات ہے میرے اور میرے محبوب کے درمیان یہ کھجور ہی تو حائل ہے یہ کہ کر کھجور چھینکی اور تلوار سونت کر دشمنوں پر جا گرے اور نہایت بے جگری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے.اسلامی جنگوں کے چند واقعات:.جنگ حنین کے موقع پر جب آنحضرت ﷺ نے بھاگتے ہوئے انصار کو آواز دی کہ اے انصار خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے.صحابہ کہتے ہیں کہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ قیامت کا دن ہے اور صور پھونکا جا رہا ہے ایک صحابی کہتے ہیں کہ اس دن انصار اس طرح دوڑ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف جارہے تھے جس طرح اونٹنیاں اور گائیں اپنے بچہ کے چیخنے کی آواز سُن کر دوڑتی ہیں اور تھوڑی دیر میں صحابہ کہتے ہیں کہ جس کی سواری میدان جنگ کی طرف جانے کیلئے نہ مڑتی تھی.صحابہ تلوار میں مار مار کر اس کو مجبور کرتے تھے ورنہ سواری کو ذبح کر کے پیدل بھاگ پڑتے تھے دنیا کی کوئی تاریخ ایسی مثال پیش نہیں کر سکتی کہ کسی بھی لیڈر کی ایک آواز پر اس کی قوم کے لوگ اس طرح دیوانہ وار دوڑے ہوں.یہ سب محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ کے نتیجہ میں پیدا شدہ محبت کی وجہ سے تھا.

Page 67

اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدِ آنحضرت ﷺ کی قوت قدسیہ کی ایک اور مثال پیش کرتی ہوں جنگ حنین کا ہی واقعہ ہے کہ شیبہ نامی ایک شخص لڑائی میں شامل تھا وہ کہتا ہے کہ میں اس نیت سے جنگ میں شامل ہوا تھا کہ موقع ملتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دوں گا.لڑائی میں جب زور کا رن پڑ رہا تھا تو میں نے تلوار سونتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونا شروع ہوا.وہ کہتا ہے اس وقت میں نے محسوس کیا کہ میرے اور آپ کے درمیان آگ کا ایک شعلہ اُٹھ رہا ہے جو قریب ہے کہ مجھے جلا کر راکھ کر دے.اس وقت مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی دی شیبہ میرے قریب آجاؤ.جب میں آپ کے قریب پہنچا تو آپ ﷺ نے میرے سینہ پر اپنا دست مبارک پھیرا اور فرمایا شیبہ خدا تعالیٰ تمہیں شیطانی خیالات سے نجات دے.شیبہ کا قول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پھیرنے کے ساتھ میرے دل سے ساری عداوتیں دور ہو گئیں اور آپ ﷺ مجھے دنیا کی ہر شے سے زیادہ عزیز ہو گئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا شیبہ آگے بڑھو اور لڑو.تب میں آگے بڑھا اور اس وقت میرے دل میں اس کے سوا اور کوئی خواہش نہ تھی کہ میں اپنی جان قربان کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کروں.اگر اس وقت میرا باپ زندہ ہوتا اور میرے سامنے آجاتا تو میں اپنی تلوار اس کے سینہ میں گھونپ دینے سے دریغ نہ کرتا.سیرت ابن ہشام اسلام لانے کے بعد حضرت عبد الرحمان جو حضرت ابوبکر کے بیٹے تھے.انہوں نے حضرت ابو بکر سے کہا کہ جنگ احد میں جب کہ میں مسلمان نہیں تھا.آپ ایک دفعہ میری تلوار کی زد میں آگئے لیکن میں نے اس لئے آپ پر حملہ نہ کیا کہ آپ میرے والد ہیں حضرت ابو بکر نے بے ساختہ فرمایا کہ تمہاری خوش قسمتی تھی جو تم بچ گئے ورنہ اگر میرے سامنے تم اس وقت آجاتے تو تم نہ بچ سکتے کیونکہ اس وقت تم آنحضرت ﷺ کے خلاف جنگ کر رہے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عشق کہ آپ ﷺ کی خاطر ایک باپ اپنے بیٹے کی پرواہ نہ کرے آپ ﷺ کے کمالات قدسیہ کا کتنا بھاری کرشمہ ہے.جنگ حنین کا ایک اور واقعہ ہے کہ ابوسفیان بن حارث جو چند دن قبل آپ کی جان کا دشمن تھا اور آپ کے مقابلہ میں کفار کے ساتھ شامل ہو کر لڑتا تھا.رسول کریم ﷺ کے ساتھ تھا.جب کفار کے اونٹ پیچھے دوڑے تو ابوسفیان نے فوراً اپنے گھوڑے سے کود کر آنحضرت ﷺ کے خچر کی رکاب پکڑ لی.ابوسفیان کی روایت ہے کہ اس وقت کھینچی ہوئی تلوار میرے ہاتھ میں تھی اور میں اس پختہ ارادہ سے آنحضرت ﷺ کے نچر کے ساتھ کھڑا تھا کہ کوئی شخص مجھے مارے بغیر رسول اللہ ﷺ تک نہیں پہنچ سکتا تھا.یہ رسول کریم

Page 68

50 کی شفقت اور قوت قدسیہ ہی تھی جس نے چند دنوں میں ایک شدید دشمن کو دوست کی شکل میں تبدیل کر دیا.آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ وہ اعلیٰ درجہ کا جذب عطا فر مایا تھا کہ سخت ترین دشمن کو بھی بسا اوقات آپ کے آگے سر جھکا دینا پڑتا تھا.آپ ﷺ کی مخالفت سب سے زیادہ ابو جہل نے کی تھی.ایک شخص کا ابو جہل نے قرضہ دینا تھا وہ مکہ آیا تا کہ اپنا قرضہ وصول کرے.ابوجہل نے قرض کی ادائیگی سے انکار کر دیا.اس نے لوگوں سے اس بات کی شکایت کی تا کوئی اس کی مدد کر سکے.بعض نوجوانوں نے از راہ شرارت اسے آنحضرت ﷺ کا پتہ بتادیا کہ ان کے پاس جاؤ.ان کا مقصد یہ تھا کہ جب وہ شخص آپ ﷺ کی خدمت میں جائے گا تو آپ فوراً اس کی مدد کے لئے کھڑے ہو جائیں گے اور ابو جہل کے پاس جائیں گے.تو ابو جہل آپ کو ذلیل کر کے نکال دیگا.اور اس طرح عربوں میں آپ کی ذلت ہوگی.وہ شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور اپنی غرض بیان کی.آپ ﷺ کی تو زندگی کا مقصد ہی مظلوموں کا حق ان کو دلوانا تھا.آپ فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے اس شخص کو ساتھ لیا اور ابو جہل کے گھر پہنچے.دروازہ پر دستک دی.ابو جہل نے دروازہ کھولا اور باہر نکلا تو دیکھا کہ اس کا قرض خواہ اور محمد رسول اللہ ﷺ باہر کھڑے ہیں.آپ ﷺ نے ابو جہل کو دیکھتے ہی فرمایا تم نے اس کا اتنا قرضہ دینا ہے ابھی ادا کرو..آپ ﷺ کے الفاظ میں کیسی تاثیر تھی کہ اس وقت ابو جہل نے اس کا قرضہ ادا کر دیا.جب آپ واپس تشریف لے گئے تو مکہ کے دوسرے رؤوسا نے ابو جہل سے کہا کہ تم ہمارے سامنے تو بڑی ڈینگیں مارتے تھے.اب کیا ہو گیا.ابو جہل نے جواب دیا کہ اگر تم میری جگہ ہوتے تو تم بھی یہی کرتے.میں نے دیکھا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں اور بائیں مست اونٹ کھڑے ہیں جو میری گردن مروڑ کر مجھے ہلاک کرنا چاہتے تھے.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ واقعہ کیا تھا.مگر حق و صداقت کا رُعب یقیناً اس پر ایسا چھایا کہ آپ ﷺ کے حکم کا وہ انکار نہ کر سکا.اور ایک شدید ترین دشمن بھی آپ ﷺ کی قوت قدسیہ کے اثر سے باہر نہ رہ سکا.جنگ اُحد کا ایک اور واقعہ بھی بیان کے قابل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی صحبت نے صحابہ کے دلوں میں کتنا پختہ ایمان پیدا کر دیا تھا.جنگ ختم ہونے کے بعد آنحضرت ﷺ نے بعض صحابہ کوزخمیوں کی دیکھ بھال پر مقرر فرمایا.ایک صحابی ایک زخمی انصاری کے پاس پہنچے جو جان تو ڑ رہے تھے.صحابہ ان کے پاس پہنچے اور السلام علیکم کہا.انہوں نے لرزتا ہوا ہا تھ مصافحہ کے لئے بڑھایا اور کہا میرے رشتہ داروں کو سلام کہنا اور یہ کہنا کہ میں مر رہا ہوں مگر اپنے پیچھے خدا تعالیٰ کی ایک مقدس امانت محمد رسول اللہ نے

Page 69

51 کا وجود چھوڑے جارہا ہوں تم اس کی حفاظت کرنے میں اپنی جانیں دینے سے دریغ نہ کرنا.اللہ اللہ کس قدر عشق کا مظاہرہ ہے آخری دم میں نہ بیوی بچوں کا خیال نہ اور کوئی فکر اگر فکر تھی تو صرف آنحضرت ﷺ کی حفاظت کی کہ ان کو کوئی گزند نہ پہنچ جائے.عورتوں کا اخلاص و ایثار:.پھر یہی نہیں کہ صرف مردوں میں یہ اخلاص پایا جاتا تھا عورتوں میں مردوں سے بھی بڑھ کر محبت ، اخلاص اور ایثار کا جذبہ پیدا ہو گیا تھا اور کیوں نہ ہوتا ایہ آپ ہی کی ذات مبارک تھی جس نے ان کو خاک سے پاک کیا ان کے رتبہ کو بلند کیا.اتنا بلند کیا کہ فرمایا الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ أُمَّهَاتِكُمُ ( لسان الميزان جلد 6 ص : 128) سبحان اللہ وہی عورت جو ایک وقت ذلیل ترین وجود سمجھی جاتی تھی اس کے متعلق فرما دیا کہ جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے.جب جنگ اُحد میں آنحضرت ﷺ کی شہادت کے متعلق خبر مشہور ہوئی تو مسلمان عورتیں بے قراری سے گھروں سے نکل کھڑی ہوئیں لشکر سے جو لوگ واپس آرہے تھے ایک عورت نے ان میں سے ایک شخص سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے؟ اس کو چونکہ معلوم تھا کہ آپ خیریت سے ہیں اس نے کہا بہن تمہارا بھائی شہید ہو گیا ہے.اس نے پھر پوچھا اس نے کہا.بہن تمہارا باپ بھی شہید ہو گیا ہے.اس نے پھر سوال کیا آنے والے شخص نے کہا بہن تمہارا خاوند بھی شہید ہو گیا ہے.اس پر اس عورت نے غصہ سے کہا کہ میں تم سے رسول اللہ ﷺ کا حال پوچھ رہی ہوں.آپ ﷺ کی خیریت بتاؤ تب وہ شخص کہنے لگا آپ مے تو خیریت سے ہیں.اس پر وہ بولی کہ اگر رسول اللہ نے خیریت سے ہیں تو پھر مجھے کوئی غم نہیں.اسی طرح جنگ اُحد کا ہی ایک واقعہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لا رہے تھے تو عورتیں اور بچے آپ کو لینے کیلئے شہر سے باہر نکل آئے.رسول کریم کی اونٹنی کی باگ سعد بن معاذ نے پکڑی ہوئی تھی شہر کے قریب انہیں اپنی ضعیف والدہ نظر آئیں.اس جنگ میں ان کا ایک بیٹا عمر بن معاذ شہید ہو گیا تھا.انہیں دیکھ کر سعد بن معاذ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میری ماں آرہی ہے.جب وہ قریب آئیں رسول کریم ﷺ نے انہیں کہا مائی مجھے تمہارے بیٹے کی شہادت پر تم سے ہمدردی ہے.اس نے جواب دیا یا رسول اللہ اوج آپ کو سلامت دیکھ لیا تو پھر مجھے کوئی غم نہیں.*

Page 70

52 ہزاروں درود اور سلام اس مبارک اور مقدس وجود پر جس نے نہ صرف مردوں بلکہ عورتوں کے دلوں کو الله بھی نور ایمان سے بھر دیا تھا.عرب کے اس عظیم الشان انقلاب سے بڑھ کر بھی کیا آپ ﷺ کی صداقت کا کوئی ثبوت ہو سکتا ہے:.اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ دنیا میں بیماریوں کے علاجوں کے مشہور طریق یہی ہیں کہ دوا غذا اور پر ہیز سے علاج کیا جائے.اس کے علاوہ ایک طریق توجہ کا بھی ہے یعنی علاج کرنے والا مریض کے مرض کو اپنی توجہ سے دور کر لے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.حضرت مسیح علیہ السلام اسی توجہ سے سلب امراض کیا کرتے تھے اور یہ سلب امراض کی قوت مومن اور کافر کا امتیاز نہیں رکھتی بلکہ اس کیلئے نیک چلن ہونا بھی ضروری نہیں ہے.نبی اور عام لوگوں کی توجہ میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ نبی کی توجہ کسی نہیں ہوتی وہی ہوتی ہے.توجہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس سے سلب ذنوب بھی ہو جاتا ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اور سیح علیہ السلام کی توجہ میں یہ فرق ہے کہ مسیح کی توجہ سے تو سلب امراض ہوتا تھا مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ سے سلب ذنوب ہوتا تھا اور اسی وجہ سے آپ ﷺ کی قوت قدسی کمال کے درجہ پر پہنچی ہوئی تھی مسیح کی توجہ چونکہ زیادہ تر سلب امراض کی طرف تھی اس لئے سلب ذنوب میں وہ کامیابی نہ ہونے کی وجہ یہی تھی کہ جو جماعت انہوں نے تیار کی وہ اپنی صفائی نفس اور تزکیۂ باطن میں ان مدارج کو پہنچ نہ سکی جو جلیل الشان صحابہ کوملی اور یہاں تک رسول اللہ ﷺ کی قوت قدسی با اثر تھی کہ آج اس زمانہ میں " بھی تیرہ سو برس کے بعد سلب ذنوب کی وہی قوت اور تاثیر رکھتی ہے.جو اس وقت میں رکھتی تھی.“ ملفوظات جلد دوم صفحہ 280 نیا اڈیشن کے آنحضرت ﷺ کا ابدی فیضان :.آنحضرت ﷺ کا فیضان اور آپ ﷺ کی تاثیرات قدسیہ عارضی نہیں تھیں کہ چودہ سو سال قبل کے مسلمانوں کے ساتھ ختم ہو گئیں جس طرح دائی شریعت آپ ﷺ کو عطا کی گئی تھی.اسی طرح آپ ﷺ کا فیضان بھی ابدی ہے.آنحضرت ﷺ زندہ نبی ہیں اور حقیقی زندگی یہ ہے جو آپ کو عطا ہوئی ہے اور کسی دوسرے کو نہیں ملی.آپ کی تعلیم اس لئے زندہ تعلیم ہے کہ اس کے ثمرات اور برکات اس وقت بھی ویسے ہی

Page 71

53 موجود ہیں.جو آج سے چودہ سو سال قبل موجود تھے.آنحضرت ﷺ کے فیوض و برکات کا آفتاب ہمیشہ چمکتا رہا اور ہمیشہ چمکتا رہے گا.اللہ تعالیٰ نے ان فیوض اور برکات کے پانے کا نسخہ قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ( آل عمران : 32) یعنی ان کو کہہ دو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی محبت تمہیں حاصل ہو تو میری اطاعت کرو.جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا.گویا قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کی شرط اطاعت رسول اللہ ﷺ لگادی.خدا تعالیٰ کی محبت وہی حاصل کر سکتا ہے جو آنحضرت ﷺ کی کامل اطاعت کر کے اور آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ پر چلے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اگر چہ مجھے افسوس ہے کہ بدقسمتی سے مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ خوارق اور اعجاز اب نہیں ہیں پیچھے ہی رہ گئے ہیں مگر یہ ان کی بدقسمتی اور محرومی ہے وہ خود چونکہ ان کمالات و برکات سے جو حقیقی اسلام ہے اور آنحضرت ﷺ کی سچی اور کامل اطاعت سے حاصل ہوتی ہیں محروم ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تاثیریں اور برکات پہلے ہوا کرتی تھیں اب نہیں...مجھے بھیجا ہے تا کہ میں دکھاؤں کہ اسلام کے برکات اور خوارق ہر زمانہ میں تازہ بہ تازہ نظر آتے ہیں اور لاکھوں انسان گواہ ہیں کہ انہوں نے ان برکات کو مشاہدہ کیا ہے اور صدہا ایسے ہیں جنہوں نے خودان برکات اور فیوض سے حصہ پایا ہے اور یہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کا ایسا بین اور روشن ثبوت ہے کہ اس معیار پر آج کسی نبی کا متبع وہ علامات اور آثار نہیں دکھا سکتا جو میں دکھا سکتا ہوں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 526) نیز فرماتے ہیں.ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے دیں دین محمد سانہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلائے شمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے مصطفى ترا پر بے حد ہو سلام اور رحمت اس سے نور لیا بار خدایا ہم نے کسی مذہب کے مانے والوں میں سے ایک نے بھی یہ دعوی نہ کیا کہ اپنے نبی کی تعلیم کی وجہ سے میں اب بھی معجزہ دکھا سکتا ہوں صرف اسلام ہی ایک زندہ مذہب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی یہ فخر حاصل ہے کہ آپ ﷺ کی امت میں آپ ﷺ کی غلامی میں تیرہ سو سال کے بعد بھی ایک مردِ خدا نے

Page 72

54 خدا نمائی کا ثبوت دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ اپنے متبوع کی قوت قدسیہ کی وجہ سے خوارق دکھا سکتا ہے.ہمارا فرض:- ہمیں چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کی سیرت کا بار بار مطالعہ کریں.اور اپنی زندگیوں کو آپ ﷺ اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے منہ سے کہلوایا تھا کہ قُلْ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿ الانعام: 163 ہماری زندگیوں کا مقصد بھی یہی ہو.اپنی اولادوں کو بھی آنحضرت ﷺ کی سیرت سے اچھی طرح واقف کرانا ہمارا فرض اولین ہے تا ان کے دلوں میں آپ ﷺ کی ذات سے بے انتہا عشق اور محبت پیدا ہو اور اس محبت کے نتیجہ میں وہ اپنی زندگیاں بھی آپ ﷺ کے اسوہ کے مطابق ڈھالیں.کیونکہ اسلام کی آئندہ ترقی بھی آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ پر چلنے سے وابستہ ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: خوب یا درکھو کہ اسلام ہمیشہ اپنی پاک تعلیم اور ہدایت اور اس کے ثمرات ، انوار و برکات اور معجزات سے پھیلا ہے.آنحضرت ﷺ کے عظیم الشان نشانات آپ ﷺ کے اخلاق کی پاک تاثیرات نے اسے پھیلایا ہے اور وہ نشانات اور تاثیرات ختم نہیں ہو گئیں بلکہ ہمیشہ اور ہر زمانہ میں تازہ بتازہ موجود رہتی ہیں اور یہی وجہ ہے جو میں کہتا ہوں کہ ہمارے نبی ﷺ زندہ نبی ہیں اس لئے کہ آپ ﷺ کی تعلیمات اور ہدایات ہمیشہ اپنے ثمرات دیتی رہتی ہیں اور آئندہ جب اسلام ترقی کرے گا تو اس کی یہی راہ ہوگی نہ کوئی اور “ الحكم 17 اکتوبر 1906ء آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ روزنامه الفضل سیرۃ النبی نمبر 1965

Page 73

55 حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی مقدس سیرت کی چند جھلکیاں کچن لیا تو نے مجھے ابن مسیحا کیلئے پہلے یہ کرم ہے میرے جاناں تیرا ہزاروں درود اور سلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جن کے طفیل ہمیں اسلام جیسی نعمت حاصل ہوئی اور پھر ہزاروں سلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو اسلام کو دوبارہ لائے اور ہم نے زندہ خدا کا وجود ان کے ذریعہ سے دیکھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی وجہ سے ایمان لانا نصیب ہوا.اور میرے رب کا کتنا بھاری احسان مجھ نا چیز پر ہے کہ اس نے مصلح موعود کے زمانہ میں مجھے پیدا کیا.نہ صرف ان کا زمانہ عطا فر مایا بلکہ اس کی قدرت کے قربان جاؤں اس نے مجھ نا چیز ہستی پر کتنا بھاری انعام اور احسان فرمایا کہ مجھے اس پاک ونورانی وجود اس قدرت و رحمت اور قربت کے نشان اور مثیل مسیح کے لئے بچن لیا آپ کی صحبت سے فیض حاصل کرنے ، آپ کی تربیت میں زندگی گزارنے اور پھر اس پاک وجود کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائی.خدا تعالیٰ کی کیا شان ہے.دینے پر آئے تو جھولیاں بھر بھر کر دیتا ہے.میں کیا اور میری ہستی کیا.اللہ تعالیٰ کا یہ اتنا بڑا انعام ہے کہ اس کے احسان اور انعام کا تصور کر کے بھی عقل حیران رہ جاتی ہے.سر آستانہ الوہیت پر جھک جاتا ہے اور منہ سے بے اختیار نکل جاتا ہے.میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا در گہ میں بار میری اور حضرت خلیفہ اسی الثانی کی رفاقت کا زمانہ ہمیں سال ہے.آپ کی سیرت پر روشنی ڈالنے آج زمانہ میں سال ہے.کی سے قبل اپنی شادی اور اس کا پس منظر بیان کرنا ضروری سمجھتی ہوں.میری شادی اور اس کا پس منظر :.میرے والد صاحب حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کی پہلی بیوی سے ایک لمبا عرصہ تک کوئی اولا د نہیں ہوئی.حضرت اماں جان کی خواہش تھی کہ میرے بھائی کے ہاں اولا د ہو.بھائی سے محبت بھی بہت زیادہ تھی.حضرت اماں جان نے میری شادی کے بعد بھی کئی دفعہ مجھ سے یہ ذکر فرمایا کہ جب میاں محمود ( حضرت خلیفہ اسیح الثانی) چھوٹے تھے تو میرے دل سے بار بار یہ دعا نکلتی تھی کہ الہی میرے بھائی کے ہاں بیٹی ہو تو میں اس کی شادی میاں محمود سے کروں.لیکن جو بات بظاہر ناممکن نظر آتی تھی.یعنی حضرت

Page 74

56 اماں جان کی دعا اور خواہش وہ میری شادی کے ذریعہ پوری ہوئی.سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ میں ذکر کر چکی ہوں کہ میرے ابا جان کے ہاں جب بڑی والدہ صاحبہ سے جو بفضلہ تعالیٰ زندہ موجود ہیں کوئی اولا د نہیں ہوئی تو حضرت اماں جان اور حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کے زور دینے پر میرے ابا جان نے مرزا محمد شفیع صاحب کی بڑی لڑکی امتہ اللطیف صاحبہ سے 1917ء میں شادی کی.یہ رشتہ بھی حضور کا ہی طے کردہ تھا.7 اکتوبر 1918ء کو میری پیدائش ہوئی.چونکہ اور کوئی پہلے اولاد نہ تھی.اس لئے میرے ابا جان نے مجھے ہی خدا تعالیٰ کے حضور وقف کر دیا.اس کا اظہار حضرت ابا جان نے اپنے کئی مضامین میں بھی کیا.اور جب میری شادی ہوئی تو آپ نے مجھے نصائح نوٹ بک میں لکھ کر دیں.اس میں آپ نے تحریر فرمایا."مریم صدیقہ ! جب تم پیدا ہوئیں تو میں نے تمہارا نام مریم اس نیت سے رکھا تھا کہ تم کوخدا تعالیٰ اور اس کے سلسلہ کے لئے وقف کر دوں.اسی وجہ سے تمہارا دوسرا نام نذیرالہی بھی تھا.اب اس نکاح سے مجھے یقین ہو گیا کہ میرے بندہ نواز خدا نے میری درخواست اور نذر کو واقعی قبول کر لیا تھا اور تم کو ایسے خاوند کی زوجیت کا شرف بخشا جس کی زندگی اور اس کا ہر شعبہ اور ہر لحظہ خدا تعالیٰ کی خدمت اور عبادت کے لئے وقف ہے.پس اس بات پر بھی شکر کرو کہ تم کو خدا تعالیٰ نے قبول فرمالیا اور میری نذر کو پورا کر دیا“.فالحمد لله اسی سلسلہ میں اپنے ابا جان کے ایک مضمون کا اقتباس بھی پیش کرتی ہوں.آپ کا یہ مضمون ”صنم خانہ عشق میں ایک رات“ کے عنوان سے 3 نومبر 1936 ء کے الفضل میں شائع ہوا ہے.آپ لکھتے ہیں.آدھی رات تو ہو ہی چکی تھی میں چوکھٹ پر سر رکھے پڑا تھا اور اٹھنے کا خواہشمند تھا کہ اٹھنے کی اجازت ملی.وہیں دروازہ کے ساتھ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا.اور اپنی زبان میں اظہار تعشق یا یوں کہو مناجات شروع کی.ایسی مؤثر ایسی رقت بھری کہ سنگدل سے سنگدل معشوق بھی اس کو سن کر آبدیدہ ہو جائے.آخر میرا جادو چل گیا اور یوں محسوس ہوا کہ کوئی پوچھتا ہے کہ کیا چاہتا ہے.میں نے عرض کیا.اے خداوند من گنا ہم بخش سوئے درگاه خویش را هم بخش دردو عالم مرا عزیز توئی و آنچه می خواهم از تو نیز توئی

Page 75

6 57 مفت میں نے کہا میں کیا پیش کر سکتا ہوں جو کچھ ہے وہ آپ کا ہی دیا ہوا ہے.” جان اور ایک چیز سب سے عزیز...میں نے ویسی فجر کی نماز ساری عمر نہ پڑھی تھی.اُف وہ خوشی وہ عجیب اور نئی قسم کی خوشی وہ لازوال اور لاانتہا خوشی میرا ہر ذرہ تن قریب تھا کہ اس خوشی سے پھٹ جائے یا شادی مرگ ہو جائے.زہے نصیب وہ اور مجھے اپنا چہرہ دکھا ئیں وہ اور مجھ سے میری جان کا مطالبہ کریں وہ اور مجھ سے ایک عزیز چیز کی نذر طلب کریں.دن کے آٹھ نہیں بجے تھے کہ ایک سیاہ بکرا اور ایک سفید مینڈھا کو چہ بندی میں کٹے پڑے تھے.اور عالم روحانی میں ان کے ساتھ دو اور نفس بھی ذبیح ہو چکے تھے.اور بارہ نہیں بجے تھے کہ میری سب سے عزیز چیز یعنی مسجد مبارک والا مکان میرے قبضہ سے نکل کر صدرانجمن کی تحویل میں منتقل ہو چکا تھا.ان باتوں سے فارغ ہو کر گھر گیا تو ایک اور عزیز چیز نظر آئی جس کا نام مریم صدیقہ تھا.میں نے اسے اُٹھا کر کہا کہ اس کا نام ہی شاہد ہے.میرا پہلے سے بھی ارادہ تھا.اب اسے بھی قبول فرمائے.رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ العِليم 1921 ء پر چودہ سال گزر چکے مسلسل چودہ سال ( یہ واقعہ 1921 ء کا تھا.بیم ورجا کے کہ آیا کچھ قبول بھی ہوتا ہے یا نہیں..بہر حال 1935ء میں خدا تعالیٰ کا بڑا فضل ہوا کہ آخر نذرکو ان کے ایجنٹ 30 ستمبر یوم دوشنبہ کو آکر میرے ہاں سے اُٹھا کر لے گئے.میں نے سجدہ ادا کیا.میری شادی 30 ستمبر 1935ء کو ہوئی تھی.) الفضل 3 نومبر 1936 اس اقتباس کو درج کرنے سے یہ بتانا مقصود تھا کہ میرے ابا جان نے میرے پیدا ہوتے ہی مجھے خدا تعالیٰ کے حضور وقف کر دیا تھا.اور پھر یہ وقف رسمی وقف نہ تھا.ان کی شدید خواہش تھی کہ میں جو ان کی اولاد میں سب سے بڑی تھی دین کی خدمت کروں.اور اللہ تعالیٰ ان کی اس قربانی کو قبول فرمائے.سواللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ نہ صرف اس نے ان کی قربانی کو شرف قبولیت عطا فرمایا بلکہ مجھے ایک لمبے عرصہ تک حضرت مصلح موعود کی خدمت کا موقعہ عطا فرمایا.اور کسی حد تک سلسلہ کی خدمت کا بھی.اللہ تعالیٰ سے میری بھی یہی دعا ہے کہ وہ مجھے اپنی بقیہ زندگی کو اسلام احمدیت اور بنی نوع انسان کی خدمت میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے.تاجب میں اس کی جناب میں حاضر ہوں تو خدا تعالیٰ کی رضا مجھے حاصل ہو.میں بھی سرخرو ہوں اور میرے ابا جان کی روح بھی خوش ہو کہ میں ان کی دلی خواہش کو پورا کرنے کا موجب بنی.آمین اللھم آمین

Page 76

58 میری عمر شادی کے وقت سترہ سال تھی.اور یہ سترہ سالہ زمانہ جو میں میں نے میکے میں بسر کیا.اس کا ایک ایک دن شاہد ہے کہ میری تربیت کرتے ہوئے حضرت ابا جان نے ہر وقت یہی کان میں ڈالا کہ ہر صورت میں دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے.میں جب چھوٹی تھی تو میرے لئے ابا جان نے ایک دعائیہ نظم بھی کہی تھی جس کا آخری شعر یہ تھا..میرا نام ابا نے نے رکھا ہے مریم خدایا تو صدیقہ مجھ کو بنادے ابا جان کہ یہ دعا جو انہوں نے میرے لئے کی تھی ظاہری رنگ میں بھی اس طرح پوری ہوئی کہ جب میری شادی ہوئی تو حضرت اُم طاہر زندہ تھیں.آپ کا نام بھی مریم تھا.اور چونکہ حضور ان کو مریم کے نام سے بلاتے تھے.اور ایک ہی نام سے دونوں بیویوں کو بلانا مشکل تھا.آپ نے شروع شادی سے ہی میرے نام کے دوسرے حصہ سے مجھے بلایا.اور ہمیشہ صدیقہ کہہ کر ہی بلایا.بہر حال اللہ تعالیٰ نے میرے ابا جان کی قربانی کو قبول فرماتے ہوئے مجھے حضرت مصلح موعود کی زوجیت کا فخر عطا فرمایا.آج کل جس عمر میں لڑکیوں کی شادیاں ہو رہی ہیں.ان کو مد نظر رکھتے ہوئے میری شادی خاصی چھوٹی عمر میں ہوئی تھی.اسلئے بجاطور پر میں کہہ سکتی ہوں کہ میں نے جو کچھ سیکھا اور جو کچھ حاصل کیا.اور جو کام بھی کیا وہ خلیفہ اسیح الثانی کی تربیت صحبت، فیض اور توجہ سے حاصل کیا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی زندگی کا تو ایک ایک واقعہ احمدیت کی تاریخ میں محفوظ ہو چکا ہے.میں اپنے اس مضمون میں آپ کی مقدس سیرت کی کچھ جھلکیاں پیش کرنے کی کوشش کروں گی.اور یہ واقعات اسی زمانہ پر مشتمل ہوں گے.جو میں نے آپ کے ساتھ گزارا.اللہ تعالیٰ سے محبت آپ کو اللہ تعالیٰ سے کتنی محبت تھی.اسلام کے لئے کتنی تڑپ تھی.اس کی مثال کے طور پر ایک واقعہ لکھتی ہوں.عموما شادیاں ہوتی ہیں.دولہا دلہن ملتے ہیں تو سوائے عشق ومحبت کی باتوں کے اور کچھ نہیں ہوتا.مجھے یاد ہے کہ میری شادی کی پہلی رات بے شک عشق و محبت کی باتیں بھی ہوئیں.مگر زیادہ تر عشق اٹھی کی باتیں تھیں.آپ کی باتوں کا لب لباب یہ تھا اور مجھ سے ایک طرح عہد لیا جارہا تھا کہ میں ذکر الہی اور دعاؤں کی عادت ڈالوں.دین کی خدمت کروں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی عظیم ذمہ داریوں میں

Page 77

59 آپ کا ہاتھ بٹاؤں.بار بار آپ نے اس کا اظہار فرمایا کہ میں نے تم سے شادی اسی غرض سے کی ہے اور میں خود بھی اپنے والدین کے گھر سے یہی جذ بہ لے کر آئی تھی.شادی کے موقع پر ابا جان کی نصائح میرے ابا جان نے شادی کے موقع پر مجھے جو نصائح لکھ کر دی تھیں.ان میں یہ سطور بھی لکھ کر دی تھیں:."مریم صدیقہ ! خدا تعالیٰ کا شکر کرو کہ اس نے اپنے فضل سے تم کو وہ خاوند دیا ہے جو اس وقت روئے زمین پر بہترین شخص ہے اور جو دُنیا میں اس کا خلیفہ ہے.دُنیا اور دین دونوں کے علوم کے لحاظ سے کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.خاندانی عزت اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا ہے اور جس کی بابت ان کی وحی یہ ہے فرزند دلبند - گرامی ارجمند مظهر الْحَقِّ وَالْعُلَى كَأَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ ـ وہ جلد جلد بڑے گا.دل کا حلیم سخت ذکی اور فہیم ہوگا.اسیروں کی رستگاری کرے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.فضل عمر بشیر الدین..علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.وغیرہ وغیرہ.(مفہوم).پس تم اپنی خوش قسمتی پر جس قدر بھی ناز کرد بجا ہے.“ ای تسلسل میں آگے چل کر آپ لکھتے ہیں:.مریم صدیقہ اتم انداز نہیں کرسکتیں کہ حضرت خلیفہ اسی پر خدمت دین کا کتا بوجھ ہے اور اس کے ساتھ کس قدر ذمہ داریاں اور تفکرات اور ہموم و غموم وابستہ ہیں اور کس طرح وہ اکیلے تمام دنیا سے برسر پیکار ہیں اور اسلام کی ترقی اور سلسلہ احمدیہ کی بہبودی کا خیال ان کی زندگی کا مرکزی نکتہ ہے.پس اس مبارک وجود کو اگر تم کچھ بھی خوشی دے سکو اور کچھ بھی ان کی تکان اور تفکرات کو اپنی بات چیت، خدمت گذاری اور اطاعت سے ہلکا کر سکو تو سمجھ لوکہ تمہاری شادی اور تمہاری زندگی بڑی کامیاب ہے اور تمہارے نامہ اعمال میں وہ ثواب لکھا جائے گا جو بڑے بڑے مجاہدین کو ملتا ہے.“ میری زندگی کا نصب امین حضرت ابا جان کی وقت رخصت نصیحت اور شادی کے معا بعد حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی آرزو دونوں نے ملکر سونے پر سہاگہ کا کام کیا اور زندگی کا نصب العین صرف اسلام کی خدمت اور حضرت

Page 78

60 خلیفہ امسیح الثانی کی خدمت اور اطاعت بن کر رہ گیا.شروع شروع میں غلطیاں بھی ہوئیں کو تاہیاں بھی ہوئیں لیکن آپ کی تربیت اور سکھانے کا بھی عجیب رنگ تھا.آہستہ آہستہ اپنی مرضی کے مطابق ڈھالتے چلے گئے.شادی کے بعد آپ نے میری تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور خود اس میں راہ نمائی فرماتے اور دلچسپی لیتے رہے.بی.اے پاس کرنے کے بعد آپ نے دینی تعلیم کا سلسلہ شروع کر وا دیا.قرآن مجید خود پڑھانا شروع کیا لیکن سبقاً سارا نہیں پڑھا.سورۃ مریم سے سورۃ سبا تک حضور سے سبقاً قرآن مجید پڑھا اور چند ابتدائی پارے اور آخری دو پارے.شروع میں ہمیں گھر پر پڑھانا شروع کیا تھا مجھے عزیزہ امتہ القیوم سلمہا.عزیزم مبارک احمد اور عزیزم منوراحمد کو پڑھاتے تھے.آہستہ آہستہ دوسرے لوگوں کی خواہش پر پھر وہ با قاعدہ درس کی صورت اختیار کر گیا اور تغیر کبیر کی صورت میں شائع بھی ہو چکا ہے.اتنا پڑھا کر پھر کبھی سبق نہیں پڑھایا.ہاں عورتوں میں بھی اور مردوں میں بھی جو درس ہوتا تھاوہ سنتی تھی اور با قاعدہ نوٹ لیتی تھی.جو بعد میں حضور ملاحظہ فرمایا کرتے تھے.نوٹ لینے کی عادت بھی آپ نے ہی ڈالی جب درس ہوتا تو آپ فرماتے ایک ایک لفظ لکھنا ہے بعد میں دیکھوں گا.آہستہ آہستہ اتنا تیز لکھنے کی عادت پڑ گئی کہ حضور کی جلسہ سالانہ کی تقریر بھی نوٹ کر لیتی تھی.اور حضور بھی وقتاً فوقتاً کوئی مضمون لکھوانا ہوتا تو عموماً مجھ سے ہی املا کرواتے.1947ء کے بعد سے تو قریباً ہر خط ہر مضمون ہر تقریر کے نوٹ مجھ سے ہی املا کروائے.الا ماشاء اللہ.تفسیر صغیر کے مسودہ کا اکثر حصہ حضور نے مجھ سے ہی املا کر وایا، ٹہلتے جاتے تھے قرآن مجید ہاتھ میں ہوتا تھا اورلکھواتے جاتے تھے.جب خاصا مواد لکھا جاچکا ہوتا تو پھر محکمہ زود نویسی کو صاف کرنے کے لئے دے دیتے.قرآن مجید پڑھاتے ہوئے بھی اس بات پر زور دیتے تھے کہ خود غور کرنے کی عادت ڈالو.اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تب پوچھو.عربی کی صرف نحو کل مجھے آپ نے خود پڑھائی اور ایسے عجیب سادہ طریق سے پڑھائی کہ یہ مضمون کبھی مشکل ہی نہ لگا.عام طور پر عربی کے طالب علم صرف و نحو سے ہی گھبراتے ہیں مگر آپ کے پڑھانے کا طریق اتنا سادہ اور عام فہم ہوتا تھا کہ یوں لگتا تھا کہ یہ کوئی مشکل چیز نہیں ہمیں پہلے سے آتی تھی.تقریر کرنے کے لئے ہدایات تقریر کرنا آپ نے خود سکھایا.میری شادی کے بعد جو پہلا جلسہ سالانہ یا غالبا دوسرا تھا آپ نے مجھے سے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں بھی جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریر کروں.میں نے اس سے قبل تقریر کیا مضمون بھی لکھ کر نہیں پڑھا تھا میں نے عرض کی کہ آپ لکھ دیں میں پڑھ دوں گی.فرمایا یہ غلط ہے اس طرح کبھی

Page 79

61 تمہیں تقریر کرنی نہیں آئے گی.اس موضوع پر میں تمہارے سامنے تقریر کرتا ہوں تم غور سے سنو ضروری حوالہ جات وغیرہ نوٹ کرو اور پھر انہیں نوٹوں کی مدد سے تم تقریر کرو میں سنوں گا.غرض آپ نے اس موضوع پر جواب مجھے یاد نہیں رہا تقریر فرمائی.اور پھر میں نے جو آپ کی تقریر کے نوٹ لئے تھے وہ دیکھے ان میں اصلاح فرمائی اور ان پر از سر نو مضمون تیار کر کے تقریر کرنے کے لئے کہا چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا.اس طرح آہستہ آہستہ مشق ہوتی گئی.ہر جلسہ سالانہ کے موقع پر جب آپ تقریر کرنے کے لئے جانے لگتے تو کہتے تھے کہ میری تقریر کے نوٹ ضرور لینا میں آکر دیکھوں گا.اس ضمن میں ایک لطیفہ بھی یاد آ گیا.حضور کی بیٹی امتہ لعزیز کو جب پہلی بار حضور کی جلسہ سالانہ کی تقریر اچھی طرح سمجھ آئی اور لطف آیا تو گھر آکر کہنے لگی کہ ابا جان کو بھی تقریر کرنی آگئی ہے.انہوں نے سنا تو کہنے لگے کہ معلوم ہوتا ہے کہ آج اسے پہلی بار میری تقریر سمجھ میں آئی ہے.اس کے نزدیک تو مجھے آج ہی تقریر کرنی آتی ہے.حضور کی تقریروں کے نوٹ لے لے کر خدا تعالیٰ کے فضل سے تیز لکھنے کی عادت پڑی.اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ کتنا ہی تیزی سے مضمون لکھواتے تھے لکھ لیتی تھی.سب سے پہلی دفعہ آپ نے اپنی جس تقریر کے نوٹ مجھے املاء کروائے تھے وہ نظام نو والی تقریریتی آپ لکھواتے گئے میں لکھتی گئی.جب نوٹ مکمل ہو گئے تو فرمانے لگے کچھ سمجھ آیا میں نے جو کچھ آپ نے لکھوایا تھا وہ بتانا شروع کیا کہنے لگے نہیں یہ تو تمہیدیں ہیں یہ قرآن مجید.احادیث کے حوالہ جات ہیں ان میں سے میں کس مضمون کی طرف آنا چاہتا ہوں.میں نے کہا یہ تو مجھے نہیں آئی کہنے لگے یہی تو کمال ہے کہ سارا کا سارا مضمون اشاروں میں لکھوایا اور تم بتا نہ سکی کہ کیا موضوع میری تقریر کا ہوگا.میں نے عرض کی پھر بتا ئیں.کہنے لگے نہیں اب جلسہ سالانہ پر ہی سننا.آپ کی تمام زندگی قرآن مجید کی آیت اِنَّ صَلَاتِی و نُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام : 163) کے مطابق گزری ہے.آپ کی تیس سالہ رفاقت میں میں نے یہی مشاہدہ کیا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی ہستی پر جیسا عظیم الشان ایمان تھاوہ سوائے انبیاء کے کسی اور وجود میں نظر نہیں آتا آپ کے باون سالہ دور خلافت میں کتنے فتنے اٹھے بظاہر ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ دنیا نے سمجھ لیا کہ اب یہ

Page 80

جماعت منتشر ہو جائے گی اس کا اتحادٹوٹ جائے گا لیکن خلیفہ اسیح الثانی کو اللہ تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین تھا اور یہ یقین تھا کہ یہ ردا اس نے پہنائی ہے اسے کوئی اتار نہیں سکتا.بڑے سے بڑا فتنہ اٹھے بڑے سے بڑا دشمن مقابل میں آئے وہ بہر حال شکست کھائے گا.سب سے پہلے پیغامیوں کا فتنہ اٹھا ان کو زعم تھا کہ جماعت کے سر کردہ ہمارے ساتھ ہیں آہستہ آہستہ ساری جماعت ہمارے ساتھ ہو جائے گی لیکن اللہ تعالیٰ حضرت خلیفتہ اسیح کو الہام بتا چکا تھا کہ وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا.آپ کے اطاعت گزار آپ کے نہ ماننے والوں پر ہمیشہ غالب رہیں گے.چنانچہ آپ نے علی الاعلان ان کو چیلنج دیا کہ پھیر لو جتنی جماعت ہے میری بیعت میں باندھ لو ساروں کو تم مکر کی زنجیروں سے پھر بھی مغلوب رہو گے مرے تا یوم البحث تقدیر خداوند کی تقدیروں سے ہے اور دنیا نے دیکھ لیا کہ اس پاک وجود کے سر پر واقعی خدا کا سایہ تھا.جنہوں نے اس کی مخالفت کی وہ ناکام رہا اور جس نے اس مسیحی نفس سے تعلق رکھا اس نے روح الحق کی برکت سے بیماریوں سے نجات پائی.ایمان باللہ کے ایمان افروز نمونے اللہ تعالیٰ پر جو آپ کو ایمان تھا اس کی ابتداء جس رنگ میں ہوئی اس کا بیان میں آپ کے ہی الفاظ میں تحریر کرتی ہوں.1900 میرے قلب کو اسلامی احکام کی طرف توجہ دلانے کا موجب ہوا ہے.میں گیارہ سال کا تھا حضرت مسیح موعود کے لئے کوئی شخص چھینٹ کی قسم کے کپڑے کا ایک بجبہ لایا تھا کسی اور خیال سے نہیں بلکہ اس لئے کہ اس کا رنگ اور اس کے نقش مجھے پسند تھے میں اسے پہن نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کے دامن میرے پاؤں سے نیچے لٹکتے رہتے تھے.جب میں گیارہ سال کا ہوا اور 1900 نے دنیا میں قدم رکھا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں خدا تعالیٰ پر ایمان کیوں لاتا ہوں اس کے وجود کا کیا ثبوت ہے؟ میں دیر تک رات کے وقت اس مسئلہ پر سوچتا رہا.آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے وہ گھڑی میرے لئے کیسی خوشی کی گھڑی تھی جس طرح ایک بچے کو اس کی ماں مل جائے تو اسے خوشی ہوتی ہے اسی طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا سماعی ایمان علمی ایمان سے تبدیل ہو گیا.میں اپنے

Page 81

63 جامہ میں پھولا نہیں سماتا تھا میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور ایک عرصہ تک کرتا رہا کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو.ہاں اس وقت میں بچہ تھا اب مجھے زائد تجربہ ہے اب میں اس قدر زیادتی کرتا ہوں کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو.“ تاریخ خلافت ثانیہ شاہد ہے دوست بھی اور دشمن بھی کہ آپ کبھی کسی بڑے سے بڑے ابتلاء پر نہیں گھبرائے.ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل رہا اور اپنے اس یقین کو بڑے تحدی سے دنیا کے سامنے پیش فرماتے رہے جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہا ما بتا دیا کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں تو آپ نے فرمایا.”خدا تعالیٰ نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابل میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں دنیا زور لگا لے وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کر لے.عیسائی بادشاہ بھی اور ان کی حکومتیں بھی مل جائیں.یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے دنیا کی تمام بڑی بڑی مال دار اور طاقتور قو میں اکٹھی ہو جائیں اور وہ مجھے اس مقصد میں نا کام کرنے کے لئے متحد ہو جائیں پھر بھی میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے ان کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا.“ الموعود صفحہ 212,211) آپ کے باون سالہ دور خلافت کا ایک ایک دن شاہد ہے زمین اور آسمان گواہ ہیں کہ مخالفتوں کی آندھیاں چلیں فتنے اٹھے.جماعت کو نیست و نابود کرنے کی کوششیں کی گئیں.آپ کی جان پر حملہ کیا گیا مگر آپ کو اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل رہا اوراللہ تعالیٰ کا سایہ ہر آن آپ پر رہا جب تک کہ نفسی نقطہ آسماں کی طرف اٹھائے جانے کا وقت نہ آ گیا.انسان جس ہستی سے محبت کرتا ہے اس سے ناز بھی کرتا ہے اور وہ اپنی محبوب ہستی کے ناز بھی اٹھاتا ہے آپ کے مضمون کا اقتباس درج ذیل کرتی ہوں جس سے اس مضمون پر روشنی پڑتی ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں.کچھ دن ہوئے ایک ایسی بات پیش آئی کہ جس کا کوئی علاج میری سمجھ میں نہیں آتا تھا اس وقت میں نے کہا کہ ہر ایک چیز کا علاج خدا تعالیٰ ہی ہے اس سے اس کا علاج پوچھنا چاہیے اس وقت میں نے دعا کی اور وہ ایسی حالت تھی کہ میں نفل پڑھ کر زمین پر ہی لیٹ گیا اور جیسے بچہ ماں باپ سے ناز کرتا ہے اسی طرح میں نے کہا کہ اے خدا! میں چار پائی پر نہیں زمین پر ہی سوؤں گا.اس وقت مجھے خیال آیا کہ حضرت خلیفہ اول نے مجھے کہا ہوا ہے کہ تمہارا معدہ خراب ہے اور زمیں پر سونے سے معدہ اور زیادہ خراب ہو جائے گا

Page 82

64 لیکن میں نے کہا آج تو میں زمین پر ہی سوؤں گا...جب میں زمین پر سو گیا تو دیکھا خدا تعالیٰ کی نصرت اور مدد کی صفت جوش میں آئی اور متمثل ہو کر عورت کی شکل میں زمیں پر اتری ایک عورت تھی اس کو اس نے سوٹی دی اور کہا اسے مارو اور کہا چار پائی پر جا کر سو.میں نے اس عورت سے سوئی چھین لی اس پر اس نے خدا تعالیٰ کی اس مجسم صفت نے سوئی پکڑ لی اور مجھے مارنے لگی اور میں نے کہا مارلو.مگر جب اس نے مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا تو زور سے سوٹی کو گھٹنے تک لا کر چھوڑ دیا اور کہا دیکھ محمود میں تجھے مارتی نہیں پھر کہا جا اٹھ چا کر سور ہو یا نماز پڑھ.میں اسی وقت کو دکر چار پائی پر چلا گیا اور جا کر سورہا میں نے اس وقت سمجھا کہ حکم کی تعمیل میں سونا ہی بہت بڑی برکات کا موجب ہے.“ تو خدا تعالیٰ جس سے محبت کرتا ہے اس کے سامنے سب کچھ بیچ ہو جاتا ہے تم اس کے لئے کوشش کرو کہ خدا تعالیٰ تم سے محبت کرے تا کہ اس کی مدد اور نصرت تم کومل جائے اور جب اس کی نصرت تمہارے ساتھ شامل ہو جائے تو پھر ساری دنیا ہے کیا چیز وہ تو ایک کیڑے کی بھی حیثیت نہیں رکھتی.“ 1953ء میں جب پنجاب میں فسادات رونما ہوئے احمدیت کی شدید مخالف کی گئی احمدیوں کے گھروں کو آگیں لگائی گئیں اور اس قسم کی افواہیں سنے میں آئیں کہ کہیں آپ پر بھی ہاتھ نہ ڈالا جائے اور گرفتار نہ کر لیا جائے.چنانچہ ان دنوں میں قصر خلافت کی تلاشی بھی لی گئی لیکن آپ کی طبیعت میں ذرہ بھر بھی گھبراہٹ نہ تھی سکون سے اپنے کام جاری تھے.جو لوگ آپ سے محبت کرتے تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ چند روز کے لئے باہر چلے جائیں بلکہ گھبرا کر کراچی کے بعض ذمہ دار دوست آپ کو لینے کے لئے بھی آگئے کہ آپ وہاں چلے چلیں چند دن میں یہ شورش ختم ہو جائے گی.آپ ان دوستوں کا ہمدردانہ مشورہ سن کر تھوڑی دیر کے لئے اندر آئے اور آکر دعا شروع کر دی.دعا ختم کر کے باہر تشریف لے گئے اور جاکران دوستوں سے کہا کہ میں ہرگز جانے کے لئے تیار نہیں جو خدا وہاں ہے وہی یہیں ہے.اللہ تعالیٰ میری یہیں حفاظت کرے گا.اور جو مجھ پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرے گا وہ خدا تعالیٰ کے عذاب اور گرفت سے ڈرے.چنانچہ چند ہی دن میں ملک میں انقلاب آ گیا.جو مخالفت میں اُٹھے تھے جھاگ کی طرح بیٹھ گئے اور جوان کے سرکردہ تھے وہ الہی گرفت میں آگئے.صداقت کو پھیلانے کی تڑپ شدید تڑپ تھی کہ دنیا جلد سے جلد صداقت کو قبول کرے اس سلسلہ میں اپنا ذاتی مشاہدہ بیان کرتی

Page 83

66 ہوں.1938ء کا واقعہ ہے میری طرف حضور کی باری تھی کہ رات کو آپ نے رؤیا دیکھا.رؤیا لمبا ہے اس لئے تفصیل سے نہیں لکھتی " المبشرات“ میں شائع ہوا ہوا ہے.اس میں آپ نے ایک زبر دست طوفان کا نظارہ دیکھا.آپ جاگ اٹھے مجھے جگایا اور فرمایا کہ میں نے رویا دیکھا ہے میں لکھواتا ہوں ابھی لکھ لو ( آپ کا دستور تھا کہ جب بھی کبھی کوئی رویا دیکھتے عموماً اسی وقت جگا کرلکھوا دیتے تھے ) رویالکھوانے کے بعد آپ کی طبیعت میں بے چینی پیدا ہوگئی کمرہ سے باہر صحن میں نکل گئے اور ٹہل ٹہل کر نہایت رقت اور سوز و گداز سے قرآن مجید کی یہ آیات تلاوت کرنے لگے.قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلاو نَهَارًا ، فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَاءِ إِلَّا فِرَارًا o وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا اَصَابِعَهُمْ فِى أذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوُا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًاه ثُمَّ إِنِّى دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا ه ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمُ إِسْرَارًا ، فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا لِّ يُرْسِلِ السَّمَاءِ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنْتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَرًا.مَالَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا ﴿سورة نوح : 14,6) آپ کا پڑھنے کا انداز اور جس تڑپ سے آپ ان آیات کو بار بار پڑھ رہے تھے اتنا لمبا عرصہ گزر جانے پر بھی نہیں بھول سکتی یوں لگتا تھا کہ آپ کا دل پھٹ جائے گا.آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور لگتا تھا کہ آپ کی فریاد عرش اٹھی کو ہلا دے گی.پڑھتے پڑھتے آپ کی آواز اتنی اونچی ہوگئی کہ قریب کے گھروں کے لوگ جاگ اُٹھے اگلے دن صبح میری بچی جان مرحومہ ( بیگم حضرت میر محمد الحق صاحب ) جو ان دنوں مہمان خانہ کے کوارٹرز میں مقیم تھیں آئیں اور کہنے لگیں کہ آج رات حضرت صاحب آدھی رات کو بڑی اونچی تلاوت کر رہے تھے ہمیں اپنے گھر میں آواز آرہی تھی.اس پر میں نے ان کو سارا واقعہ بتایا.آپ کی تمام کتب اور تقاریر پڑھ جائیں ان کا لب لباب یہی ہے کہ بندوں کا تعلق اللہ تعالیٰ سے مضبوط ہو.شروع خلافت سے لے کر آخر تک آپ اسی کی تلقین کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق پختہ کرو.صرف ایک ہی حوالہ پر اکتفا کرتی ہوں.آپ فرماتے ہیں:.”اب میں بتاتا ہوں کہ وہ کیا شے ہے جس کی طرف میں آپ لوگوں کو بلاتا ہوں اور وہ کونسا نکتہ ہے جس کی طرف آپ کو متوجہ کرتا ہوں.سنو! وہ ایک لفظ ہے زیادہ نہیں صرف ایک ہی لفظ ہے اور وہ اللہ ہے اسی کی طرف میں تم سب کو بلاتا

Page 84

66 ہوں اور اپنے نفس کو بھی اسی کی طرف بلاتا ہوں اسی کے لئے میری پکار ہے اور اسی کی طرف جانے کے لئے میں بگل بجاتا ہوں پس جس کو خدا تعالیٰ توفیق دے اور جس کو خدا تعالیٰ ہدایت دے وہ اسے قبول کرے.“ برکات خلافت انوار العلوم جلد دوم صفحہ 234) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا عشق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے بے انتہا عشق تھا مجھے کبھی نہیں یاد کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا اور آپ کی آواز میں لرزش اور آپ کی آنکھوں میں آنسو نہ آگئے ہوں آپ کے مندرجہ ذیل اشعار جو سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کہے گئے ہیں آپ کی محبت پر روشنی ڈالتے ہیں.مرا معشوق محبوب خدا ہے کہ وہ شہنشاہ ہر دو سرا ہے وہی آرام میری روح کا ہے وہی اک راہ دین کا رہنما ہے مجھے اس بات پر ہے فخر محمود ہو اس کے نام پر قربان سب کچھ اسی سے مرا دل پاتا ہے تسکین خدا کو اس سے مل کر ہم نے پایا اسی طرح آپ کی مندرجہ ذیل تحریر بھی آپ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت پر روشنی ڈالنے کے لئے کافی ہے:.نادان انسان ہم پر یہ الزام لگاتا ہے کہ مسیح موعود کو نبی مان کر گویا ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں اسے کسی کے دل کا حال کیا معلوم اسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جو میرے دل کے ہر گوشہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے وہ کیا جانے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میرے اندر کس طرح سرایت کر گئی ہے وہ میری جان ہے.میرا دل ہے.میری مراد ہے میرا مطلوب ہے اس کی غلامی میرے لئے عزت کا باعث ہے.اور اس کی کفش برداری مجھے تخت شاہی سے بڑھ کر معلوم دیتی ہے اس کے گھر کی خاک روب کشی کے مقابلہ میں بادشاہت ہفت اقلیم بیچ ہے وہ خدا تعالیٰ کا پیارا ہے پھر میں کیوں اس سے پیار نہ کروں وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے پھر میں اس سے کیوں محبت نہ کروں وہ خدا تعالیٰ کا مقرب ہے پھر میں کیوں اس کا قرب نہ تلاش کروں میرا حال مسیح موعود کے اس شعر کے مطابق ہے کہ بعد از خدا بعشق محمد محمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم حقيقة النبوة انوار العلوم جلد دوم صفحہ 501

Page 85

قرآن مجید سے عشق:.اسی طرح قرآن مجید سے آپ کو جو عشق تھا اور جس طرح آپ نے اس کی تفسیریں لکھ کر اس کی اشاعت کی وہ تاریخ احمدیت کا ایک روشن باب ہے.خدا تعالیٰ کی آپ کے متعلق پیشگوئی کہ کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی جن دنوں میں تفسیر کبیر لکھی نہ آرام کا خیال رہتا تھا نہ سونے کا نہ کھانے کا بس ایک دھن تھی کہ کام ختم ہو جائے.رات کو عشاء کی نماز کے بعد لکھنے بیٹھے ہیں تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ صبح کی اذان ہوگئی اور لکھتے چلے گئے.تفسیر صغیر تو لکھی ہی آپ نے بیماری کے پہلے حملہ کے بعد یعنی 1956ء میں طبیعت کافی کمزور ہو چکی تھی.گو یورپ سے واپسی کے بعد صحت ایک حد تک بحال ہو چکی تھی مگر پھر بھی کمزوری باقی تھی ڈاکٹر کہتے تھے آرام کریں فکر نہ کر یں زیادہ محنت نہ کریں.لیکن آپ کو ایک دھن تھی کہ قرآن کے ترجمہ کا کام ختم ہو جائے.بعض دن صبح سے شام ہو جاتی اور لکھواتے رہتے.کبھی مجھ سے املا کرواتے.مجھے گھر کا کام ہوتا تو مولوی یعقوب صاحب مرحوم کو تر جمہ لکھواتے رہے.آخری سورتیں لکھوا ر ہے تھے غالبا انیسواں سیپارہ تھا یا آخری شروع ہو چکا تھا ( ہم لوگ مخلہ میں تھے وہیں تفسیر صغیر مکمل ہوئی تھی) کہ مجھے بہت تیز بخار ہو گیا میرا دل چاہتا تھا کہ متواتر کئی دن سے مجھے ہی ترجمہ لکھوا رہے ہیں میرے ہاتھوں ہی یہ مقدس کام ختم ہو.میں بخار سے مجبور تھی ان سے کہا کہ میں نے دوائی کھالی ہے آج یا کل بخار اتر جائے گا.دو دن آپ بھی آرام کرلیں آخری حصہ مجھ سے ہی لکھوائیں تا میں ثواب حاصل کرسکوں نہیں مانے کہ میری زندگی کا کیا اعتبار.تمہارے بخار اترنے کے انتظار میں اگر مجھے موت آجائے تو ؟ سارا دن ترجمہ اور نوٹس لکھواتے رہے اور شام کے قریب تغییر صغیر کا کام ختم ہو گیا.بے شک تفسیر کبیر مکمل قرآن مجید کی نہیں لکھی گئی.مگر جو علوم کا خزانہ ان جلدوں میں آپ چھوڑ گئے ہیں وہ اتنا زیادہ ہے کہ ہماری جماعت کے احباب ان کو پڑھیں ان سے فائدہ اُٹھا ئیں تو بڑے سے بڑا عالم ان کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے.للہ تعال سے دعاہے کہ للہ تعالی ضرت خلیفہ اس حالا شاید اللہ تعالی کو یہ پاروں کی غیر مل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.الھم امین.قرآن مجید کی تلاوت کا کوئی وقت مقرر نہ تھا جب بھی وقت ملا تلاوت کر لی یہ نہیں کہ دن میں صرف ایک بار یا دوبارہ عموماً یہ ہوتا تھا کہ صبح اٹھ کر ناشتہ سے فارغ ہو کر ملاقاتوں کی اطلاع ہوئی آپ انتظار میں

Page 86

68 ٹہل رہے ہیں قرآن مجید ہاتھ میں ہے لوگ ملنے آگئے قرآن مجید رکھ دیا مل کر چلے گئے.پڑھنا شروع کر دیا.تین تین چار چار دن میں عموماً میں نے ختم کرتے دیکھا ہے.ہاں جب کام زیادہ ہوتا تھا کہ صبح سے قرآن مجید ہاتھ میں ہے ٹہل رہے ہیں اور ایک ورق بھی نہیں الٹا دوسرے دن دیکھا تو پھر وہی صفحہ میں نے کہنا کہ آپ کے ہاتھ میں قرآن مجید ہے لیکن آپ پڑھ نہیں رہے ہیں تو فرماتے ایک آیت پر اٹک گیا ہوں جب تک اس کے مطالب حل نہیں ہوتے آگے کس طرح چلوں.ایک دفعہ یونہی خدا جانے مجھے کیا خیال آیا میں نے پوچھا کہ آپ نے کبھی موٹر بھی چلانی سیکھی؟ کہنے لگے ہاں ایک دفعہ کوشش کی تھی مگر اس خیال سے ارادہ ترک کر دیا کہ ٹکر نہ مار دوں.ہاتھ پیسے پر تھے اور دماغ قرآن مجید کی آیات کی تفسیر میں الجھا ہوا تھا موٹر کیسے چلاتا.اکثر ایسا ہوتا ہے کہ قرآن مجید پڑھتے پڑھتے کہنا اچھا بتاؤ اس آیت کا کیا مطلب ہے! میں نے جو سمجھ آنی کہ دینا یا کہ دینا پتہ نہیں آپ بتائیں تو پھر کہنا کہ یہ نیا نکتہ سوجھا ہے اور اس آیت کے یہ نئے مطالب ذہن میں آئے ہیں.جب حضور نے تفسیر کبیر کی سورۃ یونس سے سورۃ الکہف تک والی تفسیر لکھی اور وہ پہلی جلد شائع ہوئی تو کہنے لگے کہ اسے پڑھو میں تمہارا امتحان لوں گا میں نے کہا اچھا لیکن یہ اتنی موٹی کتاب ہے اگلے سال امتحان لے لیں اتنا وقت تو یاد کرنے کے لئے چاہئے کہنے لگے نہیں صرف ایک ماہ.اگر زیادہ مہلت دی تو تم کبھی بھی نہیں پڑھوگی یہ خیال ہوگا کہ چلو بڑا وقت پڑا ہے پڑھ لوں گی.پڑھنے کا یہ مطلب نہیں کہ زبانی یاد کرو.بلکہ شروع سے آخر تک پڑھ جاؤ.خود ہی ذہن نشین ہو جائے گا.جب میں نے بہت اصرار کیا تو کہنے لگے کہ اچھا ڈھائی مہینے.خیر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا ڈھائی ماہ میں میں نے اسے ختم کر لیا اور آپ نے دو تین سوال زبانی پوچھ کر میرا امتحان لیا اور اللہ تعالیٰ نے عزت بھی رکھ لی کہ جواب آگئے.عورتوں میں جب ہفتہ وار درس دیا کرتے تھے اس میں ایک یا دو دفعہ مجھے یاد ہے عورتوں کا امتحان بھی لیا کثرت سے عورتوں نے امتحان دیا تھا اور پرچے دیکھ کر آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا تھا.ایک دفعہ سورۃ مزمل کا اور ایک دفعہ سورۃ سبا کا.سورۃ سبا کی اس آیت وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ (سبا:24) پر کئی دن درس جاری رہا تھا شفاعت کا مسئلہ بہت تشریح سے بیان فرمایا تھا اور بعد میں اس حصہ میں سے امتحان لیا تھا جس میں صاحبزادی امتہ القیوم اول آئی تھیں.

Page 87

درس کے سلسلے میں ایک واقعہ:.درس کے سلسلہ میں ایک اور واقعہ یاد آیا قرآن مجید کے درس کے ساتھ آپ نے کچھ عرصہ بخاری شریف کا درس بھی عورتوں میں دیا تھا.گو وہ زیادہ لمبا عرصہ جاری نہ رہ سکا ایک یا دو پاروں کا درس ہوا تھا ایک دن آپ نے درس دیتے ہوئے آنحضرت ﷺ کا آخری حج کا واقعہ بیان فرمایا اور جب یہ الفاظ بیان فرمائے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس طرح یہ مہینہ مقدس ہے جس طرح یہ علاقہ مقدس ہے جس طرح یہ دن مقدس ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی جان اور اس کے مال اور عزت کو مقدس قرار دیا ہے اور کسی کی جان اور مال پر حملہ کرنا ایسا ہی نا جائز ہے جیسے کہ اس مہینہ میں اس علاقہ اور اس دن کی ہتک کرنا یہ حکم آج کے لئے نہیں کل کے لئے نہیں بلکہ اس دن تک کے لئے ہے کہ تم خدا سے جا کر ملو پھر فرمایا یہ باتیں جو آج میں تم سے کہتا ہوں ان کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دو کیونکہ ممکن ہے کہ جو لوگ آج مجھ سے سن رہے ہیں ان کی نسبت وہ لوگ ان پر زیادہ عمل کریں جو مجھ سے نہیں سن رہے.یہ حدیث آپ نے بیان فرما کر عورتوں سے کہا کہ میں آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث تمہیں سنا کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوتا ہوں اور تم میں سے ہر عورت جو میر ادرس سن رہی ہے وہ کم از کم ایک ایسی عورت کو جس نے آج درس نہیں سنا اس کے گھر جا کر یہ حدیث سنائے اور اس پر عمل کرنے کی تاکید کرے.مجھے اچھی طرح یاد ہے عورتوں میں بڑا جوش پیدا ہوا اور قادیان میں گھر گھر عورتیں پھر کر جو عورتیں درس میں نہیں آئی تھیں ان کو یہ حدیث سناتی پھرتی تھیں اور ہر عورت کوشش کرتی تھی کہ اس ثواب سے محروم نہ رہ جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان سے بیحد محبت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر پر بھی اکثر آنکھیں بھیگ جاتی تھیں.آپ کی یاد میں آپ کے مندرجہ ذیل اشعار آپ کے دل کی ترجمانی کرتے ہیں.اے مسیحا تیرے سودائی جو ہیں ہوش میں بتلا کہ ان کو لائے کون تو تو واں جنت میں خوش اور شاد ہے ان غریبوں کی خبر کو آئے کون اے مسیحا ہم سے گو تو چھٹ گیا دل سے پر الفت تیری چھڑ وائے کون جانتا ہوں صبر کرنا ہے ثواب اس دل ناداں کو سمجھائے کون آپ خود حسن و احسان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نظیر تھے اور اپنی ساری زندگی آپ نے اس

Page 88

70 مشن کو پورا کرنے میں خرچ کی کہ جس کی داغ بیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈالی تھی.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے“ کے موضوع پر 1927ء میں ایک تقریر فرمائی تھی جس میں آپ کے کارناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.”میں نے آپ کے کاموں کی تعداد 15 بتائی ہے.لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ آپ کا کام یہیں ختم ہو گیا ہے آپ کا کام اس سے بہت وسیع ہے اور جو کچھ کہا گیا ہے یہ اصولی ہے اور اس میں بھی انتخاب سے کام لیا گیا ہے اگر آپ کے سب کاموں کو تفصیل سے لکھا جائے تو ہزاروں کی تعداد سے بھی بڑھ جائیں گے اور میرے خیال میں اگر کوئی شخص انہیں کتاب کی صورت میں جمع کر دے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ منشاء پورا ہو سکتا ہے جو آپ نے براہین احمدیہ میں ظاہر فرمایا ہے اور وہ یہ کہ اس کتاب میں اسلام کی تین سو خو بیاں بیان کی جائیں گی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ وعدہ اپنی مختلف کتابوں کے ذریعہ پورا کر دیا.آپ نے اپنی کتابوں میں تین سو سے بھی زائد خوبیاں بیان فرما دیں اور میں یہ ثابت کرنے کے لئے تیار ہوں.“ انوار العلوم جلد 10 صفحہ 203 خود حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بھی اس خواہش کے مد نظر 1928ء سے 1936ء تک یہ تقریر میں اسی سلسلہ میں کیں جو فضائل القرآن کے نام سے شائع ہو چکی ہیں ان تقاریر سے بھی حضور کا منشا تھا کہ قرآن کریم کی فضیلت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تین سو دلائل دینے کا براہین احمدیہ میں وعدہ فرمایا تھا اسے ظاہری طور پر پورا فرماویں.مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت یہ تقاریر نا تمام رہیں اور بعض اور قرآنی مضامین کے متعلق حضور تقاریر فرماتے رہے.حضرت اماں جان کی عزت واحترام :.حضرت اماں جان کی عزت اور احترام کا مشاہدہ تو اپنی آنکھوں سے کیا ہے.ایک دفعہ ایک عورت نے آپ سے شکایت کی کہ میرا بیٹا میرا خیال نہیں رکھتا ہے آپ سمجھا ئیں.آپ بے اختیار رو پڑے اور کہنے لگے مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کوئی بیٹا ماں سے بُر اسلوک کر ہی کیسے سکتا ہے.حضرت اماں جان کا خود با وجود عدیم الفرصتی کے بہت خیال رکھتے تھے اور اپنی بیویوں سے بھی یہی امید رکھتے تھے کہ وہ حضرت اماں جان کا خیال رکھیں.کبھی فراغت ہوئی تو حضرت اماں جان کے پاس بیٹھ جاتے.آپ کو کوئی واقعہ یا کہانی سناتے

Page 89

71 سفروں میں اکثر اپنے ساتھ رکھتے.جس موٹر میں خود بیٹھتے اس میں حضرت اماں جان کو اپنے ساتھ بٹھاتے.کہیں باہر سے آنا تو سب سے پہلے حضرت اماں جان سے ملتے اور آپ کی خدمت میں تحفہ پیش کرتے.اپنے بہن بھائیوں سے بھی بہت پیار تھا.ہجرت کے وقت حضور پاکستان تشریف لا چکے تھے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ابھی قادیان میں ہی تھے حالات خراب ہورہے تھے آپ کو ان کے متعلق بہت تشویش تھی ٹہل ٹہل کر دعائیں کرتے رہتے تھے جس دن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لاہور پہنچے اور گھر میں داخل ہوئے آپ پہلے تو فوراً سجدے میں گر پڑے اور پھر حضرت میاں صاحب کا ہاتھ پکڑا اور سیدھے حضرت اماں جان کے کمرہ میں تشریف لے گئے اور فرمانے لگے لیں اماں جان ! آپ کا بیٹا آ گیا.گویا بڑے بھائی ہونے کے لحاظ سے جوان پر فرض تھا اس سے سبکدوش ہو گئے.بھائیوں اور بہنوں سے محبت :.حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی وفات 26 دسمبر 1961ء کو ہوئی تھی ٹھیک ایک سال قبل 26 دسمبر 1960 ء کو آپ گھبرا کر اٹھے اور مجھے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میاں شریف احمد صاحب فوت ہو گئے ہیں.میں نے کہا کہ وہ خدا کے فضل سے بالکل ٹھیک ہیں کہنے لگے کہ نہیں ابھی فون کر کے داؤد سے کہو کہ خودان کے پاس جا کر ان کو دیکھ کر آئے.داؤد نے جب بتایا کہ خیریت سے ہیں تو کچھ تسلی ہوئی لیکن اس خواب کے اثر سے قریباً ساری رات جاگتے رہے اور دعا کرتے رہے.اللہ تعالیٰ کی مشیت دیکھیں کہ اسوقت دعاؤں سے اپنی تقدیر ٹلا دی اور ٹھیک ایک سال کے بعد اسی تاریخ کو حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی وفات ہوئی.دونوں بہنیں بھی بہت پیاری تھیں لیکن حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے بہت زیادہ محبت اور بے تکلفی تھی.سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سے بیٹیوں کی طرح مشفقانہ سلوک تھا.لیکن ان کو بھی ذراسی تکلیف کا علم ہوتا تھا تو بے قرار ہو جاتے تھے.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ آتیں تو اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے پرانے اور اپنے بچپن کے واقعات دہراتے کبھی خود سناتے کبھی ان سے سنتے.جب کوئی نئی نظم کہتے تو فرماتے تھے مبارکہ کو بلا ؤ ان کو بھی سناؤں.انتہائی شفیق باپ:- بچوں کے لئے انتہائی شفیق باپ تھے تربیت کی خاطر لڑکوں پر وقتا فوقتا سختی بھی کی لیکن ان کی عزت

Page 90

72 نفس کا خیال رکھا.مجھے یاد ہے کہ قادیان میں مجھے ان کی زور سے ڈانٹنے کی آواز آئی میں اندر کمرہ میں تھی ایک دم اس خیال سے باہر نکلی کہ دیکھوں کہ کیا بات ہے کے ڈانٹ رہے ہیں حضور کسی کو پڑھائی ٹھیک نہ کرنے پر ناراض ہورہے تھے میں اس وقت واپس چلی گئی.تھوڑی دیر کے بعد اندر آئے اور کہنے لگے کہ جب میں اپنے بچے کو ڈانٹ رہا تھا تو تمہیں وہاں آنا نہیں چاہیے تھا.اس سے وہ شرمندہ ہو گا کہ مجھے تمہارے سامنے ڈانٹ پڑی.بیٹیوں سے بھی بہت زیادہ پیار کرتے تھے.لیکن جہاں دین کا معاملہ آجائے آنکھوں میں خون اتر آتا تھا.نماز کی سنتی بالکل بھی برداشت نہ تھی.اگر ڈانٹنا ہے تو نماز نہ پڑھنے پر.بچوں کے دل میں شروع دن سے یہی ڈالا کہ سب دین کے لئے وقف ہو.ان کو دینی تعلیم دلوائی.جب 1918ء میں شدید انفلوئنزا کا حملہ ہو کر بیمار ہوئے تھے اور اپنی وصیت شائع کروائی تھی اس میں بھی یہ وصیت فرمائی تھی کہ بچوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم ایسے رنگ میں دلوائی جائے کہ وہ آزاد پیشہ ہو کر خدمت دین کر سکیں جہاں تک ہو سکے لڑکوں کو حفظ قرآن کرایا جائے.مئی 1959ء میں جب بیماری کا دوبارہ حملہ ہوا تو اس وقت بھی ایک وصیت کی تھی کہ اس میں بھی یہی تاکید تھی کہ وہ ہمیشہ اپنی کوششوں کو خدا اور اس کے رسول کی خاطر خرچ کرتے رہیں خدا کرے قیامت تک وہ اس نصیحت پر عمل کریں اور اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ان کو قیامت تک کے لئے اسلام کا سچا خادم بنائے اور اسلام کے ہر دشمن کے لئے حق کا ایک زبر دست پنجہ ثابت ہوں اور ان کی زندگیوں میں کوئی شخص اسلام کو ٹیڑھی نظر سے نہ دیکھ سکے.“ حضور کا ایک عہد :.حضور نے 1939 میں ایک عہد بھی کیا تھا جو حضور کی ایک نوٹ بک میں جو حضور عموماً اپنے کوٹ کی اندر کی جیب میں یاداشت لکھنے کے لئے رکھا کرتے تھے آپ کے قلم سے درج ہے اور وہ یہ ہے." آج 14 مئی 1939ء کو مرزا بشیر الدین محمود احمد اللہ تعالیٰ کی قسم اس پر کھاتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل سے جو بھی اپنی زندگی سلسلہ کی خدمت میں خرچ نہیں کر رہا میں اس کے گھر کا کھانا نہیں کھاؤں گا اور اگر مجبوری یا مصلحت کی وجہ سے مجھے ایسا کرنا پڑے تو میں ایک روزہ بطور کفارہ رکھوں گا یا پانچ روپے بطور صدقہ ادا کروں گا یہ عہد سر دست ایک سال کے لئے ہوگا.“ ( مرزا محمود احمد ) اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس خواہش کے مطابق آپ کی اولاد کو تو فیق عطا فرمائی کہ انہوں نے بچپن سے ہی اپنی زندگیاں وقف کیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں سے قریباً سب ہی دین اور سلسلہ کی خدمت کر

Page 91

73 رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو مزید قربانیوں اور خدمتوں اور علم دین سکھانے کا موقع عطا فرمائے اور ان کی قربانیوں کے نتیجے میں ان کے مقدس والد کی روح کو خوشی پہنچتی رہے.آمین اللهم آمین.إِيتَاءِ ذِي القُربى جس پر بڑا زور قرآن مجید میں دیا گیا اور كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآن (مسنداحمد بن عبل جلد 6 صفحہ 91) کے تحت جس کا عملی نمونہ آنحضرت ﷺ کے وجود سے ظاہر ہوا تھا اس پر جو عمل حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے کیا وہ عدیم المثال ہے میں نے کئی بار آپ کے منہ سے یہ بات سنی آپ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ رشتہ داروں کی مدد بطور احسان کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ذی القربی کی مد دانسان پر فرض رکھی ہے.تمہارے مالوں میں ان کا حق ہے ان کا حق ان کو دو.اپنے عزیزوں.بیویوں کے عزیز.عزیزوں کے عزیز کوئی بھی ایسا نہیں نکلے گا کہ کسی کو کوئی ضرورت پیش نہ آئی ہو اور آپ نے اس کی طرف دست مروّت نہ بڑھایا ہو.اس کو کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی خود ہی خیال رکھا.افراد جماعت سے غیر معمولی محبت :.جماعت کے افراد کا تو کہنا ہی کیا.یہ حقیقت ہے کہ جماعت کے افراد آپ کو اپنی بیویوں.اپنے بچوں اور اپنے عزیزوں سے بہت زیادہ پیارے تھے ان کی خوشی سے آپ کو خوشی پہنچتی تھی اور ان کے دکھ سے میں نے بارہا آپ کو کرب میں مبتلا ہوتے دیکھا.جب آپ خلیفہ ہوئے تو اسی سال جلسہ سالانہ پر تقریر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا تھا.مگر خدا را غور کرو.کیا تمہاری آزادی میں پہلے کی نسبت کچھ فرق پڑ گیا ہے.کیا کوئی تم سے غلامی کرواتا ہے یا تم پر حکومت کرتا ہے یا تم سے ماتحتوں غلاموں اور قیدیوں کی طرح سلوک کرتا ہے.کیا تم میں اور ان میں جنہوں نے خلافت سے روگردانی کی ہے کوئی فرق ہے؟ کوئی بھی فرق نہیں لیکن نہیں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ تمہارے لئے ایک شخص تمہارا در در رکھنے والا تمہاری محبت رکھنے والا تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے مگر ان کے لئے نہیں.تمہارا اسے فکر ہے درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولا کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لئے ایسا کوئی نہیں ہے.کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں.“ برکات خلافت انوار العلوم جلد 2 صفحہ 156

Page 92

74 لیکن جہاں جماعت سے بے حد محبت تھی اور جو ان سے محبت رکھتے تھے ان کی قدر فرماتے تھے وہاں معمولی سی بات بھی جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہو یا نظام سلسلہ کے خلاف ہو یا خلافت پر زد پڑتی ہو برداشت نہ کر سکتے تھے.عورتوں میں جہالت سے پیروں کو احتراماً ہاتھ لگانے کی عادت ہوتی ہے.کئی دفعہ گاؤں کی عورتیں ملاقات کے لئے آتیں تو پاؤں کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرتیں.آپ کا چہرہ سرخ ہو جاتا اور سختی سے منع فرماتے کہ یہ شرک ہے.مصلح موعود کے متعلق پیش گوئی تھی کہ دل کا حلیم ہوگا.کارکنوں کو صحیح رنگ میں کام نہ کرنے پر اکثر ناراض بھی ہوئے سزا بھی دی مگر مجھے معلوم تھا کہ ناراض ہو کر خود افسردہ ہو جاتے تھے.مجبوری کی وجہ سے سزا دیتے کہ ان کو صیح طریق پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی عادت پڑے کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی کام وقت پر ختم نہ ہونے پر دفتر کے بعض کارکنوں کو ہدایت دی کہ جب تک کام ختم نہ ہو گھر نہیں جانا اور پھر اندر آ کر کہنا کہ فلاں کیلئے کچھ کھانے کو بھجوا دو وہ گھر نہیں گیا بے چارہ دفتر میں کام کر رہا ہے.جس دن ملک عبدالرحمن صاحب خادم کی وفات ہوئی اتفاق سے میرے گھر کوئی لجنہ کی تقریب تھی.بہت سی بہنیں آئی ہوئی تھیں چائے وغیرہ کا انتظام تھا.چائے پی رہے تھے کہ اچانک تار کے ذریعہ خادم صاحب کی وفات کی اطلاع ملی.اوپر سے مجھے آواز دی اور بلوایا اور کہنے لگے کہ خادم صاحب کی وفات ہو گئی ہے.سلسلہ کے ایک دیرینہ خادم کا جنازہ آرہا ہے اور تم سب نیچے چائے پی رہے ہو سب کو رخصت کرو ساتھ ہی انتہائی غم کا اظہار کیا.میں نے نیچے آکر آئی ہوئی بہنوں سے ذکر کیا تو سب خاموشی سے چلی گئیں اسی طرح جب ڈاکٹر غفور الحق صاحب کی وفات کی اطلاع کوئٹہ سے ملی کہ جنازہ لایا جا رہا ہے اس دن صاحبزادی امتہ الباسط کے ہاں شائد بچی کا عقیقہ تھا.ہم سب نے اس کے گھر جانا تھا حضور نے روک دیا کہ نہیں جانا وہ لوگ جنازہ لے کر آرہے ہیں تم لوگ کیسے جا سکتے ہو؟ قادیان کا ذکر ہے میری شادی کے شائد ایک سال کے بعد کا حضور نماز پڑھ کر مسجد سے آرہے تھے حضرت اماں جان کے صحن میں ایک بوڑھی عورت آپ کے انتظار میں کھڑی تھی آپ آئے تو اس نے بات شروع کر دی جیسا کہ گاؤں کی عورتوں کا قاعدہ ہے کہ لمبی بات کرتی ہیں اس نے خاصی لمبی داستاں سنانی شروع کر دی حضور کھڑے ہوئے توجہ سے سنتے رہے میری طبیعت خراب تھی میں کھڑی نہ رہ سکی پاس تخت پر بیٹھ گئی جب وہ عورت بات ختم کر کے چلی گئی تو آپ نے فرمایا کہ تم کیوں بیٹھ گئی تھی یہ وہ لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی ماننے والوں اور قربانی کرنے والوں میں سے ہیں میں تو اس کے احترام کے طور پر کھڑا ہو گیا اور تم بیٹھ گئی میں نے بتایا کہ میری طبیعت بہت خراب تھی آپ نے فرمایا طبیعت خراب تھی تو تم چلی جاتی.اس واقعہ سے بھی آپ کو -

Page 93

75 جو جماعت کے لوگوں سے محبت تھی اس پر روشنی پڑتی ہے اور یہ بھی کہ آپ اصلاح اور تربیت کے کسی موقعہ کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے اپنی زیادہ بیماری کے ایام میں بھی کسی کی تکلیف کا معلوم ہو جاتا تو بہت کرب محسوس فرماتے تھے اے جانے والی محبوب اور مقدس روح تجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہزاروں سلامتیاں ہوں تو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسد مبارک پر خدا تعالیٰ سے جو عہد باندھا تھا اس کو خوب نبھایا تو نے خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کی خاطر نہ اپنی جان کی پرواہ کی نہ مال کی نہ عزت کی نہ اولاد کی خدا کی خاطر تیرا خون بھی بہایا گیا.بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ (البقره:113) کازنده نمونہ تھا تو نے زندہ خدا ہمیں دکھا دیا.تو اللہ تعالیٰ کی قدرت رحمت اور قربت کا نشان تھا.تیرے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی قدرت جلوہ نما ہوئی اور دنیا نے رحمت اور قربت سے حصہ پایا تو نے قبروں میں دبے ہووں کو نکال کر ان کو روحانی موت کے پنجہ سے نجات دی.تیرے آنے کے ساتھ حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آیا اور باطل اپنی نحوستوں کے ساتھ بھاگ گیا.تُو نے اسلام کی عزت قائم کی.تیری ایٹریوں نے شیطان کا سر کچلا.تو کامیاب وکامران اپنے خدا کے سایہ میں زندگی گزار کر اپنے محبوب حقیقی کی خدمت میں حاضر ہو گیا لیکن ہمیں سوگوار بنا کر تیرے ہی الفاظ میں ہم تجھ سے کہتے ہیں.جانتا ہوں صبر کرنا ہے اس ثواب ول ناداں کو سمجھائے کون تبلیغ اکناف عالم میں کامیابی سے ہورہی ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ پوری آب و تاب سے پورا ہورہا ہے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.“ تذكرة الشہادتین صفحه : 67 روحانی خزائن جلد 20 یہ پیش گوئی بڑی شان سے پوری ہو رہی ہے اور یہ امر احمدیت کی صداقت کا بین ثبوت ہے.احباب دُعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور فرمائے اور محض اپنے فضل وکرم سے ہمارے وجودوں کو سلسلہ عالیہ کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید ثابت فرمائے اور حضرت مصلح موعود کے

Page 94

76 ارشادات کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطا فرمائے.جرمن مشن کی ساری کامیابی میرے محسن اور پیارے آقا حضرت مصلح موعود کی ذاتی توجہ اور دلی دعاؤں کا نتیجہ ہے.اللہ تعالیٰ خلافت ثالثہ کو جماعت کے لئے برکات اور ترقیات کا باعث بنائے.خلافت سے وابستگی میں ہی جماعت کی ترقی کا راز پہناں ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو خلافت کی برکات سے متمتع کرے اور جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کو اکناف عالم میں پھیلا دے.اللھم آمین.(الفضل 25 / مارچ 1966)

Page 95

نظام وصیت میں احمدی خواتین کی شمولیت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے دنیا میں ایک نیا نظام قائم فرمایا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام فرمایا کہ اردت استخلف فخلقت ادم گویا اللہ تعالیٰ نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آدم ثانی قرار دیا ہے جن کے ذریعے سے ایک نئی نسل اور ایک نئی جماعت صلحاء کی بنیاد پڑی.اس مثالی معاشرہ کے قیام کی بشارت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس الہام کے ذریعے دی کہ یادَمُ اسْكُنُ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ اور یہ بشارت بھی دی کہ اس معاشرہ کے قیام میں ایسے پاک اور نیک لوگ آپ کی ہر طرح مالی جانی مدد کریں گے جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کیا جائے گا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو کامیاب بنانے کے لئے ہر طرح کی قربانیاں دیں.یہ بشارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِی بِكَلِمَاتِ اللهِ خدا کی باتوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا وہ اپنے وقت پر پوری ہوں گی مگر خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جو خدا کے بنائے ہوئے سلسلہ کی ترقی میں امام وقت کی مدد کریں گے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ایسے لوگوں کو بشارت دیتے ہوئے اپنی کتاب الوصیت میں تحریر فرماتے ہیں خدا کی رضا کو تم کسی طرح پاہی نہیں سکتے جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر.اپنی لذات چھوڑ کر.اپنی عزت چھوڑ کر.اپنا مال چھوڑ کر اپنی جان چھوڑ کر اس کی راہ میں وہ تلخی نہ اٹھاؤ جوموت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہے.لیکن اگر تم تلخی اٹھا لو گے تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آجاؤ گے اور تم ان راستبازوں کے وارث کئے جاؤ گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے.“ روحانی خزائن جلد 20 الوصیت صفحہ 307 اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور اس کی راہ میں اشاعت اسلام کی خاطر مال خرچ کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نظام وصیت جاری فرمایا اور وصیت کرنے کا یہ طریق فرمایا کہ جو مرد یا عورت نظام وصیت میں شامل ہو وہ یہ وصیت کرے کہ اس کی وفات کے بعد اس کے ترکہ کا دسواں حصہ سلسلہ احمدیہ کے لئے وقف ہوگا جو حضرت مسیح موعود کے فرمان کے مطابق اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام قرآن میں خرچ ہوگا.پھر آپ تحریر فرماتے ہیں

Page 96

78 یہ مت خیال کرو کہ یہ صرف دُور از قیاس با تیں ہیں بلکہ یہ اس قادر کا ارادہ ہے جو زمین و آسماں کا بادشاہ ہے.مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال جمع کیونکر ہوں گے اور ایسی جماعت کیونکر پیدا ہوگی جوایمان داری کے جوش سے یہ مردانہ کام دکھلائے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعد وہ لوگ جن کے سپرد ایسے مال کئے جائیں گے وہ کثرت مال کو دیکھ کر ٹھو کر نہ کھاویں.‘ و روحانی خزائن جلد 20 الوصیت صفحہ 319) چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس ہدایت کی تکمیل میں اور آپ کے قائم کردہ نظام نو کی ایک اینٹ بننے کی خاطر ہزاروں احمدیوں نے وصیتیں کیں اور اشاعت اسلام کی خاطر اپنی جائیدادوں کا دسواں حصہ وقف کیا اور کرتے چلے جارہے ہیں.اس نظام میں شامل ہونا ہر متقی اور صاحب حیثیت مرد عورت کے لئے فرض ہے لیکن ابھی تک ہماری جماعت کی عورتوں پر اس نظام میں شمولیت کی اہمیت پوری طرح واضح نہیں ہوئی ہے.میں نے تمام لجنات کو لکھا ہے کہ وہ مجھے اعداد و شمار بھجوائیں کہ ہر جگہ کتنی احمدی خواتین ہیں اور ان میں سے کتنی موصی ہیں.اب تک صرف ستانوے لجنات کی طرف سے ایسے اعداد وشمار موصول ہوئے ہیں.اور یہ دیکھ کر میری تعجب کی انتہا نہ رہی کہ عورتوں میں وصیت کا معیار صرف ساڑھے گیارہ فیصدی ہے جو بہت ہی کم ہے حالانکہ عورتوں کے لئے مردوں کی نسبت نظام وصیت میں شمولیت زیادہ آسان ہے.ہر شادی شدہ عورت کا مہر ضرور ہوتا ہے.جو اس کی جائیداد ہے اسی طرح ہر عورت کے پاس کچھ نہ کچھ زیور ہوتا ہے.بے شک عورت کی آمد نہیں ہوتی لیکن زیور اور مہر کی صورت میں بہت ہی قلیل تعداد ایسی عورتوں کی ہوگی جن کے پاس جائیداد نہ ہو.اور وہ اس کے دسویں حصے کی وصیت کر سکتی ہیں.ہاں یہ شرط ضرور ساتھ ہے کہ وصیت کرنے والی جہاں تک اس کے لئے ممکن ہے پابند احکام اسلام ہو اور تقویٰ طہارت کے امور میں کوشش کرنے والا ہو اور مسلمان خدا کو ایک جاننے والا ہو اور اس کے رسول پر سچا ایمان لانے والا ہو اور نیز حقوق عباد غصب کرنے والا نہ ہو.جو بہن سچے دل سے اس نظام وصیت میں شامل ہونے کی خواہاں ہوگی اس کی پوری کوشش ہو گی کہ وہ احکام اسلام پر عمل کرنے والی ہو اور بنی نوع انسان سے اچھا سلوک کرنے والی ہو.پس نظام وصیت میں شمولیت کی بہت بڑی برکت یہ بھی ہے کہ صدق دل سے اور ابتغاء مرضات اللہ سے وصیت میں حصہ لینے والی کو اللہ تعالیٰ نیکیوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی توفیق عطا فرماتا ہے.پس اس نوٹ کے ذریعے میں احمدی خواتین کی خدمت میں درخواست کرتی ہوں کہ وہ اپنی اصلاح کی خاطر اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی خاطر نظام وصیت کی ایک اینٹ بنیں اور ان برکات کی حامل ہوں

Page 97

79 جن کا اس نظام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے.حضرت مصلح موعود اپنی جلسہ سالانہ 1947 ء کی تقریر میں فرماتے ہیں.” پس اے دوستو! دنیا کا نیا نظام دین کو مٹا کر بنایا جارہا ہے تم تحریک جدید اور وصیت کے ذریعہ سے اس نظام دین کو قائم رکھتے ہوئے تیاری کرو.مگر جلدی کرو کہ دوڑ میں جو آگے نکل جائے وہی جنتی ہے تم جلد سے جلد وصیت کرو تا کہ جلد سے جلد نظام نو کی تعمیر ہو اور وہ مبارک دن آجائے جبکہ چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا لہرانے لگے اس کے ساتھ ہی میں ان دوستوں کو مبارک باد دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی جو ابھی تک اس نظام وصیت میں داخل نہیں ہوئے توفیق دے کہ وہ بھی اس میں حصہ لے کر دنیوی برکات سے مالا مال ہوسکیں اور دنیا اس نظام سے ایسے رنگ میں فائدہ اٹھائے کہ آخر اسے یہ تسلیم کرنا پڑے کہ قادیان کی وہ ہستی جسے کورد یہ کہا جاتا تھا جسے جہالت کی بستی کہا جاتا تھا اس میں سے وہ نور نکلا جس نے ساری دنیا کی تاریکیوں کو دور کر دیا.جس نے ساری دنیا کی جہالت کو دور کر دیا.جس نے ساری دنیا کے دکھوں اور دردوں کو دور کر دیا اور جس 66 نے ہر امیر غریب ہر چھوٹے اور بڑے کو محبت اور پیار اور الفت با ہمی سے رہنے کی توفیق عطا فرمائی.“ الفضل 5 جون 1948ء) حضرت مصلح موعود کو اللہ تعالیٰ نے یہ بھی الہام فرمایا تھا کہ پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کے ساتھ اسلام کی ترقی وابستہ ہے.اسلام کی ترقی کے لئے ہمیں اپنے ہر کام کو کم از کم پچاس فیصدی کے معیار تک پہنچانا چاہیے یہ کم سے کم معیار ہے.ہر دینی کام میں شمولیت کا.میں اس نوٹ کے ذریعے تمام لبنات اماءاللہ کی عہدیداران کو بھی توجہ دلاتی ہوں کہ وہ اپنے جلسوں میں مستورات کے سامنے نظام وصیت کی اہمیت کو بیان فرما ئیں.الوصیت کا وہ حصہ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس میں شمولیت کی شرائط بیان فرمائیں سنائیں اور بہنوں کو نظام وصیت میں شمولیت کی تحریک کریں اور کوشش کریں کہ ہر لجنہ کی احمدی مستورات کی وصایا کا معیار کم از کم پچاس فیصدی تک پہنچ جائے.نیز اپنی رپورٹیں بھجواتے وقت اس میں یہ بھی ذکر ہو کہ انہوں نے وصیتیں کروانے کے لئے کیا کوشش کی اور اس کا کیا نتیجہ نکلا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق عطا فرمائے کہ اشاعت اسلام کا جو کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شروع فرمایا تھا اور جو درخت آپ نے بویا تھا اور جس کی آب یاری آپ کے خلفاء کرتے چلے آئے ہیں اس کو ہم اپنی قربانیوں کے ذریعہ پروان چڑھائیں اور اسلام کی فتح اور غلبہ کا وہ دن جلد سے جلد طلوع ہو جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا.آمین ثم آمین.الفضل 28 جون 1966 )

Page 98

80 سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کے اپنے اقوال کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت پر وہی قلم اُٹھا سکتا ہے جس نے آپ کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہو اور آپ کا زمانہ پایا ہو.بعد میں آنے والے تو صحابہ کے اقوال یا روایات سے ہی آپ کی سیرت کے متعلق کچھ لکھ سکتے ہیں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کی سیرت کے متعلق وہی باتیں لکھوں جو آپ نے اپنے متعلق خود فرمائی ہیں.اس میں کیا شک ہے کہ آپ کے اپنے منہ سے نکلی ہوئی باتوں سے بڑھ کر اور کیا سند ہو سکتی ہے.پس اس مضمون میں آپ کی سیرت کے متعلق میں نے وہ تمام اقوال یا تحریرات جمع کرنے کی کوشش کی ہے جو خود آپ کے منہ سے نکلے ہوئے ہیں یا آپ کے قلم سے تحریر کردہ ہیں.ایک شبہ کا ازالہ:.مضمون کی تفصیل میں جانے سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس درج کرتی ہوں تا کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ اپنے اوصاف اپنے منہ سے بیان کرنا خودستائی ہے جونا پسندیدہ امر ہے وصف وہی سمجھا جائے گا جو دوسرے بیان کریں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہر انسان کا ایک مقام نہیں ہوتا خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں اور انبیاء کو وہ مقام حاصل ہوتا ہے جب وہ خود اپنی تعریف اور اپنے اخلاق کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں تا دنیا ان سے واقف ہو اور ان کی اتباع کرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.ایک اعتراض ہم پر یہ ہوتا ہے کہ اپنی تعریف کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مطہر اور برگزیدہ قرار دیتے ہیں.اب لوگوں سے کوئی پوچھے کہ خدا تعالیٰ جو امر ہمیں فرماتا ہے کیا ہم اس کی نافرمانی کریں.اگر ان باتوں کا اظہار نہ کریں تو معصیت میں داخل ہوں.قرآن شریف میں آنحضرت ﷺ کی نسبت کیا کیا الفاظ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان میں فرمائے ہیں ان لوگوں کے خیال کے مطابق تو وہ بھی خودستائی ہوگی.خودستائی کرنے والا حق سے دور ہوتا ہے مگر جب خدا تعالیٰ فرمائے تو پھر کیا کیا جائے.یہ اعتراض ان نادانوں کا صرف مجھ پر ہی نہیں ہے بلکہ آدم سے لے کر جس قدر نبی رسول از کیا اور مامور گزرے ہیں سب پر ہے.ذرا غور کرنے سے انسان سمجھ سکتا ہے کہ جسے خدا تعالیٰ مامور کرتا ہے ضرور ہے کہ اس کے لئے اجتباء

Page 99

81 اور اصطفاء ہو اور کچھ نہ کچھ اس میں ضرور خصوصیت چاہئے کہ خدا تعالیٰ کل مخلوق میں سے اسے برگزیدہ کرے.ملفوظات جلد سوم صفحہ 547,546 تعلق باللہ:.کسی انسان کے اخلاق فاضلہ اور سیرت پر نظر ڈالتے ہوئے سب سے پہلے اس کا جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہے وہی ذہن میں آتا ہے.جب ہم آنحضرت ﷺ کے حالات زندگی پڑھتے ہیں تو آپ کی ساری کی ساری زندگی اِنَّ صَلَوتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام: 163) کے گرد گھومتی نظر آتی ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا سب سے بڑا پہلو آپ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل تو کل ہے.اللہ تعالیٰ سے آپ کے تعلق میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سینکڑوں الہامات اور نشانات جو آپ کے لئے ظہور میں آئے پیش کئے جاسکتے ہیں.لیکن جیسا کہ پہلے بھی تحریر کر چکی ہوں اس مضمون میں صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال جوان امور پر روشنی ڈالتے ہیں پیش کر رہی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعلق باللہ اور توکل علی اللہ پر آپ کے ہی الفاظ میں ایک واقعہ گہری روشنی ڈالتا ہے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا بیان ہے 10 جولائی 1899 سے قبل مجھے خوب یاد ہے کہ جس روز ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ صاحب قادیان میں حضرت کے مکان کی تلاشی کے لئے آئے تھے اور قبل از وقت اس کا کوئی پتہ اور خب نہ تھی اور نہ ہوسکتی تھی.اس کی صبح کو کہیں سے ہمارے میر صاحب نے سن لیا کہ آج وارنٹ ہتھکڑی سمیت آویگا.میر صاحب حواس باختہ سر از پا نشناختہ حضرت کو اس کی خبر کرنے اندر دوڑے گئے اور غلبہ رقت کی وجہ سے بعد مشکل اس ناگوار خبر کے منہ سے برقع اتارا حضرت اس وقت نور القرآن لکھ رہے تھے اور بڑا ہی لطیف اور نازک مضمون در پیش تھا سر اٹھا کر اور مسکرا کر فرمایا کہ میر صاحب !لوگ دنیا کی خوشیوں میں چاندی سونے کے کنگن پہنا ہی کرتے ہیں ہم سمجھ لیں گے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں لوہے کے کنگن پہن لئے “ پھر ذرا تامل کے بعد فرمایا.مگر ایسانہ ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ کی اپنی گورنمنٹ کے مصالح ہوتے ہیں وہ اپنے خلفائے مامورین کی ایسی رسوائی پسند نہیں کرتا" از خط حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ملفوظات جلد اول صفحہ 202

Page 100

82 اسی طرح اللہ تعالیٰ کے تعلق اور عشق میں آپ فرماتے ہیں:.ابتلاء کے وقت ہمیں اندیشہ اپنی جماعت کے بعض ضعیف دلوں کا ہوتا ہے میرا تو یہ حال ہے کہ اگر مجھے صاف آواز آوے کہ تو مخذول ہے اور تیری کوئی مراد ہم پوری نہ کریں گے تو مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ اُس عشق اور محبت الہی اور خدمت دین میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی اس لئے کہ میں تو اُسے دیکھ چکا ہوں.“ ملفوظات جلد اول ص 302 اللہ تعالیٰ سے خوف کے متعلق فرماتے ہیں:.رات کے وقت جب ہر طرف خاموشی ہوتی ہے اور ہم اکیلے ہوتے ہیں اس وقت بھی خدا کی یاد میں 66 دل ڈرتا رہتا ہے کہ وہ بے نیاز ہے.ملفوظات جلد اول ص 306 اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی راہ میں سختیاں برداشت کرنے کے متعلق فرماتے ہیں:.میں کہتا ہوں کہ اگر مجھے اس امر کا یقین دلا دیا جاوے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنے اور اس کی اطاعت میں سخت سے سخت سزادی جائے گی تو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری فطرت ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ ان تکلیفوں اور بلاؤں کو ایک لذت اور محبت کے جوش اور شوق کے ساتھ برداشت کرنے کو تیار ہے اور باوجود ایسے یقین کے جو عذاب اور دُکھ کی صورت میں دلایا جاوے کبھی خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری سے ایک قدم باہر نکلنے کو ہزار بلکہ لا انتہاء موت سے بڑھ کر اور دکھوں اور مصائب کا مجموعہ قرار دیتی ہے.جیسے اگر کوئی بادشاہ عام اعلان کرائے کہ اگر کوئی ماں اپنے بچے کو دودھ نہ دے گی تو بادشاہ اس سے خوش ہوکر انعام دے گا تو ایک ماں کبھی گوارا نہیں کر سکتی کہ وہ اس انعام کی خواہش اور لالچ میں اپنے بچے کو ہلاک کرے.اسی طرح ایک سچا مسلمان خدا کے حکم سے باہر ہونا اپنے لئے ہلاکت کا موجب سمجھتا ہے خواہ اس کو اس نافرمانی میں کتنی ہی آسائش اور آرام کا وعدہ دیا جاوے.ملفوظات جلد دوم ص: 134 اللہ تعالیٰ پر آپ کو کس قدر تو کل تھا اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کتنا یقین تھا آپ کے مندرجہ ذیل کلمات سے واضح ہے آپ فرماتے ہیں:.یقین یا درکھو کہ خدا اپنے بندہ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا اور ہر گز نہیں اُٹھائے گا جب تک اس کے ہاتھ " سے وہ باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کے لئے وہ آیا ہے اسے کسی کی خصومت اور کسی کی بددعا کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتی.“ ملفوظات جلد اول ص 200 ایک دن مجلس مسیح موعود علیہ السلام میں تو کل کی بات چل پڑی جس پر آپ نے فرمایا:.

Page 101

83 میں اپنے قلب کی عجیب کیفیت پاتا ہوں جیسے سخت جبس ہوتا اور گرمی کمال شدت کو پہنچ جاتی ہے تو لوگ وثوق سے امید کرتے ہیں کہ اب بارش ہوگی.ایسا ہی جب میں اپنی صندوقچی کو خالی دیکھتا ہوں تو مجھے خدا کے فضل پر یقین واثق ہوتا ہے کہ اب یہ بھرے گی اور ایسا ہی ہوتا ہے.“ اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر فرمایا کہ:.” جب میرا کیسہ خالی ہوتا ہے تو جو ذوق وسرور اللہ تعالیٰ پر توکل کا اس وقت مجھے حاصل ہوتا ہے میں اُس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتا.اور وہ حالت بہت ہی زیادہ راحت بخش اور طمانیت انگیز ہوتی ہے بہ نسبت اس کے کیسہ بھرا ہوا ہو.ملفوظات جلد اول صفحہ 216 اور فرمایا:.اُن دنوں میں جب کہ دنیوی مقدمات کی وجہ سے والد صاحب اور بھائی صاحب طرح طرح کے ہموم و عموم میں مبتلا رہتے تھے وہ بسا اوقات میری حالت دیکھ کر رشک کھاتے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ بڑا ہی خوش نصیب آدمی ہے اس کے نزدیک کوئی غم نہیں آتا.( ملفوظات جلد اول صفحہ 216-217 اللہ تعالیٰ پر توکل کا آپ کے ان جملوں سے کیا عظیم الشان اظہار ہوتا ہے:.مگر میں نے اپنے پر زور نشانوں سے دکھایا ہے اور صاف صاف دکھایا ہے کہ زندہ برکات اور زندہ نشانات صرف اسلام کے لئے ہیں میں نے بے شمار اشتہار دیئے ہیں اور ایک مرتبہ سولہ ہزار اشتہار شائع کئے اب ان لوگوں کے ہاتھ میں بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ جھوٹے مقدمات کئے اور قتل کے الزام دیئے اور اپنی طرف سے ہمارے ذلیل کرنے کے منصوبے گانٹھے مگر عزیز خدا کا بندہ ذلیل کیونکر ہوسکتا ہے جس میں ان لوگوں نے ہماری ذلت چاہی اسی ذلت سے ہمارے لئے عزت نکلی.ڈالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُوتِيهِ مَنْ يَشَآءُ ( الجمعہ: 5).دیکھو اگر کلارک کا مقدمہ نہ ہوتا تو ابراء کا الہام کیونکر پورا ہوتا.“ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 333 اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ:.اللہ تعالیٰ پر آپ کو اتنا بھروسہ تھا کہ آپ کو یقین تھا کہ بغیر مدعا عرض کئے اللہ تعالیٰ آپ کی خواہشات کو پورا فرمائے گا.آپ فرماتے ہیں:.ہم کو تو خدا پر اتنا بھروسہ ہے کہ ہم تو اپنے لئے دعا بھی نہیں کرتے کیونکہ وہ ہمارے حال کو خوب جانتا

Page 102

84 ہے حضرت ابراہیم کو جب کفار نے آگ میں ڈالا تو فرشتوں نے آکر حضرت ابراہیم سے پوچھا کہ آپ کو کوئی حاجت ہے.حضرت ابراہیم نے فرمایا.بَلَى وَلَكِنْ إِلَيْكُمْ لَا ہاں حاجت تو ہے مگر تمہارے آگے پیش کرنے کی کوئی حاجت نہیں.فرشتوں نے کہا اچھا خدا تعالیٰ کے ہی آگے دعا کرو.تو حضرت ابراہیم نے فرمایا عِلْمُهُ مِنْ حَالِيُّ حَسْبِى مِنْ سَوَالِى وہ میرے حال سے ایسا واقف ہے کہ مجھے سوال کرنے کی ضرورت نہیں.“ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 445,444 ہر کام کرتے ہوئے آپ کی نیت یہی ہوتی تھی کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا جلال اور اس کی عظمت ظاہر ہو جب آپ نے اپنے بچوں کی قرآن مجید ختم ہونے پر آمین کی تو اس کی بھی غرض یہی تھی کہ اس ذریعہ سے تبلیغ ہو.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.اللہ تعالیٰ کے مجھے پرلا انتہا فضل اور انعام ہیں اُن کی تحدیث مجھ پر فرض ہے پس میں جب کوئی کام کرتا ہوں تو میری غرض اور نیت اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہار ہوتی ہے.ایسا ہی اس آمین کی تقریب پر بھی ہوا ہے.یہ لڑکے چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کا زندہ نمونہ ہیں اس لئے میں اللہ تعالیٰ کے ان نشانوں کی قدر کرنی فرض سمجھتا ہوں کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور قرآن کریم کی حقانیت اور خود اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت ہیں اس وقت جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی کلام کو پڑھ لیا تو مجھے کہا گیا اس تقریب پر میں چند دعائیہ شعر جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا شکریہ بھی ہولکھ دوں میں جیسا کہ ابھی کہا ہے کہ اصلاح کی فکر میں رہتا ہوں.میں نے اس تقریب کو بہت ہی مبارک سمجھا اور میں نے مناسب جانا کہ اس طرح پر تبلیغ کردوں.ملفوظات جلد دوم صفحہ 390 ) 66 یہ دعائیہ اشعار جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر فرمایا ہے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد اس کے احسانات اس کے جلال اور محبت کے ذکر سے پُر ہیں اور ان کو پڑھ کر انسانی روح وجد میں آکر اللہ تعالیٰ کی حمد کے ترانے گانے لگتی ہیں.چند شعر درج ذیل کرتی ہوں.حمد وثنا ہمسر اُسی کو نہیں جو ذات جاودانی ہے اس کا کوئی نہ کوئی ثانی

Page 103

85 غیروں باقی وہی ہمیشہ غیر اس کے سب ہیں فانی سے دل لگانا جھوٹی ہے سب کہانی سب غیر ہیں وہی ہے اک دل کا یارجانی دل میں میرے یہی ہے سبحان من برانی ہے پاک پاک قدرت عظمت ہے اس کی عظمت لرزاں ہیں اہل قربت کروبیوں ہے عام اس کی رحمت کیونکر ہو شکر نعمت ہم غیروں ہلیت ہیں اس کی صنعت اس سے کرو محبت سے کرنا الفت کب چاہے اس کی غیرت روز کر مبارک سبحان من یرانی ایک دفعہ طاعون کا ذکر ہو رہا ہے حضرت حکیم نورالدین صاحب نے کہا کہ حضور میں نے پڑھا ہے یہ جونئی آبادی بعد میں ہوئی ہے اس میں پرانی آبادیوں کے نشانات ملے ہیں اور یہ لکھا ہے کہ یہ قطعات آباد تھے اور طاعون سے ہلاک ہوئے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.خواہ موذی طبع لوگ ہزاروں ہی مر جاویں مگر میرا جی یہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر ہواور دنیا کو خدا کا پتہ لگے اور ثبوت ملے کہ کوئی قادر خدا بھی موجود ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 429 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت الحب اللہ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعلقات 66 دنیوی بھی خدا تعالیٰ کی خاطر ہی تھے.آپ فرماتے ہیں:.ہم ہر ایک شے سے محض اللہ تعالیٰ کے لئے پیار کرتے ہیں.بیوی ہو، بچے ہوں، دوست ہوں سب سے ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ کے لئے ہے.ملفوظات جلد اوّل صفحہ 311 اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر آپ کو زبر دست ایمان تھا آپ فرماتے ہیں:.ہم اپنے خدا تعالیٰ پر یہ قوی ایمان رکھتے ہیں کہ وہ اپنے صادق بندہ کو کبھی ضائع نہیں کرتا.حضرت ابراہیم کی طرح اگر وہ آگ میں ڈالا جاوے تو وہ آگ اس کو جلا نہیں سکتی.ہمارا مذ ہب یہی ہے کہ ایک آگ نہیں اگر ہزار آگ بھی ہو تو وہ جلا نہیں سکتی.صادق اس میں ڈالا جاوے تو ضرور بچ جاوئے گا.ہم کو اگر اس کام کے مقابلہ میں جوخدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے آگ میں ڈالا جاوئے تو ہمارا یقین ہے کہ

Page 104

86 آگ جلا نہیں سکے گی.اور اگر شیروں کے پنجرہ میں ڈالا جاوئے تو وہ کھا نہیں سکیں گے.میں یقینا کہتا ہوں کہ ہمارا خداوہ خدا نہیں جو اپنے صادق کی مدد نہ کر سکے بلکہ ہمارا خدا قادر خدا ہے جو اپنے بندوں اور اس کے غیروں میں مابہ الامتیا ز رکھ دیتا ہے.ملفوظات جلد دوم صفحہ 218 اسی طرح ایک دفعہ کسی دشمن کا ذکر تھا کہ شر کرے گا اور حضور کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کرے گا.فرمایا:.ہم اس بات سے کب ڈرتے ہیں وہ بے شک کرے بلکہ ہم خوش ہیں کہ وہ ایسا کرے کیونکہ ایسے ہی موقع پر اللہ تعالیٰ ہمارے واسطے نشانات دکھلاتا ہے ہم خوب دیکھ چکے ہیں کہ جب کبھی کسی دشمن نے ہمارے ساتھ بدی کے واسطے منصوبہ کیا.خدا تعالیٰ نے ہمیشہ اس میں سے ایک نشان ہماری تائید میں ظاہر فرمایا.ہمارا بھروسہ خدا پر ہے انسان کچھ چیز نہیں.ملفوظات جلد پنجم صفحہ 62 آنحضرت ﷺ سے محبت و عقیدت:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.بعد از خـدا بـعشــق مـحـمـد مـخـمرم گر کفر این بودبـخـداســخــت کــافــرم جس سے محبت ہوتی ہے اس کے لئے انسان کو غیرت بھی بے انتہا ہوتی ہے.انسان اپنے محبوب کے خلاف بات سننا برداشت نہیں کرتا یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آنحضرت ﷺ کے خلاف تھابات سننا آپ کی طاقت سے باہر تھا.آپ فرماتے ہیں.اگر عیسائی ایک کتاب اسلام پر اعتراض کرنے کی غرض سے لکھتے ہیں تو مسلمانوں کو آزادی کے ساتھ اس کا جواب لکھنے اور عیسائی مذہب کی تردید میں کتابیں لکھنے کا اختیار ہے.میں حلفاً کہتا ہوں کہ جب کوئی ایسی کتاب پر نظر پڑتی ہے تو دنیا اور مافیھا ایک مکھی کے برابر نظر نہیں آتی.میں پوچھتا ہوں کہ جس کو وقت پر جوش نہیں آتا کیا وہ مسلمان ٹھہر سکتا ہے.کسی کے باپ کو برا بھلا کہا جائے تو وہ مرنے مارنے کو تیار ہو جاتا ہے لیکن اگر رسول اللہ ﷺ کوگالیاں دی جائیں تو ان کی رگ حمیت میں جنبش بھی نہ آوے اور پر واہ بھی نہ کریں یہ کیا ایمان ہے؟ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 141-142

Page 105

87 اپنی بعثت کی غرض اور مدعا کے متعلق فرماتے ہیں:.ہمارا اصل منشاء اور مدعا آنحضرت ﷺ کا جلال ظاہر کرتا ہے اور آپ کی عظمت کو قائم کرنا ہمارا ذ کر تو ضمنی ہے اس لئے کہ آنحضرت ﷺ میں جذب اور افاضہ کی قوت ہے اور اسی افاضہ میں ہمارا ذکر ہے.ملفوظات جلد دوم صفحه 200 مولوی محمد احسن صاحب نے ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.اصل میں ہمارا منشاء یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تقدیس ہو اور آپ کی تعریف ہو اور ہماری تعریف اگر ہو تو رسول اللہ ﷺ کے ضمن میں ہو.“ ملفوظات جلد دوم صفحہ 205 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو تعریف الہامات میں اللہ تعالیٰ نے فرمائی ان کو بھی آپ آنحضرت مو کی طرف منسوب کرتے ہیں.یہی جذبہ حقیقی عشق کا جذبہ ہے.عاشق یہی چاہتا ہے کہ جو کچھ اسے حاصل ہو اپنے محبوب کے قدموں پر نچھاور کر دے.یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا.آپ فرماتے ہیں.میں حلفاً کہتا ہوں کہ میرے دل میں اصلی اور حقیقی جوش یہی ہے کہ تمام محامد اور مناقب اور تمام صفات جمیلہ آنحضرت ﷺ کی طرف رجوع کروں میری تمام تر خوشی اسی میں ہے اور میری بعثت کی اصل غرض یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید اور رسول ﷺ کی عزت دنیا میں قائم ہو.میں یقیناً جانتا ہوں کہ میری نسبت جس قدر تعریفی کلمات اور تجہیدی باتیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں یہ بھی درحقیقت آنحضرت ہی کی طرف راجع ہیں اس لئے کہ میں آپ کا ہی غلام ہوں.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 215 66 اسی طرح آپ فرماتے ہیں.کم فہم لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ میں اپنے مدارج کو حد سے بڑھاتا ہوں میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری طبیعت اور فطرت میں ہی یہ بات نہیں کہ میں اپنے آپ کو کسی تعریف کا خواہش مند پاؤں اور اپنی عظمت کے اظہار سے خوش ہوں.میں ہمیشہ انکساری اور گمنامی کی زندگی پسند کرتا ہوں.لیکن یہ میرے اختیار اور طاقت سے باہر تھا کہ خدا تعالیٰ نے خود مجھے باہر نکالا اور جس قدر میری تعریف اور بزرگی کا اظہار اس نے اپنے پاک کلام میں جو مجھ پر نازل کیا گیا ہے.کیا یہ ساری تعریف اور بزرگی ساری آنحضرت ﷺ ہی کی ہے.ملفوظات جلد سوم صفحہ 9 66 حرمات اللہ کی بہتک برداشت کرنا آپ کی طاقت سے باہر تھا.آپ فرماتے ہیں

Page 106

88 ” میری جائیداد کا تباہ ہونا اور میرے بچوں کا آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے ہونا مجھ پر آسان ہے بہ نسبت دین کی ہتک اور استخفاف کے دیکھنے اور اس پر صبر کرنے کے.ملفوظات جلد اول صفحہ 302 حقوق العباد کی ادائیگی:.حقوق العباد کی ادائیگی اسلام کا دوسرا مضبوط استون ہے اور مذہب اسلام کی بنیا دا نہی دوستونوں پر ہے یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مسلمانوں کی صفات رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کے الفاظ سے فرماتا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر شفقت کرنے والے ایک دوسرے سے محبت رکھنے والے ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت اور صفت رحیمیت کے کامل مظہر آنحضرت تھے جن کو قرآن مجید میں رَؤُفٌ رَّحِیم کے الفاظ سے یاد کیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی مجسم رحم تھے اپنے دوستوں کے لئے دشمنوں کے لئے ہر ایک کا دکھ آپ کا اپنا دکھ تھا.آپ فرماتے ہیں.”ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو اور خدا تعالیٰ کی کل مخلوق سے ملفوظات جلد اول صفحہ 304 احسان کرو.“ اسی طرح فرماتے ہیں:.میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جائے تو میں تو یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جائے اگر تم کچھ بھی اس کے لئے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو.“ اپنے تو در کنار میں تو یہ کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرولا ابالی مزاج ہر گز نہیں ہونا چاہیے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 305 ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.ایک مرتبہ میں باہر سیر کو جا رہا تھا ایک پٹواری عبدالکریم میرے ساتھ تھاوہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے راستہ میں ایک بڑھیا کوئی 70-75 برس کی ضعیفہ ملی اس نے ایک خط اسے پڑھنے کو کہا مگر اس نے اس کو جھڑکیاں دے کر ہٹا دیا میرے دل پر چوٹ سی لگی اس نے وہ خط مجھے دیا میں اس کو لے کر ٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا اس پر پٹواری کو بہت شرمندہ ہونا پڑا کیونکہ ٹھہر نا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا.ملفوظات جلد اوّل صفحہ 305

Page 107

اسی طرح فرماتے ہیں:.میں اپنے دل میں مخلوق کی ہمدردی اور بھلائی کے لئے ایک جوش رکھتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے میرے " دل میں ڈالا ہے.ملفوظات جلد چہارم ص 129 مخالفین سے ہمدردی:.آپ کی یہ ہمدردی صرف اپنوں اور عزیزوں کے ساتھ ہی نہ تھی بلکہ ان مخالفین کے ساتھ بھی جو آپ کو کا فرقرار دیتے تھے اور آپ کو گالیاں دیتے نہ تھکتے تھے آپ کا سلوک محبت کا تھا آپ فرماتے ہیں.”ہم تیار ہیں کہ ہمارے مخالف ہمارے ساتھ صلح کر لیں میرے پاس ایک تھیلہ ان گالیوں سے بھرے ہوئے کاغذات کا پڑا ہے ایک نیا کاغذ آیا تھا وہ بھی آج میں نے اس میں داخل کر دیا ہے مگر ان سب کو ہم جانے دیتے ہیں.اپنی جماعت کے ساتھ اگر چہ میری ہمدردی خاص ہے مگر میں سب کے ساتھ ہمدردی کرتا ہوں اور مخالفین کے ساتھ بھی میری ہمدردی ہے جیسا کہ ایک حکیم تریاق کا پیالہ مریض کو دیتا ہے کہ وہ شفا پاوے مگر مریض غصہ میں آکر اس پیالہ کوتوڑ دیتا ہے تو حکیم اس پر افسوس کرتا ہے اور رحم کرتا ہے ہمارے قلم سے مخالف کے حق میں جو کچھ الفاظ سخت نکلتے ہیں وہ محض نیک نیتی سے نکلتے ہیں جیسے ماں بچہ کو کبھی سخت الفاظ بولتی ہے مگر اس کا دل درد سے بھرا ہوا ہوتا ہے.ملفوظات جلد اوّل صفحہ 454 1901ء میں ایک عیسائی منشی عبد الحق قادیان حق کی تلاش میں آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کئی بار ملے اور مختلف مسائل پر گفتگو کی اور بتایا کہ میں نے جب قادیان آنے کا ارادہ کیا تو ایک عیسائی سے ذکر کیا تو اس نے آپ کو گالی دی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سن کر فرمایا.گالیاں دیتے ہیں اس کی تو مجھے پرواہ نہیں ہے بہت سے خطوط گالیوں کے آتے ہیں جن کا مجھے محصول بھی دینا پڑتا ہے اور کھولتا ہوں تو گالیاں ہوتی ہیں اشتہاروں میں گالیاں دی جاتی ہیں اور اب تو کھلے لفافوں پر گالیاں لکھ کر بھیجتے ہیں مگر ان باتوں سے کیا ہوتا ہے اور خدا کا نور کہیں بجھ سکتا ہے.ہمیشہ نبیوں راستبازوں کے ساتھ ناشکروں نے یہی سلوک کیا ہم جس کے نقش قدم پر آئے ہیں مسیح ناصری اس کے ساتھ کیا ہوا اور ہمارے نبی ﷺ کے ساتھ کیا ہوا اب تک نا پاک طبع لوگ گالیاں دیتے ہیں میں تو بنی نوع انسان کا حقیقی خیر خواہ ہوں جو مجھے دشمن سمجھتا ہے وہ خود اپنی جان کا دشمن ہے.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 91)

Page 108

اسی طرح آپ فرماتے ہیں.سُنے بھی.“ اور میں حلفاً کہتا ہوں کہ میں تو اپنے دشمن کا بھی سب سے بڑھ کر خیر خواہ ہوں کوئی میری باتوں کو ملفوظات جلد دوم صفحہ 103 کے آپ نے لاہور کے ایک بشپ کو مقابلہ کی دعوت دی لیکن اس نے دعوت قبول نہ کی بلکہ راہ فرار اختیار کی اس پر آپ نے فرمایا.دیکھولا ہور کے بشپ صاحب نے لاہور میں بڑے اہم مضامین پر لیکچر دیئے اور اپنی قرآن دانی اور حدیث دانی کے ثبوت کے لئے بڑی کوشش کی لیکن اسے ہم نے دعوت دی تو باوجود یکہ پایونیر نے بھی اس کو شرمندگی دلائی مگر وہ صرف یہ کہہ کر کہ ہمارا دشمن ہے مقابلہ سے بھاگ گیا.ہم کو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بشپ صاحب تو مسیح کی تعلیم کا کامل نمونہ ہونا چاہیے تھا اور اپنے دشمنوں کو پیار کرو پر ان کا پورا عمل ہوتا اگر میں ان کا دشمن بھی ہوتا حالانکہ میں سچ کہتا ہوں اور خدا کی قسم کہا کر کہتا ہوں کہ نوع انسان کا سب سے بڑھ کر خیر خواہ اور دوست میں ہوں.“ ملفوظات جلد دوم صفحه 143 لله دشمن کی عزت پر بھی حملہ کرنا آپ کو نا پسند تھا چنا نچہ آپ فرماتے ہیں:.د قتل کے مقدمہ میں ہمارے ایک مخالف گواہ کی وقعت کو عدالت میں کم کرنے کی نیت سے ہمارے وکیل نے چاہا کہ اس کی ماں کا نام دریافت کرے مگر میں نے اسے روکا اور کہا کہ ایسا سوال نہ کرو جس کا جواب وہ مطلق دے ہی نہ سکے اور ایسا داغ ہر گز نہ لگاؤ جس سے اسے مفر نہ ہو.حالانکہ ان ہی لوگوں نے میرے پر جھوٹے الزام لگائے.جھوٹا مقدمہ بنایا.افتراء باند ھے اور قتل اور قید میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا.میری عزت پر کیا کیا حملہ کر چکے ہوئے تھے اب بتلاؤ کہ میرے پر کون سا خوف ایسا طاری تھا کہ میں نے اپنے وکیل کو ایسا کرنے سے روک دیا.صرف بات یہ تھی کہ میں اس بات پر قائم ہوں کہ کسی پر ایسا حملہ نہ ہو کہ واقعی طور پر اس کے دل کو صدمہ دے اور اسے کوئی راہ مفر کی نہ ہو.“ ایک مخلص خادم نے عرض کی کہ حضور میرا دل تو اب بھی خفا ہوتا ہے کہ یہ سوال کیوں اس پر نہ کیا گیا.آپ نے فرمایا کہ ”میرے دل نے گوارا نہ کیا“ اس نے پھر کہا یہ سوال ضرور ہونا چاہئے تھا آپ نے فرمایا 66 خدا نے دل ہی ایسا بنایا ہے تو بتلاؤ میں کیا کروں.ملفوظات جلد سوم صفحہ 59

Page 109

صبر مقتل : اخلاق فاضلہ میں سے ایک خلق محمل ہے.لوگوں کو برا بھلا کہنے یا گالیوں سے آپ کے نفس میں جوش لوگوں کی گالیوں سے ہمارا نفس جوش میں نہیں آتا.“ نہیں آتا تھا آپ فرماتے ہیں اسی طرح آپ فرماتے ہیں ملفوظات جلد اوّل صفحہ 6 میں اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھر میرے سامنے میرے نفس کو گندی سے گندی گالی دیتار ہے آخر وہی شرمندہ ہوگا اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا.“ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 302 اللہ تعالیٰ کا آپ کے متعلق الہام تھا يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ وَيَأْتُونَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيق دور دراز سے لوگ آپ کے پاس آتے تھے لیکن ان سے ملنے اور باتیں کرنے سے بالکل نہ گھبراتے تھے.آپ کی طبیعت ان کی کثرت سے بالکل اکتائی نہ تھی آپ فرماتے ہیں.” خدا تعالیٰ نے فرمایا کی فوج در فوج لوگ تیرے پاس آئیں گے يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيق دور دراز سے تیرے پاس لوگ آئیں گے اور تحائف لائیں گے.پھر یہ بھی کہا کہ لوگوں سے تھکنا مت.اب کوئی سوچے اور دیکھے کہ خدا تعالیٰ کے یہ وعدے کس طرح پورے ہوئے.ان فہرستوں کو گورنمنٹ کے پاس دیکھ لے جو آنے والے مہمانوں کی مرتب ہو کر ہفتہ وار جاتی ہیں اور ڈاک خانہ اور ریل کے رجسٹروں کی پڑتال کرے جس سے پتہ لگے گا کہ کہاں کہاں سے تحائف اور روپیہ آرہا ہے اور قادیان میں بیٹھ کر دیکھیں کہ کس قدر ہجوم اور انبوہ مخلوق کا ہوتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی طرف سے بشارت اور قوت نہ ملے تو انسان تھک جاوے اور ملاقاتوں سے گھبرا اٹھے اس نے یہ الہام کیا کہ گھبرانا نہ.ویسے ہی قوت بھی عطا کی کہ گھبراہٹ ہوتی ہی نہیں.ملفوضات جلد سوم صفحہ 13,12 مہمان نوازی:.ایک اعلیٰ درجہ کا خلق مہمان نوازی ہے.حضرت خدیجہ نے بھی آنحضرت ﷺ کی تعریف

Page 110

تقری الضیف کے الفاظ سے فرمائی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آنحضرت ﷺ کی کامل تابعداری کے لحاظ سے بہت مہمان نواز تھے اور باہر سے ہر آنے والے کے آرام کا خیال فرماتے تھے منشی عبد الحق ایک حق جو عیسائی قادیان برائے تحقیقات آئے.آپ نے ان سے باتیں کرتے ہوئے فرمایا.آپ ہمارے مہمان ہیں اور مہمان وہی آرام پا سکتا ہے جو بے تکلف ہو پس آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو مجھے بلا تکلف کہہ دیں پھر جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دیکھو یہ ہمارے مہمان ہیں اور تم میں سے ہر ایک کو مناسب ہے کہ ان سے پورے اخلاق سے پیش آوے اور کوشش کرتا رہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.“ یہ کہہ کر آپ گھر تشریف لے گئے.ملفوظات جلد دوم صفحه 80 ایک ہند و فقیر کوٹ کپورہ سے آیا ہوا تھا حضرت اقدس نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ یہ ہمارا مہمان ہے اس کے کھانے کا انتظام بہت جلد کر دینا چاہئے.چنانچہ ایک شخص کو حکم دیا گیا اور وہ ایک ہندو کے گھر اس کو کھانا کھلانے لے گیا.ملفوظات جلد دوم صفحہ 315 بعد نماز مغرب حضرت اقدس حسب معمول جلوس فرما ہوئے تو میر صاحب نے عبد الصمد صاحب آمدہ از کشمیر کو آگے بلا کر حضور کے قدموں کے نزدیک جگہ دی اور حضرت اقدس سے عرض کی کہ ان کو یہاں ایک تکلیف ہے کہ یہ چاولوں کے عادی ہیں اور یہاں روٹی ملتی ہے.حضرت اقدس نے فرمایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِين وص : 87 ہمارے مہمانوں میں سے جو تکلف کرتا ہے اسے تکلیف ہوتی ہے اس لئے جو ضرورت ہو کہ دیا کرو پھر آپ نے حکم دیا کہ ان کے لئے چاول پکوا دیا کرو.ملفوظات جلد دوم صفحہ 482 25 دسمبر 1903 شام کے وقت بہت سے احباب بیرونجات سے آئے ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میاں نجم الدین صاحب مہتم لنگر خانہ کو بلوا کرتا کید فرمایا کہ.دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الا کرام جان کر تو اضع کر وسردی کا موسم ہے چائے پلا ؤ اور کسی کو تکلیف نہ ہو تم پر میرا حسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو ان سب کی خوب خدمت کرو اگر کسی کو گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کر دو.ملفوظات جلد سوم صفحہ 492

Page 111

93 ایک مقدمہ کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور تشریف فرماتھے آپ نے منتظمین آر باورچی خانہ کو تاکید کی کہ " آج کل موسم بھی خراب ہے اور جس قدر لوگ آئے ہوئے ہیں یہ سب مہمان ہیں اور مہمان کا اکرام کرنا چاہیے اس لئے کھانے وغیرہ کا انتظام عمدہ ہوا گر کوئی دودھ مانگے تو دودھ دو چائے مانگے تو چائے دو کوئی بیمار ہو تو اس کے موافق الگ کھانا اسے پکا دو.ملفوظات جلد سوم صفحہ 415-416 انکساری:.اعلیٰ درجہ کے اخلاق میں سے ایک خلق انکساری تذلیل کا اختیار کرنا اور تکبر سے بچنا ہے اللہ تعالیٰ تکبر کونا پسند فرماتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرماتا ہے إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُتَكَبِرِينَ ابلیس تکبر اختیار کرنے کی ہی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے جناب سے راندہ درگاہ ہوا.اس عیب کو لوگوں سے دور کرنا آپ نے اپنا فرض سمجھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں دولت مندوں میں نخوت ہے مگر آج کل کے علماء میں اس سے بڑھ کر ہے اُن کا تکبر ایک دیوار کی طرح ان کی راہ میں رکاوٹ ہے میں اس دیوار کو توڑنا چاہتا ہوں.جب یہ دیوار ٹوٹ جاوے گی تو وہ انکسار کے ساتھ آویں گے.ملفوظات جلد اوّل صفحہ 6 اسی طرح آپ فرماتے ہیں ہم نے جو مخالفین پر بعض جگہ سختی کی ہے وہ ان کے تکبر کو دور کرنے کے واسطے ہے وہ سخت باتوں کا جواب نہیں بلکہ علاج کے طور پر کڑوی دوائی ہے.اَلْحَقُّ مُر " ملفوظات جلد اول صفحہ 5 قناعت:.،، قناعت کا ہونا ایک اعلیٰ درجہ کا اسلامی خلق ہے.قناعت کے ساتھ آپ میں بھوک کی برداشت کا جذ بہ انتہائی طور پر پایا جاتا تھا آپ فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کھانے کے متعلق میں اپنے نفس میں اتنا تحمل پاتا ہوں کہ ایک پیسہ پر دودو وقت بڑے آرام سے بسر کر سکتا ہوں.ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ انسان کہاں تک بھوک کی برداشت کر سکتا ہے اس امتحان کے لئے چھ ماہ تک میں نے کچھ نہ کھایا کبھی کوئی ایک آدھ لقمہ کھالیا اور چھ ماہ کے بعد میں نے اندازہ کیا کہ چھ سال تک بھی یہ حالت لمبی کی جاسکتی ہے.اس اثناء میں

Page 112

94 دو وقت کھانا گھر سے برابر آتا تھا اور مجھے اپنی حالت کا اخفاء منظور تھا.اس اخفاء کی تدابیر کے لئے جو زحمت اٹھانی پڑتی تھی شاید وہ زحمت اور وں کو بھوک سے نہ ہوتی ہوگی میں وہ دو وقت کی روٹی دو تمین مسکینوں میں تقسیم کر دیتا اس حال میں نماز پانچوں وقت مسجد میں پڑھتا اور کوئی میرے آشناؤں میں سے کسی نشان سے پہچان نہ سکا کہ میں کچھ نہیں کھایا کرتا.( ملفوظات اوّل صفحہ 303,302 کام میں حد درجہ مصروفیت :.کام سے آپ بالکل نہ تھکتے تھے.دن اور رات اسلام کی خدمت میں منہمک رہتے تھے.آپ فرماتے ہیں یہ وقت بھی ایک قسم کے جہاد کا ہے.میں رات کے تین تین بجے تک جاگتا ہوں اس لئے ہر ایک کو چاہئے کہ اس میں حصہ لے اور دینی ضرورتوں اور دینی کاموں میں دن رات ایک کر دے.“ ملفوظات جلد دوم صفحه 510 البدر جلد اوّل نمبر 8 کی ڈائری میں درج ہے.11 دسمبر 1902ء بروز پنجشنبه بکثرت مضمون نویسی اور کاپی وغیرہ دیکھنے میں جو تکلیف انسان کو ہوتی ہے اس کو مد نظر رکھ کر ایک خادم نے (ظہر کے وقت ) اس تکلیف میں حضور کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا جس پر حضرت اقدس نے فرمایا.بدن تو تکلیف کے واسطے ہے اور کس لئے ہے.ملفوظات جلد دوم صفحہ 572 اسی طرح 15 جنوری 1903 کو فرمایا.رات تین بجے تک جاگتا رہا تو کا پیاں اور پروف صحیح ہوئے.مولوی عبدالکریم صاحب کی طبیعت علیل تھی وہ بھی جاگتے رہے وہ اس وقت تشریف نہیں لاسکیں گے.یہ بھی ایک جہاد ہی تھا.رات کو انسان کو جاگنے کا اتفاق تو ہوا کرتا ہے مگر کیا خوش وہ وقت ہے جو خدا کے کام میں گزارے.“ پھر فرمایا کہ.”میرے اعضاء تو بے شک تھک جاتے ہیں مگر دل نہیں تھکتا وہ چاہتا ہے کہ کام کئے جاؤ“ آپ کو فارغ رہنا بالکل پسند نہ تھا فرماتے ہیں.ملفوظات جلد دوم صفحه 691 فراغت میرے واسطے مرض ہے.ایک دن بھی فارغ رہوں تو بے چین ہو جاتا ہوں اس لئے ایک کتاب شروع کر دی ہے جس کا نام ”حقیقت دعا رکھا ہے.“ ملفوظات جلد سوم صفحہ 171

Page 113

95 شہرت سے نفرت :.با وجود اس کے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مامور فرمایا ساری دنیا کی اصلاح کا کام آپ کے سپرد کیا.آپ کو طبعا شہرت سے نفرت تھی.آپ خلوت میں رہ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کی خدمت کرنا پسند کرتے تھے.آپ اس وقت تک خلوت سے باہر نہ آئے جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نکلنے پر مجبور نہ فرمایا.مخالفین نے آپ کی مخالفت میں فحش تقریریں لکھیں تو آپ نے فرمایا.اگر میری اپنی مرضی پر ہوتا تو میں تخلیہ کو بہت پسند کرتا تھا.مگر میں کیا کر سکتا تھا جب کہ خدا تعالیٰ نے ہی ایسا پسند کیا.یہ مقابلہ کریں مگر دیکھ لیں گے کہ خدا کے ساتھ کوئی جنگ نہیں کر سکتا.“ ملفوظات جلد دوم صفحہ 158 آپ شہرت نا پسند فرماتے تھے ایک صاحب نے عرض کی کہ حضور نے جہلم تاریخ مقدمہ پر جانا ہے اگر اجازت ہو تو اشتہار دے دیا جائے تا کہ ہر ایک اسٹیشن پر لوگ زیارت کے لئے آجائیں.آپ نے فرمایا.جو ہمیں ملنے والے ہیں وہ تو اکثر آتے جاتے رہتے ہیں اور جولوگ جماعت میں داخل نہیں ہیں ان کے لئے سردر وخریدنے سے کیا فائدہ؟ میری طبیعت کے یہ امر بر خلاف ہے.اگر وہ اہل ہوتے تو خود یہاں آتے.“ ملفوظات جلد دوم صفحہ 619 اسی طرح آپ نے فرمایا.کم فہم لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ میں اپنے مدارج کو حد سے بڑھاتا ہوں.میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری طبیعت اور فطرت میں ہی یہ بات نہیں کہ میں اپنے آپ کو کسی تعریف کا خواہش مند پاؤں اور اپنی عظمت کے اظہار سے خوش ہوں.میں ہمیشہ انکساری اور گمنامی کی زندگی پسند کرتا ہوں لیکن یہ میرے اختیار اور طاقت سے باہر تھا کہ خدا تعالیٰ نے خود مجھے باہر نکالا.ملفوظات جلد سوم صفحہ 9 حضرت اقدس خلوت کو بہت پسند فرماتے تھے اس بارہ میں فرمایا :.اگر خدا تعالیٰ مجھے اختیا ر دے کہ خلوت اور جلوت میں سے تو کس کو پسند کرتا ہے تو اس پاک ذات کی قسم ہے کہ میں خلوت کو اختیار کروں مجھے تو کشاں کشاں میدان عالم میں اسی نے نکالا ہے.جولذت مجھے خلوت میں آتی ہے اس سے بجز خدا تعالیٰ کے کون واقف ہے میں

Page 114

96 قریب 25 سال تک خلوت میں بیٹھا رہا ہوں اور کبھی ایک لحظہ کیلئے بھی نہیں چاہا کہ دربار شہرت میں کرسی پر بیٹھوں.“ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 310-311 آپ نے گوشہ نشینی خدا تعالیٰ کے حکم اور بار بار ارشاد فرمانے پر چھوڑی.آپ فرماتے ہیں:.”خدا تعالیٰ نے مجھ پر جبر کر کے اس سے مجھے باہر نکالا.میری ہرگز مرضی نہ تھی.مگر اس نے میری خلاف مرضی کیا کیونکہ وہ ایک کام لینا چاہتا تھا اسی کام کے لئے اس نے مجھے پسند کیا اور اپنے فضل سے مجھ کو اس عہدہ جلیلہ پر مامور فرمایا.یہ اسی کا اپنا انتخاب اور کام ہے میرا اس میں کچھ دخل نہیں.میں تو دیکھتا ہوں کہ میری طبیعت اس طرح واقع ہوئی ہے کہ شہرت اور جماعت سے کوسوں بھاگتی ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ کس طرح شہرت کی آرزور رکھتے ہیں.ملفوظات جلد چہارم صفحہ 3-34) سادہ زندگی:.آپ کی زندگی بہت سادہ تھی تکلفات سے نفرت تھی.غذا بہت کم اور سادہ تھی.لباس بھی بہت سادہ تھا.ایک ذکر پر آپ نے فرمایا:.ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرا ہے کہ میں نے گوشت کامنہ نہیں دیکھا ہے اکثر مسی روٹی (بینی) یا اچار اور دال کے ساتھ کھالیتا ہوں آج بھی اچار کے ساتھ روٹی کھائی ہے.ملفوظات جلد سوم صفحہ 200 اس کا یہ نہیں مطلب کہ آپ کو دنیاوی نعمتیں میسر نہ تھیں اللہ تعالیٰ کا آپ سے وعدہ تھا کہ يَأْتِيكَ مِنْ كُلّ فَجٍّ عَمِيقٍ.دور دراز ملکوں تک سے تحائف آپ کے پاس پہنچے اور آپ ان زندہ نشانات پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالائے.یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی رضا کی خاطر آپ انتہائی طور پر سادہ تھے اور آپ کی توجہ لذات دنیا کی طرف نہیں تھی بلکہ خدا کا جلال اور اس کی شان بلند کرنے کی طرف لگی ہوئی تھی.اور آپ اپنے وقت کے ایک لمحہ کا ضائع ہونا پسند نہ فرماتے تھے.فرماتے ہیں:.”میرا تو یہ حال ہے کہ پاخانہ پیشاب پر بھی مجھے افسوس آتا ہے کہ اتنا وقت ضائع ہو جاتا ہے یہ بھی کسی دینی کام میں لگ جائے.کوئی مشغولی اور تصرف جو دینی کاموں میں حارج ہو اور وقت کا کوئی حصہ لے.مجھے سخت ناگوار ہے اور فرمایا.جب کوئی دینی ضروری کام آپڑے تو میں اپنے اوپر کھانا پینا اور سونا حرام کر لیتا ہوں.جب تک وہ کام نہ ہو جائے فرمایا ! ہم دین کے لئے ہیں اور دین کی خاطر زندگی بسر کرتے ہیں.بس دین کی راہ میں ہمیں کوئی روک نہ ہونی چاہئے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 309-310

Page 115

طبیعت میں نرمی :.طبیعت میں نرمی بہت تھی.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سر میں درد تھا.اردگرد سے بچوں اور عورتوں کے شور کی آوازیں آرہی تھیں.مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کی کہ جناب کو اس شور سے تکلیف تو نہیں ہوتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ”ہاں اگر چُپ ہو جائیں تو آرام ملتا ہے.“ اس پر مولوی عبدالکریم صاحب نے عرض کیا کہ کہ پھر حضور کیوں حکم نہیں دیتے کہ شور نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.” آپ ان کو نرمی سے کہہ دیں میں تو نہیں کہہ سکتا.ملفوظات جلد اوّل صفحہ 308 نوکروں سے حسن سلوک فرماتے تھے ان کے قصوروں پر درگزر کرتے ان کے قصوروں سے ستاری فرماتے تھے.ایک خادمہ نے گھر سے چاول چرائے اور پکڑی گئی.گھر کے سب لوگوں نے اسے ملامت کی.اتفاقاً اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اُدھر تشریف لے آئے.واقعہ سن کر فرمایا:.محتاج ہے کچھ تھوڑے سے اُسے دے دو اور فضیحت نہ کرو.خدا تعالیٰ کی ستاری کا شیوہ اختیار کرو.“ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 308 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے خادم حامد علی کو اپنی ڈاک ڈاک خانہ میں ڈالنے کے لئے دی.حامد علی صاحب بھول گئے ایک ہفتہ کے بعد کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر سے وہ ڈاک ملی آپ نے حامد علی صاحب کو بلا کر نرمی سے صرف اتنا فرمایا:.”حامد علی تمہیں نسیان بہت ہو گیا ہے فکر سے کام کیا کرو.ملفوظات جلد اوّل صفحہ 302 سائل کو رڈ نہ فرماتے تھے.ایک روز آپ نماز سے فارغ ہو کر اندر گھر میں تشریف لے جارہے تھے.ایک سائل کی آواز سنی جو پوری طرح سمجھ نہ آئی.اندر جا کر واپس تشریف لائے.احباب سے سائل کو تلاش کرنے کو کہا اس وقت وہ نہ ملا مگر شام کو پھر آیا تو آپ نے اسے کچھ دیا.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے کسی موقع پر فرمایا:.اُس دن جو وہ سائل نہ ملا میرے دل پر ایسا بوجھ تھا کہ جس نے مجھے سخت بے قرار کر رکھا تھا اور میں ڈرتا تھا کہ مجھ سے معصیت سرزد ہوئی ہے کہ میں نے سائل کی طرف دھیان نہ کیا اور یوں جلدی اندر چلا گیا.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ شام کو واپس آ گیا ورنہ خدا جانے میں کس اضطراب میں پڑا رہتا اور میں نے دعا بھی کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اسے واپس لائے.ملفوظات جلد اول صفحہ 303 کے.“

Page 116

98 دوستوں سے محبت :.ہیں:.اپنی جماعت کے دوستوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت محبت فرماتے تھے.آپ فرماتے اصل بات یہ ہے کہ ہمارے دوستوں کا تعلق ہمارے ساتھ اعضاء کی طرح سے ہے اور یہ بات ہمارے روز مرہ کے تجربہ میں آتی ہے کہ ایک چھوٹے سے چھوٹے عضو مثلا انگلی ہی میں درد ہو تو سارا بدن بے چین اور بے قرار ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ٹھیک اسی طرح ہر وقت اور ہر آن میں ہمیشہ اسی خیال اور فکر میں رہتا ہوں کہ میرے دوست ہر قسم کے آرام و آسائش سے رہیں.یہ ہمدردی اور یہ غمخواری کسی تکلف اور بناوٹ کی رُو سے نہیں بلکہ جس طرح والدہ اپنے بچوں میں سے ہر واحد کے آرام و آسائش کے فکر میں مستغرق رہتی ہے خواہ وہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں اسی طرح میں للهی دلسوزی اور غمخواری اپنے دل میں اپنے دوستوں کے لئے پاتا ہوں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 66 اسی ہمدردی اور غم خواری کے جذبہ کے تحت آپ اپنے دوستوں کی خدمت میں بھی لگے رہتے تھے اور ان کے لئے دعا ئیں بھی بکثرت فرماتے تھے.ایک دفعہ مولوی عبدالکریم صاحب نئے مکان میں ایک چار پائی پڑی تھی جس پر سورہے تھے وہاں حضور علیہ السلام ٹہل رہے تھے.تھوڑی دیر بعد جاگے تو دیکھا کہ حضور علیہ السلام فرش پر چار پائی کے نیچے لیے ہوئے ہیں.مولوی صاحب ادب سے اُٹھ کھڑے ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محبت سے پوچھا کہ کیوں اُٹھ بیٹھے؟ انہوں نے پاس ادب کا غذر کیا اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا لڑکے شور کرتے تھے انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 310 آوے.“ ایک دفعہ آپ نے فرمایا:.”میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص یک دفعہ مجھ سے عہد دوستی باند ھے مجھے اس عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے میں اس سے قطع نہیں کر سکتا ہاں اگر وہ خود قطع تعلق کر دے تو ہم لاچار ہیں.“ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 311 احباب کی خدمت کے لئے گھر میں ادو یہ بھی رکھا کرتے تھے تا جس کو ضرورت ہو اس کے کام

Page 117

99 آجائے.ایک صاحب کے دانت میں درد تھا اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کار بار ایک بوٹی) منگوائی تھی وہ اندر مکان میں تھی جناب میر صاحب نے کہا کہ ان کے دانت میں درد ہے.حضرت اقدس " نے فرمایا کہ:.میں ابھی جا کر وہ سب بوٹی لا دیتا ہوں.“ مریض نے کہا حضور کو زحمت ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر تبسم فرمایا اور کہا کہ یہ کیا تکلیف ہے !! اور اسی وقت اندر جا کر حضور وہ رومال لے آئے جس میں وہ بوٹی تھی اور مریض کے حوالہ کی.ملفوظات جلد دوم صفحہ 583 دیہات کی عورتیں اکثر بچوں کیلئے دوائیاں لینے آیا کرتی تھیں اس پر مولوی عبدالکریم صاحب نے عرض کیا حضرت یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح حضور کا قیمتی وقت ضائع جاتا ہے.اس کے جواب میں حضور نے فرمایا:.یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے.یہ مسکین لوگ ہیں یہاں کوئی ہسپتال نہیں میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی ، دوائیں منگوا رکھا کرتا ہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں.یہ بڑا ثواب کا کام ہے 66 مومن کو ان کاموں میں سُست اور بے پرواہ نہ ہونا چاہئے.ملفوظات جلد اوّل صفحہ 308 دعاؤں پر زور :.دُعا ئیں تو آپ اپنی جماعت کے لئے بہت ہی فرماتے تھے جیسا کہ اوپر کے ایک حوالہ میں بھی ذکر ہے.ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا:.چلتا.”میں نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ میں دعا کے ساتھ اپنی جماعت کی مدد کروں.دعا کے بغیر کام نہیں ملفوظات جلد اوّل صفحہ 452 پھر فرماتے ہیں:.میں اپنے دوستوں کیلئے پنجوقتہ نمازوں میں دعا کرتا ہوں اور میں تو سب کو ایک سمجھتا ہوں.“ ملفوظات جلد دوم صفحه 506 ہر مشکل کے وقت دعا پر آپ کا ایمان تھا اور یہی آپ کا دستور تھا آپ خود فرماتے ہیں:.جو بات ہماری سمجھ میں نہ آوے یا کوئی مشکل پیش آوے تو ہمارا طریق یہ ہے کہ ہم تمام فکر کو چھوڑ کر

Page 118

100 صرف دعا میں اور تفرع میں مصروف ہو جاتے ہیں.تب وہ بات حل ہو جاتی ہے.“ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 542 لوگوں کی مخالفتوں اور شرارتوں سے آپ کبھی مرعوب نہیں ہوئے کہ اب کیا ہوگا.آپ فرماتے ہیں:.کوئی معاملہ زمین پر واقع نہیں ہوتا جب تک پہلے آسمان پر طے نہ ہو جائے اور خدا تعالیٰ کے ارادہ " کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا.اور وہ اپنے بندہ کو ذلیل اور ضائع نہیں کرے گا.ملفوظات جلد اول صفحہ 302کھ غرض کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اخلاق و اطوار اور سیرت کے لحاظ سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل اور حسن و احسان میں آپ کے نظیر تھے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ (الفضل 28 جولائی 1966)

Page 119

101 پردہ میں بے پردگی میری تحریر کا عنوان دیکھ کر بہت سی بہنیں چونک اٹھیں ہوں گی کہ اس کا کیا مطلب؟ پردہ میں بے پردگی کیسی؟ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پردہ کرنے والی خواتین میں سے ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو پردہ کرنے کے باوجود بے پردہ کہلانے کا مستحق ہے.پردہ کی اصل روح برقعہ نہیں.بلکہ یہ ہے کہ ایسے رنگ میں پردہ کیا جائے.جس سے عورت کا چہرہ اور اس کا جسم صنف غیر کی نظروں سے پوشیدہ رہے.اس کی زینت ظاہر نہ ہو.سوائے ان لوگوں کے جن کے سامنے زینت ظاہر کرنے کی اجازت قرآن مجید دیتا ہے.میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ایک طبقہ خواتین کا ایسا ہے جو ظاہر میں تو پردہ کرتی ہیں.مگر حقیقت میں ان کو با پر وہ خواتین نہیں کہا جاسکتا.اس ذیل میں مندرجہ ذیل خواتین آتی ہیں.ہو جانا.(1) برقعہ تو پہنا لیکن نقاب چہرہ پر نہ ڈالنا.(2) کسی مجلس میں برقعہ پہن کر چلے جانا لیکن نقاب پیچھے پھینک کر یا برقعہ اتار کر مردوں کے سامنے (3) اگر وہ مجلس دعوت کا رنگ رکھتی ہے تو بیروں کے سامنے ہو جانا.نوکروں مثلاً باور چی، بیرے، دھوبی، مالی ، سقہ، جمعدار اور ڈرائیور وغیرہ سے پردہ نہ کرنا.(4) یو نیورسٹی میں پڑھنے والی طالبات کا گھر سے برقعہ پہن کر جانا اور یو نیورسٹی میں پر فیسروں اور یونیورسٹی میں پڑھنے والا طلباء سے پردہ نہ کرنا.(5) بازار سے سودا خریدتے ہوئے دکانداروں سے پردہ نہ کرنا.(6) ایسے رشتے داوں کے سامنے ہونا جن سے پردہ کرنا ہے.(7) اتنا تنگ برقعہ پہننا کہ جسم کا ایک ایک عضو نظر آئے یا برقعہ ایسا مزین کرنا کہ خواہ مخواہ نظریں اس پر پڑیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید اس سلسلہ میں کیا روشنی ڈالتا ہے.کیا قرآن مجید کے نزدیک نوکروں، دکانداروں، بیروں وغیرہ کے سامنے ہونا جائز ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں.وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا

Page 120

ر 102 لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْا بَاءِ هِنَّ أَوْ بَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ هِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ.(النور: 32) ترجمہ: اور مومن عورتوں سے کہدے کہ وہ بھی اپنی آنکھیں نیچے رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کیا کریں.سوائے اس کے جو آپ ہی آپ بے اختیار ظاہر ہو.اور اپنی اوڑھنیوں کو اپنے سینہ پر سے گزار کر اور اس کو ڈھانک کر پہنا کریں.اور اپنی زینتوں کو صرف اپنے خاوندوں یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی (ہم کفو ) عورتوں جن کے مالک ان کے داہنے ہاتھ ہوئے ہیں ان کے سوا کسی پر نہ ظاہر کیا کریں.یا ایسے ماتحت مردوں پر جو ابھی جواں نہیں ہوئے یا ایسے بچوں پر جن کو ابھی عورتوں کے خاص تعلقات کا علم حاصل نہیں ہوا.اس آیت میں تفصیلی احکام موجود ہیں کہ کس سے پردہ ہونا چاہئے اور کس سے نہیں.غور سے یہ آیت پڑھنے سے مندرجہ ذیل نتائج کا علم ہوتا ہے.(1) عورت کے لئے گھروں میں بھی اور مجلسوں میں سینہ کو اپنی اوڑھنی یا ڈوپٹہ سے ڈھانکنا ضروری ہے.آج کل کے فیشن کی طرح نہیں کہ ایک دو انگلی کی پٹی وی (V) کی شکل میں ڈال لی یا ڈوپٹہ کو رسہ کی طرح بٹ کر گلے میں لٹکا لیا.یہ اس تمدن اور مثالی معاشرہ کے خلاف ہے.جس معاشرہ کا تصور اسلام پیش کرتا ہے.موجودہ دور کی تہذیب نقالی ہے دجالیت کی.دجالیت کا فتنہ وہ عظیم الشان فتنہ تھا جس کی پیشگوئیاں تمام انبیاء کرتے چلے آئے تھے.جس فتنہ سے بچنے کی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دعا سکھائی تھی کہ : صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتحه : 7) الہی وہ گمراہ ہو گئے جنہوں نے تیرا راستہ جو صراط مستقیم تھا چھوڑ دیا.ہم کبھی ان کے نقش قدم پر چلنے والے نہ ہوں بلکہ ان کے سایہ تک سے دور بھاگنے والے ہوں.مگر ہو کیا رہا ہے.اسلام کے علمبرداروں کی عورتیں اور بچیاں پانچوں وقت دعا تو ضرور مانگتی ہیں لیکن نقل کرتی ہیں دجالیت کی.کیا اس صورت میں اسلامی معاشرہ پنپ سکتا ہے؟ اسلام کو ترقی حاصل ہوسکتی ہے.(۲) صرف اتنی ہی زینت ظاہر کرنے کی اجازت جو خود بخود ظاہر ہو جائے اس پر ہمارا اختیار

Page 121

103.مثلاً قد ہے، موٹا پا یا دبلا پن ہے.برقعہ پہنے اور صحیح طور پر پردہ کرنے کے باوجود قد چھپایا نہیں جاسکتا.دیکھنے والے کو یہ ضرور پتہ لگ جائے کہ عورت لمبی ہے یا چھوٹے قد کی.اس طرح یہ بھی برقعہ کے با وجود ظاہر ہو جائے گا کہ عورت کا جسم موٹا ہے یاد بلا.کتنا ہی کھلا برقعہ پہنود بلا پن یا موٹا پا ظاہر ہو جاتا ہے.لیکن اس کا مطلب وہ ہر گز نہیں جو آج کل ہو رہا ہے اتنے تنگ برقعے سلوائے جارہے ہیں کہ گردن سے پنڈلیوں تک کے جسم کا ہر سائزہ نمایاں ہو جاتا ہے برقعہ تو پہنا جاتا ہے لباس اور جسم چھپانے کے لئے زینت کو مخفی رکھنے کے لئے اگر برقعہ بھی تنگ ہو جائے کہ اس میں جسم کا ہر عضو نظر آ جائے.تو برقعہ کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے.نقاب اتنی چھوٹی بنائی جاتی ہے کہ سینہ، کمر ، چوٹی سب نظر آ رہی ہوتی ہے.اسی طرح نقاب یا برقعہ کو ایسا لکش فیتے جھالریں وغیرہ لگا کر بنایا جاتا ہے کہ خواہ مخواہ ایک مرد کی نظر اس برقعہ کی دلکشی پر ٹھہرتی ہے.بہر حال ان باتوں سے گریز کرنا چاہئے اور برقعہ کو پردہ کی خاطر پہنا چاہئے نہ کہ کسی اور مقصد کے لئے.اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ زینت کا اظہار عورت صرف مندرجہ ذیل کے سامنے کر سکتی ہے یعنی ان کے سامنے بغیر پردے کے اچھے کپڑے زیور وغیرہ پہن کر آسکتی ہے.خاوند ، باپ، خسر ، بیٹے ، خاوندوں کے بیٹے ، بھائی ، بھتیجے، بھانجے ، شریف عورتیں ، گھر کے پلے ہوئے نوکر ، وہ چھوٹے لڑکے جو بطور نوکر کے رکھے ہوں.ابھی جوان نہ ہوئے ہوں یا چھوٹی عمر کے بچے.اس فہرست میں کہیں یونیورسٹی کے پروفیسروں، طلباء، دکانداروں ، بیروں ، ڈرائیوروں کا ذکر نہیں، نوکروں سے بھی پردہ ہے وہ نوکر جو شروع سے گھر میں پلا ہو اسی گھر میں جوان ہوا ہو.اس کے سامنے ہوا جا سکتا ہے مگر آج کل کیا حال ہے.ایک باورچی آیا دو ماہ رہ کر چلا گیا نیا آ گیا.ایک بیرہ آیا پندرہ دن بعد استعفیٰ دے دیا.ایک ڈرائیور آیا تھوڑا عرصہ نوکری کی استعفیٰ دے دیا.آج ایک سے پردہ ٹوٹا ہے.کل دوسرے نوکر سے پرسوں تیسرے سے، حد بندی کوئی نہیں رہی نہ ہی حجاب باقی رہ جاتا ہے.نوکر لڑکوں میں سے بھی ان کے سامنے آنے کی اجازت ہے.جو ابھی چھوٹے ہوں اور جوان نہیں ہوئے.وہ خواتین یا لڑکیاں جو ایسی حرکات کی مرتکب ہو رہی ہیں.اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر ٹھنڈے دل سے غور کریں.تو وہ ضرور اس نتیجہ پر پہنچیں گی کہ ان کے افعال نہ صرف شریعت کی خلاف ورزی کر رہے ہیں بلکہ اپنی سوسائٹی اور احمدیت کے لئے ننگ کا باعث ہے.اس لئے ضروری ہے کہ معاشرہ کی اصلاح کی طرف توجہ کی جائے.اور خواتین اور بچیوں کو صحیح اسلامی مسائل سے آگاہ کیا جائے.تا کہ وہ غلط نہی میں مبتلا رہ کر کہ ہم تو

Page 122

104 پردہ کر رہی ہیں.پردہ میں بے پردگی کا باعث نہ بنیں.جماعت کی ذمہ دار ہستیوں، لجنات کی عہدیداروں اور بچیوں کے ماں باپ اور عورتوں کے خاوندوں کو اس امر کی نگرانی کرتے رہنا چاہئے کہ پردہ حقیقی رنگ میں کیا جا رہا ہے یا نہیں.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُول عن رعيه ( صحیح بخاری کتاب الجمعہ ) تم میں سے ہر شخص ایک گڈریے کی حیثیت رکھتا ہے جس سے اس کے گلے کے متعلق سوال قیامت کے دن کیا جائے گا.ہرلڑکی کی ماں اور باپ، ہر عورت کا خاوند ، ہر بہن کا بھائی ، ہر لجنہ کی صدر جواب دہ ہوگی خدا تعالیٰ کے حضور که اسلامی شریعت کی خلاف ورزی کرنے والی عورتوں اور بچیوں کے لئے تم نے کیا کیا.مجھے تو کبھی سمجھ میں نہیں آئی کہ ماں باپ کی اگر صحیح نگرانی ہو تو بیٹی پردہ کیسے چھوڑ سکتی ہے یا پردہ سے بے پرواہی کس طرح اختیار کر سکتی ہے.یا ایسالباس یا برقعہ کس طرح پہن سکتی ہے.جو ہماری تہذیب، تمدن اور شریعت کے منافی ہو.قریب سارا دن ایک لڑکی اپنے ماں باپ کے سامنے رہتی ہے.ان سے چوری کچھ نہیں کرتی.جو کام کرتی ہے ان کی مرضی سے کرتی ہے.اس لئے بچی سے زیادہ ماں باپ قصور وار ہیں کیونکہ وہ ذمہ دار ہیں اپنی بچیوں کی تربیت کے.اور اگر کوئی شادی شدہ عورت صحیح رنگ میں پردہ نہیں کرتی تو اس کا خاوند ذمہ دار ہیں.اگر لڑکیوں کو احساس ہو.اگر ہم نے کوئی فعل قرآن مجید کی تعلیم اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات کے خلاف کیا تو ہمارے ماں باپ اتنی غیرت رکھتے ہیں کہ ہمیں سخت سزا دیں گے تو وہ کبھی بھی فعل خلاف شریعت کرنے کی جرات ہی نہیں کر سکتیں.پھر صرف یہی جذبہ نہ ہو کہ ماں باپ کے ڈر سے ایک کام نہ کیا.بلکہ ماں باپ کا فرض ہے کہ بچیوں کے دلوں میں بچپن سے اللہ تعالیٰ کی محبت ، آنحضرت ﷺ کی محبت اور آپ کے لئے غیرت، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی اطاعت کا جذبہ پیدا کریں.قرآن سے ان کو عشق ہو.اس کو پڑھیں، سمجھیں اور اس پر عمل کریں.جب کسی کام کو کرتے ہوئے ان کے علم میں آئے کہ یہ قرآن کی تعلیم کے خلاف ہے.اس بات کو آنحضرت ﷺ نے نا پسند فرمایا ہے تو ایک سچی مسلمان لڑکی یا عورت سے ممکن ہی کیسے ہے کہ وہ یہ کام کرنے کی جرات بھی کرے.جان بوجھ کر انسان زہر کبھی نہیں کھاتا.جان بوجھ کر انسان سانپ کے بل میں ہاتھ نہیں ڈالتا.پس ضرورت ہے کہ اپنی بچیوں کو دین کا علم اچھی طرح سکھایا جائے.شریعت کے مسائل سے آگاہ کیا جائے اور یہ کام اگر ایک طرف ماں

Page 123

105 باپ کے ذمہ ہے تو دوسری طرف ہمارے مرکزی تعلیمی اداروں اور لجنات کی عہدیداروں کے بھی ذمہ ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فرائض اور ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہم صرف منہ سے مسلمان کہلانے والیاں نہ ہوں بلکہ حقیقی مسلمان ہوں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا تھا کہ گر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی.“ الازھار لذوات الخمار صفحہ 381) بظاہر دیکھنے میں کیا آسان بات اور خوشکن امر نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں بہت مشکل ہے.باون سال حضرت مصلح موعود عورتوں کی اصلاح اور بہبودی میں لگے رہے.اور آپ کی ساری کوشش یہی تھی کہ عورتیں قرآن مجید کے علم سیکھیں.قرآن پڑھیں اور پڑھائیں اور اپنی زندگیاں اس کے مطابق ڈھالیں.ان کی گودوں سے جو بچے پروان چڑھیں گے ان کی دینی تعلیم اور تربیت دینی ان کو پھر مشکل نہ ہوگی.کیونکہ وہ خود دین سے آگاہ ہوں گی.مگر افسوس کہ یہ مقام ابھی ہم اپنی غفلتوں سے حاصل نہیں کرسکیں.اب حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی عورتوں کو بھی تحریک کی ہے کہ ہر عورت کو قرآن آتا ہو.جب ہر عورت نے قرآن پڑھا ہوا ہوگا، اس کا مطلب اسے آتا ہوگا ، سارے مسائل سے واقف ہوگی.کیا کرنا ہے؟ کیا نہیں کرنا ؟ تو کبھی بھی غلط راستے پر پڑ نہیں سکتی.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطاء فرمائے کہ ہم قرآن پر خود عمل کرنے والیاں ہوں اور جو اسلامی شریعت سے ہٹ کر غلط راستے پر چلنے والیاں ہوں ان کی ہدایت کا موجب ہم بن سکیں.آمین اللہم آمین مصباح اگست 1966 ء

Page 124

106 تعلیم نسواں کے متعلق حضرت مصلح موعود کا نظریہ علم انسان کی روح کی غذا ہے.علم سے ہی انسان کی انسانیت کے جو ہر کھلتے ہو اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کر کے اس کی روحانی تشنگی بجھانے کے لئے اسے علم عطا فرمایا.جب کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَعَلَّمَ ادَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا (البقرة:32) اس سے ظاہر ہے کہ تمام علوم کی ابتداء الہام کے ذریعہ ہوتی ہے.اس آیت کی تفسیر فرماتے ہوئے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں.پہلی چیز جس کی بنیاد انسان کی پیدائش کے بعد رکھی گئی وہ علم ہے.اور جس طرح خدا تعالیٰ نے ساری چیزیں ابتداء میں خود بنائی ہیں اور پھر ان کی ترقی انسان کے سپرد کی ہے اس طرح علم کی بنیاد خدا تعالیٰ نے خود کھی اور اس کی ترقی انسان کے سپرد کر دی.جیسے پہلا آدم خدا تعالیٰ نے خود بنایا آگے ترقی انسانوں کے سپرد کردی.پہلے آگ اللہ تعالیٰ نے پیدا کی پھر اس کا قائم رکھنا انسان کے سپرد کر دیا.اس طرح تمام اشیاء کی ابتداء خدا تعالیٰ نے خود قائم کی اور انہیں آگے ترقی انسان نے دی.یہی حال علم کا ہے.پہلے علم خدا تعالیٰ نے دیا آگے اس میں ترقی انسان کرتے گئے.اسے بڑھاتے گئے اور ہم برابر ابتداء سے اب تک دیکھتے چلے آتے ہیں کہ انسان علم میں ترقی کرتا جارہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ لوگ اس قسم کے بھی موجود ہوتے ہیں جو علوم کی قدر نہیں کرتے اور ایسے وجود بھی ابتداء سے ہی چلے آئے ہیں.ایسے وجودوں کا نام ابلیس رکھا گیا ہے یعنی نا اُمیدی میں مبتلا رہنے والا.درحقیقت اُمید ہی تمام علوم کو بڑھانے اور ترقی دینے والی ہوتی ہے اور جتنی زیادہ اُمید ہوتی ہے اتنی ہی زیادہ علوم میں ترقی کی جاسکتی ہے.“ پس جب ابتداء سے انسان کی عظمت اور ترقی آدم سے مشابہ ہونے یعنی علم حاصل کرنے پر ہے اور علم سے مایوس ہونا ابلیس بننا ہے تو سمجھ لو انسان کے لئے کس قدر ضروری ہے کہ علم حاصل کرے.دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کے معنے علم اور کفر کے معنے جہالت ہیں.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی جگہ جہالت کا لفظ کفر کے معنوں میں استعمال فرمایا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.مَنْ لَّمْ يَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِهِ فَقَدْ مَاتَ مِيْتَةَ الْجَاهِلِيَّةِ (كنز العمال جلد 3 ص: 200)

Page 125

107 کہ جو اپنے زمانہ کے امام کو نہیں پہچانتا وہ کفر کی موت مرتا ہے.پس ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ خود علم سیکھے اور علم پھیلانے کی کوشش کرے اور جس طرح مسلمان کے لفظ سے مرد مخاطب ہیں اسی طرح عورتیں بھی ہیں.“ الفضل 21 مارچ 1925ء جلد 12 نمبر 154) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق کہ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلى كُلِّ مُسْلِمٍ (سنن ابن ماجہ کتاب المقدمه ) ہر مسلمان مرد اور عورت کے لئے علم حاصل کرنا فرض ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت احمدیہ کی خواتین کی تعلیم کے لئے از حد کوشش کی.جب اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت خلیفتہ اسیح الثانی مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو قادیان میں بچیوں کے لئے صرف ایک پرائمری سکول جاری تھا.جس میں تھیں چالیس تک طالبات کی تعداد تھی.آپ نے خلیفہ ہوتے ہی عورتوں کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ فرمائی.پرائمری سکول سے مڈل سکول ہوا.مڈل سکول ہائی سکول بنا.ہجرت کے وقت قادیان میں دو زنانہ سکول تھے.ایک ہائی اور ایک مڈل.ہائی سکول کے ساتھ بچیوں کی اعلیٰ دینی تعلیم کے لئے بھی ایک دینیات کالج جاری فرمایا اور عورتوں کی تعلیم کے لئے 17 / مارچ 1925 ء کو آپ نے ایک مدرستہ الخواتین جاری فرمایا جس میں آپ خود بھی پڑھایا کرتے تھے.یہ مدرسہ اس غرض سے جاری کیا گیا تھا تا جماعت کی مستورات دینی و دنیوی علوم کے زیور سے آراستہ ہو کر جماعت کی بچیوں کی تعلیم وتربیت میں حصہ لے سکیں.چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں:.عورتوں کی تعلیم سے مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی خاص دلچسپی ہے.میں نے اس کی وجہ سے لوگوں کے اعتراضات بھی سنے ہیں اور اختلافی آراء بھی سنی ہیں لیکن پھر بھی پورے یقین کے ساتھ اس رائے پر قائم ہوں کہ عورتوں کی تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی.جب جماعت احمدیہ کا انتظام میرے ہاتھ میں آیا اس وقت قادیان میں عورتوں کا صرف پرائمری سکول تھا لیکن میں نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو قرآن کریم اور عربی کی تعلیم دی اور انہیں تحریک کی کہ مقامی عورتوں کو قرآن کریم کا ترجمہ اور حدیث وغیرہ پڑھائیں.میں نے اپنی ایک بیوی کو خصوصیت کے ساتھ اس لئے تیار کیا اور میرا خیال تھا کہ وہ اپنی تعلیمی ترقی کے ساتھ دوسری عورتوں کو فائدہ پہنچائیں گی لیکن خدا کی مشیت تھی کہ میرے سفر ولایت سے واپسی پر وہ فوت ہو گئیں.مصباح 15 اکتوبر 1931ء) اس قتباس سے ظاہر ہے کہ حضرت مصلح موعود کے نزدیک عورتوں کا تعلیم حاصل کرنا قومی ترقی کے

Page 126

108 لئے بہت ہی ضروری تھا.آپ کی ذاتی دلچسپی کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ہجرت کے بعد بھی جبکہ سارا ملک ایک بحران میں سے گزر رہا تھا جماعت پر بھی بہت بڑا مالی بوجھ تھا لیکن ربوہ کے آباد ہوتے ہی یہاں لڑکیوں کا سکول جاری کر دیا گیا.اور کچھ عرصہ گزرنے کے بعد 1951ء میں لڑکیوں کا کالج بھی جاری کر دیا گیا جو آج خدا تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کے تمام زنانہ کالجوں کے مقابلہ میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے.جہاں حضرت مصلح موعود نے عورتوں کے لئے سکول اور کالج جاری فرمائے تا ان کی ذہنی نشو ونما ہوان کی صلاحیتیں اُجاگر ہوں.وہ قومی نظام کا ایک کارآمد پرزہ بن سکیں اردو لکھنا پڑھنا اس لئے سیکھیں تا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کر سکیں وہ انگریزی بولنا اور پڑھنا اس لئے سیکھیں تا اسلام کو ان خواتین کے سامنے پیش کر سکیں جو انگریزی بولتی اور بجھتی ہیں.وہاں کبھی بھی آپ کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم محض ڈگریاں لینے کے لئے ہو یا نوکریاں کرنے کے لئے بلکہ بار بار آپ نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں اس کو واضح فرمایا کہ علم سے مراد دینی علم ہے.قرآن مجید کا علم ہے.آپ فرماتے ہیں:.اس کے بعد میں تمہیں توجہ دلاتا ہوں کہ سب سے ضروری تعلیم دینی تعلیم ہے کس طرح سمجھاؤں کہ تمہیں اس طرف توجہ پیدا ہو.اس زمانے میں خدا تعالیٰ کا مامور آیا اور اس نے چالیس سال تک متواتر خدا کی باتیں سُنا کر ایسی خشیت الہی پیدا کی کہ مردوں میں کئی نے غوث، قطب، ولی، صدیق اور صلحاء کا درجہ حاصل کیا.ان میں سے کئی ہیں جو اپنے رتبہ کے لحاظ سے کوئی تو ابو بکر اور کوئی عثمان، کوئی علی کوئی زبیر کوئی طلحہ ہے تم میں سے بھی اکثر کو اس نے مخاطب کیا اور انہیں خدا کی باتیں سنائیں اور ان کی بھی اس طرح تربیت کی مگر تب بھی وہ اس رتبہ کو حاصل نہ کر سکیں.اس کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایک صدیقی وجود کو کھڑا کیا مگر اس سے بھی وہ رنگ پیدا نہ ہوا.پھر خدا نے مجھے اس مقام پر کھڑا کیا اور پندرہ سال سے متواتر درس اور اکثر وعظ و نصائح اور لیکچر میں دین کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں اور ہمیشہ یہی میری کوشش رہی ہے کہ عورتیں ترقی پائیں مگر پھر بھی ان میں وہ روح پیدا نہ ہوسکی جس کی مجھے خواہش تھی.........پچھلے دنوں میں نے یہاں کی عورتوں سے ایک سوال کیا تھا کہ تم کسی ایک عورت کا بھی نام بتاؤ جس نے قرآن کریم پر غور کر کے اس کے کسی نکتہ کو معلوم کیا ہو.....اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ تم قرآن کو قرآن کر کے نہیں پڑھتیں اور نہیں خیال کرتیں کہ اس کے اندر علم ہے.فوائد ہیں حکمت ہے بلکہ صرف خدائی کتاب سمجھ کر پڑھتی ہو کہ اس کا پڑھنا فرض ہے.اس لئے اس کی معرفت کا دروازہ تم پر بند ہے.دیکھو قرآن خدا کی کتاب ہے.اور اپنے اندرعلوم رکھتا ہے.

Page 127

109 قرآن اس لئے نہیں کہ پڑھنے سے جنت ملے گی.اور نہ پڑھنے سے دوزخ بلکہ فرمایا کہ فی ذکرکم اس میں تمہاری روحانی ترقی اور علوم کے سامان ہیں.قرآن ٹو نہ نہیں.یہ اپنے اندر حکمت اور علوم رکھتا ہے جب تک اس کی معرفت حاصل نہ کرو گی.قرآن کریم تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.تم میں سے سینکڑوں ہوں گی جنہوں نے کسی نہ کسی سچائی کا اظہار کیا ہوگا.لیکن اگر پوچھا جائے کہ تمہارے اس علم کا ماخذ کیا ہے تو وہ ہرگز ہرگز قرآن کو پیش نہ کریں گی بلکہ ان کی معلومات کا ذریعہ کتا بیں، رسائل، ناول یا کسی مصنف کی تصنیف ہوں گی اور غالباً ہماری جماعت کی عورتوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب ہوگی تم سے کوئی ایک بھی یہ نہ کہے گی کہ میں نے فلاں بات قرآن پر غور کرنے کے نتیجہ میں معلوم کی ہے.کتنا بڑا اندھیرا ہے کہ قرآن جو دنیا میں اپنے اندر خزا نے رکھتا ہے اور سب بنی نوع انسان کے لئے یکساں ہے اس سے تم اس قدر لا علم ہو.اگر قرآن کا دروازہ تم پر بند ہے تو تم سے کس بات کی توقع ہو سکتی ہے؟“ الازھار لذوات الخمار صفحہ 225,224 حضرت مصلح موعود کی تقریر کا یہ اقتباس ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے دل میں ایک آگ لگی ہوئی تھی کہ احمد یہ خواتین اور بچیوں میں قرآن مجید کا فہم ہو.وہ قرآن مجید ترجمہ سے پڑھیں.سمجھیں اور اس کے نور کی شمع سے دوسری خواتین کو منور کریں.ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں بارہا اپنی تقریروں میں آپ نے اس امر کا اظہار فرمایا کہ اصل علم دین کا علم ہے.لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کی یہ غرض نہیں کہ بچیاں صرف حساب، انگریزی اور دوسرے علوم سیکھ کر ڈگریاں لے لیں یا نوکریاں کریں بلکہ اعلیٰ تعلیم سے مُراد یہ ہے کہ جہاں دنیوی تعلیم حاصل کریں وہاں ساتھ ساتھ قرآن مجید کا علم حدیث کا علم سیکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پر عبور حاصل ہو.ہر مسئلہ کے متعلق صحیح علم ہو.تا جہاں اپنی جماعت کی بچیوں کی صحیح رنگ میں تعلیم و تربیت کر سکیں.وہاں دوسری خواتین کے لئے ہدایت و اصلاح کا موجب بنیں.جہاں آپ نے سر توڑ کوشش اس لئے کی کہ جماعت کی ایک بچی بھی جاہل نہ رہ جائے.لوگوں نے آپ کی مخالفت کی مگر آپ برابر جماعت میں بچیوں کے والدین کو ان کی تعلیم کی طرف توجہ دلاتے رہے.اور ان کی تعلیم کا انتظام کرتے رہے.آپ نے اس امر سے تنفر کا اظہار فرمایا کہ جب تعلیم عام ہوئی تو بچیوں کے والدین بجائے اس کے دینی علم کی طرف توجہ دیتے ان کو ڈگریاں دلوانے میں فخر محسوس کرنے لگ پڑے.آپ نے جلسہ سالانہ 1933ء میں خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.میں نہیں سمجھتا کہ سکندر یا تیمور کو ملک فتح کرنے کا اتنا شوق ہوگا جتنا کہ آج کل کے ماں باپ

Page 128

110 لڑکیوں کو اعلیٰ ڈگریاں دلانے کے شائق ہیں.یہ ایک فیشن ہو گیا ہے جو انگریزوں کی ریس اور تقلید میں ہے.اور اس فیشن کی رو جنون کی حد تک پہنچ چکی ہے....پہلے جنون تھا جہالت کا اور اب جنون ہے موجودہ طریق تعلیم کا.حالانکہ یہ بھی ایک جہالت ہے...آج کل عورتوں میں ڈگریاں پانے کا جنون پیدا ہورہا ہے.وہ بجھتی ہیں کہ ہم مہذب نہیں کہلا سکتیں جب تک کہ کوئی علمی ڈگری ہمارے پاس نہ ہو مگر یہ ان کی جہالت کا ثبوت ہے.میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ اپنی جماعت کی عورتوں کو جہاں تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دوں وہاں یہ بھی بتاؤں کہ کتنی تعلیم اور کیسی تعلیم الازھار لذوات الخمار صفحہ 283) حاصل کرنی چاہئے.پھر آپ نے فرمایا:.ایک عورت ہے جو اپنی عمر کو ریاضی کے مسئلے سیکھنے میں گزار دے اور بچوں کی تربیت اور خانہ داری کے فرائض کو چھوڑ دے تو اسے عقلمند یا علم سیکھنے والی کون کہے گا.مرد تو علم سیکھنے کے لئے مجبور ہے کیونکہ اس نے روزی پیدا کرنی ہے.مگر عورت کو ریاضی کے سوال حل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ علم نہیں یہ جہالت ہے.“ الازهار لذوات الخمار صفحہ: 284 تعلیم عام ہونے کے ساتھ جب لڑکیوں میں ڈگریاں لینے کا شوق پیدا ہو گیا اور دینی تعلیم سے بے تو جمہگی ہوئی تو آپ نے عورتوں کو بار بار اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ تمہارا مقصد دینی تعلیم حاصل کرنا ہونا چاہئے تا کہ دین کی اشاعت میں تمہارا حصہ ہو.جب شادی ہو تو اولاد کی صحیح رنگ میں تربیت ہو.آپ نے ان کو قرآن مجید پڑھنے یا احادیث پڑھنے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کی طرف توجہ دلائی اور ساتھ ہی ان کے فرائض کی طرف بھی کہ اگر لڑ کی ڈگری حاصل کرلے اور امور خانہ داری سے ناواقف ہو تو ایسی تعلیم کا کیا فائدہ.آپ نے فرمایا: عورتوں کا کام ہے گھر کا انتظام اور بچوں کی پرورش.مگر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ دوسرے کی چیز کو اچھی جانتے ہیں اور اپنی شے پسند نہیں کرتے.اس لئے یورپ کی عورتوں کی ریس کر کے ہماری مسلمان قوم اپنی لڑکیوں کو ڈگریاں دلانا چاہتی ہے.حالانکہ عورت گھر کی سلطنت کی ایک مالکہ ہے اور ایک فوجی محکمہ کی گویا افسر ہے.کیونکہ اس نے پرورش اولا د کرنی ہے.مصباح 15 جنوری 1934ء﴾ آپ نے عورتوں پر اپنی مختلف تقاریر میں واضح کیا کہ قوم اور ملت کو فائدہ پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ دین کا علم حاصل کیا جائے اور ڈگریوں کے پیچھے نہ پڑا جائے بہت کم عورتیں خدمت دین اور تبلیغ اسلام کرتی ہیں.آپ فرماتے ہیں:.

Page 129

111 پس خدا اور رسول کی باتیں سنو.حضرت صاحب کی کتابیں پڑھو.ناولوں اور رسالوں کے پڑھنے کی فرصت مل جاتی ہے.لیکن دینی کتابوں کے لئے وقت نہیں ملتا.کتنی شرم کی بات ہے کہ اب انگریز تو مسلمان ہو کر اُردو سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت صاحب کی کتابیں پڑھیں مگر ہماری عورتیں اُردو نہیں سیکھتیں.اور اگر کچھ شد بد پڑھ لیتی ہیں تو ناول پڑھنے شروع کر دیتی ہیں.علم دین سیکھو.قرآن پڑھو.حدیث پڑھو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں علم و حکمت کی باتیں لکھی ہیں ان سے مفید علم سیکھو.بی اے، ایم اے کی ڈگریاں لینی دین کے لئے مفید نہیں.“ میں کہتا ہوں بی اے ، ایم اے ہو کر کیا کرو گی ؟“ میں اپنی جماعت کی عورتوں کو کہتا ہوں کہ دین سیکھو.اور روحانی علم حاصل کرو.حضرت رابعہ بصری یا حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس ڈگریاں نہیں تھیں.دیکھو حضرت عائشہؓ نے علم دین سیکھا اور وہ نصف دین کی مالک ہیں.مسئلہ نبوت میں جب ہمیں ایک حدیث کی ضرورت ہوئی تو ہم کہتے ہیں کہ جاؤ عائشہ سے سیکھو.اقتباس از تقریر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی جلسہ سالانہ 1933ء ہمیں اپنے کالج اسکول چلانے کے لئے استانیوں یا ہسپتالوں میں کام کرنے کے لئے لیڈی ڈاکٹروں کی یقیناً ضرورت تھی تا جماعت کے جاری کردہ ادارے کامیابی سے چل سکیں.اور احمدی بچیوں کو احمدی معلمات میسر آسکیں.لیکن ایک خاص حد تک معلمات اور لیڈی ڈاکٹروں کی بھی ضرورت ہوتی ہے.ہر لڑکی ڈگری لے کر نہ معلمہ بن سکتی ہے نہ لیڈی ڈاکٹر.اس لئے آپ نے جماعت کی عورتوں اور بچیوں کی توجہ اس طرف مبذول کروائی کہ جس حد تک ہمیں ضرورت ہے اتنی لڑکیاں یا خواتین بے شک ڈگریاں حاصل کریں.ایم.اے کر لیں لیکن ہرلڑکی کو ڈگریاں لینے کی بجائے ان علوم کو سیکھنے کی ضرورت ہے جس سے وہ ہمارے معاشرہ کے لئے ایک کامیاب عورت ثابت ہو سکے.چنانچہ آپ نے فرمایا.پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہمیں کن علوم کی ضرورت ہے، ہمیں علم دین کی ضرورت ہے.کوئی لڑکی اگر ایم اے پاس کرلے اور اسے تربیت اولا د یا خانہ داری نہ آئے تو وہ عالم نہیں جاہل ہے.ماں کا پہلا فرض بچوں کی تربیت ہے اور پھر خانہ داری ہے.جو حدیث پڑھے.قرآن کریم پڑھے.وہ ایک دیندار اور مسلمان خاتون ہے.اگر کوئی عورت عام کتابوں کے پڑھنے میں ترقی حاصل کرے تا کہ وہ مدرس بن سکے یا ڈاکٹری کی تعلیم سیکھے تو یہ مفید ہے کیونکہ اس کی ہمیں ضرورت ہے.لیکن باقی سب علوم لغو ہیں.“ اقتباس از تقریر حضرت خلیفہ اسیح الثانی الازہار لذوات الخمار صفحہ 286

Page 130

112 علم دین سیکھنے کی طرف توجہ دلانے کے ساتھ ساتھ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے عورتوں اور لڑکیوں کو بار بار اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ مرد اور عورت کے قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق دائرہ عمل الگ الگ ہیں.عورتوں یا لڑکیوں کا کام نوکریاں کرنا نہیں.بے شک اپنے ادارہ جات چلانے کی خاطر بعض خواتین اور بچیوں کو نوکریاں بھی کرنا ہوں گی مگر ان کی غرض خدمت دین، خدمت خلق اور خدمت قوم ہوگی.نہ کہ پیسہ کمانا.عورت کا دائرہ عمل اس کا گھر ہے اور لڑکی کو اعلیٰ تعلیم دینے کی غرض یہ ہے کہ وہ اپنے نیک و بد کو سمجھے.ایک اچھی بیٹی بنے.ایک اچھی بہن بنے ، ایک اچھی بیوی بنے ، جس گھر میں شادی ہو کر جائے ان کے لئے اچھی بیوی ثابت ہو اور جب اللہ تعالیٰ اسے اولاد سے نوازے تو بہترین ماں ثابت ہو.لیکن آج کل حال کیا ہے لڑکیاں تعلیم اس لئے حاصل کر رہی ہیں کہ بڑی سے بڑی ڈگری حاصل ہو جائے خواہ دین بالکل نہ آئے.چودہ یا سولہ سال کا لگا تار عرصہ تعلیم بسا اوقات ان کی صحتیں خراب کر دیتا ہے اور مناسب وقت ان کی شادی کا گزر جاتا ہے جس کی وجہ سے رشتے ملنے مشکل ہو جاتے ہیں.چونکہ لڑکیاں زیادہ پڑھ جاتی ہیں.اتنے پڑھے ہوئے احمدی لڑکے نہیں ملتے تو ماں باپ اس بناء پر انکار کر دیتے ہیں کہ لڑکی کی تعلیم زیادہ ہے اور لڑکے کی کم.انہی امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے 27 دسمبر 1938ء کو جلسہ سالانہ کے موقعہ پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا:." آج کل کی تعلیم یافتہ عورتیں یہ سمجھنے لگ گئی ہیں کہ ہم بھی وہ سب کام کر سکتی ہیں جو مرد کر سکتے ہیں.اگر مرد کشتی لڑتے ہیں تو عورتوں نے بھی گشتی لڑنی شروع کر دی.حالانکہ کجا عورتوں کی شرم وحیا اور کجا گشتی.اسی طرح عورتیں کہتی ہیں کہ ہم نوکریاں کریں گی.حالانکہ اگر وہ نوکریاں کریں گی تو ان کی اولا دیں تباہ ہو جائیں گی وہ بچوں کی تربیت کیونکر کر سکیں گی.یہ غلط قسم کی تعلیم ہی ہے جس نے عورتوں میں اس قسم کے خیالات پیدا کر دیئے ہیں....گھر میں سب سے قیمتی امانت بچہ ہے.بچہ کی تعلیم وتربیت ماں کا اولین فرض ہے.اگر عورتیں نوکری کریں گی تو بچوں کی تربیت ناممکن ہے...اگر آج کل کی مائیں اپنی اولادوں کی تربیت اس طرح کرتیں جس طرح صحابیات نے کی تو کیا یہ ممکن نہ تھا کہ ان کے بچے بھی ویسے ہی قوم کے جانثار سپاہی ہوتے جیسے کہ صحابیات کی اولادیں تھیں.اگر آج بھی خدا نخواستہ جماعت احمدیہ میں کوئی خرابی واقع ہوئی تو اس کی عورتیں ہی ذمہ دار ہوں گی.‘ الازھار لذوات الخمار صفحہ 320 اسی طرح آپ نے اپنی تقریروں میں عورتوں کی تعلیم کی طرف توجہ فرماتے ہوئے جہاں دینی تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا ہے.

Page 131

113 انگریزی تعلیم کو بُرا نہیں کہا بلکہ اس کے جو بدنتائج نکل رہے ہیں ان کو نا پسند فرمایا ہے.اور جس نیت سے تعلیم حاصل کی جاری ہے اُسے نا پسند فرمایا ہے.آپ نے فرمایا ہے:.پھر تعلیم جو تم پاتی ہو اس سے تمہارا مقصد نوکری کرنا ہوتا ہے.اگر نوکری کروگی تو بچوں کو کون سنبھالے گا؟ خود تعلیم انگریزی بُری نہیں لیکن نیست بد ہوتی ہے اور اگر نیت بد ہے تو نتیجہ بھی بد ہوگا.اگر غلط راستے پر چلو گی تو غلط نتائج ہی پیدا ہوں گے.جب لڑکیاں زیادہ پڑھ جاتی ہیں تو پھر ان کے لئے رشتے ملنے مشکل ہو جاتے ہیں.ہاں اگر لڑکیاں نوکری نہ کریں اور پڑھائی کو صرف پڑھائی کے لئے حاصل کریں.اگر ایک لڑکی میٹرک پاس ہے اور پرائمری پاس لڑکے سے شادی کر لیتی ہے تو ہم قائل ہو جائیں گے کہ اس نے دیانتداری سے تعلیم حاصل کی ہے.“ الفضل 24 رمئی 1944ء ان مندرجہ بالا اقتباسات کی روشنی میں جو میں نے حضرت مصلح موعود کی مختلف تقاریر سے جمع کئے ہیں آپ کا عورتوں کی تعلیم کے متعلق نقطہ نگاہ واضح ہو جاتا ہے.یہ تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ طرز تعلیم لڑکیوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور ان کو مذہب اور قوم سے عشق رکھنے والیاں بنانے کی بجائے مذہب سے بیگانه، آزاد خود سر، گھر سے بے خبر ، نوکری کرنے کی شائق، بے پردہ بنا رہی ہے حالانکہ ہمارے معاشرہ کو.ضرورت ہے ایک اچھی شریف دیندارلڑکی کی.ایک اچھی بہو کی اور اچھی ماں کی.پس میں اپنی نہایت عزیز بچیوں کو نصیحت کرتی ہوں کہ وہ مذہب سے بیگانگی اختیار نہ کریں.قرآن سیکھیں کہ یہی تمام علوم کا سر چشمہ ہے.جہاں وہ کئی گھنٹے اپنی کالج کی تعلیم پر خرچ کرتی ہیں وہاں کم از کم ایک گھنٹہ روزانہ قرآن مجید کا ترجمہ یاد کرنے مطلب سمجھنے اور مذہبی لٹریچر کے مطالعہ کے لئے لگائیں.ساتھ ہی میں ان محترمات کی خدمت میں بھی التماس کرتی ہوں جن کے ہاتھ میں قوم کی بچیوں کی تربیت کی باگ ڈور دی گئی ہے کہ اگر ہماری قوم کی بچیاں خدا تعالیٰ اور مذہب سے دُور جاپڑیں تو وہ خدا تعالیٰ کے آگے جوابدہ ہوں گی.ان کا کام ہے کہ وہ نگرانی رکھیں کہ ہماری بچیاں علوم مروجہ کے ساتھ ساتھ دین بھی سیکھ رہی ہیں یا نہیں.اور ان کی تربیت صحیح رنگ میں ہو رہی ہے یا نہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری بچیوں کو اپنا عبد بنے کی توفیق عطا فرمائے.ہمارا نمونہ بھی صحابیات کے نمونہ کے مطابق ہو.(آمین اللھم آمین) الفضل 19 نومبر 1966ء

Page 132

114 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ صفات الہیہ کے مظہر ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( الاحزاب (22) ہر زمانہ کے انسانوں کے لئے کامل نمونہ ہے.بچوں کے لئے بھی جوانوں کیلئے بھی اور بوڑھوں کے لئے بھی.مردوں کے لئے بھی عورتوں کیلئے بھی امیروں کے لئے بھی غریبوں کے لئے بھی.بادشاہوں کے لئے بھی رعایا کے لئے بھی کاروباری انسانوں کیلئے بھی تاجروں کیلئے بھی استادوں کیلئے بھی طالبعلموں کیلئے بھی.سیاستدانوں کے لئے بھی اور جرنیلوں کے لئے بھی غرض ہر شعبہ زندگی میں اعلیٰ اخلاق دکھانے کا آپ کو موقع ملا.اور ایسا نمونہ آپ نے دکھایا ہے جو ساری دنیا کیلئے قابلِ تقلید ہے.إِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا.(الاحزاب:57) اخلاق کیا ہیں؟ اخلاق کیا ہیں.دنیا میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا اظہار جو اس کے بعد دل کے ذریعہ ہوتا ہے ان کا نام اخلاق ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا سکھائی تا اس کے بندے عاجزی اور تضرع سے اپنی ہدایت اور خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی دعا اس سے مانگتے ہیں تا وہ ہمیشہ سیدھے راستہ پر قائم رہیں اور اس سے بھٹک کر ادھر اُدھر نہ ہوں پھر صراط مستقیم تک پہنچنے کے لئے ایاک نعبد و ایاک نستعین کا راستہ بتایا کہ راہ راست پر چلنے اور منزل تک پہنچنے کے لئے انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس دنیا میں خدا تعالیٰ کا عبد بنے اس کے رنگ میں رنگین ہو اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرے اور پھر ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے منزل تک پہنچنے کے لئے قوائے سلیم چاہتارہے تا اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو وہ خصائل اور اخلاق عطا ہوں.ایسا عمل کرنے کی توفیق ملے جو اللہ تعالیٰ کا فضل جذب کرنے والے ہوں اور سیدھے راستے سے انسان کو بھٹکنے نہ دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اخلاق کی تعریف بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.اخلاق جو انسان کو انسان بناتا ہے.اخلاق سے کوئی صرف نرمی کرنا ہی مراد نہ لے لے.خُلق اور خلق دولفظ ہیں جو بالمقابل معنوں پر دلالت کرتے ہیں.خلق ظاہری پیدائش کا نام ہے.جیسے کان، ناک،

Page 133

115 یہاں تک کہ بال وغیرہ بھی سب خلق میں شامل ہیں اور خلق باطنی پیدائش کا نام ہے.ایسا ہی باطنی قومی جو انسان اور غیر انسان میں مابہ الامتیاز ہیں وہ سب خلق میں داخل ہیں.یہاں تک کہ عقل و فکر تمام قو تیں خلق ہی میں داخل ہیں.خُلق سے انسان اپنی انسانیت کو درست کرتا ہے اگر انسانوں کے فرائض نہ ہوں تو فرض کرنا پڑے گا کہ آدمی ہے؟ گدھا ہے؟ یا کیا ہے؟ جب خلق میں فرق آجاوے تو صورت ہی رہتی ہے.مثلا عقل ماری جاوے تو مجنون کہلاتا ہے.صرف ظاہری صورت سے ہی انسان کہلاتا ہے.پس اخلاق سے مراد خدا تعالیٰ کی رضا جوئی ( جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی میں مجسم نظر آتا ہے ) کا حصول ہے اس لئے ضروری ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرز زندگی کے موافق اپنی زندگی بنانے کی کوشش کرے.یہ اخلاق بطور بنیاد کے ہیں اگر وہ متزلزل رہے تو اس پر عمارت نہیں بنا سکتے.اخلاق ایک اینٹ پر دوسری امینٹ کا رکھنا ہے اگر ایک اینٹ ٹیڑھی ہو تو ساری دیوار ٹیڑھی رہتی ہے.کسی نے کیا اچھا کہا ہے خت اوّل چوں نہد معمار کج تا ثریا رود دیوار کج ملفوظات جلد اوّل صفحہ 83-84 اخلاق فاضلہ کا کامل نمونہ:.سب سے اکمل نمونہ جمیع اخلاق حسنہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک تھی جن کے ذریعہ سے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا ظہور ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعلق فرمایا بُعِثْتُ لِاَتَمِّمَ مَكَارِمَ الاخلاق ( السنن الكبرى كتاب الشهادة باب بيان مكارم الاخلاق) کہ میری بعثت کی غرض یہ ہے کہ دنیا کو اخلاق کا درس دوں.اللہ تعالیٰ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی کہ إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم:5) آپ ہر خلق کے مالک ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی تشریح میں فرماتے ہیں:.عظیم کے لفظ کے ساتھ جس چیز کی تعریف کی جائے وہ عرب کے محاورہ میں اس چیز کے انتہائے کمال کی طرف اشارہ ہوتا ہے.مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ یہ درخت عظیم ہے تو اس سے یہ مطلب ہوگا کہ جہاں

Page 134

116 تک درختوں کے لئے طول و عرض اور تناوری ممکن ہے وہ سب اس درخت میں حاصل ہے ایسا ہی اس آیت کا مفہوم ہے کہ جہاں تک اخلاق فاضلہ و شمائل حسنہ نفس انسانی کو حاصل ہو سکتے ہیں وہ تمام اخلاق کاملہ تامہ نفس محمدی میں موجود ہیں سو یہ تعریف ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو دوسری جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا یعنی تیرے پر خدا کا سب سے زیادہ فضل ہے.یہی تعریف بطور پیشگوئی زبور باب 45 میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں موجود ہے.جیسا کہ فرمایا کہ خدا نے جو تیرا خدا ہے خوشی کے روغن سے تیرے مصاحبوں سے تجھے زیادہ معطر کیا.روحانی خزائن جلد اول براہین احمدیہ ہر چہار ص ص : 606.اللہ تعالیٰ کی صفات اربعہ :.اللہ تعالیٰ کی بڑی صفات جوام الصفات کہلاتی ہیں چار ہیں رب، رحمن ، رحیم اور مالک یوم الدین باقی تمام صفات ان چار صفات کے تابع ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صفات اربعہ کے کامل مظہر بن کر دنیا میں آئے اور اپنے اخلاق نمونہ اور عمل کے ذریعہ دنیا پر آپ نے ثابت فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ رب بھی ہے رحمن بھی ہے رحیم بھی ہے اور مالک یوم الدین بھی ہے.سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ کے حسن واحسان کی پہلی خوبی رب العالمین کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.ان صفات اربعہ پر غور کرنے سے خدا تعالیٰ کا گویا چہرہ نظر آ جاتا ہے ربوبیت کا فیضان بہت ہی وسیع اور عام ہے اس میں کل مخلوق کی کل حالتوں، تربیت اور اس کی تکمیل کے تکفل کی طرف اشارہ ہے غور تو کرو.جب انسان اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر نظر کرتا ہے تو اس کی اُمید کس قدر وسیع ہو جاتی ہے.تفسیر سورۃ الفاتحہ بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول ص: 111 توحید کامل کی تعلیم :.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی جدو جہد کا نتیجہ تھا کہ آپ نے دنیا سے شرک کو دور فرمایا دنیا نے سینکڑوں ربّ بنائے ہوئے تھے آپ کی تعلیم اور کوششوں کے نتیجہ میں آپ نے سارے عرب کو تو حید کی تعلیم دی اور ان کو بتایا کہ تمہارا خالق و مالک ایک خدا ہے جو ساری دنیا کا رب ہے تم مانو یا نہ مانو لیکن وہ ازل سے تمہاری ربوبیت کرتا چلا آیا ہے اور کرتا چلا جائے گا.غرض صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ کی صفت

Page 135

117 رب العالمین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جلوہ گر ہوئی اور جس طرح اللہ تعالیٰ کے فیضان ربوبیت جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فیضان اعم کے الفاظ سے ادا فر مایا ہے.کل مخلوق فائدہ اُٹھا رہی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کے کامل مظہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لئے رحمت کا بادل بن کر برسے.جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمتہ للعالمین کے خطاب سے نوازا ہے.آپ سے پہلے جتنے انبیاء آئے وہ اپنی اپنی قوموں اور اپنے اپنے زمانہ کے لئے تھے.حضرت عیسی نے تو صاف کہہ دیا.وہ چیز جو پاک ہے کتوں کو مت دو اور اپنے موتی سوؤروں کے آگے نہ پھینکو.ایسا نہ ہو کہ وہ انہیں پامال کریں اور پھر کر تمہیں پھاڑیں.متی باب 7 آیت6 اسی طرح آپ نے کہا میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.متی باب 15 ص 27) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بلندشان:- لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا بلندشان ہے اور کتنا اعلیٰ مقام اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا کہ آپ نے اعلان کیا إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا سورۃ الاعراف: 159 میں ساری دنیا کی اخلاقی ربوبیت کے لئے مبعوث کیا گیا.وہاں ساری دنیا کی اصلاح کا بیڑا میں نے اُٹھایا ہے کیونکہ میں اس خدا کی طرف سے آیا ہوں جو رب العلمین ہے.جس کے متعلق قرآن مجید میں آتا ہے وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ ( الانعام : 165) کوئی چیز عالم کی چیزوں میں سے اس کی ربوبیت سے باہر نہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کے کامل مظہر کے لئے ضروری تھا کہ وہ بھی ساری دنیا کے لئے مبعوث کیا جائے.مشرق مغرب ، شمال جنوب ، ادنی اعلیٰ.امیر فقیر، گورے کالے، مردہ عورت سب کی نجات اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے ساتھ وابستہ ہے.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ پانچ اہم اخلاق:.پھر آپ نے اپنی قوم کی کیسی ربوبیت فرمائی.ابھی آپ نے نبوت کا دعوی بھی نہیں فرمایا تھا کہ

Page 136

118 آپ ﷺے ساری قوم کا اعتما داس رنگ میں حاصل فرما چکے تھے کہ آپ سے بڑھ کر مظلوم کا کوئی حامی نہیں آپ نے اپنی جوانی کی عمر میں ایک مجلس بنائی جس کا نصب العین مظلوموں کی مددکرنا تھا.جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی آپ ذمہ داری کے احساس سے گھبرائے کہ کتنی عظیم الشان ذمہ داری دنیا کی اصلاح کی میرے سپرد کی گئی ہے.آپ پر کپکپی طاری ہوگئی آپ گھر تشریف لے گئے.حضرت خدیجہ سے فرمایا مجھے کپڑا اوڑھا دو پھر حضرت خدیجہ کے استفسار پر آپ نے تفصیل بیان فرمائی.سنتے ہی حضرت خدیجہ کے منہ سے بے اختیار جو الفاظ نکلے وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں اور آپ کی اس شان ربوبیت پر روشنی ڈالتے ہیں جو آپ اپنے سلوک سے اہل مکہ کی کر رہے تھے.آپ بے اختیار کہ اٹھیں كَلَّا وَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللهُ اَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِى الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ.بخاری باب بدء الوحی کے خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز ضائع نہیں فرمائے گا.آپ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتے ہیں.نیک سلوک کرتے ہیں ان کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں.آپ بے وارثوں کے وارث ہیں اور ناداروں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں.جو اخلاق اور نیکیاں دنیا سے ناپید ہو چکی ہیں آپ کے ذریعہ دنیا میں پھر سے ان کا احیاء ہو رہا ہے.آپ مہمان نواز بھی ہیں.حق کی خاطر ہر مصیبت زدہ کی مدد کرتے ہیں.اس حدیث کی تشریح میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا تھا.یہ پانچ چیزیں ہیں جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اپنی زندگی کو بلکہ بین الاقوامی تعلقات کو ہمیشہ کے لئے درست کر دیا جن کے کام میں کوئی روک تھی ان کی روک کو مدد کر کے آپ نے ملک میں کام کا راستہ کھولا جو لوگ اپانی یا کمانے کے ناقابل تھے ان کے لئے معیشت کا پورا سامان جمع کیا اور پھر قوم میں آئندہ ترقی کا ہمیشہ کے لئے دروازہ کھول دیا.گویا یہ نظام نو ہوگیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں قائم فرمایا ہے یہ پانچوں اخلاق جب کسی قوم میں پیدا ہو جاتے ہیں وہ آپس میں حسن سلوک سے کام لیتی ہے اپنے ہمسایوں اور غیر ممالک والوں سے بھی حسنِ سلوک کرتی ہے وہ ایسا انتظام بھی کرتی ہے جس کے ماتحت وہ لوگ جو کسی کام کے اہل نہ ہوں.ان کے لئے روزی کا سامان مہیا ہو جائے وہ ایسا انتظام بھی کرتی ہے جس کے ماتحت ان کی پریشانی بھی دور ہو جائے اور ان کی بقیہ ضرورتیں پوری ہو جائیں وہ تکسب المعدوم بھی

Page 137

119 عمل کرتی اور اس میں یونیورسٹیاں قائم کرتی ہے کہ علوم میں ترقی ہو ملک کی صنعت و حرفت میں ترقی ہو اور لوگ ان درسگاہوں سے تعلیم حاصل کر کے جب نکلیں تو وہ دینی اور دنیوی علوم میں نئی نئی تحقیقات سے کام میں وہ علم الاخلاق کو ترقی دیں وہ علم الادیان کو ترقی دیں وہ علم الابدان کو ترقی دیں وہ علم الحشرات کو ترقی دیں وہ علم النفس کو ترقی دیں غرض نئے نئے علوم پیدا کریں اور نئی نئی ایجادات ملک کو ترقی کے لئے کریں تو بتاؤ اس ترقی کے لئے پھر اور کسی چیز کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں نبوت سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے نظام نو کا پیج رکھ دیا تھا.اور آپ ﷺ کے اخلاق شروع سے ہی ایسے تھے جن پر آئندہ دنیا کانیا نظام قائم ہونے والا تھا.“ صفت رب العالمین کی جلوہ گری:.غرض اللہ تعالیٰ کی صفت رب العالمین آپ ﷺ کے لئے اور آپ ﷺ کے ذریعہ سے پوری شان و شوکت سے جلوہ گر ہوئی.ازل سے عالمین کی ربوبیت اس لئے فرمائی کہ کامل انسان سرور دو جہان صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا ہونا تھا جس کے لئے مولیٰ کریم نے خود فرمایا دیا کہ آپ ﷺ کی خاطر یہ سب زمین و آسمان پیدا کئے گئے ہیں.یہ سارے جہان کی ربوبیت اور یہ فیض اعم ازل سے آپ ﷺ کی خاطر جاری تھا اور آپ کی خاطر جاری رہے گا اور آپ ﷺ کے ذریعہ یہ صفت یوں آن بان سے ظاہر ہوئی کہ ایک بے کس و بے زر کو تمام دنیا کا آقا اور سردار بنا دیا آپ ﷺ کی امت کو خیر امت قرار دیا گیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آپ کی اطاعت کے ساتھ دنیا کی نجات وابستہ کر دی گئی.اور آپ ﷺ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت یوں بھی جلوہ گر ہوئی کہ آپ ﷺ نے ایک ایسی قوم کی جو دنیا کی گری ہوئی قوم تھی.ایسی ربوبیت فرمائی کہ وہ نہ صرف با اخلاق انسان بن گئے بلکہ با اخلاق انسان سے باخدا انسان بن گئے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اوائل صدر اسلام میں جب کہ اللہ تعالیٰ کے محض فضل و کرم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپ ﷺ کو وہ قوت قدسی عطا ہوئی کہ جس کے قومی اثر سے ہزاروں با خلاص اور جان نثار مسلمان پیدا ہو گئے آپ ﷺ کی جماعت ایک ایسی قابل قدر اور قابل رشک جماعت تھی کہ ایسی جماعت کسی نبی کو نصیب نہیں ہوئی نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوملی اور نہ حضرت عیسی علیہ السلام کو میں نے اس امر

Page 138

120 کے بیان کرنے میں ہرگز ہرگز مبالغہ نہیں کیا بلکہ میں جانتا ہوں کہ وہ جماعت جس مقام اور درجہ پر پہنچی ہوئی تھی اس کو پورے طور پر بیان ہی نہیں کر سکتے ہمارے مخالف علماء اور دوسرے فرقے اگر چہ ہمارے مخالف ہیں تاہم وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس بیان میں ہم نے مبالغہ کیا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت تو ایسی شریر کج فہم تھی کہ وہ حضرت موسی کو پتھراؤ کرنا چاہتی تھی بات بات میں سرکشی اور ضد کر بیٹھتے تھے.توریت کو پڑھ تو معلوم ہو جائے گا کہ ان کی حالت کیسی تھی وہ ایک سنگدل قوم تھی کیا توریت میں ان کو رضی اللہ عنہم کہا گیا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ وہاں تو سرکش ٹیڑھی شریر وغیرہ ہی لکھا ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کی جماعت وہ اس سے بدتر تھی.جیسا کہ انجیل سے معلوم ہوتا ہے خود حضرت عیسی اپنی جماعت کو لالچی اور بے ایمان کہتے رہے بلکہ یہاں تک بھی کہا کہ اگر تم میں ذرہ بھر بھی ایمان ہو تو تم میں یہ برکات ہوں وہ برکات ہوں غرض وہ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی جماعت سے ناراض ہی ہو گئے اور انہیں ایک وفادار جماعت کے میسر نہ آنے کا افسوس ہی رہا یہ بالکل سچی بات ہے کہ نہ توریت میں اور نہ انجیل میں کہیں بھی ان کو رضی اللہ عنہم نہیں کہا گیا.مگر بر خلاف اس کے جو جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میسر آئی تھی اور جس نے آپ کی قوت قدسی سے اثر پایا تھا اس کے لئے قرآن شریف میں آیا ہے.رضی الله عنهم رضوا (البينة: 9).اس کا سبب کیا ہے؟ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کا نتیجہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجوہ فضیلت میں سے یہ بھی ایک وجہ ہے کہ آپ نے ایسی اعلیٰ درجہ کی جماعت تیار کی.میرا دعویٰ ہے کہ ایسی جماعت آدم سے لے کر آخر تک کسی کو نہیں ملی.مفلوغات جلد چہارم صفحہ 591-592) عنه صفت رحمانیت:.اللہ تعالیٰ کی دوسری صفت جس کے آپ ﷺ کامل مظہر بن کر مبعوث ہوئے صفت رحمانیت ہے.صفت رحمانیت کسی بدلہ یا اجر کا تقاضا نہیں چاہتی.جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی ظاہری اور روحانی ضروریات کے لئے سب کچھ بنایا اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض اور برکات کا کوئی بدل نہیں آپ کی زبان سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ما اسئلكم عليه من اجو.میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا آپ کا دل اہل مکہ کی حالت کو دیکھ کر پکھلتا تھا اور خدا کے آستانہ پر جھک کر گڑ گڑاتا تھا کہ کسی طرح یہ لوگ اپنے حقیقی خالق کو پہچان جائیں کسی طرح یہ اپنی زندگی کے مقصد سے آگاہ ہو جا ئیں کسی طرح یہ خدا تعالیٰ کے سچے عبد بن جائیں.جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کے لئے کھڑا کیا کون سے تکلیف تھی جو آپ کو نہ دی

Page 139

121 گئی ہو کونسا دکھ تھا جو آپ کو نہ دیا گیا کونساوار تھا جو آپ پر نہ آزمایا گیا مگر ہزاروں درود اس محسن انسانیت پر اس صفت رحمانیت کے کامل مظہر پر کہ آپ ہر آن اور ہر لمحہ ان کی اصلاح کی فکر میں لگے رہتے اور اپنا کام کرتے چلے گئے.آپ نے اپنے مقصد کو جاری رکھنے کے لئے اپنا آرام قربان کر دیا.اپنی جان کی پرواہ نہ کی ہر قسم کے مصائب کو برداشت کیا دشمنوں کے واروں کو اپنی جان پر سہارا اور اپنی زندگی کو اس مقصد کے لئے لگا دیا کہ خدا سے برگشتہ روحیں اپنے محبوب حقیقی کا چہرہ دیکھ لیں ان میں اخلاق فاضلہ پیدا ہو جائیں اور وہ دنیا کے رہنما بن جائیں.اسی کی طرف قرآن مجید کی یہ آیات اشارہ کرتی ہیں کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:4) کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ آپ اپنی جان کو ہلاک کر دیں گے اس غم میں کہ یہ مومن نہیں ہوئے آپ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں کرتے تھے کہ خدایا یہ تیرے گمراہ بندے ہیں انہیں ضائع نہ کیجیو انہیں ہلاک نہ کیجیو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر انہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں ایک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس امی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں اَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلَّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالِهِ بِعَدَدِ هَمِّهِ وَغَمِهِ وَحُزْنِهِ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ وَانْزِلُ عَلَيْهِ أَنْوَارَ رَحْمَتِكَ إِلَى الابد روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 11 برکات الدعا پھر یہ نہیں کہ آپ کا فیضان صرف اس زمانہ کے لئے تھا بلکہ آپ کا فیضان ابدی ہے.آپ کی قوت قدسیہ آج بھی زندہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ اِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ.سورة آل عمران : 32 اگر آج بھی تم اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنا چاہتے ہو.خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے میں پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی طریق ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کرو.آپ کے اخلاق کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالو.آپ کی سیرت مقدسہ کے مطابق اپنا کردار بناؤ.خدا تعالیٰ سے تمہارا تعلق صرف اسی ذریعہ سے قائم ہو سکتا ہے.آج کسی مذہب کو یہ دعویٰ نہیں کہ اس پر

Page 140

ار 122 چل کر انسان اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکے یہ فخر صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ آپ کا خادم دنیا کا سردار بنادیا جاتا ہے اور آپ کا عاشق اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ صفت رحیمیت کے کامل مظہر : پھر آپ صفت رحیمیت کے بھی کامل مظہر تھے یعنی آپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کا کامل ظہور دنیا میں ہوا.رحم کے معنے سچی محنت کا بدلہ دینے کے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس صفت کو فیضان خاص کے نام سے ادا فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.”فیضان خاص میں جہد اور کوشش اور تزکیہ قلب اور دعا اور تضرع اور توجہ الی اللہ اور دوسرا ہر طرح کا مجاہدہ جیسا کہ موقع ہو شرط ہے اور اس فیضان کو وہی پاتا ہے جو ڈھونڈتا ہے اور اسی پر وارد ہوتا ہے جو اس کے لئے محنت کرتا ہے.“ روحانی خزائن جلد 1 براہین احمدیہ صفحہ 450 حاشیہ نمبر 11 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر کونسا ظلم تھا جو لا اله الا اللہ کہنے کی وجہ سے نہ توڑا گیا.پتھروں پر گھسیٹا گیا.نیزے مار کر شہید کیا گیا.ان کے سینوں پر کو دا گیا.فاقے رہنا پڑا.صرف مردوں پر ہی نہیں بلکہ عورتوں پر بھی ظلم ڈھائے گئے.انہیں بھی سختیوں کا نشانہ بنایا گیا.صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ایک ہے اور محمد اس کے رسول ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کا کیا شاندار ظہور آپ کے ذریعہ سے ہوا کہ 23 سال نہ گزرے کہ مسلمانوں کو عرب کا بادشاہ بنادیا گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر جب حضرت ابو بکر خلیفہ منتخب ہوئے اور یہ خبر جب آپ کے والد کو پہنچی تو انہوں نے کسی سے کہا کون ابوبکر خلیفہ منتخب ہوئے ہیں لوگوں نے کہا ابو قحافہ کا بیٹا کہنے لگے آج میں ایمان لے آیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نبی تھے ورنہ ابو قحافہ کے بیٹے کی کیا حیثیت کہ وہ مسلمانوں کا سردار اور بادشاہ بن جاتے.یہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کا ظہور تھا کہ ان کے دکھوں اور تکلیفوں اور محنت کا بدلہ ان کو اس دنیا میں مل جائے تو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ خدائے عز و جل رحیم بھی ہے اور کتنی جلدی مسلمانوں کی قربانیوں کا بدلہ عطا فرمایا کہ ایک قلیل عرصہ میں انہیں عرب کا بادشاہ بنا دیا اور وہ بڑی بڑی حکومتیں جو حقارت سے عربوں کا نام لیا کرتی تھیں ان سے تھر تھر کانپتی تھیں کیوں کہ ان کو معلوم تھا کہ ان سے ٹکر لینا منہ کا نوالہ نہیں جو ٹکر لے گا وہ منہ کی کھائے گا.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو

Page 141

123 عظیم الشان کامیابی نصیب ہوئی اس کی مثال کسی مذہب کی تاریخ میں نہیں ملتی.ایک وقت وہ تھا کہ آپ مکہ کی گلیوں میں تنہا پھر تے تھے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب آپ نے اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا (سورۃ النصر : 3,2) پورا ہوتے دیکھ لیا.صفت مالکیت کا اظہار :.پھر آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت کا اظہار بھی عظیم الشان طور پر ہوا.اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر مکہ کو فتح کیا.دس ہزار قدوسیوں کے لشکر کے ساتھ آپ مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے.وہی لوگ جو مسلمانوں کو تکلیفیں دیتے تھے اور ان پر ظلم کرتے تھے کانپ رہے تھے کہ خدا جانے کیا سلوک ان سے کیا جائے گا.وہ اپنے دلوں میں محسوس کر رہے تھے کہ ہم نے مسلمانوں کو تکلیف دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بائیکاٹ کیا وطن سے نکلنے پر مجبور کیا.جور و ظلم کئے مارا.پھر صرف عام مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ ان کے آقا سردار تک کو تکلیفیں دینے سے باز نہیں آئے آج ان کی فتح کا دن ہے اب دیکھیں کیا سلوک ہم سے ہوتا ہے ان کے دل لرزاں و ترساں تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت کے بھی کامل مظہر تھے آپ کو ہر طرح کا اختیار اور اقتدار حاصل تھا کہ ان سے ان کے مظالم کا بدلہ لیں.آپ نے بدلہ لیا.کس طرح؟ کیا ان کو قید کر کے؟ کیا سزائیں دے کر ؟ کیا قتل کر کے؟ کیا جلا وطن کر کے؟ نہیں بلکہ آپ نے ساری قوم کو مخاطب کر کے فرمایا لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يوسف : 93) جاؤ میں نے تم سب کو معاف کیا تم پر کوئی گرفت نہیں تم سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا.وہ سب ظلم جو تم نے مسلمانوں پر کئے وہ سب میں نے بھلا دیئے پھر آپ نے ابوردیمہ کے ہاتھ میں ایک جھنڈا دیا اور فرمایا یہ بلال کا جھنڈا ہے جو اس کے نیچے جمع ہو جائے گا وہ امن میں ہوگا جو اپنے گھر کے دروازے بند کر کے بیٹھ رہے گا وہ امن میں ہوگا.بلال ایک حبشی غلام تھے وہ ابتدائے اسلام میں ایمان لائے اور اسلام کی وجہ سے ان پر انتہا سے زیادہ مظالم ڈھائے گئے باقی جو لوگ تھے وہ قریش مکہ کے رشتہ دار تھے جب عام معافی کا اعلان ہوا تو ہوسکتا تھا کہ بلال کے دل میں خیال آتا کہ بے شک معافی دے دی مگر آخر بھائی بند ہم قبیلہ اور ہم ملک تھے جو مجھ پر ظلم ڈھائے گئے آج ضرورت ہے کہ ان کا بدلہ لیا جائے.رسول کریم صلی اللہ

Page 142

124 علیہ وسلم نے بدلہ لیا.مگر کیا شاندار بدلہ کہ اس حبشی غلام کے نام کا جھنڈا کھڑا کر دیا اور تمام سر درانِ مکہ کے سروں کو اس جھنڈے کے سامنے جھکا دیا کہ آج اس جھنڈے تلے جمع ہو کر معافی ملے گی.جس کے سینہ پر کھڑے ہو کر تم کو وا کرتے تھے.ساری تاریخ عالم کے صفحات الٹ ڈالیں.تمام انبیاء کے حالات پڑھ جائیں.ایسے عظیم الشان عفو کا نمونہ جب کہ آپ کو کامل اقتدار حاصل تھا.کہیں نظر نہیں آئے گا.اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ الله کامل نمونہ صرف رسول کریم ﷺ ہیں :.اخلاق کے اظہار کے متعلق یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کوئی شخص تمام بنی نوع انسان کے لئے کامل نمونہ کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا جب تک یہ دو باتیں اس میں نہ پائی جاتی ہوں.پہلی یہ کہ اس کی زندگی کے تمام حالات اس کی سیرت اس کے اخلاق اس کا عمل تفصیلی طور پر دنیا کے سامنے نہ ہو اور اس کی زندگی کا کوئی حصہ دنیا کی نظروں سے اوجھل نہ ہو.دوسرے اس کی زندگی ایسے دوروں میں سے گزری ہو کہ وہ زندگی کے ہر پہلو کے لحاظ سے دین کے لئے نمونہ بننے کی حقدار ہو.اگر کسی شخص نے غریبی کا مزہ نہیں چکھا تو وہ غرباء کے لئے کیسے نمونہ بن سکتا ہے اگر کسی شخص کو دولت نہیں ملی تو وہ امیروں کے لئے نمونہ نہیں بن سکتا ایک شخص نے جنگ میں حصہ نہیں لیا پھر کیسے جنگ کے متعلق وہ ہدایات دے سکتا ہے.کسی کو حکومت نہیں ملی اس کی زندگی حاکموں کیلئے مثالی زندگی قرار نہیں دی جاسکتی.وغیرہ یہ دونوں باتیں صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں ہی اکمل اور اتم طور پر پائی جاتی ہیں.تمام انبیاء میں سے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہی ہے جن کی زندگی کا ہر فعل اور ہر واقعہ تاریخ میں محفوظ ہے.اور دنیا کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا جاسکتا ہے.آپ ﷺ نے ہر قسم کا زمانہ پایا.آرام کا بھی تکلیف کا بھی تلخیوں کے پیالے بھی پئے اور اقتدار وحکومت اور جاہ و حشمت بھی نصیب ہوئی نبوت سے پہلے آپ ﷺ کی زندگی اتنی پاک اور مطہر تھی کہ شدید سے شدید دشمن بھی آپ پر کوئی الزام نہ لگا سکا.بچپن کا زمانہ نہایت شریفانہ اطوار سے گزارا.یہاں تک کہ آپ گھر میں اپنا کھانا بھی مانگ کر نہ لیتے.مزدوری بھی کی.آپ ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا میں اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا.تجارت بھی کی جس میں آپ ﷺ کی دیانت داری.وعدہ کی پابندی اور معاملہ کی صفائی کو دیکھ کر ہی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ ﷺ کو شادی کا پیغام دیا.آپ ﷺ کے اردگرد کا ماحول بت پرستی ،شراب نوشی

Page 143

125 الله قمار بازی اور طرح طرح کی بدکاریوں سے پر تھا.مگر آپ ﷺ کی زندگی اس ماحول میں بھی ہر قسم کے عیب سے پاک تھی.یہاں تک کہ خود اپنی قوم سے آپ ﷺ نے صادق اور امین کا خطاب پایا تھا.25 سال تک شادی سے قبل کی زندگی انتہائی طور پر پاکیزہ گزاری.پھر شادی کی تو ایک چالیس سالہ بیوہ سے اہل وعیال کے ساتھ سلوک میں آپ ﷺ نے بے نظیر نمونہ قائم فرمایا.دعویٰ نبوت کے بعد آپ کی شدید ترین مخالفت ہوئی تیرہ سال کا لمبا عرصہ مخالفتوں ظلموں اور دکھوں کا آپ ﷺ نے گزارا اور دنیا کے سامنے اپنے صبر اور استقامت کا ایک ایسا نمونہ قائم کیا جس کی مثال نہیں مل سکتی.اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب آپ ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو دشمن نے آپ کی مخالفت کی آگ تمام عرب میں لگا دی اور خدا تعالیٰ کے اذن سے آپ ﷺ کو اسلام کی حفاظت کے لئے تلوار اٹھانی پڑی آپ ﷺ نے با وجود قلیل تعداد سامانوں اور ذرائع کی قلت کے ہر جنگ میں دشمنوں کو شکست دی.اور چند سال کے عرصہ میں ہی فاتح ہو کر امن قائم کر دیا.جنگ اور صلح کے لئے ایسے قانون اور ہدایات جاری فرما ئیں جو آج بھی مہذب اور تعلیم یافتہ قوموں کے لئے قابل تقلید نمونہ ہیں.آج بڑی بڑی مغربی اقوام اپنے معاہدہ کی پابندی سے منکر ہورہی ہیں.یو.این.او.میں مسلمانوں سے وعدے کئے جاتے ہیں.ایسے وعدے جو صرف کاغذ کی زینت ہی بن کر رہ جاتے ہیں اور وعدہ فردا پر ملتے چلے جاتے ہیں لیکن ہزاروں سلام اور درود اس محبوب اور محسن انسانیت پر جو دنیا میں درس اخلاق دینے آیا تھا اس نے اپنے عمل سے بتایا کہ خدا کے نبی وعدہ اور عہد کر کے اس سے پھر انہیں کرتے صلح حدیبیہ کے وقت قریش مکہ اور مسلمانوں میں یہ معاہدہ ہوا کہ مسلمانوں میں سے جو اسلام سے مرتد ہو گا اسے مسلمان واپس بھیج دیں گے اپنے پاس نہ رکھیں گے لیکن قریش میں سے جو اسلام لائے گا اسے مدینہ نہ جانے دیا جائے گا.ابھی معاہدہ ہوا ہی تھا کہ دنیا کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی پابندی کا امتحان بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو گیا.سہیل جو مکہ والوں کی طرف سے معاہدہ کر رہا تھا.اس کا بیٹا ابوجندل بیڑیوں میں جکڑا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں آگرا کہ یا رسول اللہ مجھے ساتھ لے چلئے یہ لوگ اسلام کی وجہ سے مجھ پر ظلم کرتے ہیں اس کی حالت دیکھ کر مسلمانوں کی آنکھوں میں خون اتر آیا.تلواروں کے دستوں پر ان کے ہاتھ مضبوط ہو گئے.مگر کیا شان تھی اس کامل انسان علی کی جس کی زندگی کا ہر واقعہ دنیا کے لئے نمونہ ہے فرمایا ابو جندل صبر کرو! خدا کے نبی وعدہ کر کے توڑا نہیں کرتے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ کی حیثیت ایک

Page 144

126 بادشاہ کی تھی ہر قسم کے خلق کے اظہار کا آپ ﷺ کو موقعہ ملا.آپ بادشاہ تھے لیکن انتہائی سادہ زندگی گزاری کوئی شان و شوکت کا سامان نہ کیا بلکہ سارے کے سارے اموال غرباء یتامی بیواؤں اور ناداروں کی بہبودی کے لئے خرچ کئے یہاں تک کہ شادی کے لئے حضرت خدیجہ نے بھی اپنی ذاتی جائیداد جو آپ کی خدمت میں پیش کر دی وہ بھی آپ ﷺ نے غرباء یتامی پر خرچ کر دی اور تمام غلام آزاد کر دیئے.غرضیکہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق کہ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب : 22) ہر طبقہ اور ہر زمانہ کے انسانوں کے لئے کامل نمونہ ہے بچوں کے لئے بھی نوجوانوں کے لئے بھی اور بوڑھوں کے لئے بھی مردوں کے لئے بھی عورتوں کے لئے بھی امیروں کے لئے بھی غریبوں کے لئے بھی بادشاہ کے لئے بھی رعایا کے لئے بھی کاروباری انسانوں کے لئے بھی تاجروں کے لئے بھی استادوں کے لئے بھی طالبعلموں کے لئے بھی اور جرنیلوں کے لئے بھی غرض ہر شعبہ زندگی کے لئے اعلیٰ اخلاق دکھانے کا آپ ﷺ کو موقعہ ملا اور ایسا نمونہ دکھایا آپ نے جو ساری دنیا کے لئے قابل تقلید ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ ﷺ کی شان میں فرماتے ہیں.شانِ حق تیرے شمائل میں نظر آتی ہے تیرے پانے سے ہی اس ذات کو پایا ہم نے ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل قدم آگے بڑھایا ہم نے تیرے بڑھنے سے اس طرح آپ علیہ السلام فرماتے ہیں گوشه دامن تـــو هــر کــــه گـرفت گربتابد چـومـــــاه نیســـت شـگـفـت خـــــــون خـــــــــود در ره خــــــــدا رانـــــــدنـــــــد نقدِ جاں زیـر پــــایـــت افشـــانــدنــد آن معلم تــــوئـــــی کــــــه در دوران چــونتـــو دیــگــــرن دهند نشان

Page 145

127 شرح خلقـش کـجــا تــوانــم کــرد آن عـــــاجــــز از بیـــــانـــم کـــــرد عالمی را بــنـــورحــــق افـــــروخــــت قدم صدق را بــخــلــق آمــوخـــــت (در مکنون ص: 114) ترجمہ 1.ہر وہ شخص جس نے آپ ﷺ کا دامن پکڑ لیاوہ چاند کی مانند چمکنے لگ گیا.2.انہوں نے اپنا خون خدا کی راہ میں بہایا اور اپنی جان آپ ﷺ کے پاؤں کے نیچے لاڈالی.3.آپ ﷺ زمانہ میں ایسے عظیم الشان استاد ہیں کہ آپ ﷺ کی شان کے کسی اور استاد کا نشان نہیں ملتا.4.میں آپ ﷺ کے اخلاق کی تشریح کیسے کر سکتا ہوں میں تو آپ ﷺ کے حسن کو بیان کرنے سے عاجز ہوں.5.آپ ﷺ نے الٹی نور کے ساتھ ایک عالم کو روشن کر دیا اور مخلوق کو ثابت قدمی کا سبق سکھا دیا.مسلمانوں کی موجودہ حالت :.جب تک مسلمان آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے رہے اور تَخَلَّقُوا بِاخْلاقِ الله اُسوہ کے مطابق ان اخلاق و فضائل کے مالک رہے جو صفات الہیہ کا مظہر تھے.وہ ساری دنیا کے اُستادر ہے.نہ صرف انہوں نے عرب پر حکومت کی بلکہ عرب سے نکل کر سارے ایشیا یورپ اور افریقہ پر چھا گئے.مغربی اقوام جو آج اخلاق اخلاق کے نعرے لگاتی ہیں انہوں نے مسلمانوں سے ہی درس انسانیت اور درس اخلاق لیا تھا لیکن دوسری قوموں کو درس اخلاق دے کر خود اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا.کیونکہ آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ اور قرآن کی تعلیم ، یہ کوئی تضاد نہیں بلکہ جیسا کہ حضرت عائشہ نے فرمایا تھا کان خلقه القرآن (مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 91) کہ آنحضرت ﷺ کے اخلاق آپ کردار آپ ﷺ کا عمل وہی ہے جس کی تعلیم قرآن مجید میں دی گئی ہے.جب تک مسلمانوں کا عمل قرآنِ مجید کے مطابق رہا جب تک ان کی زندگیاں قرآن مجید کے محور کے گرد گھومتی رہیں وہ کسی قوم سے شکست نہ کھا سکے.آج دشمنان اسلام کا سب سے بڑا اعتراض اسلام پر یہی ہے کہ اسلام مسلمانوں کی ترقی میں

Page 146

128 روک ہے کیسی فضول بات ہے.کیا ایک سبب سے دو متضاد نتیجے نکل سکتے ہیں ہرگز نہیں اگر چودہ سوسال پہلے کی ترقی قرآن مجید پر عمل کرنے کے نتیجہ میں تھی تو آج بھی وہی نتیجہ نکل سکتا ہے جو اس وقت نکلا تھا بشر طیکہ عمل قرآن کے مطابق ہو.آج دنیا جس طرف جا رہی سے اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہونے لگ جاتے ہیں.اگر مسلمانوں کا یہی حال رہا اور انہوں نے اپنی اخلاقی اور معاشرتی اصلاح نہ کی تو ہمارے لئےلمحہ فکر یہ ہے کہ ہماری تہذیب کا کیا بنے گا.پاکستان جو ہم نے جانوں کی قربانی دے کر حاصل کیا.جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا.اسی لئے تو حاصل کیا گیا کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ مل جل کر نہ رہ سکتے تھے ہمیں ایک ایسے وطن کی ضرورت تھی جہاں ہماری تہذیب ہو جہاں ہمارا اپنا کلچر ہو.ہاں وہ تہذیب اور کلچر جو چودہ سوسال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے.کیا ہم دیانتداری کے ساتھ غیر ممالک کے بسنے والوں کے سامنے اپنی تہذیب کو یہ کہہ کر پیش کر سکتے ہیں کہ یہ وہ اعلیٰ ترین تہذیب ہے جس کی بنیاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ڈالی گئی تھی.ایک طرف ہمارا یہ دعوئی کہ ہماری ہر الجھن کا حل قرآن میں ہے دوسری طرف ہمارا عمل اس کے خلاف.یقینا یہ چیز ہمارے لئے باعث ذلت و عار ہے کہ دعویٰ کچھ اور عمل کچھ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو دنیا جہان کی نعمتیں دیں.اور ان کو خدا تعالیٰ کا فرمانبردار بنا کر دیں.جو تہذیب انسان کو خدا سے دور کرے وہ ہماری تہذیب نہیں ہونی چاہئے.جس کلچر سے ہماری اخلاقی قو تیں تباہ ہوں اور روحانیت مردہ ہو وہ کلچر ہمارا نہیں ہونا چاہئے.موجودہ زمانہ میں عورتوں کی مذہب سے بیگانگی.پردہ سے گھبرانا.مردوں سے اختلاط.اپنے فرائض سے گھبرا کر گھر کے باہر کی زندگی کو اختیار کرنا.قرآن مجید کی تعلیم سے ناواقفیت اللہ تعالیٰ نے اولاد کی تربیت کا جو فریضہ ان کے سپرد کیا ہے اس کو ادانہ کرنا کیا یہ سب امور اسلام کی تعلیم کے مخالف نہیں.آج بھی مسلمان ترقی کر سکتے ہیں تو قرآن پر عمل کرنے سے جس کا ایک حکم بھی ایسا نہیں جو نا قابل عمل ہو اور جس پر عمل کرنا ہمارے ایمان کا ضروری حصہ نہ ہو.مسلمانوں کا زندہ ہونا.ان کی ترقی منحصر ہے اس بات پر کہ ہم قرآن پر عمل کریں.قرآن پڑھیں ، سمجھیں، پڑھائیں.اور اپنی زندگیوں کو قرآن کی تعلیم کے مطابق ڈھالیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کریں.صلى الله آپ ﷺ کی قوت قدسیہ آج بھی زندہ ہے:.

Page 147

129 یہ سوال ہو سکتا ہے کہ کیا اخلاق تبدیل ہو سکتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.لِكُلِّ دَاءِ دَوَاءٌ (مسلم کتاب الاسلام) ہر مرض کا علاج دنیا میں موجود ہے ظاہری بھی اور روحانی بھی اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں یہ دعا سکھائی ہے.إِيَّاكَ نَسْتَعِين (سورۃ الفاتحہ: 5) انسان عبادت کرتے ہوئے ہر وقت اللہ تعالیٰ کی استعانت طلب کرتا رہے کہ اس کی مدد کے بغیر اور اس کے فضل کے بغیر انسان ترقی نہیں کر سکتا اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (سورة الفاتحة : 6) کی دعا ہمیشہ کرتا رہے.اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جب بھی اس کی ہدایت کے سامان مہیا فرمائے.تحدیث نعمت کے طور پر اسے فوراً قبول کرے اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات صرف اس زمانہ کے لئے نہیں آپ ﷺ کی برکات آپ کی قوت قدسیہ آج بھی زندہ ہے آپ ﷺ زندہ جاوید نبی ہیں اور آپ ﷺ کی ابدی زندگی کے ثبوت کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کا وعدہ فرمایا تھا کہ جب بھی اسلام میں داخلی و خارجی خرابیاں پیدا ہونے لگیں گی.اللہ تعالیٰ ا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح مطیع اور فرمانبرداروں کو دین کی حفاظت کے لئے کھڑا کرتا رہے گا.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور قرب میں ترقی کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے رہیں گے اور اسلام کا احیاء کرتے رہیں گے.ہر صدی کے سر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ایک مجدد نے آنا تھا اور چودھویں صدی کے سر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود جو مہدی معہود بھی ہوگا کا آنا مقدر تھا.مقام خوف:.12 ربیع الاول مطابق 2 جولائی 1966ء کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر پورے چودہ سو سال ہورہے ہیں اگر ہمیں یہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رب العالمین اب بھی اسی طرح جاری ساری ہے اگر ہمیں یہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کہی ہوئی کوئی بات غلط نہیں نکلی اگر ہمیں یہ یقین ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں نے بہر صورت پورا ہونا تھا تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جس مسیح موعود علیہ السلام

Page 148

130 کی آمد کے ذکر سے احادیث کی کتب بھری پڑی ہیں وہ آچکا ہے اور اس کا نام مرزا غلام احمد ہے.پس اللہ تعالیٰ کا خوف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے والے انسان کے لئے بڑا ہی خوف کا مقام ہے کہ خدا کے وعدے اسلام کی حفاظت کے پورے ہو چکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں پوری ہو گئیں.آنے والا مہدی اور مسیح آچکا ہے.اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کو مقرر کیا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا.(ال عمران: 104) اللہ تعالیٰ کے مامور کے ہاتھ پر اکٹھا ہو جانے اور تفرقہ چھوڑ کر اتحاد اور وحدت اختیار کر لینے سے ہی اسلام کو فتح اور ترقی حاصل ہوسکتی ہے.اور مسلمانوں کو پھر وہ بلند درجات حاصل ہو سکتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور صحابیات کو ملے بے شک قرآن مجید ہمارے لئے مکمل ضابطۂ حیات ہے.لیکن کامل شریعت اور کامل تعلیم ہوتے ہوئے بھی مسلمان اسے بھول چکے تھے نہ پڑھتے تھے نہ اس پر عمل کرتے تھے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسی لئے مبعوث فرمایا کہ آپ قرآن مجید کے خزانے دنیا کو تقسیم کریں.اور قرآن کے ذریعہ سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کریں جس پر چلنے میں ہمارے لئے راہ نجات ہے اور جس پر چل کر ہم وہی اخلاق فاضلہ اور فضائل حسنہ حاصل کر سکتے ہیں جو قرآن سکھاتا ہے.مستورات سے خطاب:.میں اپنے اس مضمون کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ایک مضمون کے اقتباس سے ختم کرتی ہوں آپ فرماتے ہیں عورتوں کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ اپنی اولادوں کے دلوں پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی نقوش نقش کرتی رہیں.عورتوں کو خصوصیت کے ساتھ میں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ سب سے زیادہ احسان ان پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے کیونکہ دنیا کے پردہ پر عورتوں سے بڑھ کر کوئی مظلوم قوم نہ تھی.وہ حقیر اور ذلیل سمجھی جاتی تھی اور ان کو کہیں بھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عورتوں پر بہت بڑا احسان ہے کہ آپ ﷺ نے ان کی قدرو منزلت قائم کی اور ان کے احساسات و جذبات کا خیال رکھنے کی مردوں کو ہدایت کی اس احسان کی یاد میں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر

Page 149

131 کیا ہے ان کا فرض ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ آپ ﷺ کے اعمال اور اخلاق کی نقل کریں اور اعمال و اخلاق کے یہی نقوش اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں آج کا انسان در اصل مجبور ہوتا ہے اُن اخلاق سے جو نو یا دس سال کی عمر میں اُس کے بنا دیے جاتے ہیں وہ نو یا دس سال کی عمر تک ماں کی گود میں پلتا اور اسی سے اخلاق و عادات سیکھتا ہے.پس تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر اپنی اولاد کے دلوں پر کھینچو تا کہ جب وہ بڑے ہوں تو انہیں کسی نئی تصویر کی ضرورت محسوس نہ ہو.بلکہ ان کے بڑے ہونے کے ساتھ ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تصویر بھی نقش ہو جائے جو اُن کی ماؤں نے ان کے دلوں پر کھینچی تھی.اس کے ساتھ ہی میں بڑوں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ جو کوتا ہی آپ لوگوں سے اب تک اس سلسلہ میں ہو چکی ہے اس کو دور کرو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ پیش کرو کہ دنیا والوں کو اس جہان میں اس کے سوا اور کوئی چیز نظر ہی نہ آئے.جیسے ایک شاعر نے کہا ہے کہ جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے“ " صلى الله اسی طرح ان اخلاق میں ترقی کرتے کرتے ایسی حالت ہو جائے کہ کچھ عرصہ کے بعد ہم جدھر بھی دیکھیں ہمیں سوائے محمد ﷺ کے اور کوئی نظر نہ آئے خواہ وہ چھوٹا محمد ﷺ ہو یا بڑا محمد.اور یقینی بات ہے کہ جب اس دنیا میں ہمیں محمد ﷺ ہی محمد ﷺے نظر آنے لگیں گے تو چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی صفات کی ایک تصویر ہیں.اس لئے دنیا میں توحید کامل پیدا ہو جائے گی اور شرک باقی نہیں رہے گا کیونکہ جہاں خدا ہی خدا ہو وہاں شرک باقی نہیں رہ سکتا.(انوار العلوم جلد 17 ص: 138تا 140) اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ (الفضل سيرة النبي نمبر 1966 )

Page 150

132 سیرت حضرت مصلح موعود خلیفه لمسیح الثانی کی ایک جھلک حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو ہم سے جدا ہوئے ایک سال ہو گیا.لیکن آج بھی ان کی یاد دل کے تاروں کو ایسا جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے کہ بے اختیار دل چاہتا ہے کاش آپ کچھ عرصہ اور ہم میں رہتے لیکن جب اللہ تعالیٰ کا ارشاد كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجُهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (الرحمن 28,27) یاد آجاتا ہے تو روح آستانہ الہی پرسجدہ ریز ہوتے ہوئے کہتی ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ (البقره: 157) ہر بڑے انسان کی سیرت کچھ اعلیٰ اوصاف اور فضائل اپنے اندر رکھتی ہے.لیکن دنیا میں بعض انسان ایسے بھی پیدا ہوئے ہیں جو قوموں کی تقدیریں بدلنے کے لئے آتے ہیں.جن کو اللہ تعالیٰ دنیا میں نمونہ بنا کر بھجواتا ہے.تا اس کی تقلید میں قوم میں بھی وہی اعلیٰ عادات اور فضائل پیدا ہوں.حضرت فضل عمر بھی ایسے وجودوں میں سے ایک تھے.جن کی زندگی کا ہر ہر لحہ بے نفسی کے ساتھ یاد خدا تعالیٰ اور خدا تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت میں گزرا.آپ کی زندگی کا ہر ہر واقعہ ایسا ہے جس پر مضامین لکھے جا سکتے ہیں.اور سینکڑوں مضامین اس وقت تک لکھے بھی جاچکے ہیں.لیکن ایک سال گزرنے پر بھی اب تک میرا خیال یہ ہے کہ جب آپ کی سیرت کے متعلق کچھ لکھنے لگتی ہوں تو آنکھیں دھندلی اور دماغ ماؤف ہونے لگتا ہے.قلم لڑکھڑانے لگتا ہے.اور ایک حد تک سوچنے کے بعد دل اور دماغ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں.بہر حال کوشش کروں گی کہ مدیرہ مصباح کے اصرار پر حضرت فضل عمر کی سیرت کی ایک جھلک قارئیں کے سامنے پیش کروں شاید میری یہ مساعی بہنوں کی اصلاح کا موجب ہو.اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا ہی اس لئے کیا ہے تا وہ اس کا سچا عبد بنے لوگ عبادت کرتے ہیں نمازیں پڑھتے ہیں.مگر ہرانسان کا نماز اور عبادت کا رنگ علیحدہ ہوتا ہے.نماز وہ نہیں کہ دوسروں کے سامنے تو لیے سجدے کر لئے لیکن علیحدہ جلدی جلدی پڑھ لیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی جب نماز باجماعت پڑھاتے تھے تو عموماً جلدی ختم کروا دیتے تھے کہ پیچھے نماز پڑھنے والوں میں بوڑھے اور کمزور بھی شامل ہوتے ہیں.بیماری کے باعث کبھی خود نماز کونہ جاسکتے تو نماز یا خطبہ دینے والے کو بھی حضور کا یہی ارشاد ہوا کرتا تھا کہ چھوٹا

Page 151

133 خطبہ دیں اور نماز بہت لمبی نہ پڑھا ئیں.لیکن علیحدگی میں جب آپ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے تو آپ کی عبادت الہی میں اتنا انہماک ہوتا تھا کہ پاس بیٹھنے والا محسوس کرتا تھا کہ یہ شخص اس دنیا میں نہیں ہے میں نے آپ کو اس طرح روتے کہ پاس بیٹھنے والا آواز سنے بہت کم دیکھا ہے.لیکن آنکھوں سے رواں آنسو ہمیشہ نماز پڑھتے میں دیکھے.چہرہ کے جذبات سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ گویا اپنی جان اور اپنا دل ہتھیلی پر رکھے اللہ تعالیٰ کی نذر کر رہے ہیں اور اس وقت دنیا کا بڑے سے بڑا حادثہ اور بڑے سے بڑا واقعہ بھی آپ کی توجہ کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف سے ہٹا نہیں سکے گا.تہجد کی نماز بعض دفعہ اتنی لمبی ہو جاتی کہ مجھے حیرت ہوتی تھی کہ اتنا لمبا وقت آپ کھڑے کس طرح رہتے ہیں.میں نے سجدہ کی نسبت قیام میں آپ کو زیادہ دعائیں کرتے دیکھا ہے.بعض دفعہ ایک ایک رکعت میں ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو گھنٹے کھڑے رہتے ہیں.تہجد میں آپ کا عموماً یہ طریق تھا کہ ایسے وقت میں تہجد پڑھتے کہ تہجد کی نماز ختم ہونے اور صبح کی نماز میں خاصا وقت ہوتا.تہجد پڑھ کر لیٹ جاتے اور تھوڑا سا سو بھی لیتے اور پھر اٹھ کر صبح کی نماز پڑھتے.نماز با جماعت کا اتنا خیال تھا کہ جب بیمار ہوتے اور مسجد نہ جاسکتے تو گھر میں ہی اپنے ساتھ عموماً مجھے کھڑا کر لیا کرتے اور جماعت سے نماز پڑھا دیتے تاکہ نماز با جماعت کی ادائیگی ہو جائے.سوائے گزشتہ چند سال کی بیماری کے بالکل صاحب فراش ہو گئے تھے.اور لیٹے لیٹے یا کرسی پر نماز پڑھتے تھے.ذکر الہی کرنے کی اتنی عادت تھی کہ رات کو سوتے ہوئے جب کروٹ بدلتے اور ہلکی سی آنکھ کھلتی تو ہمیشہ میں نے سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیم - کہتے ہوئے سنا ہے.جمعہ کے دن خاص اہتمام فرماتے تھے.باقاعدگی سے نہانا، خوشبولگانا، اچھی اور نفیس خوشبو بہت پسند تھی ناک کی حس اتنی تیز تھی کہ معمولی سی بو برداشت نہیں کر سکتے تھے اور بہت تیز خوشبو سونگھتے ہی بتا دیتے تھے کہ کس قسم کی خوشبو ہے مجھے یاد ہے قادیان میں ایک انگریز حضور سے ملنے آیا.وہ خوشبوؤں اور عطریات کا خاص ماہر تھا.اسے اس سلسلہ میں اتنا بڑا دعویٰ تھا کہ اس نے اپنی ناک کئی ہزار پونڈ میں بیمہ کروائی ہوئی تھی.اس نے آ کر بعض خوشبوئیں حضور کو سنگھا ئیں آپ نے جب ایک ایک کر کے اجزاء بتانے شروع کر دیئے تو اسے بڑی حیرت ہوئی کہ مذہبی راہنما کو خوشبوؤں کے متعلق اتنا وسیع علم کیسے ہو گیا.کہنے لگا میں تو اس علم کا ماہر ہوں.لیکن آپ کو مجھ سے بھی زیادہ علم ہے بعض باتیں آپ نے مجھے ایسی بتائیں ہیں جو مجھے بھی معلوم نہ تھیں.جمعہ کے دن صرف غسل کرنے یا کپڑے بدلنے کا ہی اہتمام نہ فرماتے بلکہ کھانے وغیرہ کے متعلق بھی

Page 152

134 فرمایا کرتے تھے مسلمانوں کے لیے یہ عید کا دن ہے.دوسرے دنوں سے ہمیں اچھا کھانا کھانا چاہئے تا خوشی کا اظہار ہو.جب تحریک جدید جاری فرمائی تو آپ نے اپنے گھر میں بھی سختی فرمائی کہ ایک سے زائد کھانا نہ ہوا کرے.کبھی آپ کے خیال سے ہی ہم نے ایک سے زائد کھانا پکا لینا تو آپ نے ناراض ہونا.کہ میں کبھی ایک سے زائد کھانا نہیں کھاؤں گا.سوائے دعوت وغیرہ کے.لیکن جمعہ کا دن ہے آج بے شک ایک آدھ زائد چیز تیار کر لیا کرو.یوں تو قرآن مجید کی تلاوت جیسا کہ پچھلے مضمون میں میں بیان کر چکی ہوں.آپ کثرت سے فرماتے تھے.اور عموماً زبانی بھی قرآنی دعائیں اور آیات بلند آواز سے پڑھتے رہتے تھے.لیکن سب سے زیادہ اور بارہا جو آیات گھر میں ٹہلتے ہوئے سفر میں موٹر میں یا ریل میں ہزاروں مرتبہ آپ کو بار بار پڑھتے سنی ہیں وہ آیات یہ ہیں :.إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَأَيْتِ لِأُولِى الأَلْبَابِ O الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبُحْنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِئُ لِلإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَامَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ O رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدَتْنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيْمَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ - (آل عمران آخری رکوع 191 تا 195) سفر کو جاتے ہوئے آپ کا قادیان تک یہ طریق رہا کہ جب کبھی باہر جانا ہوتا تو جانے والے دن بہشتی مقبرہ ضرور تشریف لے جاتے اور جانے سے تھوڑی دیر قبل بیت الدعا میں جا کر دو نفل پڑھ کر سب سے مل کر سب سے آخر میں حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مل کر روانہ ہوتے موٹر یا گاڑی میں بیٹھتے ہی دعائیں پڑھنی شروع کر دیتے.اور اکثر بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے.اللَّهُمَّ رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَمَا أَظْلَلْنَ وَرَبِّ الْأَرْضِينَ السَّبْعِ جب قادیان واپسی ہوتی.تب آپ گھر میں داخل ہو کر سب سے پہلے حضرت اماں جان سے ملتے پھر بیت الدعا میں نفل پڑھتے.قادیان سے ہجرت کے بعد بھی بیت الدعا تو نہ تھی.لیکن سفر پر جاتے ہوئے

Page 153

135 گھر میں ہی دو نفل پڑھ کر روانہ ہوتے تھے.مجھے کبھی آپ کا سفر یاد نہیں کہ آپ یونہی روانہ ہوئے ہوں.حضرت اماں جان کی وفات کے بعد اکثر مجھے یاد ہے کہ لا ہور وغیرہ جاتے ہوئے راستہ میں بہشتی مقبرہ ربوہ میں ٹھہر کر دعا فرما کر روانہ ہوا کرتے تھے.سفر میں آپ کی جیب میں چھوٹی حمائل ہمیشہ رہتی.اور اکثر راستہ میں قرآن مجید کی تلاوت فرماتے رہتے.قرآن مجید کے سلسلہ میں ایک واقعہ یاد آیا.ایک دفعہ جلسہ کے لئے میں نے تقریر تیار کرنی تھی.میں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کس موضوع پر تقریر کروں فرمانے لگے یہ بھی کوئی مشکل بات ہے.قران مجید کھولو.جس آیت پر سب سے پہلے نظر پڑے اس کے مطابق مضمون تیار کرلو.فرمانے لگے.میرا تو یہی طریق رہا ہے.سوائے اس کے کہ کسی خاص سلسلہ میں خطبہ جمعہ میں کوئی مضمون بیان کرنا ہو عموماً جمعہ پر جاتے ہوئے قرآن مجید ہاتھ میں لے کر دعا کر کے کھولتا ہوں.جہاں سے ورق کھلتے ہیں جو آیات سب سے پہلی بار نظر آتی ہیں وہی مضمون بیان کر دیتا ہوں.طبیعت بے حد سادہ تھی.نمائش سے گھبراتے تھے لیکن سادگی کے ساتھ طبیعت میں نفاست بہت زیادہ تھی.گندگی سے نفرت تھی.ہم سب کو یہی تلقین تھی کہ سادہ رہو.لیکن صاف ستھرے رہو اور لباس سے خوش ذوقی کا اظہار ہو.کھانا سادہ پسند کرتے تھے.مگر اچھا پکا ہوا.کھانا اکیلے بالکل نہیں کھا سکتے تھے.کام کی وجہ سے خواہ کتنی بھی دیر ہو جائے جس بیوی کے گھر حضور کی باری ہوتی تھی وہ اور بچے آپ جب تک فارغ ہو کر آنہ جائیں.حضور کا انتظار کرتے رہتے تھے.اور ساتھ کھاتے تھے.تربیت کی غرض سے خود فرمایا کرتے تھے کہ بچوں کو خود ساتھ بٹھایا کرو.یہی تو وقت ہوتا ہے جس میں بچوں کی عادات اور اخلاق کا میں مطالعہ کرتا ہوں.میری بچی امتہ المتین چھوٹی سی تھی ہم کھانا کھا رہے تھے آپ نے اسے مخاطب ہو کر فرمایا متین دیکھو تمہاری امی سے مجھے ہر قسم کی بات کرنی پڑتی ہے.سلسلہ کے معاملات بھی ہوتے ہیں.تم بھی موجود ہوتی ہو کبھی ایسا نہ کرنا کہ کوئی بات سنو تو آگے کر دو اس طرح کھانے کے موقعہ پر ہی عموماً بچوں کی تربیت کا موقع ملتا تھا.اولاد سے باوجود انتہائی محبت کے اگر کوئی ایسی بات ملاحظہ فرماتے جس میں احمدیت کے لئے غیرت کا سوال ہوتا تو بے حد ناراض ہوتے.ایک بچی کی شادی تھی.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے گھر کے سب بچے بچیوں کی شادیاں بہت ہی سادگی سے ہو ئیں کبھی کوئی رسم وغیرہ نہیں ہوئی.اس نے سہیلیوں سے سنا کہ سہرا بھی کوئی چیز ہوتی ہے.جو

Page 154

136 باندھتے ہیں.سہرا منگوالیا.حضور کو پتہ لگا ناراض ہوئے کہ ہم نے تو دنیا کے لئے نمونہ بنا ہے اور رسوم اور بدعتوں کو مٹانا ہے ابھی سہرا میرے پاس لاؤ.آپ کے پاس پہنچا دیا گیا کہنے لگے میں ابھی جلاؤں گا تا ہمارے گھر میں آئندہ سبق حاصل ہو کہ رسم نہیں ہوگی.آپ سہرا ہاتھ میں پکڑے ہوئے باورچی خانہ کی طرف جارہے تھے کہ چولہے میں ڈال دیں.راستہ میں صحن میں حضرت اماں جان بیٹھی تھیں.آپ نے دریافت فرمایا کیا معاملہ ہے؟ آپ نے سارا واقعہ بتا دیا.حضرت اماں جان فرمانے لگیں.”میاں شادی کا سامان تو سہاگ کی نشانی ہوتا ہے.جلاؤ نہ پھینک دو.آپ نے اس پر جلایا تو نہیں مگر قیچی منگوا کر ذرہ ذرہ کر کے کوڑے کے پیپہ میں ڈال دیا.اس واقع میں دو بڑے سبق ہیں ایک تو یہ کہ سہرا صرف گھر میں آیا تھا لگایا نہیں گیا تھا.لیکن آپ نے اس غرض سے کہ جماعت اور خاندان کی تربیت ہو وہ رسوم چھوڑیں.اس کو جلانے کا ارادہ کر لیا.اور دوسری طرف حضرت اماں جان کا کتنا احترام تھا کہ جب آپ نے جلانے سے منع فرمایا تو آپ کے فرمانے کے مطابق عمل کیا.لیکن افسوس ہے کہ اب بھی ہماری جماعت میں کثرت سے ایسے خاندان ہیں جن میں شادیوں پر بڑی رسوم ہوتی ہیں.خاص طور پر سسرال کو جوڑے دینے لڑکی والوں سے ان کی حیثیت سے زیادہ کے مطالبے کرنے جن کے متعلق کئی بار حضرت مصلح موعود نے شورٹی میں منع فرمایا اور غریب گھرانے نمودونمائش کی خاطر مالی بحران میں مبتلا ہو جاتے ہیں.کاش ہماری جماعت کے لوگ حضرت مصلح موعود کا نمونہ دیکھیں اور آپ کی نصائح اور نمونہ پر عمل کرتے ہوئے رسوم کو چھوڑیں جن رسوم کو دور کرنے اور بدعتوں سے پاک کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تھے.اسی طرح ایک دفعہ ایک بچی نے دکان سے ایک بلاؤز خرید لیا.یہ خیال نہ کیا کہ نیم آستین ہے خوبصورت اور نئی قسم کی چیز تھی.پہنا حضور نے دیکھ لیا اسی وقت کہا کہ ابھی جا کر بدلو اور یہ میرے پاس لے کر آؤ.جب اس بچی نے حضور کے حکم کی تعمیل کی تو وہ بلاؤز لے کر قینچی سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تا پھر کسی اور کو اس کی خلاف ورزی کرنے کی جرات نہ ہو.جب کبھی کسی خاص امر کے لئے دعا کر رہے ہوتے تو بیویوں اور بچوں کو بھی دعا کے لئے کہا کرتے تھے اور یہ بھی کہنا کہ آجکل اس معاملہ میں دعا کی بہت ضرورت ہے.چندہ کی تحریک کرنی تو اس بات کا خیال رکھنا کہ سب بچے وغیرہ کتنا کتنا چندہ لکھواتے ہیں اگر کسی نے کم لکھوانا تو اس کو متوجہ کرنا کہ تم اس سے زیادہ قربانی کر سکتے ہو یا کسی نے چندہ لکھوا کر ادا ئیگی میں دیر کر نی تو

Page 155

137 ماؤں سے کہنا کہ تم بچوں کو توجہ دلاؤ.جب حضور نے تحریک جدید شروع کی تو شروع میں تحریک جدید کا اعلان صرف تین سال کے لئے فرمایا تھا.لوگوں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر قربانی دی تھی.تین سال کے بعد آپ نے اسے دس سال کے لئے بڑھا دیا اور فرمایا کہ اگر کوئی چاہے تو تیسرے سال کے وعدہ سے چوتھے سال کا وعدہ کم کر سکتا ہے.لیکن آئندہ ہر سال اس وعدہ میں اضافہ کرتا جائے.میں نے کچھ حالات کی تنگی کے باعث اس سال کا وعدہ کم کر دیا.آپ نے مجھے لکھا کہ بے شک اجازت میں نے دی تھی لیکن تم سے میں یہ امید نہیں رکھتا تھا کہ کم کر دو گی.جتنا میں تمہیں جیب خرچ دیتا ہوں اتنے میں بعض لوگ اپنے بیوی بچوں کا خرچ چلاتے ہیں اس زمانہ میں حضور ہمیں پندرہ روپے ماہور بطور جیب خرچ دیتے تھے ) اس واقعہ کے بیان کرنے سے میری یہ غرض ہے کہ کس طرح آپ کو خیال تھا کہ جس طرح آپ اسلام کی خاطر تن من دھن قربان کر رہے ہیں آپ کی بیویاں اور بچے بھی اسی طرح اسلام کی خاطر ہر ممکن قربانی کریں.واقعات تو ہزاروں ہیں لیکن آج کل رمضان المبارک میں اتنی فرصت نہیں کہ کوئی لمبا مضمون لکھ سکوں.صرف چند واقعات پر اکتفا کرتے ہوئے قارئین مصباح کی خدمت میں دعا کی درخواست کرتی ہوں کہ میرا مولیٰ مجھ سے راضی ہو جائے.انجام بخیر ہو.اللہ تعالیٰ بغیر حساب کے بخش دے.اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں مصلح موعود کا ساتھ چنا تھا.اس ابدی زندگی میں بھی ان کا ساتھ نصیب ہو.اور جو بقیہ زندگی ہے وہ خدمت اسلام اور خدمت مخلوق خدا میں بسر ہو.آمین الھم آمین مصباح جنوری 1967

Page 156

138 حضرت خلیفتہ اسح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جاری کردہ تحریکات میں سے ایک ضروری تحریک......ترک رسومات الفضل 18 مئی 1967ء میں مکرمی محترمی مسعود احمد خان صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں آپ نے احباب جماعت کو ان تمام تحریکات کی طرف توجہ دلائی ہے جو حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے سریر آرائے خلافت ہونے کے بعد جماعت کے سامنے رکھی ہیں.لیکن ایک تحریک کا ذکر ان سے رہ گیا ہے.چونکہ اس کا تعلق خاص طور پر مستورات سے ہے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ اس کے متعلق بھی احباب جماعت خصوصاً مستوارت کو توجہ دلاؤں.اس سے قبل بھی حضور کے ارشادات کی روشنی میں جہاں بھی اور جب بھی تقریر کرنے کا موقع ملا اس طرف مستورات کو توجہ دلاتی رہی ہوں اللہ تعالیٰ انہیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.تفصیل میں جانے سے قبل اصولی طور پر بہنوں کو قرآن مجید کی اس تعلیم کی طرف توجہ دلاتی ہوں کہ اَطِيْعُو اللَّهَ وَأَطِيعُو الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمُ.(النساء : 60) اللہ تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ خلفاء کی اطاعت ہم پر فرض ہے اور بغیر مکمل اطاعت کے ترقی ناممکن.ہر تحریک جو خلیفہ وقت کی طرف سے پیش ہو اس پر ہر مرد عورت اور بچہ کا لبیک کہنا ضروری ہے.تمام تنظیموں کا کام بھی یہی ہونا چاہئے کہ خلیفہ وقت کی تحریکات کو چلانے میں اپنی قوتیں بروئے کارلائیں.حضرت مصلح موعود نے بھی جب لجنہ اماء اللہ کا قیام فرمایا تو تو لجنہ کے دستور کی ایک شق یہ قراردی که اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لئے جو بھی خلیفہ وقت ہو اس کی تیار کردہ سکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مد نظر رکھ کر تمام کاروائیاں ہوں.“ الازهار لذوات الخمار صفحہ 53 گویا لجد اماءاللہ کے تمام پروگرام اس امر کو مدنظر رکھ کر بنائے جائیں کہ ان پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ خلیفہ وقت کی پیش کردہ تحریکات کی تکمیل ہو سکے.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جو تحریکات جماعت کے سامنے رکھی ہیں ان میں سے ایک تحریک جماعت سے رسومات کی

Page 157

139 بیخ کنی کرنا ہے.آپ نے خطبہ جمعہ 15.اپریل 1966 ء میں فرمایا تھا.پہلا امتحان اور آزمائش وہ احکام الہی یا تعلیم الہی ہے جو ایک نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آتا ہے اور جس تعلیم کے نتیجہ میں مومنوں کو کئی قسم کے مجاہدات کرنے پڑتے ہیں.بعض دفعہ اپنے مالوں کو قربان کرنے سے اور بعض دفعہ اپنی عزتیں اور وجاہتیں اللہ تعالیٰ کے لئے نچھاور کرنے سے “ اسی تسلسل میں آپ فرماتے ہیں."خدا تعالیٰ کے احکامات میں ایک حصہ نواہی کا ہے یعنی بعض باتیں ایسی ہیں جن سے وہ روکتا ہے مثلاً د نیوی رسم و رواج ہیں جن کی وجہ سے بعض لوگ اپنی استطاعت سے زیادہ بچوں کی بیاہ شادی پر خرچ کر دیتے ہیں حالانکہ وہ اسراف ہے جس سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے.وہ کہتے ہیں اگر ہم نے رسم و رواج کو پورا کرنے کے لئے خرچ نہ کیا ہمارے رشتہ داروں میں ہماری ناک کٹ جائے گی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری خاطر رسم و رواج کو چھوڑ کر اپنی ناک کٹواؤ تب تمہیں میری طرف سے عزت کی ناک عطا کی جائے گی.“ الفضل 20 اپریل 1966 19.اگست 1966 ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پھر جماعت کو اس طرح توجہ دلائی کہ جماعت میں رسومات پھر سر اٹھا رہی ہیں اور ان کا تدارک کرنا چاہیے.آپ فرماتے ہیں.پس میں جماعت کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے وہ مطالبات جو سادہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ان کو جماعت میں دہرایا جائے اور افراد جماعت کو پابند کیا جائے کہ وہ ان مطالبات کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو سادہ بنائیں.اس طرح بعض جگہ سے شکایت آتی رہتی ہے کہ بعض خاندانوں میں رسوم اور بدعات عود کر رہی ہیں مثلاً شادی کے موقع پر اسراف کی راہوں کو اختیار کیا جاتا ہے بعض لوگ تو اس کے نتیجہ میں مقروض ہو جاتے ہیں اور پھر ساری عمر ایک مصیبت میں گزارتے ہیں یہ تو وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ ان کو اس دنیا میں دے دیتا ہے لیکن ایک اور سزا ہے جو بظاہر ان کو نظر نہیں آتی کہ اس کے نتیجہ میں وہ بہت سی ایسی نیکیوں سے محروم ہو جاتے ہیں کہ اگر وہ سادگی کو اختیار کرتے اگر وہ رسوم کی پابندی کو چھوڑ دیتے تو اللہ تعالیٰ ان کو ان نیکیوں کی توفیق عطا کرتا.“ الفضل 8 ستمبر 1969ء لجنہ اماءاللہ کے گزشتہ سالانہ اجتماع کے موقع پر بھی (22 اکتوبر 1966) حضرت خلیفہ اسیح الثالث

Page 158

ار 140 ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا.” ایک وقت ایسا تھا کہ حضرت مصلح موعود کی تقاریر اور نصیحتوں سے جماعت تقریباً تما بُری رسومات سے پر ہیز کرنے لگی تھی مگر اب پھر وہی بات ہم میں آگئی ہے اس کو دور کرنے کے لئے لجنہ کو خصوصی اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ رسومات ہمیں سیدھے راستے سے دور رکھتی ہیں اور خدا تعالیٰ کے شہر میں داخل ہونے سے روکتی ہیں.“ غرض لجنہ اماءاللہ کی تمام مرات اور تمام احمدی مستورات کا فرض ہے کہ وہ علاوہ دیگر تحریکات پر عمل کرنے کے اس ترک رسومات کی تحریک کو پورے زور وشور سے جاری کریں.رسومات کا پھر سے جماعت میں پیدا ہونا بھی عورتوں کی وجہ سے ہے ان میں اپنی جہالت کم عقلی ہے.قرآن مجید کی تعلیم سے لاعلمی کے باعث اور رشتہ داروں برادری سے مقابلہ کر سکنے کی ہمت اور جرات نہ ہونے کی وجہ سے وہ رسومات پھر سے پھیلنی شروع ہوگئی ہیں جو جماعت کے ابتدائی ماننے والوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس صحبت اور صداقت کو مان لیتے ہی ترک کر دی تھیں.حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لجنہ کو خصوصی اقدامات کرنے کے لئے فرمایا تھا.چنانچہ ہر لجنہ کی عہدیداروں کو چاہئے کہ وہ اس تحریک کو بار بار بہنوں کے سامنے لائیں.انہیں رسومات کے متعلق قرآنی تعلیم سے روشناس کروائیں.اور اپنی رپورٹ بھجواتے وقت اپنی مساعی کا ضرور ذکر کریں اور یہ بھی کہ کس حد تک انہیں کامیابی ہوئی.لیکن میری بہنو! کسی ایک آدمی یا چند آدمیوں کی کوشش سے رسومات دور نہیں ہوں گی جب تک ایک طرف تو ہر بہن یہ عہد کرے کہ میں اپنی زندگی کو اسلام اور قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق گزاروں گی دوسری طرف اس میں اطاعت کا اتنا عظیم الشان جذبہ پیدا ہو جائے کہ خلیفہ وقت کی طرف سے جس کام کے کرنے سے روکا جائے پھر بغیر کسی چون چرا ، حجت یا دلیل کے یکسر چھوڑ دے.ہماری زندگیاں نمونہ ہوں.صحابہ کرام آنحضرت ﷺ کا جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی صرف ایک آواز سنی کہ آج سے شراب تم پر حرام کی جاتی ہے اور پھر کسی نے شراب کو منہ نہ لگایا.یہ جذبہ، اطاعت اور عمل آج اگر ہم میں بھی پیدا ہو جائے کہ ہم ہر حکم کی تعمیل دل و جان سے کریں اور جس بات سے منع کیا جائے پھر اس کے قریب جانے کا سوال بھی باقی نہ رہے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد احمدیہ جماعت کو ساری دنیا پر غلبہ عطا فرما دے گا.

Page 159

141 حضرت مصلح موعود نے تحریک جدید بھی اسی غرض سے جاری فرمائی تھی جس کا مرکزی نقطہ سادہ زندگی اختیار کرنا تھا.بغیر سادہ زندگی کو اختیار کئے تکلفات اور رسومات سے منہ موڑنا بھی مشکل ہے.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک قربانی مانگتا ہے اور سب سے بڑی قربانی یہی ہے کہ ہم اپنی خواہشات اور جذبات کی گردن پر چھری پھیرتے ہوئے ہماری زندگیاں رسومات اور تکلفات سے پاک ہوں اور محض اللہ تعالیٰ کی خاطر ہو جائیں.الہی تو ہمیں تو فیق عطا فرما کہ ہم اپنی زندگی کی غرض و غائیت کو سمجھتے ہوئے امام وقت کے ہر حکم پر لبیک کہتے ہوئے اسلام کے لئے جدو جہد میں آگے ہی آگے بڑھتے جائیں تا وقتیکہ ہمارا نصب العین ہمیں حاصل ہو جائے.اے اللہ تو ایسا ہی کر.آمین اللہم آمین (الفضل 6 جون 1967ء)

Page 160

142 تحریک جدید دفتر سوم اور لجنات اماءاللہ کا فرض تحریک جدید کا آغاز حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے 1934 ء میں فرمایا شروع میں آپ نے تین سال کے لئے قربانیوں کا مطالبہ فرمایا.پھر دس سال پھر انہیں سال اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر پا کر آپ نے اعلان فرمایا کہ تحریک جدید دائمی ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا: یہ تحریک ہے تو دائمی ، نہ صرف دائمی بلکہ ہمارے ایمان اور اخلاص کا تقاضا ہے کہ تحریک ہمیشہ جاری رہے.جس طرح روٹی کھانا دائمی ہے.لیکن جب ہمیں روٹی نہیں ملتی تو ہم چلاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑاتے ہیں کہ وہ روٹی دے.اسی طرح ہمیں اشاعت دین کی بھی ضرورت ہے اگر ہمیں اشاعت دین کی بھی ضرورت ہے اگر ہمیں اشاعت دین کی توفیق ملتی ہے تو ہم تو خدا تعالیٰ کے ممنون احسان ہوتے ہیں اگر ہمیں اشاعت دین کی توفیق نہیں ملتی تو ہم شکر نہیں کرتے بلکہ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑاتے ہیں کہ اس نے ہم میں کیوں ضعف پیدا کر دیا.ہم دین کی خاطر کیوں قربانی نہیں کر سکتے.جتنی قربانی ہم پہلے کرتے تھے یہی ایمان کی ایک زندہ علامت ہے، اگر یہ علامت نہیں پائی جاتی تو سمجھ لو کہ ایمان نہیں پایا جاتا.“ تحریک جدید کا دور اول اور دور دوم تو حضرت مصلح موعود کے جاری فرمودہ ہیں دور سوم حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مصلح موعود کی طرف ہی منسوب فرماتے ہوئے جاری فرمایا ہے.دور اول کے لئے بڑوں نے بے نظیر قربانیاں دیں.لیکن آہستہ آہستہ وہ قربانیاں دینے والے اس دار فانی سے رخصت ہو کر اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہونے شروع ہو گئے.دور دوم نے ایک حد تک دور اول کا بوجھ بھی اٹھالیا.چاہئے یہ تھا کہ دور سوم میں شامل ہونے والوں کا چندہ دور اول کے برابر ہوتا.لیکن ابھی دور سوم کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی.خصوصاً مستورات یہ بجھتی ہیں کہ ان کے خاوند تحریک جدید میں شامل ہو گئے یہ کافی ہیں حالانکہ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ہر ایک اپنے اعمال کا جواب دہ ہوگا اور قربانیوں کی جزاء پائے گا.ہماری جماعت نے اگر زندہ رہنا ہے اور دنیا پر غالب آتا ہے تو ہم ایک منٹ کے لئے بھی نہیں سوچ سکتے کہ کوئی ایسا وقت بھی آسکتا ہے جب ہم سے قربانیوں کا مطالبہ نہیں ہوگا.اسلام کا پرچم ساری دنیا میں لہرانے کے لئے انتہائی قربانیوں کی ضرورت ہے اور اس کے لئے جماعت کی ہر عورت کو خود بھی قربانیاں دینی چاہئیں اپنے خاوندوں ، باپوں ، بھائیوں کو بھی تحریک کرتے رہنا چاہئے اور اپنی اولادوں کو بھی ابھی

Page 161

ار 143 سے ان قربانیوں کے لئے تیار کرتے رہنا چاہئے.جو آئندہ انہیں کرنی پڑی گی.حضرت مصلح موعود نے فرمایا تھا: پس کسی وقت جماعت میں اس احساس کا پیدا ہونا کہ اب کثرت سے روپیہ آنا شروع ہو گیا ہے.قربانیوں کی کیا ضرورت ہے.اب چندے کم کر دیئے جائیں.اس سے زیادہ جماعت کی موت کی اور کوئی علامت نہیں ہو سکتی........اگر یہ روپیہ ہماری ضرورت کے لئے کافی ہو جائے.تب پھر تمہارے اندر ایمان پیدا کرنے کے لئے تمہارے اندر اخلاص پیدا کرنے کے لئے ، تمہارے اندر زندگی پیدا کرنے کر لئے تمہارے اندر روحانیت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تم سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے اور ہمیشہ ہر آن کیا جائے.اگر قربانیوں کا مطالبہ ترک کر دیا جائے تو یہ تم پر ظلم ہوگا.یہ سلسلہ پر ظلم ہوگا.یہ تقویٰ اور ایمان پر ظلم ہوگا.“ الفضل 7 اپریل 1944ء پس نئی نسل میں تقویٰ ایمان اور قربانیوں کی روح پیدا کرنے کے لئے تا وہ اپنی ذمہ داری کو پہنچا ئیں اور وہ بوجھ جواب تک ان کے بڑے اٹھاتے چلے آئے تھے وہ اٹھا ئیں نئی نسل کے لئے تحریک جدید دور سوم کا اجراء حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.چاہئے کہ ہر احمدی عورت اور ہر احمدی بچی اس دور میں شامل ہو.اس میں شامل ہونے کے لئے کم سے کم مقدار سال میں دس روپے ہے اس اعلان کے ذریعہ میں تمام احمدی عورتوں اور بچیوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے درخواست کرتی ہوں کہ اپنے آقا حضرت خلیفۃ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے اخراجات میں کمی کرتے ہوئے سادہ زندگی اختیار کرتے ہوئے تحریک جدید دوم سوم میں شمولیت کریں.بچیاں اپنی کتابوں ، کاپیوں ، سکول اور کالج کے اخراجات پر خاصی رقم خرچ کر دیتی ہیں اسی خرچ میں سے تھوڑی کفایت کرتے ہوئے دس روپے سالانہ بچائیں اور تحریک جدید میں شامل ہو کر اس بینچ ہزاری فوج میں داخل ہو جائیں.جس کا وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا گیا تھا.حضرت خلیفة اصبح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے 30 جون 1967ء کے خطبہ میں بھی جماعت اور خصوصا احمدی مستورات کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا تھا.پس تحریک جدید کے دفتر سوم کی طرف خصوصاً مستورات اور عموماً وہ تمام احمدی مرد اور بچے اور نوجوان جنہوں نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی وہ اس طرف متوجہ ہوں.اور اپنی ذمہ داریوں کو

Page 162

144 نبھانے کی کوشش کریں.“ پس میری بہنو اور بچیو لبیک کہو امام وقت کی آواز پر لبیک کہو حضرت مصلح موعود کی قائم کردہ تحریک پر اور نام لکھا ؤ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہنچ ہزاری فوج میں تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر رحمتیں نازل ہوں.اور آپ کی قربانیوں کو قبول فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ اسلام کی فتح کے دن ہماری زندگیوں میں ہی لے آئے.آمین لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ 8 اگست سے پندرہ اگست تک ہفتہ تحریک جدید منایا جائے تمام عہدیداران لجنات اس ہفتہ میں اپنے اپنے شہر کی تمام احمدی مستورات کا جائزہ لیں کہ الف کتنی بہنیں اب تک تحریک جدید میں شامل ہیں.جو شامل ہو چکی ہیں ان سے وعدہ جات کی وصولی کا انتظام کریں.ج جو بہنیں ابھی تک تحریک جدید میں شامل نہیں ان تک یہ تحریک پہنچائیں اور ان.وعدہ جات لے کر دفتر تحریک جدید یا سیکرٹری تحریک جدید مقامی کو پہنچا دیں.عہدیداران اس سلسلہ میں یا درکھیں کہ تحریک جدید کا چندہ صدرانجمن کی رسید بکوں سے ہی لیا جائے جو مقامی سیکرٹری مال سے حاصل کی جائیں اور چندہ وصول کرنے کے بعد ان کو ہی واپس دی جائیں.مصباح اگست 1967 ء

Page 163

ار 145 اسلام ہی زندہ مذہب ہے روحانی تاریکی روحانی سورج ہی سے دور ہو سکتی ہے:.اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے ازل سے اس کا یہ قانون جاری ہے کہ انسان کی جسمانی پرورش اور ترقی کے ساتھ ساتھ اس کی روحانی ترقی اور اس کی تکمیل کے ذرائع بھی بہم پہنچاتا رہتا ہے یہ دونوں سلسلے یعنی روحانی اور جسمانی انسان کی تخلیق کے ساتھ شروع ہوئے اور ہمیشہ جاری رہیں گے یہ ناممکن ہے کہ انسان کی تخلیق کا جسمانی سلسلہ تو جاری رہے اور اس کی روحانیت کے نشو و نما اور اس کی ہدایت کا سلسلہ منقطع ہو جائے.روزانہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ رات کے بعد دن آتا ہے اور سورج تاریکی کو دور کرتا ہے.اسی طرح روحانی تاریکی بھی بغیر روحانی سورج کے دُور نہیں ہوسکتی.اور جس طرح ایک انسان آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتا.اسی طرح عقل رکھنے کے باوجود اپنی روحانی تربیت اور اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنے کے لئے روحانی آفتاب کا محتاج رہتا ہے.اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق یہ ناممکن ہے کہ کوئی قوم روحانی طور پر گمراہی میں مبتلا ہوئی ہو اور اللہ تعالٰی نے اس کی ہدایت کے سامان نہ کئے ہوں جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَافِيهَا نَذِيرٌ (فاطر: 25) پھر اللہ تعالیٰ کا یہ قانون بھی جاری ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم میں نبی بھیجتا ہے اور روحانی آفتاب ان کے لئے طلوع ہوتا ہے اس قوم کو ہدایت نصیب ہو جاتی ہے.روحانی تربیت حاصل ہو جانے کے ایک عرصہ بعد جب وہ پھر بگڑنے لگیں تو ان کو ان کے حال پر نہیں چھوڑ دیتا بلکہ ان کی اصلاح کے سامان پیدا کرتا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے.ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرًا كُلَّمَا جَاءَ أُمَّةً رَّسُولُهَا كَذَّبُوهُ (المومنون: 45 ہم یکے بعد دیگرے رسول بھیجتے رہے مگر جب کسی قوم میں رسول آیا تو انہوں نے اس کی تکذیب کی.اللہ تعالیٰ نے ہر مذہب کی بنیاد کسی نبی کے ذریعہ ہی قائم کی پھر اس نبی کی وفات کے بعد اس کے قائم کردہ سلسلہ کو جب تک زندہ رکھنا چاہا اس کی حفاظت کے لئے خلفاء یعنی اس نبی کے جانشین مبعوث فرماتا رہا ہے.لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو ختم کرنا چاہا تو پھر اس میں کوئی ربانی مصلح نہیں بھیجا.اور اس

Page 164

ار 146 طرح الہی حفاظت اس سلسلہ کی ختم ہوگئی جس کے نتیجہ میں وہ مذہب مُردہ مذہب ہو گیا یعنی پھر اس میں کوئی نبی مبعوث نہیں کیا گیا.ایسے مذاہب کا آخری سلسلہ جن میں انبیا مبعوث ہونے بند ہو گئے بنی اسرائیل کا تھا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد تیرہ سو سال تک ان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلفاء آتے رہے لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا.چونکہ اب یہ مذہب مُردہ ہے اس لئے اب اس میں کسی نبی کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اب دنیا میں صرف اسلام ہی زندہ مذہب ہے.زندہ مذہب صرف اسلام ہے:.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام ہی زندہ مذہب ہے تو ہمارا مطلب اسلام کی برتری اور فضلیت دوسرے مذاہب پر ثابت کرنا ہوتی ہے کہ صرف اسلام ہی ایک مذہب ہے جس کی تعلیم تمام دنیا کیلئے اور ہمیشہ کیلئے ہے.اسلام جس خدا کا تصور پیش کرتا ہے وہ زندہ خدا ہے.اسلام جو شریعت کل کے لئے پیش کرتا ہے وہ زندہ اور قابل عمل شریعت ہے.جس کی دائمی حفاظت کا وعدہ خود خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے اسلام جس نبی پر ایمان لانے کو کہتا ہے اس کی قوت قدسیہ اور برکات خود سو سال گزر جانے کے بعد اب بھی جاری ہیں.گویا اسلام کا خدا زندہ خدا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی اور قرآن مجید زندہ کتاب ہے اور اسلام کے سوا اس وقت روئے دنیا پر کوئی مذہب نہیں جو اپنی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے نشان پیش کر سکے اور جو یہ دعویٰ کر سکے کہ اسے اب بھی حفاظت حاصل ہے یہ فخر صرف اسلام کو ہی حاصل ہے کہ اس کے ماننے والے اب بھی کلام الہی سے مشرف رہتے ہیں اور زندہ خدا کا چہرہ دیکھ کر دوسروں کو وہ چہرہ دکھاتے ہیں اور جن کی تائید میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشان ظاہر کئے جاتے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.دو ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشان دکھلائے ثمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے ہم نے اسلام کو خود تجربہ کو خود تجربہ کر کے دیکھا نور اٹھو دیکھو سنایا ہم نے“ ہے نور در ثمین ص: 11

Page 165

147 مذہب کی غرض بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: مذہب سے غرض کیا ہے! بس یہی کہ خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی صفات کا ملہ پر یقینی طور پر ایمان حاصل ہو کر نفسانی جذبات سے انسان نجات پا جاوے.اور خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت پیدا ہو.کیونکہ در حقیقت وہی بہشت ہے جو عالم آخرت میں طرح طرح کے پیرایوں میں ظاہر ہوگا اور حقیقی خدا سے بے خبر رہنا اور اس سے دور رہنا اور سچی محبت اس سے نہ رکھنا.در حقیقت یہی جہنم ہے جو عالم آخرت میں انواع و اقسام کے رنگوں میں ظاہر ہوگا.اور اصل مقصود اس راہ میں یہ ہے کہ اس خدا کی ہستی پر پورا یقین حاصل ہو اور پھر پوری محبت ہو اب دیکھنا چاہئیے کہ کونسا مذ ہب اور کونسی کتاب ہے جس کے ذریعہ سے یہ غرض حاصل ہوسکتی ہے انجیل تو صاف جواب دیتی ہے کہ مکالمہ اور مخاطبہ کا دروازہ بند ہے اور یقین کرنے کی راہیں مسدود ہیں اور جو کچھ ہوا وہ پہلے ہو چکا اور آگے کچھ نہیں....ہم ایسے مذہب کو کیا کریں جو مردہ مذہب ہے.ہم اس کتاب سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو مردہ کتاب ہے اور ہمیں ایسا خدا کیا فیض پہنچا سکتا ہے.جو مردہ خدا ہے.روحانی خزائن جلد : 20 چشم مسیحی ص 353,352 اسلام کا پیش کردہ زندہ خدا: اسلام نے جس خدا کا تصور پیش کیا وہ مردہ خدا نہیں کہ کسی زمانہ میں تو اپنے بندوں پر مہربان تھا ان سے ہمکلام ہوتا تھا.اپنے مقربین کو اپنے کلام سے مشرف فرما تا تھا.ان کی دعاؤں کو سنتا اور ان کی ربوبیت کرتا تھا لیکن اب ان سے نہیں بولتا.اسلام اس خدا کو پیش کرتا ہے جو ساری کائنات کا رب ہے جو ابتدائے آفرینش سے انسان کی جسمانی اور روحانی ربوبیت کرتا چلا آتا ہے.اب بھی کرتا ہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا.وہ عالم الغیب ہے وہ انسان کی ہر ضرورت کو جانتا ہے خواہ مادی ہو یا روحانی اور ان ضرورتوں کے مطابق سامان بہم پہنچاتا ہے.اپنی رحمانیت کے تقاضہ کے ماتحت جہاں بن مانگے انسانوں کے لئے غذا کا انتظام کر رکھا ہے اسی طرح روحانی غذا کا انتظام بھی کرتا رہتا ہے.وہ رحیم ہے وہ بڑا ہی مہربان بہت ہی شفیق ہے.ایک ماں سے بڑھ کر مہربان اور پیار کرنے والا.ایک باپ سے بڑھ کر محبت کرنے والا.وہ ستار ہے.انسان گناہ کرتا ہے وہ اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے.وہ غفور ہے بلکہ غفار ہے.انساں گناہ کرتا ہے لیکن جب تو بہ کے لئے اس کے حضور گڑگڑاتا ہے سچے دل سے معافی مانگتا ہے تو وہ غفور الرحیم خدا اسے اپنی محبت اور عفو کی آغوش میں لے لیتا ہے وہ مالک یوم الدین ہے وہ بے شک اچھے اعمال کی جزا اور برے اعمال کی

Page 166

148 سزا دیتا ہے لیکن یہ یادر ہے وہ مالک ہے جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے معاف کر دیتا ہے وہ آریوں کے خدا کی طرح اس بات پر مجبور نہیں کہ انسان جب تک ایک جون سے دوسری جون میں جا کر اپنے گناہوں کی سزا نہ بھگت لے نجات نہیں حاصل کر سکتا ہے.وہ عیسائیوں کے خدا کی طرح ایک انسان کو صلیب پر چڑھا کر باقیوں کی نجات کا موجب بنانے پر مجبور نہیں وہ ازلی ابدی قادر خدا تمام دنیا کا خالق اور مالک ہے.ہر چیز اس کی ملک ہے ہر چیز اس کی محتاج ہے وہ کسی کا محتاج نہیں وہ سزا دیتا ہے.اسلئے کہ شریر اور دانستہ گناہ کرنے والے دلیر نہ ہوں.مگر جو غلطی کر کے اس کے در پر جھکتا ہے اس کے لئے وہ ماں سے بڑھ کر شفیق اور باپ سے بڑھ کر مہربان ہے.یہ ہے وہ خدا جس کا تصور اسلام نے پیش فرمایا ہے.اور ایسے خدا پر زندہ ایمان لا کر ان کی صفات کا ظہور دیکھ کر بے اختیار انسانی روح ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتح : 5) کہتے ہوئے اس کے آگے سجدہ ریز ہو جاتی ہے.کہ تو ہی اس لائق ہے کہ تیری عبادت کی جائے تو ہی ہمارا محبوب و مطلوب اور مقصد ہے.تجھ سے ہی تیرے فضل کے ہم طلب گار ہیں.اس لئے تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا کہ تیرے فضل کے بغیر نجات نہیں.جو حسین تصور قرآن مجید ذات باری کا پیش کرتا ہے کسی مذہب اور کسی کتاب نے ویسا کیا اس کا عشر عشیر بھی پیش نہیں کیا.قرآن مجید فرماتا ہے:.قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ.اَللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدٌ.(الاخلاص) گویا ایک شمشیر براں سے تثلیث کے عقیدہ کی جڑ ہی کاٹ کر رکھ دی.ایک تنگیٹی عقیدہ رکھنے والا تین خداؤں سے یکساں کیسے محبت کر سکتا ہے.لیکن اللہ احد کہنے والا جب اس احد اور صمد خدا کو جو ہر چیز سے بے نیاز ہے اور ساری کائنات کا ذرہ ذرہ اس کا محتاج ہے.اپنا مطلوب قرار دے دیتا ہے.تو دل و جان سے اس سے محبت کرنے اور اس سے زندہ تعلق پیدا کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے.احد کا لفظ اپنے اندر عجیب خصوصیت رکھتا ہے اور صرف یہی ایک لفظ ہے جس میں کسی رنگ میں دوئی کا اظہار نہیں ہوتا.احد کے معنے ہیں وہ ذات جو ایسی ایک ذات ہے کہ جس کا تصور کریں تو دوسری کسی ذات کا خیال بھی دل میں نہ آسکے.اور احد وہ صفت ہے کہ جو سب خلق سے منزہ ہو اور دراصل اللہ تعالیٰ کی اصل شان احدیت ہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی اس شان کو صرف قرآن نے پیش کیا ہے.اسی طرح مندرجہ ذیل آیات میں قرآن مجید کیا پیارا تصور ذات باری کا پیش فرماتا ہے:.اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا

Page 167

149 فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَؤُدُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ ﴿ سوره البقره : 256 یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات اپنے حسن واحسان اور بے عیب ہونے کے باعث اس بات کے لائق ہے کہ صرف اسی کی پرستش کی جائے وہی انسان کا حقیقی محبوب و مطلوب ہو اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ازلی و ابدی خداتی و قیوم ہے وہ زندہ ہے اور زندگی بخشتا ہے دنیا ، زمین آسمان اور اس کی ہر چیز کی زندگی کا انحصار اس کی ذات پر ہے.اس کے لئے کوئی فنا نہیں فنا تو الگ رہی نیند یا اونگھ یا تھکان کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا.اس نے عیسائیوں کے خدا کی طرح دنیا کے بنانے کے بعد تھک کر آرام نہیں کیا.وہ اپنی مخلوق کی حفاظت سے کبھی بھی غافل نہیں ہوتا زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے اس کا ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کی جرات کر سکے.کتنا دل موہ لینے والا تصور ہے.اسلام کے زندہ خدا کا جس پر دل سے ایمان لے آنا ایک رسمی ایمان نہیں رہتا بلکہ ایک ٹھوس حقیقت بن جاتا ہے.یہ وہ ایمان ہے جس کا مزہ چکھ کر انسان اللہ تعالیٰ کے لئے آگ میں کود پڑتا ہے سمندر میں چھلانگ لگا دیتا ہے دُنیا کی بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکر لے لیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا خدا اس کی پشت پناہی کر رہا ہے.دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں نے اپنی طاقت کے نشہ میں خدا کے پیارے بندوں سے ہمیشہ ہی مخالفت کی.ان کے راستوں میں روڑے اٹکائے ہر قسم کا ہتھیار ان کے خلاف استعمال کیا.مگر وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے.لَا غُلِينَ أَنَا وَرُسُلِي کہ میں اور میرے فرستادہ دنیا کی ساری مخالفت کے باوجود غالب آکر رہیں گے.خدا پر زندہ ایمان کے نتیجہ میں خدا کے وعدہ پر تو کل رکھتے ہوئے خدا کا پیارا بندہ جسے خدا تعالیٰ نے کسی خاص مقام پر کھڑا کیا ہمیشہ ہی ساری دنیا پر غالب آیا.یہی وہ ایمان تھا جس نے حضرت ابراہیم کو آگ سے زندہ نکال لیا.یہی وہ ایمان تھا جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے اکلوتے بیٹے کو وادی غیر ذی زرع میں جہاں نہ سر پر سایہ تھا نہ کھانے کا سامان نہ پینے کا پانی جنگل بیابان میں چھوڑنے پر آمادہ کر دیا.اور یہی وہ زندہ خدا پر توکل تھا جس کی وجہ سے حضرت ہاجرہ کو اپنے ننھے منے بچہ کو تڑپتے دیکھ کر ایک منٹ کے لئے خیال نہ آیا کہ بچہ مر جائے گا بلکہ بے اختیار ان کے منہ سے نکلا.

Page 168

150 إِذْ لَّا يُضَيِّعُنَا اللَّهُ أَبَداً اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی سے تم ہمیں چھوڑ رہے ہو تو پھر خدا ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا.اور ایسا ہی ہوا.آج وہی بے آب و گیاہ وادی ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے ارضِ حرم ہے اور وہاں جانے اور حج کی سعادت حاصل کرنے کے لئے ہر مسلمان کا دل بے تاب رہتا ہے اللہ تعالیٰ پر زندہ ایمان ہی تھا جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو اپنے بچہ کو صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈالنے پر آمادہ کر دیا تھا.اور یہی وہ ایمان تھا کہ حضرت موسیٰ کی قوم کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ ہم تو اب تباہ ہو جائیں گے اور وہ مایوس ہو گئے تو حضرت موسیٰ نے کہا كَلَّا انَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ (الشعراء: 63) میرا خدا میرے ساتھ ہے.یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ مجھے چھوڑ دے وہ خود میرے لئے راہ نجات نکالے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس قادر خدا نے حضرت موسیٰ کو فرعون سے نجات دی.اسی ایمان کا مظاہرہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب پر چڑھ کر کیا.ان کو معلوم تھا کہ ان کا خدا خود ان کی حفاظت کرے گا اور اس نے ان کو صلیب سے زندہ اتار لیا اور اس کے بعد ایک لمبی زندگی عطا کرنے کے بعد ان کو طبعی وفات دی.زندہ خدا کی سب سے بڑی جیلی :.زندہ خدا کی سب سے بڑی تجلی سرور دو جہاں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود با برکت کے ذریعہ دنیا پر ظاہر ہوئی.آپ ﷺ اکیلے تھے سارا مکہ آپ ﷺ کا مخالف تھا.اردگرد کی سلطنتیں آپ ﷺ کی جانی دشمن تھیں.یہودو نصاری آپ ﷺ کے خون کے پیاسے تھے مگر آپ ﷺ جانتے تھے کہ خدا کا وعدہ ہے کہ آپ ﷺ ہی غالب آئیں گے کتناز بر دست ایمان تھا.آپ ﷺ کو اپنے زندہ خدا پر کہ جب سرداران مکہ نے آپ ﷺ کے سامنے اپنا یہ مطالبہ پیش کیا کہ اگر آپ ﷺ کو دولت کی ضرورت ہے تو ہم دولت کے ڈھیر آپ ﷺ کے قدموں پر نچھاور کرنے کو تیار ہیں.شادی کرنا چاہتے ہیں تو مکہ کی حسین ترین لڑکی سے شادی کروا دیتے ہیں.حکومت کی خواہش ہے تو اپنا سردار بھی آپ کو ماننے کو تیار ہیں لیکن ہمارے بتوں کو بُرا کہنا چھوڑ دیں اور توحید کا پر چار نہ کریں.آپ ﷺ نے فرمایا میرے چا! ان سے کہہ دیں کہ یہ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لا کھڑا کریں تب بھی

Page 169

151 اس پیغام حق کو پہنچانے سے میں رک نہیں سکتا.جو میرے سپرد کیا گیا ہے کہ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ جب آنحضرت ﷺ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے مکہ کو چھوڑ دیا اور مدینہ کی طرف ہجرت کی غرض سے روانہ ہوئے.غارثور میں پناہ لی دشمن نے باہر کھوجیوں کو آپ کی تلاش میں لگا دیا جو قدموں کے نشانوں کی کھوج لگاتے لگاتے آخر غار کے دہانہ پر پہنچ گئے اور ماہرین نے یہاں تک کہہ دیا کہ یا آپ غار میں ہیں یا آسمان پر اڑ گئے ہیں اور کہیں نہیں جاسکتے لیکن کتنا زبر دست ایمان تھا آنحضرت ﷺ کو اپنے قادر وتی و قیوم خدا پر.حضرت ابو بکر گھبر ائے آپ ﷺ نے ان کو تسلی دی گھبرانے کی کیا بات ہے.اِنَّ اللهَ مَعَنَا (التوبہ:40) ہم اکیلے تو نہیں ہیں.خدا کی زندگی اور قدرت کا کتنا بڑا ثبوت ہے کہ ان دشمنوں کی آنکھوں پر ایسا پردہ پڑا کہ کسی کو نیچے جھک کر دیکھنے کا بھی خیال نہ آیا اور واپس چلے گئے.اللہ تعالیٰ نے نبوت ورسالت کا سلسلہ ہی اس لئے جاری فرمایا ہے کہ انبیاء خدا نما بن کر دنیا کو زندہ خدا کا چہرہ دکھاتے ہیں.ہزاروں ہزار درود اور سلام محمد مصطفی ﷺ پر جنہوں نے ایسے زندہ خدا سے اپنے صحابہ کو ملا دیا اور ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ پر ایسا زندہ ایمان پیدا کیا کہ وہ اس کی راہ میں بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح ہونے کے لئے تیار ہو گئے.انہوں نے موسیٰ کی قوم کی طرح یہ نہیں کہا کہ جا تو اور تیرا رب لڑتے پھریں.ہم تو یہاں بیٹھے ہیں انہوں نے یہ کہا کہ یا رسول اللہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے.اور دشمن جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے آپ تک نہیں پہنچ سکتا.اور یارسول اللہ اگر آپ حکم دیں تو ہم سمندر میں چھلانگ لگانے کو تیار ہیں.اللہ تعالیٰ پر اتنا زندہ ایمان صحابہ کے دلوں میں پیدا ہو گیا تھا کہ بڑے سے بڑے صدمہ کے وقت بھی ان کے قدم لغزش سے محفوظ رہے اور زندہ خدا پر ایمان کا نتیجہ ہی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے موقع پر جن صحابہ کا غم کے مارے بُرا حال تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ اُٹھے مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مَحَمَّدًا قَدَمَاتَ وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَى لَّمْ يَمُوتُ ( سنن ابن ماجه کتاب ماجه في الجنائز) کہ سن لو جو تم میں سے محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا اس کو تو میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ محمد ﷺ وفات

Page 170

152 پاگئے ہیں لیکن جو تم میں سے خدائے واحد کی عبادت کرتا تھا اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ خدا کا وجود زندہ اور زندگی بخشنے والا ہے اس پر کوئی فتانہیں.اسلام کا خداوہ خدا نہیں جس کی زندگی کے ثبوت میں صرف ماضی کے واقعات بطور قصہ یا مثالوں کے پیش کئے جائیں وہ اب بھی زندہ ہے اور اپنی زندگی کا ثبوت بار بار دیتارہتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.لوگو! سنو کہ زندہ خدا وہ خدا نہیں جس میں ہمیشہ عادت قدرت نما نہیں ( درشین ص: 102) وہ خدا جو آدم کے وقت میں اپنی قدرت نمائی کے ثبوت دیتا تھا جو ابراہیم کے وقت میں اپنی زندگی کا ثبوت دیا کرتا تھا جس کی تجلیاں موسیٰ کے وقت میں ظاہر ہوتی رہیں.جس نے حضرت عیسی کے وقت میں اپنی زندگی کا ثبوت دیا اور جس کی کامل تجلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہوئی وہ اب بھی زندہ ہے وہ اب بھی اپنے بندوں کے ذریعہ اپنی زندگی کا ثبوت دنیا کو بہم پہنچاتا رہتا ہے اس نے آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے دنیا کے سامنے یہ اعلان کروا دیا تھا کہ جب ہمارا مہدی ظاہر ہوگا تو اس کی تائید میں دو نشان ظاہر کئے جائیں گے اور وہ نشان چاند اور سورج کے اپنے مقررہ وقتوں میں گرہن کے ذریعہ ظاہر ہوگا جو نہ صرف ایک بار دنیا دیکھے گی بلکہ دو بار یعنی دنیا کے دونوں طرف رہنے والے دیکھیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور تاریخ شاہد ہے کہ کس شان کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حبیب ﷺ کے منہ سے نکلی ہوئی بات لفظ لفظ پوری ہوئی.اور خدائی فعل نے بتادیا کہ ہمارا خدا زندہ اور قادر خدا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت : اللہ تعالیٰ نے تیرہ سو سال کے بعد جب دنیا کو گمراہی اور ضلالت کے گڑھوں میں گرتے دیکھا تو دنیا کی ہدایت کیلئے پھر اپنے ایک بندہ کو جسے آنحضرت ﷺ کی غلامی پر فخر ہے دنیا کی ہدایت کے لئے کھڑا کیا وہ اکیلا تھا دنیا کی نظروں میں مخالف سمجھتے تھے کہ چند دن کی بات ہے یہ جماعت ختم ہو جائے گی مگر نہیں وہ اکیلا نہیں تھا.جس کے عشق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں سخن نزدم مراں از شہر یارے کہ ہستم پروری اُمید وارے مرے سامنے کسی بادشاہ کا ذکر نہ کر کیونکہ میں تو ایک اور دروازہ پر امیدوار پڑا ہوں.

Page 171

153 خداوند یکہ جاں بخش جہان بدیع خالق است پروردگارے وہ خدا جو دنیا کو زندگی بخشنے والا ہے اور بدیع اور خالق اور پروردگار ہے کریم و و قادر مشکل کشائے رحیم و محسن و حاجت برارے وہ خدا کریم ہے قادر ہے مشکل کشا ہے رحیم ہے حسن ہے اور انسان کی حاجتوں کو پورا کرنے والا ہے.فتادم برورش زیر آنکه گونید برآید در جہاں کارے نه کارے میں اس کے دروازے پر پڑا ہوا کیونکہ مثل مشہور ہے کہ دنیا میں ایک کام میں سے دوسرا کام نکل آتا ہے.چواں یار وفادار آیدم یاد فراموشم شود ہر خویش و یارے جب وہ یار وفادار مجھے یاد آتا ہے تو ہر رشتہ دار اور دوست مجھے بھول جاتا ہے ( درشین فارسی مترجم ص : 242) خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں بھی جس بندہ کو اشاعت اسلام کیلئے کھڑا کیا اس سے وعدہ فرمایا إِنِّي نَاصِرُكَ إِنِّي حَافِظُكَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ مَاماً وَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَباً.قُلْ هُوَ اللهُ عَجِيبٌ يَجْتَبِى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ میں تیری مددکروں گا.میں تیری حفاظت کروں گا میں تجھے لوگوں کیلئے پیش رو بناؤں گا کیا لوگوں کو تعجب ہوا کہہ خداذ والعجائب ہے ہمیشہ عجیب کام ظہور میں لاتا ہے جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے چن تذکرہ ص 65 لیتا ہے.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بھی جو وعدہ فرمایا تھا وہ پورا کر کے دنیا کو بتا دیا کہ اسلام کا خدا زندہ خدا ہے وہ جس زمانہ میں جس کو چاہتا ہے اپنے دین کی حفاظت کے لئے کھڑا کر دیتا ہے اور پھر اس کو غالب کر کے ثابت کر دیتا ہے کہ وہ بندہ اس کی حفاظت میں ہے.خود آپ فرماتے ہیں.

Page 172

154 مجھ کو ہلاک کرنے کو سب ایک ہوگئے سمجھا گیا میں بد.پہ وہ سب نیک ہوگئے آخر کو وہ د قدیر ہے خدا جو کریم علیم و خبیر ہے جو عالم القلوب اترا میری مدد کیلئے کر کے عہد یاد پس ره گئے وہ سارے سیه رو و نامراد اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنادیا میں خاک تھا اُسی نے ثریا بنا دیا ( در شین صفحه 116-117 ) اللہ تعالیٰ نے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کی ایک ایسی پاک جماعت عطا فرمائی جنہوں نے خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو اپنی عزیز ترین چیز پر بھی ترجیح دی، آپ کی صحبت میں تمام برائیاں چھوڑ کر با اخلاق بلکہ با خدا انسان بن گئے.آپ کی ایک آواز پر شراب چھوڑ کر خدا تعالیٰ کی محبت کی شراب پینے لگے.اسی طرح آپ کے غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب کو بھی اللہ تعالیٰ پر وہ زبر دست ایمان عطا فرمایا کہ انہوں نے قتل ہونا منظور کر لیا سنگسار کئے گئے مگر خدا تعالیٰ کا دامن جو تھا وہ آخر وقت تک نہ چھوڑا.اس وقت دنیا میں اسلام کے سوا کوئی اور مذہب ایسا موجود نہیں جو تازہ بتازہ نشانات دکھا سکے یہ فخر اور امتیاز صرف اسلام کو اس لئے حاصل ہے کہ یہ زندہ مذہب ہے.اس کے ماننے والے آج بھی کلام الہی سے مشرف ہوتے اور یہ مرتبہ صرف محمد رسول اللہ علیہ وسلم کو ہی حاصل ہے کہ آپ کے غلاموں کو اللہ تعالیٰ چھوتا ہے ان کے ذریعہ دنیا کو تازہ تازہ نشانات دکھاتا ہے آپ کی غلامی اور اطاعت سے باہر یہ درجہ اب کسی کو حاصل نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں یہ فرما دیا ہے کہ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ (ال عمران : 32) اے محمد رسول اللہ دنیا کو بتادیں کہ اگر کسی کو خدا تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ ہے اور یہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا اور محبت حاصل کرے تو اس کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ میری کامل اطاعت کرو.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اور آپ کی فرمانبرداری.آپ کی تعلیم اور آپ کے احکام پر چل کر ہی اللہ تعالیٰ کا

Page 173

155 قرب حاصل کیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں.آج کسی اور مذہب کو یہ دعوی نہیں کہ ان کے مذہبی احکام پر چل کر کوئی شخص خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے یا اللہ تعالیٰ اُس سے کلام کر سکتا ہے لیکن ہزاروں در ورد اور سلام حضرت خاتم النبین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر جن کی غلامی اور اطاعت میں قرب الہی کا بڑے سے بڑا درجہ انسان حاصل کر لیتا ہے اس کیلئے اللہ تعالیٰ نشانات دکھاتا ہے آسمان سے اس کی مددکواتر تا ہے.چودہ سو سال کے عرصہ میں مختلف لوگوں کو قرب الہی کے مختلف مراتب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ملتے رہے.ہر صدی کے سر پر مجدد آئے اور صحیح اسلام کو اپنے پاک نمونہ سے دنیا کے سامنے پیش کیا اور اپنا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ثابت کیا.حضرت جنید شبلی، سید عبدالقادر جیلانی ، شہاب الدین سہر دردی، خواجہ معین الدین چشتی سید احمد سرہندی وغیرہ اپنے اپنے وقت میں اسلام کی زندگی کے ثبوت میں دنیا کے سامنے کھڑے ہوئے اور دنیا کی اصلاح ان کے ذریعہ ہوتی رہی.صداقت اسلام کے تازہ نشانات: موجودہ زمانہ میں جب دُنیا پھر خالق حقیقی سے دور ہو چکی تھی اور خالق اور مخلوق میں تاریک پر دے حائل ہو گئے تھے.فلسفہ اور دہریت نے روحانیت کو کچل کر رکھ دیا تھا.اللہ تعالیٰ کی ہستی پر اعتراضات کی بوچھاڑ شروع ہو چکی تھی.معجزات انبیاء کو قصہ پار یہ قرار دے دیا گیا تھا.ہر مسئلہ کو فلسفہ اور سائنس کی روشنی میں دیکھا جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے اسلام کو زندہ مذہب ثابت کرنے کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں سے ایک شخص کو کھڑا کیا جس کا دعوی یہی ہے کہ آپ کو جو کچھ ملا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ملا.آپ فرماتے ہیں:.”ہم یقیناً جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا سب سے بڑا نبی اور سب زیادہ پیارا جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کیونکہ دوسرے نبیوں کی امتیں ایک تاریکی میں پڑی ہوئی ہیں اور صرف گزشتہ قصے اور کہانیاں ان کے پاس ہیں مگر یہ امت ہمیشہ خدا تعالیٰ سے تازہ بتازہ نشان پاتی ہے.لہذا اس امت میں اکثر عارف ایسے پائے جاتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ پر اس درجہ کا یقین رکھتے ہیں کہ گویا اس کو دیکھتے ہیں اور دوسری قوموں کو خدا تعالیٰ کی نسبت یہ یقین نصیب نہیں لہذا ہماری روح سے یہ گواہی نکلتی ہے کہ سچا اور صحیح مذہب صرف اسلام ہے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات صرف

Page 174

156 قصوں کے رنگ میں نہیں ہیں بلکہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر کے خودان نشانوں کو پالیتے ہیں لہذا معائنہ اور مشاہدہ کی برکت سے ہم حق الیقین تک پہنچ جاتے ہیں سو اس کامل اور مقدس نبی کی کس قدرشان بزرگ ہے جس کی نبوت ہمیشہ طالبوں کو تازہ ثبوت دکھلاتی رہتی ہے اور ہم متواتر نشانوں کی برکت سے اس کمال سے مراتب عالیہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ گویا خدا تعالیٰ کو ہم آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں.پس مذہب اسے کہتے ہیں اور سچا نبی اِس کا نام ہے جس کی سچائی کی ہمیشہ تازہ بہار نظر آئے...خدا تعالیٰ نے ہر ایک زمانہ میں اس کامل اور مقدس کے نشان دکھانے کیلئے کسی نہ کسی کو بھیجا ہے اور اس زمانہ میں مسیح موعود علیہ السلام کے نام سے مجھے بھیجا ہے.دیکھو ! آسمان سے نشان ظاہر ہورہے ہیں اور طرح طرح کے خوارق ظہور میں آرہے ہیں.اور ہر ایک حق کا طالب ہمارے پاس رہ کر نشانوں کو دیکھ سکتا ہے وہ عیسائی ہو یا یہودی یا آریہ.یہ سب برکات ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں.و روحانی خزائن جلد 13 کتاب البریہ ص 155، 156 حاشیہ ) پس یہ حقیقت ہے کہ جس طرح اسلام کا خدا زندہ خدا ہے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اپنی صفات کے کامل ظہور کیلئے پیدا کیا.اللہ تعالیٰ کی کامل تجلی آپ ﷺ پر ہوئی آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں انتہائی درجہ تک فنا ہو کر وہ اعلیٰ ترین مقام حاصل کیا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا.ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنَ أَوْ أَدْنى (الجم :10,9) یعنی آپ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان ایک واسطہ بن گئے فیض پہنچانے کا اور یہ واسطہ آپ صرف اپنے زمانہ کیلئے نہیں تھے بلکہ ہمیشہ کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دستور قرار دیا گیا کہ اب اللہ تعالیٰ کا قرب صرف آپ کے ہی واسطہ سے ملے گا.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو اپنا قول قرار دیا جیسا کہ فرمایا وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم : 5.4) کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی وحی اور اس کی مرضی اور حکم سے کہتے ہیں.گویا آپ کی زبان اپنی زبان نہ رہی بلکہ خدا تعالیٰ کی زبان بن گئی.اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قراردیا جیسا کہ فرمایا إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونُكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (الفتح: 11)

Page 175

157 جولوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کا ہا تھ آپ کے ہاتھ کے اوپر ہوتا تھا.اسی طرح آپ کے کام کو اپنا کام قرار دیا.جیسا کہ جنگ بدر کے موقع پر فرمایا وَمَارَمَيْتَ اذْرَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى (الانفال : 18) آپ نے اللہ تعالیٰ کی محبت میں اتنا بڑا مقام حاصل کیا کہ آپ کا غلام اللہ تعالیٰ کا پیارا اور محبوب بن سکتا ہے.کتنی اعلیٰ اور ارفع شان ہے ہمارے آقا سرور دو جہان صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ آپ کا عاشق خدا کا محبوب اور آپ کا غلام دنیا کا سردار بن جاتا ہے اور پھر کتنا آسان اور سادہ نسخہ ہے.ہمیں بھی چاہئے کہ ہر کام اور ہر فعل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کریں آپ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کریں کیونکہ آپ کا رنگ خدا تعالیٰ کا رنگ ہے اور یہی رنگ اپنے پر چڑھانے سے ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کو بھی جذب کر سکتے ہیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی روحانی زندگی: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال شان اور دائمی روحانی زندگی کا ذکر فرمایا ہے.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿سورة الاحزاب: 41﴾ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی جسمانی نرینہ اولا د بے شک نہیں ہے مگر اس سے یہ نہ کوئی سمجھے کہ آپ کی نسل نہیں چلے گی.اس کے برعکس آپ کو اللہ تعالیٰ بے انتہا روحانی اولا د عطا کرے گا یہاں تک کہ آپ کی روحانی نسل سے بھی نبی ہوں گے.جن کی نبوت پر آپ کی مہر ہوگی.آپ کا خاتم النبین ہونا کسی خاص زمانہ کیلئے نہیں بلکہ آپ ہمیشہ کے لئے خاتم النبین ہیں.تمام نبوتیں ختم ہو گئیں مگر وہی نبوت جاری رہے گی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابع ہوگی اور جس پر آپ کی مہر ہوگی.خدا تعالیٰ کا قرآن اور اسلام کی حفاظت کا وعدہ تھا جب کہ اس نے فرمایا تھا.إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ.(الحجر: 10)

Page 176

158 قرآن ہم نے نازل کیا ہے اس لئے اس کی دائمی حفاظت کے بھی ہم ذمہ دار ہیں.آہستہ آہستہ جب مسلمان نام کے مسلمان رہ گئے قرآن کی تعلیم پر ان کا عمل نہ رہا.فلسفہ اور دجالیت پورے زور شور سے اسلام پر حملہ آور ہوئی.خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر اعتراضات ہونے لگے.روحانی حالت تباہ و برباد ہوکر ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ( الروم: 42) کا نقشہ دنیا میں نظر آنے لگ گیا بظاہر دنیا کی روحانی حالت کی اصلاح کے سامان ختم ہو گئے اور غلطی سے مسلمانوں میں یہ عقیدہ بھی پھیل گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں.اب امت محمدیہ کی اصلاح کیلئے کوئی نبی نہیں آسکتا.اللہ تعالیٰ کی ربوبیت تقاضا کر رہی تھی کہ وہ اپنے بندہ کی اصلاح کا سامان عطا فرمائے.اسلام کی حفاظت کا وعدہ بھی تھا اور آئندہ نئی شریعت نہ آنے کا سوال بھی کیونکہ شریعت کا اتمام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہو چکا تھا.اس صورت میں صرف اور صرف ایک ہی راستہ تھا کہ اللہ تعالیٰ جس کو بھی امت محمدیہ کی اصلاح کیلئے کھڑا کرے وہ آنحضرت ﷺ کی امت میں سے ہو اور یہی ہونا تھا کیونکہ خدا تعالیٰ نے تیرہ سو سال قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین کے نام سے سرفراز فرما کر بتا دیا تھا کہ آپ کی غلامی میں نبی آئیں گے.اور یہی آپ کی زندگی کا سب سے بڑا ثبوت ہے.اگر آپ کی امت سے باہر کا کوئی نبی آتا تو مہر خاتمیت ٹوٹتی ہے جو ناممکن ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نبوت کا دعویٰ آنحضرت مے کی غلامی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوا بھی کسی نے کیا ہے جب امت محمدیہ کی اصلاح کا وعدہ بھی موجود ہو.ضرورت بھی ثابت ہو اور مدعی بھی ایک ہی ہو اور ان شرائط کے ساتھ جو خود خدا کی فرمودہ ہیں تو خدا کا خوف رکھنے والے انسان کو بہت غور وفکر سے کام لینا چاہئے کہ میں خدا کی نعمت کا ناشکر گزار نہ بنوں.اگر تجدید دین کا کوئی مدعی نہ ہوتا تو دوسرے مذاہب والے اسلام پر اعتراض کر سکتے تھے کہ یہ زندہ مذہب نہیں.الہام الہی اور قرب الہی کا دروازہ اسلام میں بند ہو گیا.لیکن اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ابدی زندگی کس شاندار رنگ میں عطا فرمائی اور کیسی شاندار حفاظت اسلام کی کی کہ جہاں قرآن کا ایک ایک لفظ اپنی ظاہری شکل میں محفوظ ہے وہاں اس کی تعلیم کو پھیلانے کیلئے تجدید اسلام کیلئے ایسے وجودوں کو کھڑا کرتا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ سے تازہ بتازہ نشانات اور تائید حاصل کر کے اسلام کے باغ کو ہرا بھرا ر کھتے رہے ہیں اور الہام الہی کے پانی سے اسے سینچتے رہے ہیں ان وجودوں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی قدرتوں کی تجلیات ظاہر ہوتی

Page 177

رہی ہیں اور خدا تعالیٰ کے وعدہ 159 هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايْلِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سورة الجمعہ 1943 کے مطابق مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ہوئی تا آپ خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات پیش کریں دلوں کو زندہ ایمان عطا کریں.خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم ہو.قلوب کا تزکیہ ہو.اور ان لوگوں کی جو صحابہ سے نہیں ملے تھے.آپ کو پانے سے صحابہ سے ملیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان سے تربیت حاصل کریں پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان اب بھی جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا.آپ ﷺ کی قوت قدسیہ اور آپ کی فیض سے ہمیشہ ہی دنیا ہدایت پاتی رہے گی حتی کہ قیامت کے دن آپ ہی ہمارے شفیع ہوں گے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.نوع انسان کیلئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم.سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اُس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ اور یا درکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اس دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچا ہے اور محمد ﷺ اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہیں اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کیلئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا.“ روحانی خزائن جلد : 19: کشتی نوح صفحہ 13 14 ) قرآن کریم زندہ کتاب ہے: جس طرح اسلام کا خدا زندہ خدا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں.اسی طرح قرآن کریم زندہ کتاب ہے.اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے اور اس نبی کی امت کے قومی کے

Page 178

160 لحاظ سے مناسب شریعت نازل کی.شریعت کی تکمیل تدریجاً ہوئی اور جب قرآن مجید نازل فرمایا تو پہلی سب شریعتوں کو منسوخ کر دیا کیونکہ کامل شریعت کے بعد ان کی ضرورت باقی نہ رہی تھی.پہلی کتب اور شریعتیں در حقیقت قرآن مجید کی تعلیم کا ہی ایک حصہ تھیں جب مکمل شریعت نازل ہوگئی تو پھر کسی الگ حصہ کا باقی رکھنا ضروری نہ رہا.قرآن مجید کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي.(المائدة: 4) یعنی قرآن مجید کے نزول کے ساتھ خدا تعالیٰ نے امت محمدیہ پر اپنی نعمت کو مکمل صورت میں نازل فرما دیا کسی قسم کی کمی باقی نہ رہی کوئی الجھن نہ رہی.جس کا حل ہمیشہ کیلئے قرآن کی صورت میں دنیا کے سامنے رکھا نہ ہو گو یہ ایک جامع ہدایت نامہ امت مسلمہ کو عطا کر دیا گیا اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.مَا نَنْسَخُ مِنْ آيَةٍ اَوْنُنَسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْمِثْلِهَا ﴿البقرة : 107 یعنی جس تعلیم یا قانون کو ہم منسوخ کریں یا بھلا دیں تو ویسی ہی تعلیم دوبارہ نازل کر دیتے ہیں یا اس سے بہتر لے آتے ہیں اس آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ جو دائمی صداقتیں پہلی کتابوں میں موجود تھیں اصولی طور پر وہ سب قرآن مجید میں موجود ہیں.اور پہلی کتب کی جس تعلیم کو منسوخ قرار دیا گیا اس سے اعلیٰ تعلیم ان میں موجود ہے پہلی کتب کی تعلیمیں کامل نہیں تھیں کامل تعلیم وہی کہلا سکتی ہے جو انسانی قوی کی پوری مربی ہو.صرف ایک ہی پہلو پر زور نہ ہو.مذہب کے دو ہی پہلو ہیں.اللہ تعالیٰ کے متعلق تعلیم دوسرے انسانی نفس اور انسانی حقوق کے متعلق تعلیم ، بچے مذہب کو شناخت کرنے کیلئے یہی دیکھنا ضروری ہے.قرآن مجید اور کا ترجمہ سیکھنا چاہئے یادر ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لا يَمَسُّة إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة : 80) قرآن پر غور وتدبر کرنے اور اس کے معارف سے آگاہ ہونے کیلئے خود پاک ہونے کی ضرورت ہے دل پاک ہو خیالات پاک ہوں تب قرآن مجید کی گہرائیوں میں غوطہ لگانے کے قابل ہوسکتا ہے اور اس کے حقائق سے حصہ پاسکتا ہے.قرآن مجید کا معجزہ سب سے بڑا معجزہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا گیا جس نے دنیا میں ایک انقلاب عظیم بر پا کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ اپنی کتاب ازالہ اوہام میں تحریر فرماتے ہیں:.جاننا چاہئے کہ کھلا کھلا اعجاز قرآن شریف کا جو ہر ایک قوم اور ہر ایک اہل زبان پر روشن ہوسکتا ہے

Page 179

161 جس کو پیش کر کے ہم ہر ایک ملک کے آدمی کو خواہ ہندی ہو یا پارسی یا یورپین یا امریکن یا کسی اور ملک کا ہوملزم و ساکت ولا جواب کر سکتے ہیں وہ غیر محدود و معارف و حقائق و علوم حکمیہ قرآنیہ ہیں جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کی حاجت کے موافق کھلتے جاتے ہیں اور ہر ایک زمانہ کے خیالات کا مقابلہ کرنے کیلئے مسلح سپاہیوں کی طرح کھڑے ہیں.اگر قرآن شریف اپنے حقائق دقائق کے لحاظ سے ایک محدود چیز ہوتی تو ہرگز وہ معجزہ تامہ نہیں ٹھہر سکتا تھا فقط بلاغت و فصاحت ایسا امر نہیں ہے جس کی اعجازی کیفیت ہر ایک خواندہ نا خواندہ کو معلوم ہو جائے کھلا کھلا اعجاز اس کا تو یہی ہے کہ وہ غیر محدود معارف دقائق اپنے اندر رکھتا ہے جو شخص قرآن شریف کے اس اعجاز کو نہیں مانتاوہ علم قرآن سے سخت بے نصیب ہے.“ روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام ص 256 اس پر عمل نہ کرنے کے باعث مسلمان اپنی شان و شوکت کھو بیٹھے.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: وَاعْتَصِمُو ابِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (ال عمران : 104) لیکن مسلمانوں نے جب سے اللہ تعالیٰ کی اس نصیحت کو بھلا دیا.غیر اقوام کا ان پر غلبہ ہو گیا.اتحاد جاتا رہا مسلمانوں میں احساس پیدا بھی ہوتا ہے کہ جب تک وہ متحد نہ ہوں گے ان کا ایک مرکز نہ ہوگا.ایک امام نہ ہوگا وہ کھوئی ہوئی شان و شوکت مل نہیں سکتی.ہمارے اخبارات بھی وقتاً فوقتاً اس رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں ابھی حال میں ہی ایک شاعر کی دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی نظم ایک رسالہ میں میں نے پڑھی.لیکن افسوس بھی ہوا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تو سورج طلوع ہو چکا ہے اب جان بوجھ کر کوئی آنکھیں بند کرے یا دھوپ دیکھ کر بھی اندھیرا کہے تو اس کا کیا علاج وہ شعر یہ ہیں.فسق ہے زوروں پہ اور انصار دیں ناپید ہیں ہے بدی کا دور ابرار دیں ناپید ہیں ذہن چھایا ہے ابتک علم مغرب کا اثر فلسفہ کا زور ہے افکار دیں ناپید ہیں کاش کوئی ہادی برحق ہو ظاہر غیب سے اتنی تاریکی ہے اور انوار دیں ناپید ہیں

Page 180

162 ہر طرف پھیلا ہوا ہے جوش طغیانی و فساد کون کہتا ہے کہ اب اشرار دیں ناپید ہیں کاش ان اشعار لکھنے والے پر یہ حقیقت کھل جائے کہ ہادی برحق نے تو تیرہ سو سال پہلے ہی خبر دے پر دی تھی کہ تین صدیوں کے بعد فیج اعوج کا زمانہ آئے گا ہر طرف فساد ہی فساد ہوگا.اور پھر آیت استخلاف کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اس فساد کو دور کرنے کیلئے ربانی مصلح آئے گا.جس کے ذریعہ مسلمانوں کی روحانی اور اخلاقی حالتوں میں اسی طرح انقلاب آجائے گا.جس طرح عرب کے وحشیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لینے سے عظیم الشان تبدیلی پیدا ہوئی.خدا کے فرستادہ کی پہچان : خدا کے فرستادہ کی پہچان کوئی مشکل بات نہیں ہے کہ کیونکہ جس طرح دنیوی حکومت میں یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص کسی عہدہ یا افسری کا جھوٹا دعویٰ کرے حکومت کے نام سے کسی قسم کا فرمان جاری کرے اور پکڑا نہ جائے گرفتار نہ ہو اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا نبی اور رسول ہونے کا جھوٹا دعوی کرے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہامات شائع کرے اور اللہ تعالیٰ کی گرفت میں نہ آئے اگر وہ ایسا کرے گا تو قرآن مجید ، توریت اور انجیل کے قانون کے مطابق الہی گرفت میں آجائے گا.پھر یہ بھی الہی قانون ہے کہ رسالت کے جھوٹے مدعی کا سلسلہ پھولتا پھلتا نہیں.اللہ تعالیٰ اسے ترقی نہیں دیتا اس کی بتائی ہوئی پیشگوئیاں من وعن پوری نہیں ہوتیں اور قرآن کے قانون کے مطابق ایک مصلح کا دعویٰ اسی وقت قابل قبول ہوسکتا ہے جب کہ اس کا یہ بھی دعوی ہو کہ اس کا دعوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ہوتے ہوئے آپ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق ہے.آپ کی غلامی سے باہر اب کوئی ربانی مصلح نہیں آسکتا کیونکہ زندہ مذہب صرف اسلام ہی ہے اور اسلام سے باہر اب کسی مصلح کے آنے کا سوال ہی نہیں.ان سب شرائط کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کے لئے جس انسان کو مبعوث فرمایا اس کا نام ہے ، مرزا غلام احمد ہے.اگر آپ اپنے دعوئی میں صادق نہ ہوتے تو قرآن مجید اور بائیل کی پیشگوئیوں کے مطابق قتل کر دیئے جاتے مگر آپ نے اس کے برخلاف اعلان کیا کہ مجھے ہرگز کوئی قتل نہیں کر سکتا کیونکہ جس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے وہی میرا محافظ ہے پھر صرف یہی نہیں کہ اپنی زندگی کے متعلق ہی دعوی کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے الہام سے خبر پاکر آپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ ایک بابرکت نسل کی بنیاد آپ

Page 181

163 سے ڈالی جائے گی آپ کے آباء واجداد کا خاندان سب ختم کر دیا جائے گا.سوائے ان کے جوتو بہ کر لیں اور ایمان لے آئیں.نئے خاندان کی ابتداء آپ سے ہوگی.اور دین کی حمایت اور نصرت میں کھڑے ہونے والے لوگ اللہ تعالیٰ ان کی کی نسل میں سے پیدا کرتا رہے گا.پھر آپ کی عاجزانہ دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک خاص شان کا بیٹا مدت میعاد کے اندر اندر عطا فرمانے کی بشارت بھی دی.کون انسان جب تک اسے خدائی نصرت حاصل نہ ہو اور اس سے خاص طور پر وعدہ نہ کیا گیا ہو.اپنی زندگی ، اتنی بڑی عمر میں اولاد ہونے ایک بیٹے کا خاص خصوصیات کا حامل ہونے کے متعلق کہہ سکتا ہے اور پھر ایک ایک پیشگوئی اپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہوتی ہے.اور دنیا پر ثابت کر دیتی ہے کہ ایک زندہ اور قادر خدا موجود ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں جن کے فیض سے ہمیشہ دنیا فیض یاب ہوتی رہے گی اور اپنی روحانی قوت سے اپنے ماننے والوں کا تزکیہ نفس کرتے رہیں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ان میں ایک جماعت وہ ہوگی کہ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَاَصْحَابِی ( ترمذی ابواب الایمان باب ما جاء) یعنی جو کام میں اور میرے اصحاب کرتے ہیں وہ کام کرنے والی جماعت ہوگی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا کام اسلام کی تبلیغ کو دنیا والوں تک پہنچانا اور شرک کی بیخ کنی کرنی تھی.یہی کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کر رہی ہے تمام غیر ممالک میں مشن اور مساجد تعمیر کی جاری ہیں.دجالیت اور دہریت کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑی جاری ہے.اسلام کی خاطر ہزاروں انسان اپنی زندگیاں وقف کر رہے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی علامات کے مطابق صرف احمدیہ فرقہ ہی ایک امام اور ایک مرکز کے باعث جماعت کہلانے کا صحیح رنگ میں مستحق.اسلام کے چمن میں پھر بہار آئی ہے آؤ اور اس سے فائدہ اُٹھاؤ.بار بار گلستان اسلام میں بہار آنا اور پھول کھلنا ہی اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا ثبوت اور خدا تعالیٰ کے قادر ہونے کی دلیل ہے.اللہ تعالیٰ کے نزدیک اب نجات کا دروازہ صرف اسلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں سے ہو کر کھلنا ہے.آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے ہے.لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے درشین صفحہ 16 الفضل جلسہ سالانہ نمبر 1968

Page 182

164 تین سال قبل کی ایک رات تین سال قبل 7 اور 8 نومبر کی درمیانی رات جب ایک پاک روح اس دنیا سے رشتہ توڑ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئی.جولوگ اس وقت موجود تھے وہ اس وقت کا نظارہ کبھی بھول نہیں سکتے.ہر ایک حیران تھا کہ کیا ہو گیا لیکن ہر دل اپنے رب کی رضا پر راضی تھا.وہ پاک روح جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا تھا جس کا اس دنیا میں آنا ازل سے مقدر تھا جس کے آنے کے خبر نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہی دی گئی بلکہ حضرت خاتم النبین کو بھی دی گئی تھی جس کی برکتوں سے قوموں نے زندگی پائی.وہ اس دنیا میں آیا ایک کمزور بچہ کی شکل میں جس کی صحت خاصی کمزور تھی.آنکھیں دکھتی رہتی تھیں.پڑھائی کی طرف خاص توجہ نہ تھی.سکولوں کے امتحان میں سے شاید کوئی بھی امتحان پاس نہ کر سکا.دنیا وی نقطہ نگاہ سے کسی کو خیال بھی نہ آسکتا تھا کہ یہ بچہ کوئی بڑی ہستی بنے گا لیکن خدا کا وعدہ تھا کہ وہ جلد جلد بڑھے گا.ہم اپنی روح اس میں ڈالیں گے.خدا کے فضل کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ علوم ظاہر وباطنی سے پر کیا جائے گا.دنیا کی نظر میں یہ سب باتیں انہونی تھیں لیکن عرش پر فرشتے مسکرا رہے تھے کہ اس دنیا کے بندے کتنے بھولے ہیں کہ خدا کی باتوں پر یقین نہیں رکھتے.ہمیں سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے.اس چھوٹی سی عمر میں شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا.سارے گھر کی ذمہ داری اس نا تو ان وجود پر پڑی لیکن اس بچہ نے جسے دنیا کمزور سمجھ رہی تھی اپنے جانے والے باپ کے سرہانے کھڑے ہو کر اپنے رب سے ایک عہد کیا کہ خواہ ساری دنیا تجھے چھوڑ دے لیکن میں نہیں چھوڑوں گا اور اکیلا ہی ساری دنیا سے نبرد آزما ہوں گا.اسی کمزور اور نا تو ان انسان کو اللہ تعالیٰ کی مشیت سے چھ سال بعد ایک چھوٹی سے جماعت کی قیادت ملتی ہے.عمر کم تعلیم نہ ہونے کے برابر ، دوست دشمن ہو جاتے ہیں.اپنے بیگانے بن جاتے ہیں، مالی لحاظ سے بھی کمزور ، دنیا ہنستی اور قہقہے لگاتی ہے کہ چند دن کی بہار ہے.یہ سفینہ آج ڈوبا یا کل ڈوبا.وہ نا توان بچہ جب اپنی جماعت کی پتوار ہاتھ میں سنبھالتا ہے تو ساری دنیا انگشت بدنداں رہ جاتی ہے کہ ہم نے کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا.قوموں کو للکارا، دشمنوں کو شکست دی.ہر مشکل پر فتح پائی.ہر روک دور ہوئی ہمنجھدار میں سے اپنی کشتی کو نکالتا ہوا ساحل تک لے آیا.خدا کی بات پوری ہوئی.دنیا کے کونے کونے تک اسلام کا پیغام پہنچایا.ملک ملک میں جماعتیں قائم ہوئیں.بھٹکی ہوئی روحوں نے اس کے ذریعہ اپنے

Page 183

165 رب سے تعلق قائم کیا.دنیا کے ہر کونہ سے اس کے لئے سلامتی کی دعائیں بلند ہوئیں.ایک کامیاب قائد ، ایک محبوب رہنما، ایک عظیم انسان، جماعت کے لوگوں کی دھڑکنیں ایک وفا شعار بیٹا ، ایک شفیق بھائی، ایک بے نظیر خاوند ، ایک محبت کرنے والا لیکن خدا کی خاطر ساری اولا د کو قربان کر دینے کا جذبہ رکھنے والا باپ، دوستوں کا وفادار اور دشمنوں سے شفقت اور احسان کرنے والا، انسان کامیاب و کامران زندگی گزار کر اپنے مولا کے حضور اپنی زندگی کا نذرانہ لے کر حاضر ہو گیا.ہاں وہ عظیم الشان کہ جب جماعت کی قیادت ہاتھ میں آئی تو دوست کم اور دشمن زیادہ تھے اور جب اس دنیا سے رخصت ہوا تو ہزاروں نہیں لاکھوں آنکھیں اشکبار اور لاکھوں دل غم ناک تھے.اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا قانون ہوتا کہ کسی کی جان کے عوض کوئی دوسری جان قبول کی جاسکتی تو یقینا اس محبوب ہستی کو بچانے کے لئے اس کی جماعت کا ہر فرد اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیتا.آپ کی ساری زندگی ایک عظیم الشان جد و جہد کی زندگی تھی.آپ کا ہر کام حیرت میں ڈالنے والا تھا لیکن میری نظر میں آپ کا سب سے عظیم الشان کارنامہ استحکام خلافت ہے.جماعت کے ہر فرد مرد عورت اور بچہ کے دل میں یہ ایمان پیدا کر دیا کہ اسلام کی ترقی صرف وحدت قومی کے ساتھ وابستہ ہے اور وحدت قومی کی جان نظام خلافت ہے.خلافت پر پختہ ایمان ، ہر قیمت پر اس انعام الہی کو قوم میں قائم رکھنا.خلافت کی کامل فرمانبرداری ، اس کی عظمت کے مطابق قربانیاں دینا ہر احمدی میں یہ روح اور جذبہ پیدا کرنے کا سہرا آپ ہی کے سر رہا.یہ بھی آپ ہی کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ اس دن ہر دل غمگین تھا، ہر آنکھ اشکبار تھی لیکن ہر شخص آپ ہی کی دی ہوئی تعلیم پر عمل کرتا ہوا اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل اور یقین رکھتا تھا کہ وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا.ہر شخص کے لب مصروف دعا تھے اور نگاہیں آسمان پر لگی ہوئی تھیں کہ اے مولی ! اپنی اس جماعت کو حسب وعدہ پھر ایک عظیم الشان قائد عطا کیجیو.چنانچہ جونہی اللہ تعالیٰ کا منشاء ظاہر ہوا ہر گردن اطاعت کے لئے جھک گئی اور شیطان اس سجدہ آدم پر حسرت سے کف افسوس ملتا رہ گیا.اس جانے والے کی روح بھی یقیناً شاداں و فرحاں ہوگی اس نظارہ پر کہ ساری زندگی کی کاوشوں کا ثمرہ جنت میں تو انشاء اللہ ملے گا ہی اس دنیا میں بھی مل گیا.اے جانے والے تیرا نام ہی محمود نہ تھا تیرا کام بھی محمود تھا.تو نے عظمت کو ورثہ میں پایا اور تیری عظمت تیرے بیٹے کو بھی ورثہ میں ملی خدا کرے کہ جس طرح تیری زندگی کامیاب و کامران گذری ، جس طرح تیرے ہاتھ سے دنیا کے کونے کونے میں اسلام کا پیغام پہنچا.تیرے نور نظر کے ہاتھوں بھی اسلام کی وہ

Page 184

166 فتوحات جلد از جلد ظہور پذیر ہوں جن کی خبر خود تو نے دی تھی.تیری یاد ایسی نہیں جسے وقت مندمل کر سکے ہاں خدا کے فضل اور اس کی محبت کی آغوش میں انسان اپنے دکھوں کو بھول کر پناہ لیتا ہے.انسان کمزور ہے اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اسے سہارا نہ دیتا رہے تو نہ معلوم کس تاریکی میں گر جائے.اس لئے دعا ہے کہ: ”اے پیارے محمود کی روح ! اللہ تعالیٰ ہر آن آپ کے مقام کو بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے.یہ جدائی کا عرصہ نہ معلوم کتنا ہے لیکن جتنا عرصہ بھی اس دنیا میں رہنا ہے اللہ تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری ، اس کی رضا کی راہوں پر چلنے میں.آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت ، نظام خلافت سے کامل وابستگی اور اشاعت اسلام کے لئے قربانیاں دینے میں وقت گزرے.جب اپنے مولیٰ کی طرف سے بلاوا آئے اور اس دنیا میں آپ سے ملنا ہو تو آپ بھی خوش ہوں کہ ہماری زندگیاں عین اس تعلیم کے مطابق جو آپ ہمیں دیا کرتے تھے اور ہم بھی مطمئن ہوں کہ سرخرو ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو سکیں اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی چادر ہم سب کو ڈھانپ لے.آمین یہ جدائی کے ایام تلخ ضرور ہیں لیکن یہ دیکھ کر دل کو مسرت اور خوشی حاصل ہوتی ہے کہ آپ کا شروع کیا ہوا کام ترقی پر ہے.جماعت کے لئے ہر سورج جو طلوع ہوتا ہے وہ کوئی نہ کوئی خوشخبری اپنے ساتھ ضرور لاتا ہے اور ہر شام آنے سے قبل ایک نئی منزل کی تعیین ہو چکی ہوتی ہے.آپ بے شک ہم سے ظاہر طور پر جدا ہو چکے ہیں.تین سال پہلے آج کی رات کا تصور بھی جسم کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے.آنکھوں کو دھندلا کر دیتا ہے مگر آپ زندہ ہیں اپنے زندہ جاوید کارناموں سے، آپ زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے خلافت کے ذریعہ، جیسا کہ آپ نے خود ایک موقع پر کہا تھا کہ آنے والا مؤرخ بغیر میرا نام لئے تاریخ اسلام لکھ نہیں سکے گا.یہ حقیقت ہے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی تاریخ بلکہ تاریخ عالم نامکمل رہے گی اگر آپ کا ذکر اس میں نہ ہوگا.خدا کرنے کہ وہ دن جلد آئے جب ساری دنیا میں صرف محمد ﷺ کا کلمہ پڑھا جائے.وہ دن جلد آئے جب نظام خلافت کا وسیع دائرہ ساری دنیا کو اپنے گھیرے میں لے لے.وہ دن آئے گا اور انشاء اللہ ضرور آئے گا خدا کے مسیح کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں اپنے وقت پر ضرور پوری ہوں گی لیکن اس وقت دنیا آپ کے نام پر نعرہ تحسین بلند کرنے سے رک نہ سکے گی.اَللّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ الفضل یکم دسمبر 1968ء

Page 185

167 تنظیم موصیات حضرت خلیفہ اصبح الثالث اید واللہ تعالی نے تین سال ہوئے تعلیم موصیات کا قیام فرمایا.حضور نے ہر جگہ جہاں موصیات میں ارشاد فر مایا کہ تنظیم موصیات ضرور قائم کی جائے اور ہر موسیہ کم از کم دو کوقرآن مجید پڑھائے.اور اس کی باقاعدہ رپورٹ بھجوائی جائے.اس وقت تک ہر وہ شہر یا گاؤں جہاں لجنہ قائم ہے تنظیم موصیات قائم نہیں ہوسکی نہ ہی ہر جگہ نائب صدر موصیات کا انتخاب ہوا ہے اس لئے (1) آپ کا پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ ہر جگہ جہاں کم از ک دوتین وصیہ خواتین ہی تنظیم موصیات قائم کریں اور ان میں سے ایک کو نائب صدر موصیات منتخب کر کے اس کی منظوری حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے لیں نائبہ صدر موصیات صدر موصیات کے ماتحت کام کرے گی.(2) پھر نا ئب صدر موصیات کا دوسرا قدم یہ ہونا چاہئے کہ وہ جماعت کی خواتین کو وصیت کی اہمیت سمجھا کر ان کی وصیت کرنے کی تلقین کریں تا موصیات کی تعداد میں اضافہ ہو.نائبہ صدر موصیات کا فرض ہے کہ ہر رپورٹ میں وہ یہ تحریر کریں کہ اس ماہ میں اتنی خواتین نے وصیت کی اور اب موصیات کی تعداد اتنی ہے.(3) تیسرا اور سب سے اہم کام نائبہ صدر موصیات کا یہ ہے کہ وہ قرآن مجید کی تعلیم کا انتظام کرے اور جائزہ لے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے مطابق ہر موصیہ کم از کم دو کو قرآن مجید پڑھائے، ناظرہ جانے والیاں، ناظرہ اور باتر جمہ جاننے والیاں باترجمہ.اللہ تعالیٰ ہم سب کو خدمت قرآن مجید کی توفیق عطا فرمائے.آمین الفضل 14 مارچ 1971ء

Page 186

168 تاریخ احمدیت جلد 11 حضرت مصلح موعود کی اولوالعزمی کی خوبصورت تصویر ہے نوٹ درج ذیل معلومات افزا اور نہایت قیمتی مکتوب حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے 28 فروری 1971 ء کو مولف تاریخ احمدیت کے نام رقم فرمایا.بسم الله الرحمن الرحیم مکرم شاہد صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تاریخ احمدیت جلد گیارہ مل تو جلسہ سالانہ سے قبل ہی گئی تھی لیکن اتنا وقت نہ ملا کہ اسے پڑھ سکوں.رات سب کام چھوڑ کر اس کو پڑھنا شروع کیا اور صبح کے قریب ختم کی.ایک کتاب دلچسپ، پھر اس زمانہ کی تاریخ جس کے شب و روز کے ساتھ اپنی داستان بھی وابستہ ہے.کتاب ختم کرنے کے بعد بھی سونہ سکی.نیند آ بھی کیسے سکتی تھی؟ ہر واقعہ ایک فلم کی طرح نظروں کے سامنے گذرنے لگا.قادیان ہجرت کے آخری ایام میں جب خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب خواتین لاہور تشریف لے جا چکی تھیں اور صرف میں اور عزیزہ منصورہ بیگم سلمها قادیان میں تھیں خاندان کے سب افراد کے کھانے ناشتہ وغیرہ کا انتظام عزیزہ منصورہ بیگم سلمہا کے ذمہ تھا.اور میرا سارا وقت حضرت مصلح موعود کی خدمت میں گذرتا تھا.کھانا، ناشتہ وقت پر عزیزہ منصورہ بیگم نہیں قصر خلافت میں بھجوا دیتی تھیں.صبح سے شام تک حضور کا ایک ایک لمحہ بے حد مصروفیتوں کا حامل تھا.ایک ایک منٹ پر فون آتے تھے.رپورٹیں آتی تھیں، ہدایات جاری فرماتے تھے.کھانا پڑا پڑا ٹھنڈا ہو جاتا تھا لیکن جب تک ایک کام کو ختم نہ فرمالیتے کھانا نہ کھاتے فکر اور پریشانی سے بھوک بھی آپ کی اس قدر کم رہ گئی تھی کہ ان دنوں ایک دو نوالوں سے زائد نہ کھا سکتے تھے.مجھے یاد ہے کہ حضور نے ایک دن کہا مجھ سے بالکل کھانا نہیں کھایا جاتا مجھے دو تین چمچے شہد ڈال کر شربت بنا کر دے دو.ایک دو گھنٹہ کے بعد تا جسم میں طاقت قائم رہے.رات آتی تب بھی قادیان کے گردو نواح کے متعلق اطلاعات کے فون آتے رہتے.آدھی رات حضور اور آدھی رات میں باری باری سوتے تھے.جب حضور سونے لگتے تو مجھے جگا دیتے کہ اب تم جا گواگر کوئی اہم اطلاع آئے تو مجھے جگا دینا.

Page 187

169 حضرت اماں جان کے پاکستان جانے کے اغلباً چھ روز کے بعد ہم لوگ بھی لاہور آگئے تھے جس دن حضور نے فیصلہ کیا کہ لاہور جانا ہے.شام کو فیصلہ ہوا بے حد مختصر سا سامان ایک بستر دو تین جوڑے، حضور کے اپنے رکھ کر سامان تیار کر لیا.اٹیچی کیس میں اہم اور ضروری کاغذات رکھ لئے اگلے دن صبح حضور دفتر سے اور حضرت اماں جان کے گھر سے میں اور منصورہ بیگم دار السلام پہنچے اور وہاں سے میاں منصور احمد کی کار میں بیٹھ کر روانہ ہوئے.آگے آکر اس کام میں جو کپیٹن عطا اللہ لے کر گئے تھے.جب قادیان سے روانہ ہوئے تھے تو خیال بھی نہ تھا کہ پھر جانا نہ ہوگا.لاہور آتے ہی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا.چند روز شیخ بشیر احمد صاحب کے ہاں مہمان رہ کر رتن باغ آگئے.آتے ہی مہاجرین کی آمد، رات دن کام، ہر قسم کی ذمہ داری، حضور کو تسلی نہ ہوتی تھی.موٹریں، بس ٹرک آتے.جب تک ہر ایک کا ٹھکانہ نہ بن جاتا ، سامان اسے نہ پہنچ جاتا آپ کو نہ کھانا کھانے کی ہوش ہوتی تھی نہ آرام کی رتن باغ کے پچھلے حصے میں سائبان اور قناتیں لگا کر عورتوں کو ٹھہرایا گیا تھا.بعض تو ایک ایک دو دون میں اپنے مستقل ٹھکانہ پر چلی جاتیں تھیں اور بعض کا وہاں لمبا قیام رہا.ان کے کھانے ، کپڑے، بستروں کا انتظام کرنا ، انہیں دنوں آدھی رات کو ایک رات میں اور حضرت سیدہ ام داؤد عورتوں میں کمیل تقسیم کرتے رہے.کمبل پر انے تھے.ان میں مٹی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں شدید بہار ہوگئی ، گلے میں درد اور گلے سے خون الٹی کے رنگ میں آنے لگ گیا.کئی دن شدید بیمار پڑی رہی.ان دنوں مہاجر عورتوں کا سارا انتظام حضور کی راہنمائی میں میں نے سیدہ اُمِ داؤد اور ان کی صاحبزادی بشری بیگم نے ہی زیادہ کیا.ہمارے ساتھ بہت سی معاون خواتین اور بچیاں بھی تھیں.عورتوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی اٹھا کر ادھر ٹرکوں سے اتار کر کیمپ میں لے جاتے اور کسی عورت کو ولادت بچہ کے آثار شروع ہو جاتے.تو نہ ڈاکٹر ملتا تھا نہ دوائی.ڈاکٹر ڈھونڈنا ضروری لوازمات مہیا کرنے سب کچھ ہی ہمارے سپرد تھا.اور ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کے سلسلہ میں حضور کے پاس جاتی اور آپ ہی راہنمائی فرماتے.لکھنا کیا شروع کیا تھا اور پہنچ کہاں گئی؟ بہر حال تاریخ کی اس جلد سے سب گذرے ہوئے واقعات فلم کی طرح سامنے آئے اور دل سے آہیں نکل نکل کر لبوں تک آگئیں.دل میں ایک در داٹھا اور ساتھ جانے کیا کیا یاد آ گیا.حضرت مصلح موعود کے ساتھ گذرا ہوا وہ زمانہ اور آپ کی ہدایت اور راہنمائی سے کی ہوئی خدمات میری زندگی کا سرمایہ ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ نے تاریخ احمدیت لکھ کر

Page 188

170 ایک شاندار کارنامہ سرانجام دیا.خدا کرے کہ بقیہ جلدیں بھی جلد مکمل کرسکیں.اس زمانہ کے حالات جو اپنی نظروں کے سامنے گذرے ہیں پڑھتے پڑھتے بسا اوقات یہ احساس ہوتا ہے کہ تشنہ رہ گئے ابھی یہاں اور لکھا جانا تھا.لیکن مورخ تو آخر وہی کچھ لکھ سکتا ہے جو واقعات اخباروں میں ریکارڈ ہو گئے.لیکن جس کے سامنے کوئی واقعہ گذرا ہو اور یا د باقی ہو (اس کے ) احساسات اور ہی ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنی بے حد رحمتیں فرمائے اس مرد مجاہد کی روح پر جس کے آہنی عزم کو زمانہ کے مصائب اور شدا ئد شکست نہ دے سکے اور دے بھی کیسے سکتے تھے اس کی تو پیدائش سے بھی قبل اس کی اولوالعزمی کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی جا چکی تھی.تاریخ احمدیت جلد 11 اس کی اولوالعزمی کی ایک خوبصورت تصویر ہے.جزاکم اللہ.الفضل 21 مارچ 1971ء

Page 189

6% 171 ཤj ཤ

Page 190

172 خطاب جلسہ سالانہ 1944ء اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی! سچے مسلمان کی علامت:.قرآن شریف کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے ( اور عقل خدا داد کا بھی یہی فتویٰ ہے ) کہ صحیح اور کامل اصلاح کے واسطے دو باتوں کی ضرورت ہے.(الف).درست ایمان اور ( ب ) درست اعمال.اس لئے قرآن شریف نے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ بچے مسلمانوں کی علامت یہ ہے کہ امنو اوعملو الصلحات یعنی نہ صرف ان کا ایمان صحیح ہوتا ہے بلکہ وہ نیک اور مناسب حال اعمال بھی بجالاتے ہیں پس جب تک یہ دو باتیں جمع نہ ہوں کوئی شخص اصلاح یافتہ نہیں قرار دیا جا سکتا.صحیح ایمان کی ضرورت :.صحیح ایمان کی اس واسطے ضرورت ہے کہ (الف) ایمان اعمال کے لئے بطور بنیاد ہے.اگر ایمان حقیقی ہے.تو جیسا ایمان ہوگا لازما ویسے ہی اعمال ہوں گے اگر ایمان غلط یا ناقص ہے تو اعمال کبھی بھی صحیح اور کامل نہیں ہو سکتے.کیونکہ اعمال ایمان سے پیدا ہوتے ہیں.(ب) صحیح اعمال کے سلسلہ کو جاری رکھنے کے واسطے بھی ایمان ضروری ہے.کیونکہ اعمال کے واسطے ایمان کا وجود ایسا ہے جیسا کہ ایک باغ کے واسطے پانی کا وجود ہوتا ہے.جس طرح آبپاشی کے انتظام کے بغیر کوئی باغ زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح اعمال کے درخت بھی ایمان کے پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے.پس ایمان نہ صرف اعمال کا منبع ہے.بلکہ ان کی زندگی کا سہارا بھی ہے.لہذا کوئی عملی اصلاح ایمان کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں.اس لئے قرآن شریف نے جہاں جہاں بھی نیک اعمال کا ذکر کیا ہے وہاں لازماً اس سے پہلے بچے ایمان کا بھی ذکر کیا ہے تا کہ اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ اگر اعمال کی درستی چاہتے ہو تو پہلے اپنے ایمانوں کو درست کرو.اور حق تو یہ ہے کہ اگر ایمان درست ہو جائے اور اس میں کسی قسم کی کمزوری باقی نہ رہے تو اعمال خود بخود درست ہو جاتے ہیں.گناہ سے نجات پانے کا ذریعہ:.پس عملی زندگی میں اصلاح کا سب سے بڑا ذریعہ ایمان کی اصلاح ہے.جب تک ایمان درست نہ

Page 191

173 ہو عملی اصلاح کی کوئی اور تدبیر کارگر نہیں ہوسکتی.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات پہ خاص زور دیا ہے کہ گناہ سے نجات پانے کا ذریعہ صرف یقین کامل ہے.اور یقین ایمان ہی کا دوسرا نام ہے.پس سب سے پہلی اور سب سے ضروری بات میں اپنی بہنوں سے یہی کہنا چاہتی ہوں کہ وہ اپنے ایمانوں کو درست کریں کیونکہ دین و مذہب اور اخلاق و روحانیت کی ساری عمارت اسی بنیاد پہ قائم ہوتی ہے.یہ مت خیال کرو کہ ہم نے خدا کو ایک مان لیا ہے.اور آنحضرت ﷺ کو خاتم النبین تسلیم کر لیا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو امام الزمان یقین کر لیا ہے.کیونکہ اگر یہ ایمان صرف مونہہ کا ایمان ہے.اور اس کے اندر زندگی کی روح نہیں ہے.تو ایسا ایمان ایک مردہ لاش سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا.اور اس صورت میں وہ کبھی بھی نیک اعمال کی بنیاد نہیں بن سکتا.ہے.پس اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو اور اپنے دلوں کو ٹو لو کہ کیا تمہارا ایمان واقعی زندہ ایمان.جب تم یہ کہتی ہو کہ خدا ہے.تو کیا تم واقعی خدا کو سچ مچ مانتی ہو.اور اس کی ہستی پر کم از کم ایسا ہی یقین رکھتی ہو.جیسا کہ تم اس بات پر یقین رکھتی ہو.کہ مثلاً یہ سورج ہے اور یہ چاند ہے.یہ زمین ہے اور یہ آسمان ہے.یہ ہمارا باپ ہے اور یہ ہماری ماں ہے اور تمہیں خدا کی قدرتوں کا کم از کم ایسا ہی یقین ہوتا ہے.جیسا کہ دنیا کی طاقتوں پر مثلاً روپے پر اور دوائی پر اور عقل پر اور تدبیر پر وغیرہ وغیرہ.حقیقی ایمان :.مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بہت سے لوگوں کا ایمان محض رسمی ایمان ہوتا ہے.جس میں زندگی کی روح نہیں پائی جاتی.بہر حال سب سے بڑی اور سب سے مقدم ضرورت حقیقی ایمان پیدا کرنا ہے.ایسا ایمان جو یقین کامل تک پہنچا ہوا ہو.کیونکہ یہی وہی ایمان ہے.جو اعمال کی کمزوریوں کو جلا کر خاک کر دیتا ہے.اور گناہ سے نجات دلاتا ہے.حضرت مسیح موعوعلیہ الصلوۃ والسلام کیا خوب فرماتے ہیں.گنا ہوں سے پاک ہونے کے لئے اس وقت سے جو انسان پیدا ہوا ہے آج تک جو آخری دن ہیں صرف ایک ہی ذریعہ گناہ اور نافرمانی سے بچنے کا ثابت ہوا ہے.اور وہ یہ کہ انسان یقینی دلائل اور چمکتے ہوئے نشانوں کے ذریعہ سے اس معرفت تک پہنچ جائے کہ جو درحقیقت خدا کو دکھا دیتی ہے اور کھل جاتا ہے کہ خدا کا غضب ایک کھا جانے والی آگ ہے.اور پھر تجلی حسن الہی کی ہوکر ثابت ہو جاتا ہے کہ ہر یک کامل لذت خدا میں ہے.یعنی جلالی اور جمالی طور پر پردے اٹھائے جاتے ہیں یہی ایک طریق ہے جس

Page 192

174 سے جذبات نفسانی رکھتے ہیں.اور جس سے چار نا چار ایک تبدیلی انسان کے اندر پیدا ہو جاتی ہے....سوچو اور خوب سوچو کہ جہاں جہاں سزا پانے کا پورا یقین تمہیں حاصل ہے وہاں تم ہرگز اس یقین کے برخلاف کوئی حرکت نہیں کر سکتے.بھلا بتاؤ کیا تم آگ میں اپنا ہاتھ دے سکتے ہو؟ کیا تم چلتی ہوئی ریل کے آگے لیٹ سکتے ہو؟ کیا تم پہاڑ کی چوٹی سے نیچے اپنے تئیں گرا سکتے ہو؟ کیا تم شیر کے منہ میں اپنا ہاتھ دے سکتے ہو؟ تو اب بتلاؤ کہ ایسا تم کیوں کرتے ہو؟ اور کیوں ان تمام موذی چیزوں سے علیحدہ ہو جاتے ہو؟ مگر وہ گناہ کی باتیں جو ابھی میں نے لکھی ہیں ان سے تم علیحدہ نہیں ہوتے.اس کا کیا سبب ہے وہ یہی ہے کہ ان دونوں صورتوں میں علم کا فرق ہے.یعنی خدا کے گناہوں میں اکثر انسانوں کا علم ناقص ہے.اور وہ گناہوں کو برا تو جانتے ہیں مگر شیر اور سانپ کی طرح نہیں سمجھتے سوہ پانی جس سے تم سیراب ہو جاؤ گے.اور گناہ کی سوزش اور جلن جاتی رہے گی وہ یقین ہے.آسمان کے نیچے گناہ سے پاک ہونے کے لئے بجز اس کے کوئی بھی حیلہ نہیں ریویو آف ریلیجنز جلد اوّل جنوری 1902 کے اعمال کی اصلاح:.ایمان اور یقین کی پختگی کے بعد عملی اصلاح کی تفاصیل کا میدان نہایت وسیع ہے.دراصل انسان کو اپنی زندگی میں جس جس میدان میں قدم رکھنا پڑتا اور جس جس ماحول کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے.ان سب میں اسے کوئی نہ کوئی اعمال بھی بجالانے ہوتے ہیں.اس لئے ہر میدان میں ایمان کی دیکھ بھال اور اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے.تا کہ کوئی قدم صحیح ایمان اور صحیح عقائد کے خلاف نہ اٹھ جائے یا با الفاظ دیگر کوئی قدم خدا کے منشاء کے خلاف نہ اٹھایا جائے.اور سچا مومن اور سچا متقی وہی ہے.جو اپنا ہر قدم اٹھاتے ہوئے اس بات کو سوچنے کا عادی ہو کہ کیا میرا یہ قدم میرے آقا و مالک کے منشاء کے خلاف تو نہیں ہے.تربیت اولاد:.اب میں چند ایسی باتیں بیان کرتی ہوں جن میں طبقہ نسواں میں زیادہ اصلاح کی ضرورت ہے.سب سے پہلے میں تربیت اولاد کے سوال کو لیتی ہوں کیونکہ یہ مسئلہ قومی زندگی کے لئے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے.اگر اولاد کی تربیت صحیح طریق پر ہو تو قوم کی عملی اصلاح داتی بنیادوں پر قائم ہو جاتی ہے.اور نہ صرف قوم کا حال سدھر جاتا ہے.بلکہ مستقبل بھی روشن ہو جاتا ہے اس لئے اسلام نے تربیت اولاد کے مسئلہ پر بہت زور دیا ہے.

Page 193

خدا کا حکم :- 175 چنانچہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.قُوا أَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيكُمْ نَارًا (التحريم : 7) یعنی اے مسلمانو ! تم صرف اپنے آپ کو ہی خراب اعمال سے جو جہنم کی طرف لے جانے والے ہوں نہ بچاؤ بلکہ اپنے اہل وعیال کو بھی بچاؤ.تا کہ تمہاری آئندہ نسلیں بھی نیک اعمال بجالانے والی ہوں اور صحیح قومی زندگی کی داغ بیل قائم ہو جائے.رسول کریم ﷺ کا ارشاد:.اس اصول کی تشریح میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں کہ جن والدین کو خدا کوئی لڑکی عطا کرے تو پھر وہ اس کی اچھی طرح سے تربیت کریں تو ایسے والدین خدا کے حضور دوہرے ثواب کے مستحق ہوں گے.اس ارشاد میں یہی حکمت مخفی ہے کہ لڑکیوں کی اچھی تربیت کرنے والا نہ صرف ان لڑکیوں کونجات اور فلاح کے راستے پر ڈالتا ہے.بلکہ آئندہ نسلوں کی اصلاح کی بنیاد بھی قائم کرتا ہے.حکم پردہ میں حکمت:.اسلام نے جو پردہ کا حکم دیا ہے.اور عورتوں کو گھروں سے باہر بے حجابانہ پھرنے سے منع قرار دیا ہے.اس میں منجملہ اور حکمتوں کے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ تا عورتوں کوحتی الوسع اسی ماحول کے اندر رکھا جائے جس میں ان کا اصل کام مقرر ہے.اور وہ اپنی اولاد کی تربیت کے متعلق زیادہ سے زیادہ توجہ دے سکیں.یہ ایک بہت نازک اور اہم ذمہ داری ہے جو عورت پر ڈالی گئی ہے.اور اگر وہ اسے دیانت داری کے ساتھ صحیح طریق پر اسلام کی تعلیم کے مطابق پوری کرے.تو یقیناً وہ گھر میں بیٹھے ہوئے ہی مردوں کے جہاد اور دوسری دینی خدمات کا ثواب حاصل کر سکتی ہے.مگر افسوس ہے کہ کئی بہنیں اپنی اس نازک ذمہ داری کی طرف پوری توجہ نہیں دیتیں اور ثواب اور قومی خدمت کا ایک اہم موقع ضائع کر دیتی ہیں.میں امید کرتی ہوں کہ بہنیں آئندہ کے لئے اپنے دلوں میں یہ پختہ عہد کر لیں گی کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں گی اور انہیں بچپن ہی کی عمر میں اس طرح اسلام اور احمد بیت کے قالب میں ڈھال دیں گی کہ بڑے ہو کر وہ اسلام اور احمدیت کی تعلیم کا بہترین نمونہ ثابت ہوں.

Page 194

176 بڑوں کی اصلاح کے متعلق کچھ: اب میں مختصر طور پر بڑوں کی عملی اصلاح کے بارے میں کچھ کہنا چاہتی ہوں.اور اس گروہ میں میں خود بھی شامل ہوں.اس لئے سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے ہم اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ محض اسلام اور احمدیت کو زبانی طور پر سچا مان لینا کوئی چیز نہیں.جب تک کہ ہم اس کی تعلیم پر عمل پیرا نہ ہوں.بلکہ حق یہ ہے کہ مان لینے سے ہماری ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے اور ہم اپنے اعمال کے متعلق خدا کے سامنے اور بھی زیادہ جواب دہ ہو جاتے ہیں.پس ہمارا اسلام اور احمدیت پر ایمان لانے کا دعوی تبھی سچا سمجھا جا سکتا ہے.کہ ہم اس کی تعلیم پر عمل کریں اور اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزاریں مگر ہم میں سے کتنی ہیں جو سچ مچ اسلام اور احمدیت کی تعلیم کا نمونہ ہیں؟ بے شک خدا نے ہمیں احمدیت کی توفیق عطا کر کے ہماری زندگیوں میں بھاری انقلاب پیدا کر دیا ہے مگر ابھی ہمارے اندر بہت سی خامیاں بھی ہیں.اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان خامیوں کو دور کر کے دنیا پر ثابت کر دیں کہ احمدیت ہی وہ چیز ہے جو انسان کو کامل انسان بنانے کی قابلیت رکھتی ہے.میں اپنی بہنوں کے سامنے چند باتیں پیش کرتی ہوں جن میں ہمیں اپنی عملی زندگی میں زیادہ اصلاح کی ضرورت ہے.دینی تعلیم سے واقفیت کی ضرورت :.(الف) سب سے اہم اور ضروری چیز یہ ہے کہ ہم اسلام اور احمدیت کی تعلیم سے واقف ہوں.صرف اسلام اور احمدیت کا نام کوئی حقیقت نہیں رکھتا.مذہب کا وجود منتر جنتر کے طور پر نہیں ہوتا کہ صرف نام لے دینے سے ساری مرادیں پوری ہو جائیں.بلکہ مذہب کی تعلیم عمل کے لئے ہوتی ہے اور عمل کے واسطے علم ضروری ہے پس پہلی بات یہ ہے کہ بہنیں اسلام اور احمدیت کی تعلیم سے واقفیت پیدا کریں حق یہ ہے کہ اسلام جیسے مذہب اور قرآن جیسی کتاب اور احمدیت جیسا طریق رکھتے ہوئے ان کی تعلیم.نا واقف رہنا انتہائی محرومی ہی نہیں بلکہ انتہا درجہ کی بے وفائی بھی ہے لہذا سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہم اسلام اور احمدیت کی تعلیم سے واقفیت پیدا کریں.اور اس کے لئے قرآن شریف کو تر جمہ کے ساتھ پڑھنا حدیث کا مطالعہ کرنا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ کی کتب اور دیگر کتب سلسلہ کا مطالعہ پھر اس کے ساتھ اخبارات کا مطالعہ نہایت ضروری ہے.بعض بہنیں یہ خیال کریں گی کہ ہم

Page 195

177 پڑھی ہوئی نہیں ہیں ہم کس طرح ان کتب کا مطالعہ کر سکتی ہیں.لیکن اول تو ہمت والے انسان کے لئے بڑی عمر میں بھی پڑھنا لکھنا سیکھ لینا کوئی مشکل امر نہیں.دوسرے علم کے واسطے خود پڑھنا جاننا ضروری بھی نہیں انسان دوسروں سے سن کر بھی علم سیکھ لیتا ہے ہمارے آقا وسردار بھی بظاہر اتنی تھے مگر آج تک دنیا نے علم میں آپ ﷺ کا نظیر پیدا نہیں کیا اور نہ آئندہ پیدا ہوگا ، اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ نماز کی پابندی :.(ب) دینی واقفیت کے بعد جو گویا بطور بنیاد کے ہیں.عملی اصلاح کے میدان میں سب سے ضروری چیز نماز کی پابندی ہے.مگر نماز رسمی انداز میں نہیں ہوئی چاہیے.بلکہ دلی شوق اور دلی توجہ کے ساتھ ایسے رنگ میں ہونی چاہیے.کہ گویا انسان خدا کو دیکھ رہا ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اعلیٰ درجہ کی نیکی یہ ہے کہ انسان ایسے رنگ میں عبادت بجالائے کہ گویا صرف خدا ہی اسے نہیں دیکھ رہا.بلکہ وہ خود بھی خدا کو دیکھ رہا ہے.لیکن اگر یہ مقام کسی کو حاصل نہ ہو.تو کم از کم اتنا تو ہو کہ انسان یہ یقین رکھے کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے.اس احساس کے بغیر کوئی عبادت حقیقی عبادت نہیں کہلا سکتی ہے.بلکہ محض ایک بے جان جسم ہے.جس کے اندر کوئی روح نہیں.زکوۃ کی ادائیگی:.(ج) عورتوں کے واسطے زکوۃ کا معاملہ بھی بہت توجہ چاہتا ہے.کئی عورتوں پر زکوۃ واجب ہوتی ہے.مگر وہ اس کی طرف سے غفلت برتی ہیں حالانکہ زکوۃ انسان کے مال کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے.بلکہ زکوۃ کے معنی ہی بڑھانے اور پاک کرنے کے ہیں عورتوں کے پاس نقد مال تو کم ہی ہوتا ہے.مگر زیور اکثر ہوتا ہے.اور ایسے زیور پر زکوۃ واجب ہوتی ہے.جو کثرت کے ساتھ استعمال میں نہ آتا ہو.یا کبھی کبھی غرباء کو استعمال کرنے کے لئے نہ دیا جاتا ہو.بشرطیکہ وہ نصاب کی حد کو پہنچا ہوا ہو.دینی اور قومی تنظیم :.عورتوں کے واسطے دینی اور قومی تنظیم کا معاملہ بھی نہایت اہم ہے.کوئی جماعت تنظیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی.بلکہ افسوس ہے کہ مردوں کی تنظیم کے مقابل پر ابھی تک ہماری تنظیم میں کئی خامیاں ہیں احمدی عورتوں کی تنظیم کا بہت عمدہ اور پختہ ذریعہ لجنہ اماءاللہ کا قیام ہے.لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی

Page 196

178 تک اس معاملہ میں بہت ستی برتی جاتی ہے.بہت سی جگہوں پر ابھی تک مقامی لجنہ قائم نہیں ہوئی اور کئی جگہیں ایسی ہیں جہاں لجنہ تو قائم ہے مگر مرکزی لجنہ کے ساتھ ابھی تک ان کا تعلق مضبوط نہیں ہوا.میں امید کرتی ہوں کہ بہنیں آئندہ ہر جگہ لجنہ قائم کر کے مرکز کے ساتھ اس کے تعلق کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی کوشش کریں گی.تا وہ عملی اصلاحیں جو تنظیم کے ذریعے کی جاسکتی ہیں جلد سے جلد کی جاسکیں.یہ ایک خوشی کا مقام ہے کہ بعض لجنات بہت اچھا کام کر رہی ہیں.دوسروں کو بھی ان سے سبق حاصل کرنا چاہیئے.ناشکری اور کفران نعمت سے بچیں:.(ھ) عورتوں میں ایک خاص عملی اصلاح جس کا ان کی عام اخلاقی حالت پر بھاری اثر پڑتا ہے.ناشکری کی عادت سے تعلق رکھتی ہے.یہ بات افسوس کے ساتھ تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ عموماً مردوں کی نسبت عورتوں میں ناشکری کا مادہ زیادہ ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ مجھے جنت و دوزخ کا نظارہ دکھایا گیا اس میں میں نے دیکھا کہ دوزخ میں عورتیں زیادہ تھیں صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ہے اس کی وجہ کیا ہے.آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں ناشکری کا مادہ زیادہ ہوتا ہے.ان کا خاوند یا کوئی عزیز ان کے ساتھ ہزار احسان کا سلوک کرے مگر کبھی کسی وقت ذرا سی بات خلاف منشاء ہو جائے تو وہ سارے احسانوں کو بھلا کر فورا ہی نظر بدل لیتی ہیں اور یہاں تک کہ دیتی ہیں کہ میرے ساتھ تو آپ نے کبھی کوئی نیکی کی ہی نہیں ہے.یہ وہ کفر ہے جو ان کے دوزخ میں زیادہ جانے کا موجب ہے.بخاری کتاب ایمان:- پس میں اپنی بہنوں سے عرض کرتی ہوں کہ وہ ناشکری اور کفرانِ نعمت کی عادت کو چھوڑ کر شکر گزاری اور قدرشناسی کی عادت پیدا کریں.اور آنحضرت ﷺ کے اس احسان کی قدر کریں جو آپ نے یہ بات قبل از وقت بتا کر ہم پر فرمایا.جس ہاتھ سے انسان سو میٹھی قاشیں کھاتا ہے.اس کے ہاتھ سے اگر کبھی اتفاق سے کوئی ایک تلخ قاش بھی کھانی پڑے.تو ایک وفادار انسان مُنہ بناتا ہوا اچھا نہیں لگتا.شکر گذاری اور قدردانی بہت اعلیٰ صفات ہیں.غیبت مت کرو:.(ر) ایک اور قابل اصلاح بات غیبت کی عادت ہے اور یہ عادت بھی ایسی ہے جس میں بدقسمتی سے

Page 197

179 عورتیں زیادہ مبتلا ہوتیں ہیں قرآن مجید نے غیبت کی عادت کو مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے الفاظ میں بیان کیا ہے.گویا اس کے اندر دو گند جمع ہو جاتے ہیں.ایک اپنے بھائی کا گوشت کھانا اور دوسرے مردہ جسم کا گوشت کھانا.مردہ اس لئے کہا گیا ہے کہ جو بھائی یا بہن غیر حاضر ہو اور مجلس میں موجود نہ ہو وہ گویا مردہ کے حکم میں ہوتا ہے.پس کسی کے پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرنا گویا ایک مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے.جو ایک نہایت مکروہ فعل ہے.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم تو سچی بات کہتے ہیں اس لئے یہ غیبت نہیں.مگر یہ ایک سخت غلطی ہے.غیبت تو ہوتی ہی سچی بات کے متعلق ہے.اگر وہ سچی نہ ہو تو پھر تو وہ غیبت نہیں رہتی.بلکہ جھوٹ اور بہتان ہو جاتا ہے.دراصل پیٹھ پیچھے لوگوں کی عیب جوئی کی عادت ایک نہایت ہی گری ہوئی عادت ہے جس میں کچھ بھی فائدہ نہیں بلکہ سراسر ایک نقصان ہی ہے اور بیشمار فتنوں کا دروازہ کھلتا ہے.جس سے ہر سچے مومن کو بیچنا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زریں نصیحت:.عملی زندگی میں اصلاح سے تعلق رکھنے والی باتیں تو بے شمار ہیں مگر مضمون لمبا ہونے کی وجہ سے اس وقت انہی چند باتوں پہ اکتفاء کرتی ہوں اور اپنے اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس زریں نصیحت پر جو آپ نے طبقہ نسواں کو کشتی نوح کے آخر میں فرمائی ہے ختم کرتی ہوں.اللہ تعالیٰ مجھے اور سب بہنوں کو اس نصیحت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین الہم امین.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.”ہمارے اس زمانہ میں بعض خاص بدعات میں عورتیں بھی مبتلا ہیں مثلاً وہ تعد دنکاح کے مسئلہ کو نہایت بُری نظر سے دیکھتی ہیں.گویا اس پر ایمان ہی نہیں رکھتیں ان کو معلوم نہیں کہ خدا کی شریعت ہر ایک قسم کا علاج اپنے اندر رکھتی ہے.پس اگر اسلام میں تعد دنکاح کا مسئلہ نہ ہوتا تو ایسی صورتیں جو مردوں کے لئے نکاح ثانی کے لئے پیش آجاتی ہیں اس شریعت میں ان کا کوئی علاج نہ ہوتا..وہ شریعت کس کام کی جس میں کل مشکلات کا علاج نہ ہو.بے شک وہ مر سخت ظالم اور قابل مواخذہ ہے.جو دو جو روئیں کر کے انصاف نہیں کرتا مگر تم خدا کی نافرمانی کر کے مورد قہر الہی مت بنو.ہر ایک اپنے کام سے پوچھا جائے گا.اگر تم خدا تعالیٰ کی نظر میں نیک بنو تو تمہارا خاوند بھی نیک کیا جاوے گا.تقویٰ اختیار کرو دنیا سے اور اس کی زینت سے بہت دل مت لگاؤ.قومی فخر مت کرو.کسی عورت سے ٹھٹھا ہنسی مت کرو.خاوندوں سے وہ

Page 198

180 تقاضے نہ کرو جو ان کی حیثیت سے باہر ہیں.کوشش کرو کہ تا تم معصوم اور پاکدامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو.خدا کے فرائض نماز زکوۃ وغیرہ میں ستی مت کرو.اپنے خاوندوں کی دل و جان سے مطیع رہو بہت سا حصہ ان کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے.سو تم اپنی اس ذمہ داری کو ایسی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات قائنات میں گئی جاؤ.اسراف نہ کرو.اور خاوندوں کے مالوں کو بیجا طور پر خرچ نہ کرو.خیانت نہ کرو.چوری نہ کر دگہ نہ کرو ایک عورت دوسری عورت یا مرد یہ بہتان نہ لگاوے.روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحه 8180) مصباح مارچ 1945ء

Page 199

181 کیا گیا.امتہ الحی لائبریری کا احیاء یکم نومبر 1950ء کوزیر انتظام لجنہ اماءاللہ مرکز یه دفتر لجنہ اماءاللہ میں امتہ التی لائبریری کا احیاء تلاوت قرآن مجید کے بعد جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ (حضرت سیدہ ام متین صاحبہ ) نے تقریر کی.جس کا خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے.آپ نے فرمایا : کہ یہ لائبریری جس کا آج احیاء کیا جارہا ہے.سیدہ امتہ الحی صاحبہ کی یادگار کے طور پر قائم کی گئی تھی.اور اسی لئے اس کا نام امتہ التی لائبریری رکھا گیا.قادیان میں میری انتہائی خواہش تھی کہ میں اس لائبریری کو ترقی دوں.لیکن لائبریری کے لئے کوئی الگ فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے میری یہ خواہش عملی جامہ نہ پہن سکی.لائبریری بہت چھوٹے پیمانہ پر تھی.اور اس کو ترقی دینے کی سکیمیں بنائی جارہی تھیں کہ وہ سیلاب عظیم آیا جس نے ہمیں اپنے مرکز سے اتنی دور پھینکا.خدا تعالیٰ کی مشیت یہی تھی.جماعت منتشر ہوئی لیکن اولوالعزم محمود کے ذریعہ بکھری ہوئی جماعت کے دانے پھر ایک لڑی میں پرو دیئے گئے.اللہ تعالیٰ نے ایک مرکز ثانی ہمیں عطا فر مایا اور توفیق دی کہ ہم اپنے تمام کام اس طرح کر سکیں.جس طرح قادیان میں کیا کرتے تھے.قادیان میں تو شائد ہی کوئی گھر ہوگا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام.بزرگان سلسلہ اور دیگر مذہبی و علمی کتب کا ذخیرہ موجود نہ ہو.لیکن اس قیامت صغریٰ کی بدولت جو 1947ء میں آئی لوگوں نے جہاں اپنا سب کچھ اپنے گھروں میں چھوڑ اوہاں وہ اپنی کتب بھی وہیں چھوڑ آئے.اس لئے بہت ہی ضروری تھا کہ ربوہ میں ایک زنانہ لائبریری قائم کی جائے.جس سے عورتوں میں علمی ذوق پیدا ہو.اور وہ کتب پڑھ کر اپنے علم کو بڑھائیں.پس اس غرض کے لئے لجنہ اماءاللہ کی شورٹی جو جلسہ سالانہ دسمبر 1949ء میں منعقد ہوئی.میں نے یہ تجویز پیش کی کہ امتہ الحی لائبریری کو دوبارہ قائم کیا جائے.اور اس کے لئے تین ہزار روپے کی تحریک کی.شوری کے موقعہ پر 58 بیرونی لجنات کی نمائندہ موجود تھیں.جنہوں نے نہایت گرم جوشی سے اس تحریک کو لبیک کہا.اور اسی وقت - 2171 روپے کے وعدہ جات ہوئے.جس میں سے -/550 روپے کا وعدہ لجنہ اماءاللہ ربوہ کا تھا.اس وقت تک کل - 1157 روپے وصول ہو چکے ہیں.

Page 200

182 ملتان شہر چھاؤنی بدو ملی - چک 565 - چک 644 - چک نمبر 88.اور حمہ.گولیکی.نکانہ صاحب.اسماعیلہ.کھاریاں اور حافظ آباد کی لبنات اپنے وعدہ جات پورے کر چکی ہیں.بلکہ بعض لجنات نے اپنے وعدہ جات سے زائد ہی چندہ دیا.ربوہ کی لجنہ نے ابھی اس طرف بہت کم توجہ دی ہے حالانکہ لائبریری سے فائدہ ربوہ کی مستورات نے اٹھانا ہے.بیرونی لجنات کی ممبرات تو بہت کم فائدہ اس سے اٹھا سکتی ہیں.پس بہنوں کو چاہیے کہ جلد از جلد اس چندہ کی ادائیگی کی طرف توجہ کریں.جو چندہ اس وقت تک موصول ہو چکا ہے.اس سے لائبریری قائم کر دی گئی ہے.اور اس وقت لائبریری میں چار سو دو کتب موجود ہیں اور مزید کتب منگوائی جارہی ہیں.امید ہے کہ بہنیں اس لائبریری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں گی.تا یہ تھا سا پودا جلد از جلد پروان چڑھ کر ایک تناور درخت بنے جس کے سائے سے آنیوالی قومیں فائدہ اٹھائیں.( تقریر کے بعد دعا کے ذریعہ لائبریری کا افتتاح کیا گیا اور پندرہ بہنوں نے اسی وقت ممبری کے لئے مصباح دسمبر 1950 ء ما نام لکھوائے.)

Page 201

183 بیرونی ممالک سے آنیوالی اور وہاں جانیوالی احمدی بہنوں کی خدمت میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے سپاسنامہ مورخہ یکم مئی بعد نماز عصر نصرت گرلز ہائی سکول میں بیرونی ممالک سے واپس آنے والی بہنوں بیگم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ.بیگم صوفی مطیع الرحمن صاحب اور بیگم نذیر احمد علی صاحب کے استقبال اور تبلیغ کے لئے پاکستان سے باہر جانے والی بہن نصیرہ نزہت صاحبہ کو الوداعی پارٹی دی گئی.چائے وغیرہ کے بعد حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے ایڈریس پیش کرتے ہوئے کلثوم بیگم صاحبہ (اہلیہ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ سابق امام مسجد لنڈن ) آمنہ بیگم صاحبہ (اہلیہ مولوی نذیر احمد علی صاحب مبلغ افریقہ ) اور امۃ الرحیم صاحبہ (اہلیہ صوفی مطیع الرحمن صاحب مبلغ امریکہ) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم آپ کی کامیاب و کامران مراجعت پر اھلا و سھلا مرحبا کہتی ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے آپ کے شوہروں کو بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے منتخب فرمایا.اور پھر ان کے ساتھ آپ کو بھی باہر جانے کا موقع ملا.ورنہ ایں سعادت بزور بازو نیست تا نه بخشدہ خدائے بخشنده اب جب آپ باہر سے ہو آئی ہیں اور آپ کو مفید تجربات حاصل ہو چکے ہیں.ہم امید کرتی ہیں کہ آپ کا وجود لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے لئے مفید ثابت ہوگا اور آپ لجنہ کی تنظیم میں پوری دلچسپی سے حصہ لیں گی.میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جن ممالک میں آپ گئیں وہاں کے رہنے والے عوام ترقی پر ہیں اور ہم ان سے پیچھے ہیں.ہرگز نہیں! ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے محسنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ قرار دیا ہے.وہ لوگ تو لا مذہب ہیں.دہریت ان پر چھائی ہوئی ہے.گاتے ناچتے اور شرابیں پیتے ہیں،مست رہتے ہیں.دنیا کمانے میں لگے ہوئے ہیں، آخرت کی کوئی فکر نہیں.اگر ان میں اخلاقی یا تمدنی خوبیاں پائی جاتی ہیں تو یہ بھی در اصل اسلام سے اخذ کردہ ہیں اور وہ اس وقت ہماری اپنی شامت اعمال کی وجہ سے ہمارے ہاتھ سے جاتی رہی ہیں.پس خُذْ مَا صَفَا وَدَعْ مَا كَدَرَ کے مطابق جو اچھی ہے ہم ان سے لے

Page 202

184 لیں گے کیونکہ وہ ہماری ہی تھی.اللہ تعالیٰ آپ کا آنا ہر لحاظ سے مبارک کرے.اس کے بعد آپ نے نصیرہ نزہت صاحبہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے اپنے خاوند کے ساتھ برائے تبلیغ ماریشس بھجوایا جا رہا ہے.ہم اس وقت غم اور خوشی کے ملے جلے جذبات لئے ہوئے ہیں.غم اس لئے کہ آپ ہمارے درمیان ایک عرصہ رہیں اور اب جدا ہو رہی ہیں.لیکن ہمیں خوشی ہوتی ہے اس خیال سے کہ آپ ایک بہت بڑے مقصد یعنی تبلیغ اسلام کو سر انجام دینے کے لئے باہر جارہی ہیں.جو ایک مومن کا حقیقی مقصد ہے.آپ ہم سے دور ہوں گی لیکن ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہوں گی.امید ہے کہ آپ بھی ہمیں اپنی دعاؤں میں یا درکھیں گی.آپ کو قادیان میں تعلیم حاصل کرنے اور اس نیک ماحول میں تربیت پانے کا موقع ملا ہے.اور آپ نے خدا کے فضل سے سلسلہ کی بہت سی خدمات بھی کی ہیں.ہم امید کرتی ہیں کہ آپ ماریشس میں بھی پورے جوش کے ساتھ احمدیت کی تبلیغ میں حصہ لیں گی.اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب کرے اور کامران قادیان کی بستی میں واپس لائے.اب ہم آپ کو پر نم آنکھوں اور دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتی ہیں.آپ سے ہماری حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق یہی خواہش ہے میرے پیارے دوستو تم دم نہ لینا جب تلک ساری دنیا میں نہ لہرائے لوائے قادیاں مصباح مئی 1951ء

Page 203

185 حضرت سیدہ اُم متین صاحبہ کا احمدی بہنوں سے خطاب (جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ ) آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانیہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رنگ میں ہوئی اس کا سب سے بڑامشن تکمیل اشاعت ہے.اس لئے احمدی قوم کا جو اس مشن کی اولین حامل ہے فرض ہے کہ اس جہت سے وہ تکمیل کے آخری نقطے پر پہنچ جائے.اسی طرح ظاہری نگاہ سے بھی دیکھا جائے تو نظر آئے گا کہ موجودہ زمانہ میں قوم نہ ترقی کرسکتی ہے اور نہ زندہ ہی رہ سکتی ہے.جب تک کہ اس کا مضبوط پر لیں نہ ہو.ان حقائق کے پیش نظر خاص مستورات کے لئے سیدنا حضرت مصلح الموعود خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے مطابق رسالہ مصباح جاری ہے.ظاہر ہے کہ لجنہ اماء اللہ اس وقت تک رسالہ کا ظاہری اور معنوی معیار بلند نہیں کر سکتی جب تک مستورات خود اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے رسالہ کی طرف کما حقہ توجہ نہیں کریں گی.اس لئے میں اس اعلان کے ذریعے درخواست کرتی ہوں کہ آپ اپنے شہر اور حلقہ اثر میں جو ضروری نہیں کہ احمدی مستورات پر ہی مشتمل ہو.غیر احمدی اور غیر مسلم خواتین بھی اس میں شامل ہو سکتی ہیں.بہت جلد تحریک کر کے اور معلوم کر کے مطلع فرمانے کی تکلیف فرما ئیں کہ آپ کے حلقہ اثر میں کون کون بہنیں مصباح کی خریداری منظور فرماتی ہیں.اور اس کا چندہ جو صرف 6 روپے سالانہ ہے.6 روپے سالانہ چندہ بہت معمولی ہے اور خود آپ اور آپ کے زیر اثر گھرانوں میں اس پر چہ کا پہنچنا نہایت ضروری ہے.علاوہ مذہبی.علمی.ادبی اور اخلاقی مضامین کے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے ضروری اعلانات.ماہانہ رپورٹ بیرون کی لجنات کی کارگزاری کی رپورٹ بھی اس رسالہ کے ذریعہ ہی آپ تک پہنچے گی.میں امید کرتی ہوں کہ آپ کم از کم تین خریدار اپنے رسالہ مصباح کو دیں گی.اور اس طرح ثواب دارین حاصل کرنے کا موجب بنیں گی.نیز اپنے حلقہ اثر کی اہل قلم بہنوں کے پتوں سے بھی مجھے اطلاع دیں.اور انہیں تحریک کریں کہ وہ وقتا فوقتا مصباح کی علمی اعانت کی طرف بھی توجہ کیا کریں.اور مصباح میں چھپنے کے لئے مذہبی، علمی، ادبی، معاشرتی اور اخلاقی مضامین گھروں میں کام آنے والے مفید نسخے اور کشیدہ کاری وغیرہ کے اعلیٰ نمونے بھجوایا کریں.مصباح اپریل 1952ء

Page 204

186 جامعہ نصرت ربوہ کی سالانہ رپورٹ جو حضرت سید وام تین صاحبہ ڈائریکٹر لیس جامعہ نصرت نے سالانہ تقسیم انعامات کے موقع پر پڑھ کر سنائی اللہ تعالیٰ کا بے انتہا فضل و احسان ہے.جس نے ہمیں توفیق عطا فرمائی کہ جامعہ نصرت کی پہلے سال کی رپورٹ پیش کر سکیں.ایک لمبے عرصہ سے جماعت کے مرکز میں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے زنانہ کالج کی ضرورت محسوس ہورہی تھی.گو پنجاب کے قریباً ہر ضلع میں زنانہ کالج موجود ہیں اور قریباً ہر کالج میں ہی احمدی لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں.جہاں وہ دنیاوی تعلیم تو بیشک حاصل کرتی تھیں لیکن دینی تعلیم اور صحیح تربیت اور روحانی ماحول سے نا آشنا تھیں.اکثر مسلمان عورتیں خاص کر تعلیم یافتہ طبقہ کی لڑکیاں اور مستورات عیسائیوں کی نقل میں آزادی کی رو میں بہہ رہی ہیں.پردہ چھوڑ دیا ہے.اس لئے ان کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیاں بھی اس آزادی کے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتی تھیں.عام طور پر ہر ایک لڑکی جس عمر میں سکول کی تعلیم ختم کر کے کالج میں جاتی ہے.وہ عمر سمجھ دار نہیں ہوتی اور زمانہ کا سیلاب اسے اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے ان حالات کی وجہ سے ضروری تھا کہ احمدی بچیاں موجودہ آزادی کی روش مغربی تہذیب ، فیشن کی لعنت اور بے پردگی کی وبا سے محفوظ رہیں.ضروری تھا کہ احمدی بچیوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ایک درسگاہ مرکز میں کھولی جائے.جس میں یونیورسٹی کی مروجہ تعلیم کے علاوہ خالص مذہبی تعلیم بھی دی جا سکے.مگر پارٹیشن کے بعد جماعت کے مالی حالات اتنے اچھے نہیں تھے کہ اس قدر جلد لڑکیوں کا کالج کھول دیا جا تا کوئی عمارت نہیں تھی.سٹاف مہیا نہیں ہورہا تھا.لیکن دوسری طرف ایک زنانہ کالج کھولے جانے کی ضرورت اس شدت کے ساتھ محسوس ہو رہی تھی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے زنانہ کالج کھولنے کا فیصلہ فرما دیا اور بنفس نفیس 14 جون 1951 ء کو خطاب بھی فرمایا.کالج کی عمارت : چونکہ کالج کے لئے انجمن کے پاس کوئی عمارت نہ تھی اور نئی عمارت کا بیٹا آسان کام نہیں تھا.اس لئے حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ازراہ عنایت اپنی ایک کوٹھی میں کالج جاری کرنے کی

Page 205

187 اجازت فرمائی.عمارت کے چار کمرے تھے.ایک کو دفتر بنا دیا تھا.ایک کو کلاس روم اور دو ہوسٹل کے لئے رکھے گئے.چونکہ پہلے سال صرف ایک ہی جماعت تھی.اس لئے ایک سال تک اسی طرح کام چلتا رہا.لیکن مئی میں نیا داخلہ شروع ہونے پر چونکہ دو جماعتیں ہو گئیں تو وہ عمارت ناکافی ثابت ہوئی اس لئے کالج کا دفتر لجنہ اماءاللہ کی عمارت میں منتقل کر دیا گیا.کالج کی اپنی عمارت زیر تعمیر ہے.مکمل ہونے پر انشاء اللہ کالج وہاں منتقل کر دیا جائے گا.سٹاف : کالج چلانے کے لئے سب سے اہم اور ضروری مسئلہ اساتذہ کا تھا.احمدی مستورات میں ایک تو ایم اے ہیں ہی بہت کم.دوسرے جو چند ایک ہیں وہ بھی مختلف کالجوں میں کام کر رہی ہیں.اس لئے پروفیسر مرد ہی رکھے گئے.جن میں سے بعض کو پورے وقت کے لئے رکھا گیا اور بعض کو ایک یا دو گھنٹوں کے لئے.فرخندہ بیگم المیہ سید محمد اللہ شاہ صاحب نے بھی اپنی خدمات پیش کیں.گووہ بی اے بی ٹی ہیں اور ابھی تک ایم اے نہیں کیا لیکن انہوں نے بہت جانفشانی سے طالبات کو پڑھایا.دوران سال سٹاف مندرجہ ذیل اساتذہ پر مشتمل رہا.-1 دبیات اور فارسی اختیاری مکرم قاضی محمد نذیر صاحب فرخندہ بیگم صاحبہ اور عبدالسلام اختر صاحب ایم.اے -2- انگریزی اقتصادیات فرخنده بیگم صاحبه عربی -3 -4 -5 -6 -7 خاکسار (حضرت سیدہ ام متین صاحبه ) اردو اور فارسی پروفیسر علی احمد صاحب ایم.اے عربی اختیاری استانی سردار بیگم سپریٹنڈنٹ ہوسٹل مکرم علی محمد صاحب بی اے.بی ٹی تاریخ مضامين : پورا سٹاف نہ ملنے کی وجہ سے سال گزشتہ میں فرسٹ ایئر کے لئے صرف مندرجہ ذیل مضامین ہی رکھے گئے.(1) دبینیات (2) عربی (3) انگریزی (4) فارسی (5) تاریخ (6) اقتصادیات

Page 206

188 (7) اردو (8) عربی (9) فارسی (10) اسلامیات اختیاری مئی 1952ء میں نئے داخلہ کے بعد کالج میں دونئے مضامین فلسفہ اور حساب کا بھی اضافہ کر دیا گیا.تعداد طالبات: گزشتہ سال کالج میں صرف 16 طالبات داخل ہوئیں اور مئی 1952 ء میں فرسٹ ایئر میں 13 طالبات گویا اس وقت جامعہ نصرت کی طالبات کی کل تعداد 29 ہے.آمد و خرچ : جامعہ نصرت کا گزشتہ سال کا بجٹ -/4500 روپے تھا.اور سالانہ خرچ2496/15/6 سائر اخراجات کالج 6072/13 تھے.جس میں سے 6049/2/6 خرچ ہوئے.فیسوں کی آمدن-/1080 ہوئی.وظائف : ہمارا کالج صحیح معنوں میں غرباء کا کالج ہے.اس لئے جس قدر بھی مراعات طالبات کو دی جاسکتی تھیں دی گئیں.61 طالبات میں 9 ایسی ہیں جو وظیفہ حاصل کر رہی ہیں.تحریک وقف زندگی : حضرت اقدس نے 1950ء میں جماعت کی مستورات میں تحریک فرمائی تھی کہ لڑکیاں بھی لڑکوں کی طرح اپنے آپ کو وقف کریں.تا کہ ان کو اعلیٰ تعلیم دلوا کر سلسلہ کے کاموں کے لئے تیار کیا جاسکے.چنانچہ دو واقف زندگی طالبات کا لج میں داخل ہوئیں.جن کو انشاء اللہ تعالیٰ اعلیٰ تعلیم دلوا کر کالج کے سٹاف کے لئے تیار کیا جائے گا.اس کالج کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں دینیات کی تعلیم کا بہت مکمل انتظام ہے.دینیات لازمی مضمون ہے.اور اس کے لئے دو گھنٹیاں ( پیریڈ ) رکھی گئی ہیں.قرآن مجید کی تفسیر کے پندرہ پارے ایف.اے کا اور پندرہ بی.اے کے نصاب میں رکھے گئے ہیں.تا کہ جولڑکی گریجوایٹ ہوکر یہاں سے جائے وہ سارے قرآن مجید کی تفسیر کے علاوہ حدیث شریف جانتی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی کتب بھی کورس میں شامل ہیں.نیز جماعت احمدیہ کے امتیازی مسائل پر ان کو لیکچر دئے جاتے ہیں.دیگر علمی مشاغل : طالبات کو صرف کتاب کا کیڑا ہی نہیں بنایا جاتا بلکہ ان کو تقریر وغیرہ کی بھی مشق کروائی جاتی ہے.اور

Page 207

189 اس غرض کے لئے ان کی ایک کمیٹی بنائی گئی جس کا اجلاس ہر جمعرات کو ہوتا ہے.طالبات میں جھجک دور کرنے کے لئے اس کی صدر اور سیکرٹری طالبات میں سے ہی چنی جاتی ہیں.اجلاس کی ساری کارروائی ان کی صدر ہی کرواتی ہیں.سال گزشتہ میں صدرامتہ القدوس بیگم صاحبہ اور نائب صدرسیده بشری بیگم صاحبہ سیکرٹری رقیہ شمیم اور نائب سیکرٹری صدیقہ.اس کمیٹی کے اجلاسوں میں طالبات نے مختلف موضوعات پر مضامین پڑھے اور تقریریں کیں.ایک انعامی مقابلہ ہوا جس کا موضوع تھا ”ازدواجی زندگی کی الجھنوں کا حل اس پر مختلف طالبات نے تقریریں کیں.جس میں اول منظور النساء قرار دی گئی.جن کو آج انعام دیا جائے گا.تجویز تھی کہ علماء کے لیکچر ز طالبات کی میٹنگ میں کروائے جائیں.لیکن افسوس بعض مجبوریوں کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا.اب امسال انشاء اللہ لیکچروں کا پروگرام شروع کیا جائے گا.تقریر کی مشق کروانے کے لئے اب یہ اصول بنا دیا گیا ہے کہ آئندہ کی میٹنگ میں کسی لڑکی کو لکھا ہوا مضمون پڑھنے کی قطعی اجازت نہ ہوگی.ہر اجلاس میں تقریریں بھی ہوا کریں گی اور جس لڑکی کی تقریر بہترین ہوگی.کپ اس کو دے دیا جائے گا.اسی طرح ہر دفعہ بہترین تقریر کرنے والی کو دیا جاتا رہے گا اور سال کے اختتام پر جس لڑکی نے زیادہ دفعہ حاصل کیا تھا.اس کو دیدیا جائے گا.اور نیا کپ منگوالیا جائے گا نیز فی البدیہ تقریر کرنے کی مشق بھی کروائی جاتی ہے.لائبريري : طالبات کے علم میں اضافہ کرنے کے لئے اور کورس کے علاوہ کتب پڑھنے کا شوق پیدا کرنے کے لئے لائبریری بھی ہے.جس میں سلسلہ کی کتب کے علاوہ ہر مضمون کی کتب موجود ہیں.شام سے عربی کی آسان آسان کتب بھی منگوائی گئی ہیں تا کہ طالبات کی عربی لیاقت بڑھے.اس وقت لائبریری میں روزانہ اخبارات اور رسائل بھی آتے ہیں تا کہ روزانہ کی ضروری خبروں سے واقفیت ہو.جو اخبارات اور رسائل آتے ہیں ان کے نام سیر ہیں.الفضل مصباح الحکم.الصلح.سول اینڈ ملٹری گزٹ.ماہ نو عصمت کھیلیں:.جس طرح روح کی غذا کے لئے علم نہایت ضروری چیز ہے.اسی طرح جسم کی طاقت اور نشو و نما کے لئے کھیلیں اور ورزش ضروری چیز ہے.میدان نہ ہونے کی وجہ سے طالبات میں زیادہ کھیلیں رائج نہ کی جا

Page 208

190 سکیں.تا ہم پی ٹی روزانہ کروائی جاتی رہی اور طالبات بیڈ منٹن بھی کھیلتی رہیں.فروری کے وسط میں جامعہ نصرت کا پہلاٹورنا منٹ لجنہ اماء اللہ کے دفتر کی چاردیواری میں منعقد کیا گیا.27 فروری کو کالج کا ٹورنا منٹ تھا.جس میں طالبات نے مختلف دوڑوں گولہ پھینکنا ، ہائی جمپ ، لانگ جمپ اور نشانہ کا مقابلہ وغیرہ میں حصہ لیا.ٹورنا منٹ بہت کامیاب رہا اور حاضرات نے بے حد دلچسپی لی.چونکہ گزشتہ سال کالج میں صرف ایک ہی کلاس تھی اور طالبات کی تعداد تھوڑی تھی اس لئے رونق بڑھانے کے لئے یہ تجویز کی گئی کہ ٹورنامنٹ میں مقابلہ کے لئے ہائی کلاسز کی طالبات کو اور ان کے علاوہ باہر سے بھی جو شامل ہونا چاہیں ان کو شامل کیا جائے.چنانچہ بہت سی لڑکیوں نے جن میں سے ممتاز نام امتہ المجید بیگم اور نصیرہ کے تھے.ان سب کو بھی جامعہ نصرت کی طرف سے انعام دیئے جائیں گے.اب میدان میسر آنے پر فٹ بال کا بھی انتظام کیا جا رہا ہے.صحت جسمانی طالبات کی صحت کا معائنہ شروع سال میں ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ سے کروایا گیا اور جن طالبات کی صحت کمزور نکلی ان کو فولاد اور کیلشیم لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کی ہدایت پر کالج کی طرف سے دیا جاتا رہا اور کالج میں ایک چھوٹی سی ڈسپنسری بھی کھولی گئی.جس میں تمام ضروری ادو یہ روئی پٹی وغیرہ رکھی گئی.تا کہ فوری ضرورت پڑ جانے پر ضروری اشیاء وہاں سے حاصل کی جاسکیں.دیگر مشاغل تفریحات : دوران سال ایک دفعہ ٹورنا منٹ گرلز ہائی سکول لائلپور کا سٹاف اور قریباً 80 طالبات ربوہ دیکھنے آئیں.ان کو کالج دکھایا گیا.سلسلہ کی واقفیت بہم پہنچائی گئی.اسی طرح گزشتہ سال میں ایک دفعہ U.N.O کی ممبر خواتین جب ربوہ آئیں تو ان کو کالج میں بھی بلایا گیا.اس خیال سے کہ جامعہ نصرت کی طالبات صرف کنویں کا مینڈک نہ بنی رہیں.دوسرے کالجوں کو دیکھیں ان میں اور اپنے میں فرق معلوم کریں.کالج کی طالبات میری نگرانی میں لائکپور گورنمنٹ کالج کی دعوت پر ان کی کانووکیشن دیکھنے گئیں.اسی طرح فروری میں طالبات کی تفریح کے لئے دریا کا ایک ٹرپ رکھا گیا.جہاں طالبات نے بہت اچھا وقت گزارا.هوستل : کالج کے ساتھ ہوٹل کا بھی انتظام کیا گیا.لیکن افسوس ہے کہ بار بار اعلان کرنے کے باوجود احباب

Page 209

191 جماعت نے اس طرف توجہ نہیں دی.گزشتہ سال میں صرف تین طالبات ہوسٹل میں آئیں.دو بعد میں آئیں شروع میں کچھ عرصہ صرف ایک لڑکی کو اکیلا رہنا پڑا.جو چوہدری عبدالحمید صاحب کی لڑکی ہیں.ہم ان کا شکر یہ ادا کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ انہوں نے قربانی کر کے اپنی لڑکی کو اس وقت ہوسٹل میں داخل کیا جبکہ ابھی اور کوئی لڑکی نہیں آئی تھی اور ان کو انتہائی تکلیف اٹھانی پڑی.تین طالبات میں سے دو کالج کی طالبات تھیں.اور ایک سکول کی.ہوٹل میں طالبات کا ہر طرح خیال رکھا جاتا ہے اور ہر طرح ان کی تربیت کی کوشش کی جاتی ہے.پانچوں وقت نمازیں باجماعت ادا کی جاتی ہیں.جن طالبات نے قرآن مجید باترجمہ نہیں پڑھا ہوا ان کو تر جمہ سپریٹینڈینٹ صاحبہ پڑھا رہی ہیں.ماہ رمضان کے درس میں بھی طالبات جاتی رہیں.اس سال کا سب سے المناک حادثہ حضرت اماں جان کا سانحہ ارتحال ہے.ان کی تعزیت میں جامعہ نصرت کا ایک غیر معمولی اجلاس منعقد کیا گیا.جس میں کالج کے سٹاف اور طالبات کی طرف سے خاندان حضرت مسیح موعو علیہ السلام کے ساتھ خلوص اور محبت کے جذبات کے ساتھ اظہار ہمدردی و عقیدت کیا گیا.نیز 1952-05-09 کو حضرت اماں جان کی تعزیت میں ایک جلسہ جامعہ نصرت میں منعقد ہوا.جس میں باہر سے بھی بہت سی خواتین نے شمولیت کی.اس جلسہ میں کالج کی طالبات نے حضرت اماں جان کی سیرت مبارکہ اور ان کے خصائل محمودہ پر تقریریں کیں اور مضامین پڑھے.اب رپورٹ ختم کرنے کے بعد میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ اپنی بچیوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں احمدیت اور اسلام کی خادمہ بنائے.اور تعلیم کے بعد ان کا نصب العین اسلام کی خدمت اور اسلام کا جھنڈا دنیا میں بلند کرنا ہو.ڈائریکٹریس جامعہ نصرت از مصباح نومبر، دسمبر 1952 ء نمبر 58

Page 210

192 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 26 دسمبر 1954ء حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے دو قسم کے انسان پیدا کئے ہیں.یعنی مرد اور عورت.اور تمام شریعتیں جو خدا تعالیٰ نے آج تک نازل کی ہیں وہ ان دونوں کے لئے برابر ہیں.اور دونوں میں سے خدا کے نزدیک باعزت وہ ہے جو نیک اور مناسب اعمال میں دوسرے سے سبقت لے جائے.اسی طرح مرد اور عورت کی ذمہ داریاں برابر ہیں.بلکہ عورت پر قومی تربیت کے لحاظ سے مرد سے زیادہ ذمہ داریاں ہیں کیونکہ اسی پر ملک اور قوم کی ترقی اور بہودی کا دارو مدار ہے.اس کی ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے لجنہ اماءاللہ کا قیام فرمایا اور اس بات پر زور دیا کہ کوئی گاؤں قصبہ شہر ایسا نہ ہو جس میں لجنہ اماء اللہ کا ادارہ نہ ہو اور اس طرح جماعت کی ہر عورت اور لڑکی ایک نظام کی لڑی میں منسلک ہو کر سلسلہ احمدیہ کی بنیاد کو مضبوط کرنے والی ثابت ہو.پھر آپ نے فرمایا کہ عورت کے ذمہ دین محمدی کے احکام سیکھنے اور سیکھانے کا فرض مرد سے زیادہ ہے.جس سے وہ اپنی اولاد.خاندان قوم اور ملک میں اپنا اعلیٰ نمونہ پیش کر کے اور اسلام کو صحیح رنگ میں پیش کر کے تبلیغ کر سکتی ہیں.اس فرض کو سمجھانے کی غرض سے آپ نے حضرت عائشہ حضرت خدیجہ اور بعض دوسری صحابیات کی مثالیں پیش کیں.اور صحیح معنی بتلا کر اس بات پر زور دیا کہ احکام شریعت خود سیکھیں اور ان پر عمل کریں تا کہ آپ اپنی اولاد میں اخلاق فاضلہ پیدا کر کے حقیقی طور پر خدمت اسلام کرسکیں.مصباح جنوری 1955

Page 211

193 لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے پہلے سالانہ اجتماع میں خطاب مورخہ 19 اکتوبر 1956ء اجتماع کی کاروائی زیر صدارت حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ ساڑھے تین بجے دفتر لجنہ اماءاللہ کے ہال میں شروع ہوئی.تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد عہد نامہ دُہرایا گیا.اس کے بعد حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جنرل سکریٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے نمائندگان کو خوش آمدید کہا اور اس امر پر خوشی کا اظہار فرمایا کہ قلیل وقت میں اطلاع ملنے کے باوجود انہوں نے اس میں شمولیت اختیار کی اس کے بعد آپ نے حاضرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ان دنوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں اور یہ ثابت کر دیں کہ آپ اپنی لجنات کی صحیح نمائندگی کر سکتی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ مسلمان عورتیں یہ بار اُٹھا سکتی ہیں.اسلام نے انہیں ان تمام کاموں کا اہل قرار دیا ہے اور ان کو ایسی آزادی دی ہے.جو دُنیا کی کسی قوم اور ملک نے نہیں دی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان عورتوں کو ہر کام کرنے کا موقع دیا ہے.اسلام سے پہلے عورت کو بُراسمجھا جاتا تھا.اس پر مختلف قسم کی سختیاں کی جاتی تھیں.لیکن اسلام نے نہ صرف یہ سختیاں دُور کیں، بلکہ عورت کو بہت بلند اور باعزت مقام عطا کیا.اب عورت کا بھی فرض ہے کہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر دل و جان سے عمل پیرا ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے.آپ کے بعد آپ کے ارشاد کے مطابق خلافت قائم ہوئی اب مسلمانوں پر جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی تعمیل ضروری تھی اسی طرح خلیفہ وقت کی ہدایات کی تعمیل بھی واجب تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ 66 پیشگوئی فرمائی تھی کہ ”آخری زمانہ میں خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی.(مسند احمد بن حنبل) سو حضور ﷺ کی اس پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے اور آپ کی وفات کے بعد آپ کی جماعت نے بالا تفاق خلافت علی منہاج نبوت قائم کرنے کیلئے حضرت مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ کوخلیفہ منتخب کیا.آپ نے خلافت کی برکات اور اس سے وابستگی پر زور دیتے ہوئے فرمایا.جب تک قوم میں خلافت کا احترام اور اس سے محبت موجود رہتی ہے اس وقت تک اللہ تعالیٰ بھی اس قوم پر اپنی نعمت اور فضل کی بارش برساتا رہتا ہے اور جب کوئی قوم اس نعمت کی ناقدری کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس قوم سے منہ موڑ لیتا ہے.مسلمانوں نے خلافت کی قدر نہ کی.اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک مسلمان

Page 212

194 اس کی پاداش میں مختلف آلام کا شکار ہیں.حضرت مولانا نورالدین خلیفہ مسیح الاول کی وفات پر جماعت کی اکثریت نے حضرت سید نا اصلح موعود کواپنا دوسرا خلیفہ منتخب کرلیا.اس موقع پر کئی معتبر اور سرکش لوگوں نے خلافت کا انکار کیا.لیکن واقعات نے بعد میں یہ ثابت کر دیا کہ وہ غلطی خوردہ تھے.حضرت الصلح الموعود کی قیادت میں جماعت نے بے نظیر ترقی کی.خصوصاً حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جو عورتوں کے حقوق محفوظ کرنے کیلئے جد و جہد کی وہ آپ کے سامنے ہے.آپ نے عورتوں کی با قاعدہ تنظیم کیلئے لجنہ اماءاللہ قائم کی.سکول جاری کئے.لڑکیوں کا کالج جاری کیا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کئی سال متواتر جلسہ سالانہ کے موقع پر عورتوں میں بنفس نفیس تقریر فرماتے رہے جس کی وجہ سے احمدی عورتوں میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوتی گئی.حتی کہ حضور نے لجنہ اماءاللہ کو مجلس مشاورت میں بھی حق نمائندگی عطا فرمایا.اس اجتماع میں لجنہ اماءاللہ بھی اپنی شوریٰ منعقد کرتی ہے.چنانچہ اس سال اجتماع کے موقع پر لجنہ اماءاللہ کی گیارہویں شوری منعقد ہوگی.ہم جتنا بھی اپنے خلیفہ کا شکر یہ ادا کریں اتنا ہی کم ہے.لیکن افسوس ہے کہ ان دنوں بعض فتنہ پرداز عناصر اور منافقین جن کا رواں رواں حضور کے احسانات سے بندھا ہوا ہے.نے خلافت کے خلاف شرارت کھڑی کر رکھی ہے.وہ چاہتے ہیں کہ مختلف قسم کے الزامات لگا کر خلافت کو مٹا دیا جائے.حالانکہ یہ لوگ بخوبی جانتے ہیں اور آج سے پیشتر یہ اس امر کے اقراری رہے ہیں کہ حضور نہ صرف خلیفہ وقت ہیں بلکہ پسر موعود اور اصلح الموعود بھی ہیں.اس لئے دُنیا کی کوئی طاقت حضور کو حضور کے منصب سے معزول نہیں کر سکتی.حضور کو خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اور کوئی نہیں جو خدا تعالیٰ کے خلیفہ کو معزول کرے.ہم نے حضور کے ذریعہ زندہ نشانات دیکھے ہیں.ان زندہ نشانوں کو دیکھنے کے بعد انکار یا مخالفت یقیناً عذاب الہی مول لیتا ہے.پس آپ بہنیں ، آپ کے خاوند ، آپ کی اولادیں، آپ کے خاندان اس قسم کے فتنہ پرداز عناصر سے بیزار ہیں اور اُن سے لاتعلقی کا اظہار کریں.چونکہ اپنی اولادوں کی صحیح راہنمائی کرنے میں عورتوں کا زیادہ دخل ہوتا ہے.اس لئے آپ کو اس سلسلہ میں مضبوط قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے رجسٹر کا روائی لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ہے تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ 433

Page 213

195 خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ 1957ء مورخہ 11 اکتوبر 1957ء کو ساڑھے تین بجے لجنہ اماءاللہ کے ہال میں سالانہ اجتماع کی کاروائی زیر صداررت حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ شروع ہوئی.تلاوت کے بعد لجنہ اماء اللہ کا عہد نامہ دُہرایا گیا.بعد ازاں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جنرل سکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے خطاب فرمایا.آپ نے آنے والی تمام ممبرات کو اھلا و سھلا کہا اور ان کے مرکز میں آنے کی غرض و غائیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ یہاں سے ایک نئی روح ایک نیا جذبہ لے کر جائیں اور نئی روح اور نیا جذ بہ نہ صرف خود لیکر جائیں بلکہ اپنی اپنی جگہ کی لجنات کی تمام ممبرات میں بھی یہ روح اور یہ جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کریں.گذشتہ سال کا اجتماع ہمارا پہلا تجربہ تھا جو خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب رہا.اور یہ اجتماع اس سے بھی زیادہ کامیاب نظر آتا ہے کیونکہ اس دفعہ باہر کی لجنات کی نمائندگان پہلے سے زیادہ تعداد میں تشریف لائی ہیں.چنانچہ مختلف لجنات کی نمائندگان کی تعداد یہ ہے.لاہور 18 کراچی 1 سرگودہا 2 چنیوٹ کھاریاں | 2 لائل پور 5 ملتان چھاؤنی 1 ہندوستان احمد نگر جہلم دوالمیال 3 1 1 کبیر والا چک منگلا بد وملهی 1 2 1 ممباسه 1 بصیر پور کوٹ سلطان 1 مگھیانہ جنڈ اُٹھوال 1 ڈھاکہ 2 2 1 1 1 چک نمبر ۸۸ 2 گوجره 1 جڑانوالہ 1 گوجرانوالم 1 گوجر خاں | 1 مونگ 1 سیالکوٹ 1 تهال 2 راولپنڈی | 2 آپ نے فرمایا کہ نمائندگان مرکز میں بھجوانے کا دستور کوئی نیا دستور نہیں.یہ دستور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی جاری تھا.اُس وقت بھی جماعتیں اپنے نمائندے بھجواتیں جو مرکز اسلام میں

Page 214

196 آکر اسلامی فیوض سے خود بھی مستفیض ہوتے اور واپس جا کر اپنی جماعتوں کو بھی اس فیض سے بہرہ ور کرتے.ہماری جماعت کی عورتیں جب علم کے میدان میں مردوں سے پیچھے نہیں بلکہ آگے ہی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ دین کے میدان میں مردوں سے پیچھے رہ جائیں بلکہ خدا تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں نبی پر ایمان لانے اور اس کی کامل اطاعت اختیار کرنے کے لحاظ سے مرد اور عورت کو یکساں ذمہ دار قرار دیا ہے.جب ہم تاریخ اسلام پر غور کرتے ہیں تو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والی سب سے پہلے ایک عورت ہی نظر آتی ہے.یعنی حضرت خدیجتہ الکبری جو سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور نہ صرف ایمان ہی لا ئیں بلکہ اشاعت اسلام میں بھی پورا پورا تعاون فرمایا.پھر ہندہ جیسی دشمن اسلام عورت جب اسلام لے آئی تو مختلف اوقات میں اس نے ایسی قربانیاں کیں کہ آج بھی ان کو پڑھ کر وجد طاری ہو جاتا ہے.ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی قرون اولیٰ کی صحابیات کی طرح اپنے اندر دین کی خدمت کی نئی روح اور جوش پیدا کریں اور خلافت احمدیہ سے وابستگی کا پورا پورا ثبوت دیں بلکہ اپنی نسلوں میں بھی اس وابستگی کو زیادہ پختگی سے جاری کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لائے ہوئے رُوحانی اور علمی خزانوں کو لوگوں میں تقسیم کریں اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کریں.لفظ اسلام کے معنی کامل فرماں برداری کے ہیں اس کی عملی تصدیق کے لئے ہم پر لازم ہے کہ ہم اشاعت اسلام کیلئے ہر ممکن کوشش کریں اور ہم اپنے آپ کو اپنے عمل سے احمدیت کا ستون ثابت کر دیں.اسلام کے صرف پانچ ارکان پر عمل کر لیتا انسان کو کامل مومن نہیں بنا سکتا جب تک ہم خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حقوق کو پورا پورا ادا نہ کریں اور سچائی ، صفائی ، ہمدردی اور خدمت خلق جیسے اخلاق کا بھی مظاہرہ نہ کریں.آخر میں آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ آپ ان باتوں پر خود بھی عمل پیرا ہوں گی اور اپنی دوسری بہنوں کو بھی عمل پیرا کرنے کی کوشش کریں گی.تاریخ مجنہ جلد دوم صفحہ 482

Page 215

197 خطاب 27 دسمبر جلسہ سالانہ 1957ء آپ نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس دفعہ جلسہ سالانہ میں شریک ہونے کی توفیق دی اس لئے آپ کو بھی چاہیے کہ آپ مرکز کی ہر بات سے کما حقہ فائدہ اٹھائیں.اور جلسہ کی برکات سے حصہ لیں.آپ نے فرمایا کے جی سکول اور مسجد ہالینڈ کا چندہ ادا کرنا آپ کا فرض ہے اور تیسری چیز تفسیر صغیر ہے.اس کی خریداری میں بھی زیادہ سے زیادہ حصہ لیں.آپ نے فرمایا جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ہر سال صنعتی نمائش لگائی جاتی ہے اس دفعہ نمائش اچھی نہیں لگی.جس کی ذمہ دار آپ خود ہیں.اجتماع سالانہ پر نمائندگان نے ہال گیلری بنوانے کے لئے چندہ کا وعدہ کیا تھا.مگر افسوس کہ یہ وعدہ پورا نہیں ہوا.آپ نے فرمایا انسانی زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہونا چاہیے.خاص کر ہم لوگوں کو جنہیں خدا تعالیٰ نے ایسا مبارک زمانہ عطا فرمایا ہے اور آئندہ آنے والی نسلیں اس زمانہ پر رشک کریں گی.آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو ایسا زمانہ نصیب ہوا ہم لوگوں کو حضرت مسیح موعود کی بیعت کر کے اپنا تن من دھن سلسلہ کے لئے قربان کر دینا چاہئیے.آپ نے فرمایا ظاہر اور باطن میں تبدیلی ہونی چاہیے ہمارے ایمان اخلاق میں تبدیل ہونے چاہیے.ہم نے زندہ انسان نہیں بلکہ زندہ خدا کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے.اور ہم لوگ ایک زندہ جماعت کے افراد ہیں.اگر ہم عملی اصلاح نہ کر سکے تو بیعت بے فائدہ ہے.جماعتی اصلاح عورتوں اور مردوں اور بچوں کی اصلاح کے ساتھ ہی ممکن ہے.اگر آپ چاہتی ہیں کہ ہماری قوم میں عظیم الشان تغیر پیدا ہو تو آپ کے اپنے بچوں کی اصلاح کے لئے آپ کی اپنی اصلاح کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.بغیر کوشش کے کوئی کام نہیں ہوتا “ آپ کوشش کرتی جائیں.جتنا اسلام نے نفس کی پاکیزگی پر زور دیا ہے.جتنا اسلام نے انسانی ہمدردی پر زور دیا ہے.جتنا اسلام نے غیبت سے بچنے پر زور دیا ہے.اور کسی مذہب نے زور نہیں دیا.مسلمانوں میں ایک غلط خیال پیدا ہو گیا ہے کہ اخلاق کوئی چیز نہیں ہم لوگ چندہ دیتے ہیں.نماز پڑھتے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ چوری کرنا جھوٹ بولنا چغلی کرنا ایک معمولی بات ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ چیزیں سب سے بڑی برائیاں ہیں ان برائیوں کو چھوڑ کر ہی ہم

Page 216

198 با اخلاق بن سکتے ہیں.آپ نے فرمایا ہماری جماعت میں دو طبقے ہیں ایک طبقہ غرباء کا ہے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو کھاتے پیتے ہیں اور اس بات کی حیثیت رکھتے ہیں کہ اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوائیں.اور یہ لوگ زیادہ تر اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم پر زور دیتے ہیں ان لوگوں کو چاہیے کہ زیادہ توجہ دینی تعلیم کی طرف دیں.اور خاص کر لڑکیوں کی دینی تعلیم کی طرف توجہ دیں کیونکہ ان ہی بچیوں سے آئندہ نسل ہوگی.خلافت ایک انعام ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازا ہے اور اگر آپ اس انعام کی قدر کریں گے.تو وہ آپ کو اس سے اور زیادہ نوازتا چلا جائے گا اور اگر آپ اس کی ناشکری کریں گے تو محروم کر دیئے جائیں گے.آخر میں آپ نے فرمایا بچوں کے اندر خلافت اور نظام خلافت کے ساتھ وابستگی پیدا کریں.اور ایسا تعلق پیدا کریں کہ خواہ شیطان ان پر کسی بھی طرف سے حملہ آور ہو.ان کے قدم نہ لڑکھڑائیں.از الفضل 14 جنوری 1958ء

Page 217

199 حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کی تقریر جلسہ سالانہ 1958ء حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ متفقہ طور پر لجنہ اماءاللہ کی صدر منتخب ہوئیں.صدر بننے کے بعد سب سے پہلی تقریر جو آپ نے 28 دسمبر کو جلسہ سالانہ کے موقع پر فرمائی وہ درج ذیل کی جاتی ہے.اس سال جیسا کہ پروگرام سے واضح ہے میں نے اپنی تقریر کا کوئی موضوع مقررنہیں کیا کیونکہ بعض وجوہ کی بناء پر اجتماع نہ ہو سکا.اور میں نے ارادہ کیا تھا کہ اس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ کے سامنے لجنہ کے سارے سال کا پروگرام بیان کروں گی.تا کہ آپ پر واضح ہو جائے کہ دوران سال لجنہ مرکزیہ نے کیا کام سرانجام دیئے اور کس قسم کے کام کرنے کی ہم آپ سے توقع رکھتے ہیں.دوران سال کا سب سے المناک حادثہ جو لجنہ اماء اللہ کو پیش آیا وہ حضرت اُتم ناصر کی وفات ہے.آپ کا وجود علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی حرم اول اور لجنہ مرکزیہ کی صدر ہونے کے ایک اور اہمیت بھی رکھتا تھا.وہ یہ کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ اور موجودہ نسل کے درمیان ایک کڑی تھیں.“ حضرت ( اماں جان ) کی وفات کے بعد دو ہستیاں ہمارے لئے خاص حیثیت رکھتی تھیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا.اور اپنے ہاتھوں سے ان کی خدمت کی اور اپنے کانوں سے ان کی باتوں کو سنا.ایک اُم ناصر اور دوسری ام داؤد تھیں.ہم سب جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں دیکھا اس بات کی سخت تڑپ اپنے اندر رکھتی ہیں کہ کاش ہم اس زمانہ میں ہوتیں اور اس مقدس ہستی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر برکت حاصل کرتیں.آپ میں سے بہت سی ایسی ہوں گی جنہوں نے (حضرت سیدہ نصرت جہاں صاحبہ المعروف اماں جان صاحبہ ) کو نہیں دیکھا اور ہر ایک آپ میں سے یقینا یہ خواہش اپنے اندر رکھتی ہے کہ کاش ہم وہ زمانہ پالیتیں.لیکن اب بھی آپ کے لئے اس سعادت کو حاصل کرنے اور اپنی روحانیت کو بڑھانے کا موقع ہے ( رفیقات) بہت تھوڑی تعداد میں رہ گئی ہیں ان سے استفادہ کر لیں اور ان کو اپنے اجلاسوں میں بلائیں اور ذکر حبیب کے عنوان پر چشم دید واقعات سنیں کیونکہ روحانیت پیدا کرنے اور دلوں کو غبار اور زنگ دور کرنے کے لئے صحبت صالحین ضروری چیز ہے.پس ان کو اپنی مجالس میں بلائیں.اپنے ہر اجلاس میں یا ہر مہینے ان.

Page 218

200 کی تقریر رکھیں اور ان کے چشم دید واقعات قلمبند کر لیں اور ان کو یادر کھنے کی کوشش کریں.اگر اس وقت آپ نے ستی کی اور اس سنہری موقعہ سے فائدہ نہ اٹھایا تو آنے والی نسلیں آپ سے مطالبہ کریں گی کہ آپ نے نیک اور بزرگ لوگوں سے ہمارے لئے کیا حاصل کیا تو یہ طریق اختیار کرنے سے نہ صرف آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات کا علم ہوگا بلکہ آپ اپنی اولادوں کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچ جائیں گی.اس سلسلہ میں خاص طور پر سکول اور کالج کی ہیڈ بھی مخاطب ہیں کیونکہ کتابوں سے علم سیکھنا اتنا مفید نہیں ہوتا جتنا چشم دید واقعات اور کانوں سے حالات سے ہوتا ہے.ماؤں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی اولادوں کی اس رنگ میں تربیت کریں کہ ان کے بچے اس لئے احمدی نہ ہوں کہ ان کے ماں باپ احمدی تھے بلکہ وہ دلائل احمدیت کے خود قائل ہو کر مانیں.ہماری بزرگ ہستیاں گا ہے گاہے بازخواں ایں قصہ پارینہ را کے مطابق قصہ پارینہ ہی شمار ہونے لگی ہیں.اس لئے ان کی قدر کریں اور ان سے استفادہ کریں.اب میں آپ کے سامنے یہ بیان کروں گی کہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کن شعبہ جات کے ساتھ کام کر رہی ہے.ہمارا پہلا شعبہ خدمت خلق کا ہے.خدمت خلق ہر انسان پر واجب ہے.اس لئے کوئی شرط نہیں کہ آپ سے کہا جائے کہ خدمت خلق کرو تو آپ کریں اور اگر نہ کہا جائے تو نہ کریں.خدمت خلق کا جذ بہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے.توفیق خود بخود انسان کومل جاتی ہے.راستہ سے کانٹا اٹھا دینے کو بھی اسلام خدمت خلق قرار دیتا ہے لیکن سب سے زیادہ جامع تعلیم جو خدمت خلق کی اسلام نے دی ہے وہ یہ ہے کہ سچا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھوں اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں.پس کوشش کرنی چاہئے کہ آپ کے ہاتھوں اور زبان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے.عورتوں میں غیبت کا مرض اس شدت سے پیدا ہو گیا ہے کہ اگر وہ اس کی بُرائی جانتیں تو وہ کبھی اس بُری عادت کو اختیار نہ کرتیں.قرآن کریم نے غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم پسند کرتے ہو کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاؤ.جس طرح تمہیں اس سے کراہت آتی ہے.اسی طرح غیبت کرنے سے تمہارے دل میں نفرت پیدا ہونی چاہئے.مرد اس بد عادت سے بڑی حد تک بچے رہتے ہیں خواہ وجہ کچھ بھی ہو.لیکن عورتیں اکثر جہاں بھی جمع ہوں اس لعنت کو اپنے اوپر وارد کر لیتی ہیں.حالانکہ اگر وہ اپنے فارغ اوقات میں اور اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر یہ سوچیں کہ وہ کون سے ذرائع ہیں جن سے اسلام کی اشاعت کو زیادہ سے زیادہ ترقی دی جاسکتی ہے

Page 219

201 اور لجنہ کی ترقی کی تدابیر سوچیں تو ان کے لئے سعادت دارین حاصل کرنے میں کوئی شعبہ باقی نہ رہ جاتا.پس شعبہ تربیت کے ماتحت آپ کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ اپنی اصلاح کریں اور اپنی دوسری بہنوں کی اصلاح کی بھی کوشش کریں.شعبہ خدمت خلق کے سلسلہ میں آپ کو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ چونکہ اکثریت اس جلسہ میں باہر کی عورتوں کی ہے اس لئے نہ صرف آپ اپنے رشتہ داروں اور احمدی بہنوں کی خدمت کریں بلکہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والی مخلوق کی خدمت کو اپنا فرض سمجھیں.آپ خدمت کے وقت مسلمانوں ، عیسائیوں ، ہندوؤں اور یہودیوں میں کوئی فرق نہ رکھیں.بلکہ اسلام کے حکم کے مطابق سب بنی نوع انسان کی خدمت کرنا آپ کے لئے ضروری ہے.ربوہ میں اکثریت غرباء کی ہے اور بہت سی خواتین صرف اپنے بچوں کی دینی تعلیم کے لئے ربوہ میں مقیم ہیں.لجنہ اماءاللہ مرکز یہ پوری کوشش کرتی ہے کہ جو غرباء باہر سے بچوں کی دینی تعلیم اور دینی ماحول کے لئے ربوہ میں آباد ہوئے ہیں.جہاں تک ہو سکے ان کی مدد کی جائے.خواہ پیسوں کے ذریعہ یا کتب اور فیس کے معاف کرانے کے ذریعہ ہو.باہر کی لجنہ سے اس شعبہ کے ماتحت جو رپورٹ مرکز میں آتی ہے.اس میں انفرادی مساعی کا ذکر ہوتا ہے.حالانکہ اجتماعی کوششوں کا ذکر ہونا چاہئے.کہ ہماری لجنہ مل کر اتنی رقم اکٹھی کرتی ہے ہر قوم کے افراد جو مدد کے محتاج ہوں ان کی مدد کی جائے تا سب کو معلوم ہو جائے کہ احمدیت میں تعصب نہیں..شعبہ تعلیم کا کام یہ ہے کہ آپ مختلف لجنات میں تعلیم کا انتظام کریں.اس سے ظاہری تعلیم مراد نہیں کیونکہ اس کے لئے سکول اور کالج ہیں بلکہ اس شعبہ کے ماتحت مرکز سے ایسے کورس امتحان کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب رکھی جاتی ہیں.لیکن مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امتحان میں سارے پاکستان میں سے صرف ایک سو امتحان دینے والی شامل ہوتی ہیں.سال میں تین دفعہ امتحان ہوتے ہیں.اگر آپ کوشش کریں اور ہر بہن جو اردو پڑھنا لکھنا جانتی ہے ان امتحانات میں شامل ہو تو سال بھر میں دینیات کے حصوں کا بہت بڑا فائدہ سب کو پہنچ سکتا ہے.تعلیم کے ساتھ دوسرا شعبہ تربیت کا ہے اس کا ذکر شعبہ خدمت خلق کے شعبہ کے ساتھ ہو چکا ہے اس شعبہ کے ماتحت جہاں آپ دیگر برائیوں غیبت ، جھوٹ اور عیب جوئی وغیرہ کو دور کریں وہاں بے پردگی کو بھی دور کرنے کی

Page 220

202 طرف خاص طور پر توجہ دلائی ہے آپ بے پردہ عورتوں سے کہیں کہ اگر آپ نے اسلام اور احمدیت کو سچا سمجھ کر مانا ہے تو آپ کو بھی پردہ کرنا پڑے گا.بیعت کے وقت آپ یہ عہد کرتی ہیں کہ جو نیک کام آپ بتائیں گے اس پر ہم عمل کریں گی.تو اگر آپ اسلام کو مان کر پھر پردہ ترک کرتی ہیں تو یقینا آپ بیعت کے عہد کو تو ڑ رہی ہوتی ہیں.آپ کو علم ہے کہ رسول کریم ﷺ کی ازواج مطہرات پردہ کرتی تھیں.جو کہتی ہیں کہ پردہ اسلامی رکن نہیں ہے کیا وہ ایک بے بنیاد بات نہیں کہتیں.پس جو پردہ کو چھوڑتی ہیں وہ آنحضرت ﷺ کا انکار کرتی ہیں کیونکہ پردہ اسلام کا اور خاتم النبین ﷺ کا حکم ہے اس لئے وہ رسول کریم ﷺ اور اس کے مسیح موعود علیہ السلام اور اس کے خلیفہ کی مجرم ہیں.بیت ہالینڈ مستورات کے چندہ سے تعمیر ہوئی ہے آپ کی کوششوں اور قربانیوں کے نتیجہ میں اس دور دراز ملک میں پانچوں وقت اللہ کا نام بلند ہوتا ہے اور پانچوں نمازیں وہاں پڑھی جاتی ہیں.اس بیت کے اخراجات میں سے اب صرف بارہ ہزار روپیہ قرض ہم پر رہ گیا ہے.آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنی کوششوں کو جاری رکھیں اور بقیہ رقم ادا کرنے میں پوری مستعدی دکھا ئیں.وقت ختم ہو گیا ہے اس لئے باقی شعبہ جات کا ذکر کئے بغیر صرف دوباتیں کہ کر تقریر ختم کرتی ہوں.آپ دوسری چیزوں پر پیسے صرف کرتی ہیں لیکن نمائش کے لئے نہیں جاتیں.نمائش میں صرف مرکز کی چیزیں نہیں ہوتیں باہر کی جماعتوں کی بھی ہوتی ہیں.اگر آپ نمائش کو دیکھیں گی تو نقائص آپ کو نظر آئیں گے.ان کے دور کرنے کی کوشش کی جائے گی اور آپ کارآمد چیزیں بھجواسکیں گی.مصباح کے لئے آپ کثرت سے مضامین بھجوائیں تا کہ یہ رسالہ زیادہ سے زیادہ ترقی کرے.مصباح لجنہ اماءاللہ کا قومی اخبار ہے اس لئے تمام مبرات کا فرض ہے کہ اس کی قلمی و مالی مددفرمائیں.یہ خوشی کی بات ہے کہ رسالہ ترقی پذیر ہے.لیکن اکیلی مدیرہ اس کی کما حقہ ترقی کے لئے کافی نہیں.اس لئے سب کا تعاون ضروری ہے.موجودہ گرانی کے مد نظر مصباح کے اخراجات کو دیکھتے ہوئے اس کا سالانہ چندہ پانچ روپے کی بجائے چھ روپے کیا جاتا ہے.مصباح فروری 1959

Page 221

203 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماء الله 1959ء حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے افتتاحی اجلاس میں نمائندگان کو اَهْلًا وَّ سَهْلًا وَمَرْحَبًا کہتے ہوئے فرمایا: اجتماع کے تین دنوں میں انہیں صحیح رنگ میں فائدہ اٹھانا چاہئے.نیز نمائندگان کا مرکز میں آنے کا دستور کوئی نیا دستور نہیں.حضرت رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں دور دراز سے سفر کر کے لوگ اسلام سیکھنے کے لئے حضرت رسول کریم ﷺ کے پاس آتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ دین سیکھ کر جائیں.اور جولوگ مرکز اسلام میں مجبوریوں کے باعث نہیں پہنچ سکتے تھے ان کو دین اسلام سکھائیں.پس آپ پر جو نمائندہ بن کر آئیں ہیں بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.آپ اجتماع کے پروگرام سے فائدہ اٹھائیں.جتنا سیکھ سکیں سیکھیں.اپنے کاموں کا جائزہ لیں.دوسری لجنات کے کاموں سے ان کا موازنہ کریں تا آپ کو اپنے اور ان کے کاموں میں فرق معلوم ہو.لجنہ کو ترقی دینے کے وسائل پر ایک دوسرے سے تبادلہ خیالات کریں اور اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے اس طرح گزاریں کہ جب آپ واپس جائیں تو آپ کے دلوں میں کام کرنے کے متعلق زیادہ بشاشت ہو.نئی امنگ اور نیا عزم ہو اور واپس جا کر آپ پھرست نہ ہو جائیں.بلکہ اپنے اندر جو قربانی کی روح.امنگ.عزم اور کام کرنے کا جذبہ لے کر جائیں.اسی روح امنگ اور عزم اور جذبہ کو اپنی لجنات کی دوسری ممبرات میں بھی پیدا کریں.تا کہ سب ممبرات متحد ہو کر لجنہ کی ترقی جماعت کی ترقی اور اسلام کی ترقی کے لئے کام کر سکیں.ہماری کوششیں اور قربانیاں اللہ تعالیٰ کے فضل کی جاذب بہنیں.اور ہم اسلام کی ترقی کا دن اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں.کام بھی آپ صحیح رنگ میں اس وقت ہی کر سکتی ہیں جب اپنے دلوں میں خلوص پیدا کریں مذہب کی بنیادی چیز دلی محبت اور خلوص ہی ہے.جب تک یہ نہ پیدا ہو ظاہری اعمال قشر کی حیثیت رکھتے ہیں.سلسلہ سے محبت سلسلہ کے لئے انتہائی قربانی کا جذبہ خود اپنے دلوں میں پیدا کریں اور اپنی اولادوں کے دلوں میں بھی پیدا کریں تا کہ آنے والی نسلیں بھی احمدیت اور اسلام کے لئے ویسی ہی قربانی کر سکیں.جو ہم سے پہلی خواتین کر چکی ہیں.آپ نے بچیوں کی تربیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے

Page 222

204 زمانہ میں صحابیات نے بڑی بڑی قربانیاں جماعت کے لئے کیں.پھر خلافت کا دور آیا.حضرت مصلح موعود نے اپنے عہد مبارک میں جماعت کی مستورات کی تنظیم کے لئے لجنہ اماءاللہ کا قیام فرمایا.لجنہ اماء الہ کا ابتدائی کام کرنے والی مستورات نے بھی بڑی قربانیاں کیں اور اب تک لجنہ اماءاللہ کا کام اکثر بڑی عمر کی مستورات کر رہی ہیں.میں ان کو توجہ دلاتی ہوں ہر جگہ عہدہ دار نو عمر بچیوں کو تجربہ کار عہدہ داروں کے ساتھ لگائیں تا کہ وہ کام کرنا سیکھیں.ان میں دین کا شوق.جماعت کے لئے قربانی کا جذبہ اللہ تعالیٰ پر توکل اور جماعت کے کاموں میں سبقت لے جانے کا جذبہ بزرگ خواتین میں نظر آتا ہے.وہ نئی نسل میں بھی اتنا نہیں ہے.پس ان کی تربیت کے لئے بچوں کی ماؤں، تعلیمی اداروں کی نگرانوں اور لجنات کی عہدہ داروں کو توجہ دلاتی ہوں کہ وہ سب کاموں سے مقدم جماعت کی بچیوں کی تربیت کو رکھیں.تا کہ جب ان کی شادیاں ہوں تو وہ نہ صرف بہترین بیویاں بنیں، نہ صرف بہترین قومی کارکن بنیں بلکہ ان کی گود سے وہ بچے پر وان چڑھیں جو اسلام کی خاطر اپنی گردنیں کٹوا دینے میں فخر محسوس کریں.تاریخ لجنہ جلد سوم صفحہ 20 تا 24

Page 223

205 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ 1959ء حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے تقسیم انعامات کے بعد ناصرات کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: - ہر بچی کا شعار سچائی ہونا چاہئے.دیگر اقوام اور مذاہب کی بچیوں سے بلند مقام حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر ایک بچی سچائی پر قائم ہو.2.دوسری بات جس کی طرف بچیوں کو توجہ کرنی چاہئے وہ دیانتداری ہے.دیانتداری قوم کی بچیوں کے اخلاق میں ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے.دیانتداری ہی ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے بچیوں کے اخلاق میں پختگی آتی ہے.3.تیسرا اہم امر : خوش اخلاقی اور حسن سلوک ہے.خوش اخلاقی ہی ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے ہم دیگر اقوام اور مذاہب کی خواتین کو اپنا گرویدہ بنا سکتے ہیں.دوسری عورتوں کے دلوں کو موہ لیتا صرف اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ہم خوش اخلاق ہوں اور ہمارا سلوک دوسرے لوگوں سے بہت ہی اچھا ہو.نہ صرف ملنے جلنے والوں سے بلکہ ہر ایک انسان سے ہم کو خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہئے.خوش اخلاقی اور حسن سلوک ہمارے مذہب کا اہم حصہ ہے.اور کسی سے خوش اخلاقی سے پیش آنا گویا اپنے مذہب کی عملی تبلیغ کرنا ہے.4 چوتھی بات: جس کی طرف بچیوں کی توجہ مبذول کروانی ہے کہ ہر بچی کو بنی نوع انسان سے ہمدردی کرنی چاہئے.ناصرات الاحمدیہ کی ہر ایک ممبر کا فرض ہے کہ وہ ہر ایک انسان سے بلا امتیاز مذہب وملت ہمدردی کا سلوک روا رکھے.آخر میں مقامی اور بیرونی ناصرات الاحمدیہ کی نگرانوں کو بھی تاکید کی کہ وہ اپنے اپنے حلقہ کی ناصرات الاحمدیہ کی بہتر سے بہتر تربیت کریں اور ان کو احمدیت کے مطابق معلومات بہم پہنچائیں.رسول

Page 224

206 کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے جس سے ماتحتوں کے متعلق پوچھا جائے گا.كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ (بخارى كتاب الجمعة) لہذا ہر ایک نگران اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے بچیوں کی تربیت کی طرف بہت توجہ دے.نیز اس سلسلہ میں اعلان فرمایا کہ آئندہ سال دونوں معیاروں سے یعنی 8 سے 10 سال اور 10 سے 15 سال تک کی لڑکی کو بہتر کام کرنے پر انعام دیا جائے گا.دعا پر اجتماع اختتام پذیر ہوا تاریخ لجنہ جلد سوم صفحہ 29 30

Page 225

207 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع 1959ء تقسیم انعامات کے بعد صدر لجنہ مرکزیہ کے نمائندگان کے سامنے ان کے سالانہ کام کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا.کہ بجنات کی گزشتہ سال کی کارکردگی دیکھنے اور ان کی رپورٹیں پڑھنے پر بھی بہترین کام کرنے والی لجنہ کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا.اجتماع سے چند روز قبل حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام جو آپ نے خدام الاحمدیہ راولپنڈی کو دیا تھا شائع ہوا.اس میں آپ نے کسی مجلس کی گزشتہ سال کے کام کے مقابلہ پر ترقی کرنے کے چار معیار بیان فرمائے ہیں.آپ کے بتائے ہوئے معیار ہی میں آپ کے سامنے رکھتی ہوں.اور حقیقت میں ان ہی چاروں معیاروں کے مطابق آپ آئندہ سال فیصلہ کر سکتی ہیں کہ آپ کی لجنہ اماءاللہ نے ترقی کی ہے یا خدا نخواستہ تنزل.وہ چار معیار یہ ہیں.پہلا معيار: جماعت کی تعداد ہے.اگر آپ کی لجنہ کی ممبرات کی تعداد بڑھ رہی ہے تو یقینا آپ کی جماعت اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے کوئی وجہ نہیں کہ لجنہ کی مبرات سرگرمی سے کام کریں تو ہزاروں پیاسی روحیں حقیقی اسلام کو قبول نہ کریں اور جماعت کی تعداد نہ بڑھے.ابھی تک تو بہت سی ایسی احمدی مستورات بھی ہیں جو لجنہ کی تنظیم میں شامل نہیں.آپکی کوشش ہونی چاہئے کہ کوئی ایک عورت بھی آپ کی تنظیم سے باہر نہ رہے.دوسرا معيار: مالی قربانی ہے.اگر ہم ایک سال کوشش کر کے مالی قربانی زیادہ کرتے ہیں اور دوسرے سال وہ جوش و خروش جو پہلے سال تھ باقی نہیں رہتا تو یہ حقیقی قربانی کہلانے کی مستحق نہیں.قربانی وہی ہے جس میں جمود نہ ہو بلکہ ہر سال پہلے سے زیادہ قربانی ہو.اپنی کارگزاریوں کی اطلاع دیتے وقت آپ کو خود موازنہ کرنا چاہئے کیا سال زیر رپورٹ میں آپ کی لجنہ مالی قربانیوں کے لحاظ سے گزشتہ سال سے بہتر رہی ہے یا نہیں.تيسرا معيار: جماعت کی تنظیم ہے.اگر مذکورہ بالا دونوں معیاروں کے مطابق لجنہ ترقی بھی کر رہی ہے تب بھی اگر اس کی تنظیم مکمل نہیں تو اس جماعت یا لجنہ یا مجلس کا کام مکمل نہیں کہا جاسکتا.لجنہ اماءاللہ کی تمام مہروں کا تعلق اسی طرح ہونا چاہئے جس طرح ایک عمارت کی اینٹیں ہوتی ہیں.اگر ایک اینٹ بھی ٹیڑھی لگ جائے

Page 226

208 تو ساری عمارت کے لئے خطرہ ہو جاتا ہے.جیسا کہ اس شعر سے واضح ہے نت اول چوں نہر معمار ثریا رود دیوار لجنات کی ممبر ات کو اپنی عہدیداروں کا مکمل فرمانبردار ہونا چاہئے قرآن کریم کی ساری تعلیم اسی محور پر گھومتی ہے کہ اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمرِ مِنكُمْ.( النساء: 60) بڑی بڑی لجنات میں بھی معمولی معمولی باتوں پر جھگڑوں کی اطلاع آتی رہتی ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے.بلکہ سب کو مل کر اپنے آپ کو منظم کرنا چاہئے تا کہ ہم سب کی کوششوں سے اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ ﷺ کی حکومت کو ساری دنیا میں قائم کر دے.چوتها معیار جس سے کسی مجلس کی ترقی کو پر کھا جا سکتا ہے جماعت کی تربیت ہے مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گو ہماری مستورات مالی قربانیوں میں مردوں سے بھی زیادہ بڑھی ہوئی ہیں.لیکن تربیتی لحاظ سے ابھی تک وہ دوسری قوموں کی عورتوں سے بہت پیچھے ہیں.پس لجنات کی عہدہ داروں کو توجہ دلاتی ہوں کہ سب سے زیادہ محنت تربیت کرنے میں کریں اور اس لحاظ سے سب سے زیادہ ذمہ داری ربوہ کی مستورات پر عائد ہوتی ہے.باہر سے آنے والی مستورات کی تنقیدی نظر ہمیشہ مرکز کی مستورات پر پڑتی ہے.اس لئے ربوہ کے تمام اداروں کا فرض ہے کہ وہ ربوہ کی مستورات اور بچیوں کی اخلاقی لحاظ سے ایسی تربیت کریں کہ وہ نہ صرف پاکستان کی دوسری عورتوں کے لئے بلکہ ساری دنیا کی عورتوں کے لئے نمونہ بنیں.انگلستان، یورپ اور امریکہ سے آنے والی خواتین اگر ربوہ میں آئیں تو ان کو دیکھ کر متاثر ہوں اور یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ حقیقت میں ان کا عمل ان کے قول کے مطابق ہے.آخر میں آپ نے اعلان کیا کہ آئندہ سال کے لئے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے مختلف کاموں کے لئے نمبر مقرر کر دیئے ہیں ان کے مطابق جو لجنہ سب سے زیادہ نمبر لے گی وہ بہترین قرار دی جائے گی.نمبر مندرجہ ذیل ہیں.شعبه تعلیم و تربیت 20 نمبر شعبه مال 10 نمبر شعبه رشد و اصلاح 10 نمبر شعبہ خدمت خلق 10 نمبر شعبہ ناصرات الاحمدیہ 10 نمبر شعبہ نمائش 10 نمبر متفرق تحریکات 20 نمبر شعبہ مصباح 10 نمبر عہد نامہ دہرانے اور دعا کے بعد اجتماع ختم ہوا.تاریخ تجنہ جلد سوم صفحہ 24 25

Page 227

209 ہوا تھا.خطاب صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ جلسہ سالانہ 1960ء 1959ء کا جلسہ سالانہ دسمبر کی مقررہ تاریخوں کی بجائے 22 23 24 جنوری 1960ء کو منعقد حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے فرمایا جماعت احمدیہ کی ترقی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بے شمار بشارات اور پیشگوئیاں دیں اور وہ ضرور پوری ہو کر رہیں گی.جماعت احمدیہ کی ترقی کا زمانہ اب قریب آ رہا ہے.اور ہمیں اس کے لئے تیار رہنا چاہئے.اس وقت کی جماعت آئندہ آنے والی نسلوں کی معلم ہوگی مگر وہ معلم اس وقت بن سکتی ہے جبکہ وہ علم دین سیکھیں.اپنے اندر خشیت اللہ پیدا کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا کثرت سے مطالعہ کریں تا کہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ کیا تھا آپ کی تعلیم کیا تھی.آپ کے اخلاق کیا تھے اور اسی قسم کا رنگ اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں تا کہ آپ آنے والی نسلوں کی صحیح معلم بن سکیں.آنحضرت علی کے بعد مسلمانوں میں فساد اس وقت پیدا ہوا جب وہ قرآن کریم کی تعلیم کو بھول گئے اور خشیتہ اللہ کوترک کر کے آپس میں لڑنا جھگڑنا شروع کر دیا.آپ کو سال میں ایک مرتبہ مرکز میں آنے کا موقعہ ملتا ہے اس کو غنیمت سمجھنا چاہئے.وقت ضائع کرنے کی بجائے کچھ سیکھ کر جانا چاہئے تا آپ جا کر دوسروں کو سکھا سکیں.زبانی تبلیغ سے زیادہ عملی نمونہ کا اثر ہوتا ہے.آپکا عملی نمونہ اپنے اور بیگانوں سے ایسا ہونا چاہئے کہ دوسرے خود بخود احمدیت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.آمین تاریخ لجنہ جلد سوم صفحہ 31

Page 228

210 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ 1960ء لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا چوتھا سالانہ اجتماع 21 22 23 /اکتوبر کو منعقد ہوا اس سال سے ناصرات کا اجتماع بھی لجنہ اماءاللہ کے اجتماع کے ساتھ اپنی تاریخوں میں منعقد کیا گیا.ورنہ اس سے قبل ناصرات کا اجتماع لجنہ اماءاللہ کے اجتماع سے علیحدہ ہوتا تھا.تلاوت و نظم کے بعد آپ نے ناصرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا.اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس سال ہم لجنہ اماء اللہ کے ساتھ ناصرات الاحمدیہ کا اجتماع بھی منعقد کر سکے ہیں.ناصرات الاحمدیہ کا اجتماع لجنہ اماءاللہ کے اجتماع کے ساتھ رکھنے کی غرض یہ تھی کہ بچیاں اپنی ماؤں کے ہمراہ شرکت کر سکیں.چھوٹی بچیوں کا یہاں پر اکیلے آنا مشکل ہے.اس طرح ماؤں کو ان کے ساتھ آنا پڑتا ہے.جس سے مشکل پڑتی ہے.اس لئے پہلی بار ہم تجربہ کے طور پر دونوں اجتماع اکٹھے رکھ رہے ہیں.خدا تعالیٰ ہمیں اس تجربہ میں کامیاب کرے.اور آئندہ اس سے بھی بہتر طریقہ سے اجتماع منعقد کرنے کی توفیق دے.آمین اس وقت تک باہر سے راولپنڈی.سرگودھا اور سیالکوٹ کی ممبرات تشریف لائی ہیں.جیسا کہ ان کی ناصرات الاحمدیہ کے جھنڈے نظر آرہے ہیں.علاوہ ازیں لائل پور.لاہور اور احمد نگر سے بھی ناصرات الاحمدیہ آئی ہوئی ہیں.ناصرات الاحمدیہ کی غرض صرف یہی نہیں کہ کبھی کبھی جلسے منعقد کر لیں.بلکہ مقصود یہ ہے کہ چھوٹی عمر سے یعنی سات سال سے پندرہ سال کی عمر میں ہی وہ ابتدائی دینی علوم میں واقفیت حاصل کریں.تنظیمات میں حصہ لیں تا کہ جب وہ لجنہ کی ممبر بنیں تو علم اور عمل کے لحاظ سے مکمل ہوں.اب تک ناصرات الاحمدیہ کی تربیت پر بہت کم توجہ دی گئی تھی.لیکن اس شعبہ نے زیادہ محنت سے کام کیا ہے.اور ناصرات الاحمدیہ میں کافی ترقی ہوئی.بہت سی جگہوں پر ناصرات الاحمدیہ کا ابھی ابھی قیام ہوا ہے ہماری نمائندگان نے بیرونی ناصرات الاحمدیہ میں سے لاہور.راولپنڈی اور سیالکوٹ کی بہت تعریف کی.کہ وہ ہر قسم کے کاموں میں حصہ لیتی

Page 229

211 ہیں.عمل اور تنظیم میں بڑھ چڑھ کر ہیں.اور ان کے اجتماع بہت کامیاب ہوئے ہیں.اور یہ کہ انہوں نے ہر کام میں بہت ترقی کی ہے.دوسری لجنات بھی ناصرات الاحمدیہ کی تنظیم قائم کریں گی.ناصرات الاحمدیہ کا یہ کام نہیں کہ وہ صرف جلسے منعقد کر کے تقریروں میں حصہ لیں.مضامین سنائیں بلکہ عملی طور پر ان کی تربیت اس طریقہ سے ہونی چاہئے کہ جب وہ لجنات کی ممبر بنیں تو وہ مفید کارکنان ثابت ہوں.اس لئے ناصرات کی تربیت پندرہ برس تک مکمل ہو جانی چاہئے.اس غرض سے سال رواں کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ نہ صرف مقابلوں میں اول.دوم.سوم آنے والی ناصرات انعام کی مستحق ہوں گی بلکہ بہترین سچ بولنے والی.بہترین دیانتدار اور بہترین با اخلاق بچیوں کو بھی انعامات دیئے جائیں گے.تم میں ایسی روح پیدا ہونی چاہئے کہ تمہاری مخالف بھی سمجھ لیں کہ یہ قوم کی ایسی مخلص اور قربانی کرنے والی کارکنات ہیں کہ ان سے جو ٹکر لے گا شکست کھائے گا.مرکز کی اور باہر کی لجنات کو ناصرات الاحمدیہ کی دینی تربیت اس رنگ میں کرنی چاہئے کہ ان کو دینی علم سے کامل واقفیت ہو.اسی غرض کے لئے اس سال ناصرات الاحمدیہ کے لئے ایک کتاب لکھی گئی ہے.جس کا نام راہ ایمان“ ہے.اور جو سو صفحات پر مشتمل ہے.یہ اس غرض سے شائع کی گئی ہے تا کہ تمام بچیاں اس کو پڑھ کر دین سے آگاہ ہو سکیں.یہ کتاب چھوٹی اور بڑی بچیوں دونوں کے لئے ہے.آئندہ سال اسی موقعہ پر اس کتاب سے ناصرات کا امتحان ہوگا.اس لئے بہتر یہی ہے کہ ربوہ کی اور باہر کی ناصرات جو آئی ہوئی ہیں.اس کتاب کو بھی خرید لیں تاکہ پتہ چل سکے کہ اور کتنی چاہئیں.اور اس کے مطابق جلسہ سالانہ پر دوسرا ایڈیشن شائع کیا جاسکے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ انعامات ان لڑکیوں کو بھی دیئے جائیں گے جو اخلاق فاضلہ کے لحاظ سے اول.دوم اور سوم ہوں گی.چندہ وغیرہ دینا اصل چیز نہیں.بلکہ تربیت ناصرات الاحمدیہ اصل چیز ہے.تا کہ ناصرات اسلام کا ایک زندہ نمونہ بن جائیں.جس طرح اور چیزوں کا مجسمہ ہوتا ہے.ناصرات الاحمدیہ کو احمدیت کا جیتا جاگتا مجسمہ ہونا چاہئے.ان کی تربیت شروع ہی سے اس رنگ میں ہونی چاہئے کہ ان کو احساس ہو کہ ہمارا اصل مقصد جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے اسلام اور احمدیت کو پھیلانا ہے.

Page 230

212 سلسلہ خطاب کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ے احمدی بچیوں کا لباس.چال ڈھال.بات چیت اور اخلاق ایسے ہونے چاہئیں کہ بغیر بتائے ہی ان کو دیکھنے والے پہچان لیں کہ یہ احمدی بچیاں ہیں.ان کی چال ڈھال اور شکل سے یہ چیز نظر آ رہی ہو کہ یہ زندہ قوم کا نمونہ ہیں.دوسروں کی نقل کرنا اچھا نہیں.فیشن پرستی کا مادہ نہیں ہونا چاہئے.ان کا فیشن سچائی دیانتداری اور اخلاق فاضلہ ہونا چاہئے.اگر ایسا ہو تو ساری قو میں تمہاری پیروی کریں گی.وہ اس فیشن کی اتباع کریں گی.جس پر تم عامل ہوگی.لجنات کی ممبرات اور سیکرٹریوں کو ناصرات کی اخلاقی تربیت پر بہت زور دینا چاہئے.اور ان کو بہترین انسان بنانا چاہئے.تا کہ وہ با خدا انسان بن سکیں.اگر بچپن سے ہی ان میں اسلام کی محبت جماعت کے لئے قربانی کا جذبہ اور خدمت دین کا شوق نہ ہو تو وہ کچھ بھی نہیں.ان کی زندگی کا نصب العین یہ ہونا چاہئے کہ انہوں نے اسلام کا جھنڈا دنیا میں گاڑنا اور بلند رکھنا ہے.ان کی تعلیم کا اصل مقصد ہی یہ ہونا چاہئے کہ اسلام کو دنیا کے کناروں تک پھیلانا ہے.ابو جہل کو مارنے والے صرف دو بچے ہی تھے اگر قرون اولیٰ کے بچے ایسا جذبہ اور جوش رکھتے تھے تو کوئی وجہ نہیں مسلمانوں کی بے عملی کے باعث اسلام کی شمع جب ماند پڑ گئی تو خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی اور اس نے اس اندھیرے کو روشنی میں تبدیل کرنا چاہا تو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرما کر اس شمع کو دوبارہ روشن کر دیا.لوگ کچھ بھی کہتے رہیں وہ اس روشنی کا انکار نہیں کر سکتے.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے پھیلی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کوئی سکول نہ تھا.تعلیمی ادارے نہ تھے.مگر جن لوگوں نے آپ کی صحبت پائی ان میں اسلام کے لئے جو محبت اور جماعت کی قربانی کا جو جذ بہ پیدا ہوا اب اس کی مثال نظر نہیں آتی.قادیان ہی ہمارا اصل مرکز ہے.اور اس وقت اس میں ترقی کے سامان مہیا نہ تھے.لیکن اس کے باوجودلوگوں نے اپنی جائیدادیں.گھر بار اور دنیوی سامان کو لات مار کر قادیان ہجرت کر لی.تاکہ علم دین سے آئندہ نسلیں بہرہ ور ہوسکیں.گومرکز جدا ہو گیا اور تم بچیوں میں سے تو اکثر نے قادیان دیکھا بھی نہیں.اور اس سے فائدہ بھی نہیں اٹھایا.مگر تمہارے اندر قادیان کی محبت کا جذبہ موجزن ہونا چاہئے.یہ کام نگرانوں کا ہے کہ ان کو ایسے واقعات سنائے جائیں جن سے بچیوں کے دلوں میں قادیان کے لئے محبت موجزن ہو.

Page 231

213 ہجرت کو تیرہ سال ہو گئے اور قادیان ہم سے چُھٹ گیا مگر ہماری جماعت کی بچیوں میں قادیان سے اتنی محبت ہو کہ جب ان کو جانے کا موقعہ ملے قادیان کا ماحول ان کو اجنبی نہ لگے.تمہارا نصب العین اسلام کی خدمت ہے اور اسلام کی خدمت زبانی دعووں سے نہیں ہوسکتی.اسلام کی خدمت عملی طور پر دکھاؤ.اپنے عمل سے ثابت کرو اور اپنے آپ کو سچے مسلمان کا نمونہ بن کر دکھاؤ تا لوگ تمہاری اتباع کریں تمہارے اندر اعلیٰ اخلاق ہوں جو تمہاری شخصیت کو نمایاں کر دیں.سچائی تمہارا شعار ہو.ہماری بہنوں کو سچائی پر اس شدت سے قائم ہونا چاہئے کہ ان کی تقلید میں بچیاں خود بخود ہی رنگ اختیار کر لیں.آپ نے بچیوں کو دیانتداری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ آئندہ کی رپورٹوں میں صرف چندہ وغیرہ نہیں دیکھوں گی بلکہ زیادہ توجہ اس بات کی طرف کروں گی کہ آپ نے سچائی اور دیانتداری کا جذبہ ناصرات میں پیدا کرنے کے لئے کہاں تک محنت کی اور اس کا نتیجہ کیا نکلا.تیسری ضروری چیز محنت ہے.ناصرات میں ابتداء ہی سے محنت کا شوق پیدا کرنا چاہئے.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ناصرات میں نوے فی صدی ایسی ہیں جو محنت سے جی چراتی ہیں.محنت کرنے والا کبھی نا کام نہیں ہوتا.جسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں سچی محنت کو ضائع نہیں کرتا.تمہارے اندر محنت اور فرض کی ادائیگی اور ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے جس کام کو شروع کرو اس کو انتہا تک پہنچا کر دم لو.اگر یہ جذبہ ابھی سے پیدا نہ کرو گی تو آئندہ کوئی کام نہ کر سکو گی.ناصرات الاحمدیہ کا یہی مقصد ہے کہ ان میں قوم کے لئے قربانی.محنت کی عادت اور احساس ذمہ داری پیدا ہو.ایک اور چیز کی طرف توجہ دلاتی ہوں اور وہ ہے لڑائی اور جھگڑے کی عادت سے گریز کرنا.اگر آج بچیاں اس عادت کو چھوڑنے کی کوشش نہ کریں گی تو یہ عادت بڑے ہو کر کوشش کے باوجود نہیں جائے گی.یہ عادتیں اسی عمر میں دور ہونی چاہئیں.تا کہ بڑی ہو کر بچیاں اسلام احمدیت اور جماعت کی بہترین اور بے مثال کارکنات بن سکیں.اور اسلام کو ایسی عورتیں میسر ہوں جن کے بچے اسلام اور احمدیت کی خاطر اپنی گردنیں کٹوانے میں فخر محسوس کریں.تاریخ تجنه جلد سوم صفحہ 50 تا 54

Page 232

214 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 1960ء نمائندگان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا میں باہر سے آنے والی بہنوں کو اھلا و سهلا و مرحبا کہتی ہوں.اللہ تعالیٰ ان کا آنا مبارک کرے.اور وہ اپنے اندر ایک روحانی تبدیلی پیدا کریں.تا کہ جب وہ یہاں سے واپس جائیں تو یہی تبدیلی ان بہنوں میں جا کر پیدا کریں جو یہاں نہیں آسکیں.جو نمائندگان یہاں آتی ہیں ان پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اجتماع اس غرض سے رکھا گیا ہے کہ سال میں تین دن یہاں اکٹھے ہو کر اور سب مل کر دینی علوم سیکھیں اور جو نہیں آسکیں ان کو جا کر سکھائیں.ہمیں چاہئے کہ ہم تین دنوں کو ضائع نہ کریں جو کچھ آپ کو بتایا جائے اسے سنیں.جو کچھ ہدایات دی جائیں ان کو نوٹ کریں اور پھر سارے سال کے کام کو ان ہدایات کے مطابق چلائیں.ہر سال اپنے کاموں کا جائزہ لیں.دوسری لجنات کے ساتھ اپنے کام کا موازنہ کریں تا کہ آپ کو اپنے اور ان کے کاموں میں فرق معلوم ہو.بہنیں ایک دوسرے سے لجنہ کو ترقی دینے کے طریقوں پر تبادلہ خیالات کریں اور اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے اس طرح گزاریں کہ جب واپس جائیں تو آپ کے دلوں میں کام کرنے کے متعلق نیا عزم اور نئی امنگ پیدا ہو.یہاں سے قربانی کی روح اور کام کرنے کا عزم لے کر جاویں.اور اس روح اور امنگ اور جذبہ کو اپنی دوسری ممبرات میں بھی پیدا کریں.تا کہ تمام مرات متحد ہوکر لجنہ کی ترقی جماعت کی ترقی اور اسلام کی ترقی کے لئے کام کرسکیں.میں نے گزشتہ سال کام کے چار معیار لجنات کے سامنے رکھے تھے مگر مجھے افسوس ہے کہ لجنات میں سے سوائے لجنہ کراچی کے کسی نے بھی ان معیاروں کے مطابق رپورٹ تیار نہیں کی.سب سے پہلا معیار جو کسی مجلس کی ترقی کو ظاہر کرتا ہے وہ اس کی تعداد ہے.اگر جماعت کی تعداد بڑھ رہی ہو تو اس کی ترقی ہورہی ہوتی ہے.اور اگر تعداد کم ہورہی ہو تو خدا نہ کرے جماعت تنزل کی طرف جارہی ہوتی ہے.یہ صحیح ہے کہ ہر عورت لجنہ کی ممبر ہوتی ہے مگر وہ اس کی تنظیم میں شامل نہیں ہوتی.ہر عورت کا تنظیم سے وابستہ ہونا ضروری ہے.پس اپنی تنظیم کو مکمل کریں کوئی عورت تنظیم سے باہر نہ رہ جائے.دوسری چیز مالی قربانی ہے.اس وقت احمدی عورتیں جتنی مالی قربانی کر رہی ہیں اس کی مثال روئے

Page 233

215 زمین پر کہیں نہیں مل سکتی.تا ہم ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ مالی ترقی یہ نہیں کہ جتنی تعداد عورتوں کی ہو اس کے مطابق چندہ ہو بلکہ مالی ترقی یہ ہے کہ عورتوں کی تعداد کم ہو اور چندہ زیادہ ہو.اگر ممبرات زیادہ ہوں اور مالی قربانی کم ہو تو اس کوترقی نہیں کہا جاسکتا.تیسری چیز تنظیم ہے بے شک دلوں میں امنگ ہو.خدمت دین کا جذبہ ہو لیکن اگر تنظیم مکمل نہیں اور تم اس طرح نہیں جس طرح ہار کے موتی ہوتے ہیں تو کوئی فائدہ نہیں.جہاں جہاں ہماری نمائندگان نے دورے کئے ہیں.جھگڑے بدظنی اور ایک دوسرے سے شکایت کا شکوہ کرتی ہیں.تمام لجنات میں جھگڑے کیوں ہیں.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا اور خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بیعت کی کہ ہم سب متحد ہو کر احمدیت کی ترقی میں حصہ لیں گی.لیکن چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے سے کوئی قوم بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ نے ترقی کا وعدہ کیا.خدا تعالیٰ کے وعدے تو بہر حال پورے ہوتے ہیں.کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری کوتاہیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے ان وعدوں کے پورا ہونے میں دیر لگے.مجھے ایک نمائندہ آج ہی ملی ہیں.انہوں نے بتایا ہے کہ ہمارے شہر میں ابھی تک تنظیم قائم نہیں ہو سکی.کیونکہ وہاں ممبرات میں قومیت پر جھگڑے ہوتے ہیں.نہایت افسوس کی بات ہے کہ احمدیت نے بھی اس زنگ کو دور نہ کیا اور ابھی تک ذاتوں اور قومیت کو احمدیت پر ترجیح دیتی ہیں.ہماری محبت اور عداوت محض خدا کے لئے ہونی چاہئے.جو الْحُبُّ لِله وَالْبَغْضُ لِلهِ (سنن الدارمی کتاب السنتہ ) سے واضح ہے.دنیا آج اس بات کی معترف ہے کہ اگر کوئی جماعت فعال ہے تو وہ جماعت احمد یہ ہے.اگر کوئی جماعت صحیح رنگ میں اسلام کی خدمت کر رہی ہے تو وہ یہی جماعت ہے.پس اگر جماعت کے جھگڑے دینی ترقی میں رکاوٹ ڈالیں تو بڑے افسوس کا مقام ہے.عورت کا اثر بہت ہوتا ہے.وہ مرد پر بھی اور بچوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے.اگر اب وہ رنجشیں دور نہ کریں گی تو یہ رنجشیں نسلوں میں جائیں گی.رپورٹوں میں لکھا ہوتا ہے کہ ہم نے فلاں کو نصیحت کی.فلاں کو ہدایات دیں.نصیحت کرنا اچھی بات ہے مگر دیکھنا اس بات کو ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلا.اگر آپ کے سمجھانے سے وہ باتیں دور ہو گئیں تو آپ مبارکباد کی مستحق ہیں.اور اگر وہ باتیں جن کے دور کرنے کے لئے آپ نے نصیحت کی دور نہیں ہوئیں تو یہ بے نتیجہ کام ہوگا.آئندہ ان امور اور ان معیاروں کو مد نظر رکھتے ہوئے رپورٹ لکھا کریں.کراچی کی لجنہ کی رپورٹ

Page 234

216 جب آپ پڑھیں گی تو معلوم ہوگا کہ ان کی تلقین سے کئی بہنوں نے اپنی اصلاح کی.بعض لڑکیوں نے جو پردہ نہیں کرتی تھیں پردہ شروع کر دیا.اسلام میں کوئی چھوٹا اور بڑا نہیں.اسلام نے قوموں اور ذاتوں کے فرق کو مٹا دیا ہے.حقیقت میں وہ بڑا ہے جو علم.تقویٰ اور عمل میں بڑا ہے.آپ کو چاہئے کہ اسلامی اخوت کا جذبہ پیدا کریں.متحد ہو کر احمدیت کی ترقی کے لئے کام کریں.اگر آپ نیک نمونہ پیش کریں گی تو سب آپ کی پیروی کریں گی اور اگر آپ کا نمونہ اچھا نہیں تو آپ کی کوئی بھی پیروی نہیں کرے گا.یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی طرف پوری توجہ دینی چاہئے.منہ سے خواہ کچھ کہو.دھواں دھار تقاریر کر واگر عمل اور نمونہ نہیں تو کچھ بھی نہیں.احمدی عورتوں میں بے پردگی شروع ہوگئی ہے.حالانکہ پر وہ کاحکم اسلام کا قطعی اور واضح حکم ہے کوشش کریں کہ کوئی احمدی عورت بے پردہ نہ رہے.مردوں کو مردوں کے ذریعہ سمجھائیں.اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عورتیں پہلے پردہ اتارتی ہیں.اس کے بعد مذہب میں کمزوری دکھانی شروع کر دیتی ہیں.اپنی بے پردگی کے عیب کو چھپانے کے لئے اجلاسوں اور جلسوں میں شرکت کرنے سے گریز کرتی ہیں.بہر حال آپ سب متحد ہو کر تمام کام سرانجام دیں.آپ میں سے بہت سی دین کی خدمت کر رہی ہیں.اور کرتی چلی جائیں گی.مگر قوم کی ترقی ایک مرد سے وابستہ نہیں.ترقی وہی قوم کرتی ہے جس کے افراد میں اتحاد اور تعاون ہو.نیز آپ کو اپنی بچیوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے.اگر ان کی تربیت مذہبی رنگ میں نہیں ہوئی تو خواہ آپ کتنا ہی کام کرتی چلی جائیں.قوم کا مستقبل شاندار نہیں ہو سکتا.آپ بچیوں کی ایسی تربیت کریں کہ ان میں خدمت دین کا شوق پیدا ہو.اور بڑی ہو کر قوم کی سرگرم رکن بنیں.اگر بچیاں اسلام کی تعلیم سے نا آشنار ہیں تو دین سے ان کو کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا.اور ان چندوں کے دینے کا بھی کوئی فائدہ نہیں رہے گا اگر بچیوں کی تربیت اعلیٰ نہیں ہوگی.سب سے بڑی ذمہ داری یہی ہے کہ بچیوں کو اعلیٰ تربیت دی جائے اور ان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اسلام کی خدمت صحیح رنگ میں کر سکیں.قرون اولیٰ کی عورتیں پڑھی ہوئی نہ تھیں پھر بھی اگر کسی کا خاوند جہاد میں جانے سے گریز کرتا تو وہ کہتی کہ تمہارا اور میرا کوئی تعلق نہیں.اگر بیٹا ایسا کرتا تو کہتی کہ میں اپنا دودھ معاف نہیں کروں گی.

Page 235

217 خدا تعالیٰ نے ہم کو خلافت سے وابستہ کیا ہے.ہم پر وہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو قرون اولیٰ کی عورتوں پر تھی.آپ اس بات پر فخر نہ کریں کہ ہم نے اتنے ہزار روپیہ اکٹھا کر لیا ہے.یہ کام سرانجام دیا ہے.وہ رکیا ہے.اگر فخر محسوس کریں تو اس بات میں کریں کہ بچیوں کی تربیت بہترین رنگ میں کی ہے.اور بچیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا ہے.اس سال ہمیں دو ہستیوں کی وفات سے نقصان عظیم ہوا.ایک بھا بھی زینب صاحبہ مرحومہ اور دوسری امتہ اللہ خورشید صاحبہ مرحومہ مدیر مصباح.بھا بھی زینب صاحبہ ایسی سرگرم رکن تھیں کہ رات ہو یا دن جب بھی ان کو طلب کیا جاتا با وجود بینائی نہ ہونے کے حاضر ہو جاتیں اور جو کام سپرد کیا جا تا احسن طریق سے سرانجام دیتیں.اللہ تعالیٰ ان دونوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پر جگہ دے.آمین تاریخ لجنہ جلد سوم صفحہ 58 تا 61

Page 236

218 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 1960ء میں امید کرتی ہوں کہ آپ واپس جا کر ان ممبرات کو جو یہاں نہیں آسکیں فائدہ پہنچائیں گی.یہ اجتماع کوئی نیا طریق نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی یہی دستور تھا کہ مختلف جماعتوں کی طرف سے نمائندگان آتے اور واپس جا کر باقی ماندہ لوگوں کو اسلام سکھاتے.ہر شخص مرکز میں نہیں آ سکتا جو نمائندگان آتے ہیں ان کا فرض ہے کہ دوسروں کو جا کر سکھائیں وہ تجاویز جو یہاں پیش کی گئی ہیں دوسروں کو ان سے آگاہ کریں اور عمل کریں.یہ تقریری مقابلے جو یہاں ہوتے ہیں وہ خاص غرض کے لئے رکھے گئے ہیں.کیونکہ جو بچیاں اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں ان کا اپنا بھی علم وسیع ہوتا ہے اور جو سنتی ہیں وہ بھی اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں.میں امید کرتی ہوں کہ آپ نے ان تین دنوں کو ضائع نہیں کیا بلکہ ان سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے.آپ بھی مرکزی اجتماع کے طریق پر سالانہ جلسے منعقد کیا کریں.جہاں میں جاسکتی ہوں وہاں ضرور آؤں گی.اور مرکزی کارکنات کو بھی ساتھ لاؤں گی.آئندہ سال کے لئے رپورٹوں کو پرکھنے کے معیار کے جو نمبر مقرر کئے گئے تھے اس میں کچھ تبدیلی کا اعلان کیا جاتا ہے متفرق تحریکات کے نمبر 20 کی بجائے 10 ہوں گے.رپورٹ با قاعدہ اور بر وقت مرکز میں بھجوانے کے 10 نمبر.نیز آئندہ کے لئے تقاریر کے دو کی بجائے تین معیار ہوں گے.معیار اول میں بی اے پاس یا اس سے زیادہ تعلیم والی خواتین شرکت کریں گی.معیار دوم میں ایف اے سال دوم سے بی اے سال دوم تک کی لڑکیاں شمولیت کریں گی اور معیار سوم میں ایف اے سال اول سے نیچے کی لڑکیاں.نیز ایسے مقابلے بھی ہوا کریں گے جن میں قرآن کریم.حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق سوال بھی کئے جائیں گے.یہ بھی پوچھا جائے گا کہ دوران سال لڑکیوں نے کتنی اور کون سی کتابیں پڑھیں اور ان کی تصدیق ان کی صدر صاحبہ کریں گی.عہدیداران کا سالانہ امتحان ہوا کرے گا.خدمت خلق کے شعبہ کے متعلق ہدایت یہ ہے کہ اپنے مذہب اور اپنے دین سے لوگوں کو روشناس کرانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ خدمت خلق میں حصہ لیا

Page 237

219 جاوے جس میں منہ سے بولے بغیر عمل کے ساتھ تبلیغ کی جاسکتی ہے.ہماری یہ خدمت کسی خاص فرد یا فرقہ کے لئے نہیں ہونی چاہئے.بلکہ بلا تفریق مذاہب ہونی چاہئے.نیز رپورٹوں میں اس خدمت خلق کا ذکر ہو جو اجتماعی ہوں.انفرادی خدمت تو ہر شخص کچھ نہ کچھ کر سکتا ہے.اس سال ابتدائی طبی امداد سکھانے کا کام بھی شعبہ خدمت خلق کے سپرد کیا گیا ہے.تعلیم القرآن کلاس کے نصاب میں بھی ابتدائی طبی امداد کا مضمون شامل کیا جائے گا.تربیت اولاد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ بچیوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ کریں کیونکہ آئندہ سب بار ان پر پڑے گا.اس لئے ان کو ہر لحاظ سے تیار کرنا چاہئے.رشد و اصلاح کے شعبے کے متعلق یہ بات لازمی ہے کہ ہر احمدی خاتون احمدیت کی اشاعت میں حصہ لے.اصل کام وہ ہوتا ہے جس کا نتیجہ نکلے.اگر وہ کام بے نتیجہ ہے تو وہ کام نہیں.جیسے ربوہ.راولپنڈی.کراچی کی نمائندگان نے بتایا ہے کہ ان کی تبلیغی سرگرمیوں اور کوششوں سے کئی خواتین احمدیت سے وابستہ ہو گئیں ہیں.اگر صحیح رنگ میں کام کریں تو ہزاروں بھٹکی ہوئی روحیں احمدیت کو قبول کر کے سکون پاسکیں گی.سال رواں میں ربوہ.کراچی.سیالکوٹ.راولپنڈی.کوئٹہ.ملتان چھاؤنی.سرگودھا.لاہور.لائکپور.جہلم.شیخوپورہ.حافظ آباد.کوہ مری.کنری اور دیہاتی لجنات میں سے کوٹ سلطان.بشیر آباد اسٹیٹ محمد آباد اسٹیٹ.اور احمد نگر اچھا کام کرنے والی لجنات قرار دی گئیں.تمام لجنات میں سے اول لجنہ اماءاللہ ربوہ دوم لجنہ اماءاللہ کراچی سوم: لجنہ اماءاللہ راولپنڈی ہیں.اس طرح تین دن کا مبارک اجتماع بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.

Page 238

220 خطاب جلسہ سالانہ 1960ء ”وقف زندگی کی اہمیت آپ نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد وقف زندگی کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ وقف زندگی کا تعلق مردوں سے تو ہے ہی لیکن عورتوں پر بھی بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ تعلیم جو ایک مسلمان کو صحیح معنوں میں مسلمان بناتی ہے ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے ماں کی گود وہ پہلی درسگاہ ہے جہاں سے بچہ راہ عمل شروع کرتا ہے ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ احمدی بچے وہ درس حیات لے کر پروان چڑھیں جو ایک سچے مسلمان کا طرہ امتیاز ہے.بہت ممکن ہے کہ ان ہی میں سے کوئی محمد بن قاسم ، خالد بن ولید یا طارق بن زیاد پیدا ہو جو محمد رسول اللہ اور اسلام کی شان کو چار چاند لگا دے.جو محمد رسول اللہ ﷺ کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچانے والے ہوں.جو خدا تعالیٰ کا نام دنیا کے کونے کونے میں بلند کریں.اور اسلام کا پرچم اس شان سے ہرا ئیں کہ تمام دنیا حلقہ بگوش اسلام ہولیکن یہ سب کچھ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے نہیں ہو سکتا اس کے لئے ضرورت ہے ابراہیم کی سی بے مثال قربانی کی.اس کے لئے ضرورت ہے ہاجرہ کے سے صبر و استقلال کی.اور اس کے لئے ضرورت ہے اسمعیل کی سی عدیم المثال اطاعت و فرمانبرداری کی.حضرت ابراہیم کی عظیم الشان قربانی کو خدا تعالیٰ نے اتنا نوازا اتنا نوازا کہ آپ کی ذریت میں سے وہ نبی پیدا ہوا جو شہ لولاک ہے.پس ان تین بزرگ ہستیوں کی قربانی ہر ماں سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ان کی طرح اپنی زندگی وقف کریں اور اس وقف زندگی کی اس زمانہ کے لحاظ سے سب سے بہترین صورت یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نیک تربیت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دے ہر ماں اپنے جگر گوشہ کو خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اسلام کی بقاء کے لئے اور حضرت محمد علی کی شان کو دوبالا کرنے کے لئے اچھی تربیت دے پھر اسے وقف کر دے.ان کو بچپن ہی سے ایسی تعلیم دے جن سے ان کے دلوں میں اسلام کی محبت اور خدا تعالیٰ کی عظمت قائم ہو.وہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں وہ میدان عمل میں کوئی پناہ گاہ تلاش کرنے کی بجائے صف اول میں سرگرم عمل نظر آئیں.ربوہ میں جامعہ احمدیہ کی درسگاہ اور مختلف تنظیموں کا قیام محض اور محض اسی غرض کے لئے ہے کہ ہماری جماعت کے بچے اس میں تعلیم حاصل کریں اور اسلام کے جانباز سپاہی بنیں.

Page 239

221 پس میں احمدی بہنوں سے امید رکھتی ہوں کہ وہ اپنی اولاد کو اس رنگ میں تربیت دیں گی کہ جس سے وہ اسلام کے رنگ میں رنگین ہوں.آپ نے مزید فرمایا کہ میرے دل میں اس بات کی شدید طلب اور تڑپ ہے کہ ہمارے بچے اسلامی تہذیب اسلامی تعلیم اور شعار کا ایسا مکمل نمونہ ہوں کہ دوسرے دیکھنے والے اس کو دیکھ کر رشک کریں اس کے لئے ضرورت ہے ایسی باعمل ماؤں کی جو اپنے بچوں کی نگرانی کرتی رہیں کہ آیا انہوں نے نماز پڑھی.قرآن کریم کی تلاوت کی سلسلہ کی کتابوں کا مطالعہ کیا اچھے کاموں کی رغبت اور بُرے کاموں سے اجتناب کا جذبہ ان میں پیدا ہوا.اگر احمدی مائیں ان چند ایک امور کو ذہن نشین کر لیں تو وہ دن دور نہیں کہ اسلام کا جھنڈا دنیا کے کونے کونے میں لہرائے گا اور کسی جگہ بھی شیطان کی حکومت باقی نہ رہے گی کیونکہ ہمارے پاس وہ نسخہ کیمیا ہے جس میں ہدایت اور رہنمائی کی ہر چیز موجود ہے وہ نسخہ قرآن کریم ہے اس شمع کو ہاتھ میں لے کر اٹھے.تاریکی خود بخود دور ہوتی جائے گی اور روشنی کی فتح آپ کے قدم چومے گی.از الفضل 4 جنوری 1961ء

Page 240

222 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 1961ء 20 اکتو بر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ نے نمائندگان سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر اظہار تشکر کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں پھر ایک دفعہ اکٹھے ہونے کی توفیق دی ہے.نمائندگان اجتماع کے ان تین دنوں میں سے ایک لمحہ بھی ضائع نہ کریں بلکہ اس وقت کو یہاں کے تربیتی پروگرام سننے دعائیں کرنے اور ذکر الہی کرنے میں گزاریں.اور جو کچھ یہاں سے سن کر سیکھ کر جائیں وہ اپنی اپنی لجنات کو جا کر سکھائیں.آنحضرت ﷺ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی یہی طریق تھا کہ جماعتیں اپنے نمائندے مرکز میں بھجواتے جو وہاں سے علم دین اور تربیت لے کر واپس اپنے شہروں میں جا کر معلم کا کام کرتے.احمدی مستورات کو موجودہ زمانہ کی مستورات پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ جہاں دوسری مستورات صرف دنیاوی علوم جانتی ہیں صرف ایک خامی ہے اگر وہ دور ہو جائے تو احمدیت اور اسلام کی ترقی بہت جلد ہوسکتی ہے اور وہ خامی یہ ہے کہ آزادی سے ایک غلط تاثر یہ پھیل گیا ہے کہ عورتیں اپنے آپ کو ہر قسم کی دینی اور معاشرتی قیود سے آزاد سمجھتے ہوئے غیر ممالک کی تقلید کرنے لگ گئی ہیں.اگر یہ تقلید اچھی باتوں میں کی جائے تو بہت اچھا ہے.مگر بُری باتوں مثلاً فیشن پرستی میں کسی کی اتباع کرنا بہت بُرا ہے.لڑکیوں میں جو فیشن پرستی کی رو چلی ہے اس کی ذمہ داری صرف انہی پر نہیں بلکہ ان کی ماؤں پر بھی ہے اگر مائیں ان کی نگرانی اور خیال رکھیں تو یقیناً وہ ان بُری عادتوں سے محفوظ ہوسکتی ہیں.یہ وقت ہماری جماعت کے لئے لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے.ہماری عورتوں کو چاہئے کہ وہ اگلی نسل کو آزادی اور فیشن پرستی کی لعنت سے بچانے کی کوشش کریں.اس ضمن میں بچیوں کو اسلام کے احکام اور قرآن کریم کی تعلیم سکھائی جائے اور ان کو کہا جائے کہ کسی بھی صورت میں ان احکام کی خلاف ورزی نہیں کرنی.ان کو آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ سے روشناس کروایا جائے.کیونکہ جب ان کے سامنے ایک کامل نمونہ ہو گا تو وہ اس کی تقلید کریں گی.لجنات بچوں کے لئے خالص دینی تعلیم کا انتظام کرنے کی طرف توجہ دیں.تا کہ وہ عیسائیت کے آہستہ آہستہ سرایت کر جانے والے اثر سے محفوظ رہیں.اگر احمدی بچیاں اور عورتیں فیشن پرستی اور آزادی کی

Page 241

223 روش کو چھوڑ کر اچھائی کا نمونہ بنیں تو یقیناً اسلام کی فتح کا دن قریب آجائے گا.کسی ایک بہن کی غلطی دوسروں کی جماعتی کاموں میں روک نہیں بنی چاہئے کسی کی غلطی دیکھ کر اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے بلکہ اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے..عورتوں کو چاہئے کہ وہ بچوں کو شروع سے پابند صلوۃ بنائیں.ان میں سچائی.دیانتداری.محنت جماعت کے لئے ایثار اور قربانی کا جذبہ پیدا کریں.اگر عورتیں بچوں کی اصلاح میں کامیاب ہو جائیں تو یقیناً احمدیت بہت جلد اور بہت سُرعت سے ترقی کرے گی.تاریخ لجنہ جلد سوم صفحہ 113

Page 242

224 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ مرکز یہ 1961ء انعامات تقسیم کرنے کے بعد حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ مرکزیہ نے نمائندگان اور خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: تمام لجنات کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا قدم ترقی کی طرف جارہا ہے.اجتماع کی غرض صرف یہی نہیں کہ بہنیں باہر سے آئیں.مقابلوں میں حصہ لے کر انعام حاصل کریں اور خوش ہوں بلکہ اجتماع کا مقصد تربیت حاصل کرنا.اجتماعی طور پر ذکر الہی اور دعائیں کرنا اور آپس میں تعلقات رکھنے کی عادت پیدا کرنا ہے.تمام ممبرات کو لجنہ اماءاللہ کی عہدہ داروں کی اطاعت کرنی چاہئے اسلام کی تمام تعلیم ہی اس محور کے گرد گھومتی ہے کہ اَطِيْعُو اللَّهَ وَأَطِيعُو الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمُ (النساء: 60) اگر احمدی خواتین ترقی کرنا چاہتی ہیں تو انہیں اطاعت کا مادہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے اور نظام سے وابستگی رکھیں.دعاؤں پر زور دیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تحریک جدید کے جو انہیں مطالبات رکھے تھے ان میں سے ایک دعا بھی تھی.جلسوں میں اگر آپ کو تقریروں کی آواز نہیں آتی تو آپ باتوں کی بجائے دعاؤں میں لگی رہیں جو باتیں کرنے اور شور مچانے سے بدرجہا بہتر ہوگا.“ آپ نے توجہ دلائی کہ اب جلسہ سالانہ قریب آرہا ہے اس جلسہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت اہمیت دیا کرتے تھے مگر جو باوجود اس کے کہ اتنی دور سے خرچ کر کے سفر کی صعوبتیں سہہ کر یہاں آتی ہیں اور تکلیف میں تین دن گزارتی ہیں.پھر بھی بجائے جلسہ کا پروگرام سننے کے باتوں میں ادھر ادھر گھومنے پھرنے میں وقت اک کر دیتی ہیں نمائندگان کو چاہیے کہ وہ ان شہروں میں جا کر لہ کر یں.جس میں مستورات کوجلسہ سالانہ کی اہمیت بتائیں اور ان کو خاموشی سے جلسہ سنے کی نصیحت کریں.“ دوسری بات جس کی طرف توجہ دلائی وہ یہ تھی کہ بہنیں سٹیج کا ٹکٹ سوائے اشد ضرورت کے حاصل کرنے کوشش نہ کریں.کیونکہ سٹیج ایسی جگہ ہے جہاں کارکنات نے جلسہ کا انتظام کرنا ہوتا ہے.اگر زیادہ سے زیادہ لوگ وہاں آنے کی کوشش کریں گے تو ظاہر ہے کہ اصل کام میں رکاوٹ پیدا ہوگی.اگر نظام کی

Page 243

225 اطاعت کی جائے تو ایسی باتیں کبھی پیدا نہیں ہوتیں.بعض نمائندگان نے شکایت کی ہے کہ لجنہ ربوہ کی مقررات کو انعامات دیئے جاتے ہیں اور اس طرح دوسری لجنات کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے.اس طرح کے بے جا اعتراض کرنے کی عادت سے بچنا چاہئے.کیونکہ یہ انسان کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے.انعام تو قابلیت دیکھ کر دیئے جاتے ہیں.اگر باہر کی لجنات کی لڑکیاں انعامات حاصل نہیں کرتیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ انہیں ابھی مزید محنت کی ضرورت ہے.دوران سال تین شعبہ جات نے بہت اچھا کام کیا.ان میں سے ایک شعبہ بیرونی لجنات کا ہے.اس سے پہلے صرف بیرونی بجنات سے خط و کتابت ہی رہی تھی.مگر اب ان کو لجنہ کی سالانہ رپورٹ.اجتماع کی رپورٹ اور بعض اور ایسی چیزوں کا انگریزی ترجمہ اور انگریزی لٹریچر بھجوایا جاتا رہا ہے.دوسرا شعبہ ناصرات کا ہے جس نے نمایاں ترقی کی ہے پہلے چند ایک شہروں میں ہی ناصرات کی تنظیم تھی مگر اب تقریباً بہت سے شہروں میں اس کا قیام عمل میں آچکا ہے.اگر ناصرات کا چندہ بڑھ جائے تو ہم اس چندے میں سے لڑکیوں کو تعلیمی وظائف بھی دے دیا کریں گے.تیسرا شعبہ جس نے نمایاں ترقی کی ہے وہ شعبہ تعلیم وتربیت ہے اس سال تعلیم قرآن کے ساتھ ساتھ تربیتی کلاس بھی لگائی گئی لجنہ ربوہ کراچی گوجر انوالہ کے علاوہ سرگودھا سیالکوٹ کی جماعتوں نے بھی اس شعبہ میں کافی ترقی کی ہے.شعبہ اصلاح وارشاد کا کام کی لجنہ کا بھی نمایاں نہیں تھا حالانکہ باہر کی لجنات کے لئے یہ کام بہت اہم ہے.انہیں چاہئے کہ وہ دوسرے لوگوں کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی رکھیں.زبانی تبلیغ کریں اور اشاعت لٹریچر میں حصہ لیں.یہ امر بھی خوشی کا موجب ہے کہ اس سال بہت سی لجنات نے اپنے طور پر اجتماعات بھی کئے اور بعض لجنات مثلاً سرگودھا.پشاور منٹگمری.اوکاڑہ.احمد نگر اور راولپنڈی نے خاص ترقی کی ہے.عمومی طور پر لجنہ ربوہ اول رہی.لجنہ کراچی دوم اور لجنہ راولپنڈی سوم.میں امید کرتی ہوں کہ آئندہ سال لجنات کا کام اور بھی بہتر اور ترقی پر ہوگا.ہم سب کا فرض ہے کہ ہم عیسائیت کا مقابلہ کریں.خدا تعالیٰ کے فضل سے احمد یہ جماعت ہی واحد جماعت ہے جو عیسائیت کا مقابلہ کر رہی ہے.احمدی عورتوں اور بچوں کو عیسائیت کے اسلام پر حملوں کا رد آنا چاہئے.ان کو ایسے مضامین پڑھانے چاہئیں جن سے وہ عیسائیت کا مقابلہ کر سکیں.تاریخ مجمد جلد سومفر 71 110 t117

Page 244

226 جلسہ سالانہ 1961ء جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے ایمان افروز تقریر کی.آپ کی تقریر کا موضوع ” حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض اور غایت اسلام کی خدمت اور توحید کا قیام تھا.آپ کی آواز میں احمدی جماعت کے ہر حساس فرد کی آواز کی بازگشت شامل تھی.آپ نے ایک ایسے امر کی طرف توجہ دلائی جس سے غفلت مضر ثابت ہورہی ہے.آپ نے قرآنی دعا اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَالضَّالِينَ.آمين (الفاتحه : 76) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کے مسلمانوں اور خصوصاً احمدیوں کا فرض ہے کہ وہ اس مقصد کو پورا کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا نصب العین تھا.اور ان کی بعثت کی غرض حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے الفاظ میں یہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی بھاری غرض وغایت اسلام کی خدمت اور توحید کا قیام تھی اور اس زمانہ میں حقیقی تو حید کا سب سے زیادہ مقابلہ مسیحیت کے ساتھ ہے جو تو حید کی آڑ میں خطرناک شرک کی تعلیم دیتی ہے اور حضرت مسیح ناصری کو نعوذ باللہ خدا کا بیٹا قرار دے کر حضرت احدیت کے پہلو میں بٹھاتی ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عیسائیت کے خلاف بڑا جوش تھا اور ویسے بھی آپ کے منصب مسیحیت کا بڑا کام حدیثوں میں کسر صلیب ہی بیان ہوا ہے، اس لئے آپ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات پر بڑا زور دیتے تھے کیونکہ صرف اسی ایک بات کے ثابت ہونے سے ہی عیسائیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے.“ یہ عظیم الشان مقصد تھا جس کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تھے اور یہی آج ہر احمدی کا فرض ہونا چاہئے.آج عالم اسلام پکار پکار کر مسیحیت کے غلبہ کے خلاف احتجاج کر رہا ہے لیکن اس کا اصل تو ڑ اور جواب احمدیت کے پاس ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے.مسیح کو مرنے دو کہ اسلام کی زندگی اسی میں ہے.ملفوظات جلد پنجم صفحہ 548 لیکن کوئی کام کسی ایک فرد کے کہنے سے نہیں ہو جاتا ہمیں اپنے اعمال میں ایسی شان پیدا کرنی چاہئے کہ ہمارا نمونہ دوسروں کے لئے مشعل راہ بن جائے.اپنے بچوں کو مسیحی سکولوں میں تعلیم دلا کر ہم یہ توقع

Page 245

227 نہیں کر سکتے کہ وہ بڑے ہو کر کا سر صلیب بنیں گے.ہمارے ملک کے عوام کی ذہنوں پر سے برطانوی حکومت کا اثر اب تک نہیں گیا.ان کی ملک پر حکومت نہیں رہی لیکن ہمارے دلوں اور دماغوں سے ابھی ان کی تعلیم مونہیں ہوئی.اس کے اثرات میں سے ایک یہی بہت اہم ہے کہ مسیحیت کا رجحان عام ہورہا ہے.وزیر داخلہ کا اعلان شائع ہوا کہ پاکستان میں مسیحیوں کی تعداد گذشتہ 60 سال میں 23 گنا ہوگئی ہے.اس کی وجوہات کی تحقیقات ہونی چاہئے.اس کی وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں اس کا حل اور علاج احمدیت کی علیم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن پاک سے دلائل دے کر اپنی کتابوں میں ایک خزانہ جمع کر دیا ہے اگر ہم ان کا مطالعہ کریں اور ہدایات پر عمل کریں تو کبھی نہیں ہوسکتا کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کا علم ہاتھ میں لے کر مسیحیت سے شکست کھا جائیں.ہمیں اعتراضوں کا دندان شکن جواب دینا چاہئے.بچوں کو اسلامی تعلیم دینی چاہئے.اسی سے ہم اس فتنہ کا مقابلہ کر سکتے ہیں.الفضل 18 جنوری 1962ء

Page 246

228 سرور کائنات حضرت محمد مصطفی عہ کے عدیم المثال فضائل و محامد 18 مارچ کو لاہور میں خواتین کے جلسہ سیرۃ النبی میں حضرت سیدہ ام متین صاحبہ سلمھا اللہ تعالیٰ کی جامع اور مبسوط تقریر رسول کریم ﷺ کی ایک نمایاں فضیلت إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا.(الاحزاب: 57) قُلْ إِنَّ صَلوتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ لَاشَرِيكَ لَهُ وَبِذَالِكَ أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام: 163 164) رسول مقبول ﷺ کا وجود تمام بنی نوع انسان کے لئے باعث رحمت اور آپ کی بعثت تمام دنیا کی قوموں کے لئے نجات کا باعث تھی.آپ کی تمام انبیاء پر ایک فضیلت اور ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ آپ سے پہلے جتنے نبی آئے وہ صرف اپنی قوموں کی راہ نمائی کے لئے آئے.لیکن ہمارے آقا نبی کریم تمام اقوام عالم کو ایک مرکز پر جمع کرنے کے لئے مبعوث ہوئے.آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو ایک مکمل شریعت عطا فرمائی جو قیامت تک تمام انسانوں کی ہدایت کے لئے کافی ہے.چنانچہ آپ ایک مکمل ترین شریعت کے حامل تھے اور آپ کا دامن فیض قیامت تک ممتد رہنا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام خاتم النبین رکھا.جو آپ کی اعلیٰ شان اور آپ کے بلند روحانی مقام کا مظہر ہے.سیرت النبی ﷺ کا مکمل نقشہ آپ ہر وصف میں یکتا تھے.کوئی انسان آپ کے اوصاف پوری طرح بیان نہیں کر سکتا.خدائے دو جہاں اور واقف اسرار کون و مکاں نے جامع طور پر صرف ایک فقرہ میں آنحضرت ﷺ کی سیرت کردار بلکہ تمام زندگی کی تفصیل قرآن مجید میں یوں بیان فرما دی ہے کہ قُلْ إِنَّ صَلَوتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام: 163) کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ تو کہہ دے کہ میری عبادت اور تمام قربانیاں میرا مرنا اور میرا جینا اس تمام خوبیوں والے خدا کے لئے ہے جو تمام مخلوقات کا پرورش کرنے والا ہے.اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں

Page 247

229 تمام فرمانبرداروں میں اول درجہ کا بنوں.آپ کے واقعات زندگی بتاتے ہیں کہ آپ نے خدا تعالیٰ کی محبت اور انسان کی ہمدردی میں اپنی جان اور آرام، آسائش کی کوئی پرواہ نہ کی.اور اللہ تعالیٰ کی توحید قائم کرنے میں اور لوگوں کو دعوت الی الحق دینے میں آپ نے صبر و استقامت اور قربانی اور ایثار کا جونمونہ پیش کیا.اس سے ظاہر ہے کہ آپ نے اپنے عہد یعنی اِنَّ صَلوتِی وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام: 163) کو واقعی پورا کر دکھایا.جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور اپنی صفات میں بے مثل ہے اسی طرح آپ اپنے عہد کو پورا کرنے اور محبوب حقیقی سے عشق اور محبت رکھنے میں بے مثل تھے.یہ آیت آنحضرت ﷺ کی سیرت کا ایک مکمل نقشہ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے.انسانی کمال کا یہ ضابطہ عمل اور انسانی زندگی کا یہ نصب العین خود انسان کا بنایا ہوا نہیں.بلکہ خود رب العالمین کا تجویز فرمودہ ہے.جیسا کہ وَبِذَالِكَ أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام: (164)کےالفاظ سے ظاہر ہے.ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آنحضرت ﷺ کو تمام دنیا کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا.جیسا کہ فرماتا ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا(الاحزاب : 22) یعنی اے لوگو! یہ رسول پیروی کرنے کے لئے بہترین نمونہ ہے اس شخص کے لئے جو خدا تعالیٰ کی رحمت اور آخرت میں کامیابی چاہتا ہو اور اللہ کو بہت یادرکھتا ہو دوسری طرف إِنَّ صَلوتِی وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ (الانعام: 163) میں آپ کی زندگی کا دستور العمل اور مرکزی نقطہ بیان فرماتا ہے.انسانی زندگی کا مقصد دونوں آیات پر یکجا طور پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کا مقصد مقام محمدیت کی پیروی اور رسول کریم ﷺ کی کامل اطاعت اور کامل اتباع کے ساتھ اور آپ کے رنگ میں رنگین ہو کر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے.اسی طرح اس آیت میں بھی اشارہ ہے کہ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران (32) کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور پیار کسی انسان کو اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا.جب تک وہ نبی کریم ﷺ کی اطاعت میں ایسا سر شار نہ ہو جائے کہ ہر قول اور فعل میں آپ کا کامل فرمانبردار ہو.اور یہ دولت اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کی زندگی میں یہ حالت پیدانہ ہو جائے کہ وہ اپنی تمام خواہشوں اور جذبات پر اپنے ہاتھ سے ایک موت وارد کرے اور اس کے دائرہ عمل کا

Page 248

230 مرکز محض اللہ تعالیٰ کی رضا ہو.جب انسان اس عظیم الشان قربانی کے لئے تیار ہو جاتا ہے.تب اس میں اسلام کی حقیقی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.اور اسی کیفیت کو قرآن مجید نے آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام: 164) کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ارشاد فرمودہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کی تفسیر میں اپنی کتاب ”اسلامی اصول کی فلاسفی میں فرماتے ہیں.وہ مصیبتوں کا زمانہ جو ہمارے نبی ﷺ پر تیرہ برس تک مکہ معظمہ میں شامل حال رہا.اس زمانہ کی سوانح پڑھنے سے نہایت واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے وہ اخلاق جو مصیبتوں کے وقت کامل راستباز کو دکھلانے چاہئیں یعنی خدا پر توکل رکھنا اور جزع فزع سے کنارہ کرنا اور اپنے کام میں ست نہ ہونا اور کسی کے رعب سے نہ ڈرنا.ایسے طور پر دکھلا دیئے.جو کفار ایسی استقامت کو دیکھ کر ایمان لائے اور شہادت دی کہ جب تک کسی کا پورا بھروسہ خدا پر نہ ہو تو اس طرح استقامت اور اس طور سے دکھوں کی برداشت نہیں کر سکتا.اور پھر جب دوسرا زمانہ آیا یعنی فتح اور اقتدار اور ثروت کا زمانہ تو اس زمانہ میں بھی آنحضرت ﷺ کے اعلیٰ اخلاق عفو اور سخاوت اور شجاعت کے ایسے کمال کے ساتھ صادر ہوئے جو ایک گروہ کثیر کفار کا ان اخلاق کو دیکھ کر ایمان لایا.دکھ دینے والوں کو بخشا اور شہر سے نکالنے والوں کو امن دیا.ان کے محتاجوں کو مال سے مالا مال کر دیا اور قابو پا کر اپنے بڑے بڑے دشمنوں کو بخش دیا.چنانچہ بہت سے لوگوں نے آپ کے اخلاق دیکھ کر گواہی دی کہ جب تک کوئی خدا کی طرف سے اور حقیقتا راستباز نہ ہو.یہ اخلاق ہرگز نہیں دکھا سکتا.یہی وجہ ہے کہ آپ کے دشمنوں کے پرانے کیسے یک لخت دور ہو گئے.آپ کا بڑا بھاری خلق جس کو آپ نے ثابت کر کے دکھلا دیا وہ خلق تھا.جو قرآن مجید میں ذکر فرمایا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ قُلْ إِنَّ صَلوتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَالِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِين (الانعام: 164.163) یعنی ان کو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانی اور میرا مرنا اور میرا جینا خدا کے لئے ہے.یعنی اس کا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور نیز اس کے بندوں کے آرام دینے کے لئے ہے.تا میرے مرنے سے ان کو زندگی حاصل ہو.اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے واقعی ہمدردی اور محنت اٹھانے سے بنی نوع کی رہائی کیلئے جان کو وقف کر دیا تھا اور

Page 249

231 دعا کے ساتھ اور تبلیغ کے ساتھ اور ان کے جور و جفا اٹھانے کے ساتھ اور ہر ایک مناسب اور حکیمانہ طریق کے ساتھ اپنی جان اور اپنے آرام کو اس راہ میں فدا کر دیا تھا جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: 4) فَلا تَذْهَبُ نَفْسُكَ عَلَيْهِمُ حَسَرَاتٍ (فاطر: 9) کیا تو اس غم اور اس سخت محنت میں جولوگوں کے لئے اٹھا رہا ہے.اپنے تئیں ہلاک کر دے گا اور کیا ان لوگوں کے لئے جو حق کو قبول نہیں کرتے تو حسرتیں کھا کھا کر اپنی جان دے گا.روحانی خزائن جلد 10 اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 448.447 449 پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.کامل انسان محمد رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کون ہو گا دیکھو جب انہوں نے اپنی جان اپنا مال ، اپنی حیات، اپنی ممات رب العالمین پر قربان کر دیئے یعنی سارے کے سارے خدا کے ہو گئے تو کیسا خدا ان کا ہوا اور کیسے فرشتوں نے ان کی مدد کی.اگر وہ فرشتوں سے مدد نہ کرتا تو ممکن نہ تھا کہ ایک یتیم بچہ دنیا کو مغلوب کرلیتا.وَاذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا کا وہی عامل گذرا ہے یعنی لڑائی کے وقت جب جھاگ منہ سے جاری ہے اور مارے غصہ کے آدمی جل رہا ہے.اس وقت بھی یہ حکم ہوتا ہے کہ خدا کو یاد کر کے کسی پر وار چلانا.ان دشمنان دین کے مقابلہ پر جنہوں نے سینکڑوں صحابہ کو ذبح کر دیا تھا.فتح مکہ پر کیسا خدا کو یا د کیا اور کیسا ترحم دکھایا..الحکم 10 فروری 1905ء اب میں اس آیت کی تشریح کسی قدر تفصیل سے کروں گی تا کہ آپ کو بتاؤں کہ ہمارے آقا محمد ﷺ کی ساری زندگی کس طرح صرف اور صرف رب العالمین کی خاطر گزری.خدا تعالیٰ کا یہ ایک نہایت عظیم الشان نشان اور اسلام کی صداقت کا ثبوت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی کے حالات اتنے محفوظ ہیں.اس لئے جس خلوص سے انسان نبی کریم ﷺ کی ذات سے محبت کر سکتا ہے اور کسی ذات سے نہیں کر سکتا.آپ کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے جس کو پڑھنے کے بعد آپ کی سیرۃ طیبہ کا ایک ایک پہلو روز روشن کی طرح ہماری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے اور روح خدا تعالیٰ کے احسانات کا شکریہ ادا کرنے کے لئے آستانہ الہی پر جھک جاتی ہے.اور منہ سے بے اختیار نکل جاتا ہے اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ -

Page 250

232 آیت صلوتی وَنُسُکی کی مزید تشریح رسول کریم ﷺ کی شریعت میں سال سے زیادہ ہوئی.تو آپ کے دل میں خدا تعالیٰ کی عبادت کی رغبت اور اللہ تعالیٰ سے بے کراں محبت جوش مارنے لگی اور آپ مکہ کے لوگوں کی شرارتوں اور خرابیوں سے متنفر ہو کر مکہ سے دو تین میل کے فاصلہ پر ایک پہاڑی کی ایک غار میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے لگ گئے.حضرت خدیجہ چند دن کی غذا آپ ﷺ کے لئے تیار کر دیتیں اور آپ وہ لے کر غار حرا میں چلے جاتے اور پتھروں پر بیٹھ کر خدا تعالیٰ کی عبادت میں رات دن مشغول رہتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام برکات الدعا میں تحریر فرماتے ہیں:.وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں ایک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا.وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچادیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس امت بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں اللهُمَّ صَلِّ وَسَلّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالِهِ بِعَدَدِ هَمِّهِ وَغَمِّهِ وَحُزْنِهِ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ وَاَنْزِلْ عَلَيْهِ انْوَارَ رَحْمَتِكَ إِلَى الْاَبَدِ.روحانی خزائن جلد 6 برکات الدعا صفحہ 11 الدعاصفحہ اسی طرح آپ فرماتے ہیں:.ابتدائے اسلام میں بھی جو کچھ ہوا وہ آنحضرت ﷺ کی دعاؤں کا نتیجہ تھا.جو کہ ملکہ کی گلیوں میں خدا تعالیٰ کے آگے رو رو کر آپ نے مانگیں.جس قدر عظیم الشان فتوحات ہوئیں کہ تمام دنیا کے رنگ ڈھنگ کو بدل دیا.وہ سب آنحضرت ﷺ کی دعاؤں کا اثر تھا.الحکم 17 ستمبر 1907ء پھر فرماتے ہیں:.یہ نور ہدایت جو خارق عادت طور پر عرب کے جزیرہ میں ظہور میں آیا.اور پھر دنیا میں پھیل گیا یہ آنحضرت ﷺ کی دلی سوزش کی تاثیر تھی ہر ایک قوم توحید سے دور اور مجبور ہوگئی.مگر اسلام میں چشمہ توحید جاری رہا.یہ تمام برکتیں آنحضرت ﷺ کی دعاؤں کا نتیجہ تھا.روحانی خزائن جلد 22 حقیقۃ الوحی صفحہ 103 حاشیہ

Page 251

233 عشق الہی سے معمور زندگی رسول مقبول ﷺ کی ساری زندگی عشق الہی سے معمور نظر آتی ہے یہاں تک کہ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ محمد ﷺ اپنے رب پر عاشق ہو گیا.آپ کو رات اور دن عبادت میں مشغول رہتے تھے.نصف رات گزرنے پر آپ خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے اور صبح تک عبادت کرتے چلے جاتے.یہاں تک کہ بعض دفعہ آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت ہے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ تو خدا تعالیٰ کے محبوب اور مقرب ہیں آپ ﷺ اپنے نفس کو اتنی تکلیف کیوں دیتے ہیں.آپ نے فرمایا عائشہ افلا اكون عبدا شکور ا یہ تو محض اللہ تعالیٰ کا احسان اور فضل ہے کہ اس کا قرب مجھے حاصل ہے.کیا میرا یہ فرض نہیں کہ میں اس احسان کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کروں.خدا تعالیٰ کا کلام سنتے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے.حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا مجھے قرآن سناؤ میں نے جواب دیا یا رسول اللہ قرآن تو آپ ﷺ پر نازل ہوا ہے میں آپ ﷺ کو کیا سناؤں.آپ نے فرمایا میں پسند کرتا ہوں کہ دوسرے سے بھی سنوں.اس پر میں نے سورۃ نساء کی تلاوت شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچا فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجَتْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا (النساء 42) یعنی اس وقت کیا حال ہوگا.جب ہم ہر قوم میں سے اس نبی کو اس کی قوم کے سامنے کھڑا کر کے اس کا حساب لیں گے.تو رسول اللہ علی کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور آپ نے نہایت رقت سے فرمایا بس کرو.نماز کی پابندی کا آپ کو اتنا خیال تھا کہ سخت بیماری کی حالت میں جبکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے گھر میں نماز پڑھ لینے بلکہ لیٹ کر پڑھنے کی اجازت تھی.مگر آپ ﷺے سہارا لے کر مسجد میں نماز پڑھانے کے لئے آتے.خدا تعالیٰ کی غیرت خدا تعالیٰ کے لئے آپ ﷺ کی غیرت کا واقعہ اسلام کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ مکہ کے لوگوں نے ہرقسم کی کوشش کی کہ آپ ﷺے بتوں کو بُرا کہنا چھوڑ دیں لیکن جب دیکھا کہ آپ پر ان کی باتوں تکلیفوں اور کوششوں کا کوئی اثر نہیں تو انہوں نے آپ ﷺ کے چا ابوطالب کے ذریعہ سفارش کروائی کہ اگر مال و دولت کی ضرورت ہے تو وہ حاضر ہے شادی کرنا چاہتے ہیں تو خوبصورت

Page 252

234 سے خوبصورت لڑکی کی شادی کروا سکتے ہیں.سرداری کی خواہش ہے تو ہم اپنا لیڈر بنالیں گے.مگر ہمارے بتوں کو بُرا نہ کہیں.ابو طالب آپ ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ کو کہا کہ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میری قوم مجھے چھوڑ دے گی.آپ نے فرمایا اے چا! آپ بے شک مجھے چھوڑ دیں.اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کر بھی کھڑا کر دیں تو میں خدائے واحد کی پرستش سے باز نہیں آسکتا.اور اس کی تو حید کو دنیا میں پھیلانے کا کام نہیں چھوڑ سکتا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - جنگ اُحد کے موقعہ پر آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر زخم آئے اور آپ ﷺ کے شہید ہونے کی خبر مشہور ہو گئی.دشمن خوش تھا اور سمجھ رہا تھا کہ ہم نے مسلمانوں کی طاقت کو توڑ دیا ہے.ابوسفیان نے بلند آواز سے کہا کہ محمد قتل کر دیئے گئے اور ابو بکر اور عمر بھی مارے گئے.حضرت عمر برداشت نہ کر سکے جواب دینا چاہا.مگر نبی کریم ﷺ نے اس وقت جواب دینا مصلحت نہ سمجھا اور جواب دینے سے منع فرمایا.کفار کو جب کوئی جواب نہ ملا تو انہوں نے خوشی سے نعرہ لگایا اُعْلُ هُبل.اُعْلُ هُبَل آپ برداشت نہ کر سکے.آپ ﷺ نے فرمایا جواب کیوں نہیں دیتے.صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ کیا جواب دیں.آپ ﷺ نے فرمایا اللهُ اعْلَی وَاَجَل.اللَّهُ أَعْلَى وَاجَل اللہ ہی سب سے بلند اور جلال والا ہے.اس پر ابو سفیان نے پھر کہا لَنَا عُزّى وَلَا عُزّى لَكُمْ تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کہو اللهُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلى لَكُم تم کہو ہمارا دوست خدا ہے اور تمہارا کوئی دوست نہیں.( بخاری کتاب المغازی باب غزوہ احد ) ایسے خطرناک موقعہ پر جب کہ مسلمان پراگندہ ہو گئے تھے مشرکین مکہ کا مسلح لشکر موجود تھا.خدا تعالیٰ کا نام بلند کرنے میں آپ ﷺ نے اپنی جان کی پروا کی نہ اپنے اصحاب کی.آنحضرت ﷺ کے اکلوتے بیٹے حضرت ابراہیم جب ڈیڑھ.دو سال کی عمر میں فوت ہوئے تو اتفاقاً اس دن سورج کو بھی گرہن لگا.چند لوگوں نے مدینہ میں مشہور کر دیا کہ دیکھو رسول اللہ کے بیٹے کی وفات پر سورج تاریک ہو گیا.جب آپ ﷺ کو یہ خر پہنچی تو آپ نے سختی سے اس کی تردید فرمائی.اور فرمایا چاند اور سورج تو خدا تعالیٰ کے مقررہ قانون کو ظاہر کر نیوالی ہستیاں ہیں.ان کا کسی کی حیات اور موت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.( بخاری کتاب الخسوف) مثالیں تو سینکڑوں ہیں لیکن وقت اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ سب کو بیان کیا جاسکے.اس لئے

Page 253

235 اس حصہ کو صرف ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے مضمون کے دوسرے حصہ کی طرف آتی ہوں.آپ ﷺ کو خدا تعالیٰ سے کچھ ایسی محبت اور کچھ ایسا عشق تھا کہ کوئی معاملہ ہو اس میں خدا تعالیٰ کا ذکر ضرور کرتے.اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے.کھاتے پیتے.غرض ہر موقعہ پر اللہ کا نام ضرور لیتے.آپ ﷺ کے دن اور رات کا کوئی لمحہ ایسا نہیں تھا.جس میں آپ ﷺ کی زبان اللہ تعالیٰ کے ذکر اور آپ ﷺ کا دل اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل رہتا ہو.یہاں تک کہ وہ وقت جس میں مرد اور عورت دنیا وما فیہا سے غافل ہو جاتے ہیں.ان گھڑیوں میں بھی آپ ﷺ کے لبوں سے اللہ کا ہی نام نکلتا ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ ہر شب جب سونے کے لئے لیٹتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں ملاتے پھر ان میں پھونکتے اور قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ قُلْ اَعُوذُ بَرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھتے.پھر جہاں تک ہو سکتا اپنے بدن پر ہاتھ ملتے اور تین دفعہ اسی طرح ہی کرتے.ان تینوں سورتوں کو باترجمہ پڑھیں اور غور کریں کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے غناپر کتنا ایمان تھا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ صحیح بخاری کتاب الطب خشیت اللہ رسول الله علے خدا تعالیٰ کی صفت غنا سے انتہائی خوف رکھتے تھے.خدا تعالیٰ کی طرف سے نصرت اس حد تک ہوتی کہ دوست اور دشمن حیران رہ گئے.اللہ تعالیٰ کا آپ ﷺ سے یہ سلوک کہ اپنی ذات سے محبت کرنے والے کے لئے آپ ﷺ کی اطاعت کی شرط لگاتا ہے.چنانچہ ارشاد ہوا ہے.إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران: 32) اسی طرح فرماتا ہے اِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ (الفتح: 11) پھر آپ ﷺ کے بلند مقام کی عظمت کا اعتراف قرآن مجید میں دَنَى فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْأَدْنَى (النجم: 10.9) کے ذریعہ سے بھی ہوتا ہے.لیکن اس کے باوجود خشیت الہی کا یہ حال ہے کہ آپ فرماتے ہیں وَاللَّهِ مَا أَدْرِكْ وَأَنَا رَسُولُ اللهِ مَا يُفْعَلُ ہی خدا کی قسم میں نہیں جانتا با وجود اس کے کہ میں خدا کا رسول ہوں میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا.حضرت ابن عباس سے آپ ﷺ کی ایک دعا جو آپ ﷺ خلوت کے وقت مانگا کرتے تھے مروی ہے.آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ صبح کی سنتوں کے بعد آپ یہ دعا مانگا کرتے تھے اللهُمَّ اجْعَلُ فِي قَلْبِي نُورًا وَفِي بَصَرِي نُورًا.وَفِي

Page 254

236 سَمْعِي نُورًا وَّعَنْ يَمِينِى نُورًا وَّ عَنْ يَسَارِكُ نُورًا وَفَوْقِى نُورًا وَتَحْتِى نُورًا وَّآمَامِي نُورًا وخَلْفِى نُورًا وَّاجْعَلْ لِى نُورًا - (صحیح بخاری کتاب الدعوات) خلق خدا کی خدمت اب میں مضمون کے اس حصہ کی طرف آتی ہوں کہ آپ ﷺ کی زندگی کا ہر فعل کس طرح خدا تعالیٰ کی خاطر اور اس کی مخلوق کی خدمت میں گزرا.بچپن سے ہی آپ ﷺ کی فطرت لڑائی جھگڑوں سے علیحدہ رہنے والی اور مظلوموں کی مدد کرنے والی تھی.چنانچہ ایام جوانی میں ہی آپ ﷺ مکہ کے کچھ سعید الفطرت نو جوانوں کے ساتھ ایک انجمن میں شامل ہوئے.جس کی غرض یہ تھی کہ وہ مظلوموں کی حمایت کریں گے اس کا نام ہی مجلس حلف الفضول رکھا گیا تھا.اس پر عمل کرنے میں بھی آپ ﷺ ہی پیش پیش رہے.جب آپ ﷺ نے دعویٰ نبوت کیا تو سب سے زیادہ مکہ کے سردار ابو جہل نے آپ ﷺ کی مخالفت میں حصہ لیا.ایک شخص جس نے ابو جہل سے کچھ قرض وصول کرنا تھا مکہ آیا اور ابو جہل سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا.اس نے قرض ادا کرنے سے انکار کر دیا.لوگوں نے اسے مشورہ دیا کہ محمد رسول اللہ کے پاس جاؤ وہ تمہاری مدد کریں گے.مشورہ دینے سے ان کی غرض شرارت تھی کہ جب اس کی مدد کے خیال سے آپ ﷺ ابو جہل کے پاس جائیں گے تو ابوجہل آپ ﷺ کو ذلیل کر کے نکال دے گا.وہ شخص آپ ﷺ کے پاس گیا آپ بلا پس و پیش اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے.اس کو ساتھ لے کر چل دیئے.ابو جہل کے گھر پہنچے.دروازہ پر دستک دی.ابو جہل گھر سے نکلا آپ ﷺ نے اس کو کہا اس شخص کا تم نے قرض دینا ہے وہ ادا کر دو.ابو جہل نے بلا چوں چرا اس کا قرض ادا کر دیا.جب شہر کے رؤسا کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اسے ملامت کی کہ ہمارے سامنے تم شیخیاں بگھارا کرتے تھے کہ میں یوں کروں گا اور یوں کروں گا اور محمد ( رسول اللہ ﷺ کے کہتے ہی تم نے اس کی بات مان لی.تو اس نے جواب دیا کہ اگر میری جگہ تم ہوتے تو تم بھی ایسا ہی کرتے میں نے دیکھا کہ محمد ﷺ کے دائیں اور بائیں دومست اونٹ کھڑے ہیں جو میری گردن مروڑ کر ہلاک کر دیں گے.صل الله آپ ﷺ ایسے وقت مبعوث ہوئے جب دنیا میں گمراہی اور ضلالت کا دور دورہ تھا خدا کا خوف دلوں سے اٹھ چکا تھا.خالق اور مخلوق کے درمیان پردے حائل ہو چکے تھے.رسول کریم ﷺ نے دنیا کو خدا کی ہستی کا ثبوت دیا اور دنیا کوخدا کا حسن دکھانے کے لئے بلایا.مگر شروع میں لوگوں نے پروا نہیں کی اور

Page 255

237 آپ ﷺ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے.کوئی تکلیف نہ تھی جو آپ ﷺ کودی نہ گئی ہو.آپ ﷺ کا بائیکاٹ کیا گیا.آپ ﷺ کے راستوں میں کانٹے بچھائے گئے.آپ ﷺ کی جان پر حملہ کیا گیا.آپ ﷺ پر پتھر برسائے گئے.مگر آپ ﷺ کی شفقت دیکھئے.آپ ﷺ ان ساری تکلیفوں کو برداشت کرنے کے بعد بھی ان کے لئے یہی دعا کرتے ہیں اللّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ.(در منثور جلد 2 صفحہ 298) میری قوم نادان ہے بے وقوف ہے میرے مولا تو اس کو ہدایت کا راستہ دکھا.حضرت خدیجہ کی گواہی - حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جو خود بڑی مالدار تھیں آپ ﷺ سے شادی آپ ﷺ کا تقویٰ اور آپ ﷺ کی نیکی اور دیانت کے معاملہ کو دیکھ کر کی تھی.آپ ﷺ سے شادی کے بعد حضرت خدیجہ نے محسوس کیا کہ آپ ﷺ کا حساس دل ایسی زندگی میں کوئی خاص لطف محسوس نہ کرے گا کہ آپکی بیوی تو مالدار ہو اور آپ ﷺ اس کے محتاج ہوں.آپ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں اپنا سارا مال اور اپنے غلام آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتی ہوں.آپ ﷺ نے فرمایا خدیجہ کیا سی.آپ نے پھر دوبارہ عرض کی ہاں واقعی پیش کر رہی ہوں.آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر میرا پہلا کام یہ ہوگا کہ غلاموں کو آزاد کر دوں.چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ کے تمام غلاموں کو بلایا اور فرمایا تم سب آج سے آزاد ہو.اسی طرح مال کا اکثر حصہ غرباء میں تقسیم فرما دیا.مخلوق خدا کی خدمت اور ان سے ہمدردی کے متعلق جو بے لاگ گواہی آپ ﷺ کی ہم دم و دم ساز حضرت خدیجہ نے دی ہے اس سے بڑھ کر شاندار گواہی اور کیا ہوسکتی ہے.انسان کی کمزوریاں دوسروں سے تو پوشیدہ رہ سکتی ہیں.لیکن انسان کی بیوی چوبیس گھنٹے کی ساتھی ہوتی ہے اس سے کسی کمزوری کا پوشیدہ رہنا ناممکن ہے.جب آپ ﷺ پر پہلی دفعہ وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ کے دل میں خوف پیدا ہوا کہ اتنی عظیم الشان ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے سپرد کی جارہی ہے معلوم نہیں میں پوری طرح اسے اٹھا سکوں یا نہیں.آپ ﷺ گھر پہنچے.آپ کا دل دھڑک رہا تھا.حضرت خدیجہ کے پاس آکر آپ ے نے فرمایا مجھے کپڑا اوڑھا دو.جب طبیعت کی گھبراہٹ میں کمی آئی تو آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ کو سارا واقعہ سنایا.واقعہ سن کر بے ساختہ حضرت خدیجہ کے منہ سے یہ الفاظ نکلے.كَلَّا وَاللَّهِ لَا يُخْزِيْكَ اللهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ

Page 256

238 وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِى الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ.(بخاری کتاب بدء الوحى) یعنی اللہ کی قسم خدا تعالیٰ آپ ﷺ کو کبھی ذلیل اور نا کام نہیں کرے گا.آپ ﷺ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں.بے چاروں کے چارہ ساز ہیں.ان کے بوجھ اٹھاتے ہیں.وہ اخلاق جو دنیا سے معدوم ہو چکے تھے آپ ﷺ کے وجود با برکت سے دوبارہ دنیا میں قائم ہورہے ہیں.آپ مہمان نواز ہیں.مصیبت زدوں کی حمایت اور مدد کرتے ہیں.کیا ایسا شخص اپنے مقصد اور مشن میں نا کام ہو سکتا ہے.چند فقروں میں حضرت خدیجہ نے آپ ﷺ کی زندگی کا نقشہ کھینچ دیا جو گویا مَحْيَايَ وَ مَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الاعراف: 163) کی عملی تفسیر تھا کہ آپ ﷺ کی تو زندگی گزار رہی ہے غریبوں مظلوموں، بے کسوں اور لاوارثوں کے حقوق کی حفاظت میں اور تمام بنی نوع انسان کی بھلائی میں صبر و تحمل :.متحمل آپ ﷺے میں اس قدر تھا کہ اس پل بھی کہ آپ ﷺ کو خدا تعالیٰ نے بادشاہت عطا فرما دی ہر ایک کی بات سنتے.اگر وہ بختی بھی کرتا تو آپ ﷺ خاموش ہو جاتے.مسلمان کو یا رسول اللہ کہہ کر مخاطب ہوا کرتے تھے.ایک دفعہ ایک یہودی مدینہ میں آیا اور اس نے سے بحث شروع کر دی.بحث کے دوران وہ بار باراے محمد.اے محمد کہہ کر مخاطب ہوا.رسول اللہ ﷺ اس کی باتوں کا نہایت بشاشت اور تحمل سے جواب دیتے رہے.ایک صحابی سے برداشت نہ ہو سکا.اس نے یہودی سے کہا خبر دار آپ ﷺ کا نام لے کر بات نہ کرو.اگر رسول اللہ نہیں کہہ سکتے تو ابوالقاسم ہی کہو جو آپ ﷺ کی کنیت سے.یہودی نے کہا میں تو وہی نام لوں گا جو آپ ﷺ کے والدین نے آپ ﷺ کا رکھا.رسول اللہ فدائی ابی وامی و روحی مسکرائے اور صحابہ سے کہا.ٹھیک کہتا ہے.میرا نام میرے والدین نے محمد ہی رکھا ہے اسے لینے دو غصہ نہ کرو.آپ ﷺ جب تشریف لے جاتے تو لوگ آپ ﷺ کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے اور اپنی ضرورتیں بیان کرنی شروع کر دیتے جب تک وہ اپنی بات ختم نہ کر لیتے آپ ﷺ کھڑے رہتے اور حاجت مندوں کی ضرورتوں کو پورا فرماتے.مگر ضرورتیں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ عزت نفس کا سبق بھی دیتے.اور سوال سے بچنے کی تلقین فرماتے.

Page 257

239 ایک غریب عورت مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی.رسول کریم ﷺ نے چند روز اسے نہ دیکھا.آپ نے اس کے متعلق دریافت فرمایا کہ چند روز سے فلاں عورت نظر نہیں آ رہی.لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ تو فوت ہوگئی ہے.آپ ﷺ نے فرمایا تم لوگوں نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی.میں بھی اس کے جنازہ میں شامل ہوتا.مجھے بتاؤ اس کی قبر کہاں ہے.پھر آپ ﷺ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور دعا فرمائی.حسن سلوک ہمسائیوں کے ساتھ آپ ﷺ کا حسن سلوک نہایت ہی اچھا تھا.آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ جبرئیل مجھے بار بار ہمسایوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے.یہاں تک کہ مجھے خیال آتا ہے کہ ہمسایہ کو شائد وارث ہی قرار دے دیا جائے گا.( بخاری ومسلم) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے جو کوئی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے مہمان کو دکھ نہ دے.اسی طرح آپ سے ایک اور روایت ہے کہ رسول کریم علی نے فرمایا خدا کی قسم وہ ہر گز مومن نہیں خدا کی قسم وہ ہر گز مومن نہیں صحابہ نے کہا یا رسول اللہ کون مومن نہیں آپ ﷺ نے فرمایا وہ جس کا ہمسایہ اس کے ضرر اور اس کی بدسلوکی سے محفوظ نہیں ( بخاری کتاب الادب) ایک دفعہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ سے شکایت کی کہ یا رسول اللہ میرے رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں ان سے نیک سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے تلخی سے پیش آتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو پھر تو تمہاری خوش قسمتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی مدد تمہیں ہمیشہ حاصل رہے گی.آپ ﷺ ہمیشہ اس بات کی نصیحت فرماتے کہ حسن سلوک میں مذہب کی کوئی قید نہیں.غریب رشتہ دار خواہ کسی مذہب کے ہوں ان سے حسن سلوک کرنا نیکی ہے.حضرت ابوبکر کی ایک بیوی مشرکہ تھی.حضرت ابو بکر کی بیٹی اسماء نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کیا میں اس سے حسن سلوک کر سکتی ہوں آپ منسلک کرسکتی ہوں؟ نے فرمایا ضرور وہ تیری ماں ہے اس سے حسن سلوک کر.مجسم رحمت وجود عزیزوں رشتہ داروں غریبوں ، مظلوموں اور مسکینوں کے طبقہ سے حسن سلوک اور ہمدردی کا کسی قدر نقشہ کھینچنے کے بعد ایک اور مخلوق سے آپ ﷺ کی ہمدردی کا ذکر کرتی ہوں.انتہائی مصیبت زدہ.

Page 258

240 بے دست و پا جو عرب میں انتہائی حقیر اور ذلیل سمجھی جاتی تھی.غلامی کا طوق جن کی گردنوں میں تھا.رسول کریم ﷺ نے اس طبقہ پر انتہائی شفقت فرمائی اور ان سے حسن سلوک کی بار بار تا کید فرمائی.آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے غلام تمہارے بھائی ہیں تمہیں چاہئے جو خود کھاؤ وہ انہیں بھی کھلاؤ.غلاموں سے وہ کام نہ لو.جو ان پر گراں گزرے.کوئی سخت کام انہیں دو تو خود بھی ان کی مدد کرو.رسول کریم غلاموں کو معمولی تکلیف میں دیکھ کر بے قرار ہو جاتے تھے کوئی بیمار پڑتا تو اس کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے.اسے تسکین دیتے اس کی پیشانی پر اپنا دست مبارک رکھتے.غرض آپ عالمہ تھے.اپنے عزیزوں کے لئے ، آپ یہ مجسم شفقت تھے بیواؤں اور یتیموں کے لئے آپ عالم شفقت تھے غلاموں کے لئے آپ تو مجسم شفقت تھے دوستوں کے لئے آپ ﷺ مجسم شفقت تھے دشمنوں کے لئے آپ ﷺ مجسم شفقت تھے.اپنوں کے لئے آپ ﷺ مجسم شفقت تھے.غیروں کے لئے آپ یہ جسم شفقت تھے.تمام بنی نوع انسان کے لئے بھی اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے متعلق ارشاد فرمایا وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (انبياء: 108 ) کہ اے رسول ہم نے تجھ کو ساری دنیا کے لئے مجسم رحمت بنا کر بھیجا ہے.آپ ﷺ نے جو ارشادات فرمائے جو نصائح کیں اپنے عمل سے اسے چار چاند لگا دیئے اور ثابت کر کے دکھا دیا کہ واقعی آپ ﷺ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ رب العالمین کی خاطر تھا ہاں وہ رب العالمین جس نے اپنی صفت ربوبیت کے ثبوت میں محمد رسول اللہ ﷺ کو ساری دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا.آپ ﷺ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے کامل مظہر تھے اور اسی کیفیت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان اشعار میں بیان فرماتے ہیں.شان احمد را که داند جز خداوند کریم آنچنان از خود جدا شد کز میاں افتاد میم زاں نمط شد محو دلبر کز کمال اتحاد پیکر اوشد سراسر صورت رب رحیم ہوئے محبوب حقیقی میدید زآں روئے پاک ذات حقانی صفاتش مظہر ذات قدیم (توضیح مرام م:23) ترجمہ:.(۱) احمد ﷺ کی شان کو خدا وند تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا.

Page 259

241 آپ اپنی خودی سے اس طرح جدا ہو گئے کہ میم درمیان سے گر گیا.(۲) آپ ﷺ اپنے محبوب میں اس طرح محو ہو گئے کہ کمال اتحاد کی وجہ سے آپ ﷺ کا وجود بالکل رب رحیم کی صورت میں بن گیا.(۳) محبوب حقیقی کی خوشبو آپ ﷺ کے پاک چہرہ سے آرہی ہے اور آپ ﷺ کی خدائی صفات والی ذات خدائے قدیم کی مظہر ہے.خدائے رب العالمین کے رنگ میں رنگین ہو کر ساری دنیا کے لئے رحمت کا بادل بن کر ایسی ربوبیت فرمائی کے عرب کے وہ بادیہ نشین جو نہ تہذیب کے واقف تھے نہ ان کا کوئی تمدن تھا.بتوں کو پوجتے تھے.عورت کا احترام تک کرنا نہ جانتے تھے.اخلاق سے دور کا واسطہ بھی نہ تھا ان کو نہ صرف با اخلاق بلکہ باخدا انسان بنا دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں صَادَفْتَهُمْ قَوْمًا كَرَوْثٍ ذِلَّةٌ فَجَعَلْتَهُمْ كَسَبِيكَةِ العِقْيانِ آنحضرت ﷺ کے ہزاروں لاکھوں معجزے ہیں لیکن آپ ﷺ کا یہ معجزہ بڑا ہی زبر دست ہے کہ آپ ﷺ نے جو دعویٰ کیا تھا وہ ثابت کر دکھایا جیسے ایک دعوی کرے کہ میں حاذق طبیب ہوں اور پھر اس دعویٰ کو مریضوں کی صحت اور تندرست ہونے سے ثابت کر دکھائے.آنحضرت ﷺ نے جو کچھ اپنے دعوی کے موافق کر دکھایا اس کی تو کوئی نظیر ہی نہیں ملتی.عرب جیسی جاہل اور خونی قوم جو کبھی کسی کی بات کو مان ہی نہیں سکتی تھی.کیا کوئی اس قوم کی نسبت خیال کر سکتا تھا کہ یہ قوم با ہم متحد ہوگی اور خدا تعالیٰ اسے ایسا قومی تعلق پیدا کریں گے کہ باوجود یکہ یہ فرعون سیرت ہیں لیکن اس کی اطاعت میں ایسے محو اور فنا ہوں گے کہ جان عزیز کو بھی اس کی راہ میں دے دیں گے.غور کرو کیا یہ آسان امر تھا آنحضرت ﷺ کی یہ عظیم الشان کامیابی ہے ایک ایسی قوم میں ایسی محبت الہی کا پیدا کر دینا کہ وہ مرنے کو تیار ہو جائیں خود آپ کی اعلیٰ درجہ کی قوت قدسی کو ظاہر کرتا ہے.الحکم 17 اگست 1905ء - ملفوظات جلد چہارم صفحہ 334 حاشیہ ﴾ حجتہ الوداع کے موقعہ پر آخری خطبہ اللہ تعالیٰ کے سواد نیا کا ہر شخص اور ہر چیز فانی ہے.محمد رسول اللہ ﷺ کا مقام لَوْلَاكَ لَمَا

Page 260

242 خَلَقْتُ الافلاک سے ظاہر ہوتا ہے خدا تعالیٰ کے بے انتہا پیارے تھے مگر آخر انسان تھے آپ پر بھی وقت آیا جو ہر ذی روح پر آتا ہے.اللہ تعالیٰ نے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی (المائده (4) نازل فرما کر بتا دیا کہ چونکہ اب دین مکمل ہو گیا ہے اس لئے اس دنیا سے اب جانے کا وقت آ گیا ہے.آپ ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر اپنا آخری خطبہ جو دیا اس میں عورتوں سے حسن سلوک کی طرف قوم کو خاص توجہ دلائی.ہر انسان کی عزت جان اور اس کے مال کو مقدس قرار دیا اور کسی کی عزت جان اور مال پر حملہ کرنے سے منع فرمایا.آپ ﷺ کے اس خطبہ کے الفاظ پڑھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو بنی نوع انسان کی بہتری کس قدر مد نظر تھی.آپ ﷺ مرض الموت میں گرفتار تھے.موت کی تکلیف آپ ﷺ پر طاری تھی.آپ ﷺ گھبراہٹ سے بیٹھے بیٹھے کبھی اس پہلو پر جھکتے کبھی اس پہلو پر اور فرماتے خدا بُرا کرے یہود اور نصاریٰ کا کہ انہوں نے اپنے نبیوں کے مرنے کے بعد ان کی قبروں کو مسجدیں بنالیا.یہ آپ ﷺ کی آخری نصیحت تھی اپنی امت کے لئے کہ گوانبیاء میں میرا سب سے بڑا درجہ ہے لیکن بہر حال بندہ ہوں.میرے بندہ ہونے کو نہ بھول جانا خدا تعالیٰ کا مقام خدا کو ہی دینا.گویا موت کے وقت بھی خیال غالب تھا کہ اللہ تعالیٰ کی توحید قائم رہے اور اس کا جلال ظاہر ہو.سیرت نبوی سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے آنحضرت ﷺ کی زندگی اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام کی زندگی ہمیں کیا سبق دیتی ہے وہ کیا چیز تھی جس نے ان بادیہ نشینوں کو خاک مذلت سے اٹھایا اور دنیا کی سب سے بڑی طاقتوں کو ان کے سامنے جھکا دیا.ان کی طاقت ہتھیار ، دولت اور کثرت افواج ان کا مقابلہ نہ کر سکیں.وہ صرف ایک ہی چیز تھی یعنی قربانی.جب انسان ایک عزم صمیم کر لیتا ہے کہ جو کچھ میرا ہے وہ میرا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے جو میں سب اس کے راستہ میں قربان کر دوں گا.تو پھر خدا تعالیٰ بھی اسے نوازتا ہے اور دائمی زندگی عطا فرماتا ہے.اسی طرح لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (ال عمران: 93) میں اشارہ ہے کہ خدا کی خاطر اپنی ہر محبوب چیز کی قربانی دی جائے.اسلام کی ترقی کا راز بھی اسی قربانی کی روح میں ہے عرب کی سرزمین کا انقلاب اسی قربانی کی روح کا رہین منت تھا اور اب بھی اسلام کی فتح کا دن اسی قربانی کے نتیجہ میں آسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے وہ

Page 261

243 کیا ہے ہمارا اس کی راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی.مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی متجلی موقوف ہے.اسی طرح فرماتے ہیں:.اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فنا ترک رضائے خویش پئے مرضی خدا اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے آقا محمد رسول اللہ ﷺ کی کامل اطاعت کی توفیق عطا فرمائے.کہ آپ کی کامل اطاعت کے ساتھ ہی قرب الہی میسر آ سکتا ہے.تا کہ ہم جب اس دنیا سے جائیں تو سرخروئی کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی روح سے کہہ سکیں.تیرے منہ ہی کی قسم اے میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب باراٹھایا ہم نے يَا رَبِّ صَلِّ عَلَى نَبِيِّكَ دَائِمًا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا وَبَعْثٍ ثَانِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ الفضل 25 مارچ 1962

Page 262

244 خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ مرکز یہ 1962ء تشہد و تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا: آج کا دن بچیوں کے لئے اس لئے مبارک ہے کہ انہیں سال کے بعد پھر ایک دفعہ اپنے مرکز میں اکٹھا ہونے کا موقع ملا ہے اس اجتماع میں حصہ لینے کے ذوق و شوق سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچیوں میں دینی شعور روز افزوں اور ترقی پذیر ہے.یہ خوشنما جھنڈے یہ خوش الحان ترانے یہ تیاریاں ظاہر کرتی ہیں کہ اگر اس پودے کو سینچا جائے تو یہ با برگ و بار حل بن سکتا ہے.لیکن ناصرات الاحمدیہ میں شامل ہونے والی بچیوں کے لئے ناصرات کے لفظ کا مفہوم سمجھنا بھی ضروری ہے.ناصرات الاحمدیہ کا مطلب یہ ہے کہ احمدیت کی مدد کر نیوالی بچیاں احمدیت کی مدد اسی طرح ہو سکتی ہے کہ تم احمدیت کے لئے چٹان ثابت ہو جاؤ.تمہارے اندر احمدیت کے لئے ہر قسم کی قربانی کا جذبہ ہو آپ نے ناصرات الاحمدیہ کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا یہ زمانہ تربیت کا زمانہ ہے.اس کے بعد کام کا زمانہ آئے گا.آج اگر تیاری کرو گی تو کل احمدیت کے لئے ستون بن سکو گی.احمدیت کے قیام کی اغراض و مقاصد یہی ہیں کہ ہم اسلام کا صحیح مفہوم سمجھیں.آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ سے واقفیت ان کی کامل اطاعت و فرمانبرداری اور ان کے اقوال و اعمال کی مکمل پیروی ہی سے.ہم صراط مستقیم حاصل کر سکتی ہیں.اسلام سے واقفیت تم میں وہ جذبہ وہ امنگ وہ تڑپ پیدا کر دے گی کہ تم ساری کائنات پر دین کا پیغام لے کر چھا جاؤ.نگرانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے حلقہ جات کی ناصرات کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ وہ ایک نمایاں کردار کی مالک ہو جائیں.آپ نے بچیوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں اس عمر میں اچھی عادات اپنانے کی تلقین کی اور انہیں موجودہ زمانے میں مغربیت کی تقلید میں فیشن پرستی کے نقصانات سے آگاہ کیا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيْمَانِ “ (بخاری کتاب الایمان) اس ارشاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ناصرات کی ہر ممبر کا فرض ہے کہ وہ نیکی.حیاء اور وقار کو اپنا شعار بنائے.دین کے لئے غیرت.سچائی.امانت داری.ایک احمدی بچی کی نمایاں خصوصیات ہونی چاہئیں.مصباح نومبر 1962 م

Page 263

245 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 1962ء بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور احسان ہے کہ اس نے ایک بار پھر آپ کو اور ہمیں تو فیق دی کہ ہم اکٹھے ہو کر یہ تین دن خالص روحانی ماحول اور ذکر اٹھی میں گزاریں اور اپنا وقت ایسے کاموں اور مشوروں میں صرف کریں جس کے نتیجہ میں ہمارا اگلا قدم ترقی کی طرف اُٹھے.ہماری تنظیم زیادہ مضبوط ہو.ہمارے ذریعہ سے احمدیت جو حقیقی اسلام ہے اس کی جڑیں زیادہ مضبوط ہوں اور اس کی شاخیں دنیا کے ہر کونے میں اس طرح پھیل جائیں کہ ساری دنیا اس کے سائے تلے آجائے.دنیا میں ایک خدا کی حکومت ہو.ایک ہی کلمہ ہو اور سارے بنی نوع انسان محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی کو فخر کا موجب سمجھیں.اسی غرض سے اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تا آپ دنیا کو جو اللہ تعالیٰ سے دور جا پڑی تھی پھر خدا تعالیٰ کا چہرہ دکھائیں اور ہم متحد ہو کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوں.اسی لئے آپ فرماتے ہیں.میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں.اول خدا کی توحید اختیار کرو.دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو.وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لئے کرامت ہو.یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوئی تھی.كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلْفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمُ (ال عمران: 104) جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.“ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 336 ان الفاظ میں آپ نے واضح طور پر اپنی بعثت کی غرض جماعت کو بتائی ہے اور جو ان پر عمل نہیں کرتا وہ حقیقت میں آپ کی جماعت میں سے نہیں ہے اور وہ غرض یہی ہے کہ توحید کامل پر یقین ہو اور اپنے قول و فعل سے ساری دنیا کو ایک خدا کی پرستش کی دعوت دیں.ہمارا مطلوب و مقصود صرف اللہ تعالیٰ ہو.خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہماری جدو جہد اور ہمارے سارے کام ہوں.انسان کسی مرشد کامل کے بغیر خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو کامل نمونہ بنا کر بھیجا.تا کہ ہم آپ ﷺ کی اتباع کریں.دنیا کے سامنے اپنی تئیں کامل نمونہ بن کر پیش کریں.لیکن افسوس کہ گودنیا

Page 264

246 کی ساری خوبیاں اسلام نے پیش کیں اور دنیا کے سامنے قرآن کی شکل میں ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کیا.لیکن آج مسلمان نام کے مسلمان ہیں وہ مغربیت کی پیروی کرنے میں زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں وہ یورپ اور امریکہ کی تہذیب سے انتہائی متاثر نظر آتے ہیں.ہاں اس تہذیب سے جس سے خود یورپ اور امریکہ والے بیزار نظر آرہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان الجھنوں کا کوئی حل تلاش کریں.اخلاقیات کا جوسبق قرآن کریم سکھاتا ہے ایسا مکمل اور جامع سبق نہ کوئی اور مذہب پیش کرتا ہے اور نہ ہی دنیا کی کوئی قوم.لیکن افسوس یہ ہے کہ مسلمان ان پر عمل نہیں کر رہے.اگر قرآن کریم کی تعلیم پر ہم پورے طور پر عمل کریں تو مسلمان دنیا کی کسی قوم سے شکست نہیں کھا سکتے.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہم نے زندہ خدا کا چہرہ دیکھا.اپنی آنکھوں سے صدہا نشانات کو پورا ہوتے دیکھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کے وعدوں کو پورا ہوتے دیکھا.اس لئے احمدی جماعت کے مردوں اور عورتوں کو جو خدائے واحد پر ایمان ہو سکتا ہے اور ہے وہ اور کسی کو نہیں ہوسکتا.لیکن ہم میں عملی کمزوریاں ابھی بہت باقی ہیں جن کو دور کرنا ہمارا فرض ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو اپنی جماعت کی اصلاح کی فکر اور تڑپ تھی وہ ان الفاظ سے کسی قدرظاہر ہوتی ہے:.دو ہر ایک آدمی کچی تبدیلی کا محتاج ہے جس میں تبدیلی نہیں ہے وہ مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى کا مصداق ہے.مجھے بہت سوز و گداز رہتا ہے کہ جماعت میں ایک پاک تبدیلی ہو جو نقشہ اپنی جماعت کی تبدیلی کا میرے دل میں ہے وہ ابھی پیدا نہیں ہوا.اور اس حالت کو دیکھ کر میری وہی حالت ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَنْ لَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ.(الشعراء: ۴) پھر آپ فرماتے ہیں:.میں نہیں چاہتا کہ چند الفاظ طوطے کی طرح بیعت کے وقت رٹ لئے جاویں اس سے کچھ فائدہ نہیں.تزکیہ نفس کا علم حاصل کرو کہ ضرورت اسی کی ہے...تم اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرو اور بالکل ایک نئے انسان بن جاؤ.“ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 351 352 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو جو نصائح فرمائی ہیں ان میں بار بار اسی پر زور دیا ہے کہ میری بعثت کی غرض یہی ہے کہ میں تمہارے اندر خدا تعالیٰ پر ایسا کامل ایمان پیدا کروں جس کے نتیجہ میں ایک پاک تبدیلی تم میں پیدا ہو اور بدیوں سے محفوظ رہو.ایک نئی زندگی تمہیں حاصل ہو.آپ فرماتے ہیں:.

Page 265

247 میں خدا تعالیٰ پر ایسا ایمان پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ جو خدا تعالیٰ پر ایمان لائے وہ گناہ کی زہر سے بیچ جائے اور اس کی فطرت اور سرشت میں ایک تبدیلی پیدا ہو جائے اس پر موت وارد ہو کر ایک نئی زندگی اس کو ملے.گناہ سے لذت پانے کی بجائے اس کے دل میں نفرت پیدا ہو.“ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم نے اس جماعت میں داخل ہو کر واقعی اپنے گنا ہوں سے سچی توبہ کر کے پاک تبدیلی پیدا کی ہے یا نہیں.اور نہیں کی تو ہم کس طرح وہ تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کا نتیجہ ہونی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جو لوگ آپ پر ایمان لائے انہوں نے اپنی آنکھوں سے آپ کا چہرہ مبارک دیکھا.آپ کی باتیں سنیں.تازہ بتازہ نشانات دیکھے.اور ان کا ایمان ترقی کرتا گیا.ان کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی چلی گئیں.وہ وقت گذر گیا.نبی تو صرف تختم ریزی کرنے آتا ہے.آپ اپنے کام کر کے خالق حقیقی کے پاس چلے گئے.دُنیا نے سمجھا اب یہ جماعت ختم ہو جائے گی.ابتلاء آئے.ٹھوکریں لگیں لیکن قدرت ثانیہ کے ذریعہ سے دنیا نے مشاہدہ کر لیا کہ خدا کی مدد اس جماعت کے ساتھ ہے.بکھرتا ہوا شیرازہ پھر متحد ہو گیا اور جماعت اپنے خلیفہ کی قیادت میں ترقی کرتی چلی گئی.حضرت خلیفہ اول کی وفات پر جماعت کو پھر دھکا لگا اور قریب تھا کہ جماعت کا شیرازہ بکھر جائے.لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ خدا کی نصرت جسے حاصل ہو وہ تباہ نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے آپ خلیفہ دیا.جس نے اپنے قول اور فعل سے جماعت میں ایک ایسی روح پھونکی کہ جماعت ترقی کرتی چلی گئی.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ نہیں پایا آپ میں سے اکثر نے حضرت خلیفہ اول کا زمانہ بھی نہیں پایا بلکہ آپ میں سے بہت نے حضرت خلیفہ ثانی کا ابتدائی زمانہ بھی نہیں دیکھا جب جماعت ترقی کرتی ہے تو ہر قسم کے لوگ سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ بہت سی روحانی کمزوریاں بھی لاتے ہیں جو ان کے ہم جلیسوں پر اثر انداز ہوتی ہیں.اسی کی طرف قرآن مجید کی یہ آیت اشارہ کرتی ہے.إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا.فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا.(سوره النصر : 4،3،2) اور اب جب کہ آپ کے پیارے امام اور خلیفہ بیمار بھی ہیں اور آپ ان کے روح پرور خطبات سننے سے بھی محروم ہیں آپ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے.

Page 266

248 لیکن ہمارا ایمان زندہ خدا پر ہے جس کے وعدے آج بھی ہم پورے ہوتے دیکھتے ہیں.ہمیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے عبد بنیں اور دنیا کے لئے کامل نمونہ نہیں تا ساری دنیا کو نظر آجائے کہ عبودیت کا نظارہ اس جماعت سے بڑھ کر اور کہیں نظر نہیں آسکتا وہ پھر خدا تعالیٰ کی محبت میں سرشار ہو کر خدا تعالیٰ کی خاطر خدا تعالیٰ کی مخلوق سے محبت کریں ان کی بہبودی اور اصلاح کی فکر کریں.نبی کریم ﷺ کی ساری زندگی کا خلاص انَّ صَلوتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام: 163) کے اندر آجاتا ہے اور یہی مقصد اور نصب العین ہم سب کا ہونا چاہئے.ہماری عبادت اور ہمارا جینا مرنا خدا تعالیٰ کی خاطر ہو.ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی پوری طرح ادا کریں اور خدا تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی پوری طرح ادا کریں اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن کو اس طرح پڑھیں کہ ہمیں اس کے مطالب پوری طرح سمجھ آتے ہوں.احادیث پڑھیں.نبی کریم ﷺ کی سوانح حیات کا ہمیں پوری طرح علم ہونا چاہئے تا آپ کے ہر قول و فعل کی پیروی کر سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لٹریچر کو کثرت سے پڑھیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس رنگ میں آنحضرت ﷺ کی سیرت کو پیش کیا ہے اس کو پڑھنے کے بعد نا ممکن ہے کہ آنحضرت ﷺ سے عشق و محبت پیدا نہ ہو.ہمیں چاہئے کہ اُٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے دنیا کے کام کرتے ہر وقت اس بات کو مد نظر رکھیں کہ ہمارا کوئی عمل ہماری کوئی حرکت قرآن مجید کی تعلیم کے خلاف نہ ہو.آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کے خلاف نہ ہو.اللہ تعالیٰ کی صفات کا ظہور اس دنیا میں آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے ہوا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنا بڑا درجہ عطا فرمایا کہ ساری دنیا کے لئے حکم فرما دیا کہ قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران: 32) اے لوگو! اگر تم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو ثبوت کے طور پر محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرو.آپ ﷺ کے اخلاق اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو.جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرے گا.گویا محبت الہی کی شرط قیامت تک کے لئے اطاعت رسول رکھ دی گئی.نبی کریم ہے کے حلقہ اطاعت سے باہر رہ کر اب کوئی خدا تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں کر سکتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے:.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب: 22) کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے طور طریق سیکھو.

Page 267

249 آپ ﷺ کے اخلاق سیکھو.ایک کامل نمونہ تمہارے سامنے ہے.قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کے حکم پر عمل کیا اور اپنے آپ کو محمد رسول اللہ ﷺ کا نمونہ بنانے کی کوشش کی جو ملک فتح کیا وہاں دنیا کو درس اخلاق دیا.ایک نئی تہذیب اور تمدن کی بنا ڈالی.آج یورپین اقوام اخلاق اخلاق کا شور مچاتی ہیں اور ظاہر یہ کرتی ہیں کہ گویا اخلاق کی تعلیم دنیا ان سے حاصل کر رہی ہے انہوں نے یہ اخلاق کہاں سے سیکھے رسول کریم ﷺ کی بعثت کے وقت دو قو میں کچھ تعلیم یافتہ تھیں ایک روم اور دوسرے کسریٰ کی حکومت.لیکن وہ بھی عیش وعشرت میں پڑ کر سب اخلاق و تہذیب بھول چکی تھیں.مسلمانوں نے فتوحات پر فتوحات کیں.یونان، روم، سپین، افریقہ ان سب جگہوں میں حکومتیں کیں.اپنے اخلاق سے دنیا کو زیرنگیں کیا.جس ملک کو فتح کر کے وہاں سے جاتے تھے وہاں کے لوگ ان کے لئے آنسو بہاتے تھے.موجودہ مغربی اقوام نے مسلمانوں سے درس اخلاق لیا.لیکن افسوس کہ چودہ سوسال کے بعد مسلمان وہ اخلاق بھول گئے جن کا سبق محمد رسول اللہ ﷺ نے دیا اور دوسری اقوم نے ان اخلاق کو اپنا لیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کی شان میں فرماتے ہیں:.آں معلم توئی کہ نشاں ور دوراں چوں تو نے دہند شرح خلقش کجا تو انم حسن آں عاجز از کرد بیانم کرد ( در مکنون ص: 114) ترجمہ: آپ نے زمانہ میں ایسے عظیم الشان اُستاد ہیں کہ آپ ﷺ کی شان کے کسی اور استاد کا نشان نہیں ملتا.میں آپ ﷺ کے اخلاق کی شرح کیسے کر سکتا ہوں میں تو آپ ﷺ کے حسن کو بیان کرنے سے عاجز ہوں.چودہ سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر مسلمانوں کی دستگیری کی اور مخلوق پر رحم فرمایا اور اپنا مامور ہماری اصلاح کے لئے مبعوث فرمایا.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں لِكُلّ دَاءِ دَوَاء جس طرح ظاہری امراض کا علاج ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ بھی قرآن مجید میں فرماتا ہے.إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمُ (الرعد: 12)

Page 268

250 یعنی اللہ تعالیٰ بھی کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اس بُرائی کو دور کرنے کی کوشش نہ کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: 70) کوشش کرنے والا آخری منزل مقصود کو پالیتا ہے.پس ہمیں بھی چاہئے کہ اپنی دینی روحانی اور اخلاقی کمزوریوں کو دور کرتے ہوئے اتنی ترقی کریں کہ ساری دنیا کے لئے شمع ہدایت بن سکیں.اپنی اصلاح کریں اور اپنی اولادوں کی تریبت کریں انہیں علم دین سکھائیں.سچے مسلمان بنا ئیں اسلام کے شیدائی بنائیں.دین کے لئے زندگیاں وقف کرنے والے بنا ئیں.احمدیت کی فتح کا دن جلد سے جلد قریب آئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے یقینی ہیں یہ ہمارا کام ہے کہ ہم جلد سے جلد اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والے بنیں.سچائی بہر حال پھیلنی ہے اور پھیل کر رہے گی.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اگر یہ سوال ہو کہ تم نے آکر کیا بنایا ہم کچھ نہیں کہہ سکتے دنیا کوخود معلوم ہو جاوے گا کہ کیا بنایا.ہاں اتنا ہم ضرور کہتے ہیں کہ لوگ آکر ہمارے پاس گنا ہوں سے تو بہ کرتے ہیں.ان میں انکسار فروتنی پیدا ہوتی ہے اور رذائل دور ہو کر اخلاق فاضلہ آنے لگتے ہیں.اور سبزہ کی طرح آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں اور اپنے اخلاق اور عادات میں ترقی کرنے لگتے ہیں.انسان ایک دم میں ہی ترقی نہیں کر لیتا.بلکہ دنیا میں قانوں قدرت یہی ہے کہ ہر شے تدریجی طور پر ترقی کرتی ہے.اس سلسلہ سے باہر کوئی شے ہو ہی نہیں سکتی.ہاں ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ آخر سچائی پھیلے گی اور پاک تبدیلی ہوگی.یہ میرا کام نہیں ہے بلکہ خدا کا کام ہے.اس نے ارادہ کیا ہے کہ پاکیزگی پھیلے.دنیا کی حالت مسخ ہو چکی ہے اور اسے ایک کیر الگا ہوا ہے.پوست ہی پوست باقی ہے مغز نہیں رہا.مگر خدا نے چاہا ہے کہ انسان پاک ہو جاوے اور اس پر کوئی داغ نہ رہے.اسی واسطے اس نے محض اپنے فضل سے یہ سلسلہ قائم کیا ہے.“ ملفوظات جلد اول صفحہ 494 6495 دنیا کے لئے نمونہ بننے کے لئے ہمیں دو باتوں کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے (۱) اپنی گفتار اپنے لباس کا خیال رکھنا.ہماری بات چیت سے دوسرے متاثر ہوں نہ کہ ہم دوسروں کی باتوں سے متاثر ہوں.اپنا نقطہ نظر دوسروں کے سامنے واضح طور پر با دلائل پیش کرنا جس کے لئے گہرے دینی علم کی ضرورت ہے.اپنی وضع سے دوسروں کو متاثر کرنا خود متاثر نہ ہونا.اور اس سلسلہ میں اپنے لباس کی طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے.

Page 269

251 اسلام یہ نہیں سکھا تا کہ فلاں لباس پہنو بلکہ عریاں لباس پہننے سے منع فرماتا ہے.آنحضرت ﷺ نے تو حیا کو ایمان کا ایک حصہ قرار دیا ہے.آج کل فیشن میں بہہ جانے والی لڑکیاں اور عورتیں بھی کافی حد تک اس سے متاثر نظر آتی ہیں.اس قسم کا لباس پہنا جو جسم کی نمائش کرتا ہو آنحضرت ﷺ کے فرمان کے مطابق ایمان کے ایک حصہ کی محرومی ہے.آپ نے آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث ضرور پڑھی ہوگی جو آپ ﷺ نے آخری زمانہ کے متعلق بطور پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں ایسی عورتیں ہوں گی جنہوں نے بظاہر لباس پہنا ہو گا لیکن دراصل وہ جنگی ہوں گی.(ایسی عورتوں پر آپ ﷺ نے لعنت فرمائی).پس اپنی چال ڈھال لباس سب کو ایسا بنانا چاہئے جو شریعت اسلام کے خلاف نہ ہو.منہ سے دعوئی ہم کریں دنیا کو اسلام کی طرف لانے کا اور عمل ہمارا ہو مغربیت کی پیروی کا.متضاد باتوں سے ہم دنیا کو فتح نہیں کر سکتے.اور اس کے ساتھ ساتھ تزکیۂ نفس بھی بہت ضروری ہے.عبادتوں پر زور دو نوافل پر زور دو.ذکر اٹھی کرو.اپنے بچوں کی اعلیٰ تربیت کرو.مقناطیس بنے بغیر لوہا کھینچا نہیں جاسکتا.اپنے اندر ایسا جذب پیدا کریں کہ غیر خود آپ کے نمونہ سے متاثر ہو کر کھینچے چلے آئیں.پھر آپس میں محبت ہو.ایک دوسرے کی دلداری ہو.حسن سلوک ہو.غریب پروری ہو.عفو ہو.تمام بنی نوع انسان کے لئے شفقت ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو شرائط بیعت میں بھی ایک شرط رکھی ہے کہ تمام خلق سے ہمدردی رکھے گا.خدا کی خاطر خدا کے بندوں سے محبت کرو.کسی سے کینہ نہ رکھو.کسی سے بغض نہ رکھو اور پھر ان سب کے ساتھ ساتھ نظام کی کامل اطاعت ہو.نظام کا ہر عہدہ دار خلیفہ وقت کی طرف سے مقرر کردہ ہوتا ہے اس کی نافرمانی کرنے سے خلیفہ وقت کی نافرمانی ہوتی ہے.اسلام کی ترقی کا راز ہی اطاعت میں ہے.نماز بھی ہمیں یہی سبق سکھاتی ہے.اسلام کی ساری تعلیم گھومتی ہے.اس محور پر کہ اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِى الأمْرِ مِنكُمُ (النساء : 60) خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو تم پر حاکم مقرر ہو اس کی اطاعت کرو.نظام سے وابستگی رکھو خلافت سے وابستگی رکھو اور اپنی اولادوں کے دلوں میں خلافت سے محبت اور عقیدت پیدا رکھو یہ ایک بہت بڑا انعام ہے جو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو عطا فرمایا ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ یہ انعام جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مشروط انعام ہے.جب تک کوئی قوم اپنے تیں خلافت کے انعام کا حقدار رکھتی ہے وہ انعام اس میں قائم رہتا ہے پس ہمیں چاہئے کہ ہم جہاں

Page 270

252 اپنے آپ کو اس انعام کے مستحق اور لائق ثابت کر کے دکھا ئیں وہاں اپنے خلیفہ کے لئے بے انتہا دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے خلیفہ کو صحت والی زندگی عطا فرماتا اس کی قیادت میں اسلام کا غلبہ ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام پیشگوئیاں اپنی پوری شان اور شوکت کے ساتھ پوری ہوں.خدا تعالیٰ کی محبت اور رضا ہم کو حاصل ہو.“ تاریخ لجنہ جلد سوم.صفحہ 153

Page 271

253 رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِين :.نوٹ :.یہ تقریر حضرت چھوٹی آپا صاحبہ نے لجنہ اماءاللہ کراچی کے جلسہ سیرۃ النبی ﷺ میں فرمائی تھی.یہ جلسہ 19 نومبر 1962ء کو احمد یہ ہال کراچی میں منعقد ہوا.جس میں احمدی بہنوں کے علاوہ کثیر تعداد میں غیر احمدی مستورات نے بھی شرکت کی.تشہد وتعوذ کے بعد آپ نے فرمایا: اِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ و سَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب : 57) ہزاروں درود اور سلام اس وجود پر جو ساری دنیا کے لئے رحمت کا بادل بن کر آیا.جس نے دنیا سے تاریکی کو مٹا دیا اور جہالت کو دور کر دیا.وحشیوں کو با اخلاق انسان بنا دیا.اور با اخلاق انسان کو باخدا انسان بنا دیا.صد ہا سال کے بہروں کو کان بخشے اور اندھوں کو بینائی بخشی.ہاں وہ آفتاب صداقت جس کے قدموں پر ہزاروں شرک دہریت اور فسق و فجور کے ہاتھوں مرے ہوئے جی اٹھے.آپﷺ کا بابرکت وجود دنیا کے ہر شخص کے لئے مجسم رحمت تھا.کیا امیر کیا غریب کیا مرد کیا عورت کیا بچہ کیا بڑا.کیا آقا کیا غلام اور کیا انسان اور جانور غرض تمام موجودات کے لئے آپ کی اور رحمت و شفقت تھے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ ذیل اشعار میں آپ کی بنی نوع انسان سے اسی شفقت کو بیان فرماتے ہیں: ا.آں مبارک پے، کہ آمد ذات با آیات او رحمتے ، زاں ذات عالم پرور و پروردگار (ترجمہ) وہ مبارک قدم جس کی ذات والا صفات رحمت بن کر رب العالمین کی طرف سے نازل ہوئی.

Page 272

254 ۲.هست درگاه بزرگش ، کشتی عالم پناه کس نه گردد روز محشر جز پناهش رستگار (ترجمہ) اس کی عالی بارگاہ سارے جہاں کو پناہ دینے والی کشتی ہے قیامت کے دن کوئی بھی اس کی پناہ کے سوانجات نہیں پائے گا.جان خود دادن بے خلق خدا در فطرتش جاں نثار خستہ جاناں بیدلاں را غمگسار (ترجمہ) مخلوق خدا کی خاطر اپنی جان دینا اس کی فطرت میں داخل ہے.وہ شکستہ دلوں پر جاں شمار کرنے والا اور بے دلوں کا غمگسار ہے.کشتہ قوم و فدائے خلق و قربان جہاں نے بجسم خویش میلش نے بنفس خویش کار (ترجمہ) وہ کشتہ قوم مخلوق الہی پر خدا اور اہل جہاں پر قربان تھا.اسے اپنی جان سے کوئی کام تھا اور نہ اسے اپنے جسم کی طرف کوئی توجہ تھی.نعرہ ہا پر درد مے زد از پنے خلق خدا شد تضرع کا را و پیش خدا لیل و نہار (ترجمہ) وہ مخلوق خدا کی خاطر پر درد آہیں بھرتا تھا اور خدا کے سامنے رات دن تضرع کرنا اس کا.کام تھا.منت او بر ہمہ سرخ و سیا ہے ثابت است آنکہ بہر نوع انسان کرد، جان خود شار (ترجمہ) ہر سرخ و سیاہ پر اس کا احسان ثابت ہے.وہ جس نے بنی نوع انسان کی خاطر اپنی جان قربان کر دی.در مکنون صفحه 125 126 اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: مامور من اللہ جب آتا ہے تو اس کی فطرت میں سچی ہمدردی رکھی جاتی ہے اور یہ ہمدردی عوام سے بھی ہوتی ہے اور جماعت سے بھی اس ہمدردی میں ہمارے نبی کریم ﷺ سب سے بڑھے ہوئے تھے.اس

Page 273

255 لئے آپ ﷺ کی دنیا کی طرف مامور ہو کر آئے تھے اور آپ سے پہلے جس قدر نبی آئے وہ مختص القوم اور مختص الملک کے طور پر تھے.مگر آنحضرت ﷺ کل دنیا اور ہمیشہ کے لئے نبی تھے.اس لئے آپ کے کی ہمدردی بھی کامل ہمدردی تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَنْ لَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء : 4) الحکم 31 مارچ 1903ء بنی نوع انسان سے آپ کی شفقت اور ہمدردی کی مثال دنیا کی کوئی تاریخ نہیں پیش کر سکتی.خود اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے متعلق گواہی دی کہ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمُ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رحِيمٌ (التوبه : 129) اس آیت میں عزیز اور حریص کے الفاظ سے آپ کے مظہر.صفت رحمان ہونے کی طرف اشارہ ہے.کیونکہ آپ ﷺ رحمۃ اللعالمین ہیں.بنی نوع انسان اور تمام حیوانات تک کے لئے آپ ﷺ کا وجود سراپا رحمت ہے بنی نوع انسان کی کسی تکلیف کا دیکھا محمد رسول اللہ ﷺ پر سخت گراں گزرتا تھا.بیٹے شان کشید رنج و محن از بار اوشان گرفت بر گردن یعنی آپ نے ان لوگوں کی خاطر مصائب جھیلے اور ان کا بوجھ اپنی گردن پر اٹھالیا.حق تعالیٰ چوداد رسالت او دید آئین شوو او مہرو بردل مشركان سینہ زد لا اله الا الله در مکنون صفحه 114 یعنی خدا تعالیٰ نے جب آپ ﷺ کی رسالت میں محبت و شفقت کا آئین دیکھا تو مشرکوں کے سیاہ دلوں پر اس نے لَا إِلهَ إِلَّا الله کا نقش ثبت کر دیا.تمیس (23) سال کی تکالیف برداشت کرنے کے بعد آپ ﷺ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوتے ہیں.بڑے بڑے رؤسائے قریش جنہوں نے آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں پر ظلم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی اور ہر طرح آپ ﷺ کوذلیل کرنے کی کوشش کی گئی تھی.آپ ﷺ کا بائیکاٹ

Page 274

256 کیا گیا تھا.آپ ﷺ کو زہر دینے کی کوشش کی گئی.آپ ﷺ پر حملے کئے گئے.آپ ﷺ کے راستوں میں کانٹے بچھائے گئے.آپ ﷺ کے جسم پر پھر پھینک پھینک کر آپ ﷺ کا خون بہایا گیا.آپ ﷺ کی فاتحانہ شان کو دیکھ کر جبکہ دس ہزار قدوسیوں کا لشکر آپ ﷺ کے ساتھ تھا وہی روسائے قریش دم بخود تھے اور گھبرا رہے تھے کہ دیکھیں آج کیا سلوک ہم سے ہوتا ہے.آپ ﷺ ران سے پوچھتے ہیں بتاؤ اب تم سے کیا سلوک کیا جائے.وہ کہتے ہیں آپ شریف ہیں.آپ ﷺ کریم ہیں ہم وہی سلوک چاہتے ہیں جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا.آپ ﷺ فرماتے ہیں.لَا تَشْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (یوسف: 93) جاؤ تم آزاد ہو.کوئی سزا نہیں ملے گی.کیا اس سے بڑھ کر رحم و کرم کی کوئی اور مثال دنیا پیش کر سکتی ہے؟ وو حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ ﷺ کی اس شان عفو اور رحم و کرم کا ذکر فرماتے ہیں.حضرت خاتم الانبیاء ﷺ نے مکہ والوں اور دوسرے لوگوں پر جنگلی فتح پا کر اور ان کو اپنی تلوار کے نیچے دیکھ کر پھر اُن کا گناہ بخش دیا اور صرف انہی چند لوگوں کو سزا دی جن کو سزا دینے کے لئے حضرت احدیت کی طرف سے قطعی حکم وارد ہو چکا تھا.اور بجز ان از لی ملعونوں کے ہر یک دشمن کا گناہ بخش دیا اور فتح پا کر سب کو لا تقرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْم کہا اور اسے عفو تقصیر کی وجہ سے کہ جو مخالفوں کی نظر میں ایک امر محال معلوم ہوتا تھا اور اپنی شرارتوں پر نظر کرنے سے وہ اپنے تئیں اپنے مخالف کے ہاتھ میں دیکھ کر مقتول خیال کرتے تھے.ہزاروں انسانوں نے ایک ساعت میں دین اسلام قبول کر لیا اور حقانی صبر آنحضرت ﷺ کا جو ایک زمانہ دراز تک آنجناب نے ان کی سخت سخت ایذاؤں پر کیا تھا.آفتاب کی طرح ان کے سامنے روشن ہو گیا اور چونکہ فطرتا یہ بات انسان کی عادت میں داخل ہے کہ اسی شخص کے صبر کی عظمت اور بزرگی انسان پر کامل طور پر روشن ہوتی ہے کہ جو بعد زمانہ آزارکشی کے اپنے آزار دہندہ پر قدرت انتقام پا کر اس کے گناہ بخش دے.اس وجہ سے مسیح کے اخلاق کہ جو صبر اور حلم اور برداشت کے متعلق تھے وہ بخوبی ثابت نہ ہوئے اور یہ امرا چھی طرح نہ کھلا کہ مسیح کا صبر اور حلم اختیاری تھا یا اضطراری کیونکہ مسیح نے اقتدار اور طاقت کا زمانہ نہیں پایا.تا دیکھا جاتا کہ اس نے اپنے موذیوں کے گناہ کو عفو کیا یا انتقام لیا بر خلاف اخلاق آنحضرت ے کہ وہ صدہا مواقع میں اچھی طرح گھل گئے.براہین احمدیہ صفحہ 287 تا288 حاشیہ نمبر 11

Page 275

257 جنگ اُحد میں آنحضرت ﷺ کا سامنے کا دانت شہید ہو گیا آپ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے.آپ کے ہوش میں آنے پر صحابہ نے عرض کی "یا رسول اللہ آپ ﷺ بددعا کیوں نہیں کرتے.نے فرمایا میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں.اور دعا فرمائی اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (درمنثور جلد 2 صفحه (298) کہ اے میرے پروردگار تو میری قوم کو ہدایت بخش دے یہ جو کچھ کر رہے ہیں جہالت اور نا مجھی کی وجہ سے کر رہے ہیں.جب آپ ﷺ تبلیغ حق کی خاطر طائف تشریف لے گئے وہاں کے لوگوں نے آپ ﷺ پر پتھر پھینکے اور کئی میل تک پھینکتے چلے گئے.آپ ﷺ فرماتے تھے کہ مجھے کچھ ہوش نہیں تھا کہ کدھر جارہا ہوں.سر سے پیر تک لہولہان تھے.اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اگر چاہو تو ابھی عذاب نازل کر دیا جائے.آپ نے کہا نہیں مجھے امید ہے کہ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہوں گے.“ حضرت خدیجہ جو آپ ﷺ کی محرم راز تھیں.ان کی گواہی آپ ﷺ کی بنی نوع انسان سے ہمدردی کا بین ثبوت ہے.جب پہلی بار آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی تو عظیم الشان ذمہ داری کے احساس سے آپ ﷺ کے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی گھر آئے.حضرت خدیجہ کو واقعہ سنایا.سنتے ہی حضرت خدیجہ بے اختیار کہ انھیں كَلَّا وَاللَّهِ لَا يُخْزِيْكَ اللهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِى الضَّيْفَ وَتُعِيْنُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ“ (بخاری کتاب بدء الوحى) یعنی خدا کی قسم خدائے تعالیٰ آپ ﷺ کو بھی رسوا نہیں کرے گا.آپ ﷺ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتے ہیں.غرباء اور مساکین کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور وہ عمدہ کام کرتے ہیں جن پر عمل کرنا اس زمانہ میں لوگ بھول چکے ہیں.آپ ﷺ ان کو سر انجام دیتے ہیں مہمانوں کا خیال رکھتے ہیں لوگوں کی مصیبتوں میں ان کے مددگار ہیں.بخاری کتاب بدء الوحی حضرت خدیجہ کے یہ الفاظ تاریخ اسلام میں سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہیں آپ نے ایک فقرہ میں بتا دیا کہ آنحضرت یہ بنی نوع انسان کے لئے ایک نہایت ہی شفیق اور محبت کرنے والا وجود تھے.ان کے دل میں تمام مخلوق خدا کا درد تھا.وہ خود تمام نیکیوں پر حامل تھے اور اپنے، غیر، امیر، غریب سب کے معین و مددگار تھے.اور یہی تعلیم آپ ﷺ نے ساری دنیا کو دی.آپ ﷺ چونکہ رحمتہ للعالمین

Page 276

258 تھے اس لئے تعلیم بھی رحمت، امن اور سلامتی کی تعلیم ہے چنانچہ اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ انسان پر دو طرح کے حقوق واجب ہیں ایک خدا تعالیٰ کے اور ایک خدا کے بندوں کے انسان صحیح معنوں میں انسان اسی وقت کہلا سکتا ہے جب کہ وہ خدائے تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ خدا کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرے رحمتہ للعالمین نے نے دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنے کی بہت تاکید فرمائی.آپ نے فرمایا: الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ - بخاری کتاب الایمان حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اگر کوئی شخص کسی کو اپنے ہاتھ سے دکھ پہنچاتا ہے یا اس کے متعلق ایسی باتیں کرتا ہے جو اس کی دل آزاری کا باعث ہوتی ہیں وہ حقیقی مسلمان نہیں.اگر تمام مسلمان آپ ﷺ کی اس نصیحت پر عمل کرنے لگ جائیں تو ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن جائے.قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے اسی پر عمل کر کے دنیا کو دکھا دیا تھا.لیکن افسوس کہ آج کل کے بہت سے لوگ باوجود اسلام جیسی نعمت میسر آنے کے اس پر عمل نہیں کرتے.عورتوں میں تو خاص طور پر چغل خوری کی عادت کثرت سے پائی جاتی ہے اور اپنی زبان کے ذریعہ وہ دوسروں کی تکلیف کا باعث بنتی ہیں ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے غیبت کرنے کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا قرار دیا ہے کسی نے آپ ﷺ سے سوال کیا کہ جو بُرائی کسی میں پائی جاتی ہو.اگر وہ بیان کی جائے تو کیا یہ بھی منع ہے آپ ﷺ نے فرمایا یہی تو غیبت ہے ورنہ اگر وہ بات نہ پائی جائے اور کوئی محض الزام لگائے تو اس کو بہتان کہیں گے.(مسلم کتاب البر وصلہ ) اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی تعلیم دی کہ افراد قوم کے عیوب پر بر وقت نکتہ چینی کرنی ٹھیک نہیں.اسی طرح بُرائی اور بدی کرنے پر جو ایک فطرتی جھجک ہوتی ہے وہ جاتی رہتی ہے.اصلاح کا طریق ناصحانہ ہونا چاہئے محبت اور شفقت کے ساتھ سمجھانا چاہئے.آپ ﷺ فرماتے تھے مَنْ قَالَ هَلَكَ النَّاسَ فَهُوَ أَهْلَكَهُمُ (مسلم کتاب البر وصلة) جوشخص يه کہتا پھرتا ہے کہ قوم تباہ ہوگئی.فلاں ایسا فلاں ایسا اس میں یہ بُرائی اس میں یہ نقص.اگر اس کی اشاعت بُرائی سے قوم میں بدی پھیل گئی تو اس کا عذاب اس پر بھی نازل ہوگا.کیونکہ اس نے بُرائی کی اشاعت کی.اسی طرح حجتہ الوداع کے موقع پر جو آپ ﷺ نے آخری خطبہ دیا اس میں مسلمانوں کو وصیت فرمائی کہ تمہاری جانوں تمہارے مالوں اور تمہاری عزتوں کو خدائے تعالیٰ نے ایک دوسرے کے حملہ سے قیامت تک کے لئے محفوظ قرار دیا ہے.آپ ﷺ نے فرمایا جس طرح یہ مہینہ مقدس ہے یہ دن مقدس ہے اسی

Page 277

259 طرح اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی جان اور مال اور عزت کو مقدس قرار دیا ہے اور کسی جان اور کسی کے مال اور کسی کی عزت پر حملہ کرنا نا جائز ہے.یہ مختصر سا خطبہ بتاتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو بنی نوع انسان کی بہبودی کا کتنا خیال تھا.آپ ﷺ تمام بنی نوع انسان کے لئے کس طرح رحمت تھے.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ غلاموں کے لئے رحمت :.اس زمانے میں غلاموں پر بے حد ظلم کئے جاتے تھے.جب آپ ﷺ کی شادی حضرت خدیجہ سے ہوئی تو آپ ﷺ نے ان کے سب غلاموں کو آزاد کر دیا.انہیں میں سے ایک غلام زید بھی تھے جنہوں نے آپ ﷺ سے الگ ہونا پسند نہ کیا.آپ ﷺ نے ان کی اپنی اولاد کی طرح پرورش کی.سوسائٹی میں ان کو اتنی عزت دی کہ اپنی پھوپھی زاد بہن کی شادی ان سے کر دی اور دنیا کو اپنے عمل سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تعلیم دی کہ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمُ (الحجرات : 14) غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی آپ ﷺ ہمیشہ نصیحت فرماتے تھے آپ ﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص کسی غلام کو آزاد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس غلام کے ہر عضو کے بدلے میں اس کے ہر عضو پر دوزخ کی آگ حرام کر دے گا.اسی طرح آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ غلام سے اتنا ہی کام لو جتنا وہ کر سکتا ہے اور جب کوئی کام لو تو اس کے ساتھ مل کر کام میں اس کا ہاتھ بٹاؤ.آپ ﷺ کی ان نصائح کا یہ نتیجہ ہوا کہ عملاً مسلمانوں میں غلامی ختم ہو گئی اور خدا اور اس کے رسول کی خاطر لوگوں نے غلاموں کو آزاد کر دیا.ان کی آسائش کا خیال رکھنے لگے اور آزاد کر کے اپنے بھائیوں کا سا ان سے سلوک کرنے لگ گئے.غلاموں کا اس درجہ خیال ہمارے آقا سرور دو جہاں ﷺ کو تھا کہ حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ آخری الفاظ جو آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے وفات کے وقت سنے جاسکے وہ یہ تھے الصلوة وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم سنن ابن ماجه کتاب ماجاء في الجنائز) اے مسلمانو! نماز اور غلاموں کے متعلق میری تعلیم نہ بھولنا اللہ اللہ کتنا درد تھا غلاموں کا آپ آپ ﷺ کا وجود غلاموں کے لئے سراپا رحمت و شفقت تھا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدِ حضرت بلال بھی ایک حبشی غلام تھے اسلام لانے کی وجہ سے انہوں نے بے انتہا سختیاں اٹھائیں اور مصیبتیں برداشت کیں.جب مکہ فتح ہوا تو آنحضرت ﷺ نے ابورویکہ جو حضرت بلال کے منہ بولے بھائی تھے کے ہاتھ میں ایک جھنڈا دے دیا اور اعلان کروایا کہ یہ بلال کا جھنڈا ہے جو اس کے نیچے

Page 278

260 آ جائے گا اسے امن دیا جائے گا.کتنی عزت بلال کو دی.ایک وہ وقت تھا کہ بلال کے سینے کو جوتیوں سے روندا جاتا تھا.کہ تم ایک خدا کی عبادت سے باز آ جاؤ.ہر ظلم روا رکھا جاتا تھا.پھر وہ وقت آیا کہ اسلام کی فتح ہوئی محمد ﷺ نے لا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (سورة يوسف: 93) کہہ کر سب کو معاف کر دیا.بلال کا دل اس وقت کہتا ہوگا مجھ پر ظلم توڑے گئے.آج میرے ظلموں کا بدلہ لیا جائے گا.محمد ﷺ نے جن کا وجود دوستوں اور دشمنوں سب کے لئے سراپا رحمت تھا.آپ ﷺ نے جہاں بڑے سے بڑے دشمن کو معاف فرما دیا.وہاں بلال کے جھنڈے تلے دشمنوں ہاں انہی دشمنوں کے جو ایک وقت میں بلال کی جان کے لاگو تھے سر جھکا دیئے اور عفو کے ساتھ ایسا شاندار انتقام لیا.جس کی مثال دنیا کی تاریخ نہیں پیش کر سکتی.غرباء کے لئے رحمت آپ ﷺ نے غرباء کی عزت و احترام سوسائٹی میں قائم کیا.آپ ﷺے ان کی ضرورتوں اور حاجات کو پورا فرماتے تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بادشاہت عطا فرمائی.دولت آپ ﷺ کے قدموں پر شار ہوئی.لیکن آپ ﷺے سب کچھ غرباء میں تقسیم فرما دیتے تھے.ساتھ ہی عزت نفس کا سبق بھی ان کو دیتے تھے اور سوال کرنے سے منع فرماتے تھے.امت محمدیہ کو یہ تعلیم دی کہ تم خود غرباء کا خیال رکھو اور ان کو بتا دیا کہ وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذریت: 20) کہ غرباء کا ان کے مالوں میں حق ہے ان لوگوں کا بھی حق ہے جو اپنی حاجات کا اظہار کر دیں اور محروم یعنی مسکین کا بھی اور مسکین کی تعریف آپ ﷺ نے یہ بیان فرمائی کہ مسکین وہ ہے کہ خواہ کتنی بھی تکلیف اٹھائے سوال نہ کرے.سائل کے متعلق بھی آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرُ (الضحى: 11) کبھی سوال کرنے والے کو جھڑکنا نہیں ایک تو وہ مجبور ہو کر اپنی عزت نفس کو زخمی کر کے سوال کر رہا ہوتا ہے.اگر تم جھڑ کو گے تو اس کے جذبات اور مجروح ہو جائیں گے.آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ہر وہ دعوت جس میں غرباء کو نہ بلایا جائے وہ بدترین دعوت ہے.ایک دفعہ بعض غرباء آپ ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ امراء ہر لحاظ سے اپنے اعمال میں ہم پر سبقت لے جاتے ہیں ان کے پاس مال ہے جو وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ہم قربانیوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں.رحمتہ للعالمین کا دامن ہر طبقہ کے لئے وسیع تھا.آپ ﷺ نے فرمایا تم ہر نماز کے بعد تینتیس

Page 279

261 (۳۳) دفعہ سبحان اللہ.تینتیس (۳۳) دفعہ الحمد للہ اور چونتیس (۳۴) دفعہ اللہ اکبر پڑھا کرو اس ذریعہ سے تم کسی سے کم نہ رہو گے.بخاری کتاب الاذان غرباء کے مالوں کی حفاظت کا آپ ﷺ کو اس قدر خیال تھا کہ حدیث میں آتا ہے ایک دفعہ آپ کے پاس کچھ اموال آئے تقسیم کرتے ہوئے ایک دینار آپ ﷺ کے ہاتھ سے گر گیا آپ ے بھول گئے.اور کام ختم کر کے آپ ﷺ نماز کے لئے تشریف لے گئے.نماز ختم کر کے آپ مے تیزی سے گھر کی طرف روانہ ہوئے.حالانکہ آپ کا دستور تھا کہ آپ نماز کے بعد مسجد میں دیر تک ذکر الہی میں مصروف رہتے تھے.آپ ﷺ گھر کے اندر تشریف لے گئے دینار تلاش کیا پھر واپس باہر تشریف لا کر وہ دینار کسی مستحق کو دیا اور فرمایا یہ دینار مجھ سے گر گیا تھا اور میرے ذہن سے اتر گیا تھا.نماز پڑھاتے ہوئے مجھے یاد آیا اور میں بے چین ہو گیا کہ اگر میری موت آگئی اور لوگوں کا یہ مال میرے گھر میں پڑا رہا تو میں خدا کو کیا جواب دوں گا.اس لئے نماز پڑھاتے ہی میں فوراً اندر گیا اور یہ دینار لا کر حقدار کو دے دیا.غریبوں سے بے انتہا شفقت اور رحمت رکھنے والے اس سراپا رحمت نے اپنی اولاد کے لئے صدقہ حرام فرما دیا تا کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ آپ ﷺ کی محبت کی وجہ سے اموال آپ ﷺ کی اولاد میں تقسیم کر دیا کریں اور نین اور حقدار محروم رہ جائیں ایک دفعہ آپ ﷺ کے نواسے جبکہ ان کی عمر دواڑھائی سال کی تھی آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ صدقہ کی کھجوریں آئیں.آپ بچہ تھے.آپ نے ایک کھجور منہ میں ڈال لی.آنحضرت ﷺ نے فورا آپ کے منہ میں انگلی ڈال کر وہ کھجور نکال دی اور فرمایا یہ ہمارا حق نہیں ہے یہ خدا کے غریب بندوں کا حق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کی بعثت کی غرض آنحضرت ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کو پھر سے دنیا میں رائج کرنا تھا فر ماتے تھے:.نیکی ایک زینہ ہے اسلام اور خدا کی طرف چڑھنے کا.لیکن یا درکھو کہ نیکی کیا چیز ہے شیطان ہر ایک راہ میں لوگوں کی راہ زنی کرتا ہے اور ان کو راہ حق سے بہکاتا ہے مثلاً رات کو روٹی زیادہ پک گئی اور صبح باسی بچی رہی.عین کھانے کے وقت کہ اس کے سامنے اچھے اچھے کھانے رکھے ہیں ابھی ایک لقمہ نہیں لیا کہ دروازہ پر آ کر فقیر نے صدا کی اور روٹی مانگی کہا کہ باسی روٹی سائل کو دے دو.کیا یہ نیکی ہوگی؟ باسی روٹی تو پڑی ہی رہنی تھی تم پسندا سے کیوں کھانے لگے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَّاسِيرًا (الدهر : 9)

Page 280

262 یہ بھی معلوم رہے کہ طعام کہتے ہی پسندیدہ طعام کو ہیں.سڑا ہوا باسی طعام نہیں کہلاتا.الغرض اس رکابی میں سے جس میں ابھی تازہ کھانا لذیذ اور پسندیدہ رکھا ہوا ہے.کھانا شروع نہیں کیا.فقیر کی صدا پر نکال دے تو یہ تو نیکی ہے.ملفوظات جلد 1 صفحہ 47 نیا ایڈیشن کے تقیموں کے لئے رحمت :.یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کی بے انتہاء تاکید فرمائی.یتیموں کے متعلق دنیا کو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی اطلاع دى فَلَمَّا الْيَتِيمَ فَلا تَقْهَرُ (سورة الضحى (10) یتیموں کی پرورش اس طرح کرو کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم لوگوں کے صدقوں پر پل رہے ہیں.جس سے ان کی ہمتیں مر جائیں.بلکہ ان کو اپنے عزیزوں کی طرح پالو جس سے ان کی ہمتیں بلند ہوں.اسی طرح آپ ﷺ فرماتے ہیں قَالَ رَسُولُ اللهِ كَافِلُ الْيَتِهُم لَهُ أَوْلِغَيْرِهِ أَنَّا وَهُوَ كَهَا تَيْنِ في الجنة (مسلم كتاب الزهد والرقاق) میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں ساتھ ساتھ ہوں گے.آپ نے دنیا کو تعلیم دی کہ حفاظت یتامیٰ کی خاطر اللہ تعالیٰ نے تعدد ازدواج کی بھی اجازت دی ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِنْ خِفْتُمُ اَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمُ مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَعَ.فَإِنْ خِفْتُمُ الَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً (النساء: 4) چونکہ اسلام میں جنگیں ہوتی تھیں.جنگوں کے نتیجہ میں کثرت سے جنگ میں مرد مارے جاتے ہیں اور بچے یتیم رہ جاتے ہیں یتامیٰ کی جس قوم میں کثرت ہو لازمی بات ہے کہ اس قوم میں بیوگان بھی زیادہ ہوں گی.یتامیٰ کی حفاظت کے لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرو اور اس طرح اللہ کے اس حکم پر عمل کرو وَانْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمُ بیوگان کی شادیاں ضرور کرواؤ بیوگان کی شادی پر صرف اسلام ہی ایک مذہب ہے جس نے زور دیا ہے.اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف تو ہمارا معاشرہ پاک اور صاف رہے دوسرے یتامیٰ کی نگہبانی ہو سکے اور وہ با قاعدہ کفالت میں پروان چڑھ سکیں.یتامی کی خبر گیری کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے اَراَیتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُ الْيَتِيمَ وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينَ.فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ (الماعون : 2 تا 5 ) کہ اگر کوئی شخص قیموں کی خبر گیری نہیں کرتا.مسکینوں کا خیال نہیں رکھتا.ایسا شخص اگر نمازیں بھی پڑھتا ہے تو اس کی

Page 281

263 نماز روزہ اور دوسری عبادات کا کوئی فائدہ نہیں.ان آیات کی تغییر فرماتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں:.یتیم کی طرف توجہ نہ کرنا قوم کو تنزل کی طرف لے جاتا ہے قوم افراد کے ایثار اور قربانی سے بنتی ہے اور افراد کے پیچھے رہ جانے والی چیز اولاد ہوتی ہے.انسان قوم کی خاطر مرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.مگر جب وہ دیکھتا ہے کہ میری اولاد پیچھے رہ جائے گی ان کی پرورش کوئی نہیں کرے گا اور وہ یونہی ضائع ہو جائے گی تو وہ قربانی کرنے سے رک جاتا ہے اگر صرف اس کی جان کا سوال ہوتا تو وہ پر واہ بھی نہیں کرتا مگر چونکہ اولاد کا سوال اس کے سامنے آجاتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ ان کی پرورش کون کرے گا تو وہ قربانی سے رک جاتا ہے.پس اگر یتیم کی طرف خاص توجہ کی جائے تو اس سے قوم کے اندر ایثار کا مادہ بڑھ جاتا ہے حقیقت یہ ہے کہ کسی قوم کی قربانی کا معیار اس کے یتامی کی خبر گیری کے مطابق ہوتا ہے.جتنا یتامی کا خیال کسی قوم میں ہوگا اتنا ہی زیادہ ایثار کا مادہ اس کے افراد میں پایا جائے گا.رسول کریم ﷺ کے زمانے میں یتامیٰ کی خبر گیری کی طرف خاص توجہ دی جاتی تھی.مشرکین مکہ مارے جاتے تھے تو ان کے یتیم بچوں کی کوئی دیکھ بھال نہ کرتا تھا مگر مدینہ کے لوگ اپنے یتامیٰ کو سر پر اٹھا لیتے تھے یہی وجہ تھی کہ مدینہ کے لوگ ایثار و قربانی سے ڈرتے نہیں تھے.انہیں یہ فکر نہیں تھا کہ اگر ہم مارے گئے تو ہمارے بچوں کی نگہداشت کون کرے گا.“ ( تفسیر کبیر جلد دہم ص: 220,219) تاریخ اسلام میں ایک شخص کا واقعہ آتا ہے کہ اس سے کوئی شخص قتل ہو گیا اور اس کی سزا میں اس کے متعلق پھانسی کا فیصلہ کیا گیا.اس پر وہ شخص کہنے لگا کہ میرے گھر میں یتیموں کا کچھ مال میرے پاس امانت ہے ان کو دے دوں اور پھر حاضر ہو جاؤں.قاضی نے ضمانت چاہی اس شخص نے سارے مجمع پر نظر ڈالی اور اس کی نگاہ حضرت ابو ذرغفاری پر آ کر ٹھہر گئی اور اس نے کہا یہ میری ضمانت دیں گے.آپ نے منظور کر لیا.وہ شخص چلا گیا اس کا وعدہ سورج ڈھلنے تک آنے کا تھا لوگ انتظار کرتے رہے وقت ہو گیا مگر وہ شخص نہ پہنچا.مسلمانوں میں بڑی گھبراہٹ پیدا ہو گئی کہ ایک شخص کے عوض حضرت ابوذرغفاری پر مصیبت آئے گی.کہ اتنے میں افق پر سے گردو غبار اڑتا ہوا نظر آیا.تھوڑی دیر کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ وہی شخص نہایت تیز رفتاری سے گھوڑا دوڑاتا آ رہا ہے.اتنی برق رفتاری سے وہ آ رہا تھا کہ جب وہ پہنچا تو اس کے

Page 282

264 گھوڑے نے گر کر جان دے دی.اس شخص نے کہا کہ جن کا مال دینا تھا ان کو تلاش کرتے اور مال سپرد کرتے دیر ہوگئی اس لئے باوجود اتنا تیز آنے کے مجھے کچھ دیر ہوگئی.بہر حال میں حاضر ہوں.اس کے وعدہ کی سچائی کا مقتول کے لواحقین پر اتنا عمدہ اثر ہوا کہ انہوں نے کہا ہم خون بہا لیتے ہیں ایسے نیک آدمی کی جان نہیں لیں گے یہ کس کی قوت قدسیہ کا اثر تھا.کہ عرب کے وحشی اور آزا دلوگوں کو ایسا ایماندار بنا دیا اور وہ یتامی کا ایسا خیال رکھنے لگ گئے کہ قتل کا حکم ہو چکا ہے.موت سامنے کھڑی ہے مگر مرنے والے کو اگر خیال ہے تو یہ کہ میرے گھر میں جو یتامیٰ کا مال پڑا ہے وہ ان کو مل جائے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ - حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ ﷺ کی شان میں کیا خوب فرمایا ہے.آں ترجمھا کہ خلق ازوے بدید کس نہ دیده در جہاں از مادری ناتواناں را جاناں ❝ برحمت دستگیر را بشفقت غم خورے (دیباچہ براہین احمدیہ حصہ اوّل ص : 18 ) (ترجمہ) جو رحمت اور مہربانی مخلوقات نے اس سردار یعنی آنحضرت ﷺ سے دیکھی وہ کسی نے اس جہاں میں اپنی ماں سے بھی نہیں دیکھی.وہ نا توانوں کا رحمت کے ساتھ ہاتھ پکڑنے والا اور خستہ دلوں کی شفقت سے غمخواری کرنے والا ہے.در مکنون صفحہ 6 ہمسایوں کے لئے رحمت:.ہمسایوں سے حسن سلوک کی آپ ﷺ بہت نصیحت فرمایا کرتے تھے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ”جبرئیل بار بار مجھے ہمسایوں سے نیک سلوک کرنے کی تاکید کرتا ہے یہاں تک کہ مجھے خیال آتا ہے کہ ہمسایہ کو شاید وارث ہی قرار دے دیا جائے گا.بخاری و مسلم کی سورہ نساء میں اللہ تبارک تعالیٰ فرماتا ہے وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمُ ﴿سورة النساء: 37

Page 283

265 تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو نیز رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اسی طرح رشتہ دار ہمسایوں اور بے تعلق ہمسایوں اور پہلوؤں میں بیٹھنے والے لوگوں.مسافروں اور جن کے تم مالک ہوان کے ساتھ نیک سلوک کرو.“ گویا اللہ تعالیٰ نے جتنی تاکید والدین اور دوسرے رشتہ داروں سے حسن سلوک کی فرمائی ہے اتنی ہی تاکید ہمسایوں سے حسن سلوک کی بھی فرمائی ہے.اسی طرح ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ خدا کی قسم وہ گھر ہرگز مومن نہیں.خدا کی قسم وہ گھر ہرگز مومن نہیں.خدا کی قسم وہ گھر ہرگز مومن نہیں.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کون مومن نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ جس کا ہمسایہ اس کے ضرر اور بدسلوکی سے محفوظ نہیں.(مسند احمد بن حنبل ) عورتوں میں وعظ فرماتے ہوئے آپ نے انہیں نصیحت فرمائی کہ اگر بکری کا ایک پایہ بھی کسی کو ملے تو اس میں وہ اپنے ہمسایہ کا حق رکھے.“ اسی طرح ایک اور حدیث حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے ہمسایہ کو دکھ نہ دے.(مسلم کتاب الایمان) معاشرہ افراد سے بنتا ہے اور افراد میں ضرور کوئی نہ کوئی دوسرے کا ہمسایہ ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ کا وجود جوسب انسانوں کے لئے رحمت تھا.کتنی اعلی تعلیم معاشرہ کو بہتر بنانے کے لئے دیتا ہے.اگر آپ ﷺ کی تعلیم پر تمام مسلمان عمل کرنے لگ جائیں تو معاشرہ جنت بن جائے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ رشتہ داروں کے لئے رحمت :.عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں اور ان کی شادیاں ہو جاتی ہیں تو وہ اپنے بیوی بچوں کا تو خیال رکھتے ہیں مگر بوڑھے ماں باپ یا دوسرے قریبی رشتہ داروں کا خیال نہیں رکھتے.قرآن مجید نے جگہ جگہ انتہائی زور ایتاءِ ذِی الْقُرُبی اور والدین سے حسن سلوک پر دیا ہے.جیسا کہ اللہ تبارک تعالیٰ فرماتا ہے.لَيْسَ الْبِرِّ اَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرِّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ

Page 284

266 وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَئِكَةِ وَالْكِتَبِ وَالنَّبِيِّنَ وَإِلَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِى الرّقابِ ﴿سورة البقره آیت 178 ترجمہ:.تمہارے مشرق و مغرب کی طرف منہ پھیرنے میں کوئی بڑی نیکی نہیں.کامل نیک وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ روز آخرت ، ملائکہ کتاب اور سب نبیوں پر ایمان لاتا ہے اور اللہ کی محبت کی وجہ سے رشتہ داروں یتیموں، مسکینوں مسافر اور سوالیوں نیز غلاموں کی آزادی کے لئے اپنا مال دیتا ہے.گویا صرف منہ سے توحید کا اقرار کر لینا کوئی چیز نہیں جب تک خدا تعالیٰ کی محبت میں خدا تعالیٰ کے بندوں سے رحمت اور شفقت کا سلوک نہ کرے.اسی طرح سورۃ پھل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ - (النحل : 91) اللہ تعالیٰ عدل احسان اور ایتاء ذی القربی کا حکم دیتا ہے اور ہر ایک قسم کی بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے روکتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا تم سمجھ جاؤ.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّہ رشتہ دار سے حسن سلوک کرو.احسان کے طور پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حق تمہارے مالوں میں رکھا ہوا ہے.حق ادا کرو.والدین کے ساتھ شفقت اور رحمت کے سلوک کی تو بہت ہی تاکید فرمائی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے ہمسایوں سے حسن سلوک کے ضمن میں بیان کر چکی ہوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (النساء: 37) گویا اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی واحدانیت کے اقرار کے ساتھ جس چیز کا حکم فرمایا ہے وہ والدین کی خدمت اور والدین سے نیک سلوک کرنا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِي إِسْرَاءِ يُلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَّذِى الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ - سوره البقرة آيت 84 پھر فرماتا ہے:

Page 285

267 وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا.إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُقٍ وَّلَا تَنْهَرُهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا 0 واخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا - سورۃ بنی اسرآئیل: 24 ،25 ترجمہ: تیرے رب نے اس بات کی تاکید فرمائی ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو نیز ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور اگر ان میں سے کسی ایک یا ان دونوں پر تیری زندگی میں بڑھاپا آ جائے تو ان کی کسی بات پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے اف تک نہ کر اور نہ انہیں جھڑک اور ہمیشہ ان سے نرمی سے بات کر اور رحم کے جذبات کے ماتحت ان کے سامنے عاجزانہ رویہ اختیار کر اور ان کے لئے دعا کیا کراے میرے رب ان پر مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی.مقداد بن معدی کرب سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اے لوگو اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ماؤں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تاکید کرتا ہے اور اس کے بعد وہ تمہیں اپنے باپوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور پھر درجہ بدرجہ ہر رشتہ دار سے حسن سلوک کی وصیت فرماتا ہے.اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ میرے نیک سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا " تیری والدہ “ اس نے دریافت کیا پھر اس کے بعد کون زیادہ مستحق ہے؟ آپ ﷺ نے پھر فرمایا " تیری والدہ “ اس نے تیسری بار آپ ﷺ سے یہی سوال کیا پھر آپ ﷺ نے یہی فرمایا ” تیری والدہ “ پھر اس نے چوتھی مرتبہ یہی سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ' والدہ کے بعد تمہارا والد اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے.مسلم کتاب البر وصلة ) اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ میں آپ سے ہجرت کی بیعت کرتا ہوں میں آپ ﷺ سے جہاد کی بیعت کرتا ہوں.آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے کہا ہاں ! دونوں زندہ ہیں.آپ ﷺ نے اس سے پوچھا کیا تم "

Page 286

268 چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ تم سے راضی ہو جائے اس نے کہا ہاں یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا پھر واپس جاؤ اور اپنے والدین کی خدمت کرو.الله غرض آپ ﷺ کا وجود عزیزوں رشتہ داروں کے لئے رحمت کا باعث تھا.اور آپ ﷺ کی اس تعلیم کی وجہ سے جو آپ ﷺ نے امت محمدیہ کو دی کسی قوم میں اپنے عزیزوں رشتہ داروں اور والدین کا اتنا خیال نہیں رہا جتنا مسلمانوں میں انگریزوں میں اولاد جوان ہو جاتی ہے تو والدین اس کے ذمہ دار نہیں رہتے اور نہ ہی بچے اپنے بوڑھے ماں باپ کا خیال رکھتے ہیں یورپ اور انگلستان میں ایک بوڑھے انسان کو اپنے بڑھاپے کے زمانہ کی فکر رہتی ہے یا تو وہ خود ہی پس انداز کر کے اپنی ضعیفی کا سامان کرتا ہے یا پھر گورنمنٹ اس کا خیال کرتی ہے لیکن آنحضرت ﷺ فداہ روحی نے بوڑھے ماں اور باپ کی خدمت کی بہت ہی تاکید فرمائی ہے.ماں کو اتنا بڑا درجہ دیا ہے کہ فرمایا ”ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے“ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ اولاد کے لئے رحمت:.صرف اولا د کو ہی نبی کریم ﷺ نے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید نہیں فرمائی بلکہ ماں باپ کو بھی اولاد کی عزت ان کی اعلیٰ تربیت اور تعلیم کی تلقین فرمائی ہے.جیسا کہ فرماتے ہیں:.اَكْرِمُو اَوْلَادَكُمْ (ابن ماجه کتاب الادب) اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا:.كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ (بخاری کتاب الجمعه) تم میں سے ہر شخص چرواہے کی حیثیت رکھتا ہے جس سے اس کے ریوڑ کے متعلق قیامت کے دن سوال ہوگا.“ اسی طرح آپ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا: جس کو خدا لڑکیاں دے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو یہ لڑکیاں اس شخص کے لئے دوزخ کی آگ سے پردہ اور رکاوٹ ہو جائیں گی.ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے دولڑکیوں کی پرورش کی وہ اور میں قیامت میں یوں ہوں گے.پھر آپ نے اپنی انگلیاں ملائیں.یعنی ایسا شخص میرے ساتھ جنت میں ہوگا.

Page 287

269 عیسائیت کہتی ہے کہ انسان پیدائشی گنہگار ہے.آنحضرت ﷺ کا کس قدر احسان ہے کہ آپ علی نے فرمایا كُلُّ مُوْلُودِ يُولَدُ عَلَى فِطْرَةِ الْإِسْلَامِ فَاَبَوَاهُ يُهَوّدَانِهِ اَوْ يُنَصِرَانِهِ أَوْ يُمَحِسَانِه.بخاری کتاب الجنائز دی یعنی ہر بچہ معصوم اور دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہ اس کے ماں باپ کی تربیت ہوتی ہے جو اسے عیسائی یا یہودی یا مجوسی بنا دیتی ہے.آپ نے والدین کو اس میں توجہ دلائی ہے کہ بچوں کی اسلامی رنگ میں تربیت کرنا ان کا فرض اولین ہے.آجکل ماں باپ بچوں کو سکولوں میں بھیج کر سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے فرض سے سبکدوش ہو گئے.حالانکہ دنیوی تعلیم دلانے کے ساتھ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن مجید پڑھا ئیں.ترجمہ سکھائیں اور آنحضرت ﷺ کی زندگی کے واقعات ان کو بتا کر آپ کی صحبت کو ان لے دلوں میں پیدا کریں.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدِ طبقہ نسواں کے لئے رحمت:.آنحضرت ﷺ کے طبقہ نسواں پر ان گنت احسانات ہیں یہ مضمون اپنی ذات میں اتنی تفصیل چاہتا ہے کہ تنگ وقت میں بیان کرنا مشکل ہے اس لئے مختصر بیان کرتی ہوں.عورتوں کے لئے آپ ﷺ نے کیا کیا.یہ بتانے سے قبل اس زمانہ میں عرب میں عورتوں کی جو حالت تھی اس کا ذکر ضروری ہے تا کہ واضح طور پر معلوم ہو سکے کہ نبی کریم ﷺ کی تعلیم اور آپ ﷺ کے عمل نے مسلمانوں میں کس قدر عظیم الشان تبدیلی پیدا کر دی.آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے ساری دنیا میں عورتوں کی ذلیل حالت تھی.وہ جو چاہتے ان سے سلوک کرتے.ان کے کوئی حقوق نہ تھے.بھیڑ بکری کی طرح معمولی باتوں پر عورتوں کو ذبح کر دیا جاتا تھا.معصوم اور شیر خوار بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جایا تھا.بیوی ورثہ میں تقسیم کر دی جاتی تھی.لڑکی کی پیدائش پر انتہائی غم کا اظہار ہوتا تھا.جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ان کی حالت بتاتا ہے.وَإِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْأنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًا وَهُوَ كَظِيمٌ يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُوَنِ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ اَلا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (النحل 59 60) کہ جب کسی کو لڑکی کے پیدا ہونے کی اطلاع دی جاتی تھی تو اس کا چہرہ غم سے سیاہ پڑ جاتا تھا اور وہ اسے اپنی ذلت سمجھ کر لوگوں سے چھپتا پھرتا تھا اور سوچتا تھا کہ اب اس ذلت کو برداشت کرلوں یا لڑکی کو مٹی میں دبا دوں.اس زمانہ میں روما اور ایران دو سلطنتیں تہذیب و تمدن اور تعلیم کے لحاظ سے بہت آگے سمجھی

Page 288

270 جاتی تھیں.وہاں بھی عورت کو کوئی آزادی نہیں تھی.شادی کرنے میں عیسائی عورت کو کوئی آزادی نہ تھی.کلیسیا کے ایک اشارے پر قتل کر دی جاتی تھی اور سالوں ان کی لاشیں تہ خانوں میں پڑی سڑتی تھیں.دنیا میں سینکڑوں ریفارمر گزرے لیکن مظلوم طبقہ نسواں کی ذلت دور کرنے کی کسی نے کوشش نہیں کی صرف محمد رسول اللہ ﷺ ہی کی مقدس ہستی تھی جسے اللہ تعالیٰ نے رحمت للعالمین بنا کر بھیجا تھا وہ ہستی جس طرح مردوں کے لئے رحمت ثابت ہوئی.اسی طرح عورتوں کے لئے بھی :.وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جاتا ہے تو بھی انسان کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے ان بھیج ہے ظلموں ނ چھڑوا تا درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار ( در عدن ص: 25) آپ ﷺ نے فرمایا کہ عورت بھی اللہ تعالیٰ کی ویسی ہی مخلوق ہے جیسے مرد.اسی طرح آپ علی نے قومی ذمہ داریوں میں مرد اور عورت کو برابر کا شریک قرار دیا.آپ ﷺ نے فرمایا.ایک ایماندار اور عفیفہ عورت جو احکام شریعت کی پابند ہو.جنت میں جس دروازہ سے چاہے داخل ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يَعْمَلُ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلِئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا (النساء:125) یعنی خواہ مرد ہوں یا عورتیں اگر وہ نیک افعال کرتے ہیں تو وہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذرہ بھر بھی ظلم نہ ہو گا.اس آیت میں مردوں اور عورتوں کو نیک اعمال بجالانے پر یکساں انعام کی بشارت دی ہے.آپﷺ نے بیوی سے حسن سلوک کی تاکید فرمائی اور اس معاملہ میں اپنا عملی نمونہ پیش کیا کہ خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لَاَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لَا هُلِي - ( ابن ماجہ کتاب النکاح باب حسن معاشرہ النساء ) یعنی تم میں اچھا انسان وہ ہے جو اپنے اہل سے اچھا سلوک کرے اور میں اپنے اہل کے حق میں تم سب سے زیادہ اچھا ہوں.عورت کو اس کی جائیداد کا مالک قرار دیا.مردوں کو نصیحت فرمائی کہ اگر تم ان میں سے کسی کو خزانہ بھی

Page 289

271 دے چکے ہو تو اس سے مت لو.عورت کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی کہ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَمُسْلِمَةٍ (سنن ابن ماجہ کتاب المقدمہ) کہ ہر مسلمان مردہ عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایمان میں سب سے کامل وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو بیوی کے حق میں بہتر ہو.غرض عورت ذات پر آپ ﷺ کے احسانات کو کہاں تک بیان کیا جائے.عورت نے رحمت للعالمین کی رحمت میں سے وافر حصہ پایا ہے.عورت مرد کو مساوی حقوق دیئے.آزادی دی.مغربی اقوام اسلام پر اعتراض کرتی ہیں کہ اسلام نے عورت کو آزادی نہیں دی بے شک اسلام نے اس قسم کی آزادی عورت کو نہیں دی جس پر یہ مغربی اقوام عمل پیرا ہیں کہ نہ ماں کو بیٹی کی ہوش نہ بیٹی کو ماں باپ کی ہوش.اسلام نے عورت کو اپنے دائرہ عمل میں کامل آزادی دی ہے شادی میں وہ آزاد ہے.ہاں مرد سے آزادانہ اختلاط منع ہے اور اس کے لئے قرآن مجید میں پردہ کے واضح احکام نازل فرمائے.آج جوعورتیں مغربی تہذیب میں رنگیں ہو کر پردہ چھوڑ رہی ہیں ان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ اسلام کے ایک قطعی حکم کی خلاف ورزی اور محمد اے کے احکام کی نافرمانی کرتی ہیں.قرآن مجید میں پردہ کا صریح حکم ہے.کوئی ابہام نہیں.آنحضرت ﷺ کی ازواج اور صحابیات نے پردہ کے حکم پر عمل کیا.اور پردے کے ساتھ ہر قسم کی ترقی کے علم سیکھے.جنگیں لڑیں.بیماروں کی تیمارداری کی.زخمیوں کو پانی پلایا.اور اپنے قومی فرائض کو نہایت احسن طریق پر انجام دیا.حیوانات کے لئے رحمت:.انسانوں کے لئے تو آپ ﷺ رحمت تھے ہی.بے زبانوں کے لئے بھی آپ ﷺ کا وجود رحمت کا بادل بن کر برسا.ایک دفعہ ایک شخص نے چڑیا کے بچے پکڑ لئے.آپ ﷺ نے دیکھ لیا.فرمایا انہیں لے جاؤ جہاں سے لائے ہو وہیں ان کی ماں کے پاس چھوڑ کر آؤ.اسی طرح آپ ﷺ نے جانوروں کو باندھ کر ان پر نشانہ بازی سے منع فرمایا.(سنن ابو داؤد کتاب الادب ) ایک صحابی سے روایت ہے کہ ہم نے چیونٹیوں کا گھر جلا دیا.رسول کریم ﷺ نے دیکھا اور فرمایا یہ کس نے جلایا ہے؟ معلوم ہونے پر فرمایا آگ سے عذاب دینا تو سوائے آگ کے مالک (یعنی خدا) کے کسی کی شان نہیں.دشمنوں کے لئے رحمت:.بے شک آپ ﷺ نے جنگیں لڑیں.لیکن اپنے دشمنوں کے متعلق آپ ﷺ نے جو تعلیم دی وہ

Page 290

272 دنیا کی تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھے جانے کے قابل ہے.تاریخ شاہد ہے کہ میدان جنگ میں کبھی کسی نے مقابل قوم کا خیال نہیں کیا.سوائے مسلمانوں کے کیونکہ ان کو اپنے آقا اور سردار کا حکم تھا کہ جب جنگ کے لئے جاؤ تو بوڑھوں عورتوں اور بچوں کو دکھ نہ دینا.فصلیں برباد نہیں کرنا.ان کے مذہبی لیڈروں اور معبدوں کو نہیں چھیڑنا.درخت نہیں کاٹنا وغیرہ.یہ خلاصہ ہے ان ہدایات کا جو نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کو دیں اور جن پر مسلمانوں نے عمل کیا اور جو ملک فتح کیا اس کو گلزار بنادیا امن قائم رکھا.عدل اور انصاف سے کام کیا.غرض محمد رسول اللہ ﷺ کا وجود تمام بنی نوع انسان کے لئے رحمت تھا.آپ ﷺ نے جس رنگ میں انسانوں کی غمخواری مظلوموں کی حمایت.بیکسوں کی فریادرسی اور محتاجوں کی حاجت براری کی اس کی مثال تاریخ عالم میں نظر نہیں آتی.پھر آپ ﷺے صرف اپنے زمانے کے انسان کے لئے ہی رحمت نہیں تھے.بلکہ اپنے سے پہلے زمانہ کے لئے بھی رحمت تھے.اپنے زمانہ میں ساری دنیا کے لئے رحمت تھے اور مستقبل کے لئے بھی رحمت تھے.اپنے سے پہلے زمانہ کے لئے رحمت :.آنحضرت ﷺ کی رحمت کا ایک بھاری ثبوت آپ ﷺ کی وہ تعلیم ہے جس کے ذریعہ آپ ے نے خدائے تعالیٰ کی توحید کو قائم فرمایا اور دنیا کو بتایا اللہ تعالی ازل سے اپنے بندوں کی ربوبیت فرماتا رہا ہے جب کوئی قوم گمراہ ہوئی اس کی اصلاح کے لئے اس نے نبی بھجوائے جو بندوں کو اپنے مالک حقیقی کی عبادت کی تعلیم دیتے رہے.جیسا کہ قرآن مجید میں فرماتا ہے وَإِن مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ (فاطر : 25) یعنی کوئی قوم اور بستی ایسی نہیں گزری جس میں کوئی نبی نہ گزرا ہو پھر اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (البقره: 137) یعنی ”اے مسلمانو ! تم دنیا کو بتا دو کہ ہم تمام انبیاء کی تعلیم پر ایمان لاتے ہیں خواہ وہ کسی ملک یا قوم میں پیدا ہوئے تھے.ہم اللہ تعالیٰ کے انبیاء میں تفرقہ نہیں کرتے کہ کسی کو قبول کریں اور کسی کو نہ کریں بلکہ ہم سب کو قبول کرتے ہیں کیونکہ وہ سب ایک ہی خدا کی طرف سے آئے تھے.

Page 291

273 ایک دفعہ آنحضرت ﷺ دوسرے ملکوں کے انبیاء کی نسبت دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر ملک میں خدا کے نبی گزرے ہیں اور فرمایا کہ ہندوستان میں ایک نبی گزرا ہے جو سیاہ رنگ کا تھا اور نام اس کا ” کا ہن ، یعنی کرشن تھا.آپ ﷺ سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ ہماری زبان میں بھی خدا تعالیٰ نے کلام کیا.آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.مِنْهُم مِّنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مِّنْ لَّمْ نَقْصُصُ عَلَيْكَ - (المؤمن: 79) یعنی بعض کا ہم نے قرآن کریم میں ذکر کیا ہے اور بعض کا نہیں کیا.یعنی بہت سے ایسے انبیاء ہیں جن کا ذکر نہیں آیا.لیکن ان پر ایمان لانا ضروری ہے.کتنی امن اور صلح کی تعلیم ہے جو آنحضرت ﷺ نے دنیا کو دی.تمام گزشتہ انبیاء کی عزت واحترام کو دنیا میں قائم فرمایا.اگر نبی کریم کا وجود نہ ہوتا تو دنیا کو گزشتہ انبیاء کے متعلق کچھ بھی آگاہی نہ ہوتی پھر صرف انبیاء کی عزت کو قائم نہیں کیا.بلکہ آپ ﷺ نے یہ تعلیم دی اگر اب ان کی کتب میں مشرکانہ خیالات ہیں تو اس کی ذمہ داری انبیاء پر نہیں بلکہ بعد میں لوگوں نے اپنے پاس سے ان میں زائد با تیں داخل کر لی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر آنحضرت ﷺ آئے نہ ہوتے اور قرآن شریف جس کی تاثیریں ہمارے آئمہ اورا کا بر قدیم سے دیکھتے آئے اور آج ہم دیکھ رہے ہیں نازل نہ ہوا ہوتا تو ہمارے لئے یہ امر بڑا ہی مشکل ہوتا کہ جو ہم فقط بائکمیل کے دیکھنے سے یقنی طور پر شناخت کر سکتے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح اور دوسرے گزشتہ نبی فی الحقیقت اسی پاک اور مقدس جماعت میں سے ہیں جن کو خدا نے اپنے لطف خاص سے اپنی رسالت کے لئے چن لیا ہے.یہ ہم کو فرقان مجید کا احسان ماننا چاہئے جس نے اپنی روشنی کی ہر زمانہ میں آپ دکھلائی اور پھر اس کامل روشنی سے گزشتہ نبیوں کی صداقتیں بھی ہم پر ظاہر کر دیں اور یہ احسان نہ فقط ہم پر بلکہ آدم سے لے کر مسیح تک ان تمام نبیوں پر ہے کہ جو قرآن شریف سے پہلے گزر چکے.اور ہر ایک رسول اس عالی جناب کا ممنون منت ہے جس کو خدا نے وہ کامل اور مقدس کتاب عنایت کی جس کی کامل تا شیروں کی برکت سے سب صداقتیں ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں.جن سے ان نبیوں کی نبوت پر یقین کرنے کے لئے ایک راستہ کھلتا ہے اور اُن کی نبوتیں شکوک اور شبہات سے محفوظ رہتی ہیں.“ براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 290.روحانی خزائن جلد 1 حاشیه در حاشیہ نمبر 1

Page 292

274 آنحضرت ﷺ اپنے زمانہ کے لئے اس لئے بھی رحمت کا وجود تھے کہ آپ سے پہلے جتنے انبیاء آئے وہ صرف اپنے ملکوں یا جماعتوں کی طرف آئے.لیکن محمد رسول اللہ ساری دنیا کی ہدایات کے لئے مبعوث فرمائے گئے.اور یہی آپ کا دعوی تھا کہ:.میں دنیا کی ہر قوم اور شخص کی ہدایت کے لئے آیا ہوں“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں: قرآن شریف سے پہلے دنیا کی کسی الہامی کتاب نے یہ دعویٰ نہیں کیا بلکہ ہر ایک نے اپنی رسالت کو اپنی قوم تک ہی محدود رکھا.یہاں تک کہ جس نبی کو عیسائیوں نے خدا قرار دیا اس کے منہ سے بھی یہی نکلا کہ میں اسرائیل کی بھیڑوں کے سوا کسی اور کی طرف نہیں بھیجا گیا.اور زمانہ کے حالات نے بھی گواہی دی کہ قرآن شریف کا یہ دعوی تبلیغ عام کا عین موقعہ پر ہے.کیونکہ آنحضرت ﷺ کے ظہور کے وقت تبلیغ عام کا دروازہ کھل گیا تھا اور آنحضرت ﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے بعد نزول اس آیت کے کہ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمُ جَمِيعًا (الاعراف: 59) دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کی طرف دعوت اسلام کے خط لکھے تھے.کسی اور نبی نے غیر قوموں کے بادشاہوں کی طرف دعوت دین کے ہرگز خط نہیں لکھے کیونکہ وہ دوسری قوموں کی دعوت کے لئے مامور نہ تھے.یہ عام دعوت کی تحریک آنحضرت ﷺ کے ہاتھ سے ہی شروع ہوئی اور مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اور اس کے ہاتھ سے کمال تک پہنچی.“ چشمه معرفت صفحہ 76 77 - روحانی خزائن جلد 23 کے آپ ﷺ کا وجود آئندہ قیامت تک کے لئے رحمت کا باعث تھا.آپ ﷺ سے پہلے جتنے انبیاء آئے ان کا فیض ایک عرصہ کے بعد بند ہو گیا.لیکن آنحضرت ﷺ کا فیض جاودانی ہے آپ کی بعثت کے بعد کسی اور نبی کے متبع نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ مجھے اپنے نبی کے فیض سے الہام الہی کا شرف حاصل ہوا ہو.لیکن نبی کریم ﷺ کی بعثت کے بعد یہ فیض صرف امت محمدیہ سے ہی مخصوص ہو گیا.جس میں ہزاروں لاکھوں گزرے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی میں اور آپ ﷺ کی طفیل ان پر کلام الہی کا دروازہ کھلا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک عظیم الشان معجزہ آنحضرت ﷺ کا یہ ہے کہ تمام نبیوں کی وحی منقطع ہوگئی اور مجزات نابود ہو گئے اور ان کی امت خالی اور تہی دست ہے.صرف قصے ان لوگوں کے ہاتھ میں رہ گئے.مگر آنحضرت کی وحی منقطع نہیں ہوئی اور نہ منجزات منقطع ہوئے بلکہ ہمیشہ بذریعہ کاملین امت جو شرف اتباع سے

Page 293

275 مشرف ہیں ظہور میں آتے ہیں.اسی وجہ سے مذہب اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اس کا خدا زندہ خدا ہے.چنانچہ اس زمانہ میں بھی اس شہادت کے پیش کرنے کے لئے یہی بندہ حضرت عزت موجود ہے.“ روحانی خزائن جلد 20 چشمہ مسیحی صفحه 351 کی اسی طرح آپ فرماتے ہیں: زندہ نبی وہی ہو سکتا ہے جس کے برکات اور فیوض ہمیشہ کے لئے ہوں اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک کبھی بھی مسلمانوں کو ضائع نہیں کیا.ہر صدی کے سر پر اس نے کوئی آدمی بھیج دیا جو زمانہ کے مناسب حال اصلاح کرتا رہا.یہاں تک کہ اس صدی کے سر پر اس نے مجھے بھیجا.تا کہ میں اسی حیات النبی کا ثبوت دوں.‘ الحکم 17 فروری 1906ء امت محمدیہ پر اس رحمۃ للعالمین کا کتنا بڑا احسان ہے کہ نہ صرف اس دنیا میں بلکہ قیامت کے دن بھی وہ مسلمانوں کے شفیع ہوں گے.آخرت کا شفیع بھی وہی ہو سکتا ہے جس نے اس دنیا میں شفاعت کا نمونہ دکھایا.یہ نبی کریم ﷺ کی شفاعت کا ہی اثر تھا کہ غریب صحابہ کو تخت پر بٹھا دیا.یہ آپ کی شفاعت کا ہی اثر تھا کہ مشرکوں کو موحد بنا دیا.وحشیوں کو انسان بنا دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.کہتے ہیں یورپ کے ناداں نبی کامل نہیں وحشیوں میں دیں کو پھیلانا یہ کیا مشکل تھا کار بنانا آدمی وحشی کو پر معنی راز نبوت ہے اک معجزه ہے اسی آشکار نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اک نور تھے قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار (در مشین ص : 143) اور یہ بھی آپ ﷺ کی شفاعت اور رحمت کا ثبوت ہے کہ اب تک آپ ﷺ کی پیروی کرنے والے خدا کا سچا الہام پاتے ہیں.اور یہ بھی آپ ﷺ کی شفاعت اور رحمت کا ثبوت ہے کہ تیرہ سو سال بعد آپ ﷺ کے ایک خادم کو اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرمایا.تا بھولی بھٹکی روحیں صراط مستقیم پر چل کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکیں.یہی وہ شفاعت ہے جو دنیا میں انسانوں کے لئے آخرت میں بھی ایک بڑے پیمانہ پر جاری ہوگی.کسی اور نبی کی اتباع اب کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کا مقرب نہیں بناسکتی.اب یہ راستہ صرف محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ کھلا ہے:.

Page 294

276 آؤ لوگو! کہ نہیں نور خدا پاؤ گے.لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلائے ثمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے آقا محمد رسول اللہ ﷺ کی کامل اطاعت کی توفیق عطاء فرمائے.آمین اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ مصباح فروری 1963ء

Page 295

277 خطاب جلسہ سیرت النبی عه بجنه کراچی 20 نومبر 1962ء کو ایک سیرت النبی ﷺ کے جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے تشہد وتعوذ کے بعد فرمایا:.کراچی میں مجھے تین سال کے بعد آنے کا اتفاق ہوا ہے.اس سے پہلے تقریباً ہر سال ہی حضرت اقدس کے ساتھ آنا ہوتا تھا.اور مجھے لجنہ کراچی کے جلسوں میں شرکت کا موقعہ ملتا رہتا تھا.اب بھی میں لجنہ کراچی کی شدید خواہش پر یہاں آگئی ہوں.کیونکہ اپنی عزیز بہنوں سے ملنے کو میرا دل چاہتا تھا گو حضرت اقدس کی علالت کے باعث آنا بہت مشکل تھا.اس کے علاوہ اور مجبوریاں بھی تھیں.مجھے کراچی کی بہنوں سے مل کر بے حد خوشی ہوئی ہے کیونکہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر تمام بہنیں تو آ نہیں سکتیں.اور جو جلسہ پر جاتی ہیں کام کی زیادتی کی وجہ سے ان سب سے بھی ملاقات نہیں ہوسکتی.میں اپنی بہنوں اور بچیوں سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کو صحت عطا فرمائے اور آئندہ ہم ان کی قیادت میں یہاں آئیں.اور سب ان کی ہدایات اور تقاریر سے مستفید ہوں.پھر آپ نے فرمایا ہم نے اپنا جلسہ نیک عہد سے شروع کیا ہے.اور ہم اپنا ہر اجلاس اسی عہد سے شروع کرتے ہیں اور اس کو دہرانے کی غرض بھی یہی ہوتی ہے کہ دہرانے کے بعد یہ مد نظر رکھیں کہ آیا ہم اسے پورا بھی کرتے ہیں یا صرف طوطے کی طرح پڑھ لیا ہے.آپ کو ہر دفعہ اس بات کا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہ ہم نے اپنے عہد نامہ کے الفاظ پر عمل بھی کیا ہے یا نہیں.آپ اپنے کام کرتے وقت سوچا کریں کیا یہ عہد نامہ صرف دو تین گھنٹوں کے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے ؟ جب ہم اس اجلاس میں آتے ہیں اور یہ عہد نامہ دہراتے ہیں تو یہ ہم پر کیا ذمہ داری عائد کرتا ہے اور ہم اس ذمہ داری کو پورا کرتے ہیں یا نہیں.میرا آپ کو مشورہ ہے کہ رات کو اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد ہفتہ بھر کا جائزہ لیا کریں اور سوچیں کہ آپ نے ان دنوں میں اپنے اوقات کو عہدنامے کے مطابق صرف کیا ہے یا نہیں.یہ بھی سوچیں کہ ہم نے جو عہد کیا تھا اس کو پورا بھی کیا تھایا نہیں؟ صرف عہدد ہرا دینا اور اس کو پورا نہ کرنا مومن جماعت کا طریقہ نہیں ہوتا.آپ نے تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا "لجنہ کی ممبر ہوتے ہوئے ہم اس بات کا عہد کرتی ہیں کہ ہم سلسلہ کی مدد کرنے کے لئے حضور کے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے.اسلام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے

Page 296

278 کے لئے.قوم کے لئے.وطن کے لئے.اپنی جان.مال.وقت اور اولاد قربان کریں گی.لیکن جب وقت آتا ہے تو ہم نہ مال دینے پر آمادہ ہوتے ہیں اور نہ وقت دینے پر اور نہ اولاد قربان کرنے پر.جان دینا تو بہت بڑی چیز ہے.صحابہ کرام کو دولت بھی ملی.عزت بھی ملی.ان کی قربانیوں کے نتیجے میں قلیل عرصہ میں اسلام پھیل گیا.کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ جو کچھ بھی ہمیں دیا گیا ہے.یہ سب خدا کے لئے خرچ کرنے کے لئے ملا ہے.ہماری جماعت کی اکثریت تعلیم یافتہ ہے.کسی بہن کو ان قربانیوں کا علم نہیں ہوگا.جو صحابہ اور صحابیات نے کیں؟ جتنے ظلم ان پر کئے گئے ان کا عشر عشیر بھی ہم پر نہیں ہوا.لیکن ان کے استقلال میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا.اور پھر کتنی جلدی اسلام دنیا میں پھیل گیا.میں یہ نہیں کہتی کہ ہماری جماعت قربانیاں کرنے والی نہیں.ہے.ہماری جماعت نے بہت بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں.لیکن قوم وہ کامیاب ہوتی ہے جس کی قربانیوں کا معیار ایک ہو.یہ نہ ہو کہ سو میں سے ایک تو بہت قربانی کرنے والی ہے اور باقی ننانوے وہ روح اپنے اندر نہیں رکھتیں.جب تک ہماری جماعت کا ہر مرد اور عورت ایک ہی قسم کی قربانی نہیں کرتا.ہم ترقی نہیں کر سکتے.کامل طور پر ترقی اس وقت ہو سکتی ہے کہ آپ کی تنظیم مکمل ہو.اور صرف ایک آواز پر سب چندے دینے اور وقت دینے پر تیار ہو جائیں اور جس قسم کی قربانی کے لئے کہا جائے آپ تیار رہیں.اور یہی وہ وقت ہوگا جب اسلام کو ترقی ہوگی.ذرا حضرت ہاجرہ کی قربانی کو سامنے لائیے.انہوں نے خدا کی آواز پر اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کر دیا تھا.صحابیات کی قربانیاں سامنے رکھئے.ان کے آگے ہماری قربانیاں کیا حیثیت رکھتی ہیں.کیا ہماری قربانیوں میں ان کا ذرا سا بھی سایہ ہے.ہم اب تک اس مقصد کو نہیں پاسکی ہیں جس کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا تھا.ہم تو خود ہی دوسروں سے متاثر ہو جاتے ہیں.ہمیں چاہئے کہ اسلامی تمدن پر قائم رہیں اور جب تک ہم یہ کوشش نہ کریں گی کہ دوسروں کی نقالی نہ کریں بلکہ دوسروں کو اپنے سے متاثر کریں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.بے شک ہر انسان میں لغزشیں بھی ہوتیں ہیں.کوتا ہیاں بھی ہوتی ہیں.لیکن اگر نیت نیک ہو تو اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے.اسلام ایک بہت ہی لچکدار مذہب ہے.ہمیں اس کی لچک سے فائدہ اٹھانا چاہئے.لیکن یہ بھی دیکھتے

Page 297

279 رہنا چاہئے کہ ہمارا نصب العین کیا ہے اور اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ ہم نے کتنا وقت قوم وملت اور اپنے دین کے لئے صرف کیا ہے اگر ہم ہر روز اپنا عہد دہرا کر جائزہ لیں تو مجھے یقین ہے کہ بہت سی بہنوں میں جو غفلت ہے وہ دور ہو جائے گی.اور وہ سلسلہ کے لئے کام کرسکیں گی.آخر میں میں پھر کہتی ہوں کہ اپنا محاسبہ کرتی رہیں.آئیے اب ہم دعا کریں.مصباح فروری 1963

Page 298

280......افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 1963ء اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ پھر آپ سب کو اپنے روحانی مرکز میں جمع ہونے کا موقع عطا فرمایا ہے تا آپ سب اور ہم بھی ان روحانی فیوض کو حاصل کریں جو مرکز کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں...نمائندگی کا فرض صرف تین روز میں ختم نہیں ہو جاتا.بلکہ یہاں جو فیصلے کئے جاتے ہیں ان پر اپنی لجنہ کی تمام ممبرات کو عمل کروانا اور ان کی ذمہ داریوں کی طرف ان کو توجہ دلانا ان میں کام کا جذ بہ پیدا کرنا اور قوم کی خاطر قربانی کا جذبہ پیدا کرنا آپ کا کام ہے.اگر آپ یہاں سے واپس جا کر اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتیں اور جو امانت یہاں آپ کے سپرد کی جاتی ہے وہ اپنی ممبرات تک نہیں پہنچا تیں تو آپ کی نمائندگی کا کوئی فائدہ نہیں.جب تک انسان کے سامنے کوئی نصب العین نہ ہو انسان صحیح طور پر عمل نہیں کر سکتا.ہمارا نصب العین خواہ کچھ بھی کہہ لو وہی ہے جو انسان کی زندگی کا خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے:.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذريت: 57)...انبیاء کی بعثت کا مقصد جہاں خالق حقیقی سے تعلق پیدا کرنا ہوتا ہے وہاں مخلوق خدا سے شفقت، ہمدردی ، ان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنا ، خدا تعالیٰ کی خاطر خدا تعالیٰ کے بندوں سے محبت کرنا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسی مشن کے ساتھ مبعوث ہوئے.آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے الہام بتایا : - خُذُوا التَّوْحِيدَ التَّوْحِيدَ يَا ابْنَاءَ الْفَارِسِ (تذکره صفحه 197)...حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں اوّل خدا کی توحید اختیار کرو دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو.“ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 336 سچی توحید کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.الہ کہتے ہیں مقصود معبود - مطلوب کو لا اله الا اللہ کے معنی یہی ہیں کہ لَا مَعْبُودَ لِي وَلَا مَقْصُودَ لِى وَلَا مَطْلُوبَ لِی اِلَّا الله.یہی سچی توحید ہے.ملفوظات جلد اوّل صفحہ 321 پس ہماری زندگی کا اولین مقصد ہماری تنظیموں کا نصب العین توحید کامل کا قیام ہے.آنحضرت

Page 299

281 ﷺ کی تعلیم کا تمام خلاصہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ میں آجاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قُلْ إِنَّ صَلوتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام: 163) فرما کر بتا دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا حقیقی بندہ کہلانے کا مستحق وہی ہے جس کی تمام زندگی خدا تعالیٰ کی خاطر ہو...کامل توحید کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اس کے بندوں سے وابستگی نہایت ضروری ہے.اس لئے اسلام کی تعلیم اَطِیعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِى الأمرِ مِنْكُمُ (النساء : 32) کے محور پر گھومتی ہے.اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لئے ضروری ہے کہ آنحضرت ﷺ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی کامل اطاعت کی جائے احمدی مستورات میں جذ بہ اطاعت اور فرمانبرداری اس شدت سے کارفرما نہیں جیسا کہ ہونا چاہئے حالانکہ عورت میں فطری طور پر قربانی کا جذبہ پایا جاتا ہے.پس اگر آپ چاہتی ہیں کہ لجنہ ترقی کرے جماعت ترقی کرے.تو ضروری ہے کہ تمام احمدی مستورات میں یہ جذ بہر ہو کہ ہم نے اپنے عہدہ داروں کی کامل اطاعت کرنی ہے کیونکہ وہ عہدہ دار خود نہیں بنے ہوتے حضرت خلیفہ مسیح کی منظوری سے ان کا تقرر ہوا ہوتا ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کو انعام قرار دیا ہے اور فرماتا ہے کہ جب تک مسلمان اپنے آپ کو خلافت کا حق دار قرار دیتے رہیں گے یہ انعام ان میں قائم رہے گا.ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی دعاؤں اور اپنے عمل سے اس انعام کو قیامت تک قائم رکھنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ (ال عمران:32) خدا تعالیٰ سے محبت کو آنحضرت ﷺ کی اطاعت کے ساتھ مشروط فرما دیا.پھر اس شرط کو پورا کرنے کا انعام اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت قرار دیا.ہماری تنظیم بھی اسی وقت ترقی کر سکتی ہے جب ہم اپنی زندگیوں کو اسوہ رسول کریم ﷺ کے مطابق ڈھالیں اور ہمارے دل اور ہمارے جسموں کا رواں دواں آنحضرت ﷺ کی اتباع میں پکار رہا ہو.اِنَّ صَلوتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام: 163) اسلامی تعلیم کا دوسر استون خلق اللہ کی خدمت ہے.حضرت مسیح موعود یہ السلام نے بھی جماعت کو بار بار یہی نصیحت فرمائی ہے.آپ ﷺ فرماتے ہیں:.باہم اتفاق رکھو.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرو.ملفوظات جلد اوّل صفحہ 336

Page 300

282 پس اسلامی تعلیم کے بڑے ستون یہی دو ہیں.اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی اور شفقت.اگلی نسل کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.جتنا جتنا بعد نبوت کے زمانہ سے ہوتا چلا جاتا ہے وہ اخلاق نہیں رہتے.اپنی اولادوں کی اس رنگ میں تربیت کی جائے کہ ان پر سے دجال کا رعب اٹھ جائے اور اس کی بجائے خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت ان کے دلوں میں جاگزیں ہو.تربیت کا یہ کام صرف مائیں ہی کر سکتی ہیں.آئندہ نسل کی اصلاح کے لئے اپنی اصلاح ضروری ہے.اپنی جوان لڑکیوں کی اصلاح ضروری ہے.جب تک ہمارا عملی نمونہ اسلام کے مطابق نہ ہو ہم کس طرح دعوی کر سکتے ہیں کہ ہم دنیا کا دل جیت لیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.جو لوگ اسلام کی بہتری اور زندگی مغربی دنیا کو قبلہ بنا کر چاہتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے.کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کے ماتحت چلتے ہیں.قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے.“ (ملفوظات جلد اول ص 409) تاریخ لجنہ جلد سوم صفحہ 218

Page 301

283 خطاب جلسہ سالانہ 1963ء پردہ کی اہمیت میں اپنی بہنوں سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ میری تقریر کو غور سے سنیں تا کہ وہ بہنیں جو کسی وجہ سے راستہ سے بھٹکی ہوئی ہیں صراط مستقیم کو پالیں.حدیث شریف میں آیا ہے کہ تم جب بھی کوئی خلاف اخلاق یا خلاف دین بات دیکھو تو تم اسے ہاتھ یا زبان سے روک دو اگران دونوں پر قادر نہ ہو تو کم از کم برامان کر دعا کے ذریعہ سےاسے روکنے کی کوشش کرو.لیکن یہ تیسرا طریق سب سے ادنی ایمان ہے لہذا اس حدیث کے ماتحت میں آپ کو پردہ کی تاکید کرتی ہوں.احادیث اور قرآن سے صریحاً ثابت ہوتا ہے کہ پردہ نہایت ضروری ہے بے پردگی قرآنی تعلیم کے خلاف اور احادیث کے خلاف ہے اور شریعت کے خلاف ہے لہذا ہر حال میں پردہ ضروری ہے.جہاد کے میدانوں میں سے ایک میدان برائیوں کو دور کرنا ہے.ایک شخص اگر بُرا کام کرے اور دوسرے اسے منع نہ کریں تو لوگ بُرائی کرنے میں دلیر ہو جائیں گے اسی وجہ سے آنحضرت ﷺ نے اسے روکنے کا سختی سے حکم فرمایا ہے.بے پردگی آجکل آگ کی طرح پھیل رہی ہے جو اگر رو کی نہ گئی تو ہمارے گھروں میں پہنچ کر ہمیں سخت نقصان پہنچائے گی اور اگر بہنوں کا یہ خیال ہے کہ پردہ کرنے سے دوسروں سے ہمارے تعلقات خراب ہوں گے تو اس کی پرواہ نہ کریں کیونکہ ہمارا پر دہ ہمارے پیدا کرنے والے کی خاطر ہوگا اور آنحضرت مو کے لئے ہوگا.جنہوں نے عورت کو قعر مذلت سے نکال کر اسے عزت بخشی.افسوس ہے کہ وہی عورت جس کے قدموں کے نیچے آنحضرت ﷺ نے جنت قرار دی وہی آج بغاوت کر رہی ہے اور آپ ﷺ کی نافرمانی کر رہی ہے.اس نافرمانی کی وجہ صرف اور صرف اسلام کی تعلیم سے ناواقفیت اور مغرب کا تنتبع ہے ہندوستان میں انگریز کی حکومت سے وہ مرعوب ہو گئیں لیکن آزادی ملنے کے بعد بھی وہ ذہنی طور پر انگریزوں کی غلام ہی رہیں اور ان کی تقلید میں بے پردگی کو اپنا لیا.آنحضرت ﷺ کا قول ہے کہ مَنْ تَشَبِّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمُ (ابوداؤد کتاب الیاس باب ليس الشهره) جو شخص اپنی قوم کے شعار کو چھوڑ کر دوسری قوم کے طریق اختیار کرتا ہے وہ گویا انہیں میں سے ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو احمدی عورتوں کے لئے یہ

Page 302

284 دعا کی ہے کہ ان کے گھر تک رعب دجال نہ آئے.پس اگر آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحانی اولا د ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں تو آپ کو ان نصائح پر عمل کرتے ہوئے دجالیت سے احتراز کرنا ہوگا آپ نے دجالیت کو دنیا سے فنا کرتا ہے.اور آنحضرت ﷺ کا جھنڈا دنیا میں گاڑنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہمارے لئے قرآن کی پیروی کرنا لازمی ہے کامیاب وہی ہوں گے جو قرآن کے احکام پر چلتے ہیں جب تک مسلمانوں کا رجوع قرآن کی طرف نہ ہو گا وہ کامیاب نہ ہوں گے.مسلمانوں کا ایک طبقہ کہتا ہے کہ قرآن کریم میں پردہ کا حکم نہیں ہے.دوسرا طبقہ کہتا ہے یہ حکم تھا تو سہی لیکن اب قابل عمل نہیں ہے اور تیسرا طبقہ یہ کہتا ہے کہ پردہ میں چہرہ کا ڈھانکنا ضروری نہیں ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں صریح پردہ کا حکم ہے پہلے ازواج مطہرات کو اور پھر مومن عورتوں کو پردہ کا حکم دیا گیا تھا.پس اب اگر آپ مومن عورتیں ہیں تو آپ کے بھی وہی افعال ہونے چاہئیں جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورت کو دیا ہے اللہ تعالیٰ نے تو مسلمان عورت کو وہ اعلیٰ حقوق عطا فرمائے ہیں جو آزاد ممالک کی خواتین باوجود کوشش کے آج بھی حاصل نہیں کر سکیں.ان حقوق کے ہوتے ہوئے کسی عورت کو جسمانی یا روحانی تکلیف نہیں ہو سکتی ان کو اتنا مرتبہ دیا گیا ہے کہ وہ مردوں کے دوش بدوش کام کر سکتی ہیں.مسلمان عورتوں کی ترقی یہی ہے کہ وہ قرآن کے احکام پر عمل پیرا ہوں.شوہروں کی تسکین کا باعث ہوں.بچوں کی تربیت کریں.عفت مجسم ہوں حیا، غیرت اور عفت ان کا جو ہر ہو.بے پردگی کے ساتھ دوسری چیز جو اس کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے وہ تنگ لباس ہے یہ اس حدیث کے مطابق ہے جس میں آتا ہے کہ ایک زمانہ آنے والا ہے اس میں عورتیں ایسی ہوں گی جو بظاہر لباس پہنیں گی لیکن در حقیقت وہ عریاں ہوں گی.لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور خود مائل ہونے والی ہوں گی ایسی صفات رکھنے والی جنت میں داخل نہ ہوں گی.جس انجام کی طرف اس میں توجہ دلائی گئی ہے آپ اس سے ڈریں کیونکہ اس میں ہماری اور ہماری اولادوں بلکہ ساری دنیا کی نجات ہے.ایک طبقہ یہ خیال کرتا ہے کہ پردہ میں چہرہ کو چھپانا ضروری نہیں.ایسے لوگوں کو بخاری شریف کی وہ حدیث پڑھنی چاہئے جو غزوہ بنی مصطلق کے متعلق ہے اور جس کی روایت حضرت عائشہ نے کی ہے آپ نے اس میں فرمایا ہے کہ صحابی رسول صفوان نے انہیں صرف اس وجہ سے پہچان لیا تھا کہ انہوں نے حضرت عائشہ کو پردہ کے حکم سے پہلے بھی دیکھا ہوا تھا اور پھر فرماتی ہیں کہ جب انہوں نے پہچان لیا تو اپنا چہرہ

Page 303

285 چادر سے ڈھانک لیا.اس حدیث سے ثابت ہے کہ چہرہ کا پردہ لازمی ہے آجکل کی بعض مستورات صحیح پردہ نہیں کرتیں عہدہ داران اور کارکنات کو اس طرف توجہ دینی چاہئے.اسلامی پردہ کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ گھر میں قید ہو کر رہ جائیں بلکہ جس طرح بے پردگی نا واجب رہتی ہے اسی طرح گھر میں قید ہو کر رہ جانا بھی دوسری نا واجب انتہا ہے یہ ثابت ہے کہ صحابیات جنگوں میں شریک ہوتیں خرید و فروخت کے لئے بھی باہر جاتیں اور اپنی تمام ضروریات بھی باہر نکل کر پوری کر لیتیں.جبکہ صحابیات اتنے بڑے بڑے کام پردہ سے کر سکتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اب پردہ نہ کیا جائے.پردہ کے اس حکم سے منہ موڑنے کی وجہ سے آپ کئی ایک اور گناہوں کی مرتکب بھی ہو سکتی ہیں.اسلام کی تعلیم تو اطاعت امام کے محور پر گھومتی ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ کی شرائط بیعت میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ وہ عورتیں آپ کی ہر نیک کام میں پیروی کریں پھر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند اقتباسات سے پردہ کی اہمیت کو واضح کیا اور پھر بتایا کہ خلیفہ وقت کا ارشاد ہے کہ جولوگ اپنی عورتوں کو مکسڈ پارٹیوں میں لے جاتے ہیں جماعت کو چاہئے کہ ان سے کلام کرنا چھوڑ دیں اگر کوئی عورت پر دہ چھوڑتی ہے تو وہ قرآن کریم کی ہتک کرتی ہے.ہماری جماعت کو چاہئے کہ ان سے کوئی تعلق نہ رکھیں آنے والے مسیح کی غرض دوبارہ دین کو زندہ کرنا اور شریعت کو قائم کرنا تھی.پر وہ شریعت کے احکام میں سے ہے ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں سے ہیں اور آپ کو نبی برحق جانتے ہیں.ہمارے لئے انتہائی افسوس کا مقام ہوگا کہ اگر ہم خدا تعالیٰ کے ایک واضح حکم کی تعمیل نہیں کریں گی.لہذا میں عورتوں سے دکھے دل سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اپنے امام کے احکام پر عمل پیرا ہوں امید ہے کہ بہنیں ٹھنڈے دل سے میری باتوں پر غور کریں گی انسان اگر اپنی اصلاح کرنا چاہے تو پہلے اسے ماحول کی اصلاح کرنا ہوگی اگر آپ کی بچیاں غیر اسلامی ماحول میں تربیت پا رہی ہیں تو آپ اس ماحول کی اصلاح کریں یا کم از کم اس ماحول سے اپنی بچیوں کو بچائیں.ان کی تربیت کریں اور ان کے نیک عمل کو اسلامی احکام کے مطابق بنانے کی کوشش کریں اس وقت ہمیں دعووں کی نہیں بلکہ عمل کی ضرورت ہے ہر کارکن اور عہدیدار اس بات کی ذمہ دار ہے کہ وہ عورتوں کی اصلاح کرے.اگر ایسا ہو جائے گا تو تمام قو میں لبیک کہتی ہوئی اسلام کی طرف آجائیں گی.الفضل 4 جنوری 1964ء

Page 304

286 آنحضرت ﷺ کے اخلاق فاضلہ نوٹ : حضرت سیدہ ام امتہ المتین صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ے یہ تقریر منگری کے جلسہ سیرۃ النبی منعقدہ زیر اہتمام لجنہ اماءاللہ منکمری میں ارشاد فرمائی:.یکم مارچ 1964ء اِنَّ اللهَ وَمَلئِكَةَ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب : 57) آنحضرت ﷺ کو سب سے بڑا اعجاز اخلاق کا ہی دیا گیا تھا.دشمن دوسرے معجزات پر اعتراض کر سکتا ہے لیکن آپ ﷺ کے اخلاق پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا واقف اسرار کون و مکاں نے آپ کے اخلاق کی تعریف کس قدر جامع الفاظ میں قرآن مجید میں بیان فرمائی ہے إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (قلم 5) آنحضرت ے ہرقسم کے معجزات میں تمام انبیاء سے بڑے ہوئے تھے لیکن اخلاقی اعجاز میں دنیا کی تاریخ آپ ﷺ کے مقابلہ میں کوئی نظیر پیش نہیں کر سکتی.خلق اور خلق دو الفاظ ہیں جو ایک دوسرے کے بالمقابل معنے رکھتے ہیں.خلق ظاہری پیدائش کا نام ہے اور خلق باطنی پیدائش کا نام ہے.اخلاق خلق کی جمع ہے انسان کے تمام باطنی قومی جو اس کو غیر انسان سے ممتاز کرتے ہیں اخلاق میں داخل ہیں.اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: خلق سے انسان اپنی انسانیت کو درست کرتا ہے...،،.پس اخلاق سے مراد خدا تعالیٰ کی رضا جوئی (جو رسول اللہ ﷺ کی عملی زندگی میں مجسم نظر آتا ہے) کا حصول ہے اس لئے ضروری ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرز زندگی کے موافق اپنی زندگی بنانے کی کوشش کرے یہ اخلاق بطور بنیاد کے ہیں.اگر وہ متزلزل رہے تو اس پر عمارت نہیں بنا سکتے.اخلاق ایک اینٹ پر دوسری اینٹ کا رکھنا ہے.اگر ایک اینٹ ٹیڑھی ہے تو ساری دیوار ٹیڑھی رہتی ہے.کسی نے کیا اچھا کہا ہے شت اول چوں نہد معمار کج تاثریا رود دیوار سج ملفوظات جلد اول صفحہ 83

Page 305

287 اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ (النور: 36) خدا آسمان اور زمین کا نور ہے.ہر ایک نور اللہ تعالیٰ ہی کے فیض کا عطیہ ہے.اس کے فیض سے کوئی خالی نہیں.انسان ہو یا حیوان.حجر ہو یا شجر.روح ہو یا جسم.یہ خدا تعالیٰ کا عالم فیضان ہے اس کے بالمقابل ایک خاص فیضان بھی ہے جو خاص خاص افراد پر جاری ہوتا ہے یعنی انبیاء پر جن میں سے اکمل ترین وجود محمد رسول اللہ ﷺ کا ہے ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے نور نبوت اور آپ ﷺ کے اخلاق کا ملہ کا ذکر فرمایا ہے.شجرہ مبارکہ سے مراد آنحضرت ﷺ کا وجود با برکت ہے جس کا فیضان کسی خاص زمانہ سے مخصوص نہیں بلکہ تمام دنیا کے لئے اور ہمیشہ کے لئے ہے اور شجرہ مبارکہ نہ شرقی ہے نہ غربی یعنی آنحضرت ﷺ کے اخلاق میں نہ افراط ہے نہ تفریط جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمِ (التين : 5) حضرت موسیٰ" کے مزاج میں جلالی رنگ تھا.حضرت مسیح کے کیریکٹر کی نمایاں چیز حلم اور نرمی تھی مگر آنحضرت ﷺ کا مزاج مبارک میانہ رو تھا نہ ہر جگہ حلم پسند تھا نہ ہر مقام پر سختی تھی بلکہ موقع اور محل کے لحاظ سے عمل فرماتے تھے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے متعلق فرمایا إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عظيم (القلم: (5) عظیم کا لفظ انتہائے کمال پر دلالت کرتا ہے - اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - اس آیت کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ایسا ہی اس آیت کا مفہوم ہے کہ جہاں تک اخلاق فاضلہ و شمائل حسنہ نفس انسانی کو حاصل ہو سکتے ہیں وہ تمام اخلاق کاملہ تا مد نفس محمدی میں موجود ہیں.سو یہ تعریف ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو دوسری جگہ آنحضرت ﷺ کے حق میں فرمایا وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (النساء: 114) یعنی تیرے پر خدا کا سب سے زیادہ فضل ہے اور کوئی نبی تیرے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا.“ براہین احمدیہ صفحہ 606 بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 3

Page 306

288 آنحضرت ﷺ کے اخلاق فاضلہ کا ذکر تفصیلا کرنے سے قبل آپ ﷺ کی بعثت کے وقت عرب کی حالت بیان کرنی ضروری ہے تا معلوم ہو کہ آپ کی بعثت کے وقت عرب کے لوگوں کے اخلاق کیا تھے الله ان کی روحانی حالت کا نقشہ کیا تھا؟ اور آنحضرت ﷺ کی تعلیم آپ ﷺ کے اخلاق آپ ﷺ کے عملی نمونہ اور آپ کی قوت قدسیہ نے ان کو کیا سے کیا بنا دیا.قرآن مجید سے مصلح کی آمد کی ایک دلیل ضرورت زمانہ کوٹھہراتا ہے یعنی اس کی سچائی کی بھاری دلیل یہ ہے کہ زمانہ پکار پکار کر کہہ رہا ہو کہ واقعی اس وقت ایک مصلح کی ضرورت ہے.آنحضرت ے جس مبعوث ہوئے دنیا تو حید کو بھول چکی تھی.شرک اور فسق و فجور میں گرفتار تھی.پاکیزگی کا نام ونشان نہ تھا.انصاف اور عدل کا کوئی نام نہ جانتا تھا کوئی منظم حکومت نہ تھی.وحشیوں اور درندوں کی طرح آپس میں لڑتے تھے.شراب نوشی.قمار بازی اور بدکاری ان کا شغل تھا.عورت کا احترام تو کجا نہایت ذلیل ہستی تصور کی جاتی تھی.خود اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے لوگوں کا نقشہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:.كُنتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ (ال عمران: 104) تم اس نبی کے آنے سے پہلے دوزخ کے گڑھے کے کنارہ پر پہنچ چکے تھے ساری دنیا پر تاریکی چھائی ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے ظلمت کو روشنی سے بدلنے کے لئے آنحضرت ﷺ کو مبعوث فرمایا لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا (الفرقان: 2) تاکہ آپ دنیا والوں کو ان کی برائیوں پر آگاہ اور ہوشیار فرمائیں.اور ان کی اصلاح فرمائیں.اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ اَنَّ اللهَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الحديد : 18) روحانی طور پر دنیا مر گئی تھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے پھر زندگی بخشی.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں آنحضرت صلعم کی قوت قدسیہ کے ذریعہ جو اخلاقی تبدیلی رونما ہوئی اس کا ذکر یوں فرماتا ہے اِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا – (ال عمران: 104) محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے اللہ تعالیٰ کے فضل نے تم کو آپس میں بھائیوں کی طرح کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام روحانی خزائن جلد 10 اپنی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 328 329.میں فرماتے ہیں:.”ہمارے سید و مولی نبی ﷺ ایسے وقت میں مبعوث ہوئے تھے جبکہ دنیا ہر ایک پہلو سے خراب اور

Page 307

289 تباہ ہو چکی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم: 42) یعنی جنگل بھی بگڑ گئے اور دریا بھی بگڑ گئے یہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جو اہل کتاب کہلاتے ہیں وہ بھی بگڑ گئے اور جو دوسرے لوگ ہیں جن کو الہام کا پانی نہیں ملا وہ بھی بگڑ گئے.پس قرآن شریف کا کام دراصل مُردوں کو زندہ کرنا تھا جیسا کہ وہ فرماتا ہے اِعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الحديد : 18) یعنی یہ بات جان لو کہ اب اللہ تعالیٰ نئے سرے سے زمین کو بعد اس کے مرنے کے زندہ کرنے لگا ہے.اس زمانہ میں عرب کا حال نہایت درجہ کی وحشیانہ حالت تک پہنچا ہوا تھا اور کوئی نظام انسانیت کا ان میں باقی نہیں رہا تھا اور تمام معاصی ان کی نظر میں فخر کی جگہ تھے.ایک ایک شخص صد ہا بیویاں کر لیتا تھا.حرام کا کھانا ان کے نزدیک ایک شکار تھا.ماؤں کے ساتھ نکاح کرنا حلال سمجھتے تھے.اسی واسطے اللہ تعالیٰ کو کہنا پڑا کہ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ أُمَّهَاتُكُمُ (النساء: 24) یعنی آج مائیں تمہاری تم پر حرام ہوگئیں.ایسا ہی وہ مردار کھاتے تھے آدم خور بھی تھے دنیا کا کوئی بھی گناہ نہیں جو کرتے تھے اکثر معاد کے منکر تھے.بہت سے ان میں سے خدا کے وجود کے بھی قائل نہ تھے.لڑکیوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کر دیتے تھے.یتیموں کو ہلاک کر کے ان کا مال کھاتے تھے بظاہر تو انسان تھے مگر عقلیں مسلوب تھیں نہ حیا تھی نہ شرم تھی نہ غیرت تھی.شراب کو پانی کی طرح پیتے تھے جس کا زنا کاری میں اول نمبر ہوتا تھا وہی قوم کا رئیس کہلاتا تھا.بے علمی اس قدر تھی کہ اردگرد کی تمام قوموں نے ان کا نام اتمی رکھ دیا تھا.ایسے وقت میں اور ایسی قوموں کی اصلاح کے لئے ہمارے سید ومولی نبی ﷺ شہر مکہ میں ظہور فرما ہوئے.پس اسی وجہ سے قرآن شریف دنیا کی تمام ہدایتوں کی نسبت اکمل اور اتم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیونکہ دنیا کی اور کتابوں کو ان تین قسم کی اصلاحوں کا موقع نہیں ملا اور قرآن شریف کو ملا اور قرآن شریف کا یہ مقصد تھا کہ حیوانوں سے انسان بنا دے اور انسان سے با اخلاق انسان بنادے اور با اخلاق انسان سے باخدا انسان بنا دے.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شعر میں کس قدر خوبصورتی سے اس تمام مضمون کو بیان فرمایا ہے صَادَفْتَهُمْ قَوْمًا كَرَوْثٍ ذِلَّةٌ فَجَعَلْتَهُمْ كَسَبِيكَةِ الْعِقْيَانِ انسان کے اخلاق کو پرکھنے کے لئے دو بڑے معیار ہیں:.(اول) اگر وہ مصائب اور تکالیف میں مبتلا ہو تو اس وقت اس کا خدا تعالیٰ اور بنی نوع انسان سے کیسا

Page 308

290 تعلق رہتا ہے اگر دکھ اور تکالیف آئیں ہی نہیں تو کیونکر معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ اخلاص استقلال اور صبر کے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں.اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتا ہے یا شکوہ کرنے لگ جاتا ہے.(دوم) دوسرا معیار یہ ہے کہ انسان کو عروج حاصل ہو تو اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ رہتا ہے.اپنے دشمنوں سے حسن سلوک کرتا ہے؟ عفو سے کام لیتا ہے یا انتقام پر کمر بستہ ہو جاتا ہے.پس ان اصولوں کو مدنظر رکھ کر آنحضرت ﷺ کی سیرت اور آپ ﷺ کے اخلاق فاضلہ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر پہلو سے آپ کامل نمونہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: آپ ﷺ کیا بلحاظ اپنے اخلاق فاضلہ کے اور کیا بلحاظ اپنی قوت قدسی اور عقد ہمت کے اور کیا بلحاظ اپنی تعلیم کی خوبی اور تکمیل کے اور کیا بلحاظ اپنے کامل نمونہ اور دعاؤں کی قبولیت کے.غرض ہر طرح اور پہلو میں چمکتے ہوئے شواہد اور آیات اپنے اندر رکھتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر ایک غیبی سے غیبی انسان بھی بشرطیکہ اس کے دل میں بے جا غصہ اور عداوت نہ ہو صاف طور پر مان لیتا ہے کہ آپ ﷺ تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللہ کا کامل نمونہ اور کامل انسان ہیں.“ الحکم 10 اپریل 1902ء پھر آنحضرت ﷺ کے اخلاقی اعجاز کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک وقت آتا ہے کہ آپ ﷺ فصاحت بیانی سے ایک گروہ کو تصویر کی صورت حیراں کر رہے ہیں.ایک وقت آتا ہے کہ تیروتلوار کے میدان میں بڑھ کر شجاعت دکھاتے ہیں.سخاوت پر آتے ہیں تو سونے کے پہاڑ بخشتے ہیں.علم میں اپنی شان دکھاتے ہیں تو واجب القتل کو چھوڑ دیتے ہیں.الغرض رسول اللہ ﷺ کا بے نظیر اور کامل نمونہ ہے جو خدا تعالیٰ نے دکھا دیا ہے اس کی مثال ایک بڑے عظیم الشان درخت کی ہے جس کے سایہ میں بیٹھ کر انسان اس کے ہر جزو سے اپنی ضرورتوں کو پورا کرے.اس کا پھل اس کا پھول اور اس کی چھال اس کے پتے غرضیکہ ہر چیز مفید ہو.آنحضرت ﷺ اس عظیم الشان درخت کی مثال ہیں جس کا سایہ ایسا ہے کہ کروڑ ہا مخلوق اس میں مرغی کے پروں کی طرح آرام اور پناہ لیتی ہے.لڑائی میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو آنحضرت ﷺ کے پاس ہوتا تھا کیونکہ آپ بڑے خطرناک مقام میں ہوتے تھے سبحان اللہ ! کیا شان ہے احد میں دیکھو کہ تلواروں پر تلواریں پڑتی ہیں ایسی گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے کہ صحابہ برداشت نہیں کر سکتے مگر یہ مرد میدان سینہ سپر ہو کر لڑ رہا ہے.اس

Page 309

291 میں بھید یہ تھا کہ تارسول اللہ ﷺ کی شجاعت کا نمونہ دکھایا جاوے.ایک موقع پر تلوار پر تلوار پڑتی تھی اور آپ یہ نبوت کا دعویٰ کرتے تھے کہ محمد رسول اللہ میں ہوں.یہ خلق عظیم تھا.ایک وقت آتا ہے کہ آپ کے پاس اس قدر بھیڑ بکریاں تھیں کہ قیصر و کسریٰ کے پاس بھی نہ ہوں.آپ ﷺ نے وہ سب ایک سائل کو بخش دیں.اب اگر پاس نہ ہوتا تو کیا بخشتے.اگر حکومت کا رنگ نہ ہوتا تو یہ کیونکر ثابت ہوتا کہ آپ ﷺ واجب القتل کفار مکہ کو باوجود مقدرت انتقام کے بخش سکتے ہیں جنہوں نے صحابہ کرام اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور مسلمان عورتوں کو سخت سے سخت اذیتیں اور تکلیفیں دی تھیں جب وہ سامنے آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (يوسف : 93) میں نے آج تم کو بخش دیا اگر ایسا موقع نہ ملتا تو ایسے اخلاق فاضلہ حضور ﷺ کے کیونکر ظاہر ہوتے یہ شان آپ ﷺ کی اور صرف آپ کی ہی تھی.کوئی ایسا خُلق بتلاؤ جو آپ ﷺ میں نہ ہو اور پھر بدرجہ غایت کامل طور پر نہ ہو.ملفوظات جلد اول صفحہ 84 85 اس مجمل خاکہ کے بعد اب میں آپ ﷺ کے اخلاق پر تفصیلی نظر ڈالتی ہوں اور اس سلسلہ میں سب سے پہلے آپ ﷺ کی پاکیزہ زندگی کو لیتی ہوں کیونکہ جس کی اپنی زندگی پاکیزہ نہ ہو وہ دنیا کو درس اخلاق نہیں دے سکتا.اخلاق اور پاکیزگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے غیر پاکیزہ انسان سے اعلیٰ اخلاق سرزد ہو ہی نہیں سکتے.آپ ﷺ نے چالیس سال کی عمر میں دعویٰ نبوت فرمایا لوگوں نے جب تکذیب شروع کی تو آپ ﷺ نے ساری دنیا کولکار کر فرمایا فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (یونس: 17) دعوی سے پہلے کی میری ساری زندگی ایک روز روشن کی طرح تمہارے سامنے ہے اگر میں نے کبھی تم سے جھوٹ نہیں بولا.فریب نہیں کیا تو خدا تعالیٰ کے معاملہ میں کس طرح فریب سے کام لے سکتا ہوں اگر کوئی قابل اعتراض پہلو میرے اخلاق یا میری زندگی کا تمہیں کبھی بھی نظر آیا ہو کبھی جھوٹ بولا ہو.دھوکہ دہی سے کام لیا ہو تو بتا دو لیکن آپ ﷺ کے اس چیلنج کا جواب تمام مشرکین مکہ میں سے کوئی نہ دے سکا اور دے بھی کیسے سکتا تھا جبکہ آپ ﷺ کی زندگی نہایت پاکیزہ آپ ﷺ کے اطوار نہایت اعلیٰ اور آپ ﷺ کے اخلاق انتہائی پسندیدہ تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے اشد ترین دشمن ابو جہل نے بھی یہی کہا کہ اِنا لَا نُكَذِّبُ مُحَمَّدًا بَلْ نُكَذِّبُ مَا جَاءَ بِہ.یعنی ہم محمد(ﷺ ) پر جھوٹ کا الزام نہیں لگاتے بلکہ جو وہ تعلیم دیتا ہے اس کی تکذیب کرتے ہیں.

Page 310

292 اسی طرح ابوسفیان جب ہر قل شہنشاہ روم کے پاس پیش ہوا تو اس نے ابوسفیان سے آنحضرت کے متعلق سوالات کئے کہ کیا تم نے دعویٰ سے قبل ان کا کوئی جھوٹ دیکھایا انہوں نے کوئی عہد توڑا.ابوسفیان نے ہر بات سے انکار کیا ہر قل نے پوچھا وہ تمہیں کیا تعلیم دیتے ہیں.ابوسفیان نے کہاوہ کہتے ہیں ایک خدا کی پرستش کرو.سچ بولو.امانتیں ادا کرو.ایفائے عہد کر دوغیرہ وغیرہ.امیہ بن خلف آپ ﷺ کا جانی دشمن تھا.سعد بن معاذ نے اس کو بتایا کہ آنحضرت ﷺ نے تیرے قتل کی پیشگوئی کی ہے.آپ ﷺ کی صداقت کا دل میں اسے اتنا یقین تھا کہ سن کر وہ خوف زدہ ہو گیا اور بے اختیار کہنے لگا محمد ( ﷺ ) جو کہتے ہیں وہ غلط نہیں ہوتا.آپ ﷺ کی پاکیزہ عادات کے متعلق آپکے چچا ابوطالب شہادت دیتے ہیں کہ لَمُ اَرَيْنَهُ كَذِبَهُ وَلَا ضِحُكًا وَلَا جَاهِلِيَّةٌ وَلَا وِقْفًا مَعَ الصِّبْيَانِ کہ میں نے آپ ﷺ کو جھوٹ بولتے ہوئے بے ہودہ مذاق کرتے ہوئے جاہلیت کے کام کرتے ہوئے یا بیہودہ لڑکوں کے ساتھ تعلقات رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا.اپنی پاکیزگی اور تقدس کے متعلق آپ ﷺ کی اپنی بے لاگ شہادت بھی ہے جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو نبوت سے سرفراز فرمایا آپ کی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپکو ورقہ بن نوفل کے پاس لے کر گئیں جو ایک عالم تھے آپ ﷺ نے ان سے تمام حالات بیان فرمائے ورقہ سمجھ گئے کہ آپ علی پر وحی الہی نازل ہوئی ہے انہوں نے کہا تمہاری قوم تمہیں وطن سے نکال دے گی کاش میں اس وقت جوان ہوتا اور تمہاری مدد کرتا.بے ساختہ اور بے اختیار آپ ﷺ کے منہ سے یہ الفاظ نکلے اَوَ مُخْرِجِيَّ هُمُ ( صحیح مسلم کتاب الایمان ) وہ مجھے نکال دیں گے؟ کیسے مجھے وہ نکال سکتے ہیں.میں نے ہمیشہ اپنی قوم کی خیر خواہی اور ہمدردی کی ہے ان کے ساتھ کسی قسم کی برائی نہیں کی پھر وہ کیوں مجھے نکال دیں گے؟ ان الفاظ میں کوئی تکلف نہیں تصنع نہیں بناوٹ نہیں.دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی ایک صداقت کی آواز ہے جس کی تردید اسلام کا بڑے سے بڑا دشمن بھی آج تک نہ کر سکا نہ کر سکتا ہے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - خاوند کی سب سے بڑی راز دان اس کی بیوی ہوتی ہے.انسان اپنے عیوب دوسروں سے چھپا سکتا ہے مگر بیوی سے کوئی راز پوشیدہ نہیں رکھا جا سکتا.جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ پر تمام دنیا کی

Page 311

293 اصلاح کی ذمہ داری ڈالی گئی تو اس عظیم الشان ذمہ داری کے احساس سے آپ ﷺ میں ایک طبعی گھبراہٹ پیدا ہوئی اور اسی گھبراہٹ کی حالت میں آپ ﷺ گھر تشریف لے گئے.حضرت خدیجہ سے فرمایا زَمِّلُونِي زَمَلُونی مجھے کپڑا اوڑھا دو.حضرت خدیجہ کے پوچھنے پر آپ ﷺ نے سارا واقعہ سنایا تو آپکی ہمراز کے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے جو تاریخ اسلام میں سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہیں.كَلَّا وَاللهِ لَا يُخْزِيْكَ اللهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِى الضَّيْفَ وَتُعِيْنُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ ( بخاری کتاب بدء الوحی ) خدا تعالیٰ کی قسم اللہ تعالی آپکو کبھی نا کام نہیں کرے گا.آپ ﷺے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتے ہیں بے کس اور بے سہاروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں.وہ اخلاق جو دنیا سے مٹ چکے ہیں ان کو پھر سے رائج کر رہے ہیں.مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں.آپ ﷺ کی پاکیزگی اور تقدس اور اعلیٰ اخلاق کے متعلق یہ اس عورت کی گواہی ہے جو آپ علی کی محرم را ز تھیں اور جنہوں نے آپ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق کا شہرہ سن کر ہی آپ ﷺ سے شادی کی تھی جو آپ ﷺ سے عمر میں بڑی تھیں خود مالدار تھیں لیکن آپ ﷺ کی نیکی تقویٰ اور اعلیٰ اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ اپنی سب دولت آپکے قدموں پر نچھاور کر دی.اور آپ کا پ ﷺ نے وہ دولت اپنے لئے نہیں رکھی بلکہ سب کی سب غریبوں اور حاجت مندوں میں تقسیم فرما دی.اور آپ ﷺ کے تمام غلاموں کو آزاد کر دیا.حضرت خدیجہ کی یہ شہادت آپ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق کے متعلق کوئی معمولی شہادت نہیں.اس شہادت میں جن اخلاق کا آپ ﷺ نے ذکر فرمایا ہے وہ معمولی اوصاف نہیں بلکہ غور سے دیکھا جائے تو یہ اخلاق ہی ساری نیکیوں کی جڑ ہیں.آپ ﷺ کے الفاظ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ نے ہی بتا دیا کہ اس زمانہ میں اخلاق اور نیکی باقی نہ رہی تھی اور وہ کالعدم ہو کر رہ گئے تھے.آپ ﷺ کی ذات مبارک کی وجہ سے وہ اخلاق پھر سے زندہ ہوئے اور وہ نیکیاں پھر سے قائم ہوئیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِك وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ - - اسی مضمون کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک چھوٹے سے جملے میں ادا فرما دیا.کسی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ آنحضرت ﷺ کے اخلاق کے متعلق ہمیں کچھ بتا ئیں.آپ نے فرمایا كَانَ خُلُقُهُ القُرآن ( مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 91) آپ ﷺ کے اخلاق کی تفصیل کا

Page 312

294 خلاصہ قرآن ہے یعنی قرآن مجید میں جن باتوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان پر آپ ﷺ عمل پیرا تھے جن باتوں کے کرنے سے روکا گیا ہے ان سے آپ ﷺ پر ہیز فرماتے تھے.جن باتوں کی آپ ے دنیا کو تعلیم دیتے تھے ان پر پہلے خود عمل فرماتے تھے.گویا آپ ﷺ کی ساری زندگی قرآن مجید کی تفسیر کا ایک زندہ نمونہ تھی اور اسی چیز کوخود اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے قُلْ إِنَّ صَلوتِی وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَالِكَ أُمِرُتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ - (الانعام: 163 تا 164) کہ میری عبادت، میری قربانیاں، تمام نیکیاں، اخلاق، بنی نوع انسان کی خدمت اور دنیا میں اپنے مشن کی تکمیل کے بعد پھر مولا کے حضور حاضر ہونا یہ سب خدائے وحدہ لاشریک کے لئے تھے جس نے مجھے مامور فرمایا تمام انبیاء ہی تَخَلَّقُوا بِاَخْلَاقِ اللَّهِ کا نمونہ ہوتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی صفات میں رنگین ہو کر خود خدا نما بن کر دنیا کو زندہ خدا کا پتہ دیتے ہیں لیکن نبی کریم ہے جو خاتم النبیین تھے اللہ تعالیٰ کی صفات کا اکمل ترین نمونہ تھے.ا.۲.محمد ہیں نقش نور خداست کہ ہرگز بجوئے بگیتی نخاست تهی بود از راستی ہر دیار بکردار آں شب ، که تاریک و تار.خدایش فرستاد و حق گسترید ۴.زمین را بداں مقدمے جال دمید نهالیست از باغ قدس و کمال ہمہ آل او • ہمچو گلہائے آل ترجمہ :.محمد عل خدا تعالیٰ کے نور کے سب سے بڑے نقش ہیں آپ ﷺ جیسا انسان کبھی دنیا میں پیدا نہیں ہوا..ہر ملک سچائی اور صداقت سے خالی تھا اور اس رات کی مانند تھا جو بالکل تاریک ہو.خدا تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مبعوث فرمایا اور حق کو پھیلا یا ز میں میں آپ ﷺ کی آمد کی وجہ سے زندگی کی روح دوڑ گئی.

Page 313

295 ۴.آپ ﷺ پاکیزگی اور کمال کے باغ کا ایک درخت ہیں اور آپ ﷺ کی اولاد گلاب کے سرخ پھولوں کی طرح ہے.خود آپ ﷺ فرماتے ہیں بُعِثْتُ لا تَمِّمَ مَكَارِمَ الاخلاق ( کنز العمال جلد 3 صفحہ 18 مطبوعہ حلب) یعنی میری بعثت کا مقصد انسانوں میں اعلیٰ اخلاق پیدا کرنا تھا.چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ آپ ﷺ نے عرب کے حبشیوں کو با اخلاق اور پھر با اخلاق سے باخدا انسان بنا دیا.ابو داؤد میں ایک حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: مَا مِنْ شَيْءٍ فِي الْمِيزَانِ الْقَلَ مِنْ حُسُنِ الْخُلُقِ مسند احمد بن حنبل کتاب مسند القبائل) کہ خدا تعالیٰ کے تول میں کوئی چیز اعلیٰ اخلاق سے زیادہ وزن نہیں رکھتی.دراصل اعلیٰ اخلاق ہی نیکی کی بنیاد ہیں روحانیت کی جڑ ہیں.اعلیٰ اخلاق نام ہے بنی نوع انسان کے ساتھ اعلیٰ ترین سلوک کا اور اسلام کی تعلیم کے دو ہی بڑے ستون ہیں خدا تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق.اسی لئے نبی کریم ﷺ جو بنی نوع انسان کے سب سے بڑے محسن ہیں آپ نے اللہ تعالیٰ سے لے کر بندہ تک کے حقوق مقرر فرمائے ہیں اور بندوں میں بادشاہ سے لے کر غلام تک کے بارہ میں حقوق ادا کرنے کے متعلق احکام بیان فرمائے ہیں یہاں تک کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم مسکراتے ہوئے چہرہ سے بھی کسی کو ملو گے تو یہ ایک اعلیٰ خلق ہے اور اس کا تم ثواب حاصل کرو گے.راستے میں کانٹے ہٹا دو گے یا کوئی اور ایسی چیز جس سے ٹھوکر کھانے کا ڈر ہو تو یہ بھی ایک خلق ہے.اب میں کسی قدر تفصیل سے آنحضرت ﷺ کے اخلاق حسنہ اور ان کے متعلق جو تعلیم آپ علی نے دی اس پر روشنی ڈالتی ہوں.سچائی:.سچائی کا جو اعلیٰ ترین معیار آپ ﷺ نے قائم فرمایا اس کی نظر کسی اور مذہب کی تاریخ پیش نہیں کر سکتی.آپ ﷺ میں سچائی اس اعلیٰ درجہ کی پائی جاتی تھی کہ آپ ﷺ قوم میں صادق اور امین کے نام سے مشہور تھے.قوم میں کسی نام سے مشہور ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ واقعی اس شخص نے اپنے تئیں اس کا صحیح مقدار قرار دیا ہو.کسی شخص کا صرف سچا اور دیانتدار ہونا کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا مگر ساری قوم کا ایک شخص کو صادق اور امین قرار دینا اہمیت رکھتا ہے.

Page 314

296 جب آپ ﷺ نے نبوت کا دعویٰ فرمایا تو آپ ﷺ نے مکہ کے لوگوں کو جمع کر کے فرمایا تم جانتے ہو میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا لوگوں نے کہا ٹھیک ہے.آپ ﷺ نے فرمایا اگر میں تم سے یہ کہوں کہ ایک بڑ الشکر مکہ کے پاس جمع ہو چکا ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو تم میری بات مان لو گے انہوں نے کہا ہاں ! ضرور ہم مان لیں گے.حالانکہ مکہ کے پاس کوئی لشکر چھپ ہی نہیں سکتا رسول کریم ﷺ نے فرمایا تو پھر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے تمہاری طرف یہ کہہ کر بھجوایا ہے کہ تمہیں ایک خدا کی پرستش کی طرف توجہ دلاؤں اور بتوں کی پرستش سے منع کروں.آنحضرت ﷺ کے دعوی نبوت کی اطلاع جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو لی تو آپ آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ کیا آپ ﷺ نے ایسا دعویٰ کیا ہے آپ نے اس خیال سے کہ کہیں حضرت ابو بکر کو ٹھوکر نہ لگ جائے سمجھانا چاہا.حضرت ابو بکر نے کہا میں صرف اتنا جاننا چاہتا ہوں کہ آپ نے ایسا دعویٰ کیا ہے یا نہیں.آپ ﷺ نے فرمایا ”ہاں“ حضرت ابوبکر نے بلا توقف کہا یا رسول اللہ ﷺ میں ایمان لاتا ہوں میں جانتا ہوں آپ ﷺ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا تو آپ ﷺ خدا کے معاملے میں کیسے غلط بیانی سے کام لے سکتے تھے.جب آپ ﷺ کے دعویٰ نبوت کی شہرت پھیلنے لگی تو قریش مکہ کو فکر پیدا ہوئی کہ حج کا زمانہ قریب آ رہا ہے لوگ مکہ میں جمع ہوں گے اور آپ ﷺ کے متعلق تحقیق کرنا چاہیں گے تو ہم کیا جواب دیں گے بڑے بڑے سرداران مکہ کی مجلس منعقد ہوئی تا کہ سب مل کر کوئی ایک جواب سوچ لیں.ایک شخص نے کہا کہہ دیں گے یہ جھوٹا شخص ہے.نضر بن الحارث جو آپ ﷺ کا اشد ترین مخالف تھا کہنے لگا جواب وہ سوچو جو معقول ہو محمد (ﷺ) تم میں بڑا اور جوان ہوا تم لوگ تسلیم کرتے تھے وہ سچا اور امین ہے اور اسکے اخلاق نہایت بلند ہیں یہاں تک کہ اب اس کے سر میں سفید بال آگئے اور اس نے یہ دعویٰ کیا اب اگر تم کہو گے کہ وہ جھوٹا ہے تو کون مانے گا یہ ایک دشمن کی گواہی ہے جو آپ ﷺ کی صداقت کے متعلق دینے کے لئے وہ مجبور تھا.آپ ﷺ کو دنیا میں صداقت کے قیام کی اس قدر تڑپ تھی کہ حضرت ابو بکر سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا ” کیا میں تمہیں ان گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں جو سب سے بڑے ہیں؟ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! فرمائے آپ ﷺ نے فرمایا سب سے بڑا گناہ خدا تعالیٰ

Page 315

297 کا کسی کو شریک قرار دینا ہے پھر فرمایا پھر ایک اور بڑا گناہ والدین کی نافرمانی کرنا ہے آپ ﷺ سہارا لے کر بیٹھے ہوئے تھے اتنا فرمانے کے بعد اٹھ کر بیٹھے اور بڑے زور سے فرمانے لگے آلَا وَقَوْلَ النُّورِ الا وَقَوْلَ النُّورِ اَلا وَقَوْلَ الزُورِ - ( بخاری کتاب الادب باب عقوق الوالدین ) اچھی طرح سن لو پھر بہت بڑا گناہ جھوٹ بولنا ہے.حضرت ابو بکر کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے ان الفاظ کو اتنی دفعہ دہرایا کہ ہم نے آپ ﷺ کی تکلیف کا خیال کرتے ہوئے دل میں کہا کہ کاش اب آپ ﷺے خاموش ہو جائیں.اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگایا رسول اللہ ﷺ میں کمزور آدمی ہوں بہت سی برائیوں میں مبتلا ہوں.سب برائیاں ایک دم نہیں چھوڑ سکتا آپ ﷺ مجھے ہدایت دیں کہ میں سب سے پہلے کس بُرائی کو چھوڑ دوں آپ ﷺ نے فرمایا ”جھوٹ بولنا چھوڑ دو‘اس نے عہد کر لیا کہ جھوٹ نہیں بولوں گا جب وہ کسی بُرائی کا ارتکاب کرنے لگتا تو اسے یہ خیال آجاتا کہ میری شکایت رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے گی آپ ﷺ مجھ سے دریافت فرما ئیں گے.جھوٹ میں نے بولنا نہیں سچ بولنا پڑے گا اس لئے یہ بات کرو ہی نہ.اس طرح آہستہ آہستہ اس نے ساری برائیاں چھوڑ دیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدِ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - دیانت وامانت :.الله صلى الله اخلاق فاضلہ میں سے ایک خلق امین ہوتا ہوتا ہے.رسول اللہ ﷺ کو سارے مکہ کے لوگ امین کہتے تھے.جیسا کہ پہلے بیان کر چکی ہوں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ سے شادی ہی آپ کی دیانتداری دیکھ کر کی تھی جب حضرت خدیجہ نے اپنا مال دے کر تجارت کی غرض سے آپ ﷺ کو شام کی طرف بھجوایا آپ ﷺ نے دیانتداری کے ساتھ مال کی اتنی نگرانی کی کہ تجارت میں غیر معمولی نفع ہوا اس سے قبل جولوگ حضرت خدیجہ کا مال لے کر جاتے تھے وہ بد دیانتی سے کام لیتے تھے لیکن آپ علی نے نہ خود کوئی مال لیا نہ کسی اور کو لینے دیا.جب آپ ﷺہ تجارت سے واپس آئے تو حضرت خدیجہ کے وہ غلام جو انہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ بھجوائے تھے انہوں نے واپس آ کر کہا کہ ہم نے اپنی زندگی میں ا ایسا دیانتدار شخص نہیں دیکھا.ا اقتدار نہیں دیکھا.تحمل بھی اخلاق فاضلہ میں سے ایک اعلیٰ درجہ کا خلق ہے.آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے بادشاہت بھی

Page 316

298 عطا کی آپ ﷺ ہر ایک کی بات سنتے اگر کوئی شخص سختی بھی کرتا تو آپ ﷺے خاموش ہو جاتے.آپ جب باہر تشریف لے جاتے لوگ آپ ﷺ کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے اور اپنی حاجات بیان فرماتے جب تک وہ اپنی بات ختم نہ کر لیتے آپ کے سنتے رہتے.ایک دفعہ آپ ﷺے صدقہ و خیرات تقسیم فرمارہے تھے ایک شخص کو خیال ہوا کہ مجھے کم حصہ ملا ہے اس نے آپ ﷺ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا.صحابہ برداشت نہ کر سکے.حضرت عمر نے تلوار نکال لی مگر آپ نے فرمایا اسے کچھ نہ کہو.آپ ﷺ کے پاس ایک بدوی آیا اسے معلوم نہ تھا کہ مسجد میں پیشاب کرنا منع ہے وہ آیا اور مسجد میں پیشاب کرنے لگا.صحابہ اٹھے کہ اسے نکالیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا اسے کچھ نہ کہو اس کا پیشاب رک جائے گا اس بیچارے کو معلوم نہیں کہ یہاں پیشاب کرنا منع ہے جب یہ پیشاب کرلے تو پانی لے کر مسجد کو دھو دو.اللہ اللہ کس شان کے تحمل اور نرمی کے سلوک کا مظاہرہ ہے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - عدل اور انصاف:.اعلیٰ اخلاق میں سے ایک خلق انصاف ہے.عام طور پر یہ بات مشاہدہ میں آتی ہے کہ بڑے آدمیوں کو سزا دیتے وقت حاکم گھبرا جاتے ہیں لیکن معمولی اور غریب طبقہ کے لوگوں کو سزامل جاتی ہے.آنحضرت کے پاس ایک مقدمہ آتا ہے جس میں ایک بڑے خاندان کی عورت نے کسی کا مال لیا تھا جب بات ظاہر ہوگئی تو لوگوں نے چاہا کہ اس عورت کو سزا نہ ہونے دیں ایک بڑے گھر کی عورت ہے بدنامی ہوگی لوگوں نے اسامہ بن زید سے کہا کہ آپ رسول کریم ﷺ کے پاس سفارش لے کر جائیں.اسامہ گئے ابھی بات شروع ہی کی تھی کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور آپ ﷺ نے فرمایا خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس قسم کا جرم کرتی تو میں اسے سزا دیئے بغیر نہ رہتا.مسلم کتاب الحدود بدر کی جنگ کا واقعہ ہے کہ حضرت عباس جو رسول کریم ﷺ کے چچا تھے اور ابھی اسلام نہ لائے تھے جنگ میں قید ہوئے جہاں قیدی بندھے ہوئے تھے اس کے قریب ہی آپ ﷺ کا خیمہ تھا.حضرت عباس کے کراہنے کی آواز آپ کو پہنچی تو آپ ﷺ بے چین ہو گئے.صحابہ نے جو آپ ﷺ کی بے چینی اور کرب دیکھا تو حضرت عباس کے ہاتھوں کی رسیاں ڈھیلی کر دیں.آنحضرت ﷺ کو جب اس کا علم ہوا

Page 317

299 تو آپ ﷺ نے فرمایا جیسے میرے رشتہ دار ویسے دوسروں کے رشتہ دار یا ان کی بھی رسیاں ڈھیلی کر دیا ان کی بھی کسی دو.صحابہ چونکہ آپ ﷺ کی تکلیف دیکھ نہ سکتے تھے انہوں نے سب کی رسیاں کھول دیں اور پہرہ کا انتظام کر دیا.ایفائے عہد :.آپ ﷺ وعدہ اور عہد کے پورا کرنے کے بہت پابند تھے اور ایسا ہی کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے جب اسلامی جنگیں ہوئیں تو اس میں علاوہ دیگر نصائح کے آپ ﷺ کی سب سے بڑی نصیحت یہ تھی کہ تم ہمیشہ معاہدہ کی پابندی کرو.ایک دفعہ ایک حکومت کا ایلچی آپ ﷺ کے پاس آیا اور چند روز میں ہی اتنا متاثر ہوا کہ اسلام لے آیا اور عرض کی میں اسلام لا چکا ہوں کیا اعلان کر دوں آپ ﷺ نے فرمایا یہ مناسب نہیں تم اپنی حکومت کے ایلچی ہو اسی حالت میں واپس جاؤ.وہاں جا اگر تمہارے دل میں اسلام کی محبت قائم رہی تو پھر واپس آکر اسلام قبول کرنا.(ابوداؤد) اسی طرح عبد اللہ بن ابی المساء سے ایک روایت ہے کہ اسلام سے قبل میں نے ایک معاملہ کیا تھا جس کی ادائیگی باقی تھی میں نے آپ ﷺ سے وعدہ کیا تھا کہ میں اسی جگہ ادا ئیگی آ کر کر دوں گا گھر آ کر میں بھول گیا تین روز کے بعد یاد آیا پہنچا تو آنحضرت ﷺے اسی جگہ تشریف رکھتے تھے آپ نے عبداللہ بن ابی الحمساء کو دیکھ کر صرف اتنافر مایا تم نے مجھے تکلیف دی میں تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں.“ پابندی عہد کا سب سے بڑا نمونہ صلح حدیبہ کے وقت آپ ﷺ نے دکھایا.صلح حدیبیہ کی شرائط میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اگر کوئی لڑکا جس کا باپ زندہ ہو یا چھوٹی عمر کا ہو وہ اپنے باپ کی مرضی کے بغیر محمد (ﷺ) کے پاس جائے تو اس کے باپ یا متولی کے پاس واپس کر دیا جائے گا.اتفاق ایسا ہوا کہ ادھر آنحضرت ﷺ اور مکہ والوں کے درمیان معاہدہ پر دستخط ہوئے ادھر سہیل ابن عمر و جو مکہ والوں کی طرف سے معاہدہ کر رہا تھا اس کا اپنا بیٹا ( ابو جندل ) رسول کریم ﷺ کے قدموں میں آ کر گر گیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ اسلام کی صداقت مجھ پر کھل گئی ہے.میرا باپ اسلام لانے کی وجہ سے مجھ پر عذاب تو ڑ رہا ہے میں موقع نکال کر بھاگ آیا ہوں.آنحضرت ﷺ ابھی جواب بھی نہ دینے پائے تھے کہ سہیل نے کہا معاہدہ ہو چکا ہے اس کو میرے ساتھ واپس جانا ہوگا.ابو جندل کی حالت دیکھ کر

Page 318

300 مسلمانوں نے تلواریں میان سے نکال لیں کہ ہم مر جائیں گے لیکن ابو جندل کو تکلیف سے بچائیں گے خود صلى الله ابو جندل گریہ وزاری کر رہا تھا کہ مجھے نہ جانے دیں لیکن رسول کریم ﷺ فداہ ابی وامی و روحی نے فرمایا " خدا کے رسول معاہدہ نہیں تو ڑا کرتے ہم معاہدہ کر چکے ہیں ابو جندل تم صبر سے کام لو.“ صبر واستقامت :.صبر اور استقامت کا جو نمونہ آپ ﷺ نے دکھایا تاریخ عالم اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتی.مکہ میں کے ساتھ وہ وہ ظلم کئے گئے کہ اس سے قبل کسی نبی کے ساتھ ایسا سلوک روا نہ رکھا گیا ہوگا مگر نے خدا تعالیٰ کی راہ میں صبر سے کام لیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب رسالہ اسلام اور جہاد میں فرماتے ہیں: ” خدا کے پاک اور مقدس رسول کو جس پر زمین اور آسمان سے بے شمار سلام ہیں بارہا پھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا مگر اس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کی دلی انشراح اور محبت سے برداشت کی.روحانی خزائن جلد 17.رسالہ اسلام اور جہاد صفحہ 5 ”ہمارے نبی ﷺ نے اپنے زمانہ میں خود سبقت کر کے ہرگز تلوار نہیں اٹھائی بلکہ ایک زمانہ دراز تک کفار کے ہاتھ سے دکھ اٹھایا اور اس قد رصبر کیا جو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ ﷺ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند ر ہے اور جیسا کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ دکھ اٹھاؤ اور صبر کر وایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا وہ پیروں کے نیچے کچلے گئے انہوں نے دم نہ مارا ہمارے سید و مولی اور آپ ﷺ کے صحابہ کا یہ صبر کسی مجبوری سے نہیں تھا بلکہ اس مبر کے زمانہ میں بھی آپ ﷺ کے جاں نثار صحابہ کے وہی ہاتھ اور بازو تھے جو جہاد کے حکم کے بعد انہوں نے دکھائے.اور بسا اوقات ایک ہزار جوان نے مخالف کے ایک لاکھ سپاہی نبردآزما کو شکست دے دی.ایسا ہوا تا لوگوں کو معلوم ہو کہ جو مکہ میں دشمنوں کی خونریزیوں پر صبر کیا گیا تھا اس کا باعث کوئی بزدلی اور کمزوری نہیں تھی بلکہ خدا کا حکم سن کر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے اور بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح ہونے کو تیار ہو گئے تھے.بے شک ایسا مبر انسانی طاقت سے باہر ہے اور وہم تمام دنیا اور تمام نبیوں کی تاریخ پڑھ جائیں تب بھی ہم کسی امت میں اور کسی نبی کے گروہ میں یہ اخلاق فاضلہ نہیں پاتے.“ روحانی خزائن جلد 17 رسالہ اسلام اور جہاد صفحہ 10

Page 319

301 چشم پوشی: ایک اعلیٰ درجہ کا خلق ہے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جو بندہ کسی دوسرے بندہ کا گناہ دنیا میں چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ قیامت کے دن چھپائے گا (مسلم) نیز یہ بھی آپ ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں سے ہر شخص کا گناہ تو بہ سے مٹ جائے گا مگر جو اپنے گناہوں کا آپ ﷺ اظہار کرتے پھریں ان کا کوئی علاج نہیں.ان اسی طرح آپ ﷺ نے تجس سے منع فرمایا اور نیک ظنی کی ہمیشہ تلقین فرمائی.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ فرماتے تھے باطنی سے بچو اور تجسس نہ کیا کرو.اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ سی سنائی خبر پر یقین نہ کر لیا کرو پہلے تحقیق کیا کرو کہ اس میں کتنی صداقت ہے.اللہ تعالیٰ بھی قرآن مجید میں فرماتا ہے إِذَا جَاءَ كُمُ فَاسِقٌ بِنَبَاءٍ فَتَبَيَّنُوا (الحجرات: 7) آنحضرت فرماتے ہیں لَيْسَ الْخَبُرَ كَالْمُعَايِنَةِ (مسند احمد بن حنبل) سنی ہوئی بات پر اس طرح ایمان نہیں لے آنا چاہئے گویا دیکھی ہو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپکی اس زریں نصیحت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے عورتوں میں افسوس ہے کہ بدظنی.تجسس اور چشم پوشی سے کام نہ لینا کثرت سے پایا جاتا ہے اس بات کی ضرورت ہے کہ بار بار ان کے سامنے رسول کریم ﷺ کی تعلیم اس بارہ میں بیان کی جائے بہت سی غلطیاں عدم علم کی وجہ سے ہوتی ہیں معلوم ہونے پر ہر وہ شخص جس کو محمد رسول اللہ ﷺ سے محبت ہے ضروران برائیوں کو چھوڑنے کی کوشش کرے گا صرف اسے بتانے کی ضرورت ہے کہ ان ان باتوں کو آپ نے نا پسند فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپ ﷺ کی اطاعت کی کامل تو فیق عطا فرمائے.اللَّهُم صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - دھوکہ بازی سے نفرت :.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ الَا يَظُنُّ أُولَئِكَ أَنَّهُمْ مَّبْعُثُونَ (المطففين: 5.4.3.2) یعنی دوسروں کا حق مارنے والے لوگوں پر افسوس ہے کہ جب وہ دوسروں سے اپنا حق وصول کرتے ہیں تو خوب بڑھا چڑھا کر لیتے ہیں لیکن جب خود دوسروں کے حق ادا کرنے لگتے ہیں تو اپنا تول کم کر دیتے

Page 320

302 ہیں کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ روز جزا کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے پیش نہیں ہوں گے.آنحضرت ﷺ ایک دفعہ بازار میں سے گزر رہے تھے آپ ﷺ نے غلہ کا ایک ڈھیر دیکھا اس میں ہاتھ جو ڈالا تو وہ اندر سے گیلا تھا اور باہر سے بالکل سوکھا.آپ ﷺ کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا اور آپ ﷺ نے فرمایا مَنْ غَضٌ فَلَيْسَ مِنی (مسلم کتاب الایمان ) یعنی جو شخص تجارت یا دوسرے لین دین میں دھوکا بازی سے کام لیتا ہے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں.چنانچہ آپ ﷺ کی اس تلقین کے نتیجہ میں اور آپ کے اخلاق فاضلہ دیکھ کر مسلمانوں میں اس اعلیٰ درجہ کے اخلاق پیدا ہوئے کہ روایتوں میں آتا ہے کہ ایک فروخت کر نیوالا اپنی چیز کی جو قیمت بتا تا خریدنے والا کہتا تم جو قیمت لگا رہے ہو وہ کم ہے اس کی قیمت زیادہ ہے میں زیادہ دوں گا.مظلوموں سے ہمدردی:.آپ ﷺ کا وجود مظلوموں کے لئے رحمت کا باعث تھا.آپ ﷺ نے بعثت سے قبل ایک مجلس قائم کی جس کا نام مجلس حلف الفضول تھا اور جس کا مقصد یہ تھا کہ اس میں شامل ہونے والے مظلوموں کی حمایت کریں گے.آپ ﷺ کبھی بھی مظلوم پر ظلم ہوتا دیکھ نہ سکتے تھے.ایک شخص کا ابوجہل نے قرضہ دینا تھا وہ اپنا قرضہ وصول کرنے آیا ابو جہل نے انکار کر دیا وہ مکہ میں کئی لوگوں کے پاس گیا بعض لوگوں نے اسے محمد رسول اللہ ﷺ کا پتہ از راہ شرارت بتایا کہ وہ تمہاری مدد کریں گے ان کو معلوم تھا کہ محمد رسول اللہ فور اس کی مدد کے لئے تیار ہو جائیں گے اور جب ابو جہل کے پاس جائیں گے تو وہ آپ ﷺ کو ذلیل کر کے نکال دے گا.چنانچہ وہ شخص آپ کے پاس گیا آپ ﷺ اس کو لے کر ابو جہل کے گھر گئے دروازه پر دستک دی ابو جہل باہر آیا تو آپ ﷺ نے ابو جہل سے کہا کہ تم نے اس شخص کی اتنی رقم دینی ہے ابھی دو.ابو جہل نے اسی وقت ادا کر دی.بعد میں رؤسائے مکہ نے کہا کہ تم کو کیا ہو گیا تھا کہ تم نے محمد کی بات مان لی ہمارے سامنے تو تم ڈینگیں مارتے تھے میں یوں کروں گا.اس پر وہ کہنے لگا تم صلى الله میری جگہ ہوتے تو یہی کرتے میں نے دیکھا کہ محمد (ﷺ) کے دائیں اور بائیں مست اونٹ کھڑے ہیں جو مجھے ہلاک کرنا چاہتے ہیں.اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مظلوموں کی حمایت میں آپ ﷺ نے اپنی جان کی پرواہ نہ کی.ایسے انسان کے گھر جو آپ کی جان کا لا گو تھا اکیلے مظلوم کی حمایت میں پہنچ گئے.ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اُنْصَرُ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا

Page 321

303 (بخاری کتاب المظالم و الغصب) اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم.صحابہ نے پوچھایا رسول اللہ کے مظلوم کی مدد تو ہوئی ظالم کی کس طرح مدد کی جائے.آپ ﷺ نے فرمایا ظالم کی مدیہ ہے کہ اس کو ظلم نہ کرنے دو.اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا لایؤمِنُ اَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ - بخاری کتاب الایمان) کوئی شخص سچا مومن نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے وہی بات پسند نہ کرے جو وہ اپنے پسند کرتا ہے.یہ فرما کر آپ ﷺ نے ظلم کا دروازہ بالکل ہی بند کر دیا.اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جو شخص کوئی خلاف اخلاق بات دیکھے تو اسے چاہئے کہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے یعنی اگر ظلم ہوتا دیکھے تو ظالم کا ہاتھ پکڑ لے اگر ہاتھ پکڑنے کی طاقت نہیں تو پھر زبان سے ہی منع کر کے اصلاح کی کوشش کرے اور اگر زبان سے بھی منع نہ کر سکے تو کم از کم دل میں ہی بُرا مان لے.شجاعت:.شجاعت ایک اعلیٰ درجہ کا خلق ہے اگر انسان میں سچائی، دیانت، ہمدردی صلہ رحمی، صبر تو پائے جاتے ہیں مگر دلیری نہ ہو شجاعت نہ ہو تو وہ اعلیٰ درجہ کا اور کامل انسان نہیں کہلا سکتا.ہوسکتا ہے کہ اس نے صبر اس لئے کیا ہو کہ وہ بزدل ہو لیکن آنحضرت ﷺ میں جہاں اور اخلاق اعلیٰ درجہ کے پائے جاتے تھے وہاں آپ کے برابر کوئی اور دلیر اور بہادر نہ تھا.غزوہ حنین میں جب اسلامی لشکر حسنین کے مقام پر پہنچا تو دونوں طرف ہوازن اور ان کے مددگار قبائل کے تیر انداز بیٹھے تھے اور درمیان میں ایک تنگ راستہ مسلمانوں کے لئے چھوڑ دیا تھا جب مسلمان کافی آگے بڑھ چکے تو تینوں طرف سے دشمن نے تیراندازی شروع کر دی مکہ کے لوگ اس شدید حملہ کو برداشت نہ کر سکے اور واپس لوٹے ان کے بھاگنے کی وجہ سے سارے لشکر میں ابتری پھیل گئی مسلمانوں کے قابو سے ان کی سواریاں نکل گئیں.رسول کریم ﷺ کے ساتھ صرف بارہ صحابہ صلى الله رہ گئے باقی صحابی میدان جنگ میں آپ ﷺ سے دور تھے اور کوشش کے باوجود آپ ﷺ تک نہ پہنچ سکتے تھے صرف ایک راستہ پیچھے کی طرف تھا.حضرت ابو بکر نے آپ ﷺ کی سواری کی باگ پکڑ لی اور کہا یا رسول اللہ لیے تھوڑی دیر کے لئے پیچھے ہٹ آئیں تا کہ اتنے میں لوگ جمع ہو جائیں آپ ﷺ کہتے ہیں ابوبکر میری باگ چھوڑ دو اور پھر ایڑی لگاتے ہوئے آپ ﷺ نے اسی راستہ پر بڑھنا شروع کیا اور بلند آواز سے کہتے جاتے تھے اَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ - (بخاری کتاب المغازی)

Page 322

304 اس خطر ناک وقت میں جبکہ موت سامنے نظر آتی تھی شجاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھایا مگر ساتھ ہی اپنے محفوظ رہنے پر کہتے جاتے تھے میں نبی ہوں اور عبدالمطلب کا بیٹا کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ میں مافوق البشر ہوں.عفو اور رحم :.عفو کا تو آپ ﷺ نے وہ شاندار اور بے نظیر نمونہ دکھایا جس کی مثال دنیا کی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے وہ دشمن جنہوں نے آپ ﷺ کو ۲۳ سال دکھ دئے.ظلم کی انتہا کر دی جب آپ غلبہ حاصل ہوا تو آپ ﷺ نے کہہ دیا جاؤ تم سب آزاد ہو تم سے کوئی باز پرس نہیں کی جائے گی.غرضیکہ آپ ﷺ تَخَلَّفُوا بِأَخْلاقِ اللہ کا کامل نمونہ تھے آپ ﷺ صفات الہیہ کے کامل مظہر تھے.آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں ہی اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا نمونہ اپنی عملی زندگی کے ذریعہ دکھا دیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اتنا بڑا درجہ عطا فر مایا کہ ساری دنیا کے لئے حکم فرمایا قُلْ إِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ - (ال عمران: 32) اے محمد رسول اللہ ساری دنیا کو خدا تعالیٰ کے اس ارشاد سے آگاہ کر دیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنا چاہتے ہو تو محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرو.آپ ﷺ کے اخلاق اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرے گا گویا محبت الہی کی شرط قیامت تک کے لئے اطاعت رسول لگادی.نبی کریم ﷺ کے حلقہ اطاعت سے باہر رہ کر اب کوئی خدا تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں کر سکتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ لَكُمْ فِى رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (احزاب: 22) محمد رسول اللہ کے طور طریق اختیار کرو.آپ ﷺ کے اخلاق سیکھو قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کے حکم پر عمل کیا اور اپنے آپ کو محمد رسول اللہ ﷺ کا نمونہ بنانے کی کوشش کی.جو ملک فتح کیا وہاں دنیا کو درس اخلاق دیا ایک نئی تہذیب اور تمدن کی بنیاد ڈالی آج یورپین اقوام اخلاق اخلاق کا شور مچاتی ہیں اور ظاہر یہ کرتی ہیں کہ گویا اخلاق کی تعلیم دنیا ان سے حاصل کر رہی ہے.انہوں نے یہ اخلاق کہاں سے سیکھے.محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت صرف دو قو میں کچھ تہذیب یافتہ تھیں.ایک روم کی حکومت دوسری کسری کی لیکن وہ بھی عیش و عشرت میں پڑ کر سب تہذیب و اخلاق بھول چکی تھیں.مسلمانوں نے فتوحات پر فتوحات کیں.یونان روم سلی، سپین افریقہ ان سب ملکوں میں حکومتیں کیں اپنے اخلاق سے دنیا کو زیرنگیں کیا جس ملک کو فتح کر کے وہاں سے جاتے تھے وہاں کے لوگ ان کے لئے روتے تھے موجودہ مغربی اقوام نے مسلمانوں سے درس اخلاق لیا لیکن

Page 323

305 افسوس کہ چودہ سو سال کے بعد مسلمان وہ اخلاق بھول گئے جن کا سبق محمد رسول اللہ ﷺ نے ان کو دیا تھا اور دوسری اقوام نے ان اخلاق کو اپنا لیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.آں معلم توئی کہ در دوراں چون تو دیگر نے دهند نشاں شرح خُلقش کجا تو حسن آں عاجزاز بیانم انم کرد کرد در مکنون صفحه 114 ترجمہ: آپ ﷺ زمانے میں ایسے عظیم الشان استاد ہیں کہ آپ ﷺ کی شان کے کسی اور استاد کا نشان نہیں ملتا میں آپ ﷺ کے اخلاق کی شرح کیسے بیان کر سکتا ہوں میں تو آپ ﷺ کی خوبیوں کو بیان کرنے سے عاجز ہوں.یہ غلط خیال دنیا میں رائج ہے کہ انسان کے اگر اخلاق بگڑ جائیں تو وہ ان کو بدلنے پر قادر نہیں.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں لكل داء دواء ہر مرض کا علاج موجود ہے جس طرح ظاہری امراض کا علاج ممکن ہے اسی طرح روحانی امراض کا بھی اللہ تعالیٰ بھی قرآن مجید میں فرماتا ہے اِنَّ اللهَ لا يُغَيِّرُ مَ بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمُ (الرعد: 12) یعنی اللہ تعالیٰ بھی کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اس برائی کو دور کرنے کی کوشش نہ کریں.صرف ہمت اور کوشش کی ضرورت ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آتا ہے: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَدِيَنْهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: 70) کوشش کرنے والا آخر منزل مراد کو پالیتا ے اور اللہ تعالیٰ بھی اس کے لئے ایسے راستے کھول دیتا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کر سکے.پس ہمیں چاہئے کہ اپنے ہر قول و فعل میں محمد رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کی پیروی کریں.اپنی اولادوں کو آپ ﷺ کے منہ پر چلنے کی تلقین کریں اور دنیا کے سامنے آپ ﷺ کے اخلاق فاضلہ اور کی سیرت طیبہ کو بار بار پیش کریں تا کہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ ہماری نجات ہمارے پیارے آقا کی اطاعت سے ہی وابستہ ہے اور آپ ﷺ کی اطاعت سے ہی خدا تعالیٰ بھی ہمیں مل سکتا ہے.

Page 324

306 مصطفى پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت اس سے نور لیا بار خدایا ہم نے شانِ حق تیرے شمائل میں نظر آتی ہے تیرے پانے سے ہی اس ذات کو پایا ہم نے چھو کے دامن ترا ہر دام سے ترے سر لا جرم در په ملتی ہے نجات کو جھکایا ہم نے اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - مصباح اپریل 1964 ء

Page 325

307 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 1964ء تشہد وتعوذ کے بعد فرمایا میں سب سے پہلے تمام لجنات کی نمائندگان اور ممبرات کو جو اجتماع کی غرض سے تشریف لائی ہیں.اھلا و سھلا مرحبا کہتی ہوں.اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے ہمیں ایک دفعہ پھر مرکز میں جمع ہو کر اپنے سابقہ کاموں کا جائزہ لینے اور آئندہ کے لئے پروگرام مرتب کرنے کی توفیق عطا فرمائی.آپ نے فرمایا کہ ابھی ابھی جو عہد نامہ ہم نے دہرایا ہے اس کی ایک شق یہ بھی ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے اور احمدیت اور اسلام کی ترقی کے لئے ہرممکن کوشش کرتے رہیں گے مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ آیا ہم اپنے اس عہد اور اقرار کو جو ہم کرتی ہیں پورا کرنے کی کوشش بھی کرتی ہیں یا نہیں.آپ نے فرمایا کسی چیز کا صرف اقرار کر لیتا ہی کافی نہیں ہوتا.بلکہ اس کو پورا کرنے کے لئے عمل کی بھی ضرورت ہے ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں صحابہ اور صحابیات نے عظیم الشان قربانیاں کیں اور اس عہد کو کہ ہم دیں کو دنیا پر مقدم رکھیں گے.لفظ بہ لفظ پورا کر کے دکھایا.ان لوگوں نے وہ عظیم الشان قربانیاں صرف خدا تعالیٰ کی خاطر اور اس کے بچے مذہب کی خاطر اور رسول اللہ ﷺ کے عشق میں سرشار ہو کر کی تھیں اور تاریخ اسلام ان قربانیوں سے بھری پڑی ہے مثال کے طور پر آپ نے چند صحابیات کے واقعات سنائے.مثلاً حضرت عمرؓ کی لونڈی اور حضرت عمار بن یاسر کی والدہ پر ان کے اسلام لانے کی وجہ سے کفار مکہ نے اس قدر ظلم ڈھائے کہ وہ انہیں سختیوں اور مظالم میں فوت ہو گئیں.اور ان سختیوں کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے آل یا سر صبر کرو کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے ان قربانیوں کے بدلہ میں جنت تیار کی ہے.حضرت صدر صاحبہ موصوفہ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا : موجودہ زمانہ اگر چہ اس قسم کی قربانیوں کا تقاضا نہیں کرتا.مگر احمدیت کی ترقی کے لئے احمدی مردوں اور خاص طور پر احمدی مستورات کو اپنے زمانہ کے حالات کے مطابق بہر حال قربانیاں پیش کرنی پڑیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایسی قربانیوں کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں.مبلغین تبلیغ اسلام کے لئے دور دراز ملکوں میں جاتے تھے.اور ان کی بیویاں سالہا سال تک ان کے پیچھے صبر و ہمت اور عزت اور عفت سے زندگی گزارتی تھیں.ہم ان صحابیات کو عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں.صرف اس لئے کہ وہ اپنے خاوندوں کے پاؤں کی زنجیر نہ بنیں.انہوں

Page 326

308 نے ان کو پوری دلجمعی کے ساتھ غیر ممالک میں تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے میں مدد دی.آپ نے فرمایا حضرت مولوی رحمت علی صاحب مولانا عبد الرحیم صاحب درد اور مولانا جلال الدین شمس صاحب کی بیویاں ان احمدی مستورات میں سے ہیں جنہوں نے ان قربانیوں میں حصہ لیا.اور ایسی ہی قربانیوں کا تقاضا احمدیت ہم لوگوں سے بھی کرتی ہے.احمدی مستورات کو اپنے اعمال اور اخلاق کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے.اور یہ خیال رکھنا چاہئے کہ ان سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جس سے احمدیت کی بدنامی ہو.آپ نے فرمایا کہ مبلغین کی بیویوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ اپنی گھریلو اور معمولی مشکلات کا ذکر کر کے اپنے خاوندوں کو جو غیر ممالک میں اسلام کی خدمت میں مصروف ہیں پریشان نہ کریں.اور یہ بھی کہ ان کی عدم موجودگی میں بچوں کی تربیت کا خیال رکھیں کیونکہ یہی بچے آئندہ اسلام کی خدمت کے لئے آگے آئیں گئے.احمدیت ایک عظیم الشان عمارت ہے اور لجنہ اماءاللہ اس عظیم الشان عمارت کی ایک دیوار ہے جس کی بنیاد حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے رکھی.اگر اس دیوار میں کوئی خامی رہ گئی تو ساری عمارت کی خوبصورتی کو دھبہ لگائے گی.پس لجنہ کی ممبرات کا فرض ہے کہ وہ اپنے فرائض کو اچھی طرح جانیں اور انہیں نبھانے کی کوشش کریں.آپ نے فرمایا لجنہ کی تمام ممبرات کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام ایسے کاموں سے بچیں جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہماری زندگیاں اس آیت کے مطابق ہوں قُل اِن صَلوتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام: 163) انسان کی زندگی کا یہی نصب العین اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے.اور ہمیں اپنی زندگیوں کو اسی کے مطابق ڈھالنا چاہئے.آپ نے فرمایا مسلمانوں نے انتہائی درجہ تکالیف برداشت کر کے اور بڑی سے بڑی قربانیاں دے کر پاکستان صرف اسی لئے حاصل کیا تھا کہ وہ بندوں سے الگ ہو کر جن کی تہذیب طرز معاشرت اور مذہب مسلمانوں سے بالکل مختلف ہے اسلامی ہدایات اور تعلیم کے مطابق زندگی بسر کر سکیں.ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا اب ہمارے اعمال و افعال تہذیب و تمدن معاشرت چال و گفتار واقعی اسلامی تعلیم کے مطابق ہیں اور کیا ہم نے اس مقصد کو پا لیا ہے جس کے لئے ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا.آپ نے فرمایا اسلام میں اخلاق کی درستی پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اخلاق کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے.مسلمانوں کے افعال.اعمال ایسے ہونے چاہئیں کہ ان کو دیکھ

Page 327

309 کر ایک غیر شخص بھی جان لے کہ یہ لوگ ایک بہت بڑے نبی کے پیرو ہیں اور واقعی اس مذہب کی تعلیم اعلیٰ و اکمل ہے.آپ نے فرمایا اگر پاکستانیوں میں سے کوئی بھی ایسا ہے جس کے اعمال اسلامی تعلیم کے منافی ہیں تو ذمہ داری عورتوں پر ہی پڑتی ہے کیونکہ اگر وہ بچوں کو اچھی تربیت دیں اور اسلامی تعلیم کے مطابق ان کی پرورش کریں تو وہ بڑے ہو کر ایسے شہری بنیں گے جن میں وہ اخلاق جن کے لئے حضرت رسول اکرم ﷺ تشریف لائے نمایاں طور پر پائے جائیں گے.آپ نے فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اغراض میں سے ایک بڑی غرض اور مقصد اخلاق اور اعمال کی اصلاح ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ محض زبانی اقرار اور بیعت کچھ بھی نہیں جب تک کہ حقیقی تقویٰ نہ ہو.صرف چھلکے سے کام نہیں بن سکتا بلکہ مغز کی ضرورت ہے.سیدہ موصوفہ صاحبہ نے فرمایا! انسان اپنے اعمال اور اخلاق کو سنوارنے کے لئے نمونے کا محتاج ہے اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو تمام انسانوں کے لئے مکمل ترین نمونہ بنا کر بھیجا ہے.آپ ﷺ کی مکمل پیروی اور اتباع خدا تعالیٰ کی محبت کی محرک ہے.جیسے کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ إِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ - ال عمران: 32) اور آپ ﷺ کی اطاعت سے مراد صرف زبانی اقرار نہیں بلکہ آپ ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کی مکمل پیروی ہے.ہر اس فعل کو جسے اسلام خوبی اور اچھائی قرار دیتا ہے.اپنے میں پیدا کرنے کی کوشش اور جس کو اسلام بُرا کہتا ہے.اس سے کلیہ بچنے کا نام کامل اتباع ہے آپ نے فرمایا عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی سیرت کا بکثرت مطالعہ کریں اور پھر اس کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کریں.آپ نے فرمایا: خدا تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ احمدیت کی ترقی اور غلبہ کے متعلق بہت سے وعدے ہیں مگر احمدیت کی ترقی خلافت سے وابستہ ہے.جب تک خلافت جاری ہے.ترقی بھی جاری رہے گی.آپ نے فرمایا ہمیں خلافت کی اہمیت کا احساس پیدا کرنا چاہئے اور ہر اس فتنہ پرداز عنصر کو جو خلافت کے خلاف ہو اپنے سے الگ کرنا چاہئے.مصباح نومبر 1964

Page 328

310 اختتامی خطاب بر موقع سالانہ اجتماع 1964ء تشہد وتعوذ کے بعد فرمایا الحمد لله الحمد لله الحمد للہ کہ لجنہ کا اجتماع کامیابی کے ساتھ ختم ہو گیا.تمام پروگرام اور تقاریر کا اثر ایک بیج ہے جو آپ لوگوں کے دلوں میں ڈالا گیا ہے اس کا نتیجہ بعد میں ظاہر ہو گا.اگر تو اس اجتماع میں شمولیت کا ثمر اس رنگ میں ہو کہ آپ میں کام کے لئے امنگ پیدا ہو اور ترقی کرنے کا جذبہ آپ کی ترقی کا موجب ہو تو واقعی اس اجتماع کا کچھ فائدہ بھی ہوگا.ورنہ یہ سب وقت کا ضیاع اور مال کا ضیاع ہے.لجنہ اماءاللہ کے قیام پر آج 32 سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور سلسلہ احمدیہ کے قیام کو پون صدی.مگر کیا ہم آج اطمینان سے یہ کہہ سکتی ہیں کہ جو کام ہمارے ذمہ لگایا گیا تھا.وہ ہم نے پورا کر دیا ؟ بے شک قادیان اور قادیان سے مبعوث ہونے والے عظیم الشان مامور کی شہرت تمام دنیا میں پھیل چکی ہے اور دنیا کے کونے کونے میں اس کے دعوی کے منادی پہنچ رہے ہیں.مگر کیا ہمارا کام ختم ہو گیا ہے؟ نبی جماعت کا باپ ہوتا ہے اور اس کو ماننے والی جماعت تمام دنیا کے لئے باپ کی حیثیت رکھتی ہے اور جس طرح نبی اپنی جماعت کی ترقی و بہبودی کے لئے کوشاں رہتا ہے اسی طرح اس کی جماعت کا فرض ہے کہ وہ تمام دنیا کی بھلائی اور ہدایت کے لئے کوشش کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والوں کی حیثیت سے ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم تمام دنیا کو لباس تقویٰ پہنا ئیں.ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم تھوڑے ہیں اور ہمارے وسائل محدود ہیں اور ساری دنیا کو پیغام حق نہیں پہنچا سکتے.کیا ایک غریب ماں باپ جن کے آٹھ دس بچے ہوں ایسا کریں گے کہ ایک بچہ کی تعلیم و تربیت پر تو پوری توجہ صرف کریں اور باقیوں کو ایسے ہی چھوڑ دیں؟ آپ لوگوں نے مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے ان کی کامل فرمانبرداری کا عہد کیا ہے.آپ کو چاہئے کہ اسلام کے اس میٹھے اور ٹھنڈے چشمے کی طرف دنیا کی تمام تشنہ روحوں کی رہنمائی کریں اور جس نعمت کو آپ نے پایا ہے.دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں.جب تک اسلام کا غلبہ نہ ہو جائے آپ کو اس وقت تک چین نہیں لینا چاہئے.ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائی مشنری کیسے تمام ممالک میں پھر کر تکالیف اٹھا کر اپنے مذہب کا پر چار کرتے ہیں.حالانکہ ان کا مذہب اسلام کی طرح زندہ مذہب نہیں ہے.اگر وہ لوگ ایک مردہ مذہب کے لئے قربانیاں کر سکتے ہیں اور تکالیف برداشت کر سکتے ہیں تو کیا آپ لوگ زندہ خدا اور زندہ مذہب کی خاطر کام نہیں کر سکتیں؟ کیا آپ دنیا میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت قائم کرنے کے لئے اور

Page 329

311 آنحضرت ﷺ کے دین کو پھیلانے کے لئے قربانی نہیں کر سکتیں؟ اگر ہم میں سستی اور غفلت اور کام سے بے تو جہی رہی تو سو سال کے بعد بھی ہماری منزل اتنی ہی دور رہے گی جتنی کہ اب ہے.اگر ہم اسلام کی فتح چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی رفتار میں تیزی پیدا کرنی ہوگی.اپنی جان، مال، عزت، آبر و غرض ہر چیز کو قربان کرنا ہوگا.عزم ہی ہمیں کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے کسی قسم کی مخالفت ہمارے کام میں روک نہیں بننی چاہئے.اگر آپ اپنے مقصد میں کامیابی چاہتی ہیں تو آپ کو دنیا کے ہر پیچ اور خار دار رستوں پر سے یوں گزرنا ہوگا گویا کہ وہ پھول ہیں.اور ساری دنیا کو یہ بتانا ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آگئے ہیں.آپ دہریت اور عیسائیت کے اس سمندر میں سے خدا تعالیٰ کی نصرت طلب کرتے ہوئے ہی گزرسکتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے لئے ایک کشتی نوح تیار کی ہے جس میں بیٹھ کر آپ خود کو اور دوسروں کو پار لے جاسکتی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ آپ کو قربانی.اخلاص، تو کل علی اللہ ، سادگی باہمی اخوت و ہمدردی خوش اخلاقی اور محبت کی عادات اپنانی ہوں گی.تحریک جدید کے اصولوں پر عمل کرنا ہوگا.اشاعت اسلام اور اسلام کے خلاف غلط فہمیوں کو دور کرنا ہوگا.شریعت کی امانت ایسی چیز ہے جس کا بوجھ اٹھانے سے زمین و آسمان نے انکار کر دیا.مگر صرف آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کی فلاح و بہبود کی خاطر اس کو اٹھایا.ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم ڈوبتے ہوؤں کو پار لگا ئیں.میری بہنو! خواب غفلت سے اٹھو نہ جانے یہ بہار کے دن پھر کب آئیں.خدا تعالیٰ نے ہمیں مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک زمانہ میں پیدا کیا.بہت انتظار کے بعد مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے.مگر اب دنیا نے منہ پھیر لیا.اب تشنہ روحوں کی پیاس بجھانا تمہارا کام ہے.اب تک جو کام ہم نے کیا وہ بہت تھوڑا ہے.آپ کا سب سے بڑا کام ساری دنیا کو محمد ﷺ کی غلامی میں لانا ہے.ایک جھنڈے تلے جمع کرنا ہے.خدا تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ترقی کا وعدہ ہے مگر اس ترقی اور غلبہ کو قریب لانا ہمارا کام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.بکوشید اے جوانان تابه دیں قوت شود پیدا بہار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا احمدیت کی ترقی اور غلبہ میں اگر ہماری سعی اور کوشش شامل نہ ہوئی تو آخر میں ہم سوائے کف افسوس ملنے کے اور کچھ نہ کرسکیں گی.مانا کہ ہم تھوڑے ہیں اور ہمارے وسائل محد و دیگر کام کرتی جائیں اور خدا کے

Page 330

312 حضور دعا بھی کیجئے کہ اے ہمارے مولیٰ ! تو نے مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا اور ہمیں اس کو ماننے کی توفیق بھی دی.اب ہمیں طاقت بھی عطا فرما کہ ہم ایسے کام کریں جو تیرے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی خاطر ہوں.ہماری مددکر اور نصرت کا دن اپنے فضل سے قریب کر.جیسا کہ میں نے پہلے دن بھی کہا تھا کہ ترقی کے لئے خلافت سے وابستگی ضروری ہے اور خدا کے رسول اور خلیفہ کی اطاعت بھی خدا تعالیٰ کی ایک نعمت ہے.اگر ہم اس نعمت پر اس کا شکر کریں گے اور قربانیاں کریں گے تو وہ اپنے فضلوں اور انعامات کو اور بڑھائے گا.جیسا کہ خود فرماتا ہے.لَئِن شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ - ابراهيم : 8) کہ شکر کے طور پر تمہاری قربانیاں مزید ترقی کا موجب بنیں گی.پس شکر اور قربانی میں ہی راز حیات اور جادہ نجات پنہاں ہے.مصباح نومبر 1964 ء

Page 331

313 اختتامی خطاب صدر لجنہ مرکز یہ جلسہ سالانہ 1964ء اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ (الزريت: 57) یعنی انسان کو پیدا کرنے کی غرض یہ ہے کہ وہ اس کا سچا عبد بنے اور قرب الہی حاصل کرے انسان میں مرد بھی شامل ہے اور عورت بھی اس لئے شریعت کے جتنے بنیادی احکام ہیں ان کا بجالانا مردوں اور عورتوں کے لئے یکساں ضروری ہے احمدی عورتوں پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کا ایک خاص احسان ہے.حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے مسند خلافت پر متمکن ہوکر جہاں جماعت احمدیہ پر اور ان گنت احسانات کئے وہاں ایک بہت بڑا احسان یہ بھی کیا کہ عورتوں کی توجہ ترقی کی طرف مبذول کروائی.عورتوں کو منظم کیا.ان میں تعلیم کو رائج کیا.ان کی تربیت کی اور ان کے حقوق ان کو دلوائے اور انہیں یہ احساس دلایا کہ ان کی ترقی کے بغیر جماعت ترقی نہیں کر سکتی.لجنہ کے قیام کے وقت حضور نے فرمایا جو اس بوجھ کو اُٹھانے کے لئے تیار ہوں وہ آگے آئیں اور اس میں شامل ہوں.ابتداء میں صرف 14 خواتین نے شمولیت اختیار کی لیکن آہستہ آہستہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور حضور کی راہنمائی میں مستورات نے قومی زندگی کا آغاز کر دیا.حضور نے عورتوں میں اسلام کے لئے محبت اور قربانی کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے مختلف کام ان کے سپر دفرمائے.مختلف تحریکوں میں حصہ لینے کے لئے ابھارا.سب سے پہلے مسجد برلن کی تحریک جماعت کی مستورات کے سامنے پیش کی کہ ایک مسجد صرف انہیں کے چندہ سے مرکز تثلیث میں تعمیر ہو.عورتوں نے بھی اپنے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایسی شاندار قربانی کا مظاہرہ کیا جس کی مثال اور کہیں ملنی مشکل ہے.بعد میں وہاں ملکی سکہ کے حصول کی وقت کی وجہ سے مسجد تعمیر نہ ہو سکی اور حضور نے یہ فیصلہ فرمایا کہ برلن کی بجائے لنڈن میں مسجد تعمیر ہو.اس کے بعد ہیگ میں بھی عورتوں ہی کے چندے سے مسجد تعمیر کی گئی.الغرض ہر لحاظ سے ایک چومکھی لڑائی آپ نے عورتوں کے حقوق کے تحفظ، ان کی عزت کے قیام اور ان کو دنیا کی مستورات کی صف اول میں لانے کے لئے لڑی ہے.آپ کے پچاس سالہ دورِ خلافت میں ان تقاریر کو جو آپ نے عورتوں کے جلسوں میں کیں مطالعہ کریں تو ایک عجیب رنگ نظر آتا ہے کبھی آپ عورتوں کو

Page 332

314 قربانیوں پر آمادہ کر رہے ہیں کبھی روحانیت پیدا کرنے کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کبھی اولاد کی تربیت کی طرف کبھی اعلیٰ تعلیم کی طرف.پھر جب لڑکیوں نے تعلیم حاصل کرنی شروع کی اور ڈگریاں لینی شروع کیں تو آپ کو فکر ہوئی کہ وہ کہیں صرف دنیاوی رنگ میں رنگین ہوکر نہ رہ جائیں تو آپ نے عورتوں کو توجہ دلائی کہ یہ ڈگریاں تمہارا مقصود نہیں بلکہ ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کرو.“ آپ نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے شعبہ تعلیم ،شعبه تربیت واصلاح ، شعبه خدمت خلق، شعبه ناصرات الاحمدیہ، شعبہ رُشد و اصلاح، شعبه دستکاری، شعبه مصباح، شعبہ مال پر بھی طائرانہ نظر ڈالی اور آخر میں ڈنمارک میں مسجد بنوانے کی تحریک کی.اور خواتین کو سادگی اپنانے اور اپنی ضروریات کو دین کی ضرورت پر مقدم نہ کرنے کی تلقین کی تا جلد از جلد سارے یورپ میں مساجد تعمیر ہو جائیں اور پانچ وقت وہاں سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہو.اللہ تعالیٰ آپ کو زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرنے کی توفیق دے.آمین.الفضل 4 فروری 1965ء

Page 333

315 جلسہ سالانہ 1965ء کے موقع پر تقریر نوٹ :.یہ اہم تقریر بذریعہ ٹیپ ریکارڈ مستورات کے جلسہ میں 21 دسمبر کے دوسرے اجلاس میں سنائی گئی.میری پیاری بہنو اور بچیو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ یہ پہلا جلسہ سالانہ ہے کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے خطاب نہیں کر سکی.لیکن بعض ضروری باتیں کہنا چاہتی ہوں.اس لئے ٹیپ ریکارڈر کے ذریعہ آپ سے مخاطب ہوتی ہوں.امید ہے کہ آپ توجہ سے سنیں گی اور ان پر عمل کریں گی.حضرت مصلح موعود کے وصال کے بعد یہ پہلا جلسہ سالانہ ہو رہا ہے.مشتاق دیدار نظریں جو سارا سال اس انتظار میں گزارتی تھیں کہ ہم جلسہ پر جائیں گی.تو اپنے آقا کا دیدار کریں گی اور ہمارے جانے کا پھل ہمیں مل جائے گا.آج چاروں طرف دیکھتی ہیں اور اس پاک وجود کو نہیں پاتیں.یہ غم ایسا غم ہے جو بھلایا نہیں جا سکتا.وہ پاک وجود وہ قدرت رحمت اور قربت کا نشان.وہ فضل و احسان کی کلید وہ حسن و احسان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نظیر.وہ جس کے سر پر خدا کا سایہ تھا.مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعُلا - وہ اسیروں کا رستگار ہاں وہ فضل عمر جس کے ذریعہ ہم نے زندہ خدا کو دیکھا اور اس کے نشانات کا مظاہرہ کیا بے شک آج ہم میں موجود نہیں لیکن اس کی برکات آج بھی زندہ ہیں اس کا لگایا ہوا پودا آج تناور درخت بن چکا ہے.میری بہنو! اس پاک وجود کے احسانات تو بے شمار ہیں لیکن طبقہ نسواں نے بے حساب آپ کی برکتوں اور آپ کی نوازشوں سے حصہ پایا ہے.آپ کی خلافت کا ایک ایک لمحہ اس کوشش میں گزرا ہے کہ عورتوں کی اصلاح ہو جائے.عورتیں ترقی کر جائیں.احمدی عورتیں دنیا کی کسی قوم کی عورتوں سے پیچھے نہ رہیں.بلکہ دنیا کی دوسری عورتوں کی راہ نما بنیں.آپ نے عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی.عورتوں کے حقوق دلوانے کے لئے ساری دنیا سے سینہ سپر ہوئے.ان کی تربیت کی طرف توجہ فرمائی.اس کی تنظیم فرمائی جس کے نتیجہ میں آج لجنہ اماءاللہ کا قیام سارے پاکستان میں ہو چکا ہے بلکہ پاکستان سے باہر بھی دنیا کے

Page 334

316 بڑے بڑے شہروں میں لجنات قائم ہیں.قوم کی عورتیں اور بچیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکی ہیں.جماعت میں اچھی اچھی تقریر کرنے اور لکھنے والی پیدا ہو چکی ہیں.عورتوں کے کئی مدارس اعلیٰ پیمانہ پر چل رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً فرمایا تھا کہ اگر پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح ہو جائے تو احمدیت کو ترقی حاصل ہو جائے گی.اس لئے رات اور دن آپ کو ایک تڑپ تھی ایک لگن تھی ایک آگ لگی ہوئی تھی کہ عورتیں دینی دنیاوی روحانی ہر لحاظ سے ترقی کریں تا ان کے گھروں سے پروان چڑھنے والی نسل احمدیت کی جاں نثار اور اسلام کی خاطر اپناتن من دھن قربان کرنے والی ہو.اور یہ ہے بھی حقیقت کہ جب تک عورت خود تعلیم دین سے واقف نہ ہوگی خود احمدیت کی جانثار اور فدائی نہ ہوگی وہ اپنی اولاد کو دیندار نہیں بنا سکتی اور ان کے دل میں قربانی کا جذبہ پیدا نہیں کر سکتی.اللہ تعالیٰ کا آپ پر کتنا بھاری احسان اور فضل ہے کہ اس اسلام کی آئندہ ترقی کو ہم ناقص العقل عورتوں کی ترقی کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے.اور حضرت فضل عمر کا ہم پر کتنا احسان ہے کہ آپ نے دن اور رات ہماری بہبودی میں خرچ کئے تا جلد سے جلد جماعت ترقی کرے تا جلد سے جلد محمد رسول اللہ ﷺ کی حکومت تمام دنیا میں قائم ہو جائے.اے اللہ تو وہ دن جلد سے جلد لے آتا ہم آنکھوں سے اسلام کو تمام ادیان پر غالب دیکھ سکیں.آمین ثم آمین لیکن جہاں اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ وعدہ ہے کہ وہ آپ کی جماعت کو ساری دنیا پر غالب کرے گا.اور جہاں اللہ تعالیٰ کا حضرت فضل عمر سے یہ وعدہ ہے کہ تیرے ماننے والے تیرے نہ ماننے والوں پر ہمیشہ غالب رہیں گے وہاں ہم پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے.کہ ہم اپنی کوششوں اور اپنی قربانیوں کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے دن کو قریب تر لانے والی ہوں.ہم اپنی آنکھوں سے اسلام کا غلبہ دیکھیں.ہم نے مصلح موعود کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور فضلوں کی اپنے پر بارش ہوتے دیکھی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ - (ابراهیم: 8) اگر میرے انعامات اور میرے احسانات کی تم لوگ قدر کرتے رہے تو ہمیشہ اپنے آپ کو مزید انعامات کا حقدار بناتے جاؤ گے.لیکن ناقدری کرنے کی صورت میں خدا تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے بھی رہنا چاہئے.سب سے بڑا انعام ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کی

Page 335

317 صورت میں عطا فرمایا ہے.لیکن یا درکھنا چاہئے کہ یہ انعام بھی مشروط انعام ہے.یعنی جب تک جماعت انعام خلافت کی اپنے آپ کو حقدار قرار دیتی رہے گی اس وقت تک یہ انعام ان کے اندر باقی رہے گا.سومیری عزیز بہنو! تمہیں چاہئے کہ اس انعام کو ہمیشہ کے لئے اپنے میں قائم رکھنے کے لئے جد و جہد کر و تا اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنے انعامات جس طرح پہلے نازل فرماتا رہا ہے.اب بھی نازل فرمائے اور ہمیشہ ہی نازل فرماتا رہے.کبھی بھی کوئی ایسا زمانہ یا وقت نہ آئے جب ہماری کوتاہیوں یا غفلتوں کی وجہ سے ہم یا ہماری نسلیں (خدانخواستہ) عذاب الہی میں گرفتار ہوں.آپ کا اپنا تعلق خلافت کے ساتھ مضبوط ہو آپ کی نسلوں اور ان کی نسلوں کا تعلق بھی خلافت کے ساتھ مضبوط اور محکم ہو یہ کام مرد نہیں کر سکتے.یہ کام صرف عورتیں کر سکتی ہیں.مردوں کے میدان عمل کا حلقہ گھر سے باہر ہے بچوں نے جو کچھ سیکھنا ہے آپ سے سیکھنا ہے.پس آپ کا کام ہے کہ اپنے بچوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت آنحضرت ﷺ کی محبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت اور آپ کے خلفاء کی محبت پیدا کریں.انہیں دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی تعلیم دیں.ان کے دلوں میں مقام خلافت کا اتنا احترام اتنا ادب اور اتنی محبت پیدا کریں کہ شیطان کسی دروازے سے بھی داخل ہو کر ان کے ایمان میں خلل انداز نہ ہو سکے.وہ اپنے امام کی آواز پر لبیک کہنے والے ہوں اور جماعت کے لئے قربانیاں دینے والے ہوں اپنی ضروریات اپنی خواہشات اور اپنے نفس پر جماعت کی ضرورت کو مقدم رکھنے والے ہوں.اے اللہ! تو ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہماری انگلی نسل ہم سے بھی زیادہ تیری خاطر قربانیاں کرنے والی ہو.وہ تیری عظمت کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے والی ہو.اور ہمیشہ اس جھنڈے کی حفاظت کرنے والی ہو.اے اللہ کبھی ایسا وقت نہ آئے کہ ہم یا ہماری اولادوں یا اولا دوں کی اولادوں میں سے کسی سے بھی ایسی لغزش غفلت یا کوتا ہی ہو جس سے اسلام کا جھنڈا سرنگوں ہو وہ ہمیشہ ہی بلند رہے.ہمیشہ ہی محمد رسول اللہ ﷺ کی بادشاہت سب بادشاہتوں پر غالب رہے اور ساری دنیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں شامل ہو جائے.گذشته سال 1964ء کے جلسہ سالانہ پر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق عطا فرمائی کہ میں احمدی مستورات کے سامنے یہ تجویز رکھوں کہ وہ مصلح موعود کے 50 سالہ کامیاب دور خلافت کے پورا ہونے پر ایک حقیر نذرانہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کریں.یہ تحریک بھی میں سمجھتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے دل میں

Page 336

318 ڈالی گئی تھی کیونکہ بغیر کسی ارادہ کے یک لخت یہ خیال میرے دل و دماغ پر چھا گیا.اور میں نے مستورات کے سامنے تحریک رکھی.پھر اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار احسان ہے کہ اس نے شرف قبولیت بھی عطا فر مایا.مجھے نا چیز ہستی کی طرف سے پیش کردہ تحریک بارگاہ ایزدی میں منظور ہوئی.عورتوں کے دل اس کی طرف کھینچے چلے گئے.گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر جس طرح عورتوں نے اپنے زیور اور رقوم مسجد کے لئے نچھاور کیں اس قربانی کو دیکھ کر بے اختیار سر آستانہ الوہیت پر جھک جاتا ہے اور دل بے اختیار آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود بھیجنے لگتا ہے جن کے طفیل اتنی قربانیاں دینے والی مستورات اس زمانہ میں بھی موجود ہیں جو قرون اولیٰ کی مستورات کی نظیر پیش کرتی ہیں.جن کی قربانیوں کو دیکھتے ہوئے ہم آنحضرت ﷺ کے زمانہ کی جھلک اپنی چشم بینا سے دیکھ سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ قربانیوں کا جذبہ آپ کے اندر پیدا کرے.اور آپ کا نصب العین صرف اور صرف اسلام کی ترقی ہو گو مسجد ابھی تعمیر نہیں ہوئی.گذشتہ ستمبر میں بنیاد رکھی جانی تھی لیکن ملکی حالات خراب ہونے اور جنگ چھڑ جانے کی وجہ سے رکھی نہیں جاسکی.اب انشاء اللہ مارچ کے آخر میں بنیا درکھی جانے کی تجویز ہے.انشاء اللہ العزیز مسجد کی تعمیر کا اندازہ تین لاکھ روپے ہے اس وقت دو لاکھ کے قریب جمع ہو چکا ہے لیکن اس سال میں ہم نے ایک لاکھ روپیہ اور مہیا کرتا ہے.مومن کا قدم کبھی پیچھے نہیں ہٹتا.ترقی یافتہ قومیں ہمیشہ حرکت میں رہتی ہیں.ان میں سکون کبھی پیدا نہیں ہوتا اور پھر یہ مجد تو آپ اپنے محبوب خلیفہ مصلح موعود فضل عمر کی یادگار میں قائم کر رہی ہیں اور یہ مسجد صرف اور صرف عورتوں کے چندوں سے بنے گی.میری بہنو! اگر آپ کے دلوں میں اب بھی اس مقدس و محبوب وجود سے جو آج ہماری ظاہری نظروں سے بے شک پوشیدہ ہو چکا ہے محبت ہے اگر آج بھی آپ ان کی جاری کردہ تحریکات میں حصہ لینا باعث فخر بجھتی ہیں تو اٹھیں اور پہلے سے بڑھ کر قربانیان پیش کریں اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کو ترک کر دیں.اسلام کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے اپنی ہر عزیز چیز کو قربان کر دیں.اپنے اخراجات کو کم کریں.سادگی اختیار کریں اپنی ضرورتوں سے پیسہ بچا کر سلسلہ کی ضروریات پر خرچ کریں.جن بہنوں نے ابھی تک اس مبارک تحریک میں حصہ نہیں لیا وہ اب اس میں شامل ہوں.بلکہ کوشش کریں کہ جلسہ سالانہ سے واپس اپنے گھروں کو جانے سے قبل اس میں شامل و کر واپس جائیں جوحصہ لے چکی یں وہ ھی کوشش کریں کہ مزید حصہ لیں جنوں نے وعدہ کھولی ہے لیکن ابھی تک پورا نہیں کیا وہ جلد از جلد ادائیگی کی کوشش کریں.ہر بہن دوسری بہن کو تحریک کرے تا جس تک یہ تحریک نہ پہنچی ہو وہ آگاہ ہو جائے.اور پاکستان کی

Page 337

319 ایک احمدی عورت بھی ایسی نہ رہ جائے جس نے مسجد ڈنمارک کی تعمیر میں حصہ نہ لیا ہو.میری عزیز بہنو! ابھی تو یہ تیسری مسجد ہے جو آپ کے چندوں سے تعمیر کی جائے گی.کیا صرف تین مسجدیں بنوا دینے سے ہمیں قرار آ سکتا ہے یا ہمارا مقصد پورا ہو سکتا ہے ہم نے ساری دنیا میں اسلام کو پھیلانا ہے ہم نے یورپ اور امریکہ کے ہر شہر میں مسجدیں بنانی ہیں تا دنیا کے کونے کونے سے اللہ اکبر اور لا اله الا الله محمد صلى الله رسول الله کی آواز بلند ہوتی رہے تا دنیا کے کونے کونے سے رات اور دن آنحضرت ﷺ پر درود بھیجا جائے.یہ سب کام آپ سے ایک قربانی چاہتا ہے.اسلام کا زندہ ہونا منحصر ہے ہماری موتوں پر ہمارے نفس کی موت پر جب تک آپ اپنے نفس پر موت وارد نہیں کر لیتیں اور سب کچھ اس کے حضور میں پیش نہیں کر دیتیں.اس وقت تک مقصد حیات حاصل نہیں ہوسکتا.اور پھر یہ سب کچھ دیا ہوا بھی تو اسی کا ہے.آپ کے سامنے حضرت مصلح موعود کی زندگی کا نمونہ ہے کہ آپ نے اپنی ساری عمر اپنی صحت.اپنی صلاحیتیں اپنے اوقات صرف اور صرف اس لئے خرچ کیے تا خدائے عزوجل کا نام دنیا میں بلند ہوتا خدا کی بھٹکی ہوئی مخلوق اپنے رب کو پہچانے اور آپ اس میں کامیاب رہے آپ نے دنیا کو زندہ خدا دکھا دیا.آپ نے ان کا تعلق خدا تعالیٰ سے قائم کر کے دکھا دیا.اسلام کی ساری تعلیم کے دو ہی بڑے محور ہیں.حقوق اللہ اور حقوق العباد آپ کی ساری زندگی انہی دو باتوں کے گرد گھومتی ہے جہاں ایک لگن یہ تھی کہ جماعت کے ہر مرد اور عورت کا تعلق خدا سے قائم ہو جائے.وہاں جماعت کے ہر فرد کی بہبودی بھی مد نظر تھی کہ وہ ہر لحاظ سے ترقی کریں.پھر عورتوں پر تو ان کے اس قدر احسانات ہیں جو گنائے بھی نہیں جا سکتے.اب آپ کا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اپنی سستیوں اور غفلتوں کو چھوڑ دیں.جس مقام تک حضرت مصلح موعود آپ کو لے جانا چاہتے ہیں وہاں تک پہنچنے کی کوشش کریں بے شک وہ آج ہم میں نہیں ہیں.لیکن ان کی روح آپ سے تبھی خوش ہو سکتی ہے جب آپ اپنی زندگی کے مقصد کو پہچانیں.آپ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو خود دینی علم حاصل کریں تا اپنی اولادوں کی ایسی تربیت کر سکیں کہ وہ جماعت کے جانباز سپاہی ثابت ہوں.خود سلسلہ کے کاموں میں حصہ لیں.جماعت کے لئے قربانیاں دیں.دینی احکام پر عمل کریں اپنا نمونہ ایسا پیش کریں کہ دنیا آپ کی طرف کھینچے.اپنی اولادوں کو وقف کریں ان کے دلوں میں دین اور سلسلہ کی محبت پیدا کریں.امام وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حکم کی اطاعت اور اس پر لبیک کہنا ہر عورت کا فرض ہے.آپ کا اور آپ کی اولادوں کا ایمان خلافت پر اتنا مستحکم رہے کہ کوئی بڑے سے بڑا فتنہ اس کو متزلزل نہ کر سکے.مجھے لجنہ کی رپورٹوں میں اس قسم کی شکایات ملتی رہتی ہیں کہ آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے عورتیں

Page 338

320 صلى الله اجلاسوں میں نہیں آتیں یا قومی کاموں میں حصہ نہیں لیتیں.کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم خدا تعالیٰ کی خاطر اپنے ذاتی جھگڑوں کو چھوڑ دیں.کیا ابھی تک وقت نہیں آیا کہ تو حید کا علم بلند رکھنے کی خاطر ہم میں یک جہتی پیدا ہو.ایک دوسرے کی عزت کریں ایک دوسرے سے محبت اور شفقت سے پیش آئیں.آنحضرت کے فرمان کے مطابق کہ سچا مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں.ہم بھی حقیقی مسلمان بنیں.ہم نے امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے.ہم نے ان کے خلفاء کے ہاتھ پر بیعت کی ہے.بیعت کا کیا مطلب ہے؟ یہی کہ انسان خدا تعالیٰ کی خاطر اپنے نفس کو خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بیچ دے کہ آج سے میرا کچھ نہیں سب کچھ اختیار آپ کا ہے خدا کی خاطر اب ہر کام میں آپ کی فرمانبرداری کریں گی.منہ سے تو ہم یہ کہتے ہیں لیکن بہت سوں کا عمل اس پر نہیں.میری بہنو! احمدیت کی ترقی اسلام کی ترقی عورتوں کی ترقی لجنہ اماء اللہ کی ترقی اب آپ سے ایک عظیم الشان قربانی کا مطالبہ کر رہی ہے.جس عظیم الشان مقصد کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے اور جس عظیم الشان مقصد کو آپ کے خلفاء نے آخری سانس تک پورا کیا.اسی کے لئے اب آپ نے قربانیاں دینی ہیں.اپنی غفلتوں کو چھوڑنا ہے اپنی سستیوں کو ترک کرنا ہے اور چین نہیں لیتا.اس وقت تک جب تک کہ آپ آپ کی اولاد ، آپ کی عزت ، آپ کا مال، آپ کا آرام، سب کچھ خدا کے راستہ میں کام نہ آ جائے.حضرت مصلح موعود کی مقدس روح اب بھی پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ سونے کا زمانہ گزر گیا.اب بھی وقت ہے کچھ کام کر لو.آنے والی نسلیں اس زمانہ کے لئے ترسیں گی.اور کہیں گی کاش وہ زمانہ ہمیں نصیب ہوتا کاش ہم بھی ویسی ہی قربانیاں کرتے جو ہم سے پہلے عورتوں نے کیں.مگر جب احمدیت کا غلبہ ساری دنیا میں ہو چکا ہوگا تو اس وقت قربانیوں کا بھی مطالبہ نہ ہوگا.لیکن آپ بہتوں نے مصلح موعود کا زمانہ بھی پایا اور اب اللہ تعالیٰ نے پھر محض اپنے فضل اور رحم کے ساتھ آپ کو ایک ہاتھ پر جمع کر دیا.پھر قدرت ثانیہ کا ظہور آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا.اللہ تعالیٰ کے احسانات پر احسانات دیکھے.نشانات پر نشانات دیکھے.فضل پر فضل پایا.آپ اگر اب بھی دین کی خاطر قربانیاں نہ کریں گی اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا نہ کریں گی تو ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ پر ناراض نہ ہو.جتنا زیادہ کسی کو انعام ملتا ہے اتنی ہی زیادہ اس پر ذمہ داری بھی عاید ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی آنکھیں کھولے.آپ کو تو فیق عطا فرمائے کہ اسلام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں.آمین اللهم آمین آخر میں اپنی تمام بہنوں کا جنہوں نے میرے غم میں میرے ساتھ ہمدردی اور محبت کا سلوک کیا مجھے

Page 339

321 خود آ کر ملیں.خط لکھے.تہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں.میرا دل آپ سب کی محبت سے پُر ہے اور میں آپ سب کے لئے دعا کرتی ہوں اور کرتی رہوں گی.انشاء اللہ تعالیٰ مجھے آپ سب اپنی اولا د اور اپنے سب عزیزوں سے زیادہ پیاری ہیں.آپ کی خوشی میری خوشی ہے.اور آپ کا دکھ میرا دکھ یہ سبق بھی حضرت مصلح موعود کی صحبت نے ہی سکھایا ہے.آپ کو جماعت اپنی بیویوں اور بچوں اور عزیزوں سے بہت زیادہ پیاری تھی.آپ کسی احمدی کا غم نہ دیکھ سکتے تھے.راتوں کو اٹھ اٹھ کر آپ کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے.اسی مقدس تعلق کی وجہ سے آپ سے بھی میں درخواست کرتی ہوں کہ مجھے اپنی دعاؤں میں یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بے حساب بخش دے اور میری بقیہ زندگی اسلام کی خدمت اور بنی نوع انسان کی خدمت میں بسر ہو.مجھے اللہ تعالیٰ کی محبت نصیب ہو.اور جب خدا تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آئے اس کی رحمت اور مغفرت مجھے ڈھانپ لے.اب میں آپ سے رخصت ہوتی ہوں.لیکن اس سے قبل ایک اعلان کر دیتی ہوں ہمیشہ اجتماع کے موقع پر یہ اعلان کیا جاتا تھا کہ کس لجنہ کا کام دوران سال بہترین رہا.چونکہ جنگ کی وجہ سے اس سال اجتماع نہ ہو سکا.اس لئے اب اس موقع پر اعلان کیا جاتا ہے کہ لجنہ اماءاللہ ربوہ اول قرار پائی ہے لجنہ لاہور اور راولپنڈی دوم اور لجنہ پشاورسوم.لجنہ کراچی کی سالانہ رپورٹ موصول نہ ہونے کی وجہ سے اسے مقابلہ میں شامل نہیں کیا جا سکا.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اپنے مبارک ہاتھوں سے اوّل لجنہ کو انعام عطا فرمائیں گی.باقی بجنات کی سندات اگر وہ یہاں نہیں ہیں تو ڈاک سے بھجوادی جائیں گی.اب میں آپ کو الوداع کہتی ہوں اللہ تعالیٰ کرے کہ آپ خیریت سے واپس جائیں.خیریت سے رہیں اور پھر اللہ تعالیٰ اگلے جلسہ سالانہ پر آپ کو یہاں آنے اور ان برکات سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.جو کچھ آپ نے یہاں سے استفادہ کیا ہے اس سے جو بہنیں نہیں آسکیں ان کو فائدہ پہنچا سکیں آپ ایک عظیم الشان تبدیلی یہاں سے پیدا کر کے جائیں ایسی عظیم الشان تبدیلی جو احمدیت کے لئے ایک نئی صبح طلوع کرنے کا موجب بنے اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ وناصر ہو.السلام علیکم.خاکسار مریم صدیقہ مصباح مئی 1966

Page 340

322 خطاب جلسه سیرت النبی لجنہ اماءاللہ ایبٹ آباد نوٹ :.حضرت سیدہ ام متین صاحبہ مورخہ 11 / اپریل بروز اتوار بوقت ایک بجے دن لجنہ اماء الله ایبٹ آباد تشریف لے گئیں اور اپنی مفید نصائح سے نوازا.تعوذ اور بسم اللہ کے بعد آپ نے فرمایا: آج ہم اپنے پیارے رسول مقبول کی سیرت پر روشنی ڈالنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں.پیشتر اس کے کہ میں آنحضور ﷺ پر نور کی زندگی کے متعلق کچھ بیان کروں.ہمیں چاہئے کہ ہم سب مل کر آپ پر درود بھیجیں اور وقفے وقفے کے بعد درود شریف کا ورد کرتی رہیں.رسول اکرم ﷺ کا وجود تمام قوموں کے لئے نجات کا باعث ہے.آپ کی نمایاں خصوصیت پیر تھی کہ باقی انبیاء اپنی اپنی قوم کے لئے آئے.مگر آپ تمام دنیا کے لئے رحمت بن کر آئے آپ کا دامن فیض آج تک قائم ہے.اور قیامت تک قائم رہے گا.چونکہ آپ ہر وصف میں یکتا تھے.اس لئے کوئی آپ کے اوصاف حقیقی بیان نہیں کر سکتا.آپ کے اخلاق کی تعریف قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے اے رسول تو کہہ دے کہ میری قربانی میرا مرنا میرا جینا صرف خدا کے لئے ہے.اسی کی فرمانبرداری کرو.اللہ تعالیٰ کی توحید قائم رکھنے میں قربانی اور ایثار کا جو درجہ آپ نے پیش کیا اس کی مثال ملنی مشکل ہے.جس طرح خداوند تعالیٰ اپنی صفات میں بے مثال ہے.اسی طرح آپ بھی اپنے اخلاق میں بے مثال ہیں.یہ نصب العین انسان کا بنایا ہوا نہیں بلکہ خدا کا بنایا ہوا ہے.رسول اکرم کے تمام اخلاق دنیا کے لئے اسوہ حسنہ پیش کرتے ہیں.آپ کا نمونہ دنیا کے لئے بہترین نمونہ ہے آپ کی زندگی کا نصب العین احکام خداوندی کی پیروی کرنا اور خدا کا قرب حاصل کرنا ہے.اللہ تعالیٰ کی محبت انسان کو اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ رسول کریم کا فرمانبردار نہ ہو.اور اپنے دائرہ عمل کا مرکز صرف خدا کی رضا مندی نہ سمجھے.اسی لئے آپ قرآن کریم میں خدا کی زبان سے فرماتے ہیں.اے لوگو! تم رسول کریم کی پیروی کرو.خدا پر تو کل رکھو اور کسی سے نہ ڈرو.جب تک پورا بھروسہ خدا پر نہ ہو.کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی.آپ کے اخلاق ایسے تھے کہ دنیا حیران رہ گئی.چنانچہ لوگ پکار اٹھے کہ اتنے عمدہ اخلاق اور کوئی نہیں دکھا سکتا.یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا مرنا اور میرا جینا خدا کی راہ میں ہے.آنحضرت نے واقعی ہمدردی اور محنت اٹھانے میں اپنی جان کو وقف کر دیا تھا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد ! کیا آپ اس غم اور فکر میں اپنے تئیں ہلاک کر دیں گے کہ لوگ ایمان نہیں لاتے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں: کہ رسول کریم سے بڑھ کر کون ہو

Page 341

323 گا کہ وہ سارے خدا کے ہو گئے.تو کس طرح فرشتوں نے ان کی مدد کی اور دشمنوں پر فتح پائی.خدا کا یہ احسان عظیم ہے کہ نبی کریم کی زندگی کے حالات جتنے زیادہ ہیں کسی اور کے نہیں.اسی لئے آپ کی زندگی ایک روشن کتاب ہے جسے دیکھ کر منہ سے بے اختیار نکلتا ہے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - رسول کریم ﷺ کی عمر 30 سال سے زیادہ ہوئی تو آپ لوگوں کی خرابیوں سے متنفر ہو کر ایک پہاڑی غار میں خدا کی عبادت میں مشغول رہنے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آپ کے وجود با برکت سے پشتوں کے بگڑے ہوئے سدھر گئے.اور دنیا میں ایک انقلاب عظیم پیدا ہو گیا.جو کہ رسول کریم کی دن رات کی دعاؤں کا نتیجہ تھا.ابتدائے اسلام میں جو کچھ ہوا وہ بھی رسول کریم کی دعاؤں کی برکت تھی.عرب کے لوگوں سے نکل کر اسلام تمام دنیا میں پھیل گیا.آپ کی تمام زندگی عشق خدا میں مصروف تھی.آپ تمام رات عبادت میں مشغول رہتے.حضرت عائشہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ آپ خدا کے رسول ہو کر اتنی تکالیف کیوں اٹھاتے ہیں.آپ نے فرمایا کیوں میں خدا کا شکر ادا نہ کروں.نماز کی پابندی کا آپ کو اتنا خیال تھا کہ آپ بیماری کے وقت سہارا لے کر بھی مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے تشریف لے جاتے.مکہ میں لوگوں نے ہر طرح کی کوشش کی کہ آپ کسی طرح بتوں کی پرستش کریں.اور کہا کہ جو کچھ چاہیں آپ سے لیں.اگر مال کی ضرورت ہو تو ہم آپ کو مالا مال کر دیں گے اور اگر خوبصورت بیوی کی ضرورت ہے تو وہ بھی دے دیں گے مگر آپ دھن کے پکے نکلے.ایک دفعہ لوگوں نے ابو طالب سے کہا کہ آپ انہیں سمجھا ئیں جواب میں حضور نے فرمایا کہ اے چا اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند رکھ دیں تو بھی میں خدائے واحد کی پرستش کبھی نہیں چھوڑوں گا.جنگ اُحد کے موقع پر ابوسفیان نے مشہور کر دیا کہ رسول کریم شہید ہو گئے ہیں.اس پر حضرت عمرؓ جنہیں حضور سے بے انتہا پیار تھا.غصے کی حالت میں جواب دینے لگے کیونکہ وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی شخص ایسی خبر پھیلائے.مگر حضور نے فرمایا کہ بس جواب مت دیجئے.لیکن جب کفار اپنے بتوں کی تعریف کرنے لگے تو آپ سے برداشت نہ ہو سکا اور آپ نے لوگوں کو فرمایا تم ان کے جواب میں کہ اللہ تعالیٰ بلند اور جلال والا ہے.ہمارا دوست خدا ہے دشمنوں کا کوئی نہیں.ایسی حالت میں جبکہ آپ بالکل بے یار و مددگار تھے.آپ نے توحید کے متعلق برملا غیرت کا اظہار فرمایا اور کسی قسم کے خطرہ کی پروانہ کی.آپ ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل کرتے اور اس طرح آپ کی ہر مشکل آسان ہو جاتی.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ - حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ ہمیشہ سوتے وقت سورتیں پڑھتے خاص کر سورہ اخلاص.سورہ فلق

Page 342

324 اور سورہ الناس.( بخاری کتاب الطب ) ان دردمندانہ دعاؤں کے نتیجہ میں خدا کی طرف سے نصرت اس حد تک ہوئی کہ دوست دشمن سب حیران رہ گئے.خداوند تعالیٰ نے فرمایا اے مسلمانوں اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تم سے محبت کرے تو رسول کریم کی کامل فرمانبرداری کرو.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ تیرے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ دراصل میرے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں.آپ کے بلند مقام کا احترام قرآن پاک میں موجود ہے.پھر بھی آپ فرماتے تھے کہ میں خدا کا رسول ہوں.مگر میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا.آپ دعا کرتے خدا میرے چاروں طرف نور بھر دے.آپ کی زندگی کا ہر فضل خدائی مخلوق کی بہتری میں گذرا.آپ کی فطرت کو شروع سے ہی کھیل کو د سے نفرت تھی.آپ دوسرے بچوں سے بالکل الگ طبیعت رکھتے تھے.آپ ایسے دور میں پیدا ہوئے جبکہ ہر طرف تاریکی کا دور دورہ تھا.آپ نے دنیا کو خدا کا حسن دکھانے کی پوری پوری کوشش کی.آپ کو طرح طرح کی تکالیف دی گئیں کہیں آپ پر پتھر برسائے گئے کہیں کوڑا کرکٹ پھینکا گیا.کبھی گالیاں دی گئیں مجنوں اور دیوانہ کے لقب سے پکارا گیا.مگر آفرین ہے آپ کے خلق عظیم پر.آپ ہمیشہ دعا کرتے کہ اے خدا میری قوم کو ہدایت دے.جب آپ پر پہلی دفعہ وحی نازل ہوئی تو آپ لرزاٹھے.گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ خدیجہ مجھے کمبل اوڑھا دو میری طبیعت پر بوجھ ہے.مگر حضرت خدیجہ کے منہ سے یہ الفاظ نکلے کہ خدا آپ کو کبھی بھی ضائع نہیں کرے گا.آپ ہمیشہ اخلاق حسنہ سے ہر ایک کی مدد کرتے ہیں.کیا ایسا شخص کبھی نا کامیاب ہو سکتا ہے؟ اور یہی وجہ ہے کہ خدا نے آپ کو ہر ایک صفت میں کامل پا کر دین اسلام کی تکمیل آپ کے ذریعہ کی متحمل آپ میں اس قدر تھا کہ باوجود اس کے کہ خدا نے آپ کو بادشاہت عطا کی مگر آپ بڑی انکساری کا اظہار فرماتے ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتے.یہاں تک کہ جاتے جاتے لوگ راستہ روک لیتے.رسول کریم نے فرمایا کہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھو.اپنے ہمسایوں کو دکھ نہ دو.مہمانوں کی خدمت کرو.وہ شخص ہرگز مومن نہیں جس کا ہمسایہ اس سے محفوظ نہیں.آپ ہمیشہ نصیحت فرماتے کہ حسن سلوک میں مذہب کی خصوصیت نہیں ہر ایک اس کا حقدار ہے.عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ہمدردی کا سلوک کرنے کے علاوہ رسول کریم نے غلاموں پر شفقت کرنے کی تلقین فرمائی.بیمار کی عیادت کے لئے خود تشریف لے جاتے.آپ مجسم شفقت تھے ہر ایک کے لئے خواہ اپنے ہوں یا بریگا نے آپ رحمت تھے.آپ کی زندگی کا ہر لمحہ خدا کے لئے وقف تھا.اور اسی کیفیت کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود نے فرمایا.محمد کی شان کو خدا کے سوا اور کوئی نہیں جانتا.محبوب حقیقی کی خوشبو آپ سے آرہی ہے.دعا کے بعد جلسہ برخاست ہوا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ مصباح جون 1966 ء

Page 343

325 دس 10 شرائط بیعت ہمارا دستور العمل مورخہ 12 اپریل 1966ء کو لجنہ اماءاللہ پشاور کے اجتماع میں حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے مندرجہ بالا موضوع پر اہم تقریر فرمائی.شرائط بیعت:.جب انسان کسی جماعت کے ساتھ تعلق پیدا کرتا ہے یا کسی سوسائٹی کا ممبر بنتا ہے تو اس جماعت یا اس سوسائٹی کی کچھ ذمہ داریاں یا شرائط ایسی ہوتی ہیں جن کا بجالانا اس پر فرض ہوتا ہے.احمدیت کسی نئے مذہب کا نام نہیں بلکہ احمدیت ، اسلام کی ہی نشاۃ ثانیہ کا نام ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض پھر سے اللہ تعالیٰ کے جلال اور عظمت کو دنیا میں قائم کرنا اور آنحضرت ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا احیاء کرنا ہے جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت لینی شروع کی اور جماعت کی بنیاد قائم ہوئی تو آپ نے ہر مرد اور عورت جس نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو قبول کیا اس کے لئے کچھ شرائط مقرر کیں.گویا وہ شرائط بیعت شرائط ہیں احمدیت میں داخلہ کی اور ان کا پورا کرنے والا مرد یا عورت ہی حقیقی احمدی اور حقیقی مسلمان کہلا سکتا ہے وہ شرائط کوئی نئی چیز نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمائی بلکہ وہ نچوڑ ہے قرآن مجید کی تعلیم کا اور نچوڑ ہیں آنحضرت ﷺ کے اقوال مقدسہ اور آپ کی نصائح کا.ہم جو لجنہ اماءاللہ کی مبرات ہیں اور احمد یہ جماعت کی خواتین ہیں ہمارا نصب العین اور ہمارا دستور العمل بھی ان شرائط کی ادائیگی ہی ہے.ان شرائط پر پورا اترے بغیر ایک احمدی عورت نام کی احمدی تو ضرور ہوگی مگر حقیقی احمدی نہیں ہوگی.اگر ہم ان شرائط پر پوری اترتی ہیں تو یقیناً ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طور پر پورا کر دیا گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقرر کردہ دس شرائط بیعت ایک کسوٹی ہیں.احمدیت کے امتحان کو پاس کرنے کی.پہلی شرط.شرک سے اجتناب :.سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ بیعت کننده سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئیندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا.“

Page 344

326 ابتدائے عالم سے تمام انبیاء کی رسالت کی غرض دنیا میں توحید کا قیام تھا.ہر نبی اپنی اپنی قوم کو اس طرف دعوت دیتا چلا آیا ہے کہ خدا وحدہ لاشریک ہے اسے مانو اور اسی کی عبادت کرو.توحید اسلام کی بنیادی باتوں میں سے ہے.آنحضرت ﷺ فرماتے تھے کہ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے.جن میں سے پہلی بات یہ ہے کہ دل اور زبان سے انسان یہ گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہستی قابل پرستش نہیں قرآن مجید سارا کا سارا توحید کی تعلیم سے بھرا پڑا ہے اور شرک کے خلاف ایک شمشیر برہنہ نظر آتا ہے.کامل توحید کا قیام صرف آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے ہوا تھا.آنحضرت ﷺ نے جب عورتوں سے بیعت لی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ارشاد فرمایا يايُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنتُ يُبَايِعُنَكَ عَلَى أَنْ لَّا يُشْرِكُنَ.(الممتحنة: 13) کہ اے نبی محمد ﷺ آپ مومن عورتوں سے اس شرط پر بیعت لیں کہ وہ شرک نہیں کریں گی.آنحضرت ﷺ کے بعد ایک عرصہ کے گزارنے کی وجہ سے لوگوں میں پھر قبر پرستی پیر پرستی.مزاروں پر چڑھاوے چڑھانے وغیرہ بدعات رائج ہو گئیں خدا تعالیٰ پر توکل کی جگہ گنڈوں تعویذوں نے لے لی لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت نے جوش مارا اور اس نے دنیا کی اصلاح کے لئے آنحضرت ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق آپ کے ہی ایک غلام کو بھجوایا تا وہ دنیا سے شرک کو دور کر کے توحید کا قیام کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اپنی بعثت کی غرض مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرماتے ہیں.اب اتمام محبت کے لئے میں یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ اسی کے موافق جو ابھی میں نے ذکر کیا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس زمانہ کو تاریک پاکر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر اور ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راستبازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے تا وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے اور تا اسلام کو ان لوگوں کے حملہ سے بچائے جو فلسفیت اور نیچریت اور اباحت اور شرک اور دہریت کے لباس میں اس الٹی باغ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں“.روحانی خزائن جلد 5.آئینہ کمالات اسلام ص 251 اسلام پر سب سے بڑا حملہ اسلام پر سب سے بڑا حملہ جو شرک پیدا کر رہا تھا دجالیت کا تھا.مسیحی اقوام نے ایک خدا کی بجائے تین خداؤں کا عقیدہ پیدا کر کے شرک کی بنیاد رکھ دی.ہندوستان میں عیسائی حکومت کے زیر سایہ رہنے کی

Page 345

327 وجہ سے اور عیسائیوں کے ساتھ رہنے کے باعث مسلمانوں میں بھی اس قسم کے عقائد پیدا ہو چکے تھے کہ انہوں نے حضرت عیسی کو زندہ آسمان پر مان کر اسلام میں عملاً شرک کا عقیدہ داخل کر دیا تھا جس کے نتیجہ میں بہت سی اعتقادی اور عملی کمزوریاں آہستہ آہستہ ان میں پیدا ہوتی گئیں اور وہ حقیقی اسلام سے دور جا پڑے توحید کے منہ سے تو علمبردار تھے مگر عمل ان کا توحید کے خلاف تھا.مشرکانہ رسوم کی پیروی پیروں کی قبروں پر جانا ان کے عرس کرنا وغیرہ سینکڑوں بدعتیں انہوں نے شروع کر دیں.حیات مسیح کے عقیدہ سے عیسائیوں کو اور تقویت ملی اور انہوں نے ہندوستان میں کثرت سے عیسائی بنانے شروع کر دیئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کا سر صلیب بنا کر بھیجا تھا.تو حید کے قائم کرنے کے لئے مبعوث فرمایا تھا.آپ نے وفات مسیح کا مسئلہ قرآن مجید کی رو سے پیش فرما کر گویا عیسائیت کی ریڑھ کی ہڈی ہی توڑ دی آپ نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ عیسی کو مرنے دو اسی میں اسلام کی زندگی ہے.آپ کے لئے یہ امرنا قابل برداشت تھا کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق کو خدا تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرایا جائے.آپ تحریر فرماتے ہیں:.چونکہ میں تثلیث کی خرابیوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہوں اس لئے یہ دردناک نظارہ کہ ایسے لوگ دنیا میں چالیس کروڑ سے بھی کچھ زیادہ پائے جاتے ہیں جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا سمجھ رکھا ہے.میرے دل پر اس قدر صدمہ پہنچا تا رہا ہے کہ میں گمان نہیں کر سکتا کہ مجھ پر میری تمام زندگی میں اس سے بڑھ کر کوئی غم گزرا ہو.بلکہ اگر ہم وقتم سے مرنا میرے لئے ممن ہوتا تو یہی مجھے ہلاک کر دیتا کہ کیوں یہ لوگ خدائے واحد لاشریک کو چھوڑ کر ایک عاجز انسان کی پرستش کر رہے ہیں اور کیوں یہ لوگ اس نبی پر ایمان نہیں لاتے جو سچی ہدایت اور راہِ راست لے کر دنیا میں آیا ہے.ہر ایک وقت مجھے یہ اندیشہ رہا ہے کہ اس غم کے صدمات سے میں ہلاک نہ ہو جاؤں...اور میرا اس درد سے یہ حال ہے کہ اگر دوسرے لوگ بہشت چاہتے ہیں تو میرا بہشت یہی ہے کہ میں اپنی زندگی میں اس شرک سے انسانوں کو رہائی پاتے اور خدا کا جلال ظاہر ہوتے دیکھ لوں اور میری روح ہر وقت دعا کرتی ہے کہ اے خدا! اگر میں تیری طرف ہوں اور اگر تیرے فضل کا سایہ میرے ساتھ ہے تو مجھے یہ دن دکھلا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے سر سے یہ تہمت اٹھا دی جائے کہ نعوذ باللہ انہوں نے خدائی کا دعویٰ کیا ایک زمانہ گزر گیا کہ میرے پنج وقت کی یہی دعائیں ہیں کہ خدا ان لوگوں کو آنکھ بخشے اور وہ اس کی وحدانیت پر ایمان لاویں اور اس کے رسول کو شناخت کرلیں اور تثلیث کے اعتقاد سے توبہ کریں.“ تبلیغ رسالت جلد ہشتم ص 71-72

Page 346

328 یہ حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کس قدر تڑپ تھی کہ خدا کی تو حید قائم ہو.اس کا جلال ظاہر ہو اور دنیا شرک کی بیٹیوں سے رہائی پائے.ہم جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سچا اور خدا تعالیٰ کا مامور مانا ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم خود بھی تو حید پر قائم ہوں اپنی اولادوں کو بھی تو حید پر اتنا پکا کریں کہ شرک کہیں سے بھی ان کے دماغوں میں داخل نہ ہو سکے اور اپنی پوری طاقتوں کے ساتھ تثلیث کے خلاف جہاد کریں.عورتوں پر تو یہ ذمہ داری بہت زیادہ عائد ہوتی ہے ایک تو وہ فطرتاً کمزور طبیعت ہونے کی وجہ سے بہت جلد شرک کی طرف راغب ہو جاتی ہیں دوسرے بچوں کی تربیت کی اہم ذمہ داری ان کے سپرد ہے.اگر مضبوطی سے وہ خود توحید پر قائم نہیں ہوں گی تو اولاد بھی اس معیار کو نہیں پہنچ سکے گی.بہت سے احباب با وجود مخلص احمدی ہونے کے اپنے بچوں کو عیسائی مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھجوا دیتے ہیں.حالانکہ ان کے شہر میں دوسرے سکول موجود ہیں.وہ یہ نہیں سوچتے کہ صلیوں کے سایہ کے نیچے پروان چڑھنے والے بچے کا سر صلیب کیسے بنیں گے؟ ان کے دلوں میں تو بچپن سے ہی شرک کا بیج بویا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.وہ لوگ بھی جو میری پوری پیروی کرتے ہیں میرے روحانی گھر میں داخل ہیں.پیروی کرنے کے لئے یہ باتیں ہیں کہ وہ یقین کریں کہ ان کا ایک قادر اور قیوم اور خالق النگل خدا ہے جو اپنی صفات میں ازلی ابدی اور غیر متغیر ہے.روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح ص 10 66 اسی طرح آپ تحریر فرماتے ہیں:.سوتم مصیبت کو دیکھ کر اور بھی قدم آگے رکھو کہ یہ تمہاری ترقی کا ذریعہ ہے اور اس کی توحید زمین پر 66 پھیلانے کے لئے اپنی تمام طاقت سے کوشش کرو روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح ص 11 غرض زمیں و آسمان کی پیدائش کی غرض اور انبیاء کی رسالت کی غرض اللہ تعالیٰ کی توحید کا قیام ہے اور جو شخص اعتقادی طور پر یا عملی طور پر تو حید باری کے صحیح مقام سے ذرا سا بھی ہٹتا ہے.وہ دوسرے الفاظ میں رک پھیلانے کا موجب بنتا ہے اسی مقام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.یہ تین باتیں جس کسی میں ہوں گی وہ ایمان کی شیرینی کا مزہ پائیگا.اللہ اور اس کا رسول اس کے

Page 347

329 نزدیک تمام ماسوا سے زیادہ محبوب ہوں اور جس کسی سے محبت کرے تو اللہ ہی کے لئے اس سے 66 محبت کرے اور کفر میں واپس جانے کو ایسا برا سمجھے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو “ شرک کی مختلف قسمیں:.جس طرح ایمان کے مختلف مدارج اور مراتب ہوتے ہیں اسی طرح شرک کے بھی درجات ہیں مخفی در مخفی شرک کے بھی درجات ہیں.مخفی در مخفی شرک انسان میں پیدا ہو جاتا ہے جس کا ابتداء میں اسے احساس بھی نہیں ہوتا لیکن آہستہ آہستہ وہی اس کی ہلاکت کا موجب ہو جاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بچوں کو مارنے کے لئے بھی اس لئے منع فرمایا ہے کہ یہ بھی ایک طرح کا مخفی شرک ہے کہ ایک انسان کسی اور طریق سے بچوں کی اصلاح کرنے کی بجائے خدائی کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرے.قرونِ اولیٰ کے مسلمان جب ایمان لائے تو کون سے تکلیف تھی جو انہیں نہ دی گئی.مردوں اور عورتوں کو بھی ہر قسم کے ہتھیاروں سے ان کی آزمائش کی گئی مگر ان کے مُنہ سے ایک ہی کلمہ نکلتا تھا.اَشْهَدُ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا الله.آج کا مسلمان سینکڑوں بدعات میں گرفتار ہے.جن میں بہت سی ایسی ہیں جو صریحاً قرآن کے سنت رسول اللہ کے اور حدیث کے خلاف ہیں.مگر پھر بھی وہ ان کو نہیں چھوڑتے صرف اس لئے کہ وہ ان کی قوم یا برادری میں رائج ہیں جن کے چھوڑنے سے ان کی ناک کٹتی ہے.کتنے افسوس کی بات ہے کہ مسلمان ہوکر صحیح مقام تو حید کوہم نہ پاسکیں.اسلام کے تنزل کا باعث ہی یہی ہوا کہ نام کے مسلمان رہ گئے مگر عادات اور افعال مشرکوں کی آگئیں.اسلام کا احیاء منحصر ہے اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی حقیقی عزت دی جائے.خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کو پھر سے دنیا میں قائم کیا جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ شَعِيْرٍ مِنْ خَيْرٍ مِنَ قَالَ لَا إِلَهَ قَلْبِهِ ( صحیح بخاری کتاب الایمان ) یعنی جو شخص لا إِلهَ إِلَّا الله کہہ دے اور اس کے دل میں ایک جو برابر نیکی یعنی ایمان ہو وہ بھی دوزخ سے نکالا جائے گا.اس سے مراد صرف منہ سے لا الہ الا اللہ کہنا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو حقیقی معنوں میں واحدہ لاشریک سمجھا اور اس کی تمام صفات پر ایمان رکھنا ہے.

Page 348

330 پس ہماری بہنوں کو چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بدولت اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ خدا دکھایا ہے اور زندہ خدا کے زندہ نشانات انہوں نے دیکھے ہیں ان کا کوئی عمل ایسا نہیں ہونا چاہئے جو توحید کے خلاف ہو.دوسری شرط :.حقوق العباد کی ادائیگی دوسری شرط بیعت کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ پیش فرمائی تھی:.کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہوگا اگر چہ کیساہی جذبہ پیش آوے.“ پہلی شرط بیعت کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حقوق سے تھا اور دوسری شرط کا تعلق حقوق العباد سے ہے.اسلامی تعلیم کے یہی دو بڑے ستون ہیں کہ اگر ایک طرف اللہ تعالیٰ کے حقوق کو ادا کیا جائے تو دوسری طرف خدا تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی حفاظت کی جائے تب اسلام مکمل ہوتا ہے.اس ایک شرط میں ہی دس باتوں کے کرنے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منع فرمایا ہے اور یہ تعلیم آپ نے عین قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے مطابق دی ہے.قرآن مجید میں قدم قدم پر سچ بولنے کی ہدایت اور جھوٹ سے نفرت کا اظہار کیا گیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.سچ بولنا نیک کاموں کی ہدایت کرتا ہے اور نیک کام جنت میں لے جاتا ہے.انسان بچ بولتے بولتے خدا کے ہاں سچوں میں لکھا جاتا ہے اور یقیناً جھوٹ بولنا بُرے کاموں کی ہدایت کرتا ہے اور بُرے کام دوزخ میں لے جاتے ہیں اور یقیناً انسان جھوٹ بولتے بولتے جھوٹوں میں لکھا جاتا ہے.بخاری کتاب الادب ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.کہ اے لوگو! کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں پر مطلع نہ کروں.آپ نے تین دفعہ صحابہ کو متوجہ کرنے کے لئے یہ الفاظ دہرائے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ ضرور ہمیں مطلع فرمائیں.آپ نے

Page 349

331 فرمایا تو پھر سنو کہ سب سے بڑا گناہ خدا تعالیٰ کا شرک ہے اور پھر دوسرے نمبر پر سب سے بڑا گناہ والدین کی نافرمانی اور ان کی خدمت کی طرف سے غفلت برتنا ہے اور پھر یہ بات کہتے ہوئے آپ تکیہ کا سہارا چھوڑ کر جوش کے ساتھ بیٹھ گئے اور فرمایا پھر اچھی طرح سُن لو کہ اس کے بعد سب سے بڑا گناہ جھوٹ بولنا ہے.دوسری اور تیسری چیز جو اس شرط میں پیش کی گئی ہے وہ زنا اور بدنظری سے اجتناب ہے.قرآن مجید سورہ ممتحنہ میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں سے بیعت لینے کا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا تو اس میں بھی تیسری شرط و لایزنین کے الفاظ سے بیان فرمائی.بُرائی کی اشاعت کرنا بھی زنا کے اندر داخل ہے.اگر ایک آدمی گناہ کرتا ہے.اور کسی کو اس کا علم نہیں ہوتا تو وہ بُرائی وہیں شروع ہو کر وہیں دم توڑ دیتی ہے لیکن اگر ایک سے زیادہ آدمیوں کے علم میں برائی آجائے اور وہ ان کا تذکرہ کرتے پھریں تو اس گناہ یا بُرائی کا احساس لوگوں کے دلوں سے مٹ جاتا ہے.اور خود ان کا قدم اس بُرائی کی طرف اٹھنے لگتا ہے.پس بُرائی کی اشاعت کا گناہ اصل بُرائی سے کم نہیں.افسوس کہ عورتوں میں یہ بُرائی کثرت سے پائی جاتی ہے کہ ایک جگہ کوئی بُری بات دیکھی دوسری جگہ بیان کر دی.اس طرح آہستہ آہستہ وہ بات سارے شہر یا گاؤں میں پھیل جاتی ہے اور اس کا تدارک مشکل ہو جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے تجسس سے بھی منع فرمایا ہے نہ تجسس کرونہ بُرائی کا علم ہونہ اس کی اشاعت ہو.اور اگر علم بھی ہو جائے تب بھی اشاعت نہ کرو.بدنظری کے متعلق قرآن مجید کی تعلیم کتنی اعلیٰ ہے انجیل کہتی ہے کہ تو کسی کو بُری نظر سے نہ دیکھ لیکن قرآن مجید فرماتا ہے.وَقُل لِلْمُؤْمِنتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِ هِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَمِنِها ( النور : 32) مومن عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں.اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں.سوراخ میں کان، ناک ، آنکھ اور منہ بھی شامل ہے.نہ کان سے کسی کی غیبت سنیں.جس مجلس میں گناہ کی بو بھی سونگھیں اس سے دُور بھا گئیں.جہاں بُرائی کا ماحول نظر آئے وہاں جانے سے اجتناب کریں اور ان کا منہ دوسروں کی بُرائی بیان کرنے کے لئے بند ہو جائے نیز فرمایا کہ وہ اپنی زنیتوں کو ظاہر نہ کرتی پھریں.گویا اس آیت پر عمل کرنے سے گناہ اور بُرائی کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے اگر آج احمدی عورتیں اللہ تعالیٰ کے اس حکم اور قرآن کی اس تعلیم پر عمل کرنے والیاں ہوں تو ہمارا معاشرہ مثالی معاشرہ بن جاتا ہے اس آیت میں عزت کے تحفظ کا ابتدائی گر سکھایا گیا ہے کہ نیچی نظریں رکھو.نہ بُرائی کی بات شعور نہ عملاً اس میں حصہ لو

Page 350

332 اپنی زنیتوں کا اظہار صرف انہی پر کرو جن پر کرنے کا قرآن میں حکم ہے یہ نہیں کہ بغیر پردہ غیر مردوں کے سامنے آؤ لباس اتنا تنگ پہنو کہ جسم کا عضو عضو نمایاں ہو برقعہ اتنا تنگ ہو کہ برقعہ کا مقصد ہی فوت ہو جائے اور خواہ مخواہ لوگوں کی نظریں تمہارے جسم کی طرف اٹھیں یا بُرقعہ کی زیبائش، فیتوں وغیرہ سے ایسی کی گئی ہو کہ خواہ مخواہ مردوں کی نظریں برقعہ کی طرف اُٹھ رہی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کشتی نوح میں تحریر فرماتے ہیں:.”جو شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بد عملی سے یعنی شراب سے اور قمار بازی سے بدنظری سے اور خیانت سے رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرف سے تو بہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح ص 18 19 ﴾ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہر احمدی فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا.فسق کے معنی عہد کے توڑنے کے ہوتے ہیں.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فاسق کی تعریف بیان فرماتا ہے.الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ.(البقرہ:28) جوخدا سے کوئی عہد باندھے اور اسے توڑ دے وہ فاسق ہے.خدا کے مامور سے عہد باندھ کر توڑنا بھی فسق ہے کیونکہ ید اللہ فوق اید یکم کے الفاظ نے بتا دیا ہے کہ جب خدا کے مامور کی لوگ بیعت کرتے ہیں تو گویا وہ خدا کی بیعت کرتے ہیں اور خدا سے عہد باندھتے ہیں اسی بات کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس رنگ میں بیان فرمایا ہے:.”جو شخص اس عہد کو جو اُس نے بیعت کے وقت کیا تھا کسی پہلو سے توڑتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.“ روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحہ 19 بیعت کا عہد ایک بہت بھاری ذمہ داری ہوتی ہے جو ایک شخص اپنی خوشی اور ارادہ سے خود قبول کرتا ہے اور اپنا ہاتھ اپنے امام کے ہاتھ میں دے کر اپنی جان کو اللہ تعالیٰ کی خاطر فروخت کر دیتا ہے بیعت کے بعد اس کا کچھ بھی اپنا نہیں رہتا.غرض فسق سے بچنے سے مراد یہ ہے کہ اپنے عہد بیعت کو نبھائے اور کبھی بھی اور کسی حالت میں بھی اپنے عہد سے پیچھے نہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فجور سے بھی منع

Page 351

333 فرمایا ہے.فجور کہتے ہیں بیہودہ گوئی کو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی چار نشانیاں بیان فرمائی ہیں.جب امین بنایا جائے تو خیانت کرتا ہے اور بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرتا ہے اور لڑے تو بے ہودہ گوئی کرتا ہے.غرض کہ فجور منافقت کی ایک نشانی ہے اس سے بچتے رہنا چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث ہے.آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کوسب سے زیادہ مسلم کتاب الایمان ) نا پسند وہ شخص ہے جو سخت جھگڑالو ہو.ظلم سے اجتناب:.بیعت کی شرط دوم کی ایک شق ظلم سے بچنا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.الْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ (بخاری کتاب المظالم والغصب) مسلمان مسلمان کا بھائی ہے لہذا وہ اس پر ظلم نہ کرے اور اسے رسوا نہ کرے.اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا :.انصُرُ أَخَاكَ ظَالِماً اَوْ مَظْلُوماً (بخارى كتاب المظالم والغصب) تو اپنے بھائی کی مدد کر خواہ ظالم ہو یا مظلوم - مظلوم صحابہ نے عرض کیا حضور ! یہ تو ہم سمجھ گئے کہ مظلوم کی کس طرح مدد کریں مگر یہ نہیں سمجھے کہ ظالم کی کس طرح مدد کریں آپ نے فرمایا اس کا ہاتھ پکڑ لو یعنی اسے ظلم کرنے سے روکو یہی ظالم کی مدد ہے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (الشورى : 41) اللہ تعالیٰ ظالموں سے محبت نہیں کرتا ظلم اور محبت کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ چونکہ رؤوف رحیم ہے بڑا ہی محبت کرنے والا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ظالم سے محبت نہیں کرتا.خیانت سے بچنا بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرط بیعت قرار دیا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.اِنَّ اللهَ لا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا.(النِّسَاء : 108) اسی طرح فرماتا ہے اِنَّ اللهَ لا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ (الانفال: 59) اسلام نے دیانت داری پر کتناز ور دیا ہے کہ خائن خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل ہی نہیں کر سکتا.اور جس

Page 352

334 سے خدا نفرت کرے اس کا پھر کہاں ٹھکانا ! ایسا شخص خواہ کتنی نمازیں پڑھے.عبادت کرے.ظاہری نیکیاں کرے مگر جب اس کا خدا کے بندوں سے معاملہ ہی صاف نہیں تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ کوئی مرتبہ حاصل نہیں کر سکتا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس شرط بیعت میں فساد سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے اور مغضوب الغضب ہونے سے منع فرمایا ہے.فساد کے متعلق بھی یا درکھنا چاہئے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ (القصص: 78) اللہ تعالیٰ کا سلوک اپنے بندوں سے وہی ہے جو ایک ماں یا باپ کا اپنے بچوں سے ہوتا ہے.کوئی ماں پسند نہیں کرتی کہ اس کے بچے آپس میں لڑیں.اسی طرح اگر کوئی شخص فساد کو ہوا دیتا ہے آپس میں لوگوں کولڑ واتا ہے یا کوئی عورت ادھر اُدھر کی لگائی بجھائی کر کے فساد کی بنا کرتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں ذلیل ہے.بیعت کی شرط دوم کی آخری شق یہ ہے کہ ہر احمدی مغضوب الغضب ہونے سے بچے.جب انسان کو یک دم غصہ آتا ہے تو اس کے ہوش ٹھکانے نہیں رہتے اور اس کی زبان یا ہاتھ چل پڑتے ہیں کبھی وہ گالیوں پر اتر آتا ہے اور کبھی مارنے لگ جاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی تعریف یوں بیان فرمائی ہے کہ حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے نفس پر کمال قابو حاصل تھا.آپ فرماتے ہیں:.میں اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھر میرے سامنے میرے نفس کو گندی سے گندی گالی دیتار ہے آخر وہی شرمندہ ہوگا اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا.ملفوظات جلد 1 ص 302 کے پس احمدی مستورات کو چاہئے کہ ان سب باتوں پر عمل کرنے والیاں ہوں جو اس شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہیں تا حقیقی مسلمان کہلا سکیں.یہ صفات صرف ہم میں پیدا نہ ہوں بلکہ اپنے بچوں میں بھی اور اپنی ملنے جلنے والیوں میں ان باتوں کو پیدا کرنے اور ان بُرائیوں سے بچنے کی تلقین کرتی رہیں.تا جلد از جلد احمد یہ جماعت کی ہر عورت اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ نظر آئے.اور ان کی گودوں میں پلنے والے بچے بڑے ہو کر قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کا نمونہ ہوں.اس کے بغیر ہم ساری دنیا کو فتح نہیں کر سکتے.

Page 353

335 بیعت کی تیسری شرط:.تیسری شرط بیعت کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرمائی ہے:.سوم یہ کہ بلا ناغہ پنج وقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا.اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا.اس شرط میں مندرجہ ذیل امور کی ہدایت دی گئی ہے:.1 - پنج وقتہ نما ز با شرائط ادا کرنی.2- حتی الوسع نماز تہجد کی پابندی.3.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا.4.اپنے گناہوں پر استغفار.5- دلی محبت سے اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے حمد کرتے رہنا.نماز کی اہمیت:.پہلی چیز نماز کی ادائیگی ہے مرد کو تو نماز با جماعت مسجد میں جا کر پڑھنے کا حکم ہے لیکن عورت کے لئے گو مسجد میں جانے کا حکم نہیں لیکن نماز بہر حال پڑھنے کا حکم ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ.(العنكبوت: 46) بُرائیوں سے محفوظ رہنے کا بہترین طریقہ نماز کی ادائیگی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا بھاری فضل ہے کہ احمدیت کی وجہ سے ہماری عورتوں میں اتنی بھاری تبدیلی ہو چکی ہے کہ وہ تارک نماز نہیں لیکن یہ کمزوری ابھی باقی ہے کہ وقت پر نماز نہیں پڑھیں گی.نماز کی شرائط میں یہ بات ضروری ہے کہ نماز وقت پر پڑھی جائے اور وقار کے ساتھ آہستہ آہستہ ادا کی جائے.سکولوں کالجوں میں جانے والی طالبات عموماً ظہر کی نماز دیر سے ادا کرتی ہیں.گھر آتے آتے نماز کا وقت نکل جاتا ہے.ہماری بچیوں اور عورتوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ہے کہ نماز انتہائی مجبوری کے سوا ہمیشہ اول وقت پڑھوں کسی دعوت ، جلسہ تقریب کی وجہ سے نماز میں سستی نہیں ہونی چاہیے.اس طرح بچوں کی نمازوں کی نگرانی کرنا بھی ماؤں کا کام ہے.اگر بچپن سے وہ اپنے

Page 354

336 بچوں کو نماز کا عادی نہیں بنائیں گی اور وقت پر نماز پڑھنے کی عادت نہیں ڈالیں گی تو کبھی بھی وہ نمازی نہیں بنیں گے صبح کی نماز کا وقت ہوتا ہے ماں سوچتی ہے بچہ تھوڑا سا اور سولے ماں کا یہ سلوک اپنے بچہ سے اس کے لئے محبت نہیں دشمنی ہے اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيكُمْ نَارًا (التحريم: 7) اے لوگو! اپنے گھر والوں اور اپنے تئیں آگے سے بچاؤ یعنی گھر کی ذمہ دار ہستی پر اپنی اولاد کی تربیت فرض ہے اور اس ضمن میں سب سے پہلا حکم نماز کا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.اگر تم میں سے کسی کے دروازہ پر کوئی نہر ہو جس میں وہ ہر روز پانچ مرتبہ نہا تا ہو تو کیا تم کہہ سکتے ہو کہ یہ نہانا اس کے میل کو باقی رکھے گا.صحابہ نے عرض کی یہ اس کے میل کو باقی نہ رکھے گا.آپ نے فرمایا پانچوں نمازوں کی یہی مثال ہے اور ان کے ذریعہ سے گناہ مٹ جاتے ہیں.“ نماز تہجد :.مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوة دوسرا حکم اس شرط میں بیعت میں حتی الوسع تہجد کی نماز کی ادائیگی کا ہے.وتہجد کی نماز فرض نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا قرب نوافل کے ذریعہ سے ہی انسان حاصل کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز تہجد کا ارشادان آیات میں فرمایا ہے:.يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ.قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلا نِصْفَةٌ أَوِ انْقُصُ مِنْهُ قَلِيلًا أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلاً ثَقِيلاً.إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وطلًّا وَأَقْوَمُ قِيلاً (المزّمّل : 2 تا 7) ترجمہ: اے چادر میں لیٹے ہوئے راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر عبادت کر جس سے ہماری مراد یہ ہے کہ رات کا اکثر حصہ عبادت میں گزارا کر یعنی اس کا نصف یا نصف سے کچھ کم کر دے یا اس پر کچھ اور بڑھا دے اور قرآن کو خوش الحانی سے پڑھا کر ہم تجھ پر ایک ایسا کلام اتارنے والے ہیں جو بڑا بوجھل ہے.رات کا اٹھنا نفس کو پیروں کے نیچے مسلنے میں سب سے کامیاب نسخہ ہے اور رات کے جاگنے والوں کو بیچ کی بھی عادت پڑ جاتی ہے.ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی نفس کی اصلاح کے لئے نماز تہجد سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہمارا پروردگار بزرگ و برتر ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا

Page 355

337 ہے.چنانچہ جب چھلی تہائی رات رہ جاتی ہے تو فرماتا ہے کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا قبول کرلوں.کوئی ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اُسے دوں.کوئی ہے جو مجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرے اور میں اسے بخش دوں.عورتیں چونکہ سارا دن اپنے گھر کے دھندوں، بچوں کی نگرانی ، خاوند کا خیال رکھنے اور دوسرے کاموں میں پھنسی رہتی ہیں اس لئے انہیں چاہئے کہ کوشش کر کے نماز تہجد کی عادت ڈالیں یہ ان کیلئے بہت سی برکات کا موجب ہوگی.دورد شریف:.تیسرا حکم اس شرط بیعت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے میں با قاعدگی اختیار کرنا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتِهِ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا.(الاحزاب : 57) اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج رہے ہیں.اے مومنو تم بھی آپ پر درود اور سلامتی کا پیغام بھیجو.درود دعا ہے اور دعا نکلتی ہے محبت کے نتیجہ میں.اور محبت پیدا ہوتی ہے.حسن و احسان کے نتیجہ میں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی اور آپ کی احادیث کا بار بار مطالعہ کرنا چاہئے.آپ کے جو ہم پر عظیم الشان احسانات ہیں ان کو یاد کرتے رہنا چاہئے تا ہمارے دلوں میں محبت کا بے اختیار جذ بہ پیدا ہو اور اس کے نتیجہ میں خود بخو ددعا نکلے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہا ما فرمایا :- كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ.وو (تذکره ص 35) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.درود شریف کے طفیل...میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر ان کی لا انتہا نالیاں ہو جاتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں.یقینا کوئی فیض بدوں وساطت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں تک پہنچ ہی

Page 356

338 نہیں سکتا.درود شریف کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس عرش کو حرکت دینا ہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھا کرے تا کہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو.“ کتاب مرزا غلام احمد قادیانی جلد اول ص 409 اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے درود شریف کی برکات کے متعلق تحریر فرمایا ہے:.ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا.اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں اور ایک نے ان میں سے کہا یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں صلی اللہ علیہ وسلم.روحانی خزائن جلد 1 براہین احمدیہ ص 598 حاشیہ درود پڑھنے کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہر وقت ہر کام کرتے ہوئے پڑھ سکتی ہیں.کھانا پکاتے.مکان کی صفائی کرتے ہوئے کپڑے سیتے ہوئے.کپڑے دھوتے ہوئے.فارغ بیٹھے ہوئے.غرض ہاتھ کام میں مشغول ہو اور زبان پر یا خدا تعالیٰ کی حمد ہو یا درود شریف.تو بہ کی تین شرائط :- چوتھی شق اس شرط بیعت کی اپنے گناہوں کی معافی مانگنے پر مداومت اختیار کرنا ہے.احادیث میں بار بار یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ جو شخص صدق دل سے اپنے گناہوں کی معافی اللہ تعالیٰ سے مانگے اور یہ وعدہ کرے کہ آئندہ ایسا نہ کروں گا تو اللہ تعالیٰ اس کے سارے گناہ بخش دیتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.تُوبُوا إِلَى اللهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (النور: 32) لیکن تو بہ کے لئے تین شرائط ضروری ہیں.پہلی یہ کہ گناہ سے رُک جائے.دوسری یہ کہ پچھلے گنا ہوں پر ندامت پیدا ہو.اور تیسری یہ کہ پختہ عہد کرے کہ آئندہ کبھی وہ غلطی نہ کروں گا.بعض گناہ اللہ تعالیٰ کے ہوتے ہیں اور بعض اللہ تعالیٰ کے بندوں کے.یعنی انسان دوسرے کے حقوق پر ڈاکے ڈالے، چوری، غیبت کسی کا مال غضب کرنا ، دھوکہ دینا کسی کی عزت پر ہاتھ ڈالنا وغیرہ.ان گناہوں کے لئے چوتھی شرط یہ ہے کہ جس کا حق مارا جائے اس سے معافی مانگے.اس کے معاف کرنے کی صورت میں بھی تو بہ قبول ہوگی اور اگر وہ کہے گا کہ میں معاف نہیں کرتا بدلہ لوں گا تب بھی اس کا

Page 357

339 حق پورا ہو جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ (هود: 91) یا درکھو کہ یہ دو چیزیں اس امت کو عطا فرمائی گئی ہیں.ا یک قوت حاصل کرنے کے واسطے دوسری حاصل کردہ قوت کو عملی طور پر دکھانے کے لئے.قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں استمد اداور استعانت بھی کہتے ہیں.صوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مگدروں اور موگریوں کو اُٹھانے اور پھیرنے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے اسی طرح پر روحانی مگدر استغفار ہے.اس کے ساتھ روح کو ایک قوت ملتی ہے.اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے.جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے.“ ملفوظات جلد اول ص 348 نیز آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:.اٹھو اور توبہ کرو اور اپنے مالک کو نیک کاموں سے راضی کرو.اور یا درکھو کہ اعتقادی غلطیوں کی سزا تو مرنے کے بعد ہے اور ہند ویا عیسائی یا مسلمان ہونے کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہوگا لیکن جو شخص ظلم اور تعدی اور فسق فجور میں حد سے بڑھتا ہے اس کو اسی جگہ سزا دی جاتی ہے تب وہ خدا کی سزا سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتا.سو اپنے خدا کو جلد راضی کر لو اور قبل اس کے کہ وہ دن آوے جو خوفناک دن ہے.تم خدا سے صلح کر لو.وہ نہایت درجہ کریم ہے ایک دم کے گداز کرنے والی تو بہ سے ستر برس کے گناہ بخشش سکتا ہے.“ روحانی خزائن جلد 20 لیکچر لا ہورص174 محبت المی: اس شرط بیعت کی پانچویں شق اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد کرتے رہنے پر مداومت کرنا ہے.انسان کسی سے محبت اس کے حسن و احسان کی وجہ سے کرتا ہے.اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے لئے بڑا ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کا علم حاصل کیا جائے.ان پر غور کیا جائے اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو ہر وقت اپنے ذہن میں رکھا جائے.تا خود بخود دل سے بے اختیار احمداللہ رب العالمین نکلے.اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کو یا درکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ روزانہ تلاوت قرآن کریم ہے.رسما نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر ایک ایک آیت اور ایک ایک لفظ پر غور کرتے ہوئے اگر انسان پڑھے تو بے اختیار

Page 358

340 اس کی روح آستانہ الوہیت پر سجدہ ریز ہوکر اس کی حمد کے ترانے گانے لگتی ہے.پس میری بہنو! اگر آپ چاہتی ہیں کہ اس شرط کے پورا کرنے والی ہوں تو قرآن مجید کا ترجمہ سیکھیں اور قرآن مجید کی تلاوت با قاعدگی سے سمجھ کر کرنے کی عادت ڈالیں.اور جب اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی حمد کرنے کی عادت ڈالیں گی تو اللہ تعالیٰ سے محبت دل میں خود بخود پیدا ہوگی اور اس کی محبت ہمیں حاصل ہو جائے گی.جو ہماری زندگی کا مقصد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.”ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ حل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.“ روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح ص 21 اللہ تعالی سے دلی محبت حاصل کرنے کا دوسرا طریق یہ ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ.(ال عمران: 32) اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ لوگوں کو بتادیں کہ تم اگر اللہ تعالیٰ سے محبت کی خواہش رکھتے ہو تو میری پیروی کرو میرے قدم بقدم چلو.ہر بات میں میری نقل کرو.اس کے نتیجہ میں تم وہ مقام حاصل کر لو گے کہ تمہیں خدا تعالیٰ کی محبت حاصل ہو جائے گی.گویا ہمیشہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کی شرط اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وابستہ کر دی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور آپ کی سنت پر عمل کرنے کے لئے ہمیں حدیث کا علم حاصل کرنا ضروری ہے.حدیثوں سے ہی معلوم ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو جاگنے پر ہوتے ہوئے کھانا شروع کرتے ہوئے، کھانا ختم ہونے پر، نیا کپڑا پہنتے ہوئے ، آئینہ دیکھتے ہوئے ، سواری پر بیٹھتے ہوئے.غرض ہر کام جو بظاہر د نیوی کام نظر آتا ہے کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کی حمد بیان فرماتے اور اس سے مدد طلب فرماتے تھے.تا اس کام میں خیر و برکت ہو.ہمیں بھی چاہئے کہ احادیث سے ان تمام دعاؤں کو یاد کریں اور اپنا دستورالعمل یہ بنالیں کہ ہر کام کرتے وقت وہی دعا پڑھا کریں آہستہ آہستہ عادت پڑ جائے گی.اللہ تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت حاصل کرنے کا تیسرا طریق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرنا ہے.جس عاشقانہ رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی صفات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو بیان فرمایا ہے اپنی نظموں میں بھی اور نثر میں بھی اس رنگ میں

Page 359

341 گزشتہ تیرہ سو سال میں کسی نے بیان نہیں کیا.آپ کی کتب اور اشعار پڑھنے کے بعد ناممکن ہے کہ انسان کا دل اللہ تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے بیگانہ رہ جائے.چوتھی شرط: حسن سلوک :.چوتھی شرط بیعت کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں یہ ہے:.چہارم یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے یہ شرط بھی قرآن مجید کی اس تعلیم کے عین مطابق ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًا (النِّسَاء: 37) ترجمہ: اور تم اللہ کی عبادت کرو.اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ بہت احسان کرو اور نیز رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اور اسی طرح رشتہ دار ہمسایوں اور بے تعلق ہمسایوں اور پہلو میں بیٹھنے والے لوگوں اور مسافروں اور جس کے تم مالک ہوان کے ساتھ بھی جو متکبر اور اترانے والے ہوں انہیں خدا تعالیٰ پسند نہیں فرماتا.گویا اللہ تعالیٰ نے عملی طور پر دنیا کے ہر طبقہ سے حسن سلوک کرنے کی تاکید فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق نہ چھینو.ہر وقت اپنے تصور میں یہ بات رکھو کہ جس طرح میں خدا کا بندہ ہوں اسی طرح دوسرے بھی خدا کے ہی بندے ہیں.ان کو تکلیف پہنچنے سے خدا تعالیٰ کو تکلیف پہنچے گی.اس کی تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دی جو میں پہلے بھی بیان کر چکی ہوں کہ حقیقی مسلمان وہ نہیں جو صرف نماز پڑھ لے روزہ رکھ لے چندے دے دے بلکہ حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی نہ زبان سے اور نہ ہاتھ سے کسی دوسرے مسلمان کو گزند پہنچے.اسی طرح حضور علیہ السلام نے فرمایا لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لَا خِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ (بخاری کتاب الایمان) تم میں سے کوئی ایمان دار نہ ہوگا یہاں تک کہ اپنے بھائی مسلمان کے لئے وہی چاہے جو اپنے لئے

Page 360

342 چاہتا ہو.ایک اور حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں مصروف رہتا ہے اللہ تعالی اس کی حاجت روائی کرتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی کوئی مصیبت دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ مصائب قیامت میں سے اس کی مصیبت دور کرتا ہے.اور جو شخص کسی مسلمان کا عیب چھپاتا ہے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کا عیب چھپائے گا.مسند احمد بن حنبل ) ایک اور حدیث ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.آپس میں بغض، حسد اور رنجش نہ رکھو بلکہ خدا کے بندے بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی سے کسی جھگڑے کے باعث تین دن سے زیادہ جدا رہے.“ صحیح مسلم کتاب البر وصلة ) غصہ اور نفسانی جوش کے وقت اپنے پر قابو پانا ہی مسلمان کا کام ہے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ زبر دست وہ نہیں ہے جو اپنے مقابل کو شیخ دے بلکہ زبر دست وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے.حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کہ کہ مجھے آپ کچھ نصیحت فرمائیں.آپ نے فرمایا غصہ نہ کیا کرو.اس نے کئی بار یہی سوال کیا اور آپ نے ہر بار یہی جواب دیا کہ غصہ نہ کیا کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.”اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو.اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو اور کسی پر تکبر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو.غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ.بہت ہیں جو حلم ظاہر کرتے ہیں مگر وہ اندر سے بھیڑیے ہیں بہت ہیں جو اوپر سے صاف ہیں مگر اندر سے سانپ ہیں سو تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے.جب تک ظاہر وباطن ایک نہ ہو.“ اسی طرح آپ فرماتے ہیں:.روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح ص 11°12 ”ہمارا یہ اصول ہے کہ گل بنی نوع کی ہمدردی کرو.اگر ایک شخص ایک ہمسایہ ہندو کو دیکھتا ہے کہ اس

Page 361

343 کے گھر میں آگ لگ گئی اور یہ نہیں اُٹھتا کہ تا آگ بجھانے میں مدد دے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ مجھ سے نہیں ہے.اگر ایک شخص ہمارے مریدوں میں سے دیکھتا ہے کہ ایک عیسائی کو کوئی قتل کرتا ہے اور وہ اس کے چھڑانے کے لئے مددنہیں کرتا تو میں تمہیں بالکل درست کہتا ہوں کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے....میں حلفاً کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ مجھے کسی قوم سے دشمنی نہیں.ہاں جہاں تک ممکن ہے اُن کے عقائد کی اصلاح چاہتا ہوں اور اگر کوئی گالیاں دے تو ہماراشکوہ خدا کی جناب میں ہے نہ کسی اور عدالت میں اور با ایں ہمہ نوع انسان کی ہمدردی ہمارا حق ہے.“ پانچویں شرط :- روحانی خزائن جلد 12.سراج منیر ص 28 پانچویں شرط بیعت کے الفاظ مندرجہ ذیل ہے:.پنجم یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عسر اور کیسر اور نعمت اور بلاء میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضاء ہوگا اور ہر ایک ذلت اور دُکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں طیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا.حقیقی ایمان یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ پھر ایمان لانے کے بعد اس کے راستے میں خواہ کتنی تکلیفیں آئیں بشاشت قلب سے ان کو برداشت کرے اس کا قدم صراط مستقیم سے ادھر ادھر نہ ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور صحابیات نے ایمان لانے کے بعد راہ خدا میں تکلیفیں بھی برداشت کیں.سختیاں بھی سہیں.تپتی ہوئی ریت پر لٹایا گیا.تالوں میں دھوئیں دئے گئے.گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹا گیا.سینوں پر کو دا گیا.عورتوں کی شرم گاہوں میں نیزے مار کر ہلاک کیا گیا.مگر ان کے ایمان میں ذرہ بھر فرق نہ آیا.قربانیاں دینے والے مرد بھی تھے، عورتیں بھی آزاد بھی اور غلام بھی لیکن اللہ تعالیٰ کی راہ میں انہوں نے ہر ذلت اور دُکھ کو قبول کیا اور ان کے قدم آگے ہی بڑھتے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کو سنگسار کیا گیا.آخر وقت تک آپ سے مطالبہ کیا جاتا رہا کہ اب بھی اپنے عقائد کی تبدیلی کا علان کر دیں ہم چھوڑ دیں گے لیکن انہوں نے اس زمانہ میں اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے والے بھی ویسی ہی قربانیوں کا نمونہ پیش کر سکتے

Page 362

344 ہیں جو قرآنِ اولیٰ کے مسلمانوں نے کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.ایک دوسرے مقام پر فرمایا : - إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزِّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ إِلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا.(حم السجدة: 31) یعنی جن لوگوں نے اپنے قول اور فعل سے بتا دیا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر انہوں نے استقامت دکھائی ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے.....استقامت بہت مشکل چیز ہے یعنی خواہ اُن پر زلزلے آئیں فتنے آئیں وہ ہر قسم کی مصیبت اور دُکھ میں ڈالے جاویں مگر ان کی استقامت میں فرق نہیں آتا اُن کا اخلاص اور وفاداری پہلے سے زیادہ ہوتی ہے ایسے لوگ اس قابل ہوتے ہیں کہ ان پر خدا تعالیٰ کے فرشتے اتریں اور انہیں بشارت دیں کہ تم کوئی غم نہ کرو.ملفوظات جلد 4 ص 613 چھٹی شرط :.بیعت کی چھٹی شرط یہ ہے:.ششم یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آجائے گا.اور قرآن شریف کی حکومت کو بگلی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قال اللہ وقال الرسول کو اپنے ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا.شریعت اسلامیہ کے ماخذ صرف تین ہیں.قرآن ، سنت اور حدیث.قرآن سنت رسول اللہ اور حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جو بات ہو وہ بدعت کہلاتی ہے.ہمارا فرض ہے کہ اپنے ہر کام ہر معاملہ اور ہر تقریب میں اس امر کو مد نظر رکھیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل یا ارشاد کے صریحاً خلاف تو نہیں اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.(الاحزاب : 22) أسوة حسنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمہارے لئے بطور نمونہ ہے اور آنحضرت ﷺ کی تمام زندگی قرآن کے محور کے گرد گھومتی ہے.اسی کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے كَانَ خُلْقُهُ الْقُرْآنِ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے اس لئے اگر ہم اپنی زندگی کے ہر معاملہ اور ہر کام کو کرتے ہوئے یہ مد نظر رکھیں گے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہے تو یقیناً ہم بیعت کی اس شرط کو پورا کرنے والے ہوں گے اور ہمارا عمل قال اللہ وقال الرسول کے مطابق ہوگا.عورتوں میں خاص طور پر بہت

Page 363

345 اصلاح کی ضرورت ہے.شادی غمی مختلف تقاریب کے موقع پر ان سے بہت سی غیر شرعی رسوم کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے.قرآن سادگی سکھاتا ہے.اسراف سے منع فرماتا ہے عورتیں ناک کٹنے کے خیال سے بے جا خرچ کریں گی اور اس کے نتیجہ میں ان کے خاوندوں پر قرضہ ہو جائے گا.اسلام نمائش و نمود سے روکتا ہے عورتیں جب تک جہیز بُری کا ایک ایک جوڑا سارے محلہ کو نہ دکھا لیں چین نہیں آتا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غرباء کا وہ طبقہ جو ویسے جوڑے بنانے کی استطاعت نہیں رکھتا ان کی ریس میں قرضہ اُٹھا کر ویسے بنواتا ہے.اسلام نا جائز مطالبہ کرنے سے روکتا ہے.عام دیکھا جا رہا ہے کہ شادی کے وقت سسرال والے جوڑوں کا مطالبہ کرتے ہیں.اسلام تکلفات کو نا پسند کرتا ہے مگر عورتیں غیر ضروری خرچ محض نمائش کے لئے کرتی ہیں.اسلام کہتا ہے باوجود دولت ہونے کے اسراف نہ کر و صرف ضرورت پر خرچ کرو.عورتیں رہ نہیں سکتیں جب تک جو نیا فیشن کپڑے کا چلے اور وہ اس کا ایک جوڑا بنانہ لیں خواہ ضرورت ہو یا نہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.قال اللہ وقال الرسول پر عمل کرو ( ملفوظات جلد پنجم ص: 367).اور اس کا یہی طریق ہے کہ کوشش کی جائے کہ قرآن پاک کے کسی حکم کی نافرمانی نہ ہو.پر وہ بھی قرآن کے حکموں میں سے ایک حکم ہے.جو بہن پر دہ چھوڑتی ہے وہ دوسرے الفاظ میں صریحاً اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کر رہی ہوتی ہے یا اپنے عمل سے اس بات کا اعلان کر رہی ہوتی ہے کہ قرآن کا ایک حکم اس کے نزدیک اب قابل قبول عمل نہیں رہا.ایسا کرنے والوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ پر غور کرنا چاہیے.آپ فرماتے ہیں:.تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اُٹھاؤ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے.“ ساتویں شرط :.احمدیت میں داخلہ کی ساتویں شرط مندرجہ ذیل ہے:.روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح ص 26 ہفتم یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور علیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.اللہ تعالیٰ نے تکبیر کو بہت ہی نا پسند فرمایا ہے.فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالاً

Page 364

346 فَخُورًا (النساء: (37) اس طرح فرماتا ہے بِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِرِینَ.تکبر کرنے والوں کا کیا ہی بُراٹھکانا ہے.فخر اور تکبر کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انسان انکار کرے اور سمجھے کہ میرے اندرایسی خوبیاں ہیں جو دوسروں میں موجود نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اے کرم خاک ! چھوڑ دے کبر و غرور کو زیبا ہے کبیر حضرت رب غیور کو رپ بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی دخل ہو دار الوصال میں چھوڑو غرور و کبر.کہ تقویٰ اسی میں ہے ہو جاؤ خاک.مرضی مولی اسی میں ہے تقویٰ کی جڑھ خدا کے لئے خاکساری ہے عفت جو شرط دیں ہے وہ تقویٰ میں ساری ہے نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام تکبر کی شدید مذمت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:.( در شین ص: 113) میں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں.یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رسوا کرتی ہے.خدا تعالیٰ کا رحم ہر ایک موحد کا تدارک کرتا ہے مگر متکبر کا نہیں.“ روحانی خزائن جلد 5.آئینہ کمالات اسلام ص 598 پھر آپ فرماتے ہیں:.”میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے....ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا زیادہ عقلمند یا زیادہ ہنر مند ہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کو سر چشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے کیا خدا قادر نہیں کہ اس کو دیوانہ کر دے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اس سے بہتر عقل اور علم اور ہنر دے دے.“ روحانی خزائن جلد 18 نزول مسیح ص 402)

Page 365

347 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکساری اور حلیمی کو بہت پسند فرمایا ہے خوش اخلاقی پر بہت زور دیا ہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا کہ تم مسکراتے ہوئے چہرہ سے بھی کسی سے ملو گے تو یہ ایک اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے.آٹھویں شرط :.ہشتم یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولا د اور اپنے ہر ایک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.خلاصہ اس شرط کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول کی محبت اور آپ کے مذہب کی اشاعت ہمارا نصب العین ہو.یہی مقصد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا ہے.آپ کی بعثت کی غرض اللہ تعالیٰ کے نام کو دنیا میں بلند کرنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا میں گاڑنا ہے اور یہی آپ کی جماعت کا کام ہے اور جماعت کے ہر مرد اور عورت کا کام ہے اسی لئے تو ہم لجنہ اماءاللہ کا عہد نامہ دہراتے ہوئے یہ الفاظ دہراتی ہیں.میں اقرار کرتی ہوں کہ اپنے مذہب اور قوم کی خاطر اپنے جان و مال، وقت اور اولادکو قربان کرنے کے لئے تیار رہوں گی.گویا لجنہ اماءاللہ کے عہد نامہ کے الفاظ کا دہرانا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم نے جو عہد بیعت باندھا ہے.اسے پورا کرنا ہمارا فرض اور نصب العین ہے.دین کی خدمت کرنا صرف مردوں کا کام نہیں.دینی لحاظ سے مردوں پر بھی ذمہ داریاں ہیں اور عورتوں پر بھی.لیکن بسا اوقات عورت مرد کے پاؤں کی زنجیر بن کر اسے بھی خدمت دین سے محروم کر دیتی ہے.مرد زندگی وقف کرتا ہے.خدمت اسلام کے لئے اپنے تئیں پیش کرتا ہے.عورت رونا دھونا شروع کر دیتی ہے.کھائیں گے کہاں سے؟ اکیلے کیسے رہوں گی ؟ وغیرہ وغیرہ وہ یہ نہیں سوچتی کہ اگر مجھے خود اسلام کی تبلیغ کا موقع نہیں ملا تو میری کتنی خوش قسمتی ہے کہ میرے خاوند کومل رہا ہے اس کے جہاد میں جانے سے میں بھی اس کے ثواب میں شرکت کروں گی.اسی طرح جماعت کو واقفین کی ضرورت پیش آتی ہے تو ماں باپ اپنے بچوں کو وقف کے لئے پیش نہیں کرتے کہ واقف زندگی کو گزارہ تھوڑا ملتا ہے اس کی بجائے اگر دنیوی نوکری کرے گا تو تنخواہ زیادہ ملے گی وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا رب رزاق بھی ہے.اس شرط بیعت میں دین کے لئے غیرت کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ خدا کے لئے رسول

Page 366

348 اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حضرت مسیح موعود کے لئے خلیفہ اسیح کے لئے اور نظام جماعت کے لئے اتنی غیرت ہونی چاہئے کہ کسی سے کوئی اعتراض سنے تو برداشت نہ کرے.کوئی ایسا فتنہ اُٹھ رہا ہو جو احمدیت میں فساد پیدا کرنے کا باعث ہو.نظام جماعت میں رخنہ کا باعث ہوا سے برداشت نہ کرے.اس مجلس میں نہ بیٹھے اور اُٹھ کر وہاں سے چلا آئے.ہماری عورتوں کو اس طرف خاص توجہ دینی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی غرض اسلام کا استحکام ہے اور اسلام کا استحکام بھی اس وقت ہوگا جب جماعت مستحکم ہوگی.جماعت میں کوئی نفاق نہ ہوگا.جھگڑا نہ ہوگا.قربانی کا جذبہ ہوگا.اولا دوں کو دین کے لئے پیش کریں گی.خاوندوں کو تبلیغ کیلئے وقف کرنے پر اکسائیں گی اور خود بھی حتی الوسع جماعت کے کاموں میں حصہ لیں گی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عزت کو پھر سے دنیا میں قائم کریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو قائم کریں اور اسلام کا جھنڈا دنیا کے سب جھنڈوں سے اوپر لہرائے.آمین.نویں شرط:.نویں شرط بیعت کے الفاظ یہ ہیں:.نہم یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.شرط چہارم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ بنی نوع انسان کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائے یہ منفی قسم کی نیکی ہے کہ انسان سے کسی کو شر نہ پہنچے لیکن مثبت قسم کی نیکی یہ ہے کہ انسان دوسروں کو خیر پہنچائے اور ان سے ہمدردی محبت پیار محض اللہ تعالیٰ کی خاطر کرے یہ سمجھ کر کہ یہ بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں جس طرح میں ہوں ان کا بھی خالق وہی میرا بھی خالق وہی.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متقیوں کی تعریف یوں بیان فرمائی ہے: وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره:4) متقی وہ ہیں کہ نعمتیں ہم نے انہیں عطا فرمائی ہیں ان میں سے خرچ کرتے اور باقی مخلوق خدا کو فائدہ پہنچاتے ہیں.مال میں سے مال خرچ کرتے ہیں.علم میں سے علم خرچ کرتے ہیں اور جو صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کی ہیں ان سے مخلوق کو فائدہ پہنچاتے رہتے ہیں.اپنے علم کے استعمال میں اپنے مال خرچ کرنے میں اپنے ہاتھ سے دوسروں کی خدمت کرنے میں بخل سے وہ کام نہیں لیتے یہی احمد یہ جماعت کے افراد کا شعار ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.

Page 367

دسویں شرط :.349 دسویں شرط بیعت کی یہ ہے:.دہم یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض اللہ باقرار طاعت.در معروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہوگا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی خاطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق امام الزمان مانا ہے اور آپ کی بیعت کی ہے اس لئے آپ سے یا آپ کے خلفاء سے ہمارا تعلق باقی تمام دنیاوی تعلقات سے بالا ہونا چاہئے اور کسی کام میں بھی ان کی نافرمانی نہیں کرنی چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عورتوں سے بیعت لی تو ان میں ایک شرط یہ تھی وَلَا يَعْصِینَ بِمَعْرُوفِ.کسی اچھے کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی.یہی الفاظ بیعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء دہراتے رہے ہیں.ہر نیک کام میں آپ کی فرمانبرداری کروں گی.مگر سوچنے کا مقام ہے کیا اس عہد کو دہرانے کے بعد ہم اس پر پوری اتر رہی ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنے سارے دور خلافت میں بارہا عورتوں کو قرآن مجید پڑھنے اس کا ترجمہ سیکھنے اس کی تعلیم پر عمل کرنے اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزار نے خدمت دین میں حصہ لینے کے متعلق نصائح فرمائیں.اس کے باوجود ہم میں ہزاروں کمزوریاں ہیں دین کا علم سکھنے کی طرف پوری پوری توجہ نہیں قومی کاموں میں حصہ لینے کی طرف توجہ نہیں اب حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پھر جماعت کے مردوں عورتوں کو قرآن ناظرہ اور ترجمہ سیکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے.میری بہنو! آپ نے جو عہد کیا تھانا؟ کہ ہر نیک کام میں آپ کی پوری فرمانبرداری کریں گی.کیا قرآن پڑھنا پڑھانا اوراس پر عمل کرنا امر بالمعروف نہیں.اگر آپ اپنے عہد بیعت کو نباہنا چاہتی ہیں تو اس کا یہی واحد طریق ہے کہ ہر حکم جو حضرت خلیفہ اسیح کی طرف سے آپ کو دیا جائے اس میں ان کی کامل فرمانبرداری کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.”اے میرے عزیز و ا میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے

Page 368

350 جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی اپنا آرام اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے.اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے لیکن میں اس خدمت کے لئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا تا کہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں.میرا دوست کون ہے؟ اور میرا عزیز کون ہے؟ وہی جو مجھے پہچانتا ہے...اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا.مگر جو شخص میری دیواروں سے دُور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت در پیش ہے.“ " روحانی خزائن جلد 3 - فتح اسلام ص 34 اس زمانہ کے حصن حصین میں داخلہ ان شرائط بیعت پر عمل کرنے اور خلافت سے وابستگی کے ساتھ ہی ہوسکتا ہے کیونکہ خلیفہ وقت قدرت ثانیہ کا مظہر ہے اور قدرت ثانیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جانشین ہے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے ہر فرد کو خلافت کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان شرائط بیعت پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے کہ یہی ہمارا دستور العمل ہے اور انہی پر عمل کرنے سے ہم ترقی کی راہوں پر قدم مار سکتے ہیں.آمین اللھم امین.الفضل 5 را گست 1966 ء

Page 369

351 احمدی طالبات کی اہم دینی ذمہ داریاں احمدیہ انٹر کالجیٹ گرلز ایسوسی ایشن لاہور کے افتتاحی اجلاس سے حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کا خطاب آپ نے فرمایا:.لجنہ اماء اللہ اور قومی کاموں کے سلسلہ میں میرا مشاہدہ ہے کہ بڑی عمر کی عورتیں تو دینی اور قومی کاموں میں اپنی طاقت کے مطابق حصہ لیتی ہیں لیکن نوجوان لڑکیاں بہت کم اجلاسوں میں شرکت کرتی ہیں اور قومی ذمہ داری بھی وہ محسوس نہیں کرتیں.ہمارا فرض ہے کہ اپنی بچیوں کو قومی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے تیار کریں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ (بخاری کتاب الجمعہ) یعنی قیامت کے دن تم میں سے ہر ایک سے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا.جن افراد کی تعلیم وتربیت اور نگرانی تمہارے سپرد ہے ان کے متعلق تم جواب دہ ہوگی کہ تم نے کس حد تک اپنے فرض کو ادا کیا ان کی دینی تعلیم کی طرف توجہ کی ان کی تربیت کی طرف توجہ کی ان کو قومی فرائض ادا کرنے میں راہنمائی کی جو کہ بحیثیت صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ سے احمدی خواتین کی نگرانی کا کام میرے ذمہ ہے اس لئے میں نے نئی احمدی پود کی بچیوں کو سلسلہ کی خدمت کے لئے تیار نہ کیا اور ان میں اسلام اور احمدیت کی خدمت کا جذبہ پیدا نہ کیا تو یقینا مجھے اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کرنا پڑے گی اسی خیال کے تحت لاہور میں احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تا وہ احمدی بچیاں جو مختلف کالجوں میں اعلی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اپنے اپنے دائرہ عمل میں کام کریں پیغام حق کو اپنی سہیلیوں تک پہنچا ئیں اور ہمارے متعلق جو غلط فہمیاں پیدا کر دی گئی ہیں ان کو دور کریں اور خود احمدی بچیوں کی ایک دوسرے کے اعلیٰ نمونہ کے ذریعہ تربیت ہو سکے لاہور تعلیمی لحاظ سے ایک اہم مرکز ہے جہاں نہ صرف لاہور کی بچیاں پڑھ رہی ہیں بلکہ دوسرے شہروں کی لڑکیاں بھی یہاں آکر یو نیورسٹی کی تعلیم حاصل کرتی ہیں.اس لئے لاہور کی احمدی لڑکیوں کی صحیح اسلامی رنگ میں تربیت کرنے اور ان میں مذہب کی روح پھونکنے.مذہب کی خاطر قربانی کا جذبہ پیدا کرنے اور اپنا عملی نمونہ عین اسلام کے مطابق بنانے کی اشد ضرورت ہے میں سمجھتی ہوں کہ اگر صرف لاہور کی احمدی لڑکیاں ہی صحیح معنوں میں بیدار ہو کر احمدیت کی خاطر کام کریں اور احمدیت جو حقیقی اسلام ہے کو اپنی ہم جماعت ملنے جلنے والیوں کے سامنے پیش کریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اور آپ کی صداقت کے دلائل سے ان کو واقف کرائیں تو وہ ایک

Page 370

352 بہت بڑا تغیر یہاں پیدا کر سکتی ہیں.یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے.صرف ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر تو نکل رکھتے ہوئے اور اس سے فضل اور نصرت چاہتے ہوئے کام کیا جائے ضرورت ہے کہ بچیوں کی مائیں ان کو قومی خدمت کے لئے ابھارتی رہیں ان کو دین سیکھنے کی تلقین کرتی رہیں ان کے قرآن مجید پڑھنے کا انتظام کریں ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کی محبت پیدا کریں ان میں خلافت اور سلسلہ کی محبت پیدا کریں اور یہ جذبہ پیدا کریں کہ ان کا سب سے بڑا کام دین کی خدمت کرنا ہے.کوئی قوم دنیا میں ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کی اگلی نسل پہلی نسل سے آگے قدم بڑھانے والی نہ ہو ہم میں سے ہر ایک کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اگر ہم نے اپنی بچیوں کی صحیح رنگ میں تربیت نہ کی.اگر ہم نے اپنی جگہ لینے اور ہم سے بہتر کام کرنے اور قربانی دینے والیاں ان کو نہ بنایا تو ہماری پچھلی قربانیاں بھی رائیگاں جائیں گی.چاہئے کہ ہم اس دنیا سے اس اطمینان کے بعد رخصت ہوں کہ ہماری آئندہ نسل ہمارے کام کو سنبھالنے کے لئے تیار ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ.رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا.(الفرقان: 75) کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتی رہیں کہ خدایا ہماری اولا د اور ہماری قوم میں ایسے وجود پیدا فرما جو اپنی خدمات اپنی قربانیاں اپنی محبت دین اپنے اخلاص کے ذریعہ ہماری ٹھنڈک بنیں اور نہ صرف وہ ٹھنڈک بنیں بلکہ وہ امام ہوں ایک اگلی نسل کی جو متقی ہو.آج یہ اجتماع اسی غرض سے منعقد ہوا ہے کہ میں نوجوان احمدی بچیوں کے سامنے ایک لائحہ عمل رکھوں تا وہ اسلام اور احمدیت کے لئے مفید وجود بن سکیں اور اس نظام کے قیام کی ایک کڑی بن سکیں جس کے قیام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کی ایک غرض نئی زمین اور نئے آسمان کی تعمیر ہے سو آپ میں سے ہر ایک کا یہ کام ہے کہ وہ اس نظام کو قائم کرنے کے لئے پوری جد و جہد کرے.آپ بھی مختلف درس گاہوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں آپ کو علم ہے کہ ہماری جماعت کی کتنی مخالفت ہوتی ہے اور احمدیت کے متعلق کتنی غلط فہمیاں لوگوں کے دلوں میں پائی جاتی ہیں.غلط باتیں ہماری طرف منسوب کی جاتی ہیں پس آپ کا فرض ہے کہ آپ کے ساتھ آپ کی درس گاہوں میں جو دوسری طالبات پڑھ رہی ہیں ان سے تبادلہ خیالات کریں ان کے دلوں میں احمدیت کے متعلق جو غلط خیالات ماں باپ کی

Page 371

353 طرف سے یا ملنے جلنے والیوں یا ان کے مولویوں کی طرف سے بٹھا دئے گئے ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کریں.احمدیت کے صحیح عقائد پیش کر کے ان پر واضح کریں کہ احمدیت کوئی نیامد ہب نہیں بلکہ صحیح اسلام کا ہی دوسرا نام ہے لیکن ان کے سامنے اسلام اور قرآن مجید کی تعلیم کو آپ اس وقت صحیح رنگ میں پیش کر سکتی ہیں جبکہ آپ کو خود قرآن آتا ہو.آپ کو خود حدیث کا علم ہو.آپ نے خود حضرت مسیح موعود کی کتب کا مطالعہ کیا ہو.آپ کو خود تمام مسائل پر عبور حاصل ہو.پورے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر پھر ان تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کا پہنچانا آپ کا فرض ہے آپ میں سے ہر ایک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کوشاں ہے کوئی انگریزی کا اور کوئی اردو کا کوئی تاریخ کا کوئی اقتصادیت کا کوئی معاشیات کا کوئی حساب کا کوئی جغرافیہ کا کوئی سائنس کا علم حاصل کرنے میں اپنے رات دن کا اکثر وقت خرچ کرتی ہیں.کتنے افسوس کی بات ہے کہ آپ دن رات میں سے آٹھ دس گھنٹے روزانہ دنیوی علوم کی کتب رٹنے اور انہیں یاد کرنے میں تو خرچ کریں مگر اللہ تعالیٰ کی کتب جو تمام علوم کا سر چشمہ اور دنیاوی علوم اسی بے کنار سمندر کی نہریں ہیں کے پڑھنے کی طرف توجہ نہ دیں.مشکل مشکل مسئلے جن کا آپ کی روز مرہ کی زندگی سے تعلق نہیں طوطے کی طرح رٹ کر پاس ہونے کی کوشش کرتی ہیں مگر قرآن مجید جس کا پڑھنا بھی آسان جس میں ہماری ہر الجھن کا حل ہے جو ہماری تمام زندگی کے لئے مشعل راہ ہے اس کے پڑھنے کے لئے دن کا نصف یا ایک گھنٹہ بھی آپ کو صرف کرنا مشکل کیوں؟ صرف احساس کی کمی.دین سے بے گانگی.قرآن مجید کی اہمیت کا واضح نہ ہونا.پس میری بچیو.آپ اپنے وقت میں سے روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے اور قرآن مجید کے مطالب پر غور و فکر کرنے میں خرچ کریں.دین کا ہر علم اس میں ہے قرآن پڑھے اور سمجھے بغیر نہ آپ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہو سکتا ہے جو انسان کی زندگی کی غرض وغایت ہے نہ آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق آپ عمل کر سکتی ہیں جو آپ کی ترقی اور اصلاح کے لئے لازمی ہے نہ آپ کو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ آپ کی ذمہ داریاں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر عائد ہوتی ہیں اور جن کا بجالانا آپ کے لئے ضروری ہے ان سب کا تفصیلی ذکر قرآن مجید میں موجود ہے پس عزیز و.قرآن ہی وہ واحد شمع ہے جس میں آپ کی روحانی ضرورت کا ہر سامان موجود ہے جس سے آپ اپنے قلوب بھی منور کر سکتی ہیں اور اس شمع کو ہاتھ میں لے کر قریہ قریہ.گاؤں گاؤں.شہر شہر تبلیغ کر سکتی ہیں.گذشتہ دنوں کی بات ہے جب میں پشاور ڈویژن کے دورے پر گئی تو مردان میں ایک لیکچرر سے احمدیت کے متعلق میری بحث چھڑ گئی وہ کہنے لگی آپ کی بعض احمدی بچیاں تبلیغ تو کر لیتی ہیں اور ان کو تبلیغ کا

Page 372

354 شوق بھی ہے لیکن دلیل نہیں دے سکتیں.گو ایک دولڑکیوں کی اس نے تعریف بھی بہت کی کہ وہ میرے ہر اعتراض کا جواب دیتی تھیں پس احمدیت کی اشاعت اگر آپ نے کرنی ہے اپنی ملنے جلنے والیوں اور سہیلیوں کو آپ نے بتانا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عین ضرورت زمانہ کے مطابق اور قرآنی پیش گوئیوں کے مطابق آئے ہیں ان کا مانا اس لئے ضروری ہے ہے کہ ان کا دعویٰ قرآن کے خلاف نہیں بلکہ عین مطابق ہے تو آپ کو خود قرآن مجید ترجمہ کے ساتھ پڑھنا ہو گا اس کے معارف سے آگاہ ہونا ہوگا اس کے مطالب پر عبور حاصل کرنا ہوگا تبھی آپ دوسروں تک حق وصداقت کا پیغام پہنچانے کے قابل ہوں گے.پھر یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کا نمونہ عین شریعت اسلامیہ کے مطابق ہوتا کہ آپ کا لباس آپ کی چال ڈھال طور طریقے دیکھ کر کوئی یہ کہنے کی جرات نہ کر سکے کہ دعوے کچھ اور عمل کچھ اور جب تک آپ کا عمل قرآن کے مطابق نہیں ہوتا آپ دنیا کو قرآن کی طرف کیسے دعوت دے سکتے ہیں.دیکھئے کتنے سادہ الفاظ میں حضرت عائشہؓ نے آنحضرت ﷺ کے اخلاق کی تعریف کی ہے کہ کان خلقه القرآن آپ کے اخلاق حسنہ کے متعلق جاننا چاہتے ہو قرآن پڑھ لو جن باتوں کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکم فرمایا ہے آپ ان پر عامل تھے جن کے کرنے سے منع فرمایا ہے آپ ان سے بچتے تھے گویا آپ کی زندگی ایک عملی تفسیر تھی قرآن مجید کی میری بچیو! میرا دل دکھتا ہے جب میں آپ میں سے بعض کو ایسا لباس پہنے دیکھتی ہوں جو اسلامی روایات کے خلاف ہے.جو قرآن کی تعلیم کے خلاف ہے یا دوسروں کی نقل میں بغیر پردہ دیکھتی ہوں آپ میں سے بعض کا پردہ چھوڑنے یا صحیح رنگ میں پردہ نہ کرنے اور اپنے لباس وغیرہ میں اسلامی احکام کو مدنظر نہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ گویا آپ اپنے غلط عمل سے دنیا کو یہ بتارہی ہوتی ہیں کہ اسلام کے بعض احکام اب قابل عمل نہیں رہے (نعوذ باللہ ) جب ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا دائمی وعدہ فرمایا ہے جس طرح اس کا ایک ایک لفظ اپنی ظاہری صورت میں محفوظ ہے اسی طرح اس کے ایک ایک حکم کا ماننا ہمارے لئے ہمیشہ کے لئے ضروری قرآن کا کوئی ایک حکم بھی ایسا نہیں جس کے متعلق ہم کہ سکیں کہ اب اس پر عمل کرنا ضروری نہیں.پردہ بھی اسلامی حکم میں سے عورتوں کے لئے ایک حکم ہے.مغربی تہذیب کی تلقین میں بعض احمدی بچیاں بھی اس رو میں بہتی نظر آتی ہیں.پردہ چھوڑنے کے علاوہ ان کا لباس ان کے اطوار ایک مسلمان عورت کے شایان شان نہیں بلکہ عیسائی عورتوں کے مشابہ نظر آتے ہیں قرآن زینت کے خلاف نہیں لیکن ایسے طریقے اختیار کرنا جن سے اسلامی روح مردہ ہو جائے اور دجالیت کی نقل یقیناً

Page 373

355 قرآن کے خلاف ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے جو دعا ئیں فرمائی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نہ آئے ان کے گھر تک رعب دقبال آپ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحانی اولاد ہیں آپ کے گھر تک رعب دجال کیوں آئے اسی طرح کشتی نوح میں حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.خبر دار!!! تم غیر قوموں کو دیکھ کر ان کی ریس مت کرو کہ انہوں نے دنیا کے منصوبوں میں بہت ترقی کر لی ہے آؤ ہم بھی انہیں کے قدم پر چلیں.سنو اور سمجھو کہ وہ اس خدا سے سخت بیگا نہ اور غافل ہیں.جو تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے.روحانی خزائن جلد 20 کشتی نوح ص 23 پس میری بچیو! ہر فیشن اختیار کرتے ہوئے یہ ضرور دیکھ لیا کرو کہ یہ قرآن کے خلاف تو نہیں.آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کے خلاف تو نہیں یہ اسلامی روح کے منافی تو نہیں؟ ہمارا لباس قرآن کے مطابق ہونا چاہیے.ہماری تعلیم قرآن کے مطابق ہونی چاہیے.ہمارا ہر قول اور فعل قرآن کے مطابق ہونا چاہیے تب ہم دوسروں کے لئے نمونہ بن سکتی ہیں.اگر ہمارا اٹھنا بیٹھنا سونا چلنا پھرنا ہماری تعلیم ہمارا لوگوں سے ملنا جلنا ہر کام قرآن کے مطابق ہو تو لوگ کہیں گئے ہیں تو یہ کا فرمگر ان کا عمل قرآن کے مطابق ہے اگر ہم نے غلبہ حاصل کرنا ہے.اور ساری دنیا میں احمدیت کی اشاعت کرنی ہے احمدیت کو پھیلانا ہے تو پہلے اپنا نمونہ قرآن کے مطابق ہونا چاہیے آپ میں سے ہر بچی تعلیم یافتہ ہے آپ کے لئے قرآن مجید کو پڑھنا اور اس پر عمل کرنا مشکل نہیں.حضرت عائشہ کون سی یو نیورسٹی کی پڑھی ہوئی تھیں لیکن آنحضرت ملے نے فرمایا تھا کہ نصف دین عائشہ سے سیکھو انہوں نے قرآن مجید کو سمجھا اس پر غور وتد بر کیا قرآنی معارف حاصل کئے کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ اسلام کی ترقی قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہے آج بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ احمدی بچیاں اس یقین پر قائم ہو جائیں کہ احمد بیت کو ضرورت ہے قربانی کرنے والی خواتین اور بچیوں کی جن کے دل خلق خدا کی ہمدردی کے جذبے سے بھرے ہوئے ہوں اور ان کو یہ بھی یقین ہو کہ احمدیت نے بہر حال غلبہ حاصل کرنا ہے اگر ہم کمزوری دکھائیں گے اور اپنے فرض منصبی کو ادا کرنے کی بجائے غفلت اور تساہل سے کام لیں گے تو یہ ترقی رک تو نہیں سکتی ہاں ہماری سستیوں اور کو تاہیوں سے ترقی کا دن دور نہ جاپڑے پس بہت ہی خوف اور فکر کا مقام ہے اس لئے ضروری ہے کہ آپ سب اپنی پوری توجہ کے ساتھ قرآن مجید کا ترجمہ سیکھیں دین کا علم حاصل کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 374

356 کی کتب پڑھیں اپنا عملی نمونہ قرآن مجید اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق بنائیں اور اپنے دائرہ عمل میں تبلیغ کریں تا آپ کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کا پیغام ان تمام روحوں تک پہنچ جائے جو صداقت کی متلاشی ہیں.احمدیت کے متعلق جو غلط فہمیاں ہیں ان کو دور کریں جو لڑکیاں ناظرہ قرآن مجید نہیں جانتیں ان کو جو جانتی ہیں وہ ناظرہ پڑھا ئیں جو تر جمہ جانتی ہیں وہ ان کو جو نہیں جانتیں ترجمہ سکھائیں آپ میں سے جو اسلام کے احکام پر عمل نہیں کرتیں ان کو سمجھانا اور ان سے عمل کروانا محبت اور نرمی کے ساتھ آپ کا فرض ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے کہ آپ میں احمدیت کی ترقی کے لئے ایک عظیم الشان جذبہ قربانی اور خدمت دین کا پیدا ہو جائے یہ نہ سمجھیں کہ آپ ابھی بچیاں ہیں آپ چاہیں تو بہت کچھ کر سکتی ہیں صرف ضرورت ہے اللہ تعالیٰ سے محبت کی اتنی محبت کی کہ اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی کرنے سے موت قبول کرنا آپ بہتر سمجھیں.ضرورت ہے مذہب سے محبت کی ضرورت ہے قرآن سے عشق کی قرآن پڑھنے اور سمجھنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ہر علم کو قرآن کی روشنی میں سیکھنے کی ضرورت ہے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو جانے کی ضرورت ہے رات اور دن تبلیغ کی ضرورت ہے اپنا عملی نمونہ اسلام کے مطابق دکھانے کی.اگر آپ سب ان سب امور پر چلنے والیاں ہوں تو ہمیں اطمینان حاصل ہو سکتا ہے کہ آپ نے اپنے مقصد زندگی کو مجھ لیا ہے اور آپ احمریت کی خاطر ہر قربانی کرنے کے لئے ہمیشہ تیار ہیں گی اور کوئی آپ کو شکست نہیں دے سکتا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے الفاظ آپ کو یاد دلاتی ہوں کہ ہم تو جس طرح بننے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں سلسلہ بدنام نہ ہو الفضل 14 جولائی 1966 ء

Page 375

357 خطاب طالبات نصرت گرلز سکول لاہور لجنہ اماءاللہ لاہور کے زیر انتظام یہ سکول جس کا نام نصرت گرلز سکول ہے جاری کیا گیا ہے.اس سکول کی ابھی نہ اپنی عمارت ہے نہ فرنیچر.لیکن میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتی ہوں کہ یہ آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے اتنی ترقی کرے گا اور اتنا پروان چڑھے گا کہ لاہور کے بڑے بڑے مدارس اس کی تقلید کرنا باعث فخر سمجھیں گے.انشا اللہ العزیز.میری شخصی متنی اور عزیز بچو! تمہیں معلوم ہے کہ تمہارا یہ سکول جس کا نام نصرت گرلز سکول ہے اس کا یہ نام رکھنے کی کیا وجہ ہے.سکول کا یہ نام حضرت نصرت جہان بیگم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زوجہ مطہرہ تھیں کے نام پر رکھا گیا ہے.آپ وہ مقدس خاتون تھیں جن کی الہی نوشتوں میں خبر دی گئی کہ آنے والا مسیح موعود ایک خاص مبارک خاتون سے شادی کرے گا.جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خدیجہ اور اپنی نعمت کے نام سے پکارا.آپ کے نام پر یہ نام اس لئے رکھا گیا تا کہ آپ کو ہر وقت سکول کا یہ نام اس بات کی یاد دلاتا رہے کہ تم نے یہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد صرف سرٹیفیکیٹ اور ڈپلومے ہی حاصل نہیں کرنے.صرف حساب جغرافیہ تاریخ اردو انگریزی، عربی یا سائنس کی تعلیم ہی حاصل نہیں کرنی بلکہ تم میں سے ہر ایک بچی نے نصرت جہاں بن کر نکلنا ہے.تم میں سے ہر ایک اپنے اندر وہ اخلاق وہ اوصاف پیدا کرے.جو حضرت نصرت جہاں بیگم میں تھے.نصرت جہاں کے معنے دنیا کی مدد کرنے والی کے ہیں.یہ نام تمہیں اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ تمہیں بلا تفریق مذہب وملت ہر ایک کی خدمت کرنی چاہئے.اسلام کی تعلیم کا خلاصہ ہی یہ ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کی صحیح رنگ میں عبادت کی جائے.اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کے بندوں کی خدمت کی جائے.اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا سب سے بڑا طریق ہی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے بندوں کی تکلیفیں دور کی جائیں.بنی نوع انسان کی ہر طرح خدمت کی جائے.کسی کو تمہارے نہ ہاتھ سے تکلیف پہنچے نہ تمہاری زبان سے.ہماری معلمات کا یہ بڑا ہی اہم فرض ہے جو ان پر عائد کیا گیا ہے کہ وہ ان منھی منی بچیوں کی تربیت بچپن سے ہی اس طرح کریں کہ ان کے دلوں میں قوم کی خاطر قربانی کرنے کا جذبہ پیدا ہو.ان کی دینی تعلیم کی طرف توجہ دی جائے.ان کے اخلاق کی درستگی کی طرف توجہ دی جائے.تا وہ جب اس سکول سے فارغ التحصیل ہو کر نکلیں تو اس سکول کا نام روشن کرنے والیاں ہوں.

Page 376

358 لاہور میں بڑی تعداد میں سکول ہیں.غالباً یہاں کے ہر محلہ اور ہر کوچہ میں سکول ہوگا.آخر ہمیں ایک نیا مدرسہ کھولنے کی کیوں ضرورت پیش آئی.کیا ہم دوسرے سکولوں میں اپنی بچیاں نہیں بھیج سکتے تھے.جہاں کی عمارتیں یہاں سے بہت اچھی جہاں کا سٹاف یہاں سے بہت زیادہ تربیت یافتہ.جہاں کا فرنیچر یہاں سے بہتر اور دنیوی تعلیم بھی یقیناً بہت سے سکولوں کی یہاں سے بہتر ہوگی.لیکن ایک نیا مدرسہ کھولنے کی غرض محض یہ تھی کہ ہماری بچیاں جن سے ہماری امیدیں وابستہ ہیں کہ بڑی ہو کر احمدیت کے لئے ٹھوس کام کریں گی اگر ان کی تعلیم اور تربیت ایسے ماحول میں ہو جو دینی نہ ہو.جو روحانی نہ ہو اور وہ غلط ماحول میں رہ کر مغربیت کی رو میں بہہ گئیں تو احمدی بچیوں کی تعلیم کا مقصد فوت ہو جاتا ہے.بیشک ابھی اس مدرسہ میں بچیوں کی تعداد کم ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ جتنی بچیاں اس وقت یہاں موجود ہیں اگر انہی بچیوں کی صحیح رنگ میں تعلیم وتربیت کی جائے.اسلامی اخلاق ان کے اندر پیدا کئے جائیں اور وہ کر داران کا بنانے کی کوشش کی جائے.جو حضرت نصرت جہاں بیگم کا تھا تو آئندہ چند سال میں آپ کے پاس اتنی کارکن موجود ہوں گی کہ آپ کو جو شکایت اس وقت اچھی کارکنوں کے نہ ہونے کی ہے وہ دور ہو جائے گی.اس لئے جہاں ہماری معلمات اردو عربی انگریزی، سائنس، تاریخ جغرافیہ وغیرہ پڑھاتی ہیں.وہاں پر معلمہ خواہ وہ دینیات پڑھانے والی ہو یا اردو پڑھانے والی ہو یا حساب پڑھانے والی ہو اس کو اس فرض کا بھی پوری پوری طرح احساس ہونا چاہئے کہ میں نے صرف اپنے مضمون کی تعلیم ہی نہیں دینی بلکہ میں ہر رنگ میں اس کی تربیت اور دینی تعلیم کی بھی ذمہ دار ہوں.اور اگر مجھ سے کوتاہی ہوئی تو یہ ایک گناہ عظیم ہو گا.تعلیم کے ساتھ ساتھ بچیوں کے اخلاق کی نگرانی کرنا ان کے فرائض میں شامل ہے.وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے بچیوں کو کورس ختم کروا دیا ہے اور یہ امتحان میں پاس ہو جائیں گی.بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ ہمارے ہاتھوں میں قوم نے اپنے بچوں کی باگ ڈور دی ہے.اگر ہم نے ذرا بھی کوتاہی اور غفلت سے کام لیا تو ان بچیوں کے ماں باپ کو کس قد رصدمہ ہو گا.اور ہماری اگلی نسل کی ترقی میں کمی واقع ہو جائے گی.ہمارا تمدن وہ ہے ہمارے اخلاق کا معیار وہ ہے جو چودہ سو سال قبل آنحضرت ﷺ نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا.اگر بچپن سے ہی معلمات بچوں کو یہ سمجھائیں کہ سچ بولنا اس لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے.ایک مسلمان اور احمدی بچہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا.ایک احمدی بچہ کبھی دوسرے سے دھوکہ نہیں کرتا.ایک احمدی بچہ کبھی خیانت نہیں کرتا.ایک احمدی بچہ کبھی جھگڑا لڑائی نہیں کرتا.ایک احمدی بچہ صلح جو ہوتا ہے تو ناممکن ہے کہ یہ باتیں پتھر کی لکیر کی طرح ان کے دلوں میں راسخ نہ ہو جائیں.اور آہستہ

Page 377

359 آہستہ غیر محسوس طور پر ان کی تربیت ایسی اعلیٰ رنگ میں ہونی شروع ہو جائے کہ پھر دنیا کا بڑے سے بڑا شیطانی حملہ بھی ان پر اثر انداز نہ ہو سکے.اور وہ دنیا کے سامنے اپنے کردار اور اخلاق اور اپنی قربانی کا ایک ایسا اعلیٰ نمونہ پیش کریں کہ باقی لوگ ان کو دیکھ کر اپنے بچوں کو اس سکول میں بھجوانے پر مجبور ہو جائیں اور اگر کوئی ان کو رو کے کہ ان کے سکول میں بچوں کو نہ بھیجواؤ وہ تو کافر ہیں تو وہ کہیں ہمیں یہ کفر باقی لوگوں کے اسلام سے زیادہ پسند ہے.جہاں پڑھ کر ہمارے بچے قرآن مجید پڑھتے ہیں.قرآن مجید کا ترجمہ سیکھتے ہیں اور جہاں ان میں اعلیٰ اخلاق پیدا ہوتے ہیں.مجھے رپورٹ میں یہ بات سن کر خوشی ہوئی ہے کہ لجنہ اماء اللہ کے مختلف جلسوں میں ہمارے سکول کے بچے اور بچیاں مختلف ڈیوٹیاں سرانجام دیتے ہیں.میں خود اس بات کی طرف توجہ دلانے والی تھی کہ اگر آپ امید رکھتی ہیں کہ بڑے ہو کر یہ قومی فرائض کے ادا کرنے والے ہوں اور قوم کے لئے مفید کارکن ثابت ہوں تو چھوٹی عمر میں ہر موقع پر ان کے سپرد کام کئے جائیں جو ذمہ داری سے وہ ادا کریں.اور ہر بچہ کی نگرانی کی جائے کہ اس نے اپنی ڈیوٹی کو کیسے سر انجام دیا.جب بچپن سے ہی ان سے کام لیا جائے گا اور بچپن سے ہی ان میں جذبہ پیدا ہو گا کہ یہ کام ہم اپنی قوم کے لئے کر رہے ہیں.اپنی لجنہ کے لئے کر رہے ہیں.احمدبیت اور اسلام کی ترقی کے لئے کر رہے ہیں تو انشاء اللہ قربانی کرنا ان کی فطرت ثانیہ بن جائے گا.اور بڑے ہونے پر جب بھی ان سے قربانی کا مطالبہ ہوا تو وہ سب سے پہلے لبیک کہنے والے ہوں گے.خواہ وہ قربانی جان کی ہو وقت کی ہو یا مال کی.کیونکہ بچپن سے ہی ان کے دلوں میں یہ راسخ کر دیا گیا تھا کہ ہمارا سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہم نے اسے قربان کرنا ہے.میرے عزیز بچو اور بچیو! تمہیں چاہئے کہ تم اپنے اخلاق و کردار گفتار رفتار اور لباس کے لحاظ سے یگا نہ بنوجیسا کہ حضرت مصلح موعود نے جماعت کے بچوں اور نو جوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا.میں واحد کا ہوں دلدادہ اور واحد میرا پیارا ہے گر تو بھی واحد بن جائے تو میری آنکھ کا تارا ہے جس طرح اللہ تعالٰی واحد لاشریک ہے اور برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کی صفات میں کوئی اور شریک ہو.لیکن اپنی صفات کا مظہر بنا کر اس نے انسانوں کو دنیا میں بھیجا ہے جن میں سے کامل نمونہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا آنحضرت ﷺ کی ذات مبارک تھی.اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہم بھی اس وقت بن سکتے ہیں.جب ہر لحاظ سے ہم آنحضرت ﷺ کے نمونہ کے مطابق چلیں اور اپنے اخلاق اور اپنے نیک نمونہ میں

Page 378

360 باقی تمام دنیا سے ممتاز اور واحد نظر آئیں.پس میرے بچو! تم نے صرف دنیاوی تعلیم حاصل نہیں کرنی تم نے آسمان پر احمدیت کا درخشندہ ستارہ بن کر چمکنا ہے.اس لئے ابھی سے جس طرح تمہاری معلمات تمہاری تربیت کرنے کی کوشش کریں.ان کی اطاعت کرو.اور جو سکھائیں سیکھو.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اس مدرسہ کا معیار اتنا بلند ہونا چاہئے کہ لوگ ہماری منتیں کریں کہ ہمارے بچے اپنے سکول میں داخل کر لو.کیونکہ یہاں کی تربیت کا معیار اعلیٰ ہے.اگر اس معیار کو یہ مدرسہ حاصل نہیں کر سکتا اور اس کا معیار وہی رہتا ہے جو ایک عام سکول کا ہوتا ہے تو اس سکول کا کھولنا اور چلانا عبث ہے.ہم نے ایک مثالی معاشرہ قائم کرنا ہے.جس کا ہر فرد مرد اور عورت ان اخلاق اور اقدار کا حامل ہو جو آنحضرت ﷺ کے ذریعہ دنیا کی روحانی ترقی کے لئے پیش کئے گئے تھے.یہ بھی ہو سکتا ہے جب ہر لڑکا اور لڑکی اس مدرسہ سے قرآن پڑھ کر نکلے صحیح تلفظ سے اسے پڑھنا آتا ہو.اور قرآن سے اسے محبت ہو.تا ا ناظرہ پڑھنے کے بعد اسے شوق ہو کہ اب اس کا مطلب بھی پڑھوں.قرآن مجید تو ہر گھر میں ہی ختم کروا دیتے ہیں.لیکن پچاس فیصدی بچے غلط پڑھتے ہیں.کس قدر شرم کی بات ہے کہ بچے اردو کی کتابیں تو فرفر پڑھتے جائیں.انگریزی کی کتب بالکل صحیح تلفظ اور لہجہ سے پڑھیں.لیکن خدا تعالیٰ کی کتاب جس کے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے سے ہی ہماری ساری زندگی کی فلاح و بہبودی وابستہ ہے.وہ ہمارے بچے صحیح نہ پڑھ سکیں یا اس کے پڑھنے کی طرف توجہ نہ دیں.تم میں سے ہر ایک کی کوشش ہونی چاہئے کہ صحیح قرآن پڑھنا آئے اور جب قرآن ناظرہ پڑھ لو تو جتنا بھی تم سکول کے زمانہ میں ترجمہ سیکھ سکو سکھو اور اسے خوب یاد کرو.اس طرح ہر بچی کونماز کا ترجمہ اچھی طرح آنا چاہئے ایک بچی جونماز پڑھنے لگتی ہے اگر اسے ترجمہ نہیں آتا تو وہ رٹے ہوئے جملے تو پڑھ لے گی.لیکن اسے کچھ پتہ نہیں کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کا کیا مطلب ہے.اسے کچھ پتہ نہیں ایاک نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین کا کیا مطلب ہے.اسے کچھ علم نہیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کا کیا مطلب ہے.لیکن وہ بچی جسے نماز کا ترجمہ آتا ہوگا.جب صدق دل سے خدا سے درخواست کرے گی کہاے میرے مولا مجھے سیدھے راستہ پر چلا تو وہ خود بھی سیدھے راستے پر چلنے کی کوشش کرے گی.بات ہی صرف یہ ہے کہ تمہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ تم نماز میں کیا پڑھ رہے ہو.قرآن مجید میں کیا پڑھ رہے ہو.دعاؤں میں کیا مانگ رہے ہو.جب بچوں کو یہ علم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں کن باتوں کے کرنے کا حکم دیا ہے.

Page 379

361 اور کن باتوں سے منع فرمایا ہے کہ دیکھو مسلمان بچو تم نے یہ یہ باتیں نہیں کر نہیں تو ممکن ہی نہیں کہ پھر تم ان کو کرنے کی جرات بھی کرو.آخر تم مسلمان ہو تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہے.آنحضرت ﷺ کی محبت ہے.جس بچہ کے دل میں خدا تعالیٰ سے محبت ہو اور خدا تعالیٰ کے رسول سے محبت ہوتو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ بچہ آپ کے احکام کی خلاف ورزی کرے.کبھی نہیں کرے گا.صرف غلطی ہماری ہے کہ ہم نے تمہیں شروع سے ترجمہ نہیں پڑھایا.جب ہم تمہیں ترجمہ پڑھالیں گی تو پھر ہم امید رکھتی ہیں کہ ہر بچہ کا اس پر عمل بھی ہوگا.میں دعا کرتی ہوں کہ تم پھول اور پھلو.آئیندہ آنے والی نسلوں کے تم لیڈر بنو اور وہ تمہاری پیروی کرنے اور تمہارے نقش قدم پر چلنے میں فخر محسوس کریں.اور یہ سکول اتنا ترقی کرے کہ لوگ آئیں اور ہمیں انکار کرنا پڑے کہ ہم اتنے بچوں کو داخل نہیں کر سکتے.لیکن ان کا اصرار یہی ہو کہ ہم نے یہیں پڑھوانا ہے.کیونکہ یہاں قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے یہاں حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے.یہاں بچوں میں اسلامی اخلاق پیدا کئے جاتے ہیں.ان کا کردار بنتا ہے اور یہاں بچیان پڑھ کر بے پردہ نہیں ہو سکتیں.جہاں میں نے بچوں اور بچیوں کو نصائح کی ہیں وہاں اساتذہ کو بھی نصیحت کرتی ہوں کہ تربیت کرنے کا بہترین گر اپنا نمونہ اعلیٰ پیش کرنا ہے اپنا لباس.اپنا طریق کلام.اٹھنا بیٹھنا.غرض ہر فعل ایسا ہو کہ بچہ اس کی نقل کرے اور بچے تو ہوتے ہی نقال ہیں وہ اپنے ماں باپ کی نقل کرتے ہیں.بہن بھائیوں دوستوں کی نقل کرتے ہیں.آپ کی بھی ضرور کریں گے لیکن اگر آپ کا نمونہ ان اقدار کا حامل نہیں ہوگا.جس غرض سے یہ سکول قائم کیا گیا ہے تو پھر اس ادارہ کے قیام کا بھی کوئی فائدہ نہیں.اس لئے میں معلمات کو پھر توجہ دلاتی ہوں کہ آپ کو بہت عظیم الشان ذمہ داری سونپی گئی ہے.آپ کے سپرد کر کے ان کے ماں باپ بے فکر ہیں کہ اب آپ ان کو سنبھالیں گی.اس لئے آپ کے پاس سب سے آسان اور مجرب نسخہ یہی ہے کہ اپنا نمونہ ایسا دکھائیں جو عین شریعت اسلامی کے مطابق ہو جو ہماری روایات کے مطابق ہو.جو ہماری مشرقی اقدار کے مطابق ہو.جو قرآن مجید اور حدیث کی تعلیم کے مطابق ہو.پھر آپ دیکھیں گی کہ یہ نھی منی کلیاں کیسے لہلہاتے ہوئے پھول بنیں گے.جس کی خوشبو سے ساری دنیا معطر ہو جائے گی.آمین الھم آمین مصباح ستمبر 1966ء)

Page 380

362 خطاب طالبات تعلیم القرآن کلاس یہ تقریر حضرت سیدہ ام متین صاحبہ مدظلہا تعالیٰ نے لجنہ مرکزیہ کی طرف سے تعلیم القرآن کلاس کی طالبات کو دی جانے والی الوداعی پارٹی کے موقع پر مورخہ 30 جولائی 1966ء کور بوہ میں کی تھی.تشہد.تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ماہ تک مرکز میں رہ کر قرآن کریم کا علم حاصل کرنے کی توفیق آپ کو عطا فرمائی ہے.دوسرے مضامین بھی جو آپ نے یہاں پڑھتے ہیں.دراصل قرآن کریم کی تفسیر ہیں.جو اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ فلاں مسئلہ کے متعلق قرآن کیا کہتا ہے.قرآن پاک در اصل ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفی ﷺ کے اخلاق کی صحیح تصویر ہے ایک بار حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچھا کہ آنحضرت کے اخلاق کیا ہیں تو آپ نے فرمایا كان خُلُقُهُ الْقُرْآن" (مسند احمد بن حنبل) یعنی قرآن مجید کو پڑھ لو یہی آپ کے اخلاق تھے.پس قرآن پر غور کرنے سے آپ کے افعال کا ہمیں علم ہو سکتا ہے اور تب ہی ہم آپ کے نقش قدم پر چل سکتے ہیں.پھر ہم دن میں کئی بار سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتے ہیں اور اپنے خدا سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو ہمیں وہ راستہ دکھا جس پر انعام یافتہ لوگ چلتے رہے.یہ دعا مانگتے وقت ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اس راستے کو پانے کے طریق کون سے ہیں.کیونکہ اگر ہم کوشش نہیں کریں گے تو یہ دعا محض لفظی بن جائے گی.لیکن اللہ تعالیٰ خود ہی وہ طریق بتا دیتا ہے.سورۃ البقرہ کو شروع کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ کتاب ہر شبہ سے پاک ہے.اس میں کوئی عیب نہیں اور کوئی کمی نہیں.پس اس کے ہر حکم کے سامنے اپنی گردنیں جھکا کر اور ہر اس بات سے اجتناب کر کے جو قرآن کریم نے منع فرمائی ہے.ہم اللہ تعالیٰ کو پاسکتے ہیں اور صراط مستقیم پر چل سکتے ہیں.لہذا صراط مستقیم کو پانے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن مجید کو فہم وتدبر کے ساتھ پڑھا.اور غور وفکر کے ساتھ پڑھا جائے.سوچ سمجھ کر اس کی تلاوت کی جائے.یا ہمیں معلوم ہو کہ وہ کن امور پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتا ہے اور کن امور سے باز رہنے کا حکم صادر کرتا ہے.پھر قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی فرمائی ہے کہ یہ تا ابد پڑھی جائے گی اور بار بار پڑھی جائے گی اور جو تو میں اس پر عمل کریں گی انہیں کا نام آسمان پر عزت سے لیا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کشتی نوح میں فرماتے ہیں:

Page 381

363 تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جولوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.“ روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح ص 13 آپ کی بعثت کی غرض ہی یہ تھی کہ قرآن جو مجبور ہو چکا ہے اور محض جز دانوں کی زینت ہو کر رہ گیا ہے.اس کی تعلیمات کو از سر نو عام کیا جائے.اس کی تاثیرات اور برکات کا تذکرہ کر کے اور اس کا اصلی حسن دنیا کو دکھا کر اس کی محبت کو دلوں میں بٹھایا جائے.اور ایک ایسا گر وہ تیار کیا جائے جس کا ہر قول و فعل قرآن کے مطابق ہو جیسا کہ فرمایا : میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت قریباً علماء کی یہی حالت ہورہی ہے.لِمَ تَقُولُونَ مَالَا تَفْعَلُونَ (الصف : 3) کے مصداق اکثر پائے جاتے ہیں اور قرآن شریف پر بگفتن ایمان رہ گیا ہے.ورنہ قرآن شریف کی حکومت سے لوگ بکلی نکلے ہوئے ہیں.احادیث سے پایا جاتا ہے کہ ایک وقت ایسا آنے والا تھا کہ قرآن شریف آسمان پر اٹھ جائے گا.میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ وہی وقت آ گیا ہے.حقیقی طہارت اور تقویٰ جو قرآن شریف پر عمل کرنے سے پیدا ہوتا ہے آج کہاں ہے؟ اگر ایسی حالت نہ ہو گئی ہوتی تو خدا تعالیٰ اس سلسلہ کو کیوں قائم کرتا.ہمارے مخالف اس بات کو نہیں سمجھ سکتے لیکن وہ دیکھ لیں گے کہ آخر ہماری سچائی روز روشن کی طرح کھل جائے گی.خدا تعالیٰ خود ایک ایسی جماعت تیار کر رہا ہے جو قرآن شریف کی ماننے والی ہوگی.ہر ایک قسم کی ملونی اس میں سے نکال دی جائے گی اور ایک خالص گروہ پیدا کیا جاوئے گا اور وہ یہی جماعت ہے اس لئے میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کے احکام کے پورے پابند ہو جاؤ اور اپنی زندگیوں میں ایسی تبدیلی کرو.جو صحابہ کرام نے کی تھی.ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں دیکھ کر ھو کر کھاوے.“ ملفوظات جلد چہارم صفحه 467 اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کو ان پیشگوئیوں سے بھی روشناس کرا رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ تم کو ایسا گروہ دوں گا جس کا کردار اور عمل قرآن کے مطابق ہوگا.چنانچہ اس پیشگوئی کے تحت آپ ایسی ہی توقعات اپنی جماعت سے رکھتے ہیں کہ اس کے تمام افراد قرآنی احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے ہوں.آپ کے متعلق یہ پیشنگوئی بھی تھی کہ آنے والا مسیح خزائن تقسیم کرے گا.وہ خزائن یہی قرآنی تعلیمات ہیں جن کو احمد یہ جماعت حاصل کر رہی ہے.قرآن کریم کی خوبیاں اور اس کا حسن و جمال بیان کرنے کے

Page 382

364 لئے آپ نے اتنا کچھ کہا اور اتنا کچھ تحریر فرمایا ہے کہ تنگ وقت میں سارے حوالے سنائے نہیں جا سکتے.آپ بار بار فرماتے رہے کہ صحابہ کرام نے جب بھی ترقی کی تو صرف قرآن کے ذریعہ.جب قرآن کو ہاتھ میں لے کر جہاد کیا تو ملک پر ملک فتح کرتے چلے گئے.قوموں کی قومیں ان کی مطیع وفرمانبردار ہوتی چلی گئیں اور فوجوں کی فوجیں ان کی غلامی کو اختیار کرتی چلی گئیں.مغربی اقوام جو آج مختلف علوم وفنون میں ترقی کر لینے پر بہت زیادہ نازاں ہیں 1400 سال قبل ان کی حالت سخت بد تر تھی.تمام بڑے بڑے سائنسدان اور فلاسفر مسلمان ہی تھے.ان لوگوں نے جب ترقی کی تو مسلمانوں ہی کی شاگردی اختیار کر کے اور ان قوانین کو اپنا کر جو قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں پس اب بھی اگر مسلمان ترقی کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اسی کتاب کو مشعل راہ بنانا ہوگا.اور انہیں قوانین پر عمل پیرا ہونا ہوگا.جو قرآن کریم نے بیان فرمائے نہ کہ مغربیت کی تقلید.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.” جو لوگ اسلام کی بہتری اور زندگی مغربی دنیا کو قبلہ بنا کر چاہتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے.کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کے ماتحت چلتے ہیں.قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے.ملفوظات جلد اوّل صفحہ 409 اسی لئے اپنی جماعت کو نصیحت فرماتے ہیں: اب سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کو پڑھو.بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کریم کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی رات دن جھکا رہے.ہماری جماعت کو چاہئے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان و دل سے مصروف ہو جائیں.“ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 386 یہ حقیقت سوچنے کے باوجود مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آئی کہ ہماری وہ لڑکیاں جو فلسفہ کی بڑی بڑی کتب رٹ لیتی ہیں دیگر مضامین پر عبور کر لیتی ہیں.اگر کالج میں منعقد ہو نیوالے مباحثوں میں حصہ لینے کو کہا جائے تو لمبی لمبی تقاریر زبانی یاد کر لیتی ہیں.لیکن اگر نہیں توجہ دیتیں تو صرف قرآن کی طرف.حالانکہ یہی وہ مختصر کتاب ہے جس کا پڑھنا بھی آسان اور اس پر عمل کرنا بھی آسان ہے.ضرورت ہے تو صرف توجہ کی.ذوق کی اور شوق کی.پس عزیز بچیو! میری تم کو یہی نصیحت ہے کہ قرآن سے محبت کرو.بے حد محبت کرو.کہ خدا تعالیٰ کی

Page 383

365 عطا کردہ تلوار جس کو بروئے کار لا کر تم ہر مخالف پر غالب آ سکتی ہو.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں: ” خدا نے ہمیں وہ تلوار دی ہے جسے کبھی زنگ نہیں لگتا اور جو کسی لڑائی میں بھی نہیں ٹوٹ سکتی.تیرہ سو سال گزر گئے اور دنیا کی سخت سے سخت قوموں نے چاہا کہ وہ اس تلوار کو توڑ دیں.اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور اسے ہمیشہ کے لئے ناکارہ بنا دیں.مگر دنیا جانتی ہے کہ جو قوم اس کو توڑنے کے لئے آگے بڑھی وہ خود ٹوٹ گئی مگر یہ تلوار ان سے نہ ٹوٹ سکی.یہ وہ قرآن ہے جو خدا نے ہم کو دیا ہے اور یہ وہ تلوار ہے جس سے ہم ساری دنیا کو فتح کر سکتے ہیں فرماتا ہے جَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا - (الفرقان) : (52) تلوار کا جہاد اور دوسرے اور جہادسب چھوٹے ہیں.قرآن کا جہاد ہی ہے جو سب سے بڑا اور عظیم الشان جہاد ہے.یہ وہ تلوار ہے کہ جو شخص اس پر پڑے گا اس کا سر کاٹا جائے گا.اور جس پر یہ پڑے گی وہ بھی مارا جائے گا.یا مسلمانوں کی غلامی اختیار کرنے پر مجبور ہوگا.اگر تیرہ سوسال میں بھی ساری دنیا میں اسلام نہیں پھیلا تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ تلوار کند تھی.بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے اس تلوار سے کام لینا چھوڑ دیا.آج خدا نے پھر احمدیت کو یہ تلوار دے کر کھڑا کیا ہے اور پھر اپنے دین کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کرنے کا ارادہ کیا ہے.مگر نادان اور احمق مسلمان احمدیت پر حملہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ احمدی جہاد کے قائل نہیں.“ سیر روحانی مجموعہ تقاریر صفحہ 264 265 حضرت خلیفہ مسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی حال ہی میں قرآن کریم ناظرہ اور با ترجمہ سیکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے.قرآنی تعلیمات کا مرکزی نکتہ اگر چہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانا ہے لیکن ایمان کا ذکر کبھی اکیلے نہیں آیا.بلکہ ہمیشہ اعمال صالحہ کے ساتھ اور اعمال صالحہ وہی ہوتے ہیں جو مناسب حال اور وقت کے مطابق ہوں.لہذا خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہہ کر ہی آپ اعمال صالحہ بجالا سکتی ہیں اور اسی میں فلاح و کامیابی ہے.اس وقت آپ کے امام کا سب سے اہم حکم یہی ہے کہ قران کریم کو پڑھیں اور پڑھائیں.کس قدر افسوس کی بات ہے کہ گنتی کی لجنات ایسی ہیں جہان سو فیصد نمبرات ناظرہ جانتی ہوں.بعض شہروں کی رپورٹوں سے معلوم ہوا ہے کہ ابھی ہماری جماعت میں بعض ایسی نوجوان لڑکیاں بھی موجود ہیں جن کو قرآن کریم ناظرہ نہیں آتا.حالانکہ وہ دنیوی ڈگریاں حاصل کرنے کے لئے دن رات محنت کرتی ہیں.لیکن میری عزیز بچیو! ساتھ اگر کچھ جائے گا تو یہی قرآن جائے گا.سب ڈگریاں یہیں دھری رہ

Page 384

366 جائیں گی.کسی نے نہیں پوچھنا کہ فلسفہ کی کتنی کتابیں رہیں.اکنامکس یا دوسرے مضامین کی کتنی کتب یاد کیں.باز پرس ہوگی تو صرف قرآن کی...پس اسے پڑھو کہ ہر خیر و برکت اسی میں پائی جاتی ہے.قرآن پڑھنے سے میری مراد یہ نہیں کہ اسے اندھا دھند پڑھتی چلی جائیں.بلکہ ہمیشہ فہم و تدبر کیساتھ پڑھا کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک بار ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا کہ قرآن کریم کو کیسے پڑھنا چاہئے اس پر حضرت اقدس نے فرمایا: قرآن شریف کو تدبر و تفکر د غور سے پڑھنا چاہئے حدیث شریف میں آیا ہے رُبِّ قَارٍ يَلْعَنُهُ القُرآنُ.یعنی بہت ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے.جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور اس پر عمل نہیں کرتا.اس پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے.تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیت رحمت پر گزر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوئے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے.اور تدبر اور غور سے پڑھنا چاہئے.اور اس پر عمل کیا جاوے.“ ملفوظات جلد پنجم صفحه 157 کلاس کے افتتاح کے روز حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ تعال نے دس علوم کا ذکر کیا تھا.اور فرمایا تھاکہ قرآن کریم کو پڑھتے وقت اپنے ذہن میں سوچا کریں کہ فلاں آیت کس علم کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر طلباء اور طالبات روز کے سبق پڑھتے وقت اس چیز کو مد نظر رکھیں گے تو اللہ تعالی علوم کے دروازے ان پر کھولے گا.لیکن اب اگر کلاس کے دوران آپ نے ایسا نہیں کیا تو میں دوبارہ اس طرف توجہ دلاتی ہوں کہ دہرائی کرتے وقت ضرور ان باتوں کا خیال رکھیں.قرآن کریم کو سمجھنے اور اس کے معارف حاصل کرنے کے متعلق حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے تفسیر کبیر میں تین ماخذوں کا ذکر کیا ہے.ان سے بھی آپ کام لیں.حضور فرماتے ہیں : ”اب میں ان ماخذوں کا ذکر کرتا ہوں جن سے نفع ہوا.اور سب سے پہلے اس ازلی ابدی ماخذ علوم کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس سے سب علوم نکلتے ہیں اور جس کے با ہر کوئی علم نہیں وہ علیم ہی سب علم بخشتا ہے.اس نے اپنے فضل سے مجھے قرآن کریم کی سمجھ دی اور اس کے بہت سے علوم مجھ پر کھولے.“

Page 385

367 یعنی قرآن کریم کا علم حاصل کرتے وقت سب سے زیادہ تو کل اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہونا چاہئے.اس لئے جب بھی اس کو پڑھیں اس سے دعا مانگ کر پڑھیں کہ یا اللہ اس کا نور میرے دل میں بھر دے.میرے دماغ میں بھر دے.حتی کہ مجھے مجسم قرآن بنادے.پھر حضور فرماتے ہیں: دوسرا ماخذ قرآنی علوم کا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات ہے.آپ پر قرآن نازل ہوا.اور آپ نے قرآن کو اپنے نفس پر وارد کیا حتی کہ آپ مجسم قرآن ہو گئے.آپ کی ہر حرکت اور آپ کا سکون قرآن کی تفسیر تھے.آپکا ہر خیال اور ہر ارادہ قرآن کی تفسیر تھا.آپ کا ہر احساس اور ہر جذ بہ قرآن کی تفسیر تھا.آپ کی آنکھوں کی چمک میں قرآنی نور کی جھلکیاں تھیں اور آپ کے کلمات قرآن کے باغ کے پھول تھے.ہم نے اس سے مانگا اور اس نے دیا.اس کے احسان کے آگے ہماری گردنیں خم ہیں.اللَّهُمْ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں احادیث النبی ﷺ کا علم بھی.حاصل کرنا چاہئے.اس سے حدیث کا تعلق بھی قرآن سے ہوتا چلا جائے گا اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ فلاں امر کے متعلق آنحضرت ﷺ کا اسوہ کیا تھا.اس روشنی میں جب اپنے سید مولی کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا جائے گا تو ذرا بھی مشکل پیش نہیں آئے گی اور ہمیں پتہ لگتا جائے گا کہ آنحضرت ﷺ نے قرآن مجید کے کس حکم پر کس طرح عمل فرمایا اور ہمیں بھی چاہئے کہ اسی طرح آپ کی پیروی کریں.تیسرے ماخذ کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: اس زمانہ کے لئے علوم قرآنیہ کا تیسرا ماخذ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود اور مہدی مسعود کی ذات علیہ الصلوۃ والسلام ہے.جس نے قرآن کے بلند و بالا درخت کے گرد سے جھوٹی روایات کی اکاس بیل کو کاٹ کر پھینکا.اور خدا سے مدد پا کر اس جنتی درخت کو سینچا اور پھر سبز و شاداب ہونے کا موقعہ دیا.الحمد للہ ہم نے اس کی رونق کو دوبارہ دیکھا اور اس کے پھل کھائے اور اس کے سایے کے نیچے بیٹھے.مبارک وہ جو قرآنی باغ کا باغبان بنا.مبارک وہ جس نے اسے پھر سے زندہ کیا.اور اس کی خوبیوں کو ظاہر کیا.مبارک وہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا اور خدا تعالیٰ کی طرف چلا گیا اسی کا نام زندہ ہے اور زندہ رہے گا.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب دراصل قرآن کریم کی تفاسیر ہیں.قرآن کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کی کتب کو پڑھا جائے اور بار بار پڑھا جائے.آپ نے تمام غلط عقائد کو تمام بدعات کو

Page 386

368 اور تمام ان خیالات کو جو تو حید کے خلاف تھے.آنحضرت ﷺ کی سنت کے خلاف تھے.آنحضرت ﷺ کی شان کے خلاف تھے مٹا کر اسلام کا نکھرا روشن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا.لہذا اس حقیقی اسلام کا حقیقی علم آپ تبھی حاصل کر سکتی ہیں جب حضرت اقدس کی کتب پر عبور حاصل ہو.پس ان کتب کی قدر کریں کہ یہ خدا کے مسیح کا دیا ہوا تحفہ ہیں.انہیں بار بار پڑھیں کہ ان کے پڑھنے سے قرآن مجید کے مطالب سمجھ آئیں گے.میں امید کرتی ہوں کہ ہماری بچیاں جو تکالیف اٹھا کر لمبی مسافت طے کر کے یہاں آئی ہیں (اور یہاں بھی بہر حال گھر جتنا آرام تو انہیں میسر نہیں آیا ہو گا.اب ان تمام علوم سے جو یہاں اپنے قیام کے دوران انہوں نے سیکھے ہیں.ضرور استفادہ کریں گی اور آئندہ بھی حصول تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیں گی.فی الہال میں خود چند کتب کا انتخاب آپ کے لئے کرتی ہوں.ان کو گھروں میں واپس جا کر پڑھیں اور مجھے بھی اطلاع دیتی رہا کریں.کشتی نوح.ایک غلطی کا ازالہ ازالہ اوہام - فتح اسلام.براہین احمدیہ حصہ پنجم.دعوت الا میر اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے علاوہ در مشین کے اشعار کی طرف بھی توجہ دیں کہ بے شمار علوم کے خزانے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار میں بھرے پڑے ہیں.ان کے علاوہ جب آپ اپنے وہ نوٹس دوبارہ پڑھیں جو کلاس کے دوران آپ نے تیار کئے تھے تو ان میں جب بھی کوئی حوالہ آئے تو اس کو اصل کتاب میں سے نکال کر پڑھیں تا اس کے سیاق و سباق کا صحیح علم آپ کو ہو سکے.پھر علم کو قائم رکھنے کے لئے اور اس میں وسعت پیدا کرنے کے لئے ایک اور ضروری چیز یہ ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچایا جائے.اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے وَمِمَّا رَزَقْنهُم يُنفِقُون (البقرہ: 4) کہ حقیقی متقی وہ ہے کہ جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے.اس میں سے خرچ کرتے ہیں.اس موقع پر مجھے اپنا ایک زمانہ طالب علمی کا واقعہ یاد آ گیا ہے.میٹرک کی بات ہے مکرمی صوفی غلام محمد صاحب ہمیں ریاضی کرایا کرتے تھے.میں چونکہ اس مضمون میں ہوشیار تھی.اس لئے اکثر لڑکیاں مجھ سے سوالات سمجھا کرتی تھیں.ایک بار اپنی ناسمجھی سے میں نے سوال سمجھانے سے انکار کر دیا.جب صوفی صاحب تشریف لائے تو لڑکیوں نے شکایت کر دی.اس پر وہ مجھے کہنے لگے.ذرا قرآن مجید تو لانا.جب میں لے آئی تو اس کی یہی آیت تلاوت کرنے کے لئے کہا پھر اس کا مطلب سمجھایا اور فرمانے لگے کہ

Page 387

369 اللہ انہیں لوگوں کو متقیوں کے زمرے میں داخل کرتا ہے جو اس کے عطا کردہ قومی کو اس کے دئے ہوئے مال کو.اس کے عنایت کردہ علم کو غرض ہر چیز کو اس کی رضا کی خاطر اور اس کی مخلوق کی بہبودی کی خاطر صرف کرتے ہیں.اس لئے کبھی کسی کو کوئی چیز بتاتے ہوئے بخل سے کام نہیں لینا چاہئے.اپنے استاد کی یہ نصیحت میرے ذہن میں اس طرح راسخ ہو گئی کہ اس کے بعد آج تک کبھی کسی کو کچھ سکھانے میں تامل یا پس و پیش نہیں کیا.پس میں بھی باہر سے آنے والی تمام لڑکیوں کو آج یہ نصیحت بھی کرتی ہوں کہ وہ یہاں سے واپس جا کر اپنی خدمات اپنی اپنی لجنات کی صدر کو پیش کر دیں.اگر ناظرہ پڑھانے کی آپ کے شہر میں ضرورت ہو تو اس کے لئے جتنی محنت بھی کر سکتی ہیں کریں.پھر اگر ترجمہ پڑھاسکیں تو وہ بھی پڑھا ئیں.نیز دیگر جو علوم آپ نے یہاں سیکھتے ہیں ان کو تحریر یا تقریر کے ذریعہ دوسروں تک پہنچاتی رہیں.میرے پاس آپ کے ناموں کی فہرست موجود ہے.میں آپ کے شہروں کی رپورٹوں سے کام کا جائزہ لیتی رہوں گی.تا مجھے معلوم ہو سکے کہ آپ نے اپنے حاصل کردہ علم سے اپنی لجنہ کو کیا فائدہ پہنچایا ہے.آخر میں میں اس طرف بھی آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتی ہوں کہ مصباح کی قلمی اعانت آپ کا فرض ہے کوشش کریں اور مضامین لکھ کر کر بھجوایا کریں.امید ہے آپ آئندہ سال بھی ضرور آئیں گی اور کوشش کریں کم از کم تین سال لگا تار ضرور اس تعلیم القرن کلاس میں شامل ہو جائیں تا قرآن مجید کا دور پورا ہو جائے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور بہت زیادہ دینی خدمات سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے.آمین اللهم آمین مصباح اکتوبر 1966ء

Page 388

370 خطاب بر موقعہ سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ 121اکتوبر 1966ء آپ نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ناصرات الاحمدیہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس وقت میرا خطاب صرف ناصرات سے ہے ناصرات کا نام خود بتا رہا ہے کہ آپ کا کام کیا ہے.آپ کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور آپ کے فرائض کیا ہیں.ناصرہ مؤنث ہے ناصر کی اور اس کا مطلب ہے مدد کر نیوالی.پس آپ لوگ احمدیت کی مدد کرنے والیاں ہیں.اگر آپ اپنے نام کے مطابق اپنے فرائض کو سمجھیں اور ذمہ داریوں کو ادا کریں تو آپ کا کام صبح بھی شام بھی ہر لحظہ یہی ہو کہ آپ اس بات کو مدنظر رکھیں کہ احمدیت کی خدمت کرنی ہے.اپنے آپ کو ایسا بنانا ہے کہ بڑے ہو کر آپ احمدیت کی حامی و مددگار اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے سب جھنڈوں سے بلند کرنے والی ہوں.میری عزیز بچیو! تمہارے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ چھوٹی عمر میں ہم کیا کر سکتی ہیں.اگر بچپن ہی سے آپ کو کام کی عادت ہوگی.اعلیٰ اخلاق ہوں گے.ذمہ داری کا احساس وطن سے محبت مذہب سے پیار اور خدا تعالیٰ سے عشق ہوگا.تو بڑے ہو کر بھی آپ میں یہ عادتیں اور یہ خوبیاں ہوں گی.اس وقت میں اپنی بچیوں کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کروانا چاہتی ہوں کہ پندرہ سال کی عمر کا زمانہ تربیت کا زمانہ ہوتا ہے آپ لوگوں کو ایسی تربیت اور علم حاصل کرنا ہے کہ جب آپ لجنہ کی ممبر بنیں تو آپ کی تربیت کی طرف ہمیں مزید توجہ دینے کی ضرورت نہ پڑے.آپ میں اعلیٰ اخلاق ہوں.قربانی کی عادت ہو.محنت کرنے کا جذ بہ ہو.اور آپ لجنہ کے کاموں کو اچھی طرح چلا سکیں.آپ نے فرمایا ہمارا دعویٰ ہے کہ کامل ترین مذہب آنحضرت ﷺ کے ذریعہ نازل ہوا.اور مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کی غرض ہی یہ ہے کہ اسلام کا احیاء کریں اور دنیا کوصحیح اسلام سے روشناس کروائیں.جب تک آپ لوگ اسلام کا جیتا جاگتا نمونہ نہ بن جائیں ہم لوگوں میں اسلام نہیں پھیلا سکتے.اس کے لئے سب سے پہلی چیز قرآن کریم کی تعلیم ہے.

Page 389

371 افسوس ہے کہ باہر بہت سی بجنات ایسی ہیں جو بچیوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا انتظام نہیں کر سکیں شرم اور افسوس کی بات ہے.بچیاں دوسری چیزوں اور مضامین فلمی گانے اور ریڈیو کے قصے کہانیاں تو یاد کر لیتی ہیں مگر وہ کتاب جس سے ہماری نجات وابستہ ہے اور جس سے ترقی کر سکتی ہیں جو خدا تعالیٰ کا ہماری طرف خط اور پیغام ہے اس کی طرف توجہ نہیں دیتیں.قرآن کریم کو پڑھو.اس پر عمل کرو اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالو.آئندہ سال کے لئے میں نے یہ پروگرام بنایا ہے لجنات یہ کوشش کریں کہ بچیوں کو قرآن کریم پڑھانا ہے اور ہر ایک کام میں سو فیصدی معیار قائم کرنا ہے.دوسری چیز یہ ہے کہ سیکرٹریان ناصرات آئندہ سال اس بات کی طرف توجہ دیں کہ بچیوں کے انعاموں کے لئے معیار صرف تقریری و تحریری مقابلے ہی نہ ہوں بلکہ یہ بھی دیکھا جائے کہ کون اچھی شہری.اچھے اخلاق.اور کردار کی مالک ہے.اور اپنے نام کے مطابق ہے.آپ کا دعویٰ تو یہ ہے کہ آپ ناصرات الاحمدیہ ہیں.اس کے مطابق عمل بھی ہو.اس کے لئے نگرانوں کو چاہئے کہ شروع سال ہی سے ایسے پروگرام مرتب کئے جائیں جو صرف تقریری مقابلوں کے ہی نہ ہوں بلکہ یہ دیکھا جائے اور پھر ایسے بچے کو سرٹیفیکیٹ دیا جائے کہ کون سچائی کے لحاظ سے.دیانتداری کے لحاظ سے یا محنت کے لحاظ سے یا ہمدردی خلق کے لحاظ سے اور دوسرے کاموں میں بہترین ہے.ناصرات کی نگرانوں کو چاہئے بچوں کو ایسا بنا ئیں کہ ہر بچی اچھی گھر یلوعورت سلیقہ مند سگھڑ ہو.کھانا پکانے سلائی.گھر کی سجاوٹ وغیرہ میں ماہر ہو.آپ نے فرمایا تم لوگ ناصرات میں داخل ہو.تمہیں ہر وقت اپنا عہد نامہ پیش نظر رکھنا چاہئیے اور اپنے آپ کو ہر وقت قوم اور مذہب اور وطن کی خدمت کے لئے تیار رکھنا چاہئیے تمہیں کیا معلوم کس وقت قوم سے قربانی کا مطالبہ کیا جائے.تمہیں کیا معلوم کہ کس وقت مذہب تم سے قربانی کا مطالبہ کرے.تمہیں یہ عہد کرنا چاہئے کہ جب بھی قربانی کا مطالبہ ہو تم لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھوگی.تم دنیا کی تعلیم بھی حاصل کرو.دینی تعلیم بھی حاصل کرو.اور اپنے فرائض بھی ادا کرو.آپ نے مزید فرمایا کہ لبنات کی رپورٹیں آتی ہیں جن میں بتایا ہوتا ہے کہ ہم نے اتنا چندہ دیا اور یہ کام کئے.مگر سب سے کٹھن کام بچوں کی تربیت ہے.اگر وہ بچیوں کی تربیت کی طرف توجہ نہیں دیتیں تو ہمارا کام اور رپورٹیں محض ایک رسمی چیز بن کے رہ جاتی ہے.

Page 390

372 اس میں کچھ قصور ماؤں کا بھی ہے کہ وہ بچیوں کو ناصرات کے پروگراموں میں حصہ لینے کے لئے انہیں ان کے محلوں میں اجلاسوں کے لئے نہیں بھیجتیں.اگر مائیں اور نگران مل کر توجہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ چند سال میں عظیم الشان انقلاب نہ آ جائے.میں دعا کرتی ہوں کہ آپ بچیاں صرف نام کی ناصرات نہ ہوں.بلکہ اپنے عملی کردار اور کام کے لحاظ سے حقیقت میں ناصرات دین بھی ہوں.مصباح نومبر 1966 ء کی

Page 391

373 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع 1966ء کے موقعہ پر تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: نمائندگان لجنات اماء اللہ ! اصلاؤ سہلاؤ مرحبا.اللہ تعالیٰ آپ کا مرکز میں آنا بہت بہت مبارک فرمائے.آپ یہاں سے بہت کچھ سیکھ کر جائیں.اور آپ کے یہاں کے قیام کے نتیجہ میں آپ کے دلوں میں ایک عظیم الشان تبدیلی پیدا ہو.اور جو باتیں آپ یہاں سے سیکھیں.دوسروں تک منتقل کرنے کا باعث ہوں.ہمارے اجتماع کوئی میلہ تماشہ نہیں بلکہ یہ پروگرام اس غرض سے بنائے جاتے ہیں کہ ہماری بہنوں اور بچیوں کی ایک خاص انداز سے جو اپنے اندر خالص دینی ماحول رکھتا ہے.تربیت ہو.جس کے نتیجہ میں ان میں ایک نئی امنگ پیدا ہو.ایک نئی روح کی خدمت اور اسلام کی سربلندی کے لئے قربانی کی پیدا ہو.اور یہاں سے واپس جا کر وہ ان بہنوں میں جو یہاں نہیں آسکیں روح اور قربانی کا جذبہ پیدا کر سکیں جوان میں پیدا ہو.اے اللہ تو ایسا ہی کر.سالانہ اجتماع کی مختصر تاریخ:- لجنہ اماء اللہ کا سالانہ اجتماع منعقد ہونے کی تجویز حضرت مصلح موعود کی تجویز کردہ ہے.آپ نے 27 دسمبر 1944 ء کے جلسہ سالانہ پر عورتوں میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا.اس کے بعد جس طرح مردوں کے دو اجتماع ہوتے ہیں.ایک یہ جلسہ اور ایک مجلس شوری.اس طرح عورتیں بھی اس جلسہ کے علاوہ کسی اور موقع پر اپنا دوسرا اجتماع کیا کریں.اور ہندوستان (اس وقت پاکستان نہیں بنا تھا.متحدہ ہندوستان تھا ) کی تمام لجنات کی طرف سے نمائندہ عورتیں اس اجتماع میں شامل ہو کر اپنے کاموں پر غور کریں.اور ایسے قواعد مرتب کریں جن سے وہ مزید ترقی کر سکیں.لجنہ مرکز یہ کو چاہئے کہ اس موقعہ (جلسہ سالانہ) پر عورتیں باہر سے آئی ہوئی ہیں.ان سے مل کر مشورہ کرے کہ اجتماع کس موقع پر رکھا جائے.اگر وہ اجتماع مجلس شوری کے موقع پر رکھ لیا جائے اور تمام لجنات کی مختلف کاموں کی سیکرٹریوں کو اس موقع پر بلا لیا جائے تو شاید میں بھی اس موقع پر وقت نکال کر ہدایات دے سکوں.تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1944 الازهار لذوات الحمار صفحہ 552 حضور کے اس ارشاد کی روشنی میں 1944 ء کے جلسہ سالانہ پر ہی عہدیداران لجنات نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم جلسہ سالانہ کے موقع پر ہی شوری منعقد کیا کریں گے.چنانچہ دو سال قادیان میں جلسہ سالانہ کے

Page 392

374 موقع پر ہی لجنہ کی نمائندگان کی مجلس شوری منعقد ہوتی رہی.1947ء میں پاکستان منصہ شہود پر آیا اور یہاں بھی شروع میں جلسہ سالانہ کے موقع پر ہی ہوتی رہی.آہستہ آہستہ جب لجنہ اماءاللہ کے کام کو ترقی ہوئی تو لجنہ اماء اللہ نے 1956ء میں اپنا پہلا اجتماع منعقد کیا.جس میں حضرت مصلح موعود نے بھی تقریر فرمائی اور ہدایات سے نوازا.بعض مجبوریوں کے باعث دو اجتماع نہ ہو سکے.چنانچہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ نو واں اجتماع منعقد ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ اسے کامیاب فرمائے اور آپ سب کو اس کی برکات سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے.سال رواں کا سب سے اہم اور سب سے المناک واقعہ جماعت کے نہایت ہی محبوب امام حضرت مصلح موعود کی ہم سے دائمی جدائی کا ہے وہ مجسم نور جس کا آنا بھی اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے مطابق تھا.جس کی زندگی کا ایک ایک دن اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اسلام کی صداقت پر ایک مجسم دلیل تھا.اور جس کا نفسی نقطہ آسمان پر اٹھایا جانا بھی اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق تھا.وہ ابر رحمت بن کر 52 سال عالم احمدیت پر برستا رہا.لیکن طبقہ نسواں نے تو اس کی برکتوں سے بہت ہی فائدہ اٹھایا.آج یہ سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ کی تنظیم ، لڑکیوں کا کالج لڑکیوں کے سکول اور دوسرے ادارے قدم قدم پر کیا اس محسن نسواں کی یاد نہیں دلا ر ہے؟ جس نے احمدی عورت کو جہالت کے گڑھے سے اٹھا کر علم کی دولت سے مالا مال کر دیا.جس نے احمدی عورتوں کے حقوق کی اپنی جان سے زیادہ حفاظت کی.جس نے احمدی عورتوں کو ان کا حق وراثت دلوانے کے لئے جد و جہد کی.جس نے احمدی عورتوں کو جماعتی امور میں حق رائے دہندگی عطا کیا.جس نے احمدی عورتوں کی تربیت اور بہبودی کے لئے اپنی جان لڑا دی.اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی تھی.ہمارے سر، ہماری روح ، ہماری جانیں اس کے فیصلہ اور اس کی رضا کی خاطر خم ہیں لیکن ہمارا آقا بڑا ہی مہربان ہے.اس کا جماعت مومنین سے وعدہ ہے کہ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مَنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ - النور : 56 کہ اگر تم ایمان پر قائم رہو گے اور اعمال صالحہ بجالاتے رہو گے.تو اللہ تعالیٰ تم میں انعام خلافت کو قائم کر دے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کا کتنا احسان ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد اس انعام

Page 393

375 کو آپ کے متبعین میں جاری رکھا.حضرت مصلح موعود جیسا راہ نما جماعت احمدیہ کو عطا فرمایا.اور آپ کی وفات پر اس نے کشتی احمدیت کو بھنور میں پھننے سے بچالیا اور اس کشتی کو پار لگانے کے لئے اپنے وعدے کے مطابق مومنین کے قلوب کی تقویت کے لئے پھر ایک امام جماعت کو عطا کر دیا.اور ان کے زخمی دلوں پر اپنے فضل کا سایہ رکھ کر پھر انکو تمکنت عطا فرما دی.یہ بھی حضرت مصلح موعود کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان جماعت احمدیہ پر ہے کہ آپ جب خلیفہ ہوئے تو جماعت نہایت کمزور حالت میں تھی.لیکن آپ نے اپنے دور خلافت میں جماعت کے اندر خلافت پر نہایت مستحکم یقین اور ایمان پیدا کر دیا.جب کبھی کسی نے نظام خلافت کے خلاف بغاوت کی آپ ایک تیغ براں کی طرح ان پر گرے اور ان کے غلط دلائل کو کاٹ کر رکھ دیا.الحمد للہ آج کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت مضبوط بنیادوں پر قائم ہے.انہیں یقین ہے کہ الہی جماعتیں بغیر ایک خلیفہ کے کامیابی حاصل نہیں کر سکتیں.اور ان کا ایمان ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کے ایمانوں میں ترقی دے.ان کا خلافت سے تعلق مضبوط تر ہوتا چلا جائے اور وہ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (النور: (56) میں سے نہ ہوں.بلکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بنیں.اور تا قیامت خلافت حقہ ان میں قائم رہے.آمین خلافت ثالثہ اظہار عقیدت، وفاداری:.خلافت ثالثہ کے بعد لجنہ اماءالل کا یہ پہلا اجتماع منعقد ہورہا ہے.اس لئے آج اس اجتماع کے موقع پر میں تمام نمائندگان کی طرف سے جو تمام پاکستان کی لجنات کی نمائندگی کر رہی ہیں.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حضور اظہار عقیدت اور وفاداری پیش کرتی ہوں.ہر احمدی عورت کا فرض ہے کہ وہ خلیفہ وقت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جانشین سمجھے اور اس کے احکام کی اطاعت اسی طرح کرے جس طرح اگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ پاتی تو آپ کی اطاعت کرتی.حضرت مصلح موعود نے لجنہ اماءاللہ کی تنظیم قائم کرتے ہوئے اس کے کچھ قوانین بھی مقرر فرمائے تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لئے جو بھی خلیفہ وقت ہو اس کی تیار کردہ سکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مد نظر رکھ کر تمام کا روائیاں ہوں.“ الازهار لذوات الخمار ص 53)

Page 394

376 خلیفہ وقت کی پیش کردہ تحریکات:- حضرت مصلح موعود کی یہ ہدایت اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمُ (النساء : 52) کی تفسیر ہے.چنانچہ بجنہ اماءاللہ کی میرات کا یہ فرض اولین ہے کہ ان کا سب سے بھاری فرض خلیفہ وقت کی پیش کردہ تحریکوں کی عورتوں میں اشاعت اور ان کے مطابق عمل کرنا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے جماعت کے مردوں اور عورتوں کے لئے چار قسم کی تحریکات پیش کی گئی ہیں.جن کا تعلق مالی قربانی سے بھی ہے.تعلیم سے بھی ہے.تربیت سے بھی اور تبلیغ یعنی اشاعت اسلام سے بھی.فضل عمر فاؤنڈیشن:.سب سے پہلی تحریک جو آپ کی اجازت سے پیش کی گئی ہے.وہ فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک ہے.جو حضرت مصلح موعود کی یادگار کے طور پر پیش کی گئی ہے.حضرت مصلح موعود کی پیدائش سے بھی قبل اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خبر دی تھی کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.یہ برکت اور شہرت صرف آپ کی زندگی تک محدود نہ تھی.بلکہ یہ پیشگوئی ہمیشہ کے لئے ہے کسی صداقت کا نشان عارضی نہیں ہوتا.بلکہ وہ دائمی ہوتا ہے.آپ کا وجود زندہ نشان تھا.اللہ تعالیٰ کی ہستی کا آپ کا وجود زندہ نشان تھا.آنحضرت ﷺ کی صداقت کا.آپ کا وجود زندہ ثبوت تھا اسلام کی صداقت کا اور آپ کا وجود زندہ نشان تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے 28 دسمبر 1944ء میں جب جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنے دعوی مصلح موعود کو پیش فرمایا تو پیشگوئی مصلح موعود کی سات اہم اغراض بیان فرمائی تھیں.آپ نے فرمایا تھا.اس کی کئی اغراض ہیں.اول یہ پیشگوئی اس لئے کی گئی ہے کہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت سے نجات پائیں اور جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آئیں.دوسرے: یہ پیشگوئی اس لئے کی گئی تھی تا دین اسلام کا شرف ظاہر ہواور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر عیاں ہو.تیرے: آپ نے فرمایا یہ پیشگوئی اس لئے کی گئی ہے تا کہ حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے

Page 395

377 اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے.چوتھی غرض اس پیشگوئی کی یہ بیان کی گئی تھی کہ تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں اور جو چاہتا ہوں کرتا ہوں.پانچویں: غرض یہ بیان کی گئی تھی کہ تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں.چھٹی غرض یہ بیان کی گئی تھی کہ تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور اس کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفی ﷺ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ایک کھلی نشانی ملے.ساتویں: آپ نے بیان فرمایا کہ یہ پیشگوئی اس لئے کی گئی ہے تا کہ مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے اور پتہ لگ جائے کہ وہ جھوٹے ہیں.“ دنیا جانتی ہے کہ یہ پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی حضرت مصلح موعود کی زندگی کا ایک ایک دن بلکہ ایک ایک لمحہ گواہ ہے اس بات کا کہ آپ کے ذریعہ سے اسلام کا غلبہ ہوا.کلام اللہ کا مرتبہ بلند ہوا.آنحضرت ﷺ کی شان بلند ہوئی.انسان فانی ہے.وہ اپنا کام کر کے اس دنیا سے جاتا ہے.حضرت مصلح موعود بھی اپنا کام پورا کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.لیکن آپ کی وہ برکات جو اس پیشگوئی کے ساتھ وابستہ تھیں ختم نہیں ہوئیں.جب تک زمین و آسمان قائم ہیں پیشگوئی مصلح موعود اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا کے سامنے اسلام ، آنحضرت ﷺ اور قرآن مجید کی صداقت کو ثابت کرتی رہے گی.یہی سات اہم اغراض جو حضرت مصلح موعود نے پیشگوئی مصلح موعود کی بیان فرمائی تھیں.حقیقت میں فضل عمر فاؤنڈیشن کی ہیں.اور اسی غرض سے فضل عمر فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے.تا حضرت مصلح موعود کے کاموں اور پروگراموں کو جاری رکھا جائے اور آپ کی ان خواہشات کو تکمیل تک پہنچایا جائے جو آپ کے دل میں پرورش پا رہی تھیں.غرض فضل عمر فاؤنڈیشن کا قیام احسان ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر.تا اس کے ذریعہ مصلح موعود کا نام زندہ رہے.آپ کی برکات زندہ رہیں.فضل عمر فاؤنڈیشن احسان ہے آپ کا ساری انسانیت پر.تا اس کے ذریعہ ساری دنیا تک اسلام کا پیغام پہنچے.اور تشنہ لب روحیں صداقت کو پہچانیں.فضل عمر فاؤنڈیشن عملی تشکیل ہے پیشگوئی مصلح موعود کی تا اس کے ذریعہ سے ہمیشہ

Page 396

378 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو آنحضرت ﷺ کی صداقت کو اللہ تعالیٰ کی ہستی کو ثابت کیا جائے.پس میری بہنو اور مصلح موعود کی وفا کیشو ! جو چاہتی ہیں کہ پیشگوئی مصلح موعود کو اللہ تعالیٰ کی قدرت و رحمت کے نشان کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے.جو چاہتی ہیں کہ اسلام کی صداقت کو دلائل کے ساتھ ساری دنیا سے منوایا جائے جو چاہتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی حکومت کو ساری دنیا میں قائم کیا جائے جو چاہتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی کا جو ا ساری دنیا پہن لے.جو چاہتی ہیں کہ خلافت کا انعام ہم میں ہمیشہ قائم رہے.جو چاہتی ہیں کہ مصلح موعود کا نام اور آپ کے جاری کردہ کام ہمیشہ کے لئے زندہ رہیں اس کے لئے قربانی کا سب سے بڑا راستہ یہی ہے کہ وہ فضل عمر فاؤنڈیشن میں دل کھول کر حصہ لیں.اپنی محبت اپنی عقیدت اور اپنی وفا کا مظاہرہ اس سکیم میں عملی طور پر شامل ہو کر کریں.دسمبر 64ء میں جب حضرت مصلح موعود کی خلافت پر پچاس سال گزر چکے تھے میں نے اپنی بہنوں کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ ہم اس خوشی میں اللہ تعالیٰ کے حضور ایک نذرانہ پیش کریں ایسا نذرانہ جو ہماری اسلام سے محبت کا زندہ ثبوت ہو.اس خوشی میں ہم یورپ میں ایک اور مسجد تعمیر کروائیں.بہنوں نے میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس عدیم المثال مالی قربانی کا مظاہرہ کیا کہ اس کی مثال کہیں اور نہیں نظر آئی.میں نے دولاکھ روپے کی تحریک کی تھی.لیکن بعد میں صحیح اندازہ لگوانے اور بنیا درکھی جانے پر اندازہ پانچ لاکھ تک پہنچ گیا.اللہ تعالیٰ کا کتنا بھاری فضل اور احسان ہے کہ 65ء کے جلسہ سالانہ پر دولاکھ کی رقم پوری ہوگئی تھی اور اب پونے دو سال گزرنے پر وعدہ جات 3,53,000 اور وصولی 3,50,000 ہے.گو اندازہ ہمارے اندازے سے دگنے سے بھی زیادہ بڑھ چکا ہے.لیکن بہر حال جو وعدہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور کر چکی ہیں اس کو مومنانہ شان کے ساتھ ہم نے پورا کرنا ہے.میری بہنو! کوشش کریں کہ 67ء کے آخر تک آپ اپنے وعدہ سے سکبدوش ہو جا ئیں.آپ نے اپنی قربانی اور اپنے عمل سے دنیا کو بتاتا ہے کہ مومن کو اللہ تعالیٰ کی ذات سب سے پیاری ہوتی ہے.اس کی راہ میں وہ کسی قربانی سے نہیں گھبراتے پھر یہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا وعدہ ہم نے پورا کرنا ہے.دوسری طرف حضرت مصلح موعود کی یاد گار قائم کرنی ہے.تا اس مسجد کے ذریعہ جو اسلام کو غلبہ حاصل ہو.دنیا اسلام قبول کرے.اس کی خوشی حضرت مصلح موعود کی روح کو پہنچتی رہے.دوسری تحریک جو تعلیم سے تعلق رکھتی ہے حضرت خلیفہ آہسیح الثالث ایدہ اللہ تعالی کی طرف سے جماعت کے سامنے رکھی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ساری جماعت کے مرد بھی اور عورتیں بھی لڑکے بھی اور لڑکیاں

Page 397

379 بھی مل کر یہ کوشش کریں کہ جماعت میں کوئی وجود بھی ایسا نہ رہ جائے جو قرآن مجید ناظرہ نہ جانتا ہو اور پھر دوسرا قدم یہ ہو کہ ہر ایک قرآن مجید ترجمہ کے ساتھ جانتا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کی غرض ہی قرآن کریم کی تعلیم کو پھر سے دنیا میں پھیلانا تھا.قرآن مجید کے خزائن آپ نے دنیا کو پیش کئے.معارف قرآن کا دریا بہایا.قرآن کے مطابق اپنے اصحاب کی زندگیاں بدل کے رکھ دیں.جو آپ کی محبت میں رہا.اس نے اپنے عمل سے اصحاب محمد ﷺ کی زندگیوں کا نمونہ عملاً دنیا کے سامنے اپنے نمونہ سے پیش کر دیا.ان میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں قرآن مجید اور حدیث کا درس جاری رکھا.اور احمدی وہ درس سن کر قرآن مجید کی شمع سے اپنے قلوب منور کرتے رہے اور دنیا میں اس کی روشنی پھیلاتے رہے.آپ کے بعد وہ دور آیا جو تاریخ احمدیت کا ایک زریں باب ہے.حضرت مصلح موعود کواللہ تعالیٰ نے ایک لمبا دور خلافت عطا فرمایا.آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ کلام الہی کا مرتبہ اس کے ذریعہ بالا ہوگا.آپ کی ساری زندگی کا محور یہی رہا کہ مرد بھی اور عورتیں بھی قرآن مجید سیکھیں اور سکھائیں.آپ نے بارہا عورتوں میں تقریریں فرماتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ تم پر علم دین سیکھنے کی بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.آپ نے عورتوں میں بنفس نفیس درس قرآن دیا.ایک دفعہ آپ نے جلسہ سالانہ کے موقع پر قرآن مجید کا ترجمہ جاننے والیوں کو کھڑا ہونے کا ارشاد فرمایا.ان کی تعداد دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ آج کا دن میرے لئے خوشی کا دن ہے مگر حقیقی خوشی کا دن وہ دن ہو گا جب ہر احمدی عورت قرآن کا ترجمہ جانتی ہوگی.آپ کے بعد خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے متواتر قرآن کریم ناظرہ اور ترجمہ سیکھنے کی طرف جماعت کو توجہ دلائی ہے آپ کے ارشاد کے ماتحت لجنہ مرکزیہ نے تمام لجنات کو فارم چھپوا کر بھجوائے.لیکن اس وقت تک کل 154 لجنات اور 143 ناصرات کی طرف سے فارم پر ہو کر آئے ہیں جن میں سے صرف اور صرف 18 لجنات ایسی ہیں جن میں سو فیصدی مستورات ناظرہ جانتی ہیں.حالانکہ ہمارا نصب العین یہ ہونا چاہئے که سو فیصدی مستورات ترجمہ جانتی ہوں.آئندہ سال کے پروگرام میں ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ سو فیصدی ناظرہ کی تعداد کو پہنچا دیں اور 50 فیصدی ترجمہ کی.حضرت مصلح موعود کا یہ الہام کہ اگر پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ ہر کام کا کم از کم معیار پچاس فیصدی ہونا چاہئے.ہماری عزت لجنہ کی ترقی جماعت کی سر بلندی اسلام کا غلبہ.قرآن کریم کا پھر سے رواج اور اس پر عمل درآمد کرنا اس بات پر منحصر ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جو

Page 398

380 پروگرام لجنہ مرکز یہ بنائے یا جو ذمہ داریاں حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے سپرد کی جائیں.ان کو پورا کرنے کے لئے اپنی تمام قو تیں بروئے کار لائیں دین کو دنیا پر مقدم رکھیں.اور یہ بھی ہوسکتا ہے جب ہم قرآن کریم کے معانی سمجھتی ہوں تا اس کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالیں.آنحضرت ﷺ کے اُسوہ حسنہ کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالتے ہوئے اپنی زندگیاں إِنَّ صَلوتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (الانعام: 163 ) کے مطابق گزاریں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حال ہی میں جماعت کو اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم کا نظام وصیت سے بڑا گہرا تعلق ہے.اس لئے آپ نے ہر جماعت میں موصی اصحاب کو اپنی تنظیمیں بنانے کا ارشاد فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وصیت کی شرائط میں سے ایک یہ بھی قرار دی ہے کہ وہ اسلام کے مطابق زندگی گزارنے والا ہو.نئے سال کے پروگرام میں بجنات اماء اللہ کا یہ کام بھی ہوگا کہ نظام وصیت کو وسیع تر کریں.اور زیادہ سے زیادہ وصیتیں کروائیں.اور پھر ان کو وصیت کی اہمیت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی طرف متوجہ کرتے رہیں تا احمدیت کے قیام کی غرض یعنی صحیح اسلامی معاشرہ کا قیام پوری ہو.اور جماعت کی مستورات کی ہر عورت لجنہ اماءاللہ کی ہر ممبر صحابیات رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر چلنے والی ہو.تحریک وقف زندگی:.تیسری تحریک جو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جماعت کے سامنے رکھی ہے.وقف زندگی کی ہے گوعورتوں کا اس سے براہ راست تعلق نہیں کیونکہ وہ اکیلی شہر سے باہر جا کر کام نہیں کرسکتیں.لیکن بالواسطہ طور پر وہ اس میں حصہ لے سکتی ہیں.ہم میں سے کوئی بھی بہن ایسی نہیں جس کا خاوند ، بھائی ، بیٹا یا کوئی اور رشتہ دار اس کے زیر اثر نہ ہو.اگر ان کو وہ وقف عارضی میں حصہ کی ترغیب دیں تو وہ بھی ثواب کی مستحق ہوں گی.جماعت کو وقف زندگی کی ضرورت ہے.مگر ماؤں کو احساس نہیں ہوتا.تبلیغ اسلام کے لئے واقفین آپ نے مہیا کرنے ہیں.اپنے بیٹوں ، بھائیوں اور خاوندوں کو آپ نے وقف پر آمادہ کرنا ہے.مگر بعض عورتیں ایسی ہیں کہ جب خاوند وقف کے لئے جانے لگتا ہے تو اس کے پاؤں میں زنجیریں ڈال دیتی ہیں.اور اس کے جانے کے بعد اسے اپنی تکالیف کا احساس دلاتی ہیں.ان کا یہ اظہار ان کے خاوندوں کو خدا کی راہ میں کام کرنے سے باز رکھتا ہے.ملک سے باہر ہوتے ہوئے بھی انہیں اشاعت اسلام کی فکر کی بجائے یہ فکر رہتی ہے کہ ہمارے بعد ہمارے بیوی بچے تنگی سے گزر کر رہے ہیں.وہ کچھ وقت بچا کر اور کام کرنا

Page 399

381 چاہتے ہیں.تا کہ بیوی بچوں کی مشکلات کو دور کرسکیں.اس طرح عورتیں اشاعت اسلام میں رخنہ ڈالنے کا موجب بنتی ہیں.کیا صحابیات ہماری جیسی عورتیں نہیں تھیں؟ کیا حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ ہمارے جیسی عورتیں نہیں تھیں؟ حضرت خدیجہ نے شادی کے بعد اپنے تمام اموال، زیور اور غلام آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیئے.حضرت عائشہ کو آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد بے انتہا مال و متاع ملا.ہر صحابی اور ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ آنحضرت ﷺ تو ہم میں موجود نہیں.اس لئے حضرت عائشہ کی خدمت میں نذرانہ پیش کریں.ہزاروں اور لاکھوں دینا ر آپ کے پاس ہوتے تھے.مگر آپ اپنے اوپر کبھی خرچ نہیں کرتی تھیں.ضرورت مندوں.غرباء اور مساکین میں تقسیم فرما دیتی تھیں.وہ بھی عورتیں تھیں.انہوں نے اپنی خواہشات کو خدا تعالیٰ کے لئے اور اسلام کی سربلندی کے لئے قربان کر دیا.اگر ان کا بچہ یا خاوند جنگ میں جانے سے گریز کرتا تو سخت ناراض ہوتیں اور اپنے بیٹوں کو کہتیں کہ اگر تم جنگ میں نہ گئے اور اسلام کی خاطر نہ لڑے تو ہم تمہیں دودھ نہیں بخشیں گی.اور خاوند کو کہتیں کہ ہم برداشت نہیں کر سکتیں کہ رسول اللہ ﷺ جنگ پر جارہے ہوں اور تم گھروں میں بیٹھے رہو.اگر آج احمدی عورتوں میں وہی جذبہ اور وہی قربانی کی روح اور وہی خصوصیات پیدا ہو جا ئیں جو ان صحابیات میں تھیں.اگر آج وہ اسلام اور کفر کی آخری جنگ میں اس طرح حصہ لیں جس طرح صحابیات نے کفر کے خلاف جنگوں میں حصہ لیا تو احمدی عورتیں بھی وہی درجات حاصل کر سکتی ہیں جو صحابیات نے حاصل کئے.یہ نہیں کہنا چاہئے کہ احمدی عورتوں میں اس جذبہ اور اس قربانی کی مثالیں نہیں ہیں.احمدی خواتین میں بھی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں جنہوں نے شاندار قربانی کا مظاہرہ کیا.حضرت درد صاحب مرحوم حضرت مولوی رحمت علی صاحب مرحوم.حضرت مولوی شمس صاحب مرحوم کی بیویوں کی مثالیں موجود ہیں اور خاوند مسلسل کئی کئی سال تک باہر رہے.مگر وہ حرف شکایت زبان پر نہ لائیں.آج اسلام کو اشد ضرورت ہے اس بات کی کہ ایسے مبلغین اور واقفین سامنے آئیں جو اشاعت اسلام کے لئے ملک ملک، قریہ قریہ، اور بستی بستی پھیل جائیں.لیکن آئندہ جب اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے ہیں.اسلام کو غلبہ ہو جائے گا اور اسلام تمام دنیا میں پھیل جائے گا تو اس وقت نہ اتنے مجاہدین کی ضرورت ہوگی نہ مبلغین کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں سنہری موقعہ عطا فرمایا ہے کہ قربانیاں کر کے ثواب حاصل کریں.زندگیاں تو مردوں نے وقف کرنی ہیں.مگر عورتیں مردوں کو اپنے اثر سے اور ترغیب دلا کر وقف کروا کے اس ثواب میں حصہ دار بن سکتی ہیں.

Page 400

382 ان تحریکات کے علاوہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت کے احباب کو رسومات ترک کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی تھی.ہمارا نصب العین دنیا میں لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کے جھنڈے کو بلند کرنا ہے.یعنی ہماری زندگیاں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں وہی ہمارا مطلوب و مقصود ہو.اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں دنیا کے تمام تعلقات، برادری، رشتہ داریاں ، عزیز اقارب اور دوستیاں سب پیچ ہو جائیں.اس جذبہ کے بغیر انسان اللہ تعالیٰ کا عبد نہیں بن سکتا.اور اپنی پیدائش کی غرض مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ الذَّرِيت : 56 کو پورا نہیں کر سکتا.عورتوں میں باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان لینے کے بہت سی رسومات پائی جاتی ہیں.بعض رسومات کا تعلق مذہب سے ہے.بعض کا بچہ کی پیدائش ، بعض کا شادیوں سے اور بعض کا وفات سے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: " کتاب اللہ کے برخلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ سب بدعت ہے اور سب بدعت فی النار ہے.اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجز اس قانون کے جو مقرر ہے ادھر ادھر بالکل نہ جاوے.کسی کا کیا حق ہے کہ بار بار 66 ایک شریعت بنا دے.ملفوظات جلد سوم صفحہ 128 اسی طرح آپ فرماتے ہیں: تم یا درکھو کہ قرآن شریف اور رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی پیروی اور نماز روزہ وغیرہ جو مسنون طریقے ہیں.ان کے سوا خدا کے فضل اور برکات کے دروازے کھولنے کی اور کوئی کنجی ہے ہی نہیں.بُھولا ہوا ہے وہ جوان را ہوں کو چھوڑ کر کوئی نئی راہ نکالتا ہے.نا کام مرے گا وہ جو اللہ اور اس کے رسول کے فرمودہ کا تابعدار نہیں بلکہ اور اور راہوں سے اُسے تلاش کرتا ہے.ملفوظات جلد سوم صفحہ 103 66 اسلامی شریعت کے ماخذ تین ہیں.قرآن شریف سنت رسول اللہ ﷺ اور حدیث یعنی آنحضرت ﷺ کے اقوال اور اس زمانہ کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فتویٰ کیونکر آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے لئے حکم اور عدل بنا کر بھیجا ہے.حضرت مصلح موعود نے بھی تحریک جدید اس غرض سے جاری فرمائی تھی کہ جماعت کی عورتیں سادگی اختیار کریں.رسومات ترک کریں.بے فائدہ رسومات پر روپے ضائع نہ کریں.اور جماعت کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے میں ممد ہوں.اور یہ کام ایک یا دو عورتوں کے کرنے کا نہیں.کسی قوم کی ترقی بھی اتحاد کے نتیجہ میں ہوئی ہے.اور الہی سلسلوں کی مخالفت بھی متحدہ ہوتی چلی آئی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسِ اَشْتَاتًا لِيَرَوْا

Page 401

383 أَعْمَالَهُمْ (سورة زلزال (7) اس دن لوگ مختلف گروہوں کی صورت میں جمع ہوں گے.تا کہ اپنی کوششوں کے نتائج دیکھ لیں.اس وقت دجالیت، دہریت اور عیسائیت متحدہ طور پر اسلام پر حملہ آور ہے.ہماری جماعت نے اس کا مقابلہ کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ ہے کہ وہ اپنے مامور کو ایسی جماعت عطا فرمائے گا جو قربانی دینے والی ہوگی.معمولی جماعت نہیں.وَالْقَتْ مَا فِيْهَا وَتَخَلَّتْ (الانشقاق: 5) کے مطابق اپنے مال ، جان ، عزت اور جذبات غرض ہر چیز خدا کی راہ میں قربان کرنے والی ہوگی اور جو خدا اور اس کے رسول کی خاطر ان تمام چیزوں کو پھینک کر خالی ہو جائے گی.اس لئے ضرورت ہے کہ باہمی اتحاد اور تعاون کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانیاں دیتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کرنے والے ہوں.اور ان وعدوں کو جو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے غلبہ کے متعلق اپنے مامور سے کئے ہیں قریب تر لانے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا تو یہ ہے کہ ایک پاک دل جماعت مثل صحابہ کے بن جاو...سوچو کہ جو شخص دنیا داری میں غرق ہے اور دین کی پرواہ نہیں رکھتا.اگر تم لوگ بیعت کرنے کے بعد ویسے ہی رہو تو پھر تو تم میں اور اس میں کیا فرق ہے؟ بعض لوگ ایسے کچے اور کمزور ہوتے ہیں کہ ان کی بیعت کی غرض بھی دنیا ہی ہوتی ہے.اگر بیعت کے بعد ان کی دنیا داری کے معاملات میں ذرا سا فرق آجاوئے تو پھر پیچھے قدم رکھتے ہیں یاد رکھو کہ یہ جماعت اس بات کے واسطے نہیں کہ دولت اور دنیا داری ترقی کرے اور زندگی آرام سے گزرے.ایسے شخص سے تو خدا تعالیٰ بیزار ہے.چاہئے کہ صحابہ کی زندگی کو دیکھو.وہ زندگی سے پیار نہ کرتے تھے.ہر وقت مرنے کے لئے تیار تھے.بیعت کے معنے ہیں اپنی جان کو بیچ دینا.جب انسان زندگی کو وقف کر چکا تو پھر دنیا کے ذکر کو درمیان میں کیوں لاتا ہے.ایسا آدمی تو صرف رسمی بیعت کرتا ہے وہ تو کل بھی گیا.اور آج بھی گیا.یہاں تو صرف ایسا شخص رہ سکتا ہے جو ایمان کو درست کرنا چاہے.انسان کو چاہئے کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ کی زندگی کا ہر روز مطالعہ کرتا رہے..ملفوظات جلد چہارم صفحه 504 اسی طرح آپ فرماتے ہیں: میں یہی نمونہ صحابہ کا اپنے احباب جماعت میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو وہ مقدم کرلیں اور کوئی امران کی راہ میں روک نہ ہو.وہ اپنے مال و جان کو بیچ سمجھیں خلاصہ یہ کہ ہمارا فرض یہ ہونا چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے جو یا اور طالب رہیں.اور اسی کو اپنا اصل مقصود قرار دیں.اور ہماری

Page 402

384 ساری کوشش اور تگ و دو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے میں ہونی چاہئے.خواہ وہ شدائد اور مصائب ہی 66 سے حاصل ہو.یہ رضائے الہی دنیا اور اس کی تمام لذات سے افضل اور بالاتر ہے.“ ملفوظات جلد چہارم صفحہ 422 423 اس لئے اپنی تربیت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.اپنے نفوس میں تبدیلی کی ضرورت ہے تبلیغ بھی اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب ہمارا اپنا نمونہ قال اللہ وقال الرسول کے مطابق ہو.اس کے لئے سب سے زیادہ ضرورت ہے.آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت اور خلافت سے وابستگی کی.حضرت خلیفہ اسیح کی اطاعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت آنحضرت ﷺ کی اطاعت ہے.اور یہی محبت الہی کا آسان ترین نسخہ ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران:32) اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی زندگیاں آنحضرت کی کامل فرمانبرداری میں بسر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت کو حاصل کر سکیں.آمین اللهم آمین اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيد مصباح نومبر 1966ء

Page 403

385 اختتامی تقریر سالانہ اجتماع 1966ء آپ نے تشہد و تعوذ کے بعد سورہ ممتحنہ کی مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں : يأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَّلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِيْنَ بِبُهْتَانِ يُفْتَرِيْنَهُ بَيْنَ أَيْدِيْهِنَّ وَاَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِي مَعْرُوْفِ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ.إِنَّ اللَّهَ غَفُوْرٌ رَّحِيمٌ (المُمتحنة: 13) آپ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مبعوث فرمایا.اور مومن مردوں اور عورتوں کی جماعت قائم کرنے کا ارشاد فرمایا تو خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو اس جماعت میں داخل کرنے کی چند شرائط رکھیں.ان آیات میں وہ شرائط بیان ہوئی ہیں فرمایا جو ان شرائط پر پوری اتریں ان کی بیعت لی جائے.یہ شرائط جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ کی عورتوں کے لئے ہیں.ہمارے لئے بھی ایک لائحہ عمل ہیں.اگر ہم میں سے کوئی ممبران شرائط پر پوری نہیں اترتی تو اسے اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ کیا وہ حقیقت میں مسلمان کہلانے کی مستحق ہے.آپ نے فرمایا سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ایک یقین کریں گی میں یہ نہیں کہتی کہ ہم میں سے بھی اس طرح شرک کرتی ہیں.جیسے آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں لوگ کرتے تھے.اس زمانے کے شرک کی طرح کا شرک ہمارے زمانے میں نہیں.لیکن وہ شرک جسے مٹانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے وہ شرک خفی ہے.منہ سے اقرار کرتی ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں.مگر طرح طرح کی رسومات میں گھری ہوئی ہیں.دین اور آنحضرت ﷺ کی ہدایت کو چھوڑ کر دنیاوی عزت کی خاطر فضول قسم کی رسومات کی پابند ہیں.اور یہ خوف کا مقام ہے ہمیں چاہئے کہ قرآن کریم کی تعلیمات کو کبھی نظر انداز نہ کریں.دنیا میں اگر ناک کٹتی ہے تو کٹ جائے مگر وہی کریں جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے.اسلام سادگی اور کفایت شعاری سکھاتا ہے.رسومات سے نفرت سکھاتا ہے.ہمیں حضرت خلیفہ اسیح نے بھی اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ رسومات کو چھوڑے بغیر ہم کبھی اسلام کا جھنڈا بلند نہیں کر سکتے.اسلامی تعلیم کا خلاصہ کلمہ طیبہ ہے.اس کو منہ سے پڑھ لینا تو آسان ہے مگر عمل کرنا مشکل اس کا عملی پہلو یہی ہے کہ ہم خدا تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کے ہر حکم کو مانیں گی.ہم پر فرض ہے کہ آپ کے اسوہ حسنہ پر چلنے

Page 404

386 کی کوشش کریں.آپ نے فرمایا: عہدیداران ہر سال رپورٹیں بھیج دیتی ہیں.مگر کبھی یہ نہیں لکھتیں کہ معاشرے میں کتنی برائیوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی.اب عہدیداران آئندہ سال کے لئے لائحہ عمل یہ رکھیں کہ دوران سال رسومات اور ہر قسم کی برائیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں تا کہ ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ بن جائے.رسومات کے سلسلہ میں حضرت خلیفہ اسیح کا ارشاد یہ بھی ہے کہ ہر لجنہ اپنے اپنے علاقے کی بُری رسومات لکھ کر بھجوائے تاکہ ان کے تدارک کا سامان کیا جائے اور مربیان کو ان کے مطابق اصلاح کی ہدایت کی جائے.دوسری شرط ہے کہ لا سرِ فن آپ نے فرمایا میں یہ نہیں کہتی کہ ہماری بہنیں چوری بھی کرتی ہیں مگر دیانتداری کا جو معیار ہونا چاہئے وہ نہیں ہے.بچوں کی تربیت ایسی ہونی چاہئے کہ ایمانداری اور دیانتداری کا بہترین نمونہ ہوں اور دنیا دیکھ کر کہے کہ واقعی یہ لوگ صحیح اسلامی زندگی بسر کرتے ہیں.وَلَا يَزْنِينَ آپ نے فرمایا.بُرائی کی اشاعت اور دوسروں کی بُرائیوں کو گنوانا بھی زنا کا کام ہے.کوئی آنکھ سے بُرائی دیکھے اور اس کا چرچا نہ کرے تو اس کا مطلب ہے کہ بُرائی پیدا ہوئی اور وہیں ختم ہو گئی.بُرائی ختم کرنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ اگر کہیں بُرائی دیکھی جائے تو ذمہ دار شخص کو جا کر اطلاع دی جائے جو اس کے سدباب پر قدرت رکھتا ہو.یہ نہیں کہ جگہ جگہ اس کا چرچا کیا جائے.وَلَا يَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ فرمایا ایک شرط یہ ہے کہ عورتیں اپنی اولا دوں کو قتل نہیں کریں گی.قتل سے مراد حقیقی قتل نہیں ہے.قرآن کریم ایک مکمل کتاب ہے اور جب تک دنیا ر ہے گی اس کی تعلیم ہر زمانہ میں قابل عمل ہوگی.قتل سے مراد اولادوں کی غلط تربیت ہے اور اس قتل سے مائیں اپنے بچوں میں اعلیٰ اخلاق اور قرآن مجید کی تعلیم پھیلانے کے ذریعہ بچ سکتی ہیں مگر آج کل سب کو تعلیمی ڈگریاں حاصل کرنے کی فکر ہے.آپ نے فرمایا: مائیں میرے پاس آتی ہیں کہ بیٹی کو بی.اے کروا دو.ایف اے کروا دو.مگر کبھی کسی ماں نے آکر یہ نہیں کہا کہ میری بیٹی کو قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے کا انتظام کروا دیں.قرآن سے اس بے پرواہی کا حال یہ ہے کہ 300 میں صرف اٹھارہ بجنات ایسی ہیں جن کی 100 فیصدی ممبرات قرآن کریم پڑھنا جانتی ہوں.اپنی اولاد کی زندگیوں کو بچائیے انہیں قرآن پڑھا کر.صحابیات کی زندگیاں قابل رشک تھیں اس لئے کہ وہ قرآن کریم پڑھتی تھیں اور اس پر عمل کرتی تھیں.آج پھر ہمیں وہی انعام ملا ہے

Page 405

387 اور ہم نے اس تعلیم کو پھیلاتا ہے.انسان صحیح عمل تبھی کر سکتا ہے.اگر علم ہو.ہماری زندگیاں اسلامی تعلیم کے مطابق تبھی بن سکتی ہیں اگر ہم قرآن پڑھیں.آپ نے فرمایا.اب میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ بجنات کے کام میں اول دوم کا فیصلہ اس بنا پر کیا جائے گا.اس نے قرآن مجید پڑھانے کے لئے کیا کوشش کی.اور پچاس نمبر صرف قرآن مجید ناظرہ اور ترجمہ سکھانے کے ہوں گے.باقی کام چاہے کتنا ہی اچھا ہوتا نوی حیثیت کا ہوگا.وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَان.آپ نے فرمایا یہ بات ثبوت ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ عالم الغیب......ہے اسے پہلے ہی معلوم تھا کہ عورتوں میں یہ عادت ہوگی غیبت ایک کا دل دوسرے سے بُرا کر دیتی ہے.جو کام ہم نے کرنا ہے وہ صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب ہم میں اتحاد ہو.یہ کام صرف دلائل کے ہتھیاروں سے ہی نہیں عملی نمونہ پیش کر کے کرنا ہے.منہ سے یہ کہنا کہ قرآنی تعلیم انجیل کی تعلیم سے بہتر ہے کافی نہیں.ہم اس کو اسی وقت اچھی طرح ثابت کر سکتی ہیں.جب نمونہ دکھا ئیں کہ اسلامی تعلیم کے مطابق ایسی زندگیاں اور ایسا معاشرہ ہوگا.اب دنیا کا عیسائیت سے اعتبار اٹھ چکا ہے.دنیا روحانیت کی بھوکی اور پیاسی ہے.ہمارا فرض ہے کہ جب مبلغین دور دراز کے ممالک میں تبلیغ کے لئے جائیں تو ان کی بیویاں وہاں جا کر ایسا نمونہ پیش کریں.جو صحیح اسلامی تعلیم کی عکاسی ہو.وَلَا يَعْصِيْنَک کہ وہ آنحضرت ﷺ کی نافرمانی نہیں کریں گی.آنحضرت ﷺ کی اطاعت گزار ہم تبھی ہوسکتی ہیں جب قرآن مجید کے احکام پر چلنے والیاں ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء کی تابعدار ہوں.اب ہمارے سامنے حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے کئی تحریکیں پیش کی ہیں.پہلی قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم ہے.دوسری جو بچیوں سے تعلق رکھتی ہے وہ ہے وقف جدید کا 5,000 کا بجٹ پورا کرنے کی ذمہ داری جو حضور نے بچوں پر ڈالی ہے.لجنات کے عہدیداران آٹھ یا دس دن کے اندر جا کر اطلاع بھجوائیں کہ ان کی ناصرات کرنا چندہ دے رہی ہیں.آپ نے فرمایا ہمارے لئے سب سے اہم کام وہی ہے جو حضرت خلیفہ اسیح نے شروع کیا.کوشش کریں کہ ناصرات کا چندہ اگر اطفال سے زیادہ نہیں تو کم از کم برابر ضرور ہو.اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے وقف عارضی کی تحریک پیش کی ہے.واقفین کی بہت ضرورت ہے.مگر یہ واقفین ہماری بہنوں نے ہی تیار کرنے ہیں.اگر آپ لوگ اپنی زندگیاں دین کی راہ

Page 406

388 میں قربان نہیں کر سکتیں تو ایسی زندگیوں کا کیا فائدہ؟ فَبَايِعُهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ (الممتحنه: 13) اللہ ایسی عورتوں کے متعلق جو ان تمام شرائط پر پوری اترتی ہیں اس سے بیعت لینے کا ارشاد فرمایا.اور فرمایا کہ ان کے لئے دعا کیجئے.بہنوں کوغور کرنا چاہئے کہ اگر وہ ان میں سے کسی ایک شرط کو بھی پورا نہیں کرتیں.تو وہ آنحضرت ﷺ کی دعاؤں سے محروم ہو جائیں گی.آپ نے تقریر ختم کرتے ہوئے نمائندگان کو خدا حافظ کہا.آخر میں حضرت سیدہ امتہ الحفیظ صاحبہ نے دعا کروائی.مصباح نومبر 1966ء دی ہے

Page 407

389 خطاب تعلیم القرآن کلاس لجنه سرگودھا تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مجھے اس بات سے بہت مسرت حاصل ہوئی ہے کہ اس سال لجنہ اماء اللہ سرگودھا نے قرآن شریف کی تعلیم سکھنے کے لئے پوری توجہ اور شغف سے کام لیا ہے.جو حاضری اس تعلیم القرآن کلاس کی بتائی جاتی ہے وہ نہایت خوشکن ہے.لیکن پھر بھی میری عزیز بہنو! اور میری عزیز بچیو! ہمارے لئے وہی دن حقیقی خوشی اور عید کا دن ہو گا.جس دن ہماری ایک ایک احمدی بہن اور ایک ایک احمدی بچی قرآن شریف کے مکمل ترجمے سے واقف ہوگی.ہزاروں ہزار درود اور سلام حضرت رسول اکرم ﷺ پر جو قرآن جیسی نعمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے لائے اگر قرآن نازل نہ ہوتا تو ہم بھی اندھیروں میں بھٹک رہے ہوتے.ہمیں زندہ خدا کا کچھ بھی پتہ نہ ہوتا یہ نبی کریم ﷺ کا ہی بابرکت وجود تھا جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہ کامل شریعت یہ کمل نعمت امت محمدیہ کو عنایت فرمائی.یہ اتنا بڑا انعام ہے اللہ تعالیٰ کا جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے.آنحضرت ﷺ پر جب قرآن شریف نازل ہوا.آپ نے دنیا کو اس کی طرف بلایا.ہر شخص جس نے اسلام قبول کیا اس نے قرآن مجید سیکھنا شروع کیا.قرآن مجید سیکھنے سے یہ مطلب نہ تھا کہ وہ صرف اسے پڑھتے تھے یا حفظ کر لیتے تھے.بلکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہماری ترقی اور نجات کے لئے یہ کامل تعلیم ہمیں ملی ہے.یہ وہ کامل ضابطہ حیات ہے جو ہمارے ہر مسئلہ کا حل ہے.قرآن مجید تمام علوم کا سر چشمہ ہے.تمام علوم کا منبع ہے.دنیا کا ہر علم اس کے آگے بیچ ہے.دنیا کا ہر فلسفہ اس کے آگے پیچ ہے یہ وہ کامل نور ہے جو حضرت رسول اکرم ﷺ پر اس لئے نازل کیا گیا تا کہ ساری دنیا اس نور سے منور ہو.لیکن جب مسلمان آہستہ آہستہ خدا کی تعلیم کو بھول گئے.قرآن کریم کی ظاہری عزت تو کی لیکن اسے پڑھنا چھوڑ دیا.اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالنا چھوڑ دیا.تو وہ قعر مذلت میں گرتے چلے گئے.کیونکہ یہ ایک مسلمان کے لئے نہایت ضروری تھا کہ ان کی زندگی اسلام کے مطابق ہو.جس طرح حضرت عائشہ نے کسی کے آنحضرت ﷺ کے اخلاق فاضلہ کے متعلق سوال کرنے پر یہ بتایا کہ آنحضرت صلعم کے اخلاق فاضلہ قرآن مجید کی تفسیر تھے.کیونکہ جو کچھ قرآن میں حکم تھا اسی تعلیم پر آپ خود عمل کرتے تھے.آپ وہی تعلیم دیتے تھے.جو قرآن مجید میں ہے.یہی آپ نے مسلمانوں کو تعلیم

Page 408

390 دی کہ قرآن کے مطابق ہی زندگیاں ڈھالو.تمہاری زندگیاں قرآن مجید کی تفسیر ہونی چاہئیں جس طرح آنحضرت ﷺ کے ذریعے خدا نے قرآن شریف میں کہا ہے کہ میری تمام زندگی میری تمام عبادتیں ، میری تمام دعائیں، میرا دنیا سے سلوک ، دنیا داروں کے معاملات ایسے معاملات جو دیکھنے میں دنیا کے معاملات نظر آتے ہیں لیکن ان میں مخلوق کی بہبودی ہے.یہ سب خدا کے لئے ہے جو رب العالمین ہے.جو ہر انسان کا رب ہے.جس کو ہر انسان کی بھلائی کی لگن ہے اور جو چاہتا ہے کہ میرے بندے مجھ تک پہنچیں.قرآن مجید پر ہی عمل کرنے سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے.مسلمان قرآن پر عمل کر کے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے رہے ہیں.لیکن بدقسمتی سے جب مسلمانوں کے پاس مال و دولت آ گئی.اور انہیں حکومتیں مل گئیں تو انہوں نے یہ سمجھا کہ ہمارا غلبہ ساری دنیا پر ہو چکا ہے.اب ہمیں قرآن کی تعلیم کے مطابق عمل کی ضرورت نہیں.انہوں نے عقید تا تو قرآن مجید کو سب سے عزت والا سمجھا.اس کی ظاہری تو بڑی عزت کی لیکن اس کی تعلیم کو بھلا دیا.یہاں تک کہ ان کے بچے قرآن شریف کا ناظرہ بھی نہیں جانتے.لیکن ہمارا خدا بڑا ہی پیار کرنے والا خدا ہے.وہ بہت محبت کرنے والا خدا ہے.وہ کبھی بھی اپنے بندوں کو گمراہ نہیں چھوڑتا.جب کبھی خدا کے بندے گمراہ ہوتے ہیں وہ کسی نہ کسی راہنما کو کسی نہ کسی اپنے پیارے بندے کو کھڑا کر دیتا ہے جولوگوں کو خدا کی طرف بلاتا ہے جولوگوں کو آنحضرت ﷺ کی تعلیم کی طرف بلاتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہاما بتایا گیا تھا کہ آنے والے مسیح موعود کا یہ کام ہے کہ وہ پھر سے دین محمد کو زندہ کرے گا.قرآن شریف کی تعلیم کو دنیا میں جاری کرے گا.چنانچہ یہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے ہم پر کہ ہم نے مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے سے زندہ خدا کو دیکھا اور آنحضرت ﷺ کی قوت قدسیہ کا مشاہدہ کیا.لیکن ہماری آئندہ ترقی بھی اور ہماری جماعت کی ترقی بھی اس بات پر منحصر ہے کہ ہم صرف قرآن پڑھنے والے ہی نہ ہوں بلکہ اس کو سمجھنے والے بھی ہوں.اس کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے والے ہوں.ورنہ قرآن شریف کو خالی پڑھ لیتا ہی کوئی حیثیت نہیں رکھتا.قرآن کا نام ہی اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ یہ بار بار پڑھا جائے اور قرآن مجید میں ہی یہ پیشگوئی ہے کہ یہ کتاب ہر گھر میں پڑھی جائے گی ہر ملک میں پڑھی جائے گی اور ہر زمانہ میں پڑھی جائے گی اور ہمیشہ تک کے لئے مسلمانوں کی نجات کا راستہ اس سے وابستہ ہے.قرآن کی تعلیم کی طرف سے بے پروائی کرنا انسان کی نجات کے لئے بڑا ہی خطرناک ہو سکتا ہے.ہمیں اس دنیا سے مال و دولت یا اولا دساتھ لے کر نہیں جانا.اگر ہمارے ساتھ جائے گا تو صرف قرآن شریف ہی

Page 409

391 جائے گا ہمارا تقویٰ جائے گا.ہمارے نیک اعمال اور نیک اخلاق کی تعلیم سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم سے ہر احمدی عورت اور ہر احمدی بچی واقف ہو کیونکہ صرف ناظرہ پڑھ لینے سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ قرآن کس بات کا حکم دیتا ہے اور کس بات سے منع کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں سچ کہتا ہوں کہ تم میں سے جو شخص قرآن کے سات سو حکموں میں سے ایک حکم بھی تو ڑتا ہے اس کو اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہئے." اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشتی نوح میں فرمایا کہ جو قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سارا مشن ہی یہ تھا کہ کس طرح ساری دنیا حضرت رسول اکرم ﷺ کی غلامی میں آجائے.آنحضرت ﷺ کا جھنڈا ساری دنیا میں لہرانے لگے اور تمام دنیا قرآن کو مان لے.آپ کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری ہوا.خلیفہ اول نے اپنی ساری زندگی قرآن اور حدیث سکھانے میں صرف کی.آپ کی بڑی کوشش تھی کہ جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے ہیں اپنی تعلیم میں کمزور نہ رہ جائیں.وہ قرآن مجید کی تعلیم سے واقف رہیں.آپ کے بعد حضرت مصلح موعود کا زمانہ آیا آپ نے اپنے باون سالہ دور خلافت میں جس قدر کوشش اور محنت کی اس کے متعلق مجھے کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں.تفسیر صغیر کے صفحات تفسیر کبیر کے صفحات اور آپ کی تمام دوسری کتابوں کے صفحات اس بات کے گواہ ہیں کہ جس طرح آپ کی پیدائش سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا ور تمہیں ایک ایسا بیٹا دیا جائے گا جس کے ذریعے سے کلام اللہ کا مرتبہ بلند ہوگا.“ یہ پیشگوئی کس آن وشان سے پوری ہوئی.آپ کے دور خلافت میں قرآن مجید کے ترجم مختلف زبانوں میں شائع ہوئے اور دوسرے ملکوں میں بھیجے گئے.اور یہ پیشگوئی بھی کس شان سے پوری ہوئی.کہ وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.“ 66 آپ نے شاید ہی کوئی ایسی عورتوں میں تقریر کی ہو یا ایسا خطبہ دیا ہو جس میں عورتوں کی توجہ اس طرف نہ دلائی ہو کہ قرآن شریف کو ترجمے سے پڑھو.ایک دفعہ 1944ء کی بات ہے کہ میں بھی اس جلسہ میں شامل تھی.حضرت مصلح موعود نے ساری احمدی عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا.کہ وہ بہنیں جو قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہوں کھڑی ہو جائیں.جب وہ عورتیں کھڑی ہو ئیں گو ان کی تعداد زیادہ نہ تھی لیکن پھر بھی آپ نے کہا

Page 410

392 کہ میرے لئے آج کا دن عید کا دن ہے.کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ بہت ہی کم عورتیں ترجمہ جانتی ہوں گی.لیکن آج کا دن میرے لئے ایک نہایت ہی خوشی کی خبر لانے والا دن ہے کہ عورتوں کی ایک خاصی تعداد تر جمہ جانتی ہے لیکن میرے لئے حقیقی عید کا دن وہی ہو گا جس دن ہر احمدی عورت قرآن مجید کا تر جمہ جان لے گی.آپ کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلافت کے شروع ہی سے قرآن مجید ناظرہ کی طرف زور دیا آپ نے فرمایا کہ ہر عورت اور ہر بچی کو قرآن مجید ناظرہ آنا چاہئے.آپ کے ارشاد کے مطابق لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے تمام لجنات سے ایسے فارم پر کروائے جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ کتنی فی صدی عورتیں اور بچیاں ناظرہ جانتی ہیں.بے شک ہماری جماعت میں بہت قلیل تعداد ایسی ہے جو ناظرہ نہیں جانتی.لیکن یہ بھی ایک افسوس ناک امر ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ تعلیم عام ہے اور شہر میں ڈھونڈے سے بھی شاید ہی ایسی عورت ملتی ہو جو اردو لکھنا پڑھنا نہ جانتی ہو.اس کے باوجود عورتوں کی کچھ ایسی تعدا د نکل آئے جو قرآن مجید ناظرہ نہ جانتی ہو اگر اس کی عمر 40 یا 50 سال کی بھی ہو چکی ہو تب بھی وہ پڑھنے کی کوشش کریں.قرآن مجید کوئی ایسی بڑی کتاب نہیں کہ چند مہینوں میں محنت کے ساتھ ختم نہ کی جا سکے.قرآن مجید پڑھنے میں بہت آسان کتاب ہے.خود خدا تعالیٰ نے اس کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو بہت آسان بنایا ہے.اس کا پڑھنا بھی آسان اور اس کا لکھنا بھی آسان اور اس پر عمل کرنا بھی آسان.بشرطیکہ دل میں اخلاص ہو.دل میں اطاعت کا جذبہ ہو کہ ہم نے قرآن کے مطابق چلنا ہے پھر جب آپ کی سو فیصدی عورتیں ناظرہ پڑھ جائیں تو آپ کی دوسری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہماری بچیاں اور ہماری بہنیں قرآن مجید کے ترجمے سے واقف ہوں.ہو سکتا ہے بڑی عمر کی عورتوں کے لئے پڑھنا مشکل ہو.لیکن وہ بچیاں جو کالجوں اور سکولوں میں پڑھتی ہیں جو حساب کے مشکل سے مشکل سوالات حل کر لیتی ہیں جو فزکس اور کیمسٹری کے سبق یاد کر لیتی ہیں.جو سیاسیات اور نفسیات پر عبور حاصل کر لیتی ہیں جو تاریخ اور جغرافیے کے صفحے کے صفحے رٹ لیتی ہیں کیا وہ قرآن مجید کا ترجمہ یاد نہیں کرسکتیں اگر دو دو یا تین تین آیتیں روز یاد کر لی جائیں تو چند مہینے میں قرآن شریف کا ترجمہ یاد ہو سکتا ہے.اگر چند مہینے تھوڑے ہوں تو ایک یا دو سال میں قرآن کا ترجمہ پڑھ سکتے ہیں.یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے.صرف نیت کی ضرورت ہے صرف ارادے کی ضرورت ہے صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ ماں باپ کو یہ احساس ہو کہ ہماری بچی صرف میٹرک کا امتحان نہیں دے گی بلکہ قرآن مجید بھی ساتھ پڑے گی.ہماری بچی صرف ایف.اے اور بی اے کا امتحان ہی نہیں دے گی بلکہ ہم نے یہ نگرانی بھی کرنی ہے کہ وہ قرآن پڑھ رہی ہے

Page 411

393.یا نہیں ماں باپ کے اندر یہ روح پیدا ہونی چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو ایم اے کروائیں.ڈاکٹریاں پڑھائیں وہ دنیا میں جو چاہیں انہیں تعلیم دلائیں.مگر ساتھ ساتھ یہ دیکھیں کہ دینی پہلو تشنہ نہ رہ جائے تعلیم کے ساتھ ساتھ انہیں قرآن بھی آتا ہو.قرآن حجم کے لحاظ سے کیسی چھوٹی سی کتاب ہے.اور کتنی آسان ہے.بے شک ہماری زبان میں نہیں.لیکن کیا ہماری لڑکیاں بی اے، ایم اے عربی لے کر پاس نہیں کرتیں.کیا وہ فارسی دوسری زبان لے کرایم.اے کی ڈگری نہیں لیتیں.کیا انگریزی ہماری اپنی زبان ہے.ہر جماعت میں انگریزی کی مشکل سے مشکل کتابیں ہوتی ہیں اور اس میں وہ اعلیٰ نمبر لے کر کامیاب ہوتی ہیں موٹی موٹی کتابیں شروع سے لے کر آخر تک رٹی ہوئی ہوتی ہیں.لیکن اگر انہیں یاد نہیں ہوتا تو صرف قرآن مجید کا ترجمہ.یہ بڑا افسوسناک امر ہے.میں یہ امید کرتی ہوں کہ یہ رو جو تعلیم القرآن کلاس کی وجہ سے چلی ہے.اس رو کو آپ تازہ رکھیں گی.یہ صرف دس روزہ کلاس ہی نہیں ہوگی بلکہ اس کے بعد ایک ایسی سکیم بنائی جائے گی جس سے سرگودھا کی تمام عورتوں اور بچیوں میں قرآن شریف پڑھنے کا شوق پیدا ہو جائے.تھوڑا سا انہیں سبقاً پڑھنا چاہئے.جب وہ کچھ حصہ سبقا پڑھ لیں گی تو پھر اگر وہ چاہیں تو آہستہ آہستہ تفسیر صغیر کے ساتھ پڑھیں کیونکہ یہ بہت آسان طریقے پر لکھی گئی ہے.بہت سی لڑکیاں ایسی ہیں جنہیں سکول اور کالج کی فیس ادا کرنے کی توفیق نہیں ہوتی اور پرائیویٹ طور پر ایف.اے بی.اے اور ایم.اے کا امتحان پاس کر لیتی ہیں تو کیا وہ اپنی محنت سے اور تھوڑی سی دوسرے کی مدد سے قرآن مجید کا ترجمہ نہیں پڑھ سکتیں.صرف غفلت اس بات سے ہے کہ ہمیں یہ احساس نہیں کہ اگر ہم نے قرآن شریف نہ پڑھا تو ہم کتنی بد قسمتی کا شکار ہوں گے.آج اسلام پر اعتراض کرنے والے کوئی قرآن کی اصولی تعلیم پر اعتراض نہیں کرتے.بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ بے شک جو اخلاقی تعلیم اور معیار قرآن پیش کرتا ہے وہ نہایت اعلیٰ ہے.مگر مسلمان ان پر عامل نہیں.مذہب ان کی ترقی میں روک ہے.یہ حقیقت بھی ہے کہ مسلمان وہ نہیں ہیں جو قرآن مجید نے پیش کئے ہیں.اس میں قرآن مجید کا قصور نہیں.تعلیم کا قصور نہیں مسلمان جب تک قرآن مجید کی تعلیم پر عمل کرتے رہے وہ ساری دنیا کے معلم رہے وہ ساری دنیا کے استادر ہے اور ساری دنیا کے فاتح رہے.آج بھی مسلمان اگر دنیا کے فاتح بنا چاہتے ہیں آج بھی اگر مسلمان دوسری قوموں پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن مجید کی تعلیم پر عمل کریں.جس دن انہوں نے یہ حربہ اختیار کیا.جس دن انہوں نے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح پھر سے اپنی زندگیاں قرآن مجید کی روشنی میں

Page 412

394 ڈھالنی شروع کر دیں.اللہ تعالیٰ ان کو غلبہ عطا کرے گا لیکن اگر ہماری طرف سے کچھ کمزوریاں ہوئیں تو یہ وعدہ دیر کے بعد بھی پورا ہو سکتا ہے.اس لئے یہ نہایت ضروری ہے.جماعت کی ترقی کے لئے احمدیت کی ترقی کے لئے اور اسلام کی ترقی کے لئے کہ ہماری جماعت کی ہر عورت اور ہر بچی قرآن مجید کی تعلیم سے واقف ہو.ہر ایک کو قرآن مجید کا ترجمہ آتا ہو.جب ترجمہ آ جائے گا جب معنی آجائیں گے تو پھر اس پر عمل کرنا بھی مشکل نہ ہوگا.ایک معمولی سی بات ہے.اگر آپ ایک بچے کو کہہ دیں کہ اس بل میں سانپ ہے اس میں ہاتھ ڈال دو تو وہ کبھی بھی ایسا نہیں کرے گا.کیونکہ اسے پتہ ہے کہ اگر وہ اس میں ہاتھ ڈالے گا تو سانپ کاٹ کھائے گا اگر آپ کے سامنے آپ کی سہیلی زہر کی پڑیا ر کھے اور کہے کہ یہ زہر کی پڑیا ہے آپ اس کو منہ میں ڈال لیں.آپ اسے کبھی بھی منہ میں نہیں ڈالیں گی.کیونکہ آپ کو پتہ ہے اگر آپ زہر کھائیں گی تو مر جائیں گی.اگر آپ کو کوئی کہے کہ آگ کے اندر ہاتھ ڈال دو چونکہ آپ کو آگ کی تاثیر کا علم ہے آپ کبھی بھی آگ میں ہاتھ نہیں ڈالیں گی.لیکن گناہوں پر انسان اس لئے دلیر ہوتا ہے اور وہ گناہوں سے اس لئے نہیں بچ سکتا کہ اس کو گناہ کی اہمیت کا پتہ نہیں ہوتا.اس کو خوف نہیں ہوتا اور اس کو اسلام کی صحیح تعلیم کاعلم نہیں ہوتا.اس کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رکس رکس بات سے روکا ہے اور رکس کس بات کا حکم دیا ہے.لیکن جب ہم قرآن پڑھتے ہیں تو ہمارا دل روشن ہو جاتا ہے.ہمیں ان باتوں سے جن کو اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے خوف آتا ہے.خدا تعالیٰ کا ڈر پیدا ہوتا ہے.انسان کا دل استغفار پڑھنے لگتا ہے اور جب ان قوموں کا ذکر پڑھتے ہیں.جن پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا.تو خود بخو دانسان کے دل سے دعا نکلتی ہے کہ اے اللہ تو مجھے ایسا نہ بنائیو.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ملفوظات میں ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ قرآن پڑھنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ جب اسے پڑھو تو جہاں جہاں خدا کی رحمتوں کا ذکر ہو وہاں تو خدا کا شکر ادا کرو.اور پناہ مانگو اس بات سے کہ اللہ تعالیٰ تم پر بھی ایسا عذاب نازل نہ کرے.لیکن جب تک ہم قرآن کو پڑھیں گے نہیں.اپنی زندگیوں کو اپنے کردار کو، اپنے افعال کو، اپنے اخلاق کو اور اپنی عادتوں کو اس تعلیم کے مطابق نہیں ڈھال سکتے جو قر آنی تعلیم کہلاتی ہے قرآن مجید کی تعلیم اس کا ترجمہ اور اس کے مطالب سیکھنے کے لئے ایک یہ گر بھی یادرکھنا چاہئے جو قرآن مجید خود پیش کرتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعه: 80) (که قرآن مجید کووہی لوگ چھو سکتے ہیں وہی اس کا عرفان حاصل کر سکتے ہیں جو پاکیزہ ہوں) گویا قرآن سیکھنے کے لئے.قرآن سمجھنے اور اس کے معارف حاصل کرنے کے لئے یہ بڑا ضروری ہے کہ انسان کا دل پاک ہو.اسے تقویٰ کا

Page 413

395 مقام حاصل ہو وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا بھی ہو.وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والا بھی ہو وہ ہر اس بات سے ڈرے اور خوف کھائے.جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے.جب وہ اپنے افعال اور زندگی کو گنا ہوں سے دور رکھے گا اور کوشش کرے گا کہ تقویٰ کا مقام مجھے حاصل ہو تو اللہ تعالیٰ اسے توفیق عطا کرے گا کہ وہ قرآن کا علم سیکھ سکے.پس میں اس دعا کے ساتھ اپنی تقریر کو ختم کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ یہاں کی تمام بہنوں کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ قرآن شریف کا ترجمہ پڑھنے والیاں ہوں اور بہت جلد وہ دن آئے کہ یہاں کی ایک عورت کے متعلق بھی یہ نہ کہا جاسکے کہ اس کو قرآن کا ترجمہ نہیں آتا.کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی زندگی کے نصب العین کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم قرآن کی تعلیم کو دنیا کے کونے کونے تک پھیلانے والے ہوں اور بہت جلد ہماری زندگیوں میں انقلاب آ جائے.کہ احمدیہ جماعت کی ہر عورت اور بچی کے اخلاق و کردار وہی ہو جائیں جو کہ 1300 سال پہلے کے مسلمانوں کے تھے اور جو قرآن مجید نے پیش کئے ہیں اور جس کے مطابق ہمیں اپنی زندگیاں ڈھالنی ضروری ہیں اور ہم میں سے ہر ایک کا کردار خواہ وہ مرد ہو یا عورت لڑکا ہو یا لڑکی اس کی زندگی خدا کی خاطر ہو.جیسا کہ نبی کریم نے فرمایا تھا کہ میری زندگی ، میری موت ، میری عبادتیں اور میری نمازیں سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو سب جہانوں کا رب ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم قرآن کی تعلیم کے مطابق عمل کرنے والے ہوں قرآن کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے والے ہوں.قرآن کی تعلیم کی اشاعت کرنے والے ہوں.اور دنیا میں معلم قرآن بن کر زندگی بسر کرنے والے ہوں میں امید کرتی ہوں کہ اس کلاس نے جو بیج ڈالا ہے وہ بڑھے گا اور بڑھ کر ایک تناور درخت بنے گا.اور انشاء اللہ بہت جلد سرگودھا کی عورتیں اور بچیاں قرآن مجید کی تعلیم سے پوری طرح واقف ہو جائیں گی.خدا کرے ایسا ہی ہو.آمین مصباح نومبر 1966ء

Page 414

396 رسومات کے متعلق اسلامی تعلیم جلسہ سالانہ 1966ء عرض حال:.رسومات کے متعلق اسلامی تعلیم کے عنوان پر عاجزہ نے جلسہ سالانہ 1966ء کے موقع پر تقریر کی تھی.جسے پہلی دفعہ لجنہ اماءاللہ پشاور نے اور دوسری بار لجنہ مرکزیہ نے کتابی صورت میں شائع کیا تھا.نئے لوگ بھی جماعت میں داخل ہوتے ہیں اور نئی نسل بھی جوان ہوتی ہے.اس لئے ضروری ہے کہ بار بار یہ باتیں ان کے سامنے بیان کی جائیں تا کہ وہ رسومات اور بدعات سے بچیں.کچھ عرصہ سے بعض لجنات کے دوروں کے نتیجہ میں اور یہاں بھی بہنوں اور بچیوں سے بات چیت کرنے کے نتیجہ میں میرا مشاہدہ ہے کہ بہت سے اہم مسائل کے متعلق نئی نسل کو کم واقفیت ہے جس کی وجہ سے وہ غلطیوں کا شکار ہو جاتی ہے.اس لئے اس کتابچہ کو مزید حوالہ جات کے اضافہ کے ساتھ شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ مرکز یہ شائع کر رہا ہے.تمام بہنوں کو اسے پڑھنا چاہئے اپنی بچیوں کو پڑھانا چاہئے.لجنات کثیر تعداد میں اکٹھی خرید لیں تا کوئی ایک احمدی بہن اور بچی ایسی نہ رہے جس نے اسے نہ پڑھا ہو.دیہاتی لجنات کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ دیہات میں اب بھی رسوم کثرت سے پائی جاتی ہیں.میں سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد مظہر ثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے مندرجہ ذیل الفاظ کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرواتی ہوں.کہ کس درد سے آپ نے جماعت کو رسومات کے خلاف جہاد کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی اللہ تعالیٰ آپ کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.میں ہر گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اور ہر (احمدی) گھرانہ کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں اور جو احمدی گھرانہ آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوشش کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہو گا وہ یہ یادر کھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے.پس آج میں اس مختصر سے خطبہ میں ہراحمدی کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہر بدعت اور بد رسم کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا ہے اور میں امید رکھتا ہوں آپ سب میرے ساتھ اس جہاد میں شریک ہوں گے اور اپنے گھروں کو پاک کرنے کے لئے شیطانی وسوسوں کی سب راہوں کو اپنے گھروں پر بند کر دیں گئے خطبات ناصر جلد اول ص 763 - خطبہ جمعہ 23 جون 1967ء) اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں خلافت سے وابستہ رہنے اور قدرت ثانیہ کے مظہر ثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی پوری پوری اطاعت کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 415

397 خطاب جلسہ سالانہ 1966ء رسومات کے متعلق اسلامی تعلیم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم تیرا نبی جو آیا ملا اس نے خدا دکھایا دین قویم لایا ہو بدعات کو مٹایا شریعت اسلامیہ کے بنیادی اصول صرف تین ہیں.قرآن مجید.سنت رسول ﷺ اور حدیث اور.رسول اس زمانہ کے لحاظ سے موعود آخر الزمان کے فتاوی.کیونکہ اس زمانہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کو حکم اور عدل بنا کر مبعوث فرمایا اور آپ نے دنیا کو بتایا کہ کونسا کام صحیح ہے اور کونسا غلط.رسم کی تعریف : اس اصولی تعلیم کے لحاظ سے ہم رسم اس کام کو کہیں گے جس کا ثبوت قرآن مجید اور حدیث رسول اللہ سے نہ ملے.جس کا کرنا آپ کے خلفاء رضی اللہ عنہم سے ثابت نہ ہوتا ہو اور جو انسان اس لئے نہ کرتا ہو کہ اس کے لئے ضروری ہے بلکہ اس لئے کہ اس کے باپ دادا یہ کام کرتے چلے آئے ہیں اور اس کے کرنے کی غرض خود نمائی اور اپنی برادری کنبہ میں اپنی ناک اونچی رکھنا ہو.رسول کریم ﷺ کی بعثت کی غرض :- آنحضرت ﷺ کی بعثت کی غرض ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ بیان فرمائی ہے کہ آپ نوع انسانی کو ان قسم قسم کے پھندوں سے آزاد کروائیں.جن کے طوق انسانوں نے خود پہن رکھے تھے اور ان کی روح کو پاک وصاف کر کے ان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں.مذہب کا مرکزی نقطہ توحید ہے یعنی انسان کی پوری توجہ اس کی عبادت اس کے بندوں سے تعلقات.رشتہ داریوں کا نبھانا.مرنا جینا سب اللہ تعالیٰ کی خاطر ہو جب انسان توحید کے اس مقام سے جہاں اس کے لئے قائم ہونا ضروری ہے ذرا بھی ادھر ادھر ہتا ہے تو پہلے مختلف رسومات میں گرفتار ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ ان کے جال میں ایسا پھنستا ہے کہ شرک کرنے پر اتر آتا ہے.گویا شرک لازمی نتیجہ ہے.رسومات کی پیروی کا اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيُّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ

Page 416

398 وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَ عَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِى أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الاعراف: 158) ترجمہ :.وہ (لوگ) جو ہمارے اس رسول ( یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرتے ہیں جو نبی ہے اور امی ہے جس کا ذکر تو رات اور انجیل میں ان کے پاس لکھا ہوا موجود ہے وہ ان کو نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور بُری باتوں سے روکتا ہے اور سب پاک چیزیں ان پر حلال کرتا ہے اور سب بُری چیزیں ان پر حرام کرتا ہے اور ان کے بوجھ ( جو ان پر لا دے ہوئے تھے ) اور طوق جوان کے گلوں میں ڈالے ہوئے تھے وہ ان سے دور کرتا ہے.پس وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے اور اس کو طاقت پہنچائی اور اس کو مدددی اور اس نور کے پیچھے چل پڑے جو اس کے ساتھ اتارا گیا تھا وہی لوگ بامراد ہوں گے.اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان ہر کام میں یہ مد نظر رکھے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی کامل اتباع کر رہا ہے یا نہیں.آپ کی اتباع سے ہی وہ نیک کام کر سکے گا.پاک چیزوں اور پاک باتوں کو اختیار کر سکے گا.اور بُرے کاموں سے مجتنب رہے گا.یہی تقویٰ کا حقیقی مقام ہے جو آنحضرت ﷺ کی کامل اطاعت اور پیروی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا.آنحضرت ے کے طریق پر چلنا سنت ہے اور اس کو چھوڑ کر کوئی اور طریق اختیار کرنا بدعت.سنت اور بدعت میں فرق :- حضرت اقدس موعود امام آخر الزمان سنت اور بدعت کا فرق بتاتے ہوئے فرماتے ہیں: غرض اس وقت لوگوں نے سنت اور بدعت میں سخت غلطی کھائی ہوئی ہے اور ان کو ایک خطرناک دھو کہ لگا ہوا ہے وہ سنت اور بدعت میں کوئی تمیز نہیں کر سکتے.آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ کر خود اپنی مرضی کے موافق بہت سی راہیں خود ایجاد کر لی ہیں اور ان کو اپنی زندگی کے لئے کافی راہ نما سمجھتے ہیں حالانکہ وہ ان کو گمراہ کرنے والی چیزیں ہیں.جب آدمی سنت اور بدعت میں تمیز کر لے اور سنت پر قدم مارے تو وہ خطرات سے بچ سکتا ہے لیکن جو فرق نہیں کرتا اور سنت کو بدعت کے ساتھ ملاتا ہے اس کا انجام اچھا نہیں ہو سکتا.ملفوظات جلد دوم صفحہ 389 ) پھر آپ فرماتے ہیں:.اعمال صالحہ کی جگہ چند رسوم نے لے لی ہے اس لئے رسوم کے توڑنے سے یہی غرض ہوتی ہے کہ

Page 417

399 کوئی فعل یا قول قال اللہ اور قال الرسول کے خلاف اگر ہو تو اسے توڑا جائے جبکہ ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور ہمارے سب اقوال اور افعال اللہ تعالیٰ کے نیچے ہونے ضروری ہیں پھر ہم دنیا کی پر واہ کیوں کریں؟ جو فعل اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف ہو اس کو دور کر دیا جاوے اور چھوڑا جاوے جو حدود الہی اور وصایا رسول اللہ ﷺ کے موافق ہوں ان پر عمل کیا جاوے کہ احیاء سنت اسی کا نام ہے.“ ملفوظات جلد دوم صفحه 391 اسلام کا پیدا کرده انقلاب : آنحضرت ﷺ سے قبل دنیا شرک گمراہی اور ضلالت میں گھری ہوئی تھی بت پرستی کے ساتھ ساتھ ہزاروں قسم کی رسومات کے پھندے ان کے گلوں میں پڑے ہوئے تھے لیکن ہزاروں درود و سلام اس محسن انسانیت پر جس نے ساری دنیا کو شرک سے پاک کر دیا.ہزار ہا سال کے پھندے جو ان کی گردنوں میں پڑے ہوئے تھے وہ نکال کر پھینک دیئے اور سب قسم کی برائیوں سے پاک کر کے خدائے واحد کے آگے ان کا سر جھکا دیا.وہ جو بتوں کے آگے سجدہ کرتے تھے اور ان پر چڑھاوے چڑھاتے تھے وہ ایک خدا کے پرستار ہو گئے اور اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو مد نظر رکھنے لگ گئے جو شر ہیں پیتے تھے فسق و فجور میں گرفتار رہتے تھے اور اپنے ان کاموں کو فخریہ بیان کرتے تھے وہ ان افعال سے اس طرح دور بھاگنے لگے جیسے سانپ سے.یہی وہ لوگ ہیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے اور وہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لائے آپ کی کامل اطاعت کی.اپنی جان، مال، عزت اور اولا دسب کچھ آپ کے قدموں میں لا ڈالا.جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان پر بے حد فضل اور انعامات کئے اور دنیا کا حکمران ان کو بنا دیا.شراب ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی.جوئے کے وہ عادی تھے لیکن آنحضرت ﷺ کی ایک آواز پر شرابوں کے مٹکے اس طرح تو ڑ دیئے گئے کہ گلی کوچوں میں شراب بہتی پھرتی تھی اور پھر کبھی کسی مسلمان کا دہن شراب سے آشنا نہ ہوا.ہر قسم کے رسوم، برائیاں ، نفسانی خواہشات ، احباب ، دوست چھوڑ کر انہوں نے آنحضرت ﷺ کی محبت اور اطاعت کو اختیار کر لیا.جیسا کہ حضرت اقدس فرماتے ہیں: قَد الرُوكَ وَفَارَقُوا أَحْبَابَهُمُ وَتَبَاعَدُوا مِنْ حَلْقَةِ الْإِخْوَانِ قَدْ وَدْعُوا أَهْوَاءَ هُمْ وَنُفُوسَهُمُ وَتَبَرَّؤُوا مِنْ كُلِّ نَشْبٍ فَانٍ

Page 418

400 ظَهَرَتْ عَلَيْهِمْ بَيِّنَاتُ رَسُوْلِهِمْ فَتَمَزَّقَ الْأَهْوَاءُ كَالاَوثَانِ ترجمہ: کہ انہوں نے تجھے اختیار کیا اور اپنے دوستوں سے جدا ہو گئے.اور اپنے بھائیوں سے علیحدگی اختیار کر لی.انہوں نے اپنی خواہشات اور نفسوں کو الوداع کہہ دیا.اور ہر قسم کے فانی مال و منال سے بیزار ہو گئے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے واضح اور روشن دلائل ان پر ظاہر ہوئے تو ان کی نفسانی خواہشیں بتوں کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو گئیں.اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے.قَدْ اَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمُ ذِكْرًا رَسُولاً.مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ.(سورة الطلاق 11، 12) ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے شرف کا سامان یعنی رسول اتارا ہے جو تم کو اللہ تعالیٰ کی ایسی آیات سناتا ہے جو ہر نیکی اور بدی کو کھول دیتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مومن لوگ جو اپنے ایمان کے مطابق عمل کرتے ہیں وہ اندھیروں سے نکل کر نور میں آجاتے ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے اور آپ کے بتائے ہوئے طریق پر چلنے کے نتیجہ میں انسان اندھیرے سے نکل کر ایمان کے اجالے میں آ جاتا ہے.یہ کون سا اندھیرا ہوتا ہے؟ یہ اندھیرا شرک و بدعت اور رسوم کا اندھیرا ہوتا ہے جس نے انسان کے گرد جالے تنے ہوئے ہوتے ہیں.جو آنحضرت ﷺ کی کامل اطاعت اور آپ کے نقش قدم پر چلنے سے ٹوٹنے شروع ہو جاتے ہیں.اب بھی اگر اپنے معاشرے سے ہم نے رسومات کے اندھیروں کو دور کرنا ہے تو اپنے ہر کام میں اس بات کو مد نظر رکھنا ہوگا کہ ہمارا یہ کام سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق ہے یا نہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورۃ ابراہیم میں فرماتا ہے:.كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ - (ابراهيم : 2) ترجمه: (یہ قرآن مجید) ایک کتاب ہے جسے ہم نے تجھ پر اس لئے اتارا ہے کہ تو تمام لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے ظلمت سے نکال کر نور کی طرف یعنی اس کامل طور پر غالب اور کامل

Page 419

401 محمود ہستی تک پہنچنے کے راستہ کی طرف لے جائے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ قرآن کریم ایک روشنی ہے جس کے ذریعہ سے آنحضرت ﷺ لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائیں گے اور وہ روشنی کا راستہ وہی راستہ ہے جو عزیز وحمید خدا کی طرف جاتا ہے.یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ رسم و رواج پر چل کر انسان خدا کا نور حاصل نہیں کرسکتا.بلکہ برادری اور رسوم سب پر لات مار کر اللہ تعالیٰ کے ان احکام پر جو اس نے قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں.عمل پیرا ہو کر خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے راستہ پر گامزن ہو سکتا ہے.ہے قصور اپنا ہی اندھوں کا وگرنہ وہ نور ایسا چکا ہے کہ صد تیر بیضاء نکلا زندگی ایسوں کی کیا خاک ہے اس دنیا میں جن کا اس نور کے ہوتے بھی دل ائمی نکلا مذکورہ بالا تینوں آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی روحانی ترقی صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ ہر کام کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی کامل اطاعت کی جائے اور دیکھ لیا جائے کہ اس کام کے متعلق قرآن مجید کیا تعلیم دیتا ہے اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات اور آپ کا عمل اس بارہ میں کیا تھا.آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے جوں جوں بعد ہوتا گیا مسلمان رسم و رواج کے پھندوں میں گرفتار ہوتے گئے.نام کا اسلام رہ گیا شریعت پر عمل نہ رہا.ہندوؤں اور عیسائیوں کی ہمسائیگی میں ان کے طور و طریق اختیار کر لئے اور وہ وہ رسوم رائج ہوئیں جن کا اسلام سے دور کا تعلق بھی نہ تھا.اللہ تعالیٰ کا امت محمدیہ پر خاص فضل ہوا کہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق حضرت اقدس موعود امام الزمان تشریف لائے تا کہ اس اثر کو مسلمانوں پر سے دور کر دیں جو مسلمانوں پر چھایا ہوا تھا.چنانچہ جنہوں نے حضور کو مانا انہوں نے سب کچھ چھوڑ دیا.اور ظلمت سے نکل کر نور کے سایہ تلے آگئے.انہوں نے خود محسوس کیا کہ آج تک ہم اندھیروں میں بھٹک رہے تھے.حضرت اقدس نے بھی دل کی صفائی کا یہی طریق بتایا ہے کہ آپ کی مکمل اطاعت کی جائے.چنانچہ حضور وو فرماتے ہیں:.غرض اس خانہ کو ( مراد دل.ناقل ) بتوں سے پاک وصاف کرنے کے لئے ایک جہاد کی

Page 420

402 ضرورت ہے اور اس جہاد کی راہ میں تمہیں بتاتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں اگر تم اس پر عمل کرو گے تو ان بتوں کو توڑ ڈالو گے اور یہ راہ میں اپنی خود تراشیدہ نہیں بتا تا.بلکہ خدا نے مجھے مامور کیا ہے کہ میں بتاؤں.اور وہ راہ کیا ہے؟ میری پیروی کرو اور میرے پیچھے چلے آؤ.یہ آواز نئی آواز نہیں ہے مکہ کو بتوں سے پاک کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے بھی کہا تھا قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران (32) اسی طرح پر اگر تم میری پیروی کرو گے تو اپنے اندر کے بتوں کو توڑ ڈالنے کے قابل ہو جاؤ گے اور اس طرح پر سینہ کو جو طرح طرح کے بتوں سے بھرا پڑا ہے پاک کرنے کے لائق ہو جاؤ گے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 120 121 م یہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے کہ جماعت احمد یہ توحید کے اعلیٰ مقام پر قائم ہے اور اللہ تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات پر چلنے میں ہی فخر محسوس کرتی ہے لیکن جب کوئی جماعت ترقی کرتی ہے اور پھیلنے لگتی ہے تو نئے نئے لوگ داخل ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ بہت سی کمزوریاں لاتے ہیں جن کے نتیجہ میں کئی رسومات پھیل جاتی ہیں.بعضوں میں نقالی کا مادہ ہوتا ہے دوسروں کو دیکھ کر بغیر یہ سوچے سمجھے کہ یہ جائز بھی ہے یا نہیں یا ہماری روایات کے مطابق ہے یا نہیں عمل کرنے لگتے ہیں.چند سال سے مجھے یہ احساس ہو رہا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ایک طبقہ میں جن میں عورتیں زیادہ ہیں پھر سے رسومات کی ابتدا ہوگئی ہے اور جن ظلمتوں سے نکالنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو بھیجا تھا ان ظلمتوں کے خفیف سائے ان پر پھر پڑنے لگے ہیں.حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا.کیونکہ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص انعام ، انعام خلافت سے وعدہ کے مطابق نوازا ہے.خلیفہ وقت جانشین ہوتا ہے حضرت مسیح موعود امام آخر الزمان کا اور حضرت مسیح موعود امام آخر الزمان خلالِ کامل ہیں آنحضرت ﷺ کے گویا خلیفہ وقت کے احکام پر چلنے آپ کی کامل اطاعت کرنے سے ہم حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور آنحضرت ﷺ کے مطیع وفرمانبردار بن سکتے ہیں.رسومات کا تعلق چونکہ زیادہ تر عورتوں سے ہوتا ہے.اس لئے عورتوں کو اس طرف از حد توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ قرآن مجید کی تعلیم کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہیں.انہیں قرآن مجید کا یہ حکم ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اطِيعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِى الأمْرِ مِنْكُمُ - النساء : 52 اللہ تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ خلفاء کی اطاعت بھی ہم پر فرض ہے بغیر

Page 421

403 مکمل اطاعت کے ترقی ناممکن ہے.ہر تحریک جو خلیفہ وقت کی طرف سے پیش ہو اس پر ہر مرد عورت اور بچہ کا لبیک کہنا فرض ہے.تمام تنظیموں کا کام بھی یہی ہونا چاہئے کہ خلیفہ وقت کی تحریکات کو چلانے میں اپنی قوتیں بروئے کارلائیں.حضرت مصلح موعود نے بھی جب لجنہ اماءاللہ ا قیام فرمایا تو بجنہ اماءاللہ کے دستور کی ایک شق یه قرار دی: اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لئے جو بھی خلیفہ وقت ہو اس کی تیار کردہ اسکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مد نظر رکھ کر تمام کا روائیاں ہوں.“ لجنہ اماءاللہ کی ابتدائی تحریک 1922ء و الازھار لذوات الخمار ص 53)

Page 422

404 حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی رسومات مٹانے کے متعلق تحریک حضرت خلیلہ اسبح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے جو تحریکات مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد جماعت اور خصوصاً احمدی مستورات کے سامنے رکھیں ان میں سے ایک تحریک جماعت سے رسومات کی بیخ کنی کرنا تھا.آپ نے فرمایا تھا: پہلا امتحان اور آزمائش وہ احکام الہی یا تعلیم الہی ہے جو ایک نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آتا ہے اور جس تعلیم کے نتیجہ میں مومنوں کو کئی قسم کے مجاہدات کرنے پڑتے ہیں.بعض دفعہ اپنے مالوں کو قربان کرنے سے اور بعض دفعہ اپنی عزتیں اور وجاہتیں اللہ تعالیٰ کے لئے نچھاور کرنے سے.“ خطبہ جمعہ 8 اپریل 1966ء کی پھر آپ نے لجنہ اماءاللہ کے سالانہ اجتماع 1966ء کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:.حضرت مصلح موعود نے جماعت میں اور خصوصاً جماعت کی مستورات میں ایک مہم جاری کی تھی اور اس نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی اور وہ ہم یہ تھی کہ جماعت بد رسوم اور بُری عادتوں کو چھوڑ دے اور بے تکلف زندگی اور اسلامی زندگی گزارنے کی عادی ہو جائے.ایک وقت جماعت پر ایسا آیا کہ حضور اپنی کوششوں میں کامیاب ہوئے اور جماعت بدرسموں سے اور بدرسموں کے بدنتائج سے محفوظ ہو گئی لیکن اب پھر جماعت کا ایک حصہ اس طرف سے غفلت برت رہا ہے خصوصاً وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیوی مال یا دنیوی وجاہتیں عطا کی ہیں وہ بجائے اس کے کہ اپنے رب کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیوں کے دن گزارتے لوگوں کی خوشنودی کے حصول کی خاطر اور اس عزت کے لئے جو حقیقت میں ذلت سے بھی زیادہ ذلیل ہے اس دنیا کی عزت اور بد رسوم کی طرف ایک حد تک مائل ہورہے ہیں یہ بد رسوم شادی بیاہ کے موقع پر بھی کی جاتی ہیں اور موت فوت کے موقع پر بھی ہوتی ہیں ہمیں کلیہ ان کو چھوڑنا پڑے گا.“ تقریر 22 اکتوبر 1966 ء المصابیح صفحہ 31) پھر آپ نے فرمایا:.مختصراً میں بڑی تاکید کے ساتھ آپ میں سے ہر ایک کو کہتا ہوں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے تعلیمی لحاظ سے قرآن کریم کے اس اعلان کے ذریعہ ان رسوم کو یک قلم مٹا دیا ہے آپ اپنے گھروں سے اور اپنی

Page 423

405 زندگیوں سے ان رسوم کو اور بد عادات کو یکسر اور یک قلم مٹادیں اور دنیا اور دنیا داروں کی پرواہ نہ کریں اور اپنے رب کی رضا کی پرواہ کریں.المصابیح صفحہ 32 پھر 23 جون 1967ء کے خطبہ جمعہ میں آپ نے بڑے واضح الفاظ میں مستورات کو مخاطب کر کے فرمایا:.میں ہر گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اور ہر گھرانہ کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف اعلان جہاد کرتا ہوں اور جو احمدی گھرانہ بھی آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوششوں کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہوگا وہ یہ یادر کھے کہ خدا اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے.وہ اس طرح جماعت سے نکال کے باہر پھینک دیا جائے گا جس طرح دودھ سے لکھی.پس قبل اس کے کہ خدا کا عذاب کسی قبری رنگ میں آپ پر وارد ہو یا اس کا قہر جماعتی نظام کی تعزیر کے رنگ میں آپ پر وارد ہو اپنی اصلاح کی فکر کرو اور خدا سے ڈرو اور اس دن کے عذاب سے بچو کہ جس دن کا ایک لحظہ کا عذاب بھی ساری عمر کی لذتوں کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے کہ اگر یہ لذتیں اور عمریں قربان کر دی جائیں اور انسان اس سے بچ سکے تو تب بھی وہ سودا مہنگا سودا نہیں سستا سودا ہے.“ خطبات ناصر جلد اول ص 763 - خطبہ جمعہ 23 جون 1967ء پھر 1978ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک بار پھر جب بعض نقائص حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے سامنے آئے تو آپ نے عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:." کیا آپ آج مہدی موعود کو یہ کہیں گی کہ ہم آپ پر ایمان لائیں ہمیں اسلام کی روشنی ملی ہم اس کے نور سے منور ہوئے.ہمارے سامنے اسلام کی حقیقت آگئی ہر قسم کے گردوغبار کو صاف کر کے بدعات کو دور کر کے لیکن پھر بھی ہم حقیقی اسلام چھوڑ کر بدعات سے چھٹی رہنا چاہتی ہیں.ایک حدیث میں آتا ہے کہ کوئی ایک بدعت بھی ایسی نہیں ہوگی اسلام کی تعلیم کے ساتھ چمٹی ہوئی (چھٹنے کا لفظ ہے فارسی میں ) کہ جس کو مہدی اکھیڑ کے پرے نہیں پھینک دے گا وہ خالص اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرے گا اور ہر سنت کا احیاء کرے گا اور اس کو قائم کرے گا.“ پھر اسی تقریر میں آپ نے فرمایا:.ان دس سال میں (الجنہ اماءاللہ کا پروگرام میں یہ بنارہا ہوں جس کا آج اعلان کر رہا ہوں ) عالمگیر جماعت احمدیہ کی اجتماعی زندگی ہر پہلو کو ہرقسم کی بڑی یا چھوٹی بدعت سے پاک کیا جائے گا.یا پھر علیحدہ ہو

Page 424

406 " جاؤ مسیح پاک کی اس پاک جماعت سے.“ المصابیح صفحہ 349 350 پس ان بدعات اور رسومات کو دور کرنے کے لئے ہر لجنہ اماءاللہ کو خصوصی اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ رسومات ہم کو سیدھی راہ سے دور رکھتی ہیں اور خدا تعالیٰ کے شہر میں داخل ہونے سے روکتی ہیں.اس لحاظ سے ہم پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ہر اس کام کو ترک کر دیں جس پر رسم کی اصطلاح کا اطلاق ہوتا ہے.رسوم مختلف قسم کی ہوتی ہیں.-2 مذہب کی طرف منسوب ہونے والی رسوم شادی بیاہ سے متعلق رسوم 3.وفات سے متعلق رسوم اور 4.بچہ کی پیدائش کے متعلق رسوم مذهب کی طرف منسوب ھونے والی رسوم : مثلاً قبر پرستی ، قبروں پر عرس کرنا.میلاد کے وقت کھڑے ہونا اور شیرینی تقسیم کرنا مختلف وظیفے بنالینا جن کا احادیث سے کوئی ثبوت نہ ملتا ہو.نماز میں تو اللہ تعالیٰ سے دعا نہ مانگنی لیکن نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنی ختم قرآن - تعویذ گنڈے.جھاڑ پھونک وغیرہ وہ رسومات ہیں جو مذہب کے نام پر کی جاتی ہیں حالانکہ اسلام سے ان کا کوئی واسطہ نہیں.اسلام نام ہے تو حید کا توحید کے قیام کے لئے ہی اللہ تعالیٰ انبیاء مبعوث فرماتا ہے.دنیا میں کامل توحید کا قیام آنحضرت ﷺ کے ذریعہ ہوا اور آج آپ کے ہی نام لیوا قبروں پر جا کر خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر ان بزرگوں سے جن کی ساری عمریں توحید کے قیام میں گزریں دعائیں مانگتے اور ان کی قبروں پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں.حالانکہ وہ بھول جاتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے تو فرمایا تھا کہ یہود و نصاریٰ پر لعنت ہو جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ اس شرک و بدعت سے تو بکلی پاک ہے لیکن پھر بھی ضرورت ہے کہ ان کے مردوزن اور بچوں کی زندگیاں توحید کے قیام اور شرک کے خلاف جہاد کرنے میں گزریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے الہاما حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کو فرمایا:.خُذُوا التَّوْحِيدَ التَّوْحِيدَ يَا أَبْنَاءَ الْفَارِسِ ( تذکره ص: 197)

Page 425

407 اس الہام میں آپ کے ذریعہ ساری جماعت بھی مخاطب ہو سکتی ہے کہ جس طرح ابناء فارس کے لئے توحید کا دامن مضبوطی سے تھامنا لازم ہے اسی طرح ابناء فارس سے تعلق رکھنے والوں کے لئے یہ بھی وہ مرکزی نقطہ ہے جس کے گرد ہماری ساری تعلیم گھومتی ہے اگر مرکزی نقطہ ہی کمزور پڑ جائے تو ہمارے سارے دعاوی کمزور پڑ جاتے ہیں.توحید کا دامن مضبوطی سے تھامنے سے مراد یہ نہیں کہ صرف منہ سے اقرار کرتے رہیں کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں بلکہ خذ والتوحید سے یہ مراد ہے کہ ہر کام کرتے ہوئے ہم پہلے یہ سوچ لیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی جہاں اللہ تعالیٰ کے احکام اور برادری کی روایات میں ٹکر ہوتی ہو وہاں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کو ترجیح دیں اور خدا کی خاطر نہ برادری کی پرواہ کریں نہ روایات کی نہ رشتہ داروں کی نہ کسی کے طعن و تشنیع کی.اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضور اقدس فرماتے ہیں:." کتاب اللہ کے برخلاف جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب بدعت ہے اور سب بدعت فی النار ہے اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجز اس قانون کے جو مقرر ہے ادھر ادھر بالکل نہ جاوے کسی کا کیا حق ہے کہ بار بار ایک ملفوظات جلد سوم صفحہ 128 شریعت بنادے.“ مسلمان قبروں پر عرس کرتے ہیں اس کے متعلق حضرت اقدس بانی سلسلہ فرماتے ہیں:.شریعت تو اسی بات کا نام ہے کہ جو کچھ آنحضرت ﷺ نے دیا ہے اسے لے لے اور جس بات سے منع کیا ہے اس سے ہٹے اب اس وقت قبروں کا طواف کرتے ہیں.ان کو مسجد بنایا ہوا ہے.عرس وغیرہ ایسے جلسے نہ منہاج نبوت ہے نہ طریق سنت ہے.ملفوظات جلد سوم صفحہ 128, 129 " مختلف وظائف اور گنڈے تعویذ کے متعلق آپ فرماتے ہیں:.”ہمارا صرف ایک ہی رسول ہے اور صرف ایک ہی قرآن شریف اس رسول پر نازل ہوا ہے جس کی تابعداری سے ہم خدا کو پا سکتے ہیں.آج کل فقراء کے نکالے ہوئے طریقے اور گدی نشینوں اور سجادہ نشینوں کی سیفیاں اور دعا ئیں اور درود اور وظائف یہ سب انسان کو مستقیم راہ سے بھٹکانے کا آلہ ہیں.سو تم ان سے پر ہیز کرو.ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے کی مہر کو توڑنا چاہا.گویا اپنی الگ ایک شریعت بنالی ہے تم یا درکھو کہ قرآن شریف اور رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی پیروی اور نماز روزہ وغیرہ جو مسنون طریقے ہیں ان کے سوا خدا کے فضل اور برکات کے دروازے کھولنے کی اور کوئی کنجی ہے ہی

Page 426

408 66 نہیں.بھولا ہوا ہے وہ جو ان راہوں کو چھوڑ کر کوئی نئی راہ نکالتا ہے نا کام مرے گا وہ جو اللہ اور اس کے رسول کے فرمودہ کا تابعدار نہیں بلکہ اور اور راہوں سے اسے تلاش کرتا ہے.ملفوظات جلد سوم صفحہ 103 مسلمان آنحضرت ﷺ کے اخلاق حسنہ کا تذکرہ کرنے کے لئے میلاد کی مجلسیں منعقد کرتے ہیں جہاں تک میلاد کرنے کا سوال ہے اس سے بڑھ کر اور کیا نیکی ہوسکتی ہے کہ آپ کے اخلاق فاضلہ کا بار بار ذکر کیا جائے.آپ پر بار بار درود بھیجا جائے اور آپ کے اسوہ حسنہ کو اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جائے.لیکن مسلمانوں نے اپنی بدقسمتی سے اس نیک کام میں بھی بدعت داخل کر دی ہے کہ کھڑے ہو کر اس تصور سے درود پڑھا جائے کہ اس وقت آنحضرت ﷺ کی روح آتی ہے.قرآن تو کہتا ہے کہ جو اس دنیا سے رخصت ہو جائے وہ خواہ کتنی ہی بلند ہستی کیوں نہ ہو پھر اس دنیا میں واپس نہیں آتی.باقی رہنے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے درود انسان کھڑے بیٹھے، لیے، چلتے ، پھرتے ہر وقت بھیج سکتا ہے.یہ تو ایک دعا ہے جو ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آنحضرت علی اور آپ کی امت کے لئے کرتے ہیں لیکن وہی دعا جب اس ذہنیت سے کی جائے کہ درود پڑھتے ہی آپ کی روح آجاتی ہے تو وہی نیک کام بدعت بن جاتا ہے کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا اگر ایسا ہوناممکن تھا تو آنحضرت ﷺ یا آپ کے صحابہ سے کوئی روایت بھی ثابت ہوتی.حضرت اقدس فرماتے ہیں:.دوآنحضرت ﷺ کا تذکرہ بہت عمدہ ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء اور اولیاء کی یاد سے رحمت نازل ہوتی ہے اور خود خدا نے بھی انبیاء کے تذکرہ کی ترغیب دی ہے لیکن اگر اس کے ساتھ ایسی بدعات مل جاویں جن سے توحید میں خلل واقع ہو تو وہ جائز نہیں.خدا کی شان خدا کے ساتھ اور نبی کی شان نبی کے ساتھ رکھو.آج کل کے مولویوں میں بدعت کے الفاظ زیادہ ہوتے ہیں اور وہ بدعات خدا کے منشاء کے خلاف ہیں اگر بدعات نہ ہوں تو پھر تو وہ ایک وعظ ہے آنحضرت ﷺ کی بعثت.پیدائش اور وفات کا ذکر ہو تو موجب ثواب ہے ہم مجاز نہیں کہ اپنی شریعت یا کتاب بنالیویں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 159, 160 ) پھر آپ فرماتے ہیں:.و بعض ملاں اس میں غلو کر کے کہتے ہیں کہ مولود خوانی حرام ہے اگر حرام ہے تو پھر کس کی پیروی کرو گے؟ کیونکہ جس کا ذکر زیادہ ہو اس سے محبت بڑھتی ہے اور پیدا ہوتی ہے.مولود کے وقت کھڑا ہونا جائز نہیں اور کہاں لکھا ہے کہ روح آتی ہے.ملفوظات جلد سوم صفحہ 160 66

Page 427

409 پھر حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:.آنحضرت ﷺ نے ہر ایک کام کا نمونہ دکھلا دیا ہے وہ ہمیں کرنا چاہئے سچے مومن کے واسطے کافی ہے کہ دیکھ لیوے کہ یہ کام آنحضرت ﷺ نے کیا ہے کہ نہیں اگر نہیں کیا تو کرنے کا حکم دیا ہے یا نہیں؟ حضرت ابراہیم آپ کے جد امجد تھے اور قابل تعظیم تھے کیا وجہ کہ آپ نے ان کا مولود نہ کروایا “ ملفوظات جلد سوم صفحه 162 " آج کل ایک رسم ختم قرآن کی بھی رائج ہے اس سلسلہ میں حضرت اقدس فرماتے ہیں:.کیا آنحضرت ﷺ نے کبھی روٹیوں پر قرآن پڑھا تھا؟ اگر آپ نے ایک روٹی پر پڑھا ہوتا تو ملفوظات جلد سوم صفحہ 162,161 ہم ہزار پر پڑھتے.پھر آپ فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ کے پاک کلام قرآن کو نا پاک باتوں سے ملا کر پڑھنا بے ادبی ہے وہ تو صرف روٹیوں کی غرض سے ملاں لوگ پڑھتے ہیں.اس ملک کے لوگ ختم و غیرہ دیتے ہیں تو ملاں لوگ لمبی لمبی سورتیں پڑھتے ہیں کہ شور با اور روٹی زیادہ ہے.وَلَا تَشْتَرُوا بِايَتِي ثَمَنًا قَلِيلًا - (البقره: 42) یہ کفر ملفوظات جلد سوم صفحہ 158 ہے.66 ایک بزرگ نے عرض کی کہ حضور میں نے اپنی ملازمت سے پہلے یہ منت مانی تھی کہ جب میں ملازم ہو جاؤں گا تو آدھ آنہ فی روپیہ کے حساب سے نکال کر اس کا کھانا پکوا کر حضرت پیران پیر کا ختم دلواؤں گا.اس کے متعلق حضور کیا فرماتے ہیں.فرمایا کہ:.خیرات تو ہر طرح اور ہر رنگ میں جائز ہے اور جیسے چاہے انسان دے مگر اس فاتحہ خوانی سے ہمیں نہیں معلوم کیا فائدہ؟ اور یہ کیوں کیا جاتا ہے؟ میرے خیال میں یہ جو ہمارے ملک میں رسم جاری ہے کہ اس پر کچھ قرآن شریف وغیرہ پڑھا کرتے ہیں یہ طریق تو شرک ہے اور اس کا ثبوت آنحضرت ﷺ کے فعل سے نہیں غرباء ومساکین کو بے شک کھانا کھلاؤ.“ ملفوظات جلد سوم صفحہ 180 غرض اس قسم کی اور بھی بہت سی بدعات ہیں جو مذہب کے نام پر لوگوں نے مذہب میں داخل کر کے مذہب کا حصہ قرار دے دی ہیں لیکن تیرہ سو سال کی اسلامی تاریخ میں ان کا نام ونشان بھی نہیں ملتا کہ کبھی مسلمانوں نے ان پر عمل کیا ہو.مسلمان جب مذہب سے دور جا پڑے تو ان کی گمراہی کو دور کرنے اور صحیح راستے

Page 428

410 پر چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت موعود آخر الزمان کو مبعوث فرمایا.آپ نے پھر سے محمدی شریعت کا قیام فرمایا اور دنیا کو تعلیم دیکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرناہی انسان کی زندگی کا مقصد اور نصب العین ہے اور اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے کا ایک ہی طریق ہے کہ آنحضرت ﷺ کی کامل فرمانبرداری کی جائے.وظیفہ کے متعلق کسی کے سوال کرنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.وظیفوں کے ہم قائل نہیں.یہ سب منتر جنتر ہیں جو ہمارے ملک کے جوگی ہندوسنیاسی کرتے ہیں جو شیطان کی غلامی میں پڑے ہوئے ہیں.البتہ دعا کرنی چاہئے خواہ اپنی ہی زبان میں ہو بچے اضطراب اور سچی تڑپ سے جناب الہی میں گداز ہوا ہو ایسا کہ وہ قادر الحی القیوم کو دیکھ رہا ہے.جب یہ حالت ہوگی تو گناہ پر دلیری نہ کرے گا.“ ملفوظات جلد سوم صفحہ 323 پھر حضور فرماتے ہیں:.بندوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو انعامات واکرامات ہوتے ہیں وہ محض اللہ پاک کے فضل و کرم سے ہی ہوتے ہیں.پیروں فقیروں، صوفیوں، گدی نشینوں کے خود تراشیدہ اور وظائف طریق رسومات سب فضول بدعات ہیں جو ہرگز ہرگز ماننے کے قابل نہیں انسان کو چاہئے کہ سب کچھ خدا تعالیٰ سے طلب کرے.“ ملفوظات جلد سوم صفحہ 322 قاضی ظہور الدین صاحب اکمل مرحوم نے سوال کیا کہ محرم کی دسویں کو جو شربت و چاول وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اگر یہ اللہ بہ نیت ایصال ثواب ہو تو اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ حضور نے فرمایا:.ایسے کاموں کے لئے دن اور وقت مقرر کر دینا ایک رسم و بدعت ہے اور آہستہ آہستہ ایسی رسمیں شرک کی طرف لے جاتی ہیں.پس اس سے پر ہیز کرنا چاہئے کیونکہ ایسی رسموں کا انجام اچھا نہیں.ابتداء میں اسی خیال سے ہو مگر اب تو اس نے شرک اور غیر اللہ کے نام کا رنگ اختیار کر لیا ہے اس لئے ہم اسے ناجائز قرار دیتے ہیں جب تک ایسی رسوم کا قلع قمع نہ ہو عقائد باطلہ دور نہیں ہوتے.ملفوظات جلد پیم سحر 16 کسی نے حضور سے نصف شعبان کی نسبت سوال کیا.آپ نے فرمایا:.یہ رسوم حلوا و غیرہ سب بدعات ہیں.ملفوظات جلد پنجم صفحہ 297 " ایک شخص نے آپ کے سامنے سوال پیش کیا کہ محرم پر جولوگ تابوت بناتے ہیں اور محفل کرتے ہیں 66 اس میں شامل ہونا کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ: ” گناہ ہے ملفوظات جلد پنجم صفحہ 169

Page 429

411 تعویذ کے متعلق اپنے عمل سے حضور نے وضاحت فرمائی کہ نا جائز ہے.ایک شخص نے اپنی کچھ حاجات تحریری طور پر پیش کیں.حضرت اقدس نے پڑھ کر فرمایا کہ اچھا ہم دعا کریں گے.“ اس پر وہ شخص بولا کہ حضور کوئی تعویذ نہیں کیا کرتے؟ فرمایا: تعویذ گنڈے کرنا ہمارا کام نہیں ہمارا کام تو صرف اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنا ہے.“ ملفوظات جلد پنجم صفحه 505 خودتراشیدہ وظائف کے متعلق حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:.اپنی شامت اعمال کو نہیں سوچا ان اعمال خیر کو جو پیغمبر ﷺ سے ملے تھے ترک کر دیا اور ان کی بجائے خود تراشیده درود و وظائف داخل کر لئے اور چند کافیوں کو حفظ کر لینا کافی سمجھا گیا.بلہے شاہ کی کا فیوں پر وجد میں آجاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف کا جہاں وعظ ہورہا ہو وہاں بہت ہی کم لوگ جمع ہوتے ہیں لیکن جہاں اس قسم کے مجمع ہوں وہاں ایک گروہ کثیر جمع ہو جاتا ہے.نیکیوں کی طرف سے یہ کم رغبتی اور نفسانی اور شہوانی امور کی طرف توجہ صاف ظاہر کرتی ہے کہ لذت روح اور لذت نفس میں ان لوگوں نے کوئی فرق نہیں سمجھا ہے.ملفوظات جلد دوم صفحہ 63 نیازوں کے متعلق آپ نے فرمایا یہ سب بدعتیں ہیں اور حرام ہیں ان کا کوئی ثبوت قرآن مجید ، احادیث اور سلف صالحین کے طریق سے ثابت نہیں.آپ مزید فرماتے ہیں:.” ہمارے گھروں میں شریعت کی پابندی کی بہت ستی کی جاتی ہے.بعض عورتیں زکوۃ دینے کے لائق ہیں اور بہت سا زیور ان کے پاس ہے مگر وہ زکوۃ نہیں دیتیں.بعض عورتیں نماز روزہ کے ادا کرنے میں بہت کو تا ہی کرتی ہیں.بعض عورتیں شرک کی رسمیں بجا لاتی ہیں جیسے چیچک کی پوجا بعض فرضی دیویوں کی پوجا کرتی ہیں.بعض ایسی نیازیں دیتی ہیں جن میں یہ شرط رکھ دیتی ہیں کہ عورتیں کھاویں کوئی مرد نہ کھاوے یا حقہ نوش نہ کھاوے.بعض جمعرات کی چوکی بھرتی ہیں مگر یا درکھنا چاہئے کہ یہ سب شیطانی طریق ہیں.ہم صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ان لوگوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ آؤ خدا تعالیٰ سے ڈرو ورنہ مرنے کے بعد ذلت اور رسوائی سے سخت عذاب میں پڑو گے اور اس غضب الہی میں مبتلا ہو جاؤ گے جس کی انتہا نہیں.“ ملفوظات جلد پنجم ص: 49 حضور نے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم پا کر بیعت لینی شروع کی تو شرائط بیعت میں سے ایک

Page 430

412 شرط یہ بھی قرار دی.(شرط ششم): یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائیگا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنی ہر یک راہ میں دستورالعمل قرار دے گا.“ ہر احمدی مرد اور عورت جس نے حضور کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اس کو اس شرط کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے اور اپنی روزمرہ کی زندگی کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ بیعت کی اس شرط کے مطابق وہ اتباع رسم سے باز رہتا ہے یا نہیں.پھر اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور آنحضرت ﷺ کی کامل فرمانبرداری کے ساتھ حضرت موعود آخر الزمان کے احکام کی فرمانبرداری بھی ہم پر لازم ہے.جیسا کہ آپ خود فرماتے ہیں:.اب تم خود یہ سوچ لو اور اپنے دلوں میں فیصلہ کر لو کیا تم نے میرے ہاتھ پر جو بیعت کی ہے اور مجھے مسیح موعود حکم عدل مانا ہے تو اس کے ماننے کے بعد میرے کسی فیصلہ یا فعل پر اگر دل میں کوئی کدورت یا رنج آتا ہے تو اپنے ایمان کا فکر کرو.وہ ایمان جو خدشات اور توہمات سے بھرا ہوا ہے کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہو گا لیکن اگر تم نے سچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح موعود واقعی حکم ہے تو پھر اس کے حکم اور فعل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دو اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ ﷺ کی پاک باتوں کی عزت اور عظمت کرنے والے ٹھہرو ملفوظات جلد دوم صفحہ 52 یہی اصولی تعلیم ہے جو ہر احمدی مرد اور عورت کے لئے قابل عمل ہونی چاہئے کہ ہم ہر کام سے پہلے اس پر غور کریں کہ آیا یہ قرآن کی تعلیم کے خلاف تو نہیں.آنحضرت ﷺ کے کسی قول یا سنت کے خلاف تو نہیں اور پھر امام الزمان کے فتوئی اور ارشاد کے خلاف تو نہیں.اگر اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری زندگیاں بسر ہوں تو یقینا اللہ تعالیٰ کے فضل کے ہم امید وار ہو سکتے ہیں.شادی بیاہ سے متعلق رسومات : دوسری قسم کی وہ رسومات ہیں جو مذہب کے ساتھ تو منسوب نہیں کی جاتیں مگر ہماری روایت میں وہ اس طرح مل گئیں ہیں کہ ان سے بظاہر پیچھا چھٹنا مشکل نظر آتا ہے لیکن ہیں وہ صریحا قرآنی تعلیم کے خلاف یہ وہ رسومات ہیں جو عموماً نکاح شادی اور منگنی وغیرہ کے موقع پر کی جاتی ہیں.شادی کے موقع پر خوشی منانا اچھی بات ہے خوشی کا موقع ہوتا ہے لیکن قرآنی تعلیم ایسے موقعوں کے لئے یہ ہے کہ كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا - (اعراف : 32) اسراف نہ کرو.اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے إِنَّ اللهَ لَا

Page 431

413 يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا.اسلام سادگی سکھاتا ہے تکلف ار تصنع کو نا پسندفرماتا ہے لیکن ہمارے ہاں شادیوں میں بھاری چیزوں کے مطالبہ جات کئے جاتے ہیں.حضرت مصلح موعود خلیفتہ اسیح الثانی نے بہت دفعہ نکاح پڑھاتے وقت جماعت کو اس طرف توجہ دلائی کہ مطالبات نہ کریں.27 / مارچ 1931ء کو نکاح کا خطبہ پڑھتے ہوئے فرمایا:.اس امر کی طرف اپنی جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ رسمیں خواہ کسی رنگ میں ہوں بُری ہوتی ہیں اور مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں نے اگر بعض رسمیں مٹائی ہیں تو دوسری شکل میں بعض اختیار کر لی ہیں.نکاحوں کے موقعوں پر پہلے تو گھروں میں فیصلہ کر لیا جاتا تھا کہ اتنے زیور اور کپڑے لئے جائیں گے.پھر آہستہ آہستہ ایسی شرائط تحریروں میں آنے لگیں.پھر میرے سامنے بھی پیش ہونے لگیں.شریعت نے صرف مہر مقرر کیا ہے اس کے علاوہ لڑکی والوں کی طرف سے زیور اور کپڑے کا مطالبہ ہونا ہے حیائی ہے اور لڑکی بیچنے کے سوا اس کے اور کوئی معنے میری سمجھ میں نہیں آئے.میں آئندہ کے لئے اعلان کرتا ہوں کہ اگر مجھے علم ہو گیا کہ کسی نکاح کے لئے زیور اور کپڑے کی شرائط لگائی گئیں ہیں یا لڑکی والوں نے ایسی تحریک بھی کی ہے تو ایسے نکاح کا اعلان میں نہیں کروں گا.الفضل 7 اپریل 1931ء) ہمارے ملک میں سسرال والوں کو جوڑے اور زیور دینے کی منحوس رسم پڑ چکی ہے جس کی وجہ سے احمدی گھرانوں میں رشتوں میں مشکل پیش آ رہی ہے اور اگر رشتہ ہو بھی جائے تو سسرال والوں کے مطالبات پورے نہ کئے جانے کے باعث آپس میں جھگڑے پیدا ہو جاتے ہیں.احمدی خواتین اپنے امام کے ہاتھ پر بیعت کرتے وقت یہ عہد دہراتی ہیں کہ ”جو نیک کام آپ بتائیں گے اس میں آپ کی فرمانبرداری کروں گی.اس رسم کو چھوڑ نا یقینا عہد بیعت کو پورا کرنا ہے کیونکہ اس کا حکم آپ کے امام نے آپ کو دیا ہے.آپ نے 9 رفروری 1921ء کو ایک نکاح کا خطبہ پڑھاتے ہوئے فرمایا: لوگوں میں رواج ہے کہ جہیز وغیرہ دکھاتے ہیں اس رسم کو چھوڑنا چاہئے.جب لوگ دکھاتے ہیں تو دوسرے پوچھتے ہیں جب دکھانے کی رسم بند ہوگی تو لوگ پوچھنے سے بھی ہٹ جائیں گے.“ خطبات محمود جلد 3 ص93

Page 432

414 لڑکی کے گھر مہندی لے جانے سے حضرت مصلح موعود نے منع فرمایا اور شوری 42ء میں بھی اس کے متعلق فیصلہ کیا گیا: شادیوں میں خوشی کا اظہار بعض گھرانوں میں بے ہودہ گانوں اور باجا وغیرہ بجانے سے بھی کیا جاتا ہے جہاں تک گانے کا سوال ہے اگر بے ہودہ نہ ہوں تو ان کی اجازت ہے لیکن باقی باجے بجانے یا ناچ وغیرہ نا جائز ہے.نکاح پر با جا بجانے اور آتش بازی چلانے کے متعلق کسی نے حضور سے سوال کیا.آپ نے فرمایا: ”ہمارے دین میں دین کی بناء یسر پر ہے عسر پر نہیں اور پھر اِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ضروری چیز ہے باجوں کا وجود آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں نہ تھا اعلان نکاح جس میں فسق و فجور نہ ہو جائز ہے.بلکہ بعض صورتوں میں ضروری شئے ہے کیونکہ اکثر دفعہ نکاحوں کے متعلق مقدمات تک نوبت پہنچتی ہے پھر وراثت پر اثر پڑتا ہے.اس لئے اعلان کرنا ضروری ہے مگر اس میں کوئی ایسا امر نہ ہو جو فسق و فجور کا موجب ہو.رنڈی کا تماشا یا آتش بازی فسق و فجور اور اسراف ہے.یہ جائز نہیں.ملفوظات جلد سوم صفحہ 227 پھر فرماتے ہیں: ”جو چیز بُری ہے وہ حرام ہے اور جو چیز پاک ہے وہ حلال خدا تعالیٰ کسی پاک چیز کو حرام قرار نہیں دیتا بلکہ تمام پاک چیزوں کو حلال فرماتا ہے.ہاں جب پاک چیزوں ہی میں بُری اور گندی چیزیں ملائی جاتی ہیں تو وہ حرام ہو جاتی ہیں اب شادی کو دف کے ساتھ شہرت کرنا جائز رکھا گیا ہے لیکن اس میں جب ناچ وغیرہ شامل ہو گیا تو وہ منع ہو گیا اگر اسی طرح پر کیا جائے جس طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا تو کوئی حرام نہیں.“ ملفوظات جلد پنجم صفحہ 354 355 رشته کرتے وقت صرف تقویٰ مدنظر رهے: حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:.ہماری قوم میں یہ بھی ایک بد رسم ہے کہ دوسری قوم کولڑ کی دینا پسند نہیں کرتے بلکہ حتی الوسع لینا بھی پسند نہیں کرتے.یہ سراسر تکبر اور نخوت کا طریقہ ہے جو احکام شریعت کے بالکل بر خلاف ہے.بنی آدم سب خدا تعالیٰ کے بندے ہیں رشتہ ناطہ میں یہ دیکھنا چاہئے کہ جس سے نکاح کیا جاتا ہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا تو نہیں جو موجب فتنہ ہو اور یا درکھنا چاہئے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.

Page 433

415 إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمُ (الحجرات: 14) یعنی تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ تر بزرگ وہی ہے جو زیادہ تر پرہیز گار ہے ہماری قوم میں ایک یہ بھی بدرسم ہے کہ شادیوں میں صدہا روپیہ کا فضول خرچ ہوتا ہے.سویا درکھنا چاہئے کہ شیخی اور بڑائی کے طور پر برادری میں بھاجی تقسیم کرنا اور اس کا دینا اور کھانا.یہ دونوں باتیں عند الشرع حرام ہیں اور آتش بازی چلانا اور رنڈی بھڑوؤں ڈوم ڈھاریوں کو دینا.یہ سب حرام مطلق ہے ناحق روپیہ ضائع جاتا ہے اور گناہ سر پر چڑھتا ہے سو اس کے علاوہ شرع شریف میں تو صرف اتنا حکم ہے کہ نکاح کرنے والا بعد نکاح کے ولیمہ کرے یعنی چند دوستوں کو کھانا پکا کر کھلا دیوے.ملفوظات جلد پنجم ص 4948 حضرت مصلح موعود نے حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی بڑی صاحبزادی سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ کی تقریب رخصتانہ کے موقع پر ایک اہم تقریر فرمائی تھی.اس تقریر سے اصولی طور پر ان رسومات کے متعلق راہ نمائی حاصل ہوتی ہے.جہیز کے متعلق آپ نے فرمایا:.وو دوسری بات جہیز دینا ہے جس چیز کو شریعت نے مقرر کیا ہے وہ یہی ہے کہ مرد عورت کو کچھ دے عورت اپنے ساتھ کچھ لائے یہ ضروری نہیں ہے اور اگر کوئی اس کے لئے مجبور کرتا ہے تو وہ سخت غلطی کرتا ہے ہاں اگر اس کے والدین اپنی خوشی سے کچھ دیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ ضروری نہیں.ہاں لڑکے والے نہ دیں گے تو یہ نا جائز ہوگا.شریعت نے ہر مرد کے لئے عورت کا مہر مقرر کرنا ضروری رکھا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں:.اس میں شبہ نہیں کہ جہیز اور بری کی رسوم بہت بُری ہیں.اس لئے جتنی جلدی ممکن ہو ان کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے.ایسی وباء اور مصیبت جو گھروں کو تباہ کر دیتی ہے اس قابل ہے کہ اسے فی الفور مٹا دیا جائے اور میں نے دیکھا ہے کہ اچھے اچھے گھرانے اس رسم میں بہت بُری طرح مبتلا ہیں.و لیکن اس کے معنے یہ نہیں کہ جہیز بھی اگر کوئی دے سکے تو نہ دے.ایسے موقعوں پر ہمارے لئے سنت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز عمل ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے جو مامور آیا اس کی وحی تازہ بہ تازہ ہے اور جو کچھ اس نے کہا وہ اس رس کی طرح ہے جو تازہ پھل سے نچوڑا گیا ہو.پس اس کا عمل ہی صحیح سنت اور تعلیم اسلام ہے.

Page 434

416 جو یہ کہے کہ جہیز نہیں دینا وہ غلطی کرتا ہے اور جہیز ضرور دینا چاہئے تو وہ بھی بدعت پھیلانے والوں میں سے ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے لڑکی کو کچھ دیتا ہے تو یہ ہر گز بدعت نہیں کہلاسکتی اصل بات یہ ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اگر کوئی دیتا ہے تو اچھی بات ہے لیکن جو شخص یہ معمولی چیز بھی دینے کی استطاعت نہیں رکھتا اور پھر زیر بار ہو کر ایسا کرتا ہے تو شریعت اسے ضرور پکڑے گی.چونکہ اس نے اسراف سے کام لیا حالانکہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے اسراف و تبذیر سے منع فرمایا ہے جیسے ارشاد ہے لَا تُبَدِّرُ تبذِيرًا (بنی اسرائیل : 27) اور اسراف کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا ہے لیکن اگر کوئی اپنی طاقت اور خوشی کے مطابق اس سے بہت زیادہ بھی دے دیتا ہے تو اس میں مضائقہ نہیں اگر آج ایک شخص اس قدر حیثیت رکھتا ہے کہ وہ لڑکی کو دس ہزار روپے دے سکتا ہے بے شک دے.اگر اس کے بعد اس کی حالت انقلاب دہر کے باعث ایسی ہو جائے کہ دوسری لڑکی کو کچھ بھی نہ دے سکے تو اس میں اس پر کوئی الزام نہیں آسکتا کیونکہ پہلی کو دیتے وقت اس کی نیت یہی تھی کہ سب کو دے اب حالات بدل گئے.مختصر یہ کہ بدعت وہ ہے جسے لوگ قطعی حکم نہ ہونے کے باوجود پابندی سے اختیار کریں اور وہ اسلام سے ثابت نہ ہو.لیکن لوگوں انہ کے کہنے سے اس کو ضروری سمجھا جائے یہ نمائش ہوتی ہے.اقتباس از تقریر حضرت مصلح موعود مصباح مئی 1930 م تحریک جدید کی غرض سادگی کا قیام: تحریک جدید کی غرض بھی یہی تھی.حضرت مصلح موعود کو اللہ تعالیٰ نے جماعت کی ترقی کے لئے تحریک جدید کے اصول القاء فرمائے تھے کہ جماعت کی ترقی وابستہ ہے سادگی کے اصولوں پر چلنے سے تقریبات سادگی سے کرنے اور اسراف سے بچنے اور اپنے روپے کو بچا کر اشاعت اسلام میں خرچ کرنے سے یہی غرض ہے.اسی غرض سے حضرت مصلح موعود نے شادیوں میں سادگی اختیار کرنے کا حکم فرمایا.بری اور جہیز کی نمائش سے منع فرمایا.نمائش کرنے کے نتیجہ میں ایک دوسرے کی نقل کی جاتی ہے اور جو غریب گھرانہ اتنا سامان جہیز میں بیٹی کو نہیں دے سکتا.وہ اپنے ہمسایہ کی نقل میں قرض لے کر اتنا دینے کی کوشش کرتا ہے سسرال والوں کو جوڑے دینے سے منع فرمایا.مہندی لڑکی کے گھر لے جانے سے خاص طور پر روکا کہ یہ ایک فضول رسم ہے.مہندی بے شک دلہن کے لگائی جائے لیکن اس کے گھر والے بچی کو گھر میں لگا دیں اس کے لئے نمائش کرتے ہوئے سرال سے مہندی لے کر جانے اور ایک علیحدہ تقریب پیدا کرنا محض نمائش اور اسراف ہے.

Page 435

417 مشاورت کا فیصله: چنانچہ 1942ء کی مجلس مشاورت جو 3 4 اور 5 اپریل کو منعقد ہوئی.مشاورت کے ایجنڈا میں ایک تجویز رسومات شادی کے متعلق تھی کہ ان کا سد باب کرنے کے لئے کیا تجاویز اختیار کی جائیں.سب کمیٹی نے خصوصی طور پر جن رسومات کا ذکر کیا کہ ان کی مخالفت ہونی چاہئے وہ مندرجہ ذیل تھیں:.1 جہیز اور بری دکھانے کی قطعی ممانعت ہونی چاہئے.2 لڑکی والوں یا لڑکے والوں کی طرف سے علاوہ مہر کے کپڑوں اور زیورات کی شرط یعنی تعین کا مطالبہ ممنوع قرار دیا جائے.3 مہندی کی رسم یعنی لڑکے کے رشتہ دار عورتوں کا اجتماعی صورت میں لڑکی والوں کے گھر لے کر جانا بند کیا جائے.حضرت مصلح موعود کی تقریر :.ان تجاویز پرنمائندگان کے اظہار خیالات کے بعد حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے فرمایا:.شادی بیاہ کی رسوم یا دوسری رسوم ایسا نازک اور اہم سوال ہے کہ جو کسی زندہ جماعت کی دائمی توجہ کا مستحق ہے دنیا میں تین قسم کے مذاہب ہیں ایک وہ جنہوں نے حرمت پر زیادہ زور دیا ہے یہ بھی حرام ہے دوسرے وہ جنہوں نے حلت پر زور دیا ہے جیسے عیسائی مذہب ہے اس نے ہر چیز کو حلال کر دیا ہے.تیسری قسم اسلام ہے یعنی اس میں بعض چیزیں حلال بھی ہیں اور حرام بھی ہیں.پھر ایسی صورتیں ہیں کہ ہر حال میں حرام کی اور ہر حرام میں حلال کی صورت پیدا ہو جاتی ہے...اسلام نے اصولی طور پر بعض چیزوں کے متعلق ہدایات دے دی ہیں اور پھر انسان کی عقل پر چھوڑ دیا ہے پس اسلام نے حلال و حرام دونوں حالتوں میں عقل سے کام لینے کا حکم دیا ہے اور بعض اصول مقرر کر دیئے ہیں اور یہی حالت رسوم کے متعلق ہے.اسلام نے بعض باتیں کرنے کا حکم دیا ہے اور بعض سے منع کیا ہے.مثلاً ولیمہ کا حکم اسلام نے دیا ہے مگر دوسری طرف اسراف سے منع کیا ہے اور ولیمہ کے وقت اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.“ حضور نے مزید فرمایا:.مجھ پر یہ اثر ہے کہ اس بارہ میں ہماری جماعت میں زیادہ اسراف ہو رہا ہے.ہم یہ جو قوانین بناتے ہیں یہ دائمی نہیں آئندہ نسل اگر چاہے تو ان کو بدل بھی سکتی ہے اس وقت ہم جو قوانین بناتے ہیں ان کا

Page 436

418 مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ ہمارے اندر ایک بدی آ رہی ہے.اسے روکنے کی کوشش کی جائے.ہم کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتے کہ شادی بیاہ پر اتنی رقم خرچ کی جائے یا ضرور اتنے ہی مہمان مدعو کئے جائیں ہاں نمائش اور ریاء سے روک سکتے ہیں اور اس پر پابندیاں لگا سکتے ہیں چونکہ کثرت آراء اس کے حق میں ہیں اس لئے میں اس تجویز کو منظور کرتا ہوں نمائش اور ریاء سے ہمارے دوستوں کو ہمیشہ بچنا چاہئے اس کا دوسروں پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے.“ رپورٹ مجلس مشاورت 1942 ء صفحہ 23 24 رسم مهندی کی ممانعت: حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے شادی پر مطالبات ممنوع قرار دیئے جانے کی تجویز اور مہندی کی رسم کی ممانعت کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے فرمایا:.میں نے حضرت (اماں جان) سے اس کے متعلق دریافت کر لیا ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ حضرت...(اقدس) کے زمانہ میں مہندی کی رسم نہ کبھی ہمارے ہاں ہوئی اور نہ آپ کے زمانہ میں قادیان میں کسی اور احمدی کے ہاں یہ رسم ادا ہوئی.لیکن اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ عام ہورہی ہے..وو اب یہ ایک رسم کی صورت اختیار کر گئی ہے اس لئے اسے روکنا ہمارا فرض ہے آپ نے فرمایا:.....یہ رسوم ایسی صورت اختیار کرتی جارہی ہیں کہ خطرہ ہے کہ وہ جز وشریعت نہ بن جائیں اس لئے ان کارو کنا ہمارا فرض ہے.رپورٹ مجلس مشاورت 1942 صفحہ 25 1947ء کی مجلس مشاورت کے موقع پر جماعت کی تمدنی اصلاح کی خاطر شادیوں میں زیادہ چھان بین کرنے اور کپڑے زیور کے مطالبات کرنے والوں سے حضرت مصلح موعود نے اظہار نفرت کرتے ہوئے فرمایا:.شادیوں کے معاملہ میں زیادہ چھان بین اور کرید لغو ہے خدا نے مرد عورت کا جوڑا بنایا ہے اور وہ بہر حال مل بیٹھیں گے.شادی اللہ تعالیٰ کا قانون اور انسانی فطرت میں داخل ہے.“ (الفضل 18 اپریل 1947 ء ) نیز آپ نے فرمایا:.و لیکن اس میں بعض دفعہ ایسی غیر معقول باتیں کرتے ہیں اور ایسی لغو شرطیں لگا دیتے ہیں کہ حیرت آتی ہے مثلاً بعض لوگ جہیز کی شرطیں لگاتے ہیں اتنا سامان ہو تو ہم شادی کریں گے.یہ سب لغو ہے میں متواتر سالہا سال سے جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ ان کی اصلاح کی جائے.اگر جماعت کے لوگ اس

Page 437

419 طرف توجہ کریں تو بہت جلد اصلاح ہو سکتی ہے اگر وہ یہ عہد کر لیں کہ ہر ایسی شادی جس میں فریقین میں سے کسی کی طرف سے بھی ایسی شرطیں عائد کی گئی ہوں تو ہم اس میں شریک نہ ہوں گے تو دیکھ لوتھوڑے ہی عرصہ میں وہ لوگ ندامت محسوس کرنے لگیں گے اور ان شنیع حرکات سے باز آجائیں گے بھلا اس سے زیادہ اور کیا ذلیل کن بات ہو سکتی ہے کہ لڑکیوں کے چارپایوں کی طرح سودے کئے جائیں اور منڈی میں رکھ کر ان کی قیمت بڑھائی جائے.پس ہماری جماعت کو ایسی شفیع حرکات سے بچنا چاہئے اور عہد کرنا چاہئے کہ ایسی شادی میں کبھی شامل نہ ہوں گے خواہ وہ سگے بھائی یا بہن کی ہی ہو.“ (الفضل 18 اپریل 1947ء﴾ لڑکی کی شادی میں کھانا یا چائے دینے سے منع فرمایا تا کہ صرف دعا میں کثرت سے لوگ شامل ہوں.سوائے اس کے کہ لڑکی کی بارات کسی دوسرے شہر سے آ رہی ہو.لڑکی کی شادی کے موقع پر چائے یا کھانا دینے میں بظاہر کوئی حرج نہیں.گھر آئے مہمان کی مہمان نوازی کرنا اسلام کا ایک حکم ہے لیکن یہ سمجھ لینا کہ ضرور کھلایا جائے یہ بدعت ہے اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود کا ارشاد مندرجہ ذیل ہے:.لڑکی والوں کی طرف سے دعوت جہاں تک میں نے غور کیا ہے ایک تکلیف دہ چیز ہے لیکن اگر لڑکی والے بغیر دعوت کے آنے والوں کو کچھ کھلا دیں تو یہ ہر گز بدعت نہیں ہاں اگر یہ کہا جائے جو نہیں کھلاتا وہ غلطی کرتا ہے تو یہ ضرور بدعت ہے.لیکن اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے لڑکی کو کچھ دیتا ہے یا آنے والے مہمانوں کو کچھ کھلاتا ہے تو یہ ہر گز بدعت نہیں کہلا سکتی.خود حضرت اقدس) نے مبارکہ بیگم کی شادی پر بعض چیزیں اپنے پاس سے روپے دے کر آنے والے مہمانوں کے لئے امرتسر سے منگوائیں جو شخص یہ سمجھ کر کہ ایسا کرنا ضروری ہے ایسا کرتا ہے وہ بدعتی ہے لیکن جو شخص اپنے فطری احساس اور جذبہ کے ماتحت آنے والوں کی کچھ خاطر کرتا ہے اسے بدعت نہیں کہا جاسکتا.“......اقتباس تقریر حضرت مصلح موعود 15 مئی 1930 ء ) میں سمجھتی ہوں کہ شادی بیاہ کی تقریبات کے سلسلہ میں مذکورہ بالا اقتباسات جماعت کی خواتین کی راہ نمائی کرنے کے لئے کافی ہوں گے.لیکن تحریک جدید جاری کرنے کے بعد جماعت کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لئے اور اس لئے کہ امیر و غریب سب اپنے بھائی کی بچی کی شادی میں شرکت کر سکیں.امیر وغریب کا تفاوت باقی نہ رہے آپ نے حکم دیا کہ احباب جماعت سادگی کے ساتھ رخصتانہ کی تقریب کر دیا کریں سب بھائی بہنیں شادی والے گھرانہ کی خوشی کی تقریب میں شرکت کرلیں دعا کے ساتھ بچی کو

Page 438

420 رخصت کر دیں.اور ہمارے معاشرہ کی یہ شادیاں نمونہ بن جائیں تمام عالم اسلام کے گھرانوں کے لئے.مگر ابھی تک سو فیصد حضرت مصلح موعود کے اس فرمان پر جماعت کے احباب عمل نہیں کر رہے بہت سے گھرانوں میں اب بھی شادی کے کارڈوں پر باقاعدہ عصرانہ اور طعام کے الفاظ چھپے نظر آتے ہیں.پھر بعض گھرانے صرف شادی کی دعوت طعام پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ مہندی والے دن بھی چائے یا کھانا دینا ضروری سمجھتے ہیں اور اس طرح جو غرض سادگی اختیار کرنے کی حضرت مصلح موعود کے ارشاد میں تھی وہ پوری ہوتی نظر نہیں آتی.شادی کے موقعہ پر بہت مہنگے کارڈ چھپوانا بھی اسراف میں داخل ہے اس سے بھی اجتناب کرنا چاہئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مستورات کو خطاب فرماتے ہوئے کہا تھا:.اس سال بعض واقعات ( گو وہ تھوڑے ہیں) جماعت میں ہوئے ہیں جن کی وجہ سے میرے لئے ضروری ہے کہ میں آپ میں سے ہر ایک کو تنبیہہ کر دوں.شادی بیٹے کی تھی یا بیٹی کی بعض افراد نے خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف نمائش اور رسوم کو اختیار کیا اور اتنا قرض اٹھا لیا کہ بعد میں انہیں یہ کہنا پڑا کہ ہمارے چندوں میں تخفیف کی جائے.اگر یہ صورت تھی تو تم نے ان بد رسوم اور نمائش کو اختیار ہی کیوں کیا تھا کہ اس کی وجہ سے آج تم ثواب سے محروم ہو رہے ہو.اس کے اور بھی نقصانات ہیں صرف وقتی طور پر ہی ان کی وجہ سے نقصان نہیں ہوتا بلکہ اس کے نقصانات کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے جس میں سے انسان کو گزرنا پڑتا ہے تمہاری زندگی میں کوئی اسراف نہیں ہونا چاہئے تمہاری زندگی میں کوئی رسم نہیں ہونی چاہئے.“ تقریر بر موقع سالانہ اجتماع لجنه مرکز یہ 22 اکتوبر 1969ء پس ہمیں قرآن مجید کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے شادی کی سب فضول رسوم ترک کر دینی چاہئیں.جہاں مطالبات پورے کئے جائیں گے آپس میں اخوت کا خاتمہ ہو جائے گا وہ محبت اور پیار جوان رشتوں کی بقا کا موجب ہوتا ہے جن کی اساس پر آئندہ تعلقات کی بنیاد پڑتی ہے وہ جاتا رہے گا اور ہمارے معاشرہ کی فضا پر امن اور صاف نہیں رہے گی جس کا تقاضا اسلامی معاشرہ کرتا ہے.شادی کی تقریب پر ایک ضروری چیز گانا بجانا کبھی گئی ہے جہاں تک خوشی کی تقریب میں خوشی کے گانے گائے جانے کا سوال ہے یہ جائز ہے آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بچیوں کا گیت گانا ثابت ہے اس سلسلہ میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ارشادات تحریر کرتی ہوں.

Page 439

421 میاں اللہ بخش صاحب امرتسری نے عرض کیا کہ حضور یہ جو باراتوں کے ساتھ باجے بجائے جاتے ہیں اس کے متعلق حضور کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا:.فقہاء نے اعلان بالدف کو نکاح کے وقت جائز رکھا ہے اور یہ اس لئے کہ پیچھے جو مقدمات ہوتے ہیں تو اس سے گویا ایک قسم کی شہادت ہو جاتی ہے.ہم کو مقصود بالذات لینا چاہئے.اعلان کے لئے یہ کام کیا جاتا ہے یا کوئی اپنی شیخی اور تعلقی کا اظہار مقصود ہے بلکہ نسبتوں کی تقریب پر جوشگر وغیرہ بانٹتے ہیں......66 دراصل یہ بھی اسی غرض کے لئے ہوتی ہے کہ دوسرے لوگوں کو خبر ہو جاوے اور پیچھے کوئی خرابی پیدا نہ ہو.مگر اب یہ اصل مطلب مفقود ہو کر اس کی جگہ صرف رسم نے لے لی ہے.ملفوظات جلد دوم صفحہ 310 حضرت اقدس کے اس ارشاد کا خلاصہ یہ ہے کہ شادی کا اعلان ہونا ضروری ہے اس غرض سے پہلے دف بجائی جاتی تھی اب یہ اعلان مسجد میں ہو جاتا ہے یا الفضل اور سلسلہ کے کسی اور اخبار میں شائع ہو جاتا ہے اور جماعت کو معلوم ہو جاتا ہے کہ فلاں گھرانہ میں نکاح ہو گیا ہے.چپ چاپ بغیر اعلان شادی جائز نہیں.آتش بازی وغیرہ کے متعلق آپ فرماتے ہیں:.آتش بازی اور تماشا وغیرہ یہ بالکل منع ہیں کیونکہ اس سے مخلوق کو کوئی فائدہ بجز نقصان کے نہیں ہے.ملفوظات جلد دوم صفحه 310 پھر یہ سوال آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا کہ لڑکی یا لڑکے والوں کے ہاں جو جو ان عورتیں مل کر گاتی ہیں وہ کیسا ہے فرمایا: اصل یہ ہے کہ یہ بھی اسی طرح پر ہے.اگر گیت گندے اور نا پاک نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں.رسول اللہ ﷺ جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو لڑکیوں نے مل کر آپ کی تعریف میں گیت گائے تھے غرض اس طرح پر اگر فسق و فجور کے گیت نہ ہوں تو منع نہیں مگر مردوں کو نہیں چاہئے کہ عورتوں کی ایسی مجلسوں میں بیٹھیں یہ یا درکھو کہ جہاں ذرا بھی منظنہ فسق و فجور کا وہ منع ہے.بزہد و ورع کوش و صدق و صفا مصطف ولیکن میزائے پر یہ ایسی باتیں ہیں کہ انسان خودان میں فتویٰ لے سکتا ہے جو امر تقویٰ اور خدا کی رضا کے خلاف ہے مخلوق کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے.وہ منع ہے اور پھر جو اسراف کرتا ہے وہ سخت گناہ کرتا ہے.اگر

Page 440

422 ریا کاری کرتا ہے تو گناہ ہے غرض کوئی ایسا امر جس میں اسراف ریا، فستق ، ایذائے خلق کا شائبہ ہو وہ منع ہے اور جو ان سے صاف ہووہ منع نہیں گناہ نہیں کیونکہ اصل اشیاء کی حلت ہے.“ وفات سے متعلق رسوم :.ملفوظات جلد دوم صفحہ 311 تیسری قسم کی رسومات کا تعلق انسان کی وفات کے ساتھ ہے.غیر احمدیوں میں تو قل ، چہلم ، دسواں ، چالیسواں نہ جانے کیا کیا ہوتا ہے الحمد للہ کہ احمدیوں میں چیزیں نہیں پائی جاتیں.لیکن بعض بعض جگہ سے مستورات کے متعلق ایسا کرنے کی شکایات ملتی رہتی ہیں.پس ایسی محفلوں میں شمولیت اور دوسروں کے ساتھ مل کر ایسی رسومات کرنا جو توحید کے سراسر خلاف ہیں گناہ ہے ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت اقدس فرماتے ہیں: " قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْيِيكُمُ الله - (ال عمران: 32) اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کا ایک یہی طریق ہے آنحضرت ﷺ کی سچی فرمانبرداری کی جاوئے.دیکھا جاتا ہے کہ لوگ طرح طرح کی رسومات میں گرفتار ہیں.کوئی مرجاتا ہے تو قسم قسم کی بدعات اور رسومات کی جاتی ہیں.حالانکہ چاہئے کہ مُردہ کے حق میں دعا کریں رسومات کی بجا آوری میں آنحضرت ﷺ کی صرف مخالفت ہی نہیں ہے بلکہ ان کی بہتک بھی کی جاتی ہے اور وہ اس طرح سے کہ گویا آنحضرت ﷺ کے کلام کو کافی نہیں سمجھا جاتا.اگر کافی خیال کرتے تو اپنی طرف سے رسومات کے گھڑنے کی کیوں ضرورت پڑتی.ملفوظات جلد سوم صفحہ 316 پھر تفصیلی طور پر حضرت اقدس نے ذیل کی عبارت میں ان رسوم کی تشریح فرمائی کہ: (1) ماتم کی حالت میں جزع فزع اور نوحہ یعنی سیا پا کرنا اور چھینیں مار کر رونا اور بے صبری کے کلمات زبان پر لانا.یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ جن کے کرنے سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے اور یہ سب رسمیں ہندوؤں سے لی گئی ہیں جاہل مسلمانوں نے اپنے دین کو بھلا دیا اور ہندوؤں کی رسمیں اختیار کر لیں کسی عزیز اور پیارے کی موت کی حالت میں مسلمانوں کے لئے قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ صرف إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (سورة البقره: 157) کہیں یعنی ہم خدا تعالیٰ کا مال اور ملک ہیں.اسے اختیار ہے جب چاہے اپنا مال لے لے اور اگر رونا ہوتو صرف آنکھوں سے آنسو بہانا جائز 66

Page 441

423 ہے اور جو اس سے زیادہ کرے وہ شیطان سے ہے.(2) دوم برابر ایک سال تک سوگ رکھنا اور نئی نئی عورتوں کے آنے کے وقت یا بعض خاص دنوں میں سیا پا کرنا اور باہم عورتوں کا سر ٹکرا کر چلانا رونا اور کچھ کچھ منہ سے بھی بکواس کرنا اور پھر برابر ایک برس تک بعض چیزوں کا پکانا چھوڑ دینا اس عذر سے کہ ہمارے گھر میں یا ہماری برادری میں ماتم ہو گیا ہے یہ سب نا پاک رسمیں اور گناہ کی باتیں ہیں جن سے پر ہیز کرنا چاہئے.(3) سیاپا کرنے کے دنوں میں بے جا خرچ بھی بہت ہوتے ہیں حرام خور عورتیں شیطان کی بہنیں جو دور دور سے سیا پا کرنے کے لئے آتی ہیں اور مکر و فریب سے منہ کو ڈھانپ کر اور بھینسوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا کر چیخیں مار کر روتی ہیں ان کو اچھے اچھے کھانے کھلائے جاتے ہیں اور اگر مقدور ہو تو اپنی شیخی اور بڑائی جتلانے کے لئے صد ہارو پی کا پلاؤ اور زردہ پکا کر برادری وغیرہ میں تقسیم کیا جاتا ہے اس غرض سے کہ لوگ واہ واہ کریں کہ فلاں شخص نے مرنے پر اچھی کرتوت دکھلائی اچھا نام پیدا کیا سو یہ سب شیطانی طریق ہیں جن سے تو بہ کرنا لازم ہے.(4) اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو دوسرا خاوند کرنا ایسا بُرا جانتی ہے جیسا کہ کوئی بڑا بھاری گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ اور رانڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاک دامن بیوی ہوگئی ہوں حالانکہ اس کے لئے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے عورتوں کے لئے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کر لیتا نہایت ثواب کی بات ہے ایسی عورت حقیقیت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں بُرے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کرلے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود لعنتی اور شیطان کی چیلیاں ہیں جن کے ذریعہ شیطان اپنا کام چلاتا ہے جس عورت کو رسول اللہ ﷺ پیارا ہے اس کو چاہئے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایمان دار اور نیک بخت خاوند تلاش کرے اور یا درکھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صدہا درجہ بہتر ہے.ملفوظات جلد پنجم ص 4746 28 فروری 1904 ء کو ایک شخص نے چند مسائل دریافت کئے.ان میں یہ سوال بھی تھا کہ میت کے قل جو تیسرے دن پڑھے جاتے ہیں ان کا ثواب اسے پہنچتا ہے یا نہیں؟ حضرت اقدس نے فرمایا:.قل خوانی کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے.صدقہ، دعا اور استغفار میت کو پہنچتے ہیں.“ ملفوظات جلد سوم ص 605

Page 442

پھر فرمایا:.424 ہمیں تعجب ہے کہ یہ لوگ ایسی باتوں پر امید کیسے باندھ لیتے ہیں.دین تو ہم کو نبی کریم ﷺ سے ملا ہے.اس میں ان باتوں کا نام تک نہیں.صحابہ کرام " بھی فوت ہوئے کیا کسی کے قل پڑھے گئے.صدہا سال کے بعد اور بدعتوں کی طرح یہ بھی ایک بدعت نکل آئی ہوئی ہے.ملفوظات جلد سوم صفحہ 605 ایک شخص نے اسی مجلس میں آپ سے یہ سوال کیا کہ میت کے لئے فاتحہ خوانی کے لئے جو بیٹھتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں؟ حضور نے جواب میں فرمایا: " یہ درست نہیں ہے.بدعت ہے.آنحضرت ﷺ سے یہ ثابت نہیں کہ اس طرح صف بچھا کر بیٹھتے اور فاتحہ خوانی کرتے تھے.“ فاتحہ خوانی کے متعلق مزید فرمایا:.ملفوظات جلد سوم صفحه 606 " نہ حدیث میں اس کا ذکر ہے نہ قرآن شریف میں نہ سنت میں ملفوظات جلد پنجم صفحہ 16 11 فروری 1906ء حضرت اقدس کی مجلس میں ایک شخص نے سوال کیا کہ میت کے ساتھ جولوگ روٹیاں پکا کریا اور کوئی شے لے کر با ہر قبرستان میں لے جاتے ہیں اور میت کو دفن کرنے کے بعد مساکین میں تقسیم کرتے ہیں اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا: ” سب باتیں نیت پر موقوف ہیں اگر یہ نیت ہو کہ اس جگہ مساکین جمع ہو جایا کرتے ہیں اور مردے کو صدقہ پہنچ سکتا ہے ادھر وہ دفن ہوا دھر مساکین کو صدقہ دے دیا جاوے تا کہ اس کے حق میں مفید ہو اور وہ بخشا جاوے تو یہ ایک عمدہ بات ہے لیکن اگر صرف رسم کے طور پر یہ کام کیا جاوے تو جائز نہیں ہے 66 کیونکہ اس کا ثواب نہ مردے کے لئے اور نہ دینے والوں کے واسطے اس میں کچھ فائدے کی بات ہے.“ ملفوظات جلد پنجم صفحه 6 فرمایا: ایک شخص نے سوال کیا کہ کسی شخص کے مرجانے پر جو اسقاط کرتے ہیں اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ بالکل بدعت ہے اور ہرگز اس کے واسطے کوئی ثبوت سنت اور حدیث سے ظاہر نہیں ہو سکتا.“ ملفوظات جلد پنجم صفحه 7 ایک شخص نے دریافت کیا کہ مردے کو کھانے کا ثواب پہنچتا ہے یا نہیں؟

Page 443

425 حضرت اقدس نے فرمایا:.طعام کا ثواب پہنچتا ہے بشرطیکہ حلال کا طعام ہو.ملفوظات جلد پنجم ص 345 پھر فرمایا:.قرآن شریف جس طرز سے حلقہ باندھ کر پڑھتے ہیں یہ تو سنت سے ثابت نہیں ملاں لوگوں نے اپنی آمدن کے لئے یہ رسمیں جاری کر دی ہیں.ہاں اگر خدا تعالیٰ چاہے تو مردہ کے حق میں دعا بھی قبول ہو جاتی ہے.لیکن یاد رکھو کہ اپنے ہاتھ سے ایک پیسہ دینا بھی بہتر ہوتا ہے.یہ نسبت اس کے کہ کوئی دوسرا آدمی اس کے عوض میں بہت سا مال خرچ کر دے.ملفوظات جلد پنجم صفحہ 345 پھر ایک بار حضرت اقدس کی مجلس میں سوال پیش ہوا کہ کسی کے مرنے کے بعد چند روز لوگ ایک جگہ جمع ہوتے اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں فاتحہ خوانی ایک دعا مغفرت ہے.پس اس میں کیا مضائقہ ہے؟ حضرت اقدس نے فرمایا:.ہم تو دیکھتے ہیں وہاں سوائے غیبت اور بے ہودہ بکو اس کے اور کچھ نہیں ہوتا.پھر یہ سوال ہے کہ آیا نبی کریم ﷺ یا صحابہ کرام دائمہ عظام میں سے کسی نے یوں کیا ؟ جب نہیں کیا تو کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ بدعات کا دروازہ کھولنے کی؟ ہمارامذہب تو یہی ہے کہ اس رسم کی کچھ ضرورت نہیں نا جائز ہے جو جنازہ میں شامل نہ ہوسکیں وہ اپنے طور سے دعا کریں یا جنازہ غائب پڑھ دیں.“ ملفوظات جلد پنجم صفحہ 214,213 موت ہرانسان کے ساتھ لگی ہوتی ہے اس مرحلہ پر بھی جاری کوشش ہونی چاہئے کہ وہی نمونہ دکھا ئیں جو آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام دکھاتے رہے اور جو اس زمانہ میں حضرت اقدس اور آپ کے خلفاء نے دکھایا کوئی فعل ایسا نہ ہو جو آنحضرت ﷺ کی سنت اور قرآن مجید کے احکام کے خلاف ہو اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.بچه کی پیدائش کے ساتھ وابستہ رسوم:.بچہ کی پیدائش پر شریعت کا تو یہ حکم ہے کہ بچہ کے کان میں اذان دو.ساتویں دن عقیقہ کرواؤ.بال کٹواؤ.لڑکا ہے تو ختنہ کرواؤ اور بکرا ذبح کرو گوشت خود کھاؤ دوستوں کو کھلاؤ اور غرباء میں تقسیم کرو تا کہ وہ بھی تمہاری خوشی میں شامل ہوں لیکن اس کے برعکس ابھی تک غیر احمدیوں کی طرح بعض احمدی گھرانوں

Page 444

426 میں بھی ختنوں کے موقعہ پر باقاعدہ تقریب کی جاتی ہے دعوت ہوتی ہے عزیز اور اقرباء ا کٹھے ہوتے ہیں اور اسراف ہوتا ہے حالانکہ یہ صریحاً بدعت ہے اس کا جواز اسلامی تاریخ اور سنت سے کہیں نہیں ملتا.بسم اللہ کی رسوم : بچوں کے سلسلہ میں ایک رسم اور کی جاتی ہے اور وہ ہے بسم اللہ کی تقریب.ہر مسلمان کے لئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کی طرف توجہ دے.در حقیقت تو جس دن بچہ پیدا ہوتا ہے اذان دینے سے ہی اس کی تربیت شروع ہو جاتی ہے تاہم جب پڑھنے کے لائق ہو تو اس کی تعلیم کا انتظام کیا جائے سب سے مقدم یہ ہے کہ پہلے قرآن مجید پڑھایا جائے بعض لوگ بچے خواہ بعد میں پڑھیں یا نہ پڑھیں لیکن چار یا ساڑھے چار سال کی عمر میں با قاعدہ بچہ کی بسم اللہ کی تقریب منعقد کرتے ہیں اور اسراف سے کام لیتے ہیں.ایک شخص نے بذریعہ تحریر حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ ہمارے ہاں رسم ہے کہ جب بچہ کو بسم اللہ کرائی جائے تو بچہ کوتعلیم دینے والے مولوی کو ایک عد د ختی چاندی یا سونے کی اور قلم و دوات چاندی یا سونے کی دی جاتی ہے اگر چہ میں ایک غریب آدمی ہوں مگر چاہتا ہوں کہ یہ اشیاء اپنے بچہ کی بسم اللہ پر آپ کی خدمت میں ارسال کروں.حضرت اقدس نے جواب میں فرمایا :.سختی اور قلم و دوات سونے یا چاندی کی دینا یہ سب بدعتیں ہیں ان سے پر ہیز کرنا چاہئے اور باوجود غربت کے اور کم جائیداد ہونے کے اس قد را سراف اختیار کرنا سخت گناہ ہے.“ ملفوظات جلد پنجم صفحہ 265 ایک اور رسم جو انگریزوں کی تقلید میں اب ہمارے ملک میں جاری ہوگئی ہے وہ ہے سالگرہ کی رسم یعنی بچہ کی پیدائش کا دن ہر سال منانا اور اس پر دعوت پارٹی دینی یہ سب فضولیات ہیں جن سے گریز کرنا چاہئے.بے شک آنحضرت ﷺ نے فرمایا خُذْ مَا صَفَا وَدَعْ مَا كَدَرَ اگر اچھی پاک صاف بات کسی قوم میں بھی نظر آئے تو اسے اختیار کرو.لیکن بُری بات اپنی قوم میں بھی ہو تو چھوڑ دو.سالگرہ کی رسم ما صفا کے تحت نہیں آتی.یہ تو نقل ہے مغربی تہذیب کی.فائدہ اس کا کچھ نہیں وہی مال جو انسان غریبوں کی مدد کے لئے یا اشاعت اسلام کے لئے خرچ کر سکتا تھا وہ ایک دن کی تقریب میں خرچ کر دیتا ہے.اس کی بجائے اگر ماں باپ اپنے بچے کے ایک اور سال خیریت سے گزرنے پر اللہ تعالیٰ

Page 445

427 کے شکر گزار بندے اپنے آپ کو ثابت کرنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے غریب اور ضرورت مند بندوں کے کپڑوں تعلیم اور علاج پر خرچ کریں تا قوم کو فائدہ ہو اور اللہ تعالیٰ خوش ہو.آمین کی تقریب :.احمدی گھرانوں میں ایک اور تقریب منائی جاتی ہے جس کو آمین کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ بچہ کے قرآن مجید ختم کرنے کی خوشی میں کوئی تقریب بغرض دعا منعقد کی جائے تا بچہ کو یہ احساس ہو کہ میرا پہلا فرض قرآن مجید ختم کرنا تھا.الحمد للہ کہ میں نے ختم کر لیا اور دوسرے بچے جو شامل ہوں ان کو تحریک ہو جائے کہ ہم بھی جلدی جلدی پڑھیں.ہمارے لئے اصل جواز اس کام میں ہے جو حضرت مسیح موعود آخر الزمان نے کیا اور جس کا نمونہ پیش فرمایا حضور نے اپنے بچوں کی آمین کی اس لئے ہمارے لئے بھی یہ فعل جائز ہے لیکن اس کو بھی رسم نہیں بنانا چاہئے کہ ضرور ہی کیا جائے.اصل غرض دعا ہے اگر اس تقریب میں بھی اسراف سے کام لیا جانے لگ جائے تو یہ تقریب بھی نا پسندیدہ امر بن جائے گی.ہاں سادگی سے دعا کی غرض سے تقریب منعقد کی جائے تو اچھی اور پسندیدہ بات ہے.نومبر 1901ء میں جب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی آمین ہوئی اس وقت جیسا کہ حضرت اقدس کا معمول تھا کہ خدا تعالیٰ کے انعام و عطایا پر شکریہ کے طور پر صدقات دیتے تھے آپ نے دعوت دی اس پر حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے ایک سوال کیا کہ حضور یہ جو آمین ہوئی ہے یہ کوئی رسم ہے یا کیا ہے؟ اس کے جواب میں حضور نے جو کچھ فرمایا وہ بہت سے شبہات کا ازالہ کرتا ہے اور ہر کام کرتے وقت ہماری راہ نمائی کرتا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا:.” جو امر یہاں پیدا ہوتا ہے اس پر اگر غور کیا جاوے اور نیک نیتی اور تقویٰ کے پہلوؤں کو ملحوظ رکھ کر سوچا جاوے تو اس سے ایک علم پیدا ہوتا ہے میں اس کو آپ کی صفائی قلب اور نیک نیتی کا نشان سمجھتا ہوں کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے اس کو پوچھ لیتے ہیں.ملفوظات جلد دوم صفحه 385 آپ نے فرمایا:.دو بخاری کی پہلی حدیث یہ ہے کہ اِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ اعمال نیت ہی پر منحصر ہیں صحت نیست کے ساتھ کوئی جرم بھی جرم نہیں رہتا.قانون کو دیکھو اس میں بھی نیت کو ضروری سمجھا ہے.مثلاً ایک باپ

Page 446

428 اگر اپنے بچے کو تنبیہ کرتا ہو کہ تو مدرسہ جا کر پڑھ اور اتفاق سے کسی ایسی جگہ چوٹ لگ جاوے کہ بچہ مر جاوے تو دیکھا جاوے گا کہ یہ قتل عم مستلزم سز انہیں ٹھہر سکتا کیونکہ اس کی نیت بچے کو قتل کرنے کی نہ تھی تو ہر ایک کام میں نیت پر بہت بڑا انحصار ہے.اسلام میں یہ مسئلہ بہت سے امور کوحل کر دیتا ہے.پس اگر نیک نیتی کے ساتھ محض خدا کے لئے کوئی کام کیا جاوے اور دنیا داروں کی نظر میں وہ کچھ ہی ہو تو اس کی پر واہ ملفوظات جلد دوم صفحه 386 نہیں کرنی چاہئے.“ پھر آپ نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے جو کچھ قرآن شریف میں بیان فرمایا ہے وہ بالکل واضح اور بین ہے اور پھر رسول اللہ کے نے اپنے عمل سے کر کے دکھا دیا ہے.آپ ﷺ کی زندگی کامل نمونہ ہے لیکن باوجود اس کے ایک حصہ اجتہاد کا بھی ہے جہاں انسان واضح طور پر قرآن شریف یا سنت رسول اللہ علیہ وسلم میں اپنی کمزوری کی وجہ سے کوئی بات نہ پا سکے تو اس کو اجتہاد سے کام لینا چاہئے مثلاً شادیوں میں جو بھاجی دی جاتی ہے اگر اس کی غرض صرف یہی ہے کہ تا دوسروں پر اپنی شیخی اور بڑائی کا اظہار کیا جاوے تو یہ ریاء کاری اور تکبیر کے لئے ہوگی اس لئے حرام ہے.لیکن اگر کوئی شخص محض اسی نیت سے کہ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِتْ (الضُّحَى : 12) کا عملی اظہار کرے اور مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره: (4) پر عمل کرنے کے لئے دوسرے لوگوں سے سلوک کرنے کے لئے دے تو یہ حرام نہیں.پس جب کوئی شخص اس نیت سے تقریب پیدا کرتا ہے اور اس میں معاوضہ محوظ نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا غرض ہوتی ہے تو پھر وہ ایک سو نہیں خواہ ایک لا کھ کو کھانا دے منع نہیں.اصل مدعا نیت پر ہے نیت اگر خراب اور فاسد ہو تو ایک جائز اور حلال فعل کو بھی حرام بنادیتی ہے ایک قصہ مشہور ہے ایک بزرگ نے دعوت کی اور اس نے چالیس چراغ روشن کئے بعض آدمیوں نے کہا کہ اس قدر اسراف نہیں کرنا چاہئے اس نے کہا کہ جو چراغ میں نے ریا کاری سے روشن کیا ہے اسے بجھا دو کوشش کی گئی ایک بھی نہ بجھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی فعل ہوتا ہے اور دو آدمی اس کو کرتے ہیں ایک اس فعل کو کرنے میں مرتکب معاصی کا ہوتا ہے اور دوسرا ثواب کا اور یہ فرق نیتوں کے اختلاف سے پیدا ہو جاتا ہے.اسی طرح پر میں ہمیشہ اسی فکر میں رہتا ہوں اور سوچتا رہتا ہوں کہ کوئی راہ ایسی نکلے جس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا اظہار ہو اور لوگوں کو اس پر ایمان پیدا ہو.ایسا ایمان جو گناہ سے بچاتا ہے اور نیکیوں کے قریب کرتا ہے میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے مجھ پر لا انتہاء فضل اور انعام ہیں ان کی

Page 447

429 تحدیث مجھ پر فرض ہے پس میں جب کوئی کام کرتا ہوں تو میری غرض اور نیت اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہار ہوتی ہے ایسا ہی اس آمین کی تقریب پر بھی ہوا ہے...اس وقت جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی کلام کو پڑھ لیا تو مجھے کہا گیا اس تقریب پر میں چند دعائیہ شعر جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا شکریہ بھی ہولکھ دوں میں جیسا کہ ابھی کہا ہے کہ اصلاح کی فکر میں رہتا ہوں میں نے اس تقریب کو بہت ہی مبارک سمجھا اور میں نے مناسب جانا کہ اس طرح پر تبلیغ کردوں.“ ملفوظات جلد دوم صفحہ 389 390 ) یہ رسمیں کیسے بنتی ہیں؟ کیوں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے محض نمائش اور دکھاوا اور اس بات کے اظہار کے لئے کہ ایک نے شادی یا کسی اور تقریب پر پانچ ہزار خرچ کئے تو دوسرا نخریہ یہ کہتا ہے میں نے دس ہزار کئے محض نمائش.دکھاو یا برادری میں اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے.حالانکہ مومن کی زندگی کا مقصد دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہوتا ہے اور یہی مقصد ہر احمدی عورت اور مرد کا ہونا چاہئے اور ہر کام کرنے کی نیت محض رضائے الہی اور اطاعت رسول ﷺ ہونی چاہئے.دنیا کو دین پر مقدم رکھنے والوں کے انجام کی طرف قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے یوں توجہ دلائی ہے فرمایا فَأَمَّا مَنْ طَغَى وَاثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيا فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأوى (النازعات : 38) یعنی جس شخص نے احکام الہی سے سرکشی اختیار کی اور دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دی.یقینا جہنم ہی اس کا ٹھکانہ ہے.لیکن اس کے برعکس فرماتا ہے اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأوى - النزعت 41 42) جس نے اپنے رب کی شان سے خوف کیا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا اور خدا تعالیٰ کی خاطر برادری کے تعلقات کی پرواہ نہ کی یقیناً جنت اس کا ٹھکانہ ہے.اسی چیز کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.خدا تعالیٰ کے احکام میں ایک حصہ نواہی کا ہے یعنی بعض باتیں ایسی ہیں جن سے وہ روکتا ہے مثلاً دنیوی رسم و رواج ہیں جن کی وجہ سے بعض لوگ اپنی استطاعت سے زیادہ بچوں کی بیاہ شادی پر خرچ کر دیتے ہیں حالانکہ وہ اسراف ہے جس سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے رسم و رواج کو پورا کرنے کے لئے خرچ نہ کیا تو ہمارے رشتہ داروں میں ہماری ناک کٹ جائے گی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری خاطر رسم و رواج کو چھوڑ کر اپنی ناک کٹواؤ تب تمہیں میری طرف سے عزت کی ناک عطا کی جائے گی" خطبات ناصر جلد اوّل صفحہ 216 اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے متعلق جو اللہ تعالیٰ کے تعلقات پر دنیا کے تعلقات کو ترجیح دیتے ہیں فرماتا ہے

Page 448

430 سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرُطُومِ (القلم: 17) اس دنیا میں انہوں نے اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکام کی پرواہ نہ کی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قیامت کے دن ہم ان اونچی ناکوں کو داغ لگائیں گے.عهد بیعت هم سے کیا تقاضا کرتا ہے : حضرت اقدس نے اپنی بعثت کی ایک غرض یہ بتائی ہے کہ آپ کی بیعت کے ذریعہ ایک گروہ متقیوں کا پیدا ہو جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والا ہو.اگر ہم حضور اور آپ کے خلفاء کی کامل اطاعت کر کے اپنے آپ کو اس تقوی شعار لوگوں کی جماعت میں شامل کرتے ہیں تو یقیناً ہم اپنے عہد بیعت کو پورا کرنے والے ہیں کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور مال اور اپنی عزت اور اپنی اولا د اور اپنے ہر ایک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.حضور فرماتے ہیں:.وو یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین یعنی تقوی شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لئے ہے تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت و نتایج خیر کا موجب ہو.اور وہ برکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آسکیں اور ایک کاہل اور بخیل و بے مصرف مسلمان نہ ہوں اور نہ ان نالائق لوگوں کی طرح جنہوں نے اپنے تفرقہ و نا اتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور اس کے خوبصورت چہرہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگا دیا ہے بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوشش اس بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الہی اور ہمدردی بندگان خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آ وے.خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ محض اپنے فضل اور کرامت خاص سے اس عاجز کی دعاؤں اور اس ناچیز کی توجہ کو ان کی پاک استعدادوں کے ظہور و بروز کا وسیلہ ٹھہر اوے اور اس قدوس جلیل الذات نے مجھے جوش بخشا ہے تا میں ان طالبوں کی تربیت باطنی میں مصروف ہو جاؤں اور ان کی آلودگی کے ازالہ کے لئے رات دن کوشش کرتا رہوں اور ان کے لئے وہ نور مانگوں جس سے انسان نفس اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے اور بالطبع خدا تعالیٰ کی راہوں سے محبت کرنے لگتا ہے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان کے لئے کہ جو داخل سلسلہ ہو کر صبر سے منتظر رہیں گے ایسا ہی ہوگا.“ روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام صفحہ 562561

Page 449

431 حضرت اقدس کی بعثت کی غرض احیاء شریعت اور ایک نئی زمین اور نئے آسمان کا قائم کرنا تھا.وہ نیا آسمان اور نئی زمین تبھی تعمیر ہو سکتے ہیں جب پرانی زمین اور پرانے آسمان سے منہ موڑتے ہوئے موجودہ تہذیب کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ہم اس تہذیب کو اپنا ئیں جو محمد رسول اللہ ﷺ کی قائم کردہ ہے اور حقیقی تقویٰ پر قائم ہوں.ہم قربانی دیں جذبات کی ، قربانی دیں دیرینہ عادات کی قربانی دیں اپنی برادری کی روایات کی تا دنیا کی محبت دل سے نکل جائے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر تلخی کی زندگی کو قبول کریں.جیسا کہ خود حضرت اقدس بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ فرماتے ہیں:.تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو کبر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو اس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو اس یار کے لئے رہ عشرت کو چھوڑ دو راه سو لعنت کو چھوڑ دو ہے یہ لعنت کی رو ورنہ خیال حضرت عزت کو چھوڑ تلخی کی زندگی کو کرو صدق سے قبول ہو ملائکہ عرش کا نزول تا تم اسلام چیز کیا ہے؟ خدا کے لئے فنا ترک رضائے خویش پئے مرضی خدا حضرت مصلح موعود نے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے نکاحوں کا اعلان فرماتے ہوئے خطبہ میں فرمایا تھا دنیا اسلام اور اس کی تعلیم سے بہت دور چلی گئی ہے آج نادان لوگ اسلام اور اسکی تعلیم پر ہنستے ہیں اور اس زمانہ میں حضرت اقدس) نے یہ آواز بلند کی ہے کہ اس تعلیم کے ساتھ دنیا کی نجات وابستہ ہے اور ہمارا فرض ہے کہ آپ کے ارشاد کے مطابق اسلام کی تعلیم کو دنیا میں قائم کریں.تمام رواج اور تمدنی پابندیوں کو ترک کر دیں تا وہ اسلامی فضا جو حضرت اقدس.ناقل ) دنیا میں قائم کرنا چاہتے تھے قائم......

Page 450

432 ہو جائے.یادرکھو کہ مغربی تہذیب و تمدن اور فیشن ہرگز باقی نہیں رہیں گے بلکہ مٹادیئے جائیں گے اور ان کی جگہ دنیا میں اسلامی تمدن قائم ہو گا.وہ آگ جو اس بارہ میں میرے دل میں ہے وہ جس دن بھڑکے گی خواہ وہ میری زندگی میں بھڑ کے یا میرے بعد بہر حال جب بھی بھڑ کے گی دنیا کو بھسم کر دے گی.اس کا اندازہ یا میں کرسکتا ہوں یا میرا خدا اور وہ بلا وجہ نہیں.اگر وہ میرے دل میں اتنی شدید ہے تو حضرت..(اقدس) کے دل میں اور پھر آنحضرت ﷺ کے دل میں کتنی ہوگی.خدا تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اپنی محبت کی آگ دیتا ہے وہ بھی ایک دوزخ میں جل رہے ہوتے ہیں مگر وہ دراصل حقیقی جنت ہوتی ہے.خوب یا درکھو کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اسلام کے رستہ میں کھڑی ہونے والی چیزیں قائم رہ سکیں وہ یقیناً تباہ و بر باد ہوں گی اور ان کو اختیار کرنے والے بھی تباہ و برباد ہوں گے.خطبات محمود جلد 3 صفحہ 488 ہم روزانہ کئی کئی بار نماز میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (فاتحہ: 6) اے اللہ ہمیں سیدھے راستہ پر چلائیو.ایسا راستہ جو سیدھا تجھ تک جاتا ہو.یہ راستہ اور ہدایت متقیوں کو ہی نصیب ہوسکتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری کرنی چاہئے اور اپنی مرضی کو خدا تعالیٰ کی مرضی کے لئے چھوڑ دینا چاہئے اور اپنے پر فتاوار د کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا نصیب ہو اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق عطا فرمائے آمین احمدی مستورات کا فرض :- پس ہم جنہوں نے حضرت مسیح موعود امام آخر الزمان اور آپ کے خلفاء کے ہاتھ پر بیعت کی ہے.ہمیں آپ کے اس ارشاد کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا چاہئے کہ ہر قسم کی رسوم اور ہوا و ہوس کو چھوڑ کر خالص اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی زندگیاں گزاریں.ایک پاک تبدیلی ہمارے نفوس میں پیدا ہو اور اس کی روشنی ہر طرف پھیلے.ہم نمونہ بنیں اسلامی برکات کا اور ان لوگوں میں شامل ہوں جن کو قبولیت اور نصرت دی جاتی ہے.جنہ اماءاللہ کی تمام مرات اور تمام احمدی مستورات کا فرض ہے کہ وہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع یہ والاتقان کی تمام ہدایات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ترک رسومات کی تحریک کو پورے زور وشور سے جاری کریں رسومات کا پھر سے جماعت میں پیدا ہونا بھی عورتوں کی وجہ سے ہے ان میں اپنی جہالت، کم عقلی اور قرآن مجید کی تعلیم سے لاعلمی کے باعث اور رشتہ داروں اور برادری سے مقابلہ نہ کر سکنے کی ہمت اور جرات نہ

Page 451

433 ہونے کی وجہ سے وہ رسومات پھر سے پھیلنی شروع ہو گئی ہیں جو جماعت کے ابتدائی ماننے والوں نے حضور کی مقدس صحبت میں ترک کر دی تھیں.میری بہنو! اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک قربانی مانگتا ہے اور سب سے بڑی قربانی یہی ہے کہ اپنی خواہشات اور جذبات کی گردن پر چھری پھیرتے ہوئے ہماری زندگیاں رسومات اور تکلفات سے پاک ہو کر محض اللہ تعالیٰ کی خاطر ہو جائیں تا وقتیکہ ہمارا نصب العین ہمیں حاصل ہو جائے.اے اللہ تو ایسا ہی کر.( رسومات کے متعلق اسلامی تعلیم شائع کردہ لجنہ اماءاللہ پاکستان)

Page 452

434 مسجد نصرت جہاں کو پن بھیگن کے افتتاح کے موقع پر ربوہ میں احمدی مستورات کے جلسہ میں حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی اہم تقریر مؤرخہ 21 جولائی 1967ء بروز جمعتہ المبارک جبکہ مسجد کو پن بیکن کا افتتاح ہورہا تھا مستورات کا جلسہ لجنہ ماء اللہ کے ہال میں اجتماعی دعا کی غرض سے منعقد ہوا.بسم الله الرحمن الرحيم اعوذ بالله من الشيطن الرجيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود إِنَّ أَوّلَ بيتٍ وُضِعَ ِللنَّاسِ لَلَّذِى بَبِكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَلَمِيْن.(آل عمران:97) اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ سب سے پہلا گھر جو تمام لوگوں کے فائدہ کے لئے بنایا گیا تھا وہ ہے جو مکہ میں ہے وہ تمام جہانوں کے لئے برکت والا مقام اور موجب ہدایت ہے.اس آیت میں مسجد کو گھر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے.خانہ کعبہ سب سے پہلی مسجد یا اللہ تعالیٰ کا گھر تھا اور دنیا میں جس قدر مساجد بنائی گئی ہیں یا بنائی جائیں گئی وہ سب اس مسجد کے ظل کے طور پر ہوں گی اور انہیں اغراض کو پورا کرنے کے لئے بنائی جائیں گی.جو بیت اللہ کی تعمیر کے مد نظر تھیں اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کی تین بڑی غرضیں تھیں باقی سب غرضیں انہی تین غرضوں کے ارد گرد گھومتی ہیں.پہلی غرض : ان اوّل بیت وُضِعَ للنَّاسِ کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے کہ خدا کا گھر سب کے لئے ہے اس میں داخلہ کی کوئی شرط نہیں بادشاہ ہو یا گدا امیر ہو یا فقیر بوڑھا ہویا بچہ مرد ہو یا عورت سب کی عبادت کے لئے مسجد تعمیر کی جاتی ہے.گویا دوسرے الفاظ میں مسجد کا قیام ایک عظیم الشان برادری کے قیام کے لئے ایک ایسے معاشرہ اور تمدن کے قائم کرنے کے لئے ہوتا ہے جس میں مساوات ہو.جہاں کوئی اس لئے بڑا نہ ہو کہ اس کے پاس روپیہ زیادہ ہے جہاں کوئی اس لئے بڑا نہ ہو کہ وہ علم والا ہے.جہاں کوئی اس لئے بڑا نہ سمجھا جائے کہ وہ کوئی بڑا عہدہ دار ہے.بلکہ وہاں بڑائی کا معیار اللہ تعالیٰ کے ارشاد

Page 453

435 اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتْقَاكُمُ (الحجرات: (14) کے مطابق ہو کہ سب برابر ہیں.اگر کوئی قابل احترام تعظیم ہے تو وہ جو تم میں سے زیادہ متقی ہے.بیت اللہ کے قیام کی اس غرض کو آنحضرت ﷺ کی بعثت نے پورا کیا آپ نے اعلان فرما دیا.اِنِّی رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمُ جَمِيعًا.میں کسی خاص قوم کے لئے نہیں آیا جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا تھا کہ میں بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کے لئے آیا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل جتنے انبیاء آئے سب اپنی اپنی قوموں اور اپنے اپنے ملکوں کے لئے تھے.یہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک ہے جس نے اعلان فرمایا کہ میں ساری دنیا کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں.شمال کے رہنے والوں کے لئے بھی جنوب کے رہنے والوں کے لئے بھی مشرق کے رہنے والوں کے بھی اور مغرب کے رہنے والوں کے لئے بھی.آپ کی بعثت کے بعد اب ساری دنیا کی نجات آپ کے ساتھ وابستہ ہونے میں ہے اور آپ کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں داخل ہونے کے ساتھ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل کامل ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تمام انبیاء کا بر وز بنا کر بھیجا ہے جیسا کہ اس نے آپ کو اپنے الہام میں فرمایا جَرِى اللهِ فِى حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ اس لئے آپ بھی ساری دنیا اور دنیا کے ہر انسان کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں اور ہر انسان تک اسلام کا پیغام پہنچانا آپ کی جماعت کا فرض ہے.ہماری غرض مساجد کی تعمیر سے بھی اسی وقت پوری ہو سکتی ہے جبکہ ہماری جماعت کے ذریعہ کامل مساوات قائم ہو.ہر شخص دوسرے کے حقوق کا خیال رکھے.کوئی شخص کسی دوسرے کو دُکھ نہ پہنچائے.سب ایک دوسرے کو اپنے جیسا سمجھیں.کوئی کسی کو حقارت سے نہ دیکھے.کوئی ایک دوسرے سے اپنے آپ کو بڑا نہ سمجھے.معاشرہ میں مکمل امن ہو.غیبت پھلی دُکھ پہنچانے سے باز رہا جائے.اگر ایسا معاشرہ قائم ہو جائے تو مساجد کی تعمیر کی غرض پوری ہو جاتی ہے.آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کے ذریعہ یہ غرض پوری ہوئی اور اخوت کی بنیادوں پر ایک عالمگیر برادری کی بنیاد ڈالی گئی.غلامی مٹادی گئی.تمام لوگوں کا ایک دوسرے سے یکساں سلوک تھا.عورتوں کا احترام تھا.غرباء سے حُسن سلوک تھا.لوگ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر غرباء کی تکالیف کو دور کرتے تھے.کوئی دوسرے مسلمان کو تکلیف نہ دیتا تھا.نہ ہاتھ سے نہ زبان سے

Page 454

436 پھر مسلمانوں پر اسلامی تعلیم اور مساجد کی تعمیر کی غرض کو بھلا دینے کی وجہ سے زوال آیا.مسجد میں تو بڑی شاندار تعمیر کیں مگر ان میں نماز پڑھنے والے لوگ نہ رہے.ان میں کوئی امامت باقی نہ رہی.کسی کا دل چاہا پڑھ لی دل چاہانہ پڑھی.حالانکہ قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق نماز با جماعت مردوں پر فرض ہے.نماز نہیں باجماعت نماز مسجد میں جا کر پڑھنے کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ ایک محلہ کے سب لوگ نماز کے لئے پانچ وقت مسجد میں اکٹھے ہوں گے.پانچ دفعہ وہ ایک دوسرے سے ملیں گے.کندھے سے کندھا جوڑ کر کھڑے ہوں گے.ان میں آپس میں ایک دوسرے سے محبت پیدا ہوگی.اخوت کا سبق ملے گا پانچ دفعہ دن میں وہ امام کی آواز پر کبھی کھڑے ہوں گے.کبھی بیٹھیں گے کبھی رکوع کریں گے.اور کبھی سجدہ میں گریں گے.اس طرح ان کو اطاعت کرنے کی تربیت حاصل ہوگی.جس کو وہ مسجد میں نہ دیکھیں گے قدرتی خیال ہو گا کہ آج نماز سے غیر حاضر رہنے والا بیمار نہ ہو کسی مصیبت میں نہ پھنس گیا ہو.وہ فوراًنماز کے بعد اس کا حال پستہ کرنے کی کوشش کریں گے.اگر واقعی وہ بیمار یا کسی اور تکلیف میں مبتلا ہوا تو اس کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کریں گے.یہ جذبہ مساوات واخوت چودہ سو سال قبل مسلمانوں میں پیدا ہو گیا تھا.ان سب کے دلوں کی تاریں ایک دوسرے سے ملتی تھیں یا بالفاظ دیگر ان سب کے جسموں میں ایک ہی دل دھڑکتا تھا.وہ ایک کنگھی کے دانوں کی طرح تھے.لیکن جب نماز با جماعت میں مسلمانوں نے آنا چھوڑا نہ خلافت باقی رہی نہ اخوت باقی رہی اور نہ وہ عظیم الشان مساوات جس کی دشمن بھی قسم کھاتا تھا.اے احمد یہ جماعت کی خواتین! پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے ذریعہ اس نئے آسمان اور نئی زمین کی بنیادیں ڈالی جاری ہیں.جس کے قیام کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کی تھی.آپ نے مسجد میں تو تعمیر کر لی ہیں لیکن مسجدوں کے آبادرکھنے کا انتظام بھی آپ نے کرنا ہے.مسجدوں کے لئے نمازی آپ کی گودوں میں پل کر جوان ہونے ہیں.یہ ماں کا وجود ہی ہے کہ خواہ وہ اپنے بچوں کو نمازی بنادے یا شیطان.مساجد کے صرف چندے دے کر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ ہم نے زیور پیش کر دیئے یا بڑی رقوم ادا کر دیں.بے شک یہ بھی بڑا بھاری ثواب ہے.اگر محض اللہ کیا گیا ہو لیکن اگر مساجد تعمیر ہو جائیں اور ان میں نمازیں پڑھنے والا کوئی نہ ہو تو کیا فائدہ

Page 455

437 ان مساجد کا.اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو خیر امت کہا ہے جیسا کہ فرمایا :.كنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (ال عمران : 111) یہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امت محمدیہ کے ذمہ کسی ایک یادو شخص کی اصلاح کا کام نہیں ساری دنیا تک پیغام صداقت پہنچانا ہمارا کام ہے.مردوں کا بھی اور عورتوں کا بھی پھر یہ نہیں فرمایا کہ تمہارا کام صرف نیکی کی تلقین یا نصیحت کرنا ہے.تامُرُونَ کے الفاظ آئے ہیں جس کے معنی حکم کے ذریعہ کروانے کے ہیں.یعنی نیکی زبر دستی کروانی ہے.مجبور کرنا ہے نیکیاں کرنے کے لئے اور بدیاں چھوڑ دینے پر تا معاشرہ کے تمام افراد نیکی کے ایک زینہ پر اکٹھے ہو جائیں جب تک قوم نیکیوں کے لحاظ سے ایک سطح پر نہیں آجاتی.قوم ترقی نہیں کر سکتی یہ نہیں کہ دو چار نمازی اور تہجد گزار ہیں چند روزے با قاعدہ رکھنے والیاں ہیں.کچھ چندوں میں اچھی ہیں.بعض اطاعت کے لحاظ سے قابلِ تعریف ہیں چند غرباء کا خیال رکھنے والیاں ہیں بلکہ ضروری ہے کہ قوم کی ہر عورت کا جذبہ اطاعت.جذبہ قربانی.جذبہ تبلیغ اور جذبہ عبادت یکساں ہو.جب قوم کے افراد کا یہ معیار ہو جاتا ہے تو پھر اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا.قوم اور معاشرہ میں مساوات پیدا کرنے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ آپس میں رشتہ کرتے وقت دینداری اور تقویٰ کو مد نظر رکھا جائے.یہ نہ سوچا جائے کہ لڑکی کو جہیز کتنا ملے گا.یاسرال والوں کے ہاں سے جوڑے دیں گے یا زیور.اسلام کی تعلیم اور مساجد یہ سبق دیتی ہیں کہ تم سب ایک ہو.رشتہ کرنے میں ذات پات.امیری غریبی کو نہیں دیکھنا چاہئے.صرف لڑکے اور لڑکی کی ذاتی نیکی.تقوی اور اخلاق کو دیکھنا چاہئے.میری بہنو! کیا یہ حقیقت نہیں کہ اپنے بچوں اور بچیوں کی دینی تعلیم اور تربیت میں ہم ہی روک ہیں.ہمیں اس کی تو فکر ہوتی ہے کہ بچے امتحانوں میں پاس ہو جائیں.بچہ اگر صبح کی نماز کے وقت نہیں اُٹھتا تو ماں کہتی ہے جگانا نہ !ارات بڑی دیر تک پڑھتا رہا ہے.حالانکہ ایک دیندار ماں کا فرض ہے کہ وہ کہے پاس ہو یا فیل نماز وقت پر پڑھنی ہے

Page 456

438 پھر ہماری مسجدوں کے آباد ہونے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم سلسلہ کو واقفین زندگی اور مبلغ دیں جو دنیا کے کونہ کونہ.قریہ قریہ، شہر شہر میں یہ منادی کرتے پھریں.جَاءَ الْمَسِيحُ جَاءَ الْمَسِيحُ یہ واقفین سلسلہ یہ مبلغین آسمان سے تو نہیں گریں گے آپ نے ان کو جنم دینا ہے.آپ نے ان کی پرورش کرنی ہے.آپ نے ان کی تربیت کرنی ہے.اور آپ نے ہی ان کو تیار کر کے سلسلہ کو پیش کرنے ہیں.کیا اسلام اور دجالیت کی آخری جنگ جس کی خبر حضرت نوح علیہ السلام سے اب تک انبیا دیتے چلے آرہے تھے.اس کے لئے ہمارے پاس کافی واقفین موجود ہیں جو اسلام کی حقانیت کو دوسرے مذاہب پر ثابت کر سکیں.جو پکار پکار کر دنیا کے ہر شہر والوں کو یہ بتاسکیں کہ اسلام ہی زندہ مذہب ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی زندہ نبی ہیں اور قرآن ہی زندہ کتاب ہے.آؤ اگر فلاح چاہتے ہو تو اسلام کو قبول کرو ہمارے پاس تو ابھی اتنے واقفین بھی نہیں جو دنیا کے ایک ایک ملک کے لئے بھی کافی ہوسکیں کجا کہ ایک ایک شہر کے لئے.یہ نمازی ، یہ واقفین ، یہ مبلغین اسلام آپ نے فراہم کرنے ہیں.اور جب تک ہماری ہر عورت اپنا کردار صحیح طور پر ادا نہیں کرتی اور ہر روح کو ضائع ہونے سے نہیں بچاتی وہ خدا تعالیٰ کے حضور گناہ گار ہے.میری عزیز بہوا اپنی ذمہ داریاں سمجھو خوش نہ ہو جاؤ کہ مسجدیں تعمیر کرنے میں ہمارا بڑا حصہ ہے وہ دن تمہارے لئے عید کی خوشی کا دن ہو گا جس دن یہ ساری مسجدیں اس طرح نمازیوں سے پُر ہوں کہ انہیں شہروں میں مزید مساجد کی ضرورت پیش آئے.پھر مسجد میں اکٹھے ہو کر اس کی صفائی اور پاکیزگی کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے یہی حال ہمارے معاشرہ کا ہو.ہمارے گھر ، ہمارے محلہ ہمارا شہر اس طرح صاف ستھرا اور پرکشش ہو جیسے مسجد کو رکھا جاتا ہے ظاہری صفائی کے لحاظ سے بھی اور باطنی صفائی کے لحاظ سے بھی.اس کے رہنے والے ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے والے ہوں.ایک دوسرے کی ضرورت کو سمجھنے والے ہوں کوئی بھوکا نہ رہے.کوئی نگا نہ رہے ہر ایک کو ضروری تعلیم میسر آئے ضروری علاج میسر آئے.کسی کی غیبت نہ ہو.چغلی نہ ہو بہتان نہ لگایا جائے.کسی کو دکھ نہ دیا جائے.دعوت کرو تو غرباء کو ضرور مدعو کر و.ہر تقریب میں امیر غریب سب شریک

Page 457

439 ہوں.یہ وہ نظام نو ہے جس کی بنیاد الوصیت کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈالی جس کی دیوار میں تحریک جدید کے ذریعہ حضرت مصلح موعود نے کھڑی کیں.جس کی مزید تعمیر حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی تحریکات کے ذریعہ فرمارہے ہیں.مبارک ہیں ہماری جماعت کی وہ بہنیں جو ان سب تحریکوں میں حصہ لے کر اس نظام نو میں ایک ایک اینٹ لگا ئیں گی.مساجد کے قیام کی دوسری غرض مبارکا کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کے گھر کا قیام مبارک ہوتا ہے.اس لئے کہ وہاں ذکر اٹھی کیا جاتا ہے.فضول اور گھریلوں باتوں سے اجتناب کیا جاتا ہے دنیوی کام مسجد میں سرانجام نہیں دیے جاتے وہاں خدا کا ذکر ہوتا ہے دعائیں ہوتی ہیں درود شریف پڑھا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی برکتیں اس مقام پر نازل ہوتی ہیں.پس میری بہنو! مساجد کے قیام کی غرض ہم اسی وقت پوری کرنے والی بن سکتی ہیں.جب ہماری جماعت کے ہر فرد کے ذریعہ ذکر الہی کا مقصد پورا ہو.اللہ تعالیٰ کے ذکر کا یہ مطلب نہیں کہ صرف زبان سے سبحان اللہ الحمد للہ اور اللہ اکبر کہ دیا جائے.بیشک زبان سے کہنا بھی ثواب ہے لیکن اس وقت جب دل بھی زبان کا ساتھ دے رہا ہو.حقیقی ذکر یہ ہے کہ اپنے طریق عمل اپنے نمونہ اپنی زندگیوں اور اپنی اولادوں کی تربیت سے دنیا پر ثابت کر دیا جائے کہ ہمارے جسموں کا رواں رواں ہمارے دن اور رات کی ہر گھڑی اور ہمارے معاشرہ کا ہر فرد اللہ تعالیٰ کی عظمت پر دلیل ہے اس کی حمد کے ترانے گا تا اور اس کی کبریائی کا اقرار کرتا ہے.منہ سے اللہ اکبر کہہ دینا اور اللہ تعالیٰ کے تعلقات پر دنیاوی تعلقات کو مقدم رکھنا ذکر الہی کے خلاف ہے حقیقی ذکر الہی کا قیام اس وقت ہو سکتا ہے.جب ہر شخص کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے اس طرح معمور ہو کہ وہ آگ میں پڑنا برداشت کرے.مگر خدا تعالیٰ کے کسی حکم کوتوڑنا اور اس کی نافرمانی اسے گوارہ نہ ہو.گھر میں بیٹھے ہوئے بھی ہم کو ذکر الہی میں مشغول رہنا چاہئے.اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے کھاتے پیتے ہماری زبانوں اور ہمارے دلوں میں خدا کا نام ہو.ہمارے ہر کام میں یہ مد نظر رہے کہ اس کام سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال بلند ہو.احادیث میں آتا ہے کہ صحابہ میں نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے اور آگے نکلنے کا بے حد شوق

Page 458

440 تھا.ایک دفعہ چند غرباء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ امراء کے پاس دولت ہے وہ اسلام کی خاطر چندے دیتے ہیں بڑی بڑی مالی قربانیاں کرتے ہیں ہمارے پاس کچھ نہیں ہم کیا کریں.آپ نے فرمایا تم تینتیس دفعہ سبحان اللہ تینتیس دفعہ الحمد للہ اور چونتیس دفعہ اللہ اکبر ہر نماز کے بعد پڑھا کرو.وہ صحابہ جو ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے کوئی بات نکلے اور ہم سب سے پہلے اس پر عمل کرنے والے ہوں.ان سب تک یہ بات پہنچ گئی.کیا غرباء اور کیا امراء سب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر عمل کرنا شروع کر دیا چند روز بعد وہ لوگ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ امراء نے بھی حضور کے اس ارشاد پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی نیکی کرنا چاہے تو میں اسے کیسے روک سکتا ہوں.( بخاری کتاب الاذان ) یہ وہ جذ بہ قربانی اور فاستبقو الخیرات کی روح تھی.جس نے صحابہ کو تھوڑے عرصہ میں دنیا کی حکومت عطا کر دی.اگر صحابہ کرام والی یہ روح آج ہم میں پیدا ہو جائے تو یقیناً ہم اپنے عمل اور قربانیوں کے نتیجہ میں مساجد کے قیام کی غرض کو پورا کرنے والی بن سکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمارے وجودوں کو بابرکت بنادے گا.اللہ تعالیٰ ہمارے گھروں کو بابرکت بنادے گا.اللہ تعالیٰ کی برکت ہمارے شہر پر نازل ہوگی.اس میں بسنے والا ہر شخص خدا تعالیٰ کی برکتوں کا حامل ہوگا.اور دنیا ان سے برکت حاصل کرے گی ایسے ہی گھروں اور ان گھروں میں رہنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فَيْهَا اسْمُهُ.يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ.رِجَالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلوةِ وَإِيتَاءِ الزَّكُوةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ.( سورة النور : 38.37) اللہ تعالیٰ کا یہ نور کچھ ایسے گھروں میں ہے جن کے اونچا کیے جانے کا خدا نے حکم دے دیا ہے.اور ان میں خدا کا نام لیا جاتا ہے اور ان میں اس کی تسبیح کی جاتی ہے دن کے وقتوں میں بھی شام کے وقتوں میں بھی اور یہ ذکر کرنے والے کچھ مرد ہیں جن کو اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے سے اور زکوۃ کے دینے سے نہ تجارت اور نہ سودا بیچنا غافل کرتا ہے.وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل الٹ جائیں گے اور آنکھیں

Page 459

پلٹ جائیں گی.441 اس میں بتایا ہے کہ دنیا کا کاروبار.گھر کے مشاغل تعلیم حاصل کرنا، تقریبات کسی قسم کا بھی کام ہو وہ ذکر الہی سے ہمیں غافل نہ کر دے.ہمارے دل ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے منور ہوں اس کے نور سے دنیا کو منور کرتے رہیں اور اس طرح وہ چلتی پھرتی مسجد میں بن جائیں پس مساجد کو مبارک بنانے کے لئے ان میں نماز پڑھنے والے ہر شخص کو خود مبارک بننا چاہئے.صاف دل، صاف روح کے ساتھ خدا کے گھر میں جانے والا ہو.جس طرح مسجد میں ظاہری گند اور کوڑا کرکٹ پھینکنا منع ہے اس طرح مسجدوں کو آباد کرنے والوں کے دل بھی ہر قسم کے شرک کی ملونی سے صاف و پاک ہوں.دنیا کی کوئی کدورت ان میں نہ ہو.ان کے معاشرہ میں کسی قسم کی بدعت اور رسومات کا دخل نہ ہو.وہ قال اللہ اور قال الرسول کے مطابق زندگیاں گزارنے والے ہوں.دجالیت کی نقل کرنے والے نہ ہوں صرف قرآنی احکام اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے والے ہوں.تب ہمارا معاشرہ اور ہماری مسجد میں مبارک بن سکتی ہیں.معاشرہ کو صاف پاکیزہ اور مبارک بنانے میں عورتوں کا بڑا دخل ہے پس خود نمازی بنو اور اپنی اولادوں کو بھی نمازی بناؤ.کیونکہ پاک ہونے کا ایک ذریعہ وہ نماز بھی ہے جو تضرع سے ادا کی جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.کوشش کرو کہ پاک ہو جاؤ کہ انسان پاک کو تب پاتا ہے کہ خود پاک ہو جاوے مگر تم اس نعمت کو کیونکر پاسکو! اس کا جواب خود خدا نے دیا ہے جہاں قرآن میں فرماتا ہے وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة (البقرة: 46) یعنی نماز اور صبر کے ساتھ خدا سے مدد چاہو.نماز کیا چیز ہے؟ وہ دعا ہے جو تسبیح تخمید، تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے.سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو.کیونکہ ان کی نماز اور ان کا استغفار سب رسمیں ہیں.جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں.لیکن تم جب نماز پڑھ تو بجر قرآن کے جو خدا کا کلام ہے اور بحر بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسول کا کلام ہے باقی اپنی تمام عام دعاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متفرعانہ ادا کر لیا کرو.تا کہ تمہارے دلوں پر اس عجز و نیاز کا کچھ اثر ہو.نماز میں آنے والی بلاؤں کا علاج ہے تم نہیں جانتے کہ نیا دن چڑھنے والا

Page 460

442 کس قسم کی قضا و قدرتمہارے لئے لائے گا؟ پس قبل اس کے جو دن چڑھے تم اپنے مولیٰ کی جناب میں تضرع کرو کہ تمہارے لئے خیر و برکت کا دن چڑھے.(روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحه 68) مساجد کے قیام کی تیسری غرض مذکورہ بالا آیت میں ھدی للعالمین بیان فرمائی گئی ہے کہ مسجد کا قیام اس غرض سے ہو کہ وہ سب دنیا کیلئے ہدایت کا باعث بنیں.اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے اس کی صفت ربوبیت کے تقاضا کے ماتحت دنیا کی ہر قوم کی ہدایت کے لئے اس کی طرف سے انبیاء آئے اور پھر سب دنیا کی ہدایت کے لئے آنحضرت ی تشریف لائے آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (انبياء : 108) اللہ تعالیٰ نے آپ کو ساری دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا تھا.آپ کی رحمت سے دنیا کی ہر قوم نے ہر زمانہ نے.ہر طبقہ نے انسانوں نے بھی اور حیوانوں نے بھی حصہ پایا.آپ کی رحمت کسی خاص زمانہ یا طبقہ کے لئے نہیں تھی آپ کی تعلیم کسی خاص ملک کے لئے نہیں تھی.آپ کی تعلیم کسی خاص قوم کے لئے نہیں تھی.آپ کی رحمت ہمیشہ کے لئے تھی.آپ کی قوت قدسیہ آج بھی زندہ ہے اور ہم نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر آپ کی رحمت سے حصہ پایا ہے.پس جس طرح اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں.اس طرح اللہ تعالیٰ کے گھر ساری دنیا کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہیں.اسی لئے پانچوں وقت مؤذن مسجد سے آواز بلند کرتا ہے حی علی الصلوۃ حی علی الفلاح.آؤ نماز پڑھنے کے لئے مساجد میں آؤ اور کامیابی کے چشمہ کی طرف دوڑ و آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے قرآن مجید کے احکام پر چلتے ہوئے اپنے آپ کو ھدی للعالمین بنا دیا جس کی گواہی خود حضور علیہ السلام نے دی.آپ نے فرمایا اَصْحَابِي كَالنُّجُوْمِ فَبِلَيْهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمُ (تحفة الاحوذى جزء 10 ص 196 کہ میرے صحابہ تو ستاروں کی طرح ہیں.جس ستارہ کو اپنی منزل کا نشان قرار دیکر تم اس کے پیچھے چل پڑو گے اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تم منزل مقصود کو پالو گے.غرض صحابہ کا وجود بھی هُدًى لِلْعَالَمِین تھا.ان کی ساری زندگیاں دوسروں کو نیکی کی تلقین کرنے.بُرائی سے روکنے اور خود کو دنیا کے لئے نمونہ بنانے میں گزریں اور یہ غیر لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنة کی ہے.کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی پیروی کرتے ہوئے تم خود اپنی زندگیاں

Page 461

443 ایسی بنالو جو نمونہ ہوں دنیا کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تمہارے لئے نمونہ موجود ہے.جس کو دیکھ کر تم نے اپنی زندگیاں دنیا کے لئے نمونہ بنانی ہیں.پس ہماری مساجد بھی ہدایت کا ذریعہ اس وقت کامل طور پر بن سکتی ہیں.جب ہمارے وجود دوسروں کیلئے گالنجوم ثابت ہوں تا کہ ہمارے کردار ہماری زندگی.ہمارے علم قرآن ، ہمارے اخلاق ہمارے لین دین ہمارے اٹھنے بیٹھنے غرض ہر چیز کو دیکھ کر دنیا اسلام کی طرف کھنچے اور مان جائے کہ یہ عظیم الشان انقلاب ان میں صرف اور صرف احمدیت کے ذریعہ سے پیدا ہوا ہے اور اس زمانہ میں احمدیت ہی حقیقی اسلام اور نجات کا ذریعہ ہے.هدی کے معنے شریعت اور فہم شریعت کے بھی ہوتے ہیں.یعنی شریعت کے ہر حکم سے ہمیں مکمل واقفیت ہو اور اس پر ہمارا عمل ہو.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کس خوبصورتی سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا تھا کہ کان خلقہ القرآن آپ کے اخلاق اور اوصاف کریمانہ کے متعلق میں کیا بتاؤں؟ قرآن پڑھ لوآپ کی زندگی چتا پھرتا نمونہ تھی.قرآن مجید کا ہی روح یہ جذ بہ آج ہمارے اندر بھی پیدا ہو جائے تو ہماری مسجدوں کے قیام کی غرض...للعالمین بھی ہمارے ذریعہ پوری ہو سکتی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی عالمین کو ہدایت کی طرف دعوت دینے کے لئے یورپ کا سفر اختیار فرمایا ہے اور مسجد کا افتتاح بھی اسی دعوت کی ایک عظیم الشان کڑی ہے.جیسا کہ آپ نے جاتے ہوئے فرمایا ہے کہ میری بہنوں کا مجھ پر حق ہے کہ وہ میرے سفر کی کامیابی کے لئے دعا فرمائیں.آپ سب کا فرض ہے کہ دعا کرتی رہیں اللہ تعالیٰ آپ کے سفر کو بہت بہت مبارک فرمائے.پ فتح و ظفر کا ڈنکا بجاتے ہوئے تمام دنیا کو ہدایت کا پیغام دے کر تشریف لائیں.آمین.دنیا کو ہدایت کی طرف بلانے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان خود ہدایت یافتہ ہو.اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلوةَ وَآتَى الزَّكُوةَ وَلَمُ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ اَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ.(التوبة: 18) اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے اور نمازوں کو قائم

Page 462

444 کرتا ہے اور زکوۃ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا.یقیناً ایسے لوگ کامیابی کی طرف لے جائے جائیں گے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیت الذکر کے آبا در کھنے کے پانچ مگر بیان فرمائے ہیں.(۱) اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان (۲) یوم آخرت پر ایمان.یوم آخرت پر ایمان کا مطلب صرف اعتقادی ایمان نہیں بلکہ ہر وقت پیش نظر رکھے کہ ایک دن آنے والا ہے جب میرے اعمال کا محاسبہ ہوگا.دنیا میں کسی کو دکھ نہ دوں.تکلیف نہ پہنچاؤں.اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کروں اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے بھی.یہ وہ ضروری چیز ہے جس کا ذکر ایمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آخرت کو پیش نظر رکھنے سے انسان گناہوں سے محفوظ رہ سکتا ہے اور دنیا کی اصلاح و ہدایت کا باعث بن سکتا ہے.اس نماز کی ادا ئیگی.باوجود آخرت کو ہر وقت مد نظر رکھنے کے پھر جو کمزوریاں رہ جائیں گی ان کو نماز دور کر دے گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (العنكبوت: 46) (۴) زکوة کا دینا یعنی حقوق العباد کی ادائیگی.چندے دینا.غرباء کا خیال.ان کے جذبات کا خیال.معاشرہ کے ہر رکن کا خیال وغیرہ (۵) خشیت الہی کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی خشیت طاری رہے.وہ ذات غنی ہے.ہم عمل کریں گے.قربانیاں دیں گے مگر ساتھ اس کی عاجزی انکساری اور خشیت سے کبھی دل میں تکبر پیدا نہ ہو جائے.ہر وقت تضرع اور عاجزی سے خدا کے حضور گڑ گڑاتے رہیں کہ تو ہی ہمیں ایسے عملوں کی توفیق عطا فرما جو تیرے فضل کو جذب کرنے والے ہوں.ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ہدایت پانے والے ہوں گے.اور پھر ھدی للعالمین بن سکیں گے اور مسجدوں کی تعمیر کی غرض کو پورا کرنے والے ہوں گے.مساجد کے قیام کی ان اغراض کے علاوہ سب سے ضروری اور سب سے بڑی غرض یہ ہے کہ مسجد کی تعمیر ہر وقت انسانی ذہن کو یہ یاد دلاتی رہتی ہے کہ تمہارا ایک امام ہونا چاہئے.اس چیز کو اللہ تعالیٰ نے وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّى (البقرہ: 126) کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے.امام کے بغیر نہ مسجدوں کی غرض پوری ہوتی ہے نہ جماعت کی.جس طرح مساجد میں نماز پڑھانے کیلئے ایک امام کی ضرورت ہے نماز با جماعت اس کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی اسی طرح اسلام کی بقا کے لئے

Page 463

445 مسلمانوں کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ان کا امام ہو.اور اس کی اطاعت کرتے ہوئے وہ ترقی کریں.جب تک مسلمانوں میں خلافت باقی رہی مسلمان ترقی کرتے چلے گئے.جب خلافت کا دامن چھوڑ اتباہ ہو گئے ذلیل ہو گئے اور وہ ادباران پر آیا جس کی تاریخ کا صفحہ صفحہ گواہی دے رہا ہے.اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے بھیجا اور آپ کے ذریعہ احمدیہ جماعت کو انعام خلافت سے سرفراز فرمایا لیکن ساته هی فرماديا.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأرْضِ (النور: (56) کہ یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ انعام خلافت کا مشروط ہے کہ تمہارے ایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ.یہاں ایمان سے مراد ایمان با الخلافت ہے.یعنی خلافت کے قیام کو دل و جان سے ماننا اور اس عقیدہ پر قائم رہنا کہ خلافت کا قیام ہماری ترقی.احمدیت کے غلبہ اور اسلام کی بقا کے لئے نہایت ضروری ہے.اور اعمال صالح سے مراد وہ کام ہیں.وہ قربانیاں ہیں وہ خدمت ہے جو خلافت کے مناسب شان ہو اور خلافت کی اطاعت میں کی جائے.پس احمدی خواتین! خوش ہو اللہ تعالیٰ کے انعام سے کہ اس نے ہمیں اس انعام سے نوازا لیکن ڈرتے رہیں ہمارے دل ہر وقت اس ڈر سے کہ کوئی کام ایسا نہ ہو جائے کوئی گناہ ایسا نہ سرزد ہو جائے جو ہمیں من حیث القوم اللہ تعالیٰ کی نظروں سے گرا دے اسی لئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا تھا کہ تم اپنی نسلوں در نسلوں کو یہ سبق دیتے چلے جاؤ.کہ ہم نے خلافت کے انعام کو اپنے میں قائم رکھنا ہے.تا اسلام کا جھنڈا ہمیشہ بلند رہے پس میری بہنو! یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.احمدی خواتین پر کہ وہ خلافت کی اہمیت اور خلافت کی برکات سے آنے والی نسلوں کو واقف کراتی رہیں تا کہ احمدیت میں نسلاً بعد نسل ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو اپنے آپ کو اس انعام کا مستحق قرار دیتے ہوئے اسلام کے جھنڈے کو لہراتے رہیں.آج جس بیت اللہ کا افتتاح ہو رہا ہے

Page 464

446 الحمد للہ کہ یہ افتتاح حضور 21 / جولائی کو فرما چکے ہیں ) اس بیت کی تعمیر کا فیصلہ ہماری بہنوں نے دسمبر 1964ء میں اس خوشی میں کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود کے بابرکت دور کو پچاس سال تک لمبا کر دیا تھا.یہ ایک نذرانہ عقیدت تھا.اپنے خدائے عزو جل کے حضور میں احمدی خواتین کا.بے شک وہ وجود جس کے دور خلافت کے پچاس سال گذرنے پر ہم نے نذرانہ کی صورت میں پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا.آج ہم میں نہیں اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خبر کے مطابق اپنے نفسی نقطہ آسمان تک اُٹھایا جا چکا ہے.لیکن ہمارا خدا زندہ خدا ہے.اس نے جماعت کو پھر ایک ہاتھ پر متحد کر دیا ہے اور اس کا فیصلہ ہے کہ کفر و اسلام کی اس آخری جنگ میں اسلام کی فتح ہو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسلام کے غلبہ کی خبر آج سے بہت عرصہ پہلے دی تھی اور اس غرض سے اس نے خلافت کا سلسلہ جاری فرمایا تا ایک جماعت اپنے امام کی قیادت میں خدا اور اس کے نام کو بلند رکھنے کے لئے ہر وقت قربانیاں دینے والی موجود رہے.پس میری عزیز بہنو! بے شک ہم خوش ہیں کہ بیت اللہ جس کا وعدہ ہم نے کیا تھا تعمیر ہو چکی ہے لیکن یہ خوشی کی گھڑیاں ہمیں مزید قربانیوں کی طرف توجہ دلاتی ہیں اور ان کے لئے ہمیں ہر وقت اور ہر آن تیار رہنا چاہئے.حقیقت تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مطابق ہماری زندگیاں بھی ان صلوتی وسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین کی عملی تفسیر ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی ایسی قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی ہوں اپنی زندگیوں میں ہی ایک انقلاب عظیم دیکھ لیں اور إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أفْوَاجًا (النصر : 13,2) کا نظارہ ہماری آنکھیں دیکھیں.رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.مصباح ستمبر 1967

Page 465

447 تمام دینی اور دنیوی برکات کا منبع قرآن مجید ہے الوادعی خطاب فضل عمر تعلیم القرآن کلاس 1967 ء تعلیم القرآن کلاس ربوہ میں تعلیم القرآن کلاس نظارت اصلاح وارشاد کے زیر اہتمام چار سال سے جاری ہے جو ہر سال ماہ جولائی میں منعقد ہوتی ہے.پہلے سال عورتوں کے لئے کوئی انتظام نہ تھا دوسرے سال یعنی 1965ء میں لجنہ اماء اللہ کی درخواست پر نظارت اصلاح وارشاد نے عورتوں کے لئے انتظام کر دیا اور اس سال صرف 23 طالبات نے ربوہ کے علاوہ اس میں شرکت کی گزشتہ سال 42 طالبات مختلف شہروں سے اور تقریباً اتنی ہی طالبات ربوہ سے شامل ہوئیں.الحمد للہ کہ اس سال بچیوں نے قرآن مجید سیکھنے کی طرف خاص توجہ دی.156 طالبات ربوہ کے باہر سے مختلف شہروں اور دیہاتوں سے آئیں اور قریباً 100 ربوہ کی طالبات نے اس میں حصہ لیا گو بعض کو بیماری اور ضروری کاموں کی وجہ سے کلاس ختم ہونے سے قبل ہی واپس جانا پڑا تا ہم 212 طالبات امتحان میں شامل ہوئیں.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے کہ جو کچھ انہوں نے سنا اور سیکھا ہے اسے یادرکھیں اور اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچا سکیں اس علم کے نتیجہ میں ان کے دل اور دماغ روشن ہوں اور اللہ تعالیٰ کی معرفت انہیں حاصل ہو جو اس کلاس کے قیام کی اصل غرض ہے.بعض شہروں کی مستورات اور بچیوں نے اس طرف بالکل توجہ نہیں دی خدا کرے کہ آئندہ سال وہ بھی اس طرف توجہ دے سکیں اور علم دین سیکھنے کے لئے بچوں کو بھجواسکیں.رسول کریم ﷺ کی بعثت کی غرض :- مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی بعثت کی چارا ہم غرضیں بیان فرمائی ہیں.میری آج کی تقریر کا تعلق ان میں سے ایک اہم غرض یعنی يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ سے ہے.اس لئے اس کی تفصیل میں کسی قدر جاؤں گی.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مبعوث فرمایا کہ وہ دنیا کے سامنے ایک مکمل ضابطۂ حیات پیش فرما ئیں ایک ایسی تعلیم دنیا کو دیں جس پر چلنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی معرفت ان کو حاصل ہو جس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں ترقیات کے دروازے ان کے لئے کھلیں اور وہ ایسی مکمل تعلیم ہو جو کسی خاص قوم یا فرقہ کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے سب اقوام عالم کے لئے ہو.چنا نچہ اللہ تعالیٰ

Page 466

448 نے کامل کتاب قرآن مجید کی صورت میں آنحضرت ﷺ کو عطا فرمائی.ایک ایسی کتاب جو پڑھنے سمجھنے اور عمل کرنے کے لحاظ سے بہت آسان ہے جو شخص یہ کہتا ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ سیکھنا مشکل ہے وہ غلط کہتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَقَدْ يَسِّرُنَا الْقُرْآنَ لِلدِّكُرُ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ.القمر : 18 قرآن مجید کو ہم نے آسان بنایا ہے پڑھنے کے لحاظ سے بھی آسان سمجھنے کے لحاظ سے بھی آسان اور عمل کرنے کے لحاظ سے بھی آسان.لیکن ساتھ ایک شرط ہے إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِى كِتَابٍ مَّكْنُونِ لَا يَمَسُّةِ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.الواقعة : 78تا80 اس کے پر دے وہی اٹھا سکتا ہے جو پاک دل ہو اور پاک روح اپنے اندر رکھتا ہو.سچی نیت کے ساتھ قرآن سیکھنے کا جو ارادہ کرے گا قرآن کے معارف اس کے لئے کھلتے جائیں گے.ذَالِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرہ : 3) کی آیت بھی اسی مضمون پر روشنی ڈالتی ہے کہ یہ کتاب ہر قسم کے اعتراضات اور شکوک سے بالا تر ہے اگر کسی کے دل میں کوئی اعتراض پیدا ہو گا تو اسی کتاب میں ہی اس کو اس کا جواب مل جائے گا.لیکن اس کی معرفت حاصل کرنے کے لئے تقویٰ کی شرط ہے.تقویٰ اختیار کرو.یہ کتاب تمہاری راہنمائی کرتے کرتے اعلیٰ مدراج تک پہنچا دے گی.تقویٰ کی تفصیل میں جانے کا تو وقت نہیں ایک واقعہ سے تقویٰ کا صحیح مفہوم سمجھ میں آجاتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے سوال کیا کہ تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ کانٹوں والی جگہ پر سے گز رو تو کیا کرتے ہو اس نے کہا یا اس سے پہلو بچا کر چلا جاتا ہوں یا اس سے پیچھے رہ جاتا ہوں یا آگے نکل جاتا ہوں انہوں نے کہا بس اسی کا نام تقویٰ ہے یعنی انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے مقام پر کھڑا نہ ہو اور ہر طرح اس جگہ سے بچنے کی کوشش کرے.ایک شاعر ابن المعتز نے ان معنوں کو لطیف اشعار میں نظم کیا ہے وہ کہتے ہیں.خَلِ الذُّنُوبَ صَغِيرَهَا وَكَبِيرَهَا ذَاكَ التقى وَاصْنَعُ كَمَاشِ فَوْقَ اَرْضِ الشَّوْكِ يَحْذَرُ مَايَرى لَاتَحْقِرَنَّ صَغِيرَةً إِنَّ الْجِبَالَ مِنَ الْحِـــــى (تفسير ابن كثير جزء 1 ص (41 یعنی گناہوں کو چھوڑ دے خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے یہ تقویٰ ہے اور تو اس طریق کو اختیار کر جو

Page 467

449 کانٹوں والی زمین پر چلنے والا اختیار کرتا ہے یعنی وہ کانٹوں سے خوب بچتا ہے اور تو چھوٹے گناہ کو حقیر نہ سمجھ کیونکہ پہاڑ کنگروں سے ہی بنے ہوتے ہیں.( منقول از تفسیر کبیر جلد اصفی ۷۳) غرض آنحضرت ﷺ کی تمام زندگی ان چار غرضوں کے ارد گرد گھومتی ہے جو مذکورہ بالا آیت میں بیان ہوئے ہیں جن میں ایک غرض يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَاب ہے.آپ ﷺ نے دنیا کو وہ کتاب دی جس کے متعلق خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ہمیشہ محفوظ رہے گی جو ہر لحاظ سے مکمل ہے ہر قسم کی تعلیم اس میں ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق بھی ، ملائکہ کے متعلق بھی ، انسان کی انسانیت کے متعلق بھی ، نیکی بدی کے متعلق بھی ، اخلاقیات کے متعلق بھی ، روحانیت کے متعلق بھی ، اللہ تعالیٰ کے حقوق کے متعلق بھی ، انسانوں کے حقوق کے متعلق بھی ، اور آخرت کے متعلق بھی.نہ روحانیت کا کوئی علم ہے جس پر سیر کن بحث نہ ہو نہ دنیا کو کوئی علم ہے جس کا منبع قرآن مجید نہ ہو.قرآن مجید پڑھنے کی اہمیت احادیث نبویہ کی روشنی میں آنحضرت ﷺ کی اپنی زندگی حضرت عائشہ کے قول کانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ کے مطابق قرآن مجید کی جیتی جاگتی تصویر تھی.قرآن مجید پڑھنے اور پڑھانے کی اہمیت آپ ﷺ کی متعدد احادیث سے ثابت ہوتی ہے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں اقْرَوُا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لَاَصْحَابه.(مسند احمد بن حنبل) فرمایا تم قرآن کریم پڑھا کرو اس لئے کہ یہ ( یعنی قرآن ) قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے لئے شفیع بن کر آئے گا یعنی قرآن مجید ہمارے اعمال پر گواہی دے گا کہ اس دنیا میں جو کتاب ہمیں سیدھی راہ دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھیجی تھی اس کو ہم نے پڑھا.غور کیا اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کی یا اس کی خلاف ورزی کی.اسی طرح حضرت عثمان بن عفان سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا كُم مِّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ.(بخاری کتاب الفضائل القرآن) تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس نے قرآن کو خود پڑھا اس کے مطالب سمجھے اور پھر دوسروں کو پڑھایا کتنی خواتین ہیں ہماری جماعت میں جو اس پر عمل کر رہی ہیں.اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ اخَرِينَ.(مسلم کتاب صلاة المسافرين و قصرها)

Page 468

450 اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے ذریعہ بعض قوموں کو بلند کرے گا ترقی دے گا اور بعض کو تنزل کے گڑھے میں گرادے گا.یعنی جو لوگ قرآن مجید کے احکام پر عمل کریں گے ترقی پائیں گے دینی بھی اور دینوی بھی.جو عمل کرنا چھوڑ دیں گے وہ ذلت کے گڑھے میں جاگریں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے: ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جولوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.“ (روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحه 13) ایک اور حدیث ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا إِنَّ الَّذِي لَيْسَ فِي جَوْفِهِ شَيْءٌ مِّنَ الْقُرْآنِ كَالْبَيْتِ الْخَرِبِ (ترمذی کتاب فضائل القرآن ) جس شخص کے دل میں قرآن میں سے کچھ بھی نہ ہو وہ دل یا وہ شخص ویران گھر کی مانند ہے.ایک اور حدیث میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِى بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُوْنَهُ بَيْنَهُمُ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِيْنَةُ وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ.(صحیح المسلم كتاب الذكر والدعاء) یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کے گھروں میں قرآن مجید ایک دوسرے کو پڑھاتے ہیں اس کا درس دیتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکینت اور رحمت نازل ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کے فرشتے اپنے پروں کے نیچے ان کو لے لیتے ہیں.یہ مبارک اقوال رسول پاک ﷺ قرآن مجید کو خود پڑھنے ان پر غور کرنے اس کے معارف حاصل کرنے خود پڑھ کر دوسروں کو قرآن کی تعلیم دینے اور اپنے دلوں کو نور قرآن سے منور رکھنے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں.آنحضرت ﷺ کے ارشاد مبارک کے مطابق قوموں کی ترقی قرآن پر عمل کرنے سے وابستہ ہے اور عمل اس وقت ہو سکتا ہے جب قوم کا ایک ایک فرد قرآن کے ایک ایک لفظ کو سمجھنے والا ہو.قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے اس گر کو اسلام لاتے ہی سمجھ لیا اور اس پر عمل کیا اور تھوڑے سے عرصہ میں ہی ساری دنیا پر چھا گئے.یہاں تک کہ ان کی عورتیں بھی قرآن مجید کے علوم سے اچھی طرح آشنا تھیں.حضرت عائشہ کے متعلق تو خود آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ آدھا دین عائشہ سے سیکھو.آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد امہات المومنین کے پاس صحابہ کرام مسائل پوچھنے اور آیات کا حل تلاش کرنے آیا کرتے تھے.حضرت عائشہ بھی ایک عورت تھیں ایسی ہی جیسی کہ آج کل کی عورتیں.کوئی کالج نہ پڑھا تھا کوئی یو نیورسٹی نہ تھی.

Page 469

451 بس لگن تھی خدا کے کلام کو سیکھنے اور اس میں سے موتی نکالنے کی.آنحضرت ﷺ کی صحبت میں آپ سے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا.یہی حال باقی صحابیات کا تھا.آج دنیا میں جس قدر علوم رائج ہو چکے ہیں ان تمام کی بنا مسلمانوں نے ڈالی اور قرآن واحادیث کی روشنی میں ڈالی.قرآن کریم کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق ڈالی.لیکن جب مسلمانوں نے قرآن مجید پڑھنا چھوڑ دیا.اس پر غور وتدبر کرنا چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی بیان فرمودہ حدیث کے مطابق ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور وہ ساری دنیا کی نظروں میں ذلیل ہوئے.دین و دنیا دونوں ہاتھ سے گئے اور یہ نتیجہ تھا قرآن کو چھوڑنے کا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا کہ مسلمانوں پہ تب ادبار آیا کہ جب تعلیم قرآں کو بھلایا قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ الہی:.صل الله دنیا نے پوری کوشش کی کہ قرآن کا نام دنیا سے مٹ جائے اور کوئی حربہ ایسا نہ چھوڑا جس کے ذریعہ اس کا نام ہی دنیا سے مٹانے کی کوشش نہ کی لیکن اللہ تعالیٰ جورب العالمین ہے جس کا قرآن کی حفاظت کا وعدہ تھا اس نے ایسے انتظامات فرمائے کہ قرآن اپنی ظاہری شکل وصورت میں اسی طرح محفوظ ہے جس طرح آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا تھا جبکہ دوسری الہامی کتب میں تحرف و تبدل ہو چکا ہے.قرآن پر بڑے سے بڑا اعتراض کرنے والا بھی اس کی ظاہری حفاظت کو تسلیم کرتا ہے.پھر معنوی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے اور محبوب بندوں کا ایک سلسلہ بھجوانا شروع کیا جو دنیا کو قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلاتے رہے جس کے نتیجہ میں ہر زمانہ میں ایک جماعت عامل قرآن پیدا ہوتی رہی اور آخری زمانہ میں خود آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور آپ کا بھی یہ فرض قرار دیا کہ قرآن مجید لوگوں کو سکھایا جائے.جماعت احمد یہ اور قرآن مجید :- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا ایک ضروری مقصد بھی يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ تھا یعنی دنیا کو پھر سے قرآن کی طرف بلانا.قرآنی علوم کو دنیا کے ذہن نشین کرنا.قرآن کی تعلیم کو پھر سے اس طرح رائج کرنا کہ ہر شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہا ما بھی فرمایا کہ

Page 470

452 آپ کی بعثت کا مقصد يُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ (بر این احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 496 روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 500) ہے یعنی آپ کے ذریعہ سے اسلام پھر اپنی اصل شکل میں ظاہر ہوگا اور پھر دنیا قرآن کی تعلیم پر عمل کرنے میں ہی اپنی نجات سمجھے گی آپ کی شدید تڑپ تھی کہ لوگ قرآن کی طرف آئیں اور اس کے لئے آپ دعا بھی فرماتے تھے.فرماتے ہیں اک کرم کر پھیر دے لوگوں کو فرقاں کی طرف نیز دے توفیق تا وہ کچھ کریں سوچ اور بیچار آنحضرت ﷺ نے آنے والے مسیح کے متعلق فرمایا تھا وہ مال و دولت کے دریا بہا دے گا.وہ یہی قرآنی علوم کے دریا تھے جو آپ نے بہائے جیسا کہ آپ خود فرماتے ہیں.وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آواز بلند کی کہ قرآن زندہ کتاب ہے.اسلام زندہ مذہب ہے اور آنحضرت ﷺ زندہ نبی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی اور سیرت پر اگر غور کیا جائے تو تین ہی باتیں آپ کی زندگی کا خلاصہ نظر آتی ہیں.محبت الہی ، عشق رسول ، اور عشق قرآن.آپ خود بھی فرماتے دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گردگھوموں کعبہ میرا یہی ہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات :- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی قرآن مجید کی فضلیت کو ثابت کرنے اور اس کے خزائن تقسیم کرنے میں گذری.آپ نے قرآن مجید کی آیات کی ایسی تفاسیر دنیا کے سامنے پیش کیں کہ مخالفین اسلام کو لا جواب کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن کی برکات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.ہم اس بات کے گواہ ہیں اور تمام دنیا کے سامنے اس شہادت کو ادا کرتے ہیں کہ ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا.(روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 65 کتاب البریہ ) پھر آپ فرماتے ہیں: وہ خدا جس کے ملنے میں انسان کی نجات اور دائمی خوشحالی ہے وہ بجز قرآن شریف کی پیروی کے ہرگز نہیں مل سکتا.کاش جو میں نے دیکھا ہے لوگ دیکھیں اور جو میں نے سنا ہے وہ سنیں اور قصوں کو چھوڑ

Page 471

453 دیں اور حقیقت کی طرف دوڑیں.(روحانی خزائن جلد 10 اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 442) اسی طرح آپ نے فرمایا.سب سے سیدھی راہ اور بڑا ذریعہ جو انوار یقین اور تواتر سے بھرا ہوا اور ہماری روحانی بھلائی اور ترقی علمی کے لئے کامل رہنما ہے قرآن کریم ہے جو تمام دنیا کے دینی نزاعوں کے فیصل کرنے کا متکفل ہو کر آیا ہے جس کی آیت آیت اور لفظ لفظ ہزار ہا طور کا تواتر اپنے ساتھ رکھتی ہے اور جس میں بہت سا آب حیات ہماری زندگی کے لئے بھرا ہوا ہے اور بہت سے نادر اور بیش قیمت جواہر اپنے اند مخفی رکھتا ہے.جو ہر روز ظاہر ہوتے جاتے ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام ص 381) اسی طرح آپ فرماتے ہیں.قرآن شریف وہ کتاب ہے جس نے اپنی عظمتوں، اپنی حکمتوں، اپنی صداقتوں ، اپنی بلاغتوں اپنے لطائف ونکات اپنے انوار روحانی کا آپ دعویٰ کیا ہے اور اپنا بےنظیر ہونا آپ ظاہر فرما دیا ہے...اس کے دقائق تو بحر ذخار کی طرح جوش مار رہے ہیں اور آسمان کے ستاروں کی طرح جہاں نظر ڈالو چمکتے نظر آتے ہیں.کوئی صداقت نہیں جو اس سے باہر ہو.کوئی حکمت نہیں جو اس کے محیط بیان سے رہ گئی ہو.کوئی نور نہیں جو اس کی متابعت سے نہ ملتا ہو.“ روحانی خزائن جلد 1 براہین احمدیہ حاشیہ اصفحہ 663,662) اپنی تحریرات کی رو سے نثر کے علاوہ اپنے اشعار میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن مجید کی فضلیت اور اس کا زندہ کتاب ہونا ظاہر فرمایا ہے.قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے بے اس کے معرفت کا چمن نا تمام ہے اسی طرح آپ فرماتے ہیں: اے عزیز و اسنو کہ بے قرآں حق کو پاتا نہیں کبھی انساں جن کو اس نور کی خبر ہی نہیں اُن پہ اُس یار کی نظر ہی نہیں ہے یہ فرقاں میں اک عجیب اثر کہ بناتا ہے عاشق دلبر

Page 472

جس کا ہے نام قادر اکبر 454 نیز آپ فرماتے ہیں.اس کی ہستی سے دی ہے پختہ خبر کوئے دلبر میں کھینچ لاتا ہے پھر تو کیا کیا نشان دکھاتا ہے.جمال وحسن قرآن نور جانِ ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآن ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت مولانا نور الدین صاحب پہلے خلیفہ منتخب ہوئے.آپ کا دور خلافت اگر چہ مختصر تھا لیکن اس سارا عرصہ میں آپ کی پوری توجہ قرآن پڑھانے اور قرآن کی تعلیم کا چرچا کرنے میں لگی رہی.یہاں تک کہ اپنے جانشین کے متعلق بھی آپ نے وصیت فرمائی که قرآن و حدیث کا درس جاری رہے.آپ کی سیرت کا نمایاں پہلو عشق قرآن تھا.آپ خود فرماتے ہیں میں نے دوسری کتابیں پڑھی ہیں اور بہت پڑھی ہیں مگر اس لئے نہیں کہ قرآن کریم کے مقابلہ میں وہ مجھے پیاری ہیں بلکہ محض اس نیت اور غرض سے کہ قرآن کریم کے فہم میں معاون ہوں.“ پھر آپ فرماتے ہیں.مجھے قرآن مجید سے محبت ہے اور بہت محبت ہے.قرآن مجید میری غذا ہے.میں سخت کمزور ہوتا ہوں قرآن مجید پڑھتے پڑھتے مجھ میں طاقت آجاتی ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی تڑپ :.حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد جماعت نے حضرت مزرا بشیر الدین محمود احمد کو اپنا خلیفہ تسلیم کیا اور تاریخ احمدیت کا وہ دور شروع ہوا جو حقیقت میں ایک سنہری دور کہلانے کا مستحق ہے.آپ کی ولادت سے بھی بہت پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتا دیا تھا.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کی پنجے سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں

Page 473

455 لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفے ﷺ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.“ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 101 آپ کے باون سالہ دور خلافت کے ایک ایک دن ایک ایک رات بلکہ ایک ایک لمحہ نے گواہی دی کہ آپ کے ذریعہ کلام اللہ کا مرتبہ دنیا پر ظاہر ہوا اور جو علوم کے خزائن حضرت مسیح موعود علیہ السلام لائے تھے آپ نے ان کے دریا بہا دئے.قرآن مجید کی تفاسیر کا ایک خزانہ آپ ہمارے لئے چھوڑ گئے ہیں جن سے فائدہ اٹھانا احباب جماعت کا کام ہے.آپ کو دنیا کی کسی چیز کی خواہش نہ تھی بلکہ ہر وقت یہ دعا تھی ایمان مجھ کو دیدے.عرفان مجھ کو دیدے پھر آپ نے فرمایا قربان جاؤں تیرے.قرآن مجھ کو دیدے ہو جائیں جس سے ڈھیلی سب فلسفہ کی چولیں میرے حکیم! ایسا بُرہان مجھ کو دیدے.( کلام محمود ص : 1 17 ) گناہ گاروں کے درددل کی بس اک قرآن ہی دوا ہے یہی ہے خضر یہ طریقت یہی ہے ساغر جو حق نما ہے تمام دنیا میں تھا اندھیرا کیا تھا ظلمت نے یاں بسیرا ہوا ہے جس سے جہان روشن وہ معرفت کا یہی دیا ہے آپ نے دعا فرمائی کہ ( کلام محمود ص: 17 ) خدا سے میری یہ کر شفاعت کہ علم و نو ر و ہدی کی دولت مجھے بھی اب وہ کرے عنایت یہی مری اُس سے التجا ہے (کلام محمد ص: 20) حضرت مصلح موعود کا یہ شعر 1907ء کا ہے جبکہ آپ کی عمر صرف ۱۹ سال کی تھی.اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعاسنی اور خود آپ کے لئے معلم قرآن بنا.اپنے فرشتہ کے ذریعہ آپ کو سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھائی.آپ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کا نام اور قرآن مجید کی تعلیم دنیا کے کونہ کونہ تک پہنچی اور قوموں نے برکت پائی.ایک اور تقریر میں آپ نے جماعت کو توجہ دلائی کہ پس اے دوستو! میں اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان خزانہ سے تمہیں مطلع کرتا ہوں دنیا کے

Page 474

456 علوم اس کے مقابلہ میں بیچ میں دنیا کی تمام تحقیقا تیں اس کے مقابلہ میں بیچ ہیں اور دنیا کی تمام سائنس اس کے مقابلہ میں اتنی حقیقت بھی نہیں رکھتی جتنی سورج کے مقابلہ میں ایک کرم شب تاب حقیقت رکھتا ہے دنیا کے علوم قرآن کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں.قرآن ایک زندہ خدا کا زندہ کلام ہے اور وہ غیر محدود معارف و حقائق کا حامل ہے یہ قرآن جیسے پہلے لوگوں کے لئے کھلا تھا اسی طرح آج ہمارے لئے کھلا ہے.(سیر روحانی حصہ اول صفحہ 95) حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ارشادات:.یہی وہ نصب العین ہے جو احمد یہ جماعت کے مرد اور خواتین کا ہونا چاہئے.اور یہی وہ کام ہے جسے حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مسند خلافت پر قدم رکھتے ہی شروع فرما دیا تھا.آپ نے بار بار خطبات دیئے ہیں کہ جماعت میں کوئی ایک بچہ عورت اور مرد ایسا نہیں ہونا چاہئے جو ناظرہ نہ جانتا ہو اور پھر دوسرا قدم ہمارا یہ ہونا چاہئے کہ ہر مرد اور عورت قرآن مجید کا ترجمہ جانتا ہو.جب تک قرآن مجید کے خزانہ کا صحیح عل نہ ہوگا ہم اسے دوسروں میں کیسے تقسیم کر سکتے ہیں.اسلام کا جھنڈا بلند ہوگا قرآن کی بادشاہت کو پھر سے قائم کرنے سے ، اور قرآن کی بادشاہت قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر شخص ترجمہ جانتا ہواور قرآن کے مطابق زندگی بسر کرنے والا ہو.ابھی ایک حالیہ خطبہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی اور فرمایا تھا.میں نے جماعت کی توجہ اس طرف پھیری تھی اور تلقین کی تھی کہ وہ قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے کی طرف بہت توجہ کریں جماعت کو یہ یا درکھنا چاہئے کہ احمدیت کی ترقی اور اسلام کا غلبہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم خود کو بھی اور اپنے ماحول کو بھی قرآن کریم کے انوار سے منور کریں اور منور رکھیں.اگر ہم ایسا نہ کریں تو ایک طرف ہم اپنے نفسوں پر اور اپنی نسلوں پر ظلم کر رہے ہوں گے دوسری طرف ہم عملاً اس بات میں شیطان کے محمد بن رہے ہوں گے کہ اسلام کے غلبہ میں التو اپڑ جائے.پس یہ ایک نہایت اہم فریضہ ہے جسے ہم میں سے ہر ایک نے ادا کرنا ہے.“ (الفضل 18 جولائی 67ء) احمدی مستورات سے خطاب:.میری عزیز بہنو اور بچیو! جنہوں نے ایک ماہ محض قرآن مجید اور علوم دبینہ سیکھنے کے لئے بسر کیا ہے.

Page 475

457 آپ کوشش کریں کہ یہاں سے واپس جا کر بھی آپ کی توجہ قرآن مجید کا ترجمہ سیکھنے کی طرف رہے جتنا یہاں آپ نے پڑھا ہے یہ تو بطور بنیاد کے ہے اس لئے تا کہ دینی علم کی چاشنی کا مزہ آپ چکھ لیں اور یہاں سے جا کر بھی آپ اس کو سیکھنے کی کوشش کرتی رہیں.اصل علم دین کا علم ہی ہے.اگر یہ نہ سیکھا اور دینوی علم کے حاصل کرنے میں زندگی گزار دی تو سمجھیں کہ آپ نے اپنی عمر ضائع کی.ہاں دینی علوم کے ساتھ ساتھ دوسرے علوم بھی سیکھے جائیں تو پھر سونے پر سہا گہ.تمام علوم کا اصل منبع قرآن ہے اس لئے ساری کوششیں تمام صلاحیتیں خرچ کر دیں قرآن کا ترجمہ سیکھنے اور اس کے معارف حاصل کرنے میں.یہ خیال جو شیطان انسانی دماغوں میں ڈالتا ہے کہ قرآن کا ترجمہ سیکھنا مشکل ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی ہے فرمایا کہ ہم نے قرآن کو بنایا ہی آسان ہے جو اس کو مشکل قرار دیتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے قول کی نعوذ باللہ تردید کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا سمجھنا خود انسان پر آسان کر دیتا ہے.شرط ہے محنت اور کوشش کی صدق دل کے ساتھ.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا العنكبوت : 70 جو لوگ ہم تک پہنچنے کی کوشش کریں گے ہم ان کی راہیں خود استوار کریں گے.راستہ کی روکیں خود دور کرتے چلے جائیں گے.دنیاوی علوم کی خاطر کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں.سولہ سال لگا تار پڑھنے کے بعد کہیں ایم اے کی ڈگری ملتی ہے.تو کیا آپ سمجھ سکتی ہیں کہ ایک ماہ صرف یہاں رہ کر قرآن مجید کی پوری طرح سمجھ آجائے گی.کوشش کرتی رہیں اسی طرح جس طرح دنیاوی امتحانات پاس کرنے کے لئے کی تھی یا کر رہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ قرآنی معارف آپ پر کھولے پھر انشاء اللہ وہی چیز جو آج مشکل معلوم ہوتی ہے آسان ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلْقِيهِ الانشقاق : 7 یعنی اللہ تعالیٰ کی ملاقات بڑی محنت بڑی کاوش سے حاصل ہوتی ہے اور قرآن سب سے بڑا ذریعہ ہے معرفت الہی حاصل کرنے کا.قرآن میں ہی وہ طریقے بتائے گئے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کا قرب حاصل ہوتا ہے لیکن ایک بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ قرآن سیکھنے کا بہت بڑا ذریعہ اس ہستی سے روحانی تعلق کا قائم کرنا ہے جس کو اللہ تعالیٰ قرآن سکھانے کے لئے دنیا میں کھڑا کرے.يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے يُرَتِيهِم بھی فرمایا ہے اور تزکیہ نفس صرف نبی کی قوت قدسیہ یا ان کے خلفاء کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب نزول مسیح میں لکھا ہے.

Page 476

458 خد اتعالیٰ کا کلام یوں ہی آسمان پر سے کبھی نازل نہیں ہوا بلکہ اس تلوار کو چلانے والا بہادر ہمیشہ ساتھ آیا ہے جو اس تلوار کا اصل جو ہر شناس ہے.“ (روحانی خزائن جلد 18 نزول مسیح صفحه 469) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کی طرف وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقان: 53) میں اشارہ فرمایا ہے.جس طرح جنگ میں اگر اسلحہ نہ ہو تو لڑنے والا کچھ نہیں کر سکتا اسلحہ ہو اور اس کو استعمال کرنا نہ آتا ہو تب بھی فائدہ نہیں قرآن کریم کے ذریعے جہاد میں فتح تبھی ہوگی جب قرآنی دلائل کا اسلحہ خانہ بھی ہو اور جنگ کا جرنیل بھی جو سب دلائل کو جانتا ہو.ہمارے پاس قرآنی دلائل کا اسلحہ خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی تفاسیر میں کثرت سے موجود ہے.شرط یہ ہے کہ ایک جانباز سپاہی کی طرح روحانی گولہ بارود کے استعمال کی واقفیت ہو.روحانی تلوار اور بندوق چلانی آتی ہو.روحانی ٹینک استعمال کرنے آتے ہوں.اور ساتھ ہی وہ عزم اور وہ روح ہم میں پیدا ہو جائے جو ایک سپاہی کی میدان جنگ میں جاتے ہوئے ہوتی ہے جو اس یقین کے ساتھ جاتا ہے کہ یا مرجائے گا یا فتح پا کر آئے گا اور پھر اپنے جرنیل یعنی حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کامل اطاعت ہو اور آپ کی ہدایات کی روشنی میں علوم قرآن سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے.اس کلاس کے افتتاح کے وقت حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا." جس مقصد کے لئے یہ کلاس جاری کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس مقصد کو پہچانیں جو زندگی کا مقصد ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت کا حاصل کرنا.پہلی امتوں کے پاس وہ ذرائع نہیں تھے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کئے ہیں اور وہ مقصد اس کمال کے ساتھ اور اس رنگ میں حاصل نہیں کر سکتے تھے جس رنگ میں اور جس کمال کے ساتھ حاصل کرنا ہمارے لئے ممکن ہے اگر چاہیں.اگر نہ چاہیں تو خدا کا غضب ہم پر بھڑک سکتا ہے اس سے زیادہ جو پہلی امتوں پر بھڑ کا.“ پھر آپ نے فرمایا تھا اسلام بڑے زور سے ہمیں بتاتا ہے کہ نجات معرفت کے بغیر ممکن نہیں.یعنی اللہ کی پہچان کے بغیر ہم اس تک نہیں پہنچ سکتے اور معرفت کے سارے اصول قرآن میں پائے جاتے ہیں اس کا دعوی ہے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْت عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائده: 4) پھر اس تقریر کے تسلسل میں آپ نے فرمایا تھا.

Page 477

459 ”یہاں اپنے وقتوں کو ضائع نہ کریں بلکہ کوشش کریں کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود کو جس طرح پیش کیا ہے اس کو پہچانیں اور وہ رنگ اپنے پر چڑھائیں.“ میری عزیز بچیو! آپ نے ایک ماہ کوشش کی ہے کہ کچھ نہ کچھ حاصل کر سکیں اب باقی گیارہ ماہ بھی کوشش کرتی رہیں کہ قرآن مجید کے اصولوں کی روشنی میں قرآنی احکام پر چلنے کے نتیجہ میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو.قرآن سیکھنے کا پختہ ارادہ کر لیں.جس سے بھی پڑھ سکتی ہوں پڑھیں.اگر کوئی استاد نہں ملتا تو پھر ترجمہ والا قرآن یا تفسیر صغیر سے ہی سیکھیں اور پھر اس پر غور کریں تفسیر کبیر کی بہت سی جلدیں شائع شدہ ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تفسیر صغیر ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کے وہ خطاب جن میں آپ نے قرآن مجید کے علوم بیان فرمائے ہیں کتابی صورت میں ” قرآنی انوار“ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں.عربی زبان سیکھئے :.اس سلسلہ میں اپنی بچیوں سے یہ بھی خواہش کروں گی کہ وہ تھوڑی بہت عربی ضرور سیکھیں.ہمارا قرآن مجید اور احادیث عربی زبان میں ہیں.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں.أحِبُّوا الْعَرَبَ لثلاث لانِّي عَرَبِيٌّ وَالقُرآنُ عَرَبِيٌّ وَكَلَامُ اَهْلِ الْجَنَّةِ عَرَبِيُّ.(المعجم الاوسط جزء 5 صفحه 369 ) (لسان الميزان جزء 4صفحه 185) تم عربوں سے تین باتوں کی وجہ سے محبت کرو (۱) اس لئے کہ میں عرب ہوں.(۲) اس لئے قرآن عربی ہے.(۳) اس لیئے کہ جنت کی زبان عربی ہوگی.ہماری کتنی بد قسمتی ہے کہ ہم دنیا کی اور زبانیں سیکھیں.وہ زبان نہ سیکھیں جو ہمارے آقا ہمارے محبوب محمد ﷺ کی تھی اور وہ زبان سیکھنے کی کوشش نہ کریں جو جنت کی زبان ہے.وہ تمام بچیاں جو آئندہ کالجوں میں داخلہ لیں گی.میری ان سے استدعا ہے اور ان کے ماں باپ سے بھی کہ باقی مضامین وہ جو چاہیں لیں لیکن ایک مضمون عربی ضرور لیں اس طرح بنیادی طور پر ان کو اتنی عربی آجائے گی کہ قرآن مجید اور احادیث کے الفاظ ان کے کانوں کو نا آشنا نہ لگیں گے اور قرآن مجید کا ترجمہ سیکھنا ان کے لئے آسان

Page 478

ہو جائے گا.460 ہر بچی یہاں سے یہ عہد کر کے جائے کہ روزانہ نصف رکوع یا ایک رکوع با قاعدگی سے ترجمہ کے ساتھ دہرایا کرے گی اور جو چھ سپیارے یہاں ایک ماہ میں پڑھے ہیں ان کو بار بار دہرائے گی.اپنا ناظرہ بھی درست کرنے کی کوشش کرے گی.یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہم انگریزی تو صحیح بول سکیں لیکن قرآن مجید پڑھنے میں غلطیاں کریں محض بے پرواہی ہے اور کچھ نہیں.ہر بچی یہ عہد کرے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی نہ کسی کتاب کو اپنے زیر مطالعہ رکھے گی.جب ایک ختم ہوگئی تو دوسری شروع کر دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب تفسیر ہیں.قرآن مجید کی بہت سی آیات آپ پر واضح ہوگئی ہیں.دوسروں کو قرآن کریم پڑھاؤ.پھر ہر بچی تحدیث نعمت کے طور پر یہ بھی عزم کرے کہ جو کچھ خود سیکھا ہے دوسروں کو سکھاؤں گی.اللہ تعالیٰ نے مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره: (4) پر بہت زور دیا ہے.رزق میں انسان کا علم، عقل، وقت، فرصت صحت، صلاحیتیں سب کچھ شامل ہے.یہ گریا درکھو کہ اگر آپ چاہتی ہیں کہ جو کچھ پڑھا جائے وہ بھی نہ بھولے تو ایک بار یہ کسی اور کو پڑھا کر دیکھ لیں اگر یہ ڈیڑھ صد طالبات جو یہاں قرآن مجید کی تعلیم کے لئے آئی تھیں مزید ڈیڑھ صد کو پڑھا دیں.تو جہاں آپ کی دوسری بہنوں کو تعلیم دینے کا ثواب حاصل ہوگا وہاں ان طالبات کو فائدہ پہنچ جائے گا جو دل میں خواہش رکھتے ہوئے کسی مجبوری کے باعث یہاں نہ آسکیں.اور خود آپ کا پڑھا ہوا ایسا ذہن نشین ہوگا کہ پھر انشاء اللہ نہ بھولے گا.ہر بچی یہ بھی عہد کرے کہ قرآنی احکام کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی کوشش کرے گی.قرآن کا ایک ایک حکم ہمیشہ کے لئے ہمارے لئے قابل عمل ہے.موجودہ نسل میں مذہب سے بیگانگی کے باعث پردہ کی طرف سے بڑی غفلت برتی جارہی ہے حالانکہ پردہ قرآن مجید کا ایک حکم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحه 26) اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق عطا فرمائے کہ ہم سب مل کر قرآن مجید کے پڑھنے پڑھانے اور اس پر عمل

Page 479

461 کرنے والے ہوں.جس کے نتیجہ میں دنیا میں وہ معاشرہ قائم ہو جو قرآنی معاشرہ کہلانے کا مستحق ہے اور جو چودہ سو سال قبل آنحضرت ﷺ کے ذریعہ ایک بار قائم ہو چکا ہے اور وہ نور جلد سے جلد دنیا میں پھیل جائے جس کی بشارت حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کواللہ تعالیٰ نے دی ہے.اپنے لئے بھی دعا کی درخواست کرتی ہوں کہ میرا رب کریم مجھے بھی قرآن مجید پڑھنے، پڑھانے اور اس پر عمل کرنے کی آخری سانس تک توفیق دیتا چلا جائے.امین اللهم امین (الفضل 23 اگست 1967ء)

Page 480

462 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ 1967ء عہد نامہ دہرانے کے بعد سب سے پہلے آپ نے باہر سے آنے والی بچیوں کو خوش آمدید کہا اور پھر فرمایا! اللہ تعالیٰ آپ سب بچیوں کا مرکز میں آنا مبارک کرے.اور جو کچھ بھی آپ یہاں سے سیکھ کر جائیں اس پر کما حقہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے.آپ کی تنظیم کا نام اس امر کی وضاحت کر رہا ہے کہ آپ کو ہر حال میں احمدیت کی حمد و معاون بننا ہے.یہی اس تنظیم کے قیام کا مقصد ہے.اور یا درکھیے محض تقاریر کر لینے یا ہنگامی کاموں میں حصہ لینے سے آپ اپنے ان فرائض سے سبکدوش نہیں ہوسکتیں.بلکہ صحیح معنوں میں اس مقصد کو بھی حاصل کرسکتی ہیں.اگر آپ کے اخلاق بلند ہوں.آپ بہترین کردار کی مالک ہوں.خلیفہ اسیح الثالث کی اطاعت گزار ہوں.وقت کی قدرو قیمت کو پہنچاننے والی ہوں.محنت کی عادی اور فرض شناس ہوں.آپ کی تنظیم کا کام اسی لئے کیا گیا ہے تا بچپن سے آپ کی تربیت اس رنگ میں ہو کہ جب آپ لجنہ کی ممبر بنیں تو اس وقت اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنے کیلئے ہر بڑی سے بڑی قربانی سے نہ گھبرائیں.حتی کہ اپنی گردنیں کٹوانے سے گریز نہ کریں.پس اپنے اندرا بھی سے ایسے جذبات پیدا کریں کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی روح بیدار ہوا اور ہمیشہ ہر موقع پر آپ خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے میں کوشاں رہیں.مصباح نومبر 1967ء

Page 481

463 افتتاحی خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 20 اکتوبر 1967ء سی سال لجنہ اماءاللہ کی تاریخ میں بلکہ احمدیت کی تاریخ میں بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.اس سال حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے مسجد نصرت جہاں کا افتتاح اپنے دست مبارک سے کرنے کیلئے اور مغربی مادہ پرست اقوام کو جھنجھوڑنے کیلئے تا وہ اپنے زندہ خدا سے تعلق پیدا کریں.یورپ و انگلستان کا سفر اختیار فرمایا اور مسجد نصرت جہاں کا افتتاح اس اعلان کے ساتھ فرمایا:.”ہماری بہنوں کو مبارک صد مبارک ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حقیر پیشکش اور قربانیوں کو قبول فرمایا اور یورپین ممالک میں سے ایک اور ملک میں خانہ خدا تعمیر ہوکر اسلام کے پھیلانے کا موجب بنا.“ مسجد نصرت جہاں کئی لحاظ سے بڑی اہمیتوں کی حامل ہے.اس کا نام آنے والی نسلوں کے دلوں میں اور اُن لوگوں کے دلوں میں جو اسلام میں داخل ہوں گے.ہر وقت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کی یاد کو تازہ رکھے گا.ہاں! وہ پاک وجود جس کو اللہ تعالیٰ نے تیری نعمت قرار دیا اور جس کو اللہ تعالیٰ نے میری خدیجہ کے الفاظ سے پکارا.وہ وجود جو مسیح آخر الزمان کے ساتھ ازل سے وابستہ ہو چکا تھا.جس کی بشارت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال قبل دی تھی.اُس مقدس وجود کی یا مسجد کے نام کے ساتھ ہمیشہ ہی دلوں کو گدگداتی رہے گی.اور آپ کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین آنے والی نسلوں کی مستورات کو کرتی رہے گی.جو زبان حال سے مستورات کو یہ سبق دیتی رہے گی کہ کوئی ضائع نہیں ہوتا جو تیرا طالب ہے کوئی رسوا نہیں ہوتا جو ہے جو یاں تیرا آسمان پر سے فرشتے بھی مدد کرتے ہیں کوئی ہو جائے اگر بندہ فرماں تیرا جس نے دل تجھ کو دیا ہوگیا سب کچھ اسکا ثناء کرتے ہیں جب ہووے ثناخواں تیرا دوسری بڑی اہمیت اس مسجد کو یہ حاصل ہے کہ یہ ہمیشہ حضرت مصلح موعود کے مبارک دور کی یاد کو احمدی

Page 482

464 جماعت کی مستورات کے دلوں میں تازہ رکھے گی.اور اس محسن نسواں اور محسن انسانیت کے کارناموں کو زندہ رکھے گی.جن کے پچاس سالہ کامیاب دور خلافت کی خوشی میں احمدی مستورات نے مسجد کی تعمیر کی پیشکش اللہ تعالیٰ کے شکرانہ کے طور پر کی تھی.اس مسجد کی بنیا د حضرت فضل عمر کی زندگی میں رکھی گئی تھی اور آپ کی دعائیں اس کے ساتھ تھیں.وہ دعائیں قبول ہوئیں اور ہوتی رہیں گی اور اللہ تعالیٰ اس مسجد کو غلبہ اسلام کا ایک ذریعہ بنائے گا.آنے والی نسلوں کی مستورات اور بچیوں کو یہ مسجد عظیم الشان قربانیوں کا سبق دیتی رہے گی کہ ان سے پہلے آنے والی خواتین نے اپنی خوشی کا اظہار اس رنگ میں کیا جس سے اللہ تعالیٰ کا جلال اور عظمت ظاہر ہو.اور ہمیشہ آئندہ بھی مستورات کو ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے طیار رہنا چاہئے.نسلاً بعد نسل اپنی اولادوں کو اسلام اور احمدیت کیلئے قربانیاں دینے کیلئے طیار کرتے رہنا چاہئے.تیسری بڑی اہمیت اس مسجد کو یہ حاصل ہے کہ اس کا افتتاح حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے سفر یورپ اختیار کرنے کا موجب بنا.آپ نے بنفس نفیس وہاں تشریف لے جا کر اپنے دست مبارک سے اس کا افتتاح فرمایا اور جیسا کہ اپنے خطبات اور تقاریر میں آپ نے بیان فرمایا ہے اس مسجد کے افتتاح کے ذریعہ اسلام کا پیغام ہر گھر میں پہنچ گیا اور اتنی عظیم الشان پیمانہ پر تبلیغ ہوئی کہ ہزاروں مبلغوں کے ذریعہ بھی ہوئی ناممکن تھی.پس یہ سہ گوشہ اہمیتوں اور برکتوں کی حامل مسجد نصرت جہاں کی تعمیر ہمیں مزید قربانیوں کی طرف توجہ دلا رہی ہے کہ ایک یا دو یا تین مساجد بنوا کر ہمیں خوش نہ ہو جانا چاہئے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمارے دلوں میں مساجد کی تعمیر میں حصہ لینے کی تحریک کی.اور اس تحریک کو درجہ قبولیت عطا فرمایا مسجد کی تعمیر پر جو خرچ ہوا ہے ابھی ایک لاکھ کے قریب اس کی ادائیگی باقی ہے.گذشتہ سال اجتماع کے موقع پر میں نے بتایا تھا کہ تین لاکھ تر پن ہزار روپے کے وعدہ جات اور تین لاکھ پانچ ہزار کی وصولی ہو چکی ہے.عرصہ ایک سال میں ایک لاکھ پانچ ہزار کے مزید وعدہ جات آئے ہیں.اور 100307 روپے کی وصولی ہوئی ہے.گویا 19 اکتوبر 1967 ء تک 4,58,445 کے وعدہ جات اور 4,05,427 روپے وصولی ہو چکی ہے.(نوٹ اس تقریر کے کتابت ہونے تک یعنی 9 دسمبر تک 8 576 46 کے وعدہ جات اور 413902 وصولی ہو چکی ہے) خرچ کی ہوئی رقم کو پورا کرنے کیلئے ابھی 34232 کے مزید وعدہ

Page 483

465 جات اور 86098 کی مزید وصولی کی ضرورت ہے.رقم تو انشاء اللہ پوری ہوگی اور ضرور ہوگی.لیکن جو لطف اور مزہ اپنے وعدہ کو جلد سے جلد پورا کرنے میں ہے.وہ دیر سے پورا کرنے میں نہیں.ہمیں پوری تو جہ محنت کوشش اور عزم کے ساتھ اس رقم کو نہایت قلیل عرصہ میں ادا کر دینا چاہئے.بیت نصرت جہاں کی تحریک پر جو دسمبر 1965ء میں کی گئی تھی.پونے تین سال کا عرصہ گذر رہا ہے.ایک زندہ جماعت کی خواہش کیلئے جس کی ہر عورت اور بچی اسلام کیلئے قربانی کرنے کا جذبہ رکھتی ہو.بقیہ رقم کا چند ماہ میں پورا کر دینا قطعاً مشکل نہیں.صرف ضرورت ہے ارادہ کی.ضرورت ہے اپنے ذاتی اخراجات اور ضروریات پر سلسلہ اور اسلام کی ضرورت کو مقدم رکھنے کی ضرورت ہے اس تڑپ کو دل میں پیدا کرنے کی کہ جلد از جلد احمدیت پھیلے.جلد از جلد اسلام کو وہ غلبہ حاصل ہو جو آخری زمانہ میں مقدر ہے جلد از جلد دنیا انسانیت کے نجات دہندہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مان جائے.اور ایک خدا کی خدائی میں داخل ہو جائے.مبارک ہیں وہ ہیں اور بچیاں جنہوں نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا.اس کیلئے قربانیاں کیں.اپنا مال اور اپنے زیورات دیے.انہوں نے حضرت مصلح موعود کی دعاؤں سے بھی حصہ پایا اور حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں سے بھی برکت پائی.جنہوں نے افتتاح کے وقت دعا فرمائی تھی.”اے خدا! میری اس عاجزانہ دعا کوسن.ہر عمر کی احمدی مستورات نے فدائیت کے جذبہ کے ساتھ یہ مالی قربانی پیش کی ہے.اور تیرے لئے دنیا کے اس حصہ میں ایک گھر تعمیر کیا ہے تا کہ اس سرزمین میں تیری عزت تیرا جلال اور تیری وحدانیت قائم ہو.اے ہمارے محبوب آقا! اپنے خاص فضل سے اس حقیر کو شرف قبولیت بخش اور اپنی قدرت اور طاقت کی تجلیات اور بنی نوع انسان کیلئے محبت سے بھرے ہوئے نشانوں کے ذریعہ اپنے چہرہ کا جلال ظاہر فرما “ (الفضل 11 اگست 1967 ء ) جن بہنوں اور بچیوں کو کسی مجبوری کے باعث ابھی تک اس تحریک میں حصہ لینے کی توفیق نہیں ملی تھی.ان کیلئے اب بھی وقت ہے کہ وہ اس میں حصہ لیں.تاکہ ساری دنیا کی احمدی خواتین میں سے ایک بھی ایسی نہ رہ جائے جس کا اس میں حصہ نہ ہو.پس میری عزیز بہنوں اور بچیو! جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا.جن کے دلوں میں اسلام کی تبلیغ کا جوش ہے جن کو حضرت مصلح موعود سے محبت کا دعوی تھا.جو چاہتی ہیں

Page 484

466 کہ صلیب جلد سے جلد پاش پاش ہو اور توحید کا جلوہ دنیا میں پھیلے وہ جلد سے جلد اس کی تعمیر میں حصہ لیں.جنہوں نے وعدہ تو کیا ہوا ہے لیکن ابھی تک ادا نہیں کر سکیں.وہ اس کی ادائیگی کی طرف متوجہ ہوں.پونے تین سال کے عرصہ میں سینکڑوں بچیاں جوان ہوئیں.سینکڑوں عورت ایسی ہوگی جو تحریک کے آغاز میں چندہ دینے کی حیثیت نہ رکھتی ہوگی.لیکن اب دے سکتی ہیں.ان سب کو اس میں شمولیت کی طرف توجہ دلاتی ہوں.وہ اس میں شامل ہوں اور اپنے مقدس امام حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں سے حصہ پائیں.میری عزیز بہنو! یہ بھی یادر ہے کہ صرف مالی قربانی ہی دینا ہمارا مقصد نہیں.خوش نہیں ہو جانا چاہیے کہ ہم نے اسلام کی خاطر مالی قربانیاں دی ہیں اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک موت کا مطالبہ کر رہا ہے.موت اپنے جذبات کی موت اپنی اولادوں کی موت اپنی خواہشات کی اور موت رسم و رواج کی جب تک ہم اپنے ہاتھوں سے ان سب پر چھری نہیں پھیریں گی.اس نئے آسمان اور نئی زمین کی تعمیر میں حصہ نہیں لے سکتیں جس کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ رکھی جا چکی ہے.اللہ تعالیٰ نے تیرہ سوسال کے بعد اسلام کو دوبارہ ترقی دینے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا.تا پھر سے دنیا میں قرآنی معاشرہ قائم ہو.اور جس انقلاب کا نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے ذریعہ دنیا نے دیکھا تھا.اس کا نظارہ پھر ایک بار دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اولین صحابہ اور صحابیات نے آپ کو مانا اور قربانیوں کا ایک ایسا نمونہ دکھایا.جس کی مثال قرونِ اولی کے صحابہ اور صحابیات کے سوا تاریخ عالم میں کہیں نظر نہیں آتی.انہوں نے وطن چھوڑے جانیں قربان کیں، مال اور جائدادیں سلسلہ کی خاطر وقف کر دیں.غرض سب کچھ آپ کے قدموں پر نچھاور کر دیا.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:.کون ہے دوست؟ وہی جس نے نشان دیکھنے سے پہلے مجھے قبول کیا اور جس نے اپنی جان اور مال اور عزت کو ایسا فدا کر دیا ہے کہ گویا اس نے ہزار نشان دیکھ لئے ہیں.سو یہی میری جماعت ہے.اور میرے

Page 485

467 ہیں جنہوں نے مجھے اکیلا پایا اور میری مدد کی اور مجھے غمگین دیکھا اور میرے غمخوار ہوئے اور نا شناسا ہوکر پھر آشناؤں کا سا ادب بجالائے.خدا تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو...میرے ساتھ وہی ہے جو میری مرضی کے لئے اپنی مرضی کو چھوڑتا ہے اور اپنے نفس کے ترک اور اخذ کیلئے مجھے حکم بناتا ہے.اور میری راہ پر چلتا ہے.اور اطاعت میں فانی ہے اور انانیت کی جلد سے باہر آ گیا ہے.“ روحانی خزائن جلد 5 آئینہ کمالات اسلام : 349-350 حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی کامل اطاعت کرتے ہوئے اپنی مرضی کو بکلی چھوڑنے سے ہی ہماری زندگیوں میں وہ عظیم الشان انقلاب پیدا ہوسکتا ہے.جس انقلاب کے بعد دنیا ہمیں اپنا اُستاد تسلیم کر لینے کیلئے تیار ہو جس طرح کہ صحابہ کرام ، رسول اکرم ﷺ نے آنحضرت ﷺ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اپنے اندر پیدا کیا.اور ان کے متعلق آپ نے فرمایا اصحابی کا النجوم بايهم اقتديتم اهتديتم ( تحفة الاذى جزء (10 صفحه (196) کہ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس کو بھی ان میں سے اپنی منزل کا نشان قرار دے کر ان کے پیچھے چل پڑو گے.اپنی منزل مقصود پالو گے.آج ضرورت ہے کہ آپ بھی آنے والی نسلوں کیلئے درخشاں ستارے بنیں.جن کے نقش قدم پر چل کر آئندہ نسلیں اور نئے اسلام قبول کرنے والے اپنی منزل کی راہ بنا سکیں.لیکن یہ انقلاب عظیم نہ بغیر عظیم الشان قربانیوں کے پیدا ہو سکتا ہے اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی کامل اطاعت کے بغیر ہوسکتا ہے.قربانیوں کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے.جب کہ انسان ایک طرف اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرشار ہو اس کے احکام کا پورا پابند ہو.اس کے وعدوں پر کامل یقین ہو اور اس کی راہ میں ہر تلخی اُٹھانے کو تیار ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.”انسان خدا کی پرستش کا دعوی کرتا ہے مگر کیا پرستش صرف بہت سے سجدوں اور رکوع اور قیام سے ہوسکتی ہے یا بہت مرتبہ تسبیح کے دانے پھیر نے والے پر ستار الٹی کہلا سکتے ہیں؟ بلکہ پرستش اس سے ہو سکتی ہے جس کو خدا کی محبت اس درجہ پر اپنی طرف کھینچے کہ اس کا اپنا وجود درمیان سے اُٹھ جائے.اول خدا کی ہستی پر پورا یقین ہو اور پھر خدا کے حسن و احسان پر پوری اطلاع ہو اور پھر اس سے محبت کا تعلق ایسا ہو کہ سوزشِ محبت ہر وقت سینہ میں موجود ہو اور یہ حالت ہر ایک دم چہرہ پر ظاہر ہو اور خدا کی عظمت دل میں ایسی ہو کہ تمام دنیا اس کی ہستی کے آگے مُردہ متصور ہو.اور ہر ایک خوف اسی کی ذات سے وابستہ ہو اور اسی کی درد میں لذت ہو اور اسی کی خلوت میں راحت ہو.اور اس کے بغیر دل کو کسی کے ساتھ قرار نہ ہو.اگر ایسی

Page 486

468 حالت ہو جائے تو اس کا نام پرستش ہے مگر یہ حالت بجز خدا تعالیٰ کی خاص مدد کے کیونکر پیدا ہو اسی لئے خدا تعالیٰ نے یہ دعا سکھلائی اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین.یعنی ہم تیری پرستش تو کرتے ہیں مگر کہاں حق پرستش ادا کر سکتے ہیں جب تک تیری طرف سے خاص مدد نہ ہو.خدا کو اپنا حقیقی محبوب قرار دے کر اس کی پرستش کرنا یہی ولایت ہے جس سے آگے کوئی درجہ نہیں مگر یہ درجہ بغیر اس کی مدد کے حاصل نہیں ہوسکتا.اس کے حاصل ہونے کی یہ نشانی ہے کہ خدا کی عظمت دل میں بیٹھ جائے.خدا کی محبت دل میں بیٹھ جائے اور دل اس پر تو کل کرے اور اسی کو پسند کرے اور ہر ایک چیز پر اُسی کو اختیار کرے اور اپنی زندگی کا مقصد اسی کی یاد کو سمجھے.اور اگر ابراہیم" کی طرح اپنے ہاتھ سے اپنی عزیز اولاد کے ذبح کرنے کا حکم ہو یا اپنے تئیں آگ میں ڈالنے کے لئے اشارہ ہو تو ایسے سخت احکام کو بھی محبت کے جوش سے بجالائے.اور رضا جوئی اپنے آقائے کریم میں اس حد تک کوشش کرے کہ اس کی اطاعت میں کوئی کسر باقی نہ رہے.یہ بہت تنگ دروازہ ہے اور یہ شربت بہت ہی تلخ شربت ہے.تھوڑے لوگ ہیں جو اس دروازہ میں سے داخل ہوتے ہیں اور شربت کو پیتے ہیں." (روحانی خزائن جلد 22 حقیقۃ الوحی صفحہ 54-55) یہ مقام ہے جو ہماری جماعت کو حاصل کرنا ہے.اللہ تعالیٰ کی کامل عظمت.اللہ تعالیٰ سے کامل محبت اس کی محبت اور اطاعت میں ہر سبھی کو خوشی سے برداشت کرنا.اللہ تعالیٰ سے کامل محبت بغیر آنحضرت علی سے محبت اور آپ کی کامل فرمانبرداری اور قرآن مجید کے احکام پر چلے بغیر نہیں کی جاسکتی.قرآن ہی وہ شمع نور ہے جو ہماری زندگیوں کو نور مجسم بنا سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا بھی یہی مقصد تھا.اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء بھی یہی کام کرتے چلے آرہے ہیں کہ قرآن کی تعلیم کو اس کی طرح رائج کیا جائے کہ ہر احمدی کی زندگی قرآن کی عملی تفسیر بن جائے.ہمارے دلوں پر قرآن کی حکومت ہو.ہمارے گھروں میں قرآن کا چرچا ہو ہماری زبان پر بھی قرآن ہو اور ہمارے عمل بھی قرآن کے مطابق ہوں.لیکن میری عزیز بہنو! کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم میں ابھی تک قرآن کی محبت اتنی نہیں پیدا ہوئی جو ہمیں ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لے جائے.ہزاروں پھندے رسومات اور بدعتوں کے ابھی تک ہمارے گلوں میں پڑے ہوئے ہیں.منہ سے دعوئی اللہ تعالیٰ سے عشق کا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا.حضرت مسیح موعود علیہ کی اطاعت کا قرآن کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کا.اور عمل اس سے سراسر خلاف.ہم اس وقت ایک ایسے دور میں سے گزر رہے ہیں کہ ساری دنیا کی نظریں ہماری طرف لگی ہوئی ہیں تعلیم کے لحاظ سے دنیا عیسائیت کے اصولوں سے بے زار ہو کر امن کی تلاش میں اسلام کی طرف جھک رہی ہے.اور

Page 487

469 نئے اسلام لانے والوں میں اگر چہ قلیل تعداد میں لیکن بے حد مخلص اور قربانی دینے والی قابل رشک ہستیاں پیدا ہورہی ہیں.اُن کی نظریں ہماری طرف ہیں کہ اس جماعت نے جو زمانہ کے مامور کو پہچانا ہے تو اس کے نتیجہ میں ان کی زندگیوں میں کیا انقلاب آیا ہے اور کیا ان کی زندگیاں اس تعلیم کے مطابق ہیں جن کا وہ زبان سے پر چار کر رہے ہیں.اگر ان کو ہمارے قول اور ہمارے فعل میں تضاد نظر آیا.تو اس کے دو ہی نتیجے پیدا ہو سکتے ہیں یاوہ احمدیت کی تعلیم سے بدظن ہو جائیں اور اگر ثابت قدم رہیں تو ہم سے نفرت کریں کہ ان کے ملک میں خدا کا نبی پیدا ہوا.اللہ تعالیٰ نے ان کو عظیم الشان نعمت عطا کی اور انہوں نے فائدہ نہ اُٹھایا.اللہ تعالیٰ تو دلوں کے خلوص اور ان کی قربانیوں کو دیکھتا ہے.جو قوم قربانیوں میں بڑھے گی.اللہ تعالیٰ اس کو ترقی کا موقع دے گا.حیرت ہے کہ جن باتوں سے آج مغربی اقوام بے زار نظر آ رہی ہیں.ان کی ہم دلدادہ نظر آتی ہیں.بے پردگی، عریانی، مخلوط تعلیم ،لغویات کا شوق، اسراف، رسومات کے پھندے یہ وہ امور ہیں جن کی اسلامی معاشرہ میں کوئی جگہ نہیں.اور یہی وہ چیزیں ہیں جو تعلیم کے ساتھ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہیں.ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعلیم کا عام چھ چاہے.مگر تمہاری ماؤں کے تربیت اعلی نہ کرنے کی اور دینی تعلیم کا حقہ نہ دینے کی وجہ سے تمہارانمونہ قرآن کے مطابق نہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قریباً ڈیڑھ سال سے متواتر خطبات میں قرآن مجید ناظرہ اور باترجمہ پڑھنے کی طرف توجہ دلائی ہے.بے شک ایک حد تک مستورات نے اس تحریک پر لبیک بھی کہا ہے لیکن سو فیصدی ابھی کہیں عمل نہیں ہو رہا.حالانکہ چاہیے یہ کہ ہر احمدی عورت اور ہراحمدی بچی قرآن کا ترجمہ جانتی ہو.جب وہ اردو پڑھ سکتی ہے انگریزی پڑھ سکتی ہے دوسرے علوم سیکھ سکتی ہے لیکن قرآن کا ترجمہ نہیں سیکھتی دینی مسائل نہیں سیکھتی.تو اس کی وجہ صرف مذہب سے عدم محبت اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت سے لا پرواہی ہے.مذہب سے بیگانگی ہی نے موجودہ بے راہ روی مسلمان خواتین میں پیدا کی ہے جو ہم میں نہیں ہونی چاہئے.کیونکہ ہم نے باقی مسلمانوں سے الگ ہوکر مامورزمانہ کو پہچانا ہے.جس نے ہمیں پھر سے قرآن کی طرف بلایا.اور قرآن کو ہمارا دستور العمل قرار دیا.پس لجنہ اماءاللہ کی نمائندگان کو صرف چندے جمع کر کے نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ بڑا کام کر لیا ہے بلکہ سب سے ضروری اور اہم کام قرآن مجید کی تعلیم کو اس طرح رواج دینا ہے کہ کوئی احمدی عورت اور کوئی احمدی بچی قرآن مجید کے ترجمہ اور دینی مسائل سے ناواقف نہ رہے.دوسرا بہت ہی اہم کام جو ہماری اہم ذمہ داری ہے تربیت کا ہے.قوم کی بچیوں کی صحیح تربیت کا نہ ہونا

Page 488

470 بھی قرآن مجید کی تعلیم سے ناواقفی کی وجہ سے ہے.ایک مسلمان خاتون اگر قرآن کے کسی حکم پر عمل نہیں کر رہی ہوتی تو اس کی وجہ اس کا عدم علم ہوتا ہے یہ مکن ہی نہیں کہ ایک عورت کو صاف طور پر ایک حکم کا علم ہو اور وہ پھر بھی اس سے انحراف کرے.پس اپنی اولادوں اور نئی نسل کو قرآن سکھانے کی طرف پوری توجہ دیں.تا جب یہ بڑے ہوں تو ان میں سے ہر ایک عالم قرآن ہو.اور قرآن جاننے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تمام اخلاقی بیماریوں سے پاک ہو جائے.موجودہ زمانہ میں تربیت کے لحاظ سے لجنہ اماءاللہ پر دو باتوں کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ایک بے پردگی کی روک تھام اور دوسرے اپنے معاشرہ کو رسومات اور بدعات سے پاک وصاف کرنا.مغربیت کی نقل میں اور موجودہ آزادی کی رو میں بہہ کر بعض احمدی خواتین بھی بے پردگی کا شکار ہورہی ہیں.پردہ کے متعلق صحیح قرآنی تعلیم.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاوی، اور حضرت مصلح موعود کے خطبات پردہ کے متعلق جماعت کی تمام خواتین اور موجودہ آزادی کے نشہ میں چور بچیوں اور ان کے ماں باپ تک پہنچا نالجنہ اماءاللہ ی نمائندہ خواتین کا فرض ہے.اسی طرح رسومات کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے گذشتہ سال اجتماع کے موقع پر اور بعد میں بھی بعض خطبات میں خواتین کو توجہ دلائی تھی کہ وہ تمام غیر اسلامی رسوم کو ترک کریں.ہمارے معاشرہ کی فضا سادہ اور تکلفات سے پاک صاف ہونی چاہئے.اسی غرض سے حضرت مصلح موعود نے تحریک جدید جاری فرمائی تھی کہ ہمارا کھانا، ہمارا لباس، ہمارے گھر ہماری ہر تقریب سادہ اور پر وقار ہونی چاہئے.لین دین فضول رسمیں، بے جا مطالبات شادیوں کے وقت سسرال والوں کو جوڑے دینے وغیرہ سے اجتناب کرنا چاہئے.لڑکے کے ماں باپ کو رشتہ کرتے وقت صاف صاف کہ دینا چاہیے کہ ہم کسی قسم کا مطالبہ نہیں کر ہے.تالڑکی والوں کے دلوں سے بھی وہ خوف دور ہو جائے جو اس زمانہ میں ہر بچی کے ماں باپ کو اس کی شادی کے وقت ہوتا ہے کہ جہیز کم دیا.سسرال والوں کو جوڑے نہ دیے تو ہماری بچی کی آئندہ زندگی اثر انداز ہوگی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے 23 جون 1967ء کو خطبہ جمعہ میں اعلان فرمایا تھا کہ اس وقت اصولی طور پر ہر گھرانہ کو بتادینا چاہتا ہوں کہ میں ہر گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اور ہر گھرانہ کو مخاطب کر کے بدرسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں.اور جو احمدی گھرانہ بھی آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا.اور ہماری اصلاحی کوشش کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہوگا.وہ یہ

Page 489

471 یا در کھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے.وہ اس طرح جماعت سے نکال باہر پھینک دیا جائے گا.جس طرح دودھ سے مکھی پس قبل اس کے کہ خدا کا عذاب کسی قہری رنگ میں آپ پر وارد ہو یا اس کا قہر جماعتی نظام کی تعزیر کے رنگ میں آپ پر وارد ہو.اپنی اصلاح کی فکر کرو اور خدا سے ڈرو اور اس دن کے عذاب سے بچو کہ جس دن کا ایک لحظہ کا عذاب بھی ساری عمر کی لذتوں کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے کہ اگر یہ لذتیں اور عمرمیں قربان کر دی جائیں.اور انسان اس سے بچ سکے تو تب بھی وہ مہنگا سودا نہیں.“ پس عزیز بہنو! آپ سب نے اپنے امام کے ہاتھ پر اس عہد کے ساتھ بیعت کی تھی کہ جو نیک کام آپ بتائیں گے اس میں آپ کی پوری پوری فرمانبرداری کروں گی.آپ کے امام نے ایک طرف آپ کو قرآن مجید کی تعلیم کا چرچا کرنے کا ارشاد فرمایا ہے تو دوسری طرف رسومات کے خلاف اعلان جہاد کیا ہے.اس امید اور یقین کے ساتھ کہ آپ میں سے ہر ایک عورت آج کے بعد رسومات کے پھندے توڑ کر آزاد ہو جائیگی.اور اپنے امام کی کامل اطاعت کرتے ہوئے.اپنے گھروں کو پاک کرنے کیلئے شیطانی وسوسوں کی سب راہوں کو اپنے گھروں پر بند کر دے گی.اور دعا اور کوشش سے اپنی تمام طاقتیں اور صلاحتیں توحید کے قیام کے لئے خرچ کرے گی.جو جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض و غایت ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے.آمین.الھم آمین.مصباح جنوری 1968 ء

Page 490

6472 سپاسنامه بحضور سید نا حضرت امیر المومنین خلیلہ اسیح الثالث اید واللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز منجانب لجنہ اماءاللہ مرکز یہ جو حضرت صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے پیش کیا سیدنا وامامنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام عليكم ورحمته الله وبركاته احمدی مستورات کی عالمی تنظم لجنہ اماءاللہ کیلئے یہ اک عظیم الشان خوشی اور مسرت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اُسے سیدنا واما منا پیارے آقا حضرت اصلح الموعود کے باون سالہ کامیاب دور خلافت کے شکرانہ کے طور پر مسجد نصرت جہاں“ کی تحریک کو کامیاب بنانے کی توفیق دی.یہ ایک منفر د سعادت ہے.جس کیلئے لجنہ اماء اللہ جتنا بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کم ہے.پھر اس سلسلہ کی دوسری بہت بڑی سعادت یہ ہے کہ اس یادگار مسجد کا افتتاح حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سفر یورپ اور وہاں کے لوگوں تک اسلام کا کامیاب پیغام پہنچانے کا باعث ہوا.الحمد للہ علی ذالک.حضور کا یہ کامیاب سفر یورپ اور پھر بخیر وعافیت مظفر و منصور مراجعت پر ہمارے دل خوشیوں سے لبریز اور اللہ تعالیٰ کے شکر میں سجدہ ریز ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل و کرم ہے کہ اس نے ہماری حقیر قربانیوں کو قبول فرمایا اور حضور کو یورپ میں کامیابی اور کامرانی کے ساتھ پیغام حق پہنچانے اور وہاں اشاعت اسلام میں وسعت کیلئے امکانات کا جائزہ لینے کا موقع عنایت کیا.یہ سفر جہاں حضور کی روحانی قیادت کی کامیابی کی دلیل ہے وہاں بہترین نتائج کے لحاظ سے عظیم الشان مستقبل کا بھی حامل ہے.اس سفر کے دوران میں جماعت نے بھی محبت کے عجیب نظارے دیکھے.جہاں حضور نے جماعت سے مشفقانہ اور محبت بھرے جذبات کا اظہار فرمایا.وہاں جماعت کو بھی محبت و الفت ، خلوص و عقیدت کے گلدستے پیش کرنے کا شرف حاصل ہوا.اور حضور نے ان جذبات خلوص کو نوازا.اور اپنے قلب اطہر میں جگہ دی.ساری جماعت خداوند تعالیٰ کا بھصمیم قلب شکر ادا کرتی ہے.کہ اس نے ایک بے پناہ محبت کرنے والے اور دلوں کو موہ لینے والے امام اور پیارے آقا کے بعد ہمیں تیسرا مشفق اور مہربان امام همام عطا

Page 491

473 فرمایا.جو اپنی جماعت سے محبت کرتا ہے اور اپنی بہترین دعائیں اس کیلئے وقف رکھتا ہے اور جماعت بھی اپنے پیارے امام سے ایسی محبت کرتی ہے جس کی اس زمانہ میں نظیر نہیں ملتی.اور اس کی شب و روز کی دعا ئیں اپنے پیارے آقا کیلئے وقف ہیں.حضور کا یہ سفر کئی امتیازی نشانات کا حامل ہے.احمدی مستورات کے خلوص ان کے جذبہ قربانی اور دین کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے عہد کی جھلک بھی اس سے ظاہر ہے.اس وقت عورتوں کی جو مختلف عالمگیر تنظیمیں کام کر رہی ہیں.اُن میں سے لجنہ اماءاللہ کی تنظیم اس لحاظ سے منفرد ہے کہ وہ تنظیمیں دنیا کیلئے کام کرتی ہیں لیکن یہ تنظیم صرف دین کے کام کرنے کیلئے قائم ہوئی ہے.کوپن ہیگن کی مسجد نصرت جہاں“ اور حضور کا یہ سفر یورپ اس کی واضح دلیل ہے.اس مبارک اور کامیاب سفر کے ذریعہ یورپ کے احمدی بھائیوں اور بہنوں کو حضور کی زیارت کا شرف حاصل ہوا.اور اس کے ساتھ ہی حضور کو یورپ میں تبلیغ اسلام کی توفیق عطاء ہوئی.اور خدائی نوشتوں کے مطابق آنے والی عظیم تباہی سے وہاں کے لوگوں کو متنبہ کرنے کا موقع میسر آیا.خدا نے محض اپنے فضل سے یہ دونوں مقاصد نہایت شاندار طور پر پورے کئے.وہاں کے مخلص احمدیوں نے صداقت احمدیت کے عظیم الشان نشان دیکھے.اپنے ایمان اور روحانی قوت کو بڑھانے کا موقع پایا.اور حضور کے کلمات طیبات سننے کا شرف حاصل کیا اور ایک نئی روحانی بیداری پیدا ہوئی.اور برکات خلافت کے متعلق تازگی ایمان انہیں میسر آئی.اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا ہے کہ وہ اس سفر کو مستقبل کیلئے نشان بنادے.اس کے عظیم الشان نتائج ظاہر ہوں.وہ لوگ خدا کی گود میں پناہ پائیں.چین اور راستی ان کے نصیب ہو.اور عظیم تباہیوں سے وہ بچ جائیں.اسلام کی صداقت اور پیارے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روشن اور نورانی چہرہ ان کو نظر آ جائے.مسجد نصرت جہاں جو حضور کے عہد خلافت میں یورپ میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ہے.اُن علاقوں میں اشاعت اسلام کا مرکز بن جائے.افتتاح کے موقع پر اس سے قبل اور بعد اس مسجد کے مبارک ہونے اور اس سے شاندار نتائج برآمد ہونے کیلئے حضور نے اور حضور کے ساتھ جماعت نے جو دعائیں کیں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حضور شرف قبولیت پائیں.آمین.ہم سیدہ منصورہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ کو بھی اھلا و سھلا کہتی ہیں جو حضور کے ہمسفر رہ کر حضور کے اہم

Page 492

474 فرائض کی ادائیگی میں ممد و معاون رہیں.ہم سب دعا کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضور کے دور خلافت کو اسلام کی کامیابیوں اور کامرانیوں کا عظیم الشان دور بنادے اور نمبرات لجنہ کو اپنی مزید ذمہ داریوں کے ادا کرنے اور ان میں کامیاب و کامران ہونے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.ہم ممبرات لجنہ اماءاللہ مرکز یہ حضور کی خدمت میں درخواست دعا کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ خلافت کی قدر واہمیت پہچاننے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے.اور ہمیں حضور کے ہر حکم کی دل و جان سے تعمیل کرنے والیاں بنائے.اور اپنی رضا کی راہوں پر چلائے ہماری کمزوریاں دور ہوں اور خدمات دینیہ کی عظیم الشان تو فیق عطا ہو.اور ہم ہمیشہ خلافت احمدیہ سے وابستہ رہیں.آمین.مصباح اکتوبر 1967ء

Page 493

475 اختتامی خطاب بر موقع سالانہ اجتماع 22 /اکتوبر 1967ء آپ نے تشہد، تعوذ، سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ انفال کی پہلی آیات تلاوت کیں اور فرمایا:.مختلف شہروں سے آئی ہوئی ممبرات لجنہ اماءاللہ نے تین دن روحانی خزائن کو حاصل کرنے کیلئے یہاں گزارے ہیں.اس دوران انہوں نے حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے رُوح پر ور خطاب کو سنا.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی زبان مبارک سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات طیبہ کے چند واقعات سنے.درس القرآن اور درس حدیث سے مستفیض ہوئیں.خدا کرے یہ سب کچھ آپ کے اندر نیا روحانی تغیر پیدا کرنے کا موجب ہو.اور جماعت اور نظام سلسلہ کیلئے قربانیوں کا ایک نیا عزم لئے ہوئے نئی امنگوں اور نئے جوش کے ساتھ گھروں کو واپس جائیں.خطاب کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا جو آیت ابھی میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے اسلامی معاشرے کے چند گر بیان فرمائے ہیں.اس سلسلہ کا پہلا زریں اصول جس کے بغیر صحیح تربیت نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی.وہ ہے ”فَاتَّقُو اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا.اور تقویٰ کا اصل مقام یہ ہے کہ ہر اس امر کے قریب سے بھی نہ گزرا جائے جس میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کاہلکاسا خدشہ پایا جاتا ہوں.ایک صحیح اسلامی معاشرے کا دوسرا گر ان الفاظ میں بیان ہوا ہے وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ یعنی آپس میں ایک دوسرے کی اصلاح کرو.کوئی قوم یا جماعت اس وقت تک ترقی کر ہی نہیں سکتی جب تک اس کے افراد ایک دوسرے کی اصلاح کی طرف توجہ نہ دیں.کسی کی پرواہ نہ کرنا اور صرف اپنی ذات سے سروکار رکھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیم کے صریحاً خلاف ہے پس چاہیے کہ ہم میں سے ہر بچی اور ہر عورت پہلے خود عامل قرآن ہو.تقویٰ کی بنیادوں کو مضبوطی سے تھامنے والی ہو.اور پھر جب دیکھے کہ دوسروں میں اس قسم کی بُرائیاں پائی جاتی ہیں جن سے قرآن مجید نے منع فرمایا ہے تو ان کو پیار سے محبت سے اپنے آپ کو حقیر جانتے ہوئے حقیقت میں دل کی حلیم بن کر سمجھائے.معاشرے میں خواتین خوش آئند فضا پیدا کرنے کا تیسرا اور چوتھا ذریں اصول ان الفاظ میں مضمر

Page 494

476 ہے.أَطِيعُوا الله وَرَسُولَہ یعنی اللہ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت کی جائے.اس اصول کو اپنانے کے لئے تمام مستورات کو خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہنا چاہیے.کیونکہ آپ جانشین ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اور آپ کی اطاعت کر کے ہم خدا تعالیٰ اور رسول اللہ کی خوشنودی حاصل کر سکتی ہیں.اس ضمن میں حضرت سیدہ موصوفہ نے حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی تحریکات میں سے چندہ وقف جدید اور تحریک تعلیم القرآن کی طرف حاضرات کو خصوصی توجہ دلائی.نیز غیر شرعی رسوم سے قطعی اجتناب کرنے کی بھی پر زور تلقین کی.خطاب کے آخر میں آپ نے فرمایا کہ گزشتہ سال مختلف لجنات کے دورے کرنے سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ابھی ہماری مستورات میں تربیت کی کمی ہے.چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے اور اختلافات رونما ہوئے ہیں.لہذا میری بہنو اور عزیز بچیو! میں دکھے ہوئے دل کے ساتھ فریاد کرتی ہوں کہ آپ سب ان چھوٹے چھوٹے اختلافات کا قلع قمع کرنے باہم اتحاد و اتفاق کے ساتھ اپنے معاشرے کی اصلاح کریں.آپکا ہر کام خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو.ہر عمل اُس واحد یگانہ کو خوش کرنے کیلئے ہو اور ہر حرکت اِنَّ صَلوتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين (الانعام: 163) کی عملی تفسیر ہو.اس کے بعد آپ نے بیرون جات سے آئی ہوئی تمام ممبرات کو الوداع کہا اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ سفر و حضر میں ان کا حافظ و ناصر ہو.بخیر و عافیت گھروں کو جائیں.خوش و خرم رہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنے حفظ وامان میں رکھے.آخر میں آپ نے اجتماعی دعا کرائی جس کے ساتھ ہی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا یہ دسواں سالانہ اجتماع مصباح نومبر 1967ء اختتام پذیر ہوا.

Page 495

477 احمدی خواتین کی ذمہ داریاں جلسہ سالانہ 11 جنوری 1968ء قرآن مجید کی رو سے ایک مسلمان خاتون بھی بہت اہم ذمہ داریوں کی حامل ہے.اسلام سے قبل عورت کی دنیا میں جو حیثیت تھی وہ تاریخ کی نا گفتہ بہ کہانی ہے.آج تمام دنیا اس بات کی معترف ہے کہ انسانیت کے تمام حقوق عورت کو صرف اسلام نے دئے ہیں.عورت کی آزادی کا نعرہ بلند کرنے والے ممالک بھی آہستہ آہستہ اس نتیجہ پر پہنچ رہے ہیں کہ اسلامی معاشرہ کے اصولوں کو اپنائے بغیر گھر میں امن قائم نہیں رہ سکتا.اور جب گھر میں امن نہ ہوگا تو اس کا اثر سارے معاشرہ پر پڑے گا.معاشرہ افراد سے بنتا ہے جس میں عورت بھی شامل ہے اور مرد بھی.ان کی بہم نا اتفاقی یا دو خاندانوں کی کشیدگی کا اثر تمام معاشرہ پر پڑتا ہے.قرآن مجید نے جہاں عورتوں کو حقوق دئے ہیں وہاں ان کی ذمہ داریوں کی حد بندی اور نشان دہی بھی کی ہے.قرآن مجید کا ایک ارشاد:.احمدی خواتین کی ذمہ داریوں کی تفصیل میں جانے سے قبل قرآن مجید کا یہ ارشاد پیش نظر رکھنا نہایت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے مقصد پیدا نہیں کیا.زندگی کے بعد موت اور موت کے بعد زندگی سے اللہ تعالیٰ کا مقصد ہے کہ انسان اس دنیا میں بے مقصد زندگی نہ گزارے.اپنے مقصد زندگی کو حاصل کرے اور اپنے فرائض کی صحیح ادائیگی کے بعد اُخروی زندگی میں اس کی جزا پائے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِ شَيْءٍ قَدِيرِهِ نِ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ.(سورۃ الملک (32) بہت برکت والا ہے وہ خدا جس کے قبضہ میں بادشاہت ہے اور وہ ہر ایک ارادہ کے پورا کرنے پر قادر ہے.اس نے موت اور زندگی کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کون زیادہ اچھا عمل کرنے والا ہے اور وہ غالب اور بہت بخشنے والا ہے.گویا انسانی زندگی کا مقصد یہ ہےکہ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں کا صیح استعمال کرے اس کی تعلیم

Page 496

478 پر عمل کرے بالفاظ دیگر انسانی زندگی خواہ مرد کی ہو یا عورت کی زمانہ تعلیم اور پھر اس کے بعد امتحان دینے کی حیثیت رکھتی ہے جس کا نتیجہ موت کے بعد معلوم ہوگا کہ پاس ہوئے یا نہیں.یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا ذکر ہے ساتھ ساتھ یوم الآخرة پر ایمان رکھنے کا بھی ذکر ہے.اُخروی زندگی پر کامل یقین کے بغیر اس دنیا کی زندگی ان اصولوں پر جو قرآن مجید نے بیان کئے ہیں انسان نہیں گزار سکتا.دو قسم کی ذمہ داریاں:.انسانی ذمہ داریاں جو قرآن مجید نے بیان کی ہیں وہ دو قسم کی ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی سے تعلق رکھتی ہیں دوسری وہ جو انسانوں کے حقوق کی ادائیگی سے تعلق رکھتی ہیں اور وہی انسان اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے پوری طرح سبکدوش ہونے کے قابل ہو سکتا ہے جو ہر دو قسم کے فرائض کو صحیح طور پر ادا کرے اگر دونوں میں سے ایک کی طرف سے تساہل برتا جائے تو وہ انسان ایمان کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ بجالانے والا نہیں کہلایا جاسکتا.قرآن مجید نے صرف اس بات پر زور نہیں دیا کہ صرف ایک آدمی نیک ہو جائے یا دو چار دس ہیں آدمی اپنی اصلاح کر لیں اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والے ہوں بلکہ قرآن مجید سارے اسلامی معاشرہ کی اصلاح پر زور دیتا ہے.اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمایا ہے:.فَاتَّقُو اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَاَطِيْعُو اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمُ اينُهُ زَادَتْهُمْ إِيْمَانَا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ.أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ.(سوره الانفال 2 تا 5 ( ترجمہ ) پس اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور آپس میں اصلاح کی کوشش کرو اور اگر تم مومن ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو.مومن تو صرف وہی ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیات پڑھی جائیں تو وہ ان کے ایمان کو بڑھا دیں.نیز مومن وہ ہیں جو اپنے رب پر تو کل کرتے ہیں.اس طرح حقیقی مومن وہ ہیں جو نمازوں کو شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے وہ خرچ

Page 497

479 کرتے ہیں یہ مذکورہ بالا صفات رکھنے والے ہی سچے مومن ہیں ان کے رب کے پاس ان کے لئے بڑے بڑے مدارج اور بخشش کا سامان اور معزز رزق ہے.“ تقویٰ کی اہمیت:.کامل معاشرہ جو ساری دنیا کے لئے نمونہ کے طور پر پیش کیا جاسکے وہ معاشرہ ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر قائم ہو.اللہ تعالیٰ نے اسی لئے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں فتوحات عطا فرمائے.مالوں کی فراوانی ہو تو تمہارا کام یہ ہے کہ تمہارا قدم تقویٰ پر ہو.قرآن مجید نے تقویٰ کے مضمون کو اس تفصیل سے بیان فرمایا ہے کہ مختصر وقت میں اس کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں.ایمان کے ساتھ ضروری ہے کہ انسان متقی ہو.یہ وہ کم سے کم معیار نیکی کا ہے جس کو حاصل کرنے کے بعد انسان اگر ایک طرف اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق قائم کر سکتا ہے تو دوسری طرف بندوں کے لئے ایک شفیق وجود بن جاتا ہے.تقویٰ کا مطلب آسان الفاظ میں یہ ہے کہ انسان ہر کام کرتے ہوئے ڈرتا رہے کہ میرا یہ فعل اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب تو نہیں جس انسان کو یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے کہ اسے ہر کام کرتے ہوئے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے وہ گنا ہوں سے بچ جاتا ہے تکبر ، ریا کاری ، عیب اور خود پسندی سے محفوظ ہو جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ نیکیوں میں ترقی کرنا شروع کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے احباب کو تقویٰ کے متعلق کثرت سے نصائح فرمائی ہیں.آپ فرماتے ہیں.اپنی جماعت کی خیر خواہی کے لئے زیادہ ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوئے کیونکہ یہ بات عقل مند کے نزدیک ظاہر ہے کہ بجر تقویٰ کے اور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَو او الَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ - (النحل: 129) ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلہ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رُوبہ دنیا تھے.ان تمام آفات سے نجات پاویں.آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی بیمار ہو جاوے خواہ اس کی بیماری چھوٹی ہو یا بڑی اگر اس بیماری کے لئے دوانہ کی جاوے اور علاج کے لئے دکھ نہ اٹھایا جاوے بیمار اچھا نہیں ہوسکتا.ایک سیاہ داغ منہ پر نکل کر ایک بڑا فکر پیدا کر دیتا ہے کہ کہیں یہ داغ بڑھتا بڑھتا کل منہ کو کالانہ کر دے.

Page 498

480 اسی طرح معصیت کا بھی ایک سیاہ داغ دل پر ہوتا ہے.صغائر سہل انگاری سے کہائر ہو جاتے ہیں صغائر وہی داغ چھوٹا ہے جو بڑھ کر آخر کار گل منہ کوسیاہ کر دیتا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 7) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.ہم کیونکر خدا تعالیٰ کو راضی کریں اور کیونکر وہ ہمارے ساتھ ہو اس کا اس نے مجھے بار بار یہی جواب دیا ہے کہ تقویٰ سے.سواے میرے پیارے بھائیو! کوشش کرو تا متقی بنو.بغیر عمل کے سب باتیں بیچ ہیں.اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل مقبول نہیں.سو تقویٰ یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بیچ کر خدا تعالیٰ کی طرف قدم اٹھاؤ اور پر ہیز گاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو.“ (روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام ص 547) گویا اللہ تعالیٰ کا صحیح عبد بنے اور اپنے معاشرہ اور انسانوں کو صحیح طور پر حقوق ادا کرنے کے لئے سب سے پہلا قدم تقویٰ ہے کہ انسان چھوٹی سے چھوٹی برائی اور گناہ سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے.کہیں ایک چھوٹی سی غلطی جو اس وقت بظاہر معمولی نظر آتی ہے مکڑی کے جالے کی طرح انسانی روح کے گرد ایسا جالاتن دے کہ پھر کچھ کئے نہ بنے.موجودہ معاشرہ کی سب سے بڑی خرابی:.میں نے کئی بچیوں اور خواتین کو جب بعض نا مناسب امور سے روکا جائے تو بارہا یہ کہتے ہوئے سنا ہے اس میں کیا حرج ہے معمولی سی بات ہے لیکن نادان یہ نہیں سمجھتیں جو بُرائی آج ایک خاتون نے معمولی سمجھ کر کی ہے کل وہ ایسی آگ کی شکل اختیار کر لے گی کہ بجھائے نہ بجھے گی اور اس کے شعلے ہر گھر تک پہنچیں گے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی یہ خصوصیت بھی بیان فرمائی ہے عَنِ اللَّـغُومُعْرِضُونَ (المومنون : 4) لغویات سے وہ متنفر رہتے ہیں.موجودہ معاشرہ کی سب سے بڑی خرابی لغویات ہیں.سینما بینی ، فضول نا پسندیدہ لٹریچر، اچھی صحبت کا نہ ملنا ، فضول گانوں ڈراموں وغیرہ میں دلچسپی لینا.ثقافت کے نام پر ناچ، گانے ، تماشے وغیرہ یہ سب امور معاشرہ کی فضا کو خراب کر رہے ہیں جن سے ہماری نئی نسل بھی متاثر نظر آتی ہے جماعت کی اصلاح اور تقویٰ کے معیار پر لانے کے لئے ہی حضرت مصلح موعود نے تحریک جدید جاری فرمائی اور جماعت کو سینماد یکھنے سے منع فرمایا.میں نے بعض خواتین کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ وہ تو ایک عارضی اور وقتی حکم تھا سینما بینی تو بڑی فائدہ مند چیز ہے.جب ساری دنیا دیکھتی ہے تو ہم کیوں نہ دیکھیں.حضرت مصلح موعود نے جب یہ تحریک فرمائی کہ کوئی احمدی سینمانہ دیکھے تو ساری جماعت

Page 499

481 نے سمعنا واطعنا کا نعرہ لگایا اور قریب ساری جماعت نے ہی اس سے پر ہیز کیا اور وہی رقم جو سینما میں خرچ ہوتی تھی انہوں نے تبلیغ اسلام کے لئے خرچ کی.اس وقت کے لوگوں نے خود تو ایک بڑی بھاری قربانی دے کر امام کے حکم پر لبیک کہا جماعت کی ترقی اور اسلام کی اشاعت کا ذریعہ بنے لیکن اپنے بچوں کی ایسی تربیت نہ کی کہ ان کے دلوں میں بھی وہی جذبہ پیدا ہوتا اور وہ بھی سینما بینی سے پر ہیز کرتے.گواب نہایت قلیل تعداد ہی ایسے خیالات رکھنے والوں کی ہوگی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض کہ ایک ایسی جماعت دنیا میں پیدا ہو جائے جو نمونہ ہو ساری دنیا کے لئے اس وقت ہی پوری ہوسکتی ہے کہ جب ہر شخص مرد ہو یا عورت لڑکا ہو یا لڑ کی لغویات سے پر ہیز کرنے والا اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارنے والا ہو.جو خواتین یہ بجھتی ہیں کہ سینماد یکھنے کی ممانعت ایک وقتی اور عارضی حکم تھا ان کے علم کے لئے میں حضرت مصلح موعود کا ایک ارشاد پیش کرتی ہوں.آپ فرماتے ہیں.و بعض لوگوں کے منہ سے یہ بات بھی نکلی ہے کہ سینما کی ممانعت دس سال کے لئے ہے.انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ بُرائی کا تعلق دس سال یا بیس سال سے نہیں ہوتا جس چیز میں کوئی خرابی ہو وہ کسی میعاد سے تعلق نہیں رکھتی اس طرح سے تو میں نے آپ لوگوں کی عادت چھڑائی ہے.اگر میں پہلے ہی یہ کہ دیتا کہ اس کی ہمیشہ کے لئے ممانعت ہے تو بعض نوجوان جن کے ایمان کمزور تھے اس پر عمل کرنے میں تامل کرتے مگر میں نے پہلے تین سال کے لئے ممانعت کر دی اور اس کے بعد چونکہ عادت بالکل ہی نہیں رہے گی اس لئے دوست خود ہی کہیں گے کہ جہنم میں جائے سینما اس پر پیسے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے.پس سینما اپنی ذات میں بُرا نہیں بلکہ اس زمانہ میں اس کی جو صورتیں ہیں وہ مخرب الاخلاق ہیں.اگر کوئی فلم کی طور پر تبلیغی ہو یا تعلیمی ہو اور اس میں کوئی حصہ تماشہ وغیرہ کا نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں.اگر چہ میری رائے یہی ہے کہ تماشہ تبلیغی بھی ناجائز ہے.پس کوئی حرکت خواہ وہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو اگر اس کا مقصد تماشہ دکھانا ہو تو وہ نا جائز ہے.مگر سینما تو مخرب الاخلاق ہونے کی وجہ سے ہی نا جائز قرار دیا گیا ہے.اگر کوئی شخص مثلاً ہمالیہ پہاڑ کے نظاروں کی فلم تیار کرے اور وہاں کی برف، چوٹیوں کا نظارہ ہو تو چونکہ یہ چیز میں علمی ترقی کا موجب ہوں گی میں اس سے نہیں روکوں گا.جس چیز کو ہم روکتے ہیں وہ اخلاق کو خراب کرنے والا حصہ ہے لیکن اس کی دوبارہ اجازت کا خیال آپ لوگوں کو دل سے نکال دینا چاہئے.“ ( تقریر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی مجلس مشاورت 39ء)

Page 500

482 تربیت اولا د ماؤں کی اہم ذمہ داری ہے:.اس لئے ضرورت ہے کہ مائیں اپنی اولاد کی صحیح تربیت کریں.نگرانی رکھیں کہ وہ سکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے دوسرے طالب علموں کی صحبت میں ان بُرائیوں کا شکار نہ ہو جائیں جن کی رو میں بہتی ہوئی آج ہزاروں لڑکیاں نظر آرہی ہیں.صحبت کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے.ماؤں کا سب سے بڑا فرض اولاد کی تربیت ہے ان کو سچا مسلمان بنانا ہے جس کا پہلا قدم تقویٰ ہے.بچپن اور نو جوانی کی عمر میں چھوٹی چھوٹی بُرائیوں ، بُری صحبت اور فضولیات سے علیحدہ رکھا جائے تو آہستہ آہستہ ان کے دلوں پر نیکی کا گہرا اثر پڑنا شروع ہو جائے گا جس کی جڑیں آہستہ آہستہ گہری ہوتی جائیں گی.لڑکیوں اور عورتوں میں نامناسب اور بر ہنہ لباس بھی تقوی کے خلاف ہے شروع میں نہایت تنگ لباس بغیر آستین قمیض شروع ہوتی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ عورتوں کی مجلس میں ہم ایسا لباس پہنتی ہیں کیا حرج ہے کیا برائی ہے.لیکن یہی بُرائی آخر ان کو لے ڈوبتی ہے اور وہ جو بجھتی تھیں کہ صرف لباس اپنے شوق کا پہن لیا کل کو وہ بچیاں بے پردگی اختیار کر کے اللہ تعالیٰ اور قرآن کے حکم کو توڑنے والیاں بن جاتی ہیں.پس میری بہنو! اللہ تعالیٰ کا خوف اصل چیز ہے کہ دل ڈرتا ر ہے ہر وقت خدا تعالیٰ کے کسی حکم کی نافرمانی مجھ سے نہ ہو جائے.جب انسان نافرمانی کے مقام سے اپنے آپ کو پرے رکھے گا تو بہت سے گنا ہوں سے خود بخو د بچ جائے گا.دوسرا اصول جو اللہ تعالیٰ نے آیات میں بیان فرمایا ہے وہ وَاَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمُ (الانفال: 2) ہے.ایک دو یا چند انسانوں کی اصلاح سے مثالی معاشرہ پیدا نہیں ہوسکتا جب تک ہر انسان دوسرے کی اصلاح کی ذمہ داری نہ اٹھائے.آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث لوگوں میں مصالحت کرانے کی فضلیت کے متعلق بیان کرتی ہوں.عَنْ أُمِّ كُلْمُومٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ فَيَنْمِي خَيْرًا أَوْيَقُولُ خَيْرًا (بخاری کتاب الصلح) حضرت ام کلثوم بیان کرتی ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ شخص جھوٹا نہیں کہلا سکتا جولوگوں کے درمیان صلح صفائی کرانے میں لگارہتا ہے یا بھلے اور نیکی بات کہتا ہے.صلح.فساد کی ضد کا لفظ ہے یعنی آپس میں ہر مسلمان کے دوسرے سے ایسے تعلقات ہوں جن میں کسی

Page 501

483 قسم کا فساد واقع نہ ہو.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں.تَرَى الْمُؤْمِنِينَ فِى تَرَاحُمِهِمْ وَ تَوَادِهِمْ وَتَعَاطْفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ والحمى (بخاری کتاب الادب) تو مومنوں کو ان کی باہمی شفقت محبت اور ہمدردی میں ایک جسم کی طرح دیکھے گا جب اس کا ایک عضو دکھ میں ہوتا ہے تو باقی سارا جسم بھی اس کے باعث بے خوابی اور بخار کی وجہ سے بے قرار ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض پھر سے مسلمانوں کو سچا اور حقیقی مسلمان بنانا تھا.جونمونہ بنیں قرآن مجید کی تعلیم کا اور ان کے ذریعہ ہر احمدی دوسرے احمدی سے ایسی محبت اور شفقت کرنے والا ہو کہ اس کے بہن یا بھائی کا دکھ اس کا اپنا دکھ اور اس کے بھائی یا بہن کی تکلیف اس کی اپنی تکلیف ہو.وہ تکلیف جو اس کے بھائی یا بہن کو پہنچی خواہ جسمانی ہو یا روحانی خود اس کو بے قرار کر دے اور اپنے بھائی یا بہن کی تکلیف کو دور کرنے اور اس کی اصلاح کرنے کے لئے وہ ہر ممکن کوشش کرے ظاہری تدابیر سے ، ہمدردی سے نصیحت سے اور دعا سے.یہی تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دی.فرماتے ہیں:.جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو.خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم وجود واحد رکھو ورنہ ہوا نکل جائے گی.نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لئے ہے کہ باہم اتحاد ہو برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی.اگر اختلاف ہو اتحاد نہ ہو تو پھر بے نصیب رہو گے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرو.اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لئے بھی ایسا ہی ہو.کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے.اگر انسان کی دعا منظور نہ ہوتو فرشتہ کی تو منظور ہی ہوتی ہے.میں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو.“ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 336 میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں اول خدا کی توحید اختیار کرو.دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کر وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لئے کرامت ہو.یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوئی تھی كُنتُم أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمُ.(آل عمران : 104 ) یا درکھو! تالیف ایک اعجاز ہے.یادرکھو! جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے وہ مصیبت اور بلا میں ہے اس کا انجام اچھا نہیں.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 336)

Page 502

484 کوئی احمدی عورت غیبت نہ کرے:.ایسے معاشرہ اور سوسائٹی کے قیام کے لئے جہاں صلح ہی صلح ہو اور کوئی فسادنہ ہو بہت ضروری ہے کہ کوئی احمدی عورت دوسری کی غیبت نہ کرے.اس کے حالات کا تجسس نہ کرے اور کسی پر کوئی بہتان نہ لگائے.کسی پر بدظنی نہ کرے.یہی تعلیم قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے دی ہے.فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرُ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاء مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يُكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ.وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلاَ تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ وَ مَنْ لَّمْ يَتُبُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَه يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا جُتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ ا بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُو اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ.(سورة الحجرات : 1312 ) (ترجمہ) اے مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے اسے حقیر سمجھ کر ہنسی مذاق نہ کرے ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہو اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کو حقیر سمجھ کر ان سے ہنسی ٹھٹھا کیا کریں ممکن ہے کہ وہ دوسری عورتیں ان سے بہتر ہوں اور نہ تم ایک دوسرے پر طعن کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے ناموں سے یاد کیا کرو کیونکہ ایمان کے بعد طاعت سے نکل جانا ایک بہت ہی بُرے نام کا مستحق بنا دیتا ہے (یعنی فاسق کا) اور جو بھی تو بہ نہ کرے وہ ظالم ہوگا.اے ایمان والو! بہت سے گناہوں سے بچتے رہا کرو کیونکہ بعض گمان گناہ بن جاتے ہیں اور تجس سے کام نہ کیا کرو اور تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کیا کریں.کیا تم میں سے کوئی اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا.(اور اگر تمہاری طرف یہ بات منسوب کی جائے ) تو تم اس کو نا پسند کرو گے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اللہ بہت ہی توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.یہ آیات بتاتی ہیں کہ معاشرہ میں سے وہ بُرائیاں جو معاشرہ کا حصہ بن چکی ہیں اور عورتوں میں خصوصیت سے پائی جاتی ہیں تقوے کے نتیجہ میں دور ہو سکتی ہیں اور وہ بُرائیاں غیبت، بہتان لگانا، تجسس کی عادت ، بدظنی اور تکبر ہیں.تکبر کے نتیجہ میں ایک عورت دوسری پر طعن کرتی یا بُرے ناموں سے پکارتی ہے.

Page 503

485 ور نہ خوف خدار کھنے والی خدا تعالیٰ کی مخلوق سے محبت کرنے والی ایک عورت کبھی دوسری عورت کو حقیر نہیں سمجھ سکتی.غیبت کرنے سے ایک دوسرے پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے وہ ہمدردی جو ایک دوسرے سے ہونی چاہئے باقی نہیں رہتی.جس کی وجہ سے قوم کی ترقی رک جاتی ہے اور کینہ عناد آ پس میں ایک دوسرے کے لئے دلوں میں پیدا ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.جو شخص اپنے ہمسایہ کو ادنی ادنی خیر سے بھی محروم رکھتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص نہیں چاہتا کہ اپنے قصور وار کا گناہ بخشے اور کینہ پرور آدمی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہسے تو یہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.یہ سب زہریں ہیں.تم ان زہروں کو کھا کر کسی طرح بچ نہیں سکتے اور تاریکی اور روشنی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی.(روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحہ 19) تجسس کی عادت:.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ 1965ء کے موقع پر عورتوں میں تقریر فرماتے ہوئے انہیں نصیحت کی تھی کہ دوسری چیز جو ہمارے اوقات پر ڈاکہ ڈالتی ہے وہ تجسس کی عادت ہے بعض مرد اور عورتیں اپنے بھائیوں اور بہنوں کی عیب گیری کے لئے میٹریل اور مواد کی تلاش میں لگے رہتے ہیں اور اس ٹوہ میں لگے رہتے ہیں کہ دوسرے کا کوئی نقص ان کے علم میں آجائے...اس مسئلہ کے متعلق نبی کریم ﷺ کا ایک بڑا سخت ارشاد ہے جو میں اپنی بہنوں کے سامنے اس وقت رکھنا چاہتا ہوں آپ اسے غور سے سنیں اور اسی وقت عہد کریں کہ آئندہ ہم کسی کے عیب کی تلاش نہیں کریں گے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ دیکھو میں تمہیں یہ حکم دیتا ہوں کہ تم مسلمانوں کو تکلیف نہ دوان پر عیب نہ لگا ؤ اور نہ ان کی کمزوریوں کے پیچھے لگے رہو.کیونکہ جو شخص بھی تم میں مسلمانوں کی کمزوریوں کی تلاش میں لگے گا اور ان کے عیوب کی ٹوہ میں لگے گا اللہ تعالیٰ اس کے عیب کے پیچھے پڑے گا اور اس کو شرمندہ اور بدنام کرے گا خواہ اس نے یہ عیب اپنے گھر میں چھپ کے کیا ہو.پس اگر ہم سے ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ستاری کا پردہ اس کے اوپر پڑا رہے اور اس کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو خدا تعالیٰ ظاہر نہ ہونے دے اور اپنی مغفرت کی چادر کے نیچے اسے

Page 504

486 ڈھانپ لے تو ہم ایسا کرنے کی جرات کیسے کر سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے تو یہ کہیں کہ اے خدا ہماری مغفرت فرما.ہمارے عیوب کو چھپا اور ظاہر نہ کر اور خود سارے محلہ وشہر میں جا کر دوسروں کے عیوب کی تلاش میں لگے رہیں.خدا تعالیٰ تو اس صورت میں ہمیں یہ کہے گا کہ جو چیز تم اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لئے پسند نہیں کرتے وہ میرے پاس مانگنے کیوں آگئے.“ (مصباح مارچ 1966ء) پس معاشرہ کی اصلاح کے لئے یہ ضروری اور بہت ہی ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی طرف سے کوئی ربخش اور کینہ نہ ہو.ایک دوسرے پر اعتماد ہو.ایک بہن دوسری کو اپنا دوست اور ہمدرد سمجھے اور اسے یقین ہو کہ یہ میرابر انہیں چاہتی.یہ وہ عملی زندگی ہوگی جس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السّلْمِ كَافَّةً وَّلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَنِ إِنَّهُ لَكُمْ عُدُوٌّ مُّبِينٌ.(سوره البقره: 209 ) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم سب کے سب فرمانبرداری کے دائرہ میں آجاؤ اور شیطان کے قدم بقدم نہ چلوہ یقینا تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے.جب تمام افراد خواہ وہ مرد ہو یا عورتیں یا بچے احکام الہی کے پورے طور پر مطیع و فرمانبردار ہوں گے تو دنیا میں جنت خود بخود ان کے ذریعہ پیدا ہو جائے گی.جیسا کہ ایک دفعہ ساری دنیا نے یہ نمونہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ اور صحابیات کے ذریعہ دیکھا تھا.اسی لئے قرآن مجید کی اس سورۃ میں تیسری شرط کامل مومنین کی اطاعت الہی ہے.یہ وہ عظیم الشان ذمہ داری ہے جس کے بغیر ہم ترقی کی منازل طے ہی نہیں کر سکتیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تفصیل اور مکمل ہدایات مسلمانوں کو دی ہیں جن میں سے ایک ایک پر عمل کرنا ہمارا فرض ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے.(روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحه 26) قرآن کریم پڑھنے کی اہمیت:.اس بات کی کوشش کرنے کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کے نافرمان نہ بنیں اور قرآن مجید کے کسی حکم کو نہ

Page 505

487 توڑیں.قرآن مجید کا پڑھنا اور سمجھنا ضروری ہے.قرآن نہ آتا ہوگا تو بیسیوں احکام جہالت اور لاعلمی کے باعث آپ تو ڑتی رہیں گی.پس قرآن پڑھیں.ترجمہ سیکھیں، اپنی اولادوں کو پڑھوائیں.کیونکہ اللہ تعالی تک پہنچنے کے لئے تمام دروازے بند ہیں مگر ایک دروازہ جو فرقان مجید نے کھولا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض بھی اسلام کو پھر سے زندہ کرنا اور اسلامی شریعت کا قیام تھا.یہی کام آپ کے خلفاء کرتے رہے اور کر رہے ہیں.قرآن مجید پڑھنے اور پڑھانے کی حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بہت ہی تاکید فرمائی ہے تا ہماری جماعت کا ہر مرد عورت اور بچہ احکام الہی سے پورے طور پر واقف ہو.اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو.اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا ہو اور اس کا حقیقی عبد بن سکے.پردہ کا حکم:.قرآن مجید کے ہر حکم میں مرد اور عورتیں یکساں مخاطب ہیں.لیکن بعض خصوصی مسائل ہیں جو صرف عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سے ایک اہم حکم پردہ کا ہے.مغربیت کی اندھی تقلید کے نتیجہ میں ہماری نئی نسل کا ایک حصہ مذہب سے بیگانہ ہو کر پردہ کو چھوڑنے کی طرف مائل ہو رہا ہے.اس ذہنیت کے ساتھ کہ پردہ ان کی تعلیم اور ترقی میں روک ہے پردہ کرتے ہوئے وہ دنیا کی ترقی کی دوڑ میں حصہ نہیں لے سکتیں اور ان کو یقین ہے کہ آئندہ دس پندرہ یا میں سال کے بعد پردہ ختم ہو جائے گا.اس مختصر وقت میں میں پردہ کی تفصیل میں نہیں جاسکتی مجھے صرف یہ بتانا ہے کہ پردہ کا حکم قرآن مجید میں ہے.ازواج مطہرات اور صحابیات جنہوں نے براہ راست آنحضرت ﷺ سے قرآن سیکھا اس پر عمل کیا انہوں نے پردہ کیا چونکہ مسلمان قرآن پر عمل کرنا چھوڑ کر افراط و تفریط کی راہیں اختیار کر بیٹھے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے پھر اپنے نبی کو بھیجا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کے سامنے یہی مقصد اپنی بعثت کا بیان فرمایا کہ قرآن کی تعلیم کو دنیا میں رائج کرنے کے لئے آپ تشریف لائے ہیں اور یہی مقصد آپ کی جماعت کا مقصد ہے.جو احمدی عورت یا احمدی بچی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرتی ہے لیکن بے پردگی اختیار کرتی ہے وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ قرآن مجید کے احکام میں سے کسی کا بھی توڑنا اس کے نزدیک جائز ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نافرمانی جائز ہے.کیا وہ احمدی کہلانے کی مستحق ہے؟ بیعت کے وقت اقرار کرنا کہ جو آپ نیک کام بتائیں گے اس پر عمل کروں گی مگر عمل سراسر اس کے خلاف.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو کم اور عدل تھے اس زمانہ کے لئے آپ نے پردہ کا ایک ضروری حکم قرار دیا

Page 506

488 فرماتے ہیں:.انہی بدنتائج کو روکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجازت ہی نہ دی جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں.ان نا پاک نتائج پر غور کرو جو یورپ اس خلیج الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفانہ زندگی بسر کی جارہی ہے.اسلامی تعلیم کیسی پاکیزہ تعلیم ہے کہ جس نے مرد و عورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی جس کے باعث یورپ نے آئے دن کی خانہ جنگیاں اور خود کشیاں دیکھیں.“ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 22) حضرت مصلح موعود نے 1958ء میں بے پردگی کے خلاف ایک خطبہ دیتے ہوئے بے پردہ خواتین سے جن سخت الفاظ میں اظہار تنف فرمایا تھا ان الفاظ کی موجودگی میں تعجب ہے کوئی احمدی خاتون بے پردگی اختیار کرنے کی جرات ہی کیسے کرتی ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ 1965ء کے موقع پر عورتوں سے خطاب فرماتے ہوئے پردہ کرنے کے متعلق بھی تاکید فرمائی تھی.آپ فرماتے ہیں:.میں اس پر وہ کے فوائد یا بے پردگی کے نقصانات کی تفاصیل میں نہیں جانا چاہتا یہ ایک مستقل مضمون ہے جس کے متعلق میں بھی کچھ کہہ چکا ہوں اور دوستوں نے بھی اس کے متعلق کچھ کہا ہے.حضرت مصلح موعود نے اس کے متعلق بہت سے نصائح فرمائی ہیں لیکن میں پورے زور کے ساتھ کہتا ہوں کہ شریعت اسلامیہ کا ہر حکم قابل عمل ہے.قرآن کریم ایک قابل عمل کتاب ہے جو خدا تعالیٰ نے آسمان سے ہمارے لئے نازل فرمائی ہے ان احکامات کا فلسفہ کیا ہے ان کے فوائد کیا ہیں ان کے چھورنے کے نقصانات کیا ہیں یہ اپنے اپنے رنگ میں مفید اور ضروری چیزیں ہیں لیکن ہمارے لئے پہلی بات جو ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہم دین العجائز اختیار کریں یعنی یہ عہد کر لیں کہ چاہے ہمیں کوئی بات سمجھ آئے یا نہ آئے ہمیں اس کے فوائد کا علم ہو یا نہ ہو ہمیں اس کے نہ ماننے کے نقصانات بتائے گئے ہوں یا نہ بتائے گئے ہوں ہم وہی کریں گے جو خدا تعالیٰ ہمیں کہے گا اور ہم اسی طرح کریں گے جس طرح خدا تعالیٰ ہمیں کرنے کے لئے کہے گا جب تک یہ ذہنیت پیدا نہیں ہوگی آپ قرآن کریم کی برکات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتیں.(مصباح مارچ 1966ء) رہا یہ سوال کہ آہستہ آہستہ پر دہ بالکل ختم ہو جائے گا یہ نتیجہ صرف ایسے سوچنے والیوں کے اپنے خیالات کا پر تو ہے.یہ صحیح ہے کہ جب ایک بُرائی پھیلتی ہے تو ایک حد تک ضرور پھیلتی چلی جاتی ہے.مسلمان عورتوں

Page 507

489 نے بے پردگی اختیار کی قرآن چھوڑ کر اسلامی تعلیم سے غافل ہو کر اور جاہل رہ کر عیسائی عورتوں کی نقل میں.اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ ہے کہ آہستہ آہستہ عیسائیت کا رعب ختم ہو جائے گا اور جلد وہ وقت آئے گا جب ساری دنیا میں صرف ایک ہی مذہب ہو گا.اسلام،.جب اسلام کی حقانیت دنیا کی قوموں پر ظاہر ہوگی اور آنحضرت ﷺ کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہوئے دنیا آپ کے قدموں پر جھکی اس احساس کے ساتھ کہ اب دنیا میں امن صرف قرآن کی تعلیم پر چلنے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے تو وہ لوگ موجودہ تہذیب سے نفرت کریں گے اور اسلام کی حکومت کو قبول کریں گے بے پردگی سے نفرت کا احساس مغربی قوموں میں بھی پیدا ہو چکا ہے اور مرد عورت کے آزادانہ اختلاط کو وہ اب دل میں بُرا سمجھنے لگے ہیں.جو نہی اسلام کی طرف یہ لوگ جھکے اور ضرور جھکیں گے ہمارا ایمان ہے کہ خدا کے مسیح کے منہ کی نکلی ہوئی ایک ایک بات اپنے وقت پر پوری ہوگی جس طرح اس وقت تک پوری ہوتی چلی آئی ہیں تو ان قوموں کی عورتیں آپ سے زیادہ باپردہ اور اسلام کے اصول پر چلنے والیاں ہوں گی.آج آپ ان سے متاثر ہو کر ان کے پیچھے چل رہی ہیں کل وہ اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا ہو کر آپ سے نفرت کریں گی کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کا زمانہ پایا اور ان کی برکات سے فائدہ نہ اٹھا کر اپنے آپ کو دنیا کے لئے نمونہ نہ بنایا.پس قرآن کو اس طرح اپناؤ کہ تمہارے دلوں پر قرآن کی حکومت ہو.تمہارے گھروں میں قرآن کی حکومت ہو سارے معاشرہ میں ایک عورت اور بچی بھی ایسی نہ ہو جو قرآن کے احکام سے ناواقف ہو اور ان پر عمل نہ کرتی ہو.خدا کرے ایسا ہی ہو.اسلام کی ترقی خلافت سے وابستہ ہے:.اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے ساتھ قرآن مجید میں اطاعت رسول کو لازمی قرار دیا ہے.حقیقت تو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی کامل اطاعت کے بغیر اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت بھی نہیں کی جاسکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام حل کامل تھے آنحضرت ﷺ کے اور آپ کے خلفاء جانشین ہیں حضرت مسیح موعو علیہ السلام کے.اللہ تعالیٰ کی اور آنحضرت ﷺ کی کامل اطاعت کرنے والوں سے ہی اللہ تعالیٰ نے انعام خلافت کا وعدہ فرمایا ہے کہ جب تک وہ اس ایمان پر قائم رہیں گے کہ اسلام کی بقاء اور استحکام کے لئے خلافت کا قائم رہنا ضروری ہے اور اس انعام کی شان کے مطابق اعمال بجالاتے رہیں گے اللہ تعالیٰ ان میں یہ انعام جاری رکھے گا.

Page 508

490 خلافت راشدہ کے بعد قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے اس عظیم الشان انعام کی ناقدری کی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ انعام چھین لیا.پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ یہ انعام ہمیں ملا ہے.اس کے ہمیشہ قائم رہنے کے لئے جہاں ہمیں دعائیں کرتے رہنا چاہئے وہاں اس کے مطابق اعمال صالحہ بھی بجالاتے رہنا چاہئے.وہ اعمال صالحہ کیا ہیں خلیفہ وقت سے تعلق.آپ کی اطاعت، خلیفہ وقت کی ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا.ہر ایسے عنصر سے الگ رہنا جو نظام سلسلہ اور خلیفہ وقت سے بغاوت رکھتا ہو.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:- لا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادٌ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَ هُمْ أَوْ أَبْنَاءَ هُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيْرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ.أُولَئِكَ حِزْبُ اللهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (سورة المجادلة : 23) ترجمہ: تو ایسی قوم نہ پائے گا جو اللہ اور یوم آخر پر بھی ایمان لاتی ہو اور اللہ اس کے رسول کی شدید مخالفت کرنے والے سے بھی محبت رکھتی ہو خواہ ایسے لوگ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی ہوں یا ان کے خاندان میں سے ہوں یہی مومن ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش کر دیا ہے اور اپنی طرف سے کلام بھیج کر ان کی مدد کی ہے.وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہ ان میں رہتے چلے جائیں گے اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے وہ اللہ کا گردہ ہے اور سن رکھو اللہ کا گروہ ہی کامیاب ہوتا ہے.میری بہنو! اس زمانہ میں اللہ نے اسلام کی ترقی کو خلافت احمدیہ سے وابستہ کیا ہے.اگر آپ چاہتی ہیں کہ جلد از جلد جماعت ترقی کرے، اسلام پھیلے تو اپنے گھروں اور اپنی اولادوں کو ایمان کے لحاظ سے ایسا مضبوط بناؤ کہ شیطان کسی طرف سے حملہ نہ کر سکے.حضرت آدم کے وقت سے شیطان خدا تعالیٰ کا دشمن رہا ہے.اس کا سر کچلنے کے لئے ہی آدم ثانی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ نے بھیجا ہے اور یہی کام آپ کی جماعت کے ہر فرد کا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہر ارشاد اور تحریک پر لبیک کہنا آپ کا فرض ہے.

Page 509

491 رسومات کے خلاف جہاد :.عورتوں کے لئے آپ نے خاص طور پر رسومات کے خلاف جہاد کا اعلان کیا فرمایا ہے.آپ نے 23 جون 1967ء کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:.اس وقت اصولی طور پر ہر گھرانے کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں ہر گھر کے دروازے پر کھڑا ہوکر اور ہر گھر انہ کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں اور جو احمدی گھرانہ بھی آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوششوں کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہوگا وہ یہ یاد رکھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پروا نہیں وہ اس طرح جماعت سے نکال کے باہر پھینک دیا جائے گا جس طرح دودھ سے مکھی.پس قبل اس کے کہ خدا کا عذاب کسی قہری رنگ میں آپ پر وارد ہو اپنی اصلاح کی فکر کرو اور خدا سے ڈرو اور اس دن کے عذاب سے بچو کہ جس دن کا ایک لحظہ کا عذاب کا بھی ساری عمر کی لذتوں کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے کہ اگر یہ لذتیں اور عمریں قربان کر دی جائیں اور انسان اس سے بچ سکے تو تب بھی وہ مہنگا سودا نہیں سستا ہے.“ اگر ایک احمدی عورت بھی آپ کے حکم کی خلاف ورزی کرتی ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نا فرمان ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کے غضب سے ڈرنا چاہئے ہمارے صحابہ کرام کی مثال ہمارے سامنے ہے کس طرح آنحضرت ﷺ کی ایک آواز پر انہوں نے شراب چھوڑ دی اور جہالت کی سب رسومات ترک کردیں.اگر ہمارے دلوں میں ایمان ہے اگر ہم نے سچے دل سے بیعت کی ہے تو جس احمدی گھرانہ تک حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آواز پہنچے اور وہ اس پر عمل نہ کرے تو اسے قہر الہی سے ڈرنا چاہئے.الہ تعالیٰ جس بندہ کواپنے کام کے لئے کھڑا کرتا ہے اس کے مقام کی اسے بڑی غیرت ہوتی ہے.پس احمدی خواتین کی چوتھی عظیم الشان ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی کامل طور پر فرمانبردار اور خلافت کی وفادار ہوں اور یہی جذبہ اپنی اولادوں میں پیدا کرتی چلی جائیں تا نسلاً بعد نسل جانثاران خلافت احمدیہ کی جماعت پیدا ہوتی رہے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے ہر مرد اور عورت اور بچہ بچہ کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے خلیفہ کے ہر حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اسلام کی ترقی کے لئے قدم بڑھاتے چلے جائیں.

Page 510

492 خشیت الہی کی اہمیت:.سورہ انفال کی مذکورہ آیات میں سچے مومنین کے لئے پانچویں اور چھٹی شرط یہ بیان کی گئی ہے کہ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا (الانفال: 3) کامل مومن تو صرف وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں اس درجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیات پڑھی جائیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے.خشیت الہی وہ ستون ہے جس پر تقویٰ کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللهِ ذَالِكَ هُدَى اللهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَّشَآءُ (الزمر: 24) (ترجمہ) جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے جسموں کے رونگٹے اس کے (یعنی قرآن مجید) کے پڑھنے سے کھڑے ہو جاتے ہیں پھر ان کے چڑے اور دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف جھک جاتے ہیں قرآن اللہ کی ہدایت ہے وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے.پس ہدایت یافتہ ہونے کے لئے خشیت الہی کا ہونا بہت ضروری ہے اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ قرآن مجید اس طرح پڑھنا چاہئے کہ جب رحمت کی آیات کا ذکر ہو تو اللہ تعالیٰ سے رحمت کا طالب ہو اور جب عذاب کی آیات پڑھے تو اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کے عذاب سے پناہ مانگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”دیکھو یا درکھنے کا مقام ہے کہ بیعت کے چند الفاظ جو زبان سے کہتے ہو کہ میں گناہ سے پر ہیز کروں گا یہی تمہارے لئے کافی نہیں ہیں اور نہ صرف ان کی تکرار سے خدا راضی ہوتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک تمہاری اس وقت قدر ہوگی جبکہ دلوں میں تبدیلی اور خدا تعالیٰ کا خوف ہو ورنہ ادھر بیعت کی اور جب گھر میں گئے تو وہی بُرے خیالات اور حالات رہے تو اس سے کیا فائدہ؟ یقیناً مان لو کہ تمام گنا ہوں سے بچنے کے لئے بڑا ذریعہ خوف الہی ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 95) انسان آگ میں کبھی ہاتھ نہیں ڈالتا.سانپ سے دور بھاگتا ہے کیوں؟ اس لئے کہ وہ جانتا ہے آگ اس کا ہاتھ جلا دے گی.سانپ اسے کاٹ لے گا.اس طرح گناہ پر دلیری بھی خدا کا خوف دل میں نہ ہونے

Page 511

493 کی وجہ سے ہوتی ہے.خوف پیدا کرنے کے لئے معرفت الہی کی ضرورت ہے.جتنی اللہ تعالیٰ کی معرفت زیادہ ہوگی اسی قدر خوف بھی ہوگا.ہر کہ عارف تر است ترساں تر انسان جو اللہ تعالیٰ کے احکام توڑتا ہے صرف اسی وجہ سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت نہیں رکھتا.پس اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کریں جس کے نتیجہ میں اس کی معرفت حاصل ہو اس سے انتہائی محبت بھی کریں اور انتہائی طور پر ڈریں بھی کہ یہی حقیقی مقام ایمان کا ہے.اللہ تعالیٰ کے خوف کی پر کھ یہ ہے کہ انسان دیکھتا ہے کہ اس کا قوم و فعل کہاں تک ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہے.اگر قول اور فعل یکساں نہیں تو اس کو ڈرتے رہنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی گرفت میں نہ آجائے.حضرت خلیفۃ اصبح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 21اکتوبر 1967ء کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے اجتماع میں تقریر فرماتے ہوئے اسی مضمون کو بیان فرمایا تھا فرماتے ہیں: غرض اسلام کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ایک مسلمان حقیقی معنی میں مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا نہ ہو.اور ایک مسلمان حقیقی معنی میں مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک خشیت اللہ اس کے اندر رچ نہ جائے.جب تک اتباع نبی اکرم ﷺ کو وہ مضبوطی سے پکڑ نہ لے.باقی ساری تعلیم جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے وہ اسی نقطہ کے گرد گھومتی ہے کیونکہ جب ہمارے دل میں خوف خدا پیدا ہو جائے گا تو ہم اس نہی سے بچیں گے جس سے قرآن کریم نے ہمیں روکا ہے.اور اگر حقیقی خشیت اللہ ہمارے دل میں پیدا ہو جائے گی تو ہم اس راہ پر چلنے کے لئے بشاشت کے ساتھ تیار ہوں گے جو اہ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والی ہے.“ المصابیح صفحہ : 82 83 اسی تقریر کے دوران حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا تھا: دو پہلی ذمہ داری تو مثلاً یہی ہے کہ ہمارے دل میں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کا خوف باقی نہ رہے جس کے معنے یہ ہیں کہ سوائے خدا کی باتوں کے ہم کسی کی بات ماننے کے لئے تیار نہ ہوں جس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے اندر کوئی رسم و رواج نہ ہو کیونکہ تمام رسوم غیر اللہ کے خوف کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں.“ (المصابیح صفحہ 85) تو گل: توگل جب اللہ تعالیٰ کا کامل خوف دل میں پیدا ہو جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر نشان اور آیت

Page 512

494 اس کے ایمان میں اضافہ کا موجب ہوتی ہے اور اس کو وہ اعلیٰ مقام حاصل ہو جاتا ہے جسے تو کل کا مقام کہتے ہیں اور جسے سورہ انفال کی مذکورہ بالا آیات میں وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.یعنی سچے مومن وہ ہیں جو اپنے رب پر تو کل کرتے ہیں.گویا یہ ساتویں عظیم خصوصیت ہے جو ایک مسلمان مرد یا عورت میں پیدا ہونی چاہئے اور اس کے ذریعہ اس کی اولاد میں.وہ تدابیر تو ضرور اختیار کریں لیکن نتائج پیدا ہونے پر سر تسلیم خم کر دیں اور اللہ تعالیٰ کی ہر رضا پر راضی ہو جائیں.ایسے انسانوں میں سے ہوا و حرص کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے خدا کی خاطر ان کی زندگی ہوتی ہے.ایک احمدی خاتون کو اپنے اندر یہ جذبہ اور خصوصیت پیدا کرنی چاہئے.کمزور قسم کی عورتیں اپنے خاوندوں اور بیٹوں کے خدمت دین کے جذبہ میں بھی روک بن جاتی ہیں لیکن کامل تو کل رکھنے والی عورتوں کو یہ خیال نہیں ہوتا کہ ہمارے خاوند واقف زندگی ہیں تو ہمارا گزارہ کیسے ہوگا.بیٹوں کی زندگیاں وقف کیں تو یہ آسودہ زندگی کیسے گزاریں گے.بلکہ ان صفات کی مالک خواتین اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل کرتی ہیں اور اس کی خاطر ہر قربانی دینے کو تیار.دنیا کے عیش و عشرت پر لات مار کر سادہ زندگیاں گزارنے والی بن جاتی ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وفادار دوست ہے وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق: 9) کو جو خدا کی طرف پورے طور پر آگیا پھر خُدا اس کے ساتھ پوری وفا کرتا ہے.ابتدائے اسلام سے اب تک ہزاروں دولت مند، کروڑ پتی، صناع و تا جر گزرے.آج ان کے نام بھی کوئی نہیں جانتا یہاں تک کہ ان کی اولادیں بھی اپنے آبا و اجداد کے نام سے واقف نہیں لیکن وہ جنہوں نے اسلام کی خاطر جان، مال، عزت، وقت اور اولادکو قربان کیا آج ان کے نام لیتے ہوئے ہماری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں بے اختیار زبان اور دل سے نکلتا ہے اور آرزو پیدا ہوتی ہے کاش ہم بھی ان مقدس ہستیوں میں سے ہوتے.اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل کے نتیجہ میں مزید خصوصیات یہ پیدا ہو جاتی ہیں جو قوم کے افراد کی اہم ترین ذمہ داریاں ہیں کہ وہ نمازوں کو قائم کرتے اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ان کو دیا ہوتا ہے اس میں سے خدا تعالیٰ کی خاطر خرچ کرتے چلے جاتے ہیں.اقامت صلوة :- قرآن مجید نے اقامت الصلوۃ پر بہت زور دیا ہے.جو روحانی نظام اسلام قائم کرنا چاہتا ہے اس کی بنیادی اینٹ اقامت الصلوۃ ہے یعنی ایک امام کے پیچھے باجماعت نماز پڑھنی.اقامت الصلوۃ اسلام کے اس نقطہ مرکزی کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ اسلام کو ترقی اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب سب مسلمان ایک امام کے تابع ہوں جس کی قیادت میں وہ روحانی اور جسمانی ہر طرح سے ترقی کریں.جب تک مسلمانوں

Page 513

495 نے اس نکتہ کو سمجھا ترقی کی جب اس سے غافل اور لاپر واہ ہوئے تنزل کے گڑھے میں گرتے چلے گئے.اسی لئے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے کہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِعْيا اللہ تعالیٰ کے فرستادہ کا دامن تھامے رہو اور اپنے امام کی کامل اطاعت و فرمانبرداری کرو.عورتوں پر اگلی نسل کی بھاری ذمہ داری ہے اس نسل کی اصلاح مرد کر سکتے ہیں لیکن اگلی نسل جو متقی ہو اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبردار ہو پیدا کرنی عورتوں کا کام ہے.اگر ہماری عورتیں اپنے بچوں کو نمازوں کا پابند ، اطاعت گزار، خلیفہ اسیح کے کامل فرمانبردار، ہر تحریک پر لبیک کہنے والے اور سلسلہ کے وفا دار بنائیں گی تو اسلام اور احمدیت کو ایسے مجاہد خود بخود میسر آتے چلے جائیں گے جو اسلام کا جھنڈا ہاتھ میں تھامے اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند رکھنے کے لئے قربانیاں دیتے چلے جائیں گے.انفاق فی سبیل اللہ :.اقامت الصلوۃ کے ساتھ ہی قربانیوں اور انفاق فی سبیل اللہ کا درجہ حاصل ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے : يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ اَدْلُكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ أَلِيْمٍ.تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسَكُمْ ذَالِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.(الصف: 1211) اے مومنو! مرد یا عورت عذاب الیم سے نجات کا طریق یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اپنے مال اور جانیں خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش کریں.اَنْفُسَكُمُ میں اولاد ، عزت، جذبات ، طاقت، وقت سب کچھ آجاتا ہے اور ان سب کو قربان کئے بغیر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں ہوسکتا.اسلام کو ترقی حاصل نہیں ہو سکتی.پس عورتوں کے لئے سب سے بڑی قربانی اپنے جذبات، روایات اور عادات کی قربانی ہے.پرواہ نہ کریں برادری کی پرواہ نہ کریں اولاد کی ، سب کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار رہیں تا ان سب کو قربان کر دینے کے نتیجہ میں ایک سنہری صبح اسلام اور احمدیت کے لئے طلوع ہو.ہمارے امام ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ جماعت کی ہر عورت سے مطالبہ فرما رہے ہیں کہ ہر احمدی عورت قرآن پڑھے ترجمہ سیکھے اور اپنی زندگی اس کے مطابق گزارے.دنیا کی محبت سرد ہو جائے.دین کی بقا کی

Page 514

496 خاطر سادہ زندگی گزارے.رسومات ترک کر دے.اولا د کو وقف کرے.ان کی دینی تربیت کرے تا قرآن ان کا اوڑھنا اور بچھونا ہو.اگر ایسا نہیں تویا درکھیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قُلْ إِنْ كَانَ آبَاءُ كُمْ وَأَبْنَاءُ كُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسْكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُوْلِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ (التوبة: 24) یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر تمہارے باپ تمہارے بیٹے تمہارے بھائی تمہارے خاوند یا خاوندوں کی بیویاں تمہاری بُرادری اور تمہارے مال اور مکانات سب خدا اور اس کے رسول ﷺ اور خدا کی راہ میں قربان کر دینے سے زیادہ عزیز ہیں تو پھر اس دن کا انتظار کرو جب خدا اپنا حکم ظاہر کر دے.میری عزیز بہنو! اس عہد بیعت جو تم نے اپنے خلیفہ کے ہاتھ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں داخل ہوتے ہوئے باندھا تھا پورا کرو.نہ جان کی پرواہ ہو نہ مال کی.نہ اولاد کی پرواہ ہونہ عزت کی.بس لگن ہو تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں وہ سب کچھ قربان کر دیا جائے جو اس نے دیا ہے اس سے دائمی عزت ملے گی.اسی سے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوگی.اور اسی سے صدیوں تک تمہارا نام عزت سے لیا جائے گا.خدا کرے ہم میں سے ہر عورت صدق و اخلاص سے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والی ہو اور اس کی راہ میں وہ استقامت حاصل کرے جو تمام نفسانی جذبات پر غالب آجائے اس کا وجود فنا ہو جائے.اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کی زندگی کی تمام قو تیں صرف ہوں.اپنی اولا دکو سچے اور مخلص احمدی بنانے کے لئے جن پر شیطان کبھی حملہ آوار نہ ہو سکے.آمین اللہم آمین (الفضل 20 فروری 1968ء)

Page 515

497 خطاب طالبات فضل عمر تعلیم القرآن کلاس مورخہ 30 روفا (جولائی 1968ء) کو طالبات فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کی جو الوداعی تقریب ربوہ میں منعقد ہوئی اس میں حضرت سیدہ ام متین مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے جو خطاب فرمایا تھا وہ درج ذیل کیا جاتا ہے.وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (سورة الانعام : 156) الْحَمْدُ لِله ثُمَّ الْحَمْدُ لِله بلکه آن فضل عمر تعلیم القرآن کلاس اختتام پذیر ہورہی ہے.اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے آپ سب کو اس میں شامل ہونے کی توفیق عطاء فرمائی 1965ء اور 1966ء کے مقابلہ میں گذشتہ سال طالبات کی تعداد میں نمایاں زیادتی ہوئی تھی لیکن اس سال گذشتہ سال کی نسبت باہر سے آنے والی طالبات کی تعدا کم رہی ہے.کل 124 طالبات باہر سے آئیں جن میں سے بارہ طالبات بعض مجبوریوں کی بناء پر واپس چلی گئیں.پانچ طالبات نے بیماری کے سبب امتحان نہ دیا.کل 105 طالبات نے امتحان میں شرکت کی.طالبات کی تعداد بھی کم رہی اور جن مقامات سے وہ آئیں ان کی تعداد بھی گذشتہ سال سے کم رہی.گذشتہ سال 32 جگہوں سے طالبات آئی تھیں اور امسال 27 مقامات سے.اس سے ظاہر ہے کہ اس سال بجنات کی عہدہ داروں نے اپنی ذمہ داری کو صیح طور پر ادا نہیں کیا.قرآن مجید کی تعلیم کا یہ انتظام حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے مطابق آپ کی خصوصی نگرانی میں کیا جاتا ہے.اور اس لئے کیا جاتا ہے کہ مرد اور عورتیں مرکز میں آکر قرآن مجید کی تعلیم حاصل کریں.اور جا کر اپنی اپنی جماعت میں پڑھا سکیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مرکز میں آکر قرآن مجید پڑھنے کا ارشاد قرآن مجید کے اس حکم کے مطابق ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.وَمَا كَانَ المُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (سورة التوبه : 122) (ترجمہ) اور مومنوں کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ سب کے سب اکٹھے ہو کر تعلیم دین کیلئے نکل پڑیں پس کیوں نہ ہوا کہ ان کی جماعت میں سے ایک گروہ نکل پڑتا تا کہ وہ دین پوری طرح سیکھتے اور اپنی قوم کو واپس لوٹ کر بے دینی سے ہوشیار کرتے تا کہ وہ گمراہی سے ڈرنے لگیں.اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ کسی شہر یا قصبہ یا گاؤں سے ایک وقت میں سارے مومنوں کا دین

Page 516

498 سیکھنے کیلئے آنا ناممکن ہے.گھر کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں.ملازمین کو چھٹی نہیں ملتی.صحت ٹھیک نہیں ہوتی.غرض بہت سے عذر ہو سکتے ہیں.ان الفاظ کے بین السطور یہ بھی اشارہ ہے کہ دین کا علم سیکھنا اتنا ضروری ہے کہ اگر سب کا اکٹھا آنا ممکن ہوتا تو سب کو ہی آنا چاہئے تھا.لیکن چونکہ یہ مکن نہیں.انسان کے ساتھ بہت سے عذر لگے ہوئے ہیں اس لئے ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی جماعت میں سے ایک گروہ نکل پڑتا.نَفَر کے معنے اِسْرَعَ اِلَیہ کے ہیں یعنی تیزی سے شوق سے کسی کی طرف جانا.جس میں خواہش اور شوق پایا جاتا ہو.زبر دستی اور مجبوری سے وہ دین سیکھنے کیلئے نہ آئیں بلکہ ان کو انتظار ہو کہ کب دین کی تعلیم کا مرکز میں انتظام کیا جائے اور کب ہم پہنچیں اور جا کر علم دین سیکھیں.قرآن مجید نے آنے والوں کیلئے ”طائِفَة‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے.طَائِفَة کے معنے لغت میں اَلْجَمَاعَةُ مِنَ النَّاسِ کے ہیں اور جماعت کا لفظ کم سے کم تین کے عدد پر بولا جاتا ہے.اس ارشاد باری تعالیٰ کی مطابق ہر شہر، قصبہ اور گاؤں سے کم از کم تین طالبات کو تو ضرور آنا چاہئے.تمام پاکستان کی صدہا جماعتوں سے صرف 124 طالبات کا آنا اور صرف 27 مقامات سے آنا بے حسی اور قرآن مجید سے عدم دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے.مرکز میں جماعتوں کے آنے کی دو اہم غرضوں کو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے.پہلی یہ کہ ان کے آنے کی غرض تفقہ فی الدین ہے.تفقہ کے معنے لغت میں فھم کے ہیں یعنی کسی چیز کو اس طرح سیکھنا کہ مکمل طور پر وہ سمجھ آ جائے.تفقہ باب تفعل سے ہے جسمیں تکلف کے معنے ہیں یعنی کوشش اور محنت سے علم حاصل کرنا اور اس کی باریکیاں سمجھنا.پس تفقہ فی الدین کے معنے یہ ہوں گے کہ دین کا علم اس طرح محنت اور دل لگا کر سیکھے کہ پوری طرح ہر مسئلہ سمجھ میں آجائے.اگر دین کے لفظ کے مختلف معنی بیان کئے جائیں تو اپنی ذات میں یہ ایک بہت لمبا مضمون بن جائے گا.حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے وقتا فوقتا ان الدین عندالله الاسلام کی جو لطیف تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں بیان فرمائی ہے وہ آپ سب نے سنی ہے اسے یادرکھیں اور اس کی روشنی میں دین کا علم حاصل کرنے کی اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتی رہیں.دوسری غرض مرکز میں جماعتوں کے آنے کی قرآن مجید نے یہ بیان فرمائی ہے کہ مرکز میں رہ کر علم دین سیکھ کر جب وہ اپنے شہروں میں واپس جائیں تو پیچھے رہنے والوں کو ہوشیار کر سکیں کہ آپ لوگ قرآن مجید پڑھیں اور اس کی تعلیم پر عمل کریں.پس آپ کا فرض ہے کہ علم دین کی جو باریکیاں اور مسائل آپ نے یہاں سیکھے ہیں وہ اپنے شہر یا گاؤں یا قصبہ میں واپس جا کر وہاں کی رہنے والیوں کو سکھائیں.قرآن مجید نے جو اوامر اور منہیات بیان فرمائے ہیں وہ تفصیلاً بتا ئیں.سکھائیں تا جو بدعتوں اور جہالت

Page 517

499 کے پھندوں میں اس لئے جکڑے ہوئے ہیں کہ ان کو احکام قرآنیہ کاعلم نہیں وہ اپنے رب کا حکم سن کر ان بُرائیوں کو چھوڑ کر اپنے رب کے فرمان پر چلنے لگیں.پس یہ غرض تھی آپ کے یہاں آنے اور پڑھنے کی.خدا کرے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو پورا کرنے والیاں نہیں.اور جن جواہرات سے آپ نے یہاں جھولیاں بھری ہیں وہ فراخدلی کیساتھ اپنی ہمجولیوں میں تقسیم کر سکیں.قرآن جواہرات کی تھیلی ہے اور لوگ اس سے بے خبر ہیں.“ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 542) ان جواہرات کی اطلاع دُنیا تک پہنچانا آپ کا کام ہے.جو آیت میں نے تقریر کے شروع میں تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی عظمت کو بیان فرماتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے.پانچ نہایت اہم باتیں اس آیت میں بیان فرمائی گئیں ہیں.اول :- هذا كتاب".یہ بڑی عظمت و شان والی کتاب ہے.عربی میں تنوین عظمت کو بیان کرنے کیلئے بھی آتی ہے.قرآن معمولی کتاب نہیں بڑی عظمت والی بڑی شان والی کامل کتاب ہے.اس کی عظمت اور شان کی دلیل یہ ہے کہ انزَلْنَاهُ اس کے اتارنے والے ہم ہیں.ظاہر ہے کہ وہ رب العالمين جو ازل سے اپنے بندوں کی ہر قسم کی ضروتوں کو پورا کرتا چلا آیا ہے ان کے روحانی قومی کی تکمیل کے لئے اس نے ایک کامل کتاب نازل فرمائی.قرآن مجید کے علاوہ کسی اور الہامی کتاب نے یہ دعوی اس تحدی کے ساتھ نہیں کیا جو قرآن مجید نے کیا ہے.اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اس کتاب کو اتارنے والے ہم ہیں.اس میں کسی انسانی ہاتھ کا دخل نہیں.اسی مضمون کو دوسری جگہ یوں فرمایا ہے:.إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَوَانًا لَهُ لَحَافِظُونَ.(سورة الحجر : 10) کہ ہم نے یہ ذکر اتارا ہے اور ہم خود اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں.چنانچہ آج دشمنانِ اسلام بھی اس بات کا اقرار کرنے پر مجبور ہیں کہ ظاہری اور معنوی دونوں طور پر قرآن مجید کی جس طرح حفاظت ہوئی ہے.اس کا مقابلہ کوئی اور کتاب نہیں کر سکتی.انزلناہ کے الفاظ ایک ایسے انسان کو جو اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتا ہے مجبور کرتے ہیں کہ قرآن مجید سے بیحد محبت رکھے کہ یہ اس کی کتاب ہے، اسے بار بار پڑھے صحیح پڑھے بعینہ اسی طرح جس طرح اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے.آجکل بچیوں میں آٹوگراف رکھنے کا بیحد شوق پایا جاتا ہے اپنی دوستوں یا بزرگوں کی چند تحریروں یا دستخطوں کو وہ سینے سے لگائے پھرتی ہیں.بار بار پڑھتی ہیں ایک دوسرے کو دکھاتی ہیں لیکن خدا کی کتاب اور اس کا جو پیغام آپ کے نام ہے اس کو پڑھنے صحیح پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی طرف توجہ نہیں.

Page 518

500 دوم: نزول قرآن کو خود اللہ تعالیٰ نے عظیم الشان معجزہ قرار دیا ہے.فرماتا ہے:.اَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَالِكَ لَرَحْمَةً وَّ ذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ.(العنكبوت: 52) ترجمہ: کیا ان کے لئے یہ نشان کافی نہ تھا کہ ہم نے تجھ پر ایک مکمل کتاب قرآن کو نازل کیا.جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے.اس امر میں مومنوں کیلئے تو بڑی رحمت اور نصیحت کے سامان ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کیا قرآن مجید نازل کر دینے کے بعد بھی کسی اور معجزہ کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ یعنی حقیقت تو یہ ہے کہ صرف قرآن مجید ہی اللہ تعالیٰ کی ہستی تھی.اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کیلئے ایک اکیلا کافی نشان تھا.اس کے بعد کسی اور معجزہ کی ضرورت ہی نہ تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.آج روئے زمین پر سب الہامی کتابوں میں سے ایک فرقان مجید ہی ہے کہ جس کا کلام الہی ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہے.جس کے اصول نجات کے بالکل راستی اور وضع فطرتی پر مبنی ہیں.جس کے عقائد ایسے کامل اور مستحکم ہیں جو براہین قومیہ ان کی صداقت پر شاہد ناطق ہیں جس کے احکام حق محض پر قائم ہیں.جس کی تعلیمات ہر یک طرح کی آمیزش شرک اور بدعت اور مخلوق پرستی سے بکلی پاک ہیں جس میں توحید اور اور عظیم الہی اور کمالات حضرت عزت کے ظاہر کرنے کیلئے انتہا کا جوش ہے.جس میں یہ خوبی ہے کہ سراسر وحدانیت جناب الٰہی سے بھرا ہوا ہے اور کسی طرح کا دھبہ نقصان اور عیب اور نالائق صفات کا ذاتِ پاک حضرت باری تعالیٰ پر نہیں لگاتا روحانی خزائن جلد 1.براہین احمدیہ ص 81 82 تیسری اہم بات جس کو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے.وہ مبارک کا لفظ ہے.یہ قرآن بہت ہی برکتوں والا ہے.مبارک برکت سے نکلا ہے اور برگہ اس نیچی جگہ کو کہتے ہیں جہاں بارش ہونے پر اردگرد کا تمام پانی بہ کر جمع ہو جائے.یعنی قرآن مجید تمام صداقتوں اور تمام اعلیٰ تعلیموں کا نچوڑ اور مخزن ہے.کوئی اعلیٰ درجہ کی تعلیم اس سے باہر نہیں.کوئی دائمی صداقت ایسی نہیں جس کو قرآن نے بیان نہ کیا ہو.وہ ایک ایسا سمندر ہے جس میں ہر زمانہ اور ہر ضرورت کے وقت اس کے مطابق ہدایت ملتی چلی جائے گی.اس کے علوم غیر محدود ہیں.جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:.قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادَ لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي

Page 519

501 وَلَوْجِتُنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا (سورة الكهف : 110) یعنی اگر خدا کے کلام کے لکھنے کیلئے سمندر کو سیاہی بنالیا جائے تو لکھتے لکھتے سمند ر ختم ہو جائے اور کلام میں کچھ کم نہ ہو گو ویسے ہی سمندر بطور مدد کے کام میں لائے جائیں.سورۃ انبیاء آیت 51 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَهَذَا ذِكْرٌ مُبَارَكٌ أَنْزَلْنَاهُ.(الانبياء: 51) اس کا ترجمہ انہی معنوں کی رُو سے حضرت خلیفہ اسی الثانی نے یوں کیا ہے کہ یہ قرآن ایک ایسی یاد دہانی کرنے والی کتاب ہے جس میں تمام آسمانی صحیفوں کی خوبیاں بہہ کر آگئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.”اے بندگان خدا ! یقیناً یا درکھو کہ قرآن شریف میں غیر محدود معارف و حقائق کا اعجاز ایسا کامل اعجاز ہے جس نے ہر ایک زمانہ میں تلوار سے زیادہ کام کیا ہے اور ہر یک زمانہ اپنی نئی حالت کے ساتھ جو کچھ شبہات پیش کرتا ہے.یا جس قسم کے اعلیٰ معارف کا دعویٰ کرتا ہے اس کی پوری مدافعت اور پورا الزام اور پورا پورا مقابلہ قرآن شریف میں موجود ہے.کوئی شخص برہمو یا بدھ مذہب والا یا آریہ یا کسی اور رنگ کا فلسفی کوئی ایسی الہی صداقت نکال نہیں سکتا جو قرآن شریف میں پہلے سے موجود نہ ہو قرآن شریف کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہو سکتے اور جس طرح صحیفہ فطرت کے عجائب وغرائب خواص کسی پہلے زمانہ تک ختم نہیں ہو چکے بلکہ جدید در جدید پیدا ہوتے جاتے ہیں.یہی حال ان صحت مطہرہ کا ہے تا خدائے تعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت ثابت ہو.روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام صفحہ 257 258 اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قرآن کریم کے جو عجائبات کھولے ان کی نظیر نہیں ملتی اور آئندہ بھی جب بھی قرآن مجید پر کوئی اعتراض اُٹھے گا قرآن کی تلوار ہی اس کو کاٹ کر رکھ دے گی.اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون اس طرح بھی بیان فرمایا ہے.فرماتا ہے: وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ ﴿سورة النحل: 90 کہ اے محمد رسول اللہ ! ہم نے تجھ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کا بیان موجود ہے.جس کا کوئی کنارہ نہیں جب کسی چیز کی ضرورت محسوس ہو اسی سمندر میں غوطہ لگاؤ اور نکال لو.ھدی کہکر اس طرف توجہ دلائی کہ غوطہ لگانیوالا غرق بھی ہو سکتا ہے.اور نا کام بھی رہ سکتا ہے لیکن قرآن کے سمندر میں غوطہ لگانے والا اپنے مقصد میں نا کام نہیں رہے گا.بلکہ اس سمندر میں غوطہ لگانے والا خدائی رحمتوں کا وارث

Page 520

502 بنے گا.اس کے آگے بھی رحمتیں ہوں گی.پیچھے بھی رحمتیں ہوں گی بشارتوں اور نعمتوں کا ایک سلسلہ ان کیلئے قائم ہو جائے گا.مبارک کے ایک اور معنے بھی ہیں جب انہی خیر و برکات کا کسی پر اسطرح نزول ہو کہ بظاہر پتہ ہی نہ لگے کہ کہاں سے اور کس ذریعہ سے ہوا ہے اور اتنا ہو کہ شمار نہ کیا جا سکے تو اُسے مبارک کہتے ہیں.ان معنوں کی رو سے هذا کتاب انزلناہ مبارک کے یہ معنے ہوں گے کہ اس کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں انسان پر خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے ایسے انعامات اور برکات نازل ہوتی ہیں جن کا نہ احاطہ کیا جاسکتا ہے نہ ان کا شمار.اور ایسے ایسے عجیب طریقوں سے ان کا ظہور ہوتا ہے جن کو سمجھنے سے انسانی عقل قاصر رہ جاتی اور دنیا ورطہ حیرت میں ڈوب جاتی ہے.چوتھی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بیان فرمائی ہے کہ تمہاری روحانی ترقی کیلئے میں نے اعلیٰ ترین سامان اس عظیم الشان کتاب کے ذریعہ سے کر دیئے ہیں.اب تمہارا کام ہے.فاتبعوہ اس کے پیچھے چلو.قرآن کے ہر حکم پر عمل کرو.اسے اپنا دستور العمل بناؤ.قرآن مجید ایک مکمل ضابطہ عمل ہے.چودہ سو سال قبل مسلمانوں نے اس گڑ کو سمجھا.قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا اور اس کے نتیجہ میں دنیا ہی ان کے ذریعہ جنت بن گئی.جب عمل کرنا چھوڑ دیا.بدعتیں پیدا کر لیں.مغز اسلام سے دور جاپڑے صرف نام کے مسلمان رہ گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا تا پھر دُنیا کو قرآن کا تابع بنائیں.قرآن کریم کے ہر حکم پر چلنا اور چلنے میں سعادت محسوس کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے.قرآن مجید نے یہود کی سب سے بڑی برائی یہی تو بیان فرمائی ہے کہ :.افَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَبِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يُفْعَلُ ذَالِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى اَشَدِ الْعَذَابِ (البقره: 86) اللہ تعالیٰ یہود سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ کیا تم کتاب کے ایک حصہ کا انکار کرتے ہو.پس تم میں سے جو ایسا کرتے ہیں ان کی سزا اس جہان کی زندگی ہی میں رسوائی اُٹھانے کے سوا اور کیا ہے جو انہیں ملے گی اور وہ قیامت کے دن اس سے بھی سخت عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے.یعنی کتاب اٹھی کے جس حکم کو ماننے میں اپنا فائدہ نظر آتا ہو مان لینا اور جس حکم کو ماننے میں بظاہر نقصان ہو یا ماننا مشکل نظر آتا ہو چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مورد بنا دیتا ہے شریعت کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے اور خدا کے احکام پر نہ چلنے کی وجہ سے ہی یہودی قوم مغضوب سیھم بنی.مسلمانوں کے لئے اور خصوصاً ہم احمدیوں کیلئے بڑا ہی

Page 521

503 خوف کا مقام ہے.خدا کا نبی ہم میں آیا اس نے ہمیں قرآن سکھایا اور آپ کے خلفاء نے قرآن کی تعلیم کی اشاعت میں ہی اپنی زندگیاں گزاریں اب حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ساری تحریکات کا مرکزی نقطہ تعلیم قرآن ہی ہے جس کی ایک حد تک تکمیل فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کے ذریعہ بھی ہو رہی ہے قرآن کی تعلیم کا یہ مطلب نہیں کہ صرف پڑھ لو.تفسیر یاد کر ولو بلکہ قرآن مجید کے نزول کا مقصد انسان کو ظلمت سے نکال کر روشنی کی طرف لے جانا ہے جیسا کہ فرماتا ہے:.الراكِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ...(سورة ابراهيم: 2) اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ ہم نے تجھ پر قرآن مجید کو اس غرض سے نازل کیا ہے کہ تو تمام لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے.صرف پڑھ لینے سے تو انسان ظلمتوں سے نکل کر نور حاصل نہیں کر سکتا.جب تک قرآن مجید کے تمام احکام پر عمل نہ کرے اور ہر بات سے جس سے منع فرمایا گیا ہے نہ رکے.اپنی مرضی سے کسی حکم پر عمل کر لیتا جس پر عمل کرنے کو جی نہ چاہا چھوڑ دینا.مثلاً نماز، روزہ پر تو عمل رہا.خدا کی راہ میں مالی قربانی سے گریز کیا.یا بڑھ چڑھ کر چندے تو دے دیئے لیکن قرآن کے ایک واضح حکم پردہ کرنے سے اجتناب کیا.یہ یہودیوں والا عمل ہے.بیسیوں احکام قرآن مجید کے ہم قرآن مجید کا ترجمہ نہ جاننے اور مطلب نہ سمجھنے کے باعث توڑتے ہیں.پس یا درکھو قرآن مجید کوئی قصہ کہانی یا تاریخ کی کتاب نہیں کہ پڑھ چھوڑا اور غافل ہو گئے.یہ تو تمہاری دینی، دنیوی اور روحانی ترقیات کیلئے ایک دستور العمل ہے جس پر چل کر تم اس دُنیا میں اپنی آنکھوں سے جنت دیکھ سکتی ہو.تمہارے دلوں پر قرآن کی حکومت ہو.تمہارے خیالات پر قرآن کی حکومت ہو.تمہارے گھروں میں قرآن کی حکومت ہوتا اس کے نتیجہ میں ہمارا سارا معاشرہ قرآنی معاشرہ بن جائے.اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو یہ فرمایا کہ قرآن کی اتباع کرو.دوسری طرف یہ فرما یا قُلْ إِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ آلِ عمران: 32) کہ اگر خدا کی محبت کی خواہش ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم بقدم چلنا ہو گا.تب محبت الہی حاصل کر سکتے ہو.بظاہر دو الگ باتیں ہیں لیکن حقیقت میں ایک ہی بات ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن مجید کی عملی تفسیر ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ كَانَ خُلُقُهُ الْقُرآن آپ کے اخلاق کی تصویر کھینچنا چاہتے ہو تو قرآن پڑھ لو.(مسند احمد بن حنبل) بالفاظ دیگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی تفسیر اپنے قول فعل کردار ، اخلاق نمونہ اور اپنی

Page 522

504 ساری زندگی کے ہر لمحہ سے کی.آپ کا ہر قول اور فعل قرآن کی تعلیم کے عین مطابق تھا.پس کی اتبعوہ میں قرآن کے احکام پر عمل کرنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگین ہونا دونوں ہی باتیں آجاتی ہیں.قرآن پر عمل کرنے کیلئے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ قرآن سے محبت ہو اور اس کا احترام ہو.قرآن سے محبت رکھتے ہوئے اس کی بالکل صحیح تلاوت کرنی سیکھیں.کل مسجد مبارک میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ہر بات اور کام کے متعلق اسلامی آداب سیکھیں.قرآن مجید کے بھی کچھ آداب ہیں ان کو ہر وقت مد نظر رکھنا چاہئے کیونکہ قرآن کریم پر غور و فکر کرنے سے پہلے قرآن کی قرآت کا درجہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (سوره العلق : 2) اپنے رب کے نام سے پڑھ جس نے تجھے پیدا کیا.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جہاں بعثت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد بیان فرمائے ہیں.وہاں سب سے پہلے يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِہ فرمایا ہے.غرض تلاوت قرآن کریم نہایت ضروری ہے.اور اس کے کچھ آداب ہیں.سب سے پہلا ادب پاکیزگی ہے.فرماتا ہے لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعه: 80) طهارت جسمانی بھی مراد ہو سکتی ہے اور باطنی بھی.خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ ظاہر کا باطن پر اثر پڑتا ہے.یعنی ظاہر بھی صاف رہنا چاہئے اور باطن بھی.عربی میں طَاهِرُ القِیاب اس شخص کیلئے بھی بولا جاتا ہے جو ا چھے کام کرتا ہو اور اعلیٰ اخلاق کا مالک ہو.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ المُتَطَهِّرِينَ (سورۃ بقرہ:223) پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے.پس قرآن پڑھنے اور سیکھنے اور اس کے علوم پر عبور حاصل کرنے کیلئے ظاہری اور باطنی طہارت کا اختیار کرنا نہایت ضروری ہے.نہ ظاہر گندہ ہو نہ دل میں بُرے خیالات ہوں.نہ اپنے کردار اور اخلاق پر گندگی کا کوئی دھبہ لگنے دیا جائے.باطنی طہارت پر سب سے بڑا دھبہ جھوٹ ہوتا ہے.جھوٹ بولنے والا روحانیت حاصل نہیں کر سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نفاق کی ایک علامت جھوٹ بولنا بھی بتائی ہے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی تاکید سے فرمایا:.اَلا وَقَوْلَ النُّوُرِ اَلا وَقَوْلَ النُّورِ (بخاری کتاب الشهادت جھوٹی بات کہنے سے بچو.پس قرآن سیکھنے کیلئے اپنے آپ کو پاکیزہ بنانے کی کوشش کرو اور قرآن کی تعلیم پر عمل کرو.قرآن کی تعلیم خود مطہر ہے اس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں آپ بھی مطہر بن جائیں گی.

Page 523

505 دوسرا ادب یہ ہے کہ جب قرآن پڑھو تو اعوذ باللہ ضرور پڑھو صرف الفاظ کا دہرانا کافی نہیں دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ ہر شر.ہر بُرائی، ہر وسوسہ سے چاہیں.جب دل کی گہرائیوں سے اعوذ پڑھیں گی تو ہر قسم کے شیطانی اثرات سے محفوظ ہو جائیں گی اور احکام قرآنی پر عمل کرنے میں دل میں اگر تذبذب اور وسوسہ ہوگاؤہ دُور ہو جائے گا.آپ مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجائیں گی.اور جو اللہ کی پناہ میں آجائے اس پر شیطان کا تسلط نہیں ہوسکتا.تیسرا ادب قرآن مجید پڑھنے والے کیلئے یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کی جائے.فرماتا ہے:.رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا.(سورة المزمل: 5) قرآن کی ہر آیت ہر لفظ کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرو.غور کرو.تدبر کرو.اللہ تعالیٰ سورہ ص آیت 30 میں فرماتا ہے: كِتَابٌ اَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا.(ص: 30) اس مبارک کتاب کو ہم نے تجھ پر اس لئے اتارا ہے کہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور وفکر کریں.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ اَمْ عَلَى قُلُوبِ أَقْفَالُهَا.(محمدٌ : 25) کیوں یہ لوگ قرآن پر تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں.یعنی قرآن مجید پر صرف وہی غور نہیں کرتا یا کر سکتا جس کے دل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی بداعمالیوں کے نتیجہ میں قفل لگ جائے.جب قرآن مجید کی آیات زمین و آسمان کی پیدائش.اللہ تعالیٰ کی صفات پر انسان صاف دل کے ساتھ غور کرے گا تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ سے بے حد محبت پیدا ہوگی اور اس کے سامنے اس کی روح سجدہ ریز ہو جائے گی.قرآن مجید پڑھنے والے کے علاوہ کچھ آداب قرآن کریم سننے والے کیلئے بھی ہیں جن پر عمل کرنا ہر احمدی کا فرض ہے.اللہ تعالیٰ سورہ اعراف میں فرماتا ہے:.وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَانْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (سورة الاعراف آیت 205) اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو توجہ سے سنو اور خاموش رہو.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم پر رحم کیا جائے گا.صاف صاف الفاظ میں قرآن مجید پڑھے جاتے وقت مکمل طور پر خاموش رہنے کا حکم ہے.غور وفکر اور تدبر اور پوری توجہ خاموشی کو چاہتی ہے.مجھے افسوس ہے کہ ہماری مجالس اور درسوں کے وقت اس کا پورا اہتمام نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا فرمائے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی پورے طور پر اطاعت کرنے والیاں بنیں.ہمارا فرض ہے کہ اپنے اپنے دائرہ واقفیت میں ہر عورت اور ہر بچی تک خدا تعالیٰ کا

Page 524

506 یہ حکم پہنچائیں تا آئندہ کوئی عورت یا بچی لاعلمی کے باعث یہ غلطی نہ کرے.قرآن مجید کے مطابق تو قرآن پڑھتے وقت شور کرنا کفار کا کام تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَاتَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ.سورة حم السجدة: 27 کافروں نے کہا کہ اس قرآن کو نہ سنو اور اس کے پڑھے جانے کے وقت شور مچاؤ تا کہ تم غالب آجاؤ.کفار سمجھتے تھے کہ شور مچائیں گے کسی کے کانوں تک آواز نہ جائے گی تو غلبہ ہمارا ہوگا اس کے برعکس خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم خاموش رہو.اور اس کے نتیجہ میں تم پر خدا تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں گی کامیابی نصیب ہوگی.مومنین کی تو خصوصیت ہی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ :.إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمُ ايْتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا.(سورة الانفال:3) مومنین کی شان تو یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں.ان میں خشیت پیدا ہو جاتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی آیتیں ان پر پڑھی جاتی ہیں تو ان کے ایمان کو بڑھا دیتی ہیں اگر قرآن کریم پڑھا جارہا ہو اور دو چار آپس میں باتوں میں مصروف ہوں تو نہ ان کے دل خوف خدا سے لرز رہے ہوں گے نہ ان کے ایمانوں میں زیادتی ہو رہی ہوگی.کیونکہ ان کی پوری توجہ ان مضامین کی طرف نہ ہوگی.جو قرآن مجید کی ان آیات میں بیان ہو رہے ہوں گے.پس مذکورہ بالا اوصاف اپنے میں پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ جب قرآن پڑھا جارہا ہو تو آپ خاموشی اور پوری توجہ سے اس کو سنیں اور اس کے مضامین پر غور کرنے کی عادت ڈالیں.پس ہر احمدی بچی کو قرآن مجید پڑھنے اور سننے ہر دو کے آداب کو مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے.جب لغویات سے پر ہیز کریں گی.نفس پاک ہوں گے تو قرآن مجید پر غور و تدبر کرنے کے نتیجہ میں اور قرآنی تعلیم اور اس کے احکام پر عمل کرنے سے وہ کیفیت پیدا ہوگی جو زندگی کا حقیقی مقصد ہے.گناہوں، بُرائیوں، بے اعتدالیوں سے بچ جائیں گی اور نیکیوں کی طرف قدم اُٹھنا شروع ہو جائے گا.قرآن مجید کی عظمت اور محبت دل میں پیدا ہوگی جس کے نتیجہ میں دل کی اور روح کی کیفیت یہ ہوگی کہ دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے

Page 525

507 پانچویں اہم بات جو مذکورہ بالا آیت میں بیان کی گئی ہے وہ وَاتَّقُوا کے الفاظ ہیں.قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرو اور تقویٰ اختیار کرو.وَاتَّقُوا کے الفاظ بعد میں آئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی تقویٰ قرآن مجید کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی پیدا ہو سکتا ہے اور یہ بھی قرآن کے احکام پر عمل بھی کرو اور تقویٰ بھی اختیار کرو.ان دونوں باتوں کے نتیجہ میں تم اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کر سکتے ہو.تقویٰ کا لفظ بڑے وسیع معانی پر مشتمل ہے.تفصیل بیان کرنے کا وقت نہیں.مختصراً اس کے معنے ہیں کہ ہر فعل میں اللہ تعالیٰ کو ڈھال بنالینا.اور جس کی خدا ڈھال بن جائے اس پر کوئی شیطانی وار کارگر نہیں ہوسکتا.اور اللہ تعالیٰ اسی کی ڈھال بنتا ہے.جو اس کے احکام پر ہے.تقویٰ کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہر کام کرتے ہوئے یہ بات مدنظر رہے کہ میرا یہ فعل اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف تو نہیں.میرے اس کام کرنے سے اللہ تعالیٰ ناراض تو نہیں ہو جائے گا.اس حد تک خوف الٰہی کا غلبہ طاری رہے تو بہت سی بُرائیوں اور گناہوں سے انسان بچ جاتا ہے.خود اللہ تعالیٰ نے بھی تو یہی فرمایا ہے.هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کہ جو تقوی اختیار کرتا ہے قرآن مجید ان کو روحانیت کے بلند مقامات تک پہنچا دیتا ہے.انسان خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے سے صرف اسی وقت انکار کرتا ہے جب اس میں کبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احکام کی پرواہ نہ ہو.ہم کیوں عمل کریں.ہمیں کیا ضرورت ہے.ہم نظام کی اطاعت کیوں کریں وغیرہ.ورنہ ایک متقی شخص کو جب اور جس وقت بھی یہ پتہ چلے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ کے متعلق یوں فرمایا ہے وہ ضرور عمل کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقویٰ کو نیکی کے زینہ پر چڑھنے کا پہلا قدم قرار دیا ہے.حضور فرماتے ہیں.ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے پھر آپ فرماتے ہیں اسلام چیز کیا ہے ؟ خدا کے لئے فنا ترک رضائے خویش بیٹے مرضی خدا جو مر گئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات اس راہ میں زندگی نہیں ملتی بجز معمات یعنی حقیقی اسلام کامل فرمانبرداری کا نام ہے اللہ تعالیٰ کا ہر حکم پورا کرنے کی خاطر اپنے پر موت وارد

Page 526

508 کرنا.جب تک انسان اپنے جذبات، اپنی خواہشات اپنے نفس کی گردن پر اپنے ہی ہاتھ سے چھری نہ پھیر دے.اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو مٹی میں نہ ملا دے وہ صحیح معنوں میں مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں.ہر ارشاد کی تعمیل کرے ہر بات جس سے روکا گیا ہے اس سے رک جائے.تب پھر یہ ارشاد باری تعالیٰ پورا ہوتا ہے.لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ کہ ایسے لوگ پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی چادر میں لپیٹ لئے جاتے ہیں.اس کے فضلوں کی ان پر بارش ہوتی ہے اور اس کے انعامات کے وہ وارث ٹھہرتے ہیں.خدا کرے ہم میں سے ہر ایک قرآن مجید کے احکام پر چلنے والی بنے.ہماری زندگیاں اطاعت الہی اور اطاعت رسول میں بسر ہوں ہم اور ہماری اولادیں اور ان کی اولادیں نسلاً بعد نسل اللہ تعالیٰ کے اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ والے گروہ میں ہی شامل رہیں.اپنی بچیوں کو میں یہ بھی نصیحت کر دوں گی کہ علم دین سیکھنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اپنے لئے دُعا بھی کیا کریں کہ خدایا ہمیں دین کا علم اور فہم عطا فرما.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رَبِّ زِدْنِي عِلْمَ اپڑھا کرتے تھے.جو کچھ یہاں پڑھا ہے اسے ایک بار کم از کم اپنے گھروں میں جا کر دہرائیں اس نیت کے ساتھ کہ اگلے سال انشاء اللہ آپ پھر مرکز میں پڑھنے کیلئے آئیں گی جو سیکھا ہے وہ دوسروں کو سکھائیں کہ یہی اصل مقصد یہاں آنے کا تھا.قرآن مجید کی صحیح تلاوت کی روزانہ مشق کریں.اصول آپ کو سکھا دیئے گئے ہیں مشق کرنا آپ کا کام ہے.اور یہ خیال دل سے نکال دیں کہ قرآن سیکھنا مشکل ہے جیسا کہ کئی طالبات کو میں نے کہتے سنا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَلَقَدْ يَسْرُنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (سورة القمر : 33) ہم نے قرآن کریم کو عزت اور شرف حاصل کرنے کیلئے آسان کر دیا ہے.پس کوئی ہے جو اس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں عزت و شرف حاصل کرے.اللہ تعالیٰ نے خلافت کے عظیم الشان انعام کے نتیجہ میں آپ کیلئے قرآن مجید سیکھنے کے سامان مہیا کر دیئے ہیں.سیکھنا اور ان پر عمل کرنا آپ کا کام ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو تو فیق عطا کرے.آمین.(الفضل 21 اگست 1968ء)

Page 527

509 خطاب اجتماع راولپنڈی 15 ستمبر 1968ء کو لجنہ اماءاللہ راولپنڈی کے اجتماع کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا:.ہر مذہب تو حید کا پیغام لایا ہے.اور ہر مذہب نے یہ دعویٰ کیا کہ مذہب کے ذریعہ اس کے ماننے والوں کا تعلق اس کے پیدا کرنے والے سے پیدا ہوتا ہے.لیکن ہر مذہب ایک محدود زمانہ اور ایک خاص قوم کے لئے تھا.کسی مذہب کے ماننے والے اب یہ دعوی نہیں کر سکتے کہ اس کے ماننے والوں کا زندہ تعلق ان کے خالق سے اب بھی ہو سکتا ہے.یہ دعویٰ صرف اور صرف اسلام کا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور غلامی میں اب بھی آپ کے ماننے والے اور آپ کی سچی فرمانبرداری کرنے والے درگاہ الہی میں قرب پاتے ہیں.پاتے رہے ہیں اور پاتے رہیں گے.زمانہ نبوی سے دوری کے باعث پھر ایک بار خالق و مخلوق میں پردے حائل ہو چکے تھے.دنیا اپنے پیدا کرنے والے سے دُور ہو چکی تھی اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تا آپ دنیا کو بتائیں کہ ان کا خدا زندہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں اور قرآن زندہ کتاب ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے اب بھی انسان برکتیں حاصل کر سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی بعثت کی غرض بیان فرماتے ہیں:.وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں...وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے.اس کا نمونہ دکھاؤں اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ سے نہ محض قال سے ان کی کیفیت بیان کروں اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی تو حید جو ہر ایک قسم کے شرک کی آمیزش سے خالی ہے جواب نابود ہو چکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائی پودا لگا دوں اور یہ " سب کچھ میری قوت سے نہیں ہوگا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہو گا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے.روحانی خزائن جلد 20 لیکچر لاہورص: 180 مذکورہ بالا حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض بھی دنیا کو کامل تو حید پر قائم کرنا اور قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کروانا تھا جس کے نتیجہ میں انسان کا تعلق اپنے رب سے قائم ہو.وہ

Page 528

510 اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کر سکے جو اس کی زندگی کی پیدائش کا اعلیٰ ترین مقصد ہے.حضرت مصلح موعود نے بھی اپنی ایک تقریر میں اس مقصد کو بیان فرمایا کہ احمد بیت ہی حقیقی اسلام ہے.اور آج قرب الہی کا دروازہ صرف احمدیت کے واسطہ سے کھلا ہے.فرماتے ہیں:.احمد بیت اللہ تعالیٰ سے ایسے تعلق کا نام ہے کہ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے بندے کا اتصال ہو جائے اور بندہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں اور محبوبوں میں شامل ہو جائے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں فرق نہیں کرتا.اس کا دروازہ ہر ایک بندے کے لئے کھلا ہے.لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ بندہ اپنے اندر یہ تڑپ پیدا کرے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ملے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا.اور میری زندگی کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے.الا زہار لذوات الخما رص 1425 ہر مسلمان یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ مجھے اپنے پیدا کرنے والے سے محبت ہے لیکن اس کی محبت کو پر کھنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ایک معیار قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے فرمایا :.قُلْ إِنْ كَانَ آبَاءُ كُمْ وَابْنَاءُ كُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوهَاوَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسْكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِاَمُرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَسِقِينَ ﴿سورة التوبه: 24 ترجمہ: تو مومنوں سے کہدے کہ اگر تمہارے باپ داد سے اور تمہارے بیٹے اور تمہارے دوسرے رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارتیں جن کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور وہ مکان جن کو تم پسند کرتے ہوتم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کے راستے میں جہاد کرنے کی نسبت زیادہ پیارے ہیں تو تم انتظار کرو.یہاں تک کہ اللہ اپنے فیصلہ کو ظاہر کر دے اور اللہ اطاعت سے نکلنے والی قوم کو بھی کامیابی کا راستہ نہیں دکھاتا.یہ معیار ہے دعوئی محبت الہی کا.اور اس عہد بیعت کو پورا کرنے کا جو ایک احمدی بیعت کرتے وقت باندھتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت کے مقابلہ میں اپنے اہل وعیال زیادہ عزیز ہیں تو خدا تعالیٰ سے محبت کا دعوئی غلط.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے میں قوم و بُرادری کی روایات حائل ہیں تو بھی محبت الہی کا دعوی باطل.کیونکہ اطاعت رسول کے نتیجہ میں ہی اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوتی ہے اگر اللہ تعالیٰ کے راستے میں قربانیاں کرنے میں اولا دیا گھر کی محبت روک بنتی ہے.تب بھی

Page 529

511 محبت الہی کا دعویٰ صحیح نہیں.خدا تعالیٰ کی محبت بالا ہونی چاہئے سب محبتوں پر.اللہ تعالیٰ کا ادب فائق ہو سب حاکموں کے ادب پر.اور اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے قربان کر دے.تب محبت الہی کا دعویٰ صحیح سمجھا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی مضمون کو ان اشعار میں بیان فرمایا ہے.اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فتا ترک رضائے خویش بیٹے مرضی خدا پنے جو مر گئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات اس راہ میں زندگی نہیں ملتی بجز ممات مذکورہ بالا آیت میں اس امر کا انداز بھی ہے کہ عہد بیعت باندھ کر محبت الہی اور اطاعت رسول کا دعویٰ کر کے پھر اللہ تعالیٰ کی محبت کے مقابلہ میں کسی اور کی محبت کو ترجیح دے تو وہ فاسقین کے گروہ میں شمار ہوگا.ایسی قوم کو اللہ تعالیٰ کبھی کامیابی کا راستہ نہیں دکھاتا.گویا دین و دنیا کی کامیابی کا ضامن ہے اپنے دعوئی پر پورا ترنا.اپنے دعوئی محبت الہی کو سچ کر دکھانا.اپنے دعوئی اطاعت رسول کو صحیح ثابت کر دینا اور اپنے دعوئی قربانی کا خواہ جان کی ہو یا مال کی.عزت کی ہو یا اولاد کی.اپنے عمل سے ثبوت دینا.باوجود دعوی محبت کے بھی ایک انسان اگر اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستہ پر نہ چلے تو بھٹک جاتا ہے.اس لئے اس راستہ پر چلنے کیلئے بھی انہی ذرائع کو اختیار کرنا ہو گا.جو محبت الہی کے ذرائع ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن مجید کی روشنی میں پانچ ذرائع بیان فرمائے ہیں:.(1) عقیدہ کی تصیح (2) نیک صحبت (3 معرفت (4) صبر وحسن ظن (5) دُعا ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 461) ان میں سے سب سے پہلا عقیدہ کی تصحیح ہے یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ وہ محبت الہی کو حاصل کر سکے.اس کا عقیدہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی قوتوں کے متعلق بالکل صحیح ہونا چاہئے.محبت بڑھتی ہے حسن سے یا احسان سے جتنی زیادہ اعلیٰ جتنی زیادہ خوبصورت اور عمدہ چیز دیکھیں گے وہ زیادہ اچھی لگے گی.اللہ تعالیٰ کی صفات کا آپ کو علم نہ ہو گا.اس کی تمام صفات پر ایمان نہ ہوگا.یہ یقین نہ ہو گا کہ وہ دعائیں سنتا ہے.وہ ہدایت کے سامان بہم پہنچاتا ہے.ہر مشکل کے وقت وہی مشکل کشا ہے غفور ہے.ستار ہے تو آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ہستی کیلئے اتنی محبت پیدا نہیں ہو سکتی.جتنی اس کی صفات کے جلووں پر غور کرنے اس کے

Page 530

512 احسانات کو ہر وقت چشم تصور کے سامنے لانے اور اس کے احسانات کا شکر ادا کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوسکتی ہے.عقیدہ کی تصحیح کے بعد دوسرا قدم یہ ہے کہ نیکوں کی صحبت اختیار کی جائے.صحبت کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے.انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ سے ملنے کی کتنی تڑپ ہی کیوں نہ ہو.لیکن اگر وہ صحبت اختیار کرتا ہے بروں کی اور فاسقوں کی تو آہستہ آہستہ اس کے دل پر بھی زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اعمال نیک کے واسطے صحبت صادقین کا نصیب ہونا بہت ضروری ہے.یہ خدا کی سنت ہے ورنہ اگر چاہتا تو آسمان سے قرآن یونہی بھی دیتا اور کوئی رسول نہ آتا.مگر انسان کو عمل درآمد کیلئے نمونہ کی ضرورت ہے پس اگر وہ نمونہ نہ بھیجتارہتا تو حق مشتبہ ہو جاتا.ملفوظات جلد سوم صفحہ 129 اپنی ایک اور تقریر میں حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں:.تیسرا پہلو حصول نجات اور تقویٰ کا صادقوں کی معیت ہے.جس کا حکم قرآن شریف میں ہے.كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (سورة التوبه (119) یعنی اے ایمان والو تقویٰ اختیار کرو.اور تقویٰ جب حاصل ہو سکتا ہے کہ صادقین کے ساتھ معیت اختیار کرو ( یعنی اکیلے نہ رہو.کہ اس حالت میں شیطان کا داؤ انسان پر ہوتا ہے.بلکہ صادقوں کی معیت اختیار کرو.اور ان کی جمعیت میں رہو.تا کہ اُن کے انوار و برکات کا پر تو تم پر پڑتا رہے اور خانہ قلب کی ہر ایک خس و خاشاک کو محبت الہی کی آگ سے جلا کر نور الہی سے بھر دے ملفوظات جلد چہارم صفحہ 207 حاشیہ نیک صحبت میں رہ کر محبت الہی کے تیسرے ذریعہ کا حصول ممکن ہوتا ہے.یعنی معرفت میں ترقی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کے نیک اور کامل بندے اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہوتے ہیں.ان کی صحبت اور ان کے نمونہ سے اللہ تعالیٰ کی صفات کی حقیقی معرفت حاصل ہوتی ہے جو ایمان میں ترقی کا موجب اور محبت الہی کو اپنے دل کی گہرائیوں میں پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہوتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب: 22) تمہارے لئے محمد رسول اللہ کی ذات و اخلاق میں ایک کامل نمونہ موجود ہے.وہ اخلاق اپنے اندر پیدا کر کے اللہ تعالیٰ کی معرفت کو حاصل کر سکو گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع اور آپ کے نقش قدم پر چلنے سے ہی خدا مل سکتا ہے.ایک ذرہ بھر بھی ادھر اُدھر نہیں ہونا چاہئے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریق سے ہی حاصل ہوسکتی ہے اور معرفت میں

Page 531

513 زیادتی ہی محبت کو بڑھاتی ہے.معرفت حاصل کرنے کے بعد چوتھا ذریعہ محبت الہی کو اپنے دل میں پیدا کرنے کا صبر اور حسن ظن ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.” جب تک ایک حیران کر دینے والا صبر نہ ہو کچھ بھی نہیں ہوسکتا.ملفوظات جلد اوّل صفحہ 461 جب انسان اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے کوشش کرتا چلا جاتا ہے اس کی راہ میں ثابت قدمی دکھاتا ہے مصائب اور تکلیفیں جو اس کی راہ میں قربانی دینے سے پہنچتی ہیں.ان پر کامل صبر دکھاتا ہے اس کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آنے پاتی تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے وعدہ کے مطابق کہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا هُدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.(العنكبوت: 70) اس کے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دیتا ہے.قرب الہی کی راہیں اس کے لئے آسان ہو جاتی ہیں.ناممکن باتیں ممکن ہونے لگتی ہیں.بہت سے ہوتے ہیں جو نیکی میں قدم آگے بڑھاتے ہیں لیکن چونکہ ان میں ثبات نہیں ہوتا کسی وقت ٹھوکر کھا جاتے ہیں.عارضی جوش فنا ہو جاتا ہے لیکن جو صبر دکھائے اور مشکلات میں ثابت قدم رہے.مشکلات کے پہاڑ بھی آخر اس کے سامنے ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں.اور جو کچھ وہ ڈھونڈ رہا ہوتا ہے پالیتا ہے.آخری ذریعہ جو حقیقت میں سب سے بڑا ذریعہ ہے.وہ دعا ہے.اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی محبت کو اسی سے مانگنا چاہئے.اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے مجھ سے مانگو میں دوں گا.ادعونی استجب لکم.اب یہ مانگنے والے کا کام ہے کہ وہ مانگتا چلا جائے.ہمت نہ ہارے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:.غضب ہے شاہ بلائے غلام منہ موڑے ستم ہے چُپ رہے یہ وہ کہے مجیب ہوں میں اسلام نے دعا جیسی بے بہا نعمت سے مسلمانوں کو نوازا ہے.دعا کی حقیقت سے دوسری اقوام اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے بے بہرہ ہیں.ہاں یہ ضروری ہے کہ وَالْيُؤْمِنُوابِی (البقرہ: 187) والی شرط پوری کی جائے.اللہ تعالیٰ کی ہستی اس کی قدرت پر کامل یقین ہو کہ وہ دعائیں سنتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہماری جماعت نے قبولیت دعا کی وہ بے نظیر نشانیاں دیکھی ہیں جن کی مثال کہیں اور نہیں پائی جاتی.ہماری جماعت کی خواتین کو دعا کو اپنا ہتھیار بنانا چاہئے.اور اس رب العزت کے حضور اپنی روحانی ترقی.اس کا قرب حاصل کرنے اور اس کی محبت کو پانے کی دعا کرتے رہنا چاہئے.

Page 532

514 حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ 1952ء کے موقع پر تمام احباب جماعت کو خاص طور پر یہ دعا مانگنے کا ارشاد فرمایا تھا.پس ہمیں چاہئے کہ جہاں اور دعا ئیں اپنی جسمانی اور روحانی ضروریات پوری کرنے کے لئے مانگیں وہاں اس دعا کا بھی التزام رکھیں.تا ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی حقیقی محبت پیدا ہوا اور اپنے بچوں کو بھی یہ دعایا کروائیں.وہ دعا یہ ہے:."اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي حُبِّكَ وَحُبِّ مَنْ اَحَبَّكَ وَحُبِّ مَنْ يُقَرِّبُنِي إِلَيْكَ وَاجْعَلُ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ.“ یعنی اے میرے مولا میرے دل میں اپنی اور ان لوگوں کی محبت پیدا کر دے جو تجھ سے محبت کرتے ہیں اور وہ محبت جو مجھے تجھے سے قریب کر کے اور میرے دل میں اپنی محبت کا ایسا سرور پیدا کر جو ٹھنڈے پانی کی لذت وسرور سے بھی بڑھ چڑھ کر ہو.ان سب باتوں پر عمل کرنے کے باوجود ایک انسان یقینی طور پر یہ نہیں کہ سکتا کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ پیار کرتا ہے.قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض صفات اور خصوصیات بیان فرمائی ہیں کہ جن میں وہ پائی جائیں اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے.اور بعض بُرائیوں کا ذکر فرمایا ہے کہ جن میں وہ پائی جائیں.اللہ تعالیٰ کی محبت کو وہ کسی طور پر حاصل نہیں کر سکتے.ان میں سے پہلی بُرائی یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ (سورة النساء: 149) اللہ تعالیٰ بُری بات کے اظہار کو پسند نہیں کرتا ہاں مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو وہ اس ظلم کا اظہار کر سکتا ہے.معاشرہ میں اچھائیاں بھی نظر آتی ہیں اور بُرائیاں بھی.کئی بُرائیاں اور گناہ ایسے ہوتے ہیں.جو نا دانستہ کئے جاتے ہیں.لیکن برملا ان بُرائیوں کا اظہار قوم میں سے گناہ کرنے کے حجاب کو دور کر دیتا ہے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ قَالَ هَلَكَ الْقَوْمُ فَهُوَاَهْلَكَهُمُ (مسلم کتاب البر والصلة) جو یہ کہتا پھرے قوم میں یہ برائی ہے.فلاں نقص پایا جاتا ہے.فلاں شخص ایسا ہے اور فلاں ویسا.اس کے چرچا کرنے کے نتیجہ میں اگر قوم میں وہ برائی پیدا ہو گئی تو اس کا گناہ اس شخص کے ذمہ ہوگا.بُری بات کا کبھی چرچا نہیں کرنا چاہئے.بُرائیوں کو ہوا نہیں دینی چاہئے.ورنہ لوگ بے جھجک بُرائی کرنے لگ جاتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ.(سورة البقرة: 191)

Page 533

515 اپنے کاموں میں حد سے گذرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا.کسی کام میں بھی حد سے نہیں گذرنا چاہئے.خواہ خرچ کا سوال ہو معاملات کا یا آپس کے سلوک کا بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ کسی سے ناراض ہوئے تو خواہ کچھ بھی ہو جائے دل صاف ہی نہیں ہوتا.سزا دینے پر آئیں تو حد سے بڑھ جاتے ہیں.مہربان ہوں تو حد سے بڑھ کر ہیں.خرچ کرنے پر آئیں تو انجام کا خیال نہیں رہتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.خَيْرُ الْأُمُورِ أَوْسَطُهَا ہر کام میں میانہ روی کی عادت ڈالنی چاہئے.قناعت کی عادت ڈالنی چاہئے کہ یہ صفات اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں.اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:."إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا (سورة النساء: 37) نیز فرماتا ہے:.إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ ﴿النحل: 24 جس شخص میں کبر اور فخر کی عادت ہو اللہ تعالیٰ اس سے محبت نہیں کرتا.فخر کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہو اور بڑائی کو اپنی طرف منسوب کرے.حضرت عبداللہ بن مسعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:.قَالَ لَا يَدْخُلِ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِّنْ كِبْرٍ فَقَالَ رَجُلٌ أَنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةٌ.قَالَ إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يَحِبُّ الْجَمَالَ.الْكِبَرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ.مسلم کتاب الایمان ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جس کے دل میں ذرہ بھر بھی تکبیر ہوگا.اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں نہیں داخل ہونے دے گا.ایک شخص نے عرض کیا انسان چاہتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو.جوتی اچھی ہو وہ خوبصورت لگے.آپ ﷺ نے فرمایا یہ تکبر نہیں.اللہ تعالیٰ جمیل ہے جمال کو پسند کرتا ہے.تکبر دراصل یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرے.لوگوں کو ذلیل سمجھے اور ان سے بُری طرح پیش آئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اے کرم خاک! چھوڑ دے کبر و غرور کو زیبا ہے کتبر حضرت رب غیور کو بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دار الوصال میں

Page 534

516 ایک اور بُرائی جو اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے میں روک ہے وہ خیانت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ (سورۃ انفال: 59) قرآن مجید میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.اِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا (سورة النسآء: 108) اللہ تعالیٰ خائن اور گناہ گار سے محبت نہیں کرتا.حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوھریرہ بیان کرتے ہیں.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے.”اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں.بھوک سے جس کا ساتھ اور اوڑھنا بچھونا بہت بُرا ہے اور میں پناہ مانگتا ہوں خیانت سے کیونکہ یہ انسان کے اندرونے کو خراب کر دیتی ہے.“ ابن ماجہ کتاب الاطعمہ کے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی چار نشانیاں بیان فرمائی ہیں.جن میں سے ایک خیانت ہے.اسلام نے دیانتداری پر جتنا زور دیا ہے افسوس کہ موجودہ مسلمان اس معیار کے مطابق اپنے کاروبار اور لین دین نہیں کرتے.اشیائے خوراک میں ملاوٹ، لین دین میں دھوکا اور فریب سب خیانت کے ہی کرشمے ہیں.احمدیت کا تو دعوی ہی یہ ہے کہ حقیقی اسلام کا قیام پھر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہوا ہے اس لئے احمدیوں کو ہر اس بات سے بچنا چاہئے جس سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں منع فرمایا ہے.اور جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے.یہ فعل اللہ تعالیٰ کی محبت سے دور لے جانے والا ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ خائن سے محبت نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: اِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ.(القصص: 77) اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت نہیں کرتا جو جلدی سے خوش ہو جائیں.تھوڑا سا کام کر کے مطمئن ہو جائیں.محبت الہی کا مقام تو بلند ترین مقام ہے جو بلند پرواز کے لئے پر ہی نہیں رکھتا.جو اس مقام تک پہنچنے کی ہمت ہی نہیں رکھتا تھوڑی سی عبادت.تھوڑی سی قربانی سے خوش ہو جاتا ہے کہ بہت کچھ کر لیا.وہ محبت الہی کا اعلیٰ ترین نصب العین کس طرح حاصل کر سکتا ہے.سب کچھ قربان کر کے بھی سمجھو کہ کچھ نہیں کیا.اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے ضرورت ہے استقامت کی.ضرورت ہے صبر کی.ضرورت ہے قربانیوں کے تسلسل کی.ضرورت ہے نفس کو خاک میں ملا دینے کی.کیونکہ

Page 535

517 قرب اس کا نہیں پاتا نہیں پاتا محمود نفس کو خاک میں جب تک نہ ملائے کوئی روحانی ترقی کی خواہش ہو.بلند ہمتی ہو.ہمت نہ ہارے بغیر تھکے قربانیاں دیتا چلا جائے.خود اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ سورة الانشقاق : 7 خدا تعالیٰ کا ملنا آسان نہیں.اس کے ملنے کیلئے بڑی محنت بڑی کاوش بڑی قربانی درکار ہے.ایک معمولی بات کے حصول کے لئے کتنی محنت کرنی پڑھتی ہے تو قرب اٹھی تو دین و دنیا کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہے اس نعمت کو حاصل کرنے کیلئے تو اپنا سب کچھ قربان کرنا پڑے گا.تھوڑی سی قربانی پر مطمئن نہیں ہونا ہوگا.نچلے درجوں پر ان کے قدم نہیں ٹھہریں گے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:.میں اپنے پیاروں کی نسبت ہرگز نہ کروں گا پسند کبھی راضی ہوں اور ان کی نگاہ رہے نیچی! وہ چھوٹے درجہ پر پھر اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.وَاللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ (سورة المآئدة: 65) اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں سے پیار نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ ساری دنیا کا خالق ہے.اسے اپنے سب ہی بندے عزیز ہیں.جس طرح ایک ماں یہ نہیں چاہتی کہ اس کے بچے آپس میں لڑیں جھگڑیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ جو ماں سے بڑھ کر محبت کرنے والا ہے.یہ کس طرح برداشت کر سکتا ہے کہ اس کے بندے آپس میں لڑتے رہیں.فساد پیدا ہونے کی دو بڑی وجہیں ہوتی ہیں.ایک غیبت دوسرے بدگمانی.ان دونوں باتوں سے ہی قرآن مجید نے روکا ہے کہ ایک دوسرے کی کبھی غیبت نہ کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا الحجرات: 13 کیا تم میں سے کوئی شخص اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے.غیبت کرنا ایک کی بات سن کر دوسرے کو پہنچانا یہ مُردہ بھائی کا گوشت نوچ کر کھانے والی بات ہے.کتنے ہی اچھے تعلقات ہوں.لیکن غیبت ایسی بُری چیز ہے کہ معاشرہ کے امن کو تباہ و برباد کر دیتی ہے.افسوس ہے کہ عورتوں میں یہ مرض زیادہ پایا جاتا ہے.اس بُرائی کو اپنے میں سے دور کرنے کی ہر عورت کو کوشش کرنی چاہئے.اور اپنی زبان کو فساد کا

Page 536

518 موجب نہ بنے دینا چاہئے.اپنی اولادوں کی تربیت کرتے رہنا چاہئے کہ یہ بُرائی بچوں میں پیدا نہ ہونے پائے.آنحضرت صلعم نے فرمایا ہے کہ چغلخور جنت میں نہیں جاسکے گا.کون چاہتا ہے کہ ایک معمولی سی بُرائی کے نتیجہ میں جنت اور محبت الہی سے محروم رہ جائے.معاذ اللہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.پس تم بچاؤ اپنی زبان کو فساد سے ڈرتے رہو عقوبت رب العباد سے پھر فساد بڑھتا ہے بدظنی سے.اسلئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تجسس کرنے سے منع فرمایا ہے.بدگمانی ایسا زہر ہے کہ اگر دل میں بیٹھ جائے تو اس کی روحانیت کو ہلاک کر دیتا ہے.آپس کے تعلقات خراب کر دیتا ہے.کسی انسان میں بدظنی کا مادہ پیدا ہو جائے تو پہلے وہ اپنے دوستوں رشتہ داروں.ملنے جلنے والوں کے متعلق بدظنی کرتا ہے پھر نظام جماعت کے عہدیداران کے متعلق پھر خلیفہ وقت کے متعلق یہانتک کہ نعوذ باللہوہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق بھی بدظنی سے کام لینے لگتا ہے.افواہیں پھیلنی اور بات کا بتنگڑ بنا بھی بدگمانی کا نتیجہ ہوتا ہے.پس ہمیشہ نیک ظن کرنا چاہئے.بغیر تحقیقات کسی کے متعلق بڑا خیال نہیں رکھنا چاہئے.اور جس بات کو اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا کسی دوسرے سے بیان نہیں کرنی چاہئے ورنہ بدگمانی سے تو رائی کے بھی بنتے ہیں پہاڑ پر کے اک ریشے سے ہو جاتی ہے کو وں کی قطار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کتنا پر حکمت اور کتنی پر امن فضا پیدا کرنے والا ہے کہ لَيْسَ الْخَبْرُ كَالْمُعَايِنَةِ (مسند احمد بن حنبل) سنی سنائی بات قابل اعتبار نہیں ہوتی.اسے وہ درجہ نہیں دیا جا سکتا جو آنکھ سے دیکھی ہوئی بات کو پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے اور نہ سنی سنائی بات کو آگے دہرانا چاہئے اور نہ اس پر اعتبار کرنا چاہئے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور بُرائی بیان فرمائی ہے جس کا کسی میں پایا جانا اسے اللہ تعالیٰ سے دور کر دیتا ہے.فرماتا ہے:.اِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوانِ كَفُورٍ (سورة الحج : 39) خائن کے ساتھ ساتھ اللہ تعالٰی نا شکر گذار انسان سے بھی محبت نہیں کرتا.اس کے برعکس شکر گذار بندے کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے.فرماتا ہے:.

Page 537

519 لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمْ (سورة ابراهيم: 8) میری نعمتوں کا گر تم شکر ادا کرتے رہو گے تو میں ان نعمتوں میں اور اضافہ کرونگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ وہ اپنے فضل اور اپنی نعمت کا اثر بندہ پر دیکھے یعنی خوشحالی کا اظہار اور توفیق کے مطابق اچھا لباس اور رہن سہن اللہ تعالیٰ کو پسند ہے.صرف یہ کہ تکبر یا اسراف کا پہلو اس میں نہ نکلتا ہو ، بعض لوگ اس خیال کے بھی ہوتے ہیں کہ باوجود خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے حاصل ہونے کے انسان ان کا استعمال نہ کرے ان کے نزدیک یہ انکساری اور عاجزی کا اظہار ہے.یہ غلط ہے.اللہ تعالیٰ جو نعمتیں عطا فرماتا ہے ان کا استعمال نہ کرنا یا اس کی دی ہوئی قوتوں کا غلط استعمال یہ ناشکر گزاری ہے.شکر گذار انسان کا کام ہے کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں ،صلاحیتوں ، علم ، عقل، زندگی کے سامانوں سے صحیح طور پر فائدہ اُٹھائے اور اپنے رب کا شکر گذار بندہ بنے.یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ جو انسانوں کا شکر گزار نہیں ہوتا.وہ خدا تعالیٰ کا شکر بھی صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتا.حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.” جس پر کوئی احسان کیا گیا ہو اور وہ احسان کرنے والے کو کہے اللہ تجھے اس کی جزائے خیر دے تو اس نے ثناء کا حق ادا کر دیا.“ ایک اور عیب جس کی قرآن نے نشاندہی کی ہے جس کا پایا جانا اللہ تعالیٰ کے پیار سے محروم کر دیتا ہے.وہ اسراف ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (سورة الانعام: 142) فضول خرچی انسان اپنے نفس کو دوسروں کی خوشی پر مقدم رکھنے کیلئے کرتا ہے.یا دکھاوے کیلئے کرتا ہے.سورۃ فرقان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے بندوں کی یہ خصوصیت بیان فرمائی ہے:.وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا (سورة الفرقان:68) اور وہ اللہ کے بندے ایسے ہوتے ہیں کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی سے کام نہیں لیتے اور نہ بخل کرتے ہیں.اور ان کا خرچ ان دونوں حالتوں کے درمیان درمیان ہوتا ہے.عورتوں کو اللہ تعالیٰ کے اس انداز کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے.شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں عموماً اسراف کا باعث عورتیں ہوتی ہیں.نت نئے بدلتے فیشنوں کی وجہ سے بھی عورتوں میں اسراف پایا جاتا ہے.آج اس کپڑے کا فیشن جاتا

Page 538

520 رہا.بے ضرورت صرف رواج اور فیشن کی وجہ سے نیا کپڑا بنالیا.حضرت مصلح موعود نے جماعت کیلئے تحریک جدید جاری فرما کر ایک عظیم الشان احسان فرمایا ہے.تحریک جدید کی ریڑھ کی ہڈی سادگی ہے.اپنے لباس، شادیوں کے اخراجات دیگر اخراجات ، ہر چیز میں سادگی اختیار کریں.تا اس سے جور تم بچے وہ اشاعت اسلام اور تعمیر مساجد کیلئے خرچ ہو.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:.اصلی کام ہر احمدی مرد اور احمدی عورت کا قربانی ہے تو ہر ایک عورت مرد سادہ زندگی بسر کرے.کیونکہ ہم کو نہیں معلوم ہمیں کیا کیا قربانیاں کرنی پڑیں گی.دیکھو اگر یہ ہی عادت ڈالیں کہ جو ہوا وہ خرچ کر دیا.حالانکہ قرآن مجید میں صاف حکم ہے کہ اپنے مال میں نہ بخل کرو.نہ اسراف تو نتیجہ یہ ہوگا کہ جب دین کے لئے ضرورت ہوگی تو کچھ بھی دینے کیلئے نہ ہوگا.پس میں یہ کہتا ہوں کہ سادہ زندگی بسر کرو.“ الازهار لذوات الحمار صفحہ 291.تقریر جلسہ سالانہ خواتین 1934 ء کی ایک اور بڑائی ہے اور وہ جس میں پائی جائے وہ بھی محبت الہی کی جھلک نہیں دیکھ سکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِين.اللہ تعالیٰ رؤف رحیم ہے.سراسر محبت اور شفقت ہے وہ اپنے بندوں پر ظلم برداشت نہیں کرسکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:." تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ ہم نے عرض کیا جس کے پاس نہ روپیہ ہو نہ سامان.آنحضور کے نے فرمایا میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ، زکوۃ کے اعمال لیکر آئے گا.لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہوگی.کسی پر تہمت لگائی ہوگی کسی کا مال کھایا ہوگا.اور کسی کا ناحق خون بہایا ہو گا یا کسی کو مارا ہوگا.پس ان مظلوموں کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی.یہانتک کہ اگر ان کے حقوق ادا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان کے گناہ اس کے ذمہ ڈال دیئے جائیں گے.اور اس طرح جنت کی بجائے اُسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا.یہی شخص در اصل مفلس ہے.مسلم کتاب البر والصلة ) پس ظلم کرنے سے ہر وقت بچتے رہنا چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق ظالم خواہ کتنی ہی عبادت کیوں نہ کرے وہ مقبول نہیں ہوگی.آنحضرت کا ایک اور ارشاد ہے.اُنْصَرُ أَخَاكَ ظَالِمًا اَوْ مَظْلُومًا.(بخارى كتاب المظالم اپنے بھائی کی خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم مدد کرو.صحابہ نے پوچھا.یا رسول اللہ مظلوم کی مدد تو سمجھ میں

Page 539

521 آگئی ظالم کی کس طرح مدد کریں.آپ ﷺ نے فرمایا ظالم کا ظلم سے ہاتھ روکنا ہی اس کی مدد ہے.حضرت مصلح موعود نے جماعت میں مجلس حلف الفضول کی تحریک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں چلائی تھی کہ ہر شخص جماعت کا عہد کرے.نہ کسی پر ظلم کرے گا اور نہ کسی پر ظلم ہوتا دیکھے گا.پس ہماری جماعت کی خواتین کا بھی فرض ہے کہ نہ وہ خود کسی پر ظلم کر یں نہ کسی کے حقوق تلف کریں اور بچوں میں بچپن سے محبت، شفقت ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا جذبہ پیدا کریں.اور ظلم کرنے سے ان کے دلوں میں نفرت پیدا کریں.یہ تھا منفی پہلو تصویر کا.اب ہم نے مثبت پہلو لیتا ہے کہ باوجود ان بُرائیوں کے چھوڑ دینے کے ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے.کہ ضرور اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرلیں گے.قرآن مجید پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں ان صفات کا بھی ذکر ہے کہ جس مرد و عورت میں وہ پائی جائیں.اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ وہ ان سے محبت کرے گا.وہ مندرجہ ذیل ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَإِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (سورة آل عمران: 77) اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت کرتا ہے.تقویٰ کا مطلب ہے کہ انسان ہر اس کام سے پر ہیز کرے جو اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہو.ہر کام کرتے ہوئے خشیت الہی غالب رہے کہ کہیں میں اللہ تعالیٰ کو ناراض تو نہیں کر رہا.گویا تقویٰ پہلا زینہ ہے.نیکیوں کی طرف قدم بڑھانے کا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.”ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے.خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلہ بیعت میں ہیں.جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں.کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رُوبہ دنیا تھے ان تمام آفات سے نجات پاویں.ملفوظات جلد اوّل صفحہ 7 پھر فرماتے ہیں:.اللہ کا خوف اسی میں ہے کہ انسان دیکھے کہ اس کا قول و فعل کہاں تک ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہے.پھر جب دیکھے کہ اس کا قول و فعل برابر نہیں تو سمجھ لے کہ مور د غضب الہی ہوگا.“ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 8 پھر اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا ایک اور طریق قرآن مجید میں یہ بیان ہوا ہے کہ

Page 540

522 إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (سورة البقرة: 196) اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پیار کرتا ہے.احسان کے کئی معنے ہیں.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى (سورة النحل: 91) اللہ تعالیٰ تمہیں عدل و احسان اور ایتاء ذی القربیٰ کا حکم دیتا ہے.عدل کہتے ہیں برابری کے سلوک کو یعنی جتنی تم سے کوئی نیکی کرے اتنی ہی اس کے ساتھ کرنی یہ معمولی درجہ کی نیکی ہے.اس سے اگلا قدم احسان ہے یعنی جتنی تم سے کوئی نیکی کرے اس سے بڑھ کر کرو.یہ حقیقی نیکی ہے.لفظ احسن کے معنے اپنے فرض اور ذمہ داری کو اچھی اور صحیح طرح نبھانے کے بھی ہیں.یعنی وہی لوگ خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرتے ہیں جو اپنے ہر کام کو پورے طور پر جیسا اس کے کرنے کا حق ہے کرتے ہیں.کام سے جی نہیں چراتے کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑتے.خواہ عبادت ہو یا مخلوق خدا کے حقوق ہوں یا قومی ذمہ داریاں ہوں.جو کام اپنے ذمہ لیتے ہیں اسے پوری طرح نبھاتے ہیں.عورتوں میں عام طور پر یہ کمزوری پائی جاتی ہے.خصوصاً لجنات کی عہدہ داروں میں کہ اپنے فرائض پوری طرح نہیں نبھا تیں.ایک کام کے متعلق وقتی جوش ہوتا ہے.پھر ست ہو جاتی ہیں اس سے پر ہیز کرنا چاہئے.یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو سکتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ (سورة البقرة: 223) اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والے اس کے حضور اپنی غلطیوں پر نادم ہو کر جھکنے والوں سے محبت کرتا ہے.ہر انسان غلطی کا پتلا ہے.دانستہ یا نادانستہ اس سے گناہ ہوتے رہتے ہیں.لیکن جو شخص سچی توبہ کرے اور خدا تعالیٰ کے حضور بار بار ندامت کا اظہار کرے اللہ تعالیٰ نہ صرف اس کے گناہ بخش دیتا ہے بلکہ وہ درگاہ الٹی میں مقبول بھی ہو جاتا ہے.اسلام کا انسانیت پر یہ بہت ہی بڑا احسان ہے کہ مایوسی نہیں پیدا ہونے دیتا.اتنا بڑا احسان کسی اور مذہب نے اپنے ماننے والوں پر نہیں کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اپنے بندہ کی تو بہ پر اللہ تعالیٰ اتنا خوش ہوتا ہے کہ اتنی خوشی اس آدمی کو بھی نہیں ہوئی ہوگی جسے جنگل میں کھانے پینے سے لدا ہوا گمشدہ اونٹ اچانک مل جائے.(مسلم کتاب التوبہ ) لیکن تو بہ کی کچھ شرائط ہیں.ایک یہ کہ جو گناہ کیا ہو اُس سے رُک جائے.دوسرے یہ ارادہ کرے کہ

Page 541

523 پھر کبھی نہیں کرے گا.تیسرے پچھلے گناہ پر ہمیشہ شرمندگی محسوس کرتا رہے.اور چوتھے اگر قصور یا گناہ کسی انسان کا کیا ہے تو اس کی تلافی کرے اس کا چھینا ہوا حق اسے واپس کرے.ایک اور علامت محبت الہی کی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (سورة آل عمران:160) اللہ تعالیٰ تو کل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.تو کل کے یہ معنے نہیں کہ انسان تدبیر اختیار نہ کرے بلکہ تو کل کا مفہوم یہ ہے کہ ظاہری تدابیراللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق اختیار کرے پھر نتیجہ کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اصل میں تو کل ہی ایک ایسی چیز ہے کہ انسان کو کامیاب وبا مراد بنا دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے من يتوكل على الله فهو حسبه (الطلاق: 4) جواللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو کافی ہو جاتا ہے.بشرطیکہ سچے دل سے تو کل کے اصلی مفہوم کوسمجھ کر صدق دل سے قدم رکھنے والا ہو اور صبر کرنے والا اور مستقل مزاج ہو.مشکلات سے ڈر کر پیچھے نہ ہٹ جاؤئے.ملفوظات جلد پنجم صفحہ 543 حضرت مصلح موعود کا ایک شعر یاد آ گیا جو اسی مفہوم کو ادا کرتا ہے.66 کر تو کل جس قدر چاہے کہ اک نعمت ہے یہ بتادے باندھ رکھا اونٹ کا گھٹنا بھی ہے محبت الہی حاصل کرنے کا ایک اور طریق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (سورة المائده:43) انصاف قائم کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے یہ ایک بہت اعلیٰ اسلامی خلق ہے.اسلامی تاریخ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور صحابہ کی زندگیوں کے منصفانہ واقعات سے بھری پڑی ہے.ہمیں بھی چاہئے کہ کسی صورت میں انصاف کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں کہ یہ بھی ایک ذریعہ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.کہ جب کوئی حاکم سوچ سمجھ کر اور پوری تحقیق کے بعد فیصلہ کرے.اگر اس کا فیصلہ صحیح ہے تو اسے دو ثواب ملیں گے اور اگر با وجود کوشش کے اس سے غلط فیصلہ ہو گیا تو اُسے ایک ثواب ملے گا.بخاری ہے پھر ایک اور طریق قرآن نے یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.

Page 542

524 يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (سورة البقرة: 223) جتنا زور اسلام نے صفائی اور پاکیزگی پر دیا ہے اتنا کسی اور مذہب نے نہیں دیا.لیکن بدقسمتی سے آج مسلمانوں میں صفائی کا اتنا خیال نہیں جتنا غیر قوموں میں اور غیر مذاہب کے لوگوں میں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.الطَّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ (صحيح مسلم كتاب الطهارة) طہارت یعنی صاف ستھرا اور پاکیزہ رہنا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے.گویا گندے رہنے والے آدمی کا ایمان مکمل نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کی عظیم الشان ذمہ داری سپر د کی تو فرمایا : وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ ان آیات کا ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.اپنے کپڑے صاف رکھو بدن کو اور گھر کو اور کوچہ کو اور ہر ایک جگہ کو جہاں تمہاری نشست ہو.پلیدی (سورة المدثر: 5-6) اور میل کچیل اور کثافت سے بچاؤ یعنی غسل کرتے رہو.اور گھروں کو صاف رکھنے کی عادت پکڑو.“ روحانی خزائن جلد 10 اسلامی اصول کی فلاسفی ص 337 صفائی میں باطنی صفائی.دل کی صفائی ، لباس گھر ، ماحول، بچے سب ہی شامل ہیں.یہ اہم ذمہ داری اپنے گھر، ماحول کو صاف رکھنے کی خواتین کے ذمہ ہے.مرد یہ کام نہیں کر سکتے.ان کا وقت زیادہ تر باہر گذرتا ہے.احمدی بہنوں کواللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ صفائی اور پاکیزگی کو پسند فرماتا ہے.انبیاء کی بعثت کی غرض بھی دلوں کو پاکیزہ کرنا ہوتی ہے.اور جب تک ظاہری طور پر جسم ، گھر ، ماحول پاکیزہ نہیں ہوگا.دل بھی پاکیزہ نہیں ہو سکتے.ایک اور خوبی جواللہ تعالیٰ کی محبت کو کھینچتی ہے.یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.(سورة آل عمران: 147) وَاللهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے، صبر ایک اعلیٰ درجہ کا خلق ہے.اور خدا تعالیٰ کے محبوب بندے وہی ہوتے ہیں جو ہر قسم کے مصائب اور مشکلات میں حوصلہ نہیں ہارتے اور اناللہ وانا اليه راجعون کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے مطیع و فرمانبردار رہتے ہیں.اور ہمیشہ اس کی رضا پر راضی رہنے میں ہی اپنی فلاح سمجھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.

Page 543

525 تیری درگہ میں نہیں رہتا کوئی بھی بے نصیب شرط رہ پر صبر ہے اور ترک نام اضطرار صبر کے ایک اور معنے بھی ہیں رُک جانے کے یعنی بُرائیوں سے رکنا.ہر اس کام سے رکنا جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں نا پسندیدہ ہو.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی خواتین کو جلسہ سالانہ 1967ء میں خطاب فرماتے ہوئے اسی طرف توجہ دلائی تھی.آپ فرماتے ہیں:.پانچویں صفت جو سچی مسلمان عورت میں اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے وہ صابرہ ہے.یعنی اسے صابرات میں شامل ہونا چاہئے اس کے معنے یہ ہیں کہ جن چیزوں سے بچنے اور رکے رہنے کا عقل یا شرع تقاضا کرے ان سے اپنے نفس کو روکے رکھنا.جزع فزع نہ کرنا کوئی رنج کی بات ہو تو بعض عورتیں پیٹنا شروع کر دیتی ہیں.ایسے کلمات منہ سے نکالنے لگ جاتی ہیں جو ایسی عورت کے منہ سے نہیں نکنے چاہیں جو قادر مطلق ہستی پر ایمان رکھتی ہو....نیز صابرہ کے معنے ہیں بہادری اور شجاعت کے ساتھ دشمن کے مقابلہ پر ڈٹے رہنا...سب سے بڑا دشمن تو ہمارا شیطان ہے اس کے مقابلہ میں بزدلی نہیں دکھانی چاہئے.جس راستہ پر بھی اور جس میدان میں بھی شیطان ہم پر حملہ آور ہو ہمیں کامیابی کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا چاہئے اور اس مقابلہ کے جو طریق اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب اور ملفوظات میں بیان کئے ہیں ان تمام طریقوں کو استعمال کر کے شیطان کے مقابلہ میں بلا خوف کھڑے ہو جانا چاہئے.اور اس کو شکست دینی چاہئے.تب آپ صابرہ بنتی ہیں.“ ان تمام خصوصیات کا انسان میں پیدا ہو جانے کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا ایک یقینی راستہ بھی ہے.یہ خیال کسی کے دل میں نہ آئے کہ یہ سب صفات اگر کسی ایسے انسان میں پائی جائیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ رکھتا ہو.اور آپکا مطیع و فرمانبردار نہ ہو تب بھی وہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں قاعدہ کلیہ کے طور پر فیصلہ فرما دیا ہے.قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمُ مصباح جون 1967 ء (ال عمران : 32) اے محمد رسول اللہ آپ ساری دنیا کو بتادیں کہ جو بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ رکھتا ہے اور یہ چاہتا

Page 544

526 ہے کہ اسے بھی محبت الہی حاصل ہو وہ میرے پیچھے چلے.میری سنت کی پیروی کرے.میرے طریق پر چلے میری اطاعت کرے.تب اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرے گا.گویا محبت الہی کے خزانہ کا قفل اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنجی سے کھلتا ہے اور یہی وہ واحد طریق ہے جس پر چلنے سے اللہ تعالیٰ کی محبت کی راہوں پر چلنا آسان ہو جاتا ہے.سچی اطاعت آسان کام نہیں.یہ تو ایک موت ہے جو انسان اپنے دل.اپنی خواہشات ، اپنی لذات اپنی عادات اور اپنی روایت پر وارد کرتا ہے.اور جو اس موت کے دروازہ میں سے کامیابی سے گذر جاتا ہے.وہ اس دروازہ میں داخل ہو جاتا ہے.جہاں سے محبت الہی کی بارش کے چھینٹے اس پر برسنے شروع ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق عطا فرمائے کہ اپنی پیدائش اور زندگی کے مقصد کو حاصل کر سکیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.تا اس کے نتیجہ میں ہم اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کر سکیں.اور ہمیں اُسی کے فضل سے توفیق ملے کہ ہم اپنا سب کچھ اُسی کی راہ میں قربان کر دیں.آمین.(مصباح دسمبر 1968ء)

Page 545

527 افتتاحی خطاب بر موقع سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ 1968ء آپ نے فرمایا میری منھی منھی اور نہایت ہی عزیز بچیو.آج کا اجلاس صرف آپ کا اجلاس ہے اس لئے اس تھوڑے سے وقت کو بڑی ہی خاموشی اور بہت ہی سکون سے گزار دو.آپ کی تنظیم کا نام ہے ناصرات الاحمدیہ یعنی احمدیت کی مدد کرنے والیاں.اس نام سے آپ پکاری تو جاتی ہیں لیکن کبھی غور کیا کہ آخر اس نام کے انتخاب کی وجہ کیا ہے.آپ میں سے ہر ایک اس نام پر غور کرے اور اپنے اقوال افعال اور حرکات سے جماعت احمدیہ کی مد و معاون بننے کی کوشش کرے.میری بچیو! اپنے نام کی ہمیشہ لاج رکھیو اپنے جھنڈے کو کبھی نیچے نہ ہونے دینا اور حقیقی معنوں میں احمدیت کو تقویت پہنچانے والی ثابت ہو.سات سے پندرہ سال تک کی عمر کا عرصہ آپ کی ٹریننگ کا زمانہ ہے جس میں آپ کو لجنہ کی بہترین نمبر اور کارکن بننے کے لئے تیار کیا جاتا ہے.جو بچی بھی اپنے اوقات کو ضائع کرتی اور ان آٹھ سالوں میں کچھ نہیں سیکھتی وہ ناصرات الاحمدیہ بننے کے لائق نہیں.اس کے بعد حضرت سیدہ موصوفہ نے آئندہ سال کے لئے بچیوں کے سامنے ایک پانچ نکاتی پروگرام پیش کیا اور اس امر کی وضاحت کی کہ اس لائحہ عمل پر کار بند رہنے والی بچیاں ہی آئندہ انعامات حاصل کرنے کی مستحق قرار دی جائیں گی.اس پروگرام کی پہلی شق " صداقت پر مبنی تھی.یعنی ہر بچی سچ بولنے کی عادت کو اس پختگی سے اپنالے کہ کوئی بڑے سے بڑا طوفان اسے جھوٹ بولنے پر آمادہ نہ کر سکے.پھر فرمایا وہ اتنی دیانت دار ہو کہ اس کی دیانتداری کی قسم کھائی جاسکے.محنت کی عادت اس کے اندر اس طرح راسخ ہو جائے کہ ہر کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں فخر محسوس کرے.نیز وقت کی پابند ہو.اور اپنے لباس کی، ماحول کی ، گھر کی غرض ہر چیز کی صفائی کا خاص خیال رکھنے والی ہو.وو آپ نے ناصرات الاحمدیہ کی نگرانوں کو یہ صیحت کی کہ آئندہ سال بھر وہ بنظر غائر اس چیز کا جائزہ لیتی رہیں کہ کن کن بچیوں نے ان پانچوں صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اسی کے مطابق رپورٹیں بھجوائیں.خطاب کے آخر میں آپ نے فرمایا کہ میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حقیقی معنوں میں ناصرات الاحمدیہ بننے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ اپنے عمل سے، اپنے کردار سے ، اپنے اخلاق سے دنیا پر یہ ثابت کر دیں کہ ہم واقعی ناصرات الاحمدیہ یعنی احمدیت اور اسلام کو تقویت پہنچانے والی ہیں.(الفضل 7 نومبر 1968 ء)

Page 546

528 خطاب برموقع سالانہ اجتماع 1968ء ”ہمارا سب سے بڑا کام اپنی اور اپنی اولاد کی تربیت اور اسلامی تہذیب و تمدن کا قیام ہے“ تمام نمائندگان کو السلام علیکم کا تحفہ پیش کرتے ہوئے خوش آمدید کہتی ہوں.جس غرض کے لئے یہ اجتماع منعقد کیا جارہا ہے اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس مقصد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آپ کو چاہئے کہ یہ مختصر عرصہ ذکر الہی تسبیح وتحمید، درود شریف پڑھنے.دعائیں کرنے اور باجماعت نمازوں کی ادائیگی.سکون کے ساتھ پروگراموں کو سنے اور آئندہ کے لئے بہتر لائحہ عمل اختیار کرنے کے لئے تدابیر سوچنے میں بسر کریں.اجتماع کے پروگراموں سے متعلق آپ بہت دیر سے اپنے مشورے بھجواتی ہیں.حالانکہ شروع سال سے ہی لجنہ کو غور کرتے رہنا چاہئے کہ کیا اقدامات پروگراموں کو بہتر بنانے اور لجنہ اماءاللہ کی ترقی کے لئے اختیار کئے جاسکتے ہیں.آپ کا مرکز میں قیام کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونا چاہئے.اپنے ساتھ آنے والے بچوں کی نگرانی بھی رکھیں تا وہ بھی یہاں سے فائدہ حاصل کر کے جائیں.صفائی اور ماحول کو ستھرا اور پاکیزہ ظاہری لحاظ سے بھی اور باطنی لحاظ سے بھی بنانے کی کوشش کریں.ظاہر کا اثر روحانیت پر پڑتا ہے ظاہری طور پر کسی قسم کی گندگی نہ ہونے دیں خواہ وہ ربوہ کی خواتین ہوں یا بیرون ربوہ کی.لجنہ اماءاللہ کے کاموں کا اگر جائزہ لیا جائے تو جہاں دوسرے شعبہ جات میں بہنوں نے بڑی ہمت اور قربانی سے کام لیا ہے.تربیت کی طرف سب سے کم توجہ دی ہے.حالانکہ ہمارا سب سے بڑا کام اپنی اور اپنی اولادوں کی تربیت کرتے ہوئے اسلامی تمدن و تہذیب کا پھر سے قیام کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض کوئی نیا پیغام دنیا کو دینا نہیں تھا بلکہ اسلامی تہذیب کو پھر سے رائج کرنا ہے جو چودہ سو سال قبل اسلام کے ذریعہ رائج ہو چکی تھی.اسی قرآنی شمع کے نور کو دنیا میں پھیلانا جس کی روشنی دنیا کے چاروں طرف ایک دفعہ پھیل کر پھر مدھم پڑ چکی تھی اور اس روشنی سے بنی نوع انسان کو صحیح راستہ دکھاتے ہوئے اس کا تعلق اپنے رب کریم سے مضبوط کرنا تھا جو ایک انسان کی پیدائش کا مقصدا علیٰ ہے.

Page 547

529 ہماری زبان میں تہذیب اور تمدن دولفظ کثرت سے بولے جاتے ہیں.بہت سی بہنیں شاید ان دونوں کا فرق نہ بجھتی ہوں.کسی قسم کی مادی ترقیات اس قوم کا تمدن کہلاتی ہیں.اور کسی قسم کی دماغی ترقی اور وہ خیالات وافکار جو مذہب یا اخلاق کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں تہذیب کہلاتی ہے.دوسری اقوام کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا مذہب ان کی تہذیب یا تمدن پر اثر انداز نہ ہوتا ہولیکن اسلام کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا.اسلام نے قرآن مجید کے ذریعہ مسلمانوں کے لئے ایک مکمل دستور حیات پیش کیا جو ان کی تہذیب پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور ان کے تمدن پر بھی.مسلمانوں نے مادی لحاظ سے بھی قرآنی اصولوں کو اپنا کر ترقی کی اور ساری دنیا کے فاتح بنے اور اخلاقی لحاظ سے دنیا کی تہذیب کے دھارے کو ایک نئے انداز سے موڑا جس کی تقلید کرنے میں اس زمانہ کی اقوام نے فخر محسوس کیا لیکن جب خود انہوں نے قرآن سے منہ موڑ اتو مادی لحاظ سے بھی پست ترین اقوام میں سمجھے جانے لگے اور روحانی لحاظ سے بھی قعر مذلت میں گرتے چلے گئے اور ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْر کا عملی نمونہ ان کے تمدن، کردار اور اخلاق نے پیش کر دیا.اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کی قوت قدسیہ کے ظہور ثانی کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا تھا هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ O وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمِ O (سورة الجمعه: 43) کہ جب مسلمانوں پر ادبار کا زمانہ آئے گا تو ان کو علوم قرآنیہ سکھانے اور ان کا تزکیہ نفس کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ایسا وجود کھڑا کرے گا جو آنحضرت ﷺ کی برکات کا مظہر ہوگا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسی لئے بھیجاتا آپ علوم قرآنیہ کی اشاعت کریں جس کے نتیجہ میں تزکیہ نفوس ہو اور اسلام کی ترقی ہو.یہ آیت بھی بتاتی ہے کہ تزکیہ نفس کے لئے علوم قرآنی کا سیکھنا ضروری ہے.قرآن کے اصولوں پر چلے اور ان راہوں کو اپنائے بغیر انسان پاک نہیں ہوسکتا.اور جب تک پاک نہ ہو اس کا تعلق خدا تعالیٰ سے نہیں ہو سکتا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں پاک ہو جاؤ کہ وہ شاہ جہاں بھی پاک ہے جو کہ ہونا پاک دل اس سے نہیں کرتا ہے پیار اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے انسان کی پیدائش بلکہ پیدائش سے بھی قبل سے راہ نمائی فرمائی ہے اور موت بلکہ موت کے بعد کی زندگی تک کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں اور ان تمام ہدایات پر عمل کرنا

Page 548

530 ہی اس اعلیٰ تہذیب کا پھر سے قائم کرنا ہے جس تہذیب کو اسلام نے جنم دیا تھا اور ان تمام ہدایات پر عمل پیرا ہونے سے ہی تربیت کا وہ کام ہوسکتا ہے جس کا کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے.قرآن مجید پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بقائے نسل ، اصلاح خاندان ، درستگی معاشرہ اور صحیح اسلامی تہذیب کے قیام کے لئے سب سے پہلا حکم جو اسلام دیتا ہے وہ یہ ہے کہ تقویٰ اللہ کو مدنظر رکھو.یہ پہلا زینہ ہے خاندان، معاشرہ ، قوم اور ملک کی اصلاح اور ترقی کا.قرآن مجید کی جو سورۃ تفصیل کے ساتھ قدرتی احکام بیان کرتی ہے اس کی ابتداء ہی یوں ہوتی ہے.يايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِّنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَ لُوْنَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (النساء: 2) (ترجمہ) اے لوگو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے ہی اس نے جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کر کے دنیا میں پھیلائے اور اللہ کا تقویٰ اس لئے بھی اختیار کرو کہ اس کے ذریعہ تم آپس میں سوال کرتے ہو اور خصوصاً رشتہ داریوں کے معاملہ میں تقویٰ سے کام لو.اللہ تعالیٰ تم پر یقینا نگران ہے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں تُنْكَحُ الْمَرْءَ ةُ لِاَرْبَعِ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَلِجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظُفُرُ بِذَاتِ الدِّين تَرِبَتْ يَدَاكَ.(بخاری کتاب النکاح) کوئی شخص اس لئے شادی کرتا ہے کہ بیوی اچھے خاندان کی ہو کوئی اس کی خوبصورتی کی وجہ سے کوئی مال و دولت کی وجہ سے لیکن اے مسلمان تو دین کو سب باتوں پر مقدم رکھیو.کیسی اعلیٰ وارفع اور پاکیزہ تعلیم ہے.اپنے معاشرہ اور دلوں کا جائزہ لیں لڑکے والے پہلے لڑکی کا پیغام دیتے ہیں پھر تقاضے شروع ہوتے ہیں.جہیز میں کتنے جوڑے ہوں گے؟ کیا زیور ہوگا؟ لڑکے کو کیا دو گے؟ ساس نندوں ، دیورانی جٹھانی کے لئے جوڑوں کے ساتھ اگر زیور میں دیا جائے تو سونے پر سہا گہ.کیا اس قوم کی عورتوں کا جنہوں نے عہد بیعت تو یہ باندھا تھا کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گی یہی وطیرہ ہونا چاہئے؟ کیا بلجنہ کی میرات کو جو ہر سال اجلاس میں یہ عہد دہراتی ہیں کہ اپنے مذہب اور دین کی خاطر اپنی عزت کی پروا نہیں کریں گی یہی روش اختیار کرنی چاہیے؟ کیا ان احمدی خواتین کو جن کو ان کے امام ایدہ اللہ تعالیٰ نے

Page 549

531 صاف صاف کہہ دیا تھا کہ میں ہر گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اور ہر گھرانہ کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں اور جو احمدی گھرانہ بھی آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوششوں کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہوگا وہ یہ یادر کھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پروا نہیں.(خطبہ جمعہ 23 جون 67ء) 66 ان امور سے باز نہیں آجانا چاہیے؟ ہزاروں درود اور سلام محمد مصطفے ﷺ پر جنہوں نے عورت کو مٹی سے اٹھا کر ایک ارفع مقام پر پہنچایا اس میں نیکی اور تقویٰ پیدا کرنے کے لئے مردوں کو فرمایا کہ رشتہ کرتے وقت دین دیکھو، نیکی دیکھو، تقویٰ دیکھو، یہ مال و دولت حسن و جمال سب فانی اشیاء ہیں.اولاد کی صحیح پرورش وہی عورت کرے گی جو خود دیندار ہوگی.غرض معاشرہ میں اعلیٰ اقدار پیدا کرنے کے لئے ضرورت ہے.افراد میں اعلیٰ اقدار پیدا کرنے کی اور افراد میں اعلیٰ اقدار پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر مرد اور عورت نیک و پرہیز گار ہو با اخلاق ہو، اولا د خود بخود نیک ، با اخلاق اور پر ہیز گار پیدا ہوگی.میاں بیوی کے تعلقات کے بعد اولاد پیدا ہوتی ہے جو گو یا تمدن و تہذیب کی دوسری کڑی ہوتی ہے.اسلام نے اولاد کی پرورش اور اعلیٰ تربیت اور بُرائیوں سے محفوظ رکھنے پر بہت زور دیا ہے.ان پر خرچ کرو اپنی استطاعت کے مطابق.ان کے جذبات کا خیال رکھو.اعلیٰ اخلاق ان میں پیدا کرو.بچپن سے تربیت شروع کرو.لڑکیوں کی تربیت کے متعلق خاص ارشاد فرمایا کہ جس کے گھر میں لڑکی پیدا ہواور وہ اس کی اچھی تربیت کرتے تو اس کا یہ کام اس کو آگ سے بچانے والا ہو گا لیکن موجودہ زمانہ کے ماں باپ صرف کھلانے پہنانے اور سکول کالج تک بھجوا دینے کے ذمہ دار اپنے آپ کو سمجھتے ہیں.بچپن میں ہی اللہ تعالیٰ ، آنحضرت اور مذہب کی محبت بچوں کے دلوں میں پیدا نہیں کرتے.بنیاد مضبوط نہیں ہوتی.جوں جوں وہ بڑے ہوتے جاتے ہیں اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوتے جاتے ہیں.جولڑکیوں کی صورت میں بے پردگی مخلوط تعلیم کا شوق، بے حیائی اور حدود اخلاق اور حدود اسلامی معاشرہ کو توڑنے کی صورت میں نکلتا

Page 550

532 ہے.میں جوں جوں ان مسائل پر غور کرتی ہوں اتنا ہی ماں اور باپ دونوں اپنی اولاد کی تربیت اور نگرانی نہ کرنے کے گناہ میں ملوث نظر آتے ہیں.کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ماں یا باپ غیرت مند ہوں اور اس کی لڑکی عریاں لباس میں اس کے سامنے آئے اور وہ اسے برداشت کر لے؟ ایک بچی کے متعلق پر وہ ترک کرنے کی اطلاع اسے ملے اور وہ اسے برداشت کر لے؟ ایک بچی بازاروں میں ماری ماری پھرے اس کی سوسائٹی اچھی نہ ہو اور ماں باپ اسے برداشت کر لیں؟ اگر ماں باپ برداشت کر سکتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ خود کو بھی قرآنی احکام کا پابند نہیں سمجھتے وہ خود بھی نام نہاد مسلمان ہیں حقیقی ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا.چونکہ خود اسلام کے صحیح مفہوم سے نا آشنا ہیں اولاد کی بھی تربیت نہیں کر سکتے.بچوں کو قوم اور مذہب کی قربانیوں کے لئے تیار کرنا بھی ماں باپ کا ہی کام ہے.آج (18اکتوبر ) کے ہی خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے بچوں اور ان کے ماں باپ کو چندہ وقف جدید کی طرف توجہ دلائی ہے.ہماری مستورات کو عموماً اور عہدیداران لجنات کو میں خصوصاً توجہ دلاتی ہوں کہ سال رواں کے پروگرام میں چندہ ناصرات وقف جدید کی طرف خاص توجہ دیں.وہ بچیاں جو روزانہ سکول میں ایک آنہ دو آنہ اپنے کھانے پر خرچ کرتی ہیں ان میں قوم کی خاطر قربانی کا جذ بہ پیدا کریں اور بتائیں کہ میرم وہ وقف جدید میں دیں ان کو حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی آواز پر فوری لبیک کہنے اور آپ کے احکام کی اطاعت کرنے اور نیکیوں اور قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کا جذبہ پیدا کریں تو تمام بچے کیا صرف ناصرات ہی اگر ہمت کریں تو وقف جدید کا بجٹ پورا کرسکتی ہیں.اللہ تعالیٰ توفیق عطا کرے.آمین.جہاں ماں باپ پر قرآن مجید نے ذمہ داری ڈالی ہے وہاں ماں باپ کے اسلام نے حقوق بھی رکھے ہیں اور ان حقوق کی ادائیگی احکام اسلامی معاشرہ کا ایک ضروری حصہ ہے.بچے والدین کی عزت کریں.فرماں برداری کریں اور جب وہ نا قابل ہو جائیں تو ان کے کفیل ہوں.ان کے احساسات و جذبات کا خیال رکھیں.لجنہ کے کاموں کے سلسلہ میں میرا گہر اواسطہ خواتین سے ہے.عموماً مستورات مدد کی طالب ہوتی ہیں جس کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ بستر نہیں گرم کپڑے نہیں.علاج کی ضرورت ہے وغیرہ.جب ان کے حالات کی تحقیق کی جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بیٹے موجود ہیں برسر روزگار ہیں لیکن مد نہیں کرتے اور ماں اپنی محبت میں کہہ رہی ہوتی ہے کہ آپ مدد کریں بے چارہ کیا کرے بیوی ہے چار پانچ بچے ہیں ان کی تعلیم کا بھی خرچ ہے ان کی ہی مشکل سے پوری پڑتی ہے وغیرہ.یادرکھیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار

Page 551

533 والدین سے احسان کرنے کا ارشاد فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مالی کشائش ہوتو ماں باپ سے احسان کرو نہ ہو تو نہ کرو.ماں باپ جب اولاد کو پالتے ہیں تو یہ نہیں دیکھتے کہ ان کی مالی حالت کیا ہے جو خود کھاتے ہیں اس سے بہتر کھلاتے ہیں اور جو خود پہنتے ہیں اس سے بہتر پہناتے ہیں لیکن جب یہی معاملہ الٹ ہوتا ہے تو اولا د والدین کے ساتھ وہ حسن سلوک نہیں کرتی جو انہیں کرنا چاہئے اور جس کی تعلیم اسلام " ان کو دیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اسلامی معاشرہ کے احکام کو خلاصہ یوں بیان فرمایا ہے: وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَعْمَى وَالْمَسَاكِيْنَ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ ايْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا.(سوره النساء: 37) ان آیات کا کیا ہی پیارا ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلامی اصول کی فلاسفی میں کیا ہے فرماتے ہیں: و تم ماں باپ سے نیکی کرو اور قریبیوں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور ہمسایہ سے جو تمہارا قریبی ہے اور ہمسایہ سے جو بیگانہ ہے اور مسافر سے اور نوکر اور غلام اور گھوڑے اور بکری اور بیل اور گائے سے اور حیوانات سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں کیونکہ خدا کو جو تمہارا خدا ہے یہی عادتیں پسند ہیں وہ لا پر واہوں اور خود غرضوں سے محبت نہیں کرتا.روحانی خزائن جلد 10.اسلامی اصول کی فلاسفی ص 358 یہ آیت ایک ایسے معاشرہ کے قیام پر روشنی ڈالتی ہے جو حقیقت میں دنیا میں جنت ہو.جہاں ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والا ہو.اور ہر شخص کے حقوق ادا کئے جائیں.فساد بڑھتا ہے حقوق ادانہ کرنے سے.خود غرضی اور لا پرواہی سے.یعنی ایک طرف طبیعت میں تکبر اور خود غرضی کا پیدا ہونا کہ ہمیں کیا ضرورت ہے دوسرے کا خیال رکھنے کی.اپنے نفس کو قوم کی بہبودی پر مقدم رکھنے سے دوسری طرف لا پرواہی یعنی ان ذمہ داریوں کو اہمیت نہ دینا.اللہ تعالیٰ اور محمد رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کی اطاعت کا احساس ہی دل میں نہ ہونا.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن سلوک کرنے کے لحاظ سے ترتیب وار ہر انسان کی کیا ذمہ داری ہے سب سے پہلے ماں باپ کے حقوق پھر باقی رشتہ داروں کے حسب مراتب.پھر یتامی ، مساکین، ہمسایہ شریک فی العمل ، مسافر اور نوکر چاکر اور جانوراگر ہر انسان اپنی روز مرہ کی زندگی میں ان سب ہستیوں کے ساتھ حسن سلوک کرے تو ہر شخص دوسرے سے مطمئن رہے گا.سب کی تکلیفیں دور ہوں گی.ضروریات پوری ہوں گی.کوئی بھوکا نہیں رہے گا، کوئی نگا نہیں رہے گا.ایک دوسرے کا تعاون

Page 552

534 حاصل ہو گا.اپنے شہر میں نو واردوں کو جن وقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ دور ہوں گی.گویا یہ آیت توجہ دلاتی ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ جب تک انسان بندوں کے حقوق صحیح طور پر ادا نہیں کرتا وہ انسان کہلانے کا حقیقی مستحق نہیں.خود لفظ انسان بھی اسی پر روشنی ڈالتا ہے دو محبتیں رکھنے والا وجود ایک خدا تعالیٰ کی محبت اور دوسرے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی محبت.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں ان کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہد خدمت سے لا پرواہ ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص اپنے ہمسایہ کو ادنی ادنی خیر سے بھی محروم رکھتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص نہیں چاہتا کہ اپنے قصور وار کا گناہ بخشے اور کینہ پرور آدمی ہے وہ میری جماعت میں نہیں ہے ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.“ روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح صفحہ 19 غرض اسلام نے ایک عظیم الشان تہذیب و تمدن کی بنیاد ڈالتے ہوئے ہر ایک کے حقوق مقرر فرمائے ہیں.عورتوں کے حقوق ، ماں باپ کے حقوق، بھائیوں کے حقوق، غرباء کی خبر گیری ، قیموں کی ذمہ داری، ہمسائیوں کا خیال ، وہ قومیں جو آج بڑی ترقی یافتہ قو میں کہلاتی ہیں ان کا یہ حال ہے کہ سالوں تک ایک دوسرے کو اپنے ساتھ کے گھر میں رہنے والے کے متعلق کچھ بھی علم نہیں ہوتا لیکن آنحضرت ﷺ نے ہمسایہ کا خیال رکھنے کے متعلق اتنا زور دیا کہ صحابہ کو یہ خیال پیدا ہونے لگا تھا کہ کہیں ہمسایہ کو وارث ہی قرار نہ دے دیا جائے.بڑوں اور چھوٹوں کے تعلقات بھی قرآنی تہذیب کا ایک ضروری حصہ ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا:.لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ يَرْحَمُ صَغِيْرَنَا وَيُؤَقِّرُ كَبِيرَنَا.(ترمذى كتاب البر وصلة) یعنی جو بڑا ہو کر چھوٹوں سے شفقت نہ کرے اور چھوٹا ہو کر بڑوں کا ادب نہ کرے وہ ہمارے طریق پر چلنے والا نہیں کتنی پر حکمت اور نئی پرانی نسل میں مودت پیدا کرنے والی تعلیم ہے.مغربی تہذیب پر نظر ڈالیں بظا ہر جھلمل جھلمل کرتی تہذیب لیکن اندر شگاف پڑے ہوئے.چھوٹے سمجھتے ہیں ہم ہی عقلمند ہیں ہمیں اپنے بڑوں کی عزت کی کیا ضرورت اور ان کا کہنا ماننے سے کیا واسطہ؟ بڑے سمجھتے ہیں کہ بچے اب

Page 553

535 جوان ہو گئے خود کھائیں کمائیں اپنی حرکات کے خود ذمہ دار ہیں انہیں سمجھانے کی کیا ضرورت.اسلام نے دونوں کو ہی توجہ دلائی ہے بڑوں کی عزت کرو ان کے احکام تمہارے لئے واجب التعمیل ہیں.بڑوں کو چھوٹوں کی تربیت اور اصلاح کا ذمہ دار ٹھہرایا.معاشرہ میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک لڑکے یا لڑکی کا رشتہ کہیں ہو رہا ہے اور دوسرا گھرانہ اپنے گھر کا پیغام دے کر یا امید بندھوا کر پہلے رشتہ میں روک پیدا کرنے کی کوشش کرے.اسلام کا حکم ہے کہ نکاح پر نکاح کی درخواست نہ بھیجو یعنی جب تک پہلی جگہ جہاں رشتہ ہورہا ہو اس کا قطعی فیصلہ نہ ہو جائے کوئی اور رشتہ نہ بھیجے.بظاہر معمولی لیکن انتہائی امن کا ماحول پیدا کرنے والا حکم ہے جو معاشرہ کو ایک با امن اور پر سکون فضا عطا کرتا ہے.اس حکم پر عمل کرتے ہوئے ہر گھرانہ مطمئن رہ سکتا ہے کہ ہمارے رشتوں میں روک نہیں پڑے گی.مثالی معاشرہ یا بالفاظ دیگر اسلامی معاشرہ کی خوشحالی اور زندگی کے لئے اسلام نے چند قوانین بھی مقرر فرمائے ہیں جن میں سے سب سے پہلا قانون یہ ہے کہ ہر شخص محنت کر کے کھائے.گو بظاہر تو یہ قانون مرد پر حاوی ہوتا ہے کیونکہ مرد ہی عورت کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہے.لیکن کئی دفعہ ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ عورت بیوہ ہے مرد معذور ہے اس صورت میں عورت بھی اس قانون کے ماتحت آجاتی ہے کہ اس کا کام بھی اگر وہ معذور نہیں تو محنت کرنا ہے.گومرد اور عورتوں کے کاموں کی نوعیت میں فرق ہوگا.حضرت زبیر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم سے جو شخص رسی لے کر جنگل میں جاتا ہے اور وہاں سے لکڑیوں کا گٹھا اپنی پیٹھ پر اٹھا کر بازار میں آتا ہے اور اسے بچتا ہے اور اس طرح اپنا گزارہ چلاتا ہے اور اپنی آبرو اور خود داری پر حرف نہیں آنے دیتا وہ بہت ہی معزز ہے اور اس کا یہ طرز عمل لوگوں سے بھیک مانگنے سے ہزار درجہ بہتر ہے نہ معلوم وہ لوگ اس کے مانگنے پر اسے کچھ دیں یا نہ دیں.( بخاری کتاب الزکوة ) محنت کی کمائی سے کھانے کا جذبہ نوجوانوں میں پیدا کرنا ان کی ماؤں کا کام ہے.میں نے بسا اوقات ماؤں کو جب ان کے بچے بیکار بیٹھے ہوں یہ کہتے سنا ہے کہ کیا کریں کوئی مناسب کام نہیں ملتا.آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد انہیں اپنی اولاد کو سناتے رہنا چاہئے کہ بیکار بیٹھے اور سوال کرنے سے ہزار درجہ بہتر ہے کہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرے یا ہاتھ کی محنت سے کوئی اور کام کرے.آنحضرت ﷺ نے سوال کرنے سے بڑی سختی سے منع فرمایا ہے.

Page 554

536 آپ ﷺ نے فرمایا تین آدمیوں کے سوا کسی کے لئے مانگنا جائز نہیں ایک وہ آدمی جس نے کسی مصیبت زدہ کی ذمہ داری اٹھائی ہے اسے مانگنے کی اجازت ہے تا کہ وہ اس ذمہ داری کو پورا کر سکے.دوسرے وہ جس پر کوئی مصیبت آپڑے کسی نے اس کے مال کو تباہ و برباد کر دیا ہو اس کے لئے بھی سوال کرنا جائز ہے تا کہ بقدر کفایت اپنا گزارہ چلا سکے.تیسرے وہ جس پر فاقہ کی نوبت آگئی ہو اور محلہ کے تین سمجھدار اور معتبر آدمی اس بات کی تصدیق کریں کہ وہ بھوکوں مر رہا ہے اس کے لئے بھی مانگنا جائز ہے تا کہ وہ گزار اوقات کر سکے.ایسے ضرورت مندوں کے علاوہ کسی کا مانگنا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینا ہے.زکوة) اگر احمدی اور خصوصاً مستورات آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد پر عمل کریں.سوال کرنے سے حتی الوسع بچیں تو ان میں عزت نفس پیدا ہو گی محنت کی عادت پڑے گی.کفایت شعاری کی عادت پیدا ہوگی کیونکہ پسینہ کی کمائی سے جو روٹی کماتا ہے وہ اسراف نہیں کر سکتا.سوال کرنے کی عادت قومی طور پر کام چور بنادیتی ہے.محنت کی عادت جاتی رہتی ہے.آسانی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ مانگ مانگ کر ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں.ہم احمدیوں کو ہر وقت آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کو مد نظر رکھنا چاہئے اور قومی سطح پر محنت کرنے کے معیار کو بلند کرنا چاہئے.اسلامی معاشرہ کا ایک فرد ہونے کے لحاظ سے ہر مسلمان مرد اور عورت کا فرض ہے کہ مرد جب کسی مرد سے ملے اور عورت کسی عورت سے ملے تو خواہ وہ جانتا ہو نہ یا جانتا ہو السلام علیکم کہے بحیثیت معاشرہ کے ایک فرد ہونے کے اسلام نے بیمار کی عیادت فرض قرار دی ہے لیکن جہاں مسلمانوں کو ایک دوسرے سے ملنے محبت کے تعلقات رکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں یہ بھی فرمایا کہ گھر میں جانے سے قبل اجازت لو.پہلے السلام علیکم کہو اگر گھر میں رہنے والے کہیں کہ اس وقت نہیں مل سکتے تو پیشانی پر بل آئے بغیر واپس چلے جاؤ.ایسے وقتوں میں کسی کے گھر نہ جاؤ جو گھر والوں کا بے تکلفی اور آرام کا وقت ہوتا ہے مثلاً دو پہر، رات یا بہت صبح.پھر اسلامی معاشرہ کے ایک فرد ہونے کی حیثیت سے اس پر اپنے معاشرہ کو با امن رکھنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے خواہ مرد ہو یا عورت.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی کے سامنے کوئی شخص کسی اور کے خلاف بات کرے تو وہ اس شخص کو جس کے متعلق بات کہی گئی ہو کبھی نہ پہنچائے.آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اس کی مثال ایسی ہے کہ کہنے والے نے ایک تیر مارا جوں گا نہیں لیکن جس نے بات پہنچائی اس نے زمین پر

Page 555

537 گرا ہوا تیرا ٹھا کر اس شخص کے سینہ میں گھونپ دیا.اللہ تعالیٰ نے بُرائی کی اشاعت کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ معاشرہ میں کوئی خرابی نظر آئے تو ذمہ دار ہستیوں تک پہنچاؤ.ہر کس و ناکس سے بات کرنا تمہارا کام نہیں.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.وَإِذَا جَاءَ هُمُ أَمْرٌ مِّنَ الْآمَنَ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رُدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَنَ إِلَّا قَلِيلاً (سورة النساء : 84) ( ترجمہ ) اور جب بھی ان کے پاس امن کی یا خوف کی کوئی بات پہنچتی ہے تو وہ اسے مشہور کر دیتے ہیں اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور اپنے حکام کی طرف لے جاتے تو ان میں سے جولوگ اس یعنی مقررہ بات کی اصلیت کو معلوم کر لیا کرتے ہیں اس کی حقیقت کو پالیتے ہیں اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو سوائے چند ایک کے باقی لوگ شیطان کے پیچھے چل پڑتے ( تفسیر صغیر ) ہماری احمدی بہنوں کو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہمیشہ ذہن نشین رکھنا چاہئے اور کسی قسم کی کوئی افواہ ہو یا معاشرہ کی کوئی خرابی نظر آئے اس کے متعلق صرف ذمہ دار ہستیوں بلکہ اس آیت کے مطابق اول الامر کو یعنی حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ یا آپ کے مقرر کر دہ امراء کی خدمت میں ہی لکھنا چاہئے.اسلامی تہذیب کا ایک ضروری امر ہر مسلمان مرد اور عورت کا باوقار رہنا ہے خواہ لباس کے لحاظ سے ہو یا عادات کے یا چال ڈھال کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے جو دعائیں مانگی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے.ع اہل وقار ہوویں فخر دیا ر ہوویں ہم بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحانی اولاد ہیں ہمارا فرض ہے کہ ہر لحاظ سے باوقار ہوں کہ یہی ایک مسلمان کی شان ہے.پھر ایک مسلمان شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ راستہ یا لوگوں کے جمع ہونے کی جگہوں پر گند نہ پھینکے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص ایسی جگہ غلاظت پھینکتا ہے جہاں لوگ راستہ پر چلتے یا آرام کے لئے بیٹھتے ہوں اس پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی نازل ہوتی ہے.ہماری بہنوں کے لئے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشا و معلوم ہونے کے بعد بہت ہی خوف کا مقام ہے.آنحضرت ﷺ نے تو راستہ میں سے کاٹنے ہٹانے کو

Page 556

538 بھی ایمان کا حصہ قرار دیا ہے مگر جلسہ سالانہ اور بڑے اجتماعوں کے موقع پر جو ہمارے راستوں کا حشر ہوتا ہے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں بہنیں خود ہی جانتی ہیں.آپس میں اخوت اور محبت کے جذبات پیدا کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ نے مجلسوں کے متعلق بھی احکام بیان فرمائے ہیں جن میں سے سب سے پہلا دعوتوں کے متعلق ہے.آپ ﷺ نے فرمایا کوئی بلائے تو اس کی دعوت بلا کسی معقول عذر کے ضرور قبول کرو کیونکہ دعوت محبت کی زیادتی کے لئے ہوتی ہے لیکن جسے بلایا جائے صرف وہی جائے کبھی بغیر بلائے نہ خود جاؤ نہ کسی کو ساتھ لے کر جاؤ تا دوسروں کو تکلیف نہ ہو.مجلس میں کشادہ حلقہ بنا کر بیٹھو.ایک دوسرے کے اوپر سے نہ پھلانگو کسی کو متعدی مرض ہو تو ان دنوں میں وہ جمعہ یا جلسوں یا مجالس میں شرکت نہ کرے ورنہ شہر میں بیماری پھیلنے کا خطرہ ہے مجلس میں کوئی بات کرنے یا تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہو تو اس کی بات توجہ سے سنیں دوران تقریر شور نہ مچائیں خواہ وہ طبیعت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو.جانے کی ضرورت پیش آئے تو صدر مجلس سے اجازت لے کر جائیں.مجلس میں تین آدمی ہوں تو دو آدمی کبھی اس رنگ میں بات نہ کریں کہ تیسرا شخص سمجھے کہ میرے متعلق بات کی جارہی ہے.یہ باتیں بظاہر چھوٹی چھوٹی لیکن بڑی پُر حکمت ہیں.آپ میں سے اکثر کو ان باتوں کا علم بھی ہوگا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان میں سے پچاس فیصدی پر عمل بھی نہیں ہوتا.یہ نقشہ ہے اسلامی تہذیب کا.یہ نقشہ ہونا چاہئے احمد یہ معاشرہ کا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ ہمارے سامنے رکھا ہے قرآن سے ہی اخذ کیا ہے اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے.تمدن کا تعلق قومی پاکیزگی سے ہے جس کی کسی قدر تفصیل اور وہ اصول جن پر عمل کرنے سے قوم کا پاکیزگی کا معیار بلند ہوتا ہے بیان کر آئی ہوں.لیکن اخلاق کا تعلق افراد کی پاکیزگی سے ہے.افراد میں پاکیزگی کا معیار بلند ہونا بہت ضروری ہے معاشرہ افراد کے مجموعہ کا نام ہے جب افراد کی پاکیزگی کا معیار بلند ہوگا تو قوم کا معیار اخلاق خود بخود اعلی سطح پر آجائے گا.اخلاق نام ہے انسانی طبعی تقاضوں کو عقل اور مصلحت کے مطابق استعمال کرنے کا یہی چیز اسے دوسرے حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے انہی تقاضوں کا غلط استعمال بدی یا گناہ کہلاتا ہے.بدی اور گناہ کے پیدا ہونے کی سب سے بڑی وجہ عدم علم اور عدم معرفت ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.

Page 557

539 لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ (النساء : 18) جولوگ بدی کے مرتکب ہوتے ہیں اس کی اصل وجہ جہالت ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت کا نہ ہونا اور شریعت کے احکام کا صحیح علم نہ ہونا ورنہ جان بوجھ کر سوچتے سمجھتے ہوئے کوئی انسان زہر نہیں کھایا کرتا.پس اصل اخلاق یہی ہیں کہ ذات باری کی صفات کی معرفت حاصل کی جائے اور ان صفات کو اپنے دائرہ کے اندر پیدا کرنے کی کوشش میں لگا رہے.حضرت مصلح موعود نے یہ مضمون اپنے لیکچر د تعلق باللہ میں بڑے لطیف انداز میں بیان فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ رب ہے اپنے دائرہ میں گھر والوں بچوں اور عورتوں کی تربیت کر کے آپ ان صفات کی ایک جھلک اپنے میں پیدا کر سکتی ہیں.اللہ تعالیٰ الجھی ہے روحانی زندگی قوم میں پیدا کر کے اپنے آپ کو اس صفت کا ایک حد تک مظہر ثابت کر سکتی ہیں.اللہ تعالیٰ غفور ہے ستار ہے رحیم ہے ہر صفت کا اپنے محدود دائرہ عمل میں مظہر بننا ہر انسان کا کام ہے بہنوں کو چاہئے کہ یہ کتاب ضرور پڑھیں) ایک اصول اخلاق کے متعلق یا درکھنا چاہئے.اسلام نے اخلاق ظاہری کو ہی تسلیم نہیں کیا بلکہ دل کے جذبات اور نیتوں کو بھی اخلاق کا حصہ قرار دیا ہے اور ان کے مطابق سزاو جزا کا ذمہ دار قرار دیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ (سوره الانعام : 152) بدی کے قریب تک نہ جاؤ خواہ وہ ظاہری ہو یا مخفی مخفی بدی کا یہی مطلب ہے کہ اس بدی کا ارتکاب جوارح نہیں بلکہ دل کر رہا ہے.ظاہری نظروں سے دنیا کو وہ نظر نہیں آتیں سوائے اس کے خود انسان اپنے جرم کا اعتراف کرے.اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- إِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبُكُمْ بِهِ اللَّهُ (البقره: 285) اللہ تعالیٰ کی طرف سے محاسبہ صرف ظاہری اعمال پر ہی نہیں ہوگا بلکہ ولی خیالات پر بھی ہوگا.اسی مضمون کو آنحضرت ﷺ نے إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ (بخاری کتاب بدء الوحي) کے الفاظ میں ادا فرمایا ہے کہ اعمال کی جزا سزا کا انحصار نیتوں پر ہے.کسی انسان میں سوائے اس کہ جس کی اللہ تعالیٰ خاص مدد کرے یہ طاقت نہیں کہ وہ ایک دم بُرائیاں چھوڑ

Page 558

540 دے اور یکدم نیکیاں کرنی شروع کر دے اس لئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک اصول بیان فرمایا ہے.إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ( سورة هود : 115) انسان کمزور ہے خواہش رکھتے ہوئے بھی اس سے بُرائیاں سرزد ہوں گی کچھ دانستہ کچھ نا دانستہ لیکن اگر انسان نیکیوں کا پلڑا بھاری رکھنے کی کوشش کرتا رہے تو آہستہ آہستہ اس کی نیکیوں کا تو زان بدیوں پر غالب آجاتا ہے.فلسفہ اخلاق کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دوسرے مذاہب نے اخلاق کو صرف دوسروں تک وسیع رکھا ہے لیکن اسلام نے خود انسان کے اپنے نفس کو بھی اس دائرہ میں شامل کیا ہے آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ (مسند احمد) اے انسان! صرف دوسروں کے حقوق کی ادائیگی ہی تجھ پر واجب نہیں تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے.نفس کے حقوق کیا ہیں؟ اپنی صحت، اپنے کھانے اور پینے کا خیال رکھنا.سردی اور گرمی سے محفوظ رکھنا.لیکن صرف ظاہری خیال نہیں بلکہ روحانیت کی ترقی کا خیال رکھنا ہر مسلمان کے ذمہ ہے انسان کو ہر وقت جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ میرا قدم نیکی کی طرف بڑھ رہا ہے یا بدیوں کی طرف میری روحانیت ترقی کر رہی ہے یا تنزل کی طرف جارہی ہے.پس نفس کی جسمانی روحانی تربیت دونوں ہی حق نفس میں جاتی ہیں اور اسلام کی اخلاقی برتری دیگر مذاہب پر ثابت کرنے کے لئے اسلام کی اخلاقی تعلیم کا یہ بہت بڑا اور درخشاں پہلو ہے.اپنے نفس کے بعد دوسروں سے سلوک کے معاملہ کا سوال پیدا ہوتا ہے.ہر انسان کا دل دو قسم کے جذبات سے خالی نہیں نفرت اور محبت.لیکن یہی دونوں جذبے جب عقل اور مذہب کے ماتحت آجائیں تو اخلاق بن جاتے ہیں.محبت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قاعدہ کلیہ قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے.فرماتا ہے:.قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاءُ كُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَأَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنَ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِهِ وَجِهَادِ فِي سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَسِقِينَ (سورة التوبة : 24)

Page 559

541 اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ماں باپ، رشتہ داروں ، خاوندوں ، بچوں ، دوستوں، گھر اپنے مال و متاع سے محبت نہ کرو.قرآن مجید کی دوسری آیات میں ان سب سے محبت کرنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیا گیا ہے.ہر ایک چیز سے محبت ایک فطری جذبہ ہے لیکن اس آیت میں یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر ایک کی محبت اس کے رتبہ کے مطابق ہو.اللہ تعالیٰ سے محبت اس کی شان کے مطابق ہو.آنحضرت ﷺ نے محبت آپ ﷺ کے مقام کے مطابق ہو.دین کے لئے قربانی اس کی اہمیت کے مطابق دو اور پھر ان کے ساتھ ساتھ اپنے عزیز و اقرباء، وطن سب سے ہی محبت کرو.صرف یہ خیال مد نظر رہے کہ ان کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت سے نہ ٹکرائے.ان کی محبت آنحضرت ﷺ کی محبت سے نہ ٹکرائے.ان کی محبت دین کی محبت سے نہ ٹکرائے.ان کی محبت دین کے لئے قربانی دینے میں حارج نہ ہو.پھر خود اہل و عیال کی محبت ان کی اصلاح میں حارج نہ ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيكُمْ نَارًا (سوره التحريم: 7 ) اپنے نفس اور اپنے اہل وعیال کی محبت کا تقاضا ہی یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو بدی سے محفوظ رکھو اور اپنے اہل وعیال کو بھی بدی سے بچاؤ جتنی زیادہ محبت بچوں سے ہو اتنا ہی زیادہ خیال ان کی نیک تربیت کا ہو.جتنی زیادہ محبت اپنے اہل وعیال سے ہو اتنا ہی ان کو دین کے لئے قربانی کے لئے تیار کرو.یہ معیار ہے اسلام میں محبت کا.اور اس معیار پر پورا اترنا ہر مسلمان عورت کا فرض ہے.نفرت بھی طبعی تقاضا ہے مگر یہ تقاضا بھی عقل کے ماتحت رہے تو خلق کہلائے گا اسلام کی تعلیم اس سلسلہ میں کتنی اعلیٰ اور معاشرہ کو کسی قدر با امن بنانے والی ہے.کسی سے بے جا نفرت نہ کرو.کسی کے حالات کا تجسس نہ کرو.غیبت نہ کرو.بدظنی نہ کرو، حسد نہ کرو، یہ وہ ساری بُرائیاں ہیں جن کی وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں اور جن کی وجہ سے معاشرہ میں فساد پیدا ہو جاتا ہے.اگر ان کو چھوڑ دیا جائے اور اسلام کی تعلیم پر عمل کیا جائے تو وہ معاشرہ جنت بن جاتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى اَنْ لَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوَى.(المائده: 9) کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ اکسائے کہ تم انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دو.یعنی اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی جب معاملہ کرنا ہو تو انصاف سے کام لو.خواہ وہ تمہار کتنا بڑا دشمن کیوں نہ ہو دوسری طرف اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَكَرْهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ (الحجرات : 8 )

Page 560

542 کہ کفر اور نافرمانی اور حد سے گزر جانے کے متعلق تمہارے دلوں میں نفرت کے جذبات پیدا کئے ہیں.کتنا اعلیٰ اور خوبصورت فلسفہ ہے نفرت کا بھی جو اسلام نے پیش فرمایا ہے.بڑے سے بڑے دشمن کو معاف فرمانے اور درگذر کرنے کا ارشاد فرمایا.لیکن ساتھ ہی اطاعت نظام سے نکل جانے والے کے متعلق نفرت کے جذبات رکھنا ضرور قرار دیا ہے کیونکہ جو خلیفہ وقت یا حکام وقت یا امرائے سلسلہ کی نافرمانی کرتا ہے وہ دراصل نظام کی جڑیں کاٹ رہا ہوتا ہے.ذاتی دشمنی اور چیز ہے.لیکن نظام میں رہتے ہوئے نظام کے خلاف چلنے والے کی دوستی قرآنی تعلیم کے خلاف ہے اسلام کہتا ہے کہ بُرے سے بُرے آدمی سے بھی نفرت نہ کرو اس کی خیر خواہی کرو لیکن اس کی بدی کی حالت اور گناہ کے فعل سے نفرت کرو.یہی اصل خلق ہے.میری عزیز بہنو! یہ دنیا دار العمل ہے اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے دلکشی کے سامان اس لئے پیدا کئے ہیں تا اس دنیا میں رہتے ہوئے ہم ثابت کر سکیں کہ ہمارے لئے سب سے زیادہ کشش اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے اور اس کی رضا پر چلنے میں ہے یا دنیا کی بظاہر حسین چیزوں کے حاصل کرنے میں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (سورة الكهف آيت 8) کہ ہم نے دنیا میں ہر قسم کی اعلیٰ سے اعلیٰ چیزیں اس غرض سے پیدا کی ہیں تا کہ ہم دیکھیں کہ کون خوبصورت عمل کرتا ہے.کون اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے میں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے.اور کون اس نور سے فائدہ حاصل نہیں کرتا بلکہ دنیا کی طرف گرتا ہے.آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کی صفات کے کامل مظہر بن کر دنیا میں آئے تھے اور آپ ﷺ کے نقش قدم پر چلنے سے ہم اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے میں پیدا کر سکتے ہیں.ہمیں چاہئے کہ ہر وقت اس کوشش میں لگے رہیں کہ وہ اخلاق فاضلہ ہم میں پیدا ہوں جن کی تعلیم اپنے عملی نمونہ سے آنحضرت ﷺ نے ہمیں دی اور وہی دن ہمارے لئے کامیابی کا دن اور ہماری تہذیب کو دنیا کے سامنے ایک مثالی تہذیب کے طور پر پیش کرنے کا دن ہوگا جس دن ہمارا ہر فرد خواہ مرد ہو یا عورت لڑکا ہو یا لڑ کی قرآن کی تعلیم اور آنحضرت ﷺ کے نمونہ کے مطابق زندگی بسر کرنے والا ہوگا.خدا کرے وہ دن جلد آئے جب ہر احمدی عورت کا کردار عین قرآن کے مطابق ہو اور اس کی گود سے ایسے مجاہدین اسلام پرورش پا کر جوان ہوں جو نمونہ ہوں اپنی قربانیوں اور اپنے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کا.جو نمونہ ہوں حضرت عثمان اور علی کا جو نمونہ ہوں حضرت طلحہ اور زبیر کا جو نمونہ ہوں حضرت خالد بن ولید اور محمد بن قاسم کا.پس ضرورت ہے اور بہت بڑا کام ہے ممبرات لجنہ اماءاللہ کا کہ وہ تربیت کی

Page 561

543 طرف خصوصی توجہ دیں کہ اصل کام ہمارا یہی کام ہے اور باقی سب کام ثانوی حیثیت رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق عطا فرمائے.آمین اللہم آمین کام کریں اس یقین کے ساتھ کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر چلنا ہے.ورنہ دلوں میں تبدیلی پیدا کرنا تو صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور جس کام کا وہ ارادہ کرلے وہ ٹل نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.”خدا تعالیٰ نے جس تہذیب کے پھیلنے کا ارادہ فرمایا ہے اسے اب کوئی روک نہیں سکتا.جیسے جب کوئی بڑا بھاری سیلاب آتا ہے تو اس کے آگے کوئی بند نہیں لگا سکتا.اسی طرح پر اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس سیلاب سے بھی بڑھ کر زبر دست ہے.کون ہے جو اس کے آگے بند لگائے خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ دنیا میں سچی تہذیب اور روحانیت پھیلے اور یہ اس کے بالمقابل عیسائیت کے گندے خیالات پھیلانا چاہتے ہیں.اب خدا تعالیٰ سے ان کی لڑائی ہے معلوم ہو جائے گا کہ اس کا انجام کیا ہے.خدا تعالیٰ نے جو ارادہ فرمایا ہے وہ ہو کر رہے گا.وہی خدا ہے جس نے زمین و آسمان بنایا ہے وہ چاہے تو نئے سرے سے اس زمین و آسمان کو بنا سکتا ہے اب اسی کا کام ہے کہ وہ دنیا پر اثر ڈال دے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 332 حاشیہ) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ.الفضل 27 اکتوبر 1968ء)

Page 562

544 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع 1968ء ممبرات لجنہ اور ناصرات الاحمدیہ میں انعامات تقسیم کرنے کے بعد حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے اختتامی خطاب فرمایا.آپ نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ ہمارا یہ سالانہ اجتماع بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوگیا.مختلف مقابلہ جات میں جن بچیوں نے انعامات حاصل کئے ہیں انہیں مبارک ہو.لیکن یاد رہے کہ یہ مقابلے کرانے اور انعامات دینے سے ہماری غرض یہی ہے کہ ہماری خواتین اور بچیاں قرآنی ارشاد فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ پر عمل کرنے والی بنیں وہ انفرادی اور اجتماعی نیکیوں میں اعلیٰ اخلاق میں قرآن مجید کی تعلیم میں مالی قربانیوں میں، بچوں کی اعلیٰ تربیت میں ہمیشہ ہی ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرتی رہیں.خطاب کو جاری رکھتے ہوئے حضرت سیدہ موصوفہ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان دار النجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہے.‘ کی روشنی میں لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کی علیحدہ علیحدہ بڑی جامع اور دلنشین تشریح کا خلاصہ ایک فقرہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ میں بیان ہوا ہے.کیونکہ اس پر صدق دل سے ایمان لانے ہی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ پر توکل کامل پیدا ہوتا ہے اور اس طرح خدا اور بندے کے درمیان تعلق استوار ہوتا چلا جاتا ہے.لیکن لا إِلهَ إِلَّا الله پر عمل محمد رسول اللہ کو مانے بغیر نہیں ہوسکتا کیونکہ آنحضرت ﷺ کامل مظہر ہیں.اللہ تعالیٰ کی صفات کے.توحید کامل کا قیام آپ ہی کے ذریعے ہوا لہذا آپ پر ایمان لانے اور آپ کی کامل اطاعت کے بعد حقیقی تو حید اور کامل تو کل کا مقام حاصل ہوسکتا ہے.تقریر کو جاری رکھتے ہوئے حضرت سیدہ موصوفہ نے صحابیات آنحضرت ﷺ کے ایمان کامل اور اطاعت کامل کی چند مثالیں دیں اور فرمایا اسی اطاعت کی بدولت ایک قلیل مدت میں مسلمان قوم نے ساری دنیا میں غلبہ حاصل کر لیا تھا.اگر آج بھی اطاعت خلیفہ کی یہی روح تمام احمدی خواتین کے اندر پیدا ہو جائے تو وہ غلبہ جو مقدر ہے بہت جلد ظہور پذیر ہوسکتا ہے.اس کے بعد آپ نے حضرت خلیفتہ المسیحالثالث ایدہ اللہ کی تحریک ترک رسومات اور تعلیم القرآن کی طرف مستورات کی توجہ مبذول کرائی، نیز بے پردگی اور مغرب کی تقلید میں فیشن سے اجتناب کی پر زور تلقین کی فرمایا.ہماری مستوارت کو چاہئے کہ وہ اپنے ایمانوں کی فکر کریں.اپنی اولا دوں کو آگ سے بچائیں.نہ

Page 563

545 صرف اُخروی آگ سے بلکہ دینوی جہنم سے بھی تا ان سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو آنحضرت ﷺ کی تعلیم اور ارشادات کے خلاف ہو.یادرکھیں کہ جب ہمارے قول اور فعل میں کسی قسم کا تضاد باقی نہیں رہے گا تبھی ہم اپنے نصب العین کو حاصل کر سکیں گے.خدا کرے ایسا دن ہماری زندگیوں میں آجائے.اس کے بعد آپ نے باہر سے آنے والی مستورات کو الوداع کہا اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ سفر حضر میں ان کا حافظ و ناصر ہو اور بخیر و عافیت اپنے گھروں میں پہنچیں.(الفضل 9 نومبر 1968ء)

Page 564

546 خطاب بر موقعہ جلسہ سالانہ 1968ء 27 دسمبر مہمان مستورات کو ہدیہ سلام و دعا پیش کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ان مبارک ایام کی بے حساب برکات و فیوض سے استفادہ کریں اور اپنے وقت کو بر کار باتوں اور بے فائدہ کاموں میں ضائع نہ کریں آپ نے فرمایا کہ آج میں ایک خاص سکیم حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے پیش کرتے ہوئے رب کریم و قدیر سے یہ امید رکھتی ہوں کہ یہ تحریک لجنہ کی مضبوطی کا باعث ہوگی نیز وہ محض اپنے فضل سے آپ کے دلوں کو اس تحریک کی کامیابی کی طرف مائل کرے گا.حضرت مصلح موعود جن کو اللہ تعالیٰ نے اسیروں کی رستگاری کو موجب بنایا تھا.حضور عورتوں کی مشکلات سے رہائی کا باعث بھی بنے کیونکہ آج سے پچاس سال قبل طبقہ نسواں سے زیادہ مظلوم و اسیر کوئی نہ تھا.حضور نے تعلیم القرآن کو عام کر کے عورتوں کے فرائض و حقوق کی پاسداری کی.حضرت مصلح موعود کا سب سے بڑا احسان 25 دسمبر 1922ء کو لجنہ اماءاللہ کا قیام ہے.وہ مختصرسی انجمن جو چودہ نمبرات سے شروع ہوئی آج دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئی ہے.اور بین الاقوامی حیثیت حاصل کر کے عالمگیر شہرت کی حامل ہو چکی ہے.لجنہ کے قیام کا مقصد یہ بھی تھا کہ احمدی مستورات کو اسلام کی خاطر قربانیاں پیش کرنے پر آمادہ کیا جائے.آج ضرورت اس امر کی ہے کہ خدا کی راہ میں مسلسل مالی قربانیاں پیش کی جائیں زبانی ایمان کا دعویٰ کافی نہیں.آج جماعت احمدیہ کی خواتین کو عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ خلیفہ وقت کی اطاعت اور نظام جماعت کی پیروی ہی ان کا حقیقی ایمان ہے.جب خلیفہ وقت کی طرف سے یا اس کی اجازت سے کوئی سکیم پیش کی جائے تو شرح صدر سے اس میں قربانی پیش کر دینا ہی حقیقی ایمان ہے مبارک ہیں وہ جو خلیفہ وقت کی آواز پر اپنا تن من دھن، جان، مال اور عزت کو ہر وقت قربان کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں.قرآن پاک نے اتفاق فی سبیل اللہ پر بہت زور دیا ہے.اس ضمن میں آپ نے سورۃ بقرہ سورۃ ان اور سورۃ المنافقون کی آیات کو پیش کر کے فرمایا.اور یہ ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیا ہوا مال ضائع نہیں جاتا بلکہ اُس کا بدلہ کئی گنا اور بے حساب ملے گا.آپ نے فرمایا آج قربانیاں کرنے والے اور بعد میں قربانیاں کرنے والے جب کہ تمام دنیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی.ہرگز برابر نہیں ہو سکتے آنے والے نسلیں سابقون پر رشک کریں گی.اور ان پر سلام و درود بھیجیں گی.میری بہنو خلافت کا دامن تھامے رہو تو

Page 565

547 اللہ تعالیٰ کے بیشمار انعامات اور احسانات کی بارش تم پر ہوتی رہے گی.غیر ممالک میں آج لجنہ اماء اللہ میں ایسی خواتین شامل ہو چکی ہیں.جن کے دلوں میں ایمان کی شمع فروزاں ہو چکی ہے جو ان کو ہر وقت قربانیوں کیلئے آمادہ اور بے قرار رکھتی ہے اور انہوں نے ہر اس تحریک میں حصہ لیا ہے.جس میں حصہ لینے کی سعادت پاکستانی احمدی بہنوں کو عطا ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ نے انعام خلافت کو ایمان بالخلافت اور اس کے مطابق ایمان صالحہ بجالانے سے مشروط فرمایا ہے.لہذا آج آپ کا فرض ہے کہ نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنی اولاد کو بھی ہر وقت ہر قربانی کے لئے تیار کریں.حضرت مصلح موعود نے مسجد النڈن اور مسجد برلن کی تحریک کی تو مستورات نے عظیم مالی قربانی کا مظاہرہ کیا.تحریک جدید میں بھی خواتین نے بڑی فراخدلی اور بشاشت سے حصہ لیا.1944 ء میں حضور نے جرمن زبان میں قرآن پاک کے ترجمہ کے لئے 28000 (اٹھائیس ہزار ) روپے کی تحریک کی تو جماعت احمدیہ کی خواتین نے پینتیس ہزار روپیہ آپ کی خدمت میں پیش کر کے اعلیٰ قربانی کا ثبوت دیا.لجنہ اماء اللہ کے ہال تعمیر پر حضرت مصلح موعود نے اظہار خوشنودی فرمایا پھر 1964ء میں اللہ تعالیٰ سے توفیق پا کر اور حضرت مصلح موعود کی اجازت سے میں نے بیت نصرت جہاں کی تحریک کی تو جماعت کی خواتین نے جس قربانی اور خلوص کا مظاہرہ کیا وہ تاریخ احمدیت میں ہمیشہ درخشاں رہے گی.لجنہ اماءاللہ کے قیام پر آج چھیالیس سال گذر چکے ہیں.1972ء کے اجتماع پر اس انجمن کو قائم ہوئے انشاء اللہ پورے پچاس برس ہو جائیں گے.لہذا میری تمنا اور خواہش ہے کہ 1972 ء کا لجنہ کا اجتماع خاص شان اور وقار کا حامل ہو اور اگر ہماری بہنیں پسند کریں تو یہ تقریب جلسہ سالانہ پر بھی ملتوی کی جاسکتی ہے.میں اس تقریب کے پیش نظر 5 لاکھ روپیہ کی تحریک پیش کرتی ہوں اور یہ اعلان کرتی ہوں کہ یہ رقم چار سال کے اندر جمع کی جائے.اس سکیم کی اولین شق یہ ہوگی کہ ایک لاکھ روپیہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں اس غرض سے پیش کیا جائے گا کہ آپ کسی ایک غیر زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کروا دیں.یہ ایک لاکھ روپیہ 1969ء کے جلسہ سالانہ تک جمع ہو جانا چاہئے.دوسری اہم چیز دفتر اور لجنہ ہال کی تعمیر و توسیع ہے کیونکہ مرکز کی مضبوطی کے لئے یہ ایک ناگزیر امر ہے.تیسری چیز جو اس سکیم میں شامل ہوئی وہ لجنہ اماءاللہ کی پچاس سالہ تاریخ کا لکھنا ہے.جوانشاء اللہ تعالیٰ کوشش کی جائے گی کہ وہ لکھ کر 1972ء تک مکمل شائع ہو جائے.اس چندہ کا نام چندہ تحریک خاص لجنہ اماءاللہ

Page 566

548 ہوگا.اس سکیم کی تفصیلات کا بعد میں مکمل جائزہ لیا جائے گا.مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں کے طفیل اس تحریک کو مقبولیت حاصل ہوگی.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آخری سانس تک قربانیوں کی توفیق دیتا چلا جائے اور ہماری اولا دوں کو ہم سے بھی زیادہ قربانیاں دینے کی سعادت عطا فرمائے.آمین.الفضل 8 جنوری 1969ء

Page 567

549 عزیز بچیو! ناصرات الاحمدیہ کا اجتماع 1969ء السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تمہیں پھر اس سال اپنے اجتماع کے لئے مرکز میں جمع ہونا مبارک ہو.خدا کرے پھولو، پھلو دین احمد کے باغ کی آبیاری تم سے ہو.گذشتہ سال میں نے اپنی بچیوں کے سامنے ایک پانچ نکاتی پروگرام پیش کیا تھا جس کی پانچ شقیں صداقت، امانت محنت ، صفائی اور وقت کی پابندی تھیں.مجھے خوشی ہے کہ سال رواں میں شہروں کی لجنات نے اس پروگرام کی طرف توجہ کی.اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ کام آئندہ سال کے لئے ختم ہو گیا.یہ وہ صفات ہیں جو ہر احمدی بچی اور ناصرات الاحمدیہ میں پائی جانی ضروری ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرے کہ ہم آپ کی صحیح تربیت کر سکیں اور اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا کرے کہ آپ اپنے آپ کو اپنے نام کی مستحق ثابت کریں.ہمارا سب سے بڑا کام قرآن کریم کی تعلیم کو رواج دینا ہے یہاں تک کہ ہر احمدی مرد، عورت، بچہ اور بچی قرآن کریم کے ترجمہ اور تفسیر سے واقف ہو.قرآن کریم کے مسائل کو سمجھتا اور ان پر عمل کرتا ہو.بڑی عمر کی خوتین کو قرآن کریم کا سکھانا مشکل ہے.قرآن کریم کی تعلیم شروع کرنے کی عمر یہی ہے جو ناصرات کی ہے.اگر ہم آپ پر اس زمانہ میں محنت نہیں کرتے جو سیکھنے کی عمر ہے تو ہم خود اپنے ہاتھوں آپ کی عمر ضائع کرتے ہیں.اس لئے نگران ناصرات اور عہدہ داران لجنہ اس بات کو نوٹ کر لیں کہ اس سال ناصرات الاحمدیہ کی آٹھ سے دس سال تک کی بچیوں کا ناظرہ قرآن کریم ختم ہو جانا چاہئے.ہر سال کی رپورٹ میں یہ ذکر ہو کہ اس عمر کی بچیاں ناظرہ ختم کر چکی ہیں.پھر گیارہ سال سے آپ تھوڑا تھوڑا ترجمہ شروع کر دیں اور کوشش کریں کہ پندرہ سال کی عمر تک زیادہ سے زیادہ جتنا قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا سکیں پڑھالیں.یہ وہ عمر ہے کہ اگر آپ ہمت سے کام لیں اور محنت سے بچیوں کی دینی پڑھائی کی طرف توجہ دیں تو پندرہ سال کی بچی پورا تر جمہ بھی یاد کر سکتی ہے کیونکہ اس عمر میں یاد کرنا اور یا درکھنا بہت آسان ہے.شعبہ ناصرات لجنہ کا اہم ترین شعبہ ہے اگر یہ شعبہ صحیح رنگ میں اپنا کام کرے اور بچیوں کی دینی تعلیم کی طرف توجہ دے اور ہر بچی کو ابتدائی دینی مسائل نماز ناظرہ قرآن مجید ، دعائیں اور ایک حصہ ترجمہ کا یا د ہو

Page 568

550 تو ہمارا کام بہت ہی آسان ہو جاتا ہے.کسی عورت کا کسی وقت دین سے غافل ہو جانا دراصل اس کے بچپن کی کمزوری ہوتی ہے اس لئے میری بچیو! اپنی دینی تعلیم کی طرف سب سے زیادہ توجہ کرو.اپنے اندر اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا کرو.حضرت رسول کریم ﷺ سے محبت پیدا کرو.آپ ﷺ کے ارشاد کی تعمیل کرنا اپنا فرض سمجھو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی اطاعت کرنے میں اپنی سعادت سمجھو اللہ تعالیٰ کا بہت ہی بھاری احسان تم پر یہ ہے کہ تم کو احمدی گھرانوں میں پیدا کیا.اب تمہارا کام یہ ہے کہ تم جو اس وقت ننھی منھی کلیاں ہو گلشن احمد کے پھول بن کر کھلو اور تمہاری قربانیاں تمہاری نظام سے وابستگی تمہارے جذبہ اطاعت اور تمہارے اخلاق اور خوبیوں سے گلشن احمد میں ایسی بہار آئے جس کے بعد کوئی خزاں نہ آسکے.خدا کرے ایسا ہی ہو.“ الفضل 18 اکتوبر 1969ء

Page 569

551 لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے بارہویں سالانہ اجتماع کے موقع پر نمائندگان لجنات اماء الله ! افتتاحی خطاب 1969ء أَهْلَا وَّ سَهْلا و مَرْحَبًا اللہ تعالیٰ آپ سب کا مرکز میں آنا مبارک فرمائے اور جس عظیم الشان مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ سب مختلف مقامات سے یہاں اکٹھی ہوئی ہیں وہ پورا فرمائے.یہ تین دن آپ سب دعاؤں، ذکر الہی ، درود شریف پڑھنے تسبیح وتحمید میں بسر کریں.اپنے وقت کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیں.آپ پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.آپ نمائندہ بن کر آئی ہیں اپنی اپنی لجنات کی طرف سے.اس لئے آپ نے زیادہ سے زیادہ سیکھنا اور فائدہ اٹھانا ہے اور اپنی بجنات کی صحیح نمائندگی کرنی ہے.کسی نمائندہ کی اجتماع سے عدم موجودگی یا بے پروائی اس کی لجنہ کی اہمیت کو کم کر دے گی.وقت کی پابندی اور ماحول کی صفائی کا خاص خیال رکھیں.ماحول کی صفائی کا روحانیت پر بہت بڑا اثر ہوتا ہے.جو بہنیں نمائندگان تو نہیں ہیں لیکن اپنے شوق سے اس اجتماع میں حاضر ہوئی ہیں ان سے بھی میری درخواست ہے اپنا ایک منٹ بھی ضائع نہ کریں.شور نہ ہونے دیں.توجہ سے پروگرام کو سنیں.ادھر ادھر نہ پھریں اور صفائی کا خیال رکھیں.ہمارے اجتماع منعقد کرنے کی غرض کیا ہے؟ انسانوں میں آپس میں برادرانہ تعلقات پیدا کرنے کے لئے امیر وغریب کو ایک سطح پر لانے کے لئے.ایک معاشرہ میں تمام افراد کے ایسے تعلقات جن کی بنیاد محبت پر قائم ہو پیدا کرنے کے لئے اجتماعات کا ہونا ضروری ہے اور اسی لئے ہم جمع ہوئی ہیں.تا اپنی لجنہ کی ترقی کے لئے باہم مل کر بغیر کسی فساد کے پیدا کئے باہمی مشورے کر کے ایسے فیصلے کرسکیں جن پر عمل کرنے سے دنیا میں احمدی عورت کا مقام بلند سے بلند ہوتا چلا جائے اور لجنہ اماءاللہ غلبہ اسلام کے لئے کوششوں اور قربانیوں میں ایک اہم کردار ادا کرے.اجتماعات کا انسانی تمدن پر نہایت گہرا اثر پڑتا ہے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّنْ نَّجْوَاهُمُ إِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا ( النساء : 115) ترجمہ:.ان لوگوں کے مشوروں کو مستقلی کر کے جو صدقہ یا نیک بات یا لوگوں کے درمیان اصلاح

Page 570

552 کرنے کا حکم دیتے ہیں.ان کے بہت سے مشوروں میں کوئی بھی بھلائی نہیں ہوتی اور جو شخص اللہ کی رضا جوئی کے لئے ایسا کرے یعنی نیک مشورے کرے ہم اسے جلد ہی بہت بڑا اجر دیں گے.(تفسیر صغیر) قرآن مجید کی یہ آیات ثابت کرتی ہیں کہ اجتماع ہو یا کانفرنس فائدہ مند مجالس وہی ہوتی ہیں جوان تین مقاصد کو سامنے رکھ کر اپنالائحہ عمل تجویز کرتی ہوں.اول: مَنْ آمَرَ بِصَدَقَةٍ جو اپنے سامنے یہ مقصد رکھیں کہ ہم نے غرباء کی خبر گیری اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کا انتظام کرنا ہے.بالفاظ دیگر خدمت خلق کا کام اور اس کو وسیع تر کرنے کا منصوبہ ہمارا لجنات کا بڑا مقصد ہونا چاہئے اور ہمارا سالانہ کا موں کا ایک بڑا ضروری حصہ.چند افراد کی مدد کر دینا، چند حاجت رواؤں کی حاجت کو دور کر دینا کوئی بڑا کارنامہ نہیں.لجنات کے پیش نظر یہ وسیع پروگرام ہونا چاہئے کہ کوئی احمدی عورت سوال کرنے پر مجبور نہ ہوتا اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو.اور اس کی ضروریات زندگی بھی حتی الوسع پوری کی جائیں.یہ صیح ہے کہ لجنہ اماءاللہ کے ذرائع آمد محدود ہیں لیکن اگر ہر لجنہ اس مقصد کو سامنے رکھے اور صحیح رنگ میں کام کرنے کا پروگرام بنائے تو ان محدود ذرائع سے ہی عظیم الشان کام کئے جاسکتے ہیں.ضرورت ہے کہ جماعت کی ہر خاتون کے متعلق ہر لجنہ کے پاس مکمل اعداد و شمار موجود ہوں اور بغیر کسی مستحق اور ضرورت مند خاتون کے دست سوال دراز کرنے کے اس کی خود مدد کر دی جائے.آنحضرت ﷺ کی سب سے بڑی خصوصیت جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ آپ رحمۃ للعالمین تھے.اللہ تعالیٰ کی محبت.آنحضرت ﷺ کی کامل اطاعت اور آپ کے رنگ میں رنگین ہونے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے.پس اپنے اپنے دائرہ میں ہر احمدی عورت کو دوسرے کے لئے مجسم رحمت بن جانا چاہئے.رحمت بنیں اپنی اولاد کے لئے.رحمت بنیں اپنی بہنوں کے لئے رحمت بنیں اپنی شاگردوں کے لئے رحمت بنیں اپنی ناصرات کے لئے رحمت بنیں ہر ملنے جلنے والی کے لئے رحمت بنیں اپنے پڑوسیوں کے لئے قول سے فعل سے عمل سے تا اس کے نتیجہ میں وہ حقیقی اسلامی معاشرہ قائم ہو جائے جس کا ایک نظارہ دنیا چودہ سو سال قبل دیکھ چکی ہے اور جس کا دوسری بار نظارہ دکھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 571

تشریف لائے تھے.553 دوسری اہم غرض اجتماعات اور مشوروں کے لئے جمع ہونے کی قرآن مجید نے مَنْ أَمَرَ بِمَعْرُوفٍ بیان فرمائی ہے.یعنی جو نیک باتوں کی تلقین کرتے ہیں.نیک باتوں میں ہر قسم کے علم ، فن کی تحقیق اور اشاعت بھی شامل ہے اور ہر برائی کے دور کرنے کی سعی اور ہر خوبی کے پیدا کرنے کی کوشش بھی.قرآن مجید میں دوسری جگہ وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران:105) بیان فرما کر اسی طرف توجہ دلائی ہے.اے لوگو! تم میں سے ایک ایسی جماعت ہو جو دنیا کو خیر کی طرف دعوت دے اور ہراچھی نیک بات کی تلقین کرے اور ہر بُری بات سے رو کے اور یہی لوگ کامیاب ہوں گے.گویا اسلام کے غلبہ کا انحصار دعوت الى الخير - امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ہے.ضروری ہے کہ ہماری کارکنات لجنہ اماء اللہ اپنے معاشرہ میں معمولی سی بدی کو بھی پنپتا دیکھیں تو اسے دُور کرنے کی کوشش کریں.محبت اور پیار سے سمجھانے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کی طرف توجہ دلانے اور آنحضرت علی کے ارشادات سنانے کے ساتھ اللہ تعالی کے فضل اور انعامات یاد دلانے اور اس کے عذاب سے دل میں خوف پیدا کرانے کے ساتھ.غرض یہ طریق استعمال کیا جائے تا ہماری احمدی بہنوں سے کوئی معمولی سے معمولی فعل بھی ایسا سرزد نہ ہو جو خلاف ہو قرآن کے.جو خلاف ہوسنت رسول اللہ ﷺ کے.جو خلاف ہوارشاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے.جو خلاف ہو ہدایت حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے.جو خلاف ہو اسلام کے.اور جو خلاف ہو ہمارے وطن پاکستان کے وقار کے.ایک یا دو عہدہ داروں کے نیک کاموں کی تلقین کرنے سے اصلاح نہیں ہوسکتی.ہر احمدی خاتون کا فرض ہے.ہر لجنہ اماءاللہ کی مہر کا فرض ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرے تا وہ بُرائیاں جو اگر آٹے میں نمک کے برابر بھی ہیں تا ہم ہیں ضرور.وہ بالکل ہم سے دور ہو جائیں اور ہماری زندگیاں قال اللہ وقال الرسول کے مطابق گزریں کہ اسی کا تو عہد ہم نے بیعت کرتے وقت کیا تھا کہ قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کریں گی اور قال اللہ وقال الرسول کو اپنی ہر ایک راہ میں دستور العمل قرار دیں گی.اس سلسلہ میں سب سے پہلا قدم ترک رسومات کا ہے.اگر رسومات کی بیڑیوں سے ہمارے پاؤں

Page 572

554 جکڑے ہوں گے.ہاتھ بندھے ہوں گے گلوں میں طوق ہوں گے تو ہمارے ذریعہ سے وہ نئی زمین اور نیا آسمان کیسے وجود میں آ سکتا ہے جو ہمارا مقصد زندگی ہے.افسوس تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ ، روشن خیال.قرآن مجید پڑھی ہوئی اور احادیث سے واقف مستورات بھی ان رسومات کے چکروں سے اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکیں.اسلام مذہب ہے سادگی کا.اسلام تکلفات کو پسند نہیں فرماتا.اور وہ سادگی کامل اطاعت اور ہر نیک کام میں سرتسلیم خم کر دینے سے پیدا ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بھی ارشاد فرمایا تھا کہ عورتوں سے کہہ دیں کہ بیعت کرنی ہے تو یہ اقرار بھی کرنا پڑے گا کہ لَا يَعْصِيْنَكَ فِي مَعْرُوفِ وہ نیک کام میں آنحضرت ﷺ کی نافرمانی نہ کریں گی بلکہ کامل اطاعت کا مظاہرہ ان کی طرف سے ہونے کا عہد کریں تب بیعت قابل قبول ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیعت لیتے وقت یہ شرط فرمائی تھی کہ کہ اتباع رسم اور متابقت ہوا و ہوس سے باز آئے گا.ہمارے لئے نجات کا دروازہ تو صرف لا اله الا اللہ میں کھلا ہے.ہر وہ کام کرنا جس کی قرآن تعلیم دیتا ہے اور ہر وہ کام نہیں کرنا اور اس سے دور بھا گنا جس کو قرآن نے منع فرمایا ہے اور آنحضرت ﷺ کی کامل اتباع زندگی کے ہر پہلو میں کرنا کیونکہ زندگی کا کوئی پہلو بھی تو ایسا نہیں جس میں آپ کا نمونہ ہمارے لئے موجود نہ ہو.لا اله الا اللہ ہمیں کامل درس تو حید دیتا ہے کہ خدا کے کامل بندے ہو جاؤ.اس کی مرضی اور اس کے حکم کے سامنے کوئی اور مرضی نہ رہے اپنا سب کچھ قربان کر دو.رشتے داروں کو ناراض کرنا پڑے.برادری میں بُر ابنا پڑے.ناک کٹوانی پڑے سب برداشت کیا جائے اور صرف اللہ کو خوش کرنا مقصد ہو.ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ امسح الثالث ایدہ اللہ تعالی نے 1966ء کے اجتماع پر آپ کو خاص طور پر توجہ دلاتے ہوئے فرمایا تھا:.”خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے علاوہ ہماری عزت کے لئے اور کوئی راہ نہیں.خدا تعالیٰ کے اس مقام عزت کے بغیر کہ جس میں وہ ہمیں کھڑا کرنا چاہتا ہے.ہمارے لئے اور کوئی مقام عزت نہیں.دنیا نے جن مقامات کو عزت کی نگاہ سے دیکھا ہے ان سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں اور نہ کوئی سروکار ہے یہ ذہنیت اپنے اندر پیدا کرو.تا خدا تعالیٰ کے فضلوں کی زیادہ سے زیادہ وارث ہوتی چلی جاؤ تا تمہارا انجام بخیر ہوتا ہم جب اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے پیدا کرنے والے کے پاس پہنچیں تو وہ

Page 573

555 اپنی رضا کی جنتوں میں ہمیں رکھے.وہ ہم سے ناراض ہو کر ہمیں اپنے قہر اور اپنی لعنت کی جہنم میں نہ پھینک دے خدا کرے اس کی رضا ہمارے استقبال کو آئے اور جہنم کے فرشتے ہماری راہ نہ دیکھ رہے ہوں مگر یہ مقام آپ اس وقت حاصل کر سکتی ہیں جب آپ اس قسم کی بد رسوم اور بد عادتوں کو کلیہ اور پورے طور پر انتہائی نفرت کے ساتھ چھوڑ دیں.ان رسوم اور بد عادات سے جماعت کو نفرت کرنی چاہئے.اور ان میں یہ تبلیغ کرنی چاہئے کہ خدا کے لئے وہ رسوم چھوڑ دیں جو خدا نے نہیں بنائیں اور ان باتوں اور ان راہوں کو اختیار کرو جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر کی ہیں.“ المصابیح صفحہ 33 34 پس ترک رسومات کے لئے تدابیر اختیار کرنی ہماری لجنہ اماء اللہ کے وسیع پروگرام کا ایک ضروری حصہ ہونا چاہئے.تیسری اہم غرض اجتماعوں اور تنظیموں کی قرآن مجید نے یہ بیان فرمائی ہے اَوْ اَصِلَاحٍ بَيْنِ الْنَاسِ مَنْ أَمَرَ بِإِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ (النساء : 115) قابل مبارک انجمنیں یا تنظیمیں وہ ہیں جو فسادوں اور جھگڑوں کو مٹانے کے لئے بنی ہوں.خواہ وہ فساد افراد میں ہو یا محلے میں ہو.شہر میں ہو یا ملک اور قوم میں امن اور محبت اور اصلاح الناس پر جتنا زور اسلام نے دیا ہے کسی اور مذہب نے نہیں دیا.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں:.لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ فَيَمُنِى خَيْرًا أَوْ يَقُولُ خَيْرًا (بخاری کتاب الصلح) کہ وہ شخص جھوٹا نہیں کہلا سکتا جو لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرانے میں لگا رہتا ہے یا بھلے اور نیکی کی بات کہتا ہے.پس ہم میں سے ہر فرد کا دل دوسرے سے صاف ہونا چاہئے.لڑائی جھگڑے سے ہمیں متنفر رہنا چاہئے.ہمارا تعاون با ہمی نیکی اور تقویٰ کے کاموں پر ہو.عموماً لڑائی جھگڑا پیدا ہوتا ہے.غیبت سے بدظنی سے تجسس سے.پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے سے دوسرے کی حق تلفی کرنے سے ان باتوں سے اجتناب کیا جائے تو لڑائی جھگڑے کی بنیادیں ہی منہدم ہو جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں.اوّل خدا کی تو حید اختیار کرو.دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی

Page 574

556 ظاہر کرو.وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لئے کر امت ہو.یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوئی تھی محنتم أَعْدَاء فَالَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمُ یا در کھوتالیف ایک اعجاز ہے.یادرکھو جب تک تم میں سے ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.وہ مصیبت اور بلا میں ہے اس کا انجام اچھا نہیں.ملفوظات جلد اوّل صفحہ 336 خدا کرے ہماری لجنات کی جد و جہد اور ہمارا اجتماع اللہ تعالیٰ کی بیان فرمودہ ان تینوں اغراض کو پورا کرنے والا ہو.ہماری بہنیں ایسے فیصلے کرنے کی توفیق پائیں جو لجنہ کو ترقی دینے والے اور ہمارے معاشرہ کو ایک خوشحال معاشرہ بنادینے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کا فضل اور سراسر احسان ہے کہ سال رواں 1968 ،69ء کامیابی سے اختتام پذیر ہوا.اور لجنہ اماءاللہ نے اپنی عمر کے 47 سال پورے کر لئے.الحمد للہ ثم احمداللہ.سال رواں میں مسجد نصرت جہاں جس کے چندہ کے لئے 1964ء دسمبر میں تحریک کرنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی کا چندہ دسمبر 1968ء میں پورا ہو گیا.نہ صرف پورا ہوا بلکہ اس وقت تک پانچ لاکھ اٹھارہ ہزار روپے ہو چکا ہے.گزشتہ اجتماع کے موقعہ پر ایک اور تحریک جس کا نام ”تحریک خاص لجنہ اماءاللہ رکھا گیا ہے پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جس کی اجازت حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی طرف سے ملنے پر یہ تحریک جلسہ سالانہ کے موقع پر پیش کی گئی گو اس تحریک کو بہنوں نے اس طرح خوش آمدید نہیں کہا جس طرح مسجد نصرت جہاں کی تحریک پر پروانہ وار گری تھیں.تاہم قریباً دس ماہ گزرنے پر اس مد کا چندہ چھیاسٹھ ہزار اور وعدے ساڑھے تین لاکھ کے ہو چکے ہیں.جن مقاصد کے لئے یہ تحریک کی گئی تھی ان کاموں کا بہت جلد شروع کر دینا ضروری ہے.گو یہ چندہ انشاء اللہ 1972ء تک جبکہ لجنہ اماءاللہ کے قیام پر انشاء اللہ پچاس سال گزرجائیں گے.جاری رہے گا.لیکن ضروری ہے کہ 1970ء میں تمام کاموں کی ابتداء کر دی جائے تا تین سالوں میں سب کاموں کی تکمیل ہو سکے.اس لئے ضروری ہے کہ اس تحریک سے زیادہ سے زیادہ خواتین کو روشناس کروایا جائے اور اس فنڈ کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے.اس ضمن میں اپنی نہایت عزیز سیکرٹری مال رشیدہ حسین مرحومہ کی اچانک موت پر اظہار غم کئے بغیر نہیں رہ سکتی.اس بچی نے باوجود کم عمری، کمزور صحت اور نا تجربہ کاری کے اتنا اچھا اور اتنی ذمہ داری سے کام کیا ہے کہ اس کی مثال خواتین میں کم ہی ملتی ہے.اللہ تعالیٰ وہی جذ بہ کام کا اور

Page 575

557 قربانی کی لگن ہماری باقی سب کا رکنات میں بھی پیدا کر دے.اور ہم سب مل کر اشاعت اسلام کا فریضہ انجام دے سکیں.لجنہ کا سب سے اہم کام تعلیم القرآن ہے.سال رواں میں تمام لبنات ہی نے اس سلسلہ میں خاصی جدو جہد کی ہے.لیکن ابھی منزل بہت دور ہے.جب تک ہماری سو فیصدی بچیاں اور خواتین قرآن مجید کا ترجمہ نہیں پڑھ لیتیں.ہمارا مقصد حاصل نہیں ہوتا.آئندہ اچھے نتائج دکھانے کے لئے ہم نے اپنی توجہ چھوٹی بچیوں اور لجنہ کی ان ممبرات کی طرف کرنی ہے جو پندرہ سے چالیس تک کی ہیں.اس لئے میری تجویز ہے کہ ہر لجنہ اپنی ممبرات کا جائزہ لے کر پندرہ سے پچیس سال تک کی ممبرات کی فہرستیں تیار کریں جو ترجمہ نہیں جانتیں.اور پھر پچیس سے چالیس سال تک کی.سب سے زیادہ محنت پہلے گروپ یعنی پندرہ سے چھپیں سال تک کی بچیوں پر کی جائے تا اگلے پانچ سال میں کوئی ایسی لڑکی جو آج پندرہ سے 25 سال کی ہے اور پانچ سال بعد میں سال سے 30 سال تک کی ہوگی ایسی نہ رہے جو قرآن مجید کا ترجمہ ختم نہ کر چکی ہو.یا کافی حد تک پڑھ نہ چکی ہو.اگر اس طریق کار کو اپنا کر لجنات کام کریں گی تو مجھے یقین ہے کہ لجنہ آج سے پانچ سال بعد نہایت خوشکن نتائج حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کر سکتی ہے.اس عظیم الشان مقصد کو پورا کرنے کے لئے بڑی محنت اور قربانی کی ضرورت ہے.ایسی بہنیں جو قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہیں آگے آئیں اور اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے وقف کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابتدا ہی سے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی.مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے.اس موت کو اپنے پر وارد کرنے کے لئے ہمیں وقت کی قربانی بھی دینی ہوگی.جذبات کو بھی قربان کرنا پڑے گا.رسم و رواج کو بھی ترک کرنا ہوگا.اولاد کی قربانیاں بھی دینی ہوں گی.اور ان سب مادی اشیاء سے منہ موڑ کر اللہ تعالیٰ کی خاطر رسم و رواج اور دستوروں کو اپنانا ہوگا.جو قرآن کے بتائے ہوئے ہیں.اور ان باتوں پر چلنا ہو گا جومحمد رسول اللہ ﷺ نے سمجھاتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.آمین اللھم آمین مصباح نومبر 1969ء

Page 576

558 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع 1969ء آپ نے تشہد.تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ ابراہیم کی پہلی آیت تلاوت کی اور پھر ان ممبرات اور نمائندگان کو مبارکباد دی.جنہوں نے انعامات حاصل کئے اور آئندہ اس سے بھی بڑھ چڑھ کر ذوق و شوق سے ترقی کرنے صفائی اور انتظامی امور کی طرف خاص توجہ دینے کی تلقین کی.اس کے بعد فر مایا کہ نئے سال کے لئے ہمارالائحہ عمل وہی ہوگا جس کی ہدایت حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کی ہے.یعنی سورۃ بقرہ کی پہلی سترہ آیات حفظ کرنا.(جس کا معیار سو فی صدی ہونا چاہئے ) اور علم عقیدے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کرنے کے لحاظ سے پیدائشی احمدیوں کو از سر نو احمدی بنانا.خطاب کے اگلے حصہ میں آپ نے تحریک تعلیم القرآن کو کامیاب تر بنانے پر زور دیا.اور سورۃ ابراہیم کی پہلی آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا.کہ اس مقدس آسمانی صحیفے کا علم حاصل کرنے والوں سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو اندھیروں اور گمراہیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے گا.قرون اولیٰ میں جب مسلمانوں نے اس کتاب کا سہارا لیا.تو وہی جنگلوں اور بیابانوں میں رہنے والی وحشی قوم دیکھتے ہی دیکھتے روحانی اور مادی لحاظ سے تمام دنیا پر غالب آگئی اور وہی لوگ جنہیں دنیا میں کوئی مقام حاصل نہیں تھا کچھ ہی عرصے میں سیاست ، فقہ اور دیگر تمام علوم میں استاد تسلیم کر لئے گئے.لیکن پھر جب انہوں نے سادگی اور دینداری کو چھوڑ دیا اور تکلفات ان کے اندر آگئے تو اس بُری طرح ہر ملک سے نکالے گئے کہ بعض جگہ ان کا نام تک باقی نہ رہا.تب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے از سر نو سعید روحوں کی جھولیاں روحانی خزائن سے بھر دیں.اور قرآنی علوم کے چشمے سے ان کو سیراب کیا.آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے یہ کام سرانجام دیا.اور دے رہے ہیں.لہذا ضروری ہے کہ مادی اور روحانی ترقیات کے حصول کے لئے قرآن کا علم زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جائے اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالا جائے.خطاب کے آخری حصے میں آپ نے ترک رسومات اور بدعات سے پر ہیز کی طرف توجہ مبذول کرائی.اور آنحضرت ﷺ کی اس حدیث کی روشنی میں کہ: 66 دو تم میں سے ہر شخص رائی ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے پرسش ہوگی.“ بخاری کتاب الجمعه

Page 577

559 ماؤں ، بڑی بہنوں درسگاہوں کی سربراہوں.لجنات کی صدروں اور نا صرات الاحمدیہ کی نگرانوں کو ہر روز تلقین کی کہ وہ اپنے زیر اثر آنیوالی بہنوں اور بچیوں کی بہترین تربیت کے لئے اپنی تمام تر طاقتیں صرف کریں.اور خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے عملاً اور اعتقاداً ان کو از سر نو احمدی بنانے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھیں.مصباح نومبر 1969ء

Page 578

560 دعا اور اس کا فلسفہ بر موقعہ جلسہ سالانہ 1969ء وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمُ (المؤمن: 61) (ترجمہ) تمہارا رب کہتا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعا سنوں گا.اللہ تعالیٰ کا امت محمدیہ پر ایک عظیم الشان احسان شاید ہی کوئی احمدی خاتون ہوگی جو لفظ دعا سے نا آشنا ہو یا اس کا ایمان دعا پر نہ ہو.لیکن کم ایسی ہوں گی جو دعا کے حقیقی فلسفہ سے واقف اور اس کی اہمیت کو بجھتی ہوں.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دعا کی اجازت دے کر ایک اتنا عظیم الشان احسان امت محمدیہ پر کیا ہے کہ جس کی وسعت کو الفاظ میں بیان بھی نہیں کیا جا سکتا.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ دام ظلہا نے اس مضمون کو اپنے اشعار میں کسی خوبصورتی سے بیان کیا ہے.نہیں پاتی ہے زباں شکر و ثناء کا يارا احسان بندوں کو دیا اذن دعا کا ނ کیا کرتے جو حاصل یہ آپ وسیلہ بھی نہ ہوتا دو باتوں کا حیلہ بھی نہ ہوتا اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا رب ہے.اور انسان اس کا عبد ہے دعار بوبیت اور عبودیت کے درمیان ایک اعلیٰ درجہ کا نہ ٹوٹنے والا تعلق اور ایک نہایت ہی پاک رشتہ ہے.جس کے بغیر کسی انسان کا اپنے رب سے تعلق پیدا ہو ہی نہیں سکتا.اور یہ راستہ کوئی آسان راستہ نہیں، کانٹوں بھرا راستہ ہے.اور موت کے دروازہ میں سے داخل ہو کر ملتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے دعا کی تعلیم نہیں دی.یہ دعا ایک ایسی شے ہے جو عبودیت اور ربوبیت میں ایک رشتہ پیدا کرتی ہے.اس راہ میں قدم رکھنا بھی مشکل ہے لیکن جو قدم رکھتا ہے پھر دعا ایک ایسا ذریعہ ہے کہ ان کی مشکلات کو آسان اور سہل کر دیتا ہے.دعا کا ایک ایسا بار یک مضمون ہے کہ اس کا ادا کرنا بھی بہت مشکل ہے.جب تک انسان خود دعا اور اس کی کیفیتوں کا تجربہ کار نہ ہو وہ اس کو بیان نہیں کر سکتا.غرض جب انسان خدا تعالیٰ سے متواتر دعائیں

Page 579

561 مانگتا ہے تو وہ اور ہی انسان ہو جاتا ہے.اس کی روحانی کدورتیں دور ہو کر اس کو ایک قسم کی راحت اور سرور ملتا ہے اور ہر قسم کے تعصب اور ریا کاری سے الگ ہو کر وہ تمام مشکلات کو جو اس کی راہ میں پیدا ہوں برداشت کر لیتا ہے.خدا کے لئے ان سختیوں کو جو دوسرے برداشت نہیں کرتے اور نہیں کر سکتے.صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ راضی ہو جاوے برداشت کرتا ہے.تب خدا تعالیٰ جو رحمن اور رحیم خدا ہے اور سراسر رحمت ہے اس پر نظر کرتا ہے.اور اس کی ساری کلفتوں اور کدورتوں کو سرور میں بدل دیتا ہے.“ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 492) اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحمانیت کے ماتحت انسان کو زبان عطا فرمائی.انسان کے دماغ میں سوچنے اور سمجھنے غور وفکر کرنے کی طاقتیں رکھیں.انسان کے دل میں خشوع و جذبات بھی رکھے.اور ادعوني استجب لكم (المومن (61) کہ کر مانگنے کی اجازت مرحمت فرمائی.اس کے باوجود جو شخص اللہ تعالیٰ کے آگے نہیں جھکتا.اور اس کے بار بار کہنے کے باوجود کہ مانگو میں قبول کروں گا اس سے نہیں مانگتا وہ یقینا ظالم انسان ہے.لیکن دعا رسمی دعا نہ ہو.بلکہ دعا مانگنے سے اسے خودلذت اور سرور حاصل ہو.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ دعا تو ایک سرور بخش کیفیت ہے.“ دعا کی حقیقت اور فلسفہ:.دعا کی حقیقت اور فلسفہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس طرح آسان پیرایہ میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.گزشتہ چودہ سو سال میں کوئی بھی پیش نہ کر سکا.جو حقیقت آپ نے بیان فرمائی ہے.اس کا مفہوم اور خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے پھر کوئی وجہ نہیں کہ عبادت اور دعا میں اسے لذت اور سرور حاصل نہ ہو مزہ نہ آئے دنیا کی ہر چیز میں اللہ تعالیٰ نے مزہ اور لذت رکھی ہے اور انسان کو اس لذت کے حاصل کرنے کے لئے اعضاء عطا فرمائے ہیں.آنکھ، ناک، کان ، زبان، دل، دماغ وغیرہ.اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کا جوڑا اس لئے پیدا کیا تا ان کے ذریعہ سے بقا کا سلسلہ جاری رہے.اس لئے ایک تعلق مرد اور عورت میں قائم کیا اور ضمناً اس میں ایک حظ بھی رکھ دیا جو اکثر نادانوں کے لئے مقصود بالذات ہو گیا حالانکہ مرد اور عورت کے تعلق کی اصل غرض دنیا میں ایک نیک نسل کا چلانا تھی.اسی طرح انسان اور اس کے رب کے درمیان بھی ایک تعلق ہے جو دعا کے ذریعہ قائم رہتا ہے دنیا کی تمام لذتوں سے بڑھ کر لذت اس تعلق میں ہے جو اللہ تعالیٰ سے جب اس کا کوئی بندہ اپنا تعلق قائم کرے تو اسے حاصل ہوتی ہے.

Page 580

562 سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہم تصریحات:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.عورت اور مرد کا جوڑا تو باطل اور عارضی جوڑا ہے میں کہتا ہوں حقیقی ابدی اور لذت مجسم کا جو جوڑا ہے وہ انسان اور خدا تعالیٰ کا ہے مجھے سخت اضطراب ہوتا ہے اور کبھی کبھی یہ رنج میری جان کو کھانے لگتا ہے کہ ایک دن اگر کسی کو روٹی یا کھانے کا مزہ نہ آئے تو طبیب کے پاس جاتا اور کیسی کیسی منتیں اور خوشامدیں کرتا اور روپیہ خرچ کرتا اور دکھ اٹھاتا ہے کہ وہ مزہ حاصل ہو وہ نا مرد جو اپنی بیوی سے لذت حاصل نہیں کر سکتا بعض اوقات گھبرا گھبرا کر خود کشی کے ارادے تک پہنچ جاتا ہے اور اکثر موتیں اس قسم کی ہو جاتی ہیں.مگر آہ! وہ مریض دل وہ نا مرد کیوں کوشش نہیں کرتا جس کو عبادت میں لذت نہیں آتی اس کی جان کیوں غم سے نڈھال نہیں ہو جاتی ؟ دنیا اور اس کی خوشیوں کے لئے تو کیا کچھ کرتا ہے، مگر ابدی اور حقیقی راحتوں کی وہ پیاس اور تڑپ نہیں پاتا کس قدر بے نصیب ہے کیسا ہی محروم ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 26) " پھر آپ فرماتے ہیں: پس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دعا مانگنی چاہئے کہ جس طرح اور پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذتیں عطا کی ہیں نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزہ چکھا ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 28) دے.“ جس طرح ایک انسان کو کسی پھل یا غذا کا ذائقہ اچھا لگے اس کو ہمیشہ کھاتا ہے ترک نہیں کر دیتا.کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اس پھل میں یہ مزہ ہے.اسی طرح جس انسان کو دعا میں لذت آتی ہے.عبادت میں لذت حاصل کرتا ہے.وہ اس سے غافل نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ کی ہستی کا سب سے بڑا ثبوت دعا اور قبولیت دعا ہی ہے اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ہستی کا ثبوت کے طور پر اس دلیل کو پیش فرمایا.فرماتا ہے وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.(البقرة: 187) کہ میرے بندے جب تجھ سے پوچھیں کہ خدا تعالیٰ کہاں ہے تو اس کے جواب میں کہو کہ وہ بہت ہی قریب ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے دل کی گہرائیوں سے پکارتا ہے تو میں اسے جواب دیتا ہوں جو انسان اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور اس کی دعا قبول ہو.کیا پھر

Page 581

563 بھی اس کے دل میں کوئی شک اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق رہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.دعا ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ پر زندہ ایمان عطا کرتا ہے اسے گناہ سے بچاتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں استقامت عطا فرماتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: دعا بڑی دولت ہے جو شخص دعا کو نہیں چھوڑتا اس کے دین اور دنیا پر آفت نہ آئے گی.وہ ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہے جس کے اردگر مسلح سپاہی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں.لیکن جو دعاؤں سے لا پروا ہے.وہ اس شخص کی طرح ہے جو خود بے ہتھیار ہے اور اس پر کمزور بھی ہے.اور پھر ایسے جنگل میں ہے جو درندوں اور موذی جانوروں سے بھرا ہوا ہے.وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی خیر ہرگز نہیں ہے.ایک لمحہ میں وہ موذی جانوروں کا شکار ہو جائے گا.اور اس کی ہڈی بوٹی نظر نہ آئے گی.اس لئے یا درکھو کہ انسان کی بڑی سعادت اور اس کی حفاظت کا اصل ذریعہ ہی یہی دعا ہے.یہی دعا اس کے لئے پناہ ہے.اگر وہ ہر وقت اس میں لگا ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 148 149) رہے.“ ضروری نہیں کہ ہر دعا قبول ہو:.دعا کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ ضروری نہیں کہ ہر دعا قبول ہو.دنیا میں دو دوستوں میں یہی طریق ہے کبھی انسان اپنے دوست کی مانتا ہے کبھی اس سے اپنی منواتا ہے.ماں باپ اپنے بچوں کی جائز خواہشات کو جن کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے مضر نہ ہوں گی تکلیف اٹھا کر بھی پورا کرتے ہیں.لیکن جس مطالبہ کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ اولاد کے لئے نقصان دہ ہے خواہ اولا داس کے لئے کتنا زور لگائے انکار کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ تو ماں اور باپ سے بھی زیادہ شفیق اور مہربان ہے.دوست سے بھی زیادہ وفا دار ہے وہ بھی اپنے بندوں سے دوستانہ معاملہ چاہتا ہے.کبھی اپنے بندوں کی مانتا ہے کبھی اپنی منواتا ہے.اور اس کا حقیقی بندہ وہی ہے جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر شاکر رہے.یہ تو ہمارے پیدا کرنے والے ہی کو پوری طرح معلوم ہے کہ کون سی بات ہمارے حق میں فائدہ مند ہے اور کون سی مضر.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے.وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (البقره: 217) ممکن ہے کہ تم کسی شے کو پسند کرتے ہو حالانکہ وہ تمہارے لئے دوسری چیز کی نسبت بُری ہو.اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.

Page 582

564 پھر اللہ تعالیٰ کا یہ طریق بھی ہے کہ وہ کبھی کبھی اپنے بندوں کو آزماتا بھی ہے.تا اس ابتلا کے ذریعہ دنیا کو پتہ لگ سکے کہ کون واقعی اللہ تعالیٰ کا سچا عبد اور اس کی رضا پر راضی رہنے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.دعا بڑی چیز ہے افسوس ! لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ کیا ہے.بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر دعا جس طرز اور حالت پر مانگی جاوے ضرور قبول ہو جانی چاہئے اس لئے جب وہ کوئی دعامانگتے ہیں اور پھر وہ اپنے دل میں جمائی ہوئی صورت کے مطابق اس کو پورا ہوتا نہیں دیکھتے.تو مایوس اور نا امید ہوکر اللہ تعالیٰ پر بدظن ہو جاتے ہیں حالانکہ مومن کی یہ شان ہونی چاہئے کہ اگر بظاہر اسے اپنی دعا میں مراد حاصل نہ ہوتب بھی نا امید نہ ہو کیونکہ رحمت الہی نے اس دعا کو اس کے حق میں مفید نہیں قرار دیا.دیکھو بچہ اگر ایک آگ کے انگارے کو پکڑنا چاہئے تو ماں دوڑ کر اس کو پکڑے گی.بلکہ اگر بچہ کی اس نادانی پر ایک تھپڑ بھی لگا دے تو کوئی تعجب نہیں“ بندہ کی حقیقی ریکار کبھی رائیگاں نہیں جاتی.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 434) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہی عجیب نکتہ بیان فرمایا ہے کہ حقیقت میں ایک بندہ کی حقیقی پکار رد نہیں ہوتی.اگر ظاہری طور پر نظر آئے کہ دعا قبول نہیں ہوئی تب بھی اللہ تعالیٰ کے وعدہ استجب لکم کے خلاف نہیں.کیونکہ بعض دعاؤں کا رد ہو جانا ہی ان کی قبولیت ہے.اس لئے کہ دعا کرنے والے کی بھلائی اس دعا کے رد کرنے میں ہی ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی الہام فرمایا تھا أَجِيْبُ كُلَّ دُعَائِكَ کہ میں آپ کی ساری دعائیں قبول کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس الہام کے متعلق فرماتے ہیں.” میرے ساتھ میرے مولا کریم کا صاف وعدہ ہے کہ اُجِيْبُ كُلَّ دُعَائِک اگر میں خوب سمجھتا ہوں کہ کل سے مراد ہے کہ جن کے نہ سننے سے ضرر پہنچ جاتا.لیکن اگر اللہ تعالیٰ تربیت اور اصلاح چاہتا ہے تو رد کرنا ہی اجابت دعا ہوتا ہے.بعض اوقات انسان کسی دعا میں ناکام رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دعا رد کر دی حالانکہ خدا تعالیٰ اس کی دعا کوسن لیتا ہے.اور وہ اجابت بصورت رد ہی ہوتی ہے.کیونکہ اس کے لئے در پردہ اور حقیقت میں بہتری اور بھلائی اس کے رد ہی میں ہوتی ہے.انسان چونکہ کوتاہ بین ہے اور دور اندیش نہیں بلکہ ظاہر پرست ہے اس لئے اس کو

Page 583

565 مناسب ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرے اور وہ بظاہر اس کے مفید مطلب نتیجہ خیز نہ ہو.تو خدا پر بدظن نہ ہو.کہ اس نے میری دعا نہیں سنی وہ تو ہر ایک کی دعا سنتا ہے.اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمُ (المومن (61) فرماتا ہے.راز اور بھید یہی ہوتا ہے کہ داعی کے لئے خیر اور بھلائی رڈ دعا ملفوظات جلد 1 صفحہ 66-67 ہی میں ہوتی ہے.“ قبولیت دعا کی بعض شرائط بھی ہیں.اگر انسان اپنے اندر ان کیفیات کو پیدا کرے اور قبولیت دعا کا اپنے آپ کو مستحق بنا دے تو اللہ تعالیٰ کا فضل اس کے شامل حال ہوتا ہے ایک انسان دعا ئیں بہت مانگے مگر اس کا عمل صالح نہ ہو تو ان دعاؤں کے مانگنے کا کیا فائدہ جبکہ عمل قول اور دعوے کے خلاف ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ سوره المآئده : 28 متقیوں کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ درجہ قبولیت عطا فرماتا ہے.گویا قبولیت دعا کی پہلی اور سب سے بڑی شرط تقویٰ ہے جس میں اعتقادی اور عملی دونوں طرح کی اصلاح آجاتی ہے اس آیت کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعائیں قبول کرتا ہے جو لوگ متقی نہیں ہیں ان کی دعائیں قبولیت کے لباس سے ننگی ہیں.ہاں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور رحمانیت ان لوگوں کی پرورش میں اپنا کام کر رہی ہے.“ ملفوظات جلد 1 صفحہ 278 گویا متقیوں کی ہر دعا قبول ہوتی ہے ان کی کوئی دعا ضائع نہیں جاتی.خواہ بظاہر یہ نظر آئے کہ دعا قبول نہیں ہوتی.اگر بشری غلطی سے ایک متقی شخص ایک ایسی دعا مانگے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے حق میں اچھے نتائج پیدا نہ کرنے والی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز عطا فرماتا ہے جو اس کی خواہشات کا نعم البدل ہوتی ہے.لیکن شرط یہ ہے کہ دعا مانگنے والا بھی اور دعا کروانے والا بھی منتقی انسان ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.دعا کرانے والے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کو مدنظر رکھے اور اس کے غناء ذاتی سے ہر وقت ڈرتا رہے اور صلح کاری اور خدا پرستی اپنا شعار بنالے.تقویٰ اور راستبازی سے خدا تعالیٰ کو خوش کرے تو ایسی صورت میں دعا کے لئے باب استجابت کھولا جاتا ہے.اگر وہ خدا تعالیٰ کو ناراض کرتا ہے اور اس سے بگاڑ اور جنگ قائم کرتا ہے تو اس کی شرارتیں اور

Page 584

566 غلط کاریاں دعا کی راہ میں ایک سر اور چٹان ہو جاتی ہے اور استجابت کا دروازہ اس کے لئے بند ہو جاتا ہے پس ہمارے دوستوں کے لئے لازم ہے کہ وہ ہماری دعاؤں کو ضائع ہونے سے بچاویں اور ان کی راہ میں کوئی روک نہ ڈال دیں.جوان کی ناشائستہ حرکات سے پیدا ہو سکتی ہے.“ ملفوظات جلد 1 صفحہ 68 گویا قبولیت دعا کی سب سے بڑی شرط تقویٰ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے ہر اک نیکی کی جڑ یہ انقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے که خلیفہ وقت کا وجود اور ہمارا فرض ہماری بہنیں اور بھائی حضرت خلیفتہ امسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو دعا کے لئے خط لکھتے ہیں اور ان کو بکثرت لکھتے رہنا چاہیے.کیونکہ مقام خلافت ہی وہ مقام ہے جس کے ذریعہ سے ہم صحیح راستہ اختیار کر سکتے ہیں.لیکن دعا کے لئے لکھتے وقت اپنے نفس کا جائزہ ضرور لینا چاہیے.کہ میں حضرت خلیفہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی کامل طور پر اطاعت گزار ہوں یا نہیں.یہ تو ایسی ہی مثال ہے.کہ ایک مریض ڈاکٹر کو دکھانے کے لئے جائے اور جب ڈاکٹر اس کے لئے کوئی دوائی تجویز کرے یا کسی قسم کا پر ہیز بتائے تو نہ تو وہ دوائی استعمال کرے اور نہ ہی پر ہیز کے متعلق ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرے اور پھر کہدے کہ ڈاکٹر کے علاج سے فائدہ نہیں ہوا.خلیفہ وقت اک وجود روحانی طبیب کا ہے.آپ کی ہدایات اور نصائح پر عمل پیرا ہوئے بغیر نہ ہمیں روحانی طور پر صحت حاصل ہو سکتی ہے نہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوسکتا ہے اور نہ ہی ہمارے اور حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے درمیان وہ گہرا تعلق پیدا ہوسکتا ہے جو دعا کرنے والے کے دل میں دعا کروانے والے کے لئے بے قراری پیدا کر دے.پس اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کی رضامندی بھی حاصل ہو.اپنی وفاداری سے عمل سے اخلاص سے خدمت دین سے اور اپنی قربانیوں سے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دوسری شرط قبولیت دعا کی یہ بیان فرمائی ہے کہ انسان جس کے لئے دعا کرتا ہے اس کے لئے دل میں درد پیدا ہو.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ (النمل: 63) کون کسی بے کس کی دعا سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ دعا کرنے والے اور

Page 585

567 دعا کروانے والے میں ایسا گہرا تعلق ہو کہ دعا کرنے والا دعا کروانے والے کے لئے بے قراری اور درد محسوس کرے.ایسا تعلق جو ماں اور بچہ کو ہوتا ہے کہ اس کے رونے سے ماں کی چھاتیوں میں دودھ اتر آتا ہے.قبولیت دعا کی بعض دیگر شرائط: تیسری شرط حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قبولیت دعا کی یہ بیان فرمائی ہے کہ جو وقت اصفے دعا کے لئے میسر ہو ایسا وقت کہ بندہ اور اس کے رب میں کچھ حائل نہ رہے.ایسا وقت میسر آنا تو محض ہمارے رب کے فضل پر ہی موقف ہے.تاہم ہر انسان کو یہ چاہیے کہ دعا کرتے وقت دنیا سے اپنے خیالات کو منقطع کر لے اور پھر بارگاہ الہی میں جھکے.چوتھی شرط آپ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ پوری مدت دعا کے لئے حاصل ہو استقامت اور صبر کے ساتھ دعا میں لگا رہے تھک کر چھوڑ نہ دے مایوسی نہ طاری ہو جائے.ایک کسان جب بیج ڈالتا ہے تو دوسرے دن فصل کے آنے کی امید نہیں رکھتا اسے معلوم ہے کہ دانہ ڈالنے کے ایک مقررہ وقت کے بعد وہ پھوٹے گا بہت سے خراب دانے ضائع بھی ہو جائیں گے.پھر اگر وہ وقت پر پانی دینے کی طرف سے بے توجہ ہو تو فصل بڑھے گی نہیں.دانہ نہیں پڑے گا پھر فصل پکنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے.مرد عورت شادی کرتے ہیں تو بچہ کے لئے ان کو مقررہ مدت کا انتظار کرنا پڑتا ہے.یہی حال دعا کا ہے دعا کے لئے بھی استقامت کے ساتھ انتظار ضروری ہے.اور اعمال صالحہ کا پانی اس کو پہنچنا ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اطاعت رسول کریم ﷺ اور درود شریف کثرت سے پڑھنے کو بھی قبولیت دعا کا ذریعہ قرار دیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي (ال عمران : 32) اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنا چاہتے ہو تو میرے ( یعنی آنحضرت ﷺ پیچھے پیچھے چلو.آنحضرت کی کامل اطاعت کے بغیر اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنی ممکن نہیں.جب محبت حاصل نہیں ہو سکتی تو دعا کیسے سنی جاسکتی ہے.پس دعا کرنے والے کو اپنی زندگی آنحضرت ﷺ کی سنت اور ارشادات کے مطابق گزارنی ضروری ہے.اور نبی کریم ﷺ کی کامل اطاعت ممکن نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کامل اطاعت اور آپ کے خلفاء کی کامل اطاعت کے بغیر.پس چاہیے کہ ہر فعل اور ہر حرکت اور ہر سکون میں نبی کریم ﷺ کی کامل اطاعت کرنے کی کوشش کی جائے اور ہر دعا سے پہلے آنحضرت ﷺ پر بکثرت درود بھیجے.حقیقت تو یہ ہے کہ سب دعا ئیں درود بھیجنے میں آجاتی ہیں.

Page 586

568 وو ایک موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی بیان فرمایا کہ ” جب تک سینہ صاف نہ ہو دعا قبول نہیں ہوتی اگر کسی دنیوی معاملہ میں ایک شخص کے ساتھ بھی تیرے سینہ میں بغض ہے تو تیری دعا قبول نہیں ہوسکتی.اس بات کو اچھی طرح سے یادرکھنا چاہیے اور دنیوی معاملہ کے سبب کبھی کسی کے ساتھ بغض نہیں رکھنا چاہیے اور دنیا اور اس کا اسباب کیا ہستی رکھتا ہے کہ اس کی خاطر تم کسی سے عداوت رکھو.“ ملفوظات جلد پنجم صفحه 170 اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ جس کا کھانا پینا حلال نہ ہو.اس کی دعا قبول نہیں ہوتی.دعا کے ساتھ تد بیر بھی ضروری ہے: دعا کے سلسلہ میں کبھی یہ وہم نہیں ہونا چاہیے کہ بس دعا کر لی کافی ہے اب اس معاملہ میں کسی تدبیر اور کوشش کی ضرورت نہیں.تدبیر اور دعا دونوں کو ساتھ ساتھ جاری رکھنا چاہیے.شریعت نے اسباب کو منع نہیں کیا.جبکہ تدابیر اختیار کرنے کوشش اور مجاہدہ پر بہت زور دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اور سچ پوچھو تو کیا دعا اسباب نہیں ہے؟ یا اسباب دعا نہیں؟ تلاش اسباب بجائے خود ایک دعا ہے اور دعا بجائے خود عظیم الشان اسباب کا چشمہ !!! ملفوظات جلد سوم صفحہ 31 جو شخص تدابیر اختیار نہیں کرتا عمل نہیں کرتا اپنی عملی قوتوں کو اس کام کے لئے خرچ نہیں کرتا گویا وہ اللہ تعالیٰ کا (نعوذ باللہ) امتحان لے رہا ہوتا ہے.اس لئے دعا سے پہلے ضروری ہے کہ اپنی طاقتوں کو خرچ کرے.اپنے اعتقاد اور اعمال پر نظر رکھے.مثلاً کسان بیج نہ ڈالے.فصل کو پانی نہ دے ہل نہ چلائے اور دعا کرے کہ اے خدا! ہری بھری فصل پیدا کر دے.ایک طالب علم قطعاً سارا سال محنت نہ کرے کتاب کھول کر نہ دیکھے اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے کہ اعلیٰ نمبروں سے پاس کر دے.تو یہ اللہ تعالیٰ سے جنسی اور ٹھٹھا کرنے والی بات ہے.جس سے منع فرمایا گیا.سب سے بہترین دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہے آپ فرماتے ہیں.بہترین دعا وہ ہوتی ہے جو تمام خیروں کی جامع ہو.اور مانع ہو تمام مضرات کی.اس لئے انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا میں حضرت آدم سے لے کر آنحضرت ﷺ کے زمانہ تک کے کل مُنْعَمُ عَلَيْهِمْ لوگوں کے انعامات کے حصول کی دعا ہے اور غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ میں ہر قسم کی مضرتوں سے بچنے کی دعا ہے.ملفوظات جلد اوّل صفحہ 387

Page 587

569 معرفت الہی کا ذریعہ: اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کا ذریعہ بھی دعا ہی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے دو باتیں اس کے لئے بطور اصول کے رکھی ہیں.اول یہ کہ دعا کرو.یہ سچی بات ہے خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا (النساء: 29).انسان کمزور مخلوق ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم کے بدوں کچھ بھی نہیں کر سکتا.اس کا وجود اور اس کی پروش اور بقا کے سامان سب کے سب اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہیں احمق ہے وہ انسان جو اپنی عقل و دانش یا اپنے مال و دولت پر ناز کرتا ہے کیونکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کا عطیہ ہے.وہ کہاں سے لایا اور دعا کے لئے یہ ضروری بات ہے کہ انسان اپنے ضعف اور کمزوری کا پورا خیال اور تصور کرے.جوں جوں وہ اپنی کمزوری پر غور کرے گا اسی قدر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مد کا محتاج پائے گا.اور اس طرح پر دعا کے لئے اس کے اندر ایک جوش پیدا ہوگا.“ ملفوظات جلد 1 صفحہ 273 دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عظمت کا غلبہ دل پر ہو اس کی خشیت سے دل پانی پانی ہو.حقیقی رفت اور گداز پیدا ہو کر اللہ تعالیٰ کے لئے ایک قطرہ بھی آنکھ سے نکلے تو یقیناً دوزخ کو حرام کر دیتا ہے مگر دعا کے لئے توجہ اور رقت بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ سب امور خدا تعالیٰ کی موہبت ہیں اکتساب کو ان میں دخل نہیں تو جہ اور رقت بھی خدا تعالیٰ کے ہاں سے نازل ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ کسی کے لئے کامیابی کی راہ نکال دے تو وہ داعی کے دل میں توجہ اور رقت ڈال دیتا ہے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 215) جو حالت میری توجہ کو جذب کرتی ہے اور جسے دیکھ کر میں دعا کے لئے اپنے اندر تحریک پاتا ہوں وہ ایک ہی بات ہے کہ میں کسی شخص کی نسبت معلوم کرلوں کہ یہ خدمت دین کے سزاوار ہے اور اس کا وجود خدا تعالیٰ کے لئے خدا کے رسول ﷺ کے لئے خدا کی کتاب کے لئے اور خدا کے بندوں کے لئے نافع ہے.ایسے شخص کو جو در دوالم پہنچے.وہ در حقیقت مجھے پہنچتا ہے.“ ملفوظات جلد 1 صفحہ 215 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق دعا آپ کی اپنی زبان مبارک سے: اوّل: اپنے نفس کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ خداوند کریم مجھ سے وہ کام لے جس سے اس کی عزت و جلال ظاہر ہو.اور اپنی رضا کی پوری توفیق عطا کرے.

Page 588

570 دوم: پھر اپنے گھر کے لوگوں کے لئے دعا مانگتا ہوں.کہ ان سے قرۃ العین عطا ہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پر چلیں.سوم : پھر اپنے بچوں کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ یہ سب دین کے خدام بنیں (چنانچہ اس دعا کا اظہار آپ نے اپنے اشعار میں بھی فرمایا ہے.یہ شعر خلاصہ ہے ان سب دعاؤں کا جو آپ نے اپنی اولاد کے لئے فرمائیں.) یہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا جب آئے وقت میری واپسی کا چہارم : پھر اپنے مخلص دوستوں کے لئے نام بنام پنجم اور پھر ان سب کے لئے جو اس سلسلہ سے وابستہ ہیں خواہ ہم انہیں جانتے ہیں یا نہیں جانتے.“ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 309 پھر آپ نے یہ بھی فرمایا : میرا تو یہ مذہب ہے کہ دعا میں دشمنوں کو بھی باہر نہ رکھے جس قدر دعا وسیع ہوگی.اسی قدر فائدہ دعا کرنے والے کو ہوگا.اور دعا میں جس قدر بخل کرے گا اسی قدر اللہ تعالیٰ کے قرب سے دور ہوتا جاوے گا.اور اصل تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے عطیہ کو جو بہت وسیع ہے جو شخص محدود کرتا ہے اس کا ملفوظات جلد اوّل صفحہ 353 ایمان بھی کمزور ہے.“ دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی صفات کا لحاظ رکھے.جس دعا سے جس جس صفت کا تعلق ہوا سے خطاب کرے دعا کے لئے رقت والے الفاظ تلاش کرنے چاہئیں.مسنون دعائیں بھی کرے کہ ان میں بڑی برکت ہے.مگر سمجھ کر طوطے کی طرح نہیں ورنہ بہتر ہے کہ اپنی زبان میں دعا کرے.دعا کا اصل وقت : دعا کا اصل وقت نماز ہی ہے اگر نماز میں دعا نہ کی اور بعد میں بیٹھ کر کر لی تو کیا فائدہ.وہی وقت دعا کا سب سے اچھا ہے.جب انسان خدا تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہو.اس لئے نماز میں دعا سے غفلت نہیں کرنی چاہئے.اور کبھی بھی دعا کو چھوڑنا نہیں چاہیے.ہر کام کی تدبیر بھی کرے.اور اس کے لئے دعا بھی کرے.تبھی دنیوی اور دینی ہر دو قسم کی برکات اور حسنات حاصل کر سکتا ہے اور گنا ہوں سے محفوظ رہ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

Page 589

571 سانپ کے زہر کی طرح انسان میں زہر ہے اس کا تریاق دعا ہے جس کے ذریعہ سے آسمان سے چشمہ جاری ہوتا ہے جو دعا سے غافل ہے وہ مارا گیا، ایک دن اور رات جس کی دعا سے خالی ہے وہ شیطان سے قریب ہوا.ہر روز دیکھنا چاہئے کہ جوحق دعاؤں کا تھا وہ ادا کیا ہے کہ نہیں.“ لملفوظات جلد سوم صفحه 591 ہماری جماعت کی خواتین کو دعاؤں پر بہت زور دینا چاہئے.اور اپنے بچوں میں بھی بچپن سے ہی دعا کی عادت ڈالنی چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.میں اپنی جماعت کے سب لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ دن بہت نازک ہیں خدا سے ہراساں وتر ساں رہو.ایسا نہ ہو کہ سب کیا ہوا برباد ہو جائے.اگر تم دوسرے لوگوں کی طرح بنو گے تو خدا تم میں اور ان میں کچھ فرق نہ کرے گا.اور اگر تم خود اپنے اندر نمایاں فرق پیدا نہ کرو گے تو پھر خدا تعالیٰ بھی تمہارے لئے کچھ فرق نہ رکھے گا.عمدہ انسان وہ ہے جو خدا کی مرضی کے مطابق چلے.ایسا انسان ایک بھی ہو تو اس کی خاطر ضرورت پڑنے پر خدا ساری دنیا کو بھی غرق کر دیتا ہے لیکن اگر ظاہر کچھ اور ہو اور باطن کچھ اور تو ایسا انسان منافق ہے اور منافق کا فر سے بدتر ہے.سب سے پہلے دلوں کی تطہیر کرو.مجھے سب سے زیادہ اس بات کا خوف ہے ہم نہ تلوار سے جیت سکتے ہیں اور نہ کسی اور قوت سے ہمارا ہتھیار صرف دعا ہے اور دلوں کی پاکیزگی.“ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 298-299) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.الفضل 7 فروری 1970ء

Page 590

572 اختتامی خطاب بر موقع جلسہ سالانہ مورخہ 28 دسمبر 1969ء وَلَقَدْ خَلَقْنَكُمْ ثُمَّ صَوَّرُنَكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَئِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُنْ مِّنَ السَّجِدِينَ قَالَ مَا مَنَعَكَ الَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ قَالَ فَاهْبِطُ مِنْهَا فَمَا يَكُونَ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجُ إِنَّكَ مِنَ الصَّغِرِينَ قَالَ انْظِرُ نِى إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَا قُعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ثُمَّ لَأَتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرُهُمْ شَكِرِينَ ) (سورة الاعراف : 12 تا 18 میری عزیز بہنو اور بچیو! آج جلسہ سالانہ کا آخری دن ہے.آپ میں سے بہت سی بہنوں نے دور در از مقامات سے اسلئے سفر اختیار کیا کہ یہاں آکر جلسہ سالانہ کی برکات سے فائدہ اٹھا ئیں اور روحانی علوم اور روحانی خزائن سے اپنی جھولیاں بھر کر واپس جائیں لیکن جب بھی دوران جلسہ مجھے کسی کام سے جلسہ گاہ سے باہر نکلنے کا موقعہ ملا تو سینکڑوں کی تعداد میں عورتیں اور لڑکیاں باہر پھرتی باتیں کرتیں دوکانوں پر سے چیزیں خریدتیں اور ہنستی کھیلتی نظر آئیں.سارا سال ہماری بہنیں اور بچیاں اس بات کا انتظار کرتی ہیں کہ وہ بابرکت اور مقدس دن پھر آئیں اور دعائیں کرتی ہیں کہ ہمیں مرکز احمدیت میں جانا نصیب ہوتا کہ وہاں جا کر اپنے آقا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات سنیں.دعائیں کریں نمازیں پڑھیں ذکر الہی کریں اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا کر واپس جائیں.لیکن یہاں پہنچ کر اس مقصد کو بھول جاتی ہیں کہ کس کی خاطر آپ نے سفر اختیار کیا تھا.اس لئے میری آپ سے اور بچیوں سے یہ التجاء ہے کہ آج آخری دن جلسہ کا ہے.ہماری ایک بہن اور بچی کو بھی سوائے اشد مجبوری کے جلسہ گاہ سے باہر نہیں جانا چاہیے.ایک ایک لفظ حضور کی تقریر کا سنیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپکو بھی توفیق عطا فرمائے.یہ جلسہ جس غرض سے منعقد کیا جاتا ہے اور جس اہم مقصد کے پیش نظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی بنیاد رکھی.ہم اسے پورا کرنے والی ہوں.قرآن مجید کی جو آیات میں نے اپنی بہنوں کے سامنے تلاوت کی ہیں.اس میں اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم کی تخلیق روحانی کی تو فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کی اطاعت کر کے اس روحانی نظام میں داخل ہو

Page 591

573 جائیں.جو انسان کی اعلیٰ روحانی ترقی اور قرب الہی کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا تھا تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے آدم کی فرمانبرداری اور اطاعت اور اس نظام میں داخل ہونے سے انکار کر دیا.جب اللہ تعالیٰ کی جناب سے وہ مردود قرار دیا گیا تو اس نے کہا مجھے قیامت تک مہلت دیں.اللہ تعالیٰ نے اسے مہلت دے دی اس نے اپنے تکبیر میں اللہ تعالیٰ کو یہ چیلنج دیا کہ تیرے بندوں کو میں قیامت تک گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہوں گا ان کے دائیں سے بھی ان کے بائیں سے بھی ان کے سامنے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی پرکشش چیزوں کو دکھا دکھا کر لالچ دے کر ان کو تیرے خلاف کروں گا تا وہ اللہ تعالیٰ کے عبد بننے کی بجائے شیطان کے عبد بنیں.حضرت آدم سے لے کر آدم ثانی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ تک اگر آپ تاریخ عالم پر نظر ڈالیں تو یہی کشمکش دنیا میں نظر آتی ہے کہ جب کوئی خدا تعالیٰ کا رسول اس کی طرف سے آتا ہے اور دنیا کو اس امر کی دعوت دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دو اور اس کے سچے عبد بنے کی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے خدا کی مخلوق کی خدمت کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے محبوب بندہ بنے کی کوشش کرو تو شیطان ان کے دائیں سے بھی حملہ کرتا ہے ان کے بائیں سے بھی ان کے سامنے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے.کہ دیکھو خدا کی جماعت میں داخل ہو گے ، اطاعت کا دم بھرو گے قربانیاں دینی پڑیں گی.مال دینا پڑے گا اولا دوں کو وقف کرنا پڑے گا نظام کی پابندیاں کرنی پڑیں گی.کبھی کہا جائے گا پردہ کرو.کبھی کہا جائے گا سینمانہ دیکھو.کبھی مالی مطالبہ ہوگا کبھی جان کی قربانی کا کبھی وقت کی قربانی کا اور کبھی اولاد کی قربانی کا.لیکن اگر تم اس اطاعت کا دم نہ بھرو گے تو یہ دنیا بڑی حسین اور پرکشش ہے.یہ جنگ جو حضرت آدم سے شروع ہوئی اور اب تک جاری ہے اور اللہ تعالیٰ نے آدم ثانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسی لئے بھیجا اور آپ کے ذریعہ سلسلہ خلافت اسی لئے جاری فرمایا تا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء کی ایڑیاں اس شیطان کا سر کچلیں جو حضرت آدم کے وقت سے انسان کو بہکاتا چلا آرہا ہے.اور آنحضرت ﷺ کی احادیث بتاتی ہیں.کہ سب سے بڑا مقابلہ شیطان سے انسان کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی مقدر تھا دجالیت جو شیطان کا آخری حربہ ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ہی آدم ثانی نے آنا تھا.اور یہ مقابلہ اپنی پوری طاقت سے اسلام پر ہوا.اور پوری طاقت سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی بنیا دوں کو ہلا دیا اور اس کی رہی سہی طاقت کو ختم کرنے کے لئے آپکے خلفاء اپنا پورا زور لگاتے رہے

Page 592

574 اور لگا رہے ہیں.میرے نزدیک اس زمانہ کے شیطان کا سب سے بڑا فتنہ دجالیت کی وہ نقل ہے.جس میں ہماری عورتیں اور بچیاں اس وقت مبتلا نظر آتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے کتنے درد سے دعا فرمائی ہے.نہ آئے ان کے گھر تک رعب دقبال آپ سب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحانی بیٹیاں ہیں آپ کو بھی دجال کے رعب میں نہیں آنا چاہیے.رعب تو در کنار آپ کے دلوں میں ان کی نقل اور ان کی تقلید کرنے سے نفرت ہونی چاہیے.میرا فرض ہے کہ میں اپنی بہنوں کو بھی اور اپنی بچیوں کو بھی بُرائیوں سے متنبہ کروں.کیونکہ بحیثیت لجنہ اماءاللہ کی صدر ہونے کے اگر آپکی توجہ ان برائیوں کی طرف نہ مبذول کرواؤں تو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مجرم قرار دی جاؤں گی.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم کسی کو بُرائی کرتے دیکھو تو تمہاری کوشش ہونی چاہیے کہ تم اسے ہاتھ سے پکڑ کر دور کرنے کی کوشش کرو.اگر ہاتھ سے پکڑ کر اس بُرائی کو دور کرنے کی طاقت نہیں ہے تو اسے نرمی سے محبت سے پیار سے سمجھانے کی کوشش کرو.اگر یہ بھی نہ کر سکو تو کم از کم یہ مقام ہی تمہیں حاصل ہو کہ تم اس کے اس فعل کو دل میں نا پسند کرو.ہمارے معاشرے کو ایک مثالی معاشرہ ہونا چاہیے.اس دنیا میں ایک جنت کا نمونہ ہونا چاہیے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا کہ آپ کے ذریعہ ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین بنائی جائے.نئے زمین و آسمان سے مراد ظاہری اور مادی آسمان و زمین نہیں تھی بلکہ نئے زمین و آسمان سے مراد یہ تھی کہ ایک نیا نظام آپ کے ذریعہ سے قائم کیا جائے اور اس نظام سے وابستہ ہرمرد عورت اور بچہ دنیا کے سامنے وہی نمونہ پیش کریں جو چودہ سو سال قبل کے صحابہ نے اسلام قبول کر کے پیش کیا تھا.آج یورپ اور امریکہ جو کچھ اپنا فلسفہ اور علم پیش کر رہا ہے وہ سب کی سب خوشہ چیں ہے.قرآن مجید سب کا سب انہوں نے آنحضرت ﷺ کے صحابہ اور آپ کے متبعین سے حاصل کیا.لیکن وہی باتیں جو مسلمانوں کے غلبہ کا موجب ہوئیں مسلمانوں نے جب انہیں ترک کر دیا جب قرآن مجید سے محبت کرنی چھوڑی.جب قرآن مجید کو عظمت دینی بند کر دی.جب قرآن کی تعلیم پر ان کا عمل نہ رہا.تو جو کچھ مسلمانوں پہ بیتی تاریخ کا ایک المیہ ہے.اللہ تعالیٰ کی رحمت پھر سے جوش میں آئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ پھر مسلمانوں کی ہدایت کا سامان ہوا ہے.دنیا کے گوشہ گوشہ میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور یورپ اور امریکہ کے ان

Page 593

575 مقامات میں جہاں ایک خدا کا نام بھی کوئی نہیں جانتا تھا آج ایسی مخلص بہنیں پیدا ہو چکی ہیں جو اسلام کی خاطر اپنی دیرینہ روایات سب کچھ ترک کر کے اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کی خاطر گزار رہی ہیں.کتنی بدقسمتی ہے ہماری ان بہنوں کی جنہوں نے احمدی گھرانوں میں جنم لیا جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے گھروں میں پیدا ہوتے ہی احمدیت کی نعمت عطا کی.لیکن اس نعمت کے باوجوداگر ان کا نمونہ قرآن کی تعلیم رسول کریم ﷺ کی سنت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاوی اور آپ کے خلفاء کے ارشادات کے مطابق گزارنے کی توفیق نہ ملے.اس چیز سے دل کو خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے کہ ہماری بہنوں اور بچیوں کا مالی قربانی کا معیار نہایت اعلیٰ ہے اور کسی اور قوم کی عورتیں اس معیار میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.لیکن صرف تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک نمونہ نہیں بن سکتیں.آج دنیا کی ہر قوم کی خواتین کی نظریں ہماری طرف اٹھ رہی ہیں کہ انہوں نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ اسلام کے ساتھ دنیا کی نجات وابستہ ہے.تو ہم یہ دیکھیں کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے ذریعہ سے خود ان کی اپنی زندگیوں میں کیا انقلاب پیدا ہوا ہے.اگر ان کی زندگی دوسری خواتین کی زندگی سے کچھ مختلف نظر آتی ہے تو پھر ان کو یہ حق حاصل ہے کہ ہمیں بھی اپنی طرف کھینچیں.قرآن کی تعلیم کی طرف بلانے.آنحضرت ﷺ کی جماعت میں داخل ہونے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آنے کی دعوت دینے میں ہم سبھی کامیاب ہو سکتے ہیں جب ہمارا اپنا نمونہ ہو کہ ہم بے دھڑک کہہ سکیں کہ آؤ جماعت احمدیہ کی خواتین اور بچیوں کو دیکھ لو ان کا اٹھنا بیٹھنا لباس طرز رہائش اخلاق گفتار کر دار سب کچھ قرآن مجید کی تعلیم اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ کے مطابق ہے.لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں اپنے نفس کی اصلاح کی طرف توجہ دینے کی پہلے ضرورت ہے.پس بہت بھاری ضرورت ہے تربیت کی اور یہ تعلیم اپنی بچیوں کو دینے کی کہ سب حسن اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے میں ہے.دوسروں کی نقالی ہم نے نہیں کرنی شیطان کا موجودہ زمانہ میں سب سے بھر پور حملہ دجالیت اور مغربی تہذیب کی نقل کرنے کے شوق کے ذریعہ کیا گیا ہے.اور وہ قوم جو دجال کا سر کچلنے اور کسر صلیب کرنے کے لئے مقرر کی گئی ہو اس پر تو رعب دجال کا سایہ بھی نہیں پڑنا چاہیے.اگر کسی دوسری قوم میں ہمیں اچھی باتیں نظر آتی ہیں تو وہ در حقیقت انہوں نے اسلام سے ہی لی ہیں.قرآن نے ہی پیش کی ہیں اور انہوں نے اس کو اختیار کرلیا.اگر ہم چاہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق جلد سے جلد احمدیت کا غلبہ

Page 594

576 ہو تو اس کا صرف اور صرف یہی طریق ہے کہ قرآن کو حرز جان بنالیں اور اپنی زندگیاں قرآن مجید اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ کے مطابق گزاریں.ہر ماں کا فرض ہے کہ اپنی بیٹیوں کی صحیح تربیت اسلامی رنگ میں کرے.صرف سکولوں کالجوں میں بھجوا کر سمجھ لینا کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کے ادارے ذمہ دار ہیں غلط ہے.اگر آپ کی بیٹی آپ کے سامنے زہر کھانے لگے یا آگ سے کپڑے جلانے لگے تو آپ میں سے ایک ماں بھی یہ برداشت نہ کرے گی لیکن جب وہی بچی بے پردگی اختیار کرتی ہے.عریاں لباس پہنتی ہے اپنی زینت کو جس کو چھپانے کا حکم ہے نہیں چھپاتی.قرآن کی تعلیم کے خلاف عمل کرتی ہے تو یقینا وہ زہر کھا لینے سے بڑی خود کشی ہے.کیونکہ زہر کھا کر تو صرف ایک انسان ختم ہو جاتا ہے لیکن یہ ایسی روحانی خودکشی ہے جو روحانی طور پر نہ صرف اسے ختم کر دیتی ہے بلکہ اس کی نسلوں کی تباہی اور بربادی کی بنیا درکھ رہی ہوتی ہے.کیونکہ جس ماں کا خود قرآن کی تعلیم پر عمل نہیں خود سنت رسول کریم ﷺ پر عمل نہیں.جو خود اسلام کی تعلیم سے واقف نہیں.اسلامی اخلاق سے آشنا نہیں.جس کا اپنا کر دار اسلام کے مطابق نہیں اس سے یہ توقع اور امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ اس کی گود سے وہ بچے پروان چڑھیں گے.جو اسلام کے جھنڈے تلے اپنی جان دینا فخر سمجھیں گے.ہمیں ضرورت ہے اس وقت مجاہدین قرآن کی ہمیں ضرورت ہے ایسی ماؤں کی جن کی گودوں میں واقفین زندگی پروان چڑھیں جو اسلام کے جھنڈے کو لے کر دنیا کے کونے کونے میں پھیل جائیں.ہمیں ضرورت ہے ایسی خواتین کی جو اسلام کی خاطر جان مال وقت اور اولاد کو قربان کرنے والیاں ہوں جب تک ہم میں سے ہر ایک عورت اس معیار کو حاصل نہیں کر لیتی.ہم احمدیت کی ترقی میں روک بنتی چلی جارہی ہیں.لجنہ اماءاللہ کی مبرات اور ان کی عہدہ داران کا سب سے اہم کام اس وقت تربیت کا ہے.اگر تربیت کی طرف آپ کی توجہ نہیں اور مالی قربانی کے ذکر یا تعلیم کے کام کے ذکر یا خدمت خلق کے کام کے ذکر سے لجنہ کی رپورٹیں پر کر کے بھجوا دیتی ہیں تو آپ کا تربیت کی طرف توجہ نہ دینا ان سارے کاموں پر بھی پانی پھیر دینا ہے.کیونکہ سب سے اہم کام آپ کا پیدائشی احمدی خواتین اور بچیوں کو حقیقی احمدی مسلمان خواتین اور بچیاں بنانا ہے جیسا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر آپ کو توجہ دلائی تھی.ہراحمدی خاتون کام ہے کہ وہ دیکھے اس کے گھر میں پرورش پانے والی بچیوں کا نمونہ قرآن مجید اور رسول کریم ﷺ کے ارشادات اور اُسوہ کے مطابق ہے یا نہیں.اور عمل بھی اس وقت ہو سکتا ہے جب قرآن مجید کی تعلیم سے اچھی طرح واقفیت ہو.

Page 595

577 پس میری بہنو! اور بچیو! آپ کا سب سے پہلا کام قرآن مجید کا ترجمہ سیکھنا ہے جب تک آپ قرآن مجید کاترجمہ نہیں سیکھتیں آپ اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھال بھی نہیں سکیں گی.دوسرا کام آپ کا اپنی زندگیوں کو قرآن مجید کی تعلیم اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ کے مطابق گزارنا ہے.ہماری ترقی یورپ اور امریکہ کی نقالی میں نہیں ہے.ہماری ترقی اور غلبہ احمدیت چودہ سو سال پیچھے جا کر اس معاشرہ کی نقل میں ہے جس کی نبی کریم ﷺ کے ذریعہ دنیا میں تشکیل ہوئی تھی.ایک طرف ہمارا ایمان کہ نبی کریم ہے خاتم النبین ہیں.ایک طرف ہمارا ایمان کہ قرآن کامل شریعت ہے.دوسری طرف ہمارا عمل قرآن کریم کی تعلیم.آنحضرت ﷺ کے ارشاد.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی نصائح کے خلاف ہو تو کیا دوغلی زندگی اور منافقانہ چال نہیں ؟ سچا مومن تو اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیتا ہے.جس وقت بیعت کرتا ہے اس کی مرضی اپنی مرضی نہیں رہتی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیعت لینی شروع کی تو یہی شرط رکھی کہ دنیا پر دین کو مقدم رکھوں گا.اب جو بہنیں پردہ نہیں کرتیں جو بہنیں یورپ اور امریکہ کی بظاہر جگمگاتی ہوئی تہذیب کی نقالی کرتے ہوئے جس کو اسلامی اور قرآن کی تعلیم کے مطابق لباس نہیں کہا جا سکتا.یا زندگی کے ایسے طریقے اختیار کرتی ہیں جو اسوہ رسول کریم ﷺ اور قرآنی اصول زندگی کے خلاف ہیں.وہ کس طرح کہہ سکتیں ہیں کہ ہم اس بات پر ایمان رکھتی ہیں کہ قرآن زندہ کتاب ہے اورنبی کریم ﷺ زندہ نبی ہیں.اور آپکی تعلیم عالمگیر اور ہمیشہ کے لئے ہے.کیونکہ ان کا اپنا عمل قرآن کی تعلیم کے مطابق نہیں ہے.مثلاً آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں الحياء من الایمان.ایمان کے بہت سے شعبے ہیں اور ان میں سے ایک حیا بھی ہے.جو وباء آجکل ہمارے معاشرے میں جنم لے رہی ہے وہ آنحضرت ﷺ کی اس حدیث کی سراسر خلاف ہے.اپنی بچیوں کے لباس.اخلاق.عادات اور ان کی تربیت کی طرف توجہ دینا.میری بہنو! آپ کے زمانہ میں سب سے بڑی قربانی ہے صرف چندے دے کر آپ اللہ تعالیٰ کو راضی نہیں کر سکتیں.آپکی گودوں میں پرورش پانے والے بچے عامل قرآن ہوں.رسومات کو چھوڑنے والے ہوں.جن کا نصب العین صرف یہ ہو کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے.اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنا دستور عمل بنائیں گے.آخر میں اپنی بہنوں کو لجنہ کے دو چندوں کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتی ہوں.گذشتہ سال اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حضور کی اجازت کے بعد میں نے اپنی بہنوں کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ انشاء اللہ

Page 596

578 1972ء میں ہماری لجنہ اماء اللہ کے قیام پر پچاس سال پورے ہو جائیں گے.ہمارا کام ظاہری طور پر خوشیاں منانا نہیں جیسا کہ دنیا والے جو بلی مناتے ہیں.ہمارے ہر کام کا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ اس سے اسلام کی اشاعت ہو.قرآن کریم کی اشاعت ہو.نبی کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام دنیا کے کونہ کو نہ تک پہنچے.پس میری تجویز یہ تھی کہ پانچ لاکھ روپے کا ایک فنڈ قائم کیا جائے.اور اس رقم کو 1972ء کے اختتام تک جمع کر لیا جائے.اس کے خرچ کے پانچ مقاصد ہوں گے.پہلا قرآن مجید کا کسی ایک زبان میں ترجمہ دوسر الجنہ اماءاللہ کے دفتر کی از سر نو تعمیر اور توسیع موجودہ دفتر کی بنیا د1950ء میں رکھی گئی تھی.اس وقت انجینئر ربوہ کی شور زدہ زمین سے واقف نہ تھے اس لئے وہ تدابیر اختیار نہ کی گئیں.جس سے عمارت یہاں کے کلر سے محفوظ رہتی.اب انجینئروں کا مشورہ ہے کہ اس کی توسیع کی بجائے گرا کر نئی بنیادوں پر پھر سے بنایا جائے.موجود عمارت بھی ہمارے کاموں کے لئے نا کافی ہے.پھر فضل عمر جو نیئر سکول اور نصرت انڈسٹریل سکول کی عمارتیں ہیں.اور لجنہ اماء اللہ کی تاریخ کی تدوین اور اشاعت ہے جس کا کام شروع کیا جا چکا ہے.اس وقت تک صرف ایک لاکھ چار ہزار روپے جمع ہوئے ہیں اور قریباً ساڑھے تین لاکھ کے وعدے.حالانکہ وعدے تو پانچ لاکھ کے ہو جانے چاہیے تھے.پانچ سو یا اس سے زائد دینے والی بہنوں کے نام لجنہ ہال میں کندہ کروائیں جائیں گے.اس وقت پانچ سو یا اس سے زائد دینے والی بہنوں کی تعداد قریباً پچاس ہے.اس کی طرف بہنوں کو بھی لجنات کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے.دوسری تحریک سائنس بلاک جامعہ نصرت کی ہے.جس کی تعمیر کا کام شروع ہے.یہ رقم مجلس مشاورت 1967ء میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے ذمہ لگائی تھی.اس طرف بہنوں نے کما حقہ توجہ نہیں کی.اب تک صرف 21000 روپے جمع ہوئے ہیں حالانکہ پچھتر ہزار روپے جمع کرنے عورتوں کے سپرد کئے گئے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ ہماری عہدہ داران کے ذریعہ یہ تحریک ہر بہن تک نہیں پہنچی.ہماری بہنوں کی اُن عظیم الشان مالی قربانیوں کو دیکھتے ہوئے جو انہوں نے کیں ہیں.یہ رقم بہت ہی معمولی تھی.انگلستان کی سرزمین میں انہوں نے بیوت الذکر بنوائی ہالینڈ میں بنوائی ڈنمارک میں بنوائی ایک قرآن مجید جرمن زبان میں شائع کروایا.اسی طرح بہت سی مالی قربانیوں میں بسا اوقات مردوں سے بھی بڑھ کر حصہ لیا.ان کے لئے 75000 روپے جمع کرنا مشکل نہیں اس کے متعلق یہ بھی علان کیا گیا تھا کہ جو بہن اس میں تین سو روپے دے گی اس کا نام بلاک کی عمارت پر کندہ کروایا جائے گا.اب تک صرف تیرہ چودہ بہنوں نے تین سویا اس سے زائد رقم دی ہے.

Page 597

579 بہر حال میں ان دونوں تحریکوں کو کامیاب بنانے کی طرف اپنی بہنوں کو توجہ دلاتی ہوں اور سب سے آخر میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اس تحریک پہ کہ ہماری ہر بچی کو اور ہر عورت کو سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات یاد ہونی چاہیں.کوشش کریں کہ اب تک جس نے یاد نہیں کی وہ یاد کر لیں.ناصرات میں تو یہ معیارسو فیصدی ہونا چاہیے.بہت سی باہر رہنے والی بہنیں جو جلسہ سالانہ میں شرکت نہیں کر سکیں.پاکستان کی بھی اور ہندوستان کی بھی امریکہ کی بھی انگلستان کی بھی مشرقی اور مغربی افریقہ کی بھی.ان کے خطوط اور پیغامات ملے ہیں.ان سب بہنوں کی طرف سے سب حاضرات جلسہ کو السلام علیکم کا تحفہ پہنچاتی ہوں.اور ان سب کی طرف سے آپ سے درخواست دعا کرتی ہوں.مصباح مئی 1970ء کے

Page 598

580 خطاب سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ 1970ء آج کا اجتماع صرف آپ کا اجتماع ہے.اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے اور ہمیں ایسے پروگرام بنانے کی توفیق عطا کرے جو آپ کی صحیح تربیت میں محمد ہوں اور آپ کو علم دین سیکھنے اور سچے معنوں میں ناصرات الاحمدیہ بننے کی توفیق عطا فرمائے.آمین آپ کا نام ناصرات الاحمدیہ ہے یعنی احمدیت کی مدد کرنے والی بچیاں اپنے علم سے، اپنے مال سے اپنے اخلاق سے ، اپنے کردار سے اور اپنے نمونہ سے.آپ کا دینی علم آپ کی عمر کے لحاظ سے مکمل ہونا چاہئے.آپ کو اپنی جماعت کے بنیادی مسائل اور ان کے دلائل از بر ہونے چاہئیں.ناصرات کی ایک بچی بھی ایسی نہیں ہونی چاہئے جس نے وقف جدید میں حصہ نہ لیا ہو.یہ وہ خصوصی مالی تحریک ہے جو صرف احمدی بچوں اور بچیوں کے لئے کی گئی ہے لیکن ابھی تک ناصرات کو اس کی طرف بہت کم توجہ ہے.اپنے امام سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہر ارشاد پر عمل کرنا آپ کا پہلا فرض ہے.آپ کے اخلاق نمونہ ہوں اسوہ محمد رسول اللہ ﷺ کا ہر خلق جو قرآن مجید نے بیان فرمایا ہے آپ میں پایا جاتا ہو.ہر برائی جس سے قرآن نے روکا ہے اس کے قریب بھی آپ نہ پھٹکیں.آپ کا کردار نہایت پاکیزہ ہو.شرم و حیا آپ کا جو ہر ہو.سچائی آپ کی رگ رگ میں رچی ہو.جھوٹ سے آپ کو نفرت ہو.صفائی آپ کا شعار ہو.دیانت دار آپ ایسی ہوں کہ آپ کی مثال دی جاسکے.پردہ کی پابندی ، لباس میں اسلامی احکام کا خیال رکھنے والی ، اپنے ماں باپ کی فرمانبردار استادوں کے لئے سعادت مند شاگرد ہمسائیوں سے نیک سلوک کرنے والی.آپس میں ایک دوسرے سے محبت اور اخوت کا سلوک رکھنے والی ہوں.اپنے سے بڑوں کا ادب کرنے والی ہوں ، آپ ہر حکم پر چلنے والی ہوں.اگر آپ ایسی بن جاتی ہیں تو یقینا آپ مستحق ہیں کہ آپ کو ناصرات الاحمدیہ کے نام سے پکارا جائے کیونکہ اس صورت میں آپ نام کی ناصرات نہیں ہوں گی بلکہ حقیقی معنوں میں ناصرات ہوں گی.ہر لحاظ سے احمدیت کی مددگار اور معاون ثابت ہوں گی.عزیز بچیو! آج سے اکا سی سال قبل اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک پیارے اور محبوب بندہ کو دنیا میں بھیجا.وہ اکیلا تھا اس کا کوئی مددگار نہیں تھا.لیکن اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اس بندہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور نصرت کا سہارا لے کر اس دنیا میں ایک باغ لگانے کا کام

Page 599

581 شروع کیا.بیج بویا گیا.ننھے ننھے پودے نکلے.پھول نکلنے شروع ہوئے اور آج وہ ایک لہلہاتا ہوا باغ ہے.جس کی خوشبو دنیا کے کونہ کونہ تک پہنچ رہی ہے.جس کے درختوں کے نیچے دنیا کے قافلے پناہ لے رہے ہیں.میری پیاری بچیو! آپ بھی اس گلشن احمد کی نھی ننھی کلیاں ہیں.جب باغ لگتے ہیں ، پھول لگائے جاتے ہیں تو کچھ خار دار اور جنگلی بوٹیاں اس میں اگ آتی ہیں جو پھلوں اور پھولوں کے پودوں کو خراب کر دیتی ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی جماعتوں میں بعض کمزور لوگ بھی پیدا ہو جاتے ہیں جن کی صحبت سے اچھوں کے بھی خراب ہونے کا ڈر ہوتا ہے.تمہاری کوشش ہونی چاہئے کہ ہمیشہ اچھی اور نیک صحبت اختیار کریں.کبھی بُری صحبت میں نہ آئیں یار کریں.بھی کیونکہ بُڑی دوستی تمہیں بھی خراب کر دے گی.بچپن سے دعاؤں اور ذکر الہی کی عادت ڈالو.یہی عمر ہوتی ہے جس میں عادتیں راسخ ہوتی ہیں.ہر وقت یہ بات ذہن میں رہے کہ تم احمدی بچیاں ہو تم حضرت مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہو.کوئی کام، کوئی حرکت ایسی نہ ہو جو احمدیت پر حرف لانے والی ہو.کوئی فعل کبھی ایسا نہ ہو جو جماعت کے وقار کے خلاف ہو.حضرت عائشہ کی شادی اس عمر میں ہوئی تھی جو تمہاری ناصرات کی عمر ہے.لیکن آپ نے دین اور علم سیکھنے اور سکھانے میں اتنی ترقی کی کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.آدھا دین عائشہؓ سے سیکھو.“ پس میری بچیو! یہ زمانہ آپ کے لئے سیکھنے کا زمانہ ہے.یہ زمانہ روحانی خزانہ کو اپنے ذہن میں محفوظ کر لینے کا ہے.پس اپنے اس قیمتی زمانہ کا ایک دن بھی ضائع نہ کریں.قرآن سیکھیں.آنحضرت ﷺ کے ارشادات ذہن میں محفوظ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے دلائل یاد کریں تا جب عمل کا زمانہ آئے تو آپ کا قدم آگے ہی آگے اٹھتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ آپ میں سے ہر کلی کھلے اور اس کی خوشبو سے نہ صرف سارا گلستان احمد معطر ہو بلکہ دنیا کے کونہ کونہ تک یہ خوشبو پہنچے.آمین.“ الفضل 18 اکتوبر 1970ء

Page 600

582 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع 1970ء خلیفہ وقت کی کامل اطاعت اور اس کی تحریکات کو کامیاب بنانا اور اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرنا ہم سب کا فرض ہے نمائندگان لجنات اما ء اللہ ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ میں تمام خواتین ربوہ اور لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے آپ کو اھلا و سهلا و مرحبا کا تحفہ پیش کرتی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کا مرکز میں آنا مبارک فرمائے اور جس مقصد کے پیش نظر آپ مرکز میں آئی ہیں اس مقصد کو حاصل کرنے میں اللہ تعالیٰ آپ کی کامیاب فرمائے.ان تین دنوں میں ہر لمحہ آپ کے پیش نظر یہ امر رہنا چاہئے کہ آپ میں سے ہر ایک کسی لجنہ کی نمائندہ بن کر آتی ہیں اس لئے پروگراموں سے پورا پورا فائدہ اٹھانا، ہدایات کو سننا اور خصوصاً ان ہدایات کو جو ہمارے آقا حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آپ کو دیں گے توجہ سے سننا ، ان کو نوٹ کرنا اور پھر یہاں سے واپس جا کر فوری طور پر اپنی اپنی لجنہ کی مبرات سے ان پر عمل کروانا آپ کا اولین فرض ہے.لجنہ اماءاللہ کے چار بنیادی مقاصد حضرت مصلح موعود نے 1922ء میں جب عورتوں کی ترقی کی خاطر لجنہ اماءاللہ کی بنیادرکھی تو جنہ اماءاللہ کے جو مقاصد اپنی قلم سے تحریر فرمائے ان میں سے چار مقاصد در اصل بنیادی حیثیت رکھتے ہیں باقی سب ان کی تفصیل میں آجاتے ہیں.حضرت مصلح موعود نے بیان فرمایا.1.اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لئے جو بھی خلیفہ وقت ہو اس کی تیار کردہ سکیم کے مطابق اس کی ترقی کو مد نظر رکھ کر تمام کا روائیاں ہوں.(الازھار لذوات الخمار صفحہ 53) 2.اس امر کی ضرورت ہے کہ تم اتحاد جماعت کو بڑھانے کے لئے ایسی ہی کوشاں رہو جیسے کہ ہر مسلمان کا فرض قرآن کریم، آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقرر فرمایا ہے الله

Page 601

583 اور اس کے لئے ہر قربانی کو تیار رہو.3.اس امر کی ضرورت ہے کہ اپنے اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کی طرف ہمیشہ متوجہ رہو اور صرف کھانے پینے ، پہننے تک اپنی توجہ کو محدود نہ رکھو.اس کے لئے ایک دوسری کی پوری مدد کرنی چاہئے اور ایسے ذرائع پر غور اور عمل کرنا چاہئے.4.اس بات کی ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت میں اپنی ذمہ داری کو خاص طور پر سمجھو اور ان کو دین سے غافل ، بد دل اور سست بنانے کے بجائے چست ، ہشیار، تکلیف برداشت کرنے والے بناؤ اور دین کے مسائل جس قدر معلوم ہوں ان سے ان کو واقف کرو.اور خدا ، رسول ﷺ مسیح موعود اور خلفاء کی محبت، اطاعت کا مادہ ان کے اندر پیدا کرو.اسلام کی خاطر اور اس کی منشاء کے مطابق اپنی زندگیاں خرچ کرنے کا جوش ان میں پیدا کرو.اس لئے اس کام کو بجالانے کے لئے تجاویز سوچو اور ان پر عمل درآمد کروی (الازھار لذوات الخمار صفحہ 53) حضرت مصلح موعود کے ان ارشادات میں لجنہ اماء اللہ کے لئے ایک مکمل لائحہ عمل موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر بات میں خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کی جائے.اپنی زندگیوں کو احمدیت کی ترقی میں گزارا جائے اور اپنی اولادوں کی صحیح اسلامی رنگ میں تربیت کی جائے تا آئندہ وہ جماعت کے لئے مضبوط ستون بن سکیں.تحریک تیم ایران کی اہمیت محمد سر ہم چلے کر لیں.تقریریں کرلیں.چندہ جمع کرلیں بلکہ ہمارا صرف یہ قرآن مجید سیکھنا اور اپنی اولادوں کو سکھانا.قرآن پر خود عمل کرنا اور اپنے بچوں سے اس پر عمل کروانا ہماری زندگیوں اور ہماری تنظیم کا حقیقی نصب العین ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.”جو لوگ اسلام کی بہتری اور زندگی مغربی دنیا کو قبلہ بنا کر چاہتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے.کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کے ماتحت چلتے ہیں.قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور

Page 602

584 محال امر ہے اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں.صحابہ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو.دیکھو انہوں نے جب پیغمبر خدا ﷺ کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تو سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے تھے پورے ہو گئے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 409) حضرت مصلح موعود نے بھی واضح الفاظ میں یہی ارشاد فرمایا ہے کہ لجنہ اماءاللہ ہو مجلس انصار ہو، خدام الاحمدیہ ہو، نیشنل لیگ ہو، غرضیکہ ہماری کوئی انجمن ہواس کا پروگرام قرآن کریم ہی ہے.“ (الفضل 11 مارچ 1939ء) قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت اور اس پر عمل کروانے کے لئے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے.یہی نصب العین آپ کے خلفاء کا تھا اور یہی نصب العین حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کا ہے.جس دن آپ نے مسند خلافت پر قدم رکھا ہے آپ کے ہر خطبہ، آپ کی ہر تقریر کا خلاصہ یہی ہے کہ قرآن پڑھو، پڑھاؤ اور اس پر عمل کرو.تاہر احمدی خاتون اور ہر احمدی بچی عملی تفسیر ہو قرآن مجید کی.لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک جیسی توجہ عہدہ داران لجنات اور ہر احمدی خاتون کو بحیثیت اپنے گھرانہ کی ذمہ دار اور نگران ہونے کے کرنی چاہئے انہوں نے نہیں کی.جب تک قرآن مجید پڑھنے ، ترجمہ سیکھنے اور انوار قرآنی کو اپنے قول اور عمل سے پھیلانے میں ہر عورت جان و دل سے حصہ نہیں لے گی ہم اپنے مقصد اور نصب العین کو حاصل نہیں کر سکتے.بنیادی مسائل اور دلائل سیکھنے کی اہمیت گذشتہ سال سالانہ اجتماع کے موقعہ پر بھی حضرت خلیفہ مسیح ایدہ اللہ تعالی نے آپ سب سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا.”ہمارا یہ پروگرام ہونا چاہئے کہ جو مستورات پیدائشی احمدی ہیں ان کو نئے سرے سے وہ تمام دلائل سکھائے جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف بنیادی مسائل کے متعلق ہمیں دیتے ہیں.66 حضور نے مزید فرمایا تھا: مصباح سالنامہ 1969 ء صفحہ 15) پس پیدائشی احمدی بہن ( گو وہ احمدی ہے ) کو ہم نے حقیقی احمدی بنانا ہے.اگر ہم اس میں کامیاب نہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ ہمیں معاف کرے ہمیں بھی اس کے عذاب اور غضب کا نشانہ بننا

Page 603

585 پڑے گا.ہم نے علم کے لحاظ سے اور عقیدہ کے لحاظ سے اور محبت ذاتیہ الہیہ کے لحاظ سے پیدائشی احمدی مستورات کے نقش قدم پر چلانا ہے.(مصباح سالنامه 1969 ء صفحه 17) یہ وہ پروگرام تھا جو ہمارے آقا نے سال گزشتہ کے لئے ہمارے لئے تجویز فرمایا تھا.اگر لجنہ اماءاللہ نے اس سال حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے ماتحت کہ جو بھی خلیفہ وقت ہو اس کی ترقی کو مد نظر رکھ کر تمام کارروائیاں ہوں.(الازھار لزوار الخمار صفحہ 53) اپنے پروگرام بنائے اور اس کے مطابق عمل کیا تب تو آپ واقعی مبارکباد کے قابل ہیں اور اگر آپ نے حضور کے اس ارشاد پر عمل کرنے کے لئے کوئی جدوجہد نہیں کی کہ ہماری ہر احمدی خاتون اور ہر لجنہ اماءاللہ کی مبر کوحقیقی احمدی بنایا جائے اسے وہ تمام دلائل یا دکر وائے جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بنیادی مسائل کے متعلق ہمیں دیئے ہیں تو یقینا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو کام کرنے کا موقعہ دیا، عورتوں کی تربیت کی ذمہ داری بحیثیت عہدہ دار لجنہ کی نمائندہ ہونے کے آپ کے سپرد کی گئی لیکن آپ نے اس فضل اور اس انعام کی قدر نہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری کو صحیح رنگ میں ادا نہیں کیا.ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہماری سب سے بڑی ذمہ داری مستورات اور بچیوں کی تربیت صحیح رنگ میں کرنا ہے باقی سب کام ثانوی حیثیت رکھتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے بار بار آپ کی راہنمائی فرمائی ہے.مکمل ہدایات آپ کو دی ہیں.قرآن مجید پڑھنے پڑھانے کے متعلق، اپنے گھروں کو جاہلانہ رسومات سے پاک صاف رکھنے کے متعلق ، اپنے بچوں کی تربیت کے متعلق ، ان پر خود عمل کرنا مستورات کو بار بار حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات سنا کر ان پر عمل کروانا آپ کا کام ہے.بچیوں کی تربیت کی اہمیت میں نے لجنہ اماءاللہ لا ہور کے اجتماع کے موقعہ پر وہاں کی لجنہ کو بھی توجہ دلائی تھی اور آپ سب کو بھی اس امر کی طرف توجہ دلاتی ہوں کہ اپنی بچیوں کی تربیت کی طرف بہت توجہ دیں.ان میں اللہ تعالیٰ کی محبت، محمد رسول ﷺ کی محبت ، قرآن کی عظمت ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت اور اطاعت ، نظام جماعت کا احترام اور اس کے لئے عزت، حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت اور سلسلہ کے لئے قربانی کرنے کا جذبہ پیدا کریں تا ہماری اگلی نسل حقیقی معنوں میں احمدی ہو اور اسلام کے

Page 604

586 لئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے والی ہو.جتنی مضبوط بنیاد ہوگی اتنی ہی پائیداد اور مضبوط عمارت اس پر تعمیر ہوگی.اس لئے لجنہ اماء اللہ کی عہدیداران کی سب سے بڑی ذمہ داری اور سب سے اہم کام بچیوں کی دینی تعلیم اور تربیت ہے.سب سے اہم شعبہ ناصرات کا ہے.لجنہ اماء اللہ کی عہدیداروں کی سب سے زیادہ توجہ اس شعبہ کی طرف ہونی چاہئے.تا آج کی بچیاں کل کی دیندار مائیں اور دین کی خاطر قربانی دینے والی مستورات بن سکیں.ابھی تک اس شعبہ کی طرف کما حقہ توجہ نہیں دی جاسکی.ہر جگہ جہاں لجنہ اماءاللہ کا قیام ہو چکا ہے.لازماً احمدی بچیاں بھی ہوں گی لیکن ہر جگہ ناصرات الاحمدیہ کا قیام ابھی تک نہیں ہوا.292 چندہ دہندہ لجنات کے مقابل پر 65 مجالس ناصرات کی طرف سے چندہ آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک ناصرات قائم نہیں ہوئی.سورہ بقرہ کی سترہ آیات گزشتہ سال اجتماع کے موقع پر حضرت خلیفہ مسیح ید اللہ تعالی نصرہ العزیز نے ناصرات کو سورۃ بقرہ کی سترہ آیات حفظ کرنے کا ارشاد فرمایا تھا.ایک سال میں صرف 2963 ناصرات کی طرف سے سورۃ بقرہ کی سترہ آیات حفظ کرنے کی اطلاع ملی ہے جس میں 1487 ناصرات صرف ربوہ کی ہیں.گویار بوہ کے علاوہ سارے پاکستان میں سے صرف 1476 ناصرات نے سورہ بقرہ کی سترہ آیات یاد کی ہیں اور یہ تعداد صرف 107 مقامات کی ناصرات کی ہے.یہ تعداد ہی بتاتی ہے کہ ابھی تک ناصرات کی تنظیم پورے طور پر نہیں کی گئی اور ہر شہر، قصبہ اور گاؤں میں ناصرات کا قیام نہیں ہوا.جب تک ہر جگہ ناصرات قائم نہیں ہو جاتی اور لجنہ اماءاللہ کے ذریعہ ان کی صحیح تربیت اور دینی تعلیم کی کوشش نہیں کی جاتی ہماری عمارت کی بنیاد کھو کھلی رہے گی.سورہ بقرہ کی ستر ہ آیات حفظ کرنے کے علاوہ حضرت خلیفہ آسیح الثالث ایدہ اللہ نے ناصرات کو ہدایت فرمائی تھی کہ اطفال اور ناصرات کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل کی کتاب بطور متن لکھوانے کے لئے حضور نے خدام الاحمدیہ کو ارشاد فرمایا ہے.جو آئندہ سال آپ کے پروگرام میں رکھی جائے گی.سووہ کتاب شائع ہوگئی ہے.نگران ناصرات کتاب خرید کر لے جائیں.آئندہ سال کا نصاب یہی ہوگا.معیار اول کے لئے سو فیصدی حفظ کرنا.باقی دو معیاروں کے لئے ان کی عمر کے مطابق.آج اگر بعض عورتوں کی طرف سے بے پردگی کی شکایتیں ملتی ہیں یا ایسی باتوں کی جو نظام سلسلہ اور اس کی روایات کے خلاف ہیں تو

Page 605

587 اس کی صرف اور صرف یہی وجہ ہے کہ ان کی ماؤں نے ان کی صحیح تربیت نہیں کی.ان کے دلوں میں احمدیت اتنی پختہ طور پر راسخ نہیں ہوئی جس کی وجہ سے ان باتوں سے محفوظ رہیں جوان میں پائی جاتی ہیں.چندہ وقف جدید اور ناصرات پھر بچوں کے دلوں میں بچپن سے سلسلہ کی خاطر قربانی کا جذبہ پیدا کرنے کی خاطر حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے چندہ وقف جدید کی تحریک فرمائی اور اس کے لئے پچاس ہزار روپے کا بجٹ منظور فرمایا.پچاس ہزار روپے سالانہ کی رقم اتنی زیادہ نہیں تھی کہ سارے پاکستان کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے احمدی بچوں کے لئے اسے پورا کرنا مشکل ہوتا.بہت آسان تھا.اگر ہر ماں باپ بچوں کو بتاتے کہ یہ چندہ تمہارے ذمہ ہے اور تم نے ہر صورت میں اپنے کھانے پینے اور کھلونوں پر خرچ کرنے کی بجائے بچا کر دینا ہے لیکن اس سلسلہ میں بھی پوری توجہ عہدیداران ناصرات نے نہیں کی.اس سال ناصرات کا دس ماہ کا کل چندہ وقف جدید 5606.90 ہے جس میں سے 3619.34 صرف ناصرات ربوہ کا ہے اور 1987.56 بیرون از ربوہ کا.کوشش کریں کہ دسمبر تک زیادہ سے زیادہ ادا کیا جاسکے.یہ چندہ صرف 47 مقامات کی ناصرات سے آیا ہے جبکہ گزشتہ سال 70 مقامات سے ناصرات کا وقف جدید کا چندہ وصول ہوا تھا.یہ تساہل بتاتا ہے کہ ماں باپ اور لجنہ اماءاللہ کی عہدیداران بھی ناصرات کی طرف سے ابھی غافل ہیں حالانکہ یہی وہ شعبہ ہے جس کی ترقی سے آپ کی ترقی وابستہ ہے اور جماعت کی ترقی وابستہ ہے.آج آپ بچوں کی صحیح تربیت کر کے ان کو ایسا بنا ئیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت رچی ہوئی ہو.جن کے دل میں صرف ایک ہی خواہش ہو کہ اللہ تعالیٰ اور محمد رسول اللہ کی اطاعت کرنی ہے جن کے دلوں میں احمدیت کی ایسی محبت ہو کہ کوئی شیطانی حربہ ان پر کارگر نہ ہو.احمدیت کی خاطر ہر تکلیف ہر دکھ وہ برداشت کر سکیں.وہ اپنے ہر عزیز کو نظام سلسلہ اور احمدیت کی خاطر چھوڑ سکیں.وہ مغربیت کی پیروی کرنے کی بجائے قرآن کو اپنی زندگیوں کا دستور عمل بنائیں جن کی نگاہ ہر وقت اپنے آقا کے ہونٹوں کی جنبش کی طرف لگی ہوئی ہو اور آپ کی کامل اطاعت اپنے لئے فخر کا موجب سمجھیں جب یہ بچیاں بڑی ہوں گی اپنی قوم ، ملک، احمدیت کے لئے قابل فخر خواتین ہوں گی.پس بہت ضرورت ہے کہ احمدی بچیوں کو قرآن سکھانے ، دلائل سکھانے اور ان کی رگ رگ میں احمدیت رچانے کی کوشش کی جائے ورنہ اس کے بغیر ہماری ترقی دائمی نہیں رہ سکتی.

Page 606

588 حضرت مصلح موعود نے عورتوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک دفعہ یہی نکتہ بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا.”ہماری ترقیاں ، ہماری قربانیاں زیادہ سے زیادہ ہیں یا پچیس سال تک رہیں گی.مگر اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو تو قیامت تک اس ترقی کو قائم رکھ سکتی ہو کیونکہ آئندہ نسلوں کو سکھانے والی تم ہی ہو.ہمارا اثر ظاہری ہے تمہارا اثر دائمی ہے.اس سے تم سمجھ لو کہ تمہارے اوپر زیادہ بوجھ ہے.یہ تمہیں ہو کہ اسلام کو قائم رکھ سکتی ہو.شیطان کا سرکاٹ سکتی ہو اور دین کی ترقی کو ایسی صورت میں مستحکم کر سکتی ہو کہ تمام قو میں دیکھ کر حیران رہ جائیں.“ (الفضل 22 جنوری 1923ء الازھار لذوات الخمار ص62) پس میری بہنو! آئندہ سال بلکہ مستقل طور پر آپ کی زیادہ توجہ اور زیادہ نگرانی کی محتاج ہماری جماعت کی بچیاں ہیں.دنیا اس وقت جس بے راہ روی کا اور لامذہبیت کا شکار ہورہی ہے اس سے اپنی اگلی نسل کو مکمل طور پر محفوظ رکھنا ہمارا کام ہے.اس کے لئے ہم قیامت کو اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہوں گی.بچیوں کی صحیح رنگ کی تربیت صرف حکم دینے یا زبانی نصیحت سے نہیں کی جاسکتی اس کے لئے ضرورت ہے کہ سب سے پہلے تو ان کی دینی تعلیم کا انتظام ہو.صرف یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ وہ سکولوں کالجوں میں پڑھ رہی ہیں کافی ہے.ہر ماں باپ اپنی اولاد کی تربیت کا پہلا ذمہ دار ہے.ماں باپ کے بعد اس شہر کی لجنہ کی عہدیداران ذمہ دار ہیں.اگر ماں باپ بچوں کی تربیت سے غافل ہیں تو یہ فریضہ ان کو ادا کرنا ہوگا کہ ان کی دینی تعلیم ہورہی ہے یا نہیں.انہوں نے قرآن مجید ناظرہ پڑھا ہے، ترجمہ شروع کر دیا ہے، نماز آتی ہے، نماز وقت پر پڑھتی ہیں، اپنی عمر کے مطابق اپنی جماعت کے بنیادی مسائل کو پیش کر سکتی ہیں یا نہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ کے ہر حکم پر لبیک کہنے کا جذبہ پیدا ہو گیا ہے یا نہیں.اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کو آپ کی ہر تحریک ، آپ کے ہر ارشاد سے واقف کروایا جائے.ان کو اجلاسوں میں شامل ہونے کے لئے ان کی مائیں بھجوائیں.ان کو احکام قرآنی سے واقف کروایا جائے.ان کو بچپن سے علم ہو کہ زندگی کی ہر راہ کے متعلق قرآن مجید کا یہ حکم ہے.یہ کام ہیں جو آپ نے مستقل طور پر کرتے ہیں اور جب کسی بچی میں کمزوری دیکھیں پیار سے نرمی سے، قرآن حدیث کے حوالہ سے، حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ کے ارشاد سے اسے واقف کریں.ذرا بھی دل میں نیکی ہوئی تو وہ بچی خود بخود اس کمزوری سے محفوظ ہو جائے گی.بچوں کی تربیت کے لئے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ آپ کا اپنا نمونہ اچھا ہو.آپ کا عمل خود قرآن کے

Page 607

589 خلاف ہو، حدیث کے خلاف ہو، جماعت کی روایات اور وقار کے منافی ہو تو بچوں پر آپ کی نصیحت کا کیا اثر ہوگا.اس لئے اپنی اصلاح کیجئے.بچوں کی اصلاح کرنی آپ کے لئے آسان ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی توفیق عطا فرمائے.چندہ سائنس بلاک حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ نے جامعہ نصرت میں سائنس بلاک کی تعمیر کی منظوری اس شرط پر عطا فرمائی تھی کہ اس کی تعمیر جو خرچ آئے (جس کا اندازہ ڈیرھ لاکھ روپے تھا ) اس کا نصف خرج لجنہ اماءاللہ برداشت کرے.تین سال گزرنے پر ابھی تک 29500 روپے جمع ہوئے ہیں.اس وقت تک لجنہ اماءاللہ 36 ہزار روپے ادا کر چکی ہے اور نظارت تعلیم کی طرف سے مزید ساڑھے بارہ ہزار کا مطالبہ ہے جو اجتماع کے بعد ادا کیا جائے گا.تعمیر کا کام سرعت سے جاری ہے.اس وقت تک صرف 32 خواتین نے تین سو یا اس سے زائد رقم ادا کی ہے.ان کے نام عارضی طور پر بلاک پر لکھوا دیئے گئے ہیں.آپ سب ان خواتین کے لئے دعا کریں جنہوں نے بلاک کی تعمیر میں حصہ لیا.وہ نام آپ جا کر دیکھ سکتیں ہیں.مستقل طور پر جب عمارت بن جائے گی تو کندہ ہوں گے.آپ سے میری درخواست ہے کہ لازمی چندے تو ہر صورت میں مقدم ہیں.اسی طرح وہ چندہ جات جن کی تحریک حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ نے فرمائی ہے.اس کے بعد لجنہ اماءاللہ کے چندوں میں سے سب سے زیادہ توجہ اس چندہ کی طرف دیں.میری خواہش ہے کہ جس کے لئے آپ کی کوشش اور تعاون کی ضرورت ہے کہ جلسہ سالانہ تک سائنس بلاک کا کچھتر ہزار کا وعدہ پورا ہو جائے.آپ نے بڑی قربانیاں دی ہیں.تین ماہ میں ساڑھے پینتالیس ہزار روپے جمع کرنا کوئی مشکل نہیں.یہ چندہ مکمل ہو جائے تو پھر ہم نے چندہ تحریک خاص کی طرف اپنی توجہ منتقل کرنی ہوگی.زیادہ سے زیادہ تعداد میں بہنوں سے تین سو روپے لینے کی کوشش کریں.اس ادارہ میں تعلیم حاصل کرنے والی بچیاں ہمیشہ آپ کے لئے دعائیں کریں گی.تعلیمی اداروں پر خرچ کرنا تو ایک مستقل صدقہ جاریہ ہے.پہلی طالبات نکلتی جائیں گی نئی آتی رہیں گی اور ہر سائنس میں داخلہ لینے والی طالبہ کا دل آپ کے لئے تشکر کے جذبات سے پر ہوگا.میں ان بہنوں کی بہت ہی ممنوں ہوں گی جو اجتماع کے موقع پر اپنا وعدہ لکھوا جا ئیں اور جلد ادا کر دیں یا نقد ہی ادا کر جائیں.تحریک خاص اور اس کے مقاصد لجنہ اماءاللہ کی دوسری اہم تحریک جو عاجزہ نے جلسہ سالانہ 68 ء کے موقع پر اپنی بہنوں کے سامنے

Page 608

590 حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی منظوری کے بعد پیش کی تھی بہنوں میں تحریک خاص لجنہ اماءاللہ“ کے نام سے مشہور ہے.اس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ انشاء اللہ العزیز 25 دسمبر 1972ء کو لجنہ اماءاللہ کے قیام کے پورے پچاس سال گزر جائیں گے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے جذبہ تشکر کے اظہار کے طور پر ہم کوئی تعمیری کام کریں.اس کے لئے بھی ہم کم از کم پانچ لاکھ روپے کا ایک فنڈ قائم کریں جس کے خرچ کی تفصیل ہوں گی.(1) ایک لاکھ روپے حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کئے جائیں کہ حضور لجنہ کی طرف سے کسی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کروادیں یا جو حضور مناسب سمجھیں.(2) دفتر لجنہ اماءاللہ کی ازسرنو تعمیر پرانا دفتر ناقص بنیادوں پر قائم ہے کلر کی وجہ سے بہتر سمجھا گیا ہے کہ اس کی توسیع کرنے کی بجائے از سر نو تعمیر ہو.(3) فضل عمر جونیئر سکول کی تعمیر (زمین خریدی جا چکی ہے) (4) نصرت انڈسٹریل سکول کی تعمیر جو دفتر لجنہ اماءاللہ کے اوپر کی منزل میں ہے.(5) تاریخ نجنہ اماءاللہ کی تدوین و اشاعت.لجنہ کی تاریخ بہنوں کو مبارک ہو کہ لجنہ اماءاللہ کی تاریخ کی پہلی جلد جو 1922ء سے 1947ء یعنی 25 سال کے حالات پر مشتمل ہے لکھی جا چکی ہے اور اجتماع کے بعد اس کی کتابت شروع کرائی جارہی ہے اور جلسہ سالانہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے تو فیق دی تو آپ کے ہاتھوں میں ہوگی.تاریخ لجنہ کی دوسری جلد بھی قریباً تیار ہے انشاء اللہ 1971ء کے جلسہ سالانہ پر اور تیسری جلد 1972ء کے جلسہ سالانہ پر شائع کی جائے گی.تاریخ لجنہ کی پہلی جلد آئندہ سال لجنہ اماءاللہ کے امتحان میں بطور نصاب بھی رکھی جائے گی.تحریک خاص کے وعدے اور وصولی میری اس تحریک پر جلسہ سالانہ تک دو سال ہو جائیں گے لیکن ابھی صرف چار لاکھ چار ہزار کے وعدے اور 137197 کی وصولی ہوئی یعنی 69ء میں 188543 اور 70ء کے دس ماہ میں 48244.یہ رفتار بہت کم ہے جلسہ سالانہ تک صرف دو ماہ باقی ہیں اور 71ء میں تعمیر کے کام شروع کرنے کا ارادہ ہے.اس رفتار سے تو شاید دس سال میں ہم ان اخراجات کے متحمل ہو سکیں گے.پس عزیز بہنو! آپ کا فرض ہے کہ یہاں سے جا کر اپنے اپنے شہر قصبہ اور گاؤں میں ہر عورت کے

Page 609

591 کان تک ان دونوں تحریکات کو پہنچائیں ، ان کی اہمیت کو واضح کریں.تحریک خاص میں بھی پانچ سو یا اس سے زائد دینے والی بہنوں کے نام لجنہ اماءاللہ کے ہال میں کندہ کروائے جائیں گے.کام مشکل نہیں.صرف ضرورت ہے اپنے دل میں ایک نئی امنگ، نیا عزم پیدا کرنے کی.ضرورت ہے دوسری بہنوں کے دلوں میں بھی وہی جوش اور دین کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا کرنے کی جو آپ کے دلوں میں موجزن ہے.ضرورت ہے اپنے اخراجات میں کمی کر کے ، سادگی اختیار کر کے سلسلہ کے اخراجات کو پورا کرنے کی.آپ جب ” تاریخ لجنہ“ کا مطالعہ کریں گی تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کی ماؤں ، نانیوں، دادیوں نے کتنی عظیم الشان قربانیاں احمدیت اور سلسلہ کی ترقی کے لئے کی ہیں.اب آپ کا زمانہ ہے ان کے معیار سے بڑھ کر قربانیاں کرنا آپ پر بھی واجب ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے.الفضل 27 اکتوبر 1970ء

Page 610

592 فرمایا:.اختتامی خطاب سالانہ اجتماع 1970ء ہر انسان کی پیدائش کی غرض اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنا ہے لیکن اس محبت کو حاصل کرنے کے لئے جو پہلا معیار اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ ہر وہ انسان جو محبت الہی کا خواہش مند ہے وہ پہلے اس درجہ کو حاصل کرے کہ اس کے نفس کی اپنی کوئی خواہش باقی نہ رہے.جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کی صورت میں ایک اتنا بڑا انعام عطا فرمایا ہے کہ جس کی قدر و قیمت کو الفاظ میں بیان بھی نہیں کیا جاسکتا.آج ساری روئے زمین پر صرف اور صرف ایک ہی جماعت ہے جس کا ایک امام ہے جس کے دل میں ساری جماعت کا درد ہے.جس کا سر اپنی جماعت کے مرد، عورتوں اور بچوں کی خاطر اپنے رب کے آگے جھکا رہتا ہے.اس نعمت کی قدر کرنا اور اس نعمت کی اہمیت اور محبت کا اپنی اولاد کے دلوں میں پیدا کرنا ہر احمدی خاتون کا فرض اولین ہے.خدا تعالیٰ اور خدا تعالیٰ کے رسول ﷺ کی راہ میں قربانی دیتے ہوئے اگر مال ، اولاد، رشتہ دار زیادہ عزیز لگیں تو یہ اطاعت سے نکلنا ہی ہوا کیونکہ بیعت کرتے وقت عہد تو یہ باندھا تھا کہ ”ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گی لیکن جب امتحان کا وقت آیا تو دنیا بہت حسین بہت پرکشش لگنے لگ جاتی ہے.عہد تو یہ باندھا کہ ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتے رہیں گے لیکن ہوتا کیا ہے کہ کسی کا حق مارلیا.کسی پر ظلم کیا، اپنے محلہ میں ہر وقت لڑائی فساد کرتے رہے اور امن اور سلامتی کے ماحول میں بدمزگی پیدا کرتے رہے.عہد تو یہ کیا تھا کہ اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دیں گے.نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہماری زبانوں سے بھی دُکھ پہنچتے ہیں اور ہمارے ہاتھوں سے بھی.عہد تو یہ باندھا تھا کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز رہیں گے.قال اللہ اور قال الرسول کو اپنی ہر ایک راہ میں دستور العمل قرار دیں گے لیکن ہوتا یہ ہے کہ خاوند بیوی کا پردہ چھڑانا چاہے تو بیوی خاوند کی خوشنودی کی خاطر قرآن کا صریح حکم بھول جاتی ہے.آنحضرت ﷺ کا ارشاد بھول جاتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیصلے یاد نہیں رہتے.کیا یہی عہد بیعت ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہ ایسا اعلیٰ درجہ کا عقد اخوت ہو کہ اس کی نظیر

Page 611

593 دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.میری عزیز بہنو! ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے جن کے ذریعہ ہم نے زندہ خدا کا چہرہ دیکھا.جن کے ذریعہ ہمیں زندہ نبی آنحضرت ﷺ پر ایمان نصیب ہوا.آپ کو اللہ تعالیٰ نے مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ میں انہیں ان کے غیروں پر قیامت تک فوقیت دوں گا.“ جن کے متعلق خدا تعالیٰ کا اپنے مسیح سے وعدہ تھا کہ " جو لوگ تجھ سے بیعت کریں گے خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوگا.“ لیکن نام کی بیعت نہیں بلکہ حقیقت میں جو عہد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہم نے آپ کے خلیفہ کے ہاتھ پر باندھا اس کو پورا کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے یہ وعدے ہمارے حق میں پورے ہو سکتے ہیں.کل ہی ہمارے پیارے آقا نے آپ کو ہوشیار فرمایا ہے کہ کہیں بعد میں آنے والی بہنیں آپ سے قربانیوں میں آگے نہ بڑھ جائیں.دوڑ میں وہی آگے نکل سکتا ہے جو مسلسل قربانیاں دیتا چلا جائے.تھوڑی دور چل کر تھک جانے والا منزل حاصل نہیں کر سکتا.اپنی قربانیوں کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے بہت ہی ضروری ہے کہ اگر اپنی اصلاح اور اپنی قربانیوں کے معیار کو بلند کیا جائے تو دوسری طرف اپنی اولا د کو پورے طور پر تیار کیا جائے جو ہماری جگہ لے سکے بلکہ ہم سے زیادہ قربانیاں دینے والی ہو.میں نے اجتماع کے پہلے دن بھی آپ کو توجہ دلائی تھی اور اب پھر اس طرف توجہ دلاتی ہوں کہ ہمارے ذمہ تربیت کا بہت بڑا کام ہے ہر عورت اپنے بچوں کی ذمہ دار ہے.یہ آپ کے اختیار میں ہے خواہ آپ ان میں خدا اور اس کے رسول کے عشق میں فنا ہو جانے کا جذبہ پیدا کر دیں یا اس کے بالمقابل دنیا کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کر دیں.رُعب دجال کو ان کے دلوں سے دور کریں کہ موجودہ زمانہ میں اسلام پر دجالیت کا یہ سب سے بڑا حملہ ہے.جب عقائد کے میدان میں عیسائیت نے شکست کھائی تو اسلام پر حملہ کیا.پس تربیت کے لئے کوشش کے ساتھ ساتھ دعائیں کریں بے حد.اپنی نسلوں کے لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضلوں کا وارث اور اپنے بچے عبد بنائے.دعائیں مانگیں مظبوطئی ایمان کے لئے.دعائیں مانگیں رشد و ہدایت کے لئے.دعائیں مانگیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.خصوصاً وہ دعائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے فرمائیں.مصباح نومبر 1970ء

Page 612

594 افتتاحی خطاب بر موقع سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ 1971ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض ایک نیا روحانی نظام کا قائم کرنا تھا.اور ایک نیا روحانی آسمان اور زمین بنانا تھا.آپ نے فرمایا کہ مردوں عورتوں، بچے، بچیوں نے بڑی عظیم الشان قربانیاں اس عمارت کے بنانے کے لئے کیں جس کی غرض سے آپ تشریف لائے تھے.انہوں نے اپنا کام کیا اور چلے گئے.آئندہ آپ پر اس کی ذمہ داری پڑتی ہے.اس لئے آپ کو اپنے اندر وہ اعلیٰ اخلاق ، اعلیٰ کردار، روحانیت و انسانیت کی خدمت کا جذبہ اور نیکی پیدا کرنی چاہئے جو ایک قوم کے زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے.آپ نے ناصرات الاحمدیہ کو ایک اچھا شہری بننے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا:.ہماری قوم کے ہر فرد اور ہر مسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ ایک اچھا شہری بنے.سچائی اس کا شعار ہو.اعلیٰ قسم کی دیانتداری اس کا وصف ہو.بے لوث خدمت کا جذ بہ اور شوق اس کے اندر پایا جاتا ہو.اسی طرح جماعت اور ساری دنیا کے لئے قربانی دینے کا جذبہ اس میں پایا جاتا ہو.“ نیز بچیوں کو کتاب یا درکھنے کی باتیں حفظ کرنے کی طرف توجہ دلائی جس کو سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بچیوں کے نصاب میں رکھا تھا.اور اسے حفظ کرنے پر زور دیا تھا.آپ نے اس بات پر اظہار افسوس کیا کہ سوائے چند لجنات کے اس بارہ میں تسلی بخش رپورٹ موصول نہیں ہوئی حالانکہ ہمیں چاہئے کہ بچیوں کے اندر یہ احساس پیدا کریں کہ ہمارا سب سے پہلا کام وہ ہونا چاہئے جس کا خلیفہ وقت حکم دے.وقف جدید" کے چندہ کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلائی.ہر بچی کو اچھا شہری بنے اور پاکستان کی سالمیت وبقا کے لئے دعائیں کرنے کی تلقین کی.نیز سچ بولنے، بنی نوع انسان کی خدمت کرنے علم سیکھنے اور سکھانے اور قوم کی خدمت کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی.( الفضل 22 دسمبر 1971ء)

Page 613

595 افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ 1971ء تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.نمائندگان لجنہ اماءاللہ اور عزیز بہنو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا چودھواں سالانہ اجتماع منعقد ہورہا ہے ہماری بہنوں کو خدا تعالیٰ نے پھر ایک بار توفیق عطا فرمائی اور وہ دور دراز کا سفر کر کے اپنی لجنہ کی نمائندگی کرتے ہوئے مرکز میں تشریف لائی ہیں.پروگرام میں حصہ لینے کے لئے ناصرات کی بھی اور لجنہ کی بھی ممرات ان کے ساتھ آئی ہیں.میری دعا ہے اور ان کی کوشش ہونی چاہئے کہ یہاں رہتے ہوئے ان کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو.مرکز خود اپنے ساتھ بہت سی برکتیں رکھتا ہے.ان دنوں میں دعائیں بے حد کرنی چاہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس نصب العین اس مقصد اور اس منزل کو حاصل کرنے کی توفیق دے جس کو حاصل کرنے کے لئے حضرت مصلح موعود نے انچاس سال قبل لجنہ اماءاللہ کی بنیاد رکھی تھی.آج لجنہ ایک چھوٹی سی مجلس نہیں ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا کے قریباً ہر اس ملک میں جہاں احمدی افراد پائے جاتے ہیں اس کی شاخیں قائم ہو چکی ہیں اور بڑی اچھی اور منظم صورت اختیار کر چکی ہیں.حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کئی تقاریر میں جو جلسہ سالانہ اور اجتماع کے موقع پر آپ نے فرما ئیں ہمیں توجہ دلائی ہے کہ ہماری باہر کی بعض خواتین ہماری پاکستان کی خواتین سے زیادہ قربانی دینے والی ہیں اور اس دوڑ میں جو ساری خواتین کی دوڑ ہے.باہر کی خواتین بہت آگے نکلتی جاری ہیں.پس آپ کو بھی اس دوڑ میں اپنے قدم تیز کرنے چاہیں.یہ اجتماع جو ہر سال منعقد کیا جاتا ہے اس کی غرض صرف یہ نہیں کہ آپ یہاں بچیوں کو تقریریں کروانے یا کھیلوں میں شامل کرنے کے لئے لے آیا کریں اور انعام حاصل کر کے واپس چلی جایا کریں.دراصل یہ اجتماع اس غرض سے کیا جاتا ہے کہ یہاں تمام سال کے کاموں کا جائزہ لیا جائے اور جائزہ لے کر پھر آئندہ کے لئے مشورے کئے جائیں اور پھر ان پر عمل کیا جائے تا ہمارا قدم رُکے نہیں بلکہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے اس سال کی رپورٹوں کا جائزہ لینے پر بہت سی نمائندگان سے دوران سال بھی اور اجتماع کے موقع پر بھی اور جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی اور جب بھی کوئی موقع ملا ان سے لجنہ کے متعلق بات کر کے اس نتیجہ پر

Page 614

596 پہنچی ہوں کہ پچھلے دو سال سے بے شک ہمارے چندے زیادہ ہورہے ہیں اور تعلیم بھی بڑھ رہی ہے لیکن ہماری عورتوں کے کاموں پر کچھ جمود طاری ہیں ایک زندہ قوم کی خواتین میں ایک زندہ رہنے والی جماعت میں ایک فعال تنظیم میں یہ جمود طاری نہیں ہونا چاہئے کیونکہ جہاں جمود طاری ہوا وہاں بظا ہر قوم پر موت کے آثار طاری ہو گئے.مومن کا تو ہر قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے کہیں ٹھہرتا نہیں.یہ صحیح ہے کہ اگر ہم گذشتہ حالات کا جائزہ لیں تو ہماری وہ بجنہ اماءاللہ جو چودہ ممبرات سے شروع ہوئی تھی آج دنیا کے ہر کونے میں اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں لیکن ابھی تک ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو ہمارا نصب العین اور حقیقی مقصد تھا کہ ہماری ہر عورت نمونہ ہو اسلام کی تعلیم کا.ہماری ہر عورت کے اندر وہ محبت اور عشق کی آگ لگی ہوئی ہو کہ اس کی حقیقی زندگی کا مقصد جورب حقیقی سے تعلق پاتا ہے وہ اس نے حاصل کرنا ہے.جب مجھے اپنی بہنوں سے، ان کی نمائندگان سے ، ان کی عہدہ داران سے ملنے کا موقع ملا تو ہر لجنہ یہ شکایت کر رہی ہوتی ہے کہ کوئی کام کرنے کے لئے آگے نہیں آتا.آپ کبھی دورہ کریں یا پھر کسی لجنہ کی عہدہ دار کو بھجوائیں جو ہم میں بیداری پیدا کرے.یہ خیال ہی غلط ہے کسی انسان پر کیوں انحصار کیا جائے کہ وہ جائے تو بیداری پیدا ہو.آپ کو خود کوشش کرنی چاہئے.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر جگہ ہماری جماعتیں قائم ہیں.ہر جگہ لجنہ قائم ہے اور تعلیم کی بھی کمی نہیں ہے خصوصاً ہماری نئی پود میں.صرف یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ تم کس جماعت کیساتھ وابستہ ہو تم کس نام کے ساتھ وابستہ ہو.تمہارا کیا کام ہے.تمہارا کام دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے مگر اس نصب العین کو سامنے رکھ کر ہماری ہر عہدہ دار ہماری ہر نمائندہ.ہماری ناصرات کی ہر بچی اور لجنہ کی ہر ممبر اپنا یہ نصب العین بنالے ہر شعبہ میں خواہ وہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو ہمارا کام دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے تو ہم بہت جلد اپنے نصب العین کو حاصل کرنے والے ہو سکتے ہیں.لیکن ایک لجنہ میں صرف ایک عہدہ دار یا دو عہدہ داروں کے اندر زندگی کا پایا جانا اور باقی تمام نمبرات کا ان کے ساتھ تعاون نہ کرنا ایک زندہ قوم کی خواتین کے شایان شان نہیں.ہم یہ نہیں پسند کرتے کہ صرف صدر اور سیکریٹری یا سیکرٹری مال یا سیکرٹری تعلیم اور ان کی جو عہدہ داران ہیں ان کے اندر زندگی ہو اور وہ گھر گھر پھر کر چندہ جمع کریں اور گھر گھر پھر کر بہنوں سے التجا کریں کہ آؤ ہم سے پڑھو اور دین کا علم سیکھو.بلکہ ان کے اپنے دلوں میں یہ آگ لگی ہوئی ہونی چاہئے کہ

Page 615

597 ہمیں خدا تعالیٰ نے بے فائدہ نہیں پیدا کیا.ہمیں کچھ کرنا چاہئے.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو اس غرض سے پیدا کیا ہے تاکہ ساری دنیا آپ کے جھنڈے تلے جمع ہو.جب تک ہم میں سے ہر عورت کے اندر یہ آگ نہیں لگی ہوگی کہ جس صداقت کو ہم نے حاصل کیا ہے اس صداقت کو دنیا کے ہر فرد تک پہنچائیں اور جس روحانی علم کو ہم نے حاصل کیا ہے اس علم کو ہم دوسروں تک پہنچائیں اور جو نصب العین ترقی کا ہمارے سامنے ہے یہی دوسروں کے سامنے رکھیں اور ہم سب مل کے اس نصب العین کو حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہیں تب ہمارا نصب العین پورا ہوسکتا ہے.تب ہماری قوم ترقی کر سکتی ہے ورنہ پھر سال کے بعد یہ پیش کر دینا کہ اتنا چندہ ہوا ہے.اتنے فی صد ہماری قرآن شریف جانتی ہیں اور اتنی ترجمہ جانتی ہیں اور اتنی نے امتحان میں حصہ لیا ہے.یہ تمام کے تمام کام ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اصل کام یہی ہے کہ ہر عورت کے اندر ہر ایک بچی کے اندر ایک محبت اور عشق کی آگ لگ جائے اپنے رب کے لیے.ایک محبت اور عشق کی آگ لگ جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اور آپ ارشادات کے پر عمل کے لئے اور حقیقی عشق اور محبت پیدا ہو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اور آپ کے خلفاء سے اور خلافت سے کیونکہ خلافت وہ نکتہ مرکزی ہے کہ جس کے ساتھ وابستہ رہ کر ہی ہر ایک تنظیم ترقی کرسکتی ہے اور جماعت کا ہر فرد بھی اگر ہماری تنظیم اتنی اچھی ہو اور اس کی ہر عورت اور ہرلڑکی کے اندر یہ جذبہ ہو کہ جو آواز مرکز سے اُٹھے گی.ہم میں سے ہر ایک نے اس پر لبیک کہنا ہے تو خواہ نمائندگان آئیں یا نہ آئیں ان کی سیکرٹری یا صدر وغیرہ ان سے کسی کام کرنے کے لئے کہیں یا نہ کہیں وہ دل وجان سے کہیں گے کہ ہم نے سنا ہے اور اس پر عمل کرنا ہے.آئندہ نسل کی بنیاد اور آئندہ ماؤں کی روحانی تربیت کا انحصار اس نسل پر ہے قریباً دو یا تین سال سے اپنی نمائندگان اور بہنوں کو اس طرف توجہ دلا رہی ہوں کہ اگر آپ چاہتی ہیں کہ آئندہ آنے والے مورخ آپ کی تاریخ کو سنہری الفاظ میں لکھیں تو یہ سنہری حروف میں لکھی جانے والی تاریخ تب کہی جاسکے گی جب آپ قربانیاں دیں گی اور اپنی نسل کی اعلیٰ تربیت کریں گی اور حقیقی اور سچا مسلمان اپنے بچوں اور بچیوں کو بنائیں گی.لیکن اگر آپ نے ان کو بے لگام چھوڑ دیا.خدا کی محبت ان کے دلوں میں پیدا نہ کی، دین سے محبت کرنا ، دین کے اصول وغیرہ نہ سکھائے تو پھر آنے والی نسلوں کو نہ صرف آپ کے کاموں پر غصہ آئے گا بلکہ شاید وہ روشن تاریخ تاریک الفاظ کی صورت اختیار کر جائے.آج جب صحابیات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات پڑھتے ہیں اور ان کی قربانیوں کو دیکھتے ہیں

Page 616

598 تو قدرتی طور پر ہر ایک کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش! ہم نے بھی وہ زمانہ دیکھا ہوتا بے شک ہم نے وہ زمانہ نہیں دیکھا لیکن یہ زمانہ بھی اس زمانے کی کڑی ہے اس سے فائدہ اٹھانا اپنے وقت کو ضائع نہ کرنا.اپنے وقت کا صحیح استعمال کرنا اور اس کا اس رنگ میں استعمال کرنا کہ آپ اور آپ کی اولادوں کے ہاتھوں آئندہ اسلام کا جھنڈا ہو وہ اسلام کی خاطر اپنی جانیں دینے والے ہوں.اسلام کی خاطر قربانیاں کرنے والے ہوں.اسلام ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہو.یہ مطمع نظر اور یہ حقیقی مقصد ان کے پیش نظر رکھنا آپ کا فرض اولین ہے.قرآن مجید نے بھی یہی تعلیم دی ہے.قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاءُ كُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِّنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ (سورة التوبه : 24) کہ اگر تمہارے باپ دادے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارتیں جن کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور وہ مکان جن کو تم پسند کرتے ہو تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کے راستہ میں جہاد کرنے کی نسبت زیادہ پیارے ہیں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے فیصلہ کو ظاہر کرے.یعنی ہمیں ہر چیز سے اللہ تعالیٰ نے ایک حد تک محبت کرنے کی تعلیم بھی دے دی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا ہے کہ اگر خدا اور خدا کے رسول کی محبت تمہارے گھر کی محبت سے ٹکرائے تو گھر کو چھوڑ دو.اگر خدا اور خدا کے رسول کی محبت سے تمہارے ماں باپ کی محبت ٹکرائے تو انہیں قربان کر دو اور اگر خدا اور خدا کے رسول کی محبت سے تمہاری اولادوں کی محبت ٹکرائے تو انہیں چھوڑ دو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں:.ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ خدا کی مرضی کو چھوڑ کر اپنے عزیزوں اور اپنے مالوں سے پیار کرتے ہیں وہ خدا کی نظر میں بدکار ہیں وہ ضرور ہلاک ہوں گے کیونکہ انہوں نے غیر کو خدا پر مقدم رکھا.یہی وہ تیسرا مرتبہ ہے جس میں وہ شخص با خدا بنتا ہے جو اس کے لئے ہزاروں بلائیں خرید لے اور خدا کی طرف ایسے صدق اور اخلاص سے جھک جائے کہ خدا کے سوا کوئی اس کا نہ رہے گویا سب مر گئے.پس سچ تو یہ ہے کہ جب تک ہم خود نہ مریں زندہ خدا نظر نہیں آسکتا.خدا کے ظہور کا وہی دن ہوتا ہے کہ جب ہماری جسمانی زندگی پر موت آوے.ہم اندھے ہیں جب تک غیر کے دیکھنے سے اندھے نہ ہو جائیں.ہم مُردہ ہیں جب تک خدا کے ہاتھ میں مُردہ کی طرح نہ ہو جائیں.جب ہمارا منہ ٹھیک ٹھیک اس کے محاذات میں

Page 617

599 پڑے گا تب وہ واقعی استقامت جو تمام نفسانی جذبات پر غالب آتی ہے ہمیں حاصل ہوگی اس سے پہلے نہیں اور یہی وہ استقامت ہے جس سے نفسانی زندگی پر موت آجاتی ہے.“ روحانی خزائن جلد 10 اسلامی اصول کی فلاسفی ص 383 یہی تعلیم عہد بیعت کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دی تھی.ہماری ہر عورت اور مرد جو بیعت کرتا ہے.اس کا عہد یہی ہوتا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.اس کا عہد یہی ہوتا ہے کہ جو آپ نیک کام بتائیں گے.اس پر پورا عمل کروں گا.لیکن اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے نفس کا جائزہ لے تو کتنے ہیں جو اس بات پر پورے اترتے ہیں کہ ہم نے خدا اور خدا کے رسول ﷺ اور خدا کے رسول ﷺ کے خلیفہ کی آواز پر سو فیصدی لبیک کہا ہے.اس وقت ہمارے ملک کو بھی ، ہمارے وطن کو بھی.اسلام کو بھی احمدیت کو بھی ضرورت ہے ایسی ماؤں کی جو ہر قربانی دینے کے لئے ہر وقت تیار ہیں ہم ہر اجلاس میں عہد نامہ دہراتی ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی خاطر ہم اپنے پاکستان اور اپنی قوم کی خاطر نہ اپنی جان کی پرواہ کریں گے، نہ اپنے مال کی پرواہ کریں گے، نہ اپنی اولاد کی پرواہ کریں گے.اور نہ اپنے وقت کی لیکن جب ان کے اجلاسوں کی حاضریوں کا جائزہ لیا جاتا ہے ، جب ان کی رپورٹیں پڑھی جاتی ہیں تو اس سے اکثر پچاس فی صدی عورتیں حاضر نہیں ہوتیں بلکہ تیں یا پچیس فیصدی ہوتی ہیں جو اجلاسوں میں حاضر ہوتی ہیں.یہی وہ کسوٹی ہے جس کے اوپر انسان کا ایمان پر کھا جاتا ہے جس کے اوپر اس کی قربانی کے معیار کو پر کھا جاتا ہے کہ تم نے اپنی خواہش اور اپنی خوشی کو تو مقدم رکھا لیکن خدا کے رسول اور اس کے خلیفہ کے جو دینی مطالبے ہیں ان کو پس پشت ڈال دیا.پس جہاں ہماری عہدیداروں کا یہ کام ہے کہ وہ بہنوں کو سختی سے نہیں نرمی سے محبت سے پیار سے ان کے اندر ایک زندگی پیدا کریں.یہ احساس دلاتے ہوئے کہ تم ایک زندہ جماعت کی خواتین ہو تمہیں احمدیت کا نام زندہ رکھنا ہے تم نے اپنی قربانیوں سے ستاروں کی طرح آسمان احمدیت پر چمکنا ہے.یہ احساس اگر آپ ہر بچی اور ہر عورت کے دل میں پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ دن دور نہیں کہ جب حقیقی اسلام دنیا میں پھیل جائے.اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عورت ہی وہ ہستی ہے جس کے ہاتھ میں دراصل قوم کی باگ ڈور ہوتی ہے.ہماری وہ چھوٹی چھوٹی بچیاں جن کو ہم اس وقت سمجھتی ہیں کہ وہ سکولوں میں پڑھ رہی ہیں اب جو چاہیں وہ کریں.بے لگام چاہیں پھر میں جو ان کا دل چاہے کریں

Page 618

600 بڑے خوش ہیں ہماری بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں.اور دنیا کی دوڑ میں حصہ لے رہی ہیں.یہ آپ کا مقصد نہیں جب تک آپ کی ہر بچی دین کی تعلیم سے آراستہ نہ ہو جائے جب تک آپ کی ہر بچی نماز کی پابند نہ ہو.جب آپ کی ہر بچی کو مذہب سے وہ دلچسپی نہ ہو جو خود آپ کو ہے آپ کو چین سے نہیں بیٹھنا چاہئے.آج وہ کھیلنے کودنے اور دوڑنے والی بچی ہے کل اس نے انگلی نسل کی ماں بننا ہے.خود جس کو دین نہیں آتا ہوگا جس کو خود قرآن نہیں آتا ہوگا جوخود نماز کی پابند نہیں ہوگی جس کے دل میں خود دین کے لئے محبت اور تڑپ نہیں ہوگی.جس کے دل میں جماعت کی ترقی کے لئے خواہش نہیں ہوگی وہ کس طرح اپنے بچوں کو اس بات کی تعلیم دے گی کہ اُٹھو اور دین کی مدد کرو.کئی دفعہ میں نے پہلے بھی توجہ دلائی ہے کہ ہماری ہر خاتون کو ہماری ہر بچی کم از کم ناصرات معیار اول کی بچی کو ابتدائی طبی امداد کے اصولوں سے واقف ہونا چاہئے.یہاں اجتماع سے واپس جاتے ہی ہماری تمام لجنات ایسے پروگرام بنائیں جس کے ذریعہ مستورات کو ابتدائی طبی امداد کے ضروری اصولوں سے واقف کروایا جائے.یہ ضروری نہیں کہ اس کا کوئی امتحان پاس کیا جائے.امتحان اس کے ہوتے ہیں وہ بھی پاس کرنا مشکل نہیں لیکن اگر وہ نہ بھی ہوں تب بھی ہر عورت کو ابتدائی طبی امداد سیکھنی چاہئے تا کہ ہر موقعہ پر جب بھی کوئی ضرورت پیش آئے ہماری احمدی خواتین اپنی خدمات پیش کر سکیں.اسی طرح سول ڈیفنس کے اصول ہیں.اس کی تربیت ہر عورت کو ہونی چاہئے.یہ چیزیں دیکھنے میں نہایت معمولی لگتی ہیں لیکن نہایت ضروری ہیں.یہ ضروری ہیں اپنے گھر کی حفاظت کے لئے اور اپنے ملک کی حفاظت کے لئے ہماری بہنوں کو کم از کم شہری بہنوں کو ان کی اچھی تربیت ہونی چاہئے.یہ نہیں کہ دس یا پندرہ یا ہیں کو آپ سکھا دیں پہلے دس پندرہ یا ہمیں سیکھیں پھر اپنے حلقے میں سکھا ئیں اور پھر ان کی رپورٹ بھجوائیں کہ ہم نے اتنوں کو تعلیم دی ہے.گزشتہ سال حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان الفاظ میں آپ کو توجہ دلائی تھی کہ اس سال کے لئے یہ پروگرام مقرر کرتا ہوں کہ ہماری بچیاں اور بچے یا درکھنے کی باتیں حفظ کریں حضور نے فرمایا تھا کہ یہ عمر ایسی ہوتی ہے کہ جس میں بچہ حفظ زیادہ کر سکتا ہے.سمجھنے کی ہمت کم ہوتی ہے.اس لئے ان کے ذہنوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے جس طرح حضور نے پچھلے سے پچھلے سال سورۃ البقرہ کی آیات یاد کرنے کا ارشاد فرمایا تھا اور اس پر ہماری لجنات نے بڑا اچھا عمل کر کے دکھایا اس سال اس کتاب کے یاد کرانے پر زور دیا جائے.

Page 619

601 لیکن ایک آدھ لجنہ کے سوا کسی لجنہ نے یہ رپورٹ نہیں دی کہ سال رواں میں ہماری اتنی بچیوں نے کتاب مکمل یاد کی ہے.اور اس کے نتیجہ میں ہم حضور کی خدمت میں کوئی رپورٹ نہیں پیش کر سکے کہ سال میں کتنی لڑکیاں ہیں جو مکمل یاد کر چکی ہیں اور کتنی لڑکیاں ہیں جنہوں نے اتنی اتنی یاد کی ہے.اگر تو آپ نے کام ہی کیا نہیں تب تو بہت ہی غفلت والی بات ہے اور اگر آپ نے کام کیا ہے اور رپورٹ نہیں دی تب بھی یہ غفلت کی بات ہے بہر حال جو نمائندگان یہاں آئی ہوئی ہیں اگر ان کے حلقے میں، شہر میں بچیوں نے یہ یاد کی ہیں اور ان کو پنی صحیح تعداد کا علم ہے تو ہمیں تعداد لکھیں کہ اتنی نے مکمل ، اتنی نے نصف یاد کی ہیں.مکمل یاد کرنے والیوں کو سندات بھجوائی جائیں گی.دوسری چیز جس کا ناصرات سے تعلق ہے اور آپ سے اس کا ذکر کرنا ضروری ہے کیونکہ تربیت دینے والی تو آپ ہیں اور وہ ہے چندہ وقف جدید مجھے چند دن ہوئے جور پورٹ ملی ہے وہ بڑی مایوس کن ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پچاس ہزار روپے دفتر اطفال کے سپرد کئے تھے.50 ہزار وقف جدید کے بچوں کے ذمے تھے لیکن ابھی تک اس میں بھی ربوہ اور لاہور کے سوا باقیوں کا چندہ خاصا کم ہے بعض جگہ خاصی تعداد نا صرات کی ہے لیکن ایک روپے چندہ آیا ہوا ہے سارے سال کا.کہیں سے صرف دور و پلے آیا ہوا ہے چار یا چھ روپے آئے ہوئے ہیں حالانکہ اس سے زیادہ تو بچیاں چھوٹی چھوٹی چیزوں پر خرچ کر دیتی ہیں بہر حال اس چندہ کی طرف میں خصوصیت سے توجہ دلاتی ہوں کہ اپنے آقا کی آواز پر لبیک کرنا تو ہمارا سب سے اولین فرض ہے اس کے بعد میں لجنات کی ان تحریکات کو جو کئی سال سے شروع ہیں آپ کے سامنے پھر ایک دفعہ دہرانے پر مجبور ہوں کہ آپ سوچ کے اور کوئی اچھی سکیم بنا کر شورٹی میں لے آئیں.1968ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے آپ کے سامنے تحریک خاص کی تحریک تھی جس کو از راہ شفقت حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے منظوری عطا فرما کر پیش کرنے کی اجازت دی تھی.میرا اندازہ تھا کہ 1972ء تک جب ہماری لجنہ پر پچاس سال گذر جائیں گے ہم پانچ چھ لاکھ کی رقم جمع کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے.1969ءگز را1970ء گزرا اور 1971ء گزر رہا ہے صرف تین مہینے باقی ہیں اکتوبر نومبر اور دسمبر ابھی تک وعدے صرف چار سوا چاریا ساڑھے چار لاکھ کے ہوئے ہیں اور وصولی ایک لاکھ ستانوے ہزار.اگر تین سال میں ہم نے صرف ایک لاکھ ستانوے ہزار جمع کئے ہیں تو آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ رقم پوری کرنے میں کتنا وقت لگے گا.جو لطف جلدی کام کرنے میں آتا ہے وہ سالہا سال اگر کرتے رہیں تو اس سے وہ لطف جاتا رہتا

Page 620

602 ہے.جو عملی طور پر کام کرنے تھے ان میں سے سوائے تاریخ بجنہ کے اور کوئی کام نہیں ہوا پہلی جلد 1970ء کے جلسہ پر بہنوں کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہے.سینکڑوں نے اس کو پڑھا ہوگا.اور بہت سی بہنوں کے خطوط بھی موصول ہوئے ہیں.جو کتاب چھپ جائے.اس کی قدر کریں خصوصاً اپنی کتاب کی جو لجنہ کے بارے میں ہے وہ بھی آپ کی بزرگ خواتین کی قربانیوں پر مشتمل ہے اس کے پڑھنے کے ساتھ ہی آپ کے اندر یہ جذبہ بھی پیدا ہوگا کہ ہم سے پہلی خواتین نے اتنی عظیم الشان اور شاندار قربانیاں دی ہیں ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلیں.تاریخ لجنہ جلد دوم لکھی جاچکی ہے اور عنقریب کا تب کے حوالے کی جائے گی.انشاء اللہ....جلسہ سالانہ پر آپ کے ہاتھ میں ہوگی جو ستمبر 1947ء سے دسمبر 1958ء کے حالت پر مشتمل ہوگی اور آئندہ سال 1959ء سے 1972 تک تیسری جلد شروع کی جائے گی.اس لئے میں توجہ دلاؤں گی اپنی بہنوں کو کہ یہ تحریک صرف اور صرف لجنہ کی تحریک ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے مالوں میں برکت دے یہ درست ہے کہ چندوں کے لحاظ سے ہماری جماعت قربانی دینے والی جماعت ہے ہر چندہ میں آپ نے حصہ لیا ہے خواہ وہ جماعتی چندے ہوں یا جن کی تحریک حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے.آپ نے حصہ لینا ہے.لیکن اس تحریک کو کامیاب بنانا آپ کا فرض ہے جو خود آپ کی اپنی لجنہ کی تحریک ہے.کیونکہ ہم نے مردوں سے تو چندہ نہیں لینا بہر حال عورتوں سے لیتا ہے اور اس کو پورا کرنا ہے.اور اس کی طرف اس سال میں خصوصی توجہ دلاتی ہوں.سائنس بلاک کا چندہ بھی چار سال سے شروع ہے.سائنس بلاک کی عمارت مکمل ہو چکی ہے.عنقریب ہم انشاء اللہ اس کی عمارت کا افتتاح کر رہے ہیں.کلاسیں شروع ہو چکی ہیں.پڑھائی ہورہی ہے.اس کی رقم 75 ہزار لجنہ کے ذمہ تھی.75 ہزار انجمن کے ذمہ رقم ہم نے قرض لے کر ادا کر دی ہے.ابھی تک بہنوں نے 60 ہزار روپے ادا کئے ہیں اس کی طرف بھی توجہ دلاؤں گی اس کے لئے یہ تجویز تھی کہ آپ یہ چندہ ہر ایک پر نہ ڈالیں بلکہ صرف قابل استطاعت بہنیں جو تین سو یا اس کے لگ بھگ دے سکتی ہیں ان سے لیں اب صرف پندرہ ہزار مزید جمع کرنا ہے.بہت جلد پورا ہو جانا چاہئے.لیکن تحریک میں تو ہر بہن حصہ لے یہ ایک بہت بڑی تحریک ہے.ہر بہن اس میں حصہ لے کوئی بہن یہ نہ کہے کہ ہم اس قربانی سے محروم رہ گئی ہیں.میں امید کرتی ہوں کہ آپ کی اپنی اور سب کی بھلائی اور لجنہ کی ترقی کی خاطر جو کچھ میں نے بہنوں

Page 621

603 کے سامنے اظہار خیال کیا ہے کہ تمام نمائندگان لجنہ کے ذریعہ میری یہ آواز باہر کی لجنات میں دوسری بہنوں تک پہنچے گی اور آئندہ جو رپورٹیں آئیں گی خصوصی توجہ کا اظہار ان میں پایا جاتا ہوگا.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے کہ آپ اپنے ملک وطن قوم اور مذہب کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں دے سکیں.آمین.الفضل 22 دسمبر 1971ء

Page 622

604 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 1971ء تشہد تعوذ اور آیت کریمہ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِينَا أَوْ أَخْطَانَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَالَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ( البقرہ: 287) کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہم سب بہنوں کو توفیق عطا فرمائی.اس اجتماع میں شمولیت کی اور اس کو کامیاب بنانے کی.اپنی گزشتہ سال کی کارروائیوں کا جائزہ لینے کی اور آئندہ سال کے پروگرام بنانے کی.دور دور سے بھی اور قریب سے بھی نمائندگان اور بچیاں اس گرمی کے موسم میں تکلیف اٹھا کر اجتماع میں شمولیت کی غرض سے آئیں.اپنی طرف سے منظمات اور کارکنات نے ان کو ہر طرح کا آرام پہنچانے کی کوشش کی ہے لیکن پھر بھی انسان سے ہی غفلت ہوتی ہے.اگر کسی مہمان کو یہاں کی کارکنات اور مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو ہم سب اس کے لئے معذرت خواہ ہیں.اس کے بعد میں تمام بہنوں اور بچیوں کو جنہوں نے انعامات حاصل کئے ہیں لجنات کو تہہ دل سے مبارکبار پیش کرتی ہوں.اللہ تعالیٰ ان لجنات کو بھی جو کسی وجہ سے انعامات حاصل نہیں کر سکیں.آئندہ سال زیادہ بہتر کام کرنے اور انعامات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.سب سے پہلی توجہ میں اپنی بہنوں کو جس بات کی طرف توجہ دلاتی ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری ہر بچی کو، ہماری ہر بہن کو ان دنوں دعاؤں پر خصوصیت سے زور دینا چاہئے.ہماری یہ چھوٹی سی ایک جماعت ہے جس کی بنیا د حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ قائم کی گئی.لیکن یہی وہ ایک واحد جماعت ہے کہ جس کی قیادت اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ وقت کو سپرد کی گئی ہے.بڑی بڑی تنظیمیں ہیں دنیا میں.بڑی بڑی انجمنیں ہیں ساری دنیا میں.بڑے پیسے والے ممالک ہیں اور قومیں ہیں لیکن کوئی قوم یہ دعوی نہیں کر سکتی کہ بحیثیت قوم کے ہمارا کوئی ایسا لیڈر ہے جو ہماری روحانی قیادت کر رہا ہے.یہ ایسا عظیم الشان انعام ہے کہ اس انعام کی وسعتوں کا تصور بھی دوسرے لوگ نہیں کر سکتے اس سے بڑا انعام اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا جو اللہ تعالیٰ نے محض اور محض اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کو عطا کیا ہے اور وہ انعام ہے خلافت احمد یہ.انعام کی قدر صرف زبانی دعووں سے نہیں کی جاسکتی.ہم منہ سے کتنی ہی تقریریں کریں کہ ہم خلیفہ وقت کے

Page 623

605 ایک اشارہ پر اپنی جان مال قربان کر دینے کو تیار ہیں.جب تک دنیا کو عملی طور پر یہ نظر نہ آئے کہ واقعی یہی جماعت اتنی قربانی دینے والی، اتنی اطاعت گزار، اتنی خلافت سے محبت رکھنے والی جماعت ہے کہ حقیقت میں اس کی خواتین اور بچیاں بھی خلیفہ وقت کی ایک آواز پر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کو تیار ہیں اگر یہ نظارہ دنیا کو نظر آ جائے تو آپ کی کسی زبانی تقریر اور دعوے کی ضرورت باقی نہیں رہتی.ہم منہ سے تو بہت کچھ کہتے ہیں.ہمارا عمل اس کے خلاف ہوتا ہے.قدر کا طریق سب سے پہلا تو یہی ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحت لمبی عمر ، آپ کے مقاصد میں کامیابی اور آپ کے ذریعہ سے اسلام کا جھنڈا ساری دنیا میں لہرائے جانے کی دعا درد دل سے پانچوں نمازوں میں اور تہجد میں ہر بچی اور ہر عورت کرے.یہ وہ دعا ہے جو صرف آپ کے لئے دعا نہیں ہے بلکہ ساری جماعت کے لئے دعا ہے.آپ کے ساتھ دعا کرنے میں ساری جماعت آجاتی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو صحت عطا کرے.اللہ تعالیٰ آپ کو صحت کے ساتھ اپنے تمام مقاصد میں اعلیٰ کامیابی عطا فرمائے.جس غرض سے اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو قائم کیا ہے کہ دنیا میں صرف ایک ہی مذہب ہو.اسلام.اور ساری دنیا ایک ہی کلمہ پڑھتی ہو اور ساری دنیا ایک ہی جھنڈے تلے جمع ہو جائے اور ساری دنیا نبی کریم ﷺ کو اپنا نجات دہندہ مان لے اور ساری دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غلامی میں آجائے وہ مقصد جلد تر پورا ہو.یہ تو خدا کا وعدہ ہے اور جس بات کا خداوعدہ کر لے زمین و آسمان ٹل جائیں.نئی زمین و آسمان پیدا ہوں اور وہ بھی ختم ہو جائیں لیکن خدا کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں کبھی بدل نہیں سکتیں.الہی تقدیر ہے جماعت کو ترقی ہو گی.ابھی تقدیر ہے جو خدا نے اپنے مسیح سے وعدے کئے تھے کہ تین سو سال نہیں گزریں گے کہ احمدیت کا غلبہ ساری دنیا میں ہو جائے گا.لیکن نہایت ہی بد قسمت ہوں گے ہم اس نسل کی خواتین اور بچیاں اگر ان قربانیوں میں ہمارا ہاتھ نہ ہو لیکن قربانیاں دینے کے لئے ضرورت ہے اپنے دل کو بدلنے کی.اپنی روح کو بدلنے کی ، خدا کے حضور عاجزانہ سجدے کرنے کی اور اپنی تربیت کرنے کی.ہم اپنی رپورٹوں میں تو یہ لکھ دیتے ہیں کہ بڑے وعظ کئے، بڑی نصیحتیں کیں ، فلاں چیز پر مضمون پڑھ کر سنایا گیا.لیکن اگر اس کا عمل ہمیں نظر نہ آئے جس کا مظاہرہ ہمارے جلسوں میں بھی ہوتا رہتا ہے تو ہمارے لئے نہایت ہی شرم کی بات ہے.آج بہت سی اور بہنوں نے بھی میرے علاوہ اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہم چاہے تھوڑا کام کریں لیکن جو دعوی کریں اس کو پورا کر نیوالیاں ہوں.یہود کی سب سے بڑی بُرائی قرآن مجید میں یہی بتائی گئی ہے لِمَ تَقُولُونَ مَالَا تَفْعَلُونَ (الصف : 3)

Page 624

606 کہ جو منہ سے کہتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے.خدا نہ کرے ہماری جماعت میں ایک بھی خاتون اور بچی ایسی ہو کہ جس کا عمل اور ہو اور جس کا دعوئی اور ہو.ہم نے دعوی کیا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے.ہم نے وعدہ کیا ہے.بیعت کرتے وقت حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھ پر کہ جو نیک کام آپ بتائیں گے میں پوری طرح اس کی فرمانبرداری کروں گی.ہم نے عہد باندھا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کہ ہماری زندگیاں قال اللہ وقال الرسول کا نمونہ ہوں گی.لیکن اگر ہمارے اخلاق اس کے خلاف ہوں، ہمارا کردار اس کے خلاف ہو تو دنیا یہی کہے گی کہ یہ مذہب سچا مذ ہب نہیں ہے اس مذہب میں تو صرف زبانی دعوے ہیں جس طرح کہ دوسرے مذاہب میں ہیں.آج مذاہب سے برگشتہ ہونے والی اقوام یہی تو کہتی ہیں کہ دنیا مذ ہب کے بغیر بھی ترقی کر سکتی ہے.اخلاق مذہب کے بغیر بھی سیکھا جا سکتا ہے.لیکن اس کا یہ دعویٰ نہیں ہے.اسلام نے مذہب کو انسان کی باقی زندگی سے علیحدہ نہیں کیا کیونکہ خدا سے حقیقی تعلق پائے بغیر انسان نہ اپنے صحیح مقام کوسمجھ سکتا ہے اور نہ انسانیت کی وہ خدمت کر سکتا ہے جس کے لئے خدا نے انسان کو پیدا کیا.بہت سستیاں ہم نے کر لیں بہت غفلتیں ہم نے کر لیں.لیکن اپنی آئندہ نسل کو ان غفلتوں اور سستیوں کا شکار ہونے سے بچاہیئے.رحم کریں ان پر اور اس آگ سے بچائیں جو خدا کے احکام پر عمل نہ کرنے والی قوم کے لئے مقدر ہے.اللہ تعالیٰ نے کسی قوم سے یہ ٹھیکہ نہیں کیا ہوا کہ میں ضرور اس کو انعام پر انعام دیتا چلا جاؤں گا.خواہ اس کا عمل اس کے خلاف ہو.بہت سی قوموں نے ترقی حاصل کی.آپ ان قوموں کی ترقیوں، تہذیبوں اور تمدن کا تصور بھی نہیں لاسکتیں جنہوں نے دنیاوی اور مادی طور پر دنیا میں ترقی حاصل کی.بڑے عروج کے بعد ان کو زوال آیا.ان کے ایام ، نشان اور آثار تک مٹ کے رہ گئے.لیکن اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ پر کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ جب امت محمدیہ صراط مستقیم سے بھٹک گئی تو چودہ سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر حضرت محمد مصطفیٰ “ کے ہی ایک فرزند جلیل کو کھڑا کیا تا وہ امت محمدیہ کو گمراہی سے ہٹا کر صراط مستقیم کا راستہ دکھائے.ہمارا تو ہتھیار ایک ہی ہے.ہمارا نصب العین ایک ہی ہے قرآن مجید.کتنا پیارا فقرہ ہے جو حضرت عائشہ نے کسی کے سوال کرنے پر کہ نبی کریم ﷺ کی سیرت کے بارے میں ہمیں کچھ بتائیے.آپ نے فرمایا كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنِ (مسند احمد بن حنبل) مجھ سے کیا پوچھتے ہو؟ آنحضرت ﷺ کا عمل وہی تھا جس کی قرآن نے تعلیم دی.اور قرآن کی تعلیم وہی ہے جس پر آنحضرت ﷺ نے عمل کیا.پس ہماری زندگیاں بھی قرآن کریم کے محور کے گرد گھومنی

Page 625

607 چاہئیں کیونکہ قرآن مجید کی تعلیم کو رائج کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تھے اور قرآن کی تعلیم کو دنیا میں فروغ دینے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہر خلیفہ نے اپنی زندگی گزاری اور قرآن ہی کی تعلیم دنیا میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پھیلا رہے ہیں.دراصل تو ہمارا ہر کام ثانوی حیثیت رکھتا ہے.سب سے اہم کام، سب سے بڑا کام ، سب سے بڑی ذمہ داری ہماری قرآن مجید سیکھنا ہے اور صرف طوطے کی طرح پڑھ لینا نہیں.جب میں قرآن مجید سیکھنا کہتی ہوں تو اس سے مراد یہی ہے کہ قرآن مجید سیکھنا اور اس پر عمل کرنا.اگر یہ کام ہماری جماعت کی خواتین سرانجام دے دیں، ہماری ہر خاتون اور ہر بچی کو قرآن آتا ہو، اس پر عمل کرے، اس کے اخلاق ، اس کے لباس، اس کی چال ڈھال، اس کی گفتار، اس کے کردار، اس کا دشمنوں کے ساتھ سلوک، اس کا دوستوں سے سلوک، اس کے مجلسوں کے انداز.ہر چیز سے یہ جھلک رہا ہو کہ یہ معاشرہ قرآنی معاشرہ ہے.یہ وہ چودہ سو سال قبل کا معاشرہ ہے جس کے واقعات بیان کئے جاتے تھے اور آج وہ معاشرہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے اور آپ کے خلفاء کے ذریعہ قائم ہو چکا ہے.یہ ہے حقیقی مقصد ہمارے اجتماعوں کا.یہ ہے حقیقی مقصد ہماری لجنہ اماءاللہ کا.یہ ہے حقیقی مقصد ہر شہر ہر قصبہ ہر گاؤں کی لجنہ اماءاللہ کا.کہ ان کے اندر قرآن سے محبت پیدا کریں.ان کے اندر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت رسول کریم علے اور خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کریں.یہ محبت اور غرض تبھی حاصل کی جاسکتی ہے جب آپ حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہر حکم کی پورے طور پر اطاعت کریں.کتنی تقریریں انہوں نے آپ میں کی ہیں کتنے درس دیئے ہیں.کتنے خطبے دیئے ہیں ہر ایک اسی چیز کے گرد گھوم رہا ہے کہ آپ کے زمانہ خلافت میں ہر مرد ، عورت، بچہ قرآن پڑھے.قرآن پڑھائے.قرآن پر عمل کرے.قرآن کی تعلیم کو دنیا میں پھیلائے.روشنی وہی پھیلتی ہے جس سے نور کی کر نیں نکل رہی ہوں.دنیا میں ایک ٹمٹماتا ہوا دیا کیا روشنی پھیلائے گا.آپ میں سے ہر بہن ، ہر بچی کے ہاتھ میں شمع قرآن ہونی چاہئے کہ جس کی روشنی دنیا کے کونے کونے میں پھیلے یہ ہے وہ عظیم الشان مقصد جس کے لئے تنظیم لجنہ اماءاللہ حضرت مصلح موعود نے قائم کی.اگر آپ یہ مقصد اپنے سامنے نہیں رکھتیں تو آپ خواہ کتنے چندے دیں، کتنے دوسرے کام کریں آپ کے کاموں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی.میں پہلے بھی توجہ دلا چکی ہوں اب پھر میں اپنی بہنوں کو توجہ دلاؤں گی کہ اگلے سال کے پروگراموں کو بناتے ہوئے سب سے اول قرآن کریم کی تعلیم کو رکھیں.خواہ اس کے لئے خرچ کرنا پڑے.خواہ اس کے

Page 626

608 لئے اساتذہ رکھنے پڑیں.لیکن ایسی نمایاں کوشش کیجئے قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا میں اپنے شہر میں ، اپنے قصبے میں، اپنے گاؤں میں پھیلانے کی کہ جس کا ایک معین نتیجہ سامنے آئے.اور پھر ضرورت ہے اپنے بچوں اور بچیوں کی تربیت کرنے کی.ان میں نظم و ضبط کی عادت ڈالنے کی.دوران اجتماع یہ شکایت ملتی رہی ہے کہ کل شوری میں بھی میں نے اس کا ذکر کیا تھا کہ کھانے کے وقت بڑی بدنظمی کا مظاہرہ ہوا ہے.کھانا پکتا ہے ہر ایک نے کھانا ہے اور ہر ایک کو مل جاتا ہے.صرف فرق اتنا ہے کہ ہر ایک یہ کوشش کرتی ہے کہ میں پہلے آؤں اور اس دوڑ میں جو نتیجہ نکلتا ہے کہ اس میں پاؤں بھی کچلے جاتے ہیں.کل میرے بھی کچلے گئے.ابھی تک پاؤں میں درد ہورہی ہے.ایک کی جوتی دوسری پر پڑتی ہے دھکے دیتی ہیں.اس میں زیادہ تعداد خواتین کی نہیں ہوتی.کل میں نے دیکھ لیا ہے خواتین بالکل دھکے نہیں دے رہی تھیں تمام کی تمام نو عمر لڑ کیاں تھیں.بیشک بھوک لگی ہوگی.ہم بھی کام کرتے ہیں.سب سے آخر میں کھانا کھاتی ہوں.کئی دفعہ نہیں بھی کھاتی.اور ساری کارکنات جو کام کر رہی ہوتی ہیں اس وقت کھاتی ہیں جب انہیں پتہ چل جائے کہ ایک ایک مہمان کھانا کھا چکا ہے.لیکن اگر یہی بچیاں قطار سے کھڑی ہو جائیں پہلے اپنی بزرگوں کو گزرنے کا موقع دیں.قرآن نے بھی تو بزرگی کا معیار یا تو تقویٰ رکھا ہے یا پھر ان کی عمر کی بزرگی.بہر حال ہر بچی کو احترام ہونا چاہئے.تربیت کریں اپنی بچیوں کی.خواہ کھانے کا وقت ہو، خواہ کھیل کا وقت ہو، خواہ جلسوں کے اوقات ہوں ان کے اندر ایک نظام ہونا چاہئے.ان کے اندر ایک تہذیب ہونی چاہئے.ان کے اندر وقار ہونا چاہئے.کسی جگہ بھی وقار کو کھونا ایک زندہ رہنے والی قوم کے شایان شان نہیں.یہ بہت بڑی چیز ہے جس کو پیدا کرنا ہمیں اپنی نئی نسل میں ضروری ہے.جو قوم اپنی عزت آپ نہیں کرتی اور اپنا وقار ہاتھ سے کھو دیتی ہے.دنیا بھی اس کی عزت نہیں کرتی.میں چند ضروری باتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اپنی تقریر کوختم کرتی ہوں.میں پہلے دن بھی چندہ تحریک خاص کی طرف توجہ دلا چکی ہوں.پھر اس سال خصوصی طور پر آپ اس چندہ کی طرف زیادہ توجہ دیں.سب سے اہم کام سمجھتے ہوئے کیونکہ ایک معین سکیم رات آپ کے سامنے پیش کی جا چکی ہے کہ 1972ء کے جلسہ تک ہم نے بہت سے کام سرانجام دینے ہیں.ان کے لئے بہر حال ہمیں پیسے کی ضرورت ہے.اگر ہم یہ کوشش کریں کہ ہماری ہر کارکن تھوڑا دے یا زیادہ.چندہ تو اس نے اپنی استطاعت کے مطابق دینا ہے.لیکن شامل ضرور ہو.نادہندوں میں سے نہ ہو تو میں سمجھتی ہوں کہ جلسه تک کم از کم یہ چار لاکھ کی رقم جمع ہوسکتی ہے.

Page 627

609 دوسری چیز یہ ہے کہ اپنی تنظیم اس سال ہم لجنہ کو منظم کرنے کی طرف بہت زور دیں جو ابھی تک نہیں دیا جاسکا.ہر شہر، ہر قصبہ اور ہر گاؤں میں لجنہ قائم ہو جائے.جہاں بھی تین خواتین ہوں وہاں لجنہ قائم ہو.آخر جہاں مرد ہیں ہمارے مردوں کی اگر ایک ہزار انجمنیں قائم ہوسکتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری ایک ہزار لجنات قائم نہ ہو سکیں.جہاں بھی جائیں پتہ کریں لجنہ ہے یا نہیں اور اگر نہیں ہے تو یہ نیک کام کریں کہ وہاں لجنہ قائم کریں.اس لئے جو ضلع کی عہدہ داران ہیں وہ اس سال خواہ ان کو اپنے بجٹ میں سے مرکز کی اجازت کے ساتھ خرچ اس طرف منتقل کرنا پڑے سفر کا.لیکن وہ سفر کر کے دورے کر کے ہر ضلع کی لجنہ کو مضبوط کرے اور اس سال ضرور کیونکہ ہمارا انشاء اللہ آنیوالا اجتماع نہایت اہمیت رکھتا ہے.اس کی تیاری کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی جگہ پر ہر ضلع ایک اجتماع کرے.اور انشاء اللہ تعالیٰ میں مرکزی بجٹ میں اس چیز کی گنجائش رکھوں گی کہ ان کو انعامات مرکز بھجوائے ضلع میں مقابلہ میں حصہ لینے والیوں کو.اور ایک نمائندہ بھی بھجوایا جائے.ان دو باتوں کی طرف زور دینے کے علاوہ جو میں نے بات پہلے دن ناصرات کے اجتماع میں کہی تھی پھر کہتی ہوں.خصوصی تحریک جو حضرت خلیفہ امسح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمائی تھی بچوں کے لئے اس میں چندہ کی بڑی کمی ہے.آپ الفضل میں دیکھتی ہوں گی.صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی طرف سے کتنے اعلانات ہو رہے ہیں میں خود بھی اس سلسلہ میں جتنی کوشش ہو سکتی تھی کرتی رہی ہوں اور کروں گی انشاء اللہ لیکن ربوہ اور لاہور کے علاوہ چندہ وقف جدید میں اتنی کمی ہے کہ جب وہ لسٹ میرے پاس آئی تو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ ایک بڑا شہر ہے اس کے آگے ڈیڑھ دو روپے لکھا ہوتا ہے.حالانکہ اتنا تو آپ کے گھر کے بچے کھانے پینے میں خرچ کر دیتے ہیں.اگر ان کے دلوں میں یہ جذبہ پیدا کریں کہ یہ ایک روپیہ، آٹھ آنے چار آنے ہم نے تمہیں دیئے ہیں اس میں سے آدھے تم کھاؤ اور آدھے خدا کے نام پر وقف جدید میں دو.تو آہستہ آہستہ کانوں میں پڑتے پڑتے خود بخود مشین کی طرح بچوں کے دل اور دماغ اور ان کے ہاتھ اس بات پر آمادہ ہو جائیں گے کہ جب ان کو پیسے ملیں گے تو کچھ وہ وقف جدید میں دیں گے اور کچھ وہ کھانے پینے میں خرچ کریں گے.اجتماع میں آنے والی بہنوں کو الوداع کہتے ہوئے یہ درخواست کرتی ہوں کہ وہ پاکستان کے لئے دعائیں کریں.سارے مسلمانوں کے لئے دعائیں کریں.تمام احمد یوں کے لئے دعائیں کریں.اپنی

Page 628

610 لجنات کی کارکنات کے لئے دعائیں کریں.ان بہنوں کے لئے دعائیں کریں اور ان لجنات کی ممبرات کے لئے جو یہاں دوری یا مجبوری کے باعث شمولیت نہیں کر سکیں.لیکن انہوں نے محبت کے پیغام آپ کی طرف بھجوائے ہیں.اپنے لئے دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ ہمیں پکی ، سچی اور حقیقی احمدی بنائے.اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق پیدا ہو، ہماری آئندہ آنے والی نسلیں وہ غلطیاں نہ کریں جو ہم سے ہوئیں.وہ ہم سے بہت زیادہ نیک ہوں.وہ ہم سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والی ہوں وہ ہم سے زیادہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی فرمانبردار ہوں.ان کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو.ان کی پیشانیوں سے آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت جھلک رہی ہو.ان کے جسم سے ،لباس سے، کردار سے یہ صاف ظاہر ہو رہا ہو کہ یہ معمولی بچیاں نہیں ہیں.یہ اس معاشرہ کی افراد اور بچیاں ہیں جس معاشرہ کو آج سے چودہ سو سال قبل نبی کریم ﷺ کے ذریعہ قائم ہوا تھا.اور جس کی دوبارہ تشکیل کرنے کے لئے اور ایک روحانی آسمان اور روحانی زمین بنانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تھے.بڑی قربانیں دی ہیں ہماری بہنوں نے یہ نہیں کہ اس زمانہ میں قربا نیں نہیں دیں.اب بھی بہت سی بہنیں ہیں جو بڑی عظیم الشان قربانیاں دیتی چلی آرہی ہیں لیکن دو یا چار یا آٹھ یا دس یا سو کی قربانی سے قوم قربانی دینے والی نہیں کہلا سکتی جب تک کہ ہماری جماعت کا ہر مرد، ہر عورت، ہرلڑکا اور ہر لڑکی اپنی جان ، مال ، وقت اور اولاد کو اسلام اور احمدیت کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار نہ ہو جائے.اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے اور آپ کو بھی توفیق دے کہ ہم اس صحیح نصب العین کو حاصل کریں جو ہمارا مقصد ہے کہ ساری دنیا اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.میں حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ (مدظلہ العالی) اور حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ(مدظلہ العالی) کے لئے بھی آپ سے دعا کی درخواست کرتی ہوں.اس اجتماع میں ہم محروم ہیں حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ مدظلہا کے ارشادات سننے سے.اللہ تعالیٰ ان دو کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادیاں ہیں اور جن کے ساتھ برکات وابستہ ہیں لمبی زندگی عطا فرمائے.آمین اب میں اپنی سب بہنوں کو خدا حافظ کہتی ہوں.اگر انہیں کسی قسم کی تکلیف پہنچی ہو تو اس کے لئے معذرت خواہ ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو خیریت سے رکھے.خیریت سے لے جائے اور پھر خیریت سے

Page 629

611 آئندہ سال ہمارے اجتماع میں لے کر آئے.لیکن اس سے بہت زیادہ اچھی اور شائستہ صورت میں کہ ہمارے غیر اگر یہاں آئیں تو ہمیں زبان ہلانے کی ضرورت نہ پڑے.کسی تقریر کی ضرورت نہ پڑے.کسی ترغیب کی ضرورت نہ پڑے.کسی تبلیغ کی ضرورت نہ پڑے.ہمارے منہ بول رہے ہوں.ہمارے چہرے کہہ رہے ہوں نور محمدی دیکھنا ہے تو یہاں سے آکر دیکھ لو.اللہ حافظ ہو آپ سب کا.مصباح و سمبر 1971ء

Page 630

612 سائنس بلاک جامعہ نصرت کے افتتاح کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ کی خدمت میں ایڈریس 27 / مارچ1972ء کو سائنس بلاک جامعہ نصرت کے افتتاح کے موقع پر حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے جو ایڈریس حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کیا وہ ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود سیدنا و مامنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث اید کم اللہ تعالیٰ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آج ہمارے دل خوش اور اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہیں کہ حضور اید کم اللہ تعالیٰ بنفس نفیس سائنس بلاک کے افتتاح کی غرض سے ہم میں جلوہ افروز ہیں.الحمد للہ ثم الحمد للہ مومنین کی جماعت کے لئے خلافت ایک نعمت عظمی ہے.وہ روحانی ترقیات جو مومنوں کو بتدریج حاصل ہوتی ہیں وہ خلافت سے وابستگی کے نتیجہ میں ہی ملتی ہیں.بہت ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو حقیقی معنوں میں دامن خلافت سے وابستہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء کا ہر دور بے شمار برکات کا حامل رہا ہے.خدا تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں خلافت ثالثہ کے بابرکت زمانہ کی نعمتوں سے بھی متمتع ہونے کی سعادت بخشی ہے.آج کا دن بھی خلافت ثالثہ کے انعامات کی ہی ایک اہم کڑی ہے.حضرت مصلح موعود کے احمدی مستورات پر بہت احسانات ہیں.حضرت مصلح موعود جب خلافت پر متمکن ہوئے قادیان میں لڑکیوں کا صرف پرائمری مدرسہ تھا.بہت کم عورتیں تعلیم یافتہ تھیں.حضرت مصلح موعود کی دور بین نگاہ نے جماعت کی ترقی کے لئے ضروری سمجھا کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی جائے تا وہ جماعت کے لئے کارآمد وجود ثابت ہوں.چنانچہ آپ نے عورتوں اور بچیوں کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ فرمائی.پرائمری سکول مڈل ہوا.مڈل سے ہائی بنا.کالج کی پرائیویٹ کلاسز کا انتظام کیا گیا.دینیات کلاسز جاری کی

Page 631

613 گئیں.مدرستہ الخواتین جاری کیا گیا تا دینی تعلیم دینے کے لئے خواتین تیار ہوں.1947 ء کے انقلاب عظیم کی وجہ سے جماعت کو اپنا مرکز عارضی طور پر چھوڑنا پڑا.1949ء میں ربوہ آباد ہونا شروع ہوا.ربوہ کی بنیاد کے ساتھ ہی ربوہ میں نصرت گرلز ہائی سکول قائم کیا گیا اور دوسال بعد ہی 14 جون 1951ء کو حضرت مصلح موعود نے بچیوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے جامعہ نصرت کا قیام فرمایا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جامعہ نصرت کا ہر آنے والا دن اس کے لئے ترقی کا پیغام مبر رہا ہے.اور ہزاروں کی تعداد میں بچیاں دینی اور دنیوی تعلیم سے آراستہ ہو چکی ہیں.سید نا حضور نے جماعت کی بچیوں اور خواتین پر سائنس بلاک کے قیام کی اجازت فرما کر بہت بڑا احسان فرمایا ہے.ایک بار پھر حضور نے خواتین جماعت احمدیہ کو یہ موقع عطا فرمایا کہ وہ ایک عظیم مقصد کی خاطر قربانی دیں.چنانچہ سائنس بلاک کی تعمیر کی اجازت حضور اید کم اللہ تعالیٰ نے اس شرط پر دی تھی کہ اس کا نصف خرچ احمدی خواتین اٹھا ئیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور یہ کم اللہ تعالیٰ کی مشفقانہ نگرانی اور عورتوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں یہ عمارت مکمل ہو چکی ہے جس کا افتتاح آج حضور کے مبارک ہاتھوں سے ہوا ہے.وہ بچیاں جنہیں سائنس کی تعلیم کی خاطر دوسرے کالجوں میں داخلہ لینا پڑتا تھا.اب بفضل الہی وہ جامعہ نصرت میں آسانی سے تعلیم حاصل کر سکیں گی.حضور کی خدمت میں گزارش ہے کہ حضور جامعہ نصرت میں بی.ایس سی کلاسز کے اجراء کی منظوری بھی جلد عطا فرمائیں تا وہ بچیاں جو سائنس پڑھنے کی خواہش مند ہوں بی.ایس.سی اور ایم.ایس سی ربوہ میں رہ کر ہی کر سکیں.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور کو لمبی اور صحت والی زندگی عطا فرمائے اور حضور کی قیادت میں ہم سب غلبہ اسلام کی شاہراہ پر آگے ہی آگے بڑھتے جائیں اور یہ ادارہ دنیاکے تمام تعلیمی اداروں سے سبقت لے جائے.آمین اللهم آمین مصباح اگست 1972ء

Page 632

614 سالانہ اجتماع 1972 ء میں ناصرات الاحمدیہ سے خطاب اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود ناصرات الاحمدیہ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته قوم وہی زندہ رہتی ہے جس کی قربانیاں مسلسل ہوں جس کی اگلی نسل پہلی نسل کی جگہ لینے کے لئے تیار رہے.اس غرض سے حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر ناصرا الاحمدیہ کا قیام کیا گیا.تا احمدی بچیوں کی ان کے بچپن سے ہی دینی ماحول میں تربیت ہو.ان کے دلوں میں مذہب سے محبت ہو.اپنی زندگی کے حقیقی مقصد کا شعور پیدا ہو.اللہ تعالیٰ سے محبت ہو.احکام قرآنی پر عمل کرنے کا شوق ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات سے محبت ہو.آپ کے لئے غیرت کا جذبہ ہو.آپ کے ارشادات پر عمل کرنے کا شوق ہو.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو سمجھنے والی ہوں.آپ کے اور آپ کے خلفاء کی کامل فرمانبردار ہوں.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جذبہ بچپن سے پیدا ہو.دنیاوی نمود اور ظاہری چمک کے پیچھے بھاگنے والی نہ ہوں.بلکہ سادگی اختیار کر کے اپنے جیب خرچ میں سے پیسہ پیسہ جمع کر کے اشاعت اسلام کی خاطر دینے والی ہوں.یہ مقصد ہے ناصرات الاحمدیہ کے قیام کا اور یہی اُمید رکھتے ہیں ہم اپنی ہر احمدی بچی اور ہر ناصرات الاحمدیہ سے.میری عزیز بچیو! قوم کی امیدیں آپ سے وابستہ ہیں اس وقت ہمارے عزیز ملک میں ملک دشمن ایک عنصر ہے جو ملک کی بنیادیں کھوکھلی کر رہا ہے اس کی کیا وجہ ہے.ان کی ماؤں نے انکی بچپن میں تربیت نہ کی.وطن اور قوم کی محبت ان کے دلوں میں پیدا نہ کی.آپ کا نام ناصرات الاحد یہ ہے.احمدیت کے تمام مقاصد اور نصب العین میں جان و دل سے مدد کرنے والیاں.اس وقت آپ گلشن احمد کی نھی ننھی کلیاں ہیں.کلی سوکھ بھی سکتی ہے.ٹوٹ کر گر بھی سکتی ہے کلی خوشبو اس وقت دیتی ہے جب وہ کھل کر پھول بن جائے.میری عزیز بچیو! ہمارا بھی فرض ہے کہ آپ کی اس رنگ میں تربیت کریں کہ بچپن سے ہی آپ صحیح معنوں میں ناصرات الاحمدیہ بن سکیں اور جب پندرہ سال کے بعد آپ لجنہ اماءاللہ کی ممبر بنیں تو صرف نام

Page 633

615 کی ممبر نہ ہوں بلکہ لجنہ اماءاللہ ا نام آپ کے چہروں ، لباس ، گفتار، کردار عمل اور قربانیوں سے صحیح ثابت ہو.اور آپ کا بھی فرض ہے کہ جو کچھ آپ کو سکھایا جائے وہ سیکھیں.یہ آٹھ سالہ زمانہ آپ کی تربیت کا زمانہ ہے.جس کے بعد آپ کو اس امر کی سند ملنی چاہئے کہ واقعی انہوں نے ناصرات الاحمدیہ کی تربیت مکمل حاصل کر لی اور اب یہ تربیت یافتہ کارکن لجنہ اماءاللہ کی ممبر بن رہی ہیں.اس لئے بہت ضروری ہے کہ آپ اپنی دینی تعلیم کی طرف توجہ دیں.نمازوں کی پابندی، شعار اسلامی کا احترام ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی اطاعت، حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی فرمانبرداری اخلاق فاضلہ آپ کا معمول ہو کسی احمدی بچی میں سے کسی ناصرات الاحمدیہ میں کوئی اخلاقی کمزوری نہ پائی جاتی ہو.اس لئے آئندہ میں نگرانوں کو یہ ہدایت دیتی ہوں کہ ایسا نصاب تیار کریں کہ 15 سال کی بچی 5 سے 10 پارے تک کا ترجمہ ضرور جانتی ہو.اسی طرح وقف جدید ناصرات کے چندہ کی طرف بھی نمائندگان اور نگران ناصرات کو توجہ دلاتی ہوں ناصرات کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ابھی تک ناصرات الاحمدیہ چندہ وقف جدید کے اس معیار کو نہیں پہنچیں جو معیار حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا تھا.اس معیار کو بلند کرنے سے ہی بچیوں میں مالی قربانی کی عادت پیدا ہوگی.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ آپ کی صحیح تربیت کر سکیں اور آپ کو تو فیق عطا فرمائے کہ اپنے والدین، اساتذہ، نگرانوں، عہدہ دار لجنات کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے صحیح معنوں میں اپنے نام کی مصداق نہیں.احمدی والدین کو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے کہ وہ ان کی دینی تعلیم کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں اور ان میں اسلامی اخلاق و اقدار پیدا کریں اور ان میں وہ عظیم الشان جذ بہ قربانی پیدا کر میں جو اسلام کے قرون اولیٰ کے بچوں میں پایا جاتا تھا.جس نے ابو جہل کے قتل پر ان کو آمادہ کر دیا تھا.جس نے جنگوں میں شامل ہونے پر ان کو مجبور کر دیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ایک روحانی انقلاب برپا کرنے آئے تھے.ایک نئی زمین و آسمان کی تشکیل کے لئے.خدا کرے کہ اس تشکیل میں ان منفی منفی بچیوں کا بھی کثیر حصہ ہو.آمین اللهم آمین.الفضل 21 نومبر 1972ء

Page 634

616 لجنہ اماءاللہ کے پندرھویں سالانہ اجتماع 1972 کے موقعہ پر افتتاحی خطاب فرمایا! آج ہمارے دل خوشی اور مسرت کے جذبات سے لبریز ہیں کیونکہ اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ کے قیام پر پچاس سال پورے ہورہے ہیں جس کی خوشی منانے کی غرض سے آج ہم اس جگہ جمع ہوئی ہیں.سب سے پہلے ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے جس نے اسلام جیسی نعمت ہمیں عطا کی.اور اپنے بندوں کو سیدھے راستہ پر چلانے کی خاطر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا یہ وہ زمانہ تھا جب ساری دنیا گمراہی اور جہالت کا شکار ہو چکی تھی اپنے معبود حقیقی اور خالق سے کوئی واسطہ نہ تھا.کوئی پتھروں کو پوجتا تھا تو کسی نے اپنے مطلب کے معبود بنالئے ہوئے تھے.عورت کی کوئی عزت نہ تھی اسے کوئی حقوق حاصل نہ تھے.اس دنیا میں آکر اس کا کام صرف مرد کو خوش رکھنا اور اس کی خدمت کرنا تھا.ہزاروں درود و سلام اس محسن انسانیت اور محسن نسواں پر جس نے دنیا کو بتایا کہ عورت بھی اتنی ہی قابل قدر ہستی ہے جتنا مرد.جس نے بتایا کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے جس نے بتایا کہ بیٹی کے پیدا ہونے پر غم نہ کرو بلکہ اس کی اسی طرح پرورش کرو جس طرح بیٹے کی.جس نے بیٹی کو ماں باپ کے ترکہ میں حصہ دار قرار دیا جس نے فرمایا کہ بیٹی کی اچھی طرح تربیت کرنے والا اور میں جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے دو انگلیاں.پھر صرف حقوق ہی نہیں بلکہ عورت کو اس کی ذمہ داروں کا احساس دلایا.قومی ذمہ داریوں اور اولاد کی تربیت میں اسے مرد کا ساتھ قرار دیا.اسلام نے آج سے چودہ سوسال پہلے جو عزت اور حقوق مسلمان عورت کو عطا کئے.آج انتہائی ترقی یافتہ ممالک بھی اب تک نہیں دے سکے.چنانچہ اس کے نتیجہ میں ازواج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابیات نے جو عظیم الشان قربانیاں دیں جس لگن سے اسلام اور قرآن کو سیکھا وہ تاریخ اسلام کے درخشاں ابواب ہیں.ہر قربانی میں حصہ لینے کا انتہائی شوق تھا.یہاں تک کہ جنگوں تک میں حصہ لیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات کو جاری رکھنے کے لئے خلافت کا سلسلہ جاری فرمایا.جب تک مسلمان خلافت سے وابستہ رہے خلفاء کی

Page 635

617 اطاعت کے نتیجہ میں دن بدن ترقی کرتے گئے اور مسلمان عورتوں نے بھی بے مثال قربانیاں پیش کیں.بعد میں اسلام قبول کرنے والی خواتین میں جذبہ قربانی اتم طور پر موجود تھا.جب مسلمانوں نے قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنا چھوڑ دیا.دنیا کو دین پر ترجیح دینے لگے.انعام خلافت کی قدر کرنی چھوڑ دی.اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے سائے بھی ان پر سے ہٹنے لگ گئے اور دیکھتے دیکھتے وہ وقت آگیا جس کے متعلق قرآن مجید میں پہلے سے بتا دیا گیا تھا کہ إِذَا الشَّمْسُ كُوّرَتْ وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ وَإِذَا الْعِشَارُ عُقِّلَتْ وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ وَإِذَا الْبِحَارُ سُحِرَتْ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتُ.وَإِذَا مَوْءُ دَةٌ سُئِلَتْ بِآتِ ذَنْبٍ قُتِلَتْ وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتُ.وَإِذَا الْجَحِيمُ سُقِرَتْ وَإِذَا الْجَنَّةُ اخْلِفَتْ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَا أَحْضَرَتْ فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ الْجَوَارِ الْكُمْسِ وَاللَّيْلِ اَذَا عَسْعَسَ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفْسَ.(التكوير : 2تا19) نہ دین کا علم رہا نہ دنیاوی طور پر ہی ترقی یافتہ قوموں میں شمار باقی رہا.نام کے مسلمان رہ گئے تمام عمل اسلام کے خلاف تھے.یہی زمانہ تھا جب باقی تمام مذاہب نے اسلام کو اپنا شکار سمجھ کر اس پر ہر طرف سے حملے کرنے شروع کر دئے تھے مسلمانوں میں اس قدر مایوسی غالب آچکی تھی کہ مقابلہ کرنا تو کجاوہ اسلام کی ترقی اور بقاء سے ہی مایوس ہو چکے تھے کوئی ہندو دھرم اختیار رہا تھا.تو کوئی عیسائیت کا شکار ہورہا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کی پہلے سے خبر دیدی تھی اور یہ بھی بشارت دی تھی کہ آخری زمانہ میں اسلام کا پھر غلبہ ہوگا پھر نئی صبح طلوع ہوگی اور خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہی ایک خادم کو کھڑا کرے گا اس کا آنا ہوگا اور اس قوم کی تربیت اور تزکیہ نفس پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ سے ہوگا.خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہا تھا.وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (سورة الجمعه: 4) اور صحابہ کے پوچھنے پر کہ وہ کون لوگ ہوں گے آپ نے فرمایا تھا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو ابنائے فارس میں سے ایک شخص اسے واپس لے آئے گا.چنانچہ الہی نوشتوں کے مطابق اپنے وقت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اس غرض سے ہوئی کہ

Page 636

618 يُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ (تذكره صفحه 55) آپ از سرنو دین اسلام کے باغ کی آبیاری کریں اور مسلمانوں کو پھر قرآن کریم پر عمل کروائیں اور ان کو بتائیں کہ اسلام زندہ مذہب ہے اگر وقتی طور پر اس باغ پر خزاں آئی تو پھر بہار آئے گی یہ خدا کی تقدیر ہے اور اس کی تقدیر بدلا نہیں کرتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ پھر مُردہ روحوں میں روح پھونکی گئی اور ایک بار پھر دنیا نے وہی نظارہ دیکھ لیا جو چودہ سو سال قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کو نظر آیا تھا وہی روحانی انقلاب پھر بر پا ہونا ممکن ہو گیا.وہ جو سمجھتے تھے اسلام پر زوال آچکا ہے اور چند دن کی اس کی زندگی ہے.انہوں نے دیکھا کہ اس باغ پر پھر بہار آئی اور نئے شگوفے کھلنے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف فرشتے لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لانے لگے اور آپ کی قوت قدسیہ اور پاک تربیت سے اسلام کے فدائی پیدا ہونے لگے جن میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی.جو ان بھی تھے اور بچے بھی جو اپنی جان مال ، وقت، اولا د اور عزت کو ہر وقت ہرلمحہ اسلام کی خاطر قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے انہوں نے جانیں دیں.سنگسار کئے گئے وطن چھوڑے.عیش و عشرت پر لات ماری اور حمل چھوڑ کر قادیان معمولی گھروں میں آبسے اور مسیح موعود کے ہور ہے.یہ وہ پہلی نسل تھی جس نے چودہ سو سال کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معیت میں آکر اسلام کا جھنڈا تھاما اور اس کو بلند رکھنے کے لئے ساری دنیا سے مقابلہ پر تیار ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیات کی قربانیاں قرونِ اولیٰ کی خواتین کی قربانیوں سے کم نہ تھیں.قربانیوں میں سر فہرست حضرت سیدہ نصرت جہاں کا نام ہے جنہوں نے احمدیت کی ابتدائی مشکلات کے زمانہ میں قدم قدم پر حضرت مسیح موعود ملیہ السلام کے ساتھ قربانیاں دیں.تکالیف اُٹھائیں اور بشاشت قلب کے ساتھ اپنا سب کچھ پیش کر دیا تمنا تھی تو صرف یہی کہ خدا کے مسیح کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں پوری ہوں.نبی تو ایک بیج بونے آتا ہے جب اس کا کام ختم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جاتا ہے.اپنے وعدہ اور سنت کے مطابق جماعت احمدیہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے خلافت کا انعام عطا فرمایا خلافت کی برکات میں سے سب سے بڑی برکت جماعت کا اتحاد تنظیم اور آپس کا پُر خلوص پیار و محبت ہوتا ہے.سب مومنین ایک لڑی میں پرو دیئے جاتے ہیں.قرآن مجید میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ خالف بين قلو بکم ( ال عمران : 104) تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے محبت پیدا کر دی ایک احمدی کا دکھ سارے احمدیوں کا دکھ اور ایک احمدی کی تکلیف سارے احمدیوں کی تکلیف ہوتی ہے.

Page 637

619 پھر وہ زمانہ آیا جس میں عورتوں کی تنظیم حقیقی رنگ میں ہوئی یعنی حضرت مصلح موعود کا زمانہ جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا تھا کہ وہ اسیروں کا رُستگار ہوگا.جب مسلمانوں نے قرآن پر عمل کرنا چھوڑا تو عورتوں سے وہ حقوق بھی چھین لئے جو اسلام نے ان کو دیئے تھے.اور خود عورتوں میں اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس مٹ گیا.حضرت مصلح موعود شروع سے اس یقین پر قائم تھے کہ کسی قوم کی ترقی کے لئے اس قوم کی عورتوں کی تربیت کی ضرورت ہے ان کے ذہنوں کو جلا بخشنے کی حاجت ہے.ان میں فکری انقلاب لانے کی ضرورت ہے.چنانچہ آپ نے 1922ء میں لجنہ اماءاللہ کی تنظیم قائم فرما کر اس عالمگیر مہم کا آغاز فرما دیا.اس تنظیم کو قائم فرما کر جہاں آپ نے عورتوں کے دینی اور دنیوی تعلیم حاصل کرنے کا انتظام فرمایا وہاں ان میں قوم کے لئے شعور وفکر کی عادت پیدا کرنے کے لئے مجلس شوریٰ میں نمائندگی کا حق عطا فرمایا.متواتر اپنے خطبات اور تقاریر کے ذریعہ ان کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے رہے.ان کے چھینے ہوئے حقوق ان کو دلوائے معاشرہ میں ان کو صحیح مقام عطا کیا.اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو بشارت دی کہ اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی.“ الفضل 29 اپریل 1944ء اور وہ تنظیم جن کا صرف چودہ ممبرات سے آغاز ہوا تھا آج پچاس سال گزرنے پر ایک بین الاقوامی تنظیم بن چکی ہے جس کی شاخیں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ہر تر اعظم میں قائم ہو چکی ہیں اور ہر جگہ مخلص مستعد اسلام کا در در رکھنے والی احمدیت کی ترقی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے والی بہنیں موجود ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بشارت دی تھی.يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ وَيَأْتُونَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ.(تذكره: 39) اس پیشگوئی کو ہم اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھتے ہیں اور آج بھی اس تقریب مسرت کے موقع پر دور دراز ملکوں کی لجنات نے ہماری اس خوشی میں شمولیت کے لئے اپنی نمائندگان بھجوائی ہیں.میں سب نمائندگان کو اهلاً وسهلاً ومرحبا.کہتے ہوئے مبارک باد کا تحفہ پیش کرتی ہوں.اس خوشی کے دن ہمارے دل نئی ذمہ داریوں کی نشان دہی کر رہے ہیں.دنیا داروں کی طرح ہم اس تقریب کو رسمی طور پر نہیں منا رہے اور نہ منانا چاہئے.ہم خوش ہیں اس لئے کہ آج سے قریباً 88 سال قبل قادیان کی گمنام بستی سے ایک سچائی کی آواز بلند ہوئی دنیا نے آوازے کیسے.اعتراض کئے اس صداقت کی

Page 638

620 آواز سننے کی بجائے اپنے کان بند کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ کی سنت ہے.لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي (المجادلة : 22) میں اور میرے رسل غالب آکر رہتے ہیں.پھر خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا." میں تیرے دلی محبوں کا گروہ بڑھاؤں گا.“ يَنصُرُكَ اللهُ مِنْ عِنْدِهِ يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِيَ إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ.(تذكره ص39) خدا کا وعدہ پورا ہوا اور آج اس صداقت کی آواز کی گونج پاکستان میں بھی گونج رہی ہے.ہندوستان میں بھی.یورپ کے شہروں سے بھی اس آواز کی بازگشت سنائی دے رہی ہے.براعظم افریقہ کے صحراؤں سے بھی دور دراز براعظم ، امریکہ کے لوگ بھی اس صداقت کے علمبر دار ہیں اور جزائر میں رہنے والوں کے دل بھی اسی عشق و محبت سے پر ہیں جن سے ہمارے.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام جہاں پہنچے ان کے ذریعہ وہاں جماعتیں پیدا ہوئیں نہ صرف جماعتیں بلکہ بجنات اور ناصرات تک کا قیام ہو چکا ہے ایسی مخلص بہنیں پیدا ہو چکی ہیں جو ہزاروں پاؤنڈ چندہ دینے والی ہیں.کئی مساجد اپنے چندوں سے تعمیر کروا چکی ہیں اور سلسلہ کے ہر کام میں بشاشت قلب سے آگے آتی ہیں.میری بہنو! یہ انعامات بھی اور آئندہ ملنے والے انعامات بھی اللہ تعالیٰ نے خلافت سے وابستہ رکھے ہیں.یہ نکتہ میری بہنوں کو یا د رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو خلافت کا عظیم ترین انعام عطا فرمایا ہے.لیکن اس انعام کو ایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ مشروط بھی فرما دیا ہے.اسلامی تعلیم کا مرکزی محور اَطِيْعُو اللَّهَ وَاَطِيْعُو الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمُ (النساء: 60) کی تعلیم ہے.اللہ تعالیٰ کے احکامات اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ خلیفہ وقت کی کامل اطاعت کے بغیر ہماری روحانی اور جسمانی ترقی ناممکن ہے.پس خود بھی اس نعمت عظمیٰ کی قدر کریں اور اس نعمت کو ہمیشہ اپنے میں قائم رکھنے کے لئے دعائیں کریں اور اس کے مطابق اعمال صالحہ کرتی رہیں.وہ اعمال صالحہ کیا ہیں؟ حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالی کی یہی زندگی صحت آپ کے مقاصد میں کامیابی کے لئے دعائیں کرتے رہنا اور سب سے زیادہ دعا اسی مقصد کے لئے کرنا کیونکہ سب دعا ئیں اس دعا میں آجاتی ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث

Page 639

621 ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کامل اطاعت کرنا اور آپ کے ہر فیصلہ کو بشاشت قلب کے ساتھ قبول کرنا حضرت خلیفة أصبح الثالث ایدہ اللہ کی ہرتحریک اور ہر آواز پر لبیک کہنا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اتنا گہرا روحانی تعلق کہ سب جسمانی تعلقات اس تعلق کے سامنے بیچ ہوں.اعتراضات سے بچنا، نہ سنتا اور نہ ان کو اپنے معاشرہ میں بنے کا موقعہ دینا.اس اصول کو کبھی نہ بھولیں کہ خلیفہ وقت کی اطاعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے.اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، اللہ تعالیٰ کی اطاعت پس کامل اطاعت " سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا» (سورۃ البقرہ: 286) کا جذبہ آپ میں سے ہر ایک میں ہونا چاہئے اور یہی جذبہ اپنی اولادوں کے دلوں میں پیدا کرنا آپ کا فرض ہے آئندہ بجنہ اماءاللہ کی ترقی کی بنیا د موجودہ ناصرات کی تربیت پر منحصر ہے.اگر آپ ان کی تربیت کی طرف پوری توجہ دیں گی ان کو مذہب کے احکام پر چلنے والی.اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید سے محبت رکھنے والی قوم کا درددلوں میں رکھنے والی بے لوث خدمت کرنے والی کسی کو دکھ نہ دینے والی اور اسلام کی خاطر ہر قربانی ہنستے مسکراتے ہوئے دینے والی بنائیں گی تو یقین لجنہ اماءاللہ کی تاریخ کے آئندہ باب سنہرے الفاظ میں لکھے جائیں گے.لجنہ اماءاللہ اور قوم کی آئندہ تاریخ کوسنوار نایا بگاڑنا آپ کے ہاتھوں میں ہے.خدا کرے ہمارے نئی نسل کے اندر وہ جذ بہ شوق و قربانی پیدا ہو جائے کہ اگلے پچاس سال کی احمدیت کی تاریخ لکھنے والا آپ کی قربانیوں کا تذکرہ کئے بغیر تاریخ مرتب نہ کر سکے.انشاء اللہ العزیز پس میری عزیز بہنو الجنہ اماءاللہ کی نمبرات کا خواہ وہ کسی ملک میں رہ رہی ہوں سب سے بڑا فرض خود دین کا علم حاصل کرنا قرآن پر غور و فکر اور تدبر کرنا اپنی زندگیاں قرآنی تعلیم کے مطابق ڈھالنا اور پھر اپنی قوم کی بچیوں کو سچی مسلمان بچیاں بنانا ہے.موجودہ دہریت کے دور میں سب سے بڑا عمل یہی ہے کہ آپ اس آگ سے اپنی نئی نسل کو بچائیں جو ہر گھر کو اپنے گھیرے میں لے رہی ہے.اس سے پہلے کہ آپ کا گھر اس کی زد میں آجائے.اس آگ سے بیچنے کے سامان کر لیں.اس تقریب کی تحریک عاجزہ نے چار سال قبل 1968ء میں کی تھی.جس کی تین شقیں تھیں.1- تاریخ لجنہ اماءاللہ کی تدوین و اشاعت

Page 640

622 2.پانچ لاکھ روپے جمع کرنے کا عزم جس میں سے 3.ایک لاکھ روپے برائے قرآن مجید کی پیش کش اور بقیہ رقم دفتر لجنہ اماءاللہ کی تعمیر کے لئے.سوالحمد للہ پچاس سالہ تاریخ لجنہ اماءاللہ مرتب ہو چکی ہے.دو جلدیں شائع ہو چکی ہیں.تیسری جلد جلسہ سالانہ پر شائع ہوگی.تحریک خاص میں دولاکھ پچیس ہزار روپے جمع ہو چکے ہیں.جس میں سے ایک لاکھ کل انشاء اللہ تعالیٰ حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کئے جائیں گے.میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُمید کرتی ہوں کہ سب لجنات پوری کوشش سے یہ رقم جلد از جلد جمع کریں گی تا تیسرا مرحلہ عمارتوں کی تعمیر کا جلد تکمیل پائے.اس تقریب کے موقع پر دو مجھے ایک انگریزی اور دوسرا اردو کا شائع کرنے کی تجویز تھی.اردو مجلہ الحمد للہ شائع ہو گیا ہے.انگریزی مجلہ انشاء اللہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا.ہر صاحب استطاعت خاتون کو چاہئے اور لجنات کو بھی کہ وہ خرید کر غیر مسلم اور غیر احمدی تعلیم یافتہ خواتین کی خدمت میں پیش کریں تا ان کی غلط فہمیاں دور ہوں اور لجنہ اماءاللہ سے ان کو تعارف حاصل ہو.اس تقریب مسرت کے موقع پر ایک یاد گارنشان بیج کی صورت میں بنوایا گیا ہے جو چاہے لے سکتی ہے.الفضل 23 نومبر 1972ء

Page 641

623 لجنہ اماءاللہ کی طرف سے ایڈریس بحضور سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز لجنہ اماءاللہ کے قیام پر پچاس سال پورے ہونے کی تقریب سعید اور پندرھویں سالانہ اجتماع کے دوسرے دن یعنی 18 رنبوت کو سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تشریف آوری کے بعد حضور کی خدمت اقدس میں حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے لجنہ اماءاللہ کی طرف سے اشاعت قرآن کریم کیلئے دو لاکھ روپے کا چیک بطور عطیہ پیش کیا.چیک کے پیش کرنے سے قبل حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے جو ایڈریس پڑھا درج کیا جاتا ہے.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم کس طرح تیرا کروں اے ذوالمن شکر و سپاس وہ زبان لا ؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار سیدنا امامنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث اید کم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضل کے بے شمار جلوے خلافت احمدیہ کی برکات کے نتیجہ میں احمدیہ جماعت کے مردوں اور خواتین نے مشاہدہ کئے ہیں آج کا اجتماع بھی انہیں رحمتوں کی ایک کڑی ہے.حضور اید کم اللہ تعالیٰ نے اپنی گوناگوں مصروفیتوں کے باوجود ہمارے اجتماع میں تشریف لانا اور خطاب کرنا منظور فرمایا.آج ہمارے دل خوشی اور مسرت کے جذبات سے پر ہیں کہ حضرت مصلح موعود کی قائم کردہ وہ چھوٹی سی تنظیم جس کی ابتداء صرف چودہ نمبرات سے ہوئی تھی.آج ایک بین الاقوامی انجمن کی حیثیت اختیار کر چکی ہے.حضرت مصلح موعود ابتداء سے ہی اس یقین پر قائم تھے کہ قوم کی ترقی کے لئے عورتوں کا دیندار اور تربیت یافتہ ہونا بہت ضروری ہے.جس کا اظہار حضور نے اپنے کئی خطبات اور تقاریر میں فرمایا.حضرت مصلح موعود نے عورتوں کی تربیت کی انتہائی اہمیت محسوس فرماتے ہوئے 1922ء میں لجنہ اماء اللہ کی تنظیم - قائم فرمائی اور ابتداء سے تا وصال اس تنظیم کو حضرت مصلح موعود کی راہ نمائی حاصل رہی.اس موقع پر ہم عظیم خواتین کو گو وہ آج ہم میں موجود نہیں خراج تحسین پیش کئے بغیر نہیں رہ سکتیں.

Page 642

624 جنہوں نے لجنہ اماء اللہ کے ابتدائی زمانہ میں اپنی جان، مال، وقت اور جذبات کی قربانیاں دے کر اس تنظیم کو پروان چڑھایا.اور اپنے اُسوہ سے دوسروں کو قربانیوں کی تحریک کی ان میں سر فہرست نام حضرت سیدہ نصرت جہاں کا ہے پھر حضرت سیدہ ام ناصر، حضرت سیدہ امتہ الحی، حضرت سیده ساره بیگم حضرت سیدہ ام طاہر ، حضرت سیدہ ام داؤد، اور کئی خواتین نے عورتوں کو منظم کرنے.مالی جہاد پر آمادہ کرنے.دینی تعلیم حاصل کرنے ، قرآن مجید کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے اور قومی کاموں کے لئے اپنے اوقات خرچ کرنے کے لئے جو سعی فرمائی لجنہ اماءاللہ کی ممبرات اسے کبھی فراموش نہیں کر سکتیں.جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام - انعام خلافت ہے.جس کی برکتوں سے لجنہ اماءاللہ نے وافر حصہ پایا.آج جماعت احمدیہ میں جو اتحاد اور تعاون نظر آتا ہے اور جس کی جھلک بھی کسی اور تنظیم میں نظر نہیں آتی یہ سب خلافت ہی کی برکت ہے.جس کی وجہ سے سب احمدی ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں.اور سب کا مقصد ایک ہی ہے کہ اپنی تمام قوتوں کو صرف کر کے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس کے فضل کے طالب ہو کر غلبہ اسلام کی شاہراہ پر آگے ہی آگے بڑھتے جائیں.گزشتہ پچاس سال میں ممبرات لجنہ اماءاللہ کی ہر قربانی خواہ وہ جان کی تھی یا مال کی وقت کی تھی یا اولاد کی سب کا مقصد اور مدعا ایک ہی تھا کہ ساری دنیا اپنے نجات دہندہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جائے اور ساری دنیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لے آئے.اللہ تعالیٰ کے اسی ارشاد پر کہ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمْ (سورة ابراهيم : 8) لجنات اماءاللہ پاکستان و بیرون کی طرف سے عاجزه حضور اید کم اللہ کی خدمت میں ایک لاکھ روپے کا چیک پیش کرتی ہے.نیز ایک لاکھ روپے لجنہ اماءاللہ انگلستان کی طرف سے جو وہ دیں ادا کریں گی.حضور سے درخواست ہے کہ حضور قبول فرمائیں اور اسی رقم کو اشاعت قرآن مجید یا کسی اور مد میں جہاں حضور کے نزدیک صرف کرنا زیادہ ثواب کا موجب ہو خرچ کرنے کا فیصلہ فرمائیں.نیز دعا بھی کریں کہ اللہ تعالی آئندہ حضور اید کم اللہ کی قیادت میں پہلے سے بڑھ کر قربانیاں دینے کی توفیق عطا فرمائے.ہمارا رب ہم سے راضی ہو اور ہماری اگلی نسل ہم سے بھی بہتر ہو.الفضل 26 نومبر 1972ء

Page 643

625 لجنہ اماءاللہ کے پندرھویں سالانہ اجتماع کے موقعہ پر اختتامی خطاب قرآن پڑھیں اور قرآن پر عمل کریں کہ یہی ہمارا دستور العمل اور مقصد حیات ہے.اپنے بچوں کی تربیت صحیح رنگ میں کریں انہیں دیندار بنائیں اور اسلام کی خاطر وقف کریں.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا تعالیٰ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ نے 19.ماہ نبوت 1351 ہش کو بمطابق 19 اکتوبر 1972 لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے پندرھویں سالانہ اجتماع کے کامیاب اختتام پر سلسلہ کی خواتین سے یہ خطاب فرمایا: الحمد للہ اجتماع اختتام پذیر ہورہا ہے.اس اجتماع پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایتوں کے مشاہدے ہم نے کئے.اللہ تعالیٰ نے بیرون پاکستان کے کئی ممالک کی نمائندگان کو توفیق عطا فرمائی کہ وہ دور دراز ملکوں سے اجتماع میں شرکت کر کے مرکز کی برکات سے فائدہ اٹھائیں.حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات سنیں اور زیارت کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل اشعار میں ہم بھی ان کی خدمت میں التماس کرتے ہیں.مہماں جو کر کے الفت آئے بصد محبت دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت یه روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جو خبریں قبل از وقت بتائی تھیں ایک ایک کر کے ہم نے اپنی آنکھوں سے پوری ہوتی دیکھیں.ہجرت قادیان کے بعد کون کہہ سکتا تھا کہ اس بے آب و گیاہ وادی میں جہاں نہ پانی تھا نہ گھاس اللہ تعالیٰ ایسی رونق کے سامان پیدا کرے گا کہ نہ صرف پاکستان سے بلکہ دور دراز ممالک سے لوگ والہانہ طور پر کھنچے چلے آئیں گے یہ خدائی وعدے تھے اور ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جانثاروں کے اس مجمع کو دیکھ کر یقیناً ہمارے دل خوش ہیں.

Page 644

626 ہمارے ایمانوں میں اضافہ ہوا ہے.اور بے اختیار ہمارے دلوں سے نکلتا ہے.اللَّهُمْ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب سنا.اس کے لفظ لفظ پر عمل کرنا اور اپنی زندگیاں اس کے مطابق گزارنا آپ کا فرض اولین ہے.ہماری تعلیم کا مرکزی نقطہ اطاعت اور کامل اطاعت ہے.جس بہن نے یہ سبق ذہن نشین کر لیا وہ یقینا اپنے مقصد میں کامیاب ہوگی.گزشتہ کئی سال سے حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبوں، اجتماع اور جلسہ سالانہ کی تقاریر میں آپ کو اس طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ اپنی زندگیوں میں انقلاب پیدا کریں.اللہ تعالیٰ کے انعامات بھی انہی پر نازل ہوں گے جو قربانیوں کی بھٹی میں سے گزریں گی.کئی بیرونی ملکوں کی خواتین عظیم الشان قربانی کا نمونہ پیش کر رہی ہیں.وہ بعد میں آئیں اور کئی لحاظ سے ہم سے آگے نکل رہی ہیں.ہمارے لئے اس وقت ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے.خدا تعالیٰ کے وعدے اپنے وقت پر پورے ہوں گے.فوج در فوج لوگ احمدیت میں داخل ہوں گے جن میں عورتیں بھی ہوں گی اور بچے بھی ہوں گے ہم جنہیں احمدیت کی نعمت اللہ تعالیٰ نے عطا کی اگر ان کی تربیت کرنے کے لئے اور ان کو دینی تعلیم دینے کے لئے ہم نے خود کو تیار نہ کیا تو ہم نہ صرف جماعت کو نقصان پہنچانے کا موجب بنیں گی.بلکہ جماعت میں نئی داخل ہونے والی مستورات کا تاثر ہمارے متعلق یقینا خوش آئند نہیں ہوگا.احمدیت کا روحانی انقلاب جو بہت جلد رونما ہونے والا ہے اور جس کے آثار ہر بصیرت رکھنے والے کو نظر آ رہے ہیں ضروری ہے کہ احمدی عورت اور ہر ممبر لجنہ اس کے لئے تیاری کرے.خود دین سے واقف ہو.اپنے بچوں کو دینی تعلیم دے.قرآن سکھائے.ترجمہ پڑھائے.احادیث نبی کریم ﷺ اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے واقف کروائے تا ہماری جماعت کا بچہ بچہ اسلام کا ایک مضبوط ستون بن جائے.لجنہ اماءاللہ قائم کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا تھا:.اس بات کی ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت میں اپنی ذمہ داری کو خاص طور پر سمجھو اور ان کو دین سے غافل اور بد دل اورست بنانے کی بجائے چست، ہوشیار، تکلیف برداشت کرنے والے بناؤ اور دین کے مسائل جس قدر معلوم ہوں ان سے ان کو واقف کرو اور خدا، رسول، مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی محبت، اطاعت کا مادہ ان کے اندر پیدا کرو.اسلام کی خاطر اور ان کی منشاء کے مطابق اپنی زندگیاں خرچ کرنے کا جوش پیدا کرو.اس لئے اس کام کو بجالانے کے لئے تجاویز سوچو اور ان پر عمل درآمد کرو.“ تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ 68

Page 645

627 میری عزیز بہنو! اپنے نفس کا جائزہ لیں.کیا آپ میں سے ہر ایک اس معیار پر پوری اترتی ہے.اگر نہیں تو آپ کو سوچنا چاہئے کہ گزشتہ پچاس سال کی جدو جہد میں ابھی تک ہم اس منزل تک کیوں نہیں پہنچ سکے.غفلتوں کو ترک کریں.دنیا پر دین کو مقدم رکھتے ہوئے اپنی اولادوں کو اس آگ سے محفوظ رکھیں جس کا شکار دنیا پرست قو میں ہو رہی ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے بار بار آپ کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ہر جگہ قرآن مجید با ترجمہ سکھانے کا انتظام کیا جائے.ہر موصی خاتون کم از کم دو کو قرآن مجید پڑھائے.لیکن ابھی تک اس طرف ویسی توجہ نہیں دی گئی.جیسی دی جانی چاہئے تھی.ایک احمدی خاتون اور ایک احمدی بچی ایسی نہیں ہونی چاہئے جسے قرآن نہ آتا ہو.جسے یہ نہ معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے اور کن باتوں سے منع فرمایا ہے.سینکڑوں غلطیاں ہم صرف نادانستگی سے اس لئے کر جاتے ہیں کہ ہمیں ان کے متعلق ارشاد باری کا علم نہیں ہوتا.ہمیں اس اجتماع سے واپس صرف خوشیوں کا اظہار کر کے نہیں چلے جانا چاہئے کہ پچاس سال پورے ہونے پر ہم نے خوشی کی ایک تقریب پیدا کی.بلکہ ہمیں ایسی تدابیر سوچنی چاہئیں جن کے نتیجہ میں زیادہ سے زیادہ قرآنی علوم کی اشاعت ہو.زیادہ سے زیادہ خواتین اور بچے قرآن پڑھ سکیں.زیادہ سے زیادہ اس بات کی تلقین کی جائے کہ ہر احمدی خاتون کا عمل اور کردار قرآنی تعلیم کے مطابق ہو اور یہ منزل یہ راہ بغیر نفس کی قربانی بغیر جذبات کی قربانی، بغیر خواہشات کی قربانی کے حاصل نہیں ہو سکتی.اس طرف اشارہ فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو اس یار کے لئے رہ عشرت کو چھوڑ دو لعنت کی ہے یہ راہ سولعنت کو چھوڑ دو ورنہ خیال حضرت عزت کو چھوڑ دو تلخی کی زندگی کو کر وصدق سے قبول تا تم پہ ہو ملائکہ عرش کا نزول اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فتا ترک رضائے خویش پئے مرضی خدا اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے ابدی حیات حاصل کرنے کے لئے اور اپنی قوم کو ابدی حیات بخشنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم قربانی دیں اپنے اوقات کی اور قرآن سیکھیں ، دینی علوم سے اپنے سینوں کو منور کریں اور اس نور سے اپنی اولادوں کو فائدہ پہنچائیں ہم قربانی دیں اپنے جذبات اور خواہشات کی.احمدیت کی ترقی کی خاطر سادہ زندگیاں اختیار کریں.تکلفات کو ترک کریں اور رسومات سے منہ

Page 646

628 پھیر لیں.حضرت خلیفہ مسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ آپ کو بار بار اس طرف توجہ دلا چکے ہیں حتی کہ حضور نے فرمایا:.میں ہر احمدی کے گھر کے دروازہ پر کھڑے ہو کر اور ہر گھرانہ کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں اور جو احمدی گھرانہ بھی آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوششوں کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہوگا وہ یہ یادر کھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پرواہ نہیں وہ اس طرح جماعت سے نکال کے باہر پھینک دیا جائے گا جس طرح دودھ سے لکھی.“ لیکن ابھی تک سینکڑوں احمدی گھرانے رسومات کی لعنتوں میں گرفتار ہیں.جس کی وجہ سے وہ جماعت کی ترقی میں روک بنے ہوئے ہیں.اب وقت آگیا ہے کہ رسومات کے طوق گلوں سے اتار کر پھینک دیئے جائیں اور ایک صاف، سادہ معاشرہ احمدی جماعت کا ہو جس کی خواتین ہر قسم کی بدعت اور رسم سے آزاد اور پاک ہوں.اپنی اگلی نسل کو دین دار بنانے کے لئے بہت ضروری ہے کہ ہم خودان بُرائیوں کو ترک کریں اور اپنا نیک نمونہ ان کے سامنے پیش کریں.اور کل حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پردہ کے متعلق بھی تنبیہہ کی ہے.خدا کرے آپ میں سے جو کمزور ہیں وہ وقت پر سنبھل جائیں اور اپنی عملی کمزوریوں کو دور کریں.پھر نہایت ضروری ہے کہ احمدی مائیں اپنے جگر گوشوں کو اسلام کی خاطر وقف کریں.ایک مرد اگر اپنے آپ کو وقف کرتا ہے تو اس کا ثواب صرف اسے ملتا ہے لیکن ایک ماں اپنے بچہ کوخدا تعالیٰ کی خاطر وقف کرتی ہے تو جہاں اس کے بیٹے کو ثواب ملے گا وہاں اس ماں کو بھی ملے گا جس کی گود سے وہ نونہال پروان چڑھا ہوگا.موجودہ مالی دور میں وقف زندگی کی طرف اتنی توجہ نہیں رہی جتنی ہم سے پہلے احباب جماعت میں تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں سینکڑوں لوگ گھر بار چھوڑ کر دیا مسیح میں آبسے اور نہایت ہی کم گزارہ میں دین کی خدمت میں زندگیاں گزار دیں.اس نمونہ کو پھر سے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی اب ضرورت ہے.بچہ سب سے زیادہ ماں کا اثر لیتا ہے.اگر ماں اس کے کان میں یہ ڈالتی رہے کہ تم نے بڑے ہو کر دین سیکھنا ہے.دین کی خدمت کرنی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ خود بڑے ہو کر اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے نہ پیش کرے.پس میری بہنو! اس وقت مادیت ، دنیا پرستی ، دنیاوی عیش و عشرت اور لالچ کی ایک آگ ہے جو ہماری

Page 647

629 طرف بڑھ رہی ہے ہم نے اپنے گھروں ، اپنے بچوں ، اپنے محلوں ، اپنے شہروں کو اس آگ کے شعلوں سے محفوظ رکھنا ہے.اور اس کا علاج صرف یہی ہے کہ قرآن پڑھیں.قرآن پر عمل کریں کہ یہی ہمارا دستور العمل ہے اور یہی ہمارا مقصد حیات.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.ہم اس بات کے گواہ ہیں اور تمام دنیا کے سامنے اس شہادت کو ادا کرتے ہیں کہ ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے.قرآن سے پایا.ہم نے اس خدا کی آواز سنی.اور اُس کے پُر زور بازو کے نشان دیکھے جس نے قرآن کو بھیجا.سو ہم یقین لائے کہ وہی سچا خدا اور تمام جہانوں کا مالک ہے ہمارا دل اُس یقین سے ایسا پُر ہے جیسا کہ سمندر کی زمین پانی سے.سو ہم بصیرت کی راہ سے اس دین اور اس روشنی کی طرف ہر ایک کو بلاتے ہیں.ہم نے اس نور حقیقی کو پایا جس کے ساتھ سب ظلمانی پر دے اٹھ جاتے ہیں اور غیر اللہ سے در حقیقت دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے.یہی ایک راہ ہے جس سے انسان نفسانی جذبات اور ظلمات سے ایسا با ہر آ جاتا ہے جیسا کہ سانپ اپنی کینچلی سے.“ روحانی خزائن جلد 13 - کتاب البریہ صفحہ 65 سو آئندہ سال کے لئے تمام نمائندگان یہاں سے جا کر ایک مربوط اور منظم لائحہ عمل قرآن کریم کی تعلیم کا بنائیں اور گزشتہ ہستیوں کو ترک کرتے ہوئے آئندہ اس کمی کو دور کریں.جوان میں موجود ہے.ضرورت صرف عزم کرنے کی ہے.دنیا کا کوئی کام ناممکن نہیں.لفظ ناممکن احمدی مستورات کی لغت میں نہیں ہونا چاہئے.اگر ہماری مستورات لاکھوں روپے جمع کر کے مساجد تعمیر کرواسکتی ہیں تو اپنی قربانی دینے والی بہنوں سے ہم یقینا یقینا یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے اوقات صرف کر کے اپنی بچیوں کی دینی تعلیم کی طرف پوری توجہ دیں گی.میری عزیز بہنو! قوم کے بچے آپ کے پاس خدا تعالیٰ کی ایک امانت ہیں.ان کی صحیح تربیت کرنا.انہیں دین دار اور باخدا بنانا آپ کا کام ہے.خدا کرے کہ آپ کی گودوں کے پالے اور آپ کی قوم کے بچے آپ کی تربیت میں اپنے رب کو پہچانیں اس کے فضلوں کے وارث بنیں اپنے رب کے حضور انتہائی قربانیاں بھی بشاشت سے پیش کریں.آمین الھم آمین.سال رواں کے کاموں پر تبصرہ کا تو وقت نہیں لیکن خواتین ربوہ آپ سب کی دعاؤں اور شکریہ کی حقدار ہیں جنہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ

Page 648

630 اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر اس سال تین ہفتہ میں آٹھ نو ہزار صدریاں مجاہدین پاکستان کے لئے تیار کر کے بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جز اصن اللہ احسن الجزاء.اور آپ کے لئے ایک نمونہ کہ ہر کام میں اطاعت امام کا ایسا ہی شاندار نمونہ دکھانا چاہئے.اس طرف بھی توجہ دلاتی ہوں کہ خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لجنات کے سپر داس سال جلسہ سالانہ کے لئے ایک کام فرمایا ہے.یعنی اس صورت میں کہ نان بائی پوری تعداد میں میسر نہ آئیں تو عورتیں پیڑے بنانے کے لئے تیار رہیں.ہر لجنہ یہاں سے جا کر ایسی مستورات کے ناموں سے اطلاع دیں اور پہنچنے کے وقت سے بھی تا ان کو ایک جگہ ٹھہرانے کا انتظام کیا جا سکے اپنے امام کی آواز پر لبیک کہہ کر خدا تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا حاصل کریں.اس سال کا جلسہ سالانہ بھی خدا کرے ہمارے لئے خوشیوں اور مسرتوں کے پیغام لائے.ہماری ہر ممبر جلسہ سالانہ پر جو بیج بنوایا گیا ہے.لگا کر آئے.اسی طرح اردو انگریزی کے مجلہ جات جو شائع کئے گئے ہیں زیادہ سے زیادہ اپنا دائرہ وسیع کرتے ہوئے ان کو ان تک پہنچائیں جو اسے پڑھیں اور جماعت احمدیہ کے متعلق جو غلط تاثرات ہیں وہ دور ہوں اور لجنہ اماء اللہ کی خدمات کا تعارف حاصل ہو سال رواں میں شعبه اصلاح وارشاد کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.اللہ تعالیٰ ان خدمات کی توفیق عطا کرے جو اس کی رضا کا باعث ہوں.آمین.مصباح دسمبر 1972 ء

Page 649

631 جماعت احمدیہ کے اسی ویں جلسہ سالانہ (خواتین) کے موقع پر افتتاحی خطاب 26 دسمبر 1972ء کل 25 دسمبر کو لجنہ اماء اللہ کے قیام پر پورے پچاس سال گذر چکے ہیں اور آج کی صبح ہمارے لئے ایک نئی منزل پر رواں ہونے کا پیغام لے کر آئی ہے.آج سے پچاس سال قبل کس کے تصور میں آسکتا تھا کہ 25 دسمبر 1922ء کو حضرت مصلح موعود کے مبارک ہاتھوں سے ایک ایسے کام کی بنیا درکھی جائے گی جو اپنے اندر نہایت با برکت اثرات رکھے گی.اس دور کی بچیاں اس زمانہ کا تصور بھی صحیح طور پر نہیں کرسکتیں.جب تعلیم قریباً نہ ہونے کے برابر تھی.ڈپلوما اور ڈگری کا تو تصور بھی نہ تھا.خود قادیان میں 1922ء تک صرف ایک پرائمری سکول تھا.ان حالات میں کون کہ سکتا تھا اس وقت کہ یہ تنظیم جس کی صرف چودہ ممبرات ہیں پھلے گی پھولے گی اور اس کی شاخیں دنیا کے مختلف ممالک میں قائم ہو جائیں گی اور وہ وقت بھی آئے گا کہ لجنہ کے اجتماع پر دنیا کے چاروں کونوں سے نمائندگان شمولیت کے لئے آئیں گی.ہزاروں رحمتیں ہوں اس اسیروں کے رستگار پر جس نے صحیح وقت پر احمدی خواتین کی تنظیم لجنہ اماءاللہ کی بنیاد ڈالی.اور جس کی رہنمائی میں ترقی کی منازل طے کرتا ہوا اللہ تعالیٰ کے راہ میں قربانیاں دیتا ہوالجنہ اماءاللہ کا یہ کا رواں اپنی زندگی کی پچاس منازل طے کر کے ترقی کی نئی راہیں استوار کر رہا ہے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمُصْلِحِ الْمَوْعُودِ مبارک تھیں وہ ہستیاں جنہوں نے حضرت مصلح موعود کی آواز پر لبیک کہا.آپ کی ہر تحریک پر لبیک کہتی ہوئی آگے آئیں اور اس کو کامیاب بنانے کے لئے اپنی تمام قو تیں صرف کر دیں.اور مبارک تھیں وہ ہستیاں جو یکے بعد دیگرے قربانیوں کے معیار کو بلند سے بلند تر کرتی چلی گئیں.جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے خوشی کا یہ دن دکھایا ہے.ہم خوش ہیں لجنہ اماءاللہ کی ترقی پر لیکن ہم ان ابتدائی مبرات کی قربانیوں کو جنہوں نے اپنے خون سے اس چمن کی آبیاری کی کبھی بھول نہیں سکتیں.جن میں سے اکثر ہم میں موجود نہیں ہیں.اگر وہ قربانیوں کا تسلسل قائم نہ رکھتیں تو آج ہم یہ دن خوشی کا بھی نہ دیکھ رہی ہوتیں.میری عزیز بہنو! آج کا دن ہمارے لئے ایک عظیم دن ہے.آج کے دن نصف صدی کا عرصہ گذار کر ہم اگلی نصف میں داخل ہو رہی ہیں آیئے ہمارے سر خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ جھک

Page 650

632 جائیں.اور اس کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے اس کا شکر ادا کریں بے انتہا شکر کہ ہم عاجز بندیوں نے جو خدمات سرانجام دیں یہ اس کی دی ہوئی توفیق اور اسی کا فضل تھا.جو کچھ اس کے حضور پیش کیا پھر بھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ہر قدم پر ہمیں دعا کرتے رہنا چاہئے جیسا کہ ہمارے آقا حضرت خلیفہ اصبح الثالث ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے لجنہ اماءاللہ کو ایک نیا لائحہ عمل عطا فرمایا ہے جس کی تین بڑی شقیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک پر عمل کرتے ہوئے ہمارے لئے کام کرنے کی نئی راہیں کھلتی ہیں.سب سے پہلی ہدایت آئندہ کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ نے احمدی مستورات اور ممبرات لجنہ کو دعاؤں پر زور دینے اور اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کرنے کی دی ہے.انسانی زندگی کا مقصد اپنے رب حقیقی کا عبد اسی دنیا میں بننا ہے اگر انسان کا اپنے خالق اور مالک سے تعلق ہی پیدا نہ ہو تو اس کی پیدائش کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے یہ سلسلہ حیات وموت اللہ تعالیٰ نے اسی لئے جاری فرمایا ہے کہ اس کے ذریعہ سے انسان کو بھی آزمائش ہو اور قوم کی اجتماعی کوششوں کے نتیجہ میں قوم کی بھی آزمائش ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرِ نِ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ.(سورۃ الملک: 32) اس آیت کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.”دنیا کی کامیابیاں ابتلاء سے خالی نہیں ہوتی ہیں.قرآن شریف میں آیا ہے.خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوةَ لِيَبْلُوَكُمُ یعنی موت اور زندگی کو پیدا کیا.تا کہ ہم تمہیں آزمائیں کامیابی اور نا کامی بھی زندگی اور موت کا سوال ہوتا ہے.کامیابی ایک قسم کی زندگی ہوتی ہے.جب کسی کو اپنے کامیاب ہونے کی خبر پہنچتی ہے تو اسمیں جان پڑ جاتی ہے اور گویانئی زندگی ملتی ہے اور اگر نا کامی کی خبر آجائے تو زندہ ہی مر جاتا ہے.(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 97) انسان کی فردی یا اجتماعی ہر دو ابدی زندگیوں کا راز بھی خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہونے پر منحصر ہے.جس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو جائے اور جس کی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے وہ خدا کی راہ میں مرتا ضرور ہے لیکن مرکز ابدی حیات اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کر لیتا ہے جس کے نتیجہ میں اسے سچی خوشحالی حاصل

Page 651

ہوتی ہے.633 حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ بچی راحت دنیا اور دنیا کی چیزوں میں ہرگز نہیں ہے حقیقت یہی ہے کہ دنیا کے تمام شعبے دیکھ کر بھی انسان سچا اور دانگی سرور حاصل نہیں کر سکتا.تم دیکھتے ہو کہ دولت مند زیادہ مال و دولت رکھنے والے ہر وقت خنداں رہتے ہیں.مگر ان کی حالت جرب یعنی خارش کے مریض کی سی ہوتی ہے جس کو کھجلانے سے راحت ملتی ہے لیکن اس خارش کا آخری نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ یہی کہ خون نکل آتا ہے پس ان دنیوی اور عارضی کا میابیوں پر اس قدر خوش مت ہو کہ حقیقی کامیابی سے دور چلے جاؤ بلکہ ان کا میابیوں کو خداشناسی کا ایک ذریعہ قرار دو اپنی ہمت اور کوشش پر نا زمت کرو اور مت سمجھو کہ یہ کامیابی ہمار کسی قابلیت اور محنت کا نتیجہ ہے بلکہ یہ سوچو کہ اس رحیم خدا نے جو بھی کسی کی سچی محنت کو ضائع نہیں کرتا ہے ہماری محنت کو بار آور کیا.اس لئے واجب اور ضروری ہے کہ ہر کامیابی پر مومن اللہ تعالیٰ کے حضور سجدات شکر بجا لائے کہ اس نے محنت کو اکارت تو نہیں جانے دیا.اس شکر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت بڑھے گی اور ایمان میں ترقی ہوگی.“ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 98) پس اپنی کسی قربانی پر نازاں نہیں ہونا چاہئے.تکبر نہ پیدا ہو،فخر نہ پیدا ہو ہر قربانی کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے کہ اس نے کتنا بڑ افضل کیا کہ اس قربانی میں شرکت کرنے کا موقع دے دیا.نئی قربانیوں کی طرف جن کا ہم سے مطالبہ کیا جائے قدم آگے بڑھانا ہے پس دعائیں کریں بے حد دعا ئیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہمیں انفرادی طور پر بھی اور من حیث القوم بھی حاصل رہے.جلسہ سالانہ کے ان مبارک ایام میں ہم میں سے ہر ایک کا سر عاجزی کے ساتھ دعاؤں کے لئے خدا تعالیٰ کے آستانہ پر جھکا رہے ہر زبان پر تسبیح ہو اور ہر عورت کے لبوں سے درود کی آواز آرہی ہو.روحانی زندگی کے لئے جس میں کوئی کھوٹ نہ ہو بہت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہا جائے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.يأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيْبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمُ.(الانفال: 25) اے مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی بات سنو.جبکہ وہ تمہیں زندہ کرنے کے لئے پکارے خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہنا اور آپ کے بتائے ہوئے لائحہ عمل پر چلتے چلے جانا ہی ہمارا فرض ہونا چاہئے کہ اس کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی رضا حاصل کر سکتی ہیں.

Page 652

634 لجنہ اماءاللہ کے ابتدائی مقاصد جو حضرت مصلح موعود نے ترتیب دئے ان میں سے ایک ضروری ارشاد حضور کا یہ بھی تھا کہ لجنہ اماءاللہ کی تمام کا روائیاں جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لئے جو بھی خلیفہ وقت ہو اس کی تیار کردہ سکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مد نظر رکھ کر ہوں.بالفاظ دیگر اپنی عقل سمجھ سے ایک کام کرنے میں وہ برکت اور ثواب حاصل نہیں ہوسکتا جو خلیفہ وقت کی تیار کردہ سکیم کے مطابق اور آپ کی اطاعت میں اس سکیم کو فروغ دینے میں ہوسکتا ہے.آئندہ سالوں کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو ہدایات دی ہیں ہر لجنہ اماءاللہ کو بحیثیت مجموعی بھی اور ہر احمدی عورت کو انفرادی طور پر بھی عمل کرنا چاہئے کہ یہ ہدایات ہماری انفرادی روحانی زندگی کے لئے بھی ہیں اور اجتماعی ترقی کے لئے بھی ہیں.پچاس سالہ موڑ سے گذر کر جو راستہ ایک نئی منزل کی طرف جاتا ہے اس پر کامیابی سے چلنے اور منزل تک پہنچنے کے لئے ان ہدایات ہر عمل کرنا بے حد ضروری ہے اور ان ہدایات میں سے پہلی ہدایت نماز تہجد کی باقاعدگی اور دعاؤں پر زور دینا ہے.انتہائی عاجزی اختیار کرتے ہوئے فنا کا جبہ پہننا ہے.تمام لجنات کو اپنے پروگرام آئندہ سال ایسے بنانے چاہئیں جن میں ممبرات کو نماز تہجد کی پابندی اور دعاؤں کی تلقین کی جائے.اور ہرممبر لجنہ اماءاللہ کا کردار، اخلاق اس کی زندگی سب اسلامی تعلیم کے سانچے میں ڈھلے ہوں، ہماری عہدہ داران کو چاہئے کہ اپنے عمل سے بھی اور اپنی تلقین ونصیحت سے بھی اتنا چرچا کریں کہ ہر احمدی خاتون نماز تہجد کی عادی ہو جائے.دوسرا ارشاد حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اپنے معاشرہ کو حسین اور حسین تر بنانے کے متعلق پردہ کا ہے.پردہ کرنا بھی احکام الہی میں سے ایک حکم ہے.خدا تعالیٰ کے کسی بھی حکم کو دانستہ توڑنے والی بہن اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں کر سکتی.اس کے فضلوں کو جذب نہیں کر سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے.حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے.سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کر وایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو.“ روحانی خزائن جلد 19 - کشتی نوح صفحہ 26

Page 653

635 قرآن پڑھنے، سمجھے اور عمل کرنے کی طرف توجہ دیں اور لجنات میں قرآن پڑھانے کا انتظام کریں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تنبیہ فرما دی ہے اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو اس موقع پر میں آپ تک پہنچاتی ہوں.انشاء اللہ تعالیٰ.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریر جس میں آپ نے ہدایت دی ہیں عنقریب شائع کر کے ہر احمدی گھرانہ تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی جب وہ تقریر چھپ جائے تو لجنات کا فرض ہوگا کہ کوشش کریں ہر احمدی گھرانہ میں وہ تقریر پہنچ جائے اور ہر احمدی خاتون جو ناخواندہ ہے ان کو سنادی جائے.تا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہر احمدی خاتون کے کانوں تک پہنچ جائے.تیسری چیز جس کی حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے وہ مُردہ لجنات کو زندہ کرنا اور لجنہ اماءاللہ کی تنظیم مضبوط کرتا ہے.پاکستان میں ساڑھے پانچ سو کے قریب لجنات ہیں.جن میں ایک سولجنات بھی رپورٹیں نہیں بھجواتیں یعنی نام کی لجنہ قائم ہے فعال لجنہ نہیں.مرکزی لجنہ سے اس کا تعلق قائم نہیں ہوا جس کے نتیجہ میں وہ نہ ہدایات حاصل کر سکتی ہیں نہ عمل کرتی ہیں.اگر یہ لجنات سب کی سب فعال ہوتیں تو ان کی نمائندگان ضرور سالانہ اجتماع کے موقعہ پر آتیں لیکن صرف 143 لجنات کی نمائندگان نے اجتماع میں شرکت کی جن میں سے چھ بیرون پاکستان کی لجنات تھیں جو پاکستان کی بہت سی لجنات سے بہتر کام کر رہی ہیں.ان نیم مُردہ لجنات میں زندگی کی لہر دوڑانا حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایده اللہ تعالیٰ نے ہمارا فرض قرار دیا ہے.اور اس کے لئے جہاں ہر لجنہ کی عہدہ دار ذمہ دار ہیں وہاں ضلع کے صدر مقام کی لجنہ پر بھی بہت ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ضلع کے دیہات کا دورہ کر کے ان کو بیدار کریں.جو بھی ہدایت حضرت خلیفہ امسح الثالث ایدہ اللہ تعالی نے ہمیں اپنا دائرہ خدمت وسیع کرنے کی دی ہے ہر احمدی خاتون کو بغیر لحاظ مذہب و ملت ہر انسان کی ہر رنگ کی خدمت کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے.اور یہ دائرہ خدمت ہر روز پہلے سے وسیع ہو.خدمت سے مراد صرف مالی خدمت ہی نہیں جہاں پیسے سے خدمت کر سکتی ہوں وہاں پیسے سے کریں.جہاں اپنے ہاتھوں سے کر سکتی ہیں وہاں اپنے ہاتھوں سے کریں.ناخواندہ کو اردو لکھنا پڑھنا سکھا کر.قرآن مجید پڑھا کر نماز سکھا کر نماز کا ترجمہ سکھا کر ان کی غلط فہمیاں دور کر کے.جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ، رسومات کے پھندوں سے رہا کر کے آپ انسانیت کی بہت بڑی خدمت کر سکتی ہیں.آپ کے اردگر درہنے والیوں کو یہ یقین کامل ہونا چاہئے کہ ہر قدم پر لجنہ اماءاللہ کی میرات ان کی راہ نمائی کر کے ان کی صحیح خدمت کر سکتی ہیں.اپنا دائرہ وسیع کرتے

Page 654

636 ہوئے لجنہ اماءاللہ کا مجلہ جو لجنہ اماءاللہ کے پچاس سال گذرنے کی تقریب پر اردو اور انگریزی میں شائع کیا گیا ہے زیادہ سے زیادہ خریدیں اور دوسروں کو پڑھنے کے لئے دیں تالجنہ اماءاللہ اور آپ کی خدمات کا تعارف ان کو ہو.ان کی غلط فہمیاں دور ہوں اور ان کو معلوم ہو کہ لجنہ اماءاللہ کا قیام انسانیت کی خدمت کرنے کے لئے ہے.جو نہیں پڑھنا چاہتیں انہیں پڑھائیں اور علم کے نور سے ان کے دل و دماغ کو منور کریں.اسی سلسلہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تعلیم بالغاں پر زور دینے بچوں کو دینی تعلیم دینے کے لئے کہانیوں کے رنگ میں نصاب تیار کرانے اور ان کو پڑھانے کی ذمہ داری بھی سونپی ہے.یہ ایک وسیع پروگرام ہے جس پر اگر آپ عمل شروع کر دیں تو آپ کے لئے ترقی کی نئی را ہیں کھلیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.قرآن مجید کے بڑے حکم دو ہی ہیں.ایک تو حید و محبت و اطاعت باری عزاسمہ دوسری ہمدردی اپنے (ازالہ اوہام صفحہ 550 روحانی خزائن جلد 3) بھائیوں اور بنی نوع کی.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت میں شرط نہم یہی قرار دی ہے کہ عام خلق اللہ کی ہمدری میں محض اللہ مشغول رہے گا.اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.“ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنی نوع انسان سے ہمدردی کی تعلیم جماعت کو دیتے ہوئے فرماتے ہیں.شر سے پر ہیز کرو اور بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی بجالا ؤ.اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک کرو کہ اس عادت سے تم فرشتہ کی طرح ہو جائے گے.“ پھر آپ فرماتے ہیں بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے جب تک دشمن کے لئے دعانہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا.اُدْعُونِی اَسْتَجِبْ لَكُمْ میں اللہ تعالیٰ نے کوئی قید لگائی کہ دشمن کے لئے دعا کرو تو قبول نہیں کروں گا بلکہ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے لئے دعا کرنا یہ بھی سنت نبوی ہے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی سے مسلمان ہوئے.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 68) پس اپنی محبت، ہمدردی اور خلقی کا دائرہ وسیع کریں ہر ایک کی خدمت کے لئے کمر بستہ رہیں جس رنگ میں بھی ممکن ہو.ہمارے ملک میں ابھی تک جہالت عام ہے خصوصاً دیہاتی علاقوں میں احمدی خواتین کا

Page 655

637 فرض ہے.عموماً اور لجنات اماءاللہ کی عہدیدار کا خصوصاً کہ ان کو قرآن مجید اور اردولکھنا پڑھنا سکھانے کے پروگرام بنا ئیں.ان کو دین کے بنیادی اصول سکھائیں.ہزاروں گناہ جہالت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں یہ بہت بڑا کام ہے.اگر اس سال ہر گاؤں اور ہر قصبہ اور ہر شہر کی لجنہ اس کا آغاز کر دے کہ جہالت کو دور کرنے اور قرآن پڑھانے کا کام منتظم طور پر شروع کر دیں تو یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا.صرف ضرورت ہے عزم کی اور استقلال سے کام کرنے کی.اس کے بعد میں اس طرف توجہ دلاتی ہوں کہ جہاں علمی لحاظ سے خواتین جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہی ہیں، مالی قربانی کے لحاظ سے ان کا مقام بہت بلند ہے وہاں تربیت کے لحاظ سے بھی ہم میں بہت سی خامیاں ہیں اور بہت جدو جہد کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک روحانی انقلاب بر پا کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے.اور اپنی بعثت کی غرض بیان فرماتے ہوئے آپ لکھتے ہیں.خدا اس جماعت کو ایک ایسی قوم بنانا چاہتا ہے جس کے نمونہ سے لوگوں کو خدایا د آوے.اور جو تقویٰ اور طہارت کے اول درجہ پر قائم ہوں اور جنہوں نے در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم رکھ لیا ہو.“ (تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ 206) اگر واقعی ہم میں سے ہر ایک ایسی ہے جو دین کو دنیا پر مقدم رکھتی ہے تو یقینا ہم اپنے عہد بیعت میں سچی ہیں اور پوری اترتی ہیں لیکن اگر ایسا نہیں اور مادی دنیا کی کشش ہمیں دین کے مقابلہ میں زیادہ ہے تو یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے.پس تبدیلی پیدا کریں اپنے اندر تا آپ کی اولا د اور آپ کی نسلیں اسلام کی خاطر انتہائی قربانے دینے والی ہوں.پس ہر ماں کا بھی فرض ہے اور عہدیداران لجنہ اماءاللہ اور نا صرات الاحمدیہ کے نگرانوں کا بھی کہ بچوں کی تربیت پر زور دیں.“ یہی آپ کا اس دور میں سب سے بڑا کام ہے.ان کو نیک خدا پرست ، خدا تعالیٰ اور رسول کریم علی سے محبت کرنے والے اور احکام نبی کے پابند.دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصائح پر چلنے والے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلہ کو بشاشت قلب سے قبول کرنے والے اور ہر حکم کی تعمیل کرنے والے، سادہ مزاج ، نرم دل مگر دین کے لئے دودھاری تلوار اور بیحد غیریت دین رکھنے والے بنا ئیں.

Page 656

638 یہ ہے آپ کا اصل کام اور اگر اس کام میں آپ کامیاب ہو جاتی ہیں تو آئندہ زمانہ کی تاریخ میں یقیناً آپ کا نام سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا.اور آنے والی نسلیں آپ پر نہایت عقیدت اور محبت کے پھول نچھاور کریں گی.خدا کرے اس امتحان میں ہر احمدی خاتون کامیاب ہو.میں اس سال چندہ تحریک خاص لجنہ اماءاللہ کی طرف توجہ دلاتی ہوں جس کی تحریک اپنی بہنوں کے سامنے جلسہ سالانہ 1968ء کے موقع پر ہوئی تھی.اس خوشی میں 1972ء میں جبکہ لجنہ اماءاللہ کی طرف سے ایک لاکھ روپے اشاعت قرآن مجید کے لئے پیش کئے جائیں گے.تاریخ لجنہ اماءاللہ پچاس سالہ لکھی جائے گی.اور دفتر لجنہ اماءاللہ جس میں نصرت انڈسٹریل سکول اور مہمان خانہ لائبریری وغیرہ کی عمارتیں شامل ہوں گی تعمیر کیا جائے گا.سو الحمد لل ثم الحمدللہ تاریخ لجنہ اماءاللہ کی تین جلدیں مکمل ہو کر طبع ہو چکی ہیں.چوتھی جلد جس میں شاخ ہائے پاکستان و بیرون کا تفصیلی تذکرہ کیا جائے گا.عنقریب شائع کر دی جائے گی.انشاء اللہ عزیز نیز ایک مختصر تاریخ لجنہ اماءاللہ پچاس سالہ حالات پر مشتمل ہوگی.ایک جلد انگریزی میں بھی جلد شائع کرانے کا ارادہ ہے.سالانہ اجتماع کے موقع پر ایک لاکھ روپے اشاعت قرآن کے لئے لجنہ اماءاللہ کی طرف سے اور ایک لاکھ روپے لبنات انگلستان کی طرف سے (اللہ تعالیٰ ان کی اس عظیم الشان قربانی کو قبول فرمائے اور اس سے بڑھ کر قربانی کی توفیق عطا فرمائے) حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کئے جاچکے ہیں.اب تیسری شق یعنی عمارتوں والا کام باقی رہ گیا ہے.چندہ تحریک خاص لجنہ اس وقت تک کل 2,68,909 روپے جمع ہوا ہے جس میں سے ایک لاکھ روپے پیش کیا جا چکا ہے.عمارات کا سلسلہ شروع کرنے سے قبل روپیہ کی فراہمی کی ضرورت ہے، اس لئے تمام لجنات کو چاہئے کہ سب بہنوں سے ان کے پورے وعدے وصول کرنے کی کوشش کریں.لجنہ اماءاللہ کی پچاس سالہ تقریب مسرت کے موقع پر اردو اور انگریزی یادگار با تصویر مجلے بھی شائع کئے گئے ہیں.ان کو خریدیں اور دوسروں کو پڑھنے کے لئے دیں.اس طرح لجنہ اماء اللہ کی اس یادگاری تقریب کے نشان کے طور پر ایک پیج بھی لجنہ اماءاللہ نے بنوایا ہے جن بہنوں نے ابھی تک نہیں لیا وہ بھی خریدیں اور لجنہ اماءاللہ کی ہر تقریب میں اسے لگایا کریں.مصباح کا سالانہ نمبر بھی ان تقاریر اور مقالہ جات پر مشتمل ہے جو سالانہ اجتماع کے موقع پر پڑھی

Page 657

639 گئیں.اور جوسب کی سب تاریخی لجنہ اماءاللہ کا ایک قیمتی حصہ ہیں اس کو خریدنے کی طرف بھی توجہ کریں.اللہ تعالیٰ ہمارا یہ جلسہ سالانہ بہت مبارک کرے اور لجنہ اماءاللہ کی میرات کو اگلی نصف صدی میں پہلے سے بڑھ کر ایسی قربانیاں دینے اور اشاعت میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے.جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.آمین (الفضل 21 جنوری 1973ء)

Page 658

640 جلسہ سالانہ 1972ء صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا خواتین سے الوداعی خطاب صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ مدظلہ العالی نے اپنے الوداعی خطاب میں فرمایا کہ گو آج جلسہ کا اختتامی دن ہے لیکن بعض بہنوں کو اس جلسہ اور اس کی عظمت کا احساس نہیں ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس غرض سے اس جلسہ کے انعقاد کا حکم فرمایا تھا وہ تبھی پوری ہوسکتی ہے جب ہم اپنے نمونہ سے اور اپنے قول و فعل سے ثابت کریں ہم یہ جلسہ میلے اور تماشے کے لئے نہیں مناتے بلکہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے خلیفہ کی باتیں سنے اور ان پر عمل کرنے کے لئے آتے ہیں.ہزاروں ایسی بہنیں ہوں گی جو مغربی افریقہ، انڈونیشیا، نبی ، آئر لینڈ، یورپ وغیرہ میں ہوں گی اور ان کے دل خدا اور اس کے رسول کی محبت کے لئے یہ سوچ کر تڑپ رہے ہوں گے کہ حضور ایدہ اللہ خطاب کر رہے ہیں چنانچہ بڑی مبارک ہیں وہ ہستیاں جنہوں نے ان تقاریر سے فائدہ اٹھایا اور بڑی بد قسمت ہیں وہ ہستیاں جنہوں نے اپنا وقت کھانے پینے اور پھرنے میں صرف کیا.آپ نے تقویٰ اختیار کرنے، اللہ تعالیٰ پر توکل رکھنے، یاد الہی میں مشغول ہونے اور اپنے عہد کو صحیح طور پر نبھانے کی تلقین فرمائی اور کہا اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم صحت احمدیت اور اسلام کی نعمت عطا کی ہے.میری بہنو !وقت کی قدر پہچانیں آپ کی قوت صلاحیتیں اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی اشاعت کے لئے خرچ ہونی چاہئیں.اسی مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو معبوث کیا اس لئے ضروری ہے اور بڑا ہی ضروری ہے کہ ہماری ہر بہن قرآن مجید اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرے.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ظلمات سے نور کی طرف لے جانے کے لئے دنیا میں بھیجا.آپ نے فرمایا قرآن مجید کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے.آپ کسی قصبہ میں یا شہر میں کسی بھی عہدہ پر ہوں آپ میں سے ہر ایک جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہے اس کا فرض ہے کہ وہ قرآن مجید کی اشاعت میں حصہ لے سیکھے سکھائے.ترجمہ پڑھائے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر عمل کرے.قرآن کریم کی تعلیم آپ کے عمل ، اخلاق ، روزمرہ کی زندگی اور قول و فعل سے ثابت ہو...سے نکال کر سینوں کو منور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے تھے.

Page 659

641 آپ نے فرمایا لجنہ اماءاللہ کی تاریخ مکمل ہو چکی ہے ہمارے ہر احمدی گھرانے میں اس کو موجود ہونا چاہئے.تا کہ آپ کی قربانیوں کا تذکرہ آپ کی آئندہ نسل پڑھے.خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی نسل کی (الفضل 14 جنوری 1973ء) تربیت کر سکیں.آمین

Page 660

642 پیغامات

Page 661

643 پہلے جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ کراچی کے لئے پیغام 2 دسمبر 1956ء کو لجنہ اماءاللہ کراچی کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ بطور مرکزی نمائندہ اس جلسہ میں شامل ہوئیں.آپ نے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا مندرجہ ذیل پیغام بھی پڑھ کر سنایا جو خاص اس موقع کیلئے آپ نے تحریر فرمایا تھا.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم محترم اور عزیز بہنو ! وعلى عبده المسيح الموعود السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی سعادت عطا فرمائی اور ہم نے اپنی آنکھوں سے اسلام کی صداقت کے عظیم الشان نشان کو حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے وجود میں پورا ہوتے دیکھا ، آپ نہ صرف جماعت کے خلیفہ ہیں بلکہ وہ موعود خلیفہ ہیں جس کی پیدائش سے بھی قبل اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر! تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں.اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو.(اشتہار 20 فروری 1886ء) ہم نے یہ پیش گوئی اپنی آنکھوں سے پوری ہوتی ہوئی دیکھی اور سینکڑوں نشانات آپ کے ذریعے سے پورے ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں.ہمارا خلافت پر ایمان ایسا غیر متزلزل ہونا چاہئے کہ مخالفوں کا سخت سے سخت وار اس کو ہلکا سا جھٹکا بھی نہ دے سکے اولاد کی تربیت میں سب سے بڑا حصہ عورت کا ہوتا ہے کیونکہ مرد کا بیشتر وقت گھر سے باہر گزرتا ہے.جیسا ایمان عورت کا ہوگا از ما اولاد کا بھی وہی ہوگا.پس اپنی آئندہ نسلوں کے ایمانوں کو اعلیٰ اور مضبوط بنانے کے لئے لازم ہے کہ آپ کے ایمان بھی نہایت مضبوط ہوں.آپ کو خلافت کے ساتھ اس قدر وابستگی ہو کہ ان تعلقات کے سامنے آپ باقی سب تعلقات کو بیج سمجھیں.پھر آپ پر سب سے بڑی قومی ذمہ داری اپنی اولادوں کی نیک تربیت کرنا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

Page 662

644 كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مُسْئُولٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ (بخاری کتاب الجمعه باب الجمعة في القرى والمدن) تم میں سے ہر ایک چرا رہا ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا“ ہر عورت قیامت کے دن اپنی اولاد کے اعمال کے لئے جواب دہ ہوگی کیونکہ ان کی نیک تربیت کرنا اس کا کام تھا.موجودہ زمانہ میں جبکہ اسلام پر ایک طرف سے دہریت حملہ آور ہے اور دوسری طرف سے عیسائیت ، بچوں کو سچے مسلمان بنانا آپ ہی کا کام ہے جو صرف نام کے مسلمان نہ ہوں بلکہ ان کا عمل حقیقی مسلمانوں والا ہو اور وہ اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنے کے لئے ہر قربانی دے سکیں.یہ کام آپ جبھی کر سکتی ہیں جب خود آپ کا ایمان بھی پختہ ہو اور آپ کا عمل بھی ایسا ہو جو آپ کی اولادوں کے لئے نمونہ ہو.اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کو توفیق دے کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی سچی نام لیوا بنیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ان سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق دے.آمین اللھم آمین.خاکسار مریم صدیقہ جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ الفضل 9 دسمبر 1956ء

Page 663

645 ناصرات الاحمد یہ راولپنڈی کے پہلے سالانہ اجتماع کے لئے پیغام ناصرات الاحمدیہ کا پہلا سالانہ اجتماع 18 ستمبر 1960ء کو راولپنڈی میں منعقد ہوا اس اجتماع کے لئے صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے جو پیغام بھجوایا پیش کیا جاتا ہے.پیغام اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر لجنہ اماءاللہ راولپنڈی کی نگران شعبہ ناصرات الاحمدیہ نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں ان کے اجتماع کے موقع پر جو 18 ستمبر کو منعقد ہو رہا ہے ان کے لئے کوئی پیغام بھجواؤں.سوان کی خواہش کے پیش نظر مندرجہ ذیل مضمون بھجوا رہی ہوں.سب سے پہلے میں آپ کو ناصرات الاحمدیہ کا اجتماع منعقد کرنے پر مبارکباد دیتی ہوں.خدا کرے کہ اجتماع کامیاب ہو اور ایسے پروگرام بنائے جائیں جو ہماری بچیوں کو سچا اور باعمل مسلمان بنانے میں مفید ثابت ہوں.دو ،، ”ناصرات الاحمديه قائم کرنے کی غرض یہی ہے کہ بچپن سے ان میں مذہب کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا ہو اور بڑی ہوکر وہ اپنے سلسلہ اور قوم اور ملک کے لئے بابرکت اور مفید وجود ثابت ہوں لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان میں ابھی سے ایسی عادات اور اخلاق پیدا کئے جائیں جو ایک مسلمان کا خاصہ ہیں.سوضروری ہے کہ بچیوں کے لئے بار بار ایسے اجتماع کئے جائیں.جن میں شامل ہو کر وہ اسلامی آداب اور اسلامی اخلاق سیکھیں اور دوسروں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں.میری عزیز بچیو تم نے دنیا کو اسلام کا درس دیتا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ پہلے خود نمونہ بنو.اس کے لئے ضروری

Page 664

646 ہے کہ ایسے اخلاق پیدا کر و.جو دوسروں پر تمہاری فوقیت ظاہر کریں.مذہب اسلام نے تو زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق راہ نمائی کی ہے.لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے ان کو چھوڑ دیا اور دوسری قوموں نے انہیں اختیار کیا.چند بہت ضروری باتیں ہیں جن کی طرف تمہیں توجہ دلاتی ہوں اور وہ یہ ہیں.1.اپنے اندر سچائی کی عادت پیدا کرو.اور اس پر اس شدت سے قائم ہو کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے لیکن تمہاری زبان سے سچ کے سوا اور کچھ نہ نکلے.2.دیانت داری کی عادت ڈالو.3 محنت کی عادت ڈالو.جس کو محنت کی عادت نہیں وہ نہ دنیا میں کامیاب ہوسکتا ہے نہ دین میں.4.اپنے مذہب اور سلسلہ کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا کرو خواہ وہ قربانی مال کی صورت میں ہو.جسمانی ہو یا وقت کی ہو.لیکن خدا تعالیٰ اور اس کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سلسلہ.دوسری سب باتوں پر مقدم رہیں.اور ان سب باتوں کے حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دین کا علم حاصل کرو.اس زمانہ میں جبکہ سوفی صدی بچیاں سکولوں میں دنیاوی تعلیم حاصل کرتی ہیں.دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی علم سیکھنا اور بھی ضروری ہے تا کہ موجودہ آزادی اور مغربی تعلیم کے زیر اثر جو زنگ دلوں پر لگے وہ دینی تعلیم سے دور ہو جائے.اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہو اور احمدیت جو حقیقی اسلام ہے اس کے ساری دنیا میں پھیلانے میں تم ممد اور معاون ثابت ہو.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ تاریخ لجنہ جلد سوم نمبر 49

Page 665

647 صدر لجنہ مرکزیہ کا پیغام بنام لجنہ کراچی نومبر 1961ء میں لجنہ اماءاللہ کراچی کے سالانہ جلسہ کے موقع پر حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے جو پیغام لجنہ کراچی کے نام ارسال فرمایا پیش کیا جاتا ہے.خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ میری عزیز بہنو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ لجنہ اماءاللہ کراچی نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں ان کے سالانہ اجتماع کے موقع پر ان کے نام کوئی پیغام ارسال کروں.ان کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے میں یہ چند سطور لکھ کر بھیج رہی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی ایک غرض کسر صلیب تھی.چنانچہ احمدیت کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ آپ نے رکس شاندار طریق سے عیسائیت کا مقابلہ فرمایا.ہر مناظرہ اور بحث میں عیسائیت کو منہ کی کھانی پڑی.ہزاروں تشنہ اور بھٹکی ہوئی روحوں نے آپ کے ذریعہ سے صداقت کو پہچانا.اب پھر کچھ عرصہ سے عیسائیوں نے پاکستان میں اپنی تبلیغ زور وشور سے شروع کی ہے.جاہل کم علم اور نا سمجھ لوگوں کو مختلف طریقوں سے امداد دے کر عیسائیت کے سنہرے جال میں پھنسا رہے ہیں.ایسے مسلمان جو صرف نام کے مسلمان ہیں ان سے متاثر نظر آتے ہیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم پورے زور کے ساتھ عیسائیت کا مقابلہ کریں.اور وہ بھی ہو سکتا ہے جب اتنے ہی زور سے ہم اسلام کی تبلیغ کریں.اور اسلام کے اصولوں کو عیسائیوں کے سامنے پیش کریں.جس طرح مردوں کو تبلیغ کرتے ہیں.اسی طرح عورتیں عورتوں کو تبلیغ کریں.عیسائی مشنری عورتوں کی تبلیغ کے بڑے ذرائع تو سکول ہیں جن میں وہ عیسائیت کی تعلیم آہستہ آہستہ بچوں کو دیتی رہی ہیں.یہاں تک کہ ان کے لاشعور میں وہ تعلیم رچ کر ان کے دلوں پر اثر کر جاتی ہے.اور بڑے ہو کر وہ بچے حقیقی مسلمان نہیں رہ سکتے.صرف کراچی میں ہی بیسیوں عیسائی سکول ہیں.ان میں ہماری جماعت کے بچے پڑھ رہے ہیں.اول تو عیسائی سکولوں میں تعلیم سرے سے دلوانی ہی نہیں چاہئے.لیکن اگر کسی کو مجبوری سے دلوانی بھی پڑے تو ان کی ماؤں کو چاہئے کہ وہ بچے کو سکول سے واپسی پر باقاعدہ قرآن مجید پڑھائیں.دینی معلومات سکھائیں اور اس بات کا روزانہ جائزہ لیں کہ ان کے بچوں پر عیسائیت کا رنگ تو نہیں چڑھ رہا.صلیبیوں کے سائے میں پروان چڑھنے والے بچے

Page 666

648 کا سر صلیب کیسے ہو سکتے ہیں.جنگ کی ہمیشہ دو صورتیں ہوتی ہیں.ایک مدافعانہ جنگ ، دوسری خود حملہ کرنا.مدافعانہ جنگ تو عیسائیت کے خلاف اسی طرح لڑی جاسکتی ہے کہ اپنے بچوں اور بچیوں کو عیسائیت کے سیلاب سے محفوظ رکھیں.تا کہ یہ زہر آپ کی اگلی نسل میں نہ چلا جائے.ان کی دینی تعلیم کا خود خیال رکھیں.دین سے محبت، سلسلہ سے محبت،خلافت سے محبت ان کے اندر پیدا کریں.وہ اپنے اسلاف کی تاریخ اور شاندار روایات سے واقف ہوں.تاکہ ان کے اندر بھی مذہب کی خاطر قربانی دینے کا شوق ہو.ان میں نظام کی اطاعت کا مادہ پیدا کریں.سلسلہ اور اسلام کی ترقی کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے والا بنا ئیں.جب اسلام، محمدرسول اللہ ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت ان کی رگ رگ میں بس جائے گی تو پھر آپ کو کوئی خطرہ باقی نہ رہے گا.کہ عیسائیت سے وہ کسی طرح بھی متاثر ہو سکتے ہیں.دوسرا طریق عیسائیت سے جنگ کا یہ ہے کہ آپ میں سے ہر عورت کو عیسائیت پر اسلام کی برتری کے دلائل آتے ہوں.اور اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ نہایت ضروری ہے.آپ کو چاہئے کہ اپنے اجلاسوں میں ان کتب کا جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیت کے اعتراضات کے جوابات دیئے ہیں.باقاعدہ درس دیں تا کہ مستورات کو وہ جوابات اچھی طرح ذہن نشین ہو جائیں.عیسائی تعلیم یافتہ طبقہ میں تبلیغی لٹریچر کثرت سے تقسیم کریں.یہ سارے پروگرام ایک وسیع پروگرام کے ماتحت کئے جاسکتے ہیں.کراچی بین الاقوامی حیثیت کا شہر ہے جہاں عیسائیوں کی بھی خاصی تعداد رہتی ہے.کراچی اور کراچی کے گردو نواح میں ان کی تبلیغ بھی خاصی جاری ہے.اس لئے آپ کو بھی منتظم اور متحد ہو کر عیسائیت کے خلاف جنگ کرنی ہوگی.ہمارے مبلغ دنیا کے کونے کونے میں اسلام کا پیغام پہنچارہے ہیں اور خود ہمارے وطن میں عیسائی اسلام کی جڑیں کاٹنے کی فکر میں ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی معنوں میں اسلام کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے.آمین مصباح جون 1962ء

Page 667

649 پیغام برائے تربیتی کلاس 19 مارچ 1965ء کو ربوہ میں ایک تربیتی کلاس کا افتتاح ہوا.یہ کلاس بڑی عمر کی عورتوں کو دینی علوم سے روشناس کرانے کے لئے لگائی گئی تھی.محترمہ سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ نائب صدر لجنہ اماء الله مرکز بیہ نے کلاس کا افتتاح فرمایا اور حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ مرکزیہ کا کلاس کے نام ذیل کا پیغام پڑھ کر سنایا.آج جس تعلیمی، تربیتی کلاس کا افتتاح لجنہ اماء اللہ کے شعبہ تعلیم کے تحت کیا جا رہا ہے اس کی غرض یہ ہے کہ مرکز میں رہنے والی شادی شدہ خواتین جو سکولوں اور کالجوں میں علم حاصل نہیں کر سکتیں.وہ اس میں داخلہ لے کر علم حاصل کر سکیں.آنحضرت ﷺ کے فرمان مقدس کے مطابق کہ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَمُسْلِمَةٍ (ابن ماجه باب فصل العلماء) ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت کے لئے علم کا حاصل کرنا بہت ضروری ہے.اگر آج مسلمان اس حدیث پر عمل پیرا ہوتے تو دنیا میں ایک مسلمان بھی جاہل نہ ہوتا.یہ مد نظر رہے کہ علم سے مراد دینی علم ہے.دنیاوی علم نہیں.بے شک دنیاوی علم حاصل کرنا بھی ضروری ہے مگر وہ ثانوی چیز ہے تمام دنیا وی علوم قرآنی علم کی شاخیں ہیں.تمام علوم کا سر چشمہ قرآن مجید ہے.اس لئے پوری توجہ قرآن مجید کا ترجمہ سیکھنے اور مطلب سمجھنے کی طرف لگانی چاہئے.پھر آنحضرت ﷺ کی احادیث ہیں.حدیث سے ہمیں قرآن مجید کا مطلب سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور ہر حکم کے متعلق آنحضرت ﷺ کا فرمان اور نمونہ حدیثوں سے ہی ملتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا پڑھنا ہمارے لئے بڑا ہی ضروری ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب قرآن مجید ہی کی تفسیر ہیں.پس میں امید کرتی ہوں کہ میری عزیز بہنیں اور بچیاں جو اس درجہ میں داخلہ لیں گی وہ ہمت، استقلال اور استقامت کے ساتھ پڑھیں گی اور صرف پڑھیں گی ہی نہیں.بلکہ اس تعلیم کے مطابق اپنے اخلاق کو ڈھالیں گی اپنے نفوس کا تزکیہ کریں گی اور اپنے اعمال کو قرآن مجید کے معیار پر پرکھنے کی کوشش کریں گی.کسی نے حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ ہمیں آنحضرت ﷺ کے اخلاق کے متعلق بتائے تو آپ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کے اخلاق کے متعلق کیا پوچھتے ہو گانَ خُلُقُهُ الْقُرآن ( مسنداحمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 91) آپ کے اخلاق اور آپ کا عمل وہی تھا جس کی قرآن تعلیم دیتا ہے گویا آپ کی تعلیم اور آپ کے عمل میں کوئی تضاد نہ تھا.جن باتوں کی تعلیم قرآن مجید میں ہے.اس پر آپ عامل تھے.اور جن پر

Page 668

650 آپ کا عمل تھا اس کی آپ تعلیم دیتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فرماتے ہیں.پس سمجھ لو اور خوب سمجھ لو کہ نر اعلم و فن اور خشک تعلیم بھی کچھ کام نہیں دے سکتی.جب تک کہ عمل اور مجاہدہ اور ریاضت نہ ہو.دیکھو سر کار بھی فوجوں کو اسی خیال سے بریکار نہیں رہنے دیتی.عین امن و آرام کے دنوں میں بھی مصنوعی جنگ برپا کر کے فوجوں کو بیکار نہیں بیٹھنے دیتی.اور معمولی طور پر چاند ماری اور پریڈ وغیرہ تو ہر روز ہوتی ہی رہتی ہے.جیسا ابھی میں نے بیان کیا کہ میدان کارزار میں کامیاب ہونے کے لئے جہاں ایک طرف طریق استعمال اسلحہ وغیرہ کی تعلیم اور واقفیت کی ضرورت ہے وہاں دوسری طرف ورزش اور محل استعمال کی بھی بڑی بھاری ضرورت ہے.اور نیز حرب وضرب کے لئے تعلیم یافتہ گھوڑے چاہیں یعنی ایسے گھوڑے جو تو پوں اور بندوقوں کی آواز سے نہ ڈریں اور گردو غبار سے پراگندہ ہو کر پیچھے نہ ہٹیں.بلکہ آگے ہی بڑھیں.اسی طرح نفوس انسانی کامل ورزش اور پوری ریاضت اور حقیقی تعلیم کے بغیر اعداء اللہ کے مقابل میدان کارزار میں کامیاب نہیں ہو سکتے.“ ملفوظات جلد 1 صفحہ 36 پس میری عزیز بهنو اسلام اور کفر کی اس آخری جنگ میں ہمیں ہر احمدی عورت کی ضرورت ہے تا وہ خود دینی تعلیم سے اچھی طرح واقف ہو.اس کے مطابق عمل کر کے دنیا کے لئے نمونہ بنے.اپنے بچوں کو دینی تعلیم دینے اور ان کے اندر خدمت دین کا جذبہ پیدا کرنے کے قابل ہو سکے.اس وقت سلسلہ کو جو آپ کے وجودوں سے مدد پہنچے گی جو کام آپ احمدیت کے ستون تیار کرنے کے لئے کریں گی.ان پر آنے والی نسلیں فخر کریں گی.کیونکہ جب احمدیت ساری دنیا پر غالب آجائے گی اور سب دنیا کا مذہب اسلام ہی ہوگا.اس وقت ان قربانیوں کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی.پس میری دعا ہے کہ آپ کو جو یہ تعلیم حاصل کرنے کا سنہری موقعہ بہم پہنچایا گیا ہے.اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں ہمت نہ ہاریں.علم حاصل کرتی چلی جائیں اور اپنے عمل سے دوسروں کی بھی پیاس بجھائیں اور اپنا نمونہ قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق بنانے کی کوشش کریں.اگر علم حاصل کر کے بھی ہمارا نمونہ اس کے مطابق نہیں تو وہ غیروں پر اثر پیدا نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ آپ کو علم سیکھنے اور سکھانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین تاریخ تجنه جلد سوم صفحہ 313

Page 669

651 پیغام جلسہ برائے ممبرات لجنہ اماءاللہ کنری 6 اپریل 1966ء کو لجنہ اماءاللہ کنری کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا.ان کے اجلاس میں حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ مرکزیہ کا درج ذیل پیغام پڑھ کر سنایا گیا.اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود ممبرات لجنہ اماءاللہ کنری! خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمته الله وبركاته آپ کی خواہش پر آپ کے سالانہ اجلاس کے لئے پیغام بھجوا رہی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے اس جلسہ کو مبارک فرمائے اور آپ کو اس میں ایسی تجاویز سوچنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.جو احمدیت اور اسلام کی اشاعت کے لئے بابرکت ہوں.آمین.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عمل کیلئے ہمیشہ ہی صالح کا لفظ استعمال فرمایا ہے.عملِ صالح کا مطلب ہے وہ قربانی یا نیک کام جو محل اور موقع کے لحاظ سے ہو.جس زمانہ میں جس قسم کی قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے ان کا بہلا نا امام الزمان کی تعلیم کے مطابق عمل کرنا اور خلیفہ وقت کا حکم بجالانا ہی عمل صالح ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جماعت کے سامنے دوسکیمیں رکھی ہیں.اول جماعت کے ہر مردہ عورت اور بچہ کوکم از کم ناظرہ قرآن مجید صیح طور پر آنا چاہئے.آپ اپنی لجنہ میں جائزہ لیں کہ کوئی عورت یا لڑ کی ایسی تو نہیں جس نے ناظرہ قرآن نہ پڑھا ہوا ہو.اس کو قرآن مجید پڑھانے کا انتظام کیا جائے.اور کوشش کی جائے کہ ایک سال میں تمام مستورات اور بچیاں ناظرہ قرآن مجید پڑھ لیں.اسی طرح جو عورتیں ناظرہ پڑھی ہوئی ہیں ان کو تر جمہ پڑھایا جائے.جب تک ہمیں معلوم نہیں کہ قرآن کی آیات کا مطلب کیا ہے ہم اس کے مطابق عمل نہیں کر سکتے.پس میری عزیز بہنو! آپ کا جہاد یہی ہے کہ آپ میں سے جو قرآن مجید ناظرہ اور باترجمہ پڑھی ہوئی ہیں وہ اپنے علم کو استعمال کریں اور دوسروں کو اس علم سے فائدہ پہنچا ئیں.اللہ تعالیٰ بھی قرآن مجید میں فرماتا

Page 670

652 ہے.وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره:4) حقیقی متقی وہی کہلانے کا مستحق ہے کہ جو صلاحیتیں بھی اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا فرمائی ہیں ان سے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچائے.دوسری سکیم آپ نے جماعت کے سامنے یہ رکھی ہے کہ لوگ اپنے اوقات کو خدا کیلئے وقف کریں.اس کے ماتحت ایک طرف آپ اپنے اوقات کو قرآن مجید اور علم دین سکھانے کیلئے وقف کریں.دوسری طرف اپنے خاوندوں، بھائیوں اور بیٹوں کو مجبور کریں کہ وہ خدا کے لئے اپنے اوقات وقف کریں.آپ کی تحریک سے آپ کا خاوند یا بھائی یا بیٹا اسلام کی جو خدمت کرے گا.اس کا ثواب یقیناً آپ کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اشاعت اسلام کیلئے نسلاً بعد نسل کوشش کرتے چلے جائیں.آمین اللھم آمین.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ الفضل 4 مئی 1966ء

Page 671

653 اپنی اہم دینی ذمہ داریوں کو سمجھو اور انہیں ادا کرنے کی کوشش کرو 29 / جون 1966 ء کو لجنہ اماء اللہ راولپنڈی کے زیر اہتمام احمدیہ انٹر کالجیٹ ویمن ایسوسی ایشن راولپنڈی کا قیام عمل میں آیا.آپ نے اس موقع پر طالبات کے نام جو روح پرور پیغام بھیجا درج ذیل ہے.عزیز بچیو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم ہو کر کہ لجنہ راولپنڈی کے زیر انتظام بھی احمدیہ انٹر کالجیٹ ویمن ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے بہت مسرت ہوئی ہے.ہماری جماعت کی خواتین میں یہ کمی نمایاں طور پر نظر آ رہی تھی کہ وہ عورتیں جن کی کوئی تعلیم بھی نہیں.عمر میں بڑی ہیں.گھر کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں.سلسلہ کی خدمت کر رہی ہیں.لیکن نو جوان بچیاں جن کی ما شاء اللہ اعلیٰ تعلیم ہے.اور تعلیم کے نتیجہ میں عقل اور فہم بھی رکھتی ہیں دین کی خاطر قربانی کے میدان میں آگے نہیں بڑھ رہیں.کوئی قوم ترقی کے اعلیٰ مدارج کو حاصل نہیں کر سکتی.جب تک کہ اس کی اگلی نسل بھی پہلی نسل سے بہت بہتر اور اس کی جگہ لینے کو تیار نہ ہو.اسی غرض سے میری تحریک پر اس ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے.تا ہماری وہ بچیاں جو مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں.اپنے فرض منصبی کو پہچانیں.اپنے اپنے دائرہ عمل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کو پہنچا نہیں.ان غلط فہمیوں کو دور کریں جو ہمارے متعلق مشہور کی گئی ہیں اور آپس میں مل کر اپنے دینی علم کو بڑھائیں.حضرت مصلح موعود نے اپنی ایک تقریر میں عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا.قرآن شریف بڑی سیدھی اور آسان باتیں بیان کرتا ہے تم خود دین سیکھو اس پر عمل کرو اور اولادوں کو سکھاؤ.اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وَلَتَكُن مِّنْكُمُ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ - آل عمران : 105) اے لوگو تم میں سے ایک ایسی جماعت ہو جولوگوں کو خیر کی طرف بلائے اور معروف کے ساتھ حکم دے اور منکر سے منع کرے اور یہ وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہو جائیں گے یعنی ایسی جماعت اپنے ہر مقصد میں کامیاب ہوگی.اب بتلاؤ کون نہیں چاہتا کہ میں کامیاب ہو جاؤں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم دین کی اشاعت اور تبلیغ کرو گی تو میں تمہیں کامیاب کروں گا.“ الازهار لذوات الحمار صفحه 11

Page 672

654 پس عزیز بچیو! اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ اس نے احمدیت جو حقیقی اسلام ہے کی نعمت سے تمہیں نوازا.اور اس زمانہ کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی.اپنے مولیٰ کے اس احسان کا عملی شکر اس طرح ادا کر سکتی ہو کہ اپنی ہر سہیلی، ہر ملنے والی ہر ہم جماعت کو یہ بتا دو کہ وہ مسیح موعود علیہ السلام جس کا چودہ صدیوں سے انتظار ہو رہا تھا اور جس کے آنے کی خبر ہر صدی کے عالم دیتے چلے آئے تھے.وہ آچکا ہے.آنحضرت ﷺ کی بعثت پر چودہ سو سال پورے ہورہے ہیں.آنے والا آ چکا ہے.اب کسی کا انتظار فضول ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مانے میں ہی فلاح اور نجات ہے.تمہاری ایسوسی ایشن کی ہر مبر کا فرض ہے کہ وہ تبلیغ کا فریضہ سر انجام دے.عورتوں میں عورتوں کے ذریعہ اور لڑکیوں میں لڑکیوں کے ذریعہ تبلیغ پہنچ سکتی ہے.حضرت مصلح موعود نے جب بلجنہ کا قیام فرمایا تھا تو آپ نے اپنے قلم سے لجنہ اماءاللہ کے متعلق جو ابتدائی تحریر فرمائی تھی.اس میں لکھا تھا:.دشمنان اسلام میں عورتوں کی کوششوں سے جو روح بچوں میں پیدا کی جاتی ہے اور جو بد گمانی اسلام کی نسبت پھیلائی جاتی ہے.اس کا اگر کوئی تو ڑ ہو سکتا ہے تو وہ عورتوں ہی کے ذریعہ سے ہوسکتا ہے.“ الازهار لذوات الخمار صفحه 52 پس ضرورت ہے اس امر کی کہ ہماری احمدی بچیاں جو دنیوی تعلیم کا لجوں میں حاصل کر رہی ہیں ان میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا احساس پیدا ہو.ضرورت ہے اس امر کی کہ وہ دینی تعلیم کی طرف بھی توجہ دیں.قرآن کریم کا ترجمہ سیکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھیں.اور ہر مسئلہ کے پورے پورے دلائل انہیں آتے ہوں.پھر ضرورت ہے اس امر کی کہ وہ دلائل کے ہتھیاروں سے پوری طرح آراستہ ہو کر میدان میں کود پڑیں.ان غلط فہمیوں کو دور کریں.جو جماعت احمدیہ کے متعلق پھیلائی جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علی اسلام کے دعوئی کو پیش کریں.اسلام کے اس خوشنما چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کریں.جس پر سے تمام میل کچیل اتار کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمایا تھا اور یہ وہی اسلام کا چہرہ ہے جو چودہ سو سال قبل آنحضرت ﷺ نے پیش فرمایا تھا.اور ضرورت ہے اس امر کی کہ ہماری احمدی بچیاں تقریر اور تحریر کے ذریعہ سے قرآن مجید کی تعلیم کی اشاعت کریں اور حقیقی اسلام ان کے ذریعہ سے دنیا کو پہنچے.تقریر میں تو پھر بھی ایک خاص تعداد میں بچیوں نے مشق کی ہے اور وہ اچھی تقریر کر لیتی ہیں.لیکن تحریر کے میدان میں گنتی کی لڑکیاں ایسی ہیں جو اچھا لکھ سکتی

Page 673

655 ہیں.زمانہ تعلیم میں اگر کچھ بچیاں اچھا لکھ بھی لیتی ہیں تو اپنی تعلیم ختم کرنے کے بعد وہ بالکل ہی چھوڑ دیتی ہیں.تقریر ایک وقتی اثر چھوڑتی ہے.لیکن تحریر قائم رہنے والی چیز ہے.جس کا اثر بھی دیر پا ہوتا ہے.پس میں احمدی بچیوں کو اس طرف توجہ دلاتی ہوں کہ وہ اس عملی میدان میں بھی اتریں اور اپنے مضامین کے ذریعہ سلسلہ کی خدمت کریں.احمدی عورتوں کا ایک ہی رسالہ نکلتا ہے.مصباح اس کی قلمی اعانت کی طرف احمدی بچیوں میں بہت ہی کم توجہ پائی جاتی ہے.پس اس ایسوسی ایشن کے فرائض میں سے ایک فرض میں یہ بھی قرار دیتی ہوں کہ وہ تحریر کی طرف توجہ دیں اور ایسوسی ایشن کی عہدہ داران بچیوں سے مختلف موضوعات پر مضامین لکھوا کر مصباح کے لئے بھجوایا کریں.اللہ تعالیٰ اس ایسوسی ایشن کا قیام بہت ہی بابرکت فرمائے اور اس کی ممبر ز کو احمدیت کی سچی خدمت کی توفیق عطا فرمائے.اور ہماری بچیوں کا اس نظام نو کی تعمیر میں وسیع حصہ ہو.جس نظام نو کا قیام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہوا ہے.خدمت دین تو اک فضل الہی ہے.جو ہمارے کسی عمل کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحمانیت کے تحت محض اپنے فضل سے ہمیں نواز نے کے لئے ہم پر انعام کیا.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اس کی کچی عبد بنیں.آمین اللھم آمین خاکسار مریم صدیقہ 19-6-66 ( صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ ) مصباح اگست 1966 ء

Page 674

656 پیغام بر موقعہ پہلا سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ قادیان 1966ء ناصرات الاحمدیہ قادیان! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تمہاری خواہش پر تمہارے لئے چند سطور لکھ کر بھجوا رہی ہوں.اللہ تعالیٰ تمہارے سالانہ اجتماع کو کامیاب اور مبارک فرمائے اور اس کے نتیجہ میں تم سب میں نئی امنگ اور کام کا جذبہ پیدا ہو.آمین میری عزیز بچیوا تم مسلمان ہو.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل دین کامل فرمانبرداری کا نام ہے.ہمارا نصب العین ہر حال میں قرآن مجید کے احکام کی کامل فرمانبرداری ہونا چاہئے اور یہ نصب العین اس وقت حاصل کیا جا سکتا ہے جب ہر بچی قرآن مجید ناظرہ اور باتر جمہ جانتی ہو جب تک آپ قرآن مجید پڑھتے ہوئے آیات کا مطلب نہیں سمجھتیں اس پر عمل بھی نہیں کر سکتیں اور کامل فرمانبرداری کے لئے قرآن کا علم ضروری ہے.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کی تشریح بھی تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی اطاعت کی جائے اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کو سامنے رکھ کر آپ کے ہر ارشاد کی تعمیل میں زندگی بسر ہو.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقابلہ میں دنیا وی تمام تعلقات بیچ ہوجائیں یہ مرتبہ حاصل کرنے کے لئے جو ہماری زندگی کی غرض و غایت ہے تمہارا علم دین حاصل کرنا بڑا ضروری ہے.اسلئے کوشش کرو کہ ہر بچی قرآن ناظرہ جانتی ہو ہر بچی نماز کا ترجمہ جانتی ہو اور پھر اس کے بعد اگلا قدم یہ ہو کہ قرآن مجید کا ترجمہ سیکھنا شروع کرو اور جتنا جتنا پڑھتی جاؤ سے یاد رکھو اور اس پر عمل کرو اور کوشش کرو کہ تمہارے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ ہو.تمہاری زندگی تمہارا کردار تمہارے افعال تمہارے اخلاق عین قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق ہوں.اللہ تعالیٰ تمہیں تو فیق عطا فرمائے کہ تم صرف نام کی ناصرات الاحمدیہ نہ ہو بلکہ حقیقت میں ناصرات الاحمد یہ ثابت ہو.آمین.اھم آمین خاکسار مریم صدیقہ.صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 3-10-1966

Page 675

657 پیغام لجنات بیرون پاکستان تمام پاکستان کی لجنات کو یہ اطلاع دی گئی کہ 21 جولائی 1967ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کوپن ہیگن کی مسجد کا افتتاح فرمائیں گے.اس دن ہر لجنہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کیلئے جلسہ کرے.جو پیغام بیرون پاکستان لجنات کو بھجوایا گیا.اس کی نقل درج ذیل کی جاتی ہے.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم ممبرات لجنہ اماءاللہ ! وعلى عبده المسيح الموعود اسلام علیکم ورحمة الله و بر کاشت آپ سب کو مبارک ہو کہ آج کے دن 21 جولائی حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو پن بیگن کی مسجد کا افتتاح اپنے مبارک ہاتھوں سے فرمار ہے ہیں.احمدی خواتین کی کتنی خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں کفرو د جالیت کی سرزمین میں تین مسجدیں بنانے کی توفیق عطا فرمائی ہے.ہم اس پر جتنا بھی خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں کم ہے مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے اور آنحضرت ﷺ کے فرمان کے مطابق ”جو اس دنیا میں خدا کا گھر بناتا ہے اللہ تعالیٰ جنت میں اس کیلئے گھر بناتا ہے“ بخاری کتاب الصلوة مسجد کی تعمیر حقیقت میں خدا تعالیٰ کا نام بلند کرنے اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کا پہلا زینہ ہے.اس کے بغیر مسلمانوں میں مرکزیت اور اتحاد پیدا ہی نہیں ہوسکتا.پھر ہمارے لئے یہ امر بھی انتہائی مسرت کا باعث ہے کہ اس مسجد کا افتتاح ہمارے پیارے امام ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نافلہ اور حضرت مصلح موعود کے لخت جگر فرمارہے ہیں.آپ سب دعائیں کریں عاجزی اور گریہ وزاری کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے اسلام کے غلبہ کے سامان اس ملک میں پیدا کرے.خدا کی عظمت اور شان ظاہر ہو.دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہو جائے اور مامور وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہچان جائے.آمین.یہ خوشی اور مسرت کی گھڑیاں آپ کو اپنی ذمہ داری کی طرف بھی توجہ دلاتی ہیں کہ اسلام کے غلبہ کے

Page 676

658 لئے آپ کو ہر قربانی دینے کیلئے تیار رہنا چاہئے.خواہ وہ جانی قربانی ہو.مال کی ہو.اولاد کی ہو یا وقت کی.آپ کا تعلق خلیفہ اسیح کے ساتھ اتنا مضبوط ہونا چاہئے کہ کوئی بڑے سے بڑا تعلق کوئی بڑے سے بڑا حملہ آور اس تعلق میں حائل نہ ہو سکے.بیعت کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایک ہاتھ پر بیعت کر لینے اور ایک انسان کو اپنا امام تسلیم کر لینے کے بعد اپنی کوئی خواہش باقی نہ رہ جائے.امام کے ہاتھ میں ہاتھ دینا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَدُ اللهِ فَوقَ ايديهم کس کا دل چاہتا ہے کہ خدا کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیکر پھر واپس کھینچ لے.یہ مسجد جس کا آج افتتاح ہورہا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکمل تو ہوگئی ہے لیکن جتنا اس پر خرچ آیا ہے ابھی اتنا چندہ جمع نہیں ہوا ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ جب تک رقم پوری نہ ہو.ہم چین سے نہ بیٹھیں بہت بڑی رقم ابھی ادا کرنی باقی ہے.کوشش کریں کہ کوئی ایک احمدی عورت بھی ایسی نہ رہ جائے جس نے اس میں حصہ نہ لیا ہو.اپنے اخراجات کو پس پشت ڈالتے ہوئے.سادگی اختیار کرتے ہوئے.اپنی ضرورتوں کو چھوڑتے ہوئے اسلام کی ضرورت کو پہلے پورا کریں.اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں اس وقت تک چین سے نہ بیٹھنا چاہئے جب تک دنیا کے ہر شہر میں ایک ایک مسجد تعمیر نہ ہو جائے.جہاں سے پانچوں وقت اللہ اکبر کی صدا بلند ہو.جہاں ہر وقت آنحضرت ﷺ پر درود بھیجا جائے.جہاں سے ہر وقت اسلام کے جاں نثار.اسلام کا پیغام دنیا کو سناتے رہیں حتی کہ ساری دنیا اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ تاریخ لجنہ جلد سوم صفحہ 454 آمین ثم آمین

Page 677

659 پیغام برائے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ماریشس 1967ء ممبرات لجنہ اماءاللہ ماریشس ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع پر لجنہ اماءاللہ ماریشس کی طرف سے آیا ہوا پیغام پڑھا گیا تمام احمدی خواتین جو جلسہ میں موجود تھیں سب کی طرف سے آپ کو السلام علیکم کا تحفہ پہنچاتی ہوں.لجنہ اماءاللہ کو قائم ہوئے 45 سال گزر چکے ہیں لجنہ اماءاللہ کے قیام کی غرض جو حضرت مصلح موعود نے اس تنظیم کو قائم کرتے ہوئے بیان فرمائی تھی یہ ہے کہ ”ہماری پیدائش کی جو غرض و غایت ہے اس کو پورا کرنے کیلئے عورتوں کی کوششوں کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح مردوں کی ہے.جہاں تک میرا خیال ہے عورتوں میں اب تک اس کا احساس پیدا نہیں ہوا کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے ہماری زندگی کس طرح صرف ہونی چاہئے.جس سے ہم بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر کے مرنے کے بعد بلکہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوسکیں.دشمنانِ اسلام میں عورتوں کی کوشش سے جو روح بچوں میں پیدا کی جاتی ہے اور جو بدگمانی اسلام کی نسبت پھیلائی جاتی ہے.اس کا اگر کوئی توڑ ہوسکتا ہے تو وہ عورتوں کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے...اس طرح عورتوں کی اصلاح بھی عورتوں کے ذریعہ سے ہی ہو سکتی ہے.“ پس میری عزیز بہنو الجنہ کے قیام کی سب سے بڑی غرض یہی ہے کہ ایک طرف تو ہم اپنی زندگیوں کو اپنے وقتوں کو اپنے مالوں کو اس رنگ میں خرچ کریں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکیں.ہماری زندگیاں ہوں دین کیلئے اور وہ یہ ماننے پر مجبور ہو جائیں کہ یہ انقلاب عظیم ان میں قرآن مجید کی تعلیم پر عمل کرنے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانے کے نتیجہ میں برپا ہوا ہے.دوسری طرف اپنی اولادوں اور نئی نسل کی تربیت کی بڑی بھاری ذمہ داری ہم پر ہے.کہ ہماری اولادوں کی تربیت قرآنی اصولوں کے مطابق ہو اور ان میں مذہب کی محبت ہو.نظام سے وابستگی ہو.حضرت خلیفہ اسیح کی اطاعت کا جذبہ ہو.قرآن مجید کی تعلیم پر عمل کرنے کا شوق ہو.اللہ تعالیٰ آپ سب کو خود قرآن کریم پر چلنے اور اپنی اولادوں کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

Page 678

660 لجنہ کا یہ دن جو آپ منارہی ہیں آپ کو ایسے فیصلے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.جس کے نتیجہ میں آپ ترقی کر سکیں.تمام بہنوں کو میرا محبت بھر اسلام پہنچے.آپ دور ہیں لیکن ہمارے دلوں سے دور نہیں.خاکسار مریم صدیقہ تاریخ لجنہ جلد سوم صفحہ 501 (اکتوبر 1967)

Page 679

661 پیغام برائے اجتماع لجنہ اماءاللہ نیر و بی 1967ء ممبرات لجنہ اماءاللہ نیروبی ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آپ فاصلہ کے لحاظ سے ہم سے دور ہیں لیکن دل سے دور نہیں.حقیقت میں آپ نمائندہ ہیں مرکز کا اس ملک میں.آپ کے کردار، اخلاق اور نیک نمونہ کو دیکھ کر وہاں کے رہنے والے غیر احمدی یا غیر مسلم مرکز کے رہنے والوں کا اندازہ لگائیں گے.اس لئے آپ پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کوئی ایسا خلاف شریعت کام آپ سے نہ ہو جس کی وجہ سے احمدیت اور اسلام پر حرف آئے.براعظم افریقہ میں اسلام کے غلبہ اور اشاعت کے آثار پیدا ہو چکے ہیں.جو نئی روحیں صداقت کو قبول کریں گی.وہ یقینا آپ لوگوں کے نقش قدم پر چلیں گی.اس لحاظ سے بھی بڑا ہی ضروری ہے کہ آپ کی زندگیاں آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق بسر ہوں تا صداقت کی متلاشی روحیں آپ کے نمونہ کو دیکھ کر اسلام کی طرف متوجہ ہوں اس لئے ضروری ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم سے ہر احمدی خاتون اور بچی واقف ہو.اسے قرآن مجید کا ترجمہ آتا ہو.شریعت کے احکام کا علم ہو.اسلامی تاریخ سے واقفیت ہو.آنحضرت ﷺ کی زندگی کا علم ہو.پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری بہنیں تحریک جدید کے اصولوں پر عمل کرنے والیاں ہوں اور سادہ زندگی گزارنے والیاں ہوں تا غلبہ اسلام کی جد و جہد میں زیادہ سے زیادہ قربانیاں دے سکیں.رسومات اور بدعات کو یکسر چھوڑ دیں اور ان کی زندگیاں اور تمام کام قرآن مجید کی تعلیم اور آنحضرت ﷺ کی سنت کے مطابق ہوں.لجنہ اماءاللہ کے ذمہ سب سے بڑا کام تربیت و اصلاح کا ہے اگر اپنی اصلاح کئے بغیر ہم پوری لگن کے ساتھ تبلیغ کا فریضہ ادا بھی کریں گی تو اس کا زیادہ اثر نہیں ہوگا.انسانی دل پر سب سے زیادہ اثر نمونہ کا ہوتا ہے.عورتوں کی وجہ سے ہماری جماعت میں رسومات پھر شروع ہوگئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو آئے ہی ظلمتوں کو مٹانے اور بدعات کو دور کرنے کے لئے تھے.ہماری جماعت کو رسومات کے خلاف جہاد کرنا چاہئے تا جماعت میں نئے داخل ہونے والے احمدی بھی ان میں مبتلا نہ ہو جائیں.ہمارے سامنے تو ایک ہی مقصد ہے تو حید کا قیام اور آنحضرت ﷺ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا.پھراپنی اولادوں کی تربیت کی طرف توجہ کی ضرورت ہے.جن سے ان کے دل میں اسلام سے گہرا تعلق

Page 680

662 اور آنحضرت ﷺ کی اتنی محبت ہو کہ وہ بڑے ہو کر اسلام کے کسی حکم کی خلاف ورزی کر ہی نہ سکیں.فی زمانہ بے پردگی کی جو رو چلی ہے اس کا سد باب بھی ضروری ہے.پردہ قرآن کریم کا ایک حکم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو قرآن مجید کے سات سو حکموں میں سے ایک بھی حکم تو ڑتا ہے اسے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے.پس لجنہ اماءاللہ کے کاموں میں سے ایک ضروری کام یہ بھی ہے کہ موجودہ نسل کی خواتین جو بے راہ روی اور بے پردگی کر رہی ہیں اس کا سد باب کریں.مبرات لجنہ اماءاللہ نیروبی کو میں یہ خوشخبری بھی سناتی ہوں کہ الحمد للہ ڈنمارک کی مسجد مکمل ہو چکی ہے اور 21 جولائی کو اس کا افتتاح ہو رہا ہے.ابھی تک مقررہ رقم میں ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی کمی ہے کوشش کریں کہ مشرقی افریقہ کی کوئی عورت ایسی نہ رہ جائے جس نے اس میں حصہ نہ لیا ہو.اللہ تعالیٰ کے فضل سے صاحب حیثیت خواتین وہاں موجود ہیں جو بھاری رقوم اس چندہ میں دے سکتی ہیں.بہت سی بہنوں نے قابل رشک نمونہ دکھایا ہے لیکن جہاں تک مجھے علم ہے ابھی سو فیصدی خواتین نے اس میں حصہ نہیں لیا.میں امید کرتی ہوں کہ عہدہ داران اس سلسلہ میں مزید کوشش کر کے وعدہ جات بھجوائیں گی اور وصولی کی بھی جلد کوشش کریں گی میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ مشرقی افریقہ میں رہنے والی خواتین میں قربانی اور اخلاص کا وہی جذبہ پیدا کرے جو قرون اولیٰ کی خواتین میں پایا جاتا تھا.آپ کے ذریعہ سے احمدیت افریقہ کے تاریک گوشوں تک پہنچے اور وہاں کے رہنے والوں کے لئے آپ کے وجود اسلام کو قبول کرنے کا باعث ہوں.میں تمام ممبرات لجنہ اماءاللہ نیروبی کو اس پیغام میں اپنی طرف سے محبت بھرا سلام پہنچاتی ہوں اور ان سے یہ بھی درخواست کرتی ہوں کہ وہ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی بقیہ زندگی اسلام کی خدمت میں بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خاکسار مریم صدیقہ از تاریخ لجنه جلد سوم صفحه 503

Page 681

663 پیغام برائے اجتماع لجنہ اماءاللہ متحدہ امریکہ ممبرات لجنہ اماءاللہ متحدہ امریکہ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اللہ تعالیٰ آپ کا یہ سالانہ اجتماع مبارک کرے اور اس موقعہ پر آپ کو وہ لائحہ عمل تجویز کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس ملک میں اسلام کے پھیلنے اور جماعت کے بڑھنے میں محمد ہو.میری عزیز بہنو! ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ اس نے ہمیں اسلام جیسی نعمت عطا کی.اس کی تعلیم کو سمجھنے کے لئے قو تیں اور سمجھ عطا کی ہے.پھر اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار احسان ہے کہ اس نے مامور زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانے کی توفیق عطا فرمائی.پھر اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد اپنے وعدہ کے مطابق خلافت کا سلسلہ جاری فرمایا.اللہ تعالیٰ کے یہ سب انعامات ہمیں ان عظیم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو شکر کے طور پر ہم پر واجب ہوتی ہیں.سب سے بڑی ذمہ داری جو ہر احمدی عورت اور لجنہ کی ممبر پر عائد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے خلیفہ کی کامل فرمانبردار ہو.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایمان کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ کا ذکر فرمایا ہے.اعمال صالحہ سے یہ مراد ہے کہ وہ کام کرے جن کے کرنے کی ہدایت اس کو خلیفہ وقت کی طرف سے ملے.یہ بتانا خلیفہ وقت کا کام ہے کہ اس وقت کس قسم کی قربانی کی ضرورت ہے.پس عزیز بہنو! سب سے بڑا فرض آپ کا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ اور آپ کے مقرر کردہ امراء یا مبلغین کی کامل اطاعت ہے.اسلام کی ترقی اور جماعت کی ترقی کے لئے خلافت کا قائم رہنا انتہائی ضروری ہے.پس اپنے کاموں اور اپنی قربانیوں اور اپنے آپ کو اس انعام الہی کا مستحق قرار دیتی رہو.دوسری عظیم ذمہ داری ہر احمدی پر یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو قرآن اور اسلام کی تعلیم کے مطابق نمونہ بنائے.ایک صداقت کو جب ہم دل سے تسلیم کر لیتے ہیں تو جب تک عملی زندگی میں اپنے پر ان کو وارد نہ کریں ہم صحیح طور پر اس پر ایمان لانے والے قرار نہیں دیئے جاسکتے.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ سب کو بھی آنحضرت ﷺ کے اسوہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے جس کے نتیجہ میں اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے.آپ سب کو بھی مبارک ہو کہ بیت نصرت جہاں مکمل ہو چکی ہے اور حضرت خلیفہ لمسیح الثالث ایدہ

Page 682

664 اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس کا افتتاح فرما چکے ہیں.لیکن ایک لاکھ روپے کے قریب رقم ابھی ہم نے اور دینی ہے.اس مسجد کی تعمیر میں ساری دنیا کی احمدی خواتین کا حصہ ہے.گوامریکی بہنوں نے اس میں حصہ لیا ہے لیکن ابھی تک مزید گنجائش باقی ہے.اس سلسلہ میں سب بہنیں جو حصہ لے چکی ہیں وہ بھی اور جنہوں نے ابھی تک حصہ نہیں لیا وہ بھی مزید حصہ لیں تا جلد از جلد یہ چندہ ختم ہو سکے.تمام ممبرات لجنہ اماء اللہ کو میرا محبت بھرا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.میں آپ سب کے لئے دعا کرتی ہوں آپ میرے لئے دعا کیا کریں.خاکسار مریم صدیقہ از تاریخ لجنه جلد سوم صفحه 505

Page 683

665 پیغام برائے طالبات فضل عمر تعلیم القرآن کلاس یہ پیغام تعلیم القرآن کلاس منعقدہ 31 جولائی 1967ء میں محترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے پڑھ کر سنایا.طلباء و طالبات فضل عمر تعلیم القرآن کلاس! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کو مبارک ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ماہ مرکز میں رہ کر علوم روحانی و دینی سیکھنے کی تو فیق عطا فرمائی.مرکز میں ایک ماہ ایک خاص پروگرام کے ماتحت بسر کرنا در حقیقت آپ کی روحانی فوجی ٹرینگ کا زمانہ تھا.جنگ خواہ ظاہری ہو یا روحانی اس کے دو ہی طریق ہوتے ہیں.ایک دفاعی جنگ اور دوسرے جارحانہ جس میں دوسرے فریق پر حملہ کیا جاتا ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز نے کفر والحاد کی سرزمین کا سفر اس لئے اختیار فرمایا ہے تا وہ اس آخری روحانی جنگ کا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ لڑی جانی شروع ہوئی تھی ایک بھر پور حملہ مخالفین اسلام پر کریں تا صلیب مکمل طور پر پاش پاش ہو جائے.اللہ تعالیٰ کی توحید کا کامل طور پر قیام ہو.ساری دنیا آنحضرت ﷺ کی غلامی میں داخل ہو جائے اور مامورزمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہچان لے.اس روحانی جنگ کے جاری رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ جماعت میں دفاعی (روحانی) جنگ کی بھی اچھی طرح تیاری ہو.سو اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار فضل نازل ہو ہمارے جرنیل حضرت خلیفتہ اسیح الثالث به المتعالی پر کہ آپ نے فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کا انتظام فرما کر جماعت پر احسان فرمایا تا ایک ماہ یہاں رکھ کر قرآنی قلعوں اور قرآنی محاذ کی حفاظت کے لئے روحانی دلائل کا اسلحہ آپ کو مہیا کیا جائے اور اس روحانی اسلحہ کے استعمال کا طریق بھی آپ کو سکھایا جائے.پس مبارک ہیں جو خلیفہ وقت سلمہ اللہ تعالیٰ کی آواز پر اس لئے جمع ہوئے تھے تا یہاں جو روحانیت اور دین کی چھاؤنی ہے رہ کر دین کی حفاظت کے اصول اور قرآنی جہاد کے گر سیکھیں.آپ سب کو چاہئے کہ جو کچھ یہاں تربیت حاصل کی ہے اس کی مشق جاری رہے.جو دلائل اسلام کی دیگر مذاہب پر فوقیت کے خود سیکھے ہیں وہ دوسروں کو سکھائے جائیں تا ہماری جماعت کا ہر مرد اور ہر عورت دنیا کے سامنے یہ ثابت کر سکے کہ اسلام ہی زندہ مذہب ہے.آنحضرت ﷺ ہی زندہ نبی ہیں اور قرآن

Page 684

666 ہی زندہ کتاب ہے.آپ سب سے میری درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور دل کی گہرائیوں سے عاجزی و تضرع سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالی اسلام کے اس جرنیل کو جو مغربی ممالک میں اسلام کا نام بلند کرنے کے لئے ہمیں غمگین چھوڑ کر گیا ہے قدم قدم پر فتح اور کامرانی نصیب فرمائے.وہ توحید کا پرچم لہراتے ہوئے فتح اور کامرانی کا تاج پہنے ہوئے میدان کارزار سے پھر مرکز میں تشریف لائے اور یہاں پہنچ کر آپ کو دو ہری مسرت حاصل ہو.ایک ان ممالک میں یلغار اور اس کے نتیجہ میں فتوحات ، دوسرے دفاعی مورچوں کی مضبوطی کو دیکھ کر کہ میری فوج کے سپاہی غلبہ اسلام کی خاطر میرے دائیں بھی لڑنے کو تیار ہیں بائیں بھی لڑنے کو تیار ہیں آگے بھی لڑنے کو تیار ہیں اور پیچھے بھی.دعا کریں.دعا کریں اور کرتے چلے جائیں تا اللہ تعالیٰ اپنے فضل واحسان سے اسلام کی فتوحات کے دروازے ہماری زندگیوں میں ہی کھول دے.اور جو وعدے غلبہ اسلام کے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے تھے ان سب کو پورا ہوتے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کا بھی حافظ و ناصر ہو.میری دلی دعائیں آپ سب کے ساتھ ہیں آپ خیریت سے اپنے گھروں کو جائیں اور آپ کی زندگی کا ہر لحہ اسلام کی خدمت میں بسر ہو.آمین.مریم صدیقہ الفضل 8 /اگست 1967ء

Page 685

667 پیغام بنام عہدیداران لجنہ اماءاللہ راولپنڈی السلام عليكم ورحمته الله وبركاته الحمد الله لجنہ اماءاللہ راولپنڈی نے سال رواں میں اچھا کام کیا ہے لیکن کیا یہ چھوٹے چھوٹے کام کچھ جلسے کر لینے گنتی کے افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچا دینا.کچھ خواتین اور بچوں کو پڑھا دینا.چندہ جمع کر لینا اس نصب العین کو حاصل کر لینے کیلئے کافی ہے.جو جماعت کے قیام کا مدعا اور مقصود ہے.ہر گز نہیں ، فی زمانہ خواتین جماعت احمدیہ کو بہت عظیم الشان قربانیاں پیش کرنے کی ضرورت ہے.صرف مالی قربانی نہیں.وقت کی قربانی ، اولاد کی قربانی ، جذبات کی قربانی ، عادات کی قربانی وغیرہ یہ حقیقت ہے کہ سب سے بڑا کام جو ہمارے پیش نظر ہے وہ تربیت کا کام ہے.تبلیغ بھی تبھی کارگر ہوگی جب اپنا نمونہ اعلیٰ اور ارفع ہوگا.جماعت ترقی کر رہی ہے نئے نئے لوگ احمدیت میں داخل ہور ہے ہیں.پرانے جانثار، احمدیت کے شیدائی، خلیفہ کے اطاعت گزار، جماعت اور نظام جماعت کیلئے جان اور مال قربان کر دینے والے یکے بعد دیگرے اپنے رب کے حضور اس دنیا میں قربانیاں پیش کرنے کے بعد حاضر ہورہے ہیں.اور اس کی جگہ نئی نسل نے رہی ہے.اگر یہ دوسری نسل ویسی ہی جانثار ، شیدائی ، فرمانبردار اور اطاعت گزار نہ ثابت ہوئی تو ان کا وجود احمدیت اور نظام جماعت کیلئے نقصان رساں ثابت ہوگا.خدانخواستہ پس ضرورت ہے سب سے زیادہ توجہ اس امر کی طرف دینے کی کہ ہماری جماعت کی خواتین اور بچیاں اسلام کی تعلیم کا کامل نمونہ پیش کرنے والی ہوں.قرآن اور حدیث پر چلنے والی ہوں.حضرت صیح موعود علیہ اسلام کے ارشادات پر عمل کرنے والیاں ہوں.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کامل مطیع و فرمانبردار ہوں.اسلام کے اور قرآن مجید کے ایک ایک حکم پر صدق دل سے عمل کرنے والیاں ہوں.پردہ کی پابند، لغویات سے بچنے والی، سادگی پسند تحریک جدید کے اصولوں پر چلنے والی، انعام خلافت کی حقیقی قدردان، خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہنے والی ، نظام کی پوری طرح فرمانبردار، دشمنانِ احمدیت سے متنفر اور بیزارمخلص اور جانثاران احمدیت کو جنم دینے والی، اپنے معاشرہ کو جنت بنانے والی، اولا دوں کو اسلام کی خاطر پیش کرنے والی ہوں.

Page 686

668 اگر آپ کی نگرانی اور تربیت سے یہ تبدیلی نوجوان طبقہ کی خواتین اور بچیوں میں پیدا ہو جاتی ہے تو آپ سمجھ لیں کہ آپ نے لجنہ اماءاللہ کی عہدہ دار اور ممبر ہونے کے فرض کو ادا کر دیا.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آپ کو اور مجھے اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ.ربوہ 28-9-67

Page 687

☑669 پیغام بر موقع دوسرا سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ قادیان 1967ء ناصرات الاحمدیہ قادیان ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تمہاری خواہش پر تمہارے لئے ایک مختصر پیغام بھجوار ہی ہوں.اللہ تعالیٰ تمہارا اجتماع مبارک فرمائے اور ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو جماعت اور اسلام کے لئے بابرکت ہوں.حقیقت میں تمہارا یہ زمانہ تربیت کا زمانہ ہے.تا اس آٹھ دس سال کے زمانہ میں گلشن احمد کی منھی منی کلیوں کو اس طرح سینچا جائے کہ وہ اپنے وقت پر کھل کر پھول بن سکیں اور ان کی خوشبو سے دنیا معطر ہو.اس لئے اپنے وقت کی قیمت اور اہمیت کو سمجھو.صرف دنیوی تعلیم کی طرف توجہ نہ ہو.بلکہ قرآن مجید اور دینی تعلیم کی طرف بھی پوری توجہ ہو.اور ساتھ ہی مذہب کی محبت کو اپنے مذہب کی خاطر تم ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہو نظام جماعت سے وابستگی ، احمدیت کے لئے قربانی، خلیفہ مسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت.یہ جذبات بچپن کی عمر سے پیدا ہونے چاہئیں.خدا کرے آپ کی ناصرات کی ہر بچی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والی ، آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق رکھنے والی ، خلیفہ وقت کی تابعداری اور آپ کی ہر تحریک پر لبیک کہنے والی ہو.ناصرات کے لئے خصوصی تحریک حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وقف جدید کی ہے.میں امید کرتی ہوں کہ سو فیصدی ناصرات نے اس میں حصہ لیا ہوگا.اگر نہیں لیا تو اب ضرور لیں.اللہ تعالیٰ سب کا حافظ و ناصر ہو.میری دلی دعائیں آپ سب کے ساتھ ہیں.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 688

670 پیغام جلسہ سالانہ مستورات قادیان 1967ء میری عزیز بہنو! السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس مبارک موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بستی میں جمع ہونا مبارک فرمائے.آپ جلسہ سالانہ کے دنوں میں روحانی خزائن سے اپنی جھولیاں بھریں اور پھر آپ کے ذریعہ وہ خزائن باقی دنیا میں تقسیم ہوں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قیام کی غرض آپ کو الہام بتائی تھی کہ يُــخــي الـديـن وَيُقِيمُ الشَّرِيعَة ( تذکرہ صفحہ 55 ایڈیشن چہارم) کہ آنے والا مسیح موعود پھر سے اسلام کو زندہ مذہب ثابت کرے گا.اور قرآنی شریعت کو دنیا میں رائج کرے گا.سو یہ غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ایسے نمایاں طور پر پوری ہوئی ہے کہ اس کے ثابت کرنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ ہمارا خدازنده خدا، آنحضرت ﷺ زنده نبی اور قرآن مجید زندہ کتاب ہے.پس ہم جو آپ علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہیں ہمارا فرض ہے کہ اپنے عمل ، کردار گفتار اور زندگیوں کے طور طریق سے دنیا پر اتمام حجت کر دیں کہ دنیا کی نجات اب صرف اسلام ہی سے وابستہ ہے.سب سے بڑا ذریعہ تبلیغ اسلام اور احمدیت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا اپنے نمونہ کے ذریعہ سے ہے.حضرت مصلح الموعود کا الہام کہ:.اگر تم پچاس فیصد عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی.“ الازھار لذوات الخمار صفحہ 381 بھی اس کی نشاندہی کرتا ہے.اولاد کی تربیت میں بڑا ہا تھ عورت کا ہوتا ہے.اگر ہمارے دلوں پر بھی قرآن کی حکومت ہو، ہمارے گھروں میں بھی قرآن کی حکومت ہو اور ہم اور ہماری اولادیں قرآن کی تعلیم پر چلنے والی ہوں تو بہت جلد دنیا ہمارے نمونہ کو دیکھ کر اسلام کی تعلیم کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہوگی اور اس نئے زمین و آسمان کا قیام ہو جائے گا.جس کے قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے.

Page 689

671 اس لئے میری عزیز بہنو! پوری توجہ قرآن مجید پڑھنے اور اس کا ترجمہ سیکھنے اور اپنے بچوں کو قرآن مجید پڑھانے کی طرف لگاؤ یہی ہمارا سب سے بڑا کام ہے.اور قرآن سیکھنے سے ہی قیام شریعت کا مقصد پورا ہو سکتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ڈیڑھ سال سے جماعت کے احباب کو اس طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ کوئی ایک مرد، عورت ، لڑکا اور لڑکی ایسا نہیں رہنا چاہئے جو ناظرہ قرآن مجید نہ جانتا ہو.اور ناظرہ قرآن مجید جاننے کے بعد ترجمہ سیکھنا اس کا فرض ہے.آپ سب کے پیش نظر بھی سب سے بڑا کام یہی ہونا چاہئے کہ قرآن مجید کے انوار کو دنیا میں پھیلانے کے لئے اپنے امام اور خلیفہ کی دست باز و ثابت ہوں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اور مجھے بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم قرآن پڑھیں.اور پڑھائیں اور اس کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکیں.خاکسار آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 22-11-67

Page 690

672 پیغام بر موقعہ صوبائی کا نفرنس لجنہ اماءاللہ شاہ جہان پور بھارت (انڈیا)1968ء عزیزه مکرمه محترمه السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آپ کا خط ملا جس میں آپ نے شاہ جہان پور میں ہونے والی صوبائی کانفرنس کے موقعہ پر مستورات کے لئے پیغام مانگا ہے.میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کی وجہ سے بہت مصروف رہی ہوں اس لئے پیغام جلد نہ بھیجو اسکی.آپ میری طرف سے وہاں جلسہ میں شامل ہونے والی تمام خواتین کو السلام علیکم پہنچا دیجئے.اللہ تعالیٰ آپ کا یہ اجتماع بابرکت کرے اور اس کے فضلوں اور انوار کی بارش آپ سب پر ہو ہمارا مقصد زندگی خواہ ہم دنیا کے کسی خطہ زمین پر رہتے ہوں ایک ہی ہے اور وہ ہے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ پر عمل کرنا.یعنی ایک طرف قیام توحید کی کوشش اپنے عمل اور اپنی قربانیوں سے.دوسری طرف آنحضرت ﷺ کی تعلیم پر عمل کرنا.آپ کی کامل اطاعت اور آپ کے رنگ میں رنگین ہو کر دنیا کے سامنے صحیح اسلام کو پیش کرنا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض دنیا کو کوئی نیا پیغام دینا نہیں.بلکہ حقیقی اسلام جسے لوگ بھول چکے تھے.پھر سے اس کا پیغام دنیا کو دینا اور قرآن مجید کی تعلیم پر مسلمانوں کو چلانا تھا اسلام امن اور آشتی کا مذہب ہے.ایک مسلمان امن کا علمبر دار ہوتا ہے.وہ کسی کو دکھ نہیں دے سکتا.وہ کسی پر ظلم نہیں کر سکتا.کیونکہ آنحضرت ﷺ نے مسلمان کی تعریف ہی یہ فرمائی ہے.الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَ يَدِه (بخاری کتاب الایمان) حقیقی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور جس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں آنحضرت ﷺ کی سیرت اور آپ کی زندگی کے واقعات ہمارے سامنے ہیں اپنے بدترین دشمن سے جیسا عفو، رحم اور محبت کا سلوک آپ نے کیا اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کسی اور کی نہیں دی جاسکتی.پس اے محمد رسول اللہ ﷺ کا کلمہ پڑھنے والی بہنو! اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عہد بیعت باندھنے والی بہنو! آپ کا فرض ہے کہ اپنے عمل سے اپنے اخلاق سے اپنی قربانیوں سے اور اپنے حسن سلوک سے دنیا پر واضح کر دیں کہ صداقت آپ کے پاس ہے، اسلام ہی وہ مذہب ہے جو انسان میں حقیقی اخلاق پیدا کرتا ہے.اسلام ہمارا

Page 691

673 مذہب ہے جسے قبول کرنے کے بعد انسان میں ایک انقلاب عظیم رونما ہوتا ہے اور حقیقی اسلام کی شکل آپ نے دنیا کو احمدیت کے آئینے میں اپنے عمل سے دکھائی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ آپ صرف نام کی مسلمان اور احمدی نہ ہوں بلکہ حقیقی مسلمان اور سچی احمدی ثابت ہوں.دعاؤں کی عادت ڈالیں.یہ سب سے بڑا ہتھیار ہے جو اسلام نے مسلمانوں کو عطا فرمایا ہے.اپنے رب کے سامنے جھکیں.دعائیں کریں.اسلام کے غلبہ کی دعائیں کریں ، جماعت کی ترقی کی دعائیں کریں حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت اور اپنے مقاصد میں کامیابی کی دعائیں کریں اپنی روحانی ترقیات کے لئے دعائیں کریں.اپنی اگلی نسل کی روحانی اور دینی تعلیم و تربیت کے لئے تا آپ کی انگلی نسل آپ کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کے قابل بن سکے.آمین اللھم آمین.خاکسار آپ کی بہن مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 692

674 پیغام بر موقعہ چوتھا سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ قادیان 1969ء عزیز بچیو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته نمطر اللہ تعالیٰ تمہارے اجتماع کو کامیاب فرمائے.ہمارے اجتماعات کی صرف یہ غرض نہیں کہ ان میں تحریری یا تقریری مقابلے کروا کے انعامات تقسیم کر دئے جائیں.آپ نے جائزہ لینا ہے کہ تربیتی اور اخلاقی لحاظ سے بھی آپ کا قدم ترقی کی طرف ہے یا نہیں.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.وَلِكُلِ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ - (البقره: 149) ترجمہ:.ہر ایک شخص کا ایک نہ ایک سمح نظر ہوتا ہے جسے وہ اپنے آپ پر مسلط رکھتا ہے.تو تمہارا مطمع نظریہ ہو کہ تم نیکیوں کے حصول میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.آپ کی عہد داروں کو بھی چاہئے کہ ایسے پروگرام بنا ئیں جن کے ذریعہ نیکیوں اور اعلیٰ اخلاق کے اپنانے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی روح پیدا ہو.اس سال اجتماع کے موقع پر ناصرات الاحمدیہ کے لئے میں نے ایک پانچ نکاتی پروگرام پیش کیا تھا.آپ کے لئے بھی اس پر عمل کرنا ضروری ہے.وہ پانچ باتیں جن میں کمال پیدا کرنا ہر بچی کا فرض ہے یہ ہیں.سچائی ، دیانت داری، محنت کی عادت، وقت کی پابندی اور صفائی.ان پانچ خصوصیات کو اپنے اندر خود بھی پیدا کرنے کی کوشش کریں اور آپ کی نگران بھی ایسے پروگرام بناتی رہیں جن میں ان پانچوں صفات کا مظاہرہ ہو.اور ان میں آگے نکلنے والیوں کو انعامات دئے جائیں.یہ وہ پانچ بنیادی اخلاق ہیں کہ پندرہ سال کی عمر تک کی بچیاں ان پر کار بند ہو کر ان کی عادت ڈال لیں تو ان کی آئندہ زندگی نمونہ ہوگی قوم کے لئے نمونہ ہوگی غیر مذاہب کے لئے نمونہ ہوگی ساری دنیا کے لئے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق عطا فرمائے کہ حقیقی اسلام کی تصویر اپنے اخلاق اور عمل کے ذریعہ دنیا کے سامنے کھینچ دیں.وہی تصویر جو مدھم ہو چکی تھی اور ایک بار پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر دنیا کو دکھائی ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ وناصر ہو.ہر آن آپ نیکیوں میں ترقی کرتی چلی جائیں.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 693

675 پیاری بہنو! پیغام برائے لجنہ اماءاللہ.دینی (شرق اوسط) السلام عليكم ورحمته الله وبركاته آپ کی خواہش پر آپ سے کچھ باتیں کرنے لگی ہوں.سب سے پہلے میری آپ سب کیلئے دعا ہے کہ جہاں رہیں پھلیں پھولیں آپ کو ترقی ہو اور اپنے فرائض صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق ملے یہ یاد رکھیں کہ آپ جس ملک میں بھی رہیں اپنے وطن کی نمائندہ ہوتی ہیں آپ کی چھوٹی سی بھی کوئی برائی ہمارے وطن اور قوم کو بدنام کر دیتی ہے.اس لئے سب سے زیادہ درستگی اخلاق کی طرف توجہ دینی چاہئے.اخلاق کے لئے دین پر عمل کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں اعلیٰ اخلاق اور بنی نوع انسان سے اچھے سلوک پر زور دیا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کے لئے نمونہ اور اُسوہ بنا کر بھیجا ہے اعلیٰ اخلاق پر قائم رہنے کی بہت تاکید فرمائی ہے.ہر خلق کا نمونہ اپنی ذات میں آپ نے پیش فرمایا ہے.پس ہمیں بھی چاہئے کہ آپ کے راستے کو اختیار کریں اور آپ کے نقش قدم پر چلیں.اس لئے سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ سیکھیں.اگر عربی نہیں بھی آتی تو تلاوت کے ساتھ اس کا ترجمہ پڑھ لیا کریں تا کہ آپ کو سمجھ آ جائے کہ اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے کیا حکم دیا ہے کس بات سے منع فرمایا ہے اور پھر اس کو اپنے ذہن میں بھی رکھا کریں بار بار اپنا جائزہ لیا کریں کہ ہم اس پر عمل بھی کر رہی ہیں یا نہیں.اگر خود عمل نہیں کرتیں تو کون ہماری دعوت الی اللہ پر توجہ دے گا وہ کہیں گے یہ تو خود بھی عمل نہیں کرتیں اور اس کا عمل اور ہے اور قول اور.جس نعمت کو آپ نے خود قبول کیا ہے آپ کی زندگی اس کے مطابق ہونی چاہئے.خود اپنی اصلاح کریں اللہ تعالیٰ کی کتاب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالیں.ہر صبح جو طلوع ہو اور ہر شام جو آئے آپ کے تقویٰ اور صداقت کی گواہی دے پھر اپنے بچوں جن پر اگلی نسل کی ذمہ داری پڑنے والی ہے.ان کی تعلیم اور تربیت کی طرف بہت توجہ کریں اللہ تعالیٰ قرآن عظیم میں فرماتا ہے وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ.(الحشر : 19) ہر انسان کو اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اس نے آئندہ کیلئے آگے کیا بھیجا ہے.اپنی اگلی نسل کو کیسا

Page 694

676 تیار کیا ہے جیسی اس کی تربیت کی ہوگی ویسا ہی وہ کردارادا کرے گی.آپ بے شک تھوڑی سی مگر اللہ تعالیٰ کی اس سنت کو یا درکھیں کہ اعلیٰ کردار اعلیٰ اخلاق سے تھوڑے زیادہ پر غالب آتے رہے ہیں.دوسری چیز جس کی طرف آپ کو توجہ دلانا چاہتی ہوں وہ اپنے عہد یداروں کی اطاعت اور آپس میں اتفاق پیارا اور اتحاد کی روح کو قائم کرنا ہے.خدا تعالیٰ کی خاطر آپس کے شکوے چھوڑیں.اور مل کر قدم آگے بڑھا ئیں.خدا کرے ایسا ہی ہو.25-10-69

Page 695

677 پیغام بر موقعہ پانچویں سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ قادیان 1970ء ناصرات الاحمدیہ قادیان ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آپ کا یہ سالانہ اجتماع آپ کو بہت بہت مبارک ہو.اور ترقی کی راہ پر آپ کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا جائے.ناصرات کے اجتماع کی غرض صرف تقریریں سکھانا اور ان کے مقابلے کروانا ہی نہیں.اصل غرض ناصرات کی یہ ہے کہ اس عمر میں ان کی دینی تعلیم ہو جائے اپنے عقائد اچھی طرح ذہن نشین ہو جائیں.تا جب وہ بڑی ہوں تو اپنے بنیادی مسائل کے وہ دلائل جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمائے ہیں پیش کر سکیں.گزشتہ سال سالانہ اجتماع کے موقعہ پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب میں ارشاد فرمایا تھا.میں نے اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کے لئے ایک نیا پروگرام تجویز کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ بچیوں ( ناصرات الاحمدیہ) کی عمر دین کے لحاظ سے ذہانت اور فراست کی عمر نہیں بلکہ حافظہ کی عمر ہے اس لئے ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی بچیوں کے حافظہ کی تھیلیاں ان جواہرات سے بھر دیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے محمد رسول اللہ ﷺ سے لے کر ہم تک پہنچائے ہیں.اس کے لئے میں نے تجویز کیا ہے کہ ان خزائن کے جو بنیادی حصے ہیں ان کے متن کی ایک کتاب تیار کی جائے اور یہ حوالے بچوں کو اور بچیوں کو ازبر کرا دئے جائیں.میں نے خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کی تنظیم سے کہا ہے کہ وہ اس سال دسمبر کے آخر سے قبل متن کی یہ کتاب تیار کر دیں اور آئندہ سال ہمارے سب بچوں اور بچیوں کو یہ کتاب حفظ ہو جانی چاہئے.“ الحمد للہ یہ کتاب شائع ہو گئی ہے.اس کا نام "یا درکھنے کی باتیں ہے ) (المصابیح ص 159) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا تھا: اس سال دسمبر تک آپ میں سے ہر ایک کو سورہ بقرہ کی پہلی سترہ آیات حفظ ہونی چاہئیں.اور آئندہ سال آپ کو متن کی وہ کتاب حفظ ہو جانی چاہئے جو تیار کی جارہی ہے.“ (مصباح 1969 ء نمبر ) میں امید کرتی ہوں کہ حضور کے ارشاد کے مطابق تمام ناصرات سورہ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات یا دکر

Page 696

678 چکی ہونگی.اور اپنے اجتماع کے بعد سے ان کی توجہ اپنے حافظہ کی تھیلیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جواہرات سے بھرنے کی طرف ہو جائے گی اور آپ کی نگرانات اس سلسلہ میں آپ کی پوری مدد کریں گی.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حقیقی معنوں میں ناصرات بنائے آپ کے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے عشق ہو آپ کی روح آنحضرت ﷺ کے ہر حکم پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہو.آپ میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فرمانبردار ہو.آپ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو پورا کرنے میں اپنی سعادت سمجھیں.احمدیت اور اسلام کے لئے آپ کے دلوں میں غیرت ہو.کوئی فعل آپ ایسا نہ کریں جو جماعت کے وقار کا منافی ہو اپنے علم وعمل سے اور اپنی عادات و کردار سے آپ حقیقی ناصرات ثابت ہوں.آمین.اللہم آمین.فقط والسلام خاکسار آپ کی مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 14-10-1970

Page 697

679 احمدی خواتین کے نام اہم پیغام یہ پیغام حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے نومبر 1972ء میں لجنہ اماءاللہ کے قیام کے پچاس سال مکمل ہونے پر دیا.میری عزیز بہنو! اللہ تعالیٰ کے فضل سے 25 دسمبر 1972 کو لجنہ اماءاللہ کے قیام پر نصف صدی پوری جائے گی.ہم خوش ہیں کہ وہ تنظیم جو صرف چودہ ممبرات سے شروع کی گئی تھی.آج ایک بین الاقوامی انجمن ہے.جس کی ساری دنیا میں ساڑھے چھ سو سے زائد شاخیں ہیں.ہماری بزرگ خواتین نے بڑی قربانیوں اور جد و جہد سے ہمیں اس مقام پر کھڑا کیا، با وجود کم تعلیم کے ان کے دلوں میں ایک عزم اور خدا تعالیٰ کے لئے سب کچھ قربان کر دینے کا جذبہ موجود تھا.خلیفہ وقت کی ہر آواز پر انہوں نے سب کچھ قربان کر دینے کا تہیہ کیا.ان کی قربانیوں اور محنت کے نتیجہ میں لجنہ اماءاللہ ترقی کرتی گئی لیکن آج لجنہ اماءاللہ کی نصف صدی کی ترقیات کا جائزہ لیتے ہوئے اس موقعہ پر صرف ہمارا خوش ہونا کافی نہیں.جب تک آئندہ کے لئے ہم ایسا ٹھوس لائحہ عمل نہ تجویز کر لیں.جس کے نتیجہ میں ممبرات لجنہ پہلے سے زیادہ جوش سے قربانی دے سکیں.اپنی آئندہ نسلوں کی دینی ماحول میں نیک تربیت کر سکیں تا کہ ان کی اولا دیں اس بوجھ کو صحیح طور پر اٹھانے اور ان کی جگہ لینے کے لئے تیار رہیں.قوم وہی زندہ رہتی ہے جس کی انگلی نسل پچھلی نسل کی جگہ لینے کے لئے تیار ہے.موجودہ زمانے کی آزادی اور بے راہ روی کا صحیح توڑ صرف اور صرف عورتوں کے ذریعہ ہو سکتا ہے.اگر وہ اپنے بچوں کی خالص دینی ماحول میں تربیت کریں، قرآنی احکام سے ان کو روشناس کروائیں.اللہ تعالیٰ کی محبت اور رسول کریم ﷺ کی اطاعت کا جذبہ اور قرآن مجید کے احکام پر چلنے کا جذبہ اس شدت کے ساتھ ان کے دلوں میں پیدا کریں کے بڑے سے بڑا شیطانی حملہ ان کے دلوں کے گرد کھینچی ہوئی حصار کو نہ توڑ سکے گا.یہی اس زمانہ میں آپ کا سب سے بڑا کام ہے.اور یہی آپ کا سب سے بڑا فرض ، اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق کہ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا( التحريم: 7) ہر احمدی خاتون اور ہر ممبر لجنہ اماءاللہ کا فرض اپنی اولادوں کو دنیا پرستی کی آگ سے محفوظ رکھتے ہوئے سچا (احمدی) بنانا ہے.

Page 698

680 میری بہنو! آپ کے لئے بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ آپ نے غور و فکر اور تدبر سے ان مسائل کو حل کرنا اور اپنی آئندہ نسل کو اپنے سے بہتر مخلص اور قرآن کی علمبر دار بنانا ہے.جن کے علم اور عمل سے نور کی شعاعیں دنیا میں پھیلیں اور یہ سب کچھ آپ کے اپنے عملی نمونہ کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے.خود قرآن سیکھیں، اس پر عمل کریں، دوسروں کو پڑھائیں اپنے عمل سے دنیا پر ثابت کریں کہ دنیا میں زندہ کتاب صرف قرآن مجید ہے اور زندہ مذہب صرف اسلام ہے.مجله بتقریب جشن پنجاه سالہ لجنہ اماءاللہ صفحہ 10)

Page 699

681 پیغام بر موقع پچاس سالہ تقریب جشن لجنہ اماءاللہ مرکز یہ قادیان منعقدہ 19 دسمبر 1972ء اعوذ بالله من الشيطن الرجيم میری عزیز بہنو! بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والی سب بہنوں اور بچیوں کی خدمت میں میرا السلام علیکم اور محبت کا پیغام پہنچے.خدا کرے آپ کا جلسہ کامیاب ہوا اور اپنے نمونہ اور حسنِ اخلاق کی وجہ سے کشش کا باعث ہو اسلام ہر ایک کو امن اور آشتی کا پیغام دیتا ہے.ہمارا دامن محبت و رحمت ہر ایک کیلئے کھلا ہونا چاہئے اور ہمیں ہر ایک کی خدمت کیلئے ہر وقت طیار رہنا چاہئے.ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم جس مذہب کے نام لیوا ہیں ، اس کا پیغامبر رحمتہ للعالمین تھا.جس کی رحمت کے بادل بلا تفریق ہر ایک پر بر سے.شمال، جنوب، مشرق ، مغرب ہر جگہ کے رہنے والوں کیلئے وہ رحمت بن کر آیا.یہی خصوصیت ہمیں اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے.اس لئے اپنی خدمت کا دائرہ بہت وسیع کریں.یہی نصیحت ہماری پچاسویں سالانہ تقریب مسرت کے موقع پر حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایده اللہ تعالیٰ نے احمدی خواتین کو فرمائی تھی کہ اپنی خدمت کا دائرہ بہت وسیع کریں.بلا فرق مذہب وملت ،سو ہمارا نصب العین یہی ہونا چاہئے.خدمت، خدمت، خدمت حقیقت تو یہ ہے کہ خدمت دین بغیر خدمت انسانیت کے ہو ہی نہیں سکتی.اسلامی تعلیم کے دو بڑے ستون یہی ہیں.حقوق اللہ اور حقوق العباد، بندوں کے فرائض اور حقوق اد کئے بغیر صحیح رنگ میں ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا نہیں کر سکتا.پس اپنی محبت ، رحمت اور خدمت کا دامن بہت وسیع کیجئے.آپ کے دل میں کسی انسان کیلئے نفرت نہ ہو.محبت ہی محبت ہو کہ یہی اسلام کی تعلیم ہے.

Page 700

682 اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ہمارا خدا زندہ خدا اور ہمارا تر آن زندہ کتاب اور ہمارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نہی ہیں.اپنے ساتھ مجھے بھی دُعاؤں میں یادرکھیں.خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 13-12-72

Page 701

683 لجنہ اماءاللہ کے قیام پر پچاس سال پورے ہونے کی خوشی میں جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر روح پرور پیغام بتاریخ 19 دسمبر 1972ء حضرت سیدہ امتہ القدوس صاحبہ بیگم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب صدر لجنہ نے حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ مرکز یہ کا روح پرور پیغام پڑھ کر سنایا.آپ نے فرمایا کہ آج آپ سب دور دراز سے سفر کی صعوبتیں اختیار کر کے اپنی پچاس سالہ تقریب منانے کے لئے مرکز میں جمع ہوئی ہیں اس لئے ہمیں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ جس نے ہمیں اسلام اور احمدیت جیسی نعمت سے نوازا اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی برکات کے نتیجہ میں لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کے ماتحت اتنی ترقی عطا فرمائی کہ آج ہم اس تنظیم پر پچاس سال پورے ہونے کی خوشی میں جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے جمع ہوئیں ہیں.پس میں اس موقع پر تمام آنے والی نمائندگان اور مقامی بہنوں کو دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں.اللہ تعالیٰ نے اس تنظیم کے ذریعہ ہمیں جتنی ترقی عطا فرمائی ہے.آئندہ یہ عظیم اس سے بڑھ کر ترقیات کا پیش خیمہ ہو.آپ نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی عزت کو قائم کیا اور ایک بلند مقام عطا کیا تا ہم اسلام کی تعلیم کی روشنی میں اپنی تمام بُرائیوں کو دور کر کے قرونِ اولیٰ کی مستورات کی طرح قربانیاں پیش کرنے والیاں بنیں.اب موجودہ زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض یہی تھی کہ آپ کے ذریعہ ایک عظیم روحانی و جسمانی انقلاب رونما ہونا مقدر تھا اور اللہ تعالیٰ نے پھر ایک بار آپ کے ذریعہ اسی محبت، اسی فدائیت اور اسی قربانی کے نظارے دنیا کے سامنے پیش کئے جو آج سے چودہ سو سال قبل آپ کے آقاو مطاع حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نظر آئے تھے.بس آپ نے بھی عورت کی عزت اور اس کے مقام کو بڑھایا اور اس کی تعلیم و تربیت کے لئے تمام تر کوشش صرف کی.آپ نے عورتوں کو شرک و بدعات سے منع فرمایا اور ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.تا ان میں اسلام اور احمد بیت کی خاطر قربانی کا جذبہ پیدا ہو.ری فرمایا.آپ کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی اصلح الموعود نے 25 دسمبر 1922 ء کے مبارک دن عورتوں

Page 702

684 کی اصلاح کے لئے لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کی بنیاد رکھی تا جماعت کی مستورات متحد ہوکر اپنی تعلیمی وتربیتی ترقی سے اسلام اور احمدیت کی خدمت کرنے والیاں بن جائیں.آپ نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی ایک تقریر کا اقتباس پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت کی آئندہ ترقی کا انحصار آج کے نونہالوں پر ہے اور ان نونہالوں نے اپنی ماؤں کی زیر تربیت پرورش پانی ہے.اس لئے ایک ماں جس کردار کی ہوگی اسی کا اثر بچے قبول کریں گے.پس عورت کی اصلاح کی بہت ضرورت ہے اور بچوں کی اصلاح عورتوں کے ذریعہ ہی ہوسکتی ہے.تقریر کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ لجنہ اماء اللہ کی تنظیم جس کی بنیاد صرف 14 مستورات پر رکھی گئی تھی خدا کے فضل سے یہ تنظیم آج بین الاقوامی تنظیم بن چکی ہے اس کی شاخیں نہ صرف سارے ہندوستان میں بلکہ غیر ممالک میں بھی پھیل چکی ہیں.سیدنا حضرت مصلح موعود کی 52 سالہ خلافت کا ہر دن اس بات پر شاہد ہے کہ آپ نے مستورات کی تعلیم و تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا.اور ان کے اندر مالی قربانی کا ایسا جذبہ پیدا کر دیا ہے کہ عورتوں نے صرف اپنے چندے سے اس وقت لنڈن، ہالینڈ اور ڈنمارک میں تین مساجد تعمیر کی ہیں.اس کے علاوہ سادہ زندگی گزارنے کا ایک ایسا جو ہر آپ نے مستورات میں پیدا کر دیا ہے کہ خلیفہ وقت کی طرف سے جس مالی تحریک کا اعلان کیا جاتا ہے خدا کے فضل سے دنیا بھر کی احمدی مستورات اس میں حصہ لے کر شامل ہوتی ہیں.اب ہمارے موجودہ امام سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی عورت کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ فرمائی ہے قرآن مجید کی تعلیم سیکھنے کی طرف توجہ فرمائی ہے قرآن مجید کی تعلیم سیکھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جماعت کی کوئی عورت کوئی بچی ایسی نہیں ہونی چاہئے جو قرآن مجید نہ جانتی ہو.پھر رسومات کے خلاف بار بار توجہ دلائی ہے کہ جماعت میں سے بد رسومات کا خاتمہ ہونا چاہئے.حضور کی تقریر کے اقتباسات پیش کرتے ہوئے آپ نے بہنوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ بہنوں کو اس تنظیم کے ماتحت اس کا پورا انتظام کرنا چاہئے اپنی زندگی کو آئندہ نسلوں کے لئے بہترین نمونہ بنانا چاہئے.پس آئیں آج اس مبارک تقریب کے موقع پر ہم سب ملک کر اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو جو گزشتہ سالوں میں ہم سے ہوئی ہیں دور کرنے کا عہد کریں اور ایک نئے عزم اور ارادے کے ساتھ اپنی اپنی لجنہ میں نئی روح پیدا کرنے کی کوشش کریں اور جماعت کے ننھے بچے اور بچیاں جو آپ کے پاس قوم کی امانت ہیں ان کی بہترین رنگ میں تربیت کریں تا ہمارے بچے آج سے ہی ان قربانیوں کے لئے تیار ہوں جائیں جن کی دین اسلام کو ضرورت ہے.البدر 4 جنوری 1973ء

Page 703

685 نصائح حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے مختلف مواقعوں پر خطاب کرتے ہوئے ممبرات کو جو نصائح فرمائیں وہ درج کی جاتی ہیں.

Page 704

686 جلسہ سالانہ 1942 ء کے پہلے روز حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ حرم رابع حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے عملی زندگی میں اصلاح کی ضرورت پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ مذہب کی واقفیت کے لئے علم کی ضرورت ہے اور احمدیت کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے تعلیم نہایت ضروری ہے.عملی اصلاح کے لئے نیت کی درستی واجب ہے.ایسا ہی ایک دوسرے کو نصیحت کرنا اصلاح کے لئے ضروری ہے.مگر نصیحت بھی حکمت سے ہونی چاہئے.الفضل جنوری 1943ء

Page 705

687 چندہ ترجمۃ القرآن اور لجنہ اماءاللہ حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ کے جہاں احمدی خواتین پر اور بے انتہا احسانات ہیں وہاں یہ بھی ایک احسان عظیم ہے کہ حضور نے اس مبارک تحریک میں جو ترجمۃ القرآن کی ہے.مستورات کو بھی یہ سعادت بخشی کہ وہ ایک قرآن کے ترجمہ اور اس کی طباعت کا خرچ اور اسی طرح ایک کتاب کے ترجمہ اور طباعت کا خرچ اپنے ذمہ لیں اور اس سے بڑھ کر احسان فرمایا کہ حضور نے اس بارہ میں کسی خاص جگہ کی عورتوں کے لئے اس نعمت کو مخصوص نہیں فرمایا بلکہ اس کو تمام ہندوستان کی احمدی عورتوں پر پھیلا کر اپنے احسان کے فیض کو وسیع کر دیا تا کہ دور دراز کی بہنیں بھی اس نیکی سے محروم نہ رہ جائیں.اس مبارک تحریک پر احمدی مستورات نے اپنی قدیم روایات کو قائم رکھتے ہوئے لبیک کہا اور نہایت شاندار نمونہ دکھایا لیکن ابھی کثرت سے ایسی لجنہ کی ممبرات باقی ہیں جن کی طرف سے اس چندہ میں کوئی وعدہ موصول نہیں ہوا.حضور فرماتے ہیں ستم میں سے کوئی عورت بھی اس ثواب سے محروم نہ رہے اور تم میں سے کوئی عورت بھی ایسی نہ رہے جو ان رحمتوں سے حصہ لینے والی نہ ہو.اگر وہ ایک کوڑی دینے کی ہی حیثیت رکھتی ہے تو ایک کوڑی دیکر ہی اس میں شامل ہو جائے.الازھار لذوات الخمار صفحہ 401 پس جن مستورات نے ابھی تک اس چندہ میں حصہ نہیں لیا ان کو چاہئے کہ حضور کے اس فرمان کے مطابق جلد از جلد اپنے وعدے بھجوا دیں.ایسے مواقع روز روز میسر نہیں آیا کرتے.الفضل اگست 1945ء)

Page 706

688 جلسہ سالانہ 1946ء جلسہ سالانہ کے دوسرے روز 27 دسمبر 1946ء کو آپ نے انسانی پیدائش کی غرض اور ہماری ذمہ داریاں“ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ انسان کی پیدائش کی غرض اللہ تعالیٰ نے یہ مقرر فرمائی ہے کہ بندہ صحیح طور پر اس کا عبد بن جائے.اس غرض کے ماتحت ہمارا فرض ہے کہ 1.جو کام ہمارے لئے مقدر کئے گئے ہیں انہیں پورا کریں اور جن امور سے روکا گیا ہے ان سے رکیں.2.دوسروں کو بھی ایسا ہی کرنے کی تحریک کرتے رہیں.اس ضمن میں آپ نے اس امر پر خاص زور دیا کہ احمدی خواتین کو غیر احمدی عورتوں میں خاص طور پر تبلیغ کرنی چاہئے.الفضل 6 جنوری 1947ء

Page 707

689 جلسه سالانه مستورات قادیان 1947ء جلسہ سالانہ مستورات قادیان 1947ء میں آپ نے لڑائی جھگڑا سے بچنے اور لغو باتوں سے گریز کرنے کی تلقین کی نیز آنحضرت ﷺ کے الفاظ بیعت کہ ایک دوسری پر تہمت نہ لگا ئیں گی“ مسند احمد بن حنبل من مسند القبائل میں جھوٹ نہ بولوں گی اور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گی“ اور حضرت اقدس علیہ السلام کے الفاظ بیعت کا عہد بتاتے ہوئے جھوٹ سے بچنے کی تلقین کی.الفضل 20 مئی 1948ء

Page 708

690 افتتاح سالانہ کھیلیں جامعہ نصرت 15 فروری 1959 ء جامعہ نصرت ربوہ کی سالانہ کھیلوں کے افتتاح کے موقع پر آپ نے کھیلوں کی عظمت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ: کھیلیں صرف جیت یا ہار کے نظریہ سے نہ کھیلی جائیں.بلکہ اس کے ذریعہ رشتہ محبت کو استوار اور تنظیم کی کڑیوں کو مضبوط کرنا چاہئے.کھیلیں ہمیں تنومند ذہن بخشتی ہیں اور یہ ہمیں ایسے ہی قیمتی درس دیتی ہیں جیسا کہ کتا ہیں.“ مصباح اپریل 1959ء

Page 709

691 نصائح حضرت سیدہ ام متین صاحبه بر موقع تربیتی جلسه لجنہ اماءاللہ ربوہ تشہد اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا کہ جس طرح درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح جماعت کی ترقی اس کے افراد سے ظاہر ہوتی ہے.ہمارے اندر وہ بنیادی صفات پیدا ہونی چاہئیں جو ایک زندہ جماعت کا طرہ امتیاز ہوتی ہیں.اخلاق ،سچائی ، امانت ، ایفائے عہد اور باہمی سلوک ایسی صفات ہیں جن سے عظیم الشان روحانی انقلاب پیدا کیا جاسکتا ہے.چنانچہ مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ کے اوراق ان صفات سے مزین ہیں.حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ ہر قوم کی اچھی باتوں کو اختیار کرو اور بری باتوں کو چھوڑ دو.چنانچہ مغربی اقوام نے آپ ﷺ کے اس قول کو اپنایا اور انہوں نے اسلام کی اچھی اچھی باتیں اختیار کر لیں.آج وہ لوگ اخلاق ، دیانت ، ایفائے عہد اور سوچ بچار کے لحاظ سے اعلیٰ معیار پر ہیں.وہ عادتا سچ بولتے ہیں.حالانکہ یہ خوبیاں ایک مسلمان میں نمایاں طور پر ہونی چاہئیں.آپ نے احمدی بچیوں خصوصاً کالج کی بچیوں سے فرمایا کہ وہ اپنے وجودوں کو سلسلہ کے لئے مفید اور کارآمد بنائیں.تعلیم کا اصل مقصد یہی ہے کہ اس سے دماغ روشن ہو.قوم کی خدمت کا جذبہ پیدا ہو اور جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھیں تو اپنے فرائض کو ادا کریں.آپ نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری ماں باپ اور اس کے بعد اداروں پر عائد ہوتی ہے.یہی درسگاہیں ہیں جہاں سے انہیں اخلاق اور علم و عمل کی شمع لے کرتاریک دنیا کو منور کرنا ہے.پس اپنے نصب العین کو سامنے رکھیں اور آگے بڑھتی جائیں.الفضل مورخہ 5 اکتوبر 1960 ء

Page 710

692 فضل عمر جونئیر ماڈل سکول میں ناصرات الاحمدیہ کا قیام 12 مارچ 1961ء بروز جمعرات سکول میں ناصرات کا پہلا اجلاس ہوا.حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماء الله مرکزیہ نے ایک مختصر تقریر کے ساتھ ناصرات الاحمدیہ حلقہ فضل عمر جونئیر ماڈل سکول کا افتتاح فرمایا.تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد آپ نے بچیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اس وقت تم سب کو اس لئے جمع کیا گیا ہے کہ تمہارے سکول میں ناصرات الاحمدیہ قائم کی جائے.ناصرات الاحمدیہ کے معنی ہیں احمدیت کی مدد کرنے والیاں آج تم سب ناصرات الاحمدیہ میں شامل ہوگئی ہو تم پر یہ ذمہ داری عائد ہوگئی ہے کہ تم اپنی پڑھائی اور دوسرے مشاغل کے ساتھ کچھ ایسے کام بھی سرانجام دو جو احمدیت کو ترقی دیں اسی غرض سے اب تمہارے اجلاس ہوا کریں گے اور تمہیں تربیت دی جائے گی.تا کہ جب تم 16 برس کی عمر میں لجنہ اماءاللہ میں شامل ہو تو تمہیں پھر سے تربیت دینے کی ضرورت نہ پڑے.تقریر جاری کرتے ہوئے آپ نے فرمایا.یوں تو تمہاری نگران تمہاری کوئی مس ہی ہوں گی لیکن اس بات کے پیش نظر کہ تم بھی ناصرات کا کام کرنا سیکھو اور تم میں کام کرنے کی ذمہ داری پیدا ہو یہ فیصلہ کیا گیا کہ بڑی کلاس کی لڑکیوں میں سے صدر اور سیکرٹری کا انتخاب کیا جائے جو اپنی نگران کی زیر نگرانی کام کیا کریں گی.ان کو دیکھ کر چھوٹی بچیوں کو بھی کام کرنے کا شوق پیدا ہوگا.اور بڑی ہو کر وہ بھی کام کرنے والیاں ہوں گی.آپ میں سے جو بھی صدر اور سیکرٹری بنیں وہ اس بات کو ذہن نشین کر لے کہ تمہارے اس سارے پروگرام کا مطلب یہ ہے کہ تم اچھے اچھے کام کرو جس سے جماعت کو تقویت حاصل ہو آج تمہاری ناصرات کا افتتاح ہو گیا ہے خدا کرے اب تم ناصرات کی دوسری شاخوں کے ساتھ مل کر کام کرنا سیکھو اور بڑی ہو کر احمدیت اور اسلام کی زیادہ سے زیادہ مدد کر سکو.مصباح مئی 1961

Page 711

693 حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا سیالکوٹ میں ورود سیرت النبی کے موضوع پر تقریر 18 نومبر 1961ء کو سیالکوٹ تشریف لے جانے پر آپ نے سیالکوٹ کی ممبرات سے خطاب کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی.آپ نے فرمایا:.حضور ہے جہاں اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے اور اس ذات واحد کی عبادت کرنے میں بے مثال تھے.وہاں اپنے گھر والوں اپنے ہمسایوں اپنے ساتھیوں.عورتوں.غریبوں اور غلاموں سے حسن سلوک میں بھی اپنی مثال نہیں رکھتے تھے.حضرت عائشہ صدیقہ نے آپ کے اعلیٰ اخلاق کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے.كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ مسند احمد باقی مسند الانصار جلد 6ص 91) یعنی آپ کی زندگی اور سیرت قرآن کے عین مطابق تھی.آپ نے مختلف مثالوں کے ذریعہ وضاحت فرمائی کہ کس طرح آپ عورتوں کے لئے رحمت اتم تھے.اور کس طرح غلاموں کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے آپ نے اپنا اعلیٰ نمونہ پیش فرمایا.الغرض بڑے دلچسپ اور دلنشین انداز میں آپ نے حضور کے اخلاق عالیہ پر روشنی ڈالی.اس کے علاوہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت پر روشنی ڈالی اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشق کی مثالیں نہایت دلچسپ پیرائے میں بیان کیں.لجنہ سیالکوٹ کے لئے یہ ایک تاریخی دن تھا جو ہمیشہ یادر ہے گا.الفضل 2 دسمبر 1961ء

Page 712

694 ایک تقریب کا انعقاد 18 /نومبر 1961ء کو سیالکوٹ کی ممبرات نے حضرت سیدہ محترمہ کے اعزاز میں ایک پارٹی کا انتظام کیا.جس میں پرنسپل صاحبہ.سٹاف کے علاوہ شہر کی بہت سی غیر احمدی معزز خواتین نے شمولیت فرما کر تقریب کی رونق میں اضافہ کیا.حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ نے صدر لجنہ سیالکوٹ کے ایڈریس کا جواب دیتے ہوئے احمدی خواتین کو نہایت قیمتی نصائح فرمائیں.آپ نے فرمایا کہ: احمدی خواتین کی قربانیاں اگر چہ بہت شاندار ہیں لیکن حضرت ہاجرہ کی قربانی سے ان کی کوئی نسبت ہی نہیں.حالانکہ اسلام اپنی نشاۃ ثانیہ کے لئے ہم سے حضرت ہاجرہ جیسی قربانی کا تقاضہ کرتا ہے.اسی طرح آپ نے خاص طور پر اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ آجکل پھر عیسائی بڑے زور شور سے اسلام پر مختلف رنگوں میں حملے کر رہے ہیں.غرباء کو مدد کے ذریعے اور ہسپتالوں اور کانونٹ سکولوں کے اجراء کے ذریعہ وہ عیسائیت کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں.اس وقت ضرورت ہے کہ ہم سب اختلافات کو دور کر کے عیسائیت کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جائیں اور کوشش کریں کہ ایک دفعہ پھر ساری دنیا پر اسلام کا پرچم لہرانے لگے.آپ کی اتحاد پر ور تقریر کے بعد دعا کے ساتھ یہ تقریب خیر وخوبی سے اختتام پذیر ہوئی.الفضل 2 دسمبر 1961ء

Page 713

695 سالانہ تربیتی کلاس لجنہ اماءاللہ لاہور 15 جون 1962 ء کو لجنہ لاہور نے پندرہ روزہ تربیتی کلاس منعقد کی جس کے اختتام پر حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے کامیاب ہونے والی طالبات کو اپنے دست مبارک سے سندات و انعامات عطا فرمائے اور طالبات کو نہایت قیمتی نصائح سے نوازا.آپ نے فرمایا ! مرکز میں جو تربیتی کلاس منعقد ہوتی ہے.بیرونی بجنات اس سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا سکتیں.نیز اس کلاس میں جولڑ کیاں شامل ہوتی ہیں ان میں سے بہت کم ایسی ہوتی ہیں جو واپس جا کر اپنے ہاں کی مستورات کو دینی مسائل سکھا سکیں.اس خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ مناسب سمجھا گیا کہ اہم مقامات پر بھی ایسی کلاسوں کا اجراء کیا جائے.لاہور کی یہ تربیتی کلاس اس سلسلے کا پہلا کامیاب تجربہ ہے.آپ نے شروع سے آخر تک دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا مجھے خوشی ہے کہ لاہور کی سب کارکنات نے بڑی محنت و خلوص کے ساتھ اس کلاس کو کامیاب بنانے میں حصہ لیا.نیز فرمایا کہ طالبات کو چاہئے اس کلاس میں جو کچھ پڑھا گیا ہے اسے بنیاد بنا کر خود دینی مسائل کا مطالعہ اور ان کو سمجھنے کی کوشش کریں.تا کہ اس کلاس کا حقیقی مقصد پورا ہو.آپ نے کہا بے شک آپ دنیوی علوم و ڈگریاں حاصل کریں مگر اس بات کو ہر گز نہیں بھولنا چاہئے کہ ان علوم و معارف کا حقیقی منبع قرآن مجید ہے.اور قرآن شریف کو صحیح رنگ میں سمجھنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ بڑا ضروری ہے.مصباح اکتوبر 1962ء یکم

Page 714

696 افتتاح نمائش ناصرات الاحمدیہ کراچی اس سال بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ناصرات الاحمدیہ کراچی نے سالانہ اجتماع کے موقع پر نمائش لگائی تھی اور وسیع پیمانہ پر اس کی تیاریاں کی گئی تھیں.نمائش کا افتتاح از راه شفقت محترمہ صدر صاحبہ لجنہ مرکزیہ نے فرمایا.اور بچیوں کی اشیاء دیکھ کر اظہار خوشنودی فرمایا.چنانچہ لجنہ کراچی کی نوٹ بک پر جور یمارک آپ نے تحریر فرمایا وہ درج ذیل ہے.بسم اللہ الرحمن الرحیم لجنہ اماءاللہ کراچی کے دورہ میں ناصرات الاحمدیہ کی نمائش دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا.چھوٹی چھوٹی بچیوں نے بہت محنت کی ہے اور بڑی اچھی چیزیں تیار کی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے اس شوق میں ترقی دے.میری ان کو نصیحت ہے کہ آئندہ سال وہ محنت کر کے سارا سال چیزیں تیار کریں.اور ان کو فروخت کر کے اپنا فنڈ مضبوط کریں اور اس فنڈ سے یتیم اور غریب لڑکیوں کی تعلیمی امداد کریں.اس طرح مستقل طور پر ناصرات الاحمدیہ کے فنڈ سے کئی غریب بچیوں کی تعلیم و تربیت ہو سکے گی.“ مصباح فروری 1963 ء

Page 715

697 نصائح حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے حلقہ کوارٹر تحریک جدید اور کوارٹرز صدرانجمن احمدیہ کے ایک مشترکہ اجلاس میں فرمایا کہ: ان حلقوں میں رہنے والی تمام مستورات مجاہدین کی بیویاں، بیٹیاں اور مائیں ہیں.کیونکہ یہ حلقہ واقفین کا حلقہ ہے.اس لحاظ سے آپ لوگوں پر دوسروں سے زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.یہ زمانہ اگر چہ جنگوں کا زمانہ نہیں.تاہم جہاد بالقلم کا زمانہ ہے اور اسلام کی تبلیغ واشاعت ہی اس زمانہ کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور سب سے بڑی قربانی ہے.آپ اپنے بچوں کی تربیت اس انداز سے کریں کہ وہ بھی آئندہ چل کر زمانہ کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اسلام کے مجاہد ثابت ہوں اور بہت سی قربانیاں کرنے والے ہوں.“ مصباح مئی 1963ء

Page 716

698 جواب تعزیتی ریزولیوشن حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے وصال پر بڑی کثرت سے تعزیت کے ریزولیوشن لجنات اماء اللہ نے منظور کر کے بھجوائے.جن کے جواب میں صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے مندرجہ ذیل جواب ہر لجنہ اماءاللہ کو بھجوایا گیا.ممبرات لجنہ اماءاللہ - السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ لجنہ اماءاللہ...کاریزولیوشن تعزیت حضرت میاں صاحب کی وفات پر موصول ہوا.یہ تم کسی کا واحد غم نہیں.بلکہ قوم کا مشتر کہ غم ہے.آپ کی وفات ہمیں اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کریں.اپنی پیدائش کی غرض و غائت کو سمجھیں اور اپنے نصب العین کو جلد تر حاصل کرنے کی کوشش کریں.بے شک یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ ہے اور جو وعدے خدا تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تھے وہ سب پورے ہوں گے.احمدیت ترقی کرے گی.لیکن اگر اس ترقی میں ہماری کوشش نہ ہو گی.تو ہم بدقسمت ہوں گے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب جیسے فنافی اللہ انسان کی وفات ہمیں توجہ دلاتی ہے کہ ان کی جگہ لینے کیلئے ویسی ہی دین کی تڑپ رکھنے والے انسان پیدا ہوں.عورتوں پر دوہری ذمہ داری ہے وہ خود بھی اسلام کی خدمت کرنے والی ہوں اور اگلی نسل کی ذمہ داری بھی انہیں پر ہے.اگر وہ خود دین کے لئے قربانی دینے والی ہوں گی تو ان کی گودوں سے پروان چڑھے ہوئے بچے بھی احمدیت کے جانباز سپاہی ثابت ہوں گے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو بھی اور ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اپنی زندگیوں کو بے کار صرف نہ کریں بلکہ ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ اسلام اور احمدیت کی خدمت میں خرچ ہو.آمین.والسلام خاکسار مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ تاریخ لجنہ جلد سوم ص 188 ﴾1963-09-17

Page 717

699 خطاب قیام گاہ مستورات جلسہ سالانہ 1963ء 1963ء کے جلسہ سالانہ کے اختتام کے بعد قیام گاہوں کی تفصیلی رپورٹ لجنہ اماءاللہ کے ہال میں ایک جلسہ کر کے سنائی گئی.آخر میں محترمہ صدر صاحبہ نے حاضرات سے خطاب فرمایا :.کہ جن کارکنات نے اپنی ڈیوٹی احسن طریق سے سرانجام دی تھی ان کا شکر یہ ادا کرنے کے بعد جن طالبات نے اپنے نام تو کام کرنے کے لئے پیش کئے تھے لیکن بعد میں بغیر کسی قسم کی مجبوری ظاہر کرنے کے غیر حاضر رہیں.انہیں تنبیہ فرمائی اور واضح فرمایا کہ ایسی کارکنات نے نہایت غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے.یہ تین دن جلسہ کے ہوتے ہیں جن میں ہمیں مہمانوں کی خدمت کا موقع ملتا ہے.سال بھر میں صرف تین دنوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے.لیکن اپنا نام پیش کرنے کے بعد پھر قدم پیچھے ہٹا لینا ایک مومن کے شایان شان نہیں.آخر میں آپ نے دعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ آئندہ سال ہمیں احسن رنگ میں مہمانوں کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور جنہوں نے اس سال ستی دکھائی ہے وہ آئندہ سال اس کی تلافی کر سکیں.آمین مصباح فروری 1964 ء

Page 718

700 لجنہ اماءاللہ منٹگمری (ساہیوال) کے کام پر اظہار خوشنودی حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ مرکزیہ 29 فروری کو لجنہ اماءاللہ منٹگمری کے سالانہ جلسہ کے لئے تشریف لائی تھیں.آپ نے از راہ نوازش لجنہ اماءاللہ نمری کے کام پر مندرجہ ذیل تعریفی الفاظ لجنہ کے رجسٹر پر تحریر فرمائے.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ منٹگمری کی عہدیداران میں اتفاق ہے.اس اصول کو ہمیشہ یا درکھیں کہ ایک شخص اکیلا کچھ نہیں کر سکتا.اس لجنہ کا کام اچھا ہوگا.جس کی تمام عہدیداران اتفاق کے ساتھ مل کر اپنی لجنہ کی ترقی کے لئے کوشش کریں گی.لیکن لجنہ منٹگمری کی نمبرات کے لحاظ سے آپ کی چندہ دہندگان کی تعداد کم ہے.آپ کو چاہئے کہ محبت سے پیار سے شفقت سے ہر بہن کو آمادہ کریں کہ وہ لجنہ کی ممبر بنے.اجلاسوں میں شامل ہو اور اس کے کام کو چلانے کے لئے چندہ اور عطایا دے.لیکن یہ بھی مد نظر رہے کہ چندہ جمع کرنا ہمارا اصل کام نہیں چندہ تو اس لئے لیا جاتا ہے کہ ہم اپنے کام چلا سکیں.ورنہ ہمارا اصل کام تبلیغ تعلیم اور تربیت ہے.اس لئے آپ کو انہی تین باتوں کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے.عورتوں میں عورتیں ہی تبلیغ کر سکتی ہیں.جو غلط فہمیاں ہماری جماعت کے متعلق لوگوں میں پیدا ہو چکی ہیں.ان کو دور کرنے کی کوشش کریں.اور اپنی ممبرات اور بچیوں کی دینی تعلیم اور تربیت کی طرف توجہ کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.آمین خاکسار ( دستخط) مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ مصباح جون 1964 ء

Page 719

701 نصائح بر موقع جلسہ تقسیم انعامات فضل عمر جونیئر ماڈل سکول 18 جون 1964 فضل عمر جونیئر ماڈل سکول ربوہ کا جلسہ تقسیم انعامات زیر صدارت حضرت سیدہ ام متین صاحبہ منعقد ہوا.تقسیم انعامات کے بعد حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے اپنے خطاب سے حاضرین کو نوازا.سب سے پہلے انعامات لینے والے بچوں کو مبارک باد دیتے ہوئے آپ نے اساتذہ کو ان کامیابیوں میں برابر کا شریک ٹھہرایا اور فرمایا کہ آپ اس سکول میں صرف امتحان پاس کرنے کے لئے داخل نہیں ہوئے بلکہ اس سے بالاتر ایک عظیم مقصد احمدیت کی خدمت کرنا ہے.آپ خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں زندگی کا مقصد اچھے شہری.ماں باپ کے فرمانبردار اور محلے کے اچھے ہمسائے بننا ہے.اگر یہ مقصد پورا ہے تو اس سکول میں پڑھنے کا فائدہ ہے ورنہ نہیں.سٹاف پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں میں اعلیٰ اخلاق دینی تربیت قوم کی خدمت کا جذبہ اور قربانی کی روح پیدا کریں.اس سلسلے میں بچوں کی ماؤں کا تعاون حاصل ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ وہ اعلیٰ صفات جن سے یہ نونہال ملک وقوم اور اسلام کے اعلیٰ افراد بن سکیں.سکول اور والدین کے تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں.دوسری بات جس کی طرف آپ نے خاص طور پر توجہ دلائی وہ یہ تھی کہ بچپن سے ہی بچے کو اعلیٰ صفات اور زندگی کے بہترین مقصد سے روشناس اور مانوس کرایا جائے.محبت الفت اور محنت سے اس کے لئے ایسے طریق اختیار کئے جائیں کہ اس سکول کے بچے واقعی ان صلاحیتوں کے مالک بن جائیں.آخر میں آپ نے مغربی اقوام کی تقلید سے نفرت کا جذبہ پیدا کرنے پر بھی زور دیا اور بچوں کے حق میں دعا پر اپنی تقریر کو ختم فرمایا.دعا کے بعد یہ دلچسپ اور مفید پروگرام اختتام پذیر ہوا.مصباح جولائی 1964)

Page 720

702 خطاب جلسہ یوم خلافت را ولپنڈی لجنہ اماءاللہ راولپنڈی کے زیر اہتمام 14 / مارچ 1965ء کو جلسہ یوم خلافت مسجد نور راولپنڈی میں زیر صدارت محترمہ صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ بیگم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب منعقد ہوا.جس میں صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے ہمراہ صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ اور محترمہ رشیدہ حسین صاحبہ سیکرٹری مال لجنہ اماءاللہ راولپنڈی کی دعوت پر وہاں گئیں.صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے خواتین سے خطاب کرتے ہوئے آیت استخلاف کی تلاوت کی.اور تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہو گے تو وہ تم میں اپنے خلفاء مبعوث کرتا رہے گا.یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انعام ہے.لیکن یہ انعام مشروط ہے اطاعت اور فرمانبرداری سے ایسی اطاعت جو مقام خلافت کے شایان شان ہو.بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عمل صالح سے مراد صرف نماز روزہ کی پابندی اور چندے دینا ہے حالانکہ اعمال صالحہ سے مراد خلیفہ کے ہر حکم کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری بھی ہے.بغیر اطاعت اور فرمانبرداری کے دیگر اعمال بھی قابل قبول نہ ہوں گے.آپ نے خلافت ثانیہ کے بابرکت دور کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آج حضور کی خلافت کو 51 ربرس گزر گئے ہیں.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھا ہے.اسی خوشی میں ہم نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا ہے کہ ڈنمارک میں ایک اللہ تعالیٰ کا گھر صرف اپنے چندہ سے بنائیں گی.تاریخ لجنہ جلد سوم صفحہ 310

Page 721

703 احمدی خواتین کا ملکی دفاع میں حصہ آپ جب قرون اولیٰ کی جنگوں کا حال تاریخوں میں پڑھتی ہونگیں تو بہت سی بہنوں کے دل میں خیال آتا ہو گا کہ اگر ہم اس وقت ہوتیں تو یوں قربانیاں دیتیں لیکن میری بہنو! اب اسلام پر ایک کڑا وقت آیا ہے.دشمن اس کوشش میں ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیواؤں کو بے وطن کر دے.لیکن انشاء اللہ ہم کبھی بھی ایسا نہیں ہونے دینگے.جہاں ہماری بہادر اور قابل فخر فو جیں ملک کا دفاع کر رہی ہیں.وہاں آپ پر بھی ملکی دفاع کا بہت بڑا فریضہ عائد ہوتا ہے.میں وہ چند باتیں درج ذیل کرتی ہوں جن پر عمل کرنا آپ کیلئے بہت ضروری ہے.1.ہمارا آخری سہارا مولیٰ کریم ہے جو اپنے بندوں کی عاجزی کو پسند کرتا ہے اور اس کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے.ان دنوں میں ہمیں چاہئے کہ باقاعدہ رات کو تہجد پڑھیں، تہجد کے علاوہ دن کو نوافل بھی ادا کریں اور اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر پاکستان کی سلامتی مسلمانوں کی بقاء مسلمان فوجوں کی کامیابی اور اسلام کی ترقی کی دعائیں مانگیں.2 کسی موقع پر بھی اپنے اوسان نہ خطا ہونے دیں.مومن بہادر ہوتا ہے.اپنے بچوں میں بھی بہادری کا جذبہ اور قوم و ملک کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا کریں.3.افواہیں نہ پھیلائیں.یہ صریحاً اسلام کی تعلیم کے خلاف اور ملک کے مفاد کے منافی ہے.ہوسکتا ہے کہ آپ سادگی سے کوئی بات کسی دوسرے کو بتا دیں جو ملک کے مفاد کے خلاف ہو.اس لئے سنی سنائی باتیں دوسروں تک پہنچانے سے پر ہیز کریں.یہ بہت بڑی اخلاقی مدد ہوگی.جو آپ پاکستان کی کریں گی.-4.ہر احمدی عورت ابتدائی طبی امداد کی ٹریننگ حاصل کرے.تا وقت پڑنے پر ملک کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکے.تمام شہری لجنات کو ابتدائی طبی امداد سکھانے کا انتظام کرنا چاہیئے.5.قومی دفاعی فنڈ میں حصہ لیجئے.اپنے اخراجات میں کمی کریں اپنے کھانے پینے کپڑوں اور روزمرہ کے اخراجات میں جس قدر کفایت ہو سکے کریں اور روپیہ بچا کر ملک کی حفاظت اور مجاھدین کے اخراجات کے لئے دیں.6.ہماری بہنیں مجاہدین پاکستان کے لئے سوئیٹر بن کر بھجوائیں اور اس کے علاوہ وہ تمام اشیاء جن کے لئے ریڈ کر اس یا گورنمنٹ کی طرف سے اعلان کیا جا رہا ہے.جمع کر کے بھجوائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے کہ آپ ملکی دفاع میں حصہ لے سکیں.الفضل 22 ستمبر 1965ء

Page 722

704 احباب جماعت کا شکریہ اور درخواست دعا حضرت مصلح موعود خلیفہ امسیح الثانی کے وصال پر ہزاروں احباب جماعت نے خود آ کر مجھ سے تعزیت فرمائی اور ابھی تک آنے کا سلسلہ جاری ہے.سینکڑوں تاریں اور خطوط اور ریزولیوشن وصول ہو چکے ہیں.اور ہورہے ہیں.احباب جماعت کے اس اظہار خلوص ، محبت اور ہمدردی پر سر بے اختیار خدا وند عز و جل کے آستانہ پر جھک جاتا ہے اور دل بے اختیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود بھیجتا ہے جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے احمد یہ جماعت کا بیج بویا جو آج ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر چکا ہے اور جن کے طفیل آج جماعت کو وہ اتحاد نصیب ہے کہ ہر احمدی ایک دوسرے کیلئے رشتہ داری کی محبت سے زیادہ محبت رکھتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو آپ سے جو محبت تھی جو تعلق تھا اس کا اظہار ایک مرتبہ نہیں دو مرتبہ نہیں بلکہ آپ کی ساری زندگی میں.آپ کے ہر فعل میں ہر قول اور ہر حرکت سے ہوتا رہا ہے.انہوں نے جماعت کو ہمیشہ ہی اپنی بیویوں اور بچوں پر مقدم رکھا جیسا کہ مارچ 1945ء میں جبکہ ایک پیغام الفضل کے ذریعہ دیا تھا اس میں آپ نے لکھا تھا میں ہمیشہ آپ سے اپنی بیویوں اور بچوں سے زیادہ محبت کرتا رہا ہوں اور اسلام اور احمدیت کی خاطر اپنے ہر قریبی اور ہر عزیز کو قربان کرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہا ہوں.میں آپ سے اور آپ کی آنے والی نسلوں سے بھی یہی توقع رکھتا ہوں کہ آپ بھی ہمیشہ اسی طرح عمل کریں گے.اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو.“ اسی محبت کے فیض سے آج میرے دل کی بھی یہی حالت ہے کہ خود دل غم سے پھٹ رہا ہوتا ہے.آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں مگر جب کوئی احمدی خاتون میرے پاس آ کر رونے لگتی ہے تو مجھے اس کا غم اپنے غم سے بڑھ کر محسوس ہوتا ہے اور اس لمحہ میری آنکھیں خشک ہو جاتی ہیں اور میں اُسے تسلی دینے لگتی ہوں.چونکہ ابھی نہ اتنی فرصت ہے اور نہ دل میں طاقت کہ ہر بہن اور بھائی کے خط یا تار کا الگ الگ جواب دے سکوں.اس لئے الفضل کے ذریعہ سب احباب جماعت کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں اور ان کو یقین دلاتی ہوں کہ انشاء اللہ العزیز وہ ہمیشہ مجھے اپنی دعاؤں میں یا درکھیں گے اور ہمیشہ ہر دکھ درد میں وہ مجھے اپنا شریک پائیں گے.اللہ تعالیٰ توفیق دے.

Page 723

705 میں بھی اس مقدس تعلق کی بناء پر احباب جماعت کی خدمت میں درخواست کرتی ہوں کہ وہ میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی بقیہ زندگی اسلام احمدیت اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی بہبودی میں صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور میری زندگی کا ہر آنے والا لمحہ جماعت احمدیہ کی خدمت میں گزرے.آمین.اللھم آمین.میں جلد کوشش کروں گی کہ احباب جماعت کے خطوط کے جواب فردا فرد دے سکوں.(الفضل 19 نومبر 1965ء)

Page 724

706 چندہ مسجد ڈنمارک اور لجنات اماءاللہ الحمد لله ثم الحمد للہ 8 فروری تک کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ مسجد ڈنمارک کے کل وعدہ جات دولاکھ بہتر ہزار ہو گئے ہیں اور دو لاکھ تئیس ہزار دو سو چھپن روپے اس مد میں جمع ہو چکے ہیں.گو یا ہفتہ زیر پورٹ میں - 7336 کے وعدہ جات وصول ہوئے ہیں اور - 7636 نقد رقم وصول ہوئی ہے علاوہ پاکستان کے 731 ڈالر لجنہ اماء اللہ امریکہ نے مسجد ڈنمارک کے لئے دیئے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں مَنْ بَنی لِلهِ مَسْجِدًا بَنَى اللهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ (بخاری کتاب الصلوة) جو اللہ تعالیٰ کے لئے یہاں مسجد بناتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے.کتنا سستا سودا ہے.میری بہنو! اب تک جس بہن نے مسجد کے لئے چندہ نہیں دیا وہ اب اپنا چندہ بھجوا کر ثواب دارین حاصل کریں.لجنات اپنے اپنے شہر، قصبہ یا گاؤں میں اس بات کا جائزہ لیں کہ ان کے حلقہ میں کوئی بہن ایسی تو نہیں رہ گئی جس نے ابھی تک مسجد ڈنمارک کے چندہ میں حصہ نہ لیا ہو.وعدہ جات کی فہرستیں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک سو فیصدی کسی لجنہ کی طرف سے بھی چندہ نہیں آیا.ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ سالانہ اجتماع تک ہم یہ رقم پوری کر لیں.چند ماہ میں بقیہ رقم کی وصولی کوئی مشکل امر نہیں ہے صرف ضرورت ہے ہمت کی.ضرورت ہے استقلال سے کام کرنے کی.ضرورت ہے بہنوں کو اس امر کی تلقین کرنے کی کہ وہ سادگی اختیار کریں اپنے اخراجات کم کریں اور مسجد کے لئے چندہ دیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم نے جو بطور اظہار تشکر اللہ تعالیٰ کے حضور یہ وعدہ پیش کیا ہے کہ حضرت مصلح موعود کی یادگار کے طور پر یہ مسجد تعمیر کریں گی وہ وعدہ جلد از جلد پورا ہو اور اللہ تعالیٰ یہ حقیر نذرانہ قبول فرما کر اس میں برکت ڈالے اور یہ مسجد لاکھوں روحوں کے اسلام قبول کرنے کا موجب بنے.آمین اللھم آمین تین سو یا اس سے زائد دینے والی بہن کا نام انشاء اللہ العزیز مسجد پر کندہ کروایا جائے گا.مسجد کی بنیاد عنقریب رکھی جانے والی ہے اس لئے بہت ضروری ہے کہ وعدہ جات کی ادائیگی جلد از جلد کی جائے.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.الفضل 10 فروری 1966 ء

Page 725

707 چندہ مسجد ڈنمارک اور مستورات جماعت احمدیہ کا فرض ہفتہ زیر رپورٹ میں کل وعدہ جات - 6021 روپے کے وصول ہوئے ہیں اور کل وصولی 1569 روپے کی ہوئی ہے گویا 18 فروری تک کل وعدہ جات کی مقدار دولاکھ بہتر ہزار چھ سوتین روپے ہو چکی ہے اور کل وصولی دولاکھ چوبیس ہزار آٹھ سو چھیں روپے ہوئی ہے الحمد للہ علی ذالک لیکن پچھلے چند ماہ کی رفتار کو دیکھتے ہوئے اس ہفتہ میں چندہ بھی کم آیا ہے اور وعدہ جات تو خاصے کم وصول ہوئے ہیں.میں اس اعلان کے ذریعہ اپنی عزیز بہنوں کو پھر توجہ دلاتی ہوں کہ اس مسجد کی تعمیر کا وعدہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور اس امر کے اظہار کے لئے کیا تھا کہ ہم بطور تحدیث نعمت حضرت مصلح موعود کے پچاس سالہ کامیاب دور خلافت کے پورا ہونے پر یہ مسجد تعمیر کروائیں گی.خدا تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت یہ مسجد حضور کی زندگی میں تعمیر نہ ہوسکی.اب ہمارا فرض ہے کہ ہم جلد از جلد اس مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کریں تا مسجد بہت جلد تعمیر ہو سکے اور مالی وقت مسجد کی تعمیر میں حارج نہ ہو.ہمیشہ ہی جماعت احمدیہ کی خواتین نے عظیم الشان مالی قربانیاں دی ہیں جن کی نظیر اور کہیں نظر نہیں آتی اور بارہا حضرت مصلح موعود نے از راہ شفقت اس پر اظہار مسرت بھی فرمایا ہے.چنانچہ حضور ہی کی ایک تقریر کا اقتباس پیش کرتی ہوں.27 دسمبر 1952ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر حضور نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا.احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ عورتوں میں تشریف لے گئے اور فرمایا دین کے لئے مال کی ضرورت ہے چندہ دو تو ایک عورت نے اپنا سونے کا کڑا اتار کر پیش کر دیا.آپ نے فرمایا دوسرے ہاتھ کو بھی دوزخ سے بچاؤ.“ اس نے جھٹ اتارکر دے دیا اور کہا یا رسول اللہ یہ دوسرا کڑا بھی حاضر ہے.یہ کتنی بڑی قربانی تھی جو اس عورت نے کی مگر اس عورت کے نام کا بھی پتہ نہیں لگتا اس سے معلوم ہوا کہ عورتیں اس کمال میں مردوں سے بہت بڑھی ہوئی تھیں وہ عادتا ایسا کرتی تھیں ان کی قربانیاں نمایاں نظر نہ آتی تھیں.“ پھر آپ فرماتے ہیں:.پس تم میں قربانی کی روح پائی جاتی ہے تم مائیں ہو دنیا کی تم بہنیں ہو دنیا کی تم بیٹیاں ہو دنیا کی

Page 726

708 اور ماں، بہن اور بیٹی کی قربانیوں کے سامنے مردوں کی قربانیاں، بیچ ہوتی ہیں.وہ بڑی تو ہوتی ہیں مگر جو جذبات اور جو روح تمہاری قربانی کے پیچھے ہوتی ہے جو فدائیت اور جو فنائیت تمہاری قربانی کے پیچھے ہوتی ہے وہ مرد کی قربانی کے پیچھے نہیں ہوتی.مرد بسا اوقات قربانی کرتا ہے اور فخر سے سراٹھا کر ادھر ادھر دیکھتا ہے کہ کوئی اسے دیکھتا ہے یا نہیں.مگر جب تم قربانی کرتی ہو تو تمہیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ تم نے کوئی قربانی کی ہے تم بڑی سے بڑی قربانی کے وقت یہ سمجھ رہی ہوتی ہو کہ کاش تم کو بھی قربانی کا موقعہ ملتا.پس تم خدا تعالیٰ کا ایک نشان ہو.اس کے فرشتے تم پر آسمان سے دعائیں بھیج رہے ہیں اور خدا تعالیٰ عرش سے تم پر برکتیں نازل کر رہا ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تم کمزور ہو تمہارا مال بھی کم ہے.تمہارا سرمایہ بھی بہت تھوڑا ہے مگر جو طاقت خدا تعالیٰ نے تمہیں بخشی ہے کہ تمہارے دل کے پیچھے ایک آتش فشاں پہاڑ کھڑا آگ برسا رہا ہے.اس گرمی کا مقابلہ کسی مرد کا دل نہیں کر سکتا.“ میں نے پچھلے سال بھی کہا تھا اور اب پھر وہ واقعہ دہراتا ہوں.خدام الاحمدیہ کا جلسہ تھا میں نے خدام الاحمدیہ سے کہا ارے لڑ کو تم شرم کرو تم نو جوانوں نے اپنے دفتر کے بنانے کے لئے چندہ میں وہ حصہ نہیں لیا جو عورتوں نے اپنے دفتر کے تیار کرنے میں لیا ہے.تو خدام میں سے ایک دلیر نو جوان کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ عورتوں نے کہاں سے چندہ دیا انہوں نے ہم سے ہی لے کر دیا ہے.میں نے بھی جواب میں کہا پھر تو اور بھی شرم کی بات ہے کہ تمہاری جیب میں پیسے تھے عورتوں نے تمہاری جیب سے لے کر چندہ دے دیا تم جن کی جیب میں پیسے تھے خود اپنے کام کو پورا نہ کر سکے.پس حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو جذ بہ تم میں رکھا ہے وہ جذ بہ ایک مافوق الانسانیت چیز نظر آتا ہے جب وہ حقیقی طور پر ظاہر ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسانیت سے بہت اونچا نکل گیا ہے.تو باوجود سامانوں کی کمی کے میں تمہیں توجہ دلاتا ہوں کہ تم اپنے فرض کو ادا کرو.مسجد کا نقشہ بن رہا ہے.عمارت بنے والی ہے انشاء اللہ تم اس رقم کو پورا کرنے کی کوشش کرو جس کا اندازہ اس مسجد کی تعمیر کے لئے لگایا گیا ہے.“ یہ مندرجہ بالا اقتباس حضور کی 1952ء کی جلسہ سالانہ کی تقریر سے لیا گیا ہے جب آپ نے عورتوں میں مسجد ہالینڈ کی تحریک فرمائی تھی.الحمد للہ کہ عورتوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں وہ مسجد تعمیر ہو چکی ہے.اب حضور کی یادگار کے طور پر ہم نے ڈنمارک میں مسجد بنوانی ہے بہنوں سے حضور کے الفاظ میں ہی اپیل کرتی ہوں کہ تم اپنے فرض کو ادا کرو.

Page 727

709 اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق عطا کرے کہ ہم سب اپنی متحدہ اور مشترکہ قربانیوں کے ذریعہ تبلیغ اسلام کے اس وسیع پروگرام کو جاری رکھ سکیں جو حضرت مصلح موعود نے جاری فرمایا تھا.اور خلافت ثالثہ میں تعمیر کی جانے والی پہلی مسجد عورتوں ہی کے چندہ سے تعمیر کی جائے جس طرح خلافت ثانیہ کے مبارک دور میں سب سے پہلی مسجد لندن میں عورتوں کے چندہ سے تعمیر کی گئی تھی.رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ تمام لجنات کی عہدہ دار بار بار اس امر کا جائزہ لیں کہ کوئی بہن اس سعادت عظمی میں شامل ہونے سے رہ نہ جائے.نیز وعدہ جات کی وصولی کا بھی جلد از جلد انتظام کریں.الفضل 24 فروری 1966ء

Page 728

710 بچوں کو قرآن مجید ناظرہ پڑھانے کا انتظام اور لجنات اماءاللہ کا فرض آپ نے فرمایا:.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اپنے حالیہ خطبہ میں جماعت کی اس طرف توجہ مبذول کرائی ہے کہ بہت جلد ایسا انتظام کریں کہ جماعت کے سوفی صدی بچے قرآن مجید ناظرہ پڑھ لیں.بچوں کو قرآن مجید پڑھانے کی ذمہ داری مردوں سے زیادہ عورتوں پر عائد ہوتی ہے.مرد اپنے کاموں کے سلسلہ میں باہر رہتے ہیں اور بچوں کی دینی تعلیم کی طرف کما حقہ توجہ نہیں دے سکتے.لیکن عورتیں گھروں میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کو خود قرآن مجید پڑھا سکتی ہیں.مرکز میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مدرسوں میں بھی قرآن مجید پڑھانے کا انتظام موجود ہے.اور لجنہ کے زیر انتظام بھی.لیکن مرکز سے باہر کثرت سے ایسے بچے ہیں جو سکولوں میں جا کر دنیوی تعلیم تو حاصل کر رہے ہیں مگر قرآن مجید نہیں پڑھتے.پس میں اس اعلان کے ذریعہ تمام لجنات کو توجہ دلاتی ہوں کہ وہ اپنی لجنہ کا دورہ کر کے اس امر کا جائزہ لیں کہ ان کے ہاں کل کتنے بچے ہیں ان میں کتنے قرآن مجید ختم کر چکے ہیں.کتنے قرآن مجید پڑھ رہے ہیں.کتنے ایسے بچے ہیں جو کوئی انتظام نہ ہونے کی وجہ سے قرآن مجید ناظرہ نہیں پڑھ سکے؟ اس قسم کی فہرستیں دس پندرہ روز کے اندر اندر مرکز میں پہنچ جانی چاہئیں.یہ بھی اطلاع دیں کہ جن بچوں نے ابھی تک قرآن مجید نہیں پڑھا ان کے پڑھانے کا انتظام مقامی لجنہ کر سکتی ہے یا نہیں؟ اور بچوں کی تعداد کیا ہے؟ اگر مقامی لجنہ ان کے قرآن مجید پڑھانے کا انتظام نہیں کر سکتی تو مرکزی لجنہ انشاء اللہ تعالیٰ ان کی تعلیم کا انتظام کرے گی.مصباح مارچ 1966 ء

Page 729

711 خطاب لجنہ اماءاللہ پشاور 13 را پریل کو پشاور میں احمدی مستورات کا ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا.جس میں حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے ممبرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.لجنہ پشاور کی چھ ماہ کی رپورٹ سنی ہے اور یہ امر باعث مسرت ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ کا ہر قدم ترقی کی طرف اُٹھ رہا ہے تاہم ان رپورٹوں میں اصل حسن اور نکھار تبھی پیدا ہوسکتا ہے جب اُن میں بتایا جائے کہ سال رواں میں اتنے لوگوں نے ہماری تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں حق کو قبول کیا ہے...ہم لوگوں کا اصل نصب العین یہی ہے کہ بھٹکی ہوئی مخلوق خدا کو اسلام کا صحیح چہرہ دکھایا جائے...اور یہ سب کچھ اس حالت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم اپنا عملی نمونہ ایسا اعلیٰ پیش کریں کہ ہمارے ہر قول اور ہر فعل سے اسلام اور احمدیت کی صداقت شعار ہو.“ خطاب کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ”ہم سب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہوئی ہے.لہذا آپ کی پیش کردہ دس شرائط بیعت پر عمل پیرا ہونا ہر احمدی عورت کا فرض اولین ہے.اس کے بعد ہر شرط پر کسی قدر تفصیلی روشنی ڈالی اور فرمایا کہ احمدی مستورات کو خسر میں، پسر میں تنگی میں آسائش میں ہر حالت میں خدا تعالیٰ کی خاطر اس کے دین کی خاطر اس کے حبیب کی خاطر عظیم الشان قربانیوں کیلئے تیار رہنا چاہئے.احمدیت کو ضرورت ہے حضرت عائشہ صدیقہ کی سی عالم دین خواتین کی ، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کی طرح اپنا سارا مال دین اسلام کی سربلندی کے لئے نچھاور کرنے والی مستورات کی اور حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنھا کی طرح ہر حال میں راضی برضارہنے والیوں کی.پس میری بہنو اور بچیو! اپنا اعلیٰ نمونہ پیش کرو.“ الفضل 5 رمئی 1966 ء

Page 730

712 یو نیورسٹی کیمپس ( پشاور ) میں جلسہ مورخہ 14 اپریل 1966ء کو شام 4:30 بجے یونیورسٹی کیمپس پشاور میں ایک جلسہ زیر صدارت بیگم سیف اللہ صاحبہ پریذیڈنٹ اپوا منعقد ہوا.ہر طبقہ اور ہر خیال کی اہل علم مستورات کی ایک کثیر تعداد اس جلسے میں شامل ہوئی.حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کی تقریر کا موضوع تھا اسلام ہی زندہ مذہب ہے.“ آپ نے فرمایا کہ اسلام جو شریعت پیش کرتا ہے وہ کامل ہے.اسلام جس خدا کا تصور پیش کرتا ہے وہ زندہ ہے اور اسلام جس نبی پر ایمان لانے کو کہتا ہے اس کی فیضان 1400 سال گزرنے پر بھی جاری وساری ہے.اسلام کا زندہ اور زندگی بخش خدا وہ ہے جو ابتدائے آفرینش سے انسان کی ربوبیت کرتا چلا آیا ہے کر رہا ہے اور کرتا چلا جائے گا.وہ رحیم ہے.بڑا ہی مہربان ہے، بہت ہی شفیق وہ ازلی ابدی خدا تمام دنیا کا خالق ہے مالک ہے ہر چیز اس کی ملک ہے ہر چیز اس کی محتاج ہے وہ کسی کا محتاج نہیں.ہاں اسلام کا خدا وہی ہے جو آدم کے وقت زندہ تھا جو ابراہیم کے وقت میں اپنی زندگی کا ثبوت دیتا ہے.موسیٰ کے وقت میں جس کی تجلیاں ہوتی رہیں اور جس کی کامل تجلی آنحضرت ﷺ کے ذریعہ ہوئی وہ اب بھی زندہ ہے.اب بھی اپنے پیاروں کے ذریعہ اپنے زندگی کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے پھر اسلام جو شریعت پیش کرتا ہے وہ زندہ اور کامل ہے.اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ قرآن مجید کے نزول کے ساتھ اس نے امت محمدیہ پر اپنی نعمتوں کا تمام کر دیا ہے.اس میں کسی قسم کی کمی باقی نہیں رہ گئی.پہلی آسمانی کتابوں کی سب دائمی صداقتیں اصولی طور پر قرآن مجید میں جمع ہوگئی ہیں.گویا یہ ایک مکمل ہدایت نامہ ہے جو امت محمدیہ کوملا اور اب قیامت تک کے لئے ہر شخص کی نجات کی کنجی یہی آسمانی صحیفہ ہے اور پھر اسلام جس نبی پر ایمان لانے کو کہتا ہے اس کی قوت قدسیہ 1400 سال گزرنے پر بھی جاری وساری ہے.اس کی شان اتنی بلند ہے کہ خود خدا تعالیٰ کے فرمان کے مطابق اس کا عاشق خدا کا محبوب اور اس کا غلام سب دنیا کا سردار بن جاتا ہے.اس عظیم الشان نبی کی قوتِ قدسیہ اور فیض سے ہمیشہ ہی دنیا ہدایت پاتی رہے گی اور قیامت کے دن بھی آپ ﷺ ہی ہمارے شفیع ہوں گے.نجات تو بے شک خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وابستہ ہے مگر راہ نجات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے باہر نہیں ہے.الفضل مئی 1966

Page 731

713 جلسہ کیمبل پور حضرت سیدہ چھوٹی آپا صاحبہ نے 18 / اپریل 1966ء کو کیمپلپور کے ایک جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے نصیحت فرمایا:.جماعت پر اللہ تعالیٰ کا کتنا بھاری احسان ہے کہ اس نے اپنے ان ناچیز بندوں کو مامور وقت کی شناخت کی توفیق عطا فرمائی.سو ہم اللہ تعالیٰ کے اس عظیم احسان کا جتنا بھی شکریہ ادا کریں کم ہے.اور قدردانی کا صحیح طریق یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فرائض کو سمجھیں اور ان سے با احسن عہدہ بر آ ہونے کی کماحقہ کوشش کریں.ہمیں اپنا تن من دھن اہم دینی خدمات کے لئے وقف کر دینا چاہئے.الفضل متى 1966)

Page 732

714 خطاب جلسہ راولپنڈی 18 اپریل 1966ء کو ایک جلسہ عام میں آپ نے حاضرات کو بہت سی قیمتی نصائح فرمائیں.آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض توحید کا قیام تھا.اسی مقصد کی خاطر آپ نے روحانی ہتھیاروں سے مسلح ہو کر عیسائیت کے خلاف ایک بہت بڑا محاذ قائم کیا تا کہ تثلیث کا قلع قمع کیا جائے آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے عیسائیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا.اب ضرورت ہے کہ کاسر صلیب کی جماعت کا ہر فرد کا سر صلیب ہو لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چھوڑے ہوئے عظیم الشان لٹریچر کا گہرا مطالعہ کیا جائے تا اس کے ذریعہ دشمنوں کو دندان شکن جواب دیا جاسکے.حضرت اقدس کی کتابوں کو پڑھئے اور بار بار پڑھئے کہ اس سے وہ روحانی خزائن آپ کو ملیں گے جو آپ کے سینوں کو منور اور آپ کے دماغوں کو روشن کر دینگے.خطاب کو جاری رکھتے ہوئے حضرت سیدہ موصوفہ نے فرمایا ہماری ہر عورت اور ہماری لجنہ کی ہر ممبر بذات خود اسلام کی مبلغ ہے.پس میری بہنو اور میری بچیو جس دن یہ احساس ذمہ داری آپ کے نفوس میں بیدار ہوگا.اور جس دن یہ روح آپ کے اندر پیدا ہوگی کہ ہم نے اسلامی تعلیمات پر احسن طریق سے عمل پیرا ہوکر خدا تعالیٰ کے پیغام کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچانا ہے.یقیناً اور یقینا وہی اسلام کی فتح کا دن ہوگا.کیونکہ اس روح کے نتیجہ میں آپ کے اندروہ ایمان پیدا ہو جائے گا کہ اس کے ساتھ اگر بڑے سے بڑا پہاڑ بھی ٹکرائے گا تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائے گا.الفضل 14 مئی 1966 ء

Page 733

715 اجتماع لجنہ واہ کینٹ ضلع راولپنڈی نصائح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ہماری لجنہ کو قائم ہوئے 24 سال کا عرصہ گذر چکا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کی شاخیں ہر جگہ پھیل گئیں ہیں.واہ کینٹ کی شاخ بھی اگر چہ بیدار ہے لیکن ابھی اس معیار تک نہیں پہنچی جہاں تک اسے پہنچنا چاہئے.آپ لوگوں کو میری سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ اپنی تنظیم کو بہت زیادہ منتظم بنائیں.آخر میں آپ نے پر زور الفاظ میں تلقین کی کہ خواتین پر سب سے بھاری ذمہ داری جو عائد ہوتی ہے وہ ہے تربیت اولا د آپ کو چاہئے اپنے بچوں کی ایسی اعلیٰ تربیت کریں کہ وہ اسلام کے جانباز سپاہی ثابت ہوں.محض سکولوں اور کالجوں میں بھیجنے سے آپ کی ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی ان کو قرآن مجید پڑھا ئیں ناظرہ کے بعد باترجمہ پڑھایئے تا انہیں معلوم ہو کہ خدا تعالیٰ کن چیزوں سے باز رہنے کا حکم دیتا ہے اور کن احکام کو بجالانے کی ہدایت کرتا ہے اگر یہ نونہال اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ رہ گئے تو ایسا نہ ہو خدانخواستہ وہ اسلام کی ترقی میں روک بن جائیں.الفضل 14 مئی 1966 ء

Page 734

716 خطاب لجنہ اماءاللہ پشاور صوبہ سرحد حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کی تقریر کا موضوع تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمدردی بنی نوع انسان کا ذکر کرتے ہوئے اس سلسلے میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند اشعار اور اقتباسات سنانے کے بعد فرمایا کہ بنی نوع انسان سے آنحضرت ﷺ کی ہمدردی اور شفقت کی نظیر دنیا کی کوئی تاریخ پیش نہیں کر سکتی.خود خدا تعالیٰ نے آپ کے متعلق گواہی دی.عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمُ بِالْمُؤْمِنِين رَءُوفٌ رَّحِيمٌ.(التوبة : 128) اس آیت میں حریص اور عزیز کے الفاظ سے آپ کی مظہر صفت رحمان ہونے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ آپ رحمتہ للعالمین ہیں.بنی نوع انسان اور تمام حیوانات کے لئے آپ کا وجود سراپا رحمت ہے.آپ کے اخلاق فاضلہ اس قدر اعلیٰ تھے کہ آپ کا وجود دنیا کے ہر شخص کے لئے مجسم رحمت بن گیا.کیا امیر کیا غریب کیا مرد کیا عورت کیا بچہ کیا بڑا.کیا آقا کیا غلام کیا انسان اور کیا جانور غرض تمام مخلوق کے لئے آپ سراپا رحمت اور سرا پا شفقت تھے.خطاب کو جاری رکھتے ہوئے حضرت سیدہ موصوفہ نے واقعات کی روشنی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک غلاموں کے ساتھ غرباء کے ساتھ قتیموں کے ساتھ ہمسایوں کے ساتھ.رشتہ داروں کے ساتھ اولاد کے ساتھ طبقہ نسواں کے ساتھ ، حیوانوں کے ساتھ اور دشمنوں کے ساتھ تفصیل سے بیان فرمایا تقریر کے آخری حصہ میں آپ نے اس امر کو بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرما دیا ہے آپ کے اُسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوئے بغیر اب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرسکتا.چنانچہ اس زمانے کے مامور نے بھی یہی فرمایا ہے کہ میں جو کچھ پایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل پایا اور آپ ﷺ کے اسو ہ حسنہ پر عمل پیرا ہوکر پایا.الفضل 14 مئی 1966ء

Page 735

717 لجنہ اماءاللہ رسالپور ضلع پشاور کا جلسہ عام حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے ایک مختصر سی تقریر کی جس میں خواتین کو باقاعدگی سے لجنہ کے جلسوں میں شمولیت اختیار کرنے کی تلقین کی تا ان کو خلیفہ وقت کے ہر تازہ ارشاد کا اور ہر نئی مرکزی تحریک کا علم ہوتا رہے.اور وہ جلد اس پر عمل پیرا ہوسکیں.خطاب کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ خلیفہ وقت کے ہر تازہ ارشاد کا اور ہرنئی مرکزی تحریک کا علم ہوتار ہے.اور وہ جلد اس پر عمل پیرا ہوسکیں.خطاب کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ خلیفہ وقت کے ہر حکم پر لبیک کہنا ہر احمدی عورت کا فرض اولین ہے اور اسوقت سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ تعالیٰ کی سب سے اہم ہدایت یہی ہے کہ ہماری جماعت کا کوئی بچہ ایسا نہ ہو جس کو قرآن کریم ناظرہ نہ آتا ہو.سو آپ لوگوں کو چاہئے کہ جلد از جلد ایسے انتظامات کریں کہ آپ کے سو فیصد بچے قرآن کریم ناظرہ سے واقفیت حاصل کرلیں.الفضل 14 مئی 1966 ء

Page 736

718 جلسه سیرت النبی ﷺ لجنہ اماءاللہ ایبٹ آباد عليسة حضرت سیدہ موصوفہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت على خلق اللہ عشق الہی اور غیرت الہی سے تعلق رکھتے ہوئے چند واقعات سنائے اور فرمایا کہ ان واقعات کو سن کر ہمیں یہ غور کرنا چاہئے کہ ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپ ﷺ کے صحابہ کی زندگی ہمیں کیا سبق دیتی ہے.وہ کیا چیز تھی جس نے ان بادیہ نشینوں کو خاک ذلت سے اُٹھایا اور دنیا کی سب سے بڑی طاقتوں کو ان کے سامنے جھکا دیا.وہ صرف ایک ہی چیز تھی قربانی.جب انسان یہ عزم صحیح کر لیتا ہے کہ جو کچھ میرا ہے وہ میرا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے جو میں سب اس کے راستے میں قربان کر دوں گا.تب خد تعالی بھی اسے نوازتا ہے اور دائی زندگی عطا فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کی توفیق عطا فرمائے کہ اسی طرح ہمیں قرب الٹی میسر آ سکتا ہے.الفضل 14 مئی 1966 ء

Page 737

719 خطاب جلسه لجنہ اماءاللہ چک 9 پنیار ضلع سرگودہا مورخہ 29 اپریل کو چک 9 پنیار ضلع سرگودہا کے اہم جلسہ میں شرکت کرنے کی غرض سے حضرت سیده ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ از اراه شفقت تشریف لے گئیں.آپ نے اپنے بصیرت افروز خطاب میں مقامی لجنہ کے پُر خلوص جذبات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے ہمارے قلوب میں جو باہمی محبت پیدا کر دی ہے یہ محض احمدیت ہی کی برکت ہے اور اسی برکت کا یہ نتیجہ ہے کہ سب احمدی خواہ وہ مرد ہوں یا عورت، بچے ہوں یا بوڑھے ایک ہی جذبہ سے سرشار ہیں اور وہ یہ کہ دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہو.“ آپ نے نہایت دلنشین پیرایہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اور احمد بیت کی غرض وغایت کو واضح فرمایا اور پھر لجنہ اماءاللہ کے قیام کی غرض وغایت بتاتے ہوئے آپ نے احمدی مستورات کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی.اور اس سلسلہ میں قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ سیکھنے کی بالخصوص تحریک فرمائی.تا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا ہمیں صحیح رنگ میں علم ہو سکے اور ہم صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال سکیں اور اپنی اولاد کی تربیت کر سکیں.الفضل 4 مئی 1966 ء )

Page 738

720 پیراں غیب ضلع ملتان میں جلسہ 21 رمئی 1966ء استقبالیہ ایڈریس کے بعد حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے سیرۃ النبی ﷺ کے موضوع پر ایک جامع تقریر فرمائی.آپ نے فرمایا کہ حضرت محمد مصطفی اللہ نہ صرف خیر البشر تھے بلکہ انبیاء کے سردار اور خاتم النبین بھی تھے.آپ پر قرآن پاک جیسی بے مثل کتاب کا نزول ہوا اور اس کتاب کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر: 10) کے الفاظ کے ساتھ فرمایا جبکہ پہلی شریعتیں نہ تو ہر لحاظ سے کامل تھیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا.لیکن قرآن پاک کو اللہ تعالیٰ نے مکمل ضابطہ حیات کی صورت میں نازل فرمایا جب تک مسلمان قرآن پاک کی تعلیم پر عمل پیرا رہے.ہر قسم کی دینی و دنیاوی ترقیات ان کے قدم چومتی رہیں.آج مسلمان قرآن پاک سے غفلت برت کر ہر طرح ذلیل و خوار ہو رہے ہیں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے عشق کا دعویٰ اُس وقت تک جھوٹا اور بے بنیاد ہے جب تک کہ ہم قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہوں.لہذا قرآن پاک کو پڑھنا اور باترجمہ پڑھنے کے بعد اس کے مطالب کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہمیں ہر قسم کی کامیابی وکامرانی سے ہمکنار کر دے گا.آپ نے فرمایا.اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی معنوی حفاظت کا وعدہ یوں فرمایا کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد آتا رہا جو اسلام کی تعلیم پر زور دے کر مسلمانوں کو ان کی کمزوریوں اور غفلتوں سے آگاہ کرتا رہا ہے.چودھویں صدی کے سر پر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا.جنہوں نے اسلام کے تن مردہ میں از سرنو روح پھونکی.حضرت محمد مصطفی ﷺ کی غلامی آپ کے لئے باعث فخر تھی.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے کسی نئے مذہب کو پیش نہیں کیا بلکہ اسلام کی صحیح تصویر اس کفر والحاد کے زمانے میں پیش کی ہے.دعا کے الفضل 3 / جون 1966 ء بعد جلسہ برخاست ہوا.

Page 739

721 خطاب جلسه سیرت النبی عه لجنہ اماءاللہ ملتان عليسة 22 رمئی 1966ء کو ملتان میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے جلسہ سیرت النبی میں خطاب فرمایا.آپ کی تقریر کا ایک ایک لفظ دل میں اترتا محسوس ہوتا تھا.سامعین کی خاموشی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ ہر شخص ہمہ تن گوش ہے.آپ کی تقریر کا موضوع تھا.آنحضرت ﷺ کے اخلاق صفات الہیہ کے مظہر ہیں.سورہ فاتحہ اور درود شریف کی تلاوت کے بعد فرمایا.دنیا میں ہزاروں مصلح ریفارمر اور لاکھوں انبیاء گزرے ہیں.لیکن ان تمام لوگوں کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر شخص اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ایک ہی وجود اکمل ترین ہے.جس کے اُسوہ حسنہ کا مطالعہ کرنے کے بعد دل کی گہرائیوں سے بے اختیار اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ کے الفاظ نکلتے ہیں.اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا اظہار جو اس کے بندوں کے ذریعے ہوتا ہے اخلاق کہلاتا ہے.اللہ تعالیٰ کی ان گنت صفات میں سے چار صفات ام الصفات کہلاتی ہیں.جو رب العالمین، الرحمان الرحیم اور مالک یوم الدین ہیں.چنانچہ خود آنحضرت کی شخصیت میں ربوبیت رحمانیت، رحیمیت اور مالکیت جیسی صفات خداوندی کے مظاہر موجود رہے.آپ کی ساری عملی زندگی کی یقینی طور پر دنیا کے سامنے عیاں رہی.اور آپ ہر نوعیت کے حالات سے گزرے.جس کے نتیجہ میں آپ کی زندگی ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے کے لئے جامع سبق لئے ہوئے ہے.آپ پر غربت اور تکالیف کے دور بھی آئے.اور بادشاہت اور امارت سے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازا.غرض ہر دور میں سے گزرتے ہوئے آپ نے اپنے طرز عمل سے انسان کے لئے ایسے سبق چھوڑے جو ہر طرح سے مکمل اور جامع ہیں بڑے بڑے فلسفیوں نے اخلاقیات کے مختلف معیار قائم کئے اور مختلف سبق دیئے.لیکن کوئی بھی حقیقت سے اتنا قریب نہ ہو سکا جتنا کہ آنحضرت ﷺ کے قائم کردہ معیار اقرب الی الحقیقت ہیں.مختلف اوقات میں مختلف نظام دنیا میں قائم کئے گئے تا کہ معاشرتی سیاسی اور سماجی توازن کے ساتھ ساتھ اخلاقی توازن کو بھی قائم رکھا جا سکے.مگر اپنے مقصد میں نہ اشتراکیت کو وہ کامیابی عطا ہوئی اور نہ فلسفے کو وہ کامرانی نصیب ہوئی.جو اسلام کے حصہ میں آئی.اس عظیم کا مرانی کا ثبوت یہی ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے آنحضرت ﷺ دنیا کی بدترین قوم کو بہترین قوم بنانے میں کامیاب ہو گئے.یہ

Page 740

722 سب اسی لئے ہوا کہ آنحضرت ﷺ کی دی ہوئی اخلاقی تعلیم صرف تھیوری نہ تھی.بلکہ عمل بھی تھا.اور یہ کہ اسلامی معیار اخلاق بذات خود اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ صفات کا مظہر ہے.آج دنیا جس طرف جارہی ہے اس تصور سے صحیح الفطرت انسان لرزہ براندام ہو جاتا ہے.پاکستان جو ہم نے جانی قربانی دے کر حاصل کیا تھا.جو اس لئے لیا گیا تھا کہ یہاں ہماری تہذیب ہوگی.ہمارا اپنا کلچر ہوگا.لیکن کیا آج ہم دیانتداری کے ساتھ اپنے کلچر کو یہ کہ کر پیش کر سکتے ہیں کہ یہ وہ اعلیٰ ترین کلچر ہے جس کی بنیاد آنحضرت ﷺ کے ذریعہ ڈالی گئی تھی.کیا یہ صورت حال ہمارے لئے باعث ذلت نہیں؟ آج دنیا جس مصیبت میں مبتلا ہے اس سے نجات کے لئے آنحضرت ﷺ کی زندگی اور تعلیم اسوہ حسنہ ہوسکتی ہے.یورپ اور امریکہ کہتا ہے اسلام اور مذہب ان کی ترقی میں حائل ہے.کیا ہماری ابتدائی ترقی اسلام کی وجہ سے نہ تھی ؟ اگر تھی تو تنزل اسلام کی وجہ سے نہیں ہوسکتا.مسلمانوں میں تنزیل اس لئے ہوا کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے اسوہ پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور قرآن پر عمل کرنا چھوڑ دیا.ہمیں چاہئے کہ بار بار آنحضرت ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں اور اپنے بچوں کو آپ کی سیرت سے روشناس کرائیں.اور آپ کے نمونہ کو اپنانے کی کوشش کریں.مصباح اگست 1966 ء )

Page 741

723 جلسہ حسین آگاہی ملتان میں ممبرات سے خطاب 23 مئی 1966ء حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے اپنی تقریر میں فرمایا.قرآن پاک میں جو شرائط بیعت بیان ہوئی ہیں وہ صرف اسی زمانہ کے لئے نہ تھیں بلکہ قیامت تک کی عورتوں کے لئے مشعل راہ ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے نبی جب مومن عورتیں تمہارے پاس آئیں تو ان سے ان شرائط پر بیعت لینا.اللہ تعالیٰ کے مقابل کسی کو شریک نہ بناؤ گی.چوری نہ کرو گی بد کاری نہ کرو گی.بہتان تراشی نہ کرو گی.آپ کے اور خلفاء کے نیک احکام کی پابندی کرو گی.ان شرائط کو بڑی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ قرآن پاک ایک مکمل ضابطہ حیات ہے.ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہئے.کیا ہم احکام شریعت کی پابندی کرتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد ہی یحى الدين ويقيم الشريعة تھا اگر ہمارا تمدن و معاشرت، گفتار و کردار قرآن پاک کے مطابق نہیں تو ہم احمدی کہلانے کے مستحق نہیں ہیں.آپ نے لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حقیقی معبود اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ تمام دنیاوی رشتہ داروں کے مقابلہ میں اللہ کو ترجیح دی جائے.رسومات اور بدعات کا کلیۂ خاتمہ کر دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی پابندی کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کریں لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کا مقصد ہی یہی ہے کہ ہم عملی طور پر تمام کمزوریوں کو دور کریں.ماؤں کی غلط تربیت کی وجہ سے آج ہمارے معاشرہ میں جابجا گناہ نظر آتا ہے.آپ کی اولا دا گر اسلام کی خاطر قربانیاں کرنے والی ہوگی تو آئندہ نسل آپ پر عقیدت کے پھول نچھاور کرے گی.مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر پردے سے غفلت برتنا اور اسلامی شعار کی پابندی نہ کرنا افسوسناک ہے.بچوں کے غلط اقدامات کے ذمہ دار زیادہ تر والدین ہوتے ہیں.ہماری جماعت کی عورتوں اور لڑکیوں کو مثالی کردار پیش کرنا چاہئے.ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا مقصد فوت ہو جاتا ہے.اسلامی روایات کو از سر نو زندہ کریں.قرآن پاک کو پڑھے اور پڑھائے بغیر ہم میں وہ نمایاں خصوصیات پیدا نہیں ہو سکتیں جو اسلام کا طرہ امتیاز ہیں.سکولوں اور کالجوں میں بھیج کر مستورات اپنے بچوں کی تربیت سے غافل نہ ہو جائیں بلکہ دینی علم کی طرف زیادہ توجہ دیں.

Page 742

724 خلیفہ وقت کی طرف سے مقرر کردہ تمام عہدیداروں کی اطاعت کرنا تم پر لازم ہے.بعدہ جلسہ برخاست ہوا.23 مئی کو صبح نو بجے حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے ملتان چھاؤنی اور گلگشت کالونی کی مجالس عاملہ کے ارکان کو خطاب فرمایا جس میں ان کو ان کے کام کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ان کی رہنمائی فرمائی.عہدیداران کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور انہیں نبھانے کی تلقین فرمائی.آپ نے نوجوان بچیوں کو تعلیم وتربیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ انہیں قرآن پاک ناظرہ اور قرآن پاک با ترجمہ سکھانے کا با قاعدہ انتظام کریں.اور مرکز میں تعلیم القرآن کلاس میں اپنی بچیوں کو بھجوائیں تا کہ وہاں سے وہ صحیح تعلیم کا طریقہ سیکھ کر آئیں.بچیوں میں دین سے محبت کا جذبہ پیدا کریں.حدیث کے علاوہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مطالعہ کا شوق پیدا کریں اور در مشین کے اشعار زبانی یاد کروائیں.نیز آپ نے خدا تعالیٰ کی خاطر آپس کے جھگڑے چھوڑ دینے باہمی تعاون کرنے ایک دوسرے کی چشم پوشی کرنے اور مرکزی عہدہ داران اور مقامی امیر کی اطاعت پر زور دیا.الفضل 3 جون 1966 ء

Page 743

725 خطاب ممبرات جلسه خانیوال ضلع ملتان 24 رمئی 1966ء کو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ مرکزیہ نے ممبرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ! اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ کو امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کی سعادت نصیب ہوئی ہے.آپ نے کسی نئے مذہب کو پیش نہیں کیا.اسلام کے چہرہ کو روشن کرنے کے لئے حضرت مسیح پاک علیہ السلام تشریف لائے.اعتقادی غلطیوں اور عملی بدعات کی اصلاح کرنا آپ کی بعثت کا مقصد ٹھہرا.ہم خدا تعالیٰ کو اس کی تمام صفات کے ساتھ ازلی و ابدی مانتے ہیں.ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد خاتم النبین تھے لہذا اب آپ کی مہر تصدیق کے بغیر دنیا میں کوئی مصلح نہیں آسکتا.قُلْ إِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران : 32) کے ماتحت محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے بغیر کوئی کسی قسم کا روحانی درجہ نہیں پاسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کی غلامی کے طفیل ہی سب کچھ پایا ہے ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہمیں امام الزمان کے پہچاننے کی توفیق حاصل ہوئی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لا کر ہم پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں.اشاعت اسلام اور پابندی احکام اسلام کے علاوہ عورتوں پر تربیت اولاد کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے.ماں بچے کے لئے شفیق استاد ہوتی ہے لہذا انہیں دین سے محبت کرنے والے، خدائے تعالیٰ اور اس کے رسول کے شیدائی بنا ئیں.کسی کو اپنی زبان سے دکھ نہ دیں.غیبت اور چغلی کے گناہ سے بچیں.خیانت اور جھوٹ کے نزدیک نہ جائیں.اگر ماؤں میں ذکر وفکر کی عادت ہو گی تو بچے بچپن ہی میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت میں سرشار ہو جائیں گے.ہماری جماعت کے ہر فرد کو عہد کرنا چاہئے کہ ہماری زندگیاں خدمت اسلام کے لئے وقف ہوں گی اور عملی طور پر سچا مسلمان بننا چاہئے تا دنیا والے رشک کریں اور ہمارے نمونہ کو دیکھ کر دنیا کی پیاسی روحیں حق و صداقت کی طرف لوٹ آئیں.دعا کے بعد جلسہ برخاست ہوا.الفضل 14 جون 1966 ء

Page 744

726 تحریک جدید کا دفتر سوم اور احمدی خواتین کا فرض حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر جماعت کے سامنے تحریک جدید کو پیش فرمایا جس کے نتیجہ میں آج دنیا کے اکثر ممالک میں اسلام کے مراکز قائم ہو چکے ہیں.اسلام پھیل رہا ہے.مساجد تعمیر ہو چکی ہیں اور اس انقلاب کے آثار افق پر ہمیں واضح طور پر نظر آ رہے ہیں جس انقلاب کی بشارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو دی تھی.تحریک جدید حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے 1934ء میں جاری فرمائی مخلصین جماعت جن میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی نے لبیک کہتے ہوئے اپنا مال دینا شروع کیا.نئے شامل ہونے والوں نے اپنے سے پہلوں کا بوجھ اٹھا لیا.پہلے قربانیاں پیش کر کے اپنے مولا کے حضور حاضر ہوتے رہے یا بعض بوڑھے معذور ہونے کے باعث اس درجہ کی قربانیاں پیش کرنے سے مجبور ہو گئے.دور دوم کے بعد اگر چہ حضرت مصلح موعود کی لمبی بیماری کے باعث دور سوم جلد نہ شروع ہو سکا لیکن دور دوم میں شامل ہونے والوں نے بھی عظیم الشان قربانیاں دیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 65ء سے دور سوم کا اجراء فرمایا تا نئی نسل کو بھی قربانیوں کی ویسی ہی مشق ہو جیسے ان کے بڑے کرتے چلے آئے ہیں.تحریک جدید صرف مردوں کے لئے نہیں بلکہ اس میں شامل ہونا جس طرح مردوں کے لئے ضروری ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے.بے شک یہ تحریک لازمی نہیں اس میں شامل ہونا اختیاری ہے لیکن اگر شامل ہونے کی طاقت ہو اور کمزوری کے باعث شمولیت نہ کرے تو یہ بھی ایک بہت بڑا گناہ ہے کہ امام ایدہ اللہ کی طرف سے ایک تحریک ایسی تحریک جو اسلام کی تقویت اور اشاعت کا باعث ہو اور خواتین اس میں حصہ نہ لیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کا نوجوان طبقے پر احسان ہے کہ تحریک جدید کے دفتر سوم کا اعلان فرمایا تا وہ جو کل بچیاں تھیں آج مالی حیثیت رکھتی ہیں دفتر سوم میں شامل ہو کر ان برکات سے متمتع ہوسکیں جو تحریک جدید اپنے اندر رکھتی ہے.لجنہ اماءاللہ کے پروگراموں میں ایک ضروری حصہ تحریک جدید بھی ہے.ہر صدر اور سیکرٹری کا فرض ہے کہ اس کے پاس اپنی نمبرات کے متعلق مکمل معلومات ہوں کہ کتنی مستورات تحریک جدید میں شامل ہیں.

Page 745

727 جواب تک شامل نہیں ہوئیں ان کو بار بار تحریک کرتی رہیں.ایک وقت میں مالی حالت بعض خواتین کی اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ شامل ہو سکیں لیکن کچھ عرصہ بعد وہ شامل ہو سکنے کے قابل ہوتی ہیں اس لئے ہر وقت اس کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے.بڑے شہروں کی لجنات کو چاہئے کہ وہ اپنے میں سیکرٹری تحریک جدید مقرر کریں.نوجوان بچیوں کو تحریک جدید دفتر سوم میں شامل کرتی رہیں.تحریک کے نئے سال پر کئی ماہ گزر چکے ہیں.کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ بہنوں کو شامل کر کے دفتر تحریک جدید کو اطلاع کریں.دیہاتی جماعتوں میں یہی وقت تحریک کا چندہ لینے کا ہے گندم کی فصل قریباً اٹھائی جا چکی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے فصل بھی اچھی ہوئی ہے خدا کی نعمت کے شکر کے طور پر ہر صاحب استطاعت عورت تحریک جدید دفتر سوم میں شامل ہو.الفضل 6 جون 1966 ء

Page 746

728 فضل عمر فاؤنڈیشن اور لجنہ اماءاللہ کا فرض حضرت مصلح موعود فضل عمر خلیفہ اسیح الثانی کا وجود احمدی مستورات کے لئے سراپا رحمت تھا سراپا شفقت تھا.آپ نے جو احسانات عورتوں پر کئے وہ قیامت تک نہیں بھلائے جاسکتے.احمدی خواتین کی موجودہ ترقی کا سہرا صرف آپ کے سر پر ہی ہے.آپ نے عورتوں کو منظم کیا ان میں کام کرنے کا جذبہ پیدا کرنے اور قومی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لئے لجنہ اماءاللہ قائم کی جس کی ابتداء چودہ ممبرات سے ہوئی اور آج خدا تعالیٰ کے فضل سے سب دنیا میں پھیل چکی ہے.آپ نے عورتوں کی تعلیم کی طرف توجہ فرمائی ان کے لئے سکول اور کالج جاری فرمائے عورتوں کی تربیت کی نگرانی بذات خود فرمائی.جہاں کمزوری دیکھی دور کرنے کی کوشش فرمائی.جہاں خوبی نظر آئی عورتوں کی دلداری کی خاطر ان کو ابھارنے کی خاطران کی تعریفیں کیں.عورتوں کے حقوق دلوائے.ساری جماعت سے جلسہ پر عہد لیا کہ عورتوں کو ورثہ ضرور دینا ہے.غرض کہ آپ نے عورتوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے ان کی تعلیم کے لئے ان کی تربیت کے لئے ان کی عزت قائم کرنے کے لئے ان میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کے لئے ایک چوکھی لڑائی لڑی ہے.آج وہ محسن جماعت محسن نسواں محسن انسانیت ہم میں موجود نہیں.اشاعت اسلام کی جو تدابیر آپ نے اختیار کی تھیں.جو سکیمیں آپ نے بنائی تھیں ان کو فروغ دینے کے لئے حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فضل عمر فاؤنڈیشن کا قیام فرمایا جس کا ابتدائی سرمایہ پچیس لاکھ روپے ہوگا.تا آپ کے جاری کردہ کاموں کو پہلے سے بھی زیادہ بہتر صورت میں جاری رکھا جائے اور ان کو ترقی دی جائے.یہ سکیم تین سال کے لئے ہے.تین سال کے عرصہ میں جماعت نے پچیس لاکھ روپے جمع کرتے ہیں.اس چندہ کے جمع کرنے کی ذمہ داری صرف مردوں پر عائد نہیں ہوتی.بلکہ عورتوں پر مردوں سے بھی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے.جن کی بہبودی اور ترقی کے لئے آپ نے اپنی تمام قوتیں اور صلاحیتیں خرچ کردیں.پس میری بہنو.اٹھو اپنے اخراجات میں کمی کرو.سادگی اختیار کرو.غیر ضروری اخراجات سے مجتنب رہتے ہوئے فضل عمر فاؤنڈیشن“ کی تحریک میں زیادہ سے زیادہ حصہ لے کر اپنے محبوب محسن سے محبت کا ثبوت دو.وہ محبوب آقا جس نے آپ کی خاطر اپنی جان گھلا دی.جس نے آپ کی تعلیم ، تربیت اور ترقی

Page 747

729 کے لئے اپنی صحت کی پرواہ نہیں کی.آپ اس زندہ قوم کی خواتین ہیں.جنہوں نے اپنے چندوں سے یورپ میں دو مسجدیں تعمیر کرائی ہیں اور تیری تعمیر ہو رہی ہے.آپ نے ہمیشہ ہی خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہا اور اسلام کی ترقی کے لئے جو کچھ آپ سے مانگا گیا پیش کر دیا اب بھی خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہیں.حضرت فضل عمر سے محبت کا ثبوت دیں اور فضل عمر فاؤنڈیشن میں دل کھول کر حصہ لیں.لجنہ اماءاللہ کی عہدیداران کا فرض ہے کہ وہ اس تحریک کو تمام احمدی مستورات تک پہنچائیں اور ان سے وعدہ جات حاصل کر کے اور رقوم وصول کر کے مرکز میں بھجوائیں.ان رقوم کی پہلی قسط 30 جون سے قبل مرکز میں آجانی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اشاعت اسلام کے لئے اپنی جان مال عزت اولا دسب کچھ قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں.رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ الفضل 8 جون 1966 ء

Page 748

730 تحریک بابت چندہ مسجد ڈنمارک الْحَمْدُ لِلهِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلهِ کہ ہفتہ زیر رپورٹ 9 جون تا 15 / جون میں مسجد ڈنمارک کے لئے کل وعده جات دو ہزار پانچ سو نواسی روپے ہوئے ہیں اور وصولی تین ہزار ایک سو چھپن روپے گویا پندرہ جون تک کل وعدہ جات کی مقدار تین لاکھ اٹھارہ ہزار آٹھ سو سولہ روپے اور کل وصولی 2 لاکھ بہتر ہزار نوسو چھیانوے روپے ہوتی ہے.مسجد کی بنیاد چھ مئی کو رکھی جا چکی ہے تعمیر کا کام جاری ہے ہماری بہنوں کا فرض ہے کہ جس نے ابھی تک اس مسجد کی تعمیر میں حصہ نہیں لیا وہ اس میں حصہ لیں.اور جنہوں نے وعدے تو کئے ہوئے ہیں لیکن ابھی تک اپنے وعدہ جات ادا نہیں کر سکیں وہ اپنے وعدہ جات ادا کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے مَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِاةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ.(البقرة: 262) حضرت مصلح موعود اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دنیا میں ہم روزانہ یہ نظریہ دیکھتے ہیں کہ زمیندار زمین میں ایک دانہ ڈالتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے سات سو دانے بنا کر واپس دیتا ہے پھر جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرے گا.ممکن ہے کہ اس کا خرچ کیا ہوا مال ضائع ہو جائے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے مال کا کم از کم سات سو گناہ بدلہ ضرور ملتا ہے اس سے زیادہ کی کوئی حد بندی نہیں اگر انتہائی حد مقرر کر دی جاتی تو اللہ تعالیٰ کی ذات کو محدود ماننا پڑتا جوخدا تعالیٰ میں ایک نقص ہوتا اس لئے فرمایا کہ تم خدا کی راہ میں ایک دانہ خرچ کرو گے تو کم از کم سات سو گنا بدلہ ملے گا اور زیادہ کی کوئی انتہا نہیں اور نہ اس کے انواع کی کوئی انتہا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام نے تو انجیل میں صرف اتنا فر مایا تھا کہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیٹر ا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں.لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے خزانہ میں اپنا مال جمع کرو گے تو یہی نہیں کہ اسے کوئی چرائے گا نہیں بلکہ تمہیں کم از کم ایک کے بدلہ میں سات سو انعام ملیں گے...بے شک اللہ تعالیٰ کسی انسان کی مددکا محتاج نہیں مگر وہ اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے اگر کسی کام کے کرنے کا انہیں موقع دیتا ہے

Page 749

731 تو اس لئے کہ وہ ان کے مدارج کو بلند کرنا چاہتا ہے چنانچہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی نبی کو دنیا میں بھیجتا ہے تو اُسے نئے سرے سے ایک جماعت قائم کرنی پڑتی ہے مگر اس کی اتباع یہی ہوتی ہے کہ دنیا اسے دیکھ کر یہ خیال بھی نہیں کر سکتی کہ وہ کامیاب ہو جائے گا.لیکن خدا تعالیٰ اس کے ذریعہ دنیا کے نظام کو بدل دیتا ہے اس وقت دنیا کو معلوم ہوتا ہے کہ ایک زندہ خدا موجود ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں ایسے انبیاء کے زمانہ میں ان کی قوموں اور امتوں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ دین کی خدمت کریں چونکہ وہ وقت ایک نئی دنیا کی تعمیر کا ہوتا ہے اس لئے لوگوں کو قربانیوں کا موقعہ دیا جاتا ہے اور وہی وقت ثواب کے حصول کا ہوتا ہے.تفسير كبير سورة بقره 604 پس میری بہنو! اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ایک نئی دنیا کی تعمیر مقدر رکھی ہے.اس نئی دنیا کی تعمیر کے لئے مساجد تعمیر کی جاری ہیں تا خانہ خدا کی تعمیر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ صداقت کی متلاشی روحوں کو ہدایت نصیب فرمائے.اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کا جلال بلند ہو.ان مساجد کی تعمیر میں حصہ لینا بہت ہی بڑے ثواب کا موجب ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس نئی دنیا کی تعمیر میں حصہ لینے والوں میں شامل کرے.جس نئی زمین اور آسمان کو بنانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تھے.مسجد ڈنمارک کی تعمیر بھی اس نئی زمین و آسمان کا ایک حصہ ہے اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے احمدی خواتین کو نوازا ہے اور موقع عطا فرمایا ہے کہ وہ بھی قربانیاں کریں اور اپنی قربانیوں کے ذریعہ ابدی زندگی حاصل کریں.ابھی ہم نے باون ہزار روپیہ اور جمع کرنا ہے اور بہت جلد جمع کر کے دینا ہے پس کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی ایک بہن بھی ایسی نہ رہ جائے جو اس سعادت اور نیکی میں اپنی لاعلمی سے حصہ لینے سے رہ جائے تمام عہدہ داران لجنہ کو چاہئے کہ ہر عورت تک اس بابرکت تحریک کو پہنچا ئیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اَلدَّالُ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ (سنن الترمزى كتاب العلم عن رسول الله، نیکی کی ترغیب دینے والے کو نیکی کرنے والے کی طرح ہی ثواب ملتا ہے.ہر وہ بہن جو دوسری بہن تک اس تحریک کو پہنچائے گی دوہرے ثواب کی مستحق ہوگی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلام کی سربلندی کی خاطر پیش از پیش قربانیاں دینے کی توفیق عطا فرمائے.آمین اللھم آمین.الفضل 23 جون 1966ء

Page 750

732 تحریک بابت چندہ مسجد ڈنمارک ہفتہ زیر رپورٹ یعنی 16 جون تا 22 جون مسجد ڈنمارک کے لئے ایک ہزار سات سو چوالیس روپے کے وعدہ جات وصول ہوئے اور دو ہزار دو سو چورانوے روپے کی وصولی ہوئی.جس میں سے ایک سو پچانوے روپے یعنی تین سوشلنگ لجنہ اماءاللہ نیروبی کی طرف سے ہیں.گویا 22 جون تک کل وعدہ جات کی مقدار تین لاکھ بیس ہزار پانچ سو ساٹھ ہوگئی.اور وصولی دو لاکھ پچھتر ہزار دو سو اکیانوے روپے الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ.مسجد کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے فضل سے رکھی جا چکی ہے اور تعمیر کا کام سرعت سے جاری ہے.تمام لجنات اماءاللہ کی عہدیداران پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد وعدہ جات کی ادائیگی کا انتظام کریں اور جو بہن ابھی تک اس تحریک میں شامل نہ ہوئی ہوا سے شامل کرنے کی تحریک کریں.تا مسجد کی تعمیر میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ رہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبُوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَاتَتْ أكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِنْ لَّمْ يُصِبُهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ﴿البقره : 266 یعنی جو لوگ اپنے مال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اور اپنے آپ کو مضبوط کرنے کیلئے خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی حالت اس باغ کی حالت کے مشابہ ہے جو اونچی جگہ پر ہو اور اس پر تیز بارش ہوئی ہو جس کی وجہ سے وہ اپنا پھل دو چند لایا ہو اور اس کی یہ کیفیت ہو کہ اس پر زور کی بارش نہ پڑے تو تھوڑی سی بارش ہی اس کیلئے کافی ہو جائے اور جو کچھ تم کر ہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے.اس آیت کی تفسیر میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ :.”اس تمثیل میں کہ سچے مومن کا دل ایک باغ کی طرح ہوتا ہے.جس میں نیک اعمال کے ہرے بھرے پودے کھڑے ہوتے ہیں جب وہ صدقہ خیرات کرتا ہے تو خواہ وہ صدقہ بارش کی طرح ہویا معمولی شبنم کی طرح ہو تب بھی وہ اس نیکی کے بابرکت نتائج حاصل کر لیتا ہے.اللہ تعالیٰ کی جزا دل کے اخلاص پر مبنی ہوتی ہے نہ کہ مال کی مقدار اور یکسانیت پر.صحابہ کرام میں دونوں قسم کے

Page 751

733 لوگ موجود تھے ایک غربت کی وجہ سے تھوڑا خرچ کرنے والے اور دوسرے بہت خرچ کرنے والے.جو لوگ تھوڑ ا خرچ کرنے والے تھے وہ کہہ سکتے تھے کہ ہماری قربانیاں تو وابل نہیں کہلاسکتیں اس لئے ان کی خاطر فرمایا کہ کل ہی سہی وہ تمہیں وابل جیسا فائدہ ہی دے دے گی.والله بما تعملون بصیرا میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ اللہ تعالی عمل کی اصل حقیقت دیکھتا ہے اس لئے تھوڑا دینے والا دوسرے کے مقابلہ میں کم دیتا ہے مگر چونکہ اس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے ہے وہ دے دیتا ہے.اس لئے اس کو اس طل سے وابل والا فائدہ پہنچ جاتا ہے.یہ امر بھی یادرکھنا چاہئے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ کی دو اغراض بیان فرمائی ہیں.اول ابتغاء الرضات الله دوم تثبيتاً من انفسهم یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا حصول اور قوم کی مضبوطی.اس وجہ سے میں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو بارہا کہا ہے کہ جو شخص دینی لحاظ سے کمزور ہو وہ اگر اور نیکیوں میں حصہ نہ لے تو اس سے چندہ ضرور لیا جائے کیونکہ جب وہ خرچ کرے گا تو اس سے اس کو ایمانی طاقت حاصل ہوگی اور اس کی جرات اور دلیری بڑھ جائے گی اور وہ دوسری نیکیوں میں بھی حصہ لینے لگ جائے گا.“ تفسير سورة البقرة صفحہ : 611 افسوس کہ ہفتہ زیر رپورٹ میں وعدہ جات اور وصولی دونوں کی مقدار میں کمی رہی ہے.ہمارے چندے دینے کی غرض بھی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اپنی قوم کی مضبوطی ہے اور یہی مسجد کی تعمیر کی غرض ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ...کی شان اور اس کا جلال بلند ہو اور سلسلہ احمدیہ کو تقویت حاصل ہو.اسلام کا غلبہ ہو.پس میری بہنو جس نے اب تک اس تحریک میں حصہ نہیں لیا اور مسجد کیلئے چندہ نہیں دیا اس کے لئے اب بھی وقت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اور اسلام کی ترقی اور خود اپنے نفس کی مضبوطی کے لئے اس تحریک میں شامل ہوتا ہے نیکی اس کیلئے مزید نیکیوں کا زینہ بنے ہم نے سوا تین لاکھ روپے کی رقم بہت جلد پوری کرنی ہے.اگر تمام لجنات اپنا فرض سمجھتے ہوئے پوری کوشش میں لگ جائیں تو اجتماع سے قبل یہ رقم پوری ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اسلام کے غلبہ اور سر بلندی کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہوں اور اللہ تعالیٰ کی محبت ہمیں حاصل ہو جاوے.الفضل 28 جون 1966ء)

Page 752

734 چندہ مسجد ڈنمارک اور خواتین جماعت احمدیہ الحمد للہ ہفتہ زیر رپورٹ یعنی 16 تا 22 جولائی مسجد ڈنمارک کے لئے دو ہزار پانچ سو پچانوے روپے کے وعدہ جات موصول ہوئے اور تین ہزار پانچ سوتر اسی روپے نقد وصول ہوئے ہیں.گذشتہ دو ہفتہ کی نسبت اس ہفتہ وعدہ جات اور وصولی کی رفتار نسبتا خوش کن رہی ہے لیکن ابھی تک چندہ کی وصولی معیاری نہیں.مسجد کی تعمیر شروع ہے تعمیر ختم ہونے پر ہی صحیح اندازہ ہو سکے گا کہ کل خرچ کتنا آئے گا.بہر حال ہم نے اللہ تعالیٰ کے حضور مسجد کا نذرانہ پیش کیا ہے.یہ شرط نہیں لگائی کہ کتنی رقم خرچ آئے گی.ملک ڈنمارک میں یہ پہلی مسجد ہوگی جو عورتوں کے چندوں سے بنائی جارہی ہے اور اس کا خرچ کلیتہ عورتوں نے اُٹھانا ہے خواہ کتنا ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.مَنْ بَنَى مَسْجِدًا يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ الله بَنَى اللهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ (بخارى كتاب الصلوة) کہ جو شخص مسجد بنائے اور اس کے بنوانے میں اس کی خواہش اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہونام و نمود منظور نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس شخص کے لئے اس کے برابر جنت میں مکان بنا دیتا ہے.پس ہماری نیت چندہ دیتے ہوئے اور اس مسجد میں شرکت کی سعادت حاصل کرتے ہوے محض اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت کا جذبہ اور اللہ تعالیٰ کی رضا مد نظر ہونی چاہئے.اس نیت سے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیں تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق ویسا ہی گھر جنت میں آپ کو دیے گا.پس میری بہنو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی روشنی میں مسجد کی تعمیر کے لئے اپنے مالوں کو خرچ کرو تا اللہ تعالیٰ کی رضا تمہیں حاصل ہو.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا ہے:.جماعت احمد یہ بے شک چندے دیتی ہے لیکن صحابہ والا انفاق اور تھا وہ کوشش کر کے اپنے اوپر غربت لائے تھے جب تک اسی طرح اتفاق نہ ہو ترقی ممکن نہیں ہوا کرتی اسی وجہ سے پہلی آیت میں جہاں خرچ کا حکم دیا ہے وہاں سرا کو پہلے رکھا ہے یہ بتانے کے لئے کہ اصل انفاق وہ ہے جو طبعی ہو اور اس میں کسی شہرت وغیرہ کا خیال نہ ہو.جو انفاق طبعی ہو گا ظاہر ہے اس کے لئے طبیعت کو ابھارنا نہیں پڑے گا.بلکہ اس کے ظہور کو بعض دفعہ روکنے کی ضرورت محسوس ہوگی پس وہی انفاق اس آیت کے ماتحت ہے جو طبعی ہو نہ کہ نفس پر خرچ کرنا تو طبعی ہو اور خدا کے راستہ میں خرچ کرنے لئے دوسرے کے کہنے کی ضرورت ہو.جب

Page 753

735 جماعت احمدیہ میں یہ مادہ پیدا ہو جائے گا اور انہیں اپنے آپ پر خرچ کرنے کے لئے تو نفس پر بوجھ ڈالنا پڑے گا اور دین کی راہ میں خرچ کرنا طبعی تقاضا مدنظر آئے گا.تب ان کے لئے ترقیات کے راستے تفسیر کبیر جلد 3 ص 481 کھلیں گے.“ پس عزیز بہنو آپ بھی اپنے اندر صحابہ رضی اللہ عنہم والا انفاق کا جذبہ پیدا کریں کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کی خاطر مسجدیں بنوائیں اس کی خاطر قربانیاں کریں تا تمام دنیا میں حقیقی اسلام کی تبلیغ ہو.خدائے واحد کی پرستش ہو.تین خداؤں کی عبادت بند کر دی جائے اور ساری دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آجائے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی قربانی محض رضائے الہی کی خاطر کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.اللھم آمین.ابھی ایک خاصی تعداد ایسی مستورات کی باقی ہے جنہوں نے اس تحریک میں حصہ نہیں لیا انہیں چاہئے کہ اب مزید تا خیر نہ کریں اور جتنی جلدی ہو سکے اس مسجد کے بنانے میں حصہ دار بن کر جنت میں ویسے ہی گھر کی حقدار ہوں تمام عہدیداران لجنات کو بھی چاہیے کہ وہ جائزہ لیتی رہیں کہ ہر عورت تک یہ تحریک پہنچ چکی ہے یا نہیں.(الفضل 30 جولائی 1966ء)

Page 754

736 ناظرہ قرآن مجید کی سکیم اور لجنات اماءاللہ کا فرض حضرت خلیفہ امسح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے ماہ فروری میں جماعت کے سامنے یہ لائحہ عمل رکھا گیا ہے کہ جماعت کا ہر مرد عورت اور بچہ کم از کم قرآن مجید ناظرہ ضرور پڑھا ہوا ہو اس پر عمل درآمد کرنے کے لئے تمام لبجنات کو فارم چھوا کر بھجوائے گئے جن کو ان لجنات کی عہدہ داران نے پُر کر کے واپس بھجوانا تھا تا معلوم ہو سکے کہ ہر شہر، قصبہ یا گاؤں میں احمدی مستورات اور بچیوں کی کیا تعداد ہے.ان میں سے کتنی ناظرہ پڑھ چکی ہیں؟ کتنی ناظرہ پڑھ رہی ہیں؟ کتنی سیسرنا القرآن پڑھ رہی ہیں؟ کتنی ترجمہ جانتی ہیں؟ کتنی ترجمہ پڑھ رہی ہیں؟ اور کتنی ایسی ہیں جو کچھ نہیں جانتیں؟ تا ان کی تعلیم کا انتظام کیا جائے.اس سکیم پر چھ ماہ گزر رہے ہیں اس وقت تک بہت کم لجنات کی طرف سے فارم پُر ہوکر آئے ہیں.باقی لجنات کی عہدہ داران نے ابھی تک فارم ہی پر کر کے نہیں بھجوائے.جب تک مرکز کو صحیح حالات اور کوائف کا علم نہیں ہوگا وہاں کام بھی شروع نہیں کروایا جا سکتا اس لئے اس اعلان کے ذریعہ ان تمام لجنات کو توجہ دلاتی ہوں کہ وہ جلد از جلد فارم پر کر کے صحیح کوائف سے مطلع کریں.جن لجنات کی طرف سے فارم پر ہو کر واپس آگئے ہیں وہ با قاعدہ اطلاع دیتی رہیں کہ انہوں نے ایسی عورتوں یا بچیوں کو ناظرہ قرآن کریم پڑھانے کا کیا انتظام کیا ہے جنہوں نے ناظرہ نہیں پڑھا ہوا نیز یہ بھی کہ ترجمہ قرآن مجید پڑھانے کا ان کی لجنہ نے کیا انتظام کیا ہے جن لجنات نے قرآن کریم ناظرہ و ترجمہ کا انتظام کر لیا ہے وہ پڑھائی کی رفتار سے مطلع کرتی رہیں.یہ کام بہت ہی ضروری ہے.قرآن مجید کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تھے اور یہی آپ کے خلفاء کا کام ہے.اعمال صالحہ وہی کہلائے جاسکتے ہیں جن کی موقع اور زمانہ کے لحاظ سے جماعت کو ان کے خلیفہ اور امام کی طرف سے ہدایت دی گئی ہو.اسلام کی ترقی کے لئے قرآن کا علم ہی اصل چیز ہے جب تک ہم خود مغز شریعت اور اس کے احکام سے واقف نہ ہوں گی اور اس کے مطابق ہمارا نمونہ نہ ہوگا ہم دنیا کو اس پاک تعلیم کی طرف کس طرح کھینچ سکیں گی.پس سب کاموں سے بڑھ کر سب نیکیوں سے بڑھ کر نیکی اس زمانہ میں یہ ہے کہ قرآن پڑھیں.جو بہنیں ناظرہ قرآن جانتی ہیں وہ بہنوں اور بچیوں کو جو قرآن پڑھنا نہ جانتی ہوں پڑھا ئیں جو تر جمہ جانتی ہوں وہ ان بہنوں اور بچیوں کو جونہ جانتی ہوں ترجمہ سکھائیں اس سے ان کا اپنا علم بھی پختہ ہو گا اور دوسروں کو پڑھانے کا ثواب ملے گا.پس ہر

Page 755

737 شہر قصبہ اور گاؤں کی ان بہنوں کی خدمت میں جو ناظرہ اور ترجمہ جانتی ہیں میری التماس ہے کہ وہ خود اپنی لجنہ کی عہدیداروں کے پاس اپنے نام پڑھانے کے لئے پیش کریں تا ان کے سپر د جو نہیں پڑھی ہوئیں ان کو کیا جاسکے اور مجھے بھی اطلاع دیں.اللہ تعالیٰ وہ دن جلد لائے جب ہماری جماعت کا ہر مرد بچہ خواہ شہر کا رہنے والا ہو یا گاؤں کا شمع قرآن سے منور ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح رنگ میں قرآن کی خدمت کی توفیق الفضل 2 راگست 1966ء) عطا فرمائے.

Page 756

738 قرآن مجید ناظرہ و ترجمہ کی سکیم اور لجنات اما ء اللہ کا فرض جماعت میں قرآن مجید کیتعلیم کو عام کرنے کے لئے اللہ تعلی سے توفیق پا کرحضرت خلیفہ مسح الثالث ایدہ اللہ علی نے جماعت کے سامنے یہ سکیم پیش فرمائی کہ جماعت کا کوئی مرد اور عورت ایسا نہیں ہونا چاہئے جس نے ناظرہ قرآن مجید نہ پڑھا ہوا ہو اور جس نے ناظرہ پڑھا ہوا ہے اسے چاہئے کہ قرآن مجید کا ترجمہ سیکھے.آپ نے بار بار اسی مضمون کے خطبے دیئے ہیں تا جماعت کے مرد اور عور تیں اس طرف توجہ کریں.اسی غرض کے لئے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے فارم چھپوا کر تمام لجنات کو بھجوائے تھے جس سے جائزہ لیا جاسکے کہ ہر جگہ کی احمدی مستورات میں سے کتنی ناظرہ قرآن مجید جانتی ہیں اور کتنی باترجمہ اور تا اس کے مطابق تعلیم کا انتظام کیا جاسکے.حالانکہ ابھی تک حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اس سکیم پر چھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے صرف 137، لجنات کی طرف سے فارم پر ہو کر واپس آئے ہیں.یہ ہمارے لئے نہایت ہی خوشی اور مسرت کا مقام ہے کہ اپنے ایک گزشتہ خطبہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عورتوں کے کام پر خوشی کا اظہار فرمایا.آپ فرماتے ہیں:." آپ دوست یہ سُن کر خوش ہوں گے کہ بہت سے مقامات پر مردوں کی نسبت ہماری احمدی بہنیں قرآن کریم ناظرہ زیادہ جاننے والی ہیں ایک تو ہمیں شرم اور غیرت آنی چاہئے.دوسرے ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر بھی بجالانا چاہئے کیونکہ جس گھر کی عورت قرآن کریم جانتی ہوگی اس کے متعلق ہم اُمید کر سکتے ہیں کہ اس گھر کے بچے اچھی تربیت حاصل کر سکیں گے.“ خطبہ جمعہ 5 اگست 1966 ء ہمارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی مستورات کے متعلق بے شک مسرت کا اظہار فرمایا ہے لیکن حقیقی خوش اور مسرت کا باعث ہمارے لئے وہ دن ہوگا جس دن حضور ایدہ اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرما ئیں گے کہ ایک عورت بھی نہیں جو نا ظرہ نہ جانتی ہو.پس میں تمام لجنات کو پھر توجہ دلاتی ہوں کہ جس کی طرف سے فارم پر ہو کر نہیں آئے وہ جلد از جلد فارم پُر کر کے بھجوائیں تا کہ ان کو کام کے متعلق ہدایات دی جاتی رہیں.اور وہ لجنات جنہوں نے فارم تو پر کر کے بھجوا دیئے ہیں اپنے کام کی باقاعدگی سے رپورٹ بھجواتی رہیں کہ وہ ناظرہ اور ترجمہ قرآن مجید کی حکومت دنیا میں قائم ہو.اسی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام جماعت کو توجہ دلاتے رہے اور اسی طرف

Page 757

739 آپ کے خلفاء جماعت کو توجہ دلاتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.” بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کریم کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی رات دن جھکار ہے.ہماری جماعت کو چاہئے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان و دل سے ملفوظات جلد اول ص 386 مصروف ہو جائیں.“ حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ 1944ء کے موقع پر عورتوں میں تقریر کرتے ہوئے عورتوں سے دریافت فرمایا تھا کہ جو عورتیں ترجمہ قرآن مجید جانتی ہیں وہ کھڑی ہو جائیں.اس تعداد کو دیکھ کر حضور نے فرمایا تھا:.بہت خوشکن بات ہے کہ میرے اندازہ سے بہت زیادہ عورتیں کھڑی ہیں.الحمد للہ اب بیٹھ جاؤ میرے لئے یہ خوشی عید کی خوشی سے بھی زیادہ ہے میرا اندازہ تھا کہ جتنی عورتیں کھڑی ہوئی ہیں اس کے دسویں حصہ سے بھی کم عورتیں ہوں گی جو قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہوں مگر یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میرے اندازہ سے بہت زیادہ عورتیں کھڑی ہوئی ہیں.مگر میرے لئے یہ تسلی کا موجب نہیں میرے لئے تسلی کا موجب تو یہ ہو گا جب تم میں سے ہر ایک عورت قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہوگی.“ الازھار لذوات النجما رص 400 س تمام لجنات اور احمدی مستورات کا فرض ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان کی تعمیل کریں حضرت مصلح موعود کی رُوح کو خوشی پہنچانے کا باعث بنیں اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کی تعمیل کریں.تمام لبنات اس امر کو یا درکھیں کہ ان کی سالانہ رپورٹوں پر نمبر لگاتے ہوئے اس امر کو مد نظر رکھا جائے گا کہ انہوں نے ناظرہ اور ترجمہ قرآن مجید پڑھانے کیلئے کیا انتظام کیا.الفضل 4 ستمبر 1966ء

Page 758

740 خطاب لجنہ اماءاللہ لائل پور 21/ستمبر 1966ء لجنہ اماءاللہ لاکپور کی پانچویں سالانہ تربیتی کلاس کے موقع پر اپنے خطاب میں احمدی بہنوں کو قران کریم کی تعلیم حاصل کرنے کی پر زور تحریک فرمائی.آپ نے نہایت دلنشیں پیرایہ میں یہ بات واضح فرمائی کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کر کے دنیا میں ترقی حاصل کی.جب تک مسلمان قرآنی تعلیم کو اپنا نصب العین بناتے رہے وہ دنیوی اور دینی ترقیات حاصل کرتے رہے.جب انہوں نے قرآن کریم کا علم حاصل کرنا چھوڑا اور اس کی تعلیم پر عمل کرنا ترک کر دیا وہ قعر مذلت میں گرتے گئے.اب اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسی لئے دنیا میں بھیجا ہے کہ آپ دنیا کو قرآن کریم سے روشناس کرائیں اور ہم جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شمار کرتے ہیں اس وقت حقیقی احمدی ہوں گے جب ہم خود بھی قرآن کریم کو اپنا لائحہ عمل بنا ئیں اور دنیا کو بھی قرآن کریم کی تعلیم سے آگاہ کریں.الفضل یکم اکتوبر 1966ء)

Page 759

741 ناصرات الاحمدیہ کے لئے ضروری اعلان گزشتہ جمعہ میں حضرت خلیفہ مسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے وقف جدید کے بجٹ کے پورا کرنے کی ذمہ داری نونہالان احمدیت یعنی اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ پر ڈالی ہے اور ہر احمدی بچہ سے خواہش ظاہر فرمائی ہے کہ وہ چھ روپے سالانہ یا آٹھ آنے ماہوار اس میں حصہ لے تا یہ بجٹ جلد سے جلد پورا ہو.ناصرات الاحمدیہ لجنہ اماء اللہ ہی کی ایک شاخ ہے جو سات سے پندرہ سالہ بچیوں کی تنظیم ہے.تا بچپن سے ہی لڑکیوں میں اشاعت اسلام کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا ہو.لجنہ اماء اللہ کے قیام پر حضرت مصلح موعود نے جو لائحہ عمل لجنہ اماءاللہ کے لئے تجویز فرمایا تھا اس میں تحریر فرمایا تھا.اس بات کی ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت میں اپنی ذمہ داری کو خاص طور پر سمجھو اور ان کو دین سے غافل ، بد دل اورست بنانے کی بجائے چست ، ہوشیار اور تکالیف برداشت کرنے والے بناؤ.اور دین کے مسائل جس قدر معلوم ہوں ان سے ان کو واقف کرو اور خدا، رسول مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی محبت اور اطاعت کا مادہ ان کے اندر پیدا کرو.اسلام کی خاطر اور اس کے منشاء کے مطابق اپنی زندگیاں خرچ کرنے کا جوش ان میں پیدا کرو.اس لئے اس کام کو بجالانے کی تجاویز سوچو اور ان پر عمل کرو.“ الازھار لذوات الخمار ص 53 اسی طرح آپ نے تحریر فرمایا تھا:.اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لئے جو بھی خلیفہ وقت ہو اس کی تیار کردہ سکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مد نظر رکھ کر تمام کارروائیاں ہوں.“ الازھار لذوات الخمار ص 53 حضرت خلیفہ امسح الثالث ایدہ اللہ تعلی بنصرہ العزیز کی یہ سکیم کہ احمدی بچے اور بچیاں مالی قربانی کا ایک مثالی نمونہ پیش کریں اسی غرض سے ہے تاکہ بچوں میں اسلام کی خاطر اپنی زندگیاں خرچ کرنے کا جوش پیدا ہو.میں ناصرات الاحمد پر اور ان کی عہدہ داروں کو اس طرف توجہ دلاتی ہوں کہ اس تحریک کی طرف فوراً توجہ دیں.اور حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آواز پر فوراً لبیک کہتے ہوئے اپنے وعدہ جات اور نقد رقوم پیش کریں احمدی عورتوں نے ہمیشہ ہی بے نظیر قربانی کا مظاہرہ کیا ہے.اپنے امام کی آواز

Page 760

742 پر ہمیشہ ہی صدق دل سے لبیک کہا ہے.عزیز بچیو! آج تمہارے امتحان کا دن ہے ایک طرف تم نے یہ ثابت کرنا ہے کہ تم قربانیوں میں اپنی ماؤں اور نانیوں دادیوں سے کم نہیں ہو.تمہارے دلوں میں بھی احمدیت کی ترقی کا ویسا ہی جوش ہے تو دوسری طرف تمہارا مقابلہ اطفال الاحمدیہ سے ہے تم نے یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ قربانی کے میدان میں تم کسی طرح اپنے بھائیوں سے کم نہیں ہو.پس میری عزیز بچیو! اپنے جیب خرچوں میں سے پیسے جمع کر کے اپنے اخراجات میں کمی کر کے تم اسلام کی سربلندی کے لئے اپنے جیب خرچ پیش کرو کہ یہی عمل صالحہ ہے اور وہی کام برکات کا موجب ہوتا ہے جو امام وقت کی ہدایت کے مطابق کیا جائے.اب تک احمدی بچوں اور بچیوں سے کوئی قربانی کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا.یہ پہلی مالی تحریک ہے جو حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے بچوں کے سامنے رکھی گئی ہے.آپ کی آواز پر لبیک کہنا ہر احمدی بچہ کا اولین فرض ہے.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.میں عہدہ داران کو بھی توجہ دلاتی ہوں کہ وہ حضرت خلیفہ مسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ارشادلڑکیوں کو سنا کر ان سے چندہ وصول کر کے بھجوائیں.اجتماع عنقریب ہونے والا ہے.کوشش کریں کہ مطلوبہ رقم جمع کر کے ساتھ ہی لیتی آئیں.رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ الفضل 14 اکتوبر 1966ء

Page 761

743 شیخو پورہ میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کی اہم تقریر مورخه 1966-11-2 حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض کسی نئے مذہب کا قیام نہ تھا.مسلمان جہالت کے گڑھے میں گرے ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کی حالت سنوارنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھجوایا تا وہ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پاس سے کوئی چیز پیش نہیں کی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے ہی لوگوں کو روشناس کرایا.قرآن مجید کے احکام اور اسلام کو پھیلانے کی جتنی کوشش آپ نے کی اس کی مثال 1400 سال کے عرصہ میں نہیں ملتی.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بتائے ہوئے طریق پر چل کر ہی ترقی مل سکتی ہے.سب سے پہلا گر جو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے.وہ یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی کامل اور غیر مشروط اطاعت کریں اس کے بغیر نہ کوئی مذہب اور نہ ہی کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے.مسلمانوں کو زوال اس وقت آیا.جب انہوں نے خلافت کا احترام چھوڑ دیا اور خلیفہ وقت کی اطاعت ترک کر دی.پس ہمیں چاہئے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.اسلام کی طرف دنیا کو کھینچنے کے لئے اپنا نمونہ پیش کرنے کی ضرورت ہے.لیکن جب تک ہمارے دل دنیا کی حرص اور آز سے پاک نہ ہوں.آپس میں تعاون نہ ہو اس وقت تک ہم صحیح معنوں میں مسلمان نہیں کہلا سکتے.پس ہمیں چاہئے کہ ہمارا صرف ایک ہی مقصد ہو اور ایک ہی نصب العین ہو اور وہ یہ ہے کہ اسلام کا بول بالا ہو.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند ہو.اب عمل کا زمانہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے میری کامل اطاعت کرو.میری پیروی کرو.کامیابی تمہارے قدم چومے گی.اگر ایمان کے ساتھ عمل اور قربانیاں نہ ہوں تو ایسے ایمان کا بھی کوئی فائدہ نہیں.کبھی وقت کی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے.کبھی مال کی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر یہ سب قربانیاں امام وقت کے پیچھے چلنے سے ہی کی جاسکتی ہیں.حضرت خلیفہ اسیح نے اس سال جماعت کی

Page 762

744 ترقی کے لئے قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ پڑھانے کی تحریک فرمائی ہے.ہماری روحانی غذا قرآن مجید کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے.قرآن ہی وہ کامل ضابطۂ حیات ہے جس پر عمل کرنے کے بغیر ہم کسی قسم کی ترقی نہیں کر سکتے.پس قرآن مجید کا ترجمہ سیکھنے کی طرف توجہ دیں اور کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ عورتیں اور بچیاں قرآن با تر جمہ جانتی ہوں.اگر آپ اپنے بچوں کی صحیح تربیت چاہتی ہیں تو اپنا عملی نمونہ ان کے سامنے پیش کریں خود نمازیں پڑھیں.اور قرآن مجید پڑھیں تاکہ ان کے دلوں میں بھی شوق پیدا ہو کوئی قوم ایسی نہیں جس نے بغیر مالی قربانی کے ترقی کی ہو.اللہ تعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا ہے.پس چاہئے کہ سادہ لباس پہنیں اور سادہ زندگی بسر کریں اور اس طرح جتنا روپیہ بچے وہ اسلام پر صرف کریں.صحابہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں.جب بھی رسول کریم کو ضرورت پڑتی تو صحابہ اور صحابیات اپنی ہرممکن قربانی پیش کر دیتے تھے.آپ نے فرمایا تحریک جدید کے دور سوم کا آغاز اسی لئے کیا گیا تھا کہ نئی آنے والی نسلیں اس دور میں شامل ہوں.اسی طرح اور بھی تحریکات ہیں.مثلاً فضل عمر فاؤنڈیشن ، ایک اور نئی تحریک احمدی بچیوں اور اطفال کے لئے ہے کہ وہ پچاس ہزار کا بجٹ پورا کرنے کی کوشش کریں.اگر چہ اس تحریک پر ایک مہینہ گزر چکا ہے مگر بہت کم لجنات کی طرف سے لسٹیں وصول ہوئی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک چرواہے کی حیثیت رکھتا ہے.اور قیامت کے دن ہر ایک سے اپنے ریوڑ کے متعلق پوچھا جائے گا.پس بچوں کی ایسے رنگ میں تربیت کریں کہ وہ اسلام کے بچے خادم بنیں.دنیا ہماری طرف تبھی کھینچ کر آسکتی ہے.جب ہم میں وہ تمام خصوصیات موجود ہوں جن کی اسلام تعلیم دیتا ہے.الفضل 20 نومبر 1966ء

Page 763

745 ناصرات الاحمدیہ اور چندہ وقف جدید ناصرات الاحمد یہ خوش ہو کہ تم سے بھی قربانی کا مطالبہ کیا گیا ہے.عمل صالح حقیقت میں وہی ہے جو موقع اور محل کے لحاظ سے کیا جائے.کس وقت کے لئے کونسی قربانی مناسب ہے.یہ جماعت کا امام ہی بتا سکتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.الامَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ (بخاری کتاب الجهاد) حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے ناصرات الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ سے مطالبہ فرمایا ہے کہ وہ بجٹ وقف جدید میں پچاس ہزار روپے ادا کریں.اور اس کے لئے فی بچہ صرف ایک اٹھنی ماہوار کا مطالبہ فرمایا ہے.بچے عموماً اتنی رقم کھانے پینے پر خرچ کر دیتے ہیں اور اس اٹھنی کا بچانا اور اشاعت اسلام کے لئے دینا جہاں اسلام کی اشاعت کا موجب ہوگا وہاں بچیوں میں سادگی، کفایت شعاری ، قوم اور مذہب کی خاطر قربانی کا جذبہ بھی پیدا کرے گا.پس میری بچیو! حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہر ماہ ایک اٹھنی حضور کی خدمت میں پیش کرو.اور دنیا کو بتا دو کہ قربانی کرنے میں ہماری بچیاں اگر ایک طرف اپنی ماؤں، نانیوں اور دادیوں سے کسی طرح کم نہیں تو دوسری طرف اپنے بھائیوں سے بھی پیچھے نہیں رہیں گی.تمام لجنات کی سیکر یٹریان ناصرات فوری طور پر بچیوں کو اس تحریک کی اہمیت سمجھا کر چندہ وصول کر کے بھجوائیں چندہ بھجواتے وقت وضاحت سے تحریر کریں کہ یہ وقف جدید کا چندہ ہے.ناصرات کا ممبری کے چندہ سے اشتباہ نہ پیدا ہو.جہاں ناصرات کی الگ سیکرٹری نہیں وہاں کی صدر اور سیکرٹری یہ کام کریں کہ پندرہ سال تک عمر کی بچیوں سے یہ چندہ وصول کر کے روانہ کریں.اس تحریک پر ایک ماہ سے زائد گزر چکا ہے لیکن ابھی تک لجنات نے کما حقہ اس کی طرف توجہ نہیں دی.ہر ماہ کی لجنہ کی رپورٹ میں اس کا با قاعدگی سے ذکر کیا جائے اور ان کی ناصرات کی طرف سے کتنا وقف جدید کا چندہ بھجوایا گیا.اللہ تعالیٰ ہماری بچیوں کو بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے.آمین افضل 6 نومبر 1966ء

Page 764

746 نئے سال کے لئے نیا عزم خلافت ثانیہ کی تحریکات میں سے تیسری عظیم الشان تحریک تحریک وقف جدید برائے اطفال و ناصرات تھی.حضور کے ارشاد کی تعمیل میں آپ نے ” ناصرات الاحمدیہ کانٹے سال کے لئے نیا عزم“ کے عنوان سے الفضل کے ذریعہ بچیوں کو اس چندہ کی یاددہانی کرواتے ہوئے لکھا.” میری بچیوں کو چاہئے کہ وہ نئے سال کے پہلے دن سے ہی یہ عزم کریں کہ سب باتوں سے مقدم خلیفہ اسیح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آپ کی پیش کردہ تحریکات میں حصہ لینا ہے.بچوں کے لئے خصوصی تحریک وقف جدید کی ہے اس لئے آپ کے لئے یہ کام سب سے اہم اور یہ قربانی سب سے بڑی قربانی ہے.کوشش کریں کہ ایک احمدی بچی بھی ایسی نہ رہ جائے جس نے اس میں حصہ نہ لیا ہو.اپنی بہنوں، ماؤں دادیوں اور نانیوں سے قربانی میں بڑھنے کی کوشش کریں.اپنے بھائیوں یعنی اطفال الاحمدیہ سے بھی آگے نکلنے کی کوشش کریں.تا دنیا دیکھ لے کہ اس دور کی احمدی بچیاں بھی اسلام واحمدیت کے لئے قربانی کرنے میں پہلی عورتوں سے کسی طرح کم نہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے.“ الفضل 12 جنوری 1967.

Page 765

747 خطاب بر موقعہ جلسہ تقسیم انعامات فضل عمر جونیئر ماڈل سکول ربوہ 9 مئی 1967 فضل عمر جو نیئر ماڈل سکول کے جلسہ تقسیم انعامات کے انتقام پر فرمایا:.سے پہلے میں ان سب بچوں کو جنہوں نے آج جلسے میں انعامات حاصل کئے ہیں مبارکباد پیش کرتی ہوں.اللہ تعالیٰ ان کا انعام حاصل کرنا مبارک کرے.میرے بچو! تمہیں تو اس سکول میں صرف اس لئے پڑھایا جاتا ہے کہ تمہیں بچپن سے مذہب سے محبت ہو.نماز پڑھنے کی عادت ہو.اعلیٰ اخلاق کے حامل بنو.جو بھی دیکھے وہ اس بات سے خوش ہو کہ ہمارے بچے قرآن مجید کی تعلیم کا نمونہ ہیں.اس کے لئے میں اس سکول کی اسا تذات سے بھی کہتی ہوں کہ وہ مغربیت کو دور کریں.ہمارے سکول کا ماحول خالص دینی اور خالص مشرقی ہو.یہ چھوٹے چھوٹے بچے جو چار سال کے داخل ہوتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اُستانیوں کا یہ رتبہ بہت عزت کا ہے.جو اُن کو ملا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ اپنی اولاد کیلئے دعائیں کرتے رہتے تھے.آپ نے فرمایا کہ یہ سب آپ کی روحانی اولاد ہیں.اگر ہم بچے کے دماغ سے دجالیت کا کیٹر انہیں نکالتے تو وہ کس طرح کا سر صلیب بن سکتے ہیں.وہ کا سر صلیب تبھی بن سکتے ہیں جب ان کی تعلیم و تربیت خالص اسلامی طریق پر ہو.ہیڈ مسٹریس سے لیکر نرسری تک کی اُستانی کا یہ فرض ہے کہ وہ بچے کی ہر بات کی طرف خاص کر دینی باتوں کا دھیان رکھے.خدا کرے یہ سکول روز بروز بڑھے.پچھلے پھولے اور اس میں تعلیم پانے والے حقیقت میں حضرت فضل عمر کے جانثار ہوں.مصباح جون 1967

Page 766

748 خطاب لجنہ اماءاللہ گجرات 13 مئی 1967ء کو ضلع گجرات میں حاضرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.سب مسلمانوں کا دعوئی اور اتفاق ہے کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اس کی تعلیم عالمگیر ہے اور یہی ایک کامل شریعت ہے.جس پر چل کر انسان خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے.خدا تعالیٰ کی محبت حقیقی معنوں میں قرآن مجید کی تعلیم پر عمل کرنے سے پیدا ہو سکتی ہے.مسلمانوں کے لئے حضرت رسول کریم کی ذات ایک کامل نمونہ ہے.آپ کا نام بھی محمد ﷺ اور کام بھی محمد ﷺ تھا.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ تمہارے لئے اُسوہ حسنہ صرف اور صرف ایک ہی وجود ہے چنانچہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے اس نسخہ پر عمل کیا اور دنیا کے فاتح اور بادشاہ بن گئے.ان کے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے دنیا ان کی راہ میں آنکھیں بچھاتی تھی.آتمکر مہ صدر صاحبہ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ جب مسلمانوں نے قرآن کی تعلیم پر عمل کرنا چھوڑ دیا.جب دعوئی تو یہ کرتے تھے کہ انسانی نجات قرآن کریم پر عمل کرنے سے ملتی ہے لیکن عمل اس کے خلاف تھا.تو وہی قوم جس نے ترقی کی انتہائی منازل طے کر لی تھیں.قعر مذلت میں گرتی چلی گئی.اب جبکہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل سے ایسا ملک عطا فرمایا ہے جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے.ہمیں چاہئے کہ قرآن کریم کو لائحہ عمل بنائیں.اور جن باتوں سے قرآن کریم نے منع فرمایا ہے ان سے باز رہیں اور اس کے احکام پر عمل کریں.آپ نے نہایت مؤثر انداز میں معاشرہ میں قائم شدہ برائیوں مثلاً تعویز گنڈوں قبر پرستی اور ایک دوسرے کی غیبت کرنے سے منع فرمایا.اور زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے سے حسن سلوک کرنے کی تلقین فرمائی.غیبت کی برائی کو آپ نے دلنشیں پیرایہ میں واضح فرماتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ اسلام نے بُرائی کی اشاعت سے سختی سے منع فرمایا ہے.رسومات سے مجتنب رہنے کی تاکید کی.آخر میں آپ نے ماؤں کی اس عظیم ذمہ داری کی طرف انہیں توجہ دلائی کہ اولاد کی اعلیٰ تربیت جس کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں اسلام کے احکام پر عمل کرنے اور اسلام کی خاطر بے لوث قربانیاں دینے کی روح پیدا ہو ماؤں کا ہی کام ہے.جس دن ہمارے بچوں اور بڑوں میں اسلام کی خاطر قربانیاں دینے اور اس کی خاطر ہر قسم کے مصائب برداشت کرنے کا جذبہ پیدا ہو جائے گا.

Page 767

749 تو یہی دن ہماری کامیابی کا دن ہوگا.اسی غرض سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا کہ آپ اسلام کو زندہ مذہب ثابت کریں اور قرآن مجید کی تعلیم پر پھر سے عمل کروائیں.14 مئی بروز اتوار صبح مسجد احمدیہ میں لجنہ اماءاللہ کا تربیتی جلسہ ہوا.جس میں گجرات شہر کے علاوہ شیخ پور.کالرہ کلاں.سدو کی.سوک کلاں.شادیوال.کھوکھر غربی.معین الدین پور.گولیگی.فتح پور اور کھاریان کی لجنات کثیر تعداد میں حاضر ہوئیں.تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے بہنوں سے خطاب فرمایا آپ نے سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد قرآن کریم کی ان آیات اِنَّ اللهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمُ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ وَذَالِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمِ (التوبة: (111) کی تلاوت فرمائی.اور اس کا ترجمہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور مال اس لئے لئے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑیں گے.اپنے نفسوں کو قربان کرنا پڑا تو کریں گے.اپنے مالوں اور اولا دوں کو قربان کریں گے.اس کے بدلہ میں ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر جنت کا وعدہ فرض کر رکھا ہے.آپ نے فرمایا کہ ہم نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آگے آپ کے خلفاء کے ذریعہ سے اپنے مولیٰ سے ایک عہد کر رکھا ہے کہ ہم ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گی.ہم پر سب سے بڑا فرض قرآن مجید کو دنیا میں پھیلانا ہے.اسی مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے اور اسی غرض کے لئے خدا تعالیٰ نے جماعت میں خلافت کا سلسلہ جاری فرمایا.یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنے اموال.نفوس.وقت.عزت الغرض ہر چیز کی قربانی دینی پڑے گی.آپ نے توجہ دلائی کہ جب تک عورتیں قربانیوں میں مردوں کا ہاتھ نہیں بٹائیں گی.اس وقت تک ترقی ممکن نہیں.اس کے بعد آنمکر مہ نے خلافت کی برکات کو واضح طور پر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اسی خلافت کی برکت کی وجہ سے ہم سب اخوت کی ایک لڑی میں پروئی گئی ہیں.پھر خلافت کی برکت سے ہی ہماری جماعت چار دانگ عالم میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کر رہی ہے.وہ ممالک جہاں تین خداؤں کی پرستش کی جاتی تھی.وہاں خلافت کی

Page 768

750 برکت سے خدائے واحد کے جھنڈے گارڈ دیئے گئے.اور قوموں کی قومیں حضرت محمد ﷺ کی غلامی میں داخل ہونے پر فخر محسوس کرنے لگیں.اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تحریک قرآن کریم ناظرہ کا ذکر فرماتے ہوئے آپ نے پر زور الفاظ میں تحریک فرمائی کہ ہر عورت اور ہر بچی کا قرآن کریم اور اس کا ترجمہ جاننا بھی نہایت ضروری ہے.فرمایا کہ جیسا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لجنہ کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر فرمایا تھا کہ میں نے اپنے خدا سے عہد کیا ہے کہ میں تین سال تک ساری جماعت کو قرآن کریم پڑھا دوں گا.ہمیں چاہئے کہ پورا زور آپ کے اس عہد کو پورا کرنے میں لگا دیں.جب تک ہم قرآن کریم پڑھیں گے نہیں اور اس کے مطالب سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے ہم اس کی تعلیم پر عمل کس طرح کر سکتی ہیں.آپ نے اس بات پر تعجب کا اظہار فرمایا کہ لڑکیاں بی اے اور ایم اے کی تعلیم کے لئے بڑی بڑی کتابیں اور بڑے مضامین از برکر لیتی ہیں.لیکن وہ چھوٹی سی کتاب جو نجات کا باعث ہے جس کا پڑھنا بھی آسان اور اس پر عمل کرنا بھی آسان ہے اس کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے.تمام علوم کا خزانہ قرآن کریم ہی ہے.جس نے اسے پڑھ لیا اس پر علوم کا دروازہ کھل گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو شخص قرآن کریم کے سات سواحکام میں سے ایک کو بھی تو ڑتا ہے اسے اپنے انجام کی فکر کرنی چاہئے لیکن اگر آپ کو ان احکام کا علم ہی نہ ہوگا تو آپ کو کیا پتہ لگ سکتا ہے کہ آپ کس کس حکم کو توڑ کر اپنے اوپر نجات کا دروازہ بند کر رہی ہیں.ازاں بعد بچوں کی خاص طور پر اچھی تربیت دینے پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ تربیت کی ذمہ داری بڑی حد تک ماؤں پر ہے بچوں کو دیندار بنانے اور انہیں نمازوں کے لئے مسجد میں بھیجنے اور اشاعت اسلام کے لئے زندگیاں وقف کرنے کی ترغیب دیں.آپ نے قرون اولیٰ کی مسلمان خواتین کی مثالیں دے کر سامعات کو اپنے بچوں کی زندگیاں وقف کرنے کی ترغیب دلائی.انہیں جامعہ احمدیہ میں داخل کروانا اور مبلغین اسلام بنانا ان کے دلوں میں اسلام کے لئے قربانیاں دینے کا جذبہ پیدا کرنے کی بڑی ذمہ داری ماؤں پر عائد ہوتی ہے.زاں بعد بدعات اور رسومات کا ذکر فرماتے ہوئے فرمایا کہ رسومات اور بدعات پھر سر اٹھا رہی ہیں.ہر قسم کی بد رسومات کو روکنے کے لئے ہر لجنہ کو خاص طور پر مناسب اقدامات کرنے چاہئیں.آپ نے واضح فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسلمانوں کو بدعات اور رسومات سے نجات دلانے کے لئے آئے ہیں.اور اس زمانہ کے لئے حکم

Page 769

751 بن کر آئے ہیں.اس لئے ہمارے لئے یہ نہایت ضروری ہے.کہ ہم ہر قسم کی رسوم سے خود بھی بچیں.اور دوسروں کو بھی بچائیں.آپ نے خاص طور پر شادی بیاہ میں سسرال والوں کو جوڑے دینے کی رسم چھوڑنے کی طرف توجہ دلائی.اور فرمایا کہ اسلام نے سادگی پر بڑا زور دیا ہے.تکلفات سے بچنا اور سادگی اختیار کرنا تحریک جدید کی ریڑھ کی ہڈی ہے.اس طرح سے جو پیسے بچیں انہیں دین کی ضروریات کے لئے دیا جائے.آپ نے فرمایا کہ شادی تو اس لئے کی جاتی ہے کہ تقوی شعار بیوی سے تعلق قائم کیا جائے نہ کہ جوڑوں اور جہیز حاصل کرنے کے لئے آپ نے اس کی تمام تر ذمہ داری لڑکے والوں پر ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اس موقعہ پر انہیں جوڑے ملیں بھی تو وہ انہیں ہرگز قبول نہ کریں.اور اعلیٰ دینی روح پیدا کرتے ہوئے ثابت کر دیں کہ شادی کی اصل غرض صرف تقوی شعار بیوی حاصل کرنا ہے.زاں بعد آپ نے گجرات کی لجنہ کو اپنی مستی دور کرنے اور لجنہ کے کاموں میں لجنہ کے اجلاسوں میں زیادہ سے زیادہ شریک ہونے کی ہدایت فرمائی.اور فرمایا کہ ضلع کی لجنہ ہونے کے لحاظ سے ان پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے نہ صرف اپنی سستی دور کریں.بلکہ اپنے ضلع کی لجنہ کی ممبرات بھی نگرانی کریں.جماعتی تنظیموں میں پوری طرح شامل ہونا ہر احمدی پر فرض ہے.تنظیموں کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ سب ممبرات اس میں پوری طرح حصہ لیں.تھوڑے سے وقت کی قربانی کر کے اجلاسوں میں آنا آپ سب کے لئے بڑی برکات کا موجب ہوگا.آخر میں آپ نے فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک اور مسجد ڈنمارک کے چندے کی تحریک فرمائی اور دعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ ہم سب کو خلافت سے وابستہ رکھے.اور یہ انعام ہم میں ہمیشہ قائم رہے اور ہماری زندگی اور موت خدا تعالیٰ کے لئے ہی ہو.مصباح جون 1967ء

Page 770

752 خطاب ممبرات لجنہ اماءاللہ کھاریاں 14 مئی 1967ء کھاریاں میں حاضرات سے خطاب فرمایا: سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سب سے پہلے آپ نے عہدیداران اور ممبرات لجنہ کھاریاں کا پر خلوص شکر یہ ادا کیا اور اس امر پر خوشی کا اظہار فرمایا کہ کھاریاں کی لجنہ اپنے علاقہ میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے.ان کے لئے آپ نے دعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ انہیں اس سے بھی بڑھ چڑھ کر قربانیاں کرنے اور ایمان و اخلاص میں ترقی دیتے ہوئے مزید عمل کی توفیق عطا فرمائے.زاں بعد حضرت سیدہ محترمہ نے قرآن مجید کی سورہ ملک کی آیت تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِ شَيْءٍ قَدِيرِ نِ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ (الملک : 32) تلاوت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ موت و حیات کا سلسلہ اس لئے جاری فرمایا ہے کہ ظاہر ہو جائے کہ تم سے عمل کرنے میں قربانیاں دینے میں دنیا کو چھوڑ کر دین کو مقدم کرنے میں کون سب سے زیادہ اچھا ہے.خدا پر ایمان لانے کے بعد یوم آخرت پر ایمان لانا ضروری ہے کہ مرنے کے بعد مواخذہ کا ڈر نہ ہوتا تو کوئی شخص اس جوش خروش سے نیک عمل نہ کرتا.جس طرح قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے کئے.جو قو میں یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتیں وہ خدا کی ہستی پر بھی ایمان لانا چھوڑ دیتی ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ طالب علم اسی لئے تیاری کرتا ہے کہ اسے امتحان کا ڈر ہوتا ہے.بچے راتوں کو جاگ جاگ کر امتحانوں کی تیاریاں کرتے ہیں اور ماں باپ بھی انہیں زیادہ توجہ سے پڑھنے کی ترغیب دلاتے ہیں.اسی طرح وہ شخص بھی جسے یوم آخرت پر ایمان ہو اس امتحان سے خائف رہتا ہے جو آخری امتحان ہے.جس میں دنیا کی زندگی کے کاموں کا فیصلہ ہوتا ہے.ابدی زندگی وہی ہے جو موت کے بعد ملنے والی ہے اس عارضی زندگی کے لئے ہم کیا کچھ نہیں کرتے.لیکن وہ زندگی جس میں اس در العمل کی زندگی کے کاموں کا فیصلہ ہوتا ہے.وہاں وہی شخص کامیاب ہو گا جس نے اس دنیا میں اپنی اولا دکو اپنے مال کو اپنے وقت کو خدا تعالیٰ کی محبت کے لئے خرچ کیا.آپ نے فرمایا.پس بہنو! وہ دن یا درکھو جب ہر شخص سے مواخذہ ہوگا.پس قرآن کریم کی آیت وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون (الذاریات: 57) کی روشنی میں اپنی پیدائش کے

Page 771

753 مقصد کو یا درکھو.خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا سب سے مقدم ہے.وہی راستہ اختیار کرو جس سے خدا کی محبت حاصل ہوتی ہو.آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے کی غرض یہی ہے کہ وہ دنیا کو بتائیں کہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا کیا طریق ہے.لیکن مسلمانوں نے اس اعلی تعلیم کو بھی بھلا دیا جو قرآن کریم میں ہے اور اپنے آقا ﷺ کے نمونہ کو بھی اپنانا چھوڑ دیا تو خدا تعالیٰ نے بھی انہیں چھوڑ دیا.لیکن اب خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی تو اس نے حضرت رسول کریم ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا.اور ہمیں آپ کو پہچاننے کی سعادت عطا فرمائی.لیکن جب تک ہم ان ذمہ داریوں کو ادا نہ کریں جو اسلام کو دوبارہ پھیلانے اور قرآن کریم کی تعلیم سے دنیا کو روشناس کرانے کے سلسلے میں ہم پر عائد ہوتی ہے ظاہری بیعت ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی.زاں بعد آپ نے سورہ صف کی آیات یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُم مِّنْ عَذَابِ اَلِيْم.تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَالِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (الصف: 1211) کی تلاوت کرتے ہوئے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تمہیں ایک ایسی تجارت کا پتہ بتاؤں جو تمہیں ہر قسم کے خطرات سے محفوظ کر دے گی اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کی جنت کی طرف لے جائے گی.یہ تجارت اور یہ لائحہ عمل یہ ہے کہ تم خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لاؤ اور اس کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرو.ایمان اعمال صالحہ کے بغیر ترقی نہیں پاتا.ایمان ایک بیج کی مثال رکھتا ہے اور اعمال صالحہ پانی کی حیثیت رکھتے ہیں.ہم نے اپنی قربانیوں کے ساتھ اپنے ایمان کی فصل بڑھانی ہے اور پھر کاٹنی ہے.یہاں پر آئمکرمہ نے قرآن کریم پڑھنے کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ سب سے بڑا جہاد قرآن کا جہاد ہے.ہمیں چاہئے کہ ہم اس کی تبلیغ کریں اور دنیا کو اس کی تعلیم سے روشناس کرائیں لیکن اگر ہم قرآن پڑھتے ہی نہیں یا اگر ناظرہ تو پڑھتے ہیں لیکن اس کے مطالب کا علم حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو ہم دنیا کو اس کا کیا سبق دے سکتے ہیں.آپ نے تحریک فرمائی کہ قرآن کی تعلیم کو اتنا عام کریں کہ ہر بچی ناظرہ پڑھی ہو.اور پھر اس کا ترجمہ بھی جانتی ہو.اس دنیوی تعلیم کی ڈگریاں تو دنیا میں دھری کی دھری رہ جائیں گی.اس دنیا میں صرف قرآن مجید ہی کام آئے گا.آپ دنیوی تعلیم ضرور حاصل کریں.لیکن قرآن کو مقدم رکھیں.ماؤں کو بھی توجہ دلاتی ہوں کہ اگر آپ کی بچیوں نے قرآن نہ

Page 772

754 سیکھا تو سمجھو کچھ نہ سیکھا.ہمارے لئے حقیقی خوشی کا دن وہی ہوگا جب ہم سے ہر بچی اور عورت قرآن کریم ناظرہ اور اس کا ترجمہ جانتی ہوگی.اس کے بعد آپ نے چند استفسارات کے جواب جو آپ کو کسی نے لکھ کر دریافت کئے.اس نے رسم اور بدعت کی وضاحت چاہی تھی اور سوال کیا تھا کہ جو کسی کے گھر بچہ پیدا ہونے کی خوشی میں مٹھائی تقسیم کرنے کے متعلق تھا کہ آیا یہ جائز ہے یا نہیں آئمکر مہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ گھر آئے ہوئے مہمان کی عزت اور اس کی خاطر کرنا ایک مؤمن کے اخلاق میں سے ہے اور اس کے آگے مٹھائی یا شربت پیش کرنا کوئی گناہ نہیں.محلہ برادری میں بھی تحفہ بھجوانا نا جائز نہیں لیکن اس خیال سے محلہ میں یا برادری میں مٹھائی تقسیم کرنا کہ اگر نہ دی گئی تو سیکی ہوگی اور برادری میں ناک کٹ جائے گی یہ نا جائز ہے.اگر حیثیت نہ ہوتے ہوئے محض بدنامی کے ڈر سے قرض لے کر یا فضول خرچی کر کے مٹھائی وغیرہ تقسیم کی جائے تو یہ منع ہے.اور قرآن کریم میں سخت انذار ایسی ناک کے متعلق ہے کہ سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ (القلم: 17) یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی ناک کو ہم داغیں گے.رسم اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ فلاں کام ضرور کریں گے اس لئے نہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس کے کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ اس لئے کہ اگر نہ کیا تو برادری میں بدنامی ہوگی.جماعت میں خدا تعالیٰ کے حکم کا خیال نہ کرنا اور برادری اور گاؤں والوں کے جذبات کو مقدم کرنا ہی رسم ہے.آپ نے رسم اور بدعت کا فرق بیان کرتے ہوئے بتایا کہ بدعت وہ ہے جو قرآن مجید کے خلاف ہو حدیث کے اور سنت پاک آنحضرت ﷺ کے خلاف ہو کیونکہ آپ حکم اور عدل بن کر تشریف لائے ہیں.کسی نے سوال کیا کہ فوت شدہ کے قل جائز ہیں؟ آپ نے بتایا کہ یہ سب بدعات ہیں احادیث سے کہیں ثابت نہیں کہ آنحضرت ﷺ نے قتل کئے ہوں یا آپ کے خلفاء راشدین نے قل کئے ہوں یہ سب اس زمانہ میں بدعات جاری ہوگئی ہیں جن کو ترک کرنا ہم سب کا فرض اولین ہے.آخر میں آپ نے فرمایا کہ ہماری جماعت کا مقصد یہی ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم دنیا میں پھیلے اور ہمیں چاہئے کہ مال اولاد.اوقات اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے ذریعہ ایسی قربانیاں کریں جن کے نتیجہ میں ہمیں اپنے مقاصد میں کامیابی ہو.پھر آپ نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی عظیم الشان قربانیاں دینے کی توفیق عطا فرمائے.مصباح جون 1967ء

Page 773

755 خطاب لجنہ اماءاللہ منڈی بہاؤالدین تلاوت قرآن کریم کے بعد حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے آنحضرت ﷺ کی سیرت پر ایک مدلل اور مؤثر تقریر فرمائی آپ نے فرمایا کہ دنیا میں بے شمار بڑے لوگ گزرے ہیں لیکن اگر ان کی سیرت اخلاق و واقعات پر نظر ڈالی جائے.تو کوئی نہ کوئی پہلو ان کی سیرت کا نامکمل دکھائی دے گا.لیکن وہ انسان دنیا میں ایک اور صرف ایک ہی گذرا ہے.جس کی زندگی ہر لحاظ سے کامل اور جس کی حیات کا ہر پہلو درخشندہ و تابندہ تھا.اور وہ ہمارے آقا محمد رسول اللہ ﷺ تھے ہمیں لازم ہے کہ ہم ہمیشہ آپ کی زندگی کا مطالعہ کرتے رہا کریں اور اپنی زندگی کو آپ کی سیرت کی روشنی میں اور آپ کے اُسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے گزاریں.اس کے بعد آنمکر مہ نے آپ کی زندگی کے ایک ایک پہلو کولیا اور آپ کا کامل انسان ہونا ثابت فرمایا سب سے پہلے آپ کے حسب نسب کا اعلیٰ وارفع ہونا بتا کر آپ کا حلیہ مبارک بیان فرمایا.پھر آپ کی اہلی زندگی.آپ کی شجاعت آپ کا رحم و عفو.آپ کا علم.آپ کی تعلیم.آپ کی اپنے مشن میں غیر معمولی کامیابی آپ کی کشش و جذب.سب پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے اور مختلف تاریخی واقعات سے ثابت کرتے ہوئے نہایت احسن طریق سے ثابت فرمایا کہ کیا بلحاظ انسانی حسن عقل اخلاق و کارناموں کے ایک کامل انسان تھے.وہ انوار جو آپ میں تھے وہ دنیا کے کسی اور انسان اور کسی چیز میں نہیں تھے.آخر میں آپ نے فرمایا کہ حسن وہی اعلیٰ ہوتا ہے جو جاودانی ہو.اس پہلو سے بھی آپ کامل ہیں.اس طرح کہ آپ کی امت میں سے ہی خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں ایک مامور کھڑا کیا جس کا کام آپ کی حقیقی غلامی میں رہتے ہوئے آپ کے حسین چہرہ پر سے اس پر وہ کو ہٹانا تھا جو چودہ سو سال کے عرصہ میں مسلمانوں کی غفلت کی وجہ سے آپ میں اور دنیا میں حائل ہو گیا تھا.اور آپ کی لائی ہوئی اس کامل شریعت سے پھر سے دنیا کو روشناس کرانا تھا.جسے مسلمان اپنے قول و فعل سے بھلا بیٹھے تھے.تقریر ختم کرنے سے پہلے آپ نے احمدی بہنوں کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف یعنی قرآن کریم پڑھنے پڑھانے.دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور اپنی اولادوں کی صحیح رنگ میں تربیت کرنے کی تلقین فرمائی.دعا کے بعد یہ اجلاس برخواست ہوا.مصباح جون 1967ء

Page 774

756 تحریک جدید دفتر سوم اور لجنات اماءاللہ کا فرض تحریک جدید کا آغاز حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے 1934ء میں فرمایا شروع میں آپ نے تین سال کے لئے قربانیوں کا مطالبہ فرمایا.پھر دس سال پھر انیس سال اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر پا کر آپ نے اعلان فرمایا کہ تحریک جدید دائمی ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا:.ی تحریک ہے تو دائگی.نہ صرف دائمی ہے بلکہ ہمارے ایمان اور اخلاص کا تقاضا ہے کہ تحریک ہمیشہ جاری رہے.جس طرح روٹی کھانا دائگی ہے.لیکن جب ہمیں روٹی نہیں ملتی تو ہم چلاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑاتے ہیں کہ وہ روٹی دے.اسی طرح ہمیں اشاعت دین کی بھی ضرورت ہے اگر ہمیں اشاعت دین کی توفیق ملتی ہے تو ہم تو خدا تعالیٰ کے ممنون احسان ہوتے ہیں اگر ہمیں اشاعت دین کی توفیق نہیں ملتی تو ہم شکر نہیں کرتے بلکہ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑاتے ہیں کہ اس نے ہم میں کیوں ضعف پیدا کر دیا.ہم دین کی خاطر کیوں قربانی نہیں کر سکتے.جتنی قربانی ہم پہلے کرتے تھے.یہی ایمان کی ایک زندہ علامت ہے اگر یہ علامت نہیں پائی جاتی تو سمجھ لو کہ ایمان نہیں پایا جاتا.“ تحریک جدید کا دور اول اور دور دوم تو خود حضرت مصلح موعود کے جاری فرمودہ ہیں.دور سوم حضرت خلیفة امسح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مصلح کی طرف ہی منسوب فرماتے ہوئے جاری فرمایا ہے.دور اول کے لئے جماعت نے بے نظیر قربانیاں دیں.لیکن آہستہ آہستہ وہ قربانیاں دینے والے اس دار فانی سے رخصت ہو کر اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہونے شروع ہو گئے.دور دوم نے ایک حد تک دور اول کا بوجھ بھی اٹھا لیا.چاہئے یہ تھا کہ دور سوم میں شامل ہونے والوں کا چندہ دور اول کے برابر ہوتا.لیکن ابھی تک دور سوم کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی.خصوصاً مستورات یہ بجھتی ہیں کہ ان کے خاوند تحریک جدید میں شامل ہو گئے.یہ کافی ہیں حالانکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا.ہر ایک اپنے اعمال کا جواب دہ ہوگا.اور اپنی قربانیوں کی جزاء پائے گا.ہماری جماعت نے اگر زندہ رہنا ہے اور ساری دنیا پر غالب آتا ہے تو ہم ایک منٹ کے لئے بھی یہ نہیں سوچ سکتے کہ کوئی ایسا وقت بھی آسکتا ہے جب ہم سے قربانیوں کا مطالبہ نہیں ہوگا.اسلام کا پرچم ساری دنیا میں لہرانے کے لئے انتہائی قربانیوں کی ضرورت ہے.اور اس کے لئے جماعت کی ہر عورت کو

Page 775

757 خود بھی قربانیاں دینی چاہئیں.اپنے خاوندوں، باپوں، بھائیوں کو بھی تحریک کرتے رہنا چاہئے اور اپنی اولادوں کو بھی ابھی سے ان قربانیوں کے لئے تیار کرتے رہنا چاہئے.جو آئندہ انہیں کرنی پڑے گی.حضرت مصلح موعود نے فرمایا تھا:.پس کسی وقت جماعت میں اس احساس کا پیدا ہونا کہ اب کثرت سے روپیہ آنا شروع ہو گیا ہے.قربانیوں کی کیا ضرورت ہے.اب چندے کم کر دیے جائیں.اس سے زیادہ جماعت کی موت کی اور کوئی علامت نہیں ہو سکتی.اگر یہ روپیہ ہماری ضرورت کے لئے کافی ہو جائے.تب پھر تمہارے اندر ایمان پیدا کرنے کے لئے تمہارے اندر اخلاص پیدا کرنے کے لئے.تمہارے اندر زندگی پیدا کرنے کے لئے.تمہارے اندر روحانیت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تم سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے اور ہمیشہ اور ہر آن کیا جائے.اگر قربانیوں کا مطالبہ ترک کر دیا جائے تو یہ تم پر ظلم ہوگا.یہ سلسلہ پر ظلم ہوگا.یہ تقویٰ اور ایمان پر ظلم ہوگا.الفضل 7 اپریل 1944ء پس نئی نسل میں تقویٰ ایمان اور قربانیوں کی روح پیدا کرنے کے لئے تا وہ اپنی ذمہ داری کو پہچانیں اور وہ بوجھ جواب تکر ان کے بڑے اٹھاتے چلے آئے تھے وہ اٹھا ئیں نئی نسل کے لئے تحریک جدید دو رسوم کا اجراء حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.چاہئے کہ ہر احمدی عورت اور ہر احمدی بچی اس دور میں شامل ہو.اس میں شامل ہونے کے لئے کم سے کم مقدار سال میں دس روپے ہے اس اعلان کے ذریعہ میں تمام احمدی عورتوں اور بچیوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے درخواست کرتی ہوں کہ اپنے آقا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے اخراجات میں کمی کرتے ہوئے سادہ زندگی اختیار کرتے ہوئے تحریک جدید دو رسوم میں شمولیت کریں.بچیاں اپنی کتابوں ، کاپیوں ، سکول اور کالج کے اخراجات میں خاصی رقم خرچ کر دیتی ہیں.اسی خرچ میں سے تھوڑی سے کفایت کرتے ہوئے دس روپے سالانہ بچائیں اور تحریک جدید میں شامل ہو کر اس پیج ہزاری فوج میں داخل ہو جائیں.جس کا وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا گیا تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے 30 جون 1967ء کے خطبہ میں بھی جماعت اور خصوصاً احمدی مستورات کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا تھا.پس تحریک جدید کے دفتر سوم کی طرف خصوصاً احمدی مستورات اور عموماً وہ تمام احمدی مرد اور بچے

Page 776

758 اور نو جوان جنہوں نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی وہ اس طرف متوجہ ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کریں.“ پس میری بہنوں اور بچیو، لبیک کہو امام وقت کی آواز پر لبیک کہو حضرت مصلح موعود کی قائم کردہ تحریک پر اور نام لکھاؤ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پنج ہزاری فوج میں تا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر رحمتیں نازل ہوں.اور آپ کی قربانیوں کو قبول فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ اسلام کی فتح کا دن ہماری زندگیوں میں مصباح اگست 1967 ء ) لے آئے.آمین

Page 777

759 خطاب جلسہ پیشگوئی مصلح موعود مورخہ 26 فروری 1968 ء کو لجنہ ہال میں پیشگوئی مصلح موعود سے متعلق جلسہ زیر صدارت حضرت سیدہ ام متین صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ منعقد ہوا.آپ نے پیشگوئی مصلح موعود کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا.کہ یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا زبر دست نشان ہے.آپ نے 1886ء میں خدا تعالیٰ سے خبر پا کر ایک بیٹا دیئے جانے کی پیشگوئی کی تھی.خدا تعالیٰ نے آپ کو وہ موعود فرزند عطا فرمایا اور اُس میں وہ تمام خصوصیات رکھ دیں جن کا اپنے وعدہ کیا گیا تھا.حضرت اصلح الموعود کو خدا نے تبلیغ اسلام کے وسیع نظام کو قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اس طرح انہوں نے زمین کے کناروں تک شہرت پائی.غرض پیشگوئی مصلح موعود بہت اہمیت کی حامل ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا نشان بھی ہے اور حضرت اصلح الموعو کی حقانیت کا بھی.بلکہ خو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا بھی کیونکہ آپ نے بھی اس موعود بیٹے کی خبر دی تھی.بہنوں کو اس پیشگوئی کی غرض و غایت سمجھنی چاہئے.پیشگوئی مصلح موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا زبر دست نشان ہے.آپ نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر 1886ء میں یہ پیشگوئی کی.اس پیشگوئی کی غرض یہ ثابت کرنا بھی تھی کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے وہ اپنے برگزیدہ بندوں پر اپنے فضل نازل کرتا ہے اور دشمن کے حملوں سے انہیں بچاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی دلیل کے علاوہ یہ اسلام کی صداقت کو بھی ثابت کرتی ہے کہ کس طرح اسلام آخری زمانہ میں دنیا میں پھیل جائے گا.غرض یہ پیشگوئی بہت اہمیت کی حامل ہے اور تمام بہنوں اور بچیوں کو اس کی اصل سے واقف ہونا چاہئے.مصباح مئی 1968 ء

Page 778

760 تحریک جدید اور لجنات اماءاللہ کا فرض تحریک جدید کی اہمیت اور اس کی عظمت سے کون واقف نہیں.جماعت کی ترقی اور قرآن مجید کی اشاعت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تحریک حضرت مصلح موعود کو الہام کی گئی.یہ تحریک عارضی نہیں بلکہ دائی ہے جیسا کہ خود حضرت مصلح موعود کی تحریروں اور اقوال سے ثابت ہے.اس تحریک کے ساتھ جو اس میں شامل ہوگا اور اس کے لئے اپنے اموال قربان کرے گا.اس کا نام بھی تاریخ احمدیت میں ہمیشہ کے لئے زندہ رہے گا.خواہ مرد ہو یا عورت.دفتر اول میں قربانی دینے والی بہت بڑی تعداد اس جہان فانی سے رخصت ہو چکی ہے.دفتر دوم اور سوم میں شامل ہونے کی قربانی کا جیسا کہ خود حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک گذشتہ خطبہ میں فرمایا ہے وہ اعلیٰ معیار نہیں جو دفتر اول والوں کا تھا.جماعت کی ترقی اور جماعت کی تحریکات میں حصہ لینے کے لحاظ سے عورتوں کا بھی اتنا ہی فرض ہے.جتنا مردوں کا بلکہ عورتوں پر اس لحاظ سے دگنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ گھر کا خرچ عموماً عورت کے ہاتھ میں ہوتا ہے.اگر وہ سادگی اور کفایت شعاری سے کام لے اور اسراف سے بچتے ہوئے اپنے گھر کے اخراجات کو چلائے.تو تحریک جدید کے لئے خود بھی چندہ دے سکتی ہے اور اپنے خاوند سے بھی کہہ سکتی ہے کہ تم اپنے چندہ کے معیار کو بڑھاؤ.بچوں کو بھی آمادہ کر سکتی ہے.پس بلجنات اماءاللہ کا بہت بڑا کام ہے.تحریک جدید کے سلسلہ میں کہ وہ جائزہ لیتی رہیں.کہ ان کے شہر یا قصبہ یا گاؤں کی کتنی عورتیں تحریک جدید میں شامل ہیں جو شامل نہیں اگر ان کی حیثیت شامل ہونے کی ہے تو ان کو اس تحریک کی اہمیت واضح کر کے شامل ہونے پر آمادہ کیا جائے.جتنی حیثیت ہے اور انہوں نے وعدہ کم لکھوایا ہے ان کو تحریک جدید کے کام کی وسعت بتا کر ان کو تحریک کی جائے کہ وعدہ بڑھائیں.جنہوں نے وعدہ کیا ہوا ہے لیکن ابھی تک ادا نہیں کیا.ان کو ادائیگی کی طرف توجہ دلائیں.تحریک جدید کا ادائیگی کے لحاظ سے سال ختم ہونے والا ہے اور وعدوں کے لحاظ سے نئے سال کا آغاز ہو چکا ہے.وعدے لینے کرنے میں بھی مقامی سیکرٹریان تحریک جدید کی مدد کریں اور وصولی میں بھی.دفتر لجنہ مرکز یہ کوبھی اپنی مساعی سے اطلاع دیں.مصباح نومبر 1968

Page 779

761 چندہ وقف جدید اور ناصرات الاحمدیہ احمدی بچوں کی کتنی خوش قسمتی ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک قومی ذمہ داری ان پر ڈالی ہے.یہ ذمہ داری جس کا نام ” چندہ وقف جدید ہے کا پورا کرنا.جس طرح اطفال الاحمدیہ کا کام ہے اسی طرح ” ناصرات الاحمدیہ کا بھی.ماہ اکتوبر کے شروع میں حضرت خلیفہ امسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں آپ نے فرمایا کہ ابھی تک صرف گیارہ ہزار روپے اس سال جمع ہوئے ہیں.حالانکہ اس کا بجٹ پچاس ہزار روپے مقرر کیا تھا.اس لئے میں تمام لجات مام لالہ کو توجہ دلانا اپنا فرض سمجھتی ہوں.ناصرات الاحمدیہ لجنہ اماء الہ کا ایک شعبہ ہے جس میں شمولیت کی عمر سات سال سے پندرہ سال تک ہے.ہر لجنہ اماءاللہ کی عہدہ داروں کا فرض ہے خواہ وہ شہر کی ہو، قصبہ کی یا گاؤں کی.1.اپنے ہاں ناصرات کا قیام کریں.اگر تنظیم نامکمل ہوئی تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تحریک پر صحیح طور لبیک نہیں کہہ سکیں گی.2.ہر سات سے پندرہ سال کی عمر کو نا صرات میں شامل کیا جائے.مائیں بھی عہدہ داروں کے ساتھ تعاون کریں.3- ناصرات کی ہر مبر کو چندہ وقف جدید کی اہمیت واضح کی جائے اور حضرت خلیہ اسی بید اللہ تعالی کی اطاعت کا جذبہ پیدا کیا جائے.4.ان پر واضح کیا جائے کہ اس چندہ کا بوجھ بہر حال آپ نے اٹھانا ہے.5 حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہر بچہ خواہ لڑکا ہو یا لڑ کی آٹھ آنے ماہوار اس میں چندہ دے یا چھ روپے سالانہ..جو بچے آٹھ آنے ماہوار اس میں حصہ نہیں لے سکتے وہ دو یا تین بچیاں مل کر اس چندہ کو پورا کریں.7.ہر لجنہ اپنی ناصرات کا یہ چندہ ماہانہ اکٹھا کر کے بھجوائے.لیکن ساتھ وضاحت کر دے.کہ یہ ناصرات الاحمدیہ کا وقف جدید کا چندہ ہے.بعض لجنات کی طرف سے وقف جدید کا چندہ آتا تو ہے.مگر یہ

Page 780

762 واضح نہیں ہوتا کہ یہ چندہ مستورات کی طرف سے ہے یا نا صرات کی طرف سے.8.ہر لجنه دفتر لجنہ مرکزیہ کو اطلاع دے کہ یکم جنوری 1968 ء سے اب تک وہ کتنا چندہ وقف جدید کا ادا کر چکی ہے اور کہاں ادا کیا ہے.یعنی مقامی سیکرٹری مال کو براہ راست یا دفتر جدید کو یا دفتر لجنہ اماء الله مرکز یہ کوتا اس کو چیک کیا جاسکے.اس تحریک کی اہمیت کے متعلق خود حضرت خلیفہ المسح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :.اگر تمام احمدی بچے جو آپ کی گودوں میں پلتے ہیں تمام احمدی بچے جن کی تربیت کی ذمہ داری آپ پر ہے.اس طرف متوجہ ہوں.اگر آپ ان کی ذہنی تربیت اس رنگ میں کریں.کہ وہ کم از کم اٹھنی ماہوار خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف جدید کے کاموں کے لئے خود جماعت کو پیش کریں.تو میں سمجھتا ہوں کہ وقف جدید کا سارا بجٹ ان بچوں کے چندوں سے پورا ہوسکتا ہے.لیکن اس طرف پوری توجہ کی ضرورت ہے.اور بچوں کے ذہنوں میں آپ وقف جدید کی اہمیت بٹھا نہیں سکتیں جب تک خود آپ کے ذہن میں وقف جدید کی اہمیت نہ بیٹھی ہو.“ تقریر 22 /اکتوبر 1966ء برموقعہ سالانہ اجتماع) خدا کرے کہ آپ بھی اور آپ کی بچیاں بھی حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خواہش اور آپ کی اطاعت کے معیار پر پوری اتریں.مصباح فروری 1969ء

Page 781

763 تحریک وقف عارضی اور احمدی مستورات مجلس شوری 1967ء کے موقعہ پر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ احمدی مستورات دو ہفتہ سے چھ ہفتہ تک قرآن ناظرہ اور باترجمہ پڑھانے کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں اور ان کو ان کے شہر میں ہی پڑھانے کے لئے لگایا جائے حضرت امیر المومنین نے اس تجویز کو از راہ شفقت پسند فرماتے ہوئے منظور فرما لیا تھا حضور کی منظوری کے بعد کچھ عورتوں نے اپنے آپ کو وقف بھی کیا اور جہاں جہاں دفتر وقف عارضی کی طرف سے ان کو لگایا گیا کام بھی کیا لیکن ابھی تک سب بہنوں نے اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ منظوری دے کر آپ پر ایک بہت بڑا احسان کیا.اور آپ کو خدمت دین اور خدمت قرآن کا ایک موقع عطا فرمایا تھا.لیکن ابھی تک اپنے نام پیش کرنے والیوں کے نام بہت کم ہیں.تمام لجنات کو چاہئے کہ اس تحریک کو اپنی نمبرات کے سامنے بار بار پیش کریں نام پیش کرنے کے لئے ایک فارم پر کرنا ہوتا ہے.جو دفتر مرکز یہ کولکھ کر منگوایا جا سکتا ہے.ہر شہر سے اتنی مستورات کے نام ہونے چاہئیں کہ دو ہفتہ وقف قائم کرتے ہوئے ان کے شہر میں تعلیم القرآن کا ایک تسلسل قائم رہے.اور ناغہ نہ ہو میں امید کرتی ہوں کہ ہر شہر قصبہ اور گاؤں کی وہ عورتیں جو قرآن کریم پڑھ سکتی ہیں ناظرہ باترجمہ وہ اپنے نام دو ہفتہ سے چھ ہفتہ تک کے لئے جتنا وقت دینا ان کے لئے آسان ہو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کریں.مصباح فروری 1969ء

Page 782

764 الوداعی تقریب مورخہ 21 ظہور 1969ء لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی زیر صدارت طالبات تعلیم القرآن کلاس کی الوداعی تقریب لجنہ ہال میں منعقد ہوئی.آخر میں آپ نے طالبات سے خطاب فرماتے ہوئے.انہیں نصیحت فرمائی کہ جو کچھ انہوں نے اس کلاس میں سیکھا ہے وہ صرف عادت ڈالنے کے لئے تھا.انہیں چاہئے کہ یہاں سے واپس جا کر قرآن شریف پڑھنے اور پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھیں.اور نہ صرف کلام پاک کو پڑھیں بلکہ اس کے معانی پر بھی غور کیں اور اس کے احکام پر خود بھی عمل کریں.اور دوسروں کو عمل کرنے کی ترغیب دیں.بیہودہ فیشن.بے راہ روی اور رسم ورواج کی لعنت کو دنیا سے مٹادیں.دین کی باتوں کو اپنا کر دوام عمل اور اپنے نیک نمونہ سے دنیا پر یہ ثابت کر دیں کہ اسلام کا خدا ایک زندہ خدا ہے.اور مذہب اسلام ایک زندہ مذہب ہے.آپ نے کامیاب ہونے والی طالبات کو انعامات اور سندات عطا فرمائیں.مصباح ستمبر 1969ء

Page 783

765 گھٹیالیاں ( ضلع سیالکوٹ ) میں احمدی مستورات کے ایک تربیتی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا آپ قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت اور تعلیم قرآن پر زور دیں کیونکہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض ہی یہی ہے کہ مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنایا جائے اور قرآن کریم اور اسلام کے نور کو ساری دنیا میں پھیلایا جائے اور ساری دنیا کو حبیب خدا حضرت محمد مصطفے ﷺ کی غلامی میں داخل کیا جائے تا کہ دنیا میں حقیقی اسلام کے قیام اور قرآنی انوار کے انتشار سے پائدار امن قائم ہو جائے اور مخلوق اپنے خالق حقیقی کو پہچان لے.حضرت سیدہ موصوفہ نے احمدی خواتین پر زور دیا کہ وہ اپنی اولادوں کی تربیت ایسے رنگ میں کریں کہ وہ اسلام اور احمدیت کے فدائی اور خدمت گزار و جان نثار ثابت ہوں ان کے قلوب میں اسلام ، بانی اسلام ﷺ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، خلفائے راشدین اور خلیفہ وقت کی محبت گھر کر جائے.آپ نے فرمایا کہ ہمیں ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد پر قائم رہنا چاہئے اور با ہم انتہائی اتحاد، محبت، یک جہتی اور صلح و آشتی سے رہنا چاہئے تا کہ خدمت و اشاعت دین کے عظیم الشان کام میں کوئی حرج واقعہ نہ ہو.اگر کبھی بدقسمتی سے کسی جماعت کے افراد میں کوئی وقتی اختلاف پیدا ہو بھی جائے تو اس کو دینی اور جماعتی کاموں میں حائل نہیں ہونے دینا چاہئے آپ نے بڑے درد بھرے لہجے میں فرمایا کہ آپ سب اپنے دلوں کے بغضوں اور کینوں اور دشمنوں کو ایمان کے پانی سے دھوڈالیں اور خدا تعالیٰ کی رضا و خوشنودی ، حضرت محمد مصطفی ﷺ کی محبت خلیفہ وقت کی اطاعت کی خاطر اور اسلام کی سربلندی اور غلبہ کی خاطر اپنے باہمی تنازعات و مناقشات کو ختم کر دیں اور ہمیشہ ہر حال میں رسول کریم ﷺ کے مبارک اُسوہ پر گامزن ہوں.کیونکہ ہر برکت و بھلائی کا منبع اور ہر کامیابی وسربلندی کا راز قرآن کریم کی تعلیمات کو مشعل راہ بنانے ، حضرت محمد رسول پاک ﷺ کے پاک نمونہ کو اپنانے اور خلیفہ وقت کی اطاعت کرنے میں مضمر ہے.ہماری زندگی اور موت اسلام اور ایمان پر آنی چاہئے آپ نے اسلام کے غلبہ کی خاطر مسلسل قربانیاں کرنے کی بھی تلقین فرمائی.مریم گرلز مڈل سکول گھٹیا لیاں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت سیدہ ممدوحہ نے فرمایا کہ

Page 784

766 اس سکول کے قیام کی ہماری غرض یہ نہیں کہ یہاں محض دنیوی تعلیم دی جائے.صرف دنیوی تعلیم کے لئے تو اور بھی بہت سے سکول موجود ہیں ہماری غرض اس سکول کے قیام سے یہ ہے کہ یہاں دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن کریم ، حدیث نبوی اور اسلام کے بنیادی مسائل کی تعلیم بھی دی جائے.آپ نے گھٹیالیاں اور گردو نواح کے دیہات کی خواتین کو توجہ دلائی کہ وہ اس سکول کو چلانے اسے کامیاب بنانے کے لئے ہر طرح کا تعاون کریں اور اپنی بچیوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں یہاں تعلیم کے لئے بھجوائیں.حضرت سیدہ موصوفہ نے مزید فرمایا کہ ہم بجٹ کی گنجائش کے مطابق ہر سال کچھ نہ کچھ روپیہ اس سکول کے لئے بھجواتے رہیں گے لیکن اس گاؤں اور علاقہ کے لوگوں کو اس کی مالی مدد کی طرف توجہ کرنی چاہئے تا کہ سکول کامیابی سے چلتا ر ہے اور آپ کی بچیاں زیور تعلیم سے آراستہ ہوتی رہیں.الفضل 20 نومبر 1969ء

Page 785

767 مجلس دینیات جامعہ نصرت ربوہ سے صدر صاحبہ لجنہ مرکز یہ کا اہم خطاب دینیات کے امتحان میں اول آنے والی طالبہ کے لئے نصرت جہاں میڈل کے اجراء کا اعلان سال رواں مجلس و بینیات کے تحت ایک اہم اجلاس منعقد کیا گیا اس اجلاس کی سب سے بڑی غرض وہ انعام تقسیم کرنا تھے جو حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے جامعہ نصرت کی طالبات کے لئے مقرر کیا گیا تھا.جلسہ تقسیم اسناد 1968ء کے موقع پر حضور ایدہ اللہ نے فرمایا تھا.آئندہ سال جو طالبہ قرآن مجید اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے امتحان میں اول آئے گی میری طرف سے اس کو سال بھر کی ٹیوشن فیس بطور انعام دی جائے گی.“ چنانچہ دوران سال طالبات نے حضور کے اس ارشاد کو اپنا مطمع نظر بنائے رکھا.اور خدا کے فضل واحسان سے جامعہ نصرت کی تمام کلاسز نے وہ انعام حاصل کر لیا.66 حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے طالبات جامعہ نصرت کو نہایت ہی قیمتی نصائح سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ مجھے مجلس دینیات جامعہ نصرت کی رپورٹ سن کر بہت خوشی ہوئی ہے اس مجلس کا قدم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کی طرف ہے آج کا جلسہ بہت ہی اہم ہے کیونکہ اس کی غرض وہ انعام تقسیم کرنا ہے جو حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جامعہ نصرت کی طالبات کے لئے مقرر فرمایا تھا سو الحمد للہ خدا کے فضل سے کالج کی چاروں کلاسز نے وہ انعام حاصل کیا.میں طالبات، پرنسپل جامعہ نصرت اور اساتذہ کو مبارکباد دیتی ہوں اور آئندہ کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھنے کی تلقین کرتی ہوں اور امید رکھتی ہوں کہ طالبات فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ کو مد نظر رکھتے ہوئے آئندہ سال بھی اس انعام کو حاصل کرنے کی پوری پوری کوشش کریں گی.اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا میں بارہا کہتی رہی ہوں کہ اس کالج کی طالبہ کی اصل غرض دینی تعلیم حاصل کرنا ہے.اگر صرف کتابیں رٹ لینا انعام حاصل کرنا ہی مقصد ہو تو کیا فائدہ.آپ قرآن مجید پڑھتی ہیں اس کی غرض صرف پڑھنا ہی نہیں بلکہ اس کا مقصد ہے کہ پڑھنے کے بعد اس پر عمل بھی کیا جاوے اگر قرآنی احکامات پر آپ کا عمل نہ ہو تو قرآن مجید پڑھنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں.

Page 786

768 الله قرآن میں کہیں بھی صرف ایمان کا ذکر نہیں.ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کا بھی ذکر ہے ایمان کا بیج بڑھتا نہیں جب تک اعمال صالحہ کا پانی ساتھ نہ ہو پس پیاری بچیو قرآن مجید کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے عمل بھی قرآن کے مطابق بناؤ.آپ نے اس کالج میں دینیات کو محض مضمون کے طور پر نہیں پڑھنا.بلکہ آپ میں سے ہر ایک طالبہ کا فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی کا جائزہ لے کہ جو کچھ اس نے قرآن مجید میں پڑھا ہے ہماری زندگی کا ہر عمل اس کے مطابق بھی ہے یا نہیں.آپ میں سے ہر ایک طالبہ قرآن مجید کے کسی ایک حکم کو بھی ٹالنے والی نہ ہو.میری عزیز بچیو! آنحضرت ﷺ نے قرآن مجید کی عملی تصویر کو اپنے اعمال سے ظاہر کر دیا.کیا ازدواجی زندگی اور کیا دوستوں دشمنوں سے سلوک، جنگوں کے اصول ، غرض آپ کی تمام زندگی قرآنی احکام کے عین مطابق نظر آتی ہے.پس آنحضرت ﷺ نے قرآن کے ہر حکم پر عمل کر کے دکھا دیا.تا آپ کے ماننے والے آپ کی تقلید میں اپنی زندگیاں اس طرح گزاریں.اسلام پہلا مذہب ہے جس نے رواداری کا حکم دیا ہے.آپ نے فرمایا تم مشرکوں کے بتوں کو برا نہ کہو اس کے جواب میں وہ تمہارے معبود کو برا بھلا کہیں گے.کتنا اچھا اور دل میں گڑنے والا اصول ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ یعنی اپنی تعلیم کو دوسروں تک پہنچانے کا حکم دیا.پس آپ بھی اپنے قول اور عمل سے دنیا کو اپنے رب کی طرف بلائے.ایسی دلیل پیش کیجئے جو ان کی دلیل سے زیادہ اچھی ہو ایسا عمل دکھائیے جو ان کے عمل سے زیادہ احسن ہو اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی اصلاح کی توفیق بخشے.آمین آخر میں آپ نے فرمایا کہ جس طرح یو نیورسٹی میں ایف اے، بی اے کے سالانہ امتحانات میں اوّل آنے والی طالبہ کو میڈل دیا جاتا ہے اس طرح آئندہ سال سے جامعہ نصرت کی جو طالبہ دینیات کے نظارت کے امتحان میں اول آئے گی اسے لجنہ مرکزیہ کی طرف سے نصرت جہاں میڈل دیا جائے گا.انشاء اللہ نیز آپ نے فرمایا کہ جامعہ نصرت کی اصل غرض دینیات سکھانا ہے اس لئے کالج میں سب سے مقدم دینیات کا مضمون ہے باقی مضامین کو ثانوی حیثیت حاصل ہے.پس کالج میں دینیات کی صدر کو وہی حیثیت حاصل ہونی چاہیے جو یونین کی صدر ہیڈ گرل اور کالج کونسل کو حاصل ہوتی ہے.نیز مجلس دینیات کی صدر کے انتخابات کے لئے ضروری نہیں کہ باقی مجالس کی طرح Convessing ہو بلکہ اس طالبہ کو یہ اعزاز ملنا چاہئے جو نہ صرف علم دینیات میں دسترس رکھتی ہو بلکہ اس کا عمل اس کی چال ڈھال بھی قرآن کے مطابق ہو اس سلسلے میں پرنسپل صاحبہ اور سٹاف کی رائے بھی شامل ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق بخشے.آمین اللہم آمین الفضل 8 مارچ 1970

Page 787

769 لجنہ اماءاللہ جامعہ نصرت ربوہ سے خطاب لجنہ جامعہ نصرت ربوہ کے زیر انتظام تعلیم القرآن کے تحت ایک ضروری جلسہ زیر صدارت حضرت سیدہ ام متین مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ مرکز یہ منعقد کیا گیا.آپ نے ممبرات لجنہ جامعہ نصرت کو بیش قیمت نصائح فرما ئیں آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اس اجلاس کی غرض یہ ہے کہ ہماری بچیوں کے دلوں میں قرآن مجید کی عزت اور اس پر عمل کا شوق پیدا ہو.اعمال صالحہ کی طرف توجہ دلانا اور نفوس کو پاک کرنا ہر نبی کی غرض تھی.لیکن مشکل یہ ہے کہ بہت سے ذہنوں میں یہ چیز نشو ونما پا چکی ہے کہ قرآن مجید کا سمجھنا بہت مشکل ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے کہ ہم نے اسے تمہارے لئے آسان بنایا ہے عمل کے لحاظ سے بھی اور غور وفکر کرنے اور یاد کرنے کے لحاظ سے بھی.اس کا کوئی حکم انسانی فطرت کے خلاف نہیں.اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ قرآن مجید کا علم اور اس کی سمجھ انہیں لوگوں کو دی جاتی ہے جو پاک دل ہوں یعنی قرآن مجید کے پر دے وہی اٹھا سکتا ہے جو متقی ہو جیسا کہ اللہ فرماتا ہے لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعه : 80) آنحضرت ﷺ نے فرمایا: - خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ(بخاری کتاب فضائل القرآن) پھر فرمایا قرآن پڑھنے اور پڑھانے والے عزت پائیں گے.پس ہمارا کام صرف رشا نہ ہو بلکہ یہ نیت ہو کہ علوم سمجھنا ہیں جن باتوں سے روکا گیا ہے ان سے باز رہنا ہے تب ہماری زندگیاں قرآن کے مطابق ڈھل سکتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود نیز حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے قرآن کی تعلیم پر بہت ہی زور دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.” تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اس میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.“ کشتی نوح صفحه 13 آخر میں آپ نے فرمایا کہ جس طرح لحد اماءاللہ کی مستحق کو کپڑے بنا کر دینا اپنا فرض بجھتی ہے کسی کی نقدی سے مدد کرتی ہے اسی طرح میں لجنہ جامعہ نصرت کی عہدیداران کو اس امر کی طرف توجہ دلاتی ہوں کہ

Page 788

6 770 → وہ کالج کی تمام طالبات کا جائزہ لیں کہ آیا ہر بچی کے پاس تفسیر صغیر ہے یا نہیں اور جو طالبات باوجود شوق رکھنے کے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتیں.لجنہ جامعہ نصرت اپنے فنڈ سے خرید کر دے.اگر وہ نصف قیمت ادا کر سکیں تو بھی اور اگر وہ بالکل نہ دے سکیں تو بھی ان کو ضرور مہیا کر کے دیں.نیز آپ نے فرمایا میں خود وعدہ کرتی ہوں کہ میں ذاتی طور پر بھی مستحق طالبات کو تفسیر صغیر مہیا کر کے دوں گی.یہ امر اس لئے بھی ضروری ہے تا کوئی طالبہ صرف اس لئے تفسیر قرآن کے علم سے محروم نہ رہ جائے کہ اس کے پاس تفسیر نہ تھی.پس میں امید کرتی ہوں کہ جلد سے جلد محترمہ پرنسپل صاحبہ اور متعلقہ شاف اس امر کی طرف توجہ دیں گے.اس کے بعد آپ نے سترہ آیات کی سندات طالبات سٹاف اور پرنسپل صاحبہ کو عنایت فرما ئیں.دعا کے بعد اجلاس کی کارروائی اختتام پذیر ہوئی.الفضل 27 مارچ 1970ء )

Page 789

6 771 لائل پور میں احمدی مستورات سے اہم خطاب اور قیمتی نصائح حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماء الله مرکز یہ مع صاحبزادی امتہ المتین سلمها اللہ تعالیٰ مورخہ 12 اپریل 1970ء کو صدر کے انتخاب کی غرض سے لائل پور تشریف لے گئیں یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اس موقع پر حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ نے بھی سیدہ محترمہ صدر صاحبہ کے ہمراہ لجنہ لائل پور کے اس جلسہ کو رونق بخشی.حضرت سیدہ صاحبہ صدر لجنہ مرکزیہ نے بہنوں کو مختصر مگر جامع و پر مغز نصائح فرما ئیں آپ نے احمدیت کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری اصل غرض یہ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے سچے عبد بنیں اور پھر کامل نظام اور کامل ضابطہ حیات جو حضرت رسول کریم ﷺ نے قرآن کریم کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اسے ساری دنیا میں رائج کرنے کے لئے ہر طرح کی قربانیاں، مال، وقت، جان اور اولاد کی دیں.ہم صرف اور صرف قرآن مجید کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی دنیا میں ترقی کر سکتے ہیں جیسا کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے.قربانیوں کے سلسلے میں آپ نے فرمایا کہ جس وقت مطالبہ کیا جائے اس وقت دینا ہمارا فرض ہے اور خلیفہ وقت کی اطاعت کرنا ہمارا اولین فرض ہے.سچا مومن وہی ہے جو ہر مطالبہ پر سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کہے.لجنہ کی عہدیداران کو نصائح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ جو شخص بھی کسی عہدہ پر قائم ہوتا ہے اسے دوسروں کے اعتراضات بھی سننے پڑتے ہیں لیکن آپ کو حضرت رسول کریم ﷺ کے فرمان سيِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُهُمُ کو سامنے رکھتے ہوئے لجنہ کی خدمت کی خاطر اپنے نفس کی قربانی دیتے ہوئے انہیں برداشت کرنا پڑے گا.اللہ تعالیٰ جسے کوئی عزت دیتا ہے تو اسی کی نسبت سے بھاری ذمہ داری بھی اس پر عائد ہو جاتی ہے لہذا آپ کو جس حلقہ کی صدارت کا عہدہ دیا جاتا ہے تو حقیقت میں آپ ان کی خادم ہیں.ممبرات کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ جب تک آپ ان عہدیداران سے تعاون نہ کریں ہر کام میں ان کی مدد نہ کریں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ ہمارا کام کسی ایک بہن کے کرنے کا نہیں.

Page 790

772 ہر احمدی خاتون جس احمدی گھرانہ میں پیدا ہوئی اس کا کام ہے کہ وہ شب و روز یہ کوشش کرے کہ ہم نے ایسے کام کرنے ہیں جن سے ساری دنیا میں ایک خدا کی حکومت قائم ہو.اور دنیا آنحضرت ے کی غلامی میں داخل ہو.اپنی زندگیاں قال اللہ اور قال الرسول کے مطابق بنانا ہمارا کام ہے.اور جیسا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا فرمان ہے کہ ہر پیدائشی احمدی کو حقیقی احمدی بنانا ہی ہمارا اولین فرض ہے.الفضل مورخہ 18 اپریل 1970ء

Page 791

6773 جلسہ تقسیم انعامات فضل عمر جونئیر ماڈل سکول ربوہ 7 مئی 1970 کو فضل عمر جونیر ماڈل سکول میں مسٹر قدیر ارشاد صاحبہ ہیڈ مسٹریس کی طرف سے سالانہ رپورٹ پیش کرنے کے بعد حضرت چھوٹی آپا صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے بچوں سے خطاب فرمایا اور تمام انعام حاصل کرنے والے بچوں کو مبارک باد دی.اور ان سے امید ظاہر کی کہ آئندہ وہ اپنی کوششوں اور ہمتوں کو بلند کرتے ہوئے اس سے بھی بڑھ کر کامیابیاں حاصل کرنے کی کوشش کریں گے.کیونکہ تربیت کے بغیر تعلیم حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں.اگر سکول میں پڑھنے والے بچوں کا دوسرے سکول کے بچوں سے تعلیم وتربیت کے لحاظ سے نمایاں فرق نہ ہو تو پھر الگ الگ سکول کھول کر اس پر خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا.نیز آپ نے بچوں کی ماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت میں ماؤں کے تعاون کا بھی بہت بڑا دخل ہے.ماؤں کو اپنے بچوں کی کمزوریوں کا علم ہوتا ہے.وہ ان کمزوریوں کو چھپانے کی کوشش نہ کریں.بلکہ خود بھی اصلاح کریں.اور استادوں سے بھی مشورہ کریں.نیز اگر ماؤں کو استانیوں کے متعلق کسی قسم کی شکایت ہو تو اس کی ہر محفل میں تشہیر کی بجائے وہ شکایت لکھ کر مجھے بھجوائیں تا اس کا ازالہ کیا جا سکے.غیر متعلق لوگوں سے اس کا ذکر نا مناسب اور بے فائدہ ہے.آخر میں آپ نے فرمایا خدا کرے اس سکول سے فارغ التحصیل بچے بڑے ہو کر دینی و دنیوی ترقیات حاصل کریں.اور اسلام کے سچے خادم بنیں.صفائی پسند.دیانتدار اور سچ بولنے والے محنتی مستقل مزاج اور جفاکش ہوں.امین مصباح ستمبر 1970 ء

Page 792

774 لاہور میں لجنہ اماءاللہ کے سالانہ تربیتی اجتماع سے خطاب مورخہ 3-14 اکتوبر کو لجنہ اماءاللہ لا ہور کا سالانہ تربیتی اجتماع دارالذکر میں کامیابی کے ساتھ منعقد ہوا جس میں لا ہور کے تمام حلقہ جات کے علاوہ ضلع لاہور کی لجنہ کی چند ممبرات نے بھی شرکت کی حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے بھی از راہ نوازش ربوہ سے لاہور تشریف لا کر اس اجتماع میں شمولیت فرمائی.اجتماع کا پہلا دن 3 اکتوبر ناصرات احمدیہ کے پروگرام کے لئے مخصوص تھا.آپ نے ناصرات سے خطاب میں فرمایا کہ لاہور کی تین احمدی بچیوں نے ایک سال میں پورے قرآن پاک کا ترجمہ سیکھ لیا ہے.درحقیقت ہمارا سب سے ضروری اور اہم پروگرام قرآن کریم سیکھنے کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے انہیں چاہیے کہ وہ اپنے والدین استادوں اور عہدیداروں کی پوری پوری فرمانبرداری کریں اور اپنے لباس میں اور اپنے رہن میں بھی اسلامی شعار کو اختیار کریں تا کہ جب وہ بڑی ہو کر لجنہ میں شامل ہوں تو وہ احمدیت اور اسلام کا نمونہ ہوں اور لجنہ کی ذمہ داریوں کو پوری طرح سنبھال سکیں.خطاب ممبرات لجنہ اماءاللہ لاہور حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے لجنہ سے ایک مؤثر خطاب فرمایا جس میں آپ نے سپاسنامے کا جواب دینے کے بعد قرآن کریم سیکھنے اور اسلامی تمدن اختیار کرنے کی اہمیت واضح کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ ہمیں حضرت رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کے پاک نمونہ کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے قرآن کریم سیکھنا ہمارے پروگرام کا اہم ترین حصہ ہے اس کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے تا کہ ہم میں کوئی ایسی عورت نہ رہے جو قرآن کریم نہ جانتی ہو اور بڑی حد تک اس کے ترجمہ اور اس کے مفہوم سے واقف نہ ہو.اس سلسلہ میں آپ نے ناصرات کی طرف بھی خاص توجہ کرنے کی نصیحت فرمائی کیونکہ اگر بنیاد ہی مضبوط نہ ہو تو اس پر عمارت کس طرح استوار ہوسکتی ہے.آپ نے فرمایا بچوں کی تربیت کی بھاری ذمہ داری والدین پر بھی عائد ہوتی ہے اگر وہ کوشش کریں تو بچے آسانی سے دین کے بنیادی مسائل سے واقف ہو سکتے ہیں اور ناصرات بڑی ہو کر لجنہ کی ذمہ داریوں کو

Page 793

775 بخوبی سنبھال سکتی ہیں.آپ نے فرمایا بچہ فطرتا نیک ہوتا ہے یہ کام ماں باپ کا ہوتا ہے کہ وہ ان کی اس نیکی کو برے ماحول کے اثر سے ضائع نہ ہونے دیں لباس اور رہن سہن کے بارے میں بھی اسلامی شعار کی ہمیں پابندی کرنی چاہئے بڑوں کا نمونہ ایسا نیک ہونا چاہئے جسے دیکھ کر بچے خود بخو داثر قبول کریں.الفضل 120اکتوبر 1970ء

Page 794

776 شیخو پورہ میں اجتماع ممبرات لجنہ اماءاللہ 15اکتوبر کولجنہ اماءاللہ شیخو پورہ کا سالانہ تربیتی اجتماع منعقد ہوا.آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ شیخو پورہ کی لجنہ پرانی لجنہ ہے اس کا کام کسی زمانہ میں بڑا اچھا رہا ہے لیکن چونکہ نئی کارکن تیار نہیں کی گئیں اس لئے کام کا معیار برقرار نہ رہ سکا.آپ نے باہمی اتحاد ویگانگت محبت تعلیم القرآن اور تربیت اولاد کی اہمیت کو واضح فرمایا اور اس سلسلے میں سالانہ مرکزی تربیتی کلاس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جو بچیاں اس میں شامل ہوتی ہیں ان میں دینی علوم سیکھنے کا ایسا شوق پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ پھر ہر سال التزام کے ساتھ اس میں شامل ہونے کی زبر دست خواہش رکھتی ہیں.آپ نے اپنی عملی زندگیوں کو اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے اور ناصرات کی تربیت کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی تا کہ جس عظیم الشان کام کے لئے ہماری جماعت کو قائم کیا گیا ہے وہ پورا ہو سکے.الفضل 20اکتوبر 1970ء

Page 795

777 جامعہ نصرت میں تقریب یوم الامهات 8 مارچ 1971 ء بروز سوموار جامعہ نصرت میں یوم الامہات کی تقریب زیر صدارت ڈائر یکٹرس (Directress) جامعہ نصرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالیٰ منعقد ہوئی.صدارتی خطاب میں آپ نے بیش بہا نصائح سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ:.آج ہم اس لئے یہاں جمع ہوئے ہیں کہ اساتذہ اور مائیں با ہمی تعاون سے بچوں کے تعلیمی نقائص اور کردار کی خامیوں کا جائزہ لے کر ان کی اصلاح کی تدابیر سوچیں سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ تہذیب کے برے اثرات اور بے راہ روی سے اپنے بچوں کو بچایا جائے.درحقیقت یہی اہم ترین مسئلہ ہے جس کے متعلق ہم سب کو سوچ کر اصلاحی اور عملی قدم اٹھانا چاہئے.بیشتر اس کے کہ موجودہ تہذیب کے برے اثرات کی آگ جو ہمارے ارد گر د بھڑک رہی ہے اس کے شعلے ہمیں گھیر لیں ہمیں چاہئے کہ اس آگ سے بچنے کے لئے اعلیٰ اقدار، دینی تعلیم ، اچھی تربیت، دین سے محبت اور قرآن مجید سے محبت کا ایک ایسا حصار اپنے ارد گرد کھینچ لیں کہ وہ آگ جب ہمیں چھونے لگے تو خود بخود بجھ جائے اور ہم پر کوئی اثر نہ کر سکے.الفضل 31 مارچ 1971ء

Page 796

778 13 فروری 1971ء کو حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے دینیات سوسائٹی جامعہ نصرت کی ایک میٹنگ میں طالبات کو نصیحت فرمائی که قرآن مجید اور دوسری دینی کتب کا مطالعہ ضرور کیا کریں.کیونکہ دور حاضر کا لٹریچر کم عمر ذ ہنوں پر برے رنگ میں اثر انداز ہو سکتا ہے.خدا تعالیٰ سے ہر وقت دعا گو رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر شر سے محفوظ رکھے اور اس زمانہ کے بداثرات سے بچائے.آپ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کا یہ دستور تھا کہ تینوں قل پڑھ کر پھونک مار کرسویا کرتے تھے.ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ یہ طریق اپنائے کیونکہ اس طرح انسان کو بڑا سکون ملتا ہے.مصباح جون 1971ء

Page 797

779 خطاب ممبرات لجنہ گوکھو وال ضلع فیصل آباد تشہد، تعوذ کے بعد فرمایا:.آنحضرت ﷺ کواللہ تعالیٰ نے دنیا میں کامل استاد بنا کر بھیجا.اور آپ کو مساوات کی تعلیم عطا کی.آپ نے فرمایا بحیثیت انسان سب برابر ہیں کسی کو کسی پر کوئی ترجیح نہیں.مسلمانوں کو آج بھی ترقی کی راہوں پر گامزن ہونے کے لئے اسی تعلیم پر عمل پیرا ہونا چاہئے.آپ نے فرمایا جہاں مساوات پر عمل مسلمانوں کے لئے ضروری ہے.وہاں تنظیم اور اتحاد بھی ان میں قائم ہونا چاہئے.آپ نے فرمایا کہ مایا کنگھی کی مثال لے لو.اگر اس کا ایک دندانہ ٹوٹ جائے تو وہ بیکار ہو جاتی ہے.اسی طرح جب تک مسلمانوں میں تنظیم اور اتحاد قائم رہے گا وہ مضبوط رہیں گے.آپ نے فرمایا کہ ہمارے آقا محمد مصطفی ﷺ کی سچی پیروی سے ہی خدا ملتا ہے.اور ہمیں دنیا کو اسلام سکھانے کے لئے دو باتوں کی اشد ضرورت ہے.اول قرآن مجید پڑھنا.دوم اس پر عمل کر کے دنیا کو دکھانا.قرآن کریم پڑھنا اور اس کے مطالب جاننا از حد ضروری ہے جب تک ہمیں مطلب نہیں آئے گا.ہم کس طرح جان سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کن باتوں کے کرنے کا حکم دیا ہے.اور کن باتوں کے کرنے سے روکا ہے.آپ نے فرمایا کہ اگر کسی ان پڑھ عورت کے رشتہ دار کا خط آتا ہے تو وہ کئی کئی بار خط کو دوسروں سے پڑھوا کر سنتی ہے کہ کہیں کوئی بات رہ تو نہیں گئی.تو یہ خط اللہ تعالیٰ نے بندوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے.یعنی قرآن کریم اس کے پڑھنے اس کے سننے اور سیکھنے کے لئے تو بہت توجہ بہت محنت اور بہت کوشش کی ضرورت ہے.آپ نے فرمایا کہ آج ہمارا سب سے بڑا فرض حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق یہی ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کے دلوں میں قرآن کریم کا پیار اس طرح رچائیں کہ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے سفر اور حضر ہر جگہ وہ قرآن کریم کا ورد کرنے والے ہوں.آیئے ہم عہد کریں کہ جن کو قرآن کریم ناظرہ نہیں آتا ان کو ناظرہ سکھائیں گے جن کو ناظرہ آتا ہے ان کی توجہ ترجمہ کی طرف پھیر دیں گے اور جن کو ترجمہ آتا ہے.انہیں تغییر سکھانے کی کوشش کریں گے.خود بھی سیکھیں گے اور دوسروں کو بھی سکھائیں گے.آپ نے فرمایا موجودہ دور میں بے راہ روی اور مغرب زدگی کے بڑھتے ہوئے بُرے اثرات سے اپنے بچوں کو بچانے کے لئے قرآن کریم خود سیکھنا اور ان کو سکھانا بہت ضروری ہے.بہنوں نے تاریخ اسلام

Page 798

780 پڑھی ہو گی ان کو معلوم ہوگا کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت عربوں میں ہر برائی پائی جاتی تھی.شراب وہ پیتے تھے، جوا وہ کھیلتے تھے.جھوٹ ، بد دیانتی اور چوری ان میں تھی مگر قرآن کریم نے ان کو خدا نما انسان بنا دیا اور پھر وہی انسان دنیا کے استاد مقرر کئے گئے.ذمہ داری آج ہماری ہے اور ہماری لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کا بھی یہی مقصد ہے.آخر میں آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی آپ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.مصباح مارچ 1971ء

Page 799

781 نیا سال نیا عزم" نیا سال شروع ہو گیا ہے.ہر احمدی خاتون، ہر احمدی بچی اور لجنہ اماءاللہ کی ہر مبر وعہدہ دار کو نئے عزم وخلوص اور محنت سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہئے اور اپنے پروگراموں میں مندرجہ ذیل امور کو مد نظر رکھنا چاہئے.عورت قوم کی تعمیر میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے.اپنے بچوں اور بچیوں کے دل میں اسلام اور وطن سے محبت پیدا کریں تا وہ ہر قربانی دینے کیلئے ہر وقت تیار رہیں.تحریک جدید کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو سادہ بنائیں.حالیہ جنگ کے نتیجہ میں بہت سے علاقے متاثر ہوئے ہیں جس کے نتیجہ میں چندہ میں نمایاں کمی آئی ہے.آپ نے متفقہ کوششوں کے نتیجہ میں اس کمی کو دور کرنا ہے.تا وہ کام جو ہم نے شروع کئے ہوئے ہیں وہ اپنے وقت پر پورے ہوں.ہر ممبر لجنہ اماء اللہ اپنے چندہ ممبری تجریک جدید چندہ ناصرات الاحمدیہ، چندہ وقف جدید ناصرات اور چندہ سائنس بلاک میں اتنا اضافہ کرے جس سے وہ کمی پوری ہو جائے اور دوسرے جماعتی اور قومی چندے بھی متاثر نہ ہوں.نئے سال سے قرآن مجید کی تعلیم اور اس کی روشنی میں اپنے اخلاق کردار اور زندگی کو سنوارنے پر بہت زور دیا جائے.جب تک آپ ہر عورت اور ہر بچی کو ترجمہ قرآن مجید سے واقف نہیں کرواتیں.وہ اپنی زندگی کے نصب العین سے واقف نہیں ہو سکتی.اور نہ ہی اس کے دل میں اللہ تعالیٰ ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن اور اسلام سے سچا عشق پیدا ہو سکتا ہے.جس کے نتیجہ میں انسان بڑی سے بڑی قربانی دینے کیلئے تیار ہو جاتا ہے.نئے سال سے ہر لجنہ اماءاللہ اپی تنظیم کا جائزہ لے کہ سب احمدی مستورات لجنہ کی تنظیم میں شامل ہیں یا نہیں؟ ہر جگہ ناصرات کی تنظیم قائم ہے یا نہیں.ہر ممبر لجنہ اماءاللہ چندہ دیتی ہے یا نہیں.ہر نا صرات الاحمدیہ چندہ وقف جدید میں حصہ لیتی ہے یا نہیں.جو بہنیں اور بچیاں قرآن مجید ناظرہ یا ترجمہ نہیں جانتیں ان کی تعلیم قرآن مجید کا انتظام کریں.اور لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کو با قاعدگی سے رپورٹ بھجوایا کریں.جو لجنات رپورٹ بھیجوانے میں ستی سے کام لیتی ہیں.ان کا مرکزی لجنہ سے تعلق کمزور پڑ جاتا ہے.جس کے نتیجہ میں

Page 800

وہ لجنہ بھی کمزور پڑ جاتی ہے.782 اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے مذہب ملک اور قوم کی خاطر زیادہ سے زیادہ قربانیاں دیتی چلی جائیں.الفضل 5 جنوری 1972

Page 801

783 الوداعی خطاب طالبات تعلیم القرآن کلاس 1972ء حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کا جماعت پر یہ ایک عظیم الشان احسان ہے کہ جماعت کے بچوں اور بچیوں کی دینی تعلیم کے لئے حضور نے ہر سال اس کلاس کے انعقاد کا انتظام فرمایا اور بچیوں کی حوصلہ افزائی اور دلداری فرماتے ہوئے آپ گرمی میں سفر کرتے ہوئے ان سے ملنے اور افتتاح کی غرض سے تشریف لاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض احیاء دین اور قیام شریعت تھا.شریعت کا قیام قرآن مجید کے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے سے ہی ہو سکتا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء نے تمام زندگی قرآن مجید کے نور سے دنیا کو منور کرنے میں گزاری.اس کلاس سے آپ طالبات نے بہت فائدہ اٹھایا ہے.قرآن مجید حدیث فقہ کے مسائل سیکھنے کے علاوہ آپس میں مل کر باہمی تعاون و اتحاد نظم وضبط کی عادت پڑی ہے.اور اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ اس کلاس میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی تعمیل میں یہاں حاضر ہوئی ہیں اور یہی اسلامی تعلیم کا محور ہے کہ اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَأُولِى الأمرِ مِنْكُمُ (النساء (60) اطاعت کا یہی جذ بہ آپ دوسروں میں پیدا کرنے کی کوشش کریں تا آئندہ آپ کے ذریعہ اس سے بہت زیادہ تعداد میں بچیاں یہاں آئیں.آمین.“ الفضل 26 اگست 1972 ء

Page 801