Khaleej Ka Buhran

Khaleej Ka Buhran

خلیج کا بحران

Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR

حضرت مرزا طاہر احمد ، خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1990کی دہائی میں ہولناکی اور سفاکیت سے عبارت خلیجی جنگ کے متعلق  خطبات جمعہ کا ایک  سلسلہ ارشاد فرمایا تھا جن کو یہاں کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ حضور ؒ نے نہایت گہری نظر سے اس عالمی سطح کی سیاسی کشمکش اور خونریز جنگ کے پس پردہ عوامل اور محرکات کا تجزیہ فرمایا اور عالم اسلام کے خلاف مشترکہ دشمنان کا مہیب خطرہ سے بھرا بے رحم ایجنڈا بتا کر سازشوں پر سے پردہ اٹھایا اور امت مسلمہ کی ہمدردی میں نصائح سے نوازا تاکہ وہ اپنے مستقبل کے فیصلوں میں احتیاط برت سکیں۔ انہی  خطبات میں حضورؒ نے قبل از وقت خبردار کردیا تھا کہ امریکہ کا پیش کردہ ورلڈ آرڈر دنیا میں امن کا ضامن نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کی بنیاد خودغرضی، برتری کے احساس اور اخلاق سے عاری سیاست پر ہے۔ اور کھول کر بتایا کہ دنیا کا پائیدار امن، بنی نو ع انسان کی حقیقی آزادی اور خوشحالی کا راستہ صرف اور صرف اسلام کا پیش کردہ نظام عدل ہی ہے۔ اس کتاب میں قارئین کے سہولت کے لئے مضامین کی مناسبت سے عناوین اور ذیلی عناوین بھی لگائے گئے ہیں اور آخر پر انڈیکس بھی موجود ہے۔


Book Content

Page 1

فہرست نمبر شمار عنوان ا.تنازعات حل کرنے کا قرآنی طریق.خلیجی بحران اور اس کے مہلک مضمرات.مرض کی غلط تشخیص اور غلط رد عمل __ و.عالم اسلام کے خلاف انتہائی خطرناک منصوبہ سنجیدگی ، خلوص اور درد کے ساتھ دعائیں کرنے کی ضرورت دنیا کو درپیش سب سے بڑا خطرہ حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے کا قرآنی حکم.مغربی طاقتوں کا متضاد طرز عمل ا.شدید بدامنی کے بیج بونے والی جنگ سیاسی جنگوں اور جہاد میں ما بہ الامتیاز ا.خلیجی جنگ میں مسلمان ملکوں کا طرز عمل ۱۲.بش کے نظام جہان نو“ کی حقیقت ۱۳.خلیجی جنگ کی تازہ صورت حال صفحہ 1 11 33 49 69 88 89 109 123 147 165 185 207 233

Page 2

261 291 319 359 ۱۴.۱۵.-17 اسرائیل کے قیام کا پس منظر اور اس کی حقیقت عالم اسلام اور تیسری دنیا کے لئے نصائح امن عالم کا خواب حقیقت میں ڈھالنے والے ہمہ گیر مشورے ۱۷.عالم اسلام کے لئے دعا کی تحریک

Page 3

خلیج کا بحران بسم اللہ الرحمن الرحیم تنازعات حل کرنے کا قرآنی طریق خطبه جمعه فرموده ۳ را گست ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) ۳ راگست ۱۹۹۰ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی وَإِنْ طَابِفَتْنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوْا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدُهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ : إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الحجرات: ۱۱،۱۰) عالم اسلام پر مسلسل وارد ہونے والے مصائب پھر فرمایا:.دس سال سے زائد عرصہ ہو گیا کہ عالم اسلام پر بہت سی بلائیں وارد ہورہی ہیں اور عالم اسلام مسلسل مختلف قسم کے مصائب کا شکار ہے.اگر تو یہ مصائب اور تکلیفیں غیروں کی طرف سے عالم اسلام پر نازل کئے جارہے ہوتے تو یہ بھی ایک بہت ہی تکلیف دہ امر تھا لیکن اس سے بڑھ کر تکلیف دہ امر یہ ہے کہ عالم اسلام خود ایک دوسرے کے لئے مصیبتوں کا ذمہ دار ہے اور دوحصوں میں بٹ کر مسلسل سالہا سال سے عالم اسلام کا ایک حصہ دوسرے عالم اسلام کے لئے مصیبتیں اور

Page 4

خلیج کا بحران ۳ راگست ۱۹۹۰ء مشکلات پیدا کرتا چلا جا رہا ہے.تیل کی دولت نے بہت سے مسلمان ممالک کو فوائد پہنچائے اور ساتھ ہی کچھ نقصانات بھی پہنچائے.نقصانات میں سے سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ ان میں رفتہ رفتہ تقویٰ کی روح گم ہوگئی اور دنیا کی دولت نے ان کے رجحانات کو یکسر دنیا کی طرف پلٹ دیا.یہ بات آج کے مختلف مؤرخین بھی اپنی کتب میں لکھتے رہے ہیں اور آج بھی لکھ رہے ہیں کہ جب تک عالم اسلام غریب تھا اس میں تقویٰ کے آثار پائے جاتے تھے لیکن اس تیل کی دولت نے گویا ان کے تقویٰ کو پھونک کر رکھ دیا ہے اور محض دنیا دار حکومتوں کی شکل میں وہ مسلمان حکومتیں ابھری ہیں جن کا اول مقام یہ تھا کہ خدا کا تقویٰ اختیار کرتیں ، اپنے ملک کے رہنے والوں کو تقویٰ کی تلقین کرتیں اور عالم اسلام کے باہمی تعلقات کو تقویٰ کی روح پر قائم کرتیں اور مسائل کو تقویٰ کی روح کے ساتھ حل کرتیں مگر ایسا نہیں.ایک امکانی صورت حال اور اس کا قرآنی حل جہاں تک قرآن کریم کا تعلق ہے یہ تعلیم نہ صرف عالمگیر ہے بلکہ ہر قسم کے امکانی مسئلے کو قرآن کریم نے چھیڑا بھی ہے اور اس کا ایک مناسب حل بھی پیش فرمایا ہے.چنانچہ اس امکان کو بھی قرآن کریم نے زیر نظر رکھا کہ مختلف مسلمان ممالک کے درمیان اختلافات پیدا ہو جائیں اور ان اختلافات کی شکل ایسی بھیانک ہو جائے کہ ان میں سے بعض دوسروں پر حملہ کریں اور مسلمان حکومتیں با ہم ایک دوسرے کے ساتھ قتال اور جدال میں ملوث ہو جائیں.چنانچہ اس امکان کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے.وَاِنْ طَابِفَتْنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا کہ ہو سکتا ہے کہ بعض مسلمان طاقتیں بعض دوسری مسلمان طاقتوں کے ساتھ نبرد آزما ہو جائیں اور ایک دوسرے پر حملہ کریں.ایسی صورت میں تمام عالم اسلام کا یہ مشترکہ فرض ہے کہ ان کے درمیان صلح کروانے کی کوشش کی جائے.فَإِنْ بَغَتْ اِحدُهُمَا على الأخرى اور اگر ایک طاقت دوسری طاقت کے خلاف باغیانہ رویہ اختیار کرنے پر مصر رہے

Page 5

خلیج کا بحران ۳ راگست ۱۹۹۰ء اور اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو اس کا علاج یہ ہے کہ تمام عالم اسلام مل کر مشتر کہ طاقت کے ساتھ اس ایک طاقت کو زیر کریں اور مغلوب کریں اور جب وہ اس بات پر آمادہ ہو جائے کہ اپنے فیصلوں کو احکامات الہی کی طرف لوٹا دے اور خدا کے فیصلے کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے تو پھر اس پر مزید زیادتی بند کی جائے اور از سر نو اس طاقت اور دوسری طاقت کے درمیان جس پر حملہ کیا گیا ہے، صلح کروانے کی کوشش کی جائے اور پھر یا درکھو کہ اس صلح میں بھی تقوی کو پیش نظر رکھنا اور انصاف سے کام لینا.پھر انصاف کی تاکید ہے کہ انصاف سے کام لینا.کیونکہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے.پھر فرماتا ہے اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَةٌ یاد رکھو کہ مومن بھائی بھائی ہیں.فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ پس ضروری ہے کہ تم اپنے بھائیوں کے درمیان صلح قائم رکھو اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے.قرآنی ہدایت کی صریح خلاف ورزی ان آیات کی روشنی میں ایک بات قطعی طور پر واضح ہوتی ہے کہ عالم اسلام نے اپنے باہمی اختلافات میں قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کی ہدایت کو ملحوظ نہیں رکھا.اگر مسلمان طاقتیں قرآن کریم کی اس واضح ہدایت کو پیش نظر رکھ کر اپنے معاملات نپٹانے کی کوشش کرتیں تو وہ ایک لمبے عرصے تک جو نہایت ہی خون ریز عرب ایران جنگ ہوئی ہے وہ زیادہ سے زیادہ چند مہینے کے اندر ختم کی جاسکتی تھی.مشکل یہ در پیش ہے کہ دھڑا بندیوں سے فیصلے ہوتے ہیں اور تقویٰ کی روح کو لوظ نہیں رکھا جاتا.چنانچہ گیارہ سال تک مسلمان ممالک ایک دوسرے سے بٹ کر آپس میں برسر پیکار رہے اور بعض طاقتیں بعض کی مدد کرتی رہیں لیکن اس اسلامی اصول کو نظر انداز کر دیا گیا کہ سب مل کر فیصلہ کریں اور سب مل کر ظالم فریق کے خلاف اعلان جنگ کریں.ایسی صورت اگر ہوتی تو صرف عرب اور ایران جنگ کا سوال نہیں تھا بلکہ پاکستان اور انڈونیشیا اور ملائیشیا اور دیگر مسلمان ممالک مثلاً شمالی افریقہ کے ممالک، ان سب کو مشترکہ طور پر اس معاملے میں دخل دینا چاہئے تھا اور مشترکہ

Page 6

خلیج کا بحران ۳ راگست ۱۹۹۰ء طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ظالم کو ظلم سے باز رکھنا چاہئے تھا.اب ایسی ہی ایک بہت تکلیف دہ صورت اور سامنے آئی ہے کہ اب ایران اور عرب کی لڑائی نہیں بلکہ عرب آپس میں بانٹے جاچکے ہیں اور ایک مسلمان عرب ریاست نے ایک دوسری مسلمان عرب ریاست پر حملہ کیا ہے.اس سلسلے میں عرب ریاستوں کی جوسر براہ کمیٹی ہے جو ان معاملات پر غور کرنے کے لئے غالبا پہلے سے قائم ہے، ان کے نمائندے کا اعلان میں نے سنا اور ٹیلی ویژن پر اس پروگرام کو دیکھا اور مجھے تعجب ہوا کہ اس لمبے تکلیف دہ تجربے کے باوجود ابھی تک انہوں نے عقل سے کام نہیں لیا اور قرآنی اصول کو اپنانے کی بجائے اصلاح کی کئی نئی راہیں تجویز کر رہے ہیں اور سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ وہ ممالک جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں وہ تمام اکٹھے ہو کر اس معاملے میں دخل دینے کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور بعض مسلمان ممالک ان سے دخل اندازی کی اپیلیں کر رہے ہیں.چنانچہ ایک مغربی مفکر کا انٹرویو میں نے دیکھا.اس نے یہ اعلان کیا کہ اس وقت عراق اور کویت کی لڑائی کے نتیجے میں Concentric دو دائر کے قائم ہو چکے ہیں یعنی ایک ہی مرکز کے گرد کھینچے جانے والے دو دائرے ہیں.ایک چھوٹا دائرہ ہے جو عالم اسلام کا دائرہ ہے ایک بڑا دائرہ ہے جو تمام دنیا کا دائرہ ہے اور ہم یہ انتظار کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ عالم اسلام کا دائرہ اس فساد کے مرکز کی طرف متوجہ ہو کر اس کی اصلاح میں کامیاب ہو جائے لیکن اس کے امکانات دکھائی نہیں دیتے اور خطرہ ہے.(انہوں نے تو خطرے کا لفظ استعمال نہیں کیا لیکن میں اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں ) انہوں نے کہا کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ تمام دنیا کے وسیع تر دائرے کو اس معاملے میں دخل دینا پڑے گا.قرآنی تعلیم کی طرف واپس لوٹنے کی اہمیت اس مختصر خطبے میں میں عالم اسلام کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کی تعلیم کی طرف لوٹیں تو ان کے سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں.یہ بہت ہی قابل شرم بات ہے اور نقصان کا موجب بات ہے کہ ساری دنیا مسلمان ممالک کے معاملات میں دخل دے اور پھر ان سے اس طرح کھیلے جس طرح شطرنج کی بازی پر مہروں کو چلایا جاتا ہے اور ایک کو دوسرے کے خلاف استعمال کرے

Page 7

۳ راگست ۱۹۹۰ء جیسا کہ پہلے کرتی چلی آئی ہے.امر واقعہ یہ ہے اس وقت مسلمانوں کی طاقتیں اپنی دولت کو اپنے ہی بھائیوں کے خلاف استعمال کر رہی ہیں.وہ تیل جس کو خدا تعالیٰ نے ایک نعمت کے طور پر اسلامی دنیا کو عطا کیا تھا، وہ تیل جہاں غیروں کے لئے عظیم الشان ترقیات کا پیغام بن کر آیا ہے اور وہ اس کے نتیجے میں اپنی تمام صنعت کو چلا رہے ہیں اور ہر قسم کی طاقت کے سرچشمے جن کی بنیاد میں مسلمان ممالک میں ہیں ان کے لئے فائدے کے سامان پیدا کر رہے ہیں.جہاں تک مسلمان ممالک کا تعلق ہے وہ اس تیل کو ایک دوسرے کے گھر پھونکنے اور ایک دوسرے کی مملکتوں کو جلا کر خاکستر کر دینے میں استعمال کر رہے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ اس کے سوا اس کا آخری تجزیہ اور کوئی نہیں بنتا.اب بھی وقت ہے اگر عالم اسلام تقویٰ سے کام لے اور قرآن کریم کی اس تعلیم پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کر لے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ کوئی غیر مسلم طاقت اسلامی معاملات میں کسی طرح دخل دینے پر مجبور ہو اور ضروری ہے کہ ان دو قرآنی آیات کی تعمیل میں اس مسئلے کو جو آج بہت ہی بھیانک شکل میں اٹھ کھڑا ہوا ہے محض عرب دنیا تک محدود نہ رکھا جائے کیونکہ جب آپ اسلام کے لفظ کو بیچ میں سے اڑا دیتے ہیں اور ایک اسلامی مسئلے کو علاقائی مسئلہ بنا دیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں خدا تعالی کی تائید اپناہاتھ کھینچ لیتی ہے.پس تعلیم قرآن میں کسی قوم کا ذکر نہیں ہے جو ہدایت قرآن کریم نے عطا فرمائی ہے، اس میں مسلمانوں کا بحیثیت مجموعی ذکر ہے اور ان سب کو بھائی بھائی قرار دیا گیا ہے.پس یہ ہرگز عرب مسئلہ نہیں ہے یہ عالم اسلام کا مسئلہ ہے.اس میں انڈونیشیا کو بھی اسی طرح ملوث ہونا چاہئے جس طرح پاکستان کو ، ملائیشیا کو بھی اسی طرح ملوث ہونا چاہئے جیسے الجیریا کو یا دوسرے ممالک کو اور سب مما لک کا ایک مشتر کہ بورڈ تجویز کیا جانا چاہئے جوفریقین کو مجبور کریں کہ وہ صلح پر آمادہ ہوں اور اگر وہ صلح پر آمادہ نہ ہوں تو تمام عالم اسلام کی طاقت کو اس ایک باغی طاقت کے خلاف استعمال ہونا چاہئے اور تمام غیر مسلم طاقتوں کو یہ پیغام دے دینا چاہئے کہ آپ ہمارے معاملات سے ہاتھ کھینچ لیں اور ہمارے معاملات میں دخل نہ دیں.ہم قرآنی تعلیم کی رو سے اس بات کے اہل ہیں کہ اپنے معاملات کو خود سلجھا سکیں اور خود نپٹا سکیں مگر افسوس ہے کہ اس تعلیم پر عمل درآمد کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے.

Page 8

۶ ۳ راگست ۱۹۹۰ء یہ عراق اور کویت کی لڑائی کا جو واقعہ ہے یا عراق کے کویت پر حملے کا ، اس کے پس منظر میں بہت سی بددیانتیاں اور عہد شکنیاں ہیں ، صرف عربوں کے آپس کے اختلاف نہیں ہیں بلکہ تیل پیدا کرنے والے دوسرے اسلامی ممالک بھی اس معاملے میں ملوث ہیں.چنانچہ انڈونیشیا ہے مثلاً ، اس کو اپنے عرب مسلمان بھائیوں سے شدید شکوہ ہے کہ Opec کے تحت جو معاہدے کرتے ہیں ان معاہدوں کو خود بصیغہ راز توڑ دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اجتماعی طاقت سے جو فوائد حاصل ہونے چاہیں وہ نقصانات میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور ہر ملک جس طرح چاہتا ہے اپنا تیل خفیہ ذرائع سے بیچ کر زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.پس اس پس منظر میں بھی تقوی ہی کی کمی ہے.یہ معاملہ صرف عراق اور کویت کی جنگ کا نہیں بلکہ آپس کے معاملات میں تقویٰ کے فقدان کا معاملہ ہے اور جو بھی عالمی ادارہ اس بات پر مامور ہو کہ وہ ان دونوں لڑنے والے ممالک یا ایک ملک نے جو حملہ کیا ہے، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل کریں ، اس کا فرض ہو گا کہ وہ تہہ تک پہنچ کر ان تمام محرکات کا جائزہ لیں جن کے نتیجے میں بار بار اس قسم کے خوفناک حالات پیدا ہوتے چلے جاتے ہی اور اس میں ایران کو بھی برابر شامل کرنا چاہئے.کوئی مسلمان ملک اس سے باہر نہیں رہنا چاہئے.اگر یہ ایسا کرلیں تو جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے ، اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی تائید تمہیں حاصل ہوگی اور لازما تم ان کوششوں میں کامیاب ہو گے.پھر تاکیداً فرمایا : اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ اپنے بھائیوں کے درمیان، جو آپس میں بھائی بھائی ہیں صلح کرواؤ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ تقویٰ اختیار کرنے والوں پر رحم کیا جاتا ہے.پس کوئی مسئلہ بھی جو اسلام سے یا قرآن سے تعلق رکھتا ہو تقوی کے بغیر حل نہیں ہوسکتا.مسلمانوں کے مسائل کا بنیادی تجزیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام مسلمانوں کے مسائل کا مختصر تجزیہ لیکن ایسا

Page 9

L ۳ راگست ۱۹۹۰ء تجز یہ جو تمام حالات پر حاوی ہو یوں فرمایا کہ تقویٰ کی راہ گم ہوگئی ہے.اسلام کا نام تو ہے لیکن تقویٰ کا راستہ باقی نہیں رہا.وہ ہاتھ سے کھویا گیا ہے.جب تقویٰ کی راہ گم ہو جائے تو پھر جنگلوں اور بیابانوں میں بھٹکنے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا.پس میں جماعت احمدیہ کے سربراہ کے طور پر اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو خواہ وہ ہمیں بھائی سمجھیں یا نہ سمجھیں ، یہ پر زور اور عاجزانہ نصیحت کرتا ہوں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی عمل ہے کی امت کو شدید خطرات درپیش ہیں.تمام عالم اسلام کی دشمن طاقتیں آپ کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی دخل اندازی کے بہانے ڈھونڈتی ہیں اور ایک لمبا عرصہ ہوا کہ آپ ان کے ہاتھ میں نہایت ہی بے کس اور بے بس مہروں کی طرح کھیل رہے ہیں اور ایک دوسرے کو شدید نقصان پہنچارہے ہیں.اس لئے تقوی کو پکڑیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی امت کو جو آج دنیا میں ذلت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اور تمسخر کا سلوک ان کے ساتھ کیا جا رہا ہے ، تمام دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں بڑی حقارت سے عالم اسلام کو دیکھتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ یہ ہمارے ہاتھوں میں اسی طرح ہیں جس طرح بلی کے ہاتھوں میں چوہا ہوا کرتا ہے اور جس طرح چاہیں ہم ان سے کھیلیں اور جب چاہیں سوراخ میں داخل ہونے سے پہلے پہلے اس کو دبوچ لیں.یہ وہ معاملہ ہے جو انتہائی تذلیل کا معاملہ ہے.نہایت ہی شرمناک معاملہ ہے اور عالم اسلام پر داغ پر داغ لگتا چلا جارہا ہے.اسلام کی عزت اور وقار مجروح ہوتے چلے جارہے ہیں.اس لئے خدا کا خوف کریں اور اسلام کی تعلیم کی طرف واپس لوٹیں اس کے سوا اور کوئی پناہ نہیں ہے.بار بار نازل ہونے والے مصائب کی وجہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ادبار اور تنزل کا دور اور یہ بار بار کے مصائب حقیقت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انکار کا نتیجہ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے اور آخری پیغام میرا یہی ہے کہ وقت کے امام کے سامنے سرتسلیم خم کرو.خدا نے جس کو بھیجا ہے اس کو قبول

Page 10

۳ راگست ۱۹۹۰ء کرو.وہی ہے جو تمہاری سربراہی کی اہلیت رکھتا ہے.اس کے بغیر اس سے علیحدہ ہو کر تم ایک ایسے جسم کی طرح ہو جس کا سر باقی نہ رہا ہو.بظاہر جان ہو اور عضو پھڑک رہے ہوں بلکہ درد اور تکلیف سے بہت زیادہ پھڑک رہے ہوں لیکن وہ سر موجود نہ ہو جس کی خدا نے اس جسم کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے پیدا فرمایا.پس واپس لوٹو اور خدا کی قائم کردہ اس سیادت سے اپنا تعلق باندھو.خدا کی قائم کردہ قیادت کے انکار کے بعد تمہارے لئے کوئی امن اور فلاح کی راہ باقی نہیں ہے اس لئے دکھوں کا زمانہ لمبا ہو گیا.واپس آؤ اور توبہ اور استغفار سے کام لو.میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ خواہ معاملات کتنے ہی بگڑ چکے ہوں اگر آج تم خدا کی قائم کردہ قیادت کے سامنے سرتسلیم خم کر لو تو نہ صرف یہ کہ دنیا کے لحاظ سے تم ایک عظیم طاقت کے طور پر ابھرو گے بلکہ تمام دنیا میں اسلام کے غلبہ نو کی ایسی عظیم تحریک چلے گی کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی اور وہ بات جو صدیوں تک پھیلی ہوئی دکھائی دے رہی ہے وہ رہا کوں کی بات بن جائے گی ، وہ سالوں کی بات بن جائے گی.تم اگر شامل ہو یا نہ ہو ، جماعت احمد یہ بہر حال تن من دھن کی بازی لگاتے ہوئے جس طرح پہلے اس راہ میں قربانیاں پیش کرتی ہے کرتی رہی ہے، آج بھی کر رہی ہے، کل بھی کرتی چلی جائے گی اور اس آخری فتح کا سہرا پھر صرف جماعت احمدیہ کے نام لکھا جائے گا.(انشاء اللہ ) پس آؤ اور اس مبارک تاریخی سعادت میں تم بھی شامل ہو جاؤ.اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی تو فیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں تمہاری خدمت کی توفیق عطا فرمائے.ایک بہترین خدمت گار تمہیں مہیا ہوئے تھے جو خدا کے نام پر خدا کی خاطر اور حضرت اقدس محمد مصطفی ملے کی محبت میں ہر مشکل مقام پر تمہارے لئے قربانیاں کرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے.تم نے ان سے استفادہ نہیں کیا اور ان کی خدمت سے محروم ہو گئے ہو.یہ اس دور کی عالم اسلام کی سب سے بڑی بدنصیبی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو عقل عطا فرمائے.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے میری نصیحت یہ ہے کہ خواہ وہ آپ سے فائدہ اٹھائیں یا نہ صلى الله اٹھائیں، خواہ وہ آپ کو اپنا بھائی شمار کریں یا نہ کریں، دعاوں کے ذریعہ آپ امت محمدیہ علی کی مدد کرتے

Page 11

کا بحران ۹ ۳ راگست ۱۹۹۰ء چلے جائیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تعلیم کو بھی فراموش نہ کریں کہ اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کاخر کنند دعوی حب پیمبرم کہ اے میرے دل ! تو اس بات کا ہمیشہ دھیان رکھنا، ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا کہ یہ تیرے دشمن یعنی مسلمانوں میں سے جو تیری دشمنی کر رہے ہیں، آخر تیرے محبوب رسول کی طرف منسوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.پس تو اس محبوب رسول کی محبت کی خاطر ہمیشہ ان سے بھلائی کا سلوک کرتا چلا جا.خدا تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 12

Page 13

11 بسم اللہ الرحمن الرحیم ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء خلیجی بحران اور اس کے مہلک مضمرات خطبہ جمعہ فرموده ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.مشرق وسطی کے کرب انگیز حالات شرق اوسط جسے ہم عرفِ عام میں مشرق وسطی بھی کہتے ہیں، اس کے حالات دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے چلے جارہے ہیں اور چونکہ یہ تقریباً تمام تر مسلمان علاقہ ہے، اس لئے تمام دُنیا کے مسلمانوں کو اس بارے میں تشویش لازمی ہے اور چونکہ وہ مقدس مقامات جو مسلمانوں کو دنیا میں ہر دوسری چیز سے زیادہ پیارے ہیں یعنی مکہ اور مدینہ جہاں کسی زمانے میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم پھرا کرتے تھے اور جن کی فضاؤں کو آپ کی سانسوں نے معطر اور مبارک فرمایا تھاوہ ارضِ مقدسہ بھی ہر طرف سے خطروں اور سازشوں میں گھری ہوئی ہے.پس اس لحاظ سے آج سارا عالم اسلام گہرا کرب محسوس کرتا ہے لیکن سب سے زیادہ گہرا کرب در حقیقت جماعت احمدیہ ہی کو ہے کیونکہ آج دنیا میں اسلام کی سچی اور مخلص نمائندگی کرنے والی جماعت صرف جماعت احمدیہ ہی ہے.جب میں کہتا ہوں کہ صرف جماعت احمدیہ ہی ہے تو ہو سکتا ہے کہ کوئی بے خبر انسان اس سے یہ خیال کرے کہ ایک جھوٹی تعلی ہے، ایک دعوی ہے اور ایک ایسی بات ہے جو دوسرے مسلمان فرقوں کو متنفر کرنے والی ہوگی اور وہ یہ سمجھیں گے کہ یہی اسلام کے علمبر دار اور ٹھیکے دار بنے پھرتے ہیں.گویا ہمیں اسلام سے بچی ہمدردی نہیں لیکن جیسا کہ میں حالات کا تجزیہ آپ

Page 14

۱۲ ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء کے سامنے رکھوں گا اُس سے یہ بات کھل کر واضح ہو جائے گی کہ آج اگر حقیقت میں اسلام کا درد کسی جماعت کو دُنیا میں ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہی ہے.انصاف اور تقویٰ سے عاری سیاست آج کے زمانے کی سیاست گندی ہو چکی ہے.انصاف اور تقویٰ سے عاری ہے.وہ مسلمان ریاستیں جو اسلام کے نام پر اپنی برتری کا دعوی کرتی ہیں اُن کی وفا بھی آج اسلامی اخلاق سے نہیں اور اسلام کے بلند و بالا انصاف کے اصولوں سے نہیں بلکہ اپنی اغراض کے ساتھ ہے.اسی وجہ سے عالم اسلام کے طرز عمل میں آپ کو تضاد دکھائی دے گا اور سوائے جماعت احمدیہ کے جتنے بھی دنیا کے فرقے ہیں آج وہ کسی نہ کسی اسلامی ریاست کے ساتھ دھڑے بناچکے ہیں اور کسی نہ کسی ایک کو اپنی تائید کے لئے اختیار کر چکے ہیں حالانکہ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ صرف اسلامی اقدار سے وفا کی جائے.اگر اسلام سے سچی محبت ہو تو محض ان تقاضوں سے وفا کی جائے جو اسلام کے تقاضے ہیں جو قرآن کے تقاضے ہیں، جو سنت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے تقاضے ہیں اور ان تقاضوں کی روشنی میں جب ہم موجودہ سیاست پر غور کرتے ہیں تو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق پر نہ مسلمانوں کی سیاست کی بنیاد دکھائی دیتی ہے نہ غیروں کی سیاست کی.غیر قومیں انصاف کے نام پر بڑے بڑے دعاوی کر رہی ہیں.گویا وہی ہیں جو دنیا میں انصاف کو قائم رکھنے پر مامور کی گئی ہیں اور اُن کے بغیر اُن کی طاقت کے بغیر انصاف دنیا سے مٹ جائے گا اور مسلمان ریاستیں اسلام کے نام پر بڑے بڑے دعاوی کر رہی ہیں مگر جب آپ تفصیل سے دیکھیں تو انصاف کا یعنی اُس انصاف کا جو قرآن کریم پیش کرتا ہے ایک طرف بھی فقدان ہے اور دوسری طرف بھی فقدان ہے.کویت پر عراقی قبضہ.رد عمل اور مہیب خطرات اب جو صورت حال اس وقت ظاہر ہوئی ہے، میں اب خاص طور پر اُس کے حوالے سے بات کرتا ہوں.عراق نے کسی شکوے کے نتیجے میں ایک چھوٹی سی ملحقہ ریاست پر حملہ کر دیا اور اس حملے

Page 15

۱۳ ۷ اسراگست ۱۹۹۰ء کے نتیجے میں جو مسلمان ریاست پر حملہ تھا آنا فانا پیشتر اس سے کہ دنیا باخبر ہوتی اس پر مکمل قبضہ کر لیا اور اس کے نتیجے میں اچانک تمام دنیا میں ایک بہیجان برپا ہوا اور وہ لوگ جو اسی قسم کے دوسرے واقعات پر نہ تکلیف محسوس کیا کرتے تھے، نہ کسی ہیجان میں مبتلا ہوتے تھے، نہ غیر معمولی مدد کے لئے دوڑے چلے آتے تھے ، کویت کے لئے اُن کی ہمدردیاں اس زور سے چمکی ہیں اور اس شدت کے ساتھ اُن کے اندر ہیجان پیدا ہوا ہے کہ اس زمانے کی تاریخ میں اس کی کوئی اور مثال دکھائی نہیں دیتی.یہ جو عرصہ اب تک گزر چکا ہے اس کے دیگر حالات پر تو میں مزید روشنی نہیں ڈالنی چاہتا جو اخبار بین لوگ ہیں وہ جانتے ہیں کیا ہورہا ہے مگر محض اس حوالے سے کہ اسلام کے تقاضے یا اسلامی انصاف کے تقاضوں کا کہاں تک خیال رکھا جا رہا ہے یا کہاں تک موجودہ سیاست ان سے عاری ہے، اس پہلو سے میں چند باتیں آپ کےسامنے رکھنا چاہتا ہوں.جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پوری طرح سے بغداد کی حکومت کو غیر مؤثر کرنے اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لئے اقدامات شروع کئے تو دن بدن یہ محسوس ہونے لگا کہ یہ عظیم اسلامی مملکت ایسے خطرناک حالات سے دو چار ہونے والی ہے کہ جس سے نبرد آزما ہونا اس کے بس میں نہیں رہے گا.اس وجہ سے مجھے بھی لازما غیر معمولی طور پر تشویش بڑھتی رہی اور میں بڑی گہری نظر سے جائزہ لیتا رہا کہ کس قسم کی گفت و شنید چل رہی ہے اور کیا حل پیش کئے جار ہے ہیں.حال ہی میں جب شاہ حسین جو شرق اُردن کے بادشاہ ہیں انہوں نے امریکہ کا دورہ کیا تو پہلے تو یہ خیال تھا کہ کوئی خط لے کر گئے ہیں.بعد میں پتا لگا کہ خط وطا تو کوئی نہیں ویسے ہی وہ کچھ پیغامات لے کر، کچھ تجاویز لے کر گئے ہیں.اس ضمن میں جو ٹیلی ویژن اور ریڈیو اور اخبارات کے ذریعے امریکہ کے صدر نے اور عراق کے صدر صدام حسین صاحب نے ایک دوسرے کے لئے زبان استعمال کی یا ایک دوسرے پر الزامات لگائے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالات کتنے ہیجان آمیز ہیں اور کس حد تک دنیا کی عظیم مملکتوں کے سربراہ بھی عام وقار سے اتر کر گھٹیا باتوں پر آجاتے ہیں.حیرت ہوتی ہے اُن کے بیانات سُن کر کس طرح ایک دوسرے کے اوپر غلیظ زبان استعمال کی جارہی ہے.جھوٹا ، گندے کردار والا ،

Page 16

۱۴ ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء دھوکے باز، اس قسم کے الفاظ اور واقعہ اس کے پیچھے یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی ریاست پر جو ایک مسلمان ریاست تھی ، ایک بڑی مسلمان ریاست نے قبضہ کیا ہے.دنیا میں دوسری جگہ اتنے بے شمار ایسے واقعات اس سے بہت زیادہ خوفناک صورت میں ظاہر ہوئے ہیں اور ہوتے چلے جارہے ہیں کہ اُن کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو یہ واقعہ اس کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا لیکن لازماً اس کے پیچھے بہت سے محرکات ہیں جن کے نتیجے میں اس کو اتنا غیر معمولی طور پر اچھالا گیا.بہر حال قبضہ تو ہو چکا اس کے بعد اس قبضے کو ہضم کرنے کا معاملہ تھا اور جتنا شدید رد عمل دنیا میں ظاہر ہوا ہے اس کے نتیجے میں عراق کے صدر صدام حسین صاحب نے امریکہ کو یہ کہلا کے بھجوایا کہ اگر تم واقعہ انصاف چاہتے ہو تو پھر اس سارے علاقے میں انصاف برتا جائے اور ہم تیار ہیں کہ ہم اپنی چھوٹی برادر ریاست کی حکومت کو پہلے کی طرح بحال کرتے ہیں جو خاندان اس ریاست پر فائز تھا اُس کے سپر د دوبارہ اس ملک کی باگ ڈور کر دیتے ہیں اور پہلے کی طرح تمام حالات بحال کر دیئے جائیں گے.اس علاقے میں اور بھی اس قسم کی باتیں ہیں اور بھی اسی قسم کے ناجائز قبضے ہیں جو تمہارے اتفاق کے ساتھ یا تمہارے اتحاد اور تمہاری سر پرستی کے ساتھ ہوئے ہیں تم اُن کو بھی اس نا جائز تسلط سے آزاد کراؤ.مثلاً اُردن کے مغربی ساحل پر یہود کا جو قبضہ ہے جسے دن بدن وہ زیادہ مستحکم کرتے چلے جارہے ہیں اور اب روسی مہاجرین کو وہاں آباد کر رہے ہیں.انہوں نے کہا کہ اس علاقے پر بھی غیروں کا قبضہ ہے بلکہ ایسے غیروں کا قبضہ ہے جو ہم مذہب بھی نہیں.ایسے غیروں کا قبضہ ہے جن سے عرب کو شدید دشمنی ہے اور اس قبضے کو وہ مستقل صورت دیتے چلے جارہے ہیں اور تمہارے مغرب کے اخلاق نے اس ضمن میں کوئی رد عمل نہیں دکھایا.مغرب کے انصاف کے تصور کے سر پر جوں تک نہیں رینگی اس لئے اُس کو بھی شامل کرو اور پھر شام (Syria) ایک اسلامی ملک ہے اُس نے لبنان میں اپنی فوجیں بھیجیں، وہاں تسلط کیا.بار بار جب چاہے وہاں فوجیں بھجواتا ہے اور جو چاہے وہاں کرتا ہے اُس کو بھی باز رکھا جائے اور اس کی فوجوں کو واپسی کے لئے مجبور کیا جائے.اس قسم کے یہ واقعات جو اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے ہیں اُن کو ساتھ ملا کر غور ہونا چاہئے.جہاں تک

Page 17

۱۵ ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء صدام حسین صاحب کی اس بات کا تعلق ہے، نہایت معقول ہے اور اگر انصاف کے تقاضوں کے پیش نظر بات کرنی ہے تو پھر خصوصیت کے ساتھ اس علاقے میں رونما ہونے والے سارے واقعات کو یکجائی صورت میں دیکھنا ہوگا.انصاف کا دہرا معیار اور ظالمانہ پروپیگنڈا اسی تعلق میں کچھ اور باتیں بھی ہیں.صدام حسین صاحب نے اگر انصاف اور تقویٰ کی نظر سے دیکھا جائے تو کویت پر جو حملہ کیا ہے اس کی کوئی جائز وجہ نہیں ہے لیکن جیسا کہ بیان کیا گیا ہے اُس سے کم جائز وجہ یہودیوں کے پاس ہے کہ وہ اردن کے مغربی ساحل پر قبضہ مستقل بنالیں اور اس علاقے کو ہمیشہ کے لئے ہتھیا لیں لیکن اس کے علاوہ بھی بعض مظالم اُن کی طرف منسوب ہوئے.مثلاً مغربی پریس نے یہ بات بہت ہی بڑھا چڑھا کر پیش کی کہ ایک انگریز کو نکلنے کی کوشش میں سرحد پار کرتے ہوئے یعنی ملک چھوڑنے کی کوشش میں انہوں نے گولیوں سے ہلاک کر دیا.یہ ایک واقعہ ہے.اس کے مقابل پر لبنان میں یا دیگر علاقوں میں یہود نے جو مسلسل مظالم کئے ہیں اور پھر یہودی ہوائی جہازوں نے عراق ہی کے ایٹمی پلانٹس کو جس طرح دن دھاڑے بڑی بے حیائی کے ساتھ تباہ و برباد کیا، ان سارے واقعات کو مغربی دنیا نے نظر انداز کیا ہوا ہے اور اس کے خلاف ایک انگلی تک نہیں اُٹھائی.ایک علاقے میں ایک شخص مارا جاتا ہے،اس کے اوپر دنیا کے سارے اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن پر شور پڑ جاتا ہے کہ ظلم کی حد ہو گئی ہے.ہزار ہا بوڑھے، بچے ، جوان جو کیمپوں میں بالکل نہتے پڑے ہوئے ہیں اُن کو جب بالکل مظلوم حالت میں تہہ تیغ کر دیا جاتا ہے اور بچوں کے سر پتھروں سے ٹکرا ٹکرا کر پھوڑے جاتے ہیں، بلبلاتی ہوئی ماؤں کے سامنے اُن کے بچے ذبح کئے جاتے ہیں اور پھر ان ماؤں کی باری آتی ہے.لبنان کے ایک کیمپ میں اتنا ہولناک واقعہ گزر گیا ہے اور اس پر کسی نے کوئی شور نہیں مچایا.تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ انصاف کی باتیں ہیں یا اور باتیں ہیں.محرکات اگر انصاف پر مبنی ہیں تو پھر انصاف تو ایک ہی نظر سے سب دنیا کو دیکھتا ہے.انصاف کے

Page 18

۱۶ ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء پیمانے بدلا نہیں کرتے.اسی طرح عراق میں یہ مشہور کیا گیا کہ بعض انگریز ایئر ہوسٹسز (Air Hostesses) کے ساتھ وہاں کے فوجیوں نے انتہائی بہیمانہ سلوک کیا اور اُن کی آبروریزی کی اور اس پر بہت شور پڑا ہے.کشمیر میں گزشتہ کئی مہینوں سے مسلسل مسلمان عوام اور غریب عورتوں اور بچوں پر شدید مظالم توڑے جا رہے ہیں اور آبرو ریزی کے واقعات اس کثرت سے ہو رہے ہیں اور ایسے دردناک واقعات ہیں کہ وہ جو مجھے اطلاعیں ملتی ہیں ان کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور دل لرز اٹھتا ہے کہ ایسے بہیمانہ اور سفا کا نہ سلوک بھی دنیا میں کئے جاسکتے ہیں.کون سے مغربی ممالک ہیں جنہوں نے اس معاملے پر ہندوستان کو ملامت کا نشانہ بنایا ہو اور کون سا مغربی میڈیا ہے جس نے ان باتوں کو نمایاں کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا ہو؟ جہاں روزانہ بیسیوں ایسے ظالمانہ واقعات ہوتے ہیں اور ہوتے چلے جارہے ہیں اُن سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور یہ واقعہ جو کہا جاتا ہے کہ عراق میں ہوا ہے، اس کے اوپر اتنا شور پڑا اور اس شور کے مدھم ہونے سے پہلے ہی یہ بات بھی ظاہر ہوگئی کہ وہ سب جھوٹ تھا اور ایک فرضی بات تھی.دوسری طرف عراق بھی جو اسلامی انصاف کے تقاضے ہیں اُن پر پورا نہیں اتر رہا.اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ خواہ لڑائی ہو اور خواہ جس قوم سے تمہاری لڑائی ہو رہی ہے، اُس قوم سے تعلق رکھنے والے لڑائی کے دوران تمہارے مُلک میں آباد ہوں تم ان کو کسی قسم کا Hostage بناؤ، کسی قسم کی سودا بازی کے لئے ان کو استعمال کر دیا اُن پر کوئی ایسا ظلم کرو جو تقویٰ کے خلاف ہے یعنی ظلم فی ذاتہ تقویٰ کے خلاف ہے.مراد یہ ہے کہ اُن کے ساتھ ہر قسم کی زیادتی سے اسلام منع کرتا ہے.اخلاق سے عاری سیاست کے شاخسانے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ساری زندگی اور اس زندگی میں ہونے والے تمام غزوے گواہ ہیں کہ ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ جس قوم کے ساتھ اسلام کی فوجیں برسر پیکار تھیں اُن کے آدمی جو مسلمانوں کے قبضہ قدرت میں تھے اُن سے ایک ادنی بھی زیادتی ہوئی

Page 19

۱۷ ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء ہو، وہ کلیۂ آزاد تھے.جس طرح چاہتے زندگی بسر کرتے اور کسی ایک شخص نے ، کسی فرد واحد نے بھی اُن پر کبھی کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ اسلام تو یہ تقاضا کرتا ہے کہ اگر کوئی پناہ مانگتا ہے تو خواہ وہ دشمن قوم سے تعلق رکھنے والا ہو اُس کو پناہ دو لیکن عراق نے اسلام کے اس اعلیٰ اخلاق کے پیمانے کو کلیپ نظر انداز کرتے ہوئے اعلان کیا کہ تمام برٹش قوم سے تعلق رکھنے والے جو کسی حیثیت سے کویت میں یا عراق میں زندگی بسر کر رہے تھے اور تمام امریکن جوان علاقوں میں موجود تھے اُن کو نہ ملک چھوڑنے کی اجازت ہے، نہ اپنے گھروں میں رہنے کی اجازت ہے، وہ فلاں فلاں ہوٹل میں اکٹھے ہو جائیں.اسی طرح دیگر غیر ملکیوں کو بھی جو اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے ہیں اُن کو بھی باہر نکلنے کی اجازت نہیں.اب ظاہر بات ہے کہ جس طرح یہ معاملہ آگے بڑھ رہا ہے، ان کو Hostages کے طور پر استعمال کیا جائے گا.اب یہ بات اپنی ذات میں کلیہ اسلامی اخلاق تو درکنار، دُنیا کے عام مروجہ اخلاق کے بھی خلاف ہے اس لئے اخلاق ہیں کہاں؟ آج کی سیاست میں کونسا ایک ملک ہے خواہ وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی ہو جس کے متعلق ہم یہ کہہ سکتے ہوں کہ یہ تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر پورا اترتا ہویا اسلامی اخلاق کے ادنی معیار پر بھی پورا اترتا ہو.ہر طرف رخنے ہیں.اب حال ہی میں یہ جو Unitednation کے ریزولیوشنز کو بہانہ بنا کر تمام طرف سے عراق کا Blockage کیا گیا یعنی فوجی اقدام کے ذریعے عراق میں چیزوں کا داخلہ بھی بند کیا گیا اور وہاں سے چیزوں کا نکلنا بھی بند کیا گیا.اس میں دو قسم کی اخلاقی زیادتیاں ہوئی ہیں جو بہت ہی خطرناک ہیں.ایک یہ کہ یونائیٹڈ نیشنز نے ہر گز کھانے پینے کی اور ضروریات زندگی کی اشیاء کو بائیکاٹ میں شامل نہیں کیا تھا.دوسرے یونائیٹڈ نیشنز نے ہرگز یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ اگر کوئی ملک بائیکاٹ نہ کرنا چاہے تو اُسے زبر دستی بائیکاٹ کرنے پر مجبور کیا جائے.اب ان دونوں باتوں میں امریکہ بھی اور انگلستان بھی یہ کھلی کھلی دھاندلی کر رہے ہیں.ایک طرف عراق پر بداخلاقی کا الزام ہے جو ہم مانتے ہیں کہ اسلامی نقطہ نظر سے بداخلاقی ہے، لیکن دوسری طرف اس دوسرے سانس میں خود ایک ایسی خوفناک بد اخلاقی کے مرتکب ہوتے ہیں

Page 20

کا بحران ۱۸ ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء جو بظاہر ڈپلومیسی کی زبان میں لپٹی ہوئی اور اتنی نمایاں طور پر خوفناک دکھائی نہیں دیتی مگر امر واقعہ یہ ہے کہ بغداد کی حکومت نے جو چار ہزار انگریز اور دو ہزار امریکن یا اس کے لگ بھگ جتنے بھی ہیں اُن لوگوں کو پکڑ کر اپنے پاس Hostage کے طور پر رکھا ہوا ہے.اگر ان کو بالآ خر خدانخواستہ ظالمانہ طور پر وہ ہلاک بھی کر دیں تو بھی یہ ظلم جو انگریز اور امریکہ مل کر عراق پر کر رہے ہیں یہ اُس سے بہت زیادہ بھیا نک مُجرم ہے.وجہ یہ ہے کہ اب اس جرم کے دائرے میں یعنی اس جرم کے نشانے کے طور پر Jorden کو بھی شامل کیا جا رہا ہے.شرق اُردن ایک ایسا ملک ہے جو ہمیشہ مغرب کا وفادار رہا ہے بلکہ قابلِ شرم حد تک وفادار رہا ہے اور سب سے زیادہ وفادار اس علاقے میں جو اسلامی ریاست تھی وہ یہی ریاست تھی.ویسے تو وفا میں سعودی عرب ان سے بڑھ کر ہے لیکن اس کا معاملہ صرف وفا کا نہیں.سعودی عرب کے تمام مفادات امریکن مفادات کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکے ہیں اور ایک ہی چیز کے دو نام بنے ہوئے ہیں اس لئے وہاں وفا کا سوال نہیں مگر شرق اردن جو ایک چھوٹا ملک ہے، یہ واقعہ ایک لمبے عرصے سے مغربی دنیا کا مشہور وفا دار ملک چلا آ رہا ہے.انگریزوں کے ساتھ بھی گہرے دوستانہ بلکہ برادرانہ مراسم، امریکنوں کے ساتھ بھی اور اب تک ان کی اپنی فہرستوں میں اس ملک کا نام ہمیشہ وفاداروں میں سرِ فہرست رکھا جاتا رہا.شرق اُردن کی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ عراق کے ساتھ اقتصادی بائیکاٹ کرے تو خود مرتا ہے اور اس کے لئے زندگی کا کوئی اور چارہ نہیں رہتا اور پھر اگر اس کے نتیجے میں عراق اسے بہانہ بنا کر اس پر قبضہ کرنا چاہے تو شرق اردن میں اتنی طاقت بھی نہیں کہ چند گھنٹے اُس کا مقابلہ کر سکے اس لئے اُن کی یہ مجبوری ہے مگر اس مجبوری کو کلیۂ نظر انداز کرتے ہوئے مغرب نے شرق اردن کو بھی اپنے جرم کا نشانہ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور یہ دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اگر تم نے عراق کا Blockage کرنے میں ہماری مدد نہ کی تو ہم تمہارا Blockage کریں گے اور اس Blockage میں چونکہ خوراک شامل ہے اس لئے بے شمار انسانوں کو ایڑیاں رگڑا رگڑا کر بھوکوں مارنے کا منصوبہ ہے یہاں تک کہ وہ کلیہ ذلیل اور رسوا ہو کر اپنے ہر مؤقف سے پیچھے ہٹ جائے.خواہ

Page 21

۱۹ ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء و پینی بر انصاف ہو یا بنی بر انصاف نہ ہو اور صرف یہی نہیں اس کے بعد اور بھی بہت سے بدارا دے ہیں جن کے تصور سے بھی انسان کی رُوح کانپ اُٹھتی ہے.صورت حال کے انتہائی مہلک مضمرات اس لئے سوال یہ ہے کہ کہاں انصاف ہے؟ مغربی دنیا چونکہ ڈپلومیسی جس کو اسلامی اصطلاح میں دجل کہا جاتا ہے، دجل میں ایک درجہ کمال تک پہنچی ہوئی ہے، آج تک بنی نوع انسان میں کبھی دجل کو اس بلندی تک نہیں پہنچایا گیا جس بلندی تک آج کی مغربی دنیا ڈپلومیسی اور سیاست کے نام پر دجل کو اپنے عروج تک پہنچا چکی ہے اس لئے اُن کے جرائم ہمیشہ پردوں میں لیٹے رہتے ہیں، ان کی زبان میں سلاست ہوتی ہے اور پرو پیگنڈے کے زور سے اپنی باتیں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ان میں کچھ معقولیت دکھائی دینے لگتی ہے.بہر حال ایک طرف تو یہ حال ہے کہ یہ جو بحران ہے وہ دن بدن گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے اور بہت سے خطرات ایسے ہیں جو سر اُٹھا کر ظاہر ہونے لگے ہیں اور بہت سے ایسے خطرات ہیں جو ابھی سرا تا نہیں اُٹھا سکے کہ عام انسانی نظر اُن کو دیکھ سکے لیکن اگر آپ گہری نظر سے مطالعہ کریں تو آپ کو وہ دکھائی بھی دے سکتے ہیں.ہمارا ایک چھوٹا سا مچھلیوں کا تالاب ہوا کرتا تھا، جب ہم وہاں جاتے تھے تو پہلی نظر سے تو صرف پانی کی سطح دکھائی دیا کرتی تھی پھر وہ مچھلیاں نظر آنے لگتی تھیں جو Surface کے قریب یعنی سطح کے قریب آ کر سر ٹکراتی ہیں لیکن جب غور سے دیکھتے تھے تو پھر سطح سے نیچے تہہ تک آہستہ آہستہ وہ مچھلیاں بھی دکھائی دینے لگتی تھیں جو پہلی اور دوسری نظر میں دکھائی نہیں دیتی تھیں.تو دُنیا کے سیاسی معاملات کا بھی یہی حال ہؤا کرتا ہے.ایک سطحی نظر ہے جس سے عوام الناس دیکھتے ہیں.کچھ دیر کے بعد اُن کو وہ سر اٹھاتی ہوئی مچھلیاں بھی دکھائی دینے لگتی ہیں لیکن اگر مومن کی نظر سے اور فراست کی نظر سے دیکھا جائے تو پاتال تک کے حالات دکھائی دینے لگتے ہیں.اس پہلو سے ابھی بہت سے خطرات ایسے ہیں جو آپ کے سامنے ظاہر نہیں ہوئے اور وقت اُن کو ظاہر کرے گا لیکن میری دُعا ہے اور میں آپ کو بھی اِس دُعا میں شامل کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان خطرات کو عالم اسلام کے سر سے ٹال دے.

Page 22

۲۰ ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء اب مسلمانوں کے گروہوں کا جہاں تک حال ہے یا مسلمانوں کے رد عمل کا جہاں تک حال ہے یہ ایک نہایت ہی خوفناک اور افسوسناک رد عمل ہے.میں نے ایک پچھلے خطبے میں یہ بات بہت کھول کر عالم اسلام کے سامنے پیش کی تھی اور اخباروں میں بھی وہ بیان جاری کئے خواہ وہ شائع ہوئے یا نہ ہوئے لیکن میں نے ہدایت کی تھی کہ مسلمان سربراہوں کو اُن ہدایات کا خلاصہ یا اُن مشوروں کا خلاصہ ضرور بھجوادیا جائے.خلاصہ اُس کا یہ تھا کہ قرآن کی تعلیم کی طرف لوٹیں کیونکہ قرآن کریم یہ فرما تا ہے کہ فَإِنْ تَنَازَعْتُمُ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ ( النساء: ٢٠) جب تم آپس میں اختلاف کیا کرو تو محفوظ طریق کار یہی ہے جس میں امن ہے کہ خدا اور اس کے رسول کی طرف بات کولوٹا یا کرو.قرآن اور سنت جس طرف چلنے کا مشورہ دیں اسی طرف چلو اور اسی میں تمہارا امن ہے اور اسی میں تمہاری بقا ہے.اس لئے بجائے اس کے کہ دُنیا کے سیاستدانوں کے ساتھ جوڑ توڑ کر کے اپنے معاملات طے کرنے کی کوشش کرو، قرآنی تعلیم کی طرف لوٹو اور قرآن کریم نے جو طریق کار واضح طور پر کھول کر بیان فرمایا ہے اس سے روشنی حاصل کرو اور وہ یہ ہے کہ صرف ایک قوم کے مسلمان نہیں بلکہ ہر ایسے جھگڑے کے وقت جس میں دو مسلمان ممالک ایک دوسرے سے برسر پیکار ہونے والے ہوں، تمام مسلمان ممالک اکٹھے ہو کر سر جوڑ کر اُس ایک ملک پر دباؤ ڈالیں جو شرارت کر رہا ہو اُن کے نزدیک اور پھر انصاف کے ساتھ اُن دونوں کے معاملات سُن کر صلح کرانے کی کوشش کریں.اگر اس کے باوجود صلح نہ ہو اور ایک دوسرے پر حملہ کرتا ہے تو یہ مسلمان ممالک کا کام ہے کہ وہ اس ایک ملک کا مقابلہ کریں اور غیروں سے مدد کا کہیں ذکر نہیں فرمایا گیا.اگر اس تعلیم کو پیش نظر رکھا جاتا تو آج جو یہ حالات بد سے بدتر صورت اختیار کر چکے ہیں اور نہایت ہی خطرناک صورت اختیار کر چکے ہیں ان کی بالکل اور کیفیت ہوتی.قرآن کریم کی اس تعلیم سے میں یہ سمجھتا ہوں اور مجھے کامل یقین ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو ایک مسلمان ملک خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس کے مقابل پر سارے مسلمان ملک مل کر یہ اجتماعی طاقت ضرور رکھیں گے اور ہمیشہ رکھتے رہیں گے کہ اگر وہ اپنی ضد پر قائم ہو تو اُسے بزور د با دیا

Page 23

۲۱ ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء جائے اور اس کی انا توڑنے پر اُسے مجبور کر دیا جائے.اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن کریم یہ تعلیم نہ دیتا.یہ ایسی واضح اور قطعی تعلیم ہے جس میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ کوئی اسلامی ملک خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اگر وہ سرکشی دکھاتا ہے اور تم باقی مسلمان ملک قرآنی تعلیم کے مطابق معاملات طے کرانے کی کوشش کرتے ہو اور وہ ضد کرتا ہے اور بغاوت اختیار کرتا ہے تو تمہاری اجتماعی طاقت اُسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی.یہ خوشخبری ہے جو قرآن کریم نے ہمیشہ کے لئے دی ہے اور یہ خوشخبری آج بھی صادق آتی ہے اگر اس سے فائدہ اُٹھایا جائے لیکن صورت حال یہ ہے کہ نہ صرف سعودی عرب نے اپنے سر پرستوں کو فوری طور پر مداخلت کی دعوت دی اور ان کی فوجیں یعنی امریکہ کی اور انگلستان کی فوجیں وہاں پہنچنی شروع ہوئیں بلکہ تمام دنیا کی بڑی بڑی حکومتوں کو انہوں نے ان بڑی طاقتوں کو مجبور کیا یا آمادہ کیا کہ وہ بھی کچھ نہ کچھ حصہ ڈالیں.چنانچہ مشرق بعید سے بھی، دور دراز سے کچھ نیول یونٹس یا ہوائی جہازوں کے یونٹس یا کچھ فوجی ہر طرف سے وہاں پہنچنے شروع ہوئے تا کہ تمام دنیا ایک طرف ہو جائے اور عراق اور اس کا ایک آدھ ساتھی ، شرق اُردن کو ایک طرف کر دیا جائے اور اب تک یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ سب دفاعی اقدامات ہیں اور خطرات کو پھیلنے سے روکنے کے لئے ان کی حد بندی کی جارہی ہے.دوسرا اس کا پہلو یہ ہے کہ اکثر مسلمان ممالک ان بڑے ممالک کے دباؤ کے نیچے آ کر مجبور ہو چکے ہیں یا اپنی خود غرضیوں کی وجہ سے اس بات پر بطیب خاطر شرح صدر کے ساتھ آمادہ ہو چکے ہیں کہ وہ بھی اپنی فوجیں وہاں بھیجیں.یہاں تک کہ پاکستان کی حماقت کی حد ہے کہ پاکستان بھی ان مسلمان ممالک میں شامل ہو گیا ہے جس نے سعودی عرب اپنی فوجیں بھجوانے کا وعدہ کیا ہے یعنی ایسی فوج جو امریکہ اور انگلستان کی فوجوں کے ساتھ مل کر مسلمان ملک عراق کے خلاف لڑے گی.عالم اسلام کے خلاف انتہائی گہری سازش یہ صورت حال بہت زیادہ سنگین ہوتی چلی جارہی ہے اور یہ خیال کرنا کہ یہ ساری کاروائیاں

Page 24

۲۲ ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء اور اتنی بڑی تیاریاں صرف سعودی عرب کو بچانے کے لئے کی جارہی ہیں ، بہت پرلے درجے کی حماقت ہوگی.اس سے زیادہ سادگی نہیں ہو سکتی کہ انسان یہ خیال کرے کہ اتنے بڑے ہنگامے جو دُنیا میں برپا ہو رہے ہیں، تمام طرف سے Naval Blockadge ہورہے ہیں اور نہایت خطرناک قسم کے جنگی طیارے جو آج تک کبھی کسی محاذ پر استعمال نہیں ہوئے وہ بھی وہاں پہنچائے جارہے ہیں اور جدید ترین جنگی ہتھیار وہاں اکٹھے کئے جارہے ہیں یہ صرف سعودی عرب کو عراق سے بچانے کے لئے کیا جا رہا ہے.مجھے جو خطرہ نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے بہانے عراق کو چاروں طرف سے کلیۂ نہتا کرنے کے بعد اسرائیل کو اجازت دی جائے گی کہ وہ عراق پر حملہ کرے اور Jorden نے اگر یہی رستہ اختیار کیا جو اس وقت اختیار کئے ہوئے ہے یعنی اپنی مجبوری کی وجہ سے عراق کے ساتھ ہے تو اُن کے لئے یہ بہت بڑا بہانہ موجود ہے کہ اس وجہ سے کہ Jorden ان کے ساتھ شامل نہیں ہو رہاJorden کو سزا دی جائے اور اس کی سزا یعنی بقیہ آدھی سزا یہ ہوگی کہ جس طرح اُردن کے مغربی کنارے پر یہود قابض ہو گئے ،Jorden کے باقی علاقے پر بھی جس حد تک ممکن ہے یہود قابض ہو جائیں اور جس حد تک تیزی کے ساتھ عراق وہاں پہنچ سکتا ہے اُس کے کچھ علاقے پر عراق قابض ہو جائے اور اس کے بعد پھر عراق کو شدید سزادی جائے.اس ضمن میں یہ خطرہ ہے کہ کچھ عرصے تک یہ دباؤ بڑھایا جائے گا اور بھوک سے مجبور کر کے ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے گا اور اس دوران اگر کسی وقت مناسب سمجھا گیا تو ایک اشارے پر اسرائیل کو اجازت دی جاسکتی ہے اور یہ سب کہہ سکتے ہیں کہ ہم تو مسلمان فوجوں کے ساتھ مل کر یہاں حفاظت کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں.ہمارا تو اس میں دخل ہی کوئی نہیں اور ہمارے ان فوجی اقدامات کے ساتھ تمام عالم اسلام کا اتفاق شامل ہے اور ہماری طرف سے تو کوئی زیادتی نہیں ہوئی، یہ عراق اور اسرائیل کے درمیان کے معاملات ہیں.یہ آپس میں طے کرتے رہیں ہم تو بیچ میں دخل نہیں دیں گے اور مسلمان ممالک کی فوجیں چونکہ یہاں مقفل ہو چکی ہوں گی اس لئے دوسرے مسلمان ممالک اگر چاہیں بھی تو الگ ہو کر اسرائیل کے مقابلے کے لئے عراق کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے.اگر یہ نہ ہو تو اس کے علاوہ بھی یہ خطرہ

Page 25

۲۳ ۷ اسراگست ۱۹۹۰ء بڑا حقیقی ہے کہ عراق سے ایسا خوفناک انتقام لیا جائے گا کہ اسے پرزہ پرزہ کر دیا جائے گا اور جب تک ان کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوگی، جب تک یہ اُبھرتا ہوا مسلمان ملک جو اس علاقے میں ایک غیر معمولی طاقت بن رہا ہے اسے ہمیشہ کے لئے نیست و نابود نہ کر دیا جائے.یہ ارادے پہلے اسرائیل میں پیدا ہوئے ہیں اور میں اسرائیل کے جو بیانات پڑھتا رہتا ہوں اُن سے مجھے یقین ہے کہ بہت دیر سے اسرائیل جو یہ پروپیگنڈا کر رہا تھا کہ اسرائیل کو عراق سے خطرہ ہے یہ ساری باتیں اُسی کا شاخسانہ ہیں.کسی طرح عراق کو آمادہ کیا گیا کہ وہ کو یت پر قبضہ کرے اور پھر یہ سارا سلسلہ جاری ہو.یہ اللہ بہتر جانتا ہے لیکن ایسے وقت اتفاقی نہیں ہوا کرتے اور ان کے پیچھے کچھ محرکات ہوتے ہیں، کچھ زیر زمین سازشیں کام کر رہی ہوتی ہیں، کہیں.C.I.A کے ایجنٹ ہیں، کہیں دوسرے ایسے غدار ملک کے اندر موجود ہیں جو غیر ملکی بڑی بڑی طاقتوں کی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے میں نہایت حکمت کے ساتھ دبی ہوئی خفیہ کارروائیاں کرتے ہیں اور ان کا رروائیوں کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ الناس میں موجود ہے کہ خناس وہ طاقتیں ہیں جو ایک شرارت کا بیج بو کر خود پیچھے ہٹ جاتی ہیں اور کچھ پتا نہیں لگتا کسی کو کہ کہاں سے بات شروع ہوئی، کیوں ہوئی، کوئی بڑی حماقت سرزد ہوئی ہے تو کون ذمہ وار ہے؟ لیکن در حقیقت ان کے پیچھے بڑی بڑی تو میں ہوا کرتی ہیں.پس اس پہلو سے یہ حالات نہایت ہی خطرناک صورت اختیار کر چکے ہیں.تاریخی پس منظر میں عالم اسلام کا جائزہ اب آپ عالم اسلام کا تاریخی پس منظر میں جائزہ لے کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کبھی بھی اسلام کی قوت کو بعض مسلمان ممالک کے شامل ہوئے بغیر نقصان نہیں پہنچایا جاسکا.ساری اسلامی تاریخ کھلی کھلی اس بات کی گواہ پڑی ہے کہ جب بھی مغربی طاقتوں نے مسلمان طاقت کو اُبھرنے سے روکا ہے یا ویسے کسی ظاہری یا مخفی جنگی کارروائی کے ذریعے اُن کو پارہ پارہ کیا ہے یا نقصان پہنچایا ہے تو ہمیشہ بعض مسلمان ممالک کی تائید ان لوگوں کو حاصل رہی.

Page 26

۲۴ ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء میں اس تاریخ کا مختصر ذکر آپ کے سامنے رکھتا ہوں، صرف نکات کی صورت میں.حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے تفسیر کبیر میں السمرا کے اعداد پر بحث کرتے ہوئے یہ نقاب کشائی سب سے پہلے فرمائی کہ ان آیات میں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان اعداد میں اسلامی تاریخ کے ساتھ ساتھ کوئی تعلق موجود ہے اور ان کے اعداد ۲۷ بنتے ہیں اور ا۲۷ وہ سال ہیں جو پہلی تین نسلوں کے گزرنے کے سال ہیں جن کے متعلق آنحضرت ﷺ نے خوشخبری دی تھی کہ یہ نسلیں یعنی میری نسل اور پھر اس کے بعد کی نسل اور پھر اس کے بعد کی نسل یہ مامون اور محفوظ نسلیں ہیں.ان کا بھی کم و بیش وقت ۲۷۱ سال پر جا کر پورا ہوتا ہے.یہ وہ خطرناک سال ہے جس میں عالم اسلام کے انحطاط کی بنیادیں کھودی گئیں اور آئندہ سے پھر عالم اسلام میں جو افتراق پیدا ہوا ہے اور مختلف جگہ انحطاط کے آثار پیدا ہوئے ہیں دراصل ان کا آغاز اسی سال میں ہوا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے جو دو بڑے اہم واقعات سنگ میل کے طور پر پیش فرمائے ہیں وہ یہ ہیں کہ ۲۷۱ میں سپین کی اسلامی مملکت نے پوپ کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ بغداد کی حکومت کو تباہ کرنے میں اور ان کو شکست دینے میں پوپ سپین کی اسلامی مملکت کی تائید کرے گا اور اس زمانے میں چونکہ پوپ کا اثر مغربی سیاسی دنیا پر غیر معمولی طور پر زیادہ تھا بلکہ بعض پہلوؤں سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پوپ ہی کی حکومت تھی اس لئے یہ ایک بہت ہی بڑا خطرناک معاہدہ تھا اور یہ ایسی سازش تھی جیسے آج سعودی عرب تمام مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کرے کہ ایک اسلامی ملک کو تباہ کر دیا جائے اور وہ اسلامی ملک پھر وہی ملک ہو جس کا دارالخلافہ بغداد ہے.دوسری طرف بغداد نے ۲۷۲ یا ۲۷۳ ہجری میں قیصر روم کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ قیصر روم اور بغداد کی حکومت یعنی عراق کی حکومت اُس وقت تو عراق اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ عراق کے علاوہ بھی اسلامی مملکت پھیلی ہوئی تھی ، اس لئے اس زمانے کی اسلامی حکومت کو بغداد کی حکومت کہنا ہی زیادہ موزوں ہے تو بغداد کی حکومت اور قیصر روم کی طاقت مل کر سپین کی اسلامی مملکت کو تباہ کر دیں گے.پس یہ وہ سال ہے جو آئندہ ہمیشہ ہمیش کے لئے مسلمانوں کے امن کو تباہ و برباد کر نے

Page 27

۲۵ ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء کے لئے ہلاکتوں کے رستے کھولنے والا سال تھا اور اس کے بعد جب بھی بڑے بڑے واقعات اسلامی مملکتوں پر گزرے ہیں، ہمیشہ غیروں کی سازشوں میں بعض مسلمان ممالک ضرور شامل رہے ہیں.ہلاکو خان کے ذریعے ۱۲۵۸ھ میں بغداد کو تباہ کروایا گیا یعنی تقدیر نے کروایا یا جو بھی حالات تھے اُن میں بھی تاریخ سے ثابت ہے کہ اس وقت المعتصم جو آخری عباسی خلیفہ تھا اور بہت کمزور ہو چکا تھا اُس کے وزیر اعظم نے یا وزیر نے مجھے جہاں تک یاد ہے غالباً وزیر اعظم تھے اور وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور وہ المعتصم سے ناراض تھے اس وجہ سے کہ انہوں نے بعض نہایت ظالمانہ کاروائیاں شیعوں کے خلاف کیں.یہ درست ہے کہ وہ کاروائیاں ظالمانہ تھیں اُن کا کوئی حق المعتصم کو نہیں پہنچتا تھا لیکن اس کا بدلہ انہوں نے اس طرح اُتارا کہ ہلاکو خان جو اپنے تسخیر کے ایک دورے پر تھا لیکن یہ خوف محسوس کرتا تھا کہ بغداد پر حملہ کرنا شاید معقول نہ ہو اور شاید اس کے اچھے نتائج نہ نکلیں اُس کو اس وزیر نے پیغام بھجوایا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ اس مملکت کا صرف رعب ہی رعب ہے اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہے اور بعض اور ایسے اقدامات کئے جن کے نتیجے میں فوج کو منتشر کروا دیا گیا.زیادہ جو فوج رکھی گئی تھی اس کے متعلق بادشاہ کو کہا گیا کہ خزانہ اس کا بار برداشت نہیں کر سکتا اس لئے اس کو کم کر دو.کچھ فوج کو ایسی سرحدوں کی طرف بھجوا دیا گیا جہاں سے کوئی خطرہ نہیں تھا.غرضیکہ ہلاکو خان کو دعوت دے کر بلوایا گیا اور وہ جو بے انتہاء خوفناک بر بادی بغداد کی اور اس اسلامی حکومت کی ہوئی ہے اس کی تفاصیل میں جانے کا موقع نہیں.اکثر لوگوں نے یہ واقعات سنے ہوں گے اور اس پر بعض درد ناک ناول بھی لکھے گئے.بہر حال یہ دنیا کا ایک معروف ترین تاریخی واقعہ ہے یہ واقعہ ۶۳۷ ھ میں گزرا ہے اندر سے ہی بعض مسلمانوں نے غیر قوموں سے سازش کر کے بغداد پر حملہ کروایا.اس کے بعد تیمور لنگ کے ہاتھوں ۱۳۸۶ھ میں بڑی بھاری تباہی مچائی گئی اور اس وقت بھی مسلمانوں کے نفاق اور افتراق کا نتیجہ تھا کہ تیمور لنگ کو یہ موقعہ میسر آیا کہ وہ ایک دفعہ پھر بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادے اور اس مملکت کو تباہ و برباد کر دے.تیسری دفعہ ترکوں کے ہاتھوں ۱۶۳۸ھ میں بغداد کی حکومت کو برباد کیا گیا اور یہ بھی ایک

Page 28

۲۶ ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء مسلمان حکومت تھی جو مسلمان حکومت کے خلاف برسر پر کا تھی.اس کے بعد ترکوں کی حکومت کو برباد کرنے کے لئے انگریزوں نے سعودی عرب کے اُس خاندان اور سعودی عرب کے اُس فرقے سے مدد حاصل کی جو اس وقت سعودی عرب پر قابض ہے اور اس زمانے میں کو یت جس پر اب عراق نے حملہ کیا ہے ان کا نمایاں طور پر مد و مددگار تھا.چنانچہ ان کی کوششوں سے یعنی اگر سعودی عرب کے موجودہ خاندان کو جو ایک سیاسی خاندان تھا اور ان کا قبیلہ اور فرقہ وہابی ا کٹھے ہو کر انگریز کی تائید نہ کرتے اور اگر کویت میں بسنے والے قبائل ان کی مددنہ کرتے تو تر کی حکومت کو عالم اسلام سے ختم نہیں کیا جاسکتا تھا.عرب ازم کے تصور کو اُٹھایا گیا اور بھی بہت سی کا رروائیاں ہیں.یہ لمبی کہانی ہے مگر اس وقت بھی ایک غیر طاقت نے بعض مسلمانوں کو استعمال کر کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی حکومت کو برباد کیا یعنی پہلے ترکی نے بغداد کی حکومت کو تباہ کیا پھر کویت اور سعودی عرب کے علاقے میں بسنے والے مسلمانوں کی مدد سے ترکی کی حکومت کو تباہ و برباد کر وایا گیا.اب پھر ویسے ہی حالات در پیش ہیں.اب پھر سعودی عرب کی مدد سے اور تائید سے اور اردگرد کی ریاستوں کی تائید اور مدد کے ساتھ ایک بڑی اسلامی مملکت کو بہت ہی سخت خطرہ در پیش ہے اور جہاں تک میں نے اندازہ لگایا ہے ان قوموں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اس دفعہ عراق کو ایسی خوفناک سزادی جائے اور ایسی عبرتناک سزادی جائے کہ پھر بیسیوں سال تک کوئی مسلمان ملک ان قوموں کے خلاف سر اُٹھانے کا یا ان سے آزادی کا تصور بھی نہ کر سکے اور اس میں سب سے بڑا محرک اسرائیل ہے کیونکہ اسرائیل بڑے عرصے سے یہ شور مچا رہا ہے کہ ہمیں عراق کی طرف سے کیمیائی حملے کا خطرہ ہے اور ہماری چھوٹی سی ریاست ہے اگر عراق کیمیاوی حملہ کرے تو ہم صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں.یہ حقیقت میں اسلام پر حملہ ہے پس جو بھی خطرہ تھا وہ حقیقی تھا یا غیر حقیقی اور اس کی ذمہ داری کس پر ہے اس بحث میں جائے بغیر یہ بات بہر حال قطعی اور یقینی ہے کہ سب سے بڑا ان حالات کا محرک اسرائیل ہے اور اسرائیل کے

Page 29

ج کا بحران ۲۷ ۷ اسراگست ۱۹۹۰ء مفادات ہیں اور اس وقت تمام عالم اسلام گویا اسرائیل کے مفادات کی حفاظت کے لئے کھڑا ہو چکا ہے اور اس کے مقابل پر ایک ایسے اسلامی ملک کو برباد کرنے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے جس کی یقیناً بعض حرکتیں غیر اسلامی تھیں اور تقویٰ اور انصاف کے خلاف تھیں لیکن اس کے باوجود اس بات کا سزاوار تو نہیں کہ اُس کو ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جائے اور برباد کر دیا جائے.انصاف کے خلاف ساری دنیا میں حرکتیں ہو رہی ہیں.اس سے بہت زیادہ حرکتیں ہو رہی ہیں اور کوئی بڑی طاقت اُس کے لئے اپنی چھوٹی انگلی بھی نہیں ہلاتی.اس لئے جو کچھ یہ کر رہے ہیں یہ انصاف کی خاطر نہیں کر رہے.گہری دشمنیاں ہیں بعض انتقامات انہوں نے لینے ہیں اور یہ حملہ حقیقت میں اسلام پر حملہ ہے.گو بظاہر ایک ایسے اسلامی ملک پر حملہ ہے جس کی اپنی حرکتیں بھی اسلامی نہیں رہیں.پس یہ دشمنیاں بہت گہری ہیں اور تاریخی نوعیت کی ہیں اور یہ فیصلے بہت اونچی سطح پر کئے گئے ہیں کہ اس وقت ساری دنیا میں سب سے بڑی طاقت کے طور پر عراق اُبھر رہا ہے.اگر اسے اُبھرنے دیا گیا تو بعید نہیں کہ یہ ارد گرد کی ریاستوں کو ہضم کرنے کے بعد ایک متحد عالم اسلام مشرق اوسط میں پیدا کر دے جس میں ساری دنیا کی تیل کی دولت کا ایک معتد بہ حصہ موجود ہو اور اقتصادی لحاظ سے اس میں یہ صلاحیت موجود ہوگی کہ وہ باقی تمام باتوں میں بھی خود کفیل ہو جائے اور پھر غیر معمولی بڑی فوجی طاقت بن کر اُبھرے یہ ان کے خطرات ہیں.خطرات کچھ بھی ہوں آج سب سے بڑا خطرہ جو عالم اسلام کو دکھائی دینا چاہئے وہ یہ ہے کہ مسلمان ممالک کی تائید اور نصرت اور پوری حمایت کے ساتھ ایک ابھرتی ہوئی اسلامی مملکت کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے اور خود اس میں اس مملکت کے ارباب حل و عقد ذمہ دار ہیں.ایسی صورت میں کیا ہو سکتا ہے؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابھی بھی وقت اتنا نہیں گزر چکا کہ حالات کو سنبھالا نہ جا سکتا ہو لیکن مسلمانوں کے لئے سوائے اس کے کہ خدا اور رسول کی طرف لوٹیں اور کوئی نجات اور امن کی راہ نہیں ہے.درویشانہ اپیل اور ایک غریبانہ نصیحت جہاں تک عراق کا تعلق ہے ان کے لئے سب سے پہلی بات تو یہ ضروری ہے کہ اسلامی

Page 30

۲۸ ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء اخلاق کو مجروح نہ کریں اور زیادہ دنیا میں اسلام کو تضحیک کا نشانہ نہ بنائیں.وہ غیر ملکی جو اس وقت ان کی پناہ میں ہیں خواہ ان کا تعلق امریکہ سے ہو یا انگلستان سے ہو یا پاکستان سے ہو اُن کو کھلی آزادی دیں کہ جہاں چاہیں جائیں ہمارا تم پر کوئی حق نہیں ہے.ہماری ان ملکوں سے اگر لڑائیاں ہیں تو ہم اُس سے پیٹیں گے یا اپنے معاملات کو طے کریں گے مگر تم اپنی ذات میں معصوم ہو اور ہماری امانت ہو اور امر واقعہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کی رُو سے ہر غیر ملکی اس ملک میں امانت ہوا کرتا ہے جس میں وہ کسی وجہ سے جاتا ہے.خواہ اس ملک کی اس غیر ملکی کے ملک سے لڑائی بھی چھڑ جائے تب بھی وہ امانت رہتا ہے.پس اس امانت میں خیانت کا نہایت ہولناک نتیجہ نکلے گا ان کی انتقام کی آگ جو پہلے ہی بھڑک رہی ہے وہ اتنی شدت اختیار کر جائے گی کہ وہ لکھوکھہا معصوم مسلمانوں کو بھسم کر کے رکھ دے گی.حکومت کے سر براہ اور اس سے تعلق رکھنے والے تو چند لوگ ہیں جو مارے جائیں گے.وہ مسلمان معصوم عوام مارے جائیں گے، جنگ کے ایندھن بھی وہی بنیں گے اور جنگ کے بعد کے انتقامات کا نشانہ بھی انہیں کو بنایا جائے گا اس لئے سوائے اس کے کہ عراق کی حکومت تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اسلامی تعلیم کی طرف لوٹے اس کے لئے امن کی کوئی راہ کھل نہیں سکتی.یہ قدم اُٹھائے اور دوسرے عالم اسلام کو یہ پیغام دے کہ میں پوری طرح تیار ہوں تم جو فیصلہ کرو میں اُس کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں اور ہر گارنٹی دیتا ہوں کہ کویت سے میں اپنی فوجوں کو واپس بلاؤں گا.امن بحال ہو گا لیکن شرط یہ ہے کہ فیصلہ عالم اسلام کرے اور غیروں کو اُس میں شامل نہ کیا جائے.اگر یہ تحریک زور کے ساتھ چلائی جائے اور عالم اسلام کے ساتھ جس طرح ایران سے صلح کرتے وقت نہایت لمبی جنگ کے اور خونریزی کے بعد جس میں Millions ہلاک ہوئے یا زخمی ہوئے جو علاقہ چھینا تھاوہ واپس کرنا پڑا.اگر یہ ہو سکتا ہے تو خونریزی سے پہلے کیوں ایسا اقدام نہیں ہو سکتا اس لئے دوسرا قدم عراق کے لئے ضروری ہے کہ کویت سے اپنا ہاتھ اُٹھا لے اور عالم اسلام کو یقین دلائے کہ جس طرح میں نے ایران سے صلح کی ہے اسلام دشمن طاقتوں سے نبرد آزما ہونے کی خاطر ان کے ظلم سے بچنے کے لئے میں تم سب سے صلح کرنی چاہتا ہوں اور یہ ظلم صرف ہم پر نہیں ہو گا بلکہ سارے عالم اسلام پر ہوگا.اسلام کی طاقت

Page 31

۲۹ ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء بیسیوں سال تک بالکل کچلی جائے گی اور اسلامی مملکتیں پارہ پارہ ہو جائیں گی اور کاملہ غیروں پر ان کو انحصار کرنا پڑے گا.اتنے خوفناک بادل اس وقت گرج رہے ہیں اور ایسی خوفناک بجلیاں چمک رہی ہیں کہ اگر ان لوگوں کو نظر نہیں آرہیں تو میں حیران ہوں کہ کیوں ان کو دکھائی نہیں دیتیں، نہ ان کو ان کا شور سنائی دے رہا ہے ، نہ ان کو خطرات دکھائی دے رہے ہیں اور جاہلوں کی طرح دو حصوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوئے ہوئے ہیں.پس ضروری ہے کہ عراق یہ پیغام دے اور بار بار یہ پیغام ریڈیو ٹیلی ویژن کے اوپر نشریات کے ذریعہ تمام عالم اسلام میں پہنچایا جائے کہ ہم واپس ہونا چاہتے ہیں.ہم اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے عالم اسلام کی عدالت کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں لیکن اس میں غیروں کو شامل نہ کرو.یہ ایک ایسی اپیل ہے جس کے نتیجے میں تمام مسلمان رائے عامہ اتنی شدت کے ساتھ عراق کے حق میں اُٹھے گی کہ یہ حکومتیں جو ارادہ بدنیتوں کے ساتھ بھی غیروں کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر مجبور ہیں وہ بھی مجبور ہو جائیں گی کہ اس اپیل کا صحیح جواب دیں اور اگر نہیں دیں گی تو پھر اگر یہ خدا کی خاطر کیا جائے اور خدا کی تعلیم کے پیش نظر اسلامی تعلیم کی طرف لوٹا جائے تو اللہ تعالیٰ خود ضامن ہوگا اور یقینا اللہ تعالیٰ عراق کی ان خطرات سے حفاظت فرمائے گا جو خطرات اس وقت عراق کے سر پر منڈلا رہے ہیں.ہماری تو ایک درویشانہ اپیل ہے، ایک غریبانہ نصیحت ہے اگر کوئی دل اسے سنے اور سمجھے اور قبول کرے تو اس کا اس میں فائدہ ہے کیونکہ یہ قرآنی تعلیم ہے جو میں پیش کر رہا ہوں اور اگر تکبر اور رعونت کی راہ سے ہماری اس نصیحت کو رد کر دیا گیا تو میں آج آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ اتنے بڑے خطرات عالم اسلام کو درپیش ہونے والے ہیں کہ پھر مدتوں تک سارا عالم اسلام نوحہ کناں رہے گا اور روتا رہے گا اور دیواروں سے سر ٹکراتا رہے گا اور کوئی چارہ نہیں ہوگا، کوئی پیش نہیں جائے گی کہ ان کھوئی ہوئی طاقتوں اور وقار کو حاصل کر لیں جو اس وقت عالم اسلام کا دنیا میں بن رہا ہے اور بن سکتا ہے.عملاً اس وقت مسلمان ممالک ایک ایسی منزل پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے اگر

Page 32

۷ اسراگست ۱۹۹۰ء خاموشی اور حکمت کے ساتھ اور فساد مچائے بغیر وہ قدم آگے بڑھا ئیں تو اگلے دس یا پندرہ سال کے اندر عالم اسلام اتنی بڑی طاقت بن سکتا ہے کہ غیر اس کو ٹیڑھی نظر سے نہیں دیکھ سکیں گے اور چاہیں بھی تو ان کی پیش نہیں جائے گی اور اگر آج ٹھوکر کھائی ، آج غلطی کی تو ایک ایسی خطرناک منزل ہے کہ یہاں سے پھر ٹھوکر کھا کر ایک ایسی غار اور ایسی تباہی کے گڑھے میں بھی گر سکتے ہیں جہاں سے پھر واپسی ممکن نہیں رہے گی.احمدی درد دل سے دعائیں کریں اس کے ساتھ ہی میں جماعت کو تلقین کرتا ہوں کہ وہ بہت ہی سنجیدگی اور در ددل کے ساتھ دعائیں کریں.مسلمان ممالک ہم سے جو بھی زیادتیاں کرتے ہیں یا کرتے رہے ہیں یا آئندہ کریں گے یہ ان کا کام ہے کہ وہ خدا کو خود جواب دیں گے مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا ہم اسلام کے وفادار ہیں اور اسلامی قدروں کے وفادار ہیں ہمیں اس بات سے کوئی خوف نہیں کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے کسی مسلمان ملک کی غلطی کی نشاندہی کر کے اُس سے عاجزانہ درخواست کریں کہ اپنی اصلاح کرو اور اُس کے نتیجہ میں خواہ وہ ہمارا دشمن ہو جائے یا ہم سے بعد ازاں انتظامی کاروائیوں کی سوچے.ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ ہمارا یہ طرز عمل خالصہ اللہ ہے.ہم جانتے ہیں کہ آج اسلام کی روح قرآن اور سنت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم میں ہے.اگر قرآن اور رسول اللہ علی کی سنت سے محبت ہے تو لازماً اس روح کی ہمیں حفاظت کرنی ہوگی اور اس روح کی حفاظت کے لئے تمام دنیا کے احمدی ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں.حق بات کہنے سے وہ باز نہیں آئیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت ان کو حق بات سے باز نہیں رکھ سکتی اور ایسی حق بات جو سراسر کسی کے فائدہ میں ہو.اگر اس سے کوئی ناراض ہوتا ہو پھر ہماری پناہ ہمارے خدا میں ہے ہمارا تو کل ہمارے مولیٰ پر ہے اور ہمیں دینا کی سیاستوں سے کوئی خوف نہیں.اس ضمن میں میں آپ کو ایک خوشخبری بھی دینی چاہتا ہوں کہ جو نصیحت میں نے کی ہے یہ نصیحت

Page 33

۳۱ ۱۷ اگست ۱۹۹۰ء حقیقت میں آج میرے مقدر میں تھی کہ میں ضرور کروں اور خدا نے اس کا آج سے بہت پہلے فیصلہ کر لیا تھا چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حمامة البشری میں لکھتے ہیں: وإن ربــى قــد بشرني في العرب، وألهمنى أن أمونهم وأريهم طريقهم وأُصلح لهم شؤونهم، وستجدوني في هذا الأمر إن شاء الله من الفائزين.(حمامة البشرى روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۸۲) یعنی میرے رب نے عرب کی نسبت مجھے بشارت دی ہے اور الہام کیا ہے کہ میں ان کی خبر گیری کروں اور ٹھیک راہ بتاؤں اور ان کا حال درست کروں اور انشاء اللہ آپ مجھے اس معاملہ میں کامیاب وکامران پائیں گے.پس خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جس فریضہ کی ادائیگی پر مامور فرمایا آج آپ کے ادنی غلام کی حیثیت سے میں آپ کی نمائندگی میں اس فریضے کو ادا کر رہا ہوں اور میں اس الہام کی خوشخبری کی روشنی میں تمام عالم اسلام کو بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ ان عاجزانہ غریبانہ عمل کر یں گے تو بلا شبہ کامیاب اور کامران ہوں گے، اور دنیا میں بھی سرفراز ہوں گے اور آخرت میں بھی سرفراز ہوں گے لیکن اگر خدانخواستہ انہوں نے اپنے عارضی مفادات کی غلامی میں اسلام کے مفادات کو پرے پھینک دیا اور اسلامی تعلیم کی پرواہ نہ کی تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کو دنیا اور خدا کے عذاب سے بچا نہیں سکے گی.اللہ تعالیٰ عالم اسلام کی طرف سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی کرے اور ہمارے دل کو فرحت نصیب فرمائے اور ہماری تمام بے قراریاں اور کروب دور فرمائے جن میں آج مجھے یقین ہے کہ ہر احمدی کا دل مبتلا ہے.آمین.نصیحتوں

Page 34

Page 35

۳۳ بسم اللہ الرحمن الرحیم مرض کی غلط تشخیص اور غلط رد عمل خطبه جمعه فرموده ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.مشرق وسطی میں مسلسل بے چینی کی اصل وجہ ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء گزشتہ کئی صدیوں سے شرق اوسط کا علاقہ مسلسل انحطاط کا شکار ہے اور جنگوں اور بے چینیوں اور بدامنی اور کئی قسم کے کروب میں اور دکھوں اور تکلیفوں میں مبتلا رہا ہے لیکن گزشتہ چالیس سال سے خصوصیت کے ساتھ ان تکلیفوں اور بے چینیوں اور دکھوں میں اضافہ ہوا بلکہ ہوتا چلا جا رہا ہے.اس کی وجوہات معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں لیکن معلوم ہونے کے باوجودان وجو ہات پر نہ مشرق کی توجہ ہے نہ مغرب کی توجہ ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ چالیس سال کے دور میں جتنی بار اس علاقے کا امن پارہ پارہ ہوا اور اس کے نتیجے میں عالمی امن کو صدمے کے احتمالات پیدا ہوئے اتنی ہی بار اس کے نتیجے میں جو رد عمل مغرب نے دکھایا وہ آئندہ ایسے ہی خطرات پیدا کرنے والا رد عمل تھا اور ایسے ہی خطرات کو بڑھانے والا رد عمل تھا ان کو دور کرنے والا نہیں تھا اور ہر ایسے تجربے سے گزرنے کے بعد شرق اوسط میں بسنے والے مسلمان عربوں نے جو ردعمل دکھایا وہ وہی رد عمل تھا جس کے نتیجہ میں وہ پہلے بارہا نقصانات اٹھا چکے تھے اور بارہا اپنی تکالیف میں اضافہ کر چکے تھے.پس بار بار کے تجارب سے گزرتے ہوئے ، بار بارا نہی نتائج تک پہنچنا جو پہلی مرتبہ بھی غلط ثابت ہو چکے ہیں یہ دانشوروں کا کام نہیں لیکن بظاہر دونوں طرف دانشور بھی موجود ہیں اس لئے

Page 36

۳۴ ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء کچھ اور وجہ ہے جس کی بناء پر یہ صورتحال سلجھنے کی بجائے مسلسل الجھتی چلی جارہی ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس تمام بے چینی کی جڑ اسرائیل ہے اگر چہ ہر لڑائی کے بعد مغرب نے اس کا ایک تجزیہ پیش کیا اور یہ بتایا کہ مشرق وسطی کے لوگوں کی کیا غلطی تھی ان کے راہنماؤں کا کیا قصور تھا جس کے نتیجے میں یہ سب نقصان پہنچے ہیں لیکن کبھی بھی انہوں نے مرض کی جڑ نہیں پکڑی اور اپنے طرز عمل میں اصلاح کی طرف کبھی توجہ پیدا نہیں کی.مثال کے طور پر اس سے پہلے جنرل ناصر کے اوپر یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ عبد الناصر ایک پاگل شخص ہے یہ اپنا توازن کھو بیٹھا ہے.اس کو علم نہیں کہ اس کے مقابل پر طاقتیں کتنی غالب ہیں اور ان کے مقابل پر اس کی یا اس کے ساتھیوں کی ،سارے عربوں کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے.جتنی دفعہ یہ جنگ کو جائے گا ہر بار ہزیمت اٹھائے گا اور پہلے سے بدتر حال کو پہنچے گا اس لئے مغربی دنیا کے تجزئے کے مطابق ایک پاگل را ہنما اٹھا جس نے اپنے جوش کی وجہ سے تمام قوم کے دل جیت لئے مگر ہوش سے عاری تھا اس لئے ان کی ہوش کے لئے اس نے کوئی چارہ نہ کیا.نتیجہ اس کا ہر اقدام جو اس نے اپنے دشمن کے خلاف کیا بالآخر اسی پر اور اس کے ساتھیوں پر الٹا اور ہر بار جب اس کا مقابلہ غیروں سے ہوا تو نہ صرف یہ کہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا بلکہ ہمیشہ اپنے ہاتھ سے کچھ کھویا اور مسلسل کھوتا چلا گیا.یہی حال کچھ عرصے تک اس کے پیچھے آنے والے دوسرے راہنماؤں کا رہا.پس پہلے دور کا تجزیہ یہ مغرب کے نزدیک مسلمانوں، عربوں میں سے اٹھنے والا ایک جوشیلا پاگل لیڈر تھا اور یہی تجزیہ اب صدام حسین کے بارہ میں پیش کیا جا رہا ہے اور تمام دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کروائی جارہی ہے کہ لو ایک اور پاگل لیڈر ا ٹھا ہے.ایسا پاگل لیڈر جس کی بنیادیں صرف ” ناصریت یعنی جنرل ناصر کے نظریات اور اس کے رویے پر ہی مبنی نہیں بلکہ ہٹلر میں بھی پیوستہ ہیں اور ہٹلریت میں پیوستہ ہیں جسے نائسی ازم ( Natsizm) بھی کہا جاتا ہے.اصل نام تو نائسی ازم ہے لیکن اس کا Symbol بن کر ھٹلر ابھرا تھا اس لئے ھٹلرانہ طرز عمل بھی اسے کہا جاتا ہے.تو یہ آج کل مغربی دنیا میں ٹیلویژن وغیرہ کے اوپر بکثرت ہٹلر کے دور کی فلمیں

Page 37

۳۵ ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء دکھا رہے ہیں اور اس جنگ کے ایسے واقعات پیش کر رہے ہیں جس سے نائسی ازم کے دور کی یادیں مغرب میں تازہ ہو جائیں اور از خود بغیر کچھ کہے وہ نائسی ازم کے دور اور اس کے محرکات کو جنرل صدام حسین کے دور اور اس کے محرکات کے ساتھ وابستہ کر دیں.پس یہ ان کا تجزیہ ہے لیکن کسی مغربی مفکر نے یہ نہیں کہا کہ اگر یہ واقعہ بیمار ذہن تھے جو راہنما بن کر ابھرے تو ان بیمار ذہنوں کو پیدا کر نیوالی بیماری کو نسی تھی اور یہ نہیں سوچا کہ اگر بیمار سراڑا بھی دیئے جائیں تو جو بیماری باقی رہے گی وہ ویسے ہی اور سر پیدا کرتی چلی جائے گی اور کبھی بھی اس بیماری سے اور اس بیماری کے اثرات سے یہ نجات حاصل نہیں کر سکتے.وہ بیماری کیا ہے؟ وہ اسرائیل کا قیام اور اس کے بعد مغرب کا مسلسل اسرائیل سے ترجیحی سلوک ہے.جب بھی کسی دوراہے پر اسرائیل کے مفاد کو اختیار کرنے یا مسلمان عرب دنیا کے مفاد کو اختیار کرنے کا سوال اٹھا بلا استثناء ہمیشہ مغرب نے اسرائیل کو فوقیت دینے کی راہ اختیار کی اور مسلمان دنیا کے مفادات کو ٹھکرا دیا.پس اس بیماری کا خلاصہ ایک عرب شاعر نے اپنے ایک سادہ سے شعر میں یوں بیان کیا ہے کہ من كان يلبس كلبه شيء ويقنع لي جلدی ما الكلب خير عنده منی وخيـــر مـنـــه عـنـدی کہ وہ شخص جو اپنے کتے کوتو پوشاکیں پہنا تا ہو اور میرے لئے میری جلد ہی کوکافی سمجھتا ہو، بلاشبہ اس کے لئے کتا مجھ سے بہتر ہے اور میرے لئے کتا اس سے بہتر ہے.بعینہ یہی مرض کی آخری تشخیص ہے.عرب دنیا کے دل میں یہ بات ڈوب چکی ہے اور ان کا یہ تجزیہ حقائق پر مبنی ہے کہ مغرب اپنے کتوں کو تو پوشاک پہنائے گا لیکن ہمیں ننگا رکھے گا اور یہ صورتحال اسرائیل اور عرب مواز نے میں پوری طرح صادق آتی ہے.نماد تشخیص اور غلط رد عمل پس مغرب کا رد عمل ایسے مواقع پر ہمیشہ یہ ہوا کہ اس جاہل عرب دنیا سے بچنے کے لئے

Page 38

۳۶ ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء اور اس کے نقصانات سے دنیا کو بچانے کے لئے ایک ہی راہ ہے کہ اسے پارہ پارہ کر دو، ٹکڑے ٹکڑے کر دو اور آئندہ کے لئے اس کے اٹھنے کے امکانات کو ختم کر دو.یہ ویسا ہی تجزیہ ہے گوا تنا ہولناک نہیں اور اتنا مجرمانہ نہیں جتنا پہلی جنگ عظیم کے بعد کیا گیا اور پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد کیا گیا.دونوں صورتوں میں وہ تجزیہ ناکام رہا وہ بنیادی محرکات جو نانسی ازم کو پیدا کرتے ہیں یا نا صریت کو پیدا کرتے ہیں یا صدا میت کو پیدا کرتے ہیں.جب تک ان محرکات پر نظر ڈال کر اس مرض کی صحیح تشخیص کر کے اس کے علاج کی طرف متوجہ نہ ہوا جائے ، بار بار وہ سراٹھتے رہیں گے اور دوسرے سروں کے کٹنے کا موجب بھی بنتے رہیں گے اور یہ پھوڑا پکتا رہے گا.یہاں تک کہ کوئی ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ جب مغرب کی طاقتور حکومتوں کے اختیار سے باہر نکل جائے.صدام حسین کو جو طاقت دی گئی ہے یہ بھی دراصل مغربیت کی نا انصافی کا ایک مظہر ہے اور ان کے لئے بے اصول پن کا ایک مظہر ہے.ایران میں مغربی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں اس سے پہلے مغرب ہی تھا جس نے خمینی ازم کی بنا ڈالی تھی.فرانس وہ مغربی ملک ہے جس میں امام خمینی صاحب نے پناہ لی اور بہت لمبے عرصے تک فرانس کی حفاظت میں رہے اور فرانس کے اثر اور تائید کے نیچے وہ پراپیگنڈہ کی مہم جاری کی گئی جس نے بالآخر وہ انقلاب برپا کیا جو ابھی تک جاری ہے اور اس عرصے تک چونکہ مغرب کو یہ خطرہ تھا کہ اگر خمینی ازم او پر نہ آیا یعنی مذہبی انقلاب برپا نہ ہوا تو شاہ کی نفرت اتنی گہری ہو چکی ہے کہ لازماً اشترا کی انقلاب بر پا ہوگا.پس خمینی ازم یا اسلام کے اس نظریے کی محبت نہیں تھی جو ایران میں پایا جاتا ہے بلکہ اس سے بڑے دشمن کا خوف تھا جس نے ان کو مجبور کیا کہ وہ خمینی ازم کی پرورش کریں اور جب وہ طاقت پا گیا تو کیونکہ وہ مذہبی لوگ تھے اور وہ جانتے تھے کہ مذہبی جذبات کے نتیجے میں ہم ابھرے ہیں، اس لئے لا زماً ان کے مفاد میں یہ بات تھی کہ مذہبی جذبات کو مشتعل رکھنے کے لئے ایک نفرت کے بدلے

Page 39

۳۷ ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء دوسری نفرت کی طرف رخ پھیرا جائے.پہلا انقلاب بھی نفرت کی بنا پر تھا اور وہ نفرت شاہ ایران اور اس کے پس منظر میں اس کے طاقتوار حلیف اور سر پرست امریکہ کی نفرت تھی.چنانچہ یہی نفرت انہوں نے مذہبی فوائد حاصل کرنے کے لئے استعمال کی اور امریکہ کو شیطان اعظم کے طور پر پیش کیا اور ہر طرح سے قوم کے ان مذہبی جذبات کو زندہ رکھا جو نفرت سے تعلق رکھتے ہیں اور اس بنا پر اس کے رد عمل میں خمینی ازم کو تقویت ملنی شروع ہوئی.پس پہلے بھی اس علاقے میں جو بدامنی ہوئی.جو خوفناک جنگیں لڑی گئیں یا فسادات برپا ہوئے یا قتل و غارت ہوئی یا نا انصافیاں ہوئیں ان کی بھی بنیادی ذمہ داری مغرب پر عائد ہوتی ہے اور بنیادی اس لئے کہ شاہ کے مظالم میں بھی مغرب ہی کی سر پرستی شامل تھی اور ذمہ داری تھی.یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ جسے آج دنیا میں تجس کے نظام پر اتنا عبور حاصل ہو چکا ہے کہ دور دور کے ایسے واقعات جن کے متعلق اس ملک کے رہنے والے بھی ابھی شعور نہیں پاتے ابھی احساس ان کے اندر بیدار نہیں ہوتا، ان کی انٹیلی جنس کی رپورٹیں ان کو بھی ان سے باخبر کر دیتی ہیں.چنانچہ یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک میں جو کئی انقلابات ہوئے ان میں امریکہ سے یہ شکوہ بھی کیا گیا کہ ہمیں خبر نہیں دی.یعنی ایک راہنما کی حکومت الٹی ہے، ایک پارٹی کو الٹایا گیا ہے اور وہ امریکہ سے شکوہ کر رہے ہیں کہ عجیب لوگ ہیں ہمیں خبر ہی نہیں دی.جس ملک میں رہتے ہو تمہیں اپنے ملک کی خبر نہیں اور شکوہ کر رہے ہو کہ ہمیں خبر نہیں دی پس شعور کی کمی جتنی زیادہ مشرق میں نمایاں ہوتی چلی جارہی ہے اور اپنے حالات سے بے حسی جتنی بڑھتی جا رہی ہے اتنا ہی ان قوموں کے اندر دوسروں کا شعور بیدار ہو رہا ہے اور دوسروں کے معاملات میں حس تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے.پس یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کو پتا نہ ہو کہ شاہ ایران نے کیسے سخت مظالم توڑے ہیں اور ان کا کتنا خطرناک رد عمل ہے جو ملک میں پنپ رہا ہے.ان مظالم کے دوران اس کے سر پر ہاتھ رکھنے کی اول ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے اور دنیا کا کوئی باشعور انسان امریکہ کو اس ذمہ داری سے مبرا نہیں کر سکتا.اس میں دشمنی یا جذبات کی بات نہیں ایک ایسی حقیقت ہے جو ادنی سی سمجھ رکھنے

Page 40

۳۸ ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء والا دانشور بھی آج یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ شہنشاہیت جو ایران کی شہنشاہیت ہے وہ امریکہ کی پروردہ تھی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سارے رد عمل کی ذمہ داری اصل میں امریکہ پر عائد ہوتی ہے اور اس رد عمل کو سنبھالنے کے لئے امریکہ نے جو طریق کا راختیار کیا وہ بھی ان کے مفاد میں یا ان کے نزدیک دنیا کے مفاد میں ضروری تھا.وہ سمجھتے تھے کہ اس رد عمل سے اب دو ہی طاقتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں یا خمینی ازم ، مذہب کی طاقت اور یا پھر اشتراکیت ہے اور اشتراکیت چونکہ زیادہ سخت دشمن تھی اور اس دور میں اگر اشتراکیت کو یہاں غلبہ نصیب ہو جاتا تو جو صلح آج روس اور امریکہ کے درمیان میں ہوئی ہے وہ کبھی واقعہ نہیں ہوسکتی تھی.پھر صدامیت پیدا نہ ہوتی پھر روس کی طرف سے اور روسی ایران کی طرف سے مشرق وسطی کے امن کو شدید خطرہ درپیش ہوتا اور ایسا خطرہ درپیش ہوتا جس کا کوئی مقابلہ ان کے پاس نہیں تھا، مقابلہ کرنے کی کوئی طاقت ان کے پاس نہیں تھی.پس بہر حال اپنے مفاد میں اور جسے جس طرح یہ پیش کرتے ہیں کہ ساری دنیا کے امن کے مفاد میں انہوں نے خمینی ازم کو پیدا کیا اور اس کی پرورش کی.یہاں تک کہ جب وہ طاقت پکڑ گیا تو انہوں نے اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے اپنے نظام کی بقاء کی خاطر اور امریکہ کے بداثرات سے اسے بچانے کے لئے ایک درمیانی راہ اختیار کی جو درمیانی راہ ان معنوں میں تھی کہ روس اور امریکہ کے بیچ میں چلتی تھی مگر اسلامی انصاف کے لحاظ سے وہ درمیانی راہ نہیں تھی کیونکہ انہوں نے اپنے دائیں بھی قتل و غارت کا بازار گرم کیا اور اپنے ہا ئیں بھی قتل و غارت کا بازار گرم کیا اور اسلام کے نام پر ایسا کیا.عراق کے متعلق پر فریب چالیں پس عالم اسلام کوکئی نقصانات پہنچے اور پھر ایران سے اپنا بدلہ لینے کے لئے ”صدا میت“ کو پیدا کیا گیا اور عراق کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی گئی اور تمام عرب طاقتیں جو ان کے زیر نگیں

Page 41

۳۹ ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء تھیں.ان کے ذریعے بھی مدد کروائی گئی اور براہ راست بھی یہاں تک کہ ایک موقع پر جبکہ عراق کو شدید خطرہ لاحق ہوا اور صاف نظر آنے لگا کہ ایرانی فوجیں اب بغداد پر قابض ہو جائیں گی تو اس وقت امریکہ نے کھلم کھلا اعلان کیا کہ ایسا نہیں ہوگا یا ایسا نہیں کرنے دیا جائے گا.چنانچہ بڑی تیزی کے ساتھ ان کی مدافعانہ طاقت کو بڑھا کر جارحانہ طاقت میں تبدیل کیا گیا اور یہ جو دنیا میں آج پرو پیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ایسا ظلم اور بے حسی ہے کہ Poisonous گیسیں جو اعصاب کو تباہ کرنے والی یا جسم پر چھالے ڈالنے والی یا دم گھوٹنے والی گیسیں ہیں ، بنی نوع انسان کے خلاف ان کو استعمال کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے ، اس لئے اس ظالم سے دنیا کو نجات دلانا ضروری ہے.کل یہی وہ قومیں تھیں جنہوں نے وہ گیس بنانے کے طریقے ان کو سکھائے تھے.ان کے علم میں تھا اور ان کی آنکھوں کے سامنے مسلسل وہ فیکٹریاں بنائی گئیں اور ان کا Know how ان کو عطا کیا گیا کیونکہ اس وقت مقابل پر بڑا دشمن ایران تھا اور ان قوموں کا یہ کہنا ، اگر آج یہ کہیں کہ ہمیں تو علم نہیں ، یہ کام تو عراق نے خفیہ طور پر خود بخو دکر لئے ، یہ بالکل جھوٹ ہے.لیبیا میں جب گیسوں کے کارخانوں کا آغاز ہوا تو اس وقت انہوں نے وہاں بمباری کی اور دنیا میں اعلان کیا کہ ہم کسی قیمت پر اس کارخانے کو قائم نہیں ہونے دیں گے کیونکہ یہ دنیا کے امن کے لئے بہت بڑا خطرہ ہوگا اور پھر تفاصیل بیان کیں جو حیرت انگیز طور پر درست تھیں.انہوں نے کہا کہ لیبیا کہتا ہے کہ ہم یہ گیسیں نہیں بنار ہے بلکہ دوسری قسم کی فرٹیلائز ریا اور کیمیا تیار کر رہے ہیں تو ہم ان کی تصویر میں آپ کو دکھاتے ہیں اندر سے یہ وہ کارخانہ ہے، یہاں یہ چیزیں بن رہی ہیں اور یہ یہ چیزیں پیدا ہورہی ہیں.اتنی ہو چکی ہیں ایک ایک جزء ایک ایک تفصیل کا ان کو علم تھا اور دنیا کے سامنے اس کو پیش کیا.تو عراق کے معاملے میں کس طرح آنکھیں بند تھیں جب اس کی پشت پر کھڑے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی قیمت پر بھی ایران کو عراق پر یا عرب دنیا پر فوقیت حاصل نہ ہو اور غلبہ حاصل نہ ہو ورنہ ان کو خطرہ تھا کہ پھر سارا معاملہ ان کے اختیار اور قبضہ قدرت سے باہر نکل

Page 42

۴۰ ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء جائے گا اور اس وقت ایران شور مچارہا تھا کہ ظلم ہوگیا ، اندھیر نگری ہے ،ایسی سفا کی ہے.وہ اپنے بیماروں کی تصویر میں دکھا رہا تھا اور چند ایک معمولی جھلکیوں کے بعد انہوں نے وہ منظر دنیا کے سامنے لانے بند کر دیئے.اب جبکہ اس جس کو یہ سر پھرا کہتے ہیں اور بیمار دماغ کہتے ہیں اس بیمار دماغ کو جس کو انہوں نے خود پیدا کیا ، جب اس بیمار دماغ کو ذلیل و رسوا کرنا پیش نظر ہے تو وہی تصویر میں جو ایران کے وقت پہلے ایران دکھایا کرتا تھا وہ اب ساری دنیا کو دکھا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ایسا ظالم شخص جس نے اپنے بھائی ایرانی مسلمانوں پر ایسے ظلم کئے تھے اس کے ظلم سے دنیا کیسے بچے گی.وہ دوسروں پر رحم کرے گا یا ان سے انسانیت کا سلوک کرے گا.تو یہ ردعمل جو ہے یہ بھی وہی پرانے رد عمل اور وہی پرانا طریق یعنی بیماری کو نہیں دیکھتے جو بیمارسر پیدا کرتی ہے، ان طاقتوں کو جو یہ خود طاقتیں ہیں نظر انداز کر دیتے ہیں جو بیماری پیدا کرنے میں مسلسل محمد رہتی ہیں اور ایک بیماری کو آغاز سے لے کر نقطہ انجام تک پہنچاتی ہیں بلکہ آخر پر توجہ صرف بیمارسروں کی طرف مبذول کرا دیتے ہیں کیونکہ ان کو انہوں نے تن سے جدا کرنا ہوتا ہے اس لئے دنیا کو یہ دکھانے کے لئے کہ ہم مجبور ہیں ایک پاگل ذہن ابھرا ہے جس کا یہ مقدر ہے کہ اسے تن سے جدا کیا جائے ورنہ وہ باقی دنیا کے سروں کے لئے خطرہ بن جائے گا.عربوں اور امیرانیوں کے ساتھ مغرب کا ظالمانہ سلوک آخری بات وہی ہے.یہ بیمار ذہن کیوں پیدا ہورہا ہے؟ اس لئے کہ مسلسل مغرب کا سلوک خصوصاً عرب مسلمانوں سے اور ایران کے مسلمانوں سے ظالمانہ رہا ہے، سفا کا نہ رہا ہے، جارحانہ رہا ہے اور باوجود اس کے کہ ان میں بہت سے ممالک کی دوستیوں کے ہاتھ انہوں نے جیتے.ان کی سر پرستیاں کیں اور بظاہر ان کے مددگار بنے لیکن عملاً اس کی وجہ واضح تھی کہ ان سے استفادہ کرنے کے لئے سب سے اچھا ذریعہ ان سے دوستی پیدا کرنا تھا.ان کے تیل کی دولت تمام کی تمام اپنے بینکوں میں رکھوائی اور اس سے دہرا فائدہ اٹھایا.ایک تو یہ کہ وہ بہت بڑے دولت

Page 43

ام ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء کے ذخائر بن گئے جس سے ان کی سرمایہ کاری کو غیر معمولی تقویت ملی اور دوسرے ہر خطرے کے وقت ان کی دولت پر قابض ہونے کا اختیار ان کو حاصل ہو گیا.اب جہاں دوسری جگہ امانت کی باتیں کرتے ہیں وہاں ان کے امانت کے تصور بدل جاتے ہیں یعنی ایک شہری جب دوسرے ملک میں جاتا ہے تو اس کی امانت ہے اس میں خیانت نہیں کرنی چاہئے مگر امن اور دوستی کے زمانے میں اعتماد کرتے ہوئے ایک بین الاقوامی مالی نظام کے تحفظات سے استفادہ کرتے ہوئے یا ان پر غلطی سے یقین کرتے ہوئے جب دولتیں ان کے بینکوں میں جمع کرائی جاتی ہیں تو کیا حق ہے ان کا کہ کسی دشمنی کے وقت بھی ان کی دولت کے اوپر ہاتھ رکھ دیں اور کہیں کہ اس کو ہم بنی نوع انسان کے فائدے میں سیل (Seal) کر رہے ہیں، سر بمہر کر رہے ہیں.کتنے ہی مشرقی ممالک ہیں جن کی دولتیں اس طرح ہر لڑائی اور ہر خطرے کے وقت سر بمہر کر دی گئیں اور اب بھی کو بیت کی دولت سر بمہر کی گئی لیکن وہ ان کو بعد میں ان کی دوستی کی وجہ سے چھوڑ دینے کی نیت سے اور عراق کا سارا سرمایہ جو غیر ملکوں میں تھا، اسے سر بمہر کر دیا گیا ، تو یہ دجل کی باریکیاں ہیں لیکن ان تمام چالا کیوں کو اور ان تمام ظلموں کو یہ ایک نہایت نفیس Civilize زبان میں پیش کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور اس میں درجہ کمال کو پہنچے ہوئے ہیں.اس کے مقابل پر ہر دفعہ بد نصیب عرب مسلمان دنیا نے ہوش کا جوش سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے اور ہر دفعہ جوش کو ہوش سے ٹکرا کر جوش کو پارہ پارہ کروایا ہے اور مسلمان دنیا کو مزید ذلیل و رسوا کر وایا ہے.سب سے بڑی غلطی عرب دنیا نے یہ کی اور ہمیشہ کرتی چلی گئی کہ یہ سیاسی محرکات اور یہ دنیاوی معاملات جن میں خود غرض قوموں کا رد عمل مذہب کی تفریق کے بغیر ہمیشہ ایک ہی ہوا کرتا ہے.ان محرکات کو ان کے مواضع پر جہاں یہ واقع ہیں، ان تک رکھنے کی بجائے ان کو مذہب میں تبدیل کر دیا گیا اور جو نفرت پیدا کی گئی وہ اسلام کے نام پر پیدا کی گئی ان قوموں کا جن قوموں نے آپ کے مفادات پر حملہ کیا ہے.مقابلہ کرنے کا انسانیت آپ کو حق دیتی ہے.اس کو بلا وجہ اسلامی جہاد میں تبدیل کر کے ان کو اور موقع دیا گیا کہ پہلے تو یہ صرف اسلامی دنیا پر حملہ

Page 44

۴۲ ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء کرتے تھے اب وہ اسلام پر بھی حملہ کریں اور تمام بنی نوع انسان کو کہیں کہ اصل بیماری اسلام ہے.اسرائیلیت نہیں ہے ہماری نا انصافیاں نہیں ہیں بلکہ اسلام ایک سج مذہب ہے جو کبھی پیدا کرتا ہے.ایک غیر منصفانہ مذہب ہے جو غیر منصفانہ خیالات کو فروغ دیتا ہے اور ساری بیماریاں اسلامی طرز فکر میں ہیں.چنانچہ ایران کے رد عمل میں بھی جو غیر اسلامی رد عمل تھا اور جس کا اسلام سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں تھا لیکن دنیا وی اصول کے مطابق اگر اس کو پیش کیا جاتا تو بہت حد تک دنیا کو مطمئن کر وایا جاسکتا تھا کہ ہم مظلوم رہے ہیں.اب ہمارا وقت ہے انتقام لینے کا ، ہم مجبور ہیں دنیا کسی حد تک اس کو سمجھ سکتی تھی لیکن اسلامی دنیا کی لیڈرشپ کی جہالت کی حد ہے کہ قول سدید کی بجائے ، دنیا کو صاف بات بتانے کی بجائے کہ ہم مجبور ہیں ہم بے اختیار ہیں.جب بھی ہمیں موقع ملے گا ، انہوں نے ہمارے اندر اتنی نفرتیں پیدا کی ہیں اور نا انصافیوں کی اتنی صدیاں ہمارے موجودہ رد عمل کے پیچھے کھڑی ہیں کہ ہم مجبور ہو کر ایک کمزور آدمی کا رد عمل دکھائیں گے جس کے ہاتھ میں جب اینٹ آتی ہے تو وہ اٹھا کر مارتا ہے پھر یہ نہیں سوچا کرتا کہ اس کے نتیجے میں اس کو کیا سزا ملے گی یا طاقتور اس سے کیا سلوک کریں گے.اس صورتحال کو تقویٰ کے ساتھ اور اسلامی تعلیم کے مطابق قول سدید کے ساتھ نتھار کر اور کھول کر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی بجائے ، جس میں غیر معمولی فوائد مضمر تھے، انہوں نے پھر اسلام پر حملہ کروانے کے ان کو مواقع فراہم کئے.پہلے کہا کہ ہمارے بدن پر حملہ کرو پھر کہا کہ آؤ اب ہماری روح پر بھی حملہ کرو، اور ایسے ظالمانہ طور پر اسلامی تعلیم کو توڑ مروڑ کر پیش کیا کہ اس کے نتیجے میں دنیا کے تمام اہل دانش جانتے تھے کہ یہ مذہبی رد عمل نہیں ہے اس لئے اگر یہ مذہبی کہتے ہیں تو بہت اچھا، ہم ان کے مذہب پر حملہ کرتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ مذہب ٹیڑھا ہے،.ان کے دماغ ٹیڑ ھے نہیں ہیں.امیران میں مغربی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں پس وہ سر جن کو یہ بیمار سروں کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے اور جوان کی بیماری کی وجہ سے بیمار ہوئے ، اسی مسلمان دنیا نے ان کو موقع فراہم کئے کہ ان کی بیماری کی وجہ بھی اسلام

Page 45

۴۳ ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء قرار دیا جائے اور غلط تشخیص دوبارہ دنیا کے سامنے پیش کی جائے اور دنیا اس کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے کیونکہ جو بیمار ہے اس کی بات زیادہ سنی جاتی ہے.بیمار کہتا ہے کہ میرے سر میں درد ہے اور ساتھ بتاتا ہے کہ میں نے یہ کھایا تھا اور یہ حرکت کی تھی اس کے نتیجے میں سر میں درد ہے.پھر ڈاکٹر اگر کچھ اور بات کہے بھی تو اس پر کسی کو اطمینان نہیں ملتا.چنانچہ جب یہ بیمار سرد نیا کو دکھائے جاتے ہیں تو ساتھ کہتے ہیں کہ اس کی بہت اعلی تشخیص خود اس بیمار نے کر دی ہے.یہ بیار کہتا ہے کہ میرا مذہب پاگل ہے، میرا مذہب مجھے نا انصافیوں پر مجبور کرتا ہے، میرا مذہب مجھے کہتا ہے کہ عورتوں اور بچوں سے ظلم کرو اور اس طرح تم اپنے بدلے اتارو اور اس طریق پر تمہیں انتقام لینے کا اسلام حق دیتا ہے.سبو تا ر کرو، بموں سے شہروں کا امن اڑاؤ، جس طرح بھی پیش جاتی ہے تم اپنے دکھوں کا بدلہ لو اور تمہارے پیچھے خدا کھڑا ہے اور اسلام کھڑا ہے اور تمہیں تعلیم دیتا ہے کہ مذہب کے نام پر ایسا کرو.بالکل غلط بات تھی ، اس میں اس کا ادنی سا بھی کوئی جواز نہیں تھا.جو باتیں میں نے بیان کی ہیں یہ ایسی باتیں ہیں جو دنیا کے سامنے کہیں بھی آپ پیش کریں دنیا تسلیم کرنے پر مجبور ہو گی کہ بیمارسر کیوں ہیں اور بیماری کی وجہ کیا ہے؟ لیکن ان ظالموں نے خود اپنے اوپر ہی حملہ نہیں کرنے دیا بلکہ اپنے مذہب کو بھی حملے کا نشانہ بنانے کے لئے سامنے پیش کر دیا.یہ ہے خلاصہ ظلم وستم کا جو اس وقت روا رکھا جا رہا ہے.آج سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ اسلامی لیڈر شپ ان محرکات کو، ان مواجهات کو سمجھے اور تمام تر توجہ اصل بیماری کی طرف مبذول کرے اور مبذول کروائے اور دنیا کے سامنے یہ تجزیے کھول کر رکھے کہ ہم مجبور اصدام کے مقابل پر تمہارے ساتھ شامل ہوئے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ تم بری الذمہ ہو اور اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ صدام کا دور کرنا یا عراق کی بربادی عالم اسلام کا علاج ہے.یہ عالم اسلام کے لئے مزید تباہی کا موجب بنے گا اور وہ محرکات جاری رہیں گے اور وہ بیماریاں باقی رہیں گی جن کے نتیجے میں بار بار مشرق وسطی کا امن برباد ہوتا ہے اور بار بار دنیا کو ان سے خطرہ محسوس ہوتا ہے.

Page 46

م م ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء پس جہاں تک انصاف کا تعلق ہے اس طرف واپس جا کر دیکھیں تو اسرائیل نے ہر لڑائی کے بعد کچھ مسلمان علاقوں پر قبضہ کیا اور اسے دوام بخشنے میں مغربی طاقتوں نے ہمیشہ اس کا ساتھ دیا.ایک انچ زمین بھی ایسی نہیں جسے خالی کروایا گیا ہو سوائے مصر کے اور اس وقت مصر کے سیناء کے ریگستان کو جب یہودی تسلط سے خالی کروایا گیا تو پہلے مصر کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا گیا.اسرائیل سے ایسی صلح کرنے پر مجبور کیا گیا جس کے نتیجے میں ان کا تخمینہ یہ تھا کہ مصر ہمیشہ کے لئے اسلامی دنیا سے کٹ جائے گا اور ان کی دشمنیوں کا نشانہ بن جائے گا اور اس بناء پر اس کی بقاء ہم پر منحصر ہوگی اور جب تک ہم اس کا سہارا بنے رہیں گے یہ زندہ رہے گا ورنہ یہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا.یہ وہ تخمینے تھے جن کی بنا پر انہوں نے ریگستان کے وہ علاقے مصر کو واپس دلواد یے جو یہود کے تسلط میں تھے لیکن اس کے علاوہ کہیں بھی ایک انچ زمین بھی واپس نہیں کرائی گئی یعنی اسرائیل سے ان لوگوں کو زمین واپس نہیں کروائی گئی جو گر کر ذلت کی صلح پر آمادہ نہیں تھے.Jorden کتنی دیر ان کا دوست رہا ہے ابھی بھی جب وہ خبروں میں اس کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دیکھو ہمارا دوست، سب سے زیادہ اس پر انحصار کیا کرتے تھے کہتے ہیں کتنے ہم پاگل تھے، کیسا بے وفا دوست نکلا ؟ اور یہ نہیں دیکھتے کہ تم نے اس دوستی میں اس کو دیا کیا ہے؟ تمام عرصہ اس دوست کے وطن کا نہایت قیمتی ایک ٹکڑا اس کے دشمنوں کے قبضے میں رہا اور تم نے ہمیشہ دشمن کو تو طاقت دی اور دشمن کو اس ناجائز قبضے کو برقرار رکھنے میں مدد دی اور اس کے باوجود کہ یہ تمہارا دوست تھا.مسلمان ایک ہی سوراخ سے بار بارڈ سے جارہے ہیں قرآن کریم نے جہاں فرمایا ہے کہ غیروں کو دوست نہ بناؤ اس سے بھی غلط فہمیاں پیدا کی گئیں اور اس کے نتیجے میں بعض وسطی زمانوں کے مسلمان علماء نے اسلام کو مزید بد نام کروایا.یہ وہ مواقع ہیں جن میں اسلام فرماتا ہے کہ غیروں سے دوستی نہ کرو.اسلام اور انصاف کے تقاضوں کو بیچتے ہوئے دوستیاں نہ کرو.یہ وہ پس منظر ہے جس میں تعلیم ہے اور ساتھ ساتھ ذکر فرما دیا گیا کہ وہ لوگ جو تم سے دشمنی نہیں کرتے جو تم سے نا انصافی کا سلوک نہیں کرتے.ان سے دوستی سے خدا

Page 47

کا بحران ۴۵ ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء تمہیں منع نہیں کرتا بلکہ ان سے حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے.یہ اسلام ہے لیکن اسلام کی وہ تعلیم جو عقل کی تعلیم ہے اسے انہوں نے ہمیشہ نظر انداز کیا اور اس تعلیم پر عمل کیا جس کو خود بے عقلی کے معنے پہنائے پس جہاں دوستی سے منع کیا گیا وہاں دوستیاں کیں.جہاں دوستیاں کرنے کی تلقین کی گئی اور طریقہ سکھایا گیا کہ کس قسم کی قوم سے دوستیاں کرنی ہیں وہاں دوستیوں سے باز رہے.پس ان کی بیماری کی آخری شکل یہی بنتی ہے کہ تقویٰ سے دور جاچکے ہیں، قرآن کریم کی تعلیم سے دور جاچکے ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مومن ایک بل سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا.( بخاری کتاب الادب حدیث نمبر : ۵۶۶۸) لیکن کتنی بارڈ سے جاچکے ہیں.اسی سوراخ میں دوبارہ انگلیاں ڈالتے ہیں اور اسی سوراخ سے بار بارڈ سے جاتے ہیں اور آج تک انہوں نے ہوش نہیں پکڑی.پس صاحب ہوش مغرب کے حالات کا تجزیہ کریں تو وہ بھی جاہل ہے اور بے وقوف ہے اور بار بار کے نقصانات کے باوجود آج تک نصیحت نہیں پکڑ سکا کہ اصل بیماری کیا ہے اور جب تک یہ بیماری رہے گی دنیا کے لئے خطرات ہمیشہ اسی طرح ان کے سر پر منڈلاتے رہیں گے اور مقابل پر جو مسلمان ممالک نے بھی بار بار کی تکلیفیں اٹھانے کے باوجود نصیحت نہیں پکڑی اور بار بارا نہی غلطیوں میں مبتلا ہوتے چلے جارہے ہیں.اس کا کیا علاج ہے اس کا صرف ایک علاج ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے ہمیں سکھلایا اور جس کی طرف میں نے آپ کو پہلے بھی توجہ دلائی تھی اور اب پھر دوبارہ توجہ دلاتا ہوں.آنحضرت کا تجویز کردہ علاج آنحضرت ﷺ نے فرمایا : مختلف بڑی لمبی پیشگوئیاں ہیں ان میں سے ایک ٹکڑا آپ کو بتا تا ہوں.آخری زمانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یا جوج ماجوج دنیا پر قابض ہو جائیں گے اور موج در موج اٹھیں گے اور تمام دنیا کو ان کی طاقت کی لہریں مغلوب کر لیں گی.اس وقت دنیا میں مسیح نازل ہوگا اور مسیح اپنی جماعت کے ساتھ ان کے مقابلے کی کوشش کرے گا، ان کے مقابلے کا ارادہ کرے گا.تب اللہ تعالیٰ مسیح سے یہ فرمائے گا.لَا يَدَانِ لَاحَدٍ لِقِتَالِهِمَا کہ ہم نے جو یہ دو

Page 48

۴۶ ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء قو میں پیدا کی ہیں ان دونوں سے مقابلے کی دنیا میں کسی انسان کو طاقت نہیں بخشی ،تمہیں بھی نہیں بخشی.ایک علاج ہے کہ تم پہاڑ کی پناہ میں چلے جاؤ اور دعائیں کرو.(مسلم کتاب الفتن حدیث نمبر : ۵۲۲۸).دعا ہی وہ طاقت ہے جو ان قوموں پر غالب آئے گی.مسیح محمدی کی جماعت اور اس کی ذمہ داری اس میں پہاڑ سے کیا مراد ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہ پہاڑ ہیں جس کا ذکر فرمایا گیا ہے کیونکہ قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے کہ لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلى جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِعَا مِنْ خَشْيَةِ الله (الحشر :۲۲) کہ یہ قرآن اگر ہم پہاڑ پر بھی اتارتے تو وہ اس کی عظمت سے خشیت اختیار کرتا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جا تا گر جاتالیکن اس میں نصیحتیں ہیں ان لوگوں کے لئے آیات ہیں جو فکر کرنے کے عادی ہیں.مراد یہ ہے کہ محمد مصطفی ﷺ کو پہاڑوں پر عظمت حاصل تھی.محمد مصطفی علی پہاڑوں میں سب سے سر بلند تھے.دنیا کے پہاڑوں میں تو یہ طاقت نہیں تھی کہ اس کلام کی عظمت اور جلال کو برداشت کر سکے لیکن ایک محمد مصطفیٰ ہیں جو سب سے سر بلند پہاڑ تھے اور سب سے قوی پہاڑ تھے.پس مراد یہی ہے کہ محمد مصطفی کی عظمت کی طرف لوٹو اور آنحضرت ﷺ کی تعلیم میں پناہ مانگو.اس سے طاقت پاؤ اور اگر د مصطفی ﷺ کی عظمت کی طرف لوٹو گے اور اس میں پناہ لے کر دعائیں کرو گے تو محمد مصطفیٰ کے سائے میں پلنے والی دعائیں کبھی نا کام نہیں جایا کرتیں.اس عظمت سے پھر تم بھی حصہ پاؤ گے.تمہاری دعا ئیں حصہ پائیں گی اور دوسرا سبق اس میں یہ ہے کہ اس زمانے کے تمام مسلمانوں میں سے کسی کے متعلق نہیں فرمایا کہ خدا ان کو کہے گا کہ تم دعائیں کرو.صرف مسیح اور مسیح کی جماعت کے متعلق یہ فرمایا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا اس زمانے میں حقیقت میں دعا سے ایمان ہی اٹھ چکا ہو گا دعا کو وہ لوگ اہمیت نہیں دیں گے.اس لئے جن لوگوں کو دعا کی اہمیت ہی کوئی نہیں ان کو دعا کا نسخہ بتا نا ہی بالکل بے کار بات ہے.چنانچہ آپ دیکھ لیجئے کہ کتنے ہی مسلمان

Page 49

۴۷ ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء راہنماؤں کے بڑے بڑے بیانات آرہے ہیں.کوئی کہتا ہے کہ امریکہ کی طرف دوڑو اور اس سے پناہ لو اور اس سے مدد لو اور کوئی ایران سے صلح کر رہا ہے یا اپنی تقویت کی اور باتیں بیان کر رہا ہے.کسی ایک نے بھی خدا کی پناہ میں جانے کا اور محمد رسول اللہ ﷺ کی پناہ میں جانے کا کوئی ذکر نہیں کیا.کسی نے یہ نصیحت نہیں کی کہ اے مسلمانو! یہ دعا کا وقت ہے دعا ئیں کرو.کیونکہ دعاؤں کے ذریعہ ہی تمہیں دشمن پر غلبہ نصیب ہوگا.پس ایک جماعت ہے اور صرف ایک جماعت ہے جو مسیح محمد مصطفی ﷺ کی جماعت ہے جس کے متعلق خدا نے یہ مقدر کر رکھا تھا کہ اگر عالم اسلام کو بچایا گیا تو اس جماعت کی دعاؤں سے بچایا جائے گا لیکن شرط یہ ہے کہ وہ محد مصطفی ﷺ کی عظمت میں پناہ لیں، آپ کی تعلیم میں پناہ لیں ، آپ کے کردار میں پناہ لیں.آپ کی سنت میں پناہ لیں اور پھر دعائیں کریں.پس اس سارے مسئلے کا اگر کوئی عارضی حل تجویز بھی کیا گیا تو ایک بات تو بڑی واضح ہے کہ وہ حل پہلے سے بدتر حال کی طرف مشرق وسطی کے رہنے والوں کو بھی لوٹائے گا اور دنیا کو بھی لوٹائے گا.بہت درد ناک حالات پیدا ہونے والے ہیں اور جہاں تک بیماریوں اور دکھوں کا تعلق ہے اس کا کوئی حل نہیں ہوگا.وہ حل اگر ہے تو آپ کے پاس یعنی مسیح محمدی" کی جماعت کے پاس ہے آپ دعائیں کریں اور دعائیں کرتے چلے جائیں کیونکہ یہ تکلیفوں کا زمانہ ابھی لمبا چلنے والا ہے.ابھی حالات نے کئی پلٹے کھانے ہیں، کئی نئے ادوار میں داخل ہونا ہے اس لئے دعا کے لحاظ سے ابھی تا خیر نہیں ہے.ہم تو پہلے بھی دعائیں کرنے والے لوگ ہیں لیکن آج کی دنیا میں ان حالات کے پیش نظر، اس تجزیے کے پیش نظر جو میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دعا کے سوا آج ان دنیا کی امراض کا اور امت مسلمہ کی امراض کا اور کوئی چارہ نہیں اور اہل مغرب کے لئے بھی دعا کریں کہ خدا ان کو عقل دے، بار بار وہ اپنی چالا کیوں اور اعلیٰ سیاست کے ذریعے دنیا کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر چکے ہیں اور ہر بار نا کام رہے ہیں ایک بار بھی ان کی چالاکیاں دنیا کے کام نہیں آئیں کیونکہ ان کی چالاکیوں میں خود غرضی ہوتی ہے اور نفسانیت محرک بنتی ہے آخری

Page 50

۴۸ ۲۴ /اگست ۱۹۹۰ء فیصلوں کے لئے.پس عقل کل کا تقویٰ سے تعلق ہے یہ بات دنیا کو آج تک سمجھ نہیں آئی.قرآن کریم جب تقویٰ پر زور دیتا ہے تو پاگل ملائیت پر زور نہیں دیتا.ایسے تقویٰ پر زور دیتا ہے جس سے فراست پیدا ہوتی ہے.جس سے مومن خدا کے نور سے دیکھنے لگتا ہے اور عقل کل اور تقوئی دراصل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.ہر چالا کی جو تقویٰ سے عاری ہوگی وہ لازماً بالآخر نا کامی پر منتج ہوگی.اسے چالا کی کہہ سکتے ہیں اسے عقل نہیں کہہ سکتے.پس آج دنیا خواہ مشرق کی ہو یا مغرب کی ہو ، عقل کل سے عاری ہے کیونکہ تقویٰ سے عاری ہے اور تقویٰ کی دولت کے امین اے محمد مصطفی حملے کی جماعت ! اے مسیح محمدی کی جماعت! تمہیں بنایا گیا ہے.پس اس امانت کا حق ادا کرو اور جب تک تم اس امانت کے امین بنے رہو گے خدا تمہیں ہمیشہ غلبہ عطا کرے گا اور ناممکن کو تم ممکنات بنا کر دکھاتے چلے جاؤ گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.☆☆☆

Page 51

۴۹ بسم اللہ الرحمن الرحیم ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء عالم اسلام کے خلاف انتہائی خطرناک منصوبہ خطبه جمعه فرموده ۲۶ /اکتوبر ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی :.يَا يُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْتُكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ اِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ بدلتے ہوئے حالات میں ابھرنے والے نئے چیلنج تلاوت کے بعد فرمایا: (الحجرات : ۱۴) گزشتہ خطبے میں میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ بدلتے ہوئے حالات میں جماعت احمدیہ کے سامنے نئے میدان کھل رہے ہیں جن میں اسلام کا غیر اسلامی قدروں سے جہاد ہوگا اور نئے معرکوں کے میدان کھلیں گے.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ معر کے اپنی نوعیت کے لحاظ سے نئے نہیں بلکہ تاریخی لحاظ سے ہمیشہ سے ان کا وجود چلا آ رہا ہے لیکن بعض ادوار میں یہ نمایاں طور پر سر اُٹھاتے ہیں اور نسبتی لحاظ سے ایک غیر معمولی اہمیت اختیار کر لیتے ہیں.پس اس دور میں جس میں سے اب ہم گزر رہے ہیں اس میں اسلام کا بہت بڑا مقابلہ معاشرتی قدروں سے ہوگا اور اہلِ مغرب جو زیادہ تر عیسائیت سے تعلق رکھنے والے ہیں اُنہوں نے نظریاتی جنگ سے بہت زیادہ بڑھ کر عمد ا جنگ کا رُخ معاشرے کے اختلاف کی طرف موڑ دینا ہے اور اسی بناء پر وہ مغربی قوموں کی اپنی دانست میں اسلام

Page 52

20 ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء سے حفاظت کریں گے.نسل پرستی کے جذبہ سے اسلام کا متوقع ٹکراؤ دوسرا پہلو Racialism یعنی نسل پرستی کا بڑی شدت کے ساتھ اُبھرنا ہے.باوجود اس کے کہ آپ مغربی دنیا میں بکثرت نسل پرستی کے خلاف آواز سنتے ہیں اور نسل پرستی کا الزام کسی پر لگانا ایک بہت بڑی گالی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ محض ایک دکھاوے کی بات ہے.مغربی دنیا میں نسل پرستی کے خلاف جو بھی مہم چلائی گئی ہے یہ بڑے وسیع پیمانے پر یہود کی طرف سے چلائی گئی ہے اور اس کا رُخ صرف یہودی نسل پرستی کے خلاف تعصب کا قلع قمع کرنا ہے.یعنی یہودیت میں جہاں تک نسل پرستی موجود ہے اُس کے خلاف مہم نہیں بلکہ یہودی نسل پرستی کے خلاف جو مختلف تحریکیں دنیا میں اُٹھتی رہتی ہیں اُن کو ملیا میٹ کر دینے کے لئے ایک بہت بڑا عالمگیر پرو پیگنڈا کیا جارہا ہے جس کا رُخ خاص طور پر یورپ اور امریکہ کی طرف ہے اور اس پہلو سے آج خصوصیت سے نازی دور کے نسل پرستی سے تعلق رکھنے والے ظلموں کو ابھار کر کبھی ڈراموں کی شکل میں، کبھی دوسری صورتوں میں کبھی مقالوں کی صورت میں اہل مغرب کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور متنبہ کیا جاتا ہے کہ دوبارہ کبھی اس قسم کی غلطی کا اعادہ نہ کرنا اور ساتھ ساتھ پرانے جنگی جرموں کی سزا آج تک جاری ہے اور یہ یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ اگر تم میں سے کبھی کسی نے پھر نسل پرستی کے جذبے سے یہود کی مخالفت کی یا اُن پر ظلم کرنے کا ارادہ کیا تو یا درکھنا تمہیں کبھی معاف نہیں کیا جائے گا.پس در حقیقت یہاں جو نسل پرستی کے خلاف اب کوئی مہم آپ کو ملتی ہے وہ محض اس محدود دائرے سے تعلق رکھتی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ نسل پرستی ان قوموں میں شدت کے ساتھ بڑھ رہی ہے لیکن اس نسل پرستی کا رُخ مشرقی دنیا ہے یا افریقہ کی دنیا ہے یا اسلام ہے جو ایک قوم کے طور پر بعض دفعہ پیش کیا جاتا ہے اور اُس کے خلاف نسل پرستی کے جذبات کو اُبھارا جاتا ہے.بعض دفعہ مذہب اور معاشرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف معاشرتی اور مذہبی جذبات کو ابھارا جا تا ہے.روس میں جو کچھ ہوا

Page 53

۵۱ ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء اور ہورہا ہے دیوار برلن کے گرنے سے جونئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان کے نتیجے میں ظاہر ہونے والی عالمی تبدیلیوں سے متعلق کچھ ذکر میں نے اپنی جلسہ سالانہ کی آخری تقریر میں کیا تھا.اُس میں ایک پہلو ہے نسل پرستی کے جذبے کا اُبھرنا.یہ ایک بہت ہی اہم پہلو ہے جس کا اسلام سے براہ راست ٹکراؤ ہونے والا ہے.اس لئے چونکہ صرف جماعت احمد یہ ہے جو درحقیقت اسلامی قدروں کی حفاظت کے لئے قائم کی گئی ہے اور حفاظت کی صلاحیت رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے تائید یافتہ ہے اس لئے جماعت احمدیہ کو اس خطرے کو خوب اچھی طرح سمجھنا چاہئے اور اس کی باریک راہوں سے بھی واقف ہونا چاہئے.تا کہ جس راہ سے بھی یہ حملہ کرے اُس راہ سے جماعت بڑی بیدار مغزی کے ساتھ اور مستعدی کے ساتھ اس حملے کو نامراد اور نا کام کرنے کے لئے تیار ہو.یورپ میں قوم پرستی اور نسل پرستی کے ابھرنے والے جذبات یورپ کی تبدیلیاں جن کا میں نے ذکر کیا ہے اُن کے نتیجے میں خود یورپ میں پہلے قوم پرستی اُبھرے گی اور پھر نسل پرستی.قوم پرستی اور نسل پرستی کا آپس میں گہرا تعلق ہے صرف دائروں کا اختلاف ہے.سب سے پہلے تو یہ بات آپ کو پیش نظر رکھنی چاہئے کہ روس کسی ایک قوم کے باشندوں پر مشتمل نہیں ہے.دنیا میں مختلف قسم کی ریاستیں پائی جاتی ہیں بعض ریاستیں قوم کے تصور پر ابھرتی ہیں اور اُسی تصور پر قائم ہوتی ہیں بعض نظریات کے نام پر قائم کی جاتی ہیں جیسے کہ اسرائیل ہے یہاں دونوں باتیں اکٹھی ہوگئی ہیں مگر اکثر دنیا کے ممالک ایسے ہیں جن میں قوم کے نام پر ملک کا تصور محض ایک موہوم تصور ہے عملاً ایک سے زیادہ قومیں ان ملکوں میں بستی ہیں اور ان ملکوں کی ہمیشہ جد و جہد یہ رہتی ہے کہ قوم کے تفریق کی طرف اہلِ ملک کا دھیان نہ جائے ورنہ یہ ملک آپس میں پھٹ جائے گا.یہ مسئلہ انگلستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے یعنی اندرونی لحاظ سے.ایک طرف شمال میں سکاٹ لینڈ ہے پھر مغرب میں Wales ہے پھر مزید مغرب میں آئر لینڈ ہے اور پھر شمال اور جنوب سے اختلافات بھی ایک قسم کے قومی اختلاف کا رنگ اختیار کرتے جاتے ہیں.

Page 54

۵۲ ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء ان تمام اختلافات میں سیہ جو بڑے قومی اختلاف ہیں وہ سکائش اور انگلش ، ویلش اور انگلش اور آئرش اور انگلش کے اختلافات ہیں.اب آپ دیکھیں کہ Great Britian یا United Kingdom در اصل ایک ملک ہے اور جب وسیع پیمانے پر بیرونی خطرات در پیش ہوں تو وہاں ان سب قوموں کے مفادا کٹھے ہو کر اُس ملک کو اندرونی طور پر تقویت دیتے ہیں اور اس وقت برٹش قوم کا وسیع تر تصور ابھرتا ہے.جب امن کے حالات ہوں تو قومی رجحانات سر اٹھانے لگتے ہیں اور خطرات کی نوعیت بدل جاتی ہے.ایک دوسرے سے عدم اعتماد، ایک دوسرے سے خود غرضانہ تعلقات یا عدم تعلقات یہ چیزیں قوم کے رنگ میں اپنا اپنا اثر دکھاتی ہیں اور قومیت کے پیمانے پر تعلقات کو جانچا جانے لگتا ہے.خود غرضی قومی سطح پر محض اس وجہ سے آپس میں تفریق پیدا کرتی ہے کہ ساؤتھ کے باشندے کہتے ہیں کہ ہم نے ساؤتھ کے مفاد کی حفاظت کرنی ہے.انگریز سمجھتا ہے کہ ہم نے انگریز کے مفادات کو سکائش کے مفادات پر قربان نہیں ہونے دینا.ویلش سمجھتا ہے کہ ہم سے زیادتی ہو رہی ہے اور Exploitation کی جارہی ہے اور جو حقوق ویلش کو ملنے چاہئیں وہ بقیہ انگلستان ہمیں نہیں دیتا غرضیکہ یہ ایک مثال ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ در حقیقت دنیا کی اکثر ریاستیں امریکہ ہو یا انگلستان ہو یا جرمنی ہو یا دیگر ریاستیں دراصل وہ ایک قوم پر مشتمل نہیں.اہلِ علم کے نزدیک اگر کوئی ایک ملک حقیقاً ایک ہی قوم پر مشتمل ہے تو وہ ٹرکی ہے لیکن در حقیقت یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ کردش قوم اپنے آپ کو ٹرکش قوم سے بالکل الگ سمجھتی ہے.اُن کی قدریں اور اُن کی زبان، اُن کے مزاج عام ٹرکش سے بالکل مختلف ہیں اور یہی وجہ ہے ان دونوں قوموں کے درمیان شدید منافرت بھی پائی جاتی ہے، عدم اعتماد بھی پایا جاتا ہے اور کر د دنیا میں یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس حد تک درست ہے یا غلط کہ وہ لمبے عرصے سے ٹرکش قوم کے مظالم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں لیکن اگر کسی حد تک کسی ایک ملک کو قومی ملک قرار دیا جا سکتا ہے تو گردی حصے کو چھوڑ کر باقی ترک قوم کو واقعہ ایک قوم اور ایک ملک ہونے کی فضیلت حاصل ہے یعنی نسبتاً اُن کے اوپر اس کا اطلاق پاسکتا ہے کہ ایک قوم اور ایک ملک ہے لیکن جہاں تک تر کی قوم کا تعلق ہے یہ

Page 55

۵۳ ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء عجیب بات ہے کہ ترک قوم ترکی میں کم اور ترکی سے باہر زیادہ ہے اور چھ اور چار کی تقریباً نسبت ہے.اگر چار ترک ترکی میں آباد ہوں تو چھ ترک ترکی سے باہر ہیں اور اس سے میری مراد یہ نہیں کہ یورپ میں مختلف حصوں میں پھیلے پڑے ہیں وہ تو ہیں ہی وہ تو دنیا کی ہر قوم دنیا کے تقریباً ہر دوسرے ملک میں چلی جاتی ہے مگر زیادہ تر روس میں ترک قوم آباد ہے اور ترکمان کہلاتے ہیں.اگر چہ یہ آپس میں بھی بے ہوئے ہیں اور مختلف قسم کی تحریکات اب جنم لے رہی ہیں جن میں ایک دوسرے سے ایک ترک ریاست کو جو دوسری ترک ریاست سے خطرات درپیش ہیں اُن کو اُبھار کر آپس میں ایک دوسرے کے مقابل پر پیش بندیاں کی جارہی ہیں لیکن ساتھ ہی ایک عمومی جذ بہ اُبھر رہا ہے کہ ہم ترک قوم ہیں اور ہمارا ترکی سے الحاق ضروری ہے اور اس خیال کو تر کی قوم آئندہ ہوا دے گی اور ترک قوم کے مفادات اس بات سے وابستہ سمجھے جائیں گے کہ دنیا کے تمام ترک اکٹھے ہو جائیں اور ترکی کا لفظ ایک وسیع تر ملک پر اطلاق پائے اور Ottoman ایمپائر کا جو وسیع تصور تھا اُس نے لازماً دوبارہ جنم لینا ہے.اُدھر اسلام بھی اس معاملے میں ایک کردار ادا کرنے والا ہے اور اُن قوموں میں سے جو ایران سے تعلق رکھنے والی قومیں ہیں اور ترکی بولنے کے باوجود اُن میں ایرانی اثرات بھی بڑے گہرے ہیں اُن کو امیران اپنی طرف بلائے گا اور اُن میں سے بہتوں کا شیعہ ہونا اس بات میں ممد ہو گا.پھر ایسی قومیں ہیں جو خالصہ سُنی ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ ترکی بولنے والی ہیں ، اوٹی فرزبان بولتی ہیں یا کوئی اور زبان بولتی ہیں اُن کو سُنی مسلمان دنیا اگر اُن کو اپنی ہوش آنے دی گئی تو اپنی دولت کے ذریعے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کریں گے.روی سلطنت کا شیرازہ بکھر رہا ہے روس ویسے ہی ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں یہ ٹوٹ رہا ہے اور بکھرنے والا ہے.کوئی غیر معمولی قوت ایسی اُبھرے جو اُس کو بکھرنے اور ٹوٹنے سے روک دے تو یہ ایک الگ مسئلہ ہے مگر سر دست جہاں تک میں نے مطالعہ کیا ہے ایسی کوئی بیرونی یا اندرونی طاقت دکھائی نہیں دیتی

Page 56

۵۴ ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء جو روس کو سنبھالے رکھے.اور روس کے ٹوٹنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک نظریہ کو قوم بنادیا گیا جیسا کہ پاکستان میں ایک نظریے کو قوم بنایا گیا.روس کا بحیثیت ملک کے دنیا کے نقشے پر ابھرنا کسی ایک قوم کے وہاں ہونے کے مرہون منت نہیں بلکہ اشترا کی نظریے کی پیداوار ہے.اس سے پہلے زار نے جو مختلف ممالک پر قبضہ کیا تھا اس وقت اس قسم کی کلونیل ازم (Colonialism) کی کیفیت پائی جاتی تھی یعنی ایک بہت بڑی یورپین طاقت نے بہت سے وسیع اردگرد کے مسلمان علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا جیسے اس سے پہلے مسلمان خوانین روس پر قابض ہوا کرتے تھے اور اس کے یورپین علاقہ پر قابض ہوا کرتے تھے.تو وہ جو کیفیت تھی وہ تبدیل کر دی گئی اور ۱۹۱۸ء کے انقلاب میں جو نئی بات روس سے رونما ہوئی وہ یہ تھی کہ قوم کی بجائے نظریے نے ایک ملک پیدا کیا اور روس نے تمام دنیا میں بڑے زور سے اس بات کا پروپیگینڈا شروع کیا کہ ملک حقیقت میں قوموں سے نہیں بنا کرتے بلکہ نظریوں سے بنتے ہیں اس لئے ہمارا نظریہ عالمگیر ہے اور عالمگیر اشترا کی قوم دنیا میں ابھرے گی اس نظریے سے استفادہ کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے ممالک کو آپس میں پھاڑنے میں ان لوگوں نے بہت سا کام کیا اور جہاں جہاں یہ نظریہ پھیلا ہے وہاں قومیت کے خلاف بھی جہاد شروع ہوئے لیکن بعض جگہ اس نظریہ کا کھلم کھلا تصادم ہوا کہ اسلام بھی در اصل نظریہ کے نام پر ملک قائم کرنا چاہتا ہے اور قوم کا کوئی تصور اس کے سوا موجود نہیں.اس نظریے کی ایک محدودشکل پاکستان کا دو قومی نظریہ ہے.اس وقت میرے پاس وقت نہیں کہ میں اس کی تفصیل بیان کروں اور صحیح صورتحال آپ کے سامنے رکھوں کہ دو قومی نظریہ کس حد تک قابل عمل تھا کس حد تک نہیں اور حقیقت سے اُس کا کیا تعلق ہے؟ اور جو غیر معمولی جدوجہد مسلمانانِ ہند نے پاکستان کے قیام کے لئے کی اُس کی دراصل کیا وجہ تھی اور اس کے محرکات حقیقی معنوں میں کیا تھے؟ کیا اقبال کے نظریوں کو پڑھنے کے بعد انہوں نے ایسا کیا تھا؟ اور اُس سے متأثر ہوکر ایسا کیا یا بالکل مختلف وجوہات تھیں؟ بہر حال یہ مضمون الگ ہے مگر میں یہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ روس میں جب اشتراکیت کا نظریہ شکست کھا گیا جو مرکزی حیثیت رکھتا تھا اور اُس کے گرد ساری

Page 57

۵۵ ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء قوموں کی چکی گھوم رہی تھی اور اُس کا جو محور تھا اُس پر یہ نظریہ بڑی قوت سے ان قوموں کو اپنے اردگرد باندھے ہوئے تھا وہ جب محور نکل گیا تو لازماً انہوں نے بکھرنا ہے اور کوئی دنیا کی طاقت اس کو روک نہیں سکتی ما سوائے اس کے کہ کچھ عرصے کے بعد بیرونی دباؤ کے نتیجے میں ایسے رد عمل ظاہر ہوں کہ یہ قو میں ایک دوسرے کے ساتھ اپنا مفاد وابستہ سمجھیں لیکن مفاد وابستہ ہونے کا جو نظریہ ہے جس نے شمالی امریکہ کو اکٹھا کیا یہ نظریہ روس میں اس وقت قابل عمل نہیں کیونکہ اگر چہ اشترا کی تصور کے نتیجے میں روسی قو موں کو اکٹھا کیا گیا لیکن درحقیقت یورپ کی قوموں کے سوا باقی قوموں سے نا انصافی کی گئی یعنی یورپین بھی مختلف قوموں میں وہاں موجود ہیں.جہاں تک روس کے اقتصادی نظام کا تعلق ہے اور یا آپس میں قوموں کے تعلقات کا معاملہ ہے حقیقت یہ ہے کہ مسلمان قومیں اور بعض دیگر پسماندہ قومیں اس طرح برابری کی سطح پر روس میں حصہ دار نہیں رہیں اور اقتصادی مفادات کے لحاظ سے اور صنعتی ترقی کے لحاظ سے اُن کو پس پشت ڈالا گیا.پس بجائے اس کے کہ وہ باہمی قومی مفاد کے نظریے کے تابع کسی وجہ سے اکٹھا ر ہنے کی کوشش کریں معاملہ اس کے برعکس صورت اختیار کر گیا ہے اور یہ قومیں نہ صرف یہ کہ روسی اشترا کی نظریہ کے ٹوٹنے کی وجہ سے لازماً طبعا بکھرنے کے لئے تیار ہیں بلکہ ماضی کے مظالم کی ، ماضی کی نا انصافیوں کی یادیں ان کو اس بات پر انگیخت کر رہی ہیں.اسلام کا پیش کر دو قومی نظریہ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اسلام بحیثیت ایک مذہب یہاں سر دست کوئی اثر ظاہر نہیں کرسکتا کیونکہ ان قوموں کی بھاری اکثریت عملاً لا مذہب ہو چکی ہے اگر چہ مسلمان بھی کہلاتی ہو.ان کے نوجوانوں میں ہی نہیں بلکہ علماء میں بھی خدا کا حقیقی تصور نہیں ہے بلکہ ایک موہوم سا تصور ہے اور خدا کے نام پر عبادت کرنا قربانی کرنا، اپنے آپ کو تبدیل کرنا یہ تو ایک لمبی محنت کو چاہتا ہے دوبارہ اسلام رفتہ رفتہ ان میں نافذ کرنا ہوگا اور یہ ایک ایسا اہم معرکہ ہے جس کو جماعت احمدیہ نے سر کرنا ہے.بہر حال اسلام ایک اور رنگ میں ان پر اثر پذیر ہو رہا ہے اور وہ ہے اسلام کا قومیت کے ساتھ

Page 58

۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء تعلق اور وہی دو قومی نظریہ جس کی ایک شکل علامہ اقبال نے پیش کی وہ ان جگہوں پر روس کی یونائیٹڈ ریپبلک سے نجات حاصل کرنے کی خاطر استعمال کیا جاسکتا ہے اور اسے بغاوت کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے اس لئے نہیں کہ یہ نمازیں نہیں پڑھتے اس لئے جہاد کیا جائے ، اس لئے نہیں کہ نئی اُبھرتی ہوئی شکل میں اُن کی مذہبی آزادیوں پر قدغن لگادی جائے گی بلکہ اس کے بالکل برعکس صورت ہے اور اس کے باوجود یہ قومی نظریہ ایک قوت بن کر اُبھرنے والا ہے.اس وقت صورت یہ ہے کہ ان کے تبدیل شدہ حالات میں مذہبی آزادی دی جا رہی ہے اور صرف مسلمان علاقوں میں نہیں بلکہ یورپین علاقوں میں بھی عیسائیت کی خاطر بہت سے قوانین میں تبدیلی پیدا کی جارہی ہے جن کا اثر اسلامی دنیا پر بھی لازمی ہوگا.پس اگر اسلام کے نقطہ نگاہ سے کوئی رد عمل ہوتا تو اُس کے لئے تو ضروری تھا کہ اسلام میں دخل اندازی بڑھتی.جب دخل اندازی تھی اُس وقت تو کوئی رد عمل نہیں ہوا.اُس وقت تو روس کا کوئی حصہ یہ طاقت ہی نہیں رکھتا تھا کہ اسلام کے نام پر روس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے.اب بھی جونئی نسلیں روس کی مرکزی حکومت سے بغاوت کا خیال کر رہی ہیں اُن کو بذات خود تو اسلام سے تعلق نہیں ہے یعنی اکثریت اُن میں سے نماز نہیں جانتی ، قرآن نہیں جانتی.محبت اسلام کی اُٹھ رہی ہے اس میں کوئی شک نہیں اور اسی محبت سے ہم نے فائدہ اُٹھانا ہے لیکن محبت عمل کے سانچے میں ڈھل جائے یہ بات محض خیالی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں.ابھی تک محبت صرف ایک نسلی تصور کے سانچے میں ڈھل رہی ہے، ایک قومی تصور کے سانچے میں ڈھل رہی ہے اور اس کے نتیجے میں اس قوم میں مرکزی روس سے بغاوت کے خیالات اُبھر رہے ہیں.ان خیالات پر باہر سے چھاپے پڑیں گے، ان خیالات پرستی اسلام بھی چھاپہ مارے گا اور اُنہیں اپنانے کی کوشش کرے گا، ان خیالات پر شیعہ اسلام بھی چھاپے مارے گا اور اُن کو اپنانے کی کوشش کرے گا.اسی طرح دوسرے مذہبی اور قومی اختلاف جو مسلمانوں کی باہر کی دنیا میں موجود ہیں وہ اپنا اپنا رنگ دکھائیں گے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے اور مسلمانوں

Page 59

۵۷ ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء کے روس کے اندر واقع زیادہ سے زیادہ حصے پر اپنا اثر جمانے کی کوشش کریں گے.یہ ایک نیا معرکہ کھل رہا ہے اور اگر جماعت احمدیہ نے جلدی نہ کی اور حقیقی اسلام سے ان قوموں کو متعارف نہ کروایا.اگر اُس عالمگیر اسلام سے ان قوموں کو متعارف نہ کروایا جس کا نسل پرستی سے کوئی تعلق نہیں ہے، جس کا اُس قومی نظریہ سے کوئی تعلق نہیں ہے جو دنیا میں قوموں کے تعلق میں پایا جاتا ہے بلکہ اسلام کا ایک ایسا عالمگیر تصور ہے جو قو می اورنسلی تصورات کی نفی پر قائم ہوتا ہے اور اُن کی موجودگی سے شدید نقصان اُٹھاتا ہے.اسی لئے جو آیت میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی اُس میں یہ بات خوب کھول دی گئی کہ یا يُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا کہ اے بنی نوع انسان ! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے گویا کہ نسلی اور قومی لحاظ سے تم ایک ہی چیز ہو.اگر کوئی تفریق ہے تو مرد اور عورت کی اس تفریق کو نہ تم مٹا سکتے ہو نہ اُس تفریق پر قومی اور نسلی نظریات قائم کر سکتے ہواوراگر کرو گے تو وہ غلط ہوگا کیونکہ مرداور عورت کے باہمی اشتراک کے بغیر بنی نوع انسان قائم نہیں رہ سکتے وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ ہم نے مختلف گروہوں اور قبیلوں میں تمہیں اس لئے بانٹالِتَعَارَفُوا تا کہ ایک دوسرے سے تعارف کرواسکو.تمہاری شخصیات پہچانی جائیں.جیسے ناموں کی تفریق سے انفرادی شخصیات پہچانی جاتی ہیں لیکن ناموں کی تفریق پر گروہ تقسیم نہیں ہوا کرتے.یہ نہیں ہوا کرتا کہ ناصر نام کے سارے آدمی اکٹھے ہو جا ئیں اور طاہر نام کے سارے آدمیوں کے مقابل پر ایک گروہ بنالیں.یا خلیل نام کے سارے نام کے آدمی اکٹھے ہو کر مبارک نام کے تمام آدمیوں کے خلاف ایک گروہ بندی کر لیں.یہ ایک تعارف کا طریق ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے.اس کے نتیجے میں کسی قسم کے تعصبات نہ اُبھر نے چاہئیں نہ عقلاً اُبھر سکتے ہیں.تو قرآن کریم نے یہ مثال دی ، تعارف کا لفظ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ اس سے آگے بڑھو گے تو حماقت ہوگی اور جہالت ہوگی.تعارف کی حد تک قوموں کی تقسیم رہنی چاہئے اور رہے گی.ان کی مزاج شناسی کے لحاظ سے اگر یہ تفریق رہے تو اس کا کوئی حرج نہیں لیکن اس سے آگے اس تفریق کو بڑھنے کا حق نہیں.اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَنفُسِكُمْ اب تمام عالم اسلام

Page 60

۵۸ ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء صرف ایک لحاظ سے قوموں کو قوموں سے یا فرد کو فرد سے الگ کرنے کی اجازت دیتا ہے اور وہ ہے تقوی.اگر کوئی زیادہ متقی ہے تو قطع نظر اس کے کہ اُس کی قوم کیا ہے اُس کا مذہب کیا ہے، اُس کا رنگ کیا ہے، جغرافیائی لحاظ سے وہ کس ملک کی پیداوار ہے اُس کی عزت کی جائے گی.گویا تقویٰ انگلستان کے باشندے کو ویلز کے باشندے سے ملا دے گا اور ویلز کے باشندے کو سکاٹ لینڈ کے باشندے سے ملا دے گا اور سکاٹ لینڈ کے باشندے کو آئرلینڈ کے باشندے سے ملا دے گا اور اسی طرح افریقہ کے باشندوں سے بھی ان کو ہم آہنگ کر دے گا اور عرب کے باشندوں سے بھی ان کو ہم آہنگ کر دے گا اور روس کے باشندوں سے بھی ہم آہنگ کر دے گا اور چین کے باشندوں سے بھی ہم آہنگ کر دے گا اور جاپان اور امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک سے بھی تقویٰ رکھنے والے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہو جائیں گے اور یہی وہ قومی نظریہ ہے جو اسلام پیش کرتا ہے اس کے سوا اور کوئی قومی نظریہ نہیں.تقویٰ کی بناء پر عزتیں کی جائیں گی، تقویٰ ہی اس لائق ہے کہ اس پر نظر رکھی جائے اور ہم مزاج لوگ جو نیکی کے نام پر اکٹھے ہوں وہ نیکوں کی ایک قوم بنانے والے ہوں گے مگر اس قوم کا سیاسی تفریق اور سیاسی تقسیم سے کوئی تعلق نہیں.یورپ میں ابھرنے والے نسلی تعصبات کا ثبوت اب جہاں روس میں نئی تبدیلیاں اثر انداز ہو رہی ہیں اور غلط رنگ میں قومی نظریے اُبھر رہے ہیں وہاں یورپ میں اور دیگر مغربی دنیا میں بھی نئے قسم کے نسلی تعصبات اُبھر رہے ہیں جن کا تعلق اندرونی طور پر بھی ہے اور بیرونی طور پر بھی ہے.اندرونی طور پر یورپ میں اب لازماً ایک قوم کے دوسری قوم کے خلاف عدم اطمینان کے جذبات ابھرنے والے ہیں اور عدم اعتماد کے جذبات اُبھرنے والے ہیں اور ایک دوسرے سے اگر آج رشک ہے تو کل حسد میں تبدیل ہونے والا ہے اور جہاں ایک طرف یورپ آپس میں اکٹھا ہوتا دکھائی دے رہا ہے وہاں اسی باہمی اتحاد کی رو میں افتراق کے بیج بوئے جاچکے ہیں اور لا زمانے اکٹھے ہونے والے یورپ کے اندر شدید اختلافات پیدا

Page 61

۵۹ ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء ہوں گے اور اُبھارے جائیں گے اور اُن کا تعلق ایک دوسرے سے عدم اعتما داور ایک دوسرے کا حسد ہے.اب جرمنی ہے مثلاً وہ یورپ میں بہت بڑی قوت بن کر اُبھرنے والا ہے اور جرمنی سے جہاں تک خدشات کا تعلق ہے بعض تو میں اس بارے میں زبان نہیں کھول رہیں.لیکن اندرونی طور پر ممکن ہے اُن قوموں میں بھی خدشات کا احساس پیدا ہو چکا ہو لیکن جہاں تک انگلستان کا تعلق ہے انگلستان تو بار باران خدشات کا اظہار کر رہا ہے کہ جرمنی بہت بڑی طاقت بن کر اُبھر جائے گا اور پھر ہو سکتا ہے ماضی کی طرح وہ تمام غلطیاں دہرائے جن غلطیوں کے نتیجے میں ایک عالمگیر جنگ رونما ہوئی تھی.چنانچہ ابھی کچھ عرصہ پہلے جو کیبنٹ میں ایک نائب وزیر نے استعفیٰ دیا تھاوہ اسی موضوع پر دیا تھا، اسی مسئلے پر دیا تھا.جرمنی جا کر اُنہوں نے ایسے خیالات کا اظہار کر دیا جو پہلے جرمنی کے نزدیک در حقیقت انگلستان کی کیبنٹ کی باتیں تھیں لیکن اُس نے اپنی طرف سے ان کو ظاہر کیا اور جہاں تک کیبنٹ کا تعلق ہے انہوں نے اُس سے نہ صرف قطع تعلقی کا اظہار کیا بلکہ اگر وہ کہتا ہے میں حق پرست تھا اُس حق پرست کو استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا لیکن یہ بات یہاں ختم نہیں ہوئی بار بار اس قسم کی آواز میں اُٹھائی جارہی ہیں.ابھی حال ہی میں سویڈن میں ایک انگریز دانشور مسٹر اینتھنی برگس (Mr.Anthony Burgiss) کا ٹیلی ویژن پر انٹر ویو ہوا اور غالبا اخباروں میں بھی اُن کا کوریج ہوا وہ ایک انگریز دانشور کے طور پر وہاں متعارف کروائے گئے اور تعارف یہ کروایا گیا کہ ان کو اسلام کا بہت گہرا علم ہے اور بڑے وسیع اور دیرینہ تعلقات ان کے مسلمان ممالک سے رہے ہیں اور بلکہ یہ وہاں لمبا عرصہ ٹھہر کر بھی آئے ہیں.یہاں تک ان کو اسلام کا علم سیکھنے کا شوق تھا کہ شدید خطرہ تھا کہ یہ مسلمان ہی نہ ہو جائیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس جہالت سے بچالیاوہ گویا اس رنگ میں ان کو پیش کیا جارہا تھا کہ وہ آخری مقام پر پہنچ کر پھر ان پر وہ باتیں کھل گئیں کہ یہ واپس آگئے اور اب ہم آپ کے سامنے ایک ایسے دانشور کے طور پر پیش کرتے ہیں جو مسلمانوں کی سیاست سے بھی واقف ہیں اور اسلام کی کنہ سے بھی واقف ہیں.یہ تھا دراصل اُن کے یورپ میں جانے اور مختلف مواقع پر اپنے

Page 62

۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء خیالات کے اظہار کا مقصد چنانچہ اسلام کو اس نے بہت ہی ظالمانہ حملوں کا نشانہ بنایا اور خلاصہ کلام یہ تھا کہ آج کی دنیا میں آزادی انسان اور آزادی ضمیر کا اگر کوئی مذہب دشمن ہے تو اسلام دشمن ہے اور آج آزادی ضمیر کا سب سے بڑا خطرہ دنیا میں اسلام سے وابستہ ہے، لاحق ہے.یہ کہنے کے بعد پھر اُنہوں نے آخر وہ بات کہہ دی جو کہا جاتا ہے کہ آج کل لوگوں کے ذہن میں عام طور پر گھومتی ہے کہ جرمنی کس شکل میں یورپ میں اُبھرے گا.چنانچہ انہوں نے اُسی تسلسل اور بڑے زور سے یہ بھی کہ دیا کہ جس طرح جرمنی آجکل یورپ کے امن کے لئے ایک نئے خطرے کے طور پر اُبھر رہا ہے اُسی طرح اسلام آزادی ضمیر کے لئے خطرے کے طور پر ابھر رہا ہے.اس پر اس پینل نے جس میں وہ بات کر رہے تھے ایک مشرقی یورپ کے نمائندہ نے بڑی شدت سے ان کی مخالفت کی صرف اس حد تک کہ مثال تم نے غلط دی ہے جیسے اسلام کے معاملے میں تو ہم مان جائیں گے لیکن جرمنی خطرہ نہیں بنے گا اور اس نے کہا کہ میں موجودہ نسلوں کو اچھی طرح جانتا ہوں یہ تو تم محض پروپیگنڈہ کر رہے ہو لیکن یہ پروپیگنڈے کی بات نہیں ہے یہ انسانی نفسیات سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں.وہ تو میں جو بنیادی طور پر خود غرض ہوں اور اُن کے انصاف کا تصور قومیت سے وابستہ ہو اور قومیت قومی تصور میں پیوست ہو اُن کے ہاں قومی تصور آپس کے معاملوں میں بدلنے لگتے ہیں.جب آپس کے مقابلے ہوں گے ایک ملک کے دوسرے ملک سے تو وہاں ویلش تصور اور آئرش تصور اور سکائش تصور اور انگلش تصور یہ سارے مل کر ایک وسیع تر برطانوی تصور کے طور پر اُبھرتے ہیں اور جرمن میں بوار ئین تصور اور دوسرے جرمن تصور کی بجائے ایک وسیع تر جرمن تصور ابھرتا ہے جس میں نہ مشرقی جرمنی کا تصور باقی رہتا نہ مغربی جرمنی کا نہ شمال کا نہ جنوب کا.تو قومیت رفتہ رفتہ نسل پرستی کا رنگ اختیار کرنے لگتی ہے.پہلے جغرافیائی حدوں میں پھیلتی ہے اور ایک قوم کی بجائے دو چار قو میں مل کر دوسری دو چار قوموں کے مقابل پر اپنے اڈے بناتی ہیں اور جب ان سب کے مجموعی مفادات باہر کی دنیا سے ٹکراتے ہیں تو یہی قومی تصور نسلی تصور بن جاتا ہے اور White against black سفید فام کا مقابلہ سیاہ فام سے شروع ہو جاتا ہے اور سرخ فام کا مقابلہ زرد فام سے شروع ہو جاتا ہے

Page 63

ད ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء اور ہم جیسے سانولے لوگ بھی بیچ میں آجاتے ہیں جو اس لحاظ سے بھی تعصب کا شکار بن جاتے ہیں اور اُس لحاظ سے بھی تعصب کا شکار بن جاتے ہیں چنانچہ امریکہ میں پاکستانی اور ہندوستانی نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ کالوں کے نزدیک بھی الگ قوم ہیں اور Colonist کے طور پر دیکھے جاتے ہیں اور سفید فاموں کے نزدیک بھی یہی حال ہوتا ہے.یہی خطرات افریقہ میں ابھر رہے ہیں کہ پاکستانی کا رنگ چونکہ اُن سے مختلف ہے اس لئے پاکستانی کو بھی وہ ایک غیر قوم سمجھ کر یہ تعصب دل میں بٹھانے لگتے ہیں کہ یہ بھی آئے ہوئے ہیں باہر سے گویا ہم پر راج کرنے آئے ہیں.بہر حال یہ تعصبات پھر جو قومی تعصبات ہیں یہ وسیع تر ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر رنگوں میں بدل جاتے ہیں.روس اور چین میں اختلاف کی اصل نوعیت روس اور چین کے درمیان جو تاریخی اختلافات ہیں اُن کا زیادہ تر تعلق اشتراکیت کے مختلف تصورات سے بتایا جاتا ہے یعنی یہ تعلق بتایا جاتا ہے کہ روس کے ہاں اشتراکیت کا الگ تصور ہے اور چین کے ہاں الگ تصور ہے اور چونکہ دونوں ملکوں کے درمیان فلسفہ اشتراکیت کو سمجھنے میں اختلافات ہیں اور اُس کی تعبیروں میں اختلافات ہیں اس لئے ان دونوں قوموں کے درمیان اتحاد نہیں ہوسکتا.حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ اختلافات بالکل سطحی نوعیت کے ہیں.بنیادی اختلاف یہ ہے کہ روس اپنی عظمت اور طاقت کے زمانے میں بھی کبھی یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ اشتراکیت چین کی زرد فام رنگ اختیار کر کے دنیا پر قابض ہو جائے اور چین کسی قیمت پر یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ اشتراکیت زرد رو ہو کر نہ اُبھرے بلکہ سُرخ و سفید ہو کر یورپین اشتراکیت کے طور پر دنیا پر قابض ہو جائے.پس در حقیقت ان دونوں قوموں کے درمیان جو حسد تھا وہ زرد قوم اور سرخ و سفید قوم کے درمیان کا حسد تھا جو اپنے جلوے دکھاتا تھا اگر چہ دبا رہا اور دنیا کی نظر میں اس طرح اُبھر کر نہیں آیا لیکن جو لوگ ان کی قومی نفسیات سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں یہ اشتراکیت کے جھگڑے نہیں تھے بلکہ چینی قوم کے یعنی زردر و چینی قوم کے سفید اور سرخ رُخ رکھنے والی روسی قوموں سے

Page 64

۶۲ ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء جیلیسی Jealousy تھی یا حسد تھا جو دراصل ان اختلافات کو ہوا دے رہا تھا اور اس کے نتیجے میں جو عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے وہ بعد میں پیدا ہوا.تو یہ جو بدلتے ہوئے حالات ہیں ان میں یہ اختلافات اور بھی زیادہ بڑھنے والے ہیں اور ان کے ساتھ جماعت احمدیہ کو براہ راست مقابلہ کرنا ہوگا.چونکہ اب وقت زیادہ ہو گیا اور تمہید ہی جو کافی وقت چاہتی تھی مشکل سے ختم ہوئی ہے اس لئے میں اس مضمون کو آج یہاں ختم کرتا ہوں.آئندہ خطبہ چونکہ تحریک جدید کے موضوع پر دیا جانا ہے اس لئے آئندہ خطبے میں انشاء اللہ تعالیٰ حسب توفیق تحریک جدید کا موضوع بیان ہوگا اور اُس کے بعد پھر خطبہ جب آئے گا تو پھر میں اس مضمون کو جماعت احمدیہ کے تعلق میں اُس کی مذہبی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے تعلق میں بیان کروں گا کہ ہمیں کیا کیا خطرات درپیش ہیں، دنیا کو ان خطرات سے بچانے کے لئے ہمیں کیا کرنا ہے اور اسلام کی روح کو زندہ رکھنے کے لئے اور نسل پرستی کے حملوں سے بچانے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے اور کس قسم کے خطرات ہمارے سامنے ہیں.مسلمانوں کے خلاف انتہائی گہرا اور خطرناک منصوبہ اب آخر پر میں دوبارہ عراق اور عرب اور مسلمانوں کے عمومی مفاد کے متعلق دُعا کی تحریک کرنا چاہتا ہوں.اس مسئلے پر میں تفصیل سے پہلے روشنی ڈال چکا ہوں اس لئے اُس کو دوبارہ چھیٹر نے کی ضرورت نہیں جو نئے حالات سامنے اُبھر رہے ہیں ان کی رُو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مغربی قو میں جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ اسرائیل کے چنگل میں مکمل طور پر پھنس کر اُن کے اس منصوبے کا شکار ہو چکی ہیں کہ بہر حال عراق کی ابھرتی ہوئی طاقت کو ملیا میٹ کر دیا جائے اور اسی تسلسل میں مسلمانوں کی دیگر طاقتیں جو ہیں وہ بھی کمزور ہو جائیں اور بکھر جائیں لیکن اس سطح پر یہ مقابلے نہ ہوں کہ گویا مسلمان ایک طرف اور عیسائی ایک طرف ، مغربی قومیں ایک طرف اور مشرقی ایک طرف بلکہ اس دفعہ کا جو منصوبہ ہے اُس میں جاپان تک کو بھی اس میں شامل کرنے کا پختہ منصوبہ بنایا جا چکا ہے اور آج کل جاپان میں یہی بحث چل رہی ہے کہ محض اس لئے کہ جاپان کو بھی عراق کو تباہ کرنے میں

Page 65

۶۳ ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء حصہ دار بنا دیا جائے.جاپان کے اُس قانون کو بدلنے کے لئے جاپانی اسمبلی میں Resolutions پیش کئے جاچکے ہیں جس قانون کو خود مغربی اقوام نے ایک لازمی اور غیر متبدل لائحہ عمل کے طور پر جاپان کے لئے تجویز کیا تھا کہ کبھی بھی دنیا میں جاپانی فوج اپنے ملک سے باہر جا کر کوئی لڑائی نہیں لڑے گی اور اپنے ملک سے باہر کسی اور سرز مین پر جا کر کسی قسم کی فوجی کارروائیوں میں ملوث نہیں ہوگی.یہی قانون جرمنی کے لئے بھی بنایا گیا تھا جو تبدیل کر دیا گیا ہے اور یہی قانون جاپان کے لئے بنایا گیا تھا تا کہ آئندہ کبھی بھی جاپانی قوم کو کسی عالمی جنگ میں شرکت کا خیال تک پیدا نہ ہوا اور مسلمان دشمنی میں اور عرب دشمنی میں کہہ لیجئے مگر میرے خیال میں تو زیادہ صحیح تشریح یہ ہے کہ مسلمان دشمنی میں انہوں نے اب جاپان کو بھی اس رنگ میں ملوث کیا ہے کہ وہ بھی ساری دنیا کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی موجودہ اُبھرتی ہوئی بڑی طاقت کو گالیۂ نیست و نابود کر دے تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ مغربی دنیا کا کھیل ہے اور نہ مشرق اور مغرب کی تقسیم ہو اس موضوع پر اور نہ اسلام اور غیر اسلام کی تقسیم ہو.عرب ممالک بھی ساتھ ہوں، مسلمان ممالک بھی ساتھ ہوں، مغربی بھی ہوں اور مشرقی بھی اور جاپان چونکہ ایک بہت بڑی طاقت رکھتا ہے اور جاپان کے چونکہ اقتصادی مفادات تیل کے ملکوں سے بڑے گہرے وابستہ ہیں اس لئے اُن کو یہ بھی خطرہ تھا اگر جاپان الگ رہا تو بعد کی اُبھرتی ہوئی شکل میں جن نفرتوں نے جنم لینا ہے اُس کا نشانہ صرف مغربی طاقتیں نہ بنیں بلکہ جاپان بھی ساتھ شامل ہو جائے کیونکہ اقتصادی طور پر مقابلہ اگر ہے تو جاپان ہی سے ہے.بہر حال بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ بہت ہی عظیم منصوبے کے تحت جاپان کو بھی شامل کر لیا گیا ہے.تفصیلی منصوبہ کا خلاصہ ان کی جو مختلف ممالک میں کا نفرنسز ہو رہی ہیں اور ان کے دانشور جن خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اُس کا خلاصہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ آپ کو اندازہ ہو کہ یہ کتنا بھیا نک منصوبہ ہے جس کے نتیجے میں اتنا گہرا اور لمبا نقصان عالم اسلام ہی کو نہیں بلکہ دوسری مشرقی دنیا کو بھی پہنچے گا کہ

Page 66

۶۴ ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء پھر اُس سے بعض ممالک جانبر ہی نہ ہوسکیں اور بہت دیر تک یہ ممالک اپنے زخم چاٹتے رہیں گے.اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارا نہیں ہوگا.پہلی بات تو یہ ہے کہ اتنی بڑی جنگ جو وہاں ٹھونسی جارہی ہے، اس پہ بڑے اخراجات کئے جارہے ہیں یہ اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟ اور تیل کی جو بڑھتی ہوئی قیمت ہے اُس کے نتیجے میں یورپ کو اور دوسری مغربی دنیا کی صنعت کو نقصان جو پہنچے گا اُس کا ازالہ کیسے ہوگا.مختلف سیمینار ہو رہے ہیں مختلف ممالک میں اور اُن کی رپورٹیں مجھے پہنچتی ہیں اُن میں وہ سب تفصیل تو نہیں صرف دعا کی تحریک کے طور پر خلاصہ آپ کو یہ بتا تا ہوں.منصوبہ یہ ہے کہ اس جنگ کا تمام خرچ عرب مسلمان قوموں سے وصول کیا جائے گا اور ان معاہدات پر دستخط ہو چکے ہیں کہ جو جنگ تھوپی جائے گی اور تھو پی جارہی ہے اس کا بل سعودی عرب سے لیا جائے گا اور کویت سے اور دوسری قومیں جتنی بھی شامل ہیں اُن سے اُس کی قیمت وصول کی جائے گی.خاص طور پر سعودی عرب کو سب سے زیادہ بل ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا اور چونکہ سعودی عرب کے اکثر خزانے امریکہ کے ہاتھ میں پہلے سے ہی موجود ہیں اس لئے اُن کے بھاگ جانے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.دوسری بات یہ کہ تیل کی قیمت بڑھنے کے نتیجے میں مغرب کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اُس کے متعلق یہ معاہدہ ہو چکا ہے کہ مغربی قوموں کو وہ زائد قیمت یہ مسلمان ممالک واپس کر دیں گے جو موجودہ مشکلات کی وجہ سے اُن کو بڑھانی پڑی یا موجودہ حالات کے نتیجے میں جو بڑھ گئی ہے.یہ تو یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ معاہدے کس رنگ میں ہوئے ہیں لیکن ان کے دانشوروں نے اپنی تقریروں میں مختلف کا نفرنسز میں یہ بیان کھل کے دیئے ہیں اور اس سے زیادہ ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں.یہ بیان بہر حال دیئے گئے ہیں کہ ہم آپ کو اطمینان دلاتے ہیں آپ کی اقتصادیات کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ ہمارا اُن سے یہ سمجھوتہ ہو چکا ہے کہ جتنی بڑھی ہوئی قیمت وہ ہم سے وصول کریں گے اور موجودہ شکل میں مجبور ہیں کہ اُس قیمت کو کم نہ کریں ورنہ دنیا کے باقی ممالک سے بھی وہ نہیں وصول کر سکتے اس لئے تیل کے بڑھے ہوئے منافع میں سے جہاں تک عرب منافع کا تعلق ہے وہ واپس کیا

Page 67

۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء جائے گا اور جہاں تک مغربی تیل کی بڑھی ہوئی قیمت کا منافع ہے وہ پہلے ہی ان کی جیب میں موجود رہے گا.اس کے علاوہ یہ بھی فیصلہ ہو چکا ہے کہ صرف یہ سوال نہیں ہے کہ کویت واپس لیا جائے گا.سوال یہ ہے کہ صدام حسین کی تمام بڑھتی ہوئی طاقت کو ہر پہلو سے ہر جگہ کچل دیا جائے گا.اسی لئے آپ نے ایک شاخسانہ سُنا ہوگا کہ کہہ رہے ہیں کہ صرف کیمیاوی جنگ کی صلاحیت نہیں ہے صدام حسین کو بلکہ بائیولاجیکل وارفیئر Biological Warfare کی صلاحیت بھی ان کے اندر موجود ہے اور انہوں نے ایسے جراثیم پر قدرت پالی ہے، ایسے جراثیم کو محفوظ طریقے پر بڑھا کر بموں کی شکل میں دوسرے علاقوں میں منتقل کرنے کے ذرائع اُن کو مہیا ہو چکے ہیں اور ٹیکنالوجی حاصل ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں بہت ہی خطرناک جراثیم غیر قوموں میں پھیلائے جاسکتے ہیں اور اُس کے لئے پیش بندی کرنا بہت مشکل کام ہے.مثلاً اینتھر کس ہے ایک ایسا جرثومہ ہے جس کے نتیجے میں جلد پر خوفناک قسم کے پھوڑے بھی نکلتے ہیں، خون میں Poisining ہو جاتی ہے اور بہت ہی درناک حالت میں موت واقع ہوتی ہے.ایتھر کس کو جنگی ہتھیاروں کے طور پر استعمال کرنے کی ایجا داگر چہ مغرب ہی کی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی عراق کو بھی حاصل ہو چکی ہے.اسی طرح ٹائیفائیڈ ہے کالرا ہے اسی قسم کے اور بہت سی مرضیں ہیں جن سے خود حفاظتی کے لئے اگر چہ ٹیکے ایجاد ہو چکے ہیں لیکن مغربی مفکرین یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ عراق ان کو آپس میں ملا کر ایسی خوفناک پوشنز (Potions) یا ملی جلی جس طرح کہ ادویات ہوتی ہیں اُن کا ایک مرکب کہہ لیں ہمجون کہہ لیں یعنی مختلف جراثیم کے مرکبات اور معجونیں بنا کر اُن کو یہ دنیا میں پھیلا دیں گے اور یہ ناممکن ہے کہ ہر ایک کے لئے خود حفاظتی کی اور دفاعی کا رروائی کی جاسکے.اب جہاں تک میر اعلم ہے ابھی تک چند دن سے پہلے یہ باتیں دنیا کے سامنے نہیں لائی گئی تھیں نہ کبھی عراق کی طرف سے ایسی دھمکی دی گئی تھی.عراق نے جب بھی دھمکی دی ہے کیمیاوی جنگ کی دھمکی دی ہے لیکن یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دنیا کی رائے عامہ پر مکمل طور پر قبضہ کرنے کی خاطر

Page 68

۶۶ ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء یہ باتیں بھی داخل کر رہے ہیں اللہ بہتر جانتا ہے سچ ہے یا جھوٹ ہے لیکن مقصد یہ ہے کہ اگر ہم عراق کو کلیہ تباہ و برباد کریں اور کچھ بھی وہاں باقی نہ چھوڑیں تو دنیا کی رائے عامہ مطمئن ہو جائے کہ اصل وجہ کیا تھی اور یورپ اور مغرب میں جب یہ باتیں بیان کرتے ہیں کہ ہمارا معاہدہ ہو چکا ہے اس بات پر اور اُس بات پر تو یہ وجہ نہیں ہے کہ اپنے راز خود اُگل رہے ہیں بلکہ پراپیگنڈے کے ہتھیار کے طور پر یہ باتیں بتانے پر مجبور ہیں ورنہ مغربی رائے عامہ اتنا اقتصادی رجحان رکھتی ہے کہ اگر یہاں یہ بات ذہن نشین ہو جائے کہ اس جنگ کے نتیجے میں شدید اقتصادی نقصانات ہمیں پہنچیں گے تو مغربی رائے عامہ یقیناً اپنے سیاستدانوں کو اس جنگ کی اجازت نہیں دے گی.پس یہ ان کی مجبوریاں ہیں.یہ نہیں کہ کسی جاسوس نے یہ باتیں نکالی ہیں.کھلے عام اب یہ باتیں ہورہی ہیں وجہ اُس کی یہی ہے کہ رائے عامہ کو ابھارنا ہے اور رائے عامہ کو اکٹھا کرنے کی خاطر یہ قربانی کرنی پڑتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پوری جنگ کی تیاری ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی جنگ اب تھوپی جائے گی اُس میں عالم اسلام خود عالم اسلام کے دور رس مفادات کو ہمیشہ کے لئے تباہ و بر باد کرنے کے لئے پوری مستعدی سے ان کا ساتھ دے رہا ہوگا.اس سے زیادہ بھیا نک تصور انسان کے دماغ میں اسلام کے تعلق میں نہیں اُبھر سکتا کہ دنیا کی اکثر مسلمان قومیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے مغربی دنیا کا اس بات میں بھر پور ہاتھ بٹائیں اور ان کے افعال کی پوری ذمہ داری قبول کریں ، ایک اُبھرتی ہوئی اسلامی طاقت کو اس طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے کہ اُس کا نام ونشان مٹ جائے.عالم اسلام کے لئے دعا کی تحریک ہمارے پاس تو سوائے دُعا کے اور کوئی ہتھیار نہیں ہے اور میں پہلے ہی جماعت کو متوجہ کر چکا ہوں.میں بھی دعا کرتا ہوں ہمیشہ آپ بھی یقین ہے کہ دعاؤں میں اس بات کو یا در کھتے ہوں گے.یہ خطرہ سارے عالم اسلام کے لئے خطرہ ہے اور کوئی معمولی خطرہ نہیں.اس کے عقب میں بہت سے

Page 69

۶۷ ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۰ء اور خطرات آنے والے ہیں.ان باتوں کے رد عمل پھر اور بھی پیدا ہوں گے اور اُس کے نتیجے میں قومیاتی تصورات پھر اور بھی زیادہ اُبھریں گے، نسلی تصورات اور بھی زیادہ اُبھریں گے اور اگلا جو دُنیا کا نقشہ ہے وہ الٹنے پلٹنے والے دور سے گزرنے والا ہے.نئے نقشے بننے میں تو ابھی دیر ہے.اس دور میں اگر ہم مستعد ہو جائیں اور دعاؤں کے ذریعے اور اپنی ذہنی اور قلبی صلاحیتوں کے ذریعے ان تمام خدشات کا مقابلہ کرنے کے لئے اور اسلام کے دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کے لئے تیار ہو جائیں.پورے اخلاص کے ساتھ عہد کریں کہ ہم ہرگز اسلام کی بقا کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے تو پھر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہماری دعائیں اور ہماری پر خلوص کوششیں یقیناً دنیا کے حالات پر اچھے رنگ میں اثر انداز ہوں گی اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ اسلام کے خلاف سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 70

Page 71

۶۹ بسم اللہ الرحمن الرحیم سنجیدگی ،خلوص اور درد کے ساتھ دعائیں کرنے کی ضرورت ( خطبه جمعه فرموده ۹ نومبر ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: عالم اسلام کے لئے دعاؤں کی یاد و بانی ۹ نومبر ۱۹۹۰ء عالم اسلام پر جو حالات آجکل گزر رہے ہیں وہ ہر احمدی کے لئے بہت ہی زیادہ باعث فکر ہیں اور پریشانیاں کم ہونے کی بجائے سردست بڑھ رہی ہیں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی احباب جماعت کو بار بار دعا کی طرف توجہ کرنے کی نصیحت کی تھی ، اب پھر میں اس خطبے کے ذریعے جماعت کو دعا کی یاد دہانی کراتا ہوں.بڑی سنجیدگی کے ساتھ اور گہرے خلوص اور درد کے ساتھ ہر احمدی کو با قاعدہ اس امر کے لئے دُعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے عالم اسلام کے خطرات کو ٹال دے اور اگر چہ بہت ہی گہرے اور سیاہ بادل ہر طرف سے گھر کر آئے ہیں لیکن خدا کی تقدیر جب چاہے ان کے رُخ پھیر سکتی ہے اور اس وقت دنیا کا کوئی ایسا حصہ نہیں ہے جہاں یا براہِ راست مسلمانوں کو خطرہ در پیش نہ ہو یا بالواسطہ خطرہ در پیش نہ ہو اور ان تمام خطرات کے مقابلے کے لئے فی الحقیقت دنیا میں کہیں بھی مسلمان تیار نہیں اور جو اسلامی اور عقل و دانش کا رد عمل ہونا چاہئے وہ رد عمل کہیں دکھائی نہیں دے رہا اس لئے ہمارا کام ہے کہ نصیحت بھی کریں، سمجھانے کی بھی کوشش کریں خواہ

Page 72

۹ رنومبر ۱۹۹۰ء کوئی ہماری آواز سُنے یا نہ سُنے ، ہمارا فرض ہے کہ اس وقت جو بھی نصیحت کا حق ہے وہ ضرور ادا کریں لیکن محض نصیحت پر بناء نہیں کرنی کیونکہ نصیحت ان کانوں پر پڑے جو سننے کے لئے آمادہ نہ ہوں، حالات اُن آنکھوں کو دکھائے جائیں جو دیکھنے کے لئے تیار نہ ہوں اور بات ان دلوں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے جن کے اوپر ضد کی مہریں لگی ہوں تو جو بھی انسان کرنا چاہے اس کا نیک نتیجہ نہیں نکل سکتا اس لئے دعائیں بہت ضروری ہیں.نصیحت میں تاثیر پیدا کرنے کے لئے بھی دعاؤں کی ضرورت ہے اور جہاں تک غیر دنیا کا تعلق ہے ان کے رخ موڑنے کے لئے بھی دعاؤں کی ضرورت ہے.آپ کی دعاؤں کے بھی دو رخ ہونے چاہئیں.ایک یہ کہ اللہ اہلِ اسلام میں ہوشمند لیڈرشپ پیدا فرمائے اور اہل اسلام کی قیادت جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے ان کو عقل دے، ان کو تقویٰ کا نور عطا کرے اور حالات کو سمجھنے کی توفیق بخشے اور دوسری طرف جو ظالم باہر کی دنیا سے اسلام پر حملہ آور ہونے والے ہیں یا ہور ہے ہیں یا اندرونی طور پر مسلمانوں کے اندر سے ان سے دشمنی کرنے والے اسلام کے بھیس میں اُن سے دشمنی کر رہے ہیں ان سب کے رُخ پھیر دے اور ان کی تمام کوششوں کو نا مراد اور نا کام فرمادے.عراق کے خلاف پیش کی جانے والی دلیل سرسری طور پر جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے وہ میں آپ کے سامنے مختصر ارکھتا ہوں.سرسری طور پر تو نہیں مگر مختصر رکھتا ہوں کیونکہ اس سے پہلے اس مضمون پر مختلف رنگ میں میں روشنی ڈال چکا ہوں.عراق کے ساتھ وابستہ جھگڑے کا تعلق در حقیقت کویت پر عراق کے قبضے سے ہے.یہ تو سب دوستوں کو معلوم ہے اور اس وقت تمام دنیا کی طاقتوں کو عراق کے خلاف جو اکٹھا کیا جارہا ہے اس کے محرکات کیا ہیں ان میں سے ایک دو میں نے بیان کئے لیکن بہت گہرے محرکات ہیں.اگر توفیق ملی تو آئندہ کبھی ان پر تفصیل سے روشنی ڈالوں گا اور یہ بتاؤں گا کہ ان سازشوں کی باگ ڈور در حقیقت کن ہاتھوں میں ہے لیکن خلاصہ اس جھگڑے کا یہی ہے کہ ایک مسلمان ملک نے ایک ایسے خطہ زمین پر قبضہ کر لیا جو

Page 73

اء ۹ نومبر ۱۹۹۰ء اس مسلمان ملک کے نزدیک کبھی اس کا تھا اور انگریزوں نے اس خطے کو کاٹ کر وہاں ایک الگ حکومت قائم کر دی تھی.یہ عراق کا کیس ہے.اس کے جواب میں یہ کہا جارہا ہے کہ اگر آج ہم کسی خطے پر کسی تاریخی دعوئی کے نتیجے میں کسی ملک کو قبضہ کرنے دیں تو اس سے عالمی امن کو شدید خطرہ لاحق ہوگا اور ہم کسی قیمت پر بھی اس قسم کی ظالمانہ حرکت کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دے سکتے.چنانچہ مغربی راہنماؤں کی طرف سے بار بار اس خیال کو بھی رڈ کیا جارہا ہے کہ تیل میں ہمیں دلچسپی ہے.کہتے ہیں تیل میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں دلچسپی ہے تو امن عالم میں دلچسپی ہے.ایک خطے کو جوز مین کا ایک ٹکڑا ہے اس کو کوئی ملک اپنے قبضے میں اس لئے کر لے کہ تاریخی لحاظ سے کچھ اور تھا یہ بالکل ایک لغو بات ہے اور ہم ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے.دلیل پیش کرنے والوں کی سابقہ دھاندلیاں آئیے اب ہم اس دور کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈال کر دیکھیں کہ کیا ہوتا رہا ہے اور یہ جو دلیل پیش کی جارہی ہے اس کی ماہیت کیا ہے.جہاں تک عالم اسلام سے تعلق رکھنے والی بعض سرزمینوں کا تعلق ہے ان میں سب سے پہلے فلسطین کی سرزمین ہے جس کے ایک بڑے حصے پر اس وقت اسرائیل کی حکومت قائم ہے اور اس کے علاوہ بھی وہ حکومت سرکتی ہوئی اردن دریا کے مغربی ساحل تک پہنچ چکی ہے.یہ حقیقت میں ایک تاریخی قضیہ تھا.ہزاروں سال پہلے یہود کا اس سرزمین پر قبضہ تھا اور یہاں اُنہوں نے معبد تعمیر کئے اور اس زمین کو یہود کے نزدیک غیر معمولی اہمیت تھی.مغربی طاقتوں نے اس قدیم تاریخ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس زمانے کا جغرافیہ تبدیل کیا اور اس قدر غیر معمولی ہٹ دھرمی اور جسارت کی کہ سارا عالم اسلام شور مچاتا رہ گیا اور عالم اسلام کے سوا دنیا کی بہت سی دوسری طاقتیں بھی عالم اسلام کی ہمنوائی میں اُٹھ کھڑی ہوئیں کہ تم تین چار ہزار سال پرانی تاریخ کوشولتے ہوئے راکھ کے انبار میں سے ایک چنگاری نکال رہے ہو اور اسے ہوا دے کر آگ بنانے لگے ہو.تمہارا کیا حق ہے کہ آج اس پرانے دعوے کو قبول کرتے ہوئے اس حال کی دنیا کے

Page 74

۷۲ ۹ نومبر ۱۹۹۰ء نقشوں کو تبدیل کرو.مگر وہی بڑی حکومتیں جو عراق کو تباہ کرنے پر آج تکی بیٹھی ہیں وہ متحد ہو گئیں اس بات پر کہ نہیں تاریخ کے نتیجے میں جغرافیے تبدیل کئے جائیں گے اور جغرافیہ تو تبدیل ہوتے رہنے والی چیزیں ہیں.پھر آپ کشمیر کو دیکھ لیجئے ، پھر آپ جونا گڑھ کو دیکھ لیجئے.پھر آپ حیدر آباد دکن کو دیکھ لیجئے غرضیکہ بہت سے ایسے ممالک ہیں جو آج بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ اس دور میں جس میں سے ہم گزر رہے ہیں تاریخ کے حوالے سے یا بغیر کسی حوالے کے جغرافیے تبدیل کئے گئے اور تمام دنیا کی سیاست کو کوئی خطرہ در پیش نہیں ہوا اور سیاسی تقسیمیں دنیا میں جتنی بھی ہیں انہوں نے ان تبدیلیوں کے نتیجے میں کوئی واویلا نہیں کیا اور کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ سب دنیا مل کر اس تبدیل ہوتے ہوئے جغرافیے کو پھر پہلی شکل پر بحال کر دے.افریقہ کی انتہائی افسوسناک بندر بانٹ صرف یہی نہیں بلکہ ہم جب افریقہ کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو اور بھی زیادہ حیرت انگیز اور بھیانک شکل دکھائی دیتی ہے.ایک رسالہ The Plain Truth یہاں سے شائع ہوتا ہے، اس کے ایک صفحے میں سے چند اقتباسات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ آپ کو علم ہو کہ دنیا کا جغرافیہ تبدیل کرنے کا حق کن کو ہے اور کن کو نہیں ہے.یہ لکھتا ہے: In November 1884, Representatives of 13 European Nations and The United States met in Berlin.Having portioned out Africa among themselves, they agreed to respect each other's "spheres of influence".Soon only Ethiopia and Liberia remained independent nations.(The Plain Truth, October 1990)

Page 75

۷۳ ۹ نومبر ۱۹۹۰ء In actuality the division of Africa was done with mainly In most black African states European interests in mind south of the sahara the standard of living is falling, the people hungry, bewildered and disillusioned.A part of the blame must be placed on the way the continent was, and is, divided.Only a divine power could reverse this (The Plain Truth Oct.1990) tragedy peaceably.لکھتا ہے کہ ۱۸۸۴ء میں ۱۳ ایورپین ریاستوں کے نمائندے اور یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کے نمائندے برلن میں اکٹھے ہوئے.غرض کیا تھی ؟ افریقہ کی بندر بانٹ.چنانچہ تمام افریقہ کے براعظم کو انہوں نے وہاں ایسے ٹکڑوں میں تقسیم کیا کہ کچھ ٹکڑے کسی کے حصہ اثر میں آئے اور کچھ ٹکڑے کسی اور کے حصہ اثر میں آئے.غرضیکہ تمام یورپین ممالک نے اپنے اپنے حصہ اثر کے ٹکڑے چن لئے اور معاہدہ یہ ہوا کہ ہم ایک دوسرے کے حصہ اثر کے ٹکڑوں میں دخل نہیں دیں گے فی الحقیقت یہ تقسیم تمام تر یورپین ریاستوں کے مفاد میں کی گئی تھی.اس کی تفاصیل اس مضمون میں بھی بیان ہوئی ہیں اور تاریخ میں ویسے ہی یہ مضمون پوری چھان بین کے ساتھ ہمیں تالیف ہوا ہوا ملتا ہے.خلاصہ یہ ہے کہ ان تقسیمات میں ہر گز کسی افریقن قوم یا کسی افریقن ملک کے مفاد کوملحوظ نہیں رکھا گیا اور قوموں کو نہ قومیت کی بناء پر تقسیم کیا گیا، نہ لسانی یجہتی کی بناء پر تقسیم کیا گیا، نہ دیگر مفادات کو دیکھا گیا، نہ اقتصادی مفادات کو دیکھا گیا، نہ یہ دیکھا گیا کہ کہاں قدرتی دولتیں یعنی معدنیات موجود ہیں اور کہاں نہیں اور نہ یہ دیکھا گیا کہ ریاستیں بہت چھوٹی ہو جائیں گی اور اقتصادی لحاظ سے آزادی کے ساتھ چلنے کی اہل بھی رہیں گی یا نہیں ، نہ یہ دیکھا گیا کہ ریاستیں اتنی بڑی ہو جائیں گی کہ ان کے نتیجے میں دیگر ریاستوں کے حقوق خطرے میں پڑ جائیں گے اور ان کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو جائے گا.یہ وہ خلاصہ ہے جو ہمیں تاریخ میں بھی ملتا ہے اور اس

Page 76

۷۴ ۹ نومبر ۱۹۹۰ء مضمون میں بڑی عمدگی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں جو غیر معمولی تکالیف افریقہ کے باشندوں کو اٹھانی پڑیں اور اب بھی اٹھائے چلے جارہے ہیں اس کی تفصیل بھی آپ کو تاریخ میں ملتی ہے اور اس مضمون میں بھی مختصراً ذکر ہے.خلاصہ کلام یہی ہے کہ سارے افریقہ کے براعظم کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں یا بعض بڑے ٹکڑوں میں اس نیت سے بانٹ دیا گیا کہ اس خطہ زمین کے تمام تر مفادات اہل مغرب کو حاصل ہوں اور حاصل ہوتے رہیں.اب آزادی کے بعد افریقہ کو جو اکثر مسائل در پیش ہیں وہ اسی غلط تقسیم کے نتیجے میں ہیں کیونکہ قومی بجہتی کا تصور ابھرنے کے ساتھ لسانی اشتراک کے خیالات بھی اُبھرتے ہیں اور جغرافیے کی حدود انسان اور پاتا ہے اور قومی بیجہتی اور لسانی اشتراک کی حدود اور طرح دیکھتا ہے.پھر تاریخی طور پر افریقہ کی قوموں کی ایک دوسرے سے دشمنیاں ہیں مثلاً لائبیریا میں بعض قوموں کی بعض دوسری قوموں سے دشمنیاں ہیں لیکن یہ صرف ملک کے اندر نہیں بلکہ بڑے بڑے علاقوں میں یہ دشمنیاں پھیلی پڑی ہیں اور ان میں سے بعض دشمنی والی قوموں کو اس طرح کاٹ دینا کہ وہ نسبتا کمزور دوسری قوموں پر حاوی ہو جائیں، غرضیکہ بہت سی ایسی شکلیں ابھرتی ہیں جن کے نتیجے میں سارا افریقہ اس وقت بے اطمینانی ، عدم اعتماد اور منافرتوں کی لپیٹ میں ہے.ان تمام نا انصافیوں کو دور کرنے کی طرف نہ کبھی کسی نے توجہ کی ، نہ اس کی ضرورت سمجھتے ہیں بلکہ اب تو معاملہ اس حد تک آگے بڑھ چکا ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ان نا انصافیوں کو کالعدم کر کے افریقہ کی نئی تقسیم کی جائے تو جو موجودہ خطرات ہیں ان سے بہت زیادہ خطرات افریقہ کے امن کو در پیش ہوں گے.پس یہ ہے خلاصہ تاریخ اور جغرافیہ کے تعلقات کا.دلیل پیش کرنے والوں کی نرالی منطق اب جب ہم کو یت پر عراق کے قبضے کی طرف واپس آتے ہیں تو اس ساری صورت حال کا یہ تجزیہ میرے سامنے آیا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم ملک مسلمان ملک کی سرزمین پر قبضہ کرلے اور جغرافیہ

Page 77

۷۵ ۹ نومبر ۱۹۹۰ء تبدیل کر دے تو دنیا کے امن کو کوئی خطرہ لاحق نہیں.اگر کوئی مغربی طاقت یا سب طاقتیں مل کر ایک وسیع بر اعظم کے جغرافیے کو بھی تبدیل کر دیں اور تہس نہس کر دیں اور ایسی ظالمانہ تقسیم کریں کہ ہمیشہ کے لئے وہ ایک آتش فشاں مادے کی طرح پھٹنے کے لئے تیار بر اعظم بن جائے تو اس سے امنِ عالم کو کوئی خطرہ در پیش نہیں ہو گا لیکن اگر ایک مسلمان ملک کسی مسلمان ملک کی زمین پر قبضہ کرے تو اس سے سارے عالم کے امن کو خطرہ ہوگا اور اس عالمی خطرے کو ہم برداشت نہیں کر سکتے.یہ آخری منطق ہے جو اس سارے تجزیے سے ابھر کر ہمارے سامنے آتی ہے.اس کے باوجود کہ یہ ساری باتیں معروف اور معلوم ہیں، یہ کوئی ایسی تاریخ نہیں ہے جس کو میں نے کھوج کر کہیں سے نکال کر پڑھا ہے اور جس سے مسلمان دانشور واقف نہیں یا مسلمان ریاستوں کے سر براہ واقف نہیں ، سب کچھ ان کی نظر کے سامنے ہے اور دیکھتے ہوئے نہیں دیکھ رہے کہ اس وقت جو کچھ مشرق وسطی میں ہو رہا ہے یا ہونے والا ہے اس کا تمام تر نقصان اسلام کو اور اہل اسلام کو پہنچے گا اور تمام تر فائدہ غیر مسلم ریاستوں کو اور غیر مسلم مذاہب اور طاقتوں کو میسر آئے گا اس جنگ کی جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا جو بھی قیمت چکانی پڑے گی وہ تمام تر مسلمان ممالک چکائیں گے اور یہ جو عظیم الشان فوجوں کی حرکت ایک براعظم سے دوسرے براعظم کی طرف ہو رہی ہے یہ غیر معمولی اخراجات کو چاہتی ہے اس کے لئے دولت کے پہاڑ درکار ہیں لیکن یہ وہی دولت کے پہاڑ ہیں جو سعودی عرب نے اور شیخڈم نے ان ہی ملکوں میں بنارکھے تھے اور وہی اب قانونی طور پر ان کے سپردکر دیئے جائیں گے کہ یہ تمہارے ہو گئے.ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں رہا اور نتیجہ ایک ابھرتے ہوئے اسلامی ملک کو ہمیشہ کے لئے نیست و نابود کر دینا اور مسلمانوں کے دل میں اس خیال کا پیدا ہونا بھی جرم قرار دیا جانا کہ وہ اپنی عزت نفس کے لئے کسی قسم کی کوئی آزاد کا رروائی کر سکتے ہیں.عراق کو سمجھانے کی ناکام کوشش عراق کو بھی ہم نے بہت سمجھانے کی کوشش کی اور جس طرح بھی ہوا ان کو پیغام بھجوائے گئے

Page 78

۷۶ ۹ رنومبر ۱۹۹۰ء کہ آپ خدا کے لئے خود اپنے مفاد کی خاطر اور اس اسلامی مفاد کی خاطر جو آپ کے پیش نظر ہے اس ناانصافی کے قدم کو پیچھے کر لیں کیونکہ تاریخ کے حوالے سے اگر جغرافیے تبدیل ہونے لگیں تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، افریقہ میں بھی اب یہ ناممکن ہو گیا ہے.دنیا میں اکثر جگہوں پہ یہ ممکن نہیں رہا اس لئے خود آپ کا مفاد اس میں ہے، کویت کا مفاد اس میں ہے، عالم اسلام کا مفاد اس میں ہے کہ اس اٹھے ہوئے قدم کو واپس لے لیں اور اپنی طاقت کو بڑھائیں اور عالم اسلام کو متحد کرنے کی کوشش کریں لیکن افسوس کہ وہاں بھی یہ بات نہیں سنی گئی اور دیگر مسلمان عرب ممالک نے بھی ذرہ بھی دھیان اس بات پر نہیں دیا کہ ہم غیر مسلم طاقتوں سے مل کر ان کے سارے ظلم کا خرچ برداشت کرتے ہوئے ایک مسلمان ریاست کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں جس کے بعد اس تمام علاقے سے ہمیشہ کے لئے امن اٹھ جائے گا.عالمی امن کو خطرہ ہے یا نہیں ہے مگر یہ ریاستیں جو اس جنگ کا خرچ برداشت کرنے والی ہیں اور کرایے کے لڑنے والوں کو باہر سے بلا کر لائی ہیں ان کو میں یقین دلاتا ہوں کہ پھر وہ کبھی اپنے ماضی کی طرف واپس لوٹ کر نہیں جاسکیں گی.بد حال سے بد حال تک پہنچتے چلے جائیں گے اور کبھی پھر امن اس علاقے کا منہ دوبارہ نہیں دیکھے گا اس لئے اب اس نصیحت کے بعد جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دعا ہی باقی رہ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ان کو عقل دے اور ہماری نصیحت کی بات خواہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ معلوم ہوتی ہو اپنے فضل سے اس میں طاقت بخشے اور دلوں کو اسے قبول کرنے پر آمادہ فرما دے کیونکہ اللہ ہی ہے جو ان حالات کو تبدیل کر سکتا ہے.بہت خوب اس لکھنے والے نے لکھا کہ Only a Divine power could reverse this tragedy peaceably کہ اب تو صرف کوئی الہی طاقت ہی ہے جو اس انتہائی دردناک صورتحال کو پر امن کیفیت کے ساتھ تبدیل کر دے.پر امن کوششوں کے ذریعے تبدیل کر دے.ہندوستان میں جغرافیائی تبدیلی لانے کی کوشش اب ہم ہندوستان پر نگاہ ڈالتے ہیں وہاں پہلے جو ہو چکا وہ ہو چکا.جو کشمیر میں اب ہو رہا ہے

Page 79

LL ۹ نومبر ۱۹۹۰ء وہ بھی ہو رہا ہے لیکن سب سے بڑی دردناک بات یہ ہے کہ وہاں بھی تاریخ کے نام پر ایک اور طرح کی جغرافیائی تبدیلی کی جارہی ہے.کہا جاتا ہے کہ ساڑھے تین سو سے چار سو سال کے عرصے کے درمیان، پہلے بابر نے ایک ہندو مندر کو جو اجودھیا میں پایا جاتا تھا اور رام کا مندر کہلاتا تھا Demolish کر دیا، منہدم کر دیا اور اس کی جگہ ایک مسجد تعمیر کر دی جسے بابری مسجد کہا جاتا ہے.اس کے متعلق تاریخی حوالے کس حد تک مستند ہیں.یہ بحث ہندوستان کی ایک عدالت میں ابھی جاری ہے لیکن زیادہ تر بنیاد اس الزام کی ایک مسلمان درویش کی ایک رویا پر ہے جس نے یہ دیکھا تھا کہ بابری مسجد کے نیچے رام کا مردہ دفن ہے اور اس لئے یہاں پہلے ایک مندر ہوا کرتا تھا اور اس کی جگہ اب مسجد بنائی گئی ہے تو یہاں گویا کہ رام مدفون ہو گیا.کسی کی یہ رویا بھی بہت پرانی ہے.یہ وہ حوالہ ہے جس کی رو سے ہندوؤں نے اپنے عدالتی کیس کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی ہے اور دیگر بھی بہت سی ایسی سندات پیش کرتے ہیں جن کی فی الحقیقت کوئی تاریخی حیثیت نہیں مگر بہر حال یہ تو عدالتی معاملہ ہے، اس میں زیر بحث ہے مگر قطع نظر اس کے کہ یہ دعوی سچ ہو یا جھوٹ، چارسوسال پہلے کی تاریخ کو اگر اس طرح تبدیل کرنے کی آج کوشش کی جائے تو اس کو صرف اس اصول پر جائز سمجھا جاتا ہے جو مغربی طاقتوں کا اصول ہے کہ اگر غیر مسلم کریں تو جائز ہے، اگر مسلمان کریں تو جائز نہیں ہے.مسلمانوں کے لئے نہ اس وقت جائز تھا، نہ اب جائز ہے کہ اس عمارت کو اپنے پاس رکھیں اور ہندوؤں کے لئے یہ جائز ہے کہ جب چاہیں پرانی تاریخ کے حوالے سے آج کے قبضوں کی کیفیت بدل دیں اور آج کے جغرافیہ کو تبدیل کر دیں.پس ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے لئے بہت ہی بڑا خطرہ درپیش ہے لیکن یہ خطرہ دراصل ان خطرات سے زیادہ ہے جو جغرافیائی خطرات دیگر جگہوں پر در پیش ہیں.یہاں اسلام کی عظمت اور اسلام کی تو حید کو خطرہ ہے.خدا تعالیٰ کی عظمت اور خدا کی تو حید کو ایک خطرہ درپیش ہے.وہ جگہ جہاں خدائے واحد کی عبادت کی جاتی تھی وہاں اب بے حقیقت اور ایسے جوں کی عبادت کی جائے گی جو جن خداؤں سے وابستہ ہیں ان خداؤں کا ہی کوئی وجود نہیں.پس ایک خدائے واحد کی عبادتگاہ کو جو تو حید کی

Page 80

ZA ۹ نومبر ۱۹۹۰ء علمبر دار ہو بت خانوں میں تبدیل کرنا یہ محض ایک چھوٹا سا حادثہ نہیں بلکہ تمام اسلام کی بنیاد پر حملہ ہے اور اس کا جواثر ہے وہ ہندوستان پر بہت دور تک پھیلے گا اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کا امن ظاہری طور پر بھی ہندوستان سے اُٹھ جائے گا اور بہت ہی خوفناک فسادات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو گا جس کو روکا نہیں جاسکے گا.بہر حال یہ ایک بہت ہی غیر معمولی جذباتی اور اعتقادی اہمیت کا معاملہ ہے جسے عالم اسلام کو سمجھنا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ہی جو ر د عمل اس کے نتیجے میں پیدا ہونا چاہئے وہ اسلامی رد عمل ہونا چاہئے.مجھے افسوس ہے کہ یہاں بھی ویسی ہی صورتحال ہے جیسا کہ عراق سے تعلق رکھنے والے مسائل کی ہے.ایک طرف ہم بنگلہ دیش پر نظر ڈالتے ہیں کہ اسے غصے میں کہ بعض ہندوؤں نے یا یوں کہنا چاہئے کہ لاکھوں ہندوؤں نے بابری مسجد پر حملے کی کوشش کی اور بعض اس میں داخل بھی ہو گئے اور پہلے سے نصب شدہ بُت کی وہاں عبادت بھی کی گئی ، انہوں نے بہت سے مندر جلا ڈالے اور منہدم کر دیئے اور بہت سے ہندوؤں کی املاک لوٹ لیں اور ان کا قتل و غارت کیا.کیا یہ اسلامی رد عمل ہے؟ یقینا نہیں.ناممکن ہے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے اس رد عمل کو جائز قراردیا جائے.اسلام تمام دنیا کے مذاہب کی عظمت اور ان کی حرمت کی حفاظت کرتا ہے.عظمت کی حفاظت ان معنوں میں نہیں کہ ان کے سامنے اعتقادی لحاظ سے سر جھکانے کی تعلیم دیتا ہے بلکہ اس لحاظ سے کہ جو ان مذاہب کو عظیم سمجھتے ہیں ان کو قانونی تحفظات مہیا کرنے کی تلقین کرتا ہے کہ وہ جس طرح چاہیں، چاہے باطل کو بھی عظیم سمجھیں وہ جس کو عظیم سمجھنا چاہتے ہیں عظیم سمجھتے رہیں.پس جہاں تک ان کے دلوں کا اور ان کے دلوں کے احترام کا تعلق ہے ان کی حفاظت کرنا دراصل ان مذاہب کی عظمت کی حفاظت کرنا ہے اور حرمت کی حفاظت اس طرح کرتا ہے کہ مسلمان کو یہ اجازت نہیں کہ وہ دوسروں کے عبادت خانوں کو منہدم کرے اور ان کی جگہ خواہ مسجد بنائے یا کچھ اور تعمیر کر دے.پاکستان میں ہونے والے ظلم کار د عمل ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ دراصل پاکستان میں ہونے والے چند واقعات کا رد عمل

Page 81

۷۹ ۹ رنومبر ۱۹۹۰ء ہے.جس طرح ہندوستان میں ہونے والے واقعات کا ایک رد عمل مشرقی بنگال میں یا یوں کہنا چاہئے کہ بنگلہ دیش میں ظاہر ہوا اور سندھ کے بعض علاقوں میں ظاہر ہوا اسی طرح ظلم کے رد عمل دوسری جگہ ہوتے رہتے ہیں اور ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں یہ حوالہ دیا جارہا ہے کہ پاکستان میں بھی تو یہی کچھ ہوتا ہے.پاکستان میں بھی تو انتہاء پرست مُلاں مذہب کے نام پر اپنے اقتدار کو غیروں پر قائم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اس لئے وہ ہندو پارٹی جو دراصل اس سارے فساد کی ذمہ دار ہے اس کے راہنما بار بار یہ حوالے دے چکے ہیں کہ اگر پاکستان کے ملاں کو یہ حق ہے کہ اسلام کے نام پر جن کو وہ غیر مسلم سمجھتا ہے ان کے تمام انسانی حقوق دبا لے تو کیوں ہندومت ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ ہم ہندومت کے نام پر ہندومت کی عظمت کے لئے تمام مسلمانوں کے تمام بنیادی حقوق دبا لیں.چنانچہ ایک موقع پر گزشتہ الیکشنز میں اس نے یہ اعلان کیا کہ مسلمانوں کو میں یہی نصیحت کرتا ہوں کہ یا ہندوؤں کے اقتدار میں کلیۂ ان کے حضور سر تسلیم خم کرتے ہوئے اس ملک میں زندہ رہیں یا اپنا بوریا بستر لپیٹیں اور اس ملک سے رخصت ہو جائیں کیونکہ ہندوستان میں اس لیڈر کے نزدیک اب مسلمان اور اسلام کی کوئی جگہ باقی نہیں رہی.یہ ویسا ہی اعلان ہے اور اس حوالے سے کیا گیا ہے جو پاکستان کے ملاں نے احمدیوں کے متعلق کیا.وہاں تو انہوں نے غیر مسلم ہوتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف، ان مسلمانوں کے خلاف یہ اعلان کیا جو دعویٰ کرتے تھے کہ ہم مسلمان ہیں کسی ہندو فرقے کو زبر دستی مسلمان بنا کر ان کے خلاف یہ اعلان نہیں کیا اس لئے نا انصافی تو ہے لیکن اس نا انصافی کی جو بنیاد ہےاس بنیاد کے قیام میں کوئی نا انصافی نہیں.کھل کر انہوں نے یہ کہا کہ جو غیر ہندو ہے اس کے لئے ہمارے یہ جذبات ہیں مگر غیر ہندو کا فیصلہ غیر ہندو کرے گا.ہم زبر دستی بعضوں کو غیر ہند و قرار دے کر ان پر اپنے فیصلے نہیں ٹھونسیں گے.مگر پاکستان میں جو ظلم اور زیادتی ہوئی وہ اس سے بھی ایک قدم آگے ہے وہاں پہلے اسلام کے جانثاروں کو ، حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صداقت کا کلمہ پڑھنے والوں کو، خدا تعالیٰ کی توحید کا کلمہ پڑھنے والوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا اور پھر ان سے وہ تمام ناروا سلوک کئے

Page 82

۹ نومبر ۱۹۹۰ء گئے جن کی اسلام اجازت نہیں دیتا لیکن چونکہ انہوں نے غیر مسلم بنا کر ایسا کیا اس لئے غیر مسلم دنیا کے ہاتھ یہ بہانہ تو بہر حال آ گیا کہ پاکستان کا ملاں اسلام کی سند کو استعمال کرتے ہوئے جن کو غیر مسلم سمجھتا ہے ان سے یہ سلوک کرتا ہے تو ہم غیر مسلموں کو (اس میں وہ بہر حال ہند و شامل کرتے ہیں ) کہ ہم ہندوؤں کو پھر کیوں یہ حق نہیں ہے کہ ہم مسلمانوں سے جو چاہیں سلوک کریں.پس جب پاکستان میں مسجد میں منہدم کی جارہی تھیں اور چاروں صوبے اس بات کے گواہ ہیں کہ چاروں صوبوں میں خدائے واحد و یگانہ کی عبادتگاہوں کو جن میں خالص اللہ کی محبت اور اس کے عشق میں عبادت کرنے والے پانچ وقت اکٹھے ہوا کرتے تھے منہدم کر دیا گیا ، جب احمدیوں کی مساجد کو ویران کرنے کی کوشش کی گئی ، جب وہاں سے کلمہ توحید کا بلند ہونا ان کے جذبات پر ظلم کرنے کے مترادف قرار دیا گیا اس وقت ان کو کیوں خدا کا خوف نہیں آیا اور کیوں اس بات کو نہیں سوچا کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پھر ضرور ظالموں کو پکڑتی ہے اور ان کو اپنے کردار کی تصویر میں دکھاتی ہے.پس جو بد بختی ہندوستان میں ہو رہی ہے اور مسلمانوں پر جو عظیم مظالم توڑے جارہے ہیں اس کی داغ بیل پاکستان کے مُلاں نے ڈالی ہے.یہ وہ مجرم ہے جو خدا کے حضور جوابدہ ہو گا.اس دنیا میں بھی آپ دیکھیں گے کہ ایک دن آئے گا جب یہ ملاں اپنے ظلم و تعدی کی وجہ سے پکڑا جائے گا اور آخرت میں تو بہر حال ان کا رسوا اور ذلیل ہونا مقدر ہو چکا ہے سوائے اس کے کہ یہ تو بہ کریں.پس پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے اثرات غیر دنیا پر پڑتے ہیں، غیر دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے اثرات دوسری دنیا کے حصوں پر پڑتے ہیں.غیر مسلم دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے اثرات اسلام کی دنیا پر پڑتے ہیں.غرضیکہ اس طرح یہ دنیا ایک ایسی دنیا نہیں ہے جو مختلف جزیروں کی صورت میں ایک دوسرے سے الگ رہ رہی ہو.ایک جگہ ہونے والے واقعات کا اثر موجوں کی طرح دوسرے حصے کے اوپر ضرور اثر انداز ہوتا ہے اور ظلم ہمیشہ ظلم کے بچے دیتا ہے.پس اگر ہم نے دنیا میں انصاف کو قائم کرنا ہے اور ہم ہی نے دنیا میں انصاف کو قائم کرنا ہے تو ہمیں ظلم کے خلاف جہاد کرنا ہوگا.ہمیں انصاف اور امن کے حق میں جہاد کرنا ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ہے:

Page 83

" ΔΙ ۹ نومبر ۱۹۹۰ء أَنْصُرُ أَخَاكَ ظَالِمًا اَوْمَظْلُومًا (بخارى كتاب المظالم والغضب حدیث نمبر : ۲۲۶۳) جب پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ! مظلوم بھائی کی تو ہم حمایت کریں، ظالم بھائی کی کیسے حمایت کریں؟ آپ نے فرمایا! ظلم سے ان کے ہاتھ روک کر ان کی حمایت کریں.“ پس جہاں جہاں بھی مسلمان ممالک نے یہ غلط رد عمل دکھایا ہے اور اسلام کے نام پر نہایت ہی کر یہ حرکات کی ہیں اور ہندوؤں کے مندروں کو لوٹا یا منہدم کیا ہے ان کے ظلم سے ہاتھ روکنا ہمارا کام ہے اور یہی ان کی مدد ہے اور جہاں جہاں مظلوم مسلمان غیروں کے ظلم کی چکی میں پیسے جارہے ہیں وہاں جس حد تک بھی ممکن ہے ان کی مدد کرنا یہ بھی عین اسلام ہے اور اسی کا حکم حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں فرمایا: اس لئے احمدیوں کو ہر دو محاذ پر جہاد کے لئے تیار ہونا چاہیئے.وی پی سنگھ کی حق پرستی سچا رد عمل تو یہ تھا کہ ایسے موقع پر سب سے پہلے تو تمام غیر مذاہب کے عبادت خانوں کی حفاظت کے لئے تمام مسلمان ممالک تیار ہو جاتے اور ہندوستان کے سابق وزیر اعظم وی.پی.سنگھ سے نصیحت پکڑتے.وہ ایک عظیم راہنما ہے اگر چہ وہ اب طاقت پر فائز نہیں لیکن انصاف کا تقاضا ہے کہ ان کی حق پرستی کی تعریف کی جائے.ہندوستان کی بہت ہی بڑی بدنصیبی ہے، ایک تاریخی بدنصیبی ہے کہ اتنے عظیم الشان را ہنما کی راہنمائی سے محروم ہو گیا جس کے پیچھے چل کر ہندوستان کی کھوئی ہوئی ساری عظمتیں مل سکتی تھیں کیونکہ وہ راہنما جو حق پرست ہو اور حق کی خاطر اپنے مفادات کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو، آج کی دنیا میں قوم کو اس سے بہتر کوئی اور لیڈر میسر نہیں آ سکتا.دوباتیں وی.پی.سنگھ صاحب نے ایسی کیں جن کی وجہ سے میرے دل میں ان کی بہت ہی عزت قائم ہوئی اور محبت قائم ہوئی اور میں دعا کرتا رہا کہ اللہ کرے کہ دنیا کے دیگر راہنما بھی اس طرح حق پرست بن جائیں.سب سے پہلے تو لاکھوں اور کروڑوں مظلوم اچھوتوں کے لئے یہ تن تنہا کھڑے ہو گئے اور اپنی پارٹی کے ان لیڈروں کے اختلاف کو بھی چیلنج کیا جو ان کے اقتدار کے لئے خطرہ بن سکتے تھے اور

Page 84

۸۲ ۹ نومبر ۱۹۹۰ء تمام ملک میں یہ قانون رائج کیا کہ وہ اچھوت جو ہزاروں سال سے مظلوم چلے آ رہے ہیں ان کے حقوق کو قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے لئے حکومت میں نوکریوں کے تحفظات دیئے جائیں اور ایک خاص فیصد مقرر کر دی گئی کہ اتنی فیصد تعداد کی نسبت کے لحاظ سے لازماً اچھوت قوموں کے لئے حکومت کی ملازمتیں ریزرور کھی جائیں گی.یہ ایک بہت بڑا قدم تھا اور ایسے ہندوستانی ملک میں یہ قدم اُٹھا نا جہاں ایک لمبے عرصے سے اونچی ذات کا قبضہ رہا ہو، جہاں ان کا مذہب انہیں کہتا ہو کہ اونچی ذات کے حقوق زیادہ ہیں اور نچلی ذات کے کوئی بھی حقوق نہیں ، ایک بہت غیر معمولی عظمت کا مظاہرہ تھا جو بہت کم دنیا کے لیڈروں کو نصیب ہوتی ہے.پھر یہی نہیں بلکہ جب اس کے خلاف ایک شور برپا ہوا تو سینہ تان کے اس کا مقابلہ کیا اور کوئی پرواہ نہیں کی کہ اس کے نتیجے میں اقتدار ہاتھ سے جاتا ہے کہ نہیں.ابھی یہ شور و غوغا کم نہیں ہوا تھا کہ ان کے خلاف سازشیں کرنے والوں نے بابری مسجد کے تنازعہ کو زیادہ اُچھالنا شروع کیا اور لاکھوں کروڑوں ہندو اس بات کے لئے تیار ہو گئے کہ وہ بابری مسجد کی طرف کوچ کریں گے اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے اور وہاں وہ پرانا تاریخی لحاظ سے موجود یا غیر موجود جو بھی شکل تھی رام کے مندر کی دوبارہ تعمیر کریں گے.اتنے بڑے چیلنج کا مقابلہ کرنا اور ہند وفوج کی اکثریت کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ اگر تمہارے ہم مذہب بھی جتھہ درجتھہ یہاں حملہ کرنے کی کوشش کریں تو ان کو گولیوں سے بھون دو لیکن مسجد کے تقدس اور ہندوستان کے قانون کے تقدس کی حفاظت کرو.یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.بلاشبہ بہت سے ہندوان کوششوں میں مارے گئے اور ہندو فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے ، ہندو پولیس کے ہاتھوں زدوکوب کئے گئے اور اس کے علاوہ بہت سے زخمی ہوئے ، بہت سے قید ہوئے.ان کے راہنما کو جو بہت بڑی طاقت کا مالک ہے اور جس کے اشتراک اور اتحاد کی وجہ سے ان کی حکومت قائم تھی ان کو قید کر دیا گیا.غرضیکہ یہ جانتے ہوئے کہ جس شاخ پر میں بیٹھا ہوا ہوں اسی شاخ کو کاٹ رہا ہوں.بیوقوفی کی وجہ سے نہیں بلکہ بہادری اور اصول پرستی کی خاطر اس عظیم راہنما نے گرنا منظور کر لیا، خواہ گر کر اس کی سیاسی زندگی کو بھی ہمیشہ کے لئے خطرہ درپیش تھا لیکن کوئی پرواہ نہیں کی.

Page 85

متقیا نہ رد عمل کی ضرورت واہمیت ۸۳ ۹ نومبر ۱۹۹۰ء پس ایسے راہنما جو انصاف کے نام پر کہیں بھی قربانی کے لئے تیار ہوتے ہیں، اسلامی تعلیم یہ ہے کہ ان کی عظمت کو تسلیم کیا جائے اور ان کی مدد کی جائے کیونکہ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِ وَالتَّقْوَى (المائدة :۳) میں کسی مذہب کے نام پر تعاون کا حکم نہیں بلکہ انصاف اور خدا خوفی کے نام پر تعاون کا حکم ہے.اچھی باتوں اور خدا خوفی کے نام پر تعاون کا حکم ہے.بہر حال یہ اب آنے والی تاریخ بتائے گی کہ ہندوستانی قوم نے کس حد تک ان واقعات سے نصیحت پکڑی ہے اور کس حد تک وہ اپنے سگوں کو اپنے سوتیلوں سے پہچاننے کی اہلیت رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے مگر عالم اسلام کو ان کا ممنون ہونا چاہئے تھا.عالم اسلام کو ایسی صورت میں ہندوستان کی حکومت کو بلا وجہ تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اچھے کو تقویت دینی چاہئے تھی ، ان کے لئے لازم تھا کہ یہ اعلان کرتے کہ جو ہندوانتہاء پسند کر رہے ہیں سخت ظلم کر رہے ہیں اور ہم برداشت نہیں کریں گے لیکن ہندوستان کے وہ را ہنما جو اس ظلم کے خلاف نبرد آزما ہیں اور کمزوری محسوس کرتے ہوئے بھی وہ سینہ تان کر اس کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں ہم ان کو ہر طرح سے تقویت دینے پر تیار ہیں.ہر طرح سے ان کی مدد کرنے پر تیار ہیں.یہ انصاف کی آواز تھی جو اسلام کی آواز ہے اور جہاں تک دھمکیوں کا تعلق ہے، یہ گیدڑ بھبھکیوں سے تو کبھی کوئی ڈرا نہیں.باقاعدہ تمام مسلمان ممالک کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے تھا اور ہندوستانی حکومت کو کوئی ٹھوس پیغام دینا چاہئے تھا.یہ بتانا چاہئے تھا کہ تمہارے مفادات اتنے گہرے اور اتنے قیمتی مفادات، اسلامی ممالک سے وابستہ ہیں کہ اگر تم نے بالآخر یہ حرکت ہونے دی تو تمہارے مفادات کو شدید نقصان پہنچے گا کیونکہ یہ بات انصاف کے خلاف نہیں ہے کہ کسی قوم سے اقتصادی بائیکاٹ اس لئے کیا جائے کہ اس نے جارحیت کا طریق اختیار کیا ہے.پس سزا دینے کے مختلف طریق ہوتے ہیں اور یہ سزا تو دراصل ایک ظلم کو روکنے کے لئے ذریعہ بنی تھی.صرف ایک کویت کی چھوٹی سی سرزمین سے جس پر ایک اسلامی ریاست قائم تھی پانچ لاکھ ہندوستانی اپنے اقتصادی

Page 86

۸۴ ۹ نومبر ۱۹۹۰ء مفادات کو قربان کر کے واپس اپنے وطن جانے پر مجبور ہو گئے.اب اگر کویت میں پانچ لاکھ جمع تھے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ سارے عالم اسلام میں کتنے ہندو مفادات اور کتنے ہندوستانی مفادات ہوں گے اور ہندوستان کی موجودہ اقتصادی حالت کسی قیمت پر یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اتنے بڑے اقتصادی خطرے کو مول لے.پھر حکومت جس کی بھی ہو، کسی نام سے آئے وہ اسلامی قدروں کا جائز احترام کرنے پر مجبور کر دی جاسکتی ہے.پس یہ جو معقول اور جائز طریق ہیں ان کو چھوڑ کر چند مندرجلا کر اور بھی زیادہ اسلام کو ذلیل و رسوا کرنا اور یہ ثابت کرنا کہ اس میں کوئی بھی فرق نہیں پڑتا کہ کسی کی عبادت گاہ کو منہدم کرو، جلا ؤ ، رسوا اور ذلیل کرو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.اگر فرق نہیں پڑتا تو پھر ایک مسجد سے کیا فرق پڑ جائے گا تو بہر حال یہ جو خطرات ہیں یہ بھی ایسے معاملات ہیں جن میں سوائے اسلامی فکر اور تقویٰ کے نور کے صحیح فیصلے نہیں ہو سکتے اور عالم اسلام کو چاہئے کہ وہ جاہلانہ جذباتی ردعمل دکھانے کی بجائے متقیانہ ردعمل دکھائے جس میں طاقت ہو گی، جو مفید ہو گا، جو اسلام کی بدنامی کی بجائے اسلام کی عظمت کو دنیا میں قائم کرنے کا موجب بنے گا اور اس کے نتیجے میں کوئی فائدہ بھی حاصل ہوگا.خدا اور اس کے رسول ضرور غالب آئیں گے جہاں تک پاکستان کی موجودہ حکومت کا تعلق ہے بہت سے احمدی اس خیال میں پریشان دکھائی دیتے ہیں اور مجھے خطوط بھی ملتے ہیں کہ یہ وہ حکومت ہے جس میں وہ عناصر او پر آگئے ہیں جو احمدیت کے دشمن تھے اور ہیں لیکن جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو حکومت کے سر براہ ہیں اور جو اقتدار پر قابض ہوئے ہیں ان کے اور دعاوی ہمارے سامنے آ رہے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ میں اس مضمون کو مختصر بیان کروں، پاکستان کی ذیلی مجالس کے ربوہ میں ہونے والے اجتماعات سے متعلق تازہ صورتحال سے آپ کو مطلع کرتا ہوں.تین چار دن پہلے کی بات ہے کہ Fax کے ذریعے اطلاع ملی کہ ہمارے ضلع کا ڈپٹی کمشنر

Page 87

۸۵ ۹ نومبر ۱۹۹۰ء کوئی غیر معمولی طور پر شریف معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس نے ہماری درخواست پر پہلی دفعہ نہ صرف بغیر کسی تردد کے لجنہ کے اجتماع میں لاؤڈ سپیکر کے استعمال کی اجازت دی بلکہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں بھی لاؤڈ سپیکر کے استعمال کی اجازت دے دی جو عجیب بات تھی اور بظاہر انہونی تھی اور انصار اللہ کے اجتماع میں بھی لاؤڈ سپیکر کے استعمال کی اجازت دے دی تو اس لئے ہم فوری طور پر یہ تیاریاں کر رہے ہیں.اس پر مجھے خیال آیا کہ اللہ اس ڈپٹی کمشنر پر رحم کرے، شریف بھی ہے اور سادہ بھی ہے.نہیں جانتا کہ کن حالات میں یہ اجازت دے رہا ہے مگر بہر حال یہ بھی کہا جاسکتا تھا کہ شریف بھی ہے اور بہادر بھی ہے اور خدا کرے یہی بات درست ہو.بہر حال انہوں نے اجازت دیتے وقت اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ اب اگر کوئی تبدیلی ہو تو میں ذمہ دار نہیں ہوں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض سادگی نہیں تھی بلکہ جانتے تھے کہ اس حکم کو تبدیل کروایا جاسکتا ہے.چنانچہ علماء فوری طور پر سیکرٹری وزارت مذہبی امور مرکزیہ سے ملے اور اس نے ان کو تعجب سے کہا کہ ہیں؟ ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو یہ جرأت کہ احمدیوں کو اپنے اجتماع کے لئے لاؤڈ سپیکر کی اجازت دے دے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، آپ بھول جائیں اس بات کو ، یہ ناممکن ہے.چنانچہ دو دن بعد ہی جماعت کو تحریری حکم مل گیا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب معذرت کے ساتھ اطلاع کرتے ہیں کہ ان کو اپنا پہلا اجازت نامہ منسوخ کرنا پڑ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں پہلے لجنہ کا اجتماع، انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ اجتماع منعقد نہ کیا جائے اور پھر یہ فیصلہ کیا کہ بغیر لاؤڈ سپیکر کے ہی خدام الاحمدیہ کا اجتماع منعقد کیا جائے.مگر آج ہی Fax ملی ہے کہ دوسرا حکم نامہ یہ ملا ہے کہ صرف لاؤڈ سپیکر کی اجازت ہی منسوخ نہیں کی جاتی بلکہ اجتماع منعقد کرنے کی اجازت بھی منسوخ کی جاتی ہے.اس وجہ سے ربوہ میں بہت ہی بے چینی ہے، تکلیف ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے Fax کے انداز سے ہی کہ احمدی نوجوان جو مقامی ہیں یا باہر سے آئے ہیں، اس وقت بہت کرب کی حالت میں ہیں.ان کو میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ ہمارے لمبے سفر ہیں.یہ اس قسم کے جو واقعات احمدیت کی تاریخ میں ہو رہے ہیں یہ بعض منازل سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ہمارا قیام ان منازل پر نہیں ہے.جو قافلے لمبے سفر پر روانہ ہوتے ہیں انہیں رستے میں مختلف قسم کے ڈاکوؤں،

Page 88

۸۶ ۹ نومبر ۱۹۹۰ء چوروں، اُچکوں ، بھیڑیوں اور دیگر مخلوقات سے خطرات پہنچتے رہتے ہیں اور تکلیف پہنچتی رہتی ہے لیکن قافلوں کے قدم تو نہیں رُک جایا کرتے.ان کے گزرتے ہوئے قدموں کی گردان چہروں پر پڑ جاتی ہے جو ان کے خلاف غوغا آرائی کرتے ہیں اور شور مچاتے ہیں اور کچھ کاٹنے کی بھی کوشش کرتے ہیں اور تاریخ کی اس گرد میں ڈوب کر وہ ہمیشہ کے لئے نظروں سے غائب ہو جاتے ہیں.ہاں ان مدفون جگہوں کے نشانات باقی رہ جاتے ہیں تو آپ تو لمبے سفر والی قوم ہیں.ایسے لمبے سفر والی قوم ہیں جن کی آخری منزل قیامت سے ملی ہوئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ مسیح اور قیامت آپس میں ملے ہوئے ہیں تو بعض علماء نے یہ سمجھا کہ اس کا مطلب ہے کہ مسیح کے آتے ہی قیامت آجائے گی.بڑی ہی جہالت والی بات ہے.مراد یہ تھی کہ مسیح کا زمانہ قیامت تک ممتد ہوگا.بیچ میں اور کوئی زمانہ نہیں آئے گا.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی مثال بھی قیامت کے ساتھ اسی طرح دی اور اپنی اور مسیح کی مثال بھی اسی طرح دی کہ ہم دونوں اس طرح اکٹھے ہیں جس طرح اُنگلیاں جڑی ہوئی ہیں تو یہ مطلب تو نہیں تھا کہ بیچ میں زمانہ کوئی نہیں آتا.مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ اس وقت تک ممتد ہوگا اور بیچ میں کوئی روک ایسی نہیں جو اس زمانے کو منقطع کر سکے اور پہلے کو دوسرے سے کاٹ سکے تو جس قوم کے اتنے لمبے سفر ہیں وہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تکلیف محسوس کرنے لگے اور دل چھوڑ نے لگے یہ بات تو کوئی آپ کو زیب نہیں دیتی.بات یہ ہے کہ اس نئی حکومت نے جب اقتدار سنبھالا اور ان کے ہاتھ میں اقتدار کی تلوار آئی تو کئی طرف سے خوف اور خطرہ کا اظہار کیا گیا لیکن اس حکومت کے سربراہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہم شریف نواز لوگ ہیں ، ہم شرافت کو نوازنے والے ہیں اور شرفاء کو ہم سے ہرگز کوئی خطرہ لاحق نہیں.غالبا ان ہی اعلانات کے اثر میں ایک شریف النفس ڈپٹی کمشنر نے وہ قدم اٹھایا جو اس نے اٹھایا لیکن دوسری طرف احمدیوں کے کانوں میں ایک اور آواز آرہی ہے اور وہ ملانوں کی آواز ہے.وہ کہتے ہیں تم اس آواز سے دھو کہ نہ کھانا، اقتدار کسی کے قبضے میں ہو ظلم اور تعدی کی تلوار ہمارے ہاتھوں میں

Page 89

۸۷ ۹ نومبر ۱۹۹۰ء ہے اور ہم جب چاہیں جس گردن پر چاہیں یہ تلوار اس پر گرا کر اس کو تن سے جدا کر سکتی ہے تو تم دیکھو کہ یہ تلوار ہمارے ہاتھوں میں آ گئی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں نے اس آواز کو سنا اور اس کی وجہ سے ان کے دلوں پر کئی قسم کے اندیشے قبضہ کر گئے، کئی قسم کے توہمات میں وہ مبتلا ہو گئے اور اس وقت ایسی ہی کیفیت دکھائی دے رہی ہے.میں ان کو اسی مضمون کی ایک اور بات یاد کرانا چاہتا ہوں جس میں جو کچھ بھی میں نصیحت کر سکتا تھا اس کا بہترین خلاصہ بیان ہو گیا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ایک غزوہ کے موقع پر اپنے غلاموں سے بچھڑ کر ا کیلے ایک درخت کے سائے میں آرام فرما رہے تھے کہ آپ کی آنکھ ایک للکار کی آواز سے کھلی.ایک دشمن مسلمانوں سے نظر بچا کر آپ تک پہنچا اور آپ ہی کی تلوار اٹھا کر اس نے آپ کے سر پر سونتی اور کہا کہ اے محمد ! بتا اب تجھے میرے ہاتھوں سے اور میری اس تلوار سے کون بچا سکتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اسی طرح اطمینان سے لیٹے رہے اور فرمایا: میر اخدا.( ترندی کتاب صفۃ القیامه حدیث نمبر: ۲۴۴۱) کتنی عظیم بات ہے.تمام دنیا میں قیامت تک مومنوں پر آنے والے ابتلاؤں کا ایک ہی جواب ہے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس وقت اس ظالم کو دیا اور ہمیشہ ہر مؤمن ہر ظالم کو یہی جواب دیتا رہے گا اور اگر یہ جواب نہیں دے گا تو اس کے بچنے کی کوئی ضمانت دنیا میں نہیں ہے.پس تم یہ نہ دیکھو کہ آج تلوار کس کے ہاتھ میں ہے تم یہ دیکھو کہ وہ ہاتھ کس خدا کے قبضے میں ہے.وہ باز و کس قدرت کے تابع ہیں جنہوں نے آج تمہارے سر کے اوپر ایک تلوار سونتی ہوئی ہے.یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تلوار پہلے گرے گی مگر ہمارا خدا جانتا ہے اور وہ گواہ ہے کہ تلوار گرانے والوں پر اس کے غضب کی بجلی پہلے نازل ہوگی اور وہ ہاتھ شل کر دیئے جائیں گے جو احمدیت کو دنیا سے مٹانے کے لئے آج اٹھے ہیں یا کل اٹھائے جائیں گے.اس تقدیر کو دنیا کی کوئی طاقت تبدیل نہیں کر سکتی.گزند پہنچیں گے، تکلیفیں پہنچیں گی.قرآن فرماتا ہے کہ ایسا ہو گا.روحانی اور جذباتی

Page 90

۸۸ ۹ نومبر ۱۹۹۰ء طور پر تم کئی قسم کی اذیتیں پاؤ گے لیکن اگر تم ثابت قدم رہو اور اگر محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے جواب پر ہمیشہ پوری وفا اور توکل کے ساتھ چمٹے رہو کہ اسے تلوار اٹھانے والے دشمن ! جس طرح کل میرے خدا نے خدا والوں کو تیری تلوار سے نجات بخشی تھی اور اپنی حفاظت میں رکھا تھا، آج بھی وہی زندہ خدا ہے.اسی کی جبروت کی قسم کھا کر ہم کہتے ہیں کہ وہی خدا آج ہمیں تمہارے ظلم و ستم سے بچائے گا.پس آپ کو اگر ان دعاوی سے تکلیف ہے تو مجھے ان احمدیوں کے اس رد عمل سے تکلیف پہنچی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ نعوذ بالله من ذلك یہ تلوار اب ان ہاتھوں میں آئی ہے کہ جو ضرور احمدیت کا سرکاٹ کے رہیں گے.خدا کی قسم ایسا نہیں ہوگا.ہمیشہ ان ظالموں کی مخالفت نے احمدیت کی ترقی کے سامان پیدا کئے ہیں، نئے راستے کھولے ہیں.گزشتہ ابتلاؤں میں ضیاء کے گیارہ سال اس طرح کئے کہ ہرلمحہ اس کی چھاتی پر سانپ لوٹتے رہے مگر احمدیت کی ترقی کو وہ دنیا میں روک نہیں سکا اور آخر انتہائی ذلت کے ساتھ نامراد اور نا کام اس دنیا سے رخصت ہوا.پس تلواروں کے بدلنے سے تمہارے ایمان کیسے بدل سکتے ہیں.اپنے ایمانوں کی حفاظت کرو اور ثابت قدمی دکھاؤ اور اللہ پر توکل رکھو اور یقین کرو کہ وہ خدا جس نے یہ وعدہ کیا ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب رہیں گے وہ خدا اور اس کے رسول ضرور غالب رہیں گے اور ضرور غالب رہیں گے اور ضرور غالب رہیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ

Page 91

۸۹ بسم اللہ الرحمن الرحیم دنیا کو درپیش سب سے بڑا خطرہ ( خطبه جمعه فرموده ۶ ارنومبر ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: عصبیت اور خود غرضی ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء آج امن عالم کو سب سے زیادہ خطرہ عصبیت اور خود غرضی سے ہے جو بد قسمتی سے اس وقت دنیا کے اکثر سیاستدانوں کے دماغوں پر راج کر رہی ہیں.سیاستدان خواہ مغرب کا ہو یا مشرق کا، سیاہ فام ہو یا سفید فام، بالعموم سیاستدانوں کے ساتھ شاطرانہ چالیں اس طرح وابستہ ہو جاتی ہیں کی اخلاقی قدروں اور سیاست کے اکٹھا چلنے کا سوال نہیں رہتا.صرف ایک اسلام ہے جس کی سیاست شاطرانہ چالوں سے پاک ہے اور وہی اسلامی سیاست ہے ورنہ یہ کہہ دینا کہ اسلام ہمارا دین ہے اور ہماری سیاست ہے اور سیاست کی اقدار کو اسلام سے الگ کر دینا یہ ایک غیر حقیقی بات ہے.اس میں کوئی سچائی نہیں ہے.اسلامی سیاست کا فی الحال دنیا میں کہیں کوئی نمونہ دکھائی نہیں دے رہا خواہ وہ اسلامی ممالک ہوں یا غیر اسلامی ممالک ہوں ہر جگہ سیاست کا ایک ہی رنگ ڈھنگ ہے اور سیاست پر خود غرضی حکومت کر رہی ہے.اصولوں سے الگ عصبیتیں حکومت کر رہی ہیں.پس سب سے بڑا خطرہ دنیا کو عصبیت سے اور خود غرضی سے لاحق ہے.جب روس اور امریکہ کے درمیان یہ صلح کا انقلابی دور شروع ہوا تو دنیا کے سیاستدانوں نے بڑی امید سے مستقبل کی طرف نظریں اٹھا ئیں اور یہ کہنا شروع کیا کہ اب امن کا ایک نیا دور شروع ہو گیا ہے.حالانکہ یہ محض خوابوں میں اور جاہلا نہ خوابوں میں بسنے

Page 92

ج کا بحران ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء والی بات ہے.ان نئے انقلابی حالات کے نتیجے میں کچھ فائدے بھی پہنچے ہیں لیکن کچھ نقصانات بھی ہوئے ہیں اور ان نقصانات میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مغرب اور مشرق کی نظریاتی تقسیم کے نتیجے میں جو عصبیتیں پہلے سے دبی ہوئی تھیں وہ اب ابھر کر سامنے آگئی ہیں اور دن بدن زیادہ ابھر کر مختلف علاقوں میں کئی قسم کے خطرات پیدا کرنے والی ہیں.جب بہت بڑے بڑے خطرات در پیش ہوں، جب دنیا دو بڑے حصوں میں منقسم ہو تو بہت سے چھوٹے چھوٹے خطرات اُن خطرات کے سائے میں نظر سے غائب ہو جایا کرتے ہیں یا بعض دفعہ دب جاتے ہیں، ایسا ہی بیماریوں کا حال ہے.بعض دفعہ ایک بڑی بیماری لاحق ہو جائے تو چھوٹی چھوٹی بیماریاں پھر ایسے انسان کو لاحق نہیں ہوتیں اور جسم کی توجہ اس بڑی بیماری کی طرف ہی رہتی ہے.پس بنی نوع انسان کے لئے جو خطرات اب اُبھرے ہیں وہ اتنے وسیع ہیں اور اتنے بھیانک ہیں کہ جب تک ہم ان کا گہرا تجزیہ کر کے ان کے خلاف آج سے ہی جہاد نہ شروع کریں اس وقت تک یہ خیال کر لینا کہ ہم امن کے ایک دور میں ہیں، امن کے گہوارے میں منتقل ہو رہے ہیں یہ درست نہیں ہے بلکہ آنکھیں بند کر کے خطرات کی آگ میں چھلانگ لگانے والی بات ہو گی.میں چند مثالیں آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں.تا کہ تمام دنیا میں جماعت احمد یہ خصوصیت کے ساتھ ہر ملک میں جہاں بھی جماعت احمد یہ موجود ہے، اس کے دانشوروں تک یہ پیغامات پہنچا ئیں.انہیں سمجھانے کی کوشش کریں اور ان پر جہاں تک ممکن ہے اخلاقی دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنے ملکوں میں ان خطرات کے خلاف آواز بلند کریں اور اپنی اپنی رائے عامہ کوعلمی روشنی عطا کریں اور ان کو بتائیں کہ دنیا کو اس وقت کیا کیا خطرات درپیش ہیں.آج اگر توجہ نہ کی گئی تو کل بہت دیر ہو جائے گی.عراق کے جھگڑے میں جو بات کھل کر سامنے آئی وہ یہ نہیں تھی کہ ایک ظلم کے خلاف ساری دنیا متحد ہوگئی ہے.اس حقیقت کو اس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے کہ دیکھو روس اور امریکہ کی صلح کے نتیجے میں یا ان دو بلا کس کے قریب آنے کے نتیجے میں اب ساری دنیا خطرات کا نوٹس لے رہی ہے اور امن عامہ کو جہاں بھی خطرہ در پیش ہوگا وہاں سب دنیا اکٹھی ہو کر اس خطرے کے مقابلے پر متحد

Page 93

۹۱ ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء ہو جائے گی، یہ بات درست نہیں ہے.میں خطرات کی بعض مثالیں آپ کے سامنے رکھوں گا جو اس سے بہت زیادہ بھیا نک خطرات ہیں جو عراق کی صورت حال سے دنیا کے سامنے آئے ہیں اور ان سے نہ صرف آنکھیں بند کی جارہی ہیں بلکہ لمبے عرصے سے آنکھیں بند کی گئی ہیں اور آئندہ بھی کی جائیں گی.یہاں تک کہ بعض قوموں کے خود غرضی کے مفادات ان خطرات کی طرف انہیں متوجہ ہونے پر مجبور کریں گے.قوموں میں نسلی خطرات اور لسانی اختلافات کے خطرات اور مذہبی اختلافات کے خطرات اور تاریخی جھگڑوں کے خطرات اور اس طرح کی بہت سی قسمیں ہیں جن میں ہم خطرات کو تقسیم کر سکتے ہیں اور ان کی مثالیں جب سامنے رکھتے ہیں تو ایک انسان حیران رہ جاتا ہے کہ کتنے بڑے آتش فشاں مادے ہیں، کتنے بھیا تک آتش فشاں مادے ہیں جو ساری دنیا میں جگہ جگہ دبے پڑے ہیں اور کسی وقت بھی ان کو چھیڑا جا سکتا ہے.چند مثالیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.مذہبی سیاسی خطرات میں سے ہندوستان کی مثال آپ کے سامنے ہے.وہاں پہلے سکھ قوم نے اپنے مذہب کی بناء پر ایک قومی تشخص اختیار کرتے ہوئے ہندوستان کی دیگر قوموں سے علیحدگی کا مطالبہ کیا.یہ مطالبہ پاکستان کے تصور سے کچھ ملتا جلتا مطالبہ ہے.لیکن خالصہ سیاسی مطالبہ نہیں تھا بلکہ مذہب اور سیاست نے مل کر ایک عصبیت کو پیدا کیا اور اس عصبیت کے نتیجے میں باقی قوموں سے اس ملک میں علیحدگی کا ایک رجحان پیدا ہوا.اس کے برعکس اس کو دبانے کے لئے بھی عصبیتیں ابھری ہیں، اور اس جھگڑے میں دونوں طرف سے کسی نے بھی نہ مطالبہ کیا ہے کہ آپس میں مل بیٹھ کر انصاف کے تقاضوں کے مطابق ان جھگڑوں کو طے کریں اور یہ دیکھیں کہ کس حد تک انصاف اور حسن سلوک کے نظریے کے تابع یہ معاملات طے ہونے چاہئیں اور خطرات اگر سکھوں کو در پیش ہیں تو ان کا ازالہ ہونا چاہئے لیکن دونوں طرف سے یہی آواز بلند کی جارہی ہے کہ سکھ کہتے ہیں کہ ہندوستان کے ساتھ رہنا ہمارے لئے خطرہ ہے.ہمارے مذہبی قومی تشخص کو ہندوستان کے ساتھ رہنا ہمیشہ کے لئے مٹا دے گا اور ہندوستان کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس آواز کو اگر ہم نے تسلیم کر لیا تو ہندوستان

Page 94

۹۲ ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء پھر اس طرح ٹکڑوں میں تقسیم ہونا شروع ہو جائے گا کہ اس کو پھر روکا نہیں جا سکتا.دونوں آوازوں میں بڑا وزن معلوم ہوتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اگر آخری وجہ تلاش کی جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دونوں طرف خود غرضیاں بھی ہیں اور دونوں طرف عصبیتیں بھی ہیں.ہندوستان نے تقسیم ہند کے بعد چھوٹی قوموں سے جو سلوک کیا ہے اس میں عصبیتوں نے بہت کام دکھائے ہیں، بہت کردار کیا ہے.ہندو بھاری اکثریت ہے اور باوجود اس کے کہ ہندوستان کی ریاست مذہبی نقطہ نگاہ پر قائم نہیں ہوئی ہے، لیکن ہندو نے ایک قومیت اختیار کر لی ہے اور اپنی کثرت اور اکثریت کی بنا پر جو قوت ہندو کے ہاتھ میں ہے، اس قوت میں باقی چھوٹی قومیں شریک نہیں رہی ہیں اور فیصلے کی تمام تر طاقتیں ہندوؤں کے ہاتھ میں رہی ہیں.خواہ وہ اپنی حکومت کو سیکولر کہتے چلے جائیں مگر امر واقعہ یہی ہے اور ہندوؤں ہی میں صرف ہندؤں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ہندوؤں کے ایک طبقے کے ہاتھ میں رہی ہیں.جسے ہم برہمن طبقہ یا اونچی ذات کا طبقہ کہتے ہیں.یہ وہ عصبیتیں تھیں جنہوں نے پھر آگے جھگڑوں کو جنم دیا ہے.بنیادی طور پر سیاست کار فرما تھی لیکن اس بنیاد کے نیچے حقیقت میں عصبیتیں دبی پڑی تھیں اور ان عصبیتوں نے اس عمارت کو ضرور ٹیڑھا بنانا تھا جو عصبیتوں کے اوپر قائم کی جا رہی تھی.پس ہندوستان میں اس وقت ہمیں جو بہت سے خطرات نظر آرہے ہیں اس کی آخری وجہ عصبیت ہے اور انصاف سے ہٹ کر خود غرضی کے نتیجے میں فیصلے کرنے کا رجحان ہے.چنانچہ دیکھیں،اب جو مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیاں تفریق ہونا شروع ہوئی ہے اور بہت گہری Rift پڑ چکی ہے بہت گہری دراڑیں پڑ گئی ہیں.اس کی بنا ہندو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی عصبیت ہے اور مسلمان کہتے ہیں کہ ہندوؤں کی عصبیت ہے.اسی طرح لسانی لحاظ سے ہندوستان میں جو خطرات ابھر رہے ہیں ان میں بھی دراصل عصبیتیں کام کر رہی ہیں.جنوبی ہندوستان اس احساس محرومی میں مبتلا ہو رہا ہے کہ شمالی ہندوستان کی قومیں جو ہندی سے زیادہ آشنا ہیں یا سنسکرت سے کسی حد تک آشنا ہیں وہ سارے ہندوستان پر حکومت کر رہی ہیں اور ہندوستان میں جو تقریبا ۱۵۰۰ زبانیں بولی جاتی ہیں ان زبانوں سے منسلک قوموں کے ساتھ انصاف

Page 95

کا بحران ۹۳ ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء نہیں ہورہا یعنی وہ قومیں جن کی یہ زبانیں ہیں، ان سب کے ساتھ انصاف نہیں ہورہا.تو ہندوستان کی ہر تقسیم کے پیچھے دراصل پس منظر میں عصبیت اور خود غرضی دکھائی دے گی.ان کے نام مختلف ہو جائیں گے کہیں لسانی جھگڑے نظر آئیں گے، کہیں مذہبی جھگڑے نظر آئیں گے، کہیں قومی جھگڑے نظر آئیں گے، کہیں ذات پات کے جھگڑے نظر آئیں گے.کہیں چھوٹی ذات کا ہندو جو ہے وہ ہزاروں سال سے اونچی ذات کے ہندو کے مظالم کا نشانہ بنا ہوا ہے اور ان کی چکی کے اندر پیسا جا رہا ہے اور اس کو کوئی انسانی شرف نصیب نہیں ہو سکا.اس قدر ظالمانہ سلوک ہے یعنی عملاً سلوک کی بات نہیں میں کر رہا.فلسفیاتی اور نظریاتی تفریق ایسی ہے کہ اس کے نتیجے میں ادنی قو میں جو ہیں وہ کسی انسانی شرف کی مستحق ہی نہیں ہیں.حال ہی میں وی.پی سنگھ صاحب کی جو حکومت ٹوٹی ہے اس کے ٹوٹنے کی وجہ حقیقت میں یہی ہے کہ انہوں نے عصبیتوں کے خلاف آواز بلند کی تھی.انہوں نے انصاف کے حق میں جھنڈا بلند کیا تھا اور باوجود اس کے کہ خود اونچی قوم سے تعلق رکھتے تھے یعنی راجپوت قوم سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے چھوٹی قوموں کے حقوق دلانے کے لئے ایک عظیم مہم کا آغا ز کیا اسی طرح مسلمانوں کے مذہبی تقدس کی حفاظت کی.غرضیکہ یہ جو لڑائی ہندوستان میں اب شروع ہوئی ہے اس کے نام آپ کو مختلف دکھائی دیں گے.تفریقیں مختلف نہج کی ہوں گی.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ انصاف کی کمی اور عصبیت کا عروج یہی وہ بنیادی حقیقت ہے جو سارے ہندوستان کے لئے ایک خطرہ بن کر ابھر رہی ہے اور یہ خطرہ دن بدن بڑھتا چلا جارہا ہے.برطانیہ جیسا ملک جو بظاہر بیسویں صدی کے اب تو اکیسویں صدی شروع ہونے والی ہے.بیسویں صدی کے آخری کنارے پر دنیا کے ممتاز ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتا ہے، یہاں آج تک عصبیتیں کام کر رہی ہیں.اور ان کی سیاست آج بھی عصبیتوں سے آزاد نہیں ہوسکی.آئر لینڈ میں مذہبی عصبیت سیاست کے ساتھ مل کر اپنے جوہر دکھا رہی ہے.دوسری قوموں کے اوپر حکومت کرنے کا جو تاریخی عمل ہے وہ باوجود اس کے کہ ہمیں رکا ہوا دکھائی دیتا ہے مگر واقعۂ جاری ہے انگریز کی حکومت دنیا سے سمٹ کر بظاہر اب اپنے علاقے میں آچکی ہے لیکن انگریز کی تجارتی حکومت انگریز کے

Page 96

۹۴ ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء سیاسی نفوذ کی حکومت آج بھی سب دُنیا میں جگہ جگہ پھیلی پڑی ہے اور یہ عصبیت کہ ہمیں حق ہے کہ ہم دنیا پر راج کریں اور اُن کی اقتصادیات پر بھی حکومت کریں، ان کے جغرافئے پر بھی حکومت کریں.ان کے سیاسی جوڑ تو ڑ پر بھی حکومت کریں اور ان کو اپنی خارجہ پالیسی پر آخری اور مکمل اختیار نہ ہو بلکہ عملاً ہم اُن کی خارجہ پالیسی طے کرنے والے ہوں.خواہ بظاہر دنیا ہمارے اور اُن کے درمیان اس کے اندر کوئی رشتہ نہ دیکھے لیکن اصولی اور وسیع پیمانے پر جو خارجہ پالیسی بنائی جاتی ہے.یہ قومیں چھوٹی قوموں کو اس کے تابع دیکھنا چاہتی ہیں اور تب اُن کو پتا لگتا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی آزاد نہیں ہے جب اپنی خارجہ پالیسی کو اس رنگ میں تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں جوان بڑی قوموں کی قائم کردہ کردہ حدود سے تجاوز کرنے کے مترادف ہو جاتی ہے.یعنی تجاوز اختیار کرنے لگتی ہے یعنی عملاً یہ ہورہا ہے کہ بڑی قو میں چھوٹی قوموں کی خارجہ پالیسی اس طرح بناتی ہیں کہ انہوں نے خود بعض دائرے مقرر کر لئے ہیں.ان دائروں کے اندر رہتے ہوئے یہ دوسری قوموں سے اپنے تعلقات اختیار کریں یا اُن میں تبدیلیاں پیدا کریں تو کوئی حرج نہیں لیکن جہاں ان دائروں سے باہر قدم رکھا وہاں ہم ضرور کوئی بہانہ ڈھونڈیں گے ان کے معاملات میں دخل دینے کا اور ان کو اس کی اجازت نہیں دی جائے گی.تو برطانیہ بھی بذات خود عصبیتوں کا بھی شکار ہے اور ان کی عصبیت طرح طرح کے مظالم دنیا پر بھی تو ڑ رہی ہے.روس میں نسلی عصبیتوں کے خطرات نسلی عصبیتوں میں ہمیں مثال کے طور پر روس میں اس وقت بہت سے خطرات دکھائی دیتے ہیں.نسلی عصبیتوں کے لحاظ سے ترک قوم اس وقت ایسے تاریخی دور سے گزر رہی ہے کہ اس میں نئے نئے قسم کے خیالات اور اُمنگیں پیدا ہو رہی ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ اس قوم نے آئندہ چند سالوں میں کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کرنی ہے جس کے نتیجے میں بہت بڑے بڑے عالمی تغیرات بر پا ہو سکتے ہیں یا کل عالم کے امن پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے.میں نے گزشتہ خطبے میں بتایا تھا کہ ترکوں کی اکثریت ترکی سے باہر بستی ہے اور نصف سے زیادہ اُن میں سے سوویت یونین میں رہتے ہیں.چنانچہ ترکی میں

Page 97

۹۵ ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء کل ترک ۴۴ ملین ہیں یعنی ہم کروڑ ۴۰ لاکھ اور سوویت یونین میں ۴۲ ملین یعنی ہم کروڑ اور ۲۰ لاکھ اس طرح چین میں سے ملین گویا ان دونوں اشترا کی ملکوں میں بسنے والے ترک اپنی مجموعی طاقت کے لحاظ سے ترکی سے بھی زیادہ ہیں.ترکی میں بسنے والے ترکوں سے بھی زیادہ ہیں لیکن ان کا رُجحان ان ملکوں کی طرف نہیں جن میں یہ رہتے ہیں.بلکہ ترکی کی طرف ہے اور ترکوں کا رجحان بھی اب ان کی طرف ہے اور ان کی آنکھیں کھل رہی ہیں.میں جب پرتگال اور چین کے دورے پر گیا تو دونوں جگہ بلغاریہ کے ایمبیسیڈ رز نے مجھ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور ملاقات کی اور اُن سے گفتگو کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ یہ دونوں ترکی سے خطرہ محسوس کر رہے ہیں چنانچہ زیادہ تفصیل سے جب چھان بین کی گئی تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ ترکی سے اس وجہ سے خائف ہیں کہ انہوں نے ماضی میں ترک قوموں پر کچھ زیادتیاں کی ہوئی ہیں اور اب جبکہ روس کی حفاظت کا سایہ اُن کے سر سے اُٹھ رہا ہے تو اُن کو خطرہ یہ ہے کہ ہم ترکی کے رحم و کرم پر چھوڑ ئیے جائیں گے اور ترک قوم اپنے تاریخی بدلے ہم سے لے گی.چنانچہ اُس وقت تو مجھے علم نہیں تھا، یہاں آنے کے بعد جب میں نے مزید جستجو کی تو مجھے بلغاریہ کی پریشانی کی وجہ تو سمجھ میں آگئی.۱۹۸۹ء میں یعنی پچھلے سال بلغاریہ نے بلغاریہ کے اندر بسنے والے ترکوں پر اتنے مظالم کئے کہ ایک ہی سال میں ۳ لاکھ ترک بلغاریہ سے ہجرت کر کے ترکی چلے گئے.پس قومی عصبیتیں نہ صرف اس دور میں قائم ہیں بلکہ روس کے اندر برپا ہونے والے انقلاب کے نتیجے میں ابھر رہی ہیں.پس بہت ہی جاہل انسان ہو گا جو یہ کہہ دے کہ دنیا ایک بڑے امن کے دور میں داخل ہورہی ہے.بڑی بڑی جنگوں کے خطرے ٹل گئے ہیں.عملاً یہ دبے ہوئے خطرے ہیں اب سر نکال رہے ہیں.اس طرح آرمینیا اور ترکی کے درمیان دیرینہ مخالفتیں ہیں اسی طرح آذربائیجان جو روس کا ایک علاقہ ہے اور آرمینیا ان دونوں کے درمیان تاریخی مخاصمتیں چلی آرہی ہیں اور جو ترک روس میں بستے ہیں اُن میں بھی آپس میں ایک دوسرے سے اختلافات ہیں اور اُزبک ترک باقی ترکوں سے الگ اپنی ایک شخصیت کے متقاضی ہیں اور ان کو خطرہ ہے کہ اگر ہم روس کے دوسرے ٹرکوں کے ساتھ ملا دئے

Page 98

۹۶ ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء گئے تو ہماری شخصیت اس میں کھوئی جائے گی اور ہم اُن سے مغلوب ہو جا ئیں گے اور اُزبکستان اور ساتھ کے ہمسایہ ترک صوبوں میں لمبے عرصہ سے لڑائیاں جاری ہیں اور اختلافات ہیں.افریقہ کی افسوسناک صورت حال جہاں تک نسلی تعصبات کا تعلق ہے اُن میں ہمیں اب افریقہ پر نظر کرنی چاہئے.دراصل یہ افریقہ میں جتنے بھی اختلافات ہیں اور خطرات ہیں اس کا پس منظر جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں بیان کیا تھا، مغربی قوموں کا افریقہ پر تسلط ہے جس نے ماضی میں کئی قسم کے رنگ دکھائے اور قوموں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا.ایک زبان بولنے والوں کو الگ الگ کیا.قبائل کی اس طرح تقسیم کی کہ ملک کے اندر بھی اختلافات دبنے کی بجائے اور زیادہ نمایاں ہو کر اُبھر نے لگے اور اب موجودہ حالت میں افریقہ میں ایسے خطرات در پیش ہیں کہ پہلے اگر روس اور امریکہ کی رقابت کے نتیجے میں بعض قوموں کو بعض قوموں کے خلاف تحفظات حاصل ہو گئے تھے ، اب وہ تحفظات قائم نہیں رہ سکتے تھے اور کچھ عرصے کے بعد ان کے اندرونی جھگڑے رنگ لانے لگیں گے.چنانچہ لائبیریا میں جو کچھ ہوا ہے یہ دراصل اسی کا نتیجہ ہے.اس سے پہلے لائبیریا پر مغربی قوموں کی بڑی گہری نظر رہتی تھی اور اختلافات جو قومی اختلافات تھے اُن کو یہ لوگ کسی حد تک سنبھالے ہوئے تھے.لیکن جب روس اور امریکہ کی رقابت ختم ہوئی تو اچانک وہ خطرے اُٹھ کھڑے ہوئے اور سارے افریقہ میں اب جمہوریت کے نام پر Multi Party سسٹم کو نافذ کرنے کے لئے آوازیں اُٹھنی شروع ہوئی ہیں.تو سیاسی نقطہ نگاہ سے بھی افریقہ مختلف خطرات کا شکار ہے یعنی سیاسی نقطہ نگا سے مراد یہ ہے کہ کونسا سیاسی نظام وہاں جاری ہونا چاہئے ، اس نقطہ نگاہ سے بھی قومی نقطہ نگاہ سے بھی اور قوموں کے درمیان سرحدی جھگڑوں کے لحاظ سے بھی اور بدقسمتی سے مذہبی نقطہ نگاہ سے بھی کئی قسم کے خطرات در پیش ہیں اور مشکل یہ ہے کہ اُن خطرات کو دور کرنے کے لئے کوئی اجتماعی کوشش ابھی شروع ہی نہیں کی گئی.اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ جب کہتے ہیں کہ ہم نے ساری دنیا کو اکٹھا کر کے عراق کے

Page 99

۹۷ ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء خطرے کی طرف متوجہ کر دیا اور بہت ہی عظیم الشان کارنامہ ہوا ہے امن عالم کے قیام کے سلسلہ میں ، تو محض فرضی باتیں ہیں اور جھوٹے حقیقت سے خالی دعوے ہیں.یہ سارے خطرات جو میں نے آپ کو دکھائے ہیں یہ چند نمونے ہیں.بے شمار خطرات اس نوعیت کے ہیں جو آتش فشاں مادہ کی طرح جگہ جگہ دبے بڑے ہیں.بعض میں سرسراہٹ پیدا ہورہی ہے اور وہ پھٹنے پر تیار بیٹھے ہیں اور بعض کچھ وقت کے بعد پھٹیں گے لیکن جو تفر یقیں ہیں یعنی قومی ،لسانی ، مذہبی ، یہ تفریقات اپنی جگہ کھل کھیلنے کے لئے تیار بیٹھی ہیں.میں چند نمونے آپ کے سامنے اور رکھتا ہوں.نسلی تعصبات کی بعض مزید مثالیں گر یک اور ٹرکش یعنی یونانی اور ترک قوم کے دیرینہ اختلافات جو نیٹو کی وجہ سے دبائے گئے تھے یعنی گریس (Greece) بھی مغربی ملک تھا اور ترکی بھی ایک حصے میں مغربی ہونے کے لحاظ سے یعنی یورپین کہلانے کی وجہ سے نیٹو کا ممبر تھا اس لئے ان کے مفادات کا تقاضا تھا کہ جب تک روس کا خطرہ درپیش ہے ان کو آپس میں نہ لڑنے دیا جائے.لیکن وہ اختلافات دبے نہیں ختم نہیں ہوئے بلکہ کچھ عرصے کے لئے وقتی مفادات نے ان کو نظر انداز کئے رکھا لیکن موجود ہیں.اسی طرح آرمینیا کا میں نے آپ کے سامنے ذکر کیا ہے.ہندوستان میں لسانی جھگڑے ہیں.سری لنکا میں لسانی تفریق کے نتیجے میں اور قومی تفریق کے نتیجے میں خوفناک جھگڑے ہیں.نسلی برتری کے اعتبار سے یہود کی طرف سے تمام دنیا کو آج بھی اسی طرح خطرہ ہے.جیسا کہ گزشتہ کئی ہزار سال سے رہا ہے اور یہودی قوم دنیا سے نسلی برتری کے تصور کو مٹانے میں بظاہر صف اول کا کر دار ادا کر رہی ہے اور دنیا میں بہت پرو پیگنڈا کیا جا رہا ہے.یہودیوں کی طرف سے کہ نسلی تقسیموں کو مٹانا چاہئے اور نسلی تعصبات کو مٹانا چاہئے ، یہ صرف اس لئے کیا جارہا ہے کہ ان کو خطرہ ہے کہ نسل کے نام پر یہود کو کسی وقت بعض قو میں اپنے غضب کا نشانہ نہ بنالیں لیکن جہاں تک یہود کی غیر قوموں پر نسلی برتری کا تعلق ہے ان کا نظریہ ہٹلر

Page 100

۹۸ ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء کے نانسی نظریہ سے کسی طرح بھی کم نہیں بلکہ ان کے لٹریچر کا میں نے تاریخی طور پر مطالعہ کر کے دیکھا ہے.آج کا لٹریچر نہیں ، قدیم سے، حضرت داؤد کے زمانے سے ان کے لٹریچر میں ایسا موادملتا ہے کہ گویا یہ قوم دنیا پر غالب آکر دنیا کو غلام بنانے کے لئے پیدا کی گئی تھی اور جب تک تمام عالم کو یہودی تسلط کے نیچے نہ لایا جائے دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا.بات یہ بھی امن کی کرتے ہیں لیکن ایسے امن کی بات کرتے ہیں جو ان کے زاویہ نگاہ سے امن دکھائی دیتا ہے اور ساری دنیا کے زاویہ نگاہ سے فساد اور ظلم دکھائی دیتا ہے.پھر اسی طرح امریکہ میں نسلی برتری کا تصور آج بھی اسی طرح اپنے جوہر دکھا رہا ہے اگر چہ جہاں تک قانونی تحفظات کا تعلق ہے، امریکہ کے کالے لوگوں کو سفید فام قوموں کے ساتھ ایک مساوات عطا ہو چکی ہے لیکن نسلی تعصبات ان قوانین کے ذریعہ مٹا نہیں کرتے.قوانین جو بھی ہوں نسلی تعصبات کا اپنا ایک قانون ہے جو رائج رہتا ہے اور باقی قوانین پر غلبہ پالیتا ہے.پس امریکہ سیاہ فام قوموں کی جو موجودہ حالت ہے اس کو سفید فام قوموں کے برابر سمجھنا انتہائی پاگل پن ہو گا.کسی پہلو سے بھی ان کو مساوات نصیب نہیں.ہر پہلو سے وہ اتنا پیچھے جاچکے ہیں اور اتنے دبائے گئے ہیں کہ ان کے اندر نفرتیں ابھر رہی ہیں.جب میں امریکہ گیا تو مجھے کسی نے یہ کہا کہ آپ کی جماعت بہت آہستہ پھیل رہی ہے اور بعض دوسرے جو مسلمان فرقے ہیں وہ ان کالے افریقوں میں بڑی تیزی کے ساتھ مقبول ہورہے ہیں ، آپ بھی کوئی ایسی ہی ترکیب کریں.میں نے ان کو کہا کہ میں تو ایسی ترکیبوں کے خلاف جہاد کرنے کے لئے آیا ہوں.مذہب کے نام پر یہ ان کے اندر دبی ہوئی نفرتوں کو ابھارتے ہیں اور چنگاریوں کو آگ بناتے ہیں اور یہ ان کے مزاج کے مطابق بات ہے.اس لئے آج اگر احمدیت نفرت کی تعلیم دینا شروع کرے اور ان کے اندر جو احساس کمتری ہے اس سے کھیلنے لگے اور اس دبی ہوئی آگ کو شعلے بنانا چاہے تو جماعت احمد یہ اتنی منظم جماعت ہے کہ تمام دوسری جماعتوں سے سبقت لے جاسکتی ہے.دس پندرہ سال کے اندر سارے امریکہ کے کالوں پر جماعت احمدیہ قبضہ کر سکتی ہے مگر ہمیں کسی عددی غلبے کی ضرورت

Page 101

۹۹ ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء نہیں.ہم ایسے عددی غلبے کے منہ پر تھوکتے بھی نہیں جس کے نتیجے میں تو میں قوموں سے نفرت کرنے لگیں اور امن جو ہے وہ جنگ کی آگ میں تبدل ہو جائے.اس لئے جماعت احمدیہ کا نظریہ بالکل مختلف نظریہ ہے ہمیں آج اگر غلبہ نصیب نہیں ہوگا تو دوسوسال کے بعد نصیب ہو جائے گا.چارسوسال، ہزار سال کے بعد ہو جائے گا.لیکن وہ غلبہ نصیب ہو گا جو محمد رسول ﷺ کا غلبہ ہے.آپ کے خلق کا غلبہ ہے.آپ کی تعلیم کا غلبہ ہے جو قرآن کا غلبہ ہے.اسی غلبے کی ہمارے ذہنوں میں اور ہمارے دلوں میں قدر و قیمت ہے.باقی غلبے تو ظلم اور سفا کی کے غلبے ہیں شیطانیت کے غلبے ہیں، ہمیں ان میں کوئی دلچسپی نہیں بلکہ ہم ان کو مٹانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.ان سے ٹکرانے کے لئے ، ان سے تصادم کرنے کے لئے کھڑے کیا گیا ہے.پس یہ جو نسلی تفریقیں ہیں یہ امریکہ میں شمال میں بھی ملتی ہیں اور جنوب میں بھی ملتی ہیں.وہاں کے ، ریڈ انڈینز کا جہاں تک تعلق ہے وہ تو عملا صفحہ ہستی سے مٹائے جاچکے ہیں لیکن جنوبی امریکہ میں ریڈ انڈینز بڑی بھاری تعداد میں موجود ہیں بلکہ Latin یعنی لاطینی قوموں کے مقابلے پر بہت سے ممالک میں بھاری اکثریت میں موجود ہیں.اس کے باوجود ان کو اس طرح دبایا جا رہا ہے، اس طرح ان کے حقوق سلب کئے جارہے ہیں کہ اس کے نتیجے میں دن بدن ان کے اندر تشدد کا رجحان بڑھ رہا ہے.اپنا انتقام لینے کے لئے ان کے اندر ایسی تحریکات چل رہی ہیں جس کے نتیجے میں آج نہیں تو کل وہاں کئی قسم کے دھما کے ہوں گے اور جو دھما کہ خیز رجحانات ہیں جن کے نتیجے میں جگہ جگہ بم چلائے جاتے ہیں معصوم شہریوں کی زندگی لی جاتی ہے.امن عامہ کو برباد کیا جاتا ہے.اس کو آپ باہر بیٹھے جتنا مرضی Condemn کریں، نفرت کی نگاہ سے دیکھیں ،اس کے خلاف تقریریں کریں جب تک ان وجوہات کی طرف متوجہ نہیں ہوتے جو یہ باتیں پیدا کرتی ہیں اس وقت تک اس قسم کی Large Scale، وسیع پیمانے پر Condemnation سے اور ان پر تنقید کرنے سے تو یہ مسائل حل نہیں ہوں گے.پس نسلی تفریقوں کے نتیجے میں جو خطرات ہیں وہ بھی ساری دنیا میں جگہ جگہ پھیلے پڑے

Page 102

۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء ہیں.یوگوسلاویہ میں دیکھیں چھ Republics ہیں اور ان چھ ر پبلک میں سے ہر ایک ،ایک دوسرے سے غیر مطمئن اور ایک دوسرے سے دور بھاگنے کے لئے کوشش کر رہی ہیں.دو خود مختار Republics ہیں جو کی تھولک مذہب سے تعلق رکھنے والے ہیں اور با وجود اشتراکیت کے لمبے دور کے کیتھولیسزم Catholicism وہاں آج تک بڑی قوت سے موجود ہے یعنی سیاسی حیثیت میں قوت کے ساتھ موجود ہے مذہبی حیثیت سے پتا نہیں کس حد تک موجود ہے.ان میں سلو و یکیا (Slovakia) اور کروشیا (Croatia) یہ دو بڑی بڑی ریپبلکس ہیں جو سب سے زیادہ امیر بھی ہیں ان کے اندر جو علیحدگی پسندی کے رجحانات ہیں یہ بڑے نمایاں ہورہے ہیں.جنوب میں سر بیا Serbia مسلمان اکثریت کا علاقہ ہے اور اسی طرح ایک اور علاقہ ہے غالباً کسو و دو یا اس قسم کے نام ہیں ، مجھے کچھ صحیح تلفظ یاد نہیں مگر Albanian speaking جو بھی علاقے ہیں ان کی بھاری اکثریت مسلمانوں کی ہے پس وہاں مذہب جمع قومیت اور سابق میں ان کے ساتھ ظالمانہ سلوک ، یہ چیزیں مل کر ان کو آزادی پر انگیخت کر رہے ہیں اور وہاں بھی تحریکات پیدا ہورہی ہیں اور اس وقت یوگوسلاویہ کی مرکزی حکومت کو ان مسلمان علاقوں سے ایسے خطرات محسوس ہو رہے ہیں کہ ان پر دن بدن زیادہ بختی ہو رہی ہے اور باہر سے لوگوں کے لئے وہاں جانا اور زیادہ مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے.باقی جگہ نسبتاً آزادی ہے.ابھی ہم نے حال ہی میں ایک مرکزی وفد وہاں بھجوایا تھا.ایک بڑی کتابوں کی نمائش میں شرکت کے لئے.تو انہوں نے بتایا کہ وہاں مسلمان علاقوں میں وہ نہیں جا سکے لیکن دوسرے علاقوں میں جہاں کچھ مسلمان بستے ہیں ان سے ان کا رابطہ ہوسکا.وجہ یہ تھی کہ وہاں آجکل بڑی سختی کی جارہی ہے.سپین میں علاقائی تفریق اور اس کے نتیجے میں بموں کے دھماکے ایک لمبے عرصے سے جاری ہیں اور وہ تنازعات ایسے ناسور کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو مستقل رہتا ہی ہے.جس طرح آئر لینڈ کا ناسور ہے.پھر بین الاقوامی سرحدی تنازعات ہیں.پھر ایسے تنازعات ہیں جس میں بعض قوموں نے بعض چھوٹی قوموں پر قبضہ کر لیا ہے اور ان کے علاقوں کو ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ ضم کر چکے ہیں.

Page 103

1+1 ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء جہاں تک پرانے تاریخی معاملات ہیں ، ان کو نہ بھی چھیڑ میں اور حال ہی کی باتیں دیکھیں تو بڑے بڑے خطرات امنِ عالم کو اس قسم کے اختلافات کے نتیجے میں در پیش ہو سکتے ہیں.ثبت اور چین کا معاملہ ہے.اب چین نے تبت پر زبر دستی قبضہ کیا ہے اور ہندوستان نے بھی شور مچایا اور کوشش کی کہ تبت سے چین کو نکال سکے لیکن چین کی غالب قوت نے ہندوستان کی ایک نہیں چلنے دی اور جو تصویریں یہاں کے ٹیلیویژنز پر تبت کے معاملے میں دکھائی جاتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ کچی ہیں، پرو پیگنڈا نہیں ہیں تو چینی قوم کی طرف سے تبت قوم کے اوپر بھی بڑے بڑے مظالم توڑے گئے ہیں.اب یہ بتائیے یعنی سوچئے اور غور کیجئے کہ عراق اگر کویت پر قبضہ کرتا ہے تو اس کا موازنہ تبت پر چین کے قبضے سے کیوں نہیں کیا جاتا جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ وہاں قومی اختلافات بھی ہیں نسلی اور مذہبی اختلافات بھی ہیں اور کئی قسم کے اختلافات ہیں ، جنہیں کچلا گیا ہے.جن کے نتیجے میں ایک قوم کو کچلا گیا ہے یہاں تو ایک مسلمان ملک ہی ہے جس نے ایک ہمسایہ ریاست پر اس بنا پر قبضہ کیا کہ عملاً تو ان کے درمیان فرق کوئی نہیں ہے، وہی عرب وہ ہیں ، وہی وہ ہیں.جیسے مسلمان یہ ہیں ویسے وہ مسلمان.لیکن تاریخی طور پر اور زیادہ پرانی تاریخ نہیں ، اس دور کی تاریخ میں ہی کو بیت عراق کا حصہ تھا اور انگریز حکومت نے اسے کاٹ کر جدا کیا تھا.میں ہرگز یہ تلقین نہیں کر رہا کہ اس قسم کی تاریخ کے گڑے مردوں کو اکھیڑا جائے.میں صرف آپ کو یہ دکھا رہا ہوں کہ بنی نوع انسان کا عراق کے خلاف اجتماع کسی تقویٰ اور انصاف پر مبنی نہیں ہے.اسرائیل جب دریائے اردن کے مغربی کنارے پر قبضہ کر لیتا ہے اور اس قبضے کے نتیجے میں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور کوئی یہ خیال نہیں کرتا کہ اس سے امن عالم کو بڑا بھاری خطرہ درپیش ہو گیا ہے.دنیا پر خود غرضی کی حکمرانی پس خود غرضی ہے جو اس وقت دنیا پر حاکم ہے اور خود غرضی سے خطرات درپیش ہیں اور جو

Page 104

۱۰۲ ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء طاقتور بڑی قومیں ہیں ان کا رجحان یہ ہے کہ بہت سے خطرات کو اپنے سیاسی مفادات کی خاطر استعمال کرنے کے لئے یہ دبائے رکھتی ہیں اور اپنی سوچوں میں مزے لیتی رہتی ہیں کہ ہاں اگر فلاں شخص نے بد تمیزی کی یعنی فلاں لیڈر نے بدتمیزی کی یا فلاں قوم نے اپنے نئے پینترے دکھائے تو اس صورت میں ہم یہ جو وہاں دیا ہوا خطرہ ہے اس کو ابھار دیں گے اور اس آتش فشاں مادے کو چھیڑیں گے تاکہ پھر ان کو مزہ چکھائیں کہ اس طرح اختلافات ہوا کرتے ہیں.اب آپ دیکھیں کہ ایران نے جب امریکہ کے ساتھ سختی کا سلوک کیا.جماعت احمد یہ چونکہ انصاف پر مبنی ہے جماعت احمدیہ نے ہرگز ایک دفعہ بھی ایران کی اس معاملے میں تائید نہیں کی کہ امریکہ کے سفارت کاروں کو وہ اپنے قبضہ میں لے لیں.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے سفارت کاروں کا جو تقدس قائم فرمایا ہے اور اس بارے میں جو عظیم الشان تعلیم عطا کی ہے اس تعلیم سے انحراف کسی مسلمان حکومت کو زیب نہیں دیتا.پس ہم نے ان کی تائید نہیں کی لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ یکطرفہ ظلم تھا.امریکہ نے شاہ ایران کے ذریعے ایک لمبے عرصے تک ایسے مظالم توڑے ہیں، ایران کے عوام پر اور اس طرح جبر و استبداد کا ان کو نشانہ بنایا گیا کہ اس کے نتیجے میں پھر دماغی توازن قائم نہیں رہتے.پھر جب انتقام کا جذبہ ابھرتا ہے تو وہ کہاں متوازن سوچوں کے ساتھ صحیح رستوں پر چلایا جا سکتا ہے.انتقام تو پھر اعتدال کی راہ نہیں دیکھا کرتا.وہ تو سیلاب کی صورت میں ابھرتا ہے اور سیلاب ، کبھی یہ تو نہیں ہوا کرتا کہ دریاؤں کے رستوں کے او پر بعینہ ان کی حدود میں چلیں.سیلاب تو کہتے ہی اس کو ہیں جو کناروں سے اچھلنے والا پانی ہوتا ہے.پس انتقام کے جذبے بھی کناروں سے اچھلتے ہیں اور ان کے نتیجے میں پھر یہ زیادتیاں ہوتی ہیں، جیسے آپ نے دیکھیں لیکن اس پر جو انتقامی کارروائی پھر ایران کے خلاف کی گئی اس میں عراق کو استعمال کیا گیا اور عراق کو اس طرح استعمال کیا گیا کہ عراق کا ایران سے ایک تاریخی سرحدی اختلاف پایا جاتا تھا اور دونوں قوموں کے درمیان اس بات پر اتفاق نہیں تھا کہ کہاں ایران کی حدیں ختم ہوتی ہیں یا عراق کی ختم ہوتی ہیں اور ایران کی شروع ہوتی ہیں.وہ خطرات ہمیشہ سے ترقی یافتہ بیدار مغز قوموں

Page 105

۱۰۳ ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء کی نظر میں تھے.اس موقع پر ان کو استعمال کیا گیا.اس موقع پر عراق کو شہ دی گئی اور مدد کے وعدے دیئے گئے.میں نے جب پہلے اپنی کتاب Murder In The Name of Allah میں یہ لکھا کہ سعودی عرب نے ان کی مدد کی تھی اور سعودی عرب نے ہی انگیخت کیا تھا تو بعض لوگوں نے مجھے کہا کہ ثبوت کیا ہیں؟ یہ تو آپ کے اندازے ہیں.اب ثبوت سامنے آ گیا ہے.سعودی عرب ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہا ہے کہ ایسا ظالم ملک ہے کہ ہم نے ہی تو اس کو لڑنے کی طاقت دی تھی.ہم نے ہی تو ایران کے مقابل پر اس کی پشت پناہی کی تھی اور اب ہمیں آنکھیں دکھانے لگا ہے تو کھل کر یہ حقیقت دنیا کے سامنے آچکی ہے.میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ جو خطرات مختلف جگہوں پر دبے ہوئے ہیں اور بے شمار ایسی قسمیں ہیں ان دبے ہوئے خطرات کی کشمیر کا جھگڑا بھی ان ہی میں شامل ہے اور بہت سے جھگڑے ہیں.ان دبے ہوئے خطرات کو یہ تو میں دیکھتی ہیں اور اس کے باقاعدہ جس طرح جغرافیہ میں نقشے بنائے جاتے ہیں کہ کہاں کہاں کون کون سی معدنیات دفن ہیں اسی طرح سیاست کے نقشے بھی بنے ہوئے ہیں.یہ جو بیدار مغز تعلیم یافتہ ترقی یافتہ قومیں ہیں ان کے ہاں با قاعدہ ان کے نقشے موجود ہیں اور ان کو علم ہے کہ کس وقت کس خطرے کو ابھارنا ہے اور کس بم کو چلانا ہے اور دھما کہ پیدا کرنا ہے اور یہ جو نیتیں ہیں یہ ساری انتقامی کارروائیوں کی غرض سے خاموشی سے ان کے ذہنوں میں موجود رہتی ہیں.ظاہر اس وقت ہوتی ہیں جب ان کے خود غرضانہ مفادات ان کو ظاہر ہونے پر مجبور کر دیں.ورنہ ذہنوں میں موجود ہیں اور مغربی ڈپلومیسی کا حصہ ہیں.افسوس یہ مسلمان ممالک بھی اسی سیاست میں مبتلا ہو چکے ہیں.افسوس یہ ہے کہ ہندو ممالک بھی اسی سیاست میں مبتلا ہو چکے ہیں اور بدھسٹ ممالک بھی اسی سیاست میں مبتلا ہو چکے ہیں.ساری دنیا پر اسی ظالمانہ سیاست نے قبضہ کرلیا ہے.جس کے اوپر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ خود غرضی راج کر رہی ہے، نا انصافی راج کر رہی ہے.ان خطرناک رجحانات کا جب تک قلع قمع نہ کیا جائے اس وقت تک دنیا امن میں نہیں آسکتی اور جنگ کے سائے دنیا کے اوپر سے نہیں ملیں گے بلکہ اب جبکہ روس اور امریکہ میں صلح ہو چکی ہے، یہ

Page 106

۱۰۴ ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء چھوٹے چھوٹے خطرات زیادہ قوت کے ساتھ ابھریں گے اور ان کو اب آتش فشاں پہاڑوں کی طرح جاگ کر آگ برسانے سے کوئی دنیا میں روک نہیں سکے گا کیونکہ جب دنیا کی بعض اور عظیم قوموں کے مفادات یہ چاہتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں چھیڑ خانی چلی جائے.غالب کہتا ہے: یار سے چھیڑ چلی جائے اسد گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی اب یہ جو بڑی تو میں آپس میں خوباں نہیں تھیں اس وقت بھی ان کی چھیڑ میں جاری تھیں.اب ان کی صلح ہوگئی ہے تو یہ چھوٹی چھوٹی تو میں ان کے لئے خوباں بن گئی ہیں.ان کے ساتھ وصل تو ان کو نصیب نہیں ہوسکتا.حسرتوں کی چھیڑ خانی اب باقی رہ گئی ہے.اب یہ جو مضمون ہے ، سو فیصدی تو کچھ شعر اطلاق نہیں پاتے اس لئے اسے کچھ تھوڑا سا حالات پر چسپاں کرنے کے لئے مجھے مولد Mold کرنا پڑے گا.یہ حسرتوں کی چھیڑ خانی جب محبوب اور عاشق کے درمیان ہوتی ہے تو مارا تو ہمیشہ عاشق ہی جاتا ہے.کیونکہ محبوب طاقتور ہوتا ہے اور عاشق کمزور ہوتا ہے.معشوق کو عاشق پر ہمیشہ غلبہ رہتا ہے.لفظوں کی تفریق ہی یہ بتا رہی ہے کہ معشوق وہ ہے جو عاشق پر حکومت کرے.تو یہاں عشق اور معشوق کا معاملہ تو نہیں ہے مگر غلبے اور مغلوبیت کا معاملہ ضرور ہے.طاقت اور کمزوری کا تعلق ضرور ہے.پس یہاں اگر خوباں سے چھیڑ چلے گی تو حسرت ہمیشہ کمزور کے حصے میں آئے گی.حسرت کبھی محبوب کے حصہ میں نہیں آیا کرتی حسرت ہمیشہ محبت کرنے والے کے حصہ میں آیا کرتی ہے.پس بہت سی حسرتیں ایسی ہیں جو ہم کمزور، غریب قوموں کے حصے میں آنے والی ہیں اور چھیڑ خانی سے ان لوگوں نے بازنہیں آنا.جماعت احمدیہ کا فرض اس لئے جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی تعلیم سے دنیا کی سیاست کو روشناس کرائے اور جس ملک میں بھی احمدی بستے ہیں وہ ایک جہاد شروع کر دیں.ان کو

Page 107

۱۰۵ ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء بتائیں کہ تمہارا آخری تجزیہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تمہارے ہر قسم کے خطرات کی بنیاد خود غرضی اور نا انصافی پر ہے.دنیا کی قوموں کے درمیان جو چاہیں نئے معاہدات کر لیں جس قسم کے نئے نقشے بنانا چاہتے ہیں بنائیں اور ان کو ابھاریں لیکن جب تک اسلامی عدل کی طرف واپس نہیں آئیں گے واپس کیا ؟ وہ چلے ہی نہیں تھے وہاں سے ) اس لئے یوں کہنا چاہئے ، جب تک اسلامی عدل کی طرف نہیں آئیں گے.جب تک حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اخلاق میں پناہ نہیں لیں گے جو تمام جہانوں کے لیے ایک رحمت بنا کر بھیجے گئے.اس لئے صرف اور صرف آپ کی تعلیم ہے جو بنی نوع انسان کو امن عطا کر سکتی ہے.باقی ساری باتیں ڈھکوسلے ہیں، جھوٹ ہیں،سیاست کے فسادات ہیں.ڈپلومیسی کے دجل ہیں.اس کے سوا ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے.پس امن عالم کے قیام کی خاطر آج صرف جماعت احمد یہ ہے جس نے صحیح خطوط پر ایک عالمی جہاد کی بنا ڈالنی ہے.اس لئے میں آپ سب کو اس امر کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ دنیا سے تعصبات کے خلاف جہاد شروع کریں اور دنیا سے ظلم وستم کو مٹانے کے لئے جہاد شروع کریں.سیاست کو عدل سے روشناس کرانے کے لئے جہاد شروع کریں.اگر یہ سب کچھ ہو تو یونائیٹڈ نیشنز یعنی اقوام متحدہ کی سوچ میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا ہو جائے گی ، پھر اقوام متحدہ کی بہت سی کمیٹیاں ایسی بنائیں جائیں گی جو جس قسم کے خطرے میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیں ، ان کے اوپر غور کرنے کے لئے اور ان خطرات کے ازالے کی خاطر وہ کام شروع کریں گی اور اس کے لئے ان کو دنیا میں ایسے منصف مزاج سابق میں عدلیہ سے تعلق رکھنے والے کارکن مل سکتے ہیں جن کے انصاف کے اوپر دنیا کو کوئی شک نہیں ہے.مثلاً ”ڈوشین ہیں کینیڈا کے ایک جسٹس (Justice.J.Dechene) ان کی انصاف کی نقطہ نگاہ سے بڑی شہرت ہے.ہمارے پاکستان میں ہمارے پارسی ایک جسٹس تھے جسٹس دراب پٹیل صاحب، جنہوں نے اس وجہ سے استعفی دے دیا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ فوجی انقلاب کے نتیجے میں جو کاروائیاں کی جا رہی ہیں ان کے لئے کوئی منصفانہ بنیاد نہیں ہے.چنانچہ ان کا انصاف کے نقطہ نگاہ سے ایک تقویٰ کا مقام ہے.

Page 108

کا بحران 1+7 ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء تقویٰ ایک بہت بڑا وسیع لفظ ہے غیر مذہبی اقدار پر بھی تقویٰ کا لفظ صادق آتا ہے کیونکہ اخلاق حسنہ فی الحقیقت اپنی آخری شکل میں خدا ہی سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں.پس جو جسٹس، جو منصف ، اپنے انصاف میں جن دوسری اغراض اور اثرات سے بالا ہو جائے اس کو انصاف کے لحاظ سے ہم متقی کہہ سکتے ہیں.پس ایسے متقی جسٹس آپ کو پاکستان میں بھی ملیں گے ، ہندوستان میں بھی ملیں گے، سپین میں بھی ملیں گے.میں جب پرتگال گیا تھا تو وہاں ایک سابق جسٹس سے میری ملاقات ہوئی جن کو پرتگال کی حکومت اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھی کیونکہ یونائیٹڈ نیشنز نے بین الاقوامی معاملات میں جہاں نا انصافی ہورہی ہے ان پر غور کرنے کا کام ان کے سپرد کیا تھا اور ان کے بعض فیصلے پرتگال کے خلاف تھے.وہ پرتگالی تھے.ان سے میں جب ملا تو انہوں نے ہنس کر کہا کہ تم اپنے مظالم کے قصے، نا انصافیوں کے قصے بتا رہے ہو، میں تو آواز اٹھاؤں گا لیکن کیا آواز ، کن کانوں میں پڑنے کے لئے اٹھاؤں گا کیونکہ جس ملک میں میں بس رہا ہوں جہاں ساری عمر میں نے عدالت کی ہے.یہ خود اس معاملے میں مجھ سے ہی انصاف نہیں کر رہے اور دنیا کی ساری قو میں نا انصافی پر مبنی ہیں.دوستانہ ماحول میں بڑی لمبی گفتگو ہوئی ، بہت معمر بزرگ ہیں.انسانی قدروں کے لحاظ سے لوگ ان کی عزت کرتے ہیں لیکن سیاسی نقطہ نگاہ سے ان کو ایک طرف پھینکا گیا ہے تو دنیا میں شریف النفس انصاف پر قائم عالمی شہرت رکھنے والے ایسے سابق جسٹس مہیا ہو سکتے ہیں یا دوسرے بعض سیاستدان ، اتفاق سے ایسے بھی پیدا ہو جاتے ہیں جن کی انصاف کے لحاظ سے شہرت ہو جاتی ہے.ان کو چن کر ، نہ کہ جتھہ بندی کے نتیجے میں لوگوں کو چنا جائے.پس انصاف کے نقطہ نگاہ سے اگر ایسے لوگوں کو چن کر عالمی خطرات کو مختلف قسموں میں بانٹ کر مختلف کمیٹیاں بنائی جائیں اور یہ فیصلہ ہو کہ ان خطرات کو ہمیشہ کے لئے مٹانے کے لئے بنیادی جھگڑوں کی وجوہ پر غور ضروری ہے اور قوموں کی تعلیم و تربیت ضروری ہے زیادہ سے زیادہ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جھگڑوں کی کنہ کوسمجھ کے ان کی تہہ تک پہنچ کر دونوں متقابل یا متصادم قوموں کو پہلی سٹیج پر سمجھایا جائے اور ساری دنیا کی اس نقطہ نگاہ سے تربیت کی جائے اور دنیا کی رائے عامہ کو بتایا جائے کہ یہ جھگڑے

Page 109

کا بحران 1+2 ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء ہیں، ان میں ہماری کمیٹیوں نے یہ کام کئے ہیں.یہ حقیقی صورت ابھر کر سامنے آئی ہے.پس حل تو اس سٹیج کے اوپر ایک دم نہیں سوچے جاسکتے کیونکہ یہ معاملے بعض صورتوں میں بہت الجھے ہوئے ہیں لیکن حل تلاش کرنے کی کوشش شروع کرنی ضروری ہے.پس جن لوگوں کو یعنی جن قوموں کو آج عراق میں یہ خطرہ دکھائی دے رہا ہے.میں ان کو ہزار خطرے سارے عالم میں پھیلتے ہوئے دکھا سکتا ہوں.اگر وہ واقعی امن عالم کے خواہاں ہیں تو جیسا کہ میں نے ان کو مشورہ دیا ہے وہ انصاف پر قائم ہوکر ، اسلامی انصاف پر قائم ہو کر جو نہ مشرق جانتا ہے نہ مغرب، نہ شمال اور جنوب کی تقسیم سے واقف ہے بلکہ محض اللہ کو پیش نظر رکھ کر ایک نظریہ انصاف پیش کرتا ہے اس اسلامی انصاف پر قائم رہ کر اگر یہ اپنے تنازعات کو حل کرنے یا دنیا کے تنازعات اور جھگڑوں کو حل کرنے کی کوشش کریں گے تو میں یقین دلاتا ہوں کہ دنیا کو امن نصیب ہو سکتا ہے.لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کے دست شفقت سے ہی یہ امن نصیب ہوسکتا ہے کیونکہ ایک ہی نبی ہے جس کو رحمتہ للعالمین قرار دیا گیا ہے.پس جسے خدا نے دنیا کی سب قوموں اور سب جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے اس کے سامنے جب تک تم دست سوال نہیں بڑھاتے ، جب تک تم اس سے فیض نہیں پاتے تم دنیا کو امن نہیں عطا کر سکتے.اس سلسلے میں جماعت احمدیہ کو ایک عالمگیر جہاد شروع کر دینا چاہئے اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہو.آمین.

Page 110

Page 111

1+9 بسم اللہ الرحمن الرحیم ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے کا قرآن حکم ( خطبه جمعه فرموده ۲۳ / نومبر ۱۹۹۰ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُ وَانِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةِ اِخْوَانًا ۚ وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ( آل عمران: ۱۰۳ - ۱۰۴) دو قرآنی احکام تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا: یہ دو آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورۃ آل عمران سے لی گئی ہیں اور ان کا بسم اللہ کا شمار کرتے ہوئے نمبر ۱۰۳ اور ۱۰۴ ہے پہلی آیت میں یہ فرمایا گیا کہ اے وہ لوگو جو ایمان لاتے ہو اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کر جیسا کہ تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے.وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مسْلِمُونَ اور ہرگز نہ مردمگر اس حالت میں کہ تم مسلم ہو.اسلام لانے والے ہو اور اپنے آپ کو خدا نوٹ:.اس خطبہ کا پہلا حصہ تقویٰ کے عمومی مضمون سے متعلق ہے لیکن آخر پر خلیج کے حوالے سے بعض اہم امور کا ذکر ہے.

Page 112

11+ ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء کے سپر د کر نے والے ہو.اس آیت میں دو احکام جاری فرمائے گئے ہیں اور دونوں احکامات کے ساتھ ایک ایک سوال دل میں اٹھتا ہے.فرمایا : تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے.سوال یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے کا حق کیا ہے؟ کیسے تقویٰ کا حق ادا ہو گا ؟ دوسرا ارشاد یہ ہے کہ ہرگز نہ مروجب تک تم مسلمان نہ ہو اور مرنا اپنے اختیار میں نہیں ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے ہم اپنی موت پر اختیار رکھیں گے.کس طرح اس حکم کی اطاعت کر سکتے ہیں جبکہ ہمیں علم نہیں ہے کہ کس وقت موت ہمیں آجائے.در حقیقت اس آیت کے یہ دونوں ٹکڑے جو یہ دو سوال اٹھاتے ہیں ایک دوسرے کا جواب ہیں.ہر معاملہ میں متوازن رد عمل کی اہمیت اگر تم خدا کا ویسا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے تو اس کے نتیجے میں تم ہمیشہ اپنے نفس کی ایسی حفاظت کرتے رہو گے کہ جس سے تم اپنے آپ کو ہر وقت اطاعت کی حالت میں رکھو گے.یہاں مسلم سے مراد یہ نہیں ہے کہ تم اسلام لے آؤ کیونکہ مخاطب ہی مومنوں کو فرمایا گیا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو تمہیں ہم حکم دیتے ہیں کہ اسلام کی حالت میں مرو اور اس حالت کے سوا کسی اور حالت میں ہرگز نہ مروتو یہاں اسلام لانے سے مراد اطاعت ہے.خدا کی اطاعت کا اختیار کرنا اور خدا کے سپر در رہنا تو تقویٰ کا حق ہی ہے.وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ تقویٰ کا حکم ہے لیکن ہمیں علم نہیں کہ تقویٰ کیسے اختیار کیا جاتا ہے.ان کے لئے یہ آیت ان کے اس سوال کا عمدہ جواب پیش کرتی ہے کہ تقویٰ اس طرح اختیار کیا جاتا ہے کہ اپنی زندگی کے ہر لمحہ نگران رہو کہ کسی وقت بھی ایسی باغیانہ حالت نہ ہو کہ اگر تم اس حالت میں مرجاؤ تو تم پر اس آیت کا مضمون صادق نہ آسکے اور یہ جو مضمون ہے کہ اپنی زندگی کی ہر حالت میں نگرانی کرنا.یہ ایک بہت ہی مشکل مضمون ہے کیونکہ بسا اوقات انسان ماحول سے پیدا ہونے والے اثرات کے نتیجے میں جو رد عمل دکھاتا ہے وہ رد عمل تقویٰ سے ہٹا ہوتا ہے اور سپردگی کا رد عمل اسے نہیں کہا جاسکتا.چنانچہ دنیا میں جتنے

Page 113

۲۳ رنومبر ۱۹۹۰ء بھی عوامل انسان کی فطرت پر عمل پیرا ہوتے ہیں ان کا تجزیہ کر کے آپ دیکھ لیجئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر عمل کے نتیجے میں انسان کا رد عمل بالعموم توازن سے ہٹ کر ہوتا ہے اور جہاں بھی انسان توازن کھو بیٹھے وہاں تقویٰ کی راہ گم ہو جاتی ہے اور ایک باغیانہ حالت پیدا ہوتی ہے.چنانچہ اس مضمون کو مزید گہرائی میں جا کر اگر باریکی سے اس کا مطالعہ کریں تو یہ مضمون نہ صرف یہ کہ زندگی کے ہر لمحے پر حاوی ہے بلکہ ہر لمحے پر نگرانی کا طریق بتاتا ہے.مثلاً ایک آدمی عام حالت میں بغیر کسی ہیجان کے بیٹھا ہوا ہے اور اس کو کئی قسم کی خبریں مل سکتی ہیں.کئی قسم کے معاملات اسے پیش آسکتے ہیں.ایک آدمی اس کو بلا وجہ غصہ دلا سکتا ہے، اس کے مزاج کے خلاف بات کر کے اور بلا وجہ چڑا کر یا ایک ایسی خبر دے کر جس سے اس کا نقصان ہوتا ہو اور بدتمیزی کے انداز میں دل دکھانے کی خاطر اس کو اگر کوئی بری خبر دے تو عام ایسی خبر کے نتیجے میں جو اثر ہے اس سے کہیں زیادہ شدت کا عمل پیدا ہوتا ہے اور جو ردعمل ہے اس میں اکثر انسانوں کا اختیار نہیں ہوتا کہ اس رد عمل کو متوازن رکھیں.اگر ایک انسان کسی عمل سے کسی کو تکلیف دیتا ہے اور غصہ دلاتا ہے.مثلاً ایک چیرہ کسی نے ماردی تو فور ارد عمل یہ ہوگا کہ میں اس کو دس چپیڑ میں ماروں.ایک گالی دی تو ایک گالی کے جواب میں ایک گالی دے کر انسان رکتا نہیں بلکہ دس ، پچاس ،سو گالیاں دے کر بھی بعض کا دل ٹھنڈا نہیں ہوتا.کسی کو ایک ٹھونکا لگا دیں تو وہ بعض دفعہ اتنی ذلت محسوس کرتا ہے کہ اس کے نتیجے میں مار مار کر جب تک کچومر نہ نکال دے اس کا دل ٹھنڈا نہیں ہوتا تو یہ جور عمل کی حالت ہے وہ باغیانہ حالت ہے وہ سپردگی کی حالت نہیں.اس حالت میں اگر کوئی جان دے دے تو وہ اسلام کی حالت میں جان دینے والا نہیں ہوگا.اس سلسلے میں ایک لطیفہ حضرت مصلح موعودؓ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک بہت موٹا تازہ پہلوان اکھاڑے سے آرہا تھا، خوب مالش کی ہوئی ، سرمنڈھایا ہوا اور ٹنڈ کہتے ہیں جب بال بالکل نہ ہوں اور چکنی چپڑی کھوپڑی نظر آتی ہو تو اس کی ٹنڈ چمک رہی تھی ، اس کے پیچھے پیچھے ایک کمزور نحیف انسان جو اس کی پھونک کی مار بھی نہیں تھا وہ چلا آرہا تھا.اس کو اس کا چمکتا ہوا صاف شفاف سرد یکھ کر شرارت سوجھی اور اس نے بھرے بازار میں اچھل کر اس کی ٹنڈ پر ایک ٹھونگا لگا دیا.وہ جس کو ہم پنجابی

Page 114

۱۱۲ ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء میں ٹھونگا مارنا کہتے ہیں (ٹھونگا ہی غالباً اسکا اردو میں لفظ ہے ) بہر حال انگلی سے الٹی کر کے اس نے یوں سر پر ایک ٹھونکا لگایا، سارا بازار ہنس پڑا.غصے میں آکر اس کو اتنا مارا کہ نیم بے ہوش کر دیا.جب مار بیٹھا تو اس نے کہا کہ پہلوان جی! آپ جتنا مرضی مارلیں مجھے اس ٹھونکے کا جو مزا آ گیا ہے.وہ آپ کو نہیں آ سکتا.اب یہ ہے تو لطیفہ مگر اس میں فطرت کا ایک گہرا راز بیان ہوا ہے.ایک شخص کو بظاہر ایک ٹھونکا لگتا ہے لیکن وہ ایسی ذلت محسوس کرتا ہے اس کے نتیجے میں اس قدرخفیف ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دنیا کی نظر میں میں بالکل ذلیل اور رسوا ہو گیا ہوں.تو جو دل کا رد عمل ہے اس کے نتیجے میں پھر وہ بیرونی رد عمل دکھاتا ہے جو ہمیشہ حد سے بڑھا ہوا رد عمل ہوتا ہے اور اعتداء میں داخل ہو جاتا ہے سوائے ایسے آدمی کے جو تقویٰ کا حق ادا کرنے والا ہو.ایک خوشخبری آپ سنتے ہیں اس پر بھی جو رد عمل ہوتا ہے وہ بھی ویسی ہی صورت اختیار کرتا ہے.بعض لوگ خوشخبری سن کر اچھلنے لگ جاتے ہیں بیہودہ ، لغوحرکتیں کرنے لگ جاتے ہیں.شیخیاں بگھارنے لگتے ہیں بغلیں بجاتے ہیں.عجیب عجیب پاگلوں والی حرکتیں کرتے ہیں.خوشی کی کوئی خبر سنیں یا خوشی کا کوئی موقعہ دیکھیں کسی پر فتح حاصل کریں یا اچانک کوئی بڑا منافع حاصل ہو، ہر ایسی حالت میں انسان اپنے رد عمل میں حد سے تجاوز کرنے والا ہوتا ہے اور وہ اس کی اسلام کی حالت نہیں رہتی.غم کی خبر دیکھیں تو بالکل نڈھال ہو کر اس غم کے اثر کے نیچے دب جاتے ہیں.خوف کی خبر سنیں تو خوف سے مغلوب ہو جاتے ہیں.قرآن کریم کافروں کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے.لَفَرِح فَخُور (ھود: 1) وہ چھوٹی سی بات پر نہایت خوش ہو جانے والے اور معمولی سے حاصل کے نتیجے میں بے حد فخر کرنے لگتے ہیں.اچھلتے ہیں اور اپنی بڑائی بیان کرتے ہیں تو درحقیقت ہر روز ہر لمحہ جب بھی ہم پر بیرونی عوامل اثر انداز ہوں وہ وقت ہے تقویٰ کا حق ادا کرنے کا اور اس وقت انسان اکثر بے خبری کی حالت میں ہوتا ہے اور کبھی بیدار مغزی کے ساتھ اپنے نفس پر غور نہیں کرتا تا کہ مجھ سے جو سلوک کیا گیا ہے یا جو کچھ مجھے اطلاع ملی ہے یا جو تبدیلی میرے حالات میں پیدا ہوئی ہے اس کے نتیجے میں میں اگر خدا کی نظر میں رہنے والا انسان ہوں یا یہ معلوم ہو کہ کون مجھے دیکھ رہا ہے تو میں کیا

Page 115

۱۱۳ ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء رد عمل دکھاؤں گا ؟ خدا کی نظر میں رہنے والا انسان ہمیشہ معتدل ہوتا ہے.اس کا رد عمل کبھی بھی حد سے تجاوز نہیں کرتا اگر ایک ایسے انسان کی موجودگی میں جس کا آپ پر رعب ہو، جس کی ہیبت آپ کے دل پر طاری ہو کوئی شخص آپ کی بے عزتی کرے تو آپ ہرگز اس طرح اس کو گندی گالیاں نہیں دیں گے جس طرح علیحدگی میں بے عزتی کرنے پر دیں گے.اس وقت آپ کو کوئی نقصان پہنچائے تو بڑا دبا دبا اور گھٹا گھٹا ردعمل دکھائیں گے ورنہ اس کی بھی بے عزتی ہوتی ہے جس کی موجودگی میں آپ حد سے تجاوز کرتے ہیں.ماں باپ کی موجودگی میں بچوں کا رد عمل اور ہوتا ہے.ماں باپ سے علیحدگی میں اور رد عمل ہوتا ہے.ایک صاحب جبروت بادشاہ کے حضور درباریوں کے ساتھ اگر کوئی حرکت ہو تو انکا رد عمل بالکل اور ہو گا اور گلیوں میں ، بازاروں میں چلتے ہوئے انہیں درباریوں سے اگر کوئی بدسلوکی کرے تو ان کا رد عمل بالکل اور ہوگا.تقویٰ کے حق سے کیا مراد ہے؟ پس تقویٰ کا معنی یہ ہے اور تقویٰ کا حق ادا کرنے کا معنی یہ ہے کہ زندگی کی ہر وہ حالت جس میں آپ کے اوپر کسی قسم کے عوامل کارفرما ہوں آپ کی عام حالت میں تبدیلی پیدا کرنے والے کوئی بیرونی محرکات ہوں اس وقت اپنے رد عمل کو اس طرح دیکھو کہ جیسے تمہارے علاوہ خدا بھی اس کو دیکھ رہا ہو اور اگر ان معنوں میں خدا کے سامنے رہو تو یہ تقویٰ کی حالت ہے جس کا دوسرا نام اسلام ہے یعنی علمی دنیا میں ہر وقت خدا کے حضور سر بسجو در ہنا اور اس کی اطاعت کے اندر رہنا اس کی فرمانبرداری اور سپردگی میں رہنا.پس یہ چھوٹی سی آیت دو سوال اٹھاتی ہے اور یہ آیت انہی دونوں سوالات کا جواب خود دیتی ہے لیکن اس کی مزید تفصیل اس کے بعد آنے والی آیت پیش فرماتی ہے اور اسلام کی ایک اور تصویر ایسی کھینچتی ہے جس کی طرف از خود محض اس آیت سے توجہ مبذول نہیں ہوتی وہ مضمون جب تک کھولا نہ جائے انسان پر از خود کھل نہیں سکتا.چنانچہ فرمایا: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا اگر تم تقویٰ کا حق ادا کرنے والے ہوا گر تم اس کے نتیجے میں یہ تسلی پا جاتے ہو کہ تم اس حالت میں جان دو گے جو سپردگی کی حالت

Page 116

۱۱۴ ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء ہے تو پھر جو کسوٹی ہم تمہارے سامنے رکھتے ہیں اس پر اپنے آپ کو پرکھ کر دیکھو اور اسلام کے جو حقیقی اور بنیادی معنی ہیں وہ ہم تم پر کھولتے ہیں اور یہ دیکھو کہ تم ان معنی سے انحراف تو نہیں کر جاتے.فرمایا ! وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا حقیقی اسلام یہ ہے کہ اللہ کی رسی کو پکڑے رکھو اور یہ اطاعت کی حالت ہے مگر جَمِیعًا اجتماعی طور پر انفرادی طور پر نہیں.پس ایک اور مضمون بیان ہوا ہے جو پہلے مضمون کے تسلسل میں ہی اس کا اگلا قدم ہے.بِحَبْلِ اللہ کس کو کہتے ہیں؟ پہلے اس مضمون پر میں کچھ بیان کر دوں پھر اس مضمون پر کچھ مزید روشنی ڈالوں گا.قرآن کریم کی روح سے حبل اللہ کا ترجمہ کرتے ہوئے دو ایسی آیات ذہن میں ابھرتی ہیں جہاں حبل کا لفظ بیان ہوا ہے ایک تو آیت وہ ہے جہاں فرمایا : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا تُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ (آل عمران :۱۱۳) کہ وہ لوگ ہیں جن پر ذلت مسلط کر دی گئی ہے.این مَا ثُقِفُوا جہاں کہیں بھی وہ پائے جائیں گے وہ ذلت اور رسوائی اور محبت کی حالت میں پائے جائیں گے.إِلَّا بِحَبْلِ مِنَ اللہ سوائے اس کے کہ اللہ کی حبل ان کو اس ذلت سے مستثنیٰ کرنے والی ہو اور لوگوں کی حبل ان کو اس ذلت سے مستقلی کرنے والی ہو.وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ ذلت سے ان کی اس حصے میں حفاظت کرنے والی ہو.66 66 یہاں ”حَبْلُ الله “ سے اور حَبْلُ النَّاسِ “ سے بلحاظ معنی ایک ہی مراد ہے کیونکہ دونوں کے ساتھ حبل کا لفظ استعمال ہوا ہے اور تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں حبل سے مراد عہد ہے.یعنی خدا کا عہد جو بندوں کی حفاظت کرتا ہے.اس عہد کے نتیجے میں بعض دفعہ قو میں ذلت سے بچائی جاتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ان سے عہد ہے کہ اس حالت میں میں تمہیں ایک خاص تکلیف سے بچاؤں گا.جو بھی عہد کی نوعیت ہو اس کے نتیجے میں خدا کا عہد ان کو پہنچتا اور وہ ان کی حفاظت کرتا ہے.اسی طرح قوموں کے عہد ہیں.ایک قوم کا دوسری قوم سے معاہدہ ہو جاتا ہے کہ اگر کوئی دشمن ہم پر حملہ کرے تو تم ہمارے دفاع کے لئے چلے آنا تو اس معاہدے کی رو سے پھر بعض دفعہ انسان بعض قسم کے شر سے بچائے جاتے ہیں تو حبل کا بنیادی معنی عہد ہوا.

Page 117

" ۱۱۵ ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء دوسرا حبل کا لفظ ”حَبلُ الْوَرِيد “ کے محاورے کے طور پر ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے.حَبْلُ الْوَرِيد “ شہ رگ کو کہتے ہیں.یہ وہ رسی ہے جو دل اور دماغ کا تعلق سارے بدن سے ملاتی ہے اور اگر یہ رسی کٹ جائے تو دل اور دماغ دونوں کا تعلق بدن سے کٹ جاتا ہے اور اس کا دوسرا نام موت ہے وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیعًا کی آیت میں یہ وہ جگہ یعنی وہ آیت ہے جس کا مضمون میں نے بیان کیا ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں حبل کا لفظ در حقیقت ان دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلقات کو استوار رکھو جو تمہاری زندگی کی ضمانت ہے اگر تمھارے ان تعلقات پر ضرب پڑ گئی یا وہ منقطع ہو گئے تو اسی حد تک تم زندگی سے محروم ہو جاؤ گے.حبل کا دوسرا معنی بھی یہاں صادق آتا ہے اور پہلے معنی کی مزید تشریح کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ در حقیقت قرآن کریم نے تمام مومنوں کو ایک معاہدے کی رو سے اپنے انبیاء اور شریعتوں سے باندھ دیا ہے اور یہ عہد اللہ تعالیٰ کا آغاز انسانیت سے لے کر آج تک ہمیشہ قوموں سے لیا جاتا ہے.پس ہر صاحب شریعت نبی اور اس کی شریعت عملاً حَبلُ الله بن جاتے ہیں کیونکہ خدا کے ساتھ کئے جانے والے عہد کے ذریعے وہ ان دونوں سے باندھے جاتے ہیں.شریعت کی اطاعت اور صاحب شریعت نبی کی اطاعت یہ ضروری ہو جاتی ہے.اب سوال یہ ہے کہ اگر حبل اللہ کا یہی معنی ہے تو ایک دفعہ ایک صاحب شریعت نبی آ گیا اور شریعت پیش کر کے چلا گیا تو کیا ہر انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا اس صاحب شریعت نبی سے ایک تعلق قائم ہو چکا ہے اللہ کی جبل کے ذریعے.میں اپنے عہد بیعت میں جو روحانی معنوں میں میں نے اس سے جوڑا ہے یا باندھا ہے مخلص ہوں اور ثابت قدم ہوں اور اسی طرح شریعت سے میرا مخلصانہ تعلق ہے تو مجھے اب کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے گویا میرا اسلام اسی سے کامل ہو گیا کہ میں نے ایک شارع نبی کو قبول کیا اور اس کی شریعت کے ساتھ اطاعت کا تعلق جوڑ لیا.

Page 118

۱۱۶ ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء یہ ایک سوال جو پیدا ہوتا ہے اس کا جواب یہی آیت یہ دیتی ہے کہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا اسلام سے مراد یہ نہیں ہے کہ تم شریعت سے تعلق جوڑ لو اور صاحب شریعت نبی سے تعلق جوڑ لو بلکہ حبل الله " سے مراد یہ ہے یعنی دوسرے معنوں میں اسلام سے مراد یہ ہے کہ اکٹھے رہ کر تعلق جوڑو جہاں بھی تمہارا تعلق بظاہر قائم رہا اور آپس کا اتحاد ٹوٹ گیا وہاں تم اسلام کی حالت سے باہر نکل جاؤ گے.پس صرف خدا کی رسی کو پکڑنا کافی نہیں خدا کی رسی کو اجتماعی طور پر پکڑ نا ضروری ہے.بیعت خلافت کی ضرورت واہمیت یہ ایک عظیم الشان مضمون ہے جس نے اس بات کی طرف توجہ مبذول کروائی کہ امت کا شیرازہ بکھرنے نہیں دینا ور نہ شریعت اور صاحب شریعت نبی سے تمہارا تعلق کوئی کام نہیں دے گا.اگر تم بظاہر تعلق رکھتے ہوگے لیکن تمہاری حرکتوں کی وجہ سے تمہارے اعمال کی وجہ سے یا تمہارے اقوال کی وجہ سے امت کا شیرازہ بکھرنے لگے گا اور تم ایک دوسرے سے جدا ہونے لگو گے تو پھر حَبْلُ اللہ سے تمہارا تعلق حقیقی معنوں میں شمار نہیں کیا جائے گا اور خدا کے نزدیک تم سزا کے مستحق ٹھہرو گے.پس اسلام کی یہ مزید تشریح ہے جو پہلی آیت سے ذہن میں نہیں ابھرتی تھی از خود ذہن اس طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا لیکن دوسری آیت نے اس کو کھول کر بیان فرما دیا.پس بیعت خلافت کی جو ضرورت پڑتی ہے وہ اس لئے نہیں کہ خلیفہ کوئی صاحب شریعت مامور ہوتا ہے بلکہ خدا کے صاحب شریعت رسول کے گزر جانے کے بعد اس قرآن کے یا اس کتاب کے باقی رہنے کے بعد جو ہر صاحب شریعت نبی کے بعد باقی رکھی جاتی ہے محض ان سے تعلق کافی نہیں ہے ، پھر جمیعت کیسے نصیب ہوگی.جمیعت مرکزیت سے نصیب ہوتی ہے اور نظام خلافت وہ جمیعت عطا کرتا ہے.خدا سے تعلق ٹوٹ جائے تو پھر امتیں بکھر جاتی ہیں.پس جب ایک امت دو فرقوں میں تبدیل ہو جائے یا تین یا چار یا پانچ فرقوں میں بٹ جائے اور ان میں کسی کا بھی خلافت سے تعلق قائم نہ ہو اور خدا کی رسی کو اس طرح نہ چمٹیں کہ گویا سب اکٹھے

Page 119

۱۱۷ ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء ہو گئے اور ایک ہاتھ پر جمع ہو گئے تو در حقیقت قرآن کریم کے بیان کے مطابق ان کا حبل اللہ سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ خلافت کے سوا کوئی دنیا کا نظام جمیعت پیدا نہیں کرتا.فرقے تو آپ کو بہت سے دکھائی دیں گے مگر کسی فرقے میں بھی وہ جمیعت نہیں ہے جو نظام خلافت کے اندر آپ کو دکھائی دیتی ہے.پس خلافت راشدہ کے بعد آپ دیکھیں کہ کس طرح امت بکھر نے لگی اور متفرق ہونے لگی اور وہ جمیعت جو آپ کو خلافت راشدہ کے وقت دکھائی دیتی تھی جب ایک دفعہ ٹوٹی تو پھر ٹوٹ کر بکھرتی چلی گئی اور ٹکڑوں پر ٹکڑے ہوتے چلی گئی.پس یہ بہت ہی اہم مضمون ہے اسلام کا یعنی حقیقی اسلام کا.صاحب شریعت نبی سے تعلق باندھو، اس کی ذات سے بھی تعلق باندھو اور اس کی شریعت سے بھی کیونکہ وہ عہد جو رسول سے ، صاحب شریعت رسول سے باندھا جاتا ہے وہ صرف یہ نہیں ہوتا کہ ہم اس شریعت کی اطاعت کریں گے جو تجھ پر نازل ہوئی بلکہ یہ ہوتا ہے کہ اس شریعت کی بھی اطاعت کریں گے اور تیری بھی اطاعت کریں گے پس صاحب شریعت نبی کے گزرنے کے بعد جمیعت کا تصور ہی نہیں پیدا ہوسکتا اگر خلافت جاری نہ ہو ورنہ یہ ماننا پڑے گا کہ اس کے جانے کے بعد ہر شخص انفرادی طور پر حَبْلُ الله کو پکڑ لے اور یہی اس کے لئے کافی ہے.حالانکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيْعًا مل کرا کھٹے ہو کر تم نے حَبْلُ اللہ کو پکڑنا ہے.پس منطقی طور پر کوئی اور راہ دکھائی نہیں دیتی سوائے اس کے کہ نبوت کے بعد خلافت جاری ہو اور جب خلافت ایک دفعہ بکھر جائے تو پھر دوبارہ نبوت کے ذریعے قائم ہوتی ہے خواہ وہ پہلی شریعت کی نبوت کا اعادہ ہو.نئی شریعت نہ بھی آئے.مگر دوبارہ آسمان سے حَبْلُ الله اترتی ہے اور پھر دوبارہ جمیعت عطا ہوتی ہے اس کے بغیر جمیعت نصیب نہیں ہوسکتی.پھر فرمایا وَ اذْكُرُ وانِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءَ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ دیکھو اس وقت کو یاد کرو.جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے.فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُم یہ اللہ تھا جس نے تمہارے دلوں کو آپس میں محبت کے رشتوں سے مضبوطی سے باندھ دیا.فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةٍ إِخْوَانًا تو یہ کیا

Page 120

۱۱۸ ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء عجیب معجزہ رونما ہوا کہ تم جو ایک دوسرے کے دشمن تھے، ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ اور تم ایک ایسے گڑھے کے کنارے پر کھڑے ہوئے تھے جو آگ سے بھرا ہوا تھا فَانْقَذَكُمْ مِنْهَا پس یہ اللہ تھا جس نے تمہیں اس گڑھے سے بچالیا.اس کنارے کی حالت سے ہٹا کر تمہیں دور لے گیا.گذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیات تم پر کھول کھول کر بیان کرتا ہے.تا کہ تم ہدایت پاؤ.تفرقہ سے جنگ کی آگ بھڑکتی ہے اب اس دوسرے حصے میں یہ مضمون بیان فرمایا کہ تفرقہ لازماً آگ تک پہنچاتا ہے.آگ سے مراد لوگ عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ جہنم کی آگ مراد ہے مگر قرآن کریم کے محاورے سے ثابت ہے کہ آگ سے مراد خوفناک لڑائیاں بھی ہیں اور صرف مرنے کے بعد آگ مراد نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی جو مختلف جگہوں پر ہم ہر وقت قوموں کو آپس میں لڑتا دیکھتے ہیں یا ہر وقت نہیں تو کبھی کبھی لڑتا دیکھتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ تفرقہ ہے اور جب تفرقہ شدت اختیار کر جائے تو ایسی قومیں لازماً پھر لڑائی کی آگ میں جھونکی جاتی ہیں ، حرب کی آگ میں جھونکی جاتی ہیں.یہ ایک مزید کسوٹی اپنی حالت کو پہچاننے کے لئے پیش کر دی.فرمایا کہ اگر تم واقعی مسلمان ہو.اگر تم واقعی اللہ کی اطاعت میں داخل ہو اور حبل اللہ کو تھامے ہوئے ہو تو یہ ناممکن ہے کہ تم آپس میں لڑ پڑو.یہ ناممکن ہے کہ تم آگ کی بھٹی میں جھونکے جاؤ یعنی لڑائی کی بھٹی میں جھونکے جاؤ.اللہ نے تمہیں اس آگ سے دور کر دیا یعنی حبل الله کے نتیجے میں تم اس کنارے سے دور لے جائے گئے اور جب تک تم اس کنارے پر کھڑے تھے تیز ہوا کا کوئی جھونکا بھی تمہیں اس میں دھکیل سکتا تھا، کوئی شدید دشمن تمہیں دھکا دے کر اس میں دھکیل سکتا تھا، کوئی شدید دشمن تمہیں دھکا دے کر اس میں گرا سکتا تھا لیکن جو کناروں سے دور ہٹ جائیں گے ان کو ایک جھونکا یا ایک، دو چار دھکے تو اس آگ کے گڑھے میں نہیں گرا

Page 121

۱۱۹ ۲۳ رنومبر ۱۹۹۰ء سکتے اور پھر حَبلُ اللہ کو جس نے مضبوطی سے تھاما ہوا ہو وہ تو اتنی دور آگ کے کناروں سے نکل جاتا ہے کہ کوئی دنیا کی طاقت اس کو آگ میں نہیں دھکیل سکتی.اس مضمون کو سمجھنے کے بعد آپ اس زمانے میں آج بدنصیبی سے مسلمانوں کی جو حالت ہے اس کی طرف واپس آئیں.ایران اور عراق میں جو جنگ ہوئی ہے ۸ سال تک مسلمان ایک دوسرے کا خون بہاتے رہے.کیا اس آیت کریمہ کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگ آگ کے کنارے پر نہیں کھڑے تھے ؟ کیا اس آیت کریمہ کی روشنی میں کوئی انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے مضبوطی سے خدا تعالیٰ کی رسی کو تھاما ہوا تھا ؟ اور جَمِیعًا وہ سب اجتماعی طور پر اس رسی سے چمٹے ہوئے تھے.پس یہ آیت محض ایک نظریاتی فلسفہ پیش نہیں کر رہی بلکہ دنیا کی گہری حقیقتوں سے ہمیں آشنا کر رہی ہے یہ ایسی ٹھوس حقیقتیں ہیں جن سے انسان نظر بچا کر نکل نہیں سکتا ایسی حقیقتیں ہیں جو قوموں کو گھیر لیتی ہیں اور خواہ آپ ان کو نظر انداز کریں ان کے نتائج سے آپ بچ نہیں سکتے.قرآنی حکم کی خلاف ورزی کا انجام پس قرآن کریم کا یہ ارشاد کہ تقویٰ اختیار کرو اور تقویٰ کا حق اختیار کرو یعنی تقوی اختیار کرو اور تقویٰ کا حق ادا کرو اور ہر گز نہ مروجب تک مسلمان نہ ہو، مسلمانوں پر لازم کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اکٹھے ہو کر ایک جان ہو کر خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور اس سے اس طرح چھٹے رہیں کہ ایک لمحہ کے لئے بھی ان کا ہاتھ خدا کی رسی سے جدا نہ ہو اور ایک دوسرے سے بھی جدا نہ ہو یعنی ایک طرف خدا کی رسی کو تھاما ہوا ہو اور دوسری طرف وہ سب اکٹھے ہوں اور مل کر ایک ہی رسی کو پکڑا ہو.یہ امت مسلمہ کی وحدانیت کا وہ منظر ہے جو قرآن کریم کی ان آیات نے تفصیل سے کھول کر ہمارے سامنے پیش کیا ہے.بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمان جو قرآن کریم کو پڑھتے بھی ہیں تو مضامین پر گہر اغور نہیں کرتے.اکثر تو ایسے ہیں جو نہ تو پڑھنے کے اہل رہے نہ غور کرنے کے مگر ان کے راہنما قرآن کریم کی آیات پڑھ کر ان کو اکٹھا کرنے کی بجائے ان کو ایک دوسرے سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی ظلم کی حد ہے کہ قرآن کریم تو اللہ کی رسی کی یہ تعریف فرما رہا

Page 122

۱۲۰ ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء ہے کہ اس کو پکڑو اور اجتماعی طور پر پکڑو اور تم یقیناً آگ کے عذاب سے بچائے جاؤ گے.اگر تم لڑائی کے لئے تیار بھی بیٹھے ہو گے.ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے کے لئے مستعد ہو گے تو اللہ تعالیٰ اس رسی کی برکت سے تمہیں ایک دوسرے سے دور ہٹادے گا یعنی دشمنی کی حالت سے دور ہٹا دے گا اور پھر محبت کی حالت میں قریب کرے گا اور اتنا قریب کر دے گا کہ تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن جاؤ گے.کتنا حسین منظر ہے جو تقویٰ کے نتیجے میں پیدا کر کے دکھایا گیا ہے اور اس کے برعکس آج مسلمان علماء قرآن کے حوالے دے دے کر منہ سے جھا گئیں اڑاتے ہوئے ایک دوسرے سے نفرت کی تعلیم دیتے ہیں.پہلے ۸ سال تک دنیا نے یہ تماشا دیکھا کہ ایران قرآن کے حوالے سے عراقیوں کے قتل کی تعلیم دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ یہ کا فر ہیں ان کو ماروان کو قتل کرو اور تم غازی بنو گے اور اگر تم ان کے ہاتھ سے مارے گئے تو تم شہید ہو گے اور عراقی علماء اسی زور اور شدت کے ساتھ اہل عراق کو یہ خوشخبری سنا رہے تھے کہ اگر تم ایرانی کافروں کے ہاتھوں مارے جاؤ گے تو یقیناً جنت میں جاؤ گے.خدا کے نزدیک تمہارا مرتبہ شہداء کا مرتبہ ہو گا اور اگر ان بد بختوں کو مارو گے تو ایک کا فر کو واصل جہنم کر رہے ہو گے.یعنی ان کی تقریریں اور خطبات ایسے نہیں تھے کہ جو وقتی طور پر پیغام کی صورت میں لوگوں تک پہنچائے جا رہے ہوں.کھلم کھلا دنیا کے اخبارات میں یہ خبریں چھپتی تھیں.روز مرہ یہ اعلانات ہوتے تھے.ان کے ریڈیو، ان کے ٹیلیویژن ،ان کے اخبارات ان پرو پیگنڈوں میں ہمیشہ منہمک رہے یعنی ۸ سال تک.اب آپ اندازہ کریں کہ یہ حبل اللہ ہے جس کی قرآن کریم تعلیم دیتا ہے.اب وہی عراق ہے جس کے ساتھ سارا عرب تھا اور یہ جو اسلام اور غیر اسلام کی جنگ جاری تھی اب اس نے مختلف روپ دھارے ہیں.کبھی تو یہ سنی اسلام کی شیعہ اسلام سے جنگ قرار دی گئی.کبھی بد کرداروں اور غاصبوں کی ( جو حقیقت میں اسلام سے مرتد ہو چکے تھے ) ایمان والوں اور تقویٰ شعار لوگوں سے جنگ قرار دی گئی ، کبھی اہل عرب کی عجمیوں سے جنگ بن گئی اور جو بھی عرب ممالک عراق کے ساتھ اکٹھے ہوئے در حقیقت محض اسلام کے نام پر نہیں اکٹھے ہوئے تھے کیونکہ ان کے دوسری جگہ شیعوں سے اسی طرح تعلقات تھے بلکہ بہت سے شیعہ اکثریت کے ممالک بھی عراق کے ساتھ اکٹھے ہو گئے

Page 123

۱۲۱ ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء اس لئے کہ عرب تھے اس لئے وہ جنگ عرب اور عجم کی جنگ بن گئی.اس طرح انہوں نے عراق کی حمایت کی لیکن نام اسلام کا استعمال کیا کہ ظلم ہو رہا ہے.ایک ایسا ملک جو حقیقت میں اسلام سے دور جا پڑا ہے وہ مسلمانوں اور عربوں پر حملہ کر رہا ہے یعنی دہرا گناہ کر رہا ہے اور اب آپ دیکھ لیں کہ عالم اسلام ( یعنی سنی عالم اسلام کہہ لیں یا عرب عالم اسلام ) عین بیچ سے دو نیم ہو چکا ہے اور بہت سے عرب مسلمان ممالک مل کر ایک بہت بڑے مسلمان ملک عراق کے مقابل پر اکٹھے ہو گئے ہیں اور جنگ کی آگ بھڑ کنے کو تیار بیٹھی ہے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس وقت تم آگ کے کنارے پر کھڑے تھے، اللہ تھا جس نے اس سے تمہیں بچالیا.پس ابھی اس آگ کے گڑھے میں یہ پڑے نہیں ہیں لیکن اگر قرآن کریم پر ان کا ایمان ہے اور اس آیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کے حوالے سے میں ان سب سے عاجزانہ التجا کرتا ہوں اور بڑی شدت سے التجا کرتا ہوں کہ خدا کے واسطے اس آیت کے درس آج کل اپنی مساجد میں ، اپنے ریڈیو پر، اپنے ٹیلیویژنز پر ، اپنے اخبارات میں دیں اور اپنے ملکوں کے باشندوں کو بتائیں کہ قرآن کریم تم سے کیا توقع کرتا ہے اور اگر تم لڑپڑے تو پھر ہرگز تمہاری موت اسلام کی موت نہیں ہوگی.قرآن سچا ہے تمہارے دعوے جھوٹے ہو سکتے ہیں.ی ناممکن ہے کہ قرآن جھوٹا نکلے اور تمہارے دعوے سچے ہوں قرآن کریم فرماتا ہے: لَا تَفَرَّقُوا ہر گز تفرقہ نہ اختیار کرنا.خدا کی رسی کو اکٹھے مضبوطی سے تھامے رکھو اور یہی چیز ہے جو تمہیں جنگوں کی ہلاکتوں اور جنگوں کے عذاب سے بچا سکتی ہے.پس تمام دنیا میں احمدیوں کو مسلمانوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانی چاہئے کہ تمہیں ہلاکت سے بچانے کا نسخہ قرآن کریم کی ان آیات میں ہے جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے ان پر غور کرو، خدا کا خوف کرو اور مسلمان، مسلمان کی گردن کاٹنے سے اپنے ہاتھ کھینچ لے کیونکہ نہ مقتول کی موت اسلام کی ہوگی اور نہ قاتل خدا کے نزدیک غازی ٹھہرے گا بلکہ ایک مسلمان کو قتل کرنے والا قرار دیا جائے گا اور اگر اس قتل میں غیر قوموں کو بھی وہ اپنا شریک کرلیں ، غیر مسلموں کو بھی آواز دے کر بلائیں کہ آؤ اور ہمارے بھائیوں کی گردن اڑانے میں ہماری مدد کرو تو پھر یہ اور بھی زیادہ

Page 124

۱۲۲ ۲۳ نومبر ۱۹۹۰ء بھیانک شکل بن جاتی ہے پس دعاؤں کا تو وقت ہے کیونکہ دعاؤں کے بغیر دلوں کے قفل کھل نہیں سکتے.محض نصیحت کی کنجی سے دل نہیں کھلا کرتے جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے توفیق نصیب نہ ہو.پس دعا ئیں بھی کریں اور کوشش بھی کریں اور مسلمانوں کی توجہ بار باران آیات کریمہ کی طرف مبذول کرائیں اور ان کو بتائیں کہ اسی میں تمہاری زندگی ہے اور اس سے روگردانی میں تمہاری موت ہے لیکن ایسی درد ناک موت ہے جس کے متعلق قرآن کریم کی یہ آیت گواہی دے گی کہ جب تم مرے تھے تو تقویٰ کا حق ادا کرنے والے نہیں تھے.جب تم مرے تھے تو اسلام کی حالت میں نہیں تھے.پس تمہاری زندگی مسلمان کہلا کر اسلام کے اوپر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے اب بظاہر اسلام کے نام پر جان دینے کے باوجود اگر یہ بد نصیب انجام تمہارا ہوا کہ خدا کا کلام تم پر گواہ بن کر کھڑا ہو جائے کہ اے ایمان کی باتیں کرنے والو، اے تقویٰ کی باتیں کرنے والو، اے اسلام کی باتیں کرنے والو، خدا کا کلام گواہ ہے کہ تم نے نہ ایمان کا مزا چکھا ہے ، نہ تقویٰ کا معنی جانتے ہو ، نہ تم اسلام کی بات کرنے کا حق رکھتے ہو.پس بہت ہی خطرناک وقت ہے جو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے کھڑا دیکھ رہے ہیں.پس تمام دنیا میں ایک ہی جماعت ہے جو خدا تعالیٰ کی خلافت کی رسی سے وابستہ ہے.اس حَبْلُ الله سے وابستہ ہے جس نے محمد رسول علی ﷺ اور آپ کی شریعت سے عہد وفاباندھ کر ا کٹھے ہو کر ایک ہی ہاتھ پر جمع ہو کر اس آیت کے مضمون کا حق ادا کر دیا ہے اور حَبْلُ اللہ کو جَمِيعًا اجتماعی طور پر چمٹ گئے ہیں.پس نہ صرف یہ کہ آپ چمٹے رہیں بلکہ دوسروں کو بھی نجات کی دعوت دیں اور اس رسی کی طرف بلائیں جو زندگی کی واحد ضمانت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ سننے والوں کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ اس مضمون کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں اور یہاں سے اپنے زندگی کا آب حیات حاصل کریں کیونکہ اس کے سوازندگی کا کوئی اور ذریعہ باقی نہیں رہا.آمین.

Page 125

۱۲۳ بسم اللہ الرحمن الرحیم مغربی طاقتوں کا متضادطرز عمل ( خطبه جمعه فرموده ۱۱ جنوری ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ایک ضروری وضاحت ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء جب خیبر کا قلعہ فتح ہوا تو اُس کے بعد حضرت اقدس محمد رسول اللہ علی اللہ کا نکاح حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہوا.چنانچہ اس نکاح کے بعد اس سفر سے واپسی پر حضرت اقدس محمد رسول اللہ علی اللہ جس اونٹنی پر سوار تھے اسی سواری کے پیچھے حضرت صفیہ کو بھی پیچھے بٹھا لیا.جو باتیں اس عرصے میں ہوئیں اُن میں سے ایک خاص موضوع پر جو گفتگو آپ نے فرمائی وہ احادیث میں محفوظ ہے.آپ نے فرمایا کہ صفیہ ! میں تم سے بہت معذرت خواہ ہوں اور دل کی گہرائی سے معذرت کرتا ہوں اس بات پر جو میں نے تمہاری قوم کے ساتھ کی یعنی یہودیوں کا قلعہ خیبر جو فتح کیا اور اس دوران جو یہود کے ساتھ سختی کی گئی اُس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صفیہ سے آنحضرت ﷺ نے معذرت فرمائی لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ میں تمہیں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس واقعہ سے پہلے تمہاری قوم نے مجھ سے کیا سلوک کیا تا کہ تمہیں یہ غلط فہمی نہ رہے کہ گویا میں نے کسی تعصب کے نتیجے میں نا واجب ظلم کے طور پر قلعہ خیبر پر حملہ کیا اور اس کو تاخت و تاراج کیا.چنانچہ آنحضور ﷺ نے آغاز سے لے کر اس وقت تک کے یہود قبائل کے ان مظالم کا اور ظلم وستم کا ذکر کرنا شروع فرمایا جو شروع سے ہی وہ کرتے چلے آئے تھے اور پھر اپنی ذات سے متعلق خصوصیت سے حضرت صفیہ کو بتایا کہ کس طرح میرے اوپر یہ لوگ ذاتی حملے کرتے رہے اور میری

Page 126

۱۲۴ ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء کردار کشی کرتے رہے اور گالیاں دیتے رہے اور اس ساری گفتگو کا مقصد یہ تھا کہ نکاح کے بعد جو خاتون گھر میں تشریف لا رہی ہیں اُن کے دل پر کسی قسم کی غلط فہمی کا داغ نہ رہے اور آنحضرت ﷺ کی اس شخصیت کے متعلق کسی قسم کی کوئی بھی غلط نہی باقی نہ رہے.ان دنوں چونکہ عراق کا معاملہ زیر بحث ہے ، عراق اور کویت کا جو جھگڑا چلا ہے اس ضمن میں میں نے کئی خطبات اس موضوع پر دیئے کہ مغربی قو میں ان مسلمان ممالک سے کیا کر رہی ہیں.اس دوران مجھے بھی بارہا یہ خیال آیا کہ وہ احمدی مسلمان جو مغربی قوموں سے تعلق رکھتے ہیں اُن کے دل میں کہیں یہ وہم پیدا نہ ہو کہ ہم نسلی اختلافات کی وجہ سے اس طرح مغرب کو تنقید کا نشا نہ بنا رہے ہیں اور احمدیوں کے اندر بھی گویا دبا ہوانسلی تعصب موجود ہے.پس سب سے پہلے تو میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس محمد ﷺ کے پیغامات میں سے ایک اہم پیغام یہ تھا جسے آپ نے اپنی زبان سے بھی دیا اور اپنے فعل سے بھی اس کی سچائی ثابت فرمائی کہ مذہب کا نسلی اختلافات سے کوئی تعلق نہیں اور مذہب اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا کہ تعصب کے نتیجے میں رکسی سے اختلاف کیا جائے یا کسی سے کسی قسم کا جھگڑا کیا جائے.جماعت احمد یہ بھی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سنت کے معدوم حصوں کو زندہ کرنے والی جماعت ہے.ایسی سنت کو اپنے کردار میں ازسرنو زندہ کرنے کا عزم لے کر اٹھی ہے جس سنت کے حسین پہلوؤں کو بالعموم مسلمانوں نے بھلا رکھا ہے.پس اس پہلو سے دُنیا کے کسی انسان کے ذہن میں یہ وہم نہ رہے کہ جماعت احمد یہ بھی نَعُوذبالله من ذلك مشرق اور مغرب کی تقسیموں میں اور اختلافات میں یا سفید اور سیاہ کے اختلافات میں کسی قسم کا نسلی تعصب رکھتی ہے.کیونکہ نسلی تعصب اور اسلام بیک وقت ساتھ نہیں رہ سکتے پس جو بھی تنقید میری طرف سے کی جاتی رہی ہے اور کی جائے گی وہ اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اصولوں کے پیش نظر ہے اور اس پہلو سے جو بھی تنقید کا سزاوار ٹھہرے گا.اس پر تنقید کی جائے گی مگر تکلیف دینے کی خاطر نہیں بلکہ حقائق سامنے رکھنے کے لئے اور معاملات سمجھانے کی خاطر.اس تمہید کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب بھی میں تبصرہ کرتا ہوں اپنے دل کو خوب اچھی طرح ٹول

Page 127

۱۲۵ ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء لیتا ہوں اور کبھی بھی کسی قسم کے تعصب کی بناء پر کوئی تنقید نہیں کرتا بلکہ خدا کے حضور اپنے دل کو پاک صاف کر کے حقائق اور سچائی بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں.یہ سچائی بعض صورتوں میں بعض لوگوں کو کڑوی لگتی ہے ، بعض صورتوں میں بعض دوسرے لوگوں کو کڑوی لگتی ہے.مگر اس میں ہماری بے اختیاری ہے.ہم محض تعصبات کی وجہ سے کسی ایک کا ہمیشہ ساتھ نہیں دے سکتے.ہمیشہ سچ کا ساتھ دیں گے، ہمیشہ کلام اللہ کا ساتھ دیں گے، ہمیشہ سنت نبوی کا ساتھ دیں گے اور جس نے ہمارا ہمیشہ کا دوست بننا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کلام اللہ کا دوست بن جائے ، وہ سنت نبوی محمد ﷺ کا دوست بن جائے اور حق کا دوست بن جائے.سچائی کا دوست ہو جائے.ایسی صورت میں وہ ہمیں ہمیشہ اپنے ساتھ پائے گا.موجودہ عالمی صورت حال پس اس مختصر وضاحت کے بعد اب میں دوبارہ اسی مسئلے کو آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس پر دو خطبات چھوڑ کر اس سے پہلے کئی خطبات میں میں نے گفتگو کی.یعنی عراق کو یت کے جھگڑے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عالمی صورت حال.اب صرف چند دن ایسے رہ گئے ہیں جن میں امن کی کوششیں بہت تیز کر دی گئی ہیں اور بالآ خر رخ اسی مشورے کی طرف ہے جو مشورہ میں نے آغاز میں قرآنی تعلیم کی صورت میں پیش کیا تھا.میں نے قوموں کو متوجہ کیا تھا کہ اس کو اسلامی معاملہ رہنے دیں اور عالم اسلام آپس میں نپٹائے.عالم عرب بھی نپٹانے کی کوشش کرے مگر فی الحقیقت یہ درست نہیں ہوگا کہ عرب اسے صرف اپنا عرب مسئلہ بنالیں لیکن افسوس ہے کہ اس معاملہ میں جو کوششیں شروع کی گئی ہیں وہ بہت ہی تاخیر سے شروع کی گئی ہیں.اب عالمی مسئلے سے عرب مسئلے کی طرف تو توجہ بڑی بڑی قوموں کی مبذول ہو چکی ہے.لیکن مسلمان مسئلے کے متعلق ابھی چند دن پہلے پاکستان میں بعض وزارئے خارجہ کی ایک کانفرنس ہوئی.اس میں اس مسئلے کو چھیڑا گیا اور پاکستان کی طرف سے ایک کوشش کی گئی کہ تمام دنیا کے مسلمان ممالک مل کر اس مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کریں لیکن اتنی تاخیر کے ساتھ اُٹھایا گیا قدم ہے کہ بظاہر اس کے نتیجے میں کچھ ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا.

Page 128

۱۲۶ ۱۱ جنوری ۱۹۹۱ء موجود صورت یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ ان قوموں کی فہرست میں اولیت رکھتے ہیں جو شدت کے ساتھ عراق کو کچل دینے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں اور ان ہی کی راہنمائی میں ، ان ہی کی سیادت اور قیادت میں جنگ کا طبلہ بجایا جارہا ہے اور بار بار اس بات کو دُہرایا جار ہا ہے کہ عراق کو نیست و نابود کر دینا ضروری ہے تاکہ دُنیا باقی رہے.یعنی عراق اگر اپنی اس طاقت کے ساتھ باقی رہ گیا اور اسے اور موقعہ مل گیا تو دنیا کا امن مفقود ہو جائے گا بلکہ دنیا کے وجود کوشدید خطرہ لاحق ہوگا یہ ایک مؤقف ہے جسے بلند آواز سے دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے اور بار بار جب انٹرویوز ہوتے ہیں یا اخبارات میں ان لوگوں کے سوال و جواب چھپتے ہیں تو ان میں ایک بات کو پیش کیا جارہا ہے کہ دیکھو عراق نے کویت پر کتنے مظالم کئے ہیں اور اتنے خوفناک مظالم کے بعد جو عالمی رائے عامہ ہے کس طرح اس کو نظر انداز کر سکتی ہے.ایسے ظالموں کو جنہوں نے قتل و غارت کیا، جنہوں نے لوٹ مار کی ، گھروں کو جلایا ، ان کو خود زندہ رہنے کا کیا حق رہ جاتا ہے.اگر آج اس ظلم کے خلاف بیک وقت تمام قوموں نے مل کر پیش قدمی نہ کی اور ظالم کو سزا نہ دی تو پھر ظلموں کی راہیں کھل جائیں گی اور کوئی بھی کسی کو ظلم کی راہ پر چلنے سے روک نہیں سکے گا.یہ موقف ہے اس کا خلاصہ یہ ہے اور عراق کا موقف اس کے برعکس یہ ہے کہ تم بڑے بڑے اصولوں کی اور اعلیٰ اخلاق کی باتیں کر رہے ہو لیکن بھول جاتے ہو کہ مشرق وسطی میں عرب علاقوں میں جو کچھ بھی بے اطمینانی ہے اور بے چینی ہے جس کے نتیجے میں بار بار امن کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اس کے اصل ذمہ دار تم ہو اور جب بھی ایسے مواقع آئے جب اُن مسائل کو جو مشرق وسطی سے تعلق رکھتے ہیں حل کیا جا سکتا تھا تو تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے روکیں پیدا کیں اور ایسی ہی بات جو ہم نے کی ہے یعنی جسے تم ناجائز قبضہ کہتے ہو ، عراق ناجائز تو نہیں کہتا مگر کہتا ہے کہ جس طرح ہم نے کویت پر قبضہ کیا ہے اس طرح اسی قریب کے زمانے میں اسرائیل نے اُردن کے مغربی کنارے پر قبضہ کر رکھا ہے اور تم United Nations کی باتیں کرتے ہو حالانکہ United Nations نے بار ہاResolutions کے ذریعے اسرائیل کو قبضہ چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوشیش کیں اور ہر بار خصوصیت کے ساتھ امریکہ نے ان کوششوں کی راہ میں روڑے اٹکائے

Page 129

۱۲۷ ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء اور بلکہ اگر Resolutions کو Vito کرنا پڑا تو ویٹو کر دیا.تو عراق ،امریکہ اور برطانیہ کو مخاطب کر کے یہ کہتا ہے کہ تم اخلاق اور پھر اعلی اصولوں کی باتیں ترک کر دو.اگر واقعی تمہارے نزدیک ان اصولوں کی کوئی قدر و قیمت ہے تو پھر مجموعی طور پر ان تمام مسائل کو ایک ہی پیمانے سے ناپنے کی کوشش کرو اور ایک ہی طریق پر حل کرنے کی کوشش کرو، جو مسائل عراق کویت مسئلے سے ملتے جلتے پہلے سے موجود ہیں اگر تم ایسا کرو تو ہم اس بات پر رضامند ہوتے ہیں کہ ہم بھی انہی اصولوں کے مطابق جو بھی انصاف کے فیصلے ہیں ان کے سامنے سرتسلیم خم کریں گے.مغربی قوموں کے خلاف تاریخ کی گواہی ایک پہلو تو ان کے مؤقف کا یہ ہے.دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر کسی ملک کو کسی ملک پر قبضہ کرنے کی اجازت دے دی جائے محض اس لئے کہ وہ طاقتور ہے تو پھر دنیا سے امن ہمیشہ کے لئے اُٹھ جائے گا یعنی ظلم والے حصے کے علاوہ اس کو الگ پیش کیا جاتا ہے اور قبضے والے حصے کو الگ پیش کیا جاتا ہے گویا وہ دو دلائل ہیں.اب تعجب کی بات یہ ہے کہ جو قو میں یہ باتیں کرتی ہیں اُن کی اپنی تاریخ اُن کے خلاف ایسی سخت گواہی دیتی ہے کہ کبھی دنیا کی کسی قوم کے خلاف اس قوم کی تاریخ نے ایسی گواہی نہیں دی.امریکہ کی جو موجودہ حکومت ہے اس کا یورپ سے تعلق ہے اور زمانے کا جو نیا دور شروع ہو چکا ہے اسی زمانے میں یہ لوگ یورپ سے امریکہ گئے.ستر ہویں صدی کے آغاز کی بات ہے کہ پہلی دفعہ امریکہ دریافت ہوا اور اس کے بعد انہوں نے سارے امریکہ پر، شمالی امریکہ پر بھی اور جنوبی امریکہ پر بھی قبضہ کر لیا اور جو مظالم اُنہوں نے وہاں تو ڑے ہیں اور جس طرح نسل کشی کی ہے اُس کی پوری کی پوری تاریخ انسانی میں کوئی مثال شاذ ہی ملتی ہوگی.اُن قوموں کو جواس وسیع براعظم کی باشندہ تھیں وہ ایک قوم تو نہیں تھی مگر Red Indians کے نام پر وہ ساری مختلف قو میں مشہور ہیں ان کا تو با قاعدہ ایک منصوبہ بندی کے ذریعے قلع قمع کیا گیا یہاں تک کہ وہ گھٹتے گھٹتے اب آثار باقیہ کے طور پر رہ گئی ہیں.یہی وہ قومیں ہیں جو جانوروں کے ساتھ ایسی محبت رکھتی ہیں کہ بار بار آپ ان کے پریس

Page 130

۱۲۸ ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء میں یا ان کے ٹیلی ویژن وغیرہ پر ایسے مضامین اور پروگرام دیکھ سکتے ہیں کہ جس میں یہ بتاتے ہیں کہ فلاں نسل کے غائب ہونے کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے اس کو بچاؤ.لیکن وسیع براعظم پر پھیلی ہوئی مختلف ریڈ انڈین قوموں کو خود انہوں نے اس طرح ہلاک کیا ہے اور اس طرح ملیا میٹ کیا ہے کہ ان میں بہت سی ایسی ہیں جن کا نام ونشان مٹ چکا ہے اور بہت تھوڑی تعداد میں وہ قومیں باقی رہ گئی ہیں جن کا ذکر ان کی تاریخ میں اور ان کے لٹریچر میں ملتا ہے.اب وہ صرف ان کی فلموں میں دکھائی دیں گی یا اُن کے لٹریچر میں ورنہ اکثر وہ قبائل صفحہ ہستی سے بالکل نابود ہو چکے ہیں اور جس رنگ میں مظالم کئے گئے ہیں وہ تو ایک بڑی بھاری داستان ہے.پھر افریقہ پر قبضہ کر کے یا افریقہ پر حملے کر کے یورپین قوموں نے جس طرح مظالم کئے ہیں جس طرح ان کو غلام بنا کر لکھوکھا کی تعداد میں بیچا گیا اور ان سے زبر دستی مزدوریاں لی گئیں اور امریکہ میں سب سے زیادہ ان قیدیوں کی مانگ تھی جن کو غلام بنا کر پھر امریکہ میں فروخت کیا گیا اور آج امریکہ کی آبادی بتارہی ہے کہ وہاں کثرت کے ساتھ یہ سیاہ فام امریکن اسی تاریخ کی یاد زندہ کر نیوالے ہیں جب انسانوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کیا گیا کہ اس کے تصور سے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.جن قلعوں میں انکو پہلے قید رکھا جاتا تھا ان میں سے ایک قلعہ میں نے بھی دیکھا ہے اور اتنی تھوڑی جگہ میں اتنے زیادہ آدمیوں کو بھر دیا جاتا تھا کہ Black Hole کے متعلق جو ہم نے ہندوستان کی تاریخ میں پڑھا ہوا ہے ویسے Black Hole بار بار بنائے گئے اور بہت سے آدمی اُن میں سے دم گھٹ کر مر جایا کرتے تھے اور باقیوں کو پھر گائے اور بھینسوں کی طرح ہانک کر جہازوں پر سوار کر دیا جاتا تھا.جہازوں کی جو حالت ہوتی تھی وہ ایسی خوفناک تھی کہ ان کے اپنے مؤرخین لکھتے ہیں کہ جہاز پر ایک بڑی تعداد میں وہ سفر کی صعوبتیں برداشت نہ کر سکنے کے نتیجے میں مر جایا کرتے تھے.اور بہت ہی برے حال میں وہاں پہنچا کرتے تھے.پھر وہاں ان کو اس طرح ہانکا جاتا تھا جس طرح گائے بیل کو ہانکا جاتا ہے.سانٹے مارکر ان سے با قاعدہ مزدوریاں لی جاتی تھیں یا ان کی سواریاں چلاتے تھے، ان کے ہل چلاتے تھے.ہر قسم کے کام جو بالعموم انسان جانوروں سے لیتا ہے وہ ان سے بھی لیتا تھا.تو جس قوم کی یہ تاریخ ہو آج وہ یہ اعلان

Page 131

۱۲۹ ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء کر رہی ہو کہ انسانیت اور اعلیٰ اخلاق کے نام پر ہم مجبور ہو گئے ہیں کہ کویت کی سرزمین کو بحال کرنے کے لئے ان کمزوروں کی مدد کریں.ظلم و ستم ہو رہا ہے.اس کے خلاف ہم علم بلند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کیونکہ ہماری اعلیٰ اخلاقی قدریں ہم سے یہ تقاضا کر رہی ہیں، اگر ہم نے یہ نہ کیا تو دنیا سے انسانیت مٹ جائے گی.اگر ہم نے ایسانہ کیا تو دنیا سے ہر غریب اور کمزور ملک کا امن وامان اٹھ جائے گا.اس کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں رہے گی.اگر یہ واقعہ درست ہے اور اگر چہ بہت دیر میں خیال آیا ہے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بہت اچھا اب اس نیک خیال کے نتیجے میں امریکہ خالی کر دو اور جو بیچارے چند بچے کھچے Red Indians رہ گئے ہیں ان کے سپردان کی دولت کر کے واپس اپنے اپنے پرانے آبائی ملک کی طرف لوٹ جاؤ ؟ لیکن جب آپ یہ کہیں گے تو کہیں گے تم پاگل ہو گئے ہو؟ تم کیسی باتیں کرتے ہو؟ ان دونوں کے درمیان کوئی Link نہیں ہے.وہ اور بات تھی یہ اور بات ہے.اب اگر دو ایک جیسی باتوں کو اور بات اور ” اور بات کہ کر رد کر دیا جائے تو اس کا کیا جواب ہے.برطانیہ جو امریکہ کے ساتھ عراق کی مخالفت میں سب سے زیادہ جوش دکھا رہا ہے اور بار بار وہی دلائل دے رہا ہے ان کا اپنا حال یہ ہے کہ جب انہوں نے آسٹر یلیا پر قبضہ کیا تو وہ بھی ایک براعظم تھا اور اس معاملے میں امریکہ کے ساتھ بہت گہری مشابہت ہے.آسٹریلیا میں جو مظالم انگریز قابضوں نے تو ڑے ہیں وہ اتنے زیادہ خوفناک ہیں کہ امریکہ کے مظالم بھی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے ایک نمایاں فرق آسٹریلین Aborigines یعنی پرانے باشندوں اور امریکن باشندوں میں یہ تھا کہ امریکن باشندے لڑا کا قو میں تھیں.جنگجو قو میں تھیں اور بڑی بہادری کے ساتھ لڑ کر اپنے اپنے علاقوں کا دفاع کرنا جانتی تھیں اور بڑی عظیم الشان قربانیاں اس راہ میں دیتی تھیں لیکن آسٹریلیا کے Aborigines با لکل امن پسند لوگ تھے اور ان بے چاروں کو لڑنا آتا ہی نہیں تھا.ان کو انہوں نے جنگلوں میں اس طرح شکار کیا ہے جس طرح ہرن کا شکار کیا جاتا ہے اور شکار کرنے کے بعد جو بچ جاتے تھے ان کو پکڑ کر با قاعدہ آپریشنز کے ذریعے اس حال تک پہنچا دیتے تھے کہ آئندہ ان سے نسل پیدا ہی نہ ہو سکتی ہو اور بہت ہی وسیع پیمانے پر اور بڑے بھیا نک طریق پر نسل کشی کی گئی ہے

Page 132

۱۳۰ ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء یہاں تک کہ ان قوموں میں سے جن میں ایک وقت میں 1600 الگ الگ زبانیں بولی جاتی تھیں، اب صرف چند زبانیں ہیں جن کا ریکارڈ رہ گیا ہے اور ان قبائل کے بچے کھچے حصوں کے چند ایسے علاقے رہ گئے ہیں جہاں جس طرح چڑیا گھر میں جانور رکھے جاتے ہیں اس طرح ان کی حفاظت کی جارہی ہے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے کہ یہ وہ لوگ تھے جن سے ہم نے یہ ملک لیا ہے.ان کا انتظام کیا جا رہا ہے کہ کم سے کم ان کی نسلیں باقی رہ جائیں.اب یہ برطانیہ کی تاریخ ہے.مغربی طاقتوں کا متضاد طرز عمل اس کے علاوہ ہندوستان میں جو کچھ کیا گیا جو افریقہ میں کیا گیا ، ان سب باتوں کے ذکر کا وقت نہیں ہے مگر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اصول اور اخلاق کی جب بات کی جائے تو اصول اور اخلاق زمانے سے بالا ہوا کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ بدل نہیں جایا کرتے.اب Sanctions کی باتیں کرتے ہیں تو حال ہی کی بات ہے کہ ابھی جنوبی افریقہ کے خلاف Sanctions کی گئیں اور ان Sanctions میں سالہا سال لگ گئے اور انہوں نے کوئی اثر نہ دکھایا یعنی نمایاں اثر نہ دکھایا.اس کے نتیجے میں یہ آواز بلند نہیں ہوئی کہ Sanctions میں اتنی دیر ہوگئی ہے وہ کام نہیں کر رہیں.اب ضرورت ہے کہ ساری دنیا مل کر جنوبی افریقہ پر حملہ کر دے اور خود مغربی ممالک نے خود انگلستان نے ان Sanctions کا بہت سے مواقع پر ساتھ نہیں دیا اور انگلستان کی رائے عامہ نے بھی اپنی حکومت کے خلاف آواز بلند کی مگر پرواہ نہیں کی گئی اور ان کے خلاف بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا.یہ کسی پرانی تاریخ کا حصہ نہیں یہ آج کی تاریخ کی باتیں ہیں اور نہ یہ کسی نے آواز بلند کی کہ جو قو میں Sanctions کے ساتھ تعاون نہیں کر رہیں ان کو ز بر دستی فوجی طاقت کے ساتھ Sanctions کے مطابق کارروائی پر مجبور کر دیا جائے اور نہ یہ آواز بلند کی گئی کہ اتنی دیر ہوگئی ہے Sanctions کام نہیں کر رہیں اب اس کے متعلق کچھ اور کرنا چاہئے لیکن عراق کے متعلق یہ دونوں باتیں بڑی شدت کے ساتھ اٹھتی رہیں.ایک تو یہ کہ Sanctions یعنی

Page 133

۱۳۱ ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء اقتصادی بائی کاٹ اتنا مکمل ہو کہ کچھ بھی وہاں نہ جا سکے، خوراک نہ جاسکے، ادویہ نہ جاسکیں، کوئی چیز کسی قسم کی وہاں داخل نہ ہو نہ وہاں سے باہر نکل سکے اور ساتھ ہی اس سختی کے ساتھ اس کو نافذ کیا گیا کہ چاروں طرف سے عراق کی ناکہ بندی کر دی گئی بلکہ اردن کی بھی ناکہ بندی کر دی گئی.جس کے رستے سے یہ امکان تھا کہ یہ Sanctions توڑ دی جائیں گی یا ان کے کسی حصے میں اس کی خلاف ورزی کی جائے گی.اس کے علاوہ ساتھ ہی اسرائیل کا اردن کے دریا کے مغربی کنارے پر قبضہ موجود ہے اس پر کوئی Sanctions نہیں لگائی گئیں اور جس قسم کے مظالم اسرائیل نے فلسطینیوں پر توڑے ہیں.ان کے ذکر میں کوئی آواز اس کے خلاف بلند نہیں کی گئی.اگر وہی دلیل جو آج عراق کے خلاف دی جارہی ہے وہاں بھی چسپاں کی جاتی تو آج سے بہت پہلے یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا.پھر جب آپ امریکہ کی تازہ تاریخ پر غور کرتے ہیں تو خود امریکن مصنفین کی لکھی ہوئی تاریخوں سے اور بعض اعداد و شمار پر مشتمل کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ نے C.I.A کے ذریعے آج کے زمانے میں تمام دنیا کے مختلف ممالک میں حسب ضرورت دخل دیا ہے اور Terrorism سے باز نہیں رہے.کسی قسم کی ظالمانہ کارروائیوں سے باز نہیں رہے اور وہاں اپنا حق سمجھا ہے کہ ہم جو چاہیں وہ کریں.ابھی حال ہی میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے Secret Wars of President,s Secret Wars’President “ یعنی امریکہ کے پریذیڈنٹ کی خفیہ جنگیں اور اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ Covert Operation یعنی مخفی کارروائیوں کی اصطلاح کے نیچے ہر قسم کے ظلم و ستم کی اجازت تھی.جو چاہو کرو جس کو چاہو قتل کراؤ جہاں چاہو پانیوں میں زہر ملا دو، خوراک کو گندا کر دو ، عام بنی نوع انسان کے قتل عام سے بھی پر ہیز نہ کرو.جو چاہو کرو مگر مخفی طریق پر ہو اور Deniability کی طاقت موجود رہے یعنی یہ بھی ایک نئی اصطلاح ہے ، بڑی دلچسپ Deniability کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پریذیڈنٹ صاحب باوجود اس کے کہ عملاً ہر چیز کی اجازت دے رہے ہوں لیکن ان کے لئے یہ گنجائش باقی رکھی جائے کہ جب بعض باتوں کا علم ہو اور ان سے سوال کیا جائے کہ بتائیے کیا آپ کے حکم پر ایسا

Page 134

۱۳۲ ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء ہوا تھا تو وہ کہیں بالکل نہیں.میرے حکم پر ایسا نہیں ہوا اور میں تحقیق کراؤں گا.اس کا نام ہے Deniability تو جو Terrorism یہ مسلمان ملکوں کی طرف منسوب کرتے ہیں اس سے ہزار گنا زیادہ Terrorism اسرائیل تو الگ رہا خود امریکہ نے کیا ہوا ہے اور کر رہا ہے.آج بھی C.I.A اسی طرح مصروف عمل ہے کہیں فوجی انقلابات برپا کئے جارہے ہیں کہیں ویٹنام اور کوریا میں یا لاؤس میں یا گوئٹے مالا میں یا ایران میں جوان کی کارروائیاں ہوئی ہیں آپ اس کتاب میں پڑھ کر دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے.وہ کتاب کسی مخالف کی نہیں بلکہ خود ایک امریکن مصنف کی ہے جس نے اور بھی اچھی کتا ہیں اس موضوع پر لکھی ہیں اور مستند کتا بیں ہیں تو اب بتائیے وہ اصول کہاں گئے.فرق صرف یہ ہے کہ مسلمان ممالک بدقسمتی سے سادگی سے کام لیتے ہیں اور سادگی بھی اتنی جو بے وقوفی کی حد تک سادگی ہے.ڈپلومیسی کی زبان نہیں جانتے.بجائے اس کے کہ وہ بھی کہیں کہ ہم Covert Operations کر رہے ہیں یعنی مخفی آپریشنز کر رہے ہیں کھل کر کہتے ہیں ہم تم سے انتقام لیں گے اے رشدی ! ہم تمہیں قتل کر دیں گے.اے فلاں ! اسلام اجازت نہیں دیتا کہ تم سے حسن سلوک کیا جائے.جس طرح چاہیں ہم تمہیں برباد کریں گے.ہاتھ میں کچھ ہوتا نہیں ،ہتھیار ان لوگوں سے مانگتے ہیں، بناء اپنی ان قوموں پر ہے جن کے خلاف یہ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اور اسی بنا کو اکھیڑنے کی دھمکیاں دے رہے ہوتے ہیں جس پر بیٹھے ہوئے ہیں.اسی بنیاد کو اکھیڑنے کی دھمکیاں دے رہے ہوتے ہیں جس پر انہوں نے اپنی عمارتیں تعمیر کی ہوئی ہیں محض بے وقوفی ہے ، اور صرف بے وقوفی نہیں بلکہ ظلم یہ ہے کہ یہ ساری چیزیں اسلام کی طرف منسوب کر کے کرتے ہیں اور اسلام سے سچی محبت کرنے والوں سے ساری دنیا میں مصیبتیں کھڑی کر دیتے ہیں.ایک طرف یہ قومیں مظالم کرتی چلی جاتی ہیں، دنیا کے ساتھ جو چاہیں سلوک کریں جہاں چاہیں اپنی حکومت چلا ئیں.جس ملک کے باشندوں کو جہاں چاہیں ملیا میٹ کردیں نیست و نابود کر دیں، صفحہ ہستی سے مٹاڈالیں لیکن زبان ایسی ہونی چاہئے ، اصطلاحیں ایسی ہونی چاہئیں جن کے پردے میں ہر قسم کی کارروائی کی اجازت ہے اور وہ جن کو کچھ کرنے کی طاقت ہی نہیں ہے وہ نہایت احمقانہ زبان استعمال

Page 135

۱۳۳ ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء کر کے خود اپنا منہ بھی کالا کرتے ہیں اور اسلام کے اوپر بھی داغ ڈالتے ہیں.تو ایک میرا پیغام تو عالم اسلام کو یہ ہے کہ ہوش کرو عقل سے کام لو جن قوموں سے لڑنا ہے ان سے لڑنے کے انداز ہی سیکھ لو وہ زبان ہی اختیار کر لو جو زبان تمہارے متعلق یا دوسری قوموں کے خلاف وہ استعمال کرتے ہیں.بہر حال یہ تو ایک ضمنی بات تھی.مسلمان ملکوں کا عجیب و غریب موقف اب میں ایک تیسرے حصے کی طرف آتا ہوں.عراقی موقف اور مغربی موقف میں نے بیان کیا دوسرے مسلمان ممالک نے بھی ایک موقف اختیار کیا ہے اوراکثریت نے سعودی عرب کے اس موقف کا ساتھ دیا ہے کہ اس موقعہ پر ضروری ہے کہ سب مسلمان ممالک مل کر یا زیادہ سے زیادہ تعداد میں مسلمان ممالک مل کر عراق کو مٹانے کا تہیہ کریں اور اس کوشش میں اکٹھے ہو جائیں لیکن صرف یہیں تک بات نہیں رہتی.اس سے آگے بڑھ کر یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ یہ ارض حجاز مقدس زمین ہے اور مکہ اور مدینہ کی مقدس بستیاں یہاں موجود ہیں.آج صرف کویت کا مسئلہ نہیں ہے آج مسئلہ ان بستیوں کی حفاظت کا مسئلہ ہے.ان بستیوں کے تقدس کی حفاظت کا مسئلہ ہے.جن میں کبھی حضرت اقدس محمد مصطفے ہے سانس لیا کرتے تھے.وہاں آپ کے قدم پڑا کرتے تھے.پس اسے بہت ہی تقدس کا رنگ دے کر عام مسلمانوں کے جذبات کو ابھارا جاتا ہے.چنانچہ پاکستان کی طرف سے بار بار اسی قسم کے اعلان ہوئے ہیں کہ اب ہم نے ارض مقدس کی حفاظت کے لئے دو ہزار سپاہی بھجوادیئے ، تین ہزار سپاہی بھجوا دیئے ، پانچ ہزار سپاہی بھجوادیئے اور ارض مقدس کے نام پر ہم یہ عظیم قربانی کر رہے ہیں.اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ارض کی اپنی تاریخ کیا ہے؟ اور وہ لوگ جو ارض مقدس کا نام لے کر اور محمد مصطفی ﷺ کے تقدس کے حوالے دے کر مسلمانوں کی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، ان کا اپنا کیا کردار رہا ہے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ سعودیوں نے یعنی اس خاندان نے سب سے پہلے خود ارض حجاز پر بزور

Page 136

۱۳۴ ۱۱/ جنوری ۱۹۹۱ء شمشیر قبضہ کیا تھا اور ا۱۸۰ء میں سب سے پہلے یہ فوجی مہم شروع کی گئی اور اس خاندان کے جوسر براہ تھے ان کا نام عبدالعزیز تھا.لیکن عبد العزیز کے بیٹے سعود تھے جو دراصل بڑی بڑی فوجی کارروائیوں میں بہت شہرت اختیار کر گئے اور بڑی مہارت رکھتے تھے.چنانچہ ان کی سر براہی میں ان حملوں کا آغاز ہوا.سب سے پہلے انہوں نے عراق میں پیش قدمی کی اور کربلائے معلی پر قبضہ کیا وہاں کے تمام مقدس مزاروں کو ملیا میٹ کر دیا یہ موقف پیش کرتے ہوئے کہ یہ سب شرک کی باتیں ہیں اور ان میں کوئی تقدس نہیں ہے، اینٹ پتھر کی چیزیں ہیں.ان کو مٹا دینا چاہئے اور پھر کر بلائے معلی میں بسنے والے مسلمانوں کا جواکثر شیعہ تھے قتل عام کیا اور پھر بصرہ کی طرف پیش قدمی کی اور کربلائے معلی سے لے کر بصرہ تک کے تقریباً تمام علاقے کو تاخت و تاراج کر کے وہاں شہروں کو آگئیں لگادی گئیں قتل عام کئے گئے ، لوٹ مار کی گئی.ہر قسم کے مظالم جو آج عراق کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں ان سے بہت بڑھ کر ، بہت زیادہ وسیع علاقے میں اسی خاندان نے عراق کے علاقے میں کئے ،لیکن وہاں سے طاقت پکڑنے کے بعد پھر ارض مقدس کی طرف رخ کیا اور طائف پر قبضہ کر لیا ارض حجاز میں اور ۱۸۰۳ء میں یہ مکہ اور مدینہ میں داخل ہو گئے اور مکہ اور مدینہ میں داخل ہونے کے بعد وہاں قتل عام کیا گیا اور بہت سے مزار گرا دیئے گئے اور بہت سی مقدس نشانیاں اور مقامات مثلاً حضرت محمد کا مولد، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مولد وغیرہ اس قسم کے بہت سے مقدس حجرے اور مقامات تھے جن کو یا تو منہدم کر دیا گیا یا ان کی شدید گستاخی کی گئی اور یہ ظاہر کیا گیا کہ اسلام میں ان ظاہری چیزوں کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے یہ سب شرک ہے اور جو خون خرابہ ہوا ہے اس کا کوئی معین ریکارڈ نہیں لیکن تاریخیں یکھتی ہیں کہ بالکل نہتے اور بے ضرر اور مقابلے میں نہ آنے والے شہریوں کا بھی قتل عام بڑی بے دردی سے کیا گیا ہے.۱۸۱۳ء میں محمدعلی پاشا حاکم مصر نے پھر اس علاقے کو سعودیوں سے خالی کروالیا اور پھر بیسویں صدی کے آغاز میں دوبارہ سعودیوں نے ارض حجاز پر یلغار کی اور اس دفعہ انگریزوں کی پوری طاقت ان کے ساتھ تھی.انگریزی جرنیل با قاعدہ ان کی پیش قدمی کی سکیمیں بناتے تھے اور انگریز ہی

Page 137

۱۳۵ ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء ان کو اسلحہ اور بندوقیں مہیا کرتے تھے اور انگریز ہی روپیہ پیسہ مہیا کرتے تھے.اور با قاعدہ ان کے ساتھ معاہدے ہو چکے تھے چنانچہ ۱۹۲۴ء میں دوبارہ سعودی خاندان ارض حجاز پر قابض ہوا اور اس قبضے کے دوران بھی بہت زیادہ مقدس مقامات کی بے حرمتی کی گئی اور قتل عام ہوا ہے.۱۹۲۴ء میں انگریزوں کی تائید سے چونکہ یہ داخل ہوئے تھے اس لئے حال ہی میں جو BBC نے Documentary دکھائی اس میں ۲۴ ء سے پہلے کی بھی انگریزی تائید کا ذکر کرتے ہوئے BBC کے پروگرام پیش کرنے والے نے یہ موقف لیا کہ جس ملک پر سعودیوں نے ہماری تائید سے اور ہماری قوت سے قبضہ کیا تھا اب اس ملک کے دفاع کے لئے ہم پر ہی انحصار کرنے پر مجبور ہیں..پس اس نقطہ نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو بات بالکل اور شکل میں دکھائی دینے لگتی ہے.جو بھی حکومت اس وقت مقامات مقدسہ پر قابض ہے وہ انگریز کی طاقت سے قابض ہوئی تھی یا مغربی قوموں کی طاقت سے قابض ہوئی تھی.اور اب دفاع کے لئے بھی ان میں یہ استطاعت نہیں ہے کہ ان مقامات کا دفاع کر سکیں اور مجبور ہیں کہ ان قوموں کو واپس اپنی مدد کے لئے بلائیں.اب انگریز کا تصور اس طرح کا نہیں جو اس سے پہلے کا تھا.تمام دنیا پر انگریز کی ایک قسم کی حکومت تھی.اب انگریز تھا.اور امریکہ ایک دوسرے کے ساتھ مدغم ہو چکے ہیں.ان کے تصورات یکجا ہو چکے ہیں اور عملاً جو امریکہ ہے وہ انگریز ہے اور جو انگریز ہے وہ امریکہ ہے.یعنی جو انگلستان ہے وہ امریکہ ہے اور جو امریکہ ہے وہ انگلستان ہے.تو اس پہلو سے انگریز نے اپنی تاریخ کا ورثہ امریکہ کے سپر د کیا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس دور میں ان کے فیصلے ہمیشہ ایک ہوا کرتے ہیں.یورپ اس سے کچھ مختلف ہے لیکن اس تفصیل میں جانے کی بہر حال ضرورت نہیں ہے.خلاصہ کلام یہ بنتا ہے کہ ارض مقدس اور مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے احترام کی باتیں کرتے ہوئے جو عالم اسلام کو ان مقدس مقامات کے دفاع کے لئے اکٹھا کیا جارہا ہے یہ سب محض ایک دھوکہ ہے.ان مقدس مقامات کی حفاظت کے ساتھ دوسرے مسلمان ممالک کی فوجی شمولیت کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے.نہ ان کی ضرورت ہے نہ اس کا کوئی تعلق ہے نہ فی الحقیقت کوئی خطرہ لاحق ہے.اگر ان علاقوں کو

Page 138

۱۳۶ ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء خطرہ لاحق ہے تو غیر مسلموں سے لاحق ہو سکتا ہے.مسلمانوں سے اگر خطرہ لاحق ہوسکتا تھا تو وہ خطرہ تو خود سعودیوں سے لاحق ہو چکا ہے اور اس خطرے میں جب تک انہوں نے غیر مسلموں کی مدد نہیں لی اس وقت تک ان علاقوں پر قبضہ نہیں کر سکے.پس امر واقعہ یہی ہے کہ اب ان علاقوں کا دفاع بھی غیر مسلموں کے سپر دہی ہوا ہے اور مسلمان ریاستیں شامل ہوں یا نہ ہوں اس دفاع سے اس کا کوئی تعلق نہیں یعنی اس امکانی دفاع سے دفاع کا تو ابھی سوال ہی پیدا نہیں ہوا.امکان ہے.لیکن اگر آپ دیانتداری سے غور کریں تو اس بات کا کوئی احتمال ہی نہیں ہے کہ عراق سعودی عرب پر حملہ کر دے.عراق کے پاس تو اتنی طاقت بھی نہیں کہ وہ ان بڑی بڑی طاقتوں کے اجتماعی حملے سے اپنے آپ کو بچا سکے اور سب دنیا تعجب میں ہے کہ یہ غیر متوازن حالت دیکھتے ہوئے صدر صدام حسین کس طرح یہ جرات کر سکتے ہیں کہ بار بار امن کی ہر کوشش کو رد کرتے چلے جاتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اس عظیم دباؤ کے نتیجہ میں وہ اس طرح پیسے جائیں گے جس طرح چکی کے اندر دانے پیسے جاتے ہیں اور ناممکن ہے کہ اتنی بڑی قوموں کی اجتماعی طاقت کے مقابل پر عراق کو یت کا یا اپنے ملک کا دفاع کر سکے.جو عالمی فوجی ماہرین ہیں یہ ان کی رائے ہے اور سب متعجب ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے.آخر صدر صدام حسین کے پاس وہ کیا بات ہے، کیا چیز ہے جس کی وجہ سے وہ صلح کی ہر کوشش کو رد کرتا چلا جارہا ہے.تو امر واقعہ یہ ہے کہ ساری طاقتیں مغربی طاقتیں ہیں جنہوں نے اس علاقے میں کوئی کارروائی یا مؤثر کا رروائی کرنی ہے یا کر سکتی ہیں.مسلمان ممالک کو اور وجہ سے ساتھ ملایا گیا ہے اور اس وجہ کا مقامات مقدسہ کے تقدس سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں صرف مسلمان ممالک کو ہی ٹوکن کے طور پر شامل نہیں کیا گیا ، یورپ کے دوسرے ممالک کو بھی ٹوکن کے طور پر شامل کیا گیا ہے.جاپان پر بھی بڑا بھاری دباؤ ڈالا گیا کہ تم شامل ہو جاؤ اور اس طرح دنیا کی مشرق و مغرب کی دوسری قوموں کو بھی ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی گئی اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان کی ضرورت تھی.اس کی وجہ یہ تھی کہ دنیا کے سامنے یہ قضیہ اس طرح پیش کیا جائے کہ ساری دنیا کی رائے عامہ اس ظالم کے خلاف ہے.اس لئے ساری دنیا کی اس رائے عامہ کے احترام میں ہم شدید ترین کا روائی بھی کریں اس کے اوپر حرف

Page 139

۱۳۷ ۱۱ جنوری ۱۹۹۱ء نہ آسکے.اگر عراق کے خلاف انتہائی ظالمانہ کارروائی کی جائے اور پاکستان بھی اس کارروائی میں حصہ ڈال کر شریک ہوا بیٹھا ہو اور مصر بھی شریک ہوا ہو اور ترکی بھی شریک ہو چکا ہو اور دیگر مسلمان ممالک بھی شریک ہو چکے ہوں تو وہ پلٹ کر کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ تو نے بڑا بھاری ظلم کیا ہے.پس آئندہ ان مظالم پر نکتہ چینی کے دفاع کے طور پر کہ دنیا ان پر نکتہ چینی نہ کر سکے جن کے منصوبے یہ پہلے سے بنائے بیٹھے ہیں اتنا بڑا ہنگامہ برپا کیا گیا ہے اور اس طرح رائے عامہ کو اکٹھا کیا گیا ہے اور ملکوں کو مجبور کیا گیا ہے کہ تم بھی اس ظلم میں حصہ ڈالو خواہ تم آرام سے ایک طرف بیٹھے رہنا چنانچہ بعض مسلمان ممالک جنہوں نے فوجیں بھیجی ہیں وہ کھل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ بھئی ہم حملے میں تو شامل نہیں ہوں گے ہم تو صرف مقامات مقدسہ کی حفاظت کی خاطر مکے اور مدینے میں جا کے بیٹھیں گے.چنانچہ پاکستان نے بھی ایسا ہی جاہلانہ سا ایک اعلان کیا ہے یعنی مکے اور مدینے تک جو فوج پہنچ جائے گی اور تمام عالمی طاقتوں کو ملیا میٹ کرتے ہوئے پہنچے گی اس فوج سے بچانے کے لئے تم باقی رہ جاؤ گے.کیسا بچگانہ خیال ہے.دراصل ان کو یہ بتایا گیا ہے کہ تمہیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں تم آؤ امن کے ساتھ ہماری گود میں بیٹھو.ہماری حفاظت میں رہو.ہم صرف تمہارا نام چاہتے ہیں اور تمہاری شرکت کا نام چاہتے ہیں.اس لئے تم شریک بن جاؤ اور یہی ہمارے لئے کافی ہے.پس یہ ایک بہت بڑا خوفناک عالمی منصوبہ ہے اور اس منصوبے کو دنیا کے سامنے حسین طریق پر دھو کے کے ساتھ پیش کرنے کے یہ سارے ذرائع ہیں جو اختیار کئے جارہے ہیں.صدام حسین کے لئے ایک ہی راہ کھلی ہے اب پھر سوال اٹھتا ہے کہ صدر صدام حسین کیوں اس سیدھی سادھی کھلی ہوئی حقیقت کو جان نہیں سکتے ، پہچان نہیں رہے اور کیوں مصر ہیں کہ نہیں ، ان شرائط پر میں کو بیت کو خالی کرنے کیلئے تیار نہیں.میں اور باتوں کے علاوہ یہ سمجھتا ہوں کہ صرف کویت کو خالی کرنا مقصود نہیں ہے.یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ ہر حالت میں عراق کو نہتہ کر دیا جائے گا اور بے طاقت بنادیا جائے گا اور کویت سے نکلنا پہلا قدم

Page 140

۱۳۸ ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء ہے.اسی لئے اس کے بعد صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم عراق پر حملہ نہیں کریں گے.یہ ساتھ نہیں کہتے کہ ہم عالمی بائیکاٹ ختم کر دیں گے.اقتصادی بائیکاٹ ختم کر دیں گے.یہ نہیں کہتے کہ ہم مزید دباؤ ڈال کر تمہارے کیمیائی کارخانے جو جنگوں میں ہلاکت خیز کیمیاوی مادے بنانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں ان کو برباد نہیں کریں گے یا ان میں دخل نہیں دیں گے.یہ نہیں کہتے کہ ہم تمہاری ایٹمی توانائی کے مراکز کو ختم کرنے کے لئے تم سے مزید مطالبے نہیں کریں گے اور مزید دباؤ نہیں ڈالیں گے لیکن یہ نہ کہنے کے باوجود دبی زبان سے یہ اظہار جگہ جگہ ہو جاتا ہے کہ اس کے بعد کچھ کرنا ضرور ہے اور عراق خوب اچھی طرح سمجھتا ہے.عراق جانتا ہے کہ محض کو یت کا مسئلہ نہیں ہے.اگر میں کو یت خالی بھی کر دوں تو جن مقاصد کی خاطر یہ کویت کی حمایت کر رہے ہیں وہ مقاصد پورے نہیں ہو سکتے جب تک مجھے بالکل ناطاقت کر کے نہ چھوڑا جائے.پس عملاً صدر صدام کے پاس دو راہیں نہیں بلکہ ایک ہی راہ ہے اور وہ راہ یہ ہے کہ اگر انہوں نے اپنے بدارا دے پورے کرنے ہی ہیں تو پھر اس حالت میں مرا جائے کہ مرتے مرتے ان کو بھی اتنا نقصان پہنچا دیا جائے کہ ہمیشہ کے لئے لولوں لنگڑوں کی طرح رہیں اور پھر پہلے جیسی طاقت اور پہلے جیسا تکبر باقی نہ رہے.پس جہاں تک میں سمجھتا ہوں صدر صدام حسین اس وجہ سے بضد ہیں کہ تمہاری شرائط پر میں کویت خالی نہیں کروں گا.ہوسکتا ہے کہ اب Perez De Cuellar اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل جو وہاں جار ہے ہیں ان کے ساتھ گفت وشنید کے دوران کچھ باتیں کھل کر سامنے آئیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ اگر Perez De Cuellar کی طرف سے ایسی گفت وشنید کا آغاز ہو جائے جس کے نتیجے میں بالآخر عراق کو یہ تحفظ دیا جائے اور یونائیٹڈ نیشنز کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی جائے کہ اگر تم کو یت کو خالی کر دو تو اول تمام عرب مسئلے کو یکجائی صورت میں دیکھا جائے گا اور United Nations اس کی طرف متوجہ ہوگی اور دوسرے یہ کہ اس کے بعد تمہارے ساتھ کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں ہوگی اور عالمی بائیکاٹ کو اٹھا دیا جائے گا اور تمہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے گا.اگر یہ دو شرطیں ان کھلے الفاظ میں عراق کے سامنے رکھی جائیں تو میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ ان

Page 141

۱۳۹ ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء شرطوں پر عراق صلح کرنے پر آمادہ ہو گا لیکن خطرہ مجھے یہ ہے کہ یہی دو شرطیں ہیں جو سب سے زیادہ ان ممالک کے مزاج کے خلاف ہیں جن ممالک نے اس قصے پر ساری دنیا میں ایک طوفان اٹھا رکھا ہے.یہی وہ دو باتیں ہیں جو کسی قیمت پر ان کو قبول نہیں ہیں.اگر عراق کی فوجی طاقت کو مٹا دینا ان کے پیش نظر نہ ہوتا، اگر اسرائیل کا تحفظ ان کے پیش نظر نہ ہوتا تو کویت پر قبضے کے نتیجے میں انہوں نے کبھی بھی شور نہیں ڈالنا تھا.کویت کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے.یہ دو بڑے مقاصد ہیں جن کی خاطر یہ سارا ہنگامہ کھڑا کیا گیا ہے اور کیسے یہ شرطیں مان جائیں گے جن سے خود یہ اپنے دو مقاصد کے اوپر تبر رکھ دیں اور ان مقاصد کو خائب و خاسر کر دیں اور نامراد کر دیں.پس یہ ہے آخری خلاصہ صورت حال کا.جماعت احمدیہ کو میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے شروع میں بات کھول کر بیان کی ہے ہم قومی اختلافات یا مذہبی اختلافات کے نتیجے میں بھی کسی تعصب کو اپنے دل میں جگہ نہیں دے سکتے اور کسی تعصب کی بناء پر ہم فیصلے نہیں کر سکتے کیونکہ ہم دل و جان سے اس بات کے قائل ہیں کہ ہر وہ شخص جو تعصب کو اپنے دل میں جگہ دے یا تعصبات کے نتیجے میں فیصلے کرے وہ صحیح معنوں میں مومن اور مسلم کہلانے کا مستحق نہیں رہتا.تعصبات اور اسلام کو ایسا ہی بعد ہے جیسے شرق و غرب کو آپس میں بعد ہے اور حقیقی اسلام کا تقاضا یہی ہے کہ ہر فیصلہ خدا کی ذات کو پیش نظر رکھ کر کیا جائے اور اسی کا نام تقویٰ ہے.تقویٰ ہر چیز کی بنیاد ہے ہر اسلامی قدر تقویٰ پر مبنی ہے اور تقویٰ کا حسن یہ ہے کہ تقویٰ خود اپنی ذات میں کسی مذہب کی اجارہ داری نہیں بلکہ تقویٰ ایک ایسی چیز ہے جو ہر مذہب کا مرکزی نقطہ ہونا چاہئے اور ہر مذہب کی تعلیم کو اس مرکزی نقطے کے گرد گھومنا چاہئے.تقویٰ کا مطلب ہے ہر سوچ خدا کی مرضی کے تابع کر دو اور ہر فیصلہ کرنے سے پہلے یہ دیکھو کہ خدا تم سے کیا چاہتا ہے.پس جماعت احمدیہ سے میں توقع رکھتا ہوں کہ تقویٰ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اول تو تمام بنی نوع انسان کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو تقویٰ سے عاری فیصلوں کے نتیجے میں ان عذابوں میں مبتلا نہ فرمائے جو عام طور پر ایسے حالات میں مقدر ہو جایا کرتے ہیں بلکہ غیر معمولی طور پر

Page 142

۱۴۰ ۱۱/ جنوری ۱۹۹۱ء ان کے دلوں پر تسلط فرمائے اور ان کو تو بہ کرنے کی توفیق بخشے اور اصلاح احوال کی توفیق بخشے اور سچائی کی طرف لوٹ آنے کی توفیق بخشے.کل عالم کے لئے یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو امن عطا کرے اور امن سے مراد صرف ظاہری امن نہیں بلکہ امن سے مراد دل اور دماغ کا امن ہے کیونکہ میں قطعی طور پر اس بات کو ایک ٹھوس حقیقت کی طرح دیکھ رہا ہوں کہ دنیا کا امن دل اور دماغ کے امن پر منحصر ہے وہ بنی نوع انسان جن کے دل امن میں نہ ہوں ، جن کے دماغ امن میں نہ ہوں ان کا عالمی ماحول امن میں نہیں رہ سکتا.یا ان سے دنیا کو خطرہ ہوگا یا دنیا سے ان کو خطرہ ہوگا.پس دماغ کے خلل اور دل کے خلال کے نتیجے میں بیرونی خلل واقعہ ہوا کرتے ہیں.پس یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی سوچوں کی اصلاح فرما دے.ان کے دلوں کی اصلاح فرمادے.ان کے معاشرے کی اصلاح فرمادے اور ان کے دل اور دماغ کو امن عطا کرے تا کہ بنی نوع انسان کو بحیثیت مجموعی امن نصیب ہو.اس موجودہ تعلق میں خصوصیت کے ساتھ یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مسلمان ممالک کو اب بھی عقل دے اور وہ اس ظلم میں غیر مسلم قوموں کے شریک نہ بنیں کہ ان کے اعلیٰ مقاصد کی خاطر جوان کے مفادات سے تعلق رکھتے ہیں ایک عظیم مسلمان طاقت کو ملیا میٹ کر دیں اور اپنے اپنے انگوٹھے اس فیصلے پر ثبت کر دیں اور تاریخ عالم میں ہمیشہ کے لئے ایک ایسی قوم کے طور پر لکھے جائیں جنہوں نے اپنی زندگی کے نہایت منحوس فیصلے کئے تھے.ایسے فیصلے کئے تھے جو بدترین سیاہی سے لکھے جانے کے لائق بنتے ہیں.جس کے نتیجے میں دنیا کے اندر ایسے تغیرات بر پا ہونے ہیں اور آئندہ لکھنے والا لکھے گا کہ ایسے تغیرات بر پا ہو چکے ہیں کہ ان فیصلوں کے بعد پھر دنیا کا امن ہمیشہ کے لئے اٹھ گیا اور امن کے نام پر جو جنگ لڑی گئی تھی اس نے اور جنگوں کو جنم دیا اور ساری دنیا میں بدامنی پھیلتی چلی گئی.مؤرخ نے یہ باتیں جو بعد میں لکھنی ہیں یہ آج ہمیں دکھائی دے رہی ہیں کہ کل ہونے والی ہیں اگر مسلمان ممالک نے ہوش نہ کی اور بر وقت اپنے غلط اقدامات کو واپس نہ لیا اور اپنی سوچوں کی اصلاح نہ کی.بہر حال اگر یہ انہی باتوں پر قائم رہے تو عراق بنتا ہے یا نہیں مٹتا.یہ تو کل دیکھنے کی بات ہے مگر اس سارے علاقے کا امن ہمیشہ کے لئے مٹ جائے گا.کبھی دوبارہ عرب اس حال کو واپس نہیں لوٹ سکیں گے.اسرائیل پہلے

Page 143

۱۴۱ ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء سے بڑھ کر طاقت بن کر ابھرے گا اور اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کے متعلق کوئی عرب طاقت سوچ بھی نہیں سکے گی کم سے کم ایک لمبے عرصے تک اور اس کے نتیجے میں تمام دنیا میں شدید مالی بحران پیدا ہوں گے اور چونکہ آج کل دنیا کے ترقی یافتہ ممالک خود مالی بحران کا شکار ہیں اس لئے تیسری دنیا کے مالی بحران کے نتیجے میں ایسے سیاسی اثرات پیدا ہوں گے کہ اور جنگیں چھڑیں گی اور دنیا کا امن دن بدن برباد ہوتا چلا جائے گا.مختصر یہ کچھ ہے جو آئندہ پیش آنے والا ہے.اگر آج مسلمان ممالک نے اصلاح احوال نہ کی.مغربی مفکرین بار بار یہ بات دہراتے چلے جارہے ہیں کہ اب Ball عراق کی کورٹ میں ہے اور صد رصدام کے ہاتھ میں ہے، اس بال کو کس طرف ہٹ لگائے جنگ کی طرف یا امن کی طرف حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے صدر صدام کے ہاتھ آپ لوگوں نے اس طرح باندھ رکھے ہیں اور اس معاملے کو اس طرح اٹھایا ہے کہ اس کے لئے اب حقیقت میں کوئی دوراہے پر کھڑے ہونے والا معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک ہی راہ پر کھڑا ہے جس میں آگے بڑھے تو تب بھی ہلاکت ہے پیچھے ہٹے تو تب بھی ہلاکت ہے آگے بڑھے تو ہلاکت اس رنگ میں ہوگی کہ اچانک تیز ہلاکت لیکن ساتھ دشمن بھی بہت حد تک شدید نقصان اٹھائے گا.پیچھے ہٹے تو دم گھونٹ کر مارا جائے گا.اس لئے صدرصدام حسین کو تو آپ نے دوراہے پر لا کھڑا نہیں کیا بلکہ دوسری راہ اس سے منقطع کر دی ہے.اگر با عزت سمجھنے کی کوئی راہ اس کے سامنے کھولی ہوتی تو پھر وہ یہ فیصلہ کر سکتا کہ جنگ کی راہ اختیار کروں یا امن کی راہ اختیار کروں.اب تو فیصلہ یہی ہے کہ ایک دم مرمٹنے کی راہ اختیار کروں اور عزت کے ساتھ مرجانے کی راہ اختیار کروں یا ذلت کے ساتھ دم گھونٹ کر مارا جاؤں.موجودہ حالات میں مسلمان ممالک کا فرض ہاں Ball جو ہے دراصل صدر صدام حسین کی کورٹ میں نہیں ہے.وہ مسلمان ممالک کی کورٹ میں ہے.اگر مسلمان ممالک اس صورت حال کو صحیح سمجھ سکیں اور آج نہ سہی کل کے مورخ کے قلم

Page 144

۱۴۲ ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء سے بچنے کے لئے اور تاریخ جوان پر تعزیر لگائے گی اس سے بچنے کی خاطر ہی سہی اگر وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور یہ اعلان کر دیں کہ عراق سے نپٹنا ہوگا تو ہم نیٹیں گے.مغربی طاقتیں ہمارے ممالک کو خالی کر دیں اور اگر کوئی مدد کرنی ہے تو ہتھیاروں کے ذریعہ جس طرح پہلے بھی مدد کی جاتی ہے.عراق کی بھی مدد کرتے رہے ہو اس طرح ہماری مدد کرو اور اس معاملے کو ہمارے حال پر چھوڑ دو ہم اس سے خود نپٹیں گے.اگر آج یہ اعلان کر دیں تو مغربی طاقتوں کے پاس کوئی بھی عذر باقی نہیں رہتا کہ وہ زبر دستی عراق پر حملہ کریں اور اگر پھر بھی وہ کریں تو پھر یہ بات اتنی آسان نہیں رہے گی تمام عرب میں اور تمام عالم اسلام میں مغربی ممالک کے خلاف بغاوت شروع ہو جائے گی.پس یہ اصل صورتحال ہے.دعا یہ کریں کہ مسلمان ممالک کو اللہ تعالیٰ عقل عطا فرمائے.صحیح سوچ اختیار کرنے کی توفیق بخشے اور جرأت مندانہ ایسا فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کے نتیجے میں غیر قوموں کو عالم اسلام میں دخل اندازی کا بہانہ نہ رہے.لیکن یہ بھی مجھے نظر نہیں آرہا اور جس حد تک یہ لوگ آگے بڑھ چکے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بنابڑی شدید قسم کی خود غرضی ہے جس کی وجہ سے اسلام تو محض دور کی بات ہے عرب تعلقات بھی ان کی سوچ کی راہ میں بالکل حائل نہیں ہور ہے اور اپنی ہمسائیگی کا بھی قطعا کوئی خیال نہیں اور یہ خطرہ بھی نہیں کہ عرب دنیا پر کیا گزرے گی.یہ ساری چیزیں دور کی باتیں ہیں.بنیادی طور پر اپنے ذاتی مفاد کا جو تقاضا ہے وہ ہر دوسری فکر پر غالب آچکا ہے.اگر آپ نے غور کیا ہو تو آپ یہ معلوم کر کے حیران ہوں گے کہ ۱۵/جنوری کی تاریخ پر آخر اتنا زور کیوں دیا جارہا ہے.۱۵ جنوری کوئی خدا نے تاریخ مقرر فرمائی ہے؟ یہ ہو کیا رہا ہے ؟ چند مہینے پہلے تم کہہ رہے تھے کہ Sanctions لگائی گئی ہیں ایک سال کے اندراندر Sanctions کام کریں گی اور یقین کریں گی چھ مہینے تک ہوسکتا ہے پورے نتیجے ظاہر نہ ہوں.اس قسم کی کھلی کھلی باتیں امریکہ کیا کرتا تھا اور دوسرے مغربی مفکرین بھی ایسے ہی تخمینے پیش کرتے تھے.اب اچانک یہ کیا ہو گیا ہے کہ اگر چہ ان Sanctions نے کام شروع کیا اور اس کی تکلیف بھی عراق کو پہنچی تو بجائے اس کے کہ انتظار کرو اور عراق کو اور کمزور ہونے دو اور اگر حملہ کرنا ہے تو اس وقت کرو.اب اتنی جلدی کس بات کی پڑ گئی ۵ار جنوری کی تاریخ کا کیا تعلق ہے.

Page 145

۱۴۳ ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء میں نے غور کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں اس کا تعلق سعودی عرب اور اس کے ساتھیوں کی خود غرضی سے ہے اس ساری جنگ کا بل تو سعودی عرب نے ادا کرنا ہے اور یہ سعودی عرب بے شمار امیر ہونے کے باوجود اندر سے سخت کنجوس ہے ان کو Billions کے جو بل ادا کرنے پڑرہے ہیں انہوں نے حساب لگایا ہو گا کہ اگر Sanctions کا انتظار کیا جائے تو جب تک عراق کا صفایا ہوتا اس وقت تک ہمارا بھی صفایا ہو چکا ہوگا.ہمارے سارے بینک بیلنس ختم ہو چکے ہوں گے اس لئے ان کو بڑی سخت افراتفری پڑی ہے.اور یہ خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ ہم تو اس عرصے میں کنگال ہو جائیں گے تو انہوں نے دباؤ ڈالا ہے اور امریکہ یہ بات کھل کر لوگوں کے سامنے پیش نہیں کر سکتا کہ کون ہم پر دباؤ ڈال رہا ہے.صدر بش خودا اپنے ملک میں ذلیل ہو رہا ہے کانگریس بار بار اس سے سوال کر رہی ہے کہ تم کل یہ باتیں کر رہے تھے Sanctions یوں چلیں گی اور ووں چلیں گی اور ایک سال کا عرصہ گزرے گا اور عراق گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے گا.اب اچانک تم نے سارے فیصلے بدل دیئے اور لڑائی کے سوا بات ہی کوئی نہیں کرتا.اب صدر بش کس طرح کہے کہ بھئی ہم تو Mercenaries بنے ہوئے ہیں.ہم تو کرائے کے فوجی ہیں اور وہ ملک ہمیں حکم دے رہا ہے جس نے ہمیں کرائے پر رکھا ہوا ہے ، وہ کہتا ہے کہ جلدی کرو میں اس سے زیادہ بل برداشت نہیں کر سکتا.تو اصل صورت حال یہ ہے.پس جب میں نے کہا کہ Ball اب مسلمان ممالک کی کورٹ میں ہے تو ایک تو عمومی نظرئیے کے طور پر کہا ، وہ میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے.در اصل بنیادی بات یہ ہے کہ سعودی عرب کے ہاتھ میں فیصلہ ہے اور اس کے جو Mounting Bills ہیں ،اس کے بڑھے ہوئے جنگی اخراجات ہیں وہ اسے مجبور کر رہے ہیں کہ جلدی یہ فساد بیچ میں سے ختم ہو اور پھر ہم اصل صورت حال کی طرف واپس لوٹیں.مگر یہ بڑی بیوقوفی ہے ان کی جو یہ سوچ رہے ہیں کہ جلد اصل صورت حال کی طرف واپس لوٹیں.اصل صورت حال کا تو نام و نشان مٹ چکا ہو گا.اگر عراق مٹایا گیا تو اس کے ساتھ ماضی کی ساری کی ساری تاریخ ملیا میٹ کر دی جائے گی ، عرب ممالک کے مزاج بدل چکے ہوں گے ، عرب قوموں کی سوچیں بدل چکی ہوں گی اور نئے حالات میں نئے زمانے پیدا ہوں گے اور بیوقوفوں والی خوا میں دیکھنے

Page 146

۱۴۴ ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء والے یہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ جلد قضیئے سے نپٹیں اور اصل حالات کی طرف واپس لوٹیں کبھی بھی کسی اصل کی طرف واپس نہیں لوٹیں گے بلکہ تاریخ انہیں رگیدتی ہوئی آگے بڑھاتی چلی جائے گی اور آئندہ نہایت خطر ناک قسم کے حالات ہیں جو ان کو درپیش ہوں گے اور ان سے یہ بیچ نہیں سکیں گے.یہ تو تیز رفتار لہروں پر سوار ہو چکے ہیں.جیسے پہاڑی ندی نالے زیادہ تیز اترائی میں چلتے ہیں تو ان کے منہ سے جھا گیں نکلتی ہیں ،ان کے اوپر مضبوط سے مضبوط کشتی یا جہاز بھی ہوتو تنکوں کی طرح اس سے یہ موجیں کھیلتی ہیں اور خاص طور پر جب یہ ندیاں آبشاروں کی صورت میں چٹانوں سے نیچے اترتی ہیں تو بڑی سے بڑی مضبوط چیزوں کے بھی پر نچے اڑا دیتی ہیں.پرزہ پرزہ کر ڈالتی ہیں.پس یہ زمانے کی طاقتور لہریں ہیں جن پر یہ سوار ہو چکے ہیں اور ان سے واپسی اب ان کیلئے ممکن نہیں.دعاؤں کی پر زور تحریک صرف ایک راہ واپسی کی ہے کہ تقویٰ اختیار کریں.اپنے فیصلے خدا کو پیش نظر رکھ کر کریں.امت مسلمہ کا عمومی مفاد پیش نظر رکھیں اور اپنے ذاتی مفاد کو قربان کرنے پر تیار ہوں.اگر یہ ایسا کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ عالم اسلام کے لئے ایک نیا عظیم الشان دور رونما ہوگا.وہ بھی ایک نیا دور ہو گا جو پہلے جیسا نہیں ہوگا کیونکہ پہلے کی طرف تو اب کبھی واپس نہیں جاسکتے مگر ایک ایسا دور ہوگا جو گزشتہ ادوار سے ہزاروں گنا بہتر ہوگا اور بہتر ہوتا چلا جائے گا.پس میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے گا اور اگر امید نہیں تو دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو غیر معمولی طور پر عقل عطا فرمائے اور احمد یوں کو متوجہ کرتا ہوں کہ ہم بہت کمزور ہیں لیکن ہم دعا کر سکتے ، دعا کرنا جانتے ہیں، دعاؤں کے پھل ہم نے کھائے ہوئے ہیں اور کھاتے ہیں.پس جب نمازوں میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین کی دعا کیا کریں تو خصوصیت کے ساتھ موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ سے یہ عرض کیا کریں کہ مکے اور مدینے کی بستیوں کا تقدس تو عبادت سے وابستہ ہے اور ہمیشہ عبادت سے وابستہ رہے گا.یہ بستیاں اس لئے مقدس ہیں کہ ان بستیوں میں

Page 147

۱۴۵ ۱۱؍ جنوری ۱۹۹۱ء ابراہیم علیہ السلام اور محمد مصطفی ﷺ نے عبادتیں کی ہیں.پس آج اس دنیا میں ان عبادتوں کو زندہ کرنے والے ہم تیرے عاجز غلام ہیں، اس شان کے ساتھ نہیں مگر جس حد تک بھی توفیق پاتے ہیں ہم ان عبادتوں کو اسی طرح زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، پس اے ہمارے معبود! ہماری عبادتوں کو قبول فرما اور ہماری مددفرما اور آج اگر تو نے عبادت کرنے والوں کی مدد نہ کی تو دنیا سے عبادت اٹھ جائے گی اور دنیا سے عبادت کا ذوق اٹھ جائے گا.پس تو ہماری التجاؤں کو قبول فرما ايَّاكَ نَعْبُدُ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں، دنیا کی قوم کی طرف نہیں دیکھ رہے تیری طرف دیکھ رہے ہیں تیرے حضور جھک رہے ہیں تو مدد فرما.اگر ہماری یہ دعا قبول ہو جائے اور اگر دل کی گہرائیوں سے اٹھے اور تمام دنیا سے احمدی یہ دعائیں کر رہے ہوں تو ہر گز بعید نہیں کہ یہ دعا قبول ہو جائے تو پھر آپ دیکھیں گے کہ انشاء اللہ تعالیٰ Ball کسی کی کورٹ میں نہیں رہے گا Ball تقدیر الہی کی کورٹ کی طرف واپس چلا جائے گا اور آپ کی دعائیں ہیں جن کا ہاتھ تقدیر الہی پر پڑتا ہے یا جن کا ہا تھ تقدید الہی کے قدموں کو چھوتا ہے اور پھر تقدیر الہی آپ کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ رنگ بدلتی چلی جاتی ہے.اب دنیا کو یہ بدلتے ہوئے رنگ دکھا دیں اور دنیا کو بتادیں کہ خدا آپ کا ہے اور آپ خدا کے ساتھ ہیں خدا آپ کے ساتھ ہوگا.

Page 148

Page 149

۱۴۷ بسم اللہ الرحمن الرحیم شدید بدامنی کے بیج بونے والی جنگ ( خطبه جمعه فرموده ۱۸ جنوری ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ایک انتہائی دردناک حقیقت ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء پیر صاحب پگاڑا جو پاکستان کے ایک بزرگ سیاستدان ہیں انہیں خدا تعالیٰ نے ایک خاص ملکہ عطا فرمایا ہے.ان جیسا ملکہ اور کسی پاکستانی سیاستدان میں میں نے نہیں دیکھا.مزاح کی زبان میں اور لطیف مزاح میں لپیٹ کر وہ بعض دفعہ ایسی ٹھوس حقیقتیں بیان کر دیتے ہیں جو اگر ظاہری کھلے کھلے لفظوں میں بیان کی جائیں تو ویسا اثر پیدا نہیں کر سکتیں اور ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جو وہ بعض حالات میں کھلم کھلا کہنا مناسب نہ سمجھتے ہوں مگر اشاروں کی اس زبان میں جو خاص طور پر مزاح میں لپٹی ہوئی ہوتی ہے وہ اپنے مافی الضمیر کو ادا کرنے کی خاص قدرت رکھتے ہیں.پیچھے کچھ ا عرصہ ہوا کسی نے ان سے پوچھا کہ بتائیے کہ مشرقی پاکستان جو پہلے ہوا کرتا تھا وہاں کے ان مسائل کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے.انہوں نے کہا کہ مجھ سے مشرق کی باتیں کیا پوچھتے ہو.ہمارا تو قبلہ مغرب کی طرف ہے اور مغرب ہی کو ہم سجدہ کرتے ہیں اس لئے مغرب کی باتیں پوچھو.کیسی لطیف بات ہے اور کتنی گہری ہے.تو مزاح کے پردے میں لپٹی ہوئی لیکن ایک انتہائی دردناک حقیقت ہے جو روز بروز کھل کر ظاہر ہوتی چلی جارہی ہے.وہ قومیں جو قبلہ یعنی بیت اللہ سے مشرق کی طرف واقع ہیں ان کا ظاہری قبلہ تو بہر حال مغرب ہی کی طرف ہو گا لیکن پیر صاحب کی مراد یہ نہیں تھی بلکہ

Page 150

۱۴۸ ۱۸/جنوری ۱۹۹۱ء یہ مراد تھی کہ ظاہری قبلہ مغرب کی طرف ہے اور باطنی قبلہ کسی اور طرف ہے مگر حیرت ہوتی ہے خانہ کعبہ کے محافظین پر کہ جو بیت اللہ میں رہتے ہوئے بھی مغرب کو سجدہ کرتے ہیں.آج عالمی مسائل سے مسلمانوں کو بچانے کے لئے سب سے اہم ضرورت قبلہ سیدھا کرنے کی ہے.جب تک ہمارا قبلہ سیدھا نہیں ہوتا اس وقت تک ہمارا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا.ایک زمانہ تھا کہ جب مسلمان قوم دو ایسے حصوں میں بٹی ہوئی تھی کہ ایک کا قبلہ مشرق کی طرف ہو چکا تھا اور ایک کا مغرب کی طرف اور دونوں میں سے کسی کا قبلہ بھی بیت اللہ کی طرف نہیں تھا وہ اپنے تمام مسائل میں یا مغربی قوموں کی طرف دیکھتے تھے یا مشرقی طاقتوں کی طرف.جو سیاسی تبدیلیاں روس میں اور روس اور امریکہ کے تعلقات میں پیدا ہوئی ہیں ان کے نتیجے میں اب ایک قبلہ تباہ ہو چکا ہے اور ایک ہی قبلہ باقی رہ گیا ہے ان کے لئے لیکن جو حقیقی قبلہ کبھی تباہ نہیں ہوسکتا ، جو دائمی ہے اور ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کے لئے نجات کا ذریعہ بنایا گیا اس قبلے کی طرف رخ نہیں کرتے.عراق کے متعلق جماعت کا موقف پس آج کے دور میں سب سے اہم ضرورت قبلہ درست کرنے کی ہے.یہ انتہائی دردناک حالات جو اس وقت عالم اسلام پر مصیبتیں بن کر اتر رہے ہیں ، اس سے کئی قسم کے ردعمل پیدا ہورہے ہیں اور میں مختصراً ان سے متعلق جماعت کے سامنے وضاحت کرتا ہوں اور پھر جماعت کو نصیحت کروں گا کہ ان کو اسلامی تعلیم کے لحاظ سے کیا رد عمل دکھانا چاہئے.ایک بڑا حصہ سعودی عرب کی امامت میں یعنی مسلمان ممالک کا ایک بڑا حصہ سعودی عرب کی امامت میں کلیہ مغرب پر اپنا انحصار کر بیٹھا ہے اور اس بات میں کوئی بھی عار نہیں اور کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا کہ عالم اسلام پھٹتا جا رہا ہے اور دن بدن ان کے رخنے زیادہ گہرے ہوتے چلے جارہے ہیں.عراق نے جو کچھ بھی کیا ، جیسا کہ آپ خطبوں میں پہلے سن چکے ہیں.جماعت احمدیہ نے کبھی بھی عراق کے کویت پر اس حملے کی تائید نہیں کی ، جماعت احمدیہ کا موقف ہمیشہ یہی رہا

Page 151

ج کا بحران ۱۴۹ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کے مطابق تمہارا بھائی اگر ظالم بھی ہو تو اس کی اس طرح مدد کرو کہ اس کے ہاتھ ظلم سے روکو.چنانچہ اس پہلو سے ہم نے عراق کی بار ہا مدد کرنے کی کوشش کی.پیغامات بھجوائے گئے ، خطبات میں بھی ہر طرح سے یہ مضامین بیان کئے کہ دو باتیں ایسی ہیں جو آپ کو ظلم میں شریک کر دیتی ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اگر آپ مدد چاہتے ہیں تو ظلم سے ہاتھ کھینچنا ہو گا.پہلی بات یہ کہ کویت سے آپ کو اپنی فوجیں واپس بلا لینی چاہئیں اور عالمی برادری کے سامنے نہیں بلکہ مسلمان برادری کے سامنے کویت کے ساتھ اپنا معاملہ طے کرنے کے لئے پیش کریں اور امن کے ساتھ اور سمجھوتے کے ساتھ آپ کے اختلافات طے ہوں یہی قرآنی تعلیم ہے در اسی تعلیم کے مطابق ہم نے بغداد کو نصیحت کی.دوسری بات ان کے سامنے یہ پیش کی گئی کہ باہر کے ملکوں کے نمائندے جو آپ کے ملک میں مختلف خدمات پر مامور تھے اور اسی طرح مختلف سفارتکار، وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کے پاس امانت ہیں اور اس امانت میں آپ نے خیانت نہیں کرنی.چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ خواہ یہ نصیحت ان تک پہنچی ہو یا نہ پہنچی ہو، از خود انہوں نے ایک معقول فیصلہ کیا اور مبنی بر انصاف فیصلہ کیا اور اپنے پہلے موقف کو تبدیل کر کے اس منصفانہ موقف پر آگئے کہ ہمیں کسی Human Shield کی ضرورت نہیں ہے، جو غیر ملکی باشندے ہیں وہ جہاں چاہیں جب چاہیں واپس جاسکتے ہیں یہاں تک کہ ان کے اخباری نمائندگان کو بھی انہوں نے آج تک ایسی غیر معمولی سہولتیں دیئے رکھی ہیں کہ جن کے متعلق مغرب میں بھی یہ تصور نہیں ہو سکتا کہ جب یہ اپنی زندگی اور موت کی جنگ میں اس طرح مصروف ہوں تو اتنی آزادی کے ساتھ غیر ملکی سفارتکاروں کو حالات کا جائزہ لینے اور باہر خبریں بھجوانے کا موقعہ دیں تو ایک پہلو سے تو وہ ظلم سے باز آ گئے لیکن کویت کے مسئلے پر اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا حکمتیں تھیں، کیا مجبوریاں تھیں کہ انہوں نے اپنا قدم واپس لینے سے انکار کر دیا اور اس انکار پر مصر رہے اس کے نتیجے میں جو خوفناک جنگ اس وقت وہاں لڑی جارہی ہے وہ ظاہر ہے کہ بالکل یک طرفہ ہے وہ تمام طاقتیں جو بغداد کے خلاف اکٹھی ہوگئی ہیں ان میں

Page 152

۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء مسلمانوں کا حصہ یہ ظاہر کرنے کے لئے ڈالا گیا ہے کہ یہ کوئی اسلام اور غیر اسلام کی جنگ نہیں بلکہ ایک ظالم کے خلاف مسلمان ممالک کی مدد کے لئے ہم قربانی کر رہے ہیں.اس قربانی کی حیثیت کیا ہے یہ تو سب دنیا جانتی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ وہ قربانی اس نوعیت کی ہے کہ غیر معمولی فوائد مغرب کو پہنچ رہے ہیں جن کا عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا.جو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر پرو پیگنڈا ہو رہا ہے اس پروپیگنڈا کے پس پردہ بہت سے امور ہیں جو واقعات ہیں اور ان کو سمجھے بغیر آپ کو اندازہ نہیں ہوسکتا کہ اس خوفناک جنگ کے نتیجے میں کونسی طاقت فائدے اٹھائے گی اور کونسی طاقت نقصان اٹھائے گی.عراق کے لئے صائب مشورہ جہاں تک عراق کا تعلق ہے وہ آپ جانتے ہیں کہ نقصان ہی نقصان ہے اور بہت ہی دردناک حالات ہیں.عراق کو میں نے خطبات میں یہ بھی کھلم کھلا مشورہ دیا تھا کہ تمہیں لازم تھا کہ انتظار کرتے.خدا تعالیٰ نے ایک طاقت عطا کی اس طاقت کو آگے بڑھانے کے لئے ابھی کھلا وقت درکار تھا اس لئے جو بھی فیصلے کئے گئے ہیں کچے ہیں، بے وقت ہیں اور نا مناسب ہیں اس لئے اس وقت اس ظلم سے اپنا ہاتھ اٹھالو اور ترقی کرو.جلسہ سالانہ پر میں نے عالم اسلام کو یہ توجہ دلائی تھی کہ یہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک صلاح الدین عطا کر دے.کچھ عرصہ ہوا جب میں نے بغداد کے حالات دیکھنے کے لئے ٹیلیویژن چلایا تو اس میں ایک پروگرام دکھایا جارہا تھا جس میں بعض مسلمان علماء بڑے جوش کے ساتھ صدر صدام حسین صاحب کو صلاح الدین قرار دے رہے تھے لیکن جذبات کے نتیجے میں، اندھی وابستگی کے نتیجے میں صلاح الدین پیدا نہیں ہوا کرتے.صلاح الدین سے میری مراد یہ نہیں تھی کہ ایک جذباتی بت کھڑا کر دیا جائے اور اس کا نام صلاح الدین رکھ دیا جائے.صلاح الدین بننے کے لئے بہت سی صلاحیتوں کی ضرورت ہے اور ان صلاحیتوں کے علاوہ لمبے صبر کی

Page 153

یج کا بحران ۱۵۱ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء ضرورت ہے.سلطان صلاح الدین نے سب سے پہلے عالم اسلام کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی تھی.زندگی کا ایک بڑا حصہ مختلف ٹکڑوں میں بٹی ہوئی عرب ریاستوں کو یکجا کرنے اور ایک مرکزی حکومت بنانے پر عمر کا ایک بڑا حصہ صرف کر دیا اور جب وہ گھر کے حالات سے پوری طرح مطمئن ہو گئے تب انہوں نے فلسطین کے دفاع کے لئے تمام عالم کی طاقتوں کو چیلنج کیا اور دنیا جانتی ہے کہ جس طرح آج مغربی طاقتیں بغداد کے خلاف اکٹھی ہوئی ہیں اسی طرح اس زمانے میں بلکہ اس سے بھی زیادہ شدت اور جذبے کے ساتھ اس روح کے ساتھ کہ گویا ند ہی جنگ ہے، اس روح نے ان کے اندر دیوانگی کی ایک کیفیت بھی پیدا کر دی تھی پس زیادہ شدت اور جذبے اور دیوانگی کے ساتھ صلاح الدین کی طاقت کو توڑنے کے لئے مغرب نے بار بار کوششیں کیں اور باوجود اس کے کہ وہ نسبتا کمزور تھا ، با وجود اس کے کہ وہ کوئی غیر معمولی حربی صلاحیتیں یعنی جنگی صلاحیتیں نہیں رکھتا تھا اس کے باوجود ہر بار اللہ تعالیٰ اس کو فتح پر فتح عطا کرتا چلا گیا اس میں بعض اور صفات بھی تھیں، وہ ایک بہت نیک اور متوکل انسان تھا وہ ایک ایسا شخص ہے جس کے متعلق یورپ کے شدید ترین معاند بھی حرف نہیں رکھ سکے کہ اس نے یہ ظلم کیا اور یہ بداخلاقی کی.چنانچہ وہ محققین جنہوں نے بہت تلاش کیا ان میں سے بعض نے یہ اعتراف کیا کہ صلاح الدین کے متعلق ہم نے ہر طرح سے کھوج لگا یا کہ کوئی ایک بات اس کے متعلق ایسی بیان کر سکیں کہ جس نے بنیادی طور پر انسانیت کی ناقدری کی ہو، انسانی قدروں کو ٹھکرایا ہو، ظلم اور سفاکی سے کام لیا ہو، بداخلاقی سے کام لیا ہومگر ایسی کوئی مثال اس کی زندگی میں دکھائی نہیں دی.ایک ہی مثال ان کے سامنے آئی اور یہی مصنف لکھتا ہے کہ اس مثال میں بھی جس کو مغرب نے اچھالا ، دراصل کوئی حقیقت نہیں ہے.وہ مثال ی تھی کہ وہ یورپین شہزادہ جو حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کے مزار کو اکھیڑنے کے لئے اس نیت کے ساتھ مدینے کی طرف روانہ ہوا تھا اور بہت قریب پہنچ چکا تھا اور اس کے ارادے بہت بد تھے.اس کو صلاح الدین نے بالآخر پکڑ کر اس کی مہم کو نا کام اور نا مراد کیا اور جب وہ شہزادہ صلاح الدین کے سامنے پیش ہوا ہے تو اس وقت اس کا پیاس سے برا حال تھا ، ایک شربت کا گلاس وہاں پڑا ہوا

Page 154

۱۵۲ ۱۸/جنوری ۱۹۹۱ء تھا اس نے وہ گلاس اٹھایا اور پینے لگا تھا کہ صلاح الدین نے تلوار کی ایک ضرب سے وہ گلاس توڑ دیا کیونکہ صلاح الدین نے زیادہ حکمت عملی کے ساتھ ایک زیادہ طاقتور فوج کو شکست دی تھی اور ان کو صحراء میں آگے پیچھے کر کے ایسے اقدام پر مجبور کر دیا جس کے نتیجے میں وہ پانی سے محروم رہ گئے اور صلاح الدین کی یہ جنگ تلوار کی طاقت سے نہیں بلکہ اعلیٰ حکمت عملی کے نتیجے میں جیتی گئی تھی.پس وہ پیاس سے تڑپتا ہوا وہاں پہنچا اور اس وقت اس شربت کے گلاس سے اس کو محروم کر دیا گیا.یہ متقین نے ایک داغ نکالا کہ یہ داغ صلاح الدین کے چہرے پر ہے اس کے سوا ہم کچھ تلاش نہیں کر سکے.یہ مؤرخ جس کی کتاب میں نے ایک لمبا عرصہ ہوا پڑھی تھی ، مجھے نام بھی یاد نہیں لمبا عرصہ پہلے پڑھی گئی تھی ، وہ یہ لکھتا ہے کہ جو اعتراض کرنے والے ہیں وہ عرب مزاج کو نہیں سمجھتے اور عرب اعلیٰ اخلاقی روایات کو نہیں سمجھتے.عرب اعلیٰ اخلاقی روایات میں سے ایک یہ ہے کہ مہمان کو جو تمہارا کا پانی پی چکا ہو یا تمہارے گھر کا کھانا چکھ چکا ہو اس کو قتل نہیں کرنا چاہئے اس نے کیسا ہی بھیانک جرم کیا ہو اور اس کا جرم اتنا بھیا نک تھا یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی امیے کے مزار کی تو ہین کہ صلاح الدین جیسا عاشق رسول کسی قیمت پر اس کو معاف نہیں کر سکتا تھا.پس اس کے نزدیک یہ بداخلاقی تھی کہ یہ اس کے میز سے پانی پی لیتا اور پھر وہ اس کو قتل کرتا نہ کہ یہ بداخلاقی کہ مرنے سے پہلے ایک دو سیکنڈ اور اس کو پیاس میں تڑپنے رہنے دیتا.پس صلاح الدین ایک بہت بڑی عظیم شخصیت تھی جو اسلامی اخلاق کا ایک عظیم الشان مظاہرہ تھا.ایسا حیرت انگیز مظاہرہ تھا کہ بعض مغربی مورخین نے اس کو عمر بن عبدالعزیز ثانی کہنا شروع کر دیا اور وہ کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز میں جو صلاحیتیں جو روحانیت جو اعلیٰ اخلاق موجود تھے وہ سینکڑوں سال کے بعد صلاح الدین کی صورت میں عرب دنیا میں دوبارہ ظاہر ہوئے.پس صلاح الدین محض جذبات سے نہیں بنا کرتے.صلاح الدین نام بہت سی صلاحیتوں کا تقاضا کرتا ہے.پس احمدی بھی شاید یہ پروگرام دیکھ کر جذباتی طور پر بہیجان پکڑ چکے ہوں ، وہ کہہ رہے ہوں کہ

Page 155

۱۵۳ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء دیکھو جی ، ادھر دعا کروائی ادھر صلاح الدین عطا ہو گیا.یہ بچگانہ باتیں ہیں.آپ کی سوچ پختہ ہونی چاہئے کیونکہ آپ تمام دنیا کی راہنمائی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں میں آپ کو آپ کا یہ مقام یاد دلاتا ہوں آپ کسی ایک قوم اور کسی ایک مذہب کی راہنمائی کے لئے نہیں بلکہ حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کی غلامی سے آپ نے سیادت کی صلاحیتیں حاصل کی ہیں اور حضرت محمد ﷺ تمام دنیا کی سیادت کے لئے پیدا فرمائے گئے اور تمام دنیا کوصحیح مشورے دینے کیلئے پیدا کئے گئے تھے.ایسی پختگی انسانی عقل میں کبھی واقع نہیں ہوئی جیسی حضرت محمد مصطفی ﷺ کو عقل کی پختگی عطا فرمائی گئی تھی.آپ کا دل بھی کامل تھا، آپ کی عقل بھی کامل تھی اور دل کے جذبات کو عقل میں ناجائز دخل دینے کی اجازت نہیں تھی.عالم اسلام کے لئے انتہائی دردناک صورت حال آج کل جو انتہائی دردناک حالات گزر رہے ہیں ان میں بعض لوگوں کے لئے تو یہ ایک ایسا ہی تماشہ ہے جیسے کبھی کرکٹ کے میچ ہورہے ہوتے ہیں اور ان میچوں کے دوران بچے بھی اور بڑے بھی دن رات، دن رات تو نہیں یعنی دن کے حصے میں ٹیلی ویژن کے اردگرد بیٹھے تماشے دیکھ رہے ہوتے ہیں.یہ کوئی کرکٹ کا تماشہ نہیں ہے.بہت ہی خوفناک اذیت ناک جنگ ہے Carpet Bombing کا آپ نے بار بار نام سنا ہوگا اس کا مطلب ہے کہ ایک علاقے کو مکمل طور پر اس طرح ملیا میٹ کر دیا جائے کہ کسی چیز کا کوئی نشان باقی نہ رہے اور ایک بم کے گڑھے کا تعلق دوسرے بم کے گڑھے کے کنارے سے ملتا چلا جائے.ایسی بمبارڈ منٹ (Bombardment) عراق پر کی جارہی ہے کہ پہلی رات میں ہی ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے زیادہ طاقت کے ہم وہاں گرائے جاچکے تھے اور اس وقت سے اب تک یہ سلسلہ جاری ہے.ان حالات میں جب تمام عالم اسلام کا دل درد سے بھرا ہوا ہے یعنی اس عالم اسلام کا جس کو اسلام سے محبت ہے جس کو انسانیت سے محبت ہے، جس کو بنی نوع انسان کے امن سے محبت

Page 156

ج کا بحران ۱۵۴ ۱۸/جنوری ۱۹۹۱ء ہے، جو انسانی قدروں کی بلندی چاہتا ہے اور کسی ایک قوم کی عصبیتی فتح کے نتیجے میں وہ نہیں ہوسکتا اس عالم اسلام کی میں بات کر رہا ہوں.اس عالم اسلام پر انتہائی درد کی کیفیت طاری ہے.دن رات دل دکھے ہوئے ہیں.اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ صدر صدام کے ہر فیصلے پر صاد کر رہے ہیں.ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں.صدر صدام نے جو یہ فیصلہ کیا کہ اسرائیل پر وہ سکڈ میزائلز پھینکیں اس کے نتیجے میں نقصان تو اتنا معمولی ہوا ہے کہ ایک معمولی بس کے حادثہ میں بھی اس سے بہت زیادہ نقصان ہو جایا کرتا ہے.زلزلے کے نتیجے میں اس سے ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ نقصان ہو جاتا ہے جو Terrorist آئر لینڈ سے آکر یہاں بم کے دھماکے کرتے ہیں ان کا نقصان اس سے بہت زیادہ ہو جاتا ہے.لیکن تمام دنیا اسرائیل پر اس حملے کے نتیجے میں Appal ہوگئی ہے، یہ الفاظ ہیں پرائم منسٹر آف بریٹین (Prime Minister of Britain) کے کہ ہم Appal ہو گئے ہیں اس قدر حیرت اور سکتے میں پڑ گئے ہیں اور اس قدر خوفناک تعجب انگیز تکلیف پہنچی ہے کہ لفظ نہیں ہیں اس کو بیان کرنے کے لئے تو یہ ہمدردیاں ہیں عالمی قوتوں کی اسرائیل کے ساتھ.ایسے موقع پر ایک ایسا قدم اٹھانا کہ جس کے نتیجے میں عراقیوں کے لئے اور زیادہ تکلیف ہو اور اگر عراقیوں کو تکلیف پہنچے گی تو چونکہ اکثر مسلمان ہیں اور اکثر عراقی جنگ کے فیصلوں میں ذمہ دار اور شریک نہیں اس لئے دنیا کے ہر شریف انسان کو خواہ وہ مسلمان ہو یا نہ ہو اس تکلیف میں حصہ دار ہونا چاہئے.پس جو تکلیف نہتے، غریب شہریوں کو پہنچ رہی ہے جو پہلے ہی فاقوں کا شکار ہیں اس پر ان پر ظالمانہ بمباریاں ہو رہی ہیں اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کتنا شدید نقصان اب تک پہنچ چکا ہے ان پر تو کوئی Appal نہیں ہو رہا ہے لیکن اس واقعہ پر اس لئے Appal ہور ہے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں اسرائیل نے جب جوابی کارروائی کی جو مظالم اب تک عراقیوں پر ہو چکے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ مظالم ہوں گے.پس در اصل اس Appal کے لفظ کے پیچھے یہ حکمت ہے اور دوسرا ایسے خطرات ہیں جو خود غرضانہ خطرات ہیں ان کو خطرہ یہ ہے کہ اگر اس کے نتیجے میں اسرائیل نے کوئی جوابی کارروائی کی اور عالم اسلام پھٹ گیا یعنی پھٹا تو پہلے ہوا ہے مزید پھٹ گیا.

Page 157

۱۵۵ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء اور کچھ مسلمان ممالک نے عراق کی تائید شروع کر دی تو ہمارے لئے اور مشکلات کھڑی ہو جائیں گی تو بہر حال جو اقدامات ایسے ہیں جن کے نتیجے میں مصیبتوں میں اضافہ ہورہا ہے، دنیا میں کوئی بھی انسانیت اور اسلام کا سچا ہمدردان اقدامات پر خوش نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر صدر صدام کے غلط فیصلوں کے نتیجے میں اہل عراق کو دردناک سزائیں دی گئیں تو اس پر خوش ہونا مسلمان تو کیا ایک معمولی ادنی انسان کو بھی زیب نہیں دیتا لیکن ساتھ ہی جب آپ ٹیلی ویژن پر وہ تصویر میں دیکھتے ہیں جن میں بے کار بیٹھے ہوئے امیر ، بھری ہوئی تجوریوں کے مالک کویتی اور سعودی کانوں کے ساتھ ریڈیو لگائے بیٹھے ہوئے عراق کی تباہی کی خبروں پر قہقہے لگاتے ہیں اور ایسے مزے اڑار ہے ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے دیکھ کر.جب ان تصویروں کو آپ دیکھتے ہیں تو انسان بیان نہیں کر سکتا کہ دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے.حیرت سے دیکھتے ہیں کہ ایسے انسان بھی ہیں جو اسلام کے نام پر ساری دنیا میں اپنے تقویٰ کے ڈھنڈورے پیٹتے رہے ہیں اور یہ بتاتے رہے ہیں کہ ہم اسلام کے صف اول کے سپاہی ہیں ہم وہ ہیں جن کے سپر د خانہ کعبہ کی چابیاں کی گئی ہیں.جن کے سپرد مقامات مقدسہ کی حفاظت کی عظیم ذمہ داری سونپی گئی ہے.ہم وہ ہیں جنہیں عالم اسلام میں خدا تعالیٰ نے عظیم سیادتیں بخشی ہیں ، یہ دعوے کرتے چلے جارہے ہیں اور انسانی قدروں کی حالت یہ ہے کہ اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے Next Door یعنی ساتھ کے ہمسایہ مسلمان ملک پر اس قدر خوفناک مظالم توڑے جارہے ہیں کہ ان کے حالات جب جنگ کے بعد سامنے آئیں گے تو مدتوں تاریخ ان کے ذکر پر روئے گی.ہلاکو خان کی باتیں تو قصہ ہوچکی ہیں وہ پرانی باتیں ہیں.ہلاکو خان کو تو جنگ عظیم کی ہلاکت نے خواب بنایا تھا اور اب یہ خود اقرار کر رہے ہیں کہ جنگ عظیم میں جو کچھ ہوا وہ کچھ بھی نہیں تھا، ویتنام میں جو بمباری ہوئی ہے اس کی باتیں چھوڑ دو.اب جو بمباری ہم کر رہے ہیں اس کی کوئی مثال بنی نوع انسان کی فوجی طاقت کے مظاہرے میں آپ کو دکھائی نہیں دے گی.ان باتوں کو دیکھ کر قہقہے لگانے اور ہنسنا اور جہالت کے ساتھ ایسی طرز اختیار کرنا کہ جو کسی شریف انسان کو زیب نہیں دیتی.ایسی گھٹیا حرکتیں ، ایسے گھٹیا انداز میں نے تو پہلی دفعہ دیکھا ہے

Page 158

ܪܬܙ ۱۸/جنوری ۱۹۹۱ء میں تو حیران رہ گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اتنی دولتوں کا مالک بنایا گیا ہے اور یہ ان کا وقار ہے اور یہ ان کی عقل اور سمجھ بوجھ ہے.کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ استغفار کریں، کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ تو بہ کریں.خدا تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوں خدا تعالیٰ کی چوکھٹ پر سجدے کریں اور اس سے دعا مانگیں کہ اے خدا ہم کس مصیبت میں پھنس گئے ہیں، مجبور ہو گئے ہیں کہ اپنے بھائیوں کو نیست و نابود کر دیں اور اس کے نتیجے میں صدقات کریں.بنی نوع انسان کی ہمدردی کا اظہار کریں،اس دولت کا صحیح استعمال کریں جس دولت کا ان کو امین بنایا گیا ہے.یہ کرنے کی بجائے یہ صرف اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب کلیۂ عراق کی طاقت ہمیشہ ہمیش کے لئے صفحہ ہستی سے مٹادی جائے اور پھر فاخرانہ انداز میں یہ واپس اپنے چھوٹے سے ملک کویت میں داخل ہوں.اور پھر مغربی طاقتیں دوبارہ آکر ان کے ملک کو از سرنو تعمیر کریں ، پھر آباد کریں جب کہ عملاً عراق صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہو.اب سوال یہ ہے کہ اس ساری جد و جہد کا ، اس خوفناک بین الاقوامی صورت حال کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے.آج صبح کے انٹرویو میں کسی نے اسرائیل کے نائب وزیر دفاع سے پوچھا کہ دیکھیں اگر آپ نے کوئی رد عمل دکھایا یعنی ان سکڈ میزائل کے نتیجہ میں جو آپ کے بعض شہروں میں گرے لیکن زیادہ نقصان نہیں ہوا اگر آپ نے کوئی رد عمل دکھایا تو اس کے نتیجے میں عالم اسلام کا جو ہمارے ساتھ اتحاد ہے اس کو شدید نقصان پہنچے گا تو اس نے کہا: تم کیا با تیں کرتے ہو کیسی بے عقلی کا سوال ہے.مجھے تو اس سوال میں معمولی عقل کی بات بھی دکھائی نہیں دیتی.اس نے کہا کیا تمہارا خیال ہے کہ یہ سعودی عرب کا احسان ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہے اور انگلستان کے ساتھ ہے اور یورپین ممالک کے ساتھ ہے.کیا تمہارا خیال ہے کہ یہ کو بیت کا احسان ہے یا مصر کا احسان ہے.یہ تو سارے تمہارے ممنون احسان ہیں.ان کو ایک ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں ہوگی کہ اسرئیل عراق کو تباہ کرے یا کوئی اور تباہ کرے یہ ممالک ہیں جو تمہارے غلام ہیں، تمہارے ممنون احسان ہیں، تم پر کامل انحصار رکھنے والے ممالک ہیں ان کو توفیق ہی نہیں ہے کہ تم سے ناراض ہوسکیں.یہ جو جواب

Page 159

۱۵۷ ۱۸/جنوری ۱۹۹۱ء ہے اس میں بڑی گہری حقیقت ہے.اس سے کوئی انکار نہیں کہ اس وقت یہ صورت حال ہو چکی ہے لیکن ایک بات سے مجھے شدید اختلاف ہے کہ اس نے کہا کہ تم نے ان پر احسان کیا ہے.یہ بالکل جھوٹ ہے.مغرب نے نہ عالم اسلام پر کوئی احسان کیا ہے اس لڑائی میں حصہ لے کر نہ اُن مسلمان ممالک پر احسان کیا ہے جن کے نام پر یہ لڑائی لڑی جارہی ہے بلکہ ہمیشہ کی طرح اپنے ان مفادات کو حاصل کرنے کی ایک بہت ہی خوفناک کوشش ہے جو اس جدید تاریخ میں ہمیشہ سے اسی طرح کارفرمارہی ہے.کوششیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں کہ جب بھی دنیا میں کہیں بدامنی ہو اس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ فائدہ ترقی یافتہ قوموں کو پہنچے.پس اس صورت حال کے پیش نظر اگر آپ مزید تجزیہ کریں تو آپ کو میری بات کی خوب سمجھ آجائے گی کہ فائدے کس کے ہیں.یہ جو بے شمر جنگی ہتھیار اور جدید ترین جنگی ہتھیار میدان جنگ تک پہنچائے جارہے ہیں ان پر بے انتہا خرچ آ رہا ہے.ارب ہا ارب ڈالرز ، آپ تصور ہی نہیں کر سکتے یوں سمجھیں کہ دولتوں کے پہاڑ خرچ ہور ہے ہیں اور ایک بات آپ نے سنی تھی کہ معاہدہ ہو چکا ہے کہ اس میں سے نصف سعودی عرب ادا کرے گا.دوسرے نصف کی کوئی بات نہیں کی گئی.یہ نہیں بتایا گیا کہ دوسرا نصف کس کس مسلمان ملک کے حصے میں آئے گا کس کے ذمے،کس کے کھاتے میں ڈالا جائے گا اور میں آپ کو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ دوسرے نصف کا بڑا حصہ کو یت اور بحرین اور اسی طرح شیخڈم کی دوسری ریاستیں ادا کریں گی.اگر پورا نہیں تو لازماً ایک بڑا حصہ ان سے وصول کیا جائے گا.پس اس جنگ کا آخری واضح نقشہ یوں ابھرتا ہے کہ کسی ایسی طاقت کو فائدہ پہنچ رہا ہے جو خود جنگ میں شریک ہی نہیں ہے اور وہ اسرائیل ہے.آج کے ایک انٹرویو میں ایک مغربی مفکر یا سیاستدان نے کھل کر اس بات کو تسلیم کیا کہ ہم جو کہتے تھے کہ عراق کو تباہ کرو.اب تمہیں سمجھ آگئی ہے ناں کہ کیوں کہتے تھے.یہ سکڈ میزائلز جو پوری طرح چل نہیں سکے اگر یہ اسی طرح رہ جاتے اور یہ جنگ نہ ہوتی تو آخر کار ان میزائلز کو زیادہ ہولناک طاقت کے ساتھ اسرائیل کے خلاف استعمال کیا جانا تھا.

Page 160

یچ کا بحران ۱۵۸ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء انتہائی خوفناک حالات کو جنم دینے والی جنگ پس جہاں تک مقاصد کا تعلق ہے ، مقصد کے لحاظ سے اس نہایت ہی خوفناک جنگ کا فائدہ صرف اور صرف اسرئیل کو ہے.جہاں تک اقتصادی فوائد کا تعلق ہے یہ تمام تر فائدہ مغربی ملکوں کو ہے وجہ یہ ہے کہ جو بھی ہتھیار یہاں استعمال کئے جارہے ہیں روس سے صلح کے نتیجے میں ان ہتھیاروں کی قیمت مٹی ہو چکی تھی کوئی بھی حیثیت باقی نہیں رہی تھی اور جو زیادہ تر بل ہے وہ ان ہتھیاروں کی قیمت کے طور پر ہے جہاں تک ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات ہیں وہ تو سارے کلیۂ ان کے مفت تیل پر ہیں اور اگر صرف نصف بل بھی بنے تب بھی ان کی بچت کا جو مارجن (Margin) ہے یعنی جتنے فی صد بچت ان کو ہوگی وہ بھی غیر معمولی ہے پس اس جنگ کا اقتصادی فائدہ کلیۂ ان مغربی طاقتوں کو حاصل ہے جو اپنے فرسودہ ہتھیار یا نئے ہتھیار ایک ایسی جنگ میں استعمال کر رہے ہیں جس جنگ کی قیمت وہ کسی اور فریق سے وصول کر رہے ہیں.پس جنگ کی محنت کرنے والے مغربی لوگ ، جنگ میں چند نقصانات اٹھانے والے یعنی چند جانی نقصانات اٹھانے والے مغربی لوگ اور اس کے نتیجے میں بے شمار اقتصادی فائدہ حاصل کرنے والے بھی مغربی لوگ.عالم اسلام کو اس کے شدید نقصانات ہیں اگر عراق کلیہ تباہ ہو جائے تو یہی نقصان ایک بہت بڑا نقصان ہے جس کے بعد بیسیوں سال تک مسلمان روئیں گے لیکن اس کو نظر انداز بھی کر دو تو اس جنگ کے بعد جو نقشہ ابھرے گا وہ نہایت ہی خطرناک ہوگا.ایک تو یہ خطرہ فوری طور پر لاحق ہے کہ صدر صدام نے اگر ایک اور ایسی غیر ذمہ دارانہ حرکت کی کہ اسرائیل کو اس غرض سے ملوث کرنے کی کوشش کی کہ جو مسلمان ممالک مغربی طاقتوں کا ساتھ دے رہے ہیں وہ ان سے بٹ جائیں تو اسرائیل جب اپنی انتہائی بہیمانہ انتقامی کارروائی کرے گا تو کسی مغربی طاقت نے اس کے ہاتھ نہیں روکنے نہ ان کو اس بات کی پرواہ ہوگی اور اس پر بھی ان ہی مسلمانوں کے دل دیکھیں گے جو بالکل بے بس ہیں اور جن کا کوئی اختیار نہیں ہے اور وہ اسلام اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم

Page 161

۱۵۹ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء اور خدا سے شدید محبت رکھتے ہیں جو انصاف سے محبت رکھتے ہیں.جو امن عالم سے محبت رکھتے ہیں اور اس کے بعد اس کے نتیجے میں تمام عالم اسلام میں ایک ہیجان پیدا ہو جائے گا.اگر چہ ظاہری طور پر یہ جنگ جیت جائیں گے مگر بدامنی کے اتنے شدید خوفناک بیج بوڈالیں گے کہ وہ جگہ جگہ اُگیں گے اور اس کے نتیجے میں پھر بدامنیاں پیدا ہوں گی اور بدامنی کی آماجگاه مسلمان ممالک بنیں گے.کہیں اس کے ردعمل میں مسلمان حکومتوں کا تختہ الٹانے کی کوشش کی جائے گی.کہیں اس کے نتیجے میں وہ خوفناک مولویت ابھرے گی جس کا قرآن سے تعلق نہیں بلکہ وسطی تاریخ سے تعلق ہے.Middle Ages سے تعلق ہے اور وہ قیادت جو مذہبی جنون سے تعلق رکھتی ہو بظا ہر خدا کی محبت اور رسول کی محبت اور قرآن کی محبت سے تعلق رکھتی ہو جو سیاسی نتائج کی وجہ سے ظہور پذیر ہو وہ قیادت ہمیشہ مزید ہلاکت پیدا کرنے والی ہوتی ہے اور اقوام کو مزید پہلے سے بھی بدتر حال کی طرف لے جاتی ہے.پس بے انتہاء مسائل ہیں جو اس خوفناک جنگ کے بعد ظاہر ہونے والے ہیں اور ہوتے چلے جائیں گے اور امن عالم کے لئے ان میں سے ہر خطرہ ایک مزید خطرے کا پیش خیمہ بن جائے گا کیونکہ اس قسم کے دھما کے جو مذہبی جنون کے نتیجے میں ہوں یا سیاسی احساس محرومی کے نتیجے میں ہوں.یہ دھما کے دور دور تک اثر انداز ہوتے ہیں.جن کا نوں تک ان کی گونج پہنچتی ہے کان وہ گونج دل کے ارتعاش میں تبدیل کر دیا کرتے ہیں اور وہ دل کے ارتعاش پھر دماغ تک پہنچتے ہیں اور سکیموں میں بدل جایا کرتے ہیں.دھما کا خواہ کویت میں ہو، خواہ مصر میں ہو، خواہ سوڈان میں ہو ، دنیا کے کسی ملک میں بھی ہو مسلمانوں کو ہر جگہ اس کی دھمک سے ایک شدید تکلیف پہنچے گی اور ہیجان پیدا ہوں گے اور اس کے نتیجے میں اور کئی قسم کی تحریکیں جنم لیں گی اور یہ دھما کا اگر قومیت سے تعلق رکھے تو اس کے نتیجے میں قوموں میں اس سے ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور ارتعاش پیدا ہوگا بہر حال یہ ایک لمبی تفصیل ہے اس معاملے کو وضاحت سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں.آپ اسے جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بدامنی کے جو موجودہ حالات ہیں یہ ختم ہونے کے بعد بدامنی ختم نہیں ہوگی بلکہ بہت وسیع پیمانے پر جاری ہوگی اور ایک

Page 162

170 ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء اور خطرہ بھی ہے کہ یہ موجودہ بدامنی ایک عالمی بدامنی میں بھی تبدیل ہو جائے اور وہ خوفناک عالمی جنگ لڑی جائے جس کے تصور سے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ ممالک جو باہر بیٹھے ایک ملک کو تباہ کر کے اس کے تماشے دیکھ رہے ہیں خودان حالات میں سے گزریں جن کے نتیجے میں وہ تماش بین نہ رہیں بلکہ تماشہ دکھانے والے بن جائیں اس لئے حالات بہت ہی خوفناک ہیں اور خطرناک ہیں اور گہرے ہیں.سچائی کی فتح کے لئے جامع دعا میں جماعت احمدیہ کو یہ تلقین نہیں کرتا کہ یہ دعا کریں کہ فلاں فریق فتح مند ہو میں جماعت احمدیہ کو یہ تلقین کرتا ہوں کہ امن عالم کے لئے دعا کریں اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ ہم تو حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کے پیغام کے بھی عاشق ہیں ، آپ کے نام کے بھی عاشق ہیں کیونکہ اے آقا ! وہ تیرا عاشق تھا.اے زمین و آسمان کے مالک !! کبھی دنیا میں کوئی تیرا ایسا عاشق پیدا نہیں ہوا جیسے حضرت اقدس محمد مصطفی ملتے تھے.پس ہمیں تو آپ کے نام سے آپ کے کام سے، آپ کی ذات سے ، آپ کے سلسلے سے محبت ہے اور آپ کو تمام بنی نوع انسان سے محبت تھی آپ تمام عالم کے لئے تمام عالمین کے لئے رحمت بنائے گئے تھے.پس ہماری آپ کی ذات سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم تمام بنی نوع انسان کے غم میں گھلیں اور ان کے لئے بہتری کے سامان کرنے کی کوشش کریں ہمارے پاس دعا کے سوا کچھ نہیں.ہم ایک کمزور اور نہتی جماعت ہیں ایک مظلوم جماعت ہیں لیکن ہم محمد کے نام پر تیرے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں اور گڑ گڑا کر دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! اس آقا کی قوم پر رحم فرما اور تمام بنی نوع انسان پر رحم فرما اور عالمی مصائب سے ان کو بچالے خواہ وہ انسانی غلطیوں کے نتیجے میں ہیں یا بعض ایسی تقدیروں کے نتیجے میں جن کو ہم نہیں سمجھ سکتے اور جو کچھ بھی ہو اس کے نتیجے میں فتح ہو تو اسلام کی فتح ہو فتح ہو تو انسانیت کو فتح ہو وہ کھوئی ہوئی اخلاقی قدریں جو مشرق سے بھی مٹ چکی ہیں اور مغرب سے بھی مٹ چکی ہیں وہ دوبارہ دنیا میں ابھریں

Page 163

۱۶۱ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء اور دوبارہ دنیا پر غالب آئیں.اے خدا اس وعدہ کو پورا فرما جس کا تو نے قرآن میں ذکر فرمایا ہے کہ تو نے اس لئے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو دنیا میں مبعوث فرمایا تھا کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلّه (الصف:۱۰) تا کہ اس کو اور اس کے دین کو تمام دنیا کے ادیان پر غالب کرے.پس ہم کسی قوم کی فتح کی دعا نہیں مانگتے ہم سچائی کی فتح کی دعا مانگتے ہیں.ہم اسلام کی فتح کی دعا مانگتے ہیں ہم سچ کی فتح کی دعا مانگتے ہیں.ہم انسانی قدروں کی فتح کی دعا مانگتے ہیں.اے خدا آج اگر ہماری دعاؤں کو تو نے نہ سنا تو اس دنیا کی نجات کا کوئی سامان نہیں ہے.پس ہم اپنے کامل خلوص اور کامل عجز کے ساتھ تیرے حضور سجدہ ریز ہیں اور گر یہ کناں ہیں.ان غلاموں کی، محمد مصطفی میلے کے غلاموں کی التجاؤں کو سن اور دنیا میں وہ پاک انقلاب بر پا فرما جس کی خاطر ހނ تو نے ہمیں بھی قائم فرمایا ہے.وہ عظیم روحانی اور عالمی انقلاب بر پا فرما اور ہمیں اپنی آنکھوں.دکھادے کہ وہ تیرے سارے وعدے سچے نکلے جو وعدے اس انقلاب سے تعلق رکھتے ہیں کہ جو آخرین کے ذریعے دنیا میں برپا ہوگا اور وہ آخرین “ ہم ہیں اے ہمارے آقا ، تو نے ہمیں مبعوث فرمایا ہے اس لئے اپنے وعدوں کی لاج رکھ اور ہمارے ہاتھوں وہ روحانی انقلاب بر پا کر دے یعنی ہماری دعاؤں کے طفیل وہ روحانی انقلاب برپا کر دے، جس انقلاب کے بغیر دنیا بچ نہیں سکتی.اللہ تعالیٰ ہماری ان عاجزانہ دعاؤں کو سنے اور ہمیں توفیق بخشے.آمین.ایک ضروری نصیحت اس سلسلے میں ایک اور ضروری نصیحت ہے کہ دعا کے ساتھ مصیبتوں میں صدقات کا بھی حکم ہے.میں نے جب عالم اسلام کے موجودہ حالات پر غور کیا تو میری توجہ افریقہ کے ان بھوکوں کی طرف مبذول ہوئی جو کئی ملکوں کے وسیع علاقوں میں پھیلے پڑے ہیں.ایسے سینیا میں بھی ،صومالیہ میں بھی ، سوڈان میں بھی ، چاڈ میں بھی ، بہت سے ممالک میں کثرت کے ساتھ انسانیت بھوک سے مر رہی ہے اور انسان کو بحیثیت انسان ان کی کوئی فکر نہیں.اگر کچھ فکر کی ہے تو

Page 164

۱۶۲ ۱۸/جنوری ۱۹۹۱ء اہل مغرب نے کی ہے.ان کے ہاں ایسے پروگرام میں نے دیکھے ہیں جن کے تحت ان بھوکوں، ننگوں ، ان یتیموں ، ان فاقہ کشوں، ان بیماری میں مبتلا سکتے پنجروں کی تصویر میں دکھائی جاتی ہیں تا کہ بنی نوع انسان کا رحم حرکت میں آئے اور ان کی خاطر لوگ کچھ قربانیاں پیش کریں لیکن تیل کی دولت سے مالا مال وہ ممالک جن کے پاس تیل کے نتیجے میں دولتوں کے پہاڑا کٹھے ہو چکے ہیں ، وہ محمد مصطفی اے کی طرف منسوب ہونے کے باوجود آپ کے پیغام کی روح کو بھلا بیٹھے ہیں اور ان کو کبھی خیال نہیں آتا کہ ہمارے ہمسائے میں بعض غریب افریقین ملک کس طرح فاقہ کشی کا شکار ہیں.سعودی عرب ہے یا عراق ہے یا دوسری مسلمان طاقتیں ہیں، کویت ہو یا بحرین ہو یا شیخڈم کی اور ریاستیں ہوں خدا تعالیٰ نے ایک لمبے عرصہ تک ان کو بڑی بڑی دولتوں کا مالک بنائے رکھا ہے اور تو اور سوڈان ان کا ہمسایہ ملک ہے.وہ مسلمان بھی ہیں لیکن فاقوں کا شکار ہور ہے ہیں لیکن مالدار عرب ملکوں میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہو رہی.کسی کو خیال نہیں آیا کہ محمد مصطفی اللہ کے دین کی امتیازی شان کیا ہے.جب آپ کی سیرت کی باتیں کی جائیں تو خدا کی محبت کے بعد سب سے زیادہ ذکر بنی نوع انسان کی محبت اور غریب کی محبت کا آتا ہے جو سیرت محمد مصطفی ﷺ کے روشن ہیولے کی طرح ابھرتی ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا نام انسان کے ذہن میں آئے اور غریبوں کے ساتھ آپ کی ہمدردی اور ان کے ساتھ تمام عمر شفقت اور رحمت کا سلوک اچانک انسان کی نظر کو خیرہ نہ کر دے.محمد مصطفی ﷺ کی روشنی میں غریب کی ہمدردی کی روشنی شامل ہے.ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم نے مجھے تلاش کرنا ہوتو غریبوں میں تلاش کرنا.قیامت کے دن میں درویشوں میں ہوں گا ، غریبوں میں ہوں گا اور فرمایا ان کا خیال کرنا کیونکہ تمہاری رونقیں اور تمہاری دولتیں غریبوں کی وجہ سے ہیں.ان ہی کی محنتیں ہیں جو رنگ لاتی ہیں اور پھر وہ تمہاری دولتوں میں تبدیل ہوتی ہیں.کم سے کم اتنا تو کرو کہ ان سے شفقت اور محبت اور ہمدردی کا سلوک کرو.پس حضرت محمدم بلاشبہ تمام کائنات میں سب سے زیادہ غریبوں کے ہمدرد تھے اور آپ کے نام کے صدقے خدا سے دوستیں پانے کے بعد اور دولتوں کے پہاڑ حاصل

Page 165

۱۶۳ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء کرنے کے بعد اپنے ہمسایہ ملکوں میں غربت کے اتھاہ گڑھوں کی طرف دیکھنا اور دل رحم کے جذبے سے مغلوب نہ ہو جانا یہ کوئی انسانیت نہیں ہے.اگر یہ مسلمان ممالک دعا کی طرف متوجہ رہتے اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کی طرف متوجہ رہتے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ آج اس بڑے خوفناک ابتلاء میں مبتلا نہ کئے جاتے.پس ہم اپنی غربت کے باوجود ہر نیکی کے میدان میں ان کے لئے نمونے دکھاتے ہیں.اس میدان میں بھی ہم نمونے دکھائیں گے.پس دعائیں کریں اور ان کو دعاؤں کی تلقین کریں.صدقے دیں اور ان کو صدقوں کی تلقین کریں.صبر کریں اور ان کو صبر کی تلقین کریں کیونکہ قرآن کریم کی سورتوں سے پتا چلتا ہے کہ آخری زمانے میں وہی لوگ فتح یاب ہوں گے کہ جن کے متعلق فرمایا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (البلد : ۱۸) کہ وہ صبر کی تلقین صبر کے ساتھ کیا کرتے تھے یا کیا کریں گے اور رحمت کی تلقین رحمت کے ساتھ کرتے تھے.پس میں نے فیصلہ کیا ہے کہ دس ہزار پاؤنڈ جو ایک بہت معمولی قطرہ ہے جماعت کی طرف سے افریقہ کے بھوک سے فاقہ کش ممالک کیلئے پیش کروں اور حسب توفیق ذاتی طور پر پیش کروں گا اور ساری جماعت بحیثیت جماعت بھی کچھ نہ کچھ صدقہ نکالے.جماعت کے ایسے فنڈ ہوتے ہیں جن میں صدقات یا ز کوۃ وغیرہ کی رقمیں ہوتی ہیں کچھ تو لازماً مقامی غریبوں پر خرچ کرنی پڑتی ہیں، کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جو اس کے علاوہ بچ جاتی ہیں، وہ عفو“ کہلا سکتی ہیں.تو قرآن کریم فرماتا ہے: وَيَسْتَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ (البقره: ۲۲۰) اس عفو کا ایک یہ بھی معنی ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس ان مدات میں سے بچ سکتا ہے وہ بچاؤ اور غرباء کی خدمت پر خرچ کرو یعنی اور علاقوں والے غرباء کی خدمت پر بھی خرچ کرو اور اسی طرح ذاتی طور پر بھی افراد جماعت خرچ کریں اگر چہ جماعت کی ساری دولت خدا ہی کی دولت ہے اور خدا ہی کی خاطر نیک کام پر خرچ ہوتی ہے لیکن ایک یہ بھی میدان خدا ہی کی خاطر خرچ کرنے کا میدان ہے.پس میں کوئی معین تحریک نہیں کرتا مگر میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ خالصۂ اس نیت کے ساتھ کہ ہمارے ان صدقات کو اللہ تعالیٰ امن عالم کے حق میں قبول فرمائے مسلمانوں کے مصائب دور کرنے کیلئے قبول

Page 166

۱۶۴ ۱۸؍ جنوری ۱۹۹۱ء فرمائے جتنا ممکن ہو صدقات دیں ہماری دعائیں بھی ان دو باتوں کیلئے وقف رہیں اور ہمارے صدقے بھی جس حد تک ہمیں توفیق ہے ان نیک کاموں پر خرچ ہوں اور یہ جو سارے صدقات ہوں گے یہ خالصہ افریقہ کے فاقہ زدہ ممالک پر خرچ کئے جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ان بھائیوں کی بھی آنکھیں کھولے جن کو قرآن نے کھلی کھلی نیکی کی تعلیم دی تھی لیکن اس سے یہ آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں.آج کا یہ جو خطبہ تھا یا ابھی جاری ہے.یہ جاپان میں بھی سنا جارہا ہے.مغربی جرمنی میں بھی سنا جا رہا ہے.ماریشس میں بھی سنا جا رہا ہے ان کے علاوہ یہ خطبہ نیو یارک (امریکہ ) ڈنمارک اور بریڈفورڈ میں بھی سنا جارہا ہے تو یہ جو مواصلات کے نئے ذرائع ہیں حیرت انگیز ترقی کر چکے ہیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ جو خطبے وہاں سنتے ہیں وہ اپنے جمعہ کا اس کو حصہ نہ بنائیں.میں اس بات کو جائز نہیں سمجھتا کہ خطبہ کہیں اور پڑھا جارہا ہو اور باقی لوگ با قاعدہ اس کو جمعہ کے حصے کے طور پر فریضے کی ادائیگی میں شامل کر لیں اپنا جمعہ آپ کو الگ پڑھنا ہو گا اور پھر جاپان میں تو اس وقت وقت ہی اور ہے.وہاں رات کے ساڑھے گیارہ بج چکے ہیں اس لئے وہاں تو جمعہ کا ویسے ہی سوال نہیں ہے.بہر حال میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ ان ممالک میں بھی یہ سنا جا رہا ہے.یہ سارے بھی اس تحریک میں براہ راست شامل ہوسکیں گے.ان کو بھی دعاؤں میں یا درکھیں.ان میں نیکی کی بہت طلب پائی جاتی ہے کوشش کرتے ہیں کہ ہر نیکی کے مقام میں آگے قدم بڑھا ئیں اللہ تعالیٰ اور بھی ان کو توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 167

۱۶۵ بسم اللہ الرحمن الرحیم سیاسی جنگوں اور جہاد میں ما بہ الامتیاز ( خطبه جمعه فرموده ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ایک بنیادی اور روشن اصول ۲۵ / جنوری ۱۹۹۱ء اسلام کا کوئی وطن نہیں ہے اور ہر وطن اسلام کا ہے.اس بنیادی اور نہ تبدیل ہونے والے روشن اصول کو بھلا کر بسا اوقات دنیا کے مختلف امتحانوں اور ابتلاؤں کے وقت بعض ملکوں کے مسلمان غلطی کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں خود بھی تکلیف اٹھاتے ہیں اور اسلام کی بدنامی کا بھی موجب بنتے ہیں.اس کے نتیجے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تم اپنی وفاداریوں کا تعین کرو اور بہت سے ممالک جہاں بھاری اکثریت غیر مسلموں کی ہے وہ اپنے ملک کی مسلمان اقلیت سے یہ سوال کرتے ہیں کہ تم ہمیں واضح طور پر یہ بتا دو کہ تم پہلے اسلام کے وفادار ہو یا پہلے وطن کے حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اسلام کا کوئی وطن نہیں اور ہر وطن اسلام کا ہے.اس حقیقت میں بہت ہی گہرے حکمتوں کے راز پوشیدہ ہیں اور ایک بات جو کھل کر انسان کے سامنے ابھرتی ہے وہ یہ ہے کہ کہیں دنیا میں اسلام اور وطنیت کا تصادم نہیں ہوسکتا یعنی اسلام کے ان بچے اصولوں کا جو عالمی ہیں.ان کا عالم کے کسی حصے سے تصادم ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ عقلاً کل کا جزو سے تصادم قابل فہم نہیں یعنی محالات میں سے ہے، ایسی چیز ہے جو ہو سکتی ہی نہیں.اگر اسلام کا خطہ ارض کے بعض بسنے والوں سے تصادم ہو تو اسلام ان کا مذہب نہیں بن سکتا، اسلام ان کیلئے رحمت کا پیغام نہیں ، اسلام یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میری

Page 168

۱۶۶ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء آغوش میں تمہارے لئے بھی امن ہے.اس ملک کے باشندے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہاں اہل عرب کے لئے تمہاری آغوش میں امن ہوگا یا اہل انڈونیشیا کے لئے یا اہل ملائیشیا کے لئے یا اہل پاکستان کے لئے لیکن ہمارے لئے تمہارے پاس کوئی امن نہیں کیونکہ تم ہماری وطنیت کے مخالف ہو.پس یہ ایک بنیادی واضح حقیقت ہے جسے بدقسمتی سے بعض دفعہ مسلمان بھلا بیٹھتے ہیں اور اسلامی قومیتوں کے تصور کو ابھارتے ہیں اور اس طرح مسلمان اور غیر مسلم کو ایک دوسرے سے برسر پیکار کر دیتے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ ہم نے سب دنیا کے دل جیتے ہیں اور دل متصادم ہونے سے نہیں جیتے جاتے بلکہ پیغام کی لڑائی بالکل اور ماحول میں اور کیفیت سے لڑی جاتی ہے.پیغام کی لڑائی میں تو ایسے اصول کارفرما ہوتے ہیں جن کا دنیا کی لڑائیوں سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا اور مختلف انبیاء کواللہ تعالیٰ نے مختلف وقتوں میں مختلف اصول سکھائے جو دنیا کی جنگوں پر اطلاق پاہی نہیں سکتے مثلاً حضرت عیسی علیہ السلام نے عیسائیوں کے ہاتھ میں جو ہتھیار پکڑا یا وہ یہ تھا کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارتا ہے تو دوسرا گال بھی اس کے سامنے کر دو.وہ جنگ جس جنگ کا یہ اسلوب بیان کیا جارہا تھا.وہ جہاد جس کے لئے یہ ہتھیا ر عیسائیوں کو عطا کیا جار ہا تھا وہ روحانی جنگ تھی اور غلطی سے بعد میں عیسائیوں نے عملاً اس تعلیم کو ایک ظاہری تعلیم کے طور پر سمجھ لیا اور چونکہ وہ ان کے کام نہیں آسکتی تھی ، دنیا کے حالات پر اطلاق نہیں پاسکتی تھی اس لئے عملاً اس کو دھتکار دیا پس آج کوئی ایک عیسائی ملک دنیا میں ایسا نہیں جو حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی اس عظیم الشان روحانی تعلیم پر عمل پیرا ہو کیونکہ یہ ایک روحانی تعلیم ہے جسے انہوں نے دنیاوی معنوں میں قبول کیا لیکن عملاً ہر اس وقت اس کو رد کر دیا اور پس پشت پھینک دیا جب ان کے امتحان کا وقت آیا.آج بھی یہی کیفیت ہے.پس مذہب کا تعلق روحانی دنیا سے ہے اور اس کی تعلیمات کی جنگ روحانی اصطلاحوں میں لڑی جاتی ہے.جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام کو اس غرض سے پیدا کیا گیا تا کہ تمام دنیا کے دوسرے ادیان پر یہ غالب آجائے تو اس کا ہرگز یہ مفہوم نہیں کہ تلوار ہاتھ میں پکڑ یعنی مسلمانوں کو یہ تعلیم ہو کہ تم

Page 169

۱۶۷ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء تلوار ہاتھ میں پکڑو اور تمام دنیا میں انکار کرنے والوں کی گردنیں کاٹتے پھرو اور جو تسلیم کرے اور سر جھکا دے صرف اسی کو امن کا پیغام دو، باقی سب کے لئے تم فساد اور جنگ کا پیغام بن جاؤ.یہ نہ عقل کے مطابق بات ہے نہ عملاً دنیا میں ایسا ہو سکتا ہے نہ کبھی ہوا ہے اس لئے جماعت احمدیہ کو ہمیشہ اس اصول کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جب ہم مقابلے کی اور جہاد کی اور تمام بنی نوع انسان پر اسلام کو غالب کرنے کی باتیں کرتے ہیں تو قرآن اور محمد مصطفی ﷺ کی اصطلاحوں میں باتیں کرتے ہیں اور دنیا کی اصطلاحوں سے انکا کوئی تعلق نہیں ہوتا.یہی وجہ ہے کہ آج کے ابتلاء کے وقت وہ مسلمان جوان باتوں کو نہیں سمجھ سکے، نہ سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ان کے راہنما ان کو غلط تعلیم دیتے ہیں ، وہ جگہ جگہ اپنے آپ کو مشکل میں مبتلا دیکھ رہے ہیں اور دن بدن ان کی حالت خراب ہورہی ہے.مختلف ممالک میں کمزور اقلیتیں ہیں اور اسلام کی تعلیم کو غلط پیش کرنے کے نتیجے میں اپنے ردعمل کو صحیح راستے پر گامزن نہیں رکھ سکتے.غلط راہوں پر چلاتے ہیں جہاں چلنا ان کے لئے ممکن نہیں ہے اور اس کے نتیجے میں شدید نقصان اٹھاتے ہیں اور اسلام کی مزید بدنامی کا موجب بنتے ہیں.دین اور وطن سے وفاداری کا سوال ایک یہ سوال ہے جو آج دنیا میں ہر جگہ اٹھایا جا رہا ہے جیسا کہ انگلستان میں بھی اٹھایا جارہا ہے اور اس سوال کا صحیح جواب نہ پانے کے نتیجے میں اور بعض مسلمانوں کی کم نہی کے نتیجے میں جس رنگ میں وہ اپنے رد عمل کا اظہار انگلستان کی گلیوں میں کرتے ہیں اس رد عمل کے نتیجے میں یہاں مسلمانوں کے لئے دن بدن زیادہ خطرات پیش آرہے ہیں.مسلمانوں کی عبادتگاہوں کو جلایا جا رہا ہے ، ان کو دھمکیاں دی جارہی ہیں، عام گلیوں میں چلتے پھرتے ان کے لئے خطرات پیدا ہورہے ہیں آج ہی ایک یہ خبر تھی کہ دو ٹیکسی ڈرائیوروں کو پکڑ کر بہت بری طرح مارا گیا کیونکہ وہ صدام حسین کی حمایت میں تھے تو یہ سب جہالت کے قصے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں.اسلام کی تعلیم عالمگیر ہے اور عالمگیر صفات اپنے اندر رکھتی ہے اور اپنی اندرونی طاقت کے لحاظ سے

Page 170

۱۶۸ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء غالب آنے والی تعلیم ہے جسے دنیا میں کوئی شکست نہیں دے سکتا اور کوئی اس پر اعتراض کرنے کی مجال نہیں رکھتا اس لئے کہ یہ سچائی پر مبنی ہے.پس جماعت احمدیہ کو ہر ابتلاء کے وقت یا ویسے بھی اپنے طبعی رد عمل کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے رہنا چاہئے.جب بھی ماحول میں ہیجان ہو اس وقت انسان کا دل بھی بہیجان پذیر ہو جاتا ہے.انسان کے دل میں بھی ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے وہ اپنی جانچ کا اور یہ معلوم کرنے کا وقت ہوتا ہے کہ میں اسلام کے راستے پر ہوں یا کسی اور راستے پر ہوں خواہ انفرادی اختلافات کے وقت دل میں ارتعاش ہو یا کوئی اختلاف کے وقت دل میں ارتعاش پیدا ہو وہ وقت ارتعاش کا ایسا وقت ہے جبکہ مومن اپنے ایمان کی پہچان کر سکتا ہے اپنے دل کے آئینے میں خدا سے اپنے تعلق کو دیکھ سکتا ہے.پس آج تمام دنیا میں جماعت احمدیہ کو ایسا ردعمل دکھانا چاہئے جس رد عمل میں ایک انگریز احمدی بھی بلاتر در یہ کہتے ہوئے شریک ہو سکتا ہے کہ یہ سچائی کی تعلیم ہے اور میری قومی وفاداری سے اس کے تصادم کا کوئی سوال نہیں اور افریقہ کا احمدی بھی یہ کہتے ہوئے اس رد عمل میں شریک ہوسکتا ہے کہ یہ بین الاقوامی سچائی کی تعلیم ہے اور میرے ملک سے اس کے تصادم کا کوئی تعلق نہیں.غرضیکہ مشرق اور مغرب کے بسنے والے تمام بنی نوع انسان اگر فی الحقیقت ایک تعلیم پر اکٹھے ہو سکتے ہیں تو وہ اسلام ہی کی تعلیم ہے کیونکہ یہ وطنیت سے بالا ہے اور وطنیت سے متصادم نہیں ہے کیونکہ سچائی وطنیت سے متصادم نہیں ہو سکتی اگر وطنیت کا غلط تصور ہے تو سچائی کے آئینہ میں وہ تصور غلط ثابت کیا جا سکتا ہے اس لئے جب میں کہتا ہوں اسلام کی تعریف وطنیت سے متصادم نہیں ہے اس سے ٹکراتی نہیں ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں ان کی وطنیت کا تصور اسلام سے متصادم نہیں ہوسکتا.بعض ملکوں کے وطنیت کے تصور ہی ٹیڑھے ہوتے ہیں.ان کی تعریف ہی مختلف ہوتی ہے جیسا کہ آج دنیا کے اکثر ممالک میں انصاف کی تعریف بدل گئی ہے.وفا کی تعریف بدل گئی ہے.وطنیت کے معنی ہیں سچ ہو یا جھوٹ ہوا اپنے ملک کے ساتھ وفا کرو خواہ اس کے نتیجے میں انسان کی اعلیٰ قدروں سے بے وفائی ہو اور خدا کی اس تعلیم سے بے وفائی ہو جو ہر انسان کی فطرت میں ودیعت فرمائی گئی

Page 171

۱۶۹ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء ہے.اگر یہ وطنیت کی تعریف ہے تو پھر اسلام ضرور اس سے متصادم ہے لیکن ان معنوں میں متصادم ہے کہ اس تعلیم کو درست کرے اور خواہ اس درستی کی راہ میں کتنی ہی قربانیاں پیش کرنی پڑیں جب تک بنی نوع انسان فطرت کے مطابق سید ھے اور صاف نہیں ہو جاتے اور ان کی فطرت خدا کے حضور لبیک نہیں کہتی اس وقت تک اس دائرے میں اسلام کا ان غلط تعریفوں سے تصادم رہے گا اور یہ ایک ایسا تصادم ہے جس میں اسلام کو اپنی تائید میں ہر وطن سے اٹھتی ہوئی آواز سنائی دے گی.آج بھی دنیا میں جو حالات گزر رہے ہیں ان میں جماعت احمد یہ جو مؤقف اختیار کر رہی ہے اس مؤقف کی تائید میں بعینہ ہر ملک سے تائید کی آواز میں اٹھ رہی ہیں مجھے ابھی دو دن پہلے ایک بڑے مغربی ملک کے ہمارے ایک احمدی نے یہ مطلع کیا بلکہ استفسار کیا ، مجھ سے پوچھا کہ یہاں ایک بہت ہی مشہور مبصر اور بڑا ہی با اثر مبصر ہے اس نے موجودہ حالات پر جو تبصرہ کیا ہے یوں لگتا ہے کہ اس نے آپ کا خطبہ پڑھ کر یا خطبات پڑھ کر تمام وہ نکات قبول کر لئے ہیں جو آپ نے پیش کئے تو بتا ئیں آپ نے ان کے ساتھ کوئی رابطہ کیا تھا یا کسی احمدی نے اس کے ساتھ رابطہ کیا ہے اور ایک جگہ سے نہیں اور بھی کئی جگہوں سے اس قسم کے خطوط ملے.بظاہر یہ میرے خطبات کو ایک خراج تحسین ہے مگر میں جاہل نہیں ہوں کہ بے وجہ ایسی حد کو اپنا بیٹھوں جو میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتی بلکہ اسلام سے تعلق رکھتی ہے.تعریف کے لائق خدا ہے اور خدا کا بھیجا ہوا دین ہے اور بیداس تعلیم کی سچائی اور عظمت کا ثبوت ہے ہاں میرے لئے صداقت کی پہچان کی ایک کسوٹی ضرور بن گئی.یہ بات میرے لئے ان معنوں میں اطمینان کا موجب بنی کہ مجھے مزید یقین ہو گیا کہ ان حالات پر میرے جو بھی تبصرے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ہیں ورنہ فطرت انسانی اس طرح مختلف ممالک سے بیک آواز اس کی تائید میں تبصرے نہ کرتی اور تقریر اور تحریر کے ذریعے اس تعلیم کی تائید نہ کرتی.پس مسلمانوں کے لئے ایک بہت کڑا وقت ہے اس کڑے وقت میں اپنے جذبات اور رد عمل اور خیالات کی حفاظت کریں اور اسلام کے پر امن دائرے سے باہر نہ جانے دیں کیونکہ جہاں بھی آپ نے اسلام کے دائرے سے با ہر قدم رکھا وہیں آپ کے لئے خطرات پیش ہوں گے.

Page 172

۲۵ / جنوری ۱۹۹۱ء جہاد کی تعریف دوسرا سوال اس دور میں جہاد کے متعلق بار بار اٹھایا جارہا ہے اور مختلف ممالک سے احمدی مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ بتائیں ہم کیا جواب دیں.یہ لڑائی اسلامی تعریف کے مطابق جہاد یعنی Holy war ہے یا نہیں؟ اس کا جواب میں اس خطبے کے ذریعے دیتا ہوں کیونکہ ہر شخص کو خطوط میں تفصیل سے سمجھایا نہیں جاسکتا جہاں تک اسلام کے تصور جہاد کی تعریف کا تعلق ہے ،سب سے کامل تعریف سورہ حج میں پیش فرمائی گئی ہے ، اس آیت میں جس کا میں نے پہلے بھی بارہا ذکر کیا اور اس پر تبصرہ کیا اذن لِلَّذِيْنَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا (الحج : ۳۹) ان لوگوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے لڑنے والوں کے خلاف تلوار اٹھائیں ، ان کے خلاف تلوار اٹھا ئیں جنہوں نے تلوار اٹھانے میں پہل کی ہے اور کسی جائز وجہ سے نہیں بلکہ وہ مظلوم ہیں اسی طرح یہ آیت اس مضمون کو آگے بڑھاتی چلی جاتی ہے اور جہاد کی اس سے زیادہ خوبصورت اور کامل تعریف ممکن نہیں ہے.اس تعریف کو اگر ہم موجودہ صورتحال پر اطلاق کر کے دیکھیں تو ہرگز اسلامی معنوں میں یہ جہاد نہیں ہے.ایک سیاسی لڑائی ہے اور ہر سیاسی لڑائی خواہ وہ مسلمان اور مسلمان کے مخالف کے درمیان ہو یا مسلمان اور مسلمان کے درمیان ہو وہ جہاد نہیں بن جایا کرتی.در حقیقت بعض لوگ حق کی لڑائی کو جہاد سمجھ لیتے ہیں اور چونکہ ہر فریق یہ سمجھتا ہے کہ میں حق پر ہوں اس لئے وہ اعلان کر دیتا ہے کہ یہ لڑائی خدا کے نام پر ہے، سچائی کی خاطر ہے،اس لئے جہاد ہے.یہ جہاد کی ایک ثانوی تعریف تو ہوگی مگر اسلامی اصطلاح میں جس کو جہاد کہا جاتا ہے اس کی تعریف اس صورتحال پر صادق نہیں آتی.کیونکہ یہ تعریف بنیادی منطق کے خلاف ہے کہ دونوں فریق میں سے جو حق پر ہو اس کی لڑائی قرآنی اصطلاح میں جہاد بن جائے گی.مشرکوں کی مشرکوں سے لڑائیاں ہوتی ہیں.مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی مختلف مذاہب کے ماننے والوں سے لڑائیاں ہوتی ہیں.ملکوں کی ملکوں سے، کالوں کی گوروں سے، ہر قسم کی لڑائیاں دنیا میں ہورہی ہیں، ہوتی چلی آئی ہیں، ہوتی رہیں گی اور جب بھی دوفریق متصادم ہوں تو ظاہر بات ہے کہ اگر ایک فریق سو فیصدی حق پر نہیں تو کم سے کم زیادہ تر حق پر ضرور ہوگا اور یہ تو ممکن نہیں ہے، شاید

Page 173

121 ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء ہی کوئی بعید کی بات ہو کہ کبھی دونوں کا برابر قصور ہو کہ دونوں برابر سچے ہوں.بالعموم ایک فریق مظلوم ہوتا ہے اور ایک ظالم ہوتا ہے.پس ہر مظلوم کی لڑائی کو جہاد نہیں کہا جاتا.اُس مظلوم کی لڑائی کو جہاد کہا جاتا ہے جسے خدا کا نام لینے سے روکا جا رہا ہو جس پر مذہبی تشدد کیا جارہا ہو.قرآن کریم فرماتا ہے.انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا اِلَّا اَنْ تَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ (الج: ۴۱) سوائے اس کے کہ وہ کہتے ہیں اللہ ہمارا رب ہے.پس اگر کوئی لڑائی محض اس وجہ سے کسی پر ٹھونسی جارہی ہو اور فریق مخالف پہل کر چکا ہو اور تلوار اس نے اٹھائی ہو نہ کہ مسلمانوں نے اور مسلمانوں کا جرم اس کے سوا کچھ نہ ہو کہ وہ اللہ کو اپنا رب قرار دیتے ہوں اور غیر اللہ کو رب تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوں تو پھر اس لڑائی کا نام جہاد ہے.پس محض حق کی لڑائی کا نام جہاد نہیں بلکہ ان معنوں میں جن کی لڑائی کا نام جہاد ہے.پس یہ صورتحال تو عراق اور باقی قوموں کی لڑائی پر چسپاں نہیں ہو رہی.کویت نے کسی وجہ سے عراق کو ناراض کیا اور عراق نے اس ناراضگی کے نتیجے میں اور اس یقین کے نتیجے میں کہ کبھی یہ چھوٹا سا ملک ہمارے وطن کا حصہ تھا اور انگریزوں نے اسے کاٹ کر ہم سے جدا کیا تھا اس لئے بنیادی طور پر ہمارا حق بنتا ہے اور کچھ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں اس یقین پر کہ اس چھوٹے سے ملک کو یت کی ہمارے سامنے حیثیت کیا ہے جبکہ ہم اتنی مدت تک آٹھ سال تک ایران سے لڑ چکے ہیں اور ایران کو بھی ایسے ایسے چیلنج دے چکے ہیں جن کے نتیجے میں بعض دفعہ ایران کو یہ خطرات محسوس ہورہے تھے کہ شاید ہمارے وطن کا اس دنیا سے صفایا ہو جائے.بہت دور تک گہرے ایران کے اندر عراق کی فوجیں داخل ہو چکی تھیں.بعد میں ان کو دھکیل کر واپس کیا گیا.پھر جس طرح تکڑی کے تول ہوا کرتے ہیں بعض دفعہ ایک طرف سے ڈنڈی ماری جاتی تھی ، بعض دفعہ ویسے ہی ایک فریق کا وزن بڑھ جاتا تھا تو یہ اونچ نیچ ہوتا رہا مگر ایران کے مقابل پر کویت کی کیا حیثیت تھی.پس ہو سکتا ہے یہ خیال بھی عراق کے لئے شہہ دلانے کا موجب بنا ہو کہ یہ کویت ، چھوٹا سا ملک اسے تو ہم آنا فانا تباہ کر دیں گے.اور اس وجہ سے انہوں نے قبضہ کر لیا ہو، بہر حال قبضے کی کیا وجوہات تھیں ؟ اس کا پس منظر کیا ہے؟ در حقیقت حق کس طرف ہے؟ اور اگر

Page 174

۱۷۲ ۲۵ / جنوری ۱۹۹۱ء حق تھا بھی تو حق لینے کا یہ طریق جائزہ بھی ہے یا نہیں؟ یہ سارے سوالات تھے جن پر غور ہونا چاہئے تھا اور عالم اسلام کو مشترکہ طور پر ان پر غور کرنا چاہئے تھا.سیاسی جنگوں کو غلط طور پر جہاد سمجھنے کی وجہ اس لئے نہ اس لڑائی کو جہاد کہا جا سکتا ہے جو کویت پر حملے کی صورت میں پیدا ہوئی نہ اس لڑائی کو جہاد کہا جاسکتا ہے جو اس کے رد عمل کے طور پر بعد میں عراق کے خلاف لڑی جارہی ہے.پس خواہ مخواہ جاہلانہ طور پر اسلام کی مقدس اصطلاحوں کو بے محل استعمال کر کے مسلمان اسلام کی مزید بدنامی کا موجب بنتے ہیں.ساری دنیا میں اسلام سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور قومیں تمسخر کرتی ہیں اور یہ اپنی بے وقوفی میں سمجھتے ہی نہیں کہ ہم کیا بات کر رہے ہیں لیکن عوام الناس کے متعلق یہ سوچنا چاہئے کہ وہ کیوں آخر بار بار اپنے راہنماؤں کے اس دھو کے میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور غیر معمولی قربانیاں ان جنگوں میں پیش کرتے ہیں جو در حقیقت جہاد نہیں.لیکن انہیں جہاد قرار دیا جارہا ہے.کوئی گہری اس کی وجہ ہے اس کے اندر در حقیقت کوئی راز ہے جس کو معلوم کرنا چاہئے اور اگر ہم اس راز کو سمجھ جائیں تو یہ بھی سمجھ جائیں گے کہ مغربی قومیں جہاد کے اس غلط استعمال کی بڑی حد تک ذمہ دار ہیں اور وہ جو تمسخر کرتی ہیں اور اسلام پر ٹھٹھا کرتی ہیں اگر اس صورتحال کا صحیح تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ خود بہت حد تک جہاد کے اس غلط استعمال کی ذمہ دار ہیں.وجہ اس کی یہ ہے کہ عالم اسلام پر گزشتہ کئی صدیوں سے یہ بالعموم تاثر ہے، یہ ایک ایسا مبہم سا تاثر ہے جس کی معین پہچان ہر شخص نہیں کر سکتا بعض دفعہ مہم خوف ہوا کرتے ہیں یہ نہیں پتا ہوتا کہ کہاں سے آرہا ہے کیوں ہے لیکن ایک انسان خوف محسوس کرتا ہے.بعض دفعہ تکلیف محسوس کرتا ہے.لیکن اس کی وجہ نہیں سمجھ رہا ہوتا.تو انسانی تعلقات میں بعض دفعہ بعض تاثرات انسان کی طبیعت میں گہرے رچ جاتے ہیں، گہرے اثر پذیر ہو جاتے ہیں اور ان تاثرات کی وجہ ایک لمبی تاریخ پر پھیلی ہوتی ہے.مغرب نے مسلمانوں سے گزشتہ کئی سوسال میں جو سلوک کیا ہے اس سلوک کی تاریخ مسلمانوں کو یہ یقین دلا چکی ہے کہ ان کی مسلمانوں سے نفرت

Page 175

۱۷۳ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء مذہبی بنا پر ہے اور اسلام کا نام خواہ یہ لیں یا نہ لیں لیکن مسلمان قوموں کی ترقی یہ دیکھ نہیں سکتے اور مسلمان قوموں کے آگے بڑھنے کے خوف سے یہ ہمیشہ ایسے اقدام کرتے ہیں کہ جس سے ان کی طاقت پارہ پارہ ہو جائے.یہ گہرا تا ثر ہے جو مسلمان عوام الناس کے دل میں موجود ہے خواہ انہوں نے کبھی تاریخ پڑھی ہو یا نہ پڑھی ہو.تاریخ کے بعض تأثرات انسانی سوچ اور انسانی جذبات میں اس طرح شامل ہو جاتے ہیں جیسے کسی پانی کی رو میں کوئی چیز ملا دی گئی ہو.وہ ہاتھ نہ دیکھا ہوکسی نے جس نے وہ چیز ملائی ہے لیکن پانی کے چکھنے سے اس چیز کا اثر معلوم کیا جاسکتا ہے.پس عامتہ المسلمین دل میں یہ یقین رکھتے ہیں اور اس لمبے تاریخی تجربے کے نتیجے میں یہ یقین ان کے دل میں جاگزیں ہو چکا ہے کہ یہ تو میں ہر مشکل کے وقت ہماری مخالفت کریں گی اور ایسے اقدامات کریں گی جس سے عالم اسلام کو نقصان پہنچے.اس تاثر کو حالیہ اختلاف کے دوران بھی اور اس سے پہلے بھی سب سے زیادہ تقویت امریکہ کے سلوک نے دی ہے یعنی اس تاثر کو تقویت دینے کا بڑا ذمہ دارامریکہ ہے.مثلاً اسرائیل کا مسلمان علاقے میں قیام.امریکہ کی طاقت استعمال ہوئی ہے اس لئے وہ اس کا بڑا ذمہ دار ہے لیکن یہ شوشہ برطانیہ نے چھوڑا تھا اور برطانیہ کے دماغ کی پیداوار ہے.جب بھی لڑائیاں ہوتی ہیں اس وقت کچھ مخفی معاہدے کر لئے جاتے ہیں بعض لوگوں کے ساتھ اور یہود سے اس زمانے میں برطانیہ نے یہ معاہدہ کیا تھا کہ ہم تمہیں عربوں کے دل میں جگہ عطا کریں گے جہاں تمہارا ایک آزاد ملک قائم کیا جائے گا اور داؤد کی حکومت کے نام پر پھر تم وہاں بیٹھ کر تمام عرب پر بھی اثر انداز ہو گے اور تمام دنیا پر بھی اثر انداز ہو گے.ان الفاظ میں یہ معاہدہ نہیں ہوا ہوگا یقیناً نہیں ہوا مگر اس معاہدے کے وقت یہود کو یہی پیغام مل رہا تھا کیونکہ یہ ان کی خواب تھی جو پوری ہورہی ی.United Nations کے نام پر اسے نافذ کیا گیا اور سب سے بڑا کردار اس میں امریکہ نے ادا کیا.ایک چیز جو مجھے آج تک تعجب میں ڈالتی ہے وہ یہ ہے کہ، کیوں اس بنیادی سوال کو نہیں اٹھایا گیا کہ کیاUnited Nations کو یہ حق حاصل ہے کہ دنیا میں ایک نیا ملک پیدا کرے.ملکوں کا قیام تو ایک تاریخی ورثہ ہے جو از خود چلا آیا ہے.United Nations کا اختیار تو ان ملکوں تک تھا جو

Page 176

۱۷۴ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء ملک موجود تھے اور اس میں طوعی طور پر شامل ہوئے.نہ کوئی دنیا کا ایسا چارٹر تھا جسے سب دنیا نے قبول کرلیا ہو کہ United Nations میں کوئی شامل ہو یا نہ ہو اس کا اثر اس پر پڑے گا اور نہ یہ کسی نے قبول کیا کہ یونائیٹڈ نیشنز کو ہم تمام دنیا کی برادری کے طور پر اجتماعی طور پر یہ حق دیتے ہیں کہ جب چاہے کسی ملک کو پیدا کردے ، جب چاہے کسی ملک کو مٹادے.تو جو حق ہی United Nations کونہیں تھا، اس نا حق کو استعمال کرتے ہوئے یعنی حق اگر نہیں تھا تو جو بھی تھا نا حق تھا، انہوں نے ایک ملک کو پیدا کیا اس لئے اس ملک کے پیدا ہونے کا کوئی جواز نہیں اور اس میں سب سے بڑا بھیا نک اور جابرانہ کردار امریکہ نے ادا کیا ہے.یہ وہ یاد ہے جس کو دنیا کا مسلمان بھلا ہی نہیں سکتا.اگر چہ عربوں نے اسے مدتوں تک ایک عرب مسئلہ قرار دیئے رکھا اور باقی مسلمانوں کو اس میں شامل نہیں کیا لیکن باقی مسلمان از خود اس میں شامل رہے ہیں کیونکہ ان کے دل میں یہ بات ہمیشہ سے جاگزیں رہی ہے ، گہرے طور پر ان کے دل پر نقش ہے کہ دراصل یہ عرب دشمنی نہیں تھی بلکہ اسلام دشمنی تھی.اس کے بار بار مختلف اظہار ہوئے.مثلاً اسرائیل نے بعض دفعہ فلسطینیوں پر ایسے بھیانک مظالم کئے ہیں کہ ان کے تصور سے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.دل خون کے آنسو روتا ہے.عورتوں ، بچوں ،مردوں بوڑھوں کو اس طرح تہ تیغ کیا ہے کہ ایک کیمپ میں ایک بھی زندہ روح نہیں چھوڑی.دودھ پیتے بچے کو بھی ذبح کیا گیا لیکن نہ تمام دنیا کی قوموں کے کانوں پر کوئی جوں رینگی نہ امریکہ کی غیرت بھڑ کی.بلکہ جب بھی United Nations میں اس کے خلاف کوئی سخت ریزولیوشن پاس کرنے کی کوشش کی گئی تو ہمیشہ امریکہ اس میں مزاحم ہوا اور یہ ایک لمبی تاریخ ہے.اب یہاں یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ وہ United Nations یعنی اقوام متحدہ اس نام کی مستحق بھی ہے کہ نہیں جس میں صرف پانچ قوموں کو دنیا کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق ہو یعنی وہ مستقل ممبر جن کو ویٹو کرنے کا حق ہے اور اگر سارے عالم کی رائے بھی متفق ہو جائے تو اس ایک ملک کو یہ حق ہو کہ اس رائے کو رد کر دے تو عملاً وہ ایک ملک اس وقت دنیا بن جائے گا اور عملاً موجودہ فیصلے کے پیچھے یہی بات کارفرما ہے.جب صدر بش تحدی کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ عراق کی کیا مجال ہے کہ

Page 177

۱۷۵ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء تمام دنیا کی رائے سے ٹکر لے.تو امر واقعہ یہ ہے، ہر آدمی سمجھتا ہے کہ دنیا کی رائے سے مراد امریکہ کی رائے یا صدر بش کی رائے ہے اور اس تحدی میں ایسا تکبر پایا جاتا ہے کہ اس سے طبیعتوں میں منافرت پیدا ہوتی ہے اور جب ان کے یہود کے ساتھ اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر مسلمان نظر ڈالتے ہیں تو وہ سوائے اس کے کوئی اور نتیجہ نکال ہی نہیں سکتے کہ عراق نے غلطی کی یا نہیں کی.عراق کے خلاف جو انتقامی کارروائی کی جارہی ہے یہ صرف اسرائیل کی خاطر ہے، یہ وہ ان کہی باتیں ہیں.یہ تجزیے کے بغیر دل میں جمے ہوئے نقوش ہیں جن کے نتیجے میں مسلمان عوام یہ سمجھتے ہیں کہ درحقیقت یہ اسلام کی دشمنی کے نتیجے میں سب کچھ ہورہا ہے.اسرائیل کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ عراق میں جہاز بھجوا کر ان کے نیوکلیئر پلانٹ یعنی وہ کارخانہ جو ایٹم بم کی خاطر بنایا جا رہا تھا اور عام پر امن مقاصد کے لئے نہیں تھا.کس United Nations نے یہ اختیار اسرائیل کو دیا تھا کہ یہ فیصلہ بھی کرے اور پھر اس کو مٹانے کا اقدام بھی خود کرے.اس وقت تو دنیا میں کسی نے یہ اعلان نہیں کیا کہ عراق کو یہ حق حاصل ہے کہ جب چاہے اسرائیل کے خلاف انتقامی کارروائی کرے.یہ فیصلہ کرنا عراق کا کام ہے کہ آج کرے یا کل کرے یا پرسوں کرے مگر اس انتہائی کھلی کھلی جابرانہ بر بریت کے بعد اقوام متحدہ عراق کے اس حق کو تسلیم کرتی ہے.اگر کسی نے یہ آواز سنی ہو کم سے کم میرے کانوں نے نہیں سنی ، اگر کسی نے ایسی خبر پڑھی ہو تو کم سے کم میری آنکھوں نے نہیں پڑھی اور کسی مسلمان نے نہیں پڑھی.حقائق پر مبنی تاثر پس عالم اسلام کا یہ تصور کہ موجودہ دشمنی بھی اسلام کی گہری نفرتوں پر مبنی ہے ، حقائق پر مبنی تصور ہے، یہ کھلی کھلی دشمنیاں اور کھلی کھلی نا انصافیاں دنیا کو معلوم ہیں ، ان کی نظر میں آتی ہیں اور بھول جاتے ہیں لیکن تاثر قائم رہ جاتا ہے اور وہ تاثر سچا ہوتا ہے.پھر عجیب بات ہے کہ جب عراق اسرائیل پر حملہ کرتا ہے اور راکٹس برساتا ہے اور ان کی شہری آبادیوں میں سے کچھ حصہ منہدم ہوتا ہے تو ساری

Page 178

127 ۲۵ / جنوری ۱۹۹۱ء دنیا اس پر شور مچادیتی ہے.فلسطین یاد نہیں رہتا، اسرائیل کا وہ فضائی حملہ یاد نہیں رہتا جو ایٹمی پلانٹ پر کیا گیا تھا اور اس کے بعد آئندہ مظالم کی نہایت خوفناک داغ بیل ڈالی جاتی ہے.یہ وہ باتیں ہیں جن کے نتیجے میں مسلمانوں کے جذبات زیادہ سے زیادہ مجروح ہوتے چلے جارہے ہیں اور مسلے چلے جارہے ہیں اور جب وہ ان جذبات کا اظہار کریں تو قو میں ان کو مخاطب کر کے کہتی ہیں کہ آج فیصلہ کرو کہ تم اسلام کے وفادار ہو گے یا ہمارے وطن کے وفادار رہو گے یہ کونسا انصاف ہے.حقائق کے اظہار پر وطنیت کا سوال اٹھانا ہی ظلم ہے.اگر یہ باتیں جو بچی اور حقیقتیں ہیں ان کا مسلمان اظہار کرتا ہے تو اس کو حق حاصل ہے لیکن جو بھیا نک بات ظاہر ہو چکی ہے اس سے زیادہ بھیا نک باتیں ابھی ظاہر ہونے والی ہیں.اسرائیل کے ساتھ کچھ مخفی گفت وشنید امریکہ نے کی اور اپنے ایک بہت ہی اہم افسر کو، اپنے مرکزی حکومت کے نمائندہ کو ان کے پاس بھجوایا اور باتوں کے علاوہ جو مخفی تھیں اور کچھ عرصے تک مخفی رہیں گی جب تک وہ عملی طور پر دنیا کے سامنے ظاہر نہ ہوں ، ایک یہ بھی تھی کہ اسرائیل کو چھ بلین سے زیادہ ڈالر دیئے گئے اس لئے نہیں کہ تم جوابی انتقامی کارروائی نہ کرو بلکہ اس لئے کہ سر دست نہ کرو اور بعد میں کر لینا جب ہم مار کر فارغ ہو جائیں تو جو کچھ بچے گا اس پر تم اپنا بدلہ اتار لینا.بعض دفعہ پرانے زمانوں میں رواج تھا کہ اگر کوئی ظالم مرجاتا تھا یا کوئی شخص کسی مرے ہوئے کو ظالم سمجھتا تھا اور انتقام لینا چاہتا تھا تو اس کی لاش اُکھیڑ کر اسے پھانسی لگا دیا جاتا تھا تو عملاً جو معاہدہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ لاش بنانے تک ہمیں موقعہ دو.ہم تمہاری یہ خدمت کر رہے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے.جب مار بیٹھیں گے تو پھر تمہارے سپرد کر دیں گے پھر اس لاش کو تم جہاں مرضی لٹکائے پھرنا.اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب انصاف کی باتیں ہیں؟ کیا یہ انسانیت کی باتیں ہیں؟ لیکن ایک اور بات جود نیا کی نظر میں نہیں آرہی وہ یہ ہے کہ عراق کی Civilion Population یعنی پرامن عام آبادی پر جو خطر ناک بم گرائے گئے ہیں.یہ اس واقعہ کے بعد گرائے گئے ہیں اور زیادہ تر مغربی عراق کی آبادی اس سے متاثر ہوئی ہے اور اگر یہ ظلم تھا تو عملاً اس سے ہزاروں گنا بڑا ظلم عراق پر کیا جا چکا ہے.اگر ایک

Page 179

122 ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء اسرائیلی گھر گرا تھا تو عراق کے سینکڑوں گھر گرائے جاچکے ہیں.اگر ایک اسرائیلی زخمی ہوا تھا تو ہزاروں عراقی مارے جاچکے ہیں.وہاں سے آنے والے بتاتے ہیں کہ بعض علاقوں سے لاشوں کی بد بو کی وجہ سے گزرا نہیں جاتا.جلے ہوئے گوشت کی بد بو بھی اٹھتی ہے اور متعفن گوشت کی بد بو بھی اٹھ رہی ہے اور علاقوں کے علاقے آبادی سے خالی ہو گئے ہیں.یہ امریکہ کا وہ انتقام ہے جو یہود کی خاطر اس نے لیا ہے اور یقیناً یہ اس معاہدے میں شامل تھا جس کی باتیں ابھی منظر عام پر نہیں آئیں.عملاً وہ منظر عام پر آ گیا ہے اور ابھی یہ انسانیت کے علمبردار ہیں Moral High Grounds سے باتیں کرتے ہیں اور باقی دنیا کو کہتے ہیں تم ذلیل تمہیں اتنا بھی نہیں پتہ کہ انسانیت ہوتی کیا ہے.تم نے نہتے معصوم اسرائیلیوں پر بمباری کی.وہ غلط ہے.اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ نہتے پُر امن شہریوں کو کسی رنگ میں بھی تکلیف پہنچائی جائے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا دین اس کی اجازت نہیں دیتا.جب بھی بعض علاقوں میں جہاد یعنی تلوار کا جہاد ہوا کرتا تھا تو آپ افواج کو بھیجنے سے پہلے ان کو تفصیل سے اور تاکید سے جو ہدایت فرمایا کرتے تھے.اس میں ایک یہ بھی ہدایت تھی کہ شہریوں کو ، بوڑھوں کو عورتوں کو اور بچوں کو ہرگز تہ تیغ نہیں کرنا.ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا.(ابو داؤد کتاب الجہاد حدیث نمبر: ۲۲۴۷) پس فی الحقیقت یہ صحیح اسلامی تعلیم حضرت محمد مصطفی امیہ کی نصیحتوں اور آپ کی سنت سے ملتی ہے.پس میں یہ نہیں کہتا کہ عراق نے درست کیا مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ اگر عراق نے غلط بھی کیا تو دنیا کے ان قواعد و دستور کے مطابق جن کے تم علمبردار بنے ہوئے ہو عراق کی اس کارروائی کو ایک جوابی کارروائی تصور کرنا چاہئے تھا.اسرائیل میں بسنے والے وہ مسلمان جن پر آئے دن گولیاں چلائی جاتی ہیں اور نہتوں کو تہ تیغ کیا جاتا ہے اور گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے.اگر ان کا انتقام لیا جائے تو تم یہ نہیں کہتے کہ یہ انتقام ہے اور جائز ہے.تم یہ کہتے ہو کہ یہ سراسر غیر منصفانہ، بہیمانہ ظلم ہے اور زیادتی ہے جس کا بدلہ لینے کا اسرائیل کو حق ہے اور پھر مخفی معاہدے ان سے یہ کرتے ہو کہ ہم تمہیں روپیہ بھی دیں گے اور تمہاری خاطر ایسے خوفناک مظالم ان پر کریں گے کہ تمہارے دل ٹھنڈے ہوں

Page 180

۱۷۸ ۲۵ / جنوری ۱۹۹۱ء گے اور جو کچھ بھی ان معصوم لوگوں کا بیچ رہے گا وہ تمہارے سپرد کر دیں گے کہ جاؤ اور جو کچھ ان کا رہ گیا ہے اس کو ملیا میٹ کر دو یا ان کے مردوں کی لاشیں لٹکا کر ان سے اپنا انتقام لو اور اپنے سینے ٹھنڈے کرو اور پھر یہ باتیں ان کے پیش کردہ اخلاق کے اس قدر شدید منافی ہیں، جن اخلاق کا یہ ڈھنڈورا پیٹتے ہیں خود ان کے مخالف ہیں ، جو پروپیگینڈا دنیا میں کر رہے ہیں خود اس پرو پیگنڈے کو جھٹلانے والی باتیں ہیں.پرو پیگنڈا یہ کر رہے ہیں کہ صدر صدام ایک نہایت ہی خوفناک جابر ہے.ہم اس کو سزا اس لئے دے رہے ہیں کہ اس نے خود اپنے ملک کے باشندوں کو زبردستی غلام بنایا ہوا ہے.ہم اس کو سزا اس لئے دے رہے ہیں کہ وہ اپنے ملک کے باشندوں پر ظلم اور تشدد کر رہا ہے اور ان کی رہائی کی خاطر ہم صدر صدام کے خلاف ہیں نہ کہ اہل عراق کے خلاف اور سزا کن معصوموں کو دے رہے ہیں جن پر ان کے بیان کے مطابق مسلسل سالہا سال سے صدر صدام تشدد کرتا چلا جارہا ہے اور مظالم تو ڑتا چلا جا رہا ہے ان معصوم عورتوں اور بچوں کا کیا قصور ہے جو تمہارے بیان کے مطابق پہلے ہی مظلوم ہیں جن کی آزادی کے نام پر تم نے جنگ شروع کی ہوئی ہے کہ ان کو اس جرم کی سزا دو جس جرم کا ارتکاب تمہارے نزدیک صدر صدام نے اسرائیل کے خلاف کیا اور ایسی سزا دو کہ یہود کی تاریخ میں بھی ایسے خوفناک انتقام کی مثالیں نہ ملیں.تمہیں یہ کیا حق ہے کہ عیسائیت کی معصوم تعلیم کو داغدار کرو اور عیسائیت کی تعلیم کو اور عیسائیت کی تاریخ کو بھی اسی طرح انتقام کے ظلم سے خون آلود کر دو جس طرح یہود کی تاریخ ہمیشہ خون آلود رہی ہے.پس یہ ساری غیر منصفانہ باتیں ہیں عدل کے خلاف باتیں ہیں.تقویٰ کے خلاف باتیں ہیں جن کے خلاف مسلمان کے دل میں ایک رد عمل ہے اس کے باوجود وہ جن ملکوں میں رہتا ہے اس کا پر امن شہری ہے.اس کے باوجود کہ وہ اس بات پر آمادہ ہے کہ ملک کا قانون توڑے بغیر صرف ظلم کے خلاف احتجاج کی آواز بلند کرے اس کو غدار قرار دیا جاتا ہے اور اس کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے.یہ کونسا انصاف ہے..مجھ سے ایک احمدی نے فون پر سوال کیا کہ میرا BBC کے ساتھ یاکسی اور ٹیلی ویژن کے ساتھ انٹرویو ہونے والا ہے وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ تمہارا کیا رد عمل ہے؟ کیا تبصرہ ہے ان حالات پر ؟

Page 181

۱۷۹ ۲۵ / جنوری ۱۹۹۱ء بتائیں میں کیا جواب دوں.میں نے کہا تم یہ جواب دو کہ جو Tony Ben (ممبر برٹش پارلیمنٹ ) کا تبصرہ ہے میرا بعینہ وہی تبصرہ ہے جب میرے دل کی صحیح آواز وہ منصف مزاج انگریز بلند کر رہا ہے تو مجھے کیا ضرورت ہے اس آواز کو خو د بلند کرنے کی کیونکہ جب میں کروں گا تو تم مجھے غدار قرار دو گے.جب Tony Ben کرے گا تو تم اسے غدار قرار دینے کی جرات نہیں کر سکتے.پس جو باتیں ہو رہی ہیں انصاف کے خلاف ہو رہی ہیں ، تقویٰ کے خلاف ہو رہی ہیں.کوئی قانون High moral Ground نہیں ہے بلکہ اخلاقی انحطاط میں تحت الثریٰ تک پہنچے ہوئے لوگ ہیں.پس یہ وہ صورتحال ہے جو درست اور تقویٰ پر مبنی صورتحال ہے مگر اس کے باوجود کسی مسلمان عالم کو اور کسی مسلمان بادشاہ کو یہ حق نہیں ہے کہ ان لڑائیوں کو اسلامی جہاد قرار دے لیکن مسلمان عوام کو جب جہاد کے نام پر بلایا جائے گا تو اس لئے لبیک کہیں گے کہ وہ دل سے جانتے ہیں اور بار باران کا کردار یہ ثابت کرتا چلا جارہا ہے کہ ان لڑائیوں کے پس منظر میں اسلام کی دشمنی ضرور موجود ہے.پس وہ معصوم جہاں مارے جائیں گے میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا کی رحمت ان سے رحم کا سلوک فرمائے گی اور اگر اسلام کی کامل تعریف کی رو سے وہ شہید قرار نہیں بھی دیئے جاسکتے تو چونکہ اسلام کی دشمنی میں ان سے ظلم ہوئے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان سے رحمت اور مغفرت کا سلوک کرے گا.لیکن پھر بھی میں اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ نہ مسلمان علماء کا حق ہے اور نہ مسلمان بادشاہوں کا حق ہے کہ وہ اپنی سیاسی لڑائیوں کو خواہ وہ مظلوم کی لڑائیاں ہوں اسلامی جہاد قرار دیں.دراصل آج کل اسلام کی دشمنی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ظاہر وباہر ہوتی چلی جارہی ہے اور منہ سے کوئی کچھ کہے در حقیقت دل کی آواز مختلف بہانوں کے ساتھ اٹھ ہی جاتی ہے اور زبان پر بھی آہی جاتی ہے اور جہاں تک عمل کا تعلق ہے وہ میں نے بیان کیا ہے کہ ایسی مکروہ عملی تصویر میں بنائی جارہی ہیں کہ جو خون کا رنگ رکھتی ہیں اور نفرت کے برش سے بنائی جارہی ہیں اور اسلام کی نفرت کا برش ان کے خدو خال بناتا چلا جارہا ہے اور کھل کر دنیا کے سامنے وہ تصویریں ابھرتی چلی جارہی ہیں

Page 182

۱۸۰ ۲۵ / جنوری ۱۹۹۱ء اس کے نتیجے میں اور جو کچھ بھی ہوا من بہر حال قائم نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ بنیادی اصول کبھی کوئی دنیا میں تبدیل نہیں کر سکا کہ نفرتیں نفرتوں کے بچے پیدا کرتی ہیں.اس لئے یہ ابھی سے بیٹھے ہوئے منصوبے بنارہے ہیں کہ کس طرح اس جنگ کے اختتام پر اس خطہ ارض میں جسے مشرق وسطی کا نام دیا جاتا ہے امن کا قیام کریں گے.یہ محض خواب و خیال کی جاہلانہ باتیں ہیں.جہاں نفرتوں کے بیج اتنے گہرے بودیئے گئے ہوں وہاں سے نفرتیں ہی اُگیں گی.جہاں جنگ کے بیج بو دیئے گئے ہوں وہاں جنگیں ہی اُگیں گی اور یہ ہو نہیں سکتا کہ نفرتوں کے نتیجہ میں محبتیں پیدا ہونی شروع ہو جا ئیں اور جنگ کے نتیجے میں امن کی فصلیں کاٹنے لگو.پس آج نہیں تو کل یہ دیکھیں گے کہ جو اقدامات یہ آج کر رہے ہیں یہ ہمیشہ کے لئے دنیا کے امن کو تباہ کر رہے ہیں اور جو مجرم ہے خدا اس کو سزا دے گا کیونکہ انسان تو بے اختیار ہے.تعصب سے پاک تبصرہ جماعت احمد یہ کسی قومی تعصب میں مبتلا ہو کر کسی خیال کا اظہار نہیں کرتی ، نہ تعصب میں مبتلا ہو سکتی ہے کیونکہ ہمارے دل تو حید نے سیدھے کر دیئے ہیں.کوئی کبھی ان میں نہیں چھوڑی.ہماری وفا توحید کے ساتھ ہے اور توحید جس کے دل میں جاگزیں ہو جائے اور گڑ جائے اس کے دل میں عصبیتیں جگہ پاہی نہیں سکتیں.یہ دو چیزیں ایک سینے میں اکٹھی نہیں ہوسکتیں.تو حید تو کل عالم کو اکٹھا کرنے والی طاقت ہے.تو حید جس سینے میں سما جائے اس میں کوئی عصبیت جگہ نہیں پاسکتی.یہ ایک بنیادی غیر مبدل قانون ہے.اسی لئے میں جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہمارے تبصروں میں خواہ کیسی ہی تلخی ہو وہ حق پر مبنی تبصرے ہوں گے اور آج نہیں تو کل دنیا ہماری تائید کرے گی کہ ہاں تم نے حق کی صدا بلند کی تھی اور اس میں کوئی تعصب کا شائبہ تک باقی نہیں تھا.لیکن اس کے علاوہ بھی بعض باتیں ہیں جن کی وجہ سے طبیعتوں پر سخت انقباض بھی ہے اور

Page 183

۱۸۱ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء بے قراری پائی جاتی ہے.وہ ان کا متکبرانہ رویہ ہے.خاص طور پر امریکہ کے صدر جب بات کرتے ہیں عراق کے متعلق یا دوسری ان قوموں کے متعلق جوان سے تعاون نہ کر رہی ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے دنیا میں ایک خدا اتر آیا ہے اور خدا بات کر رہا ہے اور جو موحد ہو وہ تکبر کے سامنے سر جھکا ہی نہیں سکتا.شرک کی مختلف قسمیں ہیں لیکن سب سے زیادہ مکروہ اور قابل نفرت شکل تکبر ہے.پس تکبر کے خلاف آواز بلند کرنا موحد کا اولین فریضہ ہے اور جماعت احمد یہ دنیا کے موحدین میں صف اول کی موحد جماعت ہے بلکہ تو حید کی علمبردار جماعت ہے توحید کا جھنڈا آج جماعت احمدیہ کے ہاتھوں میں تھمایا گیا ہے اس لئے ہم ہر شرک کے خلاف آواز بلند کریں گے.ہر تکبر کے خلاف آواز بلند کریں گے اور دنیا کا کوئی خوف ہماری اس آواز کا گلا نہیں گھونٹ سکتا کیونکہ وہ مصنوعی خدا جو دنیا کی تقدیر پر قابض ہونے کی کوشش کرتے ہیں ان کے سامنے سر جھکانا اور موحد ہونا بیک وقت ممکن ہی نہیں.جب میں ایسے تبصرے کرتا ہوں تو بعض احمدی مجھے لکھتے ہیں، ہیں ہیں ! ہمیں آپ کی فکر پیدا ہوتی ہے آپ کیوں ایسی باتیں کرتے ہیں.میں ان کو یاد دلاتا ہوں کہ میں اس لئے ایسی باتیں کرتا ہوں کہ میرے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم بھی ایسی ہی باتیں کیا کرتے تھے.جب آپ نے توحید کے حق میں آواز بلند کی تو مکہ کیا تمام دنیا نے آپ کی مخالف تھی.آپ کی منتیں کی گئیں.آپ کو سمجھایا گیا کہ کیوں اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں.آپ کو علم نہیں کہ کتنی کتنی خوفناک طاقتیں آپ کے خلاف اکٹھی ہو گئی ہیں لیکن آپ نے ان کو یہی جواب دیا اور ہمیشہ یہ جواب دیا کہ تو حید کی راہ میں میں ہر قربانی کے لئے تیار ہوں یہی میری زندگی کا مقصد ہے.یہی میرے پیغام کی جان ہے.یہی میرے مذہب کی روح ہے اس لئے ہر دوسری چیز سے تم مجھے الگ کر سکتے ہومگر تو حید اور توحید کا پیغام پہنچانے سے الگ نہیں کر سکتے.آپ نے فرمایا کہ تم کیا کہتے ہو.خدا کی قسم ! اگر سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر لا کر رکھ دو اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر لا کر رکھ دو تب بھی میں ان کو رد کر دوں گا اور تو حید کا دامن کبھی نہیں چھوڑوں گا.پس مجھے کس بات سے ڈراتے ہیں.امریکہ کی طاقت ہو یا یہود کی طاقت ہو یا انگریز کی

Page 184

۱۸۲ ۲۵ / جنوری ۱۹۹۱ء طاقت ہو یا تمام دنیا کی اجتماعی طاقتیں ہوں اگر تو حید کی آواز بلند کرتے ہوئے پارہ پارہ بھی ہو جاؤں تو خدا کی قسم میرے جسم کا ذرہ ذرہ یہ اعلان کرے گا کہ فزت برب الكعبه.فزت برب الكعبه میں خدائے کعبہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں کامیاب ہو گیا اور یہی وہ آواز ہے جو آج تمام دنیا کے احمدیوں کے دلوں سے اور ان کے جسموں کے ذرے ذرے سے اٹھنی چاہئے.تقدیر کا فیصلہ کیا پروگرام ہیں؟ اور کن طاقتوں پر یہ بھروسہ کئے ہوئے ہیں.Desert Storm کی باتیں کرتے ہیں یعنی صحراؤں کا ایک طوفان ہے جو دشمن کو ہلاک اور ملیا میٹ کر دے گا.یہ نہیں جانتے کہ طوفانوں کی باگیں بھی خدا کے ہاتھ میں ہوتی ہیں.میں نہیں جانتا کہ خدا کی تقدیر کیا فیصلہ کرے گی مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ خدا کی تقدیر جو بھی فیصلہ کرے گی وہ بالآخر متکبروں کو ہلاک کرنے کا موجب بنے گا آج نہیں تو کل یہ تکبر ملیامیٹ کئے جائیں گے کیونکہ وہ بادشاہت جو آسمان پر ہے اسی خدا کی بادشاہت زمین پر ضرور قائم ہو کر رہے گی.پس آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں آپ دیکھیں گے کہ یہ تکبر دنیا سے مٹا دیا جائے گا اور طوفان ان پر الٹائے جائیں گے اور ایسے ایسے خوفناک Storms خدا کی تقدیر ان پر چلائے گی کہ جن کے مقابل پر ان کی تمام اجتماعی طاقتیں بھی نا کام اور پارہ پارہ ہو جائیں گی یہ نظام کہنہ مٹایا جائے گا.آپ یا درکھیں اور اس بات پر قائم رہیں اور کبھی محونہ ہونے دیں.یہ اقوام قدیم جن کو آج اقوام متحدہ کہا جاتا ہے ان کے اطوار زندہ رہنے کے نہیں ہیں.یہ قو میں یادگار بن جائیں گی اور عبرتناک یادگار بن جائیں گی اور ان کے کھنڈرات سے ، آپ ہیں.اے تو حید کے پرستارو! وہ آپ ہیں جونئی عمارتیں تعمیر کریں گے نئی اقوام متحدہ کی عظیم الشان فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنے والے تم ہو.اے مسیح محمدی کے غلامو! جن کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے تم دیکھو گے.آج نہیں تو کل دیکھو گے، اگر تم نہیں دیکھو گے تو تمہاری نسلیں دیکھیں گی.اگر کل تمہاری نسلیں نہیں دیکھیں گی تو پرسوں ان کی نسلیں دیکھیں گی.مگر یہ خدا کے منہ کی باتیں ہیں اور اس کی تقدیر کی تحریریں

Page 185

۱۸۳ ۲۵ جنوری ۱۹۹۱ء ہیں جنہیں دنیا میں کوئی مٹا نہیں سکتا.آپ وہ مزدور ہیں جنہوں نے وہ نئی عمارتیں تعمیر کرنی ہیں.نئی اقوام متحدہ کی بنیادیں تو ڈالی جا چکی ہیں ، آسمان پر پڑ چکی ہیں ان کی عمارتوں کو آپ نے بلند کرنا ہے.پس ان دو مقدس مزدوروں کو کبھی دل سے محو نہ کرنا جن کا نام ابراہیم اور اسماعیل تھا اور ہمیشہ یادرکھنا اور اپنی نسلوں کو نصیحتیں کرتے چلے جانا کہ اے خدا کی راہ کے مزدورو! اسی تقویٰ اور سچائی اور خلوص کے ساتھ ، اسی تو حید کے ساتھ وابستہ ہو کر اسے اپنے رگ و پے میں سرایت کرتے ہوئے تم اس عظیم الشان تعمیر کے کام کو جاری رکھو گے ایک صدی بھی جاری رکھو گے، اگلی صدی بھی جاری رکھو گے یہانتک کہ یہ عمارت پائیہ تکمیل کو پہنچے گی.اس عمارت کی تکمیل کا سہرا جس کی بنیاد حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے ڈالی تھی.جن کے ساتھ ان کے بیٹے اسماعیل نے مزدوری کی تھی خدا کی تقدیر میں ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے سر پر باندھا جا چکا ہے.کوئی نہیں ہے جو اس تقدیر کو بدل سکے.ہم تو مزدور ہیں محمد مصطفیٰ " کے قدموں کے غلام، آپ کے خاک پا کے غلام ہیں.پس آپ وفا کے ساتھ کام لیں اور نسلاً بعد نسل اپنی اولا د کو یہ نصیحت کرتے چلے جائیں کہ تم خدا اور رسول کے مزدوروں کی طرح کام کرتے رہو گے ، کرتے رہو گے ، اپنے خون بھی بہاؤ گے اور پسینے بھی بہاؤ گے اور کبھی بھی پیچھکو گے نہ ماندہ ہو گے یہاں تک کہ خدا کی تقدیر اپنے اس وعدے کو پورا کر دے کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (القف:۱۰) کہ محمد مصطفی ﷺ کا دین اس لئے دنیا میں بھیجا گیا تھا کہ تمام ادیان پر غالب آجائے اور ایک ہی جھنڈا ہو جومحمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا ہو اور ایک ہی دین ہو جو خدا اور محمد کا دین ہو اور ایک ہی خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم ہو خدا کرے کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں اگر نہ دیکھ سکیں تو ہماری اولا دیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور ہمیں یا درکھیں اور اگر وہ بھی نہ دیکھ سکیں تو ان کی اولادیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان دنیا کی آنکھوں سے آپ دیکھ سکیں یا نہ دیکھ سکیں.میری روح کی آنکھیں آج ان واقعات کو دیکھ رہی ہیں.ان عظیم الشان تغیرات کو اس طرح دیکھ رہی ہیں جیسے میرے سامنے واقعہ ہورہے ہیں اور ہمارے مرنے کے بعد ہماری روحوں کو آشنا کیا جائے گا اور خبریں دی جائیں گی کہ اے خدا کے غلام

Page 186

۱۸۴ ۲۵ / جنوری ۱۹۹۱ء بندو! خدا سے عشق اور محبت کرنے والے بندو ! تمہاری روحیں ابدی سرور پائیں اور ابدی سکنیت حاصل کریں کہ جن را ہوں میں تم نے قربانیاں دی تھیں وہ راہیں شاہراہیں بن چکی ہیں اور جن تعمیرات میں تم نے اینٹ اور روڑے اور پتھر رکھے تھے وہ خدا کی توحید کی ایک عظیم الشان عمارت بن کر اپنی پائیہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے.ہوگا اور ایسا ہی ہوگا اللہ کرے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ اس رنگ میں خدمت کی توفیق عطا ہو.آمین.گزشتہ جمعہ پر میں نے اعلان کیا تھا کہ جاپان اور جرمنی اور ماریشس کی جماعتیں براہ راست اس خطبے کو سن رہی ہیں.بعد میں مجھے بتایا گیا کہ نیو یارک امریکہ اور بریڈ فورڈیو کے اور ڈنمارک کی جماعتیں بھی مواصلاتی ذریعے سے اس خطبے کو براہ راست سن رہی ہیں.آج بھی مجھے بتایا گیا ہے کہ ماریشس ،سویڈن.مانچسٹر اور بریڈ فورڈ اور جرمنی اور جاپان کی جماعتیں.جرمنی میں ہمبرگ اور فرینکفرٹ شامل ہیں ان کی جماعتیں براہ راست اس خطبے کو سن رہی ہیں پچھلی دفعہ مجھے یاد نہیں رہا تھا کہ جب یہ سن رہی ہیں تو ان کو براہ راست ” السلام علیکم کہہ دوں پس اپنی طرف سے بھی اور تمام یو کے کے احمدیوں کی طرف سے میں آپ تمام احمدی بھائیوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کا تحفہ پیش کرتا ہوں.دعاؤں پر زور دیں.ہماری طاقتوں کی جان دعا ئیں ہیں اور جو بھی روحانی انقلاب اب دنیا میں بر پا ہوگا وہ دعاؤں ہی کے ذریعے ہوگا.

Page 187

۱۸۵ بسم اللہ الرحمن الرحیم یکم فروری ۱۹۹۱ء خلیجی جنگ میں مسلمان ملکوں کا طرز عمل ( خطبه جمعه فرموده ۰۱ فروری ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.خوفناک غداریاں اسلام کی تاریخ بہت سی خوفناک غداریوں سے داغدار ہے اور اگر آپ حضرت محمد مصطفی اے کے دور کے ابتدائی حصے کو چھوڑ کر جس میں خلفائے راشدین کا دور اور کچھ بعد کا عرصہ شامل ہے، باقی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے مسلمانوں ہی سے کچھ غدار حاصل کئے گئے ہیں اور کبھی بھی اس کے بغیر ملت اسلامیہ کو نقصان نہیں پہنچایا جاسکا.اس تاریخ پر نظر ڈالیں تو غداریوں کی تعریف میں موجودہ جنگ سیاہ ترین حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے کیونکہ آج تک کبھی اتنی اسلامی مملکتوں نے مل کر ملت اسلامیہ کے مفاد کے خلاف ایسی ہولناک سازش نہیں کی یا اس میں شریک نہیں ہوئے.پس یہ جو موجودہ جنگ ہے اس کو اس دور میں آج کے مبصرین ان مسلمان ممالک کو پاگل بنانے کے لئے جوان کے ساتھ شامل ہوئے جو کچھ چاہیں کہیں.لیکن کل مغربی دنیا کے محققین اور مؤرخین بھی یہی بات کہیں گے جو میں آج کہہ رہا ہوں کہ ان مسلمان ممالک نے ان اسلامی مفاد کے ساتھ حد سے زیادہ غداری کی اور اسلام دشمن طاقتوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی ابھرتی ہوئی اسلامی مملکت کو تباہ کیا اور اس طرح ظلم کے ساتھ ملیا میٹ کرنے کی کوشش کی.ابھی تک تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ کوشش کی.اللہ بہتر جانتا ہے کل کو کیا نتیجہ نکلے گا لیکن اگر

Page 188

۱۸۶ یکم فروری ۱۹۹۱ء خدانخواستہ یہ اس کوشش میں کامیاب ہو گئے تو کل کا مؤرخ یہی بات لکھے گا کہ جب انہوں نے کوشش کی تو یہ مسلمان ممالک پوری طرح اسلام کے دشمنوں کے ساتھ مل کر ایک عظیم اسلامی مملکت کو تباہ کرنے کے لئے شامل ہوئے اور ذرہ بھر بھی عدل یا رحم سے کام نہیں لیا اور ذرہ بھر بھی قومی حمیت کا مظاہرہ نہیں کیا.اس ضمن میں کچھ ممالک تو ایسے تھے جن سے مجھے یہی توقع تھی ، ان کے متعلق یہی احتمال تھا کہ ایسا ہی کریں گے جن میں ایک سعودی عرب ہے اور ایک Egypt اس لئے کہ Egypt پہلے ہی عالمی دباؤ کے نیچے آکر اور کچھ اپنا علاقہ واپس لینے کی خاطر اسرائیل کے ساتھ معاہدوں میں جکڑا جا چکا ہے اور اس وقت مغربی طاقتیں مصر کو کلیڈ اپنا حصہ سمجھتی ہیں.دوسرے Saudi Arabia جس کی عالم اسلام سے غداریاں ایک تاریخی نوعیت رکھتی ہیں.اس کا آغاز ہی غداری کے نتیجے میں ہوا اس کا قیام ہی غداری کے نتیجے میں ہوا.مسلسل انگریزی حکومت کا نمائندہ رہا یا امریکن مفاد کا نمائندہ رہا اور اسلام کے دو مقدس ترین شہروں پر قابض ہونے کی وجہ سے مذہب کا ایک جھوٹا سا دکھاوے کا لبادہ پہنے رکھا جس کے نتیجے میں بہت سی مسلمان مملکتیں اس بدنصیب ملک کے رعب میں آئیں اور محض اس لئے اس سے محبت کرتی رہیں اور پیار کا تعلق رکھتی رہیں کہ وہ اسے مکے اور مدینے کا یا دوسرے لفظوں میں محمد رسول اللہ اور خدا کا نمائندہ سمجھتی تھیں.امریکہ کے ساتھ سعودی عرب کی وابستگی اس ضمن میں میں نے بارہا بعض مسلمان ریاستوں کے نمائندوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ تم بڑے دھو کے میں مبتلا ہو میں سعودی عرب کی تاریخ کو اچھی طرح جانتا ہوں وہابیت کی تاریخ سے خوب واقف ہوں.تم یہ سمجھتے ہو کہ مکے اور مدینے کے میناروں سے جو آواز میں بلند ہوتی ہیں یہ اللہ اور رسول کی آواز میں ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ان میناروں پر صرف لاؤڈ سپیکر لگے ہوئے ہیں اور مائیکروفون واشنگٹن میں ہیں اور ان مائیکروفونز پر بولنے والا اسرائیل ہے کیونکہ یہ ایک واضح حقیقت

Page 189

IAZ یکم فروری ۱۹۹۱ء ہے کسی لمبی چوڑی دلیل کی ضرورت نہیں کوئی انسان جو موجودہ حالات کا ذرا سا بھی علم رکھتا ہے یہ دوٹوک بات خوب جانتا ہے کہ سعودی عرب کلیہ امریکہ کے قبضہ قدرت میں ہے اور امریکہ کلیہ اسرائیلی اقتدار میں داخل ہو چکا ہے اور اسرائیلی اقتدار کو عملاً اپنی Policies میں قبول کر چکا ہے.یہ ظاہری صورت ہے جو نظر آتے ہوئے بھی مسلمان ممالک اس صورت سے اندھے رہے.اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جماعت احمدیہ کو انتہائی جھوٹے اور غلیظ پرو پیگنڈے کا نشانہ بنایا گیا کہ جماعت احمدیہ انگریز کی ایجنٹ ہے اس لئے جب مسلمان ممالک کے نمائندے ہم سے یہ بات سنتے تھے تو وہ سمجھتے تھے شاید اپنے گلے سے بلا ٹال کر سعودی عرب پر پھینکتے ہیں اور اپنے انتقام لے رہے ہیں ورنہ اس میں کوئی حقیقت نہیں.اب دنیا کے سامنے یہ بات کھل کر آچکی ہے اور وہ سارے مولوی بھی جو ان سے پیسے لے کر ، ان کا کھا کر احمدیوں کو کبھی یہودیوں کے ایجنٹ قرار دیتے تھے.کبھی انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیتے تھے کھلے بندوں اب ان Saudians کو سعودی حکومت کے سر براہوں اور سارے جوان کے ساتھ شامل ہیں ، وہابی علماء کو ، سب کو ملا کر یہودی ایجنٹ اور مغربی ایجنٹ قرار دے رہے ہیں اور ان کے متعلق ایسی گندی زبان استعمال کر رہے ہیں کہ وہ تو ہمیں زیب نہیں دیتی لیکن جیسا کہ پاکستان کی گلیوں میں اسی قسم کی گفتگو ہوتی ہے، ایسی ہی آواز میں بلند کی جاتی ہیں آپ جانتے ہی ہیں.ایسی ہی آواز میں انگلستان میں بھی سعودیت کے خلاف بلند ہوئیں اور دوسرے ممالک کے متعلق بھی یہی اطلاع آرہی ہے کہ اب تمام عالم اسلام ان کی حقیقت کو سمجھا ہے اس لئے ان سے کسی قسم کی غداری پر تعجب کی کوئی گنجائش نہ تھی.یقین تھا کہ یہی کریں گے یہی ان کا طریق ہے ، یہی ہمیشہ سے کرتے چلے آئے ہیں لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ موجودہ دور میں بعض ایسے ممالک نے بھی اسلام کے مفاد سے غداری کی ہے جن سے دور کی بھی توقع نہیں تھی اور اس میں بھی میں سمجھتا ہوں کہ امریکن دباؤ کے علاوہ سعودی دباؤ بھی اور سعودی اثر بھی بہت حد تک شامل ہے اور کچھ غربت کی مجبوریاں ہیں جن کے نتیجے میں بعض ملکوں نے اپنے ایمان نیچے ہیں.جن ممالک سے کوئی دور کی بھی توقع نہیں تھی ان میں ایک پاکستان ہے، ایک ترکی ہے اور ایک شام ہے.

Page 190

پاکستان ،ترکی اور شام کا طرز عمل ۱۸۸ یکم فروری ۱۹۹۱ء پاکستان سے تو اس لئے مجھے توقع نہیں تھی کہ وہاں کی حکومت چاہے کتنی ہی امریکن نواز کیوں نہ ہو میں بحیثیت پاکستانی جانتا ہوں کہ پاکستانی عوام اور پاکستانی فوج کا مزاج یہ برداشت ہی نہیں کرسکتا کہ مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر کسی مسلمان ملک پر حملہ کریں یا اس حملے کا جواز ثابت کرنے کے لئے ان میں شامل ہو جائیں.کسی قیمت پر پاکستانی مزاج اس بات کو قبول نہیں کر سکتا لیکن اس کے باوجود موجودہ حکومت نے جب پوری طرح اس نہایت ہولناک اقدام کی تائید کی جو عراق کے خلاف اتحاد کے نام پر کیا گیا ہے تو میں حیران رہ گیا کہ یہ کیا ہوا ہے اور کیسے ہوا ہے لیکن الحمد للہ کہ دو تین دن پہلے پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ نے اس غلط فہمی کو تو دور کر دیا کہ فوج کی تائید اس فیصلے میں شامل ہے چنانچہ انہوں نے کھلم کھلا اس سے بریت کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم ہر گز اس فیصلے کو پسند نہیں کرتے.یہ غلط فیصلہ ہے اور ملت اسلامیہ کے مفاد کے خلاف ہے.جہاں تک Turkey کا تعلق ہے Turkey تو تمام دنیا میں مسلمان مفادات کے محافظ کے طور پر صدیوں سے اتنا نیک نام پیدا کئے ہوئے ہے کہ اسی نام سے یورپ میں یہ جانا جاتا تھا اور ترکی کی عثمانیہ حکومت سے مغربی طاقتیں بھی کانپتی تھیں اور جب بھی ترکی کا نام آتا تھا تو وہ سمجھتے تھے کہ جب تک یہ سلطنت قائم ہے اسلام کی سرزمین میں نفوذ کا ہمارے لئے کوئی موقعہ پیدا نہیں ہوسکتا، کوئی دور کا بھی امکان نہیں.چنانچہ اتنی لمبی عظمت کی تاریخ کو ایک فیصلے سے اس طرح سیاہ اور بدزیب بنادینا اور ایسے داغدار کر دینا یہ اتنی بڑی خود کشی ہے کہ تاریخ میں شاید اس کی کوئی مثال نظر نہ آئے.ترکی قوم پر ایسا داغ لگا دیا گیا ہے جو اب مٹ نہیں سکے گا.سوائے اس کے کہ کوئی عظیم انقلاب بر پا ہو اور پھر وہ اپنے خون سے اس داغ کو دھونے کی کوشش کریں.جہاں تک Syria کا تعلق ہے اس کے لئے بھی کئی ایسی وجوہات تھیں جن کی بنا پر مجھے Syria یعنی شام سے ایسی توقع نہیں تھی.ایک تو حافظ الاسد کا اپنا گولان ہائیٹ (Height) کا علاقہ

Page 191

۱۸۹ یکم فروری ۱۹۹۱ء اسرائیل نے ہتھیایا ہوا ہے اور بڑی دیر سے ان کی اسرائیل سے مخاصمت اور لڑائی چلی آرہی ہے اور اس تاریخی دور میں جب سے اسرائیل کا قیام ہوا ہے Syria نے اسرائیل کی مخالفت میں بڑی قربانیاں پیش کی ہیں اور اپنے علاقے بھی گنوائے لیکن اپنے مؤقف کو تبدیل نہیں کیا.اس کے علاوہ صدام کی جو تصویر مغربی قومیں آج کھینچ رہی ہیں اس سے بہت زیادہ بھیانک اور بدصورت تصویر صدر حافظ الاسد کی انہی قوموں نے کھینچ رکھی تھی اور اب تک وہی قائم ہے اس لئے بھی میں نہیں سوچ سکتا تھا کہ جب مغربی قو میں ایک طرف صدر صدام کو گندی گالیاں دیں گی اور اس کی کردار کشی کر رہی ہوں گی تو صدر حافظ الاسد کس طرح یہ سمجھیں گے کہ میں اس سے بچ کر ان کے ساتھ گلے مل سکتا ہوں لیکن ان کو یعنی صدر بش کو اور صدر حافظ الاسد کو میں نے اکٹھے ایک صوفے پر بیٹھے دوستانہ باتیں کرتے ہوئے ٹیلویژن پر دیکھا اور ان کی پالیسی کو یکسر اس طرح بدلتے دیکھا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، کچھ سمجھ نہیں آتی.انسان ششدر رہ جاتا ہے کہ یہ کیا واقعہ ہوا ہے.ایران کی مستحسن روش ایران سے مجھے نہ توقع تھی ، نہ ہے نہ ہوگی کیونکہ ایران کے متعلق پہلے بھی میں بارہا کھلم کھلا یہ اقرار کر چکا ہوں کہ مذہبی عقائد سے اختلاف کے باوجود ایرانی قوم اسلام کے معاملے میں منافقت نہیں کرتی.اسلام کی سچی عاشق ہے.ان کا اسلام کا تصور غلط ہوسکتا ہے یہ تو ہوسکتا ہے کہ شیعہ ازم میں بعض ایسے عقائد کے قائل ہوں جن سے ہم اتفاق نہیں کرتے.یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسلام کے تصور میں جہاں تک سیاست کا تصور ہے ان کے خیال میں بہت سی غلطیاں ہوں یعنی اسلام کے سیاسی تصور میں ان کے خیال میں غلطیاں ہوں اور ہیں میرے نزدیک لیکن جان بوجھ کر اسلام سے غداری کریں یہ ایرانی قوم سے ممکن نہیں ہے اور ان کی تاریخ بھی خدمت اسلام کی عظیم کارناموں سے روشن ہے بلکہ جتنی علمی خدمت اسلام کی وسیع تر ایران نے کی ہے جس کا ایک حصہ اب روس کے قبضے میں ہے اس خدمت کو اگر باقی اسلام کی خدمت کے مقابل پر رکھیں تو آپس میں

Page 192

۱۹۰ یکم فروری ۱۹۹۱ء تول کرنا بہت ہی مشکل ہوگا.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایران کی خدمت کسی طرح دوسری سب خدمتوں سے پیچھے رہ گئی ہے.الحمد للہ کہ ایران نے اپنی تو قعات کو پورا کیا اور باوجود اس کے کہ صدر صدام کی حکومت سے ایرانی حکومت کا شدید اختلاف تھا.آٹھ سال تک نہایت خوفناک خونی جنگ میں یہ لوگ مبتلا رہے ہیں اور بہت ہی گہرے شکوے اور صدمے تھے.اگر امیران ،عراق کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا تو دنیا سمجھ سکتی تھی اور مورخ اس کو معاف بھی کر سکتا تھا کہ اتنی خوفناک جنگ کے بعد اگر ایران نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے تو کوئی حرج نہیں ایسا ہو جایا کرتا ہے.آخر انسانی جذبات ہیں جو بعض باتوں سے مشتعل ہو کر پھر قابو میں نہیں آتے.اس وقت انسان گہری سوچوں میں نہیں پڑسکتا کہ اسلام کے تقاضے کیا ہیں ، ملت کے تقاضے کیا ہیں.جذبات میں بہہ جاتا ہے تو یہ باتیں سوچ کر ایک مؤرخ کہہ سکتا ہے کہ اس پہلو سے یہ قابل معافی ہے مگر ایران نے اگر چہ ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ تو نہیں کیا لیکن اس ابتلاء میں پوری طرح نیوٹرل (Neutral) رہتے ہوئے عراق کو عراق کی غلطی یاد کرائی اور مغربی طاقتوں کو ان کی غلطی یاد کروائی گویا کہ انصاف پر قائم رہا.اس پہلو سے ایران کا نام انشاء اللہ اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ عزت سے لیا جائے گا.سعودی عرب اور مصر کا نا قابل معافی جرم یہ تو مختصر تبصرہ ہے سیاسی طور پر اسلام سے وفاداری یا عدم وفاداری کا جہاں تک تعلق ہے.میں جب اسلام سے وفاداری یا عدم وفا داری کہہ رہا ہوں تو سیاسی معنوں میں کہہ رہا ہوں یعنی ملت اسلامیہ سے وفاداری یا عدم وفاداری کی بات ہو رہی ہے لیکن اس ضمن میں ایک یہ بات اور بھی بتانی چاہتا ہوں کہ ملت اسلامیہ میں دو ممالک ایسے تھے دو سلطنتیں ایسی تھیں جو مذہب کے لحاظ سے بھی غیر معمولی مقام رکھتی تھیں.اسلام کے مقدس مقامات کے محافظ کے طور پر اور اس کے مجاور اور نگران پر سعودی عرب کو دنیائے اسلام میں ایک عظیم حیثیت حاصل ہے جس سے کوئی انکار نہیں کیا کے طور پر

Page 193

۱۹۱ یکم فروری ۱۹۹۱ء جاسکتا یہ اس کی خوش نصیبی تھی کہ اتنی بڑی سعادت ، اتنی بڑی امانت اس کے سپرد ہوئی اور دوسری طرف اسلامی علوم کا محافظ اور نگہدار مصر سمجھا جاتا تھا کیونکہ مصر کی جامعہ ازھر نے اسلامی علوم کی جو خدمت کی ہے اس کی کوئی مثال کسی اور اسلامی ملک میں دکھائی نہیں دیتی اور اسلام کے آخری دور میں علمی خدمت کے لحاظ سے جامعہ ازھر مصر کو جو پوزیشن حاصل ہے اس کا کوئی اور دنیا میں مقابلہ نہیں کر سکتا پس ان دونوں سے اس پہلو سے کوئی دور کی بھی توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ یہ ملت اسلامیہ سے غداری کریں گے.چنانچہ ان کا حال دیکھ کر مجھے وہ ایک شعر یاد آ جاتا ہے جو بچپن میں سنا ہوا تھا اور اس زمانے میں زیادہ اچھا لگا کرتا تھا مگر بعد میں درمیانہ سا لگنے لگا وہ یہ تھا کہ: آگ دی صیاد نے جب آشیانے کو میرے جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے کہ جب ظالم شکاری نے میرے گھونسلے کو جلایا تو جن پتوں پر میرا ٹھکا نہ تھا، میرا سر ہانہ تھا، میرا تکیہ تھا وہی پتے ہل ہل کر اس میرے گھونسلے کی آگ کو ہوا دینے لگے.تو علمی لحاظ سے اور نقدس کے لحاظ سے جن دو ملکوں پر عالم اسلام کا تکیہ تھا جب دشمن نے عالم اسلام کے آشیانے کو آگ دی ہے تو انہوں نے ہی اس آگ کو ہوادی ہے.پس یہ ایسا جرم نہیں ہے جو کبھی بھی تاریخ میں معاف کیا جا سکے گا.اللہ تعالیٰ کی تقدیر کیا فیصلے کرتی ہے.آج کرتی ہے یا کل کرتی ہے،اس دنیا میں کچھ دکھاتی ہے یا ان کی سزا جزا کا معاملہ آخرت تک ملتوی کر دیتی ہے یہ تو اللہ تعالی مالک ہے وہی بہتر فیصلے کر سکتا ہے لیکن جہاں تک دنیا کی سمجھ بوجھ کا تعلق ہے اس کے بداثرات کچھ تو ظاہر ہور ہے ہیں کچھ ایسے ہیں جو مدتوں ہوتے رہیں گے اور صرف اس خطہ ارض میں محدود نہیں رہیں گے بلکہ بہت وسیع ہوں گے اور بہت پھیل جائیں گے.جنگ کے متعلق مغربی مبصرین کا محاکمہ دوسرا پہلو اس جنگ کا یہ ہے کہ جس کو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ اس جنگ کا

Page 194

۱۹۲ یکم فروری ۱۹۹۱ء مقصد کیا ہے.کیوں ہو رہی ہے؟ اس کی نوعیت کیا ہے؟ جب تک ہم اس کو اچھی طرح سمجھ نہ لیں اس وقت تک اس بارے میں ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ عالم اسلام کا صحیح موقف کیا ہونا چاہئے یا دنیا کا مؤقف کیا ہونا چاہئے.United Nations کو اس بارہ میں کیا اصلاحی اقدامات کرنے چاہئیں.مرض کا جب تک تجزیہ ہی نہ ہو تشخیص ہی صحیح نہ ہو اس وقت تک صحیح علاج تجویز ہو ہی نہیں سکتا.اس لئے میں باقی خطبے میں مختصراً اس جنگ کی وجوہات کا اور اصل محرکات کا اور مقاصد کا تجزیہ کرنے کی کوشش کروں گا تا کہ اس کی روشنی میں پھر آئندہ انشاء اللہ ایسی تجاویز پیش کروں گا جوUnited Nations کیلئے بھی ہوں گی اور دنیا کی دوسری قوموں کے لئے بھی اور عالم اسلام کے لئے بھی کہ احمد یہ نقطہ نگاہ سے بھی ان مسائل کا کیا حل ہے اور آئندہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے اگر سنجیدگی سے غور ہونا چاہئے تو کس پہلو سے، کس طریق پر غور ہونا چاہئے.اس وقت تو ہم مغرب سے یہی آواز سن رہے ہیں اور صدر بش اس آواز کو سب سے زیادہ زور سے اور شور کے ساتھ دنیا میں پیش کر رہے ہیں کہ یہ جنگ مذہبی جنگ نہیں ہے.یہ جنگ کسی قسم کے مفادات سے تعلق نہیں رکھتی یہ تیل کی جنگ نہیں ہے.یہ ہمارے مفادات کی جنگ نہیں، یہ اسلام کی جنگ نہیں ہے یہ یہودیت کی جنگ نہیں ہے یہ عیسائیت کی جنگ نہیں ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں یہ حق اور انصاف کی جنگ ہے، یہ سچ اور جھوٹ کی جنگ ہے، یہ نیکی اور بدی کی جنگ ہے، یہ تمام دنیا کی جنگ ہے، ایک ظالم اور سفاک شخص صدام کے خلاف.یہ وہ امریکی نظریہ ہے جس کو اس کثرت کے ساتھ ریڈیو، ٹیلی ویژن ، اخبارات میں مشتہر کیا جارہا ہے کہ اکثر مغربی دنیا اس کو تسلیم کر بیٹھی ہے.وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ واقعی یہی جنگ ہے لیکن بہت سے منصف مزاج اور گہری نظر رکھنے والے مبصرین ہیں جو انکار کر رہے ہیں اور مغرب ہی کے مبصرین کی میں بات کر رہا ہوں.ان میں بڑے بڑے ماہر اور تجربہ کار سیاستدان بھی ہیں اور دانشور صحافی ہر قسم کے طبقے سے کچھ نہ کچھ آواز میں یہ بلند ہورہی ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے.یہ سب پروپیگنڈہ ہے اور ہمیں ہمارے ہی راہنما دھوکے دے رہے ہیں اور کھلے کھلے دھوکے دے رہے ہیں.یہ جنگ کچھ اور ہے.Adward Heithجو

Page 195

۱۹۳ یکم فروری ۱۹۹۱ء انگلستان کے پرائم منسٹر رہ چکے ہیں اور اپنی بصیرت کے لحاظ سے اور بصارت کے لحاظ سے اور سیاسی سوجھ بوجھ کے لحاظ سے اور سیاست کے وسیع تجربے کے لحاظ سے انگلستان کی عظیم ترین زندہ شخصیتوں میں شامل ہوتے ہیں اور مسلسل ان کا یہی موقف رہا ہے کہ ہماری موجودہ سیاسی لیڈرشپ ہمیں سخت دھوکا دے رہی ہے اور یہ جو نیک مقاصد کا اعلان کیا جا رہا ہے ہرگز یہ بات نہیں.یہ جنگ انتہائی خودغرضانہ اور ظالمانہ جنگ ہے اور احمقانہ جنگ ہے کیونکہ ان کے نزدیک بھی اس کے نہایت ہی خوفناک بداثرات پیدا ہوں گے اور جنگ کے بعد کے حالات بہت زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے.بہر حال اس وقت میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ مغربی مفکرین کیا کیا کہہ رہے ہیں.خلاصہ دوسری آواز یہ ہے کہ یہ تیل کی جنگ ہے یہ مفادات کی جنگ ہے یہ اسرائیل کے دفاع کی جنگ ہے اسرائیلی مقاصد کو پورا کرنے کی جنگ ہے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ جنگ صدر بش کی اور صدر صدام کی جنگ ہے اور ان کے نزدیک صدر بش نے اس مسئلے کو اپنی ذاتی انا کا مسئلہ بنالیا ہے اور اب ان کی عقل اور ان کے جذبات ان کے قابو میں نہیں رہے.جب وہ بات کرتے ہیں تو ایسے بے قابو ہو جاتے ہیں اور اس طرح بچوں کی طرح ایسے غلط محاورے استعمال کرتے ہیں کہ یہ لگتا ہی نہیں کہ کوئی عظیم قومی راہنما بات کر رہا ہے اس لئے وہ بڑے زور کے ساتھ اس مسلک کو پیش کرتے ہیں کہ یہ جنگ در اصل صدر بش کی جنگ ہے جو صدر صدام سے شدید نفرت کرتے ہیں اور انہوں نے امریکن تسلط کو قبول کرنے سے جو انکار کیا اور اس کے رعب میں آنے سے انکار کیا اس کے نتیجے میں غضب بھڑ کا ہوا ہے جو قابو میں نہیں آرہا.یہودی غلبہ کا قدیمی منصوبہ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اصل حقیقت کیا ہے کیونکہ جماعت احمدیہ کو تو جذباتی فیصلے نہیں کرنے چاہئیں اور چونکہ ہم نے صرف اپنی ہی فکر نہیں کرنی بلکہ سب دنیا کی فکر کرنی ہے.کمزور اور چھوٹے اور بے طاقت ہونے کے باوجود کیونکہ ہم میں سے ہر ایک یہ یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس دنیا کی

Page 196

۱۹۴ یکم فروری ۱۹۹۱ء سرداری یعنی خدمت کے رنگ میں ہمارے سپرد فرمائی ہے.ہمیں اس دنیا کا قائد بنایا گیا ہے اور قائد کا معنی وہی ہے جو آنحضرت صلی علی نے بیان فرمایا کہ سید الـقـوم خـادمـهـم ( الجهاد لا بن المبارک کتاب الجہاد حدیث نمبر : ۲۰۷) کہ قوم کا سردار اس کا خادم ہوا کرتا ہے.یعنی سردار اور خادم دراصل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.اگر کوئی خدمت کرنا نہیں جانتا تو وہ سیادت کا حق نہیں رکھتا اور اگر وہ کوئی سیادت پا جاتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ خدمت کرے.پس ان معنوں میں میں قائد ہونے کی بات کرتا ہوں اور کسی معنی میں نہیں.پس ہم نے بنی نوع انسان کی خدمت کرنی ہے.ان کو ان کے صحیح اور غلط کی تمیز سکھانی ہے اور ان کو سمجھانے کی کوشش کرنی ہے کہ تمام بنی نوع انسان کا مفادکس بات میں ہے.کس چیز میں ان کی بھلائی ہے کس چیز میں ان کی برائی ہے.اس نقطہ نگاہ سے میں چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کو خوب کھولوں اور پھر جہاں جہاں احمدی اس مسئلے کو سمجھ لیں وہاں پھر وہ اپنی طاقت کے مطابق آواز اٹھائیں اور ماحول کی سوچ اور آراء کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں.اس مسئلے کا آغاز دراصل پچھلی صدی کے آخر پر ہو چکا تھا.جو جنگ آج نظر آ رہی ہے اس کی جڑیں بہت گہری ہیں.1897ء میں ایک صیہونی مقاصد کی کونسل قائم ہوئی جو یہود کے اس طبقے سے تعلق رکھتی تھی جو حضرت داؤد کی بادشاہت کے قائل ہیں اور یہ ایمان رکھتے ہیں کہ تمام دنیا پر ایک دن داؤدی حکومت ضرور قائم ہو کر رہے گی.ان کو صیہونی یا اسرائیلی کہا جاتا ہے.صیہونیوں کی ایک ورلڈ کونسل قائم ہوئی اور اس نے اپنا ایک ڈیکلریشن ظاہر کیا.اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.اسی سال یا اس سے کم و بیش کچھ آگے پیچھے کے عرصہ میں ایک یہودی Document یعنی مسودہ پہلی مرتبہ دنیا کے سامنے ظاہر ہوا جس کا نام تھا پروٹو کالز آف ایلڈرز آف زائن Protocolsof) (Elders of Zion یعنی زائن ، وہی زائن (Zion) جس کا میں ذکر کر رہا ہوں یعنی اسرائیلی حکومت ، زائن ازم کے قیام کا مظہر یہ لفظ زائن ہے.زائن وہ پہاڑ ہے جس کے اوپر کہتے ہیں حضرت داؤد سے وعدہ کیا گیا تھا.بہر حال جب زائن کہتے ہیں تو مراد اسرائیل ہے تو اسرائیل کے بڑے لوگ جو Zionism کے قائل ہیں ان کے چوٹی کے راہنماؤں کی سکیم کہ ہم کس طرح دنیا پر اپنے تسلط کو قائم

Page 197

۱۹۵ یکم فروری ۱۹۹۱ء کریں گے اور اس کے لئے لائحہ عمل کیا ہو گا کن اصولوں پر ہم کام کریں گے.کیا ہمارے مقاصد ہوں گے.کیا کیا طریق اختیار کئے جائیں گے وغیرہ وغیرہ یہ ایک چھوٹا سا رسالہ ہے جو مجھے اب تاریخ تو یاد نہیں لیکن یہ یقینی طور پر یاد ہے کہ انیسویں صدی کے آخر پر 1897ء کے لگ بھگ پہلی مرتبہ یہ Document ایک روسی عورت کے ہاتھ لگا جو دراصل ان Elders of zion ، جن کی یہ سکیم تھی ان کے سیکرٹری کے طور پر کام کر رہی تھی.جرمنی میں یہ واقعہ ہوا ہے اور ان میں سے ایک کی دوست بھی تھی چنانچہ ایک دفعہ وہ رات کو اپنے دوست کے گھر اس کا انتظار کر رہی تھی اور اس کو دیر ہوگئی اس نے اس کی میز پر پڑی ہوئی کتابوں میں سے ایک مسوہ دیکھنے کے لئے ، دل بہلانے کے لئے چن لیا اور یہی وہ مسودہ ہے جس کا نام ہے Protocol of Eleders of Zion اس مسودے کو پڑھ کر وہ ایسی دہشت زدہ ہوئی اور اس میں دنیا کوفتح کرنے کا ایسا خوفناک منصوبہ تھا کہ وہ اس کو لے کر بھاگ گئی اور روس چلی گئی اور پہلی مرتبہ اس کتاب کو روس میں شائع کیا گیا پھر 1905ء میں پہلی مرتبہ اس کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا.تو بہر حال یہ وہی دور ہے کہ جب ایک طرف انہوں نے ایک مخفی منصوبہ تیار کیا اور دوسری طرف ایک ظاہری منصوبے کا اعلان کیا اور یہ جو ظاہری منصوبہ ہے اس کے متعلق کوئی Controversy نہیں ہے کوئی اختلاف نہیں ہے.یہود کہتے ہیں کہ ہاں ہمارا منصوبہ تھا اور ہم نے دنیا میں اس کو ظاہر کیا ہے.وہ صرف اتنا تھا کہ حکومتوں کے تعلقات کے لحاظ سے، دوسرے اثرات کو بڑھانے کے لحاظ سے ہم ایک منظم جدوجہد کریں گے جس کا مقصد یہ ہوگا کہ اسرائیل کو اپنا ایک الگ گھر بطور ریاست کے مل جائے.تو جو دوسرا منصوبہ تھا اس کا مقصد تھا کہ اسرائیل United Nations کے ذریعے اور اس زمانے میں اگر چہ United Nations کا کوئی تصور بھی موجود نہیں تھا لیگ آف نیشنز بھی نہیں تھیں ، اس کے باوجود اس منصوبے میں یہ سب کچھ ذکر موجود ہے اور اس سکیم کے ذکر کے بعد وہ منصوبہ آخر یہ ارادہ ظاہر کرتا ہے کہ جب یہ ساری باتیں ہو جائیں گی.ہم United Nations قائم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہوں گے تو پھر ہم United Nations پر قبضہ کریں گے اور United Nations پر قبضے کے ذریعے پھر ساری دنیا پر حکومت

Page 198

١٩٦ یکم فروری ۱۹۹۱ء ہوگی تو یہ United Nations پر قبضہ کرنے کا اور اس کے ذریعے پھر آگے دنیا پر حکومت کرنے کا جو منصوبہ تھا اس میں بہت سالوں کا لگنا ایک طبعی امر تھا لیکن جس مرحلے کا اس میں ذکر ہے کہ ان ان مراحل کو طے کر کے ہم بالآخر اس منصوبے کو پائیہ تکمیل تک پہنچائیں گے وہ تمام مراحل اسی طرح وقتاً فوقنا طے ہوتے رہے.چنانچہ جب یہود نے اس منصوبے سے قطع تعلقی کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ ہماری طرف منسوب کیا گیا ہے ہمارا منصوبہ نہیں ہے تو اس پر دنیا کے علماء اور سیاستدانوں اور دانشوروں نے بڑی بڑی بحثیں اٹھا ئیں.کئی عدالتوں میں اس پر مقدمہ بازیاں ہوئیں.انگلستان کے ایک پروٹسٹنٹ نے اس پر بہت تحقیق کی ہے اور اس نے ایک کتاب شائع کی جس کا نام ہے Water Flowing Eastwards اس کتاب میں اس کے سارے پہلوؤں پر بحث ہے.مجھے آج سے تقریباً 20 سال پہلے اس کو پڑھنے کا موقع ملا تھا.اس کے بعد کوئی دوست مانگ کر لے گئے اور پھر وہ ہاتھوں ہاتھ بکھر کے پتا نہیں کہاں چلی گئی.انگلستان سے میں نے کوشش کی ہے لیکن وہ دستیاب نہیں ہوتی کیونکہ اس کتاب میں یہ بھی ذکر ہے کہ اس کتاب کو یہود فورا مارکیٹ سے غائب کر دیتے ہیں.یہ درست ہے یا غلط کہ یہود کرتے ہیں یا کوئی اور کرتا ہے مگر ہوضرور غائب جاتی ہے یہ تو ہمارا تجربہ ہے.پس معین طور پر الفاظ تو میں بیان نہیں کر سکتا لیکن جو بات میں بیان کرتا ہوں.بنیادی طور پر مضمون کے لحاظ سے درست ہے.چنانچہ اس میں اس نے لکھا ہے جب انگلستان کے پرائم منسٹر، غالبا ڈ زرائیلی نام تھا، ان سے یہ پوچھا گیا کہ آپ کے نزدیک یہ مسودہ جو یہود کی طرف منسوب کیا جاتا ہے واقعہ بڑے یہودی آدمیوں کی تحریر ہے اور ان کا منصوبہ ہے یا ان کے خلاف محض ایک سازش ہے اور ان کو بدنام کرنے کی کوشش ہے تو اس کا جواب ڈزرائیلی نے یہ دیا کہ میرے نزدیک صرف دوصورتیں ممکن ہیں یا تو یہ منصو بہ واقعہ انہی لوگوں کا ہے جن کی طرف منسوب ہو رہا ہے کیونکہ اس کے بعد جتنے واقعات رونما ہوئے ہیں وہ بعینہ اس منصوبے کے مطابق ہوئے ہیں اس لئے از خود کس طرح وہ واقعات رونما ہونے لگے اور اسی ترتیب کے ساتھ ، اسی تفصیل کے ساتھ اور یا پھر یہ کسی نبی کی کتاب ہوگی جس نے خدا سے علم پا کر اتنی زبر دست پیشگوئی کی ہوگی.تو اس نے کہا میرے نزدیک تو دوہی صورتیں ہیں یا تو پر لے

Page 199

۱۹۷ یکم رفروری ۱۹۹۱ء درجے کے جھوٹوں کی ہے جنہوں نے منصوبہ بنایا اور اب انکار کر رہے ہیں اور یا پھر ایک بہت بزرگ اور بچے کی کتاب ہے جس کو خدا نے بتایا تھا کہ آئندہ یہ واقعات ہوں گے.یہودی منصوبہ ضرور نا کام ہوگا آج ہم جس دور میں داخل ہوئے ہیں یہ اس کی تکمیل کے آخری مراحل کا دور ہے.جب روس اور امریکہ کے درمیان مفاہمتیں شروع ہوئیں اور برلن کی دیوار گرنی شروع ہوئی تو مجھے اس وقت یہ منصو بہ یاد آیا.اگر چہ میرے پاس موجود نہیں تھا کہ میں اپنی Memory، اپنی یادداشت کو تازہ کر سکتا مگر اتنا مجھے یاد ہے کہ اس کے آخر پر یہی لکھا ہوا تھا کہ بالآخر ہم پھر ساری دنیا کو پہلے تقسیم کریں گے اور پھر اکٹھا کر دیں گے اور اس وقت یہ ہوگا جب ہمارا United Nations پر پوری طرح قبضہ ہو چکا ہوگا.تو اس وقت سے میرا دل اس بات پر دھڑک رہا تھا کہ اب وہ خطرناک دن آنے کا زمانہ معلوم ہوتا ہے آ گیا ہے لیکن اس خوف کے باوجود جواتنی بڑی بڑی علامتوں کے ظاہر ہونے کے بعد ایک طبعی امر ہے مجھے ایک یہ بھی کامل یقین ہے کہ بالآخر یہ منصوبہ ضرور ناکام ہوگا اور میرا یہ اعلان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام کی بناء پر ہے 1901ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ہوا کہ : فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں گے کہ اس کو ہلاک کریں ( تذکرہ صفحہ: ۳۳۶) اور 1905ء میں انگریزی میں یہ منصوبہ دنیا کے سامنے آیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ فری میسن مسلط کئے جائیں گے.پس اس زمانے میں جبکہ فری میسنز کا کسی کو تصور بھی نہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ہونا یعنی ہندوستانی میں تو فری میسنری“ کا بہت کم لوگوں کو پتا تھا اور پھر قادیان جیسے گاؤں میں اچانک یہ الہام ہو جانا حیرت انگیز بات ہے پس مجھے کامل یقین ہے کہ بالآخر یہ منصوبہ ضرور ناکام ہوگا مگر نا کام ہونے سے پہلے دنیا میں نہایت ہی خطرناک زہر پھیل چکا ہوگا.بہت سے آتش فشاں پھٹ چکے ہوں گے اس کے نتیجے میں بہت سے زلازل واقعہ ہو چکے ہوں

Page 200

۱۹۸ یکم فروری ۱۹۹۱ء گے.بہت سی تباہیاں آئیں گی.بہت سی مصیبتوں میں تو میں مبتلا ہوں گی.بہت بڑے خطر ناک دن ہیں جن سے ہمیں گزرنا ہوگا کیونکہ اتنا بڑا منصوبہ اچانک خود بخو دنا کام نہیں ہوا کرتا.پوری کوشش کے بعد یہ منصوبہ اپنے سارے پر پرزے نکالے گا اور اس کی ناکامی کے لئے خدا کی تقدیر جو مدافعانہ کوشش کرے گی وہ بہر حال غالب آئے گی لیکن اس دوران ہمیں ذہنی طور پر اس بات کے لئے تیار ہونا چاہیے کہ بنی نوع انسان بہت بڑے بڑے ابتلاؤں میں سے گزریں گے اور انسان کو بڑی بڑی مشکلات کا سامنا ہوگا اور اس میں سے کچھ حصہ لازماً احمدیوں کو بھی ملے گا کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ قومی عذابوں اور ابتلاؤں کے وقت بچوں کی جماعت کلیہ بچ جائے.تکلیف میں کچھ نہ کچھ ضرور حصے دار ہوتی ہے لیکن یہ سب کچھ ہو جانے کے بعد بالآخر اسلام کی ترقی اور فتح اور احمدیت کے غلبے کے دن آئیں گے یہ وہ آخری تقدیر ہے جو لازماً ظاہر ہوگی اور وہی دراصل دنیا کا ” نظام نو“ ہے وہ نظام نو نہیں ہے جو صدر بش کے دماغ میں ہے جسے وہ New World Order کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں مگر اس مضمون کو سر دست چھوڑتے ہوئے میں وا پس وہاں آتا ہوں کہ سب سے پہلے موجودہ حالات کی بنیاد 1897ء کے لگ بھگ رکھی گئی.ظاہری طور پر تو بہر حال 1897ء میں رکھی گئی جب اسرائیل کی حکومت کے قیام کی کوششوں کا اعلان ہوا.اس کے بعد دوسرا بڑا قدم 1917 ء میں ہمیں نظر آتا ہے جبکہ Balfour نے ، (بالفور یا بیلفور جو بھی Pronunciation صحیح ہے ، جو انگلستان کے Foreign Secretory تھے، انہوں نے ایک بہت امیر یہودی انسان کو جو یہودی کمیونٹی کا نمائندہ تھا ، Rothschild جو بعد میں لارڈ (Lord ) بھی بن گیا یا اس وقت بھی شاید Lord ہی ہو ، Lord Rothschild کو ایک خط لکھا جس میں کیبنٹ کے ایک فیصلے سے اس کو مطلع کیا اور یہ Document کے طور پر چھپا ہوا موجود ہے کہ برطانوی حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ فلسطین میں اسرائیلیوں کو گھر دینے کے مسئلے پر ہر طرح تعاون کریں گے اور ہر طرح آپ کا ساتھ دیں گے اور ہاتھ بٹائیں گے.یہ جو 16 17 18 19 تک کے عرصے میں پھیلا ہوا ہے.یہ دور اسلام

Page 201

۱۹۹ یکم فروری ۱۹۹۱ء کے خلاف سازشوں کا ایک نہایت ہی خوفناک اور سنگین دور ہے اور ان سازشوں میں سب سے زیادہ نمایاں حصہ اس وقت کی برطانوی حکومت نے لیا.میں اس کی چند مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اسلام کے خلاف سازشوں کا خوفناک دور 1897ء میں First World Zionist Congress نے جو ڈیکلریشن دیا اس کا میں ذکر کر چکا ہوں جس کے اس وقت پریذیڈنٹ DR.Theodor Herzl تھے اور اگست 1897ء میں یہ منصوبہ دنیا میں باقاعدہ شائع ہوا.1917ء کو بالفور Balfour برٹش فارن سیکرٹری نے راتھشیلڈ کو جو خط لکھا ہے اس کا میں ذکر کر چکا ہوں.اس سے ایک سال پہلے 1916ء میں MR.Mc Mahon جو انگلستان کی حکومت کے نمائندہ تھے انہوں نے مکہ اور مدینہ اور ارض حجاز کے گورنر شریف حسین صاحب کو ایک خط لکھا.یہ شرق اردن کا خاندان تھا جو ترکی کی طرف سے ارض حجاز پر ترکی کی نمائندگی کرتا تھا اور اس خاندان کے افراد کو شریف مکہ کے طور پر یعنی مکہ کے گورنر کے لقب کے ساتھ وہاں گورنر بنایا جاتا تھا تو شریف مکہ کو Mc Mahon نے ایک خط لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تم اس بات پر ہم سے اتفاق کرلو کہ ہم تمہیں ترکی کی ظالمانہ حکومت سے آزادی دلائیں اور آزاد عرب ریاست کے قیام میں تمہاری مدد کریں تو اس کے بدلے تم ہمیں یہ یہ مراعات دو.کچھ علاقے A کے نام سے Mark کر کے نقشے میں ظاہر کئے گئے کچھ B کے نام سے اور کچھ فرانسیسی تسلط کے علاقے بتائے گئے، کچھ انگریزی تسلط کے.ان ساری شرائط کا خلاصہ یہ تھا کہ اس کے بعد ہمیشہ کے لئے فارن پالیسی بنانے کا پورا اختیار انگلستان کو ہوگا یا فرانس کو ہوگا اور تمہیں اپنے بیرونی معاملات طے کرنے میں ان ان دائروں میں جن جن حکومتوں کا تسلط ہے ان کے مشورے اور اجازت کے بغیر کوئی کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی یہاں تک کہ کوئی یورپین مبصر اور کوئی یورپین مشیر تم وہاں سے نہیں بلا سکتے جب تک انگریزی تسلط کے علاقے میں انگریز سے اجازت نہ ملے یا فرانسیسی تسلط کے علاقے

Page 202

۲۰۰ یکم فروری ۱۹۹۱ء میں فرانس سے اجازت نہ ملے.ادھر ان سے یہ گفت وشنید ہورہی تھی یعنی شریف مکہ سے اور ادھر وہابی حکومت کے سربراہ یعنی سعودی خاندان سے ساز باز چل رہی تھی کہ اگر تم ہم سے یہ معاہدہ کرو کہ اس علاقے پر ہمیشہ کے لئے انگریزی تسلط کو قبول کر لو گے اور انگریز کی مرضی کے بغیر کوئی فارن پالیسی طے نہیں ہوگی اور ترکی کی حکومت کو تباہ کرنے میں ہمارا ساتھ دو گے اور بہت سی شرطیں تھیں تو ہم تمہاری مدد کریں گے کہ تم ارض حجاز پر قابض ہو جاؤ اور تمہاری حکومت کی ہمیشہ حفاظت کا تم سے اقرار کریں گے اور تمہیں تحفظ دیں گے کہ کبھی کوئی تمہیں میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے.اور یہ معاہدہ ان کے ساتھ طے پا گیا اور چند سالوں کے بعد باقاعدہ اسی طرح حملہ ہوا اور پھر انہوں نے شریف مکہ کو الگ کر دیا تو 1915ء،16، 17 کے زمانے میں ایک طرف شریف مکہ سے یہ باتیں ہورہی تھیں دوسری طرف شریف مکہ کے مخالفین سے وہ باتیں ہو رہی تھیں اور تیسری طرف روس اور انگلستان اور فرانس ، ان تینوں کا 1916ء میں عثمانی حکومت کا آپس میں بانٹنے پر ایک معاہدہ ہوا اور اس میں یہ باتیں طے ہوئیں کہ جب ہم عثمانی حکومت کو ٹکڑے ٹکڑے کریں گے تو کون سا حصہ روس اپنے قبضے میں کرے گا کون سا فرانس اپنے قبضے میں کرے گا کون سا انگریز اپنے قبضے میں کریں گے اور اس کے علاوہ ایک Englo French Agreement ہوا جس میں عرب کی بندر باٹ کے متعلق انگریزوں اور فرانسیسوں کا آپس کا معاہدہ تھا.پس اس علاقے پر تین بڑی طاقتوں کا تسلط بطور منصوبے کے اس زمانے میں طے ہو چکا تھا اور جہاں عرب کا تعلق ہے.یہاں روسی عمل دخل کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی.عرب علاقوں پر فرانس اور انگلستان کی اجارہ داری تسلیم کی جا چکی تھی.پس بعد میں جو جنگیں ہوئیں اور بعد میں ان دونوں قوموں نے جو کردار یہاں ادا کیا ہے وہ اس پس منظر میں سمجھنا بڑا آسان ہو جاتا ہے.پس اس پہلو سے جب ہم موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرتے ہیں تو مقاصد کو سمجھنانسبتا زیادہ آسان ہو جاتا ہے.دو حل طلب معمے لیکن اس بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ایک ایسی Mystery کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو

Page 203

یکم فروری ۱۹۹۱ء ۲۰۱ ان مسائل سے گہرا تعلق رکھتی ہے دو ایسی باتیں ہیں جو عام طور پر انسان توقع نہیں رکھتا کہ ہوں گی لیکن ہوئی ہیں ایک بات یہ ہے کہ مشرق وسطی دنیا کا امیر ترین علاقہ ہے اور دنیا کے سارے تیل کا ۶۰ فیصد اس علاقے میں پیدا ہوتا ہے اس کے باوجود اپنی دفاع کی طاقت کے لحاظ سے دنیا کا کمزور ترین علاقہ ہے اور انڈسٹریل Growth کے لحاظ سے دنیا کا کمزور ترین علاقہ ہے.پس یہ کیا مسئلہ ہے کیا معمہ ہے کہ جہاں دولتوں کے پہاڑ ہوں وہاں پہریدار کوئی نہ ہوں.یہاں کسی بینک میں سونے کی کچھ ڈلیاں بھی ہوں تو حفاظت کے بڑے پکے انتظام ہوا کرتے ہیں لیکن وہاں تو واقعہ سونوں کے پہاڑ پیدا ہور ہے ہیں اور اس کے باوجود فوجی نقطہ نگاہ سے ایک خلاء کا علاقہ سمجھا جاتا ہے جو طاقت آپ دیکھ رہے ہیں اس کی اس دولت سے در حقیقت کوئی نسبت نہیں ہے جو وہاں موجود ہے تو کیوں ایسا ہورہا ہے کیوں اس علاقے کو کمزور رکھا گیا ہے جبکہ اسرائیل جو اس علاقے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جس میں تیل کی دولت نہیں ہے.اس کو غیر معمولی طور پر طاقت ور بنایا گیا ہے.پس جہاں مال پڑا ہے وہ حصہ کمزور ہے.جہاں ڈاکے کا خطرہ ہے اس حصے کو طاقت دے دی گئی ہے.ایک یہ معمہ ہے جو حل ہونے والا ہے.دوسرا معمہ یہ ہے کہ صدر صدام نے جب Linkage کی پیش کش کی تو Linkage کی پیشکش کو کیوں رد کیا گیا جب ہم اس کا تجزیہ کرتے ہیں تو حیران ہو جاتے ہیں کہ کیوں اس پیش کش کو رد کیا گیا ہے جب آپ اس کو پوری طرح سمجھ جائیں گے تو پھر آخری حل کیا ہونا چاہیئے ؟ وہ بات بھی آپ کو سمجھ آجائے گی.امریکہ نے اور اس کے اتحادیوں نے مسلسل انکار کیا کہ کویت پر قبضے کا جہاں تک تعلق ہے اس کا کوئی Linkage نہیں ہے.صدر صدام حسین کہتے تھے کہ اس کا Link ہے اور دونوں کو اکٹھا طے کرو.اگر یہ Link تسلیم ہو جاتا تو اس کے نتیجے میں اس مسئلے کا یہ حل بنتا کہ صدر صدام نے کویت کے علاقے میں جو جارحیت کی ہے اس علاقے کو چھوڑ کر اپنی جارحیت کے قدم کو واپس لے لے اور یہود نے ، Zionists نے جو شرق اردن کے مغربی کنارے کو غصب کیا ہے اور وہاں اس کے خلاف جارحانہ پیش قدمی کی ہے وہ اپنے قدموں کو وہاں سے واپس ہٹالے.ایک

Page 204

۲۰۲ یکم رفروری ۱۹۹۱ء جارحیت کو کالعدم کرو، دوسری جارحیت کو کا لعدم کرو.دونوں طرفیں برابر ہو جاتی ہیں اور انصاف قائم ہو جاتا ہے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھتا.یہ دراصل مقصد تھا صدر صدام کا جو بار بار Linkageکےاوپر زور دیتے چلے جارہے تھے.دنیا کی بڑی طاقتوں نے جن کا اس مسئلے سے تعلق ہے اس کو کچھ اور رنگ میں، عمد أغلط رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا اور دنیا کی رائے عامہ کو دھوکا دینے کی کوشش کی حالانکہ صدر صدام کا مؤقف وہی تھا جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.جائز موقف کو غلط رنگ دینے کی کوشش مغربی دنیا نے Linkage کو اس طرح عمد اغلط سمجھا کہ گویا صدر صدام یہ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ اسرائیل نے ہمارے ایک مسلمان بھائی ملک کے کچھ علاقے پر قبضہ کر لیا ہے اس لئے اس غصے میں میں نے بھی اپنے ایک مسلمان بھائی کے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے اور دونوں ایک ہی جیسے معاملات ہیں.حالانکہ اس میں کوئی منطق نہیں ہے اور انہوں نے اسی وجہ سے اس Linkage کے مؤقف کا مذاق اڑایا اور اس کو بالکل بودا اور بے معنی قرار دیا اور کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے.سب دنیا جانتی ہے کہ تیل کے جھگڑے کے نتیجے میں ، یعنی تیل کا جھگڑا ان معنوں میں کہ کویت کی تیل کی فروخت کی جو پالیسی ہے اس سے عراق کو اختلاف تھا اور کچھ اور ایسے مسائل تھے تو تیل کے جھگڑوں کے نتیجے میں یا کچھ اور جھگڑوں کے نتیجے میں عراق نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں کو بیت پر قابض ہو جاؤں گا اور وہ جھگڑے دراصل بہانے تھے.مقصد یہ تھا کہ کویت کی تیل کی دولت پر قبضہ کرے تو کہتے ہیں اس میں Linkage کہاں سے ہو گیا.ان دونوں باتوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے حالانکہ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں بڑا گہرا تعلق ہے.وہ کہتے تھے کہ اگر تم جارحیت کے خلاف ہو تو تم اس جارحیت کو کا لعدم کرو جو پہلے اس علاقے پر ہو چکی ہے، میں بھی کا لعدم کر دیتا ہوں.بات ختم ہو جائے گی لیکن اس کی طرف آتے نہیں تھے.تو کیوں نہیں آرہے تھے یہ آخر کیا وجہ ہے؟ اسرائیل سے کیوں اتنا گہرا تعلق ہے؟ کیا رشتے داریاں ہیں؟ کیا اس کے مفادات کی غلامی کی ضرورت ہے؟ اور اس کے بدلے اتنی

Page 205

۲۰۳ یکم فروری ۱۹۹۱ء بڑی بڑی قیمتیں ادا کر رہے ہیں کہ انسان کے تصور میں بھی ان قیمتوں کی کمیت پوری طرح داخل نہیں ہوتی.مثلاً ایک بلین کی کمیت کیا ہے.ہم جیسے عام غرباء تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ایک بلین کتنی بڑی رقم ہوتی ہے.ایک بلین روپے بھی ہمارے لئے بہت ہیں لیکن ایک بلین ڈالر تو بہت بڑی رقم ہے.اس جنگ میں جو اعداد و شمار ظاہر ہوئے ہیں ، صرف امریکہ کا ایک بلین روزانہ خرچ ہورہا ہے ایک بلین ڈالر کا مطلب ہے ایک ارب ڈالر اور جتنے دن یہ جنگ چلے گی یہ اسی طرح خرچ ہوتا چلا جائے گا اور اس کے علاوہ انگریزوں کا خرچ ہو رہا ہے.اس کے علاوہ فرانسیسوں کا خرچ ہو رہا ہے.اس سے پہلے ان کے خرچ ہو چکے ہیں اور حالت ابھی سے یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دنیا کے سامنے کشکول لے کر نکلنے پر مجبور ہو گئے ہیں.انگریز ڈپلومیسی میں امریکہ سے بہت بہتر ہے اور انگریز کی ڈپلومیسی میں صدیوں کی ٹریننگ کی وجہ سے ایک نفاست پائی جاتی ہے.اس لئے جب ہمارے فارن سیکرٹری صاحب جرمنی گئے تو وہاں سے انہوں نے 7،6 سوملین کی جو Aid انکو دی اس کا اعلان کرتے وقت انہوں نے پہلا فقرہ ہی یہ کہا کہ دیکھو بھٹی ! میں کوئی کشکول لے کر تو نہیں یہاں آیا تھا.میرے ہاتھ میں تو کوئی کشکول نہیں تھا.میرے دماغ میں تو Figure بھی کوئی نہیں تھی.کوئی اعداد نہیں تھے کہ اتنی رقم میں وصول کروں گا.یہ جرمن بھائی ہمارے بڑے مہربان ہیں.بہت اچھے لوگ ہیں.اچھی قوم ہے.انہوں نے دیکھا کہ ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اپنے ان بھائیوں کی مشکل میں مدد دیں اور War Efforts میں ہم کچھ حصہ ڈالیں تو ہم شکریے سے قبول کرتے ہیں.ایڈور ڈھیتھ نے کل رات کو اسی بحث میں حصہ لیتے وقت کہا کہ تمہارے جھوٹ کی اور مکاریوں کی حد ہوگئی ہے.تم نے قوم کو ساری دنیا میں بے عزت کر دیا ہے.کشکول ہاتھ میں پکڑ کے تم بھاگے پھرتے ہو اس مصیبت میں پڑنے کی ضرورت کیا تھی جس کو سنبھال نہیں سکتے جس کے لئے انگلستان کی عزت کو اور عظمت کو داغدار کر دیا ہے اور اب تم بھکاری بن گئے ہو.امریکن اس کے مقابل پر کورس (Coarse) یعنی اکھڑ قسم کے Politicians ہیں.کوئیل صاحب یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں جو امریکہ کے وائس پریذیڈنٹ ہیں اور ان کی جو ذہنی اور سیاسی قابلیتیں ہیں ان کے اوپر

Page 206

۲۰۴ یکم فروری ۱۹۹۱ء امریکہ کا اخبار نویس ہمیشہ ہنستا رہتا ہے اور مذاق اڑاتا رہتا ہے اس حصے کا تو میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں.ان کے آپس کے معاملات ہیں لیکن ان کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں اور یہ نہیں پتا لگتا کہ میں کس طرح بعض چیزوں پر پردے ڈالوں چنانچہ اپنے امریکہ کے مانگنے کو انہوں نے ایک اور نام دیا ہے.جیسے ہمارے پنجاب میں مشہور ہے کہ بعض ڈنڈا فقیر ہوتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ یہ کہیں کہ بھئی خدا کے واسطے کچھ بھیک ڈال دو.بھو کے مررہے ہیں کچھ مدد کرو، رحم کرو، وہ ڈنڈا لے کر جاتے ہیں کہ دیتے ہو تو دو ورنہ ہم لاٹھی سے سر پھاڑ دیں گے.تو انہوں نے اپنا جو طریق کار پیش کیا ہے وہ ڈنڈا فقیر والا ہے.جب ان سے ایک اخباری نمائندے نے یا ٹیلی ویژن کے نمائندے نے سوال کیا کہ بتائیے آپ دنیا سے کیا توقع رکھتے ہیں.انہوں نے کہا توقع ! ہم نے تو اب فیصلے کر لئے ہیں کہ فلاں سے اتنا وصول کرنا ہے فلاں سے اتنا وصول کرنا ہے فلاں سے اتنا وصول کرنا ہے اور ہم نے مانگنا تو نہیں.ہم ان کو بتائیں گے کہ یہ تم نے دینا ہے تو اس نے کہا کہ جناب ! اگر وہ نہ دیں تو پھر کیا کریں گے.انہوں نے کہا نہ دیں گے تو پھر اتنا میں بتا دیتا ہوں کہ پھر امریکی تعلقات پر انحصار نہ رکھیں.ایک دبی ہوئی دھمکی تھی تو بہر حال اتنی بڑی قیمت دے رہے ہیں اور تمام عالم اسلام میں جو نام انہوں نے پیدا کیا تھا یکسر اس کو مٹا بیٹھے ہیں.قریب ہی کے زمانے میں ایک وقت تھا جب کہ پاکستان عملاً امریکہ کا سیٹلائیٹ بن چکا تھا اور عوام الناس اس کو قبول کر چکے تھے.ہر سیاست دان اپنے وقار اور عظمت کے لئے امریکہ کی طرف دوڑتا تھا اور عوام میں اس کے خلاف رد عمل ہی ختم ہو چکا تھا.اب چند دنوں کے اندر اندر نفرت کی ایسی آگ بھڑ کی ہے کہ لفظ امریکن وہاں گالی بن گیا ہے اور اسی طرح مسلمان ممالک سے برطانیہ نے اپنے تعلقات کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے اور بہت ہی لمبے عرصے سے جو نیک نام پیدا کیا تھاوہ نام مٹا دیا ہے.تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت یہ اتنی بڑی قیمت کیوں دے رہے ہیں کیوں نہ Linkage کو تسلیم کر لیا کہ اسرائیل کو کہتے

Page 207

۲۰۵ یکم فروری ۱۹۹۱ء کہ تم فلاں علاقہ خالی کر دو اور عراق فلاں علاقہ خالی کر دے گا.بات وہیں ختم ہو جائے گی.اس لئے ہمیں ان باتوں کا مزید تفصیل سے جائزہ لینا ہوگا کہ اس موجودہ لڑائی کے پس منظر میں کیا عوامل کام کر رہے ہیں.یہ جو الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ ان کے مشترکہ مفادات ہیں جن کی خاطر یہ اس وقت عراق کومٹانے پر تلے ہوئے ہیں اور کویت کی بحالی محض ایک بہانہ ہے.اس کی بھی چھان بین کرنی ہوگی کہ کیا پہلے مشترکہ یا غیر مشتر کہ علاقائی مفادات کی خاطر ان قوموں نے اسی قسم کا رد عمل دکھایا کہ نہیں.دوسرا جو الزام ہے کہ یہود کی خاطر ایسا کیا جا رہا ہے اس کی چھان بین کرنی ہوگی کہ جب بھی یہود اس علاقے میں مسلمان ریاستوں سے متصادم ہوئے ہیں یا اسرائیل کہنا چاہئے.یہود میں تو بعض ایسے فرقے بھی ہیں جو اسرائیل کے خلاف ہیں بعض بڑے بڑے شریف النفس ایسے لوگ بھی ہیں جو اسرائیلی جارحیت کی کھل کر تنقید کرتے ہیں اور ان کی کاروائیوں کی کسی رنگ میں بھی تائید نہیں کرتے تو یہود نہیں کہنا چاہئے ، اسرائیل کہنا چاہئے کہ اسرائیل کا جب بھی تصادم ہوا ہے ان قوموں نے اس میں کیا کردار ادا کیا ہے اور کیوں اسرائیل کی ہر موقعہ پر تائید کی ہے اگر تائید کی ہے تو مذہبی تعصب اس میں کارفرما ہے یا محض مفادات ہیں.اسرائیل کے قیام کی غرض وغایت کیا ہے کیوں اس کو ہر بڑی سے بڑی قیمت پر قائم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے.یہ سارے سوالات ہیں جن کا جواب انشاء اللہ آئندہ خطبے میں پیش کروں گا اور جہاں سے اس تاریخ کی بحث کو چھوڑ رہا ہوں ، وہیں سے اٹھا کر آج تک کے حالات رونما ہونے والے بڑے بڑے واقعات آپ کے سامنے پیش کروں گا تا کہ آپ کی یاد داشت تازہ ہو جائے.اسلامی حل پیش کرنے کی نوید اس تجزیے کے بعد پھر اگلے خطبے میں اگر وقت ملایا اس کے بعد کے خطبے میں میں اسلامی نقطہ نگاہ سے ان مسائل کا حل پیش کرنے کی کوشش کروں گا.کیونکہ آج وقت زیادہ ہو چکا ہے.اس لئے اس بحث کو ، اس خطاب کو سر دست یہاں ختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے کہ ہم بحیثیت

Page 208

۲۰۶ یکم فروری ۱۹۹۱ء غلامان محمد مصطفی ﷺ کو عالمی مسائل کا ایک ایسا حل پیش کرنے کی توفیق پائیں جس کی اندرونی طاقت ایسی ہو کہ اگر وہ اس کو قبول کریں تو بنی نوع انسان کو امن کی ضمانت ملے اور اگر قبول نہ کریں تو جو چاہیں کریں امن مہیا نہ کر سکیں.صحیح حل کے اندر ایک یہ طاقت ہوا کرتی ہے جو سچائی کی طاقت ہے.اگر کوئی انسان کسی صحیح مشورے کو قبول کرے تو اس کا فائدہ ہوتا ہے اور اگر رد کر دے تو اس کا نقصان ہوتا ہے.پس میں چونکہ اسلام کی نمائندگی میں بات کروں گا اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ جوصل جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کیا جائے گا وہ ایسا حل ہے کہ جس کو تخفیف کی نظر سے دیکھا ہی نہیں جاسکتا.اگر قبول کرو گے تو اپنے فائدے کے لئے قبول کرو گے اور بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے بھی اور اگر رد کرو گے تو جو چاہے کوششیں کرو، دنیا سے تم فساد کو رفع دفع نہیں کر سکتے اور ایک کوشش کے بعد دوسری کوشش ناکام ہوتی چلی جائے گی اور ایک جنگ کے بعد دوسری جنگ سراٹھاتی چلی جائے گی اور ایک بدامنی کے بعد دوسری بدامنی انسانی معاشرے کو خون آلود کرتی رہے گی اور انسان کے دل کے امن اور سکون کو لوٹتی رہے گی.یہ میں یقین رکھتا ہوں کہ چونکہ میں خدا کے فضل کے ساتھ اسلامی حل پیش کروں گا اس لئے یہی صورت ہوگی.ان کو یا قبول کرنا ہوگا اور فائدہ اٹھانا ہوگا یار د کرنا ہوگا اور نقصان کی راہ اختیار کرنی ہوگی.جماعت احمدیہ سے میری درخواست ہے کہ یہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ میری ذہنی اور قلبی صلاحیتوں کو تقویٰ پر قائم رکھے تاکہ میں تقویٰ کے نور سے دیکھ کر ان مسائل کا کوئی ایسا حل تجویز کر سکوں جن سے بنی نوع انسان کو امن کی ضمانت دی جا سکے.

Page 209

۲۰۷ بسم اللہ الرحمن الرحیم بش کے نظام جہان نو“ کی حقیقت ( خطبه جمعه فرموده ۰۸ فروری ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.۸ فروری ۱۹۹۱ء غالباً چھ ماہ پہلے یا کم و بیش اتنا عرصہ پہلے میں نے بغداد پر ہونے والے ہلاکو خاں کے حملے کا ذکر کیا تھا اور متنبہ کیا تھا کہ اس قسم کی ہلاکت آفرینی کی تیاریاں کی جارہی ہیں، فیصلے ہو چکے ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ اگر صدر صدام نے احتیاط سے قدم نہ اٹھائے تو ایسی خوفناک ہلاکت خیزی کی جنگ اس پر ٹھونسی جائے گی کہ جس کے نتیجے میں ہلاکو خاں کی باتیں بھی خواب و خیال کی باتیں ہو جائیں گی.خلیجی جنگ کی نوعیت اس عرصے میں جو کچھ رونما ہوا ہے وہ اتنا ہولناک ہے اور اتنا دردناک ہے کہ اس کی جتنی خبر میں اب تک دنیا کومل چکی ہیں انہی کے نتیجہ میں تمام عالم اسلام کے دل خون ہورہے ہیں لیکن جو خبریں اب تک ظاہر ہو چکی ہیں وہ ان خبروں کا کوئی 20 واں 100 واں حصہ بھی نہیں جو رفتہ رفتہ اس جنگ کے بعد ظاہر ہوں گی اور جن سے بعد میں پردے اٹھیں گے.میرے اندازے کے مطابق لکھوکھا شہری اور فوجی ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں اور بہت بڑی تباہی ہے سویلین آبادی کی جو ابھی تک کسی شمار میں نہیں لائی جاسکی لیکن اس کے علاوہ فوجیوں کے خلاف جس قسم کی کارروائی ہے وہ جنگ کی کیفیت نہیں بتاتی بلکہ اس طرح ہی ہے جیسے کسی ایک شخص کو باندھ کر رفتہ رفتہ اس کو Dismember

Page 210

۲۰۸ ۸ فروری ۱۹۹۱ء کیا جائے.اس کے اعضاء کاٹے جائیں، پہلے ناخن نوچے جائیں، پھر انگلیاں کاٹی جائیں ، پھر دانت نکالے جائیں، پھر ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں اور اس کے بعد کہا جائے کہ اے بہادرو! اور شیر و! اب اس شخص پر حملہ کر دو اور جب تک یہ یقین نہ ہو جائے کہ وہ اپنے ٹنڈے ہاتھوں سے ایک چیڑ بھی نہیں مار سکے گا اس وقت تک بہادروں کو اس پر حملہ کرنے کی اجازت نہ دی جائے.یہ خلاصہ ہے میرے الفاظ میں اس موجودہ جنگ کا اور امریکی جرنیل جو اس وقت یہ جنگ لڑا رہے ہیں وہ عراق کے سکڈ میزائلز وغیرہ کے متعلق ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے اس قسم کے یہ حملے ایسے ہی ہیں جیسے ایک ہاتھی پر مچھر بیٹھ جائے اور عملاً یہ ایک ہاتھی ہی کی نمائندگی کرنے والی طاقتیں ہیں اور اس کے مقابل پر جس کو وہ نئے زمانے کا ہٹلر کہتے تھے اس کی حیثیت عملاً یہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے مقابل پر ایک مچھر سے زیادہ نہیں.تو جب تک یہ ہاتھی اور مچھر کی لڑائی جاری ہے اس وقت تک جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس صدی کا مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ ہولناک اور خوفناک منصوبہ اپنے پائیہ تعمیل کو پہنچ چکا ہوگا اور اس کے بعد پھر یہ نئی صدی میں داخل ہونے کے منصوبے بنا ئیں گے.لیکن میرا کام جنگ کی خبروں پر تبصرہ کرنا نہیں اور جماعت احمدیہ کو مسلسل یہ بتانا مقصود نہیں کہ اب جنگ میں کیا ہوا اور کل کیا ہوا تھا اور آئندہ کیا ہوگا.میرا مقصد یہ ہے کہ اس جنگ کا پس منظر آپ کے سامنے کھول کر رکھوں اور تاریخی پس منظر کی روشنی میں تمام دنیا کے احمدی اور ان کے ساتھ دوسرے مسلمان بھائی جن تک وہ آواز پہنچا سکتے ہیں.اس صورت حال کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ ہو کیا رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے اور مغربی قوموں نے اس میں آج تک کیا کردار ادا کیا ہے اور آئندہ کیا کریں گی اور اقوام متحدہ نے یا اس سے پہلے لیگ آف نیشنز League of Nations نے کیا کردار ادا کیا تھا اور ان کے آپس میں کیا رابطے ہیں؟ اور یہود کے ساتھ ان کے کیا تعلقات ہیں؟ اور کیوں وہ تعلقات ہیں؟ اس میں مسلمانوں کی غلطیوں کا کہاں تک دخل ہے؟ اور اس سب تجزیے کے بعد میرا اراداہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے مطابق آپ کے سامنے وہ مشورے رکھوں گا جو الگ الگ قوموں کو مخاطب کر کے دوں گا یعنی میرے نز دیک اس سارے مسئلے کو

Page 211

۲۰۹ ۸ فروری ۱۹۹۱ء تشخيص.اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد پھر وہ Solution یا حل خود بخود ظاہر ہو جاتا ہے.دراصل یہ مرض کی ما ہے جوسب سے اہم اور بنیادی چیز ہے.اگر تشخیص درست ہو تو علاج تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہتا.پس یہود کو بھی مشورہ دوں گا، عیسائی قوموں کو بھی مشورہ دوں گا، مسلمانوں کو بھی مشورہ دوں گا اور تمام بنی نوع انسان کو بھی مشورہ دوں گا کہ آئندہ ان کو دائمی امن کی تلاش کے لئے کس قسم کی منصفانہ کا روائیاں کرنی چاہئیں.مسئلہ فلسطین کا تاریخی پس منظر بہر حال اب میں مختصراً آپ کے سامنے اس مسئلے کو جس کو فلسطین کا مسئلہ کہا جاتا ہے یا آج کل جسے ہم Gulf War کے نام سے یاد کرتے ہیں.اس کا جو گہرا تاریخی پس منظر ہے اس کا مختصر اذکر میں آپ کے سامنے کرتا ہوں.بالفور (Balfour) نے ۱۹۱۷ء میں جو یہود سے وعدہ کیا تھا اس کا میں ذکر کر چکا ہوں.اس کے بعد ایک حیرت انگیز واقعہ ۱۹۲۰ء میں رونما ہوا جبکہ لیگ آف نیشنز(League of Nations) نے ایک مینڈیٹ (Mandate) کے ذریعے انگریزوں کو فلسطین کے علاقے کا نگران مقرر کیا اور اس مینڈیٹ میں یہ بات داخل کی کہ بالفور نے جو یہود سے وعدہ کیا تھا اسے پورا کروانا اس نگران حکومت کا کام ہوگا.اب دنیا کی تاریخ میں ایسا حیرت انگیز نا انصافی کا کوئی واقعہ اس سے پہلے کم ہوا ہوگا جو نا انصافی با قاعدہ قوموں کی ملی بھگت سے ہوتی ہے.لیگ آف نیشنز تو تمام دنیا کی نمائندہ تھی یعنی کہا یہ جاتا تھا کہ سب دنیا کی نمائندہ ہے اس کا یہ کام ہی نہیں تھا کہ انگریزوں کے کسی وزیر نے جو کسی یہودی لارڈ کو خط لکھا ، راتھ چائلڈ یا راتھ شیلڈ (Rothchild) نام ہے.اس کا تلفظ مجھے یاد نہیں مگر وہ فرانس کا بہت بڑا Banker تھا اس کو Mandate کے متعلق مختلف Sources ( ماخذ) نے مختلف سال بیان کئے ہیں.20-1919 یہ مختلف سال ہیں جو مختلف مستند کتب میں بیان ہیں.تا ہم کتاب Arab-Israeli Issue جو غیر جانبدار حقائق پیش کرتے ہیں میں ایک بہت اہم مقام رکھتی ہے.Mandate کا سال 1920 بتاتی ہے.بہر حال یہ 3 سال اس بارہ میں دور اثر اہم فیصلوں کے سال سمجھے جاسکتے ہیں.

Page 212

۲۱۰ ۸ فروری ۱۹۹۱ء خط لکھا کہ ہماری کیبنٹ تم سے یہ وعدہ کرتی ہے، یہ سوچ رہی ہے.اس کو لیگ آف نیشنز کا حصہ بنالے اور لیگ آف نیشنز کو یہ اختیار کس نے دیا تھا کہ وہ دنیا کی قسمت بانٹتی پھرے اور جس قوم نے وہ وعدہ کیا تھا ان کے سپر د ہی اس علاقے کی نگرانی کر دی کہ اب جس طرح چاہو اس کو نافذ العمل کرو اس پر عمل کرواؤ.ساتھ ہی ایک لاکھ یہود کو باہر سے لا کر آباد کرنے کا Mandate بھی دیا چنانچہ اس پر عمل شروع ہوا اور ۷ ارمئی ۱۹۳۹ء کو اگلی جنگ سے پہلے انگریزوں نے ایک White Paper شائع کیا.اس وقت تک ایک لاکھ کی بجائے اس سے بہت زیادہ یہودی اس علاقے میں آباد ہو چکے تھے.۱۹۳۹ء کے White Paper کی رو سے انگریزوں نے اپنی سابقہ پالیسی میں ایک تبدیلی پیدا کر لی اور اس وقت Chember Lane کی حکومت تھی.چیمبر لین نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اب جب کہ ہم دوسری جنگ کے کنارے پر کھڑے ہیں اگر ہمارے لئے یہ فیصلہ کرنا پڑے کہ یہود کے خلاف فیصلہ کر کے ان کو دشمن بنا ئیں یا عربوں کے خلاف فیصلہ کر کے ان کو دشمن بنا ئیں تو میری رائے یہ ہے کہ ہمیں یہود کے خلاف فیصلہ کرنا چاہئے ، عربوں کے خلاف نہیں کرنا چاہئے کیونکہ جنگ عظیم ثانی سر پہ کھڑی تھی پہلا فیصلہ پہلی جنگ کے بعد کا ہے.دوسرا فیصلہ دوسری جنگ سے پہلے کا ہے اور یہ فیصلہ سیاست پر مبنی تھا حقیقت پر مبنی نہیں تھا.ہاں اس وائٹ پیپر (White Paper) میں با قاعدہ یہ اعلان کیا کہ انگریزی حکومت فلسطین میں یہودی حکومت قائم کرنے کے حق میں نہیں ہے اور ہم یہود کا یہ حق تسلیم نہیں کرتے کہ وہ فلسطین میں اپنی حکومت بنا ئیں.ساتھ ہی پچھتر ہزار (75,000) مزید یہودیوں کو باہر سے لا کر وہاں آباد کرنے کی اجازت دی گئی ایک لاکھ پر بات شروع ہوئی تھی جو 75,000 پرر کی.اس وقت اگر یہ دیانتدار تھے اپنے فیصلے میں تو League of Nations کو یہ مینڈیٹ واپس کر دینا چاہئے تھا کہ ہمارے فیصلے کے مطابق ۱۹۱۷ ء والے فیصلے کے مطابق اگر تم نے ہمیں مختار بنایا ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کروائیں تو اب حکومت اس فیصلے کے خلاف ہے اس لئے خود

Page 213

۲۱۱ ۸ فروری ۱۹۹۱ء بخودمینڈیٹ ختم ہو جانا چاہئے.لیکن اس کی بجائے ان کومزید کوٹہ عطا کیا گیا اور 46ء میں یہ کوٹہ بڑھا کر ایک لا کھ کر دیا گیا.1948ء میں جب یہ مینڈیٹ ختم ہوا تو یہود کی آبادی (85,000) پچاسی ہزار سے بڑھ کر ، ہاں مینڈیٹ کے آغاز سے بھی پہلے یعنی 1919ء میں (مینڈیٹ تو 1922ء کا ہے.) اس وقت کی آبادی 85 ہزار بیان کی جاتی تھی ، اس میں بہت سے اختلافات ہیں بہت لمبی چھان بین کرنی پڑی لیکن غالباً پچاسی ہزار کی آبادی درست ہے.اور ۱۹۴۷ء تک جب یونائیٹڈ نیشنز Nations United نے مینڈیٹ کے ختم ہونے کے قریب آکر یہ اعلان کیا کہ فلسطین کی پارٹیشن کر دی جائے، تقسیم کر دی جائے اور ایک یہودی سٹیٹ قائم کر دی جائے اور ایک مسلمان عرب سٹیٹ قائم کر دی جائے.اس وقت تک یہ آبادی بڑھ کر سات لاکھ ہو چکی تھی اور بعض اعداد و شمار کے مطابق اس وقت عربوں کی کل آبادی ہیں لاکھ تھی.پس نسبت ایک اور تین کی تھی.سات لاکھ ہونا نہیں چاہئے تھا اگر مینڈیٹس کو دیکھا جائے تو اتنی آبادی ہو ہی نہیں سکتی.مزید تحقیق سے پتا چلا ہے کہ بہت بھاری تعداد میں یہود وہاں سمگل کئے جاتے تھے اور برٹش حکومت کی بعض موقعوں پر جائز کوششوں کے باوجود کہ یہ سلسلہ بند ہو، یہ سلسلہ جاری رہا اور جب بھی برٹش حکومت نے اس کو روکنے کی کوشش کی ،ان کے خلاف بغاوت ہوئی اور انتقامی کارروائی یہود کی طرف سے کئی گئی بہر حال نسبت سات اور بیس کی بیان کی جاتی ہے.جس پر یونائیٹڈ نیشنز یہ فیصلہ کرنے بیٹھی کہ تقسیم کے نتیجے میں کتنا علاقہ یہود کو دیا جائے اور کتنا مسلمانوں کو.فیصلہ یہ کیا گیا کہ %56 رقبہ فلسطین کا یہود کے سپرد کر دیا جائے باقی %44 میں سے جو علاقہ یروشلم کا ہے وہ بین الاقوامی نگرانی میں رہے کیونکہ مقامات مقدسہ ہیں جن کا تعلق یہود سے بھی ہے ، عیسائیوں سے بھی ہے اور مسلمانوں سے بھی اور باقی جو بچا کھچا رقبہ تھا وہ عرب مسلمانوں کے سپردنہیں کیا گیا.عرب مسلمانوں کو دینا تھا اس فیصلے میں یہ قطعی طور پر اعلان کیا گیا کہ دونوں علاقوں میں دونوں کی با قاعدہ حکومت قائم کروانے کے سلسلے میں برٹش گورنمنٹ یونائیٹڈ نیشنز سے تعاون کرے.اور ان کی قائم کردہ نمائندہ کمیٹی اس کام کو انگریزی حکومت کے تعاون سے پائیہ تکمیل تک پہنچائے.عملاً یہ ہوا کہ

Page 214

۲۱۲ ۸ فروری ۱۹۹۱ء انگریزی حکومت نے تعاون کرنے سے کلیہ انکار کر دیا جس کے نتیجے میں جہاں تک مسلمان تھے ان کو منظم کرنے والا کوئی نہیں تھا ان میں بے چینی تھی.افراتفری تھی اور کوئی ایسا ادارہ نہیں تھا جو با قاعدہ ان کی وہاں حکومت بنواتا اور جہاں تک یہود کا تعلق ہے یہاں دو قسم کے ادارے قائم ہوئے ایک تو Menachem Begin کی قیادت میں 48ء سے پہلے سے ہی بہت مضبوط Terrorist Organisation قائم کر دی گئی تھی جو انگریزوں کے خلاف بھی Terror استعمال کر رہی تھی اور عربوں کے خلاف بھی Terror استعمال کر رہی تھی اور دوسرے ڈیوڈ مینگورین David Ben) (Gurion کی قیادت میں امریکہ سے کثرت سے اسلحہ یہود کومہیا کیا جارہا تھا اور یہاں تین چار قسم کی Organisations قائم کر دی گئی تھیں جو منظم طریق پر نہ صرف اپنے علاقے کا دفاع کریں اور یہاں حکومت قائم کریں بلکہ اور بھی کچھ علاقہ عربوں سے ہتھیا لیں.چنانچہ یہ جو 1948ء سے 1949 ء تک کا ڈیڑھ سال کے قریب کا عرصہ ہے اس عرصے میں عربوں اور یہود کی جھڑپ ہوتی رہی ، اس میں اردگرد کی عرب ریاستوں نے بھی حصہ لیا اور غیر رسمی جنگوں کا آغاز ہوا یعنی با قاعدہ حکومتوں کی طرف سے اسرائیل کے خلاف جنگ کا آغاز نہیں ہوا بلکہ وہ عربوں کی مدد کرتے رہے ہیں لیکن اس کے بعد جب 1949ء میں سیز فائر ہوا ہے یعنی آپس میں Truce ہوئی اور صلح قائم کروائی گئی تو %56 سے بڑھ کر یہود کے قبضہ میں %75 علاقہ جاچکا تھا.یہ تو ہے یونائیٹڈ نیشنز کا کردار اور انگلستان کا کردار اور امریکہ کا کردار.یہ بہت بڑی تفصیلات ہیں جن کے سب حوالے میرے پاس ہیں لیکن میں اپنے خطبوں کو اسی بحث میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا اور الجھانا نہیں چاہتا.خلاصہ یہی ہے کہ عالمی سازش کے نتیجے میں جس میں لیگ آف نیشنز نے اور یونائیٹڈ نیشنز نے بھر پور حصہ لیا اور سب سے اہم کردار انگلستان نے اور امریکہ نے ادا کیا یہود کی ایک ایسی ریاست فلسطین میں قائم کر دی گئی جو انصاف کی کسوٹی پر کسی پہلو سے بھی قائم نہیں کی جاسکتی تھی بین الاقوامی قوانین کی رو سے بین الاقوامی یونائیٹڈ نیشنز کی روایات اور چارٹر کے نتیجے میں اس کا پہلا قدم ہی نہیں اٹھایا جاسکتا تھا مگر اٹھایا گیا اور اس کے بعد پھر جنگوں کا آغاز شروع ہوتا ہے.

Page 215

ج کا بحران مفادات کی جنگیں ۲۱۳ ۸ فروری ۱۹۹۱ء اس علاقے میں دو قسم کی جنگیں لڑی گئی ہیں.یا دو قسم کی کارروائیاں کی گی ہیں.ایک مغربی مفادات کے تحفظ کی خاطر بین الاقوامی مفادات کے نام پر کارروائیاں کی گئیں.کہا یہ گیا کہ یہ بین الاقوامی مفادات ہیں جن کی خاطر ہم یہ کرتے ہیں اور کھلم کھلا مغربی تحفظات تھے.ان میں سب سے زیادہ اہم کردار انگلستان نے اور فرانس نے ادا کیا اور امریکہ ہمیشہ ان کے ساتھ شامل رہا.مفادات کی پہلی کارروائی ایران کے خلاف ہوئی ہے.1950ء میں ایران کی پارلیمنٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمارے تیل کی دولت سے متعلق جو بیرونی دنیا کی لالچ اور دخل اندازی کے ارادے ہیں ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک فیصلہ ہم یہ کرتے ہیں کہ ایران کے شمالی حصے کے تیل کے چشموں پر روس کے دخل کی پیشکش کو رد کر دیا جائے یعنی الفاظ پوری طرح شاید بات واضح نہیں کر سکے مراد یہ ہے کہ روس نے ایک پیش کش کی تھی کہ جس طرح (British Iranian oil Company) برٹش ایرانین آئل کمپنی کو تم نے اپنے جنوبی حصے میں تیل کے چشموں سے استفادے کی اجازت دی ہوئی ہے اور تمہارے ساتھ سمجھوتے کے ساتھ وہ تمہاری خاطر بظاہر تیل نکال رہے ہیں اور اپنے فائدے اٹھارہے ہیں ہمیں بھی اجازت دو.تو انہوں نے کہا روس کو شمالی حصے میں دخل کی اجازت نہیں دی جائے گی اور دوسرا یہ فیصلہ کیا کہ برٹش ایرینین آئل کمپنی سے ہم اپنے معاہدے کو وقتا فوقتا زیر نظر لاتے رہیں گے اور آئندہ اس معاہدے پر نظر ثانی 1951ء میں ہوگی 50 ء کے اس فیصلے پر امریکہ میں فتح کے خوب شادیانے بجائے گئے اور امریکی حکومت نے اس کو بڑا سراہا کیونکہ اس کی نظر اس وقت روس کے خلاف فیصلے پر رہی لیکن 1951ء میں جب برٹش ایرانین آئل کمپنی کے ساتھ معاہدے پر نظر ثانی کا مسئلہ پارلیمنٹ میں پیش ہو رہا تھا تو برٹش ایرانین آئل کمپنیکی اتنی بڑی طاقت تھی کہ امریکہ یا خود انگریزوں کے وہم میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ ہماری مرضی کے خلاف اس معاہدے میں جو اسیر نین آئل کمپنی اور حکومت کے درمیان تھا کوئی ردو بدل کر دیا جائے گا.برٹش ایرانین آئل کمپنی کی طاقت کا اندازہ

Page 216

۲۱۴ ۸ فروری ۱۹۹۱ء آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ جو یہ رقم ٹیکس کے طور پر ایرانی حکومت کو دیتے تھے وہ تمام ایرانی بجٹ کا نصف تھا اور جور تم وہ برٹش ایرانین آئل کمپنی کے مالک ٹیکس کے طور پر انگریزوں کو دیتے تھے وہ اس سے بہت زیادہ رقم تھی اور جو منافع وہ خود رکھتے تھے وہ اس سے دس گنا زیادہ تھا یعنی کم از کم پانچ گنا ایران کی کل اجتماعی دولت یہ برٹش آئل کمپنی سالا نہ کھا رہی تھی اس لئے یہ وہم بھی نہیں کر سکتے تھے کہ اس کے خلاف کچھ ہو سکتا ہے.چنانچہ جب اسمبلی کے سامنے یہ بحث پیش ہونے لگی تو ایرانی وزیر اعظم کو انہوں نے خریدا ہوا تھا یا جس طرح بھی انہوں نے اس کو اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا.اس نے ایک رپورٹ پیش کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہبرٹش ایرانین آئل کمپنی کو قومیانے کا فیصلہ ایرانی مفاد کے سخت خلاف ہوگا اس پر ایک دم پارلیمنٹ میں اس کی مخالفت کا شور اٹھا اور دوسرے دن یا تھوڑی دیر کے بعد ہی اسے نماز پڑھتے ہوئے گولی ماردی گئی اور نئے وزیر اعظم کے طور پر ڈاکٹر مصدق کا انتخاب ہوا.ڈاکٹر مصدق چونکہ پوری طرح ایرانی مفادات کے وفادار تھے اس لئے اس وقت سے پھر جنگ کی گھنٹی بجادی گئی سب سے پہلے تو انگریزوں نے امریکہ سے رابطہ پیدا کیا اور اس سے بھی پہلے انہوں نے ماریشس میں مقیم اپنے ہوائی جہازوں کے ذریعے جو فوج منتقل کر دی جاتی ہے Air Borne Division اس کو حکم دیا کہ وہ ایران پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہوں.لیکن امریکہ نے سمجھایا کہ یہ طریق نہیں ہے اور طریق سے اس کو طے کریں گے.اس کے بعد امریکہ پر انہوں نے دباؤ ڈالا کہ ایک سازش تیار کی جائے جو برٹش ISI اور امریکہ CIA مل کر کریں جسے مخفی طور پر منظور کر لیا گیا اور انگلستان میں ISI کے نمائندہ Mr.Sun Clare جو انگریزوں کی طرف سے ISI کے سربراہ تھے اور C.I.A کے نمائندہ Kim Rosevelt ان کے درمیان ایک منصوبہ طے ہوا لیکن اس عرصے میں امریکہ نے اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کر کے تمام دنیا میں ایرانین آئل کا بائیکاٹ کر دیا چونکہ بجٹ کی کل آمد کا نصف آئل کمپنی سے ملا کرتا تھا.جب تیل کی فروخت بند ہوگئی تو بڑا شدید مالی بحران ایران میں پیدا ہوا.ڈاکٹر مصدق نے 52ء کے وسط میں امریکہ کے صدر سے درخواست کی کہ عارضی طور پر ہمیں مالی مدد دی جائے تا کہ ہم اس بحران پر قابو پالیں بعد میں معاملہ طے ہو جائے گا تو ہم آپ کو پیسے واپس کر دیں گے تو امریکی صدر نے

Page 217

۲۱۵ ۸ فروری ۱۹۹۱ء اس کا جواب دیا کہ یہ بات امریکن ٹیکس فیئر Tax Fare کے مفادات کے مخالف ہے کہ ایران جب خود پیسے حاصل کر سکتا ہے تو ہم اپنے ٹیکس کے پیسے ان کی طرف منتقل کریں.آپ کے پاس سیدھی سادی راہ ہے برٹش ایرانین آئل کمپنی کی بات مان جائیں اور ان سے پیسے لے لیں وہ تو پیسے دینے کے لئے تیار ہیں.اس پر ڈاکٹر مصدق سمجھ گئے کہ ان کی نیتیں ٹھیک نہیں ہیں لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے جب امریکی صدر نے ڈاکٹر مصدق کو یہ جواب دیا ہے تو اس سے چار دن پہلے CIA اور ISI کی سکیم مکمل ہو کر امریکن حکومت کی توثیق حاصل کر چکی تھی اور پریذیڈنٹ نے اس پر دستخط کر دیے تھے کہ ایران کے خلاف یہ کارروائی کی جائے.وہ کارروائی تو بہت لمبی چوڑی ہے لیکن خلاصہ اس کا یہ ہے کہ ایرانین پولیس اور ایرانین فوج پر انہوں نے قبضہ کیا جو ان کا طریق ہے فوجی انقلاب بر پا کرنے کا اور مختلف اداروں کے سربراہوں کو خرید لینا یا جس طرح بھی ہو اپنے ساتھ ملا لینا چنانچہ اس کام کو Kim Rose Velt نے ادا کیا اور اسی کے بعد Kim Rose Velt کو امریکہ میں اتنا بڑا میڈل عطا کیا گیا ہے جو شاذ ہی کسی ہیرو کو اس طرح عطا کیا جاتا ہے.نتیجہ یہ نکلا کہ ایران کے بادشاہ اور ایران کے وزیر اعظم کے درمیان آپس میں پہلے چپقلش ہوئی اور اختیارات کی کھینچا تانی ہوئی.ایران کے وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق خود افواج کے سربراہ بن گئے.ایران کے وزیر اعظم نے یہ فیصلہ کیا کہ پولیس کا سربراہ بھی میں ہی مقرر کروں گا اور فوج کا کمانڈر انچیف تو خود بن گئے تھے جو چیف آف سٹاف کہنا چاہئے وہ بھی میں ہی مقرر کروں گا اور اس کی نشاندہی بھی انہوں نے کر دی لیکن پولیس کے ہونے والے سربراہ نے فخریہ طور پر یہ ذکر کیا کہ جتنے بھی برٹش ایجنٹس یہاں ایران میں موجود ہیں ان سب کی فہرست یہاں میرے پاس ہے.دل پر ہاتھ مار کے اس نے کہا اور دوسرے دن وہ قتل کر دیا گیا.اور جب ڈاکٹر مصدق کو شاہ آف ایران نے آخر ڈسمس کیا ( جب یہ تیاری مکمل ہو چکی تھی تو اس کے بعد ان کو معزول کیا گیا ) تو جو مظاہرے ان کے حق میں ہوئے اس کے مقابل پر ایک باقاعدہ مقابل پر مظاہرہ کرنے والی فوج تیار کی گئی تھی عوام میں سے خرید کر ان کو مسلح بھی کیا گیا تھا غالباً چھ ہزار ان کی تعداد تھی وہ چونکہ با قاعدہ مسلح تھے اور تربیت یافتہ تھے

Page 218

۲۱۶ ۸ فروری ۱۹۹۱ء انہوں نے ان مظاہروں پر کسی حد تک قابو پایا لیکن وہ مظاہرے اتنے شدید تھے اور اتنے پھیل گئے کہ جیسا کہ ایسے موقع پر پہلے سے ہی پتا ہوتا ہے کہ فوج پھر دخل دے گی.دولاکھ فوج شاہ کی حمایت میں میدان میں کود گئی اور پہلے سے فیصلے کے مطابق شاہ آف ایران کو جو امریکی اور انگلستانی غلامی کی ایک کامل تصویر تھے ان کو ایران پر ہمیشہ کے لئے یا جب تک وہ بد انجام کو نہیں پہنچ گئے مسلط کر دیا گیا.ایک یہ کارروائی ہے جو ہمیں اس پس منظر میں پیش نظر رکھنی چاہیے.مصر کے خلاف کارروائی دوسری کارروائی 1956ء میں ہوئی جب کہ Egypt کے صدر ناصر نے نہر سویز کو قومیانے کا فیصلہ کیا.اس فیصلے کا پس منظر یہ ہے کہ اسوان ڈیم کے سلسلہ میں امریکہ نے صدر ناصر سے کچھ وعدے کئے تھے کہ ہم اس کے پیسے مہیا کریں گے.صدر ناصر کے رجحانات چونکہ روس کی طرف تھے اور بار بار کے سمجھانے کے باوجود اسرائیل کے خلاف ان کے تشدد میں کمی نہیں آرہی تھی اس لئے ان کو سبق دینے کے لئے امریکی حکومت نے وہ وعدہ واپس لے لیا.اسوان ڈیم اس وقت تک مصر کی زندگی کے لئے سب سے اہم منصوبہ بن چکا تھا کیونکہ مصر کی اقتصادی زندگی اور زرعی پیداوار کے لئے اسوان ڈیم نے بہت ہی اہم کردار آئندہ ادا کرنا تھا اس کے بغیر مصر خوراک وغیرہ میں اور بہت سی دوسری اقتصادی چیزوں میں خود کفیل نہیں ہوسکتا تھا اور منصوبہ اس حد تک آگے بڑھ چکا تھا کہ اس وقت اس کا رو کنا مصر قبول نہیں کر سکتا تھا تو مصر نے اپنے Finance حاصل کرنے کے لئے یعنی اس کے اخراجات پورے کرنے کی خاطر نہر سویز کو قومیالیا.نہر سویز پر اس وقت تک انگریزوں اور فرانس کا تسلط تھا کیونکہ اس کمپنی کے فیصلہ کن Shares ان کے پاس تھے.چنانچہ پھر انگلستان نے اس کے متعلق ایک منصوبہ بنایا تا کہ ناصر کو اور Egypt کو اس بات کی سزادی جائے کہ وہ ہمارے مفادات پر حملہ کرے اور منصو بہ بڑا بھونڈا سا بچوں والا منصوبہ ہے لیکن تھا بہت خوفناک.اسرائیل کو آمادہ کیا گیا کہ وہ حملہ کرےEgypt پر اور نہر سویز تک پہنچ جائے اور چونکہ یہ اچا نک بغیر اطلاع کے حملہ ہوگا اور

Page 219

۲۱۷ ۸ فروری ۱۹۹۱ء Egypt کے پاس کوئی ایسی دفاعی فوج نہیں تھی کہ اس حمل کا مقابلہ کر سکتا اس لئے یہ آنا فانا کامیاب ہونے والا حملہ تھا.اس کے بعد انگریز اور فرانسیسی دونوں اسرائیل کو اور Egypt کو حکم دیں گے کہ دونوں اپنی اپنی فوجیں نہر سویز سے دور دور تک پیچھے ہٹالیں.امن کی خاطر ہم دخل دینے لگے ہیں.چنانچہ یہی ہوا.آنا فانا اسرائیل کی فوجیں نہر سویز کے کنارے تک پہنچ گئیں اور دوسرے ہی دن انگریزوں اور فرانسیسوں کی طرف سے ایک حکم نامہ جاری ہوا کہ چونکہ تم دونوں تو میں وہاں لڑ رہی ہو اور عالمی امن کو خطرہ لاحق ہو رہا ہے اس لئے ہم حکم دیتے ہیں کہ دونوں اپنی اپنی فوجیں نہر سویز سے اتنی اتنی دور ہٹا لو.اسرائیل نے اس پر فورا عمل شروع کر دیا جیسا کہ فیصلہ تھا.Egypt نے کہا کہ یہ ہمارا ملک ہے ہماری نہر ہے.ہم اپنے ملک سے کیوں فوجیں ہٹالیں.یہ کونسی منطق ہے.حملہ آور نے ہٹا لیں بس کافی ہے.اس پر پھر ان دونوں قوموں نے مل کر حملہ کیا.یہ 56ء کا واقعہ ہے اور اس جنگ میں جو انگریزوں نے کردارادا کیا ہے.اس پر Nutting جو اس وقت فارن سیکرٹری تھے انہوں نے ایک کتاب لکھی اس جنگ کے حالات پر.اس کتاب کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ جو طرز عمل انگلستان نے صدر ناصر کے خلاف اور Egypt کے خلاف اختیار کیا بعینہ وہی طرز عمل آج صدر بش صدر صدام اور عراق کے خلاف اختیار کئے ہوئے ہیں.یوں لگتا ہے جس طرح یہ کاربن کاپی ہے ان حالات کی جواب رونما ہورہے ہیں.اسی طرح صدر ناصر کے خلاف کردار کشی کی بڑی خطرناک مہم چلائی گئی، اسی طرح یہ کہا گیا کہ ہم عالمی مفادات کے تحفظ کی خاطر عالمی مفادات کی نمائندگی میں یہ کارروائی کر رہے ہیں.جس طرح کی زبان صدر بش نے صدام کے متعلق استعمال کی ہے کہ میں تو وہ گندے الفاظ پورے استعمال بھی نہیں کر سکتا لیکن یہ تھا کہ لک کر کے اس کو مار کے، پیچھے سے لگ کر کے باہر نکالو.جو کتاب میں بیان کر رہا ہوں اس کا حوالہ میرے پاس ہے مگر اس وقت سامنے نہیں ہے بہر حال اس میں وہ لکھتے ہیں کہ مقصد اس جنگ کا یہ تھا کہ To Kick Nasir out of his Perch یا ملتے جلتے الفاظ تھے کہ ناصر کو ٹھڈا مار کے جس طرح وہ پرندے شاخ پر بیٹھے ہوتے ہیں کسی جگہ پر اس کے بیٹھنے والی جگہ سے اُڑا کر باہر

Page 220

۲۱۸ ۸ فروری ۱۹۹۱ء مارو.یہ جنگ کا اصل مقصد تھا ، یہ فیصلہ تھا جو فیصلہ ہو چکا تھا.جس طرح اس وقت یہ کہا جا رہا ہے بعض مبصرین کی طرف سے کہ دراصل یہ جنگ صدر بش کی انا کے کچلنے کے نتیجے میں پیدا ہورہی ہے.اگر چہ یہ درست نہیں ہے.صدر بش کی انا کا دخل ضرور ہے مگر مقصد ہرگز یہ نہیں تھا لیکن اس زمانے میں Anthony Eden کے متعلق بھی ان کے اس وقت کے فارن سیکرٹری نے اپنی کتاب میں لکھا کہ Anthony Eden کے متعلق یہ تاثر پیدا ہوتا تھا کہ اس نے یہ جنگ ناصر کو اس جرم کی سزادینے کے لئے شروع کی ہے کہ Egypt کے ایک کرنیل کی مجال کیا ہے کہ دولت عظمیٰ برطانیہ کے وزیر اعظم کو Defy کرے اور اس کے مقابل پر اس طرح سر بلندی کا مظاہرہ کرے.بالکل یہی تجزیہ آج بش کے متعلق بعض مبصرین کی طرف سے پیش کیا جارہا ہے.تو عملاً یہ ایک قسم کا 1956ء کی جنگ کا اعادہ ہے.تیل کے مفادات اب ہیں اس وقت سویز کے مفادات تھے اور یہودی شرکت کی بجائے اب امریکن شرکت ہے.پس اس جنگ میں دراصل وہی تین طاقتیں نمایاں ہیں جو پہلے تھیں.انگلستان ، فرانس اور یہود لیکن فرق صرف یہ پڑا ہے کہ یہود کی نمائندگی امریکہ نے کی ہے اور وہ پس منظر میں رہا ہے اسے پس منظر میں رکھا گیا ہے.اب ایک عجیب بات یہ ہے کہ جب مینڈیٹ اختتام کو پہنچا.یہ مینڈیٹ والا حصہ غالبا میں بیان کر چکا ہوں اس لئے اس کو اس حصے کے ساتھ ملا کر سمجھنے کی کوشش کریں.مینڈیٹ جب 48ء کو اختتام کو پہنچا تو انگریزوں نے جس طرح وہاں سے انخلاء کیا اس کی کوئی مثال اور دکھائی نہیں دیتی.جب انہوں نے ہندوستان کو چھوڑا ہے تو اس وقت با قاعدہ اس بات کی تسلی کر لی گئی تھی کہ با قاعدہ Demarkation Line ہو.وہ خطے جو دو ملکوں میں تبدیل ہونے والے ہیں ان کے درمیان واضح تقسیم ہو با قاعدہ حکومتیں قائم ہوں لیکن انگلستان نے اپنے چھوڑنے کے آخری دن تک ایسی کوئی کارروائی نہ خود کی ، نہ یونائیٹڈ نیشنز کو کرنے دی اور ساڑھے گیارہ بجے ان کے جہاز سب کچھ پیک کر کے فلسطین سے رخصت ہونے کے لئے روانہ ہوئے اور مینڈیٹ کے عطا کردہ اختیارات کے نتیجے میں برٹش تسلط کی جو حدود تھیں وہ سمندر میں جہاں تھیں مین بارہ بجے وہاں پہنچ کر انہوں نے

Page 221

۲۱۹ ۸ فروری ۱۹۹۱ء رخصت کا بگل بجایا اور اس ملک کو اس طرح چھوڑ کر چلے گئے.یہ بھی ایک بہت ہی ظالمانہ کارروائی تھی.جس کا سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کو پہنچا.بہر حال مفادات کی یہ دو جنگیں ہیں جو مفادات کے نام پر لڑی گئیں اور آج کی تیسری جنگ بھی مفادات کی جنگ ہے جس میں یہود بھی ایک کردار کے طور پر کھیل میں شامل ہیں اگر چہ یہود کو پس منظر میں رکھا گیا ہے اور امریکہ نے یہود کی نمائندگی لے لی ہے.یہودی توسیع پسندی کی جنگیں دوسری قسم کی جنگیں مشرق وسطی میں یہود کی توسیع پسندی کی جنگیں کہلا سکتی ہیں.1948ء1949ء میں جو تو سیع پسندی کی لڑائیاں ہوئیں اس میں سارا الزام فلسطینیوں پر عائد کیا جاتا ہے اور اردگرد کی مسلمان حکومتوں پر عائد کیا جاتا ہے کہ وہ حملے کرتی تھیں اس لئے یہود کو جوابی کارروائی کرنی پڑتی تھی اور مجبوراً اپنا علاقہ وسیع تر کرنا پڑا لیکن اس کے بعد 1956ء میں جو یہود نے جارحانہ جنگ لڑی ہے یا اسرائیل نے جارحانہ جنگ لڑی ہے اس کا کسی قسم کا کوئی جواز نہیں.وہ خالصۂ توسیع پسندی کی جنگ تھی اور انتہائی ہولناک جنگ تھی چند دن کے اندراندر انہوں نے مصر اور شام اور اردن کی طاقتوں کو کچل کے رکھ دیا اور اپنے علاقے کو اتنا وسیع کرلیا کہ جو علاقہ ان کو مینڈیٹ نے عطا کیا تھا اس سے کئی گناہ زیادہ بڑھ چکا تھا.خلاصہ میں آپ کے سامنے یہودی علاقے کی توسیع کا معاملہ رکھتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ کس حد تک یہود نے اپنے علاقے میں توسیع کی ہے اور کرتے چلے جارہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے.1937ء کی غالبا بات ہے کہ انگریزوں نے 18 ء کے بالفور ریزولیوشن کو پیش نظر رکھتے ہوئے اعداد وشمار میں پہلی دفعہ یہ بات کی کہ یہود کی حکومت کو کتنا علاقہ دینا چاہئے.چنانچہ اس فیصلے کی رو سے پانچ ہزار کلومیٹر کا علاقہ یہود کو دیا جانا چاہئے تھا 1947ء کے آخر میں جو فیصلہ یونائیٹڈ نیشنز نے کیا اس میں 5000 کی بجائے ہیں ہزار کلومیٹر کا رقبہ ان کو دیا گیا تھا.کچھ رقبہ دوسال کے عرصہ میں

Page 222

۲۲۰ ۸ فروری ۱۹۹۱ء بڑھ گیا جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اور 1956 ء کی جنگ کے آخر پر یہود کے قبضے میں اٹھاسی ہزار کلومیٹر کا رقبہ ہو چکا تھا.اس سے آپ اندازہ کریں کہ جو بات پانچ ہزار سے شروع ہوئی تھی کہاں تک پہنچی ہے.آخری جنگ جو اس علاقے میں موجودہ جنگ سے پہلے لڑی گئی وہ یوم کیبور کی جنگ کہلاتی ہے.یوم کیبور کی جنگ کو یہ مسلمانوں کی طرف سے عرب ممالک کی طرف سے جارحانہ جنگ قرار دیتے ہیں.حالانکہ یہ بات درست نہیں.واقعہ یہ ہے کہ 1967ء کی جنگ شاید میں 57ء کی کہہ چکا ہوں اگر کہا ہے تو غلط ہے 67 ء کی جنگ جو 56ء کی جنگ کے گیارہ سال بعدلڑی گئی تھی.یہ یہود کی جارحانہ جنگ تھی جس کے نتیجے میں یہ سارا علاقہ ان کے قبضے میں آیا جس کا میں ذکر کر چکا ہوں.اٹھاسی ہزار کلومیٹر سے زیادہ رقبہ.اس کے بعد 1973ء میں یوم کیبور کی جنگ ہوئی یوم کیبور یہود کا ایک مقدس دن ہے.اس دن اچانک اسرائیل پر شام اور اردن کی طرف سے مشترکہ طور پر حملہ کیا گیا بیان کیا جاتا ہے کہ یہ جنگ خالصہ عربوں کی جارحانہ جنگ تھی جس میں یہود بالکل بے قصور تھے یہ بات درست نہیں.وجہ یہ ہے کہ 1967ء کی جنگ کے بعد یونائیٹڈ نیشنز نے اور یونائیٹڈ نیشنز کی سیکیورٹی کونسل نے ایک ریزولیوشن پاس کیا جس کا نمبر ہے 242 اس ریزولیوشن کے نتیجے میں انہوں نے اسرائیل کی جارحانہ جنگ کی مذمت کرتے ہوئے متفقہ طور پر حکم دیا کہ اسرائیل اپنی فوجوں کو ان تمام علاقوں سے پیچھے ہٹالے جو اس جنگ کے نتیجے میں اس کے ہاتھ میں آئے ہیں اور ساتھ ہی یہ شوشہ بھی اس ریزولیوشن میں چھوڑ دیا گیا جس طرح British اور Western Diplomacy کا طریق ہے کہ جب اس فیصلے پر عملدآمد کا وقت ہو تو کچھ اور بحشیں ساتھ چھڑ جائیں اس میں شوشہ بھی ساتھ رکھا گیا کہ اس علاقے کی سب حکومتوں کا حق ہے کہ ان کے امن کا تحفظ ہواور ان کی ایسی شکل ہو جغرافیائی طور پر کہ گویا ان کے امن کو خطرہ نہ پیش آئے.مطلب یہ تھا کہ اس بہانے جب بھی اس فیصلے پر عملدرآمد کا وقت آئے گا تو یہ کہا جائے گا کہ یہود کی بقا کا تقاضا ہے یا اسرائیل کی بقا کا تقاضا ہے کہ علاقے میں اتنار دو بدل کرو اور ترمیم کر دمگر اس کے کسی پہلو پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا.

Page 223

۲۲۱ ۸ فروری ۱۹۹۱ء اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یونائیٹڈ نیشنز کے فیصلے کو نافذ کرنے کے لئے امریکہ اور اس کے تمام Alliese کو یہ حق حاصل ہے کہ عراق پر حملہ کر دیں تو جن کا اپنا علاقہ تھا ( یہ کویت تو ان کا اپنا علاقہ نہیں تھا جس کی خاطر یہ حملہ کیا گیا ہے ) جن قوموں کا اپنا علاقہ تھا وہ سالہا سال تک صبر کرتی رہیں، یونائیٹڈ نیشنز کے فیصلے پر کسی نے عملدرآمد نہیں کروایا.ان کا حق تھا کہ اس علاقے کو لینے کی خاطر وہ فوجی کارروائی کریں.پس اس کو جارحانہ کارروائی کہنا جارحیت ہے بڑا ظلم ہے یہ ایک مظلوم ، کمزور قوم کی ایک کوشش تھی کہ یونائیٹڈ نیشنز کے فیصلے پر اگر کوئی اور عملدرآمد نہیں کرواتا تو ہم خود کوشش کر دیکھیں.پس یہ ہے وہاں کی جنگوں کی تاریخ اور اس میں یہ سب تو میں اب تک جو رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے.موجودہ جنگ میں جو باتیں کھل کر سامنے آئی ہیں ان کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں مگر آپ کی یادداشت میں وہ تازہ ہوں گی.خلاصہ ان سب باتوں کا یہ نکلتا ہے.( مقاصد کے متعلق میں بعد میں بات کروں گا لیکن خلاصہ اس کا یہ ہے کہ ) اسرائیل کو اس تمام پس منظر کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ قو میں یہ حق دیتی ہیں کہ وہ جب چاہے ، جس ملک کے خلاف چاہے جارحانہ کارروائی کرے اور جارحانہ کاروائی کے نتیجے میں جو علاقے وہ ہتھیائے گا اس کے متعلق اگر یونائیٹڈ نیشنز یا سیکیورٹی کونسل فیصلہ بھی کر دیں گی کہ ان علاقوں سے دستبردار ہو جائے تو اسرائیل کو حق حاصل ہے کہ دستبردار نہ ہو اور کسی دوسرے ملک کو یہ حق حاصل نہیں خواہ وہ مظلوم ملک ہو کہ یونائیٹڈ نیشنز کے اس فیصلے کی تعمیل میں اسرائیل سے وہ علاقہ چھینے کی کوشش کرے.یہ تحفظ حاصل ہے.اس دوران ایک بات کا میں نے ذکر نہیں کیا کہ 1947 ء سے لے کر 49 ء تک اسرائیل نے جدید دور میں متشددانہ کارروائیاں یعنی Terrorist کارروائیوں کا آغاز کیا اور Menachem Begin اس کے موجود ہیں اور ان Terrorist کارروائیوں کے نتیجے میں ایک برٹش ڈپٹی گورنر تھے غالباً وہ بھی قتل کئے گئے.کنگ ڈیور ڈ ہوٹل کو بارود سے اڑا دیا گیا جس کے نتیجے میں ایک سو سے زائد آدمی مرے اور بے شمار تباہی پھیلی.فلسطینیوں پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں تین ہزار فلسطینی مرد عورتیں اور بچے ذبح کئے گئے اور بار بار انگریزی حکومت سے بھی تصادم کیا

Page 224

۲۲۲ ۸ فروری ۱۹۹۱ء گیا وجہ یہ تھی کہ اس وقت Labour حکومت تھی اور لیبر حکومت کے MR.Bavin جوفارن سیکرٹری تھے وہ اس بات کے قائل تھے کہ مسلمان مظلوم ہیں اور یہود زیادتی کر رہے ہیں چنانچہ انہوں نے ہر کوشش کی کہ یہود کا ناجائز داخلہ فلسطین میں بند کیا جائے.چنانچہ ایک جہاز جس میں چار ہزار سے زائد یہود مہاجرین خلاف قانون فلسطین میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے ،مسٹر بیون کے حکم پر انگریزی فوج نے اس کا تعاقب کیا ، اور اس جہاز کو پکڑا اور واپس جرمنی پہنچا دیا.اس پر تمام جرنلسٹ دنیا نے اتنا شدید احتجاج کیا اور بیون کو گالیاں دیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے.ایک حکومت کے سپر دامانت کی گئی ہے کہ اس علاقے کو امانتاً اپنے پاس رکھو اور امانت کی شرائط میں یہ بات داخل کی گئی ہے کہ اس سے زیادہ باہر سے یہود اس میں داخل نہیں ہوں گے اور اس پر عمل کر وانے کے نتیجے میں جور د عمل دکھایا جاتا ہے برٹش جرنلزم کی طرف سے وہ حیرت انگیز ہے.ایک صاحب جنہوں نے کتاب لکھی ہے "Making of Israel"(مینگ آف اسرائیل) ان کا نام James Cameron کچھ ہے وہ یہ لکھتے ہیں کہ اتنا بھیا نک ظلم ! آپ سوچیں کہ ان چار ہزار یہودیوں کو جرمنی کی بد بخت اور ظالم زمین میں واپس کیا گیا ہے اور وہ بد بخت اور ظالم زمین میں 1947ء میں واپس کیا گیا ہے جنگ کے خاتمے کے تین سال بعد.اگر وہ ایسی ہی ظالم اور بد بخت زمین اس وقت بھی تھی جب کہ نائسی Nahtsi شکست کھا چکے تھے اور جرمنی کا ملبہ بن چکا تھا جب ان پر انگریز اور امریکن اور فرانسیسی تسلط جما چکے تھے تو پھر اس کے بعد یہود کو وہاں رہنے کا کیا حق ہے.بہر حال اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے جرنلسٹ بھی ان کے ساتھ تھے اور جو ساری مغربی رائے عامہ تھی وہ یہود کا تحفظ کر رہی تھی تو Terrorism ٹیررازم کی ایجاد دراصل یہود لے اسرائیلی دہشت گردی کے بارہ میں مزید معلومات کے لئے درج ذیل کتب کا مطالعہ مفید ہوگا.1.The Israeli Connection by Be jamin - llallahmi.2.Israeal's Fateful Decisions By Yohosharfal Karkahi.3.BY Way of Deception By Ex.Director of Mosad.4.Making of Israel By James Cameron.5.Dispossessed By David Gilmour.

Page 225

۲۲۳ ۸ فروری ۱۹۹۱ء سے ہوئی ہے.تو اس تاریخی پس منظر میں گویا کہ ایک حق یہود کا یہ بھی تسلیم کر لیا گیا کہ یہود کو اجازت ہے کہ وہ Terrorist کارروائیاں کریں اور اس کا نام ہم یہودی ٹیررازم نہیں رکھیں گے لیکن مسلمان حکومتوں کو اپنے سیاسی مفادات کی خاطر کسی قسم کی Terrorist کارروائی کی اجازت نہیں اگر کر یں گے تو ہم صرف ان کو ہی نہیں بلکہ اسلام کو بدنام کریں گے اور کہیں گے Islamic Terrorism ہے اور جو حقوق ان کے تسلیم کئے ہوئے نظر آتے ہیں وہ میں آپ کو پوائنٹس کے طور پر بتا تا ہوں.سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کو رد کرنے کا حق ہے یہود کو اور یونائیٹڈ نیشنز کے تمام فیصلوں کو تحقیر کی نظر سے دیکھنے اور اس طرح رد کرنے کا حق ہے جس طرح ایک پرزے کو پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے.اور کسی ملک کا حق نہیں ہے کہ یہود کی مذمت کرے اس بارے میں.یہود کو حق حاصل ہے کہ اپنی بقاء کے نام پر دوسرے ملکوں کے جغرافیے تبدیل کرے اور یہود کو حق ہے کہ وہ ایٹم بم بنائے اور ایٹم بموں کا ذخیرہ جمع کرے اور Mass Destruction کے ہتھیار مثلاً کیمیکل وار فیئر کے اور بیالوجیکل وار فیئر کے کیمیاوی ہلاکتوں کے اور جراثیم کی ہلاکتوں کے ہتھیار تیار کرے اور کسی کو حق نہیں کہ اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنائے لیکن کسی مسلمان ملک کو یہ حق حاصل نہیں.یہ خلاصہ ہے اس تاریخی جدو جہد کا جس کا ذکر میں نے آپ کے سامنے کیا ہے.بش کا امن کا خواب یہ بات قطعی ہے کہ اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہے آج تک نہ آئندہ کی جائے گی.یہود کے یہ حقوق قائم رکھے جائیں گے اور مسلمانوں کی ان معاملات میں حق تلفی ایک مستقل پالیسی کا حصہ ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی.اس کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ صدر بش کا New World Order کا خواب کیا ہو سکتا ہے؟ کیونکہ جب تک اس خواب کو نہ سمجھیں ہم ان کو صحیح مشورہ بھی نہیں دے سکتے.میں نے جہاں تک غور کیا ہے اس جارحانہ تاریخی پس منظر کے نتیجے میں

Page 226

۲۲۴ ۸ فروری ۱۹۹۱ء بش کا امن کا خواب دراصل امن کا خواب نہیں بلکہ موت وارد کرنے کا خواب ہے بعض لوگ غلطی سے موت کو امن سمجھ لیتے ہیں.جس طرح میں نے وہ بیمار گھوڑے کی مثال کئی دفعہ بیان کی ہے.ایک گھوڑا بہت بیمار تھا جو بادشاہ کو بہت پیارا تھا بہت تڑپ رہا تھا.بادشاہ نے کہا کہ جو اس کی موت کی خبر مجھے پہنچائے گا اس کو میں قتل کروادوں گا.وہ خدا کی تقدیر چلنی تھی وہ بے چارہ مر گیا.ایک آدمی کو پکڑ کے بادشاہ کو خبر دینے کے لئے بھجوایا اس کو مجبور کیا کہ تم نہیں جاؤ گے تو ہم ماریں گے ، بادشاہ کے ہاتھ سے مارا جانا زیادہ بہتر ہے.وہ سمجھدار آدمی تھا اس نے جا کر بادشاہ کو کہا کہ مبارک ہو آپ کا گھوڑا پوری طرح امن میں آگیا ہے بادشاہ بہت خوش ہوا کہ اچھا بتاؤ کہ کس طرح امن میں آگیا ہے اس نے کہا اس طرح کہ پہلے تو اس کی چھاتی کی گڑگڑاہٹ کی آواز میل میل تک سنائی دیتی تھی اب تو میں قریب بھی گیا ہوں تو کوئی آواز نہیں آرہی تھی.اس کی دل کی دھڑکن سے لگتا تھا دھرتی دھڑک رہی ہے زمین دھڑک رہی ہے اب میں نے کان لگا کے دیکھا بالکل آواز ہی کوئی نہیں تھی.بڑے امن اور سکون سے لیٹا ہوا ہے تو اس نے کہا کہ پھر یہ کیوں نہیں کہتے بد بخت ! کہ مر گیا ہے.اس نے کہا حضور کہہ رہے ہیں میں تو نہیں کہہ سکتا.تو قصہ یہ ہے کہ جو امن کا خواب صدر بش مشرقی وسطی اور مسلمانوں کے ممالک کے لئے دیکھ رہے ہیں اس کی تعبیر موت ہے خواب خواہ امن کے نام پر ہو اس کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور جہاں تک میں نے سوچا ہے وہ خواب یہ ہے کہ تیل کے امیر ملک سعودی عرب اور شیخ ڈم ریاستوں وغیرہ کو آمادہ کیا جائے گا کہ وہ بھیک کے طور پر اپنی تیل کی آمد کا ایک حصہ ان عرب ممالک میں تقسیم کریں جو تیل کی دولت سے محروم ہیں یا بہت تھوڑا تیل رکھتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جس طرح American Aid کے ذریعہ تیسری دنیا کے ملکوں کو غلام بنایا جاتا ہے عرب ملکوں کو بعض عرب ملکوں کا غلام بنا دیا جائے اور اس کے نتیجے میں جو Strings ایڈز (Aids) کے ساتھ وابستہ ہوا کرتی ہیں اسی قسم کی سٹرنگز اس مالی امداد کے ساتھ بھی لگا دی جائیں.امریکہ کی مالی امداد جسے American Aids کہا جاتا ہے ہمیشہ بعض سیاسی مصالح کی شرائط

Page 227

۲۲۵ ۸ فروری ۱۹۹۱ء رکھتی ہیں جو امریکہ کے مفاد میں ہوتی ہیں اس ایڈ کے ساتھ بھی کچھ شرائط ہیں جو اسرائیل کے مفاد میں ہوں گی اور مغرب کے عمومی مفاد میں.وہ شرائط یہ ہوں گی کہ یونائیٹیڈ نیشنز میں جھگڑا نہیں لے کے جانا بلکہ یونائیٹڈ نیشنز سے باہر امریکن سرپرستی میں یہود کے ساتھ معاملات طے کرو اور یہ ضمانت دو کہ آئندہ کبھی اس علاقے میں تم کسی قسم کی جنگ کی جرات نہیں کرو گے.اس بات کی ضمانت دو کہ جہاں یہود ایٹمی اسلحہ بناتا رہے گا اور Mass Destruction کے دوسرے ہتھیار تیار کرتا رہے گا تم میں سے کبھی کوئی ایٹمی اسلحہ بنانے اور Mass Destruction کے ہتھیار بنانے کے خواب بھی نہیں دیکھے گا.یہ دو بنیادی نقوش ہیں اس امن کی خواب کے جو صدر بش نے دیکھی ہے اور آپ کل دیکھیں گے کہ اسی طرح ہوگا.اس خواب کے بعض اور حصے بھی ہیں.وہ ہوسکتا ہے پورے ہوں یا نہ ہوں.ایک حصہ یہود کو بعض اقدامات پر مجبور کرنے سے تعلق رکھتا ہے.مراد یہ ہے کہ یہود کو یہ کہیں گے، یہود کہنا غلط ہے یہود میں سے بعض بہت شریف النفس آج ایسے یہود بھی ہیں جو اسرائیل کے شدید مخالف ہیں اور ان کی پالیسیوں کو رد کرتے ہیں اور ان کو دنیا کے لئے ہی نہیں بلکہ خود یہود کے لئے بھی نقصان دہ سمجھتے ہیں.پس جب میں لفظ یہود کہتا ہوں تو ہرگز مراد نہیں کہ یہود قوم کو بحیثیت مجموعی مردود کر رہا ہوں، میری مراد اسرائیل سے ہی ہوتی ہے.بہر حال اسرائیل پر وہ یہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے یعنی خیال ہے ان کا یہ گمان ہے ، خواب ہے کہ وہ کلیہ گولان ہائیٹ کا علاقہ خالی کردے اور Jordon کے مغربی کنارے کا علاقہ خالی کر دے اس کے نتیجے میں وہ وہاں صلح کروالیں گے.یہ بات قطعی ہے کہ گولان ہائیٹ کا پورا علاقہ اسرائیل کسی قیمت پر خالی نہیں کرے گا اور یہ بات قطعی ہے میرے نزدیک کہ Jordon کے مغربی کنارے پر جو یہود کا تسلط ہے وہ اس کو ختم نہیں کرے گا لیکن اس کے باوجود ان کے تمام Allies یعنی تمام عرب مسلمان Allies ان کی کارروائیوں سے راضی ہوں گے اور جس سمجھوتے کا میں نے ذکر کیا ہے اس میں شامل ہو جائیں گے وجہ یہ ہے کہ مغربی اردن پر یہود کے تسلط کا نقصان صرف فلسطینیوں کو اور شرق اردن کو ہے

Page 228

کا بحران ۲۲۶ ۸ فروری ۱۹۹۱ء اور فلسطینیوں اور شرق اردن کی خاطر امریکہ یہود کو ناراض کر لے یہ ہو ہی نہیں سکتا اور دوسرا اس لئے کہ وہاں باہر سے مزید یہود لاکر آباد کروانے کا منصوبہ ایک بڑا دیرینہ منصوبہ ہے جس پر بہت حد تک عملدرآمد ہو چکا ہے اور مستقل یہودی آبادیاں قائم کر لی گئی ہیں اس لئے بھی اگر امریکہ چاہے تو بھی اسرائیلی اس علاقے کو خالی کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے.امریکہ اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کی نوعیت اور اب تک جو اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات ظاہر ہوئے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ صدر بش کی مجال نہیں ہے کہ اسرائیل کو ناراض کرنے کی جرات کریں.جب اسرائیل پر سکڈز کا حملہ ہوا تو صدر بش نے بار بار اسرائیل کے پریذیڈنٹ کو فون کئے اور منت سماجت کی اور اپنے چوٹی کے صاحب اختیار نمائندے وہاں بھجوائے اس بات پر اسرائیل کو آمادہ کرنے کے لئے کہ فوری طور پر اپنا انتقام نہ لو اس واقعہ سے ان کے تعلقات کی نوعیت سب دنیا پر ظاہر ہو جاتی ہے.چند سکڈز کے نتیجے میں دو بوڑھی عورتیں مری ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ دو تین سو سے زیادہ لوگ زخمی نہیں ہوئے اس کو نہایت ہی ہولناک ، یک طرفہ جارحانہ کارروائی قرار دیا گیا جبکہ اس سے پہلے اسرائیل نے عراق کے ایٹمی توانائی کے پلانٹ کو بغیر کسی نوٹس کے اپنے ہوائی جہازوں کے ذریعے بمبارڈ Bombard کر کے کلیہ برباد کر دیا اور اس حملے کو کسی نے جارحانہ حملہ قرار نہیں دیا.گویا اسرائیل کو تو یہ حق ہے اور یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ تم جارحانہ کارروائی کرو اور دوسروں کے ملکوں میں جاکے بمباری کرو، نہ یونائیٹڈ نیشنز کو اعتراض کا اختیار ہے نہ کسی اور ملک کو اور جس پر بمباری کی جاتی ہے اس کو جوابی کاروائی کا بھی اختیار نہیں.پس اگر اور کچھ نہیں تو سکڈ میزائل کے حملے کو عراق کی جوابی کارروائی قرار دیا جا سکتا ہے اور دیا جانا چاہئے کیونکہ یہ بات بھی اب تسلیم کر لی گئی ہے کہ جوابی کارروائی کا فوراً ہونا ضروری نہیں.چنانچہ اس مسئلے پر ذرا تھوڑا سا اور غور کریں تو اسرائیل اور امریکن تعلقات خوب کھل کر نظر کے سامنے آجاتے ہیں.

Page 229

۲۲۷ ۸ فروری ۱۹۹۱ء صدر بش نے بار بار فون پر رابطے کئے منتیں کیں بڑے نرم لہجے میں درخواستیں کیں کہ کوئی فوری کارروائی اس کے رد عمل کے نتیجے میں نہ کرنا.بعد میں اپنے نمائندہ بھیجے جن کے ذریعے گفت و شنید ہوئی اور آخری نتیجہ یہ نکلا کہ اگر تم کوئی فوری کاروائی نہ کرو تو ہم تمہاری طرف سے زیادہ سے زیادہ انتقام لینے کی کوشش کریں گے اور جو Civilians پر بمباریاں ہوئی ہیں اور لاکھوں معصوم شہید ہوئے ہیں اور جن کے گھر برباد کئے گئے ، یہ دراصل اسرائیل کی انتقامی کارروائی Allies نے اپنے ذمے قبول کی تھی اور اسی پر عملدرآمد ہوا ہے.دوسرا پہلو یہ تھا کہ اس کے علاوہ ہم تمہیں نوبلین ڈالر بطور اقتصادی مدد کے دیں گے آپ اندازہ کریں نوبلین ڈالر کی رقم تو ایک دولت کا پہاڑ ہے اور کس چیز کے بدلے اس چیز کے بدلے کہ وہ انتقامی کارروائی سے باز آجائے؟ نہیں.بار بار اس کو یقین دلایا گیا ہے کہ یہ صرف وقتی طور پر انتقامی کارروائی ٹالنے کی خاطر کیا جارہا ہے.اس کے بعد تمہیں حق حاصل ہے کہ جب چاہو ، جس طرح چاہو جس زمانے میں چاہو تم اس جارحیت کا بدلہ لو.اسی لئے میں نے کہا تھا کہ اسرائیل کا یہ حق تسلیم کیا جاچکا ہے کہ وہ جارحانہ کارروائیاں کرے اور کوئی ملک اس کے خلاف مدافعانہ کارروائی بھی نہ کرے اور اگر وہ مدافعانہ کا روائی کرے گا تو اس کے خلاف ساری دنیا کی طاقتیں جارحانہ کارروائی بھی کریں گی اور اسرائیل کا جارحانہ کارروائی کا حق باقی رہے گا اور وہ کب اور کس طرح پورا ہوتا ہے یہ ابھی دیکھنے والی بات ہے.تو یہ ہے New World Order جس کا خواب صدر بش نے دیکھا ہے اور جس کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ اس سے دنیا میں ہمیشہ کے لئے امن کی ضمانت ہو جائے گی.اس خواب کے کچھ اور حصے بھی ہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ اسرائیل تو کسی قیمت پر بھی مغربی علاقہ خالی نہیں کرے گا لیکن مجھے یہ خطرہ ہے کہ مشرقی علاقے پر قبضہ کرنے کی داغ بیل ڈالی جا چکی ہے.مجبوری کے تحت شاہ حسین ہیں جو نیوٹرل رہے اور انہوں نے صرف یہ قصور کیا ہے کہ دو تین دن پہلے اپنی پریس کانفرنس میں یا تقریر میں اس بات پر سخت اظہار افسوس کیا ہے کہ اتحادیوں نے معصوم

Page 230

۲۲۸ ۸ فروری ۱۹۹۱ء عراقی شہریوں کو تباہ و برباد کیا اور بڑا بھاری ظلم کیا.ان کا یہ تبصرہ خود مغربی اتحادیوں کے اعلانات کے نتیجے میں ہے جو انہوں نے فوجی حالات کے متعلق خود خبر نامے جاری کئے ہیں ان سے یہ تصویر قائم ہوتی ہے یعنی اگر ہر ایک منٹ پر ایک جہاز بمباری کرنے کیلئے اٹھ رہا ہو اور یہ تسلیم کرتے ہوں کہ عراق میں اتنی بمباری کی جاچکی ہے جو آج تک دنیا کی تاریخ میں کسی جنگ میں اس طرح نہیں کی گئی اور ویت نام اس کے مقابل پر کچھ حیثیت ہی نہیں رکھتا.اس کے بعد یہ کسی ملک کا نتیجہ نکالنا کہ لاکھوں Civilions یعنی شہری اس سے متاثر ہوئے ہونگے یہ صدر بش کے نزدیک امریکہ کی بھی ہتک ہے اور اسرائیل کی بھی گستاخی ہے اور وہ ان کو متنبہ کرتے ہیں شاہ حسین کو کہ خبر دار منہ سنبھال کر بات کرو تمہیں پتا نہیں کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تمہیں کس نے حق دیا ہے اس قسم کی تنقید کرنے کا؟ خواب کے مندز پہلو بھی تو ہوتے ہیں.کچھ تو انہوں نے امن کے خواب کی تعبیر موت دیکھی ہوئی ہے.کچھ خواب کے اندازی پہلو بھی ہیں اور انذاری پہلو میں میرے نزدیک یہ بات داخل ہے کہ شرق اردن کے اوپر حملے کا بہانہ بنایا جائے گا اور یہودی حکومت کو دریا کے اس کنارے پر ہی نہیں دوسرے کنارے کی طرف بھی ممتد کر دیا جائے گا.یہ جو میرا اندازہ ہے اس کے پیچھے بہت سے تاریخی رجحانات ہیں جن کا میں ذکر کر چکا ہوں شروع دن سے آج تک یہودی مسلسل وسعت پذیر ہیں یعنی توسیع پسندی کی پالیسی محض تعداد بڑھانے کے لحاظ سے نہیں بلکہ رقبہ بڑھانے کے لحاظ سے بھی ہے اور جو آغاز میں یہود نے اسرائیل کا خواب دیکھا تھا وہ خواب یہ تھا کہ تمام دنیا کے مظلوم علاقوں سے یہود کو اکٹھا کر کے یہود کی ایک آزاد مملکت میں جمع کر دیا جائے.اس وقت آبادی کی نسبت یہ ہے کہ یعنی تفصیل تو میں نہیں بتاؤں گا دوتین ملکوں کی آبادی بتا تا ہوں.اسرائیل میں اس وقت یہودی چھپیں لاکھ ہیں اس کے علاوہ امریکہ میں پچاس لاکھ یہودی ہے اور روس میں چھپیس لاکھ بیان کئے جاتے ہیں اس وقت روسی یہودیوں کو بلا کر اسرائیل میں آباد کرنے کا پروگرام شروع ہے جس کے پایہ تکمیل تک پہنچنے تک پچیس لاکھ مزید یہودی یعنی موجودہ

Page 231

۲۲۹ ۸ فروری ۱۹۹۱ء تعداد سے دگنے اس ملک میں آباد کئے جائیں گے.اس کے لئے زمین بھی پھر اور چاہئے.یہ ظاہری اور طبعی بات ہے تو جتنی زمین اس وقت ان کے پاس ہے اس سے کافی تعداد میں زیادہ زمین ہوتب جا کر یہ خواب پورا ہوسکتا ہے.پھر امریکہ کے یہودیوں کے انتقال کا پروگرام بھی ساتھ ساتھ جاری ہے اور یورپ کے دوسرے یہودیوں کے انتقال کا پروگرام بھی ساتھ ساتھ جاری ہے.صدر بش کے خواب کا انذاری پہلو اس ضمن میں بعض باتیں میں آئندہ خطبے میں آپ کے سامنے رکھوں گا مگر مختصراً یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کے قیام کے مقاصد کی اولین وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ مغربی ملکوں میں یہود محفوظ نہیں ہیں اور انہوں نے ہمیشہ یہود کو یک طرفہ ظلم کا نشانہ بنائے رکھا ہے.اگر یہی مقصد تھا اسرائیل کے قیام کا تو جتنے مغربی ممالک میں یہود ہیں جب تک ان کے لئے فلسطین کے گردو پیش جگہ نہ بنالی جائے اس وقت تک یہ خواب پورا نہیں ہوتا اور موجودہ رجحان یہی بتا رہا ہے کہ اس طرح یہ آگے بڑھ رہے ہیں.تو صدر بش کے خواب میں غالباً انذاری پہلو یہ بھی داخل ہے کہ شرق اردن کے دوسرے حصے پر بھی قبضہ کر لیا جائے اور بعد میں یہ خواب کس طرح آگے بڑھے گا اور دنیا کو کس حد تک اپنی لپیٹ میں لے گا وہ لمبی باتیں ہیں مختصر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد باریوں کی بات ہے.جب تک مسلمان طاقتیں ایک کے بعد دوسری تباہ و برباد نہ ہوجائیں اس وقت تک صدر بش کے امن کا یہ خواب پورا نہیں ہوسکتا.پس اس کے بعد کس کی باری ہے یہ نہیں میں کہ سکتا.پاکستان کی ہے یا شام کی ہے.پاکستان بھی نیوکلیئر طاقت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے.بن چکا ہے یا نہیں.یہ ایک متنازعہ فیہ مسئلہ ہے لیکن پاکستان کو تباہ کروانے کے لئے کئی ذرائع موجود ہیں.کشمیر کا مسئلہ ہے سکھوں کا مسئلہ ہے.ہندوستان کو انگیخت کیا جاسکتا ہے.چھٹی دی جاسکتی ہے دفاعی امداد اور اقتصادی امداد روک کر اس طرح بے کار اور نہتہ کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کی طاقت کے جواب کی پاکستان میں طاقت نہ رہے.کئی قسم کے منصوبے ہو سکتے ہیں لیکن خطرہ ضرور ہے شام کو لازماً

Page 232

۲۳۰ ۸ فروری ۱۹۹۱ء خطرہ ہے کیونکہ شام ایک بہت بڑی طاقت بنا ہوا ہے اور شام کی بڑی سخت بے وقوفی اور غلطی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس وقت اتحادیوں کے ساتھ شامل ہونے کے نتیجے میں آئندہ شام محفوظ ہو چکا ہے جب تک اسرائیل موجود ہے شام محفوظ نہیں ہے.اور پھر ایران کو خطرہ ہے اور پھر ترکی Turky کو خطرہ ہے اور ایران اور Turky کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ خواب اس طرح پورا کیا جائے گا کہ ترکی اور ایران کے درمیان آپس میں مخاصمت جو پہلے بھی ہے بڑھائی جائے گی اور اس کے نتیجہ میں کسی وقت آئندہ ان دونوں مسلمان ملکوں کے درمیان اسی طرح لڑائی کروائی جائے گی جس طرح خود امریکنوں نے اور اتحادیوں کی مخفی تائید کے نتیجے میں میں سمجھتا ہوں کہ عراق کو انگیخت کیا گیا تھا کہ وہ ایران پر حملہ کرے اور امریکہ کے اتحادی عرب ممالک نے اس کی ہر طرح مدد کی اور امریکہ کے اتحادی مغربی ممالک نے عراق کو مسلح کرنے میں اور اس کے Mass Destruction کے ہتھیار بنانے کے سلسلہ میں پوری مدد کی.تو خواب کا جو پس منظر ہے وہ یہ ہے کہ خواب جس سمت میں آگے بڑھے گی اور پھیلے گی وہ سمت بھی اس پس منظر کے نتیجے میں ہمیں دکھائی دینے لگی ہے اور خواب آخر پر اس طرح پوری ہوگی کہ پہلے جس طرح ایک مسلمان طاقت کو دوسری مسلمان طاقت کو برباد کرنے کے لئے استعمال کیا گیا اور طاقتور بنایا گیا پھر اس بنائی ہوئی طاقت کو برباد کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور دوسرے مسلمان ممالک کو اس میں شامل کیا گیا.اس کا اگلا قدم کیا ہوگا؟ اسی طرح جو بچی کچھی مسلمان حکومتیں ہیں ان کو یکے بعد دیگرے بر باد کیا جائے گا.سیہ وہ موت کا خواب ہے جو صدر بش نے دیکھا ہے اور جسے وہ Peace کا خواب کہتے ہیں.مظلوموں کے خون سے رنگے ہوئے ہاتھ عراقیوں اور دیگر فلسطینیوں وغیرہ مسلمان مظلوموں یعنی عرب مسلمانوں کے خون سے جس طرح یہ ہاتھ رنگے جاچکے ہیں اس پر مجھے Mecbetth کی چند لائنیں یاد آگئیں.Lady Mecbetth جس نے اپنے خاوند کو بادشاہ کوقتل کرنے پر آمادہ کیا تھا اور اس کے خاوند

Page 233

۲۳۱ ۸ فروری ۱۹۹۱ء میک بیتھ نے بادشاہ کو جو غالباً سکاٹ لینڈ کا تھا بہر حال اس وقت کے بادشاہ کو قتل کیا اور سوتے کی حالت میں قتل کیا.اس کے بعد لیڈی میک بیتھ کو نفسیاتی ردعمل ہوا اور وہ بجھتی تھی کہ اصل قاتل میں ہوں تو نفسیاتی بیماری کے نتیجے میں وہ ہر وقت ہاتھ دھوتی رہتی تھی کہ میرے ہاتھ سے خون کی بو آ رہی ہے اس بو کے سلسلے میں وہ کہتی ہے:."Here is the smell of the blood still" میں اتنی دفعہ ہاتھ دھو چکی ہوں اور خون کی بو جاتی ہی نہیں ہے.ابھی بھی آ رہی ہے."All the perfumes of the Arabia will not sweeten this little hand" عرب کی تمام خوشبوئیں مل کر بھی میرے اس چھوٹے سے ہاتھ کی بو کو مٹھاس میں تبدیل نہیں کر سکیں گی.یہ کڑوی خون کی بو آتی ہی رہے گی.صدر بش کا معاملہ اس سے کچھ برعکس ہے مسلمان عرب خون سے جو ان کے ہاتھ رنگے گئے ہیں میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کی کڑوی بو کبھی امریکہ اور اس کے ساتھیوں کا پیچھا نہیں چھوڑے گی اور تمام دنیا کی پر فیومز بھی عرب خون کی اس بو کو مٹا نہیں سکیں گی اور اس کی کڑوی بو کو مٹھاس میں تبدیل نہیں کر سکیں گی.جہاں تک ان کی پیس کی خواب کا تعلق ہے وہ بھی میں میک بیتھ ہی سے میک بیتھ کی ایک Soliloquy یعنی وہ اونچی زبان میں اپنے دل کی حالت بیان کر رہا ہے اس کے الفاظ میں پیش کرتا ہوں جو ان کی صورتحال پر صادق آتی ہے یہ Soliloquy.وہ سونے کی کوشش کرتا ہے اور نیند اڑ گئی ہے اس کے ضمیر پر ایک سوئے ہوئے بادشاہ کے قتل کا بوجھ اتنا زیادہ ہے اور اس کا ضمیر اس قدر بے چین ہے کہ وہ اپنے آپ کو معاف نہیں کر سکتا چنانچہ اس کی راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے وہ کہتا ہے :."Me thought I heard a voice cry sleep no more Mecbetth Does murther sleep" سکائش زبان میں Murder کو Murther لکھا جاتا تھا تو یہاں لفظ Murther ہے

Page 234

۲۳۲ ۸ فروری ۱۹۹۱ء یعنی Murder.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کہتا ہے Me Thought میں سمجھتا ہوں.میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے لگتا ہے.مجھے گمان گزرتا ہے.I heard a voice Cry sleep no more کہ میں نے ایک شیخ سنی ہے جو یہ کہہ رہی تھی کہ اب کبھی نہیں سونا ، اب کبھی نہیں سونا.Mecbetth does murther sleep دیکھو میک بیتھ نے نیند کو قتل کر دیا ہے چونکہ بادشاہ سویا ہوا تھا اس لئے اس حالت میں اس کو مارنا اس کے نفسیاتی دباؤ کے تابع اس سے بہتر رنگ میں ظاہر نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ سوچ رہا ہے کہ میں نے نیند کو ماردیا ہے.جب نیند کو مار دیا ہے تو پھر مجھے نیند کہاں سے آئے گی.تو ایک لفظ کی تبدیلی سے امریکہ اور صدر بش کے خواب پران سطور کا اطلاق ہوسکتا ہے.میں یہ کہتا ہوں کہ."Me thought I heard a voice cry peace no more U.S Does murther peace" مجھے محسوس ہورہا ہے کہ ایک چلانے والے کی آواز یہ سنائی دے رہی ہے کہ اب اس خطے میں یاد نیا میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکے گا اگر یہ خواب پوری ہو گئی اس شرط کے ساتھ میں کہہ رہا ہوں تو میں یہ آواز سن رہا ہوں کہ اس خطے میں اب کبھی امن قائم نہیں ہو سکے گا یونائیٹڈ سٹیٹس نے امن کو ہمیشہ کیلئے قتل کر دیا ہے.اس کے نتیجے میں کیا ہو سکتا ہے ہم کیا کر سکتے ہیں ان قوموں کو کیا مشورے دیئے جاسکتے ہیں کہ یہ ہلاکت کے قدم جو آگے بڑھا چکے ہیں ان کو کس طرح واپس کر لیں اس سلسلے میں انشاء اللہ میں آئندہ خطبے میں آپ سے مخاطب ہوں گا.میں چاہتا ہوں کہ جلد سے جلد اس مضمون کو ختم کروں اور واپس اپنے اصلی اور حقیقی اور دائمی مضمون کی طرف آجاؤں یعنی احمد یوں کو عبادتیں کس طرح کرنی چاہئیں اور عبادتوں میں کس طرح لذت پیدا کرنی چاہئے.

Page 235

۲۳۳ بسم اللہ الرحمن الرحیم خلیجی جنگ کی تازہ صورتحال ( خطبه جمعه فرموده ۱۵ / فروری ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.۱۵ فروری ۱۹۹۱ء پیشتر اس سے کہ خطبے کا اصل مضمون شروع کروں ایک دوامور کی میں اصلاح کرنی چاہتا ہوں.بعض دفعہ بہت دیر سے پڑھی ہوئی کتب کا مضمون تو ذہن میں یاد رہتا ہے لیکن اس کے سن اشاعت وغیرہ اور اس قسم کے ناموں کی تفاصیل میں بعض دفعہ غلطیاں لگ جاتی ہیں تو خطبے کے بعد بعض دفعہ باہر سے کچھ احمدی دوست تصحیح کروا دیتے ہیں اور بعض دفعہ مجھے خود خطبے کے بعد یاد آنا شروع ہو جا تا ہے کہ غالبا یہ بات نہیں تھی ، یہ تھی.اس پہلو سے دو باتوں میں تصحیح کر نی ضروری ہے.ایک تو بہت ہی اہم ہے کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام کے سال سے تعلق رکھتی ہے.الہام ہوا کہ: میں نے یہ بیان کیا تھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ۱۹۰۵ء میں یہ فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں گے ( تذکرہ صفحہ ۳۳۶) لیکن یہ 1901ء کا الہام ہے.میں نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ انگریزی میں پہلی مرتبہ 1905ء میں Protocols of the elders of zion کتاب شائع ہوئی جس میں فری میسن کے تسلط کا ایک منصوبہ ہے یا فری میسن یہود کے تسلط کے اس منصوبے میں ایک اہم کردار ادا

Page 236

۲۳۴ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء کرتے ہیں تو وہ 1905ء میں رشین زبان میں باقاعدہ کتاب کی صورت میں شائع ہوئی تھی.ابھی انگریزی میں شائع نہیں ہوئی تھی.تو اس سے اور بھی زیادہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام کو عظمت ملتی ہے اور عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں.کہ ابھی یہ کتاب روسی زبان میں آئی تھی اور روس سے باہر کی دنیا کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ یہ منصوبہ کیا ہے؟ اور اللہ تعالیٰ نے اس سے چار سال پہلے 1901ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاماً بتادیا کہ دنیا میں یہود کے تسلط کا کوئی منصوبہ ہے جس میں فری میسن نے اہم کردار ادا کرنا ہے اور میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تم پر اور تمہاری جماعت پر فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں گے.ایک اور غلطی اس میں تھی جو مجھے کسی نے توجہ تو نہیں دلائی نہ وقت ملا ہے کہ پورا وقت تحقیق کرسکوں لیکن مجھے یہ غالب گمان خطبے کے بعد گذرا کہ وہ غلط کہہ گیا ہوں.ایک بیان میں نے ڈز رائیلی کی طرف منسوب کیا تھا، خطبے کے بعد مجھے خیال آیا کہ وہ تو انیسویں صدی کے غالباً تیسرے حصے میں پہلے یہودی وزیر اعظم ہیں جو انگلستان میں وزیر اعظم کے منصب تک پہنچے تھے.تو ان کا وہ بیان ہو نہیں سکتا کیونکہ یہ بیان دینے والا بیسویں صدی کے کسی حصے میں بیان دے رہا ہوگا.کیونکہ بیان دینے والا یہ کہتا ہے کہ یہود کہتے ہیں اس کتاب سے ہمارا کوئی تعلق نہیں لیکن کتاب میں جو منصو بہ بیان ہوا ہے وہ منصوبہ اسی طرح کھلتا چلا جارہا ہے جیسا کہ کتاب میں بیان کیا گیا ہے تو اس لئے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ کتاب منصو بہ بنانے والوں کی نہ ہو اور چونکہ وہ منصوبہ یہود کی مرضی کے مطابق بن رہا ہے اس لئے لازم و ہی ہوگا تو مجھے یاد پڑتا ہے کہ اگر وہ نہیں تھے تو غالباً Henry Ford تھے.Henry Fordامریکہ کے پریذیڈنٹ بھی رہے ہیں اور فورڈ کمپنی کے وہ بانی مبانی ہیں اور ان کی ساری دولت رفاہ عامہ کے کاموں وغیرہ پر خرچ ہوئی اور ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ یہودی دجل اور یہودی سازشوں کو بے نقاب کرنے پر گزرا اور غالباً ایک فاؤنڈیشن بھی انہوں نے اس غرض سے قائم کی تھی بہر حال یہ ایک ضمنی بات ہے اصل تبصرہ وہی تھا جو میں نے بیان کیا ہے اور آج اس کے بھی بہت مدت کے بعد یعنی وہ بیان غالباً 1900 ء کے پہلے دور ہاکوں میں دیا گیا تھا.1920ء کے قریب اس کے بعد

Page 237

۲۳۵ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء آج قریبا ستر سال گزر چکے ہیں اور وہ منصو بہ بالکل اسی طرح جیسا کہ بیان کیا گیا تھا یا تحریر میں موجود ہے کھلتا چلا جارہا ہے.اب جنگ کا جہاں تک تعلق ہے میں یہ بیان کر رہا تھا کہ اس جنگ کے پس منظر میں کیا کیا باتیں ہیں ، کیوں ہورہی ہیں اور جب تک ہم اس کو تفصیل سے نہیں سمجھیں گے اس وقت تک فی الحقیقت نئی دنیا کا نقشہ بنانے کے اہل نہیں بن سکتے.ابھی تازہ صورت یہ ہے کہ امن کے قیام کی کوششیں یک دم تیز کر دی گئی ہیں اور ان سے امریکہ کے دو مفادات وابستہ ہیں جس طرح فضائی حملے کی مہم سے پہلے انہوں نے دنیا پر اثر یہ ڈالا کہ ہم بڑی معقول تجویز صدام حسین کے سامنے بار بار پیش کرتے ہیں امن کے خواہاں ہیں، جنگ کے خواہاں نہیں لیکن دیکھو یہ رد کرتا چلا جارہا ہے.اسی طرح دوسرے مرحلے میں جنگ داخل ہونے والی ہے جو بعض لحاظ سے اتحادیوں کے لئے بہت ہی خطرناک ہے کیونکہ اگر چہ جس طرح کہ ان کو غیر معمولی مادی غلبہ حاصل ہے یہ عراق کا زیادہ نقصان کر سکتے ہیں مگر ان کا جانی نقصان بہت زیادہ ہوگا پس اس مرحلے پر انہوں نے بعینہ اسی مہم کا دوبارہ آغاز کیا جس سے دو فوائد حاصل کرنے تھے.اول یہ ہے کہ اگر اس مرحلے پر صدام حسین اپنے نقصانات کا جائزہ لیتے ہوئے خوف کھا جائیں اور عراق کی رائے عامہ ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہو اور وہ کہیں کہ کافی ہلاکت ہوگئی ہے بس کرو.اب مان جاؤ.اتنی سی بات ہے کہ کو بیت خالی کرنا ہے تو اس سے جو عراق کی طاقت کو پارہ پارہ کرنے والا مقصد تھا وہ بھی حل ہو چکا اور کویت بھی خالی کروالیا گیا اور وہ امریکن جانیں بھی بچالی گئیں جن کا سب سے زیادہ ان کو خطرہ ہے اور اس مرحلے پر بار بار بغداد کی طرف پیغامبر بھجوائے گئے خواہ وہ پاکستان کے پیغامبر تھے اور بغداد کی طرف پیغام دینے کے لئے دوسرے ممالک کی طرف پیغامبر بھجوائے گئے جن کا مقصد یہ تھا کہ مسئلے کو صرف اس شکل میں پیش کریں کہ کویت خالی کرنے کی بات ہے ساری جنگ ختم ہو جائے گی اور سارا جھگڑا طے ہو جائے گا اس لئے اتنی سی بات کے او پر ضد نہ کرو کافی نقصان اٹھا بیٹھے ہو.

Page 238

۲۳۶ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء لیکن اصل واقعہ یہ نہیں ہے.میں نے پہلے بھی ایک دفعہ خطبے میں بیان کیا تھا یہ بالکل ایک جھوٹ اور دجل ہے.صدام حسین نے کبھی بھی کو یت خالی کرنے سے انکار نہیں کیا.صدام حسین ہمیشہ یہ موقف لیتے رہے ہیں کہ کویت پر میر احملہ جارحانہ ہے لیکن اسی قسم کے جارحانہ حملے پہلے اسرائیل کی طرف سے مسلمان ممالک پر ہو چکے ہیں اور ان کا قبضہ موجود ہے اسی طرح باوجود اس کے کہ یونائیٹڈ نیشنز اور سیکیورٹی کونسل نے بار بار ریزولیوشنز کے ذریعے اسرائیل کا قبضہ نا جائز قرار دیا ہے تو اگر تم واقعی صلح چاہتے ہو تو اس بات پر گفت و شنید ہونی چاہئے صرف کویت کا مسئلہ نہیں ہے.دونوں کو اکٹھا دیکھو تا کہ کویت بھی خالی ہو اور دوسرے مقبوضہ علاقے بھی خالی ہوں اور یہ مسئلہ جو بڑی دیر سے ایک ظلم کا موجب بنا ہوا ہے یہ ایک طرف سے حل ہو.اس کو امریکہ اس شدت سے رد کر تا رہا ہے کہ جتنے بھی پیغامبر عراق کی طرف جاتے رہے یا دوسرے ممالک کی طرف تا کہ وہ عراق پر زور ڈالیں.ان کو سختی سے یہ ہدایت رہی ہے یہاں تک کہ یونائیٹڈ نیشنز کے سیکرٹری جنرل کو ئیار کو بھی یہی ہدایت تھی کہ تم نے گفت و شنید نہیں کرنی اس مسئلے پر.ان دونوں مسائل کو یعنی فلسطین کے مسئلے کو اور کویت کے مسئلے کو اکٹھا ایک میز پر زیر بحث ہی نہیں لانا کیونکہ اگر وہ زیر بحث لے آئیں تو اس سے امریکہ کا دجل کھل جاتا ہے اور وہ عرب مسلمان ممالک جو اس وقت امریکہ کے ساتھ ہیں ان کے لئے بڑی سخت نفسیاتی مشکل پیدا ہو جاتی ہے.امریکہ انکار کر رہا ہے کہ نہیں وہ خالی نہیں کرے گا اور تم خالی کرو یہ ایک ایسی کھلی کھلی دھاندلی اور زیادتی ہے کہ مسلمان حکومتوں کے لئے بڑی مشکل بن جاتی ہے کہ پھر وہ اپنے ساتھ کو قائم رکھیں.یہ الگ بات ہے کہ جس وجہ سے وہ ساتھ ہے وہ وجہ ابھی رہے گی لیکن اس کے بعد میں بات کروں گا.آج جو تازہ خبر آئی ہے صدر صدام حسین نے جس طرح پہلے عقل اور حکمت عملی میں بار بار ان کو مات دی ہے ایک اور مات دے دی ہے ، اور وہ اس طرح کہ سیکیو رٹی کونسل کا اجلاس طلب کروانے میں اس نے روس سے مدد مانگی اور دوسرے بعض ملکوں سے.چنانچہ یہ وہ مان گئے چنانچہ جو مسئلہ وہ میز پر لا نانہیں چاہتے تھے اب وہ سیکیورٹی کونسل کی میز پر آ گیا ہے اور صدام حسین نے کہا

Page 239

۲۳۷ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء ہے کہ ہمارا موقف یہ ہے کہ ہم کو بیت خالی کرنے کے لئے تیار ہیں سیکیورٹی کونسل ان سب مسائل کو اکٹھا دیکھے اور پہلے یہ سمجھائے ہمیں کہ ریزولیوشن 242 پر کیوں عمل نہیں ہورہا جو سیکیورٹی کونسل کا ریزولیوشن ہے جس میں کلیۂ سارا الزام سارا اتہام یہود پر ہے اور یہ جرم ثابت کیا گیا ہے کہ انہوں نے جارحانہ جنگ کی تھی اور از راہ ستم وہ علاقے ہتھیائے ہیں ، تو اس مرحلے پر اس وقت جنگ داخل ہوئی ہے.جنگ کی ذمہ داری کا تعین جہاں تک ذمہ داریوں کی تعیین کا تعلق ہے ہم کسی ایک پارٹی کو ذمہ دار قرار نہیں دے سکتے.یہ مضمون چونکہ کافی لمبا ہے مجھے ابھی اور وقت لگے گا اس کو سمجھانے میں لیکن میرا مقصد یہ ہے کہ جنگ تو اللہ بہتر جانتا ہے کب کس حالت میں ختم ہو لیکن جنگ کے ساتھ مسائل ختم نہیں ہوں گے، مسائل بڑھیں گے اور اس جنگ کے نتیجے میں پہلی بات جو ظا ہر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ وَاَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا (الزلزال :۲) کا مضمون دکھائی دے رہا ہے کہ نہ صرف مشرق وسطی سے تعلق رکھنے والے مسائل زمین نے اگل دیئے ہیں بلکہ ساری دنیا میں جو ملتے جلتے مسائل ہیں وہ ظاہر ہورہے ہیں اور دنیا کی نظر کے سامنے آرہے ہیں.نئی دنیا کا نقشہ کیا ہوگا.اس میں بڑی چھوٹی قوموں کے تعلقات کیا ہوں گے.یونائیٹڈ نیشنز کو کیا کردار ادا کرنا ہوگا.وہ یہ کردار ادا کر بھی سکتی ہے کہ نہیں؟ یہ سارے مسائل ، اور بھی اس سے متعلق مسائل دنیا کے سامنے آرہے ہیں ، تیل کی دولت پر کس کو تسلط ہے.کس طرح اس کا استعمال ہونا چاہئے تو چاہے جنگ ہو یا نہ ہو، ختم ہو یا جاری رہے میر امضمون بہر حال جاری رہے گا کیونکہ اس کا تعلق لمبے عالمی مسائل سے ہے.جہاں تک جنگ کی ذمہ داری کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں صدام حسین صاحب پر لازماًیہ ذمہ داری ضرور ہے کہ انہوں نے کویت پر حملہ کیا اور اس حملے میں بہت جلدی کی اور اس کے نتیجے میں اپنی ساکھ کو بھی اور عراق کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا اور سب سے بڑا نقصان یہ کہ دشمن کے جال میں

Page 240

۲۳۸ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء پھنسے کیونکہ اب جبکہ اس مسئلے پر بخشیں اٹھ رہی ہیں کہ کون ذمہ دار ہے؟ تو امریکہ کے، دانشور، اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والے صاحب علم لوگوں نے یہ کھل کے اعتراف کیا ہے کہ سب سے بڑی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے.پس امریکہ نے جو شرارت کی یہ اس شرارت میں پھنس گئے یہ ایک بہت بڑا جرم ہے، اس لحاظ سے یہ بھی ذمہ دار ہیں.امریکہ کے کردار کا جہاں تک تعلق ہے اس میں میں آپ کو بتاتا ہوں کہ James Akins عراق میں امریکہ کے سابق سفیر کا بیان ہے.An anonymous defence consultant, using the pseudonym of Miles Ignotus ("unkhown, soldier") wrote an article in Harper's to this effect.Ignotus even developed a plan to send U.S forces to Saudi Arabia in numbers close to those of early August, less than one week after the invasion of Kuwait.James Akins, former U.S ambassador to Iraq, has gone further.He believes the U.S :suckered" Saddam Hussain into the invasion by instructing the present U.S Ambassador, April Glaspie, to Give him the go-ahead.A week before the invasion, Glaspie assured Saddam that the U.S would have "no position" on such an act and treat it purely as an Arab to Arab affair.(Canadian Ecunemical News Jan/Feb, 1991.pg 3) وہ لکھتے ہیں کہ ”جو موجودہ امریکی سفیر ایک خاتون ہیں اپریل گلا یسی (April Glaspie) نام ہے ان کا ” مجھے کامل یقین ہے کہ امریکہ نے گلاسی کے ذریعہ صدام حسین کو کویت پر حملے کرنے

Page 241

۲۳۹ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء کے لئے انگیخت کیا اور یقین دلایا کہ یہ تمہارا اندرونی معاملہ ہو گا ہم اس میں دخل نہیں دیں گے.جنرل مائیکل ڈوگن کا بیان ہے (Gen.Michael Dugan) یہ جنرل مائیکل ڈوگن ان کے چیف آف ایریسٹاف تھے جن کو فارغ کر دیا گیا ہے اور کس جرم میں فارغ کر دیا گیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے بعض جرنلسٹوں سے سوال وجواب کے دوران ان کو بتایا کہ امریکہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ صدام حسین, ان کے خاندان اور ان کے ساتھی سب کے سر قلم کئے جائیں اور ان پر حملہ کر کے اس قصے کو اس قضیے کو نمٹایا جائے اور ایئر فورس اس مقصد کے لئے تیار ہے اور ساتھ یہ بھی بیان دیدیا کہ یہ تجویز اسرائیل کی طرف سے آئی تھی، چنانچہ اخبار لکھتا ہے.Defence Secretary Richard B.Cheney dismissed Air-Force Chief of Staff Gen.Michael J.Dugan last week for showing "lack of judgement" in discussing contingency plans for war against Iraq, including targeting Saddam Hussein and his family and the decapitation of the Iraqi leadership.(Aviation Week & Space Technology / September 24, 1990) But Dugan's biggest sin, in Cheney's eyes, was references to Israel's contribution to the U.S military effort.Dugan said that Isreal had supplied the U.S with its latest high-tech, superaccurate missiles, and that based on Jerusalem's advice that Saddam is a "one-man show, "the U.S had devised a plan to decapitate the Iraqi leadership beginning with Saddam, his family, his personal

Page 242

۲۴۰ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء guard and his mistress.Such targeting, Cheney was quick to point out, not only is political dynamite but also " is potentially a violation" of a 1981 Executive order signed by President Ronald Reagan flatly banning any U.S involment in assassination.( The Time October 1, 1990) اب اتنے بڑے عہدیدار جو چیف آف ائیر سٹاف ہیں ان کا یہ بیان ایک معنے رکھتا ہے کسی غیر متعلق مبصر کا بیان نہیں ہے کہ دراصل صدر صدام حسین پر قاتلانہ حملہ کروانے کا منصوبہ تھا اور ان کے خاندان پر اور دوسرے بڑے لوگوں پر اور اس ذریعے سے وہ مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے.اس کے متعلق امریکہ نے بہت سخت رد عمل دکھایا لیکن کوئی جواز ان کے پاس نہیں ہے اس بیان کےخلاف.واقعہ یہ ہے کہ اس سے پہلے صدر قذافی پر ایسا ہی حملہ کروا چکے تھے اور سب دنیا جانتی ہے.امریکی قانون صدر کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ کسی غیر ملک میں قتل کروائے اگر چہ قتل کرواتے رہتے ہیں اور اس کا نام انہوں نے کورٹ آپریشنز (Covert Oprations) رکھا ہوا ہے یعنی مخفی کا روائیاں مگر جب مخفی کارروائی ظاہر ہو جائے تو یہ ایک بہت بڑا جرم بن جاتا ہے اس لئے یہاں یہ جرم بن چکا ہے اور امریکہ لازماً اس میں سب سے بڑا ذ مہ دار ہے.تیسری بات اقوام متحدہ کے نام پر یہ کارروائی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے ملک خریدے گئے ہیں.بہت سے ملکوں پر سیاسی دباؤ ڈالا گیا ہے.بہت سے ممالک کو آئندہ کی لالچیں دی گئی ہیں اور ہے یہ سارا امریکن کھیل.اس بارہ میں صدر صدام ہمیشہ سے یہی کہتے رہے ہیں کہ اس کا نام یونائیٹڈ نیشنز رکھنا تمسخر ہے یونائیٹڈ نیشنز کے ساتھ.عملاً اقوام متحدہ نہیں ہے بلکہ امریکہ ہے لیکن حال ہی میں جو واقعہ ہوا ہے وہ یہ کہ یونائیٹڈ نیشنز کے سیکرٹری جنرل جب گفت وشنید کے لئے صدام حسین کے پاس گئے تو انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ یہ تو ساری کارروائی دنیا کو دھوکا دینے کے لئے امریکن کارروائی ہے.اس کا نام یونائیٹڈ نیشنز رکھنا ہی غلط ہے تو ڈی کو ئیار نے کہا کہ جہاں

Page 243

۲۴۱ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء تک میری ذات کا تعلق ہے میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں بالکل یہی ہوا ہے.لیکن جہاں تک رسمی پوزیشن لینے کا تعلق ہے میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ میں اس کا اقرار کرسکوں، اس بیان کو امریکہ نے چھپانے کی کوشش کی کیونکہ جب انہوں نے واپس جا کے رپورٹ پیش کی تو اس رپورٹ میں یہ اور ایسی اور باتیں بعض اعترافات شامل تھے، لیکن صدر صدام حسین نے اس کو Publicize کر دیا ہے، کھول دیا ہے.اور انگلستان کے بعض اخباروں میں چھپ چکی ہے جو میں نے پڑھی ہے.تو اول ذمہ داری اس جنگ کی امریکہ پر عائد ہوتی ہے اگر چہ صدام کو استعمال کیا گیا ہے اور صدام کی جہاں تک ذمہ داری ہے اس میں بعض ایسی وجوہات ہیں جن کے پیش نظر ہم اسے کسی حد تک مجبور بھی قرار دے سکتے ہیں.اتحادیوں کی ذمہ داری ظاہر ہے اور ظلم کی بات یہ ہے کہ اتحادیوں نے اپنے مقاصد کی خاطر یہ کام کیا ہے اور تمام اتحادیوں کے کچھ ذاتی مقاصد اور منفعتیں تھیں جو اس کے ساتھ وابستہ تھیں.اسرائیل کی ذمہ داری یہ ہے کہ سارا منصوبہ اسرائیل کا ہے جیسا کہ میں پہلے اشارہ کر چکا ہوں اور اسرائیل کی اس سے بڑی چال دنیا میں ہو ہی نہیں سکتی تھی کہ ایک بڑھتی ہوئی مسلمان طاقت کو جو اس کے لئے حقیقی خطرہ بن سکتی تھی لڑائی کے دوران اس طرح برباد کرا دے کہ روپیہ مسلمان حکومتوں کا استعمال ہو یا بعض اور اتحادیوں کا اور سپاہی امریکنوں اور انگریزوں کے اور عربوں کے استعمال ہوں.اور مقصد اسرائیل کا حاصل ہو اور ضمناً اس کو کچھ اور علاقوں پر قبضہ کرنے کے لئے بہانہ بھی مل جائے اور بلین ڈالر منافع کے بھی ہاتھ آجائیں اور یہ حق بھی رہے کہ جب چاہوں میں مرے مٹے (اگر خدانخواستہ عراق کا یہ حال ہو جائے تو مرے مٹے ) عراق پر اپنی مزید انتظامی کارروائی پوری کروں.تو جرم کا سب سے بڑا فائدہ اسرائیل کو پہنچا ہے اور سب سے زیادہ اس میں وہ ذمہ دار قرار پاتا ہے.یونائیٹڈ نیشنز بھی ذمہ دار ہے جب پاکستان میں اسمبلیوں میں ممبران کی خرید وفروخت شروع ہوئی تھی تو اس وقت یہ اصطلاح سامنے آئی تھی کہ ہارس ٹریڈنگ ہورہی ہے.ہارس ٹریڈنگ

Page 244

۲۴۲ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء تو تھی لیکن یہ نہیں پتا لگتا تھا کہ یہ ہارس ٹریڈنگ کا نکتہ یعنی ممبران اسمبلی کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے خرید نا کہاں سے آیا ہے؟ اس کا نقطہ آغاز کیا ہے؟ کہاں سے یہ خیال آیا ؟ اب پتا چلا ہے کہ یہ امریکہ کا ہی خیال ہے کیونکہ یونائیٹڈ نیشنز میں ووٹ خریدنے میں انہوں نے بڑی کھلی کھلی ہارس ٹریڈنگ کی ہے اس لئے یونائیٹڈ نیشنز اگر ایسا ادارہ بن چکا ہے جسے دولت مند قومیں اپنی دولت کے برتے پر خرید سکیں تو نہ صرف یہ ایک بہت بڑا بھیا نک جرم ہے بلکہ ایک خود کشی ہے اور اس ادارے کا اعتماد ہمیشہ کے لئے اٹھ جاتا ہے.تاریخی پس منظر اور مسلمانوں کی افسوسناک غفلت اس کے علاوہ کچھ تاریخی پس منظر ہیں ان کو آپ کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے حکومت برطانیہ کا کردار اور یہودی سازش جو اسرائیل کے قیام کے لئے کی گئی تھی اس کی تفاصیل میں دوبارہ جانے کی ضرورت نہیں.Dr.Theodor Herzl نے 1897ء میں یہ منصوبہ بنایا تھا اور اس منصوبے کے تحت بہت سے یہود سائنسدان اور دانشوروں کو مغربی طاقتوں میں نفوذ پیدا کرنے کے لئے مقرر کیا گیا.ان میں ایک کیمسٹ تھے جن کا نام ویزمن ہے.وائز مین بھی میں نے شاید پڑھا تھا لیکن میں نے چیک کیا ہے ، Pronunciation جرمن ہے وزڈمن Weizmann یہ کیمسٹری کے بہت بڑے ماہر تھے پولینڈ کے باشندے ہیں جرمنی میں تعلیم حاصل کی اور انگلستان پچھلی جنگ عظیم سے پہلے آگئے اور یہاں کسی یونیورسٹی میں پروفیسر ہوئے اور با قاعدہ انہوں نے صاحب اثر لوگوں سے رابطے کئے اور سب سے زیادہ ان کا اثر Balfour پر ہوا.اس کا انگریزی میں صحیح Prononciation بھی بیلفور ہے میں پہلے متردد تھا اب میں آپ کو بتارہا ہوں.تو Mr.Balfour جو جارج کی حکومت میں 15، 16، 17، 18 ء اس زمانے میں فارن منسٹرر ہے ہیں ان پر انہوں نے سب سے زیادہ نفوذ کیا اور سب سے زیادہ سخت جدوجہد اسرائیل کے قیام کے لئے Mr.Balfour نے کی ہے.پس برطانیہ بھی اس مسئلے میں ، اس موجودہ جنگ میں با قاعدہ ایک

Page 245

۲۴۳ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء ذمہ دار قوم کے طور پر شمار ہوگا کیونکہ یہ مسئلہ فی ذاتہ بالکل ناجائز اور کچھ مسئلہ بننے کا حق ہی نہیں رکھتا.کسی کے ملک میں جا کر کسی اور قوم کو وہاں ٹھونس دو اور ان کی مرضی کے خلاف اور پھر خود اپنے مینڈیٹس Mandates کے خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ظلم پر ظلم کرتے چلے جاؤ اس کے لئے تو کوئی جو از کسی قسم کا نہیں ہے.چونکہ سب سے بڑا کردار انگریزی قوم نے اس میں دکھایا اس لئے انگریزی قوم ہمیشہ اس ذمہ داری میں شریک رہے گی لیکن ضمناً میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ انگریزی قوم ساری کی ساری شروع میں اس کا رروائی میں شریک نہیں تھی.( یہ جو پیچھے میں نے حوالے اقتباسات وغیرہ کا ذکر کیا ہے ان کے اصل حوالے لکھے ہوئے میرے پاس سب موجود ہیں، یہ میں اس لئے پڑھ کر نہیں سنا رہا تھا کہ وقت بچے ،لیکن جب خطبہ چھپے گا تو اس میں انشاء اللہ تعالیٰ یہ ساتھ دیدوں گا حوالے یا کیسٹ کے ساتھ بھی یہ بعد میں کسی اور کی طرف سے بیان کئے جاسکتے ہیں ) تو وہ جو انگلستان میں 1917ء سے لے کر 18 ، 19 ،20 تک کی جدوجہد ہے ، اس جد و جہد کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں نے بھی بہت بڑی غفلت کا ثبوت دیا ہے جبکہ یہود ہر طرف سازشوں کا جال پھیلا رہے تھے.صاحب اثر لوگوں پر اثر انداز ہورہے تھے، مسلمان اس مسئلے سے غافل تھے.چنانچہ Lord Curzon جو Balfour کے بعد وزیر خارجہ بنے اور جنہوں نے مسلمانوں کی حمایت کی ہے بڑے زور کے ساتھ انہوں نے بہت ہی حیرت انگیز باتوں کا انکشاف کیا ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آتی کہ یک طرفہ یہود لگے ہوئے ہیں، سازشوں کا جال پھیلا رہے ہیں، اور پوری کوششیں کر رہے ہیں اور عرب یوں لگتا ہے جیسے چابی کے سوراخ سے Key Hole سے باہر سے صرف دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور ان کو اجازت ہی نہیں دی جارہی کہ وہ داخل ہوں یا ان کو خود ہوش نہیں ہے.بہر حال یہ کہنا کہ ساری قوم اس منصوبے میں شامل تھی یہ درست نہیں ہے، Lord Curzon نے بڑی شدت سے مخالفت کی ، وہ اس نکتے کی،اسرائیل کے قیام کی غرض وغایت کو خوب اچھی طرح سمجھتے تھے.وہ لکھتے ہیں کہ :.

Page 246

۲۴۴ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء بار بار مجھ پر یہ دباؤ ڈالا گیا کہ میں اسرائیل کا تاریخی تعلق فلسطین کی زمین سے قبول کرلوں لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ بہت گہری سازش ہے بہت خطرناک سازش ہے بہت لمبا اثر دکھانے والی سازش ہے.ایک دفعہ اگر میں نے اس کو تسلیم کر لیا تو پھر یہود کوروکنے کے لئے اور پابند رکھنے کے لئے ہمارے پاس کوئی عذر نہیں رہے گا.اپنی ساری پرانی تاریخ دہرا کر کہیں گے ہم نے وہاں یہ کیا تھا اسی لئے آج ہمیں یہ حق ہے.ہم نے فلاں زمانے میں یہ کیا تھا اس لئے آج ہمیں یہ حق ہے.(The Origins & Evolution of the palestine Problem 1917-1989.Pages 21-28).Published by Uno چنانچہ آخر تک وہ Adamant رہے ہیں اس کے خلاف انہوں نے ہر ممکن کوشش کی مگر لائیڈ جارج کی کیبنٹ اندر اندر یہود کے بعض مخفی منصوبوں کے نتیجے میں ، آہستہ آہستہ یہود کے دائرہ اثر میں منتقل ہوتی رہی اور بالآخر انہوں نے پارلیمنٹ میں یہ مسئلہ پاس کروالیا کہ یہود کو فلسطین میں اس بنا پر دوبارہ قائم کیا جائے کہ ایک Historical Conection ہے وہ پہلا Phrase جس پر بڑی سختی سے لارڈ کرزن نے اعتراض کیا تھا اس کو چالاکی سے بدل کر صرف یہ کر دیا گیا کہ Historical Connection ہے اور اس کے علاوہ جو تحریر ہے وہ اب میں اس وقت پڑھ کر نہیں سنا سکتا لیکن جب آپ پڑھیں گے تو حیران ہوں گے کہ بہت ہی شاطرانہ زبان استعمال کی گئی ہے تا کہ یہود کے سارے مقاصد اس سے پورے ہو جائیں.اگلا حصہ، جب یہ ہاؤس آف لارڈز میں پیش ہوا تو برٹش ہاؤس آف لارڈ ز کو یقیناً ہمیں یہ حق دینا چاہئے کہ انہوں نے پورے انصاف کا مظاہرہ کیا اور انصاف کے علاوہ ایک بہت سخت تنبیہ کی خود اپنی قوم کو کہ تم ایسی حرکت نہ کرو ورنہ یہ بہت ہی خطرناک ظلم ہوگا جس کے دور دور تک اور بہت دیر تک اثرات جاری رہیں گے.ہم نہیں کہہ سکتے کہ کبھی یہ بداثر ختم ہو بھی سکیں گے کہ نہیں چنانچہ ہاؤس آف لارڈز نے اس کو Reject کیا اور بعد میں ہاؤس آف کامنز House of Commons میں اس کو دوبارہ پیش کر کے پاس کروا گیا.ہاؤس آف لارڈز میں ایک ممبر تھے

Page 247

۲۴۵ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء لارڈ سڈنم ( Lord Sydenham) انہوں نے Balfour کا جواب دیتے ہوئے کہا.""....the Harm done by dumping down an alien population upon an Arab country-Arab all around in the hinterland-may never be remedied...what we have done is, by concessions, not to the Jewish people but to a Zionist extreme section, to start a running sore in the East, and no one can tell how far that sore will extend."(The origins of Evolution of The palestine problem (1917-1988 Page:29) pub.by:United Nations, New york, 1990) 66 " کہتے ہیں کہ ہرگز ایسا نہ کرو ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ اجنبی لوگوں کو عربوں کے دل میں مسلط کر دیں ، ایسے علاقے میں جہاں اردگرد چاروں طرف عرب آبادیاں ہی ہیں اور اگر ایسا تم کرو گے تو عملاً وہاں ایک ایسا ناسور پیدا کر دو گے جس ناسور کی جڑوں کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کہاں کہاں پھیلیں گی اور کتنی کتنی دور جا ئیں گی.“ پس انگریزی قوم میں انصاف اس وقت بھی تھا ، اب بھی ہے.چنانچہ آج بھی ان کے بڑے بڑے دانشور اس مسئلے پر بڑی جرات کیسا تھ اپنی دیانتدارانہ رائے کا اظہار بھی کر رہے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے سازشیں بہت گہری ہیں اور بہت حد تک یہ یہودی چنگل میں آچکے ہیں آج امریکہ ذمہ دار ہے لیکن اس زمانہ میں امریکہ میں بھی انصاف تھا.چنانچہ صدر Wood Ward Wilson نے 1918ء میں جو اصول پیش کئے اس میں انہوں نے یہ اصول پیش کیا تھا کہ امریکہ اس اصول کو ہمیشہ سر بلند رکھے گا اور اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہونے دے گا کہ جس علاقے کے متعلق کوئی فیصلہ کیا جارہا ہے اس علاقے کی اکثریت کا اول

Page 248

۲۴۶ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء حق ہے کہ وہ اپنی تقدیر کے فیصلے میں شامل ہو.اگر وہ نہیں مانتے تو کسی کا دنیا میں حق نہیں ہے کہ وہاں اس پر فیصلے کو ٹھونسا جائے.“ اس وقت امریکہ کی یہ حالت تھی چنانچہ ایک King-Crane کمیشن انہوں نے 1919ء میں بھجوایا اس King-Crane کمیشن نے بھی بڑی وضاحت کے ساتھ ، بہت ہی منصفانہ رپورٹ پیش کی اور اس میں یہ لکھا کہ ہم آپ کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ بہت بڑی طاقت کے استعمال اور بہت بڑے خون خرابے کے بغیر اسرائیل کو وہاں نافذ نہیں کیا جاسکتا اور کیوں ایسا کیا جائے اس لئے کہ دو ہزار سال پہلے یہ لوگ یہاں آباد تھے وہ لکھتے ہیں کہ :.اگر یہ دلیل تسلیم کر لی جائے تو دنیا سے پھر عقل ،انصاف سب کچھ مٹ جائے گا.یہ دلیل ایسی لغو ہے کہ اس کو زیر غور ہی نہیں لانا چاہئے.“ کجاوہ زمانہ اور کجا یہ زمانہ کہ مکمل امریکی طاقت پوری کی پوری یہود کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی کی طرح کھیل رہی ہے ، نہ کوئی انصاف ، نہ کوئی عقل، نہ کوئی اخلاقی قدریں، کچھ بھی باقی نہیں رہا تو مسلمانوں کا قصور اس میں یہ ہے کہ ان کو اپنے مفاد کے لئے بیدار مغزی کے ساتھ حالات کا جائزہ لینا چاہئے تھا اور ان حالات میں جس طرح یہود اپنا اثر بڑھا رہے تھے ان کو بھی اپنے اثر ونفوذ کو استعمال کرنا چاہئے تھا مگر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انکار کے بعد ان میں کوئی ایسی لیڈرشپ ہی نہیں رہی جو ساری امت مسلمہ کے مسائل پر غور کرے اور ان کو ایک زندہ جسم کے طور پر، ایک دماغ اور ایک دل سے منسلک رکھ کر آگے چلائے.جہاں تک Reasons کا تعلق ہے کہ مقاصد کیا ہیں؟ کیوں یہ جنگ لڑی جارہی ہے؟ اس کے متعلق سوشلسٹ سٹینڈرڈ Socialist Standard اپنی نومبر 1990ء کی اشاعت میں رقمطراز ہے کہ سنڈے ٹائمنز نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ مقاصد خود غرضانہ ہیں چنانچہ وہ کہتا ہے.The Reason why we will shortly have to go to war with Iraq is not to free Kuwait

Page 249

۲۴۷ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء کہتا ہے، بالکل جھوٹ ہے، کویت شویت کا جو بہانہ ہے کہ اس کی آزادی کی خاطر ہم مرے جارہے ہیں یہ سب بالکل بکواس ہے.Though that is to be Desired ہاں ہو جائے تو بڑا اچھا ہے، کیوں نہیں Though that is to be Desired,or to Defend Saudi Arabia, Though that is Important نہ ہی ہم اس غرض سے گئے ہیں وہاں یا جارہے ہیں کہ سعودی عرب کی حفاظت کریں اگر چہ یہ بھی ایک اہم بات ہے.“ It is because President Sadam is a menace to vital western interests in the Gulf, above all the free flow of oil at market prices, which is essential to wests prosperity.(Socilaist Standard) London, November, 1990.که در حقیقت مغرب کے ان تیل کے چشموں پر جو خلیج میں بہتے ہیں حقوق ہیں اور ہم ان حقوق کی حفاظت کی خاطر جارہے ہیں اور یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ صدام حسین ان کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے کھیلئے لیکن در حقیقت یہ پورا اعتراف نہیں ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ ان مقاصد میں اسرائیل کو عراق کے خطرے سے ہمیشہ کے لئے محفوظ کرنا اور اسرائیل پر سے Threat یہ دھمکی دور کر دینا ہمیشہ کے لئے کہ کوئی مسلمان ملک اس کو چیلنج کر سکتا ہے ، یہ ایک سب سے بڑا مقصد تھا اور ویسے اس مقصد کا تیل کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے کیونکہ اسرائیل کے قیام کی غرض میں ایک غرض یہ بھی شامل تھی کہ مسلمان ممالک کے اوپر ایک پہریدار بٹھا دیا جائے جو جب بھی ضرورت پڑے ان کی گوشمالی کر سکے.جب وہ مسلمان ممالک بات نہ مانیں تو پھر ان کو سبق سکھانے والا ایک نمائندہ موجود رہے.جنگ کے نتیجہ میں ہونے والا نفع و نقصان اب میں آپ کو جنگ کے نفع و نقصان کا بتاتا ہوں 8905 بلین ڈالر خرچ ہو چکا ہے اس میں

Page 250

۲۴۸ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء سے 30 بلین ڈالر فی یوم ایک بلین ڈالر کے حساب سے خرچ ہو رہا ہے آج تمہیں دن ہو چکے ہیں اور و بلین بتایا جاتا ہے کہ جنگ سے پہلے امریکہ کا خرچ ہو چکا تھا ، 2 بلین جنگ سے پہلے انگریزوں کا خرچ ہو چکا تھا ان کا جو ر و ز خرچ ہو رہا ہے اس کا کوئی شمار معین ابھی معلوم نہیں ہوا وہ اس کے علاوہ ہے.اس کے علاوہ دوسرے ممالک کو خریدنے پر جو انہوں نے خرچ کیا ہے وہ بھی جنگ کے اخراجات میں شامل ہے.مصر کے 21 بلین قرضے معاف کئے گئے ہیں اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انہوں نے ملت اسلامیہ کے مفاد بیچنے کے لئے کتنی قیمت وصول کی ہے.اسرائیل کو ۱۳ بلین اب تک اس غیر معمولی صبر دکھانے کے نتیجے میں انعام کے طور پر دیا اور شاباش کے طور پر دیا گیا ہے کہ تمہارے چند سو جو زخمی ہوئے ہیں سکڑ سے ان کے نتیجے میں تم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم فوری انتقام نہیں لیں گے اور جب تم سب کچھ اپنا کر بیٹھو گے.عراق کو پارہ پارہ کر دو گے پھر ہم آئیں گے کسی دن اور اپنی مرضی سے دل کھول کر انتقام لیں گے.یہ اتنا حیرت انگیز صبر کا مظاہرہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ہم تمہیں اور باتوں کے علاوہ ( جنگی ہتھیار بھی بہت دیئے گئے ) 13 بلین ڈالرتحفہ دیتے ہیں.روس کے متعلق العربیہ یا العرب ہے اخبار اس نے بیان دیا ہے (انگلستان سے شائع ہوتا ہے ) کہ 3 بلین روس کو سعودی عرب نے دیا ہے، ایک بلین کو بیت نے دیا ہے، متفرق اس کے علاوہ ہیں ،ترکی اور شام پر کچھ اخراجات انہوں نے کئے ہیں کچھ آئندہ ان کے ساتھ جنگ کے بعد وعدے ہیں جن کا ہمیں علم نہیں ہو سکا.اس خرچ کے علاوہ جو ہولناک تباہی ہوئی ہے.کویت اور عراق میں جائیدادوں کی تباہی اس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے، مبصرین نے جو جائزے لئے ہیں ، پچاس بلین ڈالرصرف کو یت کو از سر لے اسرائیلی دہشت گردی کے بارہ میں مزید معلومات کے لئے درج ذیل کتب کا مطالعہ مفید ہوگا.1.The Israeli Connection by Be jamin - llallahmi.2.Israeal's Fateful Decisions By Yohosharfal Karkahi.3.BY Way of Deception By Ex.Director of Mosad.4.Making of Israel By James Cameron.5.Dispossessed By David Gilmour.

Page 251

۲۴۹ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء نو تعمیر کرنے پر لگے گا اور یہ اندازہ آج سے پانچ ، سات دن پہلے کا ہے اور اندازہ لگانے والوں نے اندازہ لگایا ہے کہ عراق پر اس سے کم سے کم دس گنا زیادہ خرچ ہو گا اور جس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ سو بلین ڈالر عراق کو اپنے آپ کو بحال کرنے کے لئے درکار ہو گا.تو جنگ پر جو اخراجات ہورہے ہیں یا رشوت پر ہورہے ہیں ان کے علاوہ یہ اخراجات غیر معمولی طور پر زیادہ ہیں.اس کے علاوہ جو جانوں کی تلفی ہوئی ہے اور کثرت کے ساتھ بنی نوع انسان کو تکلیف پہنچی ہے وہ سب اس کے سوا ہے.تیسری دنیا کو جو اقتصادی نقصان پہنچا ہے وہ بھی سردست 200 بلین کا اندازہ لگایا گیا ہے جو مبصرین کہتے ہیں کہ آگے زیادہ ہو گا کم نہیں ہوگا یعنی اب تک 200 بلین کا نقصان تیسری دنیا کے غریب ملکوں کو ہو چکا ہے.اب یہ جو حصہ ہے اس سلسلے میں ایک نقصان فضا میں آلودگی کا نقصان ہے اور سمندر میں آلودگی کا نقصان ہے جو سمندر میں آلودگی شروع ہوئی تو ایک امریکن جرنیل نے اعتراف کیا اور فخر سے اعتراف کیا کہ ہم نے تیل کے چشموں پر کامیابی سے Hit ہٹ کیا ہے اور تیل بہنا شروع ہو گیا ہے اور دوسرے دن ہی وہ ساری کہانی بدل گئی اور کثرت سے پھر بار بار عراق پر الزام لگا کر عراق کو متہم کیا گیا کہ یہ ایسی ظالم قوم ہے کہ پرندوں تک کو نہیں چھوڑا انہوں نے ظلم میں اور وہ جو Coots اور Cormorant اور کچھ اور مرغابیوں قسم کے جانور، بعض تو ایسے تھے جو بار بار وہی دکھاتے تھے تیل میں ڈوبے ہوئے اور یہ ظاہر کرتے تھے کہ اس سے ان لوگوں کی ، صدام حسین کی سفا کی ثابت ہوتی ہے کہ کس طرح انہوں نے چھوٹے چھوٹے جانوروں تک کو بھی اپنے ظلم سے الگ نہیں رہنے دیا، باہر نہیں رکھا.اس نقصان کے مقابل پر جس سے یہ اپنی انسانی ہمدردی اور زندگی سے ہمدردی ثابت کرتے ہیں دنیا پر ان کا دنیا کی تکلیفوں سے متعلق جو رویہ ہے وہ میں آپ پر ظاہر کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ سب دجل ہے.حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لفظ دجال میں اس زمانے کی ساری تاریخ اپنی تمام تفاصیل سے بیان فرما دی.ایسا خوفناک دجل ہے کہ آپ حیران ہوں گے یہ سن کر کہ سالہا سال سے افریقہ بھوک کا

Page 252

۲۵۰ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء شکار ہے اور لکھوکھا کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے بچے ،عورتیں ، بوڑھے مرد ، جوان ، سب پنجر بن بن کر دکھ اٹھا اٹھا کر مرتے چلے جارہے ہیں اور ان کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں.اب جنگی اخراجات کا آپ نے اندازہ سن لیا ہے.ساڑھے پانچ سواس کی تعمیر نو پر خرچ اور اس سے پہلے سوبلین کے قریب دوسرے اخراجات اور 200 بلین دنیا کے نقصانات تو یہ ساری بات مل کر بالآخر ہزار بلین کا نسخہ ہے اس کے مقابل پر آج بچھپیں ملین افریقن بھوک کے نتیجے میں مرنے کے لئے تیار بیٹھا ہے اور یہ یونائیٹڈ نیشنز کا تخمینہ ہے.اگر ایک افریقن کو خوراک مہیا کرنے پر روزانہ دوڈالر خرچ آئیں تو پچپیس ملین افریقن کو ایک سال کے لئے بھوک سے بچانے کے لئے صرف تقریباً ڈیڑھ بلین ڈالر چاہئے ایک بلین چھیاسٹھ لاکھ کچھ چاہئے.تو آپ اندازہ کریں کہ وہ لوگ جو چھپیں ملین انسانوں پر رحم نہیں کھاتے جو عراق کے سولہ ملین انسانوں پر دولت کے پہاڑ خرچ کر کےموت برسارہے ہیں.ان کو ہمدردی ہے تو دو مرغابیوں سے ہے اور شور مچایا ہوا ہے کہ یہ چند مرغابیاں مر جائیں گی محض جھوٹ محض فسادانسانی ہمدردی کا کوئی شائبہ بھی ان کے اندر ہوتا تو پہلے انسانی جانوں کی قدر کرتے.دنیا میں بھوک سے مرنے والے غریب افریقنوں کی اور دیگر قوموں کی فکر کرتے اور اقتصادی عدم توازن کو دور کرنے کی کوشش کرتے اس سے آپ کو پتہ لگے گا کہ ایک بلین ہوتا کیا ہے.پچپیس ملین کا مطلب ہے اڑھائی کروڑ.اڑھائی کروڑ انسان پورا ایک سال عزت کے ساتھ روٹی کھا سکتا ہے تقریباً ڈیڑھ بلین میں اور یہ ایک بلین روزانہ جو یہ موت برسانے پر خرچ کر رہے ہیں اور ایک بلین نو مہینے زندگی بخشنے کے لئے خرچ نہیں کر سکتے اور وہ بھی پچپیس ملین آدمیوں کی زندگی.مجھے اس پر یاد آ گیا وہ قصہ.ایک دفعہ چرچل نے جارج لائیڈ کے پاس ایڈورڈ گرے کی سفارش کرتے ہوئے ان کی تائید میں کہا کہ آپ ان کی پوری بات نہیں سمجھ رہے.ان کا کوئی قصور تھا وہ ناراض تھے بڑے سخت گرم تھے ان کے خلاف تو چرچل نے کہا کہ دیکھیں وہ ایسا انسان ہے ایڈورڈ گرے کہ اگر کوئی Natsi اس کے پاس آئے اور کہے کہ تم اگر اس پر دستخط کر دو جو میں تجویز پیش کرتا ہوں تو اس کے بدلے میں تمہاری سب بات مان لوں گا، یہ کروں گا، وہ کروں گا تمہاری جان بخشی

Page 253

۲۵۱ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء ہوگی.جو کچھ بھی ہے اس نے بیان کیا مجھے Exact یاد نہیں لیکن بہت بڑھا کر بتایا کہ اس کی انگلستان سے وفا اور محبت کا اندازہ کریں کہ اگر وہ Natsi یہ پیشکش کرے تو وہ یہ جواب دے گا کہ میں اصولوں کے سودے نہیں کر سکتا.میں یہاں ان شرطوں پر دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں.لائیڈ جارج نے فوراً چرچل کو جواب دیا کہ میں ان کو GREY (گرے کو سمجھتا ہوں اگر Natsi سمجھدار ہو اور وہ یہ شرطیں پیش کرنے کی بجائے یہ شرطیں پیش کرے کہ اگر تم یہاں دستخط کر دو.ہماری مرضی کے مطابق تو بہتر ورنہ جو تم نے گلہریاں پالی ہوئی ہیں میں ان کو مار دوں گا تو وہ فورا دستخط کر دے گا.چنانچہ لکھتا ہے Once during the war when we were rather dissatisfied with the vigour of Sir Edward Grey's policy, I, apologizing for him said to Mr.Lloyd George, who was hot,'Well, anyhow, we know that if the Germans were here and said to Grey, 'If you don't sign that Treaty,we will shoot you at once, "he would certainly reply, "It would be most improper for a British minister to Yield to a threat.That sort of thing is not done." But Lioyd George rejoined, that's not what the Germans would say to him.They would say,lf you don't sign this Treaty, we will scrag all your squirrels at Fallodon." that would break him down.Arthur Balfour had no squirrels.Great Contemporaries Page240.By:The Rt.Hon Winston S.Churchill,C.H.,M.P.Thronton.Brother North Ltd یعنی توازن بگڑے ہوئے ہیں اور بڑی دیر سے بگڑے ہوئے ہیں.کتوں کی خاطر انسانوں

Page 254

۲۵۲ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء کو ذلیل کیا جا سکتا ہے اور انسانوں کی خاطر اپنے مفادات کو قربان نہیں کیا جاسکتا.پس یہ ذمہ داری اور ارتکاب جرم میں پورے شریک ہیں.اگر آج حساب نہیں لیا جائے گا تو کل لا زماً ان کا حساب لیا جائے گا.جو فوائد یا نقصانات ہوئے ہیں.نقصانات تو میں نے بیان کر دیئے ہیں لیکن کچھ اور بھی نقصانات ہیں اور فوائد بھی ہیں بعض عراق کو تو یہ فائدہ پہنچا ہے کہ اس نے ایک بڑی طاقت کا تکبر تو ڑا ہے اور جنگ میں جانے کی وجوہات میں ایک یہ بھی وجہ بیان کی جاتی ہے بعض قابل مبصرین کی طرف سے کہ در اصل صدر بش اور امریکہ کو ویت نام کمپلیکس کھا گیا ہے.ویت نام میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ گزر چکا تھا.ویت نام میں امریکنوں نے اتنی بمباری کی ہے کہ عراق سے پہلے کہیں اتنی خوفناک بمباری نہیں ہوئی تھی اور دیہات کے دیہات صاف کر دئیے.اس قدر زندگی تلف کی ہے اس قدر ا قتصادیات کو برباد کیا گیا ہے کہ یک طرفہ ایسا ظلم انسانی تاریخ میں کم دکھائی دیتا ہے کہ پورے بڑے وسیع ملک پہ ہو رہا ہو لیکن اس کے باوجود اس قوم کی عظمت کردار کو تو ڑ نہیں سکے.ان کا سر نہیں جھکا سکے.وہ قوم مرتی چلی گئی ہے اور لڑتی چلی گئی ہے لیکن امریکہ کی خدائی کے سامنے اس نے سجدہ نہیں کیا.نتیجہ یہ نکلا کہ بالآخر ان کا عزم ٹوٹا ہے.ان کا تکبر ٹوٹا اور اپنا مقصد حاصل کئے بغیر ان کو ویت نام خالی کرنا پڑا.وہ جو ویت نام کی باتیں آپ سنتے ہیں ان میں بعض دفعہ اکثر لوگوں کو غلط نہی ہوتی ہے کہ شاید American Public Opinion رائے عامہ انسانی ہمدردی کی وجہ سے اپنی حکومت کے پیچھے پڑی ہے کہ اتنی جانیں تم نے وہاں تلف کر دیں اب دوبارہ نہ کرنا ، ہرگز یہ بات نہیں ہے.ویت نام میں ایک کروڑ آدمی مر جائیں American Public Opinion کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی.اتنی بھی نہیں ہوگی جتنی مرغابیاں مرنے سے ان کو ہوتی ہے لیکن امریکن جانوں کی تلفی اور امریکن تکبر کو چیلنج کرنا یہ ان کے لئے ایک ایسا روحانی عذاب بنا ہوا ہے جو یہ مضم نہیں کر سکتے تھے.

Page 255

جنگ کا نفسیاتی پس منظر ۲۵۳ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء پس اس جنگ کی وجوہات میں یہ نفسیاتی پس منظر بھی ہے.امریکہ کو جو اپنا تکبر کچلا ہوا دکھائی دیتا رہا ہے آج تک یہ ان کا زخم ہرا ہے.آج تک یہ جلن سینے میں لئے پھرتے ہیں.تو ویت نام کا انتقام عراق سے لینا چاہتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا ہم عزم تو ڑ دیں گے اور پھر ہمیں ٹھنڈ پڑے گی لیکن اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ آج ایک مہینہ گزر چکا ہے آج تک تو یہ عزم نہیں توڑ سکے اور جتنی صدام نے باتیں کی تھیں وہ سچی نکلتی رہی ہیں.جو انہوں نے بدارا دے دکھائے تھے یا تکبر کی باتیں کی تھیں وہ سب جھوٹی نکلتی رہی ہیں.مجھے یاد ہے صدر بش نے یا ان میں سے کسی ان کے ساتھی نے یہ کہا تھا کہ ویت نام کی کیا باتیں کرتے ہو.اس کو ویت نام نہیں بننے دیا جائے گا."It will not be years, it will not be months, it will not be weeks, it will be days." کہ یہ جنگ سالوں جاری نہیں رہے گی مہینوں جاری نہیں رہے گی، ہفتے جاری نہیں رہے گی ، دنوں کی بات ہے اور اس کے بعد ہم نے صدر بش کو یہ کہتے ہوئے سنا.It will not be Days it will be weeks running in to months." تو آج کا دن وہ ہے جس کے بعد Runing in to months والی بات ہو جائے گی لیکن اس اگلی بات نے پہلی بات کو جھٹلایا ہے اور صدر صدام جو باتیں کہتے رہے انہوں نے شروع میں یہ کہا تھا کہ شروع میں تمہارا پلہ غالب ہو گا تم جو مرضی کرو، جتنا مرضی بم برسا لینا ہم پر ، آخر پر جب ہم اٹھیں گے تو پھر ہم اپنا انتقام لیں گے اب اس موڑ پر پہنچ کر یہ انتقام سے ڈرے بیٹھے ہیں، کیونکہ سا را عراق بھی نعوذ باللہ ہلاک ہو جائے تو American Public opinion پر کوئی اثر نہیں

Page 256

۲۵۴ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء پڑے گا لیکن ہزار لاشیں وہاں سے امریکہ پہنچیں گی تو American Public opinion جو ہے وہ ڈانواں ڈول ہوگی اور اس پہ زلزلہ طاری ہو جائے گا.پس اس لئے یہ امن کی کوششیں ہیں اور اس پہلو سے صدر صدام نے جو حکمت عملی استعمال کی ہے بڑی عمدہ اور غالب حکمت عملی ہے.دعا کرتے رہنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر جھوٹے خدا نافذ نہ ہونے دے.دنیا میں سب سے بڑا دکھ تو حید کے زخم لگنے کا دکھ ہے.اگر اسی طرح جھوٹے خداؤں کو خدائی کی اجازت ملتی رہی تو خدائے واحد کی عبادت کرنے والے کون آئیں گے اور کہاں رہیں گے اس دنیا میں تو پھر نہیں رہ سکتے پس سب سے بڑا خطرہ تو حید کو ہے، خانہ کعبہ کو ہے.خانہ کعبہ کی عظمت کو ہے محمد مصطفی کے خدا کی وحدت کو ، تو حید کو خطرہ ہے ، خطرہ ان کے نام کو ہے.تو حید کو تو انشاء اللہ کوئی خطرہ نہیں ہوگا.لیکن خدا کی غیرت بھڑ کانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بھی اسی قسم کی التجائیں کی تھیں کہ ، اے خدا! آج اس بدر کے میدان میں اگر تو نے ان مٹھی بھر عبادت کرنے والوں کو جو میرے ساتھی اور میرے عاشق ہیں ان کو مرنے دیا تو لن تعبد فی الارض ابداً “ اے میرے آقا! ان کے بعد پھر اور کوئی تیری کبھی عبادت نہیں کرے گا.پس آج تو حید کی عزت اور عظمت کا سوال ہے اور احمدی اس بات میں سینہ سپر ہیں.اور کامل یقین کے ساتھ میں آپ کو بتا تا ہوں کہ ساری دنیا کے احمدی ایک صف کے طور پر، ایک بدن کے عضو کی طرح ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہوئے تو حید کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے آج بھی تیار ہیں.کل بھی تیار رہیں گے اور آئندہ بھی ہمیشہ تیار ہیں گے.آپ کو یاد ہو گا حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالے فرمایا کرتے تھے کہ اگلی صدی توحید کی عظمت اور قیام اور نافذ کرنے کی صدی ہے اور یہ بالکل درست ہے تو حید کو جو خطرے آج لاحق ہوئے ہیں، در پیش ہیں یہ ہمیں تیار کرنے کے لئے درپیش ہیں، ہمیں بتانے کے لئے کہ تم کتنی بڑی عظیم ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہو اور کھڑے کئے گئے ہو.

Page 257

تاریخی پس منظر ۲۵۵ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء جو جنگی مقاصد ہیں اور نفسیاتی عوامل اس کے پیچھے ہیں ان کا تاریخ سے بھی بڑا گہرا تعلق ہے چونکہ میں چاہتا ہوں کہ آئندہ خطبے میں یہ بات ختم کر دوں اس لئے آج کا خطبہ تھوڑ اسا لمبا کرنا پڑے گا ور نہ پھر یہ چوتھے خطبے تک بات چلی جائے گی.ایک پس منظر اس موجودہ لڑائی کا یا اسرائیل کے قیام کا ایسا تاریخی پس منظر ہے جس کا تعلق مسلمانوں اور عیسائیوں کی تاریخی جنگوں سے ہے.آپ کو یاد ہوگا کہ صلیبی جنگیں جو 1095ء کے لگ بھگ شروع ہوئیں اور 1190ء یا 1191ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے فلسطین پر قبضہ کیا ہے اس کے بعد پھر یہ چھڑ نہیں سکے.یہ تقریبا دو سو سال تک جنگیں اسی طرح ہوتی رہی ہیں ان جنگوں میں مسلمانوں نے پہل نہیں کی بلکہ یورپ کی قوموں نے آٹھ مرتبہ تمام طاقتوں نے مل مل کر عرب مسلمانوں پر حملے کئے ہیں، کئی دفعہ ان کے پہلے بھاری ہوتے رہے کئی دفعہ شکست کھاتے رہے لیکن بالآخر مسلمان فلسطین کو ان کے ہاتھوں سے بچانے میں کامیاب ہو گئے.اور وہ زخم آج تک ان کا ہرا ہے اور وہ بھولے نہیں.اور اس کا گہرا صدمہ ہے کہ اتنی بڑی یورپین طاقتیں مل مل کر بار بار حملے کرتی رہیں.Richard the Lion Hearted بھی گیا اور دوسرے فرانس کے بڑے بڑے جابر بادشاہ بھی گئے.جرمنی بھی شامل ہوا نجیم بھی شریک ہوالیکن انکی کچھ نہیں بنی ایک تو وہ زخم ہیں جن کے دکھ ابھی تازہ ہیں اور کچھ عثمانی سلطنت کے ہاتھوں جو ان کو بار بارزک اٹھانی پڑی اور یورپ کے بہت سے حصے پر وہ قابض رہے.یہ جو حصہ ہے یہ بھی ان کے لئے ہمیشہ تکلیف کا موجب بنا رہا ہے اور بنا رہے گا.بہر حال خلاصہ یہی ہے کہ ایک لمبا دور ہے ان کی صلیبی جنگوں کا اور سلطنت عثمانیہ کے عروج کا خصوصاً Solomon the Magnificent یعنی سلیمان اعظم کے زمانہ میں جس طرح بار باران یورپین طاقتوں کو زک پہنچی ہے اس کی وجہ سے یہ لوگ مجبور ہوئے کہ اسلام کو اپنے لئے خطرہ

Page 258

۲۵۶ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء سمجھیں اور ان کے نفسیاتی پس منظر میں ہمیشہ یہ بات پردے کے پیچھے لہراتی رہتی ہے کہ جس طرح پہلے ایک دفعہ مسلمان ہماری جارحانہ کارروائیوں کو ( جارحانہ تو نہیں کہتے لیکن واقعہ یہی تھیں) بڑی شدت سے رد کرتے رہے ہیں آئندہ کبھی ان کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ اس طرح یہ اپنے مفادات کی ہمارے خلاف حفاظت کرسکیں.یورپ میں یہود پر ڈھائے جانے والے مظالم ایک اور پس منظر بڑا دلچسپ اور گہرا اور بڑا دردناک ہے وہ یہ ہے کہ جب Theodor Herzl نے پہلی دفعہ یہود کی ریاست قائم کرنے کا یعنی اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا منصوبہ پیش کیا تو اس نے جو وجہ پیش کی وہ یہ تھی کہ ہم پر ہزاروں سال سے ظلم ہورہے ہیں اور خاص طور پر یورپ میں جو مظالم ہورہے تھے اور فرانس میں اس سے پہلے ایک واقعہ ظلم کا ہوا تھا جب ایک یہودی کو ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کیا گیا.روفوس نام تھا غالبا اس کا اسی سلسلے میں ہرزل Herzl فرانس پہنچا آسٹریا سے اور اتنا گہرا اس پر اس ظلم کا اثر ہوا کہ اس نے یہ تحریک شروع کی تو وجہ یہ بیان کی گئی تھی فلسطین میں اسرائیل حکومت کے قیام کی کہ ہم پر یورپ میں مظالم ہوئے ہیں.اس وقت کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ظلم کہیں ہورہے ہیں اور انتقام کسی اور سے لیا جارہا ہے یہ کیا حکمت ہے اور فلسطین میں جانے سے ان پر مظالم کا خاتمہ کس طرح ہو جائے گا، لیکن واقعہ یہ ہے اور اس بات میں یہودی یقینا سچے ہیں کہ عیسائی مغربی دنیا نے یہود پر ایسے ایسے دردناک اور ایسے ہولناک مظالم کئے ہیں کہ کم ہی دنیا کی تاریخ میں قوموں کی ایسی مثال ملتی ہو جن کو ہزار سال سے زائد عرصے تک اس طرح بار بار مظالم کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہو.اس ضمن میں میں چند امور آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یہ جو صلیبی جنگیں 1095ء میں شروع ہوئیں یہ فرانس سے شروع ہوئیں اور فرانس کے ایک بڑے لارڈ (یہ مجھے یاد ہے کہ Bouillon ایک جگہ ہے فرانس میں،Bouillon سے تعلق رکھنے

Page 259

۲۵۷ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء والے وہ لارڈ تھے ) جنہوں نے آغا ز کیا ہے اور جب انہوں نے اپنی مہم شروع کی اور فرانس کے دوسرے بادشاہوں نے مل کر پہلی Crusade کا انتظام کیا تو انہوں نے کہا کہ اتنے عظیم مقصد کے لئے کوئی صدقہ بھی تو دینا چاہئے.چنانچہ Godfrey of Bouillon کو یہ خیال آیا کہ سب سے اچھا صدقہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا انتقام لیا جائے اور تمام یہودیوں کو تہہ تیغ کر دیا جائے.پس جس طرح مسلمانوں میں قربانی کا رواج ہے کہ بڑی بڑی مصیبتوں پر یا امورمہمہ میں پیش قدمی کرتے ہوئے پہلے کچھ صدقے دیتے ہیں اسی طرح اس عظیم مہم پر جانے سے پہلے انہوں نے نہ صرف یہ سوچا بلکہ واقعہ فرانس میں اس طرح ظالمانہ قتل عام کروایا ہے یہود کا کہ اس طرح تاریخ میں کم ہی کسی نہتی قوم پر ایسا ظلم ہوا ہوگا اور یہ صلیبی جنگ کا صدقہ تھا.اس کے بعد سے یہ رواج بن گیا اور دوسوسال تک کے صلیبی جنگوں کے عرصے میں ہر جنگ میں جانے سے پہلے یہود صدقہ کئے جاتے تھے.تو جہاں تک ظلم کا تعلق ہے وہ تو ظاہر ہے.پھر رد بلاء کے طور پر بھی صدقہ دیا جاتا ہے اس میں بھی یہود کو ہی صدقہ کیا کرتے تھے.چنانچہ آپ نے Black Death کا نام سنا ہوگا جو 1347 ء سے 1352 ء تک ( یعنی چودھویں صدی کے وسط میں ) یورپ میں پھیلی تھی جو ایک نہایت ہی خوفناک طاعون کی وباتھی چین سے آئی اور رفتہ رفتہ مشرقی یورپ سے ہوتے ہوئے یہاں پہنچی.اس وبا میں رد بلاء کے طور پر انہوں نے یہود کا صدقہ شروع کیا اور بہت سی جھوٹی کہانیاں بھی ان کے خلاف گھڑی گئیں کہ یہ ان کی نحوست ہے اور ساری بلاء جو ہم پر وارد ہو رہی ہے یہ یہود کی خباثت اور نحوست کی وجہ سے ہے اس لئے خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے اگر ہم نحوست کو تباہ کریں تو اس سے ہماری بلائیں ٹل جائیں گی.چنانچہ آپ حیران ہوں گے یہ سن کر کہ ان گنت تعداد ہے بیان نہیں کی جاسکتی معین اعداد و شمار نہیں کہ کتنی تعداد میں یہود کو قتل کیا گیا یا زندہ اپنے گھروں میں آگ میں جلایا گیا جو موٹے اعداد وشمار ہیں وہ یہ ہیں کہ ساٹھ بڑی بستیوں سے یعنی ساٹھ شہروں سے یہود کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا.اور ایک سو چالیس چھوٹی بستیوں سے یہود کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا.یہ دوسرا انتقام ہے یہود سے عیسائی دنیا کا.

Page 260

۲۵۸ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء اور بہت سے تھے لیکن تیسرا بڑا انتقام Natsi جرمنی میں ان سے لیا گیا جس کے متعلق اگر چه اعداد و شمار کو سب محقق قبول نہیں کرتے لیکن یہود کا یہی اصرار ہے کہ چھ ملین یہود وہاں گیس چیمبرز میں مار دیئے گئے یا اور مظالم کا شکار ہوئے.ساٹھ لاکھ اور یہ دس سال کے عرصے میں ایسا ہوا ہے.تو اتنے بھیا نک اتنے خوفناک مظالم تھے ، اس کا تقاضا یہ تھا کہ ان کو اپنا گھر دیا جائے یعنی یہ دلیل تھی اور ان مظالم سے دوڑ دوڑ کر یہ مسلمانوں کی پناہ میں فلسطین جایا کرتے تھے.یہ بھی تاریخ سے ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ مسلمانوں نے اپنے عروج کے دور میں یہود پر مظالم نہیں کئے.دودفعہ صرف فلسطین پر ایسا قبضہ ہوا ہے جہاں جان، مال کی مکمل حفاظت دی گئی ہے اور کسی یہودی کو یا کسی عیسائی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا.ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اور ایک دفعہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب فلسطین پر قبضہ کیا ہے پس اس کے سوا محققین یہ لکھتے ہیں کہ ایک بھی واقعہ ایسا نہیں کہ جب فلسطین پر کسی فوج کا جابرانہ قبضہ ہوا ہو اور قتل عام نہ کیا ہو.چنانچہ Richard انگریز بادشاہ نے جب (ایک دفعہ اس کا کچھ حصہ ) فتح کیا تو تمام یہود، مردوں ، عورتوں اور بچوں کو اور مسلمانوں کو ذبح کروا دیا گیا کوئی نہیں چھوڑا گیا.یہ اس قوم کی عدل کی ، انصاف کی اور رحم کی اور انسانی قدروں کی تاریخ ہے جس نے یہود کو مجبور کیا اور Herzl کے دل میں خیال آیا کہ ہم امن میں نہیں ہیں.پس اگر امن میں نہیں تھے تو یہاں سے یا تو سارے بھاگتے لیکن یہ کیا علاج ہوا کہ سارا یورپ اسی طرح اپنے قبضے میں بلکہ یہاں قبضہ بڑھا دیا گیا اور اس کے علاوہ مسلمانوں کے دل میں جابیٹھے.پس یہ کوئی علاج نہیں ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے گدھے سے دولتی کھا کے کوئی اونٹ کی کونچیں کاٹ دے.تو مارے کوئی اور بدلہ کسی اور سے اتارا جائے.یہ تو بہت بڑا ظلم ہے کوئی منطق اس میں نہیں ہے.عیسائی طاقتوں کے لئے میں سمجھتا ہوں ان فیصلوں میں ایک یہ بھی نفسیاتی پس منظر بن گیا ہے.سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیوں بار بار یہود پر مظالم ہوئے.معلوم ہوتا ہے ہر ظلم کے نتیجے میں یہود کا چونکہ یہ تاریخی مسلک ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ ، وہ ضرور بدلہ لیتے ہیں، اس لئے ایک تاریخی سلسلہ چلا آرہا ہے یہ کمزور قوموں کی طرح چھپ کر مخفی تدبیروں کے ذریعے بدلے لیتے ہوں گے ورنہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ

Page 261

۲۵۹ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء دو ہزار سال تک یہ اپنی تاریخ بھولے رہیں اور اپنا مزاج بالکل فطرت سے نوچ کر نکال دیں یہ ہوہی نہیں سکتا.چنانچہ وہ تاریخ ہمارے پاس محفوظ نہیں کہ کیا کرتے تھے.یہ پتا ہے کچھ الزام ان پر ضرور لگتے تھے اور ان پر ظلم کیا جاتا تھا.پس وہ مظالم جوان پر کئے گئے ہیں وہ مغرب کو خوب یاد ہیں اور مغرب ان کے مزاج سے واقف ہے شیکسپئر کا Sherlock ان کے انتقامی جذبے کی ہمیشہ کے لئے ایک ادبی تصویر بنا بیٹھا ہے.ایسے حالات میں ہوسکتا ہے کہ آغاز میں تو یہ خیال نہ آیا ہو لیکن رفتہ رفتہ ان کی سوچوں میں یہ بات داخل ہو گئی ہو کہ یہود کا خطرہ اپنے سے اسلام کی دنیا کی طرف کیوں نہ منتقل کر دیا جائے اور اس سے دو ہرا فائدہ حاصل ہوگا.ایک وقت میں دو دشمن مارے جائیں گے.ایک لطیفہ، ہے تو بے ہودہ سا مگر اسی قسم کے مزاج کا لطیفہ ہے کہ ایک لڑکی کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کے تین دعویدار تھے.تین خواہش مند تھے اس سے شادی کرنے کے.ان میں ایک زیادہ ہوشیار تھا وہ خاموش بیٹھا ہوا تھا اور دو آپس میں خوب لڑتے مرتے تھے.تو کسی نے اس سے پوچھا تم تو بڑے ہوشیار ہوتم کوئی دلچسپی نہیں لے رہے اس نے کہا تم فکر نہ کرو.میں ایک کو دوسرے سے لڑا رہا ہوں اور نیت یہ ہے کہ وہ اس کو قتل کر دے تو میں مقتول کے حق میں اس کے خلاف گواہ بن جاؤں تو ایک قتل ہوگا دوسرا پھانسی چڑھے گا میدان میرے ہاتھ رہے گا.یہ لطیفہ ویسے تو لطیفہ ہی ہے لیکن عملی دنیا میں ایک بھیانک جرم کی صورت میں ہمارے سامنے ظاہر ہورہا ہے، کھیلا جارہا ہے.اور آخری سازش یہی ہے کہ یہود کو ہمیشہ کے لئے مسلمانوں سے انتقام لینے کے لئے ان کو دبانے کے لئے استعمال کرتے رہو اور یہود کا غصہ جو ہمارے خلاف ہے وہ مسلمانوں پر اتر تا رہے گا لیکن جیسا کہ میں آئندہ بیان کروں گا یہ بڑی سخت بے وقوفی ہے مغرب کی وہ دھوکے میں ہیں، وہ دھوکا کھائیں گے اور اس وقت ان کو پتہ لگے گا کہ ہم کیا غلطیاں کر بیٹھے ہیں.جب یہود کلیہ ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہوں گے.نصائح اور مشورے پیش کرنے کا وعدہ آئندہ میں بعض مشورے دوں گا مغربی طاقتوں کو ، اس صورت حال میں ، اس گند سے نکلنے

Page 262

۲۶۰ ۱۵ فروری ۱۹۹۱ء کے لئے جس میں مبتلا ہو بیٹھے ہیں اور واقعی دنیا میں قیام امن کے لئے کیا کرنا چاہئے ، اپنے اندر کیا تبدیلیاں پیدا کرنی چاہئیں اور پھر یہود کو مشورہ دوں گا کہ تم اگر ان باتوں سے باز نہیں آؤ گے تو قرآن کریم نے تمہارے لئے کونسا مقدر پیش کیا ہے اور اگر تم فائدہ نہیں اٹھاؤ گے ان نصیحتوں سے تو پھر تم اس مقدر سے بچ نہیں سکتے.اور تیسرا عربوں اور مسلمانوں کو مشورہ دوں گا انشاء اللہ کہ اس نئی بدلتی ہوئی دنیا میں تمہیں کیا کردار ادا کرنا چاہئے.کونسی غلطیاں کر بیٹھے ہو جن کا اعادہ نہیں ہونا چاہئے اور آئندہ کے لئے کیا لائحہ عمل ہو.اور چوتھا دنیا کی مختلف قوموں کو مشورہ دوں گا کہ کس طرح جھوٹے خداؤں سے آزادی کے لئے ایک معقول اور پر امن جدوجہد کے لئے تیار ہو جاؤ.یہ جاہلانہ جذباتی باتیں ہیں کہ انگریز سے نفرت کرو، امریکہ سے نفرت کرو.یہ ہیں ہی پاگلوں والی باتیں.دنیا میں نفرت کبھی کامیاب ہو ہی نہیں سکتی.اعلیٰ اقدار کامیاب ہوتی ہیں.محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سیرت کامیاب ہوا کرتی ہے اور وہ خلق عظیم کی سیرت ہے.مسلمان اگر اس سیرت کو اپنا لیں تو سب دنیا کے لئے ایک عظیم الشان نمونہ بنے گا اور وہ ایک ایسی سیرت ہے جو مغلوب ہونے کے لئے پیدا نہیں کی گئی.کوئی دنیا کی طاقت سیرت محمد پر غالب نہیں آسکتی.پس اس انصاف کی سیرت کی طرف لوٹو.اس نمونے کو اختیار کرو.تو پھر انشاء اللہ ساری دنیا کے مسائل طے ہو سکتے ہیں اور وہ حقیقی انقلاب نو آ سکتا ہے جسے ہم اس دنیا میں خدا کی عطا کردہ ایک جنت قرار دے سکتے ہیں.اگر نہیں تو اسی طرح یہ لڑتے مرتے رہیں گے.اسی طرح دنیا ابتلاؤں اور فسادوں میں مبتلا رہے گی.لیکن اب چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے باقی باتیں آئندہ جمعہ کو.انشاء اللہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ

Page 263

۲۶۱ بسم اللہ الرحمن الرحیم ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء اسرائیل کے قیام کا پس منظر اور اس کی حقیقت خطبه جمعه فرموده ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی خوش فہمی میں نے گزشتہ خطبے میں ذکر کیا تھا کہ آئندہ انشاء اللہ دنیا کو مختلف پہلوؤں سے بعض مشورے دوں گا جن کا آغاز امریکہ سے ہوگا.امریکہ کوسب سے پہلا مشورہ تو میں یہ دیتا ہوں کہ وہ بیرونی نظر سے بھی اپنے آپ کو دیکھنے کی کوشش کرے.صدر بش اس وقت جس قسم کے ماحول میں گھرے ہوئے ہیں اور جیسی تعریفیں اپنے اقدامات کی سن رہے ہیں ان کو ذہنی طور پر نفسیاتی لحاظ سے یہ ہوش ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے اقدامات اور اپنی پالیسیوں کا بیرونی نظر سے بھی جائزہ لے کر دیکھیں کہ دنیا میں ان کی کیا تصویر بن رہی ہے.امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا غلط نقطہ نظر جہاں تک امریکہ کا اپنا خیال ہے، صدر بش کا اپنا خیال ہے وہ سمجھتے ہیں کہ میں نے اب سب دنیا کو اپنی ایڑی کے پیچھے لگا لیا ہے اور اس سے وہ شکاریوں کا محاورہ Heel کرنا یاد آجاتا ہے جب بندوق کے شکاری کتوں کی مدد سے شکار کو نکلتے ہیں تو کہتے کو ایڑی کے پیچھے لگانے کو Heel کرنا کہتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے انگلستان کو بھی Heel کر لیا.دوسرے اتحادیوں کو بھی Heel

Page 264

۲۶۲ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء کر لیا اور جس شکار پر نکلتے ہیں ان Heel ہوئے ہوئے ساتھیوں کے بعد اور بھی کچھ جانور ہیں جو اس شوق میں اور اس امید پر ہمارے پیچھے لگے ہوئے ہیں کہ جب شکار ہوگا تو بچا کھچا ہمیں بھی ملے گا.یہ صدر بش کا تصور ہے ان تمام اقدامات سے متعلق جواب تک کویت کے نام پر عراق اور مسلمان دنیا کے خلاف کئے جاچکے ہیں لیکن ایک اور پہلو سے دیکھیں تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے اور یقیناً یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ صدر بش سے زیادہ یا امریکہ سے زیادہ اسرائیل کو یہ حق ہے کہ یہ کہتے کہ ہم نے سب دنیا کو Heel کر لیا ہے اور امریکہ بھی ہمارے پیچھے اسی طرح چل رہا ہے جس طرح شکاری کے ساتھ کتے اس کی ایڑی کے پیچھے چلتے ہیں اور یہ تصویر زیادہ درست ہے اور دنیا اسی نظر سے ان سارے حالات کا جائزہ لے رہی ہے.زاویہ نظر بدلنے سے چیز مختلف دکھائی دینے لگتی ہے.ایک زاویہ امریکہ کا ہے، ایک دوسرا زاویہ ہے.میں اس کی چند مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.امریکہ اور روس کے اتحادیوں کا خیال یہ ہے کہ اسرائیل ان کے تیل کے اور دیگر مفادات کا محافظ ہے اس لئے ہر قیمت پر ہمیں اسرائیل کو راضی رکھنا چاہئے خواہ اس کے نتیجے میں ساری دنیا ناراض ہو.اس کے برعکس اسرائیل کا بھی ایک نظریہ ہے اور وہ نظریہ یہ ہے کہ اگر تمام ایشیا کی رائے عامہ ہمارے مخالف ہو جائے تو اس کے باوجود ہمیں ایک مغربی ملک کا ساتھ زیادہ پسند ہوگا.پس امریکہ یہ سمجھ رہا ہے اور امریکہ کے اتحادی بھی کہ ان کو اسرائیل کی ضرورت ہے.واقعہ اسرائیل کے نقطہ نگاہ سے اسرائیل کو مغرب کی ضرورت ہے یہ کھیل کیوں اس طرح جاری ہے ؟ کس مقام تک، کس انتہا تک پہنچے گا؟ اس سلسلے میں میں آپ کے سامنے بعض باتیں بعد میں رکھوں گا.جہاں تک تیل کے مفادات کا تعلق ہے امر واقعہ یہ ہے کہ جس طرح گہری نظر سے اسرائیل کے مزاج کے مطالعہ کا حق ہے یہ لوگ اس میں ناکام رہے ہیں.اسرائیل کا مزاج ایسا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ تیل کے اتنا قریب رہتے ہوئے وہ بالآخر تیل پر حملے کی کوشش نہ کرے.تیل کا محافظ اسرائیل کو بنانا ویسا ہی ہے جیسے پنجابی میں کہا جاتا ہے کہ.دودھ دارا کھا بلا تے چھولیاں دارا کھا

Page 265

۲۶۳ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء بکرا.سادہ سی مثال ہے مگر اس میں بہت گہری حکمت ہے.اگر چنوں کو بکروں کے سپرد کر دیا جائے کہ ان کی حفاظت کریں یا دودھ کو بلوں کے سپر د کر دیا جائے تو اس سے بڑی حماقت نہیں ہوسکتی.پس جن مفادات کی حفاظت اسرائیل کے سپرد کی جا رہی ہے ان مفادات کو سب سے زیادہ خطرہ اسرائیل سے ہے اور آخر بات وہیں تک پہنچے گی اگر اس وقت دنیا نے ہوش نہ کی.لیکن ان امور کا بھی بعد میں نسبتاً تفصیل سے ذکر کروں گا.نفرتیں مزید نفرتوں کو جنم دیتی ہیں اسرائیل ایک اور بات اپنے مغربی اتحادیوں ، خصوصاً امریکہ کے کان میں یہ پھونک رہا ہے کہ اس علاقے میں امن کے قیام کا صرف ایک ذریعہ ہے، ایک حل ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں ناصروں اور صداموں کی پیداوار کو ختم کر دیا جائے.جب تک اس علاقے میں ناصر پیدا ہوتے رہیں گے اور صدام پیدا ہوتے رہیں گے کبھی اس علاقے کو امن نصیب نہیں ہوسکتا.اس پیغام کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ عرب کے زندہ رہنے کی اور آزادی کی روح کو کچل دیا جائے اور فلسطین کی حمایت کے تصور کو کچل دیا جائے اور یہ وہ نظریہ ہے جس کو مغرب عمل التسلیم کر چکا ہے اور یہ نہیں دیکھتا کہ حقیقت میں یہ مظالم ناصروں اور صداموں کی پیداوار نہیں بلکہ وہ مظالم کی پیداوار ہیں.ایک ناصر کو مٹانے کے لئے جو مظالم انہوں نے مصر پر اور دیگر مسلمان ممالک پر کئے تھے آج صدام اُن کی پیداوار ہے اور نفرت کے نتیجے میں ہمیشہ نفرت اگتی ہے اور کبھی نیم کے درخت کو میٹھے پھل نہیں لگا کرتے.پس بالکل الٹ قصہ ہے جب تک آپ عربوں سے نا انصافی کرتے رہیں گے عربوں پر مظالم توڑتے رہیں گے ایک کے بعد دوسرا ناصر اور ایک کے بعد دوسرا صدام پیدا ہوتا رہے گا اور یہ تقدیر الہی ہے جس کا رخ آپ نہیں بدل سکتے.آپ نے عراق پر اب تک جو بمباری کی ہے وہ اتنی ہولناک اور اتنی خوفناک ہے کہ جنگ عظیم کی بمباریاں اس کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.جنگ عظیم میں 4 سالوں میں تمام دنیا میں جتنے بم برسائے گئے وہ ۲۷لا کھٹن تھے اور صرف

Page 266

۲۶۴ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء عراق پر ایک مہینے سے کچھ زائد ، پانچ ہفتوں میں جتنے بم گرائے گئے ہیں وہ ۱/۲.۱ ( ڈیڑھ لاکھ ٹن ہیں.اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنی شدت کے ساتھ یہاں مظالم کی بوچھاڑ کی جارہی ہے.انسانی فطرت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے.یہ بم صدا میت کو مٹا نہیں رہے بلکہ لاکھوں نوجوانوں کے دل میں خواہ وہ عرب ہوں یا غیر عرب مسلمان ہوں مزید صدام پیدا کرنے کی تمنا پیدا کر رہے ہیں.بہت سی ایسی نوجوان نسلیں ہیں جو آج ان حالات کو دیکھ رہی ہیں اور ان کے رد عمل میں ان کے دل فیصلہ کر چکے ہیں کہ ہم نے کل کیا کرنا ہے.پس بموں کی بوچھاڑ سے یہ اگر میٹھے پھلوں کی توقع رکھیں تو اس سے بڑی جہالت ہو نہیں سکتی.نفرتیں ہمیشہ نفرتوں کو پیدا کرتی ہیں.نفرت کی وجہ کیا ہے؟ جب تک وہاں نہیں پہنچیں گے.کون سی نفرتیں ہیں جنہوں نے ناصراور صدام پیدا کئے جب تک ان کا کھوج نہیں لگائیں گے اور ان کی بیخ کنی کی کوشش نہیں کریں گے اس علاقے کو امن نصیب نہیں ہوسکتا.جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے اور حقائق اس بات کے گواہ ہیں ، دراصل اسرائیل کا قیام ہی تمام نفرتوں کا آغاز ہے، تمام نفرتوں کی جڑ ہے اور اسرائیل کے قیام کے تصور میں جنگیں شامل ہیں اور یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں یہ اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ David Ben Gurion جو اسرائیل کے بانی مبانی ہیں، ان کا یہ دعویٰ ہے میں اس کا اقتباس پڑھ کر سناتا ہوں.Making of Israel میں صفحہ 55 پر Games Cameron لکھتے ہیں:."For Ben-Gurion the word,state,had now no meaning other than an instrument of war" اسرائیل کے حصول کے بعد Ben-Gurion کے تصور میں اب ریاست کے کوئی اور معنی نہیں رہے سوائے جنگ کے "I can think of no other meaning now,he said یعنی Ben-Gorion نے کہا "I feel that the wisdom of isreal now is that to wage

Page 267

۲۶۵ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء war,that and nothing else,that and only that" میں یقین رکھتا ہوں کہ اب اسرائیل کی حکمت اور اس کی عقل کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ جنگیں کرے اور اس کے سوا اور کوئی خلاصہ نہیں جنگ اور جنگ اور جنگ.اس عبارت کو پڑھ کر مجھے Colerigde کی دوسطریں یاد آگئیں جو اس نے اپنی مشہور نظم Kubla Khan میں Kubla Khan کے متعلق لکھیں.Kubla Khan کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے.And amid this tumult kubla heard from far ancestral voices prophesying war! اس غلغلے میں ، اس شور اور ہنگامے میں Kubla نے دور سے آتی ہوئی اپنے آباؤ اجداد کی آواز سنی جو جنگ کی پیشگوئی کر رہی تھی.Kubla نے وہ آواز سنی یا نہیں سنی لیکن David-ben Gurion نے یقیناً Zion Hill سے بلند ہوتی ہوئی یہ آواز سنی ہے کہ اسرائیل ! آج کے بعد تمہارے قیام کا مقصد صرف ایک ہے اور صرف ایک ہے اور صرف ایک ہے کہ جنگیں کرتے چلے جاؤ اور تمام دنیا کو جنگ میں جھونکتے چلے جاؤ.اس کے بغیر اسرائیل کا اور کوئی مفہوم نہیں ہے.پس اس اسرائیل کی تائید میں امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے آپ کو خواہ کسی دھوکے میں مبتلا رکھیں اس اسرائیل کی تائید کے بعد کسی امن کا تصور ممکن ہی نہیں ہے.یہ اسرائیل کی سرشت میں داخل ہے ان کی تعریف میں داخل ہے کہ اب ساری دنیا کو ہمیشہ جنگوں میں جھونکنا ہے اور کیوں جھونکنا ہے؟ اس سلسلہ میں میں آخر پر اس راز سے پردہ اٹھاؤں گا اگر چہ یہ کوئی خاص بڑا راز بھی نہیں.اسرائیل کی جنگی تیاریوں کا جہاں تک تعلق ہے ، اب تک دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ عراق دنیا کے لئے اتنا بڑا خطرہ ہے کہ وہ ہٹلر ہے، وہ Natsism کی ایک نئی نمود ہے نئی شکل میں Natsiism ظاہر ہوا ہے حالانکہ عراق کا یہ حال ہے کہ خود ایک مغربی مبصر نے لکھا کہ

Page 268

۲۶۶ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء اس کو تم ہٹلر کہہ رہے ہو جو آٹھ سال تک ایران جیسے ملک پر قبضہ نہیں کر سکا اور ہٹلر نے آناً فاناً سارے یورپ میں تہلکہ مچا دیا تھا.اس سے تمہاری روحیں کا نپتی تھیں, وہ برلن سے اٹھا ہے اور لینن گراڈ کے دورازے کھٹکھٹا رہا تھا اور ادھر اس کے راکٹ تمہارے لندن شہر پر برس رہے تھے اور تم کس منہ سے صدام کو ہٹلر کہہ رہے ہو جس کے اوپر تمہارے راکٹ برس رہے ہیں کیسا جاہلانہ تصور ہے.ایک سکڈ میزائیل بھی نہیں بنا سکتا.گن رہے ہیں کہ کتنی باقی رہ گئی ہیں اور جو پیوند اس پر لگایا تھا تا کہ اس کی Range بڑھ جائے وہ ایسا بے ہودہ سا بنا ہوا ہے بیچارہ جس طرح ہمارے لو ہارے تر خانے کام ہوتے ہیں کہ اس پر یہ گرے ہوئے پر مذاق اڑا رہے تھے کہ یہ تو حال ہے عراق کا ، ہم سے جنگ کی باتیں کرتا ہے Scud Missile میں صحیح طریق پر ایک تھوڑے سے ٹکڑے کا اضافہ بھی نہیں کر سکتا یہ ہٹلر ہے اور اسرائیل کے ایک جرنیل نے یہ دعوی کیا بلکہ یہ کہتا ہے کئی جرنیل یہ دعوے کر چکے ہیں."Israel Generals have often boasted that they could take on all the arab armies at the same time and still destroy them, and the chief of staff has even claimed that he could defeat the armed forces of the Soviet Union." (Dispossessed, the ordeal of the palestinians, Page:224 by David Gilmour).David Gilmour اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اسرائیلی جرنیل بارہا یہ دعوے کر چکے ہیں کہ اگر تمام عرب کی متحدہ قوت سے بھی ہم ٹکرا ئیں اور بیک وقت ٹکرائیں تو ہم ان تمام کو پارہ پارہ کر سکتے ہیں اور عرب متحدہ قوت کی کیا حیثیت ہے.اگر سوویت یونین بھی ہم سے ٹکر لے تو یہ طاقت ہے کہ ہم سوویت یو نین کو شکست دے دیں.پس ایک خیالی فرضی ہٹلر کو Destroy کرنے کے لئے تباہ کرنے کے لئے ایک حقیقی ہٹلر کو یہ پال رہے ہیں اور کیسے اندھے ہیں ، کیسے بصیرت سے عاری لوگ ہیں کہ ان کو یہ پتہ نہیں کہ ہٹلر کا یہ

Page 269

۲۶۷ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء نام صدام کو اور فلسطین کو خود اسرائیلیوں نے دیا ہوا ہے.ہٹلر کے نام پر یہ ہٹلر پال رہے ہیں اور ابھی آئندہ اگر یہ سمجھے نہیں تو ان کی آنے والی تاریخ بتائے گی کہ اسرائیل کے کیا ارادے ہیں اور ان کے ساتھ خوداسرائیل کیا سلوک کرنے والا ہے.اس پس منظر میں جب مسلمان یہ دیکھتے ہیں کہ اسرائیل ظلم پر ظلم کرتا چلا جارہا ہے اور اس کی حمایت پر حمایت ہوتی چلی جارہی ہے تو وہ حیران رہ جاتے ہیں ان کو سمجھ نہیں آتی کہ ہم سے ہو کیا رہا ہے؟ اسرائیل کی طرف سے بار بار مسلمانوں کے Terrorism کے ذکر ہوئے ہیں اور ساری مغربی دنیا میں آپ کی آنکھیں یہ پڑھتے پڑھتے تھک چکی ہوں گی کہ مسلمان Terrorist ہیں اور مسلمان فلسطینی Terrorist اور مسلمان Terrorist اور مسلمان Terrorist اور Terrorist ہیں اور فلاں Terrorist اسلام اور Terrorism کو یک جان ، ایک قالب بنا کر دکھایا گیا ہے.ایک ہی جان اور ایک ہی وجود کے دو نام ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل Terrorist کا بانی مبانی ہے اس سلسلے میں گزشتہ خطبے میں میں نے شاید چند مثالیں پیش کی تھیں.اب میں بہت مختصر ا آپ کو بتاتا ہوں کہ اسرائیل کی طرف سے Terrorism کے جو خوفناک واقعات ہو چکے ہیں.ان پر آج تک عربوں کی تباہ شدہ بستیاں دیر یاسین، یافہ طیبہ، مغربی بیروت ، صابرا اور شانیلا کے کھنڈرات گواہ ہیں.اتنے ہولناک مظالم ان بستیوں پر کئے گئے کہ مردوں،عورتوں ، بوڑھوں ، بچوں کو دن دھاڑے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ذبح کیا گیا اور بڑے ظلم اور سفا کی کے ساتھ نیزوں میں پرویا گیا اور دوسرے طریقوں سے ہلاک کیا گیا اور ایک ذی روح کو وہاں زندہ نہیں چھوڑا گیا.ہزار ہا اگر نہیں تو سینکڑوں ایسی بستیاں ہیں جنہیں کلیۂ خاک سے ملا دیا گیا.کوئی ایک عمارت بھی کھڑی نہیں چھوڑی گئی.صرف 77ء کے ایک حملے کے دوران اڑھائی لاکھ فلسطینی بے گھر کئے گئے اور یہ سارے امور ایسے ہیں جن کے متعلق مغرب خاموش ہے اور آنکھیں بند کئے ہوئے ہے.پس عرب ہوں یا دوسرے مسلمان ہوں، وہ حیرت سے دیکھتے ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ کیوں ایک طرف سے ظلموں کے انبار کھڑے کئے جارہے ہیں ،طوفان مچائے جارہے ہیں اور مقابل پر کوئی

Page 270

۲۶۸ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء جس نہیں ہے.کوئی ایسا انسان نہیں ہے جو انصاف کے ساتھ اسرائیل کو مخاطب کر کے کہے کہ آج تم نے انسانی ظلموں کی تاریخ میں ایسے ابواب کا اضافہ کیا ہے جس سے انسانی ظلموں کی تاریخ کو شرم آتی ہے لیکن ان سب ظلموں سے چشم پوشی ہوتی چلی جارہی ہے.اس کی بہت سی مثالیں ساتھ ہیں لیکن وقت کی رعایت سے میں ان کو پڑھ نہیں سکتا.اگر موقعہ ہوا تو بعد میں چھپ جائیں گی.وحشت و بربریت کی تاریخ میں اسرائیل کی طرف سے جو سیاہ ترین باب ہے اس کا اضافہ 1982ء میں ہوا.انہوں نے لبنان پر حملے کا ایک منصوبہ بنایا، جس کا نام رکھا تھا Operation peace for Galilee یعنی گیلیلی کی بستی کے لئے امن کے تحفظ کا منصوبہ.اس ضمن میں David Gilmour اپنی کتاب Dispossessed میں جو نقشہ کھینچتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل نے گیلیلی سے متعلق جو یہ منصوبہ بنایا، امر واقعہ یہ ہے کہ یہ اس منصوبے کے لئے یہ بہانہ پیش کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے تحفظ کے لئے لبنان کے جنوب سے فلسطینیوں کے حملے کی روک تھام کی خاطر اور ان کے مسلسل حملوں سے تنگ آکر یہ منصوبہ بنایا.مصنف لکھتا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ جولائی 1981ء میں فلسطینیوں کا اور اسرائیلیوں کا ایک امن کا معاہدہ ہوا Gilmour لکھتا ہے کہ جولائی 1981ء سے لے کرمئی 1982 ء تک جب اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا ہے اس وقت تک فلسطینیوں سے اس معاہدے کی ایک بھی خلاف ورزی نہیں ہوئی.اس تمام عرصہ میں کسی فلسطینی نے اسرائیل پر لبنان سے کوئی حملہ نہیں کیا دوسرے وہ کہتا ہے کہ گلیل کو لبنان کی طرف سے کبھی بھی کوئی خطرہ در پیش نہیں ہوا.تیسرے وہ کہتا ہے کہ 1982ء سے بہت پہلے وہ ان کے حوالوں سے ثابت کرتا ہے کہ یہ منصوبہ تیار تھا اس لئے بعد میں جو فرضی بہانے گھڑ رہے ہیں ان کی اس لحاظ سے بھی کوئی حقیقت نہیں کہ ان بہانوں کی جو تاریخیں ہیں ان سے بہت پہلے ثابت شدہ حقیقت ہے کہ یہ منصوبہ بنا چکے تھے.چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ 1982ء میں جبکہ بیروت پر بمباری شروع کی گئی تو وہ بمباری اتنی خوفناک تھی کہ دن رات ان کی تو ہیں بیروت سے باہر مسلسل ان پر گولے برسا رہی تھیں اور سمندر سے ان کے جہاز جن پر بہت ہی خوفناک تو پہیں تھیں ان تو پوں سے ان پر آگ برسا رہے تھے.دن رات

Page 271

۲۶۹ نبیلی ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء مسلسل مکانوں پر مکان منہدم ہوتے چلے جارہے تھے اور لوگ مرتے چلے جارہے تھے اور کوئی شخص نہیں تھا کوئی آواز نہیں تھی دنیا میں جو مظلوم فلسطینیوں کے حق میں اٹھتی ہو مغرب بھی خاموش تھا اور بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ خود عرب بھی خاموش تھے اور اس وقت تک اسرائیل کا اس قدر رعب پیدا ہو چکا تھا اور اس کے Terror سے اتنے خوف زدہ تھے کہ کسی عرب ملک نے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی اور بمباری کے نتیجے میں چودہ ہزار آدمی وہاں مرے اور بیس ہزار سے زائد زخمی ہوئے اور لا تعداد انسان بے گھر ہو گئے.یہ 1982ء کی اس بمباری کا خلاصہ ہے جو بعض اخباروں نے شائع کیا ہے آپ نے شاید سنا ہوگا کہ جنگ عظیم کے آخر پر جب جرمنوں نے انگلینڈ پر اور تحکیم پر 2.V راکٹ چھوڑے تھے اور اس کے ذریعے بمباری کی تھی تو اس دور کو اس جنگ کا سب سے زیادہ ہولناک اور دردناک دور بیان کیا جاتا ہے انگلستان کی طرف سے بار بار مختلف وقتوں میں مختلف سالوں میں ٹیلی ویژنز پر اور دوسرے پرو پیگنڈے کے ذریعہ 2-V کی اس بمباری کے تذکرے چلتے رہتے ہیں اور اسے بھولنے نہیں دیا جاتا لیکن آپ حیران ہوں گے کہ اس 2-V کی بمباری کے نتیجے میں سارے انگلستان اور سارے تحکیم میں کل ساڑھے سات ہزار اموات ہوئی تھیں اور صرف بیروت میں اس بمباری کے نتیجے میں چودہ ہزار اموات ہو چکی تھیں.یہ سارے Terrorism کے واقعات ہیں جو کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوتے اور کوئی مغربی طاقت ان کا نوٹس نہیں لیتی اور اسرائیل کے خلاف اس بارہ میں کوئی آواز بلند نہیں کرتی.اسرائیل کے وعدوں کی حیثیت جہاں تک اسرائیل کے وعدوں کا تعلق ہے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر تم اسرائیل سے صلح کر لو تو اسرائیل سے تمہیں کوئی خطرہ نہیں یہ سب جھوٹ ہے اور اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ اس کی مثال دنیا میں دکھائی نہیں دیتی.میں اعداد و شمار سے یہ بات ثابت کرتا ہوں کہ اسرائیل کے وعدوں کا اتنا اعتبار بھی

Page 272

۲۷۰ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء نہیں جتنا دنیا کے سارے جھوٹوں کے مل کر کئے ہوئے وعدوں کا اعتبار کیا جاسکتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ 1967ء کی جو جنگ عربوں پر ٹھونسی گئی.یعنی وہ جارحانہ جنگ جس کے نتیجے میں عربوں کا ایک بہت وسیع علاقہ اسرائیل نے ہتھیا لیا اس جنگ سے پہلے اسرائیل نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم عربوں کی زمین کا ایک فٹ قبضہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور ساری مغربی طاقتوں کو یقین دلا دیا تھا کہ ہماری نیت ہی قبضہ کرنے کی نہیں ہے ہم تو صرف فلسطینیوں کو ذرا مزہ چکھانے کے لئے ایسا کر رہے ہیں کہ اگر تم ہم پر حملوں سے باز نہ آئے اور تمہارے حمایتی اسی طرح جرات کرتے رہے تو ہم اس قسم کی سزا دیں گے.یہ مقصد ہے صرف چنانچہ Levi Eshkol ہیں جنہوں نے 1967ء کی جنگ سے پہلے اسرائیل کی طرف سے یہ اعلان کیا تھا.یہ پرائم منسٹر تھے.کہتے ہیں.Israel, said the prime minister, had no intenion of annexing even one foot of arab territory.ایک فٹ بھی Arab Territory کا ہم نہیں لینا چاہتے یہ اسرائیل کے پرائم منسٹر کا اعلان تھا اس جنگ کے بعد آج تک جتنا رقبہ عربوں کا انہوں نے اپنے قبضہ میں کیا ہے اگر اس کو فٹوں میں بیان کریں تو وہ ۷۳ ٹریلین فٹ بنتے ہیں.Billions کی باتیں تو آپ سن چکے ہیں.ایک ہزار ملین کا ایک بلین بنتا ہے، ایک ہزار بلین کا ایک ٹریلین بنتا ہے تو ایک فٹ کے بدلے یہ سے ٹریلین یعنی ۷۳ ہزار بلین Feet عرب رقیہپر قابض ہو چکے ہیں.اس پر مجھے یاد آیا کہ ایک مغربی مصنف نے اسرائیل کی انتقامی کاروائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مجھے یہ بات تو سمجھ آجاتی ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت ، ان کی مذہبی تعلیم ہے ایک آنکھ کے بدلے ایک آنکھ تو سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن ایک آنکھ کے بدلے 20 آنکھیں یا اس سے زیادہ کی سمجھ مجھے نہیں آتی.امر واقعہ یہ ہے کہ اس مصنف نے اسرائیل کے رد عمل کے اعداد و شمار نہیں نکالے.اس وقت اسرائیل کا مذہب ایک کے بدلے 20 آنکھیں نہیں.بلکہ ایک آنکھ کے بدلے 20 ہزار یا 20 لاکھ آنکھیں ہیں اور جہاں تک وعدوں کا تعلق

Page 273

۲۷۱ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء ہے وہ منفی صورت میں ایک کے بدلے Trillions کی اعداد و شمار میں وعدہ خلافی کی جاتی ہے.یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے ابھی بات سنئے جب انہوں نے لبنان پر 82ء میں حملہ کیا جس کا میں مختصراً ذکر کر چکا ہوں تو اس حملے سے پہلے انہوں نے اسی طرح یہ اعلان کیا کہ ہم لبنان کی ایک انچ زمین بھی قبضے میں نہیں لینا چاہتے اور جب لبنان پر قابض ہو کر انتہائی مظالم کر کے ایک لمبے عرصہ تک اور بھی ایسے مظالم کئے جن کا میں نے ذکر نہیں کیا ، آخر لبنان چھوڑا تو دریائے لتانی Litani Riverکے جنوب کا وہ سارا حصہ قبضے میں کر لیا جو شروع سے ہی اسرائیل کے منصوبے میں شامل تھا اور اس رقبے کا انچوں میں رقبہ 8 ٹریلین 830 بلین مربع انچ بنتا ہے.تو جب وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک فٹ بھی نہیں لینا چاہتے.تو مراد ہوتی ہے ہم 73 ٹریلین لینا چاہتے ہیں اور جب وہ کہتے ہیں.ہم ایک انچ بھی نہیں لینا چاہتے تو مراد اس سے ہوتی ہے کہ 8 ٹریلین 830 بلین ( مربع انچ ) زمین ہم لینا چاہتے ہیں اس پر مجھے خیال آیا کہ ان کی تاریخ کا حساب لگا کر دیکھیں کہ جب تو رات میں یہ تعلیم نازل ہوتی تھی کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت تو اس وقت سے اب تک کتنا وقت گزر چکا ہے.سیکنڈز میں کر کے دیکھیں تو پھر اندازہ ہو گا ان کی نفسیات کا کہ ہر سیکنڈ یہ اس انتقام کی کارروائی کے جذبے میں کتنا اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں تو میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ تو رات کی تعلیم کے نزول سے لے کر آج تک تقریباً جو میں نے اندازہ لگایا ہے سالوں کو سیکنڈز میں تبدیل کر کے.6 ٹریلین 244 بلین 128 ملین سیکنڈ بنتے ہیں اب آپ اندازہ کریں کہ حضرت موسیٰ" کے زمانے سے آج تک 6 ٹریلین 244 بلین اور 128 ملین سیکنڈ کا عرصہ گذرا ہے اس عرصہ میں ان کی وعدہ خلافیوں کی نسبت کتنی بڑھ چکی ہے ایک سیکنڈ کی رفتار سے بھی کئی گنا زیادہ رفتار سے یہ جھوٹ بول رہے ہیں اور اسی نسبت سے ان کی انتقام کی تمنائیں بڑھتی چلی جارہی ہیں.لبنان کے اوپر ظلم و ستم کی جو بارش برسائی گئی اس کے متعلق صرف ایک اقتباس میں ایک مغربی مبصر کا آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہاں اس وقت کینیڈین ایمبیسڈر Theodore) (Argand تھے.انہوں نے اس بمباری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اس بمباری کو دیکھ کر 1944ء

Page 274

۲۷۲ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء کی برلن کی بمباری یوں معلوم ہوتا تھا جیسا ایک Tea Party ہورہی ہو یعنی اگر بمباری یہ ہے تو برلن پر جو نہایت خوفناک بمباری 1944ء میں کی گئی تھی وہ اس کے مقابل پر ایک Tea Party کی حیثیت رکھتی تھی.بعض مبصرین نے بہت عمدہ تجزیہ کیا.وہ لکھتے ہیں کہ یہ محض PLO کے قتل عام کا منصوبہ نہیں تھا بلکہ فلسطین کی خودی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کا منصوبہ تھا اور خودDr.Nanum Goldman جو Zionism کے بانی مبانی ہیں اور سالہا سال تک World Jewish Congress اور World Zoinist organization کے صدر رہے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ:.The apparent aims is to liquidate, the palestinan people جو بھی ہمارے منصوبے تھے ان کا کھلا کھلا مقصد یہی تھا کہ فلسطینیوں کو تحلیل کر دیا جائے ان کو صفحہ ہستی سے ناپید کر دیا جائے.فلسطین کے خلاف اور فلسطینیوں کے خلاف اس قوم نے جو ظالمانہ رویہ اختیار کئے رکھا ہے اس میں فلسطینی لیڈرشپ کی کردار کشی نے بھی بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے.چنانچہ ایک مغربی مبصر لکھتے ہیں کہ یہ ہمیشہ فلسطینیوں کی کردار کشی کرتے چلے جارہے ہیں یہاں تک کہ فلسطینیوں کو مخاطب بھی اس طرح کرتے ہیں کہ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ فلسطینی کا نام لیا گیا ہواور کوئی تحقیر کا اور تذلیل کا لفظ استعمال نہ کیا گیا ہو.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ بعض دفعہ یہ کہنے کی بجائے کہ فلسطینیوں نے ایسا کیا ، کہتے ہیں Terrorists یہ کرتے ہیں.Animals یہ کیا کرتے ہیں.Bastards ایک گندی گالی ہے وہ یہ کیا کرتے ہیں اور بیروت میں عرفات کو ہٹلر کے Banker میں بیٹھا ہوا عرفات بیان کرتے ہیں.کچھ عرصہ پہلے تک یہ فلسطینیوں سے نفرت کی وجہ یہ بیان کیا کرتے تھے کہ فلسطینی ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کرتے تو ہم ان کے وجود کو کیوں تسلیم کریں ہم کس سے بات کریں ان سے بات کریں کہ جو کہتے ہیں کہ تمہیں سمندر میں پھینک دیا جائے.لمبے عرصے کی کوششوں اور نا کامیوں کے بعد آخر یاسر عرفات نے ان کا یہ عذر دور کرنے کی کوشش کی اور یونائیٹڈ نیشنز کے اس اجلاس میں جس میں

Page 275

۲۷۳ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء یاسرعرفات کو بلایا گیا، انہوں نے کھلم کھلا تمام قوموں کے سامنے یہ اقرار کیا کہ میں تمام فلسطینی آزادی کی تحریک کی طرف سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہم اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کے زندہ رہنے کے حق کو تسلیم کرتے ہیں.جب یہ اعلان کر دیا گیا تو اس کے چند دن کے بعد اسرائیل کی طرف سے اس کے جواب میں یہ اعلان ہوا.The only useful thing the Plo could do, said the spokesman of the Israel foreign ministry, was to disappear Palestine no longer existed and therefore there was no point in it having a liberation movement.انہوں نے اعلان کیا کہ فلسطین کے وجود کا معنی ہی کوئی نہیں یہ ختم ہو چکا ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور ان کی وزارت خارجہ نے یہ اعلان کیا کہ یہ جو یاسر عرفات نے ہمیں تسلیم کیا ہے اس کے جواب میں ہمارا رد عمل یہ ہے اور ہمارا فلسطینیوں کو مشورہ یہ ہے کہ وہ تحلیل ہو جائیں وہ ختم ہو جائیں، کالعدم ہو جائیں ، ان کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں.یہ وہ قوم ہے جس کے ظلم واستبداد سے آنکھیں بند کر کے کمزور مظلوم فلسیطینیوں کو مسلسل نہایت ظالمانہ پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا گیا ہے.ان کی ساری زمینیں چھین لی گئی ہیں، ان کو ملک بدر کر دیا گیا ہے،ان پر آئے دن انتہائی ظالمانہ کارروائیاں کی جاتی ہیں قتل عام کیا جاتا ہے.بستیوں کی بستیاں منہدم کر دی جاتی ہیں اور وہ در بدر پھر رہے ہیں ان کا کوئی وطن نہیں رہا.40 لاکھ فلسطینی دنیا میں در بدر پھر رہا ہے اور ان کے وطن میں یہود کا پودا لگا کر اور اس کے پاؤں جما کر ان کی تعداد میں دن بدن اضافہ کیا جاتا رہا ہے اور کیا جارہا ہے.ان ساری کوششوں کے باوجود آج بھی فلسطین میں کل 25 لاکھ یہودی ہیں اور ابھی تک 15 لاکھ فلسطینی وہاں موجود ہیں اور اس تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور آئندہ ان کے منصوبوں میں یہ بات داخل ہے کہ جب مغربی کنارے کو ہم یہودیوں سے بھر لیں گے تو پھر مزید جگہ کے مطالبے شروع کریں گے.پس پہلے یہ مکان بڑھاتے ہیں پھر آبادی بڑھاتے ہیں پھر مکان بڑھاتے ہیں پھر

Page 276

۲۷۴ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء آبادی بڑھاتے ہیں.یہ ان کا طریق ہے اور وہ فلسطینی جو اس سرز مین پر سینکڑوں سال سے قابض تھے.وہیں پیدا ہوئے ، وہیں کی مٹی میں پہلے اور بنے اور بڑے ہوئے ان فلسطینیوں کو وہاں رہنے کا کوئی حق نہیں کہتے ہیں تمہارا کوئی ملک نہیں ، تمہارا کوئی وجود نہیں ہم تمہیں تسلیم نہیں کرتے.سوال یہ ہے کہ ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے امریکہ کس برتے پر کس خیال سے ، کس حکمت عملی کے نتیجے میں یہودیوں سے اپنے معاشقے کو قائم رکھے ہوئے ہے اور جس طرح ہمارے محاورے میں سانڈ چھوڑنا کہتے ہیں اس طرح عربوں کے کھیتوں میں ایک سانڈ چھوڑا ہوا ہے.عام کھیتوں میں جو سانڈ چھوڑے جاتے ہیں وہ تو سبزیاں کھاتے ہیں ، یہ ایک ایسا سانڈ ہے جو خون پی کر پاتا ہے اور گوشت کھا کر بڑھتا ہے اور کوئی اس کو روکنے والا نہیں.ایک ریزولیوشن کی باتیں آپ نے بہت سنی ہیں کہ عراق جب تک اس ریزولیوشن پر عمل نہ کرے ہم عراق کو مارتے چلے جائیں گے اور برباد کرتے چلے جائیں گے اور اس کو کویت سے نکالنے کے باوجود بھی اس وقت تک ہم اس کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ یہ امکان نہ مٹ جائے ، یہ احتمال ہمیشہ کے لئے نہ مٹ جائے کہ بیسیوں سال تک کبھی عراق کی سرزمین سے کوئی شخص سر اٹھا سکے.اس کے مقابل پر اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں کے نتیجے میں جب بھی سیکیورٹی کونسل میں ریزولیوشنز پیش ہوئے کہ ان کا رروائیوں کو روکا جائے یا ان کا رخ موڑا جائے تو ہمیشہ امریکہ نے ان ریزولیوشنز کو ویٹو کیا.27 مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ سیکیورٹی کونسل میں اسرائیل کو ظالم قرار دیتے ہوئے اس سے مطالبہ کیا گیا کہ تم عرب علاقے خالی کرو اور ظلم سے ہاتھ کھینچو اور 27 مرتبہ United States کے نمائندے نے اس کو ویٹو کر دیا اور United States کی ویٹو اکثر صورتوں میں اکیلی تھی جب کہ دوسری ویٹو کی تاریخ کا میں نے مطالعہ کیا ہے اس میں اکثر صورتوں میں دوتین دوسرے بھی شامل ہوتے ہیں لیکن باقی سب کے مقابل پر United States اکیلا اسرائیل کا حمایتی بن کران ریزولیوشنز کے خلاف ویٹو کا حق استعمال کرتا رہا.پھر میں نے دیکھا کہ وہ ریزولیوشنز کتے ہیں جن میں کچھ نہ کچھ اسرائیل کی مذمت کی گئی ہے اور اسرائیل کو متوجہ کیا گیا کہ تم ظلم سے باز آؤ

Page 277

۲۷۵ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء تو ان کی تعداد بھی ۲۷ بنتی ہے جو پاس ہوئے اور ان میں سے اکثر میں امریکہ نے Abstain کیا ہے جن ریزولیوشنز کی زبان بہت زیادہ سخت تھی ان کو تو پاس ہی نہیں ہونے دیا جن میں مذمت ہی کی گئی تھی ، زبان بہت سخت نہیں تھی ان میں امریکہ الگ رہا اور ان کی تائید میں ووٹ نہیں ڈالا اور 242 جس کا ذکر آپ نے بہت سنا ہوا ہوگا وہ ریزولیوشن جس میں اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ 67 ء کی ہتھیائی ہوئی اپنی زمینیں واپس کرو.اس ریزولیوشن کو پاس کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایسی عبارت داخل کر دی گئی ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل کے حمایتیوں کے ہاتھ میں ایک ہتھیار آ گیا ہے کہ جس طرح چاہیں اس ریزولیوشن کا مطلب نکال لیں.صرف وہ ایک ریزولیوشن ہے جس پر امریکہ نے اثبات کیا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کیوں ہو رہا ہے عقل بھنا جاتی ہے کہ یہ قابل فہم بات دکھائی نہیں دیتی.کیوں آخر اس طرح ہوتا چلا جارہا ہے؟ کیا مقصد ہے امریکہ کا اسرائیل کی اس طرح.پر زور حمایت کرنے کا ؟ اسرائیل کے خلاف مذمت کے جوریزولیوشنز سیکیورٹی کونسل میں پاس ہوتے رہے ان کے مطالعہ سے ایک اور دلچسپ بات میرے سامنے یہ آئی کہ ان ریزولیوشنز کے رویے میں اور عراق کے خلاف ریزولیوشنز کے رویے میں زمین آسمان کا ایک فرق ہے.عراق کو سانس نہیں لینے دیا گیا.موقعہ ہی نہیں دیا گیا.ایک طرف یہ ریزولیوشن پاس ہوا کہ Sanctions ہوں.خوراک بند ہو جائے، دوائیاں تک بند ہو جائیں، کوئی چیز کوئی پتا بھی داخل نہ ہو سکے اور Sanctions ابھی کچھ عرصہ جاری ہوئی تھیں تو فیصلہ کر لیا گیا کہ اب اس پر حملہ کیا جائے.امر واقعہ یہ ہے کہ Sanctions سے بہت پہلے حملے کا منصوبہ مکمل ہو چکا تھا.Sanctions کا مطلب یہ تھا کہ حملے سے پہلے بھوک سے مارا جائے اور ضرورت کی اشیاء کی نایابی کا عذاب دے کر مارا جائے.یہاں تک کہ بعد میں بچوں کے دودھ پلانٹ پر بھی حملہ ہوا تو یہ اس کا مقصد تھا.اس رویے میں اور اس رویے میں جو اسرائیل کے عدم تعاون کے بعد سیکیورٹی کونسل نے اختیار کیا زمین آسمان کا فرق ہے.ان کے ریزولیوشنز کی زبان یہ بنتی ہے کہ دیکھو

Page 278

۲۷۶ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء اسرائیل ! ہم نے تمہیں فلاں فلاں وقت بھی کہا تھا کہ تم عرب علاقہ واپس کر دو اور تم اب تک اس میں جمے ہوئے ہو ہم اس کو نہایت ہی غصے کی نظر سے دیکھ رہے ہیں.ہم یہ بات پسند نہیں کرتے.پھر ریزولیوشن پاس ہوتا ہے کہ اے اسرائیل! ہم نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ ہم برا منائیں گے اور ہم برا منا رہے ہیں.پھر ریزولیوشن پاس ہوتا ہے کہ ہم نے پہلے بھی دو دفعہ بتایا تھا کہ ہم بہت برا منا رہے ہیں اور ہم ایسے اقدام کرنے پر مجبور ہونگے جس سے تم پر ثابت ہو جائے کہ ہم برا منا رہے ہیں اور پھر ریز ولیوشن پاس ہوتا ہے کہ جس طرح ہم نے کہا تھا ہم اب مجبور ہو گئے ہیں تمہیں یہ بتانے پر کہ ہم بہت ہی برا منا رہے ہیں.اس کے سوا کوئی ریزولیوشن پاس نہیں ہوا.یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے ہمارے ہاں U.P کے متعلق یہ لطیفہ ہے کہ وہاں لوگ ذرا لڑائی سے گھبراتے ہیں تو U.Pوالے کو جب کوئی مارے اور مارنے والا طاقتور ہو تو وہ اس کو کہتا ہے کہ اب کے مار.اب مار کے دیکھے وہ دوبارہ مارتا ہے تو کہتا ہے ”اب کے ماڑ پھر دبارہ مارتا ہے تو کہتا ہے ”اب کے مار‘ چنانچہ یہ لطیفہ تو شاید فرضی ہوگا.U.P کے بڑے بڑے بہادر لوگ ہیں، جیالے ہیں، بڑے بڑے مقابلے انہوں نے دشمنوں سے کئے ہیں مگر یہ لطیفہ United Nations کے حق میں ضرور صادق آتا ہے.ہر دفعہ اسرائیل مار پر ماردیتا چلا گیا ہے اور کھلم کھلا بغاوت کے رنگ میں کہتا رہا ہے تمہارے ریزولیوشنز کی حیثیت کیا ہے.ردی کا کاغذ ہے میں پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دوں گا.میں پاؤں تلے روند دوں گا اور ہر دفعہ United Nations کہتی ہے اب کی مار.اب اگر تم نے ایسا کیا تو ہم بہت ہی برا منائیں گے.اب سوال یہ ہے کہ کیوں یہ پاگل پن ہو رہا ہے.کوئی حد ہوتی ہے.یہ نا قابل فہم باتیں ہیں.یقین نہیں آسکتا کہ دنیا میں یہ کچھ ہوسکتا ہے لیکن ہو رہا ہے.اسرائیلی دہشت گردی کے بارہ میں مزید معلومات کے لئے درج ذیل کتب کا مطالعہ مفید ہوگا.1.The Israeli Connection by Be jamin - llallahmi.2.Israeal's Fateful Decisions By Yohosharfal Karkahi.3.BY Way of Deception By Ex.Director of Mosad.4.Making of Israel By James Cameron.5.Dispossessed By David Gilmour.

Page 279

۲۷۷ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء اس United Nations کا فائدہ کیا ہے؟ میں تو یہ سوچتا ہوں اور عرب اور مسلمان ممالک کو اگر وہ ہوشمند ہیں اور باقی دنیا کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ اس United Nations کا کیا فائدہ ہے جو عملاً صرف ان بڑی قوموں کے مفاد میں فیصلے کرتی ہے جو بڑی قو میں یونائیٹڈ نیشنز پر قابض ہو چکی ہیں اور یونائیٹڈ نیشنز کا دستور جن کو یہ طاقت دیتا ہے کہ جب چاہیں کسی کے خلاف ظلم کریں اور ساری دنیا کی قوموں کو یہ طاقت نہ ہو کہ اس ظلم کے خلاف آواز ہی بلند کرسکیں.اگر وہ آواز بلند کرنے کی کوشش کریں تو اس کو ویٹو کر دیا جائے اور اپنے کسی چیلے سے جس طرح چاہیں کسی پر ظلم کروائیں کسی دنیا کی طاقت نہ ہو کہ وہ اس کے خلاف آواز بلند کرے اور کلیۂ دنیا کی تقدیر ان کے ہاتھ میں ہو.یونائیٹڈ نیشنز کی یہ کیفیت ہے.جب عربوں کے خلاف یا مسلمانوں کے خلاف فیصلے کرنے ہوں تو انتہائی ظالمانہ فیصلے کئے جائیں اور جب ان کے حق کی بات ہو تو سوائے چند آوازیں نکالنے کے اس کی اور کوئی بھی حیثیت نہیں.بچپن میں مجھے مرغیاں پالنے کا شوق تھا میں نے دیکھا ہے کہ بعض مرغیاں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ بیٹیں پالنے والے کے صحن میں کرتی ہیں اور انڈے دوسرے کے صحن میں جا کر دیتی ہیں.پس United Nations کی مرغی تو ویسی ایک مرغی ہے.سیٹیں کرنے کے لئے عربوں اور مسلمانوں کے صحن رہ گئے ہیں اور انڈے دینے کے لئے اسرائیل اور مغرب کے صحن ہیں.پس اگر یہی یونائیٹڈ نیشنز کا تصور ہے اور یہی اس کے مقاصد ہیں تو دنیا کو سوچنا چاہئے.چنانچہ اس بارہ میں میں بعد میں انشاء اللہ جب دنیا کو عمومی مشورے دوں گا تو ان کو ایک مشورہ اس سلسلے میں بھی دوں گا.مغربی دنیا کی اسلام سے گہری دشمنی ایک ہی بات بالآخر سمجھ آتی ہے کہ مغربی دنیا در حقیقت اسلام سے گہری دشمنی رکھتی ہے اور اس دشمنی کے پس منظر میں جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا تاریخی رقابتیں بھی ہیں اور اس دشمنی کی وجہ ایک وہ خوف بھی ہے جو جاہل ملاں اسلام کے متعلق مغربی دنیا اور دوسری دنیا کے دلوں میں

Page 280

۲۷۸ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء پیدا کرتا ہے.اپنی جہالت سے اسلام کا ایک ایسا تصور پیش کرتا ہے جس سے دنیا خوف کھاتی ہے کہ یہ لوگ اگر طاقت پائیں گے تو ہم پر جبر و تشدد کریں گے.اس مسئلے کے متعلق بعد میں جب میں مسلمانوں کو مشورہ دوں گا تو پھر اس ذکر کو چھیڑوں گا.یہ میں آپ کو بتادینا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کو مسلمانوں کے پیچھے ڈال کر اگر ان کا یہ خیال ہے کہ مسلمانوں کی مدافعانہ طاقت کو توڑ دیں گے یا اس طرح اسرائیل ان مظالم کو بھول جائے گا جو مغرب نے اسرائیل پر کئے ہوئے ہیں یا ان مظالم کا بدلہ مسلمانوں سے لیتا رہے گا تو یہ ان کی سب سے بڑی حماقت ہے.اسرائیل کے انتقام کی یاد داشت بہت قوی ہے اور نہ مٹنے والی ہے اور اسرائیل کے احسان کی یادداشت اس طرح ہے جس طرح پانی پر تحریر لکھی گئی ہو.آپ کو اگر اسلامی تاریخ سے واقفیت ہو تو آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ 800 سال تک سپین پر مسلمانوں نے جو حکومت کی ہے اس تاریخ میں ایک واقعہ بھی کسی یہودی پر ظلم کا آپ کو دکھائی نہیں دے گا.مسلمانوں کی طاقت کے ادوار میں جب بھی آپ جس دور پر بھی نظر ڈالیں ، ایک دوسرے پر ظلم تو آپ کو دکھائی دے گا اور وہ بھی اس وقت جب ملاں ایک فرقے کے ماننے والوں کو دوسرے فرقوں کے ماننے والوں کے خلاف بھڑ کا تارہا لیکن یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف اسلام کی تاریخ میں آپ کو کوئی مظالم دکھائی نہیں دیں گے.تین ایسے قبائل ہیں جن کا تاریخ اسلام کے آغاز سے تعلق الله ہے.جنہوں نے بار بار معاہدہ شکنی کی اور آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں سے دھو کے کئے.ان کے خلاف جنگ کے دوران حملہ آوروں سے ملتے رہے ، ان تین قبائل کے خلاف بالآخر مسلمانوں کو کارروائی کرنی پڑی.وہ قبائل ہیں بنو قینقاع، بنونضیر ، بنو قریظہ.جب 1947ء میں یونائیٹڈ نیشنز میں اسرائیل کے قیام پر بحث ہورہی تھی تو وہاں اسرائیلیوں نے مسلمانوں کو طعن دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا حق ہے اور تمہیں تو ہمیں اپنے گھروں سے نکالنے کی عادت ہے.ہم آج تک نہیں بھولے جو تم نے بنوقریظہ اور بنونضیر اور بنو قینقاع سے کیا تھا ، تو یہ عجیب یادداشت ہے کہ فرضی مظالم کی یادیں تو 1400 سال سے زندہ رکھے ہوئے ہیں اور حقیقی

Page 281

۲۷۹ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء احسانات کی یادوں کو بھولتے چلے جارہے ہیں.یہ عجیب قوم ہے کہ یہ بات بھول گئے ہیں کہ جب از ابیلا اور فرڈینینڈ نے 1490ء میں یہودیوں کے پین سے انخلاء کا حکم دیا تو اس سے پہلے تقریباً 200 سال مسلسل سپین میں یہودیوں پر ظلم ہوتے رہے لیکن وہ ایسے ظلم تھے کہ ان کے نتیجے میں یہود نے پھر بھی وہاں سے نکلنے کا فیصلہ نہیں کیا.بالآخر جبراً ان کو عیسائی بنایا گیا اور جب بڑی تعداد میں یہودی عیسائی بن گئے تو پھر یہ تحریک شروع کی کہ یہ جھوٹے عیسائی ہیں دھوکہ دینے کے لئے عیسائی بنے ہیں.ابھی بھی بہت امیر ہو گئے ہیں اس لئے ان کی دولت چھینے کے لئے کوئی بہانہ تلاش کرو.چنانچہ اذا بیلا کو اور فرڈینینڈ کو اس وقت کے عیسائی پادریوں نے بار بار یہ تحریص کی اور لالچ دلائی کہ اس قوم کا ایک ہی علاج ہے کہ ان کی عیسائیت پر اعتماد نہ کیا جائے اور ہمیں Inquisition کی اجازت دی جاۓInquisition سے مراد ہے : وہ ٹارچر کرنے کے ذرائع جو عیسائی دنیا اپنے مخالفوں کے خلاف استعمال کرتی تھی اور ان ذرائع سے نہایت ہی درد ناک مظالم غیر عیسائیوں پر کئے جاتے تھے اور ان عیسائیوں پر کئے جاتے تھے جن کے دین پر شک ہو.چنانچہ ایک لمبے عرصے تک یہ بحث جاری رہی.ازابیلا چونکہ یورپ سے ناراض تھی Sixtus IV تھا غالبا اس وقت ، اس سے کسی وجہ سے ناراض تھی.وہ اس کی مرضی کے کارڈینل مقرر نہیں کرتا تھا.اس لئے اس نے اجازت نہیں دی کی پوپ کی مقرر کردہ کوئی کمیٹی Inquisition کے کام سپین میں کرے.بالآخر فرڈینینڈ کو عیسائی پادریوں نے یہ لالچ دی کہ اگر تم اس کی اجازت دے دو تو یہود کے جتنے اموال چھینے جائیں گے یہ ہم تمہارے قبضے میں دیں گے.ہمیں صرف ظلموں کی اجازت دو، اموال تمہارے.چنانچہ 1480ء سے Inquisition شروع ہوئی.Inquisition کی تاریخ حقیقتا اتنی دردناک ہے کہ شاید ہی کبھی انسانی تاریخ میں ایسے درد ناک مظالم کی مثال آپ کو نظر آتی ہو جیسے اس زمانے میں یہودیوں پر عیسائیوں کی طرف سے کئے گئے.اس کے باوجود دل نہیں بھرا تو 1492ء میں ان کے انخلاء کا حکم جاری کر دیا گیا.آپ کو یاد ہوگا کہ Black Death جو 1347 ء سے 1352 ء تک یورپ میں ہلاکت

Page 282

۲۸۰ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء خیزی کرتی رہی.Black Death یعنی طاعون کا وہ حملہ یورپ میں 1347 ء سے 1352 ء تک بکثرت انسانی جانوں کی ہلاکت کا موجب بنا.Black Death کے زمانے میں یورپ میں پہلے ہی یہود پر مظالم کئے جارہے تھے اور فرانس میں سب سے زیادہ مظالم کئے گئے.چنانچہ وہاں کے مظالم کا تصور کریں کہ وہاں سے بھاگ کر انہوں نے پہلے فرانس میں اور پھر یورپ کے دیگر ممالک میں پناہ لینے کی کوشش کی لیکن وہاں بھی ان کو پناہ نہیں ملی اور ان پر مظالم جاری رہے.پناہ اگر ملی تو فلسطین کی اسلامی حکومت نے دی ہے.یہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور دوبارہ بھی Natsi مظالم کے زمانے میں پھر یہ فلسطین پناہ لینے گئے ہیں.پس ساری اسلامی تاریخ میں ان کے ساتھ احسان پر احسان کا سلوک کیا جاتا رہا.ان کے علم و فضل نے مسلمانوں کی گودوں میں پرورش پائی ہے اور ظلم ہوئے ہیں یور پینز کی طرف سے اور مغربی عیسائی قوموں کی طرف سے اور ان کا بدلہ یہ مسلمانوں سے لے رہے ہیں.یہ تصور ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ذہن میں ہے کہ اس سے بہتر اور کیا سودا ہوگا.یہودیوں کو مسلمانوں کے گلے ڈال دو اور ہمارے ظلموں کا انتقام مسلمانوں سے لیں.ایک ہی تیر سے دونوں مارے جائیں اس سے زیادہ اور کیا حکمت عملی کی پالیسی ہوسکتی ہے.لیکن وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ یہودی ظلم بھولنے والی قوم نہیں ہے.ان کی سرشت کے خلاف ہے یہ ناممکن ہے کہ مغرب سے یہ اپنے مظالم کا بدلہ نہ لیں.وقت کی بات ہے آج یہ مسلمانوں کا خون چوس کر طاقت حاصل کریں گے اور یہ طاقت ابھی اتنی بڑھ چکی ہے اور ایسی خوفناک ہو چکی ہے کہ ان کے جرنیل کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ ہم تو سوویٹ یونین سے ٹکر لیکر اس کو بھی شکست دینے کی طاقت رکھتے ہیں جو ٹیکنیکل Know How جنگی ہتھیار بنانے کا ہے اس میں بہت سی شاخوں میں یہ امریکہ سے بہت آگے نکل چکے ہیں.ایٹم بم بناچکے ہیں دوسرے مہلک ہتھیار بناچکے ہیں یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے.کیوں یہ طاقت بڑھتی چلی جارہی ہے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بڑی ہی جہالت ہوگی اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان کے حملوں سے ڈر کر یہ ویسا کر رہے ہیں بہت بڑی بے وقوفی ہے مسلمان حملوں سے ڈرنا کیا، جب بھی مسلمان بے چاروں نے ٹکر لی ہے ان کی طاقت کو تہس نہس کر دیا ہے

Page 283

۲۸۱ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء اور ہرحملہ آور کو ایسی ظالمانہ شکست دی ہے کہ اس سے سارے عالم اسلام کی گردن شرم سے جھک جاتی رہی ہے.ان کو مسلمانوں سے کیا خوف ہے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ دنیا کی فتح کے منصوبے ہیں پہلے تیل کی طاقت پر قبضہ کیا جائے گا.ہر قدم کے بعد جب اس قدم کی یادداشت پھیکی پڑ جائے گی پھرا گلا قدم اٹھے گا.پھر اس کے بعد اگلا قدم اٹھے گا.پھر اگلا قدم اٹھے گا.اس لئے جب میں کہتا ہوں کہ ملتے اور مدینے کو خطرہ ہے اور تو حید کو خطرہ ہے تو اس میں کوئی شک کی بات نہیں ہے انہوں نے بالآخر لازماً تیل کے چشموں پر قابض ہونا ہے یعنی نیت ان کی یہ ہے.آگے خدا کی تقدیر اور رنگ دکھائے اور ہماری دعائیں بارگاہ الہی میں قبول ہوں تو اور بات ہے ورنہ بظاہر جو منصوبہ ہے وہ یہی ہے.اس کے بعد یہ مغرب سے اپنے بدلے لیں گے اور ایسے ہولناک بدلے لیں گے کہ مغرب ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا.یہ جنگ کا بگل بجانے والی قوم ہے اور جنگ کا بگل David Ben-Gurion بجاچکے ہیں.تقریباً 4000 سال پہلے کی آواز ان کے کانوں میں گونج رہی ہے کہ جنگ اور جنگ اور جنگ اور اس کے سوا تمہارے قیام کا اور کوئی مقصد نہیں ہے.پس اگر امریکہ اور اس کے اتحادی اس خوش فہمی میں ہیں کہ وہ یہودیوں کو بھی پاگل بنارہے ہیں اور مسلمانوں کو بھی پاگل بنارہے ہیں اور ایک کو دوسرے کے خلاف لڑا ر ہے ہیں تو یہ ان کی غلط فہمی ہے.دینام میں شکست کے نفسیاتی عوامل امریکہ کے متعلق میں نے ایک یہ بھی بیان کیا تھا کہ بہت سے نفسیاتی عوامل ہیں جو امریکہ کو اپنی بعض پرانی ناکامیوں کے داغ مٹانے کے لئے عراق کو ذلیل ورسوا کرنے پر مجبور کر رہے ہیں.اس سلسلے میں میں نے ویٹنام کا ذکر کیا تھا اور ویٹنام کے متعلق اب میں خلاصہ آپ کو بتا تا ہوں کہ وہاں امریکہ کی خودی کو کس طرح تو ڑا گیا ہے اور کس طرح دنیا کی سب سے عظیم طاقت کے تکبر کو پارہ پارہ کیا گیا ہے.وینام کی جنگ کا آغاز 4 اگست 1964ء کو ہوا ہے اور عجیب اتفاق ہے یہ تو ارد ہے یا

Page 284

۲۸۲ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء تقدیر کی کوئی بات ہے کہ وہ آغاز بھی ایک Storm سے ہوا تھا اس Storm کا نام امریکن مؤرخین Tropic Storm کہتے ہیں.واقعہ یہ ہوا کہ دو امریکن جہاز جب شمالی ویٹنام اور جنوبی ویتنام کی جنگ جاری تھی اور اشتراکی ویٹنا میز ، جنوبی غیر اشترا کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہے تھے تو امریکہ کو بہانے کی تلاش تھی کہ کسی طرح اس ملک میں دخل دے کر جنوبی ویٹنام کی حمایت میں شمالی ویٹنام کو شکست دی جائے.چنانچہ ان کا ایک جہاز جس کا نام Maddox تھاMaddox جہاز شمالی ویٹنام کے سمندر کے اس حصے میں داخل ہو گیا جو در حقیقت ان کی اپنی حدود کا علاقہ تھا، جس پر ان کی بالا دستی ہوتی ہے.اس پر انہوں نے کچھ Petrol Boats بھیجیں تاکہ وہ اس جہاز پر حملہ کریں اور انہوں نے حملے کی کوشش بھی کی مگر جہاز ان کو Destroy کر کے ان کے حملے سے نکل کر باہر چلا گیا اور باہر ان کا ایک ساتھی Destroyer جن کا نام Turner Joy تھا، اس کو لے کر دوسرے یا تیسرے دن واپس آگیا ان کا خیال تھا کہ اب جب ہم دوبارہ حملہ کریں گے تو ہمیں بہانہ ہاتھ آ جائے گا لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ Tropic Storm آ گیا اور Tropic Storm بھی جس طرح Desert Storm ہوتے ہیں بہت ہی خطرناک چیز ہے اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ ان کی ساری Electronical Equipments Hay'Wiree ہوگئیں ، پاگل ہو گئیں ان کو پتہ ہی نہیں لگتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے.چنانچہ وہ کہتے یہ ہیں کہ انہوں نے واقعہ یہ سمجھا کہ ان پر حملہ ہو گیا ہے.اب جاہلوں والی بات ہے.طوفان آرہا ہے.دکھائی دے رہا ہے اور اس سے یہ کس طرح سمجھ لیا کہ حملہ ہو گیا ہے یعنی ویٹنام نے وہ طوفان چلایا تھا.بہر حال بہانے جب تلاش کرنے ہوں تو اس طرح کے بے وقوفوں والے بہانے تلاش کئے جاتے ہیں کہ انہوں نے کہا حملہ ہو گیا ہے اور انہوں نے دھڑادھڑ ویٹنام کے علاقے پر بمباری شروع کر دی اور پھر اس بات پر قائم رہ گئے کہ چونکہ انہوں نے حملہ کیا تھا، اس کی جوابی کارروائی کی ہے.اس پر بڑی شدت کے ساتھ ویٹنام پر حملہ کیا گیا.ہوائی حملہ بھی کیا گیا اور ایک سال کے اندر اندر یعنی وہ 1964ء کا جو سال ہے وہ ختم ہونے سے پہلے پہلے دولاکھ امریکی سپاہی ویٹنام کی سرزمین میں پہنچادیئے گئے تھے اور 1967ء میں یہ تعداد بڑھ کر

Page 285

۲۸۳ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء 5لاکھ 40 ہزار بن چکی تھی.بمباری کا عالم یہ تھا کہ ساڑھے آٹھ سال تک مسلسل دن رات ویٹنام پر بمباری کی گئی ہے اور ویٹنام پر کل بمباری 25 لاکھ ٹن کی گئی ہے یعنی جنگ عظیم کے 6 سال میں تمام دنیا میں ، یورپ اور ایشیا اور افریقہ وغیرہ دوسری دنیا میں جتنی بمباری ہوئی ہے تقریباً اتنی ہی بمباری صرف ایک ویٹنام پر اس ساڑھے آٹھ سال میں کی گئی جو فلوریڈا ریاست کے بمشکل برابر ہے اور اپنی دنیا وی طاقت کے لحاظ سے فلوریڈا سے بہت پیچھے ہے.نہ صنعت کی کوئی حالت، نہ کوئی دوسری تجارتی طاقت اس کو حاصل ہے.ایک غریب ملک ہے لیکن عظمت کردار دیکھیں کہ ساڑھے آٹھ سال تک سر بلند کر کے امریکہ سے ٹکر لی ہے اس عرصے میں جنوبی ویٹنام میں ان کے مرنے والے سپاہی اور شمالی ویٹنام میں مرنے والے سپاہی اور Civilians کی کل تعداد 25 لاکھ تھی.گویا سارے اسرائیل کا یہودی اگر ہلاک ہو جائے تو اتنی تعداد بنتی ہے اور انہوں نے سرنہیں جھکایا.امریکن تکبر کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور اس ذلت اور رسوائی کے ساتھ امریکہ کو پھر شکست تسلیم کرنی پڑی اور شکست تسلیم کرنے کا طریق بھی ایسا دلچسپ ہے کہ فرانس میں جب Peace کا نفرنس ہو رہی تھی تو شمالی ویٹنام نے عارضی طور پر بھی جنگ بندی سے انکار کر دیا.انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہاں ہم صلح کی باتیں بھی کریں گے اور لڑائی بھی جاری رکھیں گے چنانچہ یہ جو سبق آج عراق کو دے رہے ہیں یہ انہوں نے ویٹنام سے سیکھا تھا کہ صلح کی باتیں بھی کریں گے اور لڑائی بھی جاری رکھیں گے.جنگوں کی تاریخ میں انتہائی خطر ناک مثال کا اضافہ پس وہاں جو دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا تکبر ٹوٹا ہے وہ اتنی ہولناک نفسیاتی شکست ہے کہ کسی طرح وہ اس کا بدلہ چاہتے ہیں اور اپنی قوم کی خود اعتمادی کو بحال کرنا چاہتے ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ٹوٹی ہوئی کمریں جڑا نہیں کرتیں اور باوجود اس کے کہ عراق پر بمباری کی رفتار کے لحاظ سے ویٹنام کے مقابل پر 4 گنا زیادہ شدت کی جارہی ہے.ابھی تک یہ دودنوں کی جنگ کہہ رہے تھے ،

Page 286

۲۸۴ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء چھٹا ہفتہ ہو گیا ہے اور ابھی تک عراق کی کمر نہیں توڑ سکے.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ دنیا بدل چکی ہے.یہ زمانے وہ نہیں رہے.اب انسان کی خودی کا تصور بلند ہو رہا ہے.اس کو ہوش آ رہی ہے.آزادی کی لہریں چل رہی ہیں خدا کی تقدیر دنیا کے رجحانات تبدیل کر رہی ہے.اب جھوٹے خداؤں کے دن نہیں رہے ان کی صفیں لپیٹنے کے دن آچکے ہیں اور ان کو یہ دکھائی نہیں دے رہا.ظلم پر ظلم کرتے چلے جارہے ہیں اور یہ نہیں سوچ رہے کہ ان کی کیا تصویر دنیا میں بن رہی ہے اور آئندہ تاریخ میں کیا بنے گی.آج یہ صدام حسین کو ہٹلر اور ظالم اور سفاک کے طور پر پیش کر رہے ہیں.اگر ساری باتیں بھی تسلیم کرلی جائیں تو ویٹنام میں انہوں نے جو مظالم کئے ہیں وہ سارے مظالم صدام حسین کے مظالم کے مقابل پر اس طرح ہیں جس طرح رائی کے مقابل پر ایک پہاڑ ہو.صدام حسین کے جتنے فرضی مظالم جو بیان کئے جاتے ہیں اگر فرض کریں سارے بیچ ہوں تو ان مظالم کے مقابل پر اُن کو کوئی بھی حیثیت نہیں جو امریکہ نے ساڑھے آٹھ سال تک ویٹنام پر کئے ہیں اور کوئی حق نہیں تھا.تمہارا کام کیا ہے کسی اور ملک پر جا کر بمباریاں شروع کر دینا اور اس ملک کے ایک حصے کی لڑائی میں اس کا شریک بن کر دوسرے ملک کے انسانوں پر بر بریت کی انتہا کر دینا.وہ تفصیل اگر آپ پڑھیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں.آپ کا سارا وجود کانپنے لگے.اتنے خوفناک مظالم ہیں لیکن اس سے بڑا ظلم یہ کہ آج تک یہ وینا میز کی کردارکشی کرتے چلے جارہے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے جن شہروں پر دوبارہ قبضہ کیا تو وہاں ہماری تائید کرنے والوں کو انہوں نے اسی طرح ہلاک کیا، اس طرح ظلم کئے.وہاں سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کی اکٹھی قبریں ہیں.جنگ میں جو غداری کرتا ہے اور اتنی ظالمانہ جنگ اور یک طرفہ جنگ میں ، اس کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہئے دنیا کا کونسا قانون ہے جو غدار کی جان کی ضمانت دیتا ہے اور یہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے ان کی حمایت کی تھی.پس ان مظالم کے نقشے کھینچتے ہیں اور وہ جو دوسرے مظالم ساڑھے آٹھ سال تک یک طرفہ کرتے چلے گئے ان کا کوئی ذکر نہیں کرتے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو امریکہ کو خوفناک نفسیاتی بیماری لگ چکی ہے یہ آج دنیا کے امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس

Page 287

۲۸۵ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء پر ایک اور بات کا خوفناک اضافہ ہوا ہے.ایک ایسی جنگ کی مثال قائم کی گئی ہے جس کی کوئی نظیر ساری دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی.یعنی کرائے کی جنگوں کی باتیں تو آپ نے سنی ہوں گی مگر اتنی وسیع پیمانے پر ، اتنی خوفناک کرائے کی جنگ کبھی دنیا کی تاریخ میں نہیں لڑی گئی.ویٹنام کی جنگ میں امریکہ کے کردار کا کم سے کم ایک اچھا پہلو یہ تھا کہ لوگوں کے سامنے کشکول لے کر نہیں گیا تھا کہ ہمیں اس جنگ کے پیسے دو ایک سو بیس بلین ساڑھے آٹھ سال تک ظلم برسانے کا خرچ امریکہ نے خود برداشت کیا ہے.120 بلین بہت بڑی رقم ہے لیکن موجودہ جنگ ساری کی ساری مانگے کے پیسوں سے لڑی جارہی ہے.اب ایسی جنگ کی مثال اگر اس دنیا میں قائم کر دی جائے کہ تم کسی سے پیسے لے کر لڑو.دنیا کے امن کی پھر کیا ضمانت باقی رہے گی.جس کا مطلب یہ ہے کہ غریب قوموں کا امن امیر قوموں کے ہاتھ میں تھما دیا جائے گا اور جب چاہیں جہاں چاہیں دنیا کی امیر قومیں کرائے کے ٹولے کر، کرائے کے سپاہی لے کر غریب قوموں پر مظالم ڈھاتی رہیں.یہ پیغام ہے جو دنیا کو دیا جا رہا ہے اور مزید ایک اور ایسی حرص اس جنگ کے ساتھ شامل ہے کہ اس کے نتیجے جب رفتہ رفتہ ظاہر ہوں گے تو آپ حیران ہوں گے کہ کس طرح یورپ کی دوسری قوموں میں بھی اس سے تحریک پیدا ہوگی کہ اگر جنگ کا یہی مطلب ہے تو کیوں نہ ہم بھی ہاتھ رنگ لیں.عراق اور کویت پر اس جنگ میں جو تمام تباہی وارد کی گئی ہے اس کے پیسے انہوں نے وصول کئے ہیں اور اس تباہی کے نتیجے میں نقصان پورا کرنے کے اس سے کئی گنا زیادہ پیسے ان سے وصول کریں گے.پس ہلاک کرنے کے بھی پیسے اور دوبارہ زندہ کرنے کے بھی پیسے اور دوبارہ زندہ کرنے کے پیسے ہلاک کرنے کے پیسوں سے بہت زیادہ کرائے کے قاتل کو کم دیا جاتا ہے لیکن سرجن کو زیادہ دیا جاتا ہے تو یہ دونوں کردار انہوں نے اپنی ذات میں اکٹھے کرلئے ہیں یہ ہے دنیا کا سب سے بڑا خطرہ آج کے بعد ایک نیا انداز فکر پیدا ہوا ہے اور بڑھتا چلا جائے گا اگر اس کی روک تھام نہ کی گئی.کسی غریب قوم کو مروانے کے لئے کسی امیر قوم نے پیسے دیئے تو مروایا جائے گا اور پھر بعد میں اس قوم کی تعمیر نو کے لئے بھی اسی کو جرمانے ڈالے جائیں گے اور دونوں کے فائدے ان کو پہنچیں گے.

Page 288

ارض بغداد اور کھوپڑیوں کے مینار ۲۸۶ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء آخر پر میں آپ کو عراق کی سرزمین سے متعلق یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ بڑی مظلوم سرزمین ہے اور بڑے بڑے سفا کا نہ خوفناک ڈرامے اس سرزمین پر کھیلے گئے ہیں.میں نے سوچا کہ اس سرزمین کو کیا نام دیا جائے تو مجھے خیال آیا کہ اسے موت اور کھوپڑیوں کے میناروں کی سرزمین کہا جاسکتا ہے.تاریخ میں سب سے پہلے اسیر یوں Assyrians نے عراقی علاقے پر قابض ہو کر اتنے مظالم اس علاقے میں بسنے والی قوموں پر کئے تھے کہ 200 سال تک ان مظالم سے یہ سارا علاقہ کانپتا رہا اور سسکتا رہا.879 ( قبل مسیح) میں، اسیرین کے دور استبداد کے آغاز میں وہاں کے فاتح بادشاہ نے اپنے محل کے سامنے ایک مینار تعمیر کیا، اس مینار پر یہ عبارت کندہ تھی کہ میں کھا لیں کھنچوانے والا بادشاہ ہوں جس شخص نے مجھ سے ٹکر لی ہے میں نے اس کی کھال کھنچوا دی اور یہ مینار جوتم دیکھ رہے ہو اس پر ساری انسانی کھا لیں منڈھی ہوئی ہیں اور اس مینار کی چوٹی پر تم جو پنجر دیکھ رہے ہو نیزے پر گڑھا ہوا وہ بھی انسانی پنجر ہے اور اس مینار کے اندر بھی انسان زندہ چنے گئے تھے پس میں وہ بادشاہ ہوں جو کھالیں کھنچوانے والا اور ہلاکت کا بادشاہ ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ دعوی تھا کہ میں یہ سب کچھ نیکی کی خاطر کر رہا ہوں اور دراصل اسیر نیز Assyrians کی جنگ نیکی اور بدی کی جنگ ہے ہم نیکیوں کے نمائندہ ہیں اور باقی سب دنیا بدیوں کی نمائندہ ہے.میں نہیں جانتا صدر بش نے اس تاریخ کا مطالعہ کیا ہے یا نہیں لیکن عراق میں وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ویساہی ایک تمثیلی مینار بنانے کی باتیں سوچ رہے ہیں جس پر یہی عبارت کندہ ہوگی کہ ہم سرتوڑنے والے ، خودیوں کو برباد کر دینے والے عزت نفس کو مٹاڈالنے والے اور پاؤں تلے روندنے والے بادشاہ ہیں جس شخص نے ہمارے خلاف کوئی آواز بلند کی اور سر اٹھانے کی جرات کی ہم اس کی کمر توڑیں گے اور ان کی کھوپڑیوں سے ویسا ہی مینار بلند کریں گے جیسے عراق کی تاریخ میں اس سے پہلے بلند ہوتے رہے ہیں.

Page 289

۲۸۷ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء اس کے بعد دوسرا مینار جو عراق میں بنایا گیا وہ 1258ء میں ہلاکو خان نے کھوپڑیوں سے بنایا اور پھر تیسرا مینار 1401ء میں تیمور لنگ نے بغداد میں کھڑا کیا اور وہ بھی واقعہ انسانی کھوپڑیوں سے بنایا گیا تھا.جدید انسانی تاریخ کا انتہائی نازک وقت پس یہ کیسی مظلوم سرزمین ہے جہاں ایک دفعہ نہیں ، دودفعہ نہیں ، اس سے بھی پہلے تین دفعہ انسانی لاشوں اور جلدوں اور کھوپڑیوں سے مینار تعمیر کئے گئے ہیں تا کہ کسی جابر کے سامنے دنیا کو سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کر دیا جائے.پس آج جو کچھ عراق میں ہو رہا ہے یہ انہیں باتوں کا اعادہ ہے میں نہیں جانتا کہ آئندہ کیا ہوگا.میں نہیں جانتا کہ خدا کی تقدیر کب ان کے تکبر کا سر توڑنے کا فیصلہ کرے گی لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ لازماً خدا کی تقدیر اس تکبر کا سر توڑے گی لیکن یہ بات میں امریکہ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ کمر جو تمہاری ویتنام میں تو ڑ دی گئی تھی ، عراق کے مظالم کے نتیجے میں یہ کمر اب جڑ نہیں سکتی.بظاہر تم نے وہاں بھی کھوپڑیوں کا ایک مینار بلند کرنے کی کوشش کی تھی مگر 25 لاکھ ٹن بارود سے جتنی زمین کھودی جاسکتی ہے.جتنے گہرے کنویں کھودے جا سکتے ہیں اتنے گہرے قعر مذلت میں ہمیشہ کے لئے تمہارا نام دفن ہو چکا.آئندہ تاریخ میں یہ باتیں زیادہ اجاگر ہوتی چلی جائیں گی.یہ مظالم کے داغ جو تمہارے چہرے پر لگے ہیں آج تمہارے رعب کی وجہ سے اور تمہارے ظلم وستم کے دبدبے کے نتیجے میں یہ نمایاں کر کے دنیا کو دکھانے کے لئے کسی کے پاس طاقت ہو یا نہ ہو مگر تاریخ بالآخر وقت کے ساتھ ساتھ ان کو زیادہ نمایاں کرتی چلی جائیگی.یہ سیاہیاں زیادہ گہری ہوتی چلی جائیں گی.پس دوسری نظر سے بھی تو اپنے آپ کو دیکھو باہر تمہاری کیا تصویر بن رہی ہیں اور آئندہ تمہاری کیا تصویریں بننے والی ہیں اور جن مقاصد کو لیکر تم اُٹھے ہو اُن کے بالکل برعکس کارروائیاں کررہے ہو.امن کی بجائے ہمیشہ کے لئے دنیا کو جنگ میں جھونکنے کے فیصلے کر چکے ہو.لیکن اگر امریکہ ان باتوں کو سمجھنے پر آمادہ نہیں جیسا کہ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے.اس وقت

Page 290

۲۸۸ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء اپنے تکبر کے نشے میں اتنی بلند پروازی ہے کہ اپنے ہی بنائے ہوئے فرضی ظلموں کے مینار کی چوٹیوں پر بیٹھے ہوئے دنیا کا ملاحظہ کر رہے ہیں تو پھر آئندہ کیا ہوگا اور خدا کی تقدیر ان کو کیا دکھائے گی.اُس کے متعلق میں انشاء اللہ آئندہ خطبے میں کچھ بیان کروں گا اور یہود کو بھی مشورہ دوں گا اور مسلمانوں کو بھی اور باقی دنیا کو بھی.آج کا وقت جدید انسانی تاریخ میں انتہائی نازک وقت ہے.ابھی وقت ہے کہ ہم اس ظلم اور استبداد کے دھارے کا رخ موڑ سکتے ہیں.ابھی معاملہ اتنا زیادہ ہاتھ سے نہیں نکلا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ان مشوروں کو قبول کر لیا گیا جو میں قرآنی تعلیم کے نتیجے میں، اُس کی مطابقت میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں تو انشاء اللہ اس ظلم کے دھارے کا رخ ہم واپس موڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ ہماری حیثیت صرف عاجز دعا گو بندوں کی حیثیت ہے اور ہماری دعائیں لازماً وہ کام کر سکتی ہیں جو ہماری ظاہری کوششیں بظاہر نہیں کرسکتیں.بظاہر کیا؟ فی الحقیقت بھی نہیں کر سکتیں.ہماری کوششوں کی کوئی حیثیت نہیں اتنی بھی نہیں ہے کہ ہم جو امریکہ کو ایسے الفاظ میں مخاطب کر رہے ہیں ، اس سے ان کے وجود کا ایک بال بھی کانپے یا ہلے یا اس میں جنبش محسوس ہو ، اس کے باوجود میں جانتا ہوں اور آپ جانتے ہیں کہ یہ مقدر ہے کہ دنیا کے آخر پر اگر دنیا کی تاریخ کا رخ موڑنا ہے تو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی دعاؤں نے موڑنا ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کے عشاق کی دعاؤں نے موڑنا ہے اور خدا کے عاجز بندوں کی پچھلی ہوئی دعاؤں نے موڑنا ہے.خطبہ الہامیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ لکھتے ہیں کہ یہ مقدر تھا اور ہے اور ایسا ضرور ہوگا.آپ فرماتے ہیں جب مسیح کی روح آستانہ الوہیت میں پچھلے گی اور راتوں کو اس کے سینے سے درد ناک آواز میں اٹھیں گی تو خدا کی قسم دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اس طرح پگھلنے لگیں گی جیسے برف دھوپ میں پچھلتی ہے اور اس طرح ان طاقتوں کے ہلاک ہونے کے دن آئیں گے اور ان کے تکبر کے ٹوٹنے کے دن آئیں گے.(خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۶ صفحه : ۳۱۷، ۳۱۸) مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو آج نہیں لیکن مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روح جماعت احمدیہ میں زندہ ہے.پس اے مسیح موعود کی روح کو اپنے سینوں میں لئے ہوئے احمد یو!

Page 291

۲۸۹ ۲۲ فروری ۱۹۹۱ء خدا کے حضور راتوں کو اٹھو اور اس طرح پگھلو اور دردناک کراہ کے ساتھ اور دردناک چیخوں اور سکیوں کے ساتھ خدا کے حضور گریہ وزاری کرو اور یقین رکھو کہ جب تمہاری روحیں خدا کے آستانے پر پگھلیں گی تو دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کے پگھلنے کے دن آجائیں گے اور یہ وہ تقدیر ہے جسے کوئی دنیا کی طاقت تبدیل نہیں کر سکتی.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا :.حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر صلاح الدین صاحب کچھ عرصہ پہلے امریکہ میں عارضہ قلب سے وفات پاگئے.بہت ہی مخلص اور فدائی انسان تھے.ان کا سارا خاندان ہی دین کی خدمت میں قربانی کرنے والا ہے مگر شمس صاحب نے جو روایتیں قائم کی ہیں وہ تو انمٹ ہیں.یہ بچہ صلاح الدین جب پیدا ہوا تھا تو اس کے تھوڑے عرصے بعد یا اس سے پہلے ہی مولوی جلال الدین صاحب شمس غیر ملکوں میں فریضہ تبلیغ کے لئے روانہ ہو چکے تھے.انگلستان میں بہت عرصہ رہے جب واپس گئے تو اس بچے کی عمر 11 ،12 سال کی تھی اور سٹیشن سے جب مولوی صاحب کو گھر لایا جارہا تھا اور ٹانگے میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو مولوی صاحب نے کہا کہ صلاح الدین کہاں ہے.میرا دل چاہتا ہے میں اپنے بچے کو دیکھوں ، اس پر کسی نے کہا کہ مولوی صاحب صلاح الدین آپ کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے، اس کو دیکھیں.یہ قربانی کرنے والے احمدی ہیں جن کی اولاد میں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے آگے پھر دین میں جت رہی ہیں.پھر آگے انشاء اللہ ان کی اولادیں جتی رہیں گی.تو مولوی منیر الدین صاحب شمس نے مجھے توجہ دلائی کہ اگر کسی کا حق ہے جنازہ غائب کا تو پھر میرے بھائی کا تو بدرجہ اولی حق ہے میں نے اسے تسلیم کیا.عام طور پر تو جب کوئی حاضر جنازے آتے ہیں تو ہم دوسرے جنازے ساتھ ملالیا کرتے ہیں مگر جس رنگ میں مجھے تحریک ہوئی ہے.میں نے اس کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا ہے کہ آج جمعہ کے بعد اور عصر کے بعد مولوی جلال الدین صاحب شمس مرحوم مغفور کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر صلاح الدین کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی جائے گی.

Page 292

Page 293

۲۹۱ بسم اللہ الرحمن الرحیم یکم مارچ ۱۹۹۱ء عالم اسلام اور تیسری دنیا کے لئے نصائح خطبه جمعه فرموده یکم مارچ ۱۹۹۱ء به مقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.خلیجی جنگ کی صورت حال اور پس منظر جب خلیجی جنگوں کا آغاز ہوا تو مغربی پروپیگنڈے کے اثر کے نیچے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ Natsi جرمنی کا زمانہ لوٹ آیا ہے اور پھر ہٹلر اور گوبلز پیدا ہو چکے ہیں اور ان کو مٹانے کے لئے چرچل اور روز ویلٹ اور سٹالن نے بھی نئے جنم لے لئے ہیں.یہ تصویر اتنی بھیا نک تھی کہ ساری دنیا اس کو دیکھ کر لرزہ براندام تھی.اب جبکہ جنگ ختم ہو چکی ہے تو منظر تو وہی ہے لیکن اس کی ایک اور تصویر ابھری ہے.حالات تو وہی ہیں حقیقت میں تو تبدیلی نہیں آئی لیکن حقیقت اور طرح سے دکھائی دینے لگی ہے.مجھے تو اس جنگ کے اختتام پر وہ مشہور سپینش طنزیہ ، مزاحیہ کردار یاد آ گیا ہے جسے Don Duixot کہتے ہیں.کہا جاتا ہے کہ وہ مسخره ، Knight فرضی جن بھوت اور د یو بنالیتا تھا اور بڑے بڑے Knights اپنے تصور میں ہی پیدا کر لیا کرتا تھا اور پھر بہت ڈپٹ کر ان پر حملہ آور ہوتا تھا.اسی قسم کی ایک کہانی اس کی ونڈمل (Windmill) سے لڑائی کی بیان کی گئی ہے.اگر اس کہانی کو موجودہ حالات پر چسپاں کرنے کے لئے کچھ تبدیلی کی جائے تو یوں بنے گی کہ Don Duixot اپنے جرنل سانچو پنز و کے ساتھ اپنے ٹو اور گدھے پر سوار کہیں جارہے تھے تو رستے میں ایک ونڈ مل نظر آئی ہون چکی

Page 294

۲۹۲ یکم مارچ ۱۹۹۱ء اس پر Don Duixot نے اپنی ساتھی کو بتایا کہ یہ دنیا کا سب سے زیادہ طاقتور اور خوفناک دیو ہے اور آؤ ہم دونوں مل کر اس پر حملہ کرتے ہیں.چنانچہ انہوں نے ڈپٹ کر اور للکار کر اس پر حملہ کیا اور تبدیل شدہ کہانی پھر یوں بنے گی کہ ونڈمل کو بری طرح شکست دی ،اس کے پر خچے اڑا دئیے اس کو پارہ پارہ کر کے پھر انہوں نے فخر سے یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ آج دنیا کے سب سے بڑے نائٹ نے دنیا کے سب سے بڑے دیو کو شکست فاش دے دی ہے.پس دیکھیں حقیقت وہی رہتی ہے.وقت بدلنے سے منظر کیسے تبدیل ہو جاتے ہیں اسی طرح زاویہ بدلنے سے بھی مناظر تبدیل ہو جاتے ہیں.اگر امریکہ کے زاویے سے اس صورتحال کو دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوگا جیسے شکاری اصطلاح میں Heel کرنا کہا جاتا ہے کہ کتے کو اپنی ایڑی کے پیچھے لگا لینا.امریکہ کے زاویہ نگاہ سے یہ منظر دکھائی دے گا کہ امریکہ نے انگریزوں کو بھی Heel کرلیا اور فرانس کو بھی Heel کرلیا اور روس کو بھی Heel کرلیا، جرمنی کو بھی Heel کرلیا غرضیکہ بہت سے اتحادیوں کو Heel کیا اور اس کے پیچھے پیچھے اور غول بیابانی بھی اکٹھا ہوا اور سب ایک شکار کی لالچ میں اس Heel کر نیوالے شکاری کے پیچھے لگ گئے کہ کب وہ شکار مارا جائے اور اپنی اپنی توفیق اور رتبے کے مطابق اس کے حصے بخرے کریں اور اس میں سے کچھ اپنے لئے حاصل کر سکیں.یہ جولشکر روانہ ہوا ہے شکاریوں کا اور اس کے Heel ہوئے ساتھیوں کا ، اس کے منہ سے کویت کویت کویت کویت کی آوازیں آرہی ہیں اور جو پیچھے لگے ہوئے ہیں وہ اپنے دانت تیز کر رہے ہیں کہ کب ہمیں کویت کے نام پر عراق کے شکار کا موقع ملے گا بہر حال ایک زاویہ نگاہ یہ ہے اور اگر اسرائیل کے زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اسرائیل یہ سمجھتا ہوگا اور حق بجانب ہوگا یہ سمجھنے میں کہ اس نے امریکہ اور اس کے تمام ساتھیوں کو بیل کر لیا ہے اور اسرائیل کے پیچھے پیچھے وہ دیگر جنگلی مخلوقات بھی ساتھ چل رہی ہیں جن کو یہ علم نہیں کہ یہ وہ شکاری ہے جو رفتہ رفتہ پلٹ پلٹ کر ایک ایک Heel ہوئے جانور کا شکار کرے گا اور پھر سب مل کر اس کا گوشت اڑائیں گے.تو ایک یہ بھی

Page 295

۲۹۳ یکم مارچ ۱۹۹۱ء زاویہ نگاہ ہے حالانکہ حقیقت وہی رہتی ہے جس طرح چاہیں اس کی تعبیر کر لیں.یہ فیصلہ تو بہر حال آنے والا وقت کرے گا کہ کس نے کس کو Heel کیا ہے.آوازوں کے لحاظ سے بھی دماغ عجیب عجیب کرشمے دکھاتا ہے.ایک ہی آواز کے مختلف معنی لئے جاتے ہیں.ایک آواز دنیا یہ سن رہی ہے کہ عراق کے جوڑ جوڑ توڑنے کا ارادہ اس لئے ہے کہ کبھی بھی عراق آئندہ کو بیت پر حملہ کرنے کی جرات نہ کرے.گویا سارا مقصود کائنات کو بیت ہے اور ہر دوسرے ملک پر ہر دوسرے ملک کو حملے کرنے کی کھلی چھٹی ہے لیکن کو بیت پر کسی کو حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.پس کویت کویت کی آوازوں کا ایک یہ مطلب ہے جو دنیا کو سنائی دے رہا ہے اگر اسی آواز کو اسرائیل کے کانوں سے سنا جائے تو وہاں یہ آواز سنائی دے گی کہ عراق کے اسی لئے ٹکڑے ٹکڑے کئے جارہے ہیں اور اس لئے اس کا جوڑ جوڑ تو ڑا جا رہا ہے کہ یہ کبھی اسرائیل پر حملہ کرنے کا خواب بھی نہ دیکھ سکے اور صرف یہی نہیں بلکہ دنیا میں کوئی ملک بھی کبھی اسرائیل کو ٹیڑھی نظر سے دیکھنے کی جرأت نہ کرے.تو دیکھئے آواز وہی ہے لیکن مختلف کانوں میں مختلف شکلوں پر پڑ رہی ہے اور مختلف دماغ اس کی مختلف تعبیر میں کر رہے ہیں.ایک اور پہلو یہ قابل ذکر ہے کہ شائستگی اور تہذیب اور نرمی اور پیار صرف انسانوں کا حصہ نہیں بلکہ گوشت خور جانور بھی ایک تہذیب رکھتے ہیں.ایک نرمی اور پیار رکھتے ہیں.جب تک وہ شکار پر نہ جھپٹیں یا جب تک کسی دشمن کا مقابلہ نہ کریں ان کے پاؤں کے تلوے گداز اور نرم ہوتے ہیں اور مخمل کی طرح ہوتے ہیں.ان کے جبڑے نرم نرم ہونٹوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہوتے ہیں، ان کے دانت نرم نرم ہونٹوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ آپس میں محبت اور پیار سے رہتے ہیں بلکہ دوسرے جانوروں کو بھی بری نظر سے نہیں دیکھتے لیکن وہ وقت جب شکار کا وقت آتا ہے، جب دشمن پر جھپٹنے کا وقت آتا ہے.انہی نرم نرم مخملیں پاؤں سے خوفناک پنجے نمودار ہو جاتے ہیں اور انہی نرم ہونٹوں کے پیچھے سے وہ ہولناک کچلیاں نکل آتی ہیں جو کسی جانور پر رحم نہیں جانتیں.پس اس صورتحال کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ وہ کون سے وقت ہوتے ہیں جب انسان پہچانے جاتے ہیں.

Page 296

۲۹۴ یکم مارچ ۱۹۹۱ء ایک اردو شاعر نے بہت اچھی بات کہی جب یہ کہا کہ اک ذراسی بات پر برسوں کے یارانے گئے لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے مگر مغربی دنیا کے عرب دوستوں کے متعلق حسرت سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ذرا سی بات تو در کنار.عالم اسلام پر قیامت بھی ٹوٹ پڑے تو ان کے برسوں کے یارانے نہیں جاتے اور ان سے دوست پہچانے نہیں جاتے.یہ ہے خلاصہ اس پس منظر کا جس کی روشنی میں میں آپ کے سامنے کچھ دوسرے امور رکھنا چاہتا ہوں جن کا زیادہ تر تعلق مختلف قوموں کو مشورے دینے سے ہے.لا دین سیاست کے تین بنیادی اصول قدیم سے لا مذہب سیاست کے تین اصول رہے ہیں جو مشرق اور مغرب میں برابر ہیں، ہمشترک ہیں.یہ نہیں کہہ سکتے یہ مغربی سیاست کے اصول ہیں یا مشرقی سیاست کے اصول ہیں.کل کے ہیں یا آج کے.ہمیشہ سے یہی اصول چلے آرہے ہیں یعنی سیاست اگر لا مذہب اور بے دین ہو تو پہلا اصول یہ ہے کہ قوم، وطن یا گروہ کا مفاد جب بھی عدل کے مفاد سے ٹکرائے تو قوم، گروہ اور وطن کے مفاد کو عدل کے مفاد پر لا ز ما ترجیح دو اور فوقیت دو.خواہ عدل کو اس کے نتیجے میں پارہ پارہ کرنا پڑے.قرآن کریم کا اصول سیاست اس سے بالکل مختلف ہے اور برعکس ہے جو یہ ہے وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى اَلَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (المائدہ:۹) کہ اے مسلمانو! تمہاری سیاست اور طرح کی سیاست ہے یہ الہی فرمان کے تابع سیاست ہے اور اس کا بنیادی اہل اصول یہ ہے کہ کسی قوم کی شدید دشمنی بھی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ اس سے نا انصافی کا سلوک کرو.ہمیشہ عدل پر قائم رہو کیونکہ عدل تقویٰ کے قریب تر ہے.دوسرا اصول سیاست یعنی بے دین سیاست کا اصول یہ ہے کہ اگر طاقت ہو تو مفادات کو

Page 297

۲۹۵ یکم مارچ ۱۹۹۱ء طاقت کے زور سے ضرور حاصل کرو.کیونکہ "Might is Right" طاقت ہی صداقت ہے اس کے سواد نیا میں صداقت کی اور کوئی تعریف نہیں.قرآن کریم اس کے برعکس ایک مختلف اصول پیش فرماتا ہے جو یہ ہے لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيَى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ (الانفال :۴۳) یعنی وہی ہلاک کیا جائے جس کی ہلاکت پر کھلی کھلی صداقت گواہ ہو اور وہی زندہ رکھا جائے جس کے حق میں کھلی کھلی صداقت گواہی دے.پس اسلام کا اصول Might is Right کے برعکس Right is might بنتا ہے.تیسرا اصول جو لا دینی سیاست کا بنیادی حصہ ہے وہ یہ ہے کہ مقصد کے حصول کے لئے بے دریغ جھوٹا پروپیگنڈا کرو.یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ جتنا زیادہ فریب اور مطمع کاری سے کام لیا جائے اتناہی زیادہ بہتر اور قوم کے مفاد میں ہے.پس دشمن کو صرف میدان جنگ میں شکست نہ دو بلکہ جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے اس کو نظریات اور اصولوں کی دنیا میں شکست خوردہ بنا کے دکھاؤ.ازل سے جب سے سیاست کا تاریخ میں ذکر ملتا ہے یہی تینوں اصول ہمیشہ ہر جگہ کارفرما دکھائی دیں گے سوائے ان استثنائی ادوار کے جب سیاست بعض شرفاء کے ہاتھ میں چلی گئی ہو جو دینی اور اخلاقی اقدار کی قدر کرتے ہوں.یا جب مذہب کی دنیا میں خدا تعالیٰ نے دنیاوی طاقت بھی عطا کر دی ہو.قرآن کریم اس اصول کے بالکل بر عکس یہ اصول پیش فرماتا ہے : فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ : مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الرُّورِ (الحج: ۳۱) پھر دوسری جگہ فرمایا: وَإِذَا قُلْتُهُ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبى (الانعام : ۱۵۳) لفظوں کی لڑائی میں بھی لفظوں کے جہاد میں بھی تمہیں سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا.سچائی کا دامن ہاتھ سے چھوڑ نا اور جھوٹ کو قبول کرنا، یہ شرک کی طرح نا پاک اور نجس ہے.فرمایاوَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا بات بھی کرو تو عدل کے ساتھ کرو لَوْ كَانَ ذَا قُر بی خواہ تمہاری بات کا نقصان تمہارے قریبی کو پہنچتا ہو اس کی کچھ پرواہ نہ کرو.

Page 298

اسلامی دنیا کا سب سے بڑا المیہ ۲۹۶ یکم مارچ ۱۹۹۱ء آج کی اسلامی دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ خدا اور دین محمد کے نام پر جہاد کا اعلان کرتے ہیں لیکن سیاست کی تینوں شرائط لادینی سیاست سے اخذ کر لی ہیں اور قرآن کریم کی اس غالب سیاست کو چھوڑ دیا ہے.یہی وجہ ہے کہ اس دور میں اب تک جتنی دفعہ مسلمان اپنے اور اسلام کے دشمنوں سے ٹکرائے ہیں الا ماشاء اللہ معمولی اتفاق کے سوا ہر دفعہ نہایت ہی ذلت ناک اور عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے.حالانکہ قرآن کریم میں خدا تعالی کا یہ کھلا کھلا بلکہ اٹل وعدہ تھا کہ اِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ (الحج: ٢٠) که خبر دار! میری خاطر ، میرے نام پر جہاد کے لئے نکلنے والوسنو ! تم کمزور ہومگر میں کمزور نہیں ہوں.میں تم سے وعدہ کرتا ہوں اور یہ وعدہ اٹل ہے اِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِیر ان کمزور اور دنیا کی نظر میں نہایت حقیر لوگوں کو جو خدا کی خاطر جہاد پر نکلے ہیں ضرور خدا کی نصرت عطا ہوگی اور ان کو اپنے غیروں پر غالب کیا جائے گا.یہ سوال آج مسلمان ذہن کو جھنجوڑ رہا ہے اور اسی لئے میں نے اس کو بہت اہمیت دی تا کہ مشرق سے مغرب تک کے دکھے ہوئے مسلمان دلوں کو سمجھاؤں کہ یہ شکست اسلام کی شکست نہیں ہے بلکہ یہ شکست ان مسلمانوں کی ہے جنہوں نے اسلام کے اصولوں کو ترک کر کے شکست خوردہ اصولوں کو اپنالیا.پس یہ جنگ حق اور باطل کی جنگ نہیں رہی یہ طاقت اور کمزوری کی جنگ بن گئی.نہ خدا اس طرف رہا نہ خدا اس طرف رہا اور جب طاقت اور کمزوری کی جنگ بن جائے تو طاقت لازماً جیتی ہے اور اسی کا مطلب ہے "Might is Right".پس خلیج کی جنگ کے اس دردناک واقعہ میں ہمارے لئے بہت گہرے سبق ہیں اور سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے اعلیٰ پائیدار اور نا قابل تسخیر اصولوں کی طرف لازماً لوٹنا ہوگا.اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کے حق میں یہ وعدہ پورا نہیں ہوگا کہ ارض کے اوپر خدا کے پاک بندوں کی حکومت لکھی جاچکی ہے.الارض یعنی فلسطین کی زمین ہو یا ساری دنیا مراد ہو جب تک

Page 299

۲۹۷ یکم مارچ ۱۹۹۱ء عباد الصلحین پیدا نہیں ہوتے اور قرآن کریم کے پاکیزہ ہمیشہ زندہ رہنے والے، ہمیشہ غالب آنے والے اصولوں پر عمل نہیں کرتے اس وقت تک ان کے مقدر میں کوئی دنیاوی فتح بھی نہیں لکھی جائے گی.پس مسلمانوں کے دلوں پر جو ظلم پر ظلم کی آری چلائی جارہی ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ گویا حق اتحادیوں کے ساتھ تھا اور حق کو جھوٹ اور باطل پر فتح ہوئی ہے یہ ہرگز درست نہیں.یہ حق اور باطل کی جنگ نہیں اس ضمن میں ایک اور بات آپ کے علم میں آنی چاہئے کہ ایک امریکن جرنیل بار بار یہ کہتے رہے کہ ہم سارے سفید ٹوپیوں والے ہیں اور عراق اور عراق کے ساتھی سارے کالی ٹوپیوں والے ہیں.مغربی ناولوں کا ایک جاہلانہ تصور ہے کہ جو ان کے لڑا کا پستول کے اچھے ماہر ہوں وہ سفید ٹوپیاں پہنا کرتے ہیں اور جو بد معاش ان کے مقابل پر ہوں جن پر وہ غالب آتے ہوں وہ کالی ٹوپیاں پہنتے ہیں امر واقعہ یہ ہے کہ یہ سفید اور کالے کی جنگ نہیں تھی.اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے یہ کہا جاتا ہے کہ صدام حسین اتنا ظالم اور سفاک ہے کہ اس نے کردوں کو گیس کا عذاب دے کر مارا اور پھر کر دوں کے گاؤں کے گاؤں بمباری کے ذریعے ملیا میٹ کر دئیے.اگر یہ بات درست ہے اور غالباً درست ہے تو ایک ایسا بھیانک جرم ہے جس کے لئے جو ظلم کرنے والا ہے وہ خدا کے حضور جواب دہ ہوگا اور تاریخ کے سامنے بھی جواب دہ ہوگا مگر یہ ساری تصویر نہیں ہے دیکھنا یہ ہے کہ جرم صدام حسین کو کن قوموں نے سکھایا تھا اور کیسے سکھایا تھا.1920ء کی بات ہے کہ انگریزوں کی یہ پالیسی تھی کہ کردوں کوعراقیوں کا غلام بنا دیا جائے جب کر دوں نے اس کے خلاف آواز بلند کی تو 1920ء میں سب سے پہلے برطانیہ کی حکومت نے نہتے اور کمزور کر دوں پر گیس کے بم برسائے اور نہایت دردناک طریق پر ہزار ہا کا قتل عام کیا.اس کے بعد مسلسل انگریزوں نے کردوں کو عراق کا غلام بنانے کی خاطر سالہا سال تک ان غریبوں کے

Page 300

۲۹۸ یکم مارچ ۱۹۹۱ء دیہات پر بمباری کی چنانچہ اس بمباری کا ایسا اثر اس زمانے کے ان لڑنے والوں پر بھی پڑا جن کے ذریعے بمباری کی جارہی تھی.ایسا اثر پڑا کہ ایک برطانوی ایر فورس کے بہت بڑے افسر نے احتجاج کے طور پر استعفیٰ دے دیا (1922ء کی بات ہے ) کہ یہ ظلم میں برداشت نہیں کر سکتا ایسا خوفناک ظلم تو ڑا جارہا ہے کر دوں پر کہ میری حد برداشت سے باہر ہے.پھر یہ کہا جاتا ہے کہ ایران میں بھی صدر صدام نے انہی جرائم کا ارتکاب کیا اور کثرت کے ساتھ ایرانیوں کو گیس کا عذاب دے کر مارا اور ان کی شہری آبادیوں پر بمباری کی.امر واقعہ یہ ہے کہ اس دور میں بھی گیس بنانے کے سامان مغرب نے ان کو مہیا کئے اور دور مار تو ہیں بھی مغرب نے مہیا کیں اور سب سے زیادہ مالی امداد کرنے والے سعودی عرب اور کویتی تھے اور امریکہ مسلسل ان کی حمایت میں کھڑا رہا ہے.پس یہ درست ہے کہ صدام نے انسانیت کے خلاف جو جرائم کئے ہیں وہ ان کے لئے جواب دہ ہے مگر یہ درست نہیں کہ صرف صدام ہی نے جو جرائم کئے ہیں اور بھی بہت سے جرم کرنے والے ہیں اور وہ اتحادی جو اس وقت پاک باز اور معصوم بنا کر پیش کئے جارہے ہیں ان کے اندر بڑے بڑے ظالم اور سفاک موجود ہیں جنہوں نے ہمیشہ جب ان کو ضرورت پیش آئی جرم کی حمایت کی اور سفا کی کا دل بڑھایا.پس یہ جنگ سچ اور جھوٹ کی جنگ نہیں ہے.مسلمانوں کی دل شکستگی کا علاج مسلمان نوجوان خصوصیت سے سخت دل شکستہ ہیں اور جو اطلاعیں مجھے دنیا سے مل رہی ہیں بعض نوجوان بچوں اور عورتوں ، لڑکیوں وغیرہ کا یہ حال ہے کہ ان فلموں کو دیکھ دیکھ کر جو عراق پر توڑے جارہے ہیں رو رو کر انہوں نے اپنی زندگی اجیرن بنارکھی ہے.خود انگلستان میں ہی بعض بچے اور بعض بچیاں مجھے ملنے آئے.درد کی شدت سے ان سے بات نہیں ہوتی تھی.بات کرتے کرتے ہچکیاں بندھ گئیں کہ ہمیں بتائیں یہ کیا ہورہا ہے.کیوں ہمارا خدا ان کی مددکو نہیں آرہا؟ ان کو میں

Page 301

سمجھانا چاہتا ہوں کہ ۲۹۹ یکم مارچ ۱۹۹۱ء اول تو یہ کہ جب خود خدا کے بندے تو حید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں اور اسلام کے پاکیزہ اصولوں کو اپنانے کی بجائے دشمنوں کے ناپاک اصولوں کو اپنالیں تو خدا نہ ادھر رہتا ہے نہ ادھر رہتا ہے اور یہ حق و باطل کی جنگ نہیں رہتی.دوسرے یہ کہ جہاں تک دنیا وی جنگوں کا تعلق بھی ہے اس شکست کے ساتھ وقت ٹھہر تو نہیں گیا.تاریخ تو جاری وساری ہے ابھی چند دن گزرے ہیں.تاریخ اپنے رخ اولتی بدلتی رہتی ہے.وقت پلٹ جاتے ہیں اور آج کچھ ہے تو کل کچھ ہو جاتا ہے.بعض قوموں نے سینکڑوں سال تک جبر واستبداد کی حالت میں زندگی گزاری اور پھر خدا نے ان کو اپنے دشمنوں پر فتح عطا فرمائی.پس خدا کے وقت کے مطابق سوچ پیدا کریں.اپنے وقت کے مطابق عجلت سے کام نہ لیں.دنیا کی تاریخ ایک جاری وساری سلسلہ ہے جو ہمیشہ ایک حال پر قائم نہیں رہا کرتا.آپ کے دل کی تسلی کے لئے میں آپ کو تاریخ میں کچھ پیچھے لے جاتا ہوں 1919ء میں جو کچھ یورپ میں ہور ہا تھا اس کی یاد آپ کو دلاتا ہوں یہ وہ سال ہے جبکہ جیتی ہوئی اتحادی طاقتیں جرمنوں کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے لئے ورسائے Versalles میں اکٹھی ہوئی تھیں وہ سال انگلستان کے الیکشن کا سال بھی تھا.لائیڈ جارج وزیر اعظم نے یہاں سے روانہ ہونے سے پہلے یہ بیان دیا کہ میں جرمن لیموں Lemon کو اس سختی سے نچوڑوں گا کہ اس کے بیجوں سے چر چرانے کی آواز آئے اور ہائے ہائے کی صدائیں اٹھنے لگیں.اس ارادے کے ساتھ یہ ورسائے کے لئے روانہ ہوئے.مبصر لکھتا ہے کہ ورسائے پہنچ کر جب انہوں نے فرانسیسی نمائندوں کے انتظامی ارادوں پر اطلاع پائی تو وہ سمجھے کہ میرے ارادے تو ان کے مقابل پر بخشش اور حلم کا نمونہ تھے.فرانسیسی نمائندوں میں ایسی خوفناک انتقامی کارروائیوں کے جذبات تھے کہ گویا ہر جرمن کو ملیا میٹ کرنے کا فیصلہ تھا.بہر حال آپس میں افہام و تفہیم کے ذریعے کچھ ایسے فیصلے کئے گئے جن کے نتیجے میں اس بات کو لازمی بنادیا گیا کہ آئندہ کبھی جرمن قوم کسی اور قوم کے خلاف ہتھیار نہ اٹھا سکے.وہی تصویر ہے جو آج عراق کی صورت میں ان کے ارادوں کی شکل میں آپ کو دکھائی دیتی ہے لیکن کچھ عرصے کے بعد اس بات کو مزید یقینی

Page 302

یکم مارچ ۱۹۹۱ء بنانے کے لئے 1928ء میں امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ اور فرانس کے وزیر اعظم نے مل کر سیکرٹری آف سٹیٹ کا نام Mr.Frank Kellog) تھا انہوں نے یورپ میں پندرہ مغربی ممالک کی ایک کا نفرنس بلائی جس کا عنوان یہ تھا کہ جنگ کو Out Law کر دیا جائے یعنی ایسا مفرور مجرم قرار دیدیا جائے جس کے قتل کا سب کو حق ہے.عملاً یہ اعلان تھا کہ ہم اب جنگ کو ہمیشہ کے لئے دفنا دیں گے پندرہ ملکوں کے نمائندے اکٹھے تھے جس ہال میں یہ تقریب منعقد ہوئی وہاں جب سب سے پہلے جرمن نمائندہ اپنا سنہری قلم لے کر دستخط کرنے لگا تو سارا ہال تالیوں کی گونج سے لرزنے لگا کسے خبر تھی کہ اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد یعنی 1928 ء کو گیارہ سال بمشکل گزریں گے کہ وہی مردہ دوبارہ زندہ ہو جائے گا اور ایک ملک یا ایک وزیر اعظم کو تاخت و تاراج نہیں کرے گا بلکہ اس کی ہیبت سے مشرق سے و مغرب تک قوموں کے ایوان لرزنے لگیں گے اور بموں کے دھماکوں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے گی.پس دیکھو آنا فانا یعنی تاریخ کے نقطہ نگاہ سے چند سال آنا فانا کی بات ہوا کرتی ہے، آنا فانا کیسے مناظر بدل گئے.خدا زندہ ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے.انسانی نسلیں آتی ہیں اور گزرجایا کرتی ہیں.اس لئے میں یہ نہیں کہتا کہ تم تاریخ کے ان اتفاقات پر بھروسہ رکھو میں یہ کہتا ہوں کہ تاریخ کے اس ادلنے بدلنے کے مضمون کو پیش نظر رکھو اور مایوس نہ ہو لیکن بھروسہ خدا پر رکھو جو دائی ہے اور جس پر دنیا کی کوئی طاقت غالب نہیں آسکتی.وہ دنیا کی اور کائنات کی ہر طاقت کو مغلوب کر سکتا ہے.اس کے ہاتھ میں ان طاقتوں کی کوئی بھی حیثیت نہیں.پس اگر تم مظلوم اور مجبور ہو اور درد سے کراہ رہے ہو تو اس درد کو دعاؤں میں خدا کے حضور پیش کرو.میں یقین دلاتا ہوں کہ تمہاری ہر شکست اس طریق پر فتح میں تبدیل ہو جائے گی.اتحادی طاقتوں کو مشورہ میں اتحادی فوجوں کو یہ مشورہ دیتا ہوں اور اتحادی ملکوں کے سربراہوں کو بھی یہ مشورہ دیتا ہوں کہ اگر آپ کو بنی نوع انسان کی بھلائی مقصود ہے.اگر واقعی آپ دائگی امن چاہتے ہیں تو آپ کی

Page 303

۳۰۱ یکم مارچ ۱۹۹۱ء سیاست کے اصول تو بار بار پٹ چکے ہیں اور کبھی بھی دنیا میں امن قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے.اس لئے خدا کے لئے اب تو عبرت حاصل کرو اور اسلام کے سیاست کے ان اصولوں کو اپناؤ جو تقویٰ کے ساتھ وابستگی رکھتے ہیں.جن کی جڑیں تقویٰ میں ہیں جو تقویٰ کے پانی سے پلتے ہیں اور تقویٰ کی طاقت سے نشونما پاتے ہیں.اگر تم اسلام کے ان تین اصولوں کو اپنا لوجن کا میں ذکر کر چکا ہوں تو یہی ایک ذریعہ ہے کہ جس سے دنیا کو دائگی امن کی ضمانت دی جاسکتی ہے.اگر ایسا نہ کرو گے تو جبر واستبداد کی طاقتیں خواہ مغربی ہوں یا مشرقی ، ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے والا امریکہ ہو یا انڈونیشیا میں بربریت کی نئی حیرت انگیز مثالیں اور نہایت دردناک مثالیں قائم کرنے والا جاپان ہو، میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر ان کی نیتیں وہی رہیں جو ہمیشہ سے سیاستدانوں کی نیتیں چلی آئی ہیں اور اخلاق کی بجائے خود غرضی پر ان کی بنا ہوئی تو کبھی دنیا کو امن عطا نہیں کر سکتے.دنیا کی طاقتور قوموں کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اپنی نیتوں کے جنگلوں میں چھپے ہوئے بھیٹریوں کو ہلاک کریں.اگر ایسا نہیں کریں گے تو صدام کی ایلیٹ فورس کو تباہ کرنے سے دنیا میں امن کی ضمانت نہیں ہوسکتی ،تمام عراق کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیں تب بھی دنیا میں امن کی کوئی ضمانت نہیں ہو سکتی.انسان کو ہلاک کرنے کے لئے اس کی نیتوں میں بھیڑیے چھپے ہوئے ہیں.جب تک نیتوں میں پوشیدہ بھیڑیوں کو انسان ہلاک نہیں کرتا اور عدل پر قائم ہونے کے عہد نہیں کرتا اس وقت تک دنیا کو ہرگز امن کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.مسلمان ممالک اسلام کا نظام عدل رائج کریں لیکن یہاں ایک بہت ہی اہم سوال اٹھتا ہے کہ جب تک قرآن کا پیش کردہ نظام عدل اسلامی دنیا خود قبول نہ کرے اور اپنے اپنے ملکوں میں اسلام کا نظام عدل جاری کر کے نہ دکھائے اور اپنے نظریات کو عادلانہ نہ بنائے اس وقت تک وہ دنیا کو کیسے اسلام کے عدل کی طرف بلاسکتی ہے.یہ ناممکن ہے جب تک عالم اسلام خود عدل پر قائم نہیں ہوتا یعنی قرآن کے تصور عدل پر قائم نہیں ہوتا،

Page 304

۳۰۲ یکم مارچ ۱۹۹۱ء نہ عالم اسلام دنیا کو عدل عطا کر سکتا ہے نہ دنیا سے عدل کی توقع رکھ سکتا ہے.اس ضمن میں ہم دیکھتے ہیں کہ عالم اسلام میں نہایت ہی خوفناک ایسی باتیں رائج ہیں جو اسلام کے ساتھ بے وفائی کا حکم رکھتی ہیں اور بجائے اس کے کہ اسلام کی عادلانہ تعلیم کو سمجھیں اور قبول کریں ، اسلام کو دنیا کے سامنے ایک ایسے مذہب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جس کا عدل کے ساتھ کوئی دُور کا بھی تعلق نہیں.اس میں سب سے بڑا قصور ملاں اور سیاستدان کا ہے ان دونوں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں اسلام کے نظام عدل کو تباہ کیا جا رہا ہے تین ایسے نظریات اسلام کی طرف منسوب کر کے پیش کئے جار ہے ہیں کہ جن کے نتیجے میں بیرونی دنیا میں اسلام کی تصویر ظالمانہ طور پر مسخ ہو کر پیش ہورہی ہے اور ہر اسلامی ملک سے بھی امن اٹھتا چلا جارہا ہے.پہلا نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ تلوار کا استعمال نظریات کی تشہیر میں نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے اور تلوار کے زور سے نظریات کو تبدیل کر دینے کا نام اسلامی جہاد ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ حق صرف مسلمانوں کو ہے.عیسائیوں یا یہود یا ہندوؤں یا بدھوں کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی مسلمان کے نظریے کو بزور تبدیل کریں لیکن خدا نے یہ حق سارے کا سارا مسلمانوں کے سپر دکر رکھا ہے.کیسا غیر عادلانہ، کیسا جاہلانہ تصور ہے لیکن اسے اسلام کے نام پر ساری دنیا میں پھیلایا جارہا ہے.پھر دوسرا جزو اس کا یہ ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم مسلمان ہو جائے تو کسی کا حق نہیں کہ اسے موت کی سزا دے.تمام دنیا میں جہاں کوئی چاہے اپنے دین کو چھوڑ چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوتا رہے دنیا کے کسی مذہب کے ماننے والوں کو حق نہیں کہ اسے موت کی سزا دیں لیکن اگر کوئی مسلمان دوسرا مذہب اختیار کرلے تو دنیا کے ہر مسلمان کا حق ہے کہ اس کی گردن اڑا دے.یہ اسلام کا دوسرا منصفانہ اصول ہے جو اسلام کے علمبر دار خدا اور قرآن کے نام پر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں.تیسرا اصول یہ ہے کہ مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ شریعت اسلامیہ کو زبردستی ان شہریوں پر بھی نافذ کریں جو اسلام پر ایمان نہیں لاتے لیکن دوسرے مذاہب کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی اپنی شریعت مسلمانوں پر نافذ کریں.چنانچہ اس نظریہ عدل کی رو سے یہود کو بھی یہ حق نہیں کہ مسلمانوں سے طالمود

Page 305

٣٠٣ یکم مارچ ۱۹۹۱ء میں بیان کردہ سلوک کریں اور ہنود کو بھی یہ حق نہیں کہ مسلمانوں سے منوسمرتی میں بیان کردہ اصولوں کے مطابق سلوک کریں.پس یہ تیسرا تصور عدل ہے.یہ صرف تین مثالیں ہیں لیکن حقیقت میں آپ مزید جائزہ لیں تو بہت سے اور امور بھی ایسے ہیں جن میں آج کے مولوی کا پیش کردہ تصور اسلام قرآن کریم کے واضح اور بین اصول عدل سے متصادم ہے اور اسے رد کرنے کے مترادف ہے.آج دنیا میں اسلام کے خلاف سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ہتھیار یہی وہ تین اصول ہیں جن کی فیکٹریاں مسلمان ملکوں میں لگائی گئی ہیں.یہو دسب سے زیادہ کامیابی کے ساتھ ان تین اسلامی اصولوں کو یعنی نعوذ بالله من ذالك اسلامی اصولوں کو مولویوں کے بنائے ہوئے اسلامی اصولوں کو کہنا چاہئے.مغربی دنیا میں اور دوسری دنیا میں پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان لوگوں سے تمہیں کس طرح امن نصیب ہوسکتا ہے ان لوگوں سے ہمیں کس طرح امن نصیب ہو سکتا ہے جن کا انصاف کا تصور اور عدل کا تصور ہی پاگلوں والا تصور ہے جس کے اندر کوئی عقل کا شائبہ بھی دکھائی نہیں دیتا.مسلمانوں کے لئے اور حقوق غیروں کے لئے اور حقوق،سارے حقوق دنیا میں راج کرنے کے مسلمانوں کو اور سب غیر ہر دوسرے حق سے محروم.اگر نعوذ باللہ من ذالک یہ قرآنی اصول ہے تو لا زم ساری دنیا اس اصول سے متنفر ہوگی اور مسلمانوں کو امن عالم کے لئے شدید خطرہ محسوس کرے گی.پس صرف یہی کافی نہیں کہ غیروں سے ان زیادتیوں کے شکوے کئے جائیں جو مسلمان پر کی جاتی ہیں.اپنے پر بھی نظر ڈالنی چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ یہ زیادتیاں کیوں ہو رہی ہیں اور شاطر دشمن کس طرح مسلمانوں کے خلاف خود مسلمانوں کے بنائے ہوئے ہتھیاروں کو استعمال کر رہا ہے پس امر واقعہ یہی ہے کہ اسلامی ممالک میں اسلام کی طرف منسوب ہونے والے نہایت مہلک ہتھیاروں کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں اور ملاں ان کا رخانوں کو چلا رہے ہیں اور بھاری تعداد میں دشمن ممالک میں یہ دساور کو بھیجے جاتے ہیں اور ان کی برآمد ہوتی ہے اور پھر یہی ہتھیار عالم اسلام کے خلاف استعمال کئے جاتے ہیں.

Page 306

۳۰۴ یکم مارچ ۱۹۹۱ء سلمان سیاست دانوں کا فرض میں یہ سمجھتا ہوں کہ مسلمان سیاستدانوں کا بھی اس میں بہت بڑا قصور ہے.انہوں نے خود اسلام کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی.دین ملاں کے سپرد کر بیٹھے اور یقین کر لیا کہ ملاں اسلام کی جو بھی تصویر پیش کر رہا ہے وہی درست ہے لیکن ان کے ضمیر نے اور ان کی روشن خیالی نے اس تصویر کو رد کیا ہے لیکن یہ جرأت نہیں رکھتے کہ ان نظریات کو غیر اسلامی سمجھتے ہوئے بھی ان کی مخالفت کر سکیں.پس اس نفسیاتی الجھن نے تمام اسلامی ریاست کو مریض بنارکھا ہے دوغلا اور منافق بنا دیا ہے.اپنے عوام ان ملانوں کے سپرد کر دیئے ہیں جو ازمنہ وسطی کی سوچ رکھتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کے روشن زمانے سے روشنی حاصل نہیں کرتے اس لئے جب انہوں نے اپنے عوام کو ہی ان کے ہاتھ میں دے دیا تو ان کی طاقت سے ڈر کر وہ کھلم کھلا یہ کہنے کی جرات نہیں رکھتے کہ یہ اصول غلط ہیں کیونکہ وہ خود بھی ان کو نعوذ باللہ اسلامی اصول سمجھ رہے ہیں.پس اب وقت ہے کہ حکومتیں ہوش کریں اور عالم اسلام جو دو نیم ہوا پڑا ہے، سیاست کی دنیا الگ ہے اور مذہبی سوچ کی دنیا الگ ہے اور ان دونوں کے درمیان تصادم ہے.یہ دوسرا خطر ناک پہلو ہے جس کے نتیجے میں عالم اسلام کو خود اپنی طرف سے بھی خطرہ ہے اور اس خطرے کی بیخ کنی ضروری ہے بلکہ فوری ہے ورنہ ایک نئے جہان کا نظام نو بنانے میں مسلمان کوئی کردار ادا نہیں کر سکیں گے.پس ضروری ہے کہ مسلمان حکومتیں واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کریں کہ قرآن کے نظام عدل سے ٹکرانے والا کوئی نظریہ اسلامی نہیں کہلا سکتا اس سے بڑی اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے.بار بار علماء کو چیلنج کریں کہ آؤ اور اس میدان میں ہم سے مقابلہ کر وہم اعلان کرتے ہیں کہ قرآن کریم کا نظام عدل واضح اور بین اور غیر مبہم ہے اور عالمی ہے قومی نہیں ہے.اگر عالمی نہ ہو تو نظام عدل کہلا ہی نہیں سکتا.بین الاقوامی ہے.Absolute ہے پہلے اس بات پر بحث کرو کہ یہ ہے کہ نہیں اور اگر ہے تو تمہیں ماننا پڑے گا کہ قرآن کریم کے نظام عدل سے ٹکرانے والا ہر نظریہ غیر اسلامی ہے.

Page 307

۳۰۵ یکم مارچ ۱۹۹۱ء دوسرے اس اعلان کی ضرورت ہے کہ ہر وہ شخص جو قرآن کریم کی طرف غیر عادلانہ نظریہ منسوب کرے گا وہ کلام الہی کی گستاخی کا مرتکب شمار ہوگا اور ساتھ ہی یہ اعلان کیا جائے کہ ہر وہ شخص جو حدیث رسول کی طرف قرآن کریم کے خلاف نظریات منسوب کرنے کی کوشش کرے، وہ کلام رسول کی گستاخی کا مرتکب شمار کیا جائے گا.یہ ایک ہی لائحہ عمل ہے جو عالم اسلام کے اندرونی تضادات کو دور کر سکتا ہے.اگر آج کسی سیاستدان کے دماغ میں روشنی ہے اور وہ تقویٰ رکھتا ہے اور انصاف کا دامن پکڑے ہوئے ہے.اگر آج اس میں یہ جرات ہے کہ حق بات کر سکے اور حق طریق پر کر سکے، اگر آج وہ اپنی قوم اور عالم اسلام سے محبت رکھتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس میدان میں اسلام کے حق میں جہاد کا آغاز کرے ورنہ یہ میدان نہ جیتا گیا تو کوئی اور میدان نہیں جیتا جائے گا.اگر چہ ایک گونہ منافقت کے ذریعے مسائل ٹل رہے ہیں لیکن بلا ہمیشہ کے لئے سر سے اتر نہیں گئی.عالم اسلام میں ہم یہ واقعہ بار بار ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ جب بھی عالم اسلام کو کہیں سے کوئی خطرہ در پیش ہو وہیں ملائیت کو فروغ ملنے لگتا ہے اور ملائیت دماغوں میں زیادہ سے زیادہ نفوذ کرنے لگتی ہے اور اس وقت ایک انتہا پسند انقلاب کے خطرات سر پر منڈلانے لگتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے اور بڑھتا چلا جارہا ہے.اگر حکمت کے ساتھ بر وقت اس کا انسداد نہ کیا گیا اور عوام کی سوچ میں اور سیاست کی سوچ میں مذہبی اور سیاسی نقطہ نگاہ سے یک جہتی پیدا نہ کی گئی تو اسلامی ممالک ہمیشہ کمزور رہیں گے اور ہمیشہ اندرونی خطرات کی وجہ سے یہ زلزلوں میں مبتلا ر ہیں گے اور کبھی ان کو استحکام نصیب نہیں ہوسکتا.اس لئے دو ٹوک فیصلوں کی ضرورت ہے اور آج ان فیصلوں کی ضرورت ہے کیونکہ وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے اور ہم سے مزید رحم کا سلوک نہیں کرے گا.رحم کا سلوک کتنی دفعہ ہمیں سزا دے چکا ہے.کتنی دفعہ ہمیں دنیا میں ذلیل اور رسوا کر چکا ہے اگر آج نہیں اٹھو گے تو پھر کبھی نہیں اٹھ سکو گے اس لئے اٹھو اور یہ فیصلے کرو اور خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ فیصلے کرو کہ حق کے لئے حق نام کی تلوار اٹھاؤ گے اور وہ نظریاتی جہاد شروع کرو گے جس کی قرآن کریم نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ تم پر اس جہاد کو واجب کر رہا ہے.

Page 308

۳۰۶ یکم مارچ ۱۹۹۱ء اسلامی ممالک کے لئے حقیقی خطرہ یہی وہ خطرات ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے ، جن کی وجہ سے کسی اسلامی ملک میں حقیقی جمہوریت آہی نہیں سکتی.اگر جمہور کی بات کریں تو جمہور کی تعلیم و تربیت کا کوئی مؤثر انتظام نہیں ہے.نہ سیاسی سوچ میں ان کو شامل کیا جاتا ہے، نہ مذہبی سوچ میں ان کو شامل کیا جاتا ہے بلکہ حکمران طبقہ ان کے نام پر ووٹ لے کر ابھر کر ایک نیا تشخص حاصل کر لیتا ہے.پس ایسے ملک جہاں حکمران طبقے اور عوام الناس میں سوچ اور مذہبی خیالات کی ہم آہنگی نہ ہو وہاں اگر جمہوریت آبھی جائے تو وہ آمر پیدا کر سکتی ہے جمہوری حکمران پیدا نہیں کر سکتی اور دنیا میں بسا اوقات ایسے ہوتا ہے کہ جمہوری عمل کے ذریعے آمر پیدا ہوتے ہیں اور اس سے زیادہ خطرہ یہ ہے کہ چونکہ مسلمان حکمرانوں کو ہمیشہ یہ خطرہ دامن گیر رہتا ہے کہ ملائیت ہمارے عوام کو کہیں اس حد تک اسلام کے نام سے ہمارے خلاف نہ کر دے کہ ہمارے خلاف کسی قسم کا انقلاب بر پا ہو جائے.اس خطرے کے پیش نظر وہ ضرور آمر بننا شروع ہو جاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ جبر کو اختیار کرنے لگتے ہیں اور چونکہ جن پر ظلم کیا جاتا ہے وہ عوام کی نظر میں اسلام کے بچے ہمدرد ہوتے ہیں اس لئے دن بدن علماء کے حق میں اور سیاستدانوں کے خلاف نفرت کے جذبات بڑھتے چلے جاتے ہیں.وو پس یہ ایک مسئلہ نہیں.اس مسئلے کی کئی شاخیں ہیں اور ان سب مسائل کا ایک ہی علاج ہے جو میں نے بیان کیا ہے کہ قرآن کے عدل کے نظام کو اس طرح مضبوطی سے پکڑ لیں جیسے عروہ و ثقی“ پر ہاتھ ڈال دیا جاتا ہے جس کے لئے پھر ٹوٹنا مقدر نہ ہو.یہی وہ خدا کی رسی ہے، عدل کی رسی جسے محد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اقوام عالم میں امن پیدا کرنے کے لئے لڑکا یا تھا.اس رسی کا دامن چھوڑ کر آپ کو دنیا میں کہیں امن نصیب نہیں ہوسکتا پس مضبوطی سے اس کڑے پر ہاتھ ڈالیں اور تمام دنیا کو بھی جو امن کی متلاشی ہے اسی کڑے پر ہاتھ ڈالنے کے لئے دعوتیں دیں.پھر ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ جہاد کے دعاوی بھی کئے جاتے ہیں اور اعلان بھی کئے

Page 309

۳۰۷ یکم مارچ ۱۹۹۱ء جاتے ہیں اور ساتھ ہی ملاں کے ان تین اصولوں کو تسلیم بھی نہیں کیا جاتا.یہ سیاستدان کا دوسرا جرم ہے.جانتے بوجھتے ہوئے کہ اسلام کا نظام عدل اس قسم کی لڑائیوں کی تلقین نہیں کرتا جس قسم کی لڑائیوں کو ملاں جہاد قرار دیتا ہے.جب بھی کوئی ملکی خطرہ در پیش ہو اور سیاسی جنگ سامنے ہو تو خودملاں سے کہہ کر اور اس کے ہم آواز ہو کر عوام کو جہاد کے نام پر بلانے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں دنیا ان قوموں سے مزید متنفر ہو جاتی ہے اور دل میں یقین کر لیتی ہے کہ ان کے سیاست دان ظاہری طور پر تو یہی کہتے ہیں کہ اسلام کے جہاد کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تلوار کے زور سے نظریات کو پھیلاؤ یا ہرلڑائی میں خدا کا نام استعمال کرو مگر جب ضرورت پڑتی ہے تو ہمیشہ اسی تصور کا سہارا لیتے ہیں بار بار ہر جگہ ایسے ہوتا ہے اور ہوتا چلا آیا ہے.میں نے جہاں تک اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے آنحضرت ﷺ کے مقدس دور کے بعد اگر مسلمان ملکوں کی لڑائیوں پر نظر ڈالیں تو آپ حیران ہوں گے کہ تمام لڑائیاں جہا د مقدس تھیں.ایک بھی لڑائی مسلمانوں نے نہیں لڑی خواہ وہ غیروں کے ساتھ لڑی ہو یا اپنوں کے ساتھ لڑی ہو.خواہ وہ سنی سنی کے درمیان ہو یا شیعہ شیعہ کے درمیان ہو یا شیعہ سنی کے درمیان ہو جو اس وقت کے علماء اور ان کے سیاستدانوں کے نظریوں کے مطابق جہاد مقدس نہ ہو.عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کو جہاد کے سوا کوئی لڑائی پیش نہیں آتی.ساری دنیا کی قو میں سیاسی لڑائیاں لڑتی ہیں.ان کو ہر قسم کی لڑائیوں کے سامنے کرنے پڑتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے صرف جہاد ہی رہ گیا ہے اور اس جہاد کی تاریخ میں بھاری حصہ مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے سے لڑنے کا ہے اور ایک دوسرے کو جہاد کے نام پر قتل وغارت کیا گیا ہے.پس یہ تمسخر تو المیہ کی شکل اختیار کر گیا ہے.ایک دردناک المیہ کی شکل اختیار کر گیا ہے.اب اس المیہ کو ختم ہونا چاہئے دنیا کی نظر سے دیکھیں تو اس زمانے کا سب سے بڑا تمسخریہ نظریہ ہے جو میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں جسے اسلام کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے اور اگر اندرونی مسلمان کے دل کی نظر سے دیکھیں تو ایک انتہائی دردناک اور ہولناک المیہ ہے جو تیرہ سوسال سے ہمارا پیچھا

Page 310

۳۰۸ یکم مارچ ۱۹۹۱ء نہیں چھوڑ رہا.اس لئے اگر اپنی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں تو اپنے خیالات اور اپنے رجحانات اور اپنے اعمال میں پاک تبدیلیاں پیدا کریں.جب تک مسلمانوں کی سوچ میں انقلاب بر پا نہیں ہوتا اس وقت تک وہ دنیا میں کوئی انقلاب بر پا کرنے کے اہل نہیں ہو سکتے.بغیر تیاری کے جہاد کی بے معنی پکار اور پھر ظلم پر ظلم یہ کہ اس جہاد کے نظریے پر یقین رکھتے ہوئے جہاد کی تیاری کوئی نہیں.قرآن کریم نے تو یہ تعلیم دی تھی وَاَعِدُّوا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ دج رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُقَ اللهِ وَعَدُوَّكُمْ وَأَخَرِيْنَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُوْنَهُمُ اللهُ يَعْلَمُهُمُ (الانفال: ۲۱) کہ اے مسلمانوں اپنی خود حفاظتی کے لئے تیار رہو اور خوب تیاری کرو ہر ایسے دشمن کے خلاف جو تم پر کسی وقت بھی حملہ آور ہو سکتا ہے.ہر قسم کے میدان میں اپنے سواروں کے ذریعے اور پیدلوں کے ذریعے ان سے مقابلے کے لئے ایسے تیار ہو جاؤ کہ ان پر دور دور تک تمہارا رعب پڑ جائے اور کسی کو جرات نہ ہو کہ ایسی تیار قوم پر حملے کا تصور کر سکے.وہ صرف تمہارے ہی دشمن نہیں بلکہ پہلے اللہ کے دشمن ہیں.عدو اللهِ وَعَدُوَّكُمْ پس تم تو اپنے دشمنوں سے غافل رہ سکتے ہو.لیکن خدا اپنے دشمنوں سے غافل نہیں رہا کرتا لَا تَعْلَمُونَهُمْ اللهُ يَعْلَمُهُمُ ایسے حال میں بھی کہ جب تم ان سے بے خبر ہو گے خدا ان کو جانتا ہوگا.پس اگر تم تیاری کا حکم تسلیم کر لو اور دل و جان سے اس پر عمل کرو تو خدا تمہیں خوشخبری دیتا ہے کہ تمہاری غفلت کی حالت میں بھی پردہ پوشی سے کام لے گا اور تمہیں دشمن کے حملوں سے محفوظ ر کھے گا.یہ ہیں اسلامی جہاد کو تسلیم کرنے کے بعد اس پر عمل کا فیصلہ کرنے کے بعد مسلمانوں کی ذمہ داریاں جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہیں ان پر کہاں عمل ہو رہا ہے.حالت یہ ہے کہ جتنے مسلمان ممالک ہیں یہ اسلحہ سازی میں ہر اس ملک کے محتاج ہیں جن کے خلاف مسلمان جہاد کا اعلان کرتے

Page 311

۳۰۹ یکم مارچ ۱۹۹۱ء ہیں.جن مغربی یا مشرقی قوموں کو مشرک اور خدا سے دور اور خدا کے دشمن اور بت پرست اور ظالم اور سفاک بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور یہ حکم سنایا جاتا ہے کہ ان سے لڑنے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے راکٹ مانگنے کے لئے بھی ان کی طرف ہاتھ بڑھائے جاتے ہیں اور سمندری اور ہوائی جنگی جہاز مانگنے کے لئے بھی ان کی طرف دیکھا جاتا ہے، تو ہیں بھی ان سے مانگی جاتی ہیں.ہر قسم کے راکٹ اور دوسرا اسلحہ بھی ان سے طلب کیا جاتا ہے.سادگی کی حد ہے.کہتے ہیں اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں لیکن یہ سادگی پھر بھی قرین قیاس ہے.سمجھ میں آجاتی ہے، بھولا پن ہے مگر تمہاری سادگی جہالت کی انتہا ہے کہ جن کو دشمن قرار دیتے ہو ، جن کوللکارتے ہو اور کہتے ہو کہ ہمارے مذہب کی تلقین ہے کہ تمہارے خون کا آخری قطرہ چوس جائیں انہی سے مخاطب ہو کے کہتے ہو کہ ہم نہتے ہیں.ہمیں ہتھیار تو دو کہ تمہاری گردنیں اڑائیں.اس سے بڑی جہالت اور کیا ہوسکتی ہے.پس اب ایک قوم کی قوم نے اپنے مفادات کی خود کشی کا فیصلہ کر لیا ہو تو کون ہے جو ان کی مدد کو آئے گا اور کیسے کوئی ان کی مدد کر سکے گا.ایسی قوموں کی تو پھر خدا بھی مدد نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ لَا يُخَيَّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيْرُوْا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد:۱۲) ہرگز خدا تعالیٰ کسی قوم کی امداد کا فیصلہ نہیں کرتا.کسی قوم کی امداد کو نہیں آتا.اس کے اندر تبدیلیاں پیدا نہیں کرتا جتنى يُغَيِّرُ وا مَا بِأَنْفُسِهِمْ اس کے دونوں معنی ہیں یعنی یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو تبدیل کر لیں.ایک اور آیت میں اس کا یہ مفہوم بیان کیا گیا ہے کہ وہ قو میں جو اپنی نعمتوں کو خود اپنے ہاتھ سے ضائع نہ کر لیں ، ضائع کرنے کا فیصلہ نہ کریں اللہ تعالیٰ ان کی نعمتوں کو تبدیل نہیں کیا کرتا.اس آیت کو کھلا چھوڑا گیا ہے جس کا مطلب ہے دونوں معانی ہو سکتے ہیں کہ وہ قومیں جو اپنی نعمتوں کو تبدیل کرنے میں جو خدا نے ان کو عطا کی تھیں پہل نہ کریں اللہ تعالیٰ بھی ان کی نعمتوں کی حفاظت فرمائے گا اور دوسرا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قومیں جو خود اپنی تقدیر بنانے میں کوشش نہ کریں اور اپنے حالات کو

Page 312

۳۱۰ یکم مارچ ۱۹۹۱ء تبدیل کرنے کی کوشش نہ کریں اللہ تعالیٰ کبھی ان کو تبدیل نہیں کرے گا.عالم اسلام کے لئے چند مشورے پس عالم اسلام کو میرا مشورہ یہی ہے کہ پہلے اسلام کی طرف لوٹو اور اسلام کے دائمی اور عالمی اصولوں کی طرف لوٹو، پھر تم دیکھو گے کہ خدا کی برکتیں کس طرح تم پر ہر طرف سے نازل ہوتی ہیں.دوسرا اہم مشورہ یہ ہے کہ علوم وفنون کی طرف توجہ کرو.نعرہ بازیوں میں کتنی صدیاں تم نے گزار دیں.تم نعرے لگا کر اور شعر و شاعری کی دنیا میں ممولوں کو شہبازوں سے لڑاتے رہے اور ہمیشہ شہباز تم پر جھپٹتے رہے اور کچھ بھی اپنا نہ بنا سکے.دوسری قومیں علوم وفنون میں ترقی کرتی رہیں اورسائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تم پر ہر پہلو سے فتح یاب ہوتی رہیں اور تم پر ہر پہلو سے فضیلت لے جاتی رہیں.اب ان سے مقابلے کی سوچ رہے ہو اور وہ آزمودہ ہتھیار جوان کے ہاتھ میں تمہارے خلاف کارگر رہے ہیں ان کو اپنانے کی کوئی کوشش نہیں.پس بہت ہی بڑی اہمیت کی بات یہ ہے کہ علوم وفنون کی طرف توجہ دو اور مسلمان طالب علموں کے جذبات سے کھیل کر ، ان کو گلیوں میں لڑا کر گالیاں دلوا کر ان کی اخلاقی تباہی کے سامان نہ کرو اور ان کی علمی تباہی کے سامان نہ کرو اور پھر پولیس کے ذریعہ انہیں ڈنڈے پڑوا کر یا گولیاں چلا کر ان کی جسمانی تباہی کے سامان نہ کرو اور ان کی عزتوں کی تباہی کے سامان نہ کرو.اب تک تو تم یہی کھیل کھیل رہے ہو.مسلمان نسلوں کو جوش دلاتے ہواور پھر وہ بے چارے گلیوں میں نکلتے ہیں اسلام کی محبت کے نام پر ، پھر ان کو رسوا اور ذلیل کیا جاتا ہے ان پر ڈنڈے برسائے جاتے ہیں.ان پر گولیاں برسائی جاتی ہیں اور ان کو کچھ پتا نہیں کہ ہم سے یہ کیوں ہو رہا ہے اس لئے جذبات سے کھیلنے کی بجائے ان کو حوصلہ دو ان کو سلیقہ دو.ان کو قتل کی تعلیم دوان کو بتاؤ کہ اگر تم دنیا کی قوموں میں اپنا کوئی مقام بنانا چاہتے ہو تو علم وفضل کی دنیا میں مقام بناؤ اور اس کے بغیر تمہیں دنیا میں تمہارا قابل عزت مقام عطا نہیں ہوسکتا.

Page 313

خودانحصاری کی ضرورت ۳۱۱ یکم مارچ ۱۹۹۱ء اقتصادی استحکام کا یہ حال ہے کہ سوائے چند تیل کے ملکوں کے جن کو تیل کی غیر معمولی دولت حاصل ہے تمام مسلمان ممالک اور تمام تیسری دنیا کے ممالک ان امیر ملکوں کے سامنے دست طلب دراز کئے بیٹھے ہیں جن کی زیادتیوں کے شکوے کئے جاتے ہیں.جن کی غلامی کے خلاف اپنے عوام کو نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے آکر ہمیں غلام بنالیا اور ایسی قو میں ہیں کہ ان سے ہمیں بالاخر انتقام لینا ہے.پس وہاں بھی تضادات پیدا کر دئیے جاتے ہیں.انگریز کا نام خود سعودی عرب میں لو یا کویت میں لو تو جو انگریز کی حمایت میں بولے گا وہ واجب القتل سمجھا جاۓ گا.امریکہ کا نام لینا گالی ہے لیکن ساری کی ساری قوم امریکنوں اور انگریزوں کے ہاتھ پر بکی ہوئی ہے اور ان کی بیعت کر چکی ہے اور کسی کو کوئی ہوش نہیں.پس جو غریب ممالک ہیں وہ بھکاری بنادیئے گئے ہیں.جو امیر ممالک ہیں وہ اپنی بقا کے لئے اپنے مخالفوں پر انحصار پر مجبور ہو چکے ہیں.پس کیسی مفلسی کا عالم ہے کہ امیر ہو یا غریب ہو وہ بھکاری کے طور پر اس دنیا میں زندہ رہ سکتا ہے اور عزت اور آزادی کے ساتھ سانس نہیں لے سکتا.پس سب سے بڑا خطرہ عالم اسلام کو اور تیسری دنیا کو ان کی نفسیاتی ذلتوں سے ہے وہ کیوں نہیں سمجھتے ، بھکاری کبھی آزاد نہیں ہو سکتا.اگر تم نے اپنے لئے بھکاری کی زندگی قبول کر لی ہے تو ہمیشہ ذلیل ورسوار ہو گے.غیر قوموں کے متعلق تو یہ کہہ سکتے ہو کہ ان کو اس کے خلاف کوئی تعلیم نہیں دی گئی پر تم قیامت کے دن خدا اور محمد مصطفی ﷺ کو کیا جواب دو گے.کیا قرآن کی یہ آیت تمہارے خلاف گواہی نہیں دے گی کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( آل عمران : 1) اے محمد مصطفی کے غلامو! تم دنیا کی بہترین امت تھے جو دنیا پر احسان کرنے کے لئے نکالی گئی تھی اور کیا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی یہ نصیحت تمہارے خلاف گواہ بن کر نہیں کھڑی ہوگی کہ الید العلیا خيــر مـن اليد السفلی ( بخاری کتاب الزکاۃ حدیث نمبر : ۱۳۳۸) کہ اوپر کا ہاتھ ، عطا کرنے والا ہاتھ

Page 314

۳۱۲ یکم مارچ ۱۹۹۱ء ہمیشہ نیچے کے یعنی بھیک مانگنے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے پس اپنی خوبیاں تو تم نے خود غیروں کے سپرد کر دیں.منگتے ، بھکاری بن گئے اور فخر سے اپنی قوم کے سامنے تمہارے سیاستدان یہ اعلان کرتے ہیں کہ امریکہ نے اتنی بھیک منظور کرلی ہے اور امریکہ نے جو بھیک نہیں دی تھی وہ سعودی عرب نے منظور کر لی ہے.اگر تمہاری رگوں میں بھیک کا خون دوڑ رہا ہے تو کس طرح قوموں کے سامنے سراٹھا کر چلو گے.شعروں کی دنیا میں بسنے کی عادت پڑی ہوئی ہے.اقبال کی پرستش کی جاتی ہے جو یہ کہتا ہے: اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر مغنیاں لہک لہک کر یہ کلام دنیا کو سناتی ہیں اور مسلمان سر دھنتا ہے کہ ہاں اس رزق سے موت اچھی لیکن ہرموت سے ان کے لئے وہ رزق اچھا ہے جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیتا ہے.کوئی قربانی کی موت اپنے لئے قبول نہیں کر سکتے.پرواز میں کوتاہی کی باتیں تو دور کی باتیں رہ گئی ہیں اب تو ہر تہ دام دانے پر لپکنے کا نام پرواز کی بلندی قرار دیا جاتا ہے.اس سیاستدان سے بڑھ کر اور کون اچھا سیاستدان ہوگا جو کشکول ہاتھ میں لے کر امریکہ کی طرف گیا اور وہاں سے بھی مانگ لایا اور چین کی طرف گیا اور وہاں سے بھی مانگ لایا اور روس کی طرف گیا اور وہاں سے بھی مانگ لایا.یہ اعلیٰ سیاست کی کسوٹی ہے.اعلیٰ سیاست کو پر کھنے کے معیار ہیں.یہ دینی سیاست تو نہیں یہ اسلامی سیاست تو نہیں.یہ انسانی سیاست بھی نہیں.یہ بے غیرتی کی سیاست ہے.اور واقعہ اقبال نے سچ کہا ہے کہ اس رزق سے موت اچھی ہے جس رزق سے تمہارے ہاتھ اور پاؤں باندھے جاتے ہوں تم خود بھی ذلیل اور رسوا ہوئے اور جن قوموں نے تمہیں اپنا سر دار چنا ان سب قوموں سے تم نے بے وفائی کی ، اپنے عوام سے بے وفائی کی.ان کو بڑی طاقتوں کا غلام بنانے کے تم ذمہ دار ہو، اے مسلمان سیاستدانوں! اور اے لیڈ رو! ہوش کرو اور توبہ کرو ورنہ کل تاریخ کی عدالتوں میں تم مجرموں کے کٹہروں میں پیش کئے جاؤ گے.لیکن اس سے بہت بڑھ کر خدا اور محمد

Page 315

۳۱۳ یکم مارچ ۱۹۹۱ء مصطفی کی عدالت میں قیامت کے دن تم مجرموں کے کٹہروں میں کھڑے کئے جاؤ گے.اس کا بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ جن قوموں کو مانگنے کی عادت پڑ جائے وہ اقتصادی لحاظ سے اپنی حالت بہتر بنا ہی نہیں سکتیں.جو ایک فرد کی نفسیات ہوتی ہے وہی قوموں کی نفسیات بھی ہوا کرتی ہے.آپ اپنے گردو پیش خود دیکھ لیں کہ جن لوگوں کو مانگنے کی عادت ہو اور تن آسانی اور تنعم کی عادت ہو وہ ہمیشہ مانگتے ہی دکھائی دیں گے تبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مانگنے والوں کو قیامت کے دن اس حال میں دیکھا کہ چمڑیاں ہڈیوں سے چپکی ہوئی تھیں اور وہ گوشت نہیں تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ مانگ کر تم اپنے گھر بھر نہیں سکتے.منگتا خالی ہاتھ ہی رہتا ہے اور اسے اپنی اقتصادیات کو بنانے کا عزم ہی عطا نہیں ہوتا ، وہ ہمت ہی عطا نہیں ہوتی.پس جب تک اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا قو میں فیصلہ نہیں کرتیں اقتصادی لحاظ سے وہ نہ ترقی کر سکتی ہیں نہ کسی قسم کا استحکام ان کو نصیب ہوسکتا ہے.تیسری دنیا کے لئے کچھ نصائح پس صرف مسلمانوں کے لئے نہیں مشرقی دنیا کے اور افریقہ کے اور دیگر ساؤتھ امریکہ کے ممالک سے میں یہ درخواست کرتا ہوں کہ اب جو کچھ آپ دیکھ چکے ہیں اس کے نتیجے میں خدا کے لئے ہوش کریں اور اپنی تقدیر بدلنے کا خود فیصلہ کریں.بہت لمبازمانہ ذلتوں اور رسوائیوں کا ہو گیا ہے.خدا کے لئے اس بھیانک خواب سے باہر آئیں جو آپ کے دشمنوں اور بڑی طاقتوں کے لئے تو نظام نو کا ایک عجیب تصور ہے مگر تیسری دنیا کے غریب ممالک کے لئے اس سے زیادہ بھیا تک خواب ہو نہیں سکتی.پس اگر آپ نے نظام نو بنانا ہے اگر جہان نو تعمیر کرنا ہے تو اپنی خوا میں خود بنانی شروع کریں اور خود ان کی تعبیریں کریں اور خود ان تعبیروں کو عمل کی دنیا میں ڈھالنے کے سلیقے سیکھیں.کوئی قوم دنیا میں اقتصادی ترقی کے بغیر آزاد نہیں ہو سکتی اور اقتصادی ترقی کا پہلا قدم خودی کی حفاظت میں ہے اور عزت نفس کی حفاظت میں ہے اور یہ ہرگز ممکن نہیں جب تک تیسری دنیا کے ممالک میں سادہ زندگی

Page 316

۳۱۴ یکم مارچ ۱۹۹۱ء کی تلقین نہ کی جائے اور سادہ زندگی کی رو نہ چلائی جائے.مشکل یہ ہے کہ وہاں اونچے اور نیچے طبقے کے درمیان تفریق بڑھتی چلی جا رہی ہے جبکہ جن ملکوں کو آپ سرمایہ دار ممالک کہتے ہیں ان میں وہ تفریق کم ہوتی جارہی ہے اور طرز زندگی ایک دوسرے کے قریب آرہا ہے لیکن آپ ایشیا کے غریب ممالک دیکھئے یا افریقہ کے غریب ممالک دیکھئے یا ساؤتھ امریکہ کے غریب ممالک دیکھئے وہاں دن بدن نیچے کے طبقے کے اوپر کے طبقے کے بود و باش کی طرز میں فاصلے بڑھتے جارہے ہیں اور خلیج زیادہ سے زیادہ بڑی ہو کر حائل ہوتی چلی جارہی ہے.پس ضروری ہے کہ یہ طبقاتی تقسیم سے پہلے نصیحت اور تلقین کے ذریعے دور کی جائے اور پھر قوانین کے ذریعے ان فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ تحریک اگر اوپر سے شروع ہوگی تو کامیاب ہوگی ورنہ ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتی.ارباب حل و عقد یعنی جن کے ہاتھ میں اقتدار کی باگیں ہیں ان کو چاہئے کہ وہ اوپر سے سادہ زندگی اختیار کرنے کی تحریک چلائیں اور سادہ زندگی اختیار کر کے عوام کو دکھا ئیں.پس اقتصادی استحکام اور ترقی کے سلسلے میں یہ دوسرا اہم اصول پیش نظر رہنا چاہئے کہ غریب ملکوں میں ایک پالیسی نہیں چلائی جاسکتی کہ معیار زندگی کو بڑھایا جائے بلکہ دو پالیسیاں چلانی پڑیں گی غرباء کے معیار زندگی کو بڑھایا جائے اور زیادہ سے زیادہ دولت کا رخ اس طرف موڑا جائے اور امراء کے معیار زندگی کو کم کیا جائے.یاد رکھیں یہ نکتہ ایک بہت ہی گہرا نکتہ ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے ہر گز اتنے نقصان نہیں پہنچتے جتنے دولت کے غیر منصفانہ خرچ سے پہنچتے ہیں.وہ امیر لوگ جو اپنے روپے کو فیکٹریاں بنانے اور اقتصادی ترقی کے لئے ہمیشہ جتے رہتے ہیں اور خود سادہ زندگی اختیار کرتے ہیں ان کے خلاف نفرت کی تحریکیں نہیں چل سکتیں کیونکہ وہ عملاً ملک کی خدمت کر رہے ہیں لیکن وہ لوگ جو تھوڑا سکما کر بھی زیادہ خرچ کرنے کے عادی ہو جائیں ان کا سارا اخلاقی نظام ہی تباہ ہو جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ دلوں میں وہ آگ بھڑ کانے کا موجب بنتے ہیں.پس کارخانہ دار تو کم ہیں اور بڑے امیر تاجر بھی کم ہیں لیکن بھاری اکثریت ایسے تنعم پسند ملکوں کی ان افسروں پر مشتمل ہوتی ہے جو رشوت لیتے ہیں اور رشوت کو عام کرتے ہیں اور ان سیاستدانوں پر

Page 317

۳۱۵ یکم مارچ ۱۹۹۱ء مشتمل ہوتی ہے جن کی سیاست بھی اس طرح کھائی جاتی ہے جس طرح کسی چیز کو کیڑا کھا جاتا ہے.ان کی سیاست بھی پیسہ کمانے کے لئے استعمال ہونے لگتی ہے.ان کی سیاست بھی دھڑے بندیوں کے لئے استعمال ہونے لگتی ہے.ان کی سیاست بھی غریبوں پر رعب جمانے کے لئے اور اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کے لئے استعمال ہونے لگتی ہے گویا کہ سیاست کا رخ تمام تر ان امور کی طرف پھر جاتا ہے جن کے لئے سیاست بنائی نہیں گئی تھی.نتیجتا ملک کے اہم امور سے وہ غافل ہو جاتے ہیں.ان کے لئے سوچ کا وقت ہی نہیں رہتا.ان کی سوچوں کی لہریں تمام تر مسلسل ایک ہی طرف بہتی رہتی ہیں کہ کس طرح اپنا نفوذ قائم کریں، کس طرح اپنے دشمنوں سے بدلے لیں ،کس طرح زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کریں.یہ سیاست کی زندگی چند دن کی تو ہے.کل پتا نہیں کیا ہونے والا ہے.پھر جو کچھ کمانا ہے آج کمالو.خواہ عزتیں بیچ دو، خواہ ووٹ بیچو، خواہ ووٹ خریدو.ہر چیز جب سیاست میں جائز قرار دے دی جائے تو جو سیاستدان پیدا ہوں گے وہ قوم کے مفاد کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں اور اس سارے رجحان میں سب سے زیادہ ظالمانہ کر دار مصنوعی معیار زندگی ادا کرتا ہے.جن قوموں میں اپنی اقتصادی توفیق سے بڑھ کر عیاشی کے رجحان پیدا ہو جائیں.وہ قو میں بھکاری بن جاتی ہیں ان کی سیاست بھی داغدار ہو جاتی ہے، ان کی اقتصادیات بھی پارہ پارہ ہو جاتی ہے ان کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.پس یہ صیحتیں کن پر اثر کریں گی ، کون سے کان ہوں گے جوان نصیحتوں کو سنیں گے، کون سے دل ہوں گے جو ان نصیحتوں کو سن کر ہیجان پذیر ہوں گے اور ان میں حرکت پیدا ہوگی.اگر تمام تر سیاست اور اخلاق اور اقتصادیات کی بنیاد ہی متزلزل ہو.اگر نظریات بگڑے ہوئے ہوں اگر نیتیں گندی ہو چکی ہوں تو دنیا میں کوئی صحیح نصیحت کسی پر نیک اثر نہیں دکھا سکتی.اس لئے جس طرح میں نے غیر قوموں کو نصیحت کی ہے کہ خدا کے لئے اپنی نیتوں کی حفاظت کرو.تمہاری نیتوں میں شیطان اور بھیڑ یئے شامل ہیں اور دنیا کی ہلاکت کا فیصلہ تمہاری نیتیں کرتی ہیں.تمہاری سیاسی چالاکیاں تمہاری نیتوں پر غالب نہیں آسکتیں بلکہ ان کی مد ہو جایا کرتی ہیں اسی طرح میں مسلمان ملکوں اور تیسری دنیا

Page 318

۳۱۶ یکم مارچ ۱۹۹۱ء کے ملکوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ خدا کے لئے اپنی نیتوں کو ٹولو.اگر تم اس لئے بچپن سے انجنیئر نگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہو کہ رشوت لینے کے بڑے مواقع ہاتھ آئیں گے اور بڑی بڑی کوٹھیاں بناؤ گے اور ویسے محل تعمیر کرو گے جیسے ہمسائے یا کسی اور کے محل تم نے دیکھے تھے تو اس نیت کے ساتھ تم دنیا میں کچھ بھی تعمیر نہیں کر سکتے.اگر اس لئے ڈاکٹر بننا چاہتے ہو کہ زیادہ سے زیادہ رو پیدا کٹھا کر کے اپنے لئے سونے کے انبار بناؤ گے اور بڑے بڑے عظیم الشان ہسپتال تعمیر کرو گے اور زیادہ سے زیادہ روپیہ کھینچتے چلے جاؤ گے اور اپنی اولاد کے لئے دولتوں کے خزانے پیچھے چھوڑ جاؤ گے تو پھر تم خود بیمار ہو.Physician Heal Thyself ایسے ڈاکٹر بننے سے بہتر ہے کہ تم خود مرجاؤ کیونکہ جو قوم کی فلاح و بہبود کے لئے علم طب نہیں سیکھتا اس کے علم طب میں کوئی برکت نہیں ہوتی.پس اگر سیاستدان بننے کے وقت تم نے یہ خواہیں دیکھیں یا اس سے پہلے یہ خوا میں دیکھی تھیں کہ جس طرح فلاں سیاستدان نے اقتدار حاصل کیا، اس سے پہلے دو کوڑی کا چپڑاسی یا تھانیدار تھا یا کچھ اور محکمے کا افسر تھا، استعفے دیئے اور سیاست میں آیا اور پھر اس طرح کروڑ پتی بن گیا اور اتنی عظمت اور جبروت حاصل کی.آؤ ہم بھی اس کے نمونے پر چلیں.آؤ ہم بھی سیاست کے ذریعے وہ سب کچھ حاصل کریں تو پھر تم نے سیاست کی ہلاکت کا اسی دن فیصلہ کر لیا اور تم اگر کسی قوم کے راہنما ہوئے تو تم پر یہ مثال صادق آئے گی کہ : واذا كان الغراب هاد قوم سيهديهم طريق الهالكين کہ دیکھو جب کبھی بھی کوے قوم کی سرداری کیا کرتے ہیں تو ان کو ہلاکت کے رستوں کی طرف لے جاتے ہیں.پس نیتوں کی اصلاح کرو اور یہ فیصلے کرو کہ جو کچھ گزر چکا گزر چکا ، آئندہ سے تم قوم کی سرداری کے حقوق ادا کرو گے، سرداری کے حقوق اس طرح ادا کرو جس طرح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم نے تمام عالم کی سرداری کے حق ادا کئے تھے.وہی ایک رستہ ہے سرداری کے حق ادا

Page 319

۳۱۷ یکم مارچ ۱۹۹۱ء کرنے کا اس کے سوا اور کوئی رستہ نہیں.حضرت عمرؓ جب بستر علالت پر آخری گھڑیوں تک پہنچے اور قریب تھا کہ دم تو ڑ دیں تو بڑی بے چینی اور بے قراری سے یہ دعا کر رہے تھے کہ اے خدا! اگر میری کچھ نیکیاں ہیں تو بے شک ان کو چھوڑ دے میں ان کے بدلے کوئی اجر طلب نہیں کرتا مگر میری غلطیوں پر پرسش نہ فرمانا.مجھ میں یہ طاقت نہیں کہ میں اپنی غلطیوں کا حساب دے سکوں.یہ وہ روح ہے جو اسلامی سیاست کی روح ہے.اس روح کی آج مسلمانوں کو بھی ضرورت ہے اور غیر مسلموں کو بھی ضرورت ہے.آج کے تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ سیاست کی اس روح کو زندہ کر دو.تامرتی ہوئی انسانیت زندہ ہو جائے.یہ روح زندہ رہی تو جنگوں پر موت آجائے گی لیکن اگر یہ روح مرنے دی گئی تو پھر جنگیں زندہ ہو گئیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت جنگوں کو موت کے گھاٹ اتار نہیں سکتی.میری کوشش تو یہی تھی کہ تمام مضمون آج ہی ختم کر دوں لیکن چونکہ وقت بہت زیادہ ہو چکا ہے اور ابھی بہت سے ایسے مشورے باقی ہیں جن کو مختصر بھی بیان کیا جائے تو وقت لیں گے اس لئے میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ خطبے میں میں خدا تعالیٰ سے بھاری امید رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ ختم ہوگا اور پھر ہم واپس جہادا کبر کی طرف لوٹیں گے یعنی ذکر الہی کے متعلق باتیں کریں گے.دین کے اعلیٰ مفاہیم کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور دین کی معرفت کی گہرائیوں تک غوطہ زنی کی کوشش کریں گے تا کہ رمضان میں خوب دل اور نفوس کو پاک کر کے اخلاص کے ساتھ داخل ہوں اور زیادہ سے زیادہ رمضان کی برکتوں سے اپنی جھولیاں بھر سکیں.آمین

Page 320

Page 321

۳۱۹ بسم اللہ الرحمن الرحیم ۸ مارچ ۱۹۹۱ء امن عالم کے خواب کو حقیقت میں ڈھالنے والے ہمہ گیر مشورے ( خطبه جمعه فرموده ۱۸ مارچ ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.انتہائی ہولناک مظالم کی ایک اور داستان خلیج کی جنگ جس کا آغاز 16 جنوری کو ہوا.26 فروری کو ایک نہایت ہی ہولناک رات کو اختتام پذیر ہوئی.یہ ایک ایسی خوفناک مصائب کی رات تھی کہ جس کی کوئی مثال جدید انسانی جنگوں کی تاریخ میں دکھائی نہیں دیتی.اس قدر بمباری عراق کی واپس اپنے ملک جاتی ہوئی فوجوں پر کی گئی ہے اور اس قدر بمباری رات بھر بغداد شہر پر کی گئی کہ جہاں تک میں نے جنگی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے کسی اور ملک میں کسی اور جنگ میں کبھی ایسی خوفناک ظالمانہ یک طرفہ شدید بمباری نہیں کی گئی جو فوجیں کو یت چھوڑ کر واپس بصرہ کی طرف جارہی تھیں ان کے متعلق مبصرین کا کہنا ہے کہ اس طرح انہیں بمباری کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ ساری سڑک کویت سے بصرہ تک لاشوں سے اٹی پڑی تھی اور ٹوٹے بکھرے ہوئے گاڑیوں کے موٹروں کے ، بکتر بند گاڑیوں کے اور دوسرے کئی قسم کی Transport کے ٹوٹے ہوئے پرزے ہر طرف بکھرے پڑے تھے اور تباہی کا ایسا خوفناک منظر تھا کہ جسے انسان برداشت نہیں کر سکتا.یہ مغربی مبصرین کا تبصرہ ہے اور بمباری کے متعلق یا عراق میں بغداد پر بمباری

Page 322

۳۲۰ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء کے متعلق بھی جو مبصر وہاں تبصرہ کر رہا تھا اس کی اپنی آواز بار بار کانپ جاتی تھی اور وہ کہتا تھا کہ تصور میں بھی نہیں آسکتا کہ آج رات کیسی ہولناک بمباری ہو رہی ہے.میں نے اس کے متعلق پہلے بھی کہا تھا کہ اور باتوں کے علاوہ دراصل یہ ویٹنام کی ذلت کا بھوت ہے جو احساس کمتری بن کر امریکہ پر سوار ہے اور کسی طرح اس بھوت کو وہ ہمیشہ کے لئے نکالنا چاہتے ہیں.پس وہ رات ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک خاص بدمستی کی رات تھی جس میں عراقیوں کے خون کی شراب پی کر وہ ویٹنام کا غم غلط کرنا چاہتے تھے.میرا یہ تاثر اس طرح درست ثابت ہوتا ہے کہ اس جنگ کے بعد صدر بش نے جو تبصرہ کیا وہ بعینہ یہی تبصرہ ہے.انہوں نے اعلان کیا:.By God we have kicked the vietnam syndrome once and for all.(Harrisburg patriot News, Mar.2, 1991, U.S.A) کہ خدا کی قسم ! ہم نے ویٹنام کے احساس کمتری کو جو ایک اندرونی بیماری بن کر ہماری جان کو لگ چکا تھا ہمیشہ کے لئے ٹھڈے مار کر باہر نکال دیا ہے.لیکن اصل واقعہ یہ نہیں ہے جو وہ سمجھ رہے ہیں ، اصل واقعہ یہ ہے کہ ایک انتہائی ہولناک ظلموں کی داستان کا ہوا تھا جو دراصل ان کے پیچھے پڑا ہوا تھا اور ویسی ہی ایک اور ظلموں کی داستان کا ایک اور ہوا انہوں نے پیدا کر دیا ہے پس اب ایک ہوے کا مسئلہ نہیں.اب دو ہوؤں کا مسئلہ ہے دو بھوت ہیں جو ہمیشہ امریکہ پر سوار رہیں گے ایک ویٹنام کا بھوت اور ایک عراق پر ظلم و ستم کا بھوت.ان کو یہ ہوا اس لئے دکھائی نہیں دے رہا کہ ان کے ہاں اس مسئلہ کا تجزیہ اس سے بالکل مختلف ہے جو تجزیہ دنیا کی نظر میں ہے.دنیا ویٹنام کو اس طرح نہیں دیکھتی کہ وہاں 54 ہزار امریکن ہلاک ہوئے اور ان کی لاشیں واپس اپنے وطن پہنچائی گئیں.دنیا و بینام کے قصے کو اس طرح دیکھتی ہے کہ 25 لاکھ ویٹنا می وہاں ہلاک ہوئے اور ہزار ہا شہر اور بستیاں خاک میں مل گئیں.تو زاویے کی نظر سے مختلف صورتیں دکھائی دے رہی ہیں.مختلف مناظر دکھائی دے رہے ہیں.پس جس ویٹنام سے وہ

Page 323

۳۲۱ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء بھاگنا چاہتے ہیں اور وہ اپنے خیال میں ایسے ویٹنام سے بھاگے جہاں 54 ہزار امریکن موت کے گھاٹ اتارے گئے.اس کے مقابل پر عراق میں ان کا کوئی بھی نقصان نہیں ہوا.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ تاریخ اس نظر سے نہیں دیکھتی.تاریخ نے ویٹنام کو ہمیشہ اس نظر سے دیکھا ہے اور ہمیشہ اسی نظر سے دیکھتی رہے گی کہ امریکن قوم نے اس جدید زمانے میں تہذیب کا لبادہ اوڑھ کر ناحق ایک نہایت کمزور اور غریب ملک پر حملہ کیا اور ساڑھے آٹھ سال تک ان پر مظالم برساتے رہے.ایسے ایسے خوفناک بم برسائے گئے کہ دیہات کے دیہات، علاقوں کے علاقے بنجر ہو گئے.پس ویٹنام کی یاد کو وہ کبھی بھلا نہیں سکتے کیونکہ کبھی دنیا انکو بھلانے نہیں دے گی اور اب اس پر عراق کے ظلم و ستم کا اضافہ ہو چکا ہے.Mr.Tom King جو برٹش گورنمنٹ کے سیکرٹری آف ڈیفنس ہیں انہوں نے پارلیمنٹ میں اس بربادی کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ہم نے اس مختصر عرصے میں عراق کے تین ہزار قصبات کو خاک میں ملا دیا ہے.اب آپ اندازہ کریں کہ جہاں یہ دعوے کئے جاتے تھے کہ عراق کے مظلوموں کو ہم ایک ظالم اور سفاک کے چنگل سے نکالنے کی خاطر یہ جنگ کر رہے ہیں ، وہاں انہوں نے تین ہزار عراقی قصبوں اور شہروں کو تہ خاک کر دیا ہے اور جو باقی تفصیلات ہیں ان کے ذکر کی یہاں ضرورت نہیں کہ کتنے ان کے سپاہی مارے گئے یا دوسری قسم کے کتنے ہتھیاروں کا نقصان ہوالیکن اس تھوڑے سے عرصہ میں تین ہزار شہروں کا مٹی میں مل جانا یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ تاریخ میں کبھی اس تھوڑے سے عرصے میں کسی قوم پر اتنی آفات نہیں توڑی گئیں جتنی عراق پر ان ظالموں نے توڑی ہیں اور اس کے باوجود فتح کے شادیانے بجا ر ہے ہیں.حیرت ہے، ذلت اور رسوائی کی حد ہے، یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کسی امریکن بچے کی لڑائی جاپان کے انو کی‘ سے کرا دی جائے اور وہ اس کو مار مار کے ہلاک کر دے اور پھر نعرے لگائے کہ دیکھو جاپان کو امریکہ پر فتح حاصل ہوگئی.تمھیں تو میں اکٹھی ہوئی ہیں دنیا کی تمام طاقتوں نے مل کر عراق کے خلاف ایکا کیا ہوا ہے اور ہر قسم کے جدید ہتھیاروں میں ہر میدان میں سبقت تھی، ہر میدان میں بالا دستی تھی اور جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر ، دانت نکال کر ، پنجے کاٹ کر کہنا چاہئے جس طرح جانور کے پنجے کاٹے جاتے ہیں،

Page 324

۳۲۲ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء پھر ان کو مارا گیا ہے.اس پر اب فخر کیا جا رہا ہے کہ کتنی عبرتناک شکست دی ہے.بہر حال یہ باتیں تو ماضی کا حصہ بن چکی ہیں.اس کے مستقبل میں جو نہایت خوفناک نتائج نکلنے والے ہیں ان سے متعلق جیسا کہ میں گزشتہ خطبہ میں مشورہ دے رہا تھا، میں چند اور مشورے عربوں کو بھی دوسرے مسلمانوں کو بھی اور تمام دنیا کی خصوصاً تیسری دنیا کی قوموں کو بھی دینا چاہتا ہوں.عرب اقوام کے لئے چند قیمتی مشورے عربوں کو فوری طور پر اپنے اندرونی مسائل حل کرنے چاہئیں اور اس اندرونی مسائل کے دائرے میں میں ایران کو بھی شامل کرتا ہوں.کیونکہ تین ایسے مسائل ہیں جو کہ اگر فوری طور پر حل نہ کئے گئے تو عربوں کو فلسطین کے مسئلے میں کبھی اتفاق نصیب نہیں ہو سکے گا.ایران کی عربوں کے ساتھ ایک تاریخی رقابت چلی آرہی ہے جس کے نتیجے میں سعودی عرب اور کویت عراق کی مدد پر مجبور ہو گئے تھے.اور باوجود اس کے کہ اندرونی طور پر اختلافات تھے لیکن وہ کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتے کہ ایران ان کے قریب آکر بیٹھ جائے.دوسرا شیعہ سنی اختلاف کا مسئلہ ہے اور اس مسئلے میں بھی سعودی عرب حد سے زیادہ الرجک ہے.وہ شیعہ فروغ کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتا.تیسرا مسئلہ کردوں کا مسئلہ ہے.جہاں تک دشمن کی حکمت عملی کا تعلق ہے.اسرائیل سب سے زیادہ اس بات کا خواہشمند ہے کہ یہ تینوں مسائل بھڑک اٹھیں.چنانچہ جنگ ابھی دم تو ڑ رہی تھی کہ وہاں عراق کے جنوب میں شیعہ بغاوت کروادی گئی اور شیعہ بغاوت کے نتیجے میں ایران عرب، رقابت کا مسئلہ خود بخود جاگ جانا تھا.چنانچہ شیعہ علماء نے ایران کی طرف رجوع کیا اور ان سے مدد چاہی.غالباً سعودی عرب نے اس موقع پر بہت شدید دباؤ ڈالا ہے ( کوئی خبر تو باہر نہیں نکی لیکن منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے ) اور امریکہ کو اس یہودی سازش کا آلہ کار بننے سے روک دیا ہے.ورنہ یہ معاملہ یہاں رکنے والا نہیں تھا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایران نے عقل سے کام لیا ہو.اسی علاقے میں اگلی خوفناک جنگوں کی بنیاد ڈال دی جاتی.تا ہم دشمن کی طرف سے یہ کوشش

Page 325

۳۲۳ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء ابھی تک جاری ہے اور اگر یہ کامیاب ہوگئی تو اسی کے نتیجے میں دشمنوں کو دو اہم مقصد حاصل ہو جائیں گے.اول ایران عرب رقابتیں بڑھنی شروع ہونگی اور دوم شیعہ سنی فساد بھڑک اٹھیں گے اور اب یہ دونوں افتراق پھر دوسرے کئی قسم کے جھگڑوں حتی کہ جنگوں پر بھی منتج ہو سکتے ہیں.کر دوں کو بھی اسی وقت انگیخت کیا گیا ہے.کردوں کا مسئلہ اس لئے آگے نہیں بڑھا کہ مغربی قو میں بظاہر انصاف کے نام پر بات کرتی ہیں.لیکن فی الحقیقت محض اپنے ذاتی مقاصد دیکھتی ہیں.اس موقعہ پر کردوں کا مسئلہ چھیڑنا ان کے مفاد میں نہیں تھا.اس کی وجہ یہ ہے کہ کرد مسئلے کا تعلق صرف عراق سے نہیں ہے.کرد مسئلے کا تعلق چار قوموں سے ہے.ایرانیوں سے ،ہترکوں سے اور روسیوں سے اور عراقیوں سے.پس اگر انصاف کے نام پر عراق کے خلاف کردوں کو ابھارتے اور ان کی مدد کرتے تو لازماً ترکی کے خلاف بھی ابھارنا پڑتا تھا ورنہ ان کا انصاف کا بھرم ٹوٹ جاتا اور یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہو جاتا اور کر دوں کو انگیخت کرنے کے نتیجے میں ویسے بھی تمام کردوں کے اندر آزادی کی نئی رو چلتی اور مسائل صرف عراق کے لئے پیدا نہیں ہونے تھے بلکہ ایران کے لئے ، ترکی کے لئے اور روس کے لئے بھی پیدا ہونے تھے پس اس وقت خدا کی تقدیر نے وقتی طور پر ان مسائل کو ٹال دیا لیکن نہایت ضروری ہے کہ یہ تمام مسلمانوں قومیں جن کا ان مسائل سے تعلق ہے، فوری طور پر آپس میں سر جوڑیں اور ان مسائل کو مستقل طور پر حل کر لیں.ورنہ یہ ایک ایسی تلوار کے طور پر ان کے سروں پر لٹکتے رہیں گے جو ایسی تار سے لٹکی ہوئی ہوگی جس کا ایک کنارہ مغربی طاقتوں کی انگلیوں میں پکڑا ہوا ہے یا الجھا ہوا ہے تا کہ جب چاہیں اس کو گرا کر سروں کو زخمی کریں ، جب چاہیں اتار کر سر سے لے کر دل تک چیرتے چلے جائیں.ان مسائل کے استعمال کا یہ خوفناک احتمال ہمیشہ ان کے سر پر لٹکا رہے گا اور یہی حال دیگر دنیا کے مسائل کا ہے مغربی طاقتیں ہمیشہ بعض موجود مسائل کو جب چاہیں چھیڑتی ہیں اور استعمال کرتی ہیں اور اس طرح تیسری دنیا کی قومیں ایک دوسرے سے لڑ کر ایک دوسرے کو ہلاک کرنے کا موجب بنتی ہیں.ایک اور اہم مشورہ ان کے لئے یہ ہے کہ بظاہر یہ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ اسرائیل پر دباؤ ڈال

Page 326

۳۲۴ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء رہا ہے کہ وہ اردن کا مغربی کنارہ خالی کر دے.لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ سب قصہ ہے.ایک ڈرامہ کھیلا جارہا ہے.اگر امریکہ اس بات میں مخلص ہوتا کہ اسرائیل اردن کا مغربی کنارہ خالی کر دے تو صدام حسین کی یہ پہلے دن کی پیش کش قبول کر لیتا کہ ان دونوں مسائل کو ایک دوسرے سے باندھ لو میں کو یت خالی کرتا ہوں تم اسرائیل سے عربوں کے مقبوضہ علاقے خالی کرالو.خون کا ایک قطرہ بہے بغیر یہ سارے مسائل حل ہو جانے تھے.پھر اس تیزی سے اسرائیل وہاں یہودی بستیاں تعمیر کر رہا ہے اور جو روپیہ اسرائیل کو اس وقت مغربی طاقتوں کی طرف سے دیا گیا ہے اس روپے کا اکثر استعمال اردن کے مغربی کنارے کے علاقے میں روس کے یہودی مہاجرین کو آباد کرانا ہے.اس لئے عقلاً کوئی وجہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ ایسا واقعہ ہو جائے کہ امریکہ اس دباؤ میں سنجیدہ ہو اور اسرائیل اس بات کو مان جائے.ایک خطرہ ہے کہ اس کو ایک طرف رکھ کر شام کو یہ مجبور کیا جائے کہ مصر کی طرح تم باہمی دوطرفہ سمجھوتے کے ذریعے اسرائیل سے صلح کر لو.اگر یہ ہوا تو فلسطینیوں کا عربوں میں نگہداشت کرنے والا اور ان کے سر پر ہاتھ رکھنے والا سوائے عراق اور اردن کے کوئی نہیں رہے گا.عراق کا جو حال ہو چکا ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں.اردن میں پہلے ہی اتنی طاقت نہیں ہے بلکہ یہ ہوسکتا ہے کہ اسرائیل اردن سے ایسی چھیڑ چھاڑ جاری رکھے کہ اس کو بہانہ مل جائے کہ اردن نے چونکہ ہمارے خلاف جارحیت کا نمونہ دکھایا ہے یا ہمارے دشمنوں کی حمایت کی ہے اس لئے ہم اس کو بھی اپنے قبضے میں لے لیں تو اس نقطہ نگاہ سے مشرق وسطی کی تین قوموں ایران، عراق اور اردن کا اتحاد نہایت ضروری ہے اور اس کے علاوہ دیگر عرب قوموں سے ان کی مفاہمت بہت ضروری ہے.تا کہ یہ تین نظر کے ایک طرف نہ رہیں بلکہ کسی نہ کسی حد تک دیگر عرب قوموں کی حمایت بھی ان کو حاصل ہو.ایک اور مسئلہ جو اب اٹھایا جائے گا وہ سعودی عرب کے اور کویت کے تیل سے ان عرب ملکوں کو خیرات دینے کا مسئلہ ہے جو تیل کی دولت سے خالی ہیں.یہ انتہائی خوفناک خود کشی ہوگی اگر ان ملکوں نے اس طریق پر سعودی عرب اور کویت کی امداد کو قبول کر لیا کہ گویا وہ حق دار تو نہیں ہیں

Page 327

۳۲۵ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء لیکن خیرات کے طور پر ان کی جھولی میں بھیک ڈالی جارہی ہے.تو اس کے نتیجے میں فلسطین کے مسئلے کے حل ہونے کے جو باقی امکانات رہتے ہیں وہ بھی ہمیشہ کے لئے مٹ جائیں گے.اس لئے اس مسئلے پر عربوں کو یہ موقف اختیار کرنا چاہئے کہ عربوں کو خدا تعالیٰ نے جو تیل کی دولت دی ہے وہ سب کی مشتر کہ دولت ہے اور ایسا فارمولہ طے کرنا چاہئے کہ اس مشترک دولت کی حفاظت بھی مشترک طور پر ہو اور اس کی تقسیم بھی منصفانہ ہو.البتہ جن ملکوں میں یہ دولت دریافت ہوئی ہے ان کو پانچواں حصہ (جیسا کہ اسلامی قانون خزائن کے متعلق ہے ) یا فقہاء کے نزدیک اختلاف ہوں گے، کچھ نہ کچھ حصہ زائد دے دیا جائے.مگر مشتر کہ دولت کے اصول کو منوانا ضروری ہے اور اس پر قائم رہنا ضروری ہے ، اس کے بعد ان کو جو کچھ ملے گا وہ عزت نفس قربان کر کے نہیں ملے گا بلکہ اپنا حق سمجھتے ہوئے ملے اور امر واقعہ یہی ہے کہ سارا عالم عرب ایک عالم تھا جسے مغربی طاقتوں نے توڑا ہے اور اپنے وعدے توڑتے ہوئے تو ڑا ہے ورنہ پہلی جنگ عظیم کے معا بعد واضح اور قطعی وعدہ انگریزی حکومت کی طرف سے تھا کہ ہم ایک متحد آزاد عرب کو پیچھے چھوڑ کر جائیں گے اور وہ متحد آزا د عرب کا وعدہ ان کے حق میں ابھی تک پورا نہیں ہوا.جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت سارے عرب کی دولت مشتر که دولت تسلیم کر لی گئی تھی اور اسی اصول کو پکڑ کر اسے مضبوطی سے تھام لینا چاہئے اور اس گفت و شنید کو ان خطوط پر آگے بڑھانا چاہئے.اقتصادی دولت مشترکہ کی ضرورت ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس تمام خطے کی ایک اقتصادی دولت مشتر کہ بنی چاہئے.اس سے پہلے صدر ناصر نے جو ایک عرب کا تصور پیش کیا تھا وہ سیاسی وحدت کا تصور تھا.ضروری نہیں ہوا کرتا کہ سیاسی وحدت کا تصور پہلے ہو اور اقتصادی اور دوسری وحدتوں کا تصور بعد میں آئے جب سیاسی وحدت کے تصور کو پہلے رکھا جاتا ہے تو باقی وحدتوں کو بعض دفعہ شدید نقصان پہنچتا ہے.اس لئے یورپ کی کامن مارکیٹ بناتے ہوئے یہاں کے ذی شعور لیڈروں نے پہلے اقتصادی تعاون کی بات

Page 328

۳۲۶ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء چلائی اور تھوڑے تھوڑے حصوں میں اقتصادی تعاون کے مقاصد کو حاصل کرنے کے بعد رفتہ رفتہ سیاسی وحدت کی طرف قدم اٹھایا ہے.Pan Arabism کی تحریک جس کا میں نے ذکر کیا ہے دراصل اس کا آغا ز صدر جمال ناصر سے بہت پہلے جمال الدین افغانی نے کیا تھا اور یہ انہیں کا فلسفہ ہے جس کو اپنا کر بعد میں یہ تحریکات آگے بڑھیں پس جمال الدین افغانی کا یہ تصور کہ عرب کو متحد ہو جانا چاہئے بلکہ عالم اسلام کو متحد ہو جانا چاہئے ، ایک ایسا تصور ہے جو اس شکل میں مسلمانوں کو قبول ہی نہیں ہو سکتا.نہ قرآن کریم نے تمام مسلمانوں کے ایک حکومت کے اندر اکٹھے ہونے کا کہیں کوئی تصویر پیش کیا ہے.اس شکل میں تو عرب وحدت بھی حاصل ہونا ناممکن ہے سوائے اس کے کہ مختلف قدموں اور مراحل میں حاصل کرنے کی کوشش کی جائے.پس سب سے اہم قدم اقتصادی وحدت کا ہے جس میں مشترکہ لائحہ عمل ہوں مشترکہ منصو بے بنائے جائیں اور اس سارے خطے کو خصوصیت کے ساتھ خوراک میں خود کفیل بنانے کے منصوبے ہوں اور انڈسٹری میں یعنی صنعت و حرفت میں خود کفیل بنانے کے منصوبے ہوں تب ان ممالک کی آزادی کی کوئی ضمانت دی جاسکے گی.تیسری دنیا کے لئے خطرہ اس ضمن میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اقتصادی آزادی کا تعلق صرف اس خطے سے نہیں ہے بلکہ تمام تیسری دنیا کی قوموں کے ساتھ ہے اور ان کے لئے ایک شدید خطرہ درپیش ہے جس کو ابھی سے پوری طرح سمجھنا چاہئے اور اس کے لئے انسدادی کاروائیاں کرنی نہایت ضروری ہیں.Neo Imperialism یعنی جدید استعماریت کا ہے.روس کے ساتھ صلح ہونے کے بعد وہ مشرقی دنیا جو اشترا کی نظریات کی حامل تھی وہ اپنے نظریات کو نج کر کے تیزی کے ساتھ پرانے زمانے کی طرف لوٹ رہی ہے اور اب نئے مقابلے

Page 329

۳۲۷ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء استعماریت کے لحاظ سے ہوں گے.جب روس نے موجودہ مشکلات سے سنبھالا لے لیا اور ان پر جب عبور پالیا تو اس کے بعد روس کے لئے اقتصادی مقابلے کے لئے ان سے منڈیاں چھینے کا مسئلہ سب سے اہم مسئلہ بن جائے گا.جرمنی ایک نئی اقتصادی قوت کے طور پر ابھرے گا اور مشرقی یورپ کے اور بہت سے ممالک جرمنی کے ساتھ اس معاملے میں اتحاد کریں گے اور ان سب کی اجتماعی اقتصادی پیداوارنٹی منڈیوں کی متقاضی ہوگی.پس تیسری دنیا کے تمام ممالک کے لئے ہولناک خطرات در پیش ہیں.یورپ بھی جاگ رہا ہے اور امریکہ بھی جاگ رہا ہے اور ان سب کے مجموعی مقاصد تیسری دنیا پر اس طریق پر مکمل اقتصادی قبضہ کرنے کے ہیں کہ جس کے بعد صرف سسک سسک کر دم لینے والی زندگی باقی رہ جائے گی.عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی کھا کر زندہ رہنے کا تیسری دنیا کی قوموں کے لئے کوئی سوال باقی نہیں رہے گا.افریقہ کے بعض ممالک ہیں جو ابھی اس حالت کو پہنچ چکے ہیں کہ جہاں ان کے لئے سانس لینا بھی دوبھر ہورہا ہے.اقتصادی تعاون اور با ہمی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت پس اقتصادی تعاون کی مختلف منڈیاں بنی ضروری ہیں.مثلاً پاکستان اور ہندوستان اور بنگلہ دیش اور سری لنکا ، یہ ایک ایسا خطہ ہے جس میں قدرتی طور پر اقتصادی تعاون کی منڈی بنانے کا امکان موجود ہے اور یہ بھی ممکن ہے اگر ان کے اندرونی مسائل حل ہوں.اگر اندرونی مسائل حل نہ ہوں تو یہ نہ اقتصادی منڈیاں بن سکتی ہیں نہ موجودہ تکلیف دہ صورتحال کا کوئی دوسرا حل ممکن ہے موجودہ تکلیف دہ صورتحال سے مراد وہ صورتحال ہے جو میرے ذہن میں ہے کہ جس کے نتیجے میں آپ جب اس پر مزید غور کریں گے تو آپ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ ہمیشہ کے لئے تیسری دنیا کے ان ممالک کا اپنی مصیبتوں سے نجات پانے کا ہر رستہ مسدود ہوا پڑا ہے.ان کے لئے کوئی نجات کی راہ نہیں ہے اور آنکھیں بند کر کے یہ اسی ناقابل فہم طرز فکر پر قائم ہیں، اس قسم کے مسائل کو حل کرنے کی ان کی کوششیں ہیں جن کے اندر حل ہونے کی کوئی صلاحیت ہی نہیں ہے.ایسے بند رستے ہیں جن سے آگے

Page 330

۳۲۸ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء گزرا جاہی نہیں سکتا.چنانچہ وہ مسائل یہ ہیں.مثلاً کشمیر کا مسئلہ ہے.کشمیر کے مسئلے کے نتیجے میں ہندوستان اور پاکستان میں جو رقابتیں پیدا ہو چکی ہیں.ان رقابتوں کے نتیجے میں یہ اتنی بڑی فوج پالنے پر مجبور ہیں کہ جس کے بعد دنیا کا کوئی ملک اقتصادی طور پر آزادی سے زندہ نہیں رہ سکتا.ساتھ فیصدی سے زائد جس قوم کی اجتماعی دولت فوج پالنے پر خرچ ہورہی ہواس کے حصے میں دنیا میں وقار کی زندگی ہے ہی نہیں ، اس کے لئے مقدر ہی نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اقتصادی لحاظ سے اپنی طاقت سے بڑھ کر دفاع پر خرچ کرتا ہے اسے بھیک مانگنا لازم ہے اس کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ وہ اقتصادی لحاظ سے بھی دنیا سے بھیک مانگے اور فوجی طاقت کو قائم رکھنے کے لئے بھی دنیا سے بھیک مانگے.پس ہندوستان اور پاکستان کو بھکاری بنے کی جو لعنت ملی ہوئی ہے یا اس لعنت میں وہ مبتلا ہیں کہ مشرق و مغرب جہاں بھی توفیق ملے وہ ہاتھ پھیلا کر پہنچ جاتے ہیں کہ ہمیں کچھ بھیک دو.تو اس کی بنیادی وجہ آپس کے یہ اختلافات ہیں.آخری قضیئے میں اس کے سوا کوئی صورت نہیں بنتی.پس مسئلہ کشمیر اور اس قسم کے دیگر مسائل کو حل کرنے کے نتیجے میں ان علاقوں میں انقلاب بر پا ہو سکتا ہے اور اس کے علاوہ کچھ اور بھی چیزیں ہیں جن پر عملدرآمد ضروری ہے ، صرف ہندوستان اور پاکستان کے لئے ہی نہیں باقی مشرقی دنیا کے لئے بھی خواہ وہ ایشیا کی ہو یا افریقہ کی ہو، اسی طرح جنوبی امریکہ میں بھی ایسے ہی مسائل ہیں ، ہر جگہ یہی مصیبت ہے کہ علاقائی اختلافات کے نتیجے میں عدم اطمینان ہے ، عدم اعتماد ہے اور ہر جگہ تیسری دنیا کے غریب ملک اپنی خود حفاظتی کے لئے اتنا زیادہ خرچ کر رہے ہیں کہ امیر ملک اس کا دسواں حصہ بھی نہیں کر رہے.جن کو توفیق ہے وہ تو ۳ فیصد سے ۴ فیصد کی بات کرتے ہیں.۴ سے ۵ کی اور جب ۷ فیصد خرچ پہنچ جائے تو اس پر خوفناک بخشیں شروع ہو جاتی ہیں اتنا زیادہ دفاع پر خرچ ہورہا ہے ، ہم برداشت نہیں کر سکتے اور غریب ملکوں کی عیاشی دیکھیں کہ ساٹھ ساٹھ ستر ستر فیصد خرچ کر رہے ہیں اور اس کے باوجود یہ کافی نہیں سمجھا جاتا.چنانچہ فوجی امداد مانگی جاتی ہے.

Page 331

۳۲۹ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء خود کفالت کی ضرورت اقتصادی امداد نے ان کو بھکاری بنا دیا اور بھکاری بننے کے بعد ان کی اقتصادی حالت سدھر سکتی ہی نہیں.ہر ملک کا یہی حال ہے کیونکہ جس شخص کو جھوٹے معیار زندگی کے ساتھ چمٹ جانے کی عادت پڑ گئی ہو.جس شخص کو اپنے جھوٹے معیار زندگی کی بھیک مانگ کر قائم رکھنے کی عادت پڑ چکی ہو، وہ نفسیاتی لحاظ سے اس قابل ہو ہی نہیں سکتا کہ اقتصادی طور پر اس میں خود اعتمادی پیدا ہو اور وہ خود کوشش کر کے اپنے حالات کو بہتر کرے.بالکل یہی حال قوموں کا ہوا کرتا ہے.آپ نے کبھی مانگنے والے انسانوں کو خوشحال نہیں دیکھا ہوگا.مانگنے والے انسان مانگتے ہیں.کھاتے ہیں پھر بھی برے حال میں رہتے ہیں ہمیشہ ترستے ہی ان کی زندگیاں گزرتی ہیں اور وہ لوگ جو قناعت کرتے ہیں وہ اس کے مقابل پر بعض دفعہ نہایت غریبانہ حالت سے ترقی کرتے کرتے بڑے مالدار بن جاتے ہیں.پس تیسری دنیا کی قومیں بدقسمتی سے ایک اور لعنت کا شکار ہیں اور وہ ہے ، قناعت کا فقدان عزت نفس کا فقدان ہاتھ پھیلانے کی گندی عادت اور اس عادت کے نتیجے میں معیار زندگی کا جھوٹا ہو جانا آپ نے دیکھا ہو گا بعض دفعہ امیر آدمی بھی ہوٹلوں پر اس طرح خرچ نہیں کرتا جس طرح ایک مانگنے والا بھکاری بعض دفعہ خرچ کر دیتا ہے.اس کے نزدیک دولت کی قدر ہی کوئی نہیں ہوتی.پیسے مانگے اچھا کھا لیا اور چھٹی ہوئی اور اگلے وقت کے لئے خدا تعالیٰ پھر ہاتھ سلامت رکھے تو مانگنے کے لئے کافی ہیں.بالکل یہی نفسیات ان قوموں کی ہو جایا کرتی ہے.ایک جھوٹا فرضی معیار زندگی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور دیکھنے میں خوشحال دکھائی دیتے ہیں.حالانکہ ان کی خوشحالی مانگے کی خوشحالی ہے پس اس خوشحالی کی وجہ سے دھو کے میں مبتلا رہتے ہیں غربت کی تنگی ان کو مجبور کرسکتی تھی کہ وہ اقتصادی لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں اور اس کے لئے محنت کریں اور کوشش کریں وہ تنگی صرف وہاں محسوس ہوتی ہے جہاں قوم کا طبقہ بے بس ہے اور جہاں صاحب اختیار طبقہ ہے وہاں محسوس نہیں ہوتی یعنی ایسی قومیں دو حصوں میں بٹی ہوئی ہیں ایک بہت ہی محدود طبقہ ہے جو

Page 332

۳۳۰ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء بالائی طبقہ کہلا تا ہے وہ غریب کی زندگی سے بالکل بے حس ہے اور اس کو پتا ہی نہیں کہ غریب ان کی آنکھوں کے نیچے کیسے بد حالی میں زندگی گزار رہا ہے.پس جہاں تکلیف محسوس ہوتی ہے وہاں اختیار کوئی نہیں ، وہاں قوم کی پالیسیاں نہیں بنائی جاتیں اور جہاں پالیسی بنانے والے دماغ ہیں، حکمت عملی طے کرنے والے سر ہیں وہاں تکلیف کا احساس نہیں پہنچتا.پس ایک گہری اعصابی بیماری ہے جس طرح ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے تو نچلے دھڑ کا اوپر کے دھڑ سے واسطہ نہیں رہتا.پاؤں جل بھی جائیں تو دماغ کو پتا نہیں لگتا.پس یہ ہولناک بیماری ہے جو بھیک مانگنے کے نتیجے میں تیسری دنیا کے ملکوں کو لاحق ہو چکی.ہے.فوجی امداد کی لعنت اس کے بعد فوجی امداد کی بات آپ دیکھ لیجئے.زیادہ مہنگے ہتھیار جب آپ خریدیں گے تو وہ اقتصادی حالت جس کا پہلے ذکر گزرا ہے وہ اور بھی زیادہ بدتر ہوتی چلی جائے گی اور یہی ہورہا ہے اور چونکہ آپ زیادہ نہیں خرید سکتے اس لئے مانگنے پر مجبور ہیں.جب آپ ہتھیار دوسری قوموں سے مانگتے ہیں تو ہتھیاروں کے ساتھ ان کے فوجی تربیت دینے والے بھی آتے ہیں یا آپ کے فوجی تربیت حاصل کرنے کے لئے ان کے ملکوں میں بھی جاتے ہیں اور جتنا بھی غیر قوموں کا جاسوسی کا نظام تیسری دنیا میں موجود ہے اس کا سب سے بڑا ذمہ دار یہی فیکٹر (Facter) یہی صورتحال ہے کہ ہتھیار مانگنے کے نتیجہ میں اپنی فوج کو دوسرے ملکوں کے تابع فرمان بنانے کے احتمالات پیدا کر دیتے ہیں اور جہاں تک میں نے تفصیل سے فوجی امداد دینے والی قوموں اور فوجی امداد لینے والی قوموں کے حالات کا جائزہ لیا ہے خود ان کے مصنفین کھلم کھلا اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ جہاں جہاں بھی فوجی امداد دی گئی ہے وہاں وہاں فوجوں میں اپنے غلام بنالئے گئے ہیں اور کثرت کے ساتھ یہ واقعہ دنیا کے ہر ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں فوجی امداد پہنچ رہی ہے.اب اس حصے میں سب سے زیادہ خطر ناک بات یہ ہے کہ صرف امریکہ ہی نہیں ہے جو فوجی امداد کے ذریعے دوسرے ملکوں کو غلام بنارہا

Page 333

۳۳۱ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء ہے بلکہ اسرائیل بھی امریکہ کے دست راست کے طور پر یہی کام کر رہا ہے جہاں امریکہ براہ راست نہیں دے سکتا تو اسرائیل کے سپر د کر دیتا ہے اور بعض ایسی جگہیں ہیں جہاں دونوں مل کر اپنے اپنے دائرے میں غلامی کی دوہری زنجیریں پہنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں.یادر ہے کہ مغربی ممالک کے فرسودہ اسلحہ کی مارکیٹ ہمیشہ تیسری دنیا کے ملک بنے رہتے ہیں اور جب بھی ہتھیاروں کی کوئی جدید کھیپ تیار ہوتی ہے تو پرانی کھیپ کو کھپانے کے لئے نئی منڈیاں ڈھونڈنی پڑتی ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض غریب ملکوں میں سروں کی فصلیں پک کر کاٹے جانے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں کیونکہ غریب ممالک کے آپس کے اختلافات ان ہتھیاروں کی مارکیٹ پیدا کرتے ہیں.ابھی تو صرف امریکہ کے زائد اسلحہ کی کچھ ڈھیریاں ختم ہوئی ہیں.روس کے اسلحہ کے پہاڑ بھی ابھی فروخت کے لئے باقی ہیں اور دیگر مغربی ممالک کا بھی اس تجارت میں شامل ہو جانا ہر گز بعید از قیاس نہیں.جب میں یہ کہتا ہوں کہ ملٹری ایڈز (Aid) اور Aids میں مشابہت ہے تو یہ ایک لطیفے کی بات نہیں ایک بڑی گہری حقیقت ہے.Aids کی بیماری جس سے دنیا آج بہت ہی زیادہ خوفزدہ ہے اور جس کے متعلق بعض پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ 98-1997 ء تک یہ بڑے پیمانے پر مغربی عیسائی قوموں کو ہلاک کرے گی.اس کی تفصیل میں جانے کی اس وقت ضرورت نہیں لیکن میں الگ بعض مواقع پر ذکر کر چکا ہوں.Aids کی بیماری کا تعارف یہ ہے کہ Aids بیماری کے جراثیم انسان کے خون کے اندر نظام دفاعی میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور نظام دفاع پر قبضہ کر لیتے ہیں.پس جس نظام دفاع کو خدا تعالیٰ نے بیماریوں پر قابو پانے کے لئے بنایا تھا وہ خود بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے اور اپنے خلاف وہ حرکت کر نہیں سکتا پس ملٹری ایڈ بالکل اسی Aids کے مشابہ ہے.وہاں غیر قومیں ہمار ے غریب ملکوں کے نظام دفاع پر قبضہ کرتی ہیں اور سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ اس کا پورا احساس نہیں ہے.یعنی صحت مند حصوں کو بھی احساس نہیں ہے.ہمارے ہاں ( ہمارے ہاں سے مراد صرف پاکستان نہیں بلکہ تیسری دنیا کے سب ممالک ہیں انٹیلی جنس کی آنکھیں اندرونی انقلابات کے خطروں

Page 334

۳۳۲ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء کی طرف لگی رہتی ہیں.چنانچہ Counter insurgency measures لئے جاتے ہیں.ایسی تنظیمیں بنائی جاتی ہیں جو اندرونی بغاوت کے خلاف ہمیشہ مستعد رہیں گی اور Counter Insurgency کے داؤ سیکھنے کے لئے اکثر صورتوں میں امریکہ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور بہت سی صورتوں میں اسرائیل کی طرف بھی رجوع کیا جاتا ہے اب آپ دیکھ لیں کہ سری لنکا میں اسرائیل نے ان کو Counter Insurgency کے طریق سکھائے اور باغیوں کو بھی بغاوت کے طریق اسرائیل نے ہی سکھائے.اسی طرح لائبیریا میں اسرائیل نے ان کو بغاوت کا مقابلہ کرنے کے طریق سکھائے اور اب مبصرین یہ لکھ رہے ہیں کہ اسرائیل نے لائبیریا کے سربراہ کی حفاظت اتنی عمدگی سے کی کہ بغاوت کی اطلاع تک وہاں نہیں پہنچنے دی اور اس طرح مکمل طور پر ان کا گھیراؤ کیا ہوا تھا.ایسے ملکوں کی List بہت لمبی ہے.بہت سے اور افریقن ممالک ہیں اور بعض دوسرے ایشیائی ممالک ہیں جن میں صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ اسرائیل بھی ان کو بغاوت کے خلاف طریق کار سکھانے میں سب سے زیادہ پیش پیش ہے اور خطرہ ان سے ہی ہے جو طریق کا رسکھانے آتے ہیں.ان غریب ملکوں پر ان کی فوجوں کے ذریعے قبضے کئے جاتے ہیں.پس اگر کوئی ضرورت ہے تو ایسے جاسوسی نظام کی ضرورت ہے جو اس بات کا جائزہ لے کہ مغربی طاقتوں سے یا غیر مغربی طاقتوں سے خواہ کوئی بھی ہوں جہاں جہاں فوج کے روابط ہوئے ہیں وہاں کس قسم کا زہر پیچھے چھوڑا گیا ہے.کس قسم کے رابطے پیدا کئے گئے ہیں اور وہ رابطہ کرنے والے جو فوجی ہیں وہ زیر نظر رہنے چاہئیں اور خطرات باہر سے آنے والے ہیں.اندر سے پیدا ہونے والے خطرات کم ہیں.اگر بیرونی خطرات کا آپ مقابلہ کر لیں تو اندرونی خطرات کی کوئی حیثیت نہیں رہتی اندرونی خطرات بھی پیدا ہوتے ہیں مگر ہمیشہ ظلم کی صورت میں.ورنہ ناممکن ہے کہ اندرونی طور پر ہماری اپنی فوجوں کو اپنے شہریوں سے کوئی خطرہ لاحق ہو.یا اپنی سیاست کو اپنے شہریوں سے خطرہ لاحق ہو.پس یہ دوسرا پہلو ہے جس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے باہر کی قو میں یعنی ترقی یافتہ قومیں

Page 335

۳۳۳ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء ہمیشہ شور مچاتی ہیں کہ آمریت کا خاتمہ ہونا چاہئے مگر تیسری دنیا کو اپنا غلام بنانے کے لئے وہاں ان کو آمریت ہی موافق آتی ہے کیونکہ جہاں آمریت ہو وہاں اندرونی خطرات پیدا ہو جاتے ہیں اوراندرونی خطرات سے بچنے کے لئے بیرونی سہارے ڈھونڈ نے پڑتے ہیں اور بیرونی سہارے جس طرح میں نے بیان کیا اس طرح ملتے ہیں.پھر جب تک مرضی کے مطابق کام کیا جائے اس وقت تک یہ بیرونی سہارے ساتھ دیتے ہیں ، جب مرضی کے خلاف بات کی جائے تو یہ سہارے خود بخو دٹوٹ جاتے ہیں.یہ وہ لعنت ہے جس کا تیسری دنیا شکار ہے اور اب وقت ہے کہ ہوش سے کام لے.اب جبکہ استعماریت کا ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے اور شدید خطرے لاحق ہیں.اپنی قومی آزادی کی حفاظت کیلئے عزت نفس کی حفاظت کیلئے اور قوموں کی برادری میں وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کے امکانات پیدا کرنے کی خاطر ضروری ہے کہ ان سب امور پر بڑا گہرا غور کیا جائے اور تیزی کے ساتھ اقدامات کئے جائیں.بیرونی امداد کے نقصانات خلاصہ یہ کہ امیر ملکوں سے موجودہ طرز پر امداد حاصل کرنے کے یہ نقصانات ہیں.اول : امداد دینے والا ملک امداد لینے والے کو ذلیل اور رسوا کر کے امداد یتا ہے اور متکبرانہ رویہ اختیار کرتا ہے یہاں تک کہ اگر امداد لینے والا ملک آزادی ضمیر کے حق کو بھی استعمال کرے تو اسے امداد بند کر دئیے جانے کی دھمکی دی جاتی ہے جیسا کہ صدر بش نے حال ہی میں شاہ حسین اور اردن سے سلوک کیا.دوم :.امداد کے ساتھ Strings یعنی ایسی شرطیں منسلک کر دی جاتی ہیں جس سے قومی آزادی پر حرف آتا ہے.سوم:.امداد کے ساتھ سودی قرضے کا بھی ایک بڑا حصہ شامل ہوتا ہے اور بالعموم بہت بڑی بڑی اجرتیں پانے والے غیر ملکی ماہرین بھی اس کھاتے میں بھجوائے جاتے ہیں جو امداد کا ایک بڑا حصہ کھا جاتے ہیں.

Page 336

۳۳۴ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء اکثر افریقہ اور ایشیا میں یہ تلخ تجربہ بھی ہوا ہے کہ امداد کے نام پر پہلی Generation کی مشینری مہنگے داموں فروخت کر دی جاتی ہے اور اکثر ایسے کارخانے جدید ٹیکنالوجی والے کارخانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے.علاوہ ازیں اور بھی بہت سے عوارض ہیں جو تیسری دنیا کے ممالک کی انڈسٹری کو لگے رہتے ہیں جس سے قرضے اتارنے کی صلاحیت کم ہوتی چلی جاتی ہے اور قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے.تقریباً تمام جنوبی امریکہ اس وقت قرضے کی زنجیروں میں جکڑا جا چکا ہے اور امریکہ یا دیگر امیر ملکوں سے امداد پانے والا ایک ملک بھی میں نے نہیں دیکھا جس کا قرضوں کا بوجھ ہلکا ہورہا ہو یہ تو دن بدن بڑھنے والا بوجھ ہے یہاں تک کہ کثیر قومی آمد قرضوں کا سودا اتارنے پر ہی صرف ہو جاتی ہے.پس امداد لینے والے اور امداد مانگنے والے ملکوں کو کبھی دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے دیکھا نہیں گیا.امداد دینے کے بعد رسوا کن رویہ اور اختلاف کی صورت میں امداد بند کرنے کے طعنے اقتصادیات کے علاوہ قومی کردار کو بھی تباہ کر دیتے ہیں.پس صرف غیرت ہی کا نہیں بلکہ اور بھی بہت سے دور رس مفادات کا شدید تقاضا ہے کہ بڑے بڑے امداد دینے والے ملکوں کی امداد شکریہ کے ساتھ رد کر دی جائے اور وہ مسلمان ممالک جن کو خدا تعالیٰ نے تیل کی دولت عطا فرمائی ہے ان کو غیر مسلم ممالک کو ساتھ ملا کر جو وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ (المائدہ :۳) پر تیار ہوں.اسلامی اصول کے تابع ایک نیا امدادی نظام جاری کریں جس میں اولیت اس بات کو دی جائے کہ تیسری دنیا کے وہ غریب ممالک جن پر ہر وقت فاقے اور قحط کی تلوار لٹکی رہتی ہے ان کو جلد تر خوراک میں خود کفیل بنایا جائے یا اقتصادی لحاظ سے اتنا مضبوط کیا جائے کہ اپنے لئے باہر سے خوراک خریدنے کی اہلیت پیدا ہو جائے.قحط زدہ افریقن ممالک کی طرف دنیا کا موجودہ رویہ انتہائی ذلیل بھی ہے اور غیر موثر بھی.ملکوں میں قحط اچانک آتش فشاں پہاڑ پھٹنے کی طرح نمودار نہیں ہوا کرتے کئی سال پہلے سے اقتصادی ماہرین کو علم ہوتا ہے کہ کہاں کب بھوک پڑنے والی ہے پس بڑی بے حسی کے ساتھ انتظار کیا جاتا ہے کہ کب تو میں بھوک سے نڈھال ہو جا ئیں تو ان کو کچھ خوراک مہیا کرنے کے ساتھ انہیں غلامی کے شکنجوں میں جکڑنے کے لئے سیاسی اور نظریاتی

Page 337

۳۳۵ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء سودے بھی کر لئے جائیں.پس قرآنی شرطوں کے مطابق آزاد کرنے والی امداد کا نظام جاری کرنا چاہیے نہ کہ غلام بنانے والی امداد کا تیل کے ممالک اگر خدا کی خاطر اور بنی نوع انسان کی خاطر اپنی تیل کی آمد کوزکوۃ یعنی اڑھائی فیصد 2.5 اس مقصد کے لیے الگ کر دیں تو اکثر غریب ممالک سے بھوک کی لعنت مٹائی جاسکتی ہے.اس ضمن میں جاپان کو بھی ساتھ شامل کرنے کی ضرورت ہے.تیسری دنیا کے ملکوں کو کھل کر جاپان سے یہ بات طے کرنی چاہئے کہ تم تیسری دنیا میں رہنا چاہتے ہو یا اپنے آپ کو ایک مغربی ملک شمار کرنے لگے ہو.اگر تیسری دنیا میں رہنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تیسری دنیا کے مسائل طے کرنے میں ، خصوصاً اقتصادی مسائل طے کرنے میں بھر پور تعاون کرو بلکہ راہنمائی کرو اور قائدانہ کردار ادا کرو.ورنہ نہ تم ہمارے رہو گے نہ سفید فام قوموں میں شمار کئے جاؤ گے.مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی ضرورت اگر ہم اندرونی مسائل کے مضمون کی طرف لوٹتے ہوئے بات شروع کریں تو کشمیر کے سلسلے میں میں سمجھتا ہوں کہ تین حل ایسے ہیں جن پر غور ہونا چاہئے.موجودہ صورتحال تو ہر گز قابل قبول نہیں ہے.اگر یہ صورتحال مزید جاری رہی تو دونوں ملک تباہ ہو جائیں گے.اس مسئلے کا ایک حل تو یہ ہے کہ آزاد کشمیر اور جموں اور کشمیر کو پہلے یہ موقعہ دیا جائے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ تم تینوں مل کر اکٹھا رہنا چاہتے ہو یا آزاد کشمیر پاکستان کے ساتھ مل جائے اور جموں ہندوستان کے ساتھ مل جائے اور وادی کشمیر الگ ہو جائے دوسرا حل یہ ہو سکتا ہے کہ وادی کشمیر ا لگ آزاد ہو اور یہ دونوں ملک الگ الگ آزادہوں.جس کو ہم آزاد کشمیر کہتے ہیں الگ آزاد ہو اور تیسری صورت یہ ہے کہ وہ تینوں مل کر ایک ملک بنا ئیں.پس تین امکان ہوئے آزاد کشمیر الگ ملک جموں الگ ملک اور وادی کشمیرا الگ ملک.دوسری صورت تینوں کا ایک ملک اور تیسری صورت یہ کہ آزاد کشمیر پاکستان کے ساتھ مل جائے.جموں ہندوستان کے ساتھ ملجائے اور کشمیر ایک الگ ریاست کے طور پر نیا وجود حاصل کرے

Page 338

۳۳۶ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء یہ موقع تفصیلی بحث کا تو نہیں ہے.یہ فیصلہ تو ان قوموں نے خود کرنا ہے.ان کا وہی حق ہے لیکن میں جہاں تک سمجھا ہوں، یہ تیسر اصل جو ہے یہ زیادہ موزوں رہے گا اور علاقے میں امن کے لئے بہت بہتر ثابت ہوگا.کیونکہ آزاد کشمیر کے لوگ ہم مزاج ہیں اور ایک ہی جیسے مزاج کے لوگ ہیں جن کا وادی کے کشمیریوں سے مختلف مزاج ہے.وادی کے کشمیریوں کا ایک الگ مزاج اور ایک الگ تشخص ہے اور جموں کے لوگوں کا ایک بالکل جدا گانہ تشخص ہے اور مذہبی لحاظ سے بھی وہ ہندوستان کے قریب تر ہیں.پس اگر استحکام چاہئے تو غالبا یہ عمل سب سے اچھا رہے گا لیکن اس شرط کے ساتھ وہاں آزادی ہونی چاہئے کہ آزاد ملک اس بات کی ضمانت دے کہ کسی طاقتور ملک کے ساتھ الگ سمجھوتے کر کے ہندوستان اور پاکستان کے امن کے لئے خطرہ نہیں بن سکے گا.اس کے لئے آپس میں سمجھوتے سے باتیں طے کی جاسکتی ہیں.اگر یہ نہ کیا گیا اور اسی طرح سکھوں کے ساتھ صلح نہ کی گئی اور دیگر اندرونی مسائل طے نہ کئے گئے تو علاقے میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا.پاکستان کے لئے دردمندانہ نصیحت اور پاکستان کے اندر جو درست ہونے والے توازن ہیں مثلاً سندھی، پنجابی ، پٹھان وغیرہ وغیرہ پھر مذہبی اختلافات ہیں یہ سارے مسائل ہیں جو بارود کی طرح ہیں یا آتش فشاں پہاڑ کی طرح ہیں کسی وقت بھی پھٹ سکتے ہیں اور یہی وہ مسائل ہیں جن سے دیگر قومیں فائدہ اٹھایا کرتی ہیں.پس پیشتر اس کے کہ دیگر قوموں کو فائدے کا موقع ملے آپ اپنے ملک کی اندرونی حالت کو درست کریں.ہمسایوں کے ساتھ بھی تعلقات درست کریں.اور اس کے نتیجے میں آپ کو سب سے بڑا فائدہ یہ پہنچے گا کہ توجہ اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی طرف ہو جائے گی.آپس میں اشتراک عمل کے ساتھ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَی کی روح کے ساتھ مذہب کو بیچ میں لائے بغیر ہر اچھی چیز پر دوسری قوم کے ساتھ تعاون کے امکانات پیدا ہو جائیں گے اور فوج کا خرچ کم ہو جائے گا اور فوج کا خرچ جتنا کم ہوگا اور اقتصادیات جتنا ترقی کرے گی اتنے ہی امکانات پیدا ہوں گے کہ

Page 339

۳۳۷ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء غریب کی حالت بہتر ہو جائے.امر واقعہ یہ ہے کہ میں نے امکانات کہا ہے اس لئے کہ غریب کی حالت بہتر کرنے کے لئے یہ ساری چیزیں کافی نہیں جب تک اوپر کے طبقے کی سوچ صحت مند نہ ہو.اگر اوپر کے طبقے کی سوچ بیمار ہے اور بے حسی ہے اور بے حیائی ہے اور عظیم الشان ہوٹل بنتے چلے جارہے ہیں اور ریسٹورانٹ کے بعد ریسٹورانٹ پیدا ہورہا ہے اور ایک سوسائٹی ہے جو سر شام سے شروع ہو کر رات گئے تک ان ریسٹورانٹس کے چکر لگاتی ہے اور ہوٹلوں کے چکر لگاتی ہے اور عیش وعشرت میں مبتلا رہتی ہے اور لاہور چمک رہا ہوتا ہے کراچی جگمگا رہا ہوتا ہے اگر یہی رجحان جاری رہا اور کسی کی نظر اس طرف نہ گئی کہ ان روشنیوں کے نیچے ایسے ظالم اندھیرے ہیں کہ ان اندھیروں میں تھوڑی دیر بھی آپ جھانکیں تو ان کے اندر کلبلاتی ہوئی انسانیت کی ایسی دردناک شکلیں نظر آئیں گی کہ اس سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.ایک چھوٹی سی مثال میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.میری بیٹی عزیزہ فائزہ جب قادیان جلسے پر گئی تو واپسی پر اناری اسٹیشن پر گاڑی پکڑنے لگی دو بچے بھی ساتھ تھے.کھانے کے لئے چیزیں نکالیں تو وہاں چھوٹے چھوٹے غریب بھوکے بچوں کا ایک ہجوم آگیا اور وہ کہتی تھی کہ صاف نظر آتا تھا کہ بھوکے ہیں.صرف پیشہ ور بھکاری نہیں ہیں.چنانچہ اس نے وہ کھانا ان میں تقسیم کیا پھر اس کے بعد قادیان سے جو دوستوں نے تجھے دیئے ہوئے تھے، کھانے پینے کی چیزیں وغیرہ ، وہ نکالیں ، وہ تقسیم کیں اور جو بات میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ نہیں کہ اس نے تقسیم کیں یہ تو ہر انسان جس کے سینے میں انسانی دل دھڑک رہا ہو وہ یہی کرے گا لیکن جو خاص بات قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ ان غریبوں میں بھی انسانیت کا اعلیٰ معیار پایا جاتا ہے.انسانیت ان غریب ملکوں میں چھوٹی سطح پر زیادہ ملتی ہے بہ نسبت اونچی سطح کے.اس نے بتایا کہ جب سب کچھ تقسیم ہو کے ختم ہو گیا تو میرے پاس ایک کوکا کولا کا ایک ٹن (Tin) تھا ، میں نے کہا وہ بھی ان کو پلاؤں تو ایک بڑی بچی کو دے دیا.اس نے ایک گھونٹ پیا اور پھر ایک ایک بچے کو ایک ایک گھونٹ پلاتی تھی اور گھونٹ پلانے کے بعد اس طرح اس کے چہرے پر طمانیت آتی تھی جس طرح ماں بھو کے بچے کو دودھ پلا کر تسکین حاصل کرتی ہے

Page 340

۳۳۸ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء اور مسکرا کے ان کی طرف دیکھتی تھی کہ دیکھیں کیسا مزا آیا اور بچوں کی قطار لگ گئی ایک کے بعد ایک کو کا کولا کا ایک گھونٹ پیتا تھا اور سمجھتا تھا اس کو آب حیات مل گیا ہے.اس کے بعد جب گاڑی چلنے لگی تو پولیس کے روکنے کے باوجود، دھکے کھانے کے بعد باوجود یہ بچے اتنا ممنون احسان تھے کہ گاڑی کے ساتھ دوڑتے چلے جاتے تھے اور سلام کرتے چلے جاتے تھے یہاں تک کہ نظر سے اوجھل ہو گئے.جب وہ مجھ سے واقعہ بیان کر رہی تھی ، اس وقت میں نے سوچا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ میں اپنی اس بچی کو زیادہ پیار سے دیکھ رہا ہوں یا وہ بھوکے بچے جنہوں نے احسان کے بعد اس کو پیار سے دیکھا تھا اور میں نے سوچا کہ زندگی میں بعض ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب انسانی قدریں خونی رشتوں پر غالب آجایا کرتی ہیں اور انسانی تاریخ میں سب سے بڑا انسانی تعلقات کے خونی رشتوں پر غالب آنے کا دور حضرت اقدس محمد اللہ کے عہد میں آیا بلا شبہ وہ ایک ایسا دور تھا کہ ہر خونی رشتہ ثانوی حیثیت اختیار کر گیا تھا اور انسانی قدروں کو عظمت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنا بلند کر دیا تھا کہ مکارم الاخلاق پر آپ کا قدم تھا.وہ دور ہے جسے واپس لانے کی ضرورت ہے یہ انسانی قدریں ہیں جو تیسری دنیا کو بچائیں گی.یہ قدریں تو آپ کے قدموں کے نیچے پامال ہو رہی ہیں اور خدا کی تقدیر بڑی قوموں کیقدموں کے نیچے آپ کو پامال کرتی چلی جارہی ہے.کیوں خدا کی تقدیر کے اس اشارے کو آپ نہیں سمجھتے.مجھے افسوس ہے کہ یہ دونوں ملک کشمیر کی جنت اپنانے کی لالچ میں اپنے ملکوں کے غرباء کو جہنم میں جھونکے ہوئے ہیں پس تیسری دنیا میں جتنے دوسرے چاہیں دل اختیار کر لیں جب تک عزت نفس کو زندہ نہیں کیا جاتا ، جب تک وقار کو زندہ نہیں کیا جاتا جب تک احسان کے جذبوں کو زندہ نہیں کیا جاتا ، جب تک تمام انسانی قدروں کی حفاظت کا عہد نہیں کیا جاتا اس عہد کو پورا کرنے کے سامان نہیں کئے جاتے ،اس وقت تک تیسری دنیا کی تقدیر بدل نہیں سکتی اور تیسری دنیا آزاد نہیں ہو سکتی.پس ترقی یافتہ قومیں جن کو پہلی دنیا کہا جاتا ہے، نہ صرف آزاد ہیں بلکہ آپ کو غلام بنانے کے لئے پہلے سے زیادہ مستعد اور تیار ہو رہی ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اقتصادی قدم

Page 341

۳۳۹ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء اس رخ پر ہے کہ اس کے بعد یہ چاہیں نہ چاہیں یہ ان قدموں کے ذریعہ تیسری دنیا کی غریب قوموں کو مزید پامال کرنے پر مجبور ہوتی چلی جائیں گی.کیونکہ یہ اپنا معیار نہیں گزار ہیں اور ان کی سیاسی طاقتوں میں یہ استطاعت ہی نہیں ہے کہ اپنی قوم کو معیار گرانے کے مشورے دیں.جو پارٹی ایسا کرے گی یہ پارٹی انتخاب ہار جائے گی.اس لئے یہ ایسے غلیظ پھندے میں جکڑے جاچکے ہیں کہ ظلم پر ظلم کرنے پر اب مجبور ہو چکے ہیں.اس لئے اپنے دفاع کے لئے تیسری دنیا کی قوموں کو خود اٹھنا ہوگا اس کے بغیر نہ ان کو اپنی فوجوں سے آزادی ہو سکتی ہے نہ اپنی بداخلاقیوں سے آزادی ہوسکتی ہے ، نہ ان سب لعنتوں سے آزادی مل سکتی ہے جن کا میں نے ذکر کیا ہے اور جب تو میں ان بیماریوں کا شکار ہوں تو پھر یہ شکوہ کیا کہ ہم مر رہے ہیں اور گدھیں ہمارے پاس آکر بیٹھی ہماری موت کا انتظار کر رہی ہیں.مارنے کے لئے آپ کے جسم کے اندر بیماری پیدا ہوتی ہے اور وہ بیماری جراثیم کو دعوت دیتی ہے.جراثیم سے بھی بیماری پیدا ہوتی ہے.مگر یہ حقیقت ہے کہ صحت مند جسم کو جراثیم کچھ نہیں کہہ سکتے.پس بیماری کا آغا ز اندر سے ہوتا ہے نہ کہ باہر سے جب جسموں کی دفاع کی طاقت ختم ہو جائے تو پھر جراثیم وہاں پہنچتے ہیں اور جسموں پر قبضہ پالیتے ہیں اور جب ان کا قبضہ مکمل ہو جاتا ہے تو پھر یہ جسم لازماً موت کے منہ میں جاسوتے ہیں اور پھر گدھوں کا آنا اور ان کی بوٹیاں نوچنا اور ان کی ہڈیاں بھنبھوڑ نا یہ ایک قدرتی عمل ہے جس نے بعد میں لازماً آنا ہے امر واقعہ یہ ہے کہ یہ تقدیر ہے جس سے کوئی دنیا کی طاقت آپ کو بچا نہیں سکتی اگر آج آپ خود فیصلہ نہ کریں.پس پیشتر اس کے کہ اس کنارے تک پہنچ جائیں اور پھر آپ کی لاشیں خواہ کھلے میدان میں عبرت کا نشان بن کر پڑی رہیں یا قبروں میں دفن کی جائیں اور اگر آج آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے بیان فرمودہ اخلاق کو اور بیان فرمودہ تعلیم کو اپنا لائحہ عمل بنالیں گے اور انسانی قدروں کی حفاظت کریں گے اور کھوئی ہوئی قدروں کو دوبارہ نافذ کریں گے تو غیروں کی ذلت آمیز غلامی سے نجات کا صرف یہ طریق ہے اس کے سوا کوئی طریق نہیں.ہے.

Page 342

۳۴۰ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی نئی تنظیم کی ضرورت ۸ مارچ ۱۹۹۱ء اسی طرح یہ ضروری ہے کہ بعض تیل پیدا کرنے والے ملک بھی ایک نئی او پیک (Opec) کی بنیاد ڈالیں یعنی ایسی او پیک جس میں امریکہ کے وفادار غلاموں کو شامل نہ کیا جائے.امریکہ سے تعاون کرنے والے بے شک شامل کئے جائیں کیونکہ ہمارا اصول یہ ہے ہی نہیں کہ مخالفت کی خاطر کوئی اتحاد قائم کئے جائیں.قرآن نے کہیں اس کا ذکر نہیں فرمایا.اتحاد نیکی پر ہونا چاہئے مگر کسی ملک کا اگر بڑی طاقتوں کے ساتھ بے اصولی پر اتحاد ہو چکا ہو اور ان کا یہ اتحاد قیام عدل کے لئے خطرہ بن جائے تو اس کے نتیجے میں غریب ممالک کے مفادات قربان کر دیئے جاتے ہیں پس لازم ہے کہ تیل پیدا کرنے والے بعض ممالک اپنے دفاع کی خاطر نیا اتحاد کریں.مثلاً ایران ہے عراق ہے.نائیجیریا انڈونیشیا ملائیشیا، سبا وغیرہ ہیں اسی طرح جن دوسرے ملکوں میں جہاں کسی حد تک تیل ملتا ہے وہ آپس میں اکٹھے ہو کر اپنی ایک او پیک بنائیں اور اگر یہ مشترکہ طور پر اپنی Policies طے کریں گے تو ان کے اوپر اس طرح ظلم کے ساتھ مغربی دنیا کی Policies کو مسلطا نہیں کیا جاسکتا جس طرح عراق پر مسلط کر کے اسے غیر منصفانہ طرز عمل پر مجبور کر دیا گیا.سعودی عرب اور کویت وغیرہ کچھ عرصے تک اپنی زیادہ تیل کی قوت کے نتیجے میں اس نئی او پیک کو کچھ مجبور کر سکتے ہیں مگر اپنی دھن اور اصولوں پر اگر یہ قائم رہیں تو تھوڑی دیر کے بعد دباؤ کا یہ کھیل ختم ہو جائے گا.پھر آپ دیکھیں گے کہ اس کے بہت مفید نتائج ظاہر ہوں گے.تیسری دنیا کے وہ ممالک جن میں تیل نہیں ہے ان کو بھی اپنی ایک متحدہ بے تیل کے ملکوں کی انجمن بنانی چاہئے کیونکہ جب بھی دنیا میں کسی قسم کے فسادات ہوتے ہیں ، ہنگامے ہوتے ہیں.جنگیں ہوتی ہیں تو یہی بیچارے ممالک ہیں جو غریب سب سے زیادہ نقصان اٹھاتے ہیں پس اپنے تحفظات کے لئے ان کو اکٹھے ہو جانا چاہئے اور تیل والے ملکوں سے کچھ لمبے سمجھوتے کرنے چاہئیں تا کہ گزشتہ تجارب کی روشنی میں آئندہ کے احتمالات سے بچنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش ہو سکے.

Page 343

۳۴۱ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء افرادی قوت مہیا کرنے والے ممالک کے مزدوروں کے تحفظ کی ضرورت اس ضمن میں ایک اور چھوٹا سا اتحاد قائم کرنا بھی ضروری ہے وہ ممالک جو تیل پیدا کرنے والے ممالک کو مزدور مہیا کرتے ہیں انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ ان کے مزدوروں کو اس طرح ذلیل اور رسوا کیا جاتا ہے اور ایسا ظالمانہ سلوک ان سے ہوتا ہے اور ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا کہ اس کے نتیجے میں قومی غیرت کچلی جاتی ہے اور قوم کے اندر ایک بے حیائی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.مجھے تو جانے کا موقعہ نہیں ملا مگر بعض مسافروں نے گلف میں کام کرنے والے بعض مزدوروں نے اس سلوک کے جو قصے سنائے ہیں جو ہوائی اڈوں پر اترتے ہی ان سے شروع ہو جاتا ہے اس کا سننا ہی ایک با غیرت شخص کے لئے ناقابل برداشت ہے.مثلاً ہوائی اڈوں پر جب پاکستانی جہاز پہنچتے ہیں تو مقامی سپاہی ڈنڈے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے ہوٹیاں اٹھائی ہوئی.ان کے ٹخنوں پر مارتے ہیں کہ یوں سیدھے ہو ، یہاں کھڑے ہو، ایسے قطار بناؤ اور ایسا ذلت آمیز سلوک ان سے ہوتا ہے کہ جس طرح گائے بھینسوں کو ظالم ممالک میں ہانکا جاتا ہے.جو ترقی یافتہ ممالک ہیں ان میں تو گائے بھینس کی بھی اس سے زیادہ عزت کی جاتی ہے تو یہ کب تک برداشت کریں گے؟ غلاموں کی طرح ان سے سلوک اور پھر ان کی کمائیوں کا کوئی تحفظ نہیں یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ وہ غریب مزدوری کرنے جاتے ہیں اور وہ مزدوری کے نتیجے میں ساری عمر کی کمائیاں لاکھ دو لاکھ جو کماتے ہیں ، اگر ان کا مالک ناراض ہو جائے اور فیصلہ کر لے کہ ان کا حق نہیں دوں گا تو معاہدہ اس قسم کا ہوا ہوتا ہے کہ اس کے اختیار میں ہے کہ نہ دے اگر عدالت میں جائیں بھی تو وہاں ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی تو نوکر رکھنے والا اگر ظالم اور سفاک ہواور اس کو یقین ہو کہ میں جو چاہوں کرلوں گا تو نوکر کو غلام سے بھی زیادہ ذلت نصیب ہوتی ہے پس ان ممالک کو ہندوستان، پاکستان فلپائن وغیرہ یا جن جن ممالک سے لوگ آتے ہیں وہاں اکٹھے ہو کر یہ فیصلے کرنے چاہئیں کہ ہم اپنے مزدوروں کو عزت اور وقار کا تحفظ دیں گے اور اگر ان کی حق تلفی کی گئی یا ان سے بدسلوکی کی گئی تو سب مزدور مہیا کرنے والے ممالک مل کر آجر ممالک پر دباؤ ڈال

Page 344

۳۴۲ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء کر اپنے مزدوروں کے حق دلوائیں گے.اسی طرح توازن پیدا ہو جائیں گے اور توازن کے نتیجے میں امن پیدا ہوتا ہے کیونکہ توازن ہی عدل کا دوسرا نام ہے جس کو قرآن کریم نے میزان بھی قرار دیا ہے.پس امن بڑی قوموں کے طاقتور بادشاہوں یا ڈکٹیٹروں یا صدروں کے تحکمات سے تو قائم نہیں ہوا کرتا.امن تو لا ز ما توازن کے نتیجے میں قائم ہوگا اور توازن عدل سے پیدا ہوتا ہے بلکہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.پس تمام عالمی سیاست میں نئے توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس عہد کی ضرورت ہے کہ ہماری ہرا نجمن ہمارا ہر اتحاد عدل کی بالا دستی کے اصول پر قائم ہوگا.پس یہ جتنی انجمنوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں یہ بنیادی شرط ہونی چاہئیے کہ ہر شامل ہونے والا ملک یہ عہد کرے کہ میں عدل کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہوں ، اپنے مفادات کی بالا دستی کو تسلیم نہیں کرتا اور پھر ایسے انتظام ہونے چاہئیں کہ عدل کی بالا دستی کا واقعی کوئی نہ کوئی ذریعہ پیدا کیا جائے اور جو عدل کا احترام نہیں کرتا اس کو اس نظام سے الگ کر دیا جائے.تیسری دنیا کے لئے ایک نئی یونائیٹڈ نیشنز کی ضرورت پس ایک اور بڑی اہم بات ہے کہ خلیج کی جنگ اور اس کے دوران ہونے والے واقعات نے تیسری قوموں کو ایک اور سبق بھی دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا نظام بوسیدہ ہو چکا ہے یعنی جہاں تک تیسری دنیا کے مفادات کا تعلق ہے اقوام متحدہ کا نظام بالکل بوسیدہ اور ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے لائق بن چکا ہے جب تک روس کے ساتھ امریکہ کی مخالفت تھی یا رقابت تھی اس وقت تک اقوام متحدہ کے نظام میں غریب ملکوں کو تباہ کرنے کی ایسی صلاحیت موجود نہیں تھی کیونکہ امریکہ بھی ویٹو کر کے کسی غریب ملک کی حفاظت کر سکتا تھا اور روس بھی ویٹو کر کے کسی غریب ملک کی حفاظت کر سکتا تھا فیصلہ صرف اس بات پر ہوتا تھا کہ امریکہ کا دوست غریب ملک ہے یا روس کا دوست غریب ملک ہے.اب تو ساری دنیا میں کسی غریب ملک کو سہارا دینے کے لئے کوئی باقی نہیں رہا.اتفاق نیکی پر نہیں ہوا ا تفاق بدی پر ہو چکا ہے.

Page 345

۳۴۳ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء پس قرآن کریم نے جب یہ فرمایا وَ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى تو اس کا مطلب صرف تعاون نہیں ہے، یہ مطلب ہے کہ صرف نیکی پر اکٹھے ہوا کرو.بدی پر تعاون نہ کیا کرولیکن سیاسی دنیا کے تعاون اس بات پر ہوتے ہیں کہ نیکی یا بدی کی بحث ہی نہیں ہے ہمارے مشترکہ مفاد میں جو بات ہوگی ہم اس پہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے.پس یہ فیصلے ہیں جو دنیا میں ہو چکے ہیں.روس اور امریکہ کے درمیان یہ فیصلے ہو چکے ہیں اور چین کو اس وقت ایسی حالت میں ایک طرف پھینکا گیا ہے.کہ اس میں طاقت نہیں ہے کہ وہ دخل دے سکے اور ا بھی اس کو اقتصادی لحاظ سے کمزور کیا جائے گا.یہاں تک کہ وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے.اگر یہ صورت حال اسی طرح جاری رہی تو اس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کا ادارہ اور اس سے منسلک تمام ادارے سیکیورٹی کونسل وغیرہ صرف کمزور ملکوں پر ظلم کے لئے استعمال کئے جائیں گے اور ان کے فائدے کے لئے استعمال ہو ہی نہیں سکتے صرف ان کے فائدے کے لئے استعمال ہوں گے جوان قوموں کی غلامی کو تسلیم کر لیں اور ان کے پاؤں چائیں، ان کے لئے اقوام متحدہ کا ادارہ دوستیں بھی لائے گا.سہولتیں بھی پیدا کرے گا ان کو عزت کے خطابات بھی دے گا اور ان کی طرف دوستی کے ہاتھ بھی بڑھائے گا.ہر قسم کے فائدے جو ذلت اور رسوائی کے نتیجے میں کمینگی سے حاصل ہو سکتے ہیں وہ تیسری دنیا کے ملکوں کو حاصل ہوسکیں گے لیکن عزت کے ساتھ وقار کے ساتھ سر بلندی کے ساتھ اگر اس دنیا میں اس یونائیٹڈ نیشنز کے ساتھ وابستہ رہ کر کوئی قوم زندہ رہنا چاہے تو اس کے کوئی امکان نہیں ہیں.پس ایک حل اس کا یہ ہے کہ جس طرح پہلی جنگ کے بعد 1919ء میں لیگ آف نیشنز بنی League of nations پھر دوسری جنگ کے بعد 1945 ء میں United Nations کا قیام عمل میں آیا اس خوفناک یک طرفہ جنگ کے بعد تیسری دنیا کی ایک نئی یونائیٹڈ نیشنز کا قیام کیا جائے اور اس میں صرف غریب اور بے بس ممالک اکھٹے ہوں وہ جو Neutrality کی تحریک چلی تھی کہ نیوٹرل ممالک اکھٹے ہوں وہ بوسیدہ ہو چکی ہے.اس کے اب کوئی معنی نہیں رہے اس میں جان ختم ہو چکی ہے.اب ایک نئی تحریک چلنی چاہئے جس میں ہندوستان اور پاکستان اور ایران اور عراق وغیرہ ایک بہت ہی

Page 346

۳۴۴ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن اس میں مذہبی تعصبات کو بیچ میں سے نکالنا ہوگا.اس لئے ایک مشورہ میرا یہ بھی ہے کہ مسلمان ممالک اگر چہ آپس میں ایک دوسرے سے محبت کے تعلق رکھیں خاص بھائی چارے کے نتیجے میں ذمہ داریاں ادا کریں لیکن مسلمان تشخص کو غیر مسلم تشخص سے لڑا ئیں نہیں.اگر Polarization یعنی یہ تقابل باقی رہا کہ مسلمان ایک طرف اور غیر مسلم ایک طرف تو خواہ غیر مسلم کہتے وقت آپ دماغ میں صرف مغربی طاقتیں رکھتے ہوں لیکن جاپان بھی غیر مسلم ہے، کوریا بھی غیر مسلم ہے، ویت نام بھی غیر مسلم ہے ہندوستان بھی غیر مسلم ہے.غرضیکہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ہیں.وہ مجھتی ہیں کہ پیغام ہمیں بھی پہنچ گیا ہے.اس لئے نہایت ہی جاہلانہ خود کشی والی پالیسی ہے کہ مسلمان کے تشخص کو غیر مسلم کے تشخص سے لڑاویں اور اس کے نتیجے میں کچھ بھی حاصل نہ کریں اور جو کچھ حاصل ہے وہ کھو دیں.پس دنیا میں تیسری دنیا کے اتحاد قائم ہو ہی نہیں سکتے جب تک قرآن کریم کی تعلیم تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوی پر عمل نہ کیا جائے اور اس تعلیم میں مذہبی اختلاف کا ذکر ہی کوئی موجود نہیں.اس تعلیم کی رو سے مشرک سے بھی اتحاد ہوسکتا ہے یہودی سے بھی ہو سکتا ہے ، عیسائی سے بھی ہو سکتا ہے، دہریہ سے بھی ہوسکتا ہے.مذہب کا کوئی ذکر ہی نہیں البر اور تقویٰ ہونا چاہئے.ہراچھی بات پر تعاون کرو.پس تعاون کے اصول کے اوپر ان قوموں کے ساتھ وسیع تر اتحاد پیدا کرنا اور اس کے نتیجے میں ایک نئی United nations of poor nations کا قیام انتہائی ضروری ہے اب ضرورت ہے کہ دنیا کی غریب قوموں کی ایک متوازی اقوام متحدہ کی بنیاد ڈالی جائے جس کے منشور میں محض اسی حد تک اختیارات درج ہوں جس حد تک ان کے نفاذ کی اس انجمن کو طاقت ہو اور ہر ممبر ملک کے لئے اس عہد نامہ پر دستخط کرنے ضروری ہوں کہ وہ اس ادارے سے منسلک رہتے ہوئے ہر حالت میں عدل کی بالا دستی کو تسلیم کرے گا.تیسری دنیا کے الجھے ہوئے معاملات اور قضیوں کو حل کرنے کے لئے اسی ادارہ کی سر پرستی میں دوطرفہ گفت و شنید کا منصفانہ اور موثر نظام قائم کیا جائے اور کمزور قوموں میں اس رجحان کو تقویت

Page 347

۳۴۵ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء دی جائے کہ کوئی فریق اپنے قضیوں کو حل کرنے کے لئے ترقی یافتہ قوموں کی طرف رجوع نہیں کرے گا اور انہیں اپنے قضیے نبٹانے میں دخل کی اجازت نہیں دے گا.مجلس اقوام متحدہ کے تضادات جو موجودہ United Nations ہے اس میں کئی قسم کے اندرونی تضادات بھی ہیں.ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ نئی انجمنوں میں ایسے تضادات پیدا نہ ہوں.جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا کہ یہ عجیب ظالمانہ قانون ہے کہ اگر ساری دنیا میں امریکہ روس ، چین وغیرہ پانچ ملکوں میں سے صرف ایک ملک کسی ملک پر ظلم کرنے کا فیصلہ کر لے تو جس پر چاہے اس پر حملہ کروا دے.اس کے لئے عالمی طاقتوں کو جوابی کاروائی کا کوئی حق حاصل نہیں ہو سکتا جب تک سیکیورٹی کونسل کے مستقل ممالک میں سے ایک ملک اس بات پر قائم رہتا ہے کہ میں کسی کو اس ملک کے خلاف جوابی کارروائی کی اجازت نہیں دوں گا.اس کا نام ویٹو ہے.یہ فیصلہ آج تک نہیں ہوا کہ یونائیٹڈ نیشنز یا سیکیورٹی کونسل کی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ عدلیہ ہے؟ اگر یہ عدلیہ ہے تو پھر بین الاقوامی عدالت کی کیا ضرورت ہے اگر یہ عدلیہ نہیں ہے تو جھگڑوں میں فیصلہ کرتے وقت یہ کیسا فیصلہ کر سکتے ہیں ؟ اور پھر عدلیہ نہ ہونے کی وجہ سے اس فیصلے کو بزور نافذ کرنے کا اختیار بھی ان کو نہیں ہوسکتا اور اگر عدلیہ ہے تو ان کے عدل کا اثر کہاں کہاں تک جائے گا ؟ وہ تو میں جو ان کی ممبر نہیں ہیں ان پر بھی پڑے گا کہ نہیں؟ یہ ایک اور سوال ہے جو اس کے نتیجے میں اٹھتا ہے..پھر اگر یہ محض ایک مشاورتی ادارہ ہے تو فیصلوں کو بزور نافذ کرنے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں محض اسی حد تک اخلاقی دباؤ کا ضابطہ طے ہونا چاہئے جس کا سب قوموں کے خلاف برابر اطلاق ہو سکے.اور اگر یہ محض تعاون کا ادارہ ہے تو تعاون کس طرح لیا جائے اور کون کون سے ذرائع اختیار

Page 348

۳۴۶ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء کئے جائیں اور اگر تعاون حاصل نہ ہو تو کیا کرنا چاہئے؟ یہ سب فیصلے ہونے والے ہیں.اسی طرح اگر یہ محض فلاح و بہبود کے کاموں میں غریب قوموں کی مدد کرنے کا ادارہ ہے تو اس پہلو سے بھی یہ حیثیت واضح اور معین ہونی چاہئے اور سیاست اور رنگ ونسل سے بالا رہ کر غریب قوموں یا آفت زدہ علاقوں کی امداد کا ایسا لائحہ عمل تیار ہونا چاہئے جس کی رو سے اقوام متحدہ کی انتظامیہ آزادنہ فیصلے کر سکے اور آزادانہ تنقید کی اہلیت بھی رکھتی ہو.یہ سوال بھی لازماً طے ہونا چاہئے کہ اقوام متحدہ کی انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس کے فیصلوں کے نفاذ کو کیسے یقینی بنایا جائے کہ بڑی سے بڑی طاقت بھی اسے ماننے پر مجبور ہو.جب تک ان سوالات کا تسلی بخش جواب نہ ہو جس سے غریب اور کمزور قوموں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ملتی ہو یہ ادارہ محض طاقتور قوموں کی اجارہ داری کا ایک پر فریب آلہ کار بنارہے گا.ایک سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر یہ عدلیہ ہے تو یہ سوال اٹھے گا کہ ایک ایسا غریب ملک جس کی حمایت میں نہ امریکہ ہو ، نہ روس ہو، نہ چین ہو، نہ فرانس ہو، نہ برطانیہ ہو اور اس کے حق میں اگر اقوام متحدہ کوئی بڑا فیصلہ کر دیتی ہے یعنی دو تہائی کی اکثریت سے فیصلہ کر دیتی ہے کہ یہ مظلوم ملک ہے اس کی حمایت ہونی چاہئے تو اس فیصلے کو نافذ کیسے کریں گے؟ وہ کیسی عدلیہ ہے جسے فیصلوں کو نافذ کرنے والی طاقتوں کا تعاون نصیب نہ ہو ، اور تعاون حاصل کرنے کا قطعی ذریعہ اسے میسر نہ ہو.اس کی مثال تو ویسی ہی ہے کہ جیسے ایک دفعہ جب امریکہ کے ریڈ انڈینز نے امریکہ کی حکومت کے خلاف وہاں کی عدالت عالیہ میں اپیل کی اور یہ مسئلہ وہاں کی سپریم کورٹ کے سامنے رکھا کہ بار بار امریکہ کی حکومت نے ہم سے معاہدے کئے اور بار باران کی خلاف ورزی کی.بار بار جھوٹےتحفظات دیئے اور بار بار وہ علاقے جن کے متعلق قطعی طور پر تحریری معاہدے تھے کہ یہ ہمارے ہو چکے اور مزید ان میں دخل نہیں دیا جائے گا، دخل دے کر ہم سے خالی کروائے گئے.اور ہمیں دھکیلتے دھکیلتے یہ ایک ایسی حالت میں لے گئے ہیں کہ جہاں ہماری اب بقا ممکن نہیں رہی.اب سوال زندہ رہنے یا نہ زندہ رہنے کا ہو گیا ہے.اس پر امریکہ کی سپریم کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا.انہوں نے

Page 349

۳۴۷ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء کہا بالکل صحیح شکایت ہے.ان تمام معاملات میں جو ہمارے سامنے رکھے گئے ہیں حکومت نے غیر منصفانہ طریق اختیار کیا ہے اور ریڈ انڈینز کا حق ہے کہ پرانے سب فیصلوں کو منسوخ کر کے ان کے حقوق بحال کئے جائیں.جب یہ فیصلہ ہوا تو امریکہ کے صدر نے کہا کہ عدالت عالیہ کا فیصلہ سر آنکھوں پر لیکن اب عدالت عالیہ کو چاہئے کہ اس کو نافذ بھی کر دے.تو بالکل وہی حیثیت آج یونائیٹڈ نیشنز کی ہے ان پانچوں میں سے جن کو Permanent Members کہا جاتا ہے اگر ایک بھی چاہے کہ فیصلہ نافذ نہیں ہوسکتا، تو نہیں ہوسکتا.عجیب انصاف کا ادارہ ہے کہ جس کے خلاف بڑی طاقتیں سر جوڑ لیں اور ظلم پر اکٹھی ہو جائیں تو وہاں ہر چیز نافذ ہو جائے گی لیکن جہاں یہ فیصلہ ہو کہ نافذ نہیں ہونے دینا تو وہاں دنیا کا کوئی ملک الگ الگ یا سارے مل کر بھی کوشش کریں تو اس کے مقابل پر ایک ملک کھڑا ہوسکتا ہے اور کہ سکتا ہے کہ فیصلہ نافذ نہیں ہوگا اور اگر اتفاق بھی کر جائے جیسا کہ فلسطین کے مسئلہ میں کئی ریزولیوشنز میں پانچوں طاقتوں نے اتفاق بھی کر لیا کہ اسرائیل وہ علاقے خالی کر دے تو اگر وہ پانچوں اتفاق بھی کر جائیں تب بھی فیصلہ نافذ نہیں ہو سکتا.یہ عجیب قسم کا امن عالم کا ادارہ ہے اور عجیب قسم کی United Nations ہے فیصلے کرنے کا اختیار ہے، فیصلے نافذ کرنے کا اختیار نہیں.فیصلے نافذ کرنے کا اختیار بڑی طاقتوں کو ہے اور بڑی طاقتوں کی مرہون منت تمام دنیا کی قومیں بنی ہوئی ہیں.یہ ادارہ زندہ رہنے کے لائق نہیں ہے.یہ غلامی کو جاری رکھنے کا ادارہ ہے.غلامی کے تحفظات کا ادارہ ہے.آزادی کے تحفظات کا ادارہ نہیں ہے.اس لئے اگر آج تیسری دنیا کی قوموں نے اس ادارے کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کیا یا یہ کہنا چاہئے کہ ان کو انصاف کے نام پر تعاون پر مجبور نہ کیا اور اپنے قوانین بدلنے پر مجبور نہ کیا تو دنیا کی تو میں آزاد نہیں ہوسکیں گی اور یہ ادارہ مزید خطرات لے کر دنیا کے سامنے آئے گا اور اسے بار بار بعض خوفناک مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا.اس کی تفصیل میں جانے کی اس وقت ضرورت نہیں.

Page 350

اسرائیل کے لئے خصوصی مشورہ ۳۴۸ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء اب میں آخری بات آپ کے سامنے یہ رکھنا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کو بھی آج مخاطب ہوکر میں ایک مشورہ دے رہا ہوں.عام طور پر مسلمانوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اسرائیل کا قیام مغرب کی سازش کے نتیجے میں ، اسرائیل کی چالاکیوں کے نتیجے میں ہوا ہے یہ اپنی جگہ درست ہے لیکن اگر خدا کی تقدیر یہ نہ چاہتی تو ایسا کبھی نہیں ہو سکتا تھا.اس تقدیر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کس تقدیر نے آج اسرائیل کا مسئلہ کھڑا کیا ہے اور اسی تقدیر کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے کہ اس مسئلے کا کیا حل ہے.پس میں قرآن اور حدیث پر بنارکھتے ہوئے اس مسئلے کو آج آپ کے سامنے کھولنا چاہتا ہوں اور اسرائیل کو مشورہ دینا چاہتا ہوں کیونکہ آج امن عالم کا انحصار اسرائیل پر ہے اور اسرائیل کے فیصلوں پر ہے اور یہی ہمیں قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے.قرآن کریم میں سورہ اسراء جسے بنی اسرائیل بھی کہا جاتا ہے، اس میں اس مسئلے پر چند آیات ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.آیت نمبر ۵ یعنی اگر بسم اللہ کو شمار کریں تو پانچ ورنہ چار فرماتی ہے.وَقَضَيْنَا إِلى بَنِي إِسْرَاوِيْلَ فِي الْكِتَبِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْدُنَ عُلُوًّا كَبِيرًا (بنی اسرائیل :۵) کہ ہم نے بنی اسرائیل کے لئے مقدر کر دیا تھا کتاب میں یعنی غالباً زبور مراد ہے یا تقدیر کی کتاب ہو سکتی ہے.بہر حال ہم نے کتاب میں اسرائیل کے ضمن میں یہ تقدیر بنادی تھی ، یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ لَتُفْسِدُنَ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ کہ تم یقیناً دو دفعہ زمین میں فساد برپا کرو گے وَلَتَعْلُنَ عُلُوًّا كَبِيرًا اور بہت بڑی بغاوتیں کرو گے.اگلی چھٹی آیت فرمائی ہے : فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أَو لَهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادَ النَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدِ فَجَاسُوا خِللَ الذِيَارُ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا (بنی اسرائیل (۷) کہ جب پہلا وعدہ پورا ہونے کا وقت آیا تو ہم نے تم پر ایسے بندے مبعوث فرما دیے جو بہت شدید جنگ کرنے والے بندے تھے.ہمارے بندے ایسے تھے جو نہایت سخت جنگجو تھے.وہ تمہارے گھروں کے بیچ میں گھس گئے.وَكَانَ وَعْدًا

Page 351

۳۴۹ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء مَّفْعُولًا اور خدا کا وہ وعدہ پورا ہونا ہی تھا اس وعدے کو کوئی ٹال نہیں سکتا تھا کہ پہلی بغاوت تم کرو اور تمہیں سزا ملے اور وہ سزا دے دی گئی.ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَامْدَدْنُكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَكُمْ اَكْثَرَ نَفِيرًا (بنی اسرائیل ۷۰) پھر ہم نے تمہیں دوبارہ ان پر ایک طاقت عطا کر دی ، غلبہ عطا فرما دیا اور ہم نے تمہاری مدد کی اسی ذریعے سے، اموال کے ذریعے سے بھی اور اولاد کے ذریعے سے بھی اور پھر ہم نے تمہیں بڑھاتے ہوئے ایک بڑی طاقت بنادیا.اِنْ اَحْسَنتُمْ أَحْسَنُتُم لِأَنْفُسِكُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا (بنی اسرائیل : ۸) لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اگر تم اب حسن سلوک کرو گے اور پہلی بدیاں ترک کر دو گے تو دراصل اپنے سے ہی حسن سلوک کرنے والے ہو گے اور اگر تم نے پھر وہی بدی اختیار کی جو پہلے کر چکے تھے تو پھر وہ بدی بھی تمہارے خلاف ہی پڑے گی یعنی عملاً تم اپنے سے وہ بدی کرنے والے ہو گے.فرمایا فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ (بنی اسرائیل (۸) پھر دوسری دفعہ وعدہ پورا کرنے کا وقت بھی آگیا جیسا کہ دو وعدے کئے گئے تھے.لِيَسُوا وُجُوهَكُمْ کہ یہ تقدیر پوری ہو کہ تم پھر بدی کرو گے اور اس بدی کا مزا چکھو گے اور تمہارے چہرے رسوا اور کالے کر دیئے جائیں گے: وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيَتَبِرُوا مَا عَلَوْا تَثْبِيرًا (بنی اسرائیل : ۸) تا کہ وہ دوبارہ مسجد میں داخل ہوں جس طرح پہلے داخل ہوئے تھے اور اسے تباہ و برباد کر دیں.( یہاں ہیکل سلیمانی مراد ہے) یہ دو وعدے تاریخ میں پورے ہو گئے ، ایک تیسرا بھی ہے، اس کا بھی قرآن کریم کی اسی سورۃ میں ذکر ملتا ہے چنانچہ ) اگلی آیت یعنی نویں آیت میں فرمایا: عسى رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ (بنی اسرائیل : ۹) کہ اس کے بعد پھر جب خدا چاہے گا اور اگر خدا نے چاہا بلکہ عسی کا مطلب ہے.ہوسکتا ہے عین ممکن ہے کہ خدا یہ چاہے.اَنْ يَّرْحَمَكُمْ کہ ایک دفعہ پھر تم پر رحم فرمائے لیکن یا درکھنا جب تم پر رحم کیا جائے گا تو اس بات کو نہ بھلانا وَ اِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا اگر تم نے پھر ان سب بدیوں کا اعادہ کیا اور تکرار کی تو ہم بھی ضرور ان سزاؤں کا اعادہ کریں گے جن کے دو دفعہ تم ماضی میں مزے چکھ چکے ہو.وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ

Page 352

۳۵۰ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء لِلْكَفِرِيْنَ حَصِيرًا اس کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں پھر اور کوئی چوتھی حرکت ان کی طرف سے نہیں ہوگی کیونکہ پھر جہنم کا ذکر ہے.اس کے بعد دنیا کے معاملات طے اور ختم پھر آخری فیصلہ قیامت کے بعد ہوگا اور جہنم کے ذریعے سزادی جائے گی.پہلے دو وعدوں کے متعلق میں مختصر ابتا دوں کہ کس طرح ہوئے ، ایک وعدہ تو شروع ہوا 721 قبل مسیح میں جبکہ اسیرینز (Assyrians) نے یہود کی دومملکتوں میں سے شمالی مملکت کو تاخت و تاراج کیا اور اس پر قبضہ کر لیا اور یہ سماریہ بستی سے تعلق رکھنے والی مملکت تھی جسے اسرائیل کہا جاتا تھا.پس 721 قبل مسیح میں یہ واقعہ شروع ہوا، مکمل نہیں ہوا.اس کی تکمیل 597 قبل مسیح سے شروع ہوئی اور 587 قبل مسیح میں پھر وہ دور اپنے درجہ کمال کو پہنچا یعنی وہ طاقت جس کو توڑنے کا آغاز اسیر مینز سے ہوا تھا.124 سال کے بعد دوسرا سلسلہ (اس کے توڑنے کا ) شروع ہوا اور اس دفعہ بابلیوں میں سے نبو کد نضیر (Nebchadnezzar) نے یہودیوں کی بقیہ مملکت پر جسے جو دیا کہا جاتا تھایا جو د Judah بھی کہتے ہیں اور جس میں یروشلم دارالخلافہ ہے اس پر حملہ کیا.پس یا درکھیں کہ اس وعدے کے مطابق پہلا حملہ اسرائیل کو یعنی یہودیوں کی سلطنت کو ارض کنعان میں توڑنے کے لئے ۷۲۱ قبل مسیح میں ہوا اور اسیرین نے اس کا آغاز کیا اور اس کی تکمیل کے لئے دوسرا سلسلہ بنو کد نضیر نے ۵۹۷ قبل مسیح میں شروع کیا اور ۵۸۷ قبل مسیح میں مکمل کیا.دونوں دفعہ یہود کی طاقت کو شدید ضر میں لگائی گئیں لیکن دوسری دفعہ عملاً اسے بالکل ملیا میٹ اور نیست و نابود کر دیا گیا.بے شمار یہودیوں کو قیدی بنا کر نبو کر نفر ساتھ لے گیا اور اس میں حضرت حز قیل بھی ساتھ تھے اور حضرت حزقیل کی کتاب سے پتا چلتا ہے کہ یہ سزا جو یہود کو لی تھی یہ اس لئے ملی تھی کہ ان کی کتاب میں جو الہی محاورہ ہے وہ یہ ہے کہ ان دو بستیوں کی مثال دو کسی عورتوں کی طرح ہو گئی تھی جو اپنا جسم بیچتی ہیں اور بے حیائی میں حد سے بڑھتی چلی جاتی ہیں اور غیروں کو اپنا دوست بناتی ہیں اور خدا سے دوستی توڑ رہی ہیں.بہت ہی خوفناک نقشہ کھنچا گیا ہے اور فرمایا کہ پھر جیسی سزا مقدر تھی خدا نے ان سے پھر تعلق تو ڑ لیا اور کہا اے کسی عور تو ! جس کی تم ہو اسی کی ہور ہو.چنانچہ واقعہ" نبوکدنفر نے ان کسبیوں کو اٹھا کر

Page 353

۳۵۱ اپنے وطن سے جدا کر دیا اور ہیکل سلیمانی کی اینٹ سے اینٹ بجادی.۸ مارچ ۱۹۹۱ء اس کے بعد ۱ ۵۵ ق م یا ۳ ۵ میں اس کے لگ بھگ حضرت حزقیل نبی کی کوششوں اہل فارس سے تعلقات کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا اور ھاروت ماروت کا جو ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے یہ وہی زمانہ ہے اس کے نتیجے میں ان سے انہوں نے مدد حاصل کی.اگر چہ یہ انقلاب بعد میں آیا لیکن یہ حضرت حزقیل کے زمانے میں ہی شروع ہوا تھا.چنانچہ نبو کد نضر کے دوسرے شدید حملے کے ۴۸ سال بعد یعنی اس حملے کے ۴۸ سال بعد جس میں اس نے یروشلم کی بستی اور فلسطین کو کلیہ تباہ برباد کر دیا تھا.اہل فارس کی مدد سے یہود کو دوبارہ ارض مقدس پر غلبہ نصیب ہوا اور یہ واقعہ ۵۳۹ قبل مسیح کا ہے جبکہ سائرس (Syrus) بادشاہ کی مدد سے یہود کو واپس یروشلم میں لے جا کر آباد کر دیا گیا اور اس کے بعد پھر ان کو کئی سو سال تک وہاں رہنے کی توفیق ملی اور جیسا کہ بعض دوسری کتب میں پیشگوئی کے رنگ میں یہ درج ہے کہ یہ دونوں شہر دوبارہ کیسی ہو جائیں گے اور دوبارہ گندگی اختیار کریں گے اور پھر ان کو سزا ملے گی.پس قرآن کریم نے جو نقشہ کھینچا ہے کہ مقدر تھا کہ دو دفعہ تم زمین میں فساد کرو دو دفعہ تم بغاوت کر و بعینہ اسی طرح ہوا ہے پہلے فساد برپا کیا.اس کے بعد دوسری قومیں آئیں پھر انہوں نے ان کے خلاف بغاوت کی اور بغاوت کے بعد کچلے گئے ہیں.چنانچہ دوسری دفعہ کے بعد جب سزا کا سلسلہ شروع ہوا تو رومن بادشاہ Pompey نے ۶۳ قبل مسیح میں جودا Judah پر قبضہ کر لیا اور پھر وہاں سے ان کی تباہی کا آغاز کیا لیکن اس کے باوجود ۱۳۲ بعد مسیح تک یہ تباہی مکمل نہیں ہوئی ۱۳۲ بعد مسیح میں Hadrian (ہیڈرین ) جو ایک بہت بڑا رومن Emperor ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ رومن بادشاہوں کی تاریخ میں غیر معمولی مقام رکھتا ہے.یہ وہی بادشاہ ہے جس کی سلطنت انگلستان سے لے کر افریقہ تک اور پھر دریائے فرات تک پھیلی ہوئی تھی اور انگلستان بھی اس کو آنے کا موقعہ ملا.یہاں شمال میں ایک دیوار ہے جس طرح دیوار چین بنائی گئی ہے.بعض کہتے ہیں کہ یہ کوئی 80 میل بعض کہتے ہیں 74-76 میل ہے.یہ ایک بہت بڑی دیوار ہے جو آج تک

Page 354

۳۵۲ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء قائم ہے یہ اسی Hadrian بادشاہ نے بنائی تھی.پس جب یہودیوں نے وہاں دوبارہ بغاوت کی تو اس بغاوت کو کچلنے کے لئے Hadrian بادشاہ نے اپنے اس جرنیل کو واپس بلا لیا جو انگلستان پر حکومت کرتا تھا اور اس نے غالباً یہاں اپنا تسلط جمائے رکھا تھا.بہت قابل جرنیل تھا اس کو بلا کر یہود کو کچلنے کے لئے بھجوا دیا.یہ واقعہ ۱۳۲ء کے لگ بھگ ہوا سو فیصدی تاریخ دان متفق نہیں لیتے ہیں.۱۳۲ء سے لے کر ۱۳۳ ۳۴ تک یہ معاملہ مکمل ہو گیا تھا اس نے ان کو ایسا خوفناک مزا چکھایا ہے بغاوت کا کہ مورخین کہتے ہیں کہ 5لاکھ یہودیوں کو وہاں تہ تیغ کیا.پہلے تو مجھے خیال آیا یہ ہو نہیں سکتا.یہ غلطی ہوگی لیکن جب میں نے قرآن کریم کی پہلی پیشگوئی کو پڑھا کہ ہم تمہیں بہت اولا در یں گے اور بہت برکت تمہارے نفوس میں دیں گے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل درست تاریخی واقعہ ہے.واقعہ اس زمانے کے لحاظ سے 5 لاکھ کے قریب یہودی وہاں ہلاک کئے گئے اور مسجد کو دوبارہ نیست و نابود کر دیا گیا.پس دو دفعہ ہیکل سلیمانی تعمیر ہوا اور دو دفعہ برباد ہوا.یہ سب کچھ جب ہو چکا تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يَرْحَمَكُمْ وَ اِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَفِرِيْنَ حَصِيرًا ابھی بھی خدا تعالیٰ کو ہوسکتا ہے تم پر رحم آجائے یعنی یہ دو ہلاکتیں پوری ہوگئیں.دو پیشگوئیاں اپنے وقت پر پوری ہو کر ختم ہوئیں لیکن عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يَرْحَمَكُمْ یہ کب ہونا ہے اور کس طرح ہونا ہے اس کے متعلق اسی سورت کے آخر پر یہ آیت ہے ، جو آنحضرت کے زمانے کے مضمون سے تعلق رکھنے والی آیت ہے اور اسی مضمون میں گھری ہوئی یہ آیت ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ رحم کا واقعہ دور آخر میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے زمانے میں آپ کی امت کے وقت میں ہونا تھا.چنانچہ فرمایا: وَقُلْنَا مِنْ بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَاءِ يْلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاء وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيقًا (بنی اسرائیل : ۱۰۵) کہ جب وہ وعدہ آخر آئے گا جبکہ ساری دنیا سے تمہیں اکٹھا کر کے دوبارہ اس زمین پر لے کر آنا ہے تو اس وقت خدا کی تقدیر ایسا انتظام کرے گی اور تم سب لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا.یہ واقعہ پہلی دفعہ ہوا ہے.

Page 355

۳۵۳ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء گزشتہ تاریخوں میں یہود بار بار فلسطین پر بستے رہے لیکن ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ Diaspora یعنی وہ سارا علاقہ جہاں یہود منتشر ہوئے تھے، ان تمام علاقوں سے دوبارہ اکٹھے کئے گئے ہوں.یہ تاریخ عالم کا پہلا واقعہ ہے.پس دیکھیں قرآن کریم کی پیشگوئیاں کس صفائی اور کس حیرت انگیز شان کے ساتھ پوری ہوئی ہیں اور آئندہ پوری ہوں گی.پس یہود کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ ان پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی تقدیر نے تم پر رحم کھاتے ہوئے اور Nahtsi نائسی جرمنی میں تم پر مظالم کی جو حد ہوگئی تھی ان کے نتیجے میں یہ فیصلہ کیا کہ بہت ہو چکی ، شاید اب تم نے سبق سیکھ لئے ہوں.تمہیں معاف کر دیا گیا اور تمہیں دوبارہ وہاں ایک غلبہ عطا کیا گیا.اس غلبے کو توڑنے کی مسلمان حکومتوں کو طاقت نہیں ہوگی کیونکہ احادیث سے پتا چلتا ہے کہ ایک فتنہ اٹھے گا جو عراق اور شام کے درمیان سے اس چھوٹے سے سمندر کے رستے سے نکلے گا اور اس کا سارا پانی پی جائے گا جو اسرائیل میں واقع ہے، بحیرہ طبر یہ اس کا نام ہے جس کا حدیث میں ذکر ہے.یہ اسرائیل کے علاقے میں ایک چھوٹا سا سمندر ہے جس میں سے دریائے Jordan ہوکر گزرتا ہے.فرمایا: وہاں بہت بڑا لشکر جمع ہو گا اور وہ نکلے گا اور بہت بڑی طاقت ہے جو یلغار کرے گی.پس اگر اسرائیل نے پچھلی دو تاریخی ہلاکتوں سے سبق حاصل نہ کیا اور تلخ تجربوں سے سبق حاصل نہ کیا تو تمام دنیا کے امن کو درہم برہم کرنے کے لئے اسرائیل سے فتنہ اٹھے گا اور یہ مقدر ہے اس کو دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اسے تباہ کریں گے اور ہم ایسا انتظام کریں گے کہ وہ اور ان کے ساتھ ساری طاقتیں جو ان کی مرد اور مددگار ہیں ان کے ٹکڑے ٹکڑے اڑادیں اور ان کو عبرت کا نشان بنادیں.آخری پیغام اس حدیث میں یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے گلوں میں ایسی گٹھلیاں نکالے گا اور ایسی بیماریاں پیدا کرے گا جن کے ساتھ وہ بڑے ہولناک طریق پر، بڑے وسیع پیمانے پر ہلاک ہوں گے اور یہ وہی بیماری ہے Aids جس کا میں نے ذکر کیا تھا.یہ جو میرا اندازہ ہے یہ آنحضرت ﷺ کی حسب ذیل پیشگوئیوں پر مبنی ہے جو کہ حدیث میں تفصیل کے ساتھ ملتی ہیں.الله

Page 356

۳۵۴ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء حضرت نواس بن سمعان بیان کرتے ہیں کہ ایک روز آنحضرت ﷺ نے دجال کا ذکر فرمایا اور تفصیل سے اس کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا.یہ حدیث تو بہت طویل ہے.میں اس میں سے صرف چند فقرے یہاں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ نے فرمایا :انہ خارج خلة بين الشام والعراق کہ وہ شام اور عراق کے درمیان کے علاقے سے ظاہر ہوگا.دائیں بائیں جدھر رخ کرے گا قتل و غارت کا بازار گرم کرتا چلا جائے گا.پھر فرمایا:.اس میں ایسے ابر باراں کی سی تیزی ہوگی جے پیچھے سے تیز ہوا دھکیل رہی ہو.“ ( جیسے آج کل کے جیٹ (Jet ) ہوائی جہاز اڑتے ہیں ) پھر فرمایا:.کہ ایسے ہی حالات میں اللہ تعالیٰ مسیح موعود کو مبعوث فرمائے گا اور انہیں بذریعہ وحی یہ خبر دے گا کہ انی قد اخرجت عبادا لى لا يدان لاحد بقتالهم (مسلم کتاب الفتن حديث 66 نمبر : ۵۲۲۸) کہ میں نے اب کچھ ایسے لوگ بھی برپا کئے ہیں جن سے جنگ کی کسی میں طاقت نہیں.“ پھر مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یا جوج ماجوج کو بر پا کرے گا اور وہ ہر بلندی سے تیزی کے ساتھ پھلانگتے ہوئے گزر جائیں گے.فرمایا:.یا جوج ماجوج کی اس ٹڈی دل فوج کے اگلے حصے، فيمروا لهم على بحيرة طبرية فيشربون ما فيها، بحیرہ طبریہ کے پاس سے گزریں گے اور اس کا سارا پانی پی جائیں گے اور جب اس فوج کا آخری حصہ وہاں پہنچے گا تو کہے گا کہ یہاں کبھی پانی ہوا کرتا تھا وہ اب کہاں گیا.ان روح فرسا حالات میں نبی اللہ سیح موعود علیہ السلام اور آپ کے ساتھی رضی اللہ عنہم اللہ کے حضور دعا ئیں کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو قبول فرمائے گا.فیرسل الله تعالى عليهم النغف في رقابهم اور یا جوج ماجوج کی گردنوں میں کیڑے پیدا کر دے گا.(مسلم کتاب الفتن حدیث نمبر ۵۲۲۸) جو بڑے پیمانے پر تیزی سے ان کی ہلاکت کا موجب بنیں گے.پھر ایک دوسری حدیث میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ فرماتے ہیں.لم تظهر الفاحشة في قوم قط حتى يعلنوا بها الا فشافيهم الطاعون ولا وجاع التي لم تكن مضت في اسلا فهم الذين مضوا (ابن ماجہ کتاب الفتن حدیث نمبر : ۴۰۰۹)

Page 357

۳۵۵ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء یعنی اگر کوئی قوم جنسی بے حیائی میں مبتلا ہو جائے اور اس کی نمائش کرے تو اس میں ایک قسم کی طاعون کی بیماری پھیل جاتی ہے جو ان سے پہلوں میں کبھی نہیں پھیلی.یہ وہ حدیث ہے خصوصیت کے ساتھ Aids کی بیماری کی طرف کھلے کھلے لفظوں میں اشارہ کر رہی ہے اور یہ Aids وہ بیماری ہے جسے ایک قسم کی طاعون کہا جاتا ہے اور یہ وہ بیماری ہے جس کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ اس سے پہلے کبھی دنیا میں نہیں پھیلی.دلچسپ بات ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد کو بھی خدا تعالیٰ نے ایک نئی قسم کی طاعون پھیلنے کی خبر دی تھی.یہ ۱۳ مارچ ۱۹۰۷ء کا الہام ہے.فرماتے ہیں.یورپ اور دوسرے عیسائی ملکوں میں ایک قسم کی طاعون پھیلے گی جو بہت ہی سخت ہوگی ( تذکر صفحہ:۵۹۵) پس ایک یہ ہلاکت ہے جو آج نہیں تو کل مقدر ہے.اگر ان قوموں نے اپنی اصلاح نہ کی تو ان کی بداعمالیوں کے نہایت خوفناک نتائج نکلیں گے.اس موقعہ پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ انذاری یعنی ڈرانے والی پیشگوئیاں ہمیشہ مشروط ہوتی ہیں خواہ ظاہری لفظوں میں شرط کا ذکر ہو یا نہ ہو.اس کی واضح مثال حضرت یونس کے واقعہ میں ملتی ہے کہ ایک قطعی پیشگوئی ان کی قوم کی تو بہ اور گریہ وزاری سے ٹل گئی.پس اسرائیل کی تباہی یا بقا کا فیصلہ اگر چہ آسمان پر ہوگا لیکن اگر یہود کے معتدل مزاج اور امن پسند عناصر، انتہاء پسند صیہونیوں پر غلبہ حاصل کرلیں اور ان کی سرشت میں داخل بہیمانہ انتقام پسندی کے پہنچے کاٹ دیں اور بحیثیت قوم یہود یہ انقلابی فیصلہ کرلیں کہ مسلمان ہوں یا عیسائی ہر دوسری قوم سے انصاف بلکہ احسان کا معاملہ کریں گے تو میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ جیسا کہ.قرآن کریم میں وعدہ ہے اللہ تعالیٰ ان سے احسان کا سلوک فرمائے گا اور مسلمان بھی ان کے ساتھ عدل واحسان کا سلوک کریں گے انہیں یا درکھنا چاہئے کہ ملاں کی سرشت اسلام کی سرشت نہیں.قرآن اور اسوۂ نبوی ﷺ نے جو سرشت مسلمان کو بخشی ہے اس میں انتقام نہیں بلکہ عفوا ور بخشش اور

Page 358

۳۵۶ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء رحم کا جذ بہ غالب ہے.مغربی عیسائی قوم کے لئے ایک نصیحت عیسائی مغربی قوموں کو بھی میں خلوص دل سے یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ قرآن اور احادیث میں مندرج پیشگوئیوں میں آپ کے لئے جن عبرتناک سزاؤں کا ذکر ملتا ہے انہیں حقارت اور استہزاء کی نظر سے نہ دیکھیں آسمانی نوشتے کبھی زمینی چالاکیوں سے ٹالے نہیں جاسکتے اگر ٹالے جاسکتے ہیں تو سچی تو بہ اور استغفار اور پاک تبدیلی سے اگر ایسا ہوتو اللہ تعالیٰ کی مغفرت جو اس کے غضب پر حاوی ہے ہر مقدر سزا کو ٹالنے یا کالعدم کرنے پر قادر ہے.پس ضروری ہے کہ اپنی سیاسی اور اقتصادی اور اخلاقی اور معاشرتی طرز فکر میں بنیادی تبدیلی پیدا کریں.ہر میدان میں بلا استثناء عدل کے تقاضوں کو قومی اور نسلی مفادات کے تقاضوں پر غالب کریں.غریب اور کمزور قوموں سے حسن سلوک کریں.اگر اسلام قبول نہیں کر سکتے تو کم سے کم تو رات اور انجیل کی پاکیزہ تعلیم ہی کی طرف لوٹیں اور اپنی تہذیب کو ہر لحظہ بڑھتی ہوئی بے حیائی سے پاک کریں.اگر آپ ایسا کریں تو آپ کی تقدیر شر، تقدیر خیر میں بدل جائے گی اور اہل اسلام اور دوسرے بنی نوع انسان کے ساتھ مل کر آپ کو ایک نظام نو کی تعمیر کی تو فیق ملے گی اور انسان کا امن عالم کا خواب حقیقت میں ڈھل جائیگا.اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو نظام کہنہ تو بہر حال مٹایا جائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی بہت سی قوموں کی عظمتیں بھی مٹادی جائیں گی اور ہمیشہ کیلئے ان کی جاہ وحشمت خاک میں مل جائے گی مگر میری تو یہی تمنا اور یہی دعا ہے کہ نظام جہان نو ، تباہ شدہ قوموں کے کھنڈرات پر نہیں بلکہ تبدیل شدہ اور اصلاح پذیر قوموں کی آب و گل سے تعمیر کیا جائے.جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہمیں تو ہمارے خدا نے پہلے ہی بتادیا ہے کہ تم کمزور ہو.چودہ سو سال پہلے محمد رسول اللہ ﷺ نے یہ نصیحت فرما دی تھی کہ خدا نے اتنی بڑی بڑی قو میں آئندہ نکالنی ہیں

Page 359

۳۵۷ ۸ مارچ ۱۹۹۱ء کہ دنیا میں کسی انسان کو ان کے مقابلے کی طاقت نہیں ہوگی اس لئے دنیاوی ہتھیاروں سے ان کے مقابلے کی کوشش کا خیال بھی دل میں نہ لانا.یہ مسلم کی کتاب الفتن کی حدیث ہے ہر شخص اس میں مطالعہ کر سکتا ہے.فرمایا! دعا کے ذریعے ہوگا جو کچھ ہو گا.خدا کی تقدید ان کو مارے گی اور خدا کی تقدیر یہ فیصلہ اس وقت کرے گی جب یہ طاقتور قومیں دنیا سے بدی کا فیصلہ کریں گی چونکہ خدا نے دنیا کو نہتا کر رکھا ہے مجبور کر رکھا ہے اور ایک طرف طاقتوں کو بدی کا موقع عطا کر دیا ہے اس لئے لازماً اپنے کمزور بندوں کی حفاظت کی ذمہ داری خدا تعالیٰ پر ہوگی.پس اس کی آسمانی تائید کو حاصل کرنے کا ایک ہی طریق ہے کہ خدا سے تعلق جوڑا جائے اور جس حد تک ممکن ہوا اپنے نفوس کی اصلاح کی جائے.اسلام کے نام پر آئندہ کبھی کوئی بدی اختیار نہ کی جاۓ.Terrorism کا تصور ہی مسلمانوں کی لغت سے نکل جانا چاہئے.شرارتیں کرنا اور دوسروں کو دکھ دے کر بعض مسائل کو زندہ رکھنا یہ جاہلانہ باتیں ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے.خود امن میں آجاؤ.خود اپنے تعلقات کو درست کر لو.غیر قوموں سے اپنے تعلقات کو درست کرو اور صبر کے ساتھ انتظار کرو پھر دیکھو کہ کس طرح خدا کی تقدیر دنیا کی ہر دوسری قوم کی تدبیر پر غالب آجائے گی.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا! آج خطبہ گزشتہ دو خطبوں سے بھی زیادہ لمبا ہو گیا ہے کیونکہ میں اس کو ختم کرنا چاہتا تھا.یہ ایک مجبوری تھی جو اس مضمون کو زیر بحث لایا گیا ہے ورنہ دل یہی چاہتا ہے کہ واپس اپنے پہلے مضمون کی طرف جلد لوٹیں یعنی یہ کہ عبادت کیا ہے اور اس کی کیا لذتیں ہیں، یہ لذت کس طرح حاصل کی جاتی ہے.سورہ فاتحہ کیا سبق دیتی ہے.تو میں یہ فیصلہ کر کے آج آیا تھا کہ چاہے جتنی دیر ہو جائے اس مضمون سے آج پیچھا چھڑا لینا ہے اور دوبارہ اپنے دائمی مضمون کی طرف یعنی جہادا کبر کی طرف لوٹنا ہے تو انشاء اللہ آئندہ خطبے سے پھر وہی نماز کا مضمون شروع ہوگا.

Page 360

Page 361

۳۵۹ بسم اللہ الرحمن الرحیم عالم اسلام کے لئے دعا کی تحریک ( خطبه جمعه فرموده ۱۵ / مارچ ۱۹۹۱ء بمقام بیت الفضل لندن سے ایک اقتباس ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.۱۵ مارچ ۱۹۹۱ء اس رمضان میں خصوصیت سے عالم اسلام کے لئے دعا کی ضرورت ہے.بہت سے امور میں گزشتہ خطبات میں آپ کے سامنے کھول کر رکھ چکا ہوں.بہت سے ایسے خطرات ہیں جو مجھے دکھائی دے رہے ہیں لیکن ان کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں تھا بلکہ بعض کا تو میں ذکر بھی نہیں کر سکتا لیکن بعض اشاروں میں ان کے متعلق باتیں ہو چکی ہیں.چونکہ میں اب اس مضمون کو ختم کر چکا ہوں اس لئے دوبارہ اس مضمون کو چھیڑنا نہیں چاہتا لیکن یہ میں آپ کو مختصر ابتا دیتا ہوں کہ آئندہ چند ماہ کے اندر مسلمانوں کے متعلق ہی نہیں بلکہ دنیا کی تقدیر کے متعلق بعض ایسے خوفناک فیصلے بھی ہو سکتے ہیں کہ جن کے نتیجے میں ساری صدی دکھوں سے چور ہو جائے گی اور نہایت ہی دردناک زمانے کا منہ انسان دیکھے گا اور کچھ ایسے فیصلے بھی ہو سکتے ہیں جن کے نتیجے میں شیطان کی اجتماعی قوت کے ساتھ جو آخری بھر پور حملہ ہونے والا ہے اس کا دفاع کرنے کی انسان کو اور خصوصیت سے مسلمانوں کو توفیق مل جائے کیونکہ اگر مسلمانوں نے اس کا دفاع کر لیا تو تمام بنی نوع انسان مسلمانوں کے دفاع کے پیچھے حفاظت میں آجائیں گے اور مسلمانوں کے دفاع کی سب سے بڑی ذمہ داری احمدیوں پر عائد ہوتی ہے اور یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں اس کی بناء حضرت اقدس محمد مصطفیٰ رسول اللہ علیہ کی ایک حدیث پر ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ آخری دور میں جب بلائیں اپنی انتہا کو پہنچ جائیں گی تو اس وقت مسیح موعود کی دعائیں ہی ہیں جو اسلام کے دشمنوں سے اسلام کو اور دنیا کو بچائیں گی.پس اس پہلو سے یہ رمضان عین وقت پر آیا ہے یعنی جب بلا ئیں کھل کر سامنے آچکی ہیں

Page 362

۳۶۰ ۱۵ مارچ ۱۹۹۱ء اور کچھ ان کے پس پردہ مخفی ارادے ہیں جو ظاہری ارادوں سے بھی بدتر ہیں لیکن ہمیں اندازہ ہو چکا ہے کہ اس بلا ء کے پیچھے پیچھے اور بھی بہت سی بلائیں آنے والی ہیں.اس وقت ہم رمضان مبارک میں داخل ہو رہے ہیں اور دعاؤں کا خاص موقع ہمیں میسر ہوگا.پس اس رمضان مبارک کو خصوصیت کے ساتھ بنی نوع انسان کے دفاع کا رمضان بنا دیں.مسلمانوں کے دفاع کا رمضان بنادیں.انسانیت کے دفاع کا رمضان بنادیں اور اسلام کے دفاع کا رمضان بنادیں اور دعا یہ کریں کہ اے خدا! ہم اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اتنی بڑی بڑی طاقتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے جو خود تو نے پیدا کی ہیں اور جن کی خبر تو نے اصدق الصادقین حضرت اقدس محمد علی ہے صلى الله کے ذریعے ہمیں ۱۴۰۰ سال پہلے عطا فرما دی تھی.پس ہم کمزور ہیں، نہتے ہیں، بے طاقت ہیں اور ہمارے مقابل پر جو طاقتیں ہیں ان کو تو نے ہی اتنی دنیا وی عظمت بخش دی ہے کہ ہم ان کے سامنے بالکل بے بس ہیں ، پس تیری ہی طرف ہم جھکتے ہیں، تجھ سے ہی رجوع کرتے ہیں ، تجھ سے ہی عاجزانہ دعائیں کرتے ہیں کہ ان پیشگوئیوں کے دوسرے حصوں کو بھی سچا کر دکھا، یعنی مسیح موعود اور آپ کی دعاؤں کی برکتوں سے دنیا کی یہ عظیم طاقتیں اپنے ایسے دنیا وی خزائن کے ذریعے جن کے مقابل پر ہمیں ایک دمٹری کی بھی حیثیت حاصل نہیں دنیا کے ایمان خرید رہی ہیں.تو ہی اس دنیاوی دولت کے شر سے لوگوں کو بچا.یہ اپنے ایسے عظیم ہتھیاروں کے ذریعے جو پہاڑوں کی طرح بلند ہیں اور جن کی ڈھیریاں پہاڑوں کے برابر ہیں اور جن کے اندر ہلاکت کی ایسی طاقتیں ہیں کہ صرف اگر ایٹم بم کو ہی استعمال کیا جائے یعنی ایٹم بم کے ان ذخائر کو استعمال کیا جائے جو امریکہ اور روس میں ہیں تو سائنسدان بتاتے ہیں کہ یہ ساری دنیا بیسیوں مرتبہ ہلاک کی جاسکتی ہے اور ان میں اتنی ہلاکت کی طاقت ہے کہ صرف دنیا میں بسنے والے انسان ہلاک نہیں ہوں گے بلکہ اس دنیا سے زندگی کا نشان تک مٹ سکتا ہے.پس یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے خدا! تو نے ان بدبختوں کو دولتیں بھی اتنی دے دیں کہ ان کے مقابل پر سارے عالم اسلام کی مجموعی دولت بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور پھر ہتھیار بھی ان کو ایسے عطا فرما دیئے کہ جن میں سے صرف ایک ہتھیار کے ایک حصے کو استعمال کر کے یہ دنیا کی بڑی بڑی

Page 363

۳۶۱ ۱۵ مارچ ۱۹۹۱ء قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی اہلیت رکھتے ہیں اور مقابل پر ہمیں احمدیوں کو کھڑا کر دیا ہے جن کے پاس کچھ بھی نہیں جو ایک بہت ہی غریب جماعت ہیں.لیکن ساتھ ہی ہمیں خوش خبری بھی دی اور یہ خوش خبری دی کہ تمہاری دعاؤں کو میں سنوں گا اور ان دعاؤں کی برکت سے میں بالآخران عظیم قوموں کو پارہ پارہ کر دوں گا اور آنحضرت ﷺ نے نقشہ یہ کھینچا ہے کہ جس طرح نمک سے برف پگھلتی ہے اس طرح تمام دجالی طاقتیں جو انسانیت اور حق کی دشمن ہیں وہ برف کی طرح پکھل کر غائب ہو جائیں گی جیسے ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا.تو دعاؤں کی طاقت آپ کے پاس ہے.اس عظمت کو پہچانیں اور یادرکھیں کہ یہ عظمت انکساری میں ہے.اس بات کو کبھی نہ بھولیں.دنیا کی طاقتوں اور مذہبی طاقتوں میں یہ بنیادی فرق ہے کہ دنیا کی طاقتیں تکبر پر منحصر ہوتی ہیں اور مذہبی طاقتیں بجز پر منحصر ہوتی ہیں.پس دعا میں اتنی زیادہ رفعت پیدا ہوگی جتنا آپ خدا کے حضور جھکیں گے.دعا میں اتنی ہی زیادہ طاقت پیدا ہوگی جتنا آپ بے طاقتی محسوس کریں گے.آپ کی بے بسی کے نتیجے میں دعاؤں کو قو تیں عطا ہوں گی.پس اس مضمون کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہوئے اس رمضان سے حتی المقدور فائدہ اٹھائیں اور عاجزی اور انکساری کے ساتھ بے بسی کے عالم میں خدا کے حضور بچھ جائیں کہ اے خدا ! ان بڑی بڑی طاقتوں کے شر کے ارادوں کو باطل کر دے اور جو ان کی خیر ہے وہ باقی رکھ.ہمیں کسی قوم سے من حیث القوم نفرت کی اجازت نہیں ہے.نہ نفرت ہمارے خمیر میں داخل فرمائی گئی ہے اس لئے ہم دنیا کی جاہل قوموں کی طرح مغربی طاقتوں کے خلاف نہ دعائیں کر سکتے ہیں نہ نفرت کے جذ بے رکھ سکتے ہیں.ہم شر سے متنفر ہیں اور اپنی دعاؤں کو خصوصیت کے ساتھ شر کے خلاف رکھیں.قومی اور عصبیتی رنگ میں بعض قوموں کی ہلاکت کی دعائیں نہ کریں.یہ دعا کریں کہ اے خدا! جو مشرق میں تیرے عاجز بندے ہیں ان کے ساتھ بھی کچھ شر وابستہ ہیں انکے شر کو بھی مٹادے اور جو مغرب کی عظیم طاقتیں ہیں جو ساری دنیا پر غالب ہیں ان کے شرک بھی مٹادے.ان کا شر اس لئے زیادہ خطرناک ہے کہ طاقتور کا شر ہمیشہ زیادہ خطر ناک ہوا کرتا ہے، طاقت ور کا شر زیادہ پھیلنے

Page 364

۳۶۲ ۱۵ مارچ ۱۹۹۱ء کی صلاحیت رکھتا ہے.طاقت ور کا شردنیا کی خیر کو مٹا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے.پس ہم یہ نہیں کہتے کہ تیسری دنیا کی قوموں میں شرنہیں ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ مشرق معزز ہے اور مغرب ذلیل ہے.ہم یہ کہتے ہیں کہ اس وقت مغرب میں جو شر پھیلانے کی طاقت ہے ویسی طاقت تاریخ میں کسی قوم کو کبھی عطا نہیں ہوئی اور یہ بات حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی ہے کہ آخری زمانے میں جب دجال ظاہر ہوگا تو اس کا اتنا شر دنیا میں پھیلے گا اور اسے شر پھیلانے کی اتنی طاقت نصیب ہوگی کہ جب سے دنیا بنی ہے خدا کے تمام انبیاء کو دجال کے شر سے ڈرایا گیا اور ان کو بتایا گیا کہ آئندہ زمانے میں ایک شر پھیلانے والی اتنی بڑی قوم بھی دنیا میں ظاہر ہوگی.پس کسی عصبیت کے جذبے کی بنا پر نہیں کسی قومی یا نسلی تفریق کی بنا پر نہیں بلکہ خالصہ ان پیشگوئیوں کے مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے صحیح نشانے کی دعا کریں ورنہ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو ہوسکتا ہے کہ آپ کی دعاؤں میں آپ کی نیتوں کا شر شامل ہو چکا ہو.قومی عصبیتوں کا شر شامل ہو چکا ہو نسلی تفاوت کا شر شامل ہو چکا ہو اور کئی قسم کے ایسے شر ہیں جو مخفی طور پر انسان کی دعاؤں میں لگ جاتے ہیں اور ان کے اندر زہر گھول دیتے ہیں وہ مقبول دعا ئیں نہیں رہتیں.پس اس تفصیل سے آپ کو سمجھانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ محض رونے اور گریہ وزاری سے دعائیں قبول نہیں ہوا کرتیں.دعاؤں کو اپنی مقبولیت کے لئے ایک خاص پاکیزگی اور صحت چاہئے اور جس رنگ میں آنحضرت ﷺ نے دعائیں مانگیں اور دعائیں سکھائیں وہی رنگ اختیار کریں اور اپنے نفس کو اپنے شہر سے بھی صاف رکھیں اور ہر قسم کے دوسرے شرور سے بھی پاک کریں اور خالصہ اللہ دعا کریں نہ کہ قومی نفرتوں کی بناء پر تو پھر میں یقین رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں ضرور قبول ہوں گی اور یہ عظیم تاریخی دور جس میں ہم داخل ہوئے ہیں اس کا پلہ بالآخر انشاء اللہ اسلام کے حق میں ہوگا اور اسلام کے غالب آنے کی تقدیر تو بہر حال مقدر ہے یعنی نہ مٹنے والی ائل تقدیر ہے مگر ہماری دعا اور کوشش یہی ہونی چاہئے کہ اس تقدیر کو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے دیکھ لیں.

Page 365

۱۲ ۱۳ اشاریہ مرتبہ ایاز احمد طاہر، طاہراحمد شریف ،کلیم احمد طاہر اسماء مقامات متفرق کتابیات

Page 366

ا.ب.پ.ت.ٹ اسماء بنو نضیر بنو قریظہ ۲۷۸ ۲۷۸ ابراہیم حضرت ابوبکر حضرت ازابیلا ( ملکہ پین) ۱۸۳،۱۴۵ ۱۳۴ ۲۷۹ بنو قینقاع بیگن میناخم ۲۷۸ ۲۲۱،۲۱۲ بیون مسٹر ( برطانوی لیبر حکومت کے فارن سیکرٹری ۲۲۲ اسلم بیگ جنرل سر براہ افواج پاکستان ۱۸۸ یومیٹی ( رومن بادشاه) اسماعیل حضرت ۱۸۳ اسیریز پیر صاحب پگاڑا ( مردان علی شاہ ) ۲۸۶ پیریز ڈی کو تیار اشکول لیوی ۲۷۰ تھیوڈرار کنڈ ( کینڈین سفیر ) اپریل کلاپسی ۲۳۸ | تھیوڈر ہرزل انتھونی برگس انو کی (جاپانی پہلوان ) ۵۹ تیمور لنگ (بغداد پر قبضہ ) ۳۲۱ ٹام کنگ مسٹر ایڈن انتھونی (سابق برطانوی وزیراعظم) ۲۱۸ | ٹونی بین (Tony Ban) ایڈورڈ گرے ایڈورڈ ہیتھ ( سابق وزیراعظم انگلستان) ۲۵۱،۲۵۰ ۱۹۲ ۳۵۱ ۱۴۷ ۱۳۸ ۲۷۱ ۲۵۶،۲۴۲،۱۹۹ ۲۸۷ ،۲۵ ج - چ - ح - خ ۳۲۱ 129 بابر ،ظہیر الدین ( مغل بادشاہ) ۷۷ جارج بش.دیکھیے بش بش.جارج بش ( صدر امریکہ ) ۱۳ ۱۴۳ ۱۷۴ جارج لا ئیڈ دیکھیے لائیڈ جارج ۱۹۳،۱۹۲،۱۸۹،۱۷۵، ۱۹۸، ۲۱۷ ،۲۲۳ تا جمال الدین افغانی ۳۲۶ ۲۵۲،۲۳۲ ۳۳۳٬۳۲۰،۲۸۶،۲۶۲،۲۵۳ جمال عبد الناصر ۲۱۶،۳۴، ۳۲۶،۲۶۳،۲۱۷ بشیر الدین محمود احمد مرزا حضرت مصلح موعود ۱۱۱،۲۴ | جیمز ا میکنز (سابق سفیر امریکہ) بالفور ( فارن سیکرٹری برطانیہ ) ۲۰۹،۱۹۹،۱۹۸، جیمز کیمرون ۲۴۲،۲۱۹ ،۲۴۳ چرچل ونسٹن (برطانوی وزیراعظم ) ۲۳۸ ۲۲۲ ۲۹۱،۲۵۱،۲۵۰

Page 367

چیمبرلین چینی رچرڈ بی ( ڈیفنس سیکرٹری ) حافظ الاسد (صدر شام) حضرت حزقیل حسین شاہ حسین شریف مکہ خمینی آیت اللہ ۲۱۰ | زار.روس ۲۳۹ ۱۸۹،۱۸۸ ۳۵۱،۳۵۰ ۳۳۳،۲۲۸،۲۲۷ ،۱۳ وی ڈرز داؤد حضرت دراب پٹیل، جسٹس ڈون کو ئیک زٹ (Don Kuixot) ڈوشین جے جسٹس ڈوگن جنرل مائیکل ڈی کو تیار پیریز.دیکھیے پیریز ۲۰۰،۱۹۹ ۳۶ س ش ص ض ط ظ سائرس ایرانی سانچو پینز و جنرل سٹالن سعود بن عبدالعزیز سلمان اعظم ۵۴ ۳۵۱ ۲۹۱ ۲۹۱ ۱۳۴ ۲۵۵ سن کئیر مسٹر ( آئی ایس آئی کے نمائندہ برطانیہ ) ۲۱۴ ۱۹۴۹۸ سڈنم لارڈ ۱۰۵ ۲۹۲،۲۹۱ ۱۰۵ ۲۳۹ سکسٹس ۲۴۵ ۲۷۹ ۲۱۶،۱۰۲،۳۷ ۲۵۹ شاه ایران (محمد رضا شاه پهلوی) صدام حسین (صدر عراق) ۱۳ تا ۳۴،۱۵ تا ۳۶ ۴۳، ۱۳۶،۶۵ تا ۱۳۸، ۱۵۴،۱۵۰،۱۴۱، ڈیوڈ بن گورین ڈیوڈ گل مور راتھ شیلڈ ( یہودی لارڈ ) رچرڈ ملقب به شیر دل رچرڈ.بی چینی رام ( رام کا مندر ) روفوس (یہودی) ریگن رونلڈ (صدر) ،۱۹۰،۱۹ ،۱۸۹ ،۱۷۸ ،۱۶۷ ،۱۵۸،۱۵۵ ۲۶۵،۲۶۴،۲۱۲ ۱۹۲، ۲۰۲،۲۰۱۳، ۲۰۷، ۲۱۷، ۲۳۵ تا ۲۴۱ ۲۷۶،۲۶۸،۲۶۶ ،۲۹۸ ،۲۹۷ ،۲۸۴،۶۴،۲۶۳،۲۴۹ ،۲۴۷ ١٩٩،١٩٨ ۳۲۴،۳۰۱ ۲۵۸،۲۵۵ ۲۳۹ صلاح الدین ایوبی (سلطان) ۸۲،۷۷ ۲۵۶ ۲۴۰ صفیہ ام المؤمنین ضیاء الحق جنرل ۱۵۰ تا ۱۵۳ ۲۵۸،۲۵۵ ۱۲۳ ٨٨

Page 368

طاہر احمد مرزا ( امام جماعت احمدیہ) ۴۹٬۳۳۷ کیمرون جیمز ۸۹،۶۹، ۱۲۳،۱۰۹ ، ۱۴۷، ۱۸۵،۱۶۵، گارڈ فرے لارڈ ۳۱۹،۲۹۱،۲۶۱،۲۳۳،۲۰۷ گرے ایڈورڈ ظہیر الدین بابر 22 گلمور ڈیوڈ گوبلز ع غ ف ق ک گ گولڈ مین ناحوم ڈاکٹر عبدالعزیز ( سر براہ سعودی خاندان) عرفات یا سر عمر بن خطاب عمر بن عبد العزیز ثانی عیسی ۱۳۴ ۲۷۳،۲۷۲ ۲۲۲ ۲۵۷ ۲۵۱،۲۵۰ ۲۷۶،۲۶۸،۲۶۶ ۲۹۱ ۲۷۲ ل.م.ن.و ۲۵۸ ، ۳۱۷ لائیڈ جارج ( سابق وزیر اعظم برطانیه) ۲۴۲ ۲۴۴ ۱۵۲ ۱۶۶، ۲۵۷ لیوی اشکول غلام احمد قادیانی مرزا ( بانی جماعت احمد یہ مسیح موعود) ۶ مائیکل ڈوگن جنرل ۳۱،۹،۷، ۴۵ تا ۴۷ ، ۱۹۷، ۳۵۵،۲۸۸،۲۴۶ | محمد مصطف حضرت فائزہ بنت حضرت مرزا طاہر احمد فرانک کیلوک فرڈیننڈ ( شاہ سپین ) قبلائی خاں ۳۳۷ ۲۹۹،۲۵۱،۲۵۰ ۲۷۰ ۲۳۹ ،۳۰،۲۴،۱۲،۱۱،۸،۷ ۴۵ تا ۴۸، ۷۹ تا ۸۱، ۱۰۴،۱۰۲،۸۸۰۸۷، ۱۰۵، ۱۲۲،۱۰۷ تا ۱۴۵،۱۳۴،۱۳۳،۱۲۵، ۱۶۰،۱۵۸،۱۵۳،۱۵۲،۱۴۹ تا ۱۶۷،۱۶۲، ۲۷۹ ،۲۰۶،۱۹۴،۱۸۶،۱۸۵،۱۸۳،۱۸۱،۱۷۷ ۲۶۵ ،۳۰۶،۳۰۴،۲۸۸،۲۶۸،۲۶۰،۲۵۲،۲۴۹ ۲۴۰ ،۳۵۲،۳۳۹،۳۳۸ ،۳۱۶،۳۱۳،۳۱۱،۳۰۷ ۲۴۴ ،۲۴۳ ۲۱۵،۲۱۴ ۱۳۴ ۲۴۶ قذافی معمر ( صدر لیبیا) کرزن (لارڈ) کم روز ویلٹ کنگ کرین کولرج کالرج کوئیارڈی پیریز.کیلاگ فرینک.دیکھیے فرینک کیلاگ ۲۶۵ محمد علی پاشا ( حاکم مصر ) ۳۵۹،۳۵۶ تا ۳۶۲ محمد رضا علی شاہ پہلوی.دیکھیے شاہ ایران ۲۳۶، ۲۴۰ معتصم باللہ ( آخری عباسی خلیفہ) مصدق حسین ڈاکٹر ( سابق وزیر اعظم ایران ) ۲۱۴، ۲۱۵

Page 369

۹۳۸۱ ۶ معمر قذافی (صدر لیبیا).دیکھیے قذافی معمر وی پی سنگھ ( وزیراعظم ہندوستان ) میک بیتھ (لیڈی) ۲۳۰ تا ۲۳۲ هی میکموہن مسٹر موسی (نبی) میناخم بیگن نا حوم گولڈن مین ڈاکٹر ١٩٩ ۲۷۱ ہاروت ماروت ۲۱۲ ۲۷۲ ہٹلر ایڈ وولف ۳۵۱ ۲۰۸،۹۷ ،۳۴ ۲۶۵ تا ۲۹۱،۲۸۴،۲۷۲،۲۶۷ ناصر احمد مرزا ( حضرت خلیفہ امسح الثالث) ۲۵۴ ہڈرین (رومن شہنشاہ) ۲۵۱،۲۵۰ ہرزل تھیوڈر.دیکھیے تھیوڈر ہر زل ۲۱۷ ہلاکو خان نبوکد نضر ٹنگ نواس بن سمعان (صحابی) ۲۵۴ یا جوج ماجوج وائز مین یا وڈزمین ولسن ( سابق صدر امریکہ) ۲۴۲ یاسر عرفات ۲۴۵ یونس حضرت ۳۵۱ ۲۸۷ ،۲۰۷ ،۱۵۵ ،۲۵ ۲۵۴ ،۴۵ ۲۷۲ ۳۵۵

Page 370

آ.ا.ب.پ.مقامات افریقہ (جنوبی) ۹۵ ۹۵ ۲۵۶ ۱۲۹ ۱۵۴،۱۰۰،۹۳،۵۸،۵۱ آذربائیجان آرمینیا آسٹریا آسٹریلیا آئرلینڈ اٹاری اسٹیشن (ہندوستان) اجودھیا (ہندوستان ) البانيه الجيريا امریکہ 100 ۳۸،۳۷ ،۲۸،۲۱،۱۸ ،۱۷ ،۱۴،۱۳ ،۹۰،۸۹،۷۳،۶۴،۶۱،۵۸،۵۲،۵۰،۴۷ ۹۸،۹۶، ۱۲۶،۱۰۳،۱۰۲،۹۹ تا ۱۳۱،۱۲۹، | ۱۴۲،۱۳۵، ۱۷۳،۱۵۶،۱۴۸ تا ۱۸۱،۱۷۷، ۲۱۲،۲۰۴،۲۰۱،۱۹۷،۱۸۶ تا ۰۲۱۹،۲۱۶،۲۱۴ ۲۲۱ ۲۲۶۰۲۲۴، ۲۲۸ تا ۲۳۵،۲۳۲،۲۳۰، ۱۳ تا ۲۱،۱۸،۱۵، ۴۴، ۷۱، ۱۲۶،۱۰۱ اردن ۳۳۳،۳۲۴،۲۲۸ ،۲۲۵،۲۲۰،۱۹۹ ،۱۳۱ ازبکستان اسرائیل ۹۶ ،۵۱،۴۴،۳۵،۳۴ ،۲۷ ،۲۶،۲۲ ۱۲۶،۱۰۱،۷۱،۶۲، ۱۳۹،۱۳۲،۱۳۱ تا ۱۴۱، ۱۵۶،۱۵۴ تا ۱۷۳،۱۵۸ تا ۱۸۹،۱۷۷، ۲۳۹،۲۳۶ تا ۲۴۲، ۲۶۰،۲۵۴،۲۵۳،۲۴۵، ۲۷۴،۲۶۵،۲۶۳۲۶۱، ۲۸۳،۲۸۱،۲۷۵ تا ۲۸۵، ۲۸۷، ۳۱۱،۳۰۱،۲۹۸،۲۹۲،۲۸۸ تا ،۳۳۰،۳۲۷،۳۲۴،۳۲۳،۳۲۱،۳۲۰،۳۱۴ ۳۶۰،۳۴۶،۳۴۵،۳۴۳،۳۴۲،۳۴۰،۳۳۱ ،۲۰۵،۲۰۴،۲۰۲،۲۰۱ ،۱۹۸ ،۱۹۵ ،۱۹۳ امریکہ (جنوبی) ۲۱۶، ۲۱۹،۲۱۷ تا ۲۲۵،۲۲۳،۲۲۱ تا ۲۳۰، ، ۲۴۷ ،۲۴۶ ،۲۴۴ ، ۲۴۲ ،۲۴۱،۲۳۹،۲۳۶ انڈونیشیا انگلستان ۲۵۵ ۲۶۱ تا ۲۷۰ ۲۷۳ تا ۲۹۲،۲۷۸،۲۷۵، ۳۳۴،۳۲۸،۱۲۷ ،۹۹ ۳۴۰،۳۰۱،۱۶۶،۶،۳ ،۵۹،۵۸،۵۲،۲۸،۲۱،۱۷ ،۱۵۶،۱۳۵،۱۳۰،۱۲۹، ۱۲۷ ، ۱۲۶ ،۹۴ ،۹۳ ۳۵۳،۳۴۸،۳۴۷ ،۳۳۲،۳۳۱ ،۳۲۴ ،۳۲۲ ۲۱۶ اسوان ڈیم افریقہ ۵۸،۵۰،۳، ۷۲،۶۱ تا ۷۴ ۱۷۳،۱۹۷، ۱۹۸،۱۹۶،۱۹۳،۱۸۷ تا ۲۰۳،۲۰۰، ۲۰۴ ۲۱۲ تا ۲۱۴ ۲۱۶ تا ۲۴۱،۲۱۸ تا ۲۴۳ ۱ ،۳۱۴،۳۱۳،۲۸۳،۱۶۴،۱۶۳،۱۲۸ ،۹۶،۷۶ ۳۵۱،۳۴۶،۲۹۸ ،۲۹۷ ،۲۶۹،۲۶۱،۲۴۸ ۱۶۱ ۳۲۸،۳۲۷، ۳۳۴ ،۳۵۱ ایسے سینیا

Page 371

ایتھوپیا ایران ۷۲ پرتگال ،۲۸،۶،۴،۳ ۳۶ تا ۴۲،۴۰ ، ۱۹۰،۱۸۹،۱۷۱،۱۰۲،۵۳،۴۷، تنبت ۲۱۳ تا ۲۶۶،۲۳۰،۲۱۵، ۳۲۲٬۲۹۸ تا ۳۲۴، ترکی ۱۰۶۰۹۵ ۲۴۲ 1+1 ،۹۴،۵۳،۵۲،۲۶ ۳۲۳،۲۴۸،۲۳۰،۱۹۹،۱۸۸ ،۱۳۷ ،۹۵ ایشیا بحرین ۳۴۳،۳۴۰ ۳۳۴،۳۲۸،۳۱۴ ،۲۸۳ ۱۶۲،۱۵۷ ج - چ - ح - خ برلن ( دیوار برلن ، برلن شهر ) ۷۳،۷۲،۵۱ | جاپان ۳۴۴،۳۳۵،۳۲۱،۱۳۶،۶۳،۶۲،۵۸ بصره ۲۷۲،۲۶۶،۱۹۷ | جامعہ از ہر (مصر) ۱۳۴، ۳۱۹ جرمنی بغداد ۱۴۹،۳۹،۲۵،۲۴،۱۳ تا ۱۵۱ ۲۰۷، ۲۸۶،۲۳۵، ۳۱۹ | جموں (کشمیر) ۱۹۱ ،۲۰۳،۱۹۵،۶۳،۶۰،۵۹،۵۲ ۳۵۳،۳۲۷،۲۹۲،۲۵۸ ،۲۵۵ ،۲۴۲،۲۲۲ ۳۳۶،۳۳۵ بیلجئیم ۲۵۵، ۲۶۹ | جودا ( جو دیا ) ۳۵۱،۳۵۰ بلغاریہ ۹۵ جونا گڑھ (بھارت) ۷۲ بنگلہ دیش ۱۴۷،۷۹،۷۸، ۳۲۷ چاڈ ( قحط زدگی ) الفضل ۳۳،۱۱،۱، ۶۹،۴۹، چین ،۲۰۷،۱۸۵،۱۶۵،۱۴۷ ،۱۲۳،۱۰۹ ،۸۹ حجاز ۳۱۹،۲۹۱،۲۶۱،۲۳۳، ۳۵۹ | حیدر آباد دکن ۳۴۶،۳۴۵،۳۱۲،۲۵۷ ، ۱۰۱،۵۸ ۱۹۹،۱۳۳ بیروت پاکستان ۲۷۲،۲۶۷ خانہ کعبہ ( بیت اللہ ) ،۶۶،۵۴،۲۸،۲۱،۵،۳ خیبر ( قلعه) ۷۲ ۲۵۴،۱۴۸ ۱۲۳ ۷۸ تا ۱۳۳،۱۲۵،۱۰۶،۱۰۵،۸۴،۸۰، ۱۳۷، ،۳۲۷،۲۳۵،۲۲۹،۲۰۴ ،۱۸۸ ،۱۸۷ ،۱۶ پنجاب ۳۳۱،۳۲۸، ۳۴۱،۳۳۶،۳۳۵ ،۳۴۳ | دریا اردن ۲۰۴ دیاس پوره (Diaspura) 10121 ۳۵۳

Page 372

۹ دیر یاسین روس ۲۶۷ | شانیله ۲۶۷ ۵۶،۵۴،۵۳،۵۰،۳۸ تا ۸۹،۶۱،۵۸، شام ۳۵۴،۳۲۴،۲۲۹،۲۱۹،۱۸۹،۱۸۸،۱۴ ۹۰ ۹۴ تا ۹۷ ۱۹۷،۱۹۵،۱۸۹،۱۴۸،۱۰۳ ، | صابرا ۲۳۶،۲۲۸،۲۱۶،۲۰۰، ۲۴۸ ، ۲۸۰،۲۶۶ ، | صومالیہ ۲۶۷ ۱۶۱ ۳۵۴ ۲۶۷ ،۶۲،۵۸،۳۹،۳۸ طع طبریہ (بحیرہ) اسرائیل طیبہ ۱۲۰، ۱۲۱، ۱۴۰،۱۲۵ تا ۱۷۳،۱۶۶،۱۴۲، ۲۷۷ ،۲۶۹،۲۶۶،۲۳۱،۲۲۴،۲۰۰ ۲۲،۱۶،۱۲،۶،۴ تا ۲۹،۲۴، عراق ۳۶۰،۳۴۵،۳۴۳،۳۳۱،۳۲۶،۳۲۳،۲۹۲ ۲۴ ۳۴۰ س ش ص ۱۰۶،۱۰۰،۹۵،۲۴ 1++ ۳۳۲،۳۲۷،۹۷ ،۲۴،۲۲،۲۱،۱۸ سبا سپین سربیا (Sarbia) سری لنکا سعودی عرب ، ۷۵ ، ۷۴ ،۷۲،۷۰ ،۶۵،۶۲،۴۳،۳۹،۳۸ ،۱۲۹،۱۲۴،۱۲۰،۱۰۷ ، ۱۰۱ ،۹۶،۹۰ ، ۷۸ ،۱۴۸ ،۱۴۳،۱۴۱ ،۱۳۸،۱۳۶ ،۱۳۳،۱۳۱ ،۱۹۰،۱۷۵ ،۱۷۱ ،۱۶۲،۱۵۸،۱۵۵،۱۵۳ ،۲۳۵،۲۲۸،۲۲۶،۲۲۱،۲۰۸ ،۲۰۵ ،۲۰۲ ،۲۵۳ ۲۵۲،۲۴۹،۲۴۸ ،۲۴۶،۲۴۱،۲۳۸ ۲۶۳ تا ۲۷۴،۲۶۵، ۲۸۳،۲۸۱،۲۷۵، ۲۸۵ تا ۳۱۹،۲۹۸،۲۹۳،۲۹۲،۲۸۷ تا ۳۲۱، ۳۵۴،۳۵۳،۳۴۳،۳۴۰،۳۲۴،۳۲۳ ،۱۴۳،۱۳۶،۱۳۳،۱۰۳،۷۵،۶۴،۲ ،۱۹۰،۱۸۷ ،۱۸۶،۱۶۲،۱۵۷ ۱۵۶،۱۴۸ ۳۲۴،۳۲۲،۳۱۲،۳۱۱،۲۹۸ ،۲۴۸ ،۲۴۷ ۲۳۱،۵۸،۵۱ 100 ۳۵۰ ۷۹ ۱۶۱،۱۵۹ ۵۹ سکاٹ لینڈ سلوویکیا سماریہ سندھ سوڈان سویڈن فرق کرگ ۲۱۶ تا ۲۱۸ سویز نهر سیر یا.دیکھیے شام ۱۴ | فارس سینا ( ریگستان ) مصر ۴۴ فرات (دریا) ۳۵۱ ۳۵۱

Page 373

فرانس فلسطین ،۲۱۳،۲۰۰،۱۹۹،۳۶ لینڈا ۲۱۸، ۲۵۵ تا ۷ ۲۵ ،۳۴۶،۲۹۲،۲۸۰ کیلیلی (اسرائیل) ۲۰۹،۱۹۸،۱۷۶،۷۱ تا ۲۱۲، گولان ہائیٹس ،۲۵۸،۲۵۶،۲۵۵،۲۴۴،۲۳۶،۲۲۲ ،۳۲۵،۳۲۲،۲۹۶،۲۸۰،۲۷۳،۲۷۲،۲۶۳ ۱۰۵ ۲۶۸ ۲۲۵،۱۸۸ ل.م.ن.و.ہی ۳۳۲،۷۴ ۱۳۲ ۳۳۷ ۲۷۱،۲۶۸،۱۵،۱۴ ۲۷۱ ،۴۹،۳۳،۱۱،۱ لائبیریا لاؤس لاہور لبنان لتانی دریا (لبنان) لندن ،۲۰۷ ،۱۸۵،۱۶۵،۱۴۷ ،۱۲۳،۱۰۹ ،۸۹،۶۹ ۳۵۹،۳۱۹،۲۹۱،۲۶۶،۲۶۱،۲۳۳ ۳۹ ۲۶۶ ۱۳۳،۱۱ تا ۱۳۵ ۲۸۱،۱۹۹،۱۸۶،۱۵۱،۱۴۴ ،۱۳۷ ۳۵۳،۳۴۷ ۳۴۱ ۲۸۳ ۳۳۷ ،۱۹۷ ۱۴۷ ۳۳۷ ۱۳۴ ۷۶،۷۲،۱۶ فلپائن فلوریڈا (امریکہ) قادیان (بھارت) قبلہ کراچی کربلائے معلی کروشیا ۳۳۸،۳۳۶،۳۳۵ ،۳۲۸ ،۲۲۹،۱۰۳ كسووو کنعان کوریا کویت ليبيا لینن گراڈ ۳۵۰ مدینه منوره ۳۴۴،۱۳۲ ۷۰،۲۶،۲۳،۱۵،۱۲،۶،۴، مشرق بعید ۱۲۴،۱۰۱،۸۳،۷۴، ۱۳۹،۱۳۶، ۱۵۶،۱۴۸، مشرق وسطی ۲۱ ،۴۳،۳۸،۳۳،۲۷ ،۱۱ ۳۲۴،۲۳۷ ،۲۱۹،۲۰۱،۱۸۰،۱۲۶،۷۵ ، ۴۷ ،۱۸۶،۱۵۹،۱۵۶،۱۳۷ ، ۴۴ ،۲۳۵،۲۰۵،۲۰۱ ،۱۷۱ ،۱۶۲،۱۵۹ ، ۱۵۷ ۲۳۷ ، ۲۴۶، ۲۶۲،۲۴۸ ، ۲۹۲،۲۸۵،۲۷۴، | مصر ۳۲۴،۳۲۲،۳۱۹،۳۱۱،۲۹۳ ۲۱۶،۱۹۰ تا ۳۲۴،۲۶۳،۲۴۸،۲۱۹ ۲۱۴ ۲۲۱ ماریشس کنگ ڈیوڈ ہوٹل

Page 374

۳۲۷ ،۲۲۹،۱۳۰،۱۲۸ ، ۱۰۶،۱۰۱ ،۹۳ ،۹۲ ۳۴۳،۳۴۱،۳۳۶۳۳۵ ،۳۲۸ ۳۰۱،۱۵۳ ۳۵۲،۳۵۱ 7hd ۳۵۰،۲۱۱ 11 روشیما ہیرو الله الله له الله الله 117 ۱۲۸۱،۱۹۹،۱۸۶،۱۸۱،۱۵۱،۱۴۴ ،۱۳۷ ۳۴۰،۱۶۶،۵،۳ ۳۰۱ ہیکل سلیمان ۳۴۰ یافه (عرب) ۲۴۵ یروشلم ۱۸۶ یو.پی (بھارت) ۲۹۹ یورپ ،۷۲،۶۶،۵۹،۵۸،۵۳،۵۱ ،۲۶۶،۲۵۷ ،۲۵۶،۱۸۸،۱۵۱،۱۳۶،۱۲۷ ۳۲۷ ،۳۲۵،۲۹۹ ،۲۸۵ ،۲۸۳،۲۸۰،۲۷۹ ! 76 ،۲۲۸،۱۵۵،۱۳۲ مکه مکرمه ملائیشیا ناگاساکی (جاپان) نائیجیریا نیویارک واشنگٹن ور سائے ویت نام ۲۸۱،۲۵۳ تا ۲۸۵،۲۸۳، ۳۲۰،۲۸۷، | ۳۴۴۳۲۱ یوگوسلاویہ ویلز ۵۸،۵۱ | یونان ہندوستان ۷۶،۱۶ تا ۸۴،۸۲

Page 375

۱۲ اسلام متفرق ۴ تا ۱۱،۸ تا ۱۳، ۱۶، عیسائیت ۲۶،۱۷ تا ۲۸، ۴۲،۴۱ ۴۴ ، ۳،۴۵ ۵ تا ۶۰، فری میسن ۶۲ ۶۶ ۶۷ ۶۹ تا ۷۷،۷۵،۷۱، کرد ۷۹ تا ۸۹،۸۴،۸۳٬۸۱، ۱۱۰،۱۰۹ ۱۱۳ تا ۱۱۷ لیگ آف نیشن ۱۲۰ تا۱۶۵،۱۵۵،۱۴۲،۱۳۹،۱۲۴،۱۲۲ تا ۱۶۹، مسلمان.عالم اسلام ۲۵۸،۲۰۹،۱۷۸،۱۶۶،۵۶،۴۹ ۱۹۷ ۳۲۳،۳۲۲۲۹۷ ۲۰۹،۱۹۵ ،۹۲،۲۳،۲۱،۲۰ ،۱۴۸ ،۱۲۵،۱۲۴،۱۲۱،۱۱۹ ، ۱۰۹ ، ۱۰۱ ،۱۰۰ ،۱۸۸ ،۱۷۹،۱۷۸ ،۱۷۵ ،۱۷۳،۱۷۲،۱۵۳ ،۲۶۰،۲۴۳،۲۲۲۲۱۱ ،۲۰۸ ،۲۰۷ ،۲۰۲ ۲۹۶،۲۸۰،۲۷۸ ،۲۷۷ ،۲۶۷ ،۲۶۳ ،۲۷۷ ، ۱۹۲،۱۹۰،۱۸۹،۱۸۵،۱۷۹،۱۷۷ ،۱۷۵ ۲۷۸، ۳۰۱،۲۹۹ تا ۳۰۷، ۳۵۵، ۳۶۰،۳۵۷ اشتراکیت ایڈز برقش ایرا نین آئل کمپنی ترک ۱۰۰،۶۱،۵۴،۳۸ ۳۵۵،۳۵۳،۳۳۱ ۲۱۴ ۲۱۳ ۹۴،۲۶،۲۵ تا ۳۲۳٬۹۷ نازی (نائسی ازم) ۹۰،۶۹،۳۰،۱۲،۱۱،۸،۷ ، | نیوورلڈ آرڈر جماعت احمدیہ ۹۸ ، ۱۰۲،۹۹ ۱۰۴ ، ۱۳۹،۱۲۴،۱۰۷، ۱۴۸، وہابی ۱۶۳،۱۶۰، ۱۸۰،۱۶۷، ۱۹۸،۱۹۳،۱۸۷، | ہندو جہاد خلیجی جنگ ریڈ انڈینز سلطنت عثمانیہ سنی ،۲۲۲،۳۶،۳۴ ۳۵۳،۲۸۰،۲۶۵،۲۵۸ ۲۲۷ ،۲۲۳ ۲۰۰،۲۶ ۳۰۲،۹۳۹۲ ۱۷۳،۱۲۶،۱۰۵،۱۷ تا ۱۷۵ ۳۶۱،۲۰۸،۲۰۶ یونائیٹڈ نیشنز ۳۰۲،۲۹۶،۱۷۰،۴۱ ۳۱۷،۳۰۸،۳۰۷ ۲۹۶،۲۹۱،۲۰۹ ۱۹۵،۱۹۲ تا ۱۹۷، ۲۱۲،۲۱۱،۲۰۸، ۲۱۸ تا ۲۲۱ ، ۲۴۰،۲۳۶،۲۲۶،۲۲۳ تا ۲۴۲ ،۲۷۲،۲۵۰، ۲۷۶ تا ۳۴۲،۲۷۸ تا ۳۴۵ ، ۳۴۷ ۳۴۶٬۹۹ یہود ،۱۲۳،۹۸،۹۷ ، ۷۱،۵۰،۱۵ ۳۳۶،۹۱ ۲۵۵،۲۰۰،۱۸۸ ،۵۳ ۳۲۳،۳۲۲،۳۰۷ ،۱۲۰،۵۶،۵۳ ۱۷۴ ، ۱۷۵ ، ۱۷۷، ۱۹۴،۱۹۲،۱۷۸ تا ۱۹۸، ۲۰۸،۲۰۱، ۲۰۹، ۲۱۸،۲۱۲،۲۱۱ تا ۲۲۲،۲۲۰، ۲۲۶،۲۲۵،۲۲۳، ۲۲۹، ۲۴۲ تا ۲۴۵، ۲۵۶ تا ۲۷۳،۲۵۹، ۲۷۸، ۳۵۰،۳۰۲،۲۷۹، شیعه ۱۳۴،۱۲۰،۵۶،۵۳، ۳۲۳،۳۲۲،۳۰۷،۱۸۹ ۳۵۵،۳۵۱ ۲۵۷ ،۲۵ صلیبی جنگ

Page 376

President secret wars Water flowing eastword ۱۳ کتابیات ۴ تا ۲۱،۲۰،۱۲،۶ ، | 131 قرآن کریم 196 ،۱۰۹،۹۹،۵۷ ، ۵۶،۴۸ ، ۴۶ ،۴۵،۳۰،۲۳ ۱۱۲، ۱۱۷تا۲۶۰،۱۶۴،۱۵۹،۱۲۲،۱۲۱،۱۱۹، | The origings evolution of the | Palestine problem Yehohafal Karakbi 222 By way of Deception by Ex-Director of Mosad 222 The Arab Israel Issue 209 Aviation week space technology, ۲۹۴ تا ۷ ۳۴۳،۳۴۰،۳۰۲،۳۰۱،۲۹، ۳۴۴، 244,245 حیح بخاری 222 | ۳۱۱،۸۱ صحیح مسلم | The Israeli connection by Bejmixn | ۳۴۹،۳۴۸ Beit-Hallahmi Israels fateful decisions by roz.For سنن ابن ماجہ حمامة البشرى خطبہ الہامیہ تذکرہ ۳۵۴ ۳۱ ۲۸۸ ۳۵۵ ۲۴ تفسیر کبیر (از حضرت مصلح موعود ) | September 24,1990 239 ۳۵۶،۲۷۱ Canadian ecnomical news Jan, ۳۴۸ Feb 1991 238 Socialist Standard 246,247 تورات زبور طالمود منوسمرتی Observer Dispossessed by Dispossessed by David Gilmour David Gilmour 276 222,268 Truth The Plain Oct 1990 72,73 The Time october 1990 Great contemporaries 251 240 Macreth Shakspere 230 HarrisBurg Patriot News Mar 2, Making of Israel 222 1991 (U.S.A) 320 Murder in the name of Allah 103 Sundy Times 12 Aug 1990 278 | Protocol of the elders of Zion ۲۴۸ العربيه لندن 194,195

Page 376