Language: UR
خطاب المسيح یدنا حضرت خلیفتہ مسیح الخامس ایده برموقعه ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ سالانہ برطانیہ 1 /اگست 2010ء شائع کردہ نظارت نشر واشاعت قادیان
نام کتاب خطاب سید نا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بر موقع جلسہ سالانہ برطانیہ 1 / اگست 2010 تعداد سن اشاعت شائع کرده مطبع ISBN 10,000 : : مئی 2011ء : نظارت نشر و اشاعت قادیان فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان 978-18-7912-319-5 مزید معلومات کے لئے رابطہ کریں.Toll free- 18001802131
پیش لفظ الہی جماعتوں کی مخالفت ہمیشہ سے مخالفین و دشمنان صداقت کا وطیرہ رہا ہے.اس طریق پر چلتے ہوئے مامور زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کی مخالفت ہوئی اور دن بدن مخالفین اپنی مخالفت میں شدت اختیار کرتے جارہے ہیں.دشمن یہی سمجھتا ہے کہ ہم ان کو نیست و نابود کر دیں گے اور اس کے لئے نئے سے نئے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے مگر مؤمنین اس سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں اور اس سے مدد مانگتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ہمیشہ مؤمنین کے ساتھ ہوتی ہے اور وہ ایمان اور یقین اور عمل میں ترقی کرتے رہتے ہیں.سیدنا حضرت اقدس امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت احمدیہ برطانیہ کے 44 ویں جلسہ سالانہ کے تیسرے روز مؤرخہ الاگست ۲۰۱۰ء کو اپنے بصیرت افروز اور ولولہ انگیز اختتامی خطاب میں ان حالات و واقعات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے ثبوت آپ کی کتب میں سے پیش کئے اور فرمایا کہ ایک حقیقی مسلمان کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرستادے کی باتوں کو غور سے سنیں، سمجھیں اور پرکھیں اور نام نہاد علماء کے پیچھے چل کر اپنے ایمان اور اپنی عاقبت کو خراب کرنے کی بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کے مددگار بنیں.نیز آپ نے احباب جماعت کو ایمان افروز ارشادات و نصائح فرمائیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب ایم.ٹی.اے پر براہ راست نشر ہوا.خطاب کی اہمیت کے پیش نظر نظارت نشر و اشاعت قادیان افادہ عام کے لئے اسے شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے.( حافظ مخدوم شریف) ناظر نشر واشاعت قادیان
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء مخالفین کا یہ وہم ہے کہ وہ کسی احمدی کو بھی ایمان سے پھر اسکیں گے.لاہور کی شہادتوں کے بعد نو جوانوں اور نو مبائعین میں پہلے سے زیادہ ایمان اور یقین پیدا ہوا ہے.قرآن مجید، احادیث نبویہ اور حضرت مسیح موعود علی نام کے الہامات اور پیشگوئیوں کے حوالہ سے حضرت اقدس مسیح موعود ملغلام کی صداقت کے متفرق دلائل اور نشانات کا تذکرہ اے نفرتوں کے شرارے پھیلانے والو! تم وہ لوگ ہو جو ظلمتوں کے پجاری ہو اور نور سے دور ہو.الہی جماعت کے خلاف نفرتوں کے تیر چلانے کی جس مہم میں تم مصروف ہو یہ یقینا تمہیں خدا کی پکڑ میں گرفتار کرے گی.تم پر بہت کھل کر اتمام حجت ہو چکی ہے.خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اس سے ڈرو.قرآنی دلائل، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ ارشادات ،عقلی دلائل، زمینی و آسمانی نشانات ، اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادتیں اور آج تک ان کا جاری تسلسل تمہاری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے.
▬▬▬▬▬▬▬ اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء ▬▬▬▬▬▬▬▬▬ آج جبکہ فتنہ و فساد اور مخالفت کی آندھیاں زور دکھا رہی ہیں ہر احمدی مرد، عورت، جوان، بوڑھا، بچہ اپنے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعاوی اور صداقت پر مزید مضبوطی پیدا کرنے کے لئے دعا کرے.اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں ایمان میں پہلے سے بڑھاتا چلا جائے.▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ شہداء کے لئے دعا کریں کہ انہوں نے جو عظیم قربانیاں دے کر ایک نئی روح ہمارے دلوں میں پھونکی ہے اس کو ہمیشہ جاری رکھیں اور اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرتا چلا جائے.44.حدیقہ المہدی کے وسیع اور خوبصورت مرکز میں جماعت احمد یہ برطانیہ کے 4 ویں جلسہ سالانہ کے تیسرے روز بعد دو پہر کے اجلاس میں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز ، ولولہ انگیز اختتام خطاب) أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عبده ورسوله أَمَّا بَعْدُ فَأَعوذ باالله من الشيطن الرجيم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ آج کل جماعت احمدیہ کی مخالفت کا ایک اور دور بڑی شدت کے ساتھ جاری ہے لیکن اس کی ہمیں فکر نہیں کیونکہ الہی جماعتوں کی مخالفت جب شدت اختیار کرتی ہے تو فضل الہی بھی بڑھ کر برسنا شروع ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور ان کی جماعتوں کی یہی سنت بتائی ہے.فرمایا اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ (البقرة : 215) کیا تم سمجھتے ہو کہ باوجود اس کے کہ تم پر ان لوگوں کی سی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے تم جنت میں داخل کیے جاؤ گئے.پھر فرمایا مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاء وَالضَّرَاءُ وَ زُلْزِلُوا ( البقرة : 215) انہیں تنگی بھی پہنچی تکلیف بھی پہنچی ، اور مخالفت کی شدت اس قدر تھی کہ وہ ہلا کر رکھ دیئے گئے.اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں اور ان کی جماعت کو خود کھڑا کر کے پھر انہیں ضائع نہیں کرتا.پھر کیا وجہ ہے کہ وہ مشکلات اور مصائب میں اس قدر ڈال دیئے جاتے ہیں کہ وہ ہل کر رہ جائیں.اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ مخالفین کی مخالفت مومنین کو اس کے حضور مزید جھکنے والا بنائے ، ان کو دعاؤں کی طرف مزید توجہ پیدا ہو، ان کے خدا تعالیٰ سے تعلق میں مزید جلا پیدا ہو اور اس حالت میں
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء اس شدت مخالفت اور تکلیف میں بھی وہ غیر اللہ کی طرف نہ جھکیں بلکہ خدا تعالیٰ کو ہی پکاریں اور مَتی نَصْرُ الله (البقرة: 215) کی آواز ان کے دل کی گہرائیوں سے نکل کر عرش کو ہلا دے.اور پھر جب اللہ تعالیٰ کا جواب أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ فریب ( البقرة: 215) اللہ تعالی فرماتا ہے کہ سنو تم اپنے دل میں تسلی پیدا کرو اور اللہ کی مد یاقی قریب ہے، تو ان کے دل تسلی پاتے ہیں.پس یہ جو تسلی اس غم اور تکلیف اور مخالفت کی شدت کے وقت میں ایک مومن سنتا ہے تو اس کے ایمان میں یہ اضافہ کا باعث بنتی ہے اور یہی نظارہ انشاء اللہ ہم دیکھیں گے اور یقینا دیکھیں گے اور یقینا دیکھیں گے.مَتی نَصْرُ اللہ کی صدا تو ہم بلند کریں سے لیکن حضرت مسیح موعود کی دعاؤں اور صداقت پر کبھی دل میں شکوک پیدا نہیں ہونے دیں گے.مخالفین کے مختلف طریقوں سے حملوں کے دفاع کے لیے ہم اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے تیاری تو کریں گے لیکن دشمن کے دجل اور خوف میں آکر کبھی اپنے ایمانوں میں کمزوری نہیں دکھا ئیں گے.جانی اور مالی نقصان بھی ہو سکتا ہے، دشمن نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرے گا اور کچھ حد تک کا میاب بھی ہو گا لیکن جماعت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا.آج کل دشمن ایک یہ چال بڑی شدت سے چل رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی کتب کے حوالوں کو بغیر سیاق و سباق کے اور توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء اور اس پر اعتراض کیسے جانے لگے ہیں تا کہ کم علم احمدی مسلمانوں کو بھی احمدیت سے پیچھے ہٹایا جائے اور غیر احمدی مسلمانوں کے جذبات کو بھی انگیخت کر کے فتنہ کو ہوا دی جائے اور یہی ہمیشہ سے فتنہ پردازوں اور معترضین کا شیوہ رہا ہے.اپنے زعم میں وہ یہ کوشش کرتے ہیں.بہر حال جب آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے مسیح و مہدی نے نبوت کا مقام حاصل کرنا تھا تو جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے مخالفین اور مفاد پرستوں نے مخالفت میں بھی بڑھنا تھا.یہ لوگ ایسے ائمۃ الکفر ہیں جن کے بارہ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ الَّذِینَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ (الانعام: 13 ) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا ہے اور یہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے.پس یہ وہ لوگ ہیں جو خود تو ڈوبے ہی ہیں اور دوسروں کو بھی ڈبونے کی کوشش کر رہے ہیں.پس یہ مخالفت تو حضرت مسیح موعود کی سچائی کا ثبوت ہے.اگر خدا تعالیٰ کا کلام کہ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ( الجمعه : 4) سچ ہے اور یقینا سچ ہے.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے کلام کو کبھی نہیں ٹالا جاسکتا تو پھر اس آیت کا مصداق بنتے ہوئے آنے والے مسیح موعود نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں نبوت کا اعزاز پانے کے بعد ایسی مخالفت کا سامنا کرنا تھا اور کیا اور آپ کی جماعت آج تک کر رہی ہے اور یہی مومنین کی جماعت سے روا رکھا
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء جاتا ہے.لیکن ہر مخالفت ، دشمن کا ہر حربہ باد مخالف کی طرح جماعت کی ترقی کونئی بلندیوں کی طرف لے جاتی ہے.جیسا کہ میں نے کہا آج بھی مخالفین جن میں نام نہاد علماء اور مولوی شامل ہیں اپنے زعم میں مخالفت کے تیر چلا رہے ہیں اور تمام تر الیکٹرونک میڈیا اور پریس کو استعمال میں لا رہے ہیں.ایک تو غلط حوالے دے کر احمدی نوجوان نسل اور نو مبائعین جن کو ابھی پوری طرح علم نہیں ہوتا ان کے خیال میں وہ کمزور ہیں ان کو اپنے زعم میں احمدیت سے دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.لیکن نہیں جانتے کہ جو کمزور ترین احمدی بھی ہے وہ بھی احمدیت پر قائم ہے اور صدق دل سے حضرت مسیح موعود کے دعاوی پر ایمان رکھتا ہے.اسی طرح نو مبائعین ہیں جنہوں نے صدق دل سے آپ کے دعوئی کو سمجھ کر اسے قبول کیا ہے اور بیعت میں شامل ہوئے ہیں.بہر حال یہ مخالفین کی کوششیں ہیں جو وہ اپنی طرف سے کر رہے ہیں.یہ ان کا وہم ہے کہ وہ کسی کو بھی ایمان سے پھر اسکیں گے.اور یہ کمزور ترین احمدی پر بھی بدلنی ہے اور اس میں انشاء اللہ تعالیٰ وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے.بلکہ جیسا کہ میں کئی مرتبہ گزشتہ دنوں میں بھی بیان کر چکا ہوں کہ لاہور کی شہادتوں کہ بعد نو جوانوں اور نومبائعین کو پہلے سے زیادہ ایمان اور یقین کا ادراک ہوا ہے، ان میں ایمان اور یقین پیدا ہوا ہے.دوسرے وہ لوگ جو
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء جماعت کے قریب ہیں، جماعت سے ہمدردی رکھتے ہیں مخالفین کی کوشش ہے کہ انہیں حضرت مسیح موعود کی کتب کے غلط حوالے دے کر ان میں تنفر پیدا کیا جائے.اس حوالے سے میں آج حضرت مسیح موعود نے اپنی مختلف کتب میں اپنی صداقت کے جو ثبوت دیئے ہیں وہ چند ایک حوالے آپ کے سامنے رکھوں گا.جن سے ہر صاحب عقل اور صاحب فراست جو صاف دل ہو کر ان کو دیکھے گا، سنے گا، پڑھے گا اسے پتہ چل جائے گا کہ کس طرح آپ نے اپنی صداقت کے ثبوت مہیا فرمائے ہیں اور قرآن حدیث ، زمینی اور آسمانی نشانات اور ائمہ سلف نے آپ کے دعویٰ کی تصدیق کی ہے اور تائیدات کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور اللہ تعالیٰ سعید روحوں کی رہنمائی کرتا چلا جارہا ہے.پس ایک حقی مسلمان کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرستادے کی باتوں کو غور سے سنیں سمجھیں اور پرکھیں.نام نہاد علماء کے پیچھے چل کر اپنے ایمان اور اپنی عاقبت کو خراب کرنے کی بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کے مددگار بنیں.آپ نے اپنی صداقت کے بیشمار ثبوت مہیا فرمائے ہیں اور آپ کی کتب اگر سیاق و سباق کے ساتھ پڑھی جائیں یعنی مکمل پڑھی جائیں یا کم از کم حوالے کو سیاق وسباق کے ساتھ پڑھا جائے تو ہر پڑھنے والے کو جو ثبوت ہیں ان کا نہ ختم
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء ہونے والا سلسلہ نظر آئے گا.یہاں یہ تفصیل تو بیان نہیں ہو سکتی لیکن چند حوالے میں نے لیے ہیں ، جیسا کے میں نے کہا ، جو آپ کی صداقت کی خوبصورت تصویر پیش کرتے ہیں اور ان کو ترتیب دیتے ہوئے مجھے ہو سکتا ہے کہ وقت زیادہ لگ جائے کیونکہ میں نے حوالے جو نکالے تھے ان میں سے کافی نکالنے کے باوجود الدِّينِ بھی کافی مواد ہے.حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں کہ : ” خدا تعالیٰ نے جو اتمام نعمت کی ہے وہ یہی دین ہے جس کا نام اسلام رکھا ہے.پھر نعمت میں جمعہ کا دن بھی ہے جس روز اتمام نعمت ہوا یہ اس کی طرف اشارہ تھا کہ پھر ا تمام نعمت جو لِيُظْهِرَهُ عَلَى ن كُله (الصف : 10 ) کی صورت میں ہو گا وہ بھی ایک عظیم الشان جمعہ ہو گا.وہ جمعہ اب آ گیا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے وہ جمعہ مسیح موعود کے ساتھ مخصوص رکھا ہے.اس لیے کہ اتمام نعمت کی صورتیں دراصل دو ہیں.اول تکمیل ہدایت.دوم تکمیل اشاعت ہدایت.اب تم غور کر کے دیکھو.تکمیل ہدایت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کامل طور پر ہو چکی.لیکن اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا تھا کہ تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ دوسرا زمانہ ہو جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بروزی رنگ میں ظہور فرما دیں اور وہ زمانہ مسیح موعود اور مہدی کا زمانہ ہے یہی وجہ هے که لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلَّه (الصف : 10 ) اس شان میں فرمایا
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء گیا ہے.تمام مفسرین نے بالا تفاق اس امر کو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے زمانہ سے متعلق ہے.در حقیقت اظہار دین اسی وقت ہو سکتا ہے جب کل مذاہب میدان میں نکل آویں اور اشاعت مذہب کے ہر قسم کے مفید ذریعے پیدا ہو جا ئیں اور وہ زمانہ خدا کے فضل سے آگیا ہے.چنانچہ اس وقت پریس کی طاقت سے کتابوں کی اشاعت اور طبع میں جو جو سہولیتیں میسر آئی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں.ڈاکخانوں کے ذریعہ سے گل دنیا میں تبلیغ ہوسکتی ہے.اخباروں کے ذریعہ سے تمام دنیا کے حالات پر اطلاع ملتی ہے.ریلوں کے ذریعہ سفر آسان کر دیئے گئے ہیں.غرض جس قدر آئے دن نئی ایجادیں ہوتی جاتی ہیں اُسی قدر عظمت کے ساتھ مسیح موعود کے زمانہ کی تصدیق ہوتی جاتی ہے اور اظہار دین کی صورتیں نکلتی آتی ہیں.اس لیے یہ وقت وہی وقت ہے جس کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ کہ کر فرمائی تھی یہ وہی زمانہ ہے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المائدہ: 4) کی شان کو بلند کرنے والا اور تکمیل اشاعت ہدایت کی صورت میں دوبارہ اتمام نعمت کا زمانہ ہے.اور پھر یہ وہی وقت اور جمعہ ہے جس میں وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ( الجمعة : 4) کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے.اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور بروزی رنگ میں ہوا ہے اور ایک
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء جماعت صحابہ کی پھر قائم ہوئی ہے اتمام نعمت کا وقت آ پہنچا ہے لیکن تھوڑے ہیں جو اس سے آگاہ ہیں اور بہت ہیں جو ہنسی کرتے اور ٹھٹھوں میں اڑاتے ہیں.مگر وہ وقت قریب ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق تجلی فرمائے گا اور اپنے زور آور حملوں سے دکھا دے گا کہ اس کا نذیر سچا ہے“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 135,134 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) فرمایا: ”احادیث نبویہ میں صراحت سے لکھا گیا ہے کہ آنے والا مسیح اسی امت میں سے ہوگا.جیسا کے موسیٰ کے سلسلہ کا مسیح اسی قوم میں سے تھا نہ کہ آسمان سے آیا تھا.پس اس تفریط اور افراط کو دور کرنے کے لیے خدا نے یہ سلسلہ زمین پر قائم کیا جو باعث اپنے سچائی اور خوبصورتی اور اعتدال کے ہر ایک اہل دل کو پسند آتا ہے.غرض یہ پیشگوئی کے ایک گروہ پرانے مسلمانوں میں سے اس سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگا اور ایک گروہ نئے مسلمانوں میں سے یعنی یورپ اور امریکہ اور دیگر کفار کی قوموں میں سے اس سلسلہ کے اندر اپنے تیں لائے گا پچیس برس بعد اس زمانہ سے کہ جب خبر دی گئی پوری ہوئی.جب آپ لکھ رہے ہیں اس کے پچیس برس بعد لکھ رہے ہیں.فرمار ہے ہیں کہ یا د رکھو کہ جیسا کہ ہم ابھی لکھ چکے ہیں عربی زبان میں اس پیشگوئی کے یہ لفظ ہیں جو وحی الہی نے میرے پر ظاہر کیے جو براہین احمدیہ میں حصص سابقہ میں ۱۰
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء آج سے پچیس برس پہلے شائع ہو چکے ہیں ثُلَّةَ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثَلَّةَ مِنَ الْآخِرِينَ یعنی اس سلسلہ میں داخل ہونے والے دو فریق ہوں گے.ایک پرانے مسلمان جن کا نام اولین رکھا گیا جواب تک“ ( اس وقت تک جب آپ نے یہ لکھا تھا.فرمایا کہ تین لاکھ کے قریب اس سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں (اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے کروڑوں میں داخل ہو چکے ہیں ) اور دوسرے نئے مسلمان جو دوسری قوموں میں سے اسلام میں داخل ہوں گے یعنی ہندوؤں اور سکھوں اور یورپ اور امریکہ کے عیسائیوں میں سے اور وہ بھی ایک گروہ اس سلسلہ میں داخل ہو چکا ہے اور ہوتے جاتے ہیں.اسی زمانہ کے بارے میں جو میرا زمانہ ہے خدا تعالیٰ قرآن شریف میں خبر دیتا ہے جس کا خلاصہ ترجمہ یہ ہے کہ آخری دنوں میں طرح طرح کے مذاہب پیدا ہو جائیں گے اور ایک مذہب دوسرے مذہب پر حملہ کرے گا جیسا کہ ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے.یعنی تعصب بہت بڑھ جائے گا اور لوگ طلب حق کو چھوڑ کر خواہ نخواہ اپنے مذاہب کی حمایت کریں گے اور کینے اور تعصب ایسے حد اعتدال سے گزر جائیں گے کہ ایک قوم دوسری قوم کو نگل لینا چاہے گی.تب انہیں دنوں میں آسمان سے ایک فرقہ کی بنیاد ڈالی جائے گی اور خدا اپنے منہ سے اس فرقہ کی حمایت کے لیے ایک قرنا بجائے گا اور اس قرنا کی آواز سے ہر ایک سعید اس فرقہ کی طرف کھچا 11
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء آئے گا.بجز ان لوگوں کے جو شقی از لی ہیں جو دوزخ کے بھرنے کے لیے پیدا کیے گے ہیں آپ فرماتے ہیں کہ ” قرآن شریف کے اس میں الفاظ یہ ہیں ونُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا (الكهف: 100 ) اور یہ بات کہ وہ نفخ کیا ہو گا؟ اور اس کی کیفیت کیا ہوگی؟ اس کی تفصیل وقتا فوقتا خود ظاہر ہوتی جائے گی.مجملاً صرف اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ استعدادوں کو جنبش دینے کے لیے کچھ آسمانی کارروائی ظہور میں آئے گی اور ہولناک نشان ظاہر ہوں گے.تب سعید لوگ جاگ اٹھیں گے کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے.کیا یہ وہی زمانہ نہیں جو قریب قیامت ہے جس کی نبیوں نے خبر دی ہے.اور کیا یہ وہی انسان نہیں جس کی نسبت اطلاع دی گئی تھی کہ اس امت میں سے وہ مسیح ہو کر آئے گا جو عیسی بن مریم کہلائے گا.تب جس کے دل میں ایک ذرا بھی سعادت اور رُشد کا مادہ ہے خدا تعالیٰ کے غضبناک نشانوں کو دیکھ کر ڈرے گا اور طاقت بالا اس کو کھینچ کر حق کی طرف لے آئے گی.اور اس کے تمام تعصب اور کینے یوں جل جائیں گے جیسا کہ ایک خشک تنکا بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑ کر بھسم ہو جاتا ہے.غرض اس وقت ہر ایک رشید خدا کی آواز سن لے گا اور اس کی طرف کھینچا جائے گا اور دیکھ لے گا کہ زمین اور آسمان دوسرے رنگ میں ہیں.۱۲
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 108 ، 109 ) وو پھر آپ براہین احمدیہ کا ایک جگہ حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : " میری نسبت یہ الہام ہے جس کے شائع کرنے پر بیس برس گزر گئے اور وہ یہ ہے فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ.یعنی ان مخالفین کو کہہ دے کہ میں چالیس برس تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں اور اس مدت دراز تک تم مجھے دیکھتے رہے ہو کہ میرا کام افتراء اور دروغ نہیں ہے اور خدا نے ناپاکی کی زندگی سے مجھے محفوظ رکھا ہے.تو پھر جو شخص اس مدت دراز تک یعنی چالیس برس تک ہر ایک افتراء اور شرارت اور مکر اور خباثت سے محفوظ رہا اور کبھی اس نے خلقت پر جھوٹ نہ بولا تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ برخلاف اپنی عادت قدیم کے اب وہ خدا تعالیٰ پر افتراء کر نے لگا.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 283) اپنے بعض الہاموں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ : ” ان الہامات میں چار عظیم الشان پیشگوئیوں کا ذکر ہے (1) ایک یہ کہ خدا تعالیٰ ایسے وقت میں کہ جب میں اکیلا تھا اور کوئی میرے ساتھ نہ تھا اُس زمانہ میں جس کو اب قریباً تئیس سال گزر چکے ہیں مجھے خوشخبری دیتا ہے کہ تو اکیلا نہیں رہے گا اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ تیرے ساتھ فوج در فوج لوگ ہو جائیں اور وہ دور دور ۱۳
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء اہوں سے تیرے پاس آئیں گے اور اس قدر کثرت سے آئیں گے کہ قریب ہے کہ تو ان سے تھک جائے یا بد اخلاقی کرے.مگر تو ایسا نہ کر (2) دوسری یہ پیشگوئی ہے کہ ان لوگوں سے بہت سی مالی مدد ملے گی.ان پیشگوئیوں کے بارے میں ایک دنیا گواہ ہے کہ جب یہ پیشگوئیاں براہین احمدیہ میں لکھی گئیں تب میں ایک تنہا آدمی گمنامی کی حالت میں قادیان میں جو ایک ویران گاؤں ہے پڑا تھا.مگر بعد اس کے ابھی دس برس گزرنے نہیں پائے تھے کہ خدا تعالی کے الہام کے موافق لوگوں کا رجوع ہو گیا اور اپنے مالوں کے ذریعہ سے لوگ مدد بھی کرنے لگے.فرمایا: ” تیری پیشگوئی یہ ہے کہ لوگ کوشش کریں گے کہ اس سلسلہ کو معدوم کر دیں اور اس نور کو بجھا دیں مگر وہ اس کوشش میں نا مرادر ہیں گے.اگر کوئی شخص صریح بے ایمانی اختیار کرے تو اس کو کون روک سکتا ہے.ورنہ یہ تینوں پیشگوئیاں آفتاب کی طرح چمک رہی ہیں.ظاہر ہے کہ ایسے زمانے میں جب کہ ایک شخص گمنامی کی حالت میں پڑا ہے اور تنہا اور بے کس ہے اور کوئی ایسی علامت موجود نہیں ہے کہ وہ لاکھوں انسانوں کا سردار بنایا جائے اور نہ کوئی یہ علامت موجود ہے کہ لوگ ہزار ہارو پے اس کی خدمت میں پیش کریں.پھر ایسی حالت میں ایسے شخص کی نسبت اس قدر اقبال اور نصرت الہی کی پیشگوئی اگر ۱۴
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء صرف عقل اور انکل کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے تو منکر کو چاہیے کہ نام لے کر اس کی نظیر پیش کرے.بالخصوص جب کہ ان دونوں پیشگوئیوں کو اس تیسری پیشگوئی کے ساتھ ہی رکھا جائے جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ بہت کوشش کریں گے کہ یہ پیشگوئیاں پوری نہ ہوں لیکن خدا پوری کرے گا.تو بالضرورت ان تینوں پیشگوئیوں کو یکجائی نظر کے ساتھ دیکھنے سے ماننا پڑے گا کہ یہ انسان کا کام نہیں ہے.انسان تو یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکتا کہ اتنی مدت تک زندہ بھی رہ سکے.پھر چوتھی پیشگوئی ان الہامات میں یہ ہے کہ ان دنوں میں اس سلسلے کے دو مرید شہید کیے جائیں گے ، لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد 20 صفحہ نمبر 191-192) چنانچہ شیخ عبد الرحمن صاحب کا ذ کر کیا ہے کہ وہ امیر عبد الرحمن والی کابل کے حکم سے شہید کیے گئے اور صاحبزادہ عبدالطیف صاحب شہید کیے گئے.آج ہم دیکھتے ہیں کہ یہ پیشگوئی بھی اور حضرت مسیح موعود کی یہ فکر کہ یہ دو شہید ہوئے ہیں آئندہ جماعت کا کیا حال ہو گا اس کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کس شان سے پوری ہوتی جارہی ہے اور آج تک شہداء احمدیت کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے.ان پیشگوئیوں کو اگر آپ دیکھیں آج جماعت کی تعداد کروڑوں میں پہنچ چکی ہے.اگر کسی کی دیکھنے کی نظر ہو تو یہی بہت بڑا صداقت کا ثبوت ہے.کل ہی ہم نے ۱۵
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء دیکھا ہے جو رپورٹ میں نے دی تھی اور آج ہم نے عالمی بیعت کا نظارہ دیکھا ہے.یہی بات ہی منکرین جماعت کے لیے ایک صداقت کا ثبوت ہونی چاہیے.دنیا کے 198 ممالک میں احمدیت کا پودا لگ گیا ہے.ایک چھوٹی سی جگہ قادیان سے ایک شخص کا دعویٰ ہے.کیا خدائی مدد کے علاوہ یہ کام ہوسکتا ہے؟ قطعا نہیں ہوسکتا.مخالفت بھی ہر جگہ ہورہی ہے.حکومتوں کی مخالفتیں بھی جاری ہیں.تشدد پسند گروہوں کی مخالفتیں بھی جاری ہیں.کیا اب بھی یقین نہیں کہ یہ الہی سلسلہ ہے.ان لوگوں کو خدا کا خوف کرنا چاہیے خدا سے جنگ نہ کریں کہ خدا سے لڑنے والے مٹا دیئے جاتے ہیں.پس ہم نے تو اگر کوئی ہتھیار ان سارے حملوں کے خلاف استعمال کرنا ہے، ان ساری تدبیروں کے خلاف استعمال کرنا ہے تو وہ دعا کا ہتھیار ہے اور جب تک ہم یہ ہتھیار استعمال کرتے چلے جائیں گے انشاء اللہ کوئی دشمن ، کوئی طاقت جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” اور ہزار ہا ایسے لوگ ہیں کہ محض خوابوں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے میرا سچا ہونا ان پر ظاہر کر دیا.غرض یہ نشان اس قدر کھلے کھلے ہیں کہ اگر ان کو یکجائی نظر سے دیکھا جائے تو انسان کو بجز ماننے کے بن نہیں پڑتا.(لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ نمبر 194) آج بھی ہم دیکھتے ہیں اور ہر سال دیکھتے ہیں کہ خوابوں کے ذریعہ سے بے شمار ۱۶
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء لوگ احمدی ہوتے ہیں.کل میں نے چند واقعات بیان کیے تھے ایک دو اس زمانے میں بھی بیان کر دیتا ہوں کہ آج کل بھی اللہ تعالیٰ کی تائیدات کس طرح حضرت مسیح موعود کے ساتھ ہیں.الجزائر کی ایک فیملی نے ایم ٹی اے کے ذریعہ اپنے ایک چودہ سالہ بچے کے ذریعہ بیعت کی تھی.اور جب میں اٹلی گیا ہوں وہاں مجھے یہ فیملی ملی بھی تھی.انہوں نے اپنے بچے کی خواب سنائی کہ ان کے بیٹے کو کینسر تھا.ایک دن اس نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عیسی آسمان سے اتر رہے ہیں.تب دوسرے دن اس نے اپنے والد صاحب کو بتایا پر انہوں نے اس کی بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی.کچھ ہی دن بعد وہ ڈش انٹینا پر ٹی وی دیکھ رہا تھا ریموٹ سے چینل تبدیل کر رہا تھا اچانک ایم ٹی اسے نظر آیا اور حضرت مسیح موعود کی تصویر دیکھتے ہی بچے نے کہا یہ تو وہی شکل ہے جو حضرت عیسی کی جو میں نے خواب میں دیکھی تھی.تب اس کے والد نے کہا کہ اس کو دیکھنا چاہیے.اس کے بعد پھر انہوں نے عربی پروگرام دیکھنا شروع کیا اور پھر سارے خاندان نے بیعت کر لی اور اس بچے کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس سارے خاندان کی ہدایت کا ذریعہ پیدا کر دیا اور اللہ تعالی کے فضل سے اس بچے کو کینسر سے شفا بھی ہوگئی.پھر شبان تہامی صاحب ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ماہ اگست میں نماز تہجد کے ۱۷
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء بعد نماز فجر کا انتظار کر رہا تھا کہ نیند آگئی.خواب میں دیکھا کہ ایک منادی بلند مگر خوبصورت اور میٹھی آواز میں کہہ رہا تھا اے اللہ کے بندو، اٹھو اور نبی کا استقبال کرو.اس وقت میں نے پاکستانی کپڑوں سے ملتے جلتے اچھے کپڑے پہنے تھے جو میں نے پہلے بھی نہیں پہنے تھے.کہتے ہیں اس وقت خواب میں باہر نکلا تو دائیں بائیں حد نظر تک پھیلا ہوا ہجوم دیکھا جہاں لوگ قطاروں میں کھڑے تھے.ان میں سبز لباس پہنے ہوئے بچے بھی تھے.آسمان کا رنگ اس قدر نیلا تھا کہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا.بہت سے ایسے پرندے بھی دیکھے جو پہلے نہ دیکھے تھے.ان کی چونچیں لمبی تھیں.وہ ہمارے اوپر اڑتے تھے.چونچوں سے پانی کے قطرے ہم پر گرتے تھے جن سے پیاسے اپنی پیاس اور بھوکے اپنی بھوک مٹاتے.ہم ایسے راستے پر چل رہے تھے جس کے آخر پر خانہ کعبہ تھا جس پر نیا غلاف چڑھایا گیا تھا اور چاند بھی اس پر اپنی خوبصورت روشنی ڈال رہا تھا.قافلہ کے شروع میں ایک شخص اونٹنی پر سوار تھا جس کے ہاتھ میں سوٹی اور کندھوں پر چادر رکھی تھی.اونٹنی کے پیچھے گھوڑوں کی ایک قطار تھی جن پر خوبرولوگ تھے جن میں سے صرف ایک شخص کو پہچان سکا جو کہ خلیفہ رابع تھے.اونٹنی سوار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے جنہیں سب لوگ پہچان رہے تھے اور حضور کو ہاتھ ہلا کر سلام کر رہے تھے.بعض کہہ رہے تھے کہ یہ موسیٰ “ ہیں اور ان کا عصا موسیٰ یا ۱۸
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء حضرت شعیب کے عصا جیسا ہے.بعض نے کہا کہ عیسی ہیں.بعض نے کہا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اوٹنی پر سوار ہیں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اور حل ہوں.تب مختلف جہات سے لا الہ الا اللہ اور بعض دیگر آیات قرآنیہ پر مشتمل نعرے بلند ہونے لگے یہاں تک کہ خود میں نے اپنی آواز سوتے میں سنی بلکہ اپنی آواز سن کر اٹھ گیا.پھر احمد با کیر صاحب لکھتے ہیں کہ میں بچپن میں ایک امام مسجد سے قرآن کریم حفظ کیا کرتا تھا.لیکن جب اس امام صاحب میں جھوٹ اور نفاق دیکھا تو اس کے پاس جانا چھوڑ دیا بلکہ مسجد اور نماز بھی چھوڑ دی.بعد میں ایک دوست باسل النجمی صاحب کی تحریک پر میں نے دوبارہ نماز میں شروع کیں تو اللہ تعالیٰ نے رؤیا اور کشوف کا دروازہ کھول دیا.ایک رات خواب میں کہا گیا کہ مجھے محلے کی مسجد میں جانے کی بجائے گھر پر نماز پڑھنی چاہیے.ہم بعض دوست مل کر نماز پڑھنے لگے اور نمازوں کی لذت حاصل ہونے لگی.پھر جب جماعت سے تعارف ہوا تو اس بارے میں استخارہ کیا تو ایک بارخواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے اپنی کتاب مواہب الرحمن دی.اس کو پڑھنے سے مجھے شرح صدر حاصل ہوا.پھر ایک بار کشف میں حضرت مسیح ۱۹
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جماعت کے ساتھ تشریف لائے تو ایک وہابی مولوی آپ پر اعتراض کرنے لگا.آپ مسکراتے رہے.پھر آواز آئی کہ اس مولوی کو دور کر دیا جائے گا.اس کے بعد وہ مولوی غائب ہو گیا.اس کشف کے بعد میرے تمام شکوک و شبہات دور ہو گئے اور بیعت کی تو فیق ملی.الحمد للہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ : کسی شخص کے دعوی نبوت پر سب سے پہلے زمانہ کی ضرورت دیکھی جاتی ہے.پھر یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ نبیوں کے مقرر کردہ وقت پر آیا ہے یا نہیں.پھر یہ بھی سوچا جاتا ہے کہ خدا نے اس کی تائید کی ہے یا نہیں.پھر یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ دشمنوں نے جو اعتراض اٹھائے ہیں ان اعتراضات کا پورا پورا جواب دیا گیا ہے یا نہیں.جب یہ تمام باتیں پوری ہو جائیں تو مان لیا جائے گا کہ وہ انسان سچا ہے ورنہ نہیں.اب صاف ظاہر ہے کہ زمانہ اپنی زبان حال سے فریاد کر رہا ہے کہ اس وقت اسلامی تفرقہ کے دور کرنے کے لیے اور بیرونی حملوں سے اسلام کو بچانے کے لیے اور دنیا میں گمشدہ روحانیت کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے بلا شبہ ایک آسمانی مصلح کی ضرورت ہے جو دوبارہ یقین بخش کر ایمان کی جڑھوں کو پانی دیوے 66 اور یہ بات آج کل کے مسلمان بھی تسلیم کر رہے ہیں.اخباروں میں
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء بھی لکھ رہے ہیں ، کالموں میں بھی لکھ رہے ہیں اور میٹنگوں میں بھی کہا جاتا ہے کہ ہمیں اگر ایک ہونا ہے، اسلام کی ترقی ہونی ہے تو ہمیں خلافت کی ضرورت ہے.ایک مصلح کی ضرورت ہے لیکن جو مصلح اللہ تعالی نے مبعوث فرمایا ہے اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں.فرمایا : ” اور اس طرح پر بدی اور گناہ سے چھڑا کر نیکی اور راستی کی طرف رجوع دیوے.سو عین ضرورت کے وقت میں میرا آنا ایسا ظاہر ہے کہ میں خیال نہیں کر سکتا کہ بجر سخت متعصب کے کوئی اس سے انکار کر سکے.اور دوسری شرط یعنی یہ دیکھنا کہ نبیوں کے مقرر کردہ وقت پر آیا ہے یا نہیں.یہ شرط بھی میرے آنے پر پوری ہوگئی ہے.کیونکہ نبیوں نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ جب چھٹا ہزار ختم ہونے کو ہو گا تب وہ مسیح موعود ظاہر ہو گا.جو قمری حساب کے رُو سے چھٹا ہزار جو حضرت آدم کے ظہور کے وقت سے لیا جاتا ہے مدت ہوئی جو ختم ہو چکا ہے اور شمسی حساب کے رو سے چھٹا ہزارختم ہونے کو ہے.ماسوا اس کے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ ہر ایک صدی کے سر پر ایک مجدد آئے گا جو دین کو تازہ کرے گا اور اب اس چودھویں صدی میں سے اکیس سال گزر ہی چکے ہیں اور بائیسواں گزر رہا ہے.اب کیا یہ اس بات کا نشان نہیں کہ وہ مسجد دآ گیا.۲۱
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء تیسری شرط یتھی کہ کیا خدا نے اس کی تائید بھی کی ہے یا نہیں.سواس شرط کا مجھ میں پایا جانا بھی ظاہر ہے.کیونکہ اس ملک کی ہر ایک قوم کے بعض دشمنوں نے مجھے نابود کرنا چاہا اور ناخنوں تک زور لگایا اور بہت کوششیں کیں لیکن وہ اپنی تمام کوششوں میں نامرادر ہے.کسی قوم کو یہ فخر نصیب نہ ہوا کہ وہ کہہ سکے کہ ہم میں سے کسی شخص نے اس شخص کے تباہ کرنے کے لیے کسی قسم کی کوششیں نہیں کیں اور ان کی کوششوں کے برخلاف خدا نے مجھے عزت دی اور ہزار ہا لوگوں کو میرے تابع کر دیا.پس اگر یہ خدا کی تائید نہیں تھی تو اور کیا تھا.کس کو معلوم نہیں کہ سب قوموں نے اپنے اپنے طور پر زور لگائے کہ تا مجھے نابود کر دیں مگر میں ان کی کوششوں سے نابود نہ ہو سکا.بلکہ میں دن بدن بڑھتا وو اور آج آپ لوگوں کی حاضری اس بات کی گواہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یقینا خدا کے فرستادہ اور اس کے بھیجے ہوئے ہیں.آپ فرماتے ہیں: " پس اگر خدا کا ایک پوشیدہ ہاتھ میرے.ساتھ نہ ہوتا اور اگر میرا کاروبار محض انسانی منصوبہ ہوتا تو ان مختلف تیروں میں سے کسی تیر کا میں ضرور نشانہ بن جاتا اور کبھی کا تباہ ہوا ہوتا.اور آج میری قبر کا بھی نشان نہ ہوتا.کیونکہ جو خدا پر جھوٹ باندھتا ہے اُس کے مارنے کے لیے کئی ۲۲
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء راہیں نکل آتی ہیں.وجہ یہ کہ خدا خود اس کا دشمن ہوتا ہے.مگر خدا نے ان لوگوں کے تمام منصوبوں سے مجھے بچا لیا جیسا کہ اس نے چو ہمیں برس پہلے خبر دی تھی.ماسوا اس کے یہ کیسی کھلی کھلی تائید ہے کہ خدا نے میری تنہائی اور گمنامی کے زمانہ میں کھلے لفظوں میں براہین احمدیہ میں مجھے خبر دے دی کہ میں تجھے مدددوں گا اور ایک کثیر جماعت تیرے ساتھ کر دوں گا اور مزاحمت کرنے والوں کو نا مراد رکھوں گا.پس ایک صاف دل لے کر سوچو کہ یہ کس قدر نمایاں تائید ہے اور کیسا کھلا کھلا نشان ہے.کیا آسمان کے نیچے ایسی قدرت کسی انسان کو ہے یا کسی شیطان کو کہ ایک گمنامی کے وقت میں ایسی خبر دے اور وہ پوری ہو جاوے اور ہزاروں دشمن اٹھیں مگر کوئی اس خبر کو روک نہ سکے.پھر چوتھی یہ شر دی تھی کہ مخالفوں نے جو اعتراض اٹھائے ان اعتراضات کا پورا پورا جواب دیا گیا یا نہیں.یہ شرط بھی صفائی سے طے ہو چکی کیونکہ مخالفوں کا ایک بڑا اعتراض یہ تھا کہ مسیح موعود حضرت عیسی علیہ السلام ہیں وہی دوبارہ دنیا میں آئیں گے.پس ان کو جواب دیا گیا کہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں اور پھر دوبارہ دنیا میں ہر گز نہیں آئیں گے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ انہیں کی زبان سے فرماتا ہے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَقِيْبَ عَلَيْهِمْ (المائده: 118 ) پہلی آیتوں کو ساتھ ملا کر ترجمہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ۲۳
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء قیامت کو حضرت عیسی سے پوچھے گا کہ کیا تو نے ہی یہ تعلیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے ماننا اور ہماری پرستش کرنا.اور وہ جواب دیں گے کہ اے میرے خدا! اگر میں نے ایسا کہا ہے تو تجھے معلوم ہوگا کیونکہ تو عالم الغیب ہے.میں نے تو وہی باتیں ان کو کہیں جو تو نے مجھے فرما ئیں.یعنی یہ کہ خدا کو وحدہ لاشریک اور مجھے اس کا رسول مانو.میں اُس وقت تک اُن کے حالات کا علم رکھتا تھا جب تک کہ میں اُن میں تھا.پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو ان پر گواہ تھا.مجھے کیا خبر ہے کہ میرے بعد انہوں نے کیا کیا.اب ان آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام یہ جواب دیں گے کہ جب تک میں زندہ تھا عیسائی لوگ بگڑے نہیں تھے اور جب میں مر گیا تو مجھے خبر نہیں کہ ان کا کیا حال ہوا.پس اگر مان لیا جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اب تک زندہ ہیں تو ساتھ ہی ماننا پڑے گا کہ عیسائی بھی اب تک بگڑے نہیں اور بچے مذہب پر قائم ہیں.پھر ماسوا اس کے اس آیت میں حضرت عیسی علیہ السلام اپنی وفات کے بعد اپنی بے خبری ظاہر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے میرے خدا! جب تو نے مجھے وفات دے دی اس وقت سے مجھے اپنی امت کا کچھ حال معلوم نہیں.پس اگر یہ بات صحیح مانی جائے کہ وہ قیامت سے پہلے دنیا میں آئیں گے اور مہدی کے ساتھ مل کر کافروں سے لڑائیاں کریں گے تو نعوذ باللہ قرآن شریف کی یہ آیت ۲۴
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء غلط ٹھہرتی ہے اور یا یہ ماننا پڑتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے جھوٹ بولیں گے اور اس بات کو چھپائیں گے کہ وہ دوبارہ دنیا میں آئے تھے اور چالیس برس تک رہے تھے اور مہدی کے ساتھ مل کر عیسائیوں سے لڑائیاں کی تھیں.پس اگر کوئی قرآن شریف پر ایمان لانے والا ہو تو فقط اس ایک ہی آیت سے تمام وہ منصوبہ باطل ثابت ہوتا ہے جس میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مہدی خونی پیدا ہو گا اور عیسی اس کی مدد کے لیے آسمان سے آئے گا.بلاشبہ وہ شخص قرآن شریف کو چھوڑتا ہے جو ایسا اعتقاد رکھتا ہے.پھر جب ہمارے مخالف ہر ایک بات میں مغلوب ہو جاتے ہیں تو آخر کار یہ کہتے ہیں کہ بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں جیسے کہ آتھم کی پیشگوئی.میں کہتا ہوں کہ اب آتھم کہاں ہے؟ اس پیٹ کوئی کا تو ماحصل یہ تھا کہ جو شخص جھوٹا ہے وہ بچے کی زندگی میں ہی وفات پا جائے گا.سو آتھم وفات پا گیا اور میں اب تک زندہ ہوں“.(لیکچر لاہور.روحانی خزائن.جلد نمبر 20 صفحہ نمبر 194 تا 197) نشان کے بارہ میں فرمایا : کہ ”نشان خدا تعالیٰ کا یہ قول ہے کہ وَلَوَ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ هِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (الحاقة :45-47).یعنی اگر یہ نبی ہمارے پر افترا کر تا تو ہم اس کو دہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے.پھر اس کی وہ رگ کاٹ دیتے جو جان کی رگ ہے.یہ ۲۵
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء آیت اگر چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن اس کے معنوں میں عموم ہے.جیسا کے تمام قرآن شریف میں بھی محاورہ ہے کہ بظاہرا کثر امر و نہی کے مخاطب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں لیکن ان احکام میں دوسرے بھی شریک ہوتے ہیں یا وہ احکام دوسروں کے لیے ہی ہوتے ہیں.جیسا کے یہ آیت فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ( بنی اسرائیل : 24) یعنی اپنے والدین کو بیزاری کا کلمہ مت کہو اور ایسی باتیں ان سے نہ کر جن میں ان کی بزرگی کا لحاظ نہ ہو.اس آیت کے مخاطب تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن دارصل مرجع کلام امت کی طرف ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد اور والدہ آپ کی خوردسالی میں ہی فوت ہو چکے تھے اور اس حکم میں ایک راز بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آیت سے ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ تو اپنے والدین کی عزت کر اور ہر ایک بول چال میں ان کے بزرگانہ مرتبہ کا لحاظ رکھے، تو پھر دوسروں کو اپنے والدین کی کس قدر تعظیم کرنی چاہیے..فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت جو فرمایا کہ اگر وہ ہمارے پر کچھ افتر اگر تا تو ہم اس کو ہلاک کر دیتے.اس کا یہ مطلب نہیں ۲۶
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء ہے کہ صرف خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ غیرت اپنی ظاہر کرتا ہے کہ آپ اگر مفتری ہوتے تو آپ کو بلاک کر دیتا مگر دوسروں کی نسبت یہ غیرت نہیں ہے اور دوسرے خواہ کیسا ہی خدا پر افتراء کریں اور جھوٹے الہام بنا کر خدا کی طرف منسوب کر دیا کریں ان کی نسبت خدا کی غیرت جوش نہیں مارتی.یہ خیال جیسا کہ غیر معقول ہے ایسا ہی خدا کی تمام کتابوں کے برخلاف بھی ہے اور اب تک توریت میں بھی یہ فقرہ موجود ہے کہ جو شخص خدا پر افترا کرے گا اور جھوٹا دعویٰ نبوت کا کرے گا وہ ہلاک کیا جاوے گا.علاوہ اس کے قدیم سے علماء اسلام آیت لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا کو عیسائیوں اور یہودیوں کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے لیے بطور دلیل پیش کرتے رہے ہیں.اور ظاہر ہے کہ جب تک کسی بات میں عموم نہ ہو وہ دلیل کا کام نہیں دے سکتی.بھلا یہ کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر افترا کرتے تو ہلاک کیے جاتے اور تمام کام بگڑ جا تا لیکن اگر کوئی دوسرا افتر اکرے تو خدا ناراض نہیں ہوتا بلکہ اُس سے پیار کرتا ہے اور اُس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ مہلت دیتا ہے اور اس کی نصرت اور تائید کرتا ہے.اس کا نام تو دلیل نہیں رکھنا چاہیے بلکہ یہ تو ایک دعوی ہے کہ جو خود دلیل کا محتاج ہے.افسوس میری عداوت کے لیے ان لوگوں کی کہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ۲۷
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء سچائی کے نشانوں پر بھی حملے کرنے لگے.چونکہ ان لوگوں کو معلوم ہے کہ میرے اس دعوئی وحی اور الہام پر پچیس سال سے زیادہ گزرچکے ہیں.فرمایا کہ اور ابھی معلوم نہیں کہ کہاں تک خدا تعالیٰ کے علم میں میرے ایام دعوت کا سلسلہ ہے اس لیے یہ لوگ باوجود مولوی کہلانے کے یہ کہتے ہیں کہ ایک خدا پر افتر اکرنے والا اور جھوٹا ملہم بننے والا اپنے ابتدائے افتر اسے تیس سال تک بھی زندہ رہ سکتا ہے اور خدا اس کی نصرت اور تائید کر سکتا ہے اور اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کرتے.اے بیباک لوگو! جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے.جو کچھ خدا نے اپنے لطف وکرم سے میرے ساتھ معاملہ کیا یہاں تک کہ اس مدت دراز میں ہر ایک دن میرے لیے ترقی کا دن تھا اور ہر ایک مقدمہ جو میرے تباہ کرنے کے لیے اٹھایا گیا خدا نے دشمنوں کو رسوا کیا.اگر اس مدت اور اس تائید و نصرت کی تمہارے پاس کوئی نظیر ہے تو پیش کر دور نہ بموجب آیت لَو تَقَول عَلَيْنَا یہ نشان بھی ثابت ہو گیا اور تم اس سے پوچھے جاؤ گے“.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 213 تا 215) اور یہ سلوک آج تک آپ کی جماعت سے ہو رہا ہے.جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا جو سعید فطرت لوگ ہیں وہ خوا نہیں دیکھ کر جماعت میں شامل ہو رہے ہیں اور ہر سال ہو رہے ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد ہے جو خوا ہیں دیکھ ۲۸
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء کر شامل ہوئی ہے.ان کو تو خدا تعالیٰ کی طرف سے مندر خوا ہیں آنی چاہیے تھیں کہ جس مسیح و مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کہ لیے تم استخارے کر رہے ہو، اس کی جماعت میں شامل ہونے کے لیے خدا سے رہنمائی طلب کر رہے ہو تو ہوشیار ہوجاؤ یہ تو جھوٹا ہے ہم نے تو ( نعوذ باللہ ) اسے ذلیل ورسوا کرنا ہے بلکہ کر دیا ہے.آج دشمن ایک ہو کر جماعت کو ختم کرنے کی کس قدر کوشش کر رہے ہیں اور یہ سازشیں جیسا کہ میں نے کہا اور ملکوں میں بھی پھیل رہی ہیں.چند ملکوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ بین الاقوامی ہو چکی ہیں.اگر یہ امام مہدی اور مسیح موعود خدا کی طرف سے نہ آیا ہوتا تو وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا کا نشان پورا ہوتا.پس یہ خدا تعالی کا لگایا ہوا پودا ہے جو کسی انسان کی کوششوں سے ختم نہیں ہوسکتا.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ”ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم الانبیاء ہونا بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی موت کو ہی چاہتا ہے.کیونکہ آپ کے بعد اگر کوئی دوسرا نبی آجائے تو آپ خاتم الانبیاء نہیں ٹھہر سکتے اور نہ سلسلہ وحی نبوت کا منقطع متصور ہو سکتا ہے.اور اگر فرض بھی کر لیں کہ حضرت عیسی امتی ہو کر آئیں گے تو شان نبوت تو ان سے منقطع نہیں ہوگی گوامتیوں کی طرح وہ شریعت اسلام کی پابندی بھی کریں.66 حاشیہ میں فرمایا: ” چونکہ حدیثوں میں آنے والے مسیح موعود کو امتی ۲۹
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء لکھا ہے کیونکہ درحقیقت وہ امتی ہے.اس لیے نادان علماء کو دھو کہ لگا اور انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو امتی ٹھہرا دیا حالانکہ ہمارے دعوئی پر یہ ایک نشان تھا کہ مسیح موعود امت میں سے ہوگا.فرمایا: مگر یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اس وقت وہ خدا تعالیٰ کے علم میں نبی نہیں ہوں گے.اور اگر خدا تعالیٰ کے علم میں وہ نبی ہوں گے تو وہی اعتراض لازم آیا کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک نبی دنیا میں آگیا اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا استخفاف اور نص صریح قرآن کی تکذیب لازم آتی ہے.قرآن شریف میں مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا تو کہیں بھی ذکر نہیں لیکن ختم نبوت کا بکمال تصریح ذکر ہے اور پرانے یا نئے نبی کی تفریق کرنا یہ شرارت ہے.نہ حدیث میں نہ قرآن میں یہ تفریق موجود ہے اور حدیث لا نَبِيَّ بَعْدِ ہی میں بھی نفی عام ہے.پس یہ کس قدر جرات اور دلیری اور گستاخی ہے کہ خیالات رکیکہ کی پیروی کر کے نصوص صریحہ قرآن کو عمد ا چھوڑ دیا جائے اور خاتم الانبیاء کے بعد ایک نبی کا آنامان لیا جائے اور بعد اس کے جو وحی نبوت منقطع ہو چکی تھی پھر سلسلہ وحی نبوت کا جاری کر دیا جائے کیونکہ جس میں شان نبوت باقی ہے اس کی وحی بلا شبہ نبوت کی وحی ہو گی.افسوس یہ لوگ خیال نہیں کرتے کہ مسلم اور بخاری میں (جو حدیث کی دو کتابیں ہیں) ” فقرہ
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ اور اَمَكُمْ مِنْكُمْ صاف موجود ہے.یہ جواب سوال مقدر کا ہے.یعنی جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں مسیح ابن مریم حکم عدل ہو کر آئے گا تو بعض لوگوں کو یہ وسوسہ دامنگیر ہوسکتا تھا کہ پھر ختم نبوت کیوں کر رہے گا.اس کے جواب میں یہ ارشاد ہوا کہ وہ تم میں سے ایک امتی ہوگا اور بروز کے طور پر مسیح بھی کہلائے گا“.فرمایا کہ: ”اگر حدیث میں یہ مقصود ہوتا کہ عیسی با وجود نبی ہونے کے پھر امتی بن جائے گا تو حدیث کے لفظ یوں ہونے چاہیئے تھے إِمَامُكُمُ الَّذِي يَصِيْرُ مِنْ أُمَّتِي بَعْدَ نَبوَتِهِ.یعنی تمہارا امام جو نبوت کے بعد میری امت میں سے ہو جائے گا.چنانچہ مسیح کے مقابل پر جو مہدی کا آنا لکھا ہے اس میں بھی یہ اشارات موجود ہیں کہ مہدی بروز کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کا مورد ہو گا.اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس کا خلق میرے خلق کی طرح ہوگا.اور یہ حدیث کہ لا مَهْدِئَ إِلَّا عِیسَی ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف کرتی ہے کہ وہ آنے والا ذوالبروزین ہوگا اور دونوں شانیں مہدویت اور مسیحیت کی اس میں جمع ہوں گی.یعنی اس وجہ سے کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت اثر کرے گی مہدی کہلائے گا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مہدی تھے.٣١
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدَى (الضحی : 8) اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نبیوں کی طرح ظاہری علم کسی استاد سے نہیں پڑھا تھا.مگر حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ مکتبوں میں بیٹھے تھے.اور حضرت عیسی نے ایک یہودی استاد سے تمام توریت پڑھی تھی.غرض اسی لحاظ سے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی استاد سے نہیں پڑھا خدا آپ ہی استاد ہوا اور پہلے پہل خدا نے ہی آپ کو افرغ کہا.یعنی پڑھ.اور کسی نے نہیں کہا.اس لیے آپ نے خاص خدا کے زیر تربیت تمام دینی ہدایت پائی اور دوسرے نبیوں کے دینی معلومات انسانوں کے ذریعہ سے بھی ہوئے.سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن اور حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہو گا.سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: ”سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے.کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے.بس یہی مہدویت ہے جو نبوت محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرار دین بلا واسطہ میرے پر کھولے گئے.اور جس طرح مذکورہ بالا وجہ سے آنے والا مہدی کہلائے گا اسی طرح وہ مسیح بھی کہلائے گا ۳۲
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء کیونکہ اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کی روحانیت بھی اثر کرے گی.لہذا وہ عیسی ابن مریم بھی کہلائے گا اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے اپنے خاصہ مہدویت کو اس کے اندر پھونکا اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی روحانیت نے اپنا خاصہ روح اللہ ہونے کا اس کے اندر ڈالا.ایام اصلح.روحانی خزائن.جلد 14 صفحہ 392 تا 395 مع حاشیہ) پھر آپ ایک دلیل بیان فرماتے ہیں کہ : ” دار قطنی کی حدیث ہے کہ مہدی موعود کی یہ بھی نشانی ہے کہ خدا اس کے لیے اس کے زمانہ میں یہ نشان ظاہر کرے گا کہ چاند اپنی مقررہ راتوں میں سے (جو اس کے خسوف کے لیے خدا نے راتیں مقرر کر رکھی ہیں.یعنی تیرھویں ، چودھویں ، پندرھویں ) پہلی را میں گرہن پذیر ہوگا اور سورج اپنے مقررہ دنوں میں سے ( جو اس کے کسوف کے لیے خدا نے دن مقرر کر رکھے ہیں یعنی 27، 28، 29 ) درمیانی دن میں کسوف پذیر ہوگا.اور یہ دونوں خسوف کسوف رمضان میں ہوں گے.اور ایک حدیث میں ہے کہ مہدی کے وقت میں یہ دو مرتبہ واقع ہوں گے.چنانچہ یہ دونوں دو مرتبہ میرے زمانہ میں رمضان میں واقع ہو گئے.ایک مرتبہ ہمارے اس ملک میں دوسری مرتبہ امریکہ میں.اور ہمیں اس بات سے بحث نہیں کہ ان تاریخوں میں کسوف خسوف رمضان کے مہینہ میں ابتدائے دنیا سے آج تک کتنی مرتبہ ۳۳
66 اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء واقع ہوا ہے“.(جب سے دنیا بنی ہے ان تاریخوں میں کسوف و خسوف رمضان کے مہینے میں کتنی مرتبہ واقع ہوا ہے ) ہمارا مد عاصرف اس قدر ہے کہ جب سے نسل انسان دنیا میں آئی ہے نشان کے طور پر یہ خسوف کسوف صرف میرے زمانہ میں میرے لیے واقع ہوا ہے اور مجھ سے پہلے کسی کو یہ اتفاق نصیب نہیں ہوا کہ ایک طرف تو اس نے مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور دوسری طرف اس کے دعوے کے بعد رمضان کے مہینہ میں مقرر کردہ تاریخوں میں خسوف کسوف بھی واقع ہو گیا ہو.اور اُس نے اُس کسوف خسوف کو اپنے لیے ایک نشان ٹھہرایا ہو.اور دار قطنی کی حدیث میں یہ تو کہیں نہیں ہے کہ پہلے بھی کسوف خسوف نہیں ہوا.ہاں یہ تصریح سے الفاظ موجود ہیں کہ نشان کے طور پر یہ پہلے کبھی کسوف خسوف نہیں ہوا کیونکہ لَمْ تَكُونَا کا لفظ مؤنث کے صیغہ کے ساتھ دار قطنی میں ہے جس کہ یہ معنی ہیں کہ ایسا نشان کبھی ظہور میں نہیں آیا.اور اگر یہ مطلب ہوتا کہ کسوف خسوف پہلے کبھی ظہور میں نہیں آیا تو لفظ لَمْ يَكُونَا مذکر کے صیغہ سے چاہیے تھا نہ کہ لَمْ تَكُونَا کہ جو مونث کا صیغہ ہے جس سے مریح معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد آیئین ہے.یعنی دونشان کیونکہ یہ مونث کا صیغہ ہے.پس جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ پہلے بھی کئی دفعہ خسوف کسوف ہو چکا ہے اس کے ذمہ یہ بار ثبوت ہے کہ وہ ایسے مدعی مہدویت کا پتہ دے جس نے ۳۴
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء اس کسوف خسوف کو اپنے لیے نشان ٹھہرایا ہو اور یہ ثبوت یقینی اور قطعی چاہیے.اور یہ صرف اس صورت میں ہو گا کہ ایسے مدعی کی کوئی کتاب پیش کی جائے جس نے مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور نیز یہ لکھا ہو کہ خسوف کسوف جو رمضان میں دارقطنی کی مقرر کردہ تاریخوں کے موافق ہوا ہے وہ میری سچائی کا نشان ہے.غرض صرف خسوف کسوف خواہ ہزاروں مرتبہ ہوا ہو اس سے بحث نہیں.نشان کے طور پر ایک مدعی کے وقت صرف ایک دفعہ ہوا ہے.اور حدیث نے ایک مدعی مہدویت کے وقت میں اپنے مضمون کا وقوع ظاہر کر کے اپنی صحت اور سچائی کو ثابت کر دیا.اسی طرح نواب صدیق حسن خان صاحب حج الكرامه میں اور حضرت محمد دالف ثانی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ احادیث صحیحہ میں لکھا ہے کہ ستارہ دنبالہ دار یعنی ذوالسنین مہدی معہود کے ظہور کے وقت میں نمودار ہوگا.چنانچہ وہ ستارہ 1882ء میں نکلا اور انگریزی اخباروں نے اس کی نسبت یہ بھی بیان کیا کہ یہی وہ ستارہ ہے کہ جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں نکلا تھا.ایسا ہی اس زمانہ کے قریب جب کہ خدا نے مجھ کو مبعوث فرمایا ستارے اس کثرت سے ٹوٹے جن کی ان سے پہلے نظیر نہیں دیکھی گئی اور شاید یہ نومبر 1885ء تھا.اسی طرح اور کئی آسمانی نشان ظاہر ہوئے.یہ خدا کے سب نشان ہیں“.(چشمہ معرفت روحانی خزائن.جلد نمبر 23 صفحہ نمبر 330,329 حاشیہ) ۳۵
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسا مہدی آنا چاہیے جو جہاد کا فتویٰ دے اور انگریزوں اور دوسری غیر قوموں سے لڑائی کرے.میں کہتا ہوں یہ بھی غلط ہے اور حدیث سے بھی پایا جاتا ہے کہ آنے والا موعود يَضَعُ الْحَزب کر کے دکھائے گا.یعنی لڑائیوں کو موقوف کرے گا.دیکھو ہر چیز کے عنوان پہلے ہی سے نظر آ جاتے ہیں جیسے پھل سے پہلے شگوفہ نکل آتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کا یہی منشاء ہوتا کہ مہدی آکر جہاد کرتا اور تلوار کے زور سے اسلام کی حمایت کرتا تو چاہیے تھا کہ مسلمان فنون حربیہ اور سپاہ گری میں تمام قوموں سے ممتاز ہوتے اور فوجی طاقت بڑھی ہوئی ہوتی.مگر اس وقت یہ طاقت تو اسی قوم کی بڑھی ہوئی ہے اور فنونِ حرب کے متعلق جس قدر ایجادات ہو رہی ہیں وہ یورپ میں ہورہی ہیں نہ کسی اسلامی سلطنت میں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہرگز نہیں ہے اور يَضَعُ الْحَزبِ کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے واسطے یہی ہونا بھی چاہیے تھا.دیکھو مہدی سوڈانی وغیرہ نے جب مخالفت میں ہتھیار اٹھائے تو خدا تعالیٰ نے کیسا ذلیل کیا یہاں تک کہ اس کی قبر بھی کھدوائی گئی اور ذلت ہوئی اس لیے کہ خدا کے منشاء کے خلاف تھا.مہدی موعود کا یہ کام ہی نہیں ہے بلکہ وہ تو اسلام کو اس کی اخلاقی اور علمی و عملی اعجازات سے دلوں میں داخل کرے گا اور اس اعتراض کو دور ۳۶
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء کرے گا جو کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا.وہ ثابت کر دکھائے گا کہ اسلام ہمیشہ اپنی عملی سچائیوں اور برکات کے ذریعہ پھیلا ہے.ان تمام باتوں سے انسان سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا منشا تلوار سے کام لینا ہوتا تو فنونِ حرب اسلام والوں کے ہاتھ میں ہوتے.اسلامی سلطنتوں کی جنگی طاقتیں سب سے بڑھ کر ہوتیں.( آج کل تو ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان طاقتیں مغربی طاقتوں سے ہتھیار مانگ رہی ہوتی ہیں بلکہ ہر قسم کی ٹیکنالوجی وہاں سے مانگتی ہیں ).".فرمایا کہ: اگر چه قیقی خبر تو خدا تعالی سے وجی پانے والوں کو ملتی ہے مگر مومن کو بھی ایک فراست ملتی ہے اور وہ علامات و آثار سے سمجھ لیتا ہے کہ کیا ہونا چاہیے.جب عیسائی قوموں کے بالمقابل آتے ہیں تو ڑک اُٹھاتے ہیں اور ذلت کا منہ دیکھتے ہیں.کیا اس سے پتہ نہیں لگتا کہ خدا تعالیٰ کا منشاء تلوار اٹھانے کا نہیں ہے.یہ اعتراض صحیح نہیں ، غلط ہے“.اور یہی حالت ہم دیکھ رہے ہیں.( ملفوظات جلد نمبر سوم صفحہ نمبر 87-88 جدید ایڈیشن ربوہ ) وو ایک اور دلیل دیتے ہوئے فرمایا کہ : ” دیکھو یہی علماء کیسے شوق سے چودھویں صدی کے منتظر تھے اور تمام دل بول اٹھے تھے کہ اسی صدی کے سر پر مہدی اور مسیح پیدا ہوگا.بہت سے صلحاء اور اولیاء کے کشف اس بات پر قطع کر ۳۷
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء چکے تھے کہ مہدی اور مسیح موعود کا زمانہ چودھویں صدی ہے.اب ان کے دلوں کو کیا ہو گیا.وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَى الَّذِيْنَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرَوْا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ (البقرة : 90) مگر ضرور تھا کہ وہ مجھے کافر کہتے اور میرا نام دجال رکھتے.کیونکہ احادیث صحیحہ میں پہلے سے یہی فرمایا گیا تھا کہ اس مہدی کو کافر ٹھہرایا جائے گا اور اس وقت کے شریر مولوی اس کو کافر کہیں گے اور ایسا جوش دکھلا ئیں گے کہ اگر ممکن ہوتا تو اس کو قتل کر ڈالتے.مگر خدا کی شان ہے کہ ان ہزاروں میں سے یہ میاں غلام فرید صاحب چاچڑاں والوں نے پر ہیز گاری کا نور دکھلایا..وو ان کے بارے میں فرمایا کہ.....وَذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُوتِيْهِ مَنْ يَشَاءُ.خدا ان کو اجر بخشے اور عاقبت بالخیر کرے.آمین.فرمایا کہ اب جب تک یہ تحریریں دنیا میں رہیں گی میاں صاحب موصوف کا ذکر باخیر بھی اس کے ساتھ دنیا میں کیا جائے گا.یہ زمانہ گزر جائے گا اور دوسرا زمانہ آئے گا اور خدا اس زمانے کے لوگوں کو آنکھیں دے گا اور وہ ان لوگوں کے حق میں دعاء خیر کریں گے جنہوں نے مجھے پا کر میرا ساتھ دیا ہے.سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ وقت گزر جائے گا اور ہر ایک غافل اور منکر اور مکذب وہ حسرتیں ساتھ لے جائے گا جن کا تدارک پھر اس کے ہاتھ میں نہیں ہوگا.اب ۳۸
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء میاں غلام فرید صاحب کا خط ذیل میں حسب وعدہ مذکورہ لکھا جاتا ہے.عربی کا خط ہے جس کا ترجمہ پڑھ دیتا ہوں.ترجمہ اس کا یہ ہے.تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو رب الارباب ہے.اور درود اس رسول مقبول پر جو یوم الحساب کا شفیع ہے اور نیز اس کی آل اور اصحاب پر.اور تم پر سلام اور ہر یک پر جو راہ صواب میں کوشش کرنے والا ہو.اس کے بعد واضح ہو کہ مجھے آپ کی وہ کتاب پہنچی جس میں مباہلہ کے لئے جواب طلب کیا گیا ہے.اور اگر چہ میں عدیم الفرصت تھا تاہم میں نے اس کتاب کی ایک جز کو جوحسن خطاب اور طریق عتاب پر مشتمل تھی پڑھی ہے.سواے ہر یک حبیب سے عزیز تر تجھے معلوم ہو کہ میں ابتدا سے تیرے لئے تعظیم کرنے کے مقام پر کھڑا ہوں تا مجھے ثواب حاصل ہو اور کبھی میری زبان پر بجر تعظیم اور تکریم اور رعایت آداب کے تیرے حق میں کوئی کلمہ جاری نہیں ہوا.اور اب میں مطلع کرتا ہوں کہ میں بلاشبہ تیرے نیک حال کا معترف ہوں.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ تو خدا کے صالح بندوں میں سے ہے اور تیری سعی عند اللہ قابل شکر ہے جس کا اجر ملے گا اور خدائے بخشندہ بادشاہ کا تیرے پر فضل ہے.میرے لئے عاقبت بالخیر کی دعا کر اور میں آپ کے لئے انجام خیر و خوبی کی دعا کرتا ہوں.اگر مجھے طول کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں زیادہ لکھتا.وَالسَّلَامُ عَلَی مَنْ سَلَكَ سَبِيْلَ الصَّوَابِ - من ۳۹
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء مقام چاچڑاں“.( چاچڑاں شریف سے یہ لکھا تھا).ضمیمہ رسالہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 322-324) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب میں ایک اور بزرگ کا ذکر کیا ہے جو میں نے لیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : ” دوسرے پیر صاحبُ العَلَم ہیں جو بلا دسندھ کے مشاہیر مشائخ میں سے ہیں جن کے مرید ایک لاکھ سے کچھ زیادہ ہوں گے اور باوجود اس کے وہ علوم عربیہ میں مہارت تامہ رکھتے ہیں اور علماء راسخین میں سے ہیں.چنانچہ انہوں نے جو میری نسبت گواہی دی ہے وہ یہ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ یعنی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم کشف میں دیکھا.پس میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ شخص جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیا یہ جھوٹا اور مفتری ہے یا صادق ہے.پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ صادق ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.پس میں نے سمجھ لیا کہ آپ حق پر ہیں.اب بعد اس کہ ہم آپ کے امور میں شک نہیں کریں گے اور آپ کی شان میں ہمیں کچھ شبہ نہیں ہوگا اور جو کچھ آپ فرما ئیں گے ہم وہی کریں گے.پس اگر آپ یہ کہو کہ ہم امریکہ میں چلے جائیں تو ہم وہیں جائیں گے اور ہم نے اپنے تئیں آپ کے حوالہ کر دیا ہے اور انشاء اللہ میں فرمانبردار پاؤ گئے“.۴۰
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.یہ وہ باتیں ہیں جو ان کے خلیفہ عبداللطیف مرحوم اور شیخ عبداللہ عرب نے زبانی بھی مجھے سنائیں اور اب بھی میرے دلی دوست سیٹھ صالح محمد حاجی اللہ رکھا صاحب جب مدراس سے ان کے پاس گئے تو انہیں بدستور مصدق پایا بلکہ انہوں نے عام مجلس میں کھڑے ہو کر اور ہاتھ میں عصا لے کر تمام حاضرین کو بلند آواز سے سنا دیا کہ میں اُن کو اپنے دعوئی میں حق پر جانتا ہوں اور ایسا ہی مجھے کشف کی رُو سے معلوم ہوا ہے اور ان کے صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ جب میرے والد صاحب تصدیق کرتے ہیں تو مجھے بھی انکار نہیں.(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم.روحانی خزائن.جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 344) مخالفت کے بارے میں ہی ایک اور حوالہ ہے جو میں پڑھ دیتا ہوں.فرماتے ہیں کہ : ” میرے مقابل پر جو میرے مخالف مسلمان مجھے گالیاں دیتے ہیں اور مجھے کافر کہتے ہیں یہ بھی میرے لئے ایک نشان ہے.کیونکہ انہیں کی کتابوں میں یہ اب تک موجود ہے کہ مہدی معہود جب ظاہر ہوگا تو اُس کو لوگ کا فر کہیں گے اور اُس کو ترک کر دیں گے اور قریب ہوگا کہ علمائے اسلام اُس کو قتل کر دیں.چنانچہ ایک جگہ محمد والف ثانی صاحب بھی یہی لکھتے ہیں اور شیخ مجی الدین ابن العربی صاحب نے بھی ایک مقام میں یہی لکھا ہے.سو اس میں کچھ ۴۱
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء شک نہیں کہ باوجود ہزار ہا نشانوں کے جو خدا نے میرے لئے دکھلائے پھر بھی میں سخت تکذیب کا نشانہ بنایا گیا ہوں اور میری کتابوں کے یہودیوں کی طرح معنے محرف مبدل کر کے اور بہت کچھ اپنی طرف سے ملا کر میرے پر صد با اعتراض کئے گئے ہیں کہ گویا میں ایک مستقل نبوت کا دعوی کرتا ہوں اور قرآن کو چھوڑتا ہوں اور گویا میں خدا کے نبیوں کو گالیاں نکالتا ہوں اور توہین کرتا ہوں اور گویا میں معجزات کا منکر ہوں.سو میری یہ تمام شکایت خدا تعالیٰ کے جناب میں ہے اور میں یقینا جانتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے میرے حق میں فیصلہ کرے گا کیونکہ میں مظلوم ہوں“.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن.جلد نمبر 23 صفحہ نمبر 334) فرمایا کہ : ”میرا انکار میرا انکار نہیں ہے بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے.کیونکہ جو میری تکذیب کرتا ہے وہ میری تکذیب سے پہلے، معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ کو جھوٹا ٹھہرا لیتا ہے.جبکہ وہ دیکھتا ہے کہ اندرونی اور بیرونی فساد حد سے بڑھے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ نے باوجود وعدہ إِنَّا نَحْنُ نَزَلْنَا الذِكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُوْنَ (الحجر: 10) کے ان کی اصلاح کا کوئی انتظام نہ کیا جب کہ وہ اس امر پر بظاہر ایمان لاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آیت استخلاف میں وعدہ کیا تھا کہ موسوی سلسلہ کی طرح اس محمدی سلسلہ میں بھی خلفاء کا سلسلہ ۴۲
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء قائم کرے گا.مگر اس نے معاذ اللہ اس وعدہ کو پورا نہیں کیا اور اس وقت کوئی خلیفہ اس امت میں نہیں اور نہ صرف یہاں تک ہی بلکہ اس بات سے بھی انکار کرنا پڑے گا کہ قرآن شریف نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ قرار دیا ہے یہ بھی صحیح نہیں ہے، معاذ اللہ.کیونکہ اس سلسلہ کی اتم مشابہت اور مماثلت کے لئے ضروری تھا کہ اس چودھویں صدی پر اسی امت میں سے ایک مسیح پیدا ہوتا اُسی طرح پر جیسے موسوی سلسلہ میں چودھویں صدی پر ایک مسیح آیا.اور اسی طرح پر قرآن شریف کی اس آیت کو بھی جھٹلانا پڑے گا جو اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِم ( الجمعة : 4) میں ایک آنے والے احمدی بروز کی خبر دیتی ہے اور اس طرح پر قرآن شریف کی بہت سی آیتیں ہیں جن کی تکذیب لازم آئے گی.بلکہ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ الْحَمْدُ سے لے کر وَالنَّاسِ تک سارا قرآن چھوڑنا پڑے گا.پھر سوچو کہ کیا میری تکذیب کوئی آسان امر ہے.یہ میں از خود نہیں کہتا.خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حق یہی ہے کہ جو مجھے چھوڑے گا اور میری تکذیب کرے گا وہ زبان سے نہ کرے مگر اپنے عمل سے اس نے سارے قرآن کی تکذیب کر دی اور خدا کو چھوڑ دیا.( ملفوظات جلد چہارم.صفحہ 14-15 مطبوعہ لندن نومبر 1984 ء ) آپ فرماتے ہیں: ”میں قرآن و حدیث کا مصدق و مصداق ۴۳
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء ہوں.میں گمراہ نہیں بلکہ مہدی ہوں.میں کافر نہیں بلکہ اَنا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ کا مصداق صحیح ہوں اور جو کچھ میں کہتا ہوں خدا نے مجھ پر ظاہر کیا کہ یہ بیچ ہے.جس کو خدا پر یقین ہے جو قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحق مانتا ہے اس کے لئے یہی حجت کافی ہے کہ میرے منہ سے سن کر خاموش ہو جائے.لیکن جو د لیر اور بیباک ہے اس کا کیا علاج؟ خدا خود اس کو سمجھائے گا.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ خدا کے واسطے اس امر پر غور کریں اور اپنے دوستوں کو بھی وصیت کریں کہ وہ میرے معاملے میں جلدی سے کام نہ لیں.بلکہ نیک نیتی اور خالی الذہن ہو کر سوچیں“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 16 - مطبوعہ لندن نومبر 1984 ء ) آپ تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اور پھر خدا تعالیٰ سے اپنی نمازوں میں دعائیں کرتے ہوئے مدد مانگو تا کہ رہنمائی کرے، ہدایت دے.فرمایا:.اور پھر خدا تعالیٰ سے اپنی نمازوں میں دعائیں مانگیں کہ وہ ان پر حق کھول دے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر انسان تعصب اور ضد سے پاک ہو کر حق کے اظہار کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرے گا تو ایک چلہ نہ گزرے گا کہ اس پر حق کھل جائے گا.مگر بہت ہی کم لوگ ہیں جو ان شرائط کے ساتھ خدا ۴۴
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء تعالی سے فیصلہ چاہتے ہیں اور اس طرح پر اپنی کم کبھی یاضہ و تعصب کی وجہ سے خدا کے ولی کا انکار کر کے ایمان سلب کرالیتے ہیں.کیونکہ جب ولی پر ایمان نہ رہے تو ولی جو نبوت کے لئے بطور میخ کے ہے اسے پھر نبوت کا انکار کرنا پڑتا ہے اور نبی کے انکار سے خدا کا انکار ہوتا ہے اور اس طرح پر بالکل ایمان سلب ہو جاتا ہے“.(ملفوظات جلد نمبر دوم صفحہ نمبر 4 6 3 تا 6 36 جدید ایڈیشن ربوہ.ملفوظات.جلد چہارم صفحہ 16 مطبوعہ لندن نومبر 1984ء) فرمایا: ”ہماری آخری نصیحت یہی ہے کہ تم اپنے ایمان کی خبر داری کرو.نہ ہو کہ تم تکبر اور لا پروائی دکھلا کر خدائے ذوالجلال کی نظر میں سرکش ٹھہر و.دیکھو خدا نے تم پر ایسے وقت میں نظر کی جو نظر کرنے کا وقت تھا.سو کوشش کرو کہ تا تمام سعادتوں کے وارث ہو جاؤ.خدا نے آسمان پر سے دیکھا کہ جس کو عزت دی گئی اس کو پیروں کے نیچے کچلا جاتا ہے اور وہ رسول جو سب سے بہتر تھا اس کو گالیاں دی جاتی ہیں.اس کو بدکاروں اور جھوٹوں اور افترا کرنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کی کلام کو جو قرآن کریم ہے بُرے کلموں کے ساتھ یادکر کے انسان کا کلام سمجھا جاتا ہے.سو اس نے اپنے عہد کو یاد کیا.وہی عہد جو اس آیت میں ہے کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ.( الحجر : 10 ).سو آج اُسی عہد کے پورے ہونے کا دن ہے.اُس ۴۵
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء نے بڑے زور آور حملوں اور طرح طرح کے نشانوں سے تم پر ثابت کر دیا کہ یہ سلسلہ جو قائم کیا گیا اُس کا سلسلہ ہے.کیا کبھی تمہاری آنکھوں نے ایسے قطعی اور یقینی طور پر وہ خدا تعالی کے نشان دیکھے تھے جو اب تم نے دیکھے؟ خدا تعالی تمہارے لئے گشتی کرنے والوں کی طرح غیر قوموں سے لڑا اور اُن پر فتح پائی.دیکھو آتھم کے معاملہ میں بھی ایک کشتی تھی.تلاش کرو آج آنھم کہاں ہے؟ سنو ! آج وہ خاک میں ہے.وہ اس شرط کے موافق جو الہام میں تھی چند روز چھوڑ ا گیا اور پھر اسی شرط کے موافق جو الہام میں تھی پکڑا گیا.دوسری کشتی لیکھرام کا معاملہ تھا.پس سوچ کر دیکھو کہ اس کشتی میں بھی خدا تعالی کیسے غالب آیا ؟ اور تم نے اپنی آنکھ سے دیکھا کہ جس طرح اُس کی موت کی الہامی پیشگوئیوں میں پہلے سے علامتیں مقرر کی گئی تھیں اُسی طرح وہ سب علامتیں ظہور میں آئیں.خدا کے قبری نشان نے ایک قوم پر سخت سوگ وارد کیا.کیا بھی تم نے پہلے اس سے دیکھا کہ تم میں اور تمہارے رو برو اس جلال سے خدا کا نشان ظاہر ہوا ہو؟ سواے مسلمانوں کی ذریت! خدا تعالیٰ کے کاموں کی بے حرمتی مت کرو.ایام اصلح.روحانی خزائن جلد نمبر 14 صفحہ نمبر 325 تا 327) یہ چند اقتباسات میں نے سنائے ہیں.آپ نے مختلف پیرایوں میں اپنی صداقت کو اپنی مختلف کتب میں بیان فرمایا ہے.ان کی اس قدر کثرت ہے ۴۶
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء کہ ایک تقریر کیا ، کئی تقریروں میں بھی ان کا احاطہ ممکن نہیں ہو سکتا.اور پھر اس پر جماعت احمدیہ کی گزشتہ ایک سو بیس سال سے زائد کی تاریخ پوری آب و تاب کے ساتھ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت بھی ہر قدم پر جماعت کے ساتھ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہے.جہاں یہ ہر دم ہر احمدی کے ایمان کو مضبوط کرتی چلی جارہی ہے وہاں وہ سعید فطرت لوگ جو لاکھوں کی تعداد میں ہر سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کی جماعت میں شامل ہورہے ہیں وہ اس امر پر مہر تصدیق ثبت کرتے چلے جارہے ہیں کہ یہی وہ خدا تعالیٰ کا فرستادہ ہے جو الہی تائیدات اپنے ساتھ لیے ہوئے ہے جس نے اس زمانے میں جب کہ ہر طرف ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِ والبخر کے نظارے نظر آتے ہیں مبعوث ہوکر دنیا کو ایک ہاتھ پر جمع کر کے امن، سکون مصلح اور آشتی کی فضا قائم کرنی تھی.کل ہی میں نے بینن کے ایک شخص کا واقعہ بیان کیا ہے کہ وہ احمدی اس لئے ہو گیا تھا کہ لاہور کے واقعہ پر جب خلیفہ وقت کی طرف سے صبر اور دعا کی تلقین ہوئی تو تمام جماعت کا رد عمل صرف صبر اور دعا تھا.اور اس نے کہا کہ یہ سوائے سچوں کے اور کوئی نہیں کر سکتا.مخالفین نے آج کل ایک اور شیطانی چال چلی ہوئی ہے اور اپنی طرف ۴۷
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء سے بڑے پیار سے اور بڑے پیارے انداز میں احمدیوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ اے پیدائشی احد یو! تمہارے ماں باپ اپنی کم علمی اور کم عقلی اور ذاتی مفادات کی خاطر احمدیت کو قبول کرتے رہے لیکن تم عقل سے کام لو.اگر انسان اندھا بھی ہو عقل سے عاری بھی ہو تو تبھی وہ اتنی جرات کر سکتا ہے اور اس طرح کی یاوہ گوئی کرتا ہے جو آج کل یہ غیر احمدی علماء کر رہے ہیں.کیا تائیدات اور نشانات اور صداقت کے جو دلائل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دکھائے اور جن کو ہمارے بزرگوں نے براہ راست دیکھا اور قبول کیا ان صداقت کے نشانات کے بعد تمہاری کم علمی اور بیوقوفی پر رویا جائے یا اپنے بزرگوں پر شکوہ کیا جائے.اے نام نہاد علماء اور مخالفین احمدیت اور شیطان کے قدموں پر قدم مارنے والو! سن لو اور اپنے پلے باندھ لو کہ تمہارے یہ حربے کبھی بھی ہم پر کارگر نہیں ہو سکتے.جس راستے سے تم نے آنا ہے آؤ کبھی کسی مومن احمدی کے پائے ثبات کو ہلا نہیں سکتے.یادرکھو وہ سعید روحیں جنہوں نے امام الزمان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور ہم تک رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور غلام صادق کی تعلیم پہنچائی ہے اور ہمیں اس الہی جماعت کا حصہ بنایا ہے اور جو لوگ آخرین میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنے ان بزرگوں کا یہ ۴۸
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء احسان ہم اور ہماری نسلیں تا قیامت نہیں اتار سکتیں.پس ہم نے تو ان کے احسان کی وجہ سے اس درخت وجود کی سرسبز شاخیں بننے کا اعزاز پایا ہے جنہوں نے تمام دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھنڈے سائے تلے لانا ہے.اگر آج تمہارے دجل میں آکر کوئی بد قسمت سچائی کو پا کر پھر اس کو چھوڑ بیٹھتا ہے تو اس بات پر خوش نہ ہو کہ الہی جماعتوں سے سوکھی شاخوں کی شاخ تراشی خدا کی تقدیر ہمیشہ سے کرتی آئی ہے.جان، مال، وقت اور عزت کی قربانی کوئی کمزور ایمان نہیں دیتا.یہ قربانیوں کے معیار جو آج احمدی قائم کر رہے ہیں یہ صاف بتا رہے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کے اس فرستادہ پر کامل ایمان اور یقین ہے.اور ہر ابتلاء ہر احمدی کا ایمان پہلے سے مضبوط کرتا ہے.لاہور کے شہداء کی اجتماعی شہادت کے بعد تو مجھے دنیائے احمدیت کے ہر شہر اور ہر ملک سے یہ اطلاعیں آ رہی ہیں کہ جو دنیاوی کاموں میں پڑ کر مسجد سے بے تعلق اور کمزور ہو گئے تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی مسجد سے جڑنے کی توفیق عطا فرما دی ہے.بلکہ بعض تو با قاعدہ اور پرانے مسجد میں آنے والوں سے بھی پہلے آکر مسجد میں بیٹھنے لگ گئے ہیں.پس کیا تمہاری ان دجالی چالوں سے احمدیوں کا ایمان کمزور ہو سکتا ہے.یاد رکھو تمہاری یہ خوش فہمی ہے اور ہم پر بدظنی ہے.ہمیشہ کی طرح یہ بدظنی تمہیں شرمندہ کرے گی بشرطیکہ تمہارے اندر شرمندہ ہونے والا دل ہو ۴۹
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء تمہارے دل تو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہیں.پتھروں میں سے تو پھر بعض ایسے ہیں جن میں سے پانی کے چشمے پھوٹتے ہیں جو زندگی بخشنے کا ذریعہ ہیں.تمہارے دلوں اور زبانوں سے تو صرف نفرتوں کے لاووں کے علاوہ کچھ نہیں پھوٹتا جو سوائے نقصان کے اور شر کے کچھ نہیں کر سکتے.اے نفرتوں کے شرارے پھیلانے والو! تم وہ لوگ ہو جو ظلمتوں کے پجاری ہو اور نور سے دور ہو.تم اگر قرآن کریم کے علم رکھنے کا دعویٰ کرتے ہو تو خود قرآن کھول کر پڑھ لو کہ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں کیا کہتا ہے.آج ہر احمدی مرد ، عورت، بچہ اور بوڑھا اور جوان تو اپنے ایمان میں مضبوطی پیدا کرتا چلا جارہا ہے اور جیسا کہ ہم نے آج بھی دیکھا ہے کہ سعید فطرت اس منادی اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت میں شامل ہوتے سے دور چلے جار ہے ہیں لیکن تم لوگ جانتے بوجھتے ہوئے بھی بے علم لوگوں کو حق.لے جانے کی جس مذموم کوشش میں مصروف ہو اور الہی جماعت کے خلاف نفرتوں کے تیر چلانے کی جس مہم میں مصروف ہو یہ یقینا تمہیں خدا کی پکڑ میں گرفتار کرے گی.تم پر بہت کھل کر اتمام حجت ہو چکی ہے خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اس سے ڈرو اور اس کی فکر کرو.قرآنی دلائل ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ ارشادات، عقلی دلائل، زمینی اور آسمانی نشانات، اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادتیں
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء اور آج تک ان کا تسلسل اور جاری تسلسل تمہاری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے.اس کے ساتھ ہی میں عامتہ المسلمین سے بھی کہتا ہوں کہ اگر وہ میری بات پر کان دھریں اور اپنی عقل سے کام لیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ سے رہنمائی چاہیں.جھوٹے دعوے کرنے والوں کے حق میں خدا تعالیٰ اس طرح صداقت کے ثبوت ظاہر نہیں فرماتا.یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ کے سامنے یہ عذر کام نہیں آئے گا کہ ہمیں ان علماء نے ورغلا یا تھا.پس ان نام نہاد علماء کی ہر بات پر آنکھیں بند کر کے یقین نہ کریں.بے نفس اور خالی الذہن ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور جھکیں.دعا کریں اور رہنمائی چاہیں تو پھر خدا تعالی بھی رہنمائی فرماتا ہے.اپنے ذہنوں کو ہر قسم کے شکوک سے پاک کریں.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم کی دعا کریں تب اللہ تعالی رہنمائی فرماتا ہے.آج جماعت احمدیہ میں شامل ہونے والے ہزاروں سعید لوگ جو افریقہ سے بھی لاکھوں کی تعداد میں شامل ہو رہے ہیں، عرب ممالک سے بھی شامل ہو رہے ہیں، یورپ سے بھی شامل ہو رہے ہیں، امریکہ سے بھی شامل ہورہے ہیں، جزائر سے بھی شامل ہورہے ہیں، ایشیا سے بھی شامل ہو رہے ہیں، ان کی یہ شمولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ یقینا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعوی سچا ہے اور آپ خدا تعالیٰ کے ۵۱
فرستادہ ہیں.اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء میں احمدیوں کو پھر یا دربانی کرواتا ہوں کہ آج جب کہ فتنہ و فساد اور مخالفت کی آندھیاں اپنا زور دکھا رہی ہیں تو ہر احمدی مرد، عورت جوان، بوڑھا، بچہ اپنے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعاوی اور صداقت پر مزید مضبوطی پیدا کرنے کے لیے دعا کریں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں ایمان میں پہلے سے بڑھاتا چلا جائے اور تمام مسلمانوں کو دین واحد پر جمع ہونے کا نظارہ دکھائے اور مسلمانوں کی جو کھوئی ہوئی ساکھ اور عظمت ہے وہ دوبارہ ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ سکیں اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہم بڑی شان سے دنیا میں لہراتا ہوا دیکھیں.اب ہم دعا کریں گے.دعا میں جہاں جماعت کے لیے، جماعت کی ترقی کے لیے، ہر ملک میں جماعت کے پھیلنے کے لیے احمدیوں کے ثبات قدم کے لیے، استقامت کے لیے دعا کریں وہاں واقفین زندگی کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالی ان کو صحیح رنگ میں جماعت کی خدمت کے حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اسیران کے لیے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے جلد سامان پیدا فرمائے.شہداء کے لیے دعا کریں کہ انہوں نے جو عظیم قربانیاں دے کر ایک نئی روح ہمارے دلوں میں پھونکی ہے اس کو ہم ہمیشہ جاری رکھیں اور اللہ ۵۲
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یو.کے ۲۰۱۰ء تعالیٰ ان کے درجات بلند کرتا چلا جائے.ان شہداء کے خاندانوں کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صبر اور استقامت اور حوصلہ عطا فرماتا رہے اور اپنی جناب سے ان کی حفاظت فرمائے.اللہ تعالیٰ ہر مشکل میں گرفتار اور مصیبت میں گرفتار ہر احمدی کو اپنے فضل سے اس سے نجات دے.اللہ تعالیٰ سب پر رحم فرمائے.دعا کر لیں.۵۳