Language: UR
ར་ عیسائیت کے رد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ عالیہ حدیت کے بیان فرموده پرشوکت دلائل و براہین امتاع عطاء المجيد صالحب الشدايم - مشاهد مرتی انچارج جماعت ہائے احمدیہ انگلستان
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا بے حد احسان ہے کہ اس کی دی ہوئی توفیق سے زیر نظر تصنیف افادۂ عام کیلئے شائع کی جارہی ہے.اس کا مختصر تعارف یہ ہے کہ جب خاکسار نے جامعہ احمدیہ سے شاہد کا امتحان پاس کیا تو اس غرض سے ایک مقالہ سپر ظلم کرنے کا موقع ملا جس کا موضوع تھا :.حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کا علم کلام - (عیسائیتے کے ہومیں اس میں علم کلام کی تفصیلی بحث کے بعد ان دلائل کو ایک خاص ترتیب سے پیش کیا گیا ہے جو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیت کے رومیں بیان فرمائے ہیں.الحمد للہ کہ مقالہ کے ہر دو نگران علمائے کرام یعنی میرے والد محترم ، خالد احمدی نے حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری اور حضرت قاضی محمد نذیر صاحب سے فاضل نے مقالہ کو بالاستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد عمدہ آراء کا اظہار فرمایا.مزید بر آن چند سال قبل حضرت ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ نے بھی لندن میں اس کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اپنی قیمتی رائے تحریر فرمائی.یہ تینوں مؤقر آراء (جو اس کتاب میں شامل ہیں ، جب سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش ہوئیں تو حضور انور نے از راہ شفقت ارشاد فرمایا کہ یہ مقالہ فوری طور پر شائع کروایا جائے نیز اس کا انگریزی، عربی اور ترکی زبانوں میں ترجمہ بھی کروایا جائے.حضور انور کے ارشاد مبارک کی تعمیل میں اور حضور ہی کی نظر التفات کی برکت سے اب یہ مقالہ " کسر صلیب کے مختصر نام سے کتابی شکل میں شائع ہو رہا ہے.ہر چیز کا ایک اندازہ مقدر ہے اور ہر کام اپنے وقت پر ہی ہوتا ہے.یہ مقالہ ۱۹۶۹ء میں لکھا گیا لیکن اس کی اشاعت کا علمی کام 1991 ء سے پہلے نہ ہو سکا.تاخیر تو ہوئی لیکن اس میں ایک عجیب توارد کا پہلو یہ ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے ۶۱۸۹۰ کے آخر میں دعوی مسیحیت فرمایا اور اس دعوتی کی عملاً اشاعت اور تشہیرا ۱۸۹ء میں
ہوئی.اس لحاظ سے پور سے ایک منو سال کے بعد 1941ء میں ہی اس مقالہ کی اشاعت کی صورت پیدا ہوئی.فالحمدللہ علی ذالک.دسمبر 1991ء میں قادیان دارالامان میں منعقد ہونے والے سویں جلسہ سالانہ میں شمولیت کی توفیق اور سعادت اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی.تاریخ احمدیت کا یہی وہ تاریخی اور تاریخ سانہ جلسہ ہے جس میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے شمولیت فرمائی اور اس طرح یہ جلسه دائمی مرکز احمدیت میں منعقد ہونے والا پہلا جلسہ تھا جس میں ۴۵ سال کے وقفہ کے بعد خلیفتہ امیج کی شمولیت ہوئی.یہ جلسہ تاریخ احمدیت میں سنگ میل کا حکم رکھتا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ بے شمار خدائی اعجازات کا پیش خیمہ ثابت ہو گا.اسی مبارک موقع پر یہ خوشکن اطلاع ملی که کتاب "کسیر صلیب" ان دنوں زیر طباعت سے چنانچہ اس کے تعارف کے طور پر یہ حقیر پیش لفظ لکھ رہا ہوں تا کہ یہ بھی کتاب میں شامل ہو سکے آج یکم جنوری ۱۹۹۲ ء ہے اور میں یہ سطور قادیان دار الامان کی مقدس ہستی میں نبیت الفکر میں دُعا کہنے کے بعد وہاں بیٹھے ہوئے لکھ رہا ہوں.یہ وہ مقدس جگہ ہے جس میں میرے آقا سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے براہین احمدیہ تالیف فرمائی اور تصنیف کے دیگر امور سرانجام دیئے.خدا کہ ہے کہ اس مقدس جگہ کی برکت اور نیک تاثیر سے میرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے برکت اور نیک تاثیر پیدا فرماد سے اور اس کتاب کا مطالعہ قارئین کے لئے ہدایت اور ازدیاد علم کا موجب ہو.میری دلی دعا ہے کہ یہ حقیر کوشش اللہ تعالیٰ کے حضور شرف قبولیت پا جائے.اور آخرت میں سرخروئی کا موجب ہو.آمین خاکسار ادف ترین خادم احمدی ادخوست عطاء المجيب بے راشد بیت الفکر قادیا نے یکم جنوری ۶۱۹۹۲
فہرست ابواب کتاب کے متعلق علمائے سلسلہ کی آراء باب اول عظیم کلام (عمومی) باب دوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علم کلام باب سوم توحید کے حق میں دلائل باب چہارم تثلیث کی تردید باب نجم الوہیت مسیح کی تردید باب ششم تردید کفاره باب ہفتم باب ہشتم of ef 14 ۲۳۷ حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کی تردید ۳۳۰ اختتامیه کتابیات
اس کتاب کے متعلق مین جنید علمائے سلسلہ مؤقر آراء محترم مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری خالد احمدیت محترم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائل پوری ه محترم ملک سیف الرحمان صاحب فاضل
نگران مقاله ندا مترم جناب مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل جالندھری رائے خاکسار نے یہ مقالہ لفظا لفظا پڑھا ہے.اس بارے میں مقالہ نگار کو پہلے ھدایات بھی دی گئیں.میں نہایت خوشی اور مسرت سے اپنی اس رائے کا اظہار کرتا ہوں کہ عزیز عطاء المجیب صاحب را شد ایم اے نے نہایت محنت سے یہ مقالہ مرتب کیا ہے.انہوں نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی جملہ کتب کو اس سلسلہ میں بغور مطالعہ کیا ہے.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ملفوظات کو پڑھا ہے اور نہایت عمدہ ترتیب کے ساتھ اپنے مقالہ کو مرتب کیا ہے.جزاہ اللہ خیر الجزاء - مضمون کی ترتیب ابواب کے لحاظ سے قائم کی گئی ہے.ہر باب کو پڑھنے سے پوری وضاحت ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعزیز موصوف کے بیان میں کافی زور ہے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ اقتباسات کو پڑھ کر تو وجد کی تو کیفیت طاری ہو جاتی ہے.مقالہ کا طرہ استدلال نہایت واضح اور ٹھوس ہے.کہ میری رائے میں یہ مقالہ نہایت کامیاب اور مدلل ہے اس کا کوئی حصہ تشنہ نہیں ہے.الحمد للہ.دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مقالہ نگار کو اعلیٰ خدمات دینیہ کی توفیق بخشے اور ہمیشہ اپنے افضال و برکات سے نوازہ تا ر ہے.الہم آمین یا رب العالمین.39-48 ماشا ربوا فقط می باشنده گریه
نگران مقاله هذا محترم جناب قاضی محمدنذیر احد فاضل الپوری کی رائے میں نے یہ مقالہ بالاستیعاب پڑھا ہے :- ۱ - مقالہ نگار نے اس مقالہ کے لکھنے میں محنت شاقہ سے کام لیا ہے -- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی نمایاں شان ظاہر کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بے شمار حوالہ جات کے بارہ میں مقالہ میں جمع کر دیئے ہیں..مقالہ نگار کے اپنے قلم میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی نور ہے.۴ - ترتیب کے لحاظ سے بھی مضمون نہایت مربوط ہے.چنانچہ: 3 - علم کلام کی تعریف اس میں اختلاف درج کر کے پھر صحیح اور معقول تعریف کی نشاندہی کی ہے.ب.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی نمایاں خصوصیات بھی بتائی ہیں.ج.اس کے بعد توحید الہی کا ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ جات سے پیش کیا ہے.د - انزال بعد تثلیث کی تہ دید میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پر زور داد گل پیش کئے دلائل ہیں.ل - بعد ازاں الوہیت مسیح کی تردید پر ایک عمدہ مضمون لکھا ہے جس میں جابجا حضرت سیح کی موعود علیہ السّلام کے پیش کردہ دلائل کو نمایاں کیا ہے اور اس بارہ میں حضور کے بہت سے اقتباسات درج کئے ہیں.د - ازاں بعد عیسائی کفارہ کی تعریف اور اسلامی کفارات سے اس کا فرق اور امتیازہ نمایاں کیا ہے.
ذر - پھر عیسائی کفارہ کی تردید میں ۳۵ دلائل لکھتے ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے کلام سے اقتباسات پیش کر کے ساتھ ان کے ماخذ درج کئے ہیں.ح - آخر میں حضرت مسیح کی صلیبی موت کی تمدید اورائی کی کشمیر کی طرف ہجرت پر ایک مبسوط مضمون لکھا ہے جس میں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام سے پر زور دلائل پیش کئے ہیں.ان خوبیوں کے علاوہ عیسائیوں کے ضروری بر محل حوالہ جات سے بھی 14 اپنے مضمون کو مزین کیا ہے.ط - آخر میں مقالہ نگار نے اپنے سارے مقالہ کے ابواب کا خود ہی خلاصہ بھی درج کر دیا ہے.مقالہ نگار کی محنت شاقہ قابل داد ہے.اور مجھے امید ہے کہ مقالہ نگار صاحب سلسلہ احمدیہ میں ایک اچھے مصنف کی حیثیت حاصل کریں گے.خدا تعالیٰ ان کی عمر صحت اور علم میں برکت دیتے.مجھے ان کا مقالہ دیکھ کر ان سے جو امید وابستہ ہے وہ خدا کرے کہ پوری ہو.آمین.23
بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم محمد ا ونصلى على رسوله الكريم عزیز محترم عطاء الجيب صاحب راشد انچارج مبلغ یو کے دامام مسجد لندن ! السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُهُ خاکسار نے آپ کے مقالہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کا علم کلام رعیسائیت کے رد میں) کا مطالعہ کیا ہے.ماشاء اللہ بڑا جامع اور موضوع سے پورا پورا انصاف کرنے والا مقالہ ہے.بڑی جامعیت کے ساتھ کا سر صلیب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس عظیم دینی اور علمی کارنامہ کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے.اس کے مطالعہ سے حضور علیہ السلام کی اس سلسلہ میں مساعی جمیلہ کا بڑی عمدگی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے.خاکسار کی رائے میں اس کی اشاعت بہتوں کی ہدایت کا موجب ہو گی.انشاء اللہ.اس مقالہ کی اشاعت ایک خاص کارنامہ ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ.دالسّلام B 22 88 خاکر ملک مقام نزیل لفوق
علم کلام اس فن کا نام ہے جس میں مخالفین مذہب کے اعترانیات او شکوک و شبہات کا جواب دیا جاتا اور عقائد حقہ کو عقلی و نقلی دلیلوں سے ثابت کیا جاتا ہے؟ (سید سلیمان ندوی) باب اول (عمومی) علیم کلام کی تعریف علیم کلام کی مختصر تاریخ نئے علم کلام کی ضرورت " ہر طرف سے صدائیں آ رہی ہیں کہ پھر ایک نئے علم کلام کی ضرورت ہے.اس ضرورت کو سب نے تسلیم کر لیا ہے " شبلی نعمانی)
علم کلام کی تعریف علم کے معنے جانتے معلوم کرنے اور دریافت کرنے کے ہیں.نیز علم سے مراد دانش ، دانائی واقفیت اور آگاہی بھی ہیں.اور کلام کے لغوی معنے بات یا بات کرنے کے ہیں.کلام کے معنے اردو لغت میں سخن ، بات اور گفتگو کے کئے گئے ہیں یہ المنجد میں الکلام کے لغوی معنے القول درج کئے گئے ہیں تلے اصطلاحی طور پر علم اور کلام کے الفاظ مرکتب صورت میں علم کلام کی شکل میں استعمال ہوتے ہیں تو اسی ایک خاص علم مراد ہوتا ہے جس کی مختلف تعریفات کی گئی ہیں.۱ - جامع اللغات میں لکھا ہے :- " علم کلام: وہ علم جس کے ذریعے سے عقائد کو عقلی مامیلوں کے ساتھ ثابت کرتے ہیں “ ہے - غیاث اللغات میں لکھا ہے :- کلام - و کلام علی است که در آن مسائل نقلی را بدلائل عقلی ثابت کنند شد یعنی علم کلام ایک ایسا علم ہے جس میں نقلی علوم کو عقلی دلائل کے ذریعے ثابت کیا جاتا ہے.۳ - المنجد میں لکھا ہے :- " علم الكلام : علم من العلوم الشرعية المدونه يبحث عن ذات الله تعالى وصفاته واحوال الممكنات من المبدأ والمعاد على قانون الاسلام" له یعنی معلم کلام رائج علوم شرعیہ میں سے ایک علم ہے جس میں خدا تعالیٰ کی ذات ، صفات اور موجودات کے احوال ریعنی آغاز و انجام پر قانون اسلامی کی رو سے بحث کی جاتی ہے.:- فیروز اللغات اردو جامع مثلا - ه : فیروز اللغات اردو جامع ص۹۳ ص ة : - المتحد م۶۹۵ ش :- غیاث اللغات ص۳۶- ش: جامع اللغات ١٢٥ - - : - المنحد من
IN - فیروز اللغات میں متکلم کے معنوں کے ضمن میں لکھا ہے کہ :.: تم.وہ لوگ جو مذہبی اور عقلی دلائل سے ثابت کرتے ہیں علم کلام کا ماہر ہا ہے لم کلام کی تعریف یہ بنتی ہے کہ وہ علم جس میں مذہبی امور عقلی دلائل سے ثابت کئے ام جاتے ہیں.۵ - شرح عقائد میں لکھا ہے :- " معرفة العقائد عن ادلتها التفصيلة " : - شرح فقہ اکبر میں علم کلام کی یہ تعریف درج ہے :- - " العلم بالعقايد الدينية عن الادلة اليقينية ".- کتاب علم الکلام از مولانا محمد ادریس کاندھلوی میں علم کلام کی کوئی باقاعدہ تعریف تو نہیں مل سکی.البتہ اس کتاب کی ابتداء میں تعارف کے زیر عنوان کتا ہے ناشرین کی طرف سے ایک نوٹ کے ضمن میں لکھا ہے کہ : - یہ مجموعہ عقاید اسلامیہ کی تحقیق میں ہے.تحقیق عقاید میں سلف کے مسلک ملحوظ رکھا ہے نہ کہ متاخرین کے دلائل عقلیہ اور نقلیہ سے اس کے ہر مسئلہ کو مہر سن کیا گیا ہے اور جدید شبہات کا بھی کافی اور شافی جواب دیا ہے.- یہود اور نصاری اور آریہ اور نیچریہ کے اصول کا ابطال کیا ہے" ہے اس بیان سے علم کلام کی تعریف پر بھی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ علم کلام وہ علم ہے جس میں اپنے عقاید دینیہ کے اثبات کے لئے دلائل عقلیہ اور نقلیہ بیان کیا جائے اور دیگر تمام مذاہب کی طرف سے وارد ہونے والے اعتراضات کے جوابات دئے جائیں.اس کتاب میں مولانا موصوف نے جس اندا نہ نگاریش اور طرز استدلال کو اختیار فرمایا ہے اس سے بھی اس تعریف کی تائید ہوتی ہے.- علامہ شبلی نعمانی نے علم کلام کے موضوع پر دو نہایت مفید کتابیں تصنیف فرمائی ہیں.جن میں علم کلام کے بارہ میں تفصیلی بحث کی گئی ہے.ان میں سے ایک کتاب میں علم کلام :- --:: فیروز اللغات اردو جامع منشا - ۱۹۲ - شرح عقاید از علامه نسفی (مصری) حث - ۱۵۳ شرح فقہ اکبر قدید از ملا علی قاری من - 2 : - ٹائٹل علم الکلام از مولانا محمد ادریس کاندھلوی -
4 کی تعریف کے ضمن میں لکھا ہے کہ :- و علم کلام در حقیقت اس کا نام ہے کہ مذہب اسلام کی نسبت یہ ثابت کیا جائے کہ وہ منزل من اللہ ہے.مذہب دو چیزوں سے مرکب ہے.عقاید و احکام سے علم کلام حقیقت میں جس چیز کا نام ہے وہ عقائد کا اثبات ہے " سے ا علم کلام دو چیزوں کے مجموعہ کا نام ہے.(1) اسلامی عقائد کا اثبات - دان) فلسفہ ملاحدہ اور دیگر مذاہب کا رویہ دا دولت عباسیہ کا ذکر کر تے ہوئے علامہ موصوف نے لکھا ہے کہ اس وقت عام آزادی کی وجہ سے پارسی - عیسائی.یہودی اور زنادقہ نے اسلام پر سخت حملے کئے اور سخت نکتہ چینیاں کیں.چنانچہ اس وقت " علمائے اسلام نے نہایت شوق اور محبت سے فلسفہ سیکھا اور جو ہتھیار مخالفین نے اسلام کے مقابلہ میں استعمال کئے تھے ان ہی سے ان کے وار رو گے.ان ہی معرکوں کے کارنامے ہیں جو آج علم کلام کے نام سے شہور ہیں.علامہ شبلی نعمانی کی ان ساری تعریفات پر یکجائی نظر سے یہ اندازہ کر نا مشکل نہیں کہ ان کے نبتہ دیگ معلم کلام سے مراد ایسا علم ہے جس میں مذہب کے عقائد و احکام کے اثبات پر اور مخالفین کے اعتراضات کے رد میں دلائل بیان کئے گئے ہوں.علامہ موصوف نے دلائل یہ کے ضمن میں کوئی صراحت نہیں کی کہ یہ کس قسم کے ہوں.نقلی یا عقلی یا ہر دو قسم کے.یہ - جناب سید سلیمان ندوی نے علامہ شبلی نعمانی کی کتاب " الکلام " پر ایک دیباچہ لکھا ہے.جس میں وہ لکھتے ہیں :.علم کلام اس فن کا نام ہے جس میں مخالفین مذہب کے اعتراضات اور شکوک و شبہات کا جواب دیا جاتا اور عقاید حقہ کو عقلی و نقلی دلیلوں سے ثابت کیا جاتا ہے :- علم الکلام از شبلی طله شه : علم الکلام از شبلی ما به له : علم الکلام از شیلی ۱۳۹۵ گے :- علم الکلام از شیلی صب ہے :- دیباچه بعنوان تنبیہ کتاب الکلام از شبلی نعمانی صلابة
- علامہ عبدالرحمن بن خلدون نے جومشہور مورخ اسلام اور ایک بلند پایہ عالم گزرے ہیں.علم کلام کی یہ تعریف کی ہے :- خلاصہ هو علم يتضمن الحجاج عن العقايد الايمانية بالادلة العقلية والرد على المبتدعة المنحرفين في الاعتقادات من مذاهب السلف واهل السنة " ل یعنی علم کلام وہ علم ہے جس میں عقاید ایمانیہ کے متعلق عقلی دلائل دئے جاتے ہیں اور اعتقادات کے بارہ میں گذشتہ لوگوں کے مذاہب اور اہل سنت کے طریق سے انحراف کرنے والے بدعتی لوگوں کا رد کیا جاتا ہے.اگران دستش تعریفات کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ عقائد دینیہ کی معرفت اور ان کے اثبات کی متک تو سب متفق ہیں.لیکن تفصیلات کے ضمن میں دو بڑے اختلافات ہیں :- -1..بعض نے نقلی دلائل کو علم کلام کی تعریف میں شامل نہیں کیا جیسے علامہ ابن خلدون - ان لوگوں کا کہنا ہے کہ غیروں کے سامنے نقلی دلائل پیش کرنا ایک لاطائل امر ہے.جہاں تک دوسروں کے حق میں مفید ہونے کا تعلق ہے یہ بات درست ہے.لیکن پھر بھی نقلی دلائل کو علم کلام سے خارج نہیں کیا جا سکتا.اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے عقاید کی معرفت تامہ اور اطمینان قلب اور علی وجہ البصیرت ایقان حاصل کرنے کے لئے نقلی دلائل از بس ضروری ہیں.نیزا اپنے ہم مذہب اور ہم عقیدہ لوگوں کے درمیان تو نقلی دلائل ہی بحث کا فیصلہ کرتے ہیں.قرآن مجید کے نقلی دلائل چونکہ دعوی و دلیل عقلی پر مشتمل ہوتے ہیں اسلئے ان کے غیر سیلوں پر حجت ہونے میں کوئی اشتباہ نہیں.ا.بعض نے دیگر مذاہب کے اعتراضات کے بعد اور جواب کو علم کلام کی تعریف سے خارج کیا ہے جیسے شرح فقہ اکبر اور شرح عقاید میں ہے.ان لوگوں کا کہنا ہے کہ الف - اعتراضات ایک گند ہیں.اس لئے ان کو چھا رہنا چاہیئے.وہ ان اعتراما کی مثال ایک پھوڑے سے دیتے ہیں جس میں نشتر چلانے سے بدبو پیدا ہوتی ہے.: مقدمه ابن خلدون ۳۶۳ ابرینی
1.ب : - ہو سکتا ہے کہ جب انسان اعتراض کہ بیان کرے تو اس کی طبیعت میں انشراح ہو اور جب جواب دے تو اس وقت قبض کی حالت ہو.اسی صورت میں خود اس کا ایمان بھی کمزور ہوگا اور سننے والوں کی طبیعت میں بھی شک رہ جائیگا.ج-: عین ممکن ہے کہ لوگوں کو اس اعتراض کا علم ہی نہ ہو لیکن جب ان کے سامنے اعتراض بیان کیا جائے گا تو ان کے ذہن میں ایک تک اور کمزوری کا خیال پیدا ہو جائے گا.ان متعدد وجوہ کی بناء پر اس مکتب فکر کا یہ خیال ہے کہ نہ معترضین کے اعتراضا کو سننا اور بیان کرنا چاہیئے اور نہ ان کا جواب دینا چاہیئے.جناب سید سلیمان ندوی صاحب نہ كتاب " السلام" کے تعارف میں لکھتے ہیں :- بعض متکلمین کا اور خصوصا امام رازی کا یہ طریقہ ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں ملحدوں اور منکروں کے ہر قسم کے اعتراضات اور شبہات کو نقل کرتے ہیں اور پھر ان کا ایک ایک کر کے یا مجموعی طور پر جواب دیتے ہیں بعض علماء اس طریقہ کو نا پسند کرتے ہیں کہ اسے وہ اعتراضات اور شکوک ان لوگوں میں بھی پھیلتے ہیں جو ان سے واقف نہیں" سے ستید سلیمان ندوی اس ضمن میں لکھتے ہیں :.ذاتی طور سے میں بھی اس کو نا پسند کرتا ہوں" نے لیکن علامہ شبلی نعمانی کا مسلک ان سے مختلف ہے.وہ اس بات کے قائل ہیں کہ کسی گند کے اوپر وقتی طور پر مٹی ڈال کر مجھنا کہ گند حقیقتا ختم ہو گیا ہے.خود اپنے نفس کو دھوکا دینے والی بات ہے.اور یہ طریق اپنے ایمان اور استدلال کی کمزوری کا غماز بھی ہے.چنانچہ سید سلیمان ندوی کا بیان ہے :- مصنف الكلام علامہ شبلی نعمانی.ناقل ) اس باب میں پہلے گروہ کے ساتھ دعا یا ہیں.ان کا یہ کہنا ہے کہ اعتراضات و شکوک کے پھوڑوں کو بچا جا کر رکھنا جسم میں زہر پھیلاتا ہے.بہتر یہ ہے کہ ان میں ایک دفعہ نشتر دے کر مادہ فائدہ کو خارج کر دیا جائے " سے له له : تعارف بعنوان تنبلیم کتاب الکلام از شبلی نعمانی صا : : : : : ایضاً ص : الخاص..
1) مسلمانوں پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ اپنے ایمان کی کمزوری اور بہتوں کی بستی کی وجہ سے غیر مذاہت کے اعتراضات سے کنارہ کشی کرنے لگے تھے.علامہ شبلی نعمانی اپنے مسلک کی تائید اور اس زمانے کے علماء کے طرز فکر کو ہدف تنقید بتاتے ہوئے لکھتے ہیں :- بزرگان سلف نے نہایت لیے تقصی کے ساتھ معترضوں کے ہر قسم کے اعتراض کو سُنا اور اُن کو اپنی تصنیفات میں درج کر کے ان کے جواب دیئے.بخلاف اس کے ہمارے علماء یہ تلقین کرتے ہیں کہ دشمن کہ آتا دیکھ کہ اپنی آنکھیں بند کر لینی چاہئیں " درست وقف یہی ہے کہ مخالفین کے اعتراضات کو بھی اہمیت دی جائے اور پھر لوری قوت اور بصیرت کے ساتھ ایسے مسکت دلائل دئے جائیں جو مد مقابل پر اس کے اعتراضات کی لغوثیت کو واضح کر دیں.اس طریق سے جہاں ایک طرف اعتراضات کے جواب مل جانے سے اپنے عقائد کی پختگی اور صحت کا علم ہوتا ہے وہاں پر اہل ایمان کے دلوں میں اپنے مذہب کی پر یقین اور نور بصیرت بھی ترقی کرتا ہے.پس یہی مذہب ہر لحاظ سے بہتر اور مفید ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا موقف خاکسار نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام تصانیف اور ملفوظات پر ایک نظر والی ہے.لیکن علم کلام کی تعریف کے طور پر حضور کا کوئی حتمی ارشاد خاکسار کی نظر سے نہیں گذرا.اس لحاظ سے یہ کہنا درست ہے کہ مسیح پاک علیہ السلام نے معین الفاظ میں علم کلام کی کوئی تعریف تحریر نہیں فرمائی.تاہم اگر مسیح پاک علیہ السلام کی تحریرات کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے اور بحیثیت مجموعی آپ کے علم کلام کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ذہن میں اصطلاحی علم کلام سے ایک ایسا علم مراد ہے جس میں :- ا ہر قول کی بنیاد دلیل پر ہو اور پھر عقائد کے اثبات کیلئے ٹھوس اور واضح دلائل بیان کئے جائیں.-۲ دلائل میں عقلی اور نقلی ہر دو قسم کے دلائل پیش کئے جائیں.جو لوگ کسی الہامی کتاب کے پابند نہیں ان کے لئے صرف عقلی دلائل بیان کئے جائیں.- مذاہب باطلہ کی طرف سے کئے جانے والے دلائل کا رہ ذکیا جائے اور اس کے مقابل پر اپنے -☑ ه - الکلام از شیلی مشت:
عقاید کی برتری اور افضلیت کو ثابت کیا جائے.پس جہاں تک اصولی علم کلام کی تعریف کا سوال ہے سید نا حضرت سیج پاک علیہ السلام نے علم کلام کی اس عمومی تعریف سے اتفاق فرمایا ہے.چنانچہ آپ کی تحریرات میں ان تینوں باتوں کا عمومی بڑی باقاعدگی کے ساتھ بطریق احسن التزام کیا جاتا رہا ہے.مسیح پاک علیہ السلام کی طرف سے اصولی علم کلام کی تعریف کے سلسلہ میں خاکسار نے جو کچھ لکھا ہے اس کی تصدیق حضور کی بہت سی تحریرات سے ہوتی ہے جن میں سے چند بطور نمونہ ذیل میں درج کرتا ہوں :- حضور علیہ السلام نے اپنی معرکۃ الآرا تصنیف براہین احمدیہ کا مقابلہ کرنے کی دعوت اپنے ہوئے فرمایا یہ مقابلہ کر نے والوں پر ضروری ہو تا کہ وہ بعرض مقابلہ دلائل طرقان مجید کے اپنی کتاب کی دلائل بھی پیش کریں.اور پھر شہ پایا کہ." دبرا امین احمدیہ حصہ اول مت روحانی خزائن جلد )) در الله اگر اس کتاب کا رد لکھنے والا کوئی ایسا شخص ہو جو کسی کتاب الہامی کا پابند نہیں جیسے یہ ہمو سماج والے ہیں تو اس پر صرف یہی واجب ہوگا جو ہماری سب دلائل کو نمبردار توڑ کر رکھ دیو سے اور اپنے مخالفانہ خیالات کو بمقابلہ ہمارے سے عقائد کے عقلی دلائل سے ثابت کر کے دکھلا د ہے" د پرا مین احمدیہ حصہ اول طنت روحانی خزائن جلد ) اور عقلی دلائل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :- علیہ دلیل سے مراد ہماری عقلی دلیل ہے کہ جس کو معمولی لوگ اپنے مطالب کے اثبات میں پیش کرتے ہیں.کوئی کتھا یا قصہ یا کہانی مراد نہیں ہے کہ ابراین احمدیہ حصہ اول مشت - روحانی خزائن جلد ) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک کسی عقیدہ کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لئے یا کسی دوسرے کے عقیدہ کو رد کرنے کے لئے نقلی دلائل کے ساتھ ساتھ عقلی و انگل کا پایا جانا بھی ضروری ہے.نیز مد مقابل کے اعتراضات اور اس کے دلائل کو توڑنا بھی ازم آتا ہے.ایک اور موقعہ پر حضور نے تحریر فرمایا ہے :-
۱۳ " تمام مذہبی مقدمات میں بھی یہی ایک قانون قدیم سے چلا آتا ہے کہ جب کسی بات میں دو فریق تنازعہ کر تے ہیں تو اول منقولات کے ذریعہ سے اپنے دو کرتے تنازعہ کو فیصلہ کرنا چاہتے ہیں اور جب منقولات سے وہ فیصلہ نہیں ہو سکتا تو معقولات کی طرف توجہ کرتے ہیں اور عقلی دلائل سے تصفیہ کرنا چاہتے ہیں اور جب کوئی مقدمہ عقلی دلائل سے بھی طے ہونے میں نہیں آتا تو آسمانی فیصلہ کے خواہاں ہوتے ہیں اور آسمانی نشانوں کو اپنا حکم ٹھہراتے ہیں " دستاره قیصریه ۶۲ - روحانی خزائن جلد ۱۲ ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ باں حوالوں سے پوری صراحت کے ساتھ یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ علم کلام کی صیح تعریف کیا ہے.کیونکہ آپ کے یہ ارشادات کلامہ الامام امام الکلام کے مطابق فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں پس ان ارشادات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ علم کلام سے مراد ایسا علم ہے جس میں اپنے مذہبی عقائد کے اثبات پر اور ان کی حقانیت پر نقلی اور عقلی دلائل دئے جائیں.اور ان عقاید پر غیروں کی طرف سے ہوتے والے اعتراضات کے مسکت اور مدلل جوابات دئے جائیں تا اپنے عقائد اور دلائل کی سچائی ظاہر ہو.نوٹے :.یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی تحریرات سے علم کلام کی تعریف کے ضمن میں جو استدلال کیا گیا ہے آپ کا اپنا علم کلام اس متک محدود نہیں ہے اور نہ آپ نے اس اصطلاحی علم کلام کی پابندی کو لازم قرار دیا ہے.بلکہ آپ کا عظیم الشان اور خداداد معلم کلام ایک منفرد اور ممتاز حیثیت دیکھتا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آپ کے آنے کے ساتھ ایک ایسے علم کلام کا آغاز ہو ا جو اپنی مثال آپ ہے.اس اجمال کی تفصیل مقالہ کے اگلے باب میں بیان ہوگی.انشاء اللہ تعالیٰ.اور علم کلام کا موضوع علم کلام کا موضوع ان تعریفات سے واضح ہو جاتا ہے جو علم کلام کی تعریف کے ضمن میں اوپر درج ہو چکی ہے.بقول علامہ عبد الرحمن ابن خلدون علم کلام کا موضوع ایمانی عقائد " ہیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں:.
۱۴ وبالجملة فموضوع علم الكلام عند اهله انما هو العقائد الإيمانية يعرف منها صحيحة من الشرع من حيث يمكن أن يستدل عليها بالادلة العقلية فترفع البدع وتزول الشكوك والشبهه عن تلك العقائد لم - یعنی متکلمین کے نزدیک علم کلام کا موضوع ایمانی عقائد ہیں تا کہ عقلی دلائل کے ساتھ ان کے بارہ میں استدلال کیا جائے اور بدعتوں شکرک اور شبہات کو زائل کیا جا سکے.علامہ موصوف نے صرف عقلی دلائل سے استدلال کا ذکر اس وجہ سے کیا ہے کہ ان کے نزدیک علم کلام کی تعریف ہی یہی ہے کہ صرف عقلی دلائل سے عقائد پر استدلال کیا جائے.علیم کلام کی وجہ تسمیہ علم کلام کی وجہ تسمیہ کے بارہ میں مختلف ، قیاس آرائیاں کی گئی ہیں.مثلاً ١ - بعض کا یہ خیال ہے کہ یہ علم چونکہ منطق کی بنیاد پہ ایجاد ہوا اور منطق کے معنے بھی بولنے اور کلام کرنے کے ہیں بیس منطق اور کلام کے مشترک معنوں کی وجہت اس علم کو یہ نام دیا گیا.۲ - بعض کا یہ خیال کہ چونکہ اسی علم میں مباحث کا اصل عنوان کلام الہی یعنی قرآن مجید تھا.اس لئے اس سار سے علم کو بھی کلام ہی کا نام دیا گیا..۳ - ایک خیال یہ ہے کہ چونکہ یہ علم انسان کو گفتگو اور کلام پر قادر بتاتا ہے اور اس کو دلائل کے بیان میں قوت گویائی عطا کرتا ہے.اس لئے اس کا نام کلام رکھا گیا ہے.گویا کو مستقیب کا نام دیا گیا ہے.۴.ایک خیال یہ بھی ہے کہ پونکہ ہر علم کو سیکھنے یا سکھانے کے لئے بولنے یعنی کلام کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ علم گویا سب علوم کے لئے بنیاد کے طور پر ہے اس لئے اس علم کا نام ہی کلام نہ کھو دیا گیا ہے.-۵- بعضوں نے یہ کہا کہ چونکہ دونوں جانب فریقین سے کلام کہنی پڑتی ہے اور ہرد و جانب کے دلائل کو سننا، بیان کرنا اور نہ کر نا یہ نا ہے.اس وجہ سے اس کا نام کلام رکھا گیا ہے.4 - ایک وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ لفظ کلام كَادَ يَكُدُ و گانا سے مشتق ہے جسے کسی معنے زخم لگانے کے ہیں.چونکہ اس علم میں دلائل قاطعہ اور صحیح واضحہ سے باقی مذاہب کا رد.مجھے ل : مقدمه ابن خلدون ۳۶۹ ۳۰۰ (مصری) -
1 کیا جاتا ہے اور یہ علم دیگر مذاہب پر کاری ضرب لگاتا ہے.اسوجہ سے یہ نام پڑ گیا..ایک رائے یہ ہے کہ ثبوت اور ولائل کی قوت کے لحاظ سے اس کا نام کلام پڑ گیا ہے.کا نہ ھوا لکلام گو یہ کہ کلام ہے ہی یہی.جیسے کہ کسی مضبوط جسم کے انسان کو دیکھے کر کہا جاتا ہے.هذا حمو الرجل بس دلائل کی قوت کے اعتبار سے اس علم کو یہ نام دیا گیا.- آٹھویں وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ چونکہ اس علم میں دیگر سب علوم کی نسبت زیادہ نزاع اور اختلاف ہے.اس لئے یہ علم سو سے زیادہ بحث اور کلام کا مستحق ہے اور اسی بناء پر اس کو یہ نام دیا گیا.ان سیب وجوہ میں سے عام طور پہ دلیلی وجہ کو زیادہ قرین قیاس سمجھا گیا ہے لیموں ناشبلی نعمانی نے وجہ تسمیہ کے اس اختلاف کے بارہ میں جو کچھ لکھا ہے وہ درج ذیل ہے :- و اس امر میں اختلاف ہے کہ علم کلام کا نام کلام کیوں رکھا گیا.مؤرخ ابن خلکان نے محمد ابو الحسین معتزلی کے تذکرہ میں سمعانی سے نقل کیا ہے کہ چونکہ سب سے پہلا اختلاف جو عقائدہ کے متعلق پید اہو، وہ کلام الہی کی نسبت پیدا ہوا.اس مناسبت سے علم عقاید کا نام کلام پڑ گیا.لیکن یہ صحیح نہیں ہے.نہ پہلا اختلاف کلام الہی کی نسبت پیدا ہوا نہ بنوامیہ کے زمانہ تک اس فون کو کلام کہتے تھے.علامہ شہرستانی نے ملل و نحل میں لکھا ہے کہ اس کی وجہ یا تو یہ تھی کہ مسائل عقاید میں جس مسئلہ پر بٹر سے مصر کے رہے وہ کلام الہی کا مسئلہ تھا یا اس وجہ یا سے کہ چونکہ یہ علم فلسفہ کے مقابلہ میں ایجاد ہوا تھا.اس لئے فلسفہ کی ایک شاخ وہ ایعنی منطق کا جو نام تھا وہی اس فن کا بھی نام رکھا گیا.کینگ منطق اور کلام مرادف اور ہم معنی الفاظ ہیں.یہی وجہ تسمیہ صحیح ہے " سے علم کلام کی مختصر تاریخ - اسلام ایک تبلیغی اور عالمگیر مذہ ہے، اور اسکی بنیا د دلیل اور بیریان پر رکھی گئی ہے.ملاحظہ ہو رسالہ الفرقان ریجہ.جولائی شا له من ، مارچ ۱۶ ۲۵۰ : و علم الکلام از شبلی نعمانی ۲۰-۴۲۰
17 اس لئے آغاز اسلام ہی سے اسلام نے اپنے متبعین کو دلیل اور برہان کی طرف متوجہ کیا ہے کیونکہ جب تک دلیل اور نشان کے نتیجہ میں یقین کامل پیدا نہ ہو ایمان میں حلاوت پیدا نہیں ہو سکتی.ارشاد باری تعالٰی :- ور ادعوا إلى الله على بصيرة انا ومن اتبعني له میں اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.++ علم کلام کا آغاز حقیقی طور پر تو اسلام کے آغانہ کے ساتھ ہی ہو گیا تھا.چنانچہ اسلام کے ابتدائی دور میں متعدد وایسی مثالیں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے عقائد کے اثبات کے لئے اس وقت بھی عقلی اور نقلی دلائل دئے جاتے تھے.عقلی دلائل کی مثال یہ ہے کہ حضرت عدی بن حاتم رضا اپنے ایمان لانے سے قبل ایک مرتبہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ قر آن مجید میں جو آیا ہے کہ :.اتخذوا احبارهم ورهبانهم ادبابا من دون الله - له کہ گویا ہم لوگ اپنے دینی علماء کو اللہ کے سو ارب مانتے ہیں.یہ بات تو درست نہیں ہے اس پر سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا لطیف جواب ارشاد فرمایا اور کیا صحیح عقلی دلیل پیش فرمائی.فرمایا : اما إنهم لم يكونوا يعبدونهم ولكنهم كانوا اذا احتوالهم شيئًا استحلوه وَإِذا حَرَّمُوا عليهم شَيْئًا حَرَّموا له کہ یہ درست ہے کہ تم ان کی عبادت نہیں کرتے.لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ وہ علماء جس چیز کو حلال کر دیں تم آنکھیں بند کر کے اس کو حلال سمجھ لیتے ہو اور جس چیز کو وہ حرام قرار دیدیں تم اس کو واقعی حرام سمجھ لیتے ہو.نقلی دلیل کی مثال یہ ہے.جب حضرت عمریض پر ابو والوں نے حملہ کیا اور آپ شدید زخمی ہوگئے تو حضرت صہیب روحی خبر سن کہ آئے اور آتے ہی کہا کہ وا اخا وا صباحاہ یعنی ہائے میرے بھائی اور ہائے یہ صبح حضرت عمر نے ان کو ایسا کر نے سے منع فرمایا اور سمجھایا کہ - رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :.:- سورة يوسف : ١٠٨ ه: - سورة التوبة : ٣١ : - ترمذی ابواب التفسیر تفسیر سوره مائده :
ان الميت ليعذب ببكاء اهله کہ میت کو اس کے ساتھیوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے.جب حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ سنا تو فرمایا :- : " يرحم الله عمراً لله ما حدث رسول الله صلى الله عليه وسلم ان الله ليعذب المومن بيكا و اهله عليه ولكن رسُول الله ما اِنَّ صلى الله عليه وسلّم قال إن الله ليزيد الكافِرُ عَذَابًا ببكاء اهله عليه وقالت حسيكم القرآن ولا تزر وازرة وزر أخرى له یعنی اللہ تعالیٰ عمرہ پہ رحم کر ہے.نخدا کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تو نہیں فرمایا تھا کہ اللہ تعالٰی مومن کو اس کے اہل کے رونے کی وجہ سے سزا دیتا ہے.البتہ حضور پاک نے یہ فرما یا تھا کہ کافر کا عذاب اس کے اہل کے رونے کی وجہ سے بڑھایا جاتا ہے.نیز فرمایا کہ کیا متر آن میں یہ نہیں آیا کہ کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھہ ہرگز نہ اُٹھائے گی." گویا حضرت عائشہ نہ نے اس آیت قرآنی کو پیش فرما کہ یہ استدلال فرمایا کہ پھر نیہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میت کے اہل کے رونے کی سزا میت کو ملے گی.یہ دلیل ایک نقلی دلیل ہے.جس میں صحیح بات کا فیصلہ کیا گیا ہے.ان دونوں مثالوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ حقیقی اور اصل علیم کلام کا آغازہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی ہوگیا تھا اور بعد ازاں خلافت راشدہ کے سنہری زمانہ پاکه میں بھی نقلی و عقلی دلائل کے استعمال سے استدلال کرنے کا طریق جاری رہا.حضرت امام ابو حنیفہ نے سب سے پہلے علم کلام میں دسترس حاصل کی گو اس زمانہ میں اس علم کو یہ مخصوص نام نہیں دیا گیا.آپ کا نہ مانہ ۸۰ سے ۱۵۰ ہجری تک ہے.دیا " اصطلاحی علم کلام کا باقاعدہ آغاز خلافت عباسیہ (۱۳۲ تا ۷۵۰ ہجری کے زمانہ میں ہوا جبکہ ہر قسم کی مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ لوگوں کو فکر و نظر کی آزادی بھی نصیب ہوئی.خاندان عباسیہ کے ایک خلیفہ مہدی کی ہدایات پر اس زمانہ کے علماء نے اس علم میں خوب کام کیا.اور اس علم کو ترقی دی لیکن ابھی اس وقت تک اس علم کو یہ نام نہ دیا گیا تھا.علم کلام کا یہ نام ہارون الرشید کے نامور بیٹے مامون الرشید کے عہد میں رکھا گیا.جبکہ بخاری کتاب الجنائز باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لجذب الميت ببعض بكاء اهله عليه -
١٨ A معتزلہ نے فلسفہ میں مہارت حاصل کی.اور فلسفیانہ مذاق پر اس فن کی تدوین کی سید اصطلاحی علم کلام کا بانی ابو الہندیل خلاف کو قرار دیا جاتا ہے جو مامون الرشید کے زمانہ کا ایک مشہور متکلم ہے اس نے علم کلام پر سب سے پہلی کتاب تصنیف کی ہے.اس کا پورا نام عمر بن البدیل بن عبد الله بن لکھوں تھا ( ۱۳۱ ہجری تا ۲۳۵ ہجری) اس کی تصانیف کی کل تعداد ۶۰ ہے جو سب کی سب علم کلام سے متعلق ہیں." تدريجي ارتقاء خلیفہ مہدی کے بعد ہادی اور پھر بہارون الرشید مسند آرائے حکومت ہوئے.ہارون الرشید کے بعد مامون الرشید کا دور آیا.اس دور میں علم کلام کو خاص طور پر نمایاں ترقی حاصل ہوئی.مولانا شبلی کے الفاظ میں :- " اس کے علمی کارناموں کے بیان کر نے کے لئے ایک دفتر چاہیئے.سے اس کے عہد میں باقاعدہ مناظروں سے اس علم نے بہت ترقی کی.اس زمانہ میں ابو الہندیل کے شاگرد ابراہیم بن ستارہ نظام نے اس فن میں کمال حاصل کیا.مامون کے بعد عہ ہجری میں اس کا پوتا الواثق باش خلیفہ بنا تو علم کلام نے ایک بار پھر عروج کی منزل کی جانب قدم بڑھایا.اس کے عہد میں نو سخت خاندان نے غیر معمولی خدمات سرانجام دیں.اس سارے زمانے میں علم کلام اگر چہ ابتداء سے ترقی کرتا جاتا تھا لیکن چوتھی صدی میں وہ درجہ کمال تک پہنچ گیا.اس صدی میں اس علم پر باقاعدہ تصانیف کے انبار لگ گئے.قرآن مجید کے بیان کو دلائل عقلیہ سے ثابت کرتے ہوئے ابو سلم محمد بن بھر اصفہانی اور ابوالقاسم عبد الدین احمدبن محمود کھبی نے شاندار تفاسیر رکھیں.پانچویں صدی میں علم کلام کو بعض وجوہ سے زوال آنا شروع ہوا تاہم بعض بعض متکلمین بڑے بڑے رتبہ کے ہوئے.ان میں سے ابوالحسن محمد بن علی البصری - ابو اسحاق اسفرائنمنی قاضی عبد الجبار معتزلی بہت بڑے درجہ کے لوگ تھے.علامہ ابن حریم ظاہری نے سپین میں هو علم الکلام از شیولی من به سه : - علم الکلام از شیعلی گے :.علم الکلام از شیلی قوت ہے
۱۹ حدیث اور کلام کے علم کو بلند کیا.دولت عباسیہ کے زوال کے ساتھ علم کلام کو بھی زوال آیا.اشاعرہ کے علم کلامہ کے بانی امام ابوالحسن الاشعری قرار پائے.اشاعرہ کے علم کلام سے گویا ایک نہم تاریخ شروع ہوتی ہے.امام اشعری سے پہلے دو فریق تھے.ارباب عقل و نقل - امام اشعری نے بیچ بیچ کا طریقہ اختیار کرنا چاہا.اور ایسے عقید سے اختیار کئے جو ان کی دانست میں عقل اور نقل دونوں سے ربط رکھتے تھے.یہ گویا اشعری علم کلام کا پہلا دور تھا.دوسر سے دور کا آغاز امام غزالی سے ہوا جنہوں نے علم کلام کو ایک جدید رنگ عطا کیا.علامہ ابن خلدون کا خیال ہے کہ امام غزالی - پہلے کلام کاطریق نقلی دلائل بیان کر نے کا تھا.انہوں نے عقلی دلائل بھی پیش کرنے شروع کئے.امام غزائی سے پہلے دونوں طریق الگ الگ تھے لیکن امام غزالی نے ان کو ملا کر ایک نئی طرزہ کا علم کلام جاری کیا جس کو علامہ محمد بن عبد الکریم شہرستانی اور امام فخر الدین رازی نے ترقی دی.اور قابل قدر خدمات سرانجام دیں.جن کا ذکر باعث تطویل ہوگا.اس دور کے بعد جو مشہور متکلمین گزرے ہیں ان کے نام یہ ہیں :- - ابو الحسن علی سیف الدین آمدی - ۲- قاضی عضد ۳ - علامہ سعد الدین تفتازانی علامہ محمد بن احمد بن رشد جو عام طور پر ابن رشد کے نام سے معروف ہیں کے وجود سے علم کلام کے دور سوم کا آغاز ہوا.جس کو متاخرین کا زمانہ بھی کہا جاتا ہے.علامہ ابن رشد کا خاص کام یہ ہے کہ انہوں نے تمام کلامی مسائل پر دلیلیں قرآن مجید سے قائم کیں.اے علامہ ابن رشد کے بعد ساتویں صدی میں ابن تیمیہ پیدا ہوئے جنہوں نے علم کلام کے بارہ میں کثرت سے کتابیں لکھیں.اور بیسیوں غلط مسائل میں بڑی دلیری سے گذشتہ علماء سے اختلاف کیا.اس زمانہ کا ذکر کرنے کے بعد علامہ شبلی نعمانی رکھتے ہیں :- یڑ ابن تیمیہ اور ابن رشد کے بعد بلکہ خود ان ہی کے زمانہ میں مسلمانوں میں ہو عقلی تنزل شروع ہوا اسکے لحاظ سے یہ امید نہیں رہی تھی کہ پھر کوئی صاحب ے :- معلم الکلام از شیلی منت بین
دل و دماغ پیدا ہو گا.لیکن قدرت کو اپنی نیز نگیوں کا تماشہ دکھلانا تھا کہ اخیر زمانہ میں جب کہ اسلام کا نفس بازیسینی تھا.شاہ ولی اللہ جیسا شخص پیدا ہوا.جس کی نقطہ سنجیوں کے آگے غزالی، رازی ، ابن رشد کے کارنامے بھی ماند پڑ گئے.لے حضرت شاہ ولی الله اسلامه تا مکالمہ ہجری نے علم کلام کے میدان میں نہایت شاندار خدمات سرانجام دی ہیں.فیج اعوج کے زمانہ میں اسلام کی مشعل کو بلند کرنے اور اسلامی تعلیمات کی حکمتیں بیان کرنے کے آغاز کا سہرا آپ ہی کے سر ہے.آپ نے علم کلام کے سلسلہ میں جو خاص خدمات سرانجام دی ہیں ان کا اندازہ شبلی کے ان الفاظ سے ہوتا ہے.وہ لکھتے ہیں :- در علم کلام در حقیقت اس کا نام ہے کہ مذہب اسلام کی نسبت یہ ثابت کیا جائے کہ وہ منزل من اللہ ہے.مذہب دو چیزوں سے مرکب ہے.عقائد و احکام.شاہ صاحب کے زمانہ تک جس قدر تصنیفات لکھی جاچکی تھیں صرف پہلے حصہ کے متعلق تھیں.دوسر سے حصہ کو کسی نے مس نہ کیا تھا.شاہ صاحب پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس موضوع پر کتاب لکھی ".اس کتاب سے مراد حجتہ اللہ البالغہ ہے جس میں آپ نے احکام شرعیہ کا فلسفہ بیان کیا ہے.اگر چہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے انفرادی طور پر بہت کام کیا ہے لیکن مجموعی طور پر اس دور میں آکر علم کلام زوال پذیر ہوگیا.اور جدید فلسفہ اور غیر مذاہب کے حملوں کے نتیجہ میں کوئی ایسا مرد میدان پیدا نہ ہوا جو اسلام کے علم کو تھامے اور سر بلند کر سے شبلی لکھتے ہیں :- علم کلام نے اگر چہ بارہ سو برس کی عمر پائی لیکن کمال کے رتبہ ترک نہ پہنچ سکا ن سے ان حالات میں ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ اب ایک ایسا جدید علم کلام پیدا ہونا چاہیئے جو مذاہب باطلہ کا پوری ہمت اور قوت کے ساتھ مقابلہ کر سکے کیونکہ تیرھویں صدی کے آخر میں اسلام ہر طرف سے دشمنوں کے نرغے میں گھر چکا تھا.ہر طرف سے دشمن درندوں کی مانند شه و علم الکلام از خیلی منش به شه : علم الکلام از شبلی داشته به سه فیلم الکلام از شبیلی ملت به
۲۱ حملہ آور ہو رہے تھے.عیسائی، ہندو، آریہ غرضیکہ سب مذاہب والے ہی اسلام کے خلاف اپنے ترکش کے زہر یلے تیر خالی کر رہے تھے.اسلام اس وقت حدیث نبوی کے مطابق انتہائی کس مپرسی کی حالت میں بدا الاسلام غريبًا وسيعود غريبًا كما بدأ کی عملی تصویر بن چکا تھا.سب سے زیادہ افسوسناک اور پریشان کن بات یہ تھی کہ اسلام کے سدا بہار گلشن کے محافظ اور خرمن اسلام کے رکھوالے غیروں کے مقابلے کی تاب نہ لا کہ عاجزہ اور بے بس ہو چکے تھے.ان میں کمزوری اور احساس کمتری پیدا ہو چکا تھا.اسلام کے علماء اس قابل ہی نہ رہے تھے کہ وہ اس میدان میں اتریں.غیر مذاہب کے باطل اعتراضات کو رد کرنے کے بعد اسلام کے روشن چہرہ سے نقاب کشائی کریں.اور اغیار کو رڈ کے دعوت اسلام دیں مختصر یہ کہ اسلام اس وقت ایک مجید ہے جان بن چکا تھا.اور دردمند مسلمان شاعر اس پر مرتبہ خواں تھے.اسلام کی اس کمزوری اور دشمنوں کے حملوں کے کئی پہلو تھے.ایک پہلو جدید علوم کی روشنی میں مذہبی اعتراضات کا تھا.جن کا کوئی جواب نہ پاکر مسلمان ان اعتراضات کو ہی درست اور مبنی بر حقیقت سمجھ رہے تھے.شبلی نعمانی اس طرز فکر کے بارہ میں لکھتے ہیں :- حال میں علم کلام کے متعلق مصر، شام اور ہندوستان میں متعدد کتابیں تصنیف کی گئی ہیں.اور نئے علم کلام کا ایک دفتر تیار ہو گیا ہے.لیکن یہ نیا علیم کلام دو قسم کا ہے.یا تو وہی فرسودہ اور دورانہ کا ر مسائل اور دلائل ہیں.جو متاخرین اشاعرہ نے ایجاد کئے تھے یا یہ کیا ہے کہ یورپ کے ہر قسم کے معتقدات اور خیالات کو حق کا معیا نہ قرار دیا ہے.اور پھر قرآن وحدیث کو زبردستی کھینچے تان ان سے ملا دیا ہے.پہلا کورانہ تقلید اور دوسرا تقلیدی اجتہاد ہے.اے علم الکلام از شیلی حصہ اول مشا ظاہر ہے کہ یہ صورت احوال سخت پریشان کن تھی جس کو دیکھ کہ دردمندان اسلام کے دل ڈوبے جا رہے تھے علمی اعتراضات کے محاذ پر حامیان اسلام کی کمز در حالت کا نقشہ خون کے آنسو رلاتا تھا.نئے علم کلام کی ضرورت :.اس دور میں جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں اسلام انسان استحکام
۲۲ - کہ اور بیرونی دفاع.ہر دو محاذ پر شکست کھاتا نظر آتا تھا.زمانہ بیچارہ پکا نہ کہ کہہ رہا تھا کہ آج اسلام کو اس پر اپنے اور دقیانوسی قلم کے علم کلام کی نہیں بلکہ ایک جدید علم کلام کی ضرورت ہے جو اسلام کی عظمت گم گشتہ کو پھر سے واپس لے آئے اور اسلام سب ادیان باطلہ پر غالب آ آجائے.آج جیسی علم کلام کی ضرورت تھی اس کا ذکر علامہ شبلی سے سنیئے عباسیوں کے زمانہ میں اسلام کو جس خطرہ کا سامنا ہوا تھا آج اس سے کچھ بڑھ کہ اندیشہ ہے.مغربی علوم گھر گھر پھیل گئے ہیں اور آزادی کا یہ عالم ہے کہ پہلے زمانہ میں حق کہنا اس قدر سہل نہ تھا جتنا آج نا حق کہنا آسان ہے.مذہبی خیالات میں عموما بھونچال سا آ گیا ہے.نئے تعلیمیافتہ بالکل مرعوب ہو گئے ہیں.قدیم علماء عزلت کے دریچہ سے کبھی سر نکال کر دیکھتے ہیں تو مذہب کا افق غبار آلود نظر آتا ہے.ہر طرف سے صدائیں آرہی ہیں کہ پھر ایک نئے علم کلام کی ضرورت ہے اس ضرورت کو سب نے تسلیم کر لیا ہے " را، علم الکلام از شیلی حصہ اول ص ) یہ جدید علم کلام کس نوعیت کا ہو اس کے متعلق علامہ موصوف نے لکھا ہے :- قدیم علم کلام میں صرف عقائد اسلام کے متعلق بحث ہوتی تھی.کیونکہ اس زمانہ میں مخالفین نے اسلام پر جو اعتراضات کئے تھے عقاید ہی کے متعلق تھے.لیکن آج کل تاریخی، اخلاقی ، تمدنی ہر حیثیت سے مذہب کو جانچا جاتا ہے.یورپ کے نزدیک کسی مذہب کے عقائد اس قدر قابل اعتراض نہیں جس قدر اس کے قانونی اور اخلاقی مسائل ہیں.ان کے نز دیک تعدد نکاح ، طلاق غلامی - جہاد کا کسی مذہب میں جائز ہونا اس مذہب کے باطل ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے.اس بناء پر علم کلام میں اس قسم کے مسائل سے بھی بحث کرنی ہوگی.اور یہ حصہ با لکل نیا علم کلام ہوگا " علم الکلام از مشبلی حصہ دوم جنگ) خط) سب سے بڑی ضروری چیز یہ ہے کہ دلائل اور برا ہیں ایسے صاف اور سادہ پیرایہ میں بیان کئے جائیں کہ سریع الفہم ہونے کے ساتھ دل میں اتر جائیں قدیم ہو
۳۳۰ 3 mi طریقہ میں پیچ در پیچ مقدمات منطقی اصطلاحات اور نہایت دقیع خیالات سے کام لیا جاتا تھا.اس طریقہ سے مخالف مرعوب ہو کہ چپ ہو جاتا تھا.لیکن اس کے دل میں یقین اور وجدان کی کیفیت نہیں پیدا ہوتی تھی.عرض جدید علم کلام کے ترتیب دینے میں اپنی امور مذکورہ کی رعائت ملحوظ آ رکھنی چاہیئے " کی کہ علیم کلام شبلی حصہ دوم هنا زمانہ کی اس پکار کا کیا نتیجہ نکلا ؟ اور خُدا نے دل شکستہ مسلمانوں کی کس طرح دستگیری فرمائی ؟ اس کا ذکیہ مقالہ کے تیسرے باب میں ہوگا.انشاء اللہ تعالی.
۲۵ والله انى لست من العلماء ولا من اهل الفضل والدهاء وكلما اقول من انواع حسن البنيان او من تفسير القرآن فهو من الله الرحمن باب دوم مسیح موعود ضرت مسیح موع علیہ السلام کا عِلم كلام (عیسائیت کے رد میں) اس علم کلام سے کیا مراد ہے ؟ علم کلام کی بلندشان - عیسائیت کے خلاف علم کلام کا مرکزی نقطہ ه - اس علم کلام کی خصوصیات..- بعض ضروری امور " ہمارے اصول عیسائیوں پر ایسے پتھر ہیں کہ وہ پر ان کا ہرگز جو اسے نہیں دے سکتے یہ رمسیح موعود ،
F 1 سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- را عیسائی مذہب کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہے.عیسائی مذہب اپنی جگہ آدم زاد کے خدائے منوانی چاہتا ہے اور ہمارے نزدیک سے وہ صلے اور حقیقی خدا سے دُور پرسے ہوئے ہیں.ہم چاہتے ہیں کہ ان عقائد کی و حقیقی خدا پرستی سے اور پھینک کر مردہ پرستی کی طرف سے جاتے ہو نے کا فھے تردید ہوا در دنیا آگاہ ہو جا د سے کہ وہ مذہب جو انسان کو خدا بناتا ہے خُدا کی طرف سے نہیں ہو سکتا اور بظا ہر عیسائی مذہب کی اشاعت اور بظاہر ترقی کے جو اسیا بے ہوے وہ انسان پر پتے انسان کو بھی یقین نہیں جو اسبابے دلاتے کہ اس سے مذہب کا استیصا ا سے ہو جا دے گا مگر یہ اپنے خدا پر نقی نے رکھتے اسے ہیں ہے کہ استے ہم کو سکی صلاح کیلئے بھیجا ہے اور میرے ہاتھ یہ مقدر ہے کہ میں ہیں کہ دنیا کو اس سے عقیدہ سے رہائ کے دوست" (ملفوظات جلد ششم مشاہ) ص ۴۲
پس منظر گذشتہ باب کے آخر میں ہم دیکھو آئے ہیں کہ تیرہویں صدی کے آخر پر اسلام انتہائی غربت کی حالت میں تھا اس کسی میرسی نیز علمائے اسلام کی بے خبری اور غفلت کو دیکھ کر عیسائی پادریوں نے اسلام اور اہل اسلام کو اپنے نرغہ میں لے لیا تھا.لاکھوں مسلمان ، اسلام کی روشن شاہراہ کو چھوڑ کر عیسائیت کے تاریک غار میں دھکیلے جا چکے تھے اور اس پر بس نہیں بلکہ عیسائی مناد على الاعلان اس عزم کا اظہار بھی کر رہے تھے کہ ہم عنقریب خاکش بدین، مکہ مکر مرا در مدینه منوره پر بھی عیسائیت کا پرچم لہرا دیں گے مشہور عیسائی مزار جان ہنری بیرونز نے مسیحی ترقی کا جائزہ لینے کے لئے انہی دنوں ساری دنیا کا دورہ کیا.اس دورہ کے تاثرات بیان کرتے ہوئے دہ کہتا ہے :.اب میں اسلامی ممالک میں عیسائیت کی روز افزوں ترقی کا ذکر کرتا ہوں.اس ترقی کے نتیجہ میں صلیب کی چپکا نہ آج ایک طرف لبنان میں ضوفگن ہے تو دوسری طرف فارس کے پہاڑوں کی چوٹیاں اور باسفورس کا پانی اس کی چمکار سے جنگ جگمگ کر رہا ہے.یہ صورت حال پیش خیمہ ہے اس آنے والے انقلاب کا حجب قاہرہ ، دمشق اور طہران کے شہر خداوند یسوع مسیح کے خدام سے آباد نظر آئیں گئے.حتی کہ صلیب کی چہکار صحرائے عر کیسے سکوت کو چیرتی ہوئی دہاں یعنی مجاز ہیں.نائل بھی پہنچے گی.اس وقت خداد ند یسوع اپنے شاگردوں کے ذریعہ مکہ کے مشہر : خاص کعبہ کے حرم میں داخل ہوگا اور بانی خروہاں اس حق و صداقت کی منادی کی جائے گی کہ ابدی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور یسوع مسیح کو جانیں جسے تو نے بھیجا ہے.لے الفرض عیسائیت کی اس روز افزوں ترقی کو دیکھ کہ اور بلند بانگ دعاوی سنگر اہل اسلام ایک عاجزا اور لاچار انسان کی طرح چیکے بیٹھے تھے کسی میں اتنی بہت اور اتنی سکت نہ تھی کہ وه مرد میدان بن کر باہر نکلتا اور عیسائیت کا مقابلہ کرتا ہم یہ بھی دیکھ آئے ہیں کہ اس دور میں مسلمان دل سے اس بات کے آرزومند اور دعا گو تھے کہ خدا کی طرف سے کوئی پہلوان پیدا ہو جو ه : - بیروز لیکچر زمت :
۲۸ اسلام کو ایک بار پھر پہلی سی شوکت اور عظمت سے ہمکنار کر د سے مسلمان علی الاعلان کہہ رہے تھے کہ عیسائیت اور علوم جدیدہ کے مقابلہ کے لئے اب ہمیں ایک جدید علم کلام کی ضرورت ہے اسلام کی کشتی کو اعتراضات اور حملوں کے منجدھار میں دیکھ کر دردمندان اسلام کے دل بارگاه احدیت میں مدد و نصرت کے لئے ناصیہ فرسا تھے.اور بات خروہ ساعت سعد آگئی جب کسی لئے لاکھوں دل بے تاب اور کروڑوں انسان چشم راه تھے ! قادیان کی گمنام سی بستی سے اللہ تعالیٰ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق، مرزا غلام احمد قادیانی (علیہ الصلوٰۃ والسّلام) کا انتخاب فرمایا اور اسلام کے غلبہ یہ ادیان باطلہ کے لئے آپ کو خلوت ماموریت سے سر فرانہ فرمایا.آپ کا دل شروع ہی سے خدمتِ اسلام کے لیے پناہ جذبہ سے معمور تھا اور اب جبکہ خدا تعالیٰ نے اسلامی غلبہ کی مہم آپ کے ہاتھ میں دینے دی تو آپ نے اس قادر و توانا کے حکم سے اور اسی کی مدد و نصرت پر بھروسہ کرتے ہوئے کشتی اسلام کے پتوار سنبھال لئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جرى الله فى حلل الانبیاء کا عظیم الشان خطاب عطا فرمایا تھا.چنانچہ ایک دنیا نے دیکھا کہ انتہائی ظلمت وضلالت اور یاس د نا امیدی کے دور میں یہی ایک پہلوان تھا جسے اسلام کی عظمت رفتہ کو پھر سے قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا.وہ مسلمان جو عیسائیوں کے آگے مغلوب نظر آتے تھے اور دل چھوڑ بیٹھے تھے ان کو آپ ہی نے تسلی دیتے ہوئے پر شوکت الفاظ میں فرمایا : یقینا سمجھو کہ اس لڑائی میں اسلام کو مغلوب اور عاجہ دشمن کی طرح صلح جوئی کی حاجت نہیں بلکہ نہ مانہ اب اسلام کی یہ دھانی تلوار کا ہے جیسا کہ کسی وقت وہ اپنی طاقت دکھا چکا ہے.یہ پیش گوئی یاد رکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں دشمن ذلت کے ساتھ پسپا ہوگا اور اسلام فتح پائے گا.حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زور اور حملے کریں ، کیسے ہی نئے ہتھیاروں کے ساتھ چڑھ چڑھ کر آئیں مگر انجام کار ان کے لئے ہنر ہمیت ہے " کے نیز آپ نے فرمایا : سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا ه: آئینہ کمالات اسلام ص.حاشیه روحانی خزائن جلده به
۲۹ جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پور سے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے ! اے آپ کے اس پر شوکت اعلان سے ساری دنیا چونک اٹھی حقیقی مسلمانوں کے دل میں خوشی اور مسرت نے جنم لیا.اور عیسائی دنیا پر یہ اعلان ایک آسمانی بجلی کی طرح گرا.-۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے مذہبی دنیا میں ایک نیا نقش ہویدا ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پانسا پلٹ گیا.عیسائی مذہب جو اس سے قبل اسلام کو اپنا شکار سمجھتا تھا اور اس یقین پر قائم تھا کہ مذہب اسلام اب چند دنوں کا مہمان ہے ، خود مغلوب ہو گیا اور اسلام جیسے ایک جسد بے جان خیال کیا جاتا تھا دیگر سب ادیان پر غالب آگیا اور یہ خدائی وعدہ بڑی شان شوکت اور عظمت و جلال کے ساتھ پورا ہوا کہ : یہ هُوَ الَّذِي أَرْسَنَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ على الدين كلمته سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سے اسباب و عوامل تھے جنہوں نے اس قدر قلیل رصہ میں یہ عظیم الشان اور عالمگیر انقلاب پیدا کر کے ساری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ؟ کہ دیا ؟ اس سوال کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ یہ سارا انقلاب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اسی کے اشارہ سے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اندھیری راتوں کی دعاؤں ، آپ کیسے خداداد اور باطل شکن علم کلام ، آپ کی دن رات کی کوششوں اور پاک قومت قدسیہ کے نتیجہ میں رونما ہوا اور سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک خدائی تقدیر تھی جس کا ظہور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہوا! حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کے تمام احکام کی اصولی حکمتیں بیان فرمائیں اور اُن کے برحق ہونے کے عقلی اور نقلی دلائل پیش فرمائے لیکن اس وقت زیر نظر مقالہ میں خاکسار کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ علم کلام بیان کرتا ہے جو آپ نے عیسائیت کے مقابل پہ پیش فرمایا اور جسکے نتیجہ میں عیسائیت کے سبب عقائد کو باطل ثابت کر کے مذہب اسلام کی حقانیت ، برتری اور افضلیت کو ثابت فرمایا.- فتح اسلام حنا روحانی خزائن جلد :: سورة التوبة ، الفتح : الاسلام :
i بعثت کا ایک اہم مقصد صلت ستید نا حضرت مسیح موضور علیہ السلام کا علم کلام بہت وسیع اور ہمہ گیر علم کلام ہے.آپ نے ہندوستان میں موجود ہر مذہب کے روئیں دلائل بیان فرمائے اور سب مذاہب ہی سے کامیاب مقابلہ فرمایا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آپ کی س سے زیادہ توجہ عیسائیت کے رد کی طرف رہی ہے اور ہونا بھی ایسے ہی چاہیئے تھا.کیونکہ عیسائیت ہی اس وقت دیگر سب مذاہب سے بڑھ کر اسلام پر حملہ آور تھی.لیکن اس خاص توجہ بلکہ ہر وقت عیسائی مذہب کے استیصال پر آپ کی توجہ مرکو نہ رہنے کا حقیقی سبب یہ تھا کہ آپ کی بعثت کے مقاصد میں سے سب سے اہم مقصد اسلام کو دیگر سب مذاہب کے مقابل پر سر بلند کرنا تھا جن میں عیسائیت پیش پیش تھی.گویا عیسائیت کا مقابلہ کر کے اسے مغلوب کرنا آپ کی آمد کا سب سے بڑا مقصد تھا.آپ فرماتے ہیں :- ہمارا سب سے بڑا کام تو ہے " لے حدیث نبوی میں مسیح موعود کی بعثت کی غرض یوں بیان کی گئی ہے :- - " يكسر الصليب ويقتل الخنزير له یعنی مسیح موعود کے آنے کی غرض یہ ہوگی کہ وہ صلیب کو توڑ دے اور خنزیروں کو قتل کر ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ اعلان فرمایا ہے کہ خدا نے اپنے وعدہ کے مطابق مسیح موعود کو اس امت محمدیہ میں سے پیدا کر دیا ہے اور اس کی آنے کا یہی مقصد ہے کہ صحیح معنوں میں کسیر صلیب ہو جائے.آپ نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ زمانے بھی نوبت به نوبت آتے ہیں اور یہ زمانہ جو مسیح موعود کا زمانہ ہے کسیر صلیب کا نہ مانہ ہے.آپ فرماتے ہیں : " نہ مانہ میں خدا نے تو بتیں رکھتی ہیں.ایک وہ وقت تھا کہ خدا کے سچے مسیح کو صلیب نے توڑا اور اس کو زخمی کیا تھا اور آخری زمانہ میں یہ متقد یہ تھا کہ بر تاته مسیح صلیب کو توڑ سے گا.یعنی آسمانی نشانوں سے کفارہ کے عقیدہ کو دنیا - اُٹھا دے گا.عوض معارضہ گلہ ندارد" کے ۲۵ : ملفوظات جلد پنجم مش است - بخاری باب نزد عیسی بن مریم علیه السلام : حقیقت الومی ۲۳
اسلام پھر آپ نے یہ بھی اعلان فرمایا کہ یقیناً سمجھو کہ یہ زمانہ کسیر صلیب کا ہے اور اب آسمان پر یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ صلیب کو توڑ دیا جائے.آپ فرماتے ہیں :- کا وقت آگیا یعنی وہ وقت کر صلیبی عقائد کی غلطی کو ایسی صفائی سے ظاہر کہ دینا جیسا کہ ایک مکڑی کو ڈڈ ٹکڑے کر دیا جائے " لے پھر اسی ضمن میں آپ تحریہ فرماتے ہیں :- در نہ اپنی مذہب بھی ایک پھوڑا ہے جو اندر پیپ سے بھرا ہوا ہے اسلئے باہر سے چلتا ہے.بنگہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ ٹوٹ جا دے اور اس کی اندرونی غلاظت ظاہر ہو جاو سے " شاہ کو نیز فرمایا : اس بات کی کس کو خبر نہیں کہ دنیا میں اس زمانہ میں ایک ہی فتنہ ہے جو کمال کو پہنچ گیا ہے اور اہلی تعلیم کا سخت مخالف ہے یعنی کفارہ اور کی تعلیم حبس کو صلیبی فتنہ کے نام سے موسوم کرنا چاہئیے ، کیونکہ کفارہ اور تثلیث کے تمام اغراض صلیب کے ساتھ والبتہ ہیں.سو خدا تعالیٰ نے آسمان پر سے دیکھا کہ یہ فتنہ بہت بڑھ گیا ہے اور یہ زمانہ اس فتنہ کے تموج اور طوفان کا زمانہ ہے.پس خدا نے اپنے وعدہ کے موافق چاہا کہ اس صلیبی فتنہ کو پارہ پارہ کر سے " سد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے چودھویں صدی ہجری کا مجددا در رسول بنا کر دنیا میں بھیجا ہے.چودھویں صدی میں چونکہ مسیحی مذہب کا زور تھا اس لئے آپ نے استدلال فرمایا ہے کہ چودھویں صدی کے مجدد عینی مسیح موعود کا کام یہ ہے کہ وہ اس صلیبی فتنہ کا استیصال کی ہے.آپ فرماتے ہیں:." عیسائیوں کا ختنہ ان الفتن ہے اس لئے چودھویں صدی کے مجدد کا کام یکسر الصلیب ہے ".نیز فرمایا : مسیح ہندوستان میں من بلد 12 :- ملفوظات جلد سوم من : ه: - انجام آتھم ص (جلد 1) ه : ملفوظات جلد اول خدا : ppl
خدا تعالیٰ کی غیرت اور رحمت نے چاہا کہ صلیبی عقیدہ کے زہرناک اثر سے لوگوں کو بچاوے اور جس دجالیت سے انسان کو خدا بنایا گیا ہے.اس دقائیت کے پر دے کھول دیو سے اور چونکہ چودھویں صدی کے شروع تک یہ بلا کمال تک پہنچ گئی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ کے فضل اور عنایت نے چاہا کہ 4+.چودھویں صدی کا مجدد کرنے والا ہو.کیونکہ مجرد بطور طبیب کے ہے اور طبیب کا کام یہی ہے کہ جس بیماری کا غلبہ ہو اس بیماری کی طرفف توجہ کر سے.پس اگر یہ بات صحیح ہے کہ مسیح موعود کا کام ہے تو یہ دوسری بات بھی صحیح ہے کہ چودھویں صدی کا مجدد جس کا فرض کسیر صلیب ہے مسیح موعود ہے یا کہ ان حوالہ جات سے واضح ہوتا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد ہے.آپ نے اس بات کو اپنی کتب میں بار بار مختلف پیرا یہ میں اور بڑی تحدی کے ساتھ رایہ بیان فرمایا ہے.آپ نے بڑے وثوق اور یقین کے ساتھ اس امر کا اعلان فرمایا کہ اب خدا نے اپنی تقدیر نافذ کرنے کے لئے اپنے مسیح موعود کو بھیج دیا ہے.اب زمین کا کام نہیں کہ وہ اس فیصلہ کو قبول کرنے سے انکار کرتے جو آسمان پر ہو چکا ہے.پھر آپ نے ببانگ دیل اعلان فرمایا کہ : اک بڑی مدت سے دین کو کفر تھا کھاتا رہا اب یقیں سمجھو کہ آئے کفر کو کھانے کے دن اپنے مقصد بعثت کو وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- " یہ عاجد السلیسی شوکت کے توڑنے کے لئے مامور ہے.یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس خدمت پر مقرر کیا گیا ہے کہ جو مجھ عیسائی پادریوں نے کفارہ اور تثلیث کے باطل مسائل کو دنیا سی پھیلایا ہے اور خدائے واحد لاشریک کی کسریشان کی ہے یہ تمام فتنہ سچے دلائل اور روشن براہین اور پاک نشانوں کے ذریعہ سے فرد کیا جائے " له : كتاب البريد ه ۲۰۵٤٣٠٣ حاشیه - روحانی خزائن جلد ۱۳ :: البه -1 - انجام اعظم ص - روحانی خزائن جلد اا :
ساسم پھر آپ نے تحدی فرمائی ہے کہ یہ بہر حال ہو کر رہے گی اور دنیا کی کوئی طاقت اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی.آپ نے فرمایا :." مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کہ دیا جائے سوئیں صلیب کے توڑنے اور خنزیروں کے قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں میں آسمان سے اترا ہوں ان پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے جن کو میرا خُدا جو میرے ساتھ ہے میرے کام کے پورا کرنے کے لئے ہر ایک مستعد دل میں داخل کر لے گا.بلکہ کر رہا ہے اور اگر میں چپ بھی رہوں اور.میری قلم لکھنے سے رکھی بھی رہے تب کیسی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اُتمہ سے ہیں اپنا کام بند نہیں کر سکتے اور ان کے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جو صلیب توڑنے اور مخلوق پرستی کی ہیکل کے کچلنے کے لئے دیئے گئے ہیں جاتے نیز فرمایا : اب وقت آگیا ہے کہ انسان پرستی کا شہتیر ٹوٹ جا د ہے " سے پر الغرض آپ نے خدا سے خبر پا کہ یہ اعلان فرما دیا کہ اب کسیر صلیب بہر صورت ہو کہ رہے گی.نیز یہ بھی فرمایا کہ یہ ایسی کا مل اور مستقل ہوگی کہ پھر اس صلیب کے دوبارہ جڑنے اور اس مذہب کے دوبارہ غالب آنے کا کبھی سوال بھی پیدا نہ ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کس شان اور یقین سے فرماتے ہیں : - اس نے اپنے اس مسیح کو بھیجاتا وہ دلائل کے حدیہ سے اس صلیب کو توڑے جنسی حضرت عیسی علیہ السلام کے بدن کو توڑا تھا اور زخمی کیا تھا.مگر جس وقت حضرت مسیح کا بدین صلیب کی کیلوں سے توڑا گیا اس زخم اور شکست کے لیئے تو خدا تے مرہم عیسی تیا ر کر دی تھی جس سے چند ہفتوں میں ہی حضرت عیسی شفا پا کر اس ظالم ملک سے ہجرت کر کے کشمیر جنت نظیر کی طرف چلے آئے لیکن اس سلیب کا توڑنا جو اس پاک بدن کے عوض میں توڑا جائے گا جیسا کہ صحیح بخاری میں ذکر ہے ایسا نہیں ہے جیسا کہ مسیح کا مبارک بدن صلیب پھر توڑا گیا جو آخر مرہم عیسی کے استعمال سے اچھا ہو گیا بلکہ اسی لئے کوئی بھی ه : فتح اسلام حاشیه ص (جلد ۳) : : - ملفوظات جلد پنجم ملا ؟
مرہم نہیں جب تک کہ عدالت کا دن آئے.یہ خُدا کا کام ہے جو اس نے اپنا ارادہ اس نہایت عاجہ بندہ کے ذریعہ سے پورا کیا " لط اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے نہ صرف آپ کو کسیر صلیب کے لئے مبعوث فرمایا بلکہ ابدالا یا تک کے لئے اس مذہب کا استیصال کرنا آپ کا مشن تھا.اس مشن کے پورا کر نے کے لئے جس جوش اتو جہ اور مسلسل جدو جہد کی ضرورت تھی وہ بھی آپ کو خط کی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی پر نظر کر نے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ساری توجہ اس مذہب کے استیصال کی طرف لگی ہوئی سختی اور اس مقصد کے حصوں کے لئے آپ کے دل میں بے پناہ جذبہ اور جوش پایا جاتا تھا.آپ فرماتے ہیں : کے لئے جس قدر جوش خدا نے مجھے دیا ہے اس کا کسی دوسرے کو علم نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ نے مجھے وہ جوش کے لئے دیا ہے کہ دنیا میں اس وقت کسی اور کو نہیں دیا گیا " " " نیز فرمایا : میں سے کہتا ہوں کہ میرے لئے اگر کوئی غم ہے تو یہی ہے کہ نوع انسان کو اس ظلم صریح سے بچائیں کہ وہ ایک عاجز انسان کو خدا بنانے میں مبتلا ہورہی نظم ہے اور اس سچے اور حقیقی خُدا کے سامنے ان کو پہنچاؤں جو قادر اور مقتدر خدا ہے " سے سے مراد اس موقع پر اس بات کی وضاحت کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کسیر صلیب سے کیا مراد ہے ؟ یادر ہے کہ ان الفاظ کے لفظی معنے تو صلیب کو توڑنے کے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسیح موعود ان لکڑی یا لوہے کی صلیدیوں کو توڑتا پھر سے گا جو گرجا گھروں کے اوپر لگی ہوتی ہیں کیونکہ ایسا کہ نا تو ایک بے معنی ، لیے فائدہ اور لغو کام ہے اور انبیاء کی شان اس سے بہت بالا ہوتی ہے.ד … - ل : تریاق القلوب مثل 12 :- ملفوظات جلد ششم مش۲۳ صنه (هلده)) : ملفوظات جلد پنجم مه جلد
۳۵ پس حقیقی معنے یہی ہیں کہ مسیح موعود اس مذہب اور اس کے عقائد کو باطل ثابت کہ سے گا جس کا ظاہری نشان صلیب ہے گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسیح موعود عیسائی مذہب کا ایسا کامیاب مقابلہ کر سے گا کہ اس کو باطل ثابت کر دے گا کے یہ معنے گذشتہ علماء نے بھی کئے ہیں.چنانچہ مرقاۃ شرح مشکواۃ کے صفحہ ۲۲۱ پر کسی صلیہ کے معنے.لکھے ہیں :- اي فيبطل النصرانية " یعنی وہ نصرانی مذہب (عیسائیت کو باطل ثابت کر دے گا.اور بھی بہت سے علماء نے یہ معنے کئے ہیں.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی سے یہی مراد لی ہے کہ سیح موعود عیسائیت کے جملہ عقائد کا ایسا کامیاب رد کرہ سے گا کہ یہ مذہب بحیثیت مجموعی باطل اور بے حقیقت ہو کر رہ جائے گا.آپ فرماتے ہیں :- ( 1 ) کسیر صلیب کا جو لفظ حدیثیوں میں آیا ہے وہ بطور مجاز استعمال کیا گیا ہے اور اسے مراد کوئی جنگ یا دینی لڑائی اور در حقیقت صلیب کا توڑنا نہیں ہے اور جس شخص نے ایسا خیال کیا اریتمی خطا کی ہے بلکہ اس لفظ سے مراد عیسائی مذہب پر حجت پوری کرنا اور دلائل واضح کے ساتھ صلیب کی نشان کو توڑتا ہے یا اے (٣) " حدثیوں میں جو ہے کہ مسیح موعود صلیب کو توڑے گا اس سے مطلب نہیں ا کہ وہ در حقیقت صلیب کی صورت کو توڑے گا بلکہ یہ مطلب ہے کہ وہ ایسے لائل اور براہین ظاہر کرے گا جن سے میسی اصول کی غلطیاں ظاہر ہو جائیں گی.دانش مند لوگ اس مذہب کا کذب یقین کر لیں گئے ؟ لے ار (1) - مسیح موعود کی بعثت کا وقت غلبہ سلیب کے وقت ٹھہرایا گیا ہے اور وہ صلیب کو توڑنے کے لئے آئے گا.اب مطلب صاف ہے کہ مسیح موعود کی ے: نجم الہدی حاشیہ مثه (جلد ۱۳) که :- ایام الصلح من (جلد ۱۴) به
+4 } آمد کی غرض عیسوی دین کا ابطال کلی ہو گا اور وہ حجت اور براہین کے ساتھ جن کو آسمانی تائیدات اور خوارق اور بھی قومی کر دیں گے.اس صلیب پرستی کے مذہب کو باطل کر کے دکھا دے گا اور اس کا باطل ہونا دنیا پہ روشن ہو جائے گا اور لاکھوں روحیں اعتراف کریں گی کہ فی الحقیقت عیسائی دین انسان کے لئے رحمت کا باعث نہیں ہو سکتا.یہی وجہ ہے کہ ہماری ساری توجہ اس صلیب کی طرف لگی ہوئی ہے.کہ اسم مسیح موعود کے وقت میں خدا کے ارادہ سے ایسے اسباب پیدا ہو جائیں گئے جن کے ذریعہ سے صلیبی واقعہ کی اصل حقیقت کھل جائے گی.تب انجام ہوگا اور اس عقیدہ کی شہر و پری ہو جائے گی " سے (۵) ++ ہ صلیہ کے توڑنے سے مراد کوئی ظاہری جنگ نہیں بلکہ دھانی طور پر صلیبی مذہب کا توڑ دینا اور اس کا بطلان ثابت کر کے دکھا دینا مراد ہے اس (4) یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ صحیح بخاری میں آنے والے مسیح کی نسبت جو سکھا ہے كه يكسر الصليب ويقتل الخنزیر یعنی وہ صلیبیوں کو توڑے گا اور خنزیروں کو قتل کرے گا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جنگلوں میں.چوہڑوں اور چماروں کی طرح شکار کھیلتا پھر سے گا اور گر ہوں پر چڑھ کر صلیبیں توڑتا پھرے گا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ خنزیہ نجاست کھانے والے کو کہتے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ نجاست جانوروں کی ہی ہو بلکہ جھوٹ اور دروغ کی جو نجاست ہے وہ سر سے گندی اور بد بو دار نجاست ہے اسلئے ایسے لوگوں کا جو ہر وقت جھوٹ اور فرید سے دنیا کو گمراہ کرتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے خنز یہ نام رکھا ہے اور یہ جو فرمایا یکسر الصلیب تو اس کے یہ معنے نہیں کہ مسیح جب، اُدے گا تو پتھر + ه: مسیح ہندوستان میں صف (جلده )) : :- ملفوظات جلد چهارم مثل 1 : : توضیح مرام صده (جلد ۳) :
۳۷ تا ہے اور لکڑی وغیرہ کی صلیبوں کو جو پیسے پیسے پر فروخت ہوتی ہیں توڑتا پھرے گا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میلسی مذہب کی بنیاد کو توڑے گا ہے 4+ (<) " صلیب کیسے توڑنے سے یہ سمجھنا کہ صلیب کی لکڑی یا سونے چاندی کی صلیبیں توڑی جائیں گی.یہ سخت غلطی ہے اس قسم کی صلیبیں تو ہمیشہ اسلامی جنگوں میں ٹوٹتی رہی ہیں بلکہ اسے مطلب یہ ہے کہ مسیح موعود صلیبی عقیدہ کو توڑ دے گا اور بعد اس کے دنیا میں صلیبی عقیدہ کا نشو و نما نہیں ہوگا.ایسا ٹوٹے گا کہ پھر قیامت تک اس کا پیوند نہیں ہوگا " ۵۲ کسیر صلیب کے ضمن میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اسی ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ مسیح موعود کی آمد کے بعد دنیا میں کوئی عیسائی باقی نہ رہے گا.کسیر ملی ہے صرف یہ مراد ہے کہ عیسائیت مغلوب ہو جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسیر صلیب سر صلیب کے حقیقی مفہوم کے ذکر میں فرماتے ہیں : - " یہ خیال بھی غلط ہے کہ کوئی عیسائی دنیا میں نہ رہے گا.اسلام ہی اسلام ہوگا جبکہ خدا تعالیٰ خود قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ ان کا وجود قیامت تک رہے گا.مطلب یہ ہے کہ نصاریٰ کا مذہب ہلاک ہو گا اور عیسائیت نے جو عظمت دلوں پر حاصل کی ہے وہ نہ رہے گی ی" سے br اس جگہ یہ ذکر کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ احادیث میں مسیح موعود کو کاسمیر سلیب قرار دیا گیا ہے اور اس کا کام کسر سلیب بیان کیا گیا ہے.لیکن یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ کسیر صلیب کا عظیم الشان کام کسی ایک فرد کا کام نہیں.نہ ایک فرد کی طاقت میں ہے کہ وہ اتنا عظیم الشان کام سرانجام دے سکے.یہ کام تو خدا تعالیٰ کا ہے اور دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے یا ہو گا اسی کے حکم سے ہوگا.پس اگر کسیر صلیب کے حقیقی مفہوم کو مد نظر رکھا جائے تو اصل بات یہ نظر آتی ہے کہ اس زمانہ میں صلیب کو توڑہ نا ایک خدائی فیصلہ ہے اور خدا خود کا سر صلیب ہے.حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے :- ہے :- ملفوظات جلد دہم 04-00 ه: ملفوظات جلد ششم ۲۱۵ حقیقة الوحی ص ۳۲.روحانی خزائن جلد ۲۲ :
مرسم کی در حقیقت صلیب کا کا سر مسیح موعود نہ ہو گا بلکہ خود خدا ہو گا.اے نیز فرمایا :- یہ کس برای اعزازہ اور اکرانا مین موضونہ کی طرف منسوب کی جاتی ہے وہ نہ کرتا تو سب محمود تارا ہے.یہ.܂ ظاہر ہے کہ سب خُدا کا کام ہے اور حقیقت میں مندا خود کا سر صلیب ہے تو دنیا کی کیا مجال ہے کہ وہ صلیب کو نہ ٹوٹنے دے.یہ صیب فرز ر ٹوٹے گی اور پاکشش پاکش ہوگی اور ایسی میری طرح ٹوٹے گی کہ پھر دوبارہ جڑنے کی کوئی تصور نشہ نہ ہو گئی.مسرت میں موجود علیہ السلام کے متقدب الفاظ ہیں :- در مسیح موعود صلیبی عقیدہ کو توڑ دے گا اور بعد اس کے دنیا میں تمہیں عقیدہ کا نشود نما نہیں ہوگا.ایسا ٹوٹے گا کہ پھر قیامت تک اس کا پیوند نہیں ہوگانہ سے اگر یہ سوال ہو کہ یہ کسی سیب کسی طرح اور کن ذرائع سے ہو گی تو اس کا جواب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں ملتا ہے.آپ فرماتے ہیں :- انزل مسيحه المومحمود ليكسر صليب الأعداء وان هذا الكسر ليس بسيف ولا سنادي كما زعماء فريق من عميان بل لكسر كله بدلیل و برهان دآيات من السماء وسلطان" ۳ یعنی اللہ تعالٰی نے اپنے مسیح موعود کو اس غرض سے بھیجا ہے کہ وہ دشمنوں کی صیب کہ توڑ دے.یقیناً یا د رکن کہ یہ کہ صلیب تلوار یا تیروں کے ذریعہ نہیں ہوگی جیسے کہ بعض نادان خیال کرتے ہیں.بلکہ یہ ساری دلیل ، برهان آسمانی نشانات اور روحانی غلبہ کے ذریعہ ہوگی.نیز رفته با با فرمایا: M به پیشین گوئی میں یہی اشارہ تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں خدا کے ارادہ اسباب پیدا ہو جائیں گے جن کے ذریعہ سے صلیبی واقعہ کی اصل حقیقت کھل بنائے گی نیب انجام ہوگا اور اس عقیدہ کی عمر و پری ہو جائے گی.لیکن نہ کسی تب نه ملفوظات جلد ششم صدا : : ملفوظات جلد پنجم متن - ۱۳ حقیقة الوحی ص ۳۲ درمانی خزائن جلد ۲۳ که : - تجة النور من ١٢ روحانی خزائن جلد ۱۶) : س:
4 جنگ اور لڑائی سے بلکہ محض آسمانی اسبا سے جو علمی اور استدلالی رنگ میں دنیا میں ظاہر ہوں گے.یہی مفہوم اس حدیث کا ہے جو صحیح بخاری اور دوسری کتابوں میں درج ہے کیا ہے.پھر اس ضمن میں فرماتے ہیں :- " طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسیح موعود کو کیونکہ اور کن وسائل سے کسیر صلیب کرنا چاہیئے ؟......اس کا جواب یہ ہے کہ.....مسیح موعود کا نصب......یہ ہے کہ حجج عقلیہ اور آیات سماویہ اور دعا سے اس فتنہ کو کو فرد کر ہے.یہ تین ہم تیار خدا تعالیٰ نے اس کو دیئے ہیں اور تینوں میں ایسی اعجازی قوت رکھی ہے جس میں اس کا غیر ہر گنہ اس سے مقابلہ نہیں کر سکے گا.آخر اسی طور سے صلیب توڑا جائے گا.یہانتک کہ ہر ایک محقق نظر سے اس کی عظمت اور بزرگی جاتی رہے گی اور رفتہ رفتہ توحید قبول کرنے کے وسیع دروازہ سے کھلیں گے.یہ سب کچھ تدریجا ہوگا کیونکہ خدا تعالے کے سارہ سے کام تدریجی ہیں کچھ ہماری حیات میں اور کچھ بعد میں ہوگا " سے : مسیح ہندوستان میں صف - روحانی خزائن جلد ها : سد : كتاب البرية من جلد ۱۳
i حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کا علم کلام گذشتہ صفحات میں ہم نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عظیم الشان مشن کسیر ملیب اور اس کی تفصیلات کا جائزہ لیا.جہاں تک حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے اس علم کلام کا تعلق ہے جو عیسائیت کے رد میں ہے اس کا مرکزی نقط کسی مصیب ہے حضور علیہ السلام کی ساری توجہ اور جدوجہد اسی مرکزی نقطہ پر مرکو نہ رہی.آپ کے سوانح حیات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی عمر کے ابتدائی ایام میں بھی حضور کو عیسائیت کے خلاف ایک زیر دست جوش عطا ہوا تھا.آپ عیسائیوں سے تبادلہ خیالات کرتے اور اسلام کی تائید میں زبانی اور تحریری طور پر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا کر تے تھے.آپ نے فرمایا ہے :- ائیں پندرہ برس کا تھا جب سے ان (عیسائیوں.ناقل ) کے اور میرے درمیان مباحثات شروع ہیں " کے ملفوظات جلد دہم میں آپ کی زندگی کی آخری تقریر درج ہے اس میں بھی آپ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کا ذکر فرمایا ہے.اسی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ساری کی ساری زندگی کسیر صدی کے عظیم الشان مشن کی تکمیل کے لئے وقف تھی اور سچ تو یہ ہے کہ خدا کے اس برگزیده مسیح نے اخدا کی ہزار ہزار رحمتی اور برکتیں نازل ہوں اس مقدس وجود پر عیسائیت کے خلاف ایسا فقید المثال جہاد کیا کہ اس مذہب کا سارا تارو پود بکھیر کر رکھ دیا.آپ نے عیسائیت کے باطل عقائد پر ایسے کاری وارہ کئے کہ عیسائیت اس ضرب کلیمی کی تاب نہ لاکمہ اب اس دنیا سے رخصت ہو رہی ہے اور وہ دن قریب نظر آتے ہیں جب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیدا کردہ علم کلام کے نتیجہ میں سعید فطرت لوگ عیسائیت کو تیاگ کہ اسلام اور احمدیت کے عافیت بخش مسالوں میں جگہ تلاش کریں گے.بقوم محترم ملک عبدالرحمن صاحب خادم خالد احمدیت وہ منظر کسی قدر خادم مسرت آفرین ہوگا زمانے پر مسلط جب مرے آقا کا دیں ہوگا شه : ملفوظات جلد سوم هنا :
، سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عیسائیت کے خلاف علم کلام اتنا عظیم الشان ، اتنا وسیع اور اتنا بیش قیمت ہے کہ میں اپنے قلم میں اس بات کی طاقت نہیں پاتا کہ اپنے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کے محاسن کا احاطہ کر سکوں جن کو خدائے ذو العرش نے کے سلطان العلم کے آسمانی خطاب سے نوازا ہو اور جن کے فلم معارف رقم کو ذو الفقار علی قرار دیا گیا ہو ! حضور کے زمانہ میں دشمن تلوار کی بجائے قلم سے کر حملہ آور ہوا تھا.چنانچہ آپ نے سنت ابنیاء کے مطابق اسی حربے سے دشمنوں کا جواب دیا جو انہوں نے اختیار کیا تھا.آپ نے اپنے قلم کو جنبش دی اور آپ کے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ سے وہ عظیم الشان انقلاب آخرین لٹریچر پیدا ہوا جنسی مذہبی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا اور دنیا ایک نئے رنگ میں آگئی.یہ وہ تبدیلی تھی جو توار کے ذریعہ کبھی تصور میں نہ آسکتی تھی.آپ فرماتے ہیں.صفیہ دشمن کو کیا ہم نے بحجبت پامال 3+ سیف کا کام قسلم سے ہے دکھایا ہم نے پھر اسی ضمن میں فرماتے ہیں :- "میں نے قصد کیا ہے کہ اب قلم اُٹھا کر پھر اس کو اس وقت تک موقوف نہ رکھا جائے جب تک کہ خدا تعالٰی اندرونی اور بیرونی مخالفوں پر کامل طور پر محبت پوری کر کے حقیقیت نیسویہ کے حربہ سے حقیقت دجالیہ کو پاش پاش نہ کرے.لے نیز هنر بایا : اس وقت جو ضرورت ہے وہ یقینا سمجھ لو جیف کی نہیں بلکہ قلم کی ہے.ہمارے مخالفین نے اسلام پر جو شبہات وارد کئے ہیں اور مختلف سائنسوں اور مکاید کی رو سے اللہ تعالیٰ کے سچے مذہب پر حملہ کرنا چاہا ہے انہی تجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ بہن کہ اس سائنس اور علمی ترقی کے میدان کار زار میں اتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کر شہمہ بھی دکھلاؤں.میں کب اس میدان کے قابل ہو سکتا تھا.یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ہے اور اس کی ہے جد عنایت ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ میرے جیسے عاجز انسان کے ہاتھ سے اس کے دین کی عزت ظاہر ہوا سے ه ) : نشان آسمانی مثه زیر عنوان ضروری گذارش (جلد) له : ملفوظات جلد اول مره.
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ یہ نہمانہ قلم کے جہاد کا تھا چنانچہ مامور زمانہ حضرت پیچ مود علیہ السلام نے اسی ذریعہ کو اختیار فرمایا اور اس میدان میں دو عظیم الشان کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے جن کی عظمت اور افادیت پر ایک دنیا گواہ ہے.اس جگہ موقع نہیں کہ میں تفصیل میں جاسکوں اور ان بیانات کا ذکر کر سکوں جو انصاف پسند غیر احمدیوں اور غیر مسلموں نے اس بارہ میں دیتے ہیں.صرف نمونہ کے طور پر ہیں دو حوالے یور سے اختصار کے ساتھ اس جگہ ذکر کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر اخبار گوزن گزرٹ کے ایڈیٹر مرزا خیرت دہلوی نے لکھنا :- " مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس تی آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کے مستحق ہیں.اس نے.....ایک جدید ٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی.نہ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول یہ سکتا اگر چه مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہندیں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں.....اس کا پیر نہ دو لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے ؟ اہ اخبار وکیل امرتسر کے ایڈیٹر نے لکھا :- دو..ندور مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی + تعارف کا محتاج نہیں لے یہ دو حوا لے جو بطور نمونہ رکھے گئے ہیں اور اس قسم کے متعد د حوالے ملتے ہیں اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ آپ کے قلم نے مذہبی دنیا کو قیامت تک اپنا نہ پر احسان بنا دیا.پھر اس جدید علم کلام کی مقبولیت اور افادیت کا انداندہ اس امر سے بھی ہو سکتا ہے کہ آج جماعت احمدیہ کے شدید معاندین بھی عیسائیت کے مقابلہ کے لئے حضور کے پیش کردہ علم کلام کا سہارا لیتے کیر زن گزٹ یکم جون منشاء بحوالہ سلسلہ احمدیه ما سه سیجواله سلسله احمدیه منشا به
۴۳ ہیں.چنانچہ عیسائیوں نے اپنی تصانیف میں اس بات کا واضح اقرار کیا ہے.پادری ایل بیون جو نہ اپنی کتاب " مسیحی دین کا بیان میں اس کتاب کے بارہ میں لکھتے ہیں :- " اس میں قرآن اور احمدی فرقہ کی تعلیم کا ذکر بار بار آیا ہے اور اس کی خاص وجہ...ہے......احمد می دعاوی اور دلائل اس کتاب میں اس لئے لکھے گئے ہیں کہ راسخ الاعتقاد گروہ اگر چہ احمدی فرقہ کی تعلیم کا تو قائل نہیں ہے چه تو بھی ان کا استعمال کرتا ہے " اے والفضل ما شهدت به الاعداء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی خومیوں اور خصائص کو بیان کو نا کوئی آسان کام نہیں ہے کچھ خوبیاں ایسی ہیں جن کو جاننے کے باوجود د اختصار کے پیش نظر ، قلم بیان کرنے سے قاصر ہے اور اس خداداد علم کلام کی کچھ خو بیاں ایسی ہیں جن کے صحیح ادراک سے میری فکر کوتاہ اور عاجز ہے.پس کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ مامویہ زمانہ کا سر صلیب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی سب خوبیوں کو اس جگہ بیان کر سکوں پھر اس راہ میں حضور کے علم کلام کی وسعت بھی حائل ہے.حضور عیسائیت کے رد میں اپنے علم کلام کے بارہ میں کی فرماتے ہیں: " عیسائی مذہب کے استیصال کے لئے ہمارہ سے پاس تو ایک دریا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ برطلسم ٹوٹ جاد سے اور وہ بہت جو صلیب کا بنایا گیا ہے گھر پر ہے.پس اس قدر وسیع اور عالمگیر علم کلام کا تجربہ اور اس کی محاسن کا بیان ان مختصر را در محدود صفحات میں کیسے ہو سکتا ہے.جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی کیفیت اور قوت کا تعلق ہے یوں سمجھنا چاہیئے کہ آپ کا علم کلام عیسائی عقائد کے حق میں ایک آسمانی پھلی کی مانند ہے جب تھی سب کے سب عقائد کے شیش محل کو ایندہ یہ یزہ کر دیا ہے اور اس علیم کلام کی ضرب حیدری نے عیسائیت کے طلسم کو باطل کر کے رکھ دیا ہے.آپ خود فرماتے ہیں:- ہما ر سے اصول عیسائیوں پر ایسے پتھر ہیں کہ وہ انکا ہر گز جواب نہیں دے سکتے سے یہ بیان کوئی یکطرفہ دعوی یا خوش فہمی کا اظہار نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ میدان مقابلہ میں اترنا تو بہت بڑی بات ہے آج اس علم کلام کی بدولت یہ کیفیت ہو گئی ے مسیحی دین کا بیان ص : ه:- ملفوظات جلد سوم ما به ه - ملفوظات جلد نہم من :
۴۴ ہے کہ جہاں ایک طرف عیسائی مذاہب کے عقائد کا بطلان ثابت ہو چکا ہے وہاں اس عظیم علم کلام کا ایسا رعب عیسائی پادریوں کے دلوں پر طاری ہو چکا ہے کہ کوئی عیسائی حتی کہ کوئی پادری بھی اب حضرت کا سر صلیب کے ادنی غلاموں سے بات کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا کوئی عیسائی اس بات کو تسلیم کر سے یا نہ کرے لیکن حقیقت یہی ہے کہ حضرت مسیح موجود علیہ السلام کے عیسائیت کے خلاف علم کلام نے عیسائی مذہب کی صنف پیٹ دی ہے.اسکی پہلی سی شان و شوکت جاتی رہی ہے.اسی کی عمارت کی بنیا دیں کھوکھلی ہو چکی ہیں اور وہ دن دور نہیں جب اس مردہ کو مردہ مذاہب کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا جائیگا.قضائے آسمان است این بہر حالت شور پیدا حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ اپنی کتاب میں حضرت مسیح موجود یہ السلام کے علم کلام کے نتائج اور عیسائیت کے انجام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- و آپ نے اسلام کی حفاظت اور اسکی تائید میں اس قدر کوشش کی کہ آخر دشمنان اسلام کو تسلیم کر نا پڑا کہ اسلام مردہ نہیں بلکہ زندہ مذہب ہے، اور ان کو فکر پڑ گئی کہ ہمار سے مذاہب اسلام کے مقابلہ میں کیونکر ٹھہریں گے اور اس وقت اس مذہب (یعنی عیسائیت ناقل کو جو سب سے زیادہ اپنی کامیابی پر اقرارہا تھا اور اسلام کو اپنا شکارہ سمجھ رہا تھا یہ حالت ہے کہ اس کی مبلغ حضرت اقدس کے خدام سے اس طرح بھاگتے ہیں جس طرح گرتے شیروں سے بھاگتے ہیں اور کسی میں یہ طاقت نہیں کہ وہ احمدی کے مقابلے پر کھڑا ہو جائے.اس میں کوئی شک نہیں کہ مسیحیت گو ابھی اسی طرح دنیا کو گھیر سے ہوئے دنیا ہے جس طرح پہلے تھی اور دیگر ادیان بھی اسی طرح قائم ہیں جس طرح پہلے تھے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی موت کی گھنٹی بج چکی ہے اور ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے...حضرت اقدس نے ان (مذاہب ناقل) پر ایسا دار گیا کہ اسکی زد سے وہ جانبر نہیں ہو سکتے اور جلد یا بدیہ ایک مردہ ڈھیر کی طرح اسلام کے قدموں پر گریں گے کہ اے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے دنیا میں ایک نئے علم کلام کا آغا نہ ہوا - : دعوة الامير ط
دم جو اپنی نظیر آپ ہے.اس خداداد علم کلام کے باقی خود کا سر صلیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں.آپ نے اپنی حیات مستعار ہیں.۸ سے زائد بے مثال کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے تقریبا ہر کتاب میں عیسائیت کے دردمیں بالواسطہ یا بلا واسطہ مواد موجود ہے اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ آقائے نامدار، تاجدار بطحاء، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کا میر صلیب کا لقب عطا فرمایا.حق یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزہ تداور عاشق صادق اور اسلام کے فتح نصیب جرنیل نے اس لقب کا پورا پورا حق ادا کر دیا.اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس کام کے لئے وقف کر دیا اور ساری قوتیں اس راہ میں صرف کہ ڈالیں.ہاں یہ اسلامی فوجوں کا دہی سپہ سالار ہے جو ساری عمر اسلام کی خدمت پر کمربستہ رہا اور عیسائیت کے دجل کے خلاف نبرد آزما.یہی وہ روحانی پہلوان ہے دینی روحانیت کے میدان میں ایک نیسائیت کو نہیں بلکہ ساری دنیا کے باطل مذاہب کو ایسا سر نگوں کیا ہے کہ قیامت تک کسی مذہب میں یہ ہمت نہیں رہی کہ اسلام کے مقابل پہ فخر سے اپنا سر بھی اُونچا کر سکے.ہاں یہ وہی بطل جلیل ہے جس کی ساری توجہ عیسائیت کے خلاف مرکوزہ رہی اور وہ ہر دم اس فکر میں رہا کہ کسی طرح عیسائیت کا اندھیرا دور ہو اور اسلام کا آفتاب عالمتاب اپنی ضوفشانی سے تاریک دلوں کو منور کر سے.یہی مسیحائے زمان اور مہدی دوراں ہے رنجی بار بار عیسائیوں کو حق کی طرف بلایا اور پیڑ سے درد بھر سے دل کے ساتھ کہا.آؤ عیسائیو! ادھر آؤ نور حق دیکھو راه حق یاد صرف اسی پریس نہیں بلکہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیت کو سرنگوں کرنے کے لئے ہر ممکن طریق اختیار فرمایا.ایک طرف عیسائیت کے غلط عقائد کا لبطلان ثابت کیا تو دوسری طرف عیسائیت کے ماننے والوں کو نشان نمائی کے میدان میں عاجبتہ اور لاچار کر دیا.آپ نے ہر پادری کو اور ہر عیسائی کو مقابلہ کی دیعوت دی اور اس طرح پیر ان پر اتمام حبت کر دی کہ اب یہ مذہب اس قابل ہی نہیں رہے کہ اس کے ماننے والے اس پر فخر کر سکیں اور دوسروں کو اس کی طرف دعوت دے سکیں.آپ فرماتے ہیں.آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پر بلایا ہم نے
۴۶ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خاص طور پر اپنی مندرجہ ذیل کتب میں سیدنا عیسائیت کے خلاف اپنے دلائل کو بیان فرمایا ہے : جنگ ،مقدس ، چشمه، مسیحی، راز حقیقت مسیح ہندوستان میں کتاب البریہ ستارہ قیصریہ ، سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ، انجام انتم، نورالحق.ان کتابوں میں بیان فرمودہ آپ کے دلائل جو آپ کے علم کلام کی بنیاد ہیں اتنے وزنی ، متنوع اور قطعی ہیں کہ عیسائی ان کا ہر گز ہرگزہ جواب نہیں دے سکتے.اگر آپ کے پیش کردہ دلائل پر کیجائی نظر کی جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دلائل کا ایک بحر ذخار ہے ایک عظیم سیل رواں ہے جو عیسائیت کے سب باطل عقائد، شکوک و شبہات اور وساوس کو خس وخاشاک کی طرح بہائے چلا جاتا ہے.عیسائیت کے خلاف آپ کے دلائل اپنی کیفیت ، کمیت ، قطعیت اور حقیقت کے اعتبار سے ایسے مہلک اور باطل شکن ہیں کہ انہوں نے عالم عیسائیت میں ایک لرزہ طاری کر دیا ہے.آپ نے عقلی اور نقلی دلائل کے علاوہ مشاہدہ اور نشان نمائی کے ذریعہ اس مذہب پر اتمام حجت کی اور ہر باطل عقیدہ کی جڑ پر ایسے کاری وار کئے کہ اس پر استوارہ کی جانے والی بلند و عالی شان فلک بوس عمارت دیکھے ہی دیکھتے پیوند زمین ہو گئی.آپ نے عیسائی عقائد کا ایسا عقلی اور منطقی تجزیہ فرمایا اور پھر ہر بات کا ایسی عمدگی سے رد فرمایا کہ عیسائیوں کو اب کوئی بھی راہِ فرار دکھائی نہیں دیتی.جو عیسائی پہلے اسلام پر حملہ آور تھے اور اُسے اپنا شکار سمجھتے تھے ، اس علم کلام کے نتیجہ میں اب وہی عیسائی جارحیت کی بجائے دفاعی کا رروائی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور اس امر کا برملا اعتراف کیا جارہا ہے کہ اب اسلام کا حملہ ایسا شدید ہے کہ عیسائیت سرنگوں ہوتی جا رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس عظیم عظیم کلام کے ذریعہ ایک طرف غلبہ اسلام کا اور دوسری طرف عیسائیت کے استیصال کا ایسا سامان مہیا فرما دیا ہے کہ اب قیامت تک دشمن ان دلائل کا توڑ پیش نہیں کر سکیں گے.حضرت المصلح الموعد رضی اللہ عنہ، حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے علم کلام کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :- چو تھا جو بہ جو آپ نے اسلام کو غالب کرنے کے لئے استعمال کیا اور جنسی اسلام کے خلاف تمام مباحثات کے سلسلے کو بدل دیا اور غیر مذاہب کے پیروؤں کے ہوش اڑا دیئے ہیں یہ ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے
رائج الوقت علم کلام کو بالکل بدل دیا اور اس کے ایسے اصول مقررہ فرمائے کہ نہ تو دشمن انکار کر سکتا ہے اور نہ ان کے مطابق وہ اسلام کے مقابلے میں ٹھہر سکتا ہے اگر وہ ان اصول کو رد کرتا ہے تب بھی مرتا ہے اور اگر قبول کرتا ہے تب بھی مرتا ہے.نہ فرار میں اسے نجات نظر آتی ہے نہ مقابلے میں حفاظت " سے الغرض سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عیسائیت کے خلاف علم کلام کا یہ ایک اجمالی خاکہ ہے جس کی کسی قدر تفصیل آئندہ صفحات میں بیان کی جائیگی.وباللہ التوفیق.امتیازی شان ستید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کو اپنی قوت تاثیر اور جذب و کشش کے اعتبار سے بھی ایک امتیازی شان حاصل ہے.آپ قسم کے بادشاہ تھے اور آپ کی تحریرات پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا خدائے رحمن نے مناسب اور موزوں الفاظ کو آپ کے تابع فرمان بنا دیا ہے.بر حمل الفاظ بر جستہ تبصرہ اور مناسب حال تشبیہ و امثال آپ کے کلام میں اس کثرت سے نظر آتی ہیں کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے کہ خدایا یہ کسی انسانی کی تحریر ہے یا کوئی نوشتہ آسمانی ہے ! اگر ان حالات کا جائزہ لیا جائے جن میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عظیم المرتبت ای علم کلام ہورمیں آیا تو یہ کہنا ہرگز ہرگز مبالغہ نہ ہوگا کہ یہ علم کلام اپنی ذات میں ایک معجزہ سے کم نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی بلندشان ایک احمدی مضمون نگار کے الفاظ میں ملاحظہ ہو: بنو عباس کے ایسے بڑے مشکلم ابو الہندیل کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے ساتھ کے قریب کتب لکھیں.کہتے ہیں علم کلام پر سب سے پہلی کتاب اپنی لکھی.ابو الہندیل کو بادشاہ کی سر پرستی حاصل تھی اُسے ساٹھ ہزار درہم سالانہ وظیفہ ملتا تھا.بنوعباس اور خاندان برانکہ اس پر من برساتے تھے لیکن اس زمانہ کے موید من الله متکلم نے بھوکے رہ کر اور بعض اوقات صرف چنے چبا کر بڑھاپے اور بیماری میں جب : دعوة الامير ط ۱۲ ۱۲۲
۳۸ قوم تکفیر کے ہتھیاروں سے آپ پر والدہ کہ رہی تھی اسی سے اور کتب تصنیف کیر اشتہارات اور تقاریر استیکی علاوہ تھیں.اللہ تعالی نے آپ کو سلطان القلم کے لقب سے نوازہ تھا.آپ کا راہوار فیلم ایک بحر ذخار تھا.بعض اوقات صحن کے ایک طرف ایک دوات رکھ لیتے اور دوسری طرف دوسری دوات - ادہر جاتے تو قلم کو روشنائی سے تر کر لیتے اور چلتے چلتے لکھتے جاتے، ادہر جاتے تو خشک قلم کو پھر سیاہی میں ڈبو لیتے.آپ کو تحریر کا اعجاز دیا گیا تھا.آپ مجھی تھے لیکن بائی تن سے اوپر عربی کتب بطلب مقابلہ تصنیف فرمائیں لیکن اس اعجاز سے بڑھ کر اعجازہ آپ کو اسلام کی صداقت کے لئے نشان نمائی کا عطا کیا گیا تھا اور یہ وہ امتیازی وصف ہے جس مقام سے تمام متکلم پیچھے رہ جاتے ہیں اور حضور ایک بلند اور مضبوط چٹان پر کھڑے نظر آتے ہیں.ایک تعلیم اسلام کی حقانیت کی دلیل تو دے سکتا ہے لیکن وہ سیکھرام کو خداتی قہری تجلی نہیں دکھا سکتا ، ایک متکلم خدا کے موجود ہونے کی دلیل دے سکتا ہے لیکن وہ خدا کا مقدس چہرہ دنیا کو نہیں دکھا سکتا اور آج اسلام کو اس متکلم کی ضرورت تھی جو ماضی کا حوالہ دینے کی بجائے حال کے مشاہدات دکھانے کی دعوت دے جو قیاسات عقلی اور احتمالات نطمنی کی بجائے تجربہ اور مشاہدہ پیش کرے اور دنیا کو لکان کہ کہہ سکتے سے کرامت گرچہ لیے نام و نشان است بیا بنگر از علمان محمد ایک اور ضروری وضاحت اس جگہ ایک نہایت ضروری امر کی وضاحت کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے.گذشتہ باب میں ہم نے علم کلام کی تعریف متعین کی ہے اور اسکی بعد ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کے عیسائیت کے روئیں پیش کر دہ سب دلائل و براہین کو علم کلام ہی کے نام سے موسوم کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی اصطلاحی تنظیم نہ : ناسنامه الفرقان به کوه مارچ ۶۱۹۶۶ ۳۳۵-۳۲ 12-
۴۹ تھے.اور نہ کبھی حضور نے اس قسم کا کوئی دعوئی فرمایا ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے اس زمانہ میں اصلاح مفاسد اور غلبہ اسلام کے لئے مامور اور رسول بنا کر بھیجا ہے.پس آپ کا مقام ایک اصطلاحی متشکلم سے بالکل مختلف اور بہت بالا ہے.اگر حضور کے پیش کردہ علم کلام کی حقیقت پر نظر رکھی جائے تو شاید یہ کہنا ہی غلط ہو کہ آپ نے بھی اصطلاحی علم کلام کے میدان میں کچھ کام کیا ہے.وجہ یہ ہے کہ آپ کا پیش کر دہ مامورانہ علم کلام ریکی بلند خصوصیات کے بارہ میں ہم آئندہ صفحات میں کسی قدر تفصیلی ذکر کریں گے ، اپنی کیفیت اور ہم شان کے اعتبار سے توانا اور بے مثال ہے.حق تو یہ ہے کہ آپ نے ایک ایسے علم کلام کی بنیاد قائم فرمائی ہے جو مامورانہ علم کلام ہے اور اپنی مثال آپ ہے.انس مامورانہ علم کلام اور مطلا می علم کلام کو ایک معیار پہ لا کہ ان میں باہم مقابلہ کرنا میر ے نہ دیک درست نہیں ہے.سیدناحضرت مسیح میخود علیہ السلام کے نامورانہ اور خداداد علم کلام میں نہیں وہ جلائی شان نظر آتی ہے جس کی صرف ایک جھلک یا صرف ایک پہلو اصطلاحی علم کلام میں پایا جاتا ہے.یوں سمجھنا چاہیئے کہ اگر اصطلاحی متکلمین علم کلام کے میدان میں پہلی سیڑھی پر تھے تو مامور زمانہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اس علم کلام میں اتنی اصلاح اور رفعت پیدا کی ہے کہ علم کلام کو ارتقاء کی انتہائی ر فقتوں سے ہمکنار کر دیا ہے.کاش! میرے پاس وہ الفاظ ہوتے جن سے میں اس خدا داد علیم کلام کی توصیف کا حق ادا کر سکتا ہے ليت الكواكب تدنو لى فالظمها عقود مدرج نما ارضى لكم كلمى اس مقالہ میں حضور کے پیش فرمودہ حمائل کو علم کلام ہی کا نام دیا جائے گا.لیکن ہر موقع پر یہ وضاحت مد نظر یہ ہے.عیسائیت سے مقابلہ کا طریق عیسائیت کے ابطال کے سلسلہ میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک باریک بین ، حق شناس محقق کی نظر سے یہ تجزیہ فرمایا ہے کہ کس طرح اور کن ذرائع سے عیسائیت پر غلبہ پایا جا سکتا ہے چنانچہ اس سلسلہ میں آپ تحریر فرماتے ہیں :- عیسائی مذہب کو گرانے کے لئے جو صورتیں ذہن میں آسکتی ہیں وہ صرف
تین ہیں : (1) اول یہ کہ تلوار سے اور لڑائیوں سے اور جبر سے عیسائیوں کو مسلمان کیا جائے تو اس پہلی صورت کے بارہ میں خود اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی بجائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس تبصرہ کو درج کر دیا جائے جو حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں : " جس قدر اس کا روائی میں فساد ہیں حاجت بیان نہیں.ایک شخص کے جھوٹے ہونے کے لئے یہ دلیل کافی ہو سکتی ہے کہ وہ لوگوں کو جبر سے اپنے دین میں داخل کرنا چاہیے.لہذا یہ طریق اشاعت دین کا ہر گز درست نہیں اور اس طریق کے امیدوار اور اسکی انتظار کر نے والے صرف وہی لوگ ہیں جو درندوں کی صفات اپنے اندر رکھتے ہیں اور آیت لا اکراہ فی الدین سے بے خبر ہیں" سے اس کے بعد دوسری صورت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :- دوسری صورت صلیبی مذہب پر غلبہ پانے کی یہ ہے کہ معمولی مباحثات کی سے جو ہمیشہ اہل مذہب کیا کرتے ہیں اس مذہب کو مغلوب کیا جائے " سے اس صورت کے بارہ میں آپ فرماتے ہیں :- یہ صورت بھی ہر گنه کامل کامیابی کا ذریعہ نہیں ہو سکتی کیونکہ اکثر مباحثات کا میدان وسیع ہوتا ہے اور دلائل عقلیہ اکثر نظری ہوتے ہیں اور ہر ایک نادان اور موٹی عقل والے کا کام نہیں کہ عقلی اور نقلی دلائل کو سمجھ سکے.اس لئے بت پرستوں کی قوم با وجود قابل شرم عقیدوں کے اب تک جابجا دنیا میں پائی جاتی ہے.سے پھر تفسیری اور آخری صورت کا ذکر فرماتے ہیں:.تیسری صورت میسی مذہب پر غلبہ پانے کی یہ ہے کہ آسمانی نشانوں سے اسلام کی برکت اور عزت ظاہر کی جائے اور زمین کے واقعات سے امور ے تریاق القلوب من (جلد 1) ه: - تزياق القلوب مت (جلد 1) -- : تریاق القلوب ص ) ، ( ه تریاق القلوب حث -
۵۱ محسوسہ بد بہتہ کی طرح یہ ثابت کیا جائے کہ حضرت علی علیہ الہ فوت نہیں ہوئے اور نہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر گئے ہیں بلکہ اپنی طبعی موت سے مر گئے یا اے اس کے بارہ میں آپ فرماتے ہیں :- یہ تیسری صورت ایسی ہے کہ ایک متعصب عیسائی بھی اقرارہ کر سکتا ہے کہ اگر یہ بات بیائیہ ثبوت پہنچ جائے کہ حضرت مسیح صلیب پر قوت نہیں ہوئے اور نہ آسمان پر گئے تو پھر عیسائی مذہب باطل ہے اور کفارہ اور تثلیث سب باطل.اور پھر اس کے ساتھ جب آسمانی نشان بھی اسلام کی تائید میں دکھلائے جائیں تو گویا اسلام میں داخل ہونے کے لئے تمام زمین کے عیسائیوں، پہ رحمت کا دروازہ کھول دیا جائے گا " سے گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک عیسائیت پر غلبہ پانے کی سب سے بہتر اور کارگر صورت یہی ہے کہ دلائل اور نشان نمائی کے میدان میں دشمن کو مغلوب کیا جائے حقیقت بھی یہی ہے کہ اسی صورت میں کسی مذہب پر غلبہ پایا جا سکتا ہے کہ دلائل کے میدان میں اس کا باطل ہونا اور نشانات کے میدان میں اس کا مردہ ہونا ثابت کر دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہی منصب اور مقام دیگر دنیا میں بھیجا.چنانچہ آپ کے علم کلام کی شان بھی یہی تھی کہ آپ نے عقلی اور نقلی دلائل کے علاوہ نشان نمائی کے میدان میں عیسائیت کو عاجزا اور لاچار بنا دیا.آپ اپنے علم کلام کی وضاحت کرتے ہوئے بڑی سحری سے فرماتے ہیں :- یہی تیسری صورت ہے جس کی ساتھ میں بھیجا گیا ہوں.خدا تعالیٰ نے ایک طرف تو مجھے آسمانی نشان عطا فرمائے ہیں اور کوئی نہیں کہ ان میں میرا مقابلہ کرسکے اور دنیا میں کوئی عیسائی نہیں کہ جو آسمانی نشان میرے مقابل پر دکھلا سکے اور دوسرے خدا کے فضل اور کریم اور رحم نے میرے پر ثابت کر دیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ت صلیب پر فوت ہوئے نہ آسمان پر چڑھے بلکہ مصیبت سے نجات پا کہ کشمیر کے ملک میں آئے اور اس جگہ وفات پائی.یہ باتیں صرف قصہ کہانیوں کے رنگ میں نہیں تریاق القلوب من (جلد ۱) ه تریاق القلوب من (جلد ۱۵)
I ۵۲ ہیں بلکہ بہت سے کامل ثبوتوں کے ساتھ ثابت ہوگئی ہیں.اس لئے میں زور سے اور دعویٰ سے کہتا ہوں کہ جس کسیر صلیب کا بخاری میں وعدہ تھا اس کا پورا سامان مجھے عطا کیا گیا ہے اور ہر ایک عقل سلیم گواہی دے گی کہ بجز اس صورت کے اور کوئی موثر اور معقول صورت کی نہیں ہے پس اس تجزیہ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی کیفیت اور شان کا کسی قدر اندازہ ہو سکتا ہے.احقاق حق اور ابطال باطل کے لئے یہ کائل اصول حضرت سیح موعود علیہ السلام کے سار سے علم کلام میں کار فرما نظر آتا ہے.ے : - تریاق القلوب - (جلد ۱۵) : I
۵۳ حضرت مسیح موعود علی الصلوة والسلام ގ علیم کلام کی خصوصیاتے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیش کردہ علم کلام محاسن کا مرقع ہے علم کلام کے عمومی ذکر کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب اس علم کی چند نمایاں خصوصیات کا علیحدہ طور پر بھی ذکر کر دیا جائے.پہلی خصوصیت میرے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی میرے خیال میں سب سے اہم اور سب سے کی سے منفرد خصوصیت یہ ہے کہ یہ علم کلام خداداد ہے.آپ اس زمانہ میں خدا کے رسولی اور مرسل تھے.آپ کے کلام میں شان نبوت جھلکتی ہے اور اس کا سب سے نمایاں وصف یہ ہے کہ آپ نے جو کچھ فرمایا، جو کچھ تحریر فرمایا سب کا سب خداداد علم کا نتیجہ تھا.آپ کے زمانہ سے قبل آنیوانے اصطلاحی متکلمین کے کلام میں یہ وصف عنقا ہے.ان کا کلام ان کی اپنی قوت فکر اور طری استدلال کا نتیجہ ہوتا تھا.لیکن مامور زمانہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے علم کلام کی بنیاد علم اپنی پیہ ہے.آپ فرماتے ہیں :- " والله انى لست من العلماء ولا من اهل الفضل والدهاء وكلّما اقول من انواع حسن البيان او من تفسير القرآن فهو من الله الرحمن ، له ین خدا کی قم نہیں کوئی عالم ہوں اور نہ کسی فضیلت اور عقلمندی کا مجھے دعوئی ہے.عمدہ کلام یا قرآن مجید کی تفسیر، جو کچھ بھی میں کہتا ہوں وہ سب خدائے رحمن کی طرف سے ہوتا ہے داسی کے عطا کردہ علم کا نتیجہ ہے، پھر اسی سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں :- نورالحق حصہ دوم ص (جلد ۸)
۵۴ ہم خدا تعالی کے بلائے بولتے ہیں اور وہ کہتے ہیں جو فرشتے آسمان پر کہتے ہیں.افتراء کرنا تو ہمیں آتا نہیں اور نہ ہی افتراء خدا کو پیارا ہے؟ لے ان دونوں حوالوں سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ تحریر فرمایا کسی دنیا وی مدرس یا دنیاوی مکتب سے کسب فیض کا نتیجہ نہ تھا بلکہ آپ کا حقیقی معلم اور مرتی خدائے حمن تھا جنسی اس عاشق رحمن کو اپنی جنا سے علوم ومعارف کے ایسے ایسے نکات اور دقائق سمجھائے کو دنیا کا کوئی منکم یا بڑے سے بڑا عالم اسکی گرد راہ کو بھی نہ پاسکا.پس میرے نزدیک آپ کے علم کلام کا ایسے منفرد اعزاز یہ ہے کہ ہ علم کلام خدا داد ہے.یہی وجہ ہے کہ اس آسمانی اور مامورانہ علم کلام کی ضیاء پاشیوں کے مقابل پہ باطل کی نحوستیں ایک لحظہ کے لئے بھی نہیں ٹھہر سکتیں.دوسری خصوصیت سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے کی پیش کردہ اس علم کلام کی بنیاد قرآن مجید پر ہے.قرآن مجید خدائے بزرگ وبرتر کا ایسا قطعی اور یقینی کلام ہے جو علوم و معارف کا سرچشمہ ہے.اس کی بندشان کے بارہ میں خدائے رحمن نے فرمایا ہے :- " وان من شيئ الاعندنا خزائنه وما تنزل الا بقدر معلوم کے حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اپنے سب اقوال اور سب دلائل کی بنیاد اس کتاب حکیم کو بنایا.آپ نے جو کچھ تحریر فرمایا اس تعامل کتاب کی روشنی میں تحریر فرمایا.آپ نے اسی کتاب کو اپنی زندگی کا دستور العمل اور اپنے بیان کا اصل الاصول قرار دیا.یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریر میں قرآنی بیان کی ایک جھلک اور اس آفتاب ہدایت کے نور کا پر تو نظر آتا ہے.آپ کسی محبت سے فرماتے ہیں.دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآن کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے الغرض آپ کے علم کلام کا دوسرا نمایاں وصف یہ ہے کہ آپ نے قرآن مجید کوعلم کلام کی :- " سه : ملفوظات جلد پنجم مه به سله
۵۵ اى بنیاد بنایا.سنت، حدیث اور اقوال بزرگان کا بھی درجہ بدرجہ لحاظ رکھا لیکن اصل اور حقیقی بنیاد قرآن شریف ہی تھا.آپ کا یہ اصول نہ صرف مسلمانوں کے اندرونی معاملات کے حل کے لئے قطعی اور یقینی بنیاد ہے بلکہ غیر مسلموں کے مقابل پر بھی حضور نے قرآن مجید ہی کی مدد سے دلائل پیش فرمائے کیونکہ قرآن مجید میں پیش کردہ دلائل اور دعادی اپنے ساتھ عقلی اور نقلی شواہد بھی رکھتے ہیں.پس میرے نزدیک آپ کے خداداد علم کلام کی دوسری خوبی یہ ہے کہ آپ نے قرآن مجید کو اپنے علم کلام کی بنیاد قرار دیا ہے.نیسری خصوصیت آپ کے علم کلام کی تیسری اور ایک بہت ہی نمایاں خوبی یہ ہے کہ آپ نے علم کلام اور مذہبی مباحثات کے لئے کچھ ایسے اصول مقرر فرمائے جنہوں نے مذہبی مباحثات کا نقشہ بدل کر رکھ دیا.یہ اصول ایسے محکم اور مضبوط ہیں کہ دشمن ان کا کسی صورت میں مقابلہ نہیں کر سکتا.آپ فرماتے ہیں :- "ہمارے اصول عیسائیوں پر ایسے پتھر ہیں کہ وہ ان کا ہرگز جواب نہیں دے سکتے ہے اصولوں کا مقررکہ نا بہت ضروری امر تھاکیونکہ حضور علیہ السلام کے زمانہ سے قبل مباحثات کی یہ صورت ہوتی تھی کہ ہر مولوی اپنے اپنے زور بیان کا مظاہرہ کہتا تھا.حق کو پانا مقصد نہ ہوتا تھا بلکہ لذت گوش مطلوب تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس غلط طریق کی صلاح فرماتے ہوئے علم کلام کے چند اصول مقرر فرمائے تا بحث و مباحثہ کا کوئی معین اور مفید نتیجہ نکل سکے.میں اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس لیے شمالی اصول کا ذکر قدرے تفصیل سے کرنا چاہتا ہوں جو حضور نے ۱۸۹۳ ء میں ڈپٹی آتھم عیسائی کے ساتھ مباحثہ کے دوران اپنی کتاب جنگ مقدس میں پیش فرمایا.آپ کے اس اصول کو اگر علم کلام کا سنہری اصول قرار دیا جائے تو ہر گز بے جا نہ ہوگا.اس مباحثہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ اصول بیان فرمایا کہ ہر مباحثہ کو نیو الے پر لازم ہو گا کہ وہ مذہبی عقائد کے بارہ میں جو بھی اصولی دعوی پیش کر سے اس دعوی کو اپنے مذہب کی مسلمہ الہامی کتاب سے ثابت کرے اور پھر اس دعوہ کے دلائل بھی اسی کتاب سے بیان : ملفوظات جلد نهم من :
۵۶ کرے کیونکہ یہ بات ایک مکمل ضابطہ شریعیت کی شان سے بعید ہے کہ وہ مذہبی عقائد کے بارہ میں کوئی واضح بیان نہ دے یا اگر بیان کر سے تو اس کی دلائل کا ذکر نہ کر سے.پس آپ نے یہ اصول مقرر فرمایا کہ کسی بھی مذہب اور اس کی کتاب کی صداقت معلوم کرنے کا یہ اصول ہے کہ دعوی اور دلیل الہامی کتاب سے پیش کیا جائے.مباحثہ جنگ مقدس کے موقعہ پر حضور اس اصول کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :- اس مقابلہ اور موازنہ میں کسی فریق کا ہرگزہ یہ اختیار نہ ہوگا کہ اپنی کتاب سے باہر جاوے یا اپنی طرف سے کوئی بات منہ پر لاد سے بلکہ لازم اور ضروری ہوگا کہ جو دعوی کر یں وہ دعوئی اس الہامی کتاب کے حوالہ سے کیا جاؤ سے جو الہامی قرار دی گئی ہے اور جو دلیل پیش کریں وہ دلیل بھی اسی کتاب کے حوالہ سے ہو کیونکہ یہ بات بالکل سچی اور کامل کتاب کی شان سے بعید ہے کہ اس کی وکالت پنے تمام ساخت پردات سے دوسرا کرے وہ اپنے تمام ساختہ پر داختہ سے کوئی دوسرا شخص کر سے اور وہ کتاب بکلی خاموش اور ساکت ہے پھر ایک موقع پر یہ وضاحت بھی فرمائی کہ :- فریقین پر لازم و واجب ہوگا کہ اپنی اپنی الہامی کتاب کے حوالہ سے سوالی و جواب تحریر کریں پھر ساتھ ہی اس کے یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ہر ایک دلیل یعنی دلیل عقلی اور دعوی جس کی تائید میں وہ دلیل پیش کی جائے اپنی اپنی کتاب کے حوالہ اور بیان سے دیا جائے تے آپ نے اس اصول کو اپنی کتاب جنگ مقدس میں بار بار پیش فرمایا ہے.ایک موقع پہ فرماتے ہیں :- اللہ تعالٰی کی سچی کتاب کی یہ ضروری علامت اور شرط ہے کہ وہ دعوی بھی آپ کر سے اور اس دعویٰ کی دلیل بھی آپ بیان فرماد سے تا کہ ہر ایک پڑھنے والا اس کا ، دلائل شافیہ پاکہ اس کے دعادی کو بخوبی سمجھ لیو سے اور دعوئے بلا دلیل نہ رہے کیونکہ یہ شہر ایک متکلم کا ایک نقص سمجھا جاتا ہے کہ دعادی کرتا چلا جائے اور ان پر کوئی دلیل نہ سکھے " سے ه: جنگ مقدس حت (جلد ۶ ) به ايضاً من :- ايضاً ص٣٣ -- :
۵۷ پھر اسی ضمن میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو عقلی دلیل دی جائے وہ بھی الہامی کتاب سے ہو.فرمایا :- " جس کتاب کی نسبت یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ فی حد ذاتہ کامل ہے اور تمام مراتب ثبوت کے وہ آپ پیش کرتی ہے تو پھر اس کتاب کا یہ فرض ہو گا کہ اپنے اثبات دعادی کے لئے دلائل معقولی بھی آپ ہی پیش کر رہے نہ یہ کہ کتاب پیش کرنے سے بالکل عاجزہ اور ساکت ہو اور کوئی دوسرا شخص کھڑا ہو کر کہ اس کی حمایت کمر سے " لے حضرت المصلح الموعودہ اس اصول کو ان الفاظ میں واضح فرماتے ہیں :- ضروری ہے کہ مذہبی تحقیق کے وقت یہ امر مد نظر رکھا جائے کہ آسمانی مذاہب کے مدعی جو دعویٰ اپنے مذاہب کی طرف سے پیش کریں وہ بھی ان کی آسمانی کتب سے ہو اور جو دلائل دیں وہ بھی انہی کی کتاب ہے ہوں " سے علم کلام کے دو زریں اصول کے زیر عنوان حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے تحریر فرمایا ہے :- " آپ نے اسلام کے اندرونی اختلافات اور اسلام اور دوسرے مذاہب کے باہمی اختلافات کے تصفیہ کے متعلق دو ایسے زریں اصول پیش کئے جنہوں نے مذہبی علم کلام میں ایک انقلاب پیدا کر دیا.پہلا اصول آپ نے اسلام کے اندرونی اختلافات کے متعلق یہ پیش کیا کہ اسلام میں اندرونی فیصلوں کی اصل کسوٹی قرآن شریف ہے نہ کہ حدیث یا بعد کے ائمہ کے اقوال وغیرہ.اس اصول نے اس گند سے علم کلام کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا جو ایک عرصہ سے اسلامی مباحثات کو مکدر کر رہا تھا.....یہ ایک نہایت مجیب نکتہ تھا جس نے اسلامی علم کلام کی صورت کو بالکل بدل دیا.ینی کو دوسرا زریں اصول جو آپ نے بین المذاہب اختلافات کے لئے پیش کیا وہ یہ تھا کہ ہر مذہب کا یہ فرض ہے کہ جہاں تک کم از کم اصول مذہب کا تعلق ہے وہ اپنے دعوئی اور دلیل ہر دو کو اپنی مقدس کتا ہے نکال کر پیش ١٣٣ ه: جنگ مقدس و روحانی خزائن جلد ۶ : ے : - دعوة الامير ص :
کر سے تا کہ یہ ثابت ہو کہ بیان کردہ دعوی متبعین کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ خود ایا ہوا نہیں بانی مذہب کا پیش کردہ ہے کیا لے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عیسائیت کے مقابلہ پر پیش کردہ یہ اصول ایسا فیصلہ کن اصول ہے کہ اس کی سب باطل مذاہب کی قلعی کھل جاتی ہے اور کسی شخص کے لئے یہ موقع باتی نہیں رہتا کہ وہ بلا دلیل اپنے مذہری کے حق میں کوئی بلند بانگ دعوی کر سکے.یاد رہے کہ یہ اصول ایسا نہیں ہے کہ اس کو ناقابل قبول ، غیر ضروری یا غلط قرار دیا جا سکے.ہر شخص ہر سلیم الفطرت اور ذی شعور انسان اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ ہر مذہب کے بنیادی اصول اس مذہب کی کتاب میں موجود ہونے چاہئیں اور پھر کتاب اپنے ثبوت کے لئے غیروں کی محتاج نہیں ہونی چاہیئے.بس یہ اصول ایک صحیح اصول ہے جو حکم بنیادوں پر قائم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیش کردہ یہ اصول اتنا کارگر اور ٹھیک نشانہ پریگا کہ اسی ایک اصول نے عیسائیت کے تمام عقائد کی بنیادیں متزلزل کر دیں.حضور نے یہ اصول جنگ مقدس مباحثہ میں پیش فرمایا تھا.اس مباحثہ کی روئیداد پڑھنے والا ہر انسان اندازہ کر سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اپنے اس اصول کی پوری پوری پابندی کرتے ہوئے تمام دعاوی اور دلائل قرآن مجید سے پیش فرمائے ہیں لیکن مد مقابل عیسائی پادری کو نہ اس اصول پر اعتراض کرنے کی جرات ہو سکی اور نہ اس کی پابندی کرنے کی توفیق مل سکی حضرت مسیح پاک نے مباحثہ میں مد مقابل پادری صاحب کو بار بار اس اصول کی پابندی کی طرف توجہ دلائی لیکن وہ ہمیشہ اس اصول سے دامن بچاتے رہے.پادری صاحب کا یہ گریز اس محکم میں کی عظیم الشان تاثیرات پر زندہ گواہ ہے.اس محکم اصول کا جو فوری اللہ ہوا اسکے بارہ میں قمر الا نبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اثر اپنی کتاب میں فرماتے ہیں: " جب آپ نے یہ اصول امرتسر والے مناظرہ میں عیسائی صاحبان کے سامنے پیش کیا تو ان کے اوسان خطا ہو گئے.تو حق یہ ہے کہ یہ اصول باطل مذاہب کے حق میں اور ان کے اندھے متبعین کے بے دلیل دعاوی کے حق میں آسمانی صاعقہ سے کم نہیں.اس اصول کے بارے میں حضرت مصلح الموجود تحریر فڑاتے ہیں :- :- سلسلہ احمدیہ ص ۳۱ : : سلسلہ احمدیہ صلا
۵۹ یہ اصل ایسا زبردست ہے کہ دوسرے ادیان اس کا ہرگنہ انکار نہیں کر سکتے تھے کیونکہ اگر وہ کہتے کہ نہیں ہم ایسا نہیں کر سکتے تو اس کی یہ معنے ہوتے کہ جو مذہب بیان کرتے ہیں وہ مذہب وہ نہیں ہے جو ان کی آسمانی کتب میں بیان ہوا ہے.کیونکہ اگر وہی مذہب ہے تو پھر کیوں وہ اپنی آسمانی کتاب ہے اس کا دعوی بیان نہیں کر سکتے یا اگر دعوی بیان کر سکتے ہیں تو کیوں ان کی آسمانی کتاب دلیل سے خالی ہے.غرض غیر مذاہب کے لوگ اس اصل کو نہ رو کر سکتے تھے کیونکہ ان کے رو کرنے کے یعنی تھے کہ ان کے مذہب بالکل ناقص اور رہی ہیں اور نہ قبول کر سکتے تھے کیونکہ.......جب اس اصل کے ماتحت دوسرے مذاہب کا جائزہ لیا گیا تومعلوم ہوا ، قریباً نوے فیصدی ان کے دعوے ایسے تھے جو ان کی الہامی کتب میں نہیں پائے جاتے تھے اور جس قدر عو سے مذہبی کتب سے نکلتے تھے ان میں قریبا سو فی صدی ہی دلائل کے بغیر بیان کئے گئے تھے یا نے پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی ایک نمایاں خوبی آپ کے وہ اصول ہیں جو آپ نے مقرر فرمائے اور جن میں سے ایک محکم اصول کی مثال اس جگہ بیان کی گئی ہے.اس اصول کے دور رس نتائج کے بارہ میں حضرت المصلح الموعود فرماتے ہیں :- آپ دیعنی حضرت مسیح پاک - ناقل نے یہ ثابت کیا کہ قرآن کریم تمام اصول اسلام کو خود پیش کرتا ہے اور ان کی سچائی کے دلائل بھی دیتا ہے اور اس کے ثبوت میں آپ نے سینکڑوں مسائل کے متعلق قرآن کریم کا دعوئی اور اس کے دلائل پیش کر کے اپنی بات کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیا اور دشمنان اسلام آپ کے مقابلے سے بالکل عاجز آگئے اور وہ اس حربے سے اس قدر گھبرا گئے ہیں کہ آج تگ ان کو کوئی میلہ نہیں مل سکا جس سے اسکی زد سے بچ سکیں اور نہ آئندہ مل سکتا ہے.یہ علم کلام ایسا مکمل اور اعلیٰ ہے کہ نہ اس کا انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ اسکی موجودگی میں جھوٹ کی تائید کی جاسکتی ہے پس جوں جوں اس حربے کو استعمال کیا جائے گا ادیان باطلہ کے نمائندہ ہے مذہبی مباحثات سے جی چرائیں گے اور ان کے پیروں پر اپنے مذہب کی کمزوری کھلتی جائے گی اور لیظهره علی الدین : - دعوة الامير ص ۱۲ :
۶۰ کل کا نظارہ دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھے گی " اے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ ان دو اصولی باتوں کا ذکر کر دیا جائے جو آپ نے اپنے مد مقابل عیسائیوں کو مخاطب کر کے پیش فرمائیں.چنانچہ ایک موقع پر آپ نے حکومت وقت کے سامنے تجویز رکھی کہ وہ ایسا قانون پاس کرے جیسے مختلف مذاہب کے درمیان امن اور سلامتی کی فضا پیدا ہو سکے.اس سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں :- فتنہ انگیز تحریروں کے روکنے کے لئے بہتر طریق یہ ہے کہ گورنمنٹ عالیہ یا تو یہ تدبیر کمرے کہ ہر ایک فریق مخالف کو ہدایت فرما دے کہ وہ اپنے حملہ کے وقت تہذیب اور نرمی سے باہر نہ جاو سے اور صرف ان کتابوں کی بناء پر اعتراض کرے جو فریق مقابل کی مسلم اور مقبول ہوں اور اعتراض بھی وہ کر سے جو اپنی مسلم کتابوں پر وارد نہ ہو سکے.اور اگر گورنمنٹ عالیہ یہ نہیں کر سکتی تو یہ تدبیر عمل میں لا ر سے کہ یہ قانون صادر فرمائے کہ ہر ایک فریق صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کر ہے.اور دوسرے فریق پر ہر گنہ حملہ نہ کر ہے.میں دل سے چاہتا ہوں کہ ایسا ہو اور میں جانتا ہوں کہ قوموں میں صلح کاری پھیلانے کے لئے اسی بہتر اور کوئی قدیر نہیں کہ کچھ عرصہ کے لئے مخالفانہ حملے روک دیئے جائیں.ہر ایک شخص صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریسے اور دوسرے کا ذکرہ زبان پر نہلاد سے سے پھر اس ضمن میں آپ نے پادری صاحبان کو بھی دو نصیحتیں فرمائی ہیں.آپ فرماتے ہیں :- اول یہ کہ وہ اسلام کے مقابل پیر ان بے ہودہ روایات اور بے اصل حکایات سے مجتنب یہ ہیں جو ہماری مسلم اور مقبول کتابوں میں موجود نہیں اور ہمار ہے عقیدہ میں داخل نہیں اور نیز قرآن کے معنے اپنے طرف سے نہ گھڑ لیا کریں بلکہ وہی معنے کریں جو تو اتر آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہوں.....دوسری منے نصیحت....ہ یہ ہے کہ وہ ایسے اعتراض سے پر ہیز کریں جو خود ان کی کتب مقدسہ میں بھی پایا جاتا ہے" سے ظاہر ہے کہ اگر عیسائی حضرات ان موخر الذکر دو اصولوں کی طرف توجہ دیتے اور ان پر عمل کرتے تو ان کو اسلام کے خلاف کچھ کہنے کا موقعہ نہ مل سکتا بلکہ حق تو یہ ہے کہ ان عادلانہ اصولوں کی پابندی دعوت الامير ۱۲-۱۲۳ : : كتاب البرية ۲۲ (جلد ۱۳) بانگ : آرید دهرم خشت (جلد ۱۰) سه - (۸۱
41 کرنے کی وجہ سے وہ اسلام پر کوئی بھی اعتراض کرنے کے قابل نہ ہو سکتے، الٹا اپنے مذہب کے دفاع پہ مجبور ہو جاتے الغرض حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے علم کلام کی ایک خوبی آپ کے محکم اصول ہیں اگر حق بین نظر کے ساتھ ان اصولوں کو دیکھا جائے تو ہر انصاف پسند انسان حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ان الفاظ سے اتفاق کرے گا کہ : ”ہمار سے اصول عیسائیوں پر ایسے پتھر ہیں کہ وہ ان کا ہرگزہ جواب نہیں ہے سکتے لے کہ وہ ان چوتھی خصوصیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے عام مشکلمین کہ نے عام کی طرح صرف عقلی و نقلی دلائل دینے اور اعتراضات کے اوپر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس ابتدائی درجہ سے بہت آگے بڑھتے ہوئے اپنے علم کلام کی بنیاد مشاہدہ اور نشان نمائی پر رکھی ہے.یہ خوبی آپ کے علم کلام کی وقعت اور اہمیت کو بہت بڑھا دیتی ہے.حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے عقلی اور نقلی دلائل کے بیان میں بھی کمال کے درجہ کو حاصل کیا پھر اعتراضات کے جوابات ایسے عمدگی سے دیئے کہ دشمن کو اپنی شکست کے اعتراف کئے بغیر چارہ نہ رہا.صرف یہی نہیں بلکہ دشمن نے جس جگہ اور جس مقام کو کمزور سمجھ کر اپنے اعتراض کا نشانہ بنایا.حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اسی جگہ سے حکمت کی ایک کان کھود کر دکھا دی.حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے یونانی فلسفہ اور بدیہیات کے مقابلہ میں مشاہدہ اور نشان نمائی کو پیش فرمایا.ظاہر ہے کہ اس طرز استدلال کا مقابلہ نہ کوئی منکم کرسکتا ہے اور نہ کر سکا ہے.دلیل کی افادیت سے انکار نہیں بلکہ عقلی اور نقلی دلائل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پوری قوت اور تحدی کے ساتھ پیش فرمایا ہے لیکن آپ کے علم کلام کا کمال یہ ہے کہ آپ نے صرف عقل اور نقل پر استدلال کا انحصار نہیں رکھا بلکہ آپ نے دلیل سے بڑھ کو عاجز کرنے والی چیز یعنی مشاہدہ اور نشان نمائی کو پیش فرمایا.دلیل زیادہ سے زیادہ ایک کاری سہم تیار ہے لیکن نشان نمائی اور مشاہدہ آسمانی بجلی ہے جس کا مقابلہ کوئی زمینی ہتھیا.نہیں کر سکتا.آپ فرماتے ہیں :- لفوظات جلد نہم من :
۶۲ " خدا تعالیٰ نے مجھے آسمانی نشان عطا فرمائے ہیں اور کوئی نہیں کہ ان میں میرا مقابلہ کر سکے اور دنیا میں کوئی عیسائی نہیں کہ جو آسمانی نشان میرے مقابل پر دیکھوار کے سکے ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے علم کلام کی بنیاد فلسفہ پر نہیں تھی بلکہ مشاہدہ اور نشان نمائی کے محکم اصول پر رکھی ہے جینی فلسفہ کو باطل کر دیا ہے.عام تکلمین اور فلسفی ظاہر سے باطن پر استدلال کرتے ہیں لیکن آپ نے باطن سے ظاہر پیر استدلال فرمایا.ظاہر ہے کہ اس ذریعہ سے ایک یقین کامل اور " ہے " کا یقینی مقام حاصل ہوتا ہے جس کی مقابل پر فلسفہ کی سیب دلیلیں بے کار ہیں.اس سلسلہ میں خُدا کے وجود کی مشال بیان کی جاسکتی ہے.فلسفہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ خُدا کا وجود ہونا چاہیے لیکن انبیاء کا قطعی کلام ، یقینی دلائل سے اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ خُدا واقعی موجود ہے.انبیاء کا وجود خدا کے وجود کا ثبوت ہوتا ہے اور ان کا کلام اس حقیقت کا ترجمان ہوتا ہے مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں :- د ہم اپنی ذات اور وجود کو پیش کر کے دنیا کو خدا تعالیٰ کا وجود منوانا چاہتے ہیں ۲ الغرض آپ کے علم کلام کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ آپ نے عقلی نقلی دلائل اور اعتراضات کے جوابات سے آگے بڑھ کہ سنت انبیاء کے مطابق ذاتی مشاہدہ اور نشان نمائی پر علم کلام کی بنیاد رکھی ہے.پانچویں خصوصیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ ایک جامع علم کلام ہے.گذشتہ باب میں ہم دیکھ آئے ہیں کہ عام طور پر علم کلام میں تین باتیں شامل کی جاتی ہیں یعنی عقائد کے اثبات کے لئے عقلی و نقلی دلائل دنیا اور اعتراضات کے جوابات دینا حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے علم کلام میں یہ ساری باتیں درجہ کمال میں پائی جاتی ہیں.آپ نے اسلام کے عقائد پر عقلی اور نقلی دلائل بیان فرمائے بلکہ اسکی بھی بڑھ کر یہ کہ آپ نے اسلامی احکام کی حکمت اور فلاسفی پہ بھی روشنی ڈالی اعتراضات کے جوابات کے سلسلہ میں آپ کے کار ہائے نمایاں کسی تعریف و توصیف کے محتاج نہیں.آپ نے جملہ مذاہب کی طرف سے ہونے والے اعتراضات کے له تریاق القلوب منا وحانی خزائن جلدها له : ملفوظات جلد اول ص ۳۲ :
دندان شکن جوابات عطا فرمائے.پھر اس علم کلام کی جامعیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ نے ہندوستان میں موجود سب مذاہب سے بیک وقت مقابلہ فرمایا.آپ نے سکھ مذہب، سناتن دھرم ، آریہ مذہب ، دہریت، بہائیت اور سب سے بڑھ کر عیسائیت کا مقابلہ کیا اور ان کے باطل عقائد پر ایسی کڑی تنقید کی کہ ان سب مذاہب کا کھوکھلا پن ایک واضح حقیقت بن گیا.یہ بیرونی میدان تھا.اندرونی طور پر آپ نے مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور مکاتب فکر کے لوگوں کے لئے بھی راہ مستقیم کی نشاندہی فرمائی.الغرض آپ کے علم کلام کو ایک ایسی وسعت ، جامعیت اور ہمہ گیری عطا ہوئی ہے کہ اس کی مثال کسی اور شخص کے علم کلام میں نظر نہیں آتی.وذلك فضل الله يؤتيه من يشاء.چھٹی خصوصیت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے علم کلام کی ایک بہت ہی نمایاں خوبی آپ کا یقین کامل اور تحدی ہے.آپ کی تحریرات پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے باطل مذاہب اور خاص طور پر عیسائیت کے خلاف جو دلائل بیان فرمائے ہیں وہ کسی منطقی استدلال اور فکر کا نتیجہ ہی نہیں ہیں بلکہ اس میں ایسی قطعیت اور یقینی کیفیت نظر آتی ہے کہ جو حق وصداقت کے بغیر قطعا نا مکن ہے.یہی وجہ ہے کہ آپ کے علم کلام میں ایک تحری پائی جاتی ہے ، ایک یقین کامل ہے.وثوق اور ایمان ہے اور ایسا غیر متز لندن ایقان ہے کہ خود اس شخص کے پاؤں میں لغزش پیدا ہونے کہ کا کیا سوال ، ان دلائل کو پڑھ کہ متزلزل قدم تھم جاتے ہیں اور شکوک شبہات میں مبتلا ہونے والے کمر در ایمان لوگوں کو یقین اور معرفت کی دولت نصیب ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات اور زبر دست استدلال کو پڑھ کر وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ انسانی کلام نہیں بلکہ خدائی القاء کی صدائے بازگشت ہے جو اس مومن کامل کے ذریعہ سنائی دے رہی ہے خدا شاہد ہے کہ اس بات میں ذرہ بھر بھی مبالغہ یا زیا دتی نہیں ہے کہ حضرت سیح پاک علیہ السلام کی بعض تحریرات پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا خدا بول رہا ہے ! الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں جلال، تحدی اور شوکت کا پایا جانا ایک بہت بڑی خوبی ہے.اس ضمن میں متعدد حوالے پیش کئے جاسکتے ہیں.ہمیں اپنے مقالہ کی مناسبت سے
اس جگہ تین ایسے حوالے پیش کرتا ہوں جن میں حضور نے بڑی تحدی اور یقین کے ساتھ عیسائی حضرات کو اپنے مقابلہ پر بلایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- (1) اسے حضرات پادری صاحبان جو اپنی قوم میں معتز نہ اور متاز ہو آپ لوگوں کو الہ جل شانہ کی قسم ہے جو اس طرف متوجہ ہو جاؤ.اگر آپ لوگوں کے دلوں میں ایک ذرہ اس صادق انسان کی محبت ہے جس کا نام عیسی مسیح ہے تو میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ فر در میرے مقابلہ کے لئے کھڑے ہو جاؤ.آپ کو اس خدا کی قسم سے جاتے میسی کو مریم صدیقہ کے پیٹ سے پیدا کیا جس نے انجیل نازل کی دینی مسیح کو وفات دیگر پھر مردوں میں نہیں رکھا بلکہ اپنی زندہ جماعت ابراہیم اور موسیٰ اور بجلی اور دوسر نیوں کے ساتھ شامل کیا اور زندہ کر کے انہیں کے پاس آسمان پر بلا لیا جو پہلے اسی زندہ کئے گئے تھے کہ آپ لوگ میرے مقابلہ کے لئے ضرور کھڑے ہو جائیں اگر حق تمہارے ہی ساتھ ہے اور سچ مچ مسیح خُدا ہے تو پھر تمہاری فتح ہے اور اگر وہ خدا نہیں ہے اور ایک عاجزہ اور نا توان انسان ہے اور حتی اسلام میں ہے تو خدا تعالیٰ میری سُنے گا " اے (٢) ! میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام تمام مذاہب مردے ، ان کے خدا مرد سے، اور خود وہ تمام پیرو مردے ہیں اور خداتعالی کے ساتھ زندہ تعلق ہونا بجر اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں.ایسے نادانو انہیں مردہ پرستی میں کیا مزہ ہے اور مردار کھانے میں کیا لذت ؟ آڑ میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے اور کسی قوم کے ساتھ ہے.وہ اسلام کے ساتھ ہے.اسلام اس وقت موسمی کا طویر ہے جہاں خدا بول رہا ہے.وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہو گیا آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کر رہا ہے.کیا تم میں سے کسی کو شوق نہیں کہ اس بات کو پر لکھے پھر اگر حق کو پالے تو قبول کر نیو سے.تمہار سے ہاتھنہ میں کیا ہے.کیا ایک مردہ ، کفن میں لیٹا ہو ؟ پھر کیا ہے.کیا ؟ 10 - آئینہ کمالات اسلام مقدمه حقیقت اسلام من (جلده) :
46 ایک مشت خاک ؟ کیا یہ مُردہ خدا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ تمہیں کچھ جواب دے سکتا ہے ؟ ذرا آؤ ہاں لعنت ہے تم پر اگر نہ آؤ اور اس سڑے گھلے مرد سے کا میرے خدا کے ساتھ مقابلہ نہ کمر د دیکھوں تمہیں کہتا ہوں کہ چالیس دن نہیں گزریں گے کہ وہ بعض آسمانی نشانوں سے تمہیں شرمندہ کرے گا نا پاک ہیں وہ دل جو پیچھے ارادے سے نہیں آزماتے ہے (۳) "حقی ایک ایسی چیز ہے کہ اپنے ساتھ نصوص اور عقل کی شہادت کے علاوہ نور کی شہادت بھی یہ کھتا ہے اور یہ شہادت سب سے بڑھ کر ہوتی ہے اور یہی ایک نشان مذہب کی زندگی کا ہے کیونکہ جو مذہب زندہ خدا کی طرف سے ہے اس میں ہمیشہ زندگی کی روح کا پایا جانا ضروری ہے تا اس کی زندہ خدا سے تعلق ہو نے پر ایک روشن نشان ہو.مگر عیسائیوں میں یہ ہر گزنہ نہیں ہے حالانکہ اس زمانہ میں ہو سائنس اور ترقی کا زمانہ کہلاتا ہے ایسے خارق عادت نشانوں کی ٹیری بھاری ضرورت بڑی ہے جو خدا تعالیٰ کی ہستی پر دلائل ہوں اب اس وقت اگر کوئی عیسائی مسیح کے گذشته معجزات جن کی ساری رونق تالاب کی تاثیر دور کر دیتی ہے سنا کہ اسکی خدائی منوانا چاہے تو اس کے لئے لازمی بات ہے کہ وہ خود کوئی کرشمہ دکھائے ورنہ آج کوئی منطق یا فلسفہ ایسا نہیں ہے جو ایسے انسان کی خلائی ثابت کر دکھائے جو ساری رات روتا ر ہے اور اس کی دعا بھی قبول نہ ہو اور جس کی زندگی کئے اقعات نے اسے ایک ادنی درجہ کا انسان ثابت کیا ہوپس میں دعویٰ سے کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اس میں سچا ہوں اور تجربہ اور نشانات کی ایک کثیر تعداد نے میری سچائی کو روشن کر دیا ہے کہ اگر یسوع مسیح ہی زندہ خدا ہے اور وہ اپنے صلیب برداروں کی نجات کا باعث ہوا ہے اور ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے باوجودیکہ اس کی خود دعا قبول نہیں ہوئی تو کسی یادری یا راہب کو میرسے مقابلہ پر پیش کرو کہ وہ یسوع مسیح سے مدد اور توفیق پا کہ کوئی خارق عادت نشان دکھائے.میں اب میدان میں کھڑا ہوں اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں اپنے - : انجام آتھم من ۳۳-۲۳۲ - روحانی خزائن جلد 1 :
خدا کو دیکھتا ہوں اور وہ ہر وقت میرے سامنے ، میرے ساتھ ہے میں پکار کر کہتا ہوں مسیح کو مجھ پر زیادت نہیں کیونکہ میں نور محمدی کا قائمقام ہوں جو ہمیشہ اپنی روشنائی سے زندگی کے نشان قائم کرتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کس چیز کی ضرورت ہو سکتی ہے قیستی پانے کے لئے اور زندہ خدا کو دیکھنے کے لئے ہمیشہ روح میں ایک تڑپ اور پیاس ہے اور اسکی تسلی آسمانی تائیدوں اور نشانوں کے بغیر ممکن نہیں اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ عیسائیوں میں یہ نور اور زندگی نہیں ہے بلکہ یہ تھی اور زندگی میرے پاس ہے میں ۲۶ برس سے اشتہار د سے رہا ہوں اور تعجیب کی بات ہے کہ کوئی عیسائی پادری مقابلہ پر نہیں آتا.اگر ان کے پاس نشانات ہیں تو وہ کیوں انجیل کے جلال کے لئے پیش نہیں کرتے.ایک بار میں نے سولہ ہزار اشتہار انگریزی اردو میں چھاپ کر تقسیم کئے.....مگر ایک بھی نہ اُٹھا جو یسوع کی خدائی کا کرشمہ دکھاتا اور اس ثبت کی حمایت کرتا.اصل میں وہاں کچھ ہے ہی نہیں.کوئی پیش کیا کہ ہے ؟"" اور پھر ایک جگہ عیسائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- اُٹھو عیسائیو! اگر کچھ طاقت ہے تو مجھ سے مقابلہ کر داگھر میں جھوٹا ہوں تو کروا مجھے بیشک ذبح کر دو ورنہ آپ لوگ خدا کے الزام کے نیچے ہیں اور جہنم کی آگ پہ آپ لوگوں کا قدم ہے " سے ساتویں خصوصیت با وجود اس قدر تحدی اور جلالی اندازه نگارش کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علم کلام انتہائی سادہ ، شیریں اور دلنشین ہے.آپ نے مذاہب عالم کے مقابلہ میں جو دلائل بیان فرمائے ہیں ان میں سے اکثر دلائل انتہائی سادہ زبان ، آسان طرز ا در سهل طرفه استدلال میں بیان فرمائے ہیں.عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ اپنے آپ کو غالب دیکھ کر یا اپنے دلائل کو قوی محسوس کر کے انسان کچھ تکلف بھی کر نے لگتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام تکلف سے کوسوں دور تھے.آپ نے جو کچھ بیان فرمایا انتہائی سادگی کے ساتھ بیان فرمایا.ایک جگہ آپ سه : ملفوظات جلد سوم و سال ۱۲۹۱۲۳ : : سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب فٹ ہے جلد ملا
44 تحریر فرماتے ہیں :- " عام قاعدہ نبیوں کا یہی تھا کہ ایک محل شناس لیکچرار کی طرح ضرورتوں کے وقت میں مختلف مجالس و محافل میں ان کے مناسب حال روح القدس سے قوت پا کر نفر قریں کرتے تھے مگر نہ اس زمانہ کے متکلموں کی طرح جن کو اپنی تقریر کہ تقریریں سے فقط اپنا علمی سرمایہ دیکھانا مقصود ہوتا ہے.....بلکہ انبیاء نہایت سادگی سے کلام کرتے ہیں اور جو اپنے دل سے اہمتا تھا وہ دوسروں کے دلوں میں ڈالتے تھے.ان کی گفتگو میں الفاظ تھوڑسے اور معانی بہت ہوتے تھے.سو یہی قاعدہ یہ عاجزہ ملحوظ رکھتا ہے کے پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی ایک خوبی طرفہ بیان کی سادگی اور شیرینی ہے آپ کی غرض انشاء پردازی کے جوہر دکھانا نہ تھی اور نہ کسی ذاتی علمی وجاہت کو قائم کرنا آپ کا مقصد تھا.آپ کا کام تویہ تھا کہ پیغام حق کو لوگوں تک پہنچایا جائے اور ایسے طریق سے پہنچایا جائے جو سب سے زیادہ موثر ہو اور دلوں کے پرانے زنگ دھو کر ان کو نور عرفان سے بھر دے کہ پس آپنے ارشاد قرآنی : وَجَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ : کے مطابق موقع کی مناسبت اور ضرورت وقت کو مد نظر رکھا اور ایسا کلام پیش فرمایا جو دلوں پر اثر کرنے والا تھا.اس میں شک نہیں کہ آپ نے بعض عربی کتب انتہائی مشکل زبان میں تحریر فرمائی ہیں لیکن ان کا مقصد صرف اہل عرب پر حجت تمام کر نا اور ان کے عربی دانی کے غرور کو توڑنا تھا.عمومی طور پر آپ کی تحریر شہری سادہ ، دلنشین اور ہر قسم کے تکلف سے پاک ہے اور یہ آپ کے علم کلام کی بہت بڑی خوبی ہے.آٹھویں خصوصیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدا داد علم کلام کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ حضور نے جس بات کو بیان فرمایا اس کو پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے.اسی طرح جس دلیل کو شروع فرمایا اس کو ہر لحاظ سے مکمل صورت میں بیان فرمایا.اس سلسلہ میں جتنے 4-100 سه : فتح اسلام مثلت اروحانی خزائن جلدم بہ کے در سورۃ النحل : ۱۲۶ به : :
YA اعتراضات ممکن طور پر انسانی ذہن میں آسکتے ہیں ان سب کو بھی ساتھ ہی جواب دیدیا.اسی طرح استدلال کے سلسلہ میں پیدا ہونے والے جملہ اعتراضات کو بھی مدنظر رکھنا ہے.حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے طرز استدلال کی یہ خوبی ایسی ہے کہ اس کی مسائل اس وضاحت سے حل ہو جاتے ہیں کہ کسی قسم کا شک یا خلجان باقی نہیں رہتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کا بھی اہتمام فرمایا ہے کہ جو دلیل دی جائے اس کے ثبوت کو بھی بیان کر دیا جائے تاکہ وہ دلیل بغیر ثبوت کے نہ رہے.اس التزام کی وجہ سے بعض اوقات ایک دلیل کئی اور ضمنی دلائل کو بھی اپنے ساتھ لے آتی ہے.حضرت مسیح موعود کے علم کلام پر نظر کرنے والا ہر شخص اس قسم کی متعدد مثالیں پالیتا ہے.اس مقالہ میں چند ایسی مثالیں دوسرے مقامات پر موجود ہیں.ان میں سے ایک کائیں اس جگہ ذکر کر دیتا ہوں.حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے کفارہ کے رد میں ایک دلیل.اور در حقیقت یہ ایک.دلیل ہزار دلیلوں پر بھاری ہے.یہ بیان فرمائی ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام صلیب پر پر گنه فوت نہیں ہوئے پھر اس بات کے متعدد ثبوت بیان فرمائے ہیں کہ وہ صلیب پر فوت نہیں ہوئے.اس ضمن میں ایک ثبوت ان کا کشمیر کی طرف ہجرت کرنا ہے.ہجرت کشمیر کے قرائن اور ثبوت پیش کئے ہیں اور پھر اہل کشمیر کا بنی اسرائیل ہونا متعدد دلائل سے ثابت کیا ہے.ایک کا دلیل بنی اسرائیل اور کشمیری لوگوں کے ناموں کا اشتراک اور زبان کا ملنا ہے.اس ضمن میں حضور نے یونہ آسف نبی کا نام پیش فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ آسف کے معنے ہیں گرہ لوگوں کو تلاش کرنے والا.الغرض حضور نے ایک دلیل کے بعد یکے بعد دیگر سے دوسری دلیلوں کو بیان فرمایا جو پہلی بنیاد کی حفاظت کرتی ہیں اور اس طرح ایک بات کو ہر لحاظ سے پایہ ثبوت تک پہنچا دیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی یہ خوبی بہت ہی قابل قدر اور شاندار ہے.یہ بیان کرنے کی شاید ضرورت نہیں کہ یہ لربط و تسلسل یہ کثرت دلائل اور یہ وضاحت صرف اس شخص کے کلام میں نظر آسکتی ہے جو اپنے عقائد پر علی وجہ البصیرت قائم ہوا القرض حضور پاک کے علم کلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ آپ نے جس بات کو لیا اور جس دلیل کو بیان کیا اس کو کمال اور انتہا تک پہنچا دیا.نوس خصوصیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدا داد علم کلام کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ آپنے نہ صرف یہ کہ
۶۹ معترضین کے اعتراضات کے جوابات دیئے ہیں اور اس پہلو سے ان پر اتمام حجت کی ہے بلکہ بسا اوقات معترضین کے اعتراضات کو الٹا کر ان پر ہی ایسے انداز سے وارد کیا ہے کہ ان کے لئے بیچ کر جانا مشکل ہو گیا.خاص طور پر عیسائیت کے خلاف علم کلام میں اسکی متعدد مثالیں ملتی ہیں.اس سلسلہ میں سب سے اہم اور مشہور واقعہ ۱۸۹۳ء میں مباحثہ امرت سر کے دوران پیش آیا.یہ مباحثہ پندرہ روزہ تک جاری رہا.جب عیسائیوں نے دیکھا کہ دلائل کے اعتبار سے ہم میدان چھوڑ رہے ہیں تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو (نعوذ باللہ ذلیل اور رسوا کرنے کے لئے ایک تدبیر کی اور چند بیماروں اور معذوروں کو اکٹھے کر کے لے آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ آپ مسیح ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو ان بیماری کو اچھا کر کے دکھائیں.عیسائیوں نے یہ تدبیر اپنے خیال میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی ذلت اور رسوائی کی کی خاطر کی تھی لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ انی معین من اراد اهانتك كے مطابق یہ تدبیر خود عیسائیوں کے خلاف پھیر دی.مہوایوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جواباً فرمایا ہ ہم تو یہ جانتے ہی نہیں کر مسیح اس طرح کے مریضوں کو اچھا کیا کرتے تھے اس لئے یہ مطالبہ ہم سے کرنا ہی غلط ہے ہاں البتہ تمہاری کتاب مقدس میں لکھا ہے کہ تم میں اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو تو اگر تم پہاڑ کو حرکت کاحکم دو تو وہ حرکت کرنے لگے گا.حضور نے فرمایا ہم تم سے کسی پہاڑ کے ہلانے کا مطالبہ نہیں کرتے.تم نے خود ہی جن بیماروں کو اکٹھا کیا ہے اب تم ان کو ہی اچھا کر کے دکھا دو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی خداداد فراست سے عیسائیوں کی تدبیر ان کے خلاف لوٹا دی مسیح پاک علیہ السلام کا یہ جواب نمیسائیوں نے سنا تو فورا ان مریضوں کو میدان مباحثہ سے چلتا کیا.ڈپٹی عبداللہ آتھم نے مریضوں کو پیش کرتے ہوئے حضرت مسیح پاک علیہ السلام سے کہا تھا : - دو چونکہ آپ ایک خاص قدرت الہی دکھانے پر آمادہ ہو کے ہم کو برائے مقابلہ + بلاتے ہیں تو ہمیں دیکھنے سے گریز بھی نہیں یعنی معجزہ یا نشانی.پس ہم یہ تین شخص پیش کرتے ہیں جن میں ایک اندھا - ایک ٹانگ کٹا اور ایک گونگا ہے ان میں سے جس کسی کو صحیح سالم کر سکو کر دو اور جو اس معجزہ سے ہم پر فرض واجب ہوگا ہم ادا کریں گے یا لے :- جنگ مقدس صث (جلد) +
4-19 عبد اللہ آتھم کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :- یاد رہے کہ ہر ایک شخص اپنی کتاب کے موافق مواخذہ کیا جاتا ہے.ہمارے قرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ تمہیں اقتدار دیا جائے گا بلکہ صاف لکھا ہے کہ قل انما الآيات عند الله یعنی ان کو کہدو کہ نشان اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں جس نشان کو چاہتا ہے اسی نشان کو ظاہر کرتا ہے بندہ کا اس پر زور نہیں ہے کہ جبر کے ساتھ اس سے ایک نشان لیو سے " کہ پھر اسی ضمن میں فرمایا : - " " آپ دعوی کرتے ہیں کہ نجات صرف مسیحی مذہب میں ہے.....آپ کے مذہب میں حضرت عیسی نے جو نشانیاں نجات یافتہ بندوں یعنی حقیقی ایمانداروں کی لکھی ہیں وہ آپ میں کہاں موجود ہیں مثلاً جیسے کہ کہ نتھیوں 114 میں لکھا ہے.اور و سے جو ایمان لائیں گے ان کے ساتھ یہ علامتیں ہوں گی کہ وہ میرے نام سے دیووں کو نکالیں گے اور نئی زبانیں بولیں گے سانیوں کو اٹھا لیں گے اور اگر کوئی ہلاک کرنے والی چیز پیئیں گے انہیں کچھ نقصان نہ ہو گا.اسے بیماری پر ہاتھ رکھیں گے تو چنگے ہو جائیں گے تو اب میں با ادب التماس کرتا ہوں اور اگر ان الفاظ میں کچھ درشتی یا سرایت ہو تو اس کی معافی چاہتا ہوں کہ یہ تین بیمار جو آپ نے پیش کئے ہیں یہ علامت تو بالخصوصیت مسیحیوں کیلئے حضرت عیسی قرار دے چکے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر تم سچے ایماندار ہوتو تمہاری رہی علامت ہے کہ بیمار پر ہا تھو تھو گے تو وہ چنگا ہو جائے گا اب گستاخی معاف اگر آپ سچے ایماندار ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو اس وقت تین بیمار آپ ہی کے پیش کردہ موجود ہیں.آپ ان پر ہاتھ یہ کھادیں اگر وہ جنگے ہو گئے تو ہم قبول کر لیں گے کہ بیشک آپ بچے ایماندار اور نجات یافتہ ہیں ورنہ کوئی قبول کرنے کی راہ نہیں.کیونکہ حضرت مسیح تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر تم میں رائی کے دانہ برابر بھی ایمان ہوتا تو اگر تم پہاڑ کو کہتے کہ یہاں سے چلا جا تو وہ چلا جاتا مگر خیر میں اس وقت پہاڑ کی نقل مکانی تو آپ سے نہیں چاہتا کیونکہ وہ ہماری اس جگہ سے دُور ہیں لیکن یہ تو : سورة الانعام : ١٠٩ - 1-91 : روحانی خزائن جلد ۶ پے -
41 بہت اچھی تقریب ہوگئی کہ بیمار تو آپ نے بھی پیش کر دیئے اب آپ ان پیتا تھ رکھو اور چنگا کر کے دکھلاؤ اور نہ ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہاتھ سے جاتا رہے گا یا ہے بھر مزید وضاحت کے طور پر فرمایا : واضح رہے کہ یہ الزام ہم پر عاید نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں ہماری یہ نشانی نہیں رکھی کہ بالخصوصیت تمہاری یہی نشانی ہے کہ جب تم بیماروں پر ہاتھ رکھو گے تو اچھے ہو جائیں گے.ہاں یہ فرمایا ہے کہ میں اپنی رضا اور مرضی کے موافق تمہاری دعائیں قبول کروں گا اور کم سے کم یہ کہ اگر ایک دعا قبول کرنے کے لائق نہ ہو اور مصلحت انہی کے خلاف ہو تو اس میں اطلاع دی جائے گی.یہ کہیں نہیں فرمایا کہ تم کو یہ اقتدار دیا جائے گا کہ تم اقتداری گی.یہ طور پر جو چاہو دہی کر گزرو گے مگر حضرت مسیح کا تو یہ حکم معلوم ہوتا ہے کروہ بیماروں وغیرہ کے چنگا کرنے میں اپنے تابعین کو اختیار بخشتے ہیں جیسا کہ متی.اباب امیں لکھا ہے.پھر اتنی بارہ شاگردوں کو پاس بلا کر انہیں قدرت بخشی که تا پاک روحوں کو نکالیں اور ہر طرح کی بیماری اور دکھ درد کو دور کریں اب یہ آپ کا فرض اور آپ کی ایمانداری کا ضرور نشان ہو گیا کہ آپ ان بیماروں کو چنگا کر کے دکھلا دیں ب یہ اقرار کریں کہ ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ہی میں ایمان نہیں ہے الغرض دشمن کے اعتراض کا پوری ہمت سے مقابلہ کرتا بلکہ اسی اعتراض کی رو سے اسے ملزم کردیا اور اعتراض کو الٹا اسی پی وارد کرنا ایک ایسی نمایاں صفت ہے جو ہمیں صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام میں ہی نظر آتی ہے.وسوي خصوصية ین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم نظام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے عیسائی مذہب کے کے کی سبب عقائد کو باطل قرار دینے کے لئے اس پر سب سے زیادہ زور اور قوت صرف فرمائی ہے جو اس عقیدہ کے لئے بطور جڑ کے ہوتا ہے.حضرت مسیح پاک علی السلام نے عیسائیت کے ہر عقیدہ کا لے :- جنگ مقدس مشت (جلد ۲) ہے :- جنگ مقدس ص (جلد)
تجزیہ کر نے کے بعد اس عقیدہ کی بنیادی کڑی کو دریافت فرمایا اور سب سے زیادہ زور پاس بنیادی کڑی کے باطل کرنے پر دیا ہے.ظاہر ہے کہ یہ طریق بہت ہی مفید اور کارگر ہے.اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسی کسی بڑی عمارت کو گرانا مقصود ہو تو دو طریقے ہوسکتے ہیں.ایک تو یہ کہ اس عمارت کو اوپر کی طرف سے گرانا شروع کیا جائے اور ایک، ایک اینٹ کو علیحدہ کر دیا جائے.دوسرا طریق یہ ہے کہ اس عمارت کی بنیادی اینٹوں کو نکال دیا جائے ، وہ ساری کی ساری عمارت زمین پر آگرہ سے گی.+4 تر دید عیسائیت کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان ہر دو طریق کو استعمال فرمایا ہے لیکن خاص توجہ دوسرے طریقہ پر مرکوز رکھی ہے.چنانچہ آپ کے علم کلام کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے عیسائیت کے ہر ایک باطل عقیدہ کے روسی دلائل دیئے ہیں لیکن خاص طور پر آپ کی توجہ ان بنیادوں کی طرف رہی جن پر ان عقائد کی عمارت استواس کی جاتی ہے.موجودہ عیسائیت کے دو ہی بڑے عقید سے ہیں.تثلیث اور کفارہ ، حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے تثلیث کے حق میں اور کفارہ کے حق میں پیش کی جانے والی ہر دلیل کا رد فرمایا لیکن خاص طور پر آپ کی توجہ الوہیت مسیح کے مسئلہ کی طرف رہی جو تثلیث کی ایک بنیادی کڑی بلکہ حقیقی بنیاد ہے اور اسی طرح آپ نے اپنا زور اس بات پر صرف فرمایا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام سرگز ہرگز صلیب پر قوت نہیں ہوئے.کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت ہی کفارہ کی اصلی اور حقیقی بنیاد ہے جیسا کہ اس مقالہ کے متعلقہ باب سے ظاہر ہو گا.حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے سب سے زیادہ زور الوسیت مسیح اور مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کی تردید پر دیا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ جہاں آپ نے عیسائی عقائد کا تفصیلی رو بیان فرمایا ہے وہالی خاص طور پر عیسائی عقائد کی جڑ پر تبر رکھی ہے اس طرح اس بنیاد کو منہدم کر دیا ہے جس پر عیسائیت کا فقر تعمیر کیا گیا تھا.یہاں یہ ذکر کر دینا بھی ہے موقع نہ ہوگا کہ عیسائیت کے ناکارہ عقائد کی بوسیدہ عمارت کو گھمانے کا یہی طریق بہتر ہے جس باطل کی تردید بھی ہو جاتی ہے اور وقت بھی ضائع نہیں ہوتا.تر گیار بوین خصوصیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ آپ کے علم کلام میں استدلال کا
۷۳ طریق اور استدلال اس قدر مضبوط اور عمدہ ہوتا ہے کہ پڑھتے وقت یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک میخ زمین میں دھنستی چلی جاتی ہے.حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے سارے علم کلام پر ایک نظر کرنے سے یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آجاتی ہے کہ آپ نے عقلی اور نقلی دلائل پیش کرتے ہوئے اور اسی طرح غیروں کے اعتراضات کے جوابات دیتے ہوئے استدلال کا ایسا عمدہ طریق اختیار فرمایا ہے کہ ہرقسم کے شکوک و شبہات رفع ہو کر ایک معرفت اور ایمان پیدا ہوتا ہے.آپ کے علم کلام کی یہ خوبی جہاں اس کی عظمت پر دلالت کرتی ہے وہاں اس بات کی بھی غمازی کرتی ہے کہ اس علم کلام کے بیان کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص الخاص فضل سے خیالات کی پاکیزگی عقائد پر کامل عبور، ایمان وایقان کی بے پناہ دولت عطا کرنے کے علاوہ اس کے بیان میں بے پناہ قوت اور تاثیر ودیعت کر دی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علم کلام جو آپ کے درد مند دل کی گہرائیوں سے ابھرتا تھا پڑھنے اور سننے والوں کے دلوں میں گھر کر جاتا ہے اور معاندین کو بھی اس بات پر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ اس بیان پر غور کریں.پس یہ جذب و کشش اور یہ مقبولیت حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے علم کلام کا ایک امتیازی وصف ہے.بارہویں خصوصیت مشام سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خداداد علم کلام کی بارہویں اور میرے اس بیان و کے لحاظ سے آخری امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کا پیش کردہ علم کلام اپنے اند را مجازی قوت رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کا بنظر غائر جائزہ لینے والا ہر شخص یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس خداداد علم کلام کی طلائی شان زیر دست قوت و تاثیر محکم بنیاد اور وسعت دہمہ گیری نے اس کو ایک اعجازی مرتبہ عطا کر دیا ہے.یہی وجہ ہے کہ مسیح پاک علیہ السلام نے اپنے کلام میں مخالفین کو چیلنج کیا.بار بالہ تحقیری کے ساتھ دعوت مبارزت دی.اور بارہا دشمنوں کو مقابلہ کی دعوت دی لیکن اول تو کوئی دشمن نشان نمائی کے میدان میں حضور کے مقابلہ پر نہ اترا اور جنسی ذرا بھی.اس میدان میں قدم رکھا وہ آسمانی بجلی کی زدمیں اگر خا کستر ہو گیا.خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مقصد بعثت کی مناسبت سے عیسائی پادریوں کو بارہا نہ دعوت مقابلہ دے کر ان پید اتمام محنت کر دی.ایک موقع پر ان الفاظ میں دعوت مقابلہ دی.فرمایا :
ئیں دعویٰ سے کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اس میں سچا ہوں اور تجربہ اور نشانات کی ایک کثیر تعداد نے میری سچائی کو روشن کر دیا ہے کہ اگر یسوع مسیح ہی زندہ خدا ہے اور وہ اپنے صلیب برداروں کی نجات کا باعث ہوا ہے اور ان کی دعائیں قبول کرتا ہے باوجودیکہ اس کی خود دعا قبول نہیں ہوئی تو کسی..پادری یا راہب کو میرے مقابل پر پیش کردو کہ وہ یسوع مسیح سے مدد اور توفیق یا کہ کوئی خارق عادت نشان دکھائے.میں اب میدان میں کھڑا ہوں اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں اپنے خدا کو دیکھتا ہوں وہ ہر وقت میرے سامنے میرے ساتھ ہے " پھر ایک موقع پر حضور نے بڑے زور دار الفاظ میں ایسی دعوت کو دوہرایا اور خدا کا فیصلہ کے عنوان سے ایک اشتہار شائع فرمایا.اس میں آپ فرماتے ہیں :- کہ بانی فیصلہ کے لئے طریق یہ ہوگا کہ میر سے مقابل پر ایک معز نہ پادری صاحب جو پادری صاحبان مندرجہ ذیل میں سے منتخب کئے جائیں : میدان مقابلہ کے لئے جو تراضی فریقین سے مقرر کیا جائے طیار ہوں پھر بعد اس کے ہم دونوں معہ اپنی اپنی جماعتوں کے میدان مقررہ میں حاضر ہو جائیں اور خدا تعالیٰ سے دعا کے ساتھ یہ فیصلہ چاہیں کہ ہم دونوں میں سے جو شخص در حقیقت خداتعالی کی نظر میں کاذب اور موردِ غضب ہے خدا تعالیٰ ایک سال میں اس کا ذب پیر وہ قہر نازل گر ہے جو اپنی غیرت کے رو سے ہمیشہ کا ذب اور مکذب قوموں پر کیا کرتا ہے جیسا کہ اس نے فرعون پر کیا ، نمرود پر کیا اور نوح کی قوم پر کیا اور یہود پر کیا.حضرات پادری صاحبان یہ بات یاد رکھیں کہ اس باہمی دعائیں کسی خاص فریق پر نہ لعنت ہے نہ بددعا ہے بلکہ اس جھوٹے کو سزا دلانے کی غرض سے ہے جو اپنے جھوٹ کو چھوڑنا نہیں چاہتا.ایک : جہان کے زندہ ہونے کے لئے ایک کا مرنا بہتر ہے " سے ه : ملفوظات جلد سوم ص۲۲-۱۲۵ : د - ان صاحبوں میں سے کوئی منتخب ہونا چاہیے.اول ڈاکٹر مارٹن کلارک دوسر یا دری عماد الدین.پھر پاوری ٹھاکر داس یا حسام الدین بھٹی یا صفدر علی بھنڈارہ یا طامس بادل یا فتح مسیح بشرط منظوری دیگران - منه ه: روحانی خزائن جلد 1 :
60 نیز فرمایا : " اسے پادری صاحبان دیکھو کہ میں اس کام کے لئے کھڑا ہوں اگر چاہتے ہو کہ خُدا کے حکم سے اور خدا کے فیصلہ سے سچے اور جھوٹے میں فرق ظاہر ہو جائے تو آؤ تاہم ایک میدان میں دعاؤں کے ساتھ جنگ کریں تا جھوٹے کی پردہ دری ہو.یقیناً سمجھو کہ خدا ہے اور بے شک وہ قادر موجود ہے اور وہ ہمیشہ صادقوں کی حمایت کرتا ہے اور ہم دونوں میں سے جو صادق ہو گا خدا ضرور اسکی حمایت کہر سے گا.یہ بات یاد رکھو کہ جو شخص خدا کی نظر میں ذلیل وہ اس جنگ کے بعد ذلّت دیکھے گا اور جو اس کی نظر میں عزیز ہے وہ عزت پائے گا یہ لے انجام آتھم کے چیلنج کے ضمن میں آپ نے یہ بھی فرمایا.دا اگر میری تائید میں خدا کا فیصلہ نہ ہو تو میں اپنی کل املاک منقولہ و غیر منقولہ جو دس ہزار روپیہ کی قیمت سے کم نہیں ہوں گی.عیسائیوں کو دے دوں گا اور بطورِ پیشگی تین ہزار روپیہ تک ان کے پاس جمع بھی کہ اسکتا ہوں.اس قدر مال کا میرے ہاتھ سے نکل جاتا میرے لئے کافی سزا ہوگی علاوہ اس کے یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنے دستخطی اشتہار سے شائع کر دوں گا کہ عیسائی فتح یاب ہوئے اور میں مغلوب ہوا اور یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ اس اشتہار میں کوئی بھی شرط نہ ہو گی لفظ یا معنا سے چنانچہ آپ نے یہ دعوت مقابلہ دی اور اس تحدی اور چیلنج کے ساتھ آپ نے یہ بھی فرمایا :- اور یہ جو گروہ چھوٹا ہو گا اب بلا شبہ بھاگ جائے گا اور چھوٹے بہانوں سے کام لے گا " سے چنانچہ ایسا ہی ہوا.خدا کے مسیح کا کام پورا ہوا اور عیسائی مقابلہ کے لئے اس میدان میں اترنے کی جرات تک نہ کر سکے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے نشان نمائی اور مقابلہ کی دعوت مبارزت کی کوئی ایک مثال نہیں بلکہ تاریخ احمدیت شاہد ہے کہ خدا کا یہ سیح، خدا کا یہ جری پہلوان اپنی ساری زندگی عیسائیوں کو میدان میں للکارتا رہا کہ کوئی اٹھے اور مجھ سے مقابلہ کر ہے ، آپ کے اعجازی علم کلام کی یہ بلندشان ہے کہ ایک طرف اس قدر یقین ، وثوق اور تحدی پائی جاتی تھی تو ساتھ ہی آپ شده که روحانی خزائن جلد اصلا به سه : - روحانی خزائن طارات : ه: روحانی خزائن جلد ص : ۱۱ ه
نے اپنے خدا سے خبر پا کر اس بات کا بھی اعلان فرما دیا تھا کہ ہر گنہ کوئی عیسائی اس بات کے لئے تیار نہ ہو گا اور اگر کوئی میدان میں آیا تو وہ سخت ناکام اور رسوا ہو گا.اپنی فتح اور اپنے غلبہ پر ی یقین کامل آپ کے علم کلام کا ایک ایسا منفرد اعزاز ہے جو کسی اصطلاحی متکلم کے کلام میں یاکسی عام مولوی کے بیان میں ہر گتہ یا یا نہیں جا سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی ساری زندگی میں کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی یہ شک یا وہم نہیں گزرا کہ کبھی وہ اپنے مقصد میں نا کام کئے جاسکیں گے.آپ یقین اور بصیرت کی ایک مضبوط چنان پر قائم تھے.آپ کا خدا آپ کی نصرت پر کمربستہ تھا پھر آپ کو اس بارہ میں کس وجہ سے شک ہو سکتا تھا.آپ کسی شان اور یقین کے ساتھ اپنی کامیابی کے بارہ میں فرماتے ہیں :- " مجھے خدا نے اپنی طرف سے قوت دی ہے کہ میرے مقابل پر مباحثہ کے وقت کوئی پادری پھر نہیں سکتا اور میرا رعب عیسائی علماء پر خدا نے ایسا ڈال دیا ہے کہ ان کو طاقت نہیں یہ ہی کہ میر سے مقابلہ پر آسکیں.چونکہ خدا نے مجھے روح القدس سے تائید بخشی ہے اور اپنا فرشتہ میرے ساتھ کیا ہے اسلئے کوئی پادری میرے مقابل پر آرہی نہیں سکتا.یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ آنحضر صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی معجزہ نہیں ہوا.کوئی پیش گوئی ظہور میں نہیں آئی.اور اب بلائے جاتے ہیں یہ نہیں آتے.اس کا سبب یہی ہے کہ ان کے دلوں میں خدا نے ڈال دیا ہے کہ اس شخص کے مقابل پر ہمیں بجز شکست کے اور کچھ نہیں ہے پھر آپ فرماتے ہیں :- عیسائی مذہب کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہے.عیسائی مذہب اپنی جگہ آدم زاد کی خدائی منوانی چاہتا ہے اور ہمارے نز دیک وہ اصل اور حقیقی خدا سے دور پڑ سے ہوئے ہیں.ہم چاہتے ہیں کہ ان عقائد کی جو حقیقی خدا پرستی سے دور پھینک کر مردہ پرستی کی طرف لے جاتے ہیں، کافی تم دید ہو اور دنیا آگاہ ہو جاو سے کر وہ گروہ مذہب جو انسان کو خدا بناتا ہے خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتا اور بظاہر اسباب عیسائی مذہب کی اشاعت اور ترقی کے جو اسباب ہیں وہ انسان پرست انسان یقین نہیں دلاتے کہ اس مذہب کا استیصال ہو جاوے گا لیکن ہم لة - روحانی خزائن جلد ۱ :
پر یقین رکھتے ہیں کہ اس نے ہم کو اس کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے اور میرے ہاتھ یہ مقدر ہے کہ میں دنیا کو اس عقیدہ سے رہائی دوں پس ہمار افیصلہ کرنے والا یہی امر ہوگا.یہ باتیں لوگوں کی نظر میں عجیب ہیں مگر میں یقین رکھتا ہوں کہ میرا خدا قادر ہے " اے ان حوالوں سے عیاں ہے کہ کامیر صلیب ، سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عیسائیت کے مقابل پر اپنی کامیابی کا ایسا کامل یقین تھا کہ جس کو صحیح طور پر لفظوں میں بیان کر نا بھی شاد ممکن نہ ہو.ذرا اندازہ لگائیے جس شخص کے مبارک منہ سے یہ پریشرکت الفاظ نکلے ہوں اس کے عزم اور یقین کی کیفیت کیا ہو گی ؟ آپ فرماتے ہیں :- یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونیوالی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں.....کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا؟ کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا ؟ کبھی نہیں ضائع کرے گا.دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا یہ ہے الغرض اپنے مقصد میں کامیابی ، اسلام کی فتح و نصرت ، دشمنوں کی ہلاکت اور عیسائیت کی ناکامی پر یقین کامل حضور علیہ السلام کے علم کلام کادہ درخشندہ باب ہے جو اس خداداد علم کلام سے ہی خاص ہے.اس یقین کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ نے عیسائیوں کو ہر میدان میں للکارا اور ہر میدان میں پسپا کیا.آپ نے عیسائی مذہب کے خلاف ایسا نہ یہ دوست اور سلسل جہاد کیا کہ محبت تمام کر دی.یہ اتمام محبت اور فرض کی کامل ادائیگی بھی آپ کے علم کلام کے اعجاز کا ایک حصہ ہے.آپ فرماتے ہیں :- عیسائیوں کی نسبت جو اتمام حجت کیا گیا وہ بھی دو قسم پر ہے ایک وہ کتابیں ہیں جو میں نے عیسائیوں کے خیالات کے رد میں تالیف کیں جیسا کہ براہین احمدیہ اور نور الحق اور کشف الغطاء وغیرہ.دوسرے وہ نشان جو عیسائیوں پر حجت پوری کرنے کے لئے میں نے دکھلائے.سے پس اس سارے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خداداد علم کلام کا ایک وصف یہ ہے کہ یہ ایک الجمبازی علم کلام ہے جسے مقابلہ کی دشمن میں ہر گنہ تاب نہیں یہ بھی دشمن اس لملفوظات جلد ششم ۲۲ : ۲ : انوار الاسلام طه (جلده) - تے تریاق القلوب منار جلد) - -
LA علم کلام کا جواب دے سکا ہے اور نہ کبھی دے سکے گا.آپ خود فرماتے ہیں :.ہمارے اصول عیسائیوں پر ایسے پتھر ہیں کہ وہ ان کا ہرگز جواب نہیں ری ے سکتے ؟ " اے اعجازی علم کلام کے وصف کے بیان کو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس الفاظ سے ہی ختم کرتا ہوں.یہ الفاظ اس بات پر شاہد ناطق ہیں کہ واقعی یہ علم کلام اپنے اندر غیر معمولی قویت اعجاز رکھتا ہے.آپ فرماتے ہیں :- " اُٹھو عیسائیو! اگر کچھ طاقت ہے تو مجھ سے مقابلہ کرو.اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھے بے شک ذبح کردو ورنہ آپ لوگ خدا کے الزام کے نیچے ہیں اور جہنم کی آگ پر آپ لوگوں کا قدم ہے " کے تومجھے بے راج کر ورنہ کو خداکے الزام کے نیچے ہیںاور جہنم ک ہے" سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عیسائیت کے خلاف علم کلام کے خصوصیات کا بیان ختم ہوا لیکن اس موقعہ پر میں اس امر کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ حضور کے علم کلام کی صرف یہی خصوصیات نہیں ہیں بلکہ یہ جو کچھ میں نے لکھا ہے اپنی سمجھ اور فکر کے مطابق لکھا ہے اور مجھے اس کچھوئیں اعتراف میں بھی فخر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعجازی اویر خدا داد علم کلام کے اوصاف کا مکمل احاطہ کرنا میری فکر سے بالا ہے.اور میری طاقت سے باہر وفوق كل ذي علم عليم - 2012 : 2 ملفوظات جلد نہم من : ۱۲ سراجدیونی عیسائی کے چار سوالوں کا جواب مثه جلد ۱۲ :
29 حضرت یح موعود علیہ السلام کے علم کلام کے تعلق چند ضروری امور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی خصوصیات کا یہ تذکرہ تشنه تکمیل رہے گا اگران ضروری امور اور نمایاں پہلوؤں کا ذکر نہ کیا جائے جو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام میں نظر آتے ہیں.آپ کے عیسائیت کے خلاف علم کلام کو مجھنے کے لئے ان امور کو جانا اور مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے.١ - وفات مسیح علیہ السّلام عیسائیت کے رد میں سیدنا حضرت سیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کا ایک بہت ہی نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت فرمائی ہے اور اس بات کو اسقدر وضاحت اور تکرار سے بیان فرمایا ہے کہ اس مسئلہ کا کوئی گوشہ نظر اندا نہ نہیں ہوا.دراصل یہ سید نا حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی خداداد بصیرت کا نتیجہ تھا کہ آپ نے اسلام کے مقابل پر عیسائیت کو سرنگوں کرنے کے لئے فیسائی مذہب کے اس عقیدہ پر گرفت کی جو اس مذہب اور اس کے باطل ادعا کیلئے رگ جان کی حیثیت رکھتا ہے.عیسائی حضرات اسلام کے مقابل پہ عیسائیت کی برتری کی دلیل کے طور پر حیات مسیح علیہ السلام کے خیال کو پیش کرتے ہیں اور پھر عیسائی عقائد کے اثبات کے لئے بھی حیات سیچے کو بنیاد بنا کہ اسکی الوہیت مسیح کا استدلال کرتے تھے.جب اللہ سمیت مسیح ثابت کہ لیتے تو پھر تثلیث اور کفارہ کے مسئلوں کو ثابت کر نے کے لئے ان کو ایک بنیاد مل جاتی تھی.سید نا حضرت بی موعود علیہ السلام نے اپنی بعثت کے ہر دو مقاصد یعنی غلبہ اسلام اور الطارق مسیحیت کے پیش نظر وفات مسیح کے مسئلہ کو پیش فرمایا.آپ نے خداتعالی سے خیر یا کہ اعلان فرمایا :- ابن مریم مرگب حق کی قسم داخلِ جنت ہوا وہ محترم آپکا کے اس ایک اعلان نے ایک طرف تو مسلمانوں کے غلط خیال کی تردید کی جو حضرت علی علیہ السلام کو چوتھے آسمان پر زندہ یقین کرتے تھے اور اپنی کی دوبارہ آمد کے منتظر تھے اور دوسری طرف عیسائیت کے سب عقائد کی بنیاد ہی مسمار کر دی جو حیات بسیج سے الوہیت مسیح اور پھر الوہیت مسیح سے تثلیث
اور کفارہ کا استدلال کرتے ہوئے عیسائیوں نے تعمیر کر رکھی تھی.الغرض خدا کے بیج کے اس ایک ہی والد نے باطل کی سب تدبیروں کو باطل کر دیا اور اس ایک مسئلہ نے مذہبی دنیا کا نقشہ ہی بدل ڈالا.حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ذریعہ وفات مسیح کا اس وضاحت کے ساتھ انکشاف در اصل ایک خدائی تقدیر تھی جب نبی عیسائیت کی موت کا اعلان کرنے کے ساتھ اسلام کی زندگی کا نتفاہ بجا دیا.میرے مقالہ کا عنوان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس علم کلام تک محدود ہے جو آپ نے خاص عیسائی عقائد کے رد میں بیان فرمایا اس لئے ہمیں اس جگہ وفات مسیح کے ان بے شمار متر آنی ، حدیثی، عقلی نقلی اور تاریخی دلائل کو بیان نہیں کروں گا.جو حضور نے اس ضمن میں بیان فرمائے ہیں تاہم عیسائیت کے مقابلہ پر آپ نے وفات مسیح کے مسئلہ پیر اور اس کی اہمیت پر جو زور دیا ہے اس کا بیان کرناضروری سمجھتا ہوں کیونکہ یہی وہ آسمانی حربہ ہے جس پر پوری توجہ مرکوز کرنے کی حضور علیہ السلام نے اپنی جماعت کو آخری وصیت بھی فرمائی ہے.وفات مسیح کی اہمیت اور اسکی اثرات کو حضور نے مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے س سے پہلے آپ نے اس مسئلہ کی اہمیت واضح فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں :- یاد رہے کہ ہمارے سے اور ہمارے مخالفوں کے صدق و کذب آنہ مانے کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات حیات ہے اگر حضرت عیسی در حقیقت زندہ اگر ہیں تو ہمارے سے سب دعوے جھوٹے اور سب دلائل ہیچ ہیں اور اگر وہ در حقیقت قرآن کی گرد سے فوت شدہ ہیں تو ہمارے مخالف باطل پر ہیں " سے پھر آپ فرماتے ہیں :- "ہمارے دعوی کی جڑھ حضرت عیسی کی وفات ہے اس جڑھ کو خدا اپنے ہاتھ سے پانی دیتا ہے اور رسول اسکی حفاظت کرتا ہے......افسوس کہ پھر بھی لوگ ان کو زندہ سمجھتے ہیں اور ان کو ایسی خصوصیت دیتے جو کسی نبی کو خصوصیت نہیں دی گئی.یہی امور ہیں جن سے حضرت مسیح کی الوہیت کو عیسائیوں کے زعم میں قوت پہنچتی ہے اور بہت سے کچے آدمی ایسے عقائد سے ٹھوکر کھاتے ہیں.ہم گواہ ہیں کہ خدا نے ہمیں خبر دی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے اب ان کے زندہ کرنے میں دین کی ہلاکت ہے اور اس خیال میں لگن خواہ مخواہ کی خاک پیزی ہے".تخلصه گولڑو یہ حق حاشیه روحانی خزائن جلد : ۱۹ لیکچر سیا لکوٹ کا روحانی خزائن جلد ۲۰ +
^ کیا نیز فرمایا : یہ لوگ بعض وقت وصو کا دیتے ہیں کہ در ذات مسیح کی بحث کی ضرورت ہی کچھ نہیں حالا نکہ اصل جڑ رہی ہے.اس مسئلہ سے عیسائیوں کی ساری کارروائی باطل ہوتی ہے اور حضرت مسیح کی خدائی کی ٹانگ ٹوٹتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دنیا میں قائم ہوتی ہے.بے وفات مسیح کے مسئلہ کی اہمیت کا اعتراف غیر ا حمدیوں اور عیسائیوں نے بھی کیا ہے اورتسلیم کیا ہے کہ اگر واقعی ایسا ثابت ہو جائے تو ان کے عقائد سب کے سب باطل ہو جاتے ہیں.ایک حوالہ پیش کرتا ہوں.Mr.CRILTONDON نے جو کہ انٹر یونیورسٹی فیلوشپ آف لندن کے سیکرٹری جنرل ہیں لنڈن میں ایک تقریرہ میں کہا : - ور اگر مسیح کی وفات کے متعلق جماعت احمد بہ ہر کا نظریہ درست ہے تو پھر عیسائیت باقی نہیں رہ سکتی.اگر فی الواقع مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے تو پھر عیسائیت کی ساری بنیاد ہی ختم ہو کر رہ جاتی ہے اور ایسی صورت میں عیسائیت کی تمام عمارت کا نہ مین پر ارہنا یقینی ہے کالے وفات مسیح کے مسئلہ کی اہمیت واضح کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کی بھی وضاحت فرمائی کہ اگر حیات مسیح کا عقیدہ رکھا جائے تو اس کا کیا نقصان ہو سکتا ہے.آپ فرماتے ہیں :- اس بے ہودہ خیال سے کہ مسیح ابن مریم زندہ آسمان پر بیٹھا ہے بڑ ے بڑے فتنے بد سے دنیا میں پڑ گئے ہیں دراصل عیسائیوں کے پاس سیح کو خدا ٹھہرانے کی یہی بنیاد ہے اور زندہ ماننے سے رفتہ رفتہ ان کا یہ خیال ہو گیا کہ اب باپ کچھ نہیں کر سکتا سب کچھ اس نے اپنے بیٹے کو جو زندہ موجود ہے سپرد کر رکھا ہے غرض یہی اول دلیل مسیح کے خدا ہونے کی عیسائیوں کے پاس ہے جس کی ہمہار سے علماء تائید کر رہے ہیں مگر حق بات یہی ہے کہ وہ فوت ہو گئے " سے ها: ملفوظات جلد سوم ص ۲۵ به T سے نشان آسمانی حث روحانی خزائن جلد ۴ : الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۵۶ء بجوار تفسیر کبیر سوره مریم طاه
AY 1 رمایا : والله ان حيات ميسى حيّة تسعى لتهلك كل من في خانهم بخدا حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی ایک سانپ ہے وہ سانپ دوڑتا ہے تا ان سب کو قتل کر سے جو ان کی سرائے میں ہیں " اے گویا حیات مسیح کا ایک بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ اس عقیدہ سے عیسائیوں کو الوسیت سیح کا استدلال کرنے کا موقع مل جاتا ہے.خود عیسائی مصنفین کو اس بات کا اعتراف ہے کہ حیات سیح الوہیت مسیح کی زبر دست دلیل ملتی ہے بلکہ بعض پادریوں نے اپنے ساتھیوں کو مسلمانوں کے اس مفید مطلب اعتقاد سے فائدہ اٹھانے کی نصیحت بھی کی ہے.ایک امریکی پادری E.W.BETHMANN لکھتے ہیں :-.E.W "Muslims know that Mohammad is dead and they know also that christ lives.Let us make the most of it" یعنی مسلمان مانتے ہیں کہ محمد فوت ہو گئے اور وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ مسیح زندہ ہے.ہمیں چاہیئے کہ ہم اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں.H چنانچہ حیات مسیح کے عقیدہ کے اس نقصان کی نشاندہی کرتے ہوئے حضورعلیہ السلام نے فرمایا ہے :- " یہ عقیدہ (یعنی حیات مسیح کا.ناقل حضرت عیسی کا خدا بنا نے کی پہلی اینٹ ہے کیونکہ ان کو ایک خصوصیت دی گئی ہے جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں " سے پھر سندر مایا : الاترون القسيسين كيف يصرون على حياته ويثبتون الوهيته ، JJ من صفاته ، ته - -: از قصیده مندرجہ نورالحق حصہ اول ص ۱۲ - روحانی خزائن جلد : : Bridge to Islam p.287 نیمه بر این احمدیہ حقه بنجم من (جلد (۲) ۱۵۳ - الهدى والتبصرة لمن يرقص (جلد 1)
Ar یعنی کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ پادری حضرات کس طرح حضرت مسیح کی زندگی پر زور دیتے اور مسیح کی ان صفات سے ان کی الوہیت پر استدلال کرتے ہیں.نیز اسی ضمن میں فرمایا :- حال کے عیسائیوں کے عقائد باطلہ کے رو سے حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو حضرت عیسی کو خدا بنا نے کے لئے گویا عیسائی مذہب کا یہی ایک ستون ہے" لے جب حیات مسیح سے الوہیت مسیح کے خیال کو تقویت ملتی ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کسیر مدیہ کے مشن کی تکمیل کے لئے اس بات کی کسی قدر ضرورت تھی کہ عیسائیت کے اس ستون کو مسمار کیا جائے.چنانچہ آپ نے اپنی تحریرات میں اس ضرورت اور اہمیت کو واضح فرمایا.آپ فرماتے ہیں :- (1) خوب یاد رکھو کہ بجز موت مسیح صلیبی عقیدہ پر موت نہیں آسکتی سو اس سے فائدہ کیا کہ بر خلاف تعلیم قرآن اس کو زندہ سمجھا جائے.اس کو سرنے دوتا یہ دین زندہ ہوتے ہے (۲) عیسائیوں کا تو سارا منصو بہ خود سنجو د ٹوٹ جاتا ہے جبکہ ان کا خدا ہی سر گیا تو پھر باقی کیا رہا " سے (۳) ہم وفات مسیح کے مسئلہ پر زیادہ زور دیتے ہیں کیونکہ اسی موت کے ساتھ عیسائی مذہب کی بھی موت ہے " ہے (م) اسب دیکھ لو کہ ان کے مذہب کا تمام دارو مدار تو عیسی کی زندگی پر ہے اور یہ نہیں کہ دوسرے انبیاء کی طرح وہ زندہ ہے بلکہ وہ ایسا نہ ندہ ہے کہ پھر دوبارہ دنیا میں آئے گا......فرض سمجھنا چاہیئے کہ عیسائیوں کے مذہب کی بنیاد تو صرف عیسی کی زندگی پر ہے.جب وہ مر گیا کے آئینہ کمالات اسلام - مقد مرالی و جلد سے کشتی نوح حتا د روحانی خزائن جلد ۱۹) :- ملفوظات جلد نہم من : :- ملفوظات جلد اول ۳۳۵
تو پھر ان کا مذہب بھی ان کے ساتھ ہی مر گیا یہ کے J (A) غرض عیسی کی زندگی مرتد کرنے کا آلہ ہے.جو لوگ عیسائی ہو جاتے ہیں تو وہ ایسی ایسی بانیں ہی سن کہ ہو جایا کر تے ہیں " سے (M) ور ہم نے دیکھا ہے کہ عیسائیت کو مٹانے کے واسطے اس سے بڑا اور کوئی ہتھیار نہیں کہ جس وجود کو وہ خدا بنا تے ہیں اسے مردوں میں داخل ثابت کیا جائے " سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسائیت کو سرنگوں کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت کر دی جائے.کہ عیسائیت کی شکست کے بالمقابل اسلام کی زندگی اور بہتری بھی اس بات کا تقاضا کہتی تھی کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی موت ثابت کی جائے اور اس مقدس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی زندگی کو ثابت کیا جائے جو سب رسولوں کا سردار اور خاتم النبیین ہے.چنانچہ اس بات کو آپ نے مختلف یوں میں بیان فرمایا.آپ فرماتے ہیں : (1) "اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اسلام کو اپنے وعدہ کے موافق غالب کہ سے اس کے لئے بہر حال کوئی ذریعہ اور سبب ہوگا اور وہ یہی موت مسیح کا حمر یہ ہے.اس حدیہ سے صلیبی مذہب پر موت وارد ہو گی اور ان کی کمریں ٹوٹ جائیں گی.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب عیسائی غلطیوں کے دُور کرنے کے لئے اس سے بڑھ کر کیا سبب ہو سکتا ہے کہ مسیح کی وفات ثابت کردی جاد سے.....بے شک حضرت عیسی کی پرستش کا ستون ان کی زندگی ہے جب تک یہ نہ ٹوٹے اسلام کے لئے دروازہ نہیں کھلتا بلکہ عیسائیت کو اس سے مددملتی ہے ایک (۳) ی بھی کی بات ہے کہ اسلام کی زندگی میلی کے مرنے میں ہے.اگر اس مسئلہ پر غور کر دیکھے تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہی مسئلہ ہے جو عیسائی مذہب کا خاتمہ کر دینے والا ہے.یہ عیسائی گا رہو 04 :- ملفوظات جلد دهم صفت : :- ملفوظات جلد نہم مل : ے :- ملفوظات جلد دہم صحت : که پیکچر له میانه کاشا، روحانی خزائن جلد ۲۲۰
مذہب کا بہت بڑا شہتیر ہے اور اسی پر اس مذہب کی عمارت قائم کی گئی ہے.اسے گرنے دو کے (۳) " عیسی کی موت میں اسلام کی زندگی ہے اور عیسی کی زندگی میں اسلام کی موت ہے" سے (۴) " ولن تعود دولة الإسلام الى الاسلام من غيران يتقوا ويوحدوا ويدوسوا هذه العقيدة تحت الاقدام......ووالله انى ارى حياة الاسلام فى موت ابن مريم ٤ ٣ ترجمہ:.یاد رکھو کہ اسلام کی شان و شوکت اس بات کے سوا اور کسی ذریعہ سے دوبارہ حاصل نہیں ہو سکتی کہ لوگ تقویٰ سے کام لیں.ایک خدا کو مانیں اور اس رحیات مسیح کے.ناقل ) عقیدہ کو اپنے قدموں کے نیچے روند ڈالیں.....بخدا میں دیکھ رہا ہوں کہ اسلام کی زندگی مسیح ابن مریم کی وفات نہیں ہے.(۵) عیسائیت کا یہی ہھتیا در حیات مسیح ہے جس کو لے کہ وہ اسلام پر عملہ آور ہونے ہے ہیں اور مسلمانوں کی ذریت عیسائیوں کا شکار ہو رہی ہے ؟ ہے (۲) در اگر ہم سب مل کر وفات مسیح علیہ السلام - ناقل) پر نہ در دیں گئے تو پھر یہ مذہب (عیسائی) دردیں نہیں رہ سکتا.میں ہنا کہتا ہوں کہ اسلام کی زندگی اس کی صورت میں ہے خود عیسائیوں سے پوچھ کر دیکھ لو کہ جب یہ ثابت ہو جائے کہ مسیح زندہ نہیں بلکہ مرگیا ہے تو ان کے مذہب کا کیا باقی رہ جاتا ہے ؟ وہ خود اس امر کے قائل ہیں کہ یہی ایک مسئلہ ہے جو ان کے مذہب کا استیصال کرتا ہے" شہ ه : لیکچر دھیانه صد روحانی خزائن جلد ۲۰) : د ضمیمه برابری احمدیر حصہ پنجم ما (جلده (۲) - : طه سه : - النادى والتبصرة لمن يرى منه (جلد ۱۸) شه: عفوظات جلد ہشتم مشت : - ملفوظات جلد ہشتم تا :
Ay حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات سے عیسائی لوگ جس طرح اسلام پر عیسائیت کی تفضیلت کا استدلال کرتے ہیں.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا ہے.کہ مسلمان حیات مسیح کا عقیدہ یکھ کر عیسائیوں کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں.فرمایا سے ہمہ عیسائیاں را از مقابل خود مدد دادند دیری با پدید آمد پرستان میت را آپ نے مسلمان مولویوں کو اس نقصان دہ عقیدہ کو چھوڑنے کی نصیحت کرتے ہوئے مربایا-: و آپ لوگ ناحق کی ضد کیوں کرتے ہیں.کہیں عیسائیوں کے خدا کو مرنے بھی تو دو.کب تک اس کی حتی لا یموت کہتے جاؤ گے لے ہے پھر فرمایا : ر مسلمانوں کی خوش قسمتی ہی اس میں ہے کہ مسیح مرجائے....پس مسیح کو سرنے دو کہ اسلام کی زندگی اسی میں ہے کہ سے عیسائی لوگ خود بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حیات مسیح ان کے مذہب کی روح ہے.چنانچہ اس امر کا ذکر کر تے ہو ئے حضور نے فرمایا : والدھیانہ میں ایک دفعہ ایک پادری میرے پاس آیا.اثنائے گفتگو میں میں نے اسے کہا کہ عیسی کی موت ایک معمولی سی بات ہے اگر تم مان لو کہ عیسی مرگیا ہے تو اس میں تمہارا کیا حرج ہے تو اس پر وہ کہنے لگا کہ کیا یہ معمولی سی بات ہے ؟ اس پر تو پر ہمار سے مذہب کا تمام دارو مدار ہے؟ بدر میں لکھا ہے :- " اس نے کہا کہ اگر مسیح کے زندہ ہونے کا عقیدہ نہ ہو تو پھر سب عیسائی یکدم سلمان ہو جائیں گے.ہمارے مذہب کی روح یہی بات ہے.جب یہ نکلی تو ہم بے جان ہو ے جائیں گے For صت به انداله او عام حصہ دوم ص - (روحانی خزائن جلد ۳ ) : ۲۵ س: ملفوظات جلد دهم ه : ے :.ملفوظات جلد دہم صث : I
7 T پھر ایک اور موقع پر فرمایا : - عیسائیوں کے ہاتھ میں مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے واسطے ایک ہی سمتھیار ہے اور وہ یہی زندگی رسیح کی مراد ہے.ناقل) کا مسئلہ ہے.وہ کہتے ہیں کہ یہ خصوصیت کسی دوسرے میں ثابت کرو.اگر وہ خدا نہیں تو پھر کیوں اسے یہ خصوصیت دی گئی ؟ وہ حتی وقیوم ہے.(نعوذ باللہ من ذالک) اس حیات کے مسئلہ نے ان کو دلیر کر دیا ہے.......اب اس کے مقابل پر اگر تم پادریوں پر یہ ثابت کر دو کہ مسیح مرگیا ہے.تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ میں نے بڑے بڑے پادریوں سے پوچھا ہے انہوں نے کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جہاد سے کہ مسیح مر گیا ہے تو ہمارا مذہب زندہ نہیں رہ سکتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ساری عمر اس بات کی تلقین کرتے رہے کہ وفات مسیح کو ثابت کرنے سے ہی عیسائیت کو مغلوب اور اسلام کو زندہ ثابت کیا جا سکتا ہے.آپ نے اپنی زندگی کے آخری خطاب میں اسی بات کا ذکرہ کیا.نر مایا :- I و تم عیسی کو مرنے دو کہ اس میں اسلام کی حیات ہے.ایسا ہی عیسی موسوی کی بجائے عیسی محمدی آنے دو کہ اس میں اسلام کی عظمت ہے " سے اور پھر اپنی جماعت کو آخری وصیت کے طور پر بھی یہی نصیحت فرمائی ہے کہ ساری یہ توجہ وفات مسیح کے مسئلہ کی طرف پھیر دو.آپ فرماتے ہیں :- " سے میرے دوستو! اب میری ایک آخری وصیت کو سنوا در ایک دانہ کی بات کہتا ہوں اس کو خوب یاد رکھو کہ تم اپنے ان تمام مناظرات کا جو عیسائیوں سے تمہیں پیش آتے ہیں پہلو بدل لو اور عیسائیوں پر یہ ثابت کرد که در حقیقت مسیح ابن مریم ہمیشہ کے لئے فوت ہو چکا ہے.یہی ایک بحث ہے جس میں فتحیاب ہونے سے تم عیسائی مذہب کی روئے زمین سے صف پیسٹ دو گے.تمہیں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ دوسرے لمبے لمبے جھگڑوں میں اپنے اوقات عزیز کو ضائع کہ :.صرف مسیح ابن - مریم کی وفات پر زور دو اور پر زور دلائل سے عیسائیوں کو لاجواب اور ساکت کردو.ے لیکچر لدھیانہ صلا د روحانی خزائن جلد ۲۰ ) :: ملفوظات جلد دہم نام :
۸۸ جب تم مسیح کا مردوں میں داخل ہونا ثابت کر دو گے اور عیسائیوں کے دلوں پر نقش کر دو گے تو اس دن تم سمجھ لو کہ آج عیسائی مذہب دنیا سے رخصت ہوا.یقینا سمجھو دن کہ جب تک ان کا خدا قوت نہ ہو ان کا مذہب بھی فوت نہیں ہو سکتا.اور دوسری تمام بحثیں ان کے ساتھ عبث ہیں ان کے مذہب کا ایک ہی ستون ہے اور وہ یہ ہے کہ اب تک مسیح ابن مریم آسمان پہ نہ ندہ بیٹھا ہے.اس ستون کو پاش پاش کرد پھر نظر اٹھا کر دیکھو کہ عیسائی مذہب دنیا میں کہاں ہے ".اے الغرضو وفات مسیح ایک ایسا کارگر حربہ ہے جب سے عیسائیت کو ابدال آباد کے لئے سرنگوں اور اسلام کو تا قیامت سر بلند کر دیا ہے.یہ ایسا مفید اور عیسائیت کے حق میں ایسا مہلک ہتھیار ہے جس نے عیسائیت کے پر خچے اڑا دیئے ہیں اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کا ایسا روشن باب ہے کہ جس کی تعریف و توصیف میں جتنا بھی لکھا جائے کم ہے ۲ مسیحی تعلیمات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کے سلسلہ میں اس بات کو مد نظر رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ حضور نے جہاں پر عیسائی عقائد کی تردید فرمائی ہے وہاں عیسائی تعلیمات پر بھی کڑی تنقید فرمائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خاص طور پر عیسائیت کی پیش کردہ اخلاقی تعلیمات پر اپنی کتابوں میں تفصیل سے تبصرہ فرمایا ہے اور اس طرح یہ بات بھی ثابت فرمائی ہے کہ عیسائی مذہب کی تعلیمات عمل غیر مفید اور نا قابل عمل ہیں مثلاً حضور علیہ السلام نے عفو در درگزر کے بارہ میں عیسائیت کی اس تعلیم کو کہ "میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریہ کا مقابہ نہ ہوتا بلکہ جو کوئی تیرے رہنے گال پر ٹھانچہ مار سے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے اور اگر کوئی تجھ پر نالش کر کے تیرا کرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لے لینے دے " ہے کو اپنی متعدد کتب میں ہدف تنقید بنایا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ یہ بات تو الگ رہی کہ کیا عیسائیوں نے ے و به اماله او اہم حصہ دوم جنگ روحانی خزائن جلد ۳) با ہے :- سنتی میشیم ؟ اوہام
A4 کبھی اس تعلیم پر عمل بھی کیا یا کیا آج اس پر عمل کرنے والا کوئی ایک عیسائی بھی ہے اور کیا خود ان کے یسوع مسیح نے اس تعلیم پرعمل کر کے دکھایا ؟ یہ باتیں تو لگ رہیں.دیکھنے والی بات یہ ہے کہ یہ تعلیم قابل عمل اور اخلاقی قوتوں کی نشو نما کرنے والی بھی ہے یا نہیں ؟ آپ نے ثابت فرمایا ہے کہ انجیل انسانی اخلاقیات کے صرف ایک پہلو پر زور دیتی ہے.گویا انجیل اخلاقیات کے سب تقاضوں کو پورسا نہیں کرتی اور جس ایک خلق کی تعلیم دی اس میں خدا عتدال کی رعایت کو ترک کر کے اس قدر غلو کیا کہ اس کو ناقابل عمل بنا دیا.پس آپ نے مسیحی تعلقات کا کڑا محاسبہ فرمایا ہے اور عیسائیت کی پیش کردہ تعلیمات کو باطل اور نا قابل عمل ثابت فرمایا ہے.یاد رہے کہ تعلیمات کا ناقص اور باطل ہونا بھی کسی مذہب کے بطلان کی ایک زبردست دلیل ہے.مذکورہ بالا مثال کی وضاحت میں حضور نے اپنی کتب میں بہت تفصیل درج فرمائی ہے.ان سب کا اس جگہ درج کر نا تطویل کا باعث ہوگا.میں اس جگہ ایک اور حوالہ درج کرتا ہوں جس میں حضور نے یہ بیاں فرمایا ہے کہ انجیل و کامل تعلیم قرار دینا ہی بے بنیاد ہے کیونکہ انجیل نے کسی جگہ اپنے کامل ہونے کا دعوی نہیں کیا بلکہ اس کے بر عکس ثبوت ملتا ہے.حضور فرماتے ہیں :- جانا چاہیئے کہ انجیل کی تعلیم کو کامل خیال کرنا سراسر نقصان عقل اور کم فہمی ہے.خود حضرت مسیح نے انجیل کی تعلیم کو مبرا عن النقصان نہیں سمجھا جیسا کہ انہوں نے آپ فرمایا ہے کہ میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں پر تم ان کو برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روح الحق آو سے گا تو وہ تمہیں تمام صداقت کا راستہ بتلا د سے گا انجیل یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۳۷۱۲، ۱۴.اب فرمائیے کیا یہی انجیل ہے کہ جو تمام دینی صداقتوں پر حاوی ہے ؟ " ہے کتاب مقدس کی الہامی حیثیت حضور علیہ السلام کے علم کلام کا ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ نے مسیحی مذہب کے ابطال کے لئے اس بات کو بھی پیش کیا اور بدلائل ثابت فرمایا ہے کہ : -1- اناجیل کو الہامی ہونے کا ہر گز دعویٰ نہیں درها : براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیه در حاشیه جنت - روحانی خزائن جلد ابن
4.- اناجیل کے مصنفین کو مہم ہونے کا دعوی نہیں.اناجیل نے کہیں کامل اور مکمل ہونے کا ادعا نہیں کیا.۴ اصل انجیل اب دنیا میں محفوظ نہیں رہی.ه اناجیل سب کی سب انسانی تالیف ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سب امور کے بارہ میں بار بار اپنی کتب میں تحریر فرمایا ہے ظاہر ہے کہ ان سب امور کے ثابت ہو جانے سے اناجیل کی حیثیت ایک تاریخ کی کتاب سے زیادہ نہیں رہتی اور جس مذہب کی بنیادی کتاب اس حیثیت کی ہو اس کو تمام مذہبی عقائد اور تعلیمات کی بنیاد بنانا نادانی نہیں تو اور کیا ہے ؟ انا جیل کی اس حیثیت سے ثابت ہو جانے کے بعد عیسائی اس قابل بھی نہیں رہتے کہ وہ اس کتاب کو قرآن مجید کی مکمل اور محفوظ کتاب کے مقابل پر رکھ بھی سکیں.پس عیسائیوں کی کتاب مقدس کی صحیح حیثیت کو بیان کرنا اور ثابت کر نا بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کا ایک نمایاں پہلو ہے.حضرت مسیح موعود نا علیہ السلام نے اس سیسہ میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے اختصار کے پیش نظر اس میں سے صرف چند حوالے درج کر نے پر اکتفا کرتا ہوں.آپ نے فرمایا :- ان تحریرات کا الہامی ہونا ہر گز ثابت نہیں کیونکہ ان کے لکھنے والوں نے کسی جگہ یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ کتابیں الہام سے لکھی گئی ہیں بلکہ بعض نے ان میں سے صاف سے اقرار کیا ہے کہ یہ کتابیں محض انسانی تالیف ہیں.سچ ہے کہ قرآن شریف میں انجیل کے نام پر ایک کتاب حضرت عیسی پر نازل ہونے کی تصدیق ہے مگر قران شریف میں ہرگز یہ نہیں ہے کہ کوئی الہام منی یا یوحنا وغیرہ کو بھی ہوا ہے اور وہ الہام رو انجیل کہلاتا ہے اس لئے مسلمان لوگ کسی طرح ان کتابوں کو خدا تعالٰی کی کتابیں نہیں کر سکتے.ان ہی انجیلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح خدا تعالیٰ سے الہام پاتے تھے اور اپنے الہامات کا نام انجیل رکھتے تھے.پس عیسائیوں پر یہ لازم ہے کہ وہ انجیل پیش کریں.تعجب کہ یہ لوگ اس کا نام بھی نہیں لیتے.پس وجہ یہی ہے کہ اس کو یہ لوگ کھو بیٹھتے ہیں " اے کتاب البریہ ص - روحانی خزائن جلد ۱۳ :
رمایا ۹۱ تمام یہودی اب تک با صرالہ تمام کہتے ہیں کہ مسیح نے انجیل کو ہمارے نبیوں کی کتب مقدسہ سے چرا کر بنا لیا ہے بلکہ ان کے بعض علماء اور اخبار تو کتابیں گھول کہ بتلا دیتے ہیں کہ اس اس جگہ سے فقرات چرائے گئے ہیں.اسی طرح دریا نند پنڈت بھی اپنی تالیفات میں شور مچا رہا ہے کہ تو ریت ہمارے پستکوں سے کانٹ چھانٹ کر بنائی گئی ہے اور اب تک ہوں وغیرہ کی رسم وید کی طرح اس میں پائی جاتی ہیں " انا جیل کے بارہ میں محقق عیسائیوں کے اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : " اس بات پر عیسائیوں کے کامل محققین کا اتفاق ہو چکا ہے کہ انجیل خالص خدا کا کلام نہیں ہے.بلکہ پتے داری گاؤں کی طرح کچھ خدا کا کچھ انسان کا ہے " سے نیز فرمایا : " عیسائیوں کے محققین کو خود اقرار ہے کہ ساری انجیل الہامی طور پر نہیں لکھی گئی بلکہ متی وغیرہ نے بہت سی باتیں اس کی لوگوں سے سن سنا کر لکھی ہیں اور لوقا کی انجیل میں تو کہ خود لوقا اقرار کرتا ہے کہ جن لوگوں نے مسیح کو دیکھا تھا ان سے دریافت کر کے میں نے لکھا ہے پس اس تقریر سے خود تو قا اقراری ہے کہ اس کی انجیل الہامی نہیں کیونکہ الہام کے بعد لوگوں سے پوچھنے کی کیا حاجت تھی اسی طرح مرقی کا صیح کے شاگردوں میں سے ہونا ثابت نہیں پھر وہ نبی کیونکہ ہوا.بہر حال چاروں انجیلیں نہ اپنی صحت پر قائم ہیں اور نہ اپنے سب بیان کے رو سے الہامی ہیں؟ ۳ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مذہبی کتاب کے پہلو سے بھی عیسائیت کی کمزوری کو پوری طرح واضح فرمایا ہے.اناجیل کی یہ خامیاں اس کی الہامی حیثیت کو کمزور کرنے کے علاوہ اس مذہب کی حقیقت اور اصلیت بھی واضح کرتی ہیں جو ان غیر الہامی ، ناقص، مسروقہ اور غیر محفوظ تحریرات کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے.۴ - الزامی جوابات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیت کی طرف سے اسلام پر کئے جانیوالے سب اعتراضات بر این احمدیہ حصہ چہارم حاشیه در حاشیه هان تا سنت (جلد ) : ايضا ۳ : ۳ : ايضًا ۳۹۵-۳۹۵
۹۲ کا تحقیقی اور علمی زرنگ میں مدتل جواب دیا ہے.اہل علم حضرات سے یہ امر مخفی نہیں کہ علمی مباحثات میں بعض اوقات ضدی اور متعصب دشمن کو ساکت اور لاجواب کرنے کے لئے الزامی جوابات بھی دینے پڑتے ہیں اور اس موقع پر ایسا کرنا ہی درست اور موثر ہوتا ہے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی کتب میں بعض موقعوں پر عیسائی معترضین کے شہر کو دور کرنے اور ان کو خاموش کرانے کی غرض سے الزامی جوابات تحریر فرمائے ہیں.اگر چہ حضور نے نہ اس طریق کو پسند فرمایا ہے اور نہ کثرت سے استعمال فرمایا ہے تاہم بعض اوقات با مرمجبوری الزامی جوابات دینے ناگزیر ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اپنی کتب میں جو الزامی جوابات دیئے ہیں وہ بڑے ہی برجستہ اور مسکیت ہیں.ان کی تین مثالیں پیش کرتا ہوں.ا، اسلام نے جائز اور واقعی ضرورت کے مطابق اور عدل کی رعایت ملحوظ رکھنے کے ساتھ تعدد ازدواج کی اجازت دی ہے.لیکن عیسائی حضرات اس پر گند سے اعتراضات کیا کرتے ہیں حضور نے تحقیقی جواب دینے کے بعد الندامی رنگ میں فرمایا :- " تاریخ سے معلوم ہوا ہے کہ جس یوسف کے ساتھ حضرت مریم کی شادی ہوئی اسکی ایک بیوی پہلے بھی موجود تھی اب غور طلب یہ امر ہے کہ یہودیوں نے تو اپنی شرارت سے اور حد سے بڑھی ہوئی شوخی سے حضرت مسیح کی پیدائش کو نا جائز قرار دیا.ان کے مقابلہ میں عیسائیوں نے کیا کیا.عیسائیوں نے حضرت مسیح کی پیدائش کو تو بیشک اعتقادی طور پر روح القدس کی پیدائش قرار دیا اور خود خدا ہی کو مریم کے پیٹ سے پیدا کیا مگر عقد ازدواج کو نا جائز کہ کر ہی اعتراض اس شکل میں حضرت مریم کی اولاد پر کہ ایلیا اور اس طرح پر خود مسیح اور ان کے دوسرے بھائیوں کی پیدائش پر حملہ کیا.واقعی عیسائیوں نے تعدد ازدواج کے مسئلہ پر اعتراض کر کے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے.یہ سالے (۲) دوسری مثال یہ ہے کہ قرآن مجید میں آیا ہے :- وَإِن كُنتَ فِي شَكِ کہ اگر تو اس بارہ میں کوئی شک کرتا ہے.اسی عیسائی حضرات نے یہ استدلال کیا ہے کہ گویا : ملفوظات جلد دوم +
۹۳ نعوذبالشهر رسول صلی اله نفوذ باشد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایمان کمزور تھا وغیرہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اعتراض کا علمی اور ٹھوس جواب دینے کے بعد الزامی جواب کے رنگ میں فرمایا :- اول یہ تبلیڈ کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو جو حکم دیا گیا کہ ماں باپ کی عزت کرد ان کے والدین کہاں تھے.یہاں یہ شک کا لفظ اول مسیح پر وارد ہو سکتا ہے کیونکہ اگر وہ قربان اور فدیہ ہونے کے واسطے ہی آیا تھا اور یہ قطعی فیصلہ تھا تو کیوں کہا کہ اسے خدا یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے معلوم ہوا کہ اسے ضرور شک تھا.قرآن میں جہاں شک کا لفظ آیا ہے وہ ہر ایک مخاطب کی طرف ہے نہ کہ خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف " اے (۳) الزامی جوابات کے سلسلہ میں تیسری مثال یہ ہے کہ قرآن مجید میں حضرت مریم کے لئے اخت جارون کے الفاظ آئے ہیں.عیسائیوں نے یہ اعتراض کیا کہ گویا منتزل قرآن (خدا تعالی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ حضرت مریم تو حضرت ہارون علیہ السلام کے ۲۰۰ سال بعد گزریں ہیں.اس اعتراض کا بہت سادہ اور مختصر سا جواب تو حضور نے یہ دیا ہے کہ :- ممکن ہے کہ مریم کا کوئی بھائی ہوجس کا نام ہارون ہو عدم علم سے عدم شے تو لازم نہیں آتا ہے " تولا اور پھر الزامی جواب کے طور پر فرمایا : مگر یہ لوگ اپنے گریبان میں منہ نہیں ڈالتے اور نہیں دیکھتے کہ انجیل کس قدر اعتراضات کا نشانہ ہے.دیکھو یہ کس قدر اعتراض ہے کہ مریم کو سیکل کی نذر کر دیا گیا تا وہ ہمیشہ بیت المقدس کی خادمہ ہو اور تمام عمر خاوند نہ کہر سے لیکن جب چھ سات مہینے کا حمل نمایاں ہو گیا تب حمل کی حالت میں ہی قوم کے بزرگوں نے مریم کا یوسف نام نجار سے نکاح کر دیا اور اسکے گھر جاتے ہی ایک دو ماہ کے بعد مریم کا بیٹا پیدا ہوا وہی عینی یا یسوع کے نام سے موسوم ہوا.اب اعتراض یہ ہے کہ اگر در حقیقت معجزہ کے طور پر یہ عمل تھا تو ا :- ملفوظات جلد چهارم ص : چشمه سیحی ۲۲۰ - روحانی خزائن جلد ۲۰ :
۹۴ کیوں وضع حمل تک صبر نہیں کیا گیا ؟ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ عہد تو یہ تھا کہ مریم مد العمر ہیکل کی خدمت میں رہے گی پھر کیوں عہد شکنی کر کے اور اس کو خدمت بیت المقدس سے الگ کر کے یوسف نجارہ کی بیوی بنایا گیا ؟ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ توریت کی رو سے بالکل حرام اور نا جائنہ تھا کہ حمل کی حالت میں کسی عورت کا نکاح کیا جائے پھر کیوں خلاف حکم توریت مریم کا نکاح عین حمل کی حالت میں یوسف سے کیا گیا حالانکہ یوسف اس نکاح سے ناراض تھا اور اس کی پہلی بیوی موجود تھی.....القصہ حضرت کی تھی.مریم کا نکاح محض شبہ کی وجہ سے ہوا تھا ورنہ جو عورت بیت المقدس کی خدمت کرنے کے لئے نذر ہو چکی تھی اس سے نکاح کی کیا ضرورت تھی.افسوس ! اس نکاح سے بڑے فتنے پیدا ہوئے اور یہود نابکار نے ناجائز تعلق کے شبہات شائع کئے لے سے اور پھر فرمایا : اگر کوئی اعتراض قابل مل ہے تو یہ اعتراض ہے نہ کہ مریم کا ہارون بھائی قرار دینا کچھ اعتراض ہے نہ الغرض علم کلام کا یہ حصہ کہ معترضین کے اعتراضات کے جوابات دیئے جائیں.حضر مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام میں اپنی پوری وسعت اکمال اور جلال کے ساتھ نظر آتا ہے.۵ حضرت مسیح ناصری کا حقیقی مقام عیسائیت کے خلاف علم کلام میں چونکہ حضرت علی علیہ السلام کا ذکر بار بار آتا ہے اور عیسائیوں پر حجت پوری کر نے اور الزامی جوابات دینے کے لئے بائیبل کے حوالہ جات بکثرت بیان کئے جاتے ہیں.اس لئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریرات سے ناواقف لوگوں کا یہ غلط مفہوم اخذ کرنا کچھ بعید نہیں کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نعوذ باللہ حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں نامناسب الفاظ استعمال فرمائے ہیں یا ان کے مرتبہ کو کم کر کے بیان فرمایا ہے.عملاً ایسا ہوا بھی ہے کہ بعض لوگوں اور خاص طور پر عیسائیوں نے ایسا سمجھ لیا ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے اس پہلو سے بھی اپنے علم کلام کو شکل فرمایا ہے کہ آپنے اپنے علم ها چشم مسیحی ۲-۲۳ در معانی خزائن جلد ۲۰ سه : چشمه سیحی ص۲۳ (روحانی خزائن جلد ۲ )
۹۵ النزامی جوابات دیتے ہوئے اور بائیل کی عبارات پیش کرتے ہوئے اگرچہ بظاہر بعض سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں لیکن آپ نے اس بات کی بھی وضاحت فرما دی ہے کہ میرا اپنا یہ عقیدہ نہیں ہے بلکہ میں تو حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا ایک سچا نبی خیال کرتا ہوں.یہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے.یہ سب عیسائی بیانات کے مطابق ہے اور انس یسوع کے بارہ میں ہے جس کا نقشہ بائیبل پیش کرتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مسیح کی بے ادینی کے الزام کی تردید کرتے ہوئے اصل موقف اور اس کی وجہ بایں الفاظ بیان فرمائی ہے :- ہم نے اپنی کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی یسوع مراد لیا ہے اور خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسی ابن مریم جو نبی تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ ہمارے درشت خطابات میں ہرگز مراد نہیں اور یہ طریق ہم نے بر ایمر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے " ہے اسی سلسلہ میں فرماتے ہیں : " حضرت مسیح کے حق میں کوئی بے ادبی کا کلمہ میرے منہ سے نہیں نکلا.یہ سب مخالفوں کا افتراء ہے.ہاں چونکہ در حقیقت کوئی ایسا یسوع مسیح نہیں گزرا جنی خدائی کا دعوی کیا ہو اور آنے والے نبی خاتم الانبیاء کو جھوٹا قرار دیا ہوا اور حضرت موسیٰ کو ڈاکو کہا ہو اس لئے میں نے فرض محال کے طور پر اس کی نسبت ضرورہ بیان کیا ہے کہ ایسانیخ دیکھی یہ کلمات ہوں راستباز نہیں ٹھہر سکتا لیکن ہمارا اسیح ابن مریم جب جو اپنے تئیں بندہ اور رسول کہلاتا ہے اور خاتم الانبیاء کا مصدق ہے اس پر ہم ایمان لاتے ہیں " نیز مسند رایا : ہمارے قلم سے حضرت علی علی السلام کی نسبت جو کچھ خلاف شان ان کے نکلا ہے وہ الزامی جواب کے رنگ میں ہے اور وہ دراصل یہودیوں کے الفاظ ہم نے نقل کئے ہیں " سے له: ضروری اعلان مندرہ نور القرآن نمبر ۲ (جبله (۹): ه: - تریاق القلوب حاشیه حث جلد ۱۵: س : مقدمه چشمه سیحی صن.روحانی خزائن جلد ۲۰ :
۹۶ ایک اصولی ہدایت کے طور پر فرمایا : " پڑھنے والوں کو چاہیئے کہ ہمارے بعض سخت الفاظ کا مصداق حضرت عیسی السلام کو نہ بھولیں کہ بات کی ہیں غیر اسلام کو نہ سمجھ لیں بلکہ وہ کلمات اس میسوع کی نسبت لکھے گئے ہیں جس کا قرآن و حدیث میں نام و نشان نہیں لے اس وضاحت کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت عیسی علیہ السلام کے مجھے منصب یعنی رسول اور نبی ہونے کا برملا اعتراف اور اقرار کیا ہے.حضور نے اس بات کی نفی ضرور فرمائی ہے کہ حضرت مسیح خدا تھے یا سب نبیوں سے افضل تھے.آپ کا موقف یہ ہے کہ حضرت یہ عیسی علیہ السلام نہ خدا تھے نہ سب نبیوں سے بزرگ اور افضل.ہاں آپ خدا کے سچے نبی اور مقرب بارگاہ احدیت تھے.جب ایک مجلس میں آپ کے سامنے بیان کیا گیا کہ گویا آپ حضرت عیسی علیہ السلام کے درجہ کو کم کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا :- ہم خدا تعالیٰ کے بلائے بولتے ہیں اور وہ کہتے ہیں جو فرشتے آسمان پر کہتے ہیں افتراء کرنا تو ہمیں آنا نہیں اور نہ ہی افتراء خدا کو پیارا ہے " " پھر حضرت مسیح علیہ السلام کے مقام کے بارہ میں مندرجہ ذیل حوالہ جات بھی قابل توجہ ہیں.حضور فرماتے ہیں :- (1) یسچ یہی ہے کہ عیسوع ابن مریم نہ خدا ہے نہ خدا کا بیٹا ہے" سے (٣) اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ خدا کا ایک پیارا اور برگزیدہ نبی تھا اور ان میں سے کہ تھا جن پر خدا کا ایک خاص فضل ہوتا ہے اور جو خدا کے ہاتھ سے پاک کئے جاتے ہیں مگر خدا نہیں تھا اور نہ خدا کا بیٹا تھا." ہے (۳) حضرت عیسی کو بھی ہم اور انبیاء کی طرح خدا تعالیٰ کا ایک نبی یقین کرتے ہیں ہم مانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں صدق اور اخلاص رکھنے والے لوگ خدا تعالیٰ کے مقرب ہوتے ہیں YAA سه : تبلیغ رسالت جلد پنجم من به شهر ملفوظات جل پنجم ماه با گاه حقیقت اولی ما در این رامین جلالی حقیقة الوحی حال (روحانی خزائن جلد ۲۲ ) ::
9< جس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے اور مخلص بندوں کے حق میں بباعث ان کے کمال صدق اور محبت کے بیٹے کا لفظ بولا ہے.اسی طرح سے حضرت عیسی بھی انہی کی ذیل میں ہیں.حضرت عیسی میں کوئی ایسی بڑی طاقت نہ تھی جو اور نبیوں میں نہ پائی جاتی ہو اور نہ ہی ان میں کوئی ایسی نئی بات پائی جاتی ہے جیسی دوسر سے محروم رہے ہوں یہ کہ (۴) ور میں حضرت عیسی علیہ السلام کی شان کا منکر نہیں.....میں مسیح ابن مریم کی بہت عزت کرتا ہوں.....مفید اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا کہ نہ (۵) یں نبیوں کی عزت اور حرمت کرنا اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں لیکن نبی کریم کی فضیلت کل انبیاء پر میرے ایمان کا جزو اعظم ہے " سے ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی بھی مرحلہ پر انصاف اور حق گوئی کے مامورانہ منصب سے سیر مو انحراف نہیں کیا.آپ نے الزامی جوابات دیتے ہوئے عیسائیوں کو ان کی تحریرات کی رو سے ملزم بھی کیا لیکن اس کے ساتھ اپنے اصلی موقف اور نظریہ کی وضاحت بھی غیر مبہم الفاظ میں فرما دی لاریب یہ خوبی آپ کے مامورانہ علم کلام کا ایک نمایاں وصف ہے.عیسائیت میں برکات روحانیہ کا فقدان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خداداد علم کلام کا ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ جہاں آپ نے عیسائی مذہب کے عقائد اور تعلیمات کار ڈفرمایا ہے وہاں اس مذہب کو بحیثیت مذہب ایک بے فیض اور مردہ مذہب ثابت کیا جواب اپنے متبعین کو کوئی نشان یا برکت عطا نہیں کر سکتا.عیسائیت میں برکات روحانیہ کا فقدان ایک ایسا زبردست اعتراض ہے جس کی موجودگی میں عیسائی منادوں کے بلند بانگ دعا دی بے حقیقت ہو کر رہ جاتے ہیں.F : ملفوظات جلد دہم ص سے کشتی نوح من روحانی خزائن جلد ۱۹ : سه : ملفوظات جلد دوم ص : هنگا:
مذہب کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ایک پاکیزہ اور روحانی زندگی عطا کر سے اور تازہ بتازہ نشانات سے ان کے ازدیاد ایمان کا سامان پیدا کرتا رہے جیسے اللہ تعالیٰ نے زندہ مذہب کی یہ علامت بیان فرمائی ہے کہ :.i " تُؤتي أكلَهَا كُل حِينِ بِاذْنِ رَبِّهَا - (سورة البراهيم (۲۶) - (٢٦) کہ زندہ مذہب اپنے تازہ بتازہ پھل نشانات کی صورت میں پیش کرتا ہے.اور متبعین کے ایمان کو بڑھا کر ان میں ایک روحانی انقلاب پیدا کرتا ہے.او حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دعویٰ فرمایا اور ثابت فرمایا کہ یہ پاکیزہ زندگی اور روحانی برکات عیسائیوں میں ہر گز موجود نہیں ہیں بلکہ کفارہ نے ان کو گنا ہوں پیر اور زیادہ دلیر کر دیا ہے.آپ نے یہ چیلنج کیا ہے کہ عیسائیت اب ایک مردہ مذہب ہے جس کے ماننے سے کسی کو کوئی روحانی برکت یا نشان نصیب نہیں ہو سکتا.اس بارہ میں آپ نے عیسائیوں کو اور ان کے پادریوں کو بار بارہ دعوت مقابلہ دی.ان کو غیرت اور شرم دلا کہ انس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش فرمائی کہ وہ مد مقابل آکر اسلام سے عیسائیت کی برکات روحانیہ کا مقابلہ کر نہیں لیکن کوئی پادری اس بات کے لئے تیار نہ ہوا.عیسائی پادریوں کا یہ فرانہ گویا اس بات پر مہر تصدیق ثبت کرنا تھا کہ واقعی ان کا مذہب ایک مردہ اور بے نشان مذہب ہے.عیسائی مذہب کے مردہ اور بے فیض ثابت کرنے کے لئے حضور نے ایک زندہ اور کامل مذہب کی نشانیاں بیان فرمائیں.اس ضمن میں حضور علیہ السلام کے چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں: " سچے مذہب پر خدا کا ہا تھ ہوتا ہے اور خدا اس کے ذریعہ ظاہر کرتا ہے کہ میں موجود کہ ہوں......سچا مذہب رہی ہے جو اس زمانہ میں بھی خدا کا سننا اور بولنا دونوں ثابت کرتا ہے غرض سچے مذہب میں خدا تعالیٰ اپنے مکالمہ مخاطبہ سے اپنے وجود کی آپ خبر دیتا ہے کالے نیز تحریر فر مایا : - وہ مذہب جو محسن خدا کی طرف سے ہے اس کے ثبوت کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ منجانب اللہ ہونے کے نشان اور خدائی مہر اپنے ساتھ رکھتا ہوتا معلوم ہو کہ وہ خاص اللہ تعالٰی کے ہاتھ سے ہے کہ صد سه : چشمه مسیحی ملاله ۲۰ روحانی خزائن جلد ۲۰ : سه چشمه مسیحی صن روحانی خزائن جلد ۲۰ : : به ۲۰؛
٩٩ پھر اسی سلسلہ میں فرمایا کہ: " مذہب وہی سچا ہے جو یقین کامل کے ذریعہ سے خدا کو دیکھلا سکتا ہے اور درجہ مکالمہ مخاطبہ الہیہ تک پہنچا سکتا ہے اور خُدا کی ہمکلامی کا شرف بخش سکتا ہے اور اس طرح اپنی روحانی قوت اور روح پرور خاصیت سے دلوں کو گناہ کی تاریخی سے چھڑا سکتا ہے اور اس کے سوا سب دھوکہ دینے والے ہیں ؟یا لے پھر آپ فرماتے ہیں :- " سچے مذہب کی نشانیوں میں سے یہ ایک عظیم الشان نشانی ہے کہ خدا تعالیٰ کی معرفت اور اس کی پہچان کے وسائل بہت سے اس میں موجود ہوں تا انسان گناہ سے رک سکے اور تادہ خدا تعالیٰ کے حسن و جمال پر اطلاع پا کرہ کامل محبت اور عشق کا حصہ لید سے اور تا وہ قطع تعلق کی حالت کو جہنم سے زیادہ سمجھے " سے شهر مایا زفرمایا :- له بغیر روحانیت کے کوئی مذہب چل نہیں سکتا اور مذہب بغیر روحانیت کے کچھ کے چیز نہیں.جس مذہب میں روحانیت نہیں اور جس مذہب میں خدا کے ساتھ مکالمہ کا تعلق نہیں اور صدق و صفا کی روح نہیں اور آسمانی کشش اس کے ساتھ نہیں دار فوق العادات تبدیلی کا نمونہ اسکی پاس نہیں وہ مذہب مُردہ ہے یہ سے ایک سچے مذہب کی نشانیاں بیان فرمانے کے بعد آپ نے یہ تجزیہ فرمایا ہے کہ یہ نشانیاں عیسائی مذہب میں ہرگز پائی نہیں جاتیں اور اگر اس معیار پر عیسائیت کو پرکھا جائے تو وہ ایک مردہ مذہب نظر آتا ہے.فرمایا :- " ہر سچا مذہب اور سچا عقیدہ ان تین نشانوں یعنی نصوص عقل اور تائید سماوی سے شناخت کیا جاتا ہے اور عیسائی مذہب....اس معیار پر پورا نہیں اتر تا....حق کی شناخت کے لئے یہ تین ہی ذریعے ہیں اور عیسائی مذہب میں تینوں مفقود ہیں.اس معیار پر مذہب کی صداقت معلوم کرنے کے لئے عیسائیوں کو دعوت مقابلہ دیتے ہوئے آنے فرمایا.۱۶ ه : لیکچرہ ہو ر ص روحانی خزائن جلد ۲۰ سے لیکچری پودر حنت - روحانی خزائن جلد ۲۰ ہے ۱۳ - تذكرة الشتها دمین مثله ، روحانی خزائن جلد ۲۰ به گی : ملفوظات جلد سوم و ۱۲۵-۱۲۳
سوئیں تمام دنیا کو خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ نہ ندوہ خدا اسلام کا خدا ہے اس اشتہار دینے کی اصل غرض یہی ہے کہ جس مذہب میں سچائی ہے وہ کبھی اپنا رنگ نہیں بدل سکتی.جیسے اول ہے ویسے ہی آخر ہے.سچا مذہب کبھی خشک قصہ نہیں بن سکتا.سو اسلام سچا ہے.میں ہر ایک کو کیا عیسائی کیا آریہ اور کیا یہودی اور کیا بہر ہو اس سچائی کے دکھلانے کے لئے بلاتا ہوں کیا کوئی ہے جو زندہ خدا کا طالب ہے.ہم مردوں کی پرستش نہیں کرتے.ہمارا خدا زندہ خدا ہے وہ ہماری مدد کرتا ہے.وہ اپنے کلام اور الہام اور آسمانی نشانوں سے ہمیں مدد دیتا ہے.اگر دنیا کے اس میرے سے اُس سیر سے تک کوئی عیسائی طالب حق ہے تو ہمار سے زندہ خدا اور اپنے مردہ خُدا کا مقابلہ کر کے دیکھ لے.لیکن سچ سچ کہتا ہوں کہ اس باہم امتحان کے لئے چالیں ! دن کافی ہیں یا اے پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں : اب دیکھنا چاہیے کہ کونسا مذہب اور کونسی کتاب ہے جس کی ذریعہ سے یہ غرض حاصل ہو سکتی ہے.انجیل تو صاف جواب دیتی ہے کہ مکالمہ اور مخاطبہ کا دروازہ بند ہے اور یقین کرنے کی راہیں مسدود ہیں اور جو کچھ ہوا وہ پہلے ہو چکا اور آگے کچھ نہیں.مگر تعجب کردہ خدا جو اب تک اس زمانہ میں بھی سنتا ہے وہ اس زمانے میں بولنے جوابه سے کیوں عاجزہ ہو گیا ہے ؟ کیا ہم اس اعتقاد پر تسلی پکڑ سکتے ہیں کہ پہلے کسی زمانہ ہیں میں وہ بولتا بھی تھا اور سنتا بھی تھا مگر اب وہ صرف سنتا ہے مگر بولتا نہیں.ایسا خدا کس کام کا جو ایک انسان کی طرح جو بڑھا ہو کر بعض توئی اس کے بیکار ہو جاتے ہیں.ابتدا ہو نہ مانہ کی وجہ سے بعض قو می اس کے بھی بیکا نہ ہو گئے اور نیز ایسا خدا کس کام کا کہ جب ٹک ٹکٹکی سے باندھ کر اس کو کوڑے نہ لگیں اور اس کے منہ پر نہ تھو کا جائے اور چند روز اس کو حوالات میں نہ رکھا جائے اور آخر اس کو صلیب پر نہ کھینچا جائے تب تک وہ اپنے بندوں کے گناہ نہیں بخش سکتا.ہم تو ایسے خُدا سے سخت بیزان ہیں جس پر ایک ذلیل قوم یہودیوں کی جو اپنی حکومت بھی کھو بیٹھی تھی غالب آگئی.ہم اس خدا کو سچا خدا مانتے ہیں جس نے ایک مکہ کے غریب دیے کس کو اپنا نبی بنا کہ اپنی ه اشتهار ۱۴ جنوری ۶۱۸۹۷ :
١٠١ IN قدرت اور غلبہ کا جلوہ اسی زمانہ میں تمام جہان کو دکھا دیا.یہانتک کہ جب شاہ ایران نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لئے اپنے سپاہی بھیجے تو اس قادر خدا نے اپنے رسول کو فرمایا کہ سپاہیوں کو کہد سے کہ آج رات میرے خُدا نے تمہارے خداوند کو قتل کر دیا ہے.اب دیکھنا چاہیئے کہ ایک طرف ایک شخص خدائی کا دعویٰ کرتا ہے اور اخیر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گورنمنٹ رومی کا ایک سیاہی اس کو گرفتار کر کے ایک دو گھنٹہ میں جیل خانہ میں ڈال دیتا ہے اور تمام رات کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں.اور دوسری طرف وہ مرد ہے کہ صرف رسالت کا دعوی کرتا ہے اور خدا اس کے مقابلہ یہ بادشاہو کو ہلاک کرتا ہے......ہم ایسے مذہب کو کیا کریں جو مُردہ مذہب ہے.ہم اس کتاب سے کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جو مردہ کتاب ہے اور ہمیں ایسا خُدا کیا فیض پہنچا سکتا ہے جو مُردہ خُدا ہے کہ الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مقابلہ سے ثابت فرمایا ہے کہ اسلام کے مقابل پر عیسائیت کا پیش کردہ خُدا ایک مُردہ اور بے فیض خُدا ہے صرف یہی نہیں بلکہ عیسائی تازہ بتازہ نشانات دیکھا نے سے اسی طرح محروم ہیں جس طرح خزاں آنے سے اچھے ہر سے بھر سے درخت پھلوں بلکہ توں تک سے محروم ہو جاتے ہیں.یہی بے بسی کی کیفیت اور تہی دستی کا نظارہ اب عیسائیت میں نظر آتا ہے جس کا دامن خدائی نشانات سے خالی ہے.حضور فرماتے ہیں :- " پادری صاحبوں کے لئے ایک اور مشکل یہ پیش آئی ہے کہ ہم نے ثابت کر دیا تھا کہ علاوہ ان تمام مشرکانہ عقائد کے جو ان کے مذہب میں پائے جاتے ہیں اور علاوہ ایسی ایسی کچھی اور خام باتوں کے کہ مثلاً انسان کو خدا بنانا اور اس پر کوئی دلیل نہ لانا جو ان کا طریقہ ہے ایک اور بھاری مصیبت ان کو یہ پیش آئی ہے کہ وہ اپنے مذہ کے روحانی برکات ثابت نہیں کر سکے.یہ تو ظاہر ہے کہ جس مذہب کی قبولیت کے آثار آسمانی نشانوں سے ظاہر نہیں ہیں.وہ ایسا آلہ نہیں ٹھہر سکتا جس کو خدا نما کہ سکیں بلکہ اس کا تمام مدار قصوں اور کہانیوں پر ہوتا ہے اور جس خدا کی طرف وہ راہ دکھلانا چاہتا ہے اس کی نسبت بیان نہیں کر سکتا کہ وہ موجود بھی ہے اور ایسا مذہب اس قدر کمتا ہوتا ہے کہ اس کا ہونا نہ ہوتا براہمہ ہوتا ہے اور ایک مچھر پر غور کر کے خدا کا پتہ لگ سکتا ہے اور ایک لیپتو کو دیکھ کر : چشم هر مسیحی من - روحانی خزائن جلد ۲۰ :
۱۰۲ صانع حقیقی کی طرف ہمارا ذہن منتقل ہو سکتا ہے مگر ایسے مذہب سے ہمیں کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا کہ جو اپنے پیٹ میں صرف قصوں اور کہانیوں کا ایک مردہ بچہ پر رکھتا ہے نیز فرمایا :- : در عیسائی مذہب اسی دن سے تاریخی میں پڑا ہوا ہے جیسے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خداتعالی کی جگہ دی گئی اور جب کہ حضرات عیسائیوں نے ایک بچے اور کامل اور مقدیس نبی افضل الانبیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا.اس لئے میں یقیناً جانتا ہوں کہ حضرات عیسائی صاحبوں میں سے یہ طاقت کسی میں بھی نہیں کہ اسلام کے زندہ نوروں کا مقابلہ کر سکیں " جہاں تک آسمانی نشانات اور کرامات دیکھا نے کا تعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحدی فرمائی ہے کہ عیسائیوں میں سے کوئی ایک شخص بھی اس کا دعویٰ اور ثبوت پیش نہیں کر سکتا آپ کس یقین سے فرماتے ہیں :- دہ آسمانی نشانوں کی شہادت کا یہ حال ہے کہ اگر تمام پادری مسی مسیح کرتے مر بھی جائیں تاہم ان کو آسمان سے کوئی نشان مل نہیں سکتا کیونکہ مسیح خدا ہو تو ان کو نشان د ہے.وہ تو بے چارہ اور عاجز اور ان کی فریاد سے بے خبر ہے اور اگر خبر بھی ہو تو کیا کر سکتا ہے سے مباحثہ جنگ مقدس کے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں کو چیلینج کہا کہ ان میں سے کوئی اُٹھے اور اپنے مذہب کی صداقت کی خاطر عیسائیت کی عطا کردہ نجات اور برکات روحانیہ کا ثبوت پیش کر ہے.اس موقعہ پر آپ نے اپنے وجود کو پیش فرمایا کہ اسلام نے جو نجات یہ تھے پیش کی ہے اس کے لئے میں زندہ گواہ موجود ہوں.آپ نے فرمایا : - کوئی صاحب آپ میں سے کھڑے ہو کہ اس وقت بولیں کہ میں ہو جب فرمودہ حضرت مسیح کے نجات پا گیا ہوں اور وہ نشانیاں نجات کی اور کامل ایمانداری کی جو حضرت سیچ نے مقرر کی تھیں وہ مجھ میں موجود ہیں.پس ہمیں کیا انکار ہے ہم تو نجات ہی چاہتے : كتاب البریہ صلا روحانی خزائن جلد ۱۳ سے : حجة الاسلام من روحانی خزائن جلد ۶ : ما : - كتاب البرية ملف
ہیں.لیکن زبان کی نشانی کو کوئی قبول نہیں کر سکتا.لیکن آپ کی خدمت میں عرض کر چکا ہوں کہ قرآن کا نجات دینا میں نے بچشم خود دیکھا ہے اور میں پھر اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کہ کہتا ہوں کہ میں بالمقابل اس بات کو دکھلانے کو حاضر ہوں لیکن اول آپ دو حرفی مجھے جواب دیں کہ آپ کے مذہب میں سچی نجات معہ اس کی علامات کے پائی جاتی ہے یا نہیں.اگر پائی جاتی ہے تو دکھلاؤ.پھر اس کا مقابلہ کرو.اگر نہیں پائی جاتی تو آپ صرف اتنا کہدو کہ ہمارے مذہب میں نجات نہیں پائی جاتی.پھر میں یکطرفہ ثبوت دینے کے لئے مستعد ہوں نے :- نیز فرمایا : " ہم جس طرح پر خدا تعالیٰ نے ہمارے بچے ایماندار ہونے کے نشان ٹھہرائے ہیں.اس التزام سے نشان دکھلانے کو تیار ہیں.اگر نشان نہ دکھلا سکیں تو جو سزا چاہیں دیدیں اور جس طرح کی چھڑی چاہیں ہمارے گلے پر پھیر دیں " ۲ بار بار کے مطالبہ اور غیرت دلانے کے باوجود کوئی عیسائی میدان میں نہ آیا.جاء الحق وزهق الباطل.آزمائیش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے اس طرح گویا عیسائیوں نے اس میدان میں اپنی شکست کا اعتراف کر کے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ عیسائیت اس دنیا میں خدائی نشانات دکھانے اور مسیح نجات کا نمونہ پیش کرنے سے قاصر اور عاجز ہے.گویا عیسائیت ایک زندہ نہیں بلکہ ایک مردہ مذہب ہے.عیسائیت کا بحیثیت مجموعی ایک مردہ مذہب ثابت کرنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خداداد علم کلام کا ایک نمایاں امتیاز ہے یہ متفرعانہ دعائیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عیسائیت کے خلاف علم کلام میں سب سے زیادہ کارگر ہتھیار کے خدائی مدد و نصرت کو جوش دلانے والی وہ متضر نمانہ اور عاجزانہ دعائیں ہیں جو آپ نے اس فتنہ کے استیصال کے لئے اپنے رب کے حضور راتوں کی تنہائیوں میں فرمائیں.اس میں شک نہیں کہ آپ : جنگ مقدس من روحانی خزائن جلد سے :- جنگ مقدس قت روحانی خزائن جلد 4 :
۱۰۴ نے عیسائیت کے رد میں ہر ممکن وسیلہ استعمال فرمایا.اس غرض کے لئے اپنی ساری زندگی وقف اہر کر دی اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ فرمایا.لیکن حق بات یہ ہے کہ ان سب وسائل سے بڑھ کر کارگر ہتھیارہ دعا کا ہے کیونکہ اسی دعا کی وجہ سے خدا تعالی نے مسیح پاک علیہ السلام کے کلام میں غیر معمولی تاثیر پیدا کی ، آپ کے استدلال کو قوت عطا فرمائی.آپ کو نئے نئے دلائل کا علم عطا فرمایا اور پھر ان سبب وسائل اور دلائل کو موثر بنانے کے لئے آسمان سے فرشتوں کے شکر نازل فرمائے جنہوں نے عیسائیت کی ہیکل کو پاش پاش کر دیا اور اس مذہب کا طلسم دہواں ہو کر اڑنے لگا.پس عیسائیت کی شکست اور اسلام کی فتح میں سب سے اہم کردار مسیح پاک علیہ السلام کی دعاؤں کا ہے.جنہوں نے خدا کی مدد و نصرت اور رحمت کو جذب کر لیا اور خدائی منشاء لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ لِه دنیا میں پوری شان کے ساتھ پورا ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دلائل و براہین پر کبھی انحصار نہیں فرمایا.بلکہ تحریر فرمایا ہے کہ ہمارا اصل ہتھیار دُعا ہی ہے اسی سے سب کام ہوں گے.خاص طور پر عیسائیت سے مقابلہ کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :- ہمارا اس سے بڑا کام تو ہے.اگر یہ کام ہو جاو سے تو ہزاروں شبہات اور اعتراضات کا جواب خود بخود ہو جاتا ہے اور اسی کے ادھورا رہنے سے سینکڑوں اعتراضات ہم پر وارد ہو سکتے ہیں.دیکھا گیا ہے کہ چالیس یا پچاس کتابیں لکھی ہیں مگر ان سے ابھی وہ کام نہیں نکلا جس کے لئے ہم آئے ہیں......یہ کام بجز خدائی ہاتھ کے انجام پذیر ہوتا نظر نہیں آتا.اسی واسطے ہم نے ان ہتھیاروں یعنی قلم کو چھوڑ کو ڈھا کے واسطے یہ مکان (حجرہ) بنوایا ہے کیونکہ دعا کا میدان خدا نے بڑا وسیع رکھا ہے اور اس کی قبولیت کا بھی اس نے وعدہ فرمایا ہے ؟ اسے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیت کے استیصال اور اسلام کے غلبہ کے لئے جس درد مندی اور عاجزی سے دعائیں فرمائیں ان کا باب ایک بہت وسیع باب ہے.ایک طرفت آپ نے اسلام کی فتح کے لئے ان الفاظ میں دعائیں کیں کہ سے دن چڑھا ہے دشمنان دیں کا ہم یہ رات ہے ؟ اسے مرے سورج نکل باہر کہ میں ہوں بیقرار يا إلى فضل کم اسلام پیر اور خود بیچا ہے اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب شن سے پکار ملفوظات جلد پنجم ۲۵، ۳۵۵
۱۰۵ دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعف دین مصطفے ؟ مجھ کو کر اسے سلطان کامیاب و کامگار اور اس وقت چونکہ عیسائیت ہی سب سے زیادہ شدت کے ساتھ اسلام پر حملہ آور تھی اور اسی کو مغلوب کر نا آپ کی بعثت کا مقصد تھا اس لئے آپ نے بارگاہ رب العزت میں اس کے لئے بھی التجائیں فرمائیں.آپ فرماتے ہیں سے "نشكو إلى الرحمان شتر زمانهم ، ونعوذ بالقدوس من شيطانهم يا رب خذهم مثل اخذك مفسدا و قد افسد الآفاق طول زمانهم أدرك رجالًا يا قدير ونسوة : رحما ونج الخلق من طوفانهم يارب احمد يا الله مُحَمَّدٍ : أعصم عبادك من سموم دخانهم يا عوننا انصر من سواك ملاذنا و ضاقت علينا الارض من اعوانهم يارب ستحقهم كسحقك طاغياً ؛ وانزل بساحتهم لهدم مكانهم يارب مزقهم وفرق شملهم : يارب قودهم الى ذرياتهم يا یا مستعانى ليس دونك ملجائى ؛ فانصر وايدنا لهدم قنا نهم يارب ارتى يوم كسر صليبهم : يارب سلطنى على جدرانهم انزل جنودك يا تدير لنصرنا : انا لقينا الموت من لقيانهم يارب قد بلغ القلوب حناجرا : يا رب نجح الخلق من تعبانهم ياربّ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی یہ متفرعانہ دعائیں رنگ لائیں.ان عاجزانہ دعاؤں کو یہ منہ شرف قبولیت عطا فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آسمان سے فرشتوں کی فوجیں نازل فرما دیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے پیش فرمودہ علم کلام میں خدائی اذن سے دو قوت اور تاثیر پھونک دی کہ سعادت مند لوگوں نے حق کو شناخت کر لیا.آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کے نتیجہ میں یوں نظر آتا ہے کہ دنیا ایک نئے رنگ میں آگئی ہے عیسائیت اگر پہلے غالب تھی تو اب مغلوب ہو گئی ہے.پہلے اگر اسلام پر حملہ آور تھی تو اب دفاع پر مجبور ہو گئی ہے.حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے مقدس الفاظ میں سے آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج از نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناگہ نہ ندہ دار کہتے ہیں تثلیث کو اب اہل دانش الوداع ؛ پھر ہوئے ہیں چشمہ تو حید پر از جان شاعر : نور الحق حصہ اول ها تا ما روحانی خزائن جلد ۸ :
1.9 - ی عظیم الشان روحانی انقلاب ، مذہبی دنیا میں یہ عالمگیر تبدیلی الہ تعالی کے اذن کے مطابق بانی سلسلہ عالیه احمدی ، سید نا حضرت مسیح موعود علی اسلام کے مامورانہ علم کلام کے نتیجہ میں رونما ہو رہی ہے اور اس علم کلام کو وجود بخشنے ، اس کو موثر بنانے اور اس کے نیک اثرات پیدا کرنے میں جس چیز کا سب سے زیادہ دخل ہے وہ مامور زمانہ حضرت کا سیر صلیب سیدنا مسیح موعود علیہ السلام کی شبانہ روزہ عاجزانہ اور متضرعا نہ دعائیں اور التجائیں ہیں.پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی ہیں.جنہوں نے مذہبی افق کو اسلام کے نور سے منور کر دیا ہے اور دنیا کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ : کر ” وہ دن آتے ہیں کہ عیسائیوں کے سعادت مند لڑکے سچے خُدا کو پہچان لیں گے اور پرانے بچھڑے ہوئے وحدہ لاشریک کو روتے ہوئے آملیں گے.یہ میں نہیں کہتا بلکہ وہ رُوح کہتی ہے جو میرے اندر ہے جس قدر کوئی سچائی سے لڑسکتا ہے لڑے جس قدر کوئی مسکر کر سکتا ہے کہ سے ، لیے شک کرے لیکن آخر ایسا ہی ہوگا.یہ سہل بات ہے کہ زمین و آسمان مبدل ہو جائیں.یہ آسان ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں لیکن یہ وعد سے مبدل نہیں ہوں گے" کے خدائی ہزار ہزار رحمتیں اور برکتیں ہوں اس مقدس انسان پر جب سے دین مصطفوی کی خاطر اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ قربان کر دیا.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جس مقدس ہستی کی عاجزانہ دعاؤں سے یہ عالمگیر انقلاب پیدا ہوا ہے اسی کی ایک بہت ہی دلربا دعا کے ساتھ میں اپنے اس باب کو ختم کر نیکی سعادت حاصل کروں حضرت مسیح پاک علیہ السلام بارگاه احدیت میں ناصیہ فرسا ہیں :- سے میر سے قادر خدا امیری عاجزانہ دعائیں نشین لے اور اس قوم کے کان اور دل کھول سے اور ہمیں وہ وقت دکھا کہ باطل معبودوں کی پرستش دُنیا سے اُٹھ جائے اور زمین پر تیری پرستش اخلاص سے کی جائے اور زمین تیر سے راستباز اور موحد بندوں سے ایسی بھر جائے جیسا کہ مندرہ پانی سے بھرا ہوا ہے اور تیر سے رسول کریم حمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور سچائی دلوں پر بیٹھ جائے.آمیونے.اسے میر سے قادر خدا ! مجھے یہ تبدیلی دنیامیں دکھا اور میری دعائیں قبول کہ جو ہر یک طاقت اور قوت تجھ کو ہے.اسے قادر خدا ! ایسا ہی کر.آمین ثم آمیر نے واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين" له المديله : سراج منیر مت روحانی خزائن جلد ۱۲ :: - تسمه حقیقة الوحی ص ۱۶ روحانی خزائن جلد ۲۲ به
1.4 توحید الہجے کچھ جڑ یہی ہے کہ وہ وحدہ لاشریک اپنے ذات میں اور اچھی صفات ہیں اور اپنے کاموں میں ہے اور کوئی یہ دوسرا مخلوق اس کی مانند وحده لا شریک نہیں " باب سوم ر مسیح موعود ) توحید کے حق میں دلائل ه اسلامی توحید ہ اسلام کا پیارا خدا م توحید کے حق میں دلائل اللہ تعالیٰ کھے تو حید پر ہزار دیئے لاٹھے ہویے " ہے توحید " توحید تھے وہ چیز ہے جو کے نقوش سے انسان کے فطرقتے میں مرکوز ہیں " یچ موعود)
| · ^ آخر توحید کی فتح ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خُدا اپنے خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گئے.مریم کی معبود نہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا.نئی زمین ہو گی اور نیا آسمان....قریب ہے سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی ح یہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا اور نہ کندہ ہو گا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دیے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی تو حید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر اور محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کیہ دے گا لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نور اتارنے سے تب یہ باتیں جوئیں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی شه (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) مذاہب عالم کا مرکزی نقطہ للہ تعالی کی ہستی ہماری اس کائنات کا مرکزی نقطہ ہے.ہماری اس کائنات آب دیگل کا ہر ورہ اسی بزرگ و بر تر ہستی کے گرد گھومتا ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا کا تصور ہر مذہب میں کسی نہ کسی شکل میں ضرور پایا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے لئے مختلف نام تجویز کئے گئے ہیں اسکی مختلف صفات بیان کی گئیں.لیکن ایک بات ان سب میں مشترک رہی ہے اور وہ یہ کہ خدا کا تصور ہر مذہب میں ضرور پایا جاتا ہے اور حق تو یہ ہے کہ خدائی تصور ہی ہر مذہب کی جان اور حقیقی بنیاد ہے.مذہب اسلام نے تصور ہستی باری تعالیٰ کے سلسلہ میں دنیا کے سامنے تو حید کامل کا نظریہ پیش کیا ہے جبکہ موجودہ عیسائیت تثلیث کی علمبردار ہے.خاکسارہ کا مقالہ چونکہ عیسائیت کے خلاف علم کلام سے متعلق ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عقیدہ تثلیث کی تردید کے دلائل کا ذکر کرنے سے پہلے اسلام کی پیش کردہ توحید کا ایک مختصر خاکہ پیش کر دیا جائے اور ان دلائل کا بھی محفر ذکر کردیا جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے اس ضمن میں بیان فرمائے ہیں.مختصراً ۱۷ تبلیغ رسالت جلد ششم مشبه به
144 اسلامی توحید حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ اسلام کی پیش کردہ توحید ہی کامل اور فطرت انسانی کے عین مطابق ہے.چنانچہ حضور فرماتے ہیں :- آجکل توحید اور ہستی الہی پر بہت زور اور حملے ہو رہے ہیں.عیسائیوں نے بھی بہت کچھ زور مارا اور لکھا ہے لیکن جو کچھ کہا اور لکھا ہے وہ اسلام کے خدا کی بابت ہی ہے نہ کہ ایک مردہ مصلوب اور عاجہ خدا کی بابت ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ جوشخص اللہ تعالٰی کی ہستی اور وجود پر قلم اٹھائے گا اس کو آخر کار اس خدا کی طرف آنا پڑے گا جو اسلام نے پیش کیا ہے.کیونکہ صحیفہ فطرت کے ایک ایک پتے میں اس کا پتہ ملتا ہے اور بالطبع انسان اسی خدا کا نقش اپنے اندر رکھتا ہے کہ اسلامی توحید کی حقیقت کیا ہے ؟ اور مذہب اسلام نے جس واحد و یگانہ خدا کو پیش کیا ہے اس کی صفات کیا ہیں ؟ یہ ایک طویل مضمون ہے جس کی بیان کرنے کا یہ موقع نہیں.لیکن چونکہ اس مقالہ میں توحید کے حق میں حضور علیہ السلام کے بیان فرمودہ دلائل کا ذکر ہو گا اسلئے اسلامی کا ہوگا توحید کی کسی قدر وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے.مذہب اسلام نے جس توحید کو پیش کیا ہے قرآن مجید میں اس کا متعدد مقامات پر تفصیلی ذکر موجود ہے.سورۃ الاخلاص میں اللہ تعالیٰ نے اسلامی توحید کے نظریہ کو یوں بیان فرمایا ہے:.قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَهُ كُفُوًا اَحَدُه اَ کہ اسے ہمارے سے رسول ! تو دنیا میں یہ اعلان کر دے کہ اللہ اپنی ذات اور صفات پر ہر لحاظ سے اکیلا ہے وہ اللہ بے نیاز ہے نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ اس کو کسی نے جنا ہے اور کوئی بھی ایسی ہستی نہیں جو اس کی ہم بیلہ اور برا بر ہو.ان آیات قرآنیہ کی تفسیر میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں :- پاک فرمایا قل هُوَ اللهُ اَحَدُ اللهُ الصَّمَدُ الخ اس اقل عبادت کو جو بقدر ایک سطر بھی نہیں دیکھنا چاہیئے کہ کس لطافت اور عمدگی سے ہر ایک قسم کی شراکت سے وجود باری کا منزہ ہونا بیان فرمایا ہے.اسکی تفصیل یہ ہے کہ شرکت از روئے حصر عقل چار قسم یہ ہے کبھی شرکت عدد میں ہوتی ہے کبھی مرتبہ میں اور کبھی نسب میں اور کبھی فل ه : ملفوظات جلد اول ص :
اور تاثیر میں.سو اس سورۃ میں ان چاروں قسموں کی شرکت سے خدا کا پاک ہونا بیان فرمایا ہے اور کھول کہ بلا دیا ہے کہ وہ اپنے عدد میں ایک ہے دو یا تین نہیں.اور وہ محمد ہے یعنی اپنے مرتبہ وجوب اور محتاج الیہ ہونے میں منفرد اور یگانہ ہے.اور بجز اس کے تمام چیزیں ممکن الوجود اور پالک الذات ہیں جو اس کی طرف ہر دم مختارج ! ہیں اور وہ کم یلدا ہے.یعنی اس کا کوئی بیٹا نہیں تا بوجہ بیٹا ہونے کے اس کا شریک ٹھہر جائے اور وہ لم یولد ہے.یعنی اس کا کوئی باپ نہیں تا بوجہ باپ ہونے کے اس کا کوئی شریک بن جائے اور وہ لَمْ يَكُن لَهُ كُفُوا ہے یعنی اس کے کاموں میں کوئی اس کی برابری کرنے والا نہیں تا باعتبار فعل کیے اس کا کوئی شریک قرار پاوے.سو اس طور سے ظاہر فرما دیا کہ خدائے تعالیٰ چاروں قسم کی شرکت سے پاک اور منزہ ہے اور وحده لا شريك ہے ؟ له پھر اسلامی توحید کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے تحریر فرمایا ہے :- (1) " ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ کوئی چیز خدا تعالیٰ کی وحدت کے ساتھ مزاحمت نہیں رکھتی محض اسی کی ذات قائم بنفسہ اور ازلی اور ابدی ہے اور باقی سب چیزیں ہانکتہ الذات اور باطلہ الحقیقت ہیں اور یہی خالص توحید ہے جس سے مخالف عقیدہ رکھنا سراسر شرک ہے " کے (٢) " توحید الہی کی جڑ یہی ہے کہ وہ وحدہ لاشریک اپنی ذات میں اور اپنی صفات میں اور اپنے کاموں میں ہے.اور کوئی دوسرا مخلوق اس کی مانند وحدہ لا شریک نہیں " سے (۳) یاد رہے کہ حقیقی تو حید جس کا اقرارہ خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کی اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ ثبت ہو خواہ انسان ہو خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر و فریب ہو منزہ سمجھنا اور استیکی مقابل یہ کوئی قادر تجویز نہ کرنا کوئی رازق نہ ماننا کوئی معنر اور مذل خیال نہ کرنا : مط : براہین احمدیہ حاشیه در حاشیه ما م - روحانی خزائن جلد مه به سه چشمه معرفت منها روحانی خزائن جلد بود گے : تحفہ گوله دید حاشیه ها ریحانی خزائن جلد ۱ : م
FIL کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اس سے خاص کرنا ، اپنی عبادت اسی خاص کرنا.اپنا تذللی اسی خاص کرنا.اپنی امیدیں اس سے خاص کرنا اپنا خوف اسی خاص کرنا نہیں کوئی توحید بغیر ان تین قسم کی تحقیق کے کامل نہیں ہو سکتی.اولھے ذات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ اس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا اور تمام کو ہالہ الذات اور باطلتہ الحقیقت خیال کرنا.دوم صفات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دیا اور جو بظا ہر رب الانواع یا فیض رساں نظر آتے ہیں یہ اسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا.تیسرے اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے توحید یعنی محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ گرداننا اور اس میں کھوئے جانا یہ ہے (۴) یاد رہے کہ توحید کے تین درجے ہیں سب سے ادنی درجہ یہ ہے کہ اپنے جیسے مخلوق کی پرستش نہ کریں نہ پتھر کی نہ آگ کی نہ آدمی کی نہ کسی ستارہ کی.دوسرا درجہ یہ ہے کہ اسباب پر بھی ایسے نہ گریں کہ گویا ایک قسم ک ان کو دربوبیت کے کارخانہ میں مستقل دخیل قرار دیں بلکہ ہمیشہ مسبب پر نظر رہے نہ اسباب پر تیسرا درجہ توحید کا یہ ہے کہ تجلیات الہیہ کا کامل مشاہدہ کر کے ہر یک غیر کے وجود کو کالعدم قرار دیں اور ایسا ہی اپنے وجود کو بھی.غرض سر یک چیز نظر میں خانی دکھائی دے.بجز اللہ تعالیٰ کی ذات کامل الصفات کے.یہی روحانی زندگی ہے کہ یہ مراتب ثلاثہ تو حید کے حاصل ہو جائیں " اسلام کا پیارا خدا اسلام نے جس توحید اور واحد خُدا کے تصور کو پیش کیا ہے اس کے ذکر سے سیدنا حضرت نے مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بھری پڑی ہیں.نمونہ کے طور پر میں چند سوالے ذیل میں درج کرتا ہوں جن سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اسلام نے دنیا کے سامنے جس واحد و یگانہ خدا کو پیش کیا : سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب طلت ۲۲ - روحانی خزائن جلد ۱۲ : آئینہ کمالات اسلام ۲۲ ۲۲۲ - روحانی خزائن جلد ۵۶ :
١١٢ ہے وہ کتنا پیارا حسین اور دریا ہے.حضرت مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں:.(1) " وہ خدا جس پر ہم ایمان لاتے ہیں وہ نہایت رحیم وکریم خدا ہے وہ قادر مطلق اور سرب شکتی مان ہے جس میں کسی طرح کی کمزوری اور نقص نہیں وہ میدہ ہے تمام ظہورا کا اور سرچشمہ ہے تمام فیضوں کا اور مالک ہے تمام جود و فضل کا اور جامع ہے تمام اخلاق حمیدہ اور اوصاف کا ملہ کا اور منبع ہے تمام نوروں کا اور جان ہے تمام جانوں کی اور قیوم ہے ہر ایک چیز کا.سب چیزوں سے نزدیک ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ وہ عین اشیاء ہے اور سب سے بلند تر ہے مگر نہیں کر سکتے کہ اس میں اور ہم میں کوئی اور چیز بھی حائل ہے.اس کی ذات دقیق در دقیق اور نہاں در نہاں ہے مگر پھر بھی سب چیزوں سے زیادہ ظاہر ہے.بیچتی لذت اور سچی راحت اسی میں ہے اور یہی نجات کی حقیقی فلاسفی ہے کیا لے (٣) و خدا اپنی تمام خوبیوں کے لحاظ سے واحد لاشریک ہے کوئی بھی اس میں نقص نہیں وہ مجمع ہے تمام صفات کا ملہ کا دو مظہر ہے تمام پاک قدرتوں کا اور میدہ ہے تمام مخلوق کا اور سر چشمہ ہے تمام فیضوں کا اور مالک ہے تمام جزا و سزا کا اور مرجیع ہے تمام امور کا اور نزدیک ہے باوجود دوری کے اور دُور ہے باوجود نزدیکی کے.وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے اور وہ سب چیزوں سے زیادہ پوشیدہ ہے مگر نہیں کہ سکتے کہ ایسی کوئی زیادہ ظاہر ہے وہ زندہ ہے اپنی ذات سے اور ہر ایک چیز اس کے ساتھ نہ ندہ ہے وہ قائم ہے اپنی ذات سے اور ہر ایک چیز اسکی ساتھ قائم ہے اس نے ہر ایک چیز کو اٹھا رکھا ہے اور کوئی چیز نہیں جس نے اس کو اُٹھا رکھا ہو.کوئی چیز نہیں جو اس کے بغیر خود بخود پیدا ہوئی ہو یا اس کے بغیر خود بخود جی سکتی ہے.وہ ہر یک چیز پر محیط ہے مگر نہیں کہ سکتے کہ کیسا احاطہ ہے وہ آسمان اور زمین کی ہر یک چیز کا نور ہے اور ہر یک نور اسی کے ہاتھ سے چمکا اور اسی کی ذات کا پر توہ ہے وہ تمام عالموں کا پروردگا ر ہے کوئی روح نہیں جو اس سے پرورش نہ پانی ہو اور کے چشمہ معرفت صدا - روحانی خزائن جلد ۲۳ :
خود بخود ہو کسی روح کی کوئی طاقت نہیں جو اس سے نہ ملی ہو اور خود بخود ہو گئے نے (۳) " ہمارا خدا وہ خدا ہے جو اب بھی زندہ ہے جیسا کہ پہلے زندہ تھا اور اب بھی وہ بولتا ہے جیسا کہ پہلے بولتا تھا اور اب بھی وہ سنتا ہے جیسا کہ پہلے سنتا تھا.یہ خیال خام ہے کہ اس زمانہ میں وہ سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں.بلکہ وہ سنتا اور بولتا بھی ہے.اس کی تمام صفات انزلی ابدی ہیں.کوئی صفت بھی معطل نہیں اور نہ کبھی ہوگی وہ وہی وحدہ داشریک ہے جس کا کوئی بیٹا نہیں اور جس کی کوئی بیوی نہیں.وہ وہی بے مثل ہے جسکا کوئی ثانی نہیں اور جس کی طرح کوئی فرد خاص صفت سے مخصوص نہیں اور جس کا کوئی ہمتا نہیں جس کا کوئی ہم صفات نہیں اور جس کی کوئی طاقت کم نہیں.وہ قریب ہے با وجود دور ہونے کے اور دُور ہے باوجود نزدیک ہونے کے.وہ تمثل کے طور پر اہل کشف پر اپنے تئیں ظاہر کہ سکتا ہے مگر اسکتی لیئے نہ کوئی جسم ہے اور نہ کوئی شکل ہے اور وہ سر بنے اوریہ ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے اور وہ عرش وہ پہ ہے مگر نہیں کہ سکتے کہ زمین پر نہیں وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا اور مظہر ہے تمام محمد حقہ کا اور سرچشمہ ہے تمام خوبیوں کا اور جامع ہے تمام طاقتوں کا اور مبینہ ہے تمام فیضوں کا اور مرجع ہے ہر ایک شئی گا.اور مالک سے ہر ایک ملک کا او منتصف ہے ہر ایک کمال سے اور منزہ ہے ہر ایک عیب اور ضعف ہے.اور مخصوص ہے اس امر میں کہ زمین والے اور آسمان والے اس کی عبادت کریں.اور اس کے آگے کوئی بات بھی انہونی نہیں اور تمام روح اور اس کی طاقتیں اور تمام ذرات اور نکی طاقتیں اسی کی پیدائش ہیں اس کی بغیر کوئی چیز ظاہر نہیں ہوتی.وہ اپنی طاقتوں اور اپنی قدرتوں اور اپنے نشانوں سے اپنے تئیں آپ ظاہر کرتا ہے اور اس کو اسی کے ذریعہ سے ہم پا سکتے ہیں اور وہ راستبازوں پہ ہمیشہ اپنا وجود ظاہر کرتا رہتا ہے اور اپنی قدرتیں ان کو دکھلاتا رہتا ہے اسی سے وہ شناخت کیا جاتا اور اسی سے اس کی پسندیدہ راہ شناخت کی جاتی ہے.وہ دیکھتا ہے بغیر جسمانی آنکھوں کے اور سنتا ہے بغیر جسمانی کانوں کے اور بولتا ہے بغیر جسمانی زبان کے.اسی طرح نیستی سے ہستی کرتا اس کا کام ہے جیسا کہ تم 4 : لیکچر لاہور من روحانی خزائن جلد ۲۰ :.
۱۱۴ دیکھتے ہو کہ خواب کے نظارہ میں بغیر کسی مادہ کے ایک عالم پیدا کر دیتا ہے اور ہر ایک فانی اور معدوم کو موجود دکھلا دیتا ہے.پس اسی طرح اس کی تمام قدرتیں ہیں.نادان ہے وہ جو اس کی قدرتوں سے انکار کر ہے.اندھا ہے وہ جو اس کی عمیق طاقتوں سے بے خبر ہے.وہ سب کچھ کرتا ہے اور کر سکتا ہے بغیر ان امور کے جو اس کی شان کے مخالف ہیں یا اسکی مواعید کے بر خلاف ہیں.اور وہ واحد ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور افعال میں اور قدرتوں میں اور اس تک پہنچنے کے لئے تمام دروازے بند ہیں.مگر ایک دروازہ جو فرقان مجید نے کھولا ہے کیا مسلم توحید کے حق میں دلائل مندرجہ بالا حوالوں سے عیاں ہے کہ اسلام نے خدائی تصور کے سلسلہ میں سچی اور کامل اور بے مثال تو حید کو پیش فرمایا ہے.حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اپنی کتب میں اسلامی تو حید کے حق میں بہت سے دلائل بھی بیان فرمائے ہیں.پہلی دلیل : توحید کے حق میں ایک دلیل یہ ہے کہ توحید کا عقیدہ ایک عالمگیر عقیدہ ہے اور ہر مذہب کے خدائی تصور کی بنیاد میں توحید کا خمیر پایا جاتا ہے.بعد کے زمانوں میں حالات د خیالات کی تبدیلی کی وجہ سے توحید کے نظریات بھی مسخ ہو گئے.اور یوں معلوم ہونے لگا کہ جیسے ان مذاہب میں توحید کا کوئی تصور ہے ہی نہیں.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ توحید کا خیال ہر مذہب کی تعلیم کا ایک اہم اور بنیادی جزو رہا ہے.یہ الگ بات ہے کہ بعد کے لوگوں نے اس اصول کو باد اور قائم رکھا یا اپنی غلط فکر کے نتیجہ میں اس کی جگہ خود تراشیدہ عقائد مثلاً تثلیث وغیرہ کو پیش کر دیا.پس خدا کے واحد ہونے کے تصور کا قدیم سے پایا جانا اور اس کا عالمگیر ہونا اس امر کا بین ثبوت ہے کہ اصل توحید ہی ہے باقی سب بعد کی ایجادات ہیں.حضرت مسیح پاک علیہ السّلام فرماتے ہیں :- " ہر ایک مذہب کی خداشناسی کے اگر نہ دائد نکال دئے جائیں اور مخلوق پرستی کا حصہ الگ کر دیا جائے تو جو باقی رہے گا وہی تو حید اسلامی ہے.اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی توحید سب کی مانی ہوئی ہے " " - سة: الوصیت طلاق روحانی خزائن جلد عنه : - كتاب البریہ عمل روحانی خزائن جلد ۱۳ :
۱۱۵ ایک اور کتاب میں حضور تحریر فرماتے ہیں : خُدا کی ہستی اور وحدانیت کا مسئلہ توریت سے شروع نہیں ہوا بلکہ قدیم سے چلا آتا ہے ہاں بعض زمانوں میں ترک عمل کی وجہ سے اکثر لوگوں کی نظر میں حقیر اور ذلیل ضرور ہوتا رہا ہے.پس خدا کی کتابوں اور خدا کے نبیوں کا یہ کام تھا کہ وہ ایسے وقتوں میں آتے رہے کہ جب اس مسئلہ توحید پر لوگوں کی توجہ کم رہ گئی ہو اور طرح طرح کے شرکوں میں وہ مبتلا ہو گئے ہوں.یہی مسئلہ دنیا میں ہزاروں دفعہ صیقل ہوا اور ہزاروں دفعہ پھر زنگ خوردہ ہو کر لوگوں کی نظروں سے چھپ گیا اور جب چھپ گیا تو پھر خدا نے اپنے کسی بندہ کو بھیجا تا نئے سر سے اس کو روشن کر کے دکھلائے ہم سے پس توحید کا قدیم زمانوں سے ہر مذہب میں کسی نہ کسی شکل میں پایا جانا اور سب مذاہب کی اصولی تعلیموں میں اس کا موجود ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ توحید کا عقیدہ درست اور بہر حق ہے..دوشری در بیل : توحید کے حق میں دوسری دلیل کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قانون قدرت اور کائنات عالم کو پیشین فرمایا ہے.حضور نے بیان فرمایا ہے کہ کائنات عالم پر ایک نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خُدا نے دنیا کو گول طرز پر پیدا فرمایا ہے اور کائنات عالم اور اس کی اشیاء کا گول ہوتا توحید پر دلالت کرتا ہے.کیونکہ کرویت وحدت سے مناسبت رکھتی ہے.حضور نے اس دلیل کو اپنی مختلف کتب میں بڑی صراحت سے بیان فرمایا ہے اور اس ضمن میں متعدد مثالیں بھی بیان فرمائی ہیں.چند حوالہ جات درج ذیل ہیں :- 1 (1) اللہ تعالٰی کی توحید پر یوں تو ہزاروں دلائل ہیں لیکن ایک دلیل بھی عام اور صاف ہے ادر وہ یہ ہے کہ وضع عالم میں ایک کردیت واقع ہوئی ہے اور کہ دیت میں توحید ہی پائی جاتی ہے.پانی کا ایک قطرہ لو تو وہ بھی گول ہے.زمین کی شکل بھی گول ہے.آگ کا شعلہ بھی گول ہی ہے.ایسا ہی ستار سے بھی گول ہیں.اگر تثلیث درست ہوتی تو چاہیے تھا کہ ان اشیاء کی شکل و صور بھی سر گوش اور مثلث نما ہوتیں نے سراج دین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ضت ۳۱ - روحانی خزائن جلد ۱۲ : ٣ -: ملفوظات جلد هشتم صلا به
114 k) " وضع عالم میں خدا تعالیٰ نے توحید کا ثبوت رکھ دیا ہے.وضع عالم میں کرویت ہے پانی ستار سے ، آگ وغیرہ یہ چیزیں سب گول ہیں.چونکہ کرہ میں وحدت ہوتی ہے اس لحاظ سے کہ اس میں جہالت نہیں ہوتی ہیں.پس یہ وضع عالم میں توحید الہی کا ثبوت ہے.پانی کا ایک قطرہ دیکھو تو وہ گول ہو گا ویسی ہی احرام بھی اور آگ بھی.آگ کی ظاہری حالت سے کوئی اگر کہے کہ یہ گول نہیں ہوتی تو یہ اس کی غلطی ہے.کیونکہ یہ مائی ہوئی بات ہے کہ آگ کا شعلہ در اصل گولی ہوتا ہے مگر ہوا اس کو منتشر کرتی ہے.....اگر خدا تین ہوتے تو ضرور تھا کہ سب اشیاء مثلث نما ہوتیں یا بے 2: (ص) در بسائٹ کا گوں رکھنا خدا تعالیٰ نے پسند کیا کہ گوں میں کوئی جہت نہیں ہوتی.اور یہ ئی جہت نہیں ہوتی.امر توحید کے بہت مناسب حال ہے" سے " خدا.....نے تمام ابتدائی اجسام و اجرام کو کر دی شکل پر پیدا کر کے اپنے قانون قدرت میں یہ ہدایت منقوش کی کہ اس کی ذات میں کہ ویت کی طرح وحدت اور یک جہتی ہے.اس لئے بسیط چیزوں میں سے کوئی چیز سہ گوشہ پیدا نہیں کی گئی.یعنی جو کچھ خدا کے ہاتھ سے پہلے پہلے نکلا جیسے زمین، آسمان ، سورج ، چاند اور تمام ستار سے اور عناصر وہ سب کردی ہیں جن کی کہ ویت توحید کی طرف اشارہ کر رہی ہے ، سکے (۵) تستدير دائرة الخطرة و يشابه الخاتمة بالفاتحة وليكون هذا التشابه للتوحيد كسلطانِ مبين وليدل المصنوع على صانعه بالدلالة الصورية فان الهيئة المستديرة تضاهي الوحدة بل تشمل على معنى الوحدة ولذالك يوجد استدارة في كلما خلق من البسائط ولا يوجد بسيط خارجا من الكروية - ذالك ليعلم - ملفوظات جلد دوم مدل ۳۹ : ۱۲ - تحفہ گولر یہ منا روحانی خزائن جلد کا : : - مسیح ہندوستان میں ملا روحانی خزائن جلد ۱۵ :
1/4 الناس ان الله هو الاحد الفرد الذي صبغ كلّ ما حلقه بصبغ الاحدية وليعرفوا انه هو رب العلمين " له هورت ترجمہ : - دائرہ فطرت میں گولائی پائی جاتی ہے اور اختتام آغازہ کے ساتھ مشابہ نظر آتا ہے.یہ اس وجہ سے ہے کہ تا یہ مشابہت توحید کے حق میں ایک واضح دلیل کے طور پر ہو.اور تا د کائنات عالم کی گولائی کی وجہ سے، مصنوعات سے ان کے صانع کے وجود پر مصوری دلائل کے ذریعہ دلالت ہو.کیونکہ گولائی وحدت سے مشابہ ہے بلکہ یہ تو وحدت کے معنوں یہ ہی مشتمل ہے اس وجہ سے دنیا کے تمام عیسائٹ میں گولائی اور کردویت پائی جاتی ہے اور کوئی ایسی چیز نہیں جو کہ دیت سے خالی ہو.یہ اس وجہ سے ہے کہ تالوگ معلوم کر لیں کہ خداتعالی اکیلا اور منفرد ہے جنسی سب مخلوقات کو وحدت کا جامہ پہنا دیا ہے اور تا وہ جان لیں کہ یہی سب جہانوں کا رب ہے.(4) خدا تعالٰی نے ہر ایک چیز کو ایسی طرفہ سے بنایا ہے جو اس کی توحید پر دلالت کر سے اور اسی وجہ سے خداوند حکیم نے تمام عناصر اور اجرام فلکی کو گول شکل پر پیدا کیا ہے کیونکہ گول چیز کی جہات اور پہلو نہیں اس لئے وہ وحدت سے مناسبت رکھتی ہے.اگر خدا تعالیٰ کی ذات میں تثلیث ہوتی تو تمام عناصر در اجرام فلکی سه گوشه صورت پر پیدا ہوتے لیکن ہر ایک بسیط میں جو مرکبات کا اصل ہے کہ ویت معینی گول ہونا مشاہدہ کرو گے.پانی کا قطرہ بھی گول شکل پر ظاہر ہے اور تمام ستارے جو نظر آتے ہیں انکی شکل گول ہے اور ہوا کی شکل بھی گول ہے جیسا کہ ہوائی گولے جن کو عربی میں اعصار کہتے ہیں یعنی بگو سے جو کسی تند ہوا کے وقت مدور شکل میں زمین پر چکر لگاتے پھرتے ہیں.ہواؤں کی کرویت ثابت کرتے ہیں " " (<) " جب ہم قانونِ قدرت میں نظر کہتے ہیں تو ماننا پڑتا ہے کہ ضرور ایک ہی خالق و مالک ہے.کوئی اس کا شریک نہیں دل بھی اسے ہی مانتا ہے اور دلائل قدرت سے بھی اسی کا : الخطية الالهامة ٣٥٢ ٢٥٩ ۲ تا ۲۵ روحانی ختنه ائن جلد ۱۶ : : - تحفہ گولڑویہ حاشیه ۲۲ - روحانی خزائن جلد ۱ به
پتہ لگتا ہے.کیونکہ ہر ایک چیز جو دنیا میں موجود ہے وہ اپنے اندر کرویت رکھتی ہے جیسے پانی کا قطرہ اگر ہا تھ سے چھوڑیں تودہ کر دی شکل کا ہو گا دور کردی کمال توحید کو مستلزم ہے کالے ان سب حوالہ جات سے حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے یہ استدلال فرمایا ہے کہ جبکہ اس کائنات کی اشیاء میں گولائی اور کو دیت پائی جاتی ہے جو دھرت کا تقاضا کرتی ہے تو ان گول اشیاء اور ساری کائنات کو پیدا کرنے والا خدا بھی واحد ہی ہے اس کے ساتھ کوئی اور خدا نہیں.تیسری دلیل : توحید الہی پر تیسری دلیل حضور علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ کائنات عالم کے نظام میں جو ترتیب اور انتظام پایا جاتا ہے وہ جہاں ایک طرف ہستی باری تعالیٰ پر شہادت دیتا ہے وہاں اس بات کا بھی ایک بین ثبوت ہے کہ اس نظام عالم کو چلانے والا ایک اور صرف ایک خدا ہے عالم دلیل یہ ہے کہ اگر ایک سے زائد خُدا ہوتے تو ان میں اختلاف ہونے کی وجہ سے کائنات میں ترتیب اور نظام کا یہ سلسلہ قائم نہ رہ سکتا.قرآن مجید کی آیت سے استدلال کرتے ہوئے حضور نے تحریر فرمایا ہے:- اور اس کی وحدہ لا شریک ہونے پر ایک عقلی دلیل بیان فرمائی اور کہا لو كان TAKATONGAN الِمَةٌ إِلَّا اللَّهَ لَفَسَدَ نَا - وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنَ اللَّهِ....الخ.یعنی اگر زمین آسمان میں بجز اس ایک ذات جامع صفات کا ملہ کے کوئی اور بھی خدا ہوتا تو وہ دونوں بگڑ جاتے کیونکہ ضرور تھاکہ کبھی و جماعت خلاؤں کی ایک دوسرے کے برخلاف کام کرتے.پس اس پھوٹ اور اختلاف سے عالم میں فساد راہ پاتا اور نیز الگ الگ خالق ہوتے تو ہر واحد ان میں سے اپنی ہی مخلوق کی بھلائی چاہتا.اور ان کے آرام کے لئے دوسروں کا برباد کر نا روا رکھتا نہیں یہ بھی موجب فساد عالم ٹھہرتا.یہاں تک تو لیل ملتی سے خُدا کا وحدہ لا شریک ہونا ثابت کیا " ہے اس حوالہ میں بیان کردہ دلیل کو حضور نے دلیل لمتی قرار دیا ہے.دلیل لمی کی تعریف حضور علیہ السلام کے مقدس الفاظ میں یوں ہے :- دولتی دلیل اس کو کہتے ہیں کہ دلیل سے مدلول کا پتہ لگا لیں جیسا کہ ہم نے ایک جگہ دھواں دیکھا تو اس سے ہم نے آگ کا پتہ لگا لیا " سے ملفوظات جلد دوم من : سه : - براہین احمدیه حاشیه در حاشیه ۲ ۱۹۷۳ روحانی خزائن جلدا به ہے چشمه معرفت ۶ روحانی خزائن جلد ۲ : :
114 پس توحید باری تعالیٰ پر عقلی اور ملتی دلیل یہ ہے کہ اگر ایک خدا کے علاوہ اس دُنیا میں اور خدا بھی ہوتے تو ان میں ضرور اختلافات ہو جاتا.اور کائنات کا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا.مشاہدہ بتاتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ نظام عالم میں کوئی خلل اور خرابی نہیں بلکہ ایک نہایت محیر العقول ترتیب اور تسلسل پایا جاتا ہے.جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا رخانہ قدرت کو چلانے والا ایک خدا ہے.چوتھی دلیل : چوتھی دلیل کے طور پر سیخ پاک علیہ السلام نے دلیل اتی کو پیش فرمایا ہے.دلیل انی کی تعریف کے ضمن میں حضور رکھتے ہیں :- دوسری دلیل کی قسم آتی ہے اور ائی اس کو کہتے ہیں کہ مدلول سے ہم دلیل کی تہ طرف انتقال کریں.جیسا کہ ہم نے اک شخص کو شدیت میں مبتلا پایا تو میں یقین ہوا کہ اس میں ایک تیز صفرا موجود ہے جسے آپ چڑھ گیا ہے اور توحید الہی کے ثبوت میں ایک قرآنی آیت سے استدلال فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :- ہ خدا کے وحدہ لاشریک ہونے پر دلیل اتی بیان فرمائی اور کہا ، قُلِ ادْعُوا LANGUAGE KANWALANG مِن دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كُشتُ الضَّرَ عَنكُمْ ر وَلَا تَحْوِيلاً الخ یعنی مشرکین اور منکرین وجود حضرت باری کو کہہ کہ اگر خدا کے کارخانہ میں کوئی اور لوگ بھی شریک ہیں یا اسباب موجودہ ہی کافی ہیں تو اس وقت کہ تم اسلام کے دلائل حقیقت اور اس کی شوکت اور قوت کے مقابلہ پر مقہور ہورہے ہو اپنے ان شرکاء کو مدد کے لئے بلاؤ اور یاد رکھو وہ ہر گنہ تمہاری مشکل کشائی نہ کریں گے اور نہ بلا کو تمہار سے سریہ سے ٹال سکیں گے.اسے رسول ! ان مشرکین کو کہ دو کہ تم اپنے شرکاء کو جن کی پرستش کر تے ہو میرے مقابلہ پر بلاؤ اور جو تدبیر میرے مغلوب کرنے کے لئے کہ سکتے ہو وہ سب تدبیریں کرو.اور مجھے ذرا مہلت مت دو اور یہ بات سمجھ رکھو کہ میرا حامی اور ناصر اور کارساز وہ خدا ہے جنسی قرآن کو نازل کیا اور وہ اپنے بچے اور صالح رسولوں کی آپ کا ریبازی کرتا ہے.مگر جن چیزوں کو تم لوگ اپنی مدد کے لئے پکارتے ہو وہ ممکن نہیں ہے جو تمہاری مدد کر سکیں اور نہ کچھ اپنی مدد کر سکتے ہیں یہ ہے ه : چشمه معرفت صلا روحانی خزائن جلد ۲۳ : ه: - برامین احمدیه حاشیه در حاشیه متشکر هانی خزائن جلدی :
۱۲۰ گویا حضور نے یہ دلیل بیان فرمائی ہے کہ جب ہمارے پیش کردہ خُدا کے مقابل پر تمہارے معبودانِ باطلہ میں وہ صفات ہی نہیں پائی جاتیں جو خدا میں ہونی چاہئیں.یعنی نہ وہ کسی کو نفع پہنچانے پر قادر ہیں اور نہ کسی نقصان سے محفوظ کر سکتے ہیں تو اسی ثابت ہوا کہ وہ حقیقی معنوں میں خدا نہیں ہیں.پس معبودان باطلہ کا حقیقی خدا نہ ہونا دلیل ہے اس امر کی کہ خدا صرف ایک ہی ہے جس میں صحیح معنوں میں خدائی صفات پائی جاتی ہیں.پس اس دلیل ائی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کائنات عالم کا خالق و مالک صرف ایک خدا ہے اور یہی تو حید ہے : پانچویں دلیل: توحید باری تعالٰی کے ثبوت کے طور پر چھوڑ نے پانچویں دلیل یہ بیان فرمائی ہے کہ توحید کا نقش انسانی فطرت میں پایا جاتا ہے.اور ہر انسان کی فطرت سلیمہ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ خدا ایک ہے.یہ ایک ایسا بدیہی ثبوت ہے جس کو ہر شخص محسوس کر سکتا ہے اور انفرادی طور پر اس کی تصدیق کر سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فطرت انسانی اور کر دیت اشیاء کو بطور دلیل پیش کرتے ہوئے فرمایا ہے :- ہم اسلام کے اصول توحید کو پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی حقانی تعلیم ہے کیونکہ انسانی فطرت میں توحید کی تعلیم ہے اور نظارہ قدرت بھی اس پر شہادت دیتا ہے.خدا تعالیٰ نے مخلوق کو متفرق پیدا کر کے وحدت ہی کی طرف کھینچا ہے.جب سے معلوم ہوتا ہے کہ وحدت ہی منظور تھی.پانی کا قطرہ اگر چھوڑ دیں تو وہ گول ہوگا چاند سورج سب اجرام فلکی گول ہیں.اور کر دیت وحدت کو چاہتی ہے یہ سے پھر اسی ضمن میں حضور ایک اور موقع پر فرماتے ہیں :- بات اصل میں یہ ہے کہ انسان کی فطرت ہی میں الست برتبكم قالو ابلی نقش کیا گیا ہے.اور تثلیث سے کوئی مناسبت جبلت انسانی اور تمام اشیائے عالم کو نہیں.ایک قطرہ پانی کا دیکھو تو وہ گوں نظر آتا ہے مثلث کی شکل میں نظر نہیں آتا.سی بھی صاف طور پہ یہی پایا جاتا ہے کہ توحید کا نقش قدرت کی ہر ایک چیز میں رکھا ہوا ہے.خوب غور سے دیکھو کہ پانی کا قطرہ گول ہوتا ہے اور کروی شکل میں توحید ہی ہوتی ہے.اس لئے کہ وہ جہت کو نہیں چاہتی اور مثلث شکل جہت کو چاہتی ہے له : ملفوظات جلد اول ۳۲ :
چنانچہ آگ کو دیکھو.شکل بھی مخروطی ہے اور وہ بھی کر دیت اپنے اندر رکھتی ہے.اسے بھی توحید کا نور چمکتا ہے.زمین کو لو اور انگریزوں سے بھی پوچھو کہ اسکی شکل کیسی ہے ؟ کہیں گے گول - الغرض طبعی تحقیقاتیں جہاں تک ہوتی چلی جائیں گی وہاں توحید ہی توحید نکلتی جائے گی.لہ ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ توحید در حقیقت فطرت کی آواز کے عین مطابق ہے.انسانی فطرت کی اس گواہی کو حضور نے تثلیث کے رد کے طور پر بھی بارہا بیان فرمایا ہے.چنانچہ بعض عیسائی پادریوں نے اس امر کا اعتراف بھی کیا ہے کہ جہاں تک انسانی فطرت کا سوال ہے وہ تو گواہی دیتی ہے کہ خدا ایک ہے اور توحید برحق ہے.چنانچہ ایک پادری کے اس اعتراف کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :- " پادری فنڈر ایک جگہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اگر کوئی ایسا جزیرہ ہو جہاں عیسائیت کا وعظ نہیں پہنچا تو قیامت کے دن ان لوگوں سے کیا سوان ہوگا ؟ تب خود ہی جواب دیتا ہے کہ ان سے یہ سوال نہ ہوگا کہ تم میسوع پر اور اس کے کفارہ پر ایمان لائے تھے یا نہ لائے تھے.بلکہ ان سے یہی سوال ہو گا کہ کیا تم خدا کو مانتے ہو جو اسلام کی صفات کا خدا واحد لاشریک ہے " سے " اسی ضمن میں فرمایا :- عقل اسلامی توحید تک ہی گواہی دیتی ہے اور اس لئے تمام عیسائی اس بات کو مانتے ہیں کہ اگر ایک گروہ ایسے کسی جزیرہ کا رہنے والا ہو کسی پاس نہ قرآن پہنچا ہو اور نہ انجیل اور نہ اسلامی توحید پہنچی ہو اور نہ نصرانیت کی تثلیث.ان سے نہ اورنہ ہو اور - صرف اسلامی توحید کا مواخذہ ہوگا.جیسا کہ پادری فنڈل نے میزان الحق میں یہ صراف اقرار کیا ہے.پس لعنت ہے ایسے مذہب پر جب کی اصل الاصول کی سچائی پر عقل گواہی نہیں دیتی.اگر انسان کے کانٹس اور خداداد عقل میں تثلیث کی ضرورت فطرتا مرکوز ہوتی تو ایسے لوگوں کو بھی ضرور تثلیث کا مواخذہ ہوتا.جن تک تثلیث کا مسئلہ نہیں پہنچا.حالانکہ عیسائی عقیدہ میں بالاتفاق یہ بات داخل ہے کہ جن لوگوں تک تثلیث کی تعلیم نہیں پہنچی ان سے صرف توحید کا مواخذہ ہوگا اس سے ظاہر ہے کہ :- ملفوظات جلد اول --- ۱۵- ملفوظات جلد ہشتم ۳۶۲۰۳۰ پر
۱۲۲ تو حید ہی وہ چیز ہے جیسی نقوش انسان کی فطرت میں مرکوز ہیں " سے نیز سند مایا: در پادری فنڈر جس نے پہلے پہل ہندوستان میں آکر مذہبی مناظروں میں قدم رکھا اور اسلام پر نکتہ چینیاں کیں.اپنی کتاب میزان الحق میں خود ہی سوال کے طور پر لکھتا ہے کہ اگر کوئی ایسا جزیرہ ہو جہاں تثلیث کی تعلیم نہ دی گئی ہو تو کیا وہاں کے رہنے والوں پر آخرت میں مواخذہ تثلیث کے عقیدہ کی بناء پر ہو گا؟ پھر خود ہی جواب دیتا ہے کہ ان سے توحید کا مواخذہ ہوگا.اسی سمجھ لو کہ اگر توحید کا نقش ہر ایک شے میں نہ پایا جاتا اور تثلیث ایک بناوٹی اورمصنوعی تصویر نہ ہوتی تو عقیدہ توحید کی بناء پر مواخذہ کیوں ہوتا " کے ان تینوں خوابوں سے عیاں ہے کہ توحید کے حق میں فطرت انسانی کی گواہی ایسی زیر دست ہے کہ معاندین کو بھی اس واضح بریمان کی حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا ہے بس فطرت انسانی کی گواہی سے بھی توحید اسلامی کا ہی ثبوت ملتا ہے.یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ دلائل ہیں جو حضور نے تو حید باری تعالیٰ کے ضمن میں بیان فرمائے ہیں دہستی باری تعالیٰ کے بارہ میں جو کچھ حضور نے تحریر فرمایا ہے اس کو یہاں نہیں لکھا گیا ، اور ان کے بیان سے مقصد یہ ہے کہ اسلامی توحید اور اس کے دلائل کا ایک خاکہ نظر میں آجائے اور یہ معلوم ہو جائے کہ اسلام کا بہستی باری تعالیٰ کے سلسلہ میں کیا نظریہ ہے.اور اس کی صداقت کے کیا دلائل ہیں.مقالہ کے اگلے باب میں عیسائیت کے عقیدہ تثلیث کا ذکرہ ہوگا اور ان دلائل کو بیان کیا جائے گا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں درج فرمائے ہیں.امید ہے کہ توحید اور تثلیث کے تقابلی مطالعہ کے لئے اسلامی توحید اور اس کے دلائل کا یہ مختصر بیان بہت مفید ثابت ہوگا.• ل : انجام انهم من روحانی خزائن جلد ما سه ملفوظات جلد اول ص : :
1 ١٢٣ تثلیث کا عقیدہ بھی ایک عجیب عقیدہ ہے.کیا کسی نے سنا ہے کہ مستقل طور پر اور کامل ہے طور پر تین بھی ہوں اور ایک بھی ہو اور ایک سے بھی کام خدا اور تین بھی کام خُدا ہو" باب چہارم مسیح موعود ) تثلیث کی تردید م مسیحی شلیت تردید کی اہمیت ه تردید کے دلائل " خدائے واحد لاشریک کو چھوڑنا اور مخلوق کی پرستش کہ نا عقلمند ھے کا کام نہیں ہے اور تین مستقل اور کالے اقوم قرار دینا جو اسے جلا ہے اور قوشتے میں براب مہینے اور پھر ان تینوں کے ترکیب سے ایک کالے خدا نانا " ی ایک ایسی مخلوق ہے جودنیا میں مسیحیوں کے ساتھ ہیے خاص ہے.پسیج موعود )
۲۲۴ سیدنا حضرت مسیح موعود علیه السّلام فرماتے ہیں:.یسائی مذہ سے بجھے عجیب سے مذہب ہے کہ ہر ایک سے باتے میں غلل اور ہر ایک کے اور ویسے لغزش ہے؟ 0 انجیلی تثلیث کا نقش سے نہ دل میں ہے زمانو نے نہ قانون قدرت اس کا مؤید ہے یہ انجیل میں شیشے کا نام و نشان نہیں؟ فتوے کہ عیسائیوں سے کو دو سرور سے کے لئے تو فلسفہ یاد آجاتا ہے مگر اپنے گھر کے نا معقول باتوں سے فلسفہ کو چھو نے بھی نہیں دیتے ؟ چھوٹے
۱۲۵ خدا تعالیٰ کی ہستی ہر مذہب کا مرکزی نقطہ ہے.عیسائی لوگ جس لفظ سے اپنے تصور الوہیت کو پیش کرتے ہیں وہ تثلیث کا لفظ ہے.پس اس لحاظ سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تثلیث کا عقیدہ عیسائی مذہب کے اصل الاصول میں سے ہے.پادری ڈبلیو ٹامس لکھتے ہیں :.تشکیت کا مسئلہ مذہب عیسوی کی بنیاد ہے " ہے ظاہر ہے کہ جب یہ مسئلہ اس قدر اہم اور اساسی اہمیت کا حامل ہے تو اس مذہب کی کتاب اور علمبرداروں کی طرف سے اس کی پوری پوری وضاحت ہونی چاہیئے تاکہ دنیا کے سب لوگ اس مسئلہ کی اصل حقیقت سے آگہی حاصل کر سکیں.لیکن یہ بڑی ہی عجیب بات ہے کہ تثلیث کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کی پوری وضاحت نہ کی جاتی ہے اور نہ کی جا سکتی ہے.یہ بات صرف ہم نہیں کہتے بلکہ خود محقق عیسائی بھی اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں.کہ تثلیث کا مسئلہ انسانی سمجھ میں نہیں آسکتا.جب مسید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ڈپٹی عبداللہ آتھم کا امرتسر میں مباحثہ ہوا تو ایک روز ڈپٹی صاحب موصوف کی جگہ پر ڈاکٹر سہنری مارٹن کلارک پیش ہوئے.انہوں نے اپنے بیان میں اس بارہ میں جو اعتراف کیا وہ درج ذیل ہے.تثلیث کے مسئلہ کے بارہ میں لکھتے ہیں ؟ ہ کثرت فی الوحدت ایک ایسا مسئلہ ہے کہ نہ اس کے سمجھنے والا پیدا ہوا نہ ہوگا ہے پادری ڈبلیو ٹامس لکھتے ہیں :- و خلقت کے استدلال اور عقلی دلائل اس میں یعنی مسئلہ تثلیث میں نہیں چل سکتے ہے پادری سی جی فانڈر لکھتے ہیں : " تثلیث ایک راز بستہ ہے کہ جس کی بابت ہم نہیں جانتے کہ کیسے ہے؟ ہے پادری عمادالدین لکھتے ہیں :- تسلیت جو اسرار الہی میں سے ایک سر ہے.اس طرح مذکورہ ہے کہ خدا ایک ہے له : تشريح التثليث ص : -:-:- جنگ مقدس من ریحانی خزائن جلد : گے: میزان الحق صلا تا مثلا فصل سوم :
1K4 اور خدا تین بھی یعنی وحدت فی التثلیث اور تثلیث فی الوحدت ، ایک میں تین اور تین میں ایک.یہ بات آدمی کی سمجھ سے بالا تر ہے " اے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی تثلیث یا جس کو عیسائی لوگ عام طور پر کثرت فی الوحات کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں کا مسئلہ اتنا پیچیدہ اور مطلق ہے کہ انہل سے ابل تک کوئی انسان اس کو سمجھ نہیں سکتا تو اس مسئلہ کو آدم زادوں کے لئے پیش کیوں کیا گیا ؟ بہر حال تثلیث ایک ایسا مسئلہ ہے جو خود عیسائی حضرات کی رائے میں بھی پوری طرح سمجھ نہیں آسکتا ہے.ظاہر ہے کہ جو مسئلہ خود سمجھ نہ آسکے وہ کسی اور کو سمجھانا کس قدر مشکل کام ہے.اس اعتراف عجز کے باوجود عیسائی حضرات کسی نہ کسی حد تک اس مسئلہ کی وضاحت ضرور کرتے ہیں.پہلا سوال تو یہ ہے کہ تثلیث سے کیا مراد ہے.اس کے جواب میں یہ حوالہ ملاحظہ ہو :- "The Christian doctrine is that in the God head there are three persons, god: the Father, God, the Son, and God the Holy´ ghost,and that these eternal God whose substance is undivided and each person is equal in power and glory.ترجمہ :.عیسائی عقیدہ یہ ہے کہ الوہیت میں تین اقنوم ہیں.باپ خدا ، بیٹا خدا اور روح القدس خدا.اور یہ کہ ان تینوں کے ملنے سے ایک ابدی خدائی وجود بنتا ہے جس کا جو ہر نا قابل تقسیم ہے.اور پھر ان تینوں میں سے ہر ایک برا یہ طاقت اور عظمت کا مالک ہے.ایک اور حوالہ ملاحظہ ہو :- کے زیر عنوان لکھتا ہے:.Doctrine Of The Trinity "In theology, the belief that there are three persons in God or the divine nature, the Father, Son, and Holy Ghost" ه تحقیق الادیان ص۱۳ The Book Of Knowledge vol.8 pp.510-1
۱۲۷ ترجمہ :.مذہبی نقطہ نگاہ سے اس (تثلیث سے یہ عقیدہ مراد ہے کہ خدایا الوہیت میں تین اقنوم ہیں.باپ، بیٹا اور روح القدس - عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث کو انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا ئیں Trinity کے لفظ کے صحت یوں بیان کیا گیا ہے :- "The Christian doctrine of Trinity can be best expressed in these words: the Father is god, the Son is God and the Holy Ghost is God and yet there are not three gods but one god.For like as we are compelled by the Christian verity to acknowledge every person by him self to be God and Lord.so we are forbidden to say that there are three Gods or three Lords." ترجمہہ مسیحیت کے نظریہ تثلیث کو بہترین طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے..باپ بھی خدا ہے، بیٹا بھی خدا ہے اور روح القدس بھی خدا ہے.مگر پھر بھی تین خدا نہیں.ایک خدا ہے.کیونکہ جیسے ہم حقیقی مسیحیت کی رو سے اس بات پر ایمان لانے پر مجبور ہیں کہ ہر ایک اقنوم اپنی ذات میں خدا بھی ہے اور خدا وند بھی ویسے ہی ہم اس بات سے بھی روکے گئے ہیں کہ ہم یہ کہیں کہ تین خدا یا تین خداوند ہیں.Popular Encyclopedia میں لکھا ہے :- "It is that in the god head there are three persons one is substance, co-eternal, equal in power; the Father, Son, and Holy ghost." ترجمہ : عقیدہ تثلیث یہ ہے کہ خدائی میں تین اقنوم ہیں.یعنی خدائی میں تین شخصیتیں ہیں.باپ، بیٹا اور روح القدس جو جو ہر کے لحاظ سے ایک ہیں اور پھر جو باہم ے.انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا
IPA ازلی بھی ہیں اور یکساں قدرت بھی رکھتے ہیں.ایک مشہور عیسائی مسٹر فرانیس ریلے تثلیث کی معین تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- "A- There is one divine nature in which there are three persons, the Father, the Son and the Holy ghost.B- No one of these three persons is either of the others; They are distinct, the Father is not the Son, the Son is not the Holy ghost, the Holy ghost is not the Father.C.Rach person is god; the Father is god, the Son is god, the Holy ghost is god.D.There are not three gods but only one God." ترجمہ : - " تثلیث کا مفہوم یہ ہے کہ : و - ایک خدائی میں تین اقنوم یا تین شخصیتیں ہیں.باپ بیٹا اور روح القدس.ب - ان تینوں میں سے کوئی بھی دوسرے سے الگ یا جدا نہیں.تاہم وہ اپنی اپنی جگہ نمایاں اور مستقل ہیں.باپ بیٹا نہیں.بیٹا روح القدس نہیں.اور روح القدس باپ نہیں.ج.ان تینوں میں سے ہر ایک مستقل خدا ہے.باپ خدا ہے.بیٹا خدا ہے روح القدس خدا ہے.د - تین خدا نہیں بلکہ خدا ایک ہی ہے؟" له یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ابھی تک تثلیث کی کوئی معین تعریف نہیں ہو سکی اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ مسئلہ خود سیمی محققین کی رائے میں ایسا نہیں ہے کہ انسان اس کو سمجھ سکے.تثلیث کے بارہ میں مختلف نظریات رہے ہیں.جو مختلف زمانوں میں بدلتے رہے ہیں.ہر دور میں یہ کوشش کی جاتی رہی ہے کہ اس مسئلہ کی وضاحت کی جائے لیکن ✓ "The blessed Trinity" by very Rev.Francis J.Riply C.M.S- quotation from "Islam and Christianity" by Abdul Hamid (New York)
۱۲۹ جیسا کہ مندرجہ بالا وضاحتوں سے واضح ہوتا ہے تثلیث کا مسئلہ سمجھنے کی بجائے مزید الجھتا جا رہا ہے.بہر حال یہ مسئلہ عیسائیوں کا ہے ان کا فرض ہے کہ اس مسئلہ کی آسان وضاحت کریں کیونکہ وہی اس عقیدہ کو مانتے اور اس کا پر چارہ کرتے ہیں.اور اس لحاظ سے گویا ان کو اس مسئلہ کی وکالت میں مدعی کی حیثیت حاصل ہے.مدعی کا فرض ہوتا ہے کہ وہ دعوی کے مکمل دلائل بیان کرے اور پوری پوری وضاحت کرے.حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے بھی اس موقف کو اختیار فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں :- " بار ثبوت مدعی کے ذمہ ہے جو تثلیث کا قائل ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اس کے دلائل دے " لے تثلیث کی تردید میں دلائل کا سر صلیب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے خداداد علم کلام کی روشنی میں عیسائیت کے اس مایہ ناز عقیدہ کا تار و پود بکھیر کر رکھ دیا ہے.آپ نے تثلیث کے رد میں ایسے دلائل و براہین پیش فرمائے جن سے اس باطل عقیدہ کی حقیقت طشت ازبام ہو گئی اور ہر صاحب بصیرت نے بچشم خود جاء الحق وزهق الباطل کا نظارہ دیکھ لیا.تثلیث کی تردید میں حضور علیہ السلام کے پیش کردہ دلائل مندرجہ ذیل ہیں :- پہلی دلیل عقیدہ تثلیث کی تردید میں آپ کی سب سے پہلی اور باطل شکن دلیل یہ ہے کہ تثلیث کا عقیدہ خلاف عقل ہے.تثلیث کے علمبردار یہ کہتے ہیں کہ ہم توحید فی التثلیث یا کثرت فی الوحدت کے قائل ہیں جن کی وضاحت یہ کہتے ہیں کہ باپ، بیٹا اور روح القدس تینوں مکمل خدا ہیں لیکن یہ سب مل کر ایک خدا بنتے ہیں تین نہیں ہیں.یہ وہ گورکھ دھندا ہے جو عیسائیت پیش کرتی ہے.اس کے خلاف حضرت مسیح پاک علیہ السلام کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ یہ بات خلاف عقل ہے.کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ تینوں وجود اپنی ذات میں مکمل خدا بھی ہوں لیکن پھر بھی خدا تین نہیں بلکہ ایک ہی ہو.ایک انسان جس کو اللہ تعالی ه : - ملفوظات جلد سوم صلاته
نے معمولی سی بصیرت بھی عطا کی ہو اس دعوی کی غلطی کو معلوم کر لے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی بنیاد پر تثلیث پر کڑی نکتہ چینی کی ہے کہ یہ عقیدہ سراسر عقل کے خلاف ہے " حضور فرماتے ہیں : خدائے واحد لاشریک کو چھوڑنا اور مخلوق کی پرستش کرنا عقلمندوں کا کام نہیں ہے.اور تین مستقل اور کامل اقنوم قرار دینا جو سب جلال اور قوت میں برائیہ ہیں اور پھر ان تینوں کی ترکیب سے ایک کامل خدا بنانا یہ ایک ایسی منطق ہے جو دنیا میں سیمیوں کے ساتھ ہی خاص ہے.لے پھر فرماتے ہیں :- " تثلیث کا عقیدہ بھی ایک عجیب عقیدہ ہے.کیا کسی نے سنا ہے کہ مستقل طور پر اور کامل طور پر تین بھی ہوں اور ایک بھی ہو.اور ایک بھی کامل خدا اور تین بھی اور کامل خدا ہو.عیسائی مذہب بھی عجیب مذہب ہے کہ ہر ایک بات میں غلطی اور ہر ایک امر میں لغزش ہے" سے ظاہر ہے کہ یہ منطق انسانی سمجھ سے ٹکراتی ہے.تین خدا الگ الگ بھی کامل اور مکمل خدا ہوں اور پھر تینوں مل کر بھی ایک خدا ہی ہوں ، اور ان میں کوئی فرق اور امتیاز نہ ہو.یہ عیسائی عقیدہ کی ایک ایسی غلطی ہے جس کا کوئی صحیح جواب عیسائیوں کے پاس نہیں ہے.عیسائی لوگ اس عقدہ کو حل کرنے کے لئے مختلف تاویلات ضرور کرتے ہیں.لیکن آنی کیفیت عذر گناہ بدتر از گناہ سے زیادہ نہیں ہوتی.عیسائی کہتے ہیں کہ ہمیں تثلیث کا مجرم گرداننا بہت زیادتی ہے کیونکہ ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ باوجود اس امر کے کہ باپ، بیٹا اور روح القدس اپنی اپنی جگہ پر خُدا ہیں لیکن خدا پھر بھی ایک ہی ہے اور ہم تو حید کے قائل ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس عذر کی تردید میں فرماتے ہیں :- افسوس کہ عیسائیوں کو دوسروں کے لئے تو فلسفہ یاد آجاتا ہے مگر اپنے گھر کی نا معقول باتوں سے فلسفہ کو چھو نے بھی نہیں دیتے" سے پھر آپ تحریر فرماتے ہیں :- لیکچر سیالکوٹ ۳ ۳۵ روحانی خزائن جلد ۲ شهر چشمه سیحی حال روحانی خزائن جلد ۲۰ به ۲۵۰۲۳ ه ست بچن صلا روحانی خزائن جلد ۱۰ + :
۱۳۱ "عیسائی.....صریح تو حید کے برخلاف عقیدہ رکھتے ہیں.یعنی وہ تین خدا مانتے ہیں.یعنی باپ، بیٹا روح القدس اور یہ جواب ان کا سراسر فضول ہے کہ ہم تمین کو ایک جانتے ہیں.ایسے بیہودہ جواب کو کوئی عاقل تسلیم نہیں کر سکتا.جبکہ یہ تینوں خدا مستقل طور پر علیحدہ علیحدہ وجود رکھتے ہیں اور علیحدہ علیحدہ پورے خدا ہیں اور تو وہ کو نسا حساب ہے جس کی رو سے وہ ایک ہو سکتے ہیں.اس قسم کا حساب کس سکول یا کالج میں پڑھایا جاتا ہے.کیا کوئی منطق یا فلاسفی سمجھا سکتی ہے کہ ایسے مستقل تین ایک کیونکر ہو گئے اور اگر کہو کہ یہ راز ہے کہ جو عقل انسانی سے برتر ہے تو یہ دھو کا وہ ہی ہے کیونکہ انسانی عقل خوب جانتی ہے کہ اگر تین کو تین کامل خدا کہا گیا تو تین کامل کو بہر حال تین کہنا پڑے گا نہ ایک 1 عیسائی حضرات بعض اوقات یہ کہا کرتے ہیں کہ تینوں خدائی وجودوں کا ایک ہو جانا کچھ بعید ازہ عقل بات نہیں.کیا دنیا میں مختلف چیزوں کو ملایا نہیں جاتا ؟ لیکن سوال یہ ہے کہ تین ایسے خداؤں کو جو مستقل اور غیر متغیر وجود رکھتے ہیں.باہم ملا کر ایک بنایا جاسکتا ہے اور کیا اس صورت میں ان کی کیفیت میں کچھ زیادتی نہ ہوگی.تینوں خداؤں کو ملا کہ ایک خدا بنا نے کے نظریہ کے رد میں مسیح پاک علیہ السلام نے فانی جسموں کی مثال بیان فرمائی ہے حضور فرماتے ہیں :- تینوں مجسم خدا عیسائیوں کے زعم میں ہمیشہ کے لئے مجسم اور ہمیشہ کے لئے علیحدہ علیحدہ وجود رکھتے ہیں اور پھر بھی یہ تینوں مل کر ایک خدا ہے لیکن اگر کوئی بدل سکتا ہے تو ہمیں بہلاوے کہ باوجود اس دائمی تجسم اور تغیر کے یہ تینوں ایک کیونکہ ہیں.بھلا ہمیں کوئی ڈاکٹر مارٹن کلارک اور پادری عماد الدین اور پادری تھا کہ داس کو باوجود ان کے علیحدہ علیحد ہ جسم کے ایک کر کے تو دکھلا دے.ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ اگر تینوں کو کوٹ کر بھی بعض کا گوشت بعض کے ساتھ بلا دیا جاوے پھر بھی جن کو خدا نے تین بنایا تھا ہر گنہ ایک نہیں ہو سکیں گے.پھر جبکہ اس فانی جسم کے حیوان با وجود امکان تحلیل اور تفرق جسم کے ایک نہیں ہو سکتے.پھر ایسے تین مجسم جن میں بموجب عقیدہ عیسائیاں تحلیل اور تفریق جائز نہیں کیونکر ایک ہو سکتے ہیں ی پس یہ بات بالبداہت غلط ثابت ہو جاتی ہے کہ تینوں کو ملا کہ ایک بنایا جاسکتا ہے.حضرت چشمه مسیحی هنگام روحانی خزائن جلد نمبر ۲ سے - انجام آتھم صب روحانی خزائن جلد نمبر ہے
مسیح پاک علیہ السلام کی اس پہلی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ تینوں خدائی کا مستقل وجود ہونا اور پھر ان سب کا ایک خدا قرار دینا عقل کے خلاف ہے.اس وجہ سے یہ عقیدہ باطل ہے.دوشری دلیل تثلیث کے رد میں میسج پاک علیہ السلام نے دوسری دلیل یہ بیان فرمائی ہے کہ شکلیت انسانی فطرت اور باطنی شریعت کے سراسر خلاف ہے.مذہب وہی سچا ہو سکتا ہے جسے کسی عقاید اور تعلیمات فطرت انسانی کے عین مطابق ہوں لیکن اگر کوئی مذہب ایسا ہو کہ اس کے عقاید یا عبادات وغیرہ انسانی فطرت سے متصادم ہوں تو ہم ان تعلیمات کو منجانب اللہ نہیں سمجھ سکتے.تثلیث کے ابطال کے لئے بھی حضور نے اس امر کو پیش فرمایا ہے کہ تثلیث یعنی تین خداؤں کا عقیدہ انسان کی فطرت کے خلاف ہے.ہر شخص کا دل اور ضمیر اور اس کی عقل سلیم اس بات پر زندہ گواہ کے طور پر موجود ہے.پھر مزید یہ کہ عیسائیوں کو بھی اس امر کا اعتراف ہے.چنانچہ تثلیث کے رد میں حضور انس دلیل کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :.دوسری دلیل اس کے ابطال پر یہ ہے کہ باطنی شریعت میں اس کے لئے کوئی نمونہ نہیں ہے.باطنی شریعت بجائے خود تو حید چاہتی ہے.پادری فنڈر صاحب نے اپنی کتابوں میں اعتراف کر لیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسے جزیرہ میں رہتا ہو جہاں تثلیث نہیں پہنچی اس سے تو حیدری کا مطالبہ ہوگا نہ کہ تثلیث کا.پس اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ باطنی شریعت تو حید کو چاہتی ہے نہ تثلیث کو.کیونکہ تثلیث اگر فطرت میں ہوتی تو سوالی اس کا ہونا چاہیئے تھا یہ ہے تیسری دلیل تثلیث کے رد میں تعمیری دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس کائنات کی طرز پیدائش اور اشیاء کی ظاہر شکل و صورت اس بات کو غلط ثابت کرتی ہے کہ تثلیث درست اور برحق ہے.جس طرح حضور نے توحید کے حق میں ایک دلیل یہ بیان فرمائی تھی کہ وضع عالم میں کردویت کا موجود ہونا توحید کی دلیل ہے.اسی طرح یہ امر اس بات کی بھی دلیل ہے کہ شکیث کا عقیدہ باطل ١٠-٠٦ ه : - ملفوظات جلد سوم مشت ۱۰۲ +
۱۳۳ اور غلط عقیدہ ہے.وجہ یہ ہے کہ اگر تثلیث ہی بچی ہوتی تو کائنات کو پیدا کر نے والے تین خدا دنیا کی اشیاء کی ایسی صورت بنا نے جو تثلیث کی عکاسی کرتی.مسیح پاک علیہ السلام نے اس دلیل کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :- در اگر خدا معاذ اللہ تین ہوتے جیسا کہ عیسائی کہتے ہیں تو چاہیے تھا کہ پانی ، آگ کے شعلے اور زمین آسمان کے اجرام سب کے سب سہ گوشہ ہوتے تاکہ تثلیث پر گواہی ہوتی...اب ایسی کھلی شہادت کے ہوتے پھر میں نہیں سمجھتا سکتا کہ تثلیث کا عقیدہ کیوں پیش کر دیا جاتا ہے" لے اسی ضمن میں فرمایا : انجیلی تشکیت کا نقش نہ دل میں ہے نہ قانون قدرت اس کا مؤید ہے ا س پھر حضور فرماتے ہیں :- " تیسری دلیل اس کے ابطال پر یہ ہے کہ جس قدر عناصر خدا تعالیٰ نے بنائے ہیں وہ سب کر دی ہیں.پانی کا قطرہ دیکھو اجرام سماوی کو دیکھو ، زمین کو دیکھو یہ اس لئے کہ کہ ویت میں ایک وحدت ہوتی ہے.پس اگر خدا میں تثلیث تھی تو چاہیے تھا کہ مثلث نما اشیاء ہوتیں " سے اور چونکہ وضع عالم میں کرویت ایک محسوس و مشہور امر ہے.اس وجہ سے تثلیث کا عقیدہ باطل ہے.چوتھی دلیل تثلیث کے ابطال کے لئے چوتھی دلیل جس کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے نور کے ساتھ بار بارہ پیش فرمایا یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام توریت کے پابند تھے جو یہود کی کتاب شریعیت ہے اور اس میں تثلیث کا کہیں ذکر نہیں بلکہ صاف توحید کا بیان ہے.حضرت سیح علیہ السلام کے پابند تو ریت ہونے پر ان کا یہ قول شاہد ہے کہ :- یہ نہ مجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں : ملفوظات جلد اول ۳۲-۳۳۰ سه : ملفوظات جلد دوم و: ملفوظات جلد سوم ما : صده
۱۳۴ بلکہ پورا کر نے آیا ہوں کیونکر یکی تم سے کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہر گز نہ ملے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے ؟ لے اس سے ثابت ہوا کہ حضرت مسیح علیہ السلام توریت کے پابند اور ان کی تعلیم توریت کی تعلیم کے عین مطابق تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمایا ہے کہ توریت میں توحید کی تعلیم درج ہے اور تثلیث کا کوئی ذکر نہیں ہے.حضور کے اس ارشاد کی مزید تائید پاپو پر انسائیکلو پیڈیا کے اس حوالہ سے بھی ہوتی ہے جس میں لکھا ہے :- "The doctrine of the Trinity is no where expressedly tought in the old testament." * انس کا مطلب یہ ہے کہ عہد نامہ قدیم میں تثلیث کے عقیدہ کا کسی جگہ بھی صراحت سے ذکر موجود نہیں ہے.الغرض توریت میں توحید کی تعلیم کا پایا جانا اور تثلیث کا کچھ کر نہ ہونا ایک واضح امر ہے.امر مزید برآن توریت کے مطالعہ سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ وہ توحید کی تعلیم دیتی ہے.چنانچہ نمونہ کے طور پر چند حوالہ جات پیش کرتا ہوں.لکھا ہے :.(1) وئی اسے اسرائیل اخداوند ہما را خدا ایک ہی خداوند ہے تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ " سے.(۲) پس آج کے دن تو جان سے اور اس بات کو اپنے دل میں جمائے کہ اوپر آسمان میں اور نیچے زمین پر خداوند ہی خدا ہے اور کوئی دوسرا نہیں یہ ہے (٣) " تو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی صورت نہ بنانا نہ کسی چیز کی صورت بنانا جواد پر آسمان : متی شد تے Popular Encyclopedia VOL XIV London 1885 -} سے استثناء : استثناء
۱۳۵ میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے تو ان کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ ان کی عبادت کرنا.کیونکہ میں خداوند تیرا خدا غیور خدا ہوں کہ ان تیمین حوالہ جات سے جو بطور نمونہ درج کئے گئے ہیں.یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہود کو ان کی کتاب مقدس میں توحید کی تعلیم دی گئی تھی اور صرف یہی نہیں بلکہ ان کو حکم تھا کہ وہ اس تعلیم کو یاد رکھیں اور کسی صورت میں بھولنے نہ دیں ان کو یہ بھی حکم تھا کہ اس تعلیم کو دروازوں کی چوکھٹوں پر لکھ رکھیں تا کسی وقت بھی ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہو.اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ تعلیم ان کے دل پر ر نقش ہو جائے لکھا ہے :- پر " یہ باتیں جن کا حکم آج میں تجھے دیتا ہوں تیرے دل پر نقش رہیں " سے اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ یہود کا اس بارہ میں اعتقاد اور عمل اس بات میں کسی قسم کا شک باقی نہیں رہنے دیتا کہ واقعی ان کو توحید کی تعلیم دی گئی تھی.اس امر کو ثابت کر نے کے بعد کہ : و - یہود کو توحید کی تعلیم دی گئی تھی..ب.اس تعلیم کو برابر یاد رکھنے اور دل پر نقش کرنے کی تاکیدی ہدایت تھی.جہ یہود کا اپنا اقرار اور عمل اس پر شاہد ناطق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ استدلال فرمایا ہے کہ جبکہ حضرت مسیح توریت کے تابع نبی تھے اور ان کا اپنا اقرار موجود ہے کہ میں اس کتاب کی تعلیم کو ہی انہ میرنو زندہ کرنے آیا ہوں ،تو کبھی یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ توحید کی بجائے تثلیث کی تعلیم دیں.اور جیسا کہ ہم آئندہ دیکھیں گئے کہ حضرت + عیسی علیہ السلام نے کبھی تشکیت کی تعلیم نہیں دی بلکہ اپنی ساری عمر توحید کی تبلیغ کہتے رہے.پس یہود کو توحید کی تعلیم ملنا اور حضرت مسیح علیہ السلام کا اس تعلیم کا پابند ہونا اس بات کی پختہ دلیل ہے کہ تثلیث کا موجودہ معقیدہ جس کو عیسائی لوگ بڑے زور سے پیش کرتے ہیں حضرت عیسی علیہ ال یر اسلام کا بیان کردہ نہیں بلکہ ایک باطل اور خود تراشہ عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ ان کی اس کتاب کے سراسر خلاف ہے جس کو وہ اپنی مقدس کتاب قرار دیتے ہیں.حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے تثلیث کے رد میں اس دلیل کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے.: خروج : ت: استثناء :
۱۳۶ (1) نبیوں کے صحیفوں میں اس کا کوئی پتہ نہیں، اور ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ یہ حق کے خلاف ہے یا سے (٣) ہم عیسائیوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ اگر واقعی تثلیت کی تعلیم تھی تھی اور نجات کا یہی اصل ذریعہ تھا تو پھر کیا اندھیر بچا ہوا ہے کہ توریت میں اس تعلیم کا کوئی نشان اس میں نہیں کتا.یہودیوں کے اظہار نے کہ دیکھ لو " ۲ رہ کیا (F) نہ میں نے ایک یہودی سے دریافت کیا تھا کہ توریت میں کہیں تثلیث کا بھی ذکر ہے اور یا تمہار سے تعامل میں کہیں اس کا بھی پتہ لگتا ہے اس نے صاف اقرار کیا کہ ہر گنہ نہیں.ہماری توحید وہی ہے جو قرآن مجید میں ہے.اور کوئی فرقہ ہمارا تثلیث کا قائلی نہیں.اس نے یہ کہا کہ اگر تثلیث پر مدار نجات ہوتا تو ہمیں جو توزیت کے حکموں کو چوکھٹوں پراور آستینوں پر لکھنے کا حکم تھا کہیں تثلیث کے لکھنے کا بھی ہوتا یہ ہے پر (۴) " توریت میں لکھا تھا کہ دوسرا خدا نہ ہو.نہ آسمان پر نہ زمین پر پھر دروازوں اور چوکھٹوں یہ تعلیم بھی گئی تھی اس کو چھوڑ کر یہ نیا خدا تراش گیا جس کا کچھ بھی پتہ توریت میں نہیں ملتا.یں نے فاضل یہودیوں سے پوچھا ہے کہ کیا تمہارے ہاں ایسے خدا کا پتہ ہے جو مریم کے.پیٹ سے نکلے اور وہ یہودیوں کے ہاتھوں سے ماریں کھانا پھر سے.اس پر یہودی علماء نے مجھے یہی جواب دیا کہ یہ محض افتراء ہے.توریت سے کسی ایسے خدا کا پتہ نہیں ملتا.ہمارا وہ خدا ہے جو قرآن شریف کا خدا ہے.یعنی جس طرح پر قرآن مجید نے خدا تعالی کی وحدت کی اطلاع دی ہے اسی طرح پھر ہم توریت کی کہ دو سے خدا تعالیٰ کو وحده لاشریک مانتے ہیں اور کسی انسان کو خدا نہیں مان سکتے " سے ه : ملفوظات جلد سوم مث ه : ملفوظات جلد سوم صدا ے لیکچر لدھیانه من - ۲۱ روحانی خزائن جلد ۲۰ :
۱۳۷ (0) توریت میں صاف لکھا ہے کہ تم زمین کی کسی چیز کو اور یا آسمان کی کسی چیز کو جو دیکھو تو اس کو خدا مت بناؤ جیسا کہ خروج ۲۰ باب ۳ میں یہ الفاظ ہیں کہ تو اپنے لئے کوئی مورت یا کسی چیز کی صورت جو آسمان پر یا نیچے زمین پر یا پانی میں زمین کے نیچے ہے مت بنا اور پھر لکھا ہے کہ اگر تمہار سے درمیان کوئی نبی یا خواب دیکھنے والا ظاہر ہو اور تمہیں نشان سا کوئی معجزہ دکھلاوے اور اس نشان یا معجزہ کے مطابق جو اس نے تمہیں دکھایا ہے بات واقعہ ہو اور وہ تمہیں کہے کہ آؤ ہم غیر معبودوں کی جنہیں تم نے نہیں جانا پیروی کریں تو ہر گز اس نبی یا خواب دیکھنے والے کی بات پر کان مت دہریو ہرگز نبی اسی طرح اور بھی توریت میں بہت سے مقامات ہیں جن کے سیکھنے کی حاجت نہیں یہ لے (4) یہ عیسائیوں کی تعلیم یہودیوں کی مسلسل تین ہزار برس کی تعلیم کے مخالف ہے جو ان کی کتابوں میں پائی جاتی ہے جیسی بچہ بچہ یہود کا واقف ہے" سے ہ (<) تثلیث کا تو کوئی قائل نہیں.یہودی جو ابراہیمی سلسلہ میں ہیں وہ اس سے انکار وہ کرتے ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ ہماری کتابوں میں اس کا کوئی نام ونشان نہیں.بر خلاف اس کے توحید کی تعلیم ہے اور نہ آسمان پر نہ زمین پر نہ پانی میں غرض کہیں بھی دوسرا خدا تجویز کرنے سے منع کیا گیا ہے" سے (A) عیسائی عقیدہ کے بطلان کے لئے اس سے زیادہ اور کیا دلیل ہوگی کہ وہ جس ہے تعلیم کو سچی اور منجانب اللہ سمجھتے ہیں.وہی تعلیم ان کے جدید عقیدہ کی مکذب اور ان کے اس عقیدہ سے ایسی کھلی کھلی مخالف ہے کہ کبھی کسی یہودی کو یہ شک بھی نہیں گذرا کہ اس تعلیم میں تثلیث بھی داخل ہے " ہے :- جنگ مقدس مشت روحانی خزائن جلد ۲ : كتاب البرية منت روحانی خزائن جلد ۱۳ به لئے ه - ملفوظات جلد سوم ص : : کتاب البریه حث روحانی خزائن جلد ۱۳ :
ان حوالہ جات سے یہ بات تو پایہ ثبوت کو پہنچے جاتی ہے کہ یہود کو توحید کی تعلیم دی گئی تھی.تثلیث کا کچھ ذکر موجود نہیں تھا.نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تثلیث کا عقیدہ نہ صرف یہ کہ الہامی نہیں بلکہ یہود کی اصل تعلیم کے مخالف ہے ان دونوں وجوہ سے یہ خیال باطل ہے.اگر عیسائی یہ عذر کریں کہ اصل میں تثلیث ہی کی تعلیم تھی لیکن یہود اس کو بھول گئے.اور اس کی بجائے توحید کو اختیار کر لیا تو یہ ایک نہایت ہی بودا اور کمزور عذر ہے.جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں یہود کو تعلیم یاد رکھتے اور لکھنے کے بارہ میں تاکیدی وصیت تھی لکھا ہے :- ؟ " یہ باتیں جن کا حکم آج میں تجھے دیتا ہوں تیرے دل پر نقش یہ ہیں " اے اور پھر اس تعلیم کی یاد دہانی کے لئے اس قوم میں پے در پنے نبی اور مصلحین آتے رہے پس قرائن اس بات کی پر زور تردید کر تے ہیں کہ یہود اس بنیادی تعلیم کو ہی فراموش کر دیتے.جس کو تازہ رکھنے کے لئے اتنا زبردست انتظام تھا اور جو ان کی سنجات کا ذریعہ تھی.اس ضمن میں مسیح پاک علیہ السلام کے حوالہ جات پیش خدمت ہیں.آپ فرماتے ہیں :- (1) ظاہر ہے کہ اگر باپ بیٹے رُوح القدس کی تعلیم جو دوسرے لفظوں میں تثلیث کہلاتی ہے بنی اسرائیل کو دی جاتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ سب کے سب اس کو بھول جاتے.جس تعلیم کو موسیٰ نے چھ سات لاکھ یہود کے سامنے بیان کیا تھا.اور بار بار اس کے حفظ رکھنے کے لئے تاکید کی تھی اور پھر حسب زعم عیسائیاں متواتر خدا کے تمام نبی یسوع کے زمانہ تک اس تعلیم کو تازہ کرتے آئے.ایسی تعلیم یہود کو کیونکر بھول سکتی تھی " سے اس تثلیث کے عقیدہ کو نہ صرف قرآن شریف یہ کرتا ہے بلکہ توریت بھی بند کرتی ہے.کیونکہ وہ توریت جو موسی " کو دی گئی تھی.اس میں اس تثلیث کا کچھ بھی ذکر نہیں.اشارہ تک نہیں.ورنہ ظاہر ہے کہ اگر تو ریت میں بھی ان خداؤں کی نسبت تعلیم ہوتی تو ہرگز ممکن نہ تھا کہ یہودی اس تعلیم کو فراموش کر دیتے.کیونکہ اول تو یہودیوں کو توحید کی تعلیم کے یاد رکھنے کے لئے سخت تاکید کی گئی تھی.یہاں تک کہ حکم تھا کہ ہر ے استثناء ہے سے : - انجام انتم حث روحانی خزائن جلد نمبر : : - جلد -
ایک یہودی اس تعلیم کو حفظ کر لے اور اپنے گھر کی چوکھٹوں پر اس کو لکھ چھوڑیں اور اپنے بچوں کو سکھا دیں اور پھر علاوہ اس کے اس توحید کی تعلیم کے یاد دلانے کے لئے متواتر خدا تعالیٰ کے نبی یہودیوں میں آتے رہے اور وہی تعلیم سکھلاتے رہے.پس یہ امر بالکل غیر ممکن اور محال تھا کہ یہودی لوگ باوجود اس قدر تاکید اور اسقدر تو اتہ انبیاء کے تثلیث کی تعلیم کو بھول جاتے اور بجائے اس کے توحید کی تعلیم اپنی کتابوں میں لکھ لیتے اور وہی بچوں کو سکھاتے اور آنے والے صدہا نبی بھی اسی توحید کی تعلیم کو دوبارہ تازہ کر تھے ایسا خیال تو سراسر خلاف عقل د قیاس ہے.میں نے اس بارہ میں خود کوشش کر کے بعض یہودیوں سے حلفاً دریافت کیا تھا کہ توریت میں خدا تعالی کے بارہ میں آپ لوگوں کو کیا تعلیم دی گئی تھی ؟ کیا شلیث کی تعلیم دی گئی تھی یا کوئی اور.تو ان یہودیوں نے مجھے خط لکھے جو اب تک میرے س موجود ہیں.اور ان خطوں میں بیان کیا کہ توریت میں تثلیث کی تعلیم کا نام ونشان نہیں.بلکہ خدا تعالیٰ کے بارہ میں توریت کی وہی تعلیم ہے جو قرآن کی تعلیم ہے یاک (ص) " کیا یہ بات تعجب میں نہیں ڈالتی کہ خدائی کے ثبوت کے لئے یہود کی کتابوں کا حوالہ دیا جاتا ہے حالانکہ ہوں اس عقیدہ پر ہزار لعنت بھیجتے ہیں اور سخت انکاری ہیں اور کوئی ان میں ایسا فرقہ نہیں جو تثلیث کا قائمی ہو.اگر یہود کو مونٹی سے آخری نبیوں تک یہی تعلیم دی جاتی تو کیونکر مکن تھا کہ وہ لاکھوں آدمی جو بہت سے فرقوں میں منقسم تھے اس تعلیم کو سب کے سب بھول جاتے " سے (۴) ایک اور اسرقابل غور ہے کہ یہودیوں کے مختلف فرقے ہیں اور بہت سی باتوں میں ان میں باہم اختلاف ہے.لیکن توحید کے اقرار میں ذرا بھی اختلاف نہیں.اگر تشکیت واقعی مدا یہ نجات تھی تو کیا سارے کے سارے فرقے ہی اس کو فراموش کر دیتے اور ایک آدھ فرقہ بھی اس پر قائم نہ رہتا.کیا یہ تعجب خیز امرنہ ہوگا کہ ایک عظیم الشان قوم جس میں ہزاروں ہزار فاضل ہر زمانہ میں موجود رہے اور برابر مسیح علیہ السلام کے وقت تک جن نہیں نبی آتے ه بچشم مسیحی ملات روحانی خزائن جلد ۲۰ : ۱- انجام انتهم صله روحانی خزائن جلد ۱۱ : ۳
۱۴۰ رہے ان کو ایک ایسی تعلیم سے بالکل بے خبری ہو جا ہے جو موسیٰ علیہ السلام کی معرفت انہیں ملی ہو.اور مدارہ نجات بھی وہی ہو.یہ بالکل خلاف قیاس اور بے ہودہ بات ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تثلیث کا عقیدہ خود تراشیدہ عقیدہ ہے ؟ لیے مسیح پاک علیہ السلام کے یہ حوالہ جات اس دلیل کے سلسلہ میں فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں.یہود کا توحید کی تعلیم پر اتفاق ہونا ان سب کا تشکلیث سے انکار کرنا ایک اور قرینہ اس بات پر ہے کہ یہود کو واقعی توحید کی تعلیم دی گئی تھی اور وہ اس پر قائم رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- در پس یہودیوں میں توحید پر اتفاق ہونا اور تشکلیت پر کسی ایک کا بھی قائم نہ ہوتا صریح دلیل اسی امر کی ہے کہ یہ باطل ہے" سے پس اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ یہود کو توحید کی تعلیم دی گئی تھی اور حضرت مسیح اپنے بیان کے مطابق اس کے پابند ہیں اور عملاً پابند رہے ، اس صورت میں تثلیث کا عقیدہ جو موجودہ عیسائی پیش کرتے ہیں.حضرت عیسی علیہ السلام کا پیش کردہ یا الہامی عقیدہ نہیں ہو سکتا بلکہ حتی یہی ہے کہ یہ بعد کی ایجاد ہے اور ایک باطل عقیدہ ہے.پانچویں دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تثلیث کے ابطال میں پانچویں دلیل یہ بیان فرمائی ہے کہ انجیل میں کو عیسائی لوگ اپنی مقدس کتاب سمجھتے ہیں اور جو ان کی تعلیمات کا مجموعہ ہے.اس میں تشکیت کا کوئی ذکر جوان 1 تک موجود نہیں ہے.توحید عیسائی مسلمات کی رو سے عیسائیوں کا ایک بنیادی عقیدہ ہے.لہذا اس کا ذکر پوری تفصیل اور صراحت کے سا تھ اس کتاب میں ہونا چاہیے جو ان کی سب سے مقدس مذہبی کتاب ہے.لیکن عجیب بات یہ ہے کہ عیسائیوں کی کتاب انجیل میں نہ تثلیث کا لفظ موجود ہے اور نہ اس عقیدہ کی وضاحت درج ہے.اسی بات کو مسیح پاک علیہ السلام نے بطور دلیل بیان فرمایا ہے.آپ بڑی تحریمی کے ساتھ فرماتے ہیں :- انجیل میں تو نہ با صراحت اور نہ بالفاظ کہیں تشکیت کا لفظ موجود ہے اور نہ رحم بلا مبادلہ کا " سے ے: ملفوظات جلد سوم حثنا : : جنگ مقدس صد کا روحانی خزائن جلد : : ملفوظات جلد سوم مثلا :
۱۴۱ پھر آپ فرماتے ہیں کہ : انجیل میں تثلیث کا نام و نشان نہیں لے ایک اور موقع پر آپ فرماتے ہیں :- " سچ تو یہ ہے کہ تثلیث کی تعلیم انجیل میں بھی موجود نہیں.انجیل میں بھی جہاں تعلیم کا بیان ہے ان تمام مقامات میں تثلیث کی نسبت اشارہ تک نہیں بلکہ خدائے واحد لا شریک کی تعلیم دیتی ہے.چنانچہ بڑے بڑے معاند پادریوں کو یہ بات ماننی پڑی ہے کہ انجیل میں تثلیث کی تعلیم نہیں " " حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے اس قول کی تصدیق مندرجہ ذیل حوالہ سے ہوتی ہے.اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :- Rev.E.R.Hul "In the new testament even the most essential points of doctrine are touched so incidently, and require such careful study and balaucing of different texts that it is an extremely delicate matter to arrive at a definite conclusion." * اس سے ثابت ہوا کہ مسیح پاک علیہ السلام کا یہ دعویٰ کہ انجیل میں تثلیث کا ذکر نہیں ہے.بلا دلیل نہیں ہے بلکہ خود عیسائی اس کے معترف ہیں اور پھر یہ ایک ایسا واقعاتی امر ہے جس کی پڑتال ہر انسان کر سکتا ہے.انجیل آج بھی موجود ہے لیکن اس میں صحیح معنوں میں تثلیث کا ذکر نہیں.یہ درست ہے کہ عیسائی بعض آیات سے ایسا استدلال ضرور کرتے ہیں : لیکن انجیل سے تثلیث کا استدلال کرنا دو وجوہ سے باطل ٹھہرتا ہے اقول : انجیل میں تثلیث کا کوئی واضح بیان نہیں حالانکہ ایسا ہونالازمی تھا کیونکہ یہ عقیدہ عیسائیت کے بنیادی عقائد میں سے ہے.اس بات کا ثبوت پیش کرنا کہ انجیل میں تثلیث کا ذکر موجود ہے.عیسائیوں کے ذمہ ہے کیونکہ وہی اس امر میں مدعی ہیں میسیج پاک علی السلام نے زمایا ہے :- باره ثبوت مدعی کے ذمہ ہے جو تثلیث کا قائل ہے.اس کا فرض ہے کہ وہ اس کے دلائل دیے ہے : نور القرآن نمبر ا ص روحانی خزائن جلد نمبر : ۵۲: چشمه سیحی صدا روحانی خزائن جلد نمبر ۲ "What catholic church is and what she teaches" by Rev E.R.Hul.-ič سه : ملفوظات جلد سوم ملتا ہے
دوم! دھ 1- جوانجیل آج موجود ہے باوجودیکہ اس میں بہت تحریف ہو چکی ہے.لیکن پھر بھی اس میں توحید کی تعلیم کا بیان ملتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ تثلیث باطل ہے اور یہ عقیدہ بعد میں بنا کہ اناجیل میں داخل کر دیا گیا ہے.اناجیل کے جن بیانات سے توحید کا واضح ثبوت سکتا ہے ان میں سے چند ایک بطور نمونہ یہ ہیں.لکھا ہے :- I "بہت دنیا میں کچھ چیز نہیں اور سوا ایک کے اور کوئی خدا نہیں کالے ۲۰ - " ہمارے سے نزدیک تو ایک ہی خدا ہے " سے ۳.خدا ایک ہی ہے" سے " خدا ایک ہی ہے " سے الغرض اس قسم کے متعدد حوالے انجیل میں موجود ہیں.تثلیث کے خلاف ہمارا استدلال یہ ہے کہ اول تو انجیل میں تثلیث کا ذکر نہ ہونا اس کی باطل ہونے کا ایک بڑا ثبوت ہے.کیونکہ کوئی ایسا اہم مذہبی عقیدہ نہیں ہو سکتا جس کا ذکر اس مذہب کی مقدس کتاب میں نہ ہو.لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ بات کہ انجیل سے توحید کا اقرارہ فنا ہو.پھر تو تثلیث کے باطل اور خود تراشیدہ عقیدہ ہو نے میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا.چھٹی وکیل عقیدہ تثلیث کے ابطال پر چھٹی دلیل یو نیٹرین فرقہ کا وجود ہے.یہ عیسائیوں کا ایک فرقہ ہے جو کتا بتقدس کو ماننے کے باوجود تثلیث کا قائل نہیں بلکہ توحید کو درست مانتے ہیں.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس فرقہ کے وجود کو اس بات کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے کہ تثلیث کی تعلیم انجیل میں موجود نہیں ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ اگر انجیل میں تشکیت ہی کی تعلیم ہوتی اور اس بات کی پوری وضاحت ہوتی تو کیا وجہ ہے کہ عیسائیوں کا ایک فرقہ اس کتاب کو ماننے کے باوجود تسلیت کا انکار کر کے توحید کا اقرار کرتا.اس فرقہ کا توحید پر قائم ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ تثلیث کا مکمل اور مفصل ذکر انجیل میں نہیں ہے.اور یہ امر تشکلیت کے ابطال پر ایک زیر روست دلیل ہے.وہ بنیادی اور اساسی عقیدہ ہی کیسا جس پر نجات کا دارو مدار ہو لیکن اس کا ذکر اور اسکی نے کی نیتیوں پر : ته : گیتوں ۳۲ + نا کرنتھیوں + :- یعقوب ۱۹ :
۱۴۳ تفصیل مقدس کتاب میں درج نہ ہو.اگر کتاب میں درج نہیں تو ان کا ماننا پڑ سے گا کہ اس عقیدہ کو الہامی توثیق حاصل نہیں اور یہ عقیدہ شروع سے نہیں بلکہ بعد میں کسی شخص کی فکر کا نتیجہ ہے.یہ سب امور اس عقیدہ کو باطل قرار دیتے ہیں.اس دلیل کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آخر عیسائیوں میں تثلیث کے بارہ میں یہ اختلاف کیوں ہے؟ جزوی اور فروعی اختلافات تو ہو سکتے ہیں لیکن اتنا عظیم الشان فرق کہ ایک حصہ تثلیث کا قائل ہے اور دوسرا توحید کا اور دونوں ہی استدلال ایک کتاب سے کرتے ہیں.ظاہر ہے کہ تثلیث کے متعلق به اختلاف اور یونیٹیرین فرقہ کا باقی سب فرقوں سے الگ ہو کرہ توحید کا اقرار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انجیل میں تشکیت کا مکمل اور واضح بیان نہیں ہے.اور یہ امر اپنی ذات میں اس بات کی بڑی اہم دلیل ہے کہ تثلیث باطل ہے.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام فرماتے ہیں :-.(1) " خود عیسائیوں کے مختلف فرقوں میں بھی تثلیث کے متعلق ہمیشہ سے اختلاف چلا آتا ہے اور یونیٹیرین فرقہ اب تک موجود ہے لے ایک اور موقع پر تحریر فرمایا : " کیا یہ بات سوچنے کے لائق نہیں کہ عیسائیوں میں قدیم سے ایک فرقہ موحد بھی ہے جو قرآن شریف کے وقت میں بھی موجود تھا.اور وہ فرقہ بڑے زور سے ایسی بات کا بھی ثبوت دیتا ہے کہ تثلیث کا گندہ مسئلہ صرف تیسری صدی کے بعد نکلا ہے.اور اب بھی اس فرقہ کے لاکھوں انسان یورپ اور امریکہ میں موجود ہیں اور ہزار ہا کتابیں ان کی شائع ہو رہی ہیں یا نے نیز فرمایا :- جس حال میں عیسائیوں میں ایسے فرقے بھی موجود ہیں جو مسیح کی الوہیت اور خدائی کے قائل نہیں اور نہ ہی وہ تثلیث ہی کو مانتے ہیں.جیسے مثلاً یونیٹیرین تو کیا.وہ اپنے دلائل اور وجوہات انجیل سے بیان نہیں کرتے وہ بھی تو انجیل ہی پیش کرتے ہیں.اب اگر صراحتاً بلاتا ویل انجیل میں مسیح کی الوہیت یا تثلیث کا بیان ہوتا تو کیا وجہ ہے کہ یونی ٹیرین فرقہ اس سے انکار کرتا ہے حالانکہ وہ انجیل کو اسی طرح :- انجام انتم ملے روحانی خزائن جلد ابنه ہے: ملفوظات جلد سوم مٹنا
۱۴۴ مانتا ہے جس طرح دوسرے عیسائی یہ لے ان تین حوالوں سے بالکل عیاں ہو جاتا ہے کہ تثلیث کے عقیدہ کو انجیل کی توثیق حاصل نہیں ہے.انجیل بذات خود کوئی قابل اعتبار اور قابل اعتماد کتاب نہیں کیونکہ اس کا الہامی ہونا ہی ثابت نہیں پس جبکہ تثلیث کے عقیدہ کو اس جیسی نا قابل اعتماد کتاب کی تائید بھی حاصل نہیں اور اس کے واضح اور مکمل بیان کے خلاف منقولی اور واقعاتی شہادتیں موجود ہیں تو اس عقیدہ کے مبنی بر حقیقت ہو نے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.ساتویں دلیل تثلیث کے رد میں ساتویں دلیل یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے ہمیشہ توحید کی تعلیم دی اور اسی بات کی منادی کی کہ خدا ایک ہے.اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے.یہ ایک ایسی واقعاتی دلیل ہے کہ جو تثلیث کے موقف کو انتہائی کمزور کر دیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے :- "حضرت مسیح نے کسی جگہ تثلیث کی تعلیم نہیں دی اور وہ جب تک زندہ رہے خدائے نہیں دی اور وہ زندہ رہے واحد لاشریک کی تعلیم دیتے رہے تھے اگر یہ سوال ہو کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ مسیح علیہ السلام نے ہمیشہ توحید کی منادی کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو حضرت مسیح کے اقوال موجودہ انجیل میں موجود ہیں جو واضح طور پر توحید پر دلالت کرتے ہیں اور دوسرے حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی میں بہت سے ایسے مواقع آئے ، جہاں ان پر خدا یا خدا کے بیٹے ہونے کا الزام لگایا گیا.گویا ان کو تثلیث کا ایک جزوہ بنا کر پیش کیا گیا.انجیل سے ثابت ہے کہ مسیح نے ان تمام موقعوں پر اپنے خدا ہونے کا انکار کیا اور اس طرح گویا اپنے قول اور فعل سے اس بات کی تردید کر دی کہ کوئی اور شخص خدا کی خدائی میں شریک ہے.حضرت مسیح کی طرف سے توحید کے اقرار کے ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام فرماتے ہیں :- ان کا وہ کلمہ جو صلیب پر چڑھائے جانے کے وقت ان کے منہ سے نکلا کیسا تو حید V پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے نہایت عاجزی سے کہا ایلی ایلی لما سبقتانی یعنی اسے میرے خدا! اسے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.کیا جو شخص اس عاجز بی عاجزی سے خدا کو پکارتا ہے اور اقرار کرتا ہے کہ خُدا میرا رب ہے اس کی نسبت کوئی عقلمند سه : ملفوظات جلد سوم ۱۳ : -۲: چش در سیمی ص ۲ روحانی خزائن جلد ۲۰ : صدا :
۱۴۵ گمان کر سکتا ہے کہ اس نے در حقیقت خدائی کا دعویٰ کیا تھا؟ اے حضرت مسیح کا یہ فقرہ جہاں ان کی اپنی خدائی کا سد کرتا ہے وہاں انس بات کا بھی واضح ثبوت ہے کہ ان کے ذہن میں تثلیث یا تین خداؤں کا کوئی تصویر ہر گز ہرگز موجود نہ تھا ورنہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس انداز سے خُدا کو پکارتے جو خالص موحدانہ طریق ہے.انجیل سے اس بات کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ حضرت مسیح نے جب بھی خدا کا ذکر کیا توحید ہی کا بیان ان کی زبان پر جاری ہوا لکھا ہے :- " اس سے پوچھا کہ سب حکموں میں اوّل کون سا ہے ؟ لیسوع نے جواب دیا کہ اول یہ ہے کہ اسے اسرائیل سُن خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے اور تو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارہ سے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی سازی طاقت سے محبت رکھی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ بالا حوالہ اور یوحنا پڑا کے حوالہ کی طرف اشارہ کر تے ہوئے فرماتے ہیں :- "سب سے بڑھ کر حضرت مسیح کا اپنا اقرار ملاحظہ کے لائق ہے.وہ فرماتے ہیں.سب حکموں میں اول یہ ہے کہ اسے اسرئیل مشن وہ خدا وند جو ہمارا خدا ہے.ایک ہی خدا ہے.پھر فرماتے ہیں.حیات ابدی یہ ہے کہ ویسے تجھ کو اکیلا سچا خدا اور مسبوع مسیح کو جسے تم نے بھیجا ہے جائیں.یوجنا یا " سے صرف زبانی اقرار پریس نہیں بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام نے زندگی کے نازک سے نازک موقع پہ بھی اسی پیغام کو بیان کیا جوان کی زندگی کا حقیقی مشن تھا.یعنی توحید - حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو مندرجہ ذیل تفصیلی حوالہ میں بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں "انجیل کا ایک بہت بڑا حصہ بھی یہی تعلیم دیتا ہے کہ خدا ایک ہے.مثلاً جب مسیح کو یہودیوں نے اس کے اس کفر کے بدلے میں کہ یہ ابن اللہ ہونے کا دعوی کرتا ہے پتھراؤ کرنا چاہا تو اس نے انہیں صاف کہا کہ کیا تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا کہ تم خدا ہو.اب ایک دانشمند خوب سوچ سکتا ہے کہ اس الزام کے وقت تو چاہئیے تھا مسیح اپنی ۱۲ - چشمه سیحی ماه روحانی خزائن جلد ۲۰ سے : - مرقس : - -:- جنگ مقدس صله روحانی خزائن جلد ۶ :
۱۴۶ پوری بریت کرتے اور اپنی خدائی کے نشان دکھا کر انہیں ملزم کرتے اور اس حالت میں کہ ان پر کفر کا الزام لگایا گیا تھا تو ان کا فرض ہونا چاہیئے تھا کہ وہ فی الحقیقت خدا یا خدا کے بیٹے تھے تو یہ جواب دیتے کہ یہ کفر نہیں بلکہ میں واقعی طور پر خدا کا بیٹا ہوں اور میرے پاس اس کے ثبوت کے لئے تمہاری ہی کتابوں میں فلاں فلاں موقع پر صاف لکھا ہے کہ میں قادر مطلق عالم الغیب خدا ہوں اور لاڈیکیں دکھا دوں اور پھر اپنی قدرتوں طاقتوں سے ان کو نشانات خدائی بھی دکھا دیتے اور وہ کام جو انہوں نے خدائی سے پہلے دکھائے تھے ان کی فہرست الگ دے دیتے.پھر ایسے بین ثبوت کے بعد کسی یہودی فقیہہ یا فریسی کی طاقت تھی کہ انکار کرتا وہ تو ایسے خدا کو دیکھے کہ سجدہ کر تھے.مگر بر خلاف اس کے آپ نے کیا تو یہ کیا کہ کہ دیا کہ تمہیں خدا لکھا ہے.اب خدا ترس دل سے کہ غور کرو کہ یہ اپنی خدائی کا ثبوت دیا یا ابطال کیا.تورات، اسلام، قانون قدرت ، باطنی شریعت تو توحید کی شہادت دیتے ہیں.لہ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سب امور سے یہ استدلال فرمایا ہے کہ حضرت مسیحا علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی میں توحید کی منادی کی بلکہ اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر بھی اس پیغام کو پہنچا دیا.حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف سے توحید کا یہ اقرار اور تبلیغ اس امرکا ایک بین ثبوت ہے کہ نہ وہ خود تثلیث کے قائل تھے اور نہ ان کی تعلیم شلیت کی تھی.پس معلوم ہوا کہ یہ عقیدہ بعد کی ایجاد اور بناوٹ ہے اور اس وجہ سے باطل ہے.اٹھویں دلیل ا تثلیث کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دلیل یہ بیان فرمائی ہے.کہ تثلیث کو تسلیم کرنے سے خدا تعالیٰ کی بعض صفات میں تقسیم لازم آتی ہے.اور ایسا عقیدہ رکھنا خدا کی شان اور مرتبہ سے بعید ہے اور چونکہ تثلیث میں لانگا یہ تقسیم ہوتی ہے اس لئے عقیدہ ہی باطل ہے.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ دیگر مذاہب کی طرح عیسائیت بھی خدائی صفات کی قائلی ہے.بلکہ اس بات کی دعویدار ہے کہ تینوں خدائی اقانیم میں سے ہر قوم اپنی ذات میں کامل نیکل ه : خفوقات جلد سوم مثل :
۱۴۷ اور جملہ خدائی صفات سے متصف ہے.لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض صفات ایسی ہیں جو دوسرے ہمسر وجود کے عدم کا تقاضا کرتی ہیں.مثلاً خدا کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی ذات میں اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں.اب یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ اگر تینوں خدائی اقانیم میں سے ہر اقنوم اپنی ذات میں واحد ہے تو دوسرے اقنوموں کا وجود باطل ہو جاتا ہے اور اگر یہ صورت مان لی جائے تو تثلیث باطل ہو جاتی ہے اور اگر یہ صورت نہ مانی جائے تو پھر خدائی صفات میں تقسیم لازم آتی ہے جوحقیقت میں نا قاب تقسیم میں اسطرح پر اوربھی بہت سی صفات میں تقسیم نازم آئے گی.اسکی بغیر چارہ نہیں.اور جب بھی ایسا ہو گا تثلیث باطل ہو جائے گی کیونکہ جس خدا کی ایک صفت بھی کم ہو جائے وہ خدا نہیں ہو سکتا.خدا وہی ہے جو اپنی جملہ صفات کے ساتھ کامل اور مکمل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دلیل کو اپنی کتاب جنگ مقدس میں بیان فرمایا حضور کے الفاظ میں یہ دلیل یوں ہے.خدا اپنی صفات کا ملہ میں تقسیم نہیں ہو سکتا اور اگر اس کی صفات تامیہ اور کاملہ میں سے ایک صفت بھی باقی رہ جائے تب تک خدا کا لفظ اس پر اطلاق نہیں کر سکتے تو اس صورت میں میری سمجھ میں نہیں آسکتا کہ تین کیونکر ہو گئے " 1 نویں دلیل عیسائیت کے عقیدہ تثلیث کے رد میں ایک بڑی مضبوط اور ٹھوس دلیل یہ ہے کہ اس عقیدہ کو درست تسلیم کرنے کی صورت میں خدا تعالیٰ کی مختلف صفات میں ٹکراؤ نظر آتا ہے.مثلاً اس عقیدہ کی رو سے تینوں اقنوم اپنی اپنی جگہ پر قادر مطلق نہیں.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان میں سے ہر ایک کو مکمل اختیارہ اور قدرت حاصل ہے ؟ عملی زندگی کا سوال الگ رہا.نظری طور پر ہی ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ایسا ہونا ایک امر محال ہے.اختیار اور قدرت کا کمال ایک محدود دائرہ ، مقام ، اور وقت کو چاہتا ہے جب تک اس کی تعین نہ ہو کماں کے لفظ کا صحیح اطلاق نہیں ہو سکتا.اگر تینوں اقنوموں کو الگ الگ طور پر مکان و زمان کی قید میں محدود کیا جائے تو یہ کمال نہیں رہتا اور اگر مطلق قدرت کا خیال رکھا جائے اور ہر ایک کو قاد مطلق قرار دیا جائے تو ایک ہی مکان و زمان میں تین قادر مطلق ہستیوں کا وجود عقلاً محال ہے.پس ثابت ہوا کر تین وجود ایک ہی وقت میں جملہ صفات سے متصف ہو کہ درجہ کمال کو حاصل نہیں کر سکتے.:- جنگ مقدس ص ۲ روحانی خزائن جلد ۶ : 1
۱۴۸ اس دلیل کو سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے جنگ مقدس میں بیان فرمایا ہے.اور یہ استدلال فرمایا ہے.کہ اگر تینوں وجودوں میں برابر صفات تسلیم کی جائیں تو ان میں ایک حقیقی تفریق پیدا ہو جاتی ہے.جس کی وجہ سے ان میں ماہیت کا اتحاد پیدا نہیں ہو سکتا.پس یہ عقیدہ ہی باطل ہے کہ تین وجود بیک وقت صفات میں درجہ کمال رکھتے ہوں.آپ فرماتے ہیں :- جبکہ یہ تینوں شخص اور تینوں کامل اور تینوں میں ارادہ کرنے کی صفت موجود ہے اب ارادہ کرنے والا، ابن ارادہ کرنے والا.روح القدس ارادہ کرنے والا.تو پھر ہمیں سمجھاؤ کہ باوجود اس حقیقی تفریق کے اتحاد ماہیت کیونکر ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ ان میں تقسیم کا ر ہے یا ان میں صفات کی ایسی تقسیم ہے جس سے ٹکراؤ کی صورت پیدا نہیں ہوتی تو پھر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ پھر وہ کامل کسی لحاظ سے ہوائے.بلکہ ناقص ثابت ہوئے اور جو ناقص ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا.کیونکہ یہ بات تو سب کو تسلیم ہے کہ خدا میں کوئی نقص نہیں ہو سکتا ہے.اور نہ اس میں کوئی کمی ہو سکتی ہے کہ وہ دوسرے کی مدد یا تعاون کا محتاج ہو ہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عیسائیوں کے اس عقیدہ کی رو سے ان کے خدا کے متعلق فرماتے ہیں:." یہ سہ گوشہ خدا بھی عجیب ہے.ہر ایک کے کام الگ الگ ہیں گویا ہر ایک بجائے خود ناقص اور نا تمام ہے اور ایک دوسرے کا ستم ہے " ہے ظاہر ہے کہ ایسا وجود جو ناقص اور نا تمام ہو خدا نہیں ہو سکتا ہے اور جب تثلیث کا کوئی ایک پہلو بھی گر جائے تو ساری تثلیث باطل ہو جاتی ہے.دسویں دلیل عیسائی عقیدہ کے مطابق تینوں خدائی اتا نیم میں سے ہر قوم اپنی جگہ کامل ہے.اس پر یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ اگر تینوں خدا واقعی اپنی جگہ پر کامل ہیں اور حقیقی کمال کا اطلاق ان پہ ہو سکتا ہے تو لازمی طور پر ان تینوں کے ملنے سے ایک ایسا وجود بننا چاہیئے جو ان تینوں سے بڑھ کر کمال اپنے اند در رکھتا ہو.گویا الکل ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السّلام فرماتے ہیں :- کہ حضرات عیسائی صاحبان کا یہ عقیدہ ہے کہ باپ بھی کامل ، اور بیٹا بھی کامل اور روح القدس بھی کامل.اب جب تینوں کامل ہوئے تو ان تینوں کے ملنے سے اکمل ہونا :- جنگ مقدس صله ارحانی خزائن جلد سے ملفوظات جلد اول من ۳۳
۱۴۹ چاہیے.کیونکہ مثلاً جب تین چیزیں تین تین سیر فرض کی جائیں تو وہ سب مل کہ ۹ سیر ہوں گی یا اے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ عیسائی اس بات کا انکار کر تے ہیں کہ تینوں کا ملوں کے ملنے سے جو چیز بنتی ہے وہ اکمل ہے اور درجہ کمال میں بڑھی ہوئی ہے.در اصل عیسائیوں کے لئے مشکل یہ ہے کہ ان کی - 28 نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والی حالت ہے.اگر وہ اقرار کر یں کہ تین کاموں کے ملنے سے ایک اکمل وجود پیدا ہوتا ہے تو پھر وہ اکمل وجود خدا ہوگا اور ان تینوں اقانیم کی الوہیت اور تثلیث باطل ہو جائے گی.اور اگر یہ نہیں کہ تینوں کامل وجود مل کر کسی اکمل وجود کو پیدا نہیں کر تے تو اس سے ان پر سخت اعتراض ہوتا ہے کہ آخر یہ کونسی منطق ہے کہ تین تین سیر کے تین بیٹے مل کہ 9 سیر نہ ہوں.یہ حساب کا معمولی قاعدہ ہے جس کو ایک بچہ بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے.اسی دلیل کو سیدنا حضرت مسیح موعود یہ السلام نے بھی بیان فرمایا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں : ان کا ملوں کے ملنے کے بعد یا ملنے کے لحاظ سے جو اجتماعی حالت کا ایک ضروری نتیجہ ہونا چاہیئے وہ کیوں اس جگہ پیدا نہیں ہوا یعنی یہ کیا سبب ہے کہ باوجودیکہ ہر ایک اقنوم تمام کمالات مطلوبہ الوہیت کا جامع تھا پھر ان تینوں جامعوں کے اکٹھا ہونے سے الوہیت میں کوئی زیادہ قوت اور طاقت نہ بڑھی.اگر کوئی بڑھی ہے اور مثلاً پہلے کامل تھی پھر ملنے یا ملنے کے لحاظ سے اکمل کہلائے یا مثلاً پہلے قادر تھی اور پھر ملنے کے لحاظ سے اقد نام رکھا گیا.یا پہلے خالق تھی اور پھر ملنے کے لحاظ سے خلاق یا اخلق کہا گیا.تو براہ مہربانی اس کا کوئی ثبوت دنیا چاہیئے بات عیسائی اس سوال کا کیا جواب دیں اور اس مقدہ کی کیا وضاحت کریں وہ توصاف اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ :." کثرت فی الوحدت ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اس کے سمجھنے والا پیدا ہوا، نہ ہو گا یا سے گیارہویں دلیل تثلیث کے رد میں ایک زبر دست عقلی دلیل یہ ہے کہ تین خداؤں کا وجود ہے معنی اور لغو ہے.:- جنگ مقدس اریحانی خزائن جلد ۱۹۲۶- جنگ مقدس ۱۲۵ ۱۳ روحانی خزائن جلد ۶ : : بیان ڈاکٹر مہنری مارٹن کلارک مندرج جنگِ مقدس حثت روحانی خزائن جلد ۶ : -
۱۵۰ وجہ یہ ہے کہ خداؤں کی کثرت یا تو کسی خاص ضرورت کی وجہ سے ہوگی اور یا کسی ایک کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ہوگی.ان دونوں صورتوں میں تثلیث پر سخت نزد پڑتی ہے.اعتراض یہ ہے کہ جب عیسائی صاحبان کے عقیدہ کے مطابق ہر اقنوم اپنی ذات میں کامل اکمل اور مستقل حیثیت کا مالک ہے اور اسے نہ کسی چیز کی حاجت ہے اور نہ کسی چیز کی کم تو پھر ایک دوسرا بلکہ تیسرا اقنوم بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ کونسی کمی ہے جس کو پورا کیا گیا ہے اور کونسی احتیاج ہے جنسی اس بات پر مجبور کیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ عیسائی اس بات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکتے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو تثلیث کے رد میں ایک دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں :- جس حالت میں تین اقدم صفات کا ملہ میں برا بہ درجہ کے ہیں تو ایک کامل اقنوم کے موجود ہونے کے ساتھ جو جمیع صفات کاملہ پر محیط ہے اور کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں.کیوں دوسرے اقنوموں کی ضرورت ہے یا لے بات سوين دليك حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تثلیث کے عقیدہ کے رد میں ایک اور دلیل یہ بیان فرمائی ہے کہ عیسائی تمین خدائی کے نام الگ الگ تجویز کرتے ہیں.ظاہر ہے کہ ان تینوں میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوگا.ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایک کی بجائے تین نام رکھے جائیں.جب ان تینوں وجودوں میں مسیر مو کوئی فرق نہیں تو تین الگ الگ نام رکھنے بے معنی ہیں.اور اگر یہ کہا جائے کہ ان میں کوئی فرق ہے تو ان میں درجہ بندی اور مرتبہ کی کمی بیشی لازم آئے گی جو الوہیت کی شان کے منافی ہے الوہیت کی شان تو یہ ہے کہ خدا اس تجمع جمیع صفات کا ملہ ہو.اگر ایک بھی صفت میں کمی واقع ہو تو وہ خدا نہیں ہو سکتا.نظریہ تثلیث کے مطابق تینوں اقانیم Co-Etemal : اور Co-Equal ہیں.اگر یہ بات درست ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک اقنوم کے باپ اور دونہر ے کے بیٹا کہلانے کی کیا وجہ تھی ؟ باپ یا بیٹا کہلانا تو درجہ یا زمانی تار کا متقاضی ہے.اگر اس قسم کا کوئی تقدم یا تاخر باپ اور بیٹے میں نہیں تو کلام الہی نے یہ بے معنی نام کیوں دئے.پھر کیا وجہ ہے کہ ایک کو بیٹے کا اور دوسرے کو باپ کا نام دیا گیا.پھر ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا ان ناموں میں : جنگ مقدس مثلا روحانی خزائن جلد ۶ :
G 101 تبدیلی کی جاسکتی ہے.کیا جس کو اب تک آب کہا جاتا رہا ہے اس کو ابن اور جس کو ابو کہا جاتا رہا ہے اس کو آپ کہا جاسکتا ہے ؟ اگر نہیں تو کوئی وجہ یا صنفت ضرور ہوگی جس کی وجہ سے ناموں میں تبدیلی نہیں ہو سکتی.گویا ایک اقنوم میں کوئی ایک امتیازی صفت ضرور ہے جو دوسروں میں نہیں پائی جاتی.اگر ایسا مان لیا جائے تو تثلیث باطل ہو جاتی ہے.پس اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ تینوں اقانیم کیسے لئے الگ الگ نام کس فرق پر دلالت کرتے ہیں.اگر فرق نہیں تو اسمی تفریق بے معنی ہے اور اگر واقعی فرق ہے تو تثلیث باطل ہے حضرت مسیح تو موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ :.خداتعالی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ستجمع جمیع صفات کاملہ ہو تو اب یہ تقسیم جو کی گئی ہے کہ ابن اللہ کامل خدا اور باپ کامل خدا اور روح القدس کامل خُدا اس کے کیا معنے ہیں.اور کیا وجہ ہے کہ یہ تین نام رکھے جاتے ہیں کیونکہ تفریق ناموں کی اس بات کو چاہتی ہے کہ کسی صفت کی کمی بیشی ہو مگر جب کہ کسی صفت کی کمی بیشی نہیں تو پھر وہ تینوں اقنوم میں مایہ الامتیانہ کون ہے جو ابھی تک آپ لوگوں نے ظاہر نہیں فرمایا جس امر کو آپ ما بہ الامتیانہ قرار دیں گے وہ بھی منجملہ صفات کا ملہ کے ایک صفت ہوگی جو اس ذات میں پائی جانی چاہیئے جو خدا کہلاتا ہے.اب جبکہ اس ذات میں پائی گئی.جو خدا قرار دیا گیا تو پھر اس کے مقابل پر کوئی اور نام تجویز کر نامعینی ابن الہ کہنا یا روح القدس کہنا بالکل لغو اور بے ہودہ ہو جائے گا.اے تير هو دليلك تثلیث کے علمبر دار عیسائی حضرات اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے عجیب و غریب ں دیتے ہیں کی بھی قدیم افسانوں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں اور کبھی عقل کا غلط استعمال کرتے ہیں سید نا حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے جن کو خدا نے کا سر صلیب بنا کر بھیجا ہے عیسائیوں کے ان سب حراوی کا دندان شکن جواب دیا ہے.آپ کے علم کلام کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ آپنے دشمن کی دلیل کو ایسے طور پر توڑا کر خود اس کو اس دلیل کی رو سے عزم کر دیا یہ خداداد اعجازی علم کلام کا ایک نمایاں وصف ہے جو آپ کے علم کلام میں نظر آتا ہے.اس کی ایک مثال کا یہاں ذکر کرتا ہوں.: جنگ مقدس ص ۲ روحانی خزائن جلد ۶ :
۱۵۲ تثلیث کو ثابت کرنے کی خاطر عیسائی لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا بنانا چاہتے ہیں اور دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ کیا عقلا ایسا ہونا ممکن نہیں کر مسیح واقعی خدا ہوں؟ عیسائیوں کی یہ دلیل جس قدر سطحی اور بودی ہے وہ تو واضح ہی ہے کیونکہ مسیح میں وہ صفات ہرگز نہیں پائی جاتیں جو خدائی صفات ہیں راس امر پر تفصیلی نظر ہم اگلے باب میں ڈالیں گے انشاء اللہ) یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس فرضی دلیل کو کس عمدہ طریق سے رو کیا ہے اور تثلیث کے خلاف کتنی شاندار دلیل پیش فرمائی ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ اگر عقل ہی سے استدلال کرنا ہے تو عقل کا فیصلہ تو کلی نوعیت کا ہوتا ہے.عقل تو ہر فرد اور ہر چیز کے بارہ میں عمومی فیصلہ کرے گی.اگر یہ کہو کہ عقلاً مسیح کے خدا ہونے کا امکان ہے تو ایسا امکان تو اور وجودوں کے لئے بھی ہوگا.گویا حضرت مسیح کی کوئی خاص خصوصیت نہیں ہے.اور اگر سب کو خدا مان ہیں تو تسلیت کا افسانہ نہیں بن سکتا.پس عیسائیوں کا یہ استدلال بہت ہی کمزور اور غلط استدلال ہے.حضرت مسیح پاک علیہ السلام تثلیث کے رد میں فرماتے ہیں :- عقل کا فیصلہ تو ہمیشہ کھلی ہوتا ہے اگر عقل کی رو سے حضرت مسیح کے لئے داخل " تثلیث ہونا روا رکھا جائے تو پھر عقل اوروں کے لئے بھی امکان اسکا واجب کہ دیگی گائے ظاہر ہے کہ یہ جواب ایسا ہے جیسے تثلیث کا سارا فسانہ باطل ہو جاتا ہے.اس قسم کے دندان شکن جواب کی ایک اور مثال حضور کا وہ جواب ہے جو آپ نے لفظ الوھیم سے تثلیث کا استدلال کرنے کے رو میں دیا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں :- " یہ کہتا کہ الوحید کا لفظ جو جمع ہے تثلیث پر دلالت کرتا ہے.حالانکہ یہود نے کھلے کھلے طور پر ثابت کر دیا ہے کہ الوھیم کا لفظ توریت میں فرشتہ پر بھی بولا گیا ہے اور ان کے نبی پر بھی اور بادشاہ پر بھی.اور لفظ الرحیم سے صرف تین شخص ہی کیوں مراد لئے جاتے ہیں.کیونکہ جمع کا صیغہ تین سے زیادہ سینکڑوں ہزاروں پر بھی تو دلالت کرتا ہے.سو ان بے ہودہ تاویلات سے بجز اپنی پردہ دری کرانے کے اور کیا انتھم کے لئے نتیجہ نکلا تھا.مگر عیسائی بھی عجیب قوم ہے کہ اتنی ذلتیں اُٹھا کہ پھر بھی شرمندہ نہیں ہوتی ہے : ! : جنگ مقدس من روحانی خزائن جلد 4 سے :- انجام انتظم من روحانی خزائن جلد ۱۱ +
۱۵۳ چودھویں دلیل تثلیث کے ابطال کے لئے ایک اور دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ تثلیث کا عقیدہ جیسا کہ ہم گذشتہ صفحات میں دیکھ چکے ہیں کسی وحی یا الہام پر مبنی نہیں ہے.اور عقل بھی یہی بتاتی ہے کہ یہ عقیدہ خدائی یا الہامی نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ عقیدہ شان الوہیت اور انسانی فطرت کے سراسر خلاف ہے.اس عقیدہ کی ثقاہت اور صداقت اور بھی مشتبہ ہو جاتی ہے جب ہم تثلیث کے عقیدہ کی قدیم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں جس میں لکھا ہے کہ تثلیث کا خیال کوئی جدید خیال نہیں ہے بلکہ انہ منہ رفتہ سے یہ خیال مختلف اقوام میں مختلف شکلوں میں پایا جاتا رہا ہے چنانچہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں Trinity کے زیر عنوان جو مقالہ لکھا گیا ہے اس میں یہ بات بھی درج ہے اس حصہ کا مفہوم یہ ہے کہ : " اگر چه نظریہ تثلیت مسیحی مذہب کی خاص خصوصیت ہے.لیکن یہ اس مذہب کی امتیازی خصوصیت نہیں ہے.ہندی مذہب میں ہمیں یہ ہما شیوا اور وشنو کا تشکیشی گروپ ملتا ہے.قرون وسطیٰ کے باپ بیٹے اور ماں کی سیجی تصاویر کی طرح مصر میں ہمیں عزیر سی ، اسیس اور ہورس پرمشتمل خاندان نظر آتے ہیں " اسی طرح پہ جان رابرٹ سن John Robertson اپنی کتاب میں لکھتا ہے :."Pagan Christs" The conception of divine Trinity is of unknown antiquity.It flourished in Mesopatamia, in Hindustan, in the platonic philosoply in egypt long before Christianity." ترجمہ یہ ہے کہ اپنی تثلیث قدیم زمانہ مجہول کا نظریہ ہے.یہ نظریہ میں پوٹیمیہ ، ہندستان یہ اور افلاطون کی فلاسفی اور مصر میں عیسائیت سے بہت پہلے پھیلا پھولا ہے." ان دونوں حوالوں سے ایک بات ضرور ثابت ہو جاتی ہے کہ تثلیث کا خیال پرانے زمانوں سے انسانی خیال کی ایک پیداوار کے طور پر رہا ہے.ہمارا استدلال بھی یہی ہے کہ یہ ایک انسانی خیال ہے کوئی خدائی یا الہامی توثیق اس عقیدہ کو حاصل نہیں ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تثلیث کے رد میں انسی دلیل کو پیش فرماتے ہوئے لکھا ہے کہ عیسائیوں میں تثلیت کا یہ خیال افلاطون Pagan Christs by John Robertson.
۱۵۴ سے آیا ہے اور جس طرح افلاطون نے غلط فلسفہ کے نتیجہ میں اس عقیدہ کو اپنا یا اسی طرح کو سانہ تقلید کرتے ہوئے عیسائیوں نے اس غلط عقیدہ کو بسر و چشم قبول کر لیا.چنانچہ حضور فرماتے ہیں: پادری بوت صاحب لکھتے ہیں کہ حقیقت میں عقیدہ تثلیث کا عیسائیوں نے افلاطون سے اخذ کیا ہے اور اس احمق یونانی کی غلط بنیاد پر ایک دوسری غلط بنیاد رکھ دی ہے کہ اے اس حوالہ سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ تثلیث کے عقیدہ کا اصل ماخذ کیا ہے.اور اس کی تاریخی حیثیت کیا ہے.مختصر یہ کہ تثلیث کے عقیدہ کا تاریخی پس منظر اس کے بطلان کا ایک بڑا ثبوت ہے.پندرھویں دلیل تثلیث کے مسیحی عقیدہ کے خلاف ایک اور دلیل یہ ہے کہ ان کے اپنے بیانات اور انکی کتاب کی تعلیمات سے ان کے عقیدہ کی تردید ہوتی ہے.مثلاً تثلیث کے سیمی نقطہ نظر سے باپ اسٹاروح القدس برابرہ کے ازلی ابدی اقنوم ہیں.کیونکہ ان تینوں کو co-equal اور Co-etermial قرار دیا جاتا ہے.لیکن نئے عہد نامہ میں لکھا ہے کہ مسیح نے کہا :- آدمیوں کا ہر گناہ اور کفر تو معاف کیا جائے گا مگر جو کفر روح کے حق میں ہو وہ معاف نہ کیا جائے گا اور جو کوئی ابن آدم کے برخلاف کوئی بات کہے گا وہ تو اسے معاف کی جائے گی مگر جو کوئی روح القدس کے خلاف کوئی بات کہے گا وہ اسے معاف نہ کی جائے گی ندہ اس عالم میں ، نہ آنے والے میں کیا ہے اس حوالہ سے لیسوع اور روح القدس کے مقام میں تفاوت واضح طور پر نظر آتا ہے.جو تثلیثی خیال کے سراسر خلاف ہے.پھر حضرت مسیح ایک اور جگہ فرماتے ہیں: " لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھلائے گا.اسلئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا.اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا.وہ میرا جلال ظاہر کر رہے گا.اس لئے کہ مجھ ہی سے حاصل کر کے تمہیں خبر دے گا.جو کچھ باپ کا ہے وہ سب میرا ہے.اس لئے میں نے کہا کہ وہ مجھ ہی سے حاصل کرتا ہے اور تمہیں خبر دے گا ؟ " براہین احمدیہ حصہ سوم حاشیه مت روحانی خزائن جلدا به : متى ١٢/٣٢ : : - يوحنا : 1
100 یہ حوالہ بھی روح القدس کا مقام باپ کے مقام سے کم نہ ثابت کرتا ہے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دلیل کو بھی اپنی تحریرات میں بیان فرمایا ہے کہ جب تینوں اقنوموں میں برابری اور یکسانیت نہیں تو واضح ہے کہ تینوں خدا نہیں ہو سکتے.اگر ان میں سے ہی کوئی خدا مانا جائے تو صرف وہ ہوگا جو دوسروں سے بالا ہوگا.ظاہر ہے کہ اس صورت میں تثلیث کا سارا عقیدہ باطل ہو جاتا ہے.مذکورہ بالا حوالہ کے ضمن میں حضور علیہ السلام جنگ مقدس میں فرماتے ہیں :- حضرات عیسائی صاحبان اس جگه له ورح حق سے مراد روح القدس لیتے ہیں.یہ اس طرف توجہ نہیں فرماتے کہ بروح القدس تو ان کے اصول کے موافق خدا ہے تو پھر وہ کسی سے سنے گا کیا مسیح کے متعلق جب باپ سے کم تر ہونے کے الفاظ آتے ہیں تو مسیحی یہ کہ کر تاویل کرتے ہیں کہ یہ الفاظ مسیح انسان کے متعلق ہیں اور مسیح کامل انسان بھی ہے اور کامل خدا بھی.اب کیا روح القدس کے متعلق بھی یہی تاویل ہو سکتی ہے ؟ الغرض مسیحی بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ تینوں اقانیم کے درجہ میں برابری نہیں اور یہ امر تثلیث کے عقیدہ کو باطل قرار دیتا ہے.کیونکہ ان تینوں کا co-equal اور Coeternal ہونا ایک بنیادی امر ہے.سولهوت بيك تثلیث کے باطل عقیدہ کے رد میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ تثلیث کی ابتداء اور ایجاد ایک یسے شخص کی طرف منسوب کی جاتی ہے جو ہر گز قابل اعتماد اور قابل استناد نہیں ہے.حضرت مسیح موجود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ موجودہ مسیحیت جو تثلیث اور کفارہ کے اہم عقائد کو پیش کرتی ہیں.یہ حضرت مسیح کی اصل تعلیم نہیں ہے بلکہ ایک شخص پولوس نامی کی ایجاد اور اختراع ہے.چنانچہ حضور فرماتے ہیں :- " یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ مذہب جو عیسائی مذہب کے نام سے شہرت دیا جاتا ہے.دراصل پولوسی مذہب ہے نہ مسیحی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس اہم اصول اور نظریہ کو جو در حقیقت موجودہ عیسائیت ے :.چشمہ مسیحی مانی روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰
۱۵۶ کے سب عقاید کی جڑوں پر تبر کی حیثیت رکھتا ہے.اب مسلم اور عیسائی محققین نے تسلیم کر لیا ہے اور بر ملا اس کا اعتراف کر تے ہیں.غلام احمد پرویز اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :- یادر ہے کہ موجودہ عیسائیت سینٹ پالی (اور اس کے متبع مفکرین) کی اختراع ہے.جناب مسیح کی عیسائیت اس سے مختلف تھی یہ ہے دو Herbert Miller اپنی کتاب اسی طرح پر ایک مسیحی ہر بیٹ مسلمہ The uses of the past میں لکھتے ہیں :- پولوس نے اولین کام یہ کیا کہ مسیح کے حقیقی تاریخی وجود کو اپنے خیالات کی بھینٹ چڑھا دیا........اس نے یہ خیال پیش کیا کہ نجات صرف مسیح کے ذریعہ وابستہ ہے انی خود اپنی اور عام بنی نوع انسان کی بدیوں پر نگاہ رکھتے ہوئے عیسائیت کے با عقائد کا بنیادی پتھر مسیح کا نجات دہندہ ہوتا بیان کیا.جس کے ذریعہ سے آدم کے ہوا سے لے کر اب تک تمام گناہوں کا کفارہ ہوا.پولوس نے بڑے خلوص کے ساتھ اس انجیل کی منادی کی جس کی تعلیم مسیح نے اپنی اناجیل میں قطعاً نہیں دی ہے اسی طرح پر بائیبل کی میں سکھتا ہے :- "The teacher's commentary" The doctrine of the incarnation, of the Trinity, of the Atonement, of the Holy spirit and of the church all go back to st.Paul for crucial texts; but paulinism as in it self a complete scheme is largely an invention of scholars" t یعنی تحتم تثلیث ، کفاره ، روح القدس اور چرچ کے بارہ میں سب نظریات اپنی اصل کے لحاظ سے سینٹ پال کی ایجاد ہیں.لیکن پولوسی فلسفہ ایک مکمل نظام اور کیم کی صورت میں علماء کی ایجاد کا نتیجہ ہیں.ان سب حوالوں سے عیاں ہے کہ تثلیث کا عقیدہ پولوس کا ایجاد کردہ عقیدہ ہے جس کا مسیح کی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں.جب یہ بات ثابت ہو گئی تو تثلیث کے باطل ہونے میں کیا شک : نظام ربوبیت حاشیه مثلا مطبوعه شاه : ہے :- شائع کردہ نیو امریکن لائبریری - 156.The uses of the past by Herbert Miller p "The teacher's Commentary" p.335
۱۵۷ رہ جاتا ہے.جب تثلیث مسیح کی تعلیم نہیں بلکہ بعد میں آنے والے کسی اور شخص کے فکر کات ہکار ہے تو اس کو اصل مسیحی عقیدہ کے طور تسلیم کر نا یا دوسروں کے سامنے بیان کرنا نادانی نہیں تو اور کیا ہے ؟ عیسائیوں کے لئے تثلیث کے عقیدہ کے کسی حد تک قابل قبول ہونے کی صرف ایک ہی معمولی سی صورت یہ ہو سکتی تھی کہ پولوس رسول حضرت مسیح علیہ السلام کا کوئی معتبر حواری یا موعود جانشین ہوتا.تب مسیحی یہ استدلال کر سکتے تھے کہ پولوس کا یہ عقیده ایجاد کہ وہ نہیں بلکہ سیمی تعلیمات کا ہی نتیجہ اور اپنی تعلیمات کی ترجمانی ہے.لیکن یہاں معاملہ یہ ہے کہ پولوس کا اپنا وجود.نهایت مشتبہ ہے.اس بارہ میں سیمی مصنفین نے اتنا کچھ لکھا ہے کہ اس بارہ میں کسی قسم کا اشتباہ باقی نہیں رہتا کہ پونوس ہرگز ہرگزنہ قابل اعتماد نہیں.پھر لوپوس کے حالات نہ ندگی بتاتے ہیں کہ وہ پہلے یہودی تھا میسج کا سخت دشمن تھا.لیکن بعد میں کسی ذاتی مقصد کے حصول کے لئے عیسائی بنا اور ان مختلف عقاید کو ایجاد کیا.ظاہر ہے کہ اس قسم کا آدمی عیسائیت کا صحیح اور قابل اعتبار ترجمان نہیں ہو سکتا.پھر پولوس کے قابل اعتماد نہ ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حضرت مسیح نے اس کی بابت کوئی وعدہ یا پیش گوئی نہیں فرمائی.پھر لوپوس کے حالات بتاتے ہیں کہ وہ نہ مانے کی ہوا کے ساتھ بدل جانے والا تھا.پولوس کی مصلحت بینی کا اندانہ اس کے اپنے اس قول سے ہو سکتا ہے وہ کہتا ہے :- دریں پہر دیوں کے لئے یہودی بنا تا کہ یہودیوں کو کھینچ لاؤں.جو لوگ شریعت کے ماتحت ہیں ان کے لئے میں شریعیت کے ماتحت ہوا تا کہ شریعیت کے ماتحتوں کو کھینچے لاؤں.بے شرع لوگوں کے لئے بے شرع بنا، تاکہ بے شرع لوگوں کو کھینچ لاؤں......کمزوروں کے لئے کنور بنا.تاکہ کمزوروں کو کھینچ لائی.میں سب آدمیوں کے لئے سب کچھ بنا ہوا ہوں تا کہ کسی طرح سے بعض کو بچاؤں " سے پولوس کے اس قول سے واضح ہوتا ہے کہ وہ تو گویا ایک "مریخ باد نما ہے جو ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ اپنا رخ بدل لیتا ہے.کیا ایسے شخص کے اقوال اور تشریحات معتبر ہو سکتی ہیں.الغرض پولوس کی شخصیت اتنی مشقیہ اور نا قابل اعتماد ہے کہ اس کی روایت کو ہرگزہ مذہبی بنیادی کرنتھیوں :
۱۵۸ عقائد کی اساس نہیں قرار دیا جا سکتا ہے مسیحی مصنفین کے واضح بیانات کو چھوڑتے ہوئے تین صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان بیانات پر اکتفا کرتا ہوں جن میں حضور نے پولوس کے قول کے محبت نہ ہونے کے دلائل بیان فرمائے ہیں.آپ تحریر فرماتے ہیں : (1) پولوس کا حال آپ سے پوشیدہ نہیں جو فرما تے ہیں کہ یں یہودیوں میں یہودی اور غیر قوموں میں غیر قوم ہوں یا اے (۲) پولوسی حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی میں آپ کا جانی دشمن تھا اور پھر آپ کی وفات کے بعد جیسا کہ یہودیوں کی تاریخ میں لکھا ہے اس کے عیسائی ہونے کا موجب اس کے اپنے بعض نفسانی اغراض تھے جو یہودیوں سے وہ پور سے نہ ہو سکے اسلئے وہ ان کو خرابی پہنچانے کے لئے عیسائی ہو گیا اور ظاہر کیا کہ مجھے کشف کے طور پر حضرت مسیح ملے ہیں اور میں ان پر ایمان لایا ہوں اور اس نے پہلے پہل تثلیث کا خواب پورا دمشق میں لگایا اور یہ پولوسی تثلیت دمشق سے ہی شروع ہوئی ہ سے (۳) پولوس بھی مکفرین کی جماعت میں داخل تھا جب نہی بعد میں اپنے نیکی رسول مسیح کے لفظ سے مشہور کیا.یہ شخص حضرت مسیح کی زندگی میں آپ کا سخت دشمن تھا...اس شخص کے گذشتہ چال چلین کی نسبت لکھنا ہمیں کچھ ضرورت نہیں کہ عیسائی خوب جانتے ہیں.افسوس ہے کہ یہ وہی شخص ہے جنسی حضرت مسیح کو جب تک وہ اس ملک میں رہے بہت دکھ دیا اور جب وہ صلیب سے نجات پا کہ کشمیر کی طرف چلے آئے تو اس نے ایک جھوٹی خواب کے ذریعہ سے حواریوں میں اپنے تئیں داخل کیا اور تثلیث کا مسئلہ گھڑا اور عیسائیوں پر سٹور کو جو توریت کے رو سے ابدی حرام تھا حلال کر دیا.اور شراب کو بہت وسعت دیدی اور انجیلی عقیدہ میں تثلیث کو داخل کیا تا ان تمام بدعتوں سے یونانی بت پرست خوش ہو جائیں " سے -:- جنگ مقدس من روحانی خزائن جلد سے: چشمه سیبی مثل به روحانی خزائن جلد ۲۰ : ا کشتی نوح مثلا - روحانی خزائن جلد ۱۹ :
109 اب (سم) صاف ظاہر ہے کہ اگر پولوس حضرت مسیح کے بعد ایک رسول کے رنگ میں ظاہر ہونے والا تھا جیسا کہ خیال کیا گیا ہے توضرور حضرت مسیح اسکی نسبت کچھ خبر دیتے.خاص کر کے اس وجہ سے تو خبر دینا نہایت ضروری تھا کہ جبکہ پولوس حضرت عیسی کی حیات کے تمام زمانہ میں حضرت عیسی سے سخت برگشتہ رہا.اور ان کے دُکھ دینے کے لئے طرح طرح کے منصو بے کرتا رہا تو ایسا شخص ان کی وفات کے بعد کیونکہ امین سمجھا جا سکتا ہے.بجز اس کے کہ خود حضرت مسیح کی طرف سے اس کی نسبت کھلی کھلی پیشگوئی پائی جائے اور اس میں صاف طور پر درج ہو کہ اگر چہ پولوس میری حیات میں میرا سخت مخالف رہا ہے اور مجھے دکھ دیتا رہا ہے لیکن میرے بعد وہ خدا تعالیٰ کا رسول اور نہایت مقدس آدمی ہو جائے گا.بالخصوص جبکہ پولوس ایسا آدمی تھا کہ اپنی موسیٰ کی توریت کے برخلاف اپنی طرف سے نئی تعلیم دی.سور حلال کیا.ختنہ کی ریم تو توریت میں ایک موکد رسم تھی اور تمام نبیوں کا ختنہ ہوا تھا اور خود حضرت مسیح کا بھی ختنہ ہوا تھا.وہ قدیم حکم اپنی منسوخ کر دیا اور توریت کی توحید کی جگہ تثلیث قائم کر دی اور تو ریت کے احکام پر عمل کرنا غیر ضروری ٹھہرایا اور بیت المقدس سے بھی انحراف کیا تو ایسے آدمی کی نسبت جنسی موسوی شریعت کو زیر و زبر کر دیا.ضرور کوئی پیش گوئی چاہیے تھی.پس جبکہ انجیل میں پولوس کے رسول ہونے کے بارہ میں خبر نہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام سے اس کی عداوت ثابت ہے اور توریت کے ابدی احکام کا وہ مخالف تو اس کو کیوں اپنا مذہبی پیشوا بنایا گیا ؟ کیا اس پر کوئی دلیل ہے ؟ ان حوالوں سے ظاہر ہے کہ پولوس کی روایت اور ایجاد پر شکیت اور دیگر عقائد کو اختیار کر ناسراسر نادانی اور جہالت ہے.ستر اوین دلیل تثلیث کے خلاف سترہویں دلیل یہ ہے کہ عیسائی لوگ تثلیث کی نہ تو کوئی واضح صورت اور وضاحت پیش کرتے ہیں اور نہ کر سکتے ہیں اور نہ اس بات کا امکان تسلیم کر تے ہیں کہ ایسی دن امت 1 چشم مسیحی ما ۲۶ روحانی خزائن جلد ۲۰ : ۲۶-۴۵
14.کبھی بھی ممکن ہو سکے گی.ظاہر ہے کہ جو عقیدہ نہ سمجھا جا سکتا ہے اور نہ کسی کو سمجھایا جا سکتا ہے وہ سچا اور درست نہیں ہو سکتا.خصوصاً اس صورت میں کہ وہ انسانوں سے متعلق ہو اور اس پر سی انسانوں کی نجات موقوف ہو.اسی دلیل کو حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے.اور لکھا ہے کہ اس عقیدہ کو اپنی رازوں میں سے ایک رانہ قرارہ دینا اور اس طرح اس کی وضاحت کرنے سے راہ فرار اختیار کرنا اس کے بطلان کی ایک دلیل ہے..عیسائی کہتے ہیں کہ تثلیث ایک مقدس بھید ہے اور یہ مسئلہ بالائے عقل ہے.انسان اس کو سمجھ نہیں سکتا.حقیقت ہے یہ مسئلہ بالائے عقل نہیں بلکہ خلاف عقل ہے.یہی وجہ ہے کہ انسانی عقل اس کو سمجھ نہیں سکتی.سوال یہ ہے کہ اگر واقعی مسیحی حضرات کا یہ بیان درست ہے کہ یہ عقیدہ بالائے عقل ہے تو پھر وہ اس عقیدہ کی وضاحت کرنے کی کیوں کوشش کرتے ہیں اور کیوں اس کو سمجھانے اور حل کرنے میں اپنے اوقات عزیز کو ضائع کرتے ہیں.حق یہی ہے کہ یہ مسئلہ خلاف عقل ہے.اور اسی وجہ سے نہ آج تک اس کو کوئی عقلمند سمجھ سکا.اور نہ کبھی سمجھ سکے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارہ میں فرماتے ہیں :- انجیل خاموش کے چالاک اور عیار حامیوں نے اس خیال سے کہ انجیل کی تعلیم عقلی زور کے مقابل بے جان محض ہے نہایت ہوشیاری سے اپنے عقاید میں اس امر کو داخل کر لیا کہ تثلیث اور کفارہ ایسے رانہ ہیں کہ انسانی عقل ان کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتی“ سے حالا نکہ اس عقیدہ کا ایک سربستہ رازہ ہونا ہی اس کے خلاف ایک زبر دست اعتراض کی بنیاد ہے وہ عقیدہ ہی کیا جو انسانوں سے متعلق ہونے کے باوجود کسی انسان کی سمجھ میں کبھی نہ آسکتا ہو ؟.کیا عیسائیت اپنے متبعین کو آنکھیں بند کر کے ایمان لانے کی دعوت دیتی ہے؟ جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ کیا واقعی عیسائی بھی اس عقیدہ کو ایسا راز قرار دیتے ہیں جو سمجھ میں نہ آسکتا ہو.عیسائی پادریوں کے مندرجہ ذیل حوالے ہی کافی ہوں گے.پادری عمادالدین ساسب لکھتے ہیں :- " تثلیث جو اسرایہ الہی میں سے ایک ستر ہے اس طرح مذکور ہے کہ خدا ایک ہے ے ملفوظات جلد اول ص : ۶
141 اور خداتین بھی.یعنی وحدت فی التثلیث اور تثلیث فی الوحدت.ایک میں تین اور تین میں ایک.یہ بات آدمی کی سمجھ سے بالا تر ہے.اے پادری ڈبلیو ٹامس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں : ور ما خلقت کے استدلال اور عقلی دلائل اس میں یعنی مسئلہ تثلیث میں مل نہیں سکتے " ہے پادری سی جی فانڈر اپنی کتاب میزان الحق میں لکھتے ہیں :- تثلیث ایک رازہ بستہ ہے کہ جس کی بابت ہم نہیں جانتے کہ کیسے ہے " سے الغرض یہ بات تو سب کو تسلیم ہے کہ تثلیث کا سمجھنا انسان کے بس کا روگ نہیں ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تثلیث کے رد میں اس امر کو بھی پیش فرمایا ہے کہ ایسا عقیدہ جو خلاف عقل ہو اور انسان کی سمجھ میں نہ آسکتا ہو ایک باطل عقیدہ ہے.اٹھارہویں دلیل الوہیت مسیح تثلیث کی سب سے اہم اور بنیادی دلیل ہے.تثلیث کی مسیحی تشریح کے مطابق باپ، بیٹا اور روح القدس تینوں خدا ہیں.گویا وہ مسیح علیہ السلام کو بیٹے کی شکل میں خدا تسلیم کرتے ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام کا خدا ہونا گو یا شلیشی عقیدہ کی اصلی بنیاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خداداد علم کلام کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ آپ نے عیسائیت کے عقاید پر کچھ اس طور سے حملہ کیا ہے کہ ان کے سب ہی عقائد کے رد میں دلائل دیتے ہوئے عقاید کی بنیادوں کو مسمار کر دیا ہے.ظاہر ہے کہ جب بنیاد گر جائے تو عمارت قائم نہیں رہ سکتی.اس طرح پر عقیدہ تثلیث کے رد میں حضور علیہ السلام نے عمومی طور اس عقیدہ کی تردید کر نے کے علاوہ قوی دلائل سے یہ امر ثابت کر دیا ہے کہ مسیح کی الوہیت ایک باطل خیال ہے.مسیح ہر گنہ ہر گتہ خارا نہ تھے.یہ تثلیث کے رد میں ایسی دلیل تحقیق الايمان ص۱۳ ه میزان الحق مصنفہ سی جی فانڈر : ت : تشريح التثليث :
ہے جس سے تثلیث کی ساری عمارت پیوند زمین ہو جاتی ہے.حضور علیہ السّلام کی بیان فرمودہ اس دلیل پر اس کی اہمیت اور وسعت کے پیش نظر آئندہ باب میں تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی.انشاء اللہ تعالی :
۱۶۳ باب پنجم " اب وقت آگیا ہے کہ انسان پرستی کا شہتیر ٹوٹے جائے " (مسیح موعود) تردید اکوسیت سیح م تردید کی اہمیت تردید کے اصول تردید کے دلائل سچ ہوتے ہے کہ یسوع ابی نے مریم نہ خدا ہے نہ خدا کا بیٹا ہے.مسیح موعود)
۱۶۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں دو یہ وہ ناک کے نظارہ کہ ایسے لوگ دنیا میں چالیس کروڑ سے بھی کچھ زیادہ پائے جاتے ہوئے جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا سمجھ رکھا ہے.میرے ولے پر اس قدر صدمہ پہنچا تا رہا ہے کہ میں گمارنے نہیں کر سکتا کہ مجھ پر میرے تمام زندگی میں اس سے بڑھ کر کوٹھے غم گہرا ہو.بلکہ اگر ہم غم سے مرنا میرے لئے ممکون ہوتا تو یہ غم مجھے ہلاک کر دیتا کہ کیوں یہ لوگئے خدائے واحد لا شریک کو چھوڑ کر ایک عاجز انسان کی پرستش کر رہے ہیں اور کیوں یہ لوگ اسے تجھے پر ایمان نہیں لاتے جو کچھ ہدایت اور راہِ راستے لے کر دنیا میں آیا.ہر ایک وقتے مجھے یہ اندیشہ رہا ہے کہ اسے غم کے صدماتھے سے کیوں ہلا کرتے نہ ہو جاؤ...اور میرا اس درد سے یہ حالت ہے کہ اگر دوسرے لوگ بہشتے چاہتے ہیں تو میرا بہشتے یہی ہے کہ میں اپنے زندگی میں اس شرک سے انسانوں کو رہائھے پاتے اور خدا کا جلال ظاہر ہوتے دیکھ لو اور میری روح ہر وقت دُعا کہ تجھے ہے کہ اسے خدا ! اگر میں تیری طرف سے ہوں اور اگر تیرے فضل کا سایہ میرے ساتھ ہے تو مجھے یہ درخے دکھلا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے سر سے یہ تہمت اُٹھا دی جائے کہ گویا نعوذ باللہ انہوں نے خدائی کا دعو عطے کیا.ایک زمانہ گذر گیا کہ میر ے پنجوقت کچھ پیچھے دعائیں ہیں کہ خُدا سے ارضے لوگوں کو آنکھ بخشے اور وہ اس کی وحدانیت پر ایمان لاویں اور اس کے رسول کو شناخت کرلیں اور شیشے کے اعتقاد سے توبہ کریں کالے ! : تبلیغ رسالت جلد بشتم طلا
140 تردید کی اہمیت الوہیت مسیح کا عقیدہ عیسائی مذہب کے لئے رگِ جان کی حیثیت رکھتا ہے.اگر موجودہ عیسائیت کے عقائد کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے دو ہی بڑے اصول نظر آتے ہیں تثلیث اور کفارہ.ان دونوں عقائد کے اثبات کے لئے الوہیت مسیح ایک بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے.کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مسیح علیہ السلام در حقیقت خدا یا خدا کے بیٹے نہ تھے تو تثلیث کی ایک ٹانگ ٹوٹ جاتی ہے اور یہ عقیدہ باطل قرار پاتا ہے.اسی طرح اگر یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت مسیح علیہ السلام خدا یا خدا کے بیٹے نہ تھے اور اس وجہ سے بقول نصاری معصوم اور بے گناہ نہ تھے تو پھر کفارہ کا عقیدہ اپنے پہلے پر ہی غلط ثابت ہو جاتا ہے.گویا الوہیت مسیح ایک ایسا مرکزی نقطہ اور بنیادی اینٹ ہے جس پر عیسائیت کے سب عقائد کی عمارت استوار کی گئی ہے.اور اس ایک بنیاد کے غلط ثابت ہو.راس جانے سے عیسائیت کے سب کے سب عقائد باطل قرار پاتے ہیں.الوہیت مسیح کا مسئلہ ایک اور پہلو سے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے.عیسائیوں کے لئے یہ مسئلہ نجات کا سرچشمہ اور مسلمانوں کے لئے ہلاکت کی راہ ہے.اس لحاظ سے گویا الوہیت مسیح کا مسئلہ اسلام اندر عیسائیت کے درمیان ایک فیصلہ کن امر کی حیثیت رکھتا ہے.اس مسئلہ کے درست ثابت ہونے کی صورت میں اسلام سچا نہیں رہتا اور مسئلہ باطل ہونے کی صورت میں عیسائیت کا ساعد اشیش محمل ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے.اس پہلو سے اس عقیدہ کی اہمیت حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے مقدس الفاظ میں یوں ہے.فرمایا :- و یہ کوئی چھوٹا سا دعویٰ نہیں.ایک عظیم الشان دعوی ہے.حضرات عیسائی صاحبان کے عقیدہ کی رو سے جو شخص حضرت مسیح کی الوہیت کا انکار کر سے وہ ہمیشہ کے بہم میں گرا دیا جائے گا.اور قرآن کریم کی تعلیم کی رو سے جو شخص ایسا لفظ منہ پر لنا وسے کہ فلاں.شخص در حقیقت خدا ہے یا در حقیقت میں ہی خدا ہوں وہ جہنم کے لائق ٹھہرے گا یہ ط شید تا حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے خدا داد علم کلام کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ آپ نے ه: جنگ مقدس من جنده ب -:-:-
144 عیسائی عقائد کی بنیاد پر ایسے کاری والہ کئے ہیں کہ باطل عقائد کا طلسم دھواں ہے ہم دھواں ہو کہ اڑنے لگا ہے.یہی کیفیت یہاں پر نظر آتی ہے.حضرت میسج پاک علیہ السلام نے تثلیث کے خود تراشیدہ عقیدہ کے رد میں سب سے زیادہ زور الوہیت مسیح کے باطل ثابت کرنے پر دیا ہے.مندرجہ بالا سطور سے واضح ہے کہ یہی خیال اس سارے فسانے کی بنیاد ہے.پس آپ نے اپنے خدا داد علم کلام کے ذریعے الوہیت میسج کی ایسے زور دار انداز میں تردید فرمائی ہے کہ آج عیسائی عقائد کا وہی حال ہے جو ایک بلند و بالا عمارت کی بنیادی اینٹیں اکھیڑ لینے سے تصویر کیا جا سکتا ہے.سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی بعثت کا عظیم الشان مقصد ہے.کا حقیقی مفہوم یہی ہے کہ دلیل اور برہان کی رو سے عیسوی مذہب کو باطل قرار دیا جائے.اور ثابت کر دیا جائے کہ یہ مذہب حق اور سچائی پر قائم نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے اپنے اس مفوننہ فرض کو انتہائی کامیابی اور شان سے ادا فرمایا ہے.آپ کے ہاتھوں جس زنگ میں کسیر صلیب کا ظہور ہوا اس سے ہر صاحب بصیرت بخوبی آگاہ ہے.اس وقت مجھے یہ بتانا مقصود ہے کہ کسیر صلیب کے عظیم الشان مشن کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلامہ کا ایک خاص کام یہ تھا کہ آپ الوہیت میسج کی خاص طور پر تردید کریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تحریر فرمایا ہے کہ جہاں میری بعثت کا اصل مقصد ہے وہاں اسی ضمن میں ایک خاص مشن یہ ہے کہ میں الوہیت مسیح کی تردید کروں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- اس وقت میری ساری تو جید اس ایک امر کی طرف ہو رہی ہے کہ یہ مخلوق پرستی دور ہو اور صلیب ٹوٹ جاو سے......خدا تعالیٰ نے مجھے اسی طرف متوجہ کر دیا ہے کہ یہ شرک جو پھیل ہوتا ہے اور حضرت عیسی کو خدا بنایا گیا ہے اس کو نیست و نابود کر دیا جاد سے.یہ جوش سمندر کی طرح میرے دل میں ہے " اے پھر آپ تحریر فرماتے ہیں :- ہزاروں راستباز خدا تعالیٰ کا الہام پا کر اب تک گواہی دیتے چلے آئے ہیں کہ مسیح ابن مریم ایک عاجہ بندہ ہے اور خدا کا نبی.چنانچہ اس زمانہ کے عیسائیوں پر گواہی دینے کیلئے خدا تعالی نے مجھے کھڑا کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ تائیں لوگوں پر ظاہر کروں کہ ابن مریم کو خدا ٹھہرانا ایک باطل اور کفر کی راہ ہے : شهد جداشتم من به :- ملفوظات جلد ششم ه: كتاب البریه مشت روحانی خزائن جلد ۱۳ :
146 ایک اور موقعہ پر فرماتے ہیں یں سچ کہتا ہوں کہ میرے لئے اگر کوئی غم ہے تو یہی ہے کہ نوع انسان کو اس فلم صریح سے بچاؤں کہ وہ ایک عاجزہ انسان کو خدا بنانے میں مبتلاء ہو رہی ہے.اور اس سچے اور حقیقی خدا کے سامنے ان کو پہنچاؤں جو قادر اور مقتدر خُدا ہے ؟ لے چنانچہ واقعات اس امر پر شاہد ہیں کہ مسیح پاک علیہ السلام نے اور ابطال الوہیت مسیح کے لئے ایسے زبر دست دلائل پیش فرمائے ہیں کہ عیسائی حضرات نہ ان کا جواب دے سکے ہیں اور نہ قیامت تک دے سکیں گے.جیسا کہ آپ نے خود بھی تحریر فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں :- ہمارے اصول عیسائیوں پر ایسے پتھر ہیں کہ وہ ان کا ہر گنہ جواب نہیں دے سکتے " ہے ہرگنہ ابطال الوہیت مسیح کے سلسلے میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں ایک طرف ناقابل تردید دلائل کا انبار جمع فرما دیا وہاں دوسری طرف عیسائیوں پر اس امر کو پوری طرح واضح بھی فرما دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا بنانا ایک ظلم اور زیادتی ہے.آپ نے عیسائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے نہایت ہمدردی کے ساتھ فرمایا : اسے عیسائیو ! یا درکھو کہ مسیح ابن مریم ہرگز ہرگز خدا نہیں ہے.تم اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو.خدا کی عظمت مخلوق کو مت دو.ان باتوں کے سننے سے ہمارا دل کا نپتا ہے کہ تم ایک مخلوق ضعیف درماندہ کو خدا کر کے پکارتے ہو.بچے خدا کی طرف آجاؤ تا تمہارا بھلا ہو اور تمہاری عاقبت بخیر ہو کے اس کے ساتھ ساتھ آپ نے غیر مبہم الفاظ میں اس بات کا بھی اعلان فرما دیا کہ اب اس باطل عقید کی عمر پوری ہو چکی ہے اب مکن نہیں کہ یہ باطل عقیدہ زیادہ دیر دنیا میں چل سکے.آپ فرماتے ہیں :." اب وقت آگیا ہے کہ انسان پرستی کا شہتیر ٹوٹ جا وے با ہے نیز تحریر نرمایا : - جھوٹے خدا کے لئے اتنا ہی قیمت ہے کہ اس نے ایک ہزار نو سو برس تک اپنی خدائی کا ستر قلب چلا لیا.آگئے یاد رکھو کہ یہ جھوٹی خدائی بہت جلد ختم ہونے والی ہے.وہ دن آتے ہیں کہ عیسائیوں کے سعادت مند لڑکے بچے خدا کو پہچان لیں گے اور پرانے بچھڑے ہوئے ه : ملفوظات جلد ششم ماه :- ملفوظات جلد نهم ما ۲ : : - کتاب البریہ ص روحانی خزائن جلد ۱۳ شهر - ملفوظات جلد پنجم ما : : :- طلا : 12
۱۶۸ وحدہ لاشریک کو روتے ہوئے آملیں گئے.یہ میں نہیں کہتا بلکہ وہ رُوح کہتی ہے جو میرے اندر ہے.جس قدر کوئی سچائی سے لڑ سکتا ہے لڑے جس قدر کوئی مکہ کہ سکتا ہے کورے بیشک کر سے.لیکن آخر ایسا ہی ہوگا.یہ سہل بات ہے کہ زمین و آسمان مبدل ہو جائیں.یہ آسان ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں لیکن یہ وعد سے مبدل نہیں ہوں گے لے اللہ اللہ یہ تحدی یہ یقین کامل اور غیر متزلزل ایمان صرف اسی کا سر صلیب کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے جس کو خدا نے جری اللہ فی حل الانبیاء بنا کر بھیجا ہو.ایسا دعویٰ کرنا کسی مولوی یا متکلم کا کام نہیں قبل است که تردید الوہیت مسیح کے دلائل کو ترتیب والد بیان کیا جائے.مناسب معلوم ہوتا ہے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان اصولی بیانات کو درج کر دوں جو حضور نے الوہیت مسیح کی تردید میں تحریر فرمائے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے الوہیت مسیح کے عقیدہ کے خلاف چار گواہ مقرر فرمائے.آپ فرماتے ہیں :- "اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کو ملزم کر نے کے لئے چار گواہ ان کے ابطال پر کھڑے کئے ہیں :.اول :- یہودی کہ جو تخمین ساڑھے تین ہزارہ برس سے گواہی دے رہے ہیں کہ ہمیں ہرگز ہرگز تثلیث کی تعلیم نہیں ملی.اور نہ کوئی ایسی پیش گوئی کسی نبی نے کی کہ کوئی خدا یا حقیقی طور پر ابن اللہ زمین پر ظاہر ہونے والا ہے.دوم : - حضرت بجلی کی امت یعنی یوحنا کی امت جو اب تک بلا د شام میں موجود ہے.جو حضرت مسیح کو اپنی قدیم تعلیم کی رو سے صرف انسان اور نبی اور حضرت بجلی کا شاگرد جانتے ہیں.تیس - فرقہ موحدہ عیسائیوں کا جن کا بارہ بارہ قرآن شریف میں بھی ذکر ہے جن کی بحث روم سے تیسری صدی کے قیصر نے تثلیث والوں سے کرائی تھی اور فرقہ موحدہ غالب رہا تھا.اور اس وجہ سے قیصر نے فرقہ مؤحدہ کا مذہب اختیار کر لیا تھا.چوتھے : ہمارے نبی صلی الہ علیہ وسلم اور قرآن شریف جنہوں نے گواہی دی کہ مسیح ابن مریم برگنز خدا نہیں ہے.اور نہ خدا کا بیٹا ہے.بلکہ خدا کا نبی ہے" نے : سراج منیر ص - روحانی خزائن جلد ۱۲ : ٥٣ : - كتاب البرية ص.-
اصولی تجزیه ۱۶۹ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوہیت مسیح کے مسئلہ کے بارہ میں اپنی کتاب "کتاب ابریہ میں تفصیلی بحث فرمائی ہے.اس میں آپ فرماتے ہیں ک کسی بھی عقیدہ کی صداقت معلوم کر نے کے لئے تین معیارہ ہو سکتے ہیں :.۱ - خدائی کتاب سے اور پرانی تعلیمات سے اس عقیدہ کا ثبوت مل جائے.۲ - عقل اس عقیدہ کی صداقت پر گواہی دے.۳.آسمانی نشانوں سے وہ عقیدہ درست ثابت ہو.نس ان اصولوں کے بیان فرمانے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بالوضاحت تحریر فرمایا ہے کہ الوہیت مسیح کا عقیدہ ان ہرسہ معیاروں کے اعتبار سے باطل قرار پاتا ہے.پہلے معیار کے متعلق آپ تحریر فرماتے ہیں :- اگر ان کے اس جسمانی اور حدود خدا کا جس کا نام وہ لیسوع رکھتے ہیں پہلی فلموں سے پتہ تلاش کیا جائے یا یہودیوں کے اظہارہ لئے جائیں تو ایک ذرہ سی بھی ایسی تعلیم نہیں ملے گی جنسی اسے خدا کا نقشہ کھینچ کر دکھلایا ہو.اگر یہودیوں کو تعلیم دی جاتی تو ممکن نہ تھا کہ ان کے تمام فرقے اس ضروری تعلیم کو جوان کی نجات کا مدار تھی فراموش کر دیتے اور کوئی ایک آدھ فرقہ بھی اس تعلیم پر قائم نہ رہتا یا اسے ، اس سلسلہ میں حضور نے یہود کے عملی انکار کو بطور دلیل پیش کیا ہے.فرماتے ہیں :- کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ایک ایسا عظیم الشان گردہ جس میں ہر زمانہ میں ہزار ہا عالم فاضل موجود رہے ہیں...ایک ایسی تعلیم سے ان کو بے خبری ہو جو چودہ سو برس سے پر ایران کو ملتی رہی......ایسا ہی صدی بعد صدی ان کے نبی نہایت اہتمام سے اس ایسا ہی تعلیم کی تاکید کرتے چلے آئے.یہانتک کہ اس صدی تک نوبت پہنچ گئی جس میں ایک شخص نے خدائی کا دعویٰ کیا اور وہ لوگ سب کے سب اس دعوی سے سخت انکاری ہوئے اور بالا تفاق کہا کہ یہ دعوی اس مسلسل تعلیم کے برخلاف ہے کہ جو توریت اور دوسری کتابوں سے خدا کے نبیوں کی معرفت چودہ سو برس سے آج تک ہمیں ملتی رہی ہے ! ۲ مه : كتاب البرية من - روحانی خزائن جلد ۱۳ ه - - کتاب البرية مشته روحانی خزائن جلد ۱۳ :
خلاصہ یہ ہے کہ :.14." منقول کی رو سے عیسائیوں کا عقیدہ نہایت بودا ہے بلکہ قابل شرم ہے؟ لے معیار دوم کے متعلق تحریم فرمایا :- ر یا دوسرا ذریعہ شناخت حق کا جو عقل ہے سو عقل تو عیسائی عقیدہ کو دور سے دھکے دیتی ہے.عیسائی اس بات کو مانتے ہیں کہ جس جگہ تثلیث کی منادی نہیں پہنچی ایسے لوگوں سے صرف قرآن اور توریت کی توحید کی رو سے مواخذہ ہو گا.شیث کا مواخذہ نہیں ہوگا میں وہ اس بیان سے صاف گواہی دیتے ہیں کہ تثلیث کا عقیدہ عقل کے موافق نہیں.کیونکہ اگر عقل کے موافق ہوتا تو جیسا کہ بے خبر لوگوں سے توحید کا مواخذہ ضروری ہے ایسا ہی تثلیث کا مواخذہ بھی ضروری ٹھہرتا یہ ہے معیار سوم کے بارہ میں آپ نے فرمایا :- در تیسرا اوزریعہ شناخت حق کا آسمانی نشان ہیں یعنی یہ کہ سپنے مذہب کے لئے ضروری ہے کہ اس کا صرف قصوں اور کہانیوں پر سہارا نہ ہو بلکہ ہر ایک زمانہ میں اس کی شناخت کے لئے آسمانی دروازہ سے کھلے رہیں اور آسمانی نشان ظاہر ہوتے رہیں تا معلوم ہو کہ اس زندہ خدا سے اس کا تعلق ہے کہ جو ہمیشہ سچائی کی حمائت کرتا ہے.سو افسوس کہ عیسائی مذہب میں یہ علامت بھی پائی نہیں جاتی بلکہ بیان کیا جاتا ہے کہ سلسلہ نشانوں اور معجزات کا آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گیا ہے اور بجائے اس کی کہ کوئی موجودہ آسمانی نشان دکھلایا جائے ان باتوں کو پیش کرتے ہیں کہ جو اس زمانہ کی نظر میں صرف قصے اور کہانیاں ہیں.ظاہر ہے کہ اگر عیسوع نے کسی نہ انہ میں اپنی خدائی ثابت کر نے کیلئے چند ماہی گیروں کو نشان دکھلائے تھے تو اب اس زمانہ کے تعلیم یافتہ لوگوں کو ان ان پڑھوں کی نسبت نشان دیکھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ان بے چاروں کو کسی عاجز انسان کی خدائی سمجھ نہیں آتی اور کوئی منطق یا فلسفہ ایسا نہیں جو ایسے شخص کو خدائی کے دعوی کی ڈگری دے جس کی ساری رات کی دعا بھی منظور نہ ہو سکی اور جنسی اپنے زندگی کے سلسلہ میں ثابت کر دیا کہ اس کی روح کمزور ہے اور نادان بھی.پس اگر یسوع اب بھی زندہ خدا ہے اور اپنے پرستاروں کی آوانہ سنتا ہے تو چاہیے کہ اپنی جماعت کو جو ایک معقول : كتاب البرية من روحانی خزائن جلد ۱۳ : ۵۲ : کتاب البريه صدا - روحانی خزائن جلد ۱۳ :
141 عقیدہ پر ہے وجہ زور دے رہی ہے اپنے آسمانی نشانوں کے ذریعے سے مدد دے.انسان تسلی پانے کے لئے ہمیشہ آسمانی نشانوں کے مشاہدہ کا محتاج ہے.اور ہمیشہ روح اس کی اس بات کی بھوکی اور پیاسی ہے کہ اپنے خدا کو آسمانی نشانوں کے ذریعے سے دیکھنے اور اسی طرح پر دہریوں اور طبعیوں اور ملحدوں کی کشاکش سے نجات پارے.سو سچا مذہب خدا کے ڈھونڈنے والوں پر آسمانی نشانوں کا دروازہ ہرگز بند نہیں کرتا - 4 - ان تینوں معیاروں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا :- " جب میں دیکھتا ہوں کہ عیسائی مذہب میں خدا شناسی کے تینوں ذریعے مفقود ہیں تو مجھے تعجب آتا ہے کہ کس بات کے سہارے سے یہ لوگ میسوع پرستی پر زور مار رہے ہیں کیسی بدنصیبی ہے کہ آسمانی درواز سے ان پر بند ہیں معقول دلائل ان کو اپنے دروازہ سے سے دھکے دیتے ہیں.اور منقولی دستاویزیں جو گذشتہ نبیوں کی مسلسل تعلیموں سے پیش کرنی چاہیئے تھیں وہ ان کے پاس موجود نہیں.انسان کی عقلمندی یہ ہے کہ ایسا مذہب اختیار کرے کہ جس کے اصول خداشناسی پر سب کا اتفاق ہو.اور عقل بھی شہادت دے اور آسمانی دروازہ سے بھی اس مذہب پر بند نہ ہوں.سو غور کر کے معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں صفتوں سے عیسائی مذہب بے نصیب ہے.اس کا خدا شناسی کا طریق ایسا نواں ہے کہ نہ اس پر یہودیوں نے قدم مارا اور نہ دنیا کی اور کسی آسمانی کتاب نے.وہ ہدایت کی اور عقل کی شہادت کا یہ حال ہے کہ خود یورپ میں جبقدر لوگ علوم عقلیہ میں ماہر ہوتے جاتے ہیں وہ عیسائیوں کے اس عقیدہ پر تھا اور نہی کرتے ہیں اسکے اس تمہید کے بعد میں ان دلائل کو بیان کرتا ہوں جو کا سر صلیب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابطال الوہیت مسیح کے سلسلہ میں بیان فرمائے ہیں :- پہلی دلیل الوہیت مسیح کی تردید میں سب سے پہلی دلیل یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السّلام نے خود کبھی اور خود کسی جگہ یہ دعویٰ نہیں فرمایا کہ میں خدا یا خدا کا بیٹا ہوں.خدائی کا معاملہ کوئی ایسا معمولی سا معاملہ نہیں کہ بغیر دعوی کے اس کو کسی کی طرف منسوب کر دیا جائے.بلکہ حتی تو یہ ہے کہ صرف دعوی کبھی بھی صداقت کی دلیل : کتاب البریه ط من روحانی خزائن جلد ۱۳ سے کتاب البرية صا روحانی خزائن جلد ۱۳ حث : :
۱۷۲ نہیں ہوا کرتا.بلکہ ہر دعوی کو ثابت کرنے کے لئے مضبوط دلیلوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے.لیکن اگر معاملہ ایسا ہو کہ جس شخص کے بارہ میں ایک بات بیان کی جاتی ہے وہ خود تو نہ صرف یہ کہ اس بات کا مدعی نہیں بلکہ صاف طور پر انکار کرتا ہے لیکن دوسرے لوگ ایک بہت بڑا دعوی اس کی طرف منسوب کریں.اور خواہ مخواہ اس کے سر پہ تھوپنے کی کوشش کریں تو اس صورت میں مدعی سست اور گواہ چست والی مثال صادق آئے گی.یہی صورت یہاں پر ہے.حضرت مسیح علیہ السلام نے کبھی دعوی الوہیت نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اس کی پیوند در تردید کی ہے.لیکن افسوس ہے ان عیسائیوں پر جو بغیر کسی دلیل کے اتنے عظیم دعوئی کو ایک ایسے وجود کی طرف منسوب کرنے سے نہیں شرماتے جو ایسے دعوی سے اپنی دست برداری کا اعلان کرتا ہے.اور دلی "+ بیزاری کا اظہارہ کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس ولی کو بیان فرمایا ہے.آپ حضرت مسیح علیہ السلام کے ذکر میں فرماتے ہیں :.در مسیح نے کہیں اپنی خدائی کا دعوئی نہیں کیا یہودیوں کے پتھراؤ کرنے پر اور اس کفر کے الزام پر ان کا قولی در کتابی محاورہ پیش کر کے نجات پائی.اپنی خدائی کا کوئی ثبوت نہ دیا ہے نیز فرمایا : " انہوں نے اپنی نسبت کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا جس سے وہ خدائی کے مدعی ثابت ہوں ؟ پھر آپ نے فرمایا : یاد رکھو کہ خدائی کے دعوئی کی حضرت مسیح پر سراسر تہمت ہے انہوں نے ہر گز ایسا دعویٰ نہیں کیا سے عیسائی حضرات بعض اوقات کچھ حوالے پیش کرتے ہیں جن کے بعض الفاظ سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ گویا مسیح نے الوہیت کا دعوی کیا تھا.اس کی جواب میں مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں:." جس قدر ان کے کلمات ہیں جن سے ان کی مندائی سمجھی جاتی ہے ایسا سمجھنا غلطی ہے.اسی زنگ کے ہزاروں کلمات خدا کے نبیوں کے حق میں بطور استعارہ اور حجاز کے ہوتے ہیں.ان سے خدائی نکالنا کسی عقلمند کا کام نہیں بلکہ انہی کا کام ہے جو خواہ مخواہ انسان کو خدا بنانے کا شوق رکھتے ہیں “ “ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس سارے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے کبھی خدا ہو نے :- ملفوظات جلد سوم ے لیکچر سیالکوٹ مت روحانی خزائن جلد ۲۰ به لیکچر سیالکوٹ م روحانی خزائن جلد ۲۰ شه :- را
کا دعوی نہیں کیا.پس جب دعوی ہی ثابت نہیں تو اس کے حق میں دلیلیں بیان کرنے کا کیا سوال ہے؟ حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی الوہیت نہ کر نا سب سے پہلی دلیل ہے کہ وہ حقیقت میں خدا نہ تھے.اگر واقعی خدا تھے تو اس کا اعلان اور دعویٰ کرنے میں کیا روک تھی ؟ دوسری دلیل ابطال الوہیت مسیح کے لئے دوسری دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے ہمیشہ توحید کی منادی کی ہے.یہ دلیل گویا پہلی لہی ہی کے دوسرے رخ کو پیش کرتی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام نے نہ صرف یہ کہ الوہیت کا کبھی اور کسی جگہ دعوی نہیں فرمایا.بلکہ الف : ہمیشہ اس دعوی سے انکار کیا اور جب بھی ایسا موقع پیدا ہوا کہ ان کی نسبت ایسا اد عابیان کیا گیا تو انہوں نے بجائے تصدیق کرنے کے اس کی پر زور تردید کی.ب : - ساری عمر توحید پر قائم رہے اور اسی کی منادی کرتے رہے.یہ دونوں امر انجیل سے ثابت ہو جاتے ہیں.اور الوہیت مسیح کے عقیدہ کے خلاف ایسی نہ یہ دست محبت ہیں جس کا جواب عیسائی پیش نہیں کر سکتے.جہاں تک خدائی کے دعویٰ سے انکار کا تعلق ہے انجیل میں لکھا ہے کہ :- " یہودیوں نے اُسے سنگسار کرنے کے لئے پھر پتھر اٹھائے.یسوع نے انہیں جواب " دیا کہ میں نے تم کو باپ کی طرف سے بہتر سے اچھے کام دیکھائے ہیں ان میں سے کس کام کے سبب مجھے سنگسار کرتے ہو.یہودیوں نے اُسے جواب دیا کہ اچھے کام کے سبب نہیں بلکہ کفر کے سبب تجھے سنگسار کرتے ہیں.اور اس لئے کہ تو آدمی ہو کہ اپنے آپ کو خدا بناتا ہے.بیسوع نے انہیں جواب دیا کہ تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ میں نے کہا تم خدا ہو ؟ جبکہ اس تھی انہیں خدا کہا.جن کے پاس خدا کا کلام آیا اور کتاب مقدس کا باطل ہونا ممکن نہیں.تم اس شخص سے جسے باپ نے مقدس کرکے دنیا میں بھیجا.کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے.اس لئے کہ میں نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں یہ لے گویا مسیح نے صاف بتا دیا کہ میرا یہ قول کہ میں خدا کا بیٹا ہوں حقیقت پر محمول نہیں کیا جا سکتا ہے.اور اس کے معنے اسی طرز پر کئے جائیں گے جس طرح اس قول کے کئے جائیں گے کہ میں نے کہا تم خدا ہو.: : : یوحنا ب ۳۲۰۳۰
۱۷۴ حضرت مسیح کا یہ بیان خُدا ہونے سے واضح انکار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں " جب مسیح کو یہودیوں نے اس کے کفر کے بدلے میں کہ یہ ابن اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے پتھراؤ کرنا چاہا تو اس نے انہیں صاف کہا کہ کیا تمہاری شریعیت میں یہ نہیں لکھا کہ تم خدا ہو.اب ایک دانشمند خوب سوچ سکتا ہے کہ اس الزام کے وقت تو چاہیئے تھا کہ مسیح اپنی پوری بریت کرتے.اور اپنی خدائی کے نشان دکھا کہ انہیں ملزم کہ تھے اور اس حالت میں ک ان پر کفر کا الزام کی ا الزام لگایا گیا تھا تو ان کا فرض ہونا چاہیئے تھا کہ اگر وہ فی الحقیقت خدایا خدا کے بیٹے ہی تھے تو یہ جواب دیتے کہ یہ کفر نہیں بلکہ میں واقعی طور پر خدا کا بیٹا ہوں.اور میرے پاس اس کے ثبوت کے لئے تمہاری ہی کتابوں میں فلاں فلاں موقع پر صاف لکھنا ہے کہ میں قادر مطلق عالم الغیب خدا ہوں.اور لاؤ میں دکھا دوں.اور پھر اپنی قدرتوں عالم ال طاقتوں سے ان کو نشانات خدائی بھی دکھا دیتے اور وہ کام جو انہوں نے خدائی سے پہلے دکھائے تھے ان کی فہرست الگ دے دیتے.پھر ایسے بین ثبوت کے بعد کسی یہودی فقیہ یا فریسی کی طاقت تھی کہ انکار کرتا.وہ تو ایسے خدا کو دیکھ کہ سجدہ کرتے مگر بر خلاف اس کے آپ نے کیا تو یہ کیا کہ کہ دیا کہ تمہیں خدا لکھا ہے.اب خدا ترس دل لے کر غور کرد که یہ اپنی خدائی کا ثبوت دیا یا ابطال کیا ؟ " حضرت مسیح کے توحید پر قائم ہونے اور توحید کا اعلان کرنے پر انجیل کی مندرجہ ذیل دو آیات کی گواہی ہی کافی ہے.لکھا ہے :- ا - ".....ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ نتیجہ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جیسے تو نے بھیجا ہے جائیں " سے." اسے اسرائیل شن ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے " سے پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے ہمیشہ توحید کی منادی کی ہے.ہمارا استدلال یہ ہے کہ اگر مسیح خود خدا تھے اور تثلیث کی ایک کڑی ان کے وجود سے پوری ہوتی تھی تو انہوں نے خدائے واحد کا پر چار کیوں کیا ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس دلیل کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :- حضرت مسیح نے کسی جگہ تثلیث کی تعلیم نہیں دی.اور وہ جب تک زندہ رہے ے: ملفوظات جلد سوم ما ۱۳ ہے 止 : یوحنا : ۱۵۳ مرقس : :٥٣ : :-
140 خدائے واحد لا شریک کی تعلیم دیتے رہے یا اے نیز فرمایا : - ان کا وہ کلمہ جو صلیب پر چڑھائے جانے کے وقت ان کے منہ سے نکلا کیسا تو حید پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے نہایت عاجزی سے کہا ایلی ایلی لما سبقتنی یعنی اسے میرے خدا! اسے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.کیا جو شخص اس عاجزی.سے خدا کو پکارتا ہے اور اقرار کرتا ہے کہ خدا میرا رب ہے اس کی نسبت کوئی عقلمند گمان کر سکتا ہے کہ اس نے در حقیقت خدائی کا دعوی کیا تھا ؟ کے پس حضرت مسیح علیہ السلام کا خلائی کے دعوئی سے واضح انکار کرنا اور ساری عمر توحید کی اعلانیہ منادی کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خود ہنڈا نہ تھے.کیونکہ اگر ان کو خدا مانا جائے تو ان کے اقوال اور عمل اس کے خلاف پڑتے ہیں.یہ اختلاف ہوا ہو یا عمداًکہ ہر صورت میں خدا کی شان سے بہت بعید ہے.تیشتری دلیل ابطال الوہیت میسج کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے استقراء کو ایک دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے.یہ وہ دلیل ہے جس کو حضور نے اپنے مباحثہ " جنگ مقدس میں سب سے پہلے پیش فرمایا.حضور نے یہ بیان فرمایا تھا کہ ضرت مسیح علیہ السلام کا خدا کے بیٹے کے طور پر دنیا میں آنا استقراء کے خلاف ہے اور اس دلیل کو قرآن مجید نے اس آیت کہ یمیہ میں بیان فرمایا ہے جس میں لکھا ہے.ما الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ.که مسیح ابن مریم تو خدا کے ایک رسول ہیں اور اس جیسے ہزاروں رسول اس سے پہلے گزار چکے ہیں.پادری عبد اللہ آتھم کی درخواست پر حضور نے سب سے پہلے استقراء کی تعریف فرمائی جو درج ذیل ہے.آپ نے فرمایا :- استقراء اس کو کہتے ہیں کہ جزئیات مشہودہ کا جہاں تک ممکن ہے تبلیغ کر کے باقی جزئیات کا اپنی پر قیاس کر دیا جائے یعنی جس قدر جزئیات ہماری نظر کے سامنے ہوں یا تاریخی سلسلہ میں ان کا ثبوت مل سکتا ہو تو جو ایک شان خاص اور ایک حالت خاص ه : چشمه سیحی ملک روحانی خزائن جلد ۲۰ سه : چشمه مسیحی ۱۳ روحانی خزائن جلد ۲۰ : صله جلد
144 قدرتی طور پر وہ رکھتے ہیں اس پر تمام جزئیات کا اس وقت تک قیاس کر لیں جب تک کہ ان کے مخالف کوئی اور جنائی ثابت ہو کہ پیش نہ ہوگا اے پھر اس کے بعد یہ استدلال فرمایا کہ اس آیت مذکورہ بان کی رو سے استقرائی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسیح بھی ایک رسول ہی تھے اور الوہیت مسیح کے باطل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جب وہ رسول ثابت ہو گئے تو خدا یا خدا کے بیٹے کس طرح ہوئے ؟ آپنے دلیل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: قیاس استقرائی دنیا کے حقائق ثابت کرنے کے لئے اول درجہ کا مرتبہ رکھتا ہے.تو اسی جہت سے اللہ جل شانہ نے سب سے پہلے قیاس استقرائی کو ہی پیش کیا ہے.اور فرمایا قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ "} یعنی حضرت مسیح علیہ السّلام بے شک نبی تھے اور اللہ جل شانہ کے پیار سے رسول تھے مگر وہ انسان تھے.تم نظر اٹھا کہ دیکھو کہ جب سے یہ سلسلہ تبلیغ اور کلام اپنی کے نازل کرنے کا شروع ہوا ہے ہمیشہ اور قدیم سے انسان ہی رسالت کا مرتبہ پا کر دنیا میں آتے رہے ہیں یا کبھی از اللہ تعالی کا بیٹا بھی آیا ہے.اور خلت کا لفظ اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ جہاں تک تمہاری نظر تاریخی سلسلہ کو دیکھنے کے لئے وفا کر سکتی ہے اور گذشتہ لوگوں کا حال معلوم کر سکتے ہو خوب سوچو اور مجھو کہ کبھی یہ سلسلہ ٹوٹا بھی ہے.کیا تم کوئی ایسی نظیر پیش کر سکتے ہو جسے ثابت ہو سکے کہ یہ امر ممکنات میں سے ہے.پہلے بھی کبھی کبھی ہوتا ہی آیا ہے.سو عقلمند آدمی اس جگہ ذرا ٹھہر کر اور اللہ جل شانہ کا خوف کر کے دل میں سوچے کہ حادثات کا سلسلہ اس بات کو چاہتا ہے کہ اسکی نظیر بھی کبھی کسی زمان میں پائی جا سے ہے اسی ضمن میں آپ نے تحریر فرمایا :- اللہ جل شانہ نے سب سے پہلے ابطال الوہیت کے لئے بھی دلیل استقرائی پیش کی ہے.سے نیز فرمایا : JJ اسی بناء پر میں نے کہا تھا کہ اللہ جل شانہ کی یہ دلیل معقولی که قد خلت من قبله الرسل جو بطور استقراء کے بیان کی گئی ہے.یہ ایک قطعی اور یقینی دلیل استقرائی ہے.جب تک کہ اس دلیل کو توڑ کر نہ دکھلایا جائے ، اور یہ ثابت نہ کیا جائے کہ سه: جنگ مقدس منت ۳۲ روحانی خزائن جلد ۷ : -:- جنگ مقدس من روحانی خزائن جلد ا :
166 خدا تعالیٰ کی رسالتوں کو لے کہ خدا تعالیٰ کے بیٹے بھی آیا کرتے ہیں.اس وقت تک حضرت مسیح کا خدا تعالیٰ کا حقیقی بیٹا ہونا ثابت نہیں ہو سکتا " مل دلیل استقرائی کی وضاحت کے ضمن میں حضور نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ کبھی خدا اپنے بیٹے بھی بھیجا کرتا ہے تو اول تو اس کی کوئی دلیل ہونی چاہیے اور پھر عادت کے ثابت کرنے کے لئے نے ایک نہیں بلکہ کئی بیٹے ایسے ہونے چاہئیں جو یکے بعد دیگر سے دنیا کی اصلاح کے لئے آئیں.آپ نے فرمایا : - " خُدا کا کوئی فعل اس کی قدیم عادت سے مخالف نہیں.اور عادت کثرت اور کلیت کو چاہتی ہے.پس اگر در حقیقت بیٹے کو بھیجنا خدا کی عادت میں داخل ہے تو خدا کے بہت سے بیٹے چاہئیں.تا عادت کا مفہوم جو کثرت کو چاہتا ہے.ثابت ہو اور تا بعض بیٹے جنات کے لئے مصلوب ہوں.اور بعض انسانوں کے لئے.اور بعض ان مخلوقات کے لئے جود وسرسے اجرام میں آباد ہیں.یہ اعتراض بھی ایسا تھا کہ ایک لحظہ کے لئے بھی اس میں غور کرنا فی الفور عیسائیت کی تاریخی سے انسان کو چھوڑا دیتا ہے ہے جب عیسائیوں کے سامنے یہ دلیل استقرائی پیش کی مباقی ہے اور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ تم کوئی ایک مثال تو پیش کرو کہ کبھی خدا نے اپنے بیٹے کو بھی دنیا میں بھیجا ہو.تو وہ خود حضرت مسیح علیہ السلام کو پیش کر دیا کرتے ہیں کہ دیکھو حضرت مسیح خدا کے بیٹے تھے.یہ مثال اس وجہ سے درست نہیں کہ خود حضرت مسیح کی ایفیت محل نظر ہے.پس جو بات خود قابل ثبوت ہو اس کو کسی اور امر کی دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے.بلکہ یہاں تو یہ صورت ہے کہ ابنیت مسیح ہی کے ثبوت کا سوال ہے.کیا کسی امر کے ثبوت کے لئے اسی امر کو بطور ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے.ہر گز نہیں یہ تو مصادره علی المطلوب ہے جوفن مناظرہ میں باطل مانا گیا ہے.پس ابنیت مسیح کے دعوی کو ابنیت مسیح کی دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی عیسائیوں کے اس عذر کا جواب تحریر فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں :- اگر یہ کہو کہ آگے تو نہیں مگر اب تو آگیا ہے تو فن مناظرہ میں اس کا نام مصادرة على المطلوب سے یعنی جو امر متنازعہ فیہ ہے اسی کو بطور دلیل پیش کر دیا جائے مطلب یہ یہ ہے کہ زیر بحث تو یہی امر ہے کہ حضرت مسیح اس سلسلہ متصلہ مرفوعہ کو توڑ کر کیونکر ه: جنگ مقدس ص ۲ روحانی خزائن جلده : :: کتاب البرية - روحانی خزائن جلد ۱۳ : من
بحیثیت ابن اللہ ہونے کے دنیا میں آگئے کہ اے پس ظاہر ہے کہ اس دلیل استقرائی کے جواب میں حضرت مسیح علیہ السلام کو بطور مثال پیش کرنا درست نہیں.الغرض حضور نے الوہیت مسیح کے رد میں قرآنی آیت پیش فرماتے ہوئے استقراء کو پیش فرمایا ہے.اس دلیل کو بیان فرمانے کے بعد آپ فرماتے ہیں :- اللہ جل شانہ اس دلیل میں صاف توجہ دلاتا ہے کہ تم مسیح سے لیکر انبیاء کے انتہائی سلسلہ تک دیکھ لو جہاں سے سلسلہ نبوت کا شروع ہوا ہے.کہ بجز نوع انسان کے کبھی خدا یا خدا کا بیٹا بھی دنیا میں آیا ہے " ہے پس ظاہر ہے کہ استقراء کی یہ دلیل بہت مضبوط اور وزنی ہے جو الوہیت مسیح اور ابلیت مسیح کو باطل قرار دیتی ہے.اس موقعہ پر بعض اوقات عیسائی حضرات حضرت آدم علیہ السلام کی مثال پیش کیا کرتے ہیں.کہ جس طرح وہ ایک معروف طریقہ کے برخلاف پیدا ہوئے تھے اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کبھی باقی آنے والے رسولوں سے خلاف بطور ابن اللہ اور خدا دنیا میں آگئے ہیں.گویا حضرت آدم علیہ السلام کی مثال پیش کر کے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے استقراء کے خلاف بطور ابن اللہ آنے کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اس عدد کے روئیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- اگر حضرت مسیح کو حضرت آدم علیہ السلام سے مشابہ کرنا ہے اور اس نظیر سے فائدہ اٹھانا مد نظر ہے تو چاہیے کہ جس طرح پر اور جن دلائل عقلیہ سے انتہائی سلسلہ نوع انسان کا حضرت آدم کی پیدائش خاص تسلیم کی گئی ہے اسی طرح پر حضرت مسیح کا ابن اللہ ہونا یا خدا ہوتا اور سلسلہ سابقہ مشہودہ مثبتہ کو توڑ کر بحیثیت خدائی کو ابلیت خدا تعالی دنیا میں آنا ثابت کر دکھلا دیں پھر کوئی وجہ انکار کی نہ ہوگی کیونکہ سلسلہ استقراء کے مخالف جب کوئی امر ثابت ہو جائے تو وہ امر بھی قانون قدرت اور سنت اللہ میں داخل ہو جاتا ہے سو ثابت کرنا چاہیے مگر دلائل عقلیہ سے کیا سے چوتھی دلیل حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کے رد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن مجید کے ٣٢ : جنگ مقدس ص روحانی خزائن جلد سے : ایضاً ص : ه: - ايضا :
149 ان الفاظ سے بھی استدلال فرمایا ہے کہ تامهُ صِدِّيقَةُ حضور نے فرمایا ہے :- که چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ماں تھی اور یہ امر سب کو مسلم ہے خواہ مسلمان ہوں یا عیسائی اس وجہ سے وہ خدا نہیں ہو سکتے.وجہ یہ ہے کہ : - 1- ان کی والدہ چونکہ انسان تھیں اس لئے لانگا وہ بھی اسی نوع میں سے ہوں گے.ان کی والدہ کا ہونا ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ دوسرے وجود کے محتاج تھے اور جو محتاج ہو وہ خدا نہیں ہو سکتا.-٣ + - جن اشیاء میں توالد و تناسل کا سلسلہ جاری ہوتا ہے وہ ہا لکتر الذات ہوتی ہیں.پس جو وجود موت کا شکار ہو سکتا ہو ا اور عملاً ایسا ہوا ہو، وہ ہر گنہ خدا نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن مجید کی آیت کو بیان کرنے کے بعد اس دلیل کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :-......ایک اور دلیل پیش کرتا ہے دَامَهُ صِدِّيقَة یعنی والدہ حضرت سیح کی راستبانہ تھی.یہ بات نہایت ظاہر اور کھلی کھلی ہے کہ قانون قدرت اللہ جل شانہ کا اسی طرح پر واقع ہے کہ ہر ایک جاندار کی اولاد اس کی نوح کے موافق ہوا کرتی ہے.مثلاً دیکھو کہ جس قدر جانور ہیں مثلاً انسان اور گھوڑا اور گدھا اور ہر ایک پرندہ وہ اپنی اپنی نوع کے لحاظ سے وجود پذیر ہوتے ہیں.یہ تو نہیں ہوتا کہ انسان کسی پرندہ سے پیدا ہو جاو سے یا پرند کسی انسان کے پیٹ سے نکلے پہلے نیز فرمایا : دوسری دلیل اس کی دیعنی حضرت مسیح علیہ السلام کی.ناقل ) عبودیت پر یہ ہے کہ.اس کی ماں تھی جسے وہ پیدا ہوا.اور خدا کی کوئی ماں نہیں " نہ پس ثابت ہوا کہ مسیح کی والدہ کا وجود جس پر سب کا اتفاق ہے ان کے بعدا یا خدا کا بیٹا نہ ہونے کی ایک بہت بڑی دلیل ہے.پانچویں دلیل حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کے رد میں پانچویں دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالٰے نے :- جنگ مقدس من روحانی خزائن جلد به میمه برای احمدی محمد نجم ما روحانی خزائن جلد ۲
۱۸۰ فرمایا ہے.کانا یا کلان الظام یعنی حضرت مسیح ایران کی والدہ کھانا کھایا کر تے تھے.اس آیت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوہیت مسیح کی تردید میں استدلال فرمایا ہے اور اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے کہ حضرت مسیح اور اُن کی والدہ کا کھانا کھانا ان کے خدا نہ ہونے کی دلیل ہے کیونکہ :.ا جو کھانا کھائے وہ محتاج ہو گیا.اور خدا ہر قسم کی احتیاج سے بالا ہے.کھانا وہی کھاتا ہے جس کا بدن تحلیل پذیر ہو اور خُدا اس سے بلند تر ہے کہ اس میں تحلیل ہونے کی صفت ہو.۲ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ دسیح اور ان کی والدہ ، کھانا کھایا کہ تے تھے گویا اب نہیں کھاتے گویا اب وہ نہ ندہ نہیں ہیں تبھی کھانا نہیں کھاتے.پس موت بھی الوہیت مسیح کی تردید کا ثبوت ہے.یادر ہے کہ حضرت مسیح علیہ اسلام کا کھانا کھانا دعوی بلا دلیل نہیں ہے.بلکہ اناجیل میں صاف طور پر ان کے کھانا کھانے کا ذکر ملتا ہے.اور کوئی مسیحی اس سے انکار نہیں کرتا.پس یہ ایک واقعاتی اور سائنسی دلیل ہے جس سے الوہیت مسیح کی تردید ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس دلیل کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- تیسری دلیل اس کی ریعنی حضرت مسیح کی.ناقل ) عبودیت پر یہ ہے کہ جب وہ اور اس کی ماں نہ ندہ تھے دونوں روٹی کھایا کرتے تھے.اور خدا روٹی کھانے سے پاک ہے یعنی روٹی بدل ما تململ ہوتی ہے اور خدا اس سے بلند تر ہے کہ اس میں تحلیل پانے کی صفت ہو مگر مسیح روٹی کھاتا رہتا تھا.پس اگر وہ خدا ہے تو کیا خدا کا وجود بھی تحلیل پاتا رہتا ہے ؟ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ طبعی تحقیقات کی رو سے انسان کا بدن تین برس تک بالکل بدل جاتا ہے اور پہلے اجزاء تحلیل ہو کر دوسرے اجزاء ان کے قائمقام پیدا ہو جاتے ہیں.مگر ہند میں یہ نقص ہرگز نہیں.یہ دلیل ہے جس کو خدا تعالیٰ حضرت عیسی کے انسان ہونے پر لایا ہے یا اے نیز فرمایا : ایک دلیل یہ پیش کی ہے کانا یا کلان الطعام یعنی وہ دونوں حضرت مسیح اور آپ کی والدہ صدیقہ کھانا کھایا کر تے تھے.اب آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کیوں شده در ضمیمه برا این احمدیہ حصہ بنجمه منه ر دهانی خزائن جلد ۲۱ به ر ص
1^1 کھانا کھاتا ہے.اور کیوں کھانا کھانے کا محتاج ہے.اس میں اصل بھید یہ ہے کہ ہمیشہ انسان کے بدن میں سلسلہ تحلیل جاری ہے.یہاں تک کہ تحقیقات قدیم اور جدیدہ سے ثابت ہوتا ہے کہ چند سال میں پہلا جسم تحلیل پا کہ معدوم ہو جاتا ہے.اور دوسرا بدن بدل ما تحلل ہو جاتا ہے........اب بنیکہ یہ حال ہے تو کس قدر مرتبہ خدائی سے بعید ہو گا کہ اپنے اللہ کا جسم بھی ہمیشہ اڑتا ہے.اور تین چار برس کے بعد اور جسم آد ہے.ماسوا اس کے کھانے کا محتاج ہوتا بالکل اس مفہوم کے مخالف ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات میں مسلم ہے.اب ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ان حاجت مندیوں سے بری نہیں تھے.جو تمام انسانوں کو لگی ہوئی ہیں " لے پس جب میسج کا کھانے کا محتاج ہونا ثابت ہو گیا تو وہ کسی صورت میں خدا نہیں ہو سکتے کیونکہ خدا ا کی بستی ہر احتیاج اور ضرورت سے بالا تر ہے.چھٹی دلیل الوہیت مسیح کے خلاف ایک دلیل یہ ہے کہ ان کی الوہیت قیاس کے خلاف ہے اس دلیل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں بیان فرمایا ہے.جہاں آپ نے وضاحت فرمائی ہے کہ اگر حضرت عیسی علیہ اسلام حضرت مریم کے پیٹ سے پیدا ہو کہ خدا ہو سکتے ہیں تو پھر انز روئے قیاس حضرت مریم کے باقی بچے بھی خدائی صفات سے متصف ہونے چاہئیں.کیونکہ ایک یہ حم سے ایک سا نوع کی پیدائیش ہوتی ہے.یہ بات خلاف قیاس ہے کہ حضرت مریم کی اولاد میں سے ایک تو خدا ہو اور باقی ایسی اعزازہ سے محروم ہوں اور عام انسانوں کی طرح ہوں.حضرت سیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :- کیا یہ کن ہے کہ ایک ہی ماں یعنی مریم کے پیٹ میں سے پانچ بچے پیدا ہو کہ ایک بچہ خدا کا بیٹا بلکہ خدا بن گیا.اور چار باقی جو رہے ان بے چاروں کو خدائی سے کچھ بھی حصہ نہ ملا.بلکہ قیاس یہ چاہتا ہے کہ جب کسی مخلوق کے پیٹ سے خدا بھی پیدا ہو سکتا ہے.یہ نہیں کہ ہمیشہ آدمی سے آدمی اور گدھی سے گدھا پیدا ہو تو جہاں کہیں کسی عورت کے پیٹ سے خدا پیدا ہو تو پھر اس پیٹ سے کوئی مخلوق پیدا نہ ہو بلکہ جس قدر بیچتے جنگ مقدس صف روحانی خزائن جلد ؟
پیدا ہوتے جائیں وہ سب خدا ہی ہوں تاکہ وہ پاک رحم مخلوق کی شرکت سے منزہ ہے اور فقط خدائی ہی کے پیدا ہونے کی ایک کان ہو.پس قیاس متذکرہ بالا کی دو سے لازم تھا کہ حضرت مسیح کے دوسرے بھائی اور بہن بھی کچھ نہ کچھ خدائی میں سے بخره پاتے اور ان پانچوں حضرات کی والدہ تو رب الارباب ہی کہلاتی کیونکہ یہ پانچوں حضرات روحانی اور جسمانی قوتوں میں اسی سے فیضیاب ہیں " اے ك ساتویں دیل حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کے رد میں ایک دلیل یہ ہے کہ ان کی الوہیت کا عقیدہ عیسائیوں کے اپنے مسلمات کے خلاف جاتا ہے.عیسائی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مسیح خدا تھے.مکمل خدائی صفات سے متصف تھے اس کے ساتھ وہ یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ باپ اور روح القدس بھی مکمل خُدا تھے اور یہ سب مل کر ایک مکمل خدا بنتا ہے جس میں کسی قسم کی کوئی زیادتی یا فضیلت نہیں ہے.سوال یہ ہے کہ اگر تین وجودوں میں سے ہر ایک وجود کامل خدا ہے اور مکمل خدائی صفات کا مالک ہے تو لازمی طور پر ان کے ملنے سے ایک اکمل تر وجود بننا چاہیے.لیکن ایسا خیال مسیحی عقائد کے مطابق باطل ہے.اب اگر یہ مانا جائے کہ یہ تینوں خدا باہم مل کر ایک مکمل خدا بنتے ہیں تو پھر ان تینوں جو دوں میں سے ہر ایک کی الوہیت باطل ہو جاتی ہے.کیونکہ خدا کا وجود ہر قسم کے نقص یا کمی سے پاک ہے.پس ان تینوں کامل وجودوں سے باہم مل کر ایک کامل خدا بننے سے استدلال ہوتا ہے کہ مسیح اپنی ذات میں کامل خدا نہ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دلیل کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے.حضرات عیسائی صاحبان کا یہ عقیدہ ہے کہ باپ بھی کامل اور بیٹا بھی کامل - روح القدس بھی کامل.اب جب تینوں کامل ہوئے تو ان تینوں کے ملنے سے اکمل ہونا چاہیے کیونکہ مثلاً جب تین چیزیں ۲-۳ سیر فرض کی جائیں تو وہ سب مل کر 9 سیر ہوں گی.یہ ایک سخت اعتراض ہے جس سے قطعی طور پر حضرت مسیح کی الوہیت کا بطلان ہوتا ہے " ۲ ه: براہین احمدیہ حاشیه ص ۱۳ روحانی خزائن جلد 1 : : جنگ مقدس ص۱۱۲ روحانی خزائن جلد ۶ به
LAP آٹھوں دلیل عیسائی حضرات حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت ثابت کرنے کے لئے بعض اوقات یہ دلیل دیا کرتے ہیں کہ مسیح کی بن باپ پیدائش دلیل الوہیت ہے.حالانکہ اگر غور کیا جائے تو صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ الوہیت کی کوئی دلیل نہیں.اول تو یہ کوئی مقررہ معیار نہیں اور دوسرے اگر بن باپ پیدائش ہی دلیل الوہیت ہے تو ان سب وجودوں کو خدا ماننا پڑے گا.جو بن باپ پیدا ہوئے ہیں.گا.بائیل میں ملک صدق مثالیم کے متعلق لکھا ہے :- مدیہ ہے باپ ہے ماں، بے نسب نامہ ہے.نہ اس کی عمر کا شروع نہ زندگی کا آخر بلکہ خدا کے بیٹے سے مشابہ ٹھہرا ہے اب کیا مسیحی حضرات ملک صدق شالیم کو خدا تسلیم کرتے ہیں.ہر گز نہیں.سوال یہ ہے کہ اگر ہوگا بن باپ ولادت ہی دلیل انو ہمیت ہے تو پھر وہ شخص تو خدا سے بڑھ کر ہونا چاہیے جو بغیر ماں باپ کے پیدا ہوتا ہے.اس دلیل کے رد میں قرآن مجید نے جو مثال پیش فرمائی ہے وہ حضرت آدم علیہ السلام کی ہے جن کی ماں باپ کے بغیر پیدائیش عیسائیوں کو بھی مسلم ہے.حضرت مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں :- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیسائیوں نے حضرت عیسی کی خصوصیات کے بارہ میں صرف ایک بات پیش کی تھی کہ وہ بغیر باپ پیدا ہوا ہے تو خدا تعالیٰ نے فی الفور پیش اس کا جواب دیا اور فرمایا.ان مثل عیسی عند الله كمثل آدم خلقه من ترابِ ثم قال له كن فيكون - یعنی خدا تعالی کے نزدیک عیسی کی مثال آدم کی مثال ہے.خدا نے اس کو مٹی سے بنایا پھر کہا کہ ہو جا.پس وہ زندہ جیتا جاگتا ہو گیا.یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کا بے باپ ہونا کوئی امر خاص اس کے لئے تا.نہیں تا خدا ہونا اس کا لازم آوے.آدم کے باپ اور ماں دونوں نہیں یہ ہے نیز فرمایا : قرآن شریف میں حضرت عیسی کا بغیر باپ پیدا ہونا رجب سے ان کی خدائی پر دلیل پیش کی جاتی تھی، یہ کہہ کر رد کیا کہ ان مثل عیسی عند الله كمثل آدم خلقه ے عبرانیوں ہے شه - ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم حث ۳ - روحانی خزائن جلد ۲۱ : 1
IAN من تراب ثم قال له كن فيكون " لم حضرت آدم علیہ السلام کی مثال کے ضمن میں آیت قرآنی ان مثل عیسی عند الله كمثل آدم خلقه من تراب ثم قال له کن فیکون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور نے یہ بھی فرمایا کہ:- یاد رہے کہ خدا نے بے باپ پیدا ہونے میں حضرت آدم سے حضرت مسیح کو مشابہت دی ہے اور یہ بات کہ کسی دوسر سے انسان سے کیوں مشابہت نہیں دی یہ محض اس غرض سے ہے کہ تا ایک مشہور متعارف نظیر پیش کی بجائے کیونکہ عیسائیوں کو یہ دعویٰ تھا کہ بے باپ پیدا ہونا حضرت مسیح کا خاصہ ہے اور یہ خدائی کی دلیل ہے.پس خدا نے اس حجت کو توڑنے کے لئے وہ نظیر پیش کی جو عیسائیوں کے نزدیک مسلم اور مقبول ہے" سے پھر صرف حضرت آدم کی ایک مثال پر بس نہیں بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ روزانہ ہزار ہا کیڑ سے بغیر ماں باپ کے پیدا ہوتے ہیں اگر یہی امر دلیل الوہیت ہے تو یہ کیڑے مکوڑے خدا کیوں نہیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان ہر دو امور کے متعلق فرماتے ہیں :- " عیسی کی مثال آدم کی مثالی ہے خدا نے اس کو مٹی سے پیدا کیا پھر اس کو کہا کہ ہو جا سو وہ ہو گیا.ایسا ہی عیسی بن مریم - مریم کے خون سے اور مریم کی منی سے پیدا ہوا اور پھر خدا نے کہا کہ ہو جا سو ہو گیا.پس اپنی بات میں کونسی خدائی اور کونسی خصوصیت اس میں پیدا ہو گئی.موسم برسات میں ہزار ہا کیڑے مکوڑے بغیر ماں اور باپ کے خود بخود زمین سے پیدا ہو جاتے ہیں کوئی انہیں خدا نہیں ٹھہراتا.کوئی انکی پرستش نہیں کرتا.کوئی ان کے آگے سر نہیں جھکاتا.پھر خواہ مخواہ حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت اتنا شور کرنا اگر جہالت نہیں تو اور کیا ہے ؟" سے نیز فرمایا : اور مسیح کا بن باپ پیدا ہونا میری نگاہ میں کچھ جو یہ بات نہیں حضرت آدم ماں باپ دونوں نہیں رکھتے تھے اب قریب ہر سات آتی ہے ضرور باہر جا کہ دیکھیں کہ کتنے کیڑے مکوڑ سے بغیر ماں باپ کے پیدا ہو جاتے ہیں.پس اس سے مسیح کی خدائی کا به : حقیقة الوحی ص روحانی خزائن جلد ۲۲ سے : - تحفہ گولی و یه ص حاشیہ روحانی خزائن جلد ۱۷ براہین احمدیة حصد پنجم نشناه ، روحانی خزائن جلد ۲۱ =
IAA ثبوت نکالنا صرف غلطی ہے.لہ پس ثابت ہوا کہ بن باپ ولادت ہر گز الوہیت کی دلیل نہیں ہے.اس استدلال کے ضمن میں حضور نے ایک اور لطیف نکتہ یہ بیان فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت يحيی علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر ایک ہی جگہ کیا ہے تا یہ بتایا جائے کہ جیسے حضرت محلی علیہ السلام خدار انہیں اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام بھی خدا نہ تھے.آپ فرماتے ہیں :- ایسا ہی حضرت مسیح کی پیدائش بھی کوئی ایسا امر نہیں ہے جس سے ان کی خدائی مستنبط ہو سکے.اس دھو کر کے دُور کرنے کے لئے قرآن شریف اور انجیل میں حضرت عیسیٰ اور حضرت یحی کی ولادت کا قصہ ایک ہی جگہ بیان کیا گیا ہے تا پڑھنے والا سمجھ لے کہ دونوں لاد تمیں اگرچہ بطور خارق عادت ہیں لیکن ان سے کوئی خدا نہیں بن سکتا.ورنہ چاہیے کہ بیٹی بھی جس کا عیسائی یوحنا نام رکھتے ہیں خُدا ہو ؟ لے نوی دلیل ابطال الوہیت مسیح پر نویں دلیل یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام میں خدائی صفات نہیں پائی جائیں.یہ الوہیت میسج کے خلاف ایک بہت ہی اہم اور وزنی دلیل ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی متعدد کتب میں تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے.استدلال یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام واقعی خدا تھے تو ان میں وہ صفات بھی ضرور ہوتی چاہئیں جو ایک خدا کی صفات ہیں لیکن بائبل اورنہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام میں یہ صفات موجود نہیں تھیں پس ان کی الوہیت کا خیال باطل ہے.کیا کوئی ایسا وجود بھی خدا کہلانے کا مستحق ہے جس میں خدائی صفات ہی نہ پائی جاتی ہوں.ہر گز نہیں.پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح علیہ اسلام ہرگز خدا نہ تھے.اس دلیل کی تفصیل یہ ہے کہ انجیل سے جس قدر صفات خدا کی ثابت ہوتی ہیں ان میں سے کوئی بھی حضرت مسیح میں پائی نہیں جاتی.مثلاً.اللہ تعالیٰ کی ایک صفت قادر مطلق ہونا ہے.کرنتھیوں پر سے اس کا استدلال ہوتا ہے لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کی ساری زندگی گواہ ہے کہ وہ ہر گز قادر مطلق نہ تھے بلکہ ایک ضعیف اور کمزور انسان تھے جو ساری عمر : - جنگ مقدس خش روحانی خزائن جلد : هر نسیم دعوت ما تا روحانی خزائن جلد ۹۱۹ ار همدان با ج
مشکلات برداشت کرتے رہے اور دُکھ اُٹھاتے رہے اور عیسائی عقیدہ کے مطابق ان کا انجام یہ ہوا کہ لوگوں نے پکڑ کر ان کو صلیب پر لٹکا کر مار دیا.انجیل کی متعدد آیات سے بھی مسیح علیہ السلام کے قادر مطلق ہونے کی نفی ہوتی ہے مثلاً حضرت سیح علیہ السلام کا اپنا اقرا یہ ہے کہ.میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا.جیسا سنتا ہوں عدالت کرتا ہوں اور میری عدالت راست ہے کیونکہ میں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں.نے پھر ان کے بارہ میں لکھا ہے :- اور وہ کوئی معجزہ وہاں نہ دکھا سکا سوا اس کے کہ تھوڑے سے بیماروں پر ہاتھ رکھ کرا نہیں اچھا کر دیا ہے نہ وہاں وہ کمزوری کے بعد سے صلیب دیا گیا لیکن خدا کی قدرت کے سبد سے زندہ ہے.سے N ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ہرگز قادر مطلق نہ تھے.۲.پھر خدا کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ خود کسی اور سے دُعا نہیں مانگا کرتا بلکہ دوسرے لوگ اکسی محتاج ہوتے ہیں اور اسے دعائیں مانگتے ہیں.خدا کی شان یہ ہے کہ وہ اوروں کی دعائیں قبول کرتا ہے.لکھا ہے :.کر " خداوند شریروں سے دُور ہے پر وہ صادقوں کی دُعا سنتا ہے " ست لیکن حضرت مسیح علیہ السلام میں یہ صفت موجود نہ تھی.نیک لوگوں کی دعائیں قبول کرنے کا کیا سوال وہ تو خود دعائیں کرتے تھے اور قبولیت کے خواستگار ہوتے تھے.لکھا ہے :- " وہ جنگلوں میں الگ جا کر دعا مانگا کرتا تھا اے تے کہ اس نے اپنی بشریت کسے دنوں میں زور زور سے پکار کو اور آنسو بہا بہا کہ اس سے دعائیں اور التجائیں کیں جو اس کو موت سے بچا سکتا تھا.اور خدا ترسی کے سبب.اس کی سنی گئی ہے پھر وہ سخت پریشانی میں مبتلا ہو کہ اور بھی دلسوزی سے دعا مانگنے لگا اور اس کا پسینہ گویا خون کی بڑی بڑی بوندیں ہو کہ زمین پر ٹپکتا تھا یا شہ : یوحنا ب : - -:- مرقس : ته -: - کرنتھیوں ہا: ہے :- امثال : : لو قاعات : :- عبرانیوں % :: لو قام " :
IAL.- پھر اللّہ تعالیٰ کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ علم غیب رکھتا ہے.اور کوئی چیز اس کے احاطہ علم سے کی باہر نہیں ہوتی.لکھا ہے :- و تو ہاں تو ہی اکیلا سار سے بنی آدم کے دلوں کو جانتا ہے ا سکے لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کی یہ صورت نہ تھی.انجیل میں وارد ہے :- لیکن اس دن یا اسی گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹیا مگر باپ.ملے " جب صبح کو پھر شہر میں جاتا تھا تو اسے بھوک لگی اور انجیر کا ایک درخت راہ کے کنار سے دیکھ کر اس کے پاس گیا اور پتوں کے سوا اس میں کچھ نہ پا کر اسے کہا کہ آئندہ تجھ میں کبھی پھل نہ لگے اور انجیر کا درخت اسی دم سوکھ گیا " سے اس حوالہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح کو بھوک بھی لگا کرتی تھی جوشان الوہیت کے سراسر منافی ہے.- خدا کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ مخلوقات سے بالا تر ہے اور کوئی اور ہستی اس قابل نہیں ہوسکتی کہ خدا کی آزمائش کرے.یعقوب رسول کا قول ہے :- نہ تو خدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے یا شے لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کے بارہ میں انجیل کا بیان ہے کہ :.اور چالیس دن تک روح کی ہدایت سے بیابان میں پھرتا رہا اور ابلیس اُسے آزما تا رہا.....جب ابلیس تمام آن مائشیں کر چکا تو کچھ عرصہ کے لئے اس سے جُدا ہوا" شد ۵ - خدا کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ سوتا نہیں ہے.قرآن مجید نے فرمایا ہے : لا تَأخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْم ** اثرہ سر نہ بور میں آتا ہے :- " وہ جو تیرا حافظ ہے نہ اُونگھے گا.دیکھ وہ جو اسرائیل کا محافظ ہے ہر گز نہ ویکھے ہرگزنہ گا اورہ نہ سوئے گا " نے لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کے بارہ میں ثابت ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ سویا کرتے تھے بلکہ بڑی گہری نیند سوتے تھے کہا ہے kt سے ه: سلاطین : : - مرقس : ۱۹ - متی : قول نمبر : شو: لوقا کہ : :- زبور - مرقس : شه: شما -
AA علاوہ انہیں اس قسم کی بشریت کی سب باتیں ان کے ساتھ تھیں.4 - خدا کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ بے مثل و مانند ہے.کوئی اور ہستی اس کی ذات و صفات ہیں شریک نہیں ہے لیکن حضرت مسیح علیہ السلام نے ساری زندگی عام انسانوں کی طرح بسر کی.ان کو بھی تکالیف اور مشکلات پیش آتی رہیں وہ خود کہتے ہیں :- لو مڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر ابن آدم کے لئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں" اے پس واضح ہے کہ حضرت مسیح کو عام انسانوں کے مقابلہ پر کوئی امتیازی شان حاصل نہ تھی.- خدا کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ خدا ہی سب بزرگیوں کا مالک اور مبدا ہے.ہر نیکی اور ہر خوبی اس کو سزاوار ہے.لیکن حضرت مسیح علیہ السلام اپنے بارہ میں اس صفت کا صاف انکار کر تے ہیں.جب ان کو کسی نے نیک کہا تو انجیل میں لکھا ہے کہ :- یسوع نے اسے کہا تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے ؟ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا " کے.خدا کی ایک شان یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کہ لیتا ہے کوئی اس کے ارادہ کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتا.قرآن مجید میں بھی آیا ہے.واللہ غالب علی امرہ لیکن حضرت مسیح علیہ السلام نے بار بار اپنے بجز اور کمزوری کا اقرار کیا ہے.ان کے متعلق لکھا ہے :." پھر تھوڑا آگے بڑھا اور منہ کے بل گیہ کہ یہ دعا مانگی.اسے میرے باپ ! اگر ہوسکے تو یہ پیالہ مجھ سے مل جائے ا سے ا ۹ - خدا تعالی کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ کبھی مرا نہیں کرتا حی لا یموت خدا کی صفت ہے.انجیل میں لکھا ہے :- " بقاء صرف اسی کو ہے " سے لیکن عیسائی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح مر گیا تھا.لکھا ہے :- " جب ہم کمزور ہی تھے تو عین وقت پر مسیح بے دینوں کی خاطر مدا " شے ۱۰.اس کے نجات پانے کا کیا سوال.اس کی شان تو یہ ہے کہ وہ انسانوں کو نجات دیتا اور ہلاکتوں سے بچاتا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ حال ہے کہ وہ دوسروں کو مصیبتوں سے کیا چھڑاتے لوقا -::- رومیوں : - مرقس : - متی ۲ ۱۲- تمطاؤس 7 وشه
189 وہ تو خود ہلاکتوں میں پڑے رہے اور نجات کے طالب رہے.انجیل میں وارد ہے کہ حضرت مسیح نے کہا :- " اب میری جان گھبراتی ہے پس میں کیا کہوں ؟ اسے باپ مجھے اس گھڑی سے بچا لے اللہ تعالیٰ کی صفات تو بہت زیادہ ہیں لیکن میں نے بطور نمونہ مندرجہ بالا ۱۰ صفات انتخاب کی ہیں ان دس صفات پر اور ان کے مقابل پر حضرت مسیح علیہ السلام کی حالت پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام میں ان صفات میں سے کوئی ایک صفت بھی نہیں پائی جاتی.پس جب حضرت مسیح علیہ السلام کا وجود خدائی صفات اپنے اندر نہیں رکھتا تو ان کو بلا وجہ تحکم کے طور پر خدا بنا ناصریح ظلم اور زیادتی نہیں تو اور کیا ہے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دلیل کو بار بار اپنی کتابوں میں بیان فرمایا ہے کہ مسیح علیہ السلام میں خدائی کی کوئی صفت بھی تو پائی نہیں جاتی.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں : - " مسیح کے حالات کو پڑھو تو صاف معلوم ہوگا کہ یہ شخص کبھی اس قابل نہیں ہو سکتا کہ نبی بھی ہو چہ جائیکہ خدایا خدا کا بیٹا " سے اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارات میں مختلف صفات کا ذکر اس طرح آپس میں ملا ہوا ہے کہ ہر صفت کا الگ الگ جائیزہ لینا بہت مشکل ہے اس لیئے ہیں اس دلیل کے ضمن میں حضور علیہ السلام کے سب حوالہ جات اکٹھے ہی پیش کر دیتا ہوں حضور فرماتے ہیں:.(۱) ایک عاجز انسان جو اپنے نفس کی مدد بھی نہ کر سکا اس کو خدا بھرا یا گیا اور اسی کو خالق السموات والارض سمجھا گیا.دنیا کی بادشاہت جو آج ہے اور کل نابود ہو سکتی ہے اس کے ساتھ ذلت جمع نہیں ہو سکتی پھر خدا کی حقیقی بادشاہی کے ساتھ اتنی ذلتیں کیوں جمع ہو گئیں کہ وہ قید میں ڈالا گیا.اس کو کوڑے لگے اور اس کے منہ پر تھوکا گیا اور آخر بقول عیسائیوں کے ایک لعنتی موت اس کے حصّہ میں آئی.جب کسے بغیر وہ اپنے بندوں کو نجات نہیں دے سکتا تھا.کیا ایسے کمزور خُدا پر کچھ بھروسہ ہو سکتا ہے اور کیا خُدا ایک فانی انسان کی طرح مرجاتا ہے پھر صرف جان نہیں بلکہ اس کی عصمت اور اس کی ماں کی عصمت پر بھی یہودیوں نے ناپاک تہمتیں لگائیں اور کچھ بھی اس خدا سے نہ ہو سکا کہ نہ بر دست طاقتیں دکھلا :- : سے: ملفوظات جلد سوم و.-: یوحنا :
۱۹۰ کہ اپنی بریت ظاہر کرتا.پس ایسے خدا کا مانا عقل تجویز نہیں کر سکتی جو خود مصیبت زدہ ہونے کی حالت میں مر گیا اور یہودیوں کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکا یہ لے کا یہ (۲) " کیا یہ بات عند العقل قبول کرنے کے لائق ہے کہ ایک عاجز مخلوق جو تمام لوازم انسانیت کے اپنے اندر رکھتا ہے خدا کہلاو سے ؟ کیا عقل اس بات کو مان سکتی ہے کہ مخلوق اپنے خالق کو کوڑے مار سے اور خدا کے بند سے اپنے قادر خدا کے عنہ پر تھوکیں اور اس کو پکڑیں اور اس کو سولی دیں اور وہ خدا ہو کر ان کے مقابلہ سے عاجز ہو ؟ کیا یہ بات کسی کو سمجھ آسکتی ہے کہ ایک شخص خدا کہلا کر تمام رات دُعا کر سے اور پھر اس کی دُعا قبول نہ ہو ؟ کیا کوئی دل اس بات پر اطمینان پکڑ سکتا ہے کہ خدا بھی عاجز بچوں کی طرح نو مہینے تک پیٹ میں رہے اور خون حیض کھا د سے اور آخر چیختا ہوا عورتوں کی شرمگاہ سے پیدا ہو ؟ کیا کوئی عقلمند اس بات کو مسبول کر سکتا ہے کہ خدا بے شمار اور ہے ابتداء زمانہ کے بعد مجسم ہو جائے اور ایک ٹکڑا اس کا انسان کی صورت بنے اور دوسرا کبوتر کی اور یہ جسم ہمیشہ کے لئے ان کے گلے کا ہار ہو جائے " سے (٣) نهم قد آمنوبان عیسی علیه السّلام كان يا كل الطعام ويشرب الماء وربما ابتلى بامراض واوجاع وريما غلب عليه الهم والخوف والقلق والكرب والجوع والعطش وكان لا يعلم الغيب وكان يقول انى عبد ليس فى نفسى خير إلا بتوفيق الله - وانه اخذ وصلب و مات وهو مع ذالك فى زعمهم الله وابن اله قاتلهم الله الهم يعتقدون بانه انسان ونبي فيه سهور خطا و ضعف وجهل وأخذه الموت ولا يبرونه من ضعف وذهول ونسيان ثم يقولون إنّه هو الله فتحسًا لقوم کاندین له ALWAY حقیقة الوحی منت - روحانی خزائن جلد ۲۲ : : - کتاب البرية مشته رحانی خزائن جلد ۱۳ : سه : - حمامة البشرى هد؟ حاشیه - روحانی خزائن جلد 4
141 ترجمہ : یہ عیسائی لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ علی علیہ السلام کھانا کھاتے تھے پانی پیتے تھے اور کبھی امراض اور دردوں میں بھی مبتلا ہوتے تھے.کبھی ان پر یشم، افسوس دکھ اور تکلیف ، بھوک اور پیاس غالب آجایا کرتی تھی.ان کو غیب کا علم نہ تھا اور وہ خود کہتے تھے کہ میں خدا کا ایک کمزور بندہ ہوں.میرے نفس میں خدا کے فضل کے بغیر کوئی بھلائی نہیں اور پھر وہ ران کے اعتقاد کے مطابق ) پکڑا گیا.صلیب دیا گیا اور صلیب پر مر گیا لیکن ان ساری باتوں کے باوجود ان کے خیال میں وہ خدا ہے یا خدا کا بیٹا ہے.اللہ ان کو سمجھ عطا کرے.ایک طرف تو وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ انسان تھا.ایک نبی تھا پھر اس پر موت آگئی ، وہ اس کو کمزوری غفلت اور بھول چوک سے بری فرار نہیں دیتے لیکن اس کے باوجود وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ خدا ہے.اس کا فر قوم پر حد درجہ افسوس ہے.یہ کیسی جہالت کی بات کر تے ہیں ).(۴) کیا عقل سلیم اس بات کو قبول کر لے گی کہ ایک مرنے والا اور خود کمزور کسی پہلو سے خدا بھی ہے.حاشا وکلا ہر گنہ نہیں بلکہ سچا خدا وہی خدا ہے......جس کو ان باتوں کی حاجت نہیں کہ کوئی اس کا بیٹا ہو اور خود کشی کمر سے تب لوگوں کو اس سے نجات ملے ہے.(0) اگر ابن مریم کے واقعات کو فضول اور بے ہودہ تعریفوں سے الگ کر لیا جائے تو انجیلوں سے اسکی واقعی حالات کا یہی خلاصہ نکلتا ہے کہ وہ ایک عاجز اور ضعیف اور ناقص بندہ یعنی جیسے کہ بند سے ہوا کرتے ہیں اور حضرت موسیٰ کے ماتحت نبیوں میں سے ایک نبی تھا اور اس بزرگ اور عظیم الشان رسول کا ایک تابع او ریپس رو تھا اور خود اس بزرگی کو ہر گتہ نہیں پہنچا تھا یعنی اس کی تعلیم ایک اعلی تعلیم کی فرع تھی مستقل تعلیم نہ تھی اور وہ خود انجیلوں میں اقرار کہتا ہے کہ میں نہ نیک ہوں نہ عالم نصیب ہوں نہ قادر ہوئی بلکہ ایک بندہ عاجز ہوں اور انجیل کے بیان سے ظاہر ہے کہ اس نے گرفتار ہونے سے پہلے کئی دفعہ رات کے وقت اپنے بچاؤ کے لئے دُعا کی اور چاہتا تھا کہ دعا اس کی قبول ہو جائے مگر اس کی وہ دعا قبول نہ ہوئی اور نیز جیسے : نور القرآن ما حاشیه جنت - روحانی خزائن جلد ؟ :
۱۹۲ عاجز بند سے آزمائے جاتے ہیں.وہ شیطان سے آن مایا گیا.پس اس سے ظاہر ہے کہ وہ ہر طرح عاجزہ ہی عاجز تھا.مخرج معلوم کی راہ سے چوپلیدی اور ناپاکی کا میرزہ ہے تولد یا کہ مدت تک بھوک اور پیاس اور درد اور بیماری کا دکھ اٹھا تارہا.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ بھوک کے دکھ سے ایک انجیر کے نیچے گیا مگر چونکہ انجیر پھلوں سے خالی پڑی ہوئی تھی.اس لئے محروم رہا اور یہ بھی نہ ہو سکا کہ دو چار انجیریں اپنے کھانے کے لئے پیدا کر لیتا غرض ایک مدت تک ایسی ایسی آلودگیوں میں رہ کہہ اور ایسے ایسے دکھ اٹھا کر باقرار عیسائیوں کے مرگیا اور اس جہاں سے اُٹھایا گیا.اب ہم پوچھتے ہیں کہ کیا خداوند قادر سلق کی ذات میں ایسی ہی صفات نا قصہ ہونی چاہئیں.؟ کیا وہ اسی سے فروسی اور ذوالجلال کہلاتا ہے کہ وہ ایسے عیبوں اور نقصانوں سے بھرا ہوا (4) افسوس عیسائیوں نے بہت سی جعلسازیاں تو کیں مگر یہ جعلسازی نہ سوجھی کہ مسیح کو بھی منہ کے راستہ سے ہی پیدا کر تھے اور اپنے خدا کو پیشاب اور پلیدی سے بچاتے اور نہ یہ سوجھی کہ موت جو حقیقت الوہیت سے بکلی منافی ہے اس پر وارد نہ کر تے اور نہ یہ خیال آیا کہ جہاں مریم کے بیٹے نے انجیلوں میں اقرار کیا ہے کہ میں نہ نیک ہوں اور نہ دانا مطلق ہوں نہ خود بخود آیا ہوں نہ عالم الغیب ہوں نہ فائر ہوں نہ دعا کی قبولیت میرے ہاتھ میں ہے.لیکن صرف ایک عاجز بندہ اور مسکین آدم زاد ہوں کہ جو ایک مالک رب العالمین کا بھیجا ہوا آیا ہوں ان سب مقاموں کو انجیل سے نکال ڈالنا چاہیے " سے + (<) کیا کوئی کانشنس یا نور قلب اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ ایک عاجز انسان جو گذشتہ نبیوں سے بڑھو کہ ایک ذرہ بھر کوئی کام دکھلا نہ سکا.بلکہ ذلیل ہو دیوں سے ماریں کھانا رہا.وہی خدا اور وہی زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا اور مجرموں کو سزا دینے والا ہے اور کیا کوئی منتقل قبول کر سکتی ہے کہ خدائے قادر باوجود اپنی بے انتہا طاقتوں کے کسی برا این احمدیه هاشیه ۴۳۲۲۳ روحانی خزائن جلد : ت: بر این احمد یه حاشیه ها روحانی خزائن جلد :
۱۹۳ دوسرے کی مدد کا محتاج رہے.ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ عیسی کے ساتھ خدا تھا کہ جو اپنی مخلصی کے لئے تمام رات رو رو کر دعا کرتا رہا.تعجب کہ جب تینوں خدا اس کے اندر تھے تو وہ چوتھا خدا کون تھا جس کی جناب میں اس نے رو رو کر ساری رات دُعا کی اور پھر وہ دعا قبول بھی نہ ہوئی.ایسے خدا پر کیا اُمید رکھی جائے جس پر ذلیل یہودی غالب آئے اور اس کا پیچھا نہ چھوڑا جب تک سولی پر نہ چڑھا دیا " سے (^) " تدبیر عالم اور جز اسرا کے لئے عالم الغیب ہونا ضروری ہے اور یہ خدا کی عظیم الشان یہ الہ صفت ہے مگر.....اسے قیامت تک کا علم نہیں اور اتنی بھی اسے خبرنہ بھتی کہ ہے موسم انجیر کے درخت کے پاس شدت بھوک سے بے قرالہ ہو کہ پھل کھانے کو جاتا ہے اور درخت کو جسے بذات خود کوئی اختیار نہیں ہے کہ بغیر موسم کے بھی پھیل دے سکے بد دعا دیتا ہے.اول تو خدا کو بھوک لگنا ہی تعجب خیز امر ہے اور یہ خوبی صرف انجیلی خدا ہی کو حاصل ہے کہ بھوک سے بے قرار ہوتا ہے پھر اس پر لطیفہ یہ بھی ہے کہ آپ کو اتنا علم بھی نہیں ہے کہ اس درخت کو پھل نہیں ہے.اور پھر اگر یہ عل نہ تھا.تو کاش کوئی خدائی کرشمہ ہی وہاں دکھاتے اور بے بہار سے پھل اس درخت کو لگا دیتے تا دنیا کے لئے ایک نشان ہو جاتا مگر اس کی بجائے بد دعا دیتے ہیں.اب ان ساری باتوں کے ہوتے یسوع کو خدا بنایا جاتا ہے ؟ (4) " خدائی کے لئے تو وہ جبروت اور جلال چاہیے جو ہنڈا کے حسب حال ہے لیکن سبوع اپنی عاجزی اور ناتوانی میں ضرب المثل ہے.یہاں تک کہ ہوائی پرندوں اور لومڑیوں سے بھی اوئی درجہ پر اپنے آپ کو رکھتا ہے اب کوئی بتائے کہ کس بناء پر اسکی خدائی تسلیم کی جا دئے ہے (1.) عجیب ہے کہ حضرت مسیح علیہ اسلام نے انسانیت کی کمزوریاں تو بہت دکھلائیں اور خدائی کی کوئی خاص قوت ظاہر نہ ہوئی.جو غیر سے ان کو امتیاز دیتی.تاہم وہ سیمیوں کی نظر میں خدا کر کے مانے گئے " ہے : حقیقة الوحی حاشیه مشتها روحانی خزائن جلد ۲۲ : محفوظات جلد سوم ص۳۲ : : - ه: ملفوظات جلد سوم ص۱۳ لیکچر لاہور ص زمانی خزائن جلد ۶۲۰
۱۹۴ (H) مسیح جس کو خدا بنایا جاتا ہے اس کی تو کچھ پوچھو ہی نہیں.ساری عمر پکڑ دھکڑ میں گذری اور ابن آدم کو سر دھرنے کی جگہ ہی نہ ملی.اخلاق کا کوئی کامل نمونہ ہی موجود نہیں.تعلیم ایسی ادھوری اور غیر مستعفی کہ اس پر عمل کر کے انسان بہت نیچے جا گرتا ہے.وہ کسی دوسرے کو اقتدار و عزت کیا دے سکتا ہے جو اپنی بے بسی کا خود شاکی ہے.اوروں کی کیا نشن سکتا ہے.جس کی اپنی ساری رات کی گریہ وزاری اکارت گئی اور چلا چلا کر امیلی ایلی لما سبقتانی بھی کہا مگر شنوائی ہی نہ ہوئی اور پھر اس پر طرہ یہ کہ آخر یہودیوں نے پکڑ کر صلیب پر لٹکا دیا اور اپنے اعتقاد کے موافق ملعون قرالہ دیا " نے و مسیح کی زندگی کے حالات پڑھو تو صاف معلوم ہوگا کہ وہ خدا نہیں ہے اس کو اپنی زندگی میں کسی قدر کو نہیں اور کلفتیں اُٹھانی پڑیں اور دعما کی عدم قبولیت کا کیسا بڑا نمونہ اس کی زندگی میں دکھایا گیا تھا.خصوصا باغ والی دعا جو ایسے اضطراب کی دعا ہے وہ بھی قبول نہ ہوئی اور وہ پیالہ ٹل نہ سکا یا ہے (۱۳) عیسائی مذہب توحید سے تہی دست اور محروم ہے.بلکہ ان لوگوں نے سچے خدا سے منہ پھیر کہ ایک نیا خدا اپنے لئے بنایا ہے جو ایک اسرائیلی عورت کا بیٹا ہے مگر کیا یہ نیا خدا ان کا قادر ہے جیسا کہ اصلی خدا قادر ہے.اس بات کے فیصلہ کے لئے خود اسکی سرگزشت گواہ ہے کیونکہ اگر وہ قادر ہوتا تو یہودیوں کے ہاتھ سے ماریں نہ کھاتا.رومی سلطنت کی حوالات میں نہ دیا جاتا.اور صلیب پر کھینچانہ جانا اور جب یہودیوں نے کہا تھا کہ صلیب پر سے خود بخود اترا تو ہم ابھی ایمان سے آئیں گے اسی وقت اتر آتا لیکن اس نے کسی موقع پر اپنی قدرت نہیں دکھلائی " سے (۱۴) " حضرات پادری صاحبان بھی اپنے خدا کو قادر نہیں سمجھتے کیونکہ ان کا خدا اپنے مخالفوں ہے.ملفوظات جلد اول ص ۳۳ : : نسیم دعوت حث روحانی خزائن جلد ۱۷ کے ملفوظات جلد ششم ص
۱۹۵ کے ہاتھوں سے ماریں کھاتا رہا زنداں میں داخل کیا گیا کوڑے لگے صلیب پر کھینچا گیا.اگر وہ قادر ہوتا تو اتنی ذلیکی با وجود خدا ہونے کے ہر گنہ نہ اٹھاتا اور نہ اگر وہ قادر ہوتا تو اس کے لئے کیا ضرورت تھی کہ اپنے بندوں کو نجات دینے کے لئے یہ تجویز سوچتا کہ آپ کر جائے اور اس طریق سے بند سے رہائی پاویں.جو شخص خدا ہو کہ تین دن تک مرا ر ہا اسکی قدرت کا نام لینا ہی قابل شرم بات ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ خدا تو تین دن تک مرارہا لیکن اس کے بند سے تین دن تک بغیر خدا کے ہی جیتے رہے.لہ (۱۵) " متفق علیہ عقیدہ دنیا میں یہی ہے کہ خدا موت اور تو تداور بھوک اور پیاس اور نادانی اور عجز یعنی عدم قدرت اور تختم اور تحیر سے پاک ہے مگر یسوع ان میں سے کسی بات سے بھی پاک نہ تھا.اگر یسوع میں خدا کی روح تھی تو وہ کیوں کہتا ہے کہ مجھے قیامت ا کی خبر نہیں".اور اگر اس کی روح میں جو بقول عیسائیاں اقنوم ثانی سے عینیت رکھتی تھی.خدائی پاکیزگی تھی تو وہ کیوں کہتا ہے کہ " مجھے نیک نہ کہو".اور اگر اس میں قدرت " تھی تو کیوں اس کی تمام رات کی دعا قبول نہ ہوئی.اور کیوں اس کا اس نامرادی کے کلمہ پر کی خاتمہ ہوا.کہ اس نے ایلی ایلی لما سبقتنی" کہتے ہوئے جان دی ۲ (19)." پھر کہتے ہیں کہ اس وقت ان کی روح انسانی تھی.نہ روح الوہیت.ہم پھر پوچھتے ہیں کہ بھلا ان کی روح اگر انسانی تھی تو اس وقت ان کی الوہیت کی روح کہاں تھی ؟ کیا وہ آرام کرتی تھی اور خواب غفلت میں غرق نوم تھی ؟ خود بے چارے نے بڑے درد اور رقت کے ساتھ چلا چلا کہ دعا کی.حواریوں سے دعا کرائی مگر سب بے فائدہ تھیں.وہاں ایک بھی نہ سنی گئی.آخر کا ر خدا صاحب یہودیوں کے ہاتھ سے ملک عدم کو پہنچے.کیسے قابل شرم اور افسوس ہیں ایسے خیالات سے 11 (14) علم روح کی صفات میں سے ہے نہ جسم کی صفات میں سے.اگر ان میں اللہ تعالے کی ه چشمه سیحی ، روحانی خزائن جلد ۲۰ سه : کتاب البر به من روحانی خسته ائن جلد ۱۳ : - سه : ملفوظات جلد پنجم بست
۱۹۶ روح تھی اور یہ خود اللہ تعالیٰ ہی تھے توں علمی کے اقرار کی کیا وجہ.کیا خدا تعالیٰ بعد علم کے نادان بھی ہو جایا کرتا ہے.پھر متی ۱۹ باب ۱۶ میں لکھا ہے " دیکھو ایک ، نے آکے اسے دیعنی سیح سے ) کہا.اسے نیک استاد میں کونسا نیک کام کروں کہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں.استنی اسے کہا تو کیوں مجھے نیک کہتا ہے.نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا پچھڑتی ۲۰۰ میں لکھا ہے کہ نہ بدی کے بیٹوں کی ماں نے اپنے بیٹوں کے حضرت مسیح کے دائیں بائیں بیٹھنے کی درخواست کی تو فرمایا اس میں میرا اختیار نہیں.اب فرمائیے قادر مطلق ہونا کہاں گیا.قادر مطلق بھی کبھی بے اختیار ہو جایا کرتا ہے.اور جبکہ اس قدر تعارض صفات میں واقع ہو گیا کہ حضرات حواری تو آپ کو قادر مطلق خیال کرتے ہیں اور آپ قادر مطلق ہونے سے انکار کر رہے ہیں.تو ان پیش کردہ پیش گوئیوں کی کیا عزت اور کیا وقعت باقی رہی جکسی لئے یہ پیش کی جاتی ہیں.وہی انکار کرتا ہے کہ میں قادر مطلق نہیں.یہ خوب بات ہے پھرستی پر میں لکھا ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ مسیح نے تمام رات اپنے بیچنے کے لئے دعا کی اور نہایت غمگین اور دیگیر اور رہو رہو کہ الہ میل شانہ سے التماس کی کہ اگر ہوسکے تو یہ پیالہ مجھ سے گزر جائے.اور نہ صرف آپ بلکہ اپنے حواریوں سے بھی اپنے لئے دکھا کرائی.جیسے عام انسانوں میں جب کسی پر کوئی مصیبت پڑتی ہے اکثر مسجدوں وغیرہ میں اپنے لئے دعا کرایا کر تے ہیں.لیکن تعجب یہ کہ باوجود اس کے خواہ مخواہ قادر مطلق کی صفت ان پر تھوپی جاتی ہے اور ان کے کاموں کو اقتداری سمجھا جاتا ہے.مگر پھر بھی وہ دعا منظور نہ ہوئی.اور جو تقدیر میں لکھا تھا وہ ہو ہی گیا.اب دیکھو اگر وہ قادر مطلق ہوتے تو چاہیے تھا کہ یہ اقتدار اور یہ قدرت کاملہ پہلے ان کے اپنے نفس کے لئے کام آتا.جب اپنے نفس کے لئے کام نہ آیا تو غیروں کوان سے توقع رکھنا ایک طبع خام ہے ، عیسائی مذہب ہیں :- : * + (١٨) دنیا کو خدائی کا جو نمو نہ دیا گیا تھا وہ ایسا کمنز در اور ناتواں نکلا کہ تھپڑ کھائے ، پھانسی دیا گیا.اور دشمنوں کا کچھ نہ کر سکا.پس انہی باتوں سے وہ خدا کے بھی منکر ہو گئے ہیں.اور وہ لوگ بے چارے ہیں بھی معذورہ کیونکہ یہ سب امور فطرت انسانی کے بالکل خلاف پڑتے :- جنگ مقدس صله روحانی خزائن جلد ۶ :
194 ہیں.بھلا....ایسے کمزور و ناتواں خدا کے ماننے سے بجز ذلت و ادبار کی مار کے اور حاصل ہی کیا ؟ انہوں نے بھی فیصلہ کر لیا کہ ایسے خدا سے ہم یو نہی اچھے ہیں.یہ ان کا قصور نہیں بلکہ تعلیم کا قصور ہے “ نے (19) وكيف نظن ان عیسى هو الله وما قرأنا فلسفة يثبت منها ان رجلاً كان يأكل ويشرب ديبول ويتغوط وينام ويمرض ولا يعلم الغيب ولا يقدر على رفع الاعداء ودعاء لنفسه عند مصيبة مبتهلا متضرعًا من أول الليل إلى آخره نما اجيبت دعوته وما شاء الله ان يوافق ارادته بارادته وقادة الشيطان الى جبل ناتبعه فما استطاع ان يفارقه ومات قائلاً الى اعلى لما سبقتني ومع ذلك إله وابن الله - سبحانه ان هذا الا بهتان مبين " ترجمہ : ہم کس طرح یہ خیال کو سکتے ہیں کہ حضرت عیسی خدا ہیں ہم نے کوئی ایسا فلسفہ نہیں پڑھا کہ جس کی رو سے ثابت ہوتا ہو کہ ایک کھانا پینا انسان جو جو ائج بشریت اپنے ساتھ یہ کھتا ہے سوتا بھی ہے اور بیمار بھی ہوتا ہے علم غیب نہیں جانتا اور نہ دشمنوں کے مقابلہ کی طاقت رکھتا ہے اور مصیبت کے وارد ہونے پر شروع رات سے لے کر آخر رات تک انتہائی تفریح اور عاجزی سے دعا کرتا رہتا ہے.لیکن پھر بھی اس کا ارادہ خدائی ارادہ سے ہم آہنگ نہیں ہوتا اور نہ اس کی دنیا قبول ہوتی ہے.بشیطان اس کو پہاڑ پر لے جاتا ہے تو اس کے پیچھے پیچھے چل پڑتا ہے اور اتنی بھی طاقت نہیں رکھتا کہ اس کو چھوڑ دے اور انجام کار - ایلی ایلی لما سبقتنی کہتے ہوئے جان دے دیتا ہے.ان سب باتوں کے باوجود کوئی انسان خدا ہو سکتا ہے.یا خدا کا بیٹا ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ اس بہتان سے پاک ہے.(٢٠) " عیسائی عقیدہ کی رو سے خدا تعالٰی عالم الغیب نہیں ہے کیونکہ جس حالت میں حضرت :- ملفوظات جلد دہم ۲۲۵ ، ۲۲ : ذرالحق حصہ اول جنت - روحانی خزائن جلد : 2:
۱۹۸ عیسی کو خُدا قرار دیا گیا ہے اور وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ میں جو خدا کا بیٹا ہوں مجھے قیامت کا علم نہیں.پس اس سے بجز اس کے کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ خدا کو قیامت کا علم نہیں کہ کب آئے گی کیا ہے (M)) ان کی کمزوریاں گواہی دے رہی ہیں کہ وہ محض انسان تھے ؟ " (۲۳) " صاف ثابت ہو گیا کہ حضرت مسیح اپنے اقوال کے ذریعے اور اپنے افعال کے ذریعے اپنے تئیں عاجزہ ہی ٹھہراتے ہیں اور خدائی کی کوئی بھی صفت ان میں نہیں.ایک عاجز انسان ہیں.ہاں نبی اللہ بے شک ہیں.خدا کے سچے بیٹول ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سے (۳۳) J " پھر وہ اسیح.ناقل ) ابن اللہ کہا کہ قیامت کے وقت سے بھی بے خبر ہے.جیسا کہ مسیح کا اقرار انجیل میں موجود ہے کہ وہ با وجود ان اللہ ہونے کے نہیں جانتا کہ قیامت کب آئے گی.باوجود خُدا کہلانے کے قیامت کے علم سے بے خبر ہونا کس قدر بے ہودہ بات ہے بلکہ قیامت تو دُور ہے اس کو تو یہ خبر بھی نہ تھی کہ جس درخت انجیر کی طرف چلا اس سیر کوئی پھل نہیں " سے.(۲۴) عیسائیوں کے اس متناقض بیان کو کون سمجھ سکتا ہے.کہ ایک طرف تو یسوع کو خدا ٹھہرایا جاتا ہے پھر وہی خُدا کسی اور خدا کے آگے رو رو کر دعا کرتا ہے جبکہ تینوں خدا یسوع کے اندر ہی موجود تھے اور وہ ان سب کا مجموعہ تھا تو پھر اس نے کس کے آگے رو رو کر دعا کی اسی تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں کے نزدیک ان تین خداؤں کے علاوہ کوئی اور بھی زبر دست خدا ہے جو ان سے الگ اور ان پر حکمران ہے جس کے آگے تینوں خداؤں کو رونا پیٹا " شم : چشمه سیحی ده ریحانی خزائن جلد ۲۰ شهر لیکچر سیالکوٹ مت روحانی خزائن جلد ۲ که جنگ مقدس همه روحانی خزائن جلد چشمه سیحی حنا ش حقیقة الوحی ها روحانی خزائن جلد ۲۲ : هست
١٩٩ (۲۵) " خدا بھی اس کی تعلیم موجودہ کی رو سے وہ اصل خدا نہیں کہ جو ہمیشہ حدوث اور تولد اور تجسیم اور موت سے پاک تھا بلکہ انجیل کی تعلیم کی رو سے عیسائیوں کا خدا ایک نیا خدا ہے.یا وہی خدا ہے کہ جس پر بدقسمتی سے بہت سی مصیبتیں آئیں اور آخری حال اس کا پہلے حال سے کہ جو اندلی اور قدیم تھا بالکل بدل گیا اور ہمیشہ قیوم اور غیر مبتدی رہ کر آخه کار تمام قید میں اس کی خاک میں مل گئی " 1 (FM) " پھر ایک اور پہلو سے بھی مسیح کی خدائی کی پڑتال کرنی چاہئیے.....جب ایک وقت قابلہ آگئے تو اس قدر دُعا کی جس کی کوئی حد نہیں مگر افسوس سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ ساری رات کی دُعا عیسائیوں کے عقید سے کے مطابق بالکل تو ہو گئی.اور اس کا کوئی بھی نتیجہ نہ ہوا.اگر چہ خدا کی شان کے ہی یہ خلاف تھا کہ وہ دعا کر ہے.چاہیئے تو یہ تھا کہ اپنی اقتداری قوت کا کوئی کرشمہ اس وقت دکھا دیتے جس کی بے چار سے یہود اقرار او تسلیم کے سوا کوئی چارہ ہی نہ دیکھتے مگر یہاں اللہ الہ ہو رہا ہے، اور اد خود گم است کرا را می کند کا معاملہ نظر آتا ہے.دعائیں کرتے ہیں.چیختے ہیں.چلاتے ہیں مگر افسوس وہ دعائنی نہیں جاتی اور موت کا پیالہ جو صلیب کی لعنت کے زہر سے لبریز ہے نہیں ٹکتا.اب کوئی اس خدا سے کیا پائے گا جو خود مانگتا ہے اور اسے دیا نہیں جاتا.ایک طرف تو خود تعلیم دیتا ہے کہجو مانگو موملے گا.دوسری طرف خود اپنی ناکامی اور نامرادی کا نمونہ دکھاتا ہے.اب انصاف سے ہمیں کوئی بتائے کہ کسی پادری کو کیا تسکی اور اطمینان ایسے خدا ئے ناکام میں مل سکتا ہے ؟" سے ہے (۲۷۱ " یہ عیسائی بدنصیب اس امر کی طرف تو خیال نہیں کرتے کہ اول تو خدا اور اس کا مرنا یہ دونوں فقر سے آپس میں کیسے متضاد پڑسے معلوم ہوتے ہیں.جب ایک کان میں یہ آوازہ ہی پڑتی ہے تو وہ چونک پڑتا ہے کہ ایں یہ کیا لفظ ہیں ؟ اور پھر ماسوا اس کے ایک ایسے شخص کو خدا بنائے بیٹھے ہیں کہ جس نے بخیال ان کے ساری رات یعنی چار پہر بر این احمدیہ حصه چهارم حاشیه در حاشیه ما بلدان سه ملفوظات جلد سوم ص ۱۲۵ 14
سه کا وقت ایک لغو اور بے ہودہ کام میں جو اس کے آقا اور مولی کی منشاء اور رضا کے خلاف تھا خواہ مخواہ ضائع کیا اور پھر ساری رات ردیا اور ایسے درد اور گرانہ کے الفاظ میں ڈھائی کہ لوہا بھی موم ہو مگر ایک بھی نہ سنی گئی.واہ اچھا خدا تھا اسے (۲۸) جس قدر مذہب دنیا میں موجود ہیں سب کے سب بے برکت اور بے نور اور مردہ ہیں اور پاک تعلیم سے بے بہرہ محض ہیں......عیسائیوں نے یہ نمونہ دیکھا یا کہ ایک عاجز بندہ کو خدا بنا دیا جیسی یہودیوں جیسی تباہ حال قوم سے جو ضربت عليهم الذلة والمسكنة کی مصداق تھی ماریں کھائیں.اور آخر صلیب پر لٹکا دیا گیا اور ان کے عقیدہ کے موافق اور ملعون ہو کہ ایلی ایلی لما سبقتنی کہتے ہوئے جان دیدی.غور تو کہ وکیا ایسی صفات والا کبھی خدا ہو سکتا ہے.وہ تو خدا پرست بھی نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ وہ خود خدا ہو.عیسائی دکھاتے ہیں کہ اسکی وہ ساری رات کی پر سوز دُعا محض بے اثر گئی.اسے زیادہ بے برکتی کا ثبوت کیا ہو سکتا ہے.اور اسے کیا توقع ہو سکتی ہے کہ وہ دوسروں کے لئے شفیع ہو سکتا ہے.ہم کو یاد نہیں کہ دو گھنٹے بھی دُعا کے لئے ملے ہوں اور وہ دُعا قبول نہ ہوئی ہو.ابن اللہ بلکہ خود خدا کا معاذ اللہ یہ حال ہے کہ ساری رات رو رو کر چلا نہ چلا کہ خود بھی دکھا کہ تارہ ہا اور دوسروں سے بھی دعا کراتا رہا اور کہتا رہا کہ اسے خدا تیرے آگے کوئی چیز ا نہوتی نہیں.اگر ہو سکے تو یہ پیالہ ٹل جائے مگر وہ دعا قبول ہی نہیں ہوئی...غرف ایک داغ ہو دو داغ ہوں جس پر بے شمار داغ ہوں کیا وہ خدا ہو سکتا ہے ؟ خدا تو کیا وہ عظیم الشان انسان بھی نہیں ہو سکتا ہے 1 (۲۹) ہم نے بار بار سمجھایا کہ عینی پرستی، بت پرستی اور رام پرستی سے کم نہیں اور مریم کا بیٹا کشتیا کے بیٹے سے کچھ زیادت نہیں رکھتا.کبھی یہ خیال آیا کہ وہ جو تمام عظمتوں کا مالک ہے اس پر انسان کی طرح کیونکر دکھ کی مار پڑ گئی کبھی یہ بھی سوچا کہ خالق نے اپنی ہی مخلوق سے کیونکر مار کھائی؟ کیا یہ سمجھ آسکتا ہے کہ بندہ ناچیز اپنے خدا کو کوڑسے ماریں اسکے منہ پر تھوکیں اس کو پکڑیں اس کو سولی دیں اور وہ مقابلہ سے عاجز رہ جائیں بلکہ : ملفوظات جلد پنجم مص : ملفوظات جلد دوم ص۳۲۲ +
-11 خدا کہلا کر پھر اس پر موت بھی آجائے.کیا یہ مجھ میں آسکتا ہے؟.......کیا یہ مجھ میں اسکتا ہے کہ خُدا شیطان کے پیچھے پیچھے چلے اور شیطان اسی سجدہ چاہیے اور اس کو دنیا کی طمع دے.کیا یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ وہ شخص جس کی ہڈیوں میں خدا گھا ہوا تھا ساری رات رو رو کر دعا کرتا رہا اور پھر بھی استجابت دعا سے محروم اور بے نصیب ہی رہا (۳۰) " عیسائیوں کے خدا کا حلیہ یہ ہے کہ وہ ایک آدمی مریم نیت یعقوب کا بیٹا ہے جو بتیس برس کی عمر پا کہ اس دار الفنا سے گزر گیا.جب ہم سوچتے ہیں کہ کیونکر وہ گرفتار ہونے کے وقت ساری رات دعا کہ کسے پھر بھی اپنے مطلب سے نامرادہ رہا اور رہ ذلت کے ساتھ پکڑا گیا اور مقبول عیسائیوں سے سولی پر کھینچا گیا اور امیلی اپنی کرتا مر گیا.تو ہمیں یکدفعه بدن پر لرزہ پڑھتا ہے کہ کیا ایسے انسان کو جس کی دُعا بھی جناب الہی میں قبول نہ ہو سکی اور نہایت ناکامی اور نامرادی سے ماریں کھانا کھاتا مر گیا.قادر خدا کہہ سکتے ہیں ذرا اس وقت کے نظارہ کو سامنے لاڈ جبکہ یسوع حوالات میں ہو کہ پیلاطوس کی علامت سے ہیرو ولیس کی طرف بھیجا گیا.کیا یہ خدائی کی شان ہے کہ حوالات میں ہو کہ سہتھکڑی ہاتھ میں نہ بخیر پاؤں میں چند سپاہیوں کی حراست میں چالان ہو کر جھڑ کیاں کھا تا گلیل کی طرف روانہ ہوا اور اس حالت پر سلامت میں ایک حوالات سے دوسری حوالات میں پہنچا.پیلاطوس نے کرامت دیکھنے پر چھوڑنا چاہا اس وقت کوئی کرامت دکھلا نہ سکا.ناچا.پھر حراست میں واپس کر کے یہودیوں کے حوالے کیا گیا اور انہوں نے ایک دم میں انسکی جان کا نہ تمام کر دیا.اب ناظرین خود سوچ لیں کہ کیا اصلی او حقیقی خدا کی یہی علامتیں ہوا کرتی ہیں کیا کوئی پاک کا نشنس اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ وہ جو زمین و آسمان کا خالق اور بے انتہا قدرتوں اور طاقتوں کا مالک ہے وہ اخیر پر ایسی بدنصیب اور کمزور اور لسیل حالت میں ہو جائے کہ شریدہ انسان اس کو اپنے ہاتھوں میں مل ڈالیں.اگر کوئی ایسے خدا کو پوجے اور اس پر بھروسہ کرے تو اسے اختیار ہے کہ نصر انجام آتھم ص ۳۲ روحانی خزائن جلد سے : ست بیچن من روحانی خزائن جلد ۱ : ۱۱:
ان سب حوالہ جات سے روزہ روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام میں خدائی صفات نہیں پائی جاتیں.بلکہ وہ عام انسانوں کی طرح ایک انسان تھے تو پھر وہ ہرگز ہرگز خدا نہیں ہو سکتے.دسویں دلیل الوہیت مسیح کے عقیدہ کے خلاف ایک اور دلیل یہ ہے کہ یہ عقیدہ خدائی شان اور تقدس کے خلاف ہے.عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح خدا کے بیٹے اور خدائی تجلیات کے واحد مظہر تھے.ان سے قبل کوئی اس منصب کا شخص نہیں گزرا.ظاہر ہے کہ اس عقیدہ سے خدا تعالی کی ہستی پر بخیل اور کنجوسی کا الزام بھی عائد ہوتا ہے.اس نے سوائے ایک کے باقی سب کو اپنے فیضان سے محروم رکھا.علاوہ ازیں خدا کی شان اور تقدس پر بھی حرف آتا ہے کہ گویا اسکی فیضان کو حاصل کرنے والا اور اس کا مظہر صرف ایک وجود ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوہیت سیج کی تردید کے ضمن میں اس دلیل کو بھی پیش فرمایا ہے.حضرت مسیح کو خدا ماننے کے ذکر پر فرمایا : و پھر اس میں خدا تعالیٰ کی بھی بہتک اور بے ادبی لازم آتی ہے گویا خدا نے بخل کیا کہ اپنی تجلیات کا مظہر صرف ایک ہی شخص کو ٹھہرایا اور اپنے فیوض کو صرف حضرت عیسی تک ہی محدود کر دیا.غور تو کرو اگر کسی بادشاہ کی رعایا صرف ایک فرد واحا ہی ہو تو کیا اس میں اجارہی اس بادشاہ کی تعریف ہے یا ہتک ؟ اگر یہ کہا جاوے کہ بادشاہ کا فیض اور انعام صرف ایک خاص نفس واحد تک ہی محدود ہے تو پھر اس میں اس بادشاہ کی کیا بڑائی ہے ؟ پس جب خدا کے کروڑوں بند سے دنیا کے مختلف ممالک میں موجود تھے تو کیا وجہ کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فیض کو صرف بنی اسرائیل ہی تک محدود رکھا.دیکھو بند پانی بھی آخر کا رگت ده ہو جاتا ہے اور کیچڑ کی صحبت سے اس میں ایک قسم کا تعفن پیدا ہو جاتا ہے تو پھر خدا کے اوپر ایسا بہتان باندھنا کہ اسکی فیوض اور برکات صرف ایک خاص قوم تک ہی محدود اور بند ہیں.خدا کی شان کی بہنگ اور بے ادبی ہے یا اے گیاه شوین دلیل بعض اوقات مسیحی حضرات حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کی دلیل یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سے علیہ اسلام : ملفوظات جلد دہم ص۲۲۲
۲۰۳ ** بے قصور اور بے گناہ تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اول تو انا جیل سے حضرت مسیح علیہ السلام کا بے قصور اور بے گناہ ہونا ہی ثابت نہیں اور اگر بالفرض ایسا ثابت بھی ہو جائے تو پھر بھی یہ امر الوہیت کی دلیل نہیں بن سکتا.کیونکہ بے قصور ہوتا الوہیت کا استحقاق پیدا نہیں کرتا.از روئے اناجیل امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بے قصور اور بے گناہ نہ تھے.اس کے ثبوت میں کسی قصور یا گناہ کو پیش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ خود حضرت مسیح علیہ السّلام کا وہ قول ہی کافی ثبوت ہے جس میں لکھا ہے :- " یسوع نے ایسی کہا تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے ؟ کوئی نیک نہیں مگر ایک معنی خدا ہے پھر متی کی انجیل میں لکھا ہے:." اور دیکھو ایک شخص نے پاس آکہ اس سے کہا اسے استاد میں کونسی نیکی کروں تا کہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں.استنسی اس سے کہا کہ تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے ؟ نیک تو ایک ہی ہے " سے حضرت مسیح علیہ السلام کے اس قول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں :- " تعجب ہے کہ حضرت مسیح نے کسی مقام میں نہیں فرمایا کہ میں خداتعالی کے حضور میں ہر ایک قصور اور ہر ایک خطا سے پاک ہوں...خدا تعالیٰ کے حضور میں حضرت مسیح صاف اپنے تقصیر وار ہونے کا اقرار کرتے ہیں.جیسا کہ متی باب 19 سے ظاہر ہے کہ انہوں نے اپنے نیک ہونے سے انکار کیا " سے ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السّلام نے کبھی اپنے نیک اور بے قصور ہونے کا دعوئی نہیں کیا.اس موقعہ پر عیسائی کہ دیا کرتے ہیں کہ مسیح کے یہ اقوال تو عاجزی اور انکساری کے اظہار کے لئے ہیں.ان کو حقیقت پر محمول نہیں کیا جاسکتا.لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر انجیل کے بیانات کو درست سمجھا جائے تو ماننا پڑتا ہے کہ مسیح کا یہ قول کسی عاجزی یا خاکساری کا اظہار نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے.کیونکہ انجیلی بیانات سے حضرت مسیح علیہ السلام کی خدائی کے ثبوت کا کیا سوال.ان سے تو حضرت بیج کے ایک کامل اور با اخلاق انسان ہونے کا بھی ثبوت نہیں ملتا.حضرت مسیح موعود علی السلام عیسائیوں کے اسی عذر کے رد میں کہ مسیح کے یہ اقوال خاکساری پرمشتمل لوقا ه : متی :- جنگ مقدس ص روحانی خزائن جلد 4
۲۰۴ ہیں.فرماتے ہیں کہ انجیل کے جن مقامات سے عیسائی لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کی دلیل لیتے ہیں : "وہ تو اس کی انسانیت ہی کو ثابت کرتے ہیں.اور انسانیت کے لحاظ سے بھی اسے عظیم الشان انسانوں کی فہرست میں داخل نہیں کرتے.جب اسے نیک کہا گیا تو اس نے انکار کیا.اگر اس کی روح میں بقول عیسائیاں کامل تظہر اور پاکیزگی تھی پھر وہ یہ بات کیوں کہتا ہے کہ مجھے نیک نہ کہو.علاوہ بریں یسوع کی زندگی پر بہت سے اعتراض اور الزام لگائے گئے ہیں اور جس کا کوئی تسلی بخش جواب آج تک ہماری نظر سے نہیں گذرا.ایک یہودی نے یسوع کی سوانح عمری لکھی ہے اور وہ یہاں موجود ہے.اس نے لکھا ہے کہ یسوع ایک لڑکی پر عاشق ہو گیا تھا اور اپنے استاد کے سامنے اس کے حسن و کہ جمال کا تذکرہ کہ بیٹھا تو استاد نے اُسے عاق کر دیا.اور انجیل کے مطالعہ سے جو کچھ سیح کی حالت کا پتہ لگتا ہے وہ آپ سے بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ کس طرح پر وہ نامحرم نوجوان عورتوں سے ملتا تھا اور کس طرح یہ ایک بازاری عورت سے عطر ملواتا تھا اور مشیوع کی بعض نانیوں اور دادیوں کی جو حالت بائبل سے ثابت ہوتی ہے وہ بھی کسی سے مخفی نہیں پھر یہودیوں نے اس کی ماںپر جو کچھ الزام لگائے ہیں وہ بھی ان کتابوں میں درج ہیں.ان سب کو اگر اکٹھا کر کے دیکھیں تو اس کا یہ قول کہ مجھے نبیک نہ کہو اپنے اندر حقیقت رکھتا ہے.اور یہ فروتنی یا انکساری کے طور پر ہر گتہ نہ تھا.جیسا لبعض عیسائی کہتے ہیں اب یا پر میں پوچھتا ہوں کہ جس شخص کے اپنے ذاتی چال چلن کا یہ حال ہو اور حسب و نسب کا یہ.تو کیا خدا ایسا ہی ہوا کرتا ہے.یہ باتیں اللہ تعالیٰ کے تقدس کے صریح خلاف ہیں " اے پس اس بیان سے واضح ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو بے گناہ قرار دینا اور اسے الو بیت مسیح کا استدلال کرنا بناء الفاسد علی الفاسد کی مثال ہے.بار تهوين دليلك حضرت مسیح علیہ السلام کے حالات زندگی اور آپ کی زندگی کے واقعات انا جیل میں کافی تفصیل سے لکھے گئے ہیں.ان حالات کے پڑھنے سے ایک منصف مزاج بآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام له : ملفوظات جلد سوم مه
۲۰۵ کی زندگی کوئی غیر معمولی نہ ندگی نہ تھی.نہ آپ کے کام نمایاں حیثیت رکھتے ہیں اور نہ آپ کا وجود حقیقت تو یہ ہے کہ ان حالات کو دیکھ کر کوئی عقلمند انسان حضرت سیح علیہ السلام کو خدا تسلیم نہیں کر سکتا.کیونکہ عقل اس بات کو دور سے ہی دھکے دیتی ہے کہ انسانوں میں سے ایک انسان جو کوئی غیر معمولی خصوصیت یا برتری بھی نہیں رکھتا خدا قرار دیا جائے.اور اس کے ساتھی جو اس قسم کے ہیں اس منصب سے محروم رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوہیت مسیح کے رد میں ایک دلیل یہ بیان فرمائی ہے کہ انہ روئے فلسفہ حضرت مسیح کی خدائی کو تسلیم کرنا باطل ہے.وجہ یہ ہے کہ اگر مسیح کے انجیلی حالات کو دینجند کو یہ فیصلہ دیکھا کیا جائے کہ ایسا شخص خدا ہوتا ہے تو عقل از روئے انصاف بطور کلیت یہ فیصلہ دے گی کہ اس قسم کے تمام اشخاص جو گزشتہ زمانوں میں گزرے یا آئندہ پیدا ہوں گے سب خدا ہیں.لیکن ظاہر ہے کہ جو ایسا استدلال نہ صرف واقعاتی اعتبار سے غلط ہے بلکہ خود عیسائی صاحبان بھی ایسا تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ گزشتہ اور آئندہ زمانہ میں بہت سے خداؤں کا وجود ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس دلیل کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :- در عقلی عقید سے سب کلیت کے رنگ میں ہوتے ہیں کیونکہ قواعد کلیہ سے انکا استخراج ہوتا ہے.لہذا ایک فلاسفر اگر اس بات کو مان جائے کہ مسبوع خدا ہے تو پونکہ دلائل کا حکم کلیت کا فائدہ بخشتا ہے.اسکو ماننا پڑتا ہے کہ پہلے بھی ایسے کر وڑ یا خدا گریس سے ہیں اور آگے بھی ہو سکتے ہیں اور یہ باطل ہے؟ اے نیز فرمایا : ایک طرف تو یہ پادری لوگ کا لجوں اور سکولوں میں فلسفہ اور منطق پڑھاتے ہیں اور دوسری طرف مسیح کو ابن اللہ اور اللہ مانتے ہیں اور تثلیث وغیرہ عقائد کے قائل ہیں جو سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ کیونکر اس کو فلاسفہ سے مطابق کرتے ہیں.انگریزی منطق کی بناء تو منطق استقرائی ہی پر ہے پھر یہ کونسا استقراء ہے کہ یسوع ابن اللہ ہے.کونسی شکل پیدا کرتے ہوں گے.یہی ہوگا کہ مثلاً اسی قسم کے خواص جن لوگوں کے اندر ہوں وہ خدا یا خدا کے بیٹے ہوتے ہیں اور مسیح میں یہ خواص تھے.پس وہ بھی خدا یا خدا کا بیٹا تھا.اسی تو کت لازم آتی ہے جو محال مطلق ہے.میں تو جب اس پر غور کرتا ہوں حیرت بڑھتی ہی جاتی ہے نہیں معلوم یہ لوگ کیوں نہیں سوچتے " ہے کتاب البرية من روحانی خزائن جلد ۱۳ - ملفوظات جلد اول ص :
4.4 پس الوہیت مسیح کا عقیدہ فلسفہ اور عقل کے کلی فیصلہ کی رو سے باطل ہے.تير هوين دليل عیسائی عقیدہ یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو جب یہود نے زبر دستی پکڑ کر صلیب پر لٹکا دیا تو وہ صد صلیب پر مر گیا اور تین دن تک مرا رہا.بعد میں زندہ ہو گیا مسیحی عقیدہ کا یہ حصہ کہ حضرت مسیح تین دن کے لئے مر گئے تھے اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ ہر گنہ ہر گنہ خدا نہیں تھے.وہ خدا ہی کیا جو مرگیا ؟ کیا ایسا خدا قابل اعتبار ہے اور کسی کی مدد کرنے کے قابل سمجھا جاسکتا ہے جو خود صلیب پر لٹک کہ مر گیا ؟ اسلام نے یہ بیان کیا ہے کہ خدا وہ ہے جو موت اور انتقال سے بالا ہے حی لا یموت ہے اور مسیحی عقیدہ بھی یہی کہتا ہے کہ خدا پر موت نہیں آیا کرتی.چنانچہ خُدا کے متعلق آیا ہے :- " بقا صرف اسی کو ہے اور وہ اس نور میں رہتا ہے جس تک کسی کی گزر نہیں ہو سکتی.نہ اُسے کسی انسان نے دیکھا نہ دیکھ سکتا ہے.لہ پس خدا مرنے سے بہت بلا ہے.اسکی شان ہی یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ ازل سے ابد تک ہو - هو الاول والآخر لیکن مسیحی بھی عجیب ہیں ایک طرف مسیح کی موت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور بھی دوسری طرف ان کو خدا بتاتے اور سمجھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیحی عقیدہ کی رو سے حضرت مسیح کی تین دن کی موت کو الوہیت کی تردید میں ایک دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں:.(1) " پھر خدا ہونے کے بر خلاف وہ مرتا ہے.کیا خدا بھی عمرا کرتا ہے ؟ اور اگر محض انسان مرا ہے تو پھر کیوں یہ دعویٰ ہے کہ ابن اللہ نے انسانوں کے لئے جان دی ! کے (۲) عیسویت کے ابطال کے واسطے تو ایک دانا آدمی کے لئے یہی کافی ہے کہ ان کے اس عقیدہ پر نظر کر سے کہ خدا مر گیا ہے.بھلا کوئی سوچے کہ خُدا بھی سرا کہتا ہے.اگر یہ کہیں کہ خدا کی روح نہیں بلکہ جسم مر تھا تو ان کا کفارہ باطل ہو جاتا ہے" سے : تمطاؤس : : : چشم مسیحی مثا ڈھانی خزائن جلد ۲۰ : سه :- ملفوظات جلد پنجم من :
وس (۳) ایک عیسائی یہ بات کہ کہ کہ اس کا خدا کسی زمانہ میں تین دن تک مرار رہا تھا کس درجہ اندر ہی اندر اپنے اس قول سے ندامت اٹھاتا ہے اور کسی قدر خود روح اسکی اسے ملزم کرتی ہے کہ کیا خدا بھی مرا کہتا ہے.اور جو ایک مرتبہ مر چکا اس پر کیونکر بھروسہ کیا جائے کہ پھر نہیں مرے گا.پس ایسے خدا کی زندگی پر کئی دیں نہیں بلکہ کیا معلوم کہ شاید مربی گیا ہو کیونکہ اب نہ ندوں کے اس میں آثارہ نہیں پائے جاتے وہ اپنے خدا خدا کرنے والوں کو کوئی جواب نہیں دے سکتا.کوئی معجزانہ کلام نہیں دکھلا سکتا یا ہے (۳) " یہ بات بھی عیسائیوں کی ہی ایجاد ہے کہ خد ا بھی مرا کرتا ہے " سے : ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ وہ مسیح جو عیسائیوں کے اعتقاد میں ایک دفعہ مر گیا تھا خواہ تین دن کے لئے ہی ہو ہر گنہ خدا نہیں ہو سکتا.چودھویں دلیل عیسائی حضرات حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات کو بڑے طمطراق سے پیش کرتے ہیں اور ان سے حضرت علی علیہ السلام کی الوہیت کا استنباط کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے عیسائیوں کی اس دلیل کا زبردست تنقیدی جائزہ لیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ معجزات مسیح ہر گھستان کی الوہیت کی دلیل نہیں ہیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ معجزات اپنی ذات میں الوہیت کی دلیل نہیں ہیں.اس اصول کی تائید انخیل کی ان عبارات سے ہوتی ہے.مسیح نے اپنے حواریوں سے کہا :- "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر ایمان رکھو اور شک نہ گرد تو نہ صرف وہی کرو گے جو انجیر کے درخت کے ساتھ ہوا بلکہ اس پہاڑہ سے بھی کہو گے کہ تو اکھڑ جا اور سمندر میں جا پڑے تو یوں ہی ہو جائے گا.اور جو کچھ دعا میں ایمان کے ساتھ مانگو گے وہ سب تم کو ملے گا سے پر لکھا ہے: یں تم سے بھی بچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جوئیں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا بلکہ ان سے بھی بڑے کام کرے گا یہ ہے چشمه مسیحی حاشیه مدت زمانی خزائن جلد ۲۰ : شه : ست بین طلا روحانی خزائن جلد از سه امتی اے کے یوحنا کیا؟
.T پس ثابت ہوا کہ معجزات اپنی ذات میں الوہیت کا ثبوت نہیں دگہ نہ مسیع کے حواری میں سے بڑھ کہ خدا ہوتے کیونکہ ان کو مسیح سے زیادہ اعلیٰ معجزات دکھانے کی طاقت تھی.دوسری بات یہ ہے کہ جس قسم کے معجزات حضرت مسیح علیہ السلام کے بیان کئے جاتے اسی قسیم کے معجزات بلکہ اسے بڑھکہ معجزات دیگر انبیاء کے ثابت ہیں.مردوں کو زندہ کرنے کا سوال ہو تو اس اليسع نبی نے مرد سے زندہ کئے.(۲) سلاطین ہے ).بیماروں کو اچھا کرنے کا سوال ہو تو یہ جواب ہے کہ الیسع نے سپہ سالانہ کو جو کوڑھی تھا اچھا کیا.( سلاطین ) - " الغرض جس قدر منجزات مسیح کے بیان کئے جاتے ہیں ان سے بڑھ کہ معجزات دیگر انبیاء نے دکھائے پس کیا وجہ ہے کہ مسیح کمتر معجزات کے باوجود خدا ہو گیا اور دوسر سے لوگ اعلیٰ معجزات دیکھانے کے باوجود انسان کے انسان راہیں.یہ بات قرین انصاف نہیں.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- " حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات موسیٰ نبی کے معجزات سے کچھ بڑ ہے کہ نہیں ہیں اور ایلیانی کے نشانوں کا سب صیح کے نشانوں سے مقابلہ کریں تو ایڈیا کے معجزات کا پلہ بھاری معلوم ہونا ہے.پس اگر معجزات سے کوئی خدا بن سکتا ہے تو یہ سب بزرگ خدائی کے مستحق ہیں یا ا " اس کے معجزاست دوسر سے اکثر نبیوں کی نسبت بہت ہی کم ہیں مثلاً اگر کوئی عیسائی ایٹمیانی کے معجزات سے جو بائبل میں مفصل مذکور ہیں جن میں سے مردوں کا نہ ندہ کہنا بھی ہے مسیح ابن مریم کے معجزات کا مقابلہ کر سے تو اس کو ضرور اقرار کرنا پڑے گا کہ ایلیانی کے معجزات شان اور شوکت اور کثرت میں مسیح ابن مریم کے معجزات سے بہت بڑھکر ہیں یہ اگر اس کسی معجزات ہیں تو وہ دوسرے نبیوں سے بڑھ کر نہیں ہیں بلکہ الیاس نبی کے معجزات اسی بہت زیادہ ہیں.اور موجب بیان یہودیوں کے اس سے کوئی معجزہ نہیں ہوا.محض فریب اور مکر تھا " سے محض زبردستی اور تحکیم کے طور پر حضرت مسیح کو خدا بنایا جاتا ہے ان میں کوئی بھی ایک ایسی خاص طاقت ثابت نہیں ہوئی جو دوسرے نبیوں میں پائی نہ جائے بلکہ بعض دوسرے نبی معجزہ نمائی میں ان سے بڑھ کر تھے یا تے یہ بات قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم باذن وحکم نہیں.19 سے سیکھوں ہور صبا روحانی خزائن جلد ۲۰ ہے :- نسیم دعوت مثل روحانی خزائن جلد ۱۹ به : مشا سے: چشمه سیحی ملا شود سیکچر سیالکوٹ ۳ +
نہ الیسع نبی کی طرح اس عمل الترب میں کمال رکھتے تھے.گو الیسع کے درجہ کا ملہ سے کم تر ہے ہوئے تھے کیونکہ المسیح کی لاش نے بھی معجزہ دکھلایا کہ اسکی ہڈیوں کے لگنے سے ایک مردہ زندہ ہوگیا مگر چوروں کی لاشیں مسیح کے جسم کے ساتھ لگنے سے ہر گنہ زندہ نہ ہو سکیں.یعنی وہ دو چور جو مسیح کے ساتھ مصلوب ہوئے تھے.بہر حال مسیح کی یہ تو بی کاروائیاں بہرحال نمائی زمانہ کے مناسب حال بطور خاص مصلحت کے تھیں مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں یا لے " مقابلتا جب ہم انبیاء سابسین کے معجزات کو دیکھتے ہیں تو وہ کسی حالت میں مسیح کے معجزات سے کم نہیں بلکہ بڑھ کر ہیں کیونکہ بائبل کے مطالعہ کرتے والے خوب جانتے ہیں کہ پہلے نبیوں سے مردوں کا لگ کر کبھی زندہ ہونا ثابت ہے حالانکہ مسیح کے خیالی معجزات میں ان باتوں کا کوئی اللہ نہیں ہے میسیج کی لاش نے کوئی مردہ نہیں زندہ کیا پھر بتاؤ کہ مسیح کو کونسی چیز خدا بنا سکتی ہے ؟ سے ان حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کو ان معجزات کی بناء پر خدا قرار نہیں دیا جا سکتا.ورنہ ان لوگوں کو بھی خدا ماننا پڑے گا جنہوں نے میسیج سے بڑھ کر معجزات دکھلائے.تیسری بات یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے خود کبھی معجزہ نمائی کا اقرار نہیں کیا.اور نہ ہی یہ دعویٰ فرمایا ہے کہ میں اقتداری معجزات دکھلا ہاتا ہوں بلکہ واقعات تو یہ ثابت کرتے ہیں کہ جب معجزه دکھانے کا موقعہ آیا اس وقت بھی اول تو مسیح نے قطعی انکار کر دیا اور مطالبہ کر نے والوں کو برا بھلا کہا اور اگر یہ کہنا کہ صرف ایک معجزہ دکھایا جائے گا د یعنی یونس نبی کے نشان والا ) تو وہ بھی سیحی بیانات کے مطابق پورا ہوتا نظر نہیں آتا.انجیل میں لکھا ہے :- ہیرودیس یسوع کو دیکھے کہ بہت خوش ہوا کیونکہ وہ مدت سے اسے دیکھنے کا مشتاق تھا اس لئے کہ انہیں اس کا حال سنا تھا اور اس کا کوئی معجزہ دیکھنے کا امید شار تھا اور وہ اسی بہتیری باتیں پوچھتا رہا.مگر اس نے اسے کچھ جواب نہ دیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مسیح علیہ اسلام کے اعجانہ منائی سے اس انکارہ کو اس دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے کہ ان کو بذات خود معجزہ دکھانے کی قدرت نہیں تھی.اور یہی انبیاء کا مقام ہے کہ وہ خدا کے اذن اور طاقت سے ایسا کیا کر تے ہیں، چنانچہ حضورہ نے اسی مثال کا ذکر کرتے اداله او نام حصہ اول ماشیم ۲۰۱۵ رژحانی خزائی جلد کے ملفوظات جلد سوم ما سه :- لوقا : : مل ؛
۲۱۰ ہوئے فرمایا ہے: زیادہ تر تعجب یہ ہے کہ حضرت مسیح معجزہ نمائی سے صاف انکار کر کے کہتے ہیں کریں ہر گنہ کوئی معجزہ دکھا نہیں سکتا مگر پھر بھی عوام الناس ایک انبار معجزات کا ان کی طرف منسوب کر رہے ہیں.نہیں دیکھتے کہ وہ تو کھلے کھلے انکار کئے جاتے ہیں.چنانچہ ہیرودیس کے سامنے حضرت مسیح جب پیش کئے گئے تو ہیرودیس میسج کو دیکھ کہ بہت خوش ہوا کیونکہ اس (کو) اس کی کوئی کرامت دیکھنے کی امید تھی.پہ ہیرودیس نے ہر چند اس بارہ میں مسیح سے بہت درخواست کی لیکن اپنی کچھ جواب نہ دیا تب ہیرودیس اپنے تمام مصاحبوں کے کمیت اسی بے اعتقاد ہو گیا.اور اسے ناچیز ٹھہرایا.دیکھو لوقا باب ۲۲ - اب خیال کرنا چاہیئے کہ اگر حضرت مسیح میں اقتداری طور پر جیسا کہ عیسائیوں کا خیال ہے معجزہ نمائی کی قوت تھی تو ضرور حضرت مسیح ہیرودیس کو جو ایک خوش اعتقاد آدمی اور ان کے وطن کا بادشاہ تھا کوئی معجزہ دکھاتے مگر وہ کچھ بھی دکھا نہ سکے یا اے معجزات مسیح کے دلیل الوہیت نہ ہونے کے سلسلہ میں چوتھی بات یہ ہے کہ مسیح کے ان معجزات کا وجود کوئی یقینی اور قطعی امر نہیں ہے بلکہ محض ایک قصہ کی حیثیت ہے.اس کی وجہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ تحریر فرمائی ہے کہ جن لوگوں نے ان معجزات کو بیان کیا ہے وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے حواری نہ تھے.اور نہ انہوں نے بچشم خود ان معجزات کو دیکھا تھا.گویا سنی سنائی بات کو اپنے طور پر قلمبند کر دیا.پس کیا یہ روایت قابل قبول ہو سکتی ہے.خاص طور پر اس صورت میں کہ ان پر ایک ایسے عقیدہ کی عمارت کھڑی کی بجا رہی ہو جو عیسائیت کے عقائد میں رگِ جان کی حیثیت رکھتا ہے.ہرگز نہیں.معجزات کے ان راویوں کو مبالغہ کرنے کی عادت تھی جو ان کی روایت کو کمزور کر کے کر ناقابل قبول بنا دیتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- اگر گذشته معجزات جو اب محض قصوں کے رنگ میں پیش کئے جائیں تو اول تو ہر ایک مفکر کہہ سکتا ہے کہ خدا جانے کہ ان کی اصل حقیقت کیا ہے.اور کسقدر مبالغہ ہے کیونکہ کچھ شک نہیں کہ مبالغہ کہ نا انجیل نویسوں کی عادت میں داخل تھا چنانچہ ایک انجیل میں یہ فقرہ موجود ہے کہ مسیح نے اتنے کام کئے کہ اگر وہ سکھے جاتے تو دنیا میں سما شه و ازاله او عام حصه اون من اریحانی خزائن جلد موت طا
: نہ سکتے.اب دیکھو کہ وہ کام بغیر رکھنے کے تو دنیامیں سما گئے لیکن لکھنے کی حالت میں وہ دنب قسم میں نہیں سمائیں گے.یہ کس قسم کا فلسفہ اور کس قم کی منطق ہے.کیا کوئی سمجھ سکتا ہے پہلے پھر آپ تحریر فرماتے ہیں کہ ان معجزات کو اس وجہ سے کبھی الوہیت کی دلیل قرانہ نہیں دیا جا سکتا جاسکتا کر ان کا کوئی واضح تاریخی اور ناقابل تردید ثبوت نہیں ہے.اگر بنیاد صرف انجیل نویسوں کی روایت ہے تو وہ نا قابل اعتبار ہے.اس کی ایک وجہ اوپر ذکر ہو چکی ہے.بعض اور وجوہ بھی ہیں جن کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :- "میں نے انجیلوں پر ایک یہ بھی اعتراض کیا تھا کہ ان میں جس قدر معجزات لکھے گئے ہیں جن سے خواہ مخواہ حضرت عیسی علیہ السلام کی خدائی ثابت کی جاتی ہے.وہ معجزات ہرگزہ ثابت نہیں ہیں.کیونکہ انجیل نویسیوں کی نبوت جو مدار نبوت تھی ثابت نہیں ہو سکی اور نہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور نہ کوئی معجزہ دکھلایا.باقی رہا یہ کہ انہوں نے بحیثیت ایک وقائع نویس کے معجزات کو لکھا ہو.سو وقائع نویسی کے شرائط بھی ان میں مختفق نہیں کیونکہ وقائع نویس کے لئے ضروری ہے کہ وہ دروغ گو تہ ہو اور دوسرے یہ کہ سکسی حافظہ میں خلل نہ ہو اور تیسرے یہ کہ وہ عمیق الفکر ہو اور سیکھی خیالی کا آدمی نہ ہو اور چو تھے یہ کہ وہ متفق ہو اور رسمی باتوں پر کفایت کرنے والا نہ ہو اور پانچویں یہ کہ جو کچھ سکھے چشم دید لکھے محض رطب و یابس کو پیش کرنے والا نہ ہومگر انجیل نویسوں میں ان شرطوں میں سے کوئی شرط موجود نہ تھی یا شد پھر مزید وضاحت کے طور پر فرمایا :- یہ ثابت شدہ امر ہے کہ انہوں نے اپنی انجیلوں میں محمداً جھوٹ بولا ہے.چنانچہ نامرہ کے معنے اگلے کئے اور عمانوایل کی پیش گوئی کو خواہ مخواہ مسیح پیر جمایا اور انجیل میں لکھا کہ یسوع کے تمام کام لکھے جاتے تو وہ کتابیں دنیا میں سمانہ سکتیں.اور حافظہ کا یہ حال ہے کہ پہلی کتابوں کے بعض حوالوں میں غلطی کھائی اور بہت سی بے اصل باتوں کو لکھنے کیہ ثابت کیا کہ ان کو عقل اور فکر اور تحقیق سے کام لینے کی عادت نہ تھی بلکہ بعض جگہ ان انجیلوں میں نہایت قابل شرم جھوٹ ہے جیسا کہ میتی باب ہ میں میسوع کا یہ قول ہے کہ تم سن چکے ہو کہ اپنے پڑوسی سے محبت کر اور اپنے دشمن سے نفرت کر حالانکہ پہلی کتابوں لیکچر لاہور میشه روحانی خزائن جلد ۲ : - کتاب البر یه مشت ان ریحانی خندائن جلد ۱۳ :
۲۱۲ میں یہ عبارت موجود نہیں ایسا ہی ان کا یہ لکھنا کہ تمام مرد سے بیت المقدس کی قبروں سے نکل کمہ ان شہر میں آگئے تھے.یہ کس قدر بے ہودہ بات ہے اور کسی معجزہ کے لکھنے کے وقت کسی انجیل نویس نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ اس کا چشم دید ماجرا ہے.پس ثابت ہوتا ہے کہ وقائع نویسی کے شرائط ان میں موجود نہ تھے.اور ان کا بیان ہر گنزا اس لائق نہیں کہ کچھ بھی اس کا اعتبار کیا جائے" سے اسی ضمن میں آپ مزید فرماتے ہیں: ایک اور بات قابل غور ہے کہ وہ کیا نشانات تھے کہ جن سے حقیقتا مسیح کی خدائی ثابت ہوتی.کیا معجزات - اول تو سرے سے ان معجزات کا کوئی ثبوت ہی نہیں کیونکہ انجیل نویسوں کی نبوت ہی کا کوئی ثبوت نہیں اگر ہم اس سوال کو درمیان نہ بھی لائیں اور اس بات کا لحاظ نہ کریں کہ اُنہوں نے ایک محقق اور چشم دید حالات لکھنے والے کی حیثیت سے نہیں لکھے تب بھی ان معجزات میں کوئی رونق اور قوت نہیں پائی جاتی یہ ہے معجزات میسج کے سلسلہ میں پانچویں بات یہ ہے کہ عیسائی حضرات حضرت مسیح کے مردوں کو زندہ کرنے پرندے پیدا کر نے پر خاص طور پر بڑا زور دیتے ہیں حالانکہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان سے حقیقی زندگی مراد نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر واقعی وہ ایسے معجزات دکھا سکتے تھے تو اس زمانہ کے لوگوں نے ان کو قبول کیوں نہ کیا.پس عقلی اور واقعاتی ہر دو اعتبار سے ان معجزات کو ظاہر یہ محمول کرنا درست نہیں ہے.سیح موعود علیہ السلام نے اس بارہ میں بڑی تفصیل درج فرمائی ہے.اختصار کے پیش نظر صرف دو حوالوں پر اکتفا کرتا ہوں حضور نے فرمایا : - (1) احیاء حقیقی تو خود باطل اور اپنی کتابوں کے مخالف حال اعجازی احیاء جس میں دنیا کی طرف رجوع کرنا اور پھر دنیا میں آباد ہوتا نہیں ہوتا ممکن تو ہے مگر خدائی کی دلیل نہیں کیونکہ اس کے مدعی عام ہیں " سے معجزات مسیح کی حقیقت بیان کرتے ہوئے آپ مزید فرماتے ہیں :- P عیسائی بارہ بارہ حضرت مسیح کے گرد سے زندہ کرنے کے معجزات پیش کرتے ہیں مگر : كتاب البرية منت روحانی خزائن جلد ۱۳ : سه : - ملفوظات جلد سوم ص : نور القرآن ما حاشیه صا روحانی خزائن جلد ؟ را
٣١٣ ایک کا بھی نہیں.نرکسی مرد سے نے آکر عالم آخرت کی سرگزشت سنائی یا بہشت دوزخ کی حقیقت ظاہر کی یا دوسرے جہان کے چشمدید عجائبات کے بارہ میں کوئی کتاب شائع کی یا اپنی شہادتوں سے فرشتوں کے معبود کا ثبوت دیا بلکہ مردوں سے مراد وہ لوگ ہیں جوہ روحانی یا جسمانی طور پر مردوں کی مانند تھے.پھر گویا دُعا کے ذریعے سے نئی زندگی پائی.یہی حالی حضرت عیسی کے پرندے بنا نے کا ہے.اگر وہ پیسے بچے پسند سے بناتے تو ایک، دنیا ان کی طرفند الٹ پڑتی اور پھر کیوں صلیب تک نوبت پہنچتی اور کیا ممکن تھا کہ عیسائی لوگ جو حضرت عیسی کے نڈا بنانے پر حریص ہیں وہ ایسے بڑے ندائی انسان کو چھوڑ دیتے.بلکہ وں تو ایک تنکے کا پہائے بنا دیتے.اسی ظاہر ہے کہ یہ واقع جو قرآن شریف میں مذکور ہے اپنے ظاہری معنوں پر محمول نہیں بلکہ اسے کوئی خفیف اسر مراد ہے جو بہت وقعت اپنے اندر نہیں رکھتا یا ساده معجزات مسیح کے دلیل الوہیت نہ ہونے کے سلسلہ میں چھوٹی بات یہ ہے کہ خود عیسائی حضرات میں بھی اب یہ خیال قوت پکڑ رہا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے مجرات ان کی اندر ہیت کی دلیل نہیں ہیں اور نہ ان کی الوہیت ثابت کرنے کے لئے ان معجزات کا سہارا لینا چاہیئے.اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی میں جب اصل معجزہ دکھانے کا وقت تھا تو اس وقت تو انہوں نے معجزہ سے انکار کر دیا.یہ انکار ان کے مجر کا اعتراف ہے.اور جو خود ہی عاجز ہونا تسلیم کرے اس کے خدا ہونے کا کیا سوال ایک سیمی مصنف لکھتا ہے :- "No miracle is reported which saved him from death, ar smoothed his path during life.' یعنی مسیح کی زندگی میں کوئی ایسا معجزہ نظر نہیں آتا جنسی اُس کو موت سے بچالیا ہو یا نہ زندگی کے کی دوران اس کے راستہ کو خوشگوار بنایا ہو.اب یہ خیال بھی پیدا ہو رہا ہے کہ محضر فہ میں علیہ السلام کے معجزات ان کی اندر بہیت کی رئیل نہیں.چنانچہ ایک مسیحی لکھتے ہیں :- "ہم صفائی سے سمجھ لیں اور صاف دلی کے ساتھ مان لینے کو تیار ہیں کہ مسیحیت کو ثابت له : حقیقة الوحی مش حاشیہ - ریحانی خزائن جلد ۲۳ - (The begining of Chrischanity pp.186 by Clarence Tucker Craig.) - 1
۲۱۴ کرنے کے لئے مسیح کے معجزات کا سہارا ڈھونڈنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.جیسا کہ پیشتر ہوتا رہا ہے.اور نہ اس کی الوہیت کے ثبوت کے لئے ہم ان کے محتاج ہیں نہ لے پس حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات کے بارہ میں یہ سب امور اس بات کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیتے ہیں اور کسی قسم کا شک باقی نہیں رہنے دیتے کہ معجزات مسیح کو حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کے لئے دلیل نہیں بنایا جا سکتا.پس معجزات مسیح کا ناقص اور ناقابل ثبوت اور غیر یقینی ہونا اس بات کی پیل ہے کہ یہ الوہیت کی بنیاد نہیں بن سکتے.اگر یہ سوال ہو کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات کی یہ حقیقت اور حیثیت ہے تو پھر ان معجزات کا قرآن مجید میں خاص طور پر کیوں ذکر کیا گیا ہے.تو اس کا جواب حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے مقدس الفاظ میں یوں ہے کہ :- " قرآن شریف میں حضرت مسیح ابن مریم کے معجزات کا ذکر اس غرض سے نہیں ہے کہ اسی معجزات زیادہ ہوئے ہیں بلکہ اس غرض سے ہے کہ یہودی اس کے معجزات سے قطعا منکر تھے اور اس کو فریبی اور مکار کہتے تھے یہیں خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہودیوں کے رفع اعتراض کے لئے مسیح ابن مریم کو صاحب معجزہ قرار دیا اور اسی حکمت کی وجہ سے اس کی ماں کا نام صدیقہ رکھا ہے حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات کی حیثیت کے بارہ میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے دو اصولی حوالے درج کر کے میں اس دلیل کو ختم کرتا ہوں.حضور فرماتے ہیں :- و مسیح کے معجزات اور پیش گوئیوں پر جس قدر اعتراضات اور شکوک پیدا ہوتے ہیں یکی نہیں سمجھ سکتا کہ کسی اور نبی کے خوارق یا پیش خبریوں میں کبھی ایسے شبہات پیدا ہوئے ہوں یا ست یہ بے ہودہ قصے ہیں جن پر خدائی کا شہتیر رکھا گیا ہے مگر وقت آتا ہے بلکہ آگیا کہ جس طرح روٹی کو دھن کا جاتا ہے اس طرح خدا تعالیٰ ان تمام قصوں کو ذرہ ذرہ کر کے اڑادے گا باشد : اہل مسجد در نسیم دعوت مل روحانی خزائن جلد 719 ه - انزال اورام حصہ اول طنت روحانی خزائن جلد ۲ با کے : سراج منیر مست :
۲۱۵ 150 پندرھویں دلیل الوہیت مسیح کی تردید میں پندرھویں دلیل یہ ہے کہ جو تعلیم حضرت مسیح علیہ السلام نے دی ہے وہ خدا کی تعلیم اور خدا کے مقر کردہ اصولوں سے ٹکراتی ہے اگر حضرت مسیح واقعی خدا ہوتے تو ہر گز مکن نہ تھا کہ خدا کی اور ان کی تعلیموں میں ٹکراؤ یا تضاد نظر آتا.ایک مثال سے اس دلیل کی وضاحت ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں یہ اصول مقریہ فرمایا ہے کہ کبھی وہ نرمی کا سلوک کرتا ہے اور کبھی گرفت کرتا ہے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ نرمی ہی نرمی کرتا چلا جائے اور نہ کبھی ایسا دیکھنے یا سنتے ہیں آیا ہے کہ خدا کسی قوم کو مسلسل عذاب میں مبتلا رکھے.خدا تعالیٰ کے میرا خذہ میں نرمی اور سختی دونوں مناسب طور پر نظر آتی ہیں.اسکی مقابل پر حضرت مسیح علیہ السلام نے جو تعلیم پیش کی ہے اس میں سرا سر غفو اور معافی اور نرمی پر زور دیا گیا ہے.سختی اور مقابلہ روکا گیا ہے.لکھا ہے ہے :- س میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیر سے داہنے گال پر طمانچہ مار سے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے اور اگر کوئی تجھ پرابش کر کے تیرا اگر تا لینا چاہے تو چہ بھی اسے سے لینے دے اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں سے جائے اس کے ساتھ دو کوس چلا جاتا ہے حضرت مسیح علیہ اسلام کی اس تعلیم سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی تعلیم خدائی منشاء اور خدائی طریق کے مطابق نہیں ہے پس حضرت مسیح علیہ السلام کی انجیل تعلیم اور خدا تعالیٰ کے طریق میں یہ تضاد ظاہر کرتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام خدا نہیں ہے اگر وہ خدا ہوتے تو ان دونوں تعلیمات میں اختلاف اور تضاد ہرگز نظر نہ آتا.حضرت علی علیہ السلام کے عضوکی تعلیم تو واضح ہی ہے اسکی مقابل پر خداتعالی کا جو طریق ہے اسکے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- خدا تعالیٰ کے فعل میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ نرمی اور درگزر نہیں بلکہ وہ مجرموں کو طرح طرح کے عذابوں سے سزا یاب بھی کرتا ہے.ایسے عذابوں کا پہلی کتابوں میں بھی ذکر ہے....ہم نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا کہ خدا نے اپنی مخلوق کے ساتھ ہمیشہ علم اور در گذر کا معاملہ کیا ہو اور کوئی عذاب نہ آیا ہو" سے : حتی اسم : ۴۱۰۳۹ : چشمه سیحی مشا روحانی خزائن جلد ۲۰ : J
۲۱۶ پس اس دلیل سے ثابت ہو جاتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ہرگز خدا یا خدا کے بیٹے نہ تھے.سولہویں دلیل عیسائی حضرات حضرت علی علیہ السلام کی خدائی ثابت کرنے کے لئے عام طور پر یہ کہا کرتے ہیں کہ ان کے بارہ میں کتاب مقدس میں بارہ بارہ بیٹے (این) کا لفظ آیا ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ الفاظ حضرت مسیح علیہ السلام کی خدائی نہیں بلکہ انسانیت کا بہت بڑا ثبوت ہیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سب الفاظ بائبل سے پیش کئے جاتے ہیں جس کا الہامی مقام اور حفاظت انتہائی مشکوک امر ہیں.یہ ایسی حقیقت ہے جس کو اب تو محقق عیسائیوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے.پس اس بارہ میں صرف بائبل کی روایت قطعی حجت نہیں ہو سکتی.دوسری بات یہ ہے کہ اگر ابن یا بیٹے کے لفظ سے ہی الوہیت کا استدلال کرنا ہے تو پھر ان تمام لوگوں کو بھی خدا ماننا چاہیئے جن کے بارہ میں یہ لفظ بائبل میں آیا ہے لیکن عیسائی ایسا نہیں کرتے ظاہر ہے کہ پھر سیح علیہ السلام کے بارہ میں بھی ابن کے لفظ سے الوہیت کا استدلال نہیں ہو سکتا.آخر کیا وجہ ہے کہ جب مسیح کے بارہ میں یہ لفظ آئے تو الوہیت کی دلیل بن جائے کسی اور کے بارہ میں بیٹے اور خواہ پوٹھے بیٹے کا لفظ بھی آئے تو وہ انسان کا انسان ہی رہے یہ ہرگز انصاف نہیں.بائبل میں بہت سے لوگوں کے بارہ میں ابن کا لفظ آیا ہے.مثلاً خداوند نے یوں فرمایا ہے کہ اسرائیل میرا بیٹا بلکہ میرا پلوٹھا ہے ؟ لے مبارک وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے " سے ہم خدا کے فرزند ہیں " سے " تم زندہ خُدا کے فرزند ہو“ کے الغرض اس قسم کے متعدد حوالے ملتے ہیں.پس کیا وجہ ہے کہ ان سب لوگوں کو خدا نہیں قرار دیا جاتا جبکہ ان کے حق میں بھی وہی الفاظ آئے ہیں جو حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں آئے ہیں.یہ ایک ایسا قوی اعتراض ہے جس کا کوئی تسلی بخش جواب عیسائی حضرات نہیں دے سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.صرف ابن کا لفظ ان کی (حضرت مسیح کی ناقل) خدائی کو ثابت نہیں کر سکتا.کیونکہ ا ہے: خروج کے سوا متی : : : - رومیوں سے یہ ہوسیع : : -۱- -:-:-:
۳۱۷ حقیقت اور مجاز میں باہم تفریق کرنے کے ہم مجاز نہیں ہو سکتے کہ کہ دیں کہ یہاں تو حقیقت مراد ہے اور فلاں جگہ مجاز ہے.یہی لفظ یا اس سے بھی بڑھ کر جب دوسرے انبیاء اور راستبازوں اور قاضیوں پر بولا جا دے تو وہ نرسے آدمی رہیں اور مسیح پر بولا جاؤ سے تو وہ خود خدا اور ابن بن جاویں یہ تو انصاف اور راستی کے خلاف ہے ؟" لے اسی ضمن میں فرمایا :- یہ جو کہا جاتا ہے کہ انجیل میں مسیح پہ بیٹے کا لفظ آیا ہے اس کے جواب میں ہمیں یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ انجیل محترف یا مبدل ہے.بائبل کے پڑھنے والوں سے یہ ہر گز مخفی نہیں ہے کہ اس میں بیٹے کا لفظ کس قدر عام ہے اسرائیل کی نسبت لکھا ہے کہ اسرائیل فرزند من است نخست زاده من است اب ایسی بڑھ کر اور کیا ہو گا اور خدا کی بیٹیاں بھی بائیل سے تو ثابت ہوتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا کا اطلاق بھی ہوا ہے کہ تم خدا ہو.اس سے زیادہ اور کیا ثابت ہوگا.اب ہر ایک منصف مزاج دانشمند غور کر سکتا ہے کہ اگر ان کا لفظ عام نہ ہوتا تو تعجب کا مقام ہوتا لیکن جبکہ یہ لفظ عام ہے اور آدم کو بھی شجرہ ابناء میں داخل کیا گیا ہے اور اسرائیل کو نخست زادہ بتایا گیا ہے اور کثرت استعمال نے ظاہر کر دیا ہے کہ مقدسوں اور راستبازوں پر یہ لفظ حسن ظن کی بناء پر بولا جاتا ہے.اب جب تک مسیح پر اس لفظ کے اطلاق کی خصوصیت نہ بتائی جاؤ سے کہ کیوں اس اہنیت میں وہ سار سے راستبانہوں کے ساتھ شامل نہ کیا جاؤ ہے.اس وقت تک یہ لفظ کچھ بھی مفید اور موثر نہیں ہو سکتا.کیونکہ جب یہ اور لفظ عام اور قومی محاورہ ہے تو مسیح پر ان سے کوئی نرالے معنے پیدا نہیں کر سکتا.میں اس لفظ کو مسیح کی خدائی یا بنیت یا الوہیت کی دلیل مان لیتا اگر یہ کسی اور کے حق میں نہ آیا ہوتا ہے نیز فرمایا : یہ تو دو رنگی ہے کہ مسیح کے لئے یہی لفظ آئے تو وہ خدا بنایا جا وے اور دوسروں پر اس کا اطلاق ہو تو وہ بند ے کے بند سے " سے عیسائی حضرات مسیح علیہ السلام کے حق میں ابن اللہ کے لفظ سے ان کی الوہیت کا استدلال لے : ملفوظات جلد سوم ص : ه: محفوظات جلد سوم ط سے : ايضا
YIA کرتے ہیں.اس کے رد میں مسیح پاک علیہ السلام کے چند مزید حوالے درج ذیل ہیں.فرمایا :- " یہ اور بات ہے کہ مسیح نے اپنے تئیں خدا کا بیٹا کہا ہے.یا کسی اور کتاب میں اس کو بیٹا کہا گیا ہے.ایسی تحریروں سے اس کی خدائی نکالنا درست نہیں.بائبل میں بہت سے لوگوں کو خدا کے بیٹے کہا گیا ہے.بلکہ بعض کو خدا بھی.پھر مسیح کی تخصیص بے وجہ ہے اور اگر ایسا ہوتا بھی کہ کسی دوسرے کو ان کتابوں میں بجز مسیح کے خدا یا خدا کے بیٹے کا لقب نہ دیا جاتا تب بھی ایسی تحریروں کو حقیقت پر حمل کرنا نا دانی تھا کیونکہ خدا کے کلام میں ایسے استعارات بکثرت پائے جاتے ہیں.مگر جس حالت میں بائیل کی رو سے خدا کا بیٹا کہلانے میں اور بھی مسیح کے شریک ہیں تو دوسر سے شرکاء کو کیوں اس فضیلت سے محروم رکھا جاتا ہے یا لے پھر آپ تحریر فرماتے ہیں :- انجیل میں تشکلیت کا نام و نشان نہیں.ایک عام محاورہ لفظ ابن اللہ کا جو پہلی کتابوں میں آدم سے لیکر اخیر تک ہزار ہا لوگوں پر بولا گیا تھا وہی عام لفظ حضرت مسیح کے حق میں انجیل میں آگیا.پھر بات کا بتنگڑ بنا یا گیا.یہاں تک کہ حضرت مسیح اس لفظ کی بنیاد پر خدا بھی بن گئے.حالانکہ نہ بھی مسیح نے خدائی کا دعویٰ کیا اور نہ کبھی خودکشی کی خواہش ظاہر کی " سے نین فرمایا : یسوع ابن مریم خدا نہیں ہے.یہ کلمات جو اس کے منہ سے نکلے اہل اللہ کے منہ سے نکلا کرتے ہیں مگر ان سے کوئی خدا نہیں بن سکتا " سے ابن اللہ کے انجیلی محاورہ کی اصل بیان کر تے ہوئے آپ نے فرمایا : - " توریت میں کہا گیا ہے کہ یعقوب میرا بیٹا بلکہ میرا پوٹھا بیٹا ہے اور عیسی ابن مریم کو جو انجیلوں میں بیٹا کہا گیا اگر عیسائی لوگ اسی حد تک کھڑے رہتے کہ جیسے ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب اور یوسف اور موسیٰ اور داؤد اور سلیمان وغیرہ خدا کی کتابوں میں استعارہ کے رنگ میں خدا کے بیٹے کہلائے ہیں ایسا ہی عیسی بھی ہے.تو ان پہ کوئی 102- لیکچر ہور من روحانی خزائن جلد ۱۹ سے: نور القرآن با صله روحانی خزائن جلد 9 : : کتاب البریه حنا روحانی خزائن جلد ۱۳ : ::
۲۱۹ اعتراض نہ ہوتا......یہ تمام استعارات ہیں.محبت کے پیرایہ ہیں.ایسے الفاظ خدا تعالیٰ کے کلام میں بہت ہیں " سے نیز فرمایا : پہلی کتابوں میں جو کامل راستبازوں کو خدا کے بیٹے کر کے بیان کیا گیا ہے اس کے بھی یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ در حقیقت خدا کے بیٹے ہیں کیونکہ یہ تو کفر ہے اور خدا بیٹیوں اور بیٹیوں سے پاک ہے بلکہ یہ معنے ہیں کہ ان کامل راستبازوں کے آئینہ صافی میں عکسی طور پر خدا نازل ہوا تھا اور ایک شخص کا عکس جو آئینہ میں ظاہر ہوتا ہے استعارہ کے سنگ میں گویا وہ اس کا بیٹا ہوتا ہے کیونکہ جیسا کہ بیٹا باپ سے پیدا ہوتا ہے ایسا ہی عکس اپنے اصل سے پیدا ہوتا ہے " سے ان سب حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ محض لفظ ابن اللہ سے الوہیت مسیح کا استدلال ایک باطل استدلال ہے.میسج کی اس بارہ میں کوئی خصوصیت نہیں.اور اگر خصوصیت ہو بھی تو پھر بھی یہ لفظ ولیل الوہیت نہیں بن سکتا.کیونکہ یہ انجیل کا ایک محاورہ ہے جس کو ظاہر پر محمول نہیں کیا جاسکتا.کیونکہ ایسا کرنا خدا کی شان سے بعید ہے اور عقلا نا قابل قبول ہے.پس ابن اللہ کے لفظ سے الوہیت مسیح کا استدلال باطل ہے.لفظ ابن اللہ کے دلیل الوہیت نہ ہونے اور اس کے بطور مجاز استعمال ہونے کا سب سے بڑا واقعاتی ثبوت یہ ہے کہ خود حضرت مسیح علیہ السلام نے اس کو مجاز قرار دیا ہے.سید نا حضہ شیخ موجود علیہ السلام نے جنگ مقدس میں اس امر پر تفصیلی بحث فرمائی ہے.اس ضمن میں یوحنا کے باب ۱۰ کو پیش فرمایا ہے.اور الوہیت مسیح کی تردید کے نقلی دلائل میں سے اس دلیل کو قطعی اور یقینی قرار دیا ہے.یوحنا باب وسنت میں یوں لکھا ہے :- یہودیوں نے اسے سنگسالہ کرنے کے لئے پھر پتھر اُٹھائے.یسوع نے انہیں جواب دیا کہ میں نے تم کو باپ کی طرف سے بہتر سے اچھے کام دکھائے ہیں ان میں سے کس کام کے سبب مجھے سنگسار کرتے ہو.یہودیوں نے اسے جواب دیا کہ اچھے کام کے سبب نہیں بلکہ کفر کے سبب تجھے سنگسار کرتے ہیں اور اس لئے کہ تو آدمی ہو کر اپنے آپ کو خدا بناتا ہے.یسوع نے انہیں جواب دیا کہ تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ میں نے کہا تم : حقیقة الوحی مت روحانی خزائن جلد ۲۲ : ه ش۶۶۶ : - حقیقة الوحی شت ۶۶ روحانی خزائن جلد ۲۲ ؟
۲۲۰ خدا ہو ؟ جبکہ اس نے انہیں خدا کہا جن کے پاس خدا کا کلام آیا اور کتاب مقدس کا باطل ہونا ممکن نہیں.آیا تم اس شخص سے جسے باپ نے مقدس کرکے دنیا میں بھیجا کہتے ہو کہ تو کفر کہتا ہے اس لئے کہ میں نے کہا ئیں خدا کا بیٹا ہوں پر سے یہ حوالہ ابن اللہ سے استدلال الوہیت کی حقیقت پوری طرح واضح کر دیتا ہے.جب میسج پر این اللہ ہونے کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے کفر کا الزام لگایا گیا تو انہوں نے ایک دوسری مثال دے کہ خود وضاحت کر دی کہ ابن اللہ سے کیا مراد ہے.اگر حضرت مسیح واقعی خدا تھے تو انہیں صاف لفظوں کردی میں اس کا اعلان کرنا چاہیے تھا.اور پھر وہ اس دعوی کا ثبوت بھی دیتے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ کہا تو یہ کہا کہ میں اس طرح خدا کا بیٹا ہوں جس طرح پہلے انبیاء اور برگزیدوں کے حق میں یہ وارد ہے کہ " تم خدا ہو گویا جن معنوں میں پہلے نبیوں کو خدا کہا گیا ہے.اپنی معنوں میں سیوع خدا کا بیٹا تھا.لہذا ثابت ہوا کہ ابن الله مجانا ا استعمال ہوا ہے نہ کہ حقیقتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :- ” جب میسج کو یہودیوں نے اس کے اس کفر کے بدلہ میں کہ یہ ابن اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے پتھراؤ کرنا چاہا.تو انہی انہیں صاف کہا کہ کیا تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا کہ تم خدا ہو.اب ایک دانشمند خوب سوچ سکتا ہے کہ اس الزام کے وقت تو چاہیئے تھا کہ مسیح اپنی پوری بریت کرتے اور اپنی خدائی کے نشان دکھا کر انہیں ملزم کرتے اور اس حالت میں کہ ان پر کفر کا الزام لگایا گیا تھا تو ان کا فرض ہونا چاہیئے تھا کہ اگر وہ فی تحقیقت خدا یا خدا کے بیٹے ہی تھے تو یہ جواب دیتے کہ یہ کفر نہیں بلکہ میں واقعی طور پر خدا کا بیٹا ہوں اور میرے پاس اس کے ثبوت کے لئے تمہاری ہی کتابوں میں فلاں فلاں موقع پر صاف لکھا ہے کہ میں قادر مطلق عالم الغیب خدا ہوں اور لاؤ میں دکھا دوں اور پھر اپنی قدرتوں طاقتوں سے ان کو نشانات خدائی بھی دکھا دیتے اور وہ کام جو انہوں نے خدائی سے پہلے دکھائے تھے ان کی فہرست الگ دے دیتے پھر ایسے بین ثبوت کے بعد کسی یہودی فقیہ اور فریسی کو طاقت تھی کہ انکار کرتا وہ تو ایسے خدا کو دیکھ کر سجدہ کرتے مگر بر خلاف اس کے آپ نے کیا تو یہ کیا کہ کہ دیا کہ تمہیں خدا لکھا ہے.اب خدا ترس دل سے کر غور کرو کہ یہ اپنی خدائی کا ثبوت دیا یا ابطال کیا ؟" سے : يوحنا من :- ملفوظات جلد سوم ما :
۲۲۱ پس ثابت ہوا کہ جب ابن اللہ کے لفظ سے کبھی حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی اپنی الوہیت کا استدلال نہیں کیا تو کسی اور کا اس لفظ کو الوہیت کی بنیاد قرار د سے دنیا کس قدر بعید از عقل ہے.سکا سترھویں دلیل الوہیت مسیح علیہ السلام کے رد میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ ان کے قول اور فعل میں تضاد پایا جاتا ہے.خدا کی شان یہ ہے کہ اسکی قول و فعل میں یا دو اقوال میں کوئی تضاد یا اختلاف نہیں ہوتا.اس کا علم کامل اور ازلی ابدی ہوتا ہے.وہ حکیم ہے پس اس کے قول اور فعل کے آپس میں متضاد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.یہ اصول سب اہل مذاہب نے درست تسلیم کیا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی میں یہ بات نظر نہیں آتی.پس وہ خدا نہیں ہو سکتے.اس اصول کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.یہ بات نہایت معقول ہے کہ خدا کا قول اور فعل دونوں مطابق ہونے چاہئیں یعنی اور پس رنگ اور طرز پر دنیا میں خدا تعالیٰ کا فعل نظر آتا ہے ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی کتاب اپنے فعل مطابق تعلیم کہ سے ندیہ ک فعل سے کچھ اور ظاہر ہوا در قول سے کچھ اور ظاہر ہوا ہے کہ قول و فعل اور دو اقوال میں تضاد کی تفصیل یہ ہے کہ ایک موقع پر حضرت مسیح علیہ السلام نے بقول عیسائی حضرات خدا ہونے کا دعویٰ کیا ہے لیکن دوسری جگہ وہ اقرا نہ کرتے ہیں کہ قیامت کا علم کسی کو نہیں صرف باپ کو ہے.اگر ان میں اور باپ میں کوئی تفریق نہ تھی تو اس انکار کے کیا معنے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : " خُدا کے لئے تو یہ ضرور ہے کہ اسکی افعال اور اقوال میں تناقض نہ ہو.حالانکہ انجیل میں صریح تناقض ہے.مثلاً مسیح کہتا ہے کہ باپ کے سوا کسی کو قیامت کا علم نہیں ہے اب یہ کیسی تعجب خیز بات ہے کہ اگر باپ اور بیٹے کی عینیت ایک ہی ہے تو کیا مسیح کا یہ قول اس کا مصداق نہیں کہ دروغ گو را حافظه نباشد - کیونکہ ایک مقام پر تو دعوی خدائی اور دوسرے مقام پر الوہیت کے صفات کا انکاری ہے پھر حضرت مسیح علیہ السلام کے اپنے قول و فعل میں بھی باہم تضاد پایا جاتا ہے.جو خدا کی شان سے بعید ہے مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں ملاحظہ ہو :- ہے : :- چشمه سیحی ملات ۱۵ روحانی خزائن جلد ۲۰ : ملفوظات جلد سوم ۱۳ ۱۳۱ +
حضرت مسیح علیہ السلام کے قول کے بارہ میں فرمایا.انجیل میں بغیر کسی شرط کے ہر ایک جگہ عضو اور در گذرس کی ترغیب دی گئی ہے اور انسانی دوسرے مصالح کو جن پر تمام سلسلہ تمدن کا چل رہا ہے پامال کر دیا ہے اور انسانی قومی کے درخت کی تمام شاخوں میں سے صرف ایک شاخ کے بڑھنے پر زور دیا ہے.اور باقی شاخوں کی رعائیت قطعا ترک کر دی ہے؟ لیے لیکن کیا مسیح علیہ اسلام نے خود اس سراسر عفو و در گزر کی تعلیم پرعمل کیا ہے حضور فرماتے ہیں :- حضرت عیسی علیہ السلام نے خود اخلاقی تعلیم پر مل نہیں کیا.انجیر کے درخت کو بغیر کھیل کے دیکھ کر اس پر بد دعا کی اور دوسروں کو دُعا کہ نا سکھلایا اور دوسروں کو یہ بھی حکم دیا کہ تم کسی کو احمق مت کہو.اور خود اس قدر بد زبانی میں بڑھ گئے کہ یہودی بنز رگوں کو طلع الحرام تک کہ دیا اور ہر ایک وعظ میں یہودی علماء کو سخت سخت گالیاں دیں اور بر سے بڑے اُن کے نام رکھنے " ہے پس قول و فعل کا یہ تضاد ظاہر کرتا ہے کہ حضرت مسیح ہرگز خدا نہ تھے.اٹھار تنوين دليل الوہیت مسیح کی تردید میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی اخلاقی حالت ایسی ہے کہ وہ خدا کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی.خدا کی ہستی ہر کمزوری ہر عیب ہر خامی اور تلخ کلامی سے بہت بالا ہے.اس کی نسبت اس قسم کا کوئی خیال کرنابھی گستاخی ہے لیکن انتہائی افسوس ہے کہ مسیحی حضرات جس ہستی کو الوہیت کے منصب پر فائز کرتے ہیں وہ انہ روئے انجیل اخلاقی لحاظ سے بہت ہی کمزور اور قابل اعتراض نمونہ کا مالک ہے.اگر حضرت مسیح علیہ السلام کے حالات اور واقعات پر انجیلی بیانات کی روشنی میں غور کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی اخلاقی حالت ہرگستہ اس قابل نہیں کہ ان کو ایک شریف انسان یانبی بھی کہا جائے.چہ جائیکہ ان کو خدا سمجھ لیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :- تقیمیوں اور فرمینوں کو مخاطب کر کے حضرت مسیح نے غیر مہذب الفاظ استعمال کئے بکہ تعجب تو یہ ہے کہ ان یہودیوں کے معزز بزرگوں نے نہایت نرم اور مودبانہ الفاظ سے ه سه : چشمه سیحی صدا روحانی خزائن جلد ۲۲۰
۲۳۳ سراسر انکساری کے طور پر حضرت مسیح کی خدمت میں یوں عرض کی کہ اسے استنادا ہم تم سے ایک نشان دیکھنا چاہتے ہیں.اس کے جواب میں حضرت مسیح نے انہیں مخاطب کر کے یہ الفاظ استعمال کئے کہ اس زمانہ کے بد اور حرام کا رلوگ نشان ڈھونڈتے ہیں......الخ اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ وہ ان معززہ بزرگوں کو ہمیشہ دشنام دہی کے طور پر یاد کرتے رہے.کبھی انہیں کہا اسے سانو! اسے سانپ کے بچو.دیکھو متی باب ۲۳ آیت ۳۳ کبھی انہیں کہا اندھے.دیکھو متی باب ۱۵ آیت ۲۴ اکبھی انہیں کہا اسے ریا کا رو دیکھو کارو متی باب ۲۳ آیت ۱۳ کبھی انہیں نہایت فحش کلمات سے یہ کہا کہ کنجریاں تم سے پہلے خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہوں گی اور کبھی ان کا نام سور اور کتا رکھا.دیکھو متی باب ۲۱ آیت ۳۱ اور کبھی انہیں احمق کہا.دیکھو متی باب ۲۳ آیت ۷ کبھی انہیں کہا کہ تم جہنمی ہو دیکھو متی باب ۲۳ آیت ۱۶ حالانکہ آپ ہی علم اور خلق کی نصیحت دیتے تھے.بلکہ فرماتے ہیں کہ جو کوئی اپنے بھائی کو احمق کہے جہنم کی آگ کا سزاوار ہو گا یا اے پھر حضور فرماتے ہیں :- "انجیلوں میں بہت سے ایسے کلمات پائے جاتے ہیں جن سے نعوذ باللہ حضرت مسیح کا دروغ گو ہونا ثابت ہوتا ہے مثلاً وہ ایک چور کو وعدہ دیتے ہیں کہ آج بہشت میں تو میرے ساتھ روزہ کھولے گا اور ایک طرف وہ خلاف وعدہ اسی دن دوزخ میں جاتے ہیں.اور تین دن دوزخ میں ہی رہتے ہیں " سے عیسائی حضرات کو جو حضرت مسیح کے اخلاق کو بڑے زور سے الوہیت کی دلیل کے طور پر پیش کیا کرتے ہیں.ملزم کر تے ہوئے حضرت مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں :- " تکبر اور خود بینی جو تمام بدیوں کی جڑ ہے وہ تو لیسوع صاحب کے ہی حصہ میں آئی ہوئی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس نے آپ خدا بن کر سب نبیوں کو رہزن اور بیمار اور ناپاک حالت کے آدمی قرار دیا ہے.حالانکہ یہ اقرارہ بھی اس کے کلام سے نکلتا ہے کہ وہ خود بھی نیک نہیں ہے مگر افسوس کہ تکبیر کا سیلاب اس کی تمام حالت کو یر باد کر گیا ہے.کوئی بھلا آدمی گذشتہ بزرگوں کی مذمت نہیں کرتا.لیکن اس نے پاک نبیوں کو رہزنوں اور بیماروں کے نام سے موسوم کیا ہے.اس کی نہ بان پر ه از ار او بام حصہ اول حاشیه من اجلد ۶۳ که در چشم مسیحی ملت ریحانی خزائن جلد ۲۰ با
دوسروں کے لئے ہر وقت بے ایمان حرام کار کا لفظ چڑھا ہوا ہے.کسی کی نسبت بے حرام کا پڑھا ہوا کی ادب کا لفظ استعمال نہیں کیا.کیوں نہ ہو خدا کا فرزند جو ہوا ہے پس ظاہر ہے کہ جیسی وجود کی اخلاقی حالت اس قسم کی ہو وہ ہر گنہ خدا نہیں ہو سکتا.نیشون دليلك مسیحی حضرات الوہیت مسیح کے اثبات کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام کی بعض پیشگوئیوں کو پیش کیا کر تے ہیں.لیکن یاد رہے کہ صرف پیش گوئیاں اول تو معیار الوہیت ہی نہیں ہیں اور پھر خاص طور پر حضرت مسیح کی پیش گوئیاں تو اتنی کمزو را در قابل اعتراض ہیں کہ مسیحی حضرات کو خود انہیں پیش کرتے ہوئے شرم آنی چاہیئے.حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات اور پیش گوئیوں کے دلیل الوہیت نہ ہونے کے سلسلہ میں اصولی رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- دو مسیح کے معجزات اور پیش گوئیوں پر جس قدر اعتراضات اور شکوک پیدا ہوتے ہیں.میں نہیں سمجھ سکتا کہ کسی اور نبی کے خوارق یا پیش خبریوں میں کبھی ایسے شبہات پیدا ہوئے ہوں " " مسیح کی پیش گوئیوں کے دلیل الوہیت نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان پیش گوئیوں کی نوعیت ایسی ہے کہ ان کو محض ایک اندازہ یا عمومی بات قرار دیا جا سکتا ہے.اسے زیادہ کچھ نہیں.رسول اور نبی کی پیشگوئی کی شان تو یہ ہوتی ہے کہ اس میں ایک جلال تحدی اور شرکت پائی جاتی ہے مسیح اگر خدا تھے تو ان کی پیش گوئیوں کی کیفیت تو اس سے بھی بہت بڑھ کر حقیقی اور قطعی فیصلہ شدہ امر کی سی ہونی چاہیے تھی کیونکہ وہ خود ہی خدا تھے لیکن افسوس کہ ان کی پیش گوئیوں کی یہ کیفیت نظر نہیں آتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : " پیش گوئیوں کا حال اس سے بھی زیادہ ابتر ہے.کیا یہ بھی کچھ پیشگوئیاں ہیں کہ زلہ سے آئیں گے.سری پڑنے گی.لڑائیاں ہوں گی قحط پڑیں گے " سے ایک اور موقع پر فرمایا : ه ست بچن ما اروحانی خزائن جلد ان سے ازالہ اوہام حصہ اول مدت زمانی خزائن جلد ۳ به ه کے ازالہ اوہام حصہ اول صفت روحانی خزائن جلد :
۲۳۵ " مسیح کی پیشگوئیاں پیشگوئی کا رنگ ہی نہیں رکھتی ہیں.جو باتیں پیشگوئی کے رنگ میں مندرج ہیں وہ ایسی ہیں کہ ایک معمولی آدمی بھی ان سے بہتر باتیں کہہ سکتا ہے.اور قیافہ شناس مرتبہ کی پیش گوئیاں ان سے بدرجہا بڑھی ہوئی ہوتی ہیں" نے نیز فرمایا : "ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسیح کی جو پیش گوئیاں انجیل میں درج ہیں وہ ایسی ہیں کہ ان کو پڑھ کر ہنسی آتی ہے کہ قحط پڑیں گے زلزلے آئیں گے مرغ بانگ دے گا وغیرہ.اب ہر ایک گاؤں میں جا کر دیکھو کہ ہر وقت مرغ بانگ دیتے ہیں یا نہیں اور قحط اور زیزہ سے بالکل معمولی باتیں ہیں جو آجکل کے مرتبہ تو اسی بھی بڑھ کہ بتا دیتے ہیں کہ فلاں وقت طوفان آئے گا فلاں وقت بارش شروع ہوگی " سے پس ظاہر ہے کہ مسیح علیہ السلام کی پیش گوئیاں اپنی کیفیت اور نوعیت کے لحاظ سے کوئی خاص امتیاز اور فضیلت نہیں رکھتیں.اور نہ ہی ان میں کوئی قطعیت پائی جاتی ہے.مزید بر آن یه امر بھی قابل توجہ ہے کہ یہ پیش گوئیای با وجود اس قدر غیر واضح ہونے کے پھر بھی پوری نہ ہو سکیں.اگر چند ایک پیشگوئیاں بھی ایسی نکل آئیں جو پوری نہیں ہوئیں تو باقی پیش گوئیوں کے بارہ میں بھی ایمان اُٹھ جاتا ہے.اس سلسلہ میں مسیح پاک علیہ السلام نے متعدد مثالیں پیش فرمائی ہیں.آپ فرماتے ہیں :- ( ) ) در پیشگوئیوں کا یہ حال ہے جو اکثر جھوٹی نکلی ہیں.کیا باراں حواریوں کو وعدہ کے موافق باراں تخت بہشت میں نصیب ہو گئے.کوئی پادری صاحب تو جواب دیں ؟ کیا دنیا کی بادشاہت حضرت عیسی کو ان کی اس پیشگوئی کے موافق مل گئی جس کے لئے ہتھیار بھی خرید سے گئے تھے.کوئی تو بولے ؟ اور کیا اسی نہ مانہ میں حضرت مسیح اپنے دعوسے کے موافق آسمان سے اتر آئے ؟ میں کہتا ہوں کہ اتمر نا کیا ان کو تو آسمان پر جانا ہی نصیب نہیں ہوا یہ ہے (۲) و دیکھو حضرت مسیح کا کس زور سے دعوی تھا کہ اس زمانہ کے بعض لوگ ابھی زندہ ہوں گے ملفوظات جلد سوم ما : هو ملفوظات جلد سوم هنا : سه : چشمه سیحی ملا وحانی خزائن جلد ۲۰ به
کہ میں پھر آئی گا مگر وہ سب مر گئے اور اس پر اٹھارہ سو برس اور بھی گزر گئے اور وہ جیسا کہ عیسائیوں کا خیال ہے اب تک نہ آسکے بلا سے (۳)." کہاں یہ پیش گوئی مسیح کی پوری ہوئی کہ اس زمانہ کے لوگ ابھی زندہ ہی ہوں گے کہ میں واپس آجاؤں گا.کہاں اس کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی کہ وہ داؤد کا تخت قائم کرے گا اور کب یہ پیش گوئی ظہور میں آئی کہ اسکے بارہ ہماری یادہ تختوں پر بیٹھیں گے.کیونکہ یہودا اسکے ہوائی مرتد ہو گیا اور جہنم میں جاپڑا اور اس کی بجائے جس کے لئے تخت کا وعدہ تھا ایک نیا حواری تراشا گیا جو مسیح کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ؟ شہ (۴) حضرت عیسی علیہ اسلام نے فرمایا کہ میرے بارہ حواری بہشت میں بارہ تختوں پر بیٹھیں گے.مگر یہ بات صحیح نہ ہوئی بلکہ ایک جواری مرتد ہو کر جہنم کے لائق ہوگیا اور اپنے فرمایا تھا کہ ابھی اس زمانہ کے لوگ زندہ ہوں گے کہ یکی دوبارہ آجاؤں گا.یہ بات بھی صحیح نہ نکلی اور کئی اور پیش گوئیاں حضرت عیسی علیہ السلام کی باعث اجتہادی غلطی کے پوری نہ ہو سکیں.غرض یہ اجتہادی غلطیاں تھیں کے پیش گوئیاں نری انکل معلوم ہوتی ہیں اور زیادہ افسوس یہ ہے کہ بعض پوری بھی نہ ہوئیں مثلاً یہ پیش گوئی کب اور کس وقت پوری ہوئی کہ تم سے ابھی بعض نہیں مریں گے کہ میں آسمان پر سے اتر آؤں گا.بادشاہت کہاں ملی جس کے لئے تلواریں خریدی گئیں تھیں.بارہ حواریوں کو بہشتی تختوں کا وعدہ ہوا تھا.یہودا اسکو یو ٹی کو سخت کہاں ملا ہ سے یوطی (4) " کیا یہودی اب تک نہیں کہتے کہ یسوع مسیح نے دعوی کیا تھا کہ میں داؤد کا تخت قائم کرنے آیا ہوں اور یسوع کے اس لفظ سے بجز اس کے کیا مراد تھی کہ انھی اپنے بادشاہ ہونیکی پیش گوئی کی تھی جو پوری نہ ہوئی.یہودی یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ مسیح نے کہا تھا کہ کی...ہیں نے : ضیاء الحق من روحانی خزائن جلده : شه : تذكرة الشهادتين ما روحانی خزائن جلد ۲۰ : : جنگ مقدس من روحانی خزائن جلد ۶ ہے - سیکھوں ہورہ چنار بیا
۲۲۷ ابھی بعض لوگ زندہ موجود ہوں گے کہ میں واپس آدمی گا.مگر یہ پیش گوئی بھی جھوٹی ثابت ہوئی اور وہ اب تک واپس نہیں آیا کے لئے (<) " حضرت عیسی نے فرمایا تھا کہ میر سے بارہ حواری بارہ تختوں پر بہشت میں بیٹھیں گے.یہ پیش گوئی بھی انجیل میں موجود ہے مگر ایک ان حواریوں میں سے یعنی یہودا اسکہ یوطی مرتد ہو کہ مر گیا.اب متبلا و باراں تختوں کی پیش گوئی کس طرح صحیح ہو سکتی ہے ؟.....ایسا ہی حضرت عیسی نے فرمایا تھا کہ اس زمانہ کے لوگ ابھی گزر نہیں جائیں گے کہ میں واپس آؤں گا........انیس صدیاں تو گذرگئی مگر ابھی تک حضرت عیسی واپس نہیں آئے " " (^) " زیادہ تر قابل افسوس یہ امر ہے کہ جس قدر حضرت مسیح کی پیش گوئیاں غلط نکلیں اسقدر صحیح نہیں نکل سکیں.انہوں نے یہودا اسکر یوٹلی کو بہشت کے بارہ تخنوں میں سے ایک تخت دیا تھا جب کسی آخر وہ محروم رہ گیا.اور پطرس کو نہ صرف تخت بلکہ آسمان کی کنجیاں بھی ویسے دی تھیں.اور بہشت کے دروازے کسی پہ بند ہونے یا کھلتے اسی کے اختیار میں رکھے تھے مگر پطرس جس آخری کلمہ کے ساتھ حضرت مسیح سے الوداع ہوا وہ یہ تھا کہ اس نبی مسیح کے رو برو سیج پر لعنت بھیج کر اور قسم کا کر کہا کہ یں ا شخص کو نہیں جانتا.ایسا ہی اور بھی بہت سی پیشگوئیاں جو صحیح نہیں نکلیں.....غایت مافی الباب یہ ہے کہ حضرت مسیح کی پیش گوئیاں آوروں سے زیادہ غلط نکلیں".ان سب حوالہ جات سے یہ بات بالبداہت ثابت ہو جاتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی پیشگوئیاں ہرگز ہرگز دلیل الوہیت نہیں بن سکتیں.بلکہ وہ پیش گوئیاں الوہیت میسج کے خلاف واضح دلیل ہیں.بیستون دلیل يديك مسیحی حضرات جس بات کو بھی حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت ثابت کرنے کے لئے پیش کر تے ہیں وہ انسان ہی کے خلاف دلیل بن جاتی ہے.مثلاً مسیحی یہ کہا کرتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا درجہ باقی سے : - تریاق القلوب مت روحانی خزائن جلد ۱۵ سے فیمیم بر این احمدیہ حصہ پنجم ما روحانی خزائن جلد ۲۱ : : - ازاله او بام حصہ اول صفا
انبیاء سے بڑھ کر ہے.انہیں لازماً یہ دعوی کرنا پڑ سے گا وگرنہ یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ جب ان کو دیگر انبیاء پر کوئی فضیلت حاصل نہیں تو وہ خدا کیسے بن گئے.جبکہ دیگر انبیاء محض انسان ہیں.لیکن مسیحیوں کا یہ دعویٰ که حضرت عیسی علیہ السلام کو دیگر انبیاء پر فضیلت حاصل ہے.دعوی بلا دلیل ہے.کیونکہ واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو دیگر انبیاء پر فضیلت حاصل نہیں.بلکہ بہت سے ایسے نبی ثابت ہوتے ہیں جو درجہ میں مسیح علیہ السلام سے بڑھے ہوئے ہیں.جہاں تک ان کے لقب ابن اللہ کا سوال ہے تو ہم دیکھ چکے ہیں کہ اسرائیل کو خدا کا پلوٹا بیٹا کہا گیا ہے.اور جہاں تک مسیح کے منجزات کا سوال ہے اس کی بھی واضح تر دید موجود ہے.حضرت مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں :- "کیا حضرت موسیٰ مسیح سے بڑھ کر نہیں.جن کے لئے بطور تابع اور مقتدی کے حضرت مسیح آئے اور ان کی شریعت کے تابع کہلائے معجزات میں بعض نبی حضرت مسیح سے ایسے بڑھے کہ ہمو جب آپ کی کتابوں کے ہڈیوں کے چھونے سے مرد سے زندہ ہو گئے اور مسیح کے معجزات پراکندگی میں پڑے ہیں کیونکہ وہ تالاب جس کا یوجنا پانچ باب میں ذکر ہے حضرت مسیح کے تمام معجزات کی رونق کھوتا ہے.کس علی اور فعلی فضیلت کے رو سے حضرت مسیح کا افضل ہونا ثابت ہوا.اگر وہ ضمنا افضل ہوتے تو حضرت یوحنا سے اصطباغ ہی کیوں پاتے.ان کے روبرو اپنے گناہوں کا اقرارہ ہی کیوں کرتے.اور نیک ہونے سے کیوں انکار کرتے " سے یہ تو واقعاتی اور تاریخی ثبوت تھا ، حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے خداداد علم کلام کی شان یہ ہے کہ آپ نے خود اپنی مثال پیش کر کے فرمایا ہے کہ اگر معجزات اور شفاعت کا ہی سوال ہو تو میں دعوی کرتا ہوں کہ میں مسیح ابن مریم سے بڑھ کر ہوں.اس لئے تو آپ نے فرمایا ہے کہ سے اسی بہتر غلام احمد ہے ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو 4 چنانچہ اسی سلسلہ میں آپ بڑی تحدی اور جلال کے ساتھ فرماتے ہیں :- یاد رکھو کہ خدائی کے دعوی کی حضرت مسیح پر سراسر تہمت ہے انہوں نے ہرگز ایسا دعوی نہیں کیا.جو کچھ انہوں نے اپنی نسبت فرمایا ہے وہ لفظ شفاعت کی بڑھتے نہیں.سونبیوں کی شفاعت سے کس کو انکار ہے.حضرت موسیٰ کی شفاعت سے کئی مرتبہ بنی اسرائیل بھڑکتے ہوئے عذاب سے نجات پاگئے.اور میں خود اس میں حساب تجربہ :- جنگ مقدس من روحانی خزائن جلد ۶ :
۲۲۹ ہوں.اور میری جماعت کے اکثر معزنہ خوب جانتے ہیں کہ میری شفاعت سے بعض مصائب اور امراض کے مبتلا اپنے دکھوں سے رہائی پاگئے اور یہ خبرین ان کو پہلے سے دی گئی تھیں ؟ اللہ اللہ کی عظیم الشان تحدی ہے.اور کتنا پر شوکت یہ دعوئی ہے.ظاہر ہے کہ یہ شان صرفت اس شخص کے کلام میں نظر آسکتی ہے جس کو خدا نے اپنے خاص دست قدرت سے کھڑا کیا ہو.اور جری اللہ فی حلل الا نبیاء بنا کر بھیجا ہو.آپ نے اپنے آپ کو ایک زندہ مثال کے طور پر پیش فرما کر دشمن کو خاموش اور لاجواب کر دیا.اليسون دليلك عیسائی حضرات حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کی ایک دلیل یہ پیش کر تے ہیں کہ عہد نامہ قدیم میں مسیح کے اللہ ہونے کے بارہ میں پیش گوئیاں پائی جاتی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسیح خدا تھے.اول یہ بات ہی بڑی کمزوری پر دلالت کرتی ہے کہ مسیح کی الوہیت ثابت کرنے کے لئے قدیم پیشگوئیوں کا سہارا ڈھونڈا جائے.کیا خدا کی خدائی اسی طرح کی دلیلوں سے ثابت کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کی شان تو یہ ہے کہ ے قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حقی ثبوت اس بے نشان کی چہرہ نمائی یہی تو ہے تا ہم اگر گذشتہ پیشگوئیوں کو ہی پیش کرنا ہو تو بات پھر بھی نہیں بنتی.کیونکہ یہ پیشن گوئیاں خود حضرت مسیح علیہ السلام کی نظر میں ان کی الوہیت کی دلیل نہیں ہیں.ہمارا استدلال یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح ان پیشگوئیوں کو اپنی الوہیت کی دلیل سمجھتے تو ضرور ان کو ان لوگوں کے سامنے جو ان کی الوہیت کے منکر اور آپ کو کا فر قرار دیتے تھے.لیکن مسیح کا ایسا نہ کرنا ثابت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ پیشگوئیاں ثبوت الوہیت نہیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دلیل کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:.اگر حضرت مسیح در حقیقت اپنے تئیں ابن اللہ ٹھہراتے تو ضرور یہی پیشگوئیاں وہ پیش کرتے.....جبکہ انہوں نے وہ پیش نہیں کیں تو معلوم ہوا کہ ان کا وہ دعوی نہیں تھا.اگر انہوں نے کسی اور مقام میں پیش کر دی ہیں اور کسی دوسرے مقام میں یہودیوں کے اس بارہ بارہ کے اعتراض کو اس طرح پر اٹھا دیا ہے کہ میں در حقیقت خدا اور خدا کا : لیکچر سیالکوٹ ما روحانی خزائن جلد ۶۲۰
٢٣٠ بیٹا ہوں.اور یہ پیش گوئیاں میرے حق میں وارد ہیں.اور خدائی کا ثبوت بھی اپنے افعال.کاثبوت سے دکھلا دیا ہے.تا اس متنازعہ فیہ پیش گوئی سے ان کو مخلصی حاصل ہو جاتی.تو بہائے مہربانی وہ مقام پیش کر ہے......ہر ایک دانا اس بات کو سمجھتا ہے کہ جب وہ کافر ہرائے گئے اور ان پر حملہ کیا گیا اور ان پر پتھراؤ شروع ہوا تو ان کو اس وقت اپنی خدائی کے ثابت کرنے کے لئے ان پیش گوئیوں کی اگر وہ در حقیقت حضرت مسیح کے حق میں تھیں اور ان کی خدائی پر گواہی دیتی تھیں سخت ضرورت پڑی تھی کیونکہ اس وقت جان جانے کا اندیشہ تھا.اور کافر تو قرار پا چکے تھے.تو پھر ایسی ضروری اور کار آمد پیشگوئیاں کسی دن کے لئے رکھی گئی تھیں.کیوں نہیں پیش کیں " سے حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق عہد نامہ قدیم کی جن پیش گوئیوں کو پیش کیا جاتا ہے ان کا تجزیہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :- ان پیش گوئیوں کے متعلق جہاں تک میں کہ سکتا ہوں دو امر قابل غور ہیں : اولے.کیا ان پیش گوئیوں کی بابت یہودیوں نے بھی (جن کی کتابوں میں یہ درج ہیں) یہی سمجھا ہوا تھا کہ ان سے تثلیث پائی جاتی ہے یا سیح کا خدا ہونا ثابت ہوتا ہے.دوم - دھ کیا سین نے خود بھی تسلیم کیا کہ یہ پیشگوشیاں میرے ہی لئے ہیں اور پھر اپنے آپ کو ان کا مصداق قرار دیکر مصداق ہونے کا عملی ثبوت کیا دیا ؟" سے جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے کہ کیا یہودی لوگ ان پیشگوئیوں کو حضرت مسیح پر منطبق کرتے اور اس سے اس کی الوہیت کا استدلال کرتے ہیں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :." یہودیوں نے جو اصل وارث کتاب تو ریت ہیں اور جن کی بابت خود مسیح نے کہا ہے کہ وہ موسی کی گری پر بیٹھے ہیں کبھی بھی ان پیش گوئیوں کے یہ معنے نہیں کئے جو آپ یا دوسرے عیسائی کرتے ہیں اور وہ کبھی بھی مسیح کی بابت یہ خیال رکھ کر کہ وہ تثلیث کا ایک جزو ہے منتظر نہیں ہے پھر آپ فرماتے ہیں :- یونیٹیرین لوگوں نے شکست پرستوں کے بیانات ان پیشگوئیوں کے متعلق سنکر کہا کے : جنگ مقدس من روحانی خزائن جلد سے : ملفوظات جلد سوم ۱۲۵-۱۳۰ : :- ملفوظات جلد سوم من :
: ۲۳۱ ہے کہ یہ قابل شرم باتیں ہیں جو پیش کرنے کے قابل نہیں ہیں.اور اگر تثلیث اور الوہیت سیح کا ثبوت اسی قسم کا ہو سکتا ہے تو پھر بائیل سے کیا ثابت نہیں ہوسکتا ہے.لے نیز فرمایا :- " یہودی لوگ جو اول وارث توریت کے تھے جن کے عہد عقیق کی پیش گوئیاں سراسر غلط فہمی کی وجہ سے پیش کی جاتی ہیں کیا کبھی انہوں نے جو اپنی کتابوں کو رو نہ تلاوت کرنے والے تھے اور ان پر غور کرنے والے تھے اور حضرت مسیح بھی ان کی تصدیق کرتے تھے کہ یہ کتابوں کا مطلب خوب سمجھتے ہیں ان کی باتوں کو مانو.کیا کبھی انہوں نے ان بہت سی پیش کردہ پیشگوئیوں میں سے ایک کے ساتھ اتفاق کر کے اقرار کیا کہ ہاں یہ پیش گوئی مسیح کو خدا بناتی ہے اور آنے والا صیح انسان نہیں بلکہ خدا ہوگا.تو اس بات کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا.......یہ کیا بات ہے کہ با وجود صدا پیشگوئیوں کے پائے جانے کے پھر بھی ایک پیش گوئی ان کو سمجھ نہ آئی اور کبھی کسی اور زمانہ میں ان کا یہ عقیدہ نہ ہوا کہ حضرت مسیح بحیثیت خدائی دنیا میں آئیں گے" سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام دلیل کے اس حصہ کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :- " یہ اتفاق یہودیوں کا قبل از زمانہ مسیح کہ آنے والا ایک انسان ہے خدا نہیں ہے ایک طالب حق کے لئے کافی دلیل ہے " سے اور جہاں تک پیش گوئیوں کے متعلق اس حصہ کا تعلق ہے کہ کیا خود حضرت مسیح نے اپنے آپ کو ان کا مصداق قرار دیا ہے یہ بات غلط ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:- انجیل کے اس دعوی کو رد کرنے کے لئے تو خود انجیل ہی کافی ہے کیونکہ کہیں مسیح کا ادعا ثابت نہیں.بلکہ جہاں ان کو موقع ملا تھا کہ وہ اپنی خدائی منوا لیتے وہاں انہوں نے ایسا جواب دیا کہ ان ساری پیشگوئیوں کے مصداق ہونے سے گویا انکار کر دیا یہ ہے نیز فرمایا : "انجیل کو پڑھ کر دیکھ لو اس میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوا کہ حضرت مسیح نے ان پیشگوئیوں کو پورا نقل کر کے کہا ہو کہ اس پیشگوئی کے رو سے میں خُدا ہوں اور یہ میری : ملفوظات جلد سوم : -:-:- : جنگ مقدس منه روحانی خزائن جلد : ه: ملفوظات جلد سوم من : -١٥ سے :- جنگ مقدس من ۱۸ روحانی خزائن جلد
الوہیت کے دلائل ہیں کیونکہ نرا دعوی تو کسی دانشمند کے نزدیک بھی قابل سماعت نہیں ہے اور یہ بجائے خود ایک دعوئی ہے کہ ان پیش گوئیوں میں مسیح کو خدا بنایا گیا ہے مسیح نے خود کبھی دعوی نہیں کیا تو کسی دوسرے کا خواہ مخواہ ان کو خدا بنا نا مجیب بات ہے" سے پس اس سارے بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مسیح علیہ السلام کی الوہیت کی دلیل کے طور پر عہد نامہ قدیم کی پیشگوئیوں کو پیش کرنا سراسر زیادتی ہے.اور اس کی کوئی وجہ جواز موجود نہیں ہے.بلکہ ان پیش گوئیوں کا یہ ستم مفہوم کہ آنے والا مسیح انسان ہوگا نہ کہ خدا - الوہیت مسیح کی تردید میں واضح دلیل ہے.بائليسون دليل الوہیت مسیح کے رد میں بائیسویں دلیل یہ ہے کہ عیسائی لوگوں میں بھی مسیح کی الوہیت کے متعلق مکمل اتفاق نہیں پایا جاتا.ان میں سے بعض حضرت مسیح کو بطور خدا اپنا نجات دہندہ یقین کرتے ہیں.اور بعض دوسرے ان کو محض ایک انسان اور خدا کا نبی سمجھتے ہیں.ہمارا استدلال یہ ہے کہ اگر الوہیت مسیح کا عقیدہ مبنی بر حقیقت ہوتا اور اس بارہ میں صحف سابقہ کی پیش گوئیاں حضرت مسیح علیہ السلام کے اپنے بیانات اور معجزات اس قدر واضح قطعی اور یقینی ہوتے تو ہر گنہ عیسائیوں میں یہ اختلاف رائے پیدا نہ ہوتا.پس یہ اختلاف رائے اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت مسیح کی الوہیت کا مسئلہ کوئی قطعی اور یقینی مسئلہ نہیں ہے.اور اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال - اذاجاء.حضرت مسیح موعود علیہ السلام عیسائیوں کے اس اختلاف کے بارہ میں فرماتے ہیں :- " ایک طرف گھر میں ہی پھوٹ پڑی ہوئی ہو.ایک صاحب حضرات عیسائیوں میں سے تو حضرت مسیح کو خدا ٹھہراتے ہیں اور دوسرا فرقہ ان کی تکذیب کر رہا ہے یہ ہے حضرت مسیح علیہ السلام کی حیثیت کے بارہ میں جس اختلاف کا اوپر ذکر ہوا ہے اس کا ایک ثبوت مندرجہ ذیل حوالہ بھی ہے.ایک مشہور سیحی مصنف : Rev.E.R.Hul اپنی کتاب What Catholic church is and what she teaches." میں لکھتے ہیں :.Most protestants believe that divinity of christ is clearly : عفوظات جلد سوم صن ١٣ :- جنگ مقدس من ریحانی خزائن جلد 4 ::
۲۳۳ taught in the bible; yet the socianians have argued with apparent sincerity that the new testament presents christ merely as an inspired man." یہ حوالہ ظاہر کہتا ہے کہ مسیح کی ذات کے بارہ میں عیسائی فرقوں میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے.یہی شدید اختلاف ہمارے استدلال کی بنیاد ہے کہ اگر واقعی حضرت مسیح خدا ہوتے اور ان کی خدائی کے ثبوت غیر مہم اور یقینی ہوتے تو عیسائی فرقوں میں یہ شدید اختلاف رونما نہ ہوتا.پس ثابت ہوا کہ مسیح کی الوہیت کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے.تئیسوس دليلك حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کے رد میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ انسانی عقل کے نزدیک ان کا بطور خدا درنیا میں آنا ایک بے معنی اور غیر مفید کام ہے.پھر اس کی خدا کی حکمت اور علم پر بھی ند پڑتی ہے.کیونکہ انسانوں کی اصلاح اور ارتقاء کے لئے وہ نمونہ پیش کرنا چاہیئے جس کی انسان پیروی کر سکیں.اور اس کے روحانی مقام تک ترقی کر سکتے ہوں.انسان کا خدا بننا ناممکن ہے اس لئے خدا کے آنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دلیل کو بھی بیان فرمایا ہے.اور الوہیت مسیح کا ر ڈ فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں :- " انسان اپنی انسانی حدود اور ہیئت کے اندر ترقی مدارج کر سکتا ہے.نہ یہ کہ وہ خدا بھی بن سکتا ہے.جب انسان خدا بن ہی نہیں سکتا تو پھر ایسے نمونے کی کیا ضرورت جب سے انسان فائدہ نہیں اٹھا سکتا.انسان کے واسطے ایک انسانی نمونے کی ضرورت ہے جو کہ رسولوں کے رنگ میں ہمیشہ خدا کی طرف سے دنیا میں آیا کرتے ہیں.نہ کہ خدائی نمونہ کی جس کی پیروی انسانی مقدرت سے بھی باہر اور بالا تر ہے.ہم حیران ہیں کہ کیا خدا کا منشاء انسانوں کو خدا بنانے کا تھا کہ ان کے واسطے خدائی کا نمونہ بھیجا تھا یا ہے پھر اسی ضمن میں مزید وضاحت کی غرض سے فرمایا :- 114 10 ملفوظات جلد دہم م ۲۱ : :
۲۳۴ : انسان کا یہ کام نہیں کہ وہ خدا بن جاوے تو پھر اسے ایسے نمونے کیوں دئے جاتے ہیں ؟ جب کسی کو کوئی نمونہ دیا جاتا ہے تو اسی نمونہ دینے والے کا یہ منشا ہوتا ہے کہ اس نمونہ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کی جاد سے اور پھر وہ اس شخص کی طاقت میں بھی ہوتا ہے کہ (وہ) اس نمونے کے مطابق ترقی کر سکے.خدا جو فطرت انسانی کا خالق ہے.اور اسے انسانی قویٰ کے متعلق پورا علم ہے اور کہ اس نے انسانی قوی میں یہ مادہ ہی نہیں رکھا کہ خدا بھی بن سکے تو پھر کیوں اس نے ایسی صریح غلطی کھائی کہ جس کام کے کرنے کی طاقت ہی انسان کو نہیں دی.اس کام کے کرنے کے واسطے اسے مجبور کیا جاتا.کیا یہ ظلم صریح نہ ہوگا.رسالت اور نبوت کے درجہ تک تو انسان ترقی کر سکتا ہے کیونکہ وہ انسانی طاقت میں ہے.پس اگر حضرت مسیح خدا تھے تو ان کا آنا ہی لا حاصل بھرتا ہے یہ لے پس اس دنیل کا خلاصہ یہی ہے کہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا مانا جائے توان کا دنیا میں آنا ایک بے فائدہ کام ٹھہرتا ہے.اور اس طرح ان کو بھیجنے والے خدا کے علم اور حکمت پر بھی نزد پڑتی ہے پس عقل کی رو سے حضرت مسیح علیہ السلام کا خدا ہوتا باطل ہے.ایک وضاحت عیسائیوں کے سامنے جب الوہیت میسج کی تردید کے یہ دلائل رکھے جاتے ہیں تو وہ لاجواب ہو کر راہ فرار اختیار کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح علیہ السّلام کی دو حیثیتیں مانتے ہیں.ایک مسیح انسان کی اور دوسری مسیح خدا کی.مسیح دیکھنے میں عام انسانوں کی طرح انسان بھی تھا.لیکن اقنوم ثانی مینی ابن کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے ابن اللہ بھی تھا اور بناء بریں خدا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں کی ان تاویلات رکیکہ کا کڑا محاسبہ فرمایا ہے.آپ کے دو حوالے ذیل میں درج کرتا ہوں ، جوان تاویلات کی حقیقت واضح کر دیتے ہیں.فرمایا :- (1) " یہ قول ان کا سرامہ فضول اور نفاق اور دروغ گوئی پر مبنی ہے جو وہ کہتے ہیں کہ ہم : ملفوظات جلد دهم ۲۲۲۰ ۲۲۳ :
۲۳۵ عیسی کو تو ایک انسان سمجھتے ہیں مگر اس بات کے ہم قائل ہیں کہ اسکے ساتھ اقنوم ابن کا تعلق تھا.کیونکہ مسیح نے انجیل میں کہیں یہ دعوی نہیں کیا کہ اقوم ابن سے میرا ایک خاص تعلق ہے.اور وہی اقنوم ابن اللہ کہلاتا ہے نہ ہیں بلکہ انجیل یہ بتلاتی ہے کہ خود مسیح ابن اللہ کہلاتا تھا اور جب مسیح کو زندہ خدا کی قسم دے کر سردار کاہن نے پوچھا کہ کیا تو خدا کا بیٹا ہے تو اس نے یہ جواب نہ دیا کہ میں تو ابن اللہ نہیں بلکہ میں تو وہی انسان ہوں جس کو تیس برس سے دیکھتے چلے آئے ہو ہاں ابن اللہ وہ اقنوم ثانی ہے جنسی اب مجھ سے قریباً دو سال سے تعلق پکڑ لیا ہے.بلکہ اس نے سرحان کا ہن کو کہا کہ ہاں وہی ہے جو تو کہتا ہے.پس اگر ابن اللہ کے معنی اس جگہ وہی ہیں جو عیسائی مراد لیتے ہیں تو ضرور ثابت ہوتا ہے کہ مسیح نے خدائی کا دعویٰ کیا.پھر کیونکہ کہتے ہیں کہ ہم مسیح کو انسان سمجھتے ہیں.کیا انسان صرف جسم اور ہڈی کا نام ہے ؟.(۲) اگر کوئی یہ کہے کہ اقوم ثانی کا مسیح کی روح سے ایسا اختلاط ہو گیا تھا کہ درحقیقت وہ دونوں ایک ہی چیز ہو گئے تھے اس لئے مسیح نے اقنوم ثانی کی وجہ سے جو اسکی ذات کا عین ہو گیا تھا خدائی کا دعویٰ کر دیا تو اس تقریر کا مال بھی یہی ہوا کہ بموجب زعم نصاری کے ضرور مسیح نے خدائی کا دعویٰ کیا کیونکہ جب اقنوم ثانی اسکی وجود کا تعین ہو گیا اور اقنوم ثانی خدا ہے تو اسکی یہی نتیجہ نکلا کہ مسیح خدا بن گیا یا ہے خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ وہ اہم دلائل ہیں کہ جوہ کا سر صلیب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوہیت مسیح کے باطل عقیدہ کے رد میں بیان فرمائے ہیں.اس ضمن میں حضور علیہ السّلام کا ایک جامع نوٹ بھی ہے جو ذیل میں درج کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں :- جس حالت میں ایک طرف تو حضرت مسیح اپنے کفر کی بریت ثابت کرنے کے لئے یوحنا باب.امیں اپنے تئیں خدا اطلاق پانے میں دوسروں کا ہم رنگ قرار دیں اور اپنے تئیں لاعلم بھی قرار دیں کہ مجھے قیامت کی کچھ خبر نہیں کہ کب آئے گی اور یہ بھی روا نہ رکھیں کہ ان کو کوئی نیک کہے اور جابجا یہ فرما دیں کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اور حوالہ یوں کو یہ نصیحت دیں کہ پیش گوئیاں وغیرہ امور کے وہی معنی کرو جو یہودی الدار الاسلام من حاشیه رانی خزائن جلد 9 : سه :- انوار الاسلام من حاشیه رمانی خزائن جلد 9 :
۲۳۶ کیا کرتے ہیں.اور ان کی باتوں کو سنو اور بانو.اور پھر ایک طرف مسیح کے مجرت ابھی دوسرے نبیوں کے معجزات سے مشابہ ہوں بلکہ ان سے کسی قدر کم ہوں بوجہ اس تالاب کے قصہ کے.......جس میں غسل کرنے والے اسی طرح طرح طرح کی بیماریوں سے اچھے ہو جایا کرتے تھے جیسا حضرت مسیح کی نسبت بیان کیا جاتا ہے.اور پھر ایک طرف گھر میں پھوٹ پڑی ہوئی ہو.ایک صاحب حضرات عیسائیوں میں سے تو حضرت مسیح کو خدا ٹھہراتے ہیں.اور دوسرا فرقہ ان کی تکذیب کر رہا ہے.ادہر یہودی بھی سخت مکذب ہوں اور عقل بھی ان نا معلوم خیالات کے مخالف ہو اور پھر وہ آخری نبی جنسی صد با دلائل اور نشانوں سے ثابت کر دیا ہو کہ میں سچاہتی ہوں تو پھر باوجود اس قدر مخالفانہ ثبوتوں کے ایک خاص فرقہ کا خیال اور وہ بھی بے ثبوت کہ ضرور حضرت مسیح خدا ہی تھے کسی کام آسکتا ہے اور کس عزت دینے کے لائق ہے " سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ ان دلائل و براہین پر یکجائی نظر کر نے سے الوہیت مسیح کے عقیدہ کی حقیقت طشت ازبام ہو جاتی ہے.اور صداقت آفتاب نیم روز کی طرح چھلکنے لگتی ہے کہ حضرت مسیح ناصر علیہ السلام ہرگز ہر گز ندانہ تھے.بلکہ وہ پچھے خالق و مالک خدا کے ایک نبی اور رسول تھے.عیسائیوں نے حضرت مسیح کے ساتھ نادان دوست کا سا سلوک کیا ہے جو ان کو خواہ مخواہ خدا بنا دیا ہے حضرت مسیح علیہ السلام نے خود کبھی اور کسی جگہ خدا ہونے کا دعویٰ تک نہیں فرمایا.لیکن اب عیسائی نہ بر دستی ان کو خدا بنا کر ہے ہیں اور ہر روز اعتراضات کا نشانہ بنتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس باطل عقیدہ کے اختیار کرنے کے نتیجہ میں عیسائیوں پر وار د ہونے والے اعتراضات کے بارہ میں کیا خوب فرماتے ہیں :- " بے چارے عیسائی جسے ابن مریم کو خدا بنا بیٹھے ہیں بڑی بڑی مصیبتوں میں پڑسے ہوئے ہیں.کوئی دن ایسا نہیں ہوگا کہ خود انہی کی روح ان کے اس اعتقاد کو نفر سے نہیں رکھتی ہوگی یا نہ " بالآخر مسیح پاک علیہ اسلام کے اس حوالہ پر اس باب کو ختم کرتا ہوں.حضور فرماتے ہیں :- اسے عیسائیو ا یاد رکھو کہ مسیح ابن مریم ہرگز ہرگز خدا نہیں ہے.تم اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو.خدا کی عظمت مخلوق کو مت دو.ان باتوں کے سننے سے ہمارا دل کا نپتا ہے کہ تم ایک مخلوق ضعیف درماندہ کو خدا کر کے پکارتے ہو.سچے خدا کی طرف آجاؤ تا تمہارا بھلا ہو اور تمہاری عاقبت بخیر ہو " :- جنگ مقدس مشت جلد : سے : ست بیچن ما : ۱۹۳ کتاب البرية من جلد ۱۳ : : ماه:
۲۳۷ یہ عقیدہ غلطیوں سے کا ایک مجموعہ ہے " دمسیح موعود باب ششم تردید کفاره م کفتاره کفارہ کی حیثیت اسلام میں مسیحی کفاره م مسیحی کفارہ میں بنیادی غلطیات م مسیحی کفارہ کے تردید کے دلائے ہ ہم نجاتے کے لئے نہ کسی خوف کے محتاج ہیں ھے اور کسی ملی ہے کے حاجت مند اور نہ کسے کفارہ کیسے میں سے ضرورتے ہے بلکہ ہم موعے ایک سے قربانی کے محتاج ہیں جو اپنے نفس کی قربانتے ہے کیا سیح موعود)
۲۳۸ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے :- عیسائی مذہب میں نجات پانے کے لئے ایک تھے تجویز نکالی گئی ہے اور ایک نیا نسخہ تجویز کیا گیا ہے جو تمام جہانے کے اصول سے نرالا اور سراسر عقل اور انصاف اور رحم سے مخالف ہے اور وہ یہ ہے کہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضر تھے مسیح علیہ السلام نے تمام جہانے کے گناہ اپنے ذمہ لے کر صلیب سے پر مرنا منظور کیا تا ان کی اسی موقعے سے دوسروں کی رہائی ہو اور خُدا نے اپنے بے گناہ بیٹے کو مارا تا کنا ہوگا روسے کو بچاوے"." ا عیسائیوں کا یہ اصول کہ خدا نے دنیا سے پیار کر کے دنیا کو نجات دینے کا بہ انتظام کیا کہ نافرمانوں اور کا فروتے اور بد کا رونے کا گناہ اپنے پیارے بیٹے یسوع پر ڈالنے دیا اور دنیا کو گناہ سے چھڑانے کے لئے اسے کو لعنتی سے بنایا اور لعنت کیسے لکڑی سے لٹکایا.یہ اصوات ہر ایک پہلو سے فاسد اور قابیلی کے شرم ہے یہ L
کفاره عربی زبان کی لغت المنجد میں لکھا ہے :- "الكفارة - مؤنث الكفار.ما يكفربه اى يغطى به الاثم ما كفر به من صدقة وصوم ونحوهما له گویا کفارہ سے مراد ایسی چیز ہے جو گناہ کو چھپا دیتی ہے.صدقہ اور روزہ بھی بطور کفارہ ہو سکتے ہیں جبکہ یہ کسی گناہ کی تلافی کے لئے ہوں.لفظ کفارہ میں اندروئے لغت بنیادی طور پر ڈھانپنے اور چھپانے کا مفہوم پایا جاتا ہے.مذہبی اصطلاح میں کفارہ سے مراد ایسا فعل یا عمل ہے جو کسی غلطی کے اثرات کو دور کرے یا کسی کمی یا کوتاہی کا ازالہ کرے یاد رہے کہ کنارہ کا یہ بہت وسیع اور عمومی مفہوم ہے.یہ لفظ اسلام اور عیسائیت دونوں میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس لفظ کے معنوں کی تعیین میں دونوں مذاہب کے نظریات میں بعد المشرقین پایا جاتا ہے.جب عیسائی حضرات سے کفارہ کے مسئلہ پر بات کی جائے اور ان کے اس عقیدہ کی تردید کی جائے تو وہ فوراً یہ بات پیش کرتے ہیں کہ کفارہ کا اصول تو اسلام میں بھی پایا جاتا ہے.اس لئے مسیحی کفارہ کے ذکر سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس بارہ میں اسلام کے موقف کی مختصر وضاحت کر دی جائے.کفارہ کی حیثیت اسلام میں مذہب اسلام نے انسانی تخلیق کا مقصد عبودیت تامہ مقرر فرمایا.اور ہر سلمان پر یہ لازم قرار دیا ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لئے پوری پوری اطاعت اور کوشش کر ہے.ارشاد باری تعالی ہے :- بلی من اسلم وجهه الله وهو محسن فله اجره عند ربه ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون یعنی جو مومن اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی کامل اطاعت میں لگا دیتا ہے اور احسان کے طریق کو اختیار کرتا ہے تو اس کا اجر دنیا خدا کے ذمہ ہے ، نہ ان کو آئندہ کا فکر مه -: - المني : بقره ۱۱۳
۲۴۰ ہوگا اور نہ ماضی کا کوئی غم.پھر ایک اور جگہ فرمایا : د يا ايها الانسان انك كارح الى ربك كل ما فعلقيها وسورة الشقاق: کہ اسے انسان تو خُدا کا قرب پوری پوری کوشش صرف کرنے سے حاصل کر سکتا ہے.! پس اسلام نے نجات اور تخلیق کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے عمل پر بہت زور دیا ہے انسان سے کبھی برے اعمال بھی سرزد ہو جاتے ہیں اس کے لئے اسلام نے یہ اصول مقررہ فرمایا ہے کہ جب کوئی غلطی کر بیٹھو تو اس کی اصلاح کی یہ صورت ہے کہ تو یہ اور استغفار کرو.مادی قسم کی زیادتی ہے تو اس کی اصلاح بھی کرد.آئندہ اس کام سے بچنے کا پورا اعزام اور وعدہ کرو اور اس غرض کے لئے اسلام کے مقرر کردہ ذریعہ اصلاح کو بھی قبول کرو.اس طرح ایک بدی کو اور اس کی اثر کو مٹایا جاسکتا ہے.گویا بدی کو مٹانے کے لئے انسان مزید نیکیاں کرے اور خود اپنی طرف سے اس غلطی کا ایک بدلہ ادا کر ہے.یہی وہ اصول ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے اور جو کفارہ کی حقیقی اور درست صورت ہے.کفارہ کا لفظ قر آن مجید میں بھی استعمال ہوا ہے.ایک موقع پر آیا ہے : - ذلك كفارة ايمانكم اذا حلفتم پس اسلام نے لفظ کفارہ کو اور اس اصول کو اس کے صحیح لغوی معنوں کے مطابق اس مظوم میں اپنایا ہے کہ جب کوئی گناہ ہو جائے تو انسان اس کی تلافی سچی توبہ اور استغفار کے ذریعے کہ سے یہ گویا اس کے گناہ کو چھپا دینے ، مٹادینے اور اس کے بد نتائج کو ختم کر دینے کی صورت ہوگی.اور اسی طریق کو اپنانے سے انسان نیکیوں کی توفیق پاتا ہے نیز اس سے جو غلطیاں بھی سرزد ہو جائیں ان کے بر سے نتائج سے محفوظ رہتا ہے یہی کفارہ کا اصلی اور حقیقی مفہوم ہے.یاد رہے کہ کفارہ کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں ایک صورت یہ ہے کہ ایک انسان گناہ کر سے اور پھر وہ خود ہی اس کی تلافی کی کوشش کرے اور اس سلسلہ میں اپنی طرف سے کوئی قربانی پیش کر ہے.دوسری صورت یہ ہے کہ ایک انسان گناہ یا کوئی جرم کرے اور اس کی بجائے کوئی دوسرا انسان اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار کر اپنے نفس کی قربانی پیش کرے.ان دونوں صورتوں میں سے پہلی صورت حقیقی اور بچے کفارہ کی ہے.کیونکہ اس میں وہی شخص سزا کو برداشت کرتا ہے جو گناہ کا مرتکب ہوتا ہے.اسلام اسی اصول کو پیش کرتا ہے لیکن عیسائیت جو قسم کے کفارہ کو پیش کرتی ہے وہ دوسری قسم کا کفارہ ہے.
جس میں گناہ کرنے والے اور بطور کفارہ اپنے آپ کو پیش کرنے والے میں مغایرت ایک بنیادی کڑی ایک ہے اس کا تفصیلی جائزہ ہم آئندہ صفحات میں لیں گے.اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ مذہب اسلام نے نجات کے لئے یہی اصول مقرر کیا ہے کہ انسان معبودیت تامہ کو اختیار کرے اور خدا کی پوری پوری اطاعت کر سے ہاں اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ خود اس کا کفارہ ادا کر سے کسی دوسرے کے صلیب پر چڑھنے یا خون بہانے کی ضرورت نہیں.عیسائیت کی رو سے نجات کا دارو مدابہ اس بات پر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب پر مرنے پر ایمان لایا جائے.لیکن اسلام نے نجات کا یہ فلسفہ بیان کیا ہے.کہ انسان اس اعلی مقام کو حاصل کرنے کے لئے خود اپنے نفس کی قربانی دے اور اپنے نفس کو خدا کی راہ میں قربانی کر دے جب انسان اس مقام پر آجاتا ہے تو اس لائق ہو جاتا ہے کہ خدا اس کو قبول کر سے اور حیات سرمدی کا وارث کر سے یہ نجات کا سچا فلسفہ ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے اور اس پہلو سے عیسائیت کے عقیدہ کفارہ کی پرز در تمدید کی ہے جو سیخ ناصری کے مصلوب ہونے سے اپنی نجات کو وابستہ کئے ہوئے ہیں.اسلامی نظریہ نجات کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام عیسائیوں کو مخاطب فرماتے ہیں :- ا سے پیارو! یہ نہایت سچا اور آزمودہ فلسفہ ہے کہ انسان گناہ سے بچنے کے لئے معرفت نامہ کا محتاج ہے نہ کسی کفارہ کا ہم اس نجات کے لیئے نہ کسی خون کے محتاج ہیں اور نہ کسی صلیہ کے حاجتمند اور نہ کسی کفارہ کی نہیں ضرورت ہے بلکہ ہم صرف ایک قربانی کے محتاج ہیں جو اپنے نفس کی قربانی ہے.لہ پھر آپ علیہ السلام اسی سلسلہ میں فرماتے ہیں :- دس سے بڑی نعمت یہ ہے کہ انسان کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ اس کا خدا در حقیقت د ہے جو مجرم اور سرکش کو بے سزا نہیں چھوڑتا اور رجوع کرنے والے کی طرف رجوع کرتا ہے.یہی یقین تمام گناہوں کا علاج ہے بجز اس کی دنیا میں نہ کوئی کفارہ ہے اورنہ کوئی خون ہے جو گناہ سے بچا لے " کے اسلامی نظریہ نجات اور اس کی فلاسفی بیان کرتے ہوئے فرمایا :- انسان کی فطرت میں قدیم سے ایک طرف ایک نہر رکھا گیا ہے جو گناہوں کی طرف رغبت دیتا ہے اور دوسری طرف قدیم سے انسانی فطرت میں اسی نہر کا تریاق رکھا ہے جو ل سیکرہ ہورسٹ جلد ۱۲ : نزدل اسبح من جلد ۱۸ به
۲۴۲ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے.جسے انسان بنا ہے یہ دونوں قوتیں اس کے ساتھ چلی آئی ہیں.زہرناک قوت انسان کے لئے عذاب کا سامان تیار کرتی ہے.اور پھر تریاقی قوت جو محبت انہی کی قوت ہے وہ گنا ہوں کو یوں جلا دیتی ہے جیسے خس و خاشاک کو آگ جلا دیتی ہے کیا کہ نیز مربایا : اللہ جل شانہ، قرآن کریم میں جو طریق پیش کرتا ہے وہ تو یہ ہے کہ انسان جب اپنے تمام وجود کو اور اپنی تمام زندگی کو خدا تعالیٰ کے راہ میں وقف کر دیتا ہے تو اس صورت میں ایک سچی اور پاک قربانی اپنے نفس کے قربان کرنے سے وہ ادا کر چکتا ہے اور اس لائق ہو جاتا ہے کہ موت کے عوض میں حیات پاوے کیونکہ یہ آپ کی دعیسائیوں کی ناقل) کتابوں میں بھی لکھا ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دیتا ہے وہ حیات کا وارث ہوتا ہے.پھر جس شخص نے اللہ تعالی کی راہ میں اپنی تمام زندگی کو وقف کر دیا اور اپنے تمام جوارح اور اعضاء کو اس کی راہ میں لگا دیا تو کیا اب تک اس نے کوئی کچی قربانی ادا نہیں کی کیا جان دینے کے بعد کوئی اور چیز بھی ہے جو اپنی باقی رکھ چھوڑی ہے یا ہے پھر اسی سلسلہ میں فرماتے ہیں : : " خُدا تعالیٰ تو بہ قبول کرتا ہے.گناہوں کو معاف فرماتا ہے.یہاں تک کہ اس معانی کے لئے وہ اس بات کا محتاج نہیں کہ کوئی ناکردہ گناہ سولی پر کھینچا جائے تا وہ گناہ معاف کرے بلکہ وہ صرف تو یہ اور تضرع اور استغفار سے گناہ معاف کر دیتا ہے" سے الغرض السلام نے انسانی نجات کے لئے کسی اور کی قربانی کی بجائے خود اس انسان کے نیک اعمال.اس کی اپنی کوشش اور اپنے نفس کی قربانی پر زور دیا ہے.یہی اصول اسلام کے مقرر کردہ کفارہ میں بھی ہے.اگر یہ اصول بنایا جائے.کہ اگر کسی انسان سے ایک دفعہ غلطی ہو جانے کے بعد اس کی تلافی کی کوئی بھی صورت باقی نہ ہو، خواہ وہ انسان کچھ کرے خواہ اپنے سار سے وجود کو تو بہ اور ندامت ہیں ہلاک کر دے لیکن وہ گناہ نہ بخشا جائے تو یہ اصول سراسر ظلم اور زیادتی کا اصول ہوگا.گناہوں کی لے : چشمهر مسیحی مثه جلد ۲۰ ہے چشمه معرفت منه - جلد ۲۳ : :- جنگ مقدس مش - جلد ؟
: ۲۴۳ تلافی اور غلطی کی اصلاح کے ذریعے کا موجود ہونا انسانی فطرت کی آواز ہے.اسلام نے اس کے لئے کفارہ کی ایسی صورت مقرر کی ہے جو اس اصل وجہ کو دور کرتی ہے جس کی وجہ سے گناہ سر نہ ہوا اسلام کفارہ کی ذمہ داری اس شخص پر ڈالتا ہے جیسی گناہ سر نہ ہوا تا وہ خود اس گناہ کی تلافی کرے اور اس وجہ کا ازالہ کر سے جس کی سب سے گناہ صادر ہوا تھا اسلام کے پیش کردہ کفارہ کا اصل الاصول یہ ہے کہ.ان الحسنات يذهبن السيات - که نیکیاں بدیوں کو مٹا ڈالتی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کے پیش کر دو حقیقی کفارہ کے اصول کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:."ہم دیکھتے ہیں کہ خداتعالی بدی سے سخت بیزار ہے تو ہمیں اسی سمجھ آتا ہے کہ وہ نیکی کرنے سے نہایت درجہ خوش ہوتا ہے پس اس صورت میں نیکی بدی کا کفارہ ٹھہرتی ہے.اور جب ایک انسان بدی کرنے کے بعد ایسی نیکی بجالایا جس سے خدا تعالی خوش ہوا تو ضرور ہے کہ پہلی بات موقوف ہو کر دوسری بات قائم ہو جائے ورنہ خلاف عدل ہوگا اسکی مطابق اللہ قلبشانہ، قرآن شریف میں فرماتا ہے." ان الحسنات يذهبن ہے.السیات یعنی نیکیاں بدیوں کو دور کرتی ہیں.ہم یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ بدی میں ایک زہریلی خاصیت ہے کہ وہ ہلاکت تک پہنچاتی ہے.اس طرح ہمیں مانا پڑتا ہے کہ نیکی میں ایک تریاتی خاصیت ہے کہ وہ موت سے بچاتی ہے.مثلاً گھر کے تمام دروازوں کو بند کر دیا.یہ ایک بدی ہے جس کی لازمی تاثیر یہ ہے کہ اندھیرا ہو جائے پھر اس کے مقابل پر یہ ہے کہ گھر کا دروازہ جو آفتاب کی طرف ہے کھولا جائے اور یہ ایک نیکی ہے جس کی لازمی خاصیت ہے کہ گھر کے اندر گم شدہ روشنی واپس آجائے بال اسلام کے پیش کردہ بچے کفارہ میں یہ بنیادی شرط ہے کہ گناہ کرنے والا خود فدیہ ادا کر سے اس کی وضاحت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- " نجات کا سچا طریق قدیم سے ایک ہی ہے جو حدوث اور بناوٹ سے پاک ہے جس پر چلنے والا حقیقی نجات کو اور اس کے ثمرات کو پالیتے ہیں اور اس کے بچے نمونے اپنے اندر رکھتے ہیں یعنی وہ سچا طریق یہی ہے کہ انہی منادی کو قبول کر کے اس کے نقش قدم پر ایسا چلیں کہ اپنی نفسانی ہستی سے مر جائیں اور اسی طرح اپنے لئے آپ فدیہ دیں اور یہی طریق ہے جو خدا تعالیٰ نے ابتداء سے حق کے طالبوں کی فطرت ط A)- : کتاب البرية من جلد ۱۳ : - -
۲۴۴ میں رکھا ہے یہ اسلام نے جن معنوں میں کفارہ کے اصول کو پیش فرمایا ہے.اس کی وضاحت مسیح الموعود نے فرمائی ہے.ایک جگہ گناہوں کے ذکر پر فرماتے ہیں :- " خدا نے ان کا ایک علاج بھی رکھا ہے وہ کیا ہے ؟ توبہ و استغفار اور ندامت.....بب وہ بار بار ٹھوکر کھانے سے بارہ بالہ نادم و تائب ہوں تو وہ ندامت اور توبہ اس آلودگی کو دھو ڈالتی ہیں یہی حقیقی کفارہ ہے جو اس فطرتی گناہ کا علاج ہے اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے.ومن يعمل سوء او يظلم نفسه ثم يستغفر الله يجد الله غفورا رحيما (الجزو نمبرہ یعنی جیسی کوئی بدعملی ہو جائے یا اپنے نفس پر کسی نوع کا ظلم کرے پھر پشیماں ہو کر خدا سے معافی چاہے تو وہ خدا کو غفور و رحیم پائے گا لے حضرت مسیح موعود کے ان حوالہ جات سے واضح ہو جاتا ہے کہ مذہب اسلام میں کفارہ کا لفظ کن معنوں میں استعمال ہوا ہے اور حقیقی اسلامی کفارہ کی کیا شرائط ہیں.ظاہر ہے کہ اس سچے اسلامی کفارہ کا عیسائیت کے بناوٹی کفارہ سے کوئی جوڑ نہیں.عیسائیت انسانی نجات کے لئے جھوٹے کفارہ کو پیش کرتی ہے جبکہ اسلام اس کے صحیح اور فطری طریق کی تعلیم دیتا ہے ان دونوں تعلیمات کے فرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا خوب فرماتے ہیں :- ہ ہم....نجات کے لئے نہ کسی خون کے محتاج ہیں اور نہ کسی صلیب کے حاجتمند اور ہرکسی کفارہ کی ہمیں ضرورت ہے بلکہ ہم صرف ایک قربانی کے محتاج ہیں جو اپنے نفس کی قربانی ہے ؟ سے مسیحی حضرات اپنے مزعومہ کفارہ کی تائید میں بعض اوقات اسلام کے مسئلہ شفاعت کو اس شکل میں پیش کرتے ہیں کہ گویا یہ بھی کفارہ ہی کی ایک صورت ہے.اس غلط فہمی کے ازالہ کے لئے شفاعت کے صحیح مفہوم کی وضاحت ضروری ہے اس کے لئے میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے مندر جہ ذیل حوالہ جات پر اکتفا کرتا ہوں حضور فرماتے ہیں :- یہ ہر گز نہ سمجھنا چاہیئے کہ شفاعت کوئی چیز نہیں ہمارا ایمان ہے کہ شفاعت حق ہے اور اس پر یہ نقص صریح ہے وصل عليهم ان صلوتك سكن لھم یہ شفاعت کا فلسفہ ہے :- نور القرآن حاشیہ مل ۳ - جلد 4 : ه در لیکچر لاہور مث جلد ۲۰+ ور یہ بحث : براہین احمدیر حاشیه من 1 - جلد 1
۲۴۵ یعنی جو گناہوں میں نفسانیت کا جوش ہے وہ ٹھنڈا پڑ جا د ہے.شفاعت کا نتیجہ یہ بتایا ہے کہ گناہوں کی زندگی پر ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور نفسانی جو شوں اور جذبات میں ایک برودت آجاتی ہے جب کسی گناہوں کا صدور بند ہو کر ان کے بالمقابل نیکیاں شروع ہو جاتی ہیں کا لے نیز فرمایا : " شفاعت کے مسئلہ نے اعمال کو بے کار نہیں کیا بلکہ اعمال حسنہ کی تحریک کی ہے؟ ہے شفاعت اور کفارہ ایک نہیں ہے اس کی وضاحت میں آپ فرماتے ہیں :- شفاعت کے مسئلہ کے فلسفہ کونہ سمجھ کر احمقوں نے اعتراض کیا ہے اور شفاعت اور ! کفارہ کو ایک قرارہ دیا.حلانکہ یہ ایک نہیں ہو سکتے.کفارہ اعمال حسنہ سے مستغنی کرتا ہے اور شفاعت اعمال حسنہ کی تحریک......شفاعت اعمال حسنہ کی محرک کس طرح پر ہے ؟ اس سوال کا جواب بھی قرآن شریف ہی سے ملتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ وہ کفارہ کا رنگ اپنے اندر نہیں رکھتی.کیونکہ اس پر حصر نہیں کیا جب سے کاہلی اور شستی پیدا ہوتی بلکہ فرمایا اذ اسألك عبادي عنی فانی قریب یعنی جب میرے بند سے میرے بارے میں تجھ سے سوال کریں کہ وہ کہاں ہے تو کہہ دے کہ میں قریب ہوں......پس یہ آیت بھی تو قبولیت دعا کا ایک راز بتاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طاقت اور قدرت پر ایک ایمان کامل پیدا ہو اور اسے ہر وقت اپنے قریب یقین کیا جا و سے.......اب یہ بات جاوے سوچنے کے قابل ہے کہ ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا.صل عليهم ان صلوتك سكن لهم تيرى صلواۃ سے ان کو ٹھنڈ پڑ جاتی ہے اور جوش اور جذبات کی آگ سرد ہو جاتی ہے.دوسری طرف فلیستجیبوالی کا بھی حکم فرمایا.ان دونوں آیتوں کے ملانے سے دعا کرنے اور کروانے والے کے تعلقات پھر ان تعلقات جو نتائج پیدا ہوتے ہیں ان کا بھی پتہ لگتا ہے کیونکہ صرف اسی بات پر منحصر نہیں کر دیا کہ آنحضر لی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور دعا ہی کافی ہے اور خود کچھ نہ کیا جاد سے اور نہ یہی فلاح کا باعث ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور دعا کی ضرورت ہی بھیجھی جائے غرض نہ اسلام میں رہبانیت ہے نہ بیکار نشینی کا سبق.بلکہ ان افراط اور تفریط کی راہوں A ۱۲۷ ه : ملفوظات جلد چهارم من ؟ : سه : ملفوظات جلد چهارم م۲۲ :
۲۴۶ کو چھوڑ کر وہ صرافہ تقسیم کی ہدایت کرتا ہے نہ یہ چاہا کہ تعذیب جسم کے اصولوں کو اختیار کرو اور اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالو نہ یہ کہ سارا دن کھیل اور کو دا در تماشوں اور شکار ہیں گذار دو یا ناول خوانی میں بسر کرو اور رات کو سو کر عیاشی ہیں.خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی راہ یہ ہے کہ اس کے لئے صدق دکھایا جائے" سے اسلام میں کفارہ کی حیثیت کے بارہ میں اس مختصر بیان کے بعد ہم کفارہ کے اس مفہوم کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں جو عیسائیت، دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے.گونیا مسیحی کفاره کفارہ کا مسئلہ عیسائیت کا ایک بنیادی اور مایہ نانہ مسئلہ ہے.ہر مذہب اپنے ماننے والوں کے لئے نجات کی راہ بتاتا ہے.عیسائی مذہب میں نجات کا جو طریق بیان کیا جاتا ہے وہ کفارہ کے مسئلہ پر ایمان لاتا ہے.عیسائیت کی اصطلاح میں کفارہ سے مراد لیسوع مسیح کی وہ پاکیزہ اور مقدس صلیبی موت کی قربانی ہے جنسی تمام بنی آدم کے گناہوں کو چھپالیا ہے اور ان کے لئے نجات کی راہ کھول دی ہے.کفارہ کا مسئلہ بڑے منطقی انداز میں پیش کیا جاتا ہے.اور دراصل مختلف خیالوں اور اصولوں کو یا ہم ترتیب دے کر کفارہ کا اصول بنایا گیا ہے.عیسائی حضرات کفارہ کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ تمام بنی آدم گناہ گار ہیں اور آدم نے جو گناہ کیا تھا کہ ممنوعہ پھل کھا لیا تھا اس کی پاداش میں انہیں جنت سے نکالاگیا.یہ گناہ وراثتا ہر شخص کی فطرت میں چلا آرہا ہے.یہی وجہ ہے کہ اب ہر وہ شخص جو توالد و تناسل کے معروف طریق پر پیدا ہوتا ہے وہ پیدائشی طور پر گناہ گا کہ پیدا ہوتا ہے.پھر عیسائی یہ کہتے ہیں کہ ہر انسان لازمی طور پر گناہوں سے رہائی حاصل کر کے نجات پانا چاہتا ہے.لیکن وہ یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ کوئی انسان نیک اعمال کرنے کی وجہ سے نجات نہیں پاسکتا.اب انسان کے نجات پانے کی ایک ہی صورت ممکن ہے کہ دنیا کا خالق و مالک اس انسان پر رحم کرتے ہوئے کسی گناہ معاف کر دے اور اس کو نجات سے ہمکنار کر دے لیکن وہ کہتے ہیں کہ خدا عادل ہے.اور گناہ گار کو بغیر میرزا کے چھوڑ دینا اس کسی عدل کے خلاف ہے.اس کے ساتھ بندوں کو نجات دینا بھی لاندی :- ملفوظات چهارم می ۲ تا ۴۲۹ :
۴۴۷ ہے کیونکہ خدا کا رحم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ بندوں کے گناہ بخشے.اس طرح کے بیان سے عیسائی اس راہ کو ہموار کر تے ہیں کہ خدا نے بندوں کو نجات دینے کی ایک صورت نکالی جیسی صفت عدل اور صفت رحم دونوں قائم رہتی ہیں اور وہ یہ ہے کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو جو ہر قسم کے گناہ سے ازلی ابدی طور پر پاک تھا کیونکہ اس کی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی تھی.دنیا میں بھیجا جس نے خود کو صلیبی موت کے لئے خوشی خوشی پیش کر دیا اور صلیب پر لٹک کر جان دے دی اور اس طرح سب بنی آدم کے گناہ اپنے سر پر لے لئے اور ان کی لعنتوں کو بھی خود برداشت کیا.یسوع مسیح نے ایسا اپنی مرضی سے کیا کیونکہ انہیں اسی غرض کے لئے تجسیم اختیار کیا تھا کہ گناہگار بنی آدم کے لئے مصلوب ہو کر لعنت کا بوجھ اُٹھا سے لکھا ہے :- " مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھوڑایا نہ لے الغرض به سیحیوں کے پیش کردہ کفارہ کا مختصر بیان ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام عیسائیوں کے اس کفارہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عیسائی مذہب میں نجات پانے کے لئے ایک نئی تجویز نکالی گئی ہے اور ایک نیا نسخہ تجویز کیا گیا ہے جو تمام جہان کے اصول سے نرالا اور سراسر عقل اور انصاف اور رحم سے مخالف ہے اور وہ یہ ہے کہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے تمام جہان کے گناہ اپنے زمر لے کر صلیب پر مرنا منظور کیا تا ان کی اس موت سے دوسروں کی رہائی ہو اور خدا نے اپنے بے گناہ بیٹے کو مارا تا گناہ گاروں کو بچادے سے سیمی کفارہ کی بنیادی غلطیاں جہاں تک مسیحی کفارہ کے عقیدہ کی غلطیوں کا تعلق ہے تو وہ بے شمار ہیں.حضرت مسیح پاک علیہ السلام کیا خوب فرماتے ہیں :- " یہ عقیدہ غلطیوں کا ایک مجموعہ ہے اس عقیدہ کفارہ کی ان غلطیوں کا مکمل جائزہ تو کفارہ کی تردید کے دلائل کے ضمن میں ہوگا.اس جگہ خلاصہ کے طور پر کفارہ کی بنیادی غلطیوں کا مختصراً ذکر کرتا ہوں :.گلیلیوں : شور لیکچر لاہور مٹ جلد ۵۲ :- لیکچر سیالکوٹ مل جلد ۲۰+
۲۴۸ ا کفارہ کی بنیاد اس امر پر ہے کہ حضرت مسیح خدا اور خدا کے بیٹے تھے.یہ بنیا د باطل ہے.- کفارہ کی ایک بنیادی کڑی یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے علاوہ سب بنی آدم گناہگار ہیں.یہ مفروضہ باطل اور خود تراشیدہ ہے لم - کفارہ کی رو سے حضرت مسیح علیہ السلام گناہ سے پاک اور معصوم ہیں.یہ بات از روئے اناجیل درست نہیں.کفارہ کی بنیاد اس پر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر مر گئے تھے.یہ بات با لبدا اہت غلط ہے -٥ - کفارہ یہ بتاتا ہے کہ خدا تعالی رحم کے طور پر بندوں کے گناہ معاف نہیں کر سکتا.یہ امر فلائی شان قرآنی بیان اور خود سیمی مسلمات کی رو سے غلط ہے.خدا ایسا کرتا ہے اور کر سکتا ہے.- کفارہ کی رو سے حضرت مسیح علیہ السّلام نے اپنے آپ کو بخوشی اس قربانی کے لئے پیش کر دیا حالانکہ محملاً ایسا نہیں ہوا.- کفارہ کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں کے گناہ معاف ہو جائیں عملاً ایسا نہیں ہوتا کیونکہ عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ اعمال کا محاسبہ ہوگا.کفارہ کا مقصد یہ تھا کہ اس کے گناہوں سے بچنے کا جذبہ پیدا ہو.بدیوں سے نفرت پیدا ہو.اور انسان گناہ سے بچ جائے عمل ایسا نہیں ہوتا بلکہ کفارہ توگناہ کر نیکی ایک زبر دست تحریک بنا ہوا ہے.کفارہ کا ایک مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہتا اس طرح پر خدا کی صفت رحیمیت اور خدائی رحم کا ظہور ہو جبکہ اس کفارہ کی تفصیلات اس بات کو رد کرتی ہیں.۱۰- کفارہ کا ایک مقصد یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اسکی خدائی عدل کا قیام اور ظہور ہو لیکن کفارہ کا اصول اس کے سراسر خلاف ہے.} - کفارہ کا مقصد گناہوں کی معافی ہے جبکہ اس طریق قربانی کا گناہوں کی معافی کے ساتھ دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے.کفارہ کی عقلی توجیہات کی جاتی ہیں لیکن یہ عقیدہ عقل کے سراسر خلاف ہے.-۱۳ کفارہ کا اصول عام مشاہدہ کے خلاف ہے ۱۳ - کفارہ کو تمام بنی آدم کی نجات کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اصولی جنڈا نے کائنات کو پیدا کرتے وقت پیش کیوں نہ کیا؟
۲۴۹ K ۱۵ - اگر بنی آدم کی نجات کا یہی طریق ہے تو اس کا ذکر کتب سابقہ اور دیگر ادیان میں کیوں نہیں ملتا ظاہر ہے کہ طریق نجات بارہ بارہ بدل نہیں جاتا.- اگر مسیح انسانوں کے لئے کفارہ ہوا تو کیا خدا نے جنوں کے لئے اور دیگر مخلوقات کے لئے اپنے اور بیٹے بھی اسی طرح مصلوب ہونے کے لئے بھیجے اگر ایسا ہے تو اس کا ثبوت دیا جائے.اگر نہیں تو کیوں ؟ کفارہ کا ایک لازمی نتیجہ یہ مانا جاتا ہے کہ حضرت مسیح نے لعنتی موت کو قبول کیا.کیا ایسا گندہ لفظ یعنی لعنت کا جو اصل میں شیطانی خصلت ہے.حضرت مسیح علیہ السلام جیسے پاک نبی کے لئے استعمال کر سکتے ہیں.ہر گنہ نہیں.۱- اگر یہی مسئلہ بنی آدم کی نجات کا ذریعہ تھا تو علاوہ دیگر کتب میں اس کے ذکر کے خاص طور پر مسیح کی زبانی اس کی پوری تفصیل اور وضاحت ہونی چاہیے تھی.لیکن ایسا نہیں ہے.یہ بعید از عقل ہے کہ راہ نجات کا مسیح کی زبانی کوئی تفصیلی بیان نہ ہو.۱۹ - قانون قدرت ہے کہ ادنی کو اعلیٰ کی خاطر قربان کیا جاتا ہے لیکن کفارہ میں اسکی بالکل بر عکس ہے کہ معصوم اور اکلوتے این اللہ کو گناہ گاروں کے بدلہ مصلوب کیا گیا.JA ۲۰ - کفارہ کے اصول کی رو سے باپ شدید ظالم اور بیٹا شدید رحیم نظر آتا ہے باپ بیٹے میں یہ فرق خلاف قیاس ہے.۲ - کفارہ کی بنیاد اس امر یہ ہے کہ خدا رحم بلا مبادلہ نہیں کرسکتا.یہ بنیا د باطل ہے..کفارہ انسانوں کے نیک اعمال کی راہ میں ایک زیر دست روک ہے.-۲۳ - کفارہ کا اصول ایک متضاد اصول ہے اس کی رو سے مسیح ابن اللہ کو ملعون قرانہ دیا جاتا ہے.بیٹے پر لعنت باپ پر بھی لعنت کو مستلزم ہے (نعوذ باللہ اس کیا الوہیت اور لعنت ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں.ہرگز نہیں.۲۴ - کفارہ کی رو سے خدا کو ظالم اور غضبناک قرار دینا لازمی ہے.جنسی اکلوتے بیٹے پر ظلم کیا یہ امر الومیت کی شان سے بعید ہے ۲۵- عقيدة تثلیث کے مطابق جب اقانیم ثلاثہ ذات و صفات میں متحد اور یکساں ہیں تو کفارہ کے اصول کے مطابق اگر ابن الله ملعون قرار دیا جائے تو باپ اور روح القدس بھی لعنت کی پیسٹ میں آجاتے ہیں.گویا جب تینوں ایک ہیں تو تینوں ملعون قرار پاتے ہیں یہ کیسے لکن ہے؟
۲۵۰ ۲۶ - کفارہ کا اصول کہ کوئی معصوم گناہگار کے بدلے منزا اٹھائے جو بائیبل میں مذکور اصولوں سے متصادم ہے.تردید کفارہ کی اہمیتے کفارہ کی تردید میں سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کے پیش کردہ دلائل ذکر کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصہ یہ ذکر کر دیا جائے کہ کفارہ کی ترد بدکی کیا اہمیت ہے.یاد رہے کہ کفارہ عیسائیت کا ایک بنیادی نظریہ ہے اور یہ وہ مایہ نازہ نظریہ ہے جس کو عیسائی حضرات بڑے فخر کے ساتھ اس طرح دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ گویا یہ عقیدہ ان کے لئے آب حیات کا حکم رکھتا ہے کیونکہ ان کے خیال میں انسانوں کی نجات اس عقیدہ پر ایمان لانے سے بستہ ہے.پس عیسائیت کی صداقت اور اس کے پیغام نجات کی بنیاد یہی کفارہ کا مسئلہ ہے کیونکہ اس میں ساری عیسائیت کا خلاصہ اور اس کا مقصد بیان کیا گیا ہے.عیسائی پادری اور دیگر مسیحی کفارہ کے نظریہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں کیونکہ بقول ان کے اس میں انسانیت کا راز مضمر ہے.کفارہ کی اہمیت کے بارہ میں انسائیکلو پیڈیا بریٹینسیکا کا حوالہ ملاحظہ ہو :- "The doctrine of salvation has taken the most prominent place in the christian faith; so prominent, indeed, that to a large portion of belivers it has been the supreme doctrine, and the doctrine of deity of Jesus has been valued only because of its necessity on the effect of the atonement.شد یعنی " عقیدہ کفارہ کو عیسائی مذہب میں سب سے زیادہ امتیازی مقام حاصل ہے.اتنا زیاده که مسیحیوں کی اکثریت کے نزدیک یہ عقیدہ دیگر سب عقاید سے مقدم اور افضل ہے.وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ الوہیت مسیح کے نظریہ کو صرف اس وجہ سے اہمیت دی گئی ہے کہ کفارہ کے اثبات کے لئے اس امر کی ضرورت پڑتی ہے.مسیحی مصنف کا یہ حوالہ کفارہ کی اہمیت کو پوری طرح واضح کر دیتا ہے گویا یہ عقیدہ دیگر سب عقائد سے زیادہ اہم اور بنیادی حیثیت رکھتا ہے.اس مصنف کے خیال میں الوہیت مسیح کا عقیدہ -Encyclopedia Britanica, vol 5 pp.634
۲۵۱ اپنی ذات میں کوئی ایسا ضروری عقیدہ نہ تھا اگر کفارہ کے اثبات کے لئے اس کی ضرورت نہ ہوتی.اس ضمن میں ایک اور حوالہ ملا حظہ ہو ایک مسیحی شیخ کامل منصور لکھتے ہیں :- ہے شک کفارہ مسیحیت کی بنیادی اصل ہے اور سب سے بڑا رکن جس کی عقلی دلیل یہ ہے کہ اگر کفارہ سے انکار کیا جائے تو خدا کی صفت عدل و رحم سے انکار لازم آتا ہے.کیونکہ کفارہ کے بغیر یہ دونوں صفتیں جمع نہیں ہو سکتی ہیں یا لے اس حوالہ سے بھی ظاہر ہے کہ مسیحی حضرات کفارہ کے عقیدہ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں.اس اہمیت کے پس منظر میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر یہ ثابت کر دیا جائے کہ کفارہ کا عقیدہ ایک باطل عقیدہ ہے تو عیسائیت کی ساری عمارت دھڑام سے زمین پر آرہتی ہے.کفارہ کی تردید کی اس اہمیت کے پیش نظر ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کفارہ کی تردید پر خاص توجہ دی ہے کیونکہ آپ کی آمد کا مقصد ہی یعنی عیسائیت کو بالجملہ باطل ثابت کرنا تھا.تردید کفارہ کے دلائل مسیحی کفارہ کی حقیقت اور اس کی تردید کی اہمیت کے بیان کے بعد اب کفارہ کی تردید میں ان دلائل کو بیان کیا جاتا ہے.جو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے اسی سلسلہ میں اپنی کتب اور بیانات میں ذکر فرمائے ہیں.مسیحی عقیدہ کی مذکورہ بالا وضاحت پر غور کرنے سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ عقیدہ عیسائیت کے بعض اور عقائد کی بنیاد پر اختیار کیا گیا ہے.اس طرح وہ ساری خرابیاں جو ان عقائد میں الگ الگ طور پر تھیں وہ سب اس ایک عقیدہ میں یکجائی طور پر جمع ہو گئی ہیں کیونکہ اس عقیدہ کی مثال تو بناء الفاسد على الفاسد کی سی ہے اور جب اس کفارہ کی بنیادی اینٹیں ہی غلط رکھی گئی ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ ان غلط اینٹوں پر استوار کی جانے والی عمارت نقائص سے پاک ہو.ے خشت اول چون نهد معمار کجا تا ثریا سے رود دیوانہ کج پس عیسائیت کا عقیدہ کفارہ عیسائیت کے باقی عقائد کی غلطیوں کو بھی اپنے اندر رکھتا ہے.مسیح پاک علیہ السّلام نے اس ساری تفصیل کو کس خوبی اور عمدگی سے ایک بلیغ فقرہ میں سمو دیا ہے.آپ کفارہ کے بارہ میں فرماتے ہیں :- س : شیخ میخائیل منصور کیوں سیمی ہوئے از شیخ کامل منصور بار اول مطبوعہ شائه و
VOY " یہ عقیدہ غلطیوں کا ایک مجموعہ ہے؟ لے نیز فرمایا : " عیسائیوں کا یہ اصول کہ خُدا نے دنیا سے پیار کر کے دنیا کو نجات دینے کا یہ انتظام کیا کہ نافرمانوں اور کافروں اور بد کاروں کا گناہ اپنے پیارے بیٹے کیسوع پر ڈال دیا اور دنیا کو گناہ سے چھڑانے کے لئے اس کو لعنتی بنایا اور لعنت کی لکڑی سے لٹکایا یہ اصول ہر ایک پہلو سے فاسد اور قابل شرم ہے کہ پہلی دلیل سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے کفارہ کے خلاف سب سے پہلی دلیل یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ اصول # قرآن مجید کی معقولی اور فطرتی تعلیم کے خلاف ہے.قرآن مجید فرماتا ہے :- وا لا تُزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخرى : ته شیر کہ کوئی جان دوسری جان کا ہو جو ہر گز نہ اُٹھائے گی.گویا انسان کو دوسرے کے بدر میں کوئی سزا نہ دی جائے گی.کفارہ کا اصل الاصول یہ ہے کہ مسیح گناہگاروں کے بدلہ میں مصلوب ہوا لکھا ہے :- " مسیح ہے دینوں کی خاطر مرا کی ہے شد مسیح کتاب مقدس کے مطابق ہمارے گناہوں کے لئے مؤا کہ شے پس کفارہ کا اصل الاصول قرآن مجید کے پیش کردہ اس اصول سے ٹکراتا ہے.یاد رہے کہ قرآن مجید کا یہ اصول ہم زیر دستی عیسائیوں کے سامنے پیش نہیں کرتے بلکہ دو وجوہات سے ایسا کرتے ہیں :.الأول -:- یہ اصول عین عدل و انصاف اور عقل کے مطابق ہے اور ہر مذہب و ملت کا انسان اس کو تسلیم کرتا ہے.الثانی :.خود بائبل سے اس اصول کی تائید ہوتی ہے.مثلاً لکھا ہے :- " وہ جان جو گناہ کرتی ہے سو ہی مرے گی یہ نہ پھر لکھا ہے :- لیکر سیالکوٹ م : له : سراج دین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب صت جلد ۲ : سکتے :.الانعام ۱۲۵ ه رومیوں 4 -شه : گرنتھیوں شا : حزقیل : - به
For کر وہ بیان جو گناہ کرتی ہے سو ہی مرے گی بیٹا باپ کی بدکاری کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور نہ باپ بیٹے کی بدکاری کا بوجہ اُٹھائے گا.صادق کی صداقت اسی پر ہوگی اور شرعیہ کی شرارت پہ کی اسی پر پڑے گی " اے پس ثابت ہوا کہ قرآن مجید کا یہ اصول عقل اور عیسائی مسلمات کے اعتبار سے درست ہے اور چونکہ کفارہ اس اصول کے سراسر خلاف ہے.پس کفارہ کا عقیدہ باطل ٹھہرا.اس دلیل کو پیش کرتے ہوئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- رہا وہ مسئلہ جو انجیل میں نجات کے بارہ میں بیان کیا گیا ہے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کا مصلوب ہوتا اور کفارہ.اسی تعلیم کو قرآن شریف نے قبول نہیں کیا.اور نجات کے لئے اس امر کو ضروری نہیں جانتا کہ ایک گناہ گار کا بوجھ کسی بے گناہ پر ڈال دیا جائے؟ له امر نیز فرمایا : - قرآن کوئی لعنتی قربانی پیش نہیں کرتا بلکہ ہرگز جائزہ نہیں رکھتا کہ ایک کا گناہ یا ایک کی لعنت کسی دوسرے پر ڈالی جائے.چہ جائیکہ کی دوڑ ہا لوگوں کی لعنتیں اکٹھی کر کے ایک پر کے گلے میں ڈال دی جائیں.قرآن کریم صاحت فرماتا ہے کہ لا تزر وازرة وزر اخرى یعنی ایک کا بوجھ دوسرا نہیں اُٹھائے گا ا سکے دوسری دلیل کفارہ کے رد میں دوسری دلیل یہ ہے کہ کفارہ کی بنیاد میں یہ امر داخل ہے کہ حضرت مسیح حضرت مسیح علیہ السلام انسان نہیں تھے بلکہ خدا کے بیٹے تھے جو بنی نوع انسان کے لئے مصلوب ہوئے.یہ ایک ایسا امر ہے جس کا کوئی بھی مسیحی انکار نہیں کرتا کہ الومیت مسیح کفارہ کی سب سے بڑی کڑی ہے.انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے :- "The doctrine of deity of Jesus has been valued only because of its necessity on the effect of the atonement." ✗ یعنی الوہیت مسیح کے نظریہ کو صرف اس وجہ سے اہمیت دی گئی ہے کہ کفارہ کے اثبات کے لئے اس امر کی ضرورت پڑتی ہے.✓ ١٠٢ ترتیل کے چشمہ معرفت ۲۱ جلد ۱۳ با سه :- سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ملتا جلد ۱۳: شود- Encyclopedia Britanica vol.5 pp.634
ror پھر پادری ٹامس ہادل بشیر لکھتے ہیں :.بعد حمد و تعریف خدا قدوس - عادل رحیم و نجی جہاں کے واضح ہے کہ مسئلہ کفارہ خداوند مسیح عیسی کی الوہیت کے مسئلہ سے متعلق ہے یہ لے پادری ڈبلیو ٹامس نے بھی اپنی کتاب تشریح المثلیث میں یہ تسلیم کیا ہے کہ اگر سیح خدا نہیں تو کفارہ باطل اپنی خدانہیں ہوتا ہے.وہ لکھتے ہیں :.اگر یہ ثابت ہو جائے کہ لیسبوع اور روح القدس خدا نہیں ہے اوسان میں یہ قدرت نہیں کہ گناہ معاف کر سکیں یا انسان کی گنہگار روح کو نیا اور صاف کر سکیں تو نہیں نجات کی ساری امید ہمیشہ کے واسطے جاتی رہے گی ؟" ہے ان حوالوں سے جو صرف بطور نمونہ درج کئے گئے ہیں یہ حقیقت پوری شان سے واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السّلام کی الوہیت عقیدہ کفارہ کی بنیاد ہے.کفارہ کی تردید میں ہماری دلیل یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ہرگز ہرگزنہ خدا نہیں تھے بلکہ وہ خدا کے ایک بند سے اور ایک رسول تھے.حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کی تحدید میں ہم ایک گذشتہ باب میں تفصیلی ذکر کہ چکے ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ دلائل سے اس بات کو ثابت کیہ آئے ہیں کہ حضرت مسیح ابن مریم ہرگز ہرگز خدا نہیں تھے اور جب ان کی الوہیت ہی ثابت نہ ہوئی تو کفارہ خود بخود باطل ہو جاتا ہے.تیسری دلیل کفارہ کی ایک بنیادی کڑی یہ ہے کہ تمام بنی آدم موروثی طور پر گناہ گار ہیں.عیسائی کہتے ہیں کہ آدم نے ممنوعہ درخت کا پھل کھا کہ گناہ کیا اور اس کی بعد یہ گناہ ورثہ کے طور پر سب بنی آدم میں چلتا رہا ہے اور اب کوئی بھی انسان جو دوسر سے انسان کے نطفہ سے پیدا ہوا ہو گناہ کی لعنت سے آنا د نہیں.اگر اس اصول کو تسلیم نہ کیا جائے تو کفارہ کا افسانہ اپنے پہلے ہی مرحلہ میں نا تمام رہ جاتا ہے.خود عیسائیوں نا کو یہ تسلیم ہے کہ جب تک یہ نہ مانا جائے کہ تمام بنی آدم گناہ گار ہیں اس وقت تک کفارہ کو آسانی سے نہیں سمجھا جاسکتا.پادری سلطان محمد پال لکھتے ہیں سه : یوحنا : ۱ تا ۳ و نما کلسیوں ، اثبات کفارہ حصہ اول از پادری ٹامس با دل بشیر لاہور الہ صا؟ نادل - تشريح التثلیث ان پادری ڈبلیو ٹامس ! +
۲۵۵ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ بابا آدم نے گناہ کیا اور اس گناہ کے باعث جنت سے نکالے گئے اور ان کے گناہ کی سزا میں جملہ ذریت آدم شامل ہے اور سنجے گناہ کیا کوئی نیکو کار نہیں.اور ایک بھی نہیں.تو پھر یہی کفارہ کا سمجھنا آسان تر ہو جاتا ہے ؟ اے گویا تمام بنی آدم کا گنہگار ہونا کفارہ کی ایک بنیادی کڑی اور اصول ہے.تردید کفارہ کے ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس امرکو پیش فرمایا ہے کہ یہ اصول غلط ہے.یہ کہنا کہ تمام بنی آدم مورتی طوبہ پر گناہ گار ہیں ایک ایسا دعوی ہے جس کا اول تو مثبت طور پر کوئی ثبوت نہیں دیا جا سکتا اور دوسرے خود بائبل کی شہادت اس کے خلاف ہے بائبل میں بہت سے لوگوں کے بارہ میں صاف طور پر لکھا ہے کہ وہ نیک تھے.مثلا لکھا ہے :- نوح اپنے قرنوں میں صادق اور کامل تھا اور نوح خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا یا ہے حضرت ذکریا اور ان کی بیوی کے متعلق لکھا ہے :- وہ اور اور پر وہ دونوں خدا کے حضور راستبانہ اور خداوند کے سارے سے حکموں اور قانونوں پر بے عیب چلنے والے تھے سے اس قسم کے متعدد حوالے ملتے ہیں جن سے یوحنا.ہابیل - دانیال - بوسیع - زکریا او ران کی بیوی - حزقیاه - سمسون بن منوحہ جموئیل - شمعون.یوسف شو ہر مریم کا از روئے بائبل کوئی گناہ ثابت نہیں ہو تا گویا وہ بے گناہ ٹھہر سے.اس سلسلہ میں تیسری بات یہ ہے کہ بائبل سے اصولی طور پر اس بات کا علم ہوتا ہے کہ دنیا میں ہر دو قسم کے لوگ رہتے ہیں.اچھے بھی اور بڑے بھی.چنانچہ لکھا ہے :." تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پہ ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور نا راستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے.شہ دونوں ان تینوں امور سے اس عیسائی مفروضہ کا غلط ہونا بالبداہت ثابت ہو جاتا ہے.کہ سب کے سب بنی آدم موروثی طور پر گناہ گار ہیں اور ایک بھی نیک نہیں اور اس مفروضہ کے غلط ہونے سے کفارہ باطل ہو جاتا ہے.چوتھی دلیل کفارہ کے عقیدہ کی ایک کڑی یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ہر قسم کے گناہ سے خواہ وہ کسی ہویا :- ہما را قرآن از سلطان محمد پال ضمیمہ صت بار اول لاہور شہ سے پیدائش پر سے لوقا با : شعار متی وی
۲۵۶ موروثی پاک ہیں اور اسی وجہ سے صرف وہ ہی اس قابل ہیں کہ وہ ابن آدم کے لئے کفارہ ہو سکیں.ایک عیسائی مسٹر ولیم ایڈ لکھتے ہیں :- اگر مسیح میں ایک گناہ بھی ہوتا تو وہ ہمارا نجات دہندہ نہ ہوسکتا لیکن اس میں کوئی گناہ نہ تھا یا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مفروضہ کی پر زور تردید فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں :- یسوع کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ وہ موروثی اور کیسی گناہ سے پاک ہے.حالانکہ یہ صریح غلط ہے" عیسائی حضرات کے اس مفروضہ کے غلط ہونے کا ثبوت مختلف پہلوؤں سے دیا جا سکتا ہے :- اول : حضرت مسیح علیہ اسلام نے کسی جگہ یہ اعتراف یا دعوی نہیں کیا کہ میں ہرقسم کے گناہ سے پاک ہوں.اگر ایسا دعوی ہے تو اس کا ثبوت دینا مدعی کا کام ہے جو کہ مسیح کی معصومیت کا قائل ہے.دو مہ: بے گناہ ہونے کے دعوی کے بالکل برعکس انجیل سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس بات کو بھی ناپسند کیا کہ کوئی ان کو نیک کہے.لکھا ہے کہ حضرت مسیح نے کہا :- تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا سے سوئم : - حضرت مسیح علیہ السّلام کے جو حالات اناجیل میں درج ہیں ان سے نہ ان کی شرافت ثابت ہو سکتی ہے اور نہ معصومیت.صرف ایک آیت اس جگہ پیش کرتا ہوں.یوجنات سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح نے لوگوں کو شراب پلائی تھی.دنیز ملاحظہ ہومتی ہے ، یوحنا ہی ، لوقا ہے ، 14-14 ** لوقا متی ، یوحنا وغیرہ.چہارہ : حضرت مسیح کا یوحنا سے بپتسمہ لینا ثابت ہے (ملاحظہ ہو مرقس ہے ، یہ بپتسمہ تو گناہوں کی معافی کے لئے ہوتا ہے.اگر مسیح واقعی بے گناہ تھا تو انہی بپتسمہ کیوں لیا.جبکہ کوئی ایسا استثناء بھی مذکور نہیں کہ یہ گناہوں کی معافی کے لئے نہیں تھا.نجم :.عیسائی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام حضرت مریم کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے.اور اس کے ساتھ ان کی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ : " وہ جو عورت سے پیدا ہوا ہے کیونکہ پاک ہو سکتا ہے ا سکے پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح ہے گناہ نہ تھے.سے مسیح کے خون کے سبب سے محفوظ مصنفہ ولیم ایڈایم.اسے دترجمها منت بار اول د له : ۵۲ : - کتاب البریهه جلد ۱۳ : ۱۳ یوتا 4 مرتی ہے: ایوب : -:
۲۵۷ ششم :- عیسائی یہ کہتے ہیں کہ ورثہ کا گناہ مرد کے نطفہ کے ذریعے منتقل ہوتا ہے.اس وجہ سے سب لوگ تو گناہگا نہیں سوائے میسج کے جو بغیر کسی مرد کے تعلق کے حضرت مریم کے پیٹ سے پیدا ہوا.عیسائیوں کا یہ اصول اگر درست مان لیا جائے تو ملک صدق شانیم کو ہر قسم کے گناہ سے ازلی ابدی طور پر پاک تسلیم کرنا پڑے گا.کیونکہ اس کے بارہ میں لکھا ہے :- ه " یہ ہے باپ بے مای بیے نسب نامہ ہے نہ اس کی عمر کا شروع نہ نہ ندگی کا آخری ہے پس اگر پاک فدیہ کے لئے بے گناہ ہونا شرط ہے اور گناہ ورثہ میں چلتا ہے تو ملک صدق سالم.کو کفارہ ہونا چاہیئے جو بغیر ماں باپ کے پیدا ہوا نہ کہ مسیح کو جس کی ماں موجود تھی.ہفتم -: عیسائی حضرات حضرت مسیح علیہ السلام کے گناہ سے پاک ہونے کی یہ دلیل بھی دیا کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ اقنوم ثانی کا تعلق تھا جو اتحاد اور عینیت کے طور پر تھا.یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہ لیے گناہ ہوں اس کا جواب یہ ہے کہ اگر بے گناہ ہونا ہی اقنوم ثانی سے تعلق کی شرط ہے تو یہ تعلق رہسے پہلے ملک صدق سالم سے ہونا چاہیئے تھا جس میں عیسائی مسلمات کی رو سے ورثہ کے گناہ کا شائبہ تک نہیں حضر تسبیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے کہ عیسائی کہتے ہیں کہ: - " اقنوم ثانی کا تعلق جو حضرت یسوع سے اتحاد اور عینیت کے طور سے تھا یہ پاک ہونے اور پاک رہنے کی شرط سے تھا اور اگر وہ گناہ سے پاک نہ ہوتا یا آئندہ پاک نہ رہ سکتا تو یہ تعلق بھی نہ رہنا یہ ۲ پھر حضور اس کے جواب میں فرماتے ہیں :- " اسے معلوم ہوا ہے کہ یہ تعلق کسی ہے ذاتی نہیں.اور اس قاعدہ کی رو سے فرض کہ سکتے ہیں کہ ہر ایک شخص جو پاک رہے وہ بلا تامل خدا بن سکتا ہے اور یہ کہنا کہ ہجر بیسوع کسی دوسرے شخص کا گناہ سے پاک رہنا ممتنع ہے.یہ دعوی بلا دلیل ہے اس لئے قابل تسلیم نہیں.عیسائی خود قائل ہیں کہ ملک صدق سالم بھی جو سیچے سے بہت عرصہ پہلے گزر چکا ہے گناہ سے پاک تھا.پس پہلا حق خدا بننے کا اس کو حاصل تھا.ایسا ہی عیسائی لوگ فرشتوں کا بھی کوئی گناہ ثابت نہیں کر سکتے ہیں وہ بھی بوجہ اولی خدا بننے کے لئے استحقاق رکھتے ہیں " سے ---.: عبرانیوں : ته:- كتاب البرته من جلد ۱۳ : ه : - كتاب البرية مثل جلد ١٣ :
YDA پس اس سارے بیان سے ثابت ہوا کہ حضرت مسیح علیہ السلام بے گناہ نہ تھے.حضرت سیج پاک علیہ السلام فرماتے ہیں :- یسوع کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ وہ موروثی اور کسی گناہ سے پاک ہے حالانکہ یہ صریح غلط ہے.عیسائی خود مانتے ہیں کہ یسوع نے اپنا تمام گوشت و پوست اپنی والدہ سے پایا تھا.اور وہ گناہ سے پاک نہ تھی اور نیز عیسائیوں کا یہ بھی اقرار ہے کہ ہر ایک درد اور دکھ گناہ کا پھل ہے اور کچھ شک نہیں کہ یسوع بھبو کا بھی ہوتا تھا اور پیا س بھی اور بچپن میں قانون قدرت کے موافق خسرہ بھی اسے نکلا ہوگا.اور چیچک بھی اور دانتوں کے نکلنے کے دکھ بھی اُٹھائے ہوں گے اور موسموں کے تہوں میں بھی گرفتار ہوتا ہو گا بموجب اصول عیسائیوں کے یہ سب گناہ کے پھل ہیں پھر کیونکہ اس کو پاک فدیہ سمجھا گیا علاوہ اس کے جب کہ روح القدس کا تعلق صرف اسی حالت میں بموجب اصول عیسائیوں کے ہو سکتا تھا کہ جب کوئی شخص ہر ایک طرح سے گناہ سے پاک ہو تو پھر سیوع جو بقول ان کے موروثی گناہ سے پاک نہیں تھا اور نہ گناہوں کے پھل سے بچ سکا اس سے کیونکہ روح القدس نے تعلق کر لیا بظاہر اس سے زیادہ تر ملک صدق سالم کا حق تھا کیونکہ بقول عیسائیوں کے وہ ہر طرح کے گناہ سے پاک تھا.“ لے پس جب حضرت مسیح کا معصوم اور بے گناہ ہونا ثابت نہیں جو کفارہ کی ایک بہت ہی اہم بنیاد ہے تو ثابت ہوا کہ کفارہ باطل ہے.اس دلیل کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ درج کرتا ہوں جس میں حضور نے فرمایا ہے کہ اگر حضرت مسیح کا بے گناہ ہونا ثابت بھی ہو جائے تب بھی یہ کوئی ایسی خوبی نہیں کہ اسکی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ہو سکے.نیز حضرت مسیح علیہ السلام کے بالکل بے گناہ نہ ہونے کی حکمت بیان فرمائی ہے.حضورہ فرماتے ہیں : - W عیسائی لوگ یسوع کی تعریف نہیں کہا کہ تھے ہیں کہ وہ بے گناہ تختیا حالانکہ بے گناہ ہونا کوئی خوبی نہیں.خوبی تو اس میں ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ اعلی درجہ کے تعلقات ہوں اور انسان قرب الہی کو حاصل کر ہے.کیونکہ خداتعانی جانتا تھا کہ عیسوع کی لوگ حد سے زیادہ ناجائنہ عزت کریں گے اس واسطے پہلے ہی سے اس کا وہ حال ہوا جب سے ہر بات میں اس کا عجز اور کمزور انسان : كتاب البرية عند جلد ۱۳ : -
ہونا ثابت ہوتا ہے “ سے پانچویں دلیل بيك " مسیحی کفارہ کا ایک اہم پہلو موروثی گناہ ہے عیسائی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ابتداء میں حضرت آدم علیہ السلام نے گناہ کیا پھر گناہ کا یہ ورثہ نطفہ کے ذریعے بنی آدم میں سرایت کر گیا اور آج انسانی نسل کا کوئی فرد اس موروثی گناہ سے محفوظ نہیں یہ عیسائی مفروضہ بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ :- اول ھے.اگر یہ مانا جائے کہ سب انسان پیدائشی طور پر گناہگار ہیں تو اسی خدا تعالی کے عدل پر حرف آنا :- ہے یہ بنی آدم پر انتہائی ظلم ہے کہجو انسان بھی پیدا ہو وہ ماں کے پیٹ سے اپنے ساتھ گناہ کی لعنت سے کہ آئے.یہ امر خدا کے عدل اور انصاف اور پھر عقل انسانی اور فطرت انسانی کے سراسر منافی ہے.دوم :.ہم دیکھ آئے ہیں کہ بائبل کی رو سے کم از کم دس گیارہ افراد ایسے ہیں جن کا کوئی گناہ ثابت نہیں پس اگر ان کو گناہ سے بری مان لیا جائے اور ایسا کئے بغیر چارہ نہیں ورنہ بائیل کا بیان غلط بھرتا ہے.دیا عیسائی محاورہ میں کتاب مقدس کا باطل ہونا ممکن نہیں تو اس کے ساتھ ہی موروثی گناہ کا مسئلہ ختم ہو جاتا ہے.سوم :- یہ مسئلہ قرآن مجید کی تعلیم کے منافی ہے.قرآن مجید میں ہے " لا تزر وازرة وزر اخری" کہ کوئی جان دوسری جان کا بوجھ نہ اٹھائے گی.پس ایک انسان کے گناہ کا انتہا اور نتیجہ دوسرے پر کیسے وارد ہو سکتا ہے.یاد رہے کہ یہ اصول ایسا ہے کہ عیسائی تعلیمات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ ایک کے بدلہ میں دوسرے کو سزا نہیں دی جاسکتی.جیسا کہ ہم کفارہ کے رد میں دسیر اول کے ضمن میں دیکھ آئے ہیں.لدار :.چہارم : موروثی گناہ کا مسئلہ بائبل کی اپی تعلیمات کے سراسر منافی ہے.بائبل میں صاف طور پرکھا ہے.ان دنوں میں یہ پھر نہ کہا جائے گا کہ باپ دادوں نے کچے انگور کھائے اورلڑکوں کے دانت کھٹے ہو گئے کیونکہ ہر ایک اپنی بدکاری کے سبب مرے گا.ہر ایک جو کھٹے انگور ر کھاتا ہے اسی کے دانت کھٹے ہوں گے لے گویا یہ قطعا نہیں ہو سکتا کہ ایک انسان ظلم کر رہے اور اسکی سزا دو سرنے کے سر تھوپ دی جائے ایک شخص کھٹے انگور کھائے اور دانت دوسرے کے کھٹے ہو جائیں بیس ثابت ہوا کہ موروثی گناہ کا فلسفہ : ملفوظات جلد ہشتم منك ه بر میاه.
۲۶۰ باطل ہے.موروثی گناہ کا یہ مسئلہ کہ گناہ نطفہ کے ذریعہ منتقل ہوتا ہے عیسائیوں نے اس وجہ سے اختیارہ کیا ہے کہ اس طرح وہ مسیح کو گناہوں سے بری قرار دے سکیں جو کسی انسان کے نطفہ سے پیدا نہیں ہوئے حالانکہ اگر ان کے فلسفہ کی رو سے ہی دیکھا جائے تو مسیح عام انسانوں سے بھی زیادہ گنا سگا ہ قرار پاتا ہے تفصیل اسکی یہ ہے کہ بائیں کی رو سے ممنوع پھل کو کھانے کا گناہ سب سے پہلے عورت نے کیا تھا انھی پہلے خود پھل کھایا پھر مرد کو دیا عورت کا گناہ دگنا اور مرد کا اسے نصف ہے.پمپس جو لوگ مرد و عورت کے ملاپ سے پیدا ہوتے ہیں ان میں اوسط درجہ کا گناہ سرایت کرتا ہے لیکن جو وجود صرف عورت سے پیدا ہوا اس میں ایک عام انسان سے زیادہ گناہ کا مادہ آنا چاہیئے.پس موروثی گناہ کے فلسفہ سے تو عیسائی حضرات کے خلاف زیر دست دلیل قائم ہوتی ہے.* اس بیان سے واضح ہے کہ موروثی گناہ کا مسئلہ باطل ہے اور جب یہ مسئلہ باطل ہوا تو سب کے سب بنی آدم کے گہنگار ہونے کا بھی کوئی سوال نہ رہا اور اس طرح کفارہ کی ضرورت ہی باطل ہو جاتی ہے.ہو چھٹی دلیل کفارہ کی تردید میں چھٹی دلیل یہ ہے کہ اس عقیدہ کی رو سے حضرت مسیح علیہ السلام گناہگاروں کیلئے قربانی دیئے گئے حالانکہ اعلی چیز کو ادنی چیز کے لئے قربان کرنا عقل بھی درست نہیں اور پھر قانونِ قدرت میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی.دنیا کا اصول یہ ہے کہ ہمیشہ ادنی چیز کو اعلی چیز کے لئے قربان کیا جاتا ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیئے کیونکہ اعلیٰ چیز کی بقاء اور ترقی زیادہ ضروری ہے.ہم روزانہ اس چیز کو مشاہدہ کرتے کا اصول بھی یہی بتاتا ہے."Surwval of the Fittest" ہیں.عجیب بات یہ ہے کہ بائیبل سے بھی اسی اصول کی تصدیق ہوتی ہے.لکھا ہے :- شریر صادق کا مذیہ ہو گا اور دنیا بانہ راستبانوں کے بدلہ میں دیا جائے گا." (امثال (1) لیکن کفارہ کا سیمی نظریہ بائیبل کے اس بیان کے برخلاف یہ کہتا ہے کہ : مسیح جو پاک، ہمعصوم، خدا کا اکلوتا بیٹا بلکہ خود خدا تھا وہ بدکاروں ، گناہ گاروں اور ذلیل انسانوں کے بدلہ میں مصلوب ہوا.اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے بائیل کے علاوہ پادریوں نے بھی اس اصول کی صداقت کو تسلیم کیا ہے چنانچہ پادری ڈبلیو گولڈ سیک لکھتے ہیں : -
۲۶۱ " نباتات کھائی جاتی ہے اور چوپایہ کو نہ ندگی اور قوت بخشتی ہے.اور پھر وقت پر اس سے انسان کی پرورش ہوتی ہے.21 پس ثابت ہوا کہ از روئے شریعیت، از روئے بائییل، از روئے مشاہدہ اور انہ روئے عقل اننی چیز کو اعلی کی خاطر قربان کرنا چاہیئے لیکن حضرت سیح علیہ السلام کی قربانی اس لحاظ سے انوکھی اور نرالی قربانی ہے کہ اس میں گنا ہنگار انسانوں کے لئے میسج جیسا معصوم وجود، خدا کا اکلوتا بیٹا ، قربان کیا جاتا ہے معمولی سے معمولی سمجھ رکھنے والا انسان بھی اسے بڑی حماقت تصور کر سے گا کہ ایک شخص اپنے دستش روپوں کی مالیت کے سامان کے لئے اس پر سو روپیہ کی رقم خرچ کر دے.ہر شخص کہے گا کہ ایسے شخص کا دماغی توازن درست نہیں ہے اور اس کا یہ فعل معقولیت سے کوسوں دور ہے.یہی فتوی عیسائیوں کے اس خدا پر صادق آتا ہے جنسی چند گناہگا.دنیا داروں کی خاطر اپنے اکلوتے جگر گوشے کو صلیب پر چڑھانا پسند کیا ہے کی اس دلیل کو پیش کرتے ہوئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- "خُدا کا قانون جس پر چلنے کے لئے انسانی زندگی مجبور ہے قدیم سے یہی ہے کہ اونی اعلیٰ پہ قربان کیا جاتا ہے ا سکے H پھر آپ فرماتے ہیں :- "حس فدیہ کو وہ پیش کرتے ہیں وہ خدا تعالی کے قانونِ قدرت کے مخالف ہے کیونکہ اپنی قانون پر غور کر کے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ ادنی اعلی پر قربان کیا گیا ہے مثلاً انسان اشرف المخلوقات اور بالاتفاق تمام معقلمندوں کے تمام حیوانات سے اعلیٰ ہے.سو اسکی صحت اور بقاء اور پائیداری نیز اسکی نظام تمدن کے لئے تمام حیوانات ایک قربانی کا حکم رکھتے ہیں.پانی کے کیڑوں سے لیکر شہد کی مکھیوں اور ریشم کے کیڑوں اور تمام حیوانات بکری گائے وغیرہ تک جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو یہ سب انسانی نہ ندگی کے خادم اور نوع انسان کی راہ میں ندیہ معلوم ہوتے ہیں.ایک ہمارے سے بدن کی پھنسی کے لئے بسا اوقات.کے لئے شو جوک جان دیتی ہے تاہم اس بھینسی سے نجات پادیں.ہر روز کروڑ یا بیکری اور بیل اور مچھلیاں وغیرہ ہمارے لئے اپنی جان دیتی ہیں تب ہماری بقاء صحت کے مناسب حال غذا میسر ہوتی ہے.پس اس تمام سلسلہ پر نظر ڈال کر معلوم ہوتا ہے کہ خُدا نے اعلیٰ کے لئے ادنی کو فدیہ مقرر کیا ہے لیکن اعلی کا ادنیٰ کے لئے قربان ہونا اسکی نظر خدا کے قانون قدرت میں ہمیں نہیں ملتی ہے ، 44-46 ن: الکفاره : : کفارہ کی حقیقت : سے : کتاب البریه من جلد ۱۳ به در کتاب البریه ۲ جلد سلام :- ص : نگ
نیز مستر مایا : N جس ندیہ کو عیسائی پیش کرتے ہیں وہ خدا کے قدیم قانون قدرت کے بالکل مخالف ہے کیونکہ قانون قدرت میں کوئی اس بات کی نظیر نہیں کہ ادنی کے بچانے کے لئے اعلیٰ کو.مارا جائے.ہمارے سامنے خُدا کا قانون قدرت ہے.اس پر نظر ڈالنے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمیشہ ادئی اعلیٰ کی حفاظت کے لئے مارے جاتے ہیں.چنانچہ جس قدر دنیا میں جانور ہیں.یہانتک کہ پانی کے کیڑے وہ سب انسان کے بچانے کے لئے جو اشرف المخلوقات ہے کام میں آرہے ہیں پھر یسوع کے خون کا فدیہ کس قدر اس قانون کے مخالف ہے جو صراف صاف نظر آرہا ہے اور ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جو زیادہ قابل قدر اور پیارا ہے.اکسی بچانے کے لئے ادنی کو اعلی پہ قربان کیا جاتا ہے چنانچہ خداتعالی نے انسان کی جان بچانے کے لئے کروڑہا حیوانوں کو بطور فدیہ کے دیا ہے اور ہم تمام انسان بھی خطر تا ایسا ہی کرنے کی طرف راغب ہیں.تو پھر خود سوچ لو کہ عیسائیوں کا فدیہ خدا کے قانون قدر سے کسندرہ ڈور بیڑا ہوا ہے کیا جب عیسائیوں کے سامنے اعلیٰ کے لئے ادنی کی قربانی کا اصول پیش کیا جاتا ہے تو وہ عام طور پر اس قسم کی مثالیں دیتے ہیں کہ فلاں بڑے آدمی نے ایک معمولی انسان کے لئے قربان کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس عذرہ کا بھی مکمل جواب تحریر فرمایا ہے.حضور نے اپنی کتاب کتاب البریہ میں سرفلب سڈنی کی مثال کا ذکر کیا ہے کہ انہی مرنے سے قبل پانی کا ایک ہی پیانہ جو موجود تھا ایک دوسرے جاں بلب سپاہی کو دیگر اس کی جان بچائی.اس کے جواب میں حضور نے جو تفصیل درج فرمائی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ مشال اس اصول کو نہیں توڑتی.ایک بڑے آدمی کی قربانی ایشار کہلاتی ہے.لیکن یہاں اس اصول میں سوال قانون قدرت کا ہے کسی زید یا بکر کے ایک وقتی یا عارضی کام کا نہیں ہے.عام قانون قدرت اور مشاہدہ اس بات پر گواہ ہیں کہ ادنی کو اعلیٰ کی خاطر قربان کیا جاتا ہے نہ کہ اعلیٰ کو ادمی کی خاطر بسپس کفارہ کا اصول بالبداہت قانون قدرت کے خلاف ہے لہذا غلط ہے.عدلیہ ساتویی دلیل عیسائی حضرات کفارہ کی تائید میں یہ کہا کرتے ہیں کہ کیا دوسر سے انسان کے لئے قربانی کرنا اور اسکی خاطر دکھ اُٹھانا اچھی بات نہیں ہے.اس طریق سے وہ مسیح کی قربانی کے حق میں وجہ جوانہ تلاش کر نا چاہتے : - كتاب البرية حث جلد ۱۳ :
۲۹۳ + ہیں لیکن اگر غور کیا جائے تو مسیح علیہ السلام کی مزعومہ قربانی کا حقیقی اور مخلصانہ قربانی سے کوئی جوڑ نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دلیل کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے حضور نے تحریر فرمایا ہے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کرنا اور ان کی خاطر تکالیف برداشت کرنا بے شک ایک عمدہ بات ہے لیکن قربانی کا یہ طریق کہ خود اپنے آپ کو ہلاک کر لینا اور محض اس موہوم امید بچہ کہ اس کی بنی نوع انسان کو فائدہ ہوگا ایک بہت ہی بے معنی اور عبث فعل ہے.ایسی حرکت ایک نبی کی شان سے بعید ہے.پس قربانی کا جو طریق کفارہ میں پیش کیا گیا ہے وہ کسی عقلمند کا کام نہیں کہلا سکتا بلکہ خود کشی کی ایک ایسی مذموم کوشش ہے جس کو کوئی عقلمند نہ پسند کر سکتا ہے نہ جائز قرار د سے سکتا ہے.اسی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے قربانی کے اس طریق کی پر زور تردید فرمائی ہے حضور فرما تھے ہیں :.بے شک خدا کے بندوں اور اپنے بنی نوع کے لئے جان دنیا اور انسان کی بھلائی کے لئے دیکھ اٹھانا نہایت قابل تعریف امر ہے مگر یہ بات ہر گنہ قابل تعریف نہیں کہ ایک شخص ہے اصل و ہم پر بھروسہ کر کے کنویں میں کود پڑے کہ میرے مرنے سے لوگ نجات پا جائیں گے.جان قربان کرنے کا یہ طریق تو بے شک صحیح ہے کہ خدا کے بندوں کی معقول طریقہ سے خدمت کریں اور ان کی بھلائی میں اپنے تمام انفاس خرچ کر دیں اور ان کے لئے الیسی کوشش کریں کہ گویا اس راہ میں جان دے دیں مگر یہ ہرگزہ صحیح نہیں ہے کہ اپنے سر یہ پتھر کہ دیں ماریں یا کنویں میں ڈوب مریں یا پھانسی لے لیں اور پھر تصور کریں کہ اس بے جا حرکت سے نوع انسان کو کچھ فائدہ پہنچے گا " کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر حضرت مسیح نے صلیب پر مرنا اپنی خوشی سے قبول کیا تھا تو یہ در حقیقت خود کشی ہے اور خود کشی خواہ دوسروں کی نجات کے خیال سے ہی کیوں نہ ہو ، ایک گناہ ہے.پس اگر حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی خوشی اور مرضی سے اس صلیبی موت کو قبول کیا جیسا کہ عیسائی دعوی کرتے ہیں تو یہ ایک شرمناک فعل ہے.ایک خود کشی ہے جس پر فخر کرنے کی بجائے اپنے سر ندامت سے جھب کا لینے چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- یسوع کا مصلوب ہونا اگر اپنی مرضی سے ہوتا تو خود کشی اور حرام کی موت تھی یہ سکھے پھر اسی سلسلہ میں فرماتے ہیں :- " دوسرے کی نجات کے لئے خود کشی کرنا خود گناہ ہے؟ سکه ه ست بچن یا جلد ۱۰ شه ست بیچین حاشیه ملت جلد ۱۰ به سه :- سیکچر لاہور من جلد ۲۰
نیز فریاد کھ شک نہیں کہ اگر میخود کشی مسیح سے بلا رادہ ظہور میں آئی تھی تو بہت بے جا کام کیا.اگر وہی زندگی وعظ و نصیحت میں صرف کرتا تو مخلوق خدا کو فائدہ پہنچتا.اس بے جا حرکت سے دوسروں کو کیا فائدہ ہوا سے پھر آپ فرماتے ہیں :- اگر عیسوع نے خود کشی کی تو میں اس سے زیادہ ہرگز تسلیم نہیں کروں گا کہ ایک ایسی بیوقوفی کی حرکت است صادر ہوئی جب سے اسکی انسانیت اور عقل پر ہمیشہ کے لئے داغ لگ گیا.ایسی حرکت جس کو انسانی قوانین بھی ہمیشہ جرائم کے نیچے داخل کرتے ہیں کیا کسی عقلمند سے صادر ہو سکتی ہے ؟ ہر گز نہیں.پس ہم یہ پوچھتے ہیں کہ فیسوع نے کیا سکھلایا اور کیا دیا؟ کیا وہ مفتی قربانی جس کا عقل اور انصاف کے نزدیک کوئی بھی نتیجہ علوم نہیں ہوتا ہے اس سلسلہ میں آپ کا ایک اور جامع حوالہ یہ ہے.فرمایا : ہ اگر یہ سچ ہے کہ یسوع نے اس خیال سے کہ میر سے مرنے سے لوگ نجات پا جائیں " گے.در حقیقت خود کشی کی ہے تو یسوع کی حالت نہاست ہی قابل رحم ہے اور یہ واقعہ پیش کرنے کے لائق نہیں بلکہ چھپانے کے لائق ہے ؟" اس قربانی کے مسئلہ کا ایک اور پہلو بھی ہے.ہمارے نزدیک تو مسیح کا اس طرح جان دینا ایک فضول اور عبث کام نظر آتا ہے لیکن عیسائی مسیح کے اس طرح صلیب پر مرنے کو بڑا ہی مستحسن اور مبارک کام خیال کرتے ہیں.سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ بات درست ہے کہ یہ قربانی کا طریق اچھا ہے تو کیا وہ لوگ بھی اچھے ہیں جنہوں نے اس قربانی کی تقریب پیدا کی اور اس منصوبہ کے محرک ہوئے کیونکہ اصول یہی ہے کہ نیک قربانیوں کے محرک بھی نیک ہی ہوا کرتے ہیں.ہم پوچھتے ہیں کہ کیا عیسائی یہودا اسکر یوطی کو نیک اور اپنا محسن قرار دے سکتے ہیں جس نے انجیل کی رو سے بقول ان کے اس پاک قربانی کا سبب پیدا کیا.ظاہر ہے کہ عیسائی ہرگز ایسا نہیں کرتے اور نہ ایسا کرسکتے ہیں کیونکہ انجیل میں یہودا اسکر یوٹی کے یارہ میں صاف لکھا ہے کہ اس میں شیطان سمایا ہوا ہے.پس ثابت ہوا کہ نہ اس قربانی کے متحرک نیک لوگ تھے اور نہ یہ قربانی اپنی ذات میں پاکیزہ تھی بلکہ : چشمه سیحی ملا جلد ۲۰ + ۱ - سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ۳ جلد ۱۲ : : سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب حث جلد ۱۳ :
۲۶۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بجاطور پر اس کو ایک معنی قربانی قرار دیا ہے.کیا ایسی لعنتی قربانی گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہو سکتی ہے؟ ہر گتہ نہیں.پس کفارہ باطل ہے.آٹھویں دلیل کفارہ کی تردید میں ایک دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ پیش فرمائی ہے کہ کفارہ کی اس قسم کی قربانی کی تعلیم یہود کی کتب میں نہیں ملتی حالانکہ اگر یہی نجات کا حقیقی ذریعہ ہے تو سب قدیم مذاہب کی کتب میں اس کا ذکر ہونا چاہیے.پس یہود کی کتب میں اس کا ذکر نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ کفارہ باطل ہے.ہمارا استدلال یہ ہے کہ اگر یہ قربانی واقعی حق تھی اور انسانی نجات کا یہی ایک ذریعہ ہے تو اس کا ذکر یہود کی کتب میں ضرور ہونا چاہیئے.کیونکہ اول تو حضرت مسیح علیہ السلام یہود کی شریعیت کے ماتحت اور اس کے پابند تھے.انہوں نے خود کہا ہے کہ :.یہ نہ سمجھو کہمیں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کر نے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں بکہ پورا کرنے آیا ہوں کیونکہ میں تمسے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقط یا ایک شوشہ توریت سے ہر گز نہ ملے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے یا اسے پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح توریت کے پابند تھے.ظاہر ہے کہ اگر انہوں نے کفارہ کی تعلیم دی ہوتی تو اس کی بنیاد تو ریت پہ ہونی چاہیئے تھی.پس اگر کفارہ صحیح ہے تو اس کا ذکر یہود کی کتب میں ہونا لازمی ہے.دوسری بات یہ ہے کہ کفارہ کے متعلق عیسائی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ بنی آدم کی نجات کا ذریعہ ہے.ظاہر ہے کہ اگر یہ نجات کا ذریعہ ہے تو یہی ذریعہ یہود کے لئے بھی ہوگا.اس صورت میں اس کا ذکر لانہمی طور پر ان کی کتب میں ہونا چاہیئے.یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ذریعہ پہلے نہیں تھا بلکہ بعد میں بنا ہے.کیونکہ ایسا ہونا عقلاً محال ہے.نیز بہت سے اور اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں.پس ان دو وجوہ سے یہود کی کتب میں کفارہ کا ذکر ملناضروری ہے.تب ہی اس عقیدہ کو عیسائیت کا صحیح عقیدہ قرانہ دیا جا سکتا ہے لیکن یہود کی کتب میں یا تو ریت میں کسی جگہ اس کفارہ کا ذکر تک نہیں جس کفارہ کو عیسائی پیش کرتے ہیں.پس ثابت ہوا کہ یہ عقیدہ اصل شریعیت کا پیش کردہ نہیں بلکہ بعد کی ایجاد ہے.نیز اسکی بنیا د شریعت نہیں بلکہ انسانی تخیل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دلیل کو اپنی کتب میں پیش فرمایا ہے.اور اس کے سب ممکن پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے.:- متی 2.
حضور کے الفاظ میں یہ دلیل اس طرح ہے.فرمایا :- جب اس اصول کو اس پہلو سے دیکھا جائے کہ کیا اس لعنتی قربانی کی تعلیم یہودیوں کو بھی دی گئی ہے یا نہیں تو اور بھی اس کے کذب کی حقیقت کھلتی ہے یہ لہ پھر فرمایا : " یہ بات ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں انسانوں کی نجات کے لئے صرف یہی ایک ذریعہ تھا کہ اس کا ایک بیٹا ہو اور وہ تمام گنہ گاروں کی لعنت کو اپنے ذمہ سے لے اور پھر لعنتی قربانی بن کہ صلیب پر کھینچا جائے تو یہ امر ضروری تھا کہ یہودیوں کے لئے تو ریت اور دوسری کتابوں میں جو یہودیوں کے ہاتھ میں ہیں اس لعنتی قربانی کا ذکر کیا جاتا.کیونکہ کوئی عقلمند اس بات کو باور نہیں کر سکتا کہ خدا کا وہ ازلی ابدی قانون جو انسانوں کی نجات کے لئے اس نے مقرر کر رکھا ہے ہمیشہ بدلتا ر ہے اور توریت کے زمانہ میں کوئی ہو.اور انجیل کے زمانہ میں کوئی اور متر آن کے زمانہ میں کوئی اور ہو اور دوسرے نبی جو دنیا کے اور حصوں میں آئے ان کے لئے کوئی اور ہو اب ہم جب تحقیق اور تفتیش کی نظر سے دیکھتے ہیں LT.تو معلوم ہوتا ہے کہ توریت اور یہودیوں کی تمام کتابوں میں اس لعنتی قربانی ک تعلیم نہیں ہے نیز فرمایا : ایک عقلمند کو نہایت انصاف اور دل کی صفائی کے ساتھ سوچنا چاہیے کہ اگر یہی بات سچ ہوتی کہ خدا تعالٰی نے یسوع مسیح کو اپنا بیٹا قرارہ دیکر اور غیروں کی لعنت اس پر ڈال کر پھر اس لعنتی قربانی کو لوگوں کی نجات کے لئے ذریعہ ٹھہرایا تھا اور یہی تعلیم یہودیوں کو ملی تھی تو کیا سب تھا کہ یہودیوں نے آج تک اس تعلیم کو پوشیدہ رکھا اور بڑے اصرالہ سے اسی دشمن رہے.کے پھر اسی سلسلہ میں فرمایا : " یہ اعتراض اور بھی قوت پاتا ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں کی تعلیم کو تازہ کرنے کے لئے ساتھ ساتھ نبی بھی چلے آئے تھے اور حضرت موسیٰ نے کئی لاکھ انسانوں کے سامنے توریت کی تعلیم کو بیان کیا تھا.پھر کیونکہ یمکن تھا کہ یہودی لوگ ایسی تعلیم کو جو تواتر نبیوں سے ہوتی آئی مجھل دیتے.حالانکہ ان کو حکم تھا کہ خدا کے احکام اور وصایا کو اپنی چوکھٹوں اور دروازوں اور ے: سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب مثہ جلد ۱۲ : ۵۲ : - سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب مشت جلد ۱۲ -: ه جلد اين
۲۶۷ آستینوں پر لکھیں اور بچوں کو سکھائیں اور خود حفظ کریں.اب کیا یہ بات سمجھ آسکتی ہے یا کسی کا پاک کا نشنس یہ گواہی دے سکتا ہے کہ باوجود اتنی نگہداشت کے سامانوں کے تمام فرقے یہود کے توریت کی اس پیاری تعلیم کو بھول گئے جن پر ان کی نجات کا مدار تھا اے نیز فرمایا : "اگر یہودیوں کو نجات کے لئے اس لعنتی قربانی کی تعلیم دی جاتی تو کچھ سب معلوم نہیں ہوتا کہ کیوں وہ اس تعلیم کو پوشیدہ کرتے ہاں یہ تمکن تھا کہ وہ لیسوع مسیح کو خدا کا بیٹا کہ کتے نہ مانتے اور اس کی مصیب کو سچے بیٹے کی صلیب تصویر نہ کرتے اور یہ کہتے کہ حقیقی بیٹا جس کی قربانی سے دنیا کو نجات ملے گی یہ نہیں ہے بلکہ آئندہ کسی زمانہ میں ظاہر ہوگا مگر یہ تو کسی طرح ممکن نہ تھا کہ تمام فرقے یہود کے سرے سے ایسی تعلیم سے انکار کر دیتے جو ان کی کتابوں میں موجود تھی اور خدا کے پاک نبی اس کو تاندہ کر تے آئے تھے.۲ ان حوالہ جات سے عیاں ہے کہ کفارہ کی تعلیم کا توریت میں پایا جانا از بس ضروری تھا لیکن عملاً ایسا نہیں ہے.پس ثابت ہوا کہ عیسائیت کا پیش کہ وہ کفارہ کا نظریہ ایک باطل عقیدہ ہے جو بعد کی ایجاد معلوم ہوتا ہے، اس لئے ہر گنہ قابل قبول نہیں ہے.1 تویں دلیل عقیدہ کفارہ کے مطابق عیسائی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خداد ند یسوع مسیح نے بڑی خوشی کے ساتھ گناہگاروں کے لئے صلیب پر جان دینے کو قبول کیا اور ایسا یقین رکھنا ضروری بھی ہے کیونکہ اگر واقعی دوسروں کو نجات دلانے کا نیک عزم دل میں ہو تو وہ قربانی بڑی خوش دلی سے ہونی چاہیئے عیسائیوں کے اس یقین کی ایک بنیاد ان کا یہ اعتقاد بھی ہے کہ یسوع مسیح اس مقصد کے لئے مجسم ہوئے تھے گویا وہ شروع سے اس غرض کے لئے تیار کئے گئے تھے کہ بالآخر نوع انسان کے لئے صلیبی موت کو قبول کریں.یہ عیسائیوں کا اعتقاد ہے جو کفارہ کے عقیدہ کے ساتھ لازم وملزوم ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قربانی رضا مندی اور دلی خواہش سے ہوئی ہے کیونکہ یہ بات تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ زبردستی کی قربانی نجات کا ثمرہ پیدا نہیں کر سکتی ہے.اس اعتقاد کے بالمقابل جب ہم واقعات پر نظر کر تے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ حضرت مسیح نے سراجدین عیسائی کے چار سوالیوں کا جواب مث جلد ۱۲ : ه - - ايضا ما جلد ۱۲ :
۲۶۸ اپنی مرضی سے میلسی موت کو قبول نہیں کیا.گروہ دل سے ایسا ہی کرنا چاہتے تو وہ ہرگز ہرگزنہ کسی طرح وہ صلیب بچ جانے کے لئے خدا کے حضور تفرع اور عاجزی کے ساتھ رو رو کر دعائیں نہ کرتے.لیکن بائیبل سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایسا کیا لکھا ہے :- گھٹنے ٹیک کر یوں دُعا کرنے لگا کہ اسے باپ اگر تو چاہے تو یہ پیالہ مجھ سے ہٹا لے لے نیز لکھا ہے :- اس نے اپنی بشریت کے دنوں میں زور زور سے پکا رکر اور آنسو بہا بہا کہ اسی دعائیں اور التجائیں کیں جو اس کو موت سے بچا سکتا تھا " سے پس ثابت ہے کہ مسیح ہرگز صلیب پر مرنا نہ چاہتے تھے.وہ بچنا چاہتے تھے لیکن ان کو زبر دستی پکڑ کر صلیب پر لٹکا دیا گیا.گویادہ تو زبر دستی صلیب پر لٹکائے گئے اور مسیحیوں نے ان کو اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھ لیا.پس یہ امر کہ خود حضرت مسیح علیہ السلام صلیبی موت کو پسند نہ کرتے تھے بلکہ استی نفرت کرتے تھے ، کفارہ کے ابطال پر ایک زیر دست دلیل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس دلیل کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :- (1) " دوسرے کی نجات کے لئے خود کشی کر نا خود گناہ ہے اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہ سکتا ہوں کہ ہر گز مسیح نے اپنی رضا مندی سے صلیب کو منظور نہیں کیا بلکہ شریر یہودیوں نے جو چاہا اس سے کیا اور سچ نے صلیبی موت سے بچنے کے لئے باغ میں ساری رات دُعا کی اور اس کے آنسو جاری ہو گئے.تب خدا نے بباعث اس کسی تقوی کے اس کی دُعا قبول کی اور اس کو صلیبی موت سے بچا لیا جیسا کہ خود انجیل میں بھی لکھا ہے.پس یہ کیسی تہمت ہے کہ مسیح نے اپنی رضامندی سے خود کشی کی یہ سے (۳) " یہ بات کہ اس لعنتی موت پر مسیح خود راضی ہو گیا تھا اس دلیل سے ردّ ہو جاتی ہے کہ مسیح نے باغ میں رورو کرد ممانی کہ وہ پیالہ ایسے مل جائے اور پھر صلیب پر کھینچنے کے وقت چیخ مار کر کہا ایلی اپنی لما سبقتنی یعنی اسے میرے خدا.اسے : لوقا ۲۲ الم و تم کو لیکچر ہور صا جلد ۲۰ : 1 - -:- عبرانیوں ہے -
۲۶۹ میرے خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.اگر وہ صلیبی موت پر راضی تھا تو رسیے کیوں عائیں کیں، (۳) یہ کہنا کہ اپنے عمدا اپنے تئیں صلیب پر چڑھایا تا اس کی امت کے گناہ بخشے جائیں.ا زیادہ کوئی بے ہودہ خیال نہیں ہوگا جس شخص نے تمام رات اپنی جان بچانے کے لئے رو رو کر ایک باغ میں دعا کی اور وہ بھی منظور نہ ہوئی اور پھر گھبراہٹ اس قدر اس پر غالب آئی کہ صلیب پر چڑھنے کے وقت ایلی ایلی لما سبقتنی کہ کر اپنے خُدا کو خُدا کہ کسے پکارا اور اس شدت بے قراری میں باپ کہنا بھی بھول گیا اس کی نسبت کوئی خیال کر سکتا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے جان دی" سے ان تین حوالوں میں حضور نے اس امر کو بدلائل ثابت کیا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنی مرضی اور خوشی سے صلیبی موت قبول نہیں کی اور جب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ یہ قربانی خوشی کی نہیں بلکہ یہ دستی کی ہے تو یہ ہرگز کفارہ نہیں ہو سکتی حضور اس دلیل کو مختصراً یوں بیان فرماتے ہیں : - یسوع کا مصلوب ہونا اگر اپنی مرضی سے ہوتا تو خود کشی اور حرام کی موت تھی اور خلاف مرضی کی حالت میں کفارہ نہیں ہو سکتا کے دسویں بیل کی زبر کفارہ کی تردید میں ایک بہت ہی نہ بر دست دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ کفارہ کی رو سے حضرت مسیح علیہ السلام معون ثابت ہوتے ہیں اور عیسائی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ لعنتی بن گئے تھے.حضرت مسیح علیہ اسلام کا ملعون ہونا عقلاً ، اخلاقاً ، شرعاً اور واقعتاً بالبداہت غلط اور ناقابل قبول ہے لہذا کفارہ باطل ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کو یہود نے صلیب پر لٹکا کر اپنے خیال میں مار دیا.ان کی کتاب کی رو سے جو صلیب پر مرے وہ لعنتی ہوتا ہے لکھا ہے :- " جسے پھانسی ملتی ہے وہ خدا کی طرف سے ملعون ہے یا کہ جب عیسائیوں نے یہود کے اس دعوی کو قبول کر لیا کہ ہم نے مسیح کو صلیب پر مار دیا ہے تو وہ اسکے حقیقة الوحی صت جلد ۲۲ : : حقیقۃ الوحی حاشیه صنت جلد ۲۲ به ه ست بچن حاشیه ما جلد ۱۰ ؛ : استثناء : - ۲۱
معون ہونے کا بھی انکار نہیں کر سکتے تھے.تب انہوں نے یہ عقیدہ بنا لیا کہ مسیح ہمار سے لئے لعنتی بنا اور ہمارہ سے گناہ اس نے اُٹھالئے لکھا ہے :- در مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا ہمیں مول سے کر شریعیت کی لعنت سے چھوڑا یا کہ سلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دلیل دی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ہرگز ہرگز ملعون قرار نہیں دیا جاسکتا.حضور نے اس دلیل کو اس ترتیب سے بیان فرمایا ہے :- ا.حضرت مسیح علیہ السلام کا مصلوب اور ملعون ہونا عیسائی عقیدہ میں شامل ہے لعنت خواہ تین دن کے لئے ہو یا کم و بیش بہرحال وہ مسیح پر اس لعنت کو ضرور وال د کرتے ہیں.۲ - لعنت کے مفہوم کی پوری پوری وضاحت کی ہے کہ لعنت خدا سے دوری کا نام ہے اور تاریکی و ظلمت کا دوسرا نام ہے.اسی وجہ سے لعین شیطان کا نام ہے لعنت کا یہ مفہوم عقلا ہم حضرت مسیح پر ہر گز وارد نہیں کر سکتے.کیا خدا کا ایک پیارا نہی لعنت کی ظلمت سے کچھ بھی حصہ لے سکتا ہے.ہر گز نہیں ۴ - حضرت مسیح نے اپنے بارہ مں جو کچھ کہا لعنت کا مفہوم استکی سراسر خلاف ہے میسیج نے اپنے آپ کو نور کہا.کیا نور اور لعنت کی ظلمت اکٹھے ہو سکتے ہیں.۵ - عیسائی حضرت مسیح کو خدا بھی مانتے ہیں اور ملعون بھی.یہ متضاد صفات ایک ہی وجود میں بیک وقت پائی نہیں جاسکتیں.- اگر بیٹے کو ملعون قرار دیا جائے تو باپ بھی ملعون بنتا ہے پس کیا عیسائی خدا کو بھی لعنت کا مورد قرار دیں گے ؟ (العیاذ باللہ ) اگر واقعی حضرت مسیح نے طعون ہو کر دوسروں کو نجات دی ہے اور اس کے سوا نجات کی کوئی صورت نہیں تو ایسی نجات پر ہزار لعنت بھیجنی چاہیئے جس کے لئے خدا کے ایک پیار سے بند سے اور نبی کو ملعون بتانا پڑے.الفرض ان سب امور کو پیش فرما کر حضور نے ثابت فرمایا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ہرگز ہرگز معون نہیں کہا جا سکتا اور جب وہ ملعون نہ ہوئے یعنی تصلیب کا نتیجہ ان پر وارد نہ ہوا تو مسیحی کفارہ خود بخود باطل ہو گیا.اسی دلیل کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے حوالہ جات ملتے ہیں جن میں لعنت کا مفہوم حضرت مسیح پر اس کا وارد نہ ہونا، ملعون ہونے کے نتائج اور اس لعنت سے کفارہ کے ابطال پر گلیتو
استدلال - یہ سب امور بڑی وضاحت سے بیان ہوئے ہیں.ان سب حوالہ جات کا اس جگہ درج کرنا باعث تطویل ہوگا.اس لئے میں چند منتخب حوالہ جات درج کرتا ہوں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :- (1) " حضرت مسیح علیہ السلام کو لعنتی ٹھہرانے کا عقیدہ جو عیسائیوں کے مذہب کا اصل الاصول ہے ایسا صر سمح المبطلان ہے کہ ایک سطحی خیال کا انسان بھی معلوم کر سکتا ہے کہ کسی طرح ممکن نہیں کہ ایسا مذہب سچا ہو جس کی بنیاد ایسے عقید سے پر ہو جو ایک راستباز کسے دل کو لعنت کے سیاہ داغ کے ساتھ ملوث کرنا چاہتا ہے " سے (F) " لعنت ایک ایسا مفہوم ہے جو شخص ملعون کے دل سے تعلق رکھتا ہے اور کسی شخص کو اس وقت لعنتی کہا جاتا ہے جبکہ اس کا دل خدا سے بالکل برگشتہ اور اس کا دشمن ہو جائے اسی لئے لعین شیطان کا نام ہے اور اس بات کو کون نہیں جانتا کہ لعنت قرب کے مقام کے مد کرنے کو کہتے ہیں اور یہ لفظ اس شخص کے لئے بولا جاتا ہے جس کا دل خدا کی محبت اور اطاعت سے دُور جاپڑ سے اور در حقیقت وہ خدا کا دشمن ہو جائے.لفظ لعنت کے یہی معنی ہیں جس پر تمام اہل لغت نے اتفاق کیا ہے.اب ہم پوچھتے ہیں کہ اگر در حقیقت میسوع میسج پر لعنت پڑ گئی تھی تو اس سے لازم آتا ہے کہ در حقیقت وہ مورد غضب الہی ہو گیا تھا اور خدا کی معرفت اور اطاعت اور محبت اسکی دل سے جاتی رہی تھی اور خدا ہنس کا دشمن اور وہ خدا کا دشمن ہو گیا تھا اور خدا اسی بیزار اور وہ خدا سے بیزالہ ہوگیا تھا جیسا کہ لعنت کا مفہوم ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ وہ لعنت کے دنوں میں در حقیقت کا فر اور خدا سے برگشتہ اور خدا کا دشمن اور شیطان کا حصہ اپنے اندر رکھنا تھا.پس یسوع کی نسبت ایسا اعتقاد کرنا گویا نعوذ باللہ اس کو شیطان کا بھائی بنانا ہے“.رس ولعن اور بعثت ایک لفظ عبرانی اور عربی میں مشترک ہے جس سے یہ معنی ہیں کہ ملعون انسان کا دل خدا سے بیکلی برگشتہ اور دور اور مہجور ہو کر ایسا گندہ اور ناپاک ہو جائے میں طرح جذام سے جسم گندہ اور خراب ہو جاتا ہے اور عرب اور عبرانی کے اہل نہ بان اس بات :- سرامد بن عیسائی کے چار سوالوں کا جواب من جلد ۱۲ سته تریاق القلوب مثنا جلدها : -
پر متفق ہیں کہ ملعون یا لعنتی صرف اس حالت میں کسی کو کہا جاتا ہے جبکہ اس کا دل درحقیقت خدا سے تمام تعلقات محبت اور معرفت اور اطاعت کے توڑو سے اور شیطان کا ایسا تابع ہو جائے کہ گویا شیطان کا فرزند ہو جائے اور خدا اس سے بیزارہ اور وہ خدا سے بیزار ہو جائے اور خُدا اُس کا دشمن اور وہ خُدا کا دشمن ہو جائے.اسی لئے لعین شیطان کا نام ہے پس وہی نام حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے تجویز کرنا اور ان کے پاک اور منور دل کو نعوذ باللہ شیطان کے تار یک دل سے مشابہت دنیا اور وہ جو بقول ان کے خدا سے نکلا ہے اور وہ جو سراسر نور ہے اور وہ جو آسمان سے ہے اس کی نسبت نعوذ باللہ یہ خیال کرتا کہ وہ لعنتی ہو کہ یعنی خدا سے مردود ہو کر اور خدا کا دشمن ہو کہ اور دل سیاہ ہو کر اور برگشتہ ہو کر اور معرفت الہی سے نابینا ہو کر شیطان کا وارث بن گیا اور اس لقب کا مستحق ہو گیا جو شیطان کے لئے خاص ہے یعنی لعنت.یہ ایک ایسا عقیدہ ہے کہ اسے سننے سے دل پاش پاش ہوتا ہے اور بدن پر لرزہ پڑ تا ہے کیا خدا کے مسیح کا دل خدا سے ایسا ہر گشتہ ہو گیا جیسے شیطان کا دل ؟ کیا خدا کے پاک مسیح پر کوئی ایسا زمانہ آیا جس میں وہ خدا سے بیزالہ اور در حقیقت خدا کا دشمن ہو گیا.یہ بڑی غلطی اور بڑی بے ادبی ہے.قریب ہے جو آسمان اس سے ٹکڑے ٹکڑ سے ہو جائے یا کے (لم) T یسوع کا لعنتی ہو جانا گر وہ تین دن کے لئے ہی سہی عیسائیوں کے عقیدہ میں داخل ہے اور اگر یسوع کو لعنتی نہ بنایا جائے تو مسیحی عقیدہ کی رو سے کفارہ اور قربانی وغیرہ سب باطل ہو جیا تے ہیں گویا اس تمام عقیدہ کا شہتیر لعنت ہے" کے جاتے (0) "جب لعنت اپنے مفہوم کے رو سے سیخ جیسے راستبانہ انسان پر ہرگز جائز نہیں تو پھر کفارہ کی چھت جس کا شہتیر لعنت ہے کیونکہ ٹھہر سکتی ہے" سے اس دلیل کے ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ پانچ منتخب حوالہ جات اپنے مفہوم میں بڑے واضح ہیں.اسی دلیل کو حضور علیہ السلام نے اپنی متعدد کتب میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے.چنانچہ اپنی کتب :- ے: ستاره قیصره ۱۲۱۵ جلد ۱۵ ه: کتاب البرية من جلد ١٣ : :- سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب مٹ جلد ۱۲ :
۳۷۳ سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب کے صفحات صه ، حث ، حث روحانی خزائن جلد ۱۲ - - كتاب البرية ص ، ص ، حاشیہ ص ، م ، حاشیه در حاشیه مته ، مه ۲ ، حاشیه ۲۵ تا YA م ۲ ، حاشیہ من۲۹۰۷۲۰ ، حاشیه ۲ تا ۲۵ ، مشت ، حاشیه ۲۳ جلد ١٣ - م تحفہ گولڑویہ ص۲، ۲۵۷۲، ح ۲ حاشیه - جلد ۱۷ - " تریاق القلوب منت، ۲۲ ، من ، من جلدها - ۵۵۲ حقیقة الوحی صده سراج منیر ۲ جلد ۱۲ - جلد ۲۲ - NA - - مفوظات جلد سوم ص ۱۶۸ ، هنا - ازاله او پام ۲ جلد ۳ پر بھی اس دلیل کو وضاحت سے بیان فرمایا ہے.اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ لعنت ایک بہت ہی ناپاک مفہوم ہے جو ہر گز کسی پاک بانہ انسان یعنی حضرت مسیح علیہ السلام پر وارد نہیں ہو سکتا لیکن چونکہ ایسا اتنا کفارہ کا ایک لازمی جزو ہے پس ثابت ہوا کہ یہ عقیدہ سراسر نا پاک اور باطل عقیدہ ہے.اس دلیل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو حوالوں پر ختم کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں:.بہتر ہوتا کہ عیسائی اپنے لئے دو رخ قبول کر لیتے مگر اس برگزیدہ انسان کو ملعون اور شیطان نہ ٹھہراتے.ایسی نجات پر لعنت ہے جو بغیرا سکسی جوراستبازوں کو بے ایمان اور شیطان قرار دیا جائے مل نہیں سکتی کی ہے نیز مند مایا: در دگہ نجات اسی طرح حاصل ہو سکتی ہے کہ اول میسوع کو شیطان اور خدا سے برگشتہ اور ندا سے بیزار ٹھہرایا جائے تو لعنت ہے ایسی نجات پسر!!! ایسی بہتر تھا کہ عیسائی اپنے لئے دوزخ قبول کر لیتے لیکن خدا کے ایک مقرب کو شیطان کا لقب نہ دیتے " گیار بوین دلیل کفارہ کی تردید میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش فرمودہ گیارہویں دلیل یہ ہے کہ یہ عقیدہ ایک متضاد ے: سراج منیر صت جلد ۱۲ : سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب حث جلد ۱۲
ہم کام نوعیت کا عقیدہ ہے اور کسی متضاد نوعیت کے عقیدہ کو درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اس عقیدہ کی رو سے حضرت مسیح علیہ السلام کا املعون ہونا ایک لانہ می امر ہے اس کے بغیر عیسائیوں کے نزدیک وہ نوع انسان کے گناہوں کا کفارہ ہو ہی نہیں سکتے (حضرت سیح کے ملعون ہونے کی تفصیل ہم گذشتہ دلیل کے تحت ذکر کر آئے ہیں ) ایک طرف تو عیسائیوں کا یہ اعتقاد ہے اور دوسری طرف وہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا ، خدا کا بیٹا اور ازنی ابدی طور پرمعصوم و بے گناہ خیال کرتے ہیں.اب ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا لعنت اور الوہیت ایک جگہ پر اکٹھے ہو سکتے ہیں.ہرگزہ نہیں.اگر حضرت مسیح علیہ السلام واقعی خدا تھے تو کیا پھر وہ معنی بھی بن گئے تھے.اور اگر وہ لعنتی مانے جائیں تو کیا کوئی لعنتی وجود خدا ہو سکتا ہے.یہ ایک ایسا عجیب تضاد ہے جو کفارہ میں پایا جاتا ہے اور جس کا عیسائی کوئی جواب نہیں دے سکتے.پھر عیسائی لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کو پاک اور معصوم قرار دیتے ہیں اور ان کی اس قربانی کو پاکیزہ قربانی سمجھتے ہیں.سوال یہ ہے کہ یہ کیسی پاکیزہ قربانی ہے جس کا نتیجہ لعنت ہے.کیا وہ قربانی جب کسی نتیجہ بند میں قربانی دینے اور اپنی جان گنوانے والا مردود اور ملعون ہو جاتا ہے کسی اور کوپاک کر سکتی ہے؟ ہر گز نہیں.الغرض لعنت اور پاکیزگی کے اعتبار سے اس عقیدہ میں واضح اور بین تضاد پایا جاتا ہے جس میں تطبیق کی کوئی صورت نہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی بات کو بطور دلیل بیان فرمایا ہے.آپ سیمی کفارہ کے تضاد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :- :- (1) کس کس بات کو پیش کیا جاو سے ایک صلیب ہی ایسی چیز ہے جو ساری خدائی اور نبوت پر پانی پھیر دیتی ہے کہ جب مصلوب ہو کر ملعون ہو گیا تو کا ذب ہونے میں کیا باقی رہا ہے رہا ہے.ایک ناچیز انسان کو خدا بھی کہتے ہیں اور پھر ملعون بھی " سے عیسائیوں کی اس خوش اقتصادی پر سخت افسوس آتا ہے کہ جب دل ہی ناپاک ہو گیا تو اور اد کیا باقی رہا وہ دوسروں کو کیا بچائے گا اگر کچھ بھی شرم ہوتی اور عقل و فکر سے کام لیتے تو مصلوب ن ملفوظات جلد سوم ص : سے: سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب مل جلد ۱۲ :
۲۷۵ اور ملعون کے عقید سے کو پیش کرتے ہوئے یسوع کی خدائی کا اقرارہ کرنے سے ان کو موت آجاتی ایرانی ان تینوں حوالہ جات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ کفارہ مسیح میں واضح تضاد ہے.اس پر آ تضاد کی وجہ سے اس کفارہ کو درست قرانہ نہیں دیا جا سکتا بارہویں دلیل کفارہ کی تردیدمیں بارہویں دلیل یہ ہے کہ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس کا کوئی ثبوت عیسائیوں کی کتاب سے نہیں ملتا.عقلاً اور شرکا بہت ہی ضروری ہے کہ ایسے اہم عقیدہ کا جو عیسائیوں کے قول کے مطابق بنی آدم کی نجات کا واحد ذریعہ ہے، واضح طور پر اس کتاب میں ذکر ہوتا.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ عمل ایسا نہیں ہے.یہ درست ہے کہ بائیبل کی چند آیات اس ضمن میں ضرور پیش کی جاتی ہیں لیکن سنجات جیسے اہم مسئلہ کا جو ہر انسان سے تعلق رکھتا ہے صرف چند آیات میں مشتبہ طور پر بیان ہونا ایک ناقابل قبول امر ہے.بائیل کی رو سے غور کرتے ہوئے ایک تو اس عقیدہ کی پوری وضاحت نہیں ملتی لیکن اسی مطالعہ کا دوسرا پہلو اس اصول کو سراسر باطل قرار دیتا ہے کیونکہ بائینیل کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ وہ اس اصول کے خلاف ہے کہ ایک کسے گناہ کی سزا دوسرے شخص کو دیدی جائے یا ایک کے جرم کے بدلہ میں کسی غیر محرم کو پکڑ لیا جائے.اس سلسلہ میں بائیمیل کے چند حوالے بطور نمونہ ملاحظہ ہوں لیکھا ہے :.اولاد کے بدلے باپ دادے نہ بارہ سے جائیں.باپ دادوں کے بدلے نہ اولا دقتل کی - جامہ نے.ہر ایک اپنے گناہوں کے بدلے ہی مارا جاوے گا (استثناء ۲۳) د بیٹوں کے بدلے باپ دادا نہ قتل ہوں گے.نہ باپ دادوں کے بدلے بیٹے قتل ہوں گے بلکہ ہر ایک آدمی اپنے گناہ کے بد سے مارا جان سے ۲.تواریخ ) ان ایام میں پھر یوں نہ کہیں گے کہ باپ دادا نے کچے انگور کھائے اور اولاد کے دانت کھٹے ہو گئے.کیونکہ ہر ایک اپنی ہی بدکرداری کے سب سے مرے گا.ہر ایک جو کچھے انگور کھاتا ہے اسی کیسے دانت کھٹے ہوں گے؟ ۴ - " جو جان گناہ کرتی ہے وہی مرے گی؟ (حتہ قبل ہے) " جو جان گناہ کرتی ہے وہی سرے گی بیٹا باپ کے گناہ کا بوجھ نہ اُٹھائے گا اور نہ باپ بیٹے کے گناہ کا بوجھ.صادق کی عدالت اسی کے لئے ہوگی اور شریر کی شرارت شریر کیلئے ؟ حز قیل ہے؟ 0 ۱۷۵۱۷۴ : ملفوظات جلد سوم ص ۱۷۵ : دیر میاں ؟
بائیبل کے ان حوالوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تعلیم کفارہ کے اصول کے سراسر خلاف ہے کیونکہ کفارہ کی رو سے ایک معصوم اور بے گناہ کو گناہگاروں اور بدکاروں کی نجات کے لئے صلیب پر شکا یا گیا.ظاہر ہے کہ کفارہ کا اصول بائیبل کی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں بلکہ صریح طور پر مخالف ہے.پس معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیمی کفارہ جس کو مسیحی آجکل پیش کرتے ہیں ہر گز اصل تعلیمات کا حصہ نہیں ہے بلکہ بعد کی ایجاد ہے جو اصل تعلیمات سے واضح طور پر متصادم ہے.پس ثابت ہوا کہ کفارہ یہود کی اصل تعلیم کے خلاف ہے لہذا باطل ہے.وہ عقیدہ ہی کیا ہو اجس کی تائید اس مذہب کی اپنی کتاب سے بھی نہ ہو سکے بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ وہ عقیدہ اسی مذہب کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہو.تير هوين دليل کفارہ کے عقیدہ کو پیش کرتے ہوئے عیسائی حضرات یہ کہا کرتے ہیں کہ خدا تعالٰی عادل اور رحیم ہے.عدل کے اور مزا کا متقاضی ہے اور رحم معانی کا.اس طرح وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ عدل اور رحیم دو ایسی صفتیں ہیں جو آپس میں ٹکراتی ہیں.اگر خدا عدل کہ سے تو وہ بغیر سزا کے کسی مجرم کو چھوڑ نہیں سکتا.پس رحم بلا مبادلہ جائز نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں اسی اصول کا خلاصہ یہ ہے :- رحم بلا مبادلہ میں عیسائی صاحبوں کا یہ اصول ہے کہ خدا تعالیٰ میں صفت عدل کی بھی ہے ! اور رحم کی بھی.صفت عدل کی یہ چاہتی ہے کہ کسی گنا ہوگانہ کو بغیر سزا کے نہ چھوڑا جائے اور صفت رحم کی یہ چاہتی ہے کہ سنہ اسے بچایا جائے.اور چونکہ عدل کی صفت رحم کرنے سے روکتی ہے اس لئے رحیم بلا مبادلہ جائزہ نہیں " سے پس عیسائی یہ کہتے ہیں کہ چونکہ خدا رحم بلا مبادا نہیں کرسکتا اس لیئے اسے بنی آدم کے گناہ معاف کرنے کے لئے مسیح کو مصلوب کر کے کفارہ بنایا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اصول کی تردید فرمائی ہے اور ثابت فرمایا ہے کہ رحم بلا مبادلہ ہو سکتا ہے.پس کفارہ کا مسئلہ باطل ہے.اس سلسلہ میں سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو ثابت فرمایا ہے کہ عدل اور رحم آپس میں ٹکراتے نہیں ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا عدل بھی ایک زرنگ کا رحم ہی ہے جو بنی نوع انسان پر کیا جاتا ہے خدا کا عدل یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ کسی برائی پر صرف اسی قدر سزا دیتا ہے جتنی وہ برائی ہے حالانکہ اس کو قدرت حصل ہے کہ اس سے زیادہ سزا بھی دے دے.پس خدا کا عدل کرنا بھی در اصل بنی آدم کے حق میں ایک رحم :- جنگ مقدس ۱۲۵ جلد :
۲۷۷ ہے اور ان دونوں صفتوں میں کوئی ایسا تضاد نہیں کہ یہ بیک وقت جمع نہیں ہو سکتیں.حضور فرماتے ہیں:.یہ دس دسہ کہ عدل اور رحم دونوں خدا تعالیٰ کی ذات میں جمع نہیں ہو سکتے کیونکہ عدل کا تقاضا ہے کہ سزا دی جائے اور رحم کا تقاضا ہے کہ در گندر کی جائے.یہ ایک ایسا دھوکہ ہے کہ جس میں قلت تدبیر سے کو نہ اندیش عیسائی گرفتار ہیں.وہ غور نہیں کرتے کہ خدا تعالے کا عدل بھی تو ایک رحم ہے وجہ یہ کہ وہ سراسر انسانوں کے فائدہ کے لئے ہے.مثلاً اگر خدا تعالیٰ ایک خونی کی نسبت باعتبار اپنے عدل کے حکم فرماتا ہے کہ وہ مارا جائے تو اس سے اس کی الوہیت کو کچھ فائدہ نہیں بلکہ اس لئے چاہتا ہے کہ تا نوع انسان ایک دوسرے کو مار کر نابود نہ ہو جائیں.سو یہ نوع انسان کے حق میں رحم ہے اور یہ تمام حقوق عباد خدا تعالیٰ نے اسی لئے قائم کئے ہیں کہ تا امن قائم کر ہے اور ایک گروہ دوسرے گروہ پر ظلم کر کے دنیا میں فساد نہ ڈالیں.سو یہ تمام حقوق اور سزائیں جو مال اور جان اور آبرو کے متعلق نہیں در حقیقت تورع انسان کے لئے ایک رحم ہے؟ ملالہ نیز فرمایا : حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا عدل ہی بجائے خود ہے اور رحم بجائے خود ہے جو لوگ اچھے کام کر کے اپنے تئیں رحم کے لائق بناتے ہیں ان پر رحم ہو جاتا ہے اور جولوگ مادر کھانے کے کام کرتے ہیں ان کو مار پڑتی ہے پیس عدل اور رحم میں کوئی جھگڑا نہیں.گویا دو نہریں ہیں جو اپنی اپنی جگہ پر چل رہی ہیں.ایک نہر دوسرے کی ہر گنہ مزاحم نہیں ہے".الغرض آپ نے یہ اصول ثابت فرمایا ہے کہ عیسائیوں کا یہ کہنا کہ خدار تیم بلا مبادلہ اس وجہ سے نہیں کر سکتا کہ صفت عدل اور رحم کے تقاضے آپس میں ٹکراتے ہیں.بالکل غلط ہے.عدل اور رحم کی صفات اپنی اپنی مستقل حیثیت رکھتی ہیں ان میں با ہم کوئی ٹکراؤ نہیں.اس اصول کی وضاحت کے بعد حضورہ نے رحم بلا مبادلہ کے جوا نہ میں بہت سے دلائل دیئے ہیں ایک دلیل آپ نے یہ دی ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ خدارحم بلا مبادلہ نہیں کر سکتا تو کیا وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ اور دوسر سے بزرگوں کی سفارش اور شفاعت سے گناہگاروں کے گنا بجتے گئے.اگر یہ اصول ایسا ہی حکم تھا تو اس وقت کیوں یہ اصول روک نہ بن گیا.بائبل میں لکھا ہے : " سو تو اپنی رحمت کی فراوانی سے اس امت کا گناہ جیسے تو مصر سے لے کر یہانتک ان کہ -- - كتاب البرية صت جلد ١٣ : : : کتاب البرية من جلد ۱۳ :
YCA لوگوں کو معاف کرتا رہا ہے اب بھی معاف کرد سے.خدا وند نے کہا کہ میں نے تیری درخواست کے مطابق معاف گیا" رگنتی / اسی طرح پر شفاعت سے گناہ معاف ہونے کا ذکر استثناء 4 اور خروج پہ میں بھی ہے.ان سب حوالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ خدا ہر موقع پر اپنے عدل کے تقاضا کو پورا کرے اور سناہی دے بلکہ وہ عدل کے بغیر بھی رحم کر سکتا ہے اور کسی نبی یا بزرگ انسان کی شفاعت سے گناہ اور خطا کو معاف کہ سکتا ہے.اسی کا نام رحم بلا مبادلہ کرتا ہے.پس ثابت ہوا کہ خدا کو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ رحم بلا مبادلہ کہ سے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :- و توریت کے رو سے بہت سے مقامات ایسے ثابت ہوتے ہیں جس کی آپ (عیسائیوں " ناقل) کا مسئلہ رحم بلا مبادلہ باطل ٹھہرتا ہے پھر اگر آپ تو ریت کو حق اور منجانب اللہ مانتے ہیں تو حضرت موسیٰ کی وہ شفاعتیں جن کے ذریعہ سے بہت مرتبہ بڑے بڑے گناہگاڑی کے گناہ بخشے گئے نکلتی اور بے کا ر ٹہرتی ہیں.اے سے نیز فرمایا : جب ہم نظر غور سے دیکھتے ہیں تو ہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ نیکوں کی شفاعت یدوں کے گناہ بخشے گئے ہیں دیکھو گنتی باب ہم ایسا ہی گنتی و استثناء و خروج اے رحم بلا مبادلہ کے جوانہ میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے عام قانون قدرت میں ایسی بیشمار مثالیں ملتی ہیں کہ وہ دنیا میں رحم بلا مبادلہ کرتا ہے.پس قانون قدرت کی شہادت ثابت کرتی ہے کہ رحم بلا مبادلہ ہو سکتا ہے.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :- قانون قدرت صاف شہادت دے رہا ہے کہ خدا تعالیٰ کا رحم بلا مبادلہ قدیم سے جاری ہے جس قدر خدا تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کر کے اور طرح طرح کی نعمتیں انسانوں کو بخش کہ اپنا رجم ظاہر کیا ہے کیا اس سے کوئی انکار کر سکتا ہے جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے وان تعدوا نعمت الله لا تحصوها (س ) یعنی اگر تم خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو گینا چاہو تو ہر گنہ (ش) گن نہیں سکتے.“ سے رحم بلا مبادلہ کے حق میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ انجیل کی رو سے انسانوں کو دنیا میں اپنے گناہگاروں -:- جنگ مقدس ملا جلد ہ ہے ه :- جنگ مقدس ص!! جلد ۶ + ت:-
۲۷۹ کو بخشنے کا اختیار حاصل ہے.خود حضرت مسیح کے متعلق بھی انجیل یہی بتاتی ہے اور پھر حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیم بھی اپنے متبعین کو یہی ہے کہ تم گناہ بخشو.اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب مخلوق رحم بلا مبادلہ کر سکتی ہے، گناہ بخش سکتی ہے تو ان کا خالق و مالک.خدا کیوں ایسا نہیں کر سکتا ؟ پھر یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ انجیل میں لکھا ہے کہ تم خدا کے اخلاق کو اپناؤ.اگر خدا کا یہ خلق نہیں کہ وہ گناہگاروں کے گناہ بخشتا ہے تو پھر ہندوں سے یہ کیسے توقع ہو سکتی ہے کہ وہ ایسا کریں کیا وہ خدا سے بڑھ کر با اخلاق ہوں گے.اور اگر خدا رحم بلا مبادلہ نہیں کر سکتا تو میں نے کس بناء پر بندوں کو ایسا کرنے کی تعلیم دی جبکہ ایک طرف انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ خُدا کے اخلاق کو اپناؤ.پس ثابت ہوتا ہے کہ جب ابن آدم گناه بخش سکتا ہے تو ان کا خدا تو ضرور ہی یہ صفت اپنے اندر رکھتا ہے.گناہ معاف کرنے کا ہی دوسرا نام رحم بلا مبادلہ ہے.ابن آدم کے گناہ بخشنے کے بارہ میں لکھا ہے :- ابن آدم کو زمین پر گناہوں کے معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے ؟ (متی ؟ ) اس دلیل کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- "حضرت مسیح بھی گناہ بخشنے کے لئے وصیت فرماتے ہیں کہ تم اپنے گناہگار کی خطا بخشو - ظاہر ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ جل شانہ کی صفات کے بر خلاف ہے کہ کسی کا گناہ بخشا جائے تو انسان کو ایسی تعلیم کیوں ملتی ہے بلکہ حضرت مسیح تو فرماتے ہیں کہ میں تجھے سائت مرتبہ تک نہیں کہتا بلکہ ستر کے سات مرتبہ تک یعنی اس اندانہہ تک کے گناہوں کو کہتا بلکہ بخشتا چلا جا.اب دیکھئے کہ جب انسان کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ گویا تو بے انتہا سراب تک اپنے گناہگاروں کو بلا عوض بخشتا چلا جا اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بلا عوض ہرگزنہ نہ بخشوں گا تو پھر یہ تعلیم کیسی ہوئی.حضرت مسیح نے تو ایک جگہ فرما دیا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے اخلاق کے موافق اپنے اخلاق کرو کیونکہ وہ بدوں اور نیکیوں پر اپنا سورج چاند چڑھانا ہے اور ہر ایک خط کا ر اور بے خط کو اپنی رحمتوں کی بارشوں سے متمتع کرتا ہے پھر جبکہ یہ حال ہے تو کیونکر ممکن تھا کہ حضرت مسیح ایسی تعلیم فرماتے جو اخلاق الہی کے مخالف ٹھہرتی ہے یعنی اگر خداتعالی کا یہی خلق ہے کہ جب تک سزا نہ دی جائے کوئی صورت رہائی کی نہیں تو پھر معافی کے لئے دوسروں کو کیوں نصیحت کرتا ہے ہے سے 4 رگم بلا مبادلہ کے حق میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ بائیبل سے گناہوں کی معافی کا واضح طور پر ثبوت ملتا ہے سیکھا ہے :.119-110 :- جنگ مقدسی ۱۵-۱۱۶ - جلد 4 : 1
- اگر تم آدمیوں کے قصور معاف کر دو گے تو تمہارا آسمانی باپ بھی تم کو معاف کرے گا یہ دستی ) تو به کرد - رجوع کرو.تمام گناہ معاف ہوں گے.(اعمال ہے ).یہی مضمون حزقیل شیر اور متی ہے وغیرہ میں بھی بیان ہوا ہے.ان سب حوالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گناہوں کو معاف کرنا بائیبل کی رو سے خدا کی ایک صفت ہے اور ایسا ہوتا چلا آیا ہے.پس معلوم ہوا کہ خدا رحم بالا میباولہ کر سکتا ہے.رحم بلا مبادلہ کے حق میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ رحیم کے مقابل پر قہر کی صفت ہے.ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ قہر بلا مبادلہ عام ہوتا ہے.پس یہ بات خدائی مقام کے زیادہ لائق ہے کہ رحم بلا مبادلہ بھی ہو.اس دلیل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے :- رحم بلا مبادلہ کا جو سوال کیا جاتا ہے اس کا.....دوسرا پہلو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قانون قدرت کو دیکھا جائے کہ آیا رحم اور قہر کے نفاذ میں اس کی عادات کیونکر ظا ہر ہے کہ رحم کے مقابل پر قہر ہے.اگر رحم بلا مبادلہ جائز نہیں تو پھر قہر بلا مبادلہ بھی جائز نہ ہو گا.اب ایک نہایت مشکل اعتراض پیش آتا ہے.....قہر بلا مبادلہ کی صورت یہ ہے کہ ہم اسے دنی میں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ ہزار ہا کیٹر سے مکوڑ سے اور ہزار ہا حیوانات بغیر کسی جرم اور بغیر ثبوت کسی خطا کے قتل کئے جاتے ہیں ہلاک کئے جاتے ہیں ذبح کئے جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک قطرہ پانی میں صد یا کیڑے ہم پی جاتے ہیں اگر غور کر کے دیکھا جائے تو ہمار سے تمام امور معاشرت خداتعالی کے قہر بلا مبادلہ پر چل رہے ہیں یہاں تک کہ جو ٹیم کے کیڑے بھی انسان استعمال کرتا ہے اس میں اندازہ کر لینا چاہیئے کہ کس قدر جانیں تلف ہوتی ہیں اور حضرات عیسائی صاحبان جو ہر رو نہ اچھے اچھے جانوروں کا عمدہ گوشت تناول فرماتے ہیں ہمیں کچھ پتہ نہیں لگتا کہ یہ کس گناہ کے عوض میں ہورہا ہے.اب جبکہ یہ ثابت شدہ صداقت ہے کہ اللہ جل شانہ، بلا مبادلہ قہر کرتا ہے اور اس کا کچھ عوض ملتا ہیں معلوم نہیں ہوتا تو پھر اس صورت میں با مبادل رحم کرنا اخلاقی حالت سے انسب اعداد کی ہے کہ سالہ ان سب دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالی رحم بلا مبادلہ کر سکتا ہے.جب یہ بات ثابت ہوگئی تو کفارہ کا اصول باطل قرار پاتا ہے اور اس کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی.جب خدا انسانوں کے گناہ بغیر کسی معاوضہ کے معاف کر سکتا ہے تو اس کو کیا ضرورت ہے کہ اپنے بیٹے کو صلیب کی مصیبت اُٹھانے کی تکلیف ه : - جنگ مقدس مثلا جلد ؟ رہے.
بلکہ اس صورت میں تو خدا کا ایسا کرنا ایک لغو کام ٹھہرتا ہے.تیرہویں دلیل تو اس جگہ ختم ہوئی لیکن یہاں اس امر کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کا اس سلسلہ میں یہ اصول ہے کہ خدا تعالی رحم با مبادلہ کر سکتا ہے اور کرتا ہے.ہر روز اس کے رحم کے لاکھوں نظارے دیکھتے ہیں آتے ہیں اول تو عدل اس کی طرف عام مشہور معنوی میں منسوب ہی نہیں ہوسکتا کیونکہ عدل کرنے والا عدل کرنے پر مجبور ہوتا ہے وہ مالک نہیں ہوتا.خدا کا مقام اس سے بہت بلند ہے وہ کسی دنیادی حاکم کی طرح نہیں کہ اس کے اوپر کئی اور حاکم ہوتے ہیں.وہ تو سب حاکموں سے بالا ہے.اسلام کی رو سے خدا تعالٰی کی صفت رحیم ہے اور یہی صفت اس کے عدل، سزا یا غصب پر مقدم - ہے.اسلام کے نظریہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :." واضافة العدل الحقيقى الى الله تعالى باطل لا أصل لها لان العدل لا يتصور الأبعد تصوّر الحقوق وتسليم وجوبها وليس لاحد حق على رب العالمين - الا ترى ان الله سخر كل حيوان الانسان و اباح دماءها لادنى ضر ورته - فلوكان وجوب العدل حقا على الله تعالى لما كان له سبيل لاجراء هذه الاحكام والأفكان من الجائرين ولكن الله يفعل ما يشاء في ملكوته......فلما كان ملاك الامر الوعد والوعيد لا العدل العتيد الذى كان واجبا على الله الوحيد الهدم من هذا الاصول المنيف الممرد الذى بناه النصارى من اوهامهم فثبت ان ايجاب العدل الحقيقي الی اللہ تعالیٰ خیال فاسد و متاع کا سد لا يقبله الا من كان من المجاهدين ومن هنا تجد ان بناء عقيدة الكفّارة على عدل الله بناء فاسد على فاسد فتدبر فيه فانّه يكفيك لكسر الصليب النصارى ان كنت من المناظرين نیز فرمایا :- و مسلمانوں کا یہ اصول ہے کہ رحیم کی صفت عام اور اول مرتبہ پر ہے جو صفت عدل پر سبقت رکھتی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قال عذابی اصیب به من اشاء : کرامات الصادقين طه - جلد :
و رحمتی وسعت کل شیی (شش اپس اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رحمت عام اور وسیع ہے اور غضب یعنی عدل بعد کسی خصوصیت کے پیدا ہوتی ہے.یعنی یہ مفت قانونِ اپنی سے تجاوز کر نے کے بعد اپنا حق پیدا کرتی ہے.......اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ عدل کو رحم کے ساتھ کچھ بھی علاقہ نہیں تھ یعنی رحم کا مقام عدل سے بہت بلند ہے اور خدا کی صفت عدل نہیں بلکہ وہ تو رحیم ہے مجسم رحمت ہے.پس اس سار سے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارہ کا اصول اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ رحم بلا مبادلہ نہیں کیا جا سکتا.حالانکہ یہ بات غلط ہے.خدا رحم بلا مبادلہ کرتا ہے اور کر سکتا ہے یہی اصول سیحی تعلیمات سے بھی ثابت ہوتا ہے.پس کفارہ کا عقیدہ باطل ہے.چودھویں دلیل کفارہ کو پیش کرتے ہوئے عیسائی یہ کہتے ہیں کہ یہ نجات کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو تمام بنی آدم کے لئے ہے لیکن اسکی مقابل پر حضرت مسیح علیہ اسلام کا یہ کہنا کہ میں صرف بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کے لئے بھیجا گیا ہوں ، ثابت کرتا ہے کہ وہ تمام لوگوں کے لئے کفارہ نہیں ہوسکتے.پس مسیح کا اپنا قول کفارہ کے اصول کو باطل ثابت کرتا ہے.جہاں تک اس دعویٰ کا تعلق ہے کہ سنجات کا طریقہ تمام بنی آدم کے لئے ہے عقلاً ایسا ہی ہونا چاہیئے کیونکہ نجات کا جو بھی طریق ہو گا وہ سب کے لئے یکساں اور سب زمانوں میں ایک سا ہوگا.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ یہود کے لئے اور طریق ہو اور نصاری کے لئے اور پس عیسائیوں کا یہ قول کہ کفارہ سب بنی آدم کے لئے نجات کا ذریعہ ہے نجات کے اصول کے عالمگیر ہونے کے پہلو سے تو درست ہو سکتا ہے لیکن یہ دعویٰ اپنی ذات میں اس وجہ سے قابل غور ، قابل قبول یا قابل توجہ نہیں ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا مشن عا نہیں تھا.انہوں نے خود کہا ہے کہ : میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا ؟ دستی ) پس ہمارا استدلال یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام جو رسولا الى بنی اسرائیل تھے وہ کس طرح ایک ایسی تعلیم پیش کر سکتے ہیں جو سب بنی آدم سے تعلق رکھتی ہو او روہ نجات کے حصول کے لئے اس تعلیم پر عمل کرنے کے پابند ہوں.اول تو ان کا ایسی تعلیم کو پیش کر نا ہی غلط ہے کیونکہ اپنی حد سے تجاو نہ کر نے کے له :- جنگ مقدس ۱۲۵ جلد ه به
۲۸۳ + مترادف ہے اور اگر ان کی طرف کوئی اور ایسی تعلیم منسوب کرے (جیسا کہ کفارہ کی صورت میں کی جاتی ہے ، تو اور ) وہ ہرگز قابل التفات نہیں کیونکہ یہ ان کے منصب سے بالا اور دائرہ کار سے خارج ہے.پس ثابت ہوا کہ مسیح کا بنی اسرائیل کا رسول ہونا کفارہ کے عالمگیر ذریعہ نجات کے منافی ہے پس کفارہ کا اصول باطل ہے.10 بند رھویں دلیل دیبا کفارہ کی تردید میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دلیل یہ ہے کہ یہ شملہ عقل کے بالکل خلاف ہے.عیسائی حضرات اس مسئلہ کو مختلف منطقیانہ بحثوں کے ذریعہ درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کئی عقلی دلائل بھی پیش کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ عقل و دانش کے سراسر خلاف ہے.ایک معمولی سمجھ کا انسان بھی اس بات کو جان سکتا ہے کہ اگر قصور ایک انسان کا ہے تو دو سر سے انسان کو صلیب چڑھانے اور بار نے سے اس قصور کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟ اگر بیمار ایک شخص ہو اور دوائی دوسرا شخص پی سے تو کیا اسے بیمار کو کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.اوّل تو قربانی بر کا یہ طریق ہی خلاف عقل ہے اور اس پر بہت سے اعتراضات وارد ہوتے ہیں لیکن اگر بغیر کسی معقول دلیل کے وقتی طور پہ یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ اس قربانی سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو پھر عقلا اسی وجود کے گناہ معاف ہوں گے جو یہ قربانی دیتا ہے.عقل اس خیال کو دُور سے ہی دھکے دیتی ہے کہ ایک انسان کے سرمی در دہو اور دوسرا اس کی بھلائی اور فائدہ کے خیال سے اپنے سر یہ پتھر مار سے اور سمجھے کہ اسی دوسرے کی سردرد کا علاج ہو جائے گا.الغرض یہ عقیدہ عقل کے سراسر خلاف ہے لہذا باطل ہے یہ اور کوئی صاحب عقل و فراست ایک لمحہ کے لئے بھی اس کو صحیح عقیدہ نہیں سمجھ سکتا.عقل کے اعتبار سے یہ اعتراض بھی وارد ہوتا ہے کہ اگر واقعی یسوع مسیح صلیب پر مرکز لعنتی ہو گیا تھا جیسا کہ عیسائی تسلیم کرتے ہیں.تو کیا ایسا شخص جو خود لعنت کے نیچے ہے کسی اور کو لعنت سے بچا کہ نجات دے سکتا ہے.جو خود مقروض ہو وہ کسی دوسرے کا قرض کیسے ادا کر سکتا ہے ؟ عقلاً وہی شخص فدیہ ہو سکتا ہے جو خود پاک ہو.جب مسیح ان کے قول کے مطابق ملعون ہے تو دوسروں کا فدیہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ العرض اس قسم کے متعدد اعتراضات ہیں جو انہ روئے عقل اس عقیدہ پر پڑتے ہیں.پس یہ مسئلہ خلاف عقل ہونے کی وجہ سے باطل ہے.اس دلیل کا استنباط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جن عبارات سے ہوتا ہے وہ در ج ذیل درج
۲۸۳ (1) ہیں.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :- ہیں مسیح کا اپنی امت کی نجات کے لئے مصلوب ہونا اور امت کا گناہ ان پر ڈا لے جانا ایک ایسا ہمل عقیدہ ہے جو عقل سے ہزاروں کو اس دُور ہے یا اے " (۲) عقل تجویز نہیں کر سکتی کہ زید اپنے سر پر پتھر مالہ سے اور کبر کی اس سے درد سر جاتی رہے.تے (۳) تعجب کا مقام ہے کہ زید کی خود کشی سے بحرہ کو کیا حاصل ہوگا.اگر کسی کا کوئی عز یہ اس سے گھر میں بیمار ہو اور وہ اس کے غم سے پھری مارے تو کیا وہ عزیز اس نابکار حرکت سے اچھا ہو جائے گا یا اگر مثلا کسی کے بیٹے کو درد قولنج ہے تو اس کا باپ اس کے غم میں اپنا سر پتھر سے پھوڑے تو کیا اس احمقانہ حرکت سے بیٹا اچھا ہو جائے گا.سے (۴) " یہ ہنسی کی بات ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے سرور و پر رحم کر کے اپنے سر پہ پتھر تا ہے یا دوسرے کے بچانے کے خیال سے خود کشی کرے.میرے خیال میں ہے کہ دنیا میں کو ایسا دانا نہیں ہو گا کہ ایسی خود کشی کو انسانی ہمدردی میں خیال کر سکتے.بے شک انسانی ہمدردی بہت عمدہ چیز ہے اور دوسروں کے بچانے کے لئے تکالیف اٹھانا بڑ سے بہادروں کا کام ہے مگر کیا ان تکلیفوں کے اٹھانے کی یہی راہ ہے جو یسوع کی نسبت بیان کیا جاتا ہے.کاش اگر یسوع خود کشی سے اپنے تئیں بچاتا اور دوسروں کے آرام کے لئے معقول طور پر عقلمندی کی طرح تکلیفیں اٹھاتا تو اس کی ذات سے دنیا کو فائدہ پہنچ سکتا ہے " سے (0) عقل بھی تسلیم نہیں کرتی کہ گناہ تو زید کر سے اور تجر پکڑا جائے اس مسئلہ پر انسانی گورنمنٹوں نے بھی عمل نہیں کیا " شد ه :- لیکچر سیالکوٹ صدا ۳ جلد ۲۰ + سعه - سیسکچھ لاہور ص جلد ۶۲۰ -- و - نور القرآن با حاشیه ۳۵ جلد ۹ : ص شه چشمه معرفت جلد ۲۳ : : - سراج دین عسیائی کے چار سوالوں کا جواب کہ جلد ۱۲ :
(4) خالد د کے پیٹ میں درد ہو اور زید اس پر رحم کر کے اپنا سر پھوڑے تو زید نے خالد ++ کے جوتا میں کوئی نیکی کا کام نہیں کیا بلکہ اپنے سر کو احمقانہ حرکت سے ناحق پھوڑا نیکی کا کام تب ہوتا کہ جب زید خالہ کے لئے مناسب اور مفید طریق کے ساتھ سرگرم رہتا.اور اس کے لئے عمدہ دوائیں میٹر کرتا اور طبابت کے قواعد کے موافق اس کا علاج کرتا مگر اس کے سر کے پھوڑنے سے زید کو تو کوئی فائدہ نہ پہنچا.ناحق انسی اپنے وجود کے ایک شریف عضو کو دکھ پہنچا یا یہ ہے (45 کون عقلمند اس بات کو باور کر ے گا کہ زید کو مسل دیا جائے اور بکر کے زہریلے مواد اسی نکل جائیں.بدی حقیقی طور پر بھی دور ہوتی ہے کہ جب نیکی اس کی جگہ سے لے رہی قرآنی تعلیم ہے ، کسی کی خود کشی سے دوسرے کو کیا فائدہ " سے نجمہ (( ہم نے خُدا کے قانون قدرت میں کبھی نہیں دیکھا کہ زید اپنے سر پر پتھر مار سے اور اس سے تجر کی درد سر جاتی ہے.پھر بھی علوم نہیں ہوتا کہ مسیح کی خود کشی سے دوسروں کی اندرونی بیماری کا دور سوناکس قانون پر ملتی ہے اور وہ کونسا فلسفہ ہے جس ہم معلوم کر سکیں کہ مسیح کا خون کسی دوسرے کی اندرونی ناپاکی کو دور کر سکتا ہے" سے (4) یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ زید کے سرمیں درد ہوا اور بنجر اپنا سر پتھر سے پھوڑے اور یہ سمجھا جاد سے کہ اس نسخہ سے زید کو آرام ہو جاد سے گایا ہے } (1+) یہ تو ظاہر ہے کہ کسی ایک کے سر پر چوٹ لگنے سے ہمارے سر کا در دنہیں جاسکتا.اور کسی کے بھو کے رہنے سے ہم سیر نہیں ہو سکتے ، کے (۱۱) یہ کیسی نا معقول بات ہے کہ خدا ہمیں نجات نہیں دے سکتا جب تک کہ ایک معصوم کو اپنی اسلامی اصول کی فلاسفی ۱۳ جلد ۱۰ : له ۲ -- نور القرآن نے جلد ان سے : چشمه سیحی ملا جلد ۲۰ شهد ملفوظات جلد هفتم ما ۱ : ف شه -ه: کتاب البرية صلا جلد ۱۳ :
PAY جناب سے رد نہ کر سے اور اس سے بدل بیزار نہ ہو اور اس کا دشمن نہ ہو جائے اور اسکی دل کو سخت اور اپنی محبت اور معرفت سے دور اور محروم نہ کر دیر سے یعنی جب تک کہ اس کو لعنتی نہ بناد سے اور مجرموں میں اس کو داخل نہ کر ے....پنچ کہو کیا دنیا میں کوئی عقل قبول کر سکتی سے ہے کہ جو شخص آپ ہی لعنتی ہو پھر وہ کسی کے لئے خدا تعالٰی کی جناب میں سفارش کر سکے.دیکھو عیسائی مذہب میں کس قدر بے ہودہ اور دورانہ عقل و دیانت باتیں ہیں کہ اول ایک شخص عاجہ مصیبت رسیدہ کو ناحق ہے ذخیرہ خدا بنایا جاتا ہے.پھر نا حق ہے وجہ یہ اعتقاد رکھا جاتا ہے کہ وہ لعنتی ہو گیا.خدا است بیزالہ ہو گیا اور وہ خدا سے بیزالہ ہو گیا.خدا اس کا دشمن ہو گیا وہ خدا کا دشمن ہو گیا.خدا اس سے دُور ہو گیا اور وہ خدا سے دُور ہو گیا.پھران سب کے بعد یہ اعتقاد بھی ہے کہ ایسی لعنتی موت پر ایمان لانے سے تمام گناہوں کو اخذہ سے فراغت ہو جاتی ہے کہ لے " قانون قدرت میں اعمال اور ان کے نتائج کی نظریں تو موجود ہیں کفارہ کی نظیر کوئی موجود نہیں.مثلاً بھوک لگتی ہے تو کھانا کھا لینے کے بعد وہ فرو ہو جاتی ہے یا پیاس لگتی ہے پانی سے جاتی رہتی ہے تو معلوم ہوا کہ کھانا کھانے یا پانی پینے کا نتیجہ بھوک کا جاتے رہنا یا پیاس کہ کا رہنایا کا مجھے جانا ہوا.مگر یہ تو نہیں ہوتا کہ بھوک لگے زید کو اور بنجر کروٹی کھائے اور زید کی بھوک جاتی رہے.اگر قانون قدرت میں اس کی کوئی نظیر موجود ہوتی تو شاید کفارہ کا مسئلہ مان لینے کی گنجائش نکل آتی مگر جب قانون قدرت میں اس کی کوئی نظیر ہی نہیں ہے تو انسان جو نظیر دیکھ کو ماننے کا عادی ہے اسے کیو نکہ تسلیم کو سکتا ہے.عام قانون انسانی میں بھی تو اسکی نظیر نہیں ملتی ہے کبھی نہیں دیکھا گیا کہ زید نے خون کیا ہو اور خالہ کو پھانسی ملی ہو.غرض یہ ایک ایسا اصول ہے جس کی کوئی نظیر ہرگز موجود نہیں؟ له ان سب حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ کفارہ کا مسئلہ عقل کے خلاف ہے لہذا باطل ہے :- سولہویں دلیل کفارہ کی تردید میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ کفارہ کا مسئلہ عدل کے خلاف ہے.عیسائی تو اس مسئلہ کو درست ثابت کرنے کے لئے عدل کو بنیاد بناتے ہیں اور یوں کہا کرتے ہیں کہ خدا چونکہ عادل ہے اسلئے بغیر له : ايام الصلح مثنت ۱۰۹ جلد ۱۴ : ه: عفوظات جلد اول مشك : 14A
YAL انہو سنزا کے گناہ معاف نہیں کر سکتا.لہذا اس نے اپنے عدل کے تقاضا کو گورا کرنے کے لئے یہ انتظام کی کہ گناہگاروں کے بدلہ میں اپنے بیٹے کو صلیب دیا تا نوع انسان نجات بھی پا جائے اور اس کے عدل کا تقاضا بھی پورا ہو جائے.لیکن اگر اس قصہ پر جو عیسائی پیش کرتے ہیں غور کیا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کفارہ کے ذریعہ عدل کے تقاضے پور سے ہونے کا کیا سوال، یہ مسئلہ تو عدل و انصاف کے سراسر خلاف ہے.عدل اس بات کا نام ہے کہ اصل مجرم کو سزادی جائے اور اتنی سزادی جائے جتنا اس کا جرم ہے لیکن عیسائیوں کے خدا کے عدل کا یہ عالم ہے کہ دنیا جہان کے گناہگاروں، مجرموں اور بدکاروں کے بدلہ میں اپنے معصوم اور بے گناہ اکلوتے بیٹے کو صلیب پر لٹکا دیا.جہاں اس نے تڑپ تڑپ کر جان دی.کیا یہی وہ عدل ہے جس کا واویلا عیسائی حضرات کرتے ہیں اور کیا ان کے خُدا کے عدل کا یہی عالم ہے کہ گناہ تو کوئی کر سے اور سزا کسی اور کو دیدی جائے.کیا یہی عدل ہے کہ ایک بے گناہ اور معصوم کو بغیر کسی گناہ کے وہ سزا دی جاتی ہے اور لعنت کا ایسا طوق پہنایا جاتا ہے جسکی قیامت تک خلاصی نہیں ہو سکتی.تف ہے اس عدل پر جو عیسائی اپنے خدا کی طرف قط.منسوب کرتے ہیں.+ عدل کا تقاضا تو یہ تھا کہ اصل مجرموں کو سزا دی جاتی اور ان کو لعنت کا مورد بنایا جاتا لیکن عیسائیوں کے خُدا نے اپنے عدل کو یوں پورا کیا کہ دنیا کے سب انسانوں کے گناہوں کی لعنت اپنے اکلوتے بیٹے پر ڈال دی.یوں دنیا ان لوگوں کی لعنت بھی جن کو مسیح جانتے تک بھی نہیں.اس سے تو یہ بھی استنباط ہوتا ہے کہ عیسائیوں کا خدا اس بات کی بھی قدرت نہیں رکھتا کہ اصلی مجرموں کو پکڑے اور سزار سے بلکہ وہ صرف دنیا کے دکھانے کی خاطر محض اپنے دعامہ کی خاطر، یہ بہانا بنا لیتا ہے کہ بیٹے کو مصلوب کروا دیتا ہے تا دنیا دیکھ لے کہ خدا نے عدل کر دیا ہے.عیسائی حضرات یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح کو خدا نے صرف تین دن کے لئے جہنم میں بھیجا اور وہ تین دن کے لئے لعنت کا شکار رہے.سوال یہ ہے کہ یہ کس قسم کا عدل ہے کہ باقی لوگ ملعون ہوں تو ہمیشہ کے یہ : لئے اور خدا کا بیٹا ملعون ہو تو صرف تین دن کے لئے.یہ صرف اسی عدل کی رُو سے درست ہو سکتا ہے جس کو عیسائی موم کی ناک کی طرح اپنی مرضی سے ڈھالتے اور موڑتے ہیں.الغرض جس پہلو سے بھی دیکھا جائے کفارہ کا یہ عقیدہ عدل کے خلاف پڑتا ہے.پس اس وجہ سے یہ عقیدہ باطل ہے کیونکہ خلات عدل کام کو نہ خدا کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے اور نہ کوئی عقلمند اس بات یہ یقین کر سکتا ہے.ایمان لانے کا سوال تو بعد کا ہے.کفارہ کے خلاف عدل ہونے کی اس دلیل کا استنباط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل
۲۸۸ حوالہ جات سے ہوتا ہے.حضور اس دلیل کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- (H) "خُدا کی صفات عدل و انصاف سے یہ بہت بعید ہے کہ گناہ کوئی کمر سے اور سزا کسی دوسرے کو دی جائے ملے یاکا (۳) " اگر میزان عدل کے لحاظ سے اس کو جانچا جائے تو صریح یہ بات ظلم کی صورت میں ہے کہ زید کا گناہ بلکہ پر ڈال دیا جائے.انسانی کا نفس اس بات کو ہر گنہ پسند نہیں کرتا کہ ایک مجرم کو چھوڑ کر اس مجرم کی سزا غیر محرم کو دی جائے" سے کو یہ بھی کب میں نہیں آتا کہ مزید کوئی گنہ کرے اور بحر کا اسکی عوض سولی پر کھینچا جائے.یہ عدل ہے یا رحم کوئی عیسائی ہم کو بتلاد سے ہم اسکی اقراری ہیں کہ خدا کے بندوں کی بھلائی کے لئے جان دنیا یا جان دینے کے لئے مستعد ہوتا ایک اعلی اخلاقی حالت ہے لیکن سخت حماقت ہوگی ہ خود کشی کی بے جا حرکت کو اس مد میں داخل کیا جائے.ایسی خودکشی توسخت حرام اور نادانوں اور بے صبروں کا کام ہے “ کے (M) هذه عقيدتهم ولكن من نقدها بعين المعقول ووضعها على معيار التحقيقات سلكها مسلك الهذيانات - وان تعجب نما تجدا عجب من قولهم هذا لا يعملون ان العدل اهم و اوجب من الرحيم فمن ترك المذنب واخذا المعصوم ففعل فعلاً ما بقى منه عدل ولا رحم وما يفعل مثل ذلك الا الذى هو اصل من المجانين" ٣ ترجمہ :.یہ کفارہ ان عیسائیوں کا عقیدہ ہے لیکن جو سے غور کرے گا اور بعض بھی اس پر عقلمندی کی نگاہ تحقیقات کے معیار سے اس کو جانچے گاوہ اس کو ایک لغو کام قرار دے گا.اگر تو اس بات پر تعجب کرتا ہے تو عیسائیوں کا یہ قول اور یہ عقیدہ اسے بھی زیادہ قابل تعجب ہے.یہ نہیں جانتے کہ خدائے رحیم کو یہ بات زیادہ ے :- لیکچر سیالکوٹ ۳ جلد ۲۰ : + میگه : سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب مت ، جلد ۲۱۳ ۳- و نور القرآن با حاشیه مش - جلد ؟ شه : کرامات الصادقین نت - جلد :
سزاوارہ اور مناسب ہے، کہ وہ عدل کرے لیکن جو گناہگار کو چھوڑ دے اور اس کے بدلہ میں کسی معصوم کو پکڑے تو اس کا یہ فعل ایسا ہوگا جس میں نہ عدل ہے اور نہ رحیم.ایسا کام دیوانوں میں سے سب سے زیادہ گراہ شخص کے سوا اور کون کر سکتا ہے.(0) " عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا عدل بغیر کفارہ کے کیونکر گویا ہو، بالکل مہمل ہے.کیونکہ ان کا یہ اعتقاد ہے کہ یسوع با عتبار اپنی انسانیت کے بے گناہ تھا مگر پھر بھی ان کے خدا نے یسوع پر ناحق ، تمام جہان کی لعنت ڈال کر اپنے عدل کا کچھ بھی لحاظ نہ کیا.اس کی تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے خدا کو عدل کی کچھ بھی پرواہ نہیں.......یہ خوب انتظام ہے کہ جس بات سے گریز تھا اسی کو یہ اقبع طریق اختیار کر لیا گیا.واویلا تو یہ تھا کہ کسی طرح عدل میں فرق نہ آوے اور رحم بھی وقوع میں آجائے مگر ایک بے گناہ کے گلے پر نامی مچھری پھیر کہ نہ عدم قائم رہ سکا ور نہ ہی لے پھر خدا کے عدل کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اعلان کرنے کے بعد کسی غلطی پر گرفت کرے.پس اس صورت میں یہ لازم آتا ہے کہ کفارہ کی تعلیم سے قبل گزرنے والے لوگوں سے مواخذہ نہ ہو لیکن عیسائی حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ گذشتہ سب لوگوں کے گناہوں کی خطا بھی میسوع مسیح نے اُٹھالی ہے.سوال تو یہ ہے کہ جب گذشتہ زمانے کے لوگوں کو حضرت مسیح کے اس ہونیو الے کفارہ کا علم ہی نہیں تھا تو ان کی سزا کیسی؟ اور ان کے بدلے کسی کو مورد لعنت بنانا کیسا ؟ کیونکہ عدل کا ایک تقاضا یہ ہے کہ جب تک پہلے سے اعلان اور اطلاع نہ ہو ، کوئی گرفت نہ کی جائے.پس ظاہر ہوا کہ اگہ کفارہ مسیح سے قبل کے لوگوں کو گنہ گارہ قرار دیا جائے تو یہ بات عدل کے خلاف ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :- و اذا كانت المواخذات مشروطة بوعد الله تعالى ووعيده فكيف يجوز تعذيب احد قبل اشاعة قانون الاحكام وتشييده وكيف يجوز اخذ الأولين والآخرين - عند صد در معصية ما سبقها وعيد عند ارتكابها وما كان احد عليها من المطلعين فالحق ان العدل لا يوجد اثره الا بعد نزول كتاب الله ووعده و وعیده و احكامه وحدوده و شرائط له ترجمہ : جبکہ مواخذہ خدا تعالیٰ کے وعده و وعید کے ساتھ مشروط ہے تو پھر احکام کے قوانین کے اعلان اور وضاحت سے قبل کسی انسان پر گرفت کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے اور کس طرح اولین اور آخرین کو ه: کتاب البرية منك جلد ۳ ) : کرامات الصادتين مت جلدے :
** کے ان تکاب پر پکڑنا درست سمجھا جا سکتا ہے جبکہ ان کو پہلے سے خبردار نہیں کیا گیا تھا.اور کوئی بھی اس قانون کو جانتا نہ تھا.پس حق یہ ہے کہ عدل کا سوال تو کتاب الله، وعده ، وعید، احکام، حدود اور شرائط کے نزول کے بعد ہی ہوتا ہے.اس حوالہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ استدلال فرمایا ہے کہ کفارہ کی تعلیم سے قبل کے لوگوں پر گرفت اور ان کے بدلے کسی اور کو سزا دینا کسی طرح عدل کے مطابق نہیں سمجھا جاسکتا.الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا حوالہ جات سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ کفارہ کا مسئلہ عدل و انصاف کے سراسر خلاف ہے.اس مسئلہ کو عیسائی حضرات عدل و انصاف کی بنیاد پر پیش کرتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سارہ سے عقیدہ کی بنیاد ہی بے انصافی اور ظلم پر ہے پھر اس فاسدہ مسئلہ سے قیام عدل کی توقع کیسے پوری ہو سکتی ہے.یعنی تو یہ ہے کہ کفارہ کے مسئلہ میں نمسی حق مرحلہ پر بھی عدل ثابت نہیں ہوتا.پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس خلاف عدلی منصوبہ کو نہ خدا کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے اور نہ بطور ذریعہ نجات تسلیم کیا جاسکتا ہے : 14 ستر توی دلیل کفارہ کی تردید میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ یہ مسئلہ رحم کے خلاف ہے.عیسائی حضرات تو یہ کہتے ہیں یہ کہ مسیح کی قربانی کا مقصد ہی یہ تھا کہ کسی طرح خدا کا عدل اور رحم پورا ہو لیکن درحقیقت اس قصہ سے نہ عدل پورا ہوتا ہے نہ رحم.رحم کا تقاضا تو یہ ہے کہ مجرم اور قصور وار کو بھی بخش دیا جائے.اور اس کو سزادی جائے لیکن یہاں یہ عجیب قسم کا رحم ہے کہ خدا نے بظاہر بندروں پر تو رحم کیا کہ ان کے گناہوں اور بدکاریوں پر گرفت نہ کی لیکن دوسری طرف یہ ظلم کیا کہ اپنے معصوم اور بے گناہ اھو تے بیٹے کو بغیر کسی جرم کے صلیب پر لٹکا دیا.اور سخت دلی سے قتل کروا دیا.اب کوئی بتائے کہ کیا خدا کے رحم کی یہی کیفیت ہوتی ہے ؟ کیا رحم ومحبت کا تقاضا یہی تھا کہ چیختے چلاتے اکلوتے بیٹے کو صلیبی موت دے دی جائے اور اس کی رات بھر کی دردمندانہ دعاؤں سپر کان تک نہ دھرا جائے ؟ - ہم عیسائیوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ اگر واقعی ان کا خدا رحیم تھا اور رحم کرنا چاہتا تھا تو اول تو اُسے گناہ معاف کر دینے چاہئیں تھے.مگر ان کے عقیدہ کے مطابق وہ گناہ معاف نہ کر سکتا تھا تو اپنی رحم کر نے کی یہ صورت کیوں نہ اختیار کی کہ خود گناہ گاروں کی خاطر صلیب پر لٹک کر مر جاتا کیونکہ خدا کا مرنا عیسائیوں کے
۲۹۱ H نزدیک کوئی عیب نہیں اور اس بات کی نوبت نہ آتی کہ خدا کا بیٹا ولدو نہ آہیں بھرتا ہوا اور ایلی ایلی نم سبقتانی کی فریاد کرتا ہوا صلیب پر اپنی جان دیتا.گناہگاروں کو معاف کرنا اور اپنے بیٹے پر یہ ظلم یہ بات ہرگزہ رحیم نہیں کہلا سکتی.عیسائی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح صلیب پر کرے.تین دن تک کر سے رہے اور پھر خدا نے ان کو زندہ کر دیا.سوال یہ ہے کہ اگر خدا تین دن کے مردہ مسیح کو زندہ کر کے رحم کا سلوک کر سکتا ہے تو وہ براہ راست گناہگاروں کے گناہ کیوں نہیں بخش سکتا.جبکہ ہم ایک گذشتہ دلیل کے ضمن میں دیکھ آئے ہیں کہ معاف کرنا اور توبہ قبول کرنا خدا کی صفت ہے اور اسی کا بندوں کو حکم دیا گیا ہے.پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کفارہ رحم پر مبنی ہے تو خدا نے یہ کیا ظلم کیا کہ یہ نسخہ حضرت مسیح کے ذریعے ظاہر کیا ان سے پہلے کے لوگوں کو اس سے کیوں محروم رکھا گیا ؟ الفرض اس قسم کے مختلف اعتراضات پیدا ہوتے ہیں اور صاف معلوم ہوجا تا ہے کہ کفارہ کا رحم سے کوئی تعلق نہیں.اور عیسائی کفارہ کو رحیم ہی کے سبب سے پیش کرتے ہیں.پس ثابت ہوا کہ نہ ایسے کفارہ کی ضرورت ہے اور نہ اس میں حقیقتنا رحم پایا جاتا ہے.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- و یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ زید کوئی گناہ کر سے اور تجہ کو اسکی عوض سولی پر کھینچا جائے.یہ عدل ہے یا رحیم.کوئی عیسائی ہم کو سبت لا د سے کالے پھر آپ فرماتے ہیں :- د عیسائی جب کفارہ کا اصول بیان کرتے ہیں تو اپنی تقریر کو خدا تعالیٰ کے رحم اور عدل سے شروع کیا کرتے ہیں مگر میں پوچھتا ہوں کہ جب زید کے بدلے پھانسی بگمہ کوئی تو یہ کو فسا انصاف اور رحم ہے ا سے پھر فرمایا : - "یہ خوب انتظام ہے کہ جس بات سے گریز تھا اسی کو یہ اقبیح طریق اختیار کر لیا گیا.وا دیلا تو یہ تھا کہ کسی طرح عدل میں فرق نہ آد سے اور رحم بھی وقوع میں آجائے مگر ایک بے گناہ کے گلے پر ناحق چھری پھیر کر نہ عدل قائم رہ سکا نہ رحمت کره پھر آپ فرماتے ہیں :- ه -: - نور القرآن ما حاشیه مشت - ر- خ جلد : ه:- ملفوظات جلد اول ما : رخ ٩ ٣: كتاب البرية منك.رخ جلد ١٣ :
۲۹۲ " اس طریق میں انصاف اور رحم دونوں کا خون ہے کیوں کہ گناہگار کے عوض میں بیگناہ کو پکڑ نا خلاف انصاف ہے اور نیز بیٹے کو اس طرح نا حتی سخت دلی سے قتل کرنا خلاف رحم ہے.اور اس حرکت سے خاک فائدہ نہیں " سے اسی سلسلہ میں حضور فرماتے ہیں :- عیسائی جو کچھ پیش کرتے ہیں وہ اور بھی عجیب ہے.وہ خدا تعالی کو جیم تو مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ رحیم ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ رحم بلا مبادلہ نہیں کرسکتا.جب تک بیٹے کو پھانسی نہ دے لے اس کا رحم کچھ بھی نہیں کر سکتا.تعجب اور مشکلات بڑھ جاتی ہیں جب رحم اس عقیدہ کے مختلف پہلوؤں پر نظر کی جاتی ہے اور پھر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے اکلوتے بیٹے کو پھانسی بھی دیا لیکن یہ نسخہ دگر پھر بھی خطا ہی گیا سب سے پہلے تو یہ کہ پیسہ اسی وقت یاد آیا جب بہت سی مخلوق گناہ کی موت سے تباہ ہو چکی اور ان پر کوئی رقم نہ ہو سکا کیونکہ پہلے کوئی بیٹا بھا نسی یہ نہ پڑھا ہے کفارہ کا اصول خدا تعالٰی کی بے رحمی کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ امرینی مجرموں کی بجائے اپنے بیٹے کو موت کے گھاٹ اتار حالانکہ کوئی ظالم سے ظالم باپ بھی ایسا نہیں کرتا.کہ اس کا نو کر کوئی غلطی کر سے تو وہ اپنے بیٹے کو پیٹنا شروع کرد سے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کرے کہ سولی پر چڑھا کہ اس کو ملعون بنیاد ہے.ایسا کہ ناریم سے بھی بعید ہے اور انجیلی تعلیم کے بھی خلاف ہے.کیونکہ رکھا ہے :." تم میں سے ایسا کون سا آدمی ہے کہ اگر اس کا بیٹا اسی روٹی مانگے تو وہ اسے پتھر دے یا اگر پچھلی مانگے تو اسے سانپ دے پس جبکہ تم مج سے ہو کہ اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینی جانتے ہو تو تمہارا باپ جو آسمان پر ہے اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں کیوں نہ دے گا یا سکھے لیکن اسکی بر خلاف خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے سے ظلم وستم کا جو سلوک روا رکھا وہ سب پر ظاہر ہے.پس ثابت ہوا کہ کفارہ کے عقیدہ کا رحم سے کچھ بھی تعلق نہیں یہ تو ظلم وستم کی ایک گھناؤنی صورت ہے اس کو قیام رحم کا ذریعہ قرار دیا تو پر سے درجے کی حماقت ہے.نہ ہی رحم کی بنیاد پر اس اصول کو پیش کیا جاسکتا ہے پس کفارہ باطل ثابت ہوتا ہے.اٹھار تقوی دلیل ین کفارہ کی تردید میں اٹھارہ ہوں دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ یہ بات سخت نے لیکچری پور مدا - ر ج جلد ۲۰ سه :- ملفوظات جلد هفتم منها به یہ :- متی
| ۲۹۳ قابل اعتراض اور خدا کے عدل و انصاف اور رحم کے منافی ہے کہ وہ نجات کے اس طریق کو بنی آدم کا سلسلہ شروع کر نے کے اتنے عرصہ بعد جاری کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کفارہ کے عقیدہ پر یہ اعتراض کیا ہے کہ گناہوں کی معافی اور نجات کا طریق ہر زمانہ میں یکساں ہوتا ہے اور ہونا چاہیئے.پس اگر کفارہ ہی بنی نوع انسان کی نجات کا ذریعہ ہے تو خدا کو چاہیئے تھا اس عقیدہ کا بنی آدم کا سلسلہ شروع کر تے ہی دنیا میں اعلان کر دیتا کیونکہ جیسے انسان پیدا ہوا ہے گناہ کا سلسلہ جاری ہے اور ہر دور میں انسان نجات کے محتاج اور طالب رہے ہیں.یہ سمجھا جائے کہ خدا نے نجات کے اس طریق یہ افسانوں پر بڑی ہی زیادتی ہوگی اگر کو پوشیدہ رکھا اور محض مسیح ابن مریم کے ذریعہ سے صرف انیس سو سال پہلے اس کا اعلان کیا گیا.اسس عقیدہ سے تو خدا کا بخل بہو و نسیان اور ظلم ظاہر ہوتا ہے.پس اس طرفہ استدلال کو اختیار کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کفارہ کے اصول پر اعتراض کیا ہے اور اس بنیاد پر اس کو باطل قرار دیا ہے.آپ گناہ اور اسکی فلاسفی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.انسان کی فطرت میں قدیم سے ایک طرف ایک زہر رکھا گیا ہے جو گناہوں کی طرف محبت دیتا : ہے اور دوسری طرف قدیم سے انسانی فطرت میں اس زہر کا تریاق رکھا ہے جو خدا تعالی کی محبت H ہے جب سے انسان بنا ہے یہ دونوں قوتیں اس کی ساتھ چلی آتی ہیں.نہ ہر ناک قوت انسان کے لئے عذاب کا سامان تیارہ کرتی ہے اور پھر تر باقی قوت جو محبت الہی کی قوت ہے وہ گناہ کو یوں جلا دیتی ہے جیسے خس وخاشاک کو آگ جلا دیتی ہے کیا پھر اس ضمن میں عیسائیت کے طریق نجات معنی کفارہ کا رد فرماتے ہوئے یہ دلیل دی ہے کہ یہ طریقہ بنی آدم کے سلسلہ کے اتنی دیر بعد کیوں بتایا گیا.آپ فرماتے ہیں :- " یہ ہرگز نہیں کہ گناہ کی قوت جو عذاب کا سامان تھی وہ تو قدیم سے انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے لیکن گناہوں سے نجات پانے کے لئے جو سامان ہے وہ کچھ تھوڑی مدت سے پیدا ہوا ہے.یعنی صرف اس وقت سے جبکہ یسوع مسیح نے صلیب پائی.ایسا اعتقاد وہی قبول کر یگا جو اپنے دماغ میں ایک ذرہ عقل سلیم کا نہیں رکھتا.بلکہ یہ دونوں سامان قدیم سے اور جہ سے کہ انسان پید ا ہوا انسانی فطرت کو دئے گئے ہیں.یہ نہیں کہ گناہ کے سامان تو پہلے سے خداتعالی نے انسانی فطرت میں رکھ دئے مگر نجات دینے کی دور ابتدائی ایام میں اس کو بیاد نہ آئی یہ چار ہزار برس بعد سوجھی " کے ے : چشمه مسیحی مثه رخ جلد ۲۰: ه چشمه مسیحی مدت - ر خ جلد ۲ : ۵۳
۳۹۴ پھر اس مضمون کی اور وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- کیا خدا تعالی کو یہ طریق معافی گناہوں کا صدہا برس سوچ سوچ کر پیچھے سے یاد آیا.ظاہر ہے کہ انتظام الہی جو انسان کی فطرت سے متعلق ہے وہ پہلے ہی ہونا چاہیئے.جیسے انسان دنیا میں آیا گناہ کی بنیاد اسی وقت سے پڑی پھر یہ کیا ہو گیا کہ گناہ تو اسی وقت زہر پھیلا نے 1 لگا مگر خدا تعالیٰ کو چارہ ہزار برس گزرنے کے بعد گناہ کا علاج یاد آیا ؟ یہ سراسر ناوٹ آگیا ہے انيون بيك کفارہ کی تردید میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ عیسائی مسلمات کی رو سے کفارہ کا سامہ امعاملہ ایسا ہے جسمیں سراسر دھوکہ نظر آتا ہے.پس ظاہر ہے کہ نہ اس کو خدائی کام قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ دھوکہ کرنے سے پاک ہے اور نہ اس دھو کے والے عقیدہ کو نجات کا ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے.اگر اسی کفارہ کو نجات کا ذریعہ سمجھا گیا تو اس کے ذریعہ حاصل ہونے والی نجات بھی ایک دھو کر ہی ہوگی..تفصیل اس بیان کی یہ ہے کہ عیسائی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ صلیبی موت کے تین دن بعد خدا نے مسیح کو زندہ کر دیا تھا.اب یہ ایک صریح دھوکہ ہے جس کو خدا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے گویا خدا نے سارے جہان کے گناہوں سے کفارہ کے طور پر قبول عیسائیاں لوگوں کے سامنے اپنے اکلوتے بیٹے کو پھانسی کی سزا دی لیکن اس کی معابعد لوگوں کی نظر سے چھپ چھپا کر اسے زندہ کر لیا.گویا دنیا کی نظروں میں دھول جھونک دی.دنیا پر تویہ ظاہر کیا کہ میں عدل کے تقاضا کو پورا کرتے ہوئے لوگوں کے گناہوں کے بدلے اپنے اکلوتے بیٹے کو صلیب کی لعنتی موت سے ہمکنار کر رہا ہوں لیکن درپردہ اس تی اپنے بیٹے کو پھر نہ ندہ کر دیا.یہ رہا مغالطہ دہی نہیں تو اور کیا ہے ؟.مغالطہ دہی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ خدا نے بندوں کے گناہ اس لئے معاف نہ کئے کہ اس طرح خدا کے رحم اور عدل کا تقاضا پورا نہیں ہو سکتا.لیکن دوسری طرف مسیح کو موت دینے کے بعد اس کو بغیر کسی عدل کے رحم کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوبارہ زندگی دے دی.ایک اور پہلو سے بھی یہ کفارہ محض مغالطہ ثابت ہوتا ہے.عیسائی ایک طرف تو یہ دعوی کرتے ہیں کہ تو کفارہ سے سب گناہ بخشے جاتے ہیں اور دوسری طرف اس بات کو بھی پیش کرتے ہیں کہ انسان کے بڑے اعمال کا بھی حساب ہوگا.یہ دونوں باتیں بیک وقت درست نہیں ہو سکتیں.اگر دوسری بات سچی ہے کہ :- جنگ مقدس ما ر خ جلد ۶ :
۲۹۵ اعمال کا محاسبہ ضرور ہو گا جیسے کہ لکھا ہے :- یں تو سچ کہتا ہوں کہ جب تک تو کوڑی کوڑی ادا نہ کرے وہاں سے ہرگزنہ نہ چھوٹے گا یا نہ تو پھر کفارہ کو صحیح عقیدہ قرار دینا کیونکر درست ہوگیا کیونکہ ایک طرف تو یہ یقین دلایا کہ بس اب گناہ معاف ہو گئے اور پھر گناہ کر نے والوں سے مواخذہ بھی شروع کر دیا.عیسائی حضرات خود فیصلہ کریں کہ اس واضح تضاد کے ہوتے ہوئے کفارہ کو مغالطہ نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی سلسلہ میں فرماتے ہیں :- عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح کا خون ہمارے لئے سنجی ہوا.اب ہم پوچھتے ہیںکہ اگر تمہارے گتا ہوں پر بھی بارہ پیرس ہوتی ہے اور تمہیں ان کی سزا بھگتنی ہے تو پھر یہ نجات کیسی ہے ؟ مسلے پھر اسی سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں :- اگر یہ ہدایت ہوتی کہ اس وقت کے گناہ عیسائیوں کے لئے کفارہ ہوئے ہیں تو یہ اور بات تھی مگر جب یہ مان لیا گیا ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والوں کے گناہوں کی گٹھڑی لیسوغ اُٹھا کر لے گیا.اور اس نے سزا بھی اُٹھائی پھر گناہگار کو پڑھنا کس قدر علم ہے.اول تو بے گناہ کو گناہگار کے بدلے سزا دینا ہی فلم ہے اور پھر دوسر ا ظلم یہ ہے کہ اول گناہگاروں کے گناہ کی گٹھڑی یسوع کے سر پر رکھ دی.اور گناہ گاروں کو مردہ سنا دیا کہ تمہارے سے گناہ اس نے اٹھا لئے اور پھر وہ گناہ کریں تو پکڑے جاویں.یہ عجیب دھوکہ ہے جس کا جواب عیسائی کبھی نہیں دے سکیں گے " سے بيسوي دليلك کفارہ کی تردید میں ایک دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ کفارہ پولوس کی ایجاد ہے.اور اس کا کوئی قول مختلف وجوہات کی بناء پر اتنا معتبر نہیں ہو سکتا کہ اس کو کسی ایسے عقیدہ کی بنیاد قرار دیا جا سکے جس پر بنی آدم کی نجات کا انحصار ہے.عیسائی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پولوس نے ہی رہ سے پہلے کفارہ کا یہ اصول اس وضاحت کے ساتھ دنیا میں پیش کیا.اس نے کہا ہے :- : متی : * : ملفوظات جلد اول : ملفوظات جلد اوّل ما : Z
۲۹۶ I "مسیح کتاب مقدس کے مطابق ہمارے گناہوں کے لئے موا" لے نیز لکھا ہے :- یا " جو شیخ جو ہمارے لئے لعنتی بنا اس نجی ہمیں مول لے کر شریعیت کی لعنت سے چھڑا یا " ہے عیسائی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کفارہ کی تشریح سب سے پہلے پولوس نے ہی پیش کی تھی.ایک عیسائی لکھتا ہے :- ہمیں اس بات پر غور کرنا ہے کہ ہم اس معافی کو کس طرح حاصل کر سکتے ہیں بینی خدا کے اس کام سے کیونکر فیضیاب ہو سکتے ہیں...ہے پہلا سیمی دینی اس مسئلہ پیر غور کر کے تشریح پیش کی وہ مقدس پولس تھا یا ہے پس اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تثلیث اور کفارہ کے دونوں عقائد کو پولوس نے ہی بنایا اور پیش کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کفارہ کے رد میں اس امر کو بھی بطور دلیل بیان فرمایا ہے کہ پولوس کے قول پر کسی عقیدہ کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی.کیونکہ اس کے اپنے اقوال اس کو دیانت اور ثقاہت کے معیار سے نیچے گرا دیتے ہیں.اس سلسلہ میں مفصل ذکر تثلیث کی تردید کے ضمن میں گزر چکا ہے.اکیسویں دلیل کفارہ کی تردید میں ایک دلیل یہ ہے کہ یہ قیاس کے خلاف ہے.عیسائی بیان کے مطابق باپ نے تو مخلوق کے گناہ معاف نہ کئے اور سختی سے عدل پورا کرنے پر زور دیا لیکن اسی باپ کا اکلوتا بیٹا آ گئے آیا اور انی صلیب پر جان دے کر مخلوق کو گناہوں سے نجات دی.اس بیان سے باپ کو شدید ظالم اور بیٹے انه مد رحیم و کریم مانا لازم آتا ہے جو قیاس کے خلاف ہے.کیونکہ باپ اور بیٹے میں طبائع کا اسی قدر فرق ایک عجیب امر ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس دلیل کو پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں : - " یہ ایک جھوٹا قصہ کہ ایک باپ ہے جو سخت مغلوب الغضب اور سب کو ہلاک کرتا چاہتا ہے اور ایک بیٹا ہے جو نہایت رحیم ہے جنسی باپ کے مجنونانہ غضب کو اس طرح لوگوں سے ٹال دیا ہے کہ آپ سولی پر چڑھ گیا.اب بے چارے محقق یورپین ایسی بیہودہ باتوں کو کیوں کرمان میں یہ ہے اس تضاد کے علاوہ اس عقیدہ کی مسیحی وضاحت سے خدا کے طریق عمل پر بھی اعتراض وارد ہوتا ہے.اس خلاف قیاس تضاد اور طریق عمل کے بارہ میں حضور فرماتے ہیں :- جلداء - : : کرنتھیوں یا تے :- گلیتون = کے انجیل کا تجربہ ملا ہے : ریت بھی مات - حاشیه جلو؟
۲۹۷ والعجب كل العجب من الله النصارى - انه بزعمهم صلب انيه و اضاع وحيدة كالمجنون الغضبان - وما سلك فى المجازات طريق الجليل والرفق والاحسان بن خوف من العذاب الأبدى الذي لا ينقطع فى حين من الاحيان - فاين الرحم فى مثل هذا القمار الذى نوم الابن المحبوب الى الكفار وَمَا خَفّف هذا به كالرحماء الاخيار - بل القى عباده في جهنم لابد الابدين - زاد العذاب زيادة فاحشة مكروهة ثمّ الدَّعى انه قتل ابنه لينجي المذنبين رحمة فما هذا الاطريق الظالمين المزورين له ترجمہ : عیسائیوں کے خدا یہ حد درجہ تعجب آتا ہے کیونکہ ان کے خیال کے مطابق اس نے اپنے بیٹے کو صلیب دی.اپنے اکلوتے بیٹے کو ایک دیوانے اور غضبناک انسان کی طرح ہلاک کر دیا.سزا دینے میں اشتی عدل ، نرمی اور احسان کے طریق کو اختیار نہ کیا بلکہ ابدی عذاب سے ڈرایا جو کبھی بھی ختم نہیں ہوتا پس ایسے ظالم سے رحم کس طرح صادر ہو سکتا ہے.جیسے ہی اپنے پیار سے بیٹے کو کفار کے سپرد کر دیا.رحم دلی شرفاء کے طریق کے برخلاف اُس نے رحم کو ذرا بھی کم نہ کیا بلکہ اپنے بندوں کو ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈال دیا اور ان کے عذاب کو حد سے زیادہ کرتا چلا گیا اور پھر دوسری طرف یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس نے اپنے بیٹے کو اس لئے قتل کیا ہے کہ تاوہ رحمت کے طور پر گناہگاروں کو گناہ سے نجات عطا کر سے.یہ طریق ظالموں اور جھوٹوں کا طریق ہے.نیز فرمایا : عیسائیوں نے خُدا کو تو ظالم جانا اور بیٹے کو حیم کہ باپ تو گناہ نہ بخشتے اور بیٹا جان دیکر بخشوا ئے.بڑی بے وقوفی ہے کہ باپ بیٹے میں اتنا فرق.والد مولود میں مناسبت - اخلاق عادات کی ہوا کرتی ہے مگر یہاں تو بالکل ندارہ دا ہے عیسائیوں کے عجیب عقائد کے ذکر پر فرمایا :- ويظنون ان المسيح صلب ولكن لاجل معاصيهم واخذ لا نجاء هم و عذب لتخليصهم وان الخلق احفظ الاب بذنوبهم وكان الاب قطا.غليظ القلب سريع الغضب بعيدا عن الحلم والكرم مختافا كالحرق المضطرم فاراد ان يدخلهم في النار فقام الابن ترحما على الفجار : - انجام آتھم حاشیه ۱۳-۱۳۲ - جلد ) : - 4 لملفوظات جلد اوّل ص۳
۲۹۰ وكان حليما رحيما كالابرار فمنع الاب من قهره وزيادته فما امتنع وما رجع من ارادته فقال الابن يا ابت ان كنت از معت تعذيب الناس و اهلاكهم بالفاس ولا تمتنع ولا تغفر ولا ترحم ولا تزد جرفها انا احمل اوزار هم واقبل ما ابار هم فاغفر لهم وافعل بي ما تريد ان كان قليلاً او يزيد فرض الاب على ان يصلب ابنه لاجل خطايا الناس ننجا المذنبين واخذ المعصوم وعاذ به بانواع البأس كالمذنبين هذا ما قالوا ولكن العجب من الاب الذى كان نشواناً أو فى السبات انه نسى عند صليب ابنه ماكتب في التوراة وقالى لا اهلك الا الذي عصاني ولا آخذ ا احدا مكان احد من العصاة فنكث العهد واخلف الوعد وترك العامين واخذا حدًا من المعصومين لعله ذهل قوله السابق من كبير السن وارزل العمر وكان من المعمرين " له ترجمہ :.اور یہ خیال کر رہے ہیں کہ مسیح ان کے گناہوں کے لئے مصلوب اور ملعون ہوا اور ان کے بچانے کے لئے با خود اور معذب ہوا اور خلقت نے باپ کو اپنے گناہوں سے غصہ دلایا اور باپ سخت دل ماخوذ سريع الغضب تھا.فلم اور کریم اس میں نہیں تھا ہنکہ غصہ سے آگ کی طرح بھڑ کا ہوا تھا.سوا ن نے چاہا کہ.ان خلقت کو دوزخ میں ڈالے سو بیٹا بدکاروں پر رحم کر کے شفاعت کے لئے کھڑا ہو گیا اور بیٹا حلیم اور رحیم اور نیک آدمی تھا.پس اُس نے اپنے باپ کو قہر اور زیادت سے منع کیا مگر باپ اپنے ارادہ سے انہ نہ آیا سو بیٹے نے کہا اسے باپ اگر تیرا یہی ارادہ ہے کہ لوگوں کو ہلاک کر ے اور کسی طرح ان کو نہیں بخشتا اور رحم کرتا ہے سوئیں تمام لوگوں کے گناہ اپنی گردن پر لے لیتا ہوں سو ان کو تو بخش دے اور جو تو نے عذاب دینا ہے وہ مجھے عذاب دے سو اس کلمہ سے باپ غضبناک راضی ہو گیا اور اس کسی حکم سے بیٹیا پھانسی دیا گیا تا گناہگاروں کو چھوڑا ہے.اور گناہگاروں کی طرح اس معصوم پر عذاب ہوا.یہ وہ باتیں ہیں جو عیسائی کہتے ہیں لیکن باپ سے تعجب ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو پھانسی دینے کے وقت اپنے اس قول کو بھول گیا جو تو رات میں کہا تھا کہ میں اسی کو ہلاک کروں گا جو میرا گناہ کر سے اور میں ایک کی جگہ دوسرے کو نہیں پکڑوں گا.سو اس نے عہد کو توڑا اور وعدہ کے خلاف کیا اور گناہگاروں کو چھوڑ دیا اور ایسے آدمی کو پکڑا جس پر کوئی گناہ نہیں تھا.شاید وہ اپنا پہلا قول بباعث بڑھا ہے اور پیرانہ سالی کے بھول گیا کیونکہ عمر تھا.- نور الحق حصہ اول طن - روحانی خزائن جلد :
۲۹۹ بائیسوس دليلك کفارہ کی تردید میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ عیسائیوں کے اعتقاد کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت سے تمام بنی آدم کے گناہ کا کفارہ ہوگیا ہے گویا آدم سے نیکر قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے مسیح کی قربانی گناہوں کا کفارہ قرار دی جاتی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت آدم سے بھی بہت قبل اس دنیا میں مخلوقات آباد تھیں.ظاہر ہے کہ وہ گناہ بھی کرتے ہوں گے تو ان کے لئے گناہوں کی معافی کی کیا صورت خُدا نے اختیار کرتی ہے.اس سوال کے دو جواب ہو سکتے ہیں.اگر عیسائی یہ کہیں کہ خدا نے ایسا کوئی انتظام نہیں کیا تو یہ بات ایک طرف ان کے اس دعوی کو باطل کرتی ہے کہ مسیح کی قربانی سب انسانوں کے لئے ہے اور دوسری طرف خدا تعالی کے کی عدل اور رحم پر حرف آتا ہے کہ اس نے ان لوگوں کی معافی کا کیوں انتظام نہ کیا ؟ اور اگر عیسائی یہ کہیں کہ خدا نے ان کی مغفرت کا بھی انتظام کیا ہے تو وہ انتظام لانگا یہی ہوگا کہ خدا کا کوئی بیٹیا ان کے لئے قربان ہو جیسے آدم کے بعد کے افسانوں کے لئے مسیح نے اپنی جان کی قربانی دی کیونکہ طریق نجات ہر زمانہ میں ایک جید ) ہوتا ہے اس صورت میں عیسائیوں کو یہ ثبوت دینا چاہیئے کہ خدا کے کتنے اور کون سے بیٹھے کب کب اس طرح پر قربان ہوتے رہے ورنہ ان کا دعوی باطل ہو گا.الغرض یہ اعتراض ایک دو دھاری تلوار ہے جیسی کفارہ کا اصول باطل ٹھہرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- عیسائیوں نے باوجود بدیہی نبوت اس بات کے کہ قدامت نوع عالم ضروری ہے پھر اب تک کوئی ایسی فہرست پیش نہیں کی جس سے معلوم ہو کہ ان غیر محدود عالموں میں جو ایک دوسرے سے بالکل بے تعلق تھے کتنی مرتبہ خدا کا فرنہ ند سولی پر کھینچا گیا کیونکہ یہ تو ظاہر ہے کہ ہمو جب اصول عیسائی مذہب کے کوئی شخص بجز خدا کے فرزند کے گناہ سے خالی نہیں.پس اس صورت میں تو یہ سوال ضروری ہے کہ وہ مخلوق جو ہمارے اس آدم سے بھی پہلے گزر چکی ہے جن کا ان بنی آدم کے سلسلہ سے کچھ تعلق نہیں ان کے گناہ کی معافی کا کیا بندوبست ہو ا تھا اور کیا یہی بیٹا ان کو نجات دینے کے لئے پہلے بھی کئی مرتبہ پھانسی مل چکا ہے یاوہ کوئی دوسرا بیٹا تھا جو پہلے زمانوں میں پہلی مخلوق کے لئے سولی پر چڑھتا رہا.جہاں تک ہم خیال کرتے ہیں ہمیں تو یہ سمجھ آتا ہے کہ اگر صلیب کے بغیر گناہوں کی معافی نہیں تو عیسائیوں کے خدا کے لیے انتہا اور ان گنت بیٹے ہوں گے جو وقتا فوقتا ان معرکوں میں کام آئے ہوں گے اور ہر ایک اپنے - :
} وقت پر پھانسی ملا ہوگا.پس ایسے خدا سے کوئی بہبودی کی امید رکھنا لا حاصل ہے جب کسے خود اپنے ہی جوان بچے مرتے رہے لے نیز فرمایا : پھر وہ اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ وہ ہمیشہ سے اور غیر متناہی زمانوں سے اپنے پیارے بیٹوں کو لوگوں کے لئے سولی پر چڑھاتا رہا بلکہ کہتے ہیں کہ یہ تدبیر بھی اس کو کچھ تھوڑے عرصہ سے ہی سو بھی ہے اور ابھی بڑھے باپ کو یہ خیال آیا ہے کہ بیٹے کو سولی دلا کر دوسروں کو عذاب سے بچادے کا ہے ھر آپ اسی سلسلہ میں فرماتے ہیں :- " اگر یہ اعتقاد کیا جا و سے کہ خدا خود ہی آکر دنیا کو نجات دیا کر تا ہے یا اسکی بیٹے ہی آتے ہیں تو پھر اور لازم آئے گا اور ہر زمانہ میں نیا خدایا اسکے بیٹوں کا آنا ماننا پڑے گا جو صریح خلاف بات ہے.سو تئیسویں دلیل وليك کفارہ کی تردید میں ایک اور دلیل حضور علیہ السلام نے یہ پیش فرمائی ہے کہ عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا خدا کسی کو گناہ میں ہلاک کرنا نہیں چاہتا.اسی وجہ سے اس نے کفارہ کے طریق کو پیش کیا ہے لیکن اس صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنی آدم کے لئے تو ان کے خیال میں حضرت مسیح کا بطور کفارہ قربان ہونا کافی ہو گیا لیکن جنوں اور شیاطین کی نجات کے لئے خدا نے کیا طریق اختیار کیا کیونکہ ان کی تعدا د بھی زیادہ ہے اور گناہ بھی زیادہ بڑے ہیں پس خدا کے لئے ضروری تھا کہ وہ ان جنوں اور شیاطین کے لئے بھی اپنے کسی ر بیٹے کو مصلوب کرتا اگر ایسا ہوا ہے تو اس کا ثبوت دینا عیسائیوں کے ذمہ ہے اور اگر ایسا کوئی انتظام خدا نے نہیں کیا اور واقعہ بھی یہی ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ خدا کے اور بیٹے جنوں کی نجات کے لئے مصلوب ہوئے ہوں تو پھر کفارہ کا اصول ناکافی اور نا شکل ثابت ہوتا ہے اور خدا کے رحم اور عدل پر زد پڑتی ہے.اس طرح یہ سارا اصول ہی باطل ٹھہرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- عیسائی یہ اقرار کرتے ہیں کہ ان کا خدا کسی کو گناہ میں ہلاک کرنا نہیں چاہتا.پھر اس صورت میں ان پر یہ اعتراض ہے کہ اس خدا نے ان شیاطین کی پلید روحوں کی نجات کے لئے کیا اور 1 ه ده ست بچن جلد ابنه سه ست بچن صارخ جلد سے :- ملفوظات جلد سوم ص۱۳۲ : : : و
بندو بست کیا.جن پلید روحوں کا ذکر انجیل میں موجود ہے کیا کوئی ایسا بیٹا بھی دنیا میں آیا جس نے شیاطین کے گناہوں کے لئے اپنی جان دی ہو.یا شیاطین کو گناہ سے باز رکھا ہو.اگر ایسا کوئی انتظام نہیں ہوا تو اس کی ثابت ہوتا ہے کہ عیسائیوں کا خدا اس بات پر ہمیشہ راضی رہا ہے جو شیاطین کو جو عیسائیوں کے اقرار سے بنی آدم سے بھی زیادہ ہیں ہمیشہ کی جہنم میں جلانے سے پھر جبکہ ایسے کسی بیٹے کا نشان نہیں دیا گیا تو اس صورت میں تو عیسائیوں کو اقرارہ کو نا پڑا کہ ان کے خدا نے شیاطین کو جہنم کے لئے ہی پیدا کیا ہے" سے ید : سند فرمایا " والعجب من الابن انه كان يعلم ان معشر الجن سبق الانس في الخطاء ولا ينتهجون محجة الاهتداء بل تجاوز والحد في شباة الاعتداء ثم تغافل من امرسياتهم وما توجه الى مواساتهم وما شاء ان ينتفع الجن من كفارته ويكون لهم حيات من ابارته و نجات من نارا بدية التي اعداد لهم فما نفعهم البارته ولا كفارته وكانوا يومنون بالمسيح كما شهد عليه.الانجيل بالبيان الصريح فكان الابن ما دعا تلك المذنبين الى هذا القرى وتقاعس كنجيل وضنين ومن المحتمل ان يكون للاب ابن آخر صلب لتلك المعشري بل من الواجبات ان يكون كذالك لتنجية العصاة - فات ابنا اذا صلب لنوع الانسان مع قلة العصيان فكر من حرى ان يُقلب ابن أخر - لنوع جنى الذي ذنبهم اكبر واكثر والافيلزم الترجيح بلا مرجع باليقين و يثبت بخل الاب ارتجل البنين ولاشك ان فكر مغفرة قوم عادين والتفافل من توم أخرين عدول صريح وظلم مبين بل يثبت من هذا جهل الاب المنان اما كان يعلم ان المذنبين قدمان ولا يكفى لهم صليب بل اشتدت الحاجة الى ان يكون ابنان و صليبان لا يقال ان الابن كان واحدا فرضى ليصلب لنوع الانسان وما كان ابن أخر لكفارة ابناء الحجان لانا نقول في جوابه ان الاب كان قادرا على ان يلدا بنا آخر وما كان كا لعاجز الحيران فلاديب الله ترك الحجن عمدًا ومن النسيان او ما صلب ابناً ثانياً مخافة بتره كالجيان " له ه: - ست بیچن مثلا رخ جلد ۱۰ منه تا ۱۰۵ : نور الحق حصہ اول ص ١٠٥ - رخ جلد :
ترجمہ : اور بیٹے سے یہ تعجب ہے کہ وہ خوب جانتا تھا کہ جنوں کا گروہ آدمیوں سے گناہ میں بڑھ گیا ہے اور وہ سیدھا راستہ اختیار نہیں کرتے بلکہ بے راہی کی تیزی میں حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں.پھر انتہی ان کے بارے میں تغافل کیا.اور ان کی ہمدردی کے لئے کچھ توجہنہ کی.اور نہ چاہا کہ اسی کفارہ سے جن کا گروہ فائدہ اُٹھاد سے اور ان کو اس ابدی عذاب سے نجات ہو جو ان کے لئے تیار کیا گیا ہے.سو جنوں کو اس کے مصلوب ہونے نے کچھ بھی فائدہ نہ پہنچایا.حالانکہ وہ اس پر ایمان لاتے تھے.جیسا کہ اس پر انجیل گواہی دے رہی ہے پس گویا بیٹے نے اپنے اس کفارہ کی مہمانی کی طرف ان گناہگاروں کو نہیں بلایا.اور انجیلوں کی طرح تاخیر کی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ باپ کا کوئی اور بیٹا ہو جو جنوں کے لئے پھانسی دیا ہو.بلکہ یہ تو واجبات میں سے ہے کہ ایسا ہی ہو.کیونکہ جب ایک بیٹا نوع انسان کے لئے جو تھوڑے ہیں پھانسی دیا گیا.پس کس قدر لائق ہے کہ ایک دوسرا بیٹا جنوں کے لئے پھانسی ملے.جو گناہ اور تعداد کے لحاظ سے بنی آدم سے بڑھے ہوئے ہیں.ورنہ ترجیح بلا منرجع لازم آئے گی.اور باپ اور بیٹوں کا انخل ثابت ہوگا اور کچھ شک نہیں کہ ایک قوم کی مغفرت کا فکر.دوسری قوم سے تغافل صریح ظلم اور بے جا کار روائی ہے بلکہ اس کی تو باپ کا جہل ثابت ہوتا ہے کیا اس کو معلوم نہیں تھا کہ گنا ہوگا یہ لوگ دو قومیں ہیں صرف ایک قوم تو نہیں.سو دو قوموں کے لئے صرف ایک بیٹے کا پھانسی دینا کافی نہیں.بلکہ کافی طور پر یہ مقصد کب پورسا کب لإنسا ہو سکتا ہے کہ جب دو بیٹوں کو پھانسی دیا جاتا.یہ بات کہنے کے لائق نہیں کہ بیٹا تو صرف ایک ہی تھا وہ اس پر راضی تھا کہ وہ فقط نوع انسان کے لئے پھانسی دیا جاو سے کوئی دوسرا بیٹا تو نہیں تھا کہ تا جنوں کے لئے پھانسی دیا جاتا کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ باپ اسی بات پر قادر تھا کہ اس بات کے لئے کوئی اور بیٹا جنے جیسا کہ انی پہلا بیٹا جنا بس کچھ شک نہیں کہ اس نے جنوبی کے گردہ کو عمدا عذاب ابدی میں چھوڑا اور محض بخل کی راہ سے ان کے لئے کوئی پھانسی پر نہ لٹکایا ہے چوبیسویں دلیل نجیلی تعلیم کی رو سے موت گناہ کی سزا ہے.سیکھا ہے :.پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دنیا میں آیا اور گناہ کے سب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اس لئے کہ سب نے گناہ کیا یا لے عیسائی اس اصول کو اس غرض کے لئے پیش کرتے ہیں کہ تا وہ یہ ثابت کر سکیں کہ تمام بنی آدم موروثی طور پر گناہگار ہیں اور اس طرح کفارہ کی ضرورت ثابت ہو سکے.ے.- رومیوں :
۳۰۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کی پرزور تردید فرمائی ہے کہ موت گناہ کا پھل ہے.اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ آدم جنسی سب سے پہلے گناہ گیا اسے پہلے بھی موت موجود تھی تو اس سے یہ اصول ٹوٹ جائے گا کہ گناہ سے موت پیدا ہوئی اور لازمی طور پر اس سے موروئی گناہ کا مسئلہ بھی باطل ہو جائیگا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بنیاد کو توڑ دیا ہے کہ آدم سے پہلے موت اور تھی بلکہ اس کے بعد ہوئی جس کو عیسائی گناہ کا پھیل قرار دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- عیسائی کہتے ہیں کہ انسان اور تمام حیوانات کی موت آدم کے گناہ کا پھل ہے کہ حالانکہ یہ خیال دو طور سے صحیح نہیں ہے.اول یہ کہ کوئی محقق اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ آدم کے وجود سے پہلے بھی ایک مخلوقات دنیا میں رہ چکی ہے اور وہ مرتے بھی تھے اور ائس وقت نہ آدم موجود تھا اور نہ آدم کا گناہ.پس یہ صورت کیونکر پیدا ہوگئی.دوسرے یہ کہ اس میں شک نہیں کہ آدم بہشت میں بغیر ایک منع کئے ہوئے پھل کے اور سب چیزیں کھاتا تھا.پس کچھ شک نہیں ہو سکتا کہ وہ گوشت بھی کھاتا ہوگا.اس صورت میں بھی آدم کے گناہ سے پہلے حیوانات کی موت ثابت ہوتی ہے اور اگر اس سے بھی در گذر کریں تو کیا ہم دوسرے امر سے بھی انکار کر سکتے ہیں کہ آدم ہشت میں اور پانی پیتا تھا کیونکہ کھانا اور پینا ہمیشہ سے ایک دوسرے سے لازم پڑے ہوئے ہیں اور طبی تحقیقات اور ثابت ہے کہ ہر ایک قطرہ میں کئی ہزار کیڑے ہوتے ہیں پس کچھ شک نہیں کہ آدم کے گناہ سے پہلے کروڑہا کیٹر سے مرتے تھے پس اسی سے بہر حال ماننا پڑتا ہے کہ موت گناہ کا پھل نہیں اور یہ امر عیسائیوں کے اصول کو باطل کرتا ہے اے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش کردہ شالوں سے آدم سے پہلے موت کا وجد ثابت ہو جاتا ہے بس موروئی گناہ اور سب بنی آدم کا گناہگار ہوتا باطل ہوا.اور اس صورت میں کفارہ کی کچھ ضرورت رہتی ہے اور نہ بنیاد قائم رہتی ہے.پچیسویں دلیل.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کفارہ کی تردید میں ایک دلیل یہ بیان فرمائی ہے کہ جیب بر سے کاموں سے انسان سزا اور جہنم کا مستحق ٹھہرتا ہے تو عقلی طور پر یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ نیکیاں کرنے والا جنت کا مستحق ہوگا.پس اس استدلال کی موجودگی میں نہ کفارہ کی ضرورت رہتی ہے اور نہ یہ طریق نجات کا درست ثابت ہوتا ہے.: كتاب البرية ص - ر- خ جلد ١٣ :
۳۰۴ جسمانی اور روحانی نظام میں جزا و سزا کی مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں : باد کاروں کے لئے عالم آخرت کی سزا ضروری ہے کیو نکہ جبکہ ہم دنیا می جسمانی پاکیزگی کے قواعد کو ترک کر کے فی الفور کسی بلا میں گرفتار ہو جاتے ہیں.اسلئے یہ امر بھی یقینی ہے کہ اگر ہم روحانی پاکیزگی کے اصول کو ترک کریں گے تو اسی طرح موت کے بعد بھی کوئی عذاب مولم ضرور ہم پر وارد ہوگا.جو و باء کی طرح ہمارے ہی اعمال کا نتیجہ ہو گا یا لے اس پر حاشیہ میں فرمایا : سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کفارہ کچھ چیز نہیں بلہ جیسا کہ ہم اپنے جسمانی بد طریقوں سے وباء کو اپنے پر لے آتے ہیں اور پھر حفظ صحت کے قواعد کی پابندی سے اس سے نجات پاتے ہیں.یہی قانون قدرت ہمارے روحانی عذاب اور نجات سے وابستہ ہے " ہے گویا بُرے اعمال سے انسان دوزخ اور اچھے اعمال سے جنت کا مستحق بن جاتا ہے.پھر حضور نے اس عقلی استدلال کو ایک اور رنگ میں بھی بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں :- ایک اور امر منصفوں کے لئے قابل غور ہے اور وہ یہ کہ عقلی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ نیک کام بلاشبہ اپنے اندر ایک ایسی تاثیر رکھتے ہیں جو نیکو کار کہ وہ تاثیر نجات کا پھل خشتی ہے.کیونکہ عیسائیوں کو بھی اس بات کا اقرار ہے کہ بدی اپنے اندر ایک ایسی تاثیر رکھتی ہے کہ اس کا مرتکب ہمیشہ کے جہنم میں جاتا ہے.تو اس صورت میں قانون قدرت کے اس پہلو پر نظر ڈال کر یہ دوسرا پہر بھی ماننا پڑتا ہے کہ علی ہذا القیاس نیکی بھی اپنے اندر ایک تاثیر رکھتی ہے کہ اس کا بجالانے والا وارث نجات بن سکتا ہے ا س اس حوالہ میں حضور نے تحریر فرمایا ہے کہ عیسائی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ برائی بڑا نتیجہ پیدا کرتی ہے چنانچہ لکھا ہے : بد کار خدا کی بادشاہ کے وارث نہ ہوں گے نہ ورنہ زنا کار د شرابی - نظالم - نعیانش کا ہے پھر لکھا ہے :.جو جان گناہ کرتی ہے وہی مرے گی ؟ شے اس سے ثابت ہوا کہ عیسائی برائی کے بڑے الہ کے ضرور قائل ہیں پس حضور علیہ السلام کا یہ استدلال عقلی له : ايام الصلح صار - خ جلد ۱۴: : كتاب البريه صدا رخ جلد ١٣ :- ایام الصلح حاشیه ها - ر- خ جلد ۱۴ کر نتھیوں : شے : حز قیل :
۳۰۵ طور پر بالکل درست ہے کہ پھر نیک اعمال کے نتیجہمیں بھی نیک اثر پیدا ہونا چاہیئے اور نجات منی چاہیئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جگہ تو عقل سے استدلالی فرمایا ہے.ویسے امر واقعہ بھی یہی ہے کہ عیسائی تعلیمات سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ نیک اعمال سے انسان کو نجات مل جاتی ہے.یاد رہ ہے کہ عیسائی کفارہ کی بنیاد میں اس مفروضہ کو بھی شامل کرتے ہیں کہ نیک اعمال سے نجات نہیں ہوسکتی.حالانکہ بائیل کے مندرجہ ذیل حوالوں سے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے عقلی استدلال کے عین مطابق یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیک اعمال سے انسان نجات حاصل کر لیتا ہے لکھا ہے کہ :-.مبارک وہ جو دن کے غریب ہیں کیونکہ آسمانی بادشاہت ان کی ہے.مبارک ہیں وہ جو دل کے پاک ہیں خدا کو پہنچیں گئے ؟ اے " جیسے جسم بے روح ہوتا ہے ویسے ایمان بھی بے عمل مردہ ہے ؟ " پھر لکھا ہے: نیز لکھا ہے :- در تو بہ کرو کیوں کہ آسمان کی بادشاہت نزدیک آگئی ہے " سے پھر نہ قیل نبی کی کتاب کے باب ۱۸ میں اور حضرت مسیح کے مشہور پہاڑی وعظ میں اس بات کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ جوشن کہ عمل نہیں کرتا وہ نقصان اُٹھائے گا.پس ان بیانات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیک اعمال بجالانا بائیبل کے رو سے بھی ضروری ہے.اس سے عیسائیوں کا یہ مفروضہ باطل ہو جاتا ہے کہ نیک اعمال کے وسیلہ سے نجات نہیں ہو سکتی.نجات صرف کفارہ سے ہے.سوال یہ ہے کہ اگر کفارہ کے باوجود نیک اعمال کی ضرورت ہے جیسا کہ ثابت ہو چکا تو پھر ایسے کفارہ کی ضرورت ہی کیا ؟ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو استدلال عقلی نہ نگ میں پیش فرمایا تھاوہ بائیبل کی تعلیم سے بھی ثابت ہوتا ہے اور اس طرح کفارہ کا ایک بنیادی مفروضہ باطل ہو جاتا ہے.چھویں دلیل بے جب کفارہ کے عقیدہ کا مختلف اعتبالہ سے تجزیہ کیا جاتا ہے اور اس پر کڑی تنقید کی جاتی ہے تو عیسائی حضرات یہ کہ دیا کر تے ہیں کہ کفارہ بھی تثلیث کی طرح ایک بہانہ ہے جس کی حقیقت کو سمجھنا انسانی سمجھ سے باہر ہے.اگر تو یہ اس وجہ سے ہے کہ کفارہ کا مسئلہ انسانی عقل کے خلاف ہے تو پھر تو یہ مسئلہ ہی باطل ہو جاتا ہے.: متین ے : یعقوب : - A-F ے : متی ہے :
ہر یا اور اگر اس وجہ سے اس کو رانہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ انسانی عقل اپنی کمزوری یا کوتا ہی کی وجہ سے اس کو سمجھنے سے قاصر ہے تو یہ امر عیسائیت کے خلاف ایک زہیرہ دست اعتراض کی بنیاد بنتا ہے کہ وہ کیوں ایسے عقائد پیش کرتی ہے جن کو کوئی انسان کبھی سمجھ ہی نہیںسکتا.کیا انکو را ز قرار دینا کسی غلطی اور امی کی پردہ پوشی کا ذریعہ ہے یا عیسائیت اپنے ماننے والوں سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ آنکھیں بند کر کے ہر صحیح یا غلط عقیدہ یہ کو مان لیا کریں.بہر حال ہر عقیدہ کو رازہ قرار د سے کہ اس کی دلیل دینے سے گریز کرنا عند العقل قابل قبول نہیں.بلکہ ایسا طریق واضح کرتا ہے کہ ان عقائد میں کوئی ایسی بنیادی خاصی اور غلطی ہے جس کی وجہ سے یہ نہ سمجھے جاسکتے ہیں اور نہ سمجھائے جا سکتے ہیں.آخر ان کو انہ قرار دینے کی کیا حکمت اور کیا " کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے" وجہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس دلیل کو پیش فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں.و انجیل خاموش کے چالاک اور عیار حامیوں نے اس خیال سے کہ انجیل کی تعلیم عقلی زدہ کے مقابل ہے جان محض ہے نہایت ہوشیاری سے اپنے عقائد میں اس امر کو داخل کر لیا کہ تثلیث اور کفارہ ایسے راز ہیں کہ انسانی عقل ان کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتی ہے پس ثابت ہوا کہ کفارہ کو ایک رانہ قرار دینا اس کے باطل ہونے کی زیر دست دلیل ہے کیونکہ.کوئی ایسا عقیدہ جو انسانوں سے متعلق بلکہ ان کی نجات کا ذریعہ ہو سربستہ رانہ نہیں رکھا جا سکتا اور نہ ایسا ہونا چاہیے وہ نہ اس عقیدہ کا وجود اور عدم برابر ہوں گے.ستائیسوس دليل س کفارہ کی تردید میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ کفارہ کو اگر بالفرض نجات کا ذریعہ تسلیم بھی کر لیا جائے تو یہ نجات کا کوئی مکمل اور قابل اعتبار ذریعہ نہیں کیونکہ یہ بات عیسائی مسلمات میں داخل ہے کہ مسیح نے ایک ہی دفعہ صلیب پائی مسیح دو دفعہ مصلوب نہیں ہو سکتا.اب اگر مسیح دوبارہ مصلوب ہو کر ایک بارہ پھر گناہوں کا کفارہ نہیں ہو سکتا تو وہ گناہ جو کفارہ پر ایمان لانے کے بعد سرزرد ہوں ان کی بخشش کا ذریعہ کیا ہو؟ اس اشکال کا عیسائیت کے پاس کوئی جواب نہیں.ایک ہی صورت ان گناہوں کے کفارہ کی ہو سکتی ہے کہ خدا کا بیٹا بار دگر مصلوب ہو لیکن ایسا ہو نہیں سکتا.گویا پھر ان گناہوں کا کوئی علاج نہ ہوا پس کفارہ کا اصول ناکافی اور نامکمل ہے.یہ تو گویا ایک لحاظ سے نجات کی راہ بند کر دیتا ہے.ه: ملفوظات جلد اول ص :
یح موعود علیہ السّلام نے اس دلیل کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرمایا ہے عیسائیوں کے اصول کے موافق مسیح کے خون پر ایک بارہ ایمان لا کر اگر گناہ ہو جاو سے تو پھر صلیب مسیح کوئی فائدہ نہیں دے سکتی کیونکہ مسیح دو مرتبہ صلیب پر نہیں چڑھے گا تو کیا یہ بات صاف نہیں ہے کہ ان کیلئے بخشے جانے اور نجات کی راہ بند ہے" کے عیسائی یہ کہا کرتے ہیں کہ پولوس کا یہ کہنا کہ مسیح دوبارہ مصلوب ہو کر گناہوں کا کفارہ نہیں ہو سکتا غلط ہے.اور حقیقت میں کفارہ پر ایمان لانے کے بعد پھر کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا تو ایک تو یہ بات مشاہدہ کے خلاف ہے.دوسرے اگر پھر چوری کرنے کے باوجود وہ چوری نہ کہلائے گی تو اس طرح تو معاشرہ کا تو امن تباہ و برباد ہو جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس عذر کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : اگر یہ کہو کہ پولوس نے غلطی کھائی ہے یا جھوٹ بولا ہے اور اصل بات یہی ہے کہ لعنتی قربانی پر ایمان لانے کے بعد کوئی گناہ گناہ نہیں رہتا.چوری کرد.زنا کرد - خون ناحق کمند - جھوٹ بولو امانت میں خیانت کرد غرض کچھ کر وہ کسی گناہ کا مواخذہ نہیں تو ایسا مذہب ایک نمایا کی پھیلا نے والا مذہب ہوگا.اور وقت کی گورنمنٹ کو مناسب ہوگا کہ ایسے عقاید کے پانڈوں کی ضمانتیں لیوئے" سے VA اٹھائیسویں دلیل کفارہ کا عقیدہ اس وجہ سے بھی غلط ثابت ہوتا ہے کہ اس عقیدہ کی بنیاد ایسے امور پر رکھی گئی ہے جو صریح طور پر گناہ کی صورت ہیں.استدلال یہ ہے کہ کیا وہ عقیدہ جس کی بنیاد ہی گناہ پر ہو وہ گناہ سے نجات کا ذریعہ ہو سکتا ہے عقل اس بات کو ہرگز ہرگز تسلیم نہیں کر سکتی کہ ایسا عقیدہ جو گناہ کی پیداوار ہے اور جس پر یقین رکھنے سے گناہ لازم آتا ہے وہ بنی آدم کی نجات کا ذریعہ ہو.پس اس وجہ سے کفارہ کا عقیدہ ایک باطل عقیدہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : - یہ اصول ہی اپنی جڑھ میں گناہ رکھتا ہے؟ کے میں بطور مثال صرف دو گناہوں کا ذکر کرتا ہوں جن پہ بنیا د رکھ کر کفارہ کا عقیدہ بنایا گیا ہے.ایک شرک ہے اور دوسرا خدا کے ایک نبی کو ملعون قرار دینا کفارہ کا اصل الاصول یہ ہے کہ حضرت مسیح خدا ہیں اور اس کے بیٹے ہیں نظاہر ہے کہ یہ واضح شرک ہے اور ایسا نہ یہ دست گناہ ہے جسکی علی الاعلان از نکا ہے بعد رحمت کی امید اور نجات کی توقع نہیں ہو سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : - IM کے 140 : ملفوظات جلد ختم م : ۱- سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ملتا جلد با ته بلوری جلد دل ما
W.A سے بڑھ کر گناہوں سے بچانے کے لئے ایک اور بڑا گناہ تجویز کیا کہ انسان کو خدا بنا یا گیا.کیا اس سے بڑھ کہ کوئی اور گناہ ہو سکتا ہے ؟ پھر خدا بنا کر اسے معا ملعون بھی قرائہ دیا.اس.دیا سے بنے گستاخی اور بے ادبی اللہ تعالی کی کیا ہوگی؟ ایک کھاتا پیتا حوائج کا محتاج خدا بنا لیا گیا ہے ہو 1 نیز فرمایا : "اپنے بچاؤ کے لئے اور گناہوں سے نجات پانے کے لئے ایک ایسا گناہ تجویز کیا جو کسی صورت میں بخشا نہ جاؤ سے یعنی مشرک کیا اور عاجز انسان کو خدا بنا لیا " ہے و دوسرا گناہ خدا کے نبی کو مطعون قرار دیا ہے.کفارہ کی رو سے عیسائی اس بات کو مانتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب جان دیکھہ بنی آدم کے سب گناہ اُٹھا لئے اور ہماری خاطر لعنتی بنا سیکھا ہے :.ر مسیح جو ہمار سے لئے لعنتی بنا " سے لعنت کا مفہوم ایک گذشتہ دلیل کے ضمن میں بیان ہو چکا ہے کسی عام انسان پر کوئی معمولی سا الزام لگانا بھی ایک بڑا کام ہے لیکن خدا کے ایک برگزیدہ نبی ار معصوم انسان کو لعنتی و ملعون قراہ دنیا تو اتنا بڑا گناہ ہے کہ انسان کے ایمان پر موت وارد کرتا ہے.لیکن عیسائی محض اپنی نجات کی خاطر خدا کے ایک نبی کو ملعون بنانے پر بھی تیار ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو فرماتے ہیں :- " بہتر ہوتا کہ عیسائی اپنے لئے دوزخ قبول کر لیتے مگر اس برگزیدہ انسان کو ملعون اور شیطان نہ ٹھراتے ایسی نجات پر لعنت ہے جو بغیر اسکی جو راستبانوں کو بے ایمان اور شیطان قرار دیا جائے بے اور مل نہیں سکتی ہے پھر آپ فرماتے ہیں: اگر نجات اسی طرح حاصل ہو سکتی ہے کہ اول یسوع کو شیطان اور خدا سے برگشتہ اور خدا سے بیزار ٹھہرایا جائے.تو لعنت ہے ایسی نجات پیر !!! اس کی بہتر تھا کہ عیسائی اپنے شد لئے دوزخ کو قبول کر لیتے مگر خُدا کے ایک مقرب کو شیطان کا لقب نہ دیتے کہ شہ پس ظاہر ہے کہ خدا کے نبی کو لعون اور شیطان قرار دینا کتنا عظیم گناہ ہے.لیکن کفارہ کی رو سے اس گناہ کا ارتکاب کر نالازم ہے.عجیب بات ہے کہ عیسائی اس گناہ کے اندہ کتاب کو گناہ سے نجات کا ذریعہ قرار دیتے ہیں.این چه بوالعجبی است لیکچر در میانه نه درونی جلد ۲۰ : که : لیکچر لصيانه طب - ر- خ جلد ۲۰ سے : ہے سے : کلیتوں : Y r ے: سراج منیر ص - رخ جلد ۱۲ باشه : سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب حث سرخ جلد ۱۲ :
1.9 خلاصہ دلیل یہ ہے کہ کفارہ کی بنیاد گناہ پر ہے.پس یہ گناہ سے نجات کا ذریعہ کیسے ہو سکتا ہے.ہذا اس کا سارا فلسفہ باطل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دلیل کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے : آپ فرماتے ہیں :- ایک عاجزہ انسان کو خدا بنانا.....اور اس شخص کو خدا کا بھی کہنا اور پھر شیطان کا بھی.کیا ان گندی اور نا معقول باتوں کو مانا پاک فطرت لوگوں کا کام ہے ؟ انا شد انتیسویں دلیل کفارہ کے خلاف ایک دلیل یہ ہے کہ اس عقیدہ میں ایک عجیب قسم کا تضاد پایا جاتا ہے جو اس کو باطل قرار دیتا ہے.عیسائی حضرات یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے جو خُدا تھے صلیب پر مرکہ بیان دیدی اور ملعون ہو گئے.اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ کیا خدا یا خدا کا بیٹا ملعون اور مصلوب ہو سکتا ہے؟ کیا خدا مرا بھی کرتا ہے.اس کی صفت تو یہ ہے کہ :." بقا صرف اسی کو ہے یا نہ پس اگر مسیح خدا تھا اور مر گیا تو پھر وہ خدا نہیں ثابت ہو سکتا.اور جب میں خدا نہیں تو انکی قربانی کفارہ نہیں ہوسکتی اس اعتراف کے جواب میں وہ یہ کہتے ہیں کہ مسیح میں دو شخصیتیں تھیں.ایک انسان کی اور دوسری خدا کی.ایک جسم تھی اور ایک روح ہے لیکن ظاہر ہے کہ مسیح کی ان شخصیات میں عیسائی کوئی حد فاصل نہ مقرر کرتے ہیں اور نہ کر سکتے ہیں.در اصل اس طرح وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صلیب پر صرف مسیح انسان مرا تھا.بیج جو خدا تھا وہ نہ مرا گویا ان کی روح خدا تھی جو مری نہیں بلکہ زندہ رہ گئی.عیسائیوں کے اس جواب پر یہ مقولہ صادق آتا ہے کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا.ایک اعتراض سے تو عیسائی بظاہر بچ گئے کہ ان کا خدا صلیب پر نہیں مرا لیکن ایک دوسرا ز بر دست اعتراض ان کی اس وضاحت پر یہ پڑتا ہے کہ جب مسیح جو خدا تھا وہ نہیں مرا بلکہ مسیح انسان صلیب پر مرا ہے تو وہ کفارہ کیسے ہوا ؟ کفارہ کے لئے تو ضروری ہے کہ خدا اپنی قربانی دے جو پاک اور معصوم ہے مسیح جو انسان تھا اور مریم کے پیٹ سے پیدا ہوا وہ تو گناہگار تھا.وہ اس قربانی کے لائق نہیں ٹھہر سکتا.پس ثابت ہوا کہ اگر میں انسان نے صلیب پر جان دی تو وہ ایسا وجود نہیں کہ اسکی قربانی تمام بنی آدم کے گناہ کا کفارہ ہونگے.اس ۱۵ - سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ما ر خ جلد ۲ به :- 1 - تمطاؤس ہے :
۳۱۰ تشریح سے تو گویا کفارہ کا سارا اصول ہی باطل ہو جاتا ہے.کفارہ پر تضاد کا یہ اعتراض ایسا وزنی ہے کہ اسکی مقابل پیر عیسائیوں کی حالت نہ جائے رفتن نہ کہ پائے ماندن والی ہے.مسیح کو خدا کہیں تو مرنے سے اس کی خدائی باطل ہوتی ہے میسیج کو انسان کہیں تو کفارہ کا اصول ٹوٹتا ہے.فراہ کی کوئی راہ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل حوالہ جات میں یہ دلیل مذکور ہے.حضور فرماتے ہیں :- را عیسویت کے ابطال کے واسطے تو ایک دانا آدمی کے لئے یہی کام ہے کہ ان کے اس عقیدہ پر نظر کہ سے کہ خدا مر گیا ہے.بھصل کوئی سوچے کہ خدا بھی مرا کہتا ہے.اگر یہ کہیں کہ خدا کی روح نہیں بلکہ جسم مرا تھا تو ان کا کفارہ باطل ہو جاتا ہے یا لے پھر خدا ہونے کے برخلاف وہ مرتا ہے.کیا خدا بھی مراکہ تا ہے ؟ اور اگر محض انسان مرا ہے تو پھر کیوں یہ دعویٰ ہے کہ ابن اللہ نے انسانوں کے لئے جان دی کیا ہے (۳) عیسائی کفارہ پر اس قدر زور دیتے ہیں حالانکہ یہ بالکل لغو بات ہے ان کے اعتقاد کے موافق میسج کی انسانیت قربان ہو گئی مگر صفت خدائی نہ ندہ رہی.اب اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ وہ جو دنیا کے لئے فدا ہوا وہ تو ایک انسان تھا.خدا نہ تھا حالانکہ کفارہ کے لئے بموجب انہی کے اعتقاد کے خدا کو قربان ہونا ضروری تھا.مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ ایک انسانی جسم فدا ہوا اور خدا نہ ندہ رہا اور اگر خدا خدا ہوا تو اس پر موت آئی " سے تیسوتن بيك سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کا ایک نمایاں وصف ہم نے یہ دیکھا ہے کہ آپ ہمیشہ مخالفین کے عقائد کا رد فرماتے ہوئے اُن کے عقائد کی بنیاد پر تبر رکھتے ہیں.کیونکہ اگر کسی عقیدہ کی بنیاد یا اصل ہی باطل ہو جائے تو اس پر کوئی عمارت نیم استوار ہو سکتی ہے اور نہ قائم رہ سکتی ہے.یہ باطل شکن خو بہ آپ نے کفارہ کی تردید میں بھی استعمال فرمایا ہے.عیسائی حضرات کفارہ کی غرض و نمائت یہ بیان کرتے ہیں کہ اس سے انسانوں کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں.اور ان کو نجات مل جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں کے اس دعوی کا مختلف.ه: لملفوظات جلد پنجم ص۲۹۲ سه ه : ملفوظات جلد دہم مل : 454 : چشمه سیحی صدا - در خ جلد ۲۰ :
احمد 2 پہلوؤں سے جائزہ لے کہ غلط قرار دیا ہے.کفارہ اور گناہوں کی معافی کے سلسلہ میں حضور نے جو دلائل بیان فرمائے ہیں وہ اس جگہ بیان ہوں گے.اس ضمن میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے سپنے پہلے یہ اصولی تجزیہ فرمایا ہے کہ کیا کفارہ اور گناہ کے درمیان کوئی تعلق بھی ہے یا نہیں.اور کیا عقلی اور منطقی طور پر یہ ممکن ہے کہ کفارہ پر ایمان لانے والوں کے گناہ بخشے جائیں حضور نے سبسے پہلے گناہ کی حقیقت اور فلاسفی بیان کی ہے.آپ فرماتے ہیں:.اگر روحانی فلاسفی کی رو سے گنہ کی حقیقت پر غورہ کی جائے تو اس تحقیق کی رو سے بھی یہ عقیدہ فاسد ٹھہرتا ہے کیونکہ گناہ در حقیقت ایک ایسا زہر ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان خدا کی اطاعت اور خدا کی پر جوش محبت اور محبانہ یاد الہی سے محروم اور بے نصیب ہو اور جیسا کہ ایک درخت جب زمین سے اکھڑ جائے اور پانی چوسنے کے قابل نہ رہے تو وہ دن بدن خشک ہونے لگتا ہے.اور اس کی تمام سر سبزی بر باد برباد.ہو جاتی ہے.یہی حال اس انسان کا ہوتا ہے جس کا دل انخدا تعالیٰ کی محبت سے اکھڑا اک ہوا ہوتا ہے.پس خشکی کی طرح گناہ اس پر غلیہ کرتا ہے ؟ اسے گویا گناہ ایک تاریخی خشکی اور لا تعلقی کا نام ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان خدا سے اپنے تعلق اور رشتہ کو توڑ لیتا ہے.ہر عقلمند انسان اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جب تک کسی بات کے سبب کو دور نہ کیا جائے مستب کے زائل ہونے کا سوال نہیں ہوتا.مثلاً تاریکی اس وقت تک دُور نہیں سکتی جب تک روشنی نہ آئے.بھوک اس وقت تک دُور نہیں ہو سکتی جب تک کچھ کھایا نہ جائے.اسی طرح پر گناہ بھی اس وقت تک دور نہیں ہو سکتا جب تک اسکی اصل سبب کو ختم نہ کیا جائے.پس عقلی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ گناہ کا علاج گناہ کے سبب کو دور کرتا ہے.حضورہ فرماتے ہیں :.اور گناہ کے دورہ کرنے کا علاج صرف خدا کی محبت اور عشق ہے کہ (۲) چونکہ گناہ کی خشکی لیے تعلیقی سے پیدا ہوتی ہے اس لئے اس خشکی کے دورہ کر نے کے لئے سیدھا علاج مستحکم تعلق ہے" سے (0) (۳) " اس خشکی کا علاج خدا کے قانون قدرت میں تین طور سے ہے.(۱) ایک محبت (۲) استغفا ر جب کسی معنے ہیں دبانے اور ڈھانکنے کی خواہش کیونکہ جب تک مٹی میں درخت لے: سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب صب.رخ جلد ۱۲ : ۲ : ايضا م : ١٥٣- الصامت : کا
۳۱۲ کی جڑ بھی رہے تب تک وہ سر سبزی کا امید ہ الہ ہوتا ہے.(۳) تیسرا علاج تو یہ ہے یعنی زندگی کا پانی کھینچنے کے لئے تذکل کے ساتھ خدا کی طرف پھرنا.اور اس کی اپنے تئیں نزدیک کرنا.بعضیت کے حجاب سے اعمال صالحہ کے ساتھ اپنے تئیں باہر نکالنا ہے (۴) دا گناہ کی فلاسفی یہی ہے کہ وہ خدا سے جدا ہو کر پیدا ہوتا ہے.لہذا اس کا دُور کرنا خدا کے تعلق سے وابستہ ہے.پس وہ کیسے نادان لوگ ہیں جو کسی کی خود کشی کو گناہ کا علاج کہتے ہیں.تے گناہ کی فلاسفی اور علاج کو بیان کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ استدلال فرمایا ہے کہ گناہ کا جو خلاج عیسائی حضرات بیان کرتے ہیں اس کا گناہ کی حقیقی فلاسفی اور اسکی علاج کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے.اس امر کو مثالوں سے واضح کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :.(۱) سے پہلے ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کفارہ میں اور گناہوں سے بچنے میں کوئی رشتہ بھی ہے یا نہیں ؟.جب ہم غور کرتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں میں با ہم کوئی رشتہ اور تعلق نہیں.مثلاً اگر ایک مریض کسی طبیب کے پاس آدے تو طبیب اس کا ط علاج کرنے کے بجائے اسے یہ کہد سے تو میری کتاب کا جز لکھد سے تیرا علاج یہی ہے تو کون عقلمند اس علاج کو قبول کرے گا.پس مسیح کے خون اور گناہ کے علاج میں اگر یہی رشتہ نہیں ہے تو اور کونسا رشتہ ہے.یا یوں کہو کہ ایک شخص کے سر میں درد ہوتا ہے.اور دوسرا آدمی اس پر رحم کھا کہ اپنے سر میں پتھر ماہ سے اور اس کے دردسر کا اُسے علاج تجویز کر ہے.یہ کیسی ہنسی کی بات ہے.پس ہمیں کوئی بتادے کہ عیسائیوں نے ہمارے سامنے پیش کیا کیا ہے جو کچھ وہ پیش کرتے ہیں.وہ تو ایک قابل شرم بناوٹ ہے.گناہوں کا علاج کیا ؟ " سے " وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ سنجات کا اصل ذریعہ گناہوں سے پاک ہوتا ہے اور پھر با وجود تسلیم اس بات کے گناہوں سے پاک ہونے کا حقیقی طریقہ بیان نہیں کرتے بلکہ ایک قابل شرم بناوٹ کو پیش کرتے ہیں حبس کو گناہوں سے پاک ہونے کے ساتھ کوئی حقیقی رشتہ نہیں ہے (۳) کفارہ کی اصل غرض تو یہ بتائی جاتی ہے کہ نجات حاصل ہو.اور نجات دوسرے الفاظ میں (۲) ہے: سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ملت ۳ جلد ۱۲ شه: - سراجدین عیسائی کے چار سوالوں اجواب سرخ سبلد :- :- ملفوظات جلد سوم ص : --: كتاب البرته من رخ جلد ۱۳+
- گناہ کی زندگی اور موت سے بچے جانے کا نام ہے مگر میں پوچھتا ہوں کہ خدا کیلئے مگر انصاف کر کے بتاؤ کہ گناہ کو کسی کی خود کشی سے فلسفیانہ طور پر کیا تعلق ہے.اگر مسیح نے نجات کا مفہوم یہی سمجھا اور گناہوں سے بچانے کا یہی طریق انہیں سوجھا تو پھر نعوذ باد ہم ایسے آدمی کو تو رسول بھی نہیں مان سکتے کیونکہ اس سے گنا ہ رک نہیں سکتے اے " (۳) انہوں نے گناہ سے پاک ہونے کا ایک پہلو سوچا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسی کو خدا اور خدا کا بیٹا مان لو اور پھر یقین کر لو کہ اس نے ہمارے گناہ اُٹھا لئے.اور وہ صلیب کے ذریعہ لعنتی ہوا.نعوذ باللہ من ذالک.اب غور کرو کہ حصول نبات کو اس طریق سے کیا تعلق ؟ گناہوں سے بچانے کے لئے ایک اور بڑا گناہ تجویز کیا کہ انسان کو خدا بنایا.گیا.کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور گناہ ہو سکتا ہے؟ پھر خدا بنا کر اسے معا ملعون بھی قرالہ دیا.اس سے بڑھ کر گستاخی اور بے ادبی اللہ تعالٰی کی کیا ہوگی ؟ ایک کھاتا پیتا حوائج کا محتاج خدا بنا لیا گیا.غرض عیسائیوں نے گناہ کے دُور کرنے کا جو علاج تجویز کیا ہے وہ ایسا علاج ہے جو بجائے خود گناہ کو پیدا کرتا ہے اور اس کو گناہ سے نجات پانے کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے؟ : " (A) یہ خیال کرگو یا حضرت علی علیہ السلام کے صلیب دئے جانے پر ایمان لانا او ران کوخدا سمجھنا انسان کے تمام گناہ معاف ہو جانے کا موجب ہے.کیا ایسے خیال سے توقع ہو سکتی با ہے کہ انسان میں سچی نفرت گناہ سے پیدا کر رہے.صاف ظاہر ہے کہ ہر ایک ضد اپنی ضد سے دور ہوتی ہے.سردی کو گرمی دور کرتی ہے اور تاریکی کے ازالہ کا علاج روشنی ہے.پھر یہ علاج کس قسم کا ہے کہ زید کے مصلوب ہونے سے بھر گناہ سے پاک ہو جائے اسے (4) ہمیں کچھ کچھ میں نہیں آتا کہ اس قسم کی مظلومانہ موت سے دوسروں کے دل گناہ کی فصلت سے کیونکر صاف اور پاک ہو سکتے ہیں.اور کیونکر ایک بے گناہ کے قتل ہونے : ملفوظات جلد سوم مشتت : - برا این احمدیہ حصہ پنجم صب.جلد ۲۱ + :- ملفوظات جلد ہشتم ص ۲۵
ام رستم سے دوسروں کو گذشتہ گناہوں کی معافی کی سند مل سکتی ہے" سے (6) انہوں نے گناہ سے پاک ہونے کا ایک پہلو سوچا ہے.اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسی کو خدا اور خدا کا بیٹا مان لو.اور پھر یقین کر لو.کہ اس نبی ہمار سے گناہ اُٹھا لئے اور وہ صلہ کے ذریعے لعنتی ہوا.نعوذ باللہ من ذالک.اب غور کرو کہ حصول نجات کو اس طریق سے کیا تعلق ہے کے اور آخر میں بطور خلاصہ فرمایا :- " جب ہم انجیل کی طرف آتے ہیں تو گناہ سے بچنے کے لئے صرف اس میں ایک غیر معقول طریق پاتے ہیں جس کو انزالہ گناہ سے کچھ بھی تعلق نہیں " سے پس ان حوالوں سے ظاہر ہے کہ عیسائیت کے پیش کر وہ طریق بنجات یعنی کفارہ کا گناہوں کی معافی کے ساتھ کوئی حقیقی اور درست تعلق نہیں ہے.گویا کفارہ سے گناہوں کی معافی کی امید رکھنا ایک طمع خام ہے جس کی کچھ حقیقت نہیں.پس اس دلیل سے ثابت ہوتا ہے کہ جب کفارہ کا گناہوں کی معافی سے کوئی تعلق نہیں تو یہ طریق نجات باطل ہے.اکتیسوتین دلیل گناہ کی معافی کے ضمن میں کفارہ کے رد میں اکتیسویں دلیل یہ ہے کہ عیسائی تو یہ کہتے ہیں کہ کفارہ پر یقین لانے سے انسان کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور پھر انسان گناہ نہیں کرتا لیکن جب ہم اصولی طور پر غور کرتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ باوجود کفارہ پر ایمان لانے کے لوگوں سے گناہ دُور نہیں ہوا اگر ہم ایک بھی ایسی مثال پیش کر دیں کہ کفارہ پر ایمان لانے کے بعد انسان سے گناہ سرزد ہوا تو اس سے کفارہ کا اصول باطل ہو جاتا ہے.چنانچہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے اس دلیل کو اس رنگ میں پیش فرمایا ہے کہ کفارہ دنیا میں گناہوں کے صدور کو روک نہیں سکا.حضرت مسیح علیہ السلام کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام لطیف رنگ میں تحریر فرماتے ہیں :- اس نے تمام کے گناہ اٹھا کہ پھر گناہ کیا کہ اس کو معلوم تھا کہ دکھا قبول نہ ہوگی مگر پھر اه : لیکچری ہور مکا ر خ جلد ۲۰ به سے لیکچر لدھیانہ نے جلد ۲۰ کے :- محمد کو
۳۱۵ بھی کرتا ہی رہا ہے عقیدہ کفارہ انسانوں کو گناہ سے بچا نہیں سکا.حضور علیہ السّلام تحریر فرماتے ہیں :- یہ جھوٹا کفارہ کسی کو نفسانی جذبات سے بچا نہیں سکتا اور خود مسیح کو بھی بچا نہ سکا.دیکھو وہ کیسے شیطان کے پیچھے پیچھے چلا گیا حالانکہ اس کو جانا مناسب نہ تھا...غرض کفارہ مسیح کی ذات کو بھی کچھ فائدہ نہ پہنچا سکا " ہے گویا ثابت ہوا کہ باوجود کفارہ پر ایمان لانے کے خود مسیح بھی گناہ سے محفوظ نہ رہ سکا.اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ کفارہ کا یہ اصول دوسرے انسانوں کے گناہ معاف کرنے کے لئے کتنا مفید اور کار گر ثابت ہو سکتا ہے.صرف حضرت مسیح علیہ السلام کی ذات کا سوال نہیں بلکہ یہ کفارہ نہ گذشتہ نبیوں کو گناہ سے روک سکا اور نہ حواریوں کو گناہ سے محفوظ رکھ سکا.ان سے بھی دعیسائی عقیدہ کے مطابق، برابر گناه صادر ہوتے رہے.چنانچہ حضور فرماتے ہیں :- بموجب عقیدہ عیسائیوں کے حضرت داؤد علیہ السلام بھی کفارہ میسوع پر ایمان لائے تھے لیکن بقول ان کے ایمان لانے کے بعد نعوذ باللہ حضرت داؤد نے ایک لیے گناہ کو قتل کیا اور اس کی جورو سے زنا کیا اور نفسانی کاموں میں خلافت کے خزانہ کا مال خرچ کیا اور منشور تک جو رو کی.اور اخیر عمر تک اپنے گناہوں کو تازہ کرتے رہے اور ہر رونہ کمال گستاخی کے ساتھ گناہ کا ارتکاب کیا.پس اگر یسوع کی معنی قربانی گناہ سے روک سکتی تو بقول ان کے داؤ د اس قدر گناہ میں نہ ڈوبتا.ایسا ہی میسوع کی تین نانیاں زنا کی بُری حرکت میں مبتدا ہوئیں.پس ظاہر ہے کہ اگر میسوع کی لعنتی قربانی پر ایمان لاتا اندرونی پاکیزگی پیدا کر نے کے لئے کچھ اثر رکھتا تو اس کی نانیاں ضرور اسی فائدہ اٹھائیں اور ایسے قابل شرم گناہوں میں مبتلا نہ ہوتیں.ایسا ہی میسوع کے حواریوں سے بھی ایمان لانے کے بعد قابل شرم گناہ سر زد ہوئے.یہودا اسکر یوٹی نے تین روپیہ پر یسوع کو بیچا اور پطرس نے سامنے کھڑے ہو کر تین مرتبہ سیوع پر لعنت بھیجی اور باقی سب بھاگ گئے اور ظاہر ہے کہ نبی پر لعنت بھیجنا سخت گناہ ہے." نیز نر مایا : 14 ه ست بچن ما روحانی خزائن جلد ۱۰ + :- ملفوظات جلد چهارم ص : : سراجدینے عیسائی کے چار سوالوں کا جواب منا، ملا جلد ۱۲ :
ایما " پھر جب دیکھتے ہیں کہ یسوع کے کفارہ نے حواریوں کے دلوں پر کیا اثر کیا.کیا وہ اس پر ایمان دلوں لا کہ گناہ سے بانہ آگئے تو اس جگہ بھی بچی پاکیزگی کا خانہ خالی ہی معلوم ہوتا ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ وہ لوگ سولی ملنے کی خبر کو سن کر ایمان لا چکے تھے لیکن پھر بھی نتیجہ یہ ہوا کہ یسوع کی گرفتاری پر پطرس نے سامنے کھڑے ہو کہ اس پر لعنت بھیجی باقی سب بھاگ گئے اور کسی کے دل میں اعتقاد کا نوکر باقی نہ رہا ہے ان سب مقالوں کو بیان کرنے کے بعد حضور نے استدلال فرمایا ہے کہ :.؟ ان تمام واقعات سے بکمالی صفائی ثابت ہوتا ہے کہ لعنتی قربانی گناہ سے روک نہیں سکی ہے ان مذکورہ بالا حوالہ جات سے عیسائیوں کا یہ اصول سراسر باطل اور خلاف واقعہ ثابت ہوتا ہے کہ کفارہ پر ایمان لانے سے گناہوں کا صدور رک جاتا ہے.پس ثابت ہوا کہ جب یہ اصول باطل ہے تو نہ کفارہ کی کوئی ضرورت ہے اور نہ فائدہ.لہذا کفارہ ہے کا ر ہے.اگرچہ یہ بات دلائل سے ثابت نہیں ہوتی کہ کفارہ سے گناہ رک جاتے ہیں لیکن اگر ہم بغیر کسی دلیل کے وقتی طور پر یہ فرض بھی کرلیں کہ ایسا ہو جاتا ہے یعنی کفارہ سے گناہ دُور ہو جاتے ہیں تو انسانی اخلاق کے اعتبار سے یہ بات کوئی خاص قابل تعریف نہیں کہ کسی انسان میں گناہ نہیں ہیں.یہ ایک منفی پہلو ہے.اصل نیکی تو یہ ہے کہ وہ مثبت طور پر نیک اعمال بجالائے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اخلاقی معیار کے اس پہلو سے بھی کفارہ پر تنقید فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں :- " صرف ترک سے وصول نہیں ہوتا کیونکہ ترک مستعلام وصول نہیں......ترک معاصی اور شے ہے اور نیکیوں کا حصول اور قرب الہی دوسری شے ہے.عیسائیوں نے بھی اس معاملہ میں بڑا دھوکا کھایا ہے کہ میسوع کے پھانسی ملنے سے ہمارے گناہ دُور ہو گئے.اول تو یہ بات ہی غلط ہے کہ ایک شخص کا پھانسی مناسب کے گناہ دور کر د ہے.دوم اگر گناہ دُور بھی ہو جاویں تو صرف گناہ کا موجود نہ ہونا کوئی خوبی کی بات نہیں ہے.بہت کیڑے مکوڑے اور بھیڑ بکریاں دنیا میں موجود ہیں جن کے ذمہ کوئی گناہ نہیں لیکن وہ خدا کے مقربوں میں شمار نہیں ہو سکتے اور ایسا ہی کثرت سے اس قسم کے ایلہ اور سادہ لوح لوگ موجود ہیں جو کوئی گناہ نہیں کرتے نہ چوری ، نہ نہ نا، نہ جھوٹ ، نہ بد کاری نہ خیانت لیکن ان گناہوں کے نہ کرنے کے سبب وہ مقربانِ الہی میں شمار نہیں ہو سکے " سے کا ه : ست بین ملک جلد ا ب سے :- سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ملا جلد ۱۲ باشه ، ملفوظات جلد نهم مش ۲۹
۳۱۷ پس ثابت ہوا کہ کفارہ کا اصول انسانی اخلاقیات کے بند عیار پر ہرگز پورا نہیں اترتا ہے.اور اگر بالفرض یه اصول درست بھی ہو تو تب بھی فخر سے دوسروں کے سامنے پیش کرنے کے لائق نہیں ہے.یون دليل گذشتہ دلیل کے ضمن میں ہم نے یہ دیکھنا تھا کہ کفارہ کے بعد بھی گناہوں کا اتر تکاب ہوا.اور کفارہ نے کہ گناہوں کو ختم کرنے میں ناکام رہا.لیکن کفارہ کے پیدا کردہ نتائج اسی پر بس نہیں ہوتے کہ جس طرح کفارہ " سے قبل گناہ ہوا کرتے تھے اسی طرح کفارہ کے بعد بھی گناہ ہوتے رہے بلکہ کفارہ کا نتیجہ اس سے بھی بڑھ کہ یہ نکلا ہے کہ دنیا میں گناہوں کی بہت کثرت ہو گئی ہے.کفارہ سے قبل اگر گناہ کم تھے تو اب کفارہ کے بعد تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے گناہوں کے دریا کا بند ٹوٹ پڑا ہے.گناہوں کی اتنی کثرت ہے کہ انسانی عقل حیران اور انسانی شرافت شرمسار ہے.یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس کو ہر شخص حتی کہ پادری بھی تسلیم کر نے پر مجبور ہیں.اس امر پہ کوئی دلیل لانے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ انسانی مشاہدہ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کفارہ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے گناہوں اور ان کی کثرت کو کفارہ کی تردید میں بار بار پیش فرمایا ہے.حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر کفارہ پر ایمان نزنے کے بعد گناہوں کے بڑھنے اور بڑھتے چلے جانے کی یہی حالت ہے تو پھر ہر شریف انسان ایسے فرضی ذریعہ نجات سے نفرت کرے گا.عیسائی حضرات خود بھی اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ کفارہ کی صداقت کا اندازہ اس ذاتی تجر ہے اور عملی فائدہ سے لگایا جا سکتا ہے جو عام انسان محسوس اور معلوم کرتے ہیں.ایک پادری لکھتے ہیں :." ہمیں گذشتہ زمانے کے تصورات کو ضرور استعمال کرنا چاہیئے اور اگر چہ یہ تمام تصورات ناکافی ہیں تو بھی ان سے سچائی کا کوئی نہ کوئی عنصر ضرور ہوتا ہے لیکن اسکی علاوہ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ کفارہ کی سچائی ہمار سے ذاتی تجربے میں کسی طرح کام کہ یہ ہی ہے یہ ہے چنانچہ کفار کے جو علی نتائج اثرات اور تجربات حاصل ہوئے ہیں ان کا بیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں یوں ہے.حضور علیہ السلام اصولی طور پر فرماتے ہیں :- صلیبی نسخہ کا غلط ہونا خود صلیب پرستوں کے حالات سے واضح ہو سکتا ہے یا کہ اور پھر خاص طور پر کفارہ کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : - (1) جائے افسوس تو یہ ہے کہ جس غرض کے لئے یہ نیا منصوبہ بنایا گیا تھا یعنی گناہ سے وار مسیحی زندگی میں انجیل کا تجزیہ ص : ه : براہین احمدیہ حصہ پنجم م - جلد ۲۱ ؟
۳۱۸ نجات پانا اور دنیا کی گندی زندگی سے رہائی حاصل کرنا وہ غرض سبھی تو حاصل نہیں ہوئی کہ ہے "پھر جب اس عقیدہ کو اس پہلو سے دیکھا جائے کرباوجود یکہ توریت کی متوارث اور قدیم تعلیم کی مخالفت کی گئی اور ایک کا گناہ دوسرے پر ڈالا گیا اور ایک راستبانہ کے دل کو لعنتی اور خدا سے دور اور مہجور اور شیطان کا ہم خیال ٹھہرا یا گیا.پھر ان سب خرابیوں کے ساتھ اس لعنتی قربانی کو قبول کرنے والوں کے لئے فائدہ کیا ہوا.کیا وہ گناہ سے باز آگئے یا ان کے گناہ بجٹے گئے تو اور بھی اس عقیدہ کی عضویت ثابت ہوتی ہے.کیونکہ گناہ سے بازہ آیا اور بیچی پاکیزگی حاصل کرنا تو بہداہت خلاف واقعہ ہے کہ ہے (۳) "عیسائی ہو کر رہ سے پہلی نیکی شراب پینا ہے اور پھر آگے جوں جوں ترقی کرے گا اور اپنے کمال کو پہنچے گا تو کفارہ پر ایمان لاوے گا اور یقین کر لے گا کہ شریعت لعنت ہے اور کہ حضرت مسیح ساری امت کے گناہوں کے بدلے پھانسی پا کہ ہمارے گناہوں کا کفارہہ ہوچکا ہے پھر گناہ کر ے گا اور پیٹ بھر کر کہ سے گا اور اسے کسی کا خوف نہ ہو گا.اور خوف کر ہو تو کیسے ؟ کیا مسیح ان کے لئے پھانسی نہیں دیا گیا ؟ بھلا کفارہ ایسی بے ہودہ تعلیم سے بجز نا پاک زندگی کے.......اور حاصل ہی کیا ؟ سے (۴) یورپ کے ذکر پہ فرمایا :- " بتاؤ کون سا پہلو گناہ کا ہے جو نہیں ہوتا.سب سے بڑھ کر زنا تو رات میں لکھا ہے.مگر کہ دیکھو کہ یہ سیلاب کس زور سے ان قوموں میں آیا ہے جن کا یقین ہے کہ مسیح ہمارے سے لئے مرا ہے.(۵) اس اصول کا اللہ در حقیقت بہت بڑا پٹڑ تا ہے.اگر یہ اصول نہ ہوتا تو یورپ کے ملکوں سی بڑا پڑتا میں اس کثرت سے فسق و فجور نہ ہوتا اور اس طرح پر بدکاری کا سیلاب نہ آنا جیسے اب آیا ہوا ہے.لندن اور پیرس کے ہوٹلوں اور پارکوں میں جاکر دیکھو کیا ہو رہا ہے.اور ان لوگوں سے پوچھو جو وہاں سے آتے ہیں.آئے دن اخبارات میں ان بچوں کی فہرستیں جن کی ولادت تا جائز ولادت ہوتی ہیں شائع ہوتی ہیں.ہے (4) یورپ میں کتوں اور کھتیوں کی طرح زنا کاری ہو رہی ہے.شراب کی کثرت شہوتوں کو ایک خطرناک جوش دے رہی ہے اور حرامی بچے دیکھوں تک پہنچے گئے ہیں.یہ کس بات کا نتیجہ : بیکچر سیالکوٹ ۲۵۰ جلد ۲۰ : سے : سراج دین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب منا جلد ۱۲ : - ملفوظات جلد دهم ۲۳۶۳۳۵ که ملفوظات جلد سوم ها به شه : ملفوظات جلد اول مشا 144 :.
٣١٩ (4 او ہے.اسی مخلوق پرستی اور کفارہ کے پر غریب مسئلہ کا " لے گناہ سے روکنے کا اب تک یہ حال ہے کہ خاص یورپ کے محققین کے اقراروں سے یہ ثابت ہے کہ یورپ میں حرامکاری کا اس قدر نور ہے کہ خاص لنڈن میں ہر سال ہزاروں حرامی بچے پیدا ہوتے ہیں اور اس قدر گند سے واقعات یورپ کے شائع ہوتے ہیں کہ کہتے ننے کے لائق نہیں.شراب خوری کا اس قدر زور ہے کہ اگر ان دوکانوں کو ایک خط سے میں باہم رکھ دیا جاہ سے تو شاید ایک مسافر کی دو منزل طے کرنے تک بھی وہ دوکانیں ختم نہ ہوں.عبادات سے فراغت ہے اور دن رات سوا عیاشی اور دنیا پرستی کے کام نہیں.پس اس تمام تحقیقات سے ثابت ہوا کہ میسور کے مصلوب ہونے سے اس پر ایمان لانے والے گناہ سے روک نہیں سکے بلکہ جیسا کہ بند ٹوٹنے سے ایک تیز دھارہ دریا کا پانی ارد گرد کے دیہات کو تباہ کر جاتا ہے ایسا ہی کفارہ پر ایمان لانیوالوں کا حال ہو رہا ہے کہ ان حوالوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کفارہ کے نتیجہ میں گناہ رکھنے یا کم ہونے کی بجائے اور بھی زیادہ ہو گئے ہیں.ان واقعات کی موجودگی میں یہ کہنا ہرگزہ غلط نہ ہوگا کہ کفارہ کا یہ اصول ایک باطل ، بیکارہ اور ہے جس کا ایک ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں.کیونکہ اس نجی گناہوں کو پہلے ہے فائدہ بلکہ نقصان دہ ام سے بھی زیادہ کہہ دیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کفارہ کے نتیجہ میں گناہوں کے بڑھ جانے کا ثبوت ایک اور رنگ میں بھی دیا ہے.آپ نے یہ موانہ نہ فرمایا ہے کہ کفارہ سے پہلے گناہوں کی کیا حالت تھی اور کفارہ کے بعد کیا ہے آپ فرماتے ہیں :- ()) " اس نسخہ کا جو اثر ہوا ہے وہ تو بہت ہی خطرناک ہے.جب تک یہ نسخہ ستعمال نہیں ہوا تھا اکثر لوگ نیک تھے اور تو یہ اور استغفار کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلنے کی کوشش کر تے تھے مگر جب یہ نسخہ گھڑا گیا کہ ساری دنیا کے گناہ خدا کے بیٹے کے پھانسی پانے کے ساتھ معاف ہو گئے تو اس کی بجائے اس کے کہ گناہ رکھتا ، گناہ کا ایک اور سیلاب جاری ہو گیا اور وہ بند جو اس سے پہلے خدا تعالیٰ کے خوف اور شریعت کا لگا ہوا تھا ٹوٹ گیا" کے جب تک مسیح نے خود کشی کا ارادہ نہیں کیا تھا تب تک عیسائیوں میں نیک چلیتی اور خدا پرستی ه ست بچن حاشیه ص ۱۶ جلد ۱۰ : اه : -:: ملفوظات جلد هفتم (AL ۱۵۲- ست بچن صلا ، ص۱۷ جلد ۱۰ : سه
۳۲۰ کا مادہ تھا مگر صدیہ کے بعد تو جیسے ایک بند ٹوٹ، کہ ہر ایک طرف دریا کا پانی پھیل جاتا ہے یہی عیسائیوں کے نفسانی جو شوں کا حال ہوا " لے ج سراسر کفارہ سے پہلے جیسے حواریوں کی صاف حالت تھی اور وہ بنیا اور دنیا کے درہم و دینار سے کچھ غرض نہ رکھتے تھے اور دنیا کے گندوں میں پھنسے ہوئے نہ تھے اور ان کی کوشش دنیا کے کمانے کے لئے نہ تھی اس قسم کے دل بعد کے لوگوں کے کفارہ کے بعد کہاں ر ہے.خاص کہ اس زمانہ میں جسقدر کفارہ اور خون سیح پر زور دیا جاتا ہے اسی قدر عیسائیوں میں دنیا کی گر فتاری بڑھتی جاتی ہے.اور اکثر ان کے ایک مخمور کی طرح - دن رات دنیا کے شغل میں لگے رہتے ہیں اور اس جگہ دوسر سے گناہوں کا ذکر کرنا جو یورپ میں پھیل رہے ہیں خاص کر شراب خوری اور بدکاری اس ذکر کی کچھ حاجت نہیں " ته و سمین) " جس غرض کے لئے خود کشی اختیار کی گئی وہ غرض بھی تو پوری نہ ہوئی.غرض تو یہ تھی کہ یسوع کو ماننے والے گناہ اور دنیا پرستی اور دنیا کے لالچوں سے بانہ آجائیں مگر نتیجہ برعکس ہوا.اس خود کشی سے پہلے تو کسی قدر یسوع کے ماننے والے رو بخدا بھی تھے مگر بعد اسکی جیسے جیسے خود کشی اور کفارہ کے عقیدہ پر زور دیا گیا اسی قدر دنیا پرستی اور دنیا کے لالچ اور دنیا کی خواہش اور شراب خوری اور قمار بازی اور بد نظری اور ناجائز تعلقات عیسائی قوم میں بڑھ گئے.جیسے ایک خونخوار اور تیزیر و دریا جو ایک بندر لگایا گیا تھا وہ بند یکدفعہ ٹوٹ جائے اور ارد گرد کے تمام دیہات اور زمین کو تباہ کر د سے ا سکے اس موازنہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کفارہ کے نتیجہ میں گناہوں کی اور زیادہ کثرت ہو گئی ہے اور جو تھوڑی بہت نیکی پہلے موجود بھی تھی کفارہ کے نتیجہ میں آنے والا گناہوں کا سیلاب اس کو بھی بہا کر لے ✔ کیا گناہوں کی اس کثرت کو دیکھ کر پھر بھی کوئی عیسائی یہ دعوی کر سکتا ہے کہ کفارہ سے گناہ ختم ہو جاتے ہیں ؟ ہر گنہ کوئی انصاف پسند عیسائی ایسا نہیں کر سکتا کفارہ کا جوانہ ثابت کرنے کے لئے عیسائی حضرات ایک اور تاویل کیا کرتے ہیں کہ کفارہ سے گناہ اور ڑکتے تو نہیں مگر معاف ضرور ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ سلام نے اسکا بھی ٹھوس جواب تحریر فرمایا ہے.آپ نے فرمایا : - - مه سے چشم مسیحی ملت ۱۷ جلد ۲۰ شده: لیکچر سیالکوٹ مٹ جلد ۲۰ که در حقیقة الوحی من ۲۲ جلد ۲۲ به : 14
۳۲۱ " دوسرا شق یہ ہے کہ اگر گناہ رک نہیں سکتے تو کیا اس لعنتی قربانی سے ہمیشہ گناہ بخشے جاتے ہیں.گویا یہ ایک ایسا نسخہ ہے کہ ایک طرف ایک بدمعاش ناحق خون کر کے یا چوری کر کے یا جھوٹی گواہی سے کسی کے مال یا جان یا آبرو کو نقصان پہنچا کہ اور یا کسی کے مال کو غین کے طور پر دبا کر اور پھر اس لعنتی قربانی پر ایمان لاکرہ خدا کے بندوں کے حقوق کو ہضم کر سکتا ہے اور ایسا ہی زنا کاری کی ناپاک حالت میں ہمیشہ رہ کر صرف لعنتی قربانی کا اقرار کر کے خدا تعالیٰ کے قہری مواخذہ سے پہنچ سکتا ہے بس صاف ظاہر ہے کہ ایسا ہر گنہ نہیں..تینتیسویں دلیل کفارہ کے خلاف سید نا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے ایک نہایت زیر دست دلیل یہ پیش بیه فرمائی ہے کہ کفارہ کے نتیجہ میں اس بات کا کوئی امکان بھی باقی نہیں رہتا کہ کوئی ایسا نیک اعمال بجالائے کیونکہ کفارہ کی تعلیم کے مطابق نیک اعمال انسان کو نجات نہیں دیتے بلکہ کفارہ پر ایمان اس کو نجات دیتا ہے پس ان کے نزدیک اس کفارہ کے نتیجہ میں نیک اعمال کی ضرورت باطل ہو جاتی ہے.اور اس طرح انسان شکست نیز مایوس ہو جاتا ہے.دوسری طرف یہ خیال کہ یسوع مسیح ہمار سے سب گناہوں کا کفارہ ہو گئے ہیں اب ہم سے کوئی گرفت نہ ہوگی مسیحیوں کو گنا ہوں پر دلیر اور بے باک کرتا ہے اور ان کو جرات دلاتا ہے کہ وہ جو چاہیں کریں.پس آپ نے کفارہ کے رد میں یہ دلیل پیش فرمائی ہے کہ اسکی ذریعہ گناہ معاف ہونے یا نجاست طنے کا کیا سوال، اس سے تو مزید گناہ کی جرأت اور تحریک پیدا ہوتی ہے اور عاقبت کا ڈر انسان کے دل سے نکل جاتا ہے.پس کفارہ کا اصول گناہ کو دور نہیں کرتا بلکہ اور گناہ پیدا کرتا ہے لہذا باطل ہے.آپ فرماتے ہیں.ا، عیسائیوں نے گناہ کے دُور کرنے کا جو علاج تجویز کیا ہے وہ ایسا علاج ہے جو بجائے خود گناہ کو پیدا کرتا ہے اور اس کو گناہ سے نجات پانے کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے انہوں نے گناہ کے دور کرنے کا علاج گناہ تجویزہ کیا ہے جو کسی حالت اور صورت میں مناسب نہیں " سے اگر کوئی یہ کہے کہ کفارہ پر ایمان لانے سے انسان گناہ کی نہ نارگی سے نجات پاسکتا ہے اور گناہ کی قوت اس میں نہیں رہتی تو یہ ایک ایسی حالت ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں ہے اسلئے کہ یہ رہتی اصول ہی اپنی جڑھ میں گناہ رکھتا ہے ، گناہ سے بچنے کی قوت پیدا ہوتی ہے.مواخذہ الہی کے (+) - سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ملا جلد ۱۲ : ه:- لیکچر لدھیانہ صدا - جلد ۲۰ :
: خوف سے لیکن وہ خوف کیونکہ ہو سکتا ہے جبکہ یہ مان لیاجا و سے کہ ہمار سے گناہ یسوع نے اُٹھا لئے ہے لیا جاؤ " عیسائی اپنے اصول کے موافق اعمال صالحہ کو کچھ چیز نہیں سمجھتے اور ان کی نظر میں یسوع کا کفارہ نجات پانے کے لئے ایک کافی تدبیر ہے لیکن ہم ثابت کر چکے ہیں کہ یسوع کا کفارہ نہ تو عیسائیوں کو بدی سے بچا سکا اور نہ یہ بات صحیح ہے کہ کفارہ کی وجہ سے ہر ایک بدی ان کو حلال ہوگئی یہ ہے (۳) ایسے عقیدوں سے حقیقی نیکی کب اور کس طرح حاصل ہو سکتی ہے جس میں انسانوں کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ صرف خون مسیح پر ایمان لاؤ اور پھر اپنے دلوں میں سمجھ لو کہ گناہوں سے پاک ہو گئے.یہ (A) (A) کسی قسم کا پاک ہوتا ہے جس میں تنہ کیۂ نفس کی کچھ بھی ضرورت نہیں تے عیسائی قوم....عملی طور پر آگے قدم نہیں بڑھا سکتی کیونکہ کفارہ نے مجاہدات اور سعی اور کوشش سے روک دیا ہے " سچ تو یہ ہے کہ مسیح کی خودکشی کے خیال نے ان کو ہلاک کر دیا اور جس قدر توریت کے احکام باد کاریوں سے بچنے کے متعلق اور نیک راہوں پر جینے کے تھے کنارہ نے سب سے فراغت کر دیا ھے کر کفارہ کا مسئلہ مان کر پھر حقوق العباد کے اتلاف سے بچنے کے لئے کوئی وجہ ہی نہیں مل سکتی ہے کیونکہ جب یہ مان لیا گیا ہے کہ مسیح کے خون نے گناہوں کی سیاست کو دور کر دیا ہے اور دھو دیا ہے.حالانکہ عام طور پر بھی خون سے کوئی نجاست دور نہیں ہو سکتی ہے تو پھر عیسائی بتائیں کہ وہ کونسی بات ہے جو حقیقت میں انہیں روک سکتی ہے کہ وہ دنیا میں فساد نہ کریں اور کیونکر یقین کہیں کہ چوری کرنے ، بے گانہ مال لینے ، ڈاکہ زنی خون کرنے جھوٹی گواہی دینے پر کوئی سزا ملے گی.گر با وجود کفارہ پر ایمان نے کے بھی گناہ ، گناہ ہی ہیں تومیری سمجھ میں نہیں آتا کہ کفارہ کے کیا معنی ہیں اور عیسائیوں نے کیا پایا ہے - " اصل میں اس کفارہ کی وجہ سے ہی دنیا میں گناہوں کی کثرت ہو رہی ہے.مگر جب عیسائیوں کو کہا جاتا ہے کہ کفارہ نے دنیا میں گناہ پھیلایا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ کفارہ صرف نجات کے لئے ہے ورنہ جب تک انسان پاک نہ ہو اور گنا ہوں سے پر ہیز نہ کر تا ہو کفارہ کچھ نہیں مگر جب انہی لوگوں کی طرف دیکھا جاتا ہے جو اس قول کے کہنے والے سے :- لملفوظات جلد اول 129-140 : :- لیکچر سیالکوٹ مل جلد ۲۰: ه : کتاب البرية من جلد ۱۳ : :: که حقیقة الوحی من جلد ۲۲ : - : نور القرآن ا ح حاشیہ، جلد و ه: ملفوظات جلد سوم مات و 1
: : ۳۲۳ (4) تو معلوم ہوتا ہے کہ طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا ہیں.ایک دفعہ ایک پادری گندگی کی وجہ سے پکڑا گیا تو اس نے جواب دیا کہ کفارہ ہو چکا ہے.اب کوئی گناہ نہیں.اگر کفارہ گناہ کرنے سے نہیں بیچاتا تو اس کا کیا فائدہ ؟ چنانچہ اس کا جواب عیسائی کچھ نہیں دے سکتے یا لے خود نمیسائیوں نے اس امر کو قبول کیا ہے کہ عیسائیت کے ذریعہ بہت سی بد اخلاقیاں دنیا میں پھیلی ہیں کیونکہ جب انسان کو تعلیم ملے کہ اس کی گناہ کسی دوسرے کے ذمہ ہو چکے تو وہ گناہ کرنے پر دیر سو جاتا ہے اور گناہ نوع انسان کے لئے ایک خطرناک زہر ہے جو عیسائیت نے پھیلائی ہے اس صورت میں اس عقیدہ کا ضرر اور بھی بڑھ جاتا ہے.لہ " عیسائی قوم کے واسطے کفارہ کی جو اہ کھلی ہے اسکی ذریعہ سے اس قوم میں کونسا گناہ ہے جو جرأت اور دلیری سے نہیں کیا جاتا ؟ اور وہ کونسی بدی ہے جس کسی کرنے سے کسی عیسائی کو کوئی روک پیدا ہو سکتی ہے ؟ اصل میں کفارہ کا عقیدہ ہی ان میں ایسا ہے کہ سارہ سے حرام ان کے واسطے حلال ہو گئے ورنہ کفارہ باطل ہوتا ہے کہ ملے J (۱۱) ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک پادری زنا کے جرم میں پکڑا گیا.عدالت میں جب اس سے سوال ہوا تو انھی بڑی دلیری اور جرأت سے کہا کہ کیا مسیح کا خون میرے واسطے کافی نہیں ہو چکا ؟ غرض ان کا کفارہ ہی تمام بدیوں کی جڑ ہے.سے وندور ) " جب یہ کہا جہاد سے کہ انسان اعمال سے نجات نہیں پاسکتا تو یہ اصول انسان کی بہت اور رسمی کو بہت کم دے گا اور اس کو بالکل مایوس کر کے لیے دست و پا بنا دیگا.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کفارہ کا اصول انسانی قوی کی بھی بے حرمتی کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالے نے انسانی تقوی میں ایک ترقی کا مادہ رکھتا ہے لیکن کفارہ اس کو ترقی سے روکتا ہے...کفارہ کا اعتقاد رکھنے والوں کے حالات آزادی اور بے قیدی کے جو دیکھتے ہیں تو یہ اسی اصول کی وجہ سے ہے کہ کتے اور کشتیوں کی طرح بدکاریاں ہوتی ہیں.لنڈن کے ہائیڈ پارک میں علانیہ بدکاریاں ہوتی ہیں اور حرامی بچے پیدا ہوتے ہیں کا ہے "کمالات تو انسان کو مجاہدات سے حاصل ہوتے ہیں.مگر جن کو سہل نسخہ مسیح کے خون کامل گیا وہ کیوں مجاہدات کریں گے.اگر مسیح کے خون سے کامیابی ہے تو پھر ان کے لڑکے امتحان پاس رسور 146-144 من : ملفوظات جلد دہم - ۱۹ به سه : محفوظات جلد ہشتم من به سه : ملفوظات جلد دهم مش ۲۲ و ۳۱۹-۳۱۸ : ه: جلد اول
*** کرنے کے واسطے کیوں مدرسوں میں محنتیں اور کوششیں کرتے ہیں.چاہیے کہ وہ صرف میسیج کے خون پر بھروسہ رکھیں اور اسی سے کامیاب ہو دیں اور کوئی محنت نہ کریں.اور مسلمانوں اور کے بچے محنتیں کر کر کے اور ٹکریں مار مار کے پاس ہوں.اصل بات یہ ہے لیس للانسان إلا ما سعی.......جب خون مسیح پر مدار ہے تو مجاہدات کی کیا ضرورت ہے.انکی جھوٹی تعلیم سمی ترقیات سے روک رہی ہے.....ان لوگوں کو جو ولایت میں خوب سیج پر ایمان لاکر بیٹھتے ہیں کوئی پوچھے کہ کیا حاصل ہوا.مردوں اور عورتوں نے خون پر ایمان لاکر کیا ترقی کی لے (۱۴) " عیسائی لوگ......اعمال میں مستعد نہیں ہوسکتے.کیونکہ کفارہ کا مسئلہ جب ان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ مسیح نے ان کے سارے گناہ اٹھا لئے.پر مجھ میں نہیں آتا کہ وہ کونسی چیز ہو سکتی ہے جو ان کو اعمال کی طرف متوجہ کرے.اعمال کا مدعا تو نجات ہے اور یہ انکو با شقت محنت صرف خونِ مسیح پر ایمان رکھنے سے کہ وہ ہمارے لئے مر گیا ، ہمارے گناہوں کے بدا لعنتی ہوا.مل جاتی ہے تو اب نجات کے سوا کیا چاہیے.پھر ان کو اعمال حسنہ کی ضرورت کیا باقی رہی.اگر کفارہ پر ایمان لاکر بھی نجات کا خطرہ اور اندیشہ پاتی ہے تو یہ امر دیگر ہے کہ اعمال کئے جائیں لیکن اگر نجات خون سیح کے ساتھ ہی وابستہ ہے تو کوئی عقلمند نہیں مان سکتا کہ پھر ضرورت اعمال کی کیا باقی ہے" سے (۱۵) " در حقیقت صلیبی اعتقاد ایک ایسا عقیدہ ہے جو ان لوگوں کو خوش کر دیتا ہے جو سچی پاکیزگی حاصل کرنا نہیں چاہتے اور کسی ایسے نسخہ کی تلاش میں رہتے ہیں کہ گندی زندگی بھی ہے موجود ہو اور گناہ بھی معاف ہو جائیں.لہذا وہ باوجود بہت سی آلودگیوں کے خیال کر لیتے ہیں کہ فقط خونِ مسیح پر ایمان لانے سے گناہ سے پاک ہو گئے.مگر یہ پاک ہونا در حقیقت ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک پھوڑا جو پیسے بھرا ہوا ہو اور باہر سے چمکتا ہوا نظر آئے" سے (14) ”میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جب کفارہ کا عقیدہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے مواخذہ کا خوف رہ کیو کر سکتا ہے؟ کیا سچ نہیں ہے کہ ہمارے گناہوں کے بدلے مسیح پر سب کچھ والہ دہو گیا.یہاں تک کہ اسے معنون قرار دیا اور تین دن تصاویہ میں رکھا.ایسی حالت میں اگر گناہوں کے بد سے سزا ہو تو پھر کفاریہ کا کیا فائدہ ہوا.اصول کفارہ ہی چاہتا ہے کہ گناہ کیا جائے.۱۵- ملفوظات جلد چهارم مه ۴۳ - ۲۲۶ به - ملفوظات جلد چهارم من : و براہین احمدیہ حصہ پنجم مٹ جلد ۲۱ ؛
۳۲۵ (14) اصول بطور ماں کے ہوتے ہیں اور اعمال بطور اولاد کے جب سیسے کفارہ ہو گیا ہے اور اس نے تمام گناہ ایمان لانے والوں کے اُٹھا لئے.پھر کیا وجہ ہے کہ گناہ نہ کئے جائیں......جب یہ اصول قرار دیدیا کہ سب گناہ اُس نے اُٹھا لئے.پھر گناہ نہ کرنے کے لئے کونسا امر مانع ہو سکتا ہے" سے اور خون بیج اور کفارہ کا ایک ایسا مسئلہ ہے جسنجی ان کو نہ صرف تمام مجاہدات ریاضات سے فارغ کر دیا ہے بلکہ اکثر دلوں کو گناہوں سے ان تکاب پر ایک دلیری کبھی پیدا ہو گئی ہے.کیونکہ جبکہ عیسائی صاحبوں کے ہاتھ میں قطعی طور پر گناہوں کے بخشے جانے کا ایک نسخہ ہے یعنی خون مسیح تو صاف ظاہر ہے کہ اس نسخہ نے قوم میں کیا کیا نتائج پیدا کئے ہوں گے اور کس قدر نفس امارہ کو گناہ کرنے کے لئے ایک جرات پر آمادہ کر دیا ہو گا.اس نسخہ نے جس قدر یورپ اور امریکہ کی علی پاکیزگی کو نقصان پہنچایا ہے.میں خیالی کرتا ہوں کہ اسکی بیان کرنے کی مجھے ضرورت نہیں : 1 " کفارہ کا مسئلہ کچھ ایسا ان کی انسانی قوتوں پر فالج کی طرح گیا کہ بالکل نماد یہ ہے جی کر دیا.اب اس قوم کے کفارہ کے بھروسہ پر یہان تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ اچھا مال ملن بھی ان کے نزدیک بے ہودہ ہے.......اب معلوم ہوا کہ عیسائیوں کا بے باک ہو کہ بدلیوں میں پڑنا اسی اصول کی تحریک سے ہے بلکہ اس اصول کی بناء پر قتل و نیز حلف دروغی سب کچھ کر سکتے ہیں کفارہ جو کافی اور ہر ایک بدی کا مٹانے والا ہو، جیف ایسے دین و مذہب پر اسے الغرض ان اٹھارہ منتخب حوالہ جات سے یہ امر پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ کفارہ کے نتیجہ میں عیسائی بہت زیادہ معاصی کا شکار ہو چکے ہیں.آج مغربی اقوام کی اخلاقی پستی اور جنسی بے راہروی نہ بان حال سے کفارہ کے مہلک اور تباہ کن اصول کا ماتم کر رہی ہے.پس اس تباہی کو دیکھ کہ اس کے اصلی سبب یعنی کفارہ کے باطل اور نقصان دہ ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا.یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دلیل کو صرف اس حد تک بیان نہیں فرمایا کہ واقعات کفارہ کے بطلان پر گواہ ہیں اگرچہ اکیلا یہ ایک امر ہی ابطال کفارہ کے لئے کافی یونکہ واقعات کا انکار ممکن نہیں بلکہ خدا کے روحانی پہلوان حضرت کا سر صلیب مسی مود علیہ : ملفوظات جلد اول ۱۲-۱۵ : + تے :.منن الرحمن ص حاشیہ جلد 9 : 10- نسیم دعوت ص - جلد ۱۹ به من
۳۲۶ نے عیسائیوں پر اتمام محبت کے لیے ایک اور طریق بھی اختیار فرمایا اوروہ یہ کہ آپ نے عیسائیوں کو اس بات کی دعوت دی کہ تم میں سے جو شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ کفارہ پر ایمان لانے سے ایک خاص رھاتی زندگی نصیب ہوتی ہے.ہاتھ کنگن کو آرسی کیا.وہ آئے اور آ کر لوگوں کے سامنے اپنے نجات پانے کا ثبوت دے.آپ نے بڑی تحدی کے ساتھ عیسائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :- میں پوچھتا ہوں کہ اگر یہ سچ ہے کہ حضرت مسیح کے کفارہ پر ایمان لاکر کوئی شخص خاص طور پر تبدیلی پالیتا ہے تو اس کا کیوں ثبوت نہیں دیا گیا.میں نے بارہا اس بات کو پیش کیا اور اب بھی کرتا ہوں کہ وہ خاص تبدیلی اور وہ خاص پاکیزگی اور وہ خاص نجات اوردہ خاص ایمان اور وہ خاص نظا الہی صرف اسلام ہی کے ذریعہ سے ملتا ہے.اور ایمانداری کی علامات السلام لانے کے بعد ظاہر ہوتی ہیں.اگر یہ کفارہ صحیح ہے اور کفارہ کے ذریعہ سے آپ صاحبان کو نجات مل گئی ہے اور حقیقی ایمان حاصل ہوگیا ہے تو پھر اس حقیقی ایمان کی علامات جو حضرت مسیح آپ لکھ گئے ہیں کیوں آپ لوگوں میں پائی نہیں جاتیں.اور یہ کہنا کہ وہ آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہیں ایک فضول بات ہے.اگر آپ ایماندار کہلاتے ہیں تو ایمانداروں کی علامات جو آپ کے لئے مقرر کی گئی ہیں آپ لوگوں میں ضرور پائی جانی چاہئیں کیونکہ حضرت مسیح کا فرمودہ باطل نہیں ہو سکتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دعوت بڑی ہی معقول اور مناسب تھی.اسے کفارہ کی تاثرات ایسے طور پر ثابت ہو سکتی تقی کرکسی کو انکار کی جرأت نہ ہو سکتی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بار بار بلانے کے باوجود کسی عیسائی کو نجات کا ثبوت دینے اور کفارہ کی پاک تاثیرات دکھانے کی جرأت نہ ہوسکی.اور اطرح عیسائیوں نے اپنے طرز عمل سے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ کفارہ کے نتیجہ میں نجات ملنے یا گناہوں کے معاف ہونے کا دعویٰ سراسر باطل اور جھوٹ ہے.چونستون دلیل کفارہ کی تردید میں ایک اور دلیل حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ کفارہ کا اصول ایک بے فائدہ اور بے مقصد اصول ہے.اس اصول کو جو بھی علت خائی عیسائیت حضرات بیان کرتے ہیں.یا بیان کر سکتے ہیں، واقعات اور حقائق سے اس کا ثبوت نہ ملتا ہے نہ دیا جا سکتا ہے.پس اس له -:- جنگ مقدس مثلا - جلد 4 : ¡
2 ۳۲۷ طرح اس عقیدہ کی کوئی بھی علت غائی ثابت نہیں ہوتی.لہذا یہ اصول ہے کا رس اور لغو ہے اور اس قابل نہیں کہ اسے قبول کیا جائے.عیسائی کفارہ کے مختلف مقاصد ضرور بیان کرتے ہیں لیکن عند التحقیق وہ ثابت نہیں ہوتے.اس دلیل کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی دو کتابوں.کتاب البریہ اورست بچن میں تفصیل سے ذکر فرمایا ہے.ان دونوں کتابوں کے حوالہ جات کے درج کرنے پر اکتفا کہتا ہوں.حضور کتاب البریہ میں فرماتے ہیں :- کفارہ اس وجہ سے بھی باطل ہے کہ اسکی یا تو یہ مقصود ہوگاکہ گناہ بالکل سرزد نہ ہوں اور یا یہ مقصود ہوگا کہ ہر ایک قسم کے گناہ خواہ حق اللہکی قسم میں سے اور خواہ حق العباد کی قسم میں سے ہوں.کفارہ کے ماننے سے ہمیشہ معاف ہوتے رہتے ہیں سوپہلی شقی توصریح البطلان ہے کیونکہ یور سے مردوں اور عورتوں پر نظر ڈال کر دیکھا جاتا ہے کہ وہ کفارہ کے بعد ہر گز گناہ سے بچ نہ سکے اور ہر ایک قسم کے گناہ یورپ کے خواص اور عوام میں موجود ہیں.بھلا یہ بھی جانے دو نبیوں کے وجود کو دیکھو جن کا ایمان آوروں سے زیادہ مضبوط تھا وہ بھی گناہ سے بچ نہ سکے حواری بھی اس بلا میں گرفتار ہو گئے.پس اس میں کچھ شک نہیں کہ کفارہ ایسا بند نہیں ٹھہر سکتا کہ جو گناہ کے سیلاب سے روک سکے.یہی یہ دوسری بات کہ کفارہ پر ایمان لانے والے گناہ کی سزا سے مستثنی رکھے جائیں گے خواہ وہ چوری کریں یا ڈاکہ ماریں.خون کویں یا بدکاری کی مکروہ حالتوں میں مبتلا رہیں تو خدا ان سے مواخذہ نہیں کرے گا.یہ خیال بھی سراسر غلط ہے جس سے شریعت کی پاکیزگی سب اُٹھ جاتی ہے اور خدا کے ابدی احکام منسوخ ہو جاتے ہیں بلکہ ست بچن کتاب میں حضور علیہ السّلام نے تحریر فرمایا ہے :- ایک اور مصیبت ان عیسائیوں.ناقل کو یہ پیش آئی ہے کہ اس مصلوب ریح ناصری - ناقل کی علت غائی عند تحقیق کچھ ثابت نہیں ہوتی اور اس کے صلیب پر کھینچنے کا کوئی ثمرہ ہیپایہ ثبوت نہیں پہنچتا ہے مزید وضاحت کے طور پر فرماتے ہیں :- کیونکہ صورتیں صرف دو ہیں.دار تو اسے یہ کہ اس مرحوم بیٹے کی مصلوب ہونے کی علت غائی یہ قرار دیں کرتا اپنے ماننے والوں ه : کتاب البرتيه من جلد ۱۳ : له : ست بچن ۱۶۵ - جلد ۱ :
کو گناہ کرنے میں دیر کرے اور اپنے کفارہ کے سہارے سے خوب زور شور سے فسق و فجور اور ہر یک قسم کی بدکاری پھیلاد سے.(۲) دوسری صورت اس قابل رحم بیٹے کے مصلوب ہونے کی یہ ہے کہ اس کی سولی ملنے کی یہ علت نمائی قرار دی جائے کہ اسکی سولی پر ایمان لانے والے ہر ایک قسم کے گناہ اور بدکاریوں سے بچ جائیں گے اور ان کے نفسانی جذبات ظہور میں نہ آنے پائیں گے کیا لے پہلی صورت کے بارہ میں فرمایا :- " " یہ صورت تو بد است نامعقول اور شیطانی طریق ہے اور میرے خیال میں دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا کہ اس فاسقانہ طریق کو پسند کرے اور ایسے کسی مذہب کے بانی کو نیک قرار د سے جی سی اس طرح پر عام آدمیوں کو گناہ کرنے کی ترغیب دی ہو" سے گویا یہ پہلی صورت ہر گفتہ قبول کرنے کے لائق نہیں.رہ گئی دوسری صورت تو اس کے بارہ میں حضر مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- اگر فرض کیا جائے کہ یسوع کا کفارہ ماننے میں ایک ایسی خاصیت ہے کہ اس پر سچا ایمان لانے والا فرشتہ سیرت بن جاتا ہے اور پھر بعد ازاں اس کی دل میں گناہ کا خیال ہی نہیں آتا.تو تمام گذشتہ نبیوں کی نسبت کہنا پڑے گا کہ وہ میسوع کی سوکی اور کفارہ پر کہنا؟ سچا ایمان نہیں لائے تھے کیونکہ انہوں نے بقول عیسائیاں بدکاریوں میں حد ہی کر دی کیسی نے ان میں سے بہت پرستی کی.اور کسی نے ناحق کا خون کیا اور کسی نے اپنی بیٹیوں سے بدکاری کی.اور بالخصوص شیوع کے دادا صاحب داؤد نے تو سارے بڑے کام کئے ایک بے گناہ کو اپنی شہوت رانی کے لئے فری سے قتل کرایا اور دلالہ عورتوں کو بھیج کر اسکی قتل جورد کو منگوایا اور اس کو شراب پلائی اور اسے زنا کیا اور بہت سا مال حرام کاری میں ضائع کیا در تمام عمرشو تک بیوی رکھی.اور یہ حرکت بھی بقول عیسائیاں نہ نامیں داخل تھی.اور عجیب تریہ کہ روح القدس بھی ہر روزہ اس پہ نازل ہوتا تھا اور نیوریٹری سرگرمی سے اتم رہی تھی مگر افسوس کہ نہ تورہ درج القدس نے اور نہ یسوع کے کفارہ پر ایمان لانے نے بدکاریوں سے اس کو روکا آخر انہی بدعملیوں میں جان دی.اور اسی عجیب تریہ کہ یہ کفارہ یسوع کی دادیوں اور نانیوں کو بھی بدکاری سے نہ بچا ه -: - ست بچن ۱۶ - جلد 1 : ه : ست بچن ما ، مثلا - جلد ۱۰ : هه
۳۲۹ 14 سکا.حالانکہ ان کی بدکاریوں سے یسوع کے گوہر فطرت پر داغ لگتا تھا اور یہ وادیاں نانیاں لگا صرف ایک دو نہیں بلکہ تین ہیں.چنانچہ یسوع کی ایک بزرگ نانی جو ایک طور سے دادی بھی تھی یعنی را حساب کیسی یعنی کنجری تھی (دیکھو شیوع ۲-۱ اور دوسری نانی جو ایک طور سے دادی بھی تھی اس کا نام تمر ہے یہ خانگی بد کا رعورتوں کی طرح حرام کا رتھی دیکھو پیدائش ۳۰ ، 19 سے ۲۰) اور ایک نائی میسوع صاحب کی جو ایک رشتہ سے دادی بھی تھی بنت سبع کے نام سے موسوم ہے یہ وہی پاک امن بھی دینی داؤد کے ساتھ رہنا کیا دیکھو سیموئیل (۱-۲) اب ظاہر ہے کہ ان وادیوں اور نانیوں کو شیوع کے کفارہ کی ضرور اطلاع دی گئی ہوگی اور اس پر ایمان لائی ہوں گی.کیونکہ یہ تو عیسائیوں کا اصول ہے کہ پہلے نبیوں اور ان کی امت کو بھی یہی علی کفارہ کی دی گئی تھی اور اسی پر ایمان لا کر ان کی نجات ہوئی.پس اگر میسوع کے مصلوب ہونے کا یہ اثر سمجھا جائے کہ اس کی معصومیت پر ایمان لا کہ گناہ سے انسان پیچ جاتا ہے تو چاہیے تھا کہ عیسوع کی وادیاں اور نانیاں نہ نا کا ریوں اور حرام کاریوں سے بچائی جاتیں مگر جس حالت تمام پیغمبر با وجودیکه بقول عیسائیاں میسوع کی خود کشی پر ایمان لائے تھے.بدکاریوں سے نہ بچ سکے اور نہ یسوع کی دادیاں نانیاں بیچ سکیں تو اس سے صاف طور پر ثابت ہو گیا کہ یہ چھوٹا کفارہ کسی کو نفسانی جذبات سے بچا نہیں سکتا ؟ لے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش فرمودہ اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارہ کا جو بھی مقصد قرار دیا جائے وہ خود عیسائی مسلمات کی رو سے باطل قرار پاتا ہے.یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کفارہ کا مسئلہ ایک بے کار اور بے مقصد افسانہ ہے.ظاہر ہے کہ اس صورت میں اس کے ابطال کے لئے کسی اور دلیل کی بھی ضرورت نہیں رہتی.بیکار افسانہ کو عقیدہ بنانے سے کیا حاصل؟ پینتو دلیل ك سیدنا حضرت یح موعود علیہ السلام نے کفارہ کے خلاف جو دلائل بیان فرمائے ہیں غالبا ان میں سے سب سے زیادہ اہم اور وزنی دلیل یہ ہے کہ حضرت مسیح غیر اسلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے.کفارہ کی بنیا د اس امر یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت ہو گئے تھے اور اس وجہ سے و و گئے تھے اور اس وجہ سے وہ بنی آدم کے گناہوں کا کفارہ تے ہیں لیکن حضرت سے پاک علیہ السلام نے بڑی تحدی کے ساتھ اور تفصیلی دلائل کے بعد اپنے اس پیش کردہ انکشان کو پایہ ثبوت تک پہنچایا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ہرگز صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے، یہ ایک ست بین ۱ - ۱۷۸ - جلد ۱ :
٣٣٠ دلیل ہی کفارہ کے سارہ سے مسئلہ کو باطل کر دیتی ہے.یہ دلیل اپنی اہمیت اور وسعت کی وجہ سے تفصیلی بیان کی متقاضی ہے اس لئے ہم اس دلیل کو تفصیل کے ساتھ آئندہ باب میں بیان کریں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.حرف أحد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان پینتیس دلائل سے عیسائیت کا پیش کردہ مسئلہ کفارہ بالکل باطل ہو جاتا ہے.حق یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تعصب سے بالا تر ہو کر عدل و انصاف کی رو سے مسئلہ کفارہ کا جائزہ سے تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ یہ مسئلہ تضاد بیانیوں اور غلطیوں کا ایک شاہکا رہے.کفارہ کی اپنی غلطیوں اور اپنی کے پیش نظر تو حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے اس عقیدہ کفارہ کے بارہ میں فرمایا ہے :- یہ عقیدہ غلطیوں کا ایک مجموعہ ہے " سے ! لیکن یہ امر کس قدر افسوسناک ہے کہ عیسائی حضرات اسی عقیدہ کو پیش کر کے لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سیمی کفارہ کے بارہ میں دوٹوک فیصلہ فرما دیا ہے کہ : - ہر ایک کفارہ جھوٹا ہے اور ہر ایک قدیہ باطل ہے.لے کفارہ کی تردید میں حضرت سیح موعود علیہ اسلام کے بیان فرمودہ دلائل ذکر کرنے کے بعد میں اس باب کو حضرت مسیح پاک علیہ السلام ہی کے ایک اقتباس پرختم کرتا ہوں جس میں حضور نے عیسائیوں کو کفارہ کا باطل عقیدہ ترک کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السّلام فرماتے ہیں :- و کیا آسمان کے نیچے کوئی ایسا کفارہ اور فدیہ ہے جو تم سے گناہ ترک کرا سکے.کیا مریم کا بیٹا عیسی ایسا ہے کہ اس کا مصنوعی خون گناہ سے چھڑائے گا.اسے عیسائیو! ایسا جھوٹ مت بولو جس کی زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے یسوع خود اپنی نجات کیلئے یقین کا محتاج تھا اور اس نے یقین کیا اور نجات پائی.افسوس ہے ان عیسائیوں پر جو یہ کہہ کر مخلوق کو دھوکا دیتے ہیں کہ ہم نے مسیح کے خون سے گناہ سے نجات پائی ہے.حالانکہ وہ سر سے پیر تک گناہ میں غرق ہیں " سے لیکچر سیالکوٹ م - جلد ۲۰ ه: - کشتی نوح مثل - جلد ۱۹ : کشتی نوح مث - جلد ۱۹ :
خدائے عزوجل نے اپنے فضل و کرم سے ایسے اسباب جمع کر دیئے جن کی وجہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کی جان پہچ گئی یا سیح موعود) بات هفتم حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کی تردید م تردید کی اہمیت م تردید کے دلائل یہ بالکھے جھوٹے ہے کہ مسیح صلیب پر مرگیا.اصلاح یہ ہے کہ وہ صلیہ ہے پر سے زندہ اتار لیا گیا تھا اور وہاں سے بچ کر وہ کشمیر میں آیا جہات اس نے ۱۲۰ بر می کنی عمر میں وفات پائے " (مسیح موعود )
۳۳۲ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السّلام فرماتے ہیں ھے :- نالائق یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو قتل کرنے کے لئے صلہ ہے پر چڑھا دیا......لیکن خدا تعالی کا اردہ تھا کہ اپنے کو صلیبی موقعے سے بچائے اس لئے خدائے عز وجل نے اپنے فضل وکرم سے ایسے اسبا ہے جمع کر دیئے جنگی " وجہ سے حضرت عیسی علیہ السّلام کرکے جانے بچ گئے.دایام الصلح ص ۱۲ جلد ۱۴) یہ بالکل جھوٹے ہے کہ مسیح صلیب پر مر گیا اصل یہ ہے کہ وہ صلیب پر سے زندہ اتار لیا گیا تھا اور وہاں سے بچ کر وہ کشمیر میںسے چلا آیا جہاں اُس نے ۱۲۰ برس کی عمر میں وفات پائے اور اسے تک اس کے قبر خانیار کے محلہ میں یوند آسفت یا شہزادہ مجھے کے نام سے مشہور ہے.( ملفوظات جلد سوم منا )
تردید کی اہمیت حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے صلیب پر جان دینے اور موت قبول کرنے کا عقیدہ موجودہ عیسائیت ایک بنیادی عقیدہ ہے.اس عقیدہ کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہے کہ اسی عقیدہ پر کفارہ کی بنیاد ہے جو مسیحیت کا نظریہ نجات اور ان کا قابل فخر عقیدہ ہے.اس لحاظ سے گویا عیسائیت کی اصلی بنیاد یہی حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت ہے.یہی وجہ ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نے کے ضمن میں سب سے زیادہ توجہ اس بات کو ثابت کرنے پر دی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ہرگز صیب پر فوت نہیں ہوئے.کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے تو پھر ساری کی پر ساری عیسائیت یکدفعہ باطل قرار پاتی ہے اور اس کا فلسفہ نجات ایک تصوراتی جنت سے زیادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا.نیز ہر عقلمند شخص پر یہ حقیقت خوب روشن ہو جاتی ہے کہ ایسے بے بنیاد اور بے دلیل فلسفہ نجات پر ایمان رکھنے والے اور اسے پیش کرنے والے نہ صرف خود غلطی خوردہ ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہی میں مبتلا کرنے والے ہیں.پس عیسائیت کا اصل خلاصہ حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت ہے اور یہ مسئله گویا مه جوده عیسائیت کے لئے رگ جان کی حیثیت رکھتا ہے.اس لیگ کے کٹ جانے سے بچینی اس اعتقاد کے باطل ثابت ہو جانے سے عیسائیت خود بخود باطل ہو جاتی ہے.حضرت مسیح مود علیہ سلام کے علم کلام کا کمال یہ ہے کہ آپ نے عیسائیت کی شہ رگ کو معلوم کیا اور اس پر ایسا کامیاب اور مہنگ وار کیا کہ اب عیسائیت جاں بلب نظر آتی ہے ! حضرت مسیح علیہ السلام کا صلیب پر مرنا اور پھر زندہ ہوجانا عیسائی حضرات کے نزدیک ان کے مذہب کا مرکزی نقطہ ہے اور اصل الاصول ہے.عیسائیوں کے ایسے متعدد بیانات ملتے ہیں جن میں انہوں نے صلیب اصلیبی واقعہ اور مسیح کی مصلیبی موت نیز دوبارہ زندگی کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے.چنانچہ انجیل کے ایک مفستر رکھتے ہیں :.اس میں شک نہیں کہ تجسم وہ بنیادی حقیقت ہے جس سے کفار سے کو اس کی بے نظیر اہمیت اور مقدرت حاصل ہوتی ہے لیکن وہ وسیلہ جس سے کہ خدا جسم کی زندگی گنہگا رے کیلئے مکن تحصیل ہو جاتی ہے یسوع کی موت اور مردوں میں سے جی اٹھنا ہے.اے :- تفسیر ستی من :
۳۳۴ پھر یہی مصنف ایک دوسرے موقع پر لکھتے ہیں :." مسیح کی موت اس کی ساری زندگی کا ایک ایسا مرکزی واقعہ ہے جس کا بیان عہد جدید کے نوشتوں میں نہایت ہی شرح وبسط کے ساتھ ہوا ہے کیونکہ اس کی موت ہی ہماری نجات.کا وسیلہ ہے.دمتی ۲۸۱۲) اور یہی واقعہ ہمارے سے دلوں کو اسکی محبت و خدمتگذاری سے وابستہ کرتا ہے.دیوحنا ۱۵ : ۱۳ - ۱۳ کالے ایک اور پادری ڈبلیو.ایسے.ٹی گیر ڈنر نے تو صلیب کو اسلام اور عیسائیت کے درمیان بحث کا اصلی اور حقیقی موضوع قرار دیا ہے.وہ لکھتے ہیں :- " -1 کل امتیازی باتیں صلیب میں درجہ کمال کو پہنچتی ہیں اور تجسم نہیں بلکہ صلیب ہی در اصل مسیحیت اور اسلام کے درمیان بحث کا حقیقی موضوع ہے ؟ " پادری بوٹامل نے صلیب کو عیسائی مذہب کی بنیا د قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ " مسیح کی صلیب مسیحی مذہب کی بنیاد ہے.اگر صلیب کا واقعہ مسیحی مذہب سے نکال دیا جائے تو بیس مسیحیت کا خاتمہ ہے...خداوند مسیح کی آمد کی غرض ہی تضلیب تھی کیونکہ اس کی بغیر نجات نا ممکن تھی مسیح مصلوب ہوا.دنیا کی نجات ہوئی.اس بات کا جاننا سمجھنا اور ماننا ہر ایک سیمی پر فرض ہے اور نجات بخش ایمان یہی ہے کہ مسیح ہمارے گناہوں کے لیئے موا اور دفن ہوا اور تیسرے دن مردوں میں سے جی اُٹھایا ہے پھر ایک اور مشہور پادری اسی ضمن میں رقمطرانہ ہیں :." مسیحیت سوائے صلیب کے اور کچھ نہیں جانتی.بجز صلیب کے اور ہمارے سے گتا ہوں کے لئے مسیح کی موت کے بغیر کوئی مسیحیت نہیں ملیب کو خارج کرد و تو مسیحیت کا نعمہ زائل ہو کہ مصیبت ناک سناٹا چھا جائے گا اور اس کا جلوہ ہے آب ہونے سے ظلمت طاری ہو جائے گی.خدا کا بیٹا جو ہمارے گناہوں کے لئے صلیب پر چڑھا وہی ہماری امید ہے کہ عیسائی پادریوں کے ان حوالوں سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ خود عیسائیوں کے نزدیک مسیح کا صلیب پر مرنا حد درجہ اہمیت کا حامل ہے یہ عقیدہ گویا ان کے مذہب کی جان اور روح ہے.: تفسیر متی منہ سے :.خدا ئے ثالوث مل : سے مسیح مصلوب ص : باره سوالات مشاب
۳۳۵ عیسائی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے صلیب پر جان تو ضرور دی ہے لیکن وہ تین دن تک مرے رہنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو گئے تھے.اس عقیدہ کے بعض پہلوؤں پر تو گذشتہ ابواب میں تبصرہ ہو چکا ہے اسجگہ اس بات کا ذکر کرنا مقصود ہے کہ مسیحیت کا یہ عقیدہ کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہوئے اور پھر زندہ ہو گئے ایک باطل عقیدہ ہے.یاد رہے کہ یہ عقیدہ عیسائیت کی جان ہے.جیسا کہ مندرجہ بالا حوالہ جات سے صاف معلوم ہوتا ہے.اس ایک عقیدہ کے باطل ثابت ہونے سے سارا مذہب ہی باطل ہو جاتا ہے.عیسائی محققین نے اس بات کا برملا اعتراف کیا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا اور وہ مردوں میں سے جی نہیں اُٹھا تو ہمارا سارا مذہب باطل قرار پاتا ہے.اس قسم کے متعدد حوالہ جات میں سے چند حوالے لیکن اس غرض سے یہاں درج کرتا ہوں تا اس عقیدہ کی اہمیت واضح ہو جائے.نیز اس کے بالمقابل اس کی تردید کی اہمیت کا بھی اندازہ ہو سکے.موجودہ عیسائیت کے اصلی بانی پولوس نے تسلیم کیا ہے کہ :- درو اگر مسیح نہیں جی اٹھا تو ہماری منادی بھی بے فائدہ ہے اور تمہارا ایمان بھی بے فائدہ لے لکھا ہے "اگر مسیح نہیں جی اُٹھا تو تمہارا ایمان ہے فائدہ ہے.سے این دونوں حوالوں سے مسیح کی صلیبی موت کی اہمیت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے.اسی ضمن میں ڈاکٹر نہ و بیبر کا قول بھی بہت اہمیت رکھتا ہے.اسی مسیح کی صلیبی موت کے عقیدہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :- فاذا كان ايماننا هذا خطاء كانت مسيحيتنا بجملتها باطلة لان البشارة الوحيدة التي بناهى ان المسيح قدمات من اجل خطايانا وقام لاجل تبريرنا " له یعنی اگر صلیبی عقیدہ پر ایمان غلط ہے تو پھر ہماری ساری کی شادی عیسائیت بھی باطل قرار پاتی ہے.کیونکہ ہمار ے لئے واحد بشارت یہی ہے کہ مسیح ہمار سے گناہوں کی خاطر مصلوب ہوا اور پھر ہماری نجات کی خاطر دوبارہ جی اُٹھا.The book of Knowledge جو معلومات کی ایک مفید کتاب ہے اس میں ھی اپنی خیالات کا اظہا ر کیا گیا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا ذکر کر تے ہوئے سکھتا ہے کہ : - کرنتھیوں : له -: - الستر العجيب فى فخر الصليب منك : کرنتھیوں : 215
rry They soon began to assert publicly their belief that Jesus had been raised from the dead and was revealed as the Son of God, and they were prepared to undergo persecution and even death for this belief, which is still the basis of all Christian doctrine." ✓ یعنی مسیح کے حوالہ یوں نے جلد ہی اعلانیہ طور پر اس عقیدہ پر زور دینا شروع کر دیا کہ مسیح مردوں میں سے جی اُٹھا ہے اور خدا کے بیٹے کے طور پر ظہور پذیر ہوا ہے.وہ اپنے اس اعتقاد کی خاطر گرفتاری اور موت تک کو قبول کر لینے کو تیار تھے.حضرت مسیح کے صلیب پر مرنے اور دوبارہ جی اُٹھنے کا یہ اعتقاد آج تک عیسائی مذہب کے سب عقائد کی بنیاد ہے.Mr.Criltondon نے جو کہ انٹر یونیورسٹی فیلوشپ آف لندن کے سیکرٹری جنرل ہیں لنڈن میں ایک تقریر کے دوران مسیح کی صلیبی موت اور اس کی تردید کی اہمیت ان الفاظ میں بیان کی ہے.انہوں نے کہا :- اگر فی الواقع مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے تو پھر عیسائیت کی ساری بنیاد ہی ختم ہو کر رہ جاتی ہے اور ایسی صورت میں عیسائیت کی تمام عمارت کا نہ مین پر آرہ بنا یقینی ہے.لہ S.G.Williamson.اپنی ایک مشہور و معروف کتاب MS.Christ or Mohammari میں رقمطرانہ ہیں :- "The Muslims attack is essentially an attack on Jesus Christ.They set out to prove that he was not the Son of God, that he was not crucified, that he did not rise again, that he is not enthroned and the right hand of God.By so doing, should they succeed, they take away the christian source of revelation of God and deny the fact of atonement.In a word they destroy the Christian religion altogether.For it can not be too strongly said that if Christ be not the Son of God, if Christ the Son did not die on the cross, there is no Christianity.If the Muslims are right then Christians are deluded worshippers." The book of Knowledge v.2 p.397-: الفضلات ۲۷ نومبر ۱۹۵۶ء بحوالہ تفسير كبير سورة مريم من بين
یعنی مسلمانوں کا حمد لازمی طور پر خود یسوع مسیح پر حملہ ہے.ان کی کوشش یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ منڈا کا بیٹا نہیں ہے.وہ صلیب پر نہیں مرا ، مرکر جی نہیں اُٹھا اور یہ کہ وہ خدا کے داہنے کہ ہاتھ پر نہیں بیٹھا.اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے خدا کے ظاہر ہونے کے مسیحی ذریعہ کو ختم کر دیا اور کفارہ کی حقیقت باطل ہوگئی.مختصر یہ کہ انہوں نے میرے سے مسیحی مذہب کوہی نابود کر کے رکھ دیا کیونکہ یہ ظاہر و باہر ہے کہ اگر سیح خدا کا بیٹا نہیں تھا اور خدا کا بیٹا صیب پر نہیں مرا تو پھر عیسائیت کا وجود ختم ہو جاتا ہے اگر مسلمان اپنے اس دعوے میں سچے ہیں تو پھر مسیحیوں کی حیثیت غلطی خوردہ پوجاریوں سے زیادہ نہیں رہتی ایک اور عیسائی پادری Mr.E.W.Bethmann کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہیں.وہ لکھتے ہیں :- کی وضاحت سے اس عقیدہ "Let us show that the resurrection is one of the vital points of Christianity.Wihtout the resurrection of Christ, with out a living Christ, we would be the most miserable of all men." " یعنی ہمیں چاہیے کہ ہم اس بات کا واضح طور پر اقرار کریں کہ مسیح کا مردوں میں سے جی اُٹھنا عیسائیت کا ایک بہت نازک اور اہم مسئلہ ہے مسیح کے مردوں میں سے جی اُٹھنے کے بغیر اوراہم نیز اس کے زندہ ہونے کے بغیر تو ہماری حالت سب انسانوں سے زیادہ قابل رحم ہوگی " پادری طالب الدین سکھتے ہیں :- " مسیحی نوشتوں کا دعوی ہے کہ مسیح مردوں میں سے بھی اُٹھا ہے اور یہ عقیدہ مسیحی مذہب کی جان ہے جیسا کہ پولوس رسول لکھتا ہے.اگر مسیح نہیں جی اٹھا تو ہماری منادی بھی بے فائدہ ہے اور تمہارا ایمان بھی بے فائدہ بلکہ ہم خدا کے جھوٹے گواہ ٹھہر سے شول 1 کرنتھیوں ۱۲۰۱۵-۱۵ سے عیسائیوں کے ان مندرجہ بالا حوالہ جات سے یہ بات پوری وضاحت سے ثابت ہو جاتی ہے گریج کی صلیبی موت کا عقیدہ عیسائیت کی جاتی ہے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے علم کلام کا ایک اصول یہ ہے کہ آپ ہمیشہ عقائد کی جڑ پر وار کرتے ہیں تاکہ جڑ کے گھٹنے کے ساتھ سارے کا سارا درخت خود بخود پیوند ترین ہو جائے.اس اصول کے مطابق حضور علیہ السلام نے کسی صدی کے عظیم الشان مشن کی تکمیل کی خاطر حضرت : - معجزات مسیح ما : Bridge to Islam p.287 - : یہ
مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کی تردید پر بہت زیادہ زور دیا ہے تا اس عقیدہ کے غلط ثابت ہو جانے سے موجودہ عیسائیت کی ساری عمارت دھڑام سے زمین پر آکر ہے.کوئی عقیدہ جتنا اہم ہوتا ہے اسکی تردید بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے.ان مذکورہ بالا حوالہ جات میں ہم نے دیکھا ہے کہ صلیبی موت کا عقیدہ عیسائیت کی اصلی روح ہے.پس اس عقیدہ کی تمدید گویا کل عیسائیت کی تردید اور بالآخر اس کی موت کا باعث ہے پس حضور نے اس اہم اور اساسی عقیدہ کی تردید پر خوب زور دیا ہے اور اس کی تردید کی افادیت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :- اس ایک مسئلہ سے ہی عیسائیت کا ستون ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ جب صلیب پر سیج کی موت ہی نہیں ہوئی اور وہ تین دن کے بعد زندہ ہو کہ آسمان پر گئے ہی نہیں تو الوہیت اور کفارہ کی عمارت تو بیخ و بنیاد سے گیرٹری " پھر اسی سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں :- در مسیح ابن مریم کو صلیبی موت سے مارنا یہ ایک ایسا اصل ہے کہ اسی پر مذہب کے تمام اصولوں کفارہ اور تثلیث وغیرہ کی بنیاد رکھی گئی تھی.اسی غلط ثابت ہونے سے عیسائی مذہب کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا....صلیبی اعتقاد کے بعد یہ ثابت ہونا کہ حضرت مسیح صلیب پر نہیں مار سے گئے.بلکہ دوسرے ملکوں میں پھرتے رہے.یہ ایسا امر ہے کہ یک دفعہ عیسائی عقائد کو دلوں سے اڑاتا ہے اور عیسائیت کی دنیا میں انقلاب عظیم ڈالتا ہے.کہ کیر مصلیہ کے ضمن میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صلیبی موت کی تردید پر جو زور دیا ہے یہ وہ بے جانہیں ہے بلکہ کسیہ ملیہ کے لئے ایسا کرنالازمی اور ہ بری تھا.چنانچہ عیسائیوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ چونکہ صلیبی موت عیسائیت کی بنیاد ہے اس وجہ سے لوگوں نے اس کی تردید کی طرف توجہ کی ہے.ایک مشہور پادری طالب الدین لکھتا ہے :.ہم نے دیکھ لیا ہے کہ مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا کس طرح ہر سیخی تعلیم اور ٹکلے کے رگ و ریشے میں گھسا ہوا ہے.اس کے بغیر سمی مذہب کچھ بھی نہیں رہتا اور اسی واسطے مخالفوں نے اس پتھر کو جو گویا کونے کا سرا ہے، ہلانے کی کوشیش کی ہے" سے پادری مذکور نے اس بات کا اعتراف تو کر لیا ہے کہ صلیبی موت کا عقیدہ عیسائیت کے لئے : ملفوظات جلد اول ۳۳۳ 18< : معجزات مسیح منشاء را از حقیقت حاشیه من روحانی خزائن جلد ۶۱۴ راز
۳۳۹ کونے کا میرا ہے لیکن کسی تجاہل عارفانہ سے لکھتا ہے کہ بعض مخالفوں نے اس پتھر کو ہلانے کی کوشش کی ہے.حق تو یہ ہے کہ کا سر صلیب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جن کو خدا نے اپنے حکم سے تم دید عیسائیت کے کام پر مامور فرمایا تھا، اس کونے کے سرے کے پتھر کو ہلانے کی ہی کوشش نہیں کی بلکہ آپ نے تو اس پتھر کو زمین سے اکھیڑ پھینکا ہے اور محقق عیسائی پادریوں نے تو اس شدید ترین حملہ کے نتائج کو محسوس کر کے ان کا اقرار بھی کر لیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بقول عیسائی پادری اس کونے کے سرے کے پتھر کو ہلانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس زور سے اس بنیاد کو اکھیڑا ہے کہ عیسائیت کی رُوح قفس عنصری سے پروانہ کر گئی ہے.اور عالم عیسائیت میں صف ماتم بچھ گئی ہے.سے گرفته بلند بروز شتره چشم به چشمه آفتاب را چه گناه حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے تو بڑی وضاحت کے ساتھ فرما دیا ہے :- عیسائی مذہب کا تمام دارو مدار کفارہ پر ہے اور کفارہ کا تمام مدار صلیب پر.اور جب صلیب ہی نہ رہی تو کفارہ نہ رہا اور جب کفارہ نہ رہا تو مذہب بنیاد سے گر گیا ہے الے اس اصل الاصول کو بیان کرنے کے بعد حضور نے صلیبی موت کے عقیدہ کی پر زور تردید فرمائی ہے اور عیسائیت کے اس باطل اور بعد کے خود تراشیدہ عقیدہ کی تردید میں دلائل کا انبارہ لگا دیا ہے صلیبی عقیدہ اور اس کی تردید کی اہمیت بیان کرنے کے بعد اب میں ان دلائل کو ترتیب والہ بیان کرتا ہوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب وغیرہ میں درج فرمائے ہیں.واقعہ صلیب کی اصل حقیقت سے پہلے میں ایک حوالہ درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس میں حضور نے یہ وضاحت فرمائی ہے کر صلیبی واقعہ کی اصل حقیقت کیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کرم سے ان پر ظاہر فرمائی ہے.یہ حوالہ گویا صلیبی واقعہ کی اصل حقیقت کا مبین ہے.حضور فرماتے ہیں :- " جو حقیقت اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کھولی ہے وہ یہ ہے کہ مسیح ابن مریم اپنے ہمعصر یہودیوں کے ہاتھوں سخت ستایا گیا جس طرح پہ را ستیانہ لوگ اپنے زمانہ میں نادان مخالفوں کے ہاتھوں ستائے جاتے ہیں اور آخر ان یہودیوں نے اپنی منصوبہ باندی اور شرارتوں سے یہ کوشش کی کہ کسی طرح پر آپ کا خاتمہ کر دیں اور آپ کو مصلوب کرا دیں.بظاہر وہ اپنی ان ه : - تریاق القلوب ملا جلد ۱۵ بنت
۳۴۰ تجاویز میں کامیاب ہو گئے کیونکہ حضرت مسیح ابن مریم کو صلیب پر چڑھائے جانے کا حکم دے دیا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے جو اپنے راستبازوں اور ماموروں کو کبھی ضائع نہیں کرتا ، ان کو اس لعنت سے جو صلیب کی موت کے ساتھ وابستہ تھی بچالیا اور ایسے اسباب پیدا کر دیئے کہ وہ اس صلیب پر سے زندہ اننہ آئے.اس امر کے ثبوت کے لئے بہت سے دلائل ہیں جو کے خاص انجیل سے ہی مل سکتے ہیں لیکن اس وقت ان کا بیان کرنا میری غرض نہیں ہے جو شخص ان واقعات پر جو صلیب کے متعلق انجیل میں درج ہیں غور کر سے گا تو ان کے پڑھنے سے اسے صاف معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح ابن مریم صلیب پر سے زندہ نہ آئے تھے اور پھر یہ خیال کر کے کہ اس ملک میں ان کے بہت سے دشمن تھے اور دشمن بھی وہ جو ان کے جانی دشمن تھے اور جیسا کہ وہ پہلے کہہ چکے تھے کہ نبی سے عزت نہیں ہوتا مگرا اپنے وطن میں جب سکسی ان کی ہجرت کا پتہ ملتا ہے کہ انہوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اس ملک کو چھوڑ دیں اور اپنے فرض رسالت کو پورا کرنے کے لئے وہ بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں نکلے.نصیبین کی طرف سے ہوتے ہوئے افغانستان کے راستہ کشمیر میں آکر بنی اسرائیل کو جو را کشمیر میں موجود تھے تبلیغ کرتے رہے اور ان کی اصلاح کی اور آخر کار ان میں ہی وفات پائی.یہ امر ہے جو مجھ پر کھولا گیا ہے.سے جو قرآنی براہین او • قرآن مجید نے جو دنیا میں سب سے زیادہ مکمل اور مستند کتاب ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کی پر زورہ تو دید فرمائی ہے.یہ سے پہلے میں قرآنی دلائل کو بیان کرتا ہوں.دلائل کی عددی ترتیب مسلسل ہے گی.پہلی دلیل حضرت مسیح علیہ اسلام کی صلیبی موت کی تردید میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے سب سے پہلے اس قرآنی آیت کو پیش فرمایا.اور شاد باری تعالی ہے :- وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبَهَ لَهُمْ مَا لَهُمْ بِهِ مِن عِلمٍ إِلَّا اتَّبَاعَ الظَّنِ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِيْنَا بَلْ وَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللهُ عَزِيزًا حَكِيماً- رنساء ۱۹۸ ۱۹۹) اللّه - ملفوظات جلد اول ۳۳۳-۳۳۴
المسار We may اس آیت کو پیش کرنے کے بعد حضور فرماتے ہیں :- ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر چہ یہ سچ ہے کہ بظاہر سیح صلیب پر کھینچا گیا اور اس کے مارنے کا ارادہ کیا گیا مگر یہ محض ایک یہودیوں اور عیسائیوں نے ایسا خیال کر لیا کہ در حقیقت حضرت مسیح علیہ السلام کی جان صلیب پر نکل گئی تھی بلکہ خدا نے ایسے اسباب پیدا کر دیئے جن کی وجہ سے وہ صلیبی موت سے بچ رہا یہ ہے پھر حضور نے اسی دلیل کو مختلف پیرایوں میں بیان فرمایا ہے.ایک جگہ حضور فرماتے ہیں :.مہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے دما قتلوه وما صلبوه ولكن شبه الآية.وما تتلوه يقينا الآية یعنی یہودیوں نے نہ حضرت مسیح کو در حقیقت قتل کیا.اور نہ بذریعہ صلیب ہلاک کیا بلکہ ان کو محض ایک شبہ پیدا ہوا کہ گویا حضرت عیسی مسیب پر فوت ہو گئے ہیں اور ان کے پاس وہ دلائل نہیں ہیں جن کی وجہ سے ان کے دل مطمئن ہوسکیں کہ یقینا حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیب پر جان نکل گئی تھی " سے حضرت مسیح کے صلیب پر لٹکنے کے بارہ میں فرمایا :- " قرآن شریف نے ہر گنہ اس کا انکار نہیں کیا.ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن شریف نے تکمیل صلیب کی نفی کی ہے جو لعنت کا موجب ہوتی ہے نفس سلیب پر چڑھائے جانے کی نفی نہیں کی.اس لئے ماقتلوہ کہا.اگر یہ مطلب نہ تھا تو پھر ما قتلوہ کہنا فضول ہو جائے گا......یہ سب اس لئے فرمایا کہ صلیب کے ذریعہ قتل نہیں کیا.پھر ما صلبوه N سے اور صراحت کی اور لکن شبه لهم سے اور واضح کر دیا کہ وہ زندہ ہی تھا یہودیوں نے مردہ سمجھ لیا ہے پھر اسی سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں :- خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں حضرت عیسی کی صلیبی موت سے انکار کیا اور فرمایا دما قتلوه وما صلبوه ولكن شبه لهم اور صلہوہ کے ساتھ آیت میں قتلوه کا لفظ بڑھا دیا تا اس بات پر دلالت کہ سے کہ صرف صلیب پر چڑھایا جانا موجب لعنت نہیں بلکہ شرط یہ ہے کہ صلیب پر چڑھایا بھی جائے اور یہ نیت قتل اسکی ٹانگیں کبھی توڑی ه: مسیح ہندوستان میں ماہ جلد ۱۵: سے:.سے : ملفوظات جلد چهارم ص۱۲۳ : میسج ہندوستان میں صدا - جلد ۵ نیا
جائیں اور اس کو مارا بھی جائے تب وہ ملعون کی موت کہلائے گی.مگر خدا نے حضرت عیسی کو اس موت سے بچالیا.وہ صلیب پر چڑھائے گئے مگر صیب کے ذریعہ سے ان کی موت نہیں ہوئی.ہاں یہود کے دلوں میں یہ شبہ ڈال دیا کہ گویاوہ صلیب پر مر گئے ہیں اور یہی دھو کا نصاری کو بھی لگ گیا......اصل بات صرف اتنی تھی کہ اس صلیب کے صدمہ سے بے ہوش ہو گئے تھے اور یہی معنے شبہ لھم کے ہیں " له * پھر مزید وضاحت کے طور پر فرمایا : - قرآن شریف میں جو وارد ہے وما قتلوه وما صلبوها یعنی عیسی نہ مصلوب ہوا نہ مقتول ہوا.اس بیان سے یہ بات منافی نہیں ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر زخمی ہو گئے کیونکہ مصلوبیت سے مراد وہ امر ہے جو صلیب پر چڑھانے کی علت غائی پر ہے.اور وہ قتل ہے اور کچھ شک نہیں کہ خدا تعالیٰ نے دشمنوں کے اس اصل مقصود سے ان کو محفوظ رکھا.اسکی مثال ایسی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا ہے وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس یعنی خدا تجھ کو لوگوں سے بچائے گا.حالانکہ لوگوں نے طرح طرح کے دُکھ دیئے.وطن سے نکالا.دانت شہید کئے ، انگلی کو زخمی کیا اور کئی زخم تلوار کے پیشانی پر لگائے.سو در حقیقت اس پیشگوئی میں بھی اعتراض کا محل نہیں کیونکہ کفار کے حملوں کی علت غائی اور اصل مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زخمی کرنا یا دانت کا شہید کرنانہ تھا بلکہ قتل کرنا مقصود بالذات تھا.سو کفار کے اصل ارادے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا نے محفوظ رکھا.اسی طرح جن لوگوں نے حضرت مسیح کو سولی پر چڑھایا تھا ان کی اس کارروائی کی علت غائی حضرت مسیح کا زخمی ہونا نہ تھا بلکہ ان کا اصل ارادہ حضرت عیسی علیہ السلام کو سولی کے ذریعہ سے قتل کر دیا تھا سو خدا نے ان کو اس بد ارادہ سے محفوظ رکھا اور کچھ شک نہیں کہ وہ مصلوب نہیں ہوئے.پس قول ما صلبوها ان پر صادق آیا ہے نیز فرمایا :- -١٥ " اناجیل اربعہ قرآن شریف کے اس قول پر کہ ما قتلوه و ما صلبوه صاف شہادت دے رہی ہیں کیونکہ قرآن کریم کا منشاء ما صلبوہ کے لفظ سے یہ ہر گز نہیں ہے کہ میسج لیکچر سیالکوٹ مٹا روحانی خزائن جلد ۲۰ است بیچن حاشیه در حاشیه ۱۲ جلد ۱ :
صلیب پر چڑھایا نہیں گیا بلکہ منشاء یہ ہے کہ جو صلیب پر چڑھانے کا اصل مدعا تھا یعنی قتل کرنا اسے خدا تعالٰی نے مسیح کو محفوظ رکھا اور یہودیوں کی طرف سے اس فعل یعنی قتل عمد کا اقدام تو ہوا مگر قدرت اور حکمت الہی سے تکمیل نہ پاسکا یہ ہے پھر اسی سلسلہ میں مزید فرمایا :- " وفي آية : وما قتلوه وما صلبوه إشارة أخرى وهى ان النصاري زعموا ان عيسى صلب لاجل تظهيرهم من المعاصي وظنوا كانه حمل بعد الصلب جميع ذنوبهم على نفسه وهو كفارة لهم ومظهرهم من جميع المعاصى والخطيئات.ففى نفى الصلب ردّ على النصارى وهدم العقيدة الكفارة " حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ان سب حوالہ جات سے اس دلیل کی پوری پوری وضاحت ہو جاتی ہے کہ قرآن مجید کی اس مذکورہ بالا آیت کی رو سے حضرت مسیح علیہ السلام ہرگز صلیب پر فوت نہیں ہوئے.وهو المراد - دو شهری دلیل صلیبی موت کی تردید کے لئے حضور نے دوسری آیت یہ پیش فرمائی ہے :- " يَا عِيسي إنِّي مُتَوَنِيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُظَهِرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ الآية.( آل عمران ۵۶ ) اس آیت کریمہ میں حضرت علی علیہ السلام کو خدا نے یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ ان کی ترقی کرے گا.ترقی کے لفظ سے حضور نے صلیبی موت کی نفی پر استدلال فرمایا ہے کیونکہ توفی سے مراد طبعی موت ہوا کرتی ہے پس صلیب پر مرنے یا مقتول ہونے کی صورت میں خدائی وعدہ پورا نہیں ہو سکتا اور یہ سب کو مسلم ہے کہ یہ وعدہ سچا ہے اور پورا ہوا.پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح مصیب پر نہیں مرے بلکہ بعد میں طبعی موت سے فوت ہوئے ہیں.حضور نے اس دلیل کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :- تو اللہ جل شانہ نے.....فرمایا ہے.یا میسی إِلَى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى يعنى --- انزالہ اوہام حصہ اول ۲۹۲ - جلد ۳ به كرامات الصادقين منه - جلدی ہے
اسے میسی میں تجھے طبعی وفات دوں گا اور اپنی طرف تیرا رفع کروں گا.یعنی تو مصلوب نہیں ہو گا.اس آیت میں یہود کے اس قول کا رد ہے کہ وہ کہتے تھے کہ عیسی مصلوب ہو گیا ہے اس لئے ملعون ہے اور خدا کی طرف اس کا رفع نہیں ہوا اور عیسائی کہتے تھے کہ تین دن لعنتی رہ کر پھر یہ قع ہوا.لے تیسری دلیل تیسری دلیل کے طور پر حضور علیہ السلام نے اس آیت کو پیش فرمایا ہے :- وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آتِيَة وَآدَيْنَهُمَا إِلَى رَبوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعَيْنِ.ور (مؤمنون (۵۱) اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں : - " ایک اور قوی دلیل اس بات پہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ او تنهُما إلى ربوة ذَاتِ قَرَارٍ وَ مَعِینِ یعنی ہم نے عیسی اور اس کی ماں کو ایک ایسے ٹیلے پر پناہ دی جو آرام کی جگہ تھی اور ہر ایک دشمن کی دست در اندی سے دور تھی اور پانی اس کا بہت خوش گوار تھا.یادر ہے کہ اڈی کا لفظ عربی زبان میں اس جگہ پر بولا جاتا ہے جب ایک مصیبت کے بعد کسی شخص کو بیاہ دیتے ہیں ایسی جگہ میں جو دارالامان ہوتا ہے.پس وہ دارالامان ملک شام نہیں ہو سکتا.کیونکہ ملک شام قیصر روم کی عملداری میں تھا اور حضرت عیسی قیصر کے باغی قرار پاچکے تھے.پس وہ کشمیر ہی تھا جو شام کے ملک سے مشابہ تھا اور قرانہ کی جگہ تھی لعنتی امن کی جگہ تھی لعنتی قیصر روم کو اسی کچھ تعلق نہ تھا " کے پھر حضرت مسیح علیہ السلام کے بارہ میں فرمایا :- وہ صلیب پر سے زندہ اتارا گیا اور پھر پوشیدہ طور پر باغبانوں کی شکل بنا کہ اس باغ سے جہاں وہ قبر میں رکھا گیا تھا یا ہر نکل آیا اور خُدا کے حکم سے دوسرے ملک کی قبرمیں یا طرف چلا گیا اور ساتھ ہی اس کی ماں گئی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اديْنَهُما إلى ربوة ذات قرار و معین یعنی اس مصیبت کے بعد جو صلیب کی مصیبت تھی ہم نے میسج.مَعِينِ اور اس کی ماں کو ایسے ملک میں پہنچا دیا جس کی نہین بہت اونچی تھی اور صاف پانی تھا.: كتاب البرية ٣٢٣ - جلد ١٣ : : ش با ضمیمه بر این احمدیہ حصہ پنجم ما ۴۰۵ جلد ۱ ۹۲ -
۳۴۵ اور بڑے آرام کی جگہ تھی یہ سالے اس دلیل کے ضمن میں حضور نے لفظ الیوا ء سے خاص طور پر مسیح علیہ السلام کے صلیب سے نجات پانے کا استدلال فرمایا ہے کیونکہ اس لفظ کے معنوں میں مصیبت کے بعد پناہ دینے کا مفہوم ہے.آپ فرماتے ہیں :- ولاشك ان الايواء لا يكون الا بعد مصيبة وتعب وكربة ولا يستعمل هذا اللفظ الا بهذا المعنى وهذا هو الحق من غير شك ر شبهة ولا يتحقق هذه الحالة المتعلقة في سوانح المسيح الا عند واقعة الصليب" له حضور نے متعدد قرآنی آیات سے استدلال فرمایا ہے کہ ایواء کا لفظ مصیبت اور تکلیف سے نجات دینے کے معنوں میں ہی مستعمل ہوتا ہے اور آخر میں فرمایا ہے کہ اسی مسیح کے صلیب پر نہ مرنے کا استدلال اس طرح ہوتا ہے کہ مسیح کی زندگی میں واقعہ صلیب کی تکلیف سے بڑھ کر اور کسی تکلیف کا علم نہیں ہوتا.فرمایا :- قبينوا لنا الى بلاء نزل على ابن مريم ومعه على الله اشد من بلاء الصليب ثم اتى مكان أوا هما الله اليه من دون دبوة كشمير بعد ذلك اليوم العصيب - أ تكفرون بما اظهره الله وان يوم الحساب قریب سے پھر فرمایا : " إنه لا شك ولا شبهة ولا ريب ان عيسى لما من الله عليه بتخليصه من بلية الصليب هاجر مع امه وبعض صحابته الى كشمير وربوته التي كانت ذات قرار ومعين ومجمع الاعاجيب واليه اشار ربنا ناصر النبيين ومعين المستضعفين في قوله" وجعلنا ابن مريم وامه آية وأويلهما إلى ربوة ذات قرار و معين له پھر آپ اسی سلسلہ میں فرماتے ہیں :- اوی کا لفظ نہ بان عرب میں ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے کہ جب کسی شخص کو کسی قدر مصیبت یا " لها تذكرة الشهادتين من زمانی خزائن جلد : ۱۲ - الهدى والتبصرة لمن يرى ١٣ جلد ۱۸: :- الهدى والتبصرة لمن يرى حاشیه ها جلد ۱۸ به ۱۹۳- ايضا ص ۱۲۲ :
کہ ابتلاء کے بعد اپنی پناہ میں لیا جائے اور کثرت مصائب اور تکلف ہونے سے بچایا جائے جیسا کہ اله تعالیٰ فرماتا ہے.الم يجدك يتيما نادی اسی طرح تمام قرآن شریف میں ادی اور آدمی کا لفظ ایسے ہی موقعوں پر استعمال ہوا ہے کہ جہاں کسی شخص یا قوم کو کسی قدر تکلیف یا کے بعد پھر آرام دیا گیا ہے دیا پس آیت کریمہ مذکورہ بالا میں آدینھما کا لفظ واضح طور پر اشارہ کر رہا ہے کہ الہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو واقعہ صلیب کی مصیبت سے نجات کے بعد ایک محفوظ مقام پر پناہ دی اور یہ ان کے صلیب سے زندہ اتر آنے کی ایک بہت بڑی دلیل ہے.چوتھی دلیل اس ضمن میں جو بھی دلیل کے طور پر حضور نے آیت قرآنی کے اس حصہ کو پیش فرمایا ہے :- ومُظَهِرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا : در یعنی میں تجھے کا فرلوگوں کے الزامات سے پاک وصاف کیروں گا حضور فرماتے ہیں :." قرآن شریف میں ایک یہ بھی آیت ہے ومُطَّهِرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا - یعنی اسے عیسی میں ان الزاموں سے تجھے بری کروں گا اور تیرا پاکدامن ہونا ثابت کر دوں گا اور ان تہمتوں کو دور کر دوں گا جو تیر سے پر یہود اور نصاری نے لگائیں " سے پھر اس سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا : - یہ ایک بڑی پیش گوئی تھی اور اس کا ماحصل یہی ہے کہ یہود نے یہ تہمت لگائی تھی کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح مصلوب ہو کر معدن ہو کر خدا کی محبت ان کے دل میں سے جاتی رہی اور جیسا کہ لعنت کے مفہوم کے لئے شرط ہے ان کا دل خدا سے برگشتہ اور خدا سے بیزالہ ہوگیا اور تاریکی کے بے انتہا طوفان میں پڑ گیا اور بدیوں سے محبت کرنے لگا اور کل نیکیوں ! کا مخالف ہو گیا اور خُدا سے تعلق توڑ کر شیطان کی بادشاہت کے ماتحت ہو گیا اور اس میں اور خدا میں حقیقی دشمنی پیدا ہوگئی اور یہی تہمت ملعون ہونے کی نصاری نے بھی لگائی تھی.....سو حضرت مسیح پر یہ سخت نا پاک تہمتیں لگائی گئی تھیں اور مُجِھوٹ کی پیشگوئی میں یہ اشارہ - کہ ایک زمانہ وہ آتا ہے کہ خدائے تعالیٰ ان الزاموں سے حضرت مسیح کو پاک کر یگا ہے تذکرة الشہادتین مث جلد ۲۰ بن گے میری ہندوستان میں مٹ جلده : ۱۳ - ایضاً
ظاہر ہے کہ یہ سب الزامات مسیح پر اس وجہ سے تھے کہ معترضین کے خیال کے مطابق وہ صلیب پر کر گئے تھے.اب جب تک صلیب پر مرنے کا رد نہ ہو ان الزامات کا رہ بھی نہیں ہو سکتا.پس گویا اشارہ ہے.کہ رہو رد ایک وقت آئے گا جبکہ یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ مسیح مصیب پر نہیں ملا تھا.چنانچہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن حکیم کی گواہی سے اور قبر مسیح کے انکشاف وغیرہ سے یہ امر ثابت فرما دیا ہے فالحمد للہ علی ذالک.حضور نے فرمایا ہے :- " حضرت عیسی علیہ السلام کی تطہیر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی سے بھی عقلمندوں کی نظروں میں بخوبی ہوگئی.کیونکہ آنجناب نے اور قرآن شریف نے گواہی دی کہ وہ الزام سب جھوٹے ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام پر لگائے گئے تھے.لے اسی طرح قبرسیح کے مل جانے سے مشہور محسوس طور پر اور بڑی صراحت کے ساتھ الزامات کا غلط ہونا ثابت ہو گیا اور انس طرح یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ شیخ علیہ السلام ہرگز ہرگز صلیب پر نہیں سکے.ہو پانچویں دلیل حضرت مسیح علیہ السلام کے مطلب پر نہ مرنے کی پانچویں دلیل کے طور پر حضور نے اس آیت کریلہ کو پیش فرمایا ہے :- " إذْ قَالَتِ الْمَلَئِكَةُ يُمَرْيَمُ اِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكَ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ المسيح بن مريم المقربين وَجِيْمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ (آل عمران : ۳۶) اس آیت کے حصہ وجيها في اللدُّنیا سے حضور نے حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کی تردید کا استدلال فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں:." قرآن شریف میں ایک یہ بھی آیت حضرت مسیح کے حق میں ہے وجيما في الدنيا والآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ دنیا میں بھی مسیح کو اس کی زندگی میں باتیں وجاہت یعنی عزت اور مرتبہ اور عام لوگوں کی نظر میں عظمت اور بزرگی ملے گی.اور آخرت میں بھی " سے اس آیت کہ یہ مذکورہ بالا کے مطابق مسیح کو اس دنیا اور آخرت میں، ہر دو جگہ عزت اور سرخروئی مسیح ہندوستان میں مٹ جلد ۱۲ ہے : مسیح ہندوستان میں ص ۵۳۰ جلد ۱۵
۳۴۸ نصیب ہونی چاہیئے لیکن امر واقعہ کیا ہے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے الفاظ میں : کیا اب ظاہر ہے کہ حضرت مسیح نے ہیرودیس اور بلا طوس کے علاقہ میں کوئی عزت نہیں پائی بلکہ غایت درجہ کی تحقیر کی گئی اور یہ خیال کہ دنیائیں پھر اگر عزت اور بزرگی پائیں گے.یہ ایک بے اصل وہم ہے جو نہ صرف خدا تعالیٰ کی کتابوں کے منشاء کے مخالف بلکہ اس کے قدیم قانونِ قدرت سے بھی مغائر اور مباین اور پھر ایک بے ثبوت امر ہے.لے ظاہر ہے کہ خدا کا کلام باطل نہیں ہو سکتا.دوسری طرف واقعات ہمارے سامنے ہیں.اس عقیدہ کا حل کیا ہے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان واقعات کی اصلیت بیان کرتے ہوئے اس عقدہ کوحل فرماتے ہیں :- واقعی اور سچی بات یہ ہے کہ حضرت شیخ علیہ السلام نے اس بد بخت قوم کے ہا تھ سے نجات پا کہ جب ملک پنجاب کو اپنی تشریف آوری سے بر بخشا تو اس ملک میں خدائے تعالیٰ نے ان کو بہت عزت دی اور بنی اسرائیل کی وہ دن قومیں جو گم تھیں اس جگہ آکر ان کول گیش....چونکہ حضرت مسیح کی دعوت میں آنے والے نبی کے قبول کرنے کی وصیت تھی اس لئے وہ دینی فرقے جو اس ملک میں آکر افغان اور کشمیری کہلائے آخر کار سب کے سب مسلمان ہو گئے.غرض اس ملک میں حضرت مسیح کو بڑی وجاہت پیدا ہوئی " سے فر مایا : رمایا حال میں ایک بستہ ملا ہے جو اسی ملک پنجاب میں سے بیہا مکہ ہوا ہے اس پر حضرت عیسی علیہ السلام کا نام پالی تحریر میں درج ہے اور اسی زمانہ کا سکہ ہے جو حضرت مسیح کا زمانہ تھا.اس کی یقین ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس ملک میں آکر شاہانہ عزت پائی اور غالباً یہ سگر ایسے بادشاہ کی طرف سے جاری ہوا ہے.جو حضرت مسیح پر ایمان سے آیا تھا.ایک اور سنگہ بہ آمد ہوا ہے اس پر ایک اسرائیلی مرد کی تصویر ہے.قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی حضرت مسیح کی تصویر ہے.قرآن شریف میں ایک یہ بھی آیت ہے کہ مسیح کو خدا نے ایسی برکت دی ہے کہ جہاں جائے گا وہ مبارک ہوگا وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا اينما كنتُ ) سوان ر سکوں سے ثابت ہے کہ اسی خدا سے بڑی برکت پائی اور وہ فوت نہ ہوا جب تک اس کو ایک شاہانہ عزت نہ دی گئی یہ تے حضرت مسیح علیہ السلام کی میلیبی موت سے نجات پر ہمارا استدلال یہ ہے کہ قرآن شریف کا یہ بیان روجتها ه: مسیح ہندوستان میں منٹ ڈھانی خزائن جلده ) : ه: - ایضاً ص ۵۴ چلد ۱۵
۳۴۹ في الدنیا) اسی صورت میں درست ہو سکتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے صلیب پر وفات نہ پائی ہو.کیونکہ صلیہ کے وقت تک ان کو دنیا میں وجاہت نصیب نہ ہوسکی.یہ وجاہت جیسا کہ مذکورہ بالا حوالہ سے واضح ہے ان کو واقعہ صلیہ کے بعد نصیب ہوئی جب وہ شام سے ہجرت کر کے کشمیر آئے.پس جب خدائی بیان کی سچائی میں شک نہیں ہو سکتا تو لازمی طور پر ماننا پڑے گا کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے کیونکہ تاریخی طور پر یہ امر ثابت شدہ ہے کہ صدی کے واقعہ تک ان کو دنیا میں عزت حاصل نہیں ہوئی بلکہ ان کی حالت ان کے اپنے الفاظ میں یہ تھی کہ :.لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر ابن آدم کے لئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں" سے ان کو جو وجاہت نصیب ہوئی وہ واقعہ صلی کے بعد ہوئی.پس ان کی صید بی موت کا خیال باطل ہے.حدیثی براہین قرآن مجید کے علاوہ احادیث نبویہ سے بھی اس بات کے دلائل ملتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے.چنانچہ حدیث کے دلائل درج ذیل ہیں :- چھٹی دلیل صیبی میت کی تو دیدیں بھٹی دلیل حدیث کی رو سے پیش کی گئی ہے.احادیث میں حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر باختلاف روایات ۱۲۰ اور ۱۲۵ سال بیان کی گئی ہے.ان دونوں قسم کی احادیث میں سے خواہ کسی حدیث کو بنیاد بنا لیا جائے ہمارا استدلال ہر صورت میں یہ ہے کہ اگر حادثہ صلیب کے وقت ان کی مدت مان نی جائے جو ۳۲ یا ۳۳ سال کی عمر میں پیش آیا تھا تو پھر ان کے ۱۲۰ یا ۱۲۵ سال تک آیا نہ زندہ رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس حدیث کے بیان کے مطابق صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح واقعہ صلیہ کے بعد زندہ رہنے اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ صلیب پر فوت نہیں ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دلیل کو یوں بیان فرمایا ہے :- احادیث میں آیا ہے کہ اس واقعہ کے بعد عیسی بن مریم نے ایک سو بین کلی برس کی عمر بائی اور پھر فوت ہو کر اپنے خدا کو حاملا له لے :- لوقا ه : تذكرة الشهادتين من - جلد ۶۲۰
۳۵۰ 7 نیز فرمایا حدیث صحیح میں حضرت عیسی کی عمر ایک سو بیس برس مقرر کر دی گئی ہے ؟ 1 پھر اسی تسلسل میں فرمایا : - لے حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ایک سو بیس برس کی عمر ہوئی تھی لیکن تمام یہود و نصاری کے اتفاق سے صلیب کا واقعہ اس وقت پیش آیا جبکہ حضرت ممدوح کی عمر صرف تینتیس برس کی تھی.اس دلیل سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صدی سے بفضلہ تعالیٰ نجات پا کر باقی عمر سیاحت میں گزاری تھی سے ساتویں دلیل واقعہ صلیہ سے زندہ بچ نکلنے کا ایک اور ثبوت احادیث کی رو سے یہ ملتا ہے کہ احادیث میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ہجرت کرنے کا واضح ذکر پایا جاتا ہے.ظاہر ہے کہ یہ برت واقعہ صلیب کے بعد ہی ہوسکتی ہے کیونکہ اس سے قبل ہجرت ثابت نہیں.اور صلیب کے حادثہ کے بعد ہجرت ان کے مدد سے بچ نکلنے کا ثبوت ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں : احادیث میں معتبر روایتوں سے ثابت ہے کہ ہمار سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سیح کی عمر ایک سو پچیس برس کی ہوئی ہے اور اس بات کو اسلام کے تمام فرقے مانتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام میں دو ایسی باتیں جمع ہوئی تھیں کہ کسی نبی میں وہ دونوں جمع نہیں ہوئیں.دا) ایک یہ کہ انہوں نے کامل عمر پائی یعنی ایک سو پچیس برس زندہ رہے.(۲) دوم یہ کہ انہوں نے دنیا کے اکثر حصوں کی سیاحت کی اس لئے نبی ستیاح کہلائے.اب ظاہر ہے کہ اگر وہ تینتیس برس کی عمرمیں آسمان کی طرف اٹھائے جاتے تو اس صورت میں ایک سو پچیس برسی کی روایت صحیح نہیں ٹھہر سکتی تھی اور نہ اس چھوٹی سی عمر میں تینتیس برس میں سیاحت کر سکتے ہیں.اور یہ روایتیں نہ صرف حدیث کی معتبر اور قدیم کتابوں میں لکھی ہیں.بلکہ مسلمانوں کے فرقوں.میں اس تواتر سے مشہور ہیں کہ اس سے بڑھ کہ متصور نہیں کنز العمال جو احادیث کی ایک سے ہیں سے بڑھ کر متصورنہیں کنز العمال جواحادیث جامع کتاب ہے اس کے صفحہ ۲۴ (جلد دوم) میں ابو ہریرہ سے یہ حدیث لکھی ہے اوحی الله تعالى الى عينى ان يا عيسى انتقل من مكان الى مكان لكلا تعرف فتودى ہے.ایام المصطلح ماشیہ من جلد ۱۴ : را از حقیقت حاشیہ ملت ۳ - جلد بن
۳۵۱ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ اسے عیسی ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف نقل کرتا رہ یعنی ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف بہا تا کہ کوئی تجھے پہچان کر دکھ نہ دے.پھر اسی کتاب میں جابر سے روایت کر کے یہ حدیث لکھی ہے.کان عیسی ابن مریم بسیح فاذا امسی اكل بقل الصحراء ويشرب الماء القراح (جلد دوم صت) یعنی حضرت علی علیہ السلام ہمیشہ سیاحت کیا کرتے تھے اور ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف سیر کرتے تھے اور جہاں شام پڑتی تھی تو جنگل کے بقولات میں سے کچھ کھاتے تھے اور خالص پانی پیتے تھے.اور پھر اسی کتاب میں عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے جسکی یہ الفاظ ہیں.قال احب الشي الى الله الغرباء قيل اى شيئ الغرباء قال الذين يفرون بدينهم ويجتمعون إلى عیسی ابن مریم (جلد مث یعنی فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ، سب سے پیارے خدا کی جناب میں وہ لوگ ہیں جو عیسی مسیح کی طرح دین سیکر اپنے ملک سے بھاگتے ہیں.لہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ بیان اور استعمال بہت واضح ہے.اگر حضرت عیسی علیہ السلام صلیب پر سر گئے تھے تو ان کے ہجرت کرنے اور جگہ جگہ پھر نے کا کونسا وقت تھا ؟ ان کی ہجرت تو مسلم ہے تاریخی ثبوت ہم الگ دلیل کے طور پر ذکر کریں گے اور اس کو صحیح ماننے کی بنیاد یہ امر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر ہرگز فوت نہیں ہوئے تھے پس اس استدلال سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے صلیب پر وفات نہیں پائی بلکہ زندہ بیچ کہ ہجرت کی اور پھر فوت ہوئے.انجیلی براہین عیسائیوں پر اتمام محبت کرنے کے لئے چونکہ انجیل کے دلائل زیادہ موثر ثابت ہو سکتے ہیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اناجیل سے بھی بکثرت دلائل مسیح کی مصیبی موت کی تردید میں دیئے ہیں.چنانچہ اب میں ان دلائل کو بیان کرتا ہوں جو از روئے انجیل حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کی تردید میں حضور نے بیان فرمائے ہیں.مسیح ہندوستان میں ص ۵۶ - جلد ۱۵:
: ۳۵۲ اٹھویں دلیل حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کی تردید میں رہے زبر دست انجیلی دلیل یونس نبی کے نشان سے مشابہت کی دلیل ہے.اصل واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا جانے لگا تو اس زمانہ کے لوگوں نے ان سے یہ نشان طلب کیا کہ وہ صلیب کے عذاب سے بیچ کر دکھائیں اس کے جواب میں حضرت مسیح نے یہ فرمایا : - اس زمانہ کے بیر سے اور زنا کا رلوگ نشان طلب کرتے ہیں مگر یوناہ کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا " رمتی ہے) N - پھر ایک اور مقام پر لوں لکھا ہے کہ : - اُس نے جواب دے کر ان سے کہا کہ اس نہ مانے کے برسے اور زنا کا ر لوگ نشان طلب کرتے ہیں مگر یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا.کیونکہ جیسے یونس تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا " (متی ) ان حوالوں سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ اسلام سے صرف ایک نشان دکھانے کا وعدہ کیا تھا اور اس پر حصر کیا تھا.یہ نشان یونس نبی کا نشان تھا.اس نشان کے سلسلہ میں بائیبل ہی میں یہ لکھا ہے :.یوناہ تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا.تب یوناہ نے چھلی کے پیٹ میں خداوند اپنے خدا سے دعا مانگی یہ ریوناہ 7 د ) پس خلاصہ یہ ہوا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے لازم تھا کہ وہ بھی حضرت یونس علیہ السلام کی طرح تین دن رات زمین کے اندر رہتے اور زندہ داخل ہوتے ، نہ ندہ زمین رہتے اور زندہ ہی باہر نکل آتے تا انکی یونس سے مشابہت پوری ہوتی اور ان کا وہ وعدہ پورا ہوتا کہ اس زمانہ کے لوگوں کو صرف یہ ایک نشان دکھلایا جائے گا.حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب سے نجات پانے پر ہمارا بہت ہی سادہ لیکن واضح او قطعی استدلال یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر مر گئے ہوں تو پھر ان کی حضرت یونس علیہ السلام کے معجزہ سے مشابہت تو کی باطل، ان کا قول غلط اور ان کی پیش گوئی جھوٹی ثابت ہوتی ہے اور یہ مکن نہیں کہ نبی کا قول باطل ہو.مزید برای اس پیشگوئی کے غلط ہونے کی صورت میں ان کی صداقت، نبوت اور معصومیت کے سب دعاوی
۳۵۳ باطل ہو جاتے ہیں.پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں مرے تھے بلکہ وہ اپنی پیش گوئی کے مطابق زندہ زمین کے اندر ایک قبر نما جگہ میں داخل ہوئے ، تین دن اس کے اندر بے ہوشی کی حالت میں زندہ رہے اور پھر زندہ ہی زمین سے باہر آگئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دلیل کو جن الفاظ میں بیان فرمایا ہے وہ درج ذیل ہیں :- (1) پہلی دلیل یہ ہے کہ وہ (یعنی مسیح.ناقل ) انجیل میں یونس نبی سے اپنی مشابہت بیان فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یونس کی طرح میں بھی قبر میں تین دن رہوں گا جیسا کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں رہا تھا.اب یہ مشابہت جو نبی کے مونہہ سے نکلی ہے قابل غور ہے کیونکہ اگر حضرت مسیح مردہ ہونے کی حالت میں قبر میں رکھے گئے تھے تو مُردہ اور زہندہ کی کیسی طرح مشابہت ہو سکتی ہے ؟ کیا یونس مچھلی کے پیٹ میں مرا رہا تھا ؟ سو یہ ایک بڑی دلیل اس بات پر ہے کہ ہر گز مسیح علیہ اسلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور نہ وہ مردہ ہونے کی حالت میں قبر میں داخل ہوئے " سے (۳) خود حضرت مسیح علیہ السلام کی اس مثال کے موافق جو آپ نے یونس نبی کا تین دن پچھلی کے پیٹ میں رہنا اپنے انجام کار کا ایک نمونہ ٹھہرایا تھا.آپ کو خدا تعالیٰ نے صلیب اور اس کے پھل سے جو لعنت ہے نجات بخشی.اور آپ کی یہ دردناک آوانه که ایلی ایلی لما سبقتانی جناب اپنی میں سنی گئی.یہ وہ مکمل کھل ثبوت ہے جس ہر ایک حق کے طالب کا دل بے اختیار خوشی کے ساتھ اچھل پڑے گا یا ہے (۳) میں اس کو نہیں مانتا کہ وہ امیج ناقل صلیب پر سرے ہوں بلکہ میری تحقیقات سے یہی ثابت ہوا ہے کہ وہ صلیب پر سے زندہ اتر آئے اور خود مسیح علیہ السلام بھی میری رائے سے متفق ہیں.حضرت مسیح کا بڑا معجزہ یہی تھا کہ وہ صلیب پر نہیں مریں گے بلکہ یونس نبی کے نشان کا انہوں نے وعدہ کیا تھا اب اگر یہ مان لیا جائے جیسا کہ عیسائیوں نے غلطی سے مان رکھتا ہے کہ وہ صلیب پر مر گئے تھے تو پھر یہ نشان کہاں گیا اور یونس نبی کے ساتھ مماثلت کیسی ہوگی ؟ یہ کہنا کہ وہ قبر میں داخل ہو کر تین دن کے بعد نہ ندہ ہوئے بہت بے ہودہ بات ہے اس لئے کہ یونس تو نہ ندہ مچھلی کے پیٹ میں داخل ہوئے تھے نہ مرکہ.یہ نبی کی ہے اویی ہے اگر ہم اس کی تاویل کرنے لگیں اصل بات یہی ہے کہ وہ صلیب پر سے زندہ اتنہ آئے.ہر : ۱۲۵ ايام الصلح من جلد : ما ۱ ستاره قیصریه من جلد ۱۵ +
۳۵۴ (۴) (41 (4) الفطرة انسان کو واجب ہے کہ جو کچھ سیح نے صاف لفظوں میں کہا اس کو محکم طور پر ایک سلیم پکڑس نے ff +++ انجیل بھی بھی گواہی دیتی ہے کیونکہ میں نے یونس کے ساتھ اپنی تشبہہ پیش کی ہے اور کوئی عیسائی اسی بے خبر نہیں کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں نہیں مرا تھا.پھر اگر یسوع قبرمیں مردہ پڑا رہا تو مردہ کو زندہ سے کیا مناسبت اور زندہ کو مردہ سے کونسی مشابہت سے و مینج نے جو اپنے تئیں یونس سے مثال دی یہ اسی کی طرف اشارہ تھا کہ وہ قبریں زندہ داخل ہوگا اور زندہ رہے گا کیونکہ مسیح نے خدا سے الہام پایا تھا ک وہ صلیب کی موت سے ہرگزنہ نہیں مرے گا " سے " مسیح نے خود اپنے اس قصہ کی مثال یونس کے قصہ سے دی اور ظاہر ہے کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں مرا نہیں تھا.پس اگر مسیح مر گیا تھا تو یہ مثال صحیح نہیں ہو سکتی بلکہ ایسی مثال دینے والا ایک سادہ لوح آدمی ٹھہرتا ہے جس کو یہ بھی خبر نہیں کہ مشتبہ اور مشتبہ بہ میں مشابہت نامہ ضروری ہے کہ کفارہ کا مسئلہ تو حضرت عیسی نے آپ رد کر دیا ہے جبکہ کہا کہ میری یونس نبی کی مثال ہے جو تین دن زندہ مچھلی کے پیٹ میں رہا.اب اگر حضرت عیسی در حقیقت صلیب پر مرگئے تھے تو ان کو یونس سے کیا مشابہت اور یونس کو ان سے کیا نسبت ؟ انس تمثیل سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی صلیب پر مرے نہیں صرف یونس کی طرح بے ہوش ہو گئے تھے " ہے (۳) میں نے بطور پیش گوئی خود ہی کہا کہ بجز یونس کے نشان کے اور کوئی نشان دیکھایا نہیں جائے گا.پس مسیح نے اپنے اس قول میں یہ اشارہ کیا کہ جس طرح یونس نہ ندہ ہی مچھلی کے پیٹ میں داخل ہوا اور زندہ ہی نکلا ایسا ہی یکی بھی زندہ ہی قبر میں داخل ہوں گا.نہ.اور زندہ ہی نکلوں گا.سو یہ نشان بجز اس کے کیونکہ ٹویا ہو سکتا تھا کہ میچ زندہ صلیب سے اتارا جاتا اور زندہ قبر میں داخل ہوتا " شه ه :- ملفوظات جلد دوم ص۲۸۷ - ۲۸۷ ٥٣: ے: سراج منیر ص روحانی خزائن جلد ۱۲ : - كتاب البریہ ص ۲ حاشیه روحانی خزائن جلد ۱۳ : ۱۵ - ست بچن حاشیه ص ۱۲ روحانی خزائن جلد ۱۰ جلد ۲۰ : : - کشتی نوح منة شه : چشمه سیحی ۲۶ جلد :
۳۵۵ (۱۲) اگر یہ سوال ہو کہ کونسا قرینہ خالص مسیح کے لفظ کا اس بات یہ ہے کہ اس موت سے مراد حقیقی موت مراد نہیں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قرینہ بھی خود مسیح نے فرمایا ہے جبکہ فقیہہ اور فریسی اور یہودیوں کے مولوی اکھٹے ہو کہ اس کے پاس گئے کہ تو نے مسیح او ہونے کا تو دعوی کیا پر اس دعوی کو کیونکہ بغیر معجزہ کے ہم مان لیں تو حضرت مسیح نے ان فقیہوی اور مولویوں کو جواب دیا کہ اس زمانہ کے حرام کار لوگ مجھ سے معجزہ مانگتے ہیں لیکن ان کو بنجر یونس ہی کے حجزہ کے اور کوئی معجزہ نہیں دکھایا جائے گا یعنی یہ معجزہ دکھایا جائے گا کہ جیسے یونس نبی تین دن مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا اور برا نہیں ایسا ہی قدرت اپنی سے میسج بھی تین دن تک بحالت زندگی قبرس رہے گا اور نہیں کریگا.اگر مسیح کے الفاظ مذکورہ کوحقیقی موت پر حمل کرلیں تو یہ معجزہ یونس کی مشابہت کا باطل ہو جائے گا کیونکہ یونس مچھلی کے پیٹ میں بیحالت نہ ندگی رہا تھا نہ سرکہ ہو کہ.سوا اگر مسیح مرگیا تھا اور میت کی حالت میں قبر میں داخل کیا گیا تھا تو اس کو یونس کے اس واقعہ سے کیا مشابہت اور یونس کے واقعہ کو اس واقہ سے کیا مناسبت اور مردوں کو زندوں سے کیا ماثلت.سو یہ کافی اور کامل قرینہ ہے کہ مسیح کا یہ کہنا کہ میں تین دن تک کروں گا حقیقت پر محمول نہیں بلکہ اس مجازی موت مراد ہے جو سخت بخشی کی حالت تھی.حضرت عیسی صلیب پر ہر گز نہیں سرسے ورنہ وہ نعوذ باللہ اپنے لئے یونس نہی کی مثال پیشش کرنے میں دروغ گو ٹھرتے ہیں " سے "اگر وہ صلیب پر مرتا تو اپنے قول سے خود جھوٹا ٹھہرتا کیونکہ اس صورت میں یونس کے ساتھ اس کی کچھ مشابہت نہ ہوتی " کے نجیب بات ہے کہ ایک طرف تو حضرات عیسائیاں انجیلوں کے حوالہ سے یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی کے اس واقعہ کو یونس کے واقعہ اور اسحق کے واقعہ سے مشابہت تھی اور پھر آپ ہی اس مشابہت کے برخلاف عقیدہ رکھتے ہیں.کیا وہ نہیں بتلا سکتے ہیں کہ یونس نبی چھلی کے پیٹ میں مردہ ہونے کی حالت میں داخل ہوا تھا اور مردہ ہونے کی حالت میں اس کے اندر او یا تین دن تک رہا.پس یونس سے میسوع کی مشابہت کیا ہوئی.زندہ کو مردے سے کیا مشابہت؟ مرست : ان اراد ام حقه اول مت بت جلد خمیر با این حمد ترجمه پنجم حاشیه من جلد ۲۱ : : سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب مل جلد ۶۱۲
اور کیا حضرات عیسائیاں ہمیں تبلا سکتے ہیں کہ اسحق حقیقت میں ذبح ہو کہ پھر نہ ندہ کیا گیا کیا تھا اور اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر یسوع کے واقعہ کو اسحق کے واقعہ سے کیا مشابہت" (۱۳) مسیح صلیب پر نہیں مرا اور اس کو خدا نے صلیب کی موت سے بچا لیا.بلکہ جیسا کہ اس نے کہا تھا کہ میری حالت یونس سے مشابہ ہے ایسا ہی ہوا.نہ یونس مچھلی کے پیٹ میں مرا نہ یسوع صلیب کے پیٹ پہ ہے ۱۳ " خود حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ میری مثال یونس نبی کی طرح ہے اور یونس کی طرح میں بھی تین دن قبر میں رہوں گا.اب ظاہر ہے کہ مسیح جونبی تھا اس کا قول جھوٹا نہیں ہو سکتا.اس نے اپنے قصہ کو یونس کے قصہ سے مشابہ قرار دیا ہے اور چونکہ یونس مچھلی کے پیٹ میں نہیں سرا بلکہ نہ ندہ رہا اور نہ ندہ ہی داخل ہوا اس لئے مشابہت کے تقاضا سے ضروری طور پر یہ مانا پڑتا ہے کہ مسیح بھی قبرمیں نہیں مرا اور نہ مردہ داخل ہوا ورنہ مردہ کو زندہ سے کیا مشابہت ؟" سے (10) حضرت مسیح نے یونس نبی کے نشان کی طرف جو اشارہ فرمایا تو اس کی حضرت مسیح کا یہ مطلب تھا کہ یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں ہلاک نہیں ہوا بلکہ زندہ رہا اور زندہ نکل آیا ایسے ہی میں بھی صیب پہ نہیں مروں گا اور نہ قبر میں مردہ داخل ہوں گا " سے نبی کے کلام میں جھوٹ جائزہ نہیں.بیج نے اپنی قبرمیں رہنے کے تین دن کو یونس کے تین دنوں سے مشابہت دی ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ یونس تین دن مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا ایسا ہی سیح بھی تین دن قبر میں زندہ رہے گا اور یہودیوں میں اس وقت کی قبریں اس انہمانہ کی قبروں کے مشابہ نہ تھیں بلکہ وہ ایک کوٹھے کی طرح اندر سے بہت فراخ ہوئی تھیں اور ایک طرف کھڑکی ہوتی تھی جس کو ایک بڑے پتھر سے ڈھانکا ہوا ہوتا تھا ؟ شم رنا یہ اس یقینی ہے کہ حضرت عیسی مصیب پر فوت نہیں ہوئے اور انہوں نے خود یونس نہبی کے پھیلی کے قصہ کو اپنے قصے سے جو تین دن قبر میں رہنا تھا مشابہت دیکہ ہر ایک دانا کو یہ سمجھا دیا ہے کہ وہ یونس نبی کی طرح قبرمیں زندہ ہونے کی حالت میں داخل کئے گئے اور جب تک قبر میں رہے نہ ندہ رہے.ورنہ مردوں کو زندوں سے کیا مشابہت ہو سکتی ہے اور ضرور ہے کہ نبی : حقیقة الومی ص ۲ جلد ۲۲ : ته: - کتاب البرتبه ۲۵ جلد ۱۳ شند مسیح ہندوستان میں ملا جلد ۱۵ : سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب من جلد ۱۲ ه الاله او نام حصہ اول حثنا جلد ۳
۳۵۷ (IA) کی مثال بے ہودہ اور بے معنی نہ ہو.انجیل میں ایک دوسری جگہ بھی اس امر کی طرف اشارہ ہے جہاں لکھا ہے کہ زندہ کو مردوں میں کیوں کھینچتے ہو.بعض حواریوں کا یہ خیال کہ حضرت عیسی صلیب پر فوت ہو گئے تھے ہر گنہ صحیح نہیں ہے کیونکہ آپ کا قبر سے نکلنا اور حواریوں کو اپنے زخم دکھانا ، یونس نبی سے اپنی مشابہت فرمانا.یہ سب باتیں اس خیال کورہ ڈکرتی ہیں اور اس کی مخالف ہیں.لے "انجیل شریف پر غور کرنے سے.اعتقاد اصلیبی موت کا - ناقل) سراسر باطل ثابت ہوتا ہے.متی باب ۱۴ آیت.نہ میں لکھا ہے کہ جیسا کہ یونس تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ۲۰ ولیساہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا.اب ظاہر ہے کہ یونس تھیلی کے پیٹ میں مرا نہیں تھا اور اگر زیادہ سے زیادہ کچھ ہوا تھا تو صرف بے ہوشی اور خشی تھی اور خدا کی پاک کتابیں یہ گواہی دیتی ہیں کہ یونس خدا کے فضل سے مچھلی کے پیٹ میں زند رہا اور زندہ نکلا اور آخر قوم نے اس کو قبول کیا.پھر اگر حضرت مسیح علیہ السلام مچھلی لے کے پیٹ میں مرگئے تھے تو مردہ کو زندہ سے کیا مشابہت اور زندہ کو مردہ سے کیا مناسبت ا سکے رو۱) حقیقت یہ ہے کہ چونکہ مسیح ایک نبی صادق تھا اور جانتا تھا کہ وہ خدا جس کا وہ پیارا تھا.لعنتی موت سے اس کو بچائے گا اس لئے اسی خُدا سے الہام پا ک پیشگوئی کے طور پر یہ مثال بیان کی تھی اور اس مثال میں جتلا دیا تھا کہ وہ صلیب پر نہ مرے گا اور نہ لعنت کی کی ٹکڑی پر اس کی جان نکلے گی بلکہ یونس نبی کی طرح صرف غشی کی حالت ہوگی اور سیح نے اس مثال میں یہ بھی اشارہ کیا تھا کہ وہ زمین کے پیٹ سے نکل کر پھر قوم سے ملے گا اور یونس کی طرح قوم میں عزت پائے گا.سو یہ پیش گوئی بھی پوری ہوئی کیونکہ مسیح زمین کے پیٹ میں سے نکل کر اپنی ان قوموں کی طرف گیا جو کشمیر اور تبت وغیرہ مشرقی ممالک میں سکونت رکھتی تھی باشه (۲۰) خود مسیح نے انجیل میں اپنے اس واقعہ کی مثال حضرت یونس کے واقعہ سے منطبق کی ہے اور یہ کہا ہے کہ میرا قبر میں داخل ہونا اور قبر سے نکلنا یونس نبی کی مچھلی کے نشان سے مشابہ ہے اور ظاہر ہے کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں نہ مردہ داخل ہوا تھا اور نہ مردہ نکلا تھا بلکہ زندہ داخل ہوا اور زندہ ہی نکلا.پھر اگر حضرت مسیح قبر میں مُردہ داخل ہوا تھا تو اس کے ا کشف الغطاء حاشیہ کا ۳۵ جلد ۱۴ سے :- (غالیا اصل لفظ زمین ہوگا.راشد 14 به - ) مسیح ہندوستان میں ملا.جلدها : مسیح ہندوستان میں ملتا جلد ۵ :
YDA قصے کو یونس نبی کے قصے سے کیا مشابہت اور ممکن نہیں کر بی جھوٹ بو سے اس لئے یہ اس بات پر یقینی دلیل ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور نہ مردہ ہونے کی حالت میں قبر میں داخل ہوئے" سے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ بالا بیشک حوالہ جات سے یہ بات به تمام و کمال یک پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ہرگز صلیب پر فوت نہیں ہوئے.نوین دلیل حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب کے زندہ اترنے پر ایک زبردست دلیل حاکم وقت پہلا طوس کی بیوی کا وہ خواب ہے جس میں اسے بتایا گیا تھا کہ اگر مسیح کو موت کی سزادی گئی تو ان پر عذاب نازل ہوگا.اس خواب کی بناء پر پہلا طوریس نے ایسا اہتمام کیا کہ کسی طرح حضرت مسیح مصیب پر مرنے سے بچے جائیں پیلاطوس کسی جیسا کہ ہم آئندہ اسی باب میں رکھیں گے.اس خواب کا انا جیل میں واضح طور پریڈ کر تا ہے.مثلاً ایک جگہ لکھا ہے :- جب وہ تخت عدالت پر بیٹھا تھا تو اس کی بیوی نے اسے کہلا بھیجا کہ تواس راستباز سے کچھ کام نہ رکھ کیونکہ میں نے آج خواب میں اس کے سب سے بہت دُکھ اُٹھایا ہے.۲ اب ہمارا استدلال یہ ہے کہ اگر اس خواب کے با وجود حضرت مسیح کو صلیب دیا گیا ہوتا اور وہ صلیب پر مر گئے ہوتے تولازمی تھا کہ پیلاطوس کے خاندان پر خدائی عذاب نازل ہوتا لیکن تاریخ سے ایسا ہرگزنہ ثابت نہیں ہے.پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح صلیب پر نہیں مرسے ورنہ خدا کی دکھائی ہوئی خواب باطل اور یغو ثابت ہوتی ہے جو خدائی شان سے بعید ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس دلیل کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- (۱) میلی طوسی کی بیوی کو فرشتہ نے خوابمیں کہا کہ اگر یسوع مسولی پر مر گیا تو اس میں تمہاری تباہی ہے اور اس بات کی خداتعالی کی کتابوں میں کوئی نظیر نہیں ملتی کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی کو خواب میں فرشتہ کہے کہ اگر ایسا کام نہیں کرو گے تو تم تباہ ہو جاؤ گے اور پھر فرشتہ کے کہنے کا ان کے دلوں پر کچھ بھی اثر نہ ہو اور وہ کہنا رائیگان جائے اور اسی طرح یہ بات بھی سراسر فضول اور جھوٹ معلوم ہوتی ہے کہ خدا تعالٰی کا تو یہ پختہ ارادہ ہو کہ وہ یسوع مسیح کو سے تریاق القلوب مال جلد ۱۵ : : ستی : -
۳۵۹ سولی دے اور اس طرح پر لوگوں کو عذاب ابدی سے بچاو سے اور فرشتہ خواہ نخواہ یسوع مسیج کے بچانے کے لئے تڑپتا پھر سے کبھی پیلاطوس کے سپاہیوں کو اس پر مہربان کر سے اور ترغیب دے کہ وہ اسکی ہڈی نہ توڑیں اور کبھی پیلا طوس کی بیوی کے خواب پیلاطوس میں اُو سے اور اس کو یہ کہے کہ اگر یسوع مسیح سولی پہ مر گیا تو پھر اس میں تمہاری تباہی کی ہے.یہ عجیب بات ہے کہ خدا اور فرشتہ کا باہم اختلاف رائے ہو یہ سکے (۲) " " ایک اور آسمانی سبب یہ پیدا ہوا کہ جب پیلاطوس کچہری کی مسند پر بیٹھا تھا اسکی جورو نے اُسے کہلا بھیجا کہ تو اس راستبانہ سے کچھ کام نہ رکھ ولیعنی اس کے قتل کرنے کے لئے سعی نہ کہ کیونکہ میں نے آج رات خواب میں اس کے سب سے بہت تکلیف پائی دیکھو متی باب ۲۷ آیت ۱۹ - سویه فرشتہ جو خواب میں پلاطس کی جورو کو دکھایا گیا اس سے ہم اور ہر ایک منصف یقینی طور پر یہ سمجھے گا کہ خدا کا ہر گھر یہ منشاء نہ تھا کہ مسیح صلیب پر وفات پاد سے لے سے (۳) جس طرح مصر کے قصہ میں مسیح کے بار سے جانے کا اندیشہ ایک ایسا خیال ہے جو خدائے تعالیٰ کے ایک مقرر شدہ وعدہ کے بر خلاف ہے اسی طرح اس جگہ بھی یہ خلاف قیاسی بات ہے کہ خدائے تعالیٰ کا فرشتہ پلا طوس کی جورو کو نظر آر سے اور اس ہدایت کی طرف اشارہ کر سے کہ اگر مسیح صلیب پر فوت ہو گیاتو یہ تمہار سے لئے اچھا نہ ہو گا تو پھر اس غرض سے فرشتہ کا ظاہر ہونا ہے سود جاد سے اور سیح صلیب پر مارا جائے.کیا اسکی دنیا میں کوئی نظیر ہے ؟ ہر گنہ نہیں.ہر ایک نیک دل انسان کا پاک کانشنس جب پلا طوس کی بیوی کے خواب پر اطلاع پائے گا تو بے شک وہ اپنے اندر اس شہادت کو محسوس کریگا کہ در حقیقت اس خواب کا منشاء یہی تھا کہ مسیح کے چھوڑا نے کی ایک بنیاد ڈالی جائے.....انصاف کے رو سے مانا پڑتا ہے کریلا طوسی کی بیوی کی خواب بسیج کے صلیب سے بچنے پر ایک بڑے وزن کی شہادت ہے اور سب سے اول درجہ کی انجیل متی نے اس شہادت کو قلمبند کیا ہے " سے (۴) دوسری دلیل یہ ہے کہ پیلاطوس کی بیوی کو خواب میں دکھلایا گیا کہ اگر یہ شخص مارا گیا تو ه تریاق القلوب ص۱۱۱ جلد ۱۵ س: مسیح ہندوستان میں ص۲۲ جلدها ے: مسیح ہندوستان میں جلد 10 24
اس میں تمہاری تباہی ہے.اب ظاہر ہے کہ اگر حقیقت میں عیسی علیہ السّلام صلیب دئیے جاتے یعنی صلیبی موت سے سر جاتے تو ضرور تھاکہ جو فرشتہ نے پیلاطوس کی بیوی کو کہا تھاوہ وعید ہو کر ہوتا جانی فکر تاریخ سے ظاہر ہے کہ پیلاطوس پر کوئی تباہی نہیں آئی ہے اے (۵) اگر مرتا (یعنی مسیح صلیب پر مرتا.ناقل ) تو پیلاطوس پر بھی ضرور و بال آتا کیونکہ فرشتہ " نے پیلاطوس کی جورو کو یہ خبردی تھی کہ اگر یسوع مرگیاتو یاد رکھو کہ تم پر وبال آئے گا مگر پیلا لوس پر کوئی وبال نہ آیا یہ ہے جب پیل طوس کی بیوی کو فرشتہ نظر آیا اور انہیں اس کو دھمکایا کہ اگر میسورع مارا گیا تو اس تمہاری تباہی ہوگی.یہی اشارہ خدا تعالی کی طرف سے بچانے کے لئے تھا.ایسا دنیا میں کبھی نہیں ہوا کہ اس پر کسی راستباز کی حمایت کے لئے فرشتہ ظاہر ہوا ہوا اور پھر رویا میں فرشتہ (4) کا ظاہر ہونا عبث اور درحاصل گیا ہو اور سیکی سفارش کے لئے آیا ہو وہ ہلاک ہو گیا ہو یا سے ( صلیب پر چڑھانے سے پہلے اسی رات پیلاطوس کی بیوی نے جو اس ملک کا بادشاہ تھا ایک ہولناک خواب دیکھا تھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اگر یہ شخص جو یسوع کہلاتا ہے قتل کیا گیا تو تم پر تباہی آئے گی.استھی یہ خواب اپنے خاوند یعنی پیلاطوس کو بتلایا اور چونکہ دنیا دار لوگ اکثر وہمی اور بزدل ہوتے ہیں اس لئے پیلاطوس خاوند اس کا اس خواب کو سن کہ بہت ہی گھرایا اور اندر ہی اندر اس فکر میں لگ گیا کہ کسی طرح یسوع کو قتل سے بچا لیا جائے سو اس سوئی منصوبہ کے انجام کے لئے پہلا داؤ جو اب نہی یہودیوں کے ساتھ کھیلا وہ یہی تھا کہ یہ تدبیر کی کہ میسوع کو جمعہ کے روز عصر کے وقت صلیب دی جائے.....پہلا سبب یہی تھا کہ پیلاطوس کی بیوی کوخواب آیا اور اس ڈر کو پیلاطوس نے یہ تدبیرسوچی کہ یسوع جمعہ کے دن عصر کے وقت صلیب دیا جائے " ہے و اس کی دیعنی پیلاطوس کی.ناقل ) عورت نے خواب دیکھی کہ شخص را استبانہ ہے اگر پیلاطوس کہ اس کو قتل کر سے گا تو پھر اس میں اس کی تباہی ہے سو پیدا طوسی اس خواب کو سن کر اور بھی کرے کی ڈھیلا ہو گیا.اس خواب پر غور کر نے سے جو انجیل میں بھی ہے ہر ایک ناظر بصیر سمجھ سکتا ہے میں کہ ارادہ اپنی یہی تھا کہ مسیح کو قتل ہونے سے بچاو ہے سو پہلا اشارہ منشاء اہلی کا اس :- ايام الصلح ۳۵ جلد ما ۱۴ : كتاب البرية ملا جلد ١٣ : : سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب یہ جلد ۱۲: - -- ايام الصلح ص۱۲ ، ۱۳۲ جلدم :
خواب سے یہی نکلتا ہے اس پر خوب غور کرو نہ لے (9) اس نے دیعنی خدا نے ناقل پیلاطوس کے دل میں ڈال دیا کہ یہ شخص بے گناہ ہے اور فرشتہ نے خواب میں اس کی بیوی کو ایک رعب ناک نظارہ میں ڈرایا کہ اس شخص کے مصلوب ہونے میں تمہاری تباہی ہے.پس وہ ڈر گئے اور اس نے اپنے خاوند کو اس بات پر مستعد کیا کہ کسی حیلہ سے مسیح کو یہودیوں کے بک ارادہ سے بچا لیے " سے (۱۰) " جب سے دنیا پیدا ہوئی آج تک یہ کبھی نہ ہوا کہ جس شخص کے بچانے کیلئے خدایتعالی رویا میں کسی کو ترغیب دیگر ایسا کرنا چاہے تو وہ بات خطا جائے مثلاً انجیل متی میں سکھا ہے کہ خداوند کے ایک فرشتہ نے یوسف کو خواب میں دکھائی وسے کے کہا " اٹھاس لڑکے اور اس کی ماں کو ساتھ سے کہ مصر کو بھاگ جا اور وہاں جب تک میں تجھے خبر نہ دوں ٹھہرارہ کیونکہ ہیرو دوس اس لڑکے کو ڈھونڈ سے گا کہ مار ڈالے.دیکھو انجیل متی باب ۲ آیت ۱۳ - اب کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ میسوع کا مصر میں پہنچے کہ مارا جانا لکن تھا.اسی طرح خدائے تعالی کی طرف سے یہ ایک تدبیر تھی کہ پلا طوس کی جورو کو مسیح کے لئے خواب آئی اور ممکن نہ تھا کہ یہ تدبیر خطاباتی " سے پس ان مندرجہ بالا دسی حوالہ جات کے بعد کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں رہتی کرنا تھی وہ خواب جو پیلاطوس کی بیوی کو دکھائی گئی تھی خدا کی طرف سے حضرت مسیح کی صلیب سے نجات کی ایک آسمانی تدبیر تھی اور اس کا ایک زبر دست ثبوت ہے کہ وہ ہر گز صلیب کے اوپر فوت نہیں ہوئے.دسوین دلیل حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب سے زندہ اترنے کی ایک زیر دست دلیل ان کی عاجزانہ دکھا اور اس کی قبولیت ہے.یہ بات انا جیل سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے صلیب پر لٹکنے سے قبل اور پھر صلیب پر لٹکے ہوئے بے ہوشی سے قبل نہایت عاجزی اور زاری کے ساتھ اپنی نجات کے لئے دعائیں کیں.لکھا ہے کہ :- پھر ذرا آگے بڑھا اور منہ کے بل گر کر یوں دعا کی کہ اسے میرے باپ ! اگر ہوسکے تو یہ پیالہ -: انزاله : از اله او عام حصہ اول ۲۹ جلد ۳ : ہے : - كتاب البرية من جلد ١٣ : -: ۲۳ سے : مسیح ہندوستان میں - ۲۳ جلد ۱۵ :
۳۶۲ مجھ سے مل جائے.تو بھی نہ جیسا ئیں چاہتا ہوں مینگر جیسا تو چاہے ویساہی ہوئہ امتی ہیں) نیز لکھا ہے :.مجھے نے ٹیک کر یوں دعا کرنے لگا کہ اسے باپ اگر توچا ہے تو یہ پیالہ مجھ سے ہٹائے تو بھی میری مرضی نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پوری ہو یا روتا ہے راسی طرح یہ بھی لکھا ہے کہ :." تیسرے پہر کو یسوع بڑی آواز سے چلایا کہ الوھی الوھی لما شبقتنی؟ جس کا ترجمہ ہے اسے میرے خدا! اسے میر سے خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیار" (مرقس ) ! ان حوالہ جات میں مسیح کی نہایت عاجزانہ دعاؤں کا ذکر ہے جو اس نے صلیب سے قبل اور صلیب پر لٹکے ہوئے خدا سے کہیں.انجیل سے یہ بھی ثابت ہے کہ مسیح علیہ السلام کی یہ دعائیں قبول ہو گئی تھیں لکھا ہے :- " اس نے اپنی بشریت کے دنوں میں زور زور سے پکار کر اور آنسو بہا بہا کہ اسی سے دعائیں اور التجائیں کیں جو اس کو موت سے بچا سکتا تھا اور خدا تریسی کے سبب اس کی سنی گئی یا (عبرانیوں (2) پس ہمارا استدلال یہ ہے کہ : - ادل تو نبیوں کی دُعا جو اس زاری سے ہو ضرور قبول ہوتی ہے.دوم انجیل سے ثابت ہے کہ یہ دعا د افعی قبول ہوئی.پس جب یہ دعا صلیب کی میت سے نجات کے لئے تھی اور دُعا قبول ہو گئی تھی تو صاف ثابت ہو گیا کہ حضرت مسیح علیہ السّلام ہرگز صلیب پر فوت نہیں ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس دلیل کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : - (1) " تیسری دلیل یہ ہے کہ حضرت مسیح نے خود اپنے بچنے کے لئے تمام رات دعا مانگی تھی.اور یہ بالکل بعید از قیاس ہے کہ ایسا مقبول درگاہ الہی تمام رات رو رو کر دعا مانگے اور وہ دعا قبول نہ ہوگیا ہے " صلیب پر پھر سج نے اپنے بچنے کے لئے یہ دُعا کی اپنی اپنی لما سبقتانی آے میرے خدا با اسے میرے خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.اب کیونکر ممکن ہے کہ جب کہ ه ایام اصلح مثلا روحانی خزائن جلد ۱۴ +
اس حد تک ان کی گدازش اور سوزش پہنچ گئی تھی پھر خدان پر رحم نہ کرتا ہے (۳) " منجملہ ان شہادتوں کے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب سے محفوظ رہنے کے بارے میں نہیں انجیل سے ملتی ہیں وہ شہادت ہے جو انجیل متی باب ۲۶ میں معینی آیت ۳۶ سے آیت ۶ تہ تک مرقوم ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام گرفتار کئے جانے کا الہام پا کر تمام رات جناب الہی میں رو روکر اور سجد سے کرتے ہوئے دعا کرتے رہے اور ضرور تھا کہ ایسی تفریح کی دُعا جس کے لئے مسیح کو بہت لمبا وقت دیا گیا تھا قبول کی جاتی کیونکہ مقبول کا سوال جو بے قراری کے وقت کا سوال ہو ہر گز رد نہیں ہوتا.پھر کیوں مسیح کی ساری رات کی دُعا اور درد مند دل کی دُعا اور مظلومانہ حالت کی دُعا نہ ہو گئی حالانکہ میسح دعوی کرتا ہے کہ باپ جو آسمان پر ہے میری سُنتا ہے.پس کیو نکر بادہ کیا جائے کہ خدا اُس کی سُنتا تھا جبکہ ایسی بے قراری کی دُعا شتی نہ گئی یہ نے اہم) " بلاشبہ خدائے تعالی دعاؤں کو سُنتا ہے بالخصوص جبکہ اس پر بھروسہ کرنے والے مظلوم ہونے کی حالت میں اس کے آستانہ پر گرتے ہیں تو وہ ان کی فریاد کو پہنچتا ہے.اور ایک عجیب طور پر ان کی مدد کرتا ہے اور ہم اس بات کے گواہ ہیں تو پھر کیا باعث اور کیا سبب کہ مسیح کی ایسی بے قراری کی دُعا منظور نہ ہوئی ؟ نہیں بلکہ منظور ہوئی اور خدا نے اس کو بچالیا.خدا نے اس کے بچانے کے لئے زمین سے بھی اسباب پیدا کئے اور آسمان سے بھی.....مسیح کو دعا کرنے کے لئے تمام رات مہلت دی گئی اور وہ ساری رات سجدہ میں اور قیام میں خدا کے آگے کھڑا رہا کیونکہ خدا نے چاہا کہ وہ بے قراری ظاہر کر ے اور اس خدا سے جب کسی آگے کوئی بات انہونی نہیں اپنی مخلصی چاہیے.سو خُدا نے اپنی قدیم سنت کے موافق اس کی دعا کوشتنا..اور اپنے پیارے بیج کو صلیب اور اسکی لعنت سے بچالیا ا سکے (۵) اور اس کی دعا ایلی ایلی نما سبقتانی سنی گئی ہے انجیلوں سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ایک باغ میں اپنی رہائی کے لئے تمام رات دُعا کرتے رہے اور اس غرض اور مدعا سے کہ کسی طرح سولی سے نیچے جائیں ساری رات رونے اور گڑ گڑانے اور سجدہ کرنے میں گزری اور یہ غیر ممکن ہے کہ حسن نیک انسان کو (4) : ۱۲۵ ایام الصلح ما روحانی خزائن جلد ۱۴ : مسیح ہندوستان میں صفت روحانی خزائن جلد ۱۵ به مسیح ہندوستان میں مر روحانی خزائن جلده : شه : سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب مث میکند یا ہے من
۳۶۴ یہ توفیق دی جائے کہ تمام رات درد دل سے کسی بات کے ہو جانے کے لئے دعا کر ے اور اس دعا کے لئے اس کو پورا جوش عطا کیا جائے اور پھر وہ دعا نا منظور اور نا مقبول ہو.جب سے کہ دنیا کی بنیادپری اس وقت سے آج تک اس کی نظیر نہیں ملی اور خداتعالی کی تمام کتابوں میں بالاتفاق یہ گواہی پائی جاتی ہے کہ راستبازوں کی دُعا قبول ہوتی ہے اور ان کے کھٹکھٹانے پر ضرور کھولا جاتا ہے.پھر سیح کی دعا کو کیا روک پیش آئی کہ باوجود ساری رات کی گریہ زاری اور شور و غوفا کے ردی کی طرح پھینک دی گئی اور قبول نہ ہوئی.کیا خدا تعالیٰ کی کتابوں میں اس واقعہ کی کوئی اور نظیر بھی ہے کرکوئی مسیح جیسا راستبانہ یا اس سے کمتر تمام رات رو رو کر اور جگر پھاڑ کر ڈھاکہ سے کہ میری جان گھٹ رہی ہے اور میرا دل گرا جاتا ہے اور پھر ایسی دردناک دعا قبول نہ ہو ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ ہماری کوئی دعا قبول کرنا نہیں چاہتا تو جلد ہمیں اطلاع بخشتا ہے اور اس درد ناک حالت تک نہیں نہیں پہنچاتا جس میں اس کا قانون قدرت یہی واقعہ ہے کہ اس درجہ یہ وفادار بندوں کی دعا پہنچ کر ضرور قبول ہو جایا کرتی ہے.پھر مسیح کی دعا کو یا بلا پیش آئی کہ نہ وہ قبول ہوئی اور نہ ہی انہیں پہلے سے اطلاع دی گئی کہ یہ دعا قبول نہیں ہوگئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ یقول عیسائیوں کے خدا کی اس خاموشی سے سیج سخت حیرت میں پڑا یہانتک کہ جب صلیب پر چڑھایا گیا تو بے اختیار عالم نومیدی میں بول اُٹھا.ایلی ایلی نما سبقنانی یعنی اسے میرے خدا! اسے میرے خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.غرض میں نے اپنی کتابوں سے حق کے طالبوں کو اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ پہلے اس بات کو ذہن میں رکھ کہ کہ مقبولوں کی اوّل علامت مستحباب الدعوات ہوتا ہے خاص کر اس حالت میں جبکہ ان کا درد دل نہایت تک پہنچ جائے پھر اس بات کو سوچیں کہ کیونکہ ممکن ہے کہ باوجودیکہ حضرت مسیح علیہ السلام نے مارے غم کے لیے جان اور نا توان ہو کو ایک باغ میں جو پھل لانے کی جگہ ہے بکمال درد ساری رات دعا کی اور کہا کہ اسے میرے باپ اگر ممکن ہو تو یہ پیالہ مجھ سے ٹال دیا جائے مگر پھر بھی بایں ہمہ سوز و گدانہ اپنی دنیا کا پھل دیکھنے سے نامراد رہا.یہ بات عارفوں اور ایمانداروں کے نزدیک ایسی جھوٹ ہے جیسا کہ دن کو کہا جائے کہ رات ہے یا اُجالے کو کہا جائے کہ اندھیرا ہے یا چشمۂ شیریں کو کہا جائے کہ تلخ اور شور ہے.جو دُعا میں رات کے چار پہر برابر سوزد گراند کو ہے.جس اور گریہ و زاری اور سجدات اور جان کا ہی میں گزریں کبھی لیکن نہیں کہ خدائے کریم و رحیم ایسی دھا
۳۶۵ نامنظور کر ے.خاص کر وہ دعا جو ایک مقبول کے منہ سے نکلی ہو.پس اس تحقیق ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کی دعا قبول ہو گئی تھی.(6) مسیح نے صلیبی موت سے بچنے کے لئے باغ میں ساری رات دُعا کی اور اس کی آنسو جاندی ہو گئے تب خدا نے بباعث اس کے تقویٰ کے اس کی دُعا قبول کی اور اس کو صلیبی موت سے بچا لیا جیسا کہ خود انجیل میں بھی لکھا ہے" سے بالیا (۸) " خود اس نے (حضرت مسیح نے ناقل) خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے شاگردوں کو تعلیم دی تھی کہ اگر دعا کرو گے تو قبول کی جائے گی بلکہ ایک مثال کے طوربہ پر ایک قاضی کی کہانی بھی بیان کی تھی کہ جو نہ خلقت سے اور نہ خدا سے ڈرتا تھا اور اس کہانی سے بھی مدعا یہ تھا کہ تا حواریوں کو یقین آجائے کہ بے شک خدائے تعالٰی دُعا سنتا ہے.اور اگرچہ سیح کو اپنے پر ایک بڑی مصیبت کے آنے کا خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم تھا گرمی نے عارفوں کی طرح اس بناء پر دعا کی کہ خدائے تعالی کے آگے کوئی بات انہونی نہیں اور ہر ایک اثبات اس کے اختیار میں ہے لہذا یہ واقعہ کہ نعوذ باللہ مسیح کی خود کا قبول نہ ہوئی.یہ ایک ایسا امر ہے جو شاگردوں پر نہایت بداثر پیدا کر نیوالا تھا.سو کیونکہ یمکن تھا کہ ایسانمونہ جو ایمان کو ضائع کرنے والا تھا حواریوں کو دیا جاتا جبکہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ مسیح جیسے بزرگ نبی کی تمام رات کی پر سوز دعا قبول نہ ہوسکی تو اس بد نمونہ سے ان کا ایمان ایک سخت امتحان میں پڑتا تھا.لہذا خدائے تعالی کی رحمت کا تقاضا یہی تھا کہ اس دُعا کو قبول کرتا.یقینا سمجھو کہ وہ دعا جو شمین نام مقام پر کی گئی تھی ضرور قبول ہوگئی تھی یا سے (9) خدا اپنے پیار سے بندوں کی ضرور سنتا ہے اور شریروں کے مشورہ کو باطل کر کے کی دیکھاتا ہے تو پھر کیا وجہ کہ مسیح کی دُعا نہیں سنی گئی.ہر ایک صادق کا تجربہ ہے کہ بیقراری اور مظلومانہ حالت کی دعا قبول ہوتی ہے بلکہ صادق کیلئے مصیبت کا وقت نشان ظاہر کرنے کا وقت ہوتا ہے.مجھے (۱) لکھا ہے کہ جب مسیح کو یقین ہو گیا کہ یہ خبیث یہودی میری جان کے دشمن ہیں اور مجھے نہیں چھوڑتے تب وہ ایک باغ میں رات کے وقت جا کہ نارہ زمانہ رویا اور دعا کی کہ یا اہنی سه : - تریاق القلوب اتاه جلد : مسیح ہندوستان میں ملا جلد ۱۴ : ے لیکچر لاہور ملا جلد ۲۰ ہے مسیح ہند دستان میں صب جلد ۱۴ ؛
۳۲۶ اگر تو یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے تو تجھ سے بعید نہیں.تو جو چاہتا ہے کرتا ہے.اس جگہ عربی انجیل میں یہ عبارت لکھی ہے.فبکی ابدموع جارية، وعبرات متحدرة فسمع التقوائی یعنی میسوع مسیح اس قدر رویا کہ دعا کرتے کرتے اس کے منہ پر آنسو رواں ہو گئے اور وہ آنسو پانی کی طرح اس کی رخساروں پر بہنے لگے اور وہ سخت رویا اور سخت دردناک ہوا.تب اس کے تقویٰ کی وجہ سے اس کی دعا سنی گئی اور خدا کے فضل نے کچھ اسباب پیدا کر دیئے کہ وہ صلیب پر سے زندہ اتارا گیا ہے کہ (11) حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر چڑھا دیئے جانے کے بعد خدا نے مرنے سے بچا لیا اور ان کی وہ دُعا منظور کرلی جو انہوں نے دردِ دل سے باغ میں کی تھی یہ ہے (۱۳) حضرت عیسی علیہ السلام کی اپنی دعا بھی جو انجیل میں موجود ہے یہی ظاہر کر رہی ہے جیسا کہ اس میں لکھا ہے دعابد موعِ جارية وعبرات متحدرة فسمع لتقواه یعنی عیسی نے بہت گریہ و زاری سے دُعا کی اور اس کے آنسو اس کے رخساروں پر تے تھے.پس بوجہ اس کے تقویٰ کے وہ دُعا منظور ہو گئی.سے (۱۳) انہوں نے جان توڑ کر دُعا کی اور وہ دعا قبول ہو گئی اور خدا نے اس تقدیر کو اس " توڑ طرح بدل دیا کہ بگفتن سولی پر چڑھائے گئے.قبر میں بھی داخل کئے گئے مگر یونس کی طرح زندہ ہی داخل ہوئے اور زندہ ہی نکلے" کے (۱۳) " عیسائی کہتے ہیں کہ....دعا قبول نہ ہوئی لیکن ہم کہتے ہیں کہ وہ قبول ہو گئی اور خدا نے اس کو صلیب سے بچالیا.اور صرف یونس کی طرح قبر میں داخل ہوا اور یونس کی طرح زندہ ہی داخل ہوا اور زندہ ہی نکلا " شد (16) (۱۵) یسوع کی دعائیں صاف یہ لفظ ہیں کہ یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے سو خدا نے وہ پیالہ ٹال دیا اور ایسے اسباب پیدا کر دیئے کہ جو جان بچ جانے کے لئے کافی تھے جیسے یہ امر کہ عیسوع مسیح معمول کے مطابق چھ سات دن صلیب پر نہیں رکھا گیا بلکہ اسی وقت اتارا گیا اور جیسے کہ یہ امر کہ اس کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں جس طرح کہ اور لوگوں کی ہمیشہ :- تذكرة الشهادتين من جلد ۲۰ به هانه تذكرة الشهادتين من جلد ۲۰: ه : : براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۳۳۳ جلد ۲۱ شه: حقیقة الوحی حاشیه من جلد ۲۲ : YAS شه : حقیقة الوحی منشا جلد ۲۲ :
(14) توڑی جاتی تھیں اور یہ خلاف قیاسی امر ہے کہ اس قدر خفیف سی تکلیف سے جان نکل جائے " اے کا انجیل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سیح علیہ السلام کو دلی یقین تھا کہ اس کی وہ دیگا ضرور قبول ہو گئی اور اس دعا پر اس کو بہت بھروسا تھا اسی وجہ سے جب وہ پکڑا گیا اور صلیب پر کھینچا گیا اور ظاہری علامات کو اس نے اپنی امید کے موافق نہ پایا تو بے اختیارہ اسکے منہ سے نکل کر.آہلی اہلی کیا سبقتانی اسے میرے خدا! اسے میرے خدا! تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا.یعنی مجھے یہ امید ہرگزہ نہیں تھی کہ میرا انجام یہ ہو گا اور میں صلیب پر مروں گا اور میں یقین رکھتا تھا کہ تو میری دُعا سُنے گا پس ان دونوں مقامات انجیل سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح کو خود دلی یقین تھا کہ میری دعاضر در قبول ہوگی اور میرا تمام رات کا رو رو کر دعا کرنا ضائع نہیں جائے گا " سے ان واضح حوالہ جات کے بعد مزید کسی وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی.یہ امر واضح ہے کہ دعا کی قبولیت ، جو ایک یقینی اور قطعی امر ہے ، کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیہ سے زندہ اترنے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا.عیسائی بعض اوقات یہ عذر کرتے ہیں کہ مسیح کی دعا صرف اس وجہ سے قبول نہ ہوئی کہ ان کے آنے کا مقصد ہی ہمارے گناہوں کا کفارہ ہونا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس عذر کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ.اگر کوئی کہے کہ وہ کفارہ ہونے کے واسطے آئے تھے اس لئے یہ دُعا قبول نہیں ہوئی ہے ہم کہتے ہیں کہ جب ان کو معلوم تھا کہ وہ کفارہ کے لئے آئے ہیں پھر اس قدیر بزدلی کے کیا معنی ہیں.اگر ایک افسر طاعون کی ڈیوٹی پر بھیجا جا دے اور وہ کہ د سے کہ یہاں خطر سے کا محل ہے مجھ فلاں جگہ بھیج دو توکیا و احمق نہ کھا جائے گا.جبکہ مسیح کومعلوم تھا کہ وہ صرف کھارہ ہی ہونے کو بھیجے گئے ہیں تو اس قدر لمبی دعاؤں کی کیا ضرورت تھی ؟ ابھی کیا کفارہ زیر تجویز امر ؟ زیر تھا یا ایک مقرر شدہ امر تھا ہم سے گویا کسی پہلو سے عیسائیوں کے لئے جائے قرار نہیں.بالاآخر یہی ماننا پڑے گا کہ مسیح نے صلیب سے نجات کی دعا کی، وہ دعا قبول ہوئی اور سیح صلیب سے زندہ اتر آیا.: حقیقة الوحی ص ۲۳ روحانی خزائن جلد ۲۲ : ه: مسیح ہندوستان میں منگ ۳۱.روحانی خزائن جلد ۱۵ ۳-۳۱ ۳۳ ے: ملفوظات جلد دوم ص :
گیارہویں دلیل حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کے رد میں ایک دلیل یہ ہے کہ جتنا عرصہ حضرت مسیح علیہ السلام کو عملاً صلیب پر لٹکایا جانا ثابت ہوتا ہے.اتنے عرصہ میں بالعموم انسان کی موت واقع نہیں ہوتی.پس یہ تاریخی حقیقت اس بات کو زیادہ قرین قیاس بنا دیتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے.یاد رہے کہ جس صلیب پر حضرت مسیح علیہ السلام کو لگایا گیا تھاوہ ہمارے موجودہ زمانہ کی صلیب کے بہت مختلف تھی.قدیم صلیب پر لکنے والا انسان بھوک، پیاس ، دھوپ اور شدت تکلیف کی وجہ سے کئی دنوں میں جا کر مرتا تھا.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف محقق عیسائی پادریوں نے بھی کیا ہے.چنانچہ ایک مشہور پادری لکھتے ہیں :- The peculiar atrocity of crucifixion was that one might live three or four days in this horrible state upon the instrument of torture.The true cause of death was the unnatural position of the body which brought on a fright ful disturbance of the circulation, terrible pains of the head and heart, and, at length, rigidity of the limbs.Those who had a strong constitution only died of hunger.The idea which suggested this cruel punishment was.......to let him rot on the wood.The delicate organization of Jesus preserved him from this agony." ✓ اس حوالہ کا مفہوم یہ ہے کہ صلیب کی یہ مخصوص سزا اس قسم کی تھی کہ بعض اوقات انسان صلیب پر تین یا چار روزہ تک بھی زندہ شکار ہتا تھا.موت کا اصل سبب انسانی جسم کی وہ غیر طبعی اور عجیب طرز ہوتی تھی جس دوران خون میں گڑبڑ، سرا اور دل کی شدید در و پیدا ہوتی تھی اور آخر کا را اعضاء سخت ہو جایا کرتے تھے.جن لوگوں کی جسمانی ساخت مضبوط ہوتی تھی وہ تو صرف بھوک کی وجہ سے مرتے تھے دراصل اس طرز پر صلیب دینے کا اصل مقصد یہ ہوتا تھا کہ مصلوب ملیب پر گل سڑ کر مر جائے.یسوع مسیح کی The life of Jesus p.367-368 --
۳۶۹ محتاج اور سوچی سمجھی سکیم نے اس کو اس آہستہ آہستہ وارد ہونے والی شدید تکلیف سے بچالیا.گویا یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس زمانہ کی صلیب پر لٹکائے جانے والے بھوک اور پیاس کی وجہ سے کئی کئی دنوں کے بعد جا کر مرا کر تے تھے اور اگر اس عرصہ سے قبل ان کو اتار لیا جائے اور مناسب علاج کیا جائے تو عین ممکن ہے کہ وہ بچے جائیں.اس مذکورہ بالا دعویٰ کا ایک ثبوت ڈی ایف سٹراس کی کتاب کا درج ذیل حوالہ ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ میں درج فرمایا ہے.حضور فرماتے ہیں :- نیو لائف آف جیزس جلد اول صفحه ، ام مصنفہ ڈی ایف سٹراس میں یہ عبارت ہے.و جرمن کے بعض عیسائی محققین کی رائے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا ) Crucifixion, they maintain, even if the feet as well as the hands are supposed to have been nailed occasions but very little loss of blood.It kills, therefore, only very slowly by conclusions produced by the straining of the limbs or by gradual starvation so, if Jesus, supposed indeed to be dead, had been taken down from the cross after about six hours, there is every possibility of his supposed death having been only a death-like swoon from which after the descent from the cross Jesus recovered recovered again in the cool cavern covered as he was with healing ointments and strongly sceuted spices.On this head it is usual to appeal to an account in jesephus, who says that on one occasion, when he was returning from a military recognisance, on which he had been sent, he found several jewish prisioners who had been crucified.He saw among them three acquaintances whom he begged Titus to give to him.They were immediately taken down and careful attended to, one was really saved, but two others could not be recovered." (A new life of Jesus by D.f.Stranss V.I p.410.)
ترجمہ :.وہ یہ دلائل دیتے ہیں کہ اگر چہ صلیہ کے وقت ہا تھ اور پاؤں دونوں پر میخیں ماری جائیں پھر بھی بہت تھوڑا خون انسان کے بدن سے نکلتا ہے.اس واسطے صلیب پر لوگ رفتہ رفتہ اعضاء پر زور پڑنے کے سبب تشنج میں گرفتار ہو کر مر جاتے ہیں یا بھوک سے مرجاتے ہیں.پس اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ قریب چھ گھنٹے صلیب پر رہنے کے کہ بعد میسوع جب اتارا گیا تو وہ مرا ہوا تھا تب بھی نہایت ہی اغلب بات یہ ہے کہ وہ صرف ایک موت کی سی بے ہوشی تھی اور جب شفا دینے والی مرہمیں اور نہایت ہی خوشبودار دوائیاں مل کہ اُسے غار کی ٹھنڈی جگہ میں رکھا گیا تو اس کی بے ہوشی ڈور ہوئی.اس دعوئی کی دلیل میں عمو گا یوسفس کا واقعہ پیش کیا جاتا ہے.جہاں یوسفس نے لکھا ہے کہ میں ایک دفعہ فوجی کام سے واپس آرہا تھا تو راستہ میں میں نے دیکھا کہ کئی ایک یہودی قیدی صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں.ان میں سے میں نے پہچانا کہ تین میرے واقف تھے پس میں نے ٹیٹس (حاکم وقت) سے ان کے اتار لینے کی اجازت حاصل کی اور ان کو فوراً اتار کر ان کی خبر گیری کی تو ایک بالاخر تندرست ہو گیا پر باقی دو مر گئے نے اس حوالہ میں جس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو درست تسلیم فرمایا ہے چنانچہ اسی بنیاد پر حضور نے یہ استدلال فرمایا ہے کہ اس زمانہ کی صلیب پر لٹکنے والا انسان کافی دیر سے مراکز تا تھا.حضور تحریر فرماتے ہیں : - پھراسی صلیب دینے کا یہ طریق تھا کہ صرف مجرم کو صلیب کے ساتھ جوڑ کر اس کے پیروں تھا اور ہا تھوں میں کیل ٹھونکے جاتے تھے اور تین دن تک وہ اسی حالت میں دھوپ میں بیٹا رہتا تھا اور آخر کئی اسباب جمع ہو کہ یعنی درد اور دھوپ اور تین دن کا فاقہ اور پیاس سے مجرم مر جاتا تھا یہ کہ ر اسی سلسلہ میں آپ مزید وضاحت فرماتے ہیں :- " اس دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیئے کہ یہودیوں کی صلیب اس زمانہ کی پھانسی کی طرح ہوگی جسے نجات پانا قریبا محال ہے کیونکہ اس زمانہ کی صلیب میں کوئی رشا گلے میں نہیں ڈالا جاتا تھا اور نہ تختہ پر سے گرا کر لٹکایا جاتا تھا بلکہ صرف صلیب پر کھینچ کر ہاتھوں اور پاؤں میں کیل ٹھونکے جاتے تھے اور یہ بات ممکن ہوتی تھی کہ اگر مصایب پر کھینچنے اور ۱۰ - تحفہ گولڑویہ ما ۲۲ تا ۲۲۴ - جلد ۱۷ ایام الصلح ۱۲۴-۱۲۳ - جلد ۱۴ :
۳۷۱ کیل ٹھونکنے کے بعد ایک دو دن تک کسی کی جان بخشی کا ارادہ ہو تو اسی قدر عذاب پر کفایت کر کے بڑیاں توڑنے سے پہلے اس کو زندہ اتار لیا جائے.اور اگر بارہ نا ہی منظور ہوتا تھا تو کم سے کم تین دن تک صلیب پر کھینچا ہوا رہنے دیتے تھے اور پانی اور روٹی نزدیک نہ آنے دیتے تھے اور اسی طرح دھوپ میں تین دن یا اس سے زیادہ چھوڑ دیتے تھے اور پھر اس کے بعد اس کی ہڈیاں توڑتے تھے اور پھر آخر ان تمام عذابوں کے بعد وہ مر جاتا تھا" لے پس اس بات کے ثابت ہو جانے کے بعد کہ اس زمانہ کی صلیب پر شکنے والا انسان مسلسل بھوک اور پیاس کی اذیت سے آہستہ آہستہ کئی دنوں کے بعد برا کہتا تھا، حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے یہ استدلال فرمایا ہےکہ حضرت مسیح علیہ اسلام کے بارہ میں تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ وہ صرف چند گھنٹے صلیب پر رہے ہیں.پس یہ قلیل عرصہ صلیب اور اس زمانہ کا طریق صلیب اس بات کی دلیل ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام دو تین گھنٹہ کے قلیل عرصہ میں ہر گنہ فوت نہیں ہو سکتے پس وہ صلیب پر نہیں مرے.اس دلیل کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- " حضرت مسیح صلیب پر صرف گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹڈ رکھے گئے اور شاید اس سے بھی کم اور پھر اتارے گئے.اور یہ بالکل بعید از قیاس ہے کہ اس تھوڑے عرصہ اور تھوڑی تکلیف میں ان کی جان نکل گئی ہو اور یہود کو بھی پختہ فن سے اس بات کا دھڑ کا تھا کہ یسوع صلیب پر نہیں مرا چنانچہ اس کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ بھی قرآن شریف میں فرماتا ہے دما قتلوه یقینا یعنی یہو د قتل مسیح کے بارے میں ظن میں رہے اور یقینی طور پر انہوں نے نہیں سمجھا کہ در حقیقت ہم نے قتل کر دیا " ہے نیز فرماتے ہیں :.دراز خدا تعالی کے فضل و کرم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو اس درجہ کے عذاب سے بچالیا جسے زندگی کا خاتمہ ہو جاتا.انجیلوں کو ذرہ غور کی نظر سے پڑھنے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نه تین دن تک صلیب پر رہے اور زمین دن کی بھوک اور پیاس اٹھائی اور نہ نہ ان کی ہڈیاں توڑی گئیں بلکہ قریباً دو گھنٹہ تک صلیب پر رہے اور خدا کے فضل اور رحم نے ۱۲۲ ۱۲۵ له مسیح ہندوستان میں ۲ جلد ۱۵ : --- ایام الصلح جلد :
۳۷۲ ان کے لئے یہ تقریب قائم کردی کہ دن کے اخیر حصے میں صلیب دینے کی تجویز ہوئی اور وہ جمعہ کا دن تھا اور صرف تھوڑا سا دن باقی تھا اور اگلے دن سبت اور یہودیوں کی عید مسیح تھی.اور یہودیوں کے لئے یہ حرام اور قابل سزا جرم تھا کہ کسی کو بت یا سبت کی رات میں مصیب پر رہنے دیں اور سلمانوں کی طرح یہودی بھی قمری حساب رکھتے تھے اور رات دن پر مقدم مجھی جاتی تھی بس ایک طرف تو یہ تقریب تھی کہ جو زمینی اسباب سے پیدا ہوئی اور دوسری طرف آسمانی اسباب خدا تعالی کی طرف سے یہ پیدا ہوئے کہ جب چھٹا گھنٹہ ہوا تو ایک ایسی آندھی آئی جس سے ساری زمین پر اندھیرا چھا گیا اوروہ اندھیرا تین گھنٹے برابر رہا.دیکھو مرقس باب 16 آیت ۳۳.یہ چھٹا گھنٹہ بارہ بجے کے بعد تھا یعنی وہ وقت جو شام کے قریب ہوتا ہے اب یہودیوں کو اس شدت اندھیرے میں یہ حکمہ پیڑی کہ مبادا سبت کی رات آجائے اور وہ سبت کے مجرم ہو کر تاوان کے لائق ٹھہریں اس لئے انہوں نے جلدی سے سیج کو اور اس کے ساتھ دو چوروں کو بھی صلیب پر سے اتار لیا " اے پھر فرمایا : ایک یہ سب تھا کہ آنجناب جمعہ کو قریب عصر کے صلیب پر چڑھائے گئے...اس تدبیر میں پیلاطوس نے یہ سوچا تھا کہ غالباً اسی قلیل مدت کی وجہ سے جو صرف جمعہ کے ایک دو گھنٹے ہیں یسوع کی جان بچ جائے گی کیونکہ یہ نامکن تھا کہ جمعہ ختم ہونے کے بعد مسیح صلیب پر رہ سکتا.وجہ یہ ہے کہ یہودیوں کی شریعیت کے رو سے یہ حرام تھا کہ کوئی شخص سبت یا سبت سے پہلی رات میں صلیب پر رہے ہے گویا حضرت مسیح علیہ السلام کو جلد صلیب سے اتاردینے کی وجہ یہ تھی کہ اگلا دن سبت کا تھا جس روزہ کسی مصلوب کا صلیب پر لٹکا رہنا یہودیوں کے نزدیک سخت گناہ تھا چنانچہ اس امر کی مزید وضاحت کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :- جس وقت حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر چڑھائے گئے وہ جمعہ کا دن تھا اور قریباً دوپہر کے بعد تین بجے تھے اور یہودیوں کو سخت ممانعت تھی کہ کوئی مصلوب سبت کے کہ دن یا سیت کی رات جو جمعہ کے بعد آتی ہے صلیب پر شک نہ رہے.اور یہودی قمری حساب کے پابند تھے.اس لئے وہ سبت کی رات اس رات کو سمجھتے تھے کہ جب جمعہ کے دن کا خاتمہ مسیح ہندوستان میں ص۲-۲۳ جلد ۵ ۱ : : ایام الصلح ۱۲-۱۲۳ جلد ۱۴ :
۳۷۳ ہو جاتا ہے.پس آندھی اور سخت تاریخی کے پیدا ہونے سے یہودیوں کے دلوں میں یہ کھٹن کا شروع ہوا کہ ایسانہ ہوکہ وہ لاشوں کو بہت کی رات میں صلیب پر رکھ کر بہت کے مجرم ہوں اور سحق سزا ٹھہریں اور دوسرے دن عید فسح بھی تھی جس میں خاص طور پر صلیب دینے کی ممانعت تھی پس جبکہ آسمان سے یہ اسباب پیدا ہو گئے اور نیز یہودیوں کے دلوں پر اپنی رعب بھی غالب آگیا تو ان کے دلوں میں یہ دھڑ کہ شروع ہو گیا کہ ایسا نہ ہو کہ اس تاریخی میں سبقت کی رات آجائے ہد اسیح اور چوروں کو جلد صلیب پر سے اتار لیا گیا ؟ اے حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب پر لکھنے اور لٹکے رہنے کے وقت کی تعین اور مقدار کی مزید وانت کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : - " آخر صلیب دینے کے لئے تیار ہوئے.یہ جمعہ کا دن تھا اور عصر کا وقت اور اتفاقاً یہ یہودیوں کی عید فسح کا بھی دن تھا اسکی فرصت بہت کم تھی اور آگے سبت کا دن آنیوالا تھا جس کی ابتداء غروب آفتاب سے ہی بجھی جاتی تھی کیونکہ یہودی لوگ مسلمانوں کی طرح پہلی رات کو اگلے دل میں شامل کر لیتے تھے اور یہ ایک شرعی تاکید تھی کہ بیت میں کوئی لاشی صلیب پر ٹکی نہ رہے تب یہودیوں نے جلدی سے صحیح کو دو چوروں کے ساتھ صلیب پر چڑھا دیا تا شام سے پہلے ہی لاشیں اتاری جائیں مگر اتفاق سے اسی وقت ایک سخت اندھیری آگئی جسے سخت اندھیرا ہوگیا.یہودیوں کو یہ فکر پڑ گئی کو اب اگر اندھیری میں ہی شام ہو گئی تو ہم اس جرم کے مرتکب ہو جائیں گے جس کا ابھی ذکر کیا گیا ہے.سو انہوں نے اس فکر کی وجہ سے تینوں مصلوبوں کو صلیب پر سے اتار لیا اوریا درکھنا چاہیئے کہ یہ بالاتفاق مان لیا گیا ہے کردہ صلیب اس قسم کی نہیں تھی جیسا کہ آج کل کی پھانسی ہوتی ہے ادرس گلے میں رستہ ڈال کر ایک گھنٹہ مں کام تمام کیا جاتا ہے بلکہ اس قسم کا کوئی رس گلے میں نہیں ڈالا جاتا تھا صرف بعض اعضاء میں کیلیں ٹھو کہتے تھے اور پھر احتیاط کی غرض سے تین تین دن مصلوب بُھوکے پیاسے صلیب پر چڑھائے رہتے تھے اور بعد اسکی ہڈیاں توڑی جاتی تھیں اور پھر یقین کیا جاتا تھا کہ اب مصلوب مرگیا.مگر خداتعالی کی قدرت سے مسیح کے ساتھ ایسا نہ ہوا.عید فسح کی کم فرصتی اور عصر کا تھوڑا سا وقت اور آگے سبت کا خوف اور پھر آندھی کا آجانا ایسے اسباب یک دفعہ پیدا ہو گئے جسکی وجہ سے چند منٹ میں ہی مسیح کو صلیب پر سے اتار لیا گیا اور دونوں چور بھی اتارے گئے نے ا ترياق القلوب ملا جلد ١٥ : ه : امراله او بیام حصہ اول ۲۰۰ جلسه ۳ به ۲۹۶۵
پس حضرت مسیح علیہ السلام کا صرف دو تین گھنٹے میں فوت ہو جانا ہرگزہ قرین قیاس نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک زبر دست دلیل اس بات کی ہے کہ وہ صلیب پر نہ ندہ رہے تھے.زبردست اس دلیل کو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے اس رنگ میں بھی بیان فرمایا ہے کہ اتنے قلیل عرصہ میں مسیح علیہ السلام کا فوت ہو جانا ہر حق کی نظر میں ایک مشتبہ امر ہے.شاید اسی وجہ سے یہودی اس سوالی کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکتے کہ آخر کس وجہ سے مسیح اتنی معمولی سی اذیت سے اور اتنی جلدی فوت ہو گیا.حضور ایک جگہ فرماتے ہیں " کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ یہودی اس بات کا جواب دینے سے قاصر رہے کہ کیونکر حضرت مسیح علیہ السلام کی جان بغیر ہڈیاں توڑنے کے صرف دو تین گھنٹے میں نکل گئی ہے لغرض حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کے رد میں یہ دلیل بہت ہی زیر دست ہے کہ اس زمانہ کی صلیب پر قلیل عرصہ لٹکنے کی وجہ سے حضرت مسیح علیہ السلام کی موت وارد نہیں ہو سکتی.پس یه یقینی بات ہے کہ وہ صلیب پر سے زندہ اتارے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خلاصہ کے طور پر فرماتے ہیں :- " اگر چہ وہ بظاہر یہودیوں کے آنسو پونچھنے کے لئے صلیب پر چڑھایا گیا لیکن وہ قدیم رسم کے موافق نہ تین دن صلیب پر رکھا گیا جو کسی کے مارنے کے لئے ضروری تھا اور نہ ہڈیاں توڑی گئیں بلکہ یہ کہہ کہ بچا لیا گیا کہ اس کی تو جان نکل گئی “ اور ضرور تھا کہ ایسا ہی ہوتا تا خُدا کا مقبول اور راستباز نبی جرائم پیشہ کی موت سے مرکز یعنی صلیب کے ذریعہ جان دے کہ اس لعنت کا حصہ نہ لیو سے جو روز اول سے ان شریروں کے لئے مقرر ہے جن کے تمام علاقے خدا سے ٹوٹ جاتے ہیں یہ ہے بار تهوین دلیل یہ حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب پر نہ مرنے کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام کی لاش کو ایک شخص نے طلب کیا تو حاکم وقت نے جو اچھی طرح جانتا تھا کہ کتنے عرصہ میں عام طور پر انسان کی جان صلیب پر نکلتی ہے اس بات پر تعجب کیا کہ کیا یہ شخص اتنی جلدی فوت ہو گیا ہے.یہ تجب مسیح ہندوستان میں مداد - جلد ۱۵ : كتاب البرية من جلد ۱۳ : :
۳۷۵ اس بات کا قرینہ ہے کہ حضرت میسج کی اتنی جلدی موت ایک تعجب خیز امر تھا اور اس موقع پر اس بات کا حیرت کا اظہارہ کیا گیا کہ یہ شخص اتنے تھوڑے عرصہ میں کیسے مرگیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دلیل کو مندرجہ ذیل حوالہ میں بیان فرمایا ہے.حضور نہ فرماتے ہیں :- ذر منجملہ ان شہادتوں سے جو انجیل سے ہم کو ملی ہیں پلاٹس کا وہ قول ہے جو انجیل مرقس میں لکھا ہے اور وہ یہ ہے.اور جب کہ شام ہوئی اس لئے کہ تیاری کا دن تھا جو سبت سے پہلے ہوتا تھا یوسف ارمیا جو نامور مشیر اور وہ خود خدا کی بادشاہت کا منتظر تھا، آیا اور دلیری سے پلاٹس کے پاس جا کے میسوع کی لاش مانگی اور پلائنس نے متعجب ہو کر شیہ کیا کہ وہ لینی مسیح ایسا جلد مر گیا یہ دیکھو مرقس باب ۶ آیت ۴۲ سے نہ ہم تکیه اس امر سے حضور نے یہ استدلال فرمایا ہے کہ :- است ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ عین صلیب کی گھڑی میں ہی عیسوع کے مرنے پر شبہ ہوا اور شبہ بھی ایسے شخص نے کیا جس کو اس بات کا تجربہ تھا کہ اس قدر مدت میں صلیب پر جان نکلتی ہے.لہ پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر ہر گنہ فوت نہیں ہوئے.تیر تقوین دلیل صلیبی موت کی تردید میں تیرھویں دلیل حاکم وقت پیلاطوس کا کردار ہے جس کا کسی قدرہ ذکر ضمناً گذشته صفحات میں بھی ہو چکا ہے.اناجیل اور تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس وقت کا حاکم جس کی عدالت میں مسیح کا مقدمہ پیش تھا در پردہ مسیح کا معتقد تھا.چنانچہ استھی کچھ اپنے اعتقاد کی وجہ سے اور کچھ اپنی بیوی کے خواب کی وجہ سے اس بات کی پوری پوری کوشش کی کہ کسی طرح مسیح کے خون سے بری الذمہ ہو سکے.اس نے عدالت میں پانی منگوا کر ہاتھ دھوئے اور کہا کہ میں اس مسیح کو بے گناہ سمجھتا ہوں اور اس کے خون سے ہاتھ دھوتا ہوں.پھر اس نے مسیح کو چھوڑنا چاہا لیکن یہود کے ڈرانے کی وجہ سے ایسا نہ کر سکا.جب ہر طرف سے مجبور ہو گیا تو اس نے ایک اور تد ہی سوچی - مسیح ہندوستان میں ص ۲ جلد ۱۵: ایضاً
مقدمہ کے فیصلہ کو معرض التوا میں ڈالتا گیا.حتی کہ جمعہ آگیا اور جمعہ کی آخری گھڑیوں میں مسیح کو صلیب پر.لٹکایا گیا.یہ ساری تدبیر پیلاطوس کی تھی.اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام بہت ہی کم عرصہ صلیب کم پر رہ ہے کیونکہ اگلا روز سبت کا تھا اور اس کی احترام میں شام ہوتے ہی سب صلیب پر لٹکائے جانے والوں کو اتار لیا جاتا تھا.اس کے علاوہ پیلا طوس نے ایک شخص کے لاش مانگنے پر بغر کسی تحقیق کے اس کو لاش دیدی یہ بھی بتایا ہے کہ یہ کوئی سوچی بھی سکیم تھی اور درپردہ پیلاطوس کے نسیح کے بچانے کا پورا پورا انتظام کر لیا تھا.چنانچہ ایک سیمی لکھتے ہیں :- رومیوں کے درمیان یہ ایک اچھی رسم تھی کہ مجرموں کی لاشیں ان کے دوستوں کو اگر وہ درخواست کریں تو دیدی جایا کرتی تھیں اور اس وقت یسوع کی لاش کے لئے بھی ایک شخص دعویدار ہوا جس کو پیلاطوس نے بلا تامل لاش حوالہ کر دیا ہے الغرض پیلاطوس کا یہ سارا کردارہ اس بات پر زیر دست قرینہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ہر گنہ صلیب پر فوت نہیں ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- "جو شخص صلیب پر کھینچا جاتا تھا وہ اسی دن اتار لیا جاتا تھا کیونکہ سبت کے دن صلیب پر رکھنا سخت گناہ اور موجب تاوان اور سزا تھا سو یہ داؤ پیلاطوسس کا چل گیا کہ یسوع جمعہ کی آخری گھڑی میں صلیب پر چڑھایا گیا " ہے (۲) " صریح معلوم ہوتا ہے کہ اندرونی طور پر کچھ سازش کی بات تھی پلا طوسس ایک خدا ترس اور نیک دل آدمی تھا.کھلی کھلی رعایت سے قیصر سے ڈرتا تھا کیونکہ یہودی مسیح کو باغی ٹھہراتے تھے مگر وہ خوش قسمت تھا کہ اتنی مسیح کو دیکھا لیکن قیصر نے اس نعمت کو نہ پایا.اس نے نہ صرف دیکھا بلکہ بہت رعایت کی اور اس کا ہرگز منشاء نہ تھا کہ مسیح صلیب پاوے.چنانچہ انہیلوں کے دیکھنے سے صاف طور پر پایا جاتا ہے کہ پلا طوس نے کئی دفعہ ارادہ کیا کہ میچ کو چھوڑ دے مسیح لیکن یہودیوں نے کہا کہ اگر تو اس مرد ک چھوڑ دیتا ہے تو تو قیصر کا خیرخواہ نہیں اور یہ کہا کہ یہ اور باغی ہے اور خود بادشاہ بننا چاہتا ہے.دیکھو یوحنا باب ۱۹ آیت ۱۲.اور بلاطوس کی بیوی کی خواب اور بھی اس بات کی محرک ہوئی تھی کہ کسی طرح مسیح کو مصلوب ہونے سے بچایا جائے ورنہ ان کی اپنی تباہی ہے مگر چونکہ یہودی ایک شریر قوم تھی اور پیلاطوس پر قیصر کے حضور میں جبری کرنے کو بھی طیارہ تھے اسلئے پیلاطوس نے میسج کے چھڑانے میں حکمت عملی سے کام لیا.: یسوع کی گرفتاری اور موت من : :- ایام الصلح ص۱۲۳ جلد ۶۱۴
اول تو مسیح کو مصلوب ہونا ایسے دن پر ڈال دیا کہ وہ جمعہ کا دن تھا اور صرف چند گھنٹے دن میں باقی تھے اور بڑے سبت کی رات قریب تھی اور پلا طوس خوب جانتا تھا کہ یہودی اپنی شریعیت کے حکموں کے موافق صرف شام کے وقت تک ہی صحیح کو صلیب پر رکھ سکتے ہیں اور پھر شام ہوتے ہی ان کا سدت ہے جس میں صلیب پر رکھنا رہا نہیں چنانچہ ایسا ہی ہوا اور سیح شام سے پہلے صلیب پر سے اتارا گیا ہے پیلاطوس کے بارہ میں فرمایا : پوشیدہ طور پر اتنی بہت بھی کی کہ مسیح کی جان کو صلیب سے بچایا جاد سے اور اس سعی میں وہ کامیاب بھی ہو گیا مگر بعد اس کی کہ مسیح صلیب پر چڑھایا گیا اور شدت درد سے ایک ایسی سخت بخشی میں آگیا کہ گویا وہ موت ہی تھی.بہر حال پلا طوس رومی کی کوشش سے مسیح ابن مریم کی جان بچ گئی یہ سے (سم) یوسف نام یلاطوس کا ایک معزز دوست تھا جو اس نواح کا رئیس تھا اور مسیح کے پوشیدہ شاگردوں میں داخل تھا وہ میں وقت پر پہنچ گیا مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی بلا طوس سے اشارہ سے بلایا گیا تھا میسیج کو ایک لاش قرارد سے کہ اس کے سپرد کر دیا گیا کیونکہ وہ ایک بڑا آدمی تھا اور یہودی ایک ساتھ کچھ پر خاش نہیں کر سکتے تھے جب وہ پہنچا تو مسیج کو جو غش میں تھا ایک لاش قرار دیکر اس نے لیا اور اسی جگہ ایک وسیع مکان تھا جو اس زمانہ کی رسم پر قبر کے طور پر بنایا گیا تھا اور اس میں ایک کھڑکی بھی تھی اور ایسے موقع پر تھا جو یہودیوں کے تعلق سے الگ تھا اس جگہ پیلاطوس کے اشارہ سے مسیح کو رکھا گیا " سے (۵) " پیلاطوس جو اس ملک کا گورنر تھا معہ اپنی بیوی کے حضرت عیسی کا مرید تھا اور چاہتا تھا کہ اسے چھوڑ دے مگر جب زبر دست یہودیوں کے علماء نے جو قیصر کی طرف سے بباعث اپنی دنیا داری کے کچھ عزت رکھتے تھے اس کو یہ آہ کہ دھمکایا کہ اگر تو اس شخص کو سزا نہیں دے گا تو ہم قیصر کے حضور میں تیرے پر فریاد کریں گے.تب وہ ڈر گیا کیونکہ بزدل تھا.اپنی ارادت پر قائم نہ رہ سکا ہے (4) " انجیلوں میں لکھا ہے.یہ واقعہ پیش آیا کہ جب پیلاطونس سے صلیب دینے کے : مینج ہندوستان میں من ۲ - ۲۸ - جلد ۱۵: سه کشتی نوح من جلد ۱۹ : : سے تذکرۃ الشهادتين من جلد ۲۰ : تھے :-
FZA A لئے یہودیوں نے مسیح کو جو حوالات میں تھا مانگا تو پل طوس نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح سیح کو چھوڑ دے کیونکہ وہ صاف دیکھتا تھا کہ مسیح بے گناہ ہے لیکن یہودیوں نے بہت اصرالہ کیا کہ اس کو صلیب سے صلیب ہے.اور سب مولوی اور فقیہہ یہودیوں کے اکٹھے ہو کہ کہنے لگے کہ یہ کافر ہے اور توریت کے احکام سے لوگوں کو پھیرتا ہے.بلاطوس اپنے دل میں خوب سمجھتا تھا کہ ان جنئی اختلافات کی وجہ سے ایک راستبانہ آدمی کو قتل کر دینا بے شک سخت گناہ ہے اسی وجہ سے وہ حیلے پیدا کرتا تھا کہ کسی طرح مسیح کو چھوڑ دیا جائے مگر حضرات مولوی کب بانہ آنیوالے تھے انہوں نے جھٹ ایک اور بات بنائی کہ یہ شخص یہ بھی کہتا ہے کہ یں یہودیوں کا بادشاہ ہوں اور درپردہ قیصر کی گورنمنٹ سے باغی ہے اگر تو نے اس کو چھوڑ دیا تو پھر یاد رکھے کہ ایک باغی کو تو نے پناہ دی.تب پلا طوس ڈر گیا کیونکہ وہ قیصہ کا ما تحت.تھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ پھر بھی اس خون ناحق سے ڈرتا رہا یہ لے " پیلاطوس نے آخری فیصلہ کے لئے اجلاس کیا اور نا بکار مولویوں اور فقیہیوں کو بہتیرا سمجھایا کہ مسیح کے خون سے بانہ آجاؤ مگر وہ باز نہ آئے بلکہ چیخ چیخ کر بولنے لگے کہ ضرور صلیب دیا جائے دین سے پھر گیا ہے.تب پیلا طوس نے پانی منگوا کہ ہاتھ دھوئے کہ دیکھوئیں اس کے خون سے ہاتھ دھوتا ہوں تب سب یہودیوں اور فقیہوں اور مولویوں نے کہا کہ اس کا خوبن ہم پر اور ہماری اولاد پر سے " یہ داؤ پیلاطوس کا چل گیا کہ میسوع جمعہ کی آخری گھڑی میں صلیب پر چڑھایا گیا.اور نہ صرف یہی بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل نے چند اور اسباب بھی ایسے جمع کر دیئے جو پیلاطوس کے اختیار میں نہ تھے اور وہ یہ کہ عصر کے تنگ وقت میں تو یہودیوں نے حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھایا اور ساتھ ہی ایک سخت آندھی آئی جتنے دن کو رات کے مشابہ کر دیا.اب یہودی ڈرتے کہ شاید شام ہو گئی کیونکہ یہودیوں کو سبت کے دن یا سبت کی رات کسی کو منیب پر رکھنے کی سخت ممانعت تھی اور یہودیوں کے مذہ کے رو سے دن سے پہلے جو رات آتی ہے این والے دن میں شمار کی جاتی ہے اسلئے جمعہ کے بعد جو رات تھی وہ سبت کی رات تھی لہذا یہودی اندھی کے پھیلنے کے وقت میں اس بات سے بہت گھیرائے کہ ایسا نہ ہو کہ سبت کی رات میں یہ شخص صلیب پر ہو اس لئے جلدی سے انہوں نے اتار لیا ہے ه سه: ازالہ اوہام حصہ اول ۲۹۲-۱۹۵ جلد۲ : ۵۳ : - ایام الصلح ص۱۳۲ جلد ۱۴ : وه
۳۷۹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان سب حوالوں سے پیلاطوس کا کردار واضح ہے اور یہ ایک زیر دست قرینہ ہے کہ اس میسج کو صلیب سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی اور انجام کار وہ اس میں کامیاب بھی ہو گیا اور حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر چڑھائے جانے کے باوجود اسکی کوششوں سے زندہ ہی آبار لئے گئے.چودھویں دلیل حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب پر فوت نہ ہونے کی ایک اہم دلیل یہ ہے کہ جب صلیب سے اتارنے کے بعد ایک سپاہی نے غلطی سے ان کی پیسٹی میں ایک بھالا مارا تو اس میں سے فی الفور خون اور پانی بہر نکلا.اگر اس دلیل کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ ایک زیر دست دلیل نظر آتی ہے.دوران خون زندگی کی ایک خاص علامت ہے اور عام مشاہدہ ہے کہ کبھی کسی مردہ کے جسم سے خون جاری نہیں ہوتا بلکہ مرنے کے بعد اس کا خون منجمد ہو جاتا ہے.پس اگر صلیب سے اترنے کے بعد حضرت مسیح کے جسم سے خون بہہ نکلا ہے تو یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حضرت مسیح اس وقت زندہ تھے.حضرت میں پاک علیہ السلام اس دلیل کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : جب یسوع کے پہلو میں ایک خفیف سا پھیر دیا گیا تو اس میں سے خون نکلا اور خون بہتا ہوا نظر آیا اور ممکن نہیں کہ مُردہ میں خون بہتا ہوا نظر آئے.11 بہے نیز فرمایا : پولس کے بعض خطوط سے صاف ظاہر ہوتا ہے مسیح جب صلیب پر سے اتارا گیا تو اس سے - زندہ ہونے پر ایک اور پختہ ثبوت یہ پیدا ہو گیا کہ اسکی پینٹی کے چھیدنے سے فی الفور اس میں سے خون رواں ہوا ہے پھر اسی سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں :- "سپاہیوں میں سے ایک نے اس کی میلی چھیدی تولی الفور اس سے ہو اور پانی نکلا.دیکھو یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۱ سے ۳۴ تک " سے نیز فرمایا : " وہ ضرور صلیب پر سے ان دو چوروں کی طرح زندہ اتارا گیا.اسی وجہ سے پہلی چھید نے ه : ايام الصلح من جلد ۱۴ : : مسیح ہندوستان میں من ۲ - جلد ۱۵ : ۱۹ - ازالہ اوہام حصہ اول من جلد ۳ به
سے خون بھی نکلا.مروہ کا خون جم جاتا ہے.یہ لے اگر یہ سوال ہو کہ جب خون اور پانی بہہ نکلا اور یہ زندگی کی علامت ہے تو پھر اس سے سپاہیوں نے کیوں ہ نہ کچھ لیا کہ حضرت مسیح زندہ ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ اصل سکیم یہی تھی کہ مسیح کو بچایا جائے.ایک سپاہی نے جس کو شاید اس سکیم کا علم نہ تھا غلطی سے میں کے جسم کو چھید ڈال لیکن باقی ساتھیوں نے فورا ہی اس بات کو دبا دیا اور ظاہر نہ ہونے دیا مبادا شور پڑ جائے اور سیح کو بچانا مشکل ہو جائے بس یہ اخفاء تو ایک سوچی بھی سکیم کے مطابق محض حضرت مسیح علی السلام کو بچانے کی خاطر کیاگیاتھا.اگر صدی کے سب حالات پر نظر کی جائے تو ایک سکیم صاف طور پر کار فرما نظر آتی ہے.اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے حضور نے تحریر فرمایا ہے :- پھر ہڈیوں کے توڑنے کے وقت خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کا یہ نمونہ دکھایا کہ بعض سپاہی پلا طوس کے جن کو درپردہ خواب کا خطرناک انجام سمجھایا گیا تھاوہ اس وقت موجود تھے جن کا مدعا یہی تھی کہ کسی طرح یہ بلا سیح کے سریہ سے مل جائے ایسانہ ہو کہ سیح کے قتل ہونیکی وجہ سے وہ خواب سچی ہو جائے جو پلا طوس کی عورت نے دیکھی تھی اور ایسا نہ ہو کہ پیلاطوس کسی بلا میں پڑ سے سو پہلے انہوں نے چوروں کی ہڈیاں توڑائیں اور چونکہ سخت آندھی تھی اور تاریخی ہوگئی تھی اور ہوا تیز چل رہی تھی اس لئے لوگ گھر لائے ہوئے تھے کہ کہیں جلد گھڑی کو جائیں سوسپاہیوں کا اس موقع پر خوب داؤ لگا.جب چوروں کی ہڈیاں توڑ چکے اور مسیح کی نوبت آئی تو ایک سپاہی نے یو ہنی ہاتھ رکھ کہ کہ دیا کہ یہ تو مر چکا ہے کچھ ضرور نہیں کہ اسکی ہڈیاں توڑی جائیں اور ایک نے کہا کہ میں ہی اس لاش کو دفن کر دوں گا اور آندھی ایسی چلی کہ یہودیوں کو اسی دھکے دیکر اس جگہ سے نکالا پس اس طور سے مسیح زندہ بچ گیا اور پھر وہ حواریوں کو ملا اور ان سے پھیلی لے کر کھائی " سے الغرض اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جب مسیح کے جسم سے خون جاری ہو گیا تھا تو یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ صلیہ سے اترنے کے وقت زندہ تھے.ہمار سے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ کبھی مردہ کے جسم سے خون جاری نہیں ہوتا.پندرھویں دلیل پندرھویں دلیل صلیبی موت کے رد میں یہ ہے کہ صلیہ ہے اتارنے کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام کی مسیح ہندوستان میں م۲ - جلد ۱۵ : ه: ازالہ اور عام حصہ اول صنا ۲۹۷-۲۹- جلد ۳
: بڑیاں نہیں توڑی گئیں جبکہ عام طریق یہ تھاکہ لوگوں کی ہڈیاں ضرور توڑی جاتی تھیں تا ان کے مرنے میں کوئی شک نہ رہے.اس دلیل کا ذکر ضمناً البعض گذشتہ دلائل میں بھی ہو چکا ہے حالات سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح علیہ السّلام صرف چند گھنٹوں کے لئے صلیب پر رہے.اس صورت میں یہ بات زیادہ ضروری تھی کہ ان کی ہڈیاں توڑی جاتیں لیکن خلاف قیاس ان کی ہڈیاں نہ توڑی گئیں.جس کی وجہ غالباً پیلاطوس حاکم وقت کی کوئی در پر وہ ہدایت تھی جس کی پابندی کرتے ہوئے حاکم کے کارہ ندوی مینی سپاہیوں نے دوسرے چوروں کی تو نڈیاں توڑیں لیکن مسیح کو ویسے ہی چھوڑ دیا.حالات پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف حضرت مسیح کو زندہ بچانے کی ایک کوشش تھی اور یہ امر دلیل ہے اس بات کی کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے صلیب پر جان نہیں دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- یسوع کی ہڈیاں توڑی نہ گئیں جو مصلوبوں کے مارنے کے لئے ایک ضروری فعل تھا کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ تین دن صلیب پر رکھ کر پھر بھی بعض آدمی زندہ رہ جاتے تھے پھر کیونکر ایسا شخص جو صرف چند منٹ صلیب پر رہا اور ہڈیاں نہ توڑی گئیں وہ مرگیا ؟ نیتر فرمایا : " " یہ بھی فیسوع کے زندہ رہنے کی ایک نشانی ہے کہ اسکی ہڈیاں صلیب کے وقت نہیں توڑی گئیں اور صلیب پر سے اتارنے کے بعد چھیدنے سے خون بھی نکلا اور اسی حواریوں کو یہ سکے بعد اپنے زخم دکھلائے اور ظاہر ہے کہ نئی زندگی کے ساتھ زخموں کا ہونا تمکن نہ تھا یہ تے راسی سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں : منجملہ ان شہادتوں کے جو انجیل سے ہم کو لی ہیں انجیل کی وہ عبارت ہے جو ذیل میں لکھتا ہوں" پھر یہودیوں نے اس لحاظ سے کہ لاشیں سبت کے دن صلیب پر نہ رہ جائیں کیونکہ وہ دن طیاری کا تھا بلکہ بڑا ہی سبت تھا.پلاطوس سے عرض کی کہ ان کی ٹانگیں توڑی اور لاشیں اتاری جائیں.تب سپاہیوں نے آکر پہلے اور دوسرے کی ٹانگیں جو اسکے ساتھ صلیب پر کھینچے گئے تھے توڑیں لیکن جب انہوں نے یسوع کی طرف آکے دیکھا کہ وہ مر چکا ہے تو اس کی ٹانگیں نہ توڑیں پر سپاہیوں میں سے ایک نے بھالے سے اس کی پسلی چھیدی اور فی الفور اس سے ہو اور پانی نکلا ہے دیکھو یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۱ سے ۲۴ تک سے دید ه - ايام الصلح من جلد ۱۴ : ١٢ : مسیح ہندوستان میں مشک - جلدها : : سراجدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب من.جلد ۱۲ :
PAY اس مذکورہ بالا حوالہ سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا :- " ان آیات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کسی مصلوب کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے یہ دستور تھا کہ جو صلیب پر کھینچا گیا ہو اس کو کئی دن صلیب پر رکھتے تھے اور پھر اسکی ہڈیاں توڑتے تھے لیکن مسیح کی ہڈیاں دانستہ نہیں توڑیں گئیں اور وہ ضرور صیب پر سے ان دو چوپٹوں کی طرح زندہ اتارا گیا اسی وجہ سے پہلی چھید نے سے خون بھی نکلا.مردہ کا خون جم جاتا ہے والے راس دلیل کی مزید وضاحت کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :- " یہ قریب قیاس نہیں کہ دونوں چور جو صیح کے ساتھ صلیب پر کھینچے گئے تھے وہ زندہ رہے مگر مسیح صرف دو گھنٹے تک مر گیا بلکہ یہ صرف ایک بہانہ تھا جو مسیح کو ہڈیاں توڑنے سے بچانے کے لئے بنایا گیا تھا.سمجھدانہ آدمی کے لئے یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ دونوں چور صلیب پر چور سے زندہ اتار سے گئے اور ہمیشہ معمولی تھا کہ صلیب پر سے لوگ زندہ اتار سے جاتے تھے اور صرف اس حالت میں مرتے تھے کہ ہڈیاں توڑی جائیں اور یا بھوک اور پیاس کی حالت میں چند روز صلیب پر رہ کر جان نکلتی تھی مگر ان دونوں ہاتھوں میں سے کوئی بات بھی.مسیح کو پیش نہ آئی.نہ وہ کئی دن صلیب پر بھوکا پیاسا رکھا گیا اور نہ اسکی ہڈیاں توڑی گئیں ہے نہ نیز فرمایا : ہمیشہ معمول تھا کہ وہ صلیب پر سے لوگ زندہ آبار سے جاتے تھے اور صرف اس حالت میں مرتے تھے کہ ہڈیاں توڑی جائیں.....چوروں کی ہڈیاں توڑ کر اسی وقت ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا گیا.بات تو تب تھی کہ ان دونوں چوروں میں سے بھی کسی کی نسبت کہا جاتا کہ یہ سرچکا ہے اس کی ہڈیاں توڑنے کی ضرورت نہیں" سے اگر یہ سوال ہو کہ آخرکیوں مسیح کی ہڈیاں نہ توڑی گئیں تو اس کا جواب بھی حضور نے تحریر فرمایا ہے.فرمایا : - دو چور جو ساتھ صلیب دیئے گئے تھے ان کی ہڈیاں توڑی گئیں لیکن سیح کی ہڈیاں نہیں توڑیں کیونکہ پیلاطوس کے سپاہیوں نے جن کو پوشیدہ طور پر سمجھایا گیا تھا کہ دیا کہ اب نہیں نہیں ہے اور یسوع مر چکا ہے مگر مجھے علوم ہوتا ہے کہ چونکہ راستبانہ کا قتل کرنا کچھ سہیل امر نہیں اسلئے اس وقت نہ صرف پیلاطوس کے سپاہی عیسوع کے بچانے کے لئے تدبیر ہیں س: مسیح ہندوستان میں منہ - جلدہ) ۱۵۰ مسیح ہندوستان میں منہ - جلد 1 : ؟ +
۳۸۳ کر رہے تھے بلکہ یہود بھی تو اس باختہ تھے اور آثا یہ قہر دیکھ کر یہودیوں کے دل بھی کانپ یہودبھی حواس گئے تھے اور اس وقت وہ پہلے زمانہ کے آسمانی عذاب جو ان پر آتے رہے ان کی آنکھوں کے سامنے تھے.اسلئے کسی یہودی کہ یہ جرأت نہ ہوئی کہ یہ کہے کہ ہم تو ضروریہ ہڈیاں توڑیں کو یہ گے اور ہم بانہ نہیں آئیں گے.کیونکہ اس وقت رب السموات والارض نہایت غضب میں تھا.اور جلال اپنی یہودیوں کے دلوں پر ایک رعبناک کام کر رہا تھا.لہذا انہوں نے جن کے باپ داد سے ہمیشہ خدا تعالیٰ کے غضب کا تجربہ کر تے آئے تھے.جب سخت اور سیاہ آندھی اور عذاب کے آثار دیکھے اور آسمان پر سے خوفناک آثار نظر آئے تو وہ سراسیمہ ہو کہ گھروں کی طرف بھاگے " اے پس اس سارہ سے بیان سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ خلاف قیاس اور خلاف معمول خاص واضح طور پر صرف حضرت مسیح علیہ اسلام کی ہڈیاں نہ توڑنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ صلیب کی تکلیف سے ہر گنہ ہر گنہ قوت نہیں ہوئے تھے.یہ قرینہ بہت وزنی دلیل بن جاتا ہے جب ہم اس کو دیگر قرائن اور واقعات صلیب کے ساتھ ملا کر دیکھتے ہیں.سولهوين دليل صلیبی موت کی تردید میں ایک زیر دست استدلال یہ ہے کہ اس عقیدہ کے بارہ میں عیسائی حضرات میں بھی شدید اختلاف رائے پایا جاتا ہے.اکثر عیسائی تو حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کے قائل ہیں جبکہ بعض نے اس سے واضح طور پر انکار کیا ہے.چنانچہ یہ نیا اس کی انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں کے اس اختلاف سے یہ استدلال فرمایا ہے کہ صلیبی عقیدہ کا عقیدہ متفق علیہ عقیدہ نہیں ہے بلکہ اس میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے اور اس بات کا امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ شاید صلیبی موت کا خیال باطل ہی نہ ہو.یہ احتمال انجیلی روایات کی قطعیت کو باطل قرار دیتا ہے کیونکہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال.پس اس بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نباس کی انجیل کی روایت کو صلیبی موت کے تو میں ایک دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں :- "حواریوں میں اس مقام میں اختلاف بھی ہے چنانچہ یہ نباس کی انجیل میں جس کو میں :- ایام الصلح ۱۳۳-۱۲۵- جلد ۱۴
• تم ۳۸ نے بچشم خود دیکھا ہے.حضرت عیسی کے صلیب پر فوت ہونے سے انکار کیا گیا ہے اور انجیل سے ظاہر ہے کہ یہ نباس بھی ایک بزرگ حواری تھا " لے پھر اسی سلسلہ میں مزید فرماتے ہیں :- " ایک اور بات ملحوظ رکھنے کے لائق ہے کہ یہ نباس کی انجیل میں جو غائبا لندن کے کتب خانہ میں بھی ہوگئی یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا اور نہ صلیب پر جان دی.اب ہم جگہ یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ گویہ کتاب انجیلوں میں داخل نہیں کی گئی اور بغیر کسی فیصلہ کے تو کر یہی گئی ہے مگر اس میں کیا شک ہے کہ یہ ایک پرانی کتاب ہے اور اسی زمانہ کی ہے جبکہ دوسری انجیلیں لکھی گئیں.کیا ہمیں اختیار نہیں ہے کہ اس پرانی اور دیر یہ کتاب کو عہدِ قدیم کی ایک تاریخی کتاب سمجھ لیں اور تاریخی کتابوں کے مرتبہ پر رکھ کر اس سے فائدہ اٹھا دیں؟ اور کیا کم سے کم اس کتا کے پڑھنے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ میں علیہ السلام کے صلیب کے وقت تمام لوگ اس بات پر اتفاق نہیں رکھتے تھے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہو گئے ۲ یہاں ایک اور امر کا ذکر بھی بہت مناسب معلوم ہوتا ہے.حضور نے مسیح کے مصلوب ہونے کے بارہ میں اختلاف کا ایک یہ پہلو بھی بیان کیا ہے کہ یہود و نصاری سب کے سب اس امر پرمتفق ہیں.چنانچہ حضور نے اول اپنی کتاب میں ڈاکٹر بہ نیر کی کتاب کے حوالہ کا یہ ترجمہ درج فرمایا ہے :- یہ غالباً اسی قوم کے لوگ پین میں موجود ہیں جو مذہب موسوی کے پابند ہیں اور ان کے پاس توریت اور دوسری کتابیں بھی ہیں مگر حضرت علیلی کی وفات یعنی مصلوب ہونے کا حال ان لوگوں کو بالکل معلوم نہیں “ سے راس کے بعد حضور فرماتے ہیں :- " ڈاکٹر صاحب کا یہ فقرہ یاد رکھنے کے لائق ہے کیونکہ آج تک بعض نادان عیسائیوں کا به گمان ہے کہ حضرت عیسی کے مصلوب ہونے پر یہود و نصاری کا اتفاق ہے اور اب ڈاکٹر صاحب کے قول سے معلوم ہوا کہ چین کے یہودی اس قول سے اتفاق نہیں رکھتے اور ان کا یہ مذہب نہیں ہے کہ حضرت عیسی سولی پر مر گئے." ہے اس حوالہ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہود و نصاری میں سیح کی صلیبی موت پر اتفاق نہیں.یہ اختلات : كشف العطاء حاشیه مثل جلد ۱۴ : شهر مسیح ہندوستان میں من ۲ - جلد ۱۵ : سے 1 ست بیچن حاشیه در حاشیه ص ۱۶ جلد ۱۰ سے : ست بچن حاشیه در حاشیه ص۱۷۲ جلد ۱۰ : ٥:
۳۸۵ اس سارے عقیدہ کو مشتبہ اور مشکوک بنا دیتا ہے اور یہ قیاس کرنے کا ایک بھاری قرینہ ہے کہ واقعی بنا حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے.ستر خوین دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی طرف سے علم پا کر صبیہ کے اصل ، اقعات کے بارہ میں جو تفصیل بیان فرمائی ہے اسے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو جب صلیب پر لٹکا یا گیا تو وہ اسی صدمہ سے بے ہوش ہو گئے.اسی بے ہوشی کی حالت میں ان کو اتانہ لیا گیا اور سوچی بھی ہوئی سکیم کے مطابق یہ کہ دیا گیا کہ گویا وہ مرگئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ جات اس ضمن میں پہلے بھی درج ہو چکتے ہیں.ایک جگہ حضور فرماتے ہیں :- خداتعالی نے ہم کو سمجھادیا ہے اور ایک بہت بڑا ذخیرہ دلائل وبراہین کا دیا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہر گز ہرگز صلیب پر نہیں مرے.صلیب پر سے زندہ اتر آئے یخشی کی حالت بجائے خود موت ہوتی ہے.دیکھوں کہ کی حالت میں نہ نبض رہتی ہے نہ دل کا مقام حرکت کرتا ہے بالکل مردہ ہی ہوتا ہے مگر پھر وہ زندہ ہو جاتا ہے " له صلیبی موت کی تردید میں سترہویں دلیل یہ ہے کہ اگر صلیب ہے، اتارے جانے کے وقت حضرت مسیح علیه السلام فوت ہو چکے ہوتے تو ان کے جسم پر بطور علاج مرا در خود نہ ملا جاتا کیونکہ ادویہ کا استعمال تو مریضوں کے لئے ہوتا ہے نہ کہ مردوں کے لئے.پس حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے حواریوں کا مر اور عود لانا اور سکنا ان کے زندہ ہونے کی دلیل ہے صحیح بات یہی ہے کہ وہ اس وقت بے ہوش تھے جن کو غلطی سے مردہ سمجھ لیا گیا.حقیقت میں واقف حواری جانتے تھے کہ وہ سے ہوش ہیں اسی وجہ سے وہ علاج میں مصروف ہو گئے.جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ کیا واقعی حضرت مسیح بے ہوش ہو گئے تھے مرے نہیں تھے عیسائیوں کو بھی اس تحقیق سے اتفاق نظر آتا ہے کیونکہ وہ خلیہ کے حادثہ کو لیے ہوش کر دینے والا ایک صدمہ قرارہ دیتے ہیں.ڈاکٹر جیمس سٹا کہ لکھتے ہیں : جو نہی یسوع کو اس بے ہوش کر دینے والے صدمے سے جو اس کے ہاتھوں اور پاؤں میں میخیں ٹھوکنے سے اسے ہوا تھا کچھ افاقہ ہوا تو اسکیسی پہلے الفاظ ایک دعا کی صورت میں تھے لے : ملفوظات جلد دوم من : : یسوع مسیح کی گرفتاری اور موت ملا ہے
PAY پھر مُرا در خود لکھنے کا سوال ہے.اس کے بارہ میں اسی کتاب میں لکھا ہے کہ :.مگر فقد دیمیں بھی اظہار محبت و عقیدت میں پیچھے نہ رہا.وہ مر اور لوبان کا مرکب لایا جس کا وزن قریبا پچاس سیر تھا.یہ مقدار بہت ہی زیادہ معلوم ہوتی ہے مگر اس زمانہ میں مصالحوں کی ایسی ہی بڑی بڑی مقداریں استعمال کرنے کا رواج تھا " اے پھر ایک اور حوالہ اس ضمن میں یہ ہے کہ : آرمتیہ کا یوسف جو سنہررم (بڑی عدالت کا نمبر ہے پلا طوس کے پاس جا کہ لاش مانگنا ہے اور نکہ ہمیں مر ا ور عود لاتا اور انہیں اس کتانی کپڑے میں دھرتا ہے جو لاش اور کے ارد گرد لیٹا ہوا ہے" سے _ اگر یہ سوال ہو کہ یوسف اور نقود نہیں کو اس سارے واقعہ کی اطلاع کیسے ہو گئی کہ وہ اتنی جلدی سب کچھ سے کر آگئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یوسف اور نقود میں دونوں خفیہ طور پر سیج کے شاگرد تھے اور اس عدالت کے نمبر تھے دینی مسیح کی صلیب کا فیصلہ کیا تھا لکھا ہے :- یوسف ایک مشیر تھا یعض کا خیال ہے کہ وہ آرمنیا کی کونسل کا مشیر تھا " سے پھر اسی کتاب میں مزید لکھا ہے :- ا یوسف کے نمونہ سے نقود میں کو بھی اپنی وفاداری دکھلانے کی جرأت ہوئی.نفود میں بھی وہی عہدہ رکھتا تھا جو یوسف کا تھا کیونکہ وہ بھی صدر مجلس کا نمبر تھا اور وہ بھی خفیہ طور پر سیخ کا شاگرد تھا ہے.<+ معلوم ہوتا ہے کہ انکو ساری سکیم کا پورا علم تھا جو پہلا طوس نے تیار کی تھی.اسی وجہ سے وہ حادثہ صلیب.کے فورا بعد اتنی بڑی مقدار میں مر اور لوبان لیکر آگئے.اگر واقعات کی سب اکٹڑیاں ملائی جائیں تو حقیقت کو پا لینا کچھ مشکل نہیں رہتا.عیسائی حضرات بھی عجیب عذر تلاش کرتے ہیں.جب صلیبی موت کا کوئی ثبوت بھی نہیں ملتا اور لوبان وغیرہ کے ملنے کی دلیل سے انکار کی گنجائش نہیں رہتی تو ایک عجیب عذر بیان کرتے ہیں.پادری طالب الدین سکھتے ہیں : الگرہ یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ جب وہ صلیب پر سے اتنا برا گیا اس وقت زندہ تھا.پیر رہ لے :.یسوع مسیح کی گرفتاری اور موت ما سه : - تواریخ بائیبل ۵۲۲۰ : و الضان :
FAL ایک اور بات سامنے آتی ہے جو اسے مدت تک زندہ رہنے نہ دیتی اور وہ یہ کہ جب یوسف آرمیتیہ اور نفود ہمیں نے اس پر خوشبوئیں ملنی شروع کیں اگر وہ اس وقت زندہ ہوتا تو دم گھٹ کر مرجاتا کیونکہ لکھا ہے کہ وہ کوئی پچاس سیر مر اور عود اپنے ساتھ لائے تاکہ ان چیزوں کو اس کے جسم پر تکلیں " سے اس حوالہ پر کسی تبصرہ کی خاص ضرورت نہیں.یہ حوالہ عیسائیوں کی ناکامی اور شکست کے بعد ان کے ندیوحی حرکات پر اللہ آنے کی غمازی کرتا ہے یہ غزلہ اس وجہ سے بھی باطل ہے کہ خود ڈاکٹر جمیں سٹا کر کے حوالہ میں اس کا جواب پہلے آچکا ہے کہ اس زمانہ میں رواج ہی یہی تھا کہ اتنی زیادہ مقدار میں دوائیں سکتے تھے اور جب چالیس دن علاج ہوا ہو تو یہ مقدر الہ کچھ نہ یادہ بھی نہیں.بہر حال اس دلیل سے بھی مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کی تردید ہوتی ہے.حضور فرماتے ہیں:.یہی رائے یورپ کے محقق علماء کی بھی ہے دیتی یہ کہ وہ صلیب پر نہیں کرتے تھے ناقل) بلکہ وہ صلیب پر سے نیم مردہ ہو کر بچ گئے “ سے پس بد کوره بالا ساری بحث کا خلاصہ یہی ہے کہ حادثہ ملیب کے بعد حضرت مسیح کا علاج معالجہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ اس وقت بقید حیات تھے.پس حق وہی ہے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا اور محق عیسائی پادریوں نے تسلیم کیا ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر بے ہوش ہو گئے تھے اور علاج کے بعد ہوش میں آگئے.یہ تحقیق حضرت سی علیہ السلام کے صدی سے زندہ پنچ نکلنے کا بہت واضح ثبوت ہے.اٹھار مقوی دلیل حضرت مسیح علیہ السلام کے زندگی کے واقعات جو ان کو حادثہ صلیہ کے بعد پیشیں آئے.اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہیں کہ وہ صلیب پر ہر گنہ فوت نہیں ہوئے تھے.چنانچہ اناجیل سے ثابت ہوتا ہے.کہ حضرت مسیح علیہ السلام اس حادثہ صلیب کے بعد حواریوں کو نظر آئے ، ان کے تعجب کونے پہ کہ یہ نہ مادہ کیسے ہو گئے ان کو اپنا جسم اور اس کے زخم دکھائے ، ان کے ساتھ مل کر کھانا کھایا ، باتیں کیں اور رات بسر کی اور پھر اس کے بعد کلیل کی طرف سفر کیا جو وہاں سے کافی دور ایک علاقہ تھا.یہ سب واقعات ، جو انا جیل سے ثابت ہوتے ہیں.کسی مردہ انسان کے ساتھ پیش نہیں آسکتے.پس ثابت ہوتا ہے کہ مسیح صلیب پر ہر گز نہیں مرے تھے.اگر وہ کر گئے ہوتے تو یہ واقعات کیسے پیش آسکتے تھے.-: معجزات مسیح مقدمه من ١٢ : :- چشمه مسیحی ص - جلد ۲۰ به
PAA عیسائی اس دلیل کے جواب میں کہا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح مرنے کے بعد زندہ ہو گئے تھے اور اور ان کو خدا کی طرف سے ایک جلالی جسم عطا ہوا تھا لیکن اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے یہ تنقید فرمائی ہے کہ اگر ان کو ملنے والا جسم جلالی تھا تو پھر اس پر نہ خموں کے نشان کیوں باقی رہے ؟ زخموں کا موجود ہونا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ مسیح کا جسم وہی تھا جب کسی ساتھ ان کو صلیب دیا گیا تھا.ہاں علاج کے نتیجہ میں زخم تو درست ہو گئے تھے لیکن ان کے نشانات باقی تھے.پس حادثہ صلیب کے بعد کے ان واقعات کو باہم ملانے سے ایک زبر دست دلیل بنتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے.ارشاد خداوندی فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا میں بھی اسی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السّلام اس دلیل کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- " منجملہ ان شہادتوں کے جو انجیل سے ہمیں مسیح ابن مریم کی صلیبی موت سے محفوظ رہنے جو کی W پرھتی ہیں اس کا وہ سفر دور دراز ہے جو قبر سے نکل کر جلیل کی طرف اس نے کیا " اے (۲) مرقس کی انجیل میں لکھا ہے کہ وہ قبر سے نکل کہ جلیل کی سڑک پر جاتا ہوا دکھائی دیا اور آخران گیاراں حواریوں کو ملا جبکہ وہ کھانا کھا رہے تھے اور اپنے ہاتھ اور پاؤں جو نہ تھی زہ تھے دکھائے اور انہوں نے گمان کیا کہ شاید یہ روح ہے تب اس نے کہا کہ تجھے چھوڑ اور ہو کیونکہ روح کو جسم اور ہڈی نہیں جیسا کہ مجھ میں دیکھتے ہوا در ان سے ایک بھونی ہوئی مچھلی کاٹکڑا اور شہد کا ایک چھتا لیا اور ان کے سامنے کھایا.دیکھو مرقس باب ۱۹ آیت ۱۴ اور لوقا باب ۲۴ آیت ۳۹ اور ہم.اور الم اور ۴۲ - ان آیات سے ۴۰ یقینا معلوم ہوتا ہے کہ مسیح ہر گنہ آسمان پہ نہیں گیا بلکہ قبر سے نکل کر جلیل کی طرف گیا اور معمولی قیم اور معمولی کپڑوں میں انسانوں کی طرح تھا.اگر وہ مرکو زندہ ہوتا تو کیونکہ ممکن تھا کہ.جلالی جسم میں صلیب کے زخم باقی رہ جاتے.اور اس کو روٹی کھانے کی کیا حاجت تھی اور اگر تھی تو پھر اب بھی روٹی کھانے کا محتاج ہوگا " سے ہو (۳) انجیل سے ثابت ہے کہ عیسوع صلیب سے نجات پا کر پھر اپنے حواریوں کو ملا اور ان کو اپنے زخم دکھلائے اور ممکن نہیں کہ یہ زخم اس حالت میں موجود رہ سکتے کہ جبکہ یسوع ے مسیح ہندوستان میں ۲۵۳ جلد ۱ سے الفاط - جلدها : : ۲۲
مرنے کے بعد ایک تازہ اور نیا جلالی حسیم پاتا کہ اے (۴) جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام میسی واقعہ کے بعد حوالہ یوں کو ملے اور گلیل تک سفر کیا اور روٹی کھائی اور کباب کھائے اور اپنے زخم دکھلائے اور ایک رات بمقام املوس حواریوں کے ساتھ رہے اور خفیہ طور پہ بلا طوس کے علاقہ سے بھا گئے اور نبیوں کی سنت کے موافق اس ملک سے ہجرت کی اور ڈرتے ہوئے سفر کیا تو یہ تمام واقعات اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے اور فانی جسم کے تمام لوازم ان کے ساتھ ، تھے اور کوئی نئی تبدیلی ان میں پیدا نہیں ہوئی تھی.(۵) لا يوجد لفظ صعود المسيح إلى السماء فى انجيل متى ولا انجيل يوحنا ويوجد سفره الى جليل بعد الصليب وهذا هو الحق وبه (6) کو کچھ آمنا تم یعنی انجیل متی اور یو نا میں حضرت مسیح کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے کا لفظ نہیں ملتا.ہاں حادثہ صلیب کے بعد ان کے گلیل کی طرف جانے کا ذکر ملتا ہے اور یہی بات حتی ہے اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں." وقد اخبرنا التاريخ الصحيح الثابت ان عيسى مامات على الصليب وهذا امرقد وجد مثله قبله وليس من الاعاجيب وشهدت الاناجيل كلها ان الحواريتين رؤه بعد ما خرج من القبر وقصد الوطن والاخوان و مشوا معه إلى سبعين فرسخ وباتوا معه واكلوا معه اللحم والرغقان فيا حسرة عليك ان كنت بعد ذالك تطلب البرهان له " مسیح نے خود اپنے دوبارہ زندہ ہونے کا ایک ذرہ ثبوت نہیں دیا بلکہ بھا گئے اور چھپنے اور کھانے اور سونے اور زخم دکھلانے سے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ صلیب پر نہیں مرا شد (۸) اتوار کی صبح کو پہلے وہ مریم مگر مینی کو ملا.مریم نے فی الفور حوالہ دیوں کو خبر کی کہ مسیح تو ما له : ايام الصلح.۳ جلد ۱۴ : : مسیح ہندوستان میں من جلد ۱۵ ١٣ - الهدى والتبصرة لمن يرى ها جلد ١٨ له : الهدى والتبصرة لمن يرى ما لا جلد ١٨ - -و: مسیح ہندوستان میں منٹ جلد ۱۵ :
۳۹۰ جیتا ہے لیکن وہ یقین نہ لائے پھر وہ حواریوں میں سے دو کو جبکہ وہ دیہات کی طرف جاتے تھے دکھائی دیا آخر وہ گیار ہوں کو جبکہ وہ کھانے بیٹھے تھے دکھائی دیا اور ان کی بے ایمانی اور ریخت دلی پر علامت کی.دیکھو انجیل مرقس باب ۱۶ آیت ۹ سے آیت ۴ تک.اور جب مسیح کے حواری سفر کرتے ہوئے اس بستی کی طرف جا رہے تھے جس کا نام املوس ہے جو یروشلم سے پونے چار کوس کے فاصلہ پر ہے تب مسیح ان کو ملا اور جب وہ اس بستی کے نزدیک پہنچے تو مسیح نے آگے بڑھ کر چاہا کہ ان سے الگ ہو جائے تب انہوں نے اس کو جانے سے روک لیا کہ آج رات ہم اکٹھے رہیں گے اور اسینی اُن کے ساتھ بیٹھ کر روٹی کھائی اور وہ سب مع مسیح کے الویس نام ایک گاؤں میں رات رہے.دیکھو لوقا باب ۲۴ آیت ۱۳ سے ۳۱ تک کا اے (9) اس ساری تفصیل کے بعد استدلال یوں فرمایا ہے :- اب ظاہر ہے کہ ایک جلالی جسم کے ساتھ جو موت کے بعد خیال کیا گیا ہے.سیح سے فانی جسم کے عادات صادر ہوتا اور کھانا اور پینیا اور سونا اور جلیل کی طرف ایک لمبا سفر کرنا جویروشلم سے قریبا ستر کوس کے فاصلہ پچہ تھا بالکل غیر مکن اور غیر معقول بات ہے اور باوجود اس کے کہ خیالات کے میلان کی وجہ سے انجیلوں کے ان قصوں میں بہت کچھ تغیر ہو گیا ہے تاہم جس قدر الفاظ پائے جاتے ہیں ان سے صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مسیح اس فانی اور معمولی جسم سے اپنے حواریوں کو ملا اور پیادہ پا جلیل کی طرف ایک نمیا سفر کیا اور حواریوں کو اپنے زخم دکھلائے اور رات ان کے پاس روٹی کھائی اور سویا نہ سکے جلالی جسم کے عذر کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : - یہ مقام ایک سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ایک جلالی اور ابدی جسم پاتے کے بعد یعنی اس غیر فانی جسم کے بعد جو اس لائق تھا کہ کھانے پینے سے پاک ہو کہ ہمیشہ خدائے تعالے کے دائیں ہاتھ بیٹھے اور ہر ایک داغ اور درد اور نقصان سے منزہ ہو اور ازلی ابدی خُدا کے جلال کا اپنے اندر رنگ رکھتا ہو ابھی اس میں یہ نقص باقی رہ گیا کہ اس پر صلیب اور کیلوں کے تازہ زخم موجود تھے جن سے خون بہتا تھا اور درد اور تکلیف ان کے ساتھ تھی جن کے واسطے ایک مرہم بھی تیار کی گئی تھی اور جلالی اور غیر فانی جسم کے بعد بھی جو ابد (۱۰) :- مسیح ہندوستان میں ص.جلد ۱۵ : : الضا
۳۹۱ (H) تک سلامت اور بے عیب اور کامل اور غیر متغیر چاہیئے تھا کسی قسم کے نقصانوں سے بھرا رہا اور خود مسیح نے حواریوں کو اپنا گوشت اور ہڈیاں دکھلائیں اور پھر اسی پر کفایت نہیں بلکہ اس فانی جسم کے لوازم میں سے بھوک اور پیاس کی درد بھی موجود تھی دور نہ اس لغو شرکت کی کیا ضرورت تھی کہ مسیح جلیل کے سفر میں کھاتا پیتا اور پانی پینیا اور آرام کرتا اور سوتا.اس میں کیا شک ہے کہ اس عالم میں جسم فانی کیلئے بھوک اور پیاس بھی ایک درد ہے جس کی حد سے زیادہ ہونے سے انسان مرسکتا ہے.پس بلاشبہ یہ بات سچ ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا اور نہ کوئی نیا جلالی جسم پایا بلکہ ایک غشی کی حالت ہو گئی تھی جو مرنے سے مشابہ تھی.لہ 1 حال کے عیسائیوں کی یہ نہایت سادہ لوحی ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ یسوع مسیح مرکز نئے سرے سے زندہ ہوا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ خدا جو محض قدرت سے اس کو زندہ کرتا اسکی زخموں کو بھی اچھا کر دنیا بالخصوص جبکہ کہا جاتا ہے کر دوسرا جسم خلالی ہے جو اسمان پر اٹھایا گیا اور خدا کی راستی طرف جا بیٹھا تو کیا قبول کر سکتے ہیں کہ جلالی جسم پر بھی یہ زخموں کا کلنک باقی رہا ہے یہ (ہوا) یہ بات انجیلوں سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ جب حضرت مسیح نے صلیہ سے نجات پائی کہ جو درحقیقت دوبارہ زندگی کے حکم میں تھی تو وہ اپنے حواریوں کو ملے اور اپنے زندہ سلامت ہونے کی خبر دی.حواریوں نے تعجب سے دیکھا کہ صلیب پر سے کیونکر بچ گئے.اور گمان کیا کہ شاید ہمارے سامنے ان کی روح متمثل ہوگئی ہے تو انہوں نے اپنے زخم دکھلائے جو صلیب پر باندھنے کے وقت پڑ گئے تھے تب حواریوں کو یقین آیا کہ خدا تعالیٰ نے یہودیوں کے ہاتھ سے ان کو نجات دی " سے (۱۳) جن واقعات کو انجیلوی نے پیش کیا ہے ان سے ظاہر ہے کہ صلیب سے رہائی پانے کے بعد صرف خاکی جسم حضرت عیسی کا مشاہدہ کیا گیا جیسا کہ جب دھوما حواری نے شک کیا کہ کیونکر عیسی صلیب سے رہائی پا کہ آگیا توحضرت عیسی نے ثبوت دینے کے لئے اپنے زخم اس کو دکھلائے اور دھوما نے ان زخموں میں انگلی ڈالی.پس کیا ممکن ہے کہ جلالی جسم میں بھی -::- I : مسیح ہندوستان میں ۲ جلد ۱۵ : حمد ۲۶-۲۵ سے : ست بچن حاشیه ص روحانی خزائن جلد ۱ : ے : ست بچن حاشیه ها روحانی خزائن جلد ۱۰:
۳۹۲ زخم موجود رہے اور کیا ہم کہ سکتے ہیں کہ جلالی جسم بھی ملا پھر بھی زخموں سے رہائی نہ ہوئی یہ لے (۱۳) پھر یہ بھی معلوم ہے کہ یسوع نے صلیب سے نجات پاکر شاگردوں کو اپنے زخم دکھائے پس اگر اس کو دوبارہ زندگی جلالی طور پر حاصل ہوئی تھی تو اس پہلی زندگی کے زخم کیوں باقی رہ گئے کیا جلال میں کچھ کسر باقی رہ گئی تھی اور اگر کسر رہ گئی تھی تو کیونکہ امید رکھیں کہ دہ زخم پھر کبھی قیامت تک مل سکیں گے؟ لے ان سب حوالہ جات سے یہ بات پوری وضاحت سے ثابت ہو جاتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ہرگز صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور نہ ان کو دوبارہ زندگی نصیب ہوئی ہے کیونکہ فوت ہونے کی صورت میں ان سے یہ واقعات ظہور میں نہیں آسکتے تھے اور نیا جلالی حسم ملنے کی صورت میں اس پر زخموں کے نشان باقی نہیں رہ سکتے تھے.پس یہ استدلال بہت واضح اور قطعی ہے لیکن عیسائی حضرات اس موقعہ پر انجیل کی ایک آیت پیش کر کے ان کی صلیبی موت کا استدلال کرنے کی کوشش موقعہ کرتے ہیں.متی ہے میں لکھا ہے کہ مسیح نے کہا :- میں اپنے جی اُٹھنے کے بعد تم سے آگے جلیل کو جاؤں گا ہے اس بیان سے صلیب پر مرنے کا جو شبہ پیدا ہو سکتا ہے اس کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- ور مسیح کا یہ کلمہ کہ " اپنے جی اٹھنے کے بعد اسکی مرنے کے بعد جینا مراد نہیں ہو سکتا بلکہ چونکہ یہودیوں اور عام لوگوں کی نظر میں وہ صلیب پر مر چکا تھا اس لیئے مسیح نے پہلے سے ان کے آئندہ خیالات کے موافق یہ کلمہ استعمال کیا اور در حقیقت جس شخص کو صلیب پر کھینچ گیا اور اسکی پیروں اور ہاتھوں میں کیل ٹھو کے گئے یہانتک کہ وہ اس تکلیف سے غشی غشی میں ہو کر مردہ کی سی حالت میں ہو گیا اگر وہ ایسے صدمہ سے نجات پاکر پھر ہوش میں آجائے تو اس کا یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ میں پھر نہ ندہ ہو گیا اور بلاشبہ ا صدمہ عظیمہ کے بعد سیح کا بنچ جانا ایک معجزہ تھا معمولی بات نہیں تھی لیکن یہ درست نہیں ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ مسیح کی جان نکل گئی تھی " سے پھر آپ اسی سلسلہ میں فرماتے ہیں: مه به ضمیمه برا این احمدیہ حقہ پنجم حاشیه ۲۹ جلد : ه: - سراج منیر مت - جلد ۱۲ ۲۹-۲ ص : مسیح ہندوستان میں ملتا - جلد ۱۵:
" i ۳۹۳ اگر کوئی یہ اشکال پیدا کر سے کہ مسیح تو انجیل میں کہتا ہے کہ ضرور ہے کہ میں مارا جاؤں اور تیسرے دن جی اُٹھوں تو بیان مذکورہ بالا یعنی مسیح کا صلہ ہے زندہ اُتر آنا - ناقل) کیونکہ اس کے مطابق ہو.اس کا جواب یہ ہے کہ اس موت سے حقیقی موت مراد نہیں ہے بلکہ مجازی موت مراد ہے.یہ عام محاورہ ہے کہ جو شخص قریب مرگ ہو کہ پھر بچ جائے اسکی نسبت بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ نئے سرے سے زندہ ہوا مسیح پر جو یہ مصیبت آئی کہ وہ صلیب پر چڑھا یا گیا اور کیلیں اس کے اعضاء میں ٹھوکی گئیں جن سے وہ نشی کی حالت میں ہوگیا.یہ مصیبت در حقیقت موت سے کچھ کم نہیں تھی اور عام طور پر یہ بول چال ہے کہ جو شخص ایسی مصیبت تک پہنچ کر بچ جائے اس کی نسبت یہی کہتے ہیں کہ وہ مر مر کہ بچا اور اگر وہ کہے کہ میں تو نئے سرے سے زندہ ہوا ہوں تو اس بات کو کچھ جھوٹ یا مبالغہ خیال نہیں کیا جاتا یا اے نیز فرمایا : " ایسے بڑے صدمہ کو جو مسیح پر وارد ہوا تھا موت کے ساتھ تعبیر کرنا خلاف محاور نہیں ہے.ہر ایک قوم میں قریبا یہ محاورہ پایا جاتا ہے کہ جو شخص ایک مہلک صدمہ میں مبتلا ہو کہ پھر آخر بچ جائے اس کو کہا جاتا ہے کہ نئے سرے نہ ندہ ہوا اور کسی قوم اور کسی ملک کے محاورہ میں ایسی بول چال میں کچھ بھی تکلف نہیں ہے راسی تسلسل میں مزید فرمایا :- خود ان چار انجیلوں میں ایسے استعارات موجود ہیں کہ مردہ کو کہ دیا ہے کہ یہ سوتا ہے مرا نہیں.تو اس حالت میں اگر غشی کی حالت میں مردہ کا لفظ بولا گیا تو کیا یہ بعید ہے ؟ " سے اسی طرح عیسائی یہ بھی کہتے ہیں کہ مسیح نے صلیب سے قبل یہ بھی کہا تھا کہ آج میں بہشت میں داخل ہو جاؤں گا.یہ گویا صلیبی موت کی ایک دلیل ہے.اس کا رد بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا نے ہے.آپ فرماتے ہیں :- ور اگر یہ عذر پیش ہو کہ مسیح نے مصلوب ہونے کے وقت یہ بھی کہا تھا کہ آج میں بہشت میں داخل ہوں گا.پس اس سے صفائی کے ساتھ مسیح کا فوت ہونا ثابت ہوتا ہے سو ازالہ اوہام حصہ اول ص - جلد ۳ سے مسیح ہندوستان ہمیں منٹ - جلد ۱۵ : : مسیح ہندوستان میں صلاح - جلد ۲۱ :
۳۹۴ واضح ہو کہ مسیح کو بہشت میں داخل ہونے اور خدا کی طرف اُٹھائے جانے کا وعدہ دیا گیا تھا مگر وہ کسی اور وقت پر موقوف تھا جو سیج پر ظاہر نہیں کیا گیا تھا جیسا کہ قرآن کریم میں اتنی متونيك ورافعك التى وارد ہے.سو سخت گھبراہٹ کے وقت میں مسیح نے خیال کیا کہ شاید آج ہی وہ وعدہ پورا ہو گا.چونکہ مسیح ایک انسان تھا اور اس نے دیکھا کہ تمام سامان میرے مرنے کے موجود ہو گئے ہیں.لہذا اس نے برعایت اسباب گمان کیا کہ شاید آج میں مر جاؤں گا.سو بباعث ہیبت تجلی ملالی حالت موجودہ کو دیکھ کر ضعف بشریت اس پر غالب ہو گیا تھا تبھی انھی دل برداشتہ ہو کر کہا ایلی ایلی دما سبقتنی یعنی اسے میرے خدا! اسے میرے خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا یا اے ان مندرجہ بالا حوالوں سے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیانات سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ہرگز صلیب پر فوت نہیں ہوئے ورنہ وہ واقعات جو حادثہ صلیہ کے بعد انا جیل کی رو سے ثابت ہیں ہر گنہ ان کو پیش نہ آتے.اس دلیل کے سلسلہ میں حضور علیہ السلام کے حوالہ حیات اس قدر واضح ہیں کہ کسی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں.انیسون بليل حضرت مسیح علیہ اسلام کی صلیبی موت کی تردید میں انیسویں دلیل وہ ہے جس کا استنباط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس فقرہ سے ہوتا ہے جو درج ذیل ہے.حضور نے فرمایا ہے :- یسعیاہ نبی کی کتاب باب -۹ ۵۳ میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے " سے چنانچہ اس غرض سے جب ہم یسعیاہ نبی کی کتاب کے ۵۳ باب کو دیکھتے ہیں تو اس میں یہ عبارت ملتی ہے :- لیکن خداوند نے پسند کیا کہ اسے کچلے.انہیں اسے نگین کیا جب اس کی جان گناہ کی ! قربانی کے لئے گذرانی جائے گی تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا اسکی عمر دراز ہوگی اور خداوند کی مرضی اس کے ہاتھ کے وسیلہ سے پوری ہوگی دیسعیاہ ہے ) پھر لکھا ہے : ۵۳ اسکی قبر بھی شہریوں کے درمیان ٹھہرائی گئی اور وہ اپنی موت نہیں دو لمنڈی کے ساتھ ہوا رییسعیاه ) ---: - اندا اوہام حصہ اول ص ۳۳ جلد کے : ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ۳۲ - جلد ۲ :.۳ "
۳۹۵ یہ دونوں حوالے اس تحریف شدہ بائیل سے لئے گئے ہیں.جو موجودہ نہ مانہ میں ملتی ہے.۱۸۹۱ ء کی مطبوعہ عربی بائیبل میں یہ الفاظ لکھے ہیں :- " لكن اخزائنا حملها و اوجاعنا تحملها ونحن حسبناها مصابًا مصر وبا من الله ومذلولاً وهو مجروح لاجل محاصينا مسحوق لاجل آثامنا.....جعل مع الاشرار قبره ومع غنى عند موته بری نسلاً نطول ايامه ومسرة الرب بيده تندج " حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے طبیعیاہ باب ۵۳ کے بعض حصوں کو اصل عبرانی زبان میں کتاب تحفہ گولڑویہ میں نقل فرمایا ہے اور اس کا ترجمہ یوں لکھا ہے :- اور اس کے بقائے عمر کی جو بات ہے سو کون سفر کر جائے کیونکہ وہ علیحدہ کیا گیا ہے قبائل کی زمین سے.اور کی گئی شریروں کے درمیان اس کی قبر پر وہ دولتمندوں کے ساتھ ہوا اپنے مرنے میں جبکہ تو گناہ کے بدلہ میں اس کی جان کو دے گا.(تو وہ بچ جائے گا ) اور صاحب اولاد ہوگا اور اس کی عمر لمبی کی جائے گی وہ اپنی جان کی نہایت سخت تکلیف نہ ، دیکھے گا یعنی صلیب پر بے ہوشی پر وہ پوری عمر پائے گا کے الے اس حوالہ کے فقرہ " پر وہ دولت مندوں کے ساتھ ہوا اپنے مرنے میں؟ پر حضور علیہ السلام نے یہ حاشیہ بھی درج فرمایا ہے :- اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ صلیب سے اتار کر مسیح کو سزا یافتہ مردوں کی طرح قبرس رکھا جاؤ سے گامگر چونکہ وہ حقیقی طور پر مردہ نہیں ہو گا اس لئے اس قبر میں سے نکل آئے گا اور آخر عربیہ اور صاحب شرف لوگوں میں اس کی قبر ہوگی اور یہی بات ظہور میں آئی کیونکہ سری نگر محله خانیار میں حضرت عیسی علیہ السلام کی اس موقع پر قبر ہے جہاں بعض سادات گرام اور اولیاء اللہ مدفون ہیں.منہ یہ ہے اس سار سے بیان سے واضح ہے کہ لیسعیاہ باب ۵۳ میں ایک پیشگوئی کی گئی تھی کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر یہ بائیں صادق آئیں گی کہ : 1- ایک دکھ اور مصیبت کی تکلیف آئے گی جس سے وہ بچ جائیں گے.ب.ان کی نسل بڑھائی جائے گی.2: تحفہ گولڑویہ ص۲۲۵ - ۲۲۹ - جلد ۱ : :: :- حاشیہ تحفہ گولڑویہ ص۲۲۵ - جلد ۱۷ :
PAY.ان کی عمر میں برکت دی جائے گی.د - اس کی قبر شرفاء کے درمیان ہوگی وغیرہ وغیرہ.ہمارا استدلال یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کا اعتقاد رکھا جائے تو ان باتوں میں سے کوئی سی بات بھی پوری نہیں ہوتی.ہاں اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ صلیب کی موت سے نجات پاکر کشمیر کی طرف ہجرت کر آئے جہاں انہوں نے تبلیغ کی ، اپنے روحانی پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ کیا ، لمبی عمر پائی اور عزت و احترام کے ساتھ دفن ہوئے (جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بدلائل ثابت فرما دیا ہے) تو اس صورت میں ہی یہ پیش گوئی سچی اور درست ثابت ہوتی ہے.پس یہ ایک نہ بر دست دلیل ہے اور مسیح پاک علیہ السلام کا یہ فقرہ بالکل درست ہے کہ مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت سے نجات کے بارہ میں عیسعیاہ باب ۵۳ میں اشارہ پایا جاتا ہے.بیسویر بيسوين دليل اس عنوان کے تحت میں حضرت مسیح علیہ السلام کے واقعات صلیب کی مجموعی شہادت کو پیش کرنا چاہتا ہوں.اگرچہ اس سلسلہ میں بعض امور کا ذکر علیحدہ علیحدہ دلیل کے طور پر پہلے گزر چکا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر صلیہ کے واقعات کو باہم ملا کر دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ خدائی منشاء یہی تھا کہ حضرت مسیح کو صلیب کی موت سے بچایا جائے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ زمین و آسمان سے غیر معمولی اسباب پیدا ہو جائیں اور حالات کا مریخ پور سے طور پر بدل کر ایسی صورت پیدا کر دی جائے کہ ان میں حضرت مسیح علیہ اسلام کے بچ جانے کی سبیل نکل آئے.امر واقعہ یہ ہے کہ خُدا تعالیٰ نے غیب سے غیر معمولی اسباب پیدا کر دیئے جنہوں نے حضرت مسیح کو صلیب سے بچانے میں مدد دی.یہ متفرق اسباب و عوامل مل کر زیر دست دلیل بنتے ہیں اس بارہ میں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ جات پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں حضور فرماتے ہیں : صلیب کیسے جو واقعات انجیل میں لکھے نہیں خود ان سے معلوم ہوتا ہے کہ سیح صلیب پر نہیں مرا سب سے اول یہ ہے کہ خود مسیح نے اپنی مثال یونس سے دی ہے کیا یونس مچھلی کے پیٹ میں زندہ داخل ہوئے تھے یا مرکز اور پھر یہ کہ پیلاطوس کی بیوی نے ایک ہولناک خواب دیکھا تھا جس کی اطلاع پیلاطوس کو بھی اس نے کر دی اور وہ اس فکر میں ہو گیا کہ اس کو بچایا جاد سے اور اس لئے پیلا طوس نے مختلف پیرایوں میں مسیح کے چھوڑ دینے
کی کوشش کی اور آخر کار اپنے ہاتھ دھو کہ ثابت کیا کہ میں اس سے بری ہوں اور پھر جب بیوی کسی طرح ماننے والے نظر نہ آئے تو یہ کوشش کی گئی کہ جمعہ کے دن بعد عصر آپ کو صلیب دی گئی اور چونکہ صلیب پر بھوک، پیاس اور دھوپ وغیرہ کی شدت سے کئی دن رہ کر مصلوب انسان سرجایا کرتا تھا وہ موقع مسیح کو پیش نہ آیا کیونکہ یہ کسی طرح نہیں ہو سکتا تھا کہ جمعہ کے دن غروب ہونے سے پہلے اُسے صلیب پر سے نہ اتا رہ لیا جاتا کیونکہ یہودیوں کی شرعیت کی رو سے یہ سخت گناہ تھا کہ کوئی شخص سبت یا سبت سے پہلے رات صلیب پر رہے.مسیح چونکہ جمعہ کی آخری گھڑی صلیب پر چڑھایا گیا تھا اس لئے بعض واقعات آندھی وغیرہ کے پیش آجانے سے فی الفور اتار لیا گیا پھر دو چور جو مسیح کے ساتھ صلیب پر لٹکائے گئے تھے ان کی ہڈیاں تو توڑ دی گئیں تھیں مگر سیح کی ہڈیاں نہیں توڑی گئی تھیں پھر سیج کی لاش ایک ایسے آدمی کے سپرد کر دی گئی جو مسیح کاش گرد تھا اور اصل تو یہ ہے کہ خود پیل طوس اور اسکی بیوی بھی اس کی مرید تھی چنانچہ پیلاطوس کو عیسائی شہیدوں میں لکھا ہے اور اسکی بیوی کو عیسائی ولیہ قرار دیا ہے اور ان سب سے بڑھ کر مرہم عیسی کا نسخہ ہے جس کو مسلمان ، یہودی ، رومی اور عیسائی اور مجوسی طبیبوں نے بالا تفاق لکھا ہے کہ یہ بیچ کے زخموں کے لئے تیار ہوا تھا اور اس کا نام مرہم علیمی، مرسم حوار بین اور مرسم رسل اور مرہم شینی و غیرہ بھی رکھا.کم از کم ہزارہ کتاب میں یہ نسخہ موجود ہے اور یہ کوئی عیسائی ثابت نہیں کر سکتا کہ صلیبی زخموں کے سوا اور بھی کبھی کوئی زخم مسیح کو تھے اور اس وقت حواری کر کر ر نہ بھی موجود تھے.اب بتاؤ کہ کیا یہ تمام اسباب اگر ایک جامع کئے جاویں تو صاف شہادت نہیں دیتے کہ مسیح صلیب پر سے زندہ بیچ کر اتر آیا تھا " اے (۳) اگر انجیل کی ساری باتوں کو جو اس واقعہ صلیب کے متعلق ہیں یکجائی نظر سے دیکھیں تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ بات ہرگزہ صحیح نہیں ہے کہ مسیح صلیب پر مرے ہوں.حواریوں کو ملنا ، زخم دیکھانا ، کباب کھانا، سفر کرنا ، یہ سب امور ہیں جو اس بات کی نفی کرتے ہیں اگرچہ خوش اعتقادی سے ان واقعات کی کچھ بھی تاویل کیوں نہ کی جاو سے لیکن ایک منصف مزاج کہ اُٹھے گا کہ زخم لگے رہے اور کھانے کے محتاج رہے.یہ زندہ آدمی کے واقعات ہیں.یہ واقعات اور صیہ کیسے بعد کے دوسرے واقعات گواہی دیتے ہیں اور تاریخ شہادت دیتی ہے گروہ تین گھنٹہ سے زیادہ صلیب پر نہیں رہے اور وہ صلیب اس قسم - : ملفوظات جلد سوم مثنتا
(٣) کی نہ تھی جیسے آج کل کی پھانسی ہوتی ہے جس پر ٹکاتے ہی دو تین منٹ کے اندر ہی کام تمام ہو جاتا ہے بلکہ اس میں توکیل وغیرہ ٹھونک دیا کر تے تھے اور کئی دن رہ کر انسان جھوکا پیاسا مر جاتا تھا مسیح کے لئے اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آیا وہ صرف دو تین گھنٹہ کے اندر ہی صدی سے اتار لئے گئے.یہ تو وہ واقعات ہیں جو انجیل میں موجود ہیں جو مسیح کے صلیب پر نہ مرنے کے لئے زیر دست گواہ ہیں " اے " اگر انجیل کو غور سے دیکھا جائے تو انجیل بھی یہی گواہی دیتی ہے.کیا مسیح کی تمام رات کی دردمندانہ دعارہ ہو سکتی ہے.کیا مسیح کا یہ کہنا کہ میں یونس کی طرح تین دن قبر میں رہوں گا اس کے یہ معنے ہو سکتے ہیں کہ وہ مردہ قبر میں رہا.کیا یونس مچھلی کے پیٹ میں تین دن مرا رہا تھا.کیا پیلاطوس کی بیوی کے خواب سے خدا کا یہ منشاء معلوم نہیں ہوتا کہ مسیح کو صلیب سے بچائے.ایسا ہی مسیح کا جمعہ کی آخری گھڑی صلیب پر چڑھائے جانا اور شام سے پہلے اتا ر سے جانا اور ریم قدیم کے موافق تین دن تک صلیب پر نہ رہنا اور ہڈی نہ توڑ سے جانا اور خون کا نکلنا.کیا یہ تمام وہ امور نہیں ہیں جو باوا از بلند پیکار رہے ہیں کہ یہ تمام اسباب مسیح کی جان بچانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور دعا کرنے کے ساتھ ہی یہ رحمت کے اسباب ظہور میں آئے.بھلا مقبول کی ایسی دعا جو تمام رات رو رو کر کی گئی کب تو ہو سکتی ہے.پھر سیح کا مصلیت کے بعد حوالدیوں کو ملنا اور زخم دکھلانا کس قدر مضبوط دلیل اس بات پر ہے گروہ صلیب پر نہیں مرا.....غرض ہر ایک پہلو سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح کی صلیب پر جان بچائی گئی " سے (۴) " یہ خدا تعالیٰ کی شان ہے کہ مسیح کے بچانے کے لئے اندھیرا ہوا، بھونچال آیا ، پیلاطوس کی بیوی کو خواب آئی.سبت کے دن کی رات قریب آگئی جس میں مصلوبوں کو صلیب پر رکھنا ہوا نہ تھا.حاکم کا دل بوجہ ہولناک خواب کے مسیح کے چھڑانے کے لئے متوجہ ہوا.یہ تمام واقعات خدا نے اس لئے ایک ہی دفعہ پیدا کر دیئے کہ تا مسیح کی جان بچ جائے.اس کے علاوہ مسیح کو غشی کی حالت میں کر دیا کہ ہر ایک کو مردہ معلوم ہوا اور یہو دیوں پراس وقت ہیبت ناک نشان بھونچال وغیرہ کے دکھلا کر بزدلی اور خوف اور عذاب کا اندیشہ طاری کر دیا اور یہ دھڑ کہ اسکی علاوہ تھا کہ سبت کی رات میں لاشیں صیب پر نہ رہ PAL ه : - ملفوظات جلد دوم ص۲۰۸-۲۸۸ : --- را از حقیقت حا - جلد ۱۴ با ص -
۳۹۹ h جائیں.پھر یہ بھی ہوا کہ یہودیوں نے مسیح کو غش میں دیکھ کر سمجھ لیا کہ فوت ہو گیا ہے.اندھیرے اور بھو نچال اور گھبراہٹ کا وقت تھا.گھروں کا بھی ان کو فکر پڑا کہ شاید انس بھونچال اور اندھیرے سے بچوں پر کیا گزرتی ہوگی اور یہ دہشت بھی دلوں پر غالب آئی کہ اگر یہ شخص کا ذب اور کافر تھا جیسا کہ ہم نے دل میں سمجھا ہے تو اس کے اس دُکھ دینے کے وقت ایسے ہولناک آثار کیوں ظاہر ہوئے ہیں جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے.لہذا ان کے دل بے قرار ہو کہ اس لائق نہ رہے کہ وہ سچ کو اچھی طرح دیکھتے کہ آیا مرگیا یا کیا حال ہے مگر در حقیقت یہ سب امور مسیح کے بچانے کے لئے خدائی تدبیریں تھیں.اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے وَلكِن شُبه لَهُمْ یعنی یہود نے صیح کو جان سے مارا نہیں ہے بلکہ خدا نے ان کو شبہ میں ڈال دیا کہ گویا جان سے مار دیا ہے.لہ ان مذکورہ بالا چار منتخب حوالہ جات سے یہ بات بصراحت ثابت ہو جاتی ہے کہ واقعات کی یہ مجموعی شہادت اور غیر معمولی اسباب کا اس کثرت سے اکٹھے ہو جانا محض حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب سے بچانے کے لئے تھا.ایک حق بین نظر اس بات کو جان سکتی ہے کہ ان سب اسباب و عوامل کی وجہ سے حضرت مسیح علیہ السلام کو خداتعالی نے معجزانہ طور پر صلیب پر مرنے سے بچا لیا.اکیسویں دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام کے صلیب پر فوت نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بیان فرمائی ہے کہ خود حضرت عیسی علیہ السلام نے یہ بیان کیا ہے کہ گذشتہ زمانوں میں بعض قوموں کی طرف سے انبیاء کے قتل کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا وہ حضرت ذکر یا پچہ اگر تم ہو گیا ہے.گویا ان کے بعد کوئی اور نبی اپنی قوم کے ہاتھوں قتل نہیں ہوا.اور نہ کسی اور ذریعہ سے مارا گیا ہے.پس اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کی بھی تردید ہو جاتی ہے کیونکہ جب ذکر یا پر انبیاء کے اپنی قوم کے ہاتھوں مار سے جانے کے سلسلہ کا اخت تمام ہو گیا تو پھر ان کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کا صلیب پر مرنا کیسے مکن ہو سکتا ہے.اس دلیل کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ بڑے معین اور واضح ہیں.چنانچہ میں اس جگہ حضور ہی کے الفاظ میں اس دلیل کو بیان کر دیتا ہوں جضور نے فرمایا :- منجملہ انجیلی شہادتوں کے جو ہم کو ملی ہیں انجیل متی کی وہ آیت ہے جو ذیل میں لکھتا ہوں ہے : میسیح ہندوستان میں، حک ، جلد ۱۵:
۴۰۰ " بابل راستبانہ کے خون سے بر ضیاہ کے بیٹے ذکریا کے خون تک جسے تم نے ہیکل اور قربان گاہ کے درمیان قتل کیا ئیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہ سب کچھ اس زمانہ کے لوگوں پر آوے گا".دیکھو متی باب ۲۳ آیت ۳۵ ، ۲۶ - اب ان آیات پر اگر نظر غور کرو تو واضح ہو گا کہ ان میں حضرت مسیح علیہ السلام نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ یہودیوں نے جس قدر نبیوں کے خون کئے ان کا سلسلہ ذکر یا نبی تک ختم ہوگیا اور بعد اس کی یہودی لوگ کسی نبی کے قتل کرنے کے لئے قدرت نہیں پائیں گے.یہ ایک بڑی پیشگوئی ہے اور اس سے نہایت صفائی کے ساتھ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب کے ذریعہ سے قتل نہیں ہوئے بلکہ صلیب سے بچ کر نکل گئے اور آخر طبعی موت سے فوت ہوئے کیونکہ اگر یہ بات صحیح ہوتی کہ حضرت مسیح علیہ السلام بھی ذکریا کی طرح یہودیوں کے ہاتھ سے قتل ہونے والے تھے تو ان آیات میں حضرت مسیح علیہ السلام ضرور اپنے قتل کئے جانے کی طرف بھی اشارہ کرتے لے بالمسوين دليل ایک اور دلیل حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیہ سے زندہ بچ جانے کی ان کا اپنا وہ قول ہے جوستی باب 19 میں درج ہے.اس قول کو درج فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام کی صلیبی موت کی تردید کا استدلال فرمایا ہے.حضور فرماتے ہیں :- " منجملہ ان انجیلی شہادتوں کے جو ہم کو لی ہیں انجیل متی کی وہ عبارت ہے جو ذیل میں کھی جاتی ہے، میں تم سے پہنچ کہتا ہوں کہ ان میں سے جو یہاں کھڑے ہیں بعضے ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اپنی بادشاہت میں آتے نہ دیکھ لیں موت کا مزہ نہ چکھیں گے، دیکھو انجیل متی باب ۱۷ آیت ۲۸ - ایسا ہی انجیل یوحنا کی یہ عبارت ہے یسوع نے اسے کہا کہ اگرس چاہوں کہ جب تک میں آدمی وہ ریعنی یو جانواری، یہیں ٹھہر سے یعنی یہ اسلم میں.دیکھو یوحنا باب ۲۱ آیت ۲۲ - یعنی اگر میں چاہوں تو یوجنا نہ سر سے جب تک میں دوبارہ آؤں.ان آیات سے یکساں صفائی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے وعدہ کیا تھا کہ بعض لوگ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک کہ وہ پھر واپس ہو اور ان زندہ رہنے والوں میں سے یونا کو بھی قرار دیا تھا سوضرور تھا کہ یہ وعدہ پورا ہوتا ہے کے مسیح ہندوستان میں صا جلد ۱۵ : : الضار
3 ۴۰۱ یہ وعدہ کس طرح پورا ہوا ؟ اس کا کوئی واضح اور تاریخی ثبوت عیسائی پیش نہیں کر سکے کیونکہ عمل بات اس طرح پر ظہور میں نہیں آئی.لیکن اعتراض سے بچنے کی خاطر عیسائی یہ تاویل کرتے ہیں کہ یہ ظہور تشفی زنگ میں ہو چکا ہے.اس جواب پر کڑی تنقید کرنے اور اس کی فلعلی واضح کرنے کے بعد حضور نے اصل حقیقت کو بایں الفاظ بیان فرمایا ہے :- اصل حقیقت یہ ہے کہ چونکہ مسیح جاتا تھا کہ میں صلیب سے بچ کر دوسرے ملک میں چلا جاؤں گا اور خدانہ مجھے ہلاک کرے گا اور نہ دنیا سے اُٹھائے گا.جب تک کہ میں یہودیوں کی بربادی اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں اور جب تک کہ وہ بادشاہت جو برگزیدوں کے لئے آسمان میں مقرر ہوتی ہے اپنے نتائج نہ دکھلا دے میں ہر گنہ وفات نہیں پاؤں گا.اس لئے سیج نے یہ پیش گوئی کی نا اپنے شاگردوں کو اطمینان دے کہ عنقریب تم میرا یہ نشان دیکھیں گے کہ جنہوں نے مجھ پر تلوار اٹھائی وہ میری زندگی اور میرے مشافہ میں تلواروں سے ہی قتل کئے جائیں گے.سو اگر ثبوت کچھ چیز ہے تو اسے بڑھ کر عیسائیوں کے لئے اور کوئی ثبوت نہیں ریح اپنے منہ سے پیشگوئی کرتا ہے کہ ابھی تم میں سے بعض زندہ ہوں گے کہ میں پھر آؤں گا یہ لے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علی اسلام کی بیان فرمودہ یہ وضاحت ہی صیح اور قابل قبول ہے کیونکہ اسی سے حضرت مسیح کا قول درست ثابت ہوتا ہے ورنہ ان کے قول کو غلط اور جھوٹا مانا پڑتا ہے.واقعات بھی یہی بتاتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے جب کشمیر کی طرف ہجرت کی تو اسکی بعد ہی یہ سب واقعات ظہو کر کی میں آئے.پس اگر حضرت مسیح علیہ السلام کا قوبل درست ہے اور یہ یقینا درست ہے تو پھر یہ بات بھی یقیناًا درست اور کچی ہے کردہ ہر گز صلیب پر فوت نہیں ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس دلیل کو بیان فرمانے کے بعد آخر میں فرماتے ہیں : - و مسیح کے صلیب سے بچ جانے کے لئے یہ آیت جو متی 4 باب میں پائی جاتی ہے بڑا ثبوت ہے.لہ تئیسویں دلیل حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کے خلاف ایک اور دلیل حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اناجیل میں مردوں کے قبروں میں سے زندہ ہو کر باہر نکل آنے کا جو واقعہ درج ہے اس کو ظاہر -: مسیح ہندوستان میں منا ٣ جلد ١٥ : ايضا : : حت ÷
۴۰۳ پر شمول نہیں کیا جاسکتا.اس واقعہ کی جو اصل میں ایک کشف تھا، تعبیر ظاہر کرتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیہ سے نجات پائیں گے.اگر اس واقعہ کو جو انا جیل میں بیان ہوا ہے ظاہر پر محمول کیا جائے تو اس صورت میں اس پر بہت لوجو سے شدید اعتراضات وارد ہوتے ہیں.اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک کشفی امر تھا جو اس وقت بعض لوگوں کو دکھایا گیا جب حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا تھا.اگر والوں کی تعبیر کے فن کی رو سے اس خواب کی تعبیر معلوم کی جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسکی کسی قیدی یا مصیبت زدہ کی آزادی اور مخلصی پانا مراد ہوتا ہے.پس حضور نے اس سے یہ استدلال فرمایا ہے کہ خدا کی طرف سے یہ کشف اسی لئے دکھایا گیا تھاکہ تا حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت سے نجات پر ایک دلیل ہو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس دلیل کا آغاز یوں فرماتے ہیں :- منجملہ ان شہادتوں کے جو انجیل سے ہم کو ٹی میں نجیل متی کی وہ عبارت ہے جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں.اور قبرس کھل گیئیں اور بہت لاشیں پاک لوگوں کی جو آرام میں تھیں اُٹھیں اور اس کے اُٹھنے کے بعد دینی مسیح کے اُٹھنے کے بعد قبروں میں سے نکل کر اور مقدس شہر - یہ میں جا کر بہنوں کو نظر آئیں.دیکھو انجیل متی باب ۲۷ آیت ۵۲ - اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ جا نظر قصہ جو انجیل میں بیان کیا گیا ہے کہ مسیح کے اُٹھنے کے بعد پاک لوگ قبروں میں سے باہر نکل آئے اور زندہ ہو کر بہتوں کو نظر آئے یہ کسی تاریخی واقعہ کا بیان نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر گویا اسی دنیا میں قیامت نمودار ہو جاتی اور وہ امر جو صدق اور ایمان دیکھنے کے لئے دنیا پر مخفی رکھا گیا تھا وہ سب کھل جاتا اور ایمان نہ رہتا ہے کہ پس ظاہر ہے کہ اس واقعہ کو ظاہر پر محمول نہیں کیا جاسکتا.اصل حقیقت کیا ہے اور کس طرح یہ واقعہ صلیبی موت کی تردید کا ایک ثبوت ہے ؟ اس سلسلہ میں حضور فرماتے ہیں :- واضح ہو کہ یہ ایک کشفی امر تھا جو صلیب کے واقعہ کے بعد بعض پاک دل لوگوں نے خواب کی طرح دیکھا تھا کہ گویا مقدس مرد سے زندہ ہو کہ شہر میں آ گئے ہیں اور لوگوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں......اس خواب کی بھی ایک تعبیر تھی اور وہ یہ تعبیر تھی کہ مسیح صلیب پر نہیں سرا اور خدا نے اس کو صلیب کی موت سے نجات دے دی.....ہم قدیم نیما نہ کی ایک امام فن تعبیر صاحب کتاب تعطیر الانام کی تعبیر کو اس کی اصل عبارت کے ساتھ ذیل میں لکھتے ہیں.نه در مسیح ہندوستان میں ملا.جلد ۱۵ : 1 : + "I
اور وہ یہ ہے ! من رأى ان الموتى وثبوا من قبورهم ورهبوا الى دور هم فاته يطلق من في السجن، وهو كتاب تعطير الأنام في تدبير المنام مصنفة قطب الزمان شیخ عبدالغنی التا لیسی من - ترجمہ : اگر کوئی یہ خواب دیکھے یا کشفی طور پر مشاہد کرے النابلسي کہ مردے قبروں میں سے نکل آئے اور اپنے گھروں کی طرف رجوع کیا تو اس کی یہ تعبیر ہے کہ ایک قیدی قید سے رہائی پائے گا اور ظالموں کے ہاتھ سے اس کو مخلصی حاصل ہوگی.طریر بیان سے ایک معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قیدی ہوگا کہ ایک شان اور عظمت رکھتا ہو گا.اب دیکھو ی تعبیر کیسی معمولی طور پر حضرت سیح علیہ السلام پر صادق آتی ہے اورفی الفور بجھا جاتا ہے کہ اسی اشارہ کے ظاہر کرنے کے لئے فوت شده را ستیانہ زندہ ہو کر شہر میں داخل ہوتے ہو نظر آئے کہ تباہی فراست معلوم کریں کہ حضرت مسیح فیلیسی موت سے بچائے گئے " ہے پس یہ واقعہ جو اناجیل میں درج ہے ایک بہت واضح ثبوت ہے اور گویا ایک گواہ رویت کے طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیب سے نجات پر واضح ثبوت ہے.یہ کشف در اصل اہل فراست لوگوں کے لئے دلیل راہ ہے کہ حضرت مسیح علی السلام ہرگز ہرگز صیہ کے زریعہ فوت نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے صلیبی موت سے مخلصی حاصل کی.چوبیسو کی دلیل میرے اس بیان کے لحاظ سے انجیلی دلائل میں سے آخری بیل حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کے رد میں یہ ہے کہ عیسائیوں کے پاس حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب پر سر جانے کی کوئی یقینی اور قطعی دلیل نہیں ہے.اور ظاہر ہے کہ جب تک اتنے اہم واقعہ کا کوئی ناقابل تردید ثبوت نہ ہو اسکی صحت پر یقین نہیں کیا جا سکتا.حتی یہ ہے کہ عیسائیوں کے پاس نہ کوئی تاریخی ثبوت ہے اور نہ اس واقعہ کا کوئی چشم دید گواہ ہے جس کی گواہی کو معتبر سمجھا جاسکے.قرآن مجید نے بھی فرمایا ہے : اِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمِ الَّا اتَّبَاعَ الظر - کہ واقعہ صلیہ کے بارہ میں اختلاف کرنے والے شک میں مبتلر ہیں ان کے پاس کوئی قطعی اور یقینی دلیل نہیں ہے وہ صرف ظن اور گمان کی پیروی کرنے والے ہیں.: مسیح ہندوستان میں ۳-۲۶ - جلد ١٤ : - !
۴۰۴ ئے عیسائیوں کے پاس اگر کوئی ثبوت ہے تو وہ انجیل کے بیانات ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف انجیل کی گواہی اپنے اندر کچھ بھی وقعت اور وزن نہیں رکھتی.کیونکہ : - ے تو انجیل کے سارے بیانات ہی مشتبہ اور ناقابل استناد ہیں کیونکہ اناجیل کا الہامی مقام اواك ہر گز ثابت نہیں اور اسکی انسانی کلام ہونے کا تو محقق عیسائیوں کو بھی اعتراف ہے.دوستیر اس ایک واقعہ کے بارہ میں ہی اناجیل کے بیانات میں اس قدر اختلاف اور تضاد نظر آ ہے کہ ان میں تطبیق کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور اس سامر سے بیان کی حقیقت مشکوک ہو کہ رہ جاتی ہے.تیسرے خوداناجیل کے بہت سے بیانات سے مسیح کی صلیبی موت کی نفی ہوتی ہے جیسا کہ ہم گذشتہ دلائل کے ضمن میں دیکھ آئے ہیں.پس اگر ایک آدھ آیت میں مرنے کا ذکر مل بھی جائے تو ہم اس کو تحریف اور ایزادی قراللہ دینے میں بالکل حق بجانب ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی انجیل کی شہادت کو ناقابل قبول قرار دیا ہے اور اس کی ایک مزید نا وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ حادثہ صلیب کا کوئی چشم دید گواہ موجود نہیں جو یہ گواہی دے سکے کہ میں نے مسیح وجہ کو صلیب پر مرتے دیکھا ہے.وجہ یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کے سب حواری تو ان کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے پس انجیل کی کوئی گواہی کسی چشم دید گواہ کی روایت پر نہیں ہے لہذا قابل قبول نہیں ہے.دید ان سب وجوہ سے حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اناجیل کی شہادت کو باطل قرار دیا ہے.آخری امر کی خاص طور پر وضاحت کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :- " ان چند حواریوں کی گواہی کیونکر ائق قبول ہو سکتی ہے جو واقعہ صلیہ کے وقت.حاضر نہ رہ ہے اور جن کے پاس شہادت رویت نہیں ہے یا اے نیز فرمایا : "اگر انجیل والوں نے اس کی یہ خلاف لکھا ہے تو ان کی گواہی ایک ذرہ اعتباہ کے لائق نہیں کیونکہ اول تودہ لوگ واقعہ صلیہ کے وقت حاضر نہیں تھے اور اپنے آقا سے طرز بیوفائی اختیارہ کر کے سب کے سب بھاگ گئے تھے اور دوسرے یہ کہ انجیلوں میں بکثرت اختلاف ہے یہاں تک کہ بر نسبانس کی انجیل میں حضرت مسیح کے مصلوب ہونے سے انکار کیا گیا ہے اور تیسرے یہ کہ ان ہی انجیلوں میں جو بڑی معتبر کبھی جاتی ہیں لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام واقعہ صلیت کے بعد اپنے حواریوں کو طے اور اپنے زخم ان کو دکھلائے " و کشف الغطاء حاشیه مشت - جلد ۱۴ - راز حقیقت حاشیه مه جلد ۱۴ :
۴۰۵ پس انجیل کی گواہی تو قابل قبول نہ رہی.اسکے بعد عیسائیوں کے پاس کوئی تاریخی ثبوت حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کا ہر گزنہ نہیں رہتا.پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کا دعویٰ ایک ایسا دعوی ہے جس پر کوئی ٹھوس دلیل نہیں.انا جیل سے مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کی تردید پر دلائل بیان کرنے کے بعد حضور علیہ السلام حرف آخر کے طور پر فرماتے ہیں :- ہ کوئی عیسائی ایسا نہیں جو انجیل پر غور کرو سے اور پھر یقینی طور پر یہ اعتقاد رکھے کہ سچے مچ صلیب کے ذریعہ فوت ہو گیا " سے عقلی براہین اس وقت تک قرآن مجید، احادیث نبویہ اور اناجیل کی گرو سے حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کی تردید میں دلائل بیان ہو چکے ہیں.اگر اس عقیدہ پر انہ روئے عقل غور کیا جائے تو پھر بھی بہت سے دلائل سے اس کا بطلان ثابت ہوتا ہے.عقلی دلائل مندرجہ ذیل ہیں :- ي پچیسویں دلیل پہلی عقلی دلیل یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا مشن اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ صلیب پر انکی وفات نہ ہو کیونکہ اس وقت ان کا مشن نا تمام تھا اور مشن میں ناکامی ایک نبی کی شان سے بعید ہے.کا تا حضرت عیسی علیہ السلام کا مشن بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی اصلاح کون تھا.ان کے مشن کے بنی بارہ میں مندرجہ ذیل حوالے قابل غور ہیں لکھا ہے :- جو میری اُمت اسرائیل کی گلہ بانی کرے گا ؟ رمتی ہے) خود حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا ہے :- میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.متی ) تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں یہودی قبائل منتشر تھے.آستر اور آپ کے مطابق بنی اسرائیل اس وقت ہندوستان سے لے کر کوشش تک آباد تھے.اب اگر یہ مانا جائے کہ --- ازالہ اوہام ص ۲۹ - جلد ۳ :
- ) حضرت مسیح علیہ السلام ۲۳ سال کی عمر میں صلیب پر دیئے گئے اور مر گئے تو ان کا مشن نا تمام رہتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ وہ آسمان پر چلے گئے تو سخت اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنا فرض منصبی چھوڑ کر آسمان پر کیوں چلے گئے.الفرض عقلی طور پر یہ مانا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام مصلیب پر ہر گنہ فوت نہیں ہوئے.کیونکہ ۳۳ سال کی عمر میں وفات ہو جانے کی صورت میں وہ ان کھوئی ہوئی بھیڑوں سے ملنے اور ان کی اصلاح کرنے سے محروم رہتے ہیں جن کو راہ راست پر لانا ان کا اصل مشن تھا.حضرت مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں:.اما القول بالرفع فهو مردود تبيع فان الصعود إلى السماء قبل تكميل الدعوة الى القبائل كلهم كانت معصية صريحة وجريمة قبيحة ومن المعلوم ان بنى اسرائيل فى عهد عیسی علیه السلام كانوا متفرقين منتشرين في بلاد الهند و فارس و کشمیر فكان فرضه ان يدركهم ويلاقيهم و يهديهم إلى صراط الرتب القدير.وترك الفرض معصية والاعراض عن قوم منتظرين جريمة كبيرة تعالى شان الانبياء المعصومين من هذه الجرائم التي هي الشفع الذمائم له نیز فرمایا :- " جس حالت میں صلیب دینے کے وقت ابھی تبلیغ حضرت علی علیہ السلام کی ناتمام تھی اور ابھی دس تو میں یہود کی دوسرے ملکوں میں باقی تھیں جو ان کے نام سے بھی بے خبر تھیں تو پھر حضرت عیسی کو یہ کیا سو بھی کہ اپنا منصبی کام نا تمام چھوڑ کر آسمان پر جا بیٹھے " کہ اس دلیل کا ایک پہلو اور بھی ہے کہ اگر واقعۂ صلیب پر حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی کا اختتام کا مان لیا جائے تو پھر ان کا کوئی ایسا قابل ذکیہ کانہ نامہ ہی نہیں ملتا کہ جس کی وجہ سے ان کا ذکرہ خاص عقیدت اور احترام سے یاد رکھا جائے.کیا عیسائی ان بارہ حواریوں کو پیش کریں گے جن میں سے ایک تو مرتد ہو گیا اور ایک نے ۳۲ روپے لے کر حضرت مسیح کو پکڑوا دیا ؟ ایک انگریز مصنف وا قعر صلیب کا ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے :- "If that had been all, it is unlikely that Jesus would ever have been heard of in later centuries, for during his life time his ل: : له : الهدى والتبصرة لمن يرى ١٣٣٠ جلد ابنه : - ذاكرة الشهادتين م٢ - جلد ۶۲۰ ، :-
۴۰۷ achievements appeared meager.But that was not all, for he who loses his life shall find it.” یعنی اگر اسی بات پر حضرت مسیح کی زندگی کا خاتمہ ہوا کہ وہ صلیب پر مر گئے ) تو یہ بات قرین قیاس نہیں کہ حضرت مسیح کا بعد کی صدیوں میں عقیدت و احترام کے ساتھ تذکرہ جاری رہے، کیونکہ اس وقت تک کی ان کی زندگی میں ان کے کارنامے بالکل معمولی نظر آتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ ان کی زندگی کا انجام نہ تھاکیونکہ وہ جو اپنی ز ندگی کھوتا ہے اس بات کو مان لے گا.گویا عیسائی بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ۳۲ سالی کی عمر میں فوت ہونے سے حضرت عیسی علیہ السلام کا مشن نامکمل اور نا تمام رہتا ہے اور عقلی طور سے یہ ایک زبہ دست اعتراض ہے کہ کسی نبی کا مشن ناتمام رہے.عیسائیوں کے پاس اس کا کوئی ٹھوس جواب نہیں ہے.پس ماننا پڑتا ہے کہ ۳۲ سال کی عمر میں حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کا نظریہ باطل ہے.چھبیسویں دلیل ایک اور عقلی دلیل مصلیبی موت کے رد میں یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے لئے وہ مقام اور وہ نتیجہ رفتہ تویہ نہیں کیا جا سکتا جو صلیب کے نتیجہ میں لازمی طور پر مصلوب پر وارد ہوتا ہے.میری مراد لعنت سے طا ہے جو کسی صورت میں حضرت عیسی علیہ السلام کے حق میں تجویز نہیں کی جاسکتی.حضرت علی علیہ السلام خدا کے ایک نبی تھے.خدا کی نظر میں معزنہ اور مکرم تھے.نیز قرآن مجید نے تو ان کو وجيها في الدنيا والآخرة قرار دیا ہے.ایک طرف ان کا یہ مقام ہے دوسری طرف بائیبل کی سند سے جو مدعی نبوت صلیب دیا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے.(ملاحظہ ہو استثناء ) اب اگر حضرت عیسی علیہ السّلام کو دعوی نبوت کے بعد مصلوب یقین کر لیا جائے تو ان کو نعوذ باللہ لعنتی اور ملعون بھی ماننا پڑتا ہے.یہ امر حد درجہ قابل افسوس ہے کہ عیسائی حضرات واقعی اپنی جہالت سے ایسا یقین کرتے ہیں.ہمارا موقف یہ ہے کہ کسی نبی اور خدا کے برگزیدہ کو لعنتی اور ملعون خیال کرنا انسانی شرافت سے اور اس نبی کے منصب سے بہت بعید ہے.پس عقلاً یہ مانا پڑے گا کہ نہ حضرت مسیح علیہ السلام مصلوب ہوئے اور نہ مصلوب ہونے کا لازمی نتیجہ یعنی لعنت ان پر وارد ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :- (1) حضرت عیسی صلیب پر ہر گز نہیں مرے وہ نہ وہ نعوذ بالله...لعنت کے مفہوم کے مصداق بنتے ہیں کیونکہ عون وہ ہوتا ہے جس کا دل شیطان کی طرح خدا سے برگشتہ ہو جائے The begining of Christianity p.129.3 2
اور وہ خدا کا دشمن اور خدا اس کا دشمن ہو جائے اور شیطان کی طرح کا اندہ درگاہ اپنی ہو کر خدا کا سرکش ہو جائے تو کیا ہم یہ مفہوم حضرت عیسی کی نسبت تجویز کر سکتے ہیں؟ ہرگزنہ نہیں اور کیا کوئی عیسائی یہ گستاخی کر سکتا ہے کہ صلیب پانے کے بعد حضرت عیسی خدا سے برگشتہ ہو گئے تھے اور شیطان سے تعلقات پیدا کر لئے تھے.جیسے دنیا پیدا ہوئی ہے لعنت کا یہی مفہوم قرار دیا گیا.جس پر تمام قوموں کا اتفاق ہے مگر افسوس عیسائیوں نے بھی اس مفہوم پر غور نہیں کی ورثہ ہزارہ بیزاری سے اس مذہب کو ترک کرتے “ لے (۲) «صلیب کی موت سے بچانا اس کو اسلئے بھی ضروری تھا کہ مقدس کتاب میں لکھا ہے کہ جو کوئی کاٹھ پر لٹکایا گیا سو لعنتی ہے اور لعنت کا ایک ایسا مفہوم ہے کہ جو عیسی مسیح جیسے برگزیدہ ایسا پر ایک دم کے لئے تجویز کرنا سخت ظلم اور نا انصافی ہے کیونکہ بالاتفاق تمام اہل زبان لعنت کا مفہوم دل سے تعلق رکھتا ہے اور اس حالت میں کسی کو ملعون کہا جائے گا جبکہ حقیقت میں اسکا دل خدا سے برگشتہ ہو کر سیاہ ہو جائے اور خدا کی رحمت سے بے نصیب اور خدا کی محبت سے بے بہرہ ہو کہ گمراہی کے زہر سے بھرا ہوا ہو اور خدا کی محبت اور معرفت کا نور ایک زندہ اس میں باقی نہ رہ ہے اور تمام تعلق مہر و وفا کا ٹوٹ جائے اور اس میں اور خدا میں باہم مخفض اور نفرت اور کہ بہت اور عداوت پیدا ہو جائے یہانتک کہ خُدا اس کا دشمن اور وہ خدا ا کا دشمن ہو جائے اور خدا اسی بیزار اور وہ خدا سے بیزار ہو جائے.غرض ہر ایک صفت میں شیطان کا وارث ہو جائے اور اسی وجہ سے بعین شیطان کا نام ہے.اب ظاہر ہے کہ ملعون کا لفظ ایسا پلید اور ناپاک ہے کہ کسی طرح کسی راستبانہ پر جو کہ اپنے دل میں خدا کی محبت رکھتا ہے صادق نہیں آسکتا.افسوس کہ عیسائیوں نے اس اعتقاد کے ایجاد کرنے کے وقت لعنت کے مفہوم پر غور نہیں کی در نہ مکن نہ تھا کہ وہ لوگ ایسا خراب لفظ مسیح جیسے براستیانہ کی نسبت استعمال کر سکتے.کیا ہم کہ سکتے ہیں کہ مسیح پر کبھی ایسا نہ مانہ آیا تھا کادل اور کہ اس کا دل در حقیقت خدا سے برگشتہ اور خدا کا منکر اور خدا سے بیزار اور خدا کا دشمن ہو گیا تھا.کیا ہم گمان کر سکتے ہیں کہ مسیح کے دل نے کبھی یہ محسوس کیا تھا کہ وہ اب خدا سے برگشتہ اور خدا کا دشمن اور کفر اور انکار کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے.پھر اگر مسیح کے دل پر کبھی ایسی حالت نہیں آئی بلکہ وہ ہمیشہ محبت اور معرفت کے نور سے بھرا رہا تو اسے دانشمند و ! یہ سوچنے کا مقام ہے کہ کیونکر ہم کہ سکتے ہیں کہ مسیح کے دل پر نہ ایک لعنت بلکہ : ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم حاشیه ۲ - جلد ۲۱ ب ل
۴۰۹ (A) ہزاروں خدا کی لعنتیں اپنی کیفیت کے ساتھ نازل ہوئی تھیں معاذ اللہ ہر گنہ نہیں.تو پھر ہم کیونکر کہ سکتے ہیں کہ نعوذ باللہ و لعنتی ہوا ہے ؟ 1.اگر موجودہ انجیلی تمام و کمال اس واقعہ کے مخالف ہو تیں تب بھی کوئی سچا ایسا ادارہ قبول نہ کرتا کہ حضر مسیح علیہ السلام کا سولی پر مرجانے کا واقعہ صحیح ہے کیونکہ ایسی صرف یہی نتیجہ نہیں نکلتا کہ حضرت مسیح اپنی اس مشابہت قرار دینے میں جھوٹے ٹھہرتے ہیں اور مشابہت سراسر غلط ثابت ہوتی ہے بلکہ یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ وہ نعوذ باللہ ان بیلوں گدھوں کی طرح لعنتی بھی ہو گئے جن کی نسبت توریت میں راہ دینے کا حکم تھا اور نعوذ باللہ ان کے دل میں لعنت کی وہ نہ ہر سرایت کر گئی جنسی شیطان کو ہمیشہ کے لئے ہلاک کیا ہے یا ہے " در حقیقت جیسا کہ لعنت کا مفہوم ہے وہ خُدا کے دشمن اور خدا ان کا دشمن ہو جاتا ہے پس کیونکر وہ لعنت جس کا یہ ناپاک مفہوم ہے ایک برگزیدہ پر وارد ہو سکتی ہے ؟ سواس لئے حضرت علی علیہ السلام صلیبی موت سے بچائے گئے ؟" سے " ان العقل يخالف هذه القصة ولا يصدقها المتفرسون فان الذي صلب فى مصلب عيسى ان كان من المومنين فكيف صلبه الله وقد قال في التوراة انه من صلب فهو ملعون - ألعن عبداً ويعلم إنه مؤمن سبحانه وتعالى عما يصفون وقد لعن الله في التورة كلّ من صلب فاسئل اهل التوراة ان كنت من الذين لا يعلمون وان كان المصلوب من اعداء عيسى ومن الكفار فكيف سكت المصلوب عند صليه.....هذه القصص خرافات لا اصل لها له آه (4) " وہ لعنت جو صلیب کا نتیجہ تھا کیونکہ یسوع پر پڑ سکتی ہے اور اگر نہیں پڑی تو لسبورغ مصلوب بھی نہیں ہوا.اس نے سچ کہا تھا کہ میں یونس کی طرح تین دن قبر میں رہوں گا اور وہ خوب جانتا تھا کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں نہیں مرا تھا اور ممکن نہیں کہ اس کے منہ کی مثال غلط نکلے" کے لے: مسیح ہندوستان میں مناس - جلد 10 : سے تریاق القلوب ملا - جلد ۶۱۵ :- : كتاب البرية من - جلد ١٣ : ٹ : کتاب البریه حاشیه ص۲۵ - جلد ۱۳ : ه الخطبة الإلهامية ٣٣٣٣ جلد ابن H
۴۱۰ (A) (1) " تورات کی رو سے مصلوب لعنتی ہو جاتا ہے اور لعنت کا لفظ عبرانی اور عربی میں مشترک ہے جس کی یہ معنے ہیں کہ ملعون خدا سے در حقیقت دُور جاپڑے اور خدا اس بیزانہ اور وہ خدا سے بیزار ہو جائے اور خدا اس کا دشمن اور وہ خدا کا دشمن ہو جائے تو پھر نعوذ باللہ خدا کا ایسا پیارا ایسا برگزیدہ ، ایسا مقدس نبی جو مسیح ہے اس کی نسبت ایسی بے ادبی کوئی بھی تعلیم کرنے والا ہر گز نہیں کرے گا ؟ اے مسیح علیہ السلام کی نسبت کوئی عقلمند یہ عقیدہ ہر گنہ نہیں رکھے گا کہ نعوذ باللہ کسی وقت ان کا دل لعنت کی نہر ناک کیفیت سے رنگین ہو گیا تھا.کیونکہ لعنت مصلوب ہونے کا نتیجہ تھا پس جبکہ مصلوب ہونا ثابت نہ ہوا بلکہ یہ ثابت ہوا کہ آپ کی ان دعاؤں کی برکت، سے جوہ ساری رات باغ میں کی گئی تھیں اور فرشتے کی اس منشاء کے موافق جو پہلا طوس کی بیوی کے خواب میں حضرت مسیح کے بچاؤ کی سفارش کے لئے ظاہر ہوا تھا اور خود حضرت مسیح علیہ السلام کی اس مثال کے موافق جو آپ نے یونس نبی کا تین دن مچھلی کے پیٹ میں رہنا اپنے انجام کار کا ایک نمونہ ٹھہرایا تھا ، آپ کو خدا تعالیٰ نے صلیب اور اس کے پھل سے جو لعنت ہے نجات بخشی یا لے (۹) ایسا خیال دیعنی مسیح پر لعنت کے وارد ہونے کا ناقل، صرف حضرت مسیح علیہ السلام کی شان نبوت اور مرتبہ رسالت کے ہی مخالف نہیں بلکہ ان کے اس دعوی تکمال اور پاکیزگی اور محبت اور معرفت کے بھی مخالف ہے جو انہوں نے جابجا انجیل میں ظاہر کیا ہے.انجیل کو پڑھ کر دیکھو کہ حضرت عیسی علیہ السلام صاف دعوی کرتے ہیں کہ میں جہان کا نور ہوں ، میں ہادی ہوئی، اور میں خدا سے اعلیٰ درجہ کی محبت کا تعلق رکھتا ہوں اور میں نے اس سے پاک پیدائش پائی ہے اور میں خدا کا پیارا بیٹا ہوں.پھر با وجود ان غیر منفک اور پاک تعلقات کے لعنت کا نا پاک مفہوم کیونکر مسیح کے دل پر صادق آسکتا ہے.ہر گز نہیں.پس بلا شبہ یہ بات ثابت نا ہے کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا یعنی صلیب پر نہیں مرا کیونکہ اسکی ذات صلیہ کے نتیجہ سے پاک ہے اور جبکہ مصلوب نہیں ہوا تو لعنت کے ناپاک کیفیت سے بے شک اس کی دل کو بچایا گیا ہے الغرض ان تو حوالوں سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ لعنت جو صلیب کا ایک لازمی نتیجہ ہے ہر گز حضرت سیح ناصری علیہ السلام پر وارد نہیں ہو سکتی اور نہ عقلی اس کا انتساب ان کی طرف کیا جاسکتا ہے.پس : كشف الغطاء ص۳ - جلد ١٢ : مسیح ہندوستان میں صلا - جلد ۱ : 16-14.شهر ستاره قیصریه منت - جلد ۱۵ : 4
۱۱م ملابت ہوا کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے کیونکہ صلیب کارانہ می نتیجہ لعنت کا وارد ہوتا ہے کہ پر پر جو حضرت مسیح علیہ السلام پر وارد نہیں ہوئی اور نہ عقل وارد ہو سکتی ہے.متفرق براہین عقلی دلائل کے علاوہ بعض اور دلائل بھی ہیں جن سے حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کی گیند اور تردید ہوتی ہے.اب ان متفرق دلائل کو ایک ترتیب سے بیان کیا جاتا ہے.ستائیسون دليل یا حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی صلیبی موت کے عقیدہ کی تردید میں ایک نہایت نه به دست تاریخی شہادت ان کا شام سے کشمیر کے ملک میں ہجرت کرنا ہے.اول تو ہجرت کرنا انبیاء کی سنت ہے دوسرے تاریخی طورہ کہ یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے وطن کو چھوڑا اور ملک کشمیر میں وارد ہوئے.ان کا نام "مسیح" اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے ہجرت کی جو سیاحت کا مستلزم ہے.پس حضرت مسیح علیہ السلام کا ہجرت کرنا ایک مسلم امر ہے.صلیبی موت کی تردید میں ہمارا استدلال یہ ہے کہ ہجرت کا سوال تب ہی پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ صلیہ سے زندہ اتر آئے ہوں.اگر صلیب پر مر گئے تھے تو ہجرت کا سوال ہے معنی ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کا مقصد بعثت بھی ہجرت کے حق میں ایک زبر دست قرینہ ہے کیونکہ وہ بنی اسرائیل علیہ کی طرف بھیجے گئے تھے اور بنی اسرائیل کے دس قبائل ملک کشمیر سی آباد تھے.پھر ہجرت کا ایک ثبوت اہل کشمیر اور افغان قبائل کا بنی اسرائیل ہوتا ہے.الغرض اس قسم کے متعد د ثبوت پیش فرماتے ہوئے اس زمانہ میں مامور ند انہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ تحقیق پیش فرمائی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے حادثہ صلیہ کے چنگل سے نجات پا کہ ملک کشمیر کی طرف ہجرت کی ہے.حضور نے یہ تحقیق اپنی کتاب مسیح ہندوستان میں اور راز حقیقت وغیرہ میں بیان فرمائی ہے " یسے پہلے حضور نے اس امر کولیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ اسلام کی ہجرت کا عقید ہ کوئی بے ثبوت خیال نہیں.فرمایا :- یادر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا کشمیر کی طرف سفر کہنا ایسا امر نہیں ہے کہ جو بے دلیل ہو بلکہ بیڑ سے بڑے دلائل سے یہ امر ثابت کیا گیا ہے کا سنہ - ه ضمیمه بر این احمدیہ حصہ پنجم من جلد ۲۱ به
۴۱۲ پھر اس کے بعد حضور نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ہجرت کرنا انبیاء کی سنت ہے لہذا سنت انبیاء کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے بھی وطن سے ہجرت کرنا ضروری تھا.اس سلسلہ میں حضور نے فرمایا : - " پر ایک نبی کے لئے ہجرت مسنون ہے اور سیح نے بھی اپنی ہجرت کی طرف انجیل میں اشارہ فرمایا ہے اور کہا کہ نہی ہے عزت نہیں.....مگر اپنے وطن میں.مگر افسوس ہمارے مخالفین ایسی بات پر بھی غور نہیں کرتے کہ حضرت مسیح نے کب اور کس ملک کی طرف ہجرت کی بلکہ زیادہ تر تعجب اس بات سے ہے کہ وہ اس بات کو تو مانتے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ مسیح نے مختلف ملکوں کی بہت سیاحت کی ہے بلکہ ایک وجہ تسمیہ اسم مسیح کی یہ بھی لکھتے ہیں لیکن جب کہا جائے کہ وہ کشمیر میں بھی گئے تھے تو اس سے انکار کرتے ہیں حالانکہ جس حالت میں انہوں نے جان لیا کہ حضرت مسیح نے اپنے نبوت کے ہی زمانہ میں بہت سے ملکوں کی سیاحت بھی کی کیا وجہ کہ کشمیر جان ان پر حرام تھا ؟ کیا ملک نہیں کہ کشمیر میں بھی گئے ہوں اور وہیں وفات پائی ہو " اے نیز فرمایا : کی ملک انبیاء علیہم السلام کی نسبت یہ بھی ایک سنت اللہ ہے کہ وہ اپنے ملک سے ہجرت کرتے ہیں....پس ضرور تھا کہ حضرت عیسی بھی اس سنت کو ادا کرتے ہو انہوں نے واقعہ صلیت کے بعد کشمیر کی طرف ہجرت کی.انجیل میں بھی اس ہجرت کی طرف اشارہ ہے کہ نبی ہے عزت نہیں مگر اپنے وطن ہیں.اس جگہ نبی سے مراد انہوں نے اپنے وجود کو لیا ہے" سے پھر اسی تسلسل میں مزید فرمایا :- "خدا تعالی کی اس قدیم سنت کے موافق کہ کوئی اولوالعزم نبی ایسا نہیں گزرا جی تھی قوم کی ایذاء کی وجہ سے ہجرت نہ کی ہو.حضرت عیسی نے بھی تین بریس کی تبلیغ کے بعد مطلبی فتنہ سے نجات پا کر ہندوستان کی طرف ہجرت کی.اور یہودیوں کی دوسری قوموں کو جو بابل کے تفرقہ کے زمانہ سے ہندوستان اور کشمیر اور تبت میں آئے ہوئے تھے خدا تعالی کا پیغام پہنچا کہ آخر کا ر خاک کشمیر جنت نظیر میں انتقال فرمایا اور سرینگر خانیار کے محلہ میں با عزانیہ کار تمام دفن کئے گئے.آپ کی قبر بہت مشہور ہے.ہزار ويتبرك به سه - ے.تحفہ گولڑویہ ص حاشیہ - جلد ۱۷ : شده در نیمه بر این احمدیہ حصہ پنجم باشید من ۳ - جلد ۲ س را از حقیقت ۲ - جلد ۱۴ : در راز :
۳۱۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحقیق یہی ہے کہ مسیح علیہ السلام نے کشمیر کی طرف ہجرت کی ہے.اس ہجرت کے لئے حضور نے عقلی اور نقلی بے شمار ثبوت اپنی کتب میں درج فرمائے ہیں.ظاہر ہے کہ ان تمام دلائل کو تفصیل کے ساتھ اس جگہ بیان نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہجرت سے اپنی ذات میں ایک مستقل موضوع ہے.تاہم میں اس جگہ اشارہ چند دلائل کا ذکر کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں.ہجرت مسیح کا ایک ثبوت مسیح کا لفظ ہے جسے معنے ہیں سیاحت کرنے والا.ظاہر ہے کہ یہ سیاحت ہجرت کے بغیر ناممکن ہے.پھر حضرت عیسی علیہ السلام کو ستیاج نبی بھی کہا گیا ہے.ان دونوں امور سے حضرت مسیح علیہ السلام نے یہ نتیجہ اخذ فرمایا ہے کہ ان کے ہجرت اور سیاحت کرنے کا ایک قریہ ان کا یہ نام مسیح بھی ہے.حضور فرماتے ہیں :- (1) احسان العرب کے صفحہ ۴۲۱ میں لکھا ہے قبل بستى عيسى بمسح لانه كان سائحا فى الارض لا يستقر یعنی علی کا نام مسیح اسلئے رکھا گیا کہ دہ زمین میں بھر کر تا رہتا تھا اور کہیں اور کسی جگہ اس کو قرار نہ تھا.یہی مضمون تاج العروس شرح قاموس میں بھی ہے.اے (۲) مسیح کے معنے بہت سیر کرنے والا ہیں.اب ان سے کوئی پوچھے کہ جب وہ آسمان پر ہے تو اپنی سیر کہاں کی ہوگی اور لفظ تسبیح کے معنے اس پر کیسے صادق آئیں گے.ایک طرف اسے آسمان پر بٹھاتے ہیں دوسری طرف سیاح کہتے نہیں تو اس کی سیاحت کا " وقت کونسا ہوا ؟ (۳) انهم يقولون ان عيسى كان أكبر السياحين وقطع محيط العالم كله ولم يترك أرضًا من الارضين ثم يقولون قولاً خالف ذلك ويصرون على انه رفع عند واقعة الصليب بحكم رب العالمين وصعد الى السماء وهو ابن ثلث وثلاثين فانظرواتى اتي زمان ساح في العالم و زار كل بلدة ولم يترك حدا من المعالم : له تے (۳) احادیث صحیحہ سے یہ ثبوت بھی ملتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نبی سیاح تھے پس اگر وہ صلیہ کے واقعہ پر مع جسم آسمان پر چلے گئے تھے تو سیاحت کسی زمانہ میں 10 مسیح ہندوستان میں ملت - جلد ۱۵: س: ملفوظات جلد چہارم : ۲ : - -:- مواهب الرحمن مث - جلد 14 :
(A) مانم کی.حالانکہ اہل لغت بھی مسیح کے لفظ کی ایک وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ لفظ صبح سے نکلا ہے اور مسیح سیاحت کو کہتے ہیں " لاہ و یہ بھی آثار میں لکھا ہے کہ مسیح ابن مریم نبی ستیاح تھے بلکہ رہی ایک نبی تھاجس نے دنیا کی سیاحت کی لیکن اگر یہ عقیدہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیب کے واقعہ پر جو بالاتفاق علماء نصاری و بیهود واہل اسلام ان کی تینتیس برس کی عمرمی وقوع میں آیا تھا وہ آسمان کی طرف اُٹھائے گئے تھے تو وہ کونسا نسا نہ ہو گا جس میں انہوں نے سیاحت کی تھی ہو سکے ان سب حوالوں سے علاوہ اور باتوں کے جس بات کا استدلال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا نام مسیح اور سیاح رکھا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے سیاحت کی ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے کہ وہ صلیبی موت سے زندہ بچ گئے ہوں نیز مسیح کا لفظ ہجرت کرنے کا بھی ایک ثبوت ہے جو میلیسی موت سے بچنے کی ایک زیر دست دلیل ہے.اس کے بعد حضور اپنی اس تحقیق کو اس طرح آگے بڑھاتے ہیں کہ حضرت مسیح کا کشمیر کی طرف ہجرت کرنا عقلاً بہت ضروری تھا کیونکہ بنی اسرائیل کے دس قبائل وہاں رہائش پذیر تھے اور ان تک پیغام حق پہنچائے بغیر دنیا سے کوچ کرنا ان کی شان اور مشن کے خلاف تھا.پس ضروری تھا کہ وہ ہجرت کرتے اور کشمیر کی طرف آتے تا ان کی بعثت کا مقصد پورا ہو جاتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام، ہجرت کی اس غرض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- ” حضرت عیسی علیہ السلام اس ملک میں کیوں تشریف لائے اس کا سبب ظاہر ہے اور وہ یہ ہے کہ جبکہ ملک شام کے یہودیوں نے آپ کی تبلیغ کو قبول نہ کیا اور آپ کو صلیب پر قتل کرنا چاہا تو خدا تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق اور نیز دنیا کو قبول کر کے حضرت مسیح کو صلیب سے نجات دے دی اور جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے حضرت مسیح کے دل میں تھا کہ ان یہودیوں کو بھی خدا تعالٰی کا پیغام پہنچا دیں کہ جو بخت النصر کی غارت گری کے زمانہ میں ہندوستان کے ملکوں میں آگئے تھے.سو اسی غرض کی تکمیل کے لئے وہ اس ملک میں تشریف لائے.سے نیز فرمایا : واضح ہو کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ئی کے فرض رسالت کی مد سے ملک پنجاب اور اس.را به حقیقت حاشیہ ص - جلد ۱۴ سے : ایام الصلح جلد ۱۴ به 14-16 جلد ۱۴ بید
دام کے نواح کی طرف سفر کرنا نہایت ضروری تھا کیونکہ بنی اسرائیل کے دس فرقے جن کا نام انہیں میں اسرائیل کی گمشدہ بھیڑیں رکھا گیا ہے ان ملکوں میں آگئے تھے جن کے آنے سے کسی مؤرخ کو انکار نہیں ہے اس لئے ضروری تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام اس ملک کی طرف سفر کرتے اور ان گش رو بھیڑوں کا پتہ لگا کہ خدا تعالیٰ کا پیغام ان کو پہنچاتے اور جب تک وہ ایسا نہ کرتے تب تک ان کی رسالت کی غرض بے نتیجہ اور نامکمل تھی کیونکہ جس حالت میں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان گمشدہ بھیڑوں کے پیچھے جاتے اور ان کو تلاش کرتے اور ان کو طریق نجات بتلاتے یونہی دنیا سے کوچ کر جانا ایسا تھا کہ جیسا کہ ایک شخص ایک بادشاہ کی طرف سے مامور ہو گہ وہ فلاں پیانانی قوم میں جا کر ایک کنواں کھود سے اور اس کند سے سے ان کو پانی پلا دیے.لیکن شخص کسی دوسرے مقام میں تین چار برس رہ کر واپس چلا جائے اور اس قوم کی تلاش میں ایک قدم بھی نہ اٹھائے تو کیا اس نے بادشاہ کے حکم کے موافق تکمیل کی؟ ہرگز نہیں بلکہ اس نے محض اپنی آرام طلبی کی وجہ سے اس قوم کی کچھ پرواہ نہ کی یہ لے اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت میں علیہ السلام کے کشمیر بھرت کر کے آنے کے ثبوت بیان فرمائے ہیں.حضور علیہ اسلام نے اس بارہ میں تحقیق کا پورا حق ادا کر دیا ہے.آپ نے ہجرت مسیح کے ثبوت کے لئے قرآن مجید، احادیث نبویہ کے علاوہ مسلمانوں کی قدیم تاریخی کتب کشمیر کی پرانی تایخی کتب ، بدھ مت کی کتب اور متعدد اسلامی کتر کے حوالے درج فرمائے ہیں.انگریز مصنفین کی کتب کے حوالہ سے ہجرت کشمیر ثابت فرمائی ہے.نیز کشمیر، میسوع اور بلوز آسف کے الفاظ کی تراکیب اور معانی سے استدلال کرتے ہوئے ہجرت کشمیر کا ثبوت دیا ہے.اس تحقیق کے ضمن میں حضور نے اہل کشمیر اور افغان قبائل کے نبی اسرائیل ہونے کے ان گفت ثبوت درج فرمائے ہیں.الغرض یہ ایک بہت وسیع اور طویل تحقیق ہے جو حضور نے اپنی کتب میں ہندوستان میں اور ایام الصلح میں بیان فرمائی ہے.اس ساری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا کشمیر، ہجرت کر کے آنا ایک قطعی اور یقینی امر ہے جب قینی امر ہے جس پر بکثرت دلائل موجود ہے.اس جگہ سب دلائل کی تفصیل درج نہیں ہو سکتی تاہم اس تحقیق کے سلسلہ میں ہیں.حضور کے چند حوالہ جات درج کرنے پر اکتفا کرتا ہوں.حضور نے فرمایا :- یہود اپنی حماقت سے یہی سمجھتے رہے کہ مسیح صلیب پر مر گیا.حالانکہ حضرت مسیح خداتعالی کاحکم یا کہ جیسا کہ کنزالعمال کی حدیث میں ہے اس ملک سے نکل گئے اور وہ تاریخی : مسیح ہندوستان میں ص۹۲ - جلد 6 1 :
۴۱۶ (۲) ثبوت جو نہیں ملے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ نصیبین سے ہوتے ہوئے پشاور کی راہ سے پنجاب میں پہنچے اور چونکہ سردا کے باشندے سے تھے اسلئے اس ملک کی شدت گرمی کا تحمل نہ کر سکے.لہذا کشمیر میں پہنچ گئے اور سرینگر کو اپنے وجود یا جود سے شرف بخشا سرینگر کی زمین مسیح کے قدم رکھنے کی جگہ ہے.غرض حضرت صحیح سیاحت کرتے کہ تے کشمیر....پہنچ گئے.لے میں نے ایک وسیع تحقیقات سے ثابت کیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور مجھے بڑے پختہ ثبوت اس بات کے ملے ہیں کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے صلیب سے نجات دے کر ہندوستان کی طرف ان یہودیوں کی دعوت کے لئے روانہ کیا جو بخت نصر کے ہاتھ سے متفرق ہو کر فارس اور تبت اور کشمیر میں آکر سکونت پذیر ہو گئے تھے.چنانچہ آپ نے ان ملکوں میں ایک مدت تک رہ کر اور پیغام اپنی پہنچا کہ آخر سری نگر میں وفات پائی اور آپ کا مزاید مقدس سرینگر محلہ خانیار میں موجود ہے جو شہزادہ نبی یو نہ آسف کی مزاہ کہلاتی ہے.یسوع کا لفظ جیزس کے لفظ کی طرح اختلاط زبان کی وجہ سے یوز آسف ہو گیا ہے یوز آسف کا نام عبرانی سے مشابہ ہونا اور روز اسف کا نام نبی مشہور ہونا جو ایسا لفظ ہے کہ صرف اسرائیلی اور اسلامی انبیاء پر بولا گیا ہے اور پھر اس نبی کے ساتھ شہزادہ کا لفظ ہوتا اور پھر اسی نبی کی صفات حضرت مسیح علیہ السلام سے بالکل مطابق ہونا اور اس کی تعلیم انجیل نیل کی اخلاقی تعلیم سے بالکل ہم رنگ ہوتا اور پھر مسلمانوں کے علم میں اس کا مدفون ہونا اور پھر انہیں سو سال تک اسکی مزار کی مدت بیان کئے جانا اور پھر اس زمانہ میں ایک نگریز کے ذریعہ سےبھی انجیل برآمد ہونا ار اس انجیل سے صریح طور پر حضرت علی علیہ اسلام کا اس ملک میں آنا ثابت ہونا.یہ تمام ایس اور ہیں کہ ان کو یکجائی طور پر دیکھنے سے ضرور یہ نتیجہ نکلا ہے کہ بلا شیعہ حضرت علی علیہ السلام اس ملک میں آئے تھے اور اسی جگہ فوت ہوئے " " الفرض اس طرح حضور نے حضرت مسیح علیہ اسلام کے کشمیر آنے کے متعلق اپنی تحقیق کو مکمل فرمایا ہے اس تحقیق سے حقیقت دو اور دو چارہ کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ہرگز صلیب پر : تحفہ گولڑویہ منت - جلد ۱۷ : 14 -۳ را به حقیقت حاشیه مش - جلد ۱۴ : نه شور کشف الغطاء من - جلد ۱۴ :
۴۱۰ فوت نہیں ہوئے بلکہ وہ صلیہ سے زندہ اتر آئے اور بعد انہاں انہوں نے کشمیر کی طرف ہجرت کی.ہجرت مسیح وغیرہ سے متعلق تحقیق کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.یہ واقعات اس طرح سے عیسائی مذہب کو مٹاتے ہیں جیسا کہ دن چڑھ جانے سے رات مٹ جاتی ہے.اس واقعہ کے ثابت ہونے سے عیسائی مذہب کو یہ صدمہ پہنچتا ہے جو اس چھت کو پہنچ سکتا ہے جس کا تمام مدار ایک شہتیر پر تھا.شہتیر ٹوٹا اور چھت گری پس اسی طرح اس واقعہ کے ثبوت سے عیسائی مذہب کا خاتمہ ہے لہ اور ور سچ یہ ہے کہ ہجرت مسیح علیہ السلام کے واقعہ نے جو صلیبی موت) تردید میں ایک ناقابل تردید ثبوت ہے، واقعی عیسائی مذہب کو ایسے طور پر باطل ثابت کر دیا ہے کہ اب عیسائیوں کے پاس کوئی بھی واضح اور قطعی دلیل حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کی نہیں رہی.جب یہ ثابت ہو گیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کشمیر آئے تھے تو پھر کیسے یہ مانا جا سکتا ہے کہ وہ صلیب پر فوت ہو گئے تھے.ہجرت اور صلیبی موت یا ہم سے نہیں ہو سکتے اور جب ہجرت ایک قطعی اور یقینی امر ہے تو پھر لیبی موت لانگا ایک باطل امر ہے.اٹھائیسویں دلیل با صلیبی موت کی تردید میں اٹھائیسویں دلیل کشمیر میں حضرت مسیح علیہ السلام کی قر کا موجود ہوتا ہے.یہ قبر ہجرت کا ایک ناقابل تردید ثبوت ہے نیز اس کی یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیہ سے زندہ اتر آئے تھے تب ہی تو وہ چل کر کشمیر آئے اور یہاں فوت ہو کر مدفون ہوئے.پس قبر مسیح کا کشمیر مں ہونا صلیبی موت کی تردید کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے.حضور فرماتے ہیں:."حضرت عیسی کا نہ ندہ آسمان پر جانا محض گپ ہے بلکہ وہ صلیب سے بچ کو پوشیدہ طور پر ایران اور افغانستان کا سیر کرتے ہوئے کشمیر میں پہنچے اور ایک لمبی عمر وہاں شہر کی.آخر فوت ہو کہ سرینگر محلہ خانیار میں مدفون ہوئے اور اب تک آپ کی وہیں قبر ہے.ہزار ويَتَبَرَكَ بِهِ : ل نیز فرمایا : تحقیقات سے ان کی قبر کشمیر میں ثابت ہوتی ہے " سے له : راز حقیقت حاشیه ملا جلد ۱۴ بسته ضمیمه باین احمدیہ حصہ پنجم حاشیه ملت جلد ۲ با - ه ست بچن حاشیه ۱۲۳ - جلد ۱۰ : سے ار
۴۱۸ اس بات کے ثبوت میں کہ کشمیر والی قبر حضرت مسیح علیہ السلام کی ہی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مفصل بحث اپنی کتب مسیح ہندوستان میں اور زمانہ حقیقت وغیرہ میں فرمائی ہے.کتاب راز حقیقت میں تو حضور نے اس قبر کا نقشہ بھی درج فرمایا ہے.حضور نے اس ضمن میں متعدد دلائل بیان فرمائے ہیں اور تحریری بیانات کے علاوہ زبانی روایات وغیرہ سے بھی استدلال فرمایا ہے.اس ساری کی ساری تحقیق اور دلائل کا اس جگہ بیان کرنا تو باعث تطویل ہوگا.بطور نمونہ اس جگہ صرف ایک حوالہ درج در کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- سب سے اخیر شاہزادہ نبی کی قبر جوسری نگر محلہ خانیار میں ہے جس کو عوام شہزادہ لوز آسف نبی کی قبر اور بعض عیسی صاحب کی قبر کہتے ہیں.اس مطلب کی مؤید ہے اور اس میں ایک کھڑکی بھی ہے جو بہ خلاف دنیا کی تمام قبروں کے اب تک موجود ہے.....اور نبی کا لفظ بھی جو اس صاحب قبر کی نسبت کشمیر کے ہزارہا لوگوں کی زبان پر جاری ہے یہ بھی ہمار سے مدعا کے لئے ایک دلیل ہے کیونکہ نبی کا لفظ عبری اور عربی دونوں نہ بانوں میں مشترک ہے.دوسری کسی زبان میں یہ لفظ نہیں آیا.---- پھر شہزادہ کے لفظ پر غور کر کے اور بھی ہم اصل حقیقت سے نزدیک آجاتے ہیں اور پھر کشمیر کے تمام باشندوں کا اس بات پر اتفاق دیکھ کہ کہ یہ نبی جس کی کشمیر میں بر ہے ہمار ے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سو برس پہلے گزرا ہے صاف طور پر حضرت علی علیہ السلام کو متعین کر رہا ہے اور صفائی سے یہ فیصلہ ہو جاتا ہے کہ یہ ہے وہ پاک اور معصوم نبی اور خدا تعالیٰ کے جلال کے تخت سے ابدی شہزادہ ہے جس کو نالائق اور بد قسمت یہودیوں نے صلیب کے ذریعہ سے مارنا چاہا تھا کے الغرض اس قسم کے متعدد دلائل بیان کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ استدلال فرمایا ہے کہ یہ کشمیر والی قبر واقعی حضرت مسیح علیہ السلام کی ہے.اس انکشاف کی اہمیت کیا ہے ؟ اس.! سلسلہ میں حضور فرماتے ہیں : ہر ایک دانشمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا ثبوت ہے کہ ایسی یکدفعہ عیسائی مذہب کا تانا بانا ٹوٹتا ہے اور انیس سو برس کا منصوبہ ایک دفعہ کالعدم ہو جاتا ہے ہے تبر مسیح کے کشمیر میں موجود ہونے سے صلیبی موت کی تردید کا استدلال بہت واضح ہے کشمیر میں قبر اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ حضرت مسیح نے صلیب سے نجات پا کہ کشمیر کی طرف ہجرت کی ہو ورنہ اگر وہ : كشف الغطاء من ٣ - جلد ١٢ : --: را از حقیقت حاشیه ملا جلد ۱۴ :
۴۱۹ صلیب پر مر گئے ہوتے تو کشمیر میں ان کی قبر کا وجود ایک بے معنی امر ہو جاتا ہے.پس کشمیر میں ان کی قبر کا ان ہونا اصلیبی موت کی تردید کا ایک واضح ثبوت ہے.جعفور اس استدلال کو اور اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- پھر ان سب باتوں کے علاوہ ایک اور امر پیدا ہو گیا ہے جنے قطعی طور یہ ثابت کہ دیا ہے کہ مسیح کا صلیب پر مرنا بالکل غلط اور جھوٹ ہے.وہ ہر گز ہرگز صلیب پر نہیں مرے اور وہ ہے سیج کی قبر مسیح کی قبر سری نگر خانیارہ کے محلہ میں ثابت ہو گئی ہے اور یہ وہ بات ہے جو دنیا کو ایک زلزلہ میں ڈال دے گی.کیونکہ اگر مسیح صلیب پر مرے تھے تو یہ قبر کہاں آگئی ہے تو یہ لے پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان واضح بیانات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر کا کشمیر میں موجود ہونا ایک قطعی امر ہے اور یہ اس بات کا ایک منہ بولتا اور واقعاتی ثبوت ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ہرگز صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے.بلکہ انہوں نے صلیب سے نجات پا کہ ہجرت کی کشمیر میں فوت ہوئے اور و نہیں مدفون ہوئے.استیسویں بیل دليل حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کی تردید میں ایک اور دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ عیسائیوں میں بھی ایک طبقہ کا خیال ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے ان محقق عیسائیوں کی یہ شہادت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اب حقائق پر غور کرنے کے نتیجہ میں انہوں نے بھی اسی بات اور نظریہ کو اپنایا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمایا ہے.اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ جو کوئی بھی حقائق پر نظر کمر سے گا وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے کیونکہ اصل حقیقت یہی ہے.اس دلیل کے ضمن میں میں صرف ان دو حوالوں کو درج کرنا چاہتا ہوں جو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں درج فرمائے ہیں : - پہلا حوالہ کتاب Supernatural Religion کا ہے.اصل حوالہ جو حضور نے اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ میں درج فرمایا ہے بہت طویل ہے.میں اس جگہ اس حوالہ کا ابتدائی حصہ درج کرتا ہوئی جس میں گویا سانہ سے حوالہ کا خلاصہ بیان کر دیا ہے.حوالہ یہ ہے :- ه : ملفوظات جلد دوم ما :
The first explanation adopted by some able critics is that Jesus did not really die on the cross but being taken alive and his body being delivered to friends, he subsequently revived........" یعنی پہلی تفسیر جو بعض لائق محققین نے کی ہے وہ یہ ہے کہ یسوع در اصل صلیب پر نہیں سرا بلکہ صلیب سے زندہ اتار کر اس کا جسم اس کے دوستوں کے حوالے کیا گیا اور وہ آخر بچ نکلا دوسرا حوالہ کتاب MODERN THOUGHT AND CHRISTIAN BELIEF کا ہے.اس حوالہ کو درج کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں : کتاب ماڈرن تھاٹ اینڈ کرسچین سیلیف کے صفحہ ۴۵۵ ، ۴۵۰ ، ۳۴۷ میں یہ عبارت ہے :- The former of these byhotheses that of apparent deaths was employed by the old rationalists and more recently by schleiermacher in his life christ sehleiermacher's supposition.that Jesus afterwards lived for a time with the disciples and than retired into entire solitude for his second death.ترجمه : شیر میخو او را نیز قدیم متفقین کا یہ مذہب تھا کہ یسوع صلیب پر نہیں مرا بلکہ ایک ظاہرا موت کی کسی حالت ہو گئی تھی اور قبر سے نکلنے کے بعد کچھ مدت تک اپنے حواریوں کے ساتھ پھر تا ہے اور پھر دوسری یعنی اصلی موت کے واسطے کسی علیحدگی کے مقام کی طرف روانہ ہو گیا ہے عیسائی محققین کے یہ دو حوالے (جو بطور نمونہ درج کئے گئے ہیں ) ثابت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موجود علیہ السلام کی تحقیق کہ حضرت مسیح علیہ السلام مطلب پر فوت نہیں ہوئے ، بالکل درست اور کچی تحقیق ہے پس عیسائی تحقین کی یہ تحقیق اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ حضرت مسیح عید السلام ہرگز صلیب پر فوت نہیں ہوئے.تیسویں دلیل تری کے لحاظ سے تیسویں اور میرے اس بیان کے لحاظ سے آخری دلیل مرسم عیدی کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دلیل کو پوری وضاحت کے ساتھ اپنی متعدد کتب میں بار بارہ بیان فرمایا ہے.حضور نے ا تحفہ گولڑویہ ص ۲۲-۲۲۸ - جلد ۱۷ ت
۴۲۱ اس مرہم سے صلیبی موت کی تردید کا استدلال اس طور سے کیا ہے کہ کتب طب میں اس مرہم کا بڑی کثرت سے تذکرہ ہے.قریبا ہر قوم کے اطباء نے اس کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ مرہم حضرت عیسی علیہ السلام کے زخموں کے لئے بنائی گئی تھی.دوسری طرف حضرت عیسی علیہ السلام کے حالات زندگی دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ساری زندگی میں صرف صلیب کے حادثہ کے وقت ہی زخم آئے تھے.پس ثابت ہوا کہ یہ مرہم صلیب کیسے زخموں کے لئے تھی.اور یہ تو ظاہر ہی ہے کہ مرہم تب ہی بنائی گئی ہوگی جب حضرت مسیح مجروح اور زخمی ہوئے ہوں.اگر وہ صلیب پر مر گئے ہوتے تو اس مرہم کا کوئی وجود نہ ہوتا کیونکہ مردوں کے زخموں کا علاج نہیں کیا جاتا.پس ہر پہلو سے مرہم عیسی صلیبی موت کی تردید کا ایک زیر دست ثبوت ہے.اس ثبوت کی اہمیت کے بارہ میں حضور فرماتے ہیں :.** H مرہم عیسی حق کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان شہادت ہے اگر اس شہادت کو قبول نہ کیا جائے تو پھر دنیا کے تمام تاریخی ثبوت اعتبار سے گر جاویں گے یہ ہے نیز فرمایا : - مریم معینی کی علمی گواہی ان عقائد کو رد کرتی ہے اور تمام عمارت کفارہ و شلیت وغیرہ کی یک دفعہ کہ جاتی ہے کہ پھر اسی سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں :- یہ مرہم عیسی حضرت عیسی کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے " سے مرسم عیسی سے صلیبی موت کا رد کس طرح ہوتا ہے ؟ یہ استدلال حضور نے بڑی وضاحت کے ساتھہ مختلف انداز میں فرمایا ہے.حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے حوالہ جات درج ذیل ہیں :- میری یہ تحقیق عارضی اور سرسری نہیں بلکہ نہایت مکمل ہے چنانچہ ابدا ور اس تحقیق کا اس مرہم سے ہے جو مرہم عیسی کہلاتی ہے اور مرہم حوار بین بھی اس کو کہتے ہیں اور طب کی ہزار کتب سے زیادہ میں اس کا ذکر ہے اور مجوسی اور یہودی اور عیسائی اور سلمان طبیبوں نے اپنی اپنی کتابوں میں اس کا ذکر کیا ہے چونکہ میں نے بہت سا حصہ اپنی شر کا فن طبابت کے پڑھنے میں بسر کیا ہے اور ایک بڑا ذخیرہ کتابوں کا بھی مجھ کو ملا ہے اس لئے چشم دید طور یہ یہ وہیل مجھ کو ملی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام خدا تعالی کے فضل سے اور اپنی دردمندانہ دعاؤں ا: مسیح ہندوستان میں صالح - جلد 1 : سه : - راز حقیقت حاشیه مث - جلد ۱۴ به ايام الصلح ۱۳۰ - جلد ۱۴: :
۴۲۲ کی برکت سے صلیہ سے نجات پا کر اور پھر عالم اسباب کی وجہ سے مرہم حوار بین کو استعمال کر کے اور سلیبی زخموں سے شفایا کر ہندوستان کی طرف آئے تھے.صلیب پر ہر گز فوت نہیں ہوئے " لے (۲) ملیسبی واقعہ کی اصل حقیقت شناخت کرنے کے لئے مریم علی ایک علمی ذریعہ اور اعلیٰ درجہ کا معیار حق شناسی ہے....- یکی اپنی ذاتی واقفیت سے بیان کرتا ہوں کہ ہزارہ کتاب سے زیادہ ایسی کتاب ہو گی جن میں مرہم عیسی کا ذکر ہے اور ان میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ مرہم حضرت عیسی کے لئے بنائی گئی تھی.ان کتابوں میں سے بعض یہودیوں کی کتابیں ہیں اور بعض عیسائیوں کی اور بعض مجوسیوں کی.سو یہ ایک علمی تحقیقات سے ثبوت ملتا ہے کہ ضرور حضرت عیسی علیہ السلام نے میں سے رہائی پائی تھی" نے (۳) دوسرہم عیسی جس پر طلب کی ہزارہ کتاب بلکہ اس زیادہ گواہی دے رہی ہے اس بات کا پہلا ثبوت ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام نے صلیب سے نجات پائی تھی وہ ہرگز صلیب پر فوت نہیں ہوئے.اس مرہم کی تفصیل میں کھلی کھلی عبارتوں میں طبیبوں نے لکھا ہے کہ یہ مرہم ضر یہ سقطہ اور ہر قسم کے زخم کے لئے بنائی جاتی ہے اور حضرت عیسی علیہ اسلام کی چوٹوں کے لئے طیارہ ہوئی تھی.یعنی ان زخموں کے لئے جو آپ کے ہاتھوں اور پیروں پہ تھے.اس سرہم کے ثبوت میں میرے پاس بعض وہ طبی کتابیں بھی ہیں جو قریبا سات سو برس کی قلمی لکھی ہوئی ہیں.یہ طبیب صرف مسلمان نہیں ہیں بلکہ عیسائی، یہودی اور مجوسی بھی ہیں جنکی کتابیں اب تک موجود ہیں.قیصر روم کے کتب خانہ میں بھی رومی زبان میں ایک قرا با دین تھی اور واقعہ ملیہ سے دو سو برس گزرنے سے پہلے ہی اکثر کتابیں دنیا میں شائع ہو چکی تھیں.پس بنیاد اس مسئلہ کی کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے اول تو خود انجیلوں سے پیدا ہوئی ہے جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں اور پھر مرہم عیسی نے علمی تحقیقات کے رنگ میں اس ثبوت کو دکھلایا ہے (۴) " مرہم عیسی جو ہزار طبیب سے زیادہ اس کو اپنی اپنی کتابوں میں لکھتے پہلے آئے ہیں جن کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ مرہم جو زخموں اور خون جاری کے لئے نہایت مفید ہے.حضرت عیسی لیہ اسلام کے لئے تیار کی گئی تھی اورواقعات سے ثابت ہے کہ نبوت کے زمانہ میں صرف ایک : - كشف العطاء ص ٣ - جلد ١٢: راز حقیقت هنا - جلد ۱۴: را از حقیقت حاشیه ۶ - جلد ۶۱۴
۴۲۳ (4) ہی صلیب کا حادثہ ان کو پیش آیا تھا کسی اور سقطہ یا ضریبہ کا واقعہ نہیں ہوا.پس بلا شبہ وہ مرہم اپنی زخموں کے لئے تھی.اس میں شک نہیں کہ حضرت عیسی علیہ اسلام صلیب سے زندہ بچ گئے اور مرہم کے استعمال سے شفا پائی.اے (۵) مریم حوار مین جس کا دوسرا نام مرسم عیلی بھی ہے.یہ مرتسم نہایت مبارک مرہم ہے جو زخموں اور جراحتوں اور نیز زخموں کے نشان محروم کرنے کے لئے نہایت ناقع ہے طبیبلوں کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ مرہم حواریوں نے حضرت عیسی کے لئے تیار کی تھی یعنی جبکہ حضرت عیسی علی السلام یہود علیہم العنت کے نتیجہمیں گرفتار ہو گئے اور یہودیوں نے چاہا حضرت مسیح کو صلیب پر کھینچے کہ قتل کریں تو انہوں نے گرفتار کر کے صلیب پر کھینچنے کی کاروائی شروع کی کر مگر خدا تعالیٰ نے یہود کے بد ارادہ سے حضرت عیسی کو بچالیا کچھ خفیف سے زخم بدن پر لگ گئے سودہ اس عجیب و غریب مرہم کے چند روز استعمال کرنے سے بالکل دور ہو گئے یہانتک کہ نشان بھی جو دوبارہ گرفتاری کے لئے کھلی کھلی علامتیں تھیں بالکل مٹ گئے." انس مرہم کی تعریف میں اس قدر یکھنا کافی ہے کہ مسیح تو بیماروں کو اچھا کرتا تھا مگر اس مریم نے میچ کو اچھا کیا.عیسائیوں اور نیم عیسائیوں کومعلوم ہو کہ یہ مرسم معد سی دی و تیمیہ کے طب کی ہزار ہا کتابوں میں موجود ہے اور اس مرہم کا ذکر کرنے والے نہ صرف مسلمان طبیب ہیں بلکہ مسلمان ، مجوسی ، عیسائی سب اس میں شامل ہیں.اگر چاہیں تو ہم ہزار کتاب سے زیادہ اس کا حوالہ دے سکتے ہیں اور کئی کتابیں حضرت مسیح کے زمانہ کے قریب قریب کی ہیں اور سب اس پر اتفاق رکھتی ہیں کہ یہ مرام حواریوں نے حضرت مسیح کے لئے یعنی ان کے زخموں کے لئے تیار کی تھی اسے یہ مرہم قطعی طور پر ظاہر کرتی ہے کہ در حقیقت حضرت عیسی علیہ السلام صلیبی موت سے بچائے گئے تھے کیونکہ اس مرہم کا تذکرہ صرف اہل اسلام کی ہی کتابوں میں نہیں کیا گیا.بلکہ قدیم سے عیسائی.یہودی - مجوسی اور اطباء السلام اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کرتے آئے ہیں اور نیز یہ بھی لکھتے آئے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے یہ مرہم تیانہ کی گئی تھی.حسن اتفاق سے یہ سب کتابیں موجود ہیں اور اکثر چھپ چکی ہیں.اس مرہم کو (4) : تحفہ گولرویه ها - جلد : ۱۷ : که : ست بچن حاشیه ۱۶ جلد ۱۰ : -:- ے: ست بچن حاشیه ۱۶۴ جلد ۱۰ : 21
۴۳۴ (A) اوئی اوئی طبابت کا مذاق رکھتے والے بھی جانتے ہیں.یہانتک کہ قرا با دین قادری میں بھی جوہ ایک فارسی کی کتاب ہے تمام مرہموں کے ذکر کے باب میں اس سرہم کا نسخہ بھی لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہی مریم حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے بنائی گئی تھی.پس اسے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ دنیا کے تمام طبیبوں کے اتفاق سے جو ایک گروہ خواص ہے جن کو سب سے زیادہ تحقیق کرنے کی عادت ہوتی ہے.اور مذہبی تعصبات سے پاک ہوتے ہیں یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ مرہم حواریوں نے حضرت علی علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے طیارہ کی تھی یاسان چالیس دن تک ان کے ان زخموں کا اس مرہم کے ساتھ علاج ہوتا رہا جس کو قرا با دیوں میں مریم معینی یا مرسم رس یا مرسم حوار بین کے نام سے موسوم کرتے ہیں.یہ مرہم چوٹ وغیرہ کے زخموں کے لئے بہت مفید ہے اور قریبا طب کی ہزارہ کتاب میں اس مرہم کا ذکر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی چوٹوں کے لیئے اس کو بنا یا گیا تھا.وہ پورانی طب کی کتابیں عیسائیوں کی جو آج سے چودہ سو برس پہلے رومی زبان میں تصنیف ہو چکی تھیں ان میں اس مرہم کا ذکر ہے اور یہودیوں اور مجوسیوں کی طبابت کی کتابوں میں بھی یہ نسخہ مرہم عیسی کا لکھا گیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرہم الہامی ہے اور اس وقت جبکہ حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر کسی قدر زخم پہنچے تھے انہی دنوں میں خداتعالی نے بطور الہام یہ دوائیں ان پر ظاہر کی تھیں " سے (9) عیسائی اور رومی اور یہودی اور مجوسی دفتروں کی قدیم طبی کتابیں جو اب تک موجود ہیں گواہی دے رہی ہیں کہ عیسوع کی چوٹوں کے لئے ایک مرہم طیارہ کیا گیا تھا جس کا نام مرہم عیسی ہے جو اب تک قرا با دنیوں میں موجود ہے.نہیں کہ سکتے کہ وہ مرہم نبوت کے زبانہ سے پہلے بنا ہو گا کیونکہ یہ مرہم حواریوں نے طیار کیا تھا اور نبوت سے پہلے حواری کہاں تھے کبھی نہیں کہ سکتے کہ ان زخموں کا کوئی اور باعث ہوگا نہ صلیب کیونکہ نبوت کے تین برس کے عرصہ میں کوئی اور ایسا واقعہ ہجر صلیب ثابت نہیں ہو سکتا اور اگر ایسا دعویٰ ہو تو بارہ ثبوت بذمہ مدعی ہے.جہائے شرم ہے کہ یہ خدا اور یہ زخم اور یہ مرہم !" سے (۱۰) ایک اعلی درجہ کی شہادت جو حضرت مسیح کے مصیب سے بچنے پر ہم کو ملی ہے اور جوانیسی " شہادت ہے کہ بحجر مانے کے کچھ بن نہیں پڑتا.وہ ایک نسخہ ہے جس کا نام مریم علی ہے ه : کتاب البرية م.جلد ١٣ : ے: سراج منیر - ۶۴ - جلد ۱۲ : ۲۱ ود کتاب البرية حت - جلد ۱۳
۴۲۵ جو طب کی صدہا کتابوں میں لکھا ہوا پایا جاتا ہے.ان کتابوں میں سے بعض ایسی ہیں جو عیسائیوں کی تالیف ہیں اور بعض ایسی ہیں کہ جن کے مؤلف مجوسی یا یہودی ہیں اور بعض کے بنانے والے مسلمان ہیں اور اکثر ان میں بہت قدیم زمانہ کی ہیں.اے (11) " یہ خدا کی عجیب قدرت ہے کہ ہر ایک مذہب کے فاضل طبیب نے کیا عیسائی کیا یہودی اور کیا مجوسی اور کیا مسلمان سب نے اس نسخہ کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے.اور سب نے اس نسخہ کے بارے میں یہی بیان کیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے ان کے حواریوں نے طیارہ کیا تھا اور جن کتابوں میں ادویہ مفردہ کے خواص لکھتے ہیں ان کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخہ ان چوٹوں کے لئے نہایت مفید ہے جو کسی.ضربہ یا سقطہ سے لگ جاتی ہیں اور چوٹوں سے جو خون رواں ہوتا ہے وہ فی الفور اسکی خشک ہو جاتا ہے اور چونکہ اس میں مر بھی داخل ہے اسلئے زخم کیڑا پڑنے سے بھی محفوظ رہتا ہے کہ نسخہ مریم علیمی...کیسی صفائی سے ظاہر کر رہا ہے کہ حضرت عیسی واقعہ صلیہ کیسے وقت آسمان پر نہیں اُٹھائے گئے بلکہ زخمی ہو کہ ایک مکان میں پوشیدہ پڑے رہنے اور چالیس دن تک ان کی مرہم پٹی ہوتی رہی.کیا یہ تمام دنیا کے طبیب ، اسلامی اور عیسائی اور مجوسی اور روسی اور یہودی، جھوٹے ہیں اور تم نیچے ہو ؟ تہ (۱۳) اس مرکب کا نام مرسم عیسی ہے اور مرہم جوار میں بھی اسے کہتے ہیں اور مرہم المرسل بھی اس کا نام ہے.کیونکہ عیسائی لوگ حواریوں کو مسیح کے رسول یعنی اینچی کہتے تھے کیونکہ ان کو جس جگہ جانے کے لئے حکم دیا جاتا تھا وہ اونچی کی طرح جاتے تھے یہ نہایت عجیب بات ہے کہ جیسا کہ یہ نسخہ طب کے تمام نسخوں سے قدیم اور پرانا ثابت ہوا ہے ویسا ہی یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ دنیا کی اکثر قوموں کے طبیبوں نے اس نسخہ کو اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے چنانچہ جس طرح عیسائی طبیب اس نسخہ کو اپنی کتابوں میں لکھتے آئے تھے ایسا ہی روحی طبابت کی قدیم کتابوں میں بھی یہ نسخہ پایا جاتا ہے.اور زیادہ تر تعجب یہ کہ یہودی طبیبوں نے بھی اس نسخہ کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور وہ بھی اس ۵۶ : مسیح ہندوستان میں نشده - جلد 1 : : مسیح ہندوستان میں مث - جلدها سے :- ایام الصلح ۱۶۵ - جلد ۱۴ :
۴۲۶ www www بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ یہ نسخہ حضرت عیسی علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے بنایا گیا تھا.اور نصرانی طبیبوں کی کتابوں اور مجوسیوں اور مسلمان طبیبوں اور دوسرے تمام طبیبوں نے جو مختلف قوموں میں گزرے ہیں اس بات کو بالاتفاق تسلیم کر لیا ہے کہ نیر حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے بنایا گیا تھا.چنانچہ ان مختلف فرقوں کی کتابوں میں سے ہزار کتاب ایسی پائی گئی ہے جن میں یہ نسخہ ہے وجہ تسمیہ درساج ہے اور وہ کتابیں اب تک موجود ہیں " سے (۱۴) اس دوا کے استعمال سے حضرت مسیح علیہ السلام کے زخم چند رونہ میں ہی اچھے ہو گئے اور اس قدر طاقت آگئی کہ آپ تین روزہ میں یروشلم سے جلیل کی طرف ستر کوس تک پیادہ پا گئے.پس اس دوا کی تعریف میں اس قدر کافی ہے کہ مسیح تو (18) اوروں کو اچھا کرتا تھا مگر اس دوا نے مسیح کو اچھا کیا " ہے مریم عیسی ایک نہایت مبارک مرہم ہے جس سے حضرت علی علیہ السلام کے زخم اچھے ہوئے تھے.جبکہ آپ نے خدا تعالیٰ کے فضل سے سولی سے نجات پائی تو صلیب کی کیلوں کے جو زخم تھے جن کو آپ نے حواریوں کو بھی دکھلایا تھا وہ اسی مرہم سے اچھے ہوئے تھے.یہ سر ہم طب کی ہزارہ کتاب میں درج ہے اور قانون بو علی سینا میں بھی مندرج ہے اور رومیوں اور یونانیوں اور عیسائیوں اور یہودیوں اور مسلمانوں عرض تمام فرقوں کے طبیبوں نے اس مرہم کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے " سے (17) ” نویں دلیل حضرت عیسی علیہ السلام کے صلیبی موت سے محفوظ رہنے پر یہی نسخہ مرہم عیسی ہے کیونکہ ہر گز خیال نہیں ہو سکتا کہ مسلمان طبیبوں اور عیسائی ڈاکٹروں اور رومی مجوسی اور یہودی طبیبوں نے باہم سازش کر کے یہ بے بنیاد قصہ بنالیا ہو بلکہ نسخ بایت کی صلح کتابوں میں لکھا ہوگا اب تک موجود ہے.ایک ادنی استعداد کا آدمی بھی قرابادین قادری میں اس نسخہ کو امراض الجلد میں لکھا ہوا پائے گا.یہ بات ظاہر ہے کہ مذہبی رنگ کی تحریروں میں کسی قسم کی کمی ، زیادتی ممکن ہے کیونکہ تعصبات کی اکثر آمیزش ہو جاتی ہے لیکن جو کتابیں علمی را نگ میں لکھی گئیں ان میں نہایت تحقیق اور تدقیق سے کام لیا جاتا ہے لہذا یہ نسخہ مرسم عیسی اصل حقیقت کے دریافت کرنے کیلئے نہایت اعلیٰ درجہ کا ذریعہ ہے.ہے سے: ایام اصلاح : ۱۲۲ ۱۲۱ حل ۱۴ س: 64 سیح ہندوستان میں حنا - جلد ۱۵ : : - تریاق القلوب حاشیہ منت ۳ - جلد ۱۵ : ایام الصلح ص ۱۲ - جلد ۱۴ : -
ان سولر منتخب حوالہ جات کے مطالعہ کے بعد مرہم عیسی کی دلیل میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی لیکن بعض عیسائی حضرات عجیب قسم کے عذر پیش کرتے ہیں.حضرت کا سر صلیب میں مود علی السلام نے عیسائیوں کے ہر عذبہ کو باطل ثابت فرما کہ ان پر اتمام حجت کر دی ہے.فریم عیسی کے بارہ میں و یہ کہتے ہیں کہ یہ دلیل اس وجہ سے قطعی نہیں ہے کہ عین ممکن ہے کہ جن نہ خموں کے لئے یہ مرہم تیار کی گئی ہے وہ زخم حضرت مسیح کو حادثہ صلیہ سے قبل کسی وقت آئے ہوں.اسی شبہ کا کسی قدر جواب گذشتہ حوالوں میں بھی آگیا ہے لیکن خاص اس شبہ کا ازالہ کرتے ہوئے بھی حضور نے اس دلیل کی قطعیت واضح فرمائی ہے.حضور فرماتے ہیں: " اگر یہ شبہ پیش ہو کہ کن ہے کہ حضرت عیسی کو نبوت سے پہلے کہیں سے چوٹیں لگی ہوں یا گر گئے ہوں یا کسی نے مارا ہو اور حواریوں نے ان کے زخموں کے اورام اور قروح کی تکالیف کے لئے یہ نسخہ طیار کیا ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبوت سے پہلے حواریوں سے ان کا کچھ تعلق نہ تھا بلکہ حواریوں کو حواری کا لقب اسی وقت سے ملا کہ جب وہ لوگ حضرت عیسی کی نبوت کے بعد ان پر ایمان لائے اور ان کا ساتھ اختیارہ کیا اور پہلے تو ان کا نام مجھیٹے یا ماہی گیر تھا.سو اسی صافت تم اور کیا قرینہ ہو گا کہ یہ مرہم اس نام کی طرف منسوب ہے جو جو اسلیوں کو حضرت مسیح کی نبوت کے بعد ملا اور پھر ایک اور قرینہ یہ ہے کہ اس مرہم کو مرہم رسل بھی کہتے ہیں کیونکہ حواری حضرت عیسی کے رسول تھے اور اگر یہ گمان ہو کہ مکن ہے کہ یہ چوٹیں حضرت مسیح کو نبوت کے بعد کسی اور حادثہ سے لگ گئی ہوں اور صلیب پر مرگئے ہوں جیسا کہ نصاریٰ کا زعم ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ یہ چوٹیں نبوت کے بعد لگی ہیں اور ظاہر ہے کہ اس ملک میں نبوت کا نہ مانہ صرف تین برس بلکہ اس سے بھی کم ہے پس اگر اس مختصر نہ مانہ میں بجز میں سکے چوٹوں کے کسی اور حادثہ سے بھی یسوع کو چوٹیں لگی تھیں اور ان چوٹوں کے لئے یہ مرہم طیارہ ہوئی تھی تو اس دعوئی کا بارہ ثبوت عیسائیوں کی گردن پر ہے.یہ مریم حوار بین متواترات میں سے ہے اور متواثرات علوم حسیہ بدیہیہ کی طرح ہوتے ہیں جن سے انکارہ کرنا حماقت ہے اے پھر اسی سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں :- 1 : ست بچن حاشیه ۱۶۲ - جلد ۱۰ :
۴۳۸ یہ وہم بالکل لغو اور بے ہودہ ہے کہ ممکن ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو نبوت کے زمانہ سے پہلے چوٹیں لگی ہوں یا نبوت کے زمانہ کی ہی چوٹیں ہوں مگر وہ صلیب کی نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے ہاتھ اور پیر زخمی ہو گئے ہوں.ملا وہ کسی کو ٹھے پر سے گر گئے ہوں اور اس صدمہ کے لئے یہ مرہم طیارہ کی گئی ہو کیونکہ نبوت کے زمانہ سے پہلے حواری نہ تھے اور اس مرہم میں حواریوں کا ذکر ہے.شلیخا کا لفظ جو یونانی ہے جو باراں کو کہتے ہیں ان کتابوں میں اب تک موجود ہے اور نیز نبوت کے زمانہ سے پہلے حضرت مسیح کی کوئی عظمت تسلیم نہیں کی گئی تھی تا اس کی یاد گار محفوظ رکھی جاتی اور نبوت کا زمانہ صرف ساڑھے تین بر س تھا اور اس مدت میں کوئی واقعہ ضربہ یا سقطہ کا بجز واقعہ صلیب کے حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت تاریخوں سے ثابت نہیں اور اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ ممکن ہے کہ ایسی چوٹیں کسی اور سب سے حضرت علی علیہ اسلام کو گئی ہوں تو یہ ثبوت اس کسی زندہ ہے.کیونکہ ہم جس واقعہ کو پیش کرتے ہیں وہ ایک ایسا ثابت شدہ اور جانا ہوا واقعہ ہے کہ نہ یہود کو اسی انکار ہے اور نہ عیسائیوں کو یعنی صلیب کا واقعہ لیکن یہ خیال کہ کسی اورر سبد سے کوئی چوٹ حضرت مسیح کو لگی ہوگی کسی قوم کی تاریخ سے ثابت نہیں.اس لئے ایسا خیال کرنا عمدا سچائی کی راہ کو چھوڑنا ہے.یہ ثبوت ایسا نہیں ہے.کہ اس قسم کے بے ہودہ عذرات سے رو ہو سکے اے الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرسم عیسی کی دلیل کو پوری تحری اور وضاحت کے ساتھ پیش فرمایا ہے اور اس سلسلہ میں عیسائیوں کے سب شبہات کا ایسا مدلل جواب دیا ہے کہ ان کے لئے فرار کی کوئی راہ باقی نہیں ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ مرہم عیسی واقعی ایک معجزہ ہے جس نے مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں ان کے زخموں کو معجزانہ طور پر درست اور اچھا کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں صلیبی موت کی تردید میں ایسا قطعی اور یقینی ثبوت بہتا کیا ہے کہ عیسائیوں کے پاس اس کا کوئی معقول جواب نہیں ہے.اس ثبوت کی قطعیت اور واضح حجت ہونے کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس ثبوت کو بڑی تحدی کے ساتھ پیش فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں : "اے محققوں کی روحو ! اس اعلیٰ ثبوت کی طرف دوڑو اور اسے منصف مزاجو ! اس ے میسج ہندوستان میں صت - جلد 16 :
۴۲۹ معاملہ میں ذرا غور کرو.کیا ایسا چمکتا ہوا اثبوت اس لائق ہے کہ اس پہ توجہ نہ کی جائے ؟ کیا مناسب ہے کہ ہم اس آفتاب صداقت سے روشنی حاصل نہ کریں گے ملے لغرض مرہم عیسی ایک قطعی اور واضح دلیل ہے جس سے یہ بات اچھی طرح سے ثابت ہو جاتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے صلیب پر وفات نہیں پائی بلکہ وہ صلیب پر صرف زخمی ہوئے تھے اور مرہم عیسی کے ذریعہ اپنے زخموں سے شفا پائی.حرف آخر حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کی تردید میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے بیان فرمودہ تیسی دلائل گذشته صفحات میں بیان کئے گئے ہیں.حق یہ ہے کہ ان دلائل میں سے ہر ایک دلیل اپنی قطعیت کی بناء پر انفرادی طور پر ایک مکمل مضمون کی حیثیت رکھتی ہے اور ایسی وزنی دلیل ہے کہ دوسرے دلائل سے مستغنی اور بے نیازہ کر دیتی ہے اور پھر جب اس اعلیٰ پایہ کے تیس دلائل اکٹھے ہو جائیں تو پھر تو اس بات میں ذرہ برابر بھی شک کرنے کی گنجائش نہیں رہتی کہ حضرت مسیح علیہ السلام ہرگز ہرگز صلیب پر فوت نہیں ہوئے.اور لاریب یہی بات حتی ہے.صلیبی موت کی تردید کے یہ دلائل تردید کفارہ کے ضمن میں لکھے گئے ہیں کیونکہ کفارہ کی حقیقی بنیاد، جیسا کہ ہم تفصیل سے بیان کر چکے ہیں حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت پر ہے.پس جب ان دلائل کی وجہ سے ثابت ہو گیا کہ صلیبی موت کا خیال باطل ہے تو یہ بھی ثابت ہو گیا کہ کفارہ کا عقیدہ بھی باطل ہے بالآخر حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے الفاظ پر اس باب کو ختم کرنے کی سعادت حاصل کر تا ہوں حضور فرماتے ہیں : " عیسائی مذہب کا تمام مدانہ کفارہ پر ہے اور کفارہ کا تمام مدار صحبیب پر.اور جب صلیب ہی نہ رہی تو کفارہ بھی نہ رہا اور جب کفارہ نہ رہا تو مذہب بنیاد سے گر گیا ہے مسیح ہندوستان میں م - جلدها له : به تریاق القلوب ص - جلدها :
۳۳۰ + اختتامیه کا ظہور غلیہ اسلام کا آغانہ
میں باقی احمدیت، سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علم کلام اپنے اندر بے پناہ وسعت او جامعیت رکھتا ہے.کیونکہ اس علم کلام میں ہر مذہب کا محاسبہ کیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بعثت کے مقصد کے پیش نظر خاص طور پہ عیسائیت کی پر زور نہ دید فرمائی ہے.صرف عیسائیت ہی کے خلاف آپ کا علم کلام اس قدر وسعت رکھتا ہے کہ اس کے سب پہلوؤں کا احاطہ بہت مشکل امر ہے تاہم اللہ تعالی کے فضل وکرم اور اس کی توفیق سے مجھے ان ذیلی عناوین کے مطابق ، جو کیٹی مقالہ جات نے مقرر کئے تھے ، حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے علم کلام کا تذکرہ کرنے کا موقع مل گیا ہے فالحمد لله على ذلك - مقالہ کے تیسر سے باب میں ہم دیکھ آئے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض یہ ہے کہ آپ کے ذریعہ کسر مطلب کا کام پورا ہو اور اسلام کو سب ادیان پر مکمل اور دائمی غلبہ حامس ہو.اس مقصد بعثت کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش فرموده مامورانہ علم کلام اور آپ کے کار ہائے نمایاں پر نظر کریں تو یہ حقیقت آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہو جاتی ہے.کہا لاریب خدا کے اس برگزیدہ نفسیح نے جو جری اللہ فی حل الا نبیاء کے طور پر دنیا میں آیا ، اپنی بعثت کے عظیم مقصد کو تمام و کمال پورا کر دکھایا.اصل کام تو خدا نے کرنا تھا اور اسی نے کیا.لیکن یہ سعادت سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حصہ میں آئی کہ خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت نمائی کے لئے آپ کو منتخب فرمایا.اور پھر آپ سے اس طور پر کام لیا کہ آپ کے ہاتھوں عیسائیت کا طلسم باطل ہو گیا.عیسوی مذہب کی شان و شوکت ختم ہو گئی اور عیسائیت کی باطل تعلیمات کی حقیقت اور اللہ نسبت طشت از بام ہوگئی.ذالك فضل الله يوتيه من يشاء این سعادت بزور باند و نیست تا نه بخشد خدائے بخشنده انه الغرض سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ کا شاندار ظہور ہوا.یہ صرف ہمارا دعوی نہیں بلکہ ہر صاحب بصیرت اگر حقی و انصاف کی نظر سے دیکھے تو اس حقیقت کو اور اس
۴۳۲ کے شواہد کو بچشم خود مشاہدہ کر سکتا ہے.کسیر صلیب کا اس سے زیادہ واضح اور کیا ثبوت ہوگا کہ عیسائیوں میں اپنے مذہب سے نفرت اور بیزاری پیدا ہو رہی ہے.ان میں مذہب سے بغاوت کے جذبات پیدا ہو رہے ہیں.یہی نہیں بلکہ گرجا گھروں کی ویران حالت اور ان کا بے آباد ہو کر ہوٹلوں اور کلبوں میں تبدیل ہوتے چلے جانا عیسائیت کی شکست کی واضح علامت ہے.کا ایک عجیب پہلو یہ ہے کہ اب عیسائیت میں اندرونی طور پر پرانے عقائد سے انحراف کی ایک رو پیدا ہوگئی ہے.وہ عقائد جو کسی زمانہ میں عیسائیوں کے لئے سرمایہ افتخار بنے ہوئے تھے.آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے کڑی تنقید اور محاسبہ کی وجہ سے ان کو قابل نفرت قرار د سے کہ الوداع کہا جا رہا ہے.اس کی ایک تازہ مثال عیسائیوں کے موجودہ پوپ کا وہ اعلان ہے جس میں اس نے سابقہ عیسائی عقائد کو خیر باد کہتے ہوئے یہ بیان کیا ہے کہ مسیح کا صلیب پر مرنا نہیں بلکہ مسیح کا خون ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے.ظاہر ہے کہ فلسفہ نجات کی بنیاد میں یہ واضح تبدیلی صرف اور صرف حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے علم کلام کا نتیجہ ہے جس میں مسیح کی صلیبی موت کی پر زور تردید کی گئی ہے.پھر سبھی حضرات کے عقائد سے انحراف کرنے کا ایک اور ثبوت یہ حوالہ ہے جس میں لکھا ہے کہ :.و نجات کے بارہ میں اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اس کے لئے کفار سے کی ضرورت نہیں.ہم میچ کی موت کے سبب نہیں بلکہ اس کی تعلیم پر عمل کرنے اور اسکی نمونے کی پیروی کرنے اور اس کی مرضی پر چلنے سے بچ سکتے ہیں.اس قسم کے خیالات پروٹسٹنٹ کلیسیا میں عام طور پر پائے جاتے ہیں " اے مسیحی عقائد میں انحراف کی ان دو مثالوں سے یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی کاری ضرب سے عیسائی عقائد کی بنیاد ہل گئی ہے.یہی کا حقیقی مفہوم ہے جی ظہور کا آغازہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور جوں جوں زمانہ گزرتا چلا جائیگا.کسر مطلب کا ظہور روشن تر ہوتا چلا جائے گا.انشاء اللہ تعالٰی.ـ کے ظہور کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :." مسیح موعود کے وجود کی علت غائی احادیث نبویہ میں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ عیسائی قوم کے دجل کو دور کر ے گا اور ان کے صلیبی خیالات کو پاش پاش کر کے دکھلا دے گا.ه : بارہ سوالات حث :
: را چنانچہ یہ امر میرے ہاتھ پہ خدا تعالیٰ نے ایسا انجام دیا کہ عیسائی مذہب کے اصول کا خاتمہ کر دیا.میں نے خدا تعالیٰ سے بصیرت کا ملہ پا کر ثابت کر دیا کہ وہ لعنتی موت کہ جو نعوذ بالله حضرت مسیح کی طرف منسوب کی جاتی ہے جس پر تمام مداد صلیبی نجات کا ہے وہ کسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی اور کسی طرح لعنت کا مفہوم کسی را ستیانہ پر صادق نہیں آسکتا.چنانچہ فرقہ پادریاں اس جدید ٹرنہ کے سوال سے جو حقیقت میں ان کے مذہب کو پاش پاش کرتا ہے ایسے لاجواب ہو گئے کہ جن جن لوگوں نے اس تحقیق پر اطلاع پائی ہے وہ سمجھ گئے ہیں کہ اس اصلی درجہ کی تحقیق نے صلیبی مذہب کو توڑ دیا.بعض پادریوں کے خطوط سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ اس فیصلہ کرنے والی تحقیق سے نہایت ڈر گئے ہیں اور وہ سمجھ گئے ہیں کہ اس سے ضرور ملیسی مذہب کی بنیاد گر سے گی اور اس کا گرنا نہایت ہولناک ہو گا اور وہ لوگ در حقیقت اس مثل کے مصداق ہیں کہ برجی برء من جرحه السنان ولا يرجى برء من مزقه البرهان بینی جو شخص نیزہ سے زخمی کیا جائے اس کا اچھا ہونا اُمید کی جاتی ہے لیکن جو شخص بریانی سے ٹکڑے ٹکڑ سے کیا جائے اس کا اچھا ہو نا امید نہیں کی جاتی " سے پھر آپ فرماتے ہیں :." صلیب کی شکست میں کیا کوئی کسر باقی ہے ؟ موت مسیح کے مسئلہ نے ہی ملیب کو پاش پاش کر دیا ہے کیونکہ جب یہ ثابت ہو گیا کہ مسیح صلیب پر سرا ہی نہیں بلکہ وہ اپنی طبعی موت سے کشمیر میں آکر مرا تو کوئی عقلمند ہمیں بتائے کہ اس سے صلیب کا باقی کیا یہ بہتا ہے.اگر تعصب اور ضد نے بالکل ہی انسان کے دل کو تاریک اور اس کی عقل کو نا قابل فیصلہ نہ بنا دیا ہو تو ایک عیسائی کو بھی یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ اس مسئلہ سے عیسائی دین کا سارا تارو پودا دھڑ جاتا ہے یہ کہ کے نتیجہ میں عیسائیت اب حقیقت کے اعتبار سے ایک مردہ مذہب بن چکی ہے حق یہ ہے کہ اب عیسائیت ایک جسد بے جان کی طرح بے فیض لاشہ بن چکی ہے.بحیثیت مذہب عیسائیت کی عظمت ختم ہو چکی ہے اور اب وہ اس قابل نہیں رہی کہ تا قیامت دوباره سربندی حاصل ہوسکے.سیدنا حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : 14 : كتاب البریه ۲ تا ۲۶۳ حاشیه - جلد ۱۳ : ۱۵ - ملفوظات جلد چہارم ملاب
" مسیح کی زندگی کے حالات ان کی موت تک ثابت کر کے اور ان کی قبر تک کا نشان نکا نکال کہ حضرت مسیح موعود نے مسیح کی خدائی پر ایسانہ بر دست حملہ کیا ہے کہ مسیح کی خدائی کا عقیدہ ہمیشہ کے لئے ایک مُردہ عقیدہ بن گیا ہے اور اب کبھی بھی مسیحیت دوبارہ سر نہیں اٹھا سکتی ہے ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس خداداد علم کلام کے نتیجہ میں کسر مطلب کا عظیم الشان معرکہ سرانجام پایا اور دنیا نے اس باطل مذہب کو سرنگوں اور رسوا ہوتے دیکھ لیا اور دوسری طرف خدا کے اس روحانی پہلوان کے ہاتھوں غلبہ اسلام کا ایسا ندارد آغاز ہوا کہ اسلام کے دائی اور عالمگیر غلبہ کی مستحکم بنیا دیں قائم ہو گئیں.یہ دو طرفہ مقاصد اپنی پوری شان اور عظمت کے ساتھ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں آپ کے علم کلام کے ذریعہ پور سے ہوئے عیسائیت کے خلاف اپنے دلائل بیان کرنے کے بعد حضور علیہ السلام نے ایک موقعہ پر فرمایا :- یہ دلائل اور حقائق اور معارف ہیں جو عیسائی مذہب کے باطل کر نے کے لئے خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ پہ ثابت کئے جن کو میں نے اپنی تالیفات میں بڑے لبسط سے لکھا ہے اور ظاہر ہے کہ ان روشن دلائل کے بعد نہ عیسائی مذہب قائم رہ سکتا ہے اور نہ اس کا کفارہ ٹھہر سکتا ہے بلکہ اس ثبوت کے ساتھ یہ عمارت یکدفعہ گرتی ہے کیونکہ جبکہ حضرت مسیح علیہ السلام کا مصلوب ہوتا ہی ثابت نہ ہو تو کفارہ کی تمام امیدیں خاک میں مل گئیں.اور یہ وہ فتح عظیم ہے جو حدیث کی منشاء کو کامل طور پر پورا کرتی ہے.اور وہ کام جو مسیح موعود کو کرنا چاہیئے ہی تھا کہ ایسے دلائل واضح سے عیسائی مذہب کو گرا د سے نہ یہ کہ تلواروں اور بندوقوں سے لوگوں کو قتل کرتا پھر سے اور یہ فتح صرف ایک شخص کے نام پر مقدر تھی جو عین وقت ختنہ صلیب میں خدا تعالے کی طرف سے بھیجا گیا اور یہ فتح اس کے ہاتھ سے کامل طور پر ظہور میں آگئی.اب کسی کا را متصلیب اور مسیح موجود کی انتظار کرنا عبث اور طلب محال ہے کیونکہ جن حقائق کے کھلنے سے عیسائیت کو شکست آتی ہے وہ حقائق بفضلہ تعالٰی میرے ہاتھ پر کھل گئے.اب کسی دوسرے سیج کے لئے کوئی روحانی کام باقی نہیں......غرض جیسا کہ خداتعالی نے مسیح موعود کی یہ علامت قرآن شریف میں بیان فرمائی تھی کہ لِيُظهِرَهُ عَلَى : دعوة الامير مثلا :
۳۵یم اللايْنِ كُله وہ علامت میر سے ہاتھ سے پوری ہو گئی یہ لے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس حوالہ سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ کسی مصیب اور غلبہ اسلام کے دونوں مقاصد آپ کے ذریعہ پور سے ہوئے.آپ کی آمد سے اسلام نے دنیا کے سب مذاہب اور خاص طور پر عیسائیت کے مقابل پر عظمت اور سر بلندی حاصل کی اور آپ نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کہ اس بات کا بڑے یقین اور وثوق کے ساتھ اعلان فرما دیا کہ اب اسلام ہی دنیا میں غالب آئے گا اور تا قیامت غالب رہے گا.آپ کی کتب میں اس ضمن میں متعدد حوالے ملتے ہیں.بطور نمونہ میں چند حوالے درج کر تا ہوں اور انہی پر اپنے مقالہ کے اس باب کو ختم کرتا ہوں ان حوالوں سے ظاہر ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کے نتیجہ میں کسیر مدید کے ساتھ ساتھ علیہ السلام کا وعدہ اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ پورا اہوا اور تا قیامت پورا ہوتا چلا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی نقین اور تجزی کے ساتھ فرماتے ہیں :- اسے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اسکی پیشگوئی ہے جب سنتی زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت و بریان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا وہ عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اسکی معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا.یہانتک کہ قیامت آجائے گی یا ہے " جھوٹے خُدا کے لئے اتنا ہی غنیمت ہے کہ اس نجی ایک ہزالہ نوسو برس تک اپنی خالائی کا سکہ قلب چلا لیا.آگے یاد رکھو کہ یہ جھوٹی خدائی بہت جلد ختم ہونے والی ہے وہ دن آتے ہیں.کہ عیسائیوں کے سعادتمند لڑکے سچے خدا کو پہچان لیں گئے اور پڑاتے بچھڑے ہوئے وحدہ لا شریک کو روتے ہوئے آملیں گے.یہ میں نہیں کہتا بلکہ وہ رح کہتی ہے جو میر سے اندر ہے جس قدر کوئی سچائی سے لڑسکتا ہے انڈے جس قدر کوئی مکر کر سکتا ہے کہ لیے.بیشک کرے.لیکن ہے؟ آخر ایسا ہی ہوگا.یہ سہل بات ہے کہ زمین نہ آسمان مبدل ہو جائیں.یہ آسان ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ : تریاق القلوب مال - جلد 1 : سے بہ تذکرۃ الشہادتین ص - جلد ۲۰ :
چھوڑ دیں لیکن یہ وعد سے مبدل نہیں ہوں گے لے میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاری کا کسی طرح فیصلہ ہوجائے میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے اور میری میان عجب تنگی میں ہے.اس سے بڑھ کر اور کون سا دنی درد کا مقام ہو گا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا ہے.اور ایک مشت خاک کو رب العالمین سمجھا گیا ہے لیکن کبھی کا اس غم سے فنا ہو جاتا اگر میرا ولی اور میرا قادر توانا مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر توحید کی فتح ہے.غیرمعبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے.مریم کی معبود نہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اسکا بیٹا اب ضرور مرے گا.اب دونوں مریں گئے کوئی ان کو بچا نہیں سکتا اور وہ تمام خراب استعدادیں بھی مریں گی جو جھوٹے خداؤں کو قبول کر لیتی تھیں.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہو گا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو پیچھے خدا کا پتہ لگے گا...قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام.اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ گند ہو گا جب تک دخانیت کو پاش پاش نہ کردے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی بھی تو حید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ، ملکوں میں پھیلے گی اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نورا تا رنے سے تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں پر سمجھ میں آئیں گی یہ سے دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ پڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے تھے وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين - سراج منیر ص۶۶ - جلد ۱۲ : : - تذكرة الشہادتین ص - روحانی خزائن جلد ۲۰ : سے : تبلیغ رسالت مش - جلد ششم -
فهرست کتب جن سے اس مقالہ کے لکھنے میں استمداد کی گئی بر شمار نام کتاب نام مصنف نمبر شمار نام کتب نام مصنف قرآن مجید ۲۱ علم الکل هم صحیح بخاری صحیح مسلم بائیل (کتاب مقدس امام محمد بن سماعیل بخاری ۲۲ الکلام امام مسلم بن حجاج قشیری مجدد اعظم تین حصے) ڈاکٹر بشارت احمد روحانی خزائن تصنیفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵ شرح فقہ اکبر ملا علی قاری مولانا محمد ادریس کاندھلوی مولانا شبلی نعمانی ۲۴۴ مقدمه ابن خلدون علامه ابن خلدون Y N حفوظات اشتہارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام تذکره 4 ۲۶ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جامع اللغات جلد چهارم عبد المجيد ۲۷ غیاث اللغات سراج الدین علی خاں الہایا فیروز اللغات اردو مولوی فیروز الدین که گری Wi علم انکا هم لویس معلوف موی ناشبلی نعمانی دعوۃ الا میر حضر مرزا بشیر الدین محمود احمد ۲۹ المنجد تفسیر کبیر سوره مریم سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ۳۱ مجدد کامل خواجہ کمال الدین صاحب مباحثہ مصر مولانا ابوالعطاء هنا جالند دوری ۳۲ تشریح التثلیث پادری ڈبلیو ٹامس صاج باره ضروری سوالات ڈاکٹر سی ای میکارٹنی ماہنامہ الفرقان ربوہ ایڈیٹر در کفارہ کی حقیقت ۳۴ اہل مسجد پادری بیون جونه ۱۵ ندائے حق (حصہ اول) حضرت میر محمد اسحق قصد لحق صاحب ۳۵ تحقیق الایمان پادری عمادالدین My ۱۶ ندائے حق (حصہ دوم) مسیحی دین کا بیان پادری بیدن جونز حضر مرزا غلام احت قادیانی اسید میر داد د احمد صاحب ۳۰ تفسیر منتی ڈاکٹر ایک پوسٹینٹن نظام ربوبیت غلام احمد پرویز د خدائے تابوت ڈبلیو ایچ ٹی گیٹڈ نر 19 کلید کلام الامام ۲۰ ۳۹ کلید حوالہ جات با شیمیل شیخ سمیع اللہ شاکر ۲۰ نہ مصلوب پادری بوٹامل ڈاکٹر صموئیل زدیمر لصلييل
نام مصنف نمبر شمار نام کتاب خبر ها به نام کتاب نام مصنف است سلام یسوع مسیح کی گرفتاری ڈاکٹر جمی سٹا کر پادری طالب الدین ۳۱ معجرات میح ۲ تواریخ بائیبل ڈاکٹرڈ بلیو جی بیکی ۴۲ اور موت 44.ENCYCLOPEDIA BRITANICA 45.POPULAR ENCYCLOPEDIA 46.ENCYCLOPEDIA OF RELIGIONS& ETHICS.47.THE LIFE OF JESUS.ERNEST RENAN NEW YORK.48.THE BOOK OF KNOWLEDGE V.8.GORDON STOWELL LONDON 1960.49.THE USES OF THE PAST, HERBERT MILLER NEW AMERICAN LIBRARY.50.THE TEACHERS, COMMENTARY 1-G HENTON DAVIS 2-ALAN RICHARDSON 6TH EDITION LONDON 1955.51.BRIDGE TO ISLAM E.N.BETHMANN U..S.A.1950.52.THE RELIGIONS OF THE WORLD V.I.LECTURE BY PROF.J.R.BANERJEA FIRST EDITION 1938.53.CHRIST OR MOHAMMAD S.G.WILLIAMSON 54.THE BEGINING OF CHRISTIANITY CLARENCE TUCKER CRAIG.55.WHAT CATHOLIC CHURCH IS AND WHAT SHE TEACHES.REV.E.R.HUL.56.ISLAM AND CHRISTIANITY MAJOR ABDUL HAMEED FIRST EDITION NEW YORK..