Language: UR
بسلسلہ صد سالہ خلافت احمدیہ جو بلی أم المؤمنين حضرت خدیجہ الکبر کی ہی طلا میں رضی اللہ عنہا لجنہ اماء الله
أم المؤمنين حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا
بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لوصد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بنے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین
حضرت خدیجہ الکبری پیارے بچو! 1 بسم الله الرحمان الرحیم أم المؤمنین حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنھا آج ہم آپ کو پہلی مسلمان خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے بارے میں بتائیں گے.جو ہمارے بہت ہی پیارے نبی اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پہلی زوجہ مطہرہ تھیں.اب ہم آپ کو ملکہ کے ایک پر رونق محلہ میں لئے چلتے ہیں جس کے درمیان میں ایک نہایت خوبصورت اور عالیشان مکان تھا وہ گھر مکہ کے مشہور سردار خویلد کا تھا.خویلد ایک عقلمند بزرگ تھا اس کی بیوی فاطمہ بھی خوش مزاج خاتون تھی (1) ان کے بچوں میں ایک نہایت ہی پاک صورت اور اچھے اخلاق والی بچی خدیجہ بھی تھی جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا بڑی ہوئیں تو ان کے والد نے ان کی شادی مکہ کے ایک شریف آدمی ابو ہالہ سے کر دی.ابو ہالہ امیر تو تھا ہی اسکے ساتھ سخی اور فیاض بھی تھا.ابو ہالہ اور خدیجہ کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے.جن میں سے ایک کا نام ہالہ اور دوسرے کا ہندہ رکھا گیا.اسلام سے پہلے عربوں میں عجیب وغریب رسمیں ہوا کرتی تھیں
حضرت خدیجہ الکبری 2 جن میں سے ایک رسم یہ تھی کہ نظر بد سے بچانے کے لئے لڑکوں کے نام لڑکیوں والے رکھ دیا کرتے تھے اس لئے ابو ہالہ نے اپنے بیٹوں کے نام لڑکیوں والے رکھ دیئے.ابھی تھوڑا عرصہ ہی گذرا تھا کہ ابو ہالہ وفات پاگئے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا اپنے دونوں بچوں کے ساتھ غمگین اور اکیلی رہ گئیں(2) آخر کچھ وقت گذرنے کے بعد آپ کے ابا اور چچا نے آپ کی شادی ایک شریف نوجوان عتیق بن عائذ سے کر دی.عتیق اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے ہاں ایک بیٹی ہند پیدا ہوئی.الہی منشاء کے تحت کچھ سالوں بعد ہی متقیق کا بھی انتقال ہو گیا (3) انہی دنوں عرب میں جنگ چھڑ گئی اس جنگ کو ”حرب فجار" کہا جاتا ہے.ابھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا اپنے خاوند کی جدائی کے غم سے سنبھل بھی نہ پائی تھیں کہ آپ کے بہت پیار کرے والے والد خویلد اس جنگ میں مارے گئے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا ایک بار پھر غمگین رہو گئیں (4) اس رنج اور غم کی حالت میں انہیں تسلی دینے والا کوئی نہ تھا اس لئے آپ اپنی توجہ بٹانے کے لئے اپنے والد کی تجارت میں حصہ لینے لگیں اور مختلف تجارتی قافلوں کو اپنا مال دے کر دوسرے ملکوں میں بھیجنا شروع کر دیا.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا بہت ذہین اور عقلمند تھیں اس لئے انہیں تجارت میں خوب نفع ہونے لگا.جلد ہی آپ مکہ کی امیر
حضرت خدیجہ الکبری 3 ترین خاتون بن گئیں.مکہ والے آپ کے اخلاق سے بہت متاثر تھے اور آپ مکہ میں طاہرہ“ کے لقب سے جانی جاتی تھیں جس کے معنی پاک اور صاف عورت کے ہیں (5) آپ فطرتاً بہت سخی اور کھلے دل کی مالک تھیں.آپ اپنا مال یتیموں ، غریبوں، مسکینوں اور بیواؤں پر بے دریغ خرچ کرتیں.انہی دنوں مکہ کے ایک مشہور سردار ابو طالب بھی تجارتی قافلوں کے ساتھ مختلف ملکوں خاص طور پر شام وغیرہ جایا کرتے تھے.ان صلى الله کے بھتیجے حضرت محمد عل جو بچپن ہی سے بہت نیک اور شریف تھے اور مکہ میں صادق ( بچے ) اور امین (امانت دار ) کے نام سے جانے جاتے تھے.اپنے چچا کے ساتھ تجارتی قافلوں میں جایا کرتے تھے.صلى الله آپ کے بچپن میں ایک مرتبہ شام کا سفر کر چکے تھے.اب حضرت محمد ع پچیس سال کے ہو چکے تھے.حضرت ابو طالب نے اپنے بھتیجے سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے تجارتی قافلوں کا ذکر کیا اور انہیں مال لے کر جانے کا مشورہ دیا جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا تک صلى الله حضور ﷺ کی دیانت داری کی شہرت پہنچی تو آپ نے حضور جانے کو پیغام بھیجا کہ اگر آپ مالا اللہ میرا تجارتی مال شام لے کر جائیں تو میں آپ ﷺ کو باقی لوگوں کی نسبت دو گنا منافع دوں گی.(6) نے اُن کی یہ بات مان لی اور جب آپ ع آن
حضرت خدیجہ الکبری 4 صلى الله کا تجارتی مال لے کر شام روانہ ہوئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے اپنے ایک غلام میسرہ کو آپ ﷺ کے ساتھ بھیجا تا کہ سفر کے دوران وہ آپ علی کی ضروریات کا خیال رکھے.شام پانی کر آپ ﷺ نے تجارتی مال بہت اچھے داموں فروخت کیا اور بہت زیادہ منافع حاصل کیا (7) جب آپ ﷺ اور میسر و مکہ میں داخل ہوئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تھا اپنے مکان کی چھت پر اپنی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں.آپ کا مکان دومنزلہ تھا اس لئے وہاں سے آپ اردگرد کا علاقہ بھی بخوبی دیکھ سکتی تھیں.چنانچہ آپ نے دیکھا کہ جب آپ کا غلام میسرہ اور آنحضور نے مکہ میں داخل ہوئے تو دوفرشتوں نے ان دونوں پر سایہ کیا ہوا تھا.آپ نے یہ نظارہ اپنی سہیلیوں کو بھی دکھایا تو وہ بھی یہ نظارہ دیکھ کر دنگ رہ صلى الله گئیں آپ علیہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس پہنچے انہیں تمام حساب سمجھایا اور منافع کی سب رقم ان کے حوالہ کردی جسے دیکھ کر وہ بہت حیران ہوئیں کیونکہ آج تک انہیں کبھی اتنا منافع نہ ہوا تھا.بعد میں میسرہ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کو سفر کے تمام حالات سنائے اور حضور عالیہ کی امانت و دیانت ، اچھے اخلاق اور سچائی کے جو مناظر اس نے سفر کے دوران دیکھے تھے وہ بیان کئے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا یہ تمام باتیں سن الله الله کر حضور ﷺ کی نیکی سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ لے کے عليسة
حضرت خدیجہ الکبری 5 ر صلى الله عمدہ اخلاق کی دل سے قائل ہو گئیں.آپ نے حضور میلے کی نیکی اور شرافت کا ذکر اپنی سہیلی نفیسہ سے کیا اور انہی کے ذریعہ حضور ﷺ کے گھر رشتہ کا پیغام بھجوایا (8) حضور میلہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا الله کے تقوی وطہارت سے بخوبی واقف تھے اس لئے آپ ﷺ نے اس شادی کے لئے رضا مندی ظاہر کر دی.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے چچا نے بھی حضور ﷺ کی تعریف کی اور آپ کا نکاح پانچ سو در ہم میں حضور ﷺ کے چچا ابو طالب نے پڑھایا اس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ علما کی عمر چالیس سال اور حضور یا اللہ کی عمر ﷺ پچیس سال تھی شادی کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے اپنا سارا مال حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا اور عرض کیا کہ حضور ﷺ اسے جیسے چاہیں استعمال فرما ئیں.حضور علی صلى الله نے اس مال کا کثیر حصہ غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیا.رسول اللہ ﷺ کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے بطن سے چھ اولادیں ہوئیں.دو صاحبزادے جو بچپن میں انتقال کر گئے اور چار الله صاحبزادیاں.ان کی تفصیل اس طرح ہے:.صلى الله -1- حضرت قاسم :.یہ رسول اللہ ﷺ کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے ان کے نام پر آپ مہ کی کنیت ابوالقاسم تھی.بچپن میں مکہ مکرمہ ے
حضرت خدیجہ الکبری میں انتقال فرما گئے.0 2- حضرت عبداللہ:.دوسرے صاحبزادے تھے جو نہایت چھوٹی عمر میں انتقال فرما گئے ان کے لقب طیب اور طاہر بھی تھے یہ زمانہ نبوت میں پیدا ہوئے تھے.3 حضرت زینب رضی اللہ عنھا :.یہ رسول اللہ ﷺ کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں.آپ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا سے نکاح کے پانچ برس بعد پیدا ہوئیں اور بعثت نبوی کے وقت آپ کی عمر دس برس تھی.اعلانِ نبوت کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے ساتھ ہی ایمان لا ئیں.آپ کی وفات آٹھ ہجری میں ہوئی.-4- حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا :.یہ رسول ﷺ کی دوسری صاحبزادی تھیں.جو آپ ﷺ کے نکاح کے آٹھ برس بعد پیدا ہو ئیں اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے ساتھ ہی ایمان لائیں.آپ کی وفات 21 سال کی عمر میں 2 ہجری میں ہوئی.صلى الله 5- حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا :.یہ حضور ﷺ کی تیسری بیٹی تھیں جو بعثت نبوی سے چھ سال قبل پیدا ہوئیں اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے ساتھ ہی اسلام لا ئیں.آپ کی وفات 9 ہجری میں ہوئی.
حضرت خدیجتہ الکبری 7 6- حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنھا:.یہ حضور ﷺ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی تھیں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا سے نکاح کے دس سال بعد پیدا ہوئیں.پیدائشی مسلمان تھیں.آپ کی وفات 29 سال کی عمر میں 11 ہجری میں ہوئی جبکہ حضور ﷺ کی وفات کو ابھی چھ ماہ ہی گزرے تھے.(9) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے اپنے بھتیجے حکیم بن حزام سے ایک غلام لے کر حضور عملے کے حوالہ کر دیا اس کا نام زید تھا.دراصل زید کو بچپن میں ڈاکوؤں نے اغوا کر کے غلام بنا لیا تھا آخر حکیم بن حزام نے انہیں خریدا اور اپنی پھوپھی حضرت خد بچہ رضی اللہ عنھا تک پہنچا دیا.حضرت زید کے والد اور چچا مسلسل ان کی تلاش میں تھے.تلاش کرتے صلى الله ہوئے آخر ایک دن وہ مکہ میں حضور ﷺ کے پاس پہنچے اور حضرت زید سے ملے جب ان کے اصرار پہ حضور ﷺ نے حضرت زید کو ان کے ساتھ جانے کا کہا تو حضرت زیڈ نے اپنے والد اور چاکے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور عرض کی کہ میں ساری عمر حضور ﷺ کی خدمت میں رہنا پسند کروں گا (10) یہ بات سن کر حضور یہ حضرت زید کو لے کر خانہ کعبہ صلى الله کے صحن میں پہنچے اور اعلان فرمایا کہ میں زید کو آزاد کرتا ہوں آئندہ سے وہ میرا بیٹا ہے.(11)
حضرت خدیجہ الکبری 8 انہی دنوں مکہ میں قحط کی وجہ سے کھانے کی چیزوں میں بہت کمی ہو گئی تھی اور لوگوں کو سخت مشکل کا سامنا تھا.ابو طالب کا خاندان کافی بڑا تھا اور انہیں بھی قحط کی وجہ سے سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا.اپنے چچا کی یہ حالت دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ایک بیٹے علی کو اپنے پاس لانے کا فیصلہ کیا.اس طرح علی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں آپ ملے کے بچوں کے ساتھ ہی رہنے لگے.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے حضرت علی کو بہت پیار سے خوش آمدید کہا اور ہمیشہ اپنے بچوں کی طرح ان سے سلوک کیا.(12) ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شروع سے ہی بتوں سے سخت نفرت کرتے تھے.آپ علیہ حضرت ابراہیم مالی اسلام کی طرح ایک خدا کی عبادت کرتے تھے.اس غرض سے آپ ع مکہ سے کچھ دور غار حرا میں جا کر تنہائی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور دعاؤں میں مشغول رہتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مہینہ میں کچھ راتیں اس غار میں عبادت کے لئے گزارتے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ صحا آپ ﷺ کے الله لئے پہلے ہی سے ضرورت کا کچھ سامان تیار کر دیتیں.اس دوران رسول اللہ والے کو کثرت سے بچے خواب آنے لگے.ایک روز آپ ﷺ غار حرا میں على الله
حضرت خدیجتہ الکبری عبادت میں مصروف تھے کہ ایک فرشتہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا ” اقْرَأْ ، یعنی ” پڑھو! آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تو پڑھ نہیں سکتا.اس پر حضرت جبرائیل نے آپ علیہ کو بڑے زور سے گلے لگا کر پھر کہا الله پڑھو! آپ ﷺ نے پھر وہی جواب دیا.اس طرح حضرت جبرائیل نے ایک بار پھر آپ والے کو گلے لگایا اور کہنے لگے: کو اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ اپنے رب کے نام سے پڑھ جس نے پیدا کیا“ ( يروى اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سے لے کر عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ تک ہوئی ) ان آیات کو سُن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبرائے اور جلدی سے گھر واپس آگئے.گھر پہنچتے ہی حضرت خدیجہ رضی اللہ معا سے فرمایا 66 زملوني، زملوني" مجھے کپڑا اوڑھا دو.مجھے کپڑا اوڑھا دو.سارا واقعہ سنانے کے بعد فرمایا " مجھے اپنے بارہ میں ڈر ہے." یعنی آیا اتنی بڑی ذمہ داری کو میں ادا کر بھی سکوں گا یا نہیں.اس پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے تسلی دیتے ہوئے کہا ”خدا کی قسم، اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا.آپ رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرتے ہیں، گا.
حضرت خدیجتہ الکبری 10 غریبوں کی مدد کرتے ہیں اور وہ نیکیاں کرتے ہیں جو دوسرے لوگ چھوڑ چکے ہیں.( 13 ) اس واقعہ کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعا آپ کو اپنے چا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے ہاں لے گئیں جو تورات اور اور انجیل کے بہت بڑے عالم تھے.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے کہنے پر آنحضرت علی نے ورقہ بن نوفل کو سارا واقعہ سنایا جس کو سن کر اس نے آپ ﷺ سے کہا یہ تو وہی فرشتہ معلوم ہوتا ہے جو حضرت موسیٰ“ پر وحی لے کر آیا تھا اور اس طرح انہوں نے بھی آنحضرت ﷺ کو مطمئن کیا (14).حضور علیہ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ پیغام دوسرے لوگوں تک پہنچانا شروع کیا.اسلام کا پیغام آہستہ آہستہ پھیلنا شروع ہوا اور آنحضرت کے دوست اور ملنے جلنے والے اسلام میں داخل ہونے لگے.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ آپ آنحضرت علی پر سب سے پہلے ایمان لائیں.( 15 ) اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ مھانے دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف صلى الله کر دی.انہیں اسلام سے اور آنحضرت علیہ سے بہت محبت تھی اور اسی محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا سے بہت محبت تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ہے
حضرت خدیجتہ الکبری 11 نے فرمایا ” میرے پاس جبرائیل آئے اور کہا، یا رسول اللہ ، خدیجہ رضی اللہ عنھا کو آپ کے رب نے سلام بھیجا ہے، جب وہ آئیں تو انہیں یہ سلام پہنچا دیں.“ اس حدیث سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے بلند مقام کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے.(16) صلى الله جب نماز فرض ہوئی اور حضرت جبرائیل نے حضور ﷺ کو وضو اور صلى الله نماز کا طریق سکھایا تو حضور یہ سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے اور انہیں بھی اسی طرح وضو اور نماز کا طریق بتلایا.پھر دونوں نے وضو کیا اور ا کٹھے نماز پڑھی.(17) مکہ کے باقی لوگ چونکہ بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے اس لئے جب انہیں آنحضرت عملے کے لائے ہوئے اس نئے دین کا علم ہوا جو ایک خدا کی عبادت سکھاتا تھا تو انہوں نے اس کی مخالفت شروع کر دی اور وہ مسلمانوں کو تنگ کرنے لگے کہ وہ اپنا نیا دین چھوڑ دیں اور دوبارہ سے بتوں کی پوجا شروع کر دیں.جب بھی وہ کسی مسلمان کو نماز پڑھتے دیکھتے تو اُس کا مذاق اُڑاتے.آہستہ آہستہ یہ مخالفت شدید ہوتی چلی گئی اور مسلمان قریش کے ڈر سے چھپ چھپ کر نمازیں پڑھنے لگے.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کو بھی قریش کی مخالفت کا حال معلوم تھا لیکن انہیں یقین تھا کہ یہ مخالف لوگ
حضرت خدیجۃ الکبری 12 مسلمانوں کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے اس طرح وہ بھی بڑی بہادری کے ساتھ تمام تکلیفوں کا سامنا کرنے لگیں.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنھا نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے ساتھ ہی اسلام قبول کر لیا تھا لیکن ان کے شوہر ابو العاص ابھی اسلام نہ لائے تھے.آپ کی دونوں چھوٹی بیٹیاں حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا بھی اسلام لے آئی تھیں.ان کے نکاح ابولہب کے بیٹے عتبہ اور عتیبہ سے ہوئے تھے جو آنحضرت اللہ کے چھا کے لڑکے تھے اور دعوت اسلام کے بعد حضور صلی اللہ کے سخت مخالف ہو گئے تھے.اسی مخالفت کی وجہ سے ابولہب نے اپنے دونوں بیٹوں کے نکاح ختم کر دیے.آپ ﷺ کی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی.صلى الله آنحضرت علی ہے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کو صرف قریش کی مخالفت کا سامنا نہ تھا بلکہ اپنے قریبی اور عزیز ترین رشتہ داروں کی مخالفت بھی برداشت کرنی پڑتی تھی.مگر آنحضرت علی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا اور آپ ﷺ کی بیٹیاں ہر مشکل ، دکھ اور تکلیف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ برابر کی شریک تھیں.مسلمان مکہ میں چھپ چھپ کر نمازیں ادا کرتے تھے اسی طرح
حضرت خدیجتہ الکبری 13 تین سال گزر گئے اور ساتھ ہی ساتھ کچھ اور لوگ بھی مسلمان ہوتے رہے.جب اسلام تیزی سے پھیلنے لگا تو مکہ کے کافر اس بات پر مزید پریشان ہو گئے اور مخالفت میں اور بڑھ گئے.اسلام کو روکنے کے لئے مختلف طریقے سوچنے لگے.اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت علی لے کو حکم دیا کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو کھل کر اسلام کا پیغام پہنچا دیں.چنانچہ آپ ﷺ نے اپنے تمام رشتہ داروں کو اپنے گھر دعوت پر بلایا اور عـ صلى الله اسلام کی تبلیغ شروع کر دی.ابھی آپ ﷺ نے بات کا آغاز ہی کیا تھا کہ آپ ﷺ کے چا ابولہب نے آپ کی بات کاٹ دی اور بُرا بھلا کہنے کے بعد اُٹھ کھڑا ہوا.اس کے ساتھ ہی دوسرے لوگ بھی اُٹھے اور اپنے اپنے گھروں کو چل پڑے ( 18 ).آپ ﷺ کو یہ دیکھ کر سخت صدمہ ہوا کیونکہ آپ ﷺ چاہتے تھے کہ آپ ﷺ کے رشتہ دار بتوں کی پرستش چھوڑ کر ایک خدا کی عبادت کرنے لگیں.مگر بجائے آپ ﷺ کی بات پر غور و فکر کرنے کے آپ کے سگے چچانے بھی نہ صرف آپ مہینے کو تنگ کرنا شروع کیا بلکہ اور لوگوں کو بھی آپ ملے اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا.آخر جب قریش نے دیکھا کہ اُن کی سخت مخالفت کے باوجود اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے تو وہ اس بات کو برداشت صلى الله
حضرت خدیجتہ الکبری 14 نہ کر سکے اور انہوں نے کمزور مسلمانوں پر شدید قسم کے مظالم کرنا شروع کر دیے.مگر اُن کے ظلم کے باوجود تمام مسلمان اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہے.ہر مسلمان کو یقین تھا کہ یہ آزمائش کے دن جلد ختم ہو جائیں گے اور آخر اسلام کی ہی فتح ہو گی.اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعہ حضور ﷺ اور مسلمانوں کو تسلی بھی دی جاتی جس سے اُن کے ایمانوں میں اور زیادہ اضافہ ہو جاتا.قریش کے مظالم سے کوئی بھی مسلمان محفوظ نہ تھا.غلاموں کو تو سب سے زیادہ ظلم برداشت کرنے پڑتے تھے.اور انہی میں حضرت بلال، حضرت عمار ، حضرت یا سر اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنھا شامل تھے.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھانے جب غلاموں کی یہ حالت دیکھی تو انہوں نے بہت سے مجبور اور مظلوم مسلمان غلاموں کو خرید کر آزاد کر دیا.(19) مکہ کے کافروں کی حالت یہاں تک پہنچی کہ انہوں نے آنحضرت میلے کو بھی بے انتہا تکالیف دینا شروع کر دیں.وہ لوگ آپ لے کے گھر میں پھر الا کر ڈال جاتے اور اکثر آپ ﷺ کے گھر پر پھر بھی برساتے.آپ اللہ کے راستہ میں کانٹے بچھا دیئے جاتے اور جب آپ ﷺ گلیوں میں سے گزرتے تو مکانوں کی چھتوں سے آپ ﷺ پر کچرا پھینکا جاتا.(20) ان تمام مشکل حالات میں بھی
حضرت خدیجتہ الکبری 15 اور ج حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے بہت صبر اور حوصلہ کا مظاہرہ کیا، بلکہ حضور علی گھر تشریف لایا کرتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا آپ مے کا بہت حوصلہ بڑھاتیں اور قریش کے دیئے گئے مظالم اور تکالیف کو کم کر کے الله دکھاتیں.جس سے آنحضرت عملے کے دل کو سکون ملتا.(21) جب قریش اور مکہ کے دیگر کفار کے مظالم دن بدن بڑھنے لگے مسلمانوں کی زندگی مشکل سے مشکل ہوتی گئی تو آخر ایک دن آنحضرت مال نے مسلمانوں کو ملک حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی صلى الله اجازت دے دی.پہلے قافلہ میں آنحضرت معیہ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنها کی بیٹی حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا ، اُن کے خاوند حضرت عثمان اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے بھتیجے حضرت زبیر بن العوام بھی شامل تھے (22).حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا اپنی بیٹی ، داماد اور بھتیجے کی جدائی سے اُداس بھی تھیں مگر اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی بھی.آپ بہت بہادر خاتون تھیں اور ہمیشہ اپنے گھر والوں اور دوسرے مسلمانوں کو تسلی دلاتیں کہ آخر کار انشاء اللہ اسلام نے ہی غالب آتا ہے.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کو ہر وقت یہ تشویش رہتی کہ کہیں کفار
حضرت خدیجتہ الکبری 16 آنحضرت میرے کو کوئی نقصان نہ پہنچا دیں.آپ کی پریشانی کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت مالے کو گھر پہنچنے میں دیر ہو گئی.آپ سخت بے چین ہو کر انہیں ڈھونڈنے کے لئے نکلیں.راستہ میں انہیں الله ایک آدمی ملا جس کو آپ نہیں جاتی تھیں اس نے آپ سے آنحضرت ملے کے متعلق دریافت کیا.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کو سخت تشویش پیدا ہوئی کہ کہیں یہ آدمی حضور میلے کو کوئی نقصان پہنچانے کے ارادہ سے تو نہیں آیا.جب اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ دراصل جبرائیل تھے.انہوں نے تمہیں سلام کہا ہے اور تمہیں جنت کی خوشخبری دی ہے جہاں تمہارے لئے موتیوں کا محل ہوگا.(23) صلى الله جب حضور میلے کو مقام رسالت عطا کیا گیا اور آپ میں نے نے اہل مکہ تک پیغام حق پہنچانا شروع کر دیا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ علما کے رشتہ داروں میں سے کچھ تو دل سے آپ اللہ کی صداقت کے قائل ہو گئے اور آپ ﷺ کی دعوت کو قبول کر لیا، مگر بعض کھلم کھلا مخالفت پر اتر آئے.تائید کرنے والوں میں ایک ورقہ بن نوفل حضرت خدیجہ رضی اللہ صحا کے چچا زاد بھائی تھے.انہیں ابتداء ہی سے بت پرستی سے نفرت تھی اور تلاش
حضرت خدیجہ الکبری 17 حق کی خاطر مختلف مذاہب کی تعلیمات کا مطالعہ کر چکے تھے.یہی وہ بزرگ تھے جنہوں نے دیکھتے ہی سب سے پہلے حضور ﷺ کی عظمت کو پہچان لیا اور آپ ﷺ کو قریش کی مخالفت کی خبر دی اور کہا کہ اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو ضرور آپ کی مددکروں گا.لیکن افسوس کہ وہ حضور علی کے دعوئی سے پہلے ہی انتقال کر گئے.حضور ا ہے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعا کے دل میں بھی آپ کی بہت عزت واحترام تھا.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا تو بعض کاموں میں ان سے مشورہ بھی لے لیتی تھیں.ایک مرتبہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ ورقہ کا صلى الله کیا حال ہے حضور ﷺ نے فرمایا میں نے انہیں سفید کپڑوں میں دیکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہشت میں داخل فرما دیا ہے کیونکہ اگر وہ دوزخ میں ہوتے تو کبھی بھی مجھے سفید کپڑوں میں دکھائی نہ دیتے (24) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کی پہلے شوہروں سے جتنی اولاد ہوئی تھی وہ سب اسلام لے آئی تھی.ہندو کی پرورش تو خود حضور ﷺ نے فرمائی صلى الله انہیں فصاحت و بلاغت میں کمال حاصل تھا جب حضور ﷺ کا حال بیان کرتے تو لوگوں کے سامنے آپ ﷺ کی تصویر کھینچ دیتے.ہالہ بھی اسلام
حضرت خدیجہ الکبری 18 لے آئے تھے اور انہیں حضور علیہ کی لمبی صحبت نصیب ہوئی.اسی طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کی بیٹی ہند نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا ان کی شادی ان کے چازاد سیفی مخزومی سے ہوئی آل خویلد میں سے بچپن ہی صلى الله سے حضور علیہ کی غلامی میں آنے والے حضرت زبیر بن العوام تھے جو صلى الله آٹھ سے بارہ سال کی عمر میں اسلام لائے حضور علی ہے ان سے بہت محبت کرتے تھے.اور کبھی ان کی فرمائش نہیں ٹالتے تھے انہی کے بارہ میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے (25) ان لوگوں میں جنہوں نے آغاز میں اسلام تو قبول نہ کیا لیکن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کا خیال کر کے آپ ﷺ کی مخالفت بھی نہ کی، حضرت خدیجہ رضی اللہ علما کی بہن ہالہ بنت خویلد تھیں.ان کے لڑ کے ابو العاص کا شمار مکہ کے معزز اور مالدار تاجروں میں ہوتا تھا آپ اکثر حضور ﷺ ہی کے گھر میں رہتے تھے.اسی قریبی تعلق کی وجہ سے حضور ﷺ نے اپنی بڑی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنھا کا نکاح ان سے کر دیا تھا.ابوالعاص شروع میں اسلام نہیں لائے تھے لیکن اپنی بیوی کو اسلام قبول کرنے پر کبھی کوئی تکلیف نہ دی.بالآخر 7 ہجری کو ابوالعاص بھی
حضرت خدیجتہ الکبری 19 دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے.(26) حضور ﷺ نے ان کے بارہ میں رمایا کہ ابو العاص نے دامادی کا خوب حق ادا کیا.صلى الله صلى الله حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے بھتیجے حکیم بن حزام کو بھی ابتداء میں قبول اسلام کی توفیق نصیب نہ ہوئی.آپ بچپن سے حضور میلے کے دوست تھے اور جنگ فجار میں اکٹھے حصہ لے چکے تھے آپ سادات قریش میں سے تھے اور علم الانساب کے بڑے ماہر تھے.رفادہ اور دارالندوہ کا انتظام انہی کے سپر د تھا.اگر چہ آپ ابتدائی مسلمانوں میں سے نہ تھے لیکن آپ نے دوستی کا اچھا حق ادا کیا اور مشرکین کے مقابل الله پر ہمیشہ حضور ہے اور آپ ﷺ کے صحابہ کی مدد کی.(27) ان تمام مظالم اور تکالیف کے باوجود اللہ تعالیٰ کا فضل مسلمانوں پر بڑھتا ہی چلا جارہا تھا قریش کے لئے یہ زمانہ بہت ہی پریشان کن تھا.مکہ کے بیشتر مسلمان مکہ سے ہجرت کر کے حبثہ پہنچ چکے تھے.اور وہاں امن وامان کی زندگی بسر کر رہے تھے.قریش نے انہیں واپس لانے کے لیے جو وفد روانہ کئے تھے نجاشی شاہ حبشہ نے انہیں نا کام واپس کر دیا تھا.ادھر مکہ میں حمزہ اور عمر بن خطاب جیسے بہادر اور سر کردہ اصحاب اسلام قبول کر چکے تھے.مکہ کے علاوہ دیگر قبائل میں بھی اسلام پھیلنا شروع
حضرت خدیجتہ الکبری 20 20 ہو گیا تھا.اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے قریش کے سر بر آوردہ اشخاص دارالندوہ میں جمع ہوئے اور وہاں یہ طے پایا کہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کا مکمل بائیکاٹ کر دیا جائے.نہ ان سے شادی بیاہ کا سلسلہ قائم کیا جائے نہ ان سے کسی قسم کی خرید و فروخت کی جائے اور نہ ان سے میل ملاپ رکھا جائے.یہ بائیکاٹ اس وقت تک جاری رہے جب تک وہ محمد ملالہ کو قتل کرنے کیلئے ان کے حوالے نہ کر دیں.ایک کاغذ پر با قاعدہ معاہدہ لکھا گیا اور اسے خانہ کعبہ کی چھت کے ساتھ آویزاں کر دیا گیا.اس فیصلے کے بعد بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کے تمام افراد حضرت ابوطالب کے پاس جمع ہوئے ان میں مسلمان اور کافر کی تخصیص نہ تھی.ابو طالب انہیں لے کر مکہ سے باہر پہاڑ کی ایک گھائی میں چلے گئے جسے بعد میں اسی واقعہ کی مناسبت سے شعب ابی طالب کہا جانے لگا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا اور ان کے رشتہ دار بھی بنو ہاشم کے ساتھ اسی گھاٹی میں منتقل ہو گئے اور بڑی خوشی سے خود بھی وہ تمام تکالیف برداشت کرنے کیلئے تیار ہو گئے جو بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کو اس بائیکاٹ کے نتیجے میں پیش آنے والی تھیں.(28) بائیکاٹ اور محاصرے کا یہ زمانہ مسلمانوں اور بنو ہاشم کے لئے
حضرت خدیجہ الکبری 21 انتہائی صبر آزما ثابت ہوا.قریش ان تک کھانے پینے کی کوئی چیز پہنچنے نہ دیتے تھے.بھوک اور پیاس کے باعث ان کے بچوں کے رونے کی آواز میں گھائی کے باہر قریش تک پہنچتی تھیں لیکن ان سنگ دلوں کو بالکل رحم نہ آتا تھا.بھوک کی حدت کا یہ عالم تھا کہ وہ پتے چبا چبا کر گزارہ کرتے تھے.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھی یہ تمام زمانہ انتہائی صبر اور استقلال کے ساتھ گذارا باوجود یہ کہ آپ کی عمر ساٹھ برس کے لگ بھگ ہو چکی تھی لیکن آپ نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے تکلیف اور کرب کا اظہار نہ کیا.اس کٹھن دور میں وہ حضور ﷺ کا خیال رکھنے والی غم خوار تھیں اور دیگر مسلمانوں کو بھی ہر وقت تسلی دیتی رہتی تھیں.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا اس وقت تمام مسلمانوں کے لئے نمونہ تھیں.اس نازک وقت میں حضرت خدیجہ رضی اللہ علما کے بعض عزیز قریش کی نظروں سے چھپ کر مسلمانوں کو کھانا پہنچاتے رہتے.اس کام میں آپ کے بھتیجے حکیم بن حزام پیش پیش تھے.اگر چہ ابھی تک انہوں نے اسلام قبول نہ کیا تھا.ایک دن ابوجہل نے حکیم کو ایک غلام کے ساتھ شعب ابی طالب میں غلہ لے جاتے ہوئے
حضرت خدیجتہ الکبری 22 دیکھ لیادہ فوراً ان کے پاس پہنچا اور کہنے لگا تم بنو ہاشم کو نہ پہنچاتے ہو تمہیں اس کا اختیار کس نے دیا ہے؟ میں دیکھتا ہوں کہ تم آئندہ کس طرح غلہ پہنچاتے ہو.ابھی یہ جھگڑا ہو ہی رہا تھا کہ ابو البختری بن ہشام بھی وہاں آپہنچا.اس نے پوچھا کیا بات ہے، تم دونوں کیوں جھگڑ رہے ہو؟ ابو جہل نے جواب دیا حکیم بن حزام بنو ہاشم کے پاس غلہ لے جا رہا ہے، ابو البختری نے کہا وہ اپنی چچی کے پاس غلہ لے جا رہا ہے تم اسے روکنے والے کون ہوتے ہو؟ ابوجہل بولا میں یہ غلہ ہرگز لے جانے نہ دوں گا.اس پر بات بڑھ گئی ابو البختری نے اونٹ کا ڈنڈا اٹھا کر ابو جہل کے سر پر دے مارا جس سے وہ زخمی ہو گیا.حکیم بن حزام موقعہ پا کر غلہ اپنی چچی کے پاس لے گئے ابو جہل نے بھی بات نہ بڑھائی کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ اگر مسلمانوں کو یہ پتہ لگ گیا کہ بائیکاٹ کے بارہ میں قریش میں آپس ہی میں اختلاف پایا جاتا ہے تو وہ ضرور اپنے ساتھیوں سے مل کر بائیکاٹ ختم کرانے کی کوشش کریں گے.(29) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کا جتنا مال تھا وہ سارا آپ مسلمانوں پہ خرچ کر چکی تھیں اور ابو طالب کا تمام مال بھی بنو ہاشم پہ خرچ ہو چکا تھا.اب باہر سے غلہ منگوانے کی کوئی راہ نہیں تھی، قریب تھا کہ بنو ہاشم اور
حضرت خدیجتہ الکبری 23 23 بنو عبد المطلب اور تمام مسلمان فاقے برداشت کرتے ہوئے ہلاک ہو جاتے کہ اللہ تعالی نے حضور میلے کو مطلع فرمایا کہ جس کا غذ پر کفار نے معاہدہ لکھا تھا اسے دیمک چاٹ گئی ہے اور صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے.حضور ﷺ نے یہ بات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا سے بیان کی.انہوں نے مشورہ دیا کہ اس بات کا ذکر حضرت ابو طالب سے کر دینا مناسب ہے.چنانچہ حضور علی نے حضرت ابوطالب سے اس کا ذکر فر مایا.حضرت ابوطالب کفار قریش کے پاس گئے اور کہا کہ میرے بھتیجے نے مجھے بتایا ہے کہ تمہارے لکھے ہوئے معاہدہ کو دیمک چاٹ گئی ہے اور اس پہ صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے.اگر یہ بات درست ہے تو تمہیں اپنے ظالمانہ طرز عمل سے باز آنا پڑے گا لیکن خدانخواستہ اس نے جھوٹ بولا ہے تو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اسے تمہارے حوالہ کردوں گا خواہ تم اسے قتل کرو خواہ چھوڑ دو.حضرت ابو طالب کی یہ بات سن کر انہوں نے خانہ کعبہ کی چھت سے معاہدہ کا کا غذ اتارا.جب اسے کھولا گیا تو اس کی حالت بالکل ویسی ہی تھی صلى الله جیسی حضور ع نے بیان فرمائی تھی.یہ دیکھ کر بعض لوگ جو اس ظالمانہ رقیہ کے خلاف تھے لیکن قوم کی مخالفت کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتے تھے کہنے لگے کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس معاہدہ کو منسوخ کر دیا جائے اس کے بعد
حضرت خدیجتہ الکبری 24 لله وہ لوگ بنو ہاشم کے ساتھی تمام مسلمانوں اور بنو ہاشم کو شعب ابی طالب کے محاصرہ سے نکال کر مکہ واپس لے آئے.تین سال کے شدید محاصرہ کے بعد بنو ہاشم اور بنوعبد المطلب کو شعب ابی طالب سے نکلنا نصیب ہوا.اس لمبے عرصہ میں اُن کے مردوں، عورتوں اور بچوں کو انتہائی تکلیف دہ حالات کا سامنا کرنا پڑا.لیکن انہوں نے بے انتہا صبر اور حوصلہ کے ساتھ یہ زمانہ گزارا.حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا چونکہ عمر رسیدہ ہو چکے تھے اس لئے ان کی صحت پر اس طویل محاصرہ اور مصائب کا بہت بُرا اثر پڑا.محاصرہ ختم ہوئے زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ حضرت ابو طالب اس دنیا صلى الله سے رخصت ہو گئے.ابھی آنحضرت میں لے کے چچا کی وفات کا زخم بھرا نہیں تھا کہ حضور میلے کو اس سے بھی بڑے صدمہ سے دو چار ہونا پڑا یعنی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا جن کی عمر پینسٹھ برس سے زیادہ ہو چکی تھی.محاصرہ کی سختیوں کی تاب نہ لا کر وفات پاگئیں انا للہ وانا الیہ رابعنوان - (30 ) اسی لئے تاریخ میں اس سال کو غم کا سال یا عام الحزن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ہی پیاری بیوی جنہوں نے ہر
حضرت خدیجتہ الکبری 25 25 مشکل میں آپ ﷺ کا بہت بہادری اور محبت سے ساتھ دیا اور آپ ﷺ کی خاطر ہر تکلیف خوشی سے برداشت کی اور ہر لحہ آپ ملنے کا حوصلہ بڑھایا ، آپ ﷺ سے جُدا ہو کر اللہ کو پیاری ہو گئیں.آپ کی صلى الله تدفین خود آنحضرت علیہ نے حجون کے قبرستان میں کی.(31) صلى الله رسول اللہ علیہ کو پچیس سال تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کی رفاقت حاصل رہی.اس طویل عرصہ میں حضور ﷺ نے کوئی اور نکاح نہیں کیا.حضرت خدیجہ رضی اللہ علما کی وفات کے بعد بھی آپ ﷺ نے ایک لمحہ کے لئے انہیں فراموش نہ کیا اور اکثر ان کا ذکر زبان پر جاری رہتا.رسول اللہ ہے اس کثرت اور محبت سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کا ذکر فرماتے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ مجھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے سوا حضور علی کی بیویوں میں سے اور کسی پر رشک نہ آتا.حالانکہ میں نے انہیں دیکھا تک نہیں تھا اور وہ میرے نکاح سے تین سال قبل وفات یا چکی تھیں.رشک کی وجہ یہ تھی کہ حضور ما اکثر ان کا بہت ذکر فرمایا کرتے تھے.ایک مرتبہ حضور کے حسب معمول ان کا ذکر فرمارہے تھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کہنے لگیں یا رسول اللہ ہے آپ ہر وقت
حضرت خدیجتہ الکبری 26 حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کا ذکر کیوں کرتے رہتے ہیں وہ ایک بوڑھی عورت تھی جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ مے کو اس سے بہتر بیویاں عطا فرما دی ہیں.یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عائشہ رضی اللہ عنھا ایسی بات مت کہو خدیجہ رضی اللہ عنھا نے اس وقت میری تصدیق کی جب تمام قوم نے مجھے جھٹلایا.وہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں جب تمام لوگوں نے میری باتیں سننے سے انکار کر دیا.اس نے اس وقت مجھ پر اپنا مال خرچ کیا جب کوئی شخص مجھے ایک درہم بھی دینے کے لئے تیار نہ تھا اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے صرف اسی سے مجھے اولا دعطا فرمائی.ایک مرتبہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کی بہن ہالہ بنت خویلد رسول اللہ اللہ کے پاس آئیں اور دروازے پر آکر اندر آنے کی صلى الله اجازت مانگی حضور علی کے کان میں جب ان کی آواز پڑی تو آپ ے نے بے چین ہو کر فرمایا کہ یہ تو بالکل خدیجہ رضی اللہ عھا کی آواز ہے معلوم ہوتا ہے مالہ آئی ہیں.(33) حضور اللہ کا یہ معمول تھا کہ جب کوئی قربانی کرتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کی سہیلیوں کے ہاں ضرور گوشت بھجوایا کرتے.حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنھا نے ایک روز اس کی وجہ پوچھی تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ
حضرت خدیجہ الکبری 27 مجھے خدیجہ رضی اللہ عنھا سے تعلق کی وجہ سے ان کی سہیلیوں کا بڑا پاس ہے.ان کے رشتہ داروں سے بھی آپ ﷺ ہمیشہ حسن سلوک فرماتے.(34) جنگ بدر میں مسلمانوں نے کفار کے جو قیدی پکڑے تھے رسول اللہ اللہ نے ان کی رہائی کی یہ شرط مقرر فرمائی کہ وہ فدیہ ادا کر دیں صلى الله حضور ﷺ کے داماد اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کی بہن ہالہ بنت خویلد کے لڑکے ابو العاص بھی ان قیدیوں میں شامل تھے.ان کی بیوی حضرت زینب رضی اللہ عنھا نے ان کے فدیہ کے طور پر ایک ہار بھجوایا جو حضرت خدیجہ رضی اللہ علمانے اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر اسے جہیز میں دیا تھا.جب یہ ہار رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو اسے دیکھ کر آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپ نے رقت بھرے لہجے میں فرمایا کہ اگر چاہو تو خدیجہ رضی اللہ عنھا کا دیا ہوا یہ ہار اس کی بیٹی کو واپس کر دو.چنانچہ وہ ہار حضرت زینب رضی اللہ عنھا کو واپس کر دیا گیا اور ابو العاص کو بھی رہا کر کے مکہ بھیج دیا گیا.(35) الغرض رسول پاک عہ کی آپ سے محبت نہ صرف ان کی زندگی میں بلکہ وفات کے بعد بھی جاری رہی.تاریخ میں حضرت خدیجتہ الکبری رضی اللہ تعالی عنھا کا مقام بہت
حضرت خدیجۃ الکبری 28 بلند ہے.آپ پہلی مسلمان خاتون تھیں جنہوں نے رسول پاک ﷺ کی زبان مبارک سے قرآن سنا.پہلی انسان تھیں جنہوں نے نبی کامل ﷺ کی رسالت کی تصدیق کی.زمانہ جاہلیت میں ایک طویل مدت گزارنے کے باوجود آپ نے کبھی کوئی بت پرستی کا کام نہیں کیا تھا.محب طبری نے لکھا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کا گھر مکہ میں صلى الله مسجد حرام کے بعد سب سے زیادہ افضل جگہ تھی ، کیونکہ رسول اللہ نے اس میں طویل عرصہ تک مقیم رہے اور آپ ﷺ پر وحی کا نزول ہوا.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے اپنی زندگی یہیں گزاری اور یہیں آپ کا انتقال ہوا.آنحضرت ﷺ اس وقت تک اس گھر میں قیام صلى الله فرمار ہے جب تک ہجرت نہ فرمالی.(36) اے اللہ ہم کو بھی توفیق دے کہ ہم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کی طرح سب سے پہلے حق کو پہچاننے اور اپنانے والے بنیں.( آمین )
حضرت خدیجہ الکبری 29 29 حوالہ جات 1 طبقات ابن سعد، جلد 8 ، صفحہ 14 2.ايضاً 3.ايضاً 4 طبقات ابن سعد، جلد 1 ، صفحہ 198 5.ابن ہشام، جلد 1 ، صفحہ 198 6 طبقات ابن سعد، جلد 1 ، صفحہ 199 7.ایضاً صفحه 131 8.ابن ہشام جلد 1 صفحہ 201,200 9 ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا صفحہ 69 تا 81 10.ابن سعد جلد نمبر 3 صفحہ 40 11.ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈ یا صفحہ 77 12.ابن سعد جلد نمبر 3 صفحہ 58 13.خدیجۃ الکبری از دوست محمد شاہد صفحه 12,11 14.ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈ یا صفحہ 72 15.ابن سعد جلد نمبر 8 صفحہ 17 16.ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈ یا صفحہ 75 17.تاریخ طبری، جلد 2 صفحه 307
حضرت خدیجتہ الکبری.18 1.صحیح بخاری صفحه 45 19.ابن ہشام صفحہ 384 20.ابن ہشام صفحہ 392 21.ابن ہشام صفحہ 318 30 50 22.ارسال قریش الی الحبشہ صفحہ 356 23.بخاری کتاب المناقب صفحہ 43 24.ابن ہشام جلد 1 صفحہ 266 25.بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی 26.ازواج مطہرات وصحابیات انسائیکلو پیڈ یا صفحہ 254 27.ابن ہشام جلد 1 صفحہ 375 28.طبقات ابن سعد، جلد 1 صفحہ 209,208 29.ابن ہشام جلد 1 صفحہ 375 30.ابن ہشام جلد 2 صفحہ 25 31 طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 18 32.ابن ہشام جلد 1 صفحہ 201 33.بخاری کتاب المناقب فضائل حضرت خدیجہ صفحہ 35,34 34 بخاری کتاب المناقب فضائل حضرت خدیجه صفحه 35 ازواج مطہرات وصحابیات انسائیکلو پیڈیا صفحہ 249 36.ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈ یا صفحہ 73
حضرت خدیجہ رض (Hadrat Khadija") Urdu Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.ISBN: 1 85372 949 3