Language: UR
خوا ب سرا مجموعه کلام مبارک صدیقی
نام کتاب شاعر خواب سراب ( شعری مجموعه ) مبارک صدیقی (لندن) mubariksiddiqi@hotmail.com سن اشاعت اول جنوری 2001ء سن اشاعت دوم دسمبر 2015ء سن اشاعت سوم : نومبر 2018ء سن اشاعت چهارم جولائی 2021 ء
خواب سراب انتساب ہر اس شخص کے نام......جس کے ہونے سے لوگ راحت اور امن محسوس کرتے ہیں 3
3 9 10 14 18 21 22 23 25 28 30 خواب سراب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ فهرست کلام 32 32 انتساب خواب سراب گلابوں اور چراغوں کا شاعر تاثرات 1 حمد منزل بھی تیری ذات ہے اور ہمسفر بھی تو حمد.اُس سے مانگ کے دیکھ کبھی اے مور کھ سے انسان ہجر کی کالی رات میں اُٹھ کر دل کے دیپ جلا 4 نعتیہ کلام.بات ایسی کہ خوشبوسی آنے لگے 5 نعت.پیار کیسے ہو گیا یہ واقعہ ہے مختصر خزاں کی رت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے دُعا میں التجا نہیں تو عرض حال مسترد کوئی ایسا جادوٹو نہ کر و کوئی درد ہے جو ابھی دوا نہیں ہوسکا 10 وہ بات جس سے دُکھا ہوا دل قرار پائے ، وہ شاعری ہے 34 38 40 40 4
42 44 46 46 48 49 49 51 54 53 55 57 61 63 65 66 68 71 73 خواب سراب 11 ستارہ بن کے رہو یا کسی دئے میں رہو 12 اُداس کیوں ہو لوگ سب مل کے اگر دیپ جلانے لگ جائیں 14 میرے لئے جو آج سے تو غیر ہے تو خیر ہے 15 بہت بُرے ہو 16 کچھ دل کو ہیں آزار ذرا اور طرح کے 17 کوئی غیبی ہاتھ سہارا ہو گیا تو 18 کبھی یقیں یہاں وہاں کبھی گماں اِدھر اُدھر 19 تم سے کیا چھپانا ہے 20 میں صاف صاف یہ کہتا ہوں استعارے بغیر 21 سخنوروں کے شہر میں وہ شاہ سخن کمال است 22 ہم نہیں وہ لوگ جو پتھر اٹھا کر مار دیں 23 اُداس لوگوں کو جو خوشی کی خبر سنائے ، وہ خوبصورت 24 ابھی وہ لوگ باقی ہیں 25 سرمئی شام ہے موسم ہے سہانا ،نا 26 وصال یار کو جانا تو ہو کے باوضو جانا 27 میں محبت کے بارے میں ویسے تو زیادہ نہیں جانتا 8 مانا کہ وہ بھی آج تک مانا تو ہے نہیں 29 سند ر روپ اور چاندی رنگت لے بیٹھے گی 74 76 78 5
80 82 84 600000 86 88 90 90 93 94 40 97 99 99 101 103 105 108 109 110 111 112 114 30 خواب سراب مسلک کے نام پر لگی جنگوں سے تنگ ہوں 31 اذیت ناک پنجرہ ہو چکا ہے 32 دعا کی لو سے دیے میں جلانے والا ہوں 33 کچھ ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں 34 آنکھ ہے اشکبار ویسے ہی 35 اگر وہ سامنے آئے ، وہ اتنا پیارا ہے 36 اے میرے خدا مرے چارہ گر ، اُسے کچھ نہ ہو 37 کسے ہجرتوں کا ملال ہے 38 یہ دنیا ہے، یہاں پر داستانیں مار دیتی ہیں 39 وہ بھی دشمن داری کل پر رکھنے والا نئیں 40 دس ہیں میں مل جاتی ہے بازار سے خوشبو رضائے یا ر ہے جب انتہا تو غم کیا ہے یار 42 دیپ بن کر جلو آخری سانس تک 43 ڈوبتا جا رہا ہے دل میرا 44 عداوت میں خسارہ ہو گیا تو 45 قطعہ - کہہ نہیں سکے مگر 46 دنیا کی دل دُکھانے کی عادت نہیں گئی 47 وہ جسے میں نے دل و جان سے چاہا، آبا 48 اچھا ہے سو وہ تنہا ہے 6
116 117 118 119 121 122 124 129 مخواب سرار تو نہیں تو زندگی میں اک کمی رہ جائے گی 50 مجھ سے پتھر نے بھی اک دن کیمیا ہونا ہی تھا 51 دل کسی کے پیار میں سرشار تھا ایسا کہ بس 2 مینڈھی گل گل پھل گلاب اے 53 ریت پ نقش بناتے ہوئے تھک جاتے ہیں 54 دشمنوں سے بات ہم سے یاریاں دل کر داسی یوروپ جائیے دنیا دے وچ غم نئیں مکدے 7
”مبارک صدیقی کی شاعری کا چراغ وہاں جلتا ہے جہاں میرے جیسے کسی شاعروں کے دیے ٹمٹمانے لگتے ہیں." ( پروفیسرعبدالکریم خالد ) مبارک صدیقی بلاشبہ صندل کا وہ درخت ہے جو کلہاڑے کامنہ بھی خوشبو سے بھر دیتا ہے.(طاہر عدیم صاحب) مبارک صدیقی صرف شاعر ہی نہیں بلکہ مجسم مشاعرہ ہے.( چوہدری محمد علی مضطر ) 8
میری شاعری کا مجموعہ آپکے خوبصورت ہاتھوں میں ہے.میرے لئے یہ بھی اعزاز کی بات ہے.میں اپنے اُن پیاروں کا ، اساتذہ کرام کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں جنہوں نے ہمیشہ نہایت محبت و شفقت اور درگزر کا سلوک کرتے ہوئے میری شاعری سے متعلق اپنے تاثرات سے نوازا.اللہ تعالی انہیں اس عمل کی بہترین جزا دے.آمین.خدا کرے کہ ان اساتذہ کرام نے جن خوبیوں کی توقع مجھ سے کی ہے وہ خوبیاں مجھ میں پیدا ہو جائیں.میں اپنے بہت پیارے دوستوں عزیزوں کا بھی شکر گزار ہوں جو قدم قدم پہ نہ صرف میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ ایک اچھا دوست ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے احسن رنگ میں تعریف اور تنقید بھی کرتے ہیں.اللہ تعالی اُن سب کو ، آپ سب کو دین و دنیا کی خوشیوں سے سرفراز فرمائے.آمین.مجھے بخوبی علم ہے کہ ہر تخلیقی شعبہ کی طرح شعر و ادب میں بھی سیکھنے کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے.قارئین کرام سے بھی دعا کی عاجزانہ درخواست کرتے ہوئے میں کہوں گا کہ اگر ساری کتاب میں سے ایک شعر بھی آپکے دل کو لگے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے میری ٹوٹی پھوٹی کاوشوں کا صلہ مل گیا ہے.15 نومبر 2018ء مبارک صدیقی لندن 9
گلابوں اور چراغوں کا شاعر بسا اوقات ہم اپنی قلت منہمی کی وجہ سے شعر کوصرف تسکین کا ایک ذریعہ ہی خیال کر لیتے ہیں جبکہ در حقیقت شعر اور شعور کا باہم گہرا تعلق ہے.ایک اچھا شعر ہمیں فہم و ادراک کی ایسی راہوں پر لے جاتا ہے جہاں تک پہنچنا بسا اوقات مشکل ہی نہیں ناممکن ہوا کرتا ہے.شاعری محض الفاظ کو سلیقے اور طریقے سے برتنے کا نام ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے روز مرہ رویوں ، معاملات اور واقعات کی عکاس ہوا کرتی ہے.مصور کائنات کی بنائی ہوئی یہ دنیا بہت وسیع ہے اور اس میں پھیلے منظر اور رنگ بھی بے انتہا ہیں.شاید ہی کسی عکاس کیلئے ممکن ہو کہ وہ ان تمام خوبصورت مناظر کی تصویر کشی کا حق ادا کر سکے.پھر بھی کچھ اہل قلم ایسے ضرور ہوتے ہیں جنہیں قدرت کی طرف سے یہ سلیقہ عطا ہو جاتا ہے کہ وہ ممکنہ حد تک قاری کو اس انتہا تک لے جاتے ہیں جہاں تک اس کا شعور اُسے اجازت دیتا ہے.وہ انسانی رویوں کی چادر کے سب تانے بانے کھول کر سمجھا بھی دیتے ہیں اور انہیں بہتر بنانے کا ہنر بھی بتا دیتے ہیں.جیسا کہ ظلم کو مٹانے کیلئے صبر کی طاقت کا اظہار کرتے ہوئے مبارک صدیقی کہتے ہیں : ہم نہیں وہ لوگ جو پتھر اُٹھا کر مار دیں ہم ہیں وہ جو رات کو سورج دکھا کر مار دیں 10
مبارک صدیقی کا اسلوب اور انداز گوسادہ معلوم ہوتا ہے اور ایک عام پڑھنے والا بھی اپنی ذہنی سطح کے مطابق اس سے مطلب اخذ کر کے آگے بڑھ جاتا ہے لیکن ایک نقاد کیلئے ان کے اشعار بہت سی پرتیں کھولتے چلے جاتے ہیں.ایک کے بعد ایک نئی تہہ گھلتی جاتی ہے اور نئے معانی اور استعارے سمجھ میں آتے چلے جاتے ہیں.جیسا کہ یہ شعر ملاحظہ ہو: لوگ سب مل کے اگر دیپ جلانے لگ جائیں اے سیاہ رات ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں قارئین کرام ! الفاظ کو اعجاز میں بدلنا آسان نہیں ! لیکن لفظوں سے معجز نمائی کرنے والے مبارک صدیقی ایسا کر گزرتے ہیں.لفظ مسیحا ہیں تو مبارک صدیقی اس مسیحائی میں کمال رکھتے ہیں.شعر اگر زندگی کا فہم و ادراک ہے تو مبارک صدیقی اس ادراک کی راہوں میں مشاق ہیں.لفظوں کو زندگی دیتا اور احساسات کو قوت بیان عطا کرتا ان کا کلام اور ان کا ہنر نہ صرف الفاظ کو حیات بخشتا ہے بلکہ اپنے سُننے اور پڑھنے والوں کو بھی زندگی کے نئے ذائقے چکھاتا ہے.ان کے اشعار بلاشبہ مسیحائی کا سا اثر رکھتے ہیں.پڑھنے والا ان کے اشعار کے آئینے میں اپنے وجود کی ، اپنے افکار کی اور اپنے جنون کی تلاش کر سکتا ہے.دیدہ بینا لئے ہوئے مبارک صدیقی باریکی سے چیزوں کے حسن کی تلاش اور کھوج میں لگا رہتا ہے اور اکثر ایسے پہلو کھوجنے میں کامیاب رہتا ہے جو عام آدمی کی نظر سے اوجھل رہ جاتے ہیں.ان کا یہ شعر انہی پر صادق آتا ہے کہ: 11
کچھ ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں جہاں بھی جائیں دیتے ہی جلائے جاتے ہیں مختصر یہ کہ کچھ شاعر شعر کہتے ہیں اور کچھ کرامت دکھاتے ہیں.مبارک صدیقی بلا شبہ اُردو شاعری کے میدان میں ایک ایسا ہی نام ہے جو کرامت دکھاتا ہے.لیکن طبیعت میں انکساری ایسی کہ دل سے دعا نکلتی ہے.شعر ملاحظہ ہو: ہر ایک عزت و رفعت ہے خاکساری میں سو چاند چھو کے بھی مٹی سے رابطے میں رہو مبارک صدیقی کا تھوڑا سا کلام پڑھنے یا سننے والا بھی یہ خوشگوار تاثر لئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان کی باغ و بہار شخصیت کی طرح ان کے کلام میں بھی جا بجا روشنی ، گلاب اور خوشبو بکھری ہوئی ہے.اس حوالے سے انہیں چراغوں ، گلابوں اور خوشبوؤں کا شاعر کہا جائے تو بے جانہ ہوگا.یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں: دس بیس میں مل جاتی ہے بازار سے خوشبو بہتر ہے مگر آئے جو کردار سے خوشبو گلاب ایسے بھی دل کے لہو سے بو جاؤ کہ مر بھی جاؤ تو خوشبو کے تذکرے میں رہو وہ ملے اگر تو اسے کہوں اے گلاب شخص کوئی تجھ سا کیا ،تری خاک پا نہیں ہوسکا 12
مبارک صدیقی کی شاعری کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت سادگی سے ایک مضمون بیان کر کے آگے نکل جاتے ہیں اور جب پڑھنے یا سنے والا مضمون میں غوطہ لگا کر باہر نکلتا ہے، وہ ایک نئی منزل پر مسکراتے چہرے کے ساتھ ان کے منتظر ہوتے ہیں.وہ خود لکھتے ہیں: خزاں کی رت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا کمال یہ ہے ہوا کی زد پہ دیا جلانا، جلا کے رکھنا کمال یہ ہے مسکراتے چہرے اور گلاب لہجہ کے حامل اس شاعر کو اللہ تعالیٰ نے میدانِ شعر میں کمال بنایا ہے اور مبارک صدیقی نے اس کمال کو جس محبت اور خوش اسلوبی سے استعمال کیا ہے، اس کی جھلک آپ کو اس کتاب کے ہر صفحے پر نظر آئے گی.( ڈاکٹر وسیم احمد طاہر، جرمنی) 13
علم را برتن زنی مارے بود علم را بر دل زنی یارے بود مولانا روم کہتے ہیں کہ علم کو اگر بدن پر لگایا جائے یعنی اس سے دنیا طلبی کا کام لیا جائے تو یہ ایک سانپ بن جاتا ہے لیکن اگر علم کو دل سے جوڑا جائے یعنی اس سے دلوں کی اصلاح کا کام لیا جائے تو یہ یار بن جاتا ہے.مبارک صدیقی نے علم کو نہ صرف دل سے جوڑا ہے بلکہ اس علم سے ٹوٹے ہوئے زخمی دلوں پرا کسیر دوا کا کام بھی لیا ہے.اس کی شاعری میں جہاں نئی زمینوں پر نئی فصلیں لہلہاتی نظر آتی ہیں وہاں پرانی اور بنجر زمینیں بھی نت نئے پھولوں سے مرصع و مزین دکھائی دیتی ہیں.وہ ایک ایسا ساحر ہے جو رنج والم کے گہرے مناظر کو چٹکی بجاتے ہی سفید کبوتروں اور اُجاڑ ، ویران آنکھوں کو پلک جھپکنے میں ہزار ہا رنگین تتلیوں سے بھر دیتا ہے.پاس کی تاریک راہوں میں اس کی شاعری جگہ جگہ جگنو چھوڑتی نظر آتی ہے.دلوں کے بے رنگ آسمان پر قوسِ قزح کے تھان بچھا دینے والا یہ شاعر صدیوں کے سمندرلمحوں میں پار کروانے کا ہنر بخوبی جانتا ہے.مبارک صدیقی بلا شبہ صندل کا وہ درخت ہے جو کلہاڑے کا منہ بھی خوشبو سے بھر دیتا ہے.شاعری کے اس سفر میں میری سرسبز و شاداب دعا ئیں ہمیشہ اس کے ساتھ رہیں گی.14 (طاہر عدیم صاحب)
ه مبارک صدیقی کی شاعری مزاحیہ ہو یا سنجیدہ دونوں میں حسن و کمال اور نیکی کا پیغام پایا جاتا ہے.(ضیاء اللہ مبشر ) مبارک صدیقی نام ہے اُس شاعر کا جو اپنی دل آویز شاعری کے گلابوں سے خزاں موسم میں گلرنگ بہاروں کی نوید دیتا ہے.(ڈاکٹر سر افتخارا یاز، برطانیہ) خیالات کی فراوانی، اظہار بیان کی روانی، اور معنویت کی تابانی کا نام ہے مبارک صدیقی کی شاعری.(امام عطاءالمجیب راشد ) مبارک صدیقی ایسا ہنستا مسکراتا شاعر ہے جو اپنے اشعار سے لوگوں کے لبوں پہ مسکراہٹ بکھیرتا ہے اور اُداس دلوں میں خوشیوں کے چراغ روشن کرتا چلا جاتا ہے.ليق عابد ) ه مبارک صدیقی مزاح سے سنجیدگی تک اور شاعری سے شخصیت تک، ہر زاویے اور ہر پہلو سے ممتاز اور منفر د نظر آتے ہیں.(ڈاکٹر نکہت افتخار ) 15
خواب سرار شاعر ہونا، ٹھیک ہے لیکن جب کوئی مبارک صدیقی جیسا شاعر ہو تو اسے خوبصورت اور بھر پور شاعر کہا جاتا ہے.ایک ایسا شاعر جسے پڑھنا بھی اور سننا بھی اعزاز ہوتا ہے.شاعرانہ گداز جب معاشرتی رویوں کے رد عمل سے پیدا ہونے والے احساس کے تخلیقی قرینے سے مل کر شعر میں ڈھل جائے تو یہ کسی شعری معجزے سے کم نہیں ہوتا اور یہی شعری معجزہ مبارک صدیقی کا بنیادی وصف ہے.نہایت سلاست اور بے ساختگی سے بہت بڑی بات کہہ کر اتنی ہی فطری بے نیازی سے آگے بڑھ جانا ان کی ذات اور شاعری دونوں ہی میں پورے توازن کیساتھ نظر آتے ہیں.میرے لیے زیادہ طمانیت کی بات یہ ہے کہ وہ جتنے اچھے شاعر ہیں اتنے ہی اچھے اور دلنواز انسان بھی ہیں.(فرحت عباس شاہ) مبارک صدیقی جب اپنے خوبصورت اشعار سناتے ہوئے مسکرارہا ہوتا ہے تو نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ وہ کوئی غم چھپا رہا ہے.اسکی شاعری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھئے تو آپ کو بھی ایسا ہی لگے گا.مبارک صدیقی دل سے شعر کہتا ہے جو سیدھے دلوں میں ترازو ہو جاتے ہیں.(عبد الکریم قدسی) مبارک صدیقی ایک خوبصورت اور بھر پور شاعر ہے جو غزل بھی خوب کہتا ہے اور نعت بھی بہت خوب کہتا ہے.مجھے لندن میں اس محبت کرنے والے نوجوان جذبوں کے شاعر سے مل کے بہت خوشی ہوئی ہے.“ (انور مسعود ) 66 16
انگریزی زبان کے ماحولیاتی طلسم میں اردو سخن گوئی کا جادو جگانا اور کرب و طرب کے اظہار کو اپنا نا کوئی معمولی فن نہیں ہے لیکن مبارک صدیقی نے کمال خوبصورتی کے ساتھ اپنے خوبصورت کلام میں یہ جادو جگایا ہے.(مبارک احمد عابد ) مبارک صدیقی صاحب کا کلام جب بھی نظر سے گزرا اچھا لگا.(امجد اسلام امجد) مبارک صدیقی خوبصورت لب و لہجے کے شگفتہ گو شاعر ہیں.(رشید قیصرانی) مبارک صدیقی صرف شاعر ہی نہیں بلکہ مجسم مشاعرہ ہے.( چوہدری محمد علی مضطر ) 00 17
حمد منزل بھی تیری ذات ہے اور ہمسفر بھی تو مولا مرا چراغ تو شمس و قمر بھی تُو طول شب فراق میں نُورِ سحر بھی تُو نیلم بھی تو، زمرد و لعل و گہر بھی تو نظر بھی تو ہی تو مد نظر بھی تو حد مولا مرے ادھر بھی تو میرے اُدھر بھی تُو منزل بھی تیری ذات ہے اور ہمسفر بھی تُو 18
جلوے ترے ہزار ہیں کوہ و دمن کے پیچ تنتلی بہار پھول کی صورت چمن کے پیچ سنبل گلاب و لالہ و سرو وسمن کے پیچ رنگ و گل و بہار کی ہر انجمن کے پیچ کرتا ہے ڈال ڈال یہاں باشمر بھی تو منزل بھی تیری ذات ہے اور ہمسفر بھی تُو تو وہ ہے جو کہ خاک سے خوشبو نکال دے پھولوں کو رنگ روپ دے اور بے مثال دے اک گن سے کہکشاؤں کو رستے پہ ڈال دے اک دو نہیں ہزار جو سورج اُچھال دے وہ بے مثال و با کمال و با ہنر ہے تو منزل بھی تیری ذات ہے اور ہمسفر بھی تو 19
مولا میں بے قرار ہوں اور چشم تر ہوں میں اندھا سا اک فقیر سر رہگزر ہوں میں سنتا ہوں تیری چاپ جدھر بس اُدھر ہوں میں بخشش کی بھیک مانگتا پھرتا ادھر ہوں میں میرے خیال و خواب سے ہے باخبر بھی تو منزل بھی تیری ذات ہے اور ہمسفر بھی تُو مولا وہ بھیک دے جو کرے باشمر مجھے جانے دے بے حساب ہی اور خاص کر مجھے اپنے کرم سے کر وہ عطا چشم تر مجھے دھو کر مرے گنہ جو کرے معتبر مجھے دشت طلب میں ایک مرا راہبر بھی تُو منزل بھی تیری ذات ہے اور ہم سفر بھی تُو 20
اس سے مانگ کے دیکھ کبھی اُس سے مانگ کے دیکھ کبھی ، اے مور کھ سے انسان جو کہ جل تھل کر سکتا ہے، پیاس کے ریگستان جس خورشید کو دیکھ کے پگھلیں، برف کے بلتستان جس کا وصل مٹا دیتا ہے، ہجر کے راجستھان ساری دنیا چھوڑ چھاڑ کے، اُس سے جاکے مل رو رو اپنا حال سنا، اور رکھ قدموں میں دل پاؤں اُس کے پڑ کے کہنا، اے نوروں کے نور جس نے کاٹے کشٹ ہزاروں، میں ہوں وہ مزدور گرتے پڑتے آیا ہوں، میں گھائل کچور و چور کر دے گھپ اندھیرے مجھ سے ، میلوں صدیوں دور 21
بخش دے مجھ کو، دیکھ نہ میرا نامہ اعمال میرے ہاتھ نہ پہلے کچھ بھی، ایسا ہوں کنگال دُکھ کے ببر شیر ہیں پیچھے، بن جا میری ڈھال پھر نہ دنیا مڑ کے دیکھوں، ایک نظر وہ ڈال تیرے ہاتھ میں بخشش کے ہیں، اربوں بحرِ ہند رحمت کا اک چھڑک وہ قطرہ، جی اُٹھے یہ چند 22 22
ہجر کی کالی رات میں اُٹھ کر دل کے دیپ جلا ہجر کی کالی رات میں اُٹھ کر دل کے دیپ جلا آنکھ کے مر جانے سے پہلے آنسو چار بہا نفس کے کالے جادوگر سے جلدی جان چھڑا اُس کی یاد میں ایسے رو کہ ہستی جائے ہل وقت نکال کسی دن تھوڑا اپنے آپ سے مل تنہائی میں بیٹھ کسی دن خود سے مانگ حساب کتنے تونے خار بچنے ہیں کتنے پھول گلاب دو آنکھوں میں پال لئے ہیں تو نے دو سو خواب تو نے خود کو جان لیا ہے شاید سب سے تیز وقت کی دیمک چاٹ گئی ہے رستم اور چنگیز 23
بات سمجھنے والی ہے اس دل کو یہ سمجھا جیسے تیسے ہو سکتا ہے جا کے یار منا آنکھ کے آنسو، پیر کے چھالے، دل کے زخم دکھا اُس سے کہنا، کیا کہنا ہے، کیا میری اوقات کر دے مجھ پہ اپنے پیار کے رنگوں کی برسات 24 24
نعتیہ کلا بات ایسی کہ خوشبوی آنے لگے نام ایسا کہ دل جگمگانے لگے کام ایسے کہ روح گنگنانے لگے حسن ایسا چمن مُسکرانے لگے بات ایسی کہ خوشبو سی آنے لگے اور چہرہ کہ جیسے ہو ماه تمام عليك الصلوة عليك السلام 25 25
وہ لطافت تھی جیسے کہ آذان ہو وہ حلاوت تھی جیسے کہ قرآن ہو وہ ہو طراوت تھی جیسے گلستان وہ سخاوت تھی ت تھی جیسے کہ طوفان ہو وہ محبت کہ عاشق ہوئے خاص و عام عليك الصلوة عليك السلام اُنکے آتے ہی موسم بدلنے لگے پھول شاخوں اپنی مچلنے لگے دل کے پتھر دعا سے پگھلنے لگے جاں بلب لوگ پھر سے سنبھلنے لگے مسکرا کے فرشتوں نے بھیجے سلام عليك الصلوة عليك السلام 26
اُن کو دیکھا تو اُن پہ فدا ہو گئے بت پرستوں سے وہ با خدا ہو گئے اُنکے در کے گدا بادشاہ ہو گئے لوگ مٹی کے وہ بن وہ کیمیا کیمیا ہو گئے گئے سیدی ایک حبشی غلام عليك الصلوة عليك السلام بے سہاروں کا وہ آسرا بن گئے بیقراروں کے دل کی صدا بن گئے درد دیکھا جہاں بھی دوا بن گئے عین گرداب میں ناخدا بن گئے عشق ایسا کیا، کہہ اُٹھے وہ تمام عليك الصلوة عليك السلام 27
نعت پیار کیسے ہو گیا یہ واقعہ سے مختصر اہل دنیا کو نجانے اور کیا اچھا لگا اہل دل کو بس محمد مصطفی " اچھا لگا روشنی جان دینے پھر پتنگے آگئے شب گزیدہ قوم کو روشن دیا اچھا لگا درد کے صحرا میں بارش وصل کی جل تھل ہوئی ہجر کے ماروں کو موسم وہ بڑا اچھا لگا جس نے اُس کے ہاتھ چومے، خود بھی خوشبو ہو گیا اہل دل کو عشق کا یہ معجزہ اچھا لگا 28
پیار کرنا جرم ہے تو سُن زمانے غور سے وہ ہمیں تھوڑا نہیں بے انتہا اچھا لگا اُسکی خاطر زخم جو آئے وہ سارے پھول تھے اُسکے کوچے تک ہمیں ہر کربلا اچھا لگا پیار کیسے ہو گیا واقعہ ہے ہم دکھی تھے اور ہمیں دکھ آشنا اچھا لگا مختصر عشق بھی کیا چیز ہے اب کیا بتائیں دوستو جو بھی اُس تک لے گیا، وہ راستہ اچھا لگا کیا عجب، روز قیامت وہ مبارک یہ کہیں میرے اس شاعر نے اُس دن جو کہا اچھا لگا 29 29
کمال یہ ہے خزاں کی رُت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے ہوا کی زد دیا جلانا، جلا کے رکھنا، کمال یہ ہے ذرا سی لغزش پہ توڑ دیتے ہیں سب تعلق زمانے والے ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے کسی کو دینا یہ مشورہ کہ وہ دُکھ بچھڑنے کا بھول جائے اور ایسے لمحے میں اپنے آنسو چھپا کے رکھنا، کمال یہ ہے خیال اپنا مزاج اپنا، پسند اپنی کمال کیا ہے؟ جو یار چاہے وہ وہ حال اپنا بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے 30 30
کسی کی رہ سے خدا کی رہ سے خدا کی خاطر، اٹھا کے کانٹے ، ہٹا کے پتھر پھر اس کے آگے نگاہ اپنی جھکا کے رکھنا، کمال یہ ہے وہ جس کو دیکھے تو دُکھ کا لشکر بھی لڑکھڑائے، شکست کھائے لبوں پہ اپنے وہ مسکراہٹ سجا کے رکھنا، کمال یہ ہے ہزار طاقت ہو، سو دلیلیں ہوں پھر بھی لہجے میں عاجزی سے ب کی لذت، دُعا کی خوشبو بسا کے رکھنا، کمال یہ ہے ادب 31
دُعا میں التجا نہیں تو عرض حال مستر د دُعا میں التجا نہیں تو عرض حال مسترد سرشت میں وفا نہیں تو جمال مستر و ادب نہیں تو سنگ و خشت ہیں تمام ڈگریاں جو حُسنِ خُلق ہی نہیں تو سب کمال مُسترد عبث ہیں وہ ریاضتیں، جو یار نہ منا سکیں وہ ڈھول تھاپ بانسری وہ ہر دھمال مسترد کتاب عشق میں یہی لکھا ہوا تھا جا بجا خیالِ یار کے ہر اک خیال مسترد 32
کہو، شنو، میلو مگر بڑی ہی احتیاط سے مٹھاس بھی تو زہر ہے جو اعتدال مسترد وہ شخص آفتاب ہے میں اک چراغ گج ادا سو اُس حسیں کی بزم میں میری مجال مسترد تو کیا کوئی گلاب ہے؟ حسین میرے یار سے وہ لاجواب شخص ہے، سو یہ سوال مُسترد بچھڑ کے ایک شخص سے، لہو لہو ہے دل مگر رضائے یار اس میں ہے تو پھر ملال مُسترد میں معترف تو ہوں ترا مگر اے چاند معذرت کہ ذکر حسنِ یار میں تری مثال مُسترد حساب عمر دیکھ لو کہ پھر پل صراط پر یہ نفس کے اگر مگر، فریب چال مسترد 33
کوئی ایسا جادوٹو نہ کر کوئی ایسا جادو ٹونہ کر مرے عشق میں وہ دیوانہ ہو یوں اُلٹ پلٹ کر گردش کی میں شمع تو وہ پروانہ ہو ذرا دیکھ کے چال ستاروں کی کوئی زائچہ کھینچ قلندر سا کوئی ایسا جنتر منتر پڑھ جو کر بخت سکندر سا کوئی چلہ ایسا کاٹ کہ پھر کوئی اسکی کاٹ نہ کر پائے کوئی ایسا دے تعویذ مجھے وہ مجھ پر عا عاشق ہو جائے 34
کوئی فال نکال کرشمہ گر مری رہ میں پھول گلاب آئیں کوئی پانی پھونک کے دے ایسا وہ پئے تو میرے خواب آئیں کوئی ایسا کالا جادو کر جو جگمگ کردے دن میرے وہ کہے مبارک جلدی آ اب جیا نہ جائے بن تیرے کسی ایسی ره پہ ڈال مجھے جس ره رہ سے کوئی تسبیح وہ دلدار ملے دم درود بتا جسے پڑھوں تو میرا یار ملے 35
کوئی قابو کر بے قابو جن کوئی سانپ نکال پٹاری سے کوئی دھاگہ کھینچ پراندے کا کوئی منکا اکشا دھاری سے کوئی ایسا بول سکھا مجھ کو وہ سمجھے خوش گفتار ہوں میں کوئی ایسا عمل کرا مجھ سے وہ جانے، جان نثار ہوں میں کوئی ڈھونڈھ کے وہ کستوری لا اسے لگے میں چاند کے جیسا ہوں جو مرضی میرے یار کی ہے اسے لگے میں بالکل ویسا ہوں 36
کوئی ایسا اسم اعظم پڑھ جو اشک بہا دے سجدوں میں اور جیسے تیرا دعوی ہے محبوب ہو میرے قدموں میں پر عامل رُک، اک بات کہوں یہ قدموں والی بات ہے کیا؟ آنکھوں پر محبوب تو ہے سر مجھ پتھر کی اوقات ہے کیا اور عامل سن یہ کام بدل یہ کام بہت نقصان کا ہے سب دھاگے اس کے ہاتھ میں ہیں جو مالک گل جہان کا ہے 37 (1990)
کوئی درد ہے جو ابھی دوا نہیں ہوسکا کوئی درد ہے جو ابھی دوا نہیں ہو سکا مگر وہ بچھڑ گیا جدا نہیں ہو سکا ہے کوئی ہے خلش جو کھٹک رہی ہے ابھی مجھے کوئی شعر ہے جو ابھی بپا نہیں ہو سکا وہ ملے اگر تو اسے کہوں اے گلاب شخص کوئی تجھ سا کیا تری خاک پا نہیں ہو سکا ترے بعد پھر میری موسموں سے بنی نہیں ترے بعد میں کبھی پھر ہرا نہیں ہو سکا 38
سرِ بزم ہیں یہی تذکرے کہ بڑا ہوں میں مرا جرم ہے کہ میں بے وفا نہیں ہو سکا کسی اور شب میں سناؤں گا یہ غزل تمہیں ابھی آنکھ نم، ابھی دل دعا نہیں ہو سکا ترے عشق میں کوئی جاں بھی لے، تو بھی جانِ جاں میں یہی کہوں گا کہ حق ادا نہیں ہو سکا 39 (2009)
وہ وہ شاعری ہے وہ بات جس سے دُکھا ہوا دل قرار پائے، وہ شاعری ہے جو ہجرتوں میں وصال رُت کی خبر سنائے، وہ شاعری ہے جس کوشن کر اُداس بلبل کی زندگی میں ترنگ جاگے وہ جس کو پڑھ کر اُجاڑ آنکھوں میں خواب آئے ، وہ شاعری ہے شکست جس سے خدا ہو راضی، ہزار بہتر ہے جیتنے سے سو چال ایسی جو خود ہی اپنوں سے ہار جائے ، وہ شاعری ہے دُعا کی لو سے گداز ہو کر، وہ آگہی کا امر سا لمحہ جو اشک بن کر اُداس آنکھوں میں جگمگائے ، وہ شاعری ہے وہ جس کے ہاتھوں کے لمس سے خود گلاب خوشبو ادھار مانگیں وہ اپنے ہاتھوں سے جو بنا کر پلائے چائے ، وہ شاعری ہے 40
وہ سبز موسم جو شہر دل کے تمام رستوں میں رنگ بھر دے وہ خواب جس میں کہ جانِ جاناں گلے لگائے ، وہ شاعری ہے وہ ایک صورت جو دکھ کے دریا میں غم کی لہروں سے لڑ رہی ہو تو اس کو ناؤ مدد کو آتی نظر جو آئے، وہ شاعری ہے جو کوئے دلبر کو جانے والے قدم قدم پر دئے جلائے جو بزمِ جاناں میں بیٹھنے کا ادب سکھائے، وہ شاعری ہے یہ ہجر یاراں کے تذکرے بھی تو شاعری ہیں، مگر مبارک جو تپتے صحرا میں بارشوں کی نوید لائے، وہ شاعری ہے 41
ستارہ بن کے رہو یا کسی دیئے میں رہو ستارہ بن کے رہو یا کسی دیئے میں رہو کسی بھی رنگ میں جگمگ سے سلسلے میں رہو ہر ایک عزت و رفعت ہے خاکساری میں سو چاند چھو کے بھی مٹی سے رابطے میں رہو کسی کو دشت میں دریا کے روپ میں ملنا کسی کی یاد کے شیریں سے ذائقے میں رہو کسی کی آنکھ میں اُمید کا دیا بن کر کسی اُداس سے چہرے کے قہقہے میں رہو انا کی آگ میں کاٹو نہ قید تنہائی حصار توڑ دو یا پھر محاصرے میں رہو 42
نظام شمس و قمر دیکھ کر یہ جانا ہے محبتوں میں بھی مخصوص دائرے میں رہو ہزار بھیڑیے پھرتے ہیں کاٹ کھانے کو سو عافیت ہے اسی میں، کہ قافلے میں رہو نشاط وصل کے بس دو ہی تو ٹھکانے ہیں خدا کے گھر میں رہو یا مشاعرے میں رہو تو کیا عجب ہے کہ اسکی نگاہ پڑ جائے سو دل بچھائے ہوئے اُسکے راستے میں رہو یہ زندگی بھی مصائب سے جنگ ہے صاحب سولشکری کی طرح تم بھی حوصلے میں رہو وہ شخص جس سے ملے، مسکرا کے ملتا ہے سو تم یونہی نہ مبارک مغالطے میں رہو 43
اُداس کیوں ہو تمہیں زمانے نے سکھ کے بدلے میں دُکھ دیا ہے ، اُداس کیوں ہو یہ مسئلہ تو بہت سے لوگوں کا مسئلہ ہے، اُداس کیوں ہو تمہیں بھی کانٹوں سے پیار کرنا نہ راس آیا تو کیا بنے گا یہ راستہ تو گلاب لوگوں کا راستہ ہے، اُداس کیوں ہو یہ کیا کہ ہر شام ریل گاڑی کو دیکھ کر سوگوار ہونا وہی ہے منزل بچھڑنے والا جدھر گیا ہے، اُداس کیوں ہو یہ میر، غالب، فراز، محسن، منیر، مضطر، فرید، وارث ادب فروشوں نے ان نگینوں کو دُکھ دیا ہے، اُداس کیوں ہو 44
تم اپنے دل کے لہو سے روشن محبتوں کے چراغ رکھنا فصیل شب سے اُٹھیں گے سورج ، یہ طے شدہ ہے، اُداس کیوں ہو وہ جس نے دل کے ہزار ٹکڑے کئے رقیبوں سے بات کر کے بڑی محبت سے آ کے مجھ سے وہ پوچھتا ہے، اُداس کیوں ہو جو دُکھ اُٹھا کے بھی مسکرائے گا، ایک دن کامیاب ہوگا کتاب ہستی میں لکھنے والے نے لکھ دیا ہے، اُداس کیوں ہو وکیل اُن کے، گواہ ان کے، یہ شہر ان کا، سپاہ ان کی مگر مبارک یقین رکھنا، ابھی خدا ہے، اُداس کیوں ہو 45 45
لوگ سب مل کے اگر دیپ جلانے لگ جائیں لوگ سب مل کے اگر دیپ جلانے لگ جائیں اے سیاہ رات ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں ہم تو ہر دور میں خوشبو کے پیمبر ٹھہرے ہم تو صحرا میں رہیں، پھول اُگانے لگ جائیں وہ گلابوں سے ڈھلا شخص جو مل جائے مجھے ساری دنیا کے میرے ہاتھ خزانے لگ جائیں میں ہوں برباد مگر اس لئے چپ رہتا ہوں یہ نہ ہو لوگ تیرا نام لگانے لگ جائیں 46
حُسن دُنیا یہ تو کہہ دوں میں غزل لمحوں میں تیری آنکھوں پہ لکھوں میں تو زمانے لگ جائیں چاند چہرے کو نقابوں میں چھپا کر جاتا یہ نہ ہو راہ میں دو چار ٹھکانے لگ جائیں آج اشعار مرے، جن سے شکایت ہے انہیں کیا خبر کل کو نصابوں میں پڑھانے لگ جائیں ہم مبارک ہیں طبیعت کے بہت سادہ مزاج دل جو ٹوٹے بھی تو بس شعر سنانے لگ جائیں 47
غزل میرے لئے جو آج سے تو غیر ہے تو خیر ہے تیری خوشی اگر میرے بغیر ہے تو خیر ہے میں تیرے بعد دُکھ کی کال کوٹھڑی میں قید ہوں تو چاہتا ہے میں کہوں کہ خیر ہے تو خیر ہے میں گھر چکا ہوں دشمنوں کی فوج میں تو کیا ہوا مجھے خبر ملے کہ تو بخیر ہے تو خیر ہے میں تجھ سے قتل ہو کے اس کو لکھ رہا ہوں خود کشی تجھے زمانے پھر بھی مجھ سے بیر ہے تو خیر ہے یہ اور بات ہے میں اس سے دُور جا کے رو پڑا اُسے مگر کہا تھا یونہی خیر ہے تو خیر ہے جو تو نہیں تو یار پھر بہشت کی کشش نہیں جو تیرے ساتھ دشت کی بھی سیر ہے تو خیر ہے یہ کم ہے کیا کہ لڑ رہا ہوں جنگ تیرے نام پر لہو لہو بدن جو سر تا پیر ہے تو خیر ہے 48
بہت بڑے ہو ہزار سجدوں کے بعد بھی گھر جلا رہے ہو بہت بڑے ہو کسی کے دل کو بنام مذہب دُکھا رہے ہو بہت بڑے ہو وہی ہے رستم وہی ولی ہے جو نفس اپنے سے جیت جائے شکست اپنے وجود سے ہی جو کھا رہے ہو بہت بڑے ہو یہ خواب رنگت گلاب صورت ثواب باتیں شراب آنکھیں یہ روز سڑکوں پہ حادثے جو کرا رہے ہو بہت بڑے ہو سُنا ہے میں نے کہ جا کے حوروں کے کان بھرتے ہو میرے بارے مری گزشتہ محبتوں کا بتا رہے ہو بہت بڑے ہو 49
میں چاہتا ہوں وطن کے لوگوں کے نام خط میں پیام لکھوں وطن فروشوں کو پھر سے رہبر بنا رہے ہو بہت بڑے ہو وہی پٹاری وہی سپیرے وہی مداری وہی تماشے تماش بینوں میں تم بھی تالی بجا رہے ہو بہت بُرے ہو جھوٹ غیبت ہیں زہر قاتل یہ راستے ہیں ہلاکتوں کے یہ زہر بچوں کو اپنے ہاتھوں سے کھلا رہے ہو بہت بڑے ہو کہو مبارک یہ اہلِ شب سے کسی فسانے کسی غزل میں یہ تم جو صبح ازل کی کرنیں چھپا رہے ہو بہت بڑے ہو 50
کچھ دل کو ہیں آزار، ذرا اور طرح کے کچھ دل کو ہیں آزار، ذرا اور طرح کے کچھ وہ بھی ہیں غمخوار، ذرا اور طرح کے کچھ حُسن مسیحا بھی زمانے سے الگ ہے کچھ ہم بھی ہیں بیمار، ذرا اور طرح کے ہم لوگ محبت میں سیاست نہیں کرتے ہم لوگ ہیں دو چار، ذرا اور طرح کے یوں خواب نہ بیچو کہ یہاں شہر جفا میں بیٹھے ہیں خریدار، ذرا اور طرح کے 51
انصاف تو کہتا ہے کہ قاتل کو سزا ہو منصف ہیں مجھدار، ذرا اور طرح کے محشر میں ہمیں بخش دیا اُس نے یہ کہہ کر ہوتے ہیں گناہ گار، ذرا اور طرح کے سنتے ہیں مبارک کو کوئی چوٹ لگی ہے کہتا ہے وہ اشعار، ذرا اور طرح کے 52 52
کوئی غیبی ہاتھ سہارا ہو گیا تو کوئی غیبی ہاتھ سہارا ہو گیا تو زرے جیسا شخص ستارہ ہو گیا تو میں تو تیری آنکھیں دیکھ کے ڈولتا ہوں سوچ اگر تو میرا سارا ہو گیا تو اتنے پیار سے مت دیکھو اے جانِ جاں میں اللہ کو یونہی پیارا ہو گیا تو یوں بھی اب آنکھوں کا پرده ایسی عمر میں عشق دوبارہ ہو گیا تو دہ لازم ہے 53
میں دریا سے لگ کر رونا چاہتا ہوں اشکوں سے دریا انگارا ہو گیا تو دنیا داری کی سڑکوں پر گم لوگو چلتے چلتے سُرخ اشارہ ہو گیا تو ممکن ہے میں اس حیرت سے مر جاؤں میرا تیرے بعد گزارہ ہو گیا تو دنیا میں نقصان مبارک ہوتے ہیں روز محشر سوچ خسارہ ہو گیا تو 54 54
کبھی یقیں یہاں وہاں کبھی یقیں یہاں وہاں کبھی گماں اِدھر اُدھر نہ یوں کروں محبتوں کو رائیگاں اِدھر اُدھر سنا ہے وہ بچھڑ کے بھی نہال ہے، کمال ہے میرے لئے تو ہو گئے ہیں دو جہاں اِدھر اُدھر اُسے خبر تھی اُس کے ساتھ میرا نام آئے گا سو کر گیا وہ درمیاں سے داستاں اِدھر اُدھر میں اس لئے بھی عمر بھر نہ دل کی بات کہہ سکا کھڑے ہوئے تھے راہ میں فلاں فلاں اِدھر اُدھر میں چشم نم فگار پا، شکستہ دل دُعا دُعا وہیں کھڑا ہوں مڑ گیا تھا وہ جہاں اِدھر اُدھر 55
جانتا نہیں ہے اس کے بعد کی قیامتیں کہ اس کے بعد ہو چکی ہے کہکشاں اِدھر اُدھر میں کامیاب تھا تو یار لوگ میرے ساتھ تھے میں لٹ گیا تو ہو گئے وہ مہرباں اِدھر اُدھر لہو لہو سہی مگر میں بزم یار میں تو ہوں گزر گئے جو راہ میں تھے امتحاں اِدھر اُدھر خدا کو مانتے نہیں جو لوگ کون لوگ ہیں کہ اس کی ذات کے ہزار ہیں نشاں اِدھر اُدھر 56
تم سے کیا چھپانا ہے دولت قناعت ہے عشق کا خزانہ ہے ان گنت سی خوشیاں ہیں دل بھی شاعرانہ ہے دُکھ بھی کم نہیں لیکن انکا کیا بتانا ہے تم کیا چھپانا ہے دل کو بزمِ جاناں میں بیٹھنے مطلب ہے ایک چاند چہرے کو دیکھنے مطلب ہے شاعری اضافی ہے تم تو اک بہانہ ہے کیا چھپانا ہے 57
خواب سرا دوست ہیں گلابوں سے ہر جگہ نہیں کھیلتے وقت کم نہیں لیکن نہیں ملتے پر وہ بھی میرے جیسے ہیں کیا کریں زمانہ ہے تم سے کیا چھپانا ہے راہ میں سمندر ہو یا کہ دُکھ کا صحرا ہو برف کا جزیرہ ہو یا لہو کا دریا ہو تم ے بچھڑنے والے بس ملنے آنا ہے تم سے کیا چھپانا ہے 58
عارضی سرائے ہجرتیں تو ہونی تھیں گھر مرا تھا مٹی کا بارشیں تو ہوئی تھیں بات مختصر سی ہے بات صوفیانہ ہے تم سے کیا چھپانا ہے خواب ہیں جو دنیا کے دل کے یہ دلا سے ہیں چار اشک سجدوں کے یہ مرے اثاثے ہیں بس یہی کہانی تھی بس یہی فسانہ ہے تم سے کیا چھپانا ہے 59
60 60 میرے پیشرو جو تھے چھاؤں سے، شجر سے تھے کیا خبر تھی مٹی پر لوگ وہ گہر سے تھے جا ملے ستاروں سے اب مجھے بھی جانا ہے تم کیا چھپانا ہے ○
مجھے بہشت بھی جانا نہیں تمہارے بغیر میں صاف صاف یہ کہتا ہوں استعارے بغیر مجھے بہشت بھی جانا نہیں تمہارے بغیر تو اُس کو چاہئے جا کر دکانداری کرے و شخص جو چاہتا ہو عشق بھی خسارے بغیر سند بھی چاہتے ہو اور امتحاں سے گریز سحر کی آرزو رکھتے ہو شب گزارے بغیر وہ حسن ہے کہ فسانہ طلسم ہوش ربا وہ جاں نکالتا ہے، وہ بھی جاں سے مارے بغیر میں اس لئے بھی دُعا پر یقین رکھتا ہوں کہ تم بھی سُنتے کہاں ہو مری، پکارے بغیر 61
اب اس سے بڑھ کے محبت کی کیا گواہی دوں کہ تجھ سے عشق کیا وہ بھی استخارے بغیر تو کیا یہ کم ہے کرامت، کہ جان لیتا ہوں رضائے یار کو میں یار کے اشارے بغیر چلو کچھ ایسا کریں دونوں جیت جائیں ہم یہ جنگ ختم ہو وہ بھی کسی کے ہارے بغیر قدم قدم پہ تیری بس تیری ضرورت ہے میں مُشتِ خاک ہوں مولا تیرے سہارے بغیر کمال یہ ہے مبارک کو بھی ملے اعزاز کسی بھی اور کی دستار کو اُتارے بغیر 29 62
سخنوروں کے شہر میں سخنوروں کے شہر میں، وہ شاہ سخن کمال است گلاب تو ہزار ہیں، وہ گل بدن کمال است مرے لئے وہی تو ہے ،متاعِ جاں جمالِ زیست سنو اگر نہیں ہے وہ، مرے لئے جہان نیست سُنو گے اس کی گفتگو، کہو گے بات ختم شد ملے جو آفتاب سے، کہو گے رات ختم شد یونہی عطا نہیں ہوا، اسے مقام دلبری دکھاؤ تو سہی مجھے، کرے جو اُس کی ہمسری اُسی یہ جاں فریفتہ، یہ دل بصد نیاز ہے دُعا دُعا سا شخص وہ، جو سرتا پا نماز ہے 63
اے شاہ گل مرے لئے ، تری رضا ہے تاج و تخت یہی ہے میری داستاں، یہی ہے میری سرگزشت تو پیار سے جو دیکھ لے، تو ساغر و شراب کیا ہو محو گفتگو جو تو، تو نغمہ و رُباب کیا ہو دلم در فراق تو، جوں طفل اشکبار اذاں کے انتظار میں، جوں گوش روزہ دار ہو اگر ملے نہ یار تو، گهر تمام سنگ و خشت کہ عاشقوں کے واسطے، وصالِ یار ہے بہشت سدا رہے تو شادماں، گلاب سے اے دلبرم میں اپنا حال کیا کہوں، میں جان و دل سے تو شدم 64
ہم نہیں وہ لوگ جو پتھر اٹھا کر ماردیں ہم نہیں وہ لوگ جو پتھر اُٹھا کر مار دیں ہیں وہ، جو رات کو سورج دکھا کر مار دیں دشمن جاں تیری خاطر زہر کیوں لائیں گے ہم تیرے جیسے چار ہم، غزلیں سنا کر مار دیں آسماں سے حکم آئے تو ابابیلوں کے جھنڈ ہاتھیوں کی فوج کو کنکر گرا کر مار دیں آپ یوں ہی قتل کا الزام اپنے سر نہ لیں آپ بس دیکھیں ہمیں اور مسکرا کر مار دیں آئینے یہ بانٹتا ہے یہ بھی دہشت گرد آؤ اس پر کفر کا فتویٰ لگا کر مار دیں دشمنی میں بھی ادب آداب کے قائل ہیں ہم نہیں کوفہ کے وہ، جو گھر بلا کر مار دیں لوگ ایسے بھی مبارک آ گئے ہیں شہر میں دھوپ سے چھاؤں میں لائیں اور لاکر مار دیں ہے 65
وہ خوبصورت اُداس لوگوں کو جو خوشی کی خبر سنائے وہ خوبصورت جو خود دُکھی ہو مگر کسی کا نہ دل دُکھائے وہ خوبصورت یہ پیٹر اک دن کئی پرندوں مسافروں کو امان دیں گے یہ سوچ کر جو اجاڑ رہ میں شجر لگائے وہ خوبصورت محبتوں میں، عداوتوں میں، مقابلوں میں، عدالتوں میں خدا کی خاطر جو دوسروں سے شکست کھائے وہ خوبصورت میں روزِ محشر نظر جھکائے یہ منہ چھپائے لرز رہا تھا صدا یہ آئی کہ اپنی ہستی جو یوں مٹائے وہ خوبصورت 66 60
گلاب رنگت، شباب عارض، شراب آنکھیں، بڑی عطا ہیں وہ ایسا جو نیکیوں میں قدم بڑھائے وہ خوبصورت یہ کیا غضب ہے کہ سال بھر میں وہ ایک دن ہی منا رہے ہیں ہر ایک دن کو محبتوں کا جو دن منائے وہ خوبصورت میں مانتا ہوں میں جانتا ہوں میں کہہ رہا ہوں میں لکھ رہا ہوں کسی کی بیٹی کا عمر بھر جو نہ دل دکھائے وہ خوبصورت وہ جس کے آنے سے زندگی میں بہار آئے گلاب ہے وہ گلاب لوگوں کو جو بھی اپنی غزل سنائے وہ خوبصورت جو اپنے محسن کو یاد رکھے وہ با وفا ہے مگر مبارک جو کر کے نیکی خدا کے بندوں سے بھول جائے وہ خوبصورت 40 67
ابھی وہ لوگ باقی ہیں جو اپنے حادثوں کے دُکھ چھپائے مسکراتے ہیں جو بنجر موسموں میں بارشوں کے گیت گاتے ہیں جو کر کے ہاتھ زخمی راہ سے کانٹے اٹھاتے ہیں وہ جن کے ہاتھ میں دیپک دُعا کے جھلملاتے ہیں جو تتلی، پھول اور خوشبو کے موسم ساتھ لاتے ہیں ابھی وہ لوگ باقی ہیں جو اپنی ذات کی پر چھائی سے آگے نکل جائیں کسی کی آنکھ کے آنسو ستاروں سے بدل جائیں وہ جن کی مسکراہٹ دیکھ کر دیپک سے جل جائیں وہ جن کا نام سُن کر خواب جگمگ سے مچل جائیں وہ جن کو دیکھ کے سب درد کے سورج پگھل جائیں ابھی وہ لوگ باقی ہیں 68
جو اپنے نام سے انسانیت کو معتبر کر دیں کسی کی شب گزیدہ زندگی مثل سحر کر دیں محبت سے نگاہ ڈالیں تو ذروں کو گہر کر دیں ملائیں ہاتھ وہ ایسے کہ خوشبو ہم سفر کر دیں جو پتھر کھائیں، دیکھیں، مسکرائیں، درگزر کر دیں ابھی وہ لوگ باقی ہیں جو شہر بے وفا میں بھی کیا وعدہ نبھاتے ہیں جو خود ناکام ہو کر بھی کسی کے کام آتے ہیں جو بچھڑی گونج کو پھر ڈار سے واپس ملاتے ہیں جو زخمی فاختہ کو گھونسلے تک چھوڑ آتے ہیں اُسے تنہائیوں میں موت کے دُکھ سے بچاتے ہیں ابھی وہ لوگ باقی ہیں 69 69
وہ جن کے اپنے دل میں درد کے سیلاب ہوتے ہیں مگر ان کی دعا میں سو ادب آداب ہوتے ہیں وہ جن کے اپنے پاؤں میں کئی گرداب ہوتے ہیں مگر وہ روح کی پاتال تک شاداب ہوتے ہیں وہ ایسے لوگ جو ہر دور میں نایاب ہوتے ہیں ابھی وہ لوگ باقی ہیں 70
سرمئی شام ہے موسم ہے سہانا شرمتی شام ہے موسم ہے سُہانا آ، نا اس سے پہلے کہ میں ہو جاؤں فسانہ آ، نا مجھ سے پہلے ہی کئی لوگ خفا رہتے ہیں مجھ سے جل جائے ذرا اور زمانہ آ، نا آخری جنگ میں لڑنے کیلئے نکلا ہوں خواب لگتا ہے میرا لوٹ کے آنا آ، نا دشمن جان سمجھتا اکیلا ہوں میں ہے میں نے دشمن کو بتانا ہے کہ نہ نہ آ، نا اک تیر الحسن گلابوں سا غزل صورت ہے اک یہ ساون کا مہینہ ہے سُہانا آ، نا 71
روز کہتے ہو مجھے آج تو یہ ہے وہ ہے آج دنیا سے کوئی کرکے بہانہ آنا مسکراتا ہوں مگر ڈر ہے کسی محفل میں اشک ہو جائیں نہ آنکھوں سے روانہ آ، نا یہ جو معصوم سا شاعر ہے مبارک احمد اس کا دنیا میں فقط تو ہے خزانہ آنا 72
وصال یار کو جانا تو ہوکر باوضو جانا وصالِ یار کو جانا تو ہو کر باوضو جانا مجسم با ادب رہنا سراپا آرزو جانا نگاہِ یار وہ شئے ہے جو ذرے کو بھی ذر کر دے اٹھائے خاک سے اور شہر بھر میں معتبر کر دے عقیدت کے جلائے دیپ اس کے روبرو جانا وصالِ یار کو جانا تو ہو کر باوضو جانا جو دانہ خاک میں ملنے کو بھی تیار ہوتا ہے وہی اک دن گلابوں کی طرح گلزار ہوتا ہے جو عاشق جان دینے کیلئے تیار ہوتا ہے اسی کے بخت میں لکھا وصال یار ہوتا ہے اگر دینا پڑے جاتے ہوئے دل کا لہو جانا وصال یار کو جانا تو ہو کر باوضو جانا 73
میں محبت کے بارے میں ویسے تو زیادہ نہیں جانتا میں محبت کے بارے میں ویسے تو زیادہ نہیں جانتا ہاں تجھے دیکھ کر اب کوئی جام و بادہ نہیں جانتا دشمن جاں تجھے لے نہ ڈو میں کہیں تیری خوش فہمیاں مجھے جانتا صرف آدھا ہے، آدھا نہیں جانتا اب جو شطرنج میں مات کھائی ہے تو یاد آیا مجھے قرب جتنے بھی ہوں شاہ کے دُکھ، پیادہ نہیں جانتا بھاگ جانے کا جو مشورہ دے رہے ہیں انہیں یہ کہو میری مرضی تو ہے پر میں اُس کا ارادہ نہیں جانتا بات یوں ہے کہ میں اس لئے یار لوگوں سے پیچھے رہا کیسے کرتے ہیں اپنوں سے بھی استفادہ نہیں جانتا 74
جس کی خاطر زمانے سے پتھر پڑے، مجھ سے کہنے لگا میں نے تم سے کیا تھا، کبھی کوئی وعدہ؟ نہیں جانتا اک کہانی سنا بات جس میں محبت وحبت کی ہو دنیا داری کی باتوں کو دل کا یہ سادہ نہیں جانتا میں یونہی کوئے جاناں میں بیٹھا نہیں دل بچھائے ہوئے اُس کی قربت کے سکھ کو کوئی شاہزادہ نہیں جانتا عشق یہ ہے مبارک کہ مرشد کے قدموں میں گھر کے کہو جو سکھایا ہے تُو نے مجھے اُس سے زیادہ نہیں جانتا 75
مانا کہ وہ بھی آج تک مانا تو ہے نہیں مانا کہ وہ بھی آج تک مانا تو ہے نہیں ہم نے بھی اس کے شہر سے جانا تو ہے نہیں رکھی ہے کوئے یار کی مٹی سنبھال کے اس سے بڑا زمیں خزانہ تو ہے نہیں کچھ لوگ تیرے شہر کے خنجر بدست ہیں کچھ ہم نے باز عشق سے آنا تو ہے نہیں کہتے ہیں لوگ ان سے کہو جاکے حال دل اب ہم نے اپنی جان سے جانا تو ہے نہیں خانہ بدوش لوگ ہم دنیا کا کیا کریں دنیا سے لے کے ساتھ کچھ جانا تو ہے نہیں 76
اک زخم زخم قوم سے درویش نے کہا تم نے کسی کی بات کو مانا تو ہے نہیں جرم وفا پہ لائے ہیں مقتل میں وہ ہمیں اب ان کے پاس اور بہانہ تو پاس اور بہانہ تو ہے نہیں ملتے ہیں جس خلوص سے ہم ہر کسی کے ساتھ یہ اس طرح کا زمانہ تو ہے نہیں ویسے کچھ اس لئے بھی آج تک روٹھے نہیں ہیں ہم آکے ہمیں کسی نے منانا تو ہے نہیں اپنا سنا کے حال اسے کچھ نہ پوچھنا اس کم سخن نے کچھ بھی بتانا تو ہے نہیں 77
سند رروپ اور چاندی رنگت شند ر روپ اور چاندی رنگت لے بیٹھے گی لگتا ہے اس بار محبت لے بیٹھے گی اُس کے حسن کی لو سے دیپک جلتے ہیں اُس کی مجھ پر خاص عنایت لے بیٹھے گی دنیا تیسری عالمی جنگ سے خوفزدہ ہے ہم جیسوں کو یار کی فرقت لے بیٹھے گی اتنے وار سہوں گا اپنے دشمن کے میں اُس کو میرے ضبط پہ حیرت لے بیٹھے گی 78
وعدہ کرنا پھر کہنا، کیا! کون سا وعدہ؟ تیری یہ معصوم سی عادت لے بیٹھے گی اس ڈر سے میں اچھا شعر نہیں کہتا ہوں جانتا ہوں کہ زیادہ شہرت لے بیٹھے گی کتنے دُکھ سے دیس مبارک چھوڑ دیا تھا اب پردیس میں دیس کی چاہت لے بیٹھے گی 79
مسلک کے نام پر لگی جنگوں سے تنگ ہوں مسلک کے نام پر لگی جنگوں سے تنگ ہوں میں مفتیوں کے روز کے فتووں سے تنگ ہوں مولا یہ عشق وشق کے چکر سے جاں چھڑا میں ایک چاند شخص کے خوابوں سے تنگ ہوں اک یہ کہ اُس حسین کی آنکھیں شراب ہیں پھر اُس کے روز روز کے وعدوں سے تنگ ہوں بارش ہو دُکھ ہو ہجر ہو، آتے بہت ہیں یاد میں اس لئے بھی فیض کے شعروں سے تنگ ہوں آنکھوں میں اشک دیکھ کر پاتی ہے تو قرار دنیا میں تیرے درد کے شوقوں تنگ ނ ہوں 80
مجھے عزیز لاہور میرا شہر ہے بے حد لیکن میں اُس کی تنگ سی گلیوں سے تنگ ہوں میں بادشاہ وقت کا کرتا ہوں احترام میں بادشاہ وقت کے بندوں سے تنگ ہوں دیکھا ہے جب سے چاند سا چہرہ، میں کیا کہوں دو چار دن تو کیا ، کئی ہفتوں تنگ ہوں کل اک شریف شخص نے روکا مجھے کہا میں تیری ان عجیب سی غزلوں سے تنگ ہوں 81
اذیت ناک پنجرہ ہو چکا ہے اذیت ناک پنجرہ ہو چکا ہے که اب زخمی پرندہ ہو چکا ہے مسلسل بارشیں بھی کیا کریں گی کوئی اندر سے صحرا ہو چکا ہے میں بازاروں میں جا کر دیکھتا ہوں بہت انسان ستا ہو چکا ہے عیادت کو مری وہ رہے ہیں انہیں کہہ دو جنازه ہو چکا ہے محبت دوستی رشته ڈھونڈو یہاں تبدیل نقشه ہو چکا ہے 82
جہاں میں نے کہا تھا پھول بانٹو وہاں مجھ پر ہی پرچہ ہو چکا ہے مجھے جو بھی پسند آتی ہے لڑکی کہتی وہ ہے کہ رشتہ ہو چکا ہے کسی کو کیا بتاؤں میں مبارک کہ اس کے بعد کیا کیا ہو چکا ہے (1990) 83
دُعا کی لو سے دِیے میں جلانے والا ہوں دُعا کی کو سے دیے میں جلانے والا ہوں میں کوئے یار میں جاں بھی لٹانے والا ہوں یہ پھول اُس نے مجھے بے سبب نہیں میں اس کی راہ سے کانٹے اُٹھانے والا ہوں مری نگاہ میں قطرہ بھی اک سمندر ہے اے میرے دوست میں صحرا سے آنے والا ہوں میں تیرے عشق میں دنیا تو چھوڑ دوں لیکن میں اپنے گھر میں اکیلا کمانے والا ہوں مرے قبیلے میں عہد و وفا ہی سب کچھ ہے سو جان دے کے میں وعدہ نبھانے والا ہوں 84
پھر اس سے کیا کہ مجھے کیا دیا ہے دنیا نے مرا جو فرض ہے وہ میں نبھانے والا ہوں نہ پوچھ مجھے.زمانے دُعا کی اُجرت کا تری طرح میں کوئی دل دُکھانے والا ہوں میں تیرے ہاتھ کی تحریر کیا کروں کہ تُو مکر گیا تو میں کس کو دکھانے والا ہوں کچھ اس لئے بھی زمانے تری مری نہ بنی دل کا چین، میں آنسو چرانے والا ہوں (2009) 85
کچھ ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں کچھ ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں جو دُکھ اُٹھاتے ہیں اور مسکرائے جاتے ہیں یہ آزمائشیں یوں ہی عطا نہیں ہوتیں جو لوگ خاص ہوں وہ آزمائے جاتے ہیں دعا سلام نہ حدِ ادب نہ عجز و خلوص یہ میرے شہر میں اب کون آئے جاتے ہیں عجیب لوگ ہیں شاعر بھی خدا جانے کوئی سُنے نہ سُنے سنائے جاتے ہیں 86
تو گل ملا کے مجھے بات یہ سمجھ آئی جو دل گلاب ہوں وہ دِل دُکھائے جاتے ہیں وہ نکلتا شخص صورت خورشید جب ہے تو رنگ و نور میں ہم بھی نہائے جاتے ہیں اُسے بھی پیار ہے اُن سے جو دل شکستہ ہوں سو اُس کی بزم میں ہم بھی بلائے جاتے ہیں میرا یقین ہے یہ خامشی یہ گہرا سکوت یہ لوگ خود نہیں آتے یہ لائے جاتے ہیں 87
آنکھ ہے اشکبار ویسے ہی آنکھ دل ہے ہے اشکبار ویسے ہی جانتا ہوں کچھ بے قرار ویسے ہی وہ آنے والا نہیں پھر بھی ہے انتظار ویسے ہی کوئی الزام ہو ہمیں دے ہم رو ہیں بے شمار ویسے ہی ہم بھی دشمن ضرور رکھتے ہیں ایک رو تین چار ویسے ہی 88
حال اس نے بھی یونہی پوچھا تھا بھی روئے تھے یار ویسے ہی ایسے دیکھا کرو نہ جانِ جاں ایسے ہوتا ہے پیار ویسے ہی کوئی تہوار موقع ہے ہے آ کے مل جاؤ یار ویسے ہی آؤ کچھ دیر مسکرائیں ہم دُکھ تو ہیں بے شمار ویسے ہی 89
وہ اتنا پیارا ہے اگر وہ سامنے آئے، وہ اتنا پیارا ہے تو دل میں دیپ جلائے وہ اتنا پیارا ہے ،غزل، کہانی، گرامر، اُسے سلامی دیں اگر وہ اردو پڑھائے، وہ اتنا پیارا ہے وہ لب کشا ہو تو غالب کرے قدم بوسی گا میر بھی ”ہائے وہ اتنا پیارا ہے فراز و فیض اُسے داد دیں مزاروں سے وہ جب بھی شعر سنائے، وہ اتنا پیارا ہے اُسی کے واسطے میں بن سنور کے سوتا ہوں کہ کاش خواب میں آئے، وہ اتنا پیارا ہے 90
گلاب اُسکے بدن سے ادھار لے خُوشبو صبا گلے سے لگائے وہ اتنا پیارا ہے فلسف وہ جو بولے تو فرط حیرت سے ارسطو سر کو کھجائے، وہ اتنا پیارا ہے میں چاہتا ہوں کسی روز وہ خفا ہوکر مجھے بھی چار ”سنائے“ وہ اتنا پیارا ہے اسی کی بات کو میں آخری سند سمجھوں اُسی کی ” رائے ہے رائے، وہ اتنا پیارا ہے میں بھول جاؤں گا سارے بہشت کے منظر وہ پاس بٹھائے، وہ اتنا پیارا ہے اگر میں چاہتا ہوں کسی روز برف باری ہو اسے پلاؤں میں چائے وہ اتنا پیارا ہے 91
وہ مسکرائے تو آداب" نظم کہتی ہے غزل بھی پیر دبائے وہ اتنا پیارا ہے وہ سنگ راہ بھی گوہر مثال ہوتا ہے جسے وہ ہاتھ لگائے وہ اتنا پیارا ہے وہ سامنے ہو تو پھر جی حضور، وہ، میں، نا سمجھ میں کچھ بھی نہ آئے وہ اتنا پیارا ہے 92
اُسے کچھ نہ ہو اے میرے خدا مرے چارہ گر، اُسے کچھ نہ ہو مجھے جاں سے ہے وہ عزیز تر ، اُسے کچھ نہ ہو تیرے پاؤں پڑ کے دعا کروں سر دشت میں جرے سر پہ ہے وہی اک شجر، اُسے کچھ نہ ہو تیرے ایک گن سے ہیں موسموں کی یہ گردشیں سو یہ حکم دے انہیں خاص کر، اُسے کچھ نہ ہو وہ جو ایک پل تھا قبولیت کا مجھے ملا تو کہا تھا خالق بحر و بر، اُسے کچھ نہ ہو اے غنیم جاں چلو آج تجھ سے یہ طے ہوا مجھے زخم دے بھلے عمر بھر، اُسے کچھ نہ ہو یونہی بے سبب میں اُداس ہوں کئی روز سے سو غزل کہی ہے یہ چشم تر، اُسے کچھ نہ ہو ○ 93
کسے ہجرتوں کا ملال ہے کسے ہجرتوں کا ملال ہے کے فرقتوں کا خیال ہے جو گزر گئی تری یاد میں شام وصال ہے وہی شام میرا خواب تھا کسی روز تو مری منتظر یوں بہار ہو جو اُٹھے نگاہ جھکی ہوئی میرے روبرو رُخ یار ہو وہی یار کہ وہ جدھر چلے وہاں روشنی کا کا نزول ہو جو لکھے وہ حرف مجیب ہو جو کرے دُعا وہ قبول ہو 94
وہ شگفته گل کہ جسے چھوٹے وہی شاخ سبز گلاب ہو جسے سوچنے کی جزا ملے دیکھنا بھی ثواب ہو سے ہو گر شغف اُسے شاعری سے میرا لہجہ مثل فراز ہو اُسے عابدوں سے ہو پیار تو میری ہر قدم نماز ہو کبھی یوں بھی یوں بھی ہو وہ مجھے کہے تری سب دعائیں قبول ہیں ترے رت جگے ہیں سنے گئے ترے خار آج پھول ہیں 95 95
کبھی یوں بھی ہو سر بزم وہ کہے کہ غزل سنا مجھے میں غزل غزل میں اُسے کہوں میرا کچھ نہیں ہے تیرے سوا کوئی دم درود وہ کر کے جو مرے قلب و جاں کو نکھار دے وہ دعا بھی دے مجھے پیار سے مرے دو جہاں جو سنوار دے 96
یہ دنیا ہے، یہاں پر داستانیں مار دیتی ہیں یہ دُنیا ہے، یہاں پہ داستانیں مار دیتی ہیں یہاں رسموں رواجوں کی چٹانیں مار دیتی ہیں یونہی پردیس میں بیٹھے ہوئے اک دن خیال آیا پرندوں کو بہت لمبی اُڑانیں مار دیتی ہیں کئی غیروں کے میٹھے بول سُن کر جان پڑتی ہے کئی اپنوں کی زہریلی زبانیں مار دیتی ہیں تمہیں محبوب کی زلفوں کے بل جینے نہیں دیتے ہمیں غالب کے مصرعوں کی اُٹھا نہیں مار دیتی ہیں تری آنکھوں کی مستی دیکھ کر واعظ کی یاد آئی وہ کہتا تھا شرابوں کی دکانیں مار دیتی ہیں 97
یہاں پردیس میں بچے عجب سی کشمکش میں ہیں یہاں جذبات کو دو دو زبانیں مار دیتی ہیں مجھے مرتے ہوئے کہنے لگی حوا کی اک بیٹی یہاں رشتے نبھانے کی تھکا نہیں مار دیتی ہیں یہاں بیٹے ہی ہوتے ہیں حقیقی پیار کے وارث اگرچہ بیٹیاں خدمت میں جانیں مار دیتی ہیں مبارک ایک تو موضوع تمہارے جان لیوا ہیں پھر اس پہ درد سے لبریز تانیں مار دیتی ہیں 98
وہ بھی دشمن داری کل پر رکھنے والا نئیں وہ بھی دشمن داری کل پہ رکھنے والا نہیں میں بھی قول قرار سے پیچھے ہٹنے والا نئیں دنیا تو بھی زخم لگانے میں ہے پختہ کار میں بھی پتھر نیزے چھریاں گننے والا نئیں تونے مجھ سے جیتنا ہے تو میٹھا بول کے جیت تو نے خنجر پکڑا تو میں ہارنے والا نئیں دنیا والے مجھے سے یوں بھی رہتے ہیں ناراض میں لوگوں کو جھوٹے سپنے بیچنے والا نئیں 99
کاش مجھے وہ چاند کہے، آمیرے پاس بھی بیٹھ ویسے میں جو بیٹھ گیا تو اُٹھنے والا نہیں اپنے رب سے کہتا ہوں میں اپنے سارے غم میں لوگوں میں بیٹھ کے آنسو بیچنے والا نئیں میں ہوں عشق قبیلے سے اور دُکھ میری میراث مر سکتا ہوں، عشق مرا یہ مرنے والا نئیں 100
دس ہیں میں مل جاتی ہے بازار سے خُوشبو دس میں میں مل جاتی ہے بازار سے خُوشبو بہتر ہے مگر آئے جو کردار سے خُوشبو یہ دل تو عقیدت کے گلابوں سے دُھلا ہے ہے اسے خاک رہ یار سے ، خُوشبو آتی وہ آنکھ جو دیکھے تو شرابوں کو نشہ ہو ہاتھ جو چھو لے تو گنہ گار سے خوشبو وہ یہ کون گلابوں سا گزرتا ہے گلی سے آئی ہے در و بام سے دیوار سے خُوشبو اک بار مجھے خواب میں وہ شخص ملا تھا آتی ہے میرے آج بھی اشعار سے خوشبو 101
عاشق کے لئے ہجر کا دریا ہو یا صحرا جس پار ہے محبوب، اُسی پار سے خُوشبو قاتل نے مٹائے ہیں نشاں میرے لہو کے روتا ہے کہ جاتی نہیں تلوار سے خُوشبو عطار سے قربت کا کرشمہ ہے مبارک مٹی پہ بھی لکھتے ہو تو اشعار سے خُوشبو 102
تو غم کیا ہے! رضائے یار ہے جب انتہا تو غم کیا ہے اگر جدائی ہے اُس کی رضا تو غم کیا ہے مرا یہ دل یہ مری جان، سب اسی کا ہے جو ایک زخم ہے اُس کی عطا تو غم کیا ہے وصال یار کا رستہ ہے قتل گاہوں سے تو آ گیا ہے اگر کر ہلا تو غم کیا ہے پھر اس سے کیا کہ مقابل ہے کون صف آراء جو میرے ساتھ ہے تیری دُعا تو غم کیا ہے انہیں بھی شوق ہے کچھ دشمنی نبھانے کا مجھے بھی ناز میں اہل وفا تو غم کیا ہے 103
(2009) ابھی ہیں لوگ کچھ سقراط کے قبیلے جو زہر خند ہے ظالم ہوا تو غم کیا ہے یہ اور بات ہے یہ لکھ کے میں بہت رویا وہ ہو گیا ہے اگر بے وفا تو غم کیا ہے یہ بات طے ہے، امانت پہ حق نہیں ہوتا خدا کی چیز خدا لے گیا تو غم کیا ہے میں اس کے نام کی قسمیں اُٹھا کے کہتا ہوں یہ امتحان ہے اس کی رضا تو غم کیا ہے گلاب شخص وہ ملتا ہے مسکرا کے مجھے جو سارا شہر ہے مجھ سے خفا تو غم کیا ہے 104
دیپ بن کر جلو آخری سانس تک دیپ بن کر جلو آخری سانس تک مسکرا کر جیو آخری سانس تک آج ہے گر خزاں کل بہار آئے گی قرض جتنے ہیں سارے اتار آئے گی اس یقیں سے جیو آخری سانس تک مسکرا کر جیو آخری سانس تک زندگی ہے پہاڑوں میں رستہ کڑا ایک کو سر کرو دوسرا ہے کھڑا منزلوں کو چلو آخری سانس تک مسکرا کر جیو آخری سانس تک 105
موت اک راہگزر ہے در یار تک ایک ابدی سے شاداب گلزار تک موت سے نہ ڈرو آخری سانس تک مسکرا کر جیو آخری سانس تک زندگی کچھ نہیں ہے بجه امتحاں یاں جو کوشش نہیں ہے تو سب رائیگاں اپنی کوشش کرو آخری سانس تک مسکرا کر جیو آخری سانس تک عشق اور انکساری ہیں وہ کیمیا جس سے مٹی کے سادھو بنے اولیاء دعائیں کرو آخری سانس تک سو مسکرا کر جیو آخری سانس تک ○ 106
زندگی کم ہے الفتوں کیلئے عزتوں کیلئے چاہتوں کیلئے سو محبت کرو آخری سانس تک مسکرا کر جیو آخری سانس تک 107
ڈوبتا جا رہا ہے دل میرا آج پھر چال لڑکھڑائی ہے میں گیا تھا طبیب ملنے اُس نے تیری کمی بتائی ہے 108
غزل عداوت میں خسارہ ہو گیا تو اگر طوفاں کنارہ ر گیا تو اُسے جزوی ضرورت ہے کسی کی اگر میں اس کا سارا ہو گیا تو ضرورت ہے اسے یکجائیوں کی میرا دل پارہ پارہ ہو گیا تو میں پہلے عشق سے نالاں بہت ہوں اگر مجھ کو دوبارہ ہو گیا تو مجھے ملنا نہیں ہے دشمنوں سے انہیں میں جاں سے پیارا ہو گیا تو مجھے خیرات میں بخشش ملے گی کوئی آنسو ستارہ ہو گیا تو 109
کہہ نہیں سکے مگر بات صاف صاف ہے آپ ہمیں حضور عین شین قاف ہے 110
خواب سرا نیا کی دل دُکھانے کی عادت نہیں گئی اپنی بھی مسکرانے کی عادت نہیں گئی ناراض ہو گئے ہیں کئی شب مزاج لوگ میری دئے جلانے کی عادت نہیں گئی اک میں کہ اس کے عشق میں دنیا کا نہ رہا اک وہ کہ آزمانے کی عادت نہیں گئی کچھ وہ غنیم جان بھی ہے مستقل مزاج کچھ میری جاں سے جانے کی عادت نہیں گئی آیا ہوں اپنے شہر کے لوگوں سے مل کے میں اُن کی وہ دل چرانے کی عادت نہیں گئی کانٹوں پہ چل کے بانٹتا رہتا تھا جو گلاب کہتے ہیں اُس دِوانے کی عادت نہیں گئی 111
وہ جسے میں نے دل و جان سے چاہا، آہا وہ جسے میں نے دل و جان سے چاہا، آبا اُس نے بھی ایک میرا شعر سراہا، آہا کوچه یار کے آزار بھی سکھ ہوتے ہیں اُس نے رکھا جو میرے زخم پہ پھاہا، آبا کون ساقی ہے سرِ بزم شرابوں جیسا میکده بول اُٹھا جھوم کے، آہا، آہا وہ مجھے پھول اگر دے تو کدھر جاؤں گا جسکا پتھر بھی پڑا تو میں کراہا، آہا کل وہ کہتا تھا مجھے شعر بُرے لگتے ہیں آج جوشن کے غزل کہتا ہے آہا، آہا 112
اپنے اعمال جو دیکھوں تو تہی دامن ہوں تیری بخشش کو جو دیکھوں تو الہا، آبا مجھ سے پتھر کو بھی اک روز ستارہ کر دے خاک سے پھول اُگاتا ہے تو شاہا، آہا یار نے جو بھی کہا، دل نے کہا بسم اللہ اس طرح عشق مبارک نے نباہا، آہا 113
اچھا ہے سو وہ تنہا ہے اچھا ہے سو وہ سو وہ تنہا ہے، نئیں سمجھے؟ بھائی صاحب یہ دنیا ہے، نئیں سمجھے؟ منصف نے مقتول کو قاتل لکھا ہے آج کے دور میں کیا مہنگا ہے؟ نئیں سمجھے؟ جس کے سامنے چاند بھی مدھم پڑ جائے آپ کے سامنے وہ بیٹھا ہے نہیں سمجھے؟ اُس کے دشمن یونہی بڑھتے جاتے ہیں آدمی شاید وہ سچا ہے، نہیں سمجھے؟ سورج سے بھی شاید رشتے داری ہے تین سو پینسٹھ دن جلتا ہے، نئیں سمجھے؟ 114
میرے دیس کو میلی آنکھ سے مت دیکھو ہر بندہ لشکر جیسا ہے، نہیں سمجھے؟ اُس نے میری بات کو ہنس کر ٹال دیا میں سمجھا تھا وہ سمجھا ہے، نہیں سمجھے؟ اُس کے بعد مسلسل موسم پت جھڑ ہے بخت ڈھلیں سب ڈھل جاتا ہے، نہیں سمجھے؟ آخری سانس سے پہلے میں نے یہ جانا ہر رشتہ سونے جیسا ہے، نئیں سمجھے؟ بچھڑے لوگ مبارک ڈھونڈتے پھرتے ہو بھول بھلیاں اور صحرا ہے، نئیں سمجھے؟ 115
تو نہیں تو زندگی میں تو نہیں تو زندگی میں اک کمی رہ جائے گی اب جو دریا بھی ملا تو تشنگی رہ جائے گی وقت بھر دے گا بظاہر زخم تیرے ہجر کے عمر بھر آنکھوں میں لیکن اک نمی رہ جائے گی ہم لہو کی آنچ پر جلتے ہوئے ایسے چراغ بجھ گئے تب بھی ہماری روشنی رہ جائے گی ہم اتر جائیں گے نیلے آسماں کی گود میں زندگی اک دن ہمیں تو ڈھونڈتی رہ جائے گی کوئے جاناں سے رہے گی اپنی نسبت عمر بھر ہم نہیں ہوں گے ہماری شاعری رہ جائے گی 116
مجھ سے پتھر نے بھی اک دن مجھ سے پتھر نے بھی اک دن کیمیا ہونا ہی تھا مل گیا تھا وہ مجھے، سو معجزہ ہونا ہی تھا میں نے اس کی راہ میں رکھے تھے خوشبو کے چراغ مرا اُس گلبدن سے رابطہ ہونا ہی تھا موسم پت جھڑ مجھے ایسے نہ حیرانی سے دیکھ اُس نے دیکھا تھا مجھے، میں نے ہرا ہونا ہی تھا وہ دعا کرتے ہوئے تھکتا نہ تھا، تھکتا نہ تھا آسماں سے اُس کے حق میں فیصلہ ہونا ہی تھا کل کوئی لفظ محبت سُن کے دُکھ سے رو پڑا اور بھی دنیا میں مجھ سا دل دُکھا ہونا ہی تھا 117
ایک دریا دشت کے اُس پار تھا ایسا کہ بس دل کسی کے پیار میں سرشار تھا ایسا کہ بس اور پھر وہ بھی گل و گلزار تھا ایسا کہ بس ایک تو اُس قافلے میں لوگ تھے مہتاب سے اور پھر وہ قافلہ سالار تھا ایسا کہ بس آئینے رکھے ہوں جیسے چاندنی کے شہر میں روبرو میرے وہ حسن یار تھا ایسا کہ بس پوچھتے ہو دوست کیا احوال وصل یار کا ایک دریا دشت کے اُس پار تھا ایسا کہ بس وہ نظارہ تھا کہ آنکھیں روشنی سے ڈھل گئیں صورت خورشید وہ دلدار تھا ایسا کہ بس 118
مینڈھی گل گل پھل گلاب اے سمینڈھی گل گل پھل گلاب اے، سمینڈھا مکھڑا دلنواز میکوں جد جد سنیدھی یاد آوے، میں بھیج بھیج پڑہاں نماز حمینڈھائسن وی قتل و غارت تے مینڈھا عشق وی حدوں پار میں صدقے تھیواں سوہنیاں، تینڈے ملکھ توں سو سو وار مینڈھی سوچاں سوچدے سوچدے انج کھلے میکوں راہ میں چلیا ول بازار گوں تے پجیا وچ درگاہ توں ٹوٹا چن دا سوہنٹریاں، میں گلی دا رُلدا لکھ میکوں پچھن والا کائی نئیں، تینڈ ھے حُسن دے عاشق لکھ کھلو تینڈھی جگ مگ دیکھ کے ہک واری تے تارے جان خورشید وی لگ لگ ویندا اے، تینڈ ھے مکھ دی چھل مِل لو 119
تمینڈھی گل ہے امرت ایویں جیویں ٹپکے ٹپ ٹپ رس بہن عناں ہزار میں بانسریاں، میکوں آندا کائی نیں چس مینڈے سامنے بے پروائی نل جد ہس ہس گل کریناں اس حدوں ودھ نمانے نوں سوؤں رب دی مار سٹیناں اے دنیا چوکھی ڈاڈی چوکھی ڈاڈی اے، اتھاں پل پل اے دشوار بک دل ہے مینڈھا شیشے دا، اُتوں لوک نہیں وانگ لوہار مینڈھے کھوٹے سکے رُل رل کے ہک روز کھرے ہو ویسن توں ملیا میکوں جس دن، مینڈے بخت ہرے ہو ویسن بک سکھی عشق صحیفے چوں میں سو گلاں دی گل پئی دنیا لکھ تکلیفاں دے، رکھ قبلہ یار دے ول 120
ریت پر نقش بناتے ہوئے تھک جاتے ہیں ریت پہ نقش بناتے ہوئے تھک جاتے ہیں خواب آنکھوں میں سجاتے ہوئے تھک جاتے ہیں مہرباں کوئی نہیں شہر میں اک تیرے سوا یوں تو ہم ہاتھ ملاتے ہوئے تھک جاتے ہیں یوں ہی قبروں میں نہیں سوئے تھکے ہارے بدن لوگ رشتوں کو نبھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں زندگی پیاس کا صحرا ہے، جہاں قید ہیں ہم اور ہم پیاس بجھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں اُن کے سینوں میں بھی ہوتے ہیں تلاطم غم کے وہ جو اوروں کو ہنساتے ہوئے تھک جاتے ہیں زندگی اور تیرا قرض چکائیں کب تک اب تو ہم شعر سناتے ہوئے تھک جاتے ہیں محسن نقوی کے خوبصورت مصرعے ہاتھ ہاتھوں سے ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں“ کو لے کر یہ غزل لکھی ہے.121
دشمنوں سے بات ہم سے یاریاں دشمنوں سے بات ہم سے یاریاں چھوڑ دے اے دوست یہ فنکاریاں میرے پاؤں میں تھے مجبوری کے جال وہ سمجھتا تھا میں لارے لاریاں وہ جو میک اپ میں مجھے پیرس لگی جب ہوئی بارش تو نکلی کھاریاں مجھ سے پتھر کو گہر سمجھے ہیں لوگ اے مرے مولا ترکی ستاریاں ایک باجی کو تھا آنٹی کہہ دیا آج تک وہ کیس میں بھگتا ریاں 122
دشمن جاں سوچ لے پھر سوچ لے ایک دن آنی ہیں میری واریاں چھو رہی ہے زلف اُنکی گال کو چل رہی ہیں میرے دل پر آریاں اتنی بھی سادہ میری صورت نہ صورت نہ تھی جتنی اُس ظالم نے چیکاں ماریاں آج بھی تو نے اگر نہ داد دی میں تری محفل سے اٹھ کے جاریاں 123
دل کر داسی یوروپ جائیے دل کردا سی یوروپ جائیے ہیٹ تے کالی عینک پائیے پیزے برگر ڈونر کھائیے پیٹر رابرٹ یار بنائیے ایتھے جان پھسا بیٹھے آں اتی کتھے آ بیٹھے آں گڑی ٹھیک کران سی جانا پنج چھ بل پیکان سی جانا کم تے شکل وکھان سی جانا پیسے چار کمان سی جانا دی ٹکٹ لوا بیٹھے آں اسی کتھے آ بیٹھے آں 124
پنجرے دے وچ پھڑک گئے آں ٹیکسی کر کر کھڑک گئے آں پائلٹ بنن دا شوق سی لیکن ہر تھاں سڑکوں سڑک گئے آں سارے جوڑ ہلا بیٹھے آں اسی کتھے آ بیٹھے آں رعب ذراسی وی پانئیں سکدے بچیاں نوں دو لا نئیں سکدے ایتھے کن پھڑا نئیں سکدے بیگم نوں دھمکا نئیں سکدے مچھ نیویں کروا بیٹھے آں اسی کتھے آ بیٹھے آں 125
ایم او ٹی کروان دے رولے کونسل ٹیکس پیکان دے رولے گھر دیاں قسطاں لان دے رولے اتوں پاکستان دے رولے سوچاں نل چکرا بیٹھے آں اسی کتھے آ بیٹھے آں خط اے اپنے سٹ جاندے نیں پڑھ کے دل ای ٹمٹ جاندے نیں گورے ہس کے لٹ جاندے نیں کالے ایویں کٹ جاندے نیں لگدا پنگا ای پا بیٹھے آں اسی کتھے آ بیٹھے آں 126
ہن تے گان نوں دل نئیں کردا پیزے کھان نوں دل نئیں کردا باقی سب سج دل کردا اے کم تے جان نوں دل نہیں کردا دل نوں لگھ سمجھا بیٹھے آں اسی کتھے آ بیٹھے آں ایتھے بوڑ دی چھاں نئیں لبھدی پنڈ جئی سچی تھاں نئیں لبھدی مدت بعد وطن جے جائیے کیاں نوں فیر ماں نئیں لبھدی دو تھاں پیچے پا بیٹھے آں اسی کتھے آ بیٹھے آں 127
پچھلے سال بہانہ لا کے اک پردیسی دیس نوں جا کے کلیاں بہہ اک قبر سرہانے رویا میٹی سینے لا کے ہیرے لوگ گوا بیٹھے آں اسی رکتھے آ بیٹھے آں 128
دنیا دے وِچ غم نئیں مکدے بندہ ملک جائے کم نئیں ملدے سردی گرمی لنگ جاندی اے یاداں دے موسم نئیں مکدے اسی چن تے کی جاناں اے ساڈے گھر دے کم نئیں مکدے 129