Kashmir Ki Kahani

Kashmir Ki Kahani

کشمیر کی کہانی

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

جس کہانی کے اَوراق اس وقت میرے سامنے بکھرے ہوئے ہیں وہ لذت آفریں کے بجائے درد انگیز ۔ اور دلربا سے کہیں زیادہ دل دوز و دل سوز ہے۔ یہ ستم ضریفی بھی کس قدر سوہانِ روح ہے۔ کہ جس گل پوش وادی کا ذکر کرتے وقت اس کے نام سے پہلے ’’جنت نظیر‘‘ کا اضافہ کرنے کے بعد بھی اُس کے جمالیاتی تعارف کا حق ادا نہیں ہوتا اُسی وادی کے باشندوں کا ماضی اور حال دونوں اس قدر کرب آفریں ہیں کہ انہیں مظلوم و مقہور کہہ کر بھی اُن کی بے بسی و کم پرسی کی صحیح کیفیت بیان نہیں ہو پاتی بلکہ اگر میں یہ بھی کہہ دوں تو خلاف واقعہ اور نامناسب نہ ہوگا کہ قیام پاکستان اور ریاست (جموں و کشمیر) کے ایک حصہ پر بھارت کے بالجبر قبضے کے بعد وادی کشمیر کے جو رہنما یا سیاسی کارکن پاکستان آئے ان میں سے بعض نے اس سلسلہ  میں جو کچھ لکھا یا کہا اُن تحریروں یا تقریروں نے بھی نہ اُس بے کسی کی صحیح تصویر  کھینچی ہے۔ جس کے خونی شکنجے میں مسلمانانِ کشمیر صدیوں سے جکڑے چلے آرہے ہیں اور نہ اُس بربریت و بہیمیت کا اصل خاکہ نگاہوں کے سامنےآتا ہے جس کا وہ ایک زمانے سے نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔۔۔ وہ کون لوگ تھے جو صرف اور صرف انسانیت دوستی کے جذبے سے سرشار اِس مہم میں کُودے اور وہ کون نمک خواران ریاست تھے جنہوں نے مارِ آستین کا رول ادا کرتے ہوئے عین وقت پر ہر پُرخلوص جدوجہد کو سبوتاژ کرکے اسیروں کی رُستگاری کو برسوں پیچھے ڈال دیا۔ آج و تمام مراحل، وہ تمام مساعی، وہ تمام پُرخلوص سرگرمیاں ’’کشمیر کی کہانی‘‘ کے رُوپ میں ہمارے سامنے ہیں۔ جن کی روشنی میں ہر غیرجانب دار اور نیک نیت قاری بآسانی آغازِ جدوجہد آزادی کشمیر کے  مالہ و ما علیہ سے آگہی حاصل کرسکتا ہے۔ کہ اس ایوان حریت پسندی کی نیوکس نے  رکھی؟ ۔۔۔ اس کی بنیادوں میں سب سے پہلے کس فرد۔ جماعت یا ادارے کی بے لوث قربانیوں اور جاں نثاریوں کا چُونا گارا کھپا؟ اور آج جس جدوجہد کا  ہر پہلو عالمی بلکہ تاریخی حیثیت حاصل کئے ہوئے ہے۔ اس کی شریانوں میں دوڑنے والے خون کی آب و تاب کن دردمند انسانیت دوستوں کے حُسن و ایثار و عمل کے مرہونِ منت ہے۔ <p style="text-align: left;">ثاقب زیرویؔ</p>


Book Content

Page 1

کشمیر کی کہانی ظہور احمد

Page 2

پیش لفظ بسم الله الرحمن الرحيم.نحمده و نصلی علی رسوله الکریم و عبده المسيح الموعود الحمد اللہ کہ خاکسار کو اپنے نانا جان مکرم و محترم چوہدری ظہور احمد صاحب مرحوم سابق ناظر دیوان کی کتاب "کشمیر کی کہانی کا بار سوئم شائع کرنے کی بفضل تعالیٰ توفیق مل رہی ہے.یہ کتاب چونکہ بالکل نا پید ہو چکی تھی اور اکثر دوست احباب اس کے بارہ میں گاہ بگا ہے استفسار کرتے رہتے تھے اور اس کتاب کی حیثیت ایک اہم تاریخی دستاویز کی ہے جو کہ حضرت مصلح موعود کی مظلوم کشمیریوں کے حقوق کے حصول کے لئے بے لوث اور انتہائی کامیاب کاوشوں کا ذکر خیر بھی ہے جس کا تذکرہ ہمیشہ تاریخ سنہری حروف سے لکھے گی.چنانچہ خاکسار نے اس سلسلہ میں مکرم و محترم سید عبدالحئی صاحب مرحوم ناظر اشاعت سے درخواست کی کہ ہمیں اس کتاب کو چھپوانے کی اجازت دے دی جائے.مکرم ناظر صاحب نے فی الفورا جازت نامہ ٹائپ کروا کر اور دستخط مثبت کر کے از راہ شفقت اجازت مرحمت فرما دی.جزاکم اللہ احسن الجزا خاکسار کو نانا جان کے کاغذات میں سے اس کتاب کے حصہ دوئم کا مسودہ بھی ملا جو کہ غیر شائع شدہ ہے.اس کو بھی نظارت اشاعت کی منظوری کے بعد شامل اشاعت کیا جارہا ہے.خاکسار حصہ دوئم کے مسودہ کی اشاعت کی منظوری کے لئے مکرم مرزا خلیل احمد صاحب کی مساعی کا تہ دل سے شکر گزار ہے.اس ایڈیشن کی کتابی شکل میں طباعت کے علاوہ احباب کے عام استفادہ کے لئے E-book کے طور پر بھی اپ لوڈ کر دیا جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ خاکسار برادرم ڈاکٹر انس احمد رشید کا بھی حد درجہ شکر گزار ہے جو کہ ہر کام میں شانہ بہ شانہ ہوتے ہیں اور انہوں نے اس سلسلہ میں تمام تکنیکی امور سرانجام دیے.جزاکم اللہ حسن الجزا خاکسار انور احمد رشید گوتھن برگ.سویڈن

Page 3

باسمه سبحانه پیش رس جس کہانی کے اوراق اس وقت میرے سامنے بکھرے ہوئے ہیں وہ لذت آفریں کی بجائے دردانگیز.اور دلربا سے کہیں زیادہ دل دوز و دل سوز ہے.یہ ستم ظریفی بھی کس قدر سوہان روح ہے.کہ جس گل پوش وادی کا ذکر کرتے وقت اس کے نام سے پہلے جنت نظیر کا اضافہ کرنے کے بعد بھی اُس کے جمالیاتی تعارف کا حق ادا نہیں ہوتا اُسی وادی کے باشندوں کا ماضی اور حال دونوں اس قدر کرب آفریں ہیں کہ انہیں مظلوم و مقہور کہہ کر بھی اُن کی بے بسی و کم پرسی کی صحیح کیفیت بیان نہیں ہو پاتی بلکہ اگر میں یہ بھی کہہ دوں تو خلاف واقعہ اور نامناسب نہ ہوگا کہ قیام پاکستان اور ریاست ( جموں وکشمیر ) کے ایک حصہ پر بھارت کے بالجبر قبضے کے بعد وادی کشمیر کے جور رہنما یا سیاسی کارکن پاکستان آئے ان میں سے بعض نے اس سلسلہ میں جو کچھ لکھایا کہا ان تحریروں یا تقریروں نے بھی نہ اُس بے کسی کی صحیح تصویر کھینچی ہے.جس کے خونی شکنجے میں مسلمانان کشمیر صدیوں سے جکڑے چلے آرہے ہیں اور نہ اُس بر بریت و بہیمیت ہی کا اصل خاکہ نگاہوں کے سامنے آتا ہے جس کا وہ ایک زمانے سے نشانہ بنے ہوئے ہیں.شاید اس لیے کہ ان تمام کتب اور سوانحی خاکوں میں لکھنے والوں نے مسئلہ زیر بحث سے کہیں زیادہ اپنے آپ کو پیش نظر رکھا ہے اور بعض نے تو خودستائی کی اس مہم میں اس بات سے بھی گریز نہیں کیا کہ اپنے آپ کو سب سے نمایاں ثابت کرنے کے لیے اپنے 7

Page 4

دوسرے تمام رفقاء کار کی ملی خدمات کے چہروں پر بدظنی کا کالک مل دیں.ان میں سے بیشتر کی نگارشات میں سے شروع ہو کر میں ہی پرختم ہو جاتی ہیں.دمسلمانان کشمیر کیوں مقہور و مجبور تھے“؟ ان کی پس ماندگی و بے چارگی کا اصل سبب کیا تھا؟ ریاست میں ان کی اکثریت کے باوجود انہیں کس طرح اقلیتوں بلکہ اچھوتوں کی سی زندگی گزار نے پر مجبور کیا جاتا تھا؟“ ان میں عزت نفس کا احساس کیونکر پھونکا جا سکتا تھا؟“ اس کارخیر کا خیال سب سے پہلے کس ذہن میں ابھرا ؟ اس جد و جہد آزادی کی چنگاری سب سے پہلے کس سینے میں سلگی ؟ د کس طرح سلگی اور اُس کی آنچ کو کن دردمندوں اور خوش نیتوں نے اجاگر کیا ؟“ اس چنگاری سے اُمید فلاح قوم کی کو کس طرح پھوٹی ؟ اور اس روشنی میں ذاتی منفعتوں اور حرص و آز کے پردے اگر اگر اُس کی آب و تاب کو ماند کرنے کی کس کس طرح کوششیں کی گئیں؟“ وہ کون لوگ تھے جو صرف اور صرف انسانیت دوستی کے جذبے سے سرشار اس مہم میں کو دے اور وہ کون نمک خواران ریاست تھے جنہوں نے مار آستین کا رول ادا کرتے ہوئے عین وقت پر ہر پُر خلوص جد و جہد کو سبو تا ثر کر کے اسیروں کی رستگاری کو برسوں پیچھے ڈال دیا.ان تمام موضوعات سے یہ لیڈر لوگ شاید اس لئے پہلو تہی فرماتے رہے کہ اتنے بڑے پھیلا ؤ اور تجزیے کے بعد اُن کا اپنا دامن کچھ زیادہ بھرا ہوا دکھائی نہ دے سکتا تھا.اُن کی شخصیت اُن کے حسب خواہش نمایاں نہ ہوتی تھی اس لئے اُن کی مصلحت اندیشیوں نے ان تمام مراحل سے پہلو بچا کر ہی گزر جانے میں عافیت سجھی لیکن جو باتیں دلوں اور روحوں پر 8

Page 5

نقش ہوں.کیا وہ بھی کبھی نظر انداز ہوئی ہیں.کبھی لفاظیوں سے بھی خلوص نیت وحسن عمل کے خلاء پر ہوئے ہیں؟ کیا کبھی سیاست انسانیت دوستی کی آب و تاب کو بھی ماند کر پائی ہے ! چنانچہ آج وہ تمام مراحل ، وہ تمام مساعی ، وہ تمام پر خلوص سرگرمیاں کشمیر کی کہانی کے روپ میں ہمارے سامنے ہیں.جن کی روشنی میں ہر غیر جانب دار اور نیک نیت قاری بآسانی آغاز جد و جہد آزادی کشمیر کے مالہ وما علیہ سے آگہی حاصل کر سکتا ہے.کہ اس ایوان حریت پسندی کی نیو کس نے رکھی؟ اس کی بنیادوں میں سب سے پہلے کس فرد.جماعت یا ادارے کی بے لوث قربانیوں اور جاں نثاریوں کا چونا گارا کھپا؟ اور آج جس جد و جہد کا ہر پہلو عالمی بلکہ تاریخی حیثیت حاصل کئے ہوئے ہے.اس کی شریانوں میں دوڑنے والے خون کی آب و تاب کن دردمند انسانیت دوستوں کے حُسن ایثار و عمل کی مرہونِ منت ہے.بے شک اس کہانی میں بیان واظہار کا چٹخارہ کم از کم ہے! اس کی عبارت میں تخیلاتی فقرہ بازیوں کی لذتیں بھی شاید نہ ملیں ! سیاسی اُکھاڑ ، پچھاڑ اور لتاڑ کی سنسناہٹ بھی مفقود ہو! غیر ضروری افسانہ طرازیوں کا دبیز قشر بھی شاید نہ مل سکے لیکن یہ اوراق مغز سے خالی نہیں ہیں اس کہانی کے ورق ورق پر آپ اُن جان نثاروں کے خون کے چھینٹے ملیں گے جو شمع حریت پر سب سے پہلے پروانہ وار شار ہوئے اس کا ہر باب یہ ضرور بتائے گا کہ جب قوموں کی رستگاری کے بیڑے اُٹھائے جاتے ہیں تو کس نوع کے ہمہ گیر پروگرام مرتب کرنے پڑتے ہیں اور کس کس طرح ایک ایک قدم گردو پیش سے چوکس ہو کر پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے.اور جو ذ کی الذہن ایسی جان ہار مہموں کا علم بلند کیا کرتے ہیں اُن کی سوچ کیسی بین الاقوامی.اُن کا حوصلہ کس قدر ارفع و بلند اور اُن کے عزائم کیسے استادہ گیر قسم کے ہوتے ہیں وہ جب ملت انسانیت کی فلاح و بہبود کی کسی مہم پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو کس طرح داتے 9

Page 6

در تے.قدمے سخنے اُسے پروان چڑھانے کے لئے وقف ہو جایا کرتے ہیں.مخالفتیں کس سبک سری سے اُن سے پہلو بچایا کرتی ہیں.اور وہ مصائب و آلام سے مردانہ وار کھیلتے ہوئے کس طرح بہیمیت و بر بریت کے دریاؤں میں سے اپنی پناہ میں آجانے والوں کو ان کا دامن آلودہ ہوئے بغیر انہیں سلامتی کے گھاٹ تک لے کر پہنچ جاتے ہیں.میرا خدا چودھری ظہور احمد صاحب کو عمر میں برکت دے.انہوں نے بڑی محبت احتیاط اور دیانت سے جدو جہد آزادی مسلمانان کشمیر کی اولین مہم کے ان اوراق کو محفوظ رکھا اور وقت آنے پر بلاشبہ ہر چیز اور ہر بات کے منظر عام پر آنے کے لئے بھی ایک وقت معین ہے ) یہ تمام دست آویزات من وعن (اس عالمی مسئلہ سے حقیقی ہمدردی اور دلچسپی رکھنے والوں کے ) سامنے رکھ دیں.میں تو اسے مسلمانانِ کشمیر کی تقدیر کی شومی ہی کہوں گا کہ اُن کی رستگاری کے لئے جب بھی کوئی مخلصانہ تحریک پوری دردمندی سے شروع ہوئی.اس کے نقطہ عروج کو پہنچتے ہی سیم وزر کی شہہ پر حریفاں بدخواہ کا ایک گروہ کشمیر دوستی ہی کا نعرہ لگا کر اس کے سپوتا ثر کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا گویا ہر دفعہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے مسلمانان کشمیر کی آزادی و فلاح سب سے پہلی.موثر اور ہمہ گیر ہم تو آل انڈیا کشمیر کمیٹی“ ہی نے شروع کی تھی جس کی باگ ڈور ملت اسلامیہ کے مایہ ناز فرزند اور جماعت احمدیہ کے امام (صدر کمیٹی ) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کے ہاتھ میں تھی اور جس کی پشت پر علامہ اقبال.خواجہ حسن نظامی.نواب سر ذوالفقار علی.نواب محمد ابراہیم خاں آف کنج پورہ.مولانا سید حبیب.مولانا مہر.مولا ناسالک.ڈاکٹر شفاعت احمد.مولانا 10

Page 7

حسرت موہانی.مولانا شفیع داؤدی.ڈاکٹر ضیاء الدین.ایچ.ایس سہروردی.چودھری عبدالمتین - سرعبداللہ ہارون و غیر ہم ایسی ( متعدد ہندوستان کی ) مقتدر و نامور ہستیاں تھیں.جب یہ کمیٹی انتھک جدوجہد کے بعد مسلمانان کشمیر کے حقوق منوانے میں کامیاب ہوگئی.جب اس کی پُر خلوص سرگرمیاں کے سامنے ریاستی بربریت نے گھٹنے ٹیک دیے اور لیلائے کامرانی چند قدم پر مجاہدین حریت کے انتظار میں بے قرار ومنتظر صاف دکھائی دینے لگ گئی تو عین وقت پر غیر مسلم حکمران کے خریدے ہوئے کچھ پیشہ ور سیاسی شاطر مذہبی جیسے پہن کر اس میں آن کو دے اور فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دے کر کشمیر ایجی ٹیشن کو اپنے ہاتھ میں لینے کا ہر بونگ مچا دیا.یعنی وہی لوگ جو جواہر لعل نہرو.مسٹر گاندھی سبھاش چندر بوس اور سردار پٹیل کو اپنا سیاسی پیر مانتے کبھی ذرا نہ شرمائے وہی ایک کلمہ گو کی قیادت پر چراغ پا ہو گئے.عوام نے اُن لوگوں کی معاندانہ سرگرمیوں کو دیکھ کر بار بار کہا.”آپ ہمارے نمائندے نہیں ہیں ہمیں آپ کی راہنمائی کی ضرورت نہیں ہے“.شیخ محمد عبداللہ پورے زور سے چلائے:.حکومت مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا چاہتی ہے چند مسلمان لیڈ ر حکومت کے دام فریب میں آکر مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کے شیرازے کو بکھیر کر اپنی ذاتی اغراض کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور سنی.شیعہ.اہلحدیث اور احمدی سوال اٹھارہے ہیں..چودھری غلام عباس بہتیرا گڑ ھے اور بار بار پکارے:.وو مجھے یہ دیکھ کر کہ مسلمانان کشمیر کے درمیان تفرقہ پردازی کی وسیع خلیج حائل ہوگئی ہے از حد صدمہ ہوا ہے اس وقت مسلمانوں پر دو را بتلاء و مصیبت ہے اور رہبران قوم کی ذراسی لغزش بھی تباہی کا حکم رکھے گی.موجودہ سوال قوم کا من حیث القوم سوال ہے اور نہ حکومت ہی نے گولیاں چلاتے 11

Page 8

،گرفتاریاں عمل میں لاتے اور تشدد کرتے وقت، فرقہ وارانہ تمیز سے کام لیا ہے.خدا را موقع کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھئے اور قوم کو افتراق سے بچائیے اور ایسی راہ اختیار کیجئے جس سے مسلمانانِ ریاست کی مشکلات حل ہوں اور آئندہ مظالم کا سدِ باب ہو لیکن ان پیشہ وروں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی...کشمیری رہنماؤں کو کیا خبر تھی کہ یہ جبہ پوش تو ہمیشہ گھر سے اپنی پگڑی بغل میں داب کر نکلتے ہیں اور دوسروں کو پگڑیاں اچھلنے پر انہیں ذرا افسوس نہیں ہوتا.اور پھر جوریاستی سکوں کی کھنک کے زیر سایہ جوڑ توڑ تھ کا فضیحتی.لپاؤ گی اور تشنت وافتراق کا سلسلہ چلا تو اسی وقت رکا جب سارا کھیل بگڑ گیا.سارا کام معطل ہو گیا اور غیر مسلم حکمران کی بے انصافیوں اور چیرہ دستیوں کے دانت مظلوم مسلمانان کشمیر کی گردنوں میں اور گہرے ھنس گئے.ان سیاسی شاطروں نے میدان مبارزت میں کو دتے ہی سب سے پہلے :....جہاں تہاں سے خواہ مخواہ سول نافرمانیاں بھڑ کا کر ایک موثر جد و جہد کے پائیدار نتائج کا دروازہ بند کیا.پھر کشمیر کمیٹی کی طرف سے مظلومین کشمیر کے مقدمات کی بلا معاوضہ پیروی کے لئے بھجوائے جانے والے نامور و مقتدر وکلاء کی بے لوث خدمات کا منہ چڑا یا.پھر ان کی جگہ روزانہ ساٹھ ساٹھ ستر ستر روپے محنتانہ طلب کرنے والے آئین دان بھجوا کر مقہوروں اور مجبوروں کی بے بسی و کم مائیگی کا مذاق اُڑایا.پھر اسلام خطرے میں ہے“ کا نعرہ لگا کر سادہ دل مسلمانوں کو خواہ مخواہ جیلوں میں ٹھونسوایا اور جب دیکھا کہ غیر مسلم ریاستی حکمران اور ہندو کانگرس کی تمام خواہشات پوری ہو چکی ہیں.ریاستی مسلمان پہلے سے بھی کہیں زیادہ احساس کمتری میں مبتلا ہو چکا ہے..اس کے 12

Page 9

جذبہ حریت کا ایک ایک انگ جھنجوڑا بلکہ توڑا جا چکا ہے حتی کہ مسلم کانفرنس بھی نیشنل کانفرنس کا لبادہ اوڑھ کر ان کے سیاسی پیروں کی شرن میں آگئی ہے تو یہ اپنا چھٹا کھر پاسنبھال یہ کہتے ہوئے پھر اپنی حشرت گاہوں میں جاد بکے.وو یہ والنٹیر زتو نشے سے صبر نہیں کر سکتا.قوم کی عزت وشان بیچ کر معافی مانگ کر ٹھنڈے گھر کا راستہ لیتا ہے.کیا نشے کے عادی افراد کے بل بوتے پر بھی کوئی قومی جنگ جیتی جاسکتی ہے.یقین..کہ کے ان بے لوث اور غیر جانبدارانہ اوراق کے آئینے میں یہ جبہ پوش بھی پوری طرح بر ہنہ ملیں گے.اس کہانی کے مؤلف ( چودھری ظہور احمد ) آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اُن خاموش مخلص اور دردمند کارکنوں میں سے ہیں جن کی نگاہوں نے اس اولین شعلہ حریت کو بھڑ کتے دیکھا اور جن کی نگاہوں کے سامنے حریفان حریت کی بدنیتیوں نے اس ایمان افروز کو کی آب و تاب پر وار کیے.ان کے دماغ و ذہن سے بہتر شاہد ان وارداتوں اور ہولنا کیوں کا اور کون ہوسکتا ہے.ہمیں آج تحریک کشمیر کے صرف چند لیڈروں ہی کے نام یاد ہیں صرف انہی کے جنہوں نے بصد اہتمام بار بار اپنے آپ کو کسی رنگ میں عوام کی آنکھوں کے سامنے رکھا لیکن یاد داشتوں کے کشکول میں تو کئی درجن مجاہدین حریت کی جاں سپاریاں محفوظ ہیں.جن کے ایثار کے ذکر خیر میں ان کے قلم نے ذرا انقباض یا بخل سے کام نہیں لیا...ویسے بھی دوچار افراد کی حقیقت ہی کیا ہے.ایسی ہمہ گیر مہموں کے لئے تو ہر مورچے مستعد.بے لوث.شجاع ایثار پیشہ کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے.کسی مورخ کو یہ کیونکر زیب دے سکتا ہے کہ اُن میں صرف چند ایک کے نام اُچک کر اُن کے سروں پر شہرت عام و بقائے دوام کا تاج پہنا دے اور باقی تمام کے چہروں پر فراموشگاری کا لیپ کر دے.13

Page 10

راقم الحروف کے نزدیک یہ اور اق صرف اسی لئے اہم نہیں ہیں کہ انہیں پڑھ کر مسلمانانِ کشمیر کی آزادی درستگاری سے دلی ہمدردی رکھنے والوں کو اس سلسلہ کی اولین تحریک کے مقتدر قائد اور اُس کے رفقاء کار کے خلوص کی گہرائی و گیرائی ناپنے میں مدد ملے گی اس لئے بھی اہم ہیں کہ اس کتاب کے مؤلف نہ کوئی سیاسی آدمی ہیں اور نہ کوئی سیاسی عزائم رکھتے ہیں انہوں نے ان اوراق کو اب تک صرف تاریخ کے اہم دستاویزات سمجھ کر سینے سے لگائے رکھا ہے اور جو کچھ اُن کے کشکول میں محفوظ تھا اُس کا ایک حصہ بغیر کسی حاشیہ آرائی کے بے کم دکاست اپنے قارئین کے ہاتھوں میں دے دیا ہے.اللہ کرے اُن کی یہ خوش نیتی اس شعلہ کی کو کو اور تیز کرنے میں مدد دے سکے.1965ء میں یہ کمال مہربانی انہوں نے راقم الحروف کی التجا قبول کرتے ہوئے اس کہانی کے بعض اوراق ہفت روزہ ' لاہور کو اشاعت کے لئے مرحمت فرمائے.ان اقساط کو پڑھ کر جب اہل پاکستان کی طرف سے اس کہانی کو جلد از جلد کتابی صورت میں شائع کرنے کا تقاضا اور مطالبہ شدید ہو گیا تو اس عذر د شرط پر کہ میں اشاعت و طباعت کے معاملہ میں ابتدائی محمد بد بھی نہیں رکھتا ادارہ لا ہور ہی کو اس کی طباعتی نوک پلک سنوارنے کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی ) انہیں کتابی شکل دینا منظور کر لیا اور آج اس سلسلہ کی پہلی کوشش آپ کے ہاتھوں میں ہے.امید کہ آپ کا شوق اور مسلمانان کشمیر کی آزادی وفلاح سے آپ کی دلی دلچپسی پہلی نظر ہی میں راز پا جائے گی اس تحریک کے گیسو سنوار نے اور اس کے تارو پود کو الجھانے اور بکھیرنے میں کس کس کا ہا تھ تھا.لاہور ۱۸ رمئی ۱۹۶۸ء 14 ثاقب زیروی مد سر ہفت روزہ لاہور

Page 11

بسم الله الرحمن الرحيم عرض مؤلف میں نہ ادیب ہوں نہ قلم کار اور نہ کوئی چھوٹا یا بڑا انشا پرداز.اللہ تعالیٰ کے فضل سے گا ہے ما ہے ملک کے جرائد ورسائل میں بعض موضوعات پر مضامین لکھنے کا موقع ضرور ملتا رہا لیکن چند مضامین لکھ کر نہ کوئی شخص ادیب بن سکتا ہے نہ مصنف ومولف.یہی حال میرا ہے اس پر بھی میری علمی بے بضاعتی کو “ لکھنے کا حوصلہ کیونکر ہوا.سچ پوچھیں تو اس کا اصل باعث صرف اور صرف ایک اہم ترین قومی امانت کو قوم کے سپر د کر دینے کے شدید احساس کے سوا اور کچھ نہیں.میرے وہ قابل صد احترام بزرگ اور ملت اسلامیہ کی وہ مقتدر ہستی جو اس کہانی کی روح درواں ہے اور جن کے ہاتھوں اس کہانی کی داغ بیل پڑی اپنی ان گنت ملی مصروفیات کے باعث اپنی بابرکت زندگی میں ان اوراق کو یکجا طور پر شائع کرنے کی فرصت نہ نکال سکے بسا ممکن ہے ان کا بلند ضمیر اس لئے بھی اس طرف متوجہ نہ ہوا ہو کہ یہ ساری کہانی تو انہی کی بے لوث و پُر خلوص مساعی جلیلہ کے گرد طواف کر کے کہانی کے مقام تک پہنچتی تھی.حتی کہ قضا و قدر کا بلا وا آ گیا اور اُن کی پاکیزہ روح ”لبیک یا حبیبی ” لبیک یا حبیبی پکارتی ہوئی اپنے رفیق اعلیٰ کی طرف پرواز کر گئی.اور اُن کے کتنے ہی وہ با اعتماد مخلص رفقاء کا ر بھی اللہ کو پیارے ہو گئے جنہوں نے اپنے بیدار مغز قائد کی رہنمائی میں حریت وایثار کا یہ پودا اپنے خون سے سینچا 15

Page 12

تھا.آج کشمیر کا مسئلہ (پاک و بھارت دونوں ملکوں میں ) جس گہری دلچسپی اور اہمیت کا حامل ہے اس کی تشریح و توضیح کی چنداں ضرورت نہیں ہر روز نہیں تو ہر دوسرے یا تیسرے دن اس پر کسی نہ کسی جریدے میں کوئی اداریہ.افتتاحیہ تبصرہ یا تجزیہ ضرور شائع ہوتا رہتا ہے.مجھے یہ دیکھ کر اکثر دکھ ہوتا تھا کہ دانستہ یا نادانستہ.عدم واقفیت کی بنا پر یا سیاسی مصلحت اندیشیوں کے تحت مسلمانان کشمیر کی آزادی وفلاح کے لئے اولین ہمہ گیر تحریک ( جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے شروع کی تھی) کے بارے میں اکثر غلط یا غلط نہی و غلط اندیشی پرمبنی باتیں شائع ہوتی ہیں.میں نے مقدور بھر ان غلط فہمیوں کے ازالہ کی کوشش بھی کی.بیشتر جرائد کو خطوط بھی لکھے جن میں سے اکثر شائع بھی ہوتے رہے جس کے لئے میں متعلقہ جرائد کے مدیران ادارہ تحریر کا تہ دل سے ممنون ہوں.لیکن یہ سلسلہ ان مراسلتوں سے بھی نہ رکا تو میرے بعض مخلص کرم فرماؤں کی طرف سے یہ اصرار شروع ہوا کہ اب اصلاح و تصحیح کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے.کہ تاریخ آزادی کشمیر کے ابتدائی حالات کو ( جو میری آنکھوں نے دیکھے ہیں اور جن کے دستاویزی ثبوت بھی میرے پاس محفوظ ہیں ) یا داشتوں کے کشکول سے نکال کر کسی موقر جریدہ کے وقیع کالموں میں محفوظ کر دیا جائے.تا کہ ان لوگوں کے آب زر سے لکھے جانے کے لائق کا رنامے بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہو جائیں جنہیں کسی تعصب یا سیاسی اندیشیوں کے باعث مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے.یقیناً ان سے ایک دیانتدار مورخ کو تحریک آزادی کشمیر کا حقیقی پس منظر و پیش نظر تر تیب دینے میں بہت مدد ملے گی! جب تک یہ باتیں اور واقعات گوشہ ہاء ذہن میں محفوظ تھے بہت مجمل بلکہ بہت مختصر محسوس ہوتے تھے لیکن جب انہیں ایک باقاعدہ مضمون کے سانچے میں ڈھالنے بیٹھا تو یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا گیا.جنہیں برادرم مکرم ثاقب صاحب زیروی نے بڑی محبت 16

Page 13

سے اپنے مؤقر جریدہ لاہور میں شائع کرنا شروع کیا ابھی لاہور میں اس کی چند قسطیں ہی شائع ہوئی تھیں کہ مشرقی پاکستان کے ایک وقیع ماہنامے نے بھی ان کا بنگالی ترجمہ شائع کرنا شروع کر دیا اور اس کے ساتھ ہی وطن عزیز کے دونوں حصوں سے اس ساری کہانی کو جلد از جلد کتابی صورت میں شائع کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا.میں نے اس مضمون کی ترتیب 1965ء میں شروع کی تھی مگر میری مصروفیات کے باعث یہ سلسلہ تین سال کے طویل عرصے پر پھیل گیا حتی کہ میری مقدرت واستطاعت کو ایک عظیم محسن کے کریمانہ التفات کا سہارا میسر آ گیا اور میں اسے بالآ خر کتابی صورت میں پیش کرنے میں کامیاب ہو گیا.وہ جو اپنے فضل سے اکثر اوقات اپنے بے مایہ.نالائق اور بے بضاعت بندوں کی.کمزور مساعی میں بھی برکت ڈال دیتا ہے آخر میں میری بھی اُسی جلیل وقد بر خدا سے عاجزانہ التجا ہے کہ وہ اپنے لطف و کرم سے میری اس ناچیز کوشش کو بھی قبول فرمالے.آمین ثم آمین خاکسار ظہور احمد 17 ۲۲ رمئی ۱۹۶۸ء

Page 14

18

Page 15

وو لیکن جب یہی ویکفیلڈ ملازمت سے علیحدہ ہوئے اور انہوں نے اپنی یاداشتیں“ شائع کیں.تو وہ یہ لکھنے پر مجبور ہوئے کہ ۳۱ء میں بر پا ہونے والے فسادات میں جتنے بھی کشمیری مارے گئے.ان سب کے گولیاں سینوں میں لگی تھیں حرف آغاز میرے کانوں میں آج بھی اسی طرح گونج رہا ہے (سابق ) پنجاب کے ایک معزز ترین خاندان کے ایک نوجوان کی زبان سے سنا ہوا یہ واقعہ کہ پہلگام میں چند روزہ قیام کے بعد جب مسافر لوٹنے لگا اور اُسے سامان وغیرہ اُٹھوانے کے لئے مزدوروں کی ضرورت پیش آئی تو ریاست کے رائج الوقت قانون کے مطابق ( کہ مزدور مہیا کر نا سرکاری کارندوں کا کام تھا ) انہیں اطلاع دی گئی کچھ مزدور بھجوا دیئے گئے جنہیں سامان دے دیا گیا.انہیں مزدوروں میں سے ایک شخص نے ایک ٹرنک اُٹھایا.تھوڑی دور جانے کے بعد اس نے ٹرنک ایک اونچی جگہ پر رکھا اور ٹھہر گیا.اور لمبی آہ بھر کر بولا ”ہائے موجے ( یعنی ہائے ماں ) اُس کی اس آواز میں اس قدر درد بھرا ہوا تھا کہ سننے والے کا دل لرز گیا.وہ اس مزدور کی طرف متوجہ ہوا.اور اس حسرت آفرین آہ کی وجہ دریافت کی تو جواب ملا.وو جناب میں مزدور نہیں ہوں میری آج شادی ہے.صبح میری برات جارہی تھی 19

Page 16

میں اس برات کا دولہا تھا.لیکن سرکاری آدمی مجھے بیگار میں پکڑ کر یہاں لے آئے ہیں.ایک طرف براتی میرا انتظار کر رہے ہوں گے.دوسری طرف لڑکی والے پریشان ہوں گے کہ برات ابھی تک کیوں نہیں پہنچی اب سرکاری آدمی جب تک مجھے فارغ نہ کریں میرا ان تک پہنچنا محال ہے......شعلہ حریت کیا خبر تھی کہ یہ درد ناک کہانی ایک تیر بن کر اُس دردمند نو جوان کے قلب و جگر کو چھید دے گی اور اُس کے دل و دماغ میں مظلومین کشمیر کے لئے ایسا در داور اُن کے روگ کاٹنے کے لئے ایسی ہمت اور استقامت پیدا کر دے گی کہ یہ میں ہی اُن کی جدو جہد حریت کا حرف آغاز بن جائے گی....اس کہانی کا ایک ایک لفظ اُس کے قلب وروح کی گہرائیوں میں اُتر گیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں مظلوموں کی رستگاری کے لئے ایسا عزم صمیم بن کر اُبھرا اور خدائے ذوالجلال نے بھی اُس کے اس عزم صمیم کو اپنے فضل وکرم ونصرت سے ایسا نوازا کہ انہی محکوم و مجبور ریاستی عوام کے سینوں میں شعلہ جد و جہد آزادی پوری آب و تاب سے بھڑک اٹھا اور اُس نوجوان کو خدائے ذوالجلال نے اہل کشمیر کی ایسی حقیقی خدمت کی توفیق دی...جو برصغیر پاک وہند کے کسی بھی لیڈر کے حصہ میں نہ آسکی.ٹھیک نو سال بعد اس واقعہ کے ٹھیک نو سال بعد یہی قابل احترام نو جوان ایک دفعہ پھر کشمیر تشریف لے گیا.لیکن اب وہ ایک عام انسان نہ تھا.بلکہ (اپنے رب کی طرف سے ) ایک خاص منصب پر فائز ہو چکا تھا.نسلِ انسانی کے لئے محبت.درد اور تڑپ اُسے بارگاہ ایزدی سے بطور خاص ودیعت ہوئے تھے.اس سفر میں اُس کی آنکھوں نے پھر اسی قسم کے روح فرسا حالات دیکھے 20 20

Page 17

جن سے ان لوگوں سے اُس کی ہمدردی ہزار چند ہوگئی.اور ریاست کے باشندوں کے حالات کا بہت گہرا مطالعہ کرنے کا موقع ملا.اُس نے غیر محسوس طور پر اپنے متعلقین.حواریوں اور دوستوں سے اس مظلومیت کے سیاق وسباق کے بارے میں مواد فراہم کرنا شروع کر دیا.تین نصیحتیں اور پھر ایک دن اپنی اس لگن کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اُس نے مظلومین کشمیر کو تین باتوں کی طرف توجہ دلائی:.اول باہمی اتحاد و اتفاق دوم تعلیم پر زور اقتصادی حالت کی بہتری دراصل اس معزز اور قابل صد احترام شخصیت نے اُس ( سب سے پہلے ) دولہا والے سانحہ کے بعد ہی سے اپنی تمام دلی تو جہات کو ان مظلوموں کی امداد کی طرف مبذول کر دیا تھا.کشمیر میں سردیوں کے موسم میں جب ساری وادی اور پہاڑ برف کی دبیز چادریں اوڑھ لیتے اور ہر نوع کا کاروبار معطل ہو جا تا اکثر ( غریب ) کشمیری ان دنوں میں محنت مزدوری کرنے کے لئے پنجاب کا رُخ کیا کرتے تھے.تاجر لوگ اپنی تجارت کا مال لیکر پنجاب آجاتے اور اسے فروخت کرنے کے بعد موسم صاف ہوتے ہی یہاں کا مال وہاں لے جاتے.اہل کشمیر کی اس آمد و رفت سے اس معز ز نوجوان کو ان کے حال و استقبال کے مطالعہ کے اور زیادہ مواقع میسر آئے.چنانچہ سب سے پہلے نیک نفس نوجوان نے اہل کشمیر کو تلقین کی.کہ وہ باہمی جھگڑوں کو ختم کر دیں.اس کے بعد انہیں اتحاد واتفاق کی برکات سے روشناس کرایا اور اپنے جھگڑوں کو با ہمی گفت و شنید سے طے کرنے پر زور دیا.21

Page 18

اس کے بعد انہیں بڑے زور سے یہ تحریک کی کہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں درس گاہوں میں بھجوائیں.جو بچے زیادہ ہونہار ہوں انہیں پنجاب اور دوسرے صوبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھجوائیں.بلکہ اس کارِ خیر میں اُن کی ہر ممکن مالی اعانت کا وعدہ بھی کیا.اس طرح اُن کی اقتصادی بدحالی کو دُور کرنے کے لئے انہیں پہلا سبق یہ دیا.کہ بد رسوم کو (جو سالہال سال سے اُن میں چلی آتی تھیں ) دُور کیا جائے.کیونکہ ان کی وجہ سے غریب لوگ مالی لحاظ سے اتنے زیر بار ہو جاتے تھے کہ ساری عمر قرضہ ہی سے چھٹکارا نہیں حاصل ہوتا تھا.اس کے بعد انہیں (اپنے آپ کو ) محنت کا عادی بنانے اور بے کار نہ رہنے کی طرف ترغیب دلائی.بیداری کی عام رو رفتہ رفتہ اصلاح احوال کی یہ چنگاری اندر ہی اندر سلگنے لگی اور ان باتوں کا چرچا ہونے لگا.لوگوں کے دلوں میں یہ احساس گہرا ہوتا چلا گیا کہ انہیں اپنی حالت بدلنی چاہیے.اور جب تک وہ ان تین باتوں پر زور نہ دیں گے آئندہ ترقیات کی راہیں کبھی ہموار نہ ہوسکیں گی.چنانچہ بعض لوگوں نے اپنے بچے تعلیم کی غرض سے قریبی درسگاہوں میں بھجوانے شروع کئے.اور ان میں سے بعض نے تو ابتدائی پرائمری تعلیم کے بعد ہی اپنے لڑکوں کو پنجاب بھجوا دیا.جن میں سے بیشتر کی پشت پناہی اسی نیک سرشت کے مالی وظائف کرتے تھے.حاجی عمر ڈار شوپیاں سے چند میل کے فاصلے پر ایک مشہور گاؤں آسنور نامی ہے.اس گاؤں میں ڈار قبیلے کا ایک معزز گھرانا آباد تھا.یہ لوگ اپنے سارے علاقہ میں معزز خیال کئے جاتے تھے.اس لئے ان کی مالی حالت دوسرے سے بہتر تھی.حاجی عمر ڈار کا نام اب تک لوگوں کے دلوں 22 22

Page 19

پر نقش ہے.اس جواں ہمت بوڑھے نے اس بزرگ کی اس کامیاب نصیحت سے متاثر ہوکر پچاس سال کی عمر میں لکھنا پڑھنا شروع کیا اور اپنے گاؤں میں تعلیم بالغاں کا انتظام کیا.حاجی عمر ڈار کے ایک فرزند خواجہ عبد الرحمن ڈار تھے انہوں نے اس بزرگ کے مشن کو کامیاب بنانے کے لئے سارے علاقہ کا دورہ کیا.مسلمانوں کو منظم کیا ان کے اختلافات کو افہام و تفہیم سے حل کیا اور بڑوں کو تعلیم کے فوائد بتائے.الغرض آہستہ آہستہ یہ گاڑی چلنا شروع ہوگئی.جموں کے علاقہ میں بھی احباب نے یہ تعمیری تعلیمی سرگرمیاں شروع کر دیں جن میں ایم یعقوب علی ( کنٹریکٹر ) اور ایم فیض احمد ( کنٹریکٹر ) کی حیثیت نمایاں تھی.ان کے بعض اور ساتھیوں نے بھی اس قومی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.کسانوں کی حالت زار اُن دنوں کشمیر میں دستور تھا کہ کسان سارا سال محنت کرتے.شالی ( دھان ) کشمیری کی بڑی فصل سمجھی جاتی ہے.جب یہ فصل تیار ہو جاتی تو سرکاری ملازم آ جاتے.ساری فصل پر قبضہ کر لیتے.غلہ کو پورا بھی نہ تولتے.پھر اس کی قیمت بھی بہت کم لگاتے.اور یوں سارے کا سارا شالی اسٹور میں چلا جاتا.اکثر کسان اپنی گزراوقات کے لئے بھی اس میں سے کچھ نہ رکھ سکتا.بلکہ اپنی ضرورت کے وقت کئی میل سفر کرتا.کئی دن دھکے کھاتا.پھر بعد از ہزار رسوائی کہیں وہی غلہ جو اُس نے حکومت کے پاس ایک روپیہ من کے حساب سے بیچا ہوتا تھا.اُسے دور وپے اور بعض اوقات اس سے بھی مہنگے داموں مل پاتا.قانون کی اطاعت شدید احساس ذلت کے بعد بیداری کی کروٹوں کو جائز حدود میں رکھنا بھی کسی تحریک کی کامیابی کی اولین ضمانت ہوتا ہے.اسی لیے ساتھ کے ساتھ اہل کشمیر کو بڑے مؤثر طریق 23 23

Page 20

سے یہ تلقین بھی جاری رہی کہ اپنی ہر قسم کی اصلاحی سرگرمیوں کو قانون کے اندر رکھیں.کیونکہ ابھی وہ اتنے کمزور اور غیر منظم ہیں کہ ذراسی بات کی آڑ لے کر بھی حکومت انہیں کچل سکتی ہے.جس کے نتیجہ میں آزادی کی یہ پائدار جد و جہد کئی سال پیچھے جاپڑے گی.لارڈ ریڈنگ کو درخواست اُس وقت تک کشمیر کے مسلمانوں کی کوئی خاص تنظیم نہ تھی.۱۹۲۴ ء میں اس سلسلہ میں ایک نہایت ہی جرات مندانہ قدم اُٹھایا گیا.لارڈ ریڈنگ ہندوستان کے وائسرائے تھے.وہ سیر و تفریح کے لئے کشمیر گئے.تو وہاں چند مسلمانوں نے انہیں ایک میموریل پیش کیا جس میں اپنی حالت زار کا نقشہ پیش کرنے کے بعد مطالبہ کیا گیا کہ:.کسانوں کو زمین کے مالکانہ حقوق دیے جائیں.انہیں ملازمتوں میں بھی زیادہ سے زیادہ حصہ دیا جائے.مسلمانوں کی تعلیم کا بہتر انتظام کیا جائے.اور بیگار کوکلیۂ ختم کیا جائے.مہاراجہ نے اس اقدام کو بہت بُرا خیال کیا میموریل پر دستخط کرنے والوں کو سرزنش ہوئی بعض کو تو ریاست بدر کر دیا گیا.۲۵ ء میں مہاراجہ پرتاپ سنگھ لا ولد مرا تو اس کا بھتیجا ہری سنگھ حکمران ہوا.تنظیم و تحریک خواجہ عبد الرحمن ڈار اب تک اپنے علاقہ کے تمام کسانوں کو منظم کر چکے تھے.تعلیم کا بھی چرچا ہونے لگا تھا.یہ باتیں حکومت کشمیر کے لیے بہت ناگوار تھیں.کیونکہ اس بیداری میں غلامی کی زنجیریں کٹ جانے کا راز مضمر تھا.لیکن عبدالرحمن ڈار چونکہ خلاف قانون کوئی 24

Page 21

بات نہ کرتے تھے.اس لیے اُن پر ہاتھ ڈالنا مشکل تھا.بالآخر بہت سوچ بچار کے بعد پولیس نے اپنا آخری ( تیر بہدف نسخہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا.اور انہیں زمرہ بدمعاشاں میں شامل کر کے اُن کی تعمیری سرگرمیوں کو غیر مؤثر بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا.تیسرا سفر کشمیرا بھی اُمید و بیم کے اس دور میں سے گزر رہا تھا کہ ۲۹ء میں وہی بزرگ ( جن کا ذکر اس ساری مہم کی جان ہے ) تیسری بار کشمیر تشریف لے گئے.انہیں جہاں اس سفر میں یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی کہ اب کشمیری مسلمانوں میں عام بیداری پیدا ہو چکی ہے اور ایک لمبے عرصے سے نشانہ جو روستم رہنے کے باعث خودداری کی رُوح کھو بیٹھنے والے کشمیری زمینداروں میں از سر نو احساس خودی پیدا ہو چلا ہے.یہ جان کر انہیں انتہائی رنج بھی ہوا...کہ عبد الرحمن ڈار جو اس جدو جہد کے لیڈر تھے.ان کو پولیس طرح طرح سے زچ کر رہی ہے.اوران جیسے معزز فرد کو بھی بد معاشوں کی فہرست میں شامل کرنے کی کوششیں زیرعمل ہیں.آپ نے فوری طور پر اپنے سکرٹری 1 ( مولانا عبدالرحیم دردایم.اے) کو ( جن کو بعد میں کشمیریوں کی خدمت کا اللہ تعالیٰ نے خوب خوب ہی موقع دیا ) کشمیر کے انسپکٹر جنرل پولیس کے پاس یہ واضح کرنے کے لئے بھجوایا.کہ عبدالرحمن ڈار ایک نہایت شریف شہری ہیں.معزز زمین دار اور ا چھے تاجر ہیں.ان کا خاندان اپنے علاقہ میں ہمیشہ ہی سے معزز خیال کیا جاتا ہے.اُن کے خلاف یہ خطر ناک تعزیری اقدامات محض اُن کی طرف سے کسانوں کی حمایت پر برہم ہوکر کیے جارہے ہیں.انسپکٹر جنرل پولیس گفتگو سے مطمئن ہوئے اور کہا کہ وہ اتحاد اور 25 25

Page 22

بیداری کی کوششیں بے شک جاری رکھیں لیکن ایسی اکساہٹوں سے بازرہیں جن سے کسی قسم کی شورش پیدا ہو سکے.آئی.جی پولیس نے ہر قسم کی ناجائز تکلیف کے ازالہ کا وعدہ بھی کیا.اس بزرگ شخصیت کی طرف سے جہاں مسلمانانِ کشمیر کو یہ تلقین کی جارہی تھی کہ وہ تعلیم کی طرف توجہ کریں.وہاں انہیں یہ بھی تحریک کی جاتی تھی کہ وہ ریاست کی ملازمتوں میں زیادہ سے زیادہ آنے کی کوشش کریں تاکہ اپنی قوم کے افراد کی خدمت کر سکیں.اس زمانہ میں ریاست کی کلیدی آسامیوں پر مسلمان خال خال ہی متعین تھے.اور اُن میں بھی صرف تین چار ہی ایسے تھے جو اخلاقی جرات رکھتے تھے.حکومت کے دوسرے تمام بڑے عہدے ڈوگروں اور کشمیری پنڈتوں کے قبضہ میں تھے.خلیفہ عبدالرحیم کی خدمات خلیفہ عبد الرحیم ( جو بعد میں حکومت جموں وکشمیر کے ہوم سیکرٹری بنے ) انہی چند مسلمان ریاستی افسروں میں سے ایک تھے.جن کی قومی خدمات کو مسلمانان جموں وکشمیر کبھی فراموش نہیں کر سکتے.یہ اُن دنوں کی بات ہے جب کہ ایلین بیز جی اور مسٹر ویکفیلڈ ریاست کے وزراء میں شامل تھے.اور مہاراجہ پر چھائے ہوئے تھے.خلیفہ عبدالرحیم جو مسلمانوں کی حالت زار سے بخوبی واقف تھے.اپنی قابلیت ، محنت اور دیانت داری کی وجہ سے اپنے بالا افسران یعنی وزراء کے دلوں میں بھی ایک خاص مقام پیدا کر چکے تھے.انہوں نے ان وزراء کے سامنے مردم شماری کے اعداد و شمار رکھے.اور اس کے ساتھ ہی ریاستی ملازمتوں میں ان کے تناسب ( کا گوشوارہ) بھی رکھا.جو آٹے میں نمک کی حیثیت بھی نہ رکھتا تھا.ہند وساری 26

Page 23

ریاست پر چھائے ہوئے تھے.تجارت پر تو کلیہ ہندوؤں ہی کا قبضہ تھا.پر لیس اور پلیٹ فارم کی بھی کوئی آزادی نہ تھی.انجمنیں بنانے کی ممانعت تھی.مسلمانوں کے اوقاف پر ریاست کا قبضہ تھا.بعض مساجد گوداموں کے طور پر استعمال ہورہی تھیں.یہ ساری باتیں بیز جی اور مسٹر ویکفیلڈ کے نوٹس میں لائی گئیں.خواجہ غلام نبی گلکار ۲۹ ء کے قیام کشمیر کے دوران میں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اپنے اس ہمدرد و غم گسار سے ملاقات کے لئے آتے رہے.سرینگر میں نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیدار ہو چکے تھے.انہی میں ایک باہمت جوان ”خواجہ غلام نبی گل کار تھے.جنہوں نے یہ عہد کیا خواہ کچھ بھی ہو میں نو جوانوں کو منظم کر کے ہی دم لوں گا..پھر ہم سب مل کر مسلم نو جوانوں کو کالجوں میں داخلہ کے لئے سہولتیں بہم پہنچائیں گے تا وقتے کہ قوم اپنی حالت کو بدلنے کے قابل ہو سکے.“ درس القرآن کا اجراء سری نگر میں دو پرانے وکیل مسلمان بھی تھے.ان میں سے ایک مولوی محمد عبد اللہ تھے اُس بزرگ کے ساتھ ان وکیل صاحب کے تعلقات بہت قدیم سے چلے آرہے تھے.انہوں نے بھی ان کا اثر قبول کیا اور قرآن مجید کے درس کا سلسلہ شروع کر دیا.جس میں شامل ہونے والوں کو وہ تمام باتوں کی تلقین کرتے جنہیں فروغ دینے کے لئے اس بزرگ نے ہمیشہ زور دیا تھا.درس میں لوگوں کی حاضری روز بروز بڑھتی چلی گئی.پہلے وکیل صاحب 27

Page 24

کی بیٹھک میں تین چار نو جوان آنے شروع ہوئے پھر پندرہ میں ہوئے.پھر دوسرا کمرہ بھی استعمال ہونے لگا.آخر مکان کے سامنے کی ساری سڑک بھی مردوں سے بھر جانے لگی.یہ ہما ہمی اور سرگرمی ہندو راجہ کی ناراضگی کا باعث بنی.چنانچہ ٹریفک کے رکنے کا بہانہ کر کے اس سلسلہ کو حکماً بند کر دیا گیا.ریڈنگ روم پارٹی مگر خواجہ غلام نبی گل کار کب نچلے بیٹھنے والے تھے.انہوں نے فوراً فتح کدل میں ایک ریڈنگ روم کھول ڈالا.اس کے با قاعدہ نمبر بنائے اور ریڈنگ روم پارٹی کے نام سے ایک جماعت قائم کر لی.جو بظاہر وہاں کتب کے مطالعہ کے لئے جمع ہوتے تھے.لیکن ان کا اصل کام مسلمانوں کو منظم کرنا تھا.نوجوانوں کے لئے تعلیم کے مواقع مہیا کرنا.اور انہیں غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے تیار کرنا تھا.جب شیخ محمد عبد اللہ شیر کشمیر ) علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہو کر آئے.تو وہ اس پارٹی کے صدر اور خواجہ غلام نبی گلکار جنرل سکرٹری چنے گئے.اور کام کی رفتار خاصی تیز ہوگئی.ینگ میز مسلم ایسوسی ایشن چند سال پہلے جموں میں باہمت لوگوں نے ” ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن“ کے نام سے ایک جماعت بھی قائم کر لی تھی.جس کے سالانہ جلسے منعقد ہوتے تھے.باہر سے علماء کو بلوا کر تقاریر کروائی جاتی تھیں.اس بزرگ کے نمائندے بھی ایسوسی ایشن کی درخواست پر تقاریر کرنے کے لیے جاتے جو مسلمانوں کے دلوں کو گرماتے اور جد و جہد آزادی کو اور تیز کر آتے تھے.ایم یعقوب علی.شیخ غلام قادر.آغا غلام حیدر.چودھری غلام عباس.سردار گوہر رحمن اور میاں محمد ابراہیم وغیر ہم سب اس انجمن سے متعلق رہے ہیں.جو علمائے ہند وقتاً فوقتاً اس 28

Page 25

ایسوسی ایشن کے جلسوں میں ولولہ انگیز تقاریر فرماتے رہے.اُن میں ڈاکٹر مفتی محمد صادق.خواجہ حسن نظامی.مولانا محمد علی ایم اے.مولانا محمد یعقوب.علامہ حافظ روشن علی.مولا نا عبد الرحیم نیر ایسے جید علماء کے اسمائے گرامی سرفہرست ہیں.ریاست جموں و کشمیر میں مسلمان بھاری اکثریت میں تھے.یعنی کشمیر کے صوبہ میں تو پچانوے فی صد تھے اور جموں وغیرہ کے صوبہ کو ملا کر بھی اُن کی آبادی ستر فیصد سے زائد تھی لیکن ساری ریاست پر ڈوگرہ خاندان کا راج تھا.فوج ساری کی ساری ڈوگرہ جوانوں پر مشتمل تھی.سرکاری ملازمتوں پر کشمیری پنڈت چھائے ہوئے تھے.تجارت ہندوؤں کے ہاتھ میں تھی.مسلمان صرف غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے کے لئے تھے.جموں شہر کے سوا جہاں گنتی کے چند مسلمان خاندان کھاتے پیتے گھرانوں میں شمار ہوتے تھے.اس صوبے کے سارے مسلمانوں کی حالت اچھوتوں سے بدتر تھی مسلمانوں کو اس نا گفتہ بہ حالت تک پہنچا دینے کے باوجود جب ریاستی حاکم نے یہ دیکھا کہ غربت و کم پرسی کی یہی آہیں اندر ہی اندر شعلے اگلنے لگی ہیں.اور جگہ جگہ حصول آزادی کی چنگاریاں سلگنے لگی ہیں تو اُس نے سوچا کیوں نہ ان سارے مسلمانوں کو شدھ کر کے ہندوہی بنالیا جائے.نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری.واضح رہے ساٹھ سال قبل بھی کشمیر کے ایک متعصب راجے نے یہی نسخہ مسلمانوں کی جد و جہد تربیت سے منتقلاً نجات پانے کا آزمایا تھا.چنانچہ بیرون ریاست کے مہاشے اور بھکشو درآمد کئے گئے.اور کام شروع ہو گیا.اسلام پر جبر و تعدی کا یہ وار ہوتا دیکھ کر کشمیری مسلمان مضطرب ہو گیا کشمیر میں مسلمان مبلغین بجھوانے کے لیے پنجاب کے مسلمانوں کی خدمت میں درخواستیں کی گئیں.ایک عرضداشت اُس محترم و مکرم بزرگ کی خدمت میں بھی ارسال کی گئی.جس سے اب ریاست کا 29 29

Page 26

پڑھا لکھا مسلمان طبقہ ایک حد تک روشناس ہو چکا تھا.چنانچہ فوراً آدمی بھجوا دیے گئے.ہندو مہاشہ کے مقابلہ پر مسلم مباشہ اچھا وار کر سکتے تھے.گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے“.کے مصداق ہندومہاشہ کے مقابلہ پر مسلم مہاشے پر نظر پڑی اور پنجاب سے مہاشہ محمد عمر نامی ایک مستعد ( فاضل سنسکرت مسلم مبلغ کو وہاں بھیجوایا گیا.جس نے اس حوصلہ اور جرات سے ہندو مہاشوں کو للکارا اور ہر مقام پر انہیں دلائل کے واروں سے ایسا عاجز کیا کہ انہیں یہ میدان چھوڑتے ہی بنی.بیداری کے بہترین سال ۱۹۲۹ ء ۱۹۳۰۰ ء مسلمانان جموں و کشمیر کی بیداری سے بہترین سال شمار ہوتے ہیں.کیونکہ غلامی کے خلاف اعلان اور جنگ آزادی کی تیاری کے یہ فیصلہ کن سال تھے.اس کے بعدا ۱۹۳ ء میں تو اس جنگ کا با قاعدہ بگل بج گیا.جس نے کتنے ہی مردہ دلوں میں زندگی کی لہر دوڑا دی.مگر یہ سب کچھ ابھی تک ریاست کے اندر ہی ہو رہا تھا.ریاست سے باہر ہندوستان کے لوگ اپنے ان بھائیوں سے (سوائے معدودے چند دردمند دلوں کے ) غافل تھے.اور انہوں نے کبھی اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کی مشکلات کو سمجنے کی کوشش نہیں کی تھی.سرایلیسین بینرجی کی علیحدگی سرائیلیین بینر جی کا ذکر آچکا ہے.انہیں متاثر کرنے میں ممکن ہے بعض دوسرے عناصر نے بھی کام کیا ہو.لیکن اس کی بڑی وجہ خلیفہ عبد الرحیم اور اُن کے دوتین ساتھیوں کی مساعی تھیں.مسٹر بینر جی اگر چہ مسلمان نہ تھے.لیکن انصاف پسند تھے.انہوں نے اصلاح احوال کا ارادہ کیا.لیکن مہاراجہ کے گرد خوشامدی لوگ جمع تھے.انہوں نے مسٹر بینرجی کی پیش نہ جانے دی نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں ریاست جموں و کشمیر کی ملازمت سے علیحدہ ہونا پڑا.30 30

Page 27

۱۹۲۹ء کے اوائل میں ملازمت سے علیحدگی کے بعد سر بینرجی کا وہ معرکۃ الآراء مضمون اخبارات میں شائع ہوا جس میں مظلومین کشمیر کا صحیح نقشہ دکھایا گیا تھا اور ہر دعویٰ کی دلیل صحیح اعداد و شمار کے رنگ میں دی گئی تھی.ریاستی ہائی کمان کو شبہ تھا کہ یہ اعداد و شمار ( جن کا اکٹھا کرنا عرق ریزی کا کام تھا.خلیفہ عبدالرحیم جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے ) کی خفیہ کوششوں کا نتیجہ ہے لیکن ثبوت کوئی نہ تھا پھر یہ اعداد و شمار اُس وزیر نے شائع کروائے تھے.جسے ملازمت کے دوران میں اُن کے حاصل کرنے کا کلی اختیار تھا.لیکن بینر جی کے بعد خلیفہ عبدالرحیم بھی ہائی کمان کی نگاہوں میں مشکوک و مشتبہ ضرور ہو گئے.نعرہ حق بینر جی کے سلسلہ میں ایک بات کا بیان کردینا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جب اخبارات میں بیان شائع ہوا تو ریاستی باشندوں اور ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک دم جوش اور ہیجان پیدا ہو گیا.ریاست میں بھی ہر جگہ اس بیان کا چرچا ہورہا تھا.ہندو بڑی ہوشیار قوم ہے اُس نے اس کے اثرات کے ازالہ کے لئے فوراً ایک منصوبہ تیار کیا جس کی پہلی شق یہ تھی کہ ریاست کے ایک مسلمان وزیر اپنے مکان پر جموں کے سرکردہ مسلمانوں کو جمع کریں اور انہیں ترغیب دلائیں کہ وہ اس کی تردید میں ایک بیان دیں جس میں یہ لکھا جائے کہ ریاست جموں و کشمیر کے مسلمان ہر طرح سکھ اور چین کی زندگی بسر کر رہے ہیں.انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں اور یہ بھی کہ بینرجی کا بیان حقائق کے خلاف ہے.لیکن ایم یعقوب علی نے وزیر صاحب کو کوٹھی سے باہر آتے ہی بڑے دھڑلے سے نعرہ حق بلند کیا اور کہا کہ وو ہم جھوٹ کی تائید اور حق کی مخالفت کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں...66 اس پر کمزور طبائع بھی اُن کا ساتھ دیے بغیر نہ رہ سکیں اور ہندوؤں کی یہ سکیم فیل ہوگئی.31

Page 28

بزدلی کا الزام مسٹر ویکفیلڈ مہاراجہ کے خاص دوستوں میں سے تھے اس لئے عام طور پر یہی سمجھا جاتا تھا کہ مہاراجہ ان کی بات رد نہیں کر سکتے...خلیفہ عبد الرحیم مسٹر ویکفیلڈ کے پرسنل اسٹنٹ تھے وہ انہیں مسلمانوں کی حالت زار سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی تاکید کرتے رہتے تھے کہ مسلمانوں کو آپ ان کے جائز حقوق دلائیں اس وقت تک فوج میں ڈوگروں کے علاوہ راجپوت، نیپال کے گورکھے اور پنجاب کے سکھ تو بھرتی ہو سکتے تھے لیکن کسی کشمیری مسلمان کو بھرتی کرنے کی کلیۂ ممانعت تھی.مسٹر ویکفیلڈ جن کے ماتحت فوج کا محکمہ بھی تھا کا اپنا بیان ہے کہ:.وو میں نے بہت کوشش کی کہ مہاراجہ کشمیری مسلمانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی اجازت دے دیں.مہاراجہ نے مجھے جواب دیا کہ ایک دفعہ میرے دادا مہاراجہ رنبیر سنگھ نے کشمیریوں کی ایک پوری رجمنٹ تیار کی تھی.چھ ماہ تک اُن کی باوردی پر یڈ بھی سرینگر میں ہوتی رہی.اس کے بعد ساری رجمنٹ کو جموں کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا گیا.تو فوج کے افسران کا ایک وفد دربار میں مہاراجہ کے حضور پیش ہوا اور عرض کی حضور ہماری روانگی کے تمام انتظامات مکمل ہو چکے ہیں.لیکن ایک کمی رہ گئی ہے.66 راستہ میں ہماری حفاظت کے لئے پولیس کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا.ری کولیکشنز ” از جی.ای.ویکفیلڈ.بحوالہ سٹرگل فار فریڈم ان کشمیر از پریم ناتھ بزاز صفحه ۱۴۲ ) یه خود ساختہ تحقیر آمیز قصہ سُنا کر مہاراجہ ہری سنگھ نے ویکفیلڈ کو تو خاموش کرا دیا.لیکن جب یہی ویکفیلڈ ملازمت سے علیحدہ ہوئے.اور انہوں نے اپنی یادداشتیں شائع کیں.تو 32 32

Page 29

وہ یہ لکھنے پر مجبور ہوئے کہ:.۳ء میں برپا ہونے والے فسادات میں جتنے بھی کشمیری مارے گئے.ان سب کے گولیاں سینوں میں لگی تھیں“ ”ری کولیکشنز ” از جی.ای.ویکفیلڈ.بحوالہ ”سٹرگل فار فریڈم ان کشمیر از پریم ناتھ بزاز صفحه۱۴۲) گویا مہاراجہ نے جو افسانہ تراشا تھا.وہ سب جھوٹ پر مبنی تھا.کشمیری ہرگز بزدل نہ تھے اور اس بات کی تصدیق انہوں نے اپنے عمل سے کر دی تھی.۲۹ء کی گرمیوں جب یہی محترم بزرگ (جن کا ذکر خیر اوپر آچکا ہے ) کشمیر تشریف لائے ہوئے تھے.چند ذی عزت کشمیریوں کی طرف سے مہاراجہ کی خدمت میں ایک عرضداشت پیش کی گئی.جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ: ریاستی ملازمتوں میں مسلمانوں کے غیر تسلی بخش تناسب کا ازالہ کیا جائے.اس کے نتیجہ میں نجی طور پر یہ فیصلہ ہوا کہ ملازمتوں میں مسلمانوں کے لئے پچاس فیصد آسامیاں ریزرو کی جائیں گی.لیکن بعد میں اُسے پورا نہ کیا گیا.جس سے مسلمانوں کے دلوں میں ڈوگرہ حکومت کے لئے بداعتمادی اور بڑھ گئی.حوصلہ شکن جواب ریڈنگ روم پارٹی کا ذکر اوپر آچکا ہے.شیخ محمد عبد اللہ اس کے صدر اور خواجہ غلام نبی گل کار اس کے سیکرٹری تھے.مہاراجہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں شمولیت کی غرض سے انگلستان گئے ہوئے تھے.ان کی غیر حاضری میں ریاستی کا بینہ کام کر رہی تھی.ریڈنگ روم پارٹی نے دو آدمیوں کا وفد پیش کئے جانے کی اجازت مانگی جو دے دی گئی.کابینہ نے اس چھوٹے سے وفد کی گزارشات سننے کے بعد اس بات سے بالکل انکار کر دیا کہ مسلمانوں کے لئے آسامیوں 33

Page 30

کی تعداد مخصوص کر دی جائے.مگر یہ حوصلہ شکن جواب سن کر بھی یہ نو جوان مایوس نہ ہوئے.بلکہ انہوں نے اپنی سرگرمیوں کو اور تیز کر دیا.34

Page 31

ریاستی حکومت کے پیدا کردہ حالات کی وجہ سے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کسی وقت بھی جنگ کا باقاعدہ بنگل بج جائیگا اور حصول آزادی کے لئے مستقبل جنگ شروع ہو جائے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا.66 جنگ کا بگل جن لوگوں نے کشمیر کی سیاحت کی ہے اس کی وسیع عریض وادی.سرسبز و شاداب کھیت.چشمے اور باغات کو ہسار و دریا.آبشار میں اور جھیلیں اور گلمرگ کے مخملی میدان دیکھے ہیں.انہیں ماننا پڑے گا کہ وہ صاحب ذوق شہنشاہ ہند جس نے کشمیر کے متعلق کبھی یہ کہا تھا اگر فردوس بر روئے زمین است ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است اُس نے اس وادی جنت نظیر کی صد فی صد بچی تصویر پیش کی تھی.ہر چیز زرخیز کشمیر کی زمین جہاں زرخیز ہے وہاں اس خطہ میں رہنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے طباع ذہن بھی ودیعت کئے ہیں.۱۹۳۰ء کی بات چل رہی تھی.کشمیریوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر قسم کی ترقی کی صلاحیتیں موجود تھیں.اب ان صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لئے صرف ہوا 35

Page 32

ئے آزادی کی ضرورت تھی.جس سے وہ صدیوں سے محروم چلے آ رہے تھے.۱۹۳۱ء کی صبح طلوع ہونے تک کشمیر کے لوگوں میں زندگی اور بیداری کے آثار تو نمایاں نظر آنے شروع ہو چکے تھے.لیکن ابھی تک نہ اُن کی کوئی مرکزی تنظیم تھی.اور نہ انہیں ایسے وسائل ہی میسر تھے.کہ اپنے حقوق کے حصول کے لئے لگاتار جد و جہد کر سکیں.اس لئے از حد ضروری تھا کہ وہ ایک مرکزی تنظیم کی لڑی میں منسلک ہوں.ملک بھر میں جس کی شاخیں ہوں.اپنا پریس اور پلیٹ فارم ہو.لیکن اہل کشمیر ان تمام اہم نعمتوں اور وسیلوں سے محروم تھے.اور ریاست اپنے اندرونی معاملات میں خود مختار ہونے کے باوجود انگریزی راج کے ماتحت تھی.ہندوستان پر انگریز حکمران تھا.اگر کشمیر کے حکمران پر کوئی دباؤ پڑ سکتا تھا تو صرف انگریز کی طرف سے جو ایسا کرنے کے لئے تیار نہ تھا.مگر قدرت تو جیسے فیصلہ کر چکی تھی کہ کشمیر میں اب انقلاب آکر رہے گا.اور آئے گا اس سال کے اندر اندر.چنانچہ اس کے کرم سے ایسے غیر معمولی واقعات ظہور پذیر ہونے شروع ہوئے جو ہر گز کسی سوچی سبھی سکیم کا حصہ نہ تھے.جابر حاکم کے ظالم افسروں نے مختلف مواقع پر فرعونیت کے مظاہرے کئے اور یہی چیز ڈوگرہ راج کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کا باعث بن گئی.اسلام قبول کرنے کی پاداش میں صوبہ جموں میں تحصیل ”اور ہم پور“ کا ایک بڑا زمیندار حلقہ بگوش اسلام ہوا.وہاں کے تحصیل دار نے کاغذات مال سے اس کا نام خارج کر دیا اور اس کی تمام جائداد و املاک پر اس کے بھائی کا قبضہ کرانے کے بعد اُسے بے دخل کر دیا عدالت میں چارہ جوئی کی گئی.حج نے اُسے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ محمد ھ ہو جاؤ تو جائداد واپس مل جائے گی...اس 36 36

Page 33

نے انکار کیا نتیجہ یہ ہوا کہ اُس کا دعوی خارج کر دیا گیا.ایک گاؤں ڈیگور میں مسلمانوں کو نماز باجماعت ادا کرنے سے روک دیا گیا....جب اس کی اطلاع دوسرے مسلمانوں کو ہوئی.تو ان میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی.جموں جیل کی پولیس لائن میں انہی دنوں میں ایک ہندو ہیڈ کنسٹیل نے ایک مسلمان کنسٹیل کو عین اس وقت جب وہ تلاوت قرآن پاک میں مصروف تھا کہا تم کیا بکواس پڑھ رہے ہو اور طیش میں آکر اُس کا بستر (جس میں قرآن پاک کی بعض سورتوں کا مجموعہ ”پنجسورہ تھا ) پرے پھینک دیا ( پنج سورہ جو قرآن مجید ہی کا حصہ تھا ) زمین پر جا پڑا.اس واقعہ نے مسلمانوں کو اور بھی برافروختہ کر دیا.۲۹ / اپریل ۱۹۳۱ء کو عید الاضحی تھی.جموں میں مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع اس جگہ ہوا جہاں انجمن اسلامیہ کے زیر اہتمام عید پڑھنے کا انتظام کیا گیا تھا.اس عید کی عبادت میں تین چیزیں شامل ہیں.دو رکعت نماز خطبہ عید اور دُعا...نماز ادا کی گئی.خطبہ جاری تھا امام الصلوۃ نے ( قرآن مجید میں ) حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا ( جو واقعہ آتا ہے ) لوگوں کے سامنے بیان کرنا شروع کیا.ایک آریہ ڈپٹی انسپکٹر پولیس وہاں ڈیوٹی پر تھا.اُس نے فوراً خطیب کو خطبہ عید پڑھنے سے روک دیا.اور باوجود یہ بتانے کے کہ خطبہ نماز کا ایک ضروری جزو ہے.آریہ پولیس افسر اس بات پر اڑا رہا.کہ تم صرف نماز عید پڑھ سکتے ہو.لیکچر کی اجازت نہیں.حالانکہ اُس پر یہ بات بار بار واضح کی گئی.کہ عید کی نماز کے ساتھ خطبہ پڑھنا ایک مذہبی فریضہ ہے.اس لئے اس کی بندش مذہب میں دخل اندازی کے مترادف ہے.جوں جوں یہ بالا دستیاں وقوع پذیر ہوتی گئیں.مسلمانانِ کشمیر ان سے اپنے ہمدردوں کو بھی باخبر کرتے چلے گئے جو ہندوستان خصوصاً پنجاب میں اُن کے لئے نہ صرف داتے در سے کوشاں تھے.اُن کی محکومیت کا عذاب ختم ہو جانے کے لئے اپنے رب سے 37

Page 34

دست بدعا بھی تھے.چنانچہ یہ تمام حالات کشمیری مسلمانوں کے اس مونس و غم گسار بزرگ کی خدمت میں بھی پہنچائے جاتے رہے.جنہیں وہ بطورِ خاص اپنے ذاتی اثر و رسوخ کے ساتھ مسلم پرلیس اور دوسرے غیر جانب دار ہمدرد پریس میں چھپواتے رہے.چنانچہ آئے دن مظلومین کشمیر کی داستانیں ملک کے جرائد ورسائل میں شائع ہونے لگیں.شور برپا ہو گیا.جہاں تہاں مظلومین کشمیر پر مظالم کی داستانیں دہرائی جانے لگیں جس سے ہندو کانگرس کے لیڈر بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے.کانگرسیوں کی تقریریں جون ۳۱ء میں کانگرسی لیڈروں کی جو تقریریں ہوئیں.اُن میں سے بھی بیشتر اہلِ کشمیر کے کرب آفریں ذکر سے معمور تھیں.مثال کے طور پر :.مسز کملانہرو نے اپنی تقریر میں کہا:.وو...وہ دن گزر گئے جب رعایا استبداد کے جوئے کا بار بغیر کسی نا خوشی اور ناراضی کا اظہار کئے اٹھائے رکھتی تھی والیان ریاست کو جاننا چاہیے کہ ہندوستان کے ہر گوشہ میں ( جس میں ریاستیں بھی شامل ہیں ) ایک عظیم بیداری پیدا ہورہی ہے.اور اگر انہوں نے فہم و دانش اور حب وطن کا ثبوت نہ دیا تو وہی حشر اُن کا بھی ہوگا.جو دوسرے فرمانرواؤں کا ہو چکا ہے وو 66 مسٹر سبھاش چندر بوس نے اس سے بھی زیادہ واضح الفاظ میں کہا: ہندوستان کے آئندہ نظامِ حکومت میں والیان ریاست کے لئے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی.اگر والیان ریاست کانگرس کے اعلان کے مطابق پانچ سو روپے ماہوار لینے پر تیار ہوں تو ممکن ہے کچھ دنوں تک اُن کا وجود نہ رہ سکے..66 38

Page 35

اس محترم بزرگ کے (جنہوں نے تحریک آزادی میں بہت بڑا کردار ادا کیا) ہمنواؤں نے اُس زمانہ میں اخبارات میں بڑے زور دار مضامین لکھے.جن میں بصراحت واضح کیا کہ وہ مظالم اور سختیاں جو کشمیر کے برسر اقتدارلوگ کشمیریوں (خصوصاً مسلمانوں ) پر کرتے چلے آرہے ہیں.نا قابل بیان اور حد سے بڑھے ہوئے ہیں.ظاہر یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ریاستی باشندوں خصوصاً مسلمانوں کو اس قدر ذلت اور ادبار کے گڑھے میں گرا رکھا ہے کہ اس سے ان کا نکلنا ممکن نہیں.لیکن یہ حد سے بڑھی ہوئی سختیاں ہی ان کو خواب غفلت سے بیدار کر رہی ہیں.اور وہ وقت دور نہیں جب ریاستی حکمرانوں کو معلوم ہو جائے گا کہ رعایا کے اتنے بڑے حصہ کو اس کے حقوق سے محروم رکھنا اور مظالم کا تختہ مشق بنائے رکھنا رنگ لائے بغیر نہیں رہ سکے گا مگر اُس وقت اس حقیقت سے باخبر ہونا شاید اتنا فائدہ مند نہ ہو سکے جتنا کہ اب ہو سکتا ہے.احتجاجی سرگرمیاں جموں میں خطبہ عید پڑھنے میں جو رکاوٹ پیدا کی گئی تھی اس پر مسلمانان جموں نے قابل تعریف آئین پسندانہ رویہ اختیار کیا.اور اس صریح نا انصافی اور مذہب میں دخل اندازی کے خلاف مردانہ وار آواز اُٹھائی اور ہندوستان کے چار پانچ بڑے لیڈروں کو (جن میں ایک وہ قابل احترام بزرگ تھے ) رجسٹری خطوط کے ذریعہ باخبر کیا اور امداد کے طالب ہوئے.کشمیر کے ابتدائی لیڈروں میں سے مولانا مفتی ضیاء الدین صاحب ضیاء نے ( جنہوں نے کئی بار قوم کی خاطر قید و بند اور جلا وطنی کی صعوبتیں جھیلیں ) راقم الحروف کو لکھا کہ اس بزرگ ہستی نے جہاں ہماری معروضات ملتے ہی ہماری زرکثیر سے مالی اعانت فرمائی 39 39

Page 36

.ہمارے اس اقدام کی دل سے تعریف بھی کی جو ہم نے اپنے مذہبی معتقدات کے تحفظ کے لئے قانون کے اندر رہتے ہوئے کیا ہمیں یقین دلایا کہ ہم انشاء اللہ بہت جلد عروس آزادی سے ہم کنار ہوں گے.حکومت انگریزی پر یہ بات واضح کی گئی.کہ نماز عید کے ساتھ خطبہ پڑھنا ایک مذہبی فریضہ ہے جس میں دخل اندازی اور اس پر پابندی عائد کرنا نہایت ہی شرمناک فعل ہے.اگر خطبہ میں کوئی ایسی بات بیان کی جاتی.جو حکومت کے خلاف ہوتی تو خطیب پر با قاعدہ مقدمہ چلا یا جا سکتا تھا.مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ایسے علاقہ میں جہاں بات بات پر زبان کٹتی ہو کسی خطیب کو یہ جرأت ہو کیوںکر سکتی ہے.کہ وہ حکومت کے خلاف اپنے منہ سے ایک لفظ بھی نکالے.پس اس بات کا تو احتمال بھی نہیں ہو سکتا کہ خطیب نے حکومت کے خلاف کوئی برافروختہ کرنے والی ) ناروا بات کہی ہوگی.ایسی صورت میں آریہ ڈپٹی انسپکٹر کا خطبہ روک دینا خواہ مخواہ مسلمانوں کی دل آزاری اور اپنی قوت کا بے جامظاہرہ ہے.اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ریاست کے اعلیٰ حکام اس فعل کو قطعاً پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھیں گے.انہیں اول تو خود نوٹس لینا چاہیے.ورنہ مسلمانوں کو اجازت دے دینی چاہیے کہ مروجہ قانون کے ماتحت انصاف حاصل کرنے کی کوشش کریں.ہندو پریس کے ایک حصہ نے اپنی طرف سے یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی کہ یہ واقعہ معمولی نوعیت کا تھا جسے مسلمان بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں.یہاں تک کہ ایک کثیر الاشاعت اخبار نے لکھا کہ بات تو صرف اتنی ہوئی تھی کہ سب انسپکٹر نے ایک معز بشخص سے صرف اتنا پوچھا تھا کہ یہ لیکچر ہے یا عید کے متعلق وعظ.اتنی سی بات پر مسلمان مشتعل ہو گئے اور غیر مناسب الفاظ سے سب انسپکٹر کی تواضع کی اس کے بعد سب انسپکٹر چپ چاپ وہاں سے چلا گیا.1 ( پرتاب ۱۳ مئی ۳۱ ء ) 40

Page 37

لیکن اُس صاحب دل بزرگ نے اس من گھڑت واقع کی نہایت ہی پر زور تردید شائع کی اور ایسے نمبر ہن انداز میں کی کہ جس سے ان ہندوؤں کا سارا پراپیگنڈہ کا پول کھل کر رہ گیا.اور ریاستی حکام بھی پریشان ہونے شروع ہوئے.چنانچہ اندرونِ ریاست اور بیرونِ ریاست اس احتجاج کا پہلا اثر تو یہ ہوا کہ آریہ پولیس افسر کو انسپکٹر جنرل پولیس کے حکم سے معطل کر کے محکمانہ تحقیقات کا حکم دے دیا گیا.تو ہین کلام پاک کے واقعہ نے مہاراجہ کے احساس کو بھی ٹھوکا دیا.چنانچہ وہ بھی فوری اقدام کے لئے مجبور ہوا.سری نگر سے وزیر متعلقہ مسٹر ویکفیلڈ تحقیقات کی غرض سے جموں آئے جملہ انجمن ہائے اسلامی کے پریذیڈنٹ و سیکرٹری صاحبان کو ملاقات کے لئے بلایا.اور اپنی تکالیف بیان کرنے کے لئے کہا گیا.مسلمانوں نے زبانی اپنے مطالبات پیش کئے.جس پر وزیر موصوف نے کہا کہ میں مذہبی معاملات کا تو اسی جگہ فیصلہ کرتا ہوں.مگر ملکی معاملات کے لئے آپ میرے ساتھ کشمیر چلیں.میں مہاراج بہادر کے سامنے آپ کے ساتھ ہی آپ کے مطالبات بھی پیش کروں گا.سماعت اور انداز سماعت دوسرے روز قرآن مجید کی توہین کا معاملہ پیش ہوا.مسٹر ویکفیلڈ نے مسلمانوں کی طرف سے دو نمائندے (ایم یعقوب علی صاحب مرحوم اور سید الطاف علی شاہ صاحب) کو اپنے ساتھ رکھا.دو دن کی تحقیق کے بعد یہ تینوں صاحبان جس نتیجے پر پہنچے وہ یہ تھا مسٹر ویکفیلڈ (نمائندہ حکومت کشمیر ) وو قرآن کریم کی تو ہین میں تسلیم کرتا ہوں.لیکن میرے خیال میں یہ اتفاقی امر تھا.میں صدقِ دل سے اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں..66......41

Page 38

ایم یعقوب علی ( مسلم نمائندہ ) وو میں خدا کو حاضر ناظر جان کر اپنے ایمان سے یہ کہتا ہوں کہ قرآن مجید کی تو ہین ہوئی ہے.اور ملزم نے عمداً ایسا کیا ہے اور غصہ میں آکر ایسا کہا ہے...سید الطاف علی شاہ ( مسلم نمائندہ) وو.میرے خیال میں قرآن کریم کی توہین ہوئی ہے لیکن یہ ثابت نہیں کہ قرآن کریم ہاتھ سے چھین کر زمین پر دے مارا گیا ہے.قرآن بستر میں تھا.اُسے زمین پر پھینک دیا.اس طرح تو ہین ضرور ہوتی ہے..مقدمہ کا فیصلہ مگر حکام ریاست نے اس کیس کا عجیب و غریب فیصلہ یہ کیا کہ ہند و ہیڈ کنسٹیل کو ( جس کی ملازمت تھیں سال ہو چکی تھی ) پنشن دے کر گھر بھیج دیا اور مسلمان کنسٹیبل کو ملازمت سے علیحدہ کر دیا.اب کشمیر اور جموں دونوں حصوں میں احتجاجی جلسے ہونے شروع ہو چکے تھے.پنجاب کے پریس اور پلیٹ فارم پر بھی ( کشمیری مسلمانوں پر مظالم کا چرچا ہورہا تھا.سری نگر کی ریڈنگ روم پارٹی نے سرینگر کے دونوں مذہبی راہنماؤں یعنی میر واعظ احمد اللہ ہمدانی اور میر واعظ محمد یوسف کا تعاون حاصل کر لیا تھا.جامع مسجد اور خانقاہ معلی میں با قاعدہ اجلاس منعقد ہورہے تھے.مہاراجہ کے رُوبرو مطالبات جموں کے مسلمانوں نے مسٹر ویکفیلڈ کے کہنے پر مہاراجہ کے سامنے مطالبات پیش 42

Page 39

کرنے کے لئے اپنے چار نمائندے چنے.1- چودھری غلام عباس 2- ایم یعقوب علی -3- سردار گوہر رحمن اور 4- شیخ عبدالحمید ایڈووکیٹ سری نگر کے مسلمانوں کا اجتماع ۲۱ جون ۳۱ء کو ہوا.جس میں سات نمائندے منتخب کئے گئے.-1- شیخ محمد عبد الله 2- میر واعظ احمد اللہ ہمدانی 3- میر واعظ یوسف شاہ 4- خواجہ سعدالدین شال 6 منشی شہاب الدین اور 5- خواجہ غلام احمد عشائی 7- آغا سید حسین شاہ جلالی امروہہ ضلع مراد آباد کے ایک مسلمان ( جن کا نام مسٹر عبد القدیر تھا ) چند ایک انگریزوں کے ساتھ بطور گائیڈ آئے ہوئے تھے.وہ بھی اس جلسہ میں شریک ہوئے اور انہوں نے بھی تقریر کی اور مسلمانوں کو بے غیرتی کی اس زندگی کو چھوڑ دینے کی تلقین کی.ریاستی حکام نے ان کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا.پنجاب اور یو.پی کے مسلم اخبارات خصوصاً انقلاب»، «الفضل“، ”سیاست“” الامان سن رائیز ایسٹرن ٹائمز، مسلم آؤٹ لک اور لائٹ“ نے بڑے زور دار مضامین لکھے.اس کے مقابلہ پر ہندو اخبارات نے خواہ مخواہ ہندو مسلم سوال بنا کر اور مضامین لکھ کر ریاست کو سختی کرنے کی تلقین کی.اخبار پرتاپ“ نے یہ اعلان کیا وو معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ جموں کے فرقہ پرست مسلمانوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جانے والی ہے.مقامی حکام نے مہاراجہ صاحب کی خدمت میں رپورٹ 43

Page 40

ارسال کی ہے کہ اگر ان شرارتی مسلمانوں کے خلاف فوری کاروائی نہ کی گئی تو نتیجہ خراب ہوگا.اس کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گورنمنٹ کشمیر پنجاب کے چند شرارتی اخبارات کے خلاف بھی کاروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے.کاغذات تیار ہورہے ہیں.( پرتاب ۳ جولائی دراصل یہ ریاست کو مشورہ تھا کہ وہ ایسا کرے) ریاستی حکومت کے ان پیدا کردہ حالات کی وجہ سے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کسی وقت بھی جنگ کا با قاعدہ بگل بج جائے گا اور حصول آزادی کے لئے مستقل جنگ شروع ہو جائے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.مستقل جنگ کا رنگل ۱۳ جولائی ۳۱ء کو مسٹر عبدالقدیر کا مقدمہ سرینگر جیل میں پیش ہونا تھا کا روائی سننے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں مسلمان جمع ہو گئے ریاستی پولیس نے گولی چلا دی.اکیس مسلمان شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے.مسلمانان سرینگر نے اس واقعہ کی اطلاع ریاست سے باہر اپنے ہمدردوں کو دینا چاہی مگر سنسر اس قدر سخت تھا کہ کامیابی نہ ہوئی.اس پر انہوں نے اپنا ایک نمائندہ فوراً سیالکوٹ بھجوایا.وہاں سے اس نے کشمیری مسلمانوں کے اس ہمدرد و محترم بزرگ کو تار کے ذریعہ سارے حالات کی اطلاع کر دی.بزرگ محترم نے اسی وقت وائسرائے ہند کو تار دیا کہ:.مہاراجہ نے تازہ اعلان کے بعد جس میں انہوں نے اپنی مسلم رعایا کوئی طرح دھمکیاں دی ہیں.اس واقعہ کا ظہور پذیر ہونا صاف بتلاتا ہے کہ یہ سب کچھ عمداً کیا گیا ہے“.اس تار میں اس محترم بزرگ نے تمام حق تلفیوں کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا.جو 44

Page 41

مسلمانانِ کشمیر کے ساتھ روا رکھی جارہی تھیں.آپ نے اس تار میں وائسرائے ہند کو یہ بھی لکھا کہ:.وو...دوسرے صوبوں کے مسلمانوں کی طرح پنجاب کے مسلمان بھی کشمیری مسلمانوں پر ان مظالم کو کسی صورت میں برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے.اگر حکومت ہند نے اس پر بھی مداخلت نہ کی تو مجھے خطرہ ہے کہ کہیں مسلمان انتہائی ظلم وستم کو برداشت کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوئے گول میز کانفرنس میں شمولیت سے انکار نہ کر دیں...اس تار کا مضمون اخبارات کو بھی بھجوایا گیا.نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم اخبارات نے اس کی تائید میں کثرت سے مقالات لکھے.ساتھ ساتھ جلسوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا.ریز ولیشن پاس ہوئے.جن کی نقول تمام اخبارات میں شائع ہونے کے علاوہ افسران کو بھیجی جانے لگیں ایک متعصب خبر رساں ایجنسی نے جو غلط واقعات اخبارات کو بھجوائے تھے اس کی تردید کے ساتھ ساتھ مسلم پریس نے صحیح حالات بھی پبلک کے سامنے پیش کئے.اب کوئی اخبار نہ شائع ہوتا تھا.جس میں کشمیر کے واقعات کا تذکرہ نہ ہو.۱۶ جولائی کو پھر گولی چلا دی گئی اس میں بھی ایک مسلمان شہید ہوا.اس واقعہ سے متاثر ہو کر حافظ سلیم نے فی البد یہ کچھ شعر کہے جن میں یہ بھی تھا کروگے بند خطبہ اور روکو گے اذاں کب تک نہتوں پر چلیں گی ظالمو یہ گولیاں کب تک نہیں چلنے کی دریا میں کبھی یہ ناؤ کاغذ کی رہو گے ڈوگرو ! کشمیر میں تم حکمراں کب تک ہندوستان کے مسلمانوں کے دلوں میں اس وقت کس قدر جوش تھا.اس کا پتہ مولانا محمد یعقوب طاہر کی اُس نظم سے چل سکتا ہے جو دنوں بہت مقبول ہوئی تھی اور کشمیر کے متعلق 45

Page 42

جلسوں میں خوب پڑھی جاتی تھی.فرماتے ہیں:.الحذر اے مسلم صید حوادث الحذر دیکھ برق اقتلو چپکی خدا را کر نظر دامن کشمیر پر دھبے پڑے ہیں خون کے اور تو سویا پڑا ہے اُف تیری غیرت کدھر تیری قوت سے تو مر حب بھی ہوا تھا سرنگوں ترے بازو سے تو تھا ٹکڑے ہوا خیبر کا در تیری ہیبت سے تھے لرزاں مالکان تخت وتاج تیرے دم سے آج کیوں تیرے رگوں کے خون میں حدت نہیں قیصر و کسری ہوئے زیر وزبر صولت فاروق اعظم کس لیے کس لیے ہے مُستر دشمنان بد گہر کی شان نمرودی تو دیکھ گولیوں سے چھید ڈالے سینہ وقلب و جگر ظالمان ہند نے توڑے ستم وہ الاماں گرگ بھی دانتوں تلے انگلی دبائیں دیکھ کر رقص بسمل منظر خونیں تماشا کر دیا اسیر حلقه زنجیر ظالموں کے ظلم نے دل پارا پارا کر دیا غم ملال تو نے گر جینا ہے دکھلا اپنی قوت کے کمال 46

Page 43

توڑ دے زنداں کا دراور سانس حریت کا لے کاٹ دے تیغ محبت سے عداوت کا نہال ساحروں کی شکل میں گر سامنے آئیں عنید پرچم خاقانی , مزید تعلیم کے پیش نظر موسوی سونٹا چلا ٹکڑے ہو تا دام جہال کر پیوند خاک پھر بٹھا عالم پر اپنی چار سو مردانہ دھاک مسلمانان کشمیر کی انفرادی امداد تو ہو ہی رہی تھی.بعض اخبارات اس میں بہت سرگرمی سے حصہ لے رہے تھے.لیکن ان تمام کوششوں کو یکجا اور منظم کرنے کی ضرورت تھی.بزرگ محترم نے پے در پے مضامین لکھے.ان کا خاطر خواہ اثر ہوا اور مختلف مقامات پر ”یوم کشمیر“ منانے کی تحریک ہوئی.پشاور والوں نے ۱۰ جولائی تاریخ مقرر کی.کانپور والوں نے ۲۸ جولائی اور لاہور والوں نے ۲۴ / جولائی اس غرض کے لئے مقرر کر دی.اس پر اس بزرگ نے ایک زور دار اپیل شائع کی.جس میں یہ واضح کیا کہ اس قسم کے اختلاف کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسی کوئی تحریک بھی کامیاب نہ ہو سکے گی.اور مظاہروں سے جو حقیقی فائدہ مقصود ہوتا ہے.محرکین اس سے محروم رہ جائیں گے.اور آپس میں شقاق بھی پیدا ہوگا.پھر اس دقت کا حل یہ تجویز کیا گیا کہ وہ تمام اشخاص جو یا تو نسلاً کشمیری ہیں یا مسئلہ کشمیر سے ہمدردی رکھتے ہیں.47

Page 44

آدمیوں پر وہ یہ کام کرنے کے لئے ایک نظام تجویز کریں کیونکہ کوئی لوکل کمیٹی خواہ کتنے ہی با اثر پر مشتمل کیوں نہ ہو اس کام کو نہیں کر سکتی جب تک مسلمانوں کی ایک " آل انڈیا کانفرنس اس مسئلہ پر غور کر کے ایک متفقہ پروگرام تجویز نہ کرے گی.لہذا اس غرض کو پورا کرنے کے لیے ہندوستان بھر کے چوٹی کے لیڈروں کی ایک کانفرنس کسی ایسے مقام پر جہاں جموں اور کشمیر کے مسلمان بھی آسکیں ) منعقد ہونی چاہیے.جن میں ان تمام مشکلات پر غور کر کے (جو ہمارے راستے میں حائل ہوں) ایسا پروگرام تیار کیا جائے جس پر عمل کر کے (کوئی نئی پیچیدگی پیدا ہوئے بغیر ) مسلمانانِ کشمیر کی آزادی کے مسئلہ کو حل کیا جائے.اس اپیل کے آخر میں آپ نے لکھا:.میں اُمید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب، شیخ دین محمد صاحب، سید محسن شاہ صاحب اور اسی طرح دوسرے سر بر آور وہ ابنائے کشمیر جو اپنے وطن کی محبت میں کسی دوسرے سے کم نہیں اس موقع کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے موجودہ طوائف الملو کی کوختم کرنے کی کوشش کریں گے.ورنہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سب طاقت ضائع ہو جائے گی.اور نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا 1 ( مسلمانان جموں و کشمیر کی حالت اور مسلمانوں کا فرض ” مطبوعہ جولائی ۳۱ء) اس اپیل کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا باہمی مشورہ سے یہ طے پایا کہ شملہ کے مقام پر ۲۵ / جولائی ۳۱ء کو ایک کانفرس بلائی جائے.کشمیر اور صوبہ سرحد کے نمائندگان کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دی جائے وہاں سب لیڈر سر جوڑ کر بیٹھیں اور یہ طے کریں کہ آئندہ کیا لائحہ عمل ہو.48

Page 45

دشمنان حق نے کرلی سلب آزادی تری اپنی نادانی بھی دیکھ اور ان کی عیاری بھی دیکھ فتنہ ساماں بن رہا ہے تو جنوبی ہند میں اپنے اختر کی یہاں آکر سیہ کاری بھی دیکھ ( مرتاض) آل انڈیا کشمیر کمیٹی صد شکر کہ وہ دردمند بزرگ جو ہیں سال سے مسلسل کشمیریوں کو غلامی سے نجات دلانے کے لئے کوشاں تھا.اب اس کی مساعی جمیلہ کا ریاست کے اندر اور بیرونی ریاست جگہ جگہ چرچا ہونے لگا تھا.اس تحریک پر جمع ہو کر زعماء ہند نے شملہ کے مقام پر ایک کانفرنس میں آئندہ طریق کار کے متعلق فیصلے کرنا تھے اس کا نفرنس میں شمولیت کے جموں کشمیر اور صوبہ سرحد کے نمائندے کا نفرنس سے پہلے ہی اس بزرگ کے پاس پہنچ گئے.تا کہ انہیں تازہ ترین صورت حالات سے باخبر کرسکیں.چنانچہ وہ ان نمائندگان و خدام سمیت شملہ روانہ ہو گئے.( راقم الحروف بھی اس خوش بخت قافلہ میں شامل تھا).یہ قافلہ ۲۴ جولائی ۱۹۳۱ ء کو حکومت ہند کے گرمائی دارالحکومت میں وارد ہوا.اور نواب سرذوالفقار علی خاں آف مالیر کوٹلہ کی استدعا پر اُن کی کوٹھی موسومہ بہ فیئر 49

Page 46

ویو (FAIR VIEW) میں فروکش ہوا.بیشتر زعماء شملہ پہنچ چکے تھے.انہیں پہلی فرصت میں کانفرنس کے وقت اور جائے انعقاد سے مطلع کیا گیا.اور 25- جولائی 1931ء کو نماز ظہر کے بعد (فیئر ویو ) ہی میں اجلاس شروع ہوا.جس میں امام جماعت احمدیہ (جن کا ذکر اس سے قبل صرف اس لیے کشمیری مسلمانوں کے ایک مونس و غم گسار بزرگ کے طور پر ہی کرتا رہا ہوں کہ اُس وقت تک آپ کی تمام مساعی انفرادی اور ذاتی حیثیت سے تھیں اور ویسے بھی آپ کی حتی المقدور یہی کوشش رہی کہ کسی قسم کے نام و نمود سے کاملاً بے پرواہ اور بے نیاز ہوکر مظلومین کی امداد کی جائے ).ڈاکٹر سر محمد اقبال.نواب سر ذوالفقار علی خاں.خواجہ حسن نظامی.نواب گنج پورہ.سید محسن شاہ.خان بہادر شیخ رحیم بخش.مولانا اسماعیل غزنوی.مولانا عبد الرحیم درد - مولانا نور الحق (مالک انگریزی روز نامہ آؤٹ لگ ) سید حبیب شاہ (مالک روز نامہ سیاست اور نمائندگانِ ریاست و سرحد شامل ہوئے.مولوی عبدالرحیم ایم اے.ایل ایل بی نے صوبہ کشمیر کی اور جناب اللہ رکھا ساغر نے صوبہ جموں کی اور صاحبزادہ سرعبد القیوم کے بھائی صاحبزادہ عبد اللطیف نے صوبہ سرحد کی نمائندگی گی.(راقم الحروف نے اس کانفرنس کی روئیداد کی اخبارات میں رپورٹنگ کا فریضہ ادا کیا ) آل الڈر یا کشمیر کمیٹی ریاست کے تازہ حالات بیان کرنے کے بعد بڑی تفصیل کے ساتھ تمام امور پر بحث کی گئی اور فیصلہ ہوا کہ ایک آل انڈیا کشمیر کمیٹی بنائی جائے.جو اس سارے کام کو اپنے ذمہ لیکر پایہ تکمیل تک پہنچائے.اور اس وقت یہ مہم جاری رہے جب تک ریاست کے باشندوں کو اُن کے جائز حقوق نہ حاصل ہو جائیں تمام شرکاء مجلس نے جو ریاست کے ساتھ تعلق نہ رکھتے تھے.یہ اقرار کیا کہ وہ بھی اس کمیٹی میں شمولیت اختیار کریں گے.بلکہ وہ اُسی 50 50

Page 47

وقت ممبر بھی بن گئے.اب مرحلہ اس کمیٹی کے دارالمہام کے انتخاب کا تھا...مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امام جماعت احمدیہ کے دائیں ہاتھ ایک ہی صوفہ پر ڈاکٹر سر محمد اقبال بیٹھے تھے.اور دائیں طرف دوسرے صوفہ پر نواب سر ذوالفقار علی تھے.اور امام جماعت احمدیہ کے بائیں طرف پہلے خواجہ حسن نظامی اور اُن کے بعد نواب صاحب آف گجپورہ تھے.اور پھر بقیہ معززین جن کا ذکر اوپر آچکا ہے.ڈاکٹر سر محمد اقبال نے تجویز کیا کہ اس کمیٹی کے صدر امام جماعت احمد یہ ہوں.ان کے وسائل مخلص اور کام کرنے والے کارکن، یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ اُن سے بہتر ہمارے پاس کوئی آدمی نہیں خواجہ حسن نظامی صاحب نے فورا اس کی تائید کی اور سب طرف سے درست ہے ، درست ہے“ کی آواز میں آئیں.اس پر امام جماعت احمدیہ نے فرمایا کہ:." مجھے اس تجویز سے ہرگز اتفاق نہیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اور میری جماعت ہر رنگ میں کمیٹی کے ساتھ تعاون کرے گی.لیکن مجھے صدر منتخب نہ کیا جائے ڈاکٹر سر محمد اقبال نے امام جماعت کو مخاطب کر کے پنجابی میں فرمایا:....حضرت صاحب جب تک آپ اس کام کو اپنے ہاتھ میں صدر کی حیثیت سے نہ لیں گے.یہ کام نہیں ہوگا...ان کے بعد خواجہ حسن نظامی صاحب اور دوسرے اراکین نے بھی بڑے زور سے تائید کی.اور جب چاروں طرف سے زور پڑا تو کر ہانہ کہ طوعاً امام جماعت احمدیہ نے اس عہدہ کو قبول کیا.اور سب حاضرین کی رضامندی سے مولانا عبدالرحیم در دایم.اے ( مرحوم ) کو کمیٹی کا سیکرٹری مقرر کیا گیا.اس کانفرنس میں بعض بڑے ہی اہم فیصلے کئے گئے.جن میں سے ایک 51

Page 48

ہندوستان کے مسلمانوں کو مسلمانانِ کشمیر کی حالت زار سے آگاہ کرنے کے لئے ۱۴ اگست کو سارے ہندوستان میں ” یوم کشمیر 1 ( یہ کس قدر حسین تاریخی توارد ہے کہ ٹھیک اسی تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے قیام پاکستان کے لئے منتخب کیا یعنی ۱۴ اگست کو پاکستان کی عظیم اسلامی مملکت کے خطوط عالمی سطح پر اُبھرے.ظا) منانے کا بھی تھا جن میں حکومت ہند کو ان مظلوموں کی مظلومیت سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ مصیبت زدگان کے لئے فراہمی چندہ کی اپیل کرنا بھی طے پایا تھا.یہ بھی فیصلہ ہوا کہ وائسرائے ہند اور پولیٹکل ڈیپارنمنٹ کو اصل حالات سے آگاہ کر کے آزادانہ تحقیقات کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی جائے گی.خود مہاراجہ سے مل کر بھی اُن کو صورت حالات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی جائے.بسا ممکن ہے.وزراء ہی اُن تک غلط واقعات پہنچا رہے ہوں..پارلیمنٹ میں کشمیر کا سوال اٹھانے کے متعلق بھی فیصلہ کیا گیا دوسرا پروگرام جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے لئے تجویز ہوا.اس کا خلاصہ یہ تھا کہ گورنمنٹ برطانیہ پر زور دیا جائے کہ وہ کشمیر کے باشندوں کو وہ بنیادی انسانی حقوق دلائے جن سے وہ اس وقت تک محروم ہیں.ریاست بھر میں اس وقت تک مسلمانوں کا کوئی پریس نہیں.نہ اس کی اجازت ہے.اور کوئی ایسی صورت نہیں کہ جس سے آئینی لائنوں پر رعایا حکومت تک اپنے خیالات پہنچا سکے.اسی طرح مذہبی آزادی ( جو کہ تہذیب کا پہلا رکن ہے ) سے بھی اہل کشمیر محروم ہیں.اگر کوئی شخص مسلمان ہو جائے تو اس کی جائداد ضبط کر لی جاتی ہے.اور اسے بیوی بچوں سے علیحدہ کر لیا جاتا ہے.اُسے زمین کے مالکانہ حقوق سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے.کیونکہ زمین داروں کو خود اپنی زمین پر مالکانہ حقوق نہیں دیے جاتے اور ریاست اپنے آپ کو سارے کشمیر کی زمین کا مالک سمجھتی ہے.اسی طرح با وجود تعلیم یافتہ ہونے کے مسلمانوں کو ملازمت 52

Page 49

میں نہایت ہی قلیل حصہ دیا جاتا ہے.جو تین فی صد بھی نہیں بنتا.حالانکہ مسلمانوں کی آبادی جموں وکشمیر میں ستر فی صد سے زائد ہے.اس کے علاوہ لا تعداد حق تلفیاں ہیں.مسلمانانِ کشمیر جن کے مورد ہیں.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت کا اعزاز پیش ہونے کے بعد وہ بزرگ جو کل تک پس پردہ دامے درمے.قدمے سخنے مظلومین کشمیر کے لئے کوشاں تھے.اب ظاہر ہوکر میدانِ عمل میں اتر پڑے...زعماء ہند کے اس فیصلہ کو نہ صرف کشمیر کے ہر حصہ میں خوشی ومسرت کے ساتھ سُنا گیا.ہندوستان کے ہر طبقہ کے مسلمانوں نے بھی سراہا اور دلی تعاون کی پیش کش کی.ہند و پریس کا رویہ ہر چند یہ ہندو مسلم سوال نہ تھا.مسلمان ریاستی حکومت سے صرف اپنے حقوق ہی مانگ رہے تھے.لیکن چونکہ ریاست کا حاکم ہندو تھا.ہندو پریس نے کانگرس کے اصولوں کو بھی نظر انداز کر دیا اور اس ایجی ٹیشن کو براہ راست ہندوؤں کے خلاف مہم قرار دے کر مہاراجہ کی پُرزور حمایت شروع کردی....! مظلوم نہتے مسلمانوں کو باغی اور فسادی قرار دیتے ہوئے ایک اخبار نے ریاست کو مشورہ دیا کہ:.باغیوں کو ایسی عبرت ناک سزائیں دی جائیں جو دوسروں کے لئے تازیانہ عبرت ہوں...( پرتاب ۷ ا ر جولائی ۳۱ء) دوسرے نے لکھا:.سخت ہاتھ کے ساتھ فسادات کو کچل کر رکھ دینے کی ضرورت ہے...( پرتاب 53 53

Page 50

۱۸ ؍ جولائی ۳۱ء) ملک کی مشہور خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پر لیس ہندوؤں کے زیر اثر تھی.اس لیے اُس کی طرف سے مسلمانوں کے لئے کلمہ خیر کی امید نہ تھی.مگر جب اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو تو تمام بگڑے ہوئے کاج خود ہی سنورنے لگتے ہیں اور تمام ناسازگار حالات خود بخودساز گار ہوتے چلے جاتے ہیں.خان بہادر شیخ رحیم بخش ریٹائر ڈسیشن جج آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے رکن بن چکے تھے.شملہ میں ان دنوں وہ سیسل ہوٹل میں مقیم تھے ) اُن کے کمرہ سے ملحقہ کمرہ میں مسٹر لیسی ایک انگریز بھہرے ہوئے تھے.وہ انگلستان کے بعض مشہور اخبارات کے نامہ نگار اور دہلی کے مشہور انگریزی روز نامہ سٹیٹمین“ کے شملہ میں خاص نمائندہ تھے.خان بہادر صاحب جب اجلاس سے فارغ ہو کر ہوٹل میں واپس آئے تو انہوں نے مسٹر لیسی کو تمام حالات سے آگاہ کیا مسٹرلیستی نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے قیام کی خبر سٹیٹمین “ کے علاوہ ولایت کے اخبارات کو بھی بھجوائی.بلکہ ساتھ ہی خواہش ظاہر کی کہ ان کی ملاقات صدر آل کشمیر انڈیا کمیٹی سے کرا دی جائے.خان بہادر صاحب نے فوراً ملاقات کا انتظام کر دیا.وہ اس ملاقات سے اس قدر متاثر ہوئے کی انہوں نے آخر میں کہا کہ:.وو آپ جو بھی خبر بھجوایا کریں گے میں اخبارات کو بھجوادیا کروں گا کیونکہ مجھے یقین ہو گیا 66 ہے کہ آپ دلی جذبہ کے ساتھ کشمیریوں کی امداد کر رہے ہیں...اس کے بعد روزانہ خبروں کا نوٹ تیار ہوتا.راقم الحروف اُسے لیکرسیسل ہوٹل پہنچ 54

Page 51

جاتا.خان بہادر صاحب مسٹر لیستی کو چائے پر بلاتے اور وہ نوٹ دے دیتے.اسے پڑھنے کے بعد اگر اس کے متعلق کوئی چیز وضاحت طلب ہوتی تو صدر محترم سے ٹیلیفون پر بات کرلی جاتی.الغرض اس طرح رفتہ رفتہ انگریزی پریس میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی سرگرمیوں کا خوب چرچا ہونے لگا جس سے متاثر ہو کر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بھی اپنے رویہ میں تبدیلی کرنا پڑی.مسلم پریس کا تعاون مسلم پریس میں کمیٹی کی مہم کے ساتھ تعاون میں روزانہ انقلاب“ پیش پیش تھا.ریاست نے ارادہ کیا کہ ”انقلاب پر سرکاری عدالت میں مقدمہ چلا جائے اس کی اطلاع ملتے ہی محترم صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے ”انقلاب“ کو یہ تار دیا.وو مجھے یہ سُن کر بہت مسرت ہوئی کہ حکومت کشمیر انقلاب کے خلاف مقدمہ چلانا چاہتی ہے.اگر ایسا ہوا تو ہمیں موقع ملے گا کہ ہم کشمیر کے مظالم کو انگریزی عدالت میں بے نقاب کر سکیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو اس سلسلہ میں میری ہر قسم کی تائید حاصل رہے گی...اور مولانا عبد الرحیم صاحب در دسیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے حسب ذیل تار ”انقلاب“ کو بھیجوا د ما:.یہ خبر کہ حکومت کشمیر انقلاب کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والی ہے.محض دھمکی معلوم ہوتی ہے اگر اُس نے مقدمہ دائر کر دیا تو آپ یقین رکھئے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی انقلاب“ کی کما حقہ امداد حمایت میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھے گی.ان تاروں کا اخبارات میں شائع ہونا تھا کہ ریاست کے حکام گھبرا گئے مہاراجہ کے بہی خواہوں نے انہیں مشورہ دیا کہ اس ارادہ کو ترک کر دیا جائے ایسا نہ ہو کہ نماز بخشواتے 55

Page 52

بخشوا تے روزے گلے پڑ جائیں.چنانچہ ریاست نے یہ ارادہ ترک کر دیا.۳ را گست ۱۳۱ء کو سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے مہاراجہ کویہ تار دیا کہ:.براہ مہربانی نواب سر ذوالفقار علی خاں.نواب محمد ابراہیم خاں آف کنجچورہ.خواجہ حسن نظامی.خاں بہادر شیخ رحیم بخش اور مولانا اسماعیل غزنوی پر مشتمل ایک وفد کو اجازت دیں کہ وہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے سلسلہ میں اگلے مہینہ کی کسی تاریخ کو آپ کی خدمت میں حاضر ہو.اس تار کا جواب وزیر اعظم کشمیر کی طرف سے تار کے ذریعہ ۱۵ اگست کو یہ آیا کہ:.صورتحال پر پوری طرح قابو پالیا گیا ہے اور حالات اب اصل حالت میں ہیں.غیر جانب دارانہ تحقیق ہو رہی ہے.ایسے موقع پر کسی وفد کے آنے سے لازماً از سرِ نو جوش پیدا ہو جائے گا.اس لیے افسوس ہے کہ ہز ہائی نس آپ کی درخواست منظور نہیں کر سکتے." وزیر اعظم کی طرف سے یہ تار موصول ہوا تو اسی وقت صدر محترم آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے ( جو ابھی تک شملہ میں مقیم تھے ).مہاراجہ کے نام تار دیا اور پہلے تاروں کا حوالہ دے کر لکھا کہ:.میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کریں اگر چہ کشمیر کے حالات بظاہر اصلاح پذیر نظر آتے ہیں.مگر ہماری معلومات کے لحاظ سے ایجی ٹیشن شدید ہے.اور اس کی جڑیں بہت گہری ہیں.علاوہ ازیں ہندوستان کے مسلمانوں میں کشمیر کے معاملات سے متعلق تشویش اور غم و غصہ ہے.ان حالات میں آپ کی طرف سے اس 56

Page 53

وفد کو ملاقات کا موقع دینے سے حالات میں سکون پیدا ہوگا..اس کے برعکس ایسے معزز افراد کو ملاقات کی اجازت دینے سے انکار پر مسلمانوں کے شکوک وشبہات میں اضافہ ہوگا.“ اس تار کا جواب بھی وزیر اعظم کی طرف سے بذریعہ تارہی ملا.جس میں صدر محترم کے تار کا حوالہ دے کر لکھا تھا:.”ہز ہائی نس کی گورنمنٹ کا اب تک یہی خیال ہے کہ ایسی حالت میں جب کہ حالت بدستور سابق ہوچکی ہے اور معاملات روبہ اصلاح ہیں.کسی بیرونی وفد کی آمد سے یقینا تازہ جوش اور شبہات پیدا ہوں گے.خاص کر ایسی حالت میں جب کہ آپ خود آگاہ ہیں کہ ایجی ٹیشن کی جڑیں بہت گہری ہیں.“ مہاراجہ کے لئے مصیبت وفد کی تجویز کر کے صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے مہاراجہ کو ایک مصیبت میں ڈال دیا.اور اس کے گلے میں ایک چھپکلی انکاری تھی جسے اب وہ نگل سکتا تھا نہ اگل سکتا تھا.وفد کے لئے جن زعماء کے نام تجویز کئے گئے تھے وہ مسلمانوں میں ہر دلعزیز ہونے کے علاوہ اس پایہ کے تھے کہ انہیں سیم وزر سے خریدا نہ جاسکتا تھا.مہاراجہ نے اس وفد سے ملاقات سے انکار کر کے وہ خطرہ مول لیا جس کا خمیازہ اُسے بہت جلد بھگتنا پڑا.ادھر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو اس انکار سے زبر دست تقویت پہنچی جس کا مظاہر ۱۴۰ راگست کے کشمیر ڈے کے موقع پر ہوا.کمیٹی کے وفد کو کشمیر جانے کے لیے اس لیے روکا گیا تھا کہ جہاں کشمیری عوام بڑی جرأت کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہاں بعض ریاستی مسلمانوں کے حوصلے گولی چلنے اور تشدد اور 57

Page 54

بربریت کے واقعات سے قدرے متذبذب و متزلزل نظر آتے تھے.اگر وفد چلا جاتا تو ان کے حوصلے یقیناً اور بلند ہو جاتے.اسی سے مہاراجہ ڈرتا تھا.لیکن وہ نمائندگان جو شملہ کانفرنس میں شمولیت کے بعد کشمیر پہنچے.انہوں نے ان کو بتایا کہ ہندوستان کے تمام مسلمان اور پریس آپ لوگوں کے ساتھ ہیں.اور وہ ہر مشکل مرحلہ پر ہماری امداد کے لئے پہنچیں گے.اور اس وقت تک دم نہ لیں گے.جب تک ہمیں بنیادی حقوق نہ دلوالیں.ان نمائندوں کے پہنچنے پر کام میں تیزی اور نئی زندگی پیدا ہوگئی.کشمیر کمیٹی کے وفد کو تو اجازت نہ دی گئی.مگر بعض گروہوں کے وفد کشمیر میں بلوائے گئے.ان کو شاہی مہمانوں کی طرح رکھا گیا.کیونکہ ریاست کو یقین تھا کہ وہ اس کے آلہ کا رہنے رہیں گے.اس کی تفصیل آگے آئے گی.یہاں صرف ایک مثال ہی پیش کی جاتی ہے.روز نامہ انقلاب کے نامہ نگار خصوصی نے سری نگر سے اطلاع دی کہ:.اختر علی ابن ظفر علی خان مالک زمیندار دو ہزار کا ایک چیک امپرئیل بنگ سری نگر سے بھنانے کے بعد لاہور روانہ ہو گیا.اور ریاست کے حقوق میں پراپیگنڈہ کرنے کے لئے وعدہ کر گیا - 1 (1 انقلاب لا ہو ر ا گست ۶۳۱) یہ خبر تمام اخبارات میں اسی وقت شائع ہوگئی.چنانچہ مرتاض فیروز پوری نے اس کے متعلق ایک نظم میں کہا:.دشمنان حق نے کرلی سلب آزادی تری اپنی نادانی بھی دیکھ اور ان کی عیاری بھی دیکھ 58

Page 55

فتنہ ساماں بن رہا ہے تو جنوبی ہند میں اپنے اختر کی یہاں آکر سیہ کاری بھی دیکھ 1 (1) واضح رہے کہ جو لوگ اب اس دنیا سے گزر چکے ہیں ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے لیکن تاریخ لکھنے والا اپنے فرض نمی سے مجبور ہے کہ اصل واقعات کو صفحہ قرطاس پر من و عن لے آئے.ظا) اور جب اس نمک حلال اخبار نے ریاست کے حسب منشاء کام شروع کر دیا تو کشمیر کے کئی معزز اور صاحب اثر اصحاب نے ایک اپیل شائع کی جس کے آخر میں لکھا:.”ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس مصیبت کے وقت غدار اور قوم فروش اخبار ”زمیندار“ یہ کونسی خدمت انجام دے رہا ہے کہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے سارا اخبار قادیانیت کے جھگڑے میں سیاہ کر کے ہماری پریشانی کا باعث بن رہا ہے.ہم خوب جانتے ہیں کہ مسٹر اختر علی خاں نے کشمیر میں آکر اور سرکاری مہمان بن کر آریہ اخبارات کی کس طرح حمایت شروع کر رکھی ہے “.11 انقلاب لاہور ۸ ستمبر ۶۳۱) حقیقی نمائندگی آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے قیام کی خبر شائع ہوتے ہی اکابرین ہند اس کے رکن بننا شروع ہو گئے.چنانچہ دو چار دنوں کے اندراندر ہی -1 مولانا یعقوب خاں ایڈیٹر لائٹ کانپور 2 مولانا حسرت موہانی کا نپور 59 59

Page 56

-4 -5 -6 -7 -8 -9 ڈاکٹر شفاعت احمد خاں.ایم.ایل سی الہ آباد حاجی سیٹھ عبداللہ ہارون.ایم.ایل.اے کراچی مسٹرایم.ایچ.ایس.سہروردی ایم.ایل.اے کلکتہ مولا نا شفیع داؤدی ایم.ایل.اے پٹنہ صاحبزادہ مولانا ابوظفر وجیہ الدین کلکتہ ڈاکٹر ضیاء الدین ایم.ایل.اے.میاں جعفر شاہ شاہ آباد پشاور بھی کمیٹی کے ممبر بن گئے اور اس کے بعد نہایت مختصر وقت میں ہندوستان کے ہر صوبہ.ہر طبقہ.اور ہر فرقہ کے اکابر نے کشمیر کمیٹی کی ممبری قبول کر کے اسے مسلمانان ہند کی حقیقی نمائندہ جماعت بنا دیا.مختلف صوبوں کی لیجسلیٹو کونسلوں اور مرکزی لیجسلیٹو اسمبلی کے مسلمان ممبروں کے علاوہ دیوبند کے مشہور فاضل مولانا سید میرک شاہ، اہل حدیث کے لیڈر مولا نا میر محمد ابراہیم سیالکوٹی اور مولانا اسمعیل غزنوی سجادہ نشینوں میں سے خواجہ حسن نظامی اور مولانا ابوالحمد ظفر بنگالی سیاست دانوں میں سے مولانا حسرت موہانی.مولانا شفیع داؤدی اور ڈاکٹر شفاعت احمد.کانگرسیوں میں سے ملک برکت علی اور مشیر حسین قد والی تعلیم جدید کے ماہرین میں سے ڈاکٹر ضیاء الدین فلسفیوں اور شاعروں میں سے ڈاکٹر محمد اقبال کشمیر کے دیرینہ خادموں میں سے سید محسن شاہ اور اخبار کے ایڈیٹروں میں سے مولانا غلام رسول مہر.مولانا عبدالحمید سالک.مولانا یعقوب خاں.مولانا مظہر الدین.مولانا سید حبیب شاہ اور مولانا نور الحق.غرض ہر طبقہ کے زعماء نے اس کمیٹی میں شامل ہوکر ثابت کر دیا کہ صرف اور صرف یہی ایک کمیٹی ہے جو تمام مسلمانان ہند کی نمائندہ ہے جس پر آل انڈیا مسلم لیگ کا نفرنس.آل 60

Page 57

انڈیا مسلم کشمیر کا نفرنس اور دیگر انجمنوں نے بھی تائید و تعاون کا اعلان کر دیا.61

Page 58

وو بمبئی میں مولانا شوکت علی کی صدارت میں جلسہ منعقد ہوا.جلوس میں ایک ہزار باور دی والنٹیر ؤں نے شرکت کی بمبئی کے جلسہ عام میں اتنا بڑا ہجوم اس سے پہلے کبھی نہ 6 دیکھا گیا تھا..." کشمیر ڈے آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے باشندگان کشمیر کی بیش قیمت اور بے لوث خدمت کی شہدا اور مجروحین کے لواحقین کے لیے فوری مالی امداد کا اہتمام کیا.زخمیوں اور بیماروں کے علاج کا انتظام کیا.مقدمات میں ماخوذ سینکڑوں لوگوں کے مقدمات کی پیروی کے لیے نہایت قابل وکلاء بھجوائے.جنہوں نے مہینوں وہاں رہ کر بلا معاوضہ ان کے مقدمات کی پیروی کی اور انہیں قید و بند اور موت کے منہ سے چھڑایا کشمیر کے گوشہ گوشہ میں ان کی تنظیم قائم کی اور وسیع مالی اعانت مہیا کر کے اہل کشمیر کو اپنی جد و جہد آزادی کو جاری رکھنے کے قابل بنایا.صدر کمیٹی نے (اپنے وسیع وسائل اور ذرائع کو کام میں لاتے ہوئے ) نہ صرف ریاست اور ہندوستان میں بلکہ انگلستان میں بھی ایسے رنگ میں پراپیگنڈہ کرایا جس سے جرائد عمائد اور حکمران کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا.اور کشمیریوں کی مظلومیت زبان زدِ عام 62

Page 59

ہوگئی.پارلیمنٹ میں سوال ہونے شروع ہو گئے.اگر ان سب باتوں کی تفصیل لکھی جائے.تو کئی ضخیم جلدیں بن جائیں گے.میں یہاں مشتے از خروارے کے طور پر اس کا صرف ہلکاسا خا کہ ہی پیش کئے دیتا ہوں.(1) مجھے یقین ہے کہ اک نہ اک دن کوئی باہمت در دمند نو جوان ان تمام تفاصیل کو محفوظ کرنے کی توفیق بھی اپنے خدا سے ضرور پائے گا.ظ.۱) آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے قیام کے بعد صدر کمیٹی نے چند روز شملہ میں قیام کیا.مولانا عبد الرحیم در دسیکرٹری کمیٹی نے پولیٹکل ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ دار افسران اور پولیٹکل سیکرٹری سے ملاقات کی (جوان دنوں صوبہ جات کے گورنر کے برابر درجہ کا ہوتا تھا ) محترم درد صاحب کی ملاقات سے وہ اس قدر متاثر ہوا کہ صدر محترم سے ملاقات کے لیے خود ” فیر ویو میں آیا.جہاں تفصیل سے تمام معاملات پر تبادلہ خیالات ہوا.اس کے بعد جناب صدر وائسرائے ہند سے ملے.اس طویل ملاقات میں کشمیر سے متعلق تمام معاملات وائسرائے ہند کے سامنے رکھے گئے.گورنر پنجاب سے ملنا بھی ضروری تھا.کیونکہ ریاست کی بیشتر حدیں اسی صوبہ سے ملتی تھیں آپ نے گورنر پنجاب سے بھی ملاقات کی.سر سکندر حیات خاں ان دنوں گورنمنٹ میں ذمہ دار عہدہ پر فائز تھے.انہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو کھانے پر مدعو کیا.وہاں بھی کشمیریوں کے مطالبات کی وضاحت ہوئی اور یوں حکام کے حلقہ میں باشندگانِ ریاست کا نقطہ نظر بڑے ہی احسن طریق پر پیش ہو گیا اور حکومت ہند بھی پورے طور پر اس مسئلہ میں دلچسپی لینے لگی.انگلستان میں بھی وائسرائے اور حکومت ہند کی تاریں تو دراصل انگلستان ہی سے ہلتی تھیں.پارلیمنٹ کے ممبروں اور وہاں کے پریس کو اپنا ہمدرد بنانا ضروری تھا.ایسے کام خط و کتابت سے نہیں ہوا 63

Page 60

کرتے کمیٹی کو ایک با اثر نمائندہ کی ضرورت تھی.جو انگلستان میں رہ کر یہ کام کرتا صدر محترم کو یہ سہولت بھی میسر تھی کہ ان کے نمائندے ہر ملک میں موجود تھے خاں صاحب مولانا فرزند علی لندن میں امام تھے اور پارلیمنٹ کے حلقوں اور پریس میں احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے.ان کو ہر بڑی تقریب میں مدعو کیا جاتا تھا.اس لیے ان کی واقفیت بھی وسیع ہو چکی تھی.انہیں شملہ سے ہی کشمیر کے متعلق پوری معلومات ارسال کر کے کام کے متعلق ہدایات دے دی گئیں.چنانچہ انگلستان میں بھی پورے زور سے کشمیر کے متعلق کام شروع ہو گیا اور پارلیمنٹ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا نہ صرف ذکر آیا بلکہ سوالات تک پوچھے گئے اور پارلیمنٹ کے بعض ممبروں نے ہر طرح کی امداد کا وعدہ کیا.کشمیر ڈے ۱۴ /اگست کو کشمیر ڈے منانے کا اعلان ہو چکا تھا.حکومت ہند اور حکومت کشمیر بڑے غور سے اس اعلان کے ردعمل کا انتظار کر رہی تھیں.اُدھر صدر کمیٹی کی دور بین نگاہ بھی اس چیز کو بھانپ رہی تھی.لہذا اس دن کو کامیاب بنانے کے لیے اخبارات میں متواتر نوٹ بھجوائے جارہے تھے اور کشمیریوں کے ہمدردوں کو خطوط کے ذریعہ تعاون کی تحریک کی جارہی تھی مجھے یاد ہے کہ ہم جتنے روز شملہ میں رہے رات کے دو بجے سے پہلے کبھی کام ختم نہ ہوتا تھا.اس لیے کہ آج کا کام کل پر ڈالنے کا سبق ہمارے اُستاد نے ہمیں پڑھایا ہی نہ تھا.۱۴ اگست کو کشمیر ڈے پورے اہتمام کے ساتھ منائے جانے کے متعلق صدر محترم کا ایک مفصل مضمون شملہ ہی سے تمام اخبارات کو بھجوا دیا گیا.جسے اکثر اخبارات نے بہت نمایاں کر کے شائع کیا اس میں ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے لکھا گیا تھا 64

Page 61

مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اُنکے تمیں لاکھ بھائی ہے بے زبان جانوروں کی طرح قسم قسم کے ظلموں کا تختہ مشق بنائے جارہے ہیں.جن زمینوں پر وہ ہزاروں سال سے قابض تھے ان کو ریاست کشمیر اپنی ملکیت قرار دے کر نا قابل برداشت مالیہ وصول کر رہی ہے.درخت کاٹنے.مکان بنانے.بغیر اجازت زمین فروخت کرنے کی اجازت بھی نہیں.اگر کوئی شخص کشمیر میں مسلمان ہو جائے.تو اُس کی جائداد ضبط کرلی جاتی ہے بلکہ اہل وعیال تک ( اُس سے زبر دستی چھین کر ) الگ کر دیئے جاتے ہیں.ریاست جموں و کشمیر میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں.انجمن بنانے کی اجازت نہیں.اخبار نکالنے کی اجازت نہیں.غرض اپنی اصلاح اور ظلموں پر شکایت کرنے کے سامان بھی اُن سے چھین لیے گئے.وہاں کے مسلمانوں کی حالت اس شعر کی مصداق ہے.نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے گھٹ کے مرجاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے جب اس صورتِ حالات کے خلاف جموں کے مسلمانوں نے ادب و احترام سے نہ کہ شرارت و شوخی سے ) مہاراجہ صاحب کے پاس شکایت کی تو بذریعہ تارجموں کے مسلمانوں کے نمائندوں کو بلوایا گیا.کہ مہاراجہ صاحب کے پاس اپنی مفروضات پیش کریں.لیکن کئی دن تک آج نہیں کل کرتے ہوئے ان کی شکایات سننے کی بجائے انہیں جیل خانہ میں ڈال دیا گیا.جن میں سے کئی اب تک جیلوں میں پڑے سڑر ہے ہیں.کشمیر کے اُن مسلمانوں کے سینے جو صرف ایک ہمدرد کشمیر کے مقدمہ 65

Page 62

کی کاروائی سننے کی خواہش کے مجرم تھے گولیوں سے چھلنی کر دئیے گئے.ان غریب قیدیوں اور بے کس مجروحوں اور خاموشی سے جان دینے والوں کا صرف یہ قصور تھا کہ وہ مسلمان کہلاتے تھے اور انہیں اب یہ احساس کیوں پیدا ہونے لگ گیا تھا کہ ہم بھی انسان ہیں...پس آج ہر ایک مسلمان ( جو ہندوستان کے کسی گوشے میں رہتا ہے اُس سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ ۱۴ راگست کو جلسہ کرائے یا جلسے میں شامل ہو.اور اس صورتحال کے خلاف احتجاج کرے.کیونکہ جموں اور کشمیر کے تمیں لاکھ مسلمانوں کی آواز جو غلامی کے شکنجے میں کسے ہوئے بری طرح کراہ رہے ہیں.کسی خیر خواہ ملت کو آرام و چین سے سونے نہیں دے سکتی...پمفلٹ "کشمیر ڈے“ کا پروگرام مطبوعہ اگست 31 ء) انعقاد کا پروگرام پروگرام یہ طے پایا کہ ہر جگہ جلوس نکالا جائے اور وسیع پیمانہ پر مطالبہ کیا جائے اور اس میں ہر فرقہ کے لوگوں کو شامل ہونے کی دعوت دی جائے.ایک مختصر رسالہ مولانا عبد الرحیم صاحب درد (سیکرٹری آل انڈ یا کشمیر کمیٹی ) نے تیار کر کے خاص اُس دن کے لئے شائع کیا.اس تاکید کے ساتھ اس کی کثرت سے اشاعت کی جائے اور جلسہ میں یہ واضح کیا جائے کہ ہم مہاراجہ کو تخت سے اتروانا نہیں چاہتے.ہم صرف مسلمانوں کو ابتدائی انسانی حقوق دلانے کی کوشش کر رہے ہیں....یہ ہند و مسلم سوال بھی نہیں ہے.ریزولیوشن پاس کیے جائیں جس میں تو ہین قرآن مجید.خطبہ کے روکنے کی ناپاک کوشش اور بے گناہوں پر گولی چلانے کے واقعات پر نفرت کا اظہار کیا جائے.اور حکومت برطانیہ سے آزاد تحقیقاتی کمیٹی کے تقرر کا مطالبہ کیا جائے 66

Page 63

.مقدمات میں ماخوذ لوگوں کے مقدمات کی پیروی کے لئے باہر سے وکلاء کو پیروی کرنے کی اجازت دیئے جانے کا مطالبہ کیا جائے.نیز مذہبی آزادی انجمنیں بنانے کی آزادی اخبار نکالنے کی آزادی زمین کے مالکانہ حقوق دیئے جانے...ملازمتوں میں ستر فیصد حصہ دیئے جانے اور مجلس قانون ساز بنائے جانے کے متعلق بھی ریزولیوشن منظور کر کے مطالبہ کیا جائے.یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ جلسہ اور جلوسوں کی مفصل روئدا د سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو بھجوانے کے علاوہ ریزولیوشنوں کی نقول اپنے صوبہ کے گورنر وائسرائے ہند اور پریس کو بھجوائی جائیں.شملہ سے صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی ۱/۸ اگست ۳۱ ء کو لوٹے اور ۹ راگست کو قادیان (ضلع گورداسپور ) میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا مرکزی دفتر کھل گیا.اور اللہ تعالیٰ کا فضل کہ کشمیر ڈے کی تحریک ہم سب کی تو قعات سے بڑھ کر کامیاب ہوئی.لاہور کا جلسہ کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر سر محمد اقبال کی صدارت میں ہوا.جلوس اور جلسہ میں ایک لاکھ افراد نے شرکت کی.کلکتہ میں سر سہروردی کی صدارت میں جلسہ ہوا.یہ بھی کمیٹی کے رکن تھے.جلوس بھی نکالا گیا.پچاس ہزار مسلمان شامل ہوئے.بمبئی میں مولانا شوکت علی کی صدارت میں جلسہ ہوا.جلوس کے انتظام کے لئے ایک ہزار باور دی والنٹیر زموجود تھے.اتنا بڑا ہجوم تھا کہ اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا گیا تھا.سیالکوٹ میں آغا حیدر پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی صدر او کل کشمیر کمیٹی کی صدارت میں جلسہ ہوا.جلوس میں ساٹھ ہزار سے زائد لوگ تھے.پٹنہ میں مولانا شفیع داؤدی ممبر کمیٹی کی صدارت میں جلسہ ہوا.اور مولانا نے اطلاع دی کہ صوبہ بہار میں قریباً ہر جگہ جلسے ہوئے اور دوسرے صوبوں کی طرح یہاں بھی مسلمانوں 67

Page 64

نے جوش کا مظاہرہ کیا.دیو بند میں مہتمم صاحب دارالعلوم کی صدارت میں جلسہ ہوا.رنگون میں بھی جلسے ہوئے.مالا بار میں بھی جلسے ہوئے.پشاور اور صوبہ سرحد میں بھی جلسے ہوئے.اس طرح دہلی میں بھی شاندار احتجاجی جلسے منعقد ہوئے.ایک سرے سے دوسرے سرے تک ، خلاصہ یہ کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی تحریک پر ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ) ہر طبقہ، ہر فرقہ اور ہر خیال کے مسلمانوں نے کشمیر ڈے نہایت شاندار اور پُر جوش طریق سے منایا مسلمانوں کے خلاف حکومت کشمیر کی نا انصافیوں اور ستم رانیوں کے متعلق جس زور سے مظاہرے کئے گئے.اور مسلمانانِ کشمیر کو مصائب و آلام کے ہجوم میں جس مخلصانہ رنگ میں ہر طرح امداد کا یقین دلایا گیا.وہ حکومت کشمیر کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھا صدر محترم ( آل انڈیا کشمیر کمیٹی ) نے باشندگانِ کشمیر کو بھی یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ وہ بھی اس دن کشمیر ڈے منائیں.ہر شخص اپنے باز و پر ماتمی سیاہ بیج باند ھے.ریاستی حکومت نے ہر قسم کی رکاوٹیں پیدا کیں اور کئی غلط افواہیں پھیلائیں اس کے باوجود کشمیر کے مسلمانوں نے ہر جگہ اس ہدایت کی تعمیل کی.سری نگر میں مکمل ہڑتال ہوئی.جامعہ مسجد میں عظیم الشان جلسہ ہوا.ریزولیوشن پاس ہوئے.ایک ریزولیوشن میں متعصب وزیر اعظم ہرکشن کول کی علیحدگی کا بھی مطالبہ کیا گیا 68 80

Page 65

69 69...اس دن ہر ن ہر شخص بازو پر سیاہ پٹی باندھے نظر آتا تھا جموں میں بھی اسی طریق پر بلکہ پولیس کے تشدد کے باوجود کشمیر ڈے منایا گیا.۱۳ جولائی کو جو لوگ گولیوں کا نشانہ بنائے گئے تھے.اُن کے ساتھ ہمدردی کے اظہار کے لئے سری نگر میں جو جلسہ ہوا اُس کے فوراً بعد شیخ محمد عبد اللہ اور خواجہ غلام نبی گل کار کو گرفتار کر لیا گیا تھا.کچھ دیر بعد مولوی عبد الرحیم ایم اے بھی پکڑے گئے.جموں کے نمائندگان کوخود ریاست نے بلوایا تھا لیکن اُن میں سے بھی چودھری غلام عباس اور ایم یعقوب علی جیل پہنچا دیئے گئے.مگر ان سب کو 14 اگست سے پہلے پہلے ریاستی حکومت رہا کرنے پر مجبور ہوگئی جلسہ سری نگر کے انعقاد سے پیشتر ہی صدر ( آل انڈیا کشمیر کمیٹی ) کی طرف سے چودھری عظمت اللہ خاں بی.ایس سی ایل ایل بی اور ڈاکٹروں کا ایک وفد جموں زخمیوں کو طبی امداد اور شہدا کے پس ماندگان کو مالی امداد مہیا کرنے کے لئے پہنچ گیا تھا.جس پر جلسہ کے دوران دلی اطمینان کا اظہار کیا گیا.

Page 66

وو ہر ممکن احتیاط کے باوجود تین پتھر کشمیریوں کے اس محسن کے بھی لگے جس نے اپنی ابتدائی عمر ہی سے ان مظلوموں کی امداد شروع کر رکھی تھی...66 سیاسی منفعت پسند شومی تحریر کہ اب ایک ایسے موڑ پر آچکی ہے کہ اس سے متعلق چند تلخ حقائق چھپائے نہیں بنتی.کانگرس کمیٹی میں کچھ مسلمان بھی شامل تھے اُن کے نچلے طبقے کا ایک حصہ کانگرس ہائی کمان سے ناراض ہو کر یارد کئے جانے کے بعد پنجاب میں کسی نئے سیاسی میدان کی تلاش میں تھا.انہوں نے اس زرخیز میدان میں کودنا مناسب سمجھا اور کشمیر ایجی ٹیشن کی قیادت اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کر لیا.حالانکہ اگر مقصد باشندگانِ کشمیر کی خدمت ہوتی.تو انہیں اس کمیٹی میں شامل ہونا چاہیے تھا.جو تمام مسلمانان ہند کی صحیح نمائندہ جماعت تھی اور جس کا ثبوت تھا کہ اس کمیٹی کو آل مسلم پارٹیز کانفرنس نے اپنی شاخ قرار دیا تھا اور آل مسلم پارٹیز کانفرنس وہ جماعت تھی جس کے ممبر تمام صوبائی کونسلوں کے منتخب شدہ ممبر اور اسمبلی کے منتخب شده ممبر اور کونسل آف سٹیسٹ کے منتخب شدہ نمبر بھی تھے اس کے علاوہ مسلم لیگ کے ہیں، جمیعۃ العلماء کے ہیں، خلافت کمیٹی کے ہیں اور ہندوستان کے عام شہرت رکھنے والے تھیں مسلم ممبر تھے.اور پھر نہ صرف جمہور مسلمانان ہند بلکہ کشمیر کے مسلمانوں کو بھی اس پر گلی اعتماد تھا 70

Page 67

لیکن اس کے باوجود اُس مشار الیہ طبقہ نے اپنی ایک علیحدہ پارٹی بنا کر قوم میں شقاق پیدا کرنے کی کوشش کیوں کی؟ یہاں اس امر کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے قیام کے ساتھ ہی اس کمیٹی کے صدر نے اس پارٹی کے دو لیڈروں کو بھی کمیٹی میں شمولیت کی دعوت ( خطوط کے ذریعہ ) دینے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے ایک قریبی دوست مولانا اسماعیل غزنوی کو مقر رکیا تھا کہ وہ انہیں کمیٹی میں شامل ہونے کی تحریک کریں.لیکن اس وقت وہ نہ مانے تھے شاید اس لئے کہ اس وقت ابھی اس مسئلہ میں اتنی حرارت نہ پیدا ہوئی تھی اور ذاتی سیاسی منفعتوں کے پھلنے پھولنے کی گنجائشیں کم تھیں.اب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی مساعی کے طفیل مظلومین کشمیر کی داستان درد ہر ذی شعور کی زبان پر تھی.علیحدہ پارٹی بنانے کے جواز میں صرف ایک ہی دلیل دی جاسکتی ہے کہ ان لوگوں کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر سے مذہبی امور میں اختلاف تھا.لیکن سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے جواہر لعل نہرو.مسٹر گاندھی.سبھاش چندر بوس اور پٹیل ایسے لوگوں کو اپنا سیاسی پیر ما نا ہوا تھا.وہ ایک کلمہ گو کی قیادت میں کیوں کام نہ کر سکتے تھے....! جس شخص کو کسی قسم کی نام و نمود کا خیال نہ ہو.اور اس کی قطعی غرض خدمت قوم ہی ہو کیا اُس کے کام کرنے کے یہی انداز ہوتے ہیں؟.....صدر محترم کشمیر کمیٹی نے اس موقع پر اس قدر فراخ حوصلگی کا مظاہرہ فرمایا کہ فوراً ڈاکٹر سر محمد اقبال.مولوی محمد اسماعیل غزنوی اور مولانا غلام رسول مہر کو خطوط لکھے کہ اگر اس طبقہ کو میرے صدر ہونے پر اعتراض ہو.تو آپ انہیں تیار کریں کہ وہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے رکن 71

Page 68

بن جائیں اور مسلمانوں کی کثرت رائے کے ماتحت چلنے کا اقرار کریں.اگر وہ اس امر کے لئے تیار ہو جائیں تو میں فوراً صدارت سے مستعفی ہو جاؤں گا.لیکن وہ اس کے لئے بھی آمادہ نہ ہوئے بہر حال یہ لوگ میدان میں کود پڑے.اور آئندہ کے واقعات بتائیں گے کہ انہوں نے مسلمانوں کے مقصد وموقف کو فائدہ پہنچایا.یا ان کی یہ سیاسی شورہ پشتی سراسراس تحریک کے لئے نقصان کا باعث ثابت ہوئی.سیالکوٹ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا اجلاس ۱۲ ۱۳ دسمبر ۳۱ء کو سیالکوٹ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا اجلاس تھا.اس میں شمولیت کے لئے محترم صدر کمیٹی ار تاریخ کو بعد دو پہر گاڑی کے ذریعہ روانہ ہوئے ( راقم الحروف کو بھی اس سفر میں ہر وقت آپ کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا اور اس نے سب حالات اپنی آنکھوں سے دیکھے ) بٹالہ.ویرکا اور ڈیرہ بابا نانک کے اسٹیشنوں پر لوگ بڑی کثرت سے خوش آمدید کہنے کے لئے پہنچے ہوئے تھے.ہر اسٹیشن اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اُٹھا تھا.پلیٹ فارم لوگوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے اور اسٹیشن کے باہر آدمی ہی آدمی نظر آتے تھے.کشمیر ڈے کے موقع پر یہ بات واضح کر دی گئی تھی.کہ کشمیر کا سوال ہندو مسلم سوال نہیں.اس لئے ہندوؤں.سکھوں اور مسلمانوں کو مل کر کوشش کرنی چاہیے کہ کشمیریوں کو ان کے جائز حقوق مل جائیں.اس کا اثر ہندو اور سکھ شرفاء پر بہت اچھا ہوا.جس کا مظاہرہ انہوں نے نارووال کے اسٹیشن پر صدر محترم کے شاندار استقبال میں سرگرمی سے حصہ لے کر کیا.صدرِ محترم کے قیام کا بندوبست ڈاک بنگلہ میں کیا گیا تھا.آپ اسٹیشن سے جلوس کی صورت میں پیدل وہاں تشریف لے گئے.راستہ پر دونوں طرف لوگ موجود تھے اور خوشی سے نعرے لگا رہے تھے.چھتوں پر عورتیں اور بچے بیٹھے نعرہ ہائے مسرت نچھاور کر رہے تھے.72

Page 69

دوسرے روز ہم سب نارووال سے صبح کی گاڑی پر سوار ہو کر سیالکوٹ پہنچے.پسرور اور چونڈہ کے ریلوے سٹیشنوں پر بڑی کثرت سے لوگ آئے ہوئے تھے.چونڈہ میں تو ہزاروں کا مجمع تھا.جب گاڑی اسٹیشن پر پہنچی تو اہالیان سیالکوٹ نے اپنے معزز محترم مہمان کا اُن کی شان کے مطابق استقبال کیا.پلیٹ فارم پر اور اسٹیشن کے باہر لوگوں کے جم غفیر کو کنٹرول کرنے کے لیے باوردی والنٹیر زبہت بڑی تعداد میں موجود تھے.اراکین کشمیر کمیٹی اور معززین شہر اور معززین ضلع نے آگے بڑھ کر صدر محترم کا استقبال کیا.استقبال کرنے والوں میں ہر مذہب وملت کے معززین اور مسلمانوں کے ہر فرقہ کے لوگ خوشی سے شریک ہوئے.پھر آپ موٹر پر سوار ہو کر جلوس کی صورت میں مع اپنے ہمراہیوں کے جناب آغا حیدر رئیس سیالکوٹ کے مکان پر ( جہاں آپ کی اور آپ کے چند ساتھیوں کی رہائش کا انتظام تھا) صدر محترم کے تین لیکچر بعد دو پہر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا اور دوسرے روز دوبارہ اجلاس ہوا.اہم فیصلے ہوئے.درمیانی وقفوں میں آپ نے تین لیکچر بھی دیئے.ایک مسجد کبوتراں والی میں جس میں ہزاروں کا مجمع تھا.اور آپ وہاں پیدل تشریف لے گئے تھے.ایک لیکچر عورتوں کے ایک اجتماع میں دیا اور ایک کھانے کی دعوت کے بعد میر عبد السلام کے مکان پر معززین سیالکوٹ کی درخواست پر جو اس دعوت میں شریک تھے.سارے شہر میں صدر محترم کی آمد کا چر چا تھا.معززین اور اراکین کمیٹی نے آپ سے درخواست کی.کہ لوکل کشمیر کمیٹی نے جلسہ عام کا انتظام کیا ہے جس کے لئے قلعہ کا وسیع میدان تجویز کیا گیا ہے.پبلک کی خواہش ہے کہ آپ بھی تقریر فرما ئیں آپ نے یہ دعوت قبول فرمائی 73

Page 70

.اور اس کا اعلان سارے شہر میں کر دیا گیا.اس پارٹی نے (جس کا ذکر اوپر آیا ہے ) اس موقع کو غنیمت جانا.ایک طرف ریاستی حکام کو خوش کرنے کے لئے جو صدر محترم کی آمد پر حالات کا جائزہ لینے کے لیے سیالکوٹ آئے ہوئے تھے اور دوسری طرف اپنا نام پیدا کرنے کے لیے اس قول کے مطابق کہ.....بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا دیا تھا کہ یہ فیصلہ کیا.کہ اس جلسہ میں اپنے گرو کی نصیحت پر عمل کریں.جس نے انہیں کا یہ سبق اپنی پگڑی پہلے ہی بغل میں دابے پھرتے ہیں اور دوسروں کی اُچھل جائے تو افسوس نہیں کرتے.( تاریخ احرار صفحہ (41) ان معلمین اخلاق فاضلہ نے کرایہ پر چند ” بھلے مانسوں“ کی خدمات حاصل کیں اخراجات تو بہ ہر حال ریاست کے کارندوں نے ادا کرنے ہی تھے....ان کو اس بات کی تربیت دی گئی.کہ جب اسٹیج تیار ہو جائے فوراً اسٹیج پر قبضہ کر لو اگر کوئی مزاحمت کرے تو ہاتھوں سے سیدھا کر دو.اور جب فتحمند ہو جاؤ.تو فوراً ہمیں اطلاع دو.ہم پہنچ جائیں گے اور کشمیر کمیٹی کی بجائے ”ہماری پارٹی کا جلسہ ہوگا.لیکن.....جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے..ہوا یہ کہ جلسہ کا وقت نو بجے رات مقرر تھا لیکن لوگ آٹھ بجے سے جوق در جوق جلسہ گاہ میں آنا شروع ہو گئے.اور اسٹیج کے گرد بیٹھ گئے تھے.دوسری طرف ہندو کانگرس کے نمک خوار لوگوں کے تیار کردہ سور مے اکل وشرب میں ایسے محو ہوئے کہ سٹیج پر قبضہ کا وقت نکل گیا.اور یہ لوگ جلسہ گاہ میں اس وقت پہنچے.جب اس جلسہ کا مقامی صدر صدارت سنبھال چکا تھا.اور ایک حافظ صاحب تلاوت کلام پاک کر رہے تھے.اُن کی بلا سے کہ خدا کا کلام پڑھا جارہا ہے.انہیں تو جلسہ خراب کرنے سے غرض تھی 74

Page 71

چنانچہ ریاست کے ان نمک خواروں نے عین تلاوت کے دوران ہی میں ہاؤ ہو“ شروع کر دی یوں کہ ان میں سے ایک بیٹھے ہوئے آدمیوں کے پاس جا کھڑا ہوتا.دوسرا اُس کے دھکا دیتا.اور گرنے والا شور مچادیتا پولیس موقع پر موجود تھی.اُس نے ان شر پسندوں کو دھکیل کو مجمع سے پیچھے کر دیا.صدر محترم ( آل انڈیا کشمیر کمیٹی ) ابھی جلسہ گاہ میں تشریف نہیں لائے تھے.ہم بھی آپ کے ساتھ ہی جلسہ گاہ جانے کے لیے تیار کھڑے تھے.کہ شہر کے چند شرفاء آئے اور عرض کی کہ کچھ فتنہ پرداز فساد پر آمادہ ہیں.اس لیے مناسب ہوگا کہ آپ جلسہ گاہ میں تشریف نہ لے جائیں مبادا وہ بد باطن کوئی نقصان پہنچائیں لیکن آپ اس خطرہ کی ذرہ بھی پروانہ کرتے ہوئے اسی وقت جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہو گئے.آپ اور آپ کے ہمراہی دوکاروں میں جائے رہائش سے روانہ ہوئے ابھی جلسہ گاہ سے ہم لوگ کچھ دور ہی تھے کہ چند مخلصین نے آکر اطلاع دی کہ اب ان فسادیوں نے جلسہ گاہ پر پتھر برسانے شروع کر دیے ہیں.آپ پتھروں کی اس شدید بارش میں سٹیج پر پہنچے اور آتے ہی سارے مجمع کو ہدایت کی کہ ہماری فتح اسی میں ہے کہ ہم ان شر پسند عناصر کی دہشت سے مرعوب نہ ہوں.اور نہ ہی مشتعل ہوں.تمام احباب اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں.بالکل نہ ہلیں.اور جو شخص پتھروں سے زخمی ہو جائے.اُسے مرہم پٹی کے لیے سٹیج کے پیچھے لے آئیں پھر ڈاکٹروں اور ڈریسروں کو مخاطب کر کے تحریک کی.کہ وہ فوراً دوسری طرف جمع ہو جائیں اور اپنا کام شروع کر دیں.فرسٹ ایڈ کا سامان مہیا کر دیا گیا.دوسری طرف لوکل کشمیر کمیٹی کے بعض معزز اراکین نے سپر نٹنڈنٹ پولیس اور ڈپٹی کمشنر کو اطلاع دی.اور وہ بھی اس ہنگامہ خیزی کے بچشم خود ملاحظہ کے لئے کار کے ذریعہ وہاں پہنچ گئے.75

Page 72

صدر محترم کے سٹیج پر پہنچتے ہی اس ٹولی نے اپنی کمینگی اور شرارت کا انتہائی مظاہرہ کرنا اور بہت زور سے پتھر برسانا شروع کر دیئے.میں اُس وقت آپ سے صرف تین فٹ کے فاصلہ پر تھا.ہندوستان کے کرکٹ کے مشہور کھلاڑی سید عبدالسلام مرحوم آپ کے سامنے کھڑے ہو گئے.جو پتھر آتا.کمال مستعدی سے اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر نیچے پھینکتے جاتے.ہرممکن احتیاط کے باوجود تین پتھر کشمیریوں کے اس محسن کو بھی لگے.جس نے اپنی ابتدائی عمر ہی سے ان مظلوموں کی امداد شروع کر رکھی تھی..یہ سلسلہ ایک گھنٹہ تک جارہی رہا.اس عرصہ میں ان ظالم اور سفاک فتنہ پرداز ہاتھوں سے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھی زخمی ہوئے.مگر یہ نظارہ بھی دیکھنے کے لائق تھا.کہ جب پتھروں کو بارش پورے زور پر تھی.کوئی شخص اپنی جگہ سے اُس وقت بھی نہیں ہلا.اور تمام لوگ صبر وسکون کے ساتھ پتھر کھاتے اور نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتے رہے.پھپیں تھیں افراد شدید زخمی ہوئے.معمولی زخم تو سینکڑوں کو پہنچے.شدید زخمیوں کو موٹروں پر ہسپتال پہنچایا جارہا تھا.کہ انہی لوگوں نے ایک موٹر پر پتھر برسا کر اُس کے شیشے بھی تو ڑ دیئے.نظم و نسق کو الٹی میٹم اب ظلم کی حد ہو چکی تھی.انتہائی صبر وسکون کا نمونہ پیش کیا جا چکا تھا.ہزاروں کا مجمع نہایت جوش کی حالت میں تھا اور اگر ان کے محترم لیڈر کی طرف سے مسلسل اور متواتر صبر وسکون کے ساتھ ( اپنی جگہ پر بیٹھے رہنے کی ہدایت نہ ہوتی تو چند منٹوں میں ان کرائے کے شورہ پشتوں کو ایسا سبق دیتے کہ وہ آئندہ ایسی حرکات کے ارتکاب کی جرات نہ کرتے صدر محترم نے اپنے سیکرٹری مولا نا عبد الرحیم در کوڈ پٹی کمشنر کے پاس بھجوایا یہ کہ کر 76

Page 73

کہ اسے کہہ دیں کہ ہم ایک گھنٹے سے اس انتظار میں ہیں کہ آپ ان شرارتیوں کا انتظام کریں گے لیکن پولیس کوئی انتظام نہ کر سکی.اب اگر آئندہ پانچ منٹوں کے اندر اندر ان شر پسندوں کو مار بھگائیں تو بہتر ورنہ ہم خود ایسا انتظام کرنے پر مجبور ہوں گے.اور نتائج کی ذمہ داری آپ پر ہوگی اس پیغام کے پہنچتے ہی تمام مشینری تیزی سے حرکت میں آئی اس نے ان لوگوں کو منتشر ہونے کا حکم دیا.ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی کہ اگر انہوں نے اس حکم کی تعمیل نہ کی تو سختی کرنا پڑے گی.ہم سمجھتے تھے کہ شاید یہ لوگ جو اس قدر جوش کا مظاہرہ کر رہے ہیں.فائرنگ یا لاٹھی چارج کے بغیر منتشر نہ ہوں گے لیکن ہماری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی جب ہم نے اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھا.کہ جنگ کے بلند بانگ دعوی کرنے والے شجاعت وبسالت کے یہ مدعی یہ حکم سنتے ہی دُم دبا کر ایسے بھاگے کہ مُڑ کر پیچھے دیکھنے کی جرات بھی نہ ہوئی.اور پانچ منٹ کیا دو تین منٹ کے بعد ہی کامل امن و سکون ہو گیا....اس کے بعد میرزا بشیر الدین محمود احمد صدر آل انڈیا کشمیری کمیٹی نے ہزاروں لوگوں کے مجمع میں ایسی معرکۃ الآراء تقریر فرمائی.جس نے ہر دردمند دل کو متاثر کیا.اور لوگ اس قدر لطف اندوز ہوئے کہ اپنی ساری تکلیف بھول گئے یہ تقریر ایک گھنٹہ تک جاری رہی.جس میں فرد واحد بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا یہ بلند پایہ تقریر اور شورہ پشتوں کے فساد کا پس منظر و پیش منظر اگلے دن کے اخبارات میں شائع ہوئے تو اہل درد کو اس بابرکت اجلاس میں شرکت سے محرومی کا بے حد قلق ہوا.سب سے زیادہ محرومی اس بات کی تھی کہ وہ اس با اعتماد لیڈر کی تقریر سننے سے محروم رہے.جو برستے پتھروں میں بھی آخر دم تک امن و قتل کی تلقین کرتارہا.آپ نے اس تقریر میں فرمایا:.وو یہ پھر جن لوگوں نے مارے ہیں.انہوں نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ کشمیر کی طرف سے مارے ہیں.جس کے معنی یہ ہیں کہ ریاست نے علاقہ پر رعایا کو قبضہ دے دیا ہے 77

Page 74

واللہ کے فضل سے ہم امید کرتے ہیں کہ وہ مظلوم جو سینکڑوں سال سے ظلم وستم کا شکار ہور ہے ہیں.ان کی آہیں اور سسکیاں آسمان پر جا پہنچی ہیں.اللہ تعالیٰ نے ظالموں سے ظلم کی آخری اینٹیں اس لئے پھینکوائی ہیں تا کہ اس ملک پر اپنا فضل نازل کرے...فرمایا:.وو ہم ان ہاتھوں کی جنہوں نے پتھر برسائے.ان زبانوں کو جنہوں نے اس کے لیے تحریک کی.اور اس کنجی کو جو اس کا باعث ہوئی معاف کرتے ہیں.کیونکہ جس مہم کا ہم نے بیڑا اٹھایا ہے.اس کے مقابلہ میں یہ تکلیف جو ہمیں پہنچائی گئی.بالکل معمولی ہے...تقریر کے بعد ڈپٹی کمشنر آپ کے پاس آیا اور معذرت کی.سپر نٹنڈنٹ پولیس جائے رہائش تک آپ کے ساتھ گیا اور بار بار معذرت کرتا رہا.قیام گاہ پر پہنچتے ہی مختلف خیالات اور عقائد کے لوگوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان فتنہ پردازوں کی حرکات پر نفرت کا اظہار کیا.اور معذرت وندامت کا یہ سلسلہ رات کے ایک بجے تک جاری رہا.بعض لوگوں کو کسی زمانہ میں یہ زعم باطل رہا ہے.کہ وہ بے قابو مجمع کو اپنی سحر بیانی سے مسحور کر سکتے ہیں.میں اُن سے پوچھتا ہوں کہ کیا ان میں کوئی اس طاقت کا مالک بھی تھا.جس طاقت سے ان حالات میں ہزاروں کے مجمع کو صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے مسحور کیا.اور جس طرح با وجود طاقت رکھنے کے ہر شخص نے پتھر کھائے.زخمی ہوئے (لیکن اپنے لیڈر کے حکم کی وجہ سے اپنی اپنی جگہ پر جمے رہے اور ایک انچ نہ سر کے..کیا وہ بھی ایسا نمونہ دکھلا سکتا تھا.حملہ آوروں کی جرات اور دلیری کا تو اس بات ہی سے پتہ چل جاتا ہے کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ اب اینٹ کا جواب پتھر سے ملے گا.تو دومنٹ کے اندر ہی میدان صاف تھا! 78

Page 75

اور وہ کیوں ایسانہ کرتے.جب کہ خود ان کے لیڈروں کو اعتراف ہے کہ:..اگر گدھا زور سے ہینگے تو دوکانوں اور گھروں سے پگڑیاں بغل میں وو دبا کر بھاگتے ہیں اور راستے میں پوچھتے آتے ہیں کہ میاں ماجھے کیا ہوا بھیا گاتے یہ کیا شور تھا.کہیں لاٹھی چلی ہے کیا ؟ مگر کسی کے زیادہ چوٹ نہیں آئی؟ (1 تاریخ احرار ص ۴۸ - ۴۷) یہ بغل میں پگڑیاں دبا کر بھاگنے والے وہی ہیں جن کا ذکر اوپر آچکا ہے اور انہیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ پگڑیاں ہر وقت بغل میں دابے پھرتے ہیں.حسب پروگرام ۱۴ ستمبر کو سیالکوٹ سے بذریعہ کا رصد محترم مع اپنے رفقاء وزیر آباد پہنچے.اور وہاں سے ہم سب گاڑی کے ذریعہ واپس آئے.وزیر آباد سے جموں اور کشمیر کے بعض لیڈر قاضی گوہر رحمن ، چودھری غلام عباس اور مولوی عبدالرحیم ایم اے بھی شریک سفر ہوئے اور قادیان (پہنچ کر ) آئندہ پروگرام سے متعلق مشورہ اور ہدایات لینے کے بعد واپس ہوئے.قاضی گوہر رحمن چونکہ کچھ علیل ہو گئے تھے.اس لئے کچھ دن مزید ٹھہر نے کے بعد جموں واپس آگئے.79

Page 76

حکومت کے بے رحم ہاتھوں نے پھر سے مسلماں کے سینہ پر گولی چلادی تھی جس میں امانت خدا کی وہ سینہ وہی خاک میں وحشیوں نے ملادی (سقراط کاشمیری) مهمانان خاص اگست ۳۱ء کے آخر میں سرینگر میں ایک اہم واقعہ پیش آیا.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی مساعی کے نتیجہ میں ریاست پر ہر طرف سے دباؤ پڑ رہا تھا.ایجی ٹیشن دن بہ دن زور پکڑ رہی تھی.ریاست کے ہندو وزیر اعظم بعض بیرونی مسلمانوں سے گہرے تعلقات رکھتے تھے وہ ایسے لوگوں کو ریاست کا مہمان بنا کر بلوا ر ہے تھے.جنہیں آلہ کار بنا کر ایجی ٹیشن کو ختم کر سکیں.ایک صاحب جو نواب اور سر کے خطابوں سے نوازے جاچکے تھے 1.(1) نواب سر مبر شاہ) وزیر اعظم ہری کشن کول کے گہرے دوست تھے.انہوں نے اپنے آپ کو اس خدمت کے لیے پیش کیا.اور سرینگر پہنچ کر انہوں نے مسلمان نمائندوں کو کسی نہ کسی طرح آمادہ کر کے ریاست سے ایک صلح نامہ پر دستخط کر والیے.یہ صلح نامہ کو عارضی تھا تاہم مسلمانوں کے لئے مفید نہ تھا.جب اس کی اطلاع صدر محترم کشمیر کمیٹی کو ہوئی تو انہوں نے اس پر مفصل تبصرہ کیا.جو اخبارات میں شائع ہوا.اس کے علاوہ اُسے ہزاروں کی تعداد میں علیحدہ چھپوا کر کشمیر 80 00

Page 77

کے گوشہ گوشہ میں پہنچا دیا گیا.اس تبصرہ کے آخر پر آپ نے مسلمانان کشمیر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.ہمیں گرے ہوئے دودھ پر بیٹھ کر رونے کی ضرورت نہیں ہمارا فرض یہ ہے کہ موجودہ حالت سے جس قدر فائدہ اُٹھا سکیں اُٹھا ئیں اور اس کے ضرر سے جس قدر بیچ سکیں ،بچیں.یہ ہر حال یہ معاہدہ مسلمانوں کے نمائندوں نے کیا ہے.اس لیے مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس کی پوری طرح اتباع کریں.کیونکہ مسلمان دھو کے باز نہیں ہوتا.اور جو قوم اپنے لیڈروں کی خود تذلیل کرتی ہے وہ کبھی عزت نہیں پاتی “ ایک اور یادداشت بھجوائیں پھر لکھا کہ دستخط کرنے والے نمائندگان ریاست کو ایک دوسری یادداشت یه بھجوادیں کہ چونکہ عارضی صلح کا وقت کوئی مقرر نہیں.اور یہ اصول کے خلاف ہے.اس فروگذاشت کا علاج ہونا چاہیے.پس ہم لوگ یہ تحریر کرتے ہیں کہ ایک ماہ تک اس کی معیاد ہوگی.اگر ایک ماہ کے اندر مسلمانوں کے حقوق کے متعلق ریاست نے کوئی فیصلہ کر دیا یا کم از کم جس طرح انگریز حکومت نے ہندوستانیوں کے حقوق کے متعلق ایک اصولی اعلان کر دیا ہے کوئی قابل تسلی اعلان کر دیا.تب تو اس عارضی صلح نامہ کا زمانہ لمبا کر دیا جائے گا.یا اسے مستقل صلح کی صورت میں بدل دیا جائے گا.لیکن اگر ایک ماہ میں ریاست نے رعایا کو ابتدائی انسانی حقوق نہ دیئے یا ان کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کیا تو یہ صلح ختم سمجھی جائے گی اور دونوں فریق اپنی اپنی جگہ آزاد ہوں گئے.اس تبصرہ کا سارے کشمیر میں خاطر خواہ اثر ہوا.چنانچہ 4 ستمبر کو سری نگر سے ( آمدہ) 81

Page 78

جو تاراخبارات میں شائع ہوا اُس میں یہ مذکور تھا کہ محترم مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے عارضی صلح کی شرائط پر جو تبصرہ فرمایا ہے.اسے یہاں کی پبلک نے بہت پسند کیا ہے....مطالبات تیار ہیں.مگر انہیں ابھی تک پیش اس لیے نہیں کیا جائیگا کہ جموں میں حالات کی نزاکت کے باعث نمائندگان نہیں آسکے.وہاں کی اکثریت اس صلح کو نا پسند کرتی ہے“ ریاست کے مہمانانِ خاص اس بروقت اقدام سے مسلمانان کشمیر ایک بہت بڑی الجھن سے معاہدہ توڑے بغیر نکل گئے.اور ریاست اور اس کے حامی اپنی چال میں بری طرح ناکام ہوئے.ریاست کے مہمانان خاص کا کچھ پہلے ذکر آچکا ہے....وزیر اعظم کشمیر راجہ ہری کشن کول ہرگز پسند نہ کرتے تھے کہ باہر سے کوئی ایسا لیڈر آئے جسے وہ اپنا آلہ کار نہ بناسکیں.یہی وجہ تھی کہ جب آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے ہندوستان کے مسلّمہ لیڈروں کا وفد بھجوانا چاہا تو اسے اجازت نہ دی گئی.جس پارٹی کا اوپر ذکر آچکا ہے.اُس نے بھی اپنے چند آدمیوں کا وفد سری نگر بھجوایا.جموں پہنچتے ہی انہیں سرکاری حکام نے ہاتھوں ہاتھ لیا.سری نگر پہنچنے پر سرکاری ہاؤس بوٹ میں ٹھہرایا.سرکاری مطبخ والوں نے اُن کی حیثیت سے بہت بڑھ چڑھ کر اُن کے خوردونوش کا انتظام کیا اور انہیں ہر طرح سے خوش رکھنے کے سامان مہیا کئے.لیکن یہ سب با تیں عوام کو ناپسند تھیں.وہ ایسے لوگوں کی کاروائیاں دیکھ چکے تھے جو اس سے پہلے آکر سرکاری مہمان ہوئے تھے.نتیجہ یہ ہوا کہ پبلک میں سے کسی نے اُن کو منہ نہ لگایا.ان سرکاری مہمانوں نے حکومت کا مہمان بنے کی وجہ یہ کھی ہے کہ 82

Page 79

.اگر سرکاری خزانہ اخراجات کی ذمہ داری اٹھائے تو ہمارے سر سے سب سے بڑا بوجھ اُترتا تھا.احرار کی راہ میں مالیات ہی سد سکندری ہے 1 تاریخ احرار ص (۴۶) ساری قوم کی نمائندگی کا دعوی....اور غیر ارادی طور پر بھی دل محسوس کئے بغیر نہیں رہ پاتا کہ وہ لوگ جنہیں یہ زعم باطل تھا کہ وہ ساری قوم کے نمائندے ہیں.کیا ان لوگوں کے لیے قوم اتنا بھی نہ کر سکی.کہ ان کے کھانے اور رہائش کے اخراجات جو ان دنوں پچاس روپے فی کس ماہوار سے ہرگز زیادہ نہ تھے.ادا کر دیتی اور پھر اُس وفد نے سرکار کا مہمان اس حال میں بننا ضروری سمجھا کہ (بقول اُن کے لیڈر کے ) جب وہ سری نگر پہنچے تو لوگ انہیں شک وشبہ کی نظر سے دیکھتے تھے“.اور اُن کے متعلق خیال کرتے تھے کہ بس آئے ہیں ریاستی خزانے سے جیبیں بھر کو لوٹ جائیں گئے.2 ( تاریخ احرارص (۴۵) بھلا ریاست کے مسلمانوں کوشک کیوں نہ ہوتا آخر وہ پنڈت جیون لال مقو سے بھی تو واقف تھے جو ان کا میزبان تھا.کچھ دن اور گزر گئے.رفتہ رفتہ ریاست کو بھی ان لوگوں کی قدر و قیمت معلوم ہوگئی.مہمان نوازی میں فرق آنے لگا.آخر کشمیر سے واپس لوٹنا پڑا.انہیں تسلیم ہے کہ ہم کشمیر سے ناکام لوٹ آئے.3 ( تاریخ احرار ص ) البتہ آتی دفعہ اپنے میز بانوں مہاراجہ ( ہری سنگھ ) اور وزیر اعظم (ہری کشن کول) سے ملاقات کا شرف ضرور حاصل کر لیا.ان کے میز بانوں نے ان کو دوبارہ کشمیر بلایا.اور شیخ محمد عبداللہ کو رام کرنے کا فرض اُن کے سپر د ہوا لیکن کشمیریوں کے اس ذہین لیڈر کو اپنا ہم خیال بنانے میں اُن کو سراسر نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا ہیہات یہی لوگ بزعم خویش احرار ہونے کے مدعی تھے.83

Page 80

مسلمانوں کا گشت وخون ۲۱ ستمبر کو شیخ محمد عبد اللہ اسلامیہ سکول کے لیے چندہ جمع کر رہے تھے.کہ پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا.مسلمانوں نے ۲۲ ستمبر کو احتجاجی پر امن جلوس نکالا پولیس نے تشدد کیا گھوڑ سواروں نے گھوڑوں کے پاؤں تلے روندا.لاٹھی چارج ہوا.گولی چلی.خون بہا.....آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے بھیجے ہوئے وکیل نے اپنی آنکھوں دیکھے حالات اور شہید ہونے والوں کا خون سے رنگا ہوا کپڑا اور خون سے کاغذ پر یہ الفاظ لکھ کر بھجوائے.مقتول مسلمانوں کا خون صفحہ کا غذ پر مظلمومیت کی آواز بلند کر رہا ہے 1 1 راقم الحروف نے بھی یہ کپڑا اور خون سے لکھا ہوا کاغذ دیکھا تھا) یہ وکیل چودھری عصمت اللہ خاں ایڈووکیٹ تھے جوصدر محترم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے حکم سے اپنا سارا کام چھوڑ کر مسلمانان کشمیر کی مدد کے لیے وہاں پہنچ گئے تھے.۲۳ ستمبر کو اسلام آباد میں سری نگر سے بھی زیادہ کشت وخون ہوا.پچیس مسلمان گولیوں سے مارے گئے.اور ڈیڑھ سو کے قریب زخمی ہوئے.بقول سقراط کا شمیری حکومت کے بے رحم ہاتھوں نے پھر مسلماں کے سینے گولی چلادی وہ سینہ تھی جس میں امانت خدا کی وہی خاک میں وحشیوں نے ملادی شوپیاں میں بھی خون ریزی ہوئی.اور قصبہ ملٹری کے ہاتھ میں دیا گیا.۲۴؍ ستمبر کو ساری ریاست میں برہما آرڈی نینس کی طرز کا آرڈی نینس جاری کر دیا گیا.جس کے نتیجہ میں 84 =

Page 81

ملٹری نے وہ مظالم ڈھائے کہ انسانیت ہمیشہ ان پر ماتم کرتی رہے گی.ہندوستان اور انگلستان میں احتجاج آل انڈیا کشمیر کمیٹی واقعات پر ہندوستان اور انگلستان میں ہر جگہ احتجاج کیا اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا اور فسادات کی تحقیقات کے لئے غیر جانب دار کمشن مقرر کر نے پر زور دیا.وائسرائے کو توجہ دلائی جن کی طرف سے صدر محترم کو تار کے ذریعہ اطلاع ملی کہ وہ ریاست سے حالات دریافت کر رہے ہیں.اور یہ بھی کہ ضرور مناسب کاروائی کی جائے گی لندن کے اخبارات میں بھی ان درد انگیز واقعات کے متعلق مضامین شائع ہوئے.چودھری محمد ظفر اللہ خان ( جو ان دنوں گول میز کانفرنس میں شمولیت کی غرض سے لندن میں مقیم تھے ) وزیر ہند سے ملے اور انہیں آگاہ کرنے کے بعد مظلومین کے مطالبات مہاراجہ سے منوانے کی تحریک کی..ان سب باتوں کے نتیجہ میں ۵ اکتوبر کو مہاراجہ نے اپنی سالگرہ کے موقع پر قیدیوں کی عام رہائی کا اعلان کر دیا.آرڈینینس واپس لے گیا.اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا.کہ اگر میری رعایا کا کوئی طبقہ کوئی جائز درخواست کرے گا تو میں اس پر ہمدردانہ غور کروں گا.یعنی مطالبات با قاعدہ پیش کرنے کی تحریک کر دی.شیخ محمد عبد اللہ کا پیغام شیخ محمد عبد اللہ نے اس گرفتاری کے موقع پر اپنی قوم اور ہمدردان کے نام جو پیغام دیا اس کے یہ الفاظ قابلِ غور ہیں:.وو میرا یہ پیغام پنجاب اور ہندوستان کے میرے تمام مسلمان بھائیوں 85

Page 82

.بزرگوں اور بچوں تک پہنچا دیا جائے.کہ حکومت کشمیر ہمارے خلاف ” ہمارے بھائیوں کے ذریعے سے ہندوستان اور پنجاب میں جو پرا پیگنڈہ کر رہی ہے.اور جو گمراہ کن خبریں ہمارے خلاف آج تک شائع کرائی گئی ہیں ان سے ہرگز متاثر نہ ہوں.ہم ابھی تک مظلوم ہیں.اور ہمیں نشانہ ظلم و ستم بنایا جارہا ہے.۱۳ / جولائی سے آج تک ہمیں ایک منٹ بھی حکومت نے چین سے نہیں بیٹھنے دیا ”ہمارے چند بھائیوں اور ایک مسلم اخبار نے بجائے ہماری حمایت کرنے کے الٹا حکومت کشمیر سے مل کر ہمیں بدنام کرنا اور ہم سے حمایت کرنے والوں کی مخالفت کرنا اپنا نصب العین بنالیا ہے.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے ساتھ ہمدردی رکھنے والا کوئی نہیں.ہمیں اس بات کا رنج نہیں ہے.کیونکہ ہر قوم میں چند قوم فروش بھی ہوتے آئے ہیں اور ابتدائے آفرینش سے آج تک اسلام میں منافقین کی ایک جماعت ضرور پائی جاتی ہے.“ امام مسجد لندن کی مساعی آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے محترم صدر کی ہدایات کے ماتحت خاں صاحب مولانا فرزند علی امام لندن مسجد ) جو کوششیں انگلستان میں کر رہے تھے وہ بہت ہی قابل قدر تھیں.آپ نے ہز ہائی نس سر آغا خاں ، سر میاں محمد شفیع ، ڈاکٹر سر محمد اقبال، چودھری محمد ظفر اللہ خاں اور مولانا شفیع داؤدی کو (جو ان دنوں لندن میں تھے ) تحریک کی.کہ وہ فرداً فرداً وزیر ہند سے ملیں.اور انہیں کشمیر کے متعلق پر زور توجہ دلائیں.چنانچہ ان سب لیڈروں نے وزیر ہند سے مل کر اس امر پر زور دیا.چودھری محمد ظفر اللہ خاں نے تو اس سلسلہ میں کئی بار وزیر ہند سے ملاقات کی.86

Page 83

مولا غلام رسول مہران دنوں انگلستان گئے ہوئے تھے.وہ اپنے مکتوب میں جو روز نامه انقلاب میں شائع ہوا.رقمطراز ہیں:.کشمیری مسلمانوں کے تعلق میں برطانوی جرائد کا رویہ پہلے کی نسبت بہتر ہے.اور اس میں بلا شائیہ ریب مولوی فرزند علی صاحب امام مسجد لندن کا بڑا حصہ ہے.جو شروع سے لیکر کشمیر کے تعلق میں اور دوسرے اسلامی مسائل کے تعلق میں مسلسل جدوجہد فرماتے رہے ہیں اخبارات میں جو خبریں شائع ہوتی رہیں ان کے علاوہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی طرف سے متعدد تار موصول ہوئے جن کی کا پیاں ایک ایک منڈوب کے پاس بھیجی جاتی ہیں...انگلستان کے علاوہ صدر محترم نے صوفی مطیع الرحمن ایم اے کو امریکہ میں بذریعہ تار ہدایات بھجوائیں.اور انہوں نے بھی اس طرز پر وہاں کام شروع کر دیا.جو بہت مؤثر ثابت ہوا.جموں کا ایک ننھا لیڈر میں جموں کے لیڈروں اور کارکنان کا اوپر ذکر کیا ہے.ناانصافی ہوگی اگر میں جموں کے ننھے لیڈر کا ذکر نہ کروں.ایک بچے (غازی محمد اسماعیل شہید ) نے اپنے ہم عمر بچوں کو منظم کر کے ایک انجمن بنائی جس کا نام ” اطفال اسلام‘ رکھا.یہ انجمن پولیس کے لیے ہمیشہ سر دردی کا باعث بنی رہی.بلکہ بعض اوقات پولیس نے اُن اطفال پرختی بھی کی.لیکن یہ روز بروز زیادہ مضبوط اور منظم ہوتے چلے گئے.شیخ محمد عبد اللہ کی گرفتاری کے بعد مفتی جلال الدین ڈکٹیٹر اول بخشتی غلام محمد 87

Page 84

ڈکٹیٹر دوم ، غلام قادر ڈکٹیٹر سوم کی گرفتاری پر اس انجمن نے بھی ایک عظیم الشان احتجاجی جلسہ کیا غازی محمد اسمعیل شہید صدر مجلس اطفال اسلام نے ڈیڑھ ہزار بچوں کے سامنے تقریر کی.یہ جلسہ ایک مسجد میں کیا گیا تھا.جس میں کس بالغ شخص کو آنے کی اجازت نہ تھی.ریزولیوشن پاس کر کے حکومت اور پریس کو بھجوائے.الغرض ہر موقع پر یہ انجمن جلوس نکالتی اور جلسے کرتی رہی.با قاعدہ مطالبات کا وقت شیخ محمد عبداللہ کی رہائی اکتوبر ۳۱ ء کے شروع میں عمل میں آئی.اب مسلمانوں کی طرف سے مہاراجہ کی خدمت میں باقاعدہ مطالبات پیش کرنے کا وقت آگیا تھا.جموں اور کشمیر کے نمائندگان صدر محترم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمت میں حاضر ہوکر مشورہ کے بعد مطالبات کا ایک مسودہ تیار کر چکے تھے.اور جیسا کہ شیخ محمد عبد اللہ کے اس پیغام سے ظاہر ہے جو انہوں نے اپنی گرفتاری کے وقت قوم کے نام دیا تھا.مسلمانانِ کشمیر اپنے دوستوں اور دشمنوں کو بھی پہچان چکے تھے.انہوں نے صدر محترم کی خدمت میں درخواست کی....کہ.آپ اپنے ذمہ دار نمائندگان کو کشمیر میں بھجوائیں.تا کہ وہ مطالبات کو آخری شکل دے کر مہاراجہ کے سامنے پیش کرسکیں..66 صدر محترم نے اُن کی اس درخواست کو منظور فرماتے ہوئے فیصلہ فرمایا کہ مولانا عبد الرحیم در دایم.اے.سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور مولانا یعقوب خاں ایڈیٹر لائٹ“ دو نائبین کو لے کر وہاں پہنچ جائیں.1 (1) راقم الحروف ان دو نائبین میں سے ایک تھا اور دوسرے نائب مولوی عصمت اللہ صاحب بہلول پوری ( ڈویژنل کونسلر سر گودھا ڈویژن ) تھے ) 88

Page 85

وو ۱۳ را کتوبر کو یہی صاحب جامع مسجد گئے.لیکن مسلمانوں نے انہیں وہاں سے یہ کہہ کر نکل جانے کو کہا کہ ہمیں آپ کی رہنمائی کی ضرورت نہیں.وہ مجبوراً مسجد سے باہر نکل آئے اور پھر کشمیر کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ گئے 66 تاریخی میموریل چار آدمیوں کا یہ قافلہ لاہور سے بذریعہ ٹرین سیالکوٹ پہنچا.روانگی کی اطلاع مصلیتا کسی کو نہ دی گئی.ہم اسٹیشن ہی سے کارسری نگر کے لیے کرایہ پر لیکر اُسی وقت روانہ ہو گئے.جموں کی چیکنگ پوسٹ پر پہنچے.تو کسی طرح جموں والوں کو یہ پتہ چل گیا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا وفد سری نگر جا رہا ہے.نمائندگان جموں پہلے ہی سری نگر پہنچ چکے تھے.دوسرے کارکنان آنا شروع ہو گئے.اور مجبور کیا کہ رات وہاں ٹھہریں لیکن محترم درد صاحب نے معذرت کا اظہار کیا.آخر ان کی درخواست کو منظور کر لیا.کہ ڈاک بنگلہ پر چل کر شام کی چائے پی لیں.مولانا یعقوب خاں صاحب کے بعض شاگردوں کو پتہ چلا تو ملنے کو بھاگے چلے آئے.جس جس کو پتہ چلتا گیا.ڈاک بنگلہ کی طرف دوڑتا چلا آیا.چونکہ اب ہجوم ہو چلا تھا.اس لیے ہم وہاں سے سری نگر کے لیے روانہ ہوئے.رات ڈاک بنگلہ اور ہم پور میں گزاری.ریاست کی طرف سے زائرین کے آرام کے لیے جا بجا ڈاک بنگلے اور ریسٹ ہاؤس سٹرک پر 89

Page 86

موجود تھے.دوسرے روز دو پہر ہم سری نگر کی چیکنگ پوسٹ پر پہنچے.تو ریاست کا ایک سیکرٹری کارلیکر موجود تھا.مولانا عبد الرحیم درد کے متعلق دریافت کر کے اُن سے ملا.اور درخواست کی آپ لوگوں کی رہائش کا انتظام ریاست کے بڑے گیسٹ ہاؤس میں ہے اور میں کار لے کر آپ کو لینے کے لیے آیا ہوں.وزیر اعظم نے مجھے بھیجوایا ہے....مولا نا درد نے جواب دیا.کہ ہم تو اُن کے مہمان ہیں.جنہوں نے ہمیں بلوایا ہے.اس نے بہتیر ز ور مارا.لیکن محترم درد صاحب کو نہ ماننا تھانہ مانے اور ہم چیکنگ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد اپنی کرایہ والی کا رہی سے امیرا کدل پہنچے.جہاں شیخ محمد عبد اللہ اور اُن کے رفقاء استقبال کے لیے موجود تھے.سب بہت خوشی سے ملے.اُن کے حوصلے بلند ہو گئے.امیر کدل میں ایک چوبارہ پر ہماری رہائش کا انتظام تھا.وہاں ہمیں اُتارا گیا.نمازوں اور ناشتہ کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہا.شیخ صاحب نے والٹیئر ز مقرر کر رکھے تھے کہ صرف ضروری لوگ ہی آکر ملاقات کریں.اور ہجوم نہ ہو.دوسرے روز صبح سویرے درد صاحب مرحوم مجھے ساتھ لیکر بظاہر سیر کے لیے بند کی طرف گئے.دو تین ہاؤس بوٹ دیکھے ایک ہاؤس بوٹ نہایت موزوں جگہ ( آبی گزر ) پر کھڑا تھا پسند آ گیا.اس کا ماحول صاف ستھرا ہونے کے علاوہ ڈاک خانہ اور تار گھر میں یہاں سے بالکل قریب تھے.اور شہر بھی زیادہ دور نہ تھا.کرایہ وغیرہ طے کر کے ہم جائے رہائش پر پہنچے.شیخ محمد عبد اللہ بعض دوسرے نمائندگان وہاں موجود تھے.مولا نا درد نے اُن کو بتادیا کہ ہم نے چونکہ یہاں ٹھہرنا ہے.کافی دن لگ جائیں گے.اس لیے میں نے ہاؤس بوٹ کرایہ پر لے لیا ہے.نمائندگان نے اصرار کیا کہ آپ یہیں ٹھہریں.لیکن مولانا درد کے سمجھانے پر مان گئے.اور ہم وہاں سے ہاؤس 9 90

Page 87

بوٹ میں اُٹھ آئے.تاریخی ٹائپ رائٹر اور تاریخی میموریل میں نے آتے ہی اپنے کمرہ میں دفتر لگا لیا.ہم دفتر کا تمام ضروری سامان اور ٹائپ رائٹر وغیرہ ساتھ لے گئے تھے.یہ وہ تاریخی ٹائپ رائٹر تھا.جس نے کشمیریوں کی امداد میں لاکھوں لفظ ٹائپ کئے.حتی کہ اُن کا وہ تاریخی میموریل بھی اسی پر ٹائپ ہوا.جو مہاراجہ کو پیش کیا گیا.جس کے نتیجہ میں کشمیریوں کو ان کے ابتدائی انسان حقوق ملنے شروع ہوئے.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا دفتر پورے زور سے حرکت میں آ گیا.یہ ہاؤس بوٹ ریاست اور معاندین کے لیے ہوا بلکہ بارود خانہ تھا.اور مظلوم مسلمانوں کے لیے رحمت و شفقت کا نشان.آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے لمبے اور گہرے مطالعہ اور نمائندگان کشمیر کے مشورہ سے مطالبات کا جو مسودہ انگریزی زبان میں تیار کیا تھا.وہ ان کے سپر د اس غرض سے کر دیا گیا.کہ اس پر پورے گیارہ نمائندے پھر غور کریں.اور اگر کسی جگہ ترمیم کی ضرورت سمجھیں تو کرلیں.جس مخالف پارٹی کا ذکر اوپر آرہا ہے.اس کے لیڈر بھی سری نگر میں مقیم تھے نمائندگان کشمیر نے ان کے ایک نمائندہ اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سیکرٹری مولانا درد کو مدعو کیا کہ وہ دونوں اس بارہ میں نمائندگان کو خطاب کریں.خواجہ سعد الدین شال کے مکان واقع محلہ خان یار میں اجلاس ہوا.ہم لوگ بھی وہاں گئے.ہر دو کی تقاریر سننے کے بعد نمائندگان کشمیر نے فیصلہ کیا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی والا مسودہ ہی درست ہے...اس لیے اس میں اگر کسی جگہ معمولی ترمیم ضروری ہو تو کر لی جائے.کئی گھنٹہ کے غور وفکر کے بعد نمائندگان کشمیر نے اس میں بعض معمولی ترامیم کیں.جن کی زبان کی تصحیح کا فرض مولا نا در داور یعقوب خاں 91

Page 88

صاحب نے ادا کیا.جب اس مسودہ پر سب نمائندگان کو شرح صدر ہو گیا.تو راقم الحروف نے و ہیں اسے ٹائپ کیا.اور رات گئے یہ کام ختم ہوا.دوسرے دن پھر شال صاحب کے اسی قلعہ نما مکان میں میٹنگ ہوئی.مولانا یعقوب خان بھی موجود تھے.درد صاحب مرحوم نے فرمایا کہ آج آپ نے یہ مطالبات مہاراجہ کو بھجوانے ہیں.اور کل جا کر اس کے سامنے خود پیش کرنے ہیں.اس لیے اس پر پھر غور کر لیں.تا کہ اگر اب بھی کسی کمی بیشی کی ضرورت ہو تو کی جاسکے.پھر غور ہوتا رہا.چند الفاظ کی کمی بیشی ہوئی اور اس کے بعد میں نے اس مسودہ کو آخری شکل میں ٹائپ کر دیا اور اس ٹائپ شدہ میموریل کی ایک (ایڈوانس ) کا پی اُسی روز اور دوسری کاپی 19-اکتوبر 1931ء کو حسب پروگرام نمائندگان نے خود مہاراجہ کے سامنے جا کر پیش کی.اس کے ساتھ ہی کشمیری پنڈ توں ہندوؤں سکھوں اور ہندو راجپوتوں نے بھی اپنے اپنے میموریل پیش کئے.جمہور مسلمانانِ کشمیر کا رویہ انہی دنوں کی چند باتیں قابل ذکر ہیں.جن سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے معاندین کے متعلق جمہور مسلمانانِ کشمیر کے رویہ کا پتہ چلتا ہے.ا راکتو بر کو خانقاہ معلی میں انجمن اسلامیہ کا جلسہ تھا.ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع تھے.پنجاب کے روزنامہ زمیندار کے مالک مولوی ظفر علی سرکاری موٹر کار پر اس جلسہ میں پہنچے اور تقریر کرنے کی کوشش کی.انجمن اسلامیہ کے سیکرٹری نے ان کو تحریر یہ تاکید کر دی کہ وہ تقریر میں کوئی قابل اعتراض بات نہ کہیں جب انہوں نے تقریر شروع کی.ہر طرف سے شیم شیم اور لعنت کی آواز میں آنے لگیں.اور خواجہ احمد اللہ بٹمالو نے جو خواجہ غلام محمد صادق کے خسر اور خواجہ غلام محی الدین کرہ کے والد تھے.اپنے کپڑے پھاڑ دیئے اور کہا کہ اسے یہاں سے فوراً نکال دو.ورنہ میں اپنی جوتی سے اس کو 92 92

Page 89

ذلیل کر کے نکالوں گا.اس پر مولوی عبد اللہ وکیل نے کھڑے ہو کر پبلک سے دریافت کیا کہ جولوگ اس شخص کی تقریر سے ناراض ہیں اور خواجہ احمد اللہ کی تائید میں ہیں.ہاتھ کھڑے کریں سب نے ہاتھ کھڑے کر دیئے اور اس ذلت کے بعد یہ صاحب واپس لوٹے ان کے اسٹیج سے بٹتے ہی ” آل انڈیا کشمیر کمیٹی زندہ باد کے نعرے بلند ہونے شروع ہو گئے.۱۳ ۱۷ کتوبر کو یہی صاحب جامع مسجد میں گئے لیکن مسلمانوں نے انہیں یہ کہہ کر وہاں سے بھی نکل جانے کو کہا کہ ہمیں آپ کی راہنمائی کی ضرورت نہیں آپ ہمارے نمائندہ نہیں وہ مجبوراً مسجد سے باہر نکل آئے اور پھر کشمیر کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ گئے.ہمارے کشمیر پہنچنے کے چند روز بعد آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے دوسرے ممبر بھی سری نگر پہنچنا شروع ہو گئے.پہلے مولانا اسمعیل غزنوی اور مولانا مظہر الدین (ایڈیٹر الامان دہلی ) آئے.اور اُن کے کچھ دن بعد مولانا سید حبیب (ایڈیٹر سیاست ) اور پھر مولانا سید میرک شاہ صاحب تشریف لائے.باقی اراکین تو تھوڑا تھوڑا عرصہ قیام کرنے کے بعد واپس چلے جاتے رہے.لیکن صدر محترم کی ہدایت کے ماتحت مولانا اسمعیل غزنوی اور مولانا سید میرک شاہ صاحب سری نگر ہی میں رہے.مولا نادر دصاحب تو پہلے ہی یہاں موجود تھے.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی ہر دلعزیزی کے ثبوت کے لیے اس سے زیادہ اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ ہر جلسہ جو مسلمانانِ کشمیر کی طرف سے ہوتا ( اور جلسے آئے دن ہوتے رہتے تھے ) اس کی صدارت کمیٹی ہی کے کسی نہ کسی رکن کے سپرد کی جاتی تھی گو دوسرے اراکین کو بھی تقریریں کرنے کی درخواست کی جاتی تھی.مسلم اخبارات اورا کابرین کا اعلان صدر محترم آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے انتہائی کوشش کی کہ سب مسلمان مل کر کام کریں 93

Page 90

لیکن پھر بھی احرار اور ان کے چند لگے بندھے یہ تہیہ کئے ہوئے تھے کہ کشمیر کمیٹی اور اس کے محترم صدر کی بہ ہر حال مخالفت کرنی ہے چاہے اس کے نتیجہ میں مظلومین کشمیر کو نقصان ہی کیوں نہ پہنچے.وو اب انہوں نے غلط اور بے بنیاد افواہیں پھیلا کر مسلمانوں میں فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکا کر مناقشت پیدا کرنی شروع کر دی جسے نہ صرف مسلم اکابر بلکہ تمام مسلم جرائد نے بھی قابل مذمت گردانا چنانچہ اس جھوٹ کی حقیقت کو واشگاف کرنے کے لیے تمام قابل ذکر مسلم اخبارات کے کار پردازوں اور مسلم اکابرین نے مندرجہ ذیل اعلان کیا ( جو اخبارات میں شائع ہونے کے علاوہ پوسٹر اور ہینڈ بلوں کی صورت میں بھی تقسیم ہوا ).اس میں وہ لکھتے ہیں:.بعض مضبوط قرائن سے یہ اندیشہ پیدا ہو رہا ہے کہ حکام ریاست کشمیر مسلمانوں کی قوت کو توڑنے کے لیے یہ حربہ استعمال کرنے کے درپئے ہیں کہ اُن کے اندر فرقہ وارانہ سوال پیدا کریں اور ایک ایسے مسئلہ کو جو بحیثیت قوم امت مسلمہ کے مفاد سے تعلق رکھتا ہے فرقہ وارانہ رنگ دے کر کمزور کرنے کی کوشش کی جائے اور مسلمانوں کے باہمی فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑ کا کر ان کے اتحاد عمل کو نقصان پہنچایا جائے.اس لئے ہم جملہ (ان) صاحبان کو جو اس وقت کشمیر میں اس مسئلہ کی بست و کشاد کے سلسلہ میں مصروف عمل ہیں متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر اس قسم کی کوئی صورت حالات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی.تو اسلامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے پوری شدت کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں گے.ہمیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اب تک مختلف قومی تحریکات میں جب کبھی مسلمانوں نے متفقہ اور متحد طور پر ہم آہنگ ہوکر پوری طاقت کے ساتھ کسی مہم پر ہاتھ ڈالا ہے تو اللہ تعالیٰ 94

Page 91

کی طرف سے ہمیشہ فتح ونصرت نے اُن کا خیر مقدم کیا ہے مسئلہ کشمیر میں اتحاد ہی کامیابی کی کنجی ہے.مسئلہ کشمیر ایک مہتم بالشان اسلامی مسئلہ ہے کسی قسم کے فرقہ وارانہ خیالات کی وجہ سے اس کو کسی قسم کا ضعف پہنچانا اسلام کے ساتھ غداری کے مترادف ہے.اور ہمیں امید واثق ہے کہ ریاست ہمارے اندر اس قسم کی کمزوری پیدا کرنے میں ناکام ہوگی.اور اس کی طرف سے اس آخری حربہ کے بالمقابل بھی مسلمان اپنی اسلامی صلاحیت کا ثبوت دیں گے.“ یہ اعلان جن اکابر کی طرف سے تھا.اُن میں انگریزی روز نامہ مسلم آؤٹ لگ“ اور ایسٹرن ٹائمنز اور روزنامہ ”سیاست“ اور ”انقلاب“ کے مالک اور ایڈیٹروں کے علاوہ پبلک کے منتخب نمائندے بھی شامل تھے.روزنامہ انقلاب کا اداریہ روز نامہ ”انقلاب‘ نے اپنے ایک اداریہ میں یہ لکھتے ہوئے کہ: بعض افتراق پسند طبائع نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے خلاف آغاز کار وو ہی سے جو زہریلا پراپیگنڈہ شروع کر دیا تھا اس سے اکثر جہال متاثر ہو گئے اور بعض مقامات پر اس کمیٹی کے کارکنوں کے لئے نہایت صبر آزما حالات پیدا کر دئیے گئے.لیکن اس کے باوجود کمیٹی انتہائی صبر وشکیب.ثبات و استقلال اور بے نفسی کے ساتھ کشمیری مسلمانوں کی خدمات میں مصروف رہی..آگے چل کر ان بے بنیا داعتراضات کے مدلل جواب دیئے ہیں.جو کشمیر کمیٹی کے دشمنوں کی 95

Page 92

طرف سے کئے جاتے تھے مثلاً یہ کہ: وو..جب کشمیر کمیٹی کے خلاف یہ اعتراض ہوا کہ اُس کے صدر ( میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب) نے تحریک کشمیر کے سلسلے میں احمدیت کی تبلیغ کا حکم اپنے مریدوں کو دے رکھا ہے.تو صاحب موصوف نے اعلان کر دیا کہ یہ غلط ہے.اور جو احمدی اس تحریک کو اپنے عقائد کی تبلیغ کے لیے استعمال کرے گا وہ بدنیتی کا مرتکب سمجھا جائے گا.اور میں اُس پر ناراض ہوں گا...66 تمام اعتراضات کا جواب دینے کے بعد یہ تحریر کیا کہ کشمیر کمیٹی نے اتحاد بین المسلمین کے لیے اپنی طرف سے کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا.1 (1) راقم الحروف کو خود ابتدائے تحریک سے ہی کشمیر کمیٹی میں کام کرنے کی سعادت حاصل ہے اور میں حق الیقین کی بنا پر یہ کہتا ہوں کہ یہ الزام سراسر غلط اور محض لوگوں کو گمراہ کرنے اور کشمیر کمیٹی سے متنفر کرنے کے لئے کیا گیا تھا اگر اس میں رتی کے برابر بھی صداقت ہوتی تو اس کا اظہار کوئی نہ کوئی کشمیری لیڈر بھی ضرور کرتا.لیکن وہ تو صدر محترم کو رات دن شکریہ کے خطوط لکھتے رہتے تھے تاریخ کا ایک بہت اہم حصہ ہیں اور اپنے وقت پر انشاء اللہ العزیز ضرور شائع ہوں گے.(ظ)) شاندار خدمات کا اعتراف آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی شاندار اور بے لوث خدمت کو ہر طبقہ کے لوگوں اور اخبارات نے سراہا اور اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو ان آرا ء ہی کے لیے ایک علیحدہ کتاب کی ضرورت 96 96

Page 93

ہے تاہم یہاں کچھ نہ کچھ درج کیا جارہا ہے.چودھری غلام عباس لکھتے ہیں:.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی معرفت ہماری شکایات سمندر پار کے ممالک میں بھی زبان زد خاص و عام ہوگئیں.اس نزاکت حال کے پیش نظر حکومت کشمیر کے لیے ہماری شکایات کو ٹالنا اور بزور طاقت عمومی محرکات کو بلافکر نتائج کچلتے چلے جانا مشکل ہو گیا.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے پیہم اصرار کے باعث حکومت ہند کا معاملات کشمیر میں دخل انداز ہونا ناگزیز ہو گیا.“ 2 ( کش مکش ص ۱۱۲ ۱۱۱) نومبر 1931ء کے آخری دنوں میں حکومت کشمیر کو مجبوراً مسلمانانِ ریاست کی شکایات اور مطالبات کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن کا اعلان کرنا پڑا.یقین غالب ہے کہ اس کمیشن کے تقرر میں حکومت ہند کو بھی زبر دست دخل تھا.1 ( کش مکش ص ۱۱۱) کشمیر کے قابل احترام مذہبی لیڈر میر واعظ احمد اللہ ہمدانی نے محترم صدر کی خدمت میں ایک مکتوب بھجوایا.جو اخبارات میں بھی شائع ہوا.اس میں وہ تحریر فرماتے ہیں:.الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على سيدنا محمد و آله واصحابه اجمعین السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته -1 اخبار زمیندار کے ایک قریبی پرچہ میں مسلمانان کشمیر کی طرف سے میرے ہمعصر مولوی محمد یوسف صاحب کی طرف سے منسوب شدہ ایک اعلان شائع ہوا ہے.جس میں آپ کو مطعون کیا گیا اور درخواست کی 97

Page 94

گئی ہے کہ آپ کشمیری مسلمانوں کی امداد سے علیحدہ ہو جائیں.مہاراجہ بہادر تو عنایات کے لیے تیار ہیں.مگر بیرونی مداخلت نے کام خراب کر دیا.وغیرہ وغیرہ -2 میں قادیانیت اور احمدیت سے اتنا ہی دُور ہوں کہ جتنے علماء اہلسنت والجماعت ہوتے ہیں.مگر میں اپنے ملک کا دشمن نہیں ہوں.کہ میں کشمیر کے بُرے اور بھلے پر غور نہ کروں.اور جب کہ ہندوستان میں بڑے بڑے مقتدر علماء.اہل ہنود و دیگر مذاہب کے لوگوں سے مل کر اپنا سیاسی لائحہ عمل چلا رہے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم آپ اور آپ کی جماعت سے مل کر متحدہ محاذ نہ بنائیں اور اس حقیقت سے آنکھیں بند کر لیں کہ اس وقت کا تفرقہ ہماری تباہی و بربادی کا سبب ہوگا.اور ہمیں لڑانے کی ساری چالیں حکومت کا سنہری ہاتھ کر رہا ہے.-3 حکومت کشمیر کو نادم کرنے کے لیے جہاں کشمیریوں کی متحدہ قربانیوں نے کام دیا ہے.وہاں بیرون ریاست کے ابنائے اسلام کے احتجاج اور مطالبہ کا بھی اسی قدر حصہ ہے.-4 کشمیر کمیٹی اور جناب کی انتھک جد و جہد ہمارے دلی شکریہ کی مستحق ہے جس کی ہر وقت کی امداد.اور قیمتی مشوروں نے مشکلات کے حل کرنے میں آسانیاں پیدا کیں.آپ کا فرستادہ وفد ہمارے مشوروں.کاموں اور اجتماعات میں پوری دلچسپی سے حصہ لے کر اپنے فرائض کی انجام دہی کر رہا ہے.جس کے لیے 98

Page 95

ہم سب ممنون ہیں.آپ ان باتوں سے جو مضمون زیر تردید شائع ہوئی ہیں.امید ہے کہ بددل نہ ہوں گے کیونکہ سیاسی جنگوں میں ایسی کھیلیں کھیلی جاتی ہیں.مجھے یقین ہے کہ وہ چٹھی پنجاب کے مشہور لیڈر.مولوی ظفر علی خاں کے قلم کی مرہونِ منت ہے.اور ان کے ہی دماغ کا اختراع ہے.جس پر زمیندار نے اپنی روایات کے مطابق ”کشمیر کے مسلمانوں کا پیغام“ کی سرخی کا اضافہ کر لیا ہے.اگر مضمون زیرتر دید بقول زمیندار قرار واقعی مرسله مولوی محمد یوسف صاحب ہے.تو میں دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا انہوں نے وہ رقم جو آپ نے بطور امداد نقدی ارسال کی تھی.مضمون کی صداقت کے سلسلہ میں واپس کی تھی.اگر نہیں تو اس قسم کے مضامین میرے نزدیک محض بے ہودہ ہیں.اس لیے میں اس خط کو اس حقیقت کے اعلان پر ختم کرتا ہوں.کہ ہر کشمیری آپ کا ممنون ہے.اور کشمیر میں اس وقت کوئی آپس کی فرقہ وارانہ لڑائی پیدا نہیں کی جاسکتی.المرقوم ۵/نومبر ۳۱ء احمد اللہ میر واعظ ہمدانی عفی عنہ مشہور مذہبی لیڈر خواجہ حسن نظامی اپنے روز نامہ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر، سیکرٹری اور اراکین کی مساعی جمیلہ کا ذکر کرنے کے بعد رقم فرماتے ہیں: آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر اور سیکرٹری اور اراکین کی ایک خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اس موقع پر مسلمانوں کو باہمی تفریق سے بچانے کی 99

Page 96

کوشش کی ورنہ بعض بعض مسلمان ریاست کی حکمت عملی کا شکار ہو گئے تھے.اور انہوں نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر اور سیکرٹری کی نسبت یہ لکھنا اور کہنا شروع کر دیا تھا.کہ وہ صحیح عقیدہ کے مسلمان نہیں ہیں.اس واسطے مسلمان ان کے ساتھ کام نہیں کر سکتے.مگر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر اور سیکرٹری اور اراکین نے نہایت عقل مندی اور صبر و ضبط سے کام لیا...جب نمائندگان کشمیر کو یہ اطلاع ملی کہ چند خود غرض لوگ آل انڈ یا کشمیر کمیٹی کے خلاف اخبارات میں جھوٹا پراپیگنڈہ کرنے لگے ہیں تو اُن کی طرف سے جو تاراخبارات میں شائع ہوا.اس میں شر پسند لوگوں کو بے نقاب کر کے یہ لکھا:.وو ہم نمائندگان کشمیر دلی شکریہ کے ساتھ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں.اور اس کے معزز و مکرم صدر کے غایت درجہ ممنون و مشکور ہیں.نمائندگان جموں وکشمیر نے ایک خاص اجلاس میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا اس کے خلاف جو پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے وہ قطعاً بے بنیاد اور تحریک کے مخالفین کا تراشیدہ ہے.مفتی جلال الدین ایم.اے جو شیخ عبد اللہ کی پہلی گرفتاری کے بعد کشمیر ایجی ٹیشن کے پہلے ڈکٹیٹر اور مسلم نمائندگان کشمیر کے جائنٹ سیکرٹری تھے لکھتے ہیں:.آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے ہمیں ہر طرح کی امداد پہنچائی.نیز تمام متم کے مفید کارآمد مشوروں سے ہماری ہمت بندھائی اور رہبری بھی کی اور ہم بصد فخر اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ تمام قوم نہ دل سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر کی شکر گزار ہے جنہوں نے تحریک کشمیر میں گہری دلچسپی اور بدرجہ غایت سرگرمی کا اظہار کیا علاوہ ازیں صدر موصوف کے متبعین نے کبھی 100

Page 97

بالواسطہ یا بلا واسطه احمدی خیالات کی تبلیغ نہیں کی بلکہ وہ ہمیشہ فرقہ وارانہ نظریہ کو نظر انداز کرتے دیکھے گئے.تفصیل کیوں؟ میں نے اس حصہ کو ذرا تفصیل سے اس لیے لکھ دیا ہے کہ وہ نو جوان جن کو پرانا ریکارڈ میسر نہیں بعض اوقات ادھورا قصہ سن کر غلط نہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.انہیں مکمل تفاصیل سے اچھی طرح پتہ چل جائے گا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور اس کے محترم صدر کو کن حالات میں کام کرنا پڑا اور وہ کس طرح اس کشتی کو نہایت کامیابی کے ساتھ تمام چٹانوں سے بچاتے ہوئے منزل مقصود کی طرف لے گئے اور یہی وجہ تھی کہ جمہور مسلمانوں کے دلوں میں اُن کا اس قدر احترام تھا.101

Page 98

اس وقت جب اہالیانِ کشمیر اپنے مطالبات پیش کر کے انکی منظوری کے منتظر تھے.ان لوگوں نے جو کانگرس سے ( وقتی طور پر ) روٹھ کر علیحدہ ہو گئے تھے.مسلمانان کشمیر کی مؤثر تحریک کو عین وقت پر سبو تا ثر کرنے کے لیے جمہور مسلمانوں اور کشمیری نمائندوں کی رائے کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلانے اور ریاست میں جھتے بھجوانے کا اعلان کر دیا.سبوتاژ مسلمانانِ کشمیر کی طرف سے مطالبات کا جو میموریل مہاراجہ کے سامنے ۱۹ اکتوبر کو پیش ہوا.مہاراجہ نے اسکا مختصر الفاظ میں جواب دیا اور مفصل احکام بعد میں جاری کرنے کا وعدہ کیا.اپنے جواب میں یہ بھی ذکر کیا.کہ تازہ فسادات کی تحقیق کے لیے مسٹر جسٹس دلال کی سرکردگی میں کمیشن مقرر کر دیا گیا ہے.صدر محترم ( آل انڈیا کشمیر کمیٹی ) نے اس کی اطلاع ملتے ہی اس جواب پر تبصرہ لکھا اور اس دلال کمیشن کو ناقابل قبول قرار دیا.پھر ۲۴ اکتوبر کو لاہور میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلا کر اس معاملہ کو کمیٹی میں پیش کیا.جس نے با قاعدہ قرار دادوں کے ذریعہ آپ کے تبصرہ کی تائید و تصدیق کی اور آپ کے نقطہ نگاہ کے ساتھ کلی اتفاق کیا.ہم لوگ ان دنوں سری نگر میں تھے مسلم نمائندگان نے بھی کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا.اور تمام اخبارات کو اس مضمون کے تار بھجوائے.اس کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں اس کی جگہ مڈلٹن کمیشن مقرر کرنا پڑا 102

Page 99

کشمیر کے معاملہ میں شروع ہی سے ایک بزرگ صدر محترم کے ہمیشہ دست راست بنے رہے اور انہوں نے مظلوم کشمیریوں کی امداد کے لیے رات دن کام کیا لیکن کبھی پبلک میں سامنے نہیں آئے.یہ بزرگ صدر محترم کے دوسرے بھائی صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (ایم.اے) تھے.صدر محترم انہیں عموماً اپنے ساتھ رکھتے یا جب کبھی وہ سفر میں ساتھ نہ جاتے تو مرکز میں انہیں امور کشمیر کا نگران اعلیٰ مقرر فرما کر جاتے.مولانا در دتو سری نگر میں تھے اس لیے قائمقام سیکرٹری کی خدمت مولا نا عبدالمغنی خاں صاحب کے سپر د تھی.مہاراجہ کی طرف سے حسب وعدہ تفصیلی اعلان میں تاخیر ہورہی تھی.صدر محترم نے مہاراجہ کو تار کے ذریعہ توجہ دلائی.کہ ریاست میں قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ بہت جلد مسلمانوں کی شکایات کا ازالہ اور ابتدائی حقوق کے متعلق اعلان کیا جائے اس تار کی تائید میں سری نگر خانقاہ معلی میں ایک عظیم الشان جلسہ ہوا جس میں ہزار ہا مسلمان شریک ہوئے.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ایک رکن جلسہ کے صدر تھے.شیخ محمد عبد اللہ نے اس جلسہ میں پُر جوش تقریر کی اور اس مطالبہ کی تائید کی.بخشی غلام محمد بھی ان دنوں سرگرم کارکن تھے.گوا بھی لیڈروں میں شمار نہ ہوتے تھے.انہوں نے بصد اصرار جلسہ کی روئدا دوالے تار پر دستخط کئے.پتھر مسجد واگزار ہے.اسی دوران میں ریاست کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ پتھر مسجد واگزار کی جاتی ریاست آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے 'ہاؤس بوٹ“ ہی کو نمائندگان اور مسلمانانِ کشمیر کا مرکز خیال کرتی تھی.ہم سب کی چوبیس گھنٹے نگرانی ہوتی تھی.میں صبح کی نماز کے بعد اپنے 103

Page 100

ہاؤس بوٹ سے اوپر بند پر گیا.تو عین اس وقت ایک سب انسپکٹر نے بجلی کے پول پر ایک نوٹس لگانا چاہا.مگر اس طریق سے کہ میں اُسے دیکھ لوں.میں نے وہ نوٹس اُس سے یہ کہہ کر لے لیا کہ میں اس کی نقل ٹائپ کر کے واپس کر دوں گا.محترم در دصاحب کو جا کر دکھایا پھر اس کی چند کا پیاں ٹائپ کیں.اور نوٹس سب انسپکٹر کو واپس کر دیا.جس نے اُسے چسپاں کر دیا.صدر محترم نے مہاراجہ کو جو تار دیا تھا اس کی تائید جلسہ عام میں تو ہو گئی تھی.نمائندگان کی طرف سے ایک اور میموریل ان کی درخواست اور مشورہ کے بعد محترم در دصاحب نے تیار کیا.یہ میموریل بھی تاریخ کشمیر میں بہت اہمیت رکھتا ہے.اس میں ۱۹ اکتوبر کے مطالبات کو جلد پورا کرنے اور پتھر مسجد جو و اگزار ہوئی تھی اس کے علاوہ دوسرے مذہبی مقامات کو واگزار کرنے پر زور دیا گیا تھا.میر واعظ (احمد اللہ صاحب ہمدانی ) ان دنوں اسلام آباد میں تھے راقم الحروف وہ میموریل اُن کے پاس لے گیا.انہیں پڑھ کر اور ترجمہ کر کے سنایا انہوں نے بھی بڑی خوشی سے اُس پر دستخط کر دیے.۱۱/ نومبر کو مہاراجہ کی طرف سے مطالبات کے جواب میں مفصل اعلان ہوا.مڈلٹن کمشن ( گواس کا ذکر اعلان میں نہ تھا) اور گلینسی کمیشن مقرر کر دیے گئے.پہلا کمیشن فسادات کی وجہ اور ذمہ داری کی تحقیق اور دوسرا مطالبات پر غور کرنے کے لیے کلینسی کمیشن میں موجود دومسلمان لیے گئے.وہ نمائندگان میں سے تھے.کشمیر کے صوبہ سے خواجہ غلام احمد عشائی اور جموں کے صوبہ سے چودھری غلام عباس تھے.غیر مسلموں کی طرف سے مشہور صحافی تاریخ دان پنڈت پریم ناتھ بزاز بھی اس کمیشن کے ایک رکن تھے.ان کے علاوہ جموں کا ایک ہندو تھا.104

Page 101

گیارہ والا اعلان آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے صدر کی ہدایات کے ماتحت ایک باقاعدہ منصوبہ کے تحت کام کیا تھا.مسلمانان جموں و کشمیر کے مطالبات ایسے رنگ میں تیار کئے گئے تھے.جنہیں کوئی حقیقت پسند ماننے سے انکار نہ کر سکتا تھا.پھر بڑی وضاحت سے اُن کی اہمیت اور مقبولیت دنیا کے ہر حصہ ( خصوصاً ہندوستان انگلستان اور امریکہ ) میں ثابت کی.اور مہا راجہ کو ہر ممکن ذریعہ سے مطالبات کو منظور کرنے پر آمادہ کیا.اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانانِ کشمیر کو متحد رکھا اور دشمنوں کی ہر چال کو ناکام بنادیا.ان تمام شاندار مساعی کا نتیجہ مہاراجہ کا ارنومبر ۱۹۳۱ء والا وہ تسلی بخش اعلان ہے.جس میں ایسے مطالبات جو فوری منظوری کے قابل تھے ان کے لیے فوری انتظام کر دیا اور جن کے متعلق غور و خوض کی ضرورت تھی.اُن پر ایک کمیشن کے ذریعہ جلد غور کر کے فیصلہ کرنے کا حکم نافذ کیا.محترم در دصاحب کا تیار کردہ درمیانی میموریل بر وقت پہنچا اور بہت مفید ثابت ہوا.چنانچہ مساجد کے متعلق اس میں جو شکایت کی گئی تھی.اس کا ازالہ اس اعلان میں کر دیا گیا تھا.مسلمانانِ ریاست کو جنگ آزادی کا پہلا پھل شاہ جہان کے وقت کی وسیع وعریض اور شاندار مسجد ( جو پتھر مسجد کے نام سے موسوم ہے ) کی واگزاری کے رنگ میں ملا تھا.۲۹؎ نومبر ۱۹۳۱ء کو اس رسم افتتاح ادا کی گئی.اس موقع پر پچاس ہزار سے زائد مسلمانوں کا مجمع تھا اور کشمیر کی تاریخ میں اس سے بڑا اجتماع کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اراکین اور کارکنان کو اعزازی مہمان کے طور پر خاص طور سے مدعو کر کے سٹیج پر بٹھایا گیا.خواجہ سعد الدین شال کی صدارت میں جلسہ ہوا.مولوی عبد اللہ وکیل.شیخ محمد عبد اللہ.مولانا سید میرک شاہ.میاں احمد یار اور پیر حسام الدین نے تقاریر کیں.105

Page 102

شاندار خدمات کا اعتراف راقم الحروف اس جلسہ میں شروع سے آخر تک موجود رہا.تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد اللہ اکبر اسلام زندہ باد اور صدر کشمیر کمیٹی زندہ باد کے نعرے بلند ہوتے تھے.اور حاضرین خوشی سے اچھلتے تھے.اسی جلسہ میں جو تین ریزولیوشن متفقہ طور پر منظور ہوئے.ان میں سب سے پہلا آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور اُس کے محترم صدر کے شکریہ پر مشتمل تھا.ایک قرار داد میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا.کہ یہ مسجد ہر فرقہ کے مسلمانوں کے لیے کھلی رہے گی اور اس میں سب کو نماز ادا کرنے کی اجازت ہوگی.نیز اس مسجد میں کوئی ایسی تقریر نہیں کی جائے گی جس سے کسی فرقہ کے جذبات مجروح ہوں.کیونکہ یہ مسجد تمام فرقوں کے مسلمانوں کی متحدہ کوشش سے واگزار ہوئی ہے...جلسہ سے فراغت کے بعد ہم لوگ کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد جب رات گئے اپنے ہاؤس بوٹ پر پہنچے تو ہمارا ہاؤس بوٹ پھولوں.ہاروں اور بجلی کے قمقموں سے روشن تھا اور گھاٹ پر بھی چراغاں تھا.یہ سب کام رضا کاروں نے خود بخود کیا تھا.ان میں بخشی غلام محمد اور خواجہ غلام قادر ڈکٹیٹر ، خواجہ غلام محمد صادق اور خواجہ غلام محی الدین کرہ پیش پیش تھے.اور یہ سب دوسرے رضا کاروں کے ہمراہ موجود تھے.ہمارے ہاؤس بوٹ پر پہنچتے ہی ان لوگوں نے پھر خوشی سے نعرے لگائے.صوفی نیاز آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے ریاستی مسلمانوں کی امداد کے لیے جو آزمودہ کارکن کشمیر میں بھجوائے.ان میں صوفی عبد القدیر نیاز (بی اے ) کا نام نمایاں حیثیت رکھتا ہے.وہ 106

Page 103

انگلستان سے واپس آچکے تھے.واللہ اعلم ریاستی حکام صوفی صاحب سے کیوں گھبراتے تھے.ان کو بغیر کسی الزام یا قانون کے ریاست کے داخلہ سے روک لیا.لیکن صوفی صاحب تو یہ عزم صمیم لے کر گھر سے روانہ ہوئے تھے.کہ مظلومین کی امداد کا جو مشن ان کے سپر د ہوا ہے وہ اسے ضرور پورا کریں گے.چنانچہ تمام رکاوٹوں کے باوجود سری نگر پہنچ گئے.راقم الحروف بچپن ہی سے صوفی صاحب کو جانتا ہے.جب وہ وارد ہوئے تو مجھ سے صرف ایک گز کے فاصلہ پر تھے لیکن میں انہیں پہچان نہ سکا.صوفی صاحب کئی ماہ سری نگر میں کام کرتے رہے.شیخ بشیر احمد سری نگر میں پلٹن کمیشن اور گلینسی کمیشن کے لیے شہادتوں کی تیاری اور سنگین مقدمات کی پیروی کے لیے ایک اعلیٰ درجہ کے قانون دان کی خدمات کی ضرورت تھی.شوپیاں کیس ساری وادی میں بہت اہمیت حاصل کر چکا تھا شیخ بشیر احمد ایڈووکیٹ اپنے ضلع سے لاہور ہائی کورٹ میں پہنچ کر ترقی کی منازل بڑی سرعت سے طے کر رہے تھے لیکن صدر محترم کے اشارہ پر سب کام بند کر کے سری نگر پہنچ گئے.اور اس کام کو اپنے ہاتھ میں لے لیا.دونوں کمیشنوں کی تیاری اور مقدمات کی پیروی کے کام میں بڑی عرق ریزی کی.جس کے نتائج بھی شاندار برآمد ہوئے شوپیاں کیس کو جس میں کئی سرکردہ مسلمان قتل کے الزامات میں ماخوذ تھے.اس قابلیت سے چلایا کہ...صرف چند دن کی کارروائی کے بعد محترم شیخ صاحب کے دلائل سے متاثر ہو کر جج نے اس کیس کے ایک اہم ملزم کو رہا کرنے کا حکم دیا.107

Page 104

جس پر اسلامیان کشمیر کے لیڈ رشیخ محمد عبد اللہ نے شیخ صاحب اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کوشکر یہ کے تار دیئے.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے وکلاء جو کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے اُن کا ذکر تو بعد میں آئے گا.شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ نے مناسب سمجھا کہ وہ صدر محترم کی خدمت میں خود حاضر ہو کر تمام مسلمانان کشمیر کی طرف سے شکریہ ادا کریں.چنانچہ وہ دسمبر ۱۹۳۱ ء کے آخری ہفتہ میں اس غرض سے قادیان تشریف لے گئے.مولا نا عبدالرحیم درد.شیخ بشیر احمد اور مولانا غزنوی پنجاب جارہے تھے.شیر کشمیر ان کے ہمراہ گئے.راقم الحروف اور چودھری عصمت اللہ خاں وکیل ان صاحبان کے جانے کے بعد سری نگر میں ہی تھے کہ خواجہ غلام محمد صادق اور اُن کے نسبتی بھائی غلام محی الدین کرہ نے مجھ سے خواہش کی کہ وہ بھی قادیان جا کر صدر محترم سے ملاقات اور ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں.اور اصرار کیا کہ میں اُن کے ساتھ چلوں...راقم الحروف نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا دفتر چودھری عصمت اللہ خاں صاحب وکیل کے سپر د کیا اور ۲۴ / دسمبر کو سری نگر سے روانہ ہوکر ۲۶ دسمبر کی صبح کو ہم تینوں صدر محترم کے حضور پہنچ گئے.کانگرسی مسلمانوں کی سول نافرمانی اُس وقت جب اہالیان کشمیر اپنے مطالبات پیش کر کے اُن کی منظوری کے منتظر تھے.ان لوگوں نے جو کانگرس سے وقتی طور پر روٹھ کر علیحدہ ہو گئے تھے.مسلمانان کشمیر کی مؤثر تحریک کو عین وقت پر سبو تا ثر کرنے کے لیے جمہور مسلمانوں اور کشمیری نمائندوں کی رائے کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلانے اور ریاست میں جھتے بھجوانے کا اعلان کر دیا.ان میں سے بعض کو یہ زعم باطل تھا کہ وہ اس طرح مسلمانوں کے گاندھی اور نہرو بن جائیں گے لیکن 108

Page 105

کاٹھ کی ہنڈیا کب تک کام دے سکتی ! ( ان لوگوں کے متعلق کشمیر کے مسلمہ لیڈر شیخ محمد عبد اللہ کی رائے پہلے آچکی ہے ) دوسرے لیڈر چودھری غلام عباس احرار کے لیڈروں کے متعلق لکھتے ہیں کہ وو جماعت احرار کے بزرگوں اور لیڈروں سے جموں اور کشمیر کے مسلمانوں کو شدید اختلافات تھے.یہ تحریک انہوں نے ہماری شدید مخالفت کے باوجود ایسے حالات میں شروع کی.جو اسلامیان ریاست کی اس وقت کی سیاسی فضا کے لیے سازگار نہ تھی.کمیشن کے فیصلہ کی طرف ہندوستان اور ریاست کے مسلمانوں کی آنکھیں لگی ہوئی تھیں.اور ہر معقول آدمی اس وقت کسی غیر آئینی کارروائی کو مفادملت کے خلاف ایک تخریبی حرکت تصور کرتا تھا.1) کش مکش ص ۱۱۷) اپنی موت مرگئی آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی مساعی سے سارے ہندوستان کے مسلمانوں میں جوش و ہیجان تھا.ایسے وقت میں نا سمجھ اور جو شیلے طبقہ کو اشتعال دلا کر ان کے جوش کا استحصال کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا.لوگ جتھوں میں جانے لگے.لیکن چند ہی دنوں کے بعد اُن کو حقیقت حال کا پتہ چل گیا اور معافیاں مانگ مانگ کر واپس بھی آنے لگ گئے.جیل سے باہر آنے والوں کی واپسی کا یہ رد عمل ہوا کہ آئندہ کے لیے قربانی کے بکرے ملنے ختم ہو گئے اور یہ تحریک بہت جلد اپنی موت آپ مرگئی.بے شک اس تحریک کے ایک بڑے لیڈر نے اپنے ان والنٹیئر ز کی شان میں یہ قصیدہ صد فی صد ٹھیک ہی کہا ہے کہ.....وہ 109

Page 106

وو وہ نشے سے صبر نہیں کر سکتا.قوم کی عزت وشان بیچ کر معافی مانگ کر ٹھنڈے ٹھنڈے گھر کا راستہ لیتا ہے پھر کیا نشے کے عادی افراد کے بل وو بوتے پر قومی جنگ جیتی جاسکتی ہے؟.1( تاریخ احرار ص ۷۸) مزید والنٹیئر ز نہ ملنے اور ایجی ٹیشن ختم ہونے کا ذکر یوں فرماتے ہیں: یہ میرے گمان میں بھی نہ تھا.کہ مجاہد روزوں کے بہانے کھسک جائیں گے.ہمارے دلوں میں مذہب نے کیسی بُری صورت اختیار کرلی ہے.جہاد قومی عبادتوں اور رسمی روزوں پر قربان کیا جانے لگا ہے.غرض جو نہ ہونا چاہیے تھا وہ ہوا.رمضان میں عام مسلمانوں کی خاموشی میدان سے باقاعدہ پسپائی نہ تھی.بلکہ ہتھیار اٹھانے سے کانوں پر ہاتھ دھرنا تھا.ان حالات میں دفتر نے اعلان کر دیا کہ عید کے بعد سول نافرمانی کا پروگرام زور شور سے جاری کیا جائے گا.حالانکہ اب کسی زور شور کی امید باقی نہ تھی.اب ہمارے پاس بہت تھوڑے والنٹیر زرہ گئے تھے.وہ بھی پتنگ کی طرف اداس اور اکیلے اکیلے سڑک کے حاشیوں پر پھرتے 66 تھے.1 ( تاریخ احرار صفحه ۷۴) رضا کاروں کے بعد عورتیں وو جب ان لوگوں کو ہر طرف سے ناکامی ہوئی تو عورتوں کو آگے کیا.لیکن یہاں بھی سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ آیا.چنانچہ اس شکست کا رونا اسی طرح رود یا گیا:.......اب عالی حوصلہ عورتیں کہاں سے آئیں گی.کہ اس سرد بازاری اور سست رفتاری میں خود قُربان ہوکر مردوں کی غیرت کو للکار ہیں.جب مردوں کا مذہب میدانِ محاربہ کو چھوڑ کر رمضان کے روزوں اور نمازوں کے لیے معتکف ہو جانا ہو تو حالاتِ زمانہ سے ناواقف رکھی ہوئی عورتیں 110

Page 107

تعلیم اسلامی سے بے خبر بیچاریاں کیا پہاڑ ڈھا ئیں...( تاریخ احرار صفحه ۷۴) ان عورتوں نے جو کام کیا اور اس کا جو حشر ہوا.وہ یہ تھا:.مختلف بیانات کے ذریعے مسلمانوں کے سردسینوں میں ایمان کی بجھی چنگاریوں کو ہوا دینا شروع کی سلگتی کو بھڑ کا یا جاسکتا ہے مگر اوس پڑے ایندھن کی جلا یا نہیں جاسکتا...( تاریخ احرار صفحہ ۷۴ ) نتائج وعلاج اس ایجی ٹیشن سے متاثر ہو کر علاقہ میر پور کے ایسے لوگوں نے (جن میں جوش تو تھا لیکن ہوش سے عاری تھے ) اپنے لیڈروں اور بہی خواہوں سے مشورہ کئے بغیر انفرادی طور پر عدم ادائیگی مالیہ کی تحریک شروع کردی.ریاستی حکام کو بہانہ مل گیا.بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا.انہوں نے اُن پر وہ ظلم ڈھائے.کہ سری نگر.شو بیاں.سوپور اور جموں کے مظالم بھی ماند پڑ گئے اور اس علاقہ کے مظلوم انگریزی مملکت کی طرف بھاگنا شروع ہو گئے.صدر محترم کشمیر کمیٹی نے اپنے نمائندہ خصوصی سید زین العابدین ولی اللہ شاہ کو موقع پر پہنچ کر صورت حال صورت معلوم کرنے اور اصلاح احوال کی کوشش کے لیے جموں بھجوایا.اس سے پہلے صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے فسادات جموں کے متعلق مسٹر جیکینز (اسپیشل برٹش آفیسر) سے خط و کتابت بھی ہو چکی تھی.جس وقت شاہ صاحب جموں پہنچے تو ینگ مینز ایسوسی ایشن اور جمہور مسلمان ریاستی حکام کا جانب دارانہ رویہ دیکھ کر فسادات کی تحقیق میں عدم تعاون کرنے پر مصر تھے.محترم شاہ صاحب نے مسٹر لاتھر ( انسپکٹر جنرل پولیس ) سے ملاقات کر کے مسلمانوں کی شکایات کو دور کرنے کا تقاضا کیا.انہوں نے یقین دلایا کہ مقدمات کی 111

Page 108

تحقیق وتفتیش عدل و انصاف سے ہوگی.اس پر ایسوسی ایشن کے اراکین نے تعاون کرنا منظور کر لیا.شاہ صاحب کی کوشش سے ان شرائط پر فریقین میں سمجھوتہ ہوا کہ اول:.ایسے مسلمان مقامی پولیس افسروں کے ذریعہ تحقیق ہوگی جن کو مسلم پبلک قابل اعتماد مجھے.دوم:.ان کی مدد کے لیے باہر سے مسلمان پنشنز آفیسر بلائے جائیں گے.سوم.ینگ مینز ایسوسی ایشن کے دو نمائندے تفتیش کے وقت موجود رہیں گے.اس سمجھوتہ کی اطلاع سپیشل برٹش آفیسر کو بھی کر دی گئی اور سید زین العابدین ولی اللہ شاہ، قاضی گوہر رحمن ڈکٹیٹر جموں کی معیت میں صدر محترم کشمیر کمیٹی کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور تمام حالات گوش گذار کئے.112

Page 109

ان وکلاء نے اپنے کاروبار کی پروانہ کرتے ہوئے نہایت اخلاص سے اپنی خدمات آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سپر د کی تھیں اور رات دن کام کیا تھا.ان کی محنت اور قربانی کے نہایت شاندار نتائج نکلے اور بیسیوں بے گناہ بری قرار دیئے گئے...وکلاء کا ایثار صوبہ کشمیر میں جو وکلاء صدر کشمیر کمیٹی کی ہدایت کے ماتحت تشریف لے گئے تھے ان کا کچھ ذکر پہلے آچکا ہے.جموں میں بھی وکلاء کی ضرورت تھی چنانچہ چودھری عزیز احمد باجوہ نے آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی پریکٹس بند کر کے اپنے آپ کو اس خدمت کے لیے پیش کر دیا.دیگر کاموں کے لیے بھی کارکنوں کی ضرورت تھی.چودھری صاحب کے بڑے بھائی چودھری محمد عظیم باجوہ نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا.اور دونوں بھائی اپنے ایک خادم کو ساتھ لیکر جموں پہنچ گئے اور کام شروع کر دیا.ان کے جموں پہنچنے کے چند روز بعد میر محمد بخش ایڈووکیٹ ( گوجرانوالہ ) نے بھی دوماہ کے لیے اس خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا.انہیں بھی جموں بھجوا دیا گیا.ان دنوں اگر ریاست سے باہر کا کوئی وکیل کسی مقدمہ میں پیش ہوتا.تو اسے ہر مقدمہ میں ایک بڑی رقم بطور فیس کورٹ داخل کرنا پڑتی.صدر محترم نے چودھری اسد اللہ خاں بیرسٹرایٹ لاء لاہور کو جموں بھجوایا کہ وہ ہائی کورٹ سے اس بات کی منظوری لیں کہ آل انڈیا 113

Page 110

کشمیر کمیٹی کے تحت کام کرنے والے وکلاء کو فسادات کے مقدمات میں ملزمان کی طرف سے بغیر اُجرت پیروی کرنے کی اجازت ہو.چودھری صاحب نے صدر محترم سے ہدایت ملتے ہی جموں و کشمیر کے چیف جسٹس سربار جو دلال کو انٹرویو کے لیے تار دیا.ان کا جواب بذریعہ تار آگیا کہ چودھری صاحب تشریف لا سکتے ہیں.چنانچہ چودھری اسد اللہ خاں وہاں پہنچے اور چیف جسٹس نے ان کی درخواست کو منظور کر لیا.سر دلال الہ آباد ہائی کورٹ کے ریٹارڈ ج تھے اور انصاف پسند تھے.ان دنوں جب کہ ہائی کورٹ سری نگر میں تھا.اُن کی عدالت میں شیخ بشیر احمد ایڈووکیٹ کئی بار پیش ہو چکے تھے.اور شیخ صاحب کا اُن پر بڑا اچھا اثر تھا.مخلصانہ ایثار اور خدمات وکلاء کی خدمات کے یہ واقعات ۳۱ ء کے آخر کے ہیں.ان وکلاء اور دوسرے وکلاء کا ذکر جنہوں نے بڑی قربانی کر کے اپنے کشمیری بھائیوں کی امداد کے لیے اپنے آپ کو صدر کشمیر کمیٹی کے سامنے پیش کیا.آئندہ بھی آئے گا.ان لوگوں نے اپنے کاروبار کی پروا نہ کرتے ہوئے نہایت اخلاص سے اپنی خدمات آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سپرد کی تھیں.اور رات دن کام کیا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی محنت اور قربانی کے نہایت شاندار نتائج نکلے.اور بیسیوں بے گناہ بری قرار دیئے گئے.ان قابل احترام وکلاء کی قربانی کا اس ایک مثال ہی سے پتہ چل جائے گا.کہ ایک وکیل دوست کو جب صدر محترم کشمیر کمیٹی نے یہ حکم دیا کہ فوراً کشمیر چلے جائیں.تو انہوں نے اس بات کا بھی انتظار نہ کیا.کہ وہ سفر کے لیے اور رہائش اور خوراک کے لیے نقدی کا انتظام کرلیں.گھر میں جو نقدی موجود تھی وہی لے لی اور احتیاطاً اپنی بیوی کا کچھ زیور لے لیا اور سید ھے جموں پہنچ گئے.کئی دنوں کے بعد جب ان کے دوسرے وکیل بھائی جموں پہنچے تو نقدی 114

Page 111

ختم ہو چکی تھی.انہوں نے آنے والے دوست کو بتائے بغیر ایک زیور نکالا.کہ اُسے فروخت کر کے روپیہ حاصل کر لیں نو وارد دوست کو پتہ چل گیا.انہوں نے مذاقا کہا کہ مجھے آپ کی چوری کا پتہ چل گیا ہے.مگر اس کی ضرورت نہیں رہی.صدر محترم نے مجھے کچھ رقم دی ہے.اور فرمایا ہے کہ آپ لوگوں کے کھانے کا خرچ ہمارے ذمہ ہے.پہلے جانے والوں نے جو خرچ کیا ہو وہ بھی اس میں سے ادا کر دیں اور آئندہ بھی جو خرچ ہو.لیتے رہیں.یہ وکلاء جو کھانا کھاتے تھے وہ اتنا سادہ ہوتا تھا کہ جیسا معمولی غریب لوگ کھاتے ہیں.لیکن ان مخلصین نے کبھی بھول کر بھی شکایت نہ کی کہ وہ مفت کام کرتے ہیں اور ان کو کھانا بھی اچھا نہیں ملتا.( راقم الحروف کو بھی جب جموں جانا پڑتا تو وہ اپنے وکیل بھائیوں کے سادہ اور روکھے سوکھے دسترخوان میں شریک ہوتا.ظا) میر محمد بخش نے اپنے ایک دوست مولوی غلام مصطفے بیرسٹر ( گوجرانوالہ ) کو بھی اس خدمت کے لیے تیار کر لیا تھا.ان کو بھی جموں بلوالیا اور وہ بھی شریک کار ہو گئے.دفتری کام سنبھالنے کے لیے صدر محترم نے لیفٹیننٹ محمد اسحاق کو ان وکلاء کے پاس جموں بھجوایا.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے وکلاء کے پہنچنے سے پہلے مسلمانوں کے خلاف ایک مقدمہ پیش ہو چکا تھا.اس مقدمہ کی پیروی کے لیے ایک بیرسٹر سیالکوٹ سے آئے ہوئے تھے.جو اپنے آپ کو ایک پارٹی کا نمائندہ کہتے تھے.لیکن پیروی مقدمہ کے لیے ساٹھ روپے یومیہ اور روزانہ سیالکوٹ سے جموں اور واپسی کا سیکنڈ کلاس کا کرا یہ چارج کرتے تھے.ان دنوں یہ فیس چوٹی کے وکلاء کی فیس سے بھی زیادہ تھی.ظا) 115

Page 112

کمیٹی کے وکلاء نے چونکہ مفت پیروی کرنا تھی.اس لیے جب ملزمان کو یقین ہو گیا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے وکلاء پہنچ گئے ہیں تو انہوں نے بیرسٹر صاحب کو فارغ کر دیا اور مالی بوجھ سے رہائی حاصل کر لی.سال کے آخر میں پلٹن کمیشن اور گلینسی کمیشن بھی ریاست کے سرمائی دارالخلافہ جموں میں آگئے تھے.اس لیے وکلاء کے لیے مقدمات کی پیروی کے علاوہ ان ہر دو کمیشنوں کے متعلق سارا کام تھا.وکلاء کے پہنچنے پر کام کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا گیا.تمام مقدمات کی پیروی میر محمد بخش کے سپرد ہوئی اور کمیشنوں کے لیے شہادت کی تدوین و ترتیب چودھری عزیز احمد باجوہ ، مولوی غلام مصطفیٰ بیرسٹر اور چودھری محمد عظیم باجوہ کے سپرد کی گئی ٹائپ اور دفتر کا کام لفٹینٹ محمد اسحاق کے ذمہ لگایا گیا اسی طرح یہ دونوں کام پورے نظم اور کوشش سے شروع ہو گئے.حکام کی طرف سے مشکلات ریاستی حکام کی طرف سے قدم قدم پر کارکناں کے لیے مشکلات پیدا کی جاتی تھیں.فسادات جموں کی تحقیق کے لیے کشمیر کمیٹی کی کوشش سے جوٹر بیونل مقرر ہوا اس کے ارکان دو سیشن جج تھے.ان میں سے ایک ہندو اور ایک مسلم تھا.اب عدالت میں یہ سوال پیدا ہو گیا کہ میر محمد بخش پلیڈ ر ہیں اور غیر ریاستی پلیڈ ر ریاستی عدالتوں میں بطور وکیل پیش ہی نہیں ہوسکتا.میر صاحب نے ساری رات ریاستی قانون کا مطالعہ کیا اور پیروی مقدمات کے لیے یہ راہ نکالی کہ ریاستی قانون کے ماتحت کسی ملزم کا مختار خاص مقدمہ کی پیروی کر سکتا ہے.چنانچہ میر صاحب نے جیل سے تمام ملزمان کے خاص مختار نامے حاصل کر کے عدالت میں پیش کر دیئے.عدالت نے اعتراض کیا کہ: 116

Page 113

جب غیر ریاستی پلیڈر پیش نہیں ہو سکتا.تو غیر ریاستی مختار خاص کس طرح پیش ہو سکتا میر صاحب کا موقف یہ تھا کہ پلیڈر کے لیے بے شک شرط ہے لیکن مختار خاص کے لیے یہ شرط ریاستی قانون میں نہیں رکھی گئی.عدالت کوئی فیصلہ نہ کرسکی.ہائی کورٹ سے استصواب کیا گیا.ہائی کورٹ نے میر صاحب کے موقف کی تائید کی اور اس طرح یہ روک بھی ہمیشہ کے لیے دور ہوگئی.کہاں ہے کمیٹی انہی دنوں ایک لطیفہ بھی ہوا وہ بیرسٹر صاحب جو سیالکوٹ سے مقدمہ کی پیروی کے لیے فیس وصول کر کے آیا کرتے تھے.انہوں نے کسی اخبار میں یہ نوٹ شائع کروایا کہ کشمیریوں کے مقدمات کی پیروی میں کر رہا ہوں.کہاں ہے کشمیر کمیٹی جو یہ دعویٰ کرتی ہے.کہ ہمارے وکلا ء ریاست میں کام کر رہے ہیں.حالانکہ واقعہ یہ تھا.کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے وکلا ء اس وقت بھی پوری سرگرمی سے کام کر رہے تھے.اتفاق کی بات ہے کہ اس نوٹ کے شائع ہونے کے دوسرے ہی دن مسلم اکابرین نے کمیٹی کے وکلاء کو کھانے پر مدعو کیا اور درخواست کی کہ گو آپ پہلے ہی ہم پر احسان کر رہے ہیں.اگر اجازت دیں تو جو وکیل ہم نے نے بھاری فیس دے کر مقرر کیا ہوا ہے.اب اُسے فارغ کر دیا جائے.کشمیر کمیٹی نے وکلاء نے جواب دیا.کہ ہم تو خدمت کے لیے ہی آئے ہیں.ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے.چنانچہ اس کے دوسرے روز ہی بیرسٹر صاحب فارغ کر دئیے گئے اور یوں وہ اپنی غلط ڈینگ کی بہت جلد سزا پا گئے.117

Page 114

مقدمات ٹربیونل کے سامنے دو بڑے مقدمات پہلو بہ پہلو چل رہے تھے.ایک مسلمانوں کے خلاف جس میں سترہ ملزم نہایت سنگین مقدمات میں ماخوذ تھے.اور دوسرا چند ہندوؤں کے خلاف تھا.مسلمانوں کے مقدمہ کی پیروی میر محمد بخش کر رہے تھے.اور ہندوؤں کے مقدمہ کی پیروی سیالکوٹ کے چوٹی کے وکیل لالہ امرد اس کر رہے تھے.چند دنوں کے بعد ہی لالہ امر داس جو متعصب انسان نہ تھے.میر محمد بخش اور چودھری عزیز احمد باجوہ سے بے حد متاثر ہو گئے.وہ چھ ماہ جموں میں مقدمات کی پیروی کرتے رہے.لیکن میر صاحب کا بیان ہے کہ اس سارے عرصہ میں ایک دفعہ بھی انہیں یا مسلمانوں کو شکایت کا موقع نہیں دیا.میر محمد بخش اور لالہ امرد اس نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ مقدمات ابھی کافی عرصہ جاری رہیں گے.ملزمان جیلوں میں سٹر رہے ہیں اس لیے کیوں نہ ہم علیحدہ علیحدہ اپنے اپنے ملزموں کی طرف سے یہ درخواستیں دے دیں کہ ہر دو مقدمات کے ملزمان کا اپنے بچاؤ کے لیے اس بات پر انحصار ہے کہ وہ خود حفاظتی میں لڑے ہیں.اس لیے انہوں نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا اور بالآخر اگر کسی فریق کو حفاظت خود کا حق دیا گیا تو وہ فریق بلا وجہ دورانِ مقدمہ جیل میں رہے گا اور مقدمات کے جلد فیصلہ ہونے کا کوئی امکان نہیں.اس لیے تمام ملزمان کو ضمانت پر رہا کر دیا جائے.ہر دو وکلاء نے یہ درخواستیں دے دیں جو منظور ہو گئیں اور ملزم رہا کر دیئے گئے.کشمیر کمیٹی کا احسان جنوری ۳۲ء میں ایک دن راقم الحروف میر محمد بخش کے ساتھ جموں میں اُن کی جائے رہائش کی طرف جارہا تھا کہ سامنے سے ایک وجہ یہ خوش پوش شخص ( جس کی عمر ستر سال سے 118

Page 115

زائد ہوگی ) آئے اور میر صاحب کے پاؤں کو پکڑ لیا اور کہنے لگے...” میر صاحب میں آپ کا اور صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا شکر یہ کبھی ادا نہیں کر سکتا.نہ اُن کے احسان کو بھول سکتا ہوں.آپ نے مجھے جیل سے کھینچ کر باہر نکال لیا ہے.“ میر صاحب نے بتایا کہ ان پر قتل.آتش زنی.بلوہ اور لوٹ مار کے مقدمات تھے.اب میں نے ان کی ضمانت کروائی ہے.دیگر وکلاء جموں میں جب کسی اہم معاملہ اور خاص قانونی نقطہ پر بحث کی ضرورت پیش آئی تو چودھری اسد اللہ خاں صاحب بیرسٹر بھی بلوائے جاتے تھے کہ انہوں نے بھی اپنے آپ کو صدر محترم کشمیر کمیٹی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے وقف کیا ہوا تھا.اسی طرح شیخ محمد احمد ایڈووکیٹ کپورتھلہ ، قاضی عبدالحمید وکیل امرتسر، چودھری یوسف خاں وکیل گورداسپور بھی جن کا ذکر آگے آئے گا.مولانا شمس مولانا جلال الدین شمس جن کے آباؤ اجداد کسی زمانہ میں کشمیر سے پنجاب آئے تھے کئی سال ہندوستان سے باہر بلاد عربیہ میں رہنے کے بعد دسمبر ۳۱ء میں واپس آئے.تو صدرِ محترم کشمیر کمیٹی نے اُن کی واپسی کے دوسرے دن ہی اُن کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا نائب سیکرٹری مقرر کر کے ان کے سپر د خصوصی پراپیگنڈہ کا کام کر دیا.جب کوئی شخص سالہال کے بعد اپنے عزیز واقارب کے پاس آتا ہے تو لازماً اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اُن سے ملاقاتیں کرے.کچھ دن آرام کرے اپنے اہل وعیال کے پاس زیادہ سے زیادہ وقت بیٹھے.اپنے دوستوں سے ملے لیکن جناب صدر کو اللہ تعالیٰ ایسے کارکن دیتا رہا جو قومی کاموں کو ذاتی مفاد پر 119

Page 116

ہمیشہ مقدم کرتے.چنانچہ شمس صاحب محترم نے بھی اس موقعہ پر نہایت اخلاص اور قربانی کا مظاہرہ کیا اور اپنی آمد کے بعد دوسرے ہی دن سے پوری تندہی سے کام کرنا شروع کر دیا.120

Page 117

ہم نے سوچا کہ ہندوستان میں صرف ایک ہی شخصیت ہے اگر وہ اس تحریک کی قیادت منظور کرلے تو دیانتدار کارکن بھی مہیا کر لے گی.سرمایہ بھی جمع کرلے گی.وکلاء وغیرہ بھی وہ خود دے گی.اخبارات میں ولایت میں اور یہاں بھی وہ پراپیگنڈہ کا اہتمام کر لیگی اور وائسرائے اور اس کے سیکرٹریوں سے بھی مل لے گی...بدعهدی سری نگر.شوپیاں اور جموں وغیرہ میں ریاستی فوج اور پولیس نے ۳۱ء میں وہاں کے باشندگان کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا تھا اُس کی یادا بھی لوگوں کے دلوں سے محونہ ہو پائی تھی.جن مستورات کے خاوند شہید کر دیے گئے.بچے یتیم ہوئے.وہ بوڑھے والدین جو اپنے جوان لڑکوں سے ہمیشہ کے لیے ہاتھ دھو بیٹھے.وہ سب کے سب ابھی خون کے آنسورور ہے تھے کہ ۱۹۳۲ء کا آغاز میر پور، راجوری، ریاسی ، کوٹلی وغیرہ میں نہایت بہیمانہ اور المناک حادثات سے ہوا.سمجھوتے کی تعمیل سے گریز جموں کے باشندگان کی طرف سے صدر کشمیر کمیٹی کو یہ شکایات موصول ہونا شروع ہوگئیں کہ مسٹر لا تھر کے ساتھ جو سمجھوتہ ہوا تھا اس کی تعمیل نہیں ہورہی.فسادیوں کے خلاف بعض مقدمات کی ضمنیاں تیار ہو چکی تھیں.لیکن چالان عدالت میں پیش کرنے سے روک دیئے 121

Page 118

گئے اور باہر سے بھی حسب وعدہ افسران نہیں بلائے گئے.دوسری طرف میر پور میں عدم ادائیگی مالیہ کا بہانہ بنا کر زمینداروں کو گولیوں اور برچھیوں کا نشانہ بنایا جانے لگا.بات دراصل یہ تھی کہ اس علاقہ میں اس قدر مالیہ لگا دیا گیا تھا جس کی ادائیگی کاشت کاروں کی طاقت سے باہر تھی اور زمیندار (جن میں ہندو زمیندار بھی شامل تھے ) ریاست سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ موجودہ مالیہ نا قابل برداشت ہے.اسے کم کر کے ملحقہ انگریزی علاقہ کے اضلاع ، جہلم، راوالپنڈی وغیرہ کے برابر کر دیا جائے.انسپکٹر جنرل پولیس ، گورنر جموں اور وزیر وزارات نے 128 فوجی جوان، 50 سوار 45 پولیس مین لیکر عدم ادائے مالیہ کے سلسلہ میں ایک دن میر پور پر چھاپہ مارا.عورتوں کے زیورات تک اُتار لیے اور گھر کے دیگر ساز و سامان کے علاوہ تمام مویشی بھی قرق کرلیے.جب یہ حکام جانے لگے تو زمیندار نے رسیدات مانگیں جو نہ دی گئیں.اس پر نہتے لوگ جانوروں کے آگے لیٹ گئے.لاٹھی چارج اور فائرنگ کا حکم ہوا اور خوب کشت و خون ہوا.اس کے بعد ریاسی ، راجوری اور کوٹلی وغیرہ مقامات پر بھی یہی حشر برپا ہوا.شیخ محمد عبد اللہ صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے ملاقات کرنے اور آئندہ پروگرام کے متعلق غور وفکر اور مشورہ کے بعد واپس سرکی نگر پہنچ گئے.میر پور کے مظالم کے خبریں جموں اور کشمیر میں برابر پہنچ رہی تھیں.سری نگر میں برف باری ہو رہی تھی اس کے باوجود ایک عظیم الشان احتجاجی جلسہ ہوا.جموں میں ریاستی حکام نے اسے ہندومسلم سوال بنادیا سمجھ دار ہند و تو اس جنگ آزادی میں مسلمانوں کے ساتھ تھے لیکن ( اُن کے ) جاہل عوام ریاستی حکام کے ہاتھوں کھیل رہے تھے.ینگ مینز ایسوسی ایشن کی طرف سے صدر کشمیر کمیٹی کی خدمت میں 122

Page 119

بہت تشویش اور گھبراہٹ کے تار آئے.صدر کمیٹی نے فوراً سید زین العابدین ولی اللہ شاہ کو حالات کا جائزہ لینے کے لیے جموں بھجوایا.مسٹر اتھر وہاں موجود نہ تھے.شاہ صاحب مولوی یعقوب علی نمائندہ جموں کو ساتھ لیکر میر پور پہنچے.وہاں کے حالات معلوم کئے.مالیہ وصول کرنے کا نہایت شرمناک طریق اختیار کیا گیا تھا.رات کے آخری حصہ میں گاؤں پر چھاپا مارا جاتا.گھروں میں داخل ہوکر برتن، زیورات، مویشی جو کچھ ہاتھ آتا.پولیس ساتھ لے جاتی.حالات اس قسم کے تھے کہ اس بارہ میں مزید قدم اُٹھانے سے پہلے صدر محترم کو اصل حالات سے باخبر کرنا اور ہدایات حاصل کرنا ضروری تھا.چنانچہ شاہ صاحب واپس صدر آل انڈیا کمیٹی کی خدمت میں حاضر ہو گئے.طبی وفود کی رروانگی مجروحین کی طبی امداد کے لیے جناب صدر نے دو بی وفد (ایک میجر ڈا کٹر محمد شاہ نواز کی سرکردگی میں اور دوسرا ڈاکٹر قاضی محمد منیر کی سرکردگی میں ) ریاست میں بھجوا دیئے.ان طبی وفود نے ہر قسم کی مشکلات اور روکوں کے باوجود نہایت شاندار خدمات سرانجام دیں.اصلاح احوال کے لیے وفد صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے مولانا عبد الرحیم درد.سید زین العابدین اور مولانا اسمعیل غزنوی پر مشتمل ایک وفد جموں بھجوایا تا کہ حکام سے ملکر اصلاح احوال کی کوشش کریں.راقم الحروف کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا کارکن ہونے کی حیثیت سے مولانا درد کے ساتھ بھجوایا گیا.جموں پہنچ کر اس وفد نے پورے زور سے کام شروع کر دیا.وزیر اعظم سے ملاقاتیں ہوئیں.پبلک کے نمائندوں کے مشورہ سے ایک ایسا طریق کار سوچا جا رہا تھا 123

Page 120

جس کے نتیجہ میں مطالبات کے لیے معقول جد و جہد بھی جاری رہے اور کوئی ایسا امر پیدا نہ ہو جو اشتعال پیدا کرنے والا ہو.عین اس وقت جب امن کی بحالی کے لیے یہ کوشش ہو رہی تھی محترم صدر کمیٹی کا تارجموں میں مولا نا درد کو موصول ہوا کہ وو مفتی ضیا الدین کو کشمیر بدر کیا جارہا ہے.یہ تار وزیر اعظم کو دکھایا گیا اور وفد نے ان پر یہ بات واضح کر دی کہ ایسے وقت میں جب کہ کشمیر کی فضا میں سکون ہے اور میر پور کے حالات کو پر امن بنانے کے لیے سعی جاری ہے.یہ اقدام غیر دانش مندانہ ہے.وزیر اعظم نے وفد کے ممبروں کے ساتھ یہ وعدہ کیا.کہ جلاوطنی کے احکام واپس لے لیے جائیں گے.مولانا درد نے غزنوی صاحب کو پھر پرائم منسٹر کے پرسنل اسٹنٹ جیون لال مٹو کے پاس بھیجا کہ پرائم منسٹر کے وعدہ کی تعمیل ہو جائے.غزنوی صاحب ساری رات اس جدو جہد میں بھاگ دوڑ کرتے رہے.تین بجے ڈاک بنگلہ پر جہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے.واپس آئے اور بتایا اور ان کو مٹو صاحب نے یقین دلایا ہے کہ احکام واپس لے لیے گئے ہیں لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ پرائم منسٹر نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے مفتی ضیاء الدین کو ریاست بدر کر دیا ہے.انگریزی افواج کی آمد ۳۱ ء کے آخر میں جموں میں جب حالات مخدوش ہو گئے تھے.تو انگریزی حکومت نے وہاں انگریزی علاقہ کی افواج کو نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے بھجوایا تھا.جس سے ریاستی حکام بے دست و پا ہو گئے تھے.اور جب تک انگریزی افواج حدود ریاست میں مقیم رہیں مسلمان گولیوں کی مشق سے محفوظ رہے لیکن جو نہی مہاراجہ کے زور دینے پر ان کو واپس بلا لیا گیا.پھر پہلے کی سی کیفیت پیدا ہو گئی.اور میر پور وغیرہ کے واقعات شروع ہو گئے اور ایک دفعہ پھر 124

Page 121

تشد داور گرفتاریوں کا دور دورہ شروع ہو گیا.شیخ عبداللہ کی گرفتاری مفتی ضیاء الدین کو ریاست سے نکالنے کے ساتھ ہی شیخ محمدعبداللہ کوگرفتار کر لیا گیا.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی کوشش سے اب کئی نوجوان کام کے لیے تیار ہو چکے تھے چنانچہ حمد یوسف خاں صاحب بی.اے ( جو بعد میں ایل ایل بی ہو کر وکیل بنے ) اور مفتی جلال الدین ایم.اے کام چلاتے رہے اور صدر کمیٹی کو حالات کی اطلاع دے کر ہدایات حاصل کرتے رہے.صوفی عبد القدیر نیاز سری نگر میں تھے.ان کے نہایت دانش مندانہ مشوروں کی وجہ سے وادی کشمیر میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا.لیکن ریاست کے نادان حکام نے محترم صوفی صاحب کو حکم دے دیا.کہ چوبیس گھنٹے کے اندر حدود ریاست سے نکل جائیں.دینا پڑا.صوفی صاحب نے تحریری حکم کے بغیر نکلنے سے انکار کر دیا.چنانچہ حکومت کو تحریری حکم وزیراعظم کی بدعہدی کے بعد مولانا در داور غزنوی صاحب جموں ہی رہے اور سید زین العابدین کو میر پور بھجوا دیا گیا.ہم لوگ جموں سے ۳۱ /جنوری کو واپس ہوئے.ابھی ہم جموں میں ہی تھے کہ ۲۹ جنوری ۱۳۲ء کو مسلم نمائندگان جموں کا وفد جس میں مولانا یعقوب علی ، چودھری غلام عباس، شیخ محمد امین ، اور سید محمد امین شاہ شامل تھے.مہاراجہ سے ملا.ایم یعقوب علی نے بڑی وضاحت سے مسلمانوں کا نقطہ نگاہ مہاراجہ کے سامنے پیش کیا مہا راجہ نے وفد کو ید همکی دی کہ اب مسلمان نرمی کے مستحق نہیں رہے.مہاراجہ نے اپنی دھمکی کو سچ کر دکھایا اور بارہ مولا اور سوپور میں گولی چلا دی.جس میں 125

Page 122

ایک عورت جو گھاٹ پر پانی لینے جارہی تھی گولی سے موت کے گھاٹ اُتار دی گئی اور متعد دلوگ زخمی ہوئے.احتجاجی تار محترم صدر کمیٹی نے ایک طرف مہاراجہ کشمیر سے تار کے ذریعہ احتجاج کیا اور لکھا کہ اس وقت جو کاروائیاں ریاست میں ہورہی ہیں.ان سے کبھی امن قائم نہیں ہو سکے گا.دوسری طرف وائسرائے ہند کو ایک لمبا تفصیلی تارد یا جس میں لکھا کہ آپ کے یقین دلانے پر مجھے اطمینان ہو چلا تھا کہ کشمیریوں کی شکایات دور کر دی جائیں گی.اور ریاست اپنی متشد دانہ پالیسی ترک کر دے گی.یہ اطمینان دلانے پر میں نے ریاست کے اندر اور باہر اس امر کے لیے پوری پوری کوشش کی.کہ وہ لوگ پُر امن رہیں اور کلینسی اور مڈلٹن کمیشنوں نیز مسٹر جنگز اور مسٹر لا تھر سے تعاون کریں.لیکن ہماری مصالحانہ مساعی کے باوجود ریاستی حکام انتہائی تشدد میں مصروف رہے اور ان کے لیڈروں کو گرفتار اور ایک کو ریاست بدر کر دیا گیا ہے.یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا ہے جب کہ میری ہدایت پر سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی جموں میں امن کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں...." اس تار کے آخر میں صدر محترم نے جو کچھ لکھا وہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا.آپ نے لکھا:.میں ایک بار پھر آپ سے اپیل کرتا ہوں.کہ فوری مداخلت کر کے حالات کو بد سے بدتر صورت اختیار کرنے سے بچائیں.اگر آپ کے لیے 126

Page 123

سن را ئیز اس میں مداخلت ممکن نہ ہو تو مہربانی فرما کر مجھے اطلاع کر دیں تا کہ میں مسلمانان کشمیر کو اطلاع دے سکوں کہ اب اُن کے لیے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ یا تو جد و جہد میں ہی اپنے آپ کو فنا کر دیں اور یا دائمی غلامی پر رضامندی ہو جائیں..66 ہفت روزہ انگریزی اخبار ”سن رائیز نے کشمیریوں کے موقف کی تائید میں نہایت معرکۃ الاراء مضامین شائع کئے اس کے ایڈیٹر ملک غلام فرید (ایم.اے) تھے.یہ وہ اخبار تھا.جس کے مضامین دوسرے اخبارات بھی نقل کیا کرتے تھے.اور لنڈن میں پارلیمنٹ کے ممبروں اور انڈیا آفس کے افسران تک یہ اخبار پہنچتا تھا.اس اخبار کے ایڈیٹوریل عموماً محترم میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی ہی کے لکھے ہوئے ہوتے تھے.جسے ملک صاحب ( ایسی اعلیٰ قابلیت کا اخبار نویس ) عمدہ انگریزی میں ترجمہ کر کے شائع کرتا تھا.اقبال وفرید ملک غلام فرید ایم.اے کی ایک مرتبہ ڈاکٹر سر محمد اقبال سے ملاقات ہوئی کشمیر کمیٹی کے صدر کے ذکر پر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:.وو ملک صاحب سچی بات تو یہ ہے کہ جب کشمیر میں تحریک آزادی شروع ہوئی اور ہم نے دیکھا کہ بچارے کشمیریوں کو مہاراجہ تباہ کر کے رکھ دے گا.تو مجھے اور دیگر مسلمان لیڈروں کو خیال پیدا ہوا کہ کشمیریوں کی کیسے مدد کی جائے.ہم نے سوچا اگر ہم نے جلسے وغیرہ کئے 127

Page 124

.اور کارکنوں اور سرمایہ کے لیے تحریک کی تو اول تو دیانت دار کارکن نہیں ملیں گے اور سرمایہ جمع نہیں ہوگا.اور جو سرمایہ جمع ہوگا وہ بے ایمان کارکن کھا جائیں گے اور اس دوران میں مہاراجہ تحریک کو کچل کر رکھ دے گا کام فوراً شروع ہونا چاہیے.ہم نے سوچا کہ ہندوستان میں صرف ایک ہی شخصیت ہے کہ اگر وہ اس تحریک کی قیادت منظور کرلے تو دیانتدار کارکن بھی مہیا کرلے گی سرمایہ بھی جمع کرلے گی وکلاء وغیرہ بھی وہ خود دے گی اخبارات میں ولایت میں اور یہاں بھی پرا پیگنڈہ وہ خود کرلے گی.اور وائسرائے اور اس کے سیکرٹریوں سے ملاقات بھی خود کرلے گی وہ شخصیت مرزا محموداحمد ہیں..66 چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے فیئر ویو (FAIR VIEW) کوٹھی شملہ میں ۲۵ / جولائی ۱۹۳۱ء کو اپنی سکیم کو اس وقت عملی جامہ پہنایا.جب کہ انہوں نے صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا انتخاب کیا.اور جس تقریب کا آنکھوں دیکھا حال پہلے آچکا ہے.128

Page 125

اس ساری جدوجہد کا خاطر خواہ اثر ہوا.مہا راجہ کو مجبور کر دیا گیا کہ سر ہری کشن کول کو وزارت عظمیٰ کے عہدہ سے علیحدہ کر دے چنانچہ ایک دن یہ حیران کن خبر اخبارات میں شائع ہوئی کہ کول صاحب خرابی صحت کی بنا پر مستعفی ہو گئے ہیں...تاریخی ملاقات جموں وکشمیر کے نمائندگان نے جب نومبر ۳۱ ء میں اپنے مطالبات مہاراجہ کے سامنے پیش کر دئیے تو شیخ محد عبداللہ راہنمائے کشمیر اورصدر محترم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی ملاقات ضروری تھی تا کہ بالمشافہ گفتگو کے بعد آئندہ کے لیے لائحہ عمل تجویز ہو سکے.شیخ صاحب کا کشمیر سے باہر پنجاب وغیرہ جانا ان دنوں مناسب اور ممکن نہ تھا.اس لیے تجویز ہوئی.کہ گڑھی حبیب اللہ میں یہ ملاقات ہو.سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی ان دنوں سری نگر میں ہی تھے.تاریخ مقررہ پر جناب صدر تکلیف فرما کر اور دور دراز کا سفر کر کے گڑھی حبیب اللہ تشریف لے گئے.رات ڈاک بنگلہ میں قیام فرمایا.سری نگر سے مولانا درد.مولانا اسمعیل غزنوی اور شیخ محمد عبد اللہ بھی سحری کے وقت روانہ ہو کر صبح سویرے وہاں پہنچ گئے.راقم الحروف ان دنوں سری نگر میں ہی تھا کشمیر کمیٹی کے کارکنوں میں سے مولوی عصمت اللہ بہلول پوری ساتھ گئے.اس تاریخی ملاقات میں تمام معاملات کے متعلق جو اس وقت در پیش تھے.پوری 129

Page 126

دلجمعی کے ساتھ مشورہ ہوا جس کے بعد یہ قافلہ واپس آ گیا.اس سفر میں صدر محترم کا جو ذاتی عملہ ساتھ تھا.جناب صدر کے ان تمام سفروں میں جو کہ نشہ کے سلسلہ میں آپ نے کئے آپ کے ساتھ رہا.شیخ یوسف علی بی اے پرائیویٹ سیکرٹری ڈاکٹر حشمت اللہ میڈیکل آفیسر اور خان یحیی خان آپ کے دفتر کے ہیڈ کلرک....میاں نذیر احمد بھا گلپوری موٹر ڈرائیور اور خان میر خاں افغان.ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ان سب کے قلوب میں بھی ان کے آقا نے اپنے والی چنگاری ہی سلگا دی ہے.ظ.۱) کون آیا.کون گیا ریاست کی طرف سے ہمارے ہاؤس بوٹ کی سخت نگرانی ہوتی تھی کہ کون آیا.کون گیا.لیکن اس سفر کا کسی کو پتہ نہ چلا.غزنوی صاحب نے مجھے واپسی پر بتایا کہ جب ہم کشمیر کا بیر میر عبور کرنے لگے تو بہت سویرا تھا.سخت سردی تھی.سپاہی اُونگھ رہا تھا.میں نے اُسے کہا کہ رجسٹر لاؤ میں خانہ پوری کر دیتا ہوں ( کیونکہ ہر آنے جانے والے کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا ) تم بیریئر کھول دو.وہ ادھر گیا تو میں نے اس طرح نام لکھے عبدالرحیم.عبد اللہ.عصمت اللہ اسماعیل اب ان ناموں سے کوئی خاک بھی نہ سمجھ سکتا تھا کہ یہ کون ہیں؟ کیونکہ وہاں جن لوگوں کی نگرانی ہو رہی تھی وہ درد صاحب ، غزنوی صاحب اور شیخ محمدعبداللہ کہلاتے تھے.کئی دن کے بعد کی چیکنگ میں یہ انکشاف ہوا کہ باہر جانے والے کون تھے.اس پر ڈیوٹی والے پولیس والوں کی شامت آگئی.لیکن یہ پھر بھی معلوم نہ ہوسکا کہ یہ لوگ گئے کہاں تھے اور کیا J.......کر کے واپس آئے ہیں.انگریزی علاقہ میں بھی یہ ملاقات صیغہ راز ہی میں رہی.130

Page 127

مسلمانانِ کشمیر اور ڈوگرہ راج کشمیر کی جنگ آزادی کے سلسلہ میں ملک فضل حسین کی خدمات بھی قابل ذکر ہیں.انہوں نے ایک محققانہ کتاب لکھی جس میں اہالیان کشمیر کی زبوں حالی اور تباہی و بربادی کی نشاندہی کر کے مخالفین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ معترضین کی اپنی تحریر میں درج کر کے کیا گیا تھا.یہ کتاب جس کا نام "مسلمانان کشمیر اور ڈوگرہ راج تھا بہت مقبول ہوئی.کشمیر کے تمام لیڈروں نے اس کی تعریف میں نوٹ لکھے اور ضروری اقتباسات کا انگریزی ترجمہ کر کے گلینسی کمیشن کے سامنے بھی پیش کیا شیخ محمد عبد اللہ نے اس کتاب کے متعلق لکھا:.قابل مصنف نے بہت محنت سے کام کیا ہے اور کشمیر کے مسلمانوں کی نسبت دردِ دل رکھنے والے تمام حضرات کو چاہیے کہ گھر گھر میں اس کتاب کو منگوائیں.اور اپنے اصل حالات اور دشمنوں کی چالوں سے واقف رہیں.اگر وہ آئندہ دنیا میں ایک باوقار قوم کی مانند ر ہنا چاہتے ہیں وو 66 شیخ محمد عبد اللہ کے علاوہ جناب اللہ رکھا ساغر.مولوی عبد الرحیم ایم اے، شیخ غلام قادر آف جموں، محمد یوسف بی.اے ہمفتی جلال الدین ایم اے.اور دوسرے کشمیری لیڈروں نے بھی اس کتاب پر ریویو لکھے.اس کتاب کا دوسرا حصہ بھی ملک فضل حسین نے ”مسلمانانِ کشمیر اور ہندو مہا سبھائی“ کے نام سے شائع کیا.یہ کتاب بھی پہلی کی طرح بہت مقبول ہوئی.مہاراجہ سے ملاقات کا انتظام جنوری ۳۲ء میں صدر کشمیر کمیٹی نے پہلے اپنے نمائندہ سید زین العابدین کو کیلے اور 131

Page 128

اس کے بعد مولانا عبدالرحیم درد کی سرکردگی میں کمیٹی کے ایک وفد کو اس غرض سے جموں بھجوایا تھا کہ وہ سر ہری کشن کول (وزیر اعظم ) مسٹر جنکنز (سپیشل آفیسر ) اور مسن گلینسی سے ملاقاتیں کر کے ریاستی حکام کو اس بات پر آمادہ کریں.کہ وہ رعایا سے انصاف کریں.مسٹر جنکنز سے سید زین العابدین کے علاوہ مولانا محمد الدین (سابق مسلم مشنری انگلستان و امریکہ ) بھی مل چکے تھے جن سے وہ کافی متاثر تھے.مسٹر گلینسی کو مولانا درد نے اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ نمائندگان جموں کی مہاراجہ سے ملاقات کرا دیں.مسٹر گلینسی نے اس کا انتظام کر دیا.جس پر اُن سے وہ وفد ملا جس کا اوپر ذکر آچکا ہے.باہمی مشورہ اس سے وفد کے ارکان نے فیصلہ کیا تھا کہ مولوی یعقوب علی مہاراجہ سے بات کریں اور ان پر یہ واضح کریں کہ ہم آپ کی وفادار رعایا ہیں.ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ عدل کیا جائے اور ہمارے جائز حقوق ہمیں دلائے جائیں.چودھری غلام عباس نے بھی مولوی صاحب کی تائید میں کہا لیکن مہاراجہ نے وفد کوشتی سے جواب دیا.کہ تم کسی نرمی کے مستحق نہیں اس ملاقات کی تفصیل آگے آئے گی ).بدعہدی اور گرفتاریاں دوسری طرف وزیراعظم نے کشمیر کمیٹی کے وفد کو یہ یقین دلانے کے باوجود کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا...بد عہدی کرتے ہوئے مفتی ضیاء الدین کو ریاست بدر کر دیا.شیخ محمد عبد اللہ اور اُن کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے معزز کارکن صوفی عبد القدیر نیاز بی.اے کو ریاست سے حکماً نکال دیا.مولوی عبدالواحد ( فاضل ) کو مظفر آباد میں بلاوجہ گرفتار کر لیا.مولوی غلام محی الدین ( بانڈی پوری ) کے گھر کی تلاشی لیکر ان کا سامان ضبط کر لیا.132

Page 129

سر ہری کشن کی علیحدگی کا مطالبہ یہ تمام واقعات چند دنوں کے اندراندر پیش آئے اور میر پور کے علاقہ میں جو ظلم ہورہا تھا وہ اس کے علاوہ تھا ان تمام امور کی ذمہ داری کلیه سر ہری کشن کول پر تھی.جب اصلاح کی تمام امیدیں منقطع ہو گئیں تو صدر کشمیر کمیٹی کے لیے سوائے اس کے کوئی چارہ نہ تھا.کہ وہ کوشش کرتے کہ اسے وزارت عظمیٰ کے عہدہ سے علیحدہ کر دیا جائے.لندن پریس کی تائید صدر محترم نے اپنے نمائندہ مقیم لندن خاں صاحب مولوی فرزند علی کو مفصل ہدایات بھجوائیں.انہوں نے لندن کے تمام بااثر اخبارات کو مسلمانانِ کشمیر کی حمایت میں آواز اُٹھانے پر آمادہ کر لیا.لندن کے متعدد با وقار جرائد مثلاً مارننگ پوسٹ.سنڈے ٹائمنر.ڈیلی ٹیلیگراف وغیرہ نے مظلومین کشمیر کے متعلق ہمدردانہ مضامین شائع کئے.اور وزیراعظم کی فوری برطرفی کا مطالبہ اور نظم ونسق میں اصلاحات کی پُر زور تائید کی.وائسرائے جناب صدر نے وائسرائے کو تار کے ذریعہ توجہ دلائی.جس میں لکھا:....اب که حکومت کشمیر عدل وانصاف اور راست روی کی اس طرح تو ہین کر رہی ہے.اور حکومت برطانیہ بھی اس میں کوئی مداخلت نہیں کرتی.آئندہ میں بھی ریاستی حکام کے اس متشدانہ اور جابرانہ رویہ کا (جن کا اظہار وہ اندرون و بیرون ریاست کر رہے ہیں ).شدت کے ساتھ مقابلہ کروں گا اور مجھے یقین ہے کہ وہ قادر مطلق خدا ( جو تمام ریاستوں اور حکومتوں کا حاکم اعلیٰ ہے اور جو جانتا ہے کہ میں مہا راجہ کشمیر کے متعلق اپنے دل میں 133

Page 130

کسی قسم کی کدورت رکھے بغیر محض اس کی پامال شدہ مخلوق کی خدمت کے لیے کام کر رہا ہوں ) اس نیک مقصد میں میرا ضرور معاون و مددگار ہوگا.“ سر ہری کشن کول کی علیحدگی اس ساری جدوجہد کا خاطر خواہ اثر ہوا مہاراجہ کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ سر ہری کشن کول کو وزارت عظمی کے عہدہ سے علیحدہ کر دے چنانچہ ایک دن یہ حیران کن خبر اخبارات میں شائع ہوئی کہ کول صاحب خرابی صحت کی بنا پر مستعفی ہو گئے ہیں.حالانکہ چند روز پہلے تک ان کا رویہ ایسا تھا کہ گویا وہ ساری عمر ہی اس عہدہ پر قائم رہیں گے.مخالف عناصر کی پردہ کشائی عین اس وقت جب کہ کشمیر کے مظلومین کی ہر رنگ میں مدد ہو رہی تھی کشمیریوں کے اس محسن کے خلاف چند لوگوں نے فتنہ برپا کرنے کی کوششیں پہلے سے بھی تیز کر دیں.جس پر کشمیریوں کے حقیقی بہی خواہ ایسے عناصر کی صحیح تصویر پبلک کے سامنے پیش کرنے پر مجبور ہوئے مشہور شاعر حضرت حسن نے فرمایا:.آج پید اہوئے ہیں کچھ احرار دشمن قوم آپ اپنی مثال کام ان کا فساد وفتنہ وشر اور نظام ان کا لوٹ لینا مال ان کے چکموں سے کوئی بچ نہ سکا خشک ہوجائے ان کی برکت دہلی ہو یا حصار یا کرنال چرا پونچی ہو یا کہ نینی تال پڑھ کے تکبیر لوٹ لیتے ہیں ور نہ کر دیتے ہیں وہیں ہڑتال حق کے دشمن ہیں جھوٹ کے حامی بارہا اُن کی ہو چکی پڑتال 134

Page 131

سجادہ نشیں جلال پور کی اپیل جناب سید فضل شاہ سجادہ نشیں جلالپور نے ایک اپیل شائع کی جس میں لکھا: اعتراض کیا گیا ہے کہ کمیشن کے سامنے قادیانی وکلاء پیش کئے جاتے ہیں مگر یہ بھی خلیفہ صاحب قادیان کی مہربانی ہے جو مظلوموں کی امداد فرما کر وکلاء روانہ کرتے ہیں.میں پوچھتا ہوں....آپ نے آج تک کس قدر وکلاء جموں کشمیر روانہ کئے ہیں....میں ابھی تک اپنے حلقہ اثر کے دو ہزار آدمی جیلوں میں روانہ کر چکا ہوں مگر بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس طرح مظلوموں کی رہائی نہیں ہوسکتی....جناب صدر صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے اپنے مظلوم بھائیوں کو ہر طرح سے امداد بہم پہنچائی ہے.مگر آپ لوگ ہمیشہ ان کے خلاف مضمون تحریر کر کے فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں“ صدر محترم کے حضور وفد فروری ۳۲ ء کے تیسرے ہفتہ میں سری نگر ، جموں ، میر پور، راجوری، بھمبر وغیرہ کے نمائندوں کا ایک وفد صدر کشمیر کمیٹی سے ملاقات کے لیے آیا.سب نے اپنے اپنے علاقہ کے حالات اور مشکلات پیش کیں اور اپنی ضروریات آپ کے سامنے رکھیں حسب سابق اُن کی ہر طرح دلجوئی کی گئی اور امداد کے ضروری انتظامات کئے گئے.وکلاء کا انتظام میر پور کے علاقہ میں بڑی کثرت سے مقدمات چل پڑے تھے.اس لیے ان مقدمات کی پیروی کے لیے قابل وکلاء کی ضرورت تھی.جموں کے مقدمات کی پیروی میر محمد بخش (وکیل ) اور وادی کے مقدمات کی پیروی شیخ بشیر احمد ( ایڈووکیٹ ) کر رہے تھے.صدر 135

Page 132

محترم نے لاہور سے چودھری اسد اللہ خاں ( بیرسٹر ) کو میر پور بھجوایا.جموں میں مڈلٹن کمیشن اور گلینسی کمیشن کا کام قریبا ختم تھا.اس لیے وہاں سے چودھری عزیز احمد باجوہ ( وکیل ) کو اور سری نگر سے چودھری عصمت اللہ (وکیل) کو میر پور وغیرہ بھجوایا گیا.اس طرح ہر طرف قانونی امداد کا احسن طریق پر انتظام ہو گیا.سیاسی کارکن وکلاء کے علاوہ دوسرے کارکنان کی بھی ضرورت تھی.اس لیے اپیل کی گئی کہ گریجویٹ اور مولوی فاضل اور اس سے کم تعلیم کے لوگ اپنے آپ کو آنریری خدمات کے لیے پیش کریں تاکہ ان کے سپر د خدمت کی جاسکے سینکڑوں لوگوں نے اپنے آپ کو اس خدمت کے لیے پیش کر دیا.میر پور کے علاقہ میں زیادہ کارکنوں کی ضرورت تھی.جموں سے چودھری محمد عظیم ( باجوہ ) میر پور جاچکے تھے.دوسرے کارکنوں کی ایک ٹیم مولا نا ظہور الحسن کی سرکردگی میں بھجوائی گئی.مولانا بڑے جو شیلے کارکن ہیں وہاں خوب کام کیا ناصر میر پوری کا نام اخبارات میں کثرت سے آتا تھا.یہ ناصر میر پوری مولانا ظہور الحسن ہی تھے.تخفیف کا بہانہ خلیفہ عبدالرحیم ریاست میں بڑے اہم ذمہ داری کے عہدوں پر نہایت قابلیت سے کام کر چکے تھے ان کی ملازمت کا ریکارڈ بھی بہت شاندار تھا.لیکن وزیر اعظم کو کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے.اس لیے ریاست کی مالی حالت کے پیش نظر تخفیف کا بہانہ بنا کر ان کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا.حالانکہ اس نام نہاد تخفیف کے سلسلہ میں جو تغیرات کئے گئے اُن میں کئی ہند و ملازمین کی تنخواہیں بڑھا دی گئی.یہ ذکر میں نے اس لیے کر دیا ہے تا کہ معلوم ہو سکے کہ ریاست کس نہج پر چل رہی تھی.خلیفہ صاحب کو دوبارہ ملازمت پر لانے کے لیے کافی کوشش کرنا پڑی.136

Page 133

چندہ کی اپیل جنگ آزادی کی اس مہم پر ہزار ہارو پیہ خرچ ہورہا تھا.کشمیر کمیٹی کے فنڈ ز اس کے لیے ہاروپیہ کسی طرح مکتفی نہ ہو سکتے تھے.اس لیے صدر کمیٹی اپنی ذمہ داری پر قرض لے کر اس کا روبار کو چلا رہے تھے.فنڈ ز کو مضبوط کرنے کے لیے فیصلہ ہوا کہ چودھری فتح محمد سیال (ایم.اے سابق ایم ایل اے پنجاب ) صدر محترم کے معتقدین کو اپیل کریں.کہ وہ اپنی آمد پر ایک پائی فی روپیہ کے حساب سے کشمیر کے لیے چندہ دیں.اس اپیل پر سب نے لبیک کہی.چندہ جات کی وصولی اور حساب کا کام چودھری برکت علی خاں کے سپر د ہوا جسے وہ کشمیر کمیٹی کے ٹوٹ جانے کے بعد بھی کشمیر ریلیف فنڈ کے فنانشل سیکرٹری کی حیثیت سے سرانجام دیتے رہے.اُن کی وفات پر کام راقم الحروف کے سپر دہوا.137

Page 134

وو میرا جموں سے فارغ ہو کر آنا سخت مشکل ہے.اور نہ میں ڈاکٹر ہی ہوں کہ اُس کی مدد کر سکوں.ہاں دعا کر سکتا ہوں.وہ جموں میں بیٹھے ہوئے بھی کرتا رہوں گا.“ اسیروں کی رستگاری جموں کیس میں استغاثہ کا ایک گواہ رام چند انسپکٹر پولیس پیش ہوا.گواہ ہوشیار اور جہاندیدہ تھا.اور حقیقت کا اظہار نہیں کر رہا تھا.میر محمد بخش اس مقدمہ کی پیروی کر رہے تھے.انہوں نے لگا تار چار دن اس گواہ پر جرح کی چوتھے روز جب وہ جرح سے بہت زچ ہو گیا تو لنچ کے وقفہ کے وقت میر صاحب سے کہنے لگا کہ وکیل بے جاجرح کر کے گواہوں کو تنگ کرتے ہیں.میر صاحب نے جواب دیا کہ اگر گواہ صداقت سے کام لے تو وکیل کو جرح کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تجربہ کر کے دیکھ لیں آج ہی جرح ختم ہو جائے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور اُسی دن جرح ختم ہو گئی.رات کو وہ میر صاحب کی جائے رہائش پر جہاں چودھری عزیز احمد باجوہ وکیل بھی موجود تھے.بہت پریشان نظر آتا تھا.اُس نے بیان کیا کہ سچ بولنے کا پھل اُسے مل گیا ہے اور اسے اس پاداش میں معطل کر دیا گیا ہے.الزام یہ ہے کہ اُس نے جرح کے جواب میں ایسا بیان دیا ہے جس کے نتیجہ میں ملزم بے گناہ قرار دیئے جاسکتے ہیں ہر دو صاحبان نے اسے تسلی دی اور کہا کہ ہم یہاں ہر قسم کے تعصب سے بالا رہ کر مظلومین کی مدد کے لیے آئے ہیں اب آپ بھی مظلوم ہیں.ہم کل ہی انسپکٹر جنرل پولیس سے ملیں گے اور ازالہ کی 138

Page 135

کوشش کریں گے.دوسرے روز یہ دونوں صاحبان انسپکٹر جنرل پولیس سے ملے.ان کو دیکھتے ہیں اس نے مذاقاً کہا LIAR آگئے ہیں LAWYER کی بجائے LIAR( جھوٹ بولنے والے کا لفظ استعمال کیا ) اس پر انہوں نے جواب دیا کہ LIAR تو آپ ہیں جو سچ بولنے والوں کو سزائیں دیتے ہیں.پھر اُس انسپکٹر پولیس کا کیس عمدگی کے ساتھ پیش کیا.کہ اُس نے وعدہ کیا.کہ میں ابھی پولیس کی ضمنیاں اور گواہ کا بیان منگواتا ہوں.اگر میری تسلی ہوگئی تو آج ہی اُسے بحال کر دیا جائے گا.شام کو وہی انسپکٹر پھر ان وکلاء کے مکان پر آیا اور بڑی خوشی سے بیان کیا کہ آپ کی ملاقات کے معابعد آئی جی نے مطلوبہ کا غذات منگوائے اور مجھے بحال کر دیا.البتہ جموں سے تبدیل کر کے دوسری جگہ بھجوادیا ہے.میر صاحب نے کہا.یہ تو اور بھی اچھا ہوا کیونکہ جموں کے حالات ایسے مخدوش تھے کہ کوئی افسر وہاں رہنا پسند نہ کرتا تھا.جموں والوں کی درخواست میر محمد بخش نے اپنے آپ کو دو ماہ کے لیے وقف کیا تھا.یہ عرصہ گزرنے پر انہوں نے صدر محترم کشمیر کمیٹی سے واپس جانے کی اجازت چاہی.اس کا علم ملزمین کو بھی ہو گیا.انہوں سے بھی جناب صدر کو بذریعہ تار گزارش کی کہ میر صاحب کو تا اختتام مقدمہ جموں ہی میں رہنے کا حکم دیا جائے.یہ درخواست منظور کر لی گئی اور میر صاحب نے پورے چھ ماہ وہاں گزارے اور نہایت قابلیت سے یہ کام ختم کیا.میر محمد بخش کی بحث جموں کے مشہور مقدمہ میں سترہ ملزم تھے جن پر قتل، ڈاکہ، آتش زنی اور بلوہ وغیرہ کے مقدمات تھے.چھ ماہ بعد جب ساری کارروائی ختم ہوئی تو میر محمد بخش نے بڑی قابلیت سے 139

Page 136

بحث کی.پہلے دن چھ گھنٹے کی بحث کے نتیجہ میں دونوں حج صاحبان نے اس بات پر اتفاق کیا.کہ چار ملزموں کے خلاف الزام ثابت نہیں ہوئے.دوسرے دن کی بحث کے اختتام پر مزید چار کے متعلق اس رائے کا اظہار کیا.اب صرف چار ملزم باقی رہ گئے تھے اور بحث کا آخری دن تھا.عدالت کو مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ زائد وقت دینا پڑا.جج صاحبان نے میر صاحب کی قابلیت کی بہت تعریف کی اور شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے جس محنت اور دیانتداری سے اس کیس کی پیروی کی ہے اس سے ان کو بھی بہت فائدہ پہنچا ہے اور عدل وانصاف کرنے میں اُن کو مددملی ہے.فیصلہ محفوظ رکھا گیا خیال تھا کہ تمام ملزم بری کر دئیے جائیں گے.تیرہ ملزم بری کئی دن گزر گئے.فیصلہ نہ سنایا گیا.ایک روز میر صاحب مسلم حج کے پاس گئے اور دیر کی وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ دونوں جوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ تیرہ ملزم بے گناہ ہیں.اُن کو بری کر دیا جائے.باقی چار کے متعلق اس حصہ میں اتفاق ہے کہ قتل وغیرہ کے الزام ثابت نہیں.لیکن ہندو حج کو اس بات پر اصرار ہے کہ اگر ہم نے سب کو بری کر دیا تو ریاست کی بدنامی ہوگی.دنیا کہے گی کہ جھوٹے مقدمات کھڑے کیے گئے تھے اور ریاست کا لاکھوں روپیہ خرچ ہو گیا ہے.آخر یہ فیصلہ سنا دیا گیا.تیرہ ملزم بالکل بری اور چار کو بلوہ کرنے کے جرم میں چھ چھ ماہ قید کی سزا ہوئی اور اس طرح چار ہندوؤں کو بھی اس جرم میں چھ چھ ماہ قید کی سزائنا دی گئی.بقیہ چار کی رہائی جن کو سزا ہوئی تھی.اُن کی طرف سے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی.چودھری اسد اللہ خاں بیرسٹر نے ہائی کورٹ میں اپیل کی پیروی کی.جہاں ایسی صورت پیدا ہوگئی کہ 140

Page 137

فریقین کو رہا کر دیا گیا اور اس طرح نہ صرف باقی مسلمانوں کو بھی رستگاری نصیب ہوئی اس بہت بڑے مقدمے کا انجام بھی بخیر ہوا.اور ریاست بھر میں کشمیر کمیٹی کے لیے تشکر و امتنان کی لہر دوڑ گئی.ملاقات میں بدمزگی مولا نا عبد الرحیم درد نے مسن گلینسی سے ملکر یہ انتظام کروایا تھا کہ مہاراجہ مسلمانوں کے ایک وفد کو ملاقات کا موقع دے.اس کا مختصر ذکر پہلے آچکا ہے اس تحریک آزادی میں پہلے دومرتبہ مسلمانوں کے وفود کو مہاراجہ سے ملنے کا موقع ملا تھا اور انہوں نے اپنے مطالبات تحریراً پیش کر دیے تھے.کسی خاص گفتگو کا موقع نہیں ملا تھا.لیڈر بھی تجربہ کار اور پختہ نہ تھے.اس لیے محترم درد صاحب نے احتیاطاً میر محمد بخش وکیل اور چودھری عزیز احمد باجوہ وکیل کو بھی وفد میں شامل کرا دیا.تا کہ اگر وفد کے ممبر کوئی غلطی کریں تو ازالہ ہو سکے.اتفاق کی بات ہے وہی ہوا.جس کا خطرہ تھا.جموں کے ایک نمائندہ نے ایک ایسی بات کہہ دی.جو ہر شریف آدمی کے نزدیک سخت قابل اعتراض سمجھی جائے گی.اسے سنتے ہی مہاراجہ کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا.وزیر اعظم کی حالت بھی غیر ہو گئی.کشمیر کمیٹی کے وکلاء نے نہایت عقلمندی سے بات کو ٹالا.اس وقت مصیبت تو ٹل گئی.لیکن نادانی کے ایک فقرہ نے ملاقات کی غرض کو پورا نہ ہونے دیا.وفد کے دوسرے ممبروں کا خیال تھا کہ اگر کشمیر کمیٹی کے وکلاء ساتھ نہ ہوتے تو آج ہم لوگ صحیح سلامت مہاراجہ کے محل سے باہر نہ آتے.چودھری اسد اللہ خاں میر پور میں میر پور میں تحریک عدم ادائیگی مالیہ اور زمینداروں میں بے چینی کے خوف ناک نتائج پیدا ہوئے تھے.کشمیر کمیٹی متواتر اس کوشش میں رہی کہ شکایات کا ازالہ ہو.انہی کوششوں 141

Page 138

کے نتیجہ میں ریاست نے اس علاقہ میں بندو بست کرنے کے لئے حکومت ہند سے ایک سینئر آئی سی.ایس افسر مسٹر سالسمری کی خدمات حاصل کیں.اب ضرورت اس بات کی تھی کہ اعلیٰ قابلیت کا قانون دان مسٹر سالسبری کے ساتھ رہ کر انھیں رعایا کے نقطہ سے واقف کرے اور اُن کے حقوق کی پورے طور پر حفاظت کرے صدر کشمیر کمیٹی نے اس فرض کی انجام دہی کے لئے چودھری اسد اللہ خاں بیرسٹر کو چنا.اورانھیں میر پوربھجوا دیا.چودھری صاحب نے یہ کام بہت محنت سے سرانجام دیا.اور اس علاقہ میں بہت مقبول ہوئے ریاست کے حکام کو یہ بات اچھی معلوم نہ ہوئی.انھوں نے چودھری صاحب کو حکم دیا کہ چوبیس گھنٹہ کے اندر اندر ریاست چھوڑ دیں.چودھری صاحب نے جواب دیا.کہ میرا جو قصور ہے مجھے بتایا جائے.میں نے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا.جو قانون کے خلاف ہو.اس لیے میں ریاست سے باہر نہیں جاؤں گا.ہاں حکام ریاست اگر زبردستی اٹھا کر مجھے ریاست سے باہر چھوڑ آئیں تو اور بات ہے یا پھر مجھ پر قانون کے ماتحت مقدمہ چلایا جائے اس نوٹس کا علم مسٹر سالسبری کو ہوا تو انھوں نے ریاستی حکام سے گفتگو کر کے یہ نوٹس واپس کرا دیا.چودھری اسداللہ خاں کا مسٹر سالسمری نے پبلک اور پرائیویٹ طور پر کئی مرتبہ شکر یہ ادا کیا.کہ انھوں نے تعاون کر کے اُن کے لئے اس کام کو آسان بنادیا ہے.چودھری عصمت اللہ کی خدمات چودھری عصمت اللہ وکیل لائلپور جولائی ۳۱ء میں اس وقت جبکہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا ابھی قیام بھی نہ ہوا تھا.صدر محترم کی ہدایت پر سری نگر چلے گئے تھے.جہاں سے وہ اکتوبر میں واپس آئے.جامع مسجد کی فائرنگ کا سارا واقعہ اُن کے سامنے ہوا.جب ٹڈلٹن کمیشن قائم ہوا تو ان کو دوبارہ سری نگر بلوالیا گیا.کمیشن کے سامنے یہ بطور عینی شاہد پیش ہوئے.اس کے بعد 142

Page 139

مقدمات اور کمیشن کے لئے مواد اکٹھا کرنے میں شیخ بشیر احمد ایڈووکیٹ کی مدد کے لئے وہیں روک لیے گئے.پہلے بھی آپ تین ماہ رہ چکے تھے اس دفعہ بھی تین ماہ سے کچھ زائد عرصہ خدمات سرانجام دینے کے بعد فروری ۳۲ء میں واپس لاسکپور آ گئے اور پھر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد بھمبر کے کیسوں کی پیروی کے لئے وہاں بھجوائے گئے.جب نوشہرہ میں مقدمات کے لیے بیچ مقرر ہوا تو وہاں چلے گئے اور جب میر محمد بخش جموں میں چھ ماہ کام کرنے کے لئے میر پور بھجوایا گیا.شیخ صاحب کی غیر حاضری میں یہی پورے طور پر ذمہ دار ہوتے تھے.ان کی کوشش سے سموال مقدمہ قتل کے تمام ملزم بری ہو گئے.چودھری عصمت اللہ صاحب یہ خدمات سرانجام دینے کے بعد دسمبر ۳۲ء میں واپس آگئے.پونچھ کے مخلص رہنما کشمیر کے مختلف حصوں میں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے مخلص کارکن موجود تھے جن کی خدمات اپنے لیڈروں سے کسی طرح کم نہیں.لیڈر تو اُن کو بھول چکے لیکن تاریخ اُن کا نام کبھی نہیں بھول سکتی.ایسے لوگوں میں پونچھ کے منشتی دانش مند خاں تھے ( جوان دنوں ابھی وکیل نہ بنے تھے ) انہوں نے سارے علاقہ کا دورہ کر کے باشندگان پو نچھ کو منظم کیا.یہ پونچھ کی قومی تحریک کے سرکردہ راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے.کوٹلی میں اُن کے بھائی ماسٹر امیر عالم بھی اسی طرح سرگرمی سے کام کر رہے تھے.جب پونچھ میں رعایا پر مظالم شروع ہوئے تو منشی دانشمند خاں اور انجمن اسلامیہ پونچھ کے صدرصو بیدار میجر محمد خاں نے صدر محترم کشمیر کمیٹی سے رابطہ پیدا کر کے امداد کی درخواست کی.صدر محترم نے مالی مدد کے علاوہ مقدمات کی پیروی اور افسران سے رابطہ رکھنے کے لیے چودھری عزیز احمد باجوہ وکیل سیالکوٹ کو ( جموں میں کام ختم کرنے پر میر پور بھجوائے گئے تھے) پونچھ بھجوایا.جہاں آخر جولائی ۳۲ ء تک (قریباً نوماہ) 143

Page 140

خدمات سرانجام دینے کے بعد جب وہ پنجاب میں سول جج مقرر ہوئے تو انہیں مجبوراً پنجاب آنا پڑا.اُن کی نیک یاد آج تک پرانے لوگوں کے دلوں میں موجود ہے.قاضی عبدالحمید وکیل قاضی عبدالحمید وکیل امرتسر نے شروع مئی ۳۲ء میں اپنے آپ کو وقف کیا.اور اسی وقت اُن کو راجوری پہنچنے کی ہدایت ہوئی.چنانچہ قاضی صاحب فوری طور پر راجوری پہنچ گئے اور مقدمات کی پیروی شروع کر دی.چودھری عزیز احمد جب پونچھ سے واپس پنجاب چلے گئے تو قاضی صاحب کو پونچھ بھجوا دیا گیا.پونچھ میں خاصی تعداد میں مقدمات چل رہے تھے.کچھ مقدمات وزیر کی عدالت میں تھے جسے ہائی کورٹ کا درجہ حاصل تھا.اور بقیہ سیشن حج اور دوسرے مجسٹریٹوں کی عدالتوں میں تھے اور سب نہایت سنگین نوعت کے تھے ( قتل، آتش زنی ، ڈاکہ اور بلوہ ہر قسم کے مقدمات تھے ) قاضی صاحب نے بڑی محنت اور جانفشانی سے کام کیا.سب مقدمات کے نتائج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملزمان کے حق میں برآمد ہوئے الا ماشاء اللہ.تین ماہ راجور کی وغیرہ میں اور پانچ ماہ پونچھ میں خدمات سرانجام دینے کے بعد آخر دسمبر ۳۲ء میں واپس امرتسر پہنچے.چودھری محمد عظیم باجوہ نے جموں میں اور پھر میر پور میں کام کیا.جب پونچھ میں کام بڑھ گیا تو ان کو وہاں بھجوا دیا گیا تا کہ وہ پبلک کے ساتھ رابطہ قائم رکھیں اور ہر مشکل کے موقع پر اُن کی امداد کر سکیں.اس کام کے علاوہ چودھری محمد عظیم نے وکلاء کے ساتھ پورا تعاون کیا اور ہمیشہ اُن کے مد و معاون رہے.میر پور میں مولا نا ظہور الحسن فاضل کام کرتے رہے.میر محمد بخش نوشہرہ میں میر محمد بخش چھ ماہ جموں میں کام کرنے کے بعد نوشہرہ پہنچے.یہ کیس بھی بہت اہم تھا 144

Page 141

چھ ماہ برابر جاری رہا.اس کیس میں بھی جموں کیس والی کیفیت ہوئی.تمام ملزمان کو قتل ، ڈا کہ اور آتش زدگی کے الزامات سے بری قرار دیا گیا اور ریاست کی عزت بچانے کے لیے چار لیڈروں کو بلوہ کے جرم میں سوسور و پیہ جرمانہ کیا گیا اور تین چار کو معمولی سزا ہوئی.فیصلہ سننے کے لیے ہزاروں لوگ جمع تھے.انہوں نے اس فیصلہ پر بہت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے نعرے بلند کئے اور کشمیر کمیٹی کے وکلاء کا شکریہ ادا کیا.ہائی کورٹ میں اپیل کا کام پھر چودھری اسد اللہ خاں بیرسٹر لاہور کے سپرد ہوا.اللہ تعالیٰ انہیں ان اپیلوں میں کامیابی دیتا رہا.وکلاء کی خدمات کا ذکر پھر بھی آئے گا.ان لوگوں نے بنی نوع انسان کی خدمت کسی دنیوی لالچ کے بغیر مسلسل جاری رکھی.ایسی مثالیں آپ کو بہت کم ملیں گی.یہاں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وکلاء نے قربانیاں کر کے اور اپنے آپ کو سخت مصیبت میں ڈال کر نہایت اخلاص اور جانفشانی کا ثبوت دیا.ان میں سے ہر ایک کی خدمت کا تذکرہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے ان میں سے کوئی مجھے ایسے کم مایہ کی معلومات اور تذکرے سے باہر تو رہ سکتا ہے لیکن وہ جو مظلوموں کا حامی ہے اور جس کا وعدہ ہے کہ اُس کا فضل ہر اس انسان کے ہمیشہ شامل حال رہے گا جو مظلوم کو ظلم کے شکنجے سے چھڑانے کے لیے اٹھے مجھے یقین ہے اس کی نگاہ بندہ نواز سے کوئی ایسا مخلص ایثار پیشہ اوجھل نہیں رہ سکتا اور وہ ضرور اپنے نیک اعمال کی جزا پائے گا.انہوں نے اہل کشمیر کی کشمیر کے کسی لیڈر سے کم خدمت نہیں کی.اگر کشمیریوں کو ان وکلاء کی فیسیں ادا کرنا پڑتیں تو اُس وقت کے حساب سے دولاکھ روپے سے بھی کہیں زائد رقم بنتی تھی.145

Page 142

اخلاص کے شاندار نمونے ان مخلصین کے اخلاص کے چند واقعات ملاحظہ ہوں..میر محمد بخش جموں میں کام کر رہے تھے.ان کا لڑکا ٹائیفائیڈ سے سخت بیمار ہو گیا.بخار اتر نہیں رہا تھا گھر سے تار آیا فوراً گوجرانوالہ پہنچے.ادھر مقدمہ نازک مرحلہ پر تھا کئی لوگوں کی زندگی اور موت کا سوال تھا.دوسری طرف بچے کی زندگی خطرے میں تھی.گھر والوں کو یہ جواب دیا: وو میرا جموں سے فارغ ہو کر آنا مشکل ہے اور نہ میں ڈاکٹر ہی ہوں کہ اس کی مدد کر سکوں.ہاں دعا کرسکتا ہوں وہ جموں میں بیٹھا ہوا بھی کرتا رہوں گا.....اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس کے جذبہ کو دیکھ کر اپنا فضل فرمایا.اور بچہ صحت یاب ہو گیا.شیخ بشیر احمد کشمیر سے اتفاقاً تھوڑے عرصہ کے لیے گوجرانوالہ گئے ہوئے تھے.جب ان کو بچے کی بیماری کا علم ہوا تو آپ نے فوراً خاطر خواہ طبی انتظام کروا دیا اور تھوڑے دنوں کے بعد بچے کا بخار اتر گیا.قاضی عبد الحمید راجوری میں کام کر رہے تھے.اُن کو حکم ہوا.فوراً پو نچھ پہنچ جائیں.برسات کا موسم تھا.کوئی سڑک نہ تھی.قاضی صاحب یہ حکم ملتے ہی چل پڑے.تھنہ کے راستے خطرناک پگڈنڈیوں پر سے گزر کر جانا تھا.کئی ندی نالے درمیان میں آتے تھے.دوٹو کرایہ پر لیے.ایک پر سامان لادا اور دوسرے پر خود سوار ہوئے.ایک ندی پار کر رہے تھے.سخت بارش شروع ہو گئی.پہاڑوں کے رہنے والے جانتے ہیں کہ بارش کے وقت پہاڑی نالوں اور دریاؤں کی کیا حالت ہوتی ہے.ٹوکو ( جس پر قاضی صاحب سوار تھے ) مذاق سُوجھا.قاضی صاحب کو پانی میں پھینکا.اور اُن کے بوجھ سے بے نیاز ہو گیا.جوں توں کر کے قاضی 146

Page 143

صاحب کنارہ پر پہنچے.شام ہو چلی تھی.کپڑے پانی سے شرابور - فکر ہوئی رات کہاں گزاریں کو کی بستی دور تک دکھائی نہ دیتی تھی.ایک پہاڑی کی چوٹی پر جھونپڑی نظر آئی.کوشش کر کے وہاں پہنچے.ایک غریب کی کٹیا تھی.ایک کوٹھا جس کے نصف حصہ میں گھر کے لوگوں کی رہائش تھی مالک مکان کو جب علم ہوا کہ یہ کشمیر کمیٹی کے وکیل ہیں تو خوشی سے پھولا نہ سمایا کھانے کے لیے جو گھر میں تھا سامنے لا رکھا اس کے ہاں صرف ایک ٹوٹی پھوٹی چار پائی تھی.قاضی صاحب کے لیے خالی کر دی جس پر انہوں نے اپنا بستر لگایا.مچھر اور جوئیں ساری رات تواضح کرتی رہیں.اس لیے نیند کو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا.صبح کی روشنی میں معلوم ہوا کہ تمام کپڑوں میں جوئیں ہی جوئیں ہیں.ایک عرصہ کے بعد کئی دن کی لگاتار کوشش سے اس مصیبت سے چھٹکارا ملا.ایک اور وکیل کا قصہ سن لیجئے ایک رات شدید بارش ہوئی.جس کمرہ میں ان کی رہائش تھی پہلے اُس کی ایک دیوار گری پھر دوسری یہاں تک کہ جب صبح بارش تھی.تو کمرہ کی چھت درمیانی ستونوں پر کھڑی تھی.خدا کا فضل ہوا.چھت اپنی قائم رہی اور مظلومین کشمیر کے معاون محفوظ و مامون رہے.147

Page 144

گلینسی کمیشن کی سفارشات پر مہاراجہ کے احکام کا ذکر میں نے تفصیل کے ساتھ اس لیے کیا ہے.تا کہ وہ لوگ جو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ آئینی طریق پر مقابلہ کرنے سے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوگا.انہیں معلوم ہو سکے کہ صحیح طریق یہی تھا کہ اس جدو جہد کو آئینی لائنوں پر چلا جائے اور یہ اسی کے خوشگوار نتائج ہیں..گلینسی کمیشن باشندگانِ ریاست کی شکایات کی تحقیق اور ازالہ کی تجاویز پیش کرنے کے لیے مسٹر بی.بے گلینسی کی صدارت میں جو کمیشن مہاراجہ نے ۱۳ نومبر۳۱، کومقرر کیا تھا.اس نے نومبر کے آخری حصہ میں سری نگر میں با قاعدہ کام شروع کر دیا تھا.متعصب ہندوؤں کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی اس وقت جو حق تلفی ہورہی ہے.اس کا ازالہ ہونے پر بہر حال اُن کو بہت کچھ چھوڑنا پڑے گا.اور اگر مسلمانوں کو اُن کی آبادی کے لحاظ سے حقوق مل گئے تو یہ بات ہندوؤں کے مفاد کے خلاف ہوگی.اس لیے انہوں نے کوشش کی کہ ہند وارا کین کمیشن سے دستبردار ہو جائیں.اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا تھا کہ کمیشن ناکام ہو جاتا.اور مسلمانوں کو کچھ نہ ملتا یہ چال پورے طور پر کامیاب نہ ہوئی.جموں کے ہندوؤں کے نمائندہ مسٹرلوک ناتھ شہر مانے تو دسمبر کے شروع ہی میں کمیشن سے علیحدگی اختیار کر لی.لیکن مسٹر پریم ناتھ بزاز کا خیال تھا کہ اگر ریاستی باشندوں کو حقوق ملے مثلاً پر لیس اور پلیٹ فارم کی آزادی وغیرہ وغیرہ.148

Page 145

تو اس سے ہندو بھی ویسا ہی فائدہ اُٹھا سکیں گے.جیسا کہ مسلمان باقی اگر مسلمانوں کی حق تلفی ہورہی ہے تو ہر انصاف پسند کا فرض ہے.کہ وہ اس کے ازالہ کی کوشش میں ممد و معاون ہو.چنانچہ انہوں نے استعفاء پیش کرنے سے انکار کردیا اور آخر وقت تک کام کرتے رہے.کشمیر کی آبادی کمیشن کے سامنے جو اعداد وشمار پیش ہوئے ان سے مسلمانوں کی حق تلفیوں کی اچھی طرح سے وضاحت ہوگئی.جموں کشمیر، لداخ اور گلگت کی مجموعی آبادی حسب ذیل تھی.مسلم 2402000 نفوس ہندو 700300 نفوس سکھ 39000 نفوس بده 3900 نفوس کل آبادی 3180300 اس کے مقابلہ میں ملازمین محکمہ تعلیم کی تعداد ملاحظہ ہو.مسلمان غیر مسلم گزٹیڈ آفیسر انسیکٹر پروفیسر ڈنمانسٹریٹر ہیڈ ماسٹر ہائی سکول 22 23 4 11 3 29 4 7 1 14 1 149

Page 146

1483 46 718 ہیڈ ماسٹر مڈل سکول 3 صرف محکمہ تعلیم میں ہی مسلمان کم پرسی کی حالت میں نہ تھے.بلکہ دیگر محکمہ جات میں بھی آبادی کی نسبت سے اُن کا تناسب حیران انگیز طور پر کم تھا مثال کے طور پر چند محکموں کے اعداد و شمار ذیل میں دیئے جارہے ہیں ادنے ملازمین جن کے لیے کوئی تعلیمی قابلیت درکار بی تھی اس میں بھی ان کی تعداد بہت کم تھی.مسلم شعبہ انتظامیہ غیر مسلم 183 54 47 3 72 7 195 14 216 40 کلریکل سٹاف مسلم غیر مسلم 368 29 29 194 3 150 تعمیرات عامہ الیکٹریکل مکینکل ٹیلیگراف ٹیلیفون کسٹم نائب کالدار گرداور پٹواری فنانس تعمیرات عامہ

Page 147

162 ادنی ملازمین 21 120 23 314 108 99 66 5 عدلیہ تعمیرات عامہ کسٹم پریس وسٹیشنری ڈپو یہی حالت بقیہ ملازمتوں میں تھی.مولانا درد کی مساعی کلینسی کمیشن نے جس وقت کام شروع کیا.مولا نا عبدالرحیم دردسری نگر میں ہی تھے.اُن کا دستور یہ تھا.کہ روزانہ شام کو مسلم نمائندوں سے سارے دن کی کارروائی کے حالات سنتے اور اہم مشورے دیتے.دوسرا اہم کام شہادتیں اور مواد مہیا کرنے کا تھا....جسے پوری ذمہ داری کے ساتھ شیخ بشیر احمد (ایڈووکیٹ) سرانجام دے رہے تھے.کمیشن کا ریکارڈ ایک روز ایک نمائندہ کمیشن سے مولانا درد نے فرمایا کہ وہ کمیشن کے اسی طرح رکن ہیں.جیسے مسن گلینسی اگر من گلینس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کاروائی کی تمام فائل اپنے ساتھ گھر پر لے جائیں.مسٹر مڈلٹن اور ریاست کے دوسرے حکام سے مشورہ کریں تو یہ حق آپ کو بھی حاصل ہے.اس لیے آپ آج مکمل فائل ہمارے پاس لائیں تا کہ ہم ملاحظہ کے بعد آپ کومزید مشورے دے سکیں.ہفتہ کی شام کو وہ فائل لے آئے اور راقم الحروف سے بیان کیا کہ وہ یہ فائل مسن گلینسی کے علم کے بغیر اس کے اردلی سے اس شرط پر لے کر آئے ہیں کہ پیر کے 151

Page 148

روز دفتر کھلنے سے پہلے وہ اسے واپس کر دیں گے.راقم الحروف نے اسی وقت اُسے ٹائپ کرنا شروع کر دیا.ساری رات کام کرتا رہا.دوسرا دن ( جو اتفاقاً اتوار کا دن تھا ) کام کیا.اگلی رات نصف شب کے قریب میں ساری فائل کی چار نقلیں ٹائپ کر چکا تھا.جو بعد میں بہت مفید ثابت ہوئیں کیونکہ مسل میں جو نقائص رہ گئے تھے اس ریکارڈ سے ہمیں ان کا علم ہو گیا.اور مسلم نمائندگان کو ضروری مواد مہیا کر کے اُن کے ہاتھ مضبوط کر دیے گئے.اس۲۴ گھنٹے کے عرصہ میں آرام اور نمازوں کا وقت غالباً چار گھنٹے سے زیادہ نہ ہوتا ہوگا نیند سے بچنے کے لیے کھانے سے پر ہیز کیا.اور صرف قہوہ استعمال کیا.اب میں خود حیران ہوتا ہوں کہ ان دنوں اتنا کام کرنے پر بھی خاص کوفت کیوں محسوس نہ ہوتی تھی.گلینسی کمیشن وسط جنوری ۳۲ ء تک سری نگر میں رہا.اس کے بعد جموں آگیا جہاں ۲۲ / مارچ ۳۲ء کو کمیشن نے مہاراجہ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کر دی تینوں غیر سرکاری ارکان نے رپورٹ کے ساتھ اپنے اختلافی نوٹ شائع کئے.ایک پریم ناتھ بزاز کی طرف سے تھا.دوسرا خواجہ غلام احمد عشائی اور چودھری غلام عباس کی طرف سے مشترکہ تھا اور تیسرا صرف چودھری غلام عباس کی طرف سے جو انہیں ایک ہمدری کشمیر نے تیار کر کے دیا تھا.مہاراجہ کے احکام اس رپورٹ پر مہاراجہ نے ۱۰ / اپریل ۳۲ ء کو احکام جاری کئے.اس وقت مسٹرای.جے.ڈی کالون وزیراعظم مقرر ہو چکے تھے.مہاراجہ نے کمیشن کی سفارشات کومنظور کرتے ہوئے اُن پر حتی الامکان جلد سے جلد عمل کرنے کی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کر دی.اس طرح آئینی جدوجہد کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی مخلصانہ مساعی کے نتیجہ میں اہالیان ریاست کو جو جو حقوق ملے اُن کا مختصر ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا.کیونکہ یہ 152

Page 149

نعمت بڑی جد و جہد اور قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی تھی.مذہبی آزادی مذہبی مشکلات کا دُور کرنے کے لیے جو احکام صادر کئے گئے ،اُن میں اذان روکنے کو اور اسی طرح مذہب تبدیل کرنے یا تبدیلی مذہب کا ارادہ ظاہر کرنے پر لوگوں کو خوفزدہ کرنے کو جرم قرار دیا گیا تھا اور ایسے مجرموں کے لیے سخت سزائیں دینے اور اُن کی گوشمالی کرنے کی ہدایت کی گئی تھی.توہین مذہب کرنے والوں کے متعلق یہ حکم دیا گیا کہ ہائی کورٹ اپنی ماتحت عدالتوں کو یہ ہدایات جاری کرے کہ ان تمام مقدمات میں سے جن میں توہینِ مذہب کے ارتکاب کا ثبوت مہیا ہو جائے.مجرمین کو ایسی سزائیں دی جائیں جن سے مجرمین کو یقین ہو جائے کہ انہوں نے کس قدر سنگین جرم کا ارتکاب کیا جائے.مقدس مقامات مقدس عمارات کی واپسی کے متعلق کچھ احکام پہلے مہاراجہ کی طرف سے جاری ہو چکے تھے.بقیہ کے متعلق کمیشن نے جو سفارشات کی تھیں.اُن کے متعلق مہاراجہ نے حکم دیا کہ ان کی پوری پوری تعمیل کی جائے.زیارت مدنی صاحب.میدان عیدگاہ (سری نگر ) خانقاہ شاہ درہ (جموں ) خانقاہ صوفی شاہ (جموں ) وغیرہ کا انتظام مسلمانوں کے سپرد کیے جانے کے احکام جاری کئے گئے مسجد شاہ ہمدان اور مندر مہا کالی کے متعلق بھی احکام دیئے اور یہ بھی قرار دیا کہ کہ جن جائیدادوں کی حق داروں کو واپسی ہوگی.اُس کے لیے کوئی معاوضہ نہیں لیا جائے گا.یہ بھی ہدایت دی گئی کہ مسجد میں ، دہرے اور گر جا وغیرہ بنانے کے لیے درخواست آئے تو اس پر بہت ہمدردی سے غور کیا جائے.153

Page 150

تعلیم کی ترقی تعلیم کے متعلق کمیشن کی سفارشات کو منظور کرتے ہوئے مہاراجہ نے ابتدائی تعلیم کی توسیع اور عربی کے معلموں کی تعداد بڑھانے اور صنعتی تعلیم کے اجراء کے متعلق احکام دیئے.اور مڈل اور ہائی سکولوں میں اضافہ کرنے کی ہدایت کی.اسی طرح یہ بھی حکم دیا کہ کالجوں میں سائنس کی جماعتوں میں داخلہ کے وقت جانب داری سے کام نہ لیا جائے اور تمام اقوام کے جائز تحفظ کا انتظام کیا جائے.نیز حکم دیا کہ جس قدر جلد ممکن ہو مسلمان اساتذہ اور انسپکٹر ان اور ایک خاص مسلم انسپکٹر مقرر کیا جائے جو صوبائی انسپکٹروں سے علیحدہ اپنے فرائض سرانجام دے اور مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے جد و جہد کرے.ملازمتیں ملازمین کے متعلق مہاراجہ نے کمیشن کی سفارش کے مطابق معیار تعلیم کم کرنے اور ہر نئی آسامی کے خالی ہونے پر بذریعہ اعلان درخواستیں طلب کر کے اُسے پُر کرنے اور مختلف اقوام کی آبادی کے تناسب کوملحوظ رکھنے کا حکم دیا اور یہ بھی حکم دیا کہ کمیشن کی سفارش کے مطابق ہر سال ایک نقشہ شائع ہوا کرے جس میں یہ بتایا جایا کرے کہ مختلف ادارہ جات میں مختلف اقوام کے ملازمین کی تعداد کیا ہے.مالیہ اراضی مالیہ اراضی کے متعلق یہ احکام جاری کئے کہ مالکانہ کی وصولی بند کر دی جائے.نذرانہ کی رقم سے متعلق فوراً غور ہو کہ اس میں کیا تبدیلی ضروری ہے.اس طرح جو زمینیں ریاست کی ملکیت میں ہیں لیکن قبضہ کے حقوق عوام کو حاصل ہیں.ان سب کے مالکانہ حقوق قابض 154

Page 151

لوگوں کو دے دیئے جائیں.کا بچرائی کا ٹیکس سات تحصیلوں یعنی جموں ، سانبہ، اکھنور، کٹھوعہ جمیر گڑھ، میر پور اور بھمبر میں منسوخ کر دیا.اور دیگر علاقوں کے متعلق وزیر مال سے رپورٹ طلب کی گئی.اسی طرح دھاروں کا ٹیکس بھی معاف کر دیا گیا قصاب جو جانور حدود میونسپل کمیٹی میں ذبح کرنے کے لیے لاتے تھے اُن سے کا بچرائی کا محصول لیا جاتا تھا.اُسے بھی بند کر دیا.اخروٹ وغیرہ کے درختوں کو کاٹنے کے متعلق جو پابندیاں تھیں اُن کو دور کیا گیا.کوا پر ٹیو قرضہ جات کے نظام کو وسعت اور ترقی دینے کے متعلق احکام جاری ہوئے.ریاستی پریس ایکٹ جو بہت سخت اور نا قابل برداشت تھا.اُسے جلد تبدیل کرنے اور برطانوی ہند کے قانون مطابع کے مطابق کر دینے کا بھی مہاراجہ نے حکم دیا.ان احکام کے علاوہ (جن کا ذکر اوپر آچکا ہے ) مہاراجہ نے کئی دیگر امور کے متعلق بھی احکام دیئے.مثلاً رشوت ستانی کارسرکار ، جنگلات اور رکھیں ، کشم، مذہبی فریضہ کی بجا آوری.جانوروں کے ذبح کرنے پر ٹیکس کی معافی وغیرہ وغیرہ ان سب امور کی متعلق احکام جاری کیے.آئینی جنگ کیوں؟ گلینسی کمیشن کی سفارشات پر مہاراجہ کے احکام کا ذکر میں نے کچھ تفصیل سے اس لیے کیا ہے تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ جو لوگ یہ دعوی کرتے تھے کہ ریاست کا مقابلہ آئینی طور پر کیا گیا تو کچھ نتیجہ برآمد نہ ہوگا.اُن کو معلوم ہو جائے کہ مسیح طریق یہی تھا کہ جد و جہد کو آئینی لائینوں پر چلایا جائے اور یہ اس کے خوش گوار نتائج ہیں.لیکن جد و جہد آئینی ہوتی یا غیر آئینی.انہیں اس سے کیا سروکار.غرض اپنے حلوے مانڈے کا اہتمام تھا جو چند ہفتے جس طرح بھی میسر آتا رہا حاصل کرتے 155

Page 152

رہے.جب فضا خشک ہوگئی تو سیاست کے رستے فقیر کمبل جھاڑ کر چلتے بنے.اہالیانِ ریاست نے بھی قربانیاں دیں اور بیرونی ہمدردوں نے بھی کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہ کیا.اگر مہاراجہ پر حکومت ہند اور حکومت برطانیہ کا دباؤ نہ پڑتا تو اتنی قربانیوں کے باوجود کشمیری کچھ نہ کر سکتے.سب کوششوں اور قربانیوں کے یکجا ہو جانے سے اچھے نتائج پیدا ہوئے.مولانا عبد الرحیم درد.صوفی عبد القدیر نیاز اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے نمائندوں نے مسٹر گلینسی سے بار بار ملاقاتیں کیں اور ان پر مطالبات کی منظوری کی سفارش کرنے پر زور دیا اور جن معاملات میں انہیں شرح صدر نہ ہوتا تھا.کوشش کی کہ وہ ان کے ہم خیال ہو جائیں.گلینسی کمیشن کی رپورٹ آزادی کشمیر کی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس سے بلا شک و شبہ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی.کہ رعایا کی شکایات حقیقت پر مبنی تھیں اور انہوں ے بلا وجہ چیخ و پکار نہ شروع کر رکھی تھی.اور یہ کہ انکا ازالہ نہایت ضروری تھا.یہی موقف آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے ابتداء سے اختیار کر رکھا تھا.اور نمائندگان ریاست بھی اس کے ساتھ متفق تھے.کانفرنس برائے آئینی اصلاحات مینسی کمیشن کے علاوہ مہاراجہ نے ریاست میں آئینی اصلاحات کے اجراء کے سوال پر بحث اور سفارشات کے لیے ایک کانفرنس مقرر کی.جس کا صدر من گلینسی کومقرر کیا.ان کے علاوہ اس کے چودہ ارکان تھے.کمیشن کے تینوں ممبر بھی اس کے رکن تھے.کئی ارکان نے عدم تعاون کیا.ان کو کمیشن کی ہیئت ترکیبی پر اعتراض تھا.اس کے باوجود کاروائی جاری رہی اور اپریل ۳۲ ء کے آخر پر کانفرنس نے اپنی سفارشات مہاراجہ کے سامنے پیش کر دیں.156

Page 153

آئین ساز اسمبلی کانفرنس نے سفارش کی کہ جہاں تک جلد ممکن ہو ریاست میں ایک لیجسلیٹو اسمبلی قائم کر دی جائے.اس اسمبلی کو اختیار ہو کہ قوانین وضع کرے.جن کی آخری منظوری مہاراجہ سے لینی ہوگی.ریاست کا میزانیہ بھی اسمبلی میں پیش ہوا کرے.اسمبلی کے استصواب کے بغیر کوئی نیا ٹیکس عاید نہ کیا جائے.اسمبلی میں تقریر کی پوری آزادی ہو.نیز اسمبلی کی ہیئت ترکیبی کے متعلق سفارشات کی گئیں.اسی طرح ڈسٹرکٹ بورڈوں اور میونسپلیٹوں کے متعلق بھی سفارشات کیں.فرنچائز کمیٹی مہاراجہ نے ۲۸ مئی ۳۲ ء کو اس رپورٹ پر احکام صادر کئے...اور سر بر جور دلال.مسٹر ایل ڈبلیو جارڈ ین اور مسٹر رام ناتھ شرما پرمشتمل ایک فرنچائز کمیٹی مقرر کر دی.157

Page 154

158

Page 155

8.M.ABDULLAE M.Sc.(AHG) SRINAGAR 14 مکرم و منظم جناب حضرت میاں صاحب اسلام ورحمت احمد جداگانه - سب سے پہلے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں تہ دل سے آپ شکریہ ادا کروں.اُس بے لوث اور بے غرضانہ کوشش اور جدوجہد کے لئے جو آپ نے کشمیر کے درماندہ مکانوں کے لئے گئی.پھر آپ نے جس استعمل اور محنت کے ساتھ مسئلہ کشم کو لیا اور میری غیر موجودگی میں جس کا بیعت کے ساتھ ہمارے ملک کے سیاسی احساس کو قائم اور زندہ رکھا.مجھے امید رکھنی چاہئیے کہ آپ نے جس ارادہ اور عزم کے ساتھ سلطان این کشمیر کے حقوق کے حصول کے لئے جد و جہد فرمائی ہے آسیہ بھی اسے زیادہ کوشش اور توجہ سے جاری رکھینگے.اور اسوقت تک اپنی مفید کو ششوں کو بند نہ کرینگے جب تک کہ ہمارے تمام مطالبات صحیح معنوں میں تمھیں حاصل نہ ہو جائیں.! یین و سوقت مناسب خیال کرتا ہوں کہ.مختصر طور پر وہ حالات عرض کروں جو میری اور دیگر کارکنوں کی گرفتاری کا باعث ہو گئے.گذشتہ موسم سرما میں جب گلینسی کمیشن کا کام جاری تھا تو میں پوری طرح اسکے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اسکے کام ، میں لگا ہوا تھا اور مسلمانوں کی مختلف شکایات بہم پہنچا رہا تھا.جنگ کی فضا ربا لکل صاف اور پر اسی تھی اور کسی قسم کی بھی بد امنی کا خیال یک نہ تھا کہ اچانک بروجہ آرڈیننس کا نفاذ صوبہ کثیر میں کر دیا گیا اور ساتھی ہیں مفتی ضیاء الدین جہد کو یہاں سے جلا وطنی کا حکم دیا گیا.اسطرح با و بی ا سکے کہ حکومت اشتغال و رونے کی کوشش کی.لیکن پھر بھی میں نے باکمل رضی رکھنا پسند کیا میر کی گرفتاری ایک تو حکومت کی زبردستی تھی اور کسی در یک مرے اسے حیض کا رکنوں کی کمزوری میں الوقت ملوکی پالیسی کے معنی میں کچھ عرض کرونگا - 115 159

Page 156

160

Page 157

صدائے حق نہیں دیتی کبھی غوغائے باطل سے سپاه کفر کی گرچہ نظر آئے فراوانی طاہر ٹائٹن رپورٹ فروری ۳۲ ء کے اواخر میں ایک خبر رساں ایجنسی نے اخبارات میں مڈلٹن رپورٹ کا خلاصہ شائع کروایا.جس سے مسلمانوں میں سخت مایوسی پھیل گئی.ایسوسی ایٹڈ پریس جس نے اس کی اشاعت کا انتظام کرایا تھا.ریاست کے زیر اثر تھی.اس سے کسی خیر کی توقع بھی نہ ہوسکتی تھی.صدر محترم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو گو یقین تھا کہ بددیانتی سے کام لیا گیا ہے تاہم آپ نے فوراً دہلی میں کمیٹی کا اجلاس بلایا ۲ مارچ ۳۲ء کو ”سوس ہوٹل“‘ SWISS) (HOTLE میں میٹنگ ہوئی.جس میں غور و فکر کے بعد کئی قرار داد میں منظور ہوئیں.ایک قرار داد ی تھی.وو ملین ر پورٹ کے اس اقتباس سے جو ایسوسی ایٹڈ پریس نے شائع کیا ہے.پایا جاتا ہے کہ ڈوگرہ مظالم کے متعلق رپورٹ غیر منصفانہ اور اس شہادت کے خلاف ہے جو کمیشن کے روبرو پیش کی گئی.رپورٹ میں ڈوگرہ مظالم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے جس نے مسلمانوں کے زخموں پر 161

Page 158

نمک پاشی کا کام کیا ہے.اور ڈوگروں کو مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے کی جرات دلائی ہے.رپورٹ کا شخص جو اخبارات میں شائع ہوا ہے.اس سے ایسے لوگوں کا اعتماد بھی متزلزل ہو گیا ہے.جو برطانوی حکومت کے ہاتھ سے انصاف و عدل کی امید لگائے بیٹھے تھے.اسی اثناء میں کمیٹی کے مطالبہ پر ریاست کی طرف سے رپورٹ کی ایک نقل صدر کمیٹی کو مہیا کر دی گئی.آپ نے ۵/ مارچ کو دہلی میں پھر اجلاس بلایا جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ چودھری محمد ظفر اللہ خاں کی سرگردگی میں ایک سب کمیٹی رپورٹ کا بنظر غائر مطالعہ کرنے کے بعد کمیٹی میں اپنے تاثرات پیش کرے.رپورٹ پر تبصرہ اُسی روز جناب صدر صاحب نے ایک بیان اخبارات میں اشاعت کی غرض سے دیا.جس میں فرمایا:.پھر فرمایا:.اب مجھے اس کی ایک کاپی ملی ہے.جس کے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اخبارات میں جو اس کا خلاصہ شائع ہوا ہے.وہ سخت گمراہ کن اور اصل حالات کے خلاف ہے.“ رپورٹ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس کا جو خلاصہ شائع کیا ہے.وہ مسٹر مڈلٹن کے ساتھ صریح نا انصافی ہے.اگر چہ مسلمانوں کے ساتھ پورا پورا انصاف بھی نہیں کیا گیا.لیکن یہ امر واضح رہے کہ رپورٹ ایسی بُری نہیں.جیسا کہ خلاصہ سے 162

Page 159

معلوم ہوتی تھی.اس میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے معلوم ہو کہ اس میں من حیث القوم مسلمانوں کی تحقیر کی گئی ہے.خلاصہ فی الواقعہ گمراہ کن تھا اور کوئی لفظ یہاں سے اور کوئی وہاں سے لے کر جوڑ دیا گیا تھا.ذمہ داری ریاستی حکام پر رپورٹ کے مکمل متن سے ثابت ہو گیا ہے کہ 66 صدائے حق نہیں دیتی کبھی غوغائے باطل سے سپاه کفر کی گرچہ نظر آئے فراوانی مسٹر مڈلٹن نے ریاست کے سول اور ملٹری افسروں کے افسوسناک رویہ کا ذکر اپنی رپورٹ میں اس طرح کیا ہے:.اگر حکام ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرتے.اور مضبوطی سے صورت حالات کا مقابلہ کرتے تو معاملہ قابو سے باہر نہ ہوجاتا.ہر ایک حاکم ذمہ داری کو اپنے اوپر لینے سے کتراتا رہا اور عین مشکل کے وقت ہر افسر اپنے سے بڑے افسر کے پاس جا کر آرڈر لینے کی کوشش کرتا رہا.“ اس معاملہ سے صاف ظاہر ہے کہ ان حکام کو اپنی ذمہ داری کا پوری طرح احساس نہ تھا.اور نہ انہیں اپنے فیصلوں پر اعتماد تھا.“ ریاستی فوج کی جانبداری ریاستی فوج کے متعلق مسٹر مڈلٹن نے تحریر کیا کہ جموں میں قتل وغارت ہوئی تو ؟ فساد کے وقت فوج فوراً موقع پر پہنچ گئی جس نے مسلمانوں کو تو منتشر کر دیا.اور ہندوؤں کو کھلے بندوں چھوڑ دیا گیا.جنہوں 163

Page 160

نے جتھے بنا کر اکاڈ کا مسلمانوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا.اور مسلمانوں کی دکانوں کو فوج کی موجودگی میں لوٹنا شروع کر دیا.ہندو مسلمانوں کو تباہ و برباد کر رہے تھے.لیکن فوجی سپاہی پاس کھڑے دیکھتے رہے.اگر چہ بعد میں فوج کو شہر کے مختلف حصوں میں متعین کر دیا گیا.لیکن ہندوؤں کی چیرہ دستیاں کئی دنوں تک بدستور جاری رہیں.“ محکمہ پولیس میں اندھیر گردی پولیس جو ملک میں امن قائم رکھنے.بدامنی کو روکنے اور رعایا کے ہر فرد کی جان.مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے مقرر کی جاتی ہے.اس کے متعلق مسٹر مڈلٹن کے یہ الفاظ بہت اہمیت کے حامل ہیں.وہ اپنی رپورٹ میں تجویز کرتے ہیں:.66 وو محکمہ پولیس کی حالت بہت افسوس ناک ہے.ضرورت ہے کہ اس محکمہ کو نئے سرے سے باقاعدہ منظم کیا جائے...اپنی رپورٹ میں مسٹر مڈلٹن نے تسلیم کیا کہ مسلمانوں کو واقعی شکایات تھیں اور لکھا کہ اس امر کی سخت ضرورت ہے کہ رعایا کی تکلیفوں کو پوری طرح تحقیقات اور ان کے ازالہ کی کوشش کی جائے..گویا گلینسی کمیشن کی ضرورت واہمیت کو بھی واضح الفاظ میں تسلیم کر لیا.ملاپ کو بھی ماننا پڑا مسٹر مڈلٹن کی رپورٹ کا یہ اثر ہوا کہ ملاپ ایسا متعصب اخبار بھی یہ لکھنے پر مجبور ہوا کہ:.اگر جموں کے افسران اور حکام وقت پر تدارک کر لیتے تو جموں میں کوئی خرابی ہی پیدا نہ ہوتی.جموں کے معززین جموں کے وکلاء اور جموں کے باخبر لوگ لمحہ لمحہ کی اطلاع حکام کو دیتے رہے اور حکام یہ کہہ کر ٹال 164

Page 161

ہے کہ سب ٹھیک ہے.وکلاء نے حلفی بیان تک حکام کے سامنے دیئے.لیکن پھر بھی آنے والے خطرہ کو روکنے کے لیے کوئی تدبیر نہ کی گئی.ٹائلٹن رپورٹ میں ان حکام اور افسران کو بجا طور پر ملزم گردانا گیا ہے ملاپ ۲۰ / مارچ ۶۳۲) ریاست کی نئی چال باشندگان ریاست کی نظر میں مڈلٹن اور کلینسی کمیشنوں کی طرف لگی ہوئی تھیں.پھر شہداء کے کنبوں کے گزارہ کا انتظام کرنا لازم تھا.اور اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے انتہائی جدو جہد کی ضرورت تھی.ایسے وقتوں میں ریاستی حکام نے نمائندگان جموں وکشمیر میں پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کی.ایسی کوششیں وہ پہلے بھی ریاست سے باہر ہندوستان میں کرنے کے بعد نا کام ہو چکے تھے لیکن ریاست میں انھیں ایک حد تک کامیابی ہوگئی.اور بعض نمائندگان نے فرقہ وارانہ سوال کو ہوا دینے کی کوشش شروع کر دی.یہ اتنا بڑا فتنہ تھا کہ اگر اس کا انسداد فوری نہ کیا جاتا.تو سب قربانیاں اور مظلومین کا خون ضائع جاتا.اس لیے اس کا انسداد سمجھ دار لوگوں نے اس طرح کیا.کہ ایک جلسہ عام سری نگر میں دسمبر ۳۱ ء کے آخر میں کیا.اس میں ہر فرقہ کے لوگوں کو مدعو کیا گیا.تا کہ اجلاس کو نمائندہ حیثیت حاصل ہو جائے.نمائنده جلسه اس جلسہ میں جو کشمیر کے مشہور مذہبی لیڈر میر واغط مولا نا احمد اللہ ہمدانی کی صدارت میں ہوا.خواجہ غلام نبی گل کار مرزا محمد افضل بیگ.مفتی ضیاء الدین ضیا.مسٹر محمد یوسف.مفتی جلال الدین ایم.اے.پیر مقبول شاہ.پیر محی الدین.خواجہ غلام محی الدین کرہ.مسٹر غلام مرتضی.ایم.ایس سی.مسٹر ثناء اللہ.مسٹر محمد امین اور مسٹر غلام بنی خان سب کے سب قابل 165

Page 162

ذکر لوگوں نے اس میں شمولیت کی.اور تین نمائندگان یعنی سید حسین شاہ جلالی.خواجہ غلام احمد عشائی ایم.اے اور چودھری غلام عباس نے جو شامل اجلاس نہ ہو سکے.خطوط کے ذریعہ شمولیت کی.ان کے خطوط جلسہ میں پڑھ کر سُنا دیے گئے.شیخ محمد عبد اللہ کی پُر سوز تقریر شیخ محمد عبداللہ نے بہت ہی پُر دردلہجہ میں کہا:.وو موجودہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھا ئیں جس سے قومی مفاد کو نقصان پہنچے حکومت مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا چاہتی ہے اور چند مسلمان لیڈر حکومت کے دام فریب میں آکر مسلمانوں کے اتحاد واتفاق کے شیرازہ کو بکھیر کر اپنی ذاتی اغراض کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور سُنی.شیعہ.اہلحدیث اور احمدی وغیرہ کا سوال اُٹھا رہے ہیں.آپ مجھے اس معاملہ میں اپنے فیصلہ سے آگاہ کریں.میں اسی پر عمل کروں گا“ سب طرف سے آوازیں آئیں کہ ہم ایسے لوگوں سے بیزار اور آپ کے ساتھ ہیں.سید حسین شاہ جلالی کا مکتوب سید حسین شاہ جلالی نے اپنے خط میں جو جلسہ میں پڑھ کر سنایا گیا.لکھا:.یہ ایک افسوسناک معاملہ ہے کہ اہل اسلام کے درمیان اس وقت فرقہ دارانہ سوال پیدا کیا جا رہا ہے.جب انتخاب نمائندگان ہوا تھا تو ہم تمام نمائندگان نے اسے اپنا اصول بنا رکھا تھا بلکہ ایک قسم کا حلف لیا تھا کہ فرقہ دارانہ سوال کو کبھی عامتہ المسلمین میں نہیں اُٹھانا چاہیے.اور تمام فرقوں کو خواہ وہ سُنی ہوں یا شیعہ، اہل حدیث ہوں یا احمدی مقلد ہوں یا غیر مقلد 166

Page 163

متحد اور متفق ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک عمل کرنا چاہئے..خواجہ غلام احمد عشائی نے لکھا تھا 66 مجھے افسوس ہے کہ تفرقہ پیدا کیا گیا ہے.میں خود مرزائی نہیں اور نہ اہلحدیث.مگر اس جدو جہد میں ہم فرقہ داری سے بالا ہو کر تمام اہل اسلام خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں متفق ہوکر کامیابی کی امید رکھتے تھے چودھری غلام عباس کا خط چودھری غلام عباس کا جو خط پڑھ کر سنایا گیا اس میں انہوں نے لکھا تھا:.مجھے یہ دیکھ کر کہ مسلمانان کشمیر کے درمیان تفرقہ پردازی کی وسیع خلیج حائل ہوگئی ہے از حد اور دلی صدمہ ہوا ہے اس وقت مسلمانوں پر دور ابتلاء ومصیبت ہے اور رہبران قوم کی ذراسی لغزش بھی تباہی کا حکم رکھے گی...اسی طرح لکھا:.وو ،،...موجودہ سوال قوم کا من الحیث القوم سوال ہے.اور نہ حکومت نے گولی چلاتے...گرفتاریاں عمل میں لاتے اور تشدد کرتے وقت ہی فرقہ دارانہ تمیز سے کام لیا ہے.نمائندگان کو مخاطب کر کے کہا:.خدارا موقع کی نزاکت اور اہمیت کو سمجھ لیجئے.اور قوم کو افتراق سے بچائیے اور ایسی راہ اختیار کیجئے.جس سے مسلمانانِ ریاست کی مشکلات 167

Page 164

حل ہوں اور آئندہ مظالم کا سدِ باب ہو..گلینسی رپورٹ اور صدر کشمیر کمیٹی 66 آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے اب ایسا مقام پیدا کرلیا تھا کہ ریاست ،حکومت ہند اور حکومت برطانیہ سب اس کی آواز پر کان دھرنے پر مجبور تھے گلینسی کمیشن کے متعلق پہلے لکھا جاچکا ہے.کمیٹی اور اس کے قابل احترام صدر کی طرف سے اس پر جو تبصرے ہوئے ان کے دو اقتباس یہاں درج کئے جاتے ہیں:.مسٹر گلینسی کی زیر صدارت جو کمیٹی ( مجلس آئین ساز کے متعلق ) مقرر کی گئی ہے.اور اس میں جن لوگوں کو مسلمانوں کے نمائندے قرار دیا گیا ہے.ان کی قابلیت اور سیاسی امور کے متعلق واقفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مسلمانوں کی تکالیف کی پوری طرح تحقیقات کا انتظام کیا گیا ہے.جس کے خلاف مسلمان پر زور صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں.“ کمیشن کی اصل رپورٹ شائع ہونے پر لکھا:.گو یہ رپورٹ میری خواہشات کو کلی طور پر پورا کرنے والی نہیں لیکن پھر بھی اس میں کافی مواد ایسا موجود ہے جس پر مسلمانوں کو بھی خوش ہونا چاہیے اور مہاراجہ کو بھی.کیونکہ انہوں نے اپنی رعایا کے حقوق کی طرف توجہ کر کے اپنی نیک نفسی کا ثبوت دیا ہے.اس رپورٹ کے لکھنے پر مسٹر گلینسی بھی خاص مبارک باد کے مستحق ہیں.اور اُن کے ساتھ کام کرنے والے نمائندے بھی کہ انہوں نے رعایا کے حقوق ادا کرنے کی سفارشات 168

Page 165

کی ہیں.خواہ وہ مسلمانوں کے مرض کا پورا علاج نہ بھی ہوں...گلینسی رپورٹ کے متعلق لکھا:.وو 66 میں امید کرتا ہو کہ دوسری گلینسی رپورٹ ایک نیا دروازہ سیاسی میدان کا مسلمانوں کے لیے کھول دے گی اور گو وہ بھی یقیناً مسلمانوں کی پورے طور پر دادرسی کرنے والی نہ ہوگی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بھی ان کی زندگی کے نقطہ نگاہ کی کو بدلنے والی اور آئندہ منزل کی طرف ایک صحیح قدم (ہاں مگر ایک چھوٹا قدم ) ہوگی...اللہ والوں کی کوششیں 66 ایم فیض احمد گو خاموش طبع تھے اور مذہبی مشاغل میں ہی مصروف رہتے تھے.لیکن اس بزرگ نے سیاسی میدان میں بھی کام کیا ہے.آنحضرت وہ روحانیت کے شہنشاہ ہونے کے علاوہ سیاست کے بھی تاجدار تھے.آپ کا یہ دستور تھا کہ جنگوں اور سیاسی مہمات میں راز داری اور اخفاء سے کام لیتے تھے.ایم فیض احمد کے کام بھی اسی قسم کے تھے.جن کا راقم الحروف کو علم تو ہے لیکن بیان کرنے کا یہ محل نہیں.وہ کشمیر کمیٹی اور مسلم نمائندگان کشمیر میں ایک طرح ناظم رابطہ کی حیثیت رکھتے تھے.جس قدر قاصد بھجوائے جاتے یا وہاں سے ریاست میں آتے ان کا ہیڈ کوارٹر انہی کا گھر ہوتا تھا.مولا نا محمد الدین اور ٹلمینسی سادگی اور بے لوث خدمت اپنے اندر کس قدر طاقت رکھتی ہے.اس کی ایک مثال پیش ہے گلینسی کمیشن کا کام قریب ختم ہو چکا تھا.لیکن ابھی رپورٹ مہاراجہ کونہ کی تھی.جناب صدر کشمیر کمیٹی نے مولانامحمد الدین (سابق مسلم مشنری امریکہ ) کو مٹر گلینسی کے پاس جموں 169

Page 166

اور اس غرض سے بھجوایا کہ مسلمانوں کے حقوق کے متعلق کچھ مزید باتیں رپورٹ میں درج ہو جائیں.مسن گلینسی نے معذرت کی کہ اب تو میں کام ختم کر چکا ہوں.آپ کا مطالبہ پورا کرنا ممکن نہیں.لیکن مولانا کے دلائل کے بعد وہ قائل ہو گیا.اور اُن کی بات تسلیم کرلی.کمیٹی کے مقامی کارکن لیفٹیننٹ محمد اسحاق بھی اس ملاقات میں مولانا کے ساتھ گئے تھے.مولانا کی سادگی اور ٹھوس قابلیت سے مسن گلینسی بہت ہی متاثر ہوئے.170

Page 167

خدا کے فضل سے کشمیر میں تمام مسلمان چاہے وہ سنی ہوں یا شیعہ، احمدی ہوں یا حنفی سب مل کر کام کریں گے.سوائے چند خود پرست لوگوں کے جو محض نفسانی اغراض کی وجہ سے افتراق پیدا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں.....قائدانہ طریق کار ہر مہم کو سر کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اُس کا قائد دور بین نگاہ کا مالک ہو.اور کامیابی سے ہم کنار ہونے کے لیے تمام ذرائع استعمال کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو.دشمن کی ہر چال سے باخبر رہے قوم کو منظم اور اس کے حوصلوں کو بلند رکھے.آزادی کشمیر کی تحریک میں بھی ان تمام امور کوملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا.اور رات دن کام ہورہا تھا.کہیں حکام ریاست سے رابطہ پیدا کیا جارہا ہے تو کہیں حکومت ہند کے سربراہوں سے ملاقاتیں ہورہی ہیں.کہیں اخبارات کا تعاون حاصل کیا جارہا ہے.ضروری لٹریچر ملک میں پھیلا جا رہا ہے.انگلستان میں پارلیمنٹ کے ممبروں سے بار بارٹل کر اُن کے ذریعہ دباؤ ڈالا جارہا ہے.کہیں قوم کا حوصلہ بلند رکھنے کی خاطر اسیروں کی رستگاری کے لیے ہر ممکن ذریعہ استعمال ہورہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مظلومین کی قانونی طلبی اور مالی امداد بھی جاری ہے.آج لاہور کل شملہ، پرسوں دتی اترسوں جموں ، پھر سری نگر، میر پور مظفر آباد جگہ جگہ کے سفر بھی جاری ہیں.غرض اللہ تعالی کے فضل اور ان مساعی کے نتیجہ ہی میں تحریک آزادی کو کامیابیاں ہونا شروع ہوئیں.171

Page 168

وائسرائے ہند کے پاس وفد ۱/۴اپریل ۳۲ء کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ایک وفد نے چودھری محمد ظفر اللہ خاں کی قیادت میں دہلی میں وائسرائے ہند سے ملاقات کی.یہ وفد ہندوستان کے حقیقی نمائندوں پر مشتمل تھا.چنانچہ اس میں ڈاکٹر شفاعت احمد ،مولانا شفیع داؤدی، مسٹر اے.ایچ غزنوی ،نواب عبدالحفیظ خاں، کیپٹن شیر محمد خاں ڈومیل، نواب ابراہیم علی خاں آف کنجچورہ ، شاہ مسعود احمد، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ، خاں بہادر رحیم بخش، سید محسن شاہ ، شیخ فضل حق پراچہ، سید حبیب شاہ اور مولانا عبدالرحیم در دشامل ہوئے.اس موقع پر وائسرائے کو جوتحریری میموریل پیش کیا گیا.اس میں افسوس کے ساتھ اس امر کا اظہار کیا گیا تھا گلینسی کمیٹی میں مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے بہت کم نمائندگی دی گئی ہے.اور پھر جو ممبر بنائے گئے ہیں وہ مسلمانوں کے حقیقی نمائندہ نہیں ہیں.دستوری معاملات میں انہیں کسی قسم کا تجربہ حاصل نہیں.مسلمانوں کے اصل رہنما جیلوں میں بند ہیں.ریاست کے افسران انتقام لینے کی خاطر مسلمانوں کو جبر و استبداد کا تختہ مشق بنا رہے ہیں.مسلمان خوف زدہ ہو کر کثیر تعداد میں جموں اور کشمیر سے برطانوی علاقہ میں پناہ گزیں ہور ہے ہیں.غرض مسلمانان کشمیر پر مظالم کے خلاف پر زور احتجاج کرتے ہوئے اُن کے حقوق کے منصفانہ تصفیہ کا مطالبہ کیا گیا تھا.اور سیاسی قیدیوں کی رہائی اور خوف و ہراس کو دور کرنے کے لیے فوری اور مؤثر کا روائی کرنے کی اپیل نیز مہاراجہ کو فوری ہدایات جاری کرنے کی درخواست کی گئی تھی.وائسرائے نے تمام امور پر فوری اور ہمدردانہ غور کا وعدہ کیا.172

Page 169

وزیر اعظم سے وفد کی ملاقات ۲۳ / اپریل ۱۹۳۲ء کو کمیٹی کا ایک وفد وزیر اعظم کشمیر سے ملا.اس کی روداد راقم الحروف نے اُسی روز جموں سے بذریعہ تار بھجوا دی.تار میں درج تھا:...سید حسن شاہ ، مولانا محمد یعقوب خاں ،مسٹر مجید ملک ،مولانا میرک شاہ اور مولانا عبد الرحیم درد پر مشتمل آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا ایک وفد آج کرنل کا لون وزیر اعظم ریاست جموں وکشمیر سے ملا.اور رسمی طور پر کئی ایک اہم امور پر ان سے تبادلہ خیالات کیا.جن میں آرڈی نینسوں کی تنسیخ اور سیاسی قیدیوں کی عام معافی کا اعلان بھی ہے.مسلمانوں کو تخفیف سے بچانے اور ایسی کاروائی عمل میں لانے کے لیے سوپورہ ، ہندواڑہ ، بارہ مولہ ہونگی ، اور راجوری کے افسران کے رویہ کی آزادانہ تحقیقات ہو سکے.خاص زور دیا گیا مسٹر علینسی کی دستوری سفارشات کے سلسلہ میں دو ایسے مسلم وزراء کے تقرر کا مطالبہ کیا گیا.جن پر مسلمانوں کو کامل اعتماد ہو.نیز کونسل میں مسلمانوں کو کافی نمائندگی دیئے جانے پر خاص زور دیا گیا.کرنل کولون کا رویہ نہایت ہمدردانہ تھا.اور آپ نے یقین دلایا کہ کلینسی کمیشن کی سفارشات پر پوری توجہ سے عمل درآمد کیا جائے گا...66 ریاست کی طرف سے جب اخبارات پر پابندیاں عائد ہونا شروع ہوئیں تو صدر محترم کشمیر کمیٹی نے مطبوعہ مکتوبات کا ایک سلسلہ شروع کر دیا.یہ مکتوب کسی نہ کسی طریق سے ریاست کے ہر حصے میں پہنچا دیئے جاتے تھے.میں نے سری نگر میں خود دیکھا کہ جب یہ مکتوب کسی کے پاس پہنچتا.وہ پندرہ ہیں آدمیوں کو جمع کر کے اسے پڑھ کر سناتا اور پھر ایک شخص دوسرے کو اور دوسرا تیسرے کو پہنچاتا چلا جاتا.اس طرح ہر خط کا مضمون لاکھوں انسانوں 173

Page 170

تک پہنچ جاتا اس سے عام بیداری اور جوش پیدا ہونے کے علاوہ ریاستی باشندے حالات سے بھی باخبر رہتے تھے.( یہ تمام خطوط تاریخ کا ضروری حصہ ہیں اور تفصیل سے تاریخ لکھنے والا ان کو ضر ور نقل کرے گا.ظا) اسیروں کی رستگاری سیاسی اسیروں کی قید کا زمانہ لمبا ہوتا جار ہا تھا.گوان قیدیوں کی پکار تو یتھی ؟ وہ ہوں گے اور کوئی ان کی دھمکی سے جو ڈر جائیں ہمیں ڈرنے سے کیا نسبت کہ ہم ہیں شیر ربانی ہمیں شوق شہادت ہے یہ مقتل کیا یہ جنت ہے بوقت ذبح کیا ممکن جو ظاہر ہو پریشانی (طاہر) لیکن قوم کا بھی تو کچھ فرض تھا.اسے جھنجھوڑنے کیلئے محترم میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اپنے ایک مطبوعہ مکتوب میں لکھا:.ہر قوم جو زندہ رہنا چاہتی ہے.اُس کا فرض ہے کہ اپنے لیڈروں اور کارکنوں سے وفاداری کا معاملہ کرے.اور اگر قومی کا رکن قید ہیں اور لوگ تسلی سے بیٹھ جائیں تو یہ امر یقیناً خطر ناک قسم کی بے وفائی ہوگا.مسلمانانِ جموں وکشمیر کو یاد رکھنا چاہیے کہ گو وہ بہت سے ظلموں کے تلے دبے چلے آتے ہیں.پھر بھی اُن کی حالت یتیموں والی نہ تھی.کیونکہ جب تک اُن کے لیے جان دینے والے لوگ موجود تھے.وہ یتیم نہ تھے.لیکن اگر وہ 174

Page 171

پھر فرمایا:.آرام ملنے پر اپنے قومی کارکنوں کو بھول جائیں گے تو آئندہ کسی کو ان کے لیے قربانی کرنے کی جرات نہ ہوگی اور وہ یتیم ہو جائیں گے...ان کا فرض ہے کہ جب تک مسٹر عبد اللہ.قاضی گوہر رحمن اور اُن کے ساتھی آزاد نہ ہوں وہ چین سے نہ بیٹھیں.اور میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس کام میں میں اُن کی ہر ممکن امداد کروں گا.اور اب بھی اس غرض کو پورا کرنے کے لیے کوشش کر رہا ہوں...کچھ اسیروں کی رہائی 66 اس مکتوب نے گویا جنگل میں آگ لگادی.ہر طرف جلسے ہونے لگے.اور ریزولیوشن پاس کر کے افسروں کو بھجوائے جانے لگے.وائسرائے کے وفد اور وزیر اعظم کے وفد کے ساتھ یہ طاقت بھی مل گئی.آخر ۹ مئی ۳۲ء کو سری نگر کے مسلمانوں کے نمائندہ نے صدر کمیٹی کو تار کے ذریعہ اطلاع دی کہ وو آج مسٹر یوسف خاں ( علیگ)، نذیر احمد، عبداللہ اور غلام محمد اسیران سیاسی رہا کر دیئے گئے.66 اظہار تشکر جیل کے دروازے پر مسلمانون نے ان کا شاندار استقبال کیا اور یہ قرار داد منظور کر کے بھجوائی کہ یہ پارٹی مسلمانانِ کشمیر کی واحد نمائندہ جماعت آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے محترم صدر اور ارکان نیز مسلم پریس سے درخواست کرتی ہے کہ 175

Page 172

مسلمانان کشمیر کے مطالبات تسلیم کرانے کے لیے انھوں نے جو کامیاب کوشش کی ہے اس پر دلی شکر یا قبول فرمائیں.تکلیف اور مصیبت میں مدد کے لیے تمام قیدیوں کی نگاہیں ان پر لگی ہوئی ہیں..شیخ عبداللہ کی رہائی آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی پیہم کوششیں خدا کے فضل سے بار آور ہوئیں اور ریاست کشمیر نے آخر کار شیخ محمدعبداللہ اور دوسرے بقیہ مسلم راہنماؤں کی رہائی کے احکام بھی جون ۳۲ ء کے پہلے ہفتہ میں جاری کر دیئے.کشمیر کے مختلف حصوں سے اس کامیابی پر جناب صدر کی خدمت میں مبارک باد کے متعد د تار موصول ہوئے.شیر کشمیر لاہور میں شیخ محمد عبد اللہ کئی ماہ جیل میں گزانے کے بعد رہا ہوئے تو ضروری امور میں مشورہ کے لیے ۵ جولائی کو لاہور آئے.جہاں صدر محترم کشمیر کمیٹی ایک روز پہلے پہنچ چکے تھے.آپ کا قیام مرزا عزیز احمد ایم.اے(ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر ) کی کوٹھی پر تھا.شیخ صاحب نے بھی اسی جگہ قیام کیا.اور دودن اور دورا تیں میٹنگیں ہوتی رہیں.( شیخ صاحب کی خواہش پر راقم الحروف نے ان کے قیامِ لاہور کے عرصہ میں ان کے سیکرٹری کے طور پر کام کیا اور لاہور کے معززین سے ان کی ملاقاتوں میں ان کے ساتھ رہا.) ایک دیانت دار اخبار نویس اس مختصر قیام میں شیخ محمد عبداللہ صاحب ”زمیندار“ کے مالک سے ملنے کے لیے گئے.میں بھی ساتھ تھا.ابھی رسمی سلام ومزاج پرسی ہورہی تھی کہ ان کے بیٹے اختر علی صاحب آدھمکے اور آتے ہی اپنے ابا کو مخاطب کر کے کہنے لگے.176

Page 173

شیخ صاحب سے دریافت کر لیجئے کہ یہ احمد یہ فرقہ کے ساتھ تو تعلق نہیں رکھتے.66 اور یہ کہ ان کا اس فرقہ کے متعلق کیا خیال ہے.اور ساتھ ہی کا تب کو آواز دی.بھئی ٹھہر ناشیر کشمیر کا ایک اہم بیان آرہا ہے.اس کے لیے چوکھٹا بنانا ہے.اخبار کے مالک بیٹے کو فرمانے لگے.ارے شیخ صاحب کے لیے چائے تو منگوا ؤ.ان کا وہی خیال ہے.جو ہمارا ہے شیخ صاحب نے جواباً کہا میں احمدیہ فرقہ سے متعلق نہیں ہوں.لیکن میں ہر کلمہ گو کو مسلمان سمجھتا ہوں.اور ان کے اتحاد کا متمنی ہوں.میں مذہبی لیڈر نہیں ہوں.کہ کسی پر کفر کا فتویٰ صادر کروں.نے لگے کہ ہم وہاں سے واپس آرہے تھے.کہ ٹانگہ میں بیٹھے ہوئے شیخ صاحب مجھ سے فرما اب کوئی چوکھٹہ نہیں چھپے گا.“ دوسرے روز صبح ہی جب اخبار آئے تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بعض اخبار نویس کس قدر دلیری سے جھوٹ بول لیتے ہیں.راقم الحروف کا انٹرویو اسی روز شام کو میں نے شیخ محمد عبداللہ سے نمائندہ ”الفضل“ کی حیثیت سے ایک انٹر ویولیا.جسے اسی وقت قلمبند کر کے احتیاطا شیخ صاحب کو دکھا دیا گیا.اُنھوں نے ایک آدھ لفظی تبدیلی کی اور میری درخواست کے بغیر اس پر تصدیقی دستخط کر دیے.شیخ صاحب نے مجھ سے فرمایا:.”خدا کے فضل سے کشمیر میں تمام مسلمان چاہے وہ سنی ہوں یا شیعہ.احمدی 177

Page 174

ہوں یا حنفی.سب مل کر کام کر رہے ہیں سوائے چند خود پرست لوگوں کے جو محض نفسانی اغراض کی وجہ سے افتراق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی تعداد نہایت قلیل ہے.جموں وکشمیر کے مسلمان مذہبی دنگل میں نہیں کھیلنا چاہتے بلکہ فروعات کو ایک طرف رکھ کر قومی بہتری کے لیے متحدہ کوشش کر رہے ہیں.جب میں نے شیخ صاحب سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور احرار کے متعلق (انہیں اپنے خیالات ظاہر کرنے کے لیے ) کہا تو شیخ صاحب نے جوابا کہا:.احرار کے متعلق میرے خیال میں (جہاں تک عام پبلک کا تعلق ہے ) انہوں نے اہل کشمیر کی خاطر بہت قربانیاں کی ہیں.مگر ذمہ دار کارکنان کا طرز عمل میرے خیال میں صحیح نہیں رہا.اگر وہ ہمارے مشورہ سے کام کرتے تو زیادہ مفید ثابت ہوتے..آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے متعلق بیان کیا وو ہم کمیٹی کے از حد ممنون ہیں.جس نے مظلومین کشمیر کو ہر قسم کی امداد بہم پہنچائی.اس کے ممبروں کی ان تھک کوششوں نے مسلمانانِ کشمیر کو اپنے احسان سے ہمیشہ کے لیے زیر بار کر دیا خصوصیت کے ساتھ صدر محترم آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور سیکرٹری صاحب کا ہم نہ دل سے شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے باوجو در نگارنگ کی مشکلات کے اپنی کوششوں کو جاری رکھا.خدا وند کریم ان کو اجر عظیم دے اور آئندہ بھی ہم مظلوموں کی امداد کی تو فیق عطاء فرمائے“.178

Page 175

شیخ محمد عبد اللہ کا جوابی بیان راقم الحروف کے ساتھ شیخ محمد عبد اللہ کے انٹرویو کی تفصیل جب اخبارات میں شائع ہوئی تو اُسی روزانہ اخبار نے (جس کا اوپر ذکر آچکا ہے ) اس پر خامہ فرسائی کو ضروری سمجھا.اور ایک ادارتی نوٹ داغ دیا.شیخ صاحب نے اس کے متعلق ایک مدلل بیان اس اخبار کو بغرض اشاعت بھجوایا.جس میں لکھا کہ انہوں نے جو کچھ کہا تھا وہ بالکل درست ہے اور جو الزامات آپ کے اخبار نے لگائے ہیں وہ بے بنیاد ہیں اس بیان کو آپ نے اس طرح ختم کیا:.رہا یہ کہ کشمیرکمیٹی نے یہاں ہمیشہ اپنے ہم وطن بھیجے جو جماعت قادیان کی طرف منسوب تھے تو اس کے متعلق گذارش ہے کہ انہوں نے کبھی یہاں مذہبی معاملات میں دخل نہیں دیا.بلکہ اپنے فرائض منصبی ہی میں سرگرم رہے.نیز ان کے بھیجنے والے وہ اہل سنت حضرات تھے جن کی دیانت وامانت آپ کے ہاں بھی مسلم ہے اور مجھے تو یقین ہے کہ سیاسی تعاون میں آپ کے ہاں بھی عقیدہ کوئی شرط نہیں“.سمس کاشمیری محترم شمس کا شمیری نے اخبارات میں پراپیگنڈہ کا کام خوش اسلوبی سے جاری رکھا اور کشمیریوں کی تائید میں بیسیوں نوٹ لکھے.ریاست سے آنے والی رپورٹوں کی اشاعت کا کام بھی کرتے رہے.جس سے ہندوستان کے لوگوں کے دلوں میں کشمیریوں کی ہمدردی کا جذ بہ زندہ رہا.179

Page 176

علاقہ کھڑی کے لوگوں کی ہجرت علاقہ کھڑی کے ہزار ہا لوگ ڈوگرہ مظالم سے تنگ آکر اپنے گھر بار کو چھوڑ کر (سرکاری علاقہ جہلم میں پناہ گزیں ہو گئے تھے...جناب صدر نے سید زین العابدین ولی اللہ شاہ کو وہاں بھجوایا.اُن کی ان تھک اور متواتر مساعی کے نتیجہ میں ترک وطن کرنے والوں اور حکام کے درمیان ایک باعزت سمجھوتہ ہو گیا.جا گیر پونچھ اور ہجرت کرنے والے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے جا گیر پونچھ کے حالات بھی توجہ کے طالب تھے اور وہاں جو مظالم ہورہے تھے ان کی تحقیق اور انسداد ضروری تھا.محترم شاہ صاحب ہی کو پو نچھ بھی بھجوایا گیا.کمیٹی کے وکلاء پہلے سے وہاں کام کر رہے تھے.اور مقدمات کی پیروی احسن طریق پر ہورہی تھی.شاہ صاحب نے دورہ کر کے اس بہت بڑی جاگیر کے سیاسی حالات سے آگہی حاصل کی.اور پھر سری نگر پہنچ کر باشندگان کے مطالبات وزیر اعظم کے سامنے رکھ دیئے.180

Page 177

...چودھری صاحب کی قائداعظم سے ملاقات کے بعد قائداعظم نے فرمایا چودھری صاحب کی معلومات اسقدر وسیع ہیں کہ غیر ریاستی باشندہ ہونے کے باوجود ایک بھی ریاستی باشندہ مجھے ایسا نہیں ملا جو ریاست کے ہر حصہ کے حالات سے ان سے زیادہ باخبر ہو...نمائندہ سیاسی جماعت ابتدائی انسانی حقوق کے لیے جدو جہد کی کسوٹی پر پورا اتر نادریائے خون کو تیر کر پار اترنے کے مترادف تھا.مسلمانان کشمیر کو اس کی پاداش میں جبر وتشد داور ظلم وستم کے ہر امتحان میں سے گذرنا پڑا.اُن پر مشق بے دردی وسفا کی انتہا کر دی گئی.اُن پر جھوٹے مقدمات بنے کوڑے برسے ان سے جیلیں بھری گئیں.القصہ جو ظلم بھی ڈوگرہ حکومت سوچ سکتی تھی اُسے ان مظلوموں پر تو ڑ کر رہی.ان مظالم کا نتیجہ ریاست کے طول وعرض میں انفرادی بیداری کی صورت میں پیدا ہوا.کچھ چھوٹی چھوٹی جماعتیں اپنے حلقہ میں مفید کام کرنے لگیں مثلاً ریڈنگ روم پارٹی.انجمنہائے اسلامیہ کشمیر کوٹلی، میر پور ، جموں اور پونچھ ، ینگ مین مسلم ایسوسی ایشن ، جموں ، میر پور وغیر ہم یہ سب حصول آزادی کی خواہاں تھیں.لیکن اب کشمیر کے بعض نمائندوں میں اختلاف رونما ہو جانے 181

Page 178

کی وجہ سے یہ خطرہ پیدا ہو چکا تھا کہ اگر ریاست میں جلد کوئی ایک منظم اور مربوط سیاسی جماعت قائم نہ کی گئی ( جو حقیقی معنوں میں ساری ریاست کی نمائندہ جماعت ہو) تو کسی وقت بھی ریاست کے عمال نمائندوں میں پھوٹ ڈلوا کر انہیں کچلنے میں کامیاب ہوسکیں گے اور عوام کا ایثار، قربانیاں اور شہیدوں کا خون رائیگاں چلا جائے گا.مسلم پولیٹکل کا نفرنس کی تجویز چنانچہ جولائی ۳۲ ء کے پہلے ہفتہ میں جب شیخ محمد عبد اللہ لا ہور تشریف لائے تو کشمیر کمیٹی کے صدر محترم سے اس موضوع پر بھی سیر حاصل گفتگو کی.پوری سکیم مرتب کی گئی اور فیصلہ ہوا کہ دوماہ کے اندر اندر جملہ انتظامات مکمل کرنے کے بعد سری نگر کے مقام پر ایک آل جموں و کشمیر مسلم پولیٹکل کا نفرنس منعقد کی جائے جس میں ریاست کے ہر حصے اور ہر طبقے کے نمائندوں کو شامل کیا جائے.اور پھر اسی کا نفرنس کو مستقل جماعت کی شکل دے دی جائے.شیخ محمد عبد اللہ نے واپس سری نگر پہنچتے ہی اپنے ہم خیال لوگوں سے تبادلہ خیالات کیا.بیشتر نو جوانوں اور بزرگوں نے انہیں اس مہم میں ہر طرح تعاون کا یقین دلایا.آج ان لوگوں کے خیالات چاہے کچھ ہوں کم از کم اس وقت تو سب کے سب یک جان ہو کر کام کرنے لگے تھے.مولوی عبد اللہ وکیل، مولوی عبدالرحیم ایم.اے مفتی جلال الدین ایم.اے بخشی غلام محمد، خواجہ غلام نبی گلکار، مسٹر محمد یوسف ( علیگ) ، غلام قادر ڈکٹیٹر، مفتی ضیاء الدین ضیاء محمد یی رفیقی ، میر غلام محی الدین ، میر مقبول بہیقی ، اور پروفیسر مولوی محمد سعید ، یہ سب مل کر کام کر رہے تھے.اس کے بعد بیرونی علاقوں کی طرف توجہ کی گئی.شوپیاں کے علاقہ میں خواجہ عبدالرحمن ڈار اور ان کے بھائی عبدالعزیز ڈار اور مولوی بشیر احمد....اسلام آباد میں مرزا افضل بیگ ،مظفر آباد میں سید پیر حسام الدین اور میاں احمد یار گلگت میں خواجہ عبد الغنی پونچھ 182

Page 179

میں منشی دانشمند وکیل اور خواجہ غلام احمد بٹ کبھی کا نفرنس کو کامیاب کرنے کے لیے کوشاں تھے.ایک عظیم الشان جلسہ اسی سلسلہ میں اگست کے آخر میں سری نگر میں واگذار شدہ ”پتھر مسجد میں ایک عظیم الشان جلسہ بھی ہوا جس میں ساٹھ ہزار مسلمان جمع ہوئے.پیر سید حسام الدین رئیس مظفر آباد جلسہ کے صدر تھے.اس جلسہ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے دو معزز اراکین یعنی مولا ناعلم الدین سالک ( ایم.اے ) اور مولانا سید میرک شاہ نے بھی پُر جوش تقاریر کر کے اس امر پر زور دیا که سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے سب کو متحد ہو جانا چاہیے اور اس سلسلہ میں فرقہ دارانہ اختلاف کو کلیۂ نظر انداز کر دینا چاہیے.نیز مولانا یوسف شاہ صاحب میر واعظ کو بھی تحریک کی گئی کہ وہ بھی سب اختلافات کو دور کر کے اس معاملہ میں جمہور مسلمانوں سے تعاون کریں.اس جلسہ کے بعد سری نگر میں لگار تار جلسے ہوتے رہے جن سے رائے عامہ بڑی حد تک ہموار ہوگئی.ان جلسوں میں اکثر مولوی عبد اللہ وکیل ، مولوی عبد الرحیم ایم.اے مفتی ضیاءالدین ضیاء ، مولانا سید میرک شاہ تقاریر کرتے...سری نگر سے باہر شیخ محمد عبد اللہ نے خود بھی دورے شروع کر دیے تھے.جن میں مسلمانوں کو مشتر کہ اُمور میں ) متحد رہنے کی تلقین کی جاتی.قریباً تمام جلسوں میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا ذکر بڑے ہی شکر و سپاس کے ساتھ کیا جاتا.اور تشکر کی قراردادیں بھی منظور کی جاتیں کیونکہ صرف اور صرف یہ ایک ہی جماعت تھی جو ایک عرصہ سے لگا تار کشمیریوں کی امداد کر رہی تھی.جموں میں مشورے مجوزہ کانفرنس کے متعلق نمائندگان جموں سے صلاح و مشورہ بھی ضروری تھا.کیونکہ ان میں سے بعض خصوصاً سردار گو ہر رحمن کا خیال تھا کہ صوبہ جموں کی کانفرنس جموں میں علیحدہ 183

Page 180

قائم کی جائے.سردار صاحب کی دعوت پر شیخ محمد عبد اللہ خود جموں تشریف لے گئے.ان کے جموں پہنچتے ہی نمائندگان جموں کا اجلاس بلایا گیا.شیخ محمد عبداللہ بھی شریک اجلاس ہوئے.سردار گوہر رحمن ، چودھری غلام عباس ، ایم یعقوب علی ، شیخ غلام قادر سب نے اس اجلاس میں شرکت کی.مخالف و موافق آراء سن لینے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ آل کشمیر مسلم کانفرنس ہی کو کامیاب بنایا جائے.اور صوبائی کا نفرنس ہی کو کامیاب کر دیا جائے.وہاں سے آتے ہی انہوں نے نمائندگان کشمیر کا اجلاس کر کے تمام ارکان کو جموں والوں کے نقطہ نگاہ سے آگاہ کیا.جموں کے ایک نمائندہ شیخ عبدالحمید ایڈووکیٹ سرینگر میں تھے.وہ بھی اس اجلاس میں شریک ہوئے.اور کانفرنس کو شاندار طریق پر کامیاب بنانے کی تیاریاں پوری سرگرمی سے شروع ہو گئیں.پہلے ستمبر کے آخر میں کانفرنس کے انعقاد کا خیال تھا.لیکن بعد میں ( ہر حصہ ریاست کے نمائندوں مشورہ کے بعد ) اسے اکتوبر تک ملتوی کر دیا گیا.اختلاف دور کرنے کی کوشش کشمیر میں سب سے پہلی پولیٹکل کا نفرنس کو ہر لحاظ سے کامیاب کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اُس وقت جو لوگ اختلافات کی وجہ سے علیحدہ ہو گئے تھے.ان کو بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے.میر واعظ محمد یوسف شاہ اور شیخ محمد عبداللہ میں اختلافات کی خلیج وسیع ہوتی جارہی تھی.پبلک نے ہر دو کو اختلافات مٹانے کی تلقین کی لیکن میر واعظ صاحب نے اپنی شرکت کے لیے یہ شرط عائد کردی کہ تحریک کی روح رواں ) احمدی حضرات کو سیاسی جماعت سے باہر رکھا جائے.میر واعظ صاحب نے بڑا مشکل سوال اُٹھایا تھا.جو کسی وقت بھی اس ساری تحریک کو ڈبو سکتا تھا.لیکن شیخ محمد عبد اللہ کے حامیوں نے اپنی سیاسی فراست سے اس کا ایک ایساحل پیش کیا جو میر واعظ صاحب کے لیے بھی مصیبت کا باعث بن گیا یکم ستمبر ۳۲ ء کو پھر مسجد میں 184

Page 181

ایک جلسہ کا اعلان کیا گیا.اس اعلان میں کہا گیا کہ میر واعظ صاحب نے صلح کے لیے جو شرائط پیش کی ہیں ان کا اسی جلسہ میں اعلان کیا جائے گا.نصف لاکھ سے زائد لوگ جمع ہوگئے وہاں مولوی یوسف شاہ صاحب کی شرائط پیش کر کے لوگوں کو بتایا گیا کہ ہم کو اس وقت جو کچھ حاصل ہوا ہے اتفاق اور اتحاد کے نتیجہ ہی میں ہوا ہے.اگر آج احمد یوں کو علیحدہ کرنے کا مطالبہ ہوسکتا ہے تو کل شیعوں کو علیحدہ کرنے کا سوال کیوں نہیں اُٹھایا جائے گا.پھوٹ سے بچ گئے پھر ایک فاضل مقرر نے لوگوں سے مخاطب ہو کر پوچھا بھائیو! کیا آپ کو وہ وقت یاد ہے جب مولوی یوسف شاہ نے پہلے ہی دن انتخاب نمائندگان کے موقع پر خانقاہ معلی کے صحن میں یہ عہد کیا اور عہد لیا تھا کہ سب کلمہ گوسیاسی میدان میں متحد ہو جائیں اور عقائد اور فرقہ داری کے سوال کو ہمیشہ بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام مشتر کہ معاملات میں ہم آہنگ رہیں (سب طرف سے آوازیں آئیں ہمیں خوب یاد ہے) پھر پوچھا کہ بھائیو! اب یہ بتاؤ کیا مولوی یوسف شاہ اپنے عہد پر قائم ہیں یا شیخ عبداللہ (سب طرف سے آوازیں آئیں شیخ محمد عبداللہ ) اس جلسہ کا کانفرنس کے حق میں اتنا اثر ہوا کہ سری نگر کی تقریباً سب پبلک شیخ محمد عبداللہ کی موید ہوگئی.بلکہ جلسہ کے آخر پر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے شکریہ کی ایک قرارداد بھی منظور ہوئی.سید زین العابدین کی کشمیر میں آمد شیخ محمدعبداللہ کی درخواست پر صدر محترم آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے اپنے نمائندہ سید زین العابدین کو جولائی ۳۲ء میں ہی کشمیر بھجوا دیا تھا.محترم شاہ صاحب کشمیر کے ان دور دراز علاقوں میں بھی پہنچے جہاں وسائل رُسل و رسائل محدود یا مفقود تھے.انہوں نے جن دشوار گذار راستوں پر سفر کیا اس کا حال سن کر انسان حیران و ششدر رہ جاتا ہے.اگر یہ کہا جائے کہ شاہ 185

Page 182

صاحب ایسے ایسے دور دراز مقامات تک پہنچے جہاں آج تک کوئی کشمیری لیڈر بھی نہیں پہنچ سکا تھا تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا ان کا یہ چار ماہ کا تاریخی دورہ عوامی سیاسی بیداری کے نقطہ نظر سے اپنے اندر بہت افادیت رکھتا تھا.جو کشمیر مسلم کا نفرنس کی کامیابی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ثابت ہوا.شاہ صاحب محترم کے دورہ کے ضمن میں مجھے ایک واقعہ یاد آیا.محترم قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم و مغفور جب کشمیر تشریف لے گئے تو انہوں نے کشمیری لیڈروں سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں کسی ایسے شخص سے ملنا چاہتا ہوں جس نے سارے کشمیر کا دورہ کیا ہوتا کہ میں اُس سے ریاست کے ہر حصہ کے حالات دریافت کر سکوں.بڑی سوچ بچار کے بعد چودھری عبد الواحد ( مدیر اعلیٰ اخبار اصلاح سری نگر) کا نام پیش ہوا.چودھری عبد الواحد (مرحوم نے صدر محترم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ارشاد کے تحت ریاست کا کونہ کونہ چھان مارا تھا.ان کے سفر کے حالات سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.چودھری صاحب کی قائداعظم سے ملاقات ہوئی.جس کے اختتام پر قائد اعظم نے بہت خوشنودی اور حیرانی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ چودھری عبدالواحد کی معلومات اتنی وسیع ہیں کہ غیر ریاستی ہونے کے باوجود بھی کوئی ریاستی باشندہ مجھے ایسا نہیں ملا جوریاست کے ہر حصہ کے حالات سے اُن سے زیادہ باخبر ہو.لیڈروں سے پابندیاں دور ہوئیں کانفرنس کو کامیاب کرنے کے لیے ضروری تھا کہ جو لیڈرصو بہ کشمیر سے حکماً نکال دیئے گئے تھے.ان پر سے پابندیاں دور کروائی جائیں.چنانچہ سید زین العابدین نے مسٹر لاتھر انسپکٹر جنرل پولیس اور مسٹر کالون وزیر اعظم سے ملاقاتیں کر کے انہیں اس بات کے لیے آمادہ کر لیا پہلے مولا نا میرک شاہ اور میاں اللہ یار مظفر آبادی پر سے پابندیاں دور کی گئیں اور کچھ عرصہ کے بعد مفتی ضیاء الدین کو جو جموں میں نظر بند تھے کشمیر آنے کی اجازت دے دی گئی.چنانچہ ان سب نے آتے ہی کام شروع کر دیا.186

Page 183

کہتے ہیں دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے.مولا نامیرک شاہ پنجاب کے اخبارات میں مضامین بھجواتے ان پر ”صور اسرافیل‘ نام لکھتے.مولانا ظہور الحسن ناصر میر پوری اور مولوی محمد سعید "رجل " یسعی“ تھے.مسٹر عبدالمجید قرشی نے بھی کئی مضامین لکھے یہ سب صاحبان ۳۱ ء سے ہی اخبارات میں کچھ نہ کچھ لکھتے چلے آرہے تھے.اور قرشی صاحب نے تو مضامین لکھنے کا خمیازہ بھی ملازمت سے معطلی اور پھر جبری استعفاء کی صورت میں بھکت لیا.اور اس طرح قومی خدمت کے لیے سب سرکاری پابندیوں سے آزاد ہو گئے.وکلاء کی مساعی کشمیر کمیٹی کے بھجوائے ہوئے وکلاء بھی کشمیر کے لیڈروں سے کسی طرح کم ہر دلعزیز نہ تھے.چنانچہ مسلم کا نفرنس کی کامیابی میں شیخ بشیر احمد (ایڈووکیٹ).شیخ محمد احمد (ایڈووکیٹ ).میر محمد بخش ( وکیل ).چودھری اسد اللہ خاں ( بیرسٹر ).چودھری عزیز احمد ( وکیل ).چودھری عصمت اللہ (وکیل ) چودھری یوسف خاں (وکیل ) اور قاضی عبدالحمید (وکیل ) سبھی کا حصہ ہے.اسی طرح چودھری محمد عظیم باجوہ.مولوی ظہور الحسن، لیفٹینٹ محمد اسحاق نے بھی خوب سرگرمی سے کام کیا.یہ سب صاحبان کشمیر کے مختلف علاقوں میں کام کر رہے تھے.اور انھوں.نے اپنے اپنے علاقوں سے مسلم کانفرنس کے لیے نمائندگان تیار کئے.کیونکہ مسلم کانفرنس کے بانیوں کو اس وقت تک اتنے وسائل میسر نہ تھے کہ ہر جگہ کا دورہ کر سکتے.سید حبیب شاہ سری نگر میں روز نامہ ”انقلاب اور اس کے دونوں مدیران مولا نا عبدالمجید سالک اور مولانا غلام رسول مہر نے روز اول ہی سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا ساتھ دیا تھا.انہی کی طرح روز نامہ ”سیاست اور اس کے مدیر مولانا سید حبیب شاہ بھی ہر طرح سے مُمد رہے.انھیں آل انڈیا 187

Page 184

کشمیر کمیٹی کا رکن ہونے کی حیثیت سے کشمیر بھجوایا گیا.وہ وہاں کا نفرنس کو کامیاب بنانے کے لیے مفید کام کر رہے تھے.کہ "زمیندار" والوں کو بھی جوش آیا اور مولانا اختر علی سری نگر پہنچ گئے.انہوں نے پہنچتے ہی ایک طرف سید حبیب کے خلاف خوب زہرا گلا اور دوسری طرف اپنے آپ کو صلح کا پیغامبر ظاہر کر کے یہ پیش کش کی کہ وہ مسلمانوں میں صلح کرا سکتے ہیں.لیکن فریقین نے ان سے علی الاعلان بیزاری کا اظہار کیا اور پچھلے سال کی طرح اس سال بھی ان کا دورہ ناکام رہا.اختر علی نے کشمیر میں دو تین ماہ جیسے گزارے اس کا علم کشمیر کے لوگوں کو بھی ہوتا رہتا تھا.یہی باتیں ان کے خلاف نفرت بڑھانے کا موجب ہوئیں.پنجاب کے مسلم پریس کے حصہ کانفرنس کو کامیاب بنانے کے پنجاب کے مسلم پر یس نے بھی بڑے زور دار مضامین لکھے.مثلاً مؤثر اخبار الفضل“ نے لکھا:.اس کا نفرنس میں مسلمانوں کے جس قدر زیادہ نمائندے شامل ہوں گے.اسی قدر زیادہ فائدہ مرتب ہوگا.ایک طرف تو حکومت بآسانی یہ اندازہ لگا سکے گی کہ ہر حصہ اور ہر طبقہ کے مسلمان حقوق طلبی کے لیے کیسے صادقانہ جذبات رکھتے ہیں اور دوسری طرف وہ راہنما جن کے کندھوں پر ساری قوم کی راہنمائی کی نازک ذمہ داری عائد ہے انہیں مشورہ طلب اُمور میں اپنی قوم کے زیادہ سے زیادہ نمائندوں کی آراء سے آگا ہی ہو سکے گی اور آئندہ کے لیے بہترین لائحہ عمل تجویز کیا جاسکے گا.پس ضرورت ہے کہ ریاست کے ہر حصہ اور ہر علاقہ کے مسلمان نمائندے اس کا نفرنس میں شریک ہوں تکلیف اُٹھا کر شریک ہوں.اپنی غربت اور افلاس کے 188

Page 185

ہاتھوں تنگ ہونے کے باوجود شریک ہوں تا کہ کوئی متفقہ طریق کار تجویز کرسکیں.اور اپنے حقوق کی حفاظت اور اپنی عزت و آبرو کی بحالی کے لیے انہوں نے جو کام شروع کر رکھا ہے.اور جس کی خاطر تھوڑے عرصہ میں انہوں نے نہایت شاندار جانی اور مالی قربانیاں پیش کی ہیں وہ مکمل ہو سکے.“ ( الفضل ۲۵ ستمبر ۱۹۳۲ء) جموں میں مخالف عناصر کانفرنس کی تیاری کے دوران مختلف مراحل پر مشکلات بھی پیدا ہورہی تھیں.سری نگر اور جموں ہر دو جگہ تھوڑی بہت مخالفت بھی تھی.اس اثناء میں ۱۵ ستمبر ۳۲ء کو تالاب کھٹیکاں میں ایک جلسہ منعقد ہوا.اس جلسہ کی جو روئیداد پنجاب کے اخبارات میں شائع ہوئی.وہ سخت مغالطہ پیدا کرنے والی تھی.شیخ محمد عبد اللہ پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے حکومت ریاست کو لکھ کر یہ تجویز دے دی ہے کہ اگر ” گلاسی کمیشن کی رپورٹ کو عملی جامہ پہنا دیا جائے تو میں ایجی ٹیشن بند کر دوں گا.حالانکہ اس کا نفرنس کے انعقاد کی تو غرض ہی سراسر مختلف اور جدا گانہ تھی." چودھری غلام عباس صاحب کا بیان یہ الزام سراسر غلط اور بے بنیاد تھا.تا ہم جو غلط نہی پیدا کر دی گئی تھی اس کا ازالہ ضروری تھا.چودھری غلام عباس نے اخبار ” پاسبان جموں میں جو ایک محب وطن ایم معراج دین اور مولانا عبدالمجید قریشی کی کوششوں سے جموں میں جاری ہو چکا تھا اس بارے میں ایک مدلل اور مبسوط بیان شائع کرایا جس میں ان تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کر کے کانفرنس کو کامیاب بنانے کی پر زور تحریک کی تھی.چودھری صاحب نے اس بیان میں لکھا: 189

Page 186

کانفرنس میں ہر قسم کے سیاسی مسائل زیر بحث آئیں گے خصوصا «گلینسی کمیشن“ کی سفارشات کے حسن و قبح پر بحث ہوگی کہ ان کو کس حد تک قبول کیا جاسکتا ہے.اس کے علاوہ ہر وہ تجویز کا نفرنس میں پیش ہوگی جس کا مسلمانوں کی سیاسی و عمر آئی زندگی سے تعلق ہے.جس کا اعلان کا نفرنس کی مجلس استقبالیہ کر چکی ہے اور جس کی تصدیق شیخ عبدالحمید (وکیل ) رکن بورڈ جو اس مجلس میں (جس میں یہ باتیں سری نگر میں طے ہوئیں شامل تھے ) کرتے ہیں.اس لیے میں مسلمانانِ ریاست سے پر زور عرض کرونگا کہ وہ اپنے تمام مناقشات کو بالائے طاق رکھ کر آل کشمیر مسلم کانفرنس کو کامیاب بنائیں.( پاسبان جموں ستمبر ۳۲ء) شیخ محمد عبداللہ صاحب کا بیان نیز شیخ محمد عبد اللہ نے تمام اخبارات کو ۲۳ ستمبر ۳۲ کو یہ تار بھجوایا.جموں میں مسلمانوں کے ایک جلسہ کی جو روئیداد اخبار سیاست ۲۱ ستمبر ۳۲ء میں شائع ہوئی ہے.وہ بے بنیاد اور شبہات پر مبنی ہے اور میرے اور حکومت کے درمیان جیسا کہ گوہر رحمان صاحب نے بیان کیا ہے گلینسی رپورٹ کے متعلق کوئی سمجھو نہ نہیں ہوا.اور نہ ہی یہ صیح ہے کہ کانفرنس میں کلینسی رپورٹ پر بحث نہیں کی جائے گی.پیش ہونے والے مسائل کے متعلق ہر مسلمان کی طرح میں بھی اکثریت کے فیصلہ کا پابند ہوں.گوہر رحمن کا اپنے یا اپنے احباب کے شبہات کی تصدیق کئے بغیر ہی اسے پبلک میں لانا افسوس ناک ہے...ہندو مسلم فساد شیخ صاحب کے اس واضح بیان سے سب غلط فہمیوں کا ازالہ ہو گیا.لیکن کچھ مخالف 190

Page 187

عناصر اپنی اپنی جگہ پھر بھی مصروف کار رہے اور عین اس وقت جب کہ کانفرنس کے انعقاد کی تیاریاں بڑے زوروں پر تھیں ایک افسوس ناک ہندومسلم فساد ہو گیا.ہوا یہ کہ سری نگر میں سرکاری طور پر ”ہفتہ صحت منایا جانا تھا.جب یہ ہفتہ شروع ہوا مسلمان پوری تن دہی سے حکومت سے تعاون کرنے لگے.اور گلی کوچوں اور بازاروں اور شاہراہوں کو صاف ستھرا بنادیا آخری روز ایک عظیم الشان جلوس نکل رہا تھا.جلوس میں ( بہت بڑی ) اکثریت مسلمانوں ہی کی تھی.جب جلوس ہبہ کدل میں سے گزرنے لگا جہاں کشمیری پنڈتوں کی بھاری اکثریت ہے تو ہندؤں نے دکانوں اور مکانوں پر سے پتھراؤ شروع کر دیا.بوتلیں پھینکی گئیں.جلوس میں شامل بعض مسلمانوں کو پیٹا گیا.بہت سے مسلمان بری طرح زخمی ہوئے حکومت کی طرف سے پہلے دفعہ ۱۴۴ نافد کی گئی پھر کر فیولگا دیا گیا.اور سارے شہر پر فوج کا قبضہ ہو گیا.لیکن ہندو پولیس اور ہند وملٹری نے مسلمانوں ہی کو آلام کا نشانہ بنانے کی کوشش کی.اس ساری کاروائی کا مقصد آل کشمیر مسلم کانفرنس“ کے قیام والے اجلاس کے انعقاد کو روکنے کے سوا اور کچھ نہ ہوسکتا تھا.مسلمانانِ کشمیر نے اس موقع پر انتہائی تحمل و بر باری اور سوجھ بوجھ سے کام لیا.جس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی نکلا.تین چار دن کی متواتر کوشش سے حالات سدھر گئے.کشمیری پنڈتوں نے پنڈت جیالال کلم کی سرکردگی میں ایک بہت بڑا جلوس نکالا اور مسجد اہل حدیث کے پاس آکر رک گئے جہاں مسلمان پہلے سے جمع تھے.شیخ محمد عبد اللہ بھی وہاں موجود تھے.شیخ صاحب نے مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ یہ لوگ آپ سے معافی مانگنے آئے ہیں ان کے ساتھ آپ وہی سلوک کریں جو آپ کے آقا حضرت محمد مصطفے ( ع ) نے کیا تھا.یعنی انہیں معاف کر دیں.پنڈت جیالال کلم نے انتہائی لجاجت سے معافی مانگی.جس پر سب نے مل کر ہندو 191

Page 188

مسلم اتحاد زندہ باد کے نعرے لگائے اور یہ قضیہ نا مرضیہ مسلمانوں کی اخلاقی فتح “ پر ختم ہو گیا.اموال اور کارکنان سے امداد شیخ محمد عبداللہ نے صدر کشمیر کمیٹی سے درخواست کی کہ کشمیر کے مسلمانوں کا اتنا بڑا اور نمائندہ اجتماع اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا.ہمیں زیادہ تجربہ بھی نہیں اس لیے آپ مولانا عبد الرحیم درد (سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی ) کو سری نگر بھجوادیں تا کہ وہ جملہ انتظامات کی نگرانی کریں.اور ہمیں اپنے مفید مشوروں سے بھی نوازتے رہیں.ان کی درخواست کو منظور فرماتے ہوئے محترم صدر نے نہ صرف ہر طرح کی مدد کرنے کا وعدہ فرمایا بلکہ امداد بھجوادی.اور بھاری مالی امداد کے علاوہ ایک بڑی کا رخرید کر شیخ محمد عبد اللہ کو بھجوا دی گئی تاکہ وہ کارکنان کے ساتھ بآسانی ریاست کا دورہ کر سکیں.مولانا در دصاحب پھر کشمیر میں مولا نا عبد الرحیم درد کو کانفرنس سے کئی روز پہلے سری نگر بھجوایا گیا تھا.ان کے ہمراہ کشمیر کمیٹی کے رکن مولوی اسمعیل غزنوی اور راقم الحروف بھی تھے.ہم چند روز نسیم باغ میں رہے.اس کے بعد اپنی گذشتہ سال والی جگہ ” آبی گذر پر ہاؤس بوٹ لے آئے.عملاً یہی ہاؤس بوٹ مسلم کانفرنس کا دفتر بھی تھا جہاں رات دن کام ہوتا اور خوب گہما گہمی رہتی تھی.مولا نادرد کی ہدایت کے ماتحت میں نے مسلم کا نفرنس کے دفتر کی تنظیم کی آمد کے لیے رسید بک ، روز نامچہ، کھانہ اور تمام رجسٹر ( آمد ڈاک) روانگی ڈاک ، رجسٹر سائر اخراجات ، قبض الوصول ،رجسٹر جائداد منقولہ) غرض ہر قسم کے رجسٹروں کے فارم نہ صرف تجویز کئے بلکہ بنا کر دیے.تا کہ دوسری بعض تنظیموں میں صحیح دفتری ضابطہ کی پابندی نہ کرنے سے جو خرابیاں پیدا ہوکر سر 192

Page 189

پھٹول پر نوبت آجاتی ہے.اس کا کوئی احتمال باقی نہ رہے.193

Page 190

میں مہاراجہ جموں و کشمیر کو مشورہ دیتا ہوں کہ جس طرح ان کے چھوٹے بھائی نے نیک نفسی اور صاف دلی کا ثبوت دیتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق و مطالبات کو تسلیم اور منظور کر لیا ہے اور وہ بھی اسی راہ پر چل کر لاکھوں مظلوموں کی دعائیں لیں“ جموں و کشمیر کانفرنس کا انعقاد متذکرہ کانفرنس کے انعقاد کے لیے ۱۵ تا ۱۷ را کتوبر۱۹۳۲ء کی تاریخیں مقرر ہوئی تھیں.لیکن بعد میں کام کی زیادتی کے باعث معیاد انعقاد میں دودن کا اضافہ کردیا گیا کا نفرنس کے لیے پتھر مسجد کا وسیع و عریض صحن تجویز ہوا.مسجد کے صحن کی جنوبی دیوار کے ساتھ ایک بہت بڑی سٹیج ( جو زمین سے پندرہ فٹ اونچی تھی ) تیار کی گئی.اس سٹیج پر دوصد نمائندگان اور ایک صدر معزز زائرین اور نمائندگان پریس کے بیٹھنے کا انتظام تھا.لاؤڈ سپیکر کا تسلی بخش انتظام تھا.زائرین کے بیٹھنے کے لیے پتھر مسجد کے صحن کے علاوہ وہ میدان بھی تھا.جہاں بعد میں نیشنل کانفرنس کے دفاتر کی عمارت تعمیر ہوئی.رضا کاروں کے کیمپ بھی اسی میدان میں تھے نمائندگان کی رہائش و خوراک کا عمدہ اور تسلی بخش انتظام تھا.ان سب کے لیے ہاؤس بوٹ بھی اسی جگہ عارضی طور پر لگا دیئے گئے تھے.سب انتظامات ایسی عمدگی سے ہوئے کہ ریاست کے حکام ششدر رہ گئے کہ نا تجربہ کارلوگوں نے کیسا کرشمہ کر دکھایا ہے.194

Page 191

خطبہ صدارت ۱۵ اکتوبر کی شام کو کانفرنس کا افتتاح ہوا.خواجہ غلام احمد عشائی ایم.اے نے مجلس استقبالیہ کی طرف سے خطبہ پڑھا.جس میں مسلم کانفرنس کی اہمیت کو واضح کیا گیا.اس کے بعد شیخ محمد عبد اللہ نے خطبہ صدارت پڑھا جس میں تمام ضروری امور کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ تحریک ہرگز فرقہ ورانہ نہیں ہے.مسلمان مہاراجہ اور ریاست کے وفادار ہیں ھمینسی کمیشن کے اچھے نکات کی تعریف کی گئی.لیکن ساتھ ہی اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ کمیشن کی سفارشات پر پورے طور پر عمل نہیں ہورہا.علاقہ میر پور میں آرڈیننسوں کی واپسی پر لیس اور پلیٹ فارم کی آزادی کا مطالبہ کیا گیا.مجوزہ اسمبلی کی ہیئت ترکیبی پر تنقید اور پونچھ کے لوگوں کو جائز حقوق دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا.غرض اس خطبہ میں تمام پیش آمدہ حالات کا ذکر موجود تھا.سب کمیٹیاں مختلف امور پر غور کرنے اور قرار دادوں کی ترتیب کے لیے تین سب کمیٹیاں مقرر کی گئیں.سات ارکان کی ایک کمیٹی نے گلینسی کمیشن کی آئینی سفارشات پر غور اور مسلم کا نفرنس کا دستور مرتب کرنا تھا.اکیس ارکان کی دوسری سب کمیٹی کو گلینسی رپورٹ پر باشندگان کشمیر کی شکایات کی روشنی میں سوچ بچار کرنا تھا.تیسری کمیٹی (جو بائیس ارکان پر مشتمل تھی ) دیگر متفرق تجاویز پر غور کرنے کے لیے مقرر کی گئی تھی.صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا پیغام کمیٹیاں متواتر تین دن رات کام کرتی رہیں.۱۸ را کتوبر کو رات کے وقت اجلاس عام ہوا.شیخ محمد عبد اللہ نے محترم صدر ( آل انڈیا کشمیر کمیٹی ) صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد 195

Page 192

صاحب کا حسب ذیل پیغام جو کا نفرنس کے شروع ہونے سے ایک دن پہلے بذریعہ تار موصول ہوا تھا.پڑھ کر سنایا: وو سب سے پہلے میں اپنی طرف سے اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے ”آل کشمیر مسلم کانفرنس“ کے مندوبین کو ان قربانیوں پر (جوانہوں نے اور ان کے اہل وطن نے کی ہیں اور اس کامیابی پر جو انہوں نے آزادی کی تازہ جدوجہد میں حاصل کی ہیں ) مبارک باد دیتا ہوں.مجھے اس بات کا فخر ہے کہ بحیثیت صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی مجھے ان کے ملک کی خدمت کرنے کی خوشی حاصل ہوئی ہے.جو ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک خستہ حالت میں رہا ہے.برادران ! میں آپ کی کامیابی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ کانفرنس کی کاروائی میں سچی حب الوطنی کے ما تحت جرأت ، میانه روی ، رواداری ، تشکر، دانائی اور تدبر کے ذریعہ آپ ایسے نتائج پر پہنچیں گے جو آپ کے ملک کی ترقی میں بہت مہد ہوں گے اور اسلام کی شان کو دوبالا کرنے والے ہوں گے.برادران! میرا آپ کے لیے یہی پیغام ہے کہ جب تک انسان اپنی قوم کے مفاد کے لیے ذاتیات کو فنا نہ کر دے وہ کوئی کامیاب خدمت نہیں کر سکتا.بلکہ نفاق اور انشقاق پیدا کرتا ہے.پس اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو نفسانی خیالات کو ہمیشہ کے لیے ترک کر دیں اور اپنے قلوب کو صاف کر کے قطعی طور پر فیصلہ کرلیں کہ خالق ہدایت کے ماتحت آپ ہر چیز اپنے اس مقصد کے لیے قربان کر دیں گے جو آپ نے اپنے لیے مقرر 196

Page 193

کیا ہے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم (یعنی مسلمانانِ ہندوستان ) آپ کے مقصد کے لیے ( جو کچھ ہماری طاقت میں ہے ) سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں.اور خدا کے فضل سے آپ ضرور کامیاب ہوں گے.اور اپنی توقعات سے بڑھ کر کامیاب ہوں گے.اور آپ کا ملک موجود ہ مصیبت سے نجات حاصل کر کے کل پھر جنت نشاں بن جائے گا.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو......عہدیدران کا انتخاب کا نفرنس میں دس قرار داد میں جو تمام پیش آمدہ امور پر حاوی تھیں متفقہ طور پر منظور کی گئیں اسی طرح مسلم کا نفرنس کا دستور بھی منظور کر لیا گیا.اور یہ عہدہ دار منتخب ہوئے.صدر شیخ محمد عبدالله نائب صدر : شیخ عبدالحمید ایڈووکیٹ جنرل سیکرٹری چودھری غلام عباس سیکرٹری: مولوی عبدالرحیم وکیل میاں احمدیار مسٹر عبدالحکیم مسٹر غلام احمد صدر کی اختتامی تقریر پر جس میں اتحاد و اتفاق پر زور دیا گیا تھا.پانچ روز کی کاروائی کے بعد مسلم کا نفرنس کا پہلا اجلاس بخیر وخوبی اختتام پذیر ہوا.197

Page 194

ایک غیر معمولی واقعہ ۱۸ /۱ اکتوبر کو رات کے عام اجلاس میں ایک ایسا غیر معمولی واقعہ پیش آیا.جو تاریخ آزادی کشمیر کا ایک سنہری ورق ہے.فیصلہ یہ ہوا تھا کہ کانفرنس میں کوئی غیر ریاستی کسی قسم کی تقریر نہیں کرے گا.اس فیصلہ کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ بعض شر پسندوں عناصر کی یہ خواہش اور کوشش تھی کہ پنجاب کے بعض مسلم لیڈروں کی (جو ریاست کے نمک خوار تھے ) تقاریر کروائی جائیں.شیخ محمد عبد اللہ اور ان کے ساتھیوں نے اس خطرہ کو بھانپ لیا اور ایسا لائحہ عمل مرتب کیا جس سے ان لوگوں کو سخت مایوسی ہوئی اور ان کی سکیم نا کام ہو گئی.۱۸ راکتو بر کی رات کو کانفرنس کا اجلاس عام شروع تھا.مولا نا عبد الرحیم درد اور راقم الحروف اپنے ہاؤس بوٹ میں ہی بیٹھے (جو پنڈال کے سامنے تھا ) کاروائی سن رہے تھے.یکدم صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی زندہ باد سید زین العابدین زندہ باد اور اللہ اکبر کے نعرے بلند ہونے شروع ہو گئے اور پہلی تقریر درمیان ہی میں رک گئی.میں بھاگا بھا پھر مسجد میں سٹیج پر چلا گیا دیکھا کہ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ نے بڑے جوش سے تقریر شروع کر رکھی ہے.اور اعلان کر رہے ہیں کہ میں آپ لوگوں کو خوشخبری دیتا ہوں کہ راجہ صاحب پونچھ نے مسلمانوں کے اکثر مطالبات منظور کر لیے ہیں محترم شاہ صاحب نے پونچھ کے ہر حصہ کا دورہ کرنے اور اہالی پونچھ سے مشورہ کے بعد مطالبات مرتب کئے تھے.اور پچھلے تین دن میں روزانہ چھ چھ گھنٹے راجہ صاحب سے اس بارہ میں تبادلہ خیالات ہوتا رہا.جس کے آخر پر راجہ صاحب پونچھ نے ان میں سے اکثر کی منظوری دے دی اور شاہ صاحب ہی کو اختیار دیا کہ راجہ صاحب کے دستخطوں سے جو فرمان جاری ہوا ہے اور جس کی ایک نقل شاہ صاحب کو بحیثیت 198

Page 195

نمائندہ کشمیر کمیٹی اس وقت دی گئی تھی اس کا اعلان کر دیں.شاہ صاحب نے اپنی تقریر کے آخر میں کہا کہ د میں مہاراجہ جموں و کشمیر کو مشورہ دیتا ہوں کہ جس طرح ان کے چھوٹے بھائی نے نیک نفسی اور صاف دلی کا ثبوت دیتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق و مطالبات کو تسلیم اور منظور کر لیا ہے.وہ بھی اسی راہ پر چل کر لاکھوں مظلوموں کی دعائیں لیں.“ مُسرت کا اظہار سارا پنڈال تالیوں سے گونج اُٹھا.شاہ صاحب پر پھول برسائے گئے.”مرزا بشیر الدین محمود احمد زندہ باد اور زین العابدین زندہ باد کے نعرے لگائے گئے.لوگ خوشی سے اچھل رہے تھے.پونچھ کے نمائندہ نے محترم شاہ صاحب اور خصوصا صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا شکریہ ادا کیا اور سارے مجمع نے ان کی تائید کی.شیخ محمد عبد اللہ قادیان میں کانفرنس کے اختتام کے بعد ہم قریباً نصف ماہ سری نگر میں رہے.یہ عرصہ کانفرنس کے دفتر کی تنظیم اور پاس شدہ قرار دادوں کو عملی جامہ پہنانے میں گزرا.جس کے بعد مولا نا عبدالرحیم درد، سید زین العابدین اور راقم الحروف پنجاب واپس آگئے.شیخ محمد عبداللہ صاحب بھی ہمارے ہمراہ پنجاب تشریف لائے.ان کے مددگار کے طور پر مسٹر غلام قادر ڈکٹیٹر ( سوم ) ساتھ آئے تھے.ہم سب سے نومبر ۳۲، کو قادیان پہنچے.شیخ صاحب نے تمام حالات صدر محترم کے سامنے پیش کئے اور چند روز قیام کے بعد واپس تشریف لے گئے.اس قیام میں ایک روز ہم سب شیخ صاحب کو صدر محترم کے ملکیتی 199

Page 196

گاؤں راجپورہ میں جو عین دریائے بیاس پر واقع ہے لے گئے.اور وہاں سارا دن گزارا مقصد یہ تھا کہ شیخ صاحب کو پنجاب کی دیہاتی زندگی سے بھی روشناس کرایا جائے.دسمبر ۳۲ء کے آخری ہفتہ میں سری نگر سے خواجہ غلام احمد عشائی ایم.اے محترم مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی ملاقات کی غرض سے قادیان آئے اور چند روز قیام کرنے کے بعد شروع جنوری ۳۳ء میں واپس چلے گئے اس قیام میں عشائی صاحب نے پیش آمدہ تمام امور کے متعلق مشورے کئے.200

Page 197

وو کشمیر کے بلکتے ہوئے بچوں اور مجروح ومضروب عورتوں کی نظریں پھر سے پنجاب کی طرف لگ رہی ہیں.کہ اس جانب سے رحمت الہی کی گھٹائیں اُٹھیں گی.کیا وہ معصوم اور مظلوم نگاہیں ناکام لوٹیں گی ؟ والتميير زكور کشمیر کی جنگ آزادی کے دوران میں اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس ہوئی تھی کہ مختلف نوعیت کے کاموں کی انجام دہی کے لیے ایک تنظیم والنٹیئر زکور ہو.نو جوانوں کو جسمانی اور ذہنی تربیت دی جائے.ان میں اطاعت امیر کا جذبہ پیدا کیا جائے.وہ کسی کام کے کرنے میں عار نہ محسوس کریں.تیرا کی گھوڑے کی سواری.میلوں پیدل چلنا.اپنے ہاتھ سے اپنا کھانا تیار کر لینا.(ان سب کاموں کی ) اُن کو مشق کرائی جائے.کیپٹن مرزا شریف احمد صاحب چنانچہ یہ مشکل کام کیپٹن مرزا شریف احمد صاحب ( جوان فنون کے ماہر تھے ) کے سپرد کیا گیا.انھوں نے نہایت قلیل عرصہ میں ایک بہت بڑی والنٹیئر زکور قائم کر دی.ان کی شخصیت میں بڑی جاذبیت تھی.نوجوان خود بخود اُن کی طرف کھیچے آتے تھے اور سخت محنت کے کام بخوشی سرانجام دیتے تھے.مولانا ظہورالحسن جنید ہاشمی.مولوی عبدالاحد محمد شریف امرتسر ی.چودھری عبدالواحد ( مدیر اعلیٰ اصلاح) اسی طرح اور بیسیوں نوجوان جنھوں نے اُن دنوں کشمیر میں قابل تعریف کام کیا.اسی کور کے تربیت یافتہ تھے.اور ایسے والنٹیئر وں میں سے نہ 201

Page 198

تھے جواشتعال دلانے پر تو قانون شکنی بھی کر لیں.لیکن ایک سگریٹ کی خاطر معافی مانگ کر گھر واپس لوٹ آئیں.کور کے ان نوجوانوں کو فاقہ کشی کی مشق کرائی گئی.کئی دن تک چنے کی تھوڑی سی مقدار پر گزارہ کرنے کی عادت ڈالی گئی.سردی گرمی اور بارش سے بچنے کے لیے عارضی خیمہ بنالینے کی تربیت بھی دی گئی.اور یہ سب مہارتیں اور مشقیں ان کی آئندہ زندگی میں کام آئیں.قومی اور ملی کاموں کے لیے بچے خدام کی ایک جماعت بن گئی.( راقم الحروف کو بھی یہ ٹریننگ حاصل کرنے کا موقع ملا ہے جسے اُس نے اپنی ساری زندگی میں مفید پایا.6-1) وکلاء کی قابل رشک خدمات کشمیر میں کام کرنے والے وکلاء نے جس اخلاص اور قربانی کا نمونہ پیش کیا ہے.مسلمانوں میں اس کی کوئی اور مثال پیش نہیں کی جاسکتی.ان میں سے سب کے سب اعلیٰ پایہ کے قانون دان تھے.اور اپنی کامیاب پریکٹس چھوڑ کر ایک پائی بطور فیس وصول کئے بغیر ) مہینوں سے غریب الوطنی اور بے سروسامانی کی حالت میں نہایت محنت اخلاص اور دیانت سے کام کئے جارہے تھے.ان مخلصین نے ۳۱ ء کے آخر میں کام شروع کیا تھا.وسط ۳۳ ء تک ان کے مخلص وجود مظلومین کشمیر کے جس جس طرح کام آئے اس کا ایک اچٹتا سا اندازہ مندرجہ ذیل تفاصیل سے لگ سکتا ہے.گو کام بعد میں بھی جاری رہا.جس کے صلہ میں متعد داسیروں کو رہائی نصیب ہوئی.میر پور میں شیخ بشیر احمد ایڈووکیٹ.چودھری یوسف خاں (وکیل ) اور چودھری 202

Page 199

S.M.Abdullah, SRINAGAR 22 cit السلام علیکم داشته اند برگاه امامه جناب شرم میان گلاب و مراقبات نہ میری زبان میں کارت ھے.اورنہ میرا تم میں زور اور نہ میرے پاس ا ا ا اور میں بیعت کر حمام کار دارم که جناب محمد یک باکس اور نظرم قوم کی بہتری کیلئے کیا ھے صرف ڈرانے اویزاں سے ہیں ما ار بلکتا ہے.میری باجر ابو دی ہے کہ انور علی کریم اکباب کو زیادہ زیادہ طاقت ہے یا کہ آنتوسی بود بے کسوں کیلئے سہارا ہے.شاید بناب تاجر نے کرائی ہیں.دین نے جناب دا نظارات گرانا اور آپ دینے میں شاہی سے کام لینا.ین کانتا ہوں.وہ یقیناً یہ مربع کتانی ہے.اگر خدا کو حاضر با نگر میں جناب سیلے ارین میں ہو تا ہوں اور امری کرنا گوران پر ٹی بیوی نے مجھے مجبور کر کیا تھا.ایک طرف پیوسوتاہ اور اس کی پائی.ایک طرف پنڈ دن اور سلمانوں کی افسر سناک ختار - حال پریشانی اپنوں سے بیگانگی کانون کی پیاری دوبارہ روزہ ان سب باتوں نے مجھے پیرانیان گور کا تھا.ار کی شہادت جناب تو پاس سید زین العابد این قالب دے سکتے ہیں.ان حالات کے ہوتے ہوئے تجھے کامل یقین ہے که جناب مجھے معاف دانا کیے اور بزرگان اور گوری ان صفات کو مدنظر رکھتےمجھے یقین کر لینا چاہئے کہ باب کے تالی بخش جوابی با صرف میری برای نیوان کو جلد از جلد و جمع کردینگا کا مرت بالکل ٹھیک کی ہیں.جناب در رقاب اور شام اب ویران تمام میں مصروف ہیں.جو لوگ تو می نام میں مال ہونا چاہتے ہیں.اور میاں نے انھیں کافی انفرادی ہے.اناشید در روایت سے موٹر کا ہو ہی میں وصول ہو گیا ہے بت بیش کاتونی بیرونی یا ختم ہوگی.بجائے نہیں دان کا ممنون برابر این زن م الہی اور برای شمالی سر استور اساسی نا برا وقت دیا سائرز اور گو مرد ان کی پارٹی کام میں حمل ہونا چاہتی تھی.مگر ناکام رہی الاجات تزی آٹھ ہزار آئے ہیں.پین کل پر ڈیڑھ ہزار روپیہ خرچہ آیا.اور پیس کر بجلی وغیرہ کا اچھا انتظام کا مختلف الدرامت سے رضا کار آئے ہوئے تھے.فرودگاہ کا انتظا بہت اچھا تھا.اعوض جناب کی دنیا سے کانوان جنایت کیا ہے رہی.فضول کاموراتی کباب در جالب نے آنحضور کو مسجدی ہوگی.کیا بھی چال ہے.بجانب آنے تھے.رائی اور طرف قدم بوسی عامل کو رنگی - اداری خیال کن چند اورار غلط پر ویکینیڈا کر رہے ہیں.کم میں کو کشور کمیں ہاتھ کھر میں که نیکی کا کھیل بنا ہوا ہوں.کبھی کہتے ہیں.میرا عقیدہ بھی بدل گیا ہے.گر دنیا و ترکریم بہتر جانتا ہے.میں کون ہوں اور کیا ہوں.اسلئے ہمیشہ انکو زمیں ہونا پڑتا ہے.مجھے امیر ج- لاجناب کی دعائیں بھیشہ برے شامل حال ہونگی.آج مجھے رہنا بچہ سکھتے ہوئے بھی حاصل رہنا ہے.کبھی کبھی جیبوں کی وجہ سے بنا ہے گستاخی کا بھر رکھیں ہیں.اور پھر مکان بی طالب کردن مسیر را برای رضا کا ارشاد گرگان جبوری میں میری شادی کرونگا.بمباری بی ام و این کتاب اسی کی طرف سے مرا با روان باشم.جناب نانی کورا 203

Page 200

204

Page 201

عصمت اللہ ( وکیل ) مئی ۳۲ ء سے مقدمات کی پیروی کرتے چلے آئے تھے.۲۸ مقدمات میں ۸۷۰ مسلمان ماخوذ تھے.ان وکلاء کی مساعی جمیلہ کے نتیجہ میں ۵۶۰ بری ہو گئے.اور صرف ۶۲ کو خفیف سزا یا معمولی جرمانہ کر کے چھوڑ دیا گیا.حالانکہ ان کے خلاف قتل.ڈکیتی اور آتش زدگی ایسے سنگین مقدمات چلائے گئے تھے.میر پور میں ایک کیس میں نچلی عدالتوں میں ملزموں کو سزا ہو چکی تھی.ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی.ملک محمد حسین بیرسٹر ( جو نیروبی مشرقی افریقہ کے مشہور وکیل تھے ) دوماہ کے لیے ہندوستان آئے تھے.انھوں نے اپنی خدمات محترم صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سپرد کر دیں.اس کیس میں انھیں بحث کے لیے بھجوایا گیا.اپیل منظور ہوگئی.اور ملزم بری ہوئے.سری نگر میں شیخ محمد احمد ایڈووکیٹ سات ماہ تک شیخ بشیر احمد ایڈووکیٹ چھ ماہ تک اور چودھری یوسف خاں (وکیل) تین ماہ تک مقدمات کی پیروی کرتے رہے.۲۸ مقدمات تھے جن میں ۱۴۳ مسلمانوں ماخوذ تھے ان میں سے گیارہ کو پانچ پانچ روپے اور ایک کو ایک روپیہ جرمانہ ہوا.۱۸ کو خفیف سزائیں ہوئیں باقی سب رہا اور بری کر دیے گئے.پونچھ میں چودھری عزیز احمد وکیل پانچ ماہ تک اور قاضی عبدالحمید وکیل چار ماہ کام کرتے رہے.تمام مقدمات میں ۷۴ مسلمان ماخوذ تھے.جو سب کے سب بری کر دیے گئے جموں میں میر محمد بخش چھ ماہ تک کام کرتے رہے.۱۴ مقدمات تھے.۳۱ ملزم تھے.بیس بالکل بری ہوئے.جموں میں ہائی کورٹ میں جوا پہلیں ہوئیں ان میں شیخ بشیر احمد پیش ہوتے تھے اور بعض اوقات چودھری اسد اللہ خاں بیرسٹر بھی مختلف اوقات میں آکر پیش ہوتے رہے راجوری میں قاضی عبدالحمید وکیل تین ماہ کام کرتے رہے.۲۵ ملزم تھے ان میں سے 205

Page 202

ایک کو بھی کوئی سزا نہ ہوئی.نوشہرہ میں چار مقدمات بینچ کے سامنے پیش تھے.۹۲ ملزم تھے میر محمد بخش وکیل نے تین ماہ کام کیا اور مقدمات کے ۶۴ میں سے ۴۵ بری ہوئے.باقیوں کو خفیف سزا جرمانہ وغیرہ ہوا.بقیہ مقدمات میں بھی ملزم بری ہوئے.ان سب وکلاء کے اخراجات سفر و خوراک کا انتظام آل انڈیا کشمیر کمیٹی کرتی تھی.کمیٹی تو مقروض تھی تاہم روپیہ کا انتظام محترم صدر صاحب کے ذمہ تھا.مولانا جلال الدین شمس جو کمیٹی کے ممبر اور اسٹنٹ سیکرٹری تھے اور جن کے سپر د وکلاء سے رابطہ رکھنے کا فریضہ تھا.بہ طریق احسن اپنے فرض منصبی کو انجام دیتے رہے.ہر مقدمہ میں جب مظلوم کال کوٹھڑیوں سے باہر نکلتے تو پہلا کام صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو مبارک باد اور شکریہ کا تار ارسال کرنے کا کرتے.سری نگر میں ۱۳ ستمبر ۳۲ ء کو ایک عظیم الشان جلسہ زیر صدارت مولاناسید حبیب ایڈیٹر سیاست منعقد ہوا.جس کی غرض شیخ بشیر احمد ایڈووکیٹ اور شیخ محمد احمد ایڈووکیٹ کی خدمات کو سراہنا اور صدر محترم کا (جنھوں نے انھیں بھجوایا تھا) شکریہ ادا کرنا تھا.شیخ محمد عبد اللہ.عبدالرحیم ایم.اے.مولوی عبد اللہ وکیل اور مفتی جلال الدین نے تقریریں کیں.اور شکریہ کے ریزولیوشن متفقہ طور پر منظور ہوئے.سید زین العابدین ولی اللہ شاہ سے بھی درخواست کی گئی کہ وہ عظیم مجمع کو مخاطب کریں.جس پر آپ نے ایک ولولہ انگیز تقریر کی.مولا نا درد کی خدمات مولا نا عبدالرحیم دردایم.اے (سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی ) قریب دو سال تک نہایت شاندار خدمات سرانجام دینے کے بعد ۲ فروری ۱۳۳ء کو انگلستان تشریف لے گئے یکم فروری کو لاہور ( سیل ہوٹل ) میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا ایک فوری اجلاس محترم صدر میرزا 206

Page 203

بشیر الدین محمود احمد صاحب کی صدارت میں ہوا.اس اجلاس میں سید محسن شاہ ایڈووکیٹ لاہور.ملک برکت علی ایڈووکیٹ لاہور.پروفیسرمحمد علم الدین سالک.مولانا اسمعیل غزنوی.مولانا غلام رسول مہر.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ.شیخ نیاز علی ایڈووکیٹ.سید زین العابدین.خان بہادر سید مقبول شاہ.مولانا جلال الدین شمس اور ڈاکٹر محمد عبد الحق شریک ہوئے.مولانا مہر کو عارضی طور پر قائم مقام سیکرٹری مقرر کیا گیا.اور پہلے سیکرٹری کے متعلق یہ قرارداد منظور ہوئی.کشمیر کمیٹی کا یا جلاس مولانا عبدالرحیم در دایم.اے سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بے غرضانہ خدمات اور ان کی انتھک کوششوں کا شکر یہ ادا کرتا ہے اور ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے.اللہ تعالیٰ ان خدمات کا اجر وو عظیم عطا کرے...66 اس اجلاس میں اور بھی نہایت اہم فیصلے ہوئے.مثلاً ایک متعصب شخص مسٹر مہتہ کو وزیر مقرر کئے جانے پر احتجاج.مظلومین کشمیر کے ساتھ ہمدردی.مظلومین پونچھ کو مشورہ.مسٹر لاتھر کا شکریہ اور مسٹر کالون کو دو ماہ کے اندر حالات بہتر بنانے کی تاکید سے متعلق قراردادیں منظور ہوئیں.انگریز وزیراعظم مسٹر کالون کے متعلق اس اجلاس میں جو قرار داد منظور ہوئی اس میں کہا گیا تھا:.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی رائے ہے کہ کشمیر میں انگریز وزیراعظم مقرر ہوئے کافی وقت گزر چکا ہے.وہ اس عرصہ میں بخوبی حالات کو دیکھ سکتے اور ان کی اصلاح کے لیے کوشش کر سکتے تھے.لیکن کمیٹی افسوس سے اس امر کا اظہار کرنے پر مجبور ہے کہ انھوں نے کوئی خاص کام ایسا نہیں کیا جو مسلمانوں کو اس امر کی اُمید دلائے کہ کسی قریب عرصہ میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت ہو جائے گی.اب تک ملازمتوں کے دینے میں سابقہ 207

Page 204

غیر منصفانہ پالیسی کاسد باب نہیں ہوا گلینسی کمیشن کی سفارشات بھی جنھیں مسلمان اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ناکافی خیال کرتے ہیں.معرض التواء میں ہیں.اور ان پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی اسمبلی کے قیام کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا.فرنچائیز کمیٹی کی رپورٹ نہ شائع ہوئی نہ اس کے متعلق کوئی کاروائی ہوئی ہے.زمینداروں کو زمینوں کی ملکیت دینے.جاگیرداروں کے مظالم سے زمینداروں کو بچانے.تقریر وانجمن کی آزادی کے سوالات و دیگر مطالبات اب تک پیچھے ڈالے جارہے ہیں.ہندو ترقیات پارہے ہیں اور مسلمان بدستور اپنے حقوق سے محروم ہورہے ہیں.بلکہ بعض افسران جنھوں نے دیانتداری سے اصلاح کی کوشش کی ہے.ان پر حکومت نے عتاب کیا ہے اسی طرح وہ حکام جن کے ظلم ثابت ہو چکے ہیں انھیں ان کے عہدوں سے باوجود وعدہ کے ہٹایا نہیں گیا.پس آل انڈیا کشمیر کمیٹی اس صورت حالات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر ریاست کی حکومت کو مسلم مطالبات پر جلد سے جلد عمل کرنے کا اور ہر قسم کی بے انصافی کے دور کرنے کا مشورہ دیتی ہے.اور حکومت ہند سے بھی استدعا کرتی ہے.کہ وہ اس بارہ میں ریاست کو توجہ دلائے.اسی طرح کمیٹی سیکرٹری کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ دو ماہ بعد ایک اجلاس کشمیر کمیٹی کا اس امر پر غور کرنے کے لیے طلب کرے کہ اس دوران میں ریاست کے حکام نے کیا کچھ کام کیا ہے اور اگر کوئی تبدیلی نظر نہ آئے تو ایک آل انڈیا کشمیر ڈے“ کے ذریعہ تمام ہندوستان کے سامنے کشمیر کے حالات رکھ کر مسلمانوں سے استدعاء کی جائے کہ وہ اپنے مظلوم بھائیوں کی امداد کے لیے ایک دفعہ پھر متفقہ آواز اٹھائیں اور اس وقت تک دم نہ لیں جب تک 208

Page 205

کہ اس ظلم کا خاتمہ نہ ہو جائے“.ریاست میں رد عمل کمیٹی کی یہ قراردادریاست کو ایک بہت بڑا چیلنج تھا.اس کی اشاعت پر ایک تہلکہ مچ گیا.جہاں عوام کے حو صلے بہت بلند ہوئے وہاں حکام نے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا.۱۴ اگست ۳۱ء کا کشمیر ڈے“ ان لوگوں نے دیکھا ہوا تھا.اس قرار داد کی تائید اس طرح ہوگئی کہ ریاست کے اندر شیخ محمد عبداللہ نے مسلم کا نفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس مارچ کے مہینہ میں سری نگر میں بلوایا اور اس میں جو قرار دادیں منظور ہوئیں وہ اس کی تائید کرتی تھیں.مہاراجہ بہت گھبرایا.فورا جموں سے مسٹر کالون وزیر اعظم کو سری نگر بھجوایا اور مسلم کانفرنس کے نمائندوں سے تبادلہ خیالات کے بعد چند اصلاحات کا جن میں (پریس اور پلیٹ فارم کی آزادی بھی شامل تھی ) اعلان کر دیا اور بقیہ مطالبات کو جلد عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا.ریاست کی چالیں ایک طرف تو ریاست نے یہ کام کیا.دوسری طرف مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوانے اور سر پھٹول کروانے میں بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا.مسلمانوں میں خانہ جنگی کی آگ نے زور پکڑ لیا.حکومت نے ایک فریق کو اُبھارا دوسرے کو دبایا.وہ قوم جونکبت کی انتہا کو پہنچ چکی ہو.اس میں ایسے کو تاہ فکروں اور غداروں کا پیدا ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہوتی.جو اپنی قوم کی تباہی و بربادی میں مخالف طاقتوں کے ممدو معاون بن جائیں.کشمیر میں بھی ایسا ہی ہوا.آخر امن قائم کرنے کا بہانہ بنایا گیا.میر واعظ یوسف شاہ کو سری نگر سے باہر لے گئے.209

Page 206

اور چند دن کے بعد پھر گھر چھوڑ گئے لیکن ۳۱ ر مئی کو شیخ محمد عبداللہ اور خواجہ غلام نبی گل کار کوگرفتار کر لیا گیا.گرفتاری سے پہلے ان لوگوں نے ساٹھ ہزار کے مجمع میں تقاریر کیں جس میں مسٹر مہتہ.ٹھا کر کرتار سنگھ اور پنڈت بلا کاک متینوں علیحدہ کرنے کا مطالبہ کیا.لیڈروں کی گرفتاریاں شیخ محمد عبد اللہ اور خواجہ غلام نبی گلکار کی گرفتاری کے بعد دوسرے ڈکٹیٹر بخشی غلام محمد گرفتار ہوئے اور پھر گرفتاریوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا.چودھری غلام عباس کا نفرنس کے جنرل سیکرٹری تھے.ان کو اپنی گرفتاری کی توقع تھی.اس لیے انھوں نے اپنی گرفتاری سے پہلے قوم کے نام ایک پیغام دیا جس میں شیخ صاحب اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاریوں پر سخت احتجاج کیا گیا تھا.اسی طرح برہما آرڈینینس کے ماتحت ٹکٹکیوں کا جو انتہائی ظالمانہ سلسلہ شروع کیا گیا تھا اس پر دلی رنج کا اظہار کیا.اس پیغام کے آخر پر چودھری غلام عباس نے لکھا:.چودھری غلام عباس کی اپیل میں اپنے بھائیوں سے زبر دست اپیل کروں گا کہ وہ پُرامن رہیں اور اس خاموش جنگ کو جاری رکھتے ہوئے حکام ریاست پر ثابت کر دیں کہ مسلمانوں کے ظاہری جمود کے خاکستر میں وہ چنگاریاں خوابیدہ ہیں جو مشتعل ہو کر تمام ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں.آپ اپنے ہم وطن ہندو اور سکھ بھائیوں سے رواداری کا سلوک کریں.آپس میں اتحاد قائم کریں اور خدا پر بھروسہ رکھیں یقیناً وہی اصحاب فیل کے مظالم اور بربریت سے آپ کو نجات دلائے گا.آخر میں میں مسلمانانِ ہند سے پر 210

Page 207

زور اپیل کروں گا کہ وہ اپنے روایتی ایثار اور عملی ہمدردی کو جس نے گذشتہ دو سال میں قرون اولیٰ کی یاد تازہ کر دی تھی ایک دفعہ پھر حرکت میں لائیں.کشمیر کے بلکتے ہوئے بچوں اور مجروح و مضروب عورتوں کی نظریں پھر سے پنجاب کی طرف لگ رہی ہیں کہ اس جانب سے رحمت الہی کی گھٹائیں اُٹھیں گی.کیا وہ معصوم اور مظلوم نگاہیں ناکام لوٹیں گی ؟ (جون ۳۳ء) " 211

Page 208

وو ہم اس حیثیت سے کہ کشمیر کے مظلوم ہیں اور ہمارا جرم صرف اسلام ہے.ہم حضور سے بحیثیت امام جماعت احمد یہ ہونے کے طالب امداد ہیں حضور ہماری امداد فرما کر عنداللہ ماجور ہوں 6 صدر محترم کا استعفیٰ اب میں کا وہ ورق اپنے قارئین کے سامنے رکھنے والا ہوں جس پر نفاق وافتراق کے دھبے ہیں.احرار کی سول نافرمانی بہت جلد ختم ہوگئی تھی.لیکن ریاست کے حریت پسند عناصر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے چشمہ سے تازگی و بالیدگی کا آب حیات پی پی کر اپنی مہم کو جاری رکھے ہوئے تھے اب ریاست نے ان کی صفوں میں افتراق پیدا کرنے کی طرف دھیان دیا اپنے تمام وعدے طاق نسیاں پر رکھ دیئے اور مسلمانوں میں سے ہی بعض ایسے لوگ کھڑے کر دیے جو اپنے ہندوستانی ہمدردوں کی مساعی پر پانی پھیرنے کے لیے تیار ہو گئے.منظم سازش اول اول حکومت نے یہ حربہ استعمال کیا کہ ہندوستان میں کشمیریوں کی ہمدرد فعال جماعت ( آل انڈیا کشمیر کمیٹی ) کے خلاف بالکل بے بنیاد اور بے سروپاء باتیں مشہور کر کے کشمیر کے مظلوم لوگوں کو ہر قسم کی امداد سے محروم کرنے کی کوشش کی.لیکن جب اس معاملہ میں ناکامی کے سواء کچھ حاصل نہ ہوا تو آخری داؤں کھیلا گیا.چند جبہ پوش لاہور میں وارد ہوئے 212

Page 209

ایک بزرگ کے مزار کو انہوں نے اپنے عزائم کا گڑھ بنایا.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اراکین کی فہرست حاصل کی اور بڑی سوچ بچار کے بعد لائحہ کار مرتب ہوا حرف آغاز ان اراکین کمیٹی کو قابو میں کرنا تھا جو ان کی تحریص کا شکار ہوسکیں اور یوں کمیٹی کو تہ و بالا کر دیا جائے.چنانچہ ایسے چندار کان لا ہور کو شیشے میں اتار لیا گیا.کس طرح؟ اس کا فیصلہ اور تجزیہ آئندہ نسلیں کریں گی راقم الحروف کو اس موضوع پر قلم اٹھانے کی ضرورت نہیں.البتہ قارئین کی معلومات میں اضافہ کے لیے ہندوستان کے ایک مخلص مسلمان لیڈر کے بیان کا کچھ حصہ آگے درج کر رہا ہوں.واضح رہے صرف لاہو رہی کے تین چار لیڈر اس چال کا شکار ہوئے.انہی کو آگے کیا گیا.تا کہ وہ اس ڈرامہ کا کردار ادا کریں متذکرہ جبہ پوش پس پردہ بیٹھے تاریں ہلاتے رہے.انہوں نے اپنے ساتھ چند سادہ لوح ممبران کو بھی شامل کر لیا حالانکہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اراکین سارے ہندوستان میں موجود اور پھیلے ہوئے تھے.چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد لاہور کے تیرہ اراکین کشمیر کمیٹی کے دستخطوں سے محترم صدر کو ایک تحریر بھجوائی گئی کہ لاہور میں کمیٹی کا اجلاس بلائیں.جس کا مقصد یہ ہو کہ کمیٹی کے عہدہ داران کا نیا انتخاب کیا جائے.فتنہ کھڑا کرنے والوں نے ۴ رمئی ۳۳ ء کے اخبار سول ملٹری گزٹ میں اپنی تحریر کو خوب اچھالا بلکہ اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش بھی کی.صدر محترم کی طرف سے ۷ رمئی ۳۳ء کو سیسل ہوٹل میں اجلاس رکھا گیا اور اس کی اطلاع تمام ممبران کو دی گئی.کشمیر کمیٹی کا اجلاس یہ اجلاس جو محترم میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب صدر کمیٹی کی صدارت میں منعقد ہوا.اس میں مندرجہ ذیل اراکین نے شرکت کی.ڈاکٹر سر محمد اقبال پروفیسر مولا ناعلم الدین سالک 213

Page 210

ملک برکت علی ڈاکٹر عبدالحق حاجی شمس الدین پیرا کبر علی سید حسن شاہ چودھری اسد اللہ خاں مولا نا جلال الدین شمس خان بہادر حاجی رحیم بخش مولا نا عبدالمجید سالک مولا نا غلام مصطفیٰ پروفیسر سید عبدالقادر میاں فیروز الدین احمد ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ چودھری محمد شریف مولوی عصمت اللہ مبلغ شیخ نیاز علی صاحب صدر نے اس اجلاس میں اپنا استعفیٰ پیش کرتے ہوئے فرمایا:.صدر محترم کا استعفیٰ وو وہ ممبران جو کمیٹی کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہتے ہیں.ان میں سے بعض کو شاید یاد ہو کہ میں نے گذشتہ سال ایک اجلاس کے موقعہ پر خود ہی یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ اب ایک سال گزر چکا ہے اس لیے عہدہ داران کا نیا انتخاب ہو جانا چاہیے.لیکن انہی ممبروں میں سے جن کے دستخط مذکورہ بالا تحریر پر ثبت ہیں بعض نے یہ خیال ظاہر کیا تھا ( جس کی کسی دوسرے ممبر نے تردید نہیں کی تھی ) کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کوئی مستقل کمیٹی نہیں.بلکہ ایک عارضی کام کے لیے اور تھوڑے عرصہ کے لیے اس کا قیام ہوا ہے.اس لیے اس کے عہدہ داران کا سالانہ انتخاب ضروری نہیں..پھر سول ملٹری گزٹ کے نوٹ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس اخبار نے جو نوٹ لکھا ہے وہ کشمیر کے ایک کارکن سے ( جو صدر کے احمدی ہونے کا بہانہ بنا کر ایجی ٹیشن کر رہے ہیں 214

Page 211

متاثر ہو کر لکھا ہے اور اس میں جو باتیں لکھی گئی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ مطالبہ عام مروجہ قواعد کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اصل میں اس کا محرک یہ ہے کہ ایک احمدی کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا صدر نہیں ہونا چاہیے.اگر سول کی یہ تحریر کشمیر کمیٹی کی اکثریت کے منشاء کے خلاف ہے.تو میں اس مطالبہ کا حق رکھتا ہوں.کہ اس کی تردید تحریر مذکورہ پر دستخط کرنے والے ممبروں کی طرف سے سول وغیرہ میں شائع کرائی جائے لیکن برخلاف اس کے اگر یہ امر ممبران کمیٹی کے اشارہ سے شائع کیا گیا ہے.تو اس میں یقیناً اس سلسلہ کی ہتک ہے جس کا ایک فرد ہونے کو میں اپنے لیے موجب فخر سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک ان خیالات کی موجودگی میں (جو اس اخباری اعلان کی تہ میں پائے جاتے ہیں ) نہ صرف میرا صدر رہنا بلکہ ممبر رہنا بھی جائز نہ ہوگا.اور ان خیالات کے معلوم کر لینے کے بعد میں بھی اپنی ہتک خیال کروں گا کہ اس کمیٹی کا ممبر رہوں جو اس سلسلہ کے افراد سے تعاون کرنے کے لیے تیار نہ ہوں جس کا میں ممبر ہوں.پس گو عام حالات میں.میں تغیر عہدہ داران کو مفید سمجھتا ہوں بلکہ خود اس سوال کو ممبران کے سامنے کئی دفعہ پیش کر چکا ہوں.اور اگر سول کا یہ نوٹ شائع نہ ہوتا تو باوجو د صدارت سے الگ ہو جانے کے میں ہر طرح سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی امداد کرتا اور اس کے لیے صدر اور سیکرٹری سے پورا تعاون کرتا لیکن اس اعلان کے بعد جو بظاہر حالات یقینا بعض دستخط کنندگان کے اشارہ سے لکھا گیا ہے.کیونکہ اس پرائیویٹ تحریر کا سول اینڈ ملٹری گزٹ کے نامہ نگار کو کسی طرح علم نہیں ہوسکتا تھا.اور اگر ہوتا بھی تو بہر حال وہ یہ وجہ اپنے پاس سے نہیں تراش سکتا تھا.میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ کشمیر کمیٹی 215

Page 212

کے سامنے یہ بات رکھ دوں کہ اگر ممبران کشمیر کمیٹی کی اکثریت اس اعلان کے مفہوم سے متفق ہے اور فی الواقع میری احمدیت ہی اس تحریک کا موجب ہوئی ہے تو میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی ممبری سے استعفے دیتا ہوں.جو مذکورہ بالا صورت میں باقاعدہ طور پر نئے سیکرٹری صاحب کو بھیجواد یا جائے گا...66 صدر محترم کی خدمات کا اعتراف اس تحریر کے اجلاس میں پڑھے جانے پر ممبران نے اخبارسول کے نوٹ سے بیزاری کا اظہار کیا اور اُسی وقت یہ قرارداد منظور کی.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا یہ جلسہ سول اینڈ ملٹری گزٹ“ میں شائع شدہ بیان سے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے متعد دارکان نے ایک درخواست اس امر کی بھیجی ہے کہ آئندہ کمیٹی کا صدر غیر قادیانی ہوا کرے قطعی علیحدگی کا اظہار کرتا ہے.نیز یہ جلسہ اپنا فرض سمجھتا ہے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے مسلمانانِ کشمیر کے لیے جو گراں بہاء اور مخلصانہ خدمات انجام دی ہیں.اُن پر آپ کا شکریہ ادا کرے.اس اجلاس میں بڑے افسوس سے آپ کا استعفیٰ منظور کیا گیا.اور نئے انتخابات ہونے تک ڈاکٹر سر محمد اقبال کو قائمقام صدر اور ملک برکت علی کو قائمقام سیکرٹری مقرر کیا گیا اور ایک دستور کمیٹی مقرر کر دی گئی.استعفا کار د عمل صدر کمیٹی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کے مستعفی ہونے پر ریاست کشمیر کے طول وعرض میں صدمہ اور افسوس کا اظہار کیا گیا.ہر طرف سے تار موصول ہوئے.پونچھ کے 216

Page 213

بحضور خوت امام جماعت احمدیہ قادیاں اسلام علیکم و رحمه الله وبرکاته - ہم اس حیثیت سے کشمیر کے مظلوم ہیں.اور ہمارا جرم صرف اسلام ہے.ہم حضور بھی بحثیت امام جماعت احمد پر کرنے کے طالب امداد نہیں.منور ہماری انفاز وفا کر عنداللہ ماجور ہوں بعض گو ہیں اس امر کا اردود صور ھے کہ حضور نے اپنا دست شفقت محض کم فہم احباب کی وجہ سے ہمارے سر پہ ئے اٹھا لیا.مگر آپ کی فراست مجھے نہیں پوری اچھا ہے کہ حضور این آڑے وقت میں ہماری راہنمائی فرما کر ہمیں ر جہنوں و شکور فر فارینگے.اور میں کے لئے اب تو ہی دی بھی فرما رہیں.وگرم مفصل حالات مربی با بد را در کالیب کر خاک ران Tholow Hasool 141 31.5.33."Ghulam Mati کرینگے.جیل جاتے وقت عریضی گی کی بھی ھی کاعلم ہو توسان کے ذات کا ہیں.Se 217

Page 214

218

Page 215

مسلمانوں کا ایک عظیم جلسہ ۱۶ رمئی ۳۳ء کو منعقد ہوا اور یہ قرار داد منظور کر کے بذریعہ تار اخبارات کو اور حضرت مرزا صاحب کو بھجوائی گئی.ہمیں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب پریذیڈنٹ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے مستعفی ہو جانے کی خبر سن کر بہت صدمہ ہوا ہم آپ کے شاندار کام کا دل سے اعتراف کرتے ہیں جس کیلئے وہ صدق دلا نہ تعریف کے مستحق ہیں...شیخ محمد عبد اللہ شیر کشمیر نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا جس میں لکھا: وو میں مختصر عرض کرتا ہوں کہ آپ خدا را ایک بار پھر مظلوم کشمیریوں کو بچائیے اور اپنے کارکن روانہ کیجئے.۳۱ رمئی ۳۳، کو شیخ محمدعبداللہ اور بعض اور کشمیری لیڈروں کو حکومت ریاست کشمیر نے ایک بار پھر گرفتار کرلیا.شیخ صاحب کے ساتھ خواجہ غلام نبی گلکار اور بخشی غلام محمد بھی گرفتار ہوئے.جیل جانے سے قبل شیخ صاحب ایک عریضہ امام جماعت احمدیہ کی خدمت میں لکھ کر ایک معتمد عبدالاحد کے سپر د کیا.اس عریضہ پر اپنے دونوں ساتھیوں کے دستخط کروائے.شیخ صاحب نے لکھا وو ام اس حیثیت سے کہ کشمیر کے مظلوم ہیں اور ہمارا جرم صرف اسلام ہے.ہم حضور سے بحیثیت امام جماعت احمد یہ ہونے کے طالب امداد ہیں.حضور ہماری امدا د فرما کر عنداللہ ماجور ہوں گو ہمیں اس امر کا از حد صدمہ ہے کہ حضور نے اپنا دستِ شفقت ( بعض کم فہم اصحاب کی وجہ سے ) ہمارے سر پر سے اُٹھالیا ہے.مگر آپ کی ذات سے ہمیں پوری اُمید ہے 219

Page 216

کہ حضور اس آڑے وقت میں ہماری راہنمائی فرما کر ہمیں ممنون و شکور فرمائیں گے.اور ہمارے لیے ساتھ دعا بھی فرمائیں“ کشمیر کمیٹی کے صدر کے استعفیٰ کے معابعد کشمیری لیڈروں کی جو گرفتاریاں جموں و کشمیر کے ہر حصہ میں ہونی شروع ہوئیں.بصیرت رکھنے والا انسان انہیں کو دیکھ کر اس راز کی تہ کو پہنچ سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک عظیم سازش اور سکیم کی مختلف کڑیاں تھیں جنہوں نے تحریک آزادی کی اصلی روح کو سپوتا ثر کیا.برکریما کار ہادشوار نیست جموں میں بھی چودھری غلام عباس اور پاسبان کے ایڈیٹر مولا نا عبدالمجید قرشی کوگرفتار کیا گیا.جیل جانے سے قبل چودھری صاحب نے ۷ جون ۳۳ء کو حضرت مرزا صاحب کو جو خط لکھا اس میں درج تھا.آنجناب نے جو کچھ اس وقت تک مظلومان کشمیر کے لیے کیا ہے.وہ کسی سے پوشیدہ نہیں.اور کسی تشریح کا محتاج نہیں.بندہ کو امید واثق ہے کہ آنجناب گذشتہ ایثار کے پیش نظر پھر مظلوم مسلمانان کشمیر کی حمایت کے لیے کمر بستہ ہو جائیں گے.کیونکہ حالات سخت نازک صورت اختیار کر رہے ہیں.اور آنجناب کی مساعی جمیلہ کی از حد ضرورت ہے.بر کریماں کا رہا دشوار نیست“.(نوٹ: یہ تار اور خطوط بطور نمونہ درج کئے ہیں وگر نہ راقم الحروف خود اس بات کا شاہد ہے کہ کشمیر کے ہر حصہ سے خطوط اور تار موصول ہوئے اور کئی میموریل ہزار ہا کشمیریوں کے دستخطوں 220

Page 217

بد الرحمن الرحيم از دفتر جنوں کو غیرمسلم کانفرنس بخدمت حضرت صاحب تطلبه السلام علیکم ورحمه الله در یگانه مزار شریف بنده مصوبه کمی ترش این پایین آن نامی ایک خوش بو برند الیکشن این ار داشت در شرکت مجبوری کی طرف سے میں موصول ہوئی صدف مرزی کر جیل میں جار ہے ہیں.آنجناب نے جو کچھ الوقت تک خون یا کثیر کیئے کیا ھی کسی سے پوشیدہ نہیں اور کی تشریح کا حتاج نہیں.بندہ کو امید داشت هر کے آنجناب اپنی گذشته دیارده پیش نظر پر مظلوم مهمانان کشمیری حمایت کیلئے برگشتہ ہو جائینگے کیو نکہ مادرت سخت نازک اور انتخاب ۵ ساعی جمیله ه از در ضرورت هر بر کوچان ها را دشوار نیست نے ہی لفم 221

Page 218

222

Page 219

سے بھی آئے جن میں استدعاء کی گئی تھی کہ لاہور کے معدودے چندلوگوں کی غلطی کی وجہ سے آپ ہماری امداد سے کنارہ کش نہ ہو جائیں.ظ.۱) مولا نا غلام رسول مہر کا بیان اب ان تیرہ اراکین میں سے جنہوں نے نئے انتخاب کا مطالبہ کیا تھا.بعض کے خیالات بھی سن لیجئے.مولانا غلام رسول صاحب مہر مدیر انقلاب نے اجلاس کے جو تفصیلی وو حالات لکھے اس میں تحریر فرماتے ہیں:.میں نے یہ کہا تھا کہ عہدہ داروں کے انتخاب کی درخواست پر میرے بھی دستخط ثبت ہیں لیکن میں خود سیکرٹری تھا اور میرے سامنے اگر دن میں دس مرتبہ بھی ایسی درخواستیں آتیں تو میرے لیے مناسب یہی تھا کہ اُن پر بلا تامل دستخط کرتا اس لیے کہ دستخط نہ کرنے کی صورت میں ظاہر ہوتا کہ میں اپنے عہدہ پر قائم رہنے کا خواہاں ہوں لیکن مرزا صاحب کا استعفیٰ منظور نہیں ہونا چاہیے.یہ اس لیے کہ میری دیانتداری کے ساتھ یہ رائے ہے کہ اس سے کشمیر کمیٹی کے اختیار کردہ کام میں خلل پڑ جائے گا.اس مختلف اصحاب نے میری تائید کی“ (روز نامہ انقلاب لاہور ۱۳ سرمئی ۳۳ ء ) مولاناسید حبیب صاحب کا بیان ایک اور رکن مولانا سید حبیب صاحب نے لکھا: لاہور کے بعض ارکان کشمیر کمیٹی میں یہ تحر یک جارہی تھی کہ کمیٹی مذکورہ 223

Page 220

کے عہدہ داروں کا جدید انتخاب ہو مجھ سے بھی اس تحریک کی تائید کے لیے کہا گیا.اور میں نے بھی متعلقہ کا غذ پر دستخط کئے.لیکن افسوس ہے کہ معلومہ حادثہ کی وجہ سے میں جلسہ میں موجود نہ تھا.معلوم ہوا ہے کہ اس جلسہ میں مرزا صاحب کا استعفے منظور کر لیا گیا.یہ بھی کہا جاتا ہے.مولا نا چودھری غلام رسول صاحب مہر نے بھی سیکرٹری کے عہدہ سے استعفے داخل کر دیا ہے.اور ان کی جگہ ملک برکت علی کا تقرر عمل میں آیا.میں خوش ہوں کہ ایسا ہوا.اس لیے کہ میری دانست میں اپنی اعلیٰ قابلیت کے باوجود ڈاکٹر اقبال اور ملک برکت علی دونوں اس کام کو چلا نہیں سکیں گے.اور یوں دنیا پر واضح ہوجائے گا.کہ جس زمانہ میں کشمیر کی حالت نازک تھی اس زمانہ میں جن لوگوں نے اختلاف عقائد کے باوجود مرزا صاحب کو صدر منتخب کیا تھا.انھوں نے کام کی کامیابی کو زیر نگاہ رکھ کر بہترین انتخاب کیا تھا اس وقت اگر اختلافات عقائد کی وجہ سے مرزا صاحب کو منتخب نہ کیا جاتا تو تحریک بالکل ناکام رہتی اور اُمتِ مرحومہ کو سخت نقصان پہنچتا.میری رائے میں مرزا صاحب کی علیحدگی کمیٹی کی موت کے مترادف ہے.مختصر یہ کہ ہمارے 6 انتخاب کی موزونیت اب دنیا پر واضح ہو جائے گی.والحمدللہ علی ذلک...(روز نامہ سیاست مورخه ۱۸ رمئی ۶۳۳) نئے عہدہ داروں کا رویہ نئے انتخاب کا سوال اگر نیک نیتی پر مبنی ہوتا اس سوال کے اُٹھانے والوں اور نئے 224

Page 221

منتخب ہونے والے عہدہ داروں کا فرض تھا کہ وہ ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے پہلے سے زیادہ شاندار کام کر کے دکھاتے.اگر پہلے دس وکیل مقدمات کی پیروی کرنے کے لیے کشمیر میں بھجوائے گئے تھے تو یہ میں نہیں تو بارہ چودہ ہی بھجوا دیتے اگر پہلے عہدہ داروں نے سوسیاسی کارکنان کشمیریوں کی امداد کے لیے بھجوائے ہوئے تھے تو یہ ڈیڑھ سو نہیں تو سو ہی بھجوادیتے اگر پہلے چار ہزار روپے ماہوار خرچ ہو رہا تھا تو وہ اس کو بڑھانہ سکتے تھے کم از کم جاری تو رکھتے لیکن سید حبیب نے کیا ہی صحیح بات قبل از وقت کہہ دی تھی کہ وو میرزا صاحب کی علیحدگی کمیٹی کی موت کے مترادف ہے..." چنانچہ نئی کمیٹی کا صرف ایک اجلاس ہوا اور نئے عہدہ داروں نے خود بخود کمیٹی کے توڑنے کا اعلان کر دیا.یہ اجلاس گویا نشستند وگفتند و برخواستید کی اصل تصویر تھا.فاعتبروایا اولی الابصار 225

Page 222

نکوئی بابداں کردن که مسلمانان کشمیر پر کردن بجائے ڈرامہ کے کردار است! نیک مرداں یہ ظلم عظیم کیوں اُٹھایا گیا.اس کا پتہ قارئین کو ہندوستان کے ایک مسلمہ لیڈر میاں احمد یار خاں دولتانہ کے ۱۲؍ جولائی ۳۳ ء کے ایک مکتوب سے جو انہوں نے حضرت امام جماعت احمدیہ کے نام تحریر فرمایا بخوبی چل جائے گا.میاں صاحب مکرم نے لکھا وو حسام الدین جو کشمیر سے آیا تھا.اس نے لاہور میں روپیہ خرچ کیا.اسے ایک دوست نے کہا کہ کشمیر کمیٹی کا اس وقت تک خاتمہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ حضور کمیٹی میں ہیں.آپ کی ذات مہا راجہ کی آنکھوں میں مثل خار کھنکتی تھی اور واقعی جو کام گورنمنٹ آف انڈیا اور ریاست کشمیر نہ کر سکتے تھے وہ حضور کی بلند حوصلگی اور..کیدوں ہمتی سے ہو گیا.میں نے تو پیر اکبر علی صاحب سے صاف کہہ دیا تھا کہ ؎ نکوئی بابداں کردن چناں است بد کردن بجائے نیک مردان میاں سر فضل حسین نے بھی میری زبانی کو کہلا بھیجا کہ مسلمانوں کے نقصان کے علاوہ 226

Page 223

اُسے ذاتی طور پر کوئی فائدہ نہ ہوگا وہ شیر قالین ہے.عملی بات تو سمجھنے سے قاصر ہے.میری رائے ناقص میں تو حضور والا کو یہ کام پھر ہاتھ میں لینا چاہیے.ہم سب حضور کے جاں نثار خادم ہیں سے نہ پہلے کچھ ہو سکا اور نہ اب ہو سکے گا.اس کے متعلق جو احکام ہوں بسر و چشم تعمیل ہوگی“ (اصل خط محفوظ ہے.ظا) گھر کے بھیدی کی تصدیق اس بارہ میں مجلس احرار کا بیان جو ان کے ایک رسالہ ” تبصرہ “ میں شائع ہوا.اس بات کی پورے طور پر تصدیق کرتا ہے کہ میاں احمد یار خاں دولتانہ کا بیان حرف بحرف درست تھا.لکھتا ہے:.کشمیر کمیٹی کی بنیاد ۳۱ء میں چند اعتدال پسند لوگوں نے رکھی تھی.میاں سر محمد شفیع ،سر فضل حسین ، میاں امیر الدین اور شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال کے ساتھ قادیان کے خلیفہ بشیر الدین محمود بھی اس ادارہ میں شامل تھے.اس کمیٹی کے انتخاب سے مرزا بشیر الدین محمود کوصدر اور عبد الرحیم درد مرزائی کو سیکرٹری منتخب کیا گیا.حضرت امیر شریعت ڈاکٹر ا قبال کو مرشد اور ڈاکٹر اقبال حضرت شاہ صاحب کو پیر جی کہا کرتے تھے.کشمیر کمیٹی کے سلسلہ میں ان دونوں کے درمیان چودھری افضل حق کی معیت میں کئی ملاقاتیں ہوئیں.اور طے پایا کہ بشیر الدین محمود اور عبد الرحیم درد کو اگران کی موجودہ ذمہ داری سے نہ ہٹایا گیا تو کشمیر کے ۳۲لا کھ مسلمان کفر وارتداد کا شکار ہو جائیں گے.لہذا بہتر ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کی باگ ڈور مجلس احرار کے سپرد کر دی جائے...227

Page 224

کشمیر لیڈر کا اظہار حق وو احرار کا ریاست کے حکام سے کیا تعلق تھا.اس کا کچھ حال پہلے ابواب میں آچکا ہے.اور ان کے متعلق شیر کشمیر اور چودھری غلام عباس کی آراء آپ پڑھ چکے ہیں.یہاں ایک اور لیڈر کی تصریحات درج کی جاتی ہیں جسے ان لوگوں کی مہربانی سے کشمیر سے جلا وطن کر دیا گیا احرار کے یہ لیڈ رحکومت کشمیر کی شاندار موٹروں اور مزین ہاؤس بوٹوں میں کشمیر کے پر فضاء مقامات کی سیر میں مشغول تھے.انہی پر کیف ایام کے دوران میں اتفاق سے میری ملاقات ان میں سے ایک لیڈر سے ہوئی اور میں نے انہیں مسلمانان کشمیر کی حالت زار کے بعض واقعات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے امداد کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی.انہوں نے جواب دیا.آپ یہ تمام واقعات قلمبند کر کے میرے حوالہ کردیں.میں ان تکالیف کا ازالہ کرانے کی سعی کروں گا.لیکن بھائیو! آہ افسوس میں کسی منہ سے کہوں.اس احراری بزرگ نے جس پر ایک اسلامی اور دینی بھائی سمجھتے ہوئے اور ایک اسلامی تحریک کا لیڈر جانتے ہوئے میں نے بھروسہ کیا تھا.میری دستخطی تحریز بجنسہ مٹرکولون کے حوالہ کردی.جس کے طفیل آج میں اپنے وطن سے دور اپنے عزیزوں سے الگ.اپنے بال بچوں سے جدا غربت کی حالت میں در بدر مارا مارا پھر رہا ہوں.( اصلاح ۲۷ / نومبر ۳۴) ڈکٹیٹر اول کا ٹیفکیٹ مفتی جلال الدین صاحب ایم.اے جو مجلس نمائندگان کشمیر کے سیکرٹری اور کشمیر میں 228

Page 225

پہلے ڈکٹیٹر تھے یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوئے وو میں بصد تاسف احرار کی سرگرمیوں کی مذمت پر مجبور ہوں.کیونکہ ان گمراہوں کے بے جا جوش و خروش نے ہماری زندگیوں کو تباہ و برباد کر کے عظیم الشان مصائب میں مبتلاء کر دیا.( سیاست ۲۴ / نومبر ۱۹۳۲ء) بروقت انتاه ریاست کی طرف سے اس تحریک کو کچلنے کے لیے جو کاروائیاں ہوتی تھیں.محترم صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو اپنے ذرائع سے ان کا علم ہوتارہتا تھا.چنانچہ کمیٹی کے اندر انتشار بھی ریاست کی کوششوں ہی کا نتیجہ تھا.آپ نے کشمیریوں کو ان فتنوں سے بر وقت خبر دار کر دیا تھا.چنانچہ آپ نے اپنے ایک مطبوعہ مکتوب میں یہ تحریر فرمایا: -1 وو میں اس امر کا یقین رکھتا ہوں کہ بعض افسران ریاست کی نیت درست نہیں اور یقین کی وجوہ یہ ہیں:.میرے ایک نمائندہ سے ریاست کے ایک ہندو وزیر نے گذشتہ سال یہ الفاظ کہے تھے کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم آپ کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے.ہمیں بھی پارٹیاں بنانی آتی ہیں اور ہم بھی ریاست میں آپ کے خلاف پارٹیاں بنوا سکتے ہیں.بعض لوگ جو شیخ محمد عبد اللہ صاحب کے خلاف کوشش کر رہے ہیں.ان کی نسبت یقینی طور پر ثابت ہے کہ وہ اس وزیر سے خاص تعلقات رکھتے ہیں.2 باہمی مناقشات دیر سے شروع تھے.لیکن نہ حکومت نے ان پر سختی سے نوٹس لیا اور نہ شیخ محمد عبداللہ صاحب کو اس کا ذمہ دار بنایا.لیکن آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اس اجلاس کے بعد جس میں مسٹر مہتہ کے خلاف ریزولیوشن تھا.یکدم ریاست میں بھی ہل چل شروع ہو گئی اور 229

Page 226

بعض ریاست کے افراد نے باہر آ کر لوگوں کو اکسانا شروع کیا.کہ کمیٹی کا احمدی صدر نہیں ہونا چاہیے.اور ان ایجنٹوں میں سے ایک نے اپنے ایک ہم خیال لیڈر سے لاہور میں کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں پندرہ سولہ ہزار روپیہ فورا مہیا کر سکتا ہوں.پھر اس نے کشمیر جا کر اپنے ایک دوست کو لکھا کہ میں لاہور میں آگ لگا آیا ہوں.اب چاہیے کہ یہ آگ سلگتی رہے اور مجھے نہیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسٹر مہتہ کے بعض ہوا خواہوں نے یہ کاروائی کی ہے.ورنہ واقعات کا یہ اجتماع کس طرح ہوا.جب آدمی وہی ہیں.حالات وہی ہیں.کام وہی ہے تو نتائج کیوں مختلف نکلنے لگے؟“ (برادران جموں و کشمیر کے نام میرا دوسرا خط.سلسلہ چہارم وکش مطبوعہ ار جولائی ۶۳۳) عہدہ داروں کا فرض نئے عہدہ داروں کا یہ بھی فرض تھا کہ وہ اس کے نتائج کو مد نظر رکھتے اور نئے عہدہ داروں پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں ان سے آنکھیں بند نہ کرتے.کمیٹی کے ہر رکن کو علم تھا که درجن کے قریب نہایت قابل وکلاء اپنی چمکتی ہوئی کامیاب پریکٹس کو چھوڑ کر انتہائی مالی قربانی کر کے کشمیر میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں.کیا نئی کمیٹی ان سے کام لے گی.اور اگر کام لے گی تو ان لوگوں سے تصفیہ کرنا ضروری تھا کہ وہ کن شرائط پر کام کریں گے.نئے صدر اور سیکرٹری دونوں قانون دان تھے.کاش وہ ذرا ایک ماہ ہی کشمیر جا کر قانونی خدمات سرانجام دیتے.تاکہ ان کے دلوں میں ان لوگوں کی کچھ تو قدر پیدا ہوتی جو یہ کام مہینوں بلا معاوضہ سرانجام دیتے رہے اور ان کے میدانِ عمل میں آنے سے دنیا پر بھی یہ واضح ہو جاتا کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کوقومی مفاد پر قربان کرنے اور ایثار کا صحیح نمونہ پیش کرنے میں کسی سے کم نہیں ہیں.بیسیوں دوسرے کارکن سارے کشمیر میں پھیلے ہوئے تھے ان کے اخراجات کا انتظام 230

Page 227

کرنا نئے عہدہ داروں کا فرض اولین تھا.یا ان کو فارغ کر دیا جاتا یا ان سے فیصلہ کیا جاتا.کشم کے لیڈروں کو کام چلانے کے لیے جو ما ہوا را مد دل رہی تھی.اس کے بند کیے جانے یا جاری رکھنے کے متعلق نئی کمیٹی ان لوگوں کو اطلاع دیتی.لیکن ہوا کہ نئے عہدہ داران منتخب ہوتے ہی خواب خرگوش میں پڑ گئے اور مرکز کا رابطہ محاذ جنگ پر لڑنے والے مجاہدوں سے بالکل منقطع ہو گیا.جب کسی فوج کے ساتھ یہ سلوک ہو تو اس کے لیے دو ہی صورتیں باقی رہ جاتی ہیں ہلاکت یا پسپائی.ظاہر ہے کہ ہر عقلمند ایسی صورت میں دوسری چیز کو ترجیح دے گا.اور اس کے بعد اگر مرکز ان سے گلہ کرے تو ہر شخص جواب دے گا.درمیان قعر دریا تخته بندم کردی بازمی گوئی که دامن ترمکن ہوشیار باش ان حالات میں اگر کوئی شخص اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ ساری کاروائی ریاست کے ایماء پر مسلمانان کشمیر کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ریاست کے ایجنٹوں اور روپیہ سے سرانجام پائی اور اس تحریک کا مقصد مسلمانان کشمیر کو بیرونی امداد سے محروم کرنے اور تحریک آزادی کو کچل کر رکھ دینے کے سوا اور کچھ نہ تھا.تو کون اس کی تردید کر سکتا ہے.نئی کمیٹی کی خدمات نئی کمیٹی پر جب کشمیر کے باشندوں کی طرف سے وکلاء بھجوانے کے لیے زور دیا گیا تو انہوں نے تین چار وکلاء کو وقتا فوقتا کشمیر بھجوایا.جن کے متعلق کشمیر کے ذمہ دار عہدہ داران کی آراء بطور نمونہ درج ہیں.یہ شہادتیں یہ جاننے کے لیے کافی ہیں کہ وہ خدمت کس انداز اور بھاؤ سے کرنے گئے 231

Page 228

تھے.ڈاکٹر امام الدین صاحب قریشی جنرل سیکرٹری مسلم ایسوسی ایشن میر پور نے ستمبر ۳۳ء کے آخر میں ایک اپیل شائع کی جو اخبارات میں بھی شائع ہوئی.اس میں انہوں نے لکھا:.جدید کمیٹی کی طرف سے میاں عبدالحئی ایڈووکیٹ علی بیگ کے مقدمہ میں وو بحث کے لیے تشریف لائے مقدمہ علی بیگ میں 49 ملزمان تھے اور قریباً ۴۲ گواہان استغاثہ اور مسل ہزاروں صفحات پر مشتمل تھی.گیارہ ماہ مقدمہ جاری رہا لیکن میاں صاحب موصوف دودن بحث کر کے تشریف لے گئے.ہم بہر کیف ان کے ممنون ہیں اور ان کی اس خدمت کو بہ نظر استحسان دیکھتے ہیں.لیکن خدا بھلا کرے شیخ بشیر احمد ایڈووکیٹ لاہور کا جو کہ اصل آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے آئے اور مسلسل ایک ہفتہ انہوں نے نہایت قابلیت سے بحث کی.اور ملزمان کے مقدمہ کی پیروی کا حق ادا کر دیا.ہم دونوں صاحبوں کے بے حد ممنون ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے.اب مسلمانان میر پور کی آنکھیں مقدمہ سکھ چین پور کی طرف اُٹھ رہی ہیں اس مقدمہ کے ملزمان پر قتل اور ڈکیتی وآتش زدگی کے سنگین الزامات ہیں.اور برابر گیارہ ماہ سے یہ مقدمہ چل رہا ہے ابتداء میں ۱۶۹ ملزمان تھے.لیکن اب اس وقت ۶۰ ملزموں پر فرد جرم قائم ہے.اور مسل ہزاروں صفحوں پر مشتمل ہے.ہمارے دل جذبات تشکر سے لبریز ہو گئے.جب ملک برکت علی صاحب ایڈووکیٹ لاہور اس مقدمہ میں بحث کے لیے تشریف لائے.لیکن بحث شروع ہونے میں کچھ دن باقی تھے کہ ڈلہوزی واپس تشریف لے گئے اور ہمیں حسرت رہی کہ کاش آپ 232

Page 229

66 کچھ دن تشریف رکھتے اور ملزمان کے مقدمہ کی پیروی فرماتے..یہ دو وکلاء کی خدمت کا ذکر ہے تیسرے وکیل کی خدمات بھی ملاحظہ ہوں.شیخ عبدالحمید صاحب ایڈووکیٹ نمائندہ مسلمانان جموں وکشمیر نے تیسرے وکیل کے متعلق یوں ذکر کیا ہے.وو تعصب مذہبی نے جب میاں بشیر الدین صاحب کو کشمیر کمیٹی کی صدارت سے علیحدگی پر مجبور کر دیا.تو ان کی جگہ علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم و مغفور صدر چنے گئے.علامہ مسلمانوں کے لحاظ سے بڑے محترم تھے مگر ان کے پاس ایسی کوئی منظم جماعت نہ تھی کہ جیسی جماعت احمد یہ میاں بشیر الدین صاحب کے تابع فرمان تھی.اور نہ ہی علامہ کے پاس ایسا کوئی سرمایہ تھا کہ جس سے وہ ریاست کے اندر جماعت احمدیہ کی طرح اپنے خرچ پر دفاتر کھول دیتے اس لیے ان کی صدارت کے ایام میں کوئی نمایاں کام نہ ہو سکا کہاں میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب کے حکم سے سر ظفر اللہ اور شیخ بشیر احمد ، چودھری اسد اللہ خاں وکلاء مقدمات کی پیروی کے لیے آتے رہے.بلکہ مستقل طور پر بعض سری نگر، میر پور، نوشہرہ، جموں میں رہ کر کام کرتے رہے.ان کے طعام و قیام وغیرہ کے تمام اخراجات بھی میاں صاحب ہی بھیجتے رہے.ان کے مستعفی ہونے کے بعد نہ دفتر رہے نہ مستقل وکلا ء ہی رہے.ایک بارسری نگر کے ایک کیس میں جب کہ میں شیخ صاحب کی گرفتاری پر قائم مقام صدر مسلم کانفرنس تھا.میرے لکھنے پر انہوں نے بہار کے وکیل سرکا را انعام الحق صاحب کو سری نگر میں بحث کرنے کے لیے روانہ فرمایا.چند دن رہے اور ہائی کورٹ میں بحث فرما کر واپس چلے گئے.( اصل بیان مورخ کشمیر مولانا اسد اللہ کاشمیری کے پاس ہے.ظا) 233

Page 230

لاہور شہر کا کوئی نہایت معمولی پبلک جلسہ نہ اس بات کا حق دار تھا کہ نئی کمیٹی بنا کر اُ سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی قرار دیتا اور نہ اس امر کا مجاز تھا کہ پہلی کشمیر کمیٹی کوتوڑ دیتا.زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا تھا کہ کسی بنے والی کمیٹی پر اظہار اعتماد کر دیا جاتا اور پرانی کمیٹی پر بے اعتمادی کی قرار داد منظور کر دی جاتی..نئی کمیٹی ایک ایسی کمیٹی جو گل مسلمانان ہند کے مشورہ سے قائم ہوئی ہو.جس کی رکنیت میں ہندوستان کے ہر حصہ اور طبقہ کے لیڈر ہوں.اسے کمیٹی کا کوئی ایک رکن خواہ صدر ہی کیوں نہ ہو.بغیر کمیٹی کے اجلاس اور مشورہ کے توڑنے کا مجاز نہ تھا.لیکن ریشہ دوانوں کی شاطرانہ مہارت کہ انہوں نے عارضی قائم مقام صدر سے ایسا اعلان بھی کروالیا اور نیا طریق کار یہ تجویز ہوا کہ دہلی دروازہ کے باہر مجلس احرار کے دفتر کے سامنے ایک جلسہ کر کے نئی کمیٹی کی تشکیل عمل میں لائی جائے.دہلی دروازہ کا جلسہ اس جلسہ کی کیفیت اور نمائندہ حیثیت کا اندازہ مسلم پریس کے ذیل کے تبصروں سے لگایا جاسکتا ہے.اخبار روز نامہ سیاست لاہور نے ایک مبسوط مضمون میں لکھا: علامہ اقبال کی یہ تجویز فتنہ کی بنیاد ہے کہ مسلمان جلسہ عام کر کے کشمیر کمیٹی 234

Page 231

بنالیں علامہ اقبال کے بغیر کشمیر کمیٹی نے کام کیا وہ اب بھی موجود ہے اور آئندہ بھی کام کرے گی.حق یہ ہے کہ کشمیر کمیٹی کا کام علامہ اقبال اور برکت علی صاحب کے بس کا نہیں تھا.لہذا وہ بہانہ بنا کر بھاگ گئے.وہ جس وقت مستعفی ہوئے اُس وقت نہ کوئی جھگڑا ہوا نہ تو تو میں میں ہوئی " اور نہ کوئی اختلاف رائے ہی بہت زیادہ موجود تھا ( روزنامه سیاست لاہور ۲۴ / جون ۳۳ ) انگریزی روز نامه سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور نے لکھا:.آئینی طور پر ہم یہ بات سمجھ ہی نہیں سکتے کہ لاہور کے لوگوں کی بنائی ہوئی کمیٹی آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی قائم مقام کس طرح ہو سکتی ہے.اصل کمیٹی ۳۱ء کے موسم خزاں میں بمقام شملہ بنائی گئی تھی.جب کہ بہت سے مسلم لیڈر اور مختلف صوبہ جات کے ممبران کونسل وہاں موجود تھے.اس لیے وہ ایک اچھی خاصی نمائندہ کمیٹی تھی مگر ہائی لاہور کی منتخب شدہ کمیٹی کو یہ پوزیشن کسی صورت میں بھی حاصل نہیں ہوسکتی...(۲۵ جون ۳۳ ) روز نامہ انقلاب نے یہ تحریر کیا:.جن اصحاب کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے اختلاف پیدا ہوا تھا.ان کے نام پر لاہور میں ایک پبلک جلسہ منعقد کیا گیا.جس کی حقیقت وحیثیت کی بحث میں پڑنے کا یہ موقع نہیں.اس جلسہ میں ایک نئی کمیٹی کی تاسیس کے لیے ایک جماعت بنادی گئی.اس کے بعد کم از کم ہمیں معلوم نہ ہوسکا کہ جماعت مذکور کے تجویز کردہ ارکان میں سے کتنے اصحاب نے تعاون پر آمادگی ظاہر کی اور اس جماعت نے نئی کمیٹی کی تاسیس کے ضمن میں کیا کیا 235

Page 232

تدابیر اختیار کیں.البتہ چند روز کے بعد اعلان ہو گیا کہ نئی کمیٹی بن گئی ہے اور پرانی کمیٹی توڑ دی گئی ہے.حالانکہ لا ہور شہر کا کوئی نہایت معمولی پبلک جلسہ نہ اس بات کا حقدار تھا کہ نئی کمیٹی بنا کر اسے آل انڈیا کشمیر کمیٹی قرار دیتا اور نہ اس امر کا مجاز تھا کہ پہلی کشمیر کو توڑ دیتا.زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا تھا کہ کسی بننے والی کمیٹی پر اظہار اعتماد کر دیا جا تا اور پرانی کمیٹی پر بے اعتمادی کی قرار داد منظور کر دی جاتی.اس حالت میں یہ سمجھا جاتا کہ لا ہور شہر کے ان چند سومسلمانوں کو جو ایک خاص تاریخ کو دہلی دروازہ کے باہر جمع ہوئے تھے.پرانی کمیٹی کے کام پر اعتماد نہیں اور بس.لیکن وہ مسلمان اگر چند سو نہیں بلکہ چند ہزار بھی ہوتے تو سارے ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی و نیابت کا منصب سنبھال لینے کے حقدار نہ تھے “ (روز نامه انقلاب لاہور ۱۰ ستمبر ۳۳ ) ( نوٹ از مؤلف؛ انگریزی روزنامہ ٹیٹسمین ۴ جولائی ۳۳ء اور دیگر تمام مشہور اخبارات نے اس کا روائی کو غیر آئینی قرار دیا.ظ.۱) گویا گھر کے بھیدی اخبار ” تبصرہ “ کے اس دعوی کو جی ما نا پڑیگا کہ " مرشد اور پیر جی کے درمیان افضل حق کی معیت میں جو متعد د ملاقاتیں ہوئیں.ان میں یہی طے پایا تھا کہ پہلے عہدہ داروں کو ہٹا کر وو تحریک آزادی کشمیر کی باگ ڈور مجلس احرار کے سپرد کر دی جائے...تا کہ یہ فدا کار ریاست کی نمک خواری کا حق ادا کر سکیں." ان لوگوں کے متعلق اکابرین کشمیر کی آراء قارئین پہلے ملاحظہ فرما چکے ہیں دراصل یہ لوگ ہندو کانگرس کا حصہ تھے.اس لیے یہ مجبور تھے کہ عین موقع پر جمہور مسلمانوں کے خلاف ہنگامہ آرائی کریں.236

Page 233

احراریوں کے متعلق چند آراء ہے؛ وو احراریوں کا ذکر چل پڑا ہے تو ان کے متعلق کچھ مزید آراء بھی سُن لیجئے ملا..پنجاب کے کانگرسیوں کی ایک جماعت احراریوں کے ساتھ در پردہ یہ سازش کر رہی ہے کہ احراریوں کو یہ لالچ دیا جائے کہ اگر وہ کانگرس کی اس جماعت سے مل جائیں تو ان کو صرف عہدے ہی نہیں ملیں گے.بلکہ کچھ مال بھی ملے گا.(روز نامہ ملاپ لاہور ۱۲ / جولائی (۶۳۴ اس کی تائید کے لیے انقلاب کا مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ ہو: مجلس احرار کی در کنگ کمیٹی کے اجلاس منعقدہ امرتسر میں یہ فیصلہ ہوا ہے کہ اگر کوئی احراری کارکن کانگرس کا ممبر بن کر کرنا چاہتا ہو تو اسے مجلس کی طرف سے کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہوگی...( روز نامہ ملاپ لاہور ۱۲ جولائی ۳۴ ) خان بہادر حاجی رحیم بخش صاحب سیکرٹری آل انڈیا مسلم کانفرنس کا ایک مفصل بیان اگست ۳۴ء کے آخر میں اخبارات میں شائع ہوا اس کا ایک حصہ قارئین کے اضافہ معلومات کے لیے درج ہے....جہاں تک احراریوں کے عقیدہ کا تعلق ہے.وہ دل سے کانگرس کے ساتھ ہیں.ابھی اگلے روز ہی ان کے ایک لیڈر مسٹر مظہر علی نے اس امر سے انکار کرتے ہوئے کہ احرار کھلم کھلا کانگرس میں شامل نہیں ہوں گے تسلیم کیا تھا کہ احراریوں کو کانگرس کا ممبر بننے کی اجازت ہے.اور کئی 237

Page 234

احراری اس وقت کانگرس کے ممبر ہیں.سرکردہ مسلمان احراریوں کے متعلق کیا خیال رکھتے ہیں.اس کا پتہ مسٹر گابا کے نام ممدوٹ کے نواب شاہ نواز خاں کے خط سے پتہ چلتا ہے.نواب صاحب کے خط کا مضمون یہ ہے اسمبلی کے انتخابات میں میں نے آپ کی حمایت کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس شرط پر کہ اگر آپ کے مقابلہ میں آپ سے بہتر کوئی امیدوار کھڑا نہ ہوا.اب جب کہ حاجی رحیم بخش آپ کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے ہیں.میں انہیں آپ پر ترجیح دیتا ہوں.آپ احرار ٹکٹ پر کھڑے ہور ہے ہیں.پچھلے تجربہ کی بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ احراریوں کی پالیسی مسلم مفاد کے خلاف رہی ہے اس لیے میں آپ کی امداد نہیں کر سکتا...(انقلاب ۱۴ را گست ۶۳۴) مسلم پریس کی آراء احراریوں کی جمہور مسلمانوں کے خلاف ضرررساں کاروائیوں کی وجہ سے مسلم پریس بھی سخت نالاں تھا روز نامہ ”سیاست“ کا ر جولائی ۳۴ ء اس کا گلہ اس طرح کرتا ہے:.دور ہیجان واضطراب مسلمین میں ہزاروں ایسی ہستیاں پیدا ہوگئی ہیں.جنہوں نے مسلمانوں کی حالت اضطرار سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دہڑی دہڑی کر کے اُن کو لوٹا.پُر جوش تقریریں کر کے انہیں مختلف حکومتوں سے ٹکرایا.ان کے گھر بار تباہ کرائے.اور آخر میں جب انہیں دوزخ شکم کے لیے ایندھن فراہم ہو چکا تو خاموشی سے پیشاب کی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے.ازاں جملہ ایک حبیب الرحمن لدھیانوی ہیں.یہ ذات شریف کا نگرسی بھی 238

Page 235

رہے ہیں.خلافتی بھی بن چکے ہیں.اور پھر ہر جگہ دھتکارے جانے کے باعث آخری غدار و خائن ملت جماعت احرار اسلام میں شامل ہوئے.کپورتھلہ میں جو کچھ ہوا وہ انہی چند ایک اشخاص کی بدولت ہوا.جنہیں احراری لیڈر کہا جاتا ہے.حبیب الرحمن نے بھی اس میں پر زور حصہ لیا.اور اسلامیان کپورتھلہ کو بھڑکا کر مقامی حکومت سے متصادم کرایا مسلمانوں پر جو آتش بازی ہوئی وہ ان لوگوں کی آتش بار تقریروں کا ہی نتیجہ تھا ( سیاست ۷ا / جولائی (۳۴ روز نامہ انقلاب نے ستمبر ۳۴ء میں ان سے اس طرح شکایت کی: وو اگر مسلم کا نفرنس والے ۲۹ء میں مسلم رائے کو منظور کر کے مقابلہ میں جمع نہ ہو جاتے تو احرار اور ان کے رفقاء کی فدائیت اور حزب اللہ بیت ۲۹ ء ہی میں نہرور پورٹ کا پھندا مسلمانوں کے گلے میں ڈال کر انہیں پھانسی لڑکا چکی ہوتی “ ( انقلاب ستمبر ۳۴ء) احرار کا شاندار کارنامه فرمالیں: نومبر ۳۴ء کے اخبارات نے احرار کا ایک شاندار کارنامہ شائع کیا.وہ بھی ملاحظہ وو ان دنوں میں بلدیہ لاہور کے الیکشن کے لیے امیدواروں کی درخواستیں پیش ہو رہی ہیں.مسلم سٹی وارڈ حلقہ بارودخانہ سے میاں امیر الدین بلا مقابلہ منتخب ہوا کرتے تھے.لیکن اب کے میاں صاحب موصوف نے چونکہ انتخاب اسمبلی میں خان بہادر رحیم بخش کی امداد کی.اس لیے مجلس احرار نے اس حلقہ سے اپنا امیدواران کے مقابل 239

Page 236

پر کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا.لیکن احرار کا یہ فعل خود اُن کے لیے جس قدر بدنامی اور رسوائی کا موجب ہوا ہے اسے دیکھتے ہوئے وہ یقیناً اپنے اس فیصلہ پر پشیمان ہوگی.میاں امیر الدین صاحب نے احرار اُمیدوار کے متعلق اعتراض کیا کہ وہ سرے سے مسلمان ہی نہیں بلکہ عیسائی ہے.احرار نے اس سے انکار کیا تو میاں صاحب نے اپنے دعوی کے ثبوت میں کئی معزز عیسائی بطور گواہ پیش کر دیئے.ریور ینڈ سائیں داس کرسچن مشنری نے شہادت دی کہ اُس نے ۱۹۲۵ء میں بمقام راولپنڈی اس شخص کو بپتسمہ دیا تھا.پادری ٹھا کر داس نے کہا کہ یہ شخص جولائی ۱۹۳۴ء تک نولکھا چرچ کا با قاعدہ ممبر رہا ہے.اور برا بر چندہ دیتا رہا ہے.پرنسپل ایف سی کالج نے کہا کہ انہوں نے امید وار مذکور کو اپنے کالج میں عیسائی ہونے کی وجہ سے ملازم رکھا ہوا تھا.تخفیف کی وجہ سے جب اسے علیحدہ کیا گیا تو اس نے ایک خط میں مجھے لکھا کہ میں اسلام کو چھوڑ کر عیسائی ہوا تھا.لیکن پھر بھی میرے روزگار کا کوئی خیال نہیں کیا جاتا.ایک لون سوسائٹی کے سیکرٹری نے بیان کیا کہ ہماری سوسائٹی صرف عیسائیوں کو قرضہ دیتی ہے.اور اُمید وار مذکور کئی بار اس سوسائٹی سے قرض لے چکا ہے.اور اس قدر شواہد کے بعد احراری امیدوار نے بھی دبی زبان سے اقرار کر لیا میں نوکری کی خاطر عیسائی ہوا تھا.مگر حقیقت میں مسلمان ہی ہوں.لیکن بیتسمہ لینے کے بعد حقیقت میں مسلمان ہونے کے چونکہ کوئی معنی نہیں اس لیے الیکشن آفیسر نے احراریوں کے نمائندہ کو عیسائی قرار دے کر اس کے مسلم حلقہ سے کھڑا ہونے کی درخواست مسترد کردی......240

Page 237

(احرار نے مسجد شہید گنج یا دوسرے مواقع پر جو رویہ اختیار کیا یا پاکستان کے قیام کے وقت انہوں نے مسلمانوں کی مخالفت کے لئے جو سر دھڑ کی بازی لگائی اس کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں کیونکہ راقم الحروف صرف کشمیر کی کہانی لکھ رہا ہے.مندرجہ بالا حقائق اس لئے لکھنے ضروری تھے کہ جب ان لوگوں نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی میں افتراق پیدا کیا اُن دنوں جمہور مسلمان انھیں کیا سمجھتے تھے.ان لوگوں نے کشمیریوں پر دوسری مرتبہ ظلم عظیم کیا اور آزادی تحریک کو پیچھے ڈالنے کے لئے ریاست کے ممد و معاون ہوئے.ظا) ریاست کے فدا کار ” کشمیر کے لیے احرار کی فدا کاریوں کے ضمن میں اس چیلنج کا ذکر بھی دلچسپی کا باعث ہو گا جو ان میں سے ایک دوست حافظ محمد شاہ نے ارنومبر ۳۴ء کو لا ہور کے پر رونق جلسہ میں دیا.حافظ صاحب نے فرمایا:.وو میں احراری تحریک کے مرکزی شہر سیالکوٹ کا رہنے والا ہوں.اور ان کی قومی خدمات سے بخوبی آگاہ ہوں میرے پاس احراری قائدین کی تحریرات پرائم منسٹر کشمیر مسٹر مہتہ اور دیگر حکام کے ساتھ ان لوگوں کی خفیہ خط و کتابت کے فائل اور رجسٹرات تک موجود ہیں.جن سے ان کی قومی خدمات کی قلعی پوری طرح کھل جاتی ہے پس بہتر ہے کہ وہ قومی خدمات کی رٹ لگانا چھوڑ دیں..کمیٹی احرار کے قبضہ میں آنے کے بعد 66 مہاراجہ نے یہ خیال کیا تھا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے محترم صدر مرزا بشیر الدین محمود احمد 241

Page 238

صاحب کا اثر کمیٹی کے ٹوٹ جانے سے ختم ہو جائے گا.ریاست کے ذمہ دار لیڈروں کو اس نے ایک بار پھر جیل میں دھکیل دیا تھا.یہ سب گرفتاریاں مئی اور جون ۳۳ء میں ہوئی تھیں بعد میں بھی نو جوانوں کی گرفتاریاں جاری رہیں.محترم مرزا صاحب نے سید زین العابدین ولی اللہ شاہ کو مسٹر کالون وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے بھجوایا تا کہ وہ اس پر یہ واضح کریں کہ یہ سب کا رروائی غلط ہو رہی ہے.اس کا انسداد کیا جائے.دوسری طرف شیخ بشیر احمد ایڈووکیٹ جو مظلوم کشمیریوں کی درخواست پر ان کے مقدمات کی پیروی کے لیے تشریف لے گئے تھے ہر دو کو گورنر کشمیر نے ریاست چھوڑ دینے کے نوٹس جاری کر دیئے.یہ ہر دو صاحبان جب واپس پنجاب پہنچے تو یہاں کے پریس میں یہ خبر آ چکی تھی کہ پارلیمنٹ میں سوال کیا گیا ہے کہ ان صاحبان کو ریاست سے کیوں نکالا گیا ہے.وزیر ہند نے بعد تحقیق جواب دینے کا وعدہ کیا.جب ریاست کی گوشمالی ہوئی تو وہ اپنے احکام کوکالعدم قرار دینے پر مجبور ہوئی.242

Page 239

غلط انہی سے بچنے کے لیے کمیٹی کا نام آئندہ آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن رکھا گیا.چنانچہ یہ ایسوسی ایشن اسی نام سے ۳۷ء کے آخر تک کام کرتی رہی.دوسری طرف سر محمد اقبال والی کمیٹی بہت مختصر مدت کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن انجمن سازی اور اتفاق کار کے تمام قواعد وضوابط کی خلاف ورزی سے نئی کمیٹی کے بنالیے جانے کے بعد اصل اور بنیادی آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے اراکین کو صحیح صورتحال سے آگاہ کرتی.تاکہ ہر قسم کی غلط فہمی کا ازالہ ہو جانے کے بعد ساتھ ساتھ اہالئی کشمیر کو بھی اصل حقائق سے آگہی ہو جاتی.روزنامہ انقلاب کا ایک مفصل ادار یہ اسی صورت حال سے متعلق تھا.جس کا ایک حصہ قارئین کے اضافہ معلومات کے لیے درج ذیل ہے.وو چونکہ کشمیر کمیٹی کے عارضی صدر مستعفی ہو چکے تھے اور عارضی سیکرٹری صاحب نے استعفیٰ دیے بغیر ہی اپنے فرائض و واجبات کو اور جماعتی آداب وقواعد کو پس پشت ڈال کر نئی کمیٹی میں سیکرٹری شپ کا عہدہ قبول کر لیا تھا.اس لیے آل انڈیا کشمیر کمیٹی عملاً معطل ہوگئی تھی.کمیٹی کے جن ممبروں کے سامنے یہ واقعات پیش آئے تھے.انہوں نے اپنا اخلاقی فرض 243

Page 240

سمجھا کہ تمام واقعات و حالات کی اطلاع ممبروں کو دیں اور ان سے استصواب کریں کہ آیا پُرانی کمیٹی کو ان حالات میں باقی رکھا جائے یا توڑ دیا جائے.چنانچہ چار مہروں کے دستخطوں سے ایک گشتی مراسلہ مختلف ممبروں کی خدمت میں بھیجا گیا.کمیٹی کے کل تریسٹھ ممبر تھے.ان میں سے گیارہ یا بارہ ممبروں نے غیر جانب دار رہنے کا اظہار فرمایا.بعض نے طرفین کے ساتھ یکساں ذاتی تعلقات کی بنا پر.بعض نے چند ذاتی مصلحتوں کی بنا پر اور بعض نے بعض اس بناء پر کہ مسلمانوں میں اختلاف بر پا ہو جانے کی حالت میں انھیں علیحدگی اور بے تعلقی ہی مناسب معلوم ہوئی.ان گیارہ ممبروں کو تریسٹھ میں سے خارج کر دیا جائے تو باقی باون ممبر رہ جاتے ہیں باون میں سے میں نے صاف اور واضح لفظوں میں افتراق انگیز واقعات کی مذمت کی.اختلاف پیدا کرنے والوں کی روش کو جماعتی آداب وقواعد کے منافی بتایا اور لکھا کہ کشمیر کمیٹی کا کام حسب سابق جاری رہنا چاہیے.ان کے علاوہ بارہ ممبروں نے ۱۳ رستمبر کے جلسے میں شریک ہو کر کمیٹی کے کام کو جاری رکھنے کی تائید کی.اس طرح تریسٹھ میں سے بتیس ممبروں اور گیارہ غیر جانب دار ممبروں کو علیحدہ کرنے کے بعد باون میں سے بتیس ممبروں نے کمیٹی کے کام پر اعتماد کا اظہار کیا باقی اصحاب میں سے کسی کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا.اور جو اصحاب نئی کمیٹی میں شریک ہوئے ان کی تعداد بہر حال دس سے کم ہے.244

Page 241

پس جب ممبروں کی بہت بڑی اکثریت نے فیصلہ صادر کر دیا کہ کمیٹی کا کام جاری رہے اور انھوں نے ان بزرگوں کے خیالات سے اتفاق نہ کیا.جنھوں نے لاہور میں ایک پبلک جلسہ منعقد کر کے ایک نئی کمیٹی تاسیس کا بندوبست کیا تھا.تو کمیٹی کے ممبروں کے لیے اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ وہ کام کو جاری رکھتے اور نئے عہدے دار منتخب کر لیتے.لیکن ۳ رستمبر کے جلسے میں شریک ہونے والے ممبروں کے پیش نظر اتحاد تھا وہ دل سے چاہتے تھے کہ اہل کشمیر کی امداد کے کام میں حتی الامکان اختلاف پیدا نہ ہو.اس لیے انھوں نے بالا تفاق ان بزرگوں کو صدر اور سیکرٹری منتخب کیا.جن پر نئی کمیٹی بنانے والوں کو زیادہ سے زیادہ اعتماد ہوسکتا تھا.تا اگر وجہ نزاع یہی ہو کہ اختیار واقتدار کسی ایسے گروہ کے ہاتھ میں نہ جائے.جس پر نئی کمیٹی کے مؤسیسن کو اعتراض ہو تو اس وجہ نزاع کا استیصال ہو جائے.اگر مجوزہ صدر صاحب اور سیکرٹری صاحب سعی اتحاد کی اس پیش کش کو خدا نا خواستہ قبول نہیں کریں گے تو لازماً دوسرے صدر اور سیکرٹری کا انتخاب عمل میں آئے گا.آل انڈیا کشمیر کمیٹی حسب سابق اپنا کام جاری رکھے گی.اور کوشش کرے گی کہ تصادم کا کوئی موقع پیش نہ آئے.اتحاد ہی کے مقاصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہ کوئی مجلس عاملہ منتخب کی گئی اور نہ دستور اساسی کے قواعد وضوابط معرض بحث میں لائے گئے.بلکہ پانچ آدمیوں کی عارضی کمیٹی بنا دی گئی.تا کہ وہ صدر صاحب اور سیکرٹری صاحب کے مستقل فیصلہ تک کشمیر کمیٹی کا کام جاری رکھے.ان پانچ آدمیوں میں سے بھی کسی کو صدر یا سیکرٹری نہ بنایا گیا.تا کہ خدانخواستہ یہ 245

Page 242

غلط نہی پیدا نہ ہو کہ ارکان کمیٹی صدر اور سیکرٹری کے عہدے دو بزرگوں کی خدمت میں پیش کرنے کے باوجود نئے صدر اور سیکرٹری کے انتخاب کی تدابیر پیش نظر رکھتے ہیں.( روز نامه انقلاب ۱۰ ستمبر ۶۳۳) سر محمد اقبال کو صدارت کی پیشکش ۳ ستمبر کو لاہور کے مقام پر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا جو اجلاس ہوا اس کی کچھ تفصیل اوپر آچکی ہے.اس اجلاس میں یہ بھی فیصلہ ہوا:.اتحاد و اتفاق قائم رکھنے کے لیے ڈاکٹر سر محمد اقبال اور خان بہادر حاجی رحیم بخش صاحب کو علی الترتیب کشمیر کمیٹی کی صدارت اور سیکرٹری شپ کے عہدے پیش کیے جائیں اور ۱۶ ستمبر کو شملہ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا ایک اجلاس منعقد ہو جس میں ان اصحاب کی طرف سے موصول شدہ جوابات کی روشنی میں عہدہ داران کے تقرر کے سوال کا آخری فیصلہ کیا جائے....چنانچہ ۱۶ ستمبر کو شملہ میں یہ اجلاس زیر صدارت نواب ابراہیم علی خاں صاحب آف کنجپورہ (ایم.ایل.اے) منعقد ہوا.حاجی رحیم بخش صاحب نے یہ عہدہ قبول کرنے سے معذوری پیش کی تھی اور سر محمد اقبال صاحب نے بعد میں جواب دینے کا وعدہ کیا تھا اس لیے نئے عہدہ داران کا انتخاب نہ ہو سکا.البتہ کام جاری رکھنے کے لیے عبوری انتظام کرایا گیا.اور بدستور سابق کام ہوتا رہا اور اس عرصہ میں بھی اہالیان کشمیر کی گراں قدرا مداد کی گئی.مسلم کانفرنس کا دوسرا سالانہ اجلاس سال کے آخر پر کشمیر میں میر پور کے مقام پر مسلم کانفرنس کا دوسرا سالانہ اجلاس منعقد ہوا.اس اجلاس کی کامیابی دلیل تھی اس بات کی کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے اندرون ریاست 246

Page 243

باشندگان کی جو تنظیم کی تھی وہ کامیابی کے ساتھ ترقی کر رہی تھی.اس اجلاس میں نہایت اہم امور کے متعلق فیصلے ہوئے.آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن سرمحمد اقبال صاحب نے کمیٹی کی صدارت قبول نہ کی اس لیے اصل آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے نہ آل نے جواب بھی فعال جماعت تھی اپنے اجلاس ۲۵ / مارچ ۳۴ء میں یہ فیصلہ کیا کہ غلط نہی سے بچنے کے لیے کمیٹی کا نام آئندہ آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن“ رکھا جائے چنانچہ اسی نام سے یہ ایسوسی ایشن ۳۷ ء کے آخر تک کام کرتی رہی.دوسری طرف سر محمد اقبال والی کمیٹی بہت مختصر مدت کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی.کشمیر ایسوسی ایشن کے صدر سید حبیب (مدیر و مالک روز نامہ سیاست ) اور سیکرٹری مشہور کشمیری مورخ منشی محمد الدین فوق مقر ر ہوئے پھر ایک عرصہ تک چودھری عبدالرشید تبسم.ایم.اے نے بھی سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیئے.ایسوی ایشن کی درخواست پر تمام مالی بوجھ وکلاء اور کارکنان کا مہیا کرنا حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنے ذمہ لینا منظور کر لیا.آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن کی نمائندہ حیثیت کا پتہ اس کے اراکین کی فہرست سے نجوبی چل جاتا ہے.جس میں علاوہ دیگر اکابرین کے مرکزی اسمبلی کے قریباً سب منتخب مسلم نمائندے اور مؤقر مسلم جرائد کے ایڈیٹر مالک شامل تھے.کشمیر ایسوسی ایشن کی چند مساعی کشمیر ایسوسی ایشن کے ماتحت کام پہلے کی طرح جاری رہا.جو لیڈر گرفتار کر لیے گئے تھے.ان کی رہائی کے لیے ہر طریق سے کوشش کی گئی.پارلیمنٹ میں سوال کروائے گئے.247

Page 244

وزیر ہند اور حکومت ہند پر زور دیا گیا.انگلستان میں مولا نا عبد الرحیم درد اور ہندوستان میں چودھری محمد ظفر اللہ خاں.ڈاکٹر مفتی محمد صادق.اور سید زین العابدین ولی اللہ شاہ نے خوب کام کیا.ریاست کو بار بار توجہ دلائی گئی.اخبارات میں مضامین شائع کیے گئے.بالآخر کشمیریوں کا وہ محسن جو ۱۹۰۹ء سے ان کی آزادی کے لیے کوشاں تھا.ایک دفعہ پھر اسیروں کی رستگاری کا موجب بنا اور قیدی رہا کر دیئے گئے.چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب جو مقدمات ریاست میں چل رہے تھے.ان کی پیروی کے لیے وکلاء بھجوائے.جنھوں نے بلا معاوضہ کام کیا.بلکہ بعض مواقع پر کورٹ فیس تک اپنی جیب سے خرید کر لگائے.اس سلسلہ میں چودھری محمد ظفر اللہ خاں، شیخ بشیر احمد اور چودھری اسد اللہ خاں بیرسٹر ایسے قابل وکیل بھی کشمیر بھجوائے گئے.اخبار اصلاح کا اجراء ۳۴ء کے وسط میں ایک سہ روزہ جریدہ اصلاح “ جاری کیا گیا.جس کے اغراض و مقاصد یہ تھے؛ مسلمانان کشمیر کی مذہبی.اخلاقی تمدنی.اور سیاسی راہنمائی اور بیداری مسلمانوں میں تعلیم وصنعت کی اشاعت و ترویج مسلم حقوق کی حفاظت قانون شکن تحریکات کا مقابلہ 248

Page 245

اتفاق واتحاد اور تنظیم بد رسومات کی اصلاح حکومت اور عوام کو مخلصانہ مشورے اور راہنمائی یہ اخبار ۴۷ ء تک ریاستی مسلمانوں کی خدمت کرتا رہا.راقم الحروف کو ۴۵ ء میں ایک دفعہ پھر کشمیر کا دورہ کرنا پڑا.اس لمبے سفر میں مدیر اصلاح خواجہ عبدالغفار ڈار میرے ہمراہ رہے.مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ میں جہاں بھی گیا لوگوں کے دلوں میں اخبار کے مدیر اعلیٰ چودھری عبدالواحد اور مدیر خواجہ عبد الغفار ڈار اور ان کے اخبار کی بہت قدر ہے.یہ دونوں صاحبان ۴۷ ء تک ( جب کہ مجبوراً اخبار بند ہو گیا ) اس کے ساتھ منسلک رہے.کشمیر اسمبلی کا قیام ۳۴ ء کا ایک اہم واقعہ کشمیر اسمبلی کا قیام ہے چونکہ کشمیر کے بعض لیڈر اور قومی کارکن ابھی تک جیلوں میں تھے اس لیے شیخ عبداللہ صاحب نے اپنی رہائی کے بعد بھی یہ فیصلہ کیا کہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے.مگر وہ کشمیر کے محسن کے مشورہ کو نظر انداز نہ کر سکے.جنھوں نے قبل از وقت اپنے ایک مکتوب کے ذریعہ جو طبع کر کے کشمیر کے ہر حصہ میں ہزاروں کی تعداد میں بھجوایا گیا تھا اور جس میں یہ مشورہ دیا گیا تھا.انتخابات کے متعلق صحیح مشورہ یہ بھی یادر ہے کہ بعض (لوگ ) آئندہ اصلاحات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں.اہل کشمیر اگر اس فریب میں آگئے.اور آئندہ کونسلوں میں مسٹر عبد اللہ کے دشمن اور قومی تحریک کے مخالف ممبر ہو گئے تو سب محنت اکارت جائے گی اور مسٹر عبد اللہ اور دوسرے قومی کارکنوں کی سخت ہتک 249

Page 246

ہوگی.پس اس امر کے لیے آپ لوگ تیار رہیں کہ اگر خدانخواستہ قومی کا رکنوں کو جلدی آزادی نہ ملی اور ان کی آزادی سے پہلے انتخابات ہوئے ( گو مجھے اُمید نہیں کہ ایسا ہو ) تو ان کا فرض ہونا چاہیے.کہ ایسے لوگوں کے مقابلہ میں قومی کام سے ہمدردی رکھنے والوں کو امیدوار کھڑا کر دیں.اور یہ نہ کریں کہ کانگریس کی نقل میں بائیکاٹ کا سوال اٹھا دیں.بائیکاٹ سے کچھ فائدہ نہ ہوگا.کیونکہ آخر کوئی نہ کوئی ممبر تو ہو ہی جائے گا.اور قومی خیر خواہوں کی جگہ قومی غذاروں کو ممبر بننے کا موقعہ دینا ہر گز عقل مندی نہ کہلائے گا.( ٹریکٹ مسلمانانِ جموں کے نام میرا ساتواں خط) دوسرا مشورہ پھر اپنے ایک دوسرے مکتوب میں جسے کشمیر کے گوشہ گوشہ میں پہنچایا گیا.آپ نے قومی کارکنوں کو اس طرح خبر دار کیا:.اسمبلی بھلی یائیری جلد بننے والی ہے بعض ساتھی بعض حکام سے مل کر کوشش کر رہے ہیں.کہ وہ ووٹروں کی فہرست ایسی بنوائیں کہ جس سے ان کی پارٹی کو طاقت حاصل ہو جائے.آپ کو چاہیے کہ اس کا تن دہی اور عقل مندی سے مقابلہ کریں اور اپنے ووٹروں کی لسٹ مکمل کروائیں.تا کہ اگر اسمبلی پر قبضہ کرنے کی تجویز ہو.جو میرے نزدیک ضروری ہے تو آپ ایسا کر سکیں.ورنہ اگر کانفرنس نے اسمبلی پر قبضہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا تو ووٹروں کی فہرست کے نقائص کی وجہ سے آپ لوگ زیادہ ہو کر بھی کم نظر آئیں گے“ (حقیقت حال.مطبوعہ خط بنام برادرانِ کشمیر ۱۳۴) 250

Page 247

مسلم کانفرنس کی کامیابی اہل کشمیر نے اس موقعہ پر عقل مندی سے کام کیا.ان ہدایات پر عمل کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ کشمیر مسلم کا نفرنس نے وادی میں اپنے جس قدر نمائندے کھڑے کئے تھے وہ سب کے سب انتخاب جیت گئے.۵ر ستمبر کو ان نمائندوں کی کامیابی کا سرکاری طور پر بھی اعلان کر دیا گیا وہ نام یہ تھے: 1- مولوی محمد عبد اللہ وکیل 2- خواجہ علی محمد 3- خواجہ احمد اللہ شہداد 4- خواجہ غلام محمد صادق 5- سید حسین شاہ جلالی شاہی کمیشن کا تقرر اس سال کا ایک اور واقعہ بھی قابل ذکر ہے.جون ۳۴ء میں مہاراجہ کے حکم سے سرگنگاناتھ چیف جسٹس ریاست جموں و کشمیر کی قیادت میں ایک شاہی کمیشن مقرر کیا گیا.غرض ی تھی کہ ریاست کا آئندہ نظام حکومت اس طرز پر ہو کہ تمام مذاہب کے لوگ یکساں حقوق حاصل کر سکیں اور ترقی کرسکیں.کشمیریوں کے اس محسن نے اس موقعہ پر بھی ان کی صحیح راہنمائی کی اور وہ کام جو اور کوئی نہ کر سکا انھوں نے کر دکھایا.ریاست میں مسلمانوں کو کوئی مذہبی آزادی حاصل نہ تھی.اگر کوئی شخص اسلام قبول کر لیتا تو اسے نہ صرف جائیداد سے محروم کر دیا جاتا تھا.بلکہ اس کے بیوی 251

Page 248

بچے بھی اس سے چھین لیے جاتے تھے.گائے کی قربانی کرنے والے اور اس میں کسی طریق سے حصہ لینے والے کے لیے سات سال قید کی سزا مقرر تھی.اس لیے کمیشن کے سامنے مسلمانوں کا کیس پورے زور کے ساتھ پیش کیا جانا ضروری تھا.اس غرض سے قادیان سے مشہور فاضل سنسکریت پنڈت مولوی عبداللہ ناصر الدین مولوی فاضل کا و یہ تیرتھ.چتر ویدی) کو بھجوایا گیا.انھوں نے کمیشن کے سامنے کئی روز تک شہادت دی اور وید کے منتروں اور سمرتیوں کے شلوکوں سے یہ ثابت کر دکھایا کہ آریہ ہندو گائے کی قربانی کو باعث ثواب یقین کرتے تھے.اسی طرح انھوں نے ویدوں سے یہ ثابت کر دیا کہ تبدیلی مذہب کی بناء پر نہ کوئی سزا دی جاسکتی ہے نہ کسی کو جائداد سے محروم کیا جاسکتا ہے.مولوی ناصرالدین عبداللہ صاحب چترویدی تھے (انھوں نے چاروں دید پڑھے ہوئے تھے ) سارے ہندوستان میں گنتی کے چند ہندو چترویدی تھے.اس لیے ان کی شہادت کو رد کرنا آسان نہ تھا.اس کے علاوہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی ہدایات کو محوظ رکھتے ہوئے چودھری عبدالواحد مدیر اعلیٰ اصلاح خواجہ غلام نبی گلکار اور خواجہ عبدالرحمن ڈار رئیس ناسنور نے بھی مفصل بیانات دیئے.ان تمام خدمات کے اعتراف کے طور پر اور آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن پر کلمی اعتماد کے اظہار کی غرض سے ریاست کے ہر حصہ سے شکریہ کی تاریں.خطوط.اور ریزولیوشن موصول ہوتے رہے.نمونہ کے طور پر ملاحظہ ہو.مسلمانان پو نچھ کا ایک عظیم الشان جلسہ جس میں خواجہ غلام احمد صاحب بٹ جنرل سیکرٹری مسلم لیگ کا نفرنس حلقہ پونچھ نے سابق آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمات کو شاندار الفاظ 252

Page 249

میں دہراتے ہوئے یہ قراردادیں پیش کیں جو متفقہ طور پر منظور ہوئیں: -1 قرار پاپا کہ موجودہ وقت جو کہ پہلے سے بھی نازک صورت اختیار کر رہا ہے اور ہمارے جائز اور آئینی مطالبات جو منظور ہو چکے ہیں.ان کے متعلق تا حال عمل درآمد نہیں ہوا.اور وہ مطالبات جو سر کار والا مدار پونچھ کے زیر غور ہیں.ان کے حصول کے لیے آل انڈیا کشمیر ایسوسی الیشن پر کامل اعتما در کھتے ہوئے اسے حق نمائندگی دیا جاتا ہے اور استدعا کی جاتی ہے کہ وہ جائز اور آئینی طریق سے مسلمانان پونچھ کی نمائندگی ادا کر کے مسلمانان پونچھ کو شکر گزاری کا موقعہ دے.-2 قرار پایا کہ مسلمانان پونچھ کے مطالبات کے حصول کے لیے آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ سرکار والا مدار پونچھ سری حضور مہاراجہ بہادر ، حضور وائسرائے ، بہادر تک پوری پوری جد و جہد جاری رکھے اور مسلمانان پو نچھ کو مزید موقعہ شکر گذاری دے“.۳۴ء میں سوپور کے مقام پر کشمیر مسلم کا نفرنس کا تیسرا سالانہ اجلاس ہوا.یہ اجلاس اپنی کامیابی کے لحاظ سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے.میاں احمد یار وکیل مظفر آباد اس کے صدر تھے.انہوں نے اپنی صدارتی تقریر میں فرمایا:....جب تحریک حریت کی ابتداء ہوئی.ہندوستان کے سر بر آورہ مسلمانوں نے شملہ میں ایک میٹنگ کر کے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی.اس انجمن نے مالی اور جانی رنگ میں قربانی دے کر ہماری مدد کی ، ہماری تکالیف سے دنیا کے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک کو آگاہ کیا.یورپ اور امریکہ میں پراپیگنڈہ کیا.تحریک کے حامیوں 253

Page 250

مظلومین اور شہداء کے پس ماندگان کو مدد دی.اور ہر حالت میں بے لوث اور ہمدردانہ خدمات انجام دیں.جب تحریک کشمیر اور سنجیدہ ہوگئی.تو ہندوستان کے ہزار ہا مسلمان جیلوں میں گئے.اور جام شہادت پیا.اب آئینی رنگ میں کشمیر ایسوسی ایشن ہماری مدد کر رہی ہے.آل انڈیا کانفرنس نے تحریری رنگ میں مظلومین کشمیر کی امداد کی اس لیے یہ سب افراد اور جماعتیں دلی شکریہ کی مستحق ہیں...اصلاح سرینگر ۲۰ / نومبر ۱۹۳۴ء) ہندوؤں کی ایجی ٹیشن ریاست کے اندر مسلمانوں کی ایک عظیم منظم ومستحکم جماعت مسلم کانفرنس“ کا قیام عمل میں آچکا تھا جس کی شاخیں ریاست کے مختلف حصوں میں قائم ہو چکی تھیں.کانفرنس کے کئی کامیاب اجلاس منعقد ہو چکے تھے.الحمد للہ کہ ریاست کے عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا دلی خلوص حوصلہ افز اتغیرات کی صورت میں رنگ لا رہا تھا.ایک حد تک ابتدائی انسانی حقوق ملے زمینداروں کے حقوق قائم ہوئے مقدس مقامات واگزار ہوئے کسی قدر آزادی تقریر و تحریر بھی نصیب ہوئی.254

Page 251

ناقص صورت میں ہی سہی.تاہم جمہور کے نمائندوں کی اسمبلی کا قیام عمل میں آیا اور اب تو مسلمانوں کو ملازمتوں میں بھی ان کا کچھ حصہ ملنے لگا تھا.لیکن جب تک مقصد وحید کا ملاً حاصل نہ ہوجاتا نہ جدوجہد ختم ہوسکتی تھی اور نہ مسلمانانِ کشمیر ہی ابھی اس پوزیشن میں تھے کہ بیرونی امداد سے مستغنی ہوسکیں.چنانچہ صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کی دور بین نگاہ نے ان تمام مراحل کو بھانپتے ہوئے ایسوسی ایشن کی خواہش اور درخواست پر ہر نوع کی مالی ذمہ داری بدستور اپنے سر لیے رکھی.بلکہ یہ سلسلہ ایسوسی ایشن کے ختم ہو جانے کے بعد اُسی خلوص لگن اور جوش کے ساتھ جاری رہا.ریاستی ملازمتوں میں مسلمانوں کے کم از کم حصہ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس مظلوم قوم میں اعلیٰ تعلیم کی کمی تھی اور یہ کمی ہوتی بھی کیوں نہ ریاستی ظلم و تعدی نے انہیں شریفانہ گذر اوقات کے بارے میں مطمئن ہونے دیا ہوتا تو وہ اعلیٰ تعلیم کے بارے میں سوچ سکتے مگر ان کے اس محسن کی نگاہ سے اُن کی زندگی کا یہ گوشہ بھی اوجھل نہ رہا.فور اذہین ومستحق طلبہ کی تعلیمی امداد کا سلسلہ جاری کیا گیا جو خدا کے فضل سے اس ذوق و شوق سے ۴۷ ء تک جاری رہا.ان تعلیمی ومعاشرتی اور اقتصادی خلاؤں کو پُر کرنے کے لیے آپ نے اپنی جماعت میں دوسرے لازمی چندوں کے ساتھ ساتھ کشمیر ریلیف فنڈ کا چندہ بھی جاری کیا جس میں چھوٹے سے چھوٹے احمدی ، مزدور، پیشہ ور ملازم اور تاجر سے لے کر بڑے سے بڑے افسر اور ذی استطاعت احمدی نے اپنی مقدور کی انتہا تک حصہ لیا.مرکز میں اس فنڈ کا حساب کتاب رکھنے کے لیے باقاعدہ ایک شعبہ قائم تھا.جس کے فنانشل سیکرٹری چودھری برکت علی خاں صاحب مرحوم تھے.اُن کے وصال کے بعد اس خدمت کی سعادت راقم الحروف کے حصہ میں آئی.ذالک فـضـل الله يوتيه من يشاء 255

Page 252

اس فنڈ کی فراہمی میں جن بزرگوں اور کارکنوں نے نمایاں خدمات سرانجام دیں.اور گاؤں گاؤں قریہ قریہ پھر کر مظلومین کی داد رسی کے لیے سرمایہ جمع کیا اُن میں ضعیف العمر میاں احمد دین زرگر مرحوم ، واعظ اسلام با با حسن محمد ( مرحوم ) اور راجہ مددخان (مرحوم) کے اسماء گرامی نمایاں ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی نیک جدو جہد کا بہترین اجر عطا فرمائے.ملک محمد اسحاق نے بھی اس دفتر میں کام کیا.مسلم کانفرنس کے اجلاس اکتوبر ۳۵ء میں مسلم کانفرنس کا چوتھا اجلاس چودھری غلام عباس کی صدارت میں منعقد ہوا.اس اجلاس کے منتظم اعلیٰ خواجہ غلام نبی گلکار تھے.سرینگر میں چودھری صاحب کا ایک عظیم الشان جلوس نکالا گیا.دریائی جلوس جس کے قائد خود گلکار صاحب تھے پانچ سو پر مشتمل تھا.اس کے بعد ۴ امئی ۱۹۳۷ء میں مسلم کانفرنس کا پانچواں اجتماعی اجلاس کشتیوں پر پونچھ میں منعقد ہوا.میر واعظ احمد اللہ صاحب کی وفات ۳۷ء کے اوائل میں مسلمانان کشمیر کو اپنے قابل احترام را ہنما مولانا احمد اللہ میر واعظ ہمدانی کی وفات حسرت آیات کا روحانی صدمہ جھیلنا پڑا مرحوم ایک بہت بڑی مذہب پسند جمیعت کے راہنما تھے.مسلمانوں کی تعلیم و ترقی کے لیے اپنے سینے میں ایک خاص در در کھتے تھے.حنفیہ ہائی سکول (اسلام آباد) اور خانقاہی مڈل سکول“ آپ ہی کی ملی تڑپ کی یادگاریں ہیں مرحوم حنفی المذہب اور اپنے عقائد میں بے حد پختہ مسلمان تھے.بڑے وسیع القلب اور ہر نوع کے تعصب سے پاک دل و دماغ کے مالک تھے.ایجی ٹیشن کے آغا ز ہی سے اس سے وابستہ ہوئے اور آخری دم تک دلی اور مخلصانہ تعاون سے اُسے سہارا دیتے 256

Page 253

ہے.آنحضرت اللہ کے خلاف فقرے تعليسة اس سال کے وسط میں مسلمانانِ کشمیر پر ایک اور عقوبت یہ نازل ہوئی کہ سری نگر کے ایک ہندو اخبار مارتنڈ نے گائے کی تقدیس و عظمت پر مضمون گھسیٹتے ہوئے حضرت سید ولد آدم (ع) کے وجود باجود پر بھی بعض توہین آمیز فقرے چست کر دئیے جس سے ساری ریاست میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی مدیر اصلاح“ نے اس کا اولین فرصت میں نوٹس لے کر اس کے خلاف ایک زبر دست اور موثر اداریہ سپرد قلم کیا جس سے متاثر ہوکر میر واعظ یوسف شاہ کی قیادت میں چالیس ہزار کے لگ بھگ مسلمانوں نے اجتماعی جلوس نکالا.ہندور یاستی حکومت کا تعصب اس کو دیکھ کر پھر ہڑ بڑا اُٹھا.جلوس پر لاٹھی چارج اور فائرنگ کی گئی جس سے پانچھو کے قریب افراد زخمی ہوئے.میر واعظ یوسف شاہ کو گرفتار کر لیا گیا اور میر واعظ غلام نبی ہمدان کی زبان بندی کر دی گئی.جونہی اس سانحہ کی اطلاع اور تفاصیل محسن کشمیر صاحبزادہ مرزا بشیر الدین صاحب کو پہنچیں آپ نے مجرومین کے لیے بذریعہ تار مالی امدادار سال کی مدیر اصلاح “ اور خواجہ غلام نبی گل کار نے ہر مجروح و مضروب کے پاس جا کر اُس سے امام جماعت احمدیہ کی طرف سے اظہار ہمدردی کیا.اس کے بعد آپ نے ممتاز مبلغ اسلام مولا نا عبد الرحیم نیر کو جن کے ذریعہ انگلستان اور افریقہ میں ہزار ہا عیسائی مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے.(مولا نانیر ینگ میز ایسوسی ایشن جموں کے سالانہ جلسوں میں بھی تقریریں کر چکے تھے.ظا)) ریاست کشمیر میں بھجوایا آپ نے ریاست کے وزراء اور حکام اعلیٰ سے ملاقاتیں کیں اور ہندو شاستروں کی رُو سے اُن پر گائے کی اصل حیثیت اور مسلمانوں کے دلوں میں حضرت نبی اکرم ( ع ) کا مقام واحترام 257

Page 254

واضح کیا.آپ کی مخلصانہ تشریح وتبلیغ موثر ثابت ہوئی.اور حکام کے رویہ میں نمایاں تبدیلی واقع ہوگئی.چونکہ مسلم کانفرنس کے بعض اکابر ان دنوں نیشنلزم کی راہوں پر گامزن ہونے کی تیاریوں میں تھے.شاید اسی لیے انہوں نے اول اول اس مسئلہ کی اہمیت کو نہ سمجھا.لیکن بالآخر جمہور مسلمانوں کے جذبات غالب آئے اور وہ بھی احتجاجی قرار دادیں پاس کرنے پر مجبور ہو گئے.اس معاملہ میں اخبار اصلاح نے قابل قدر خدمات سرانجام دیں.پے در پے معنی خیز اداریے لکھ کر گائے کی قربانی کا جواز ثابت کیا.اُن دنوں ریاست کے قانون کی رو سے گائے کی قربانی کرنے والے کے لیے دس سال قید با مشقت کی سزا تھی.لیکن اس ٹھوس صحافتی وکالت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک مقدمہ میں کچھ مسلمان اسی جرم میں ماخوذ تھے.ہائی کورٹ نے انہیں صرف پندرہ پندرہ دن کی سزا کا حکم سنا کر رہا کر دیا.اس رہائی نے ہندوؤں کے متعصبانہ جذبات پر مہمیز کا کام کیا.مظلوم مسلمانوں کی دیکھا دیکھی وہ بھی میدان مبارزت میں اتر کھڑے ہوئے.سری نگر اور جموں میں سول نافرمانی شروع ہوئی.عورتوں نے بھی گئو ماتا کی تقدیس کا علم اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو گر فتاری کے لیے پیش کیا.لیکن جس کا کام اُسی کو سا ہے.سیاسی اور مذہبی اجتماعوں کے نتائج و عواقب بھگتنے کے لیے تو آہنی عزم اور سنگین و مستحکم ہمت درکار ہوتی ہے.جلد ہی تمام مردوزن معافیاں مانگ کر گھروں کو واپس آگئے اور یوں گئو ماتا کے نام پر شروع کی ہوئی ایجی ٹیشن اپنی موت آپ مرگئی.258

Page 255

اس میں میری ذاتی کمزوری کو بھی دخل تھا.گذشتہ آٹھ سال کی شدید اور مسلسل سیاسی کشمکش نے جس میں ہر قسم کی جسمانی روحانی مالی پریشانی اور بے اطمینانی شامل تھی.میری سیاسی کمر ہمت کو اس قدر تو ڑ دیا تھا کہ میں تن تنہا اس وقت علیحدہ تنظیم کا حامل نہیں ہوسکتا تھا“ (عباس) مخلصانہ مشوره پنڈت پریم ناتھ بزاز کی یہ بات صد فی صد درست معلوم ہوتی ہے کہ انھوں نے شیخ محمد عبداللہ کے دل میں نیشنلزم کی تخم ریزی جولائی ۳۲ ء ہی میں کر دی تھی.گواس بیج سے پھوٹنے والا پودا بیرونی دنیا کو ۳۵ء میں اس وقت نظر آیا.جب دونوں نے مل کر سری نگر سے ہمدرد کے نام سے ایک مفت نامہ جاری کیا.اس کے بعد ان دونوں صاحبوں کی تمام تر توجہ مسلم کانفرنس کے راہنماؤں کو مشرف بہ نیشنلزم کرنے ہی پر صرف ہونے لگی ( دی ہسٹری آف سٹرگل فار فریڈم ان کشمیر؛ مصنفہ بز از صفحه ۱۶۴).اور جب اس کے لیے فضا ایک حد تک سازگار محسوس کی تو ۲۶ مارچ ۳۸ء کے مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے شیخ محمد عبداللہ نے اپنے صدارتی خطبہ میں نہ صرف مسلمانان کشمیر کو ریاست کے ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ مل کر متحد محاذ قائم کرنے کی تلقین کی بلکہ یہاں تک کہا کہ ہماری ہی طرح ی بھی مظلوم ہیں اور ایک غیر ذمہ دار حکومت کے تخیہ مشق ستم لہذا اب ہر ریاستی باشندے کو مسلم 259

Page 256

غیر مسلم کے امتیاز سے بلند ہو کر اور فرقہ واریت کو کا ملا ختم کر کے مل کر کام کرنا چاہیے.اپنی اسی تقریر میں سب سے پہلی دفعہ شیخ صاحب نے ہر بالغ کے لیے حق رائے دہی اور مخلوط انتخابات کا مطالبہ کیا.سالانہ کانفرنس کے ٹھیک تین ماہ بعد ۲۸ / جون ۱۳۸، کومسلم کا نفرنس کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا اس اجلاس کا مقصد ( جو پانچ دن تک جاری رہا) مسلم کا نفرنس کی مجلس عاملہ سے نیشنل کانفرنس میں شمولیت پر صاد کروانا تھا.یہ اجلاس پانچ دن تک جاری رہا اور اس میں موافق و مخالف خوب خوب ہی بحث ہوئی.مسلم کانفرنس کے قائم رکھنے کے حق میں راہنماؤں کا کہنا یہ تھا کہ یہ کا نفرنس معنا آل انڈیا کانگرس کمیٹی کی کنیز ہوگی.ہندوستان میں کانگرس مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کر رہی ہے.وہ ہرگز ہم سے ڈھکا چھپا نہیں.ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے.بُبت رام ہو گئے اول اول اس کی چودھری غلام عباس.مرزا فضل بیگ اور بخشی غلام محمد نے بھی مخالف کی.لیکن جب ان سے یہ کہا گیا کہ کشمیر نیشنل کانفرنس نہ آل انڈیا مسلم لیگ سے الحاق کرے گی نہ آل انڈیا کانگرس سے نہ وہ ان میں سے یا کسی اور بیرونی سیاسی جماعت کے تابع ہوگی.تو یہ تینوں بُت بھی رام ہو گئے.اور ورکنگ کمیٹی کے اس اجلاس نے کثرت رائے سے یہ قرارداد منظور کی:.چونکہ مجلس عاملہ کی رائے میں وہ وقت آ گیا ہے کہ ملک کی تمام ترقی پسند جماعتیں ذمہ دارانہ حکومت کے حصول کے لیے ایک جھنڈے تلے جمع ہو کر جد و جہد کریں.مجلس عاملہ.260

Page 257

مجلس عامہ کو یہ سفارش کرتی ہے کہ آئندہ ہونے والے سالانہ اجلاس میں کانفرنس کا نام اور اس نظام کے دستور اساسی کو اس طرح تبدیل اور ترمیم کر دیا جائے کہ تمام وہ لوگ جو اس سیاسی جد و جہد میں شامل ہونے کی خواہش رکھتے ہوں.وہ آسانی سے اس کا نفرنس کے ممبر بن سکیں قطع نظر اس کے وہ کس ذات فرقہ اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں...( دی ہسٹری آف سٹرگل فار فریڈم ان کشمیر؛ مصنفہ بز از صفحه ۱۶۹) اصلاح کی مساعی جمیلہ اخبار اصلاح کو مسلمانان کشمیر کے راہنماؤں کا اپنے پاؤں پر آپ تیر چلانے کا یہ کھیل پسند نہ آیا تو اس نے ان کے نئے موقف کے خلاف ایک سلسلہ مضامین شائع کیا جس کا موضوع تھا سرکاری ملازمتیں اور غلط کا رقوم پرست مسلمان“.اور مفہوم تھا قوم پرستی کی غلط تعبیر اور غلط کا رقوم پرست مسلمانوں کا مسلم ملازموں کے خلاف ناروا پراپیگنڈا...اس مدلل مضمون میں بڑی تفصیل کے ساتھ یہ ثابت کیا گیا تھا کہ نیشنلزم کی تحریک ریاست کے مسلمانوں کے لیے موجودہ حالات میں نہ صرف خطرناک بلکہ نقصان دہ بھی ہے.صاحبزادہ مرزا بشیر الدین صاحب جن کے دل میں در دمسلمانان کشمیر کے لیے دور رس اور پائدار مفادات پر مبنی تھی.اور جو ہر دشوار مرحلہ پر برابر ان مظلوموں کی دلجوئی.امداد اور راہبری کرتے آئے تھے.انھوں نے اس مرحلہ پر بھی اس نقصان رساں تغیر کا تماشا محض تماشائی کی طرح ہی کرنا مناسب نہ سمجھا اور ایک مفصل خط اہالٹی کشمیر کے نام لکھ کر ارسال کیا جو 261

Page 258

حسب سابق ہزاروں کی تعداد میں ریاست کے گوشہ گوشہ تک پہنچایا گیا.یہ خط چونکہ اپنی افادیت کے لحاظ سے ان تمام نیک خواہشات کا ترجمان بھی ہے جو آپ کے دل میں ریاستی مسلمانوں کے لیے تھیں.اور تاریخ حریت کشمیر کا ایک نایاب ورق بھی.اس لیے میں اس کا بڑا حصہ من و عن یہاں درج کرنا مناسب خیال کرتا ہوں: میں نے جو کچھ اسلام سے سیکھا ہے.وہ یہ ہے کہ ہمارا ہر ایک سمجھوتہ سچائی پر مبنی ہونا چاہیے.یہ نہیں کہ ہم ظاہر میں کچھ کہیں اور باطن میں کچھ ارادہ کریں.ایسے ارادوں میں جن میں سچائی پر بنا نہیں ہوتی کبھی حقیقی کامیابی نہیں ہوتی.اور کم سے کم یہ نقص ضرور ہوتا ہے کہ آنے والی نسلیں خود اپنے باپ دادوں کو گالیاں دیتی ہیں.اور وہ تاریخ میں عزت کے ساتھ یاد نہیں کئے جاتے.پس میرے نزدیک کسی سمجھوتہ سے پہلے ایسے سب امور کا جو اختلافی ہوں مناسب تصفیہ ہونا چاہیے.تا کہ بعد میں غلط فہمی اور غلط انہی سے اختلاف اور جھگڑا پیدا نہ ہو.اس اصل کے ماتحت جب میں نے اس تحریک کا مطالعہ کیا تو مجھے اخباری بیانات سے کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا مسلم و غیر مسلم کے سیاسی سمجھوتے کی مشکلات کو پوری طرح سمجھ لیا گیا ہے.یا نہیں.اور مسلم وغیر مسلم کے حقوق کے متعلق جو شکایات ہیں ان کو دور کرنے کی تدابیر کر لی گئی ہیں یا نہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ قوموں کی جدو جہد دوغرضوں میں سے ایک کے لیے ہوتی ہے.یا تو اس لیے کہ اس قوم نے کوئی پیغام دنیا تک پہنچا نا ہوتا ہے.اس صورت میں وہ عواقب ونتائج کو نہیں دیکھا کرتی 262

Page 259

.نقصان ہو یا فائدہ وہ اپنا کام کیے جاتی ہے جیسے اسلام کے نزول کے وقت غریب اور امیر سب نے قربانی کی اور اس کی پرواہ نہیں کی کہ کسے نقصان ہوتا ہے اور کیا ہوتا ہے کیونکہ مادی نتیجہ مدنظر نہ تھا.بلکہ پیغام الہی کو دنیا تک پہنچانا مد نظر تھا اس پیغام کے پہنچ جانے سے ان کا مقصد حاصل ہو جاتا.خواہ دنیا میں انہیں کچھ بھی نہ ملتا.اور اس پیغام کے پہنچانے میں ناکامی کی صورت میں ان کو کوئی خوشی نہ تھی.خواہ ساری دنیا کی حکومت ان کو مل جاتی.یا پھر قومی جد و جہد اس لیے ہوتی ہے کہ کوئی قوم بعض دنیوی تکلیفوں کو دور کرنا چاہتی ہے.وہ ہر قدم پر یہ دیکھنے پر مجبور ہوتی ہے کہ جن تکالیف کو دور کرنے کے لیے میں کھڑی ہوئی ہوں وہ اس جدو جہد سے دور ہوسکتی ہیں یا نہیں.اس کی ہر ایک قربانی ایک مادی فائدہ کے لیے ہوتی ہے.اور وہ اس مادی فائدہ کے حصول کے لیے جدو جہد کرتی ہے.تمام سیاسی تحریکیں اس دوسری قسم کی جدوجہد سے تعلق رکھتی ہے.اور مادی فوائد کو ان میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.جب یہ امر ظاہر ہو گیا تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ کشمیر کی تحریک کوئی مذہبی تحریک ہے یا سیاسی.اگر سیاسی ہے تو ہمیں غور کرنا چاہیے کہ وہ کونسے فوائد ہیں جن کے لیے اہلِ کشمیر کوشاں ہیں اور خصوصاً مسلمان؟ اس سوال کا جواب میں سمجھتا ہوں کہ ہر کشمیری یہ دے گا.کہ اس کی جدو جہد صرف اس لیے ہے کہ اس کی بآرام اور خوش زندگی کا سامانِ کشمیر میں نہیں.نہ اس کی تعلیم کا اچھا انتظام ہے نہ اس کی زمینوں کی ترقی کے لیے کوشش کی جاتی ہے.نہ اسے حریت ضمیر حاصل ہے.نہ اس کی اس 263

Page 260

آبادی کے اچھے گزارہ کے لیے کوئی صورت ہے جس کا گزارہ زمین پر نہیں بلکہ مزدوری اور صنعت وحرفت پر ہے.اور نہ اس کی تجارتوں اور کارخانوں کی ترقی کے لیے ضرورت کے مطابق جد و جہد ہو رہی ہے.نہ اسے اپنے حق کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں حصہ دیا جا رہا ہے.اور ان لوگوں میں سے جن کے ذریعہ سے حکومت تاجروں ٹھیکہ داروں وغیر ہا کو نفع پہنچایا کرتی ہے اور نہ مجالس قانون ساز ہی میں ان کی آواز کو سنا جاتا ہے یہ مطالبات مسلمانانِ ریاست کشمیر وجموں کے ہیں.اور یہی مطالبات قریباً ہرا فتادہ قوم کے ہوتے ہیں.یہ امر ظاہر ہے کہ وہی سکیم مسلمانان کشمیر کے لیے ہوسکتی ہے.جو اوپر کی اغراض کو پورا کر دے.اور دوسری کوئی سکیم انہیں نفع نہیں دے سکتی.پس میرے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نیا اتحاد جو مسلمانوں کے ایک طبقہ کا بعض دوسری اقوام سے ہوا ہے کیا اس غرض کو پورا کر سکتا ہے؟ ہر ایک شخص جانتا ہے کہ مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان ملازمتوں اور ٹھیکوں وغیرہ میں اور مجالس آئینی میں تناسب کے لحاظ سے حصہ نہ ملنے کی وجہ سے پہنچ رہا ہے اور یہ بھی ہر شخص جانتا ہے کہ ان ملازمتوں پر سوائے چند ایک بڑے افسروں کے ریاست ہی کے باشندے قابض ہیں.جو غیر مسلم اقوام سے تعلق رکھتے ہیں اور یہی حال ٹھیکوں کا ہے.وہ بھی اکثر مقامات پر غیر مسلم اصحاب کے ہاتھوں میں ہے.اس طرح مجالس آئینی میں بھی مسلمانوں کا حق زیادہ تر ریاست کشمیر کے غیر مسلم 264

Page 261

باشندوں کے ہاتھ ہی میں ہے.ان حالات میں لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان اقوام نے اپنا حاصل کردہ منافع مسلمانوں کے حق میں چھوڑ دینے کا فیصلہ کر دیا ہے اگر نہیں تو یہ سمجھوتہ کس کام آئے گا.اگر اس تمام جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مہاراجہ صاحب بہادر کے ہاتھ سے اختیار نکل کر رعایا کے پاس اس صورت میں آجاتے ہیں کہ نہایت قلیل اقلیت نے نصف یا نصف کے قریب نمائندگی پر قابض رہنا ہے اور اسی طرح ملازمتوں اور ٹھیکوں وغیرہ میں بھی اُسے یہی حصہ ملنا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ پندرہ فی صد باشندے پچاس فی صدی آمد پر قابض رہیں.اور پچاسی فی صد باشندے بھی پچاس فی صد آمد پر قابض رہیں.گویا ایک جماعت کے ہر فرد پر۱۷۳ ۳ فی صد آمد و خرچ ہو اور دوسری قوم کے ہر فرد پر ۱۷ /۱۶ فی صد آمد و خرچ ہو.یا دوسرے لفظوں میں ہمیشہ کے لیے چھ مسلمان اتنا حصہ لیں جتنا ایک غیر مسلم حصہ لے.یہ قسیم تو بالبداہت باطل ་༩ اگر سمجھوتہ اس اصول پر نہیں بلکہ اس اصول پر ہے کہ ہر قوم اپنے افراد اور لیاقت کے مطابق حصہ لے خواہ مجالس آئین میں ہو خواہ ملازمتوں میں.خواہ ٹھیکہ وغیرہ میں گوا قلیت کو اس کے حق سے استمالت قلب کے لیے کچھ زیادہ دیا جائے اور اس کے ساتھ یہ شرطیں ہوں کہ اقلیت کے مذہب اس کی تہذیب اور تمدن کی ہمیشہ حفاظت کی جائے گی.تو یہ ایک جائز اور درست اور منصفانہ معاہدہ ہوگا.مگر جہاں تک میں نے اخبارات سے پڑھا ہے ایسا کوئی معاہدہ مسلمانان کشمیر اور دیگر اقوام میں 265

Page 262

نہیں ہوا.اور نہ میں سمجھ سکا ہوں کہ موجودہ حالات میں وہ اقوام جو ملازمتوں اور ٹھیکوں اور دوسرے حقوق پر قابض ہیں.وہ اس آسانی سے اپنے حاصل کردہ فوائد مسلمانوں کو واپس دینے کے لیے تیار ہو جائیں گی.اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو لازماً یہ اتحاد بعد میں جا کر فسادات کے بڑھ جانے کا موجب ہوگا.اگر کوئی کامیابی ہوئی اور مسلمانوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا تو غیر مسلم اقوام کہیں گی کہ جد و جہد تو صرف اختیارات پبلک کے ہاتھ میں لانے کے لیے تھی.سو وہ آگئے ہیں کسی قوم کو خاص حق دینے کے متعلق تو تھی ہی نہیں ہم بھی کشمیری تم بھی کشمیری.ملازمت ہمارے پاس رہی تو کیا تمہارے پاس رہی تو کیا.جو لوگ عہدوں پر ہیں وہ زیادہ لائق ہیں.اس لیے قوم کا کوئی سوال نہیں اٹھانا چاہیے کہ اس میں ملک کا نقصان ہے.اور اگر مسلمانوں کا زور چل گیا اور انہوں نے مسلمانوں کو ملازمتوں ٹھیکوں وغیرہ میں زیادہ حصہ دینا شروع کیا تو دوسری اقوام کو رنج ہوگا اور وہ کہیں گی کہ پہلے ہم سے قربانی کروائی اب ہمیں نقصان پہنچایا جار ہا ہے.اور ایک دوسرے پر بدظنی اور بدگمانی شروع ہو جائے گی.اور فتنہ بڑھے گا.گھٹے گا نہیں اور اب تو صرف چند وزراء سے مقابلہ ہے پھر چند وزراء سے نہیں بلکہ لاکھوں آدمیوں پر مشتمل اقوام سے مقابلہ ہوگا.کیونکہ حقوق مل جانے کی صورت میں اس قوم کا زور ہوگا جو اس وقت ملازمتوں وغیرہ پر قائم ہے خواہ وہ تھوڑی ہو.اور وہ قوم دست نگر ہوگی.جو ملازمتوں میں کم حصہ رکھتی ہے.خواہ وہ زیادہ ہو.اور یہ ظاہر ہے کہ چند وزراء کو قائل کر لینا آسان ہے مگر ایسی جماعت کو قائل کرنا مشکل ہے جس کی پشت پر لاکھوں 266

Page 263

اور آدمی موجود ہوں کیونکہ گو وہ قلیل التعداد ہو حکومت اور جتھامل کر اسے کثیر التعداد لوگوں پر غلبہ دے دیتا ہے اور سیاسی ماہروں کا قول ہے کہ مقید بادشاہ کی حکومت ایسی خطرناک ہوتی ہے نہ غیر ملکی قوم کی.جس قدر خطر ناک کہ وہ حکومت ہوتی ہے جس میں قلیل التعدا دلیکن متحد قوم اکثریت پر حکمرانی کر رہی ہو.کیونکہ اس کا نقصان ملک کے اکثر حصہ کو پہنچتا ہے لیکن اس کا ازالہ کوئی نہیں ہوسکتا.دنیا کی تاریخ کو دیکھ لو کہ ایسی حکومتیں ہمیشہ برباد ہی رہی ہیں اور انہوں نے اکثریت کو بالکل تباہ کر دیا ہے ہندوستان میں ہی اچھوت اقوام کو دیکھ لو ایک زبردست اکثریت سے اب وہ اقلیت میں بدل گئی ہیں.اور ان کے حالات جس قدر خراب ہیں وہ بھی ظاہر ہیں پس میرے نزدیک بغیر ایک ایسے فیصلہ کے جسے پبلک پر ظاہر کر دیا جائے ایسا سمجھوتہ مفید نہیں ہوسکتا کیونکہ نفع یا نقصان تو پبلک کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.ممکن ہے غیر مسلم لیڈر مسلمانوں کو بعض حق دینے کے لیے تیار ہو جائیں لیکن اگر ان کی قو میں تسلیم نہ کریں پھر ایسے سمجھوتہ سے کیا فائدہ؟ یا مسلمان لیڈر بعض حق چھوڑنے کا اقرار کرلیں.لیکن مسلمان پبلک اس کے لیے تیار نہ ہو.اور ملک کی قربانیاں رائیگاں جائیں اور فساد اور بھی بڑھ جائے.” جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ کوئی سمجھوتہ مسلمانوں کے لیے مفید نہیں ہو سکتا جب تک وہ لاکھوں مسلمانوں کی بدحالی اور بے کاری کا علاج تجویز نہ کرتا ہو.یعنی ان کی تعداد کے قریب قریب انہیں ملازمتوں 267

Page 264

اور ٹھیکوں وغیرہ میں حق نہ دلاتا ہو.جو سمجھوتہ اس امر کو مدنظر نہیں رکھتا وہ نہ کامیاب ہوسکتا ہے اور نہ امن پیدا کر سکتا ہے.عوام لیڈروں کے لیے قربانی کرنے میں بے شک دلیر ہوتے ہیں لیکن جب ساری جنگ پیٹ کے لیے ہو اور پیٹ پھر بھی خالی کا خالی رہے تو عوام الناس زیادہ دیر تک صبر نہیں کر سکتے.اور ان کے دلوں میں لیڈروں کے خلاف جذ بہ نفرت پیدا ہو جاتا ہے اور ایسے فتنہ کا سدِ باب کر دینا شروع میں ہی مفید ہوتا ہے.یہ میرا مختصر مشورہ مسلمانانِ کشمیر کو ہے وہ اپنے مصالح کوخوب سمجھتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں.میں تو اب کشمیر کمیٹی کا پر یذیڈنٹ نہیں ہوں اور یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ آیا کشمیر کمیٹی کی رائے اس معاملہ میں کیا ہوگی لیکن سابق تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے مشورہ دینا مناسب سمجھا.عقلمند وہی ہے جو پہلے سے انجام دیکھ لے.میرے سامنے سمجھوتہ نہیں نہ صیح معلوم ہے کہ کن حالات میں اور کن سے وہ سمجھوتہ کیا گیا ہے میں تو اخبارات میں شائع شدہ حالات کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ اس طرح کا سمجھوتہ مسلمانوں اور غیر مسلموں میں ہوا ہے.اور اس کے مطابق اب دونوں قو میں مشترکہ قربانی پر تیار ہو رہی ہیں.پس میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ قربانی ایک مقدس شے ہے اور بہت بڑی ذمہ داریاں اپنے ساتھ رکھتی ہے مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ وہ کس امر کے لیے قربانی کرنے لگے ہیں اور یہ کہ وہ اس امر کونباہنے کی طاقت رکھتے ہیں یا نہیں اور کہیں ایسا تو نہیں کہ موجودہ سمجھوتہ بجائے پریشانیوں کو کم کرنے کے نئی پریشانیوں کو پیدا کر دے.انگریزی کی ایک مثل ہے کہ کڑاہی سے نکل کر آگ میں گرا.سو یہ دیکھ لینا چاہیے کہ جد و جہد کا نتیجہ یہ ہے کہ سب کڑاہی سے نکل آئیں گے یا یہ کہ بعض کڑائی سے نکل کر باہر آجائیں گے اور بعض آگ میں گر کر بھونے 268

Page 265

جائیں گے “ ( ٹریکٹ کشمیر ایجی ٹیشن ۳۸ ء کے متعلق چند خیالات ) إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ لیکن کشمیری لیڈروں کے سروں پر نیشنلزم کا ایسا بھوت سوار تھا کہ اُس وقت انھوں نے اپنے دیر بین حسن کے اس مخلصانہ مشورہ پر کوئی کان نہ دھرا.جن چندار کان نے اس مشورہ کی اہمیت کو سمجھا ان کی آواز اس قدر کمزور تھی کہ وہ دوسروں کو ہم نوا بنانے میں کامیاب نہ ہو سکے نتیجہ ورکنگ کمیٹی کا یہ ریزولیوشن مسلم کانفرنس کے اجلاس عام منعقدہ ۱۰ جون ۳۹ء میں توثیق کے لیے پیش کر دیا گیا جو منظور ہو گیا.اور مسلم کانفرنس‘۱۰ ارجون ۳۹ کو کشمیر نیشنل کانفرنس میں ضم ہوگئی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ۱۰ارجون ۳۹ء کو رات ۱۰ بج کر ۲۷ منٹ پر مولوی محمد سعید نے مسلم کانفرنس“ کی بجائے نیشنل کانفرنس“ بنائے جانے کی قرارداد اجلاس عام میں پیش کی.قرارداد کے الفاظ یہ کا نفرنس کا یہ اجلاس خاص اس کا نفرنس کے نام اور آئین میں تبدیلیاں اور تر میمات کرنے کی نسبت کا نفرنس کی مجلس عاملہ منعقد ہ ۲۸/ جون ۱۹۳۸ء کی قرار داد نمبر ۵ کی تصدیق و توثیق کرده مجلس شوری منعقده ۱/۲۷ پریل ۱۹۳۹ء کو منظور کرتا اور قرار دیتا ہے کہ اس کا نفرنس کا آئندہ کے لیے نام ” آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس ہوگا.اور ریاست کشمیر و جموں کا ہر بالغ (انسان) مرد ہو یا عورت بلا تمیز مذہب وملت ورنگ ونسل اس کا نفرنس کا ممبر بن سکے گا.بشرطیکہ وہ حقوق شخصی آزادی کے حصول اور قیام ذمہ دار نظام حکومت اپنا نصب العین سمجھنے کا اعلان واقرار تحریری طور پر کرے.نیز یہ اجلاس قرار دیتا ہے کہ آئندہ سالانہ اجلاس تک موجودہ مجلس مجلس عاملہ اور مجلس شوریٰ کے ارکان اور عہدیدار اور اجلاس ہذا کے مندوبین اور 269

Page 266

ماتحت مجالس ہائے کانفرنس کے ارکان جدید دستور اساسی کی شرائط کے اقتضا کو پورا کرنے کے بغیر ہی آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے رکن متصور ہوں گے.اور اسی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دیں گے.‘ ( اصلاح سری نگر ۱۶ / جون ۱۹۳۹ء) شومی فراست کہ بعض مسلم را ہنماؤں نے جو شروع ہی سے دماغ کی بجائے جذبات کے تابع ہو کر کام کرنے کے مریض تھے اپنے اس نئے معاہدہ کی تائید میں معاہدہ مدینہ اور صلح حدیبیہ کو بطور نظیر پیش کرنے میں بھی کوئی قباحت یا تذبذب محسوس نہ کیا.چودھری غلام عباس نے بھی ایک لمبی چوڑی تقریر فرما دی ذرا اُس کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں.چودھری صاحب نے فرمایا:.آج ہماری ضروریات بڑھ رہی ہیں.اور اب غیر ذمہ دار نظام حکومت کے ختم کرنے کے لیے سب فرقوں کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر جد و جہد کرنا ضروری ہے.جہاں مسلمان مظلوم ہے وہاں ہندو بھی مظلوم ہے.ہاں کچھ گورنمنٹ پرست اور ملازمتوں پر ہیں.جو تعاون کے لیے تیار نہیں.ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے ساتھ ہند و مظلومین کی مصائب کا خاتمہ بھی کریں.زمانہ کے ساتھ حالات وخیالات بدلتے رہتے ہیں.آٹھ سال قبل جو ہم نے سیاسی قباء پہنی تھی وہ صرف پرانی ہی نہیں ہوگئی بلکہ پھٹ کر تار تار بھی ہو چکی ہے.اب ہم ایسا جامہ پہنیں گے جو ہمارے لیے باعث فخر ہو اور دنیا کے لیے بھی باعث فخر ہو“.(اصلاح سری نگر ۱۶ جون ۱۹۳۹ء) گاندھی جی کی عظمت کا اقرار پھر فرمایا:.270

Page 267

”ہمارا کہنہ نظام نئے نظام میں تبدیل ہو رہا ہے.لازمی طور پر ایسے حالات میں خلجان پیدا ہوتا ہے اور بعض غلط فہمیاں بھی پید ہو جاتی ہیں“.(اصلاح سری نگر ۱۶ رجون ۱۹۳۹ء) اس کے بعد وہ غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جو ان کے خیال میں ان دنوں پھیلی ہوئی تھیں یہ بھی فرمایا:.۱۹۳۹ء) گاندھی جی ہندوستان کے واحد مسلمہ لیڈر وراہنما ہیں“ (اصلاح سری نگر ۱۶ جون اس موقعہ پر چودھری حمید اللہ خاں مرحوم نے اس قرار داد کی مخالفت میں جو تقریر کی تصویر کا دوسرا رخ منظر عام پر لانے کے لیے ضروری ہے کہ اُسے بھی یہاں درج کر دیا جائے.چودھری حمید اللہ مرحوم نے فرمایا کہ:.چودھری حمید اللہ خاں کی تقریر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے دستور اساسی میں یہ تحریر ہے کہ اس کانفرنس کے اہم مقاصد اتحاد بین المسلمین.مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ.اور ان کی مذہبی تمدنی، اخلاقی ، معاشرتی ترقی ہیں.اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ریزولیوشن کے پاس ہو جانے سے مسلمانوں کی مذہبی معاشرتی اور تمدنی زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے.اور کیا مسلمانوں کی تمام قسم کی بدحالی دور ہو گئی ہے.اگر نیشنل کانفرنس بنادی گئی تو صرف حصول ذمہ دار نظام حکومت کی طرف ہی زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے گی اور مسلمان علی حالہ بدستور پسماندہ رہیں گے.دوسری اقوام سے معاہدات 271

Page 268

کرنے سے انکار نہیں لیکن رسول اللہ (ﷺ) نے کبھی ایسا معاہدہ نہیں کیا جس میں اپنا نام مٹادیا ہو.اسی نام کو قائم رکھ کر غیر مسلموں سے سمجھوتہ ہو سکتا ہے اور ہم ہر طرح غیر مسلموں کے حقوق اور عزت کی حفاظت کریں گے.کسی مجلس کو نام کی تبدیلی کا حق نہیں ہو سکتا.نئے نام کے لیے نئی باڈی قائم ہو سکتی ہے.مسلمان نہیں ڈرتے بلکہ مولوی سعید صاحب ان کے خیالات والے اسی نوے فیصدی ہوتے ہوئے بھی ڈر رہے ہیں.کہ وہ دوسروں کو ملائے بغیر کامیابی حاصل نہیں کر سکتے حالانکہ ان بیس فیصدی غیر مسلموں سے ایک فیصدی بھی ان کے ساتھ نہیں ملیں گے.پھر بھی ان کو آپ ہی لڑنا ہوگا.تو کیوں نہ ہو کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ خود ہی قربانیاں دیں.اگر آپ اپنی قوت کے متعلق گھبراہٹ محسوس نہ کریں.تو آپ کیوں ذمہ دار نظام حکومت حاصل نہ کرسکیں.خانقاہ معلی تک جانے کے لیے سعید صاحب نے جو راستے بتلائے ہیں ان میں سے ایک راستہ تیر کر جانے کا بھی ہے.لیکن اس کے لیے دلیری چاہیے ( ایک آواز.ہوائی جہاز بھی تو ہے ) اس لیے وہ دلیری اختیار کریں.مسلمانوں کی بہبودی اس وقت تک جو ہوئی وہ مسلم کانفرنس کی رہین منت ہے.نیشنل کانفرنس مسلمانوں کے لیے یہ کام نہیں کر سکے گی.مسلمانوں کی حالت اس وقت پست ہے اور وہ دوسروں سے زیادہ غیر منظم ہیں اس لیے مسلم کانفرنس کو نیشنل بنانے سے دوسرے لوگ مسلمانوں کی پستی سے ناجائز فائدے اٹھاتے رہیں گے.272

Page 269

کشمیری پنڈتوں کی سیاست صرف ملازمتوں تک محدود ہے.اس لیے ان سے اشتراک کی توقع رکھنا فضول ہے.اور جو ہمارے ساتھ شامل ہورہے ہیں انہیں قوم کا اعتماد حاصل نہیں.ان کو گھر کی تمام چیزیں دے دینا عقلمندی نہیں ہوگی.قوت والے اور کمزور کا کوئی ساتھ نہیں.کمزور لڑکھڑا کر گر جائے گا اور قوت والا فائدہ اُٹھاتا رہے گا.جموں میں ہندو ساہوکار ہیں اور مسلم زمیندار ہیں.ان کا اشتراک بھی ناممکن ہے.راجپوتوں کا خیال ہے کہ وہ حکومت کر رہے ہیں اس لیے وہ اشتراک کی ضرورت محسوس نہیں کرتے.اس لیے کوئی دوسری قوم تو ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ رہی تو آپ لوگ کس طرح آگے بڑھ کر اپنی آرگنائزیشن کو ہی تبدیل کر رہے ہیں“.(اصلاح سری نگر ۱۶؎ جون ۱۹۳۹ء) مولوی رفیع الدین صاحب کی تائیدی تقریر مولوی رفیع الدین صاحب نے چودھری حمید اللہ صاحب کی تائیدا اور اصل قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے فرمایا کہ:.د مسلمان طبعی طور پر مذہب کا دلدادہ ہے.اس لیے آنحضرت صلعم کی زندگی کے واقعات اور آیات کی تشریح صاف اور واضح الفاظ میں پیش کی جائے صلح حدیبیہ کے وقت رسول اللہ اللہ صاف طور پر اپنے آپ کو اللہ کا رسول اور اللہ کا بندہ تحریر فرماتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان رکھ کر اور اپنی جماعت کی علیحدگی کو برقرار رکھ کر سمجھوتہ کرتے ہیں.آنحضور 273

Page 270

نے جس وقت معاہدہ کیا.اس وقت آپ کی جماعت خالص اسلامی جماعت تھی.اب ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہاں کے مسلمان بھی مسلمان جماعت ہوتے ہوئے دوسروں سے سمجھوتہ کریں.نیشنل کانفرنس تو چند مذاہب کے لوگوں کی انجمن ہوگی.اس کا قیام کوئی معاہدہ نہیں ہوگا.بلکہ اس کا اپنا آئین ہوگا.جسے چلانے کے لیے اس کے کارکن ذمہ دار ہوں گے.ہندوستان میں ہندوؤں کی اکثریت ہے.لیکن وہاں نیشنل کانگرس کے ساتھ ساتھ ہندومہاسبھا قائم ہے.حالانکہ وہاں کے ہندو بہت ترقی یافتہ اور بیدار ہیں.پھر ریاست میں بھی ہندوؤں کی سبھا ئیں ہیں اگر ہماری اپنی کوئی خالص سیاسی جماعت نہیں ہوگی تو ہم ایسے مہمان ہوں گے.جن کا کوئی گھر نہیں ہوگا.اور ظاہر ہے کہ ایسے مہمان کو کوئی قبول نہیں کرتا.اگر نیشنل کانفرنس کا قیام ضروری ہے تو اسے نئی بنیادوں پر قائم کیا جائے نہ کہ مسلم کانفرنس کو مٹا کر اگر مسلم کانفرنس کو مٹا کر ایسا کیا گیا تو مسلمانوں میں تشت و افتراق پیدا ہو جائے گا“.(اصلاح سری نگر ۱۶ جون ۱۹۳۹ء ) قرار داد کی تائید میں اللہ رکھا صاحب ساغر اور مرزا افضل بیگ نے بھی تقاریر کیں اور مخالفت میں غلام حیدر غوری نے تقریر کی.جس کے بعد بحث کو ختم کرتے ہوئے صاحب صدر شیخ محمد عبد اللہ نے ایک لمبی تقریر کی اور رائے شماری پر کثرت رائے سے نہ کہ اتفاق رائے سے قرار داد منظور ہوئی.رائے شماری کے وقت کئی نمائندگان غیر جانب دار بھی رہے.یہ اجلاس (یعنی دوسرے روز کا ) اڑھائی بجے ختم ہوا.274

Page 271

پنڈت جیالال کلم کا اعلان دوسرے روز کے اجلاس میں غیر مسلموں کو بھی شامل کر لیا گیا.جس میں پنڈت جیالال کلم کی تقریر کا ایک حصہ مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا.اس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ نیشنل کانفرنس والے مسلم لیگ سے ہرگز کوئی مدد نہیں لیں گے.( گواس کے ساتھ ہندو مہا سبھا کا نام بھی لے لیا گیا تھا لیکن کانگرس اور اس کی ہمنوا مسلمان تنظیموں سے مدد لینے کی خواہش کا اظہار صاف لفظوں میں کر دیا گیا تھا.اور یہ بات اسی روز واضح ہوگئی تھی کہ نیشنل کانفرنس در اصل آل انڈیا کانگرس کمیٹی ہی کی کو لونڈی ہوگی.پنڈت جیالال کلم نے تقریر کرتے ہوئے کہا: ہم باہر کی ہر ایسی انجمن یا سبھا سے مدد لے سکتے ہیں.جس کی امداد بالکل بے غرض ہو.البتہ اگر ہم کوئی مدد نہیں لیں گے تو مسلم لیگ یا ہند و سبھا سے کوئی مددنہیں لیں گے کیونکہ اول الذکر انجمن کہتی ہے کہ مادر وطن یعنی وطن ہندوستان کے دوٹکڑے کر دو.اور موخر الذکر انجمن کہتی ہے ہندوستان میں ہندو راج قائم کر دو.ہاں البتہ احرار اور جمیعت العلماء ( دونوں کانگرس کی باندیاں تھیں) اگر ہماری امداد کریں تو ان کی امداد لیں گے (اصلاح سری نگر ۲۷ / جون ۱۹۳۹ء) ادغام کی وجوہ اس جگہ چودھری غلام عباس صاحب کی کتاب کشمکش کے اس حصہ کے چند اقتباسات بھی درج کرنا ضروری ہیں جس میں انہوں نے نیشنل کانفرنس کے قیام کی شرائط اور اس میں 275

Page 272

اپنے اشتراک کے لیے دلائل دیئے ہیں لکھتے ہیں:.باہمی سیاسی گفت و شنید اور اپنی پارٹی سے اندرونی مذاکرات کے بعد یہ بات قرار پائی کہ نیشنل کانفرنس کے قیام کے تصفیہ کے لیے سری نگر میں مسلمانوں کا ایک مخصوص اجلاس طلب کیا جائے.چنانچہ نیشنل کانفرنس کے قیام کی مندرجہ ذیل شرائط طے پائیں.-1 مسلمانوں کی تمام مخصوص مذہبی ، اقتصادی ، سیاسی اور دفتری شکایات کے لیے جدو جہد کرنا نیشنل کانفرنس کے اغراض و مقاصد میں شامل ہوگا.-2 اسمبلی اور دیگر اداروں کے انتخابات میں مروجہ جدا گانہ طریقہ انتخاب بحال رہے گا.-3 شیخ محمد عبداللہ کا نگری پالیٹکس نہیں اپنا ئیں گے.نہ کسی حالت میں کانگرس کی حمایت کی جائے گی.-4 مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف جہاد آزادی میں ریاست کی تمام بسنے والی قو میں شریک ہوں گی اور کانفرنس کا منتہائے مقصود ہر طریقہ سے ریاست میں ذمہ دارانہ نظام حکومت کا قیام ہوگا.وغیرہ! یہ شرائط کھلے اجلاس میں میری جانب سے پیش کی گئیں.ہماری جانب سے اعلان بھی کیا گیا کہ ہم ہر ایک قسم کے میثاق کے ماتحت نیشنل کانفرنس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں ( کشمکش مصنفہ غلام عباس صفحه ۲۱۲) 276

Page 273

خدا لگتی ان شرائط کے دینے کے بعد چودھری صاحب نے وہ امور لکھے ہیں جو نیشنل کانفرنس کے قیام کے سلسلہ میں اثر انداز ہوئے لیکن دل لگتی بات صرف اور صرف یہ ہے جو چودھری صاحب نے اس کے آخر میں لکھ دی ہے:.اس میں میری ذاتی کمزوری کو بھی دخل تھا.گذشتہ آٹھ سال کی شدید اور مسلسل سیاسی کشمکش نے جس میں ہر قسم کی جسمانی روحانی مالی پریشانی اور بے اطمینانی شامل تھی.میری سیاسی کمر ہمت کو اس قدر توڑ دیا تھا کہ میں تن تنہا اس وقت علیحدہ تنظیم کا حامل نہیں ہوسکتا تھا ( کشمکش مصنفہ غلام عباس صفحه ۲۱۴) راقم الحروف اس جگہ یہ کہنے سے نہیں رک سکتا کہ اگر چودھری صاحب ۳۱ء اور ۳۲ء میں اپنی حالت کی طرف دیکھتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ وہ اس وقت (اُس وقت کے مقابلہ میں ) بہت زیادہ مضبوط ہو چکے تھے.پھر ان کا وہ محسن جو تحریک کی ابتداء ہی سے ہر قسم کی امداد لے کر پہنچ گیا تھا.اب بھی ببانگ دہل یہ کہ رہا تھا.جلدی نہ کرو.خطا کھاؤ گے.اگران کی نصیحت پر ان لوگوں نے عمل کیا ہوتا تو وہ ان کو کبھی بے یار و مددگار نہ چھوڑتا لیکن گیا وقت کب کسی کے ہاتھ آیا ہے جو کشمیری راہنماؤں کے ہاتھ آتا.277

Page 274

مسلم کانفرنس کا وجود تو ایک تسبیح کی مانند تھا جس کے ٹوٹتے ہی اس کے تمام موتی ادھر اُدھر زمین پر بکھر گئے عوام نے بہت شدت کے ساتھ یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ نیشنل کانفرنس سے ٹھوس تو قعات وابستہ کرنا لا حاصل ہے...نامراد سجدہ سہو بھلا ہو اخبار ” اصلاح کا کہ وہ برابر مسلم کشمیری راہنماؤں کی اس سیاسی لغزش پر بلبلاتا رہا.اُس نے پے در پے اداریے لکھ کر اُن کی اس فاش غلطی کے سیاق وسباق کا تجزیہ کیا اور یکے بعد دیگرے مندرجہ ذیل عنوانات پر بھر پور مقالے لکھ کر جمہور مسلمانوں کی ہمت وفراست کو جھنجھوڑا.-1 -2 -3 -4 -5 مسلمانان کشمیر کی واحد ملی تنظیم کا خاتمہ کیا موجودہ صلح و اتحاد ارشاد خداوندی اور آنحضرت ﷺ کے نمونے کے مطابق ہے؟ کیا صلح کی خاطر آنحضرت ﷺ یا صحابہ نے کبھی اپنی ملی تنظیم کا خاتمہ کیا؟ کیا صلح کے لیے انفرادی تنظیم کا خاتمہ ضروری تھا؟ مسلم تنظیم کی ضرورت اور سرکاری ملازمتوں کی اہمیت؟ 278

Page 275

-6 -7 مذہبی پابندیوں کا سوال اور ہندوؤں کی وسعت قلبی اور 7 اپنی ناکامی کا اقرار کا نفرنسی راہنماؤں کی اپنی زبان سے اور اپنے سلسلہ مضامین کو ان الفاظ پر ختم کرتے ہوئے کہا: یہ تمام حالات وکوائف اس امر کے حق میں ہیں کہ مسلمانوں کی جداگانہ تنظیم کا قیام از حد ضروری تھا اور ہے.اب سوال یہ ہو سکتا ہے کہ اگر ہر ایک قوم اپنی اپنی تنظیم علیحدہ قائم رکھے تو اتحاد کس طرح سے ہو......؟ پھر اس سوال کی تشریح وتوضیح اور کافی وشافی جواب کے لیے یکے بعد دیگرے پانچ معنی خیز مقالے مندرجہ ذیل موضوعات کے تحت سپرد قلم کئے.مذہبی رواداری کے قیام کی ضرورت مذہبی رواداری اور سیاسی مواخات کی اشد ضرورت سیاسی رواداری کے قیام کے ذرائع اتحاد شکنوں کو سزا اور مجلس اقوام کی ضرورت بنی آدم اعضائے یکہ یکہ نہ احساس کروٹیں لینے لگا یہ مضامین جوں جوں عوام تک پہنچتے گئے ان کے دلوں میں اپنے کئے کرائے پر پانی پھر جانے اور اپنے راہنماؤں کی شدید سیاسی لغرش کا احساس گہرا ہوتا چلا گیا.ہر طرف سے خطوط کا تانتا بندھ گیا.جو مناسب تدوین کے بعد زیب صفحات اصلاح “ ہوتے رہے.الغرض لیڈروں نے نیشنلزم کی چکا چوند سے مسحور ہو کر اپنے عوام سے منہ پھیر لیا.یہ 279

Page 276

جریدہ تن تنہا نہ صرف اپنے مسلک پر قائم رہا.بلکہ حق کے لیے شمشیر برہنہ کا کام دیتا رہا.مسلم کانفرنس کا وجود تو ایک تسبیح کی مانند تھا.جس سے ٹوٹتے ہی اس کے تمام موتی زمین پر ادھر اُدھر بکھر گئے.عوام نے بہت شدت کے ساتھ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ نیشنل کانفرنس سے ٹھوس توقعات وابستہ کر نالا حاصل ہے.چنانچہ جلد ہی ایک انجمن " مسلم لیگ کے نام سے قائم ہوگئی اور اس کے معابعد گوجر قوم نے جو لاکھوں افراد پر مشتمل تھی اپنی علیحدہ تنظیم قائم کر لی.ہندوؤں کی پہلی فتح اسی سال او آخر ستمبر میں جب اسلام آباد میں جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کا اجلاس منعقد ہوا تو دوسری جنگ عظیم شروع ہو چکی تھی.اور کانگرس ہندو قوم کو سارے ہندوستان (بشمول ریاست ہائے ) کی حاکمیت حاصل کرنے کے لیے پر تول رہی تھی.نیشنل کانفرنس نے بھی اس اجلاس میں جو قراردادیں منظور کیں وہ صد فیصد انڈیا نیشنل کانگرس کی تائید میں تھیں.یہ دیکھ کر چودھری غلام عباس کسی قدر تلملائے لیکن معاملہ ے اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت والا تھا.لہذا منقار زیر پر رہے.بلا شبہ یہ ہندوؤں کی پہلی فتح تھی.جو انہیں چند ماہ کی داخلی لفظی کوشش سے ہی حاصل ہو گئی تھی.اور وہ اعلان جو پنڈت جیالال کلم نے جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس بننے کے موقع پر کیا تھا.اس کی ہو بہو عملی تعبیر.پنڈت نہرو کا دورہ کشمیر اجلاس اسلام آباد کے بعد شیخ محمد عبد اللہ نے تقاریر کا ایک طوفانی سلسلہ شروع کیا.جس سے ہندوؤں کے مسلک کی گھر بیٹھے بٹھائے تبلیغ ہونے لگی.ان کے حو صلے اور بلند 280

Page 277

ہو گئے.چنانچہ انہوں نے بارہ مولہ میں منعقدہ ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں سرکاری زبان کا مسئلہ پیش کر کے اس کی تائید اور پھر دیوناگری رسم الخط کی منظوری حاصل کرلی.اور یوں کانگرس کے نظریات کی تائید کرائی.اس اجلاس میں چودھری غلام عباس نے شرکت نہ کی شاید اس لیے کہ انہیں اب اپنی سیاسی لغزش اور اپنے اصل مسلک سے ہٹ جانے کا احساس ہو چلا تھا.۱۹۴۰ء میں شیخ محمد عبد اللہ نے پنڈت نہر وکوکشمیر کا دورہ کرنے کی دعوت دی جس کے لیے ریاست کے متمول ہندوؤں کے علاوہ پنجاب کے ہندو تاجروں نے بھی منہ مانگا سرمایہ پیش کیا.پنڈت جی نے دس دن تک ریاست میں قیام کیا اور اس کے مختلف حصوں کا دورہ کیا.جس کے نتیجہ میں درنیشنل کانفرنس، مستقل طور پر آل انڈیا کانگرس کی باندی بن گئی.جوں جوں ریاست میں آل انڈیا کانگرس کا موقف اور ہندوؤں کا اثر ونفوذ بڑھتا چلا گیا.جمہور مسلمانوں میں اپنی تو قعات کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جانے کا احساس بھی گہرا ہوتا چلا گیا.چنانچہ اکتوبر ۴۰ ء میں اُن کی طرف سے ایک مفصل اعلان اخبارات میں مندرجہ ذیل مفہوم کا شائع ہوا.واشگاف اعلان دومسلم کانفرنس کی طرف سے عنقریب ایک اہم اجلاس طلب کیا جائے گا.جس میں تمام ہمدردان ملت اور بہی خواہانِ مسلم کانفرنس کو شمولیت کی دعوت دی جائے گی تا کہ وہ ایک جگہ جمع ہو کر کوئی مفید لائحہ عمل مرتب کر سکیں مسلم کا نفرنس کی تمام شاخوں کا فرض ہوگا کہ وہ وقت اور تاریخ مقررہ پر اپنے نمائندوں کو اس میں شامل ہونے کے لیے بھیجیں.بلکہ اپنے 281

Page 278

حلقہ دیہات ، شہر اور علاقہ کی شکایات اور ضروریات سے بھی ہمیں آگاہ کریں.اسلامیانِ ریاست کو چاہیے کہ وہ مسلم کا نفرنس“ کی حیات تازہ کے لیے سرگرم عمل ہو جائیں اور اس کے حیات بخش اعلانات کا انتظار کریں ( اصلاح سری نگر ۱۰ر اکتوبر ۶۰۴) اس اعلان پر مندرجہ ذیل چودہ سر بر آوردہ مسلمان لیڈروں کے دستخط تھے سردار گوہر رحمن سردار فتح محمد خاں پونچھ ممبر اسمبلی کشمیر ) مرزا عطاء اللہ خاں راجوری ( ممبر اسمبلی کشمیر ) سید مرتضی حسن شاہ جلالی سری نگر قاضی عبدالغنی والی بارہ مولہ ( ممبر اسمبلی کشمیر ) منشی محمد دین فوق محمد یوسف قریشی سری نگر غلام حیدر خاں غوری ایڈیٹر نو جوان ، جموں ایم.اے ساغر سری نگر چودھری حمید اللہ خاں جموں ( ممبر اسمبلی کشمیر ) پیر ضیاءالدین بڈگام ( ممبر اسمبلی کشمیر ) چودھری عبدالکریم میر پور ( ممبر اسمبلی کشمیر ) بابومحمد عبد اللہ ( ممبر کشمیر اسمبلی ) اور سید میرک شاہ سری نگر 282

Page 279

مسلمانوں کی حالت زار اس وقت کی صورتحال سے مسلمانوں کے دلوں میں جو گزررہی تھی اس کا ایک اچٹتا سا اندازہ چودھری غلام عباس کی اس تحریر سے بھی کیا جا سکتا ہے.مسلمانوں کا ایک باشعور طبقہ اسلامی تنظیم کے پاش پاش ہو جانے کی وجہ سے تصویر پاس واضطراب بنا ہوا تھا.عوام بددل تھے لیکن مہاراجہ ہری سنگھ، مسٹر آئین گر اور ریاست کے ہندو بغلیں بجارہے تھے کہ مسلمانان ریاست کی تنظیم اور مرکزیت کا قصر عظیم ہمیشہ کے لیے منہدم ہو گیا.اور ادھر میں اور میرے ساتھی شہر مسار اور پریشان تھے کہ جس قوم کے لیے اتنی جدو جہد کی اس کا انجام کیا ہو گا.لیکن قوم کے معاملہ فہم ، بالغ نظر اور دورا ندیش لوگوں نے قومی خطرے کا نشان بلند کر دیا.اور عوام نے بھی اپنے مستقبل کی بھیانک تصویر دیکھ کر انگڑایاں لینی شروع کر دیں.نتیجہ یہ ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے طول و عرض ریاست سے وفود.خطوط اور دیگر ذرائع سے مجھ سے اپنے جمود و تعطل کو توڑنے کے مطالبے اور تقاضے شروع ہو گئے اور دو تین ہفتوں کے اندراندر ہی نوبت اس حد تک پہنچ گئی کہ مسلم کانفرنس کی ترتیب نو کا کٹھن کام پھر سنبھالنا پڑا.چند دوستوں سے مشورہ کر کے ۱۹۴۰ء میں مسلم کانفرنس کے احیاء کا اعلان کر دیا گیا اور صوبہ جموں کے دورے شروع کر دیے.“ ( کشمکش مصنفہ غلام عباس صفحه ۲۲۰-۲۲۱) مسلم کانفرنس کا احیاء اس طرح مسلم کا نفرنس ایک دفعہ پھر معرض وجود میں آگئی.لیکن اب اس کی شکل وصورت ایک ایسے پھل کی سی تھی جس کا قشر تو ویسا ہی تھا لیکن اس کا مغز سمٹ اور سکرٹ چکا تھا.9 فروری ۴۲ ء کو جموں کے مقام پر اس کا جو اجلاس ہوا اس میں شریک ہونے والوں کے دلوں کا اضطراب ان کے چہروں سے صاف پڑھا جا سکتا تھا.یوں بھی اب مسلم کانفرنس نمائندہ 283

Page 280

جماعت نہ رہی تھی کہ مسلمانوں کا ایک معتد بہ حصہ کٹ کر اپنے سیاسی راہنماؤں سمیت نیشنل کانفرنس میں جا شامل ہوا تھا.ہندوستان کی مسلم لیگ کی طرح کشمیر میں اس کا مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہونے کا ادعا متزلزل ہو چکا تھا.مسلم لیگ سے تو جو غدار ہندو کانگرس کے اشارہ پر باہر اور مخالف تھے ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی.اس لیے ہندوستان میں تو مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی.لیکن وہ قوم جو اپنے محسن کے بے لوث مشوروں پر دھیان نہ دے اُس کا اس کے سوا حشر بھی کیا ہوسکتا تھا.نا قابل فراموش خدمات تاریخ اس حقیقت پر ہمیشہ خون کے آنسو روئے گی کہ بعض کشمیری لیڈروں نے اسلام دشمنوں کے بہکاوے میں آکر اسیروں کی رستگاری کرنیوالے سے روگردانی اختیار کی جو سالوں سے بے غرضی اور بے نفسی کے ساتھ ان کی جانی ، مالی ، حالی اور قالی خدمت کر رہا تھا.پھر یہیں پر بس نہیں ان لوگوں نے اپنی لغزشوں کی پردہ پوشی کے لیے تاریخ حریت کشمیر کے ان حقیقی اوراق کو چھپانے.پس پردہ ڈالنے بلکہ پھاڑنے تک سے گریز نہ کیا.جواس کے بے لوث اور نا قابل فراموش خدمات کے ذکر سے معمور تھے.لیکن بھلا سیاسی حیلہ سازیوں سے کبھی تاریخی حقائق کو بھی جھٹلایا جاسکتا ہے.کشمیر کی جدو جہد کی کوئی تاریخ مرتب ہو.کسی جہت سے مرتب ہو.اس کا مؤلف اُسے کتنا ہی رُوگردان ہو کر لکھے.وہ اپنی اوچھی لفاظی کو بھی اس محسنِ کشمیر کی جد و جہد کا ذکر کئے بغیر کیونکر مکمل قرار دے سکتا ہے.جس نے حریت کے اس قصر کی پہلی اینٹ رکھی اور پھر اس کی بنیادوں میں اپنے اخلاص اور محبت کا چونا گارا کھپا کر اُسے پروان چڑھایا مگر اہالٹی کشمیر کی شومی کہ جب اس قصر رفیع الشان کی بنیادیں اُٹھ کھڑی ہوئیں چھت پڑ چکی اور 284

Page 281

اس کی محرابوں اور جدولوں پر عقل و دانش سے استحکام کی گل کاریوں کا وقت آیا تو کشمیر کے بعض فرزند شر نفس اور سیاسی حرص و آز کے سحر میں آگئے اور انہوں نے سیاسی مصلحت اندیشی کو چوغہ پہن لیا.لیکن فطرت کو ان کی احسان ناشناسی پسند نہ آئی اور وہ بے مثل جد و جہد با برکت پھل دیئے بغیر ہی ادھوری رہ گئی.اللہ تعالیٰ کی ان گنت برکات نازل ہوں اُس بے نفس بزرگ اور مظلومی کشمیر کے اُس محسن پر جس نے اس بے وفائی کے باوجود تقسیم ملک کے بعد بھی جد و جہد قائم رکھی اور اپنے مقدور کی انتہا تک جاتے.در تے.قدمے سخنے کشمیری بے خانمانوں کو سہارا دیا.کاش عین وقت پر بعض کشمیری راہنما ہندویت کے سیاسی دام میں نہ پھنس جاتے اور اے کاش ! اللہ تعالیٰ کا وہ برگزیدہ انسان اپنی آنکھوں سے اُس پودے کو سرسبز لہلہاتے اور میٹھے پھل دیتا ہوا دیکھتا.جس کا بیج اس نے اپنے ہاتھوں سے انتہائی اخلاص اور بے نفسی سے بویا تھا.خاکسار ظہور احمد ۱۴ / اگست ۱۹۶۵ء 285

Page 282

286

Page 283

(حصہ دوم) 287

Page 284

288

Page 285

باب اوّل بر صغیر کی تقسیم کے چند نا قابل فراموش پہل, اسی اثناء میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی نظر اُس نقشہ پر جا پڑی جو کمرہ کی دیوار کے ساتھ لٹک رہا تھا.چوہدری صاحب اسے کو نقشہ کی مدد سے اپنی بات ذہن نشین کرانے کے لئے انہیں نقشے کے پاس لے گئے مگر نقشہ کو دیکھتے ہی اُن کی حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ اس نقشہ پر بھی پنسل سے ایک الگ لکیر لگی ہوئی تھی اور یہ لکیر اس لکیر کے مطابق تھی جو مسٹر جسٹس دین محمد نے چوہدری محمد ظفر اللہ خان کے سامنے بیان کی تھی.چوہدری صاحب نے اس لائن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا.اب کسی وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہی.اس پر اسمے کا رنگ فق ہو گیا اور وہ کھسیانا ہو کر کہنے لگا نہیں معلوم میرے نقشہ میں یہ گڑ بڑ کس نے کی ہے.“ بسم الله الرحمن الرحيم (تحدیث نعمت صفحہ ۵۱۱ ایڈیشن اوّل) مسئلہ کشمیر پورے 34 سال سے قابل حل چلا آ رہا ہے.حکومت برطانیہ نے بر صغیر پاک و ہند کے متعلق یہ اعلان تو کر دیا ہے کہ ہندوستان کو جلد آزادی دے دی جائے گی.لیکن شائد اس کے ذہن میں بھی ابھی کوئی ایسا حل نہیں تھا جو ہندوستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو منظور وقبول ہو.289

Page 286

وزیر اعظم اٹیکی تقسیم ہند کے سخت خلاف تھے.اور کانگرس اس سلسلہ میں اُن کی ہمنوا تھی.لیکن مسلمانان برصغیر کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ ” قیام پاکستان“ کے مطالبہ پر اڑی ہوئی تھی.1946 ء میں مسٹر ٹیلی نے اپنے تین وزراء کو ہندوستان بھجوایا جنہوں نے آ کر دونوں جماعتوں کے سامنے گروپنگ سکیم پیش کی جسے دونوں جماعتوں نے تسلیم کر لیا لیکن اُس کے فوراً بعد جب پنڈت جواہر لعل نہرو مولانا ابوالکلام آزاد کی جگہ کانگرس کے نئے صدر بنے اُنہوں نے اُس سکیم کی (اس کی بنیادی روح کے منافی) من مانی تاویلات و تشریحات کرنی شروع کر دیں.قائد اعظم نے اولین فرصت میں ان تاویلات و تشریحات کو غلط قرار دیا.لارڈ ویول نے گاندھی جی اور پنڈت نہرو کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی مگر وہ اپنی تاویلات کو حرف آخر قرار دینے پر بضد رہے نتیجہ یہ منصوبہ ناکام ہو گیا.اور اس کے ساتھ ہی لارڈ ویول کانگرس کی طعن و تخصیص کا نشانہ بن گئے جس پر انہیں انگلستان واپس بلالیا گیا.اور اُن کی جگہ شاہی خاندان کے ایک فردلارڈ ماؤنٹ بیٹن کو وائسرائے ہند مقرر کر دیا گیا.جن کے جانبدارانہ اور نا انصافانہ کارناموں کی صدائے بازگشت تاریخ بر صغیر کے اوراق میں تا ابد سُنائی دیتی رہے گی.باؤنڈری کمیشن وزیر اعظم انیکی نے اپنی ہندوستان کو متحد رکھنے کی خواہش کی تکمیل کے لئے آخری کوشش کے طور پر دونوں سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کولنڈن بلوا کر انہیں اس پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن فکری بعد کی خلیج اتنی وسیع ہو چکی تھی کہ کوئی کامیابی نہ ہوئی.اور وہ تقسیم ملک کا اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے.جس کا اعلان تین جون 1947ء کو کر دیا گیا.290

Page 287

تقسیم ہند کے اس اعلان کے بعد اب باؤنڈری کمیشن کا تقرر عمل میں لایا جانا ضروری تھا.چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اس سلسلہ میں قائد اعظم کی خدمت میں مشورہ عرض کیا کہ ” برطانوی لارڈز آف اپیل اپنی روایات کے لحاظ سے اپنے فرائض کی انجام دہی میں نہایت دیانتدار اور غیر جانبدار ہوتے ہیں.آپ زور دیں کہ اُن میں سے کسی کو ایمپائر مقرر کیا جائے.(تحدیث نعمت ایڈیشن اوّل صفحہ 498) قائد اعظم نے اس بات کا خیال رکھنے کا وعدہ فرمایا اور پھر جب پنجاب باؤنڈری کمیشن کے ارکان کی نامزدگی ہو گئی.تو آپ نے چوہدری صاحب موصوف سے اپنی اس دلی خواہش کا اظہار فرمایا ” پنجاب باؤنڈری کمیشن کے روبرو مسلم لیگ کا کیس بھی وہی پیش کریں جسے انہوں نے بخندہ پیشانی قبول کیا.واضح رہے میں تقسیم برصغیر سے متعلق واقعات و سانحات کی تفاصیل میں اس لئے نہیں جارہا کہ اُن میں سے بیشتر بڑی شرح وبسط کے ساتھ منظر عام پر آچکے ہیں.پہلے یہ تجویز تھی کہ حد بندی کا سارا کام اقوام متحدہ کے ذریعہ عمل میں آئے گا.قائد اعظم کو یہ تجویز پسند تھی لیکن پنڈت نہرو اس پر متفق نہ ہوئے چنانچہ قائد اعظم نے چوہدری محمد ظفر اللہ خان کی تجویز اور مشورہ کے مطابق پریوی کونسل کے تین جوں کو مقرر کرنے کی تجویز پیش کی اس تجویز کو ماؤنٹ بیٹن نے رد کر دیا.کیونکہ وہ تو ایک ایسا کٹھ پتلی ایمپائر چاہتے تھے.جوان کے اشاروں پر ناچ سکے چنانچہ ان کی تجویز سے.ایک برطانوی بیرسٹر سر سیرل ریڈ کلف“ کو (جو ابھی پریکٹس کر رہے تھے ) باؤنڈری 291

Page 288

کمیشن کا چیئر مین مقرر کر دیا گیا.پنجاب باؤنڈری کمیشن میں ان کی امداد کے لئے مسلمانوں کی طرف سے پنجاب ہائی کورٹ کے دو جج مسٹر جسٹس محمد منیر اور مسٹر جسٹس دین محمد ، ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے مسٹر جسٹس مہر چند مہاجن اور مسٹر جسٹس تیجا سنگھ ارکان کمیشن نامزد ہوئے.لیکن جب اس کمیشن کی کارروائی شروع ہونے سے قبل یہ اعلان منظر عام پر آیا کہ مسٹرریڈ کلف خود کمیشن کی عملی کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے تو صوبے کے ہر ذی شعور پر یہ بات واضح ہوگئی کہ کمیشن کا تقر محض ایک ڈھونگ ہے بلکہ بعد کی کارروائی اور ایمپائر کے طرز عمل نے یہ ثابت بھی کر دیا کہ واقعی یہ سب کارروائی ایک ڈھونگ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی.کمیشن نے فریقین کو اپنا اپنا کیس تحریری طور پر پیش کرنے کے بعد بحث کے لئے صرف تین تین دن دیئے لیکن کمیشن کی کارروائی شروع ہونے کے دوسرے ہی دن ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے کمیشن کے مسلم ارکان کو پریشان کر دیا اور خود اُن پر بھی اس ساری کارروائی کا محض ڈھونگ ہونا واضح ہو گیا.تقسیم کا فیصلہ تو ہو ہی چکا تھا.اور جس طرح ہوا یا کیا گیا اُس کا سارا پس منظر بھی چو ہدری محمد ظفر اللہ خان نے اپنی خود نوشت سوانح حیات موسوم بہ تحدیث نعمت میں تفصیل کے ساتھ بیان فرما دیا ہے.اب دیکھنا یہ باقی رہ گیا تھا کہ اس ڈھونگ کو بروئے کار کیونکر لایا جاتا ہے.تقسیم پنجاب کی لائن کمیشن کی کارروائی کے دوسرے دن کمیشن کے ایک مسلمان رکن مسٹر جسٹس دین محمد ، چوہدری محمد ظفر اللہ خان سے ملے اور کہا کہ آپ کا مدلل بیان اور مسکت و وزنی دلائل سے بھر پور بحث کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہونا ممکن نہیں.292

Page 289

کیونکہ تقسیم کی لکیروں کا فیصلہ تو مسٹر ریڈ کلف پہلے ہی کر چکے ہیں یا اُن سے کروایا جاچکا اس پر چوہدری صاحب نے اُن کی طرف استفہامیہ نگاہوں سے دیکھا تو انہوں نے بتایا کہ کل مسٹر ریڈ کلف نے ہوائی جہاز کے ذریعہ ایک علاقہ دیکھنے کا ارادہ ظاہر کیا.میں نے زوردیا کہ وہ اپنے ساتھ اس پرواز میں دوسرے ارکان کمیشن کو بھی شامل کر لیں.پہلے تو انہوں نے عذر کیا کہ جہاز چھوٹا ہے.اس میں نشستیں کم ہیں.وغیرہ وغیرہ لیکن جب میں نے کہا بصورت دیگر انصاف کا تقاضا پورا نہ ہو گا تو وہ دو ارکان کمیشن کو اپنے ساتھ بٹھانے پر رضا مند ہو گئے جن میں مسلمانوں کی طرف سے ایک میں تھا.لیکن آج صبح جب ہم سب والٹن کے ہوائی اڈہ پر پہنچے تو مطلع بہت گرد آلود تھا.پائلٹ نے بعد اعزاز عرض کیا کہ میں آپ کو لئے تو چلتا ہوں لیکن گرد وغبار کے باعث آپ کو اوپر سے نیچے کچھ نظر نہیں آئے گا.اس پر مسٹر ریڈ کلف نے پرواز منسوخ کر دی.پائلٹ کو اس پرواز کے لئے جو ہدایات دی گئی تھیں اور جو نقشہ اس کے پاس تھا.وہ کسی طرح مسٹر جسٹس دین محمد کے ہاتھ لگ گیا.اس نقشہ پر جو لائن لگی ہوئی تھی.وہ یقین کرتے تھے کہ یہی وہ لائن ہے جو بالا بالا حد بندی لائن طے پا چکی ہے.ظاہر ہے یہ امر چوہدری صاحب موصوف کے لئے بھی حیرت آفریں تھا کہ ابھی تو فریقین نے بیان بھی داخل نہیں کئے ریڈ کلف کو یہ کیونکر پتہ چل گیا کہ فلاں فلاں علاقے متنازعہ ہیں یقیناً حد بندی کے لئے انہیں پہلے ہی بریف کیا جا چکا ہے.بلکہ حد بندی لائن تجویز بھی کر دی گئی ہے.جس کے مطابق بہت سا ایسا علاقہ جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے.(بالخصوص ضلع گورداسپور کی تحصیلیں بٹالہ اور گورداسپور ) پاکستان میں شامل نہ ہوں گی.چوہدری صاحب نے 293

Page 290

مسٹر جسٹس دین محمد صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ اس معاملہ کوخود حاضر ہو کر کسی طرح قائد اعظم کے گوش گزار کر دیں.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.جس پر قائد اعظم کی ہدایت کے تحت چوہدری محمد علی دہلی میں لارڈ اسمے سے ملنے گئے.چوہدری محمد علی نے لارڈ اسمے سے اپنی اس ملاقات کا ذکر اپنی تالیف (Emergence of Pakistan) میں قدرے تفصیل سے کیا ہے.وہی حد بندی لائن چوہدری محمد علی لارڈ ا سمے سے ملنے وائسرائے لاج میں گیا تو معلوم ہوا کہ وہ بند کمرے میں ریڈ کلف سے بات چیت کر رہے ہیں.معلوم نہیں اُن کی گفتگو کا یہ سلسلہ کتنے عرصہ سے جاری تھا.چوہدری محمد علی کے پہنچنے کے ایک گھنٹہ بعد جب ریڈ کلف باہر نکلے تو چوہدری صاحب فور الارڈ استے کے کمرے میں پہنچ گئے اور انہیں قائد اعظم کا پیغام دیا کہ ہمیں یہ تشویش ناک خبر ملی ہے.“ اُس نے جواب میں کہا کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو قطعاً علم نہیں ہے کہ ریڈ کلف کے حد بندی کے بارے میں کیا خیالات ہیں.چوہدری صاحب نے قدرے تفصیل سے بتایا کہ قائد اعظم کو اس سلسلہ میں کیا رپورٹیں پہنچی ہیں.مگر اسے کچھ ایسے تاثر دیتے رہے جیسے چوہدری صاحب کی بات اُن کے پلے نہیں پڑ رہی اسی اثناء میں چوہدری صاحب کی نظر اُس نقشہ پر جاپڑی جو کمرہ کی دیوار کے ساتھ لٹک رہا تھا چوہدری صاحب اسے کو نقشے کی مدد سے اپنی بات ذہن نشین کرانے کے لئے انہیں نقشہ کے پاس لے گئے.نقشہ کو دیکھتے ہی اُن کی حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ اُس نقشہ پر بھی پنسل سے ایک لکیر لگی ہوئی تھی.اور یہ لیکر اس لکیر کے مطابق تھی جو مسٹر جسٹس دین محمد نے چوہدری محمد ظفر اللہ خان کے سامنے بیان کی تھی.(یعنی گورداسپور کی تحصیلیں بٹالہ اور گورداسپور بھی ہندوستان میں دکھائی گئی تھیں نیز امرتسر اور جالندھر کے ضلعوں کے بعض مسلم اکثریت والے ایسے علاقے بھی جو پاکستان سے ملحق تھے.گویا پائلٹ کو دی جانے والی لکیر اس نقشہ والی لکیر ہی کا چربہ تھا.) چوہدری صاحب نے اس لائن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب کسی وضاحت کی ضرورت باقی 294

Page 291

نہیں رہی.“ چوہدری صاحب تحریر فرماتے ہیں: (ترجمہ) '' اسے کا رنگ فق ہو گیا اور وہ کھسیانا ہو کر کہنے لگا نہیں معلوم میرے نقشہ میں یہ گڑ بڑ کس نے کی ہے.“ (Emergence of Pakistan p 219 by Mohamad Ali) باؤنڈری کمیشن اب میں پھر باؤنڈری کمیشن کی کارروائی کی طرف لوٹتا ہوں.کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے کے لئے بہت تیاری کی ضرورت تھی کیونکہ اس سلسلہ میں ابھی تک ابتدائی کام بھی نہیں ہوا تھا.پنجاب مسلم لیگ کے سربراہ نواب افتخار حسین خان آف ممدوٹ تھے جن کی شرافت، اخلاص اور ایثار و قربانی میں کچھ کلام نہ تھا.لیکن وہ ایسے کاموں کا تجربہ نہ رکھتے تھے.نہ نو جوانی کے باعث سیاست پر اتنی غواص نظر رکھتے تھے کہ ہوشیار چالباز اور منجھے ہوئے کانگرسیوں اور برطانوی گرگوں کی خفیہ چالوں کو بھانپ کر ان کا شایان شان تدارک کر سکیں تاہم قوم کا درد رکھنے والے بعض بالغ نظر مسلمان آگے آئے مثلاً خواجہ عبدالرحیم لیکن وہ سرکاری ملازم تھے اور کمشنر ہونے کے باعث خود سامنے آکر کام نہ کر سکتے تھے.تاہم انہوں نے اپنے طور پر کیس کا ایک حصہ تیار کر لیا ہوا تھا جو کیس پر بحث کے دوران کارآمد ثابت ہوا.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد (امام جماعت احمدیہ ) جو پہلے بھی کشمیری قوم کے لئے گراں نما یہ خدمات انجام دے چکے تھے اور کشمیر کا ہر ذی شعور فرزند بجاطور پر انہیں اپنا محسن سمجھتا تھا اُنہوں نے اس مشکل گھڑی میں بھی رضا کارانہ طور پر اس کیس کو دامے، درمے، قدمے، سخنے 295

Page 292

کامیاب بنانے کی ذمہ داری اپنے سر ڈال لی.فوراً اپنے خرچ پر انگلستان سے ایک ماہر پروفیسر مسٹر سپیٹ کی خدمات حاصل کیں.انہیں لاہور بلوایا اور خود بھی اپنے ساتھ اپنے ذہین و مستعد خدام کا ایک قافلہ لئے بنفس نفیس لاہور پہنچے.مسٹر سپیٹ کو پنجاب سے متعلق ہر قسم کے نقشے اور معلومات مہیا کی گئیں.اس سلسلہ میں حوالہ جات کے لئے بعض ایسی کتب کی ضرورت پڑی جو ہندوستان میں نایاب تھیں.آپ نے فوراً ایسی تمام کتب ذاتی خرچ پر انگلستان سے منگوائیں جن کی مدد سے مسٹر سپیٹ نے مختلف نقطہ ہائے نظر سے متعدد نقشے تیار کئے پروفیسر سپیٹ کے دست راست حضرت امام جماعت احمدیہ کے فرزندار جمند حضرت حافظ میرزا ناصر احمد ایم اے (آکسن ) تھے جن کے تحت دسیوں مستعد کا رکن تھے اور شب و روز کام ہوتا تھا.مسٹرسپیٹ جو نقشے بناتے فوراً ان کی نقول تیار کی جاتی تھیں تاکہ مسلم لیگ کے وکیل کو کسی مرحلہ پر بھی کوئی نقطہ واضح یا پیش کرتے وقت کسی قسم کی کوئی دقت پیش نہ آئے.پیش آمدہ ایک الجھن راقم الحروف کو اب تک یاد ہے.ہند و غلط اعداد و شمار کا سہارا لے رہے تھے جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ضلع میں مردم شماری کے تفصیلی اعداد و شمار کے رجسٹر ( جن میں تحصیل وار، تھانہ وار اور دیہہ واراندراج ہوتا تھا) وہ ریکارڈ آفس سے اڑا لئے گئے تھے.کانگرس پر یقین تھی کہ اب اس کی طرف سے جو اعداد و شمار بھی پیش کئے جائیں گے ان کی تردید نہ ہو سکے گی لیکن ادھر صاحبزادہ حافظ میرزا ناصر احمد نے (اپنے ذرائع سے پتہ چلا لیا تھا کہ ان اعداد و شمار کی دوسری کا پی گورنمنٹ کے ریکارڈ میں اب بھی موجود ہے.چنانچہ اس ریکارڈ کے حصول کے لئے اس ناچیز کے یہ خدمت سپرد ہوئی کہ گورداسپور جا کر فلاں تہ شخص سے ملے اور بحفاظت متعلقہ ریکارڈ لے آئے.دومستعد نوجوان بھی بغرض حفاظت متعلقہ 296

Page 293

میرے ہمراہ بھیجے گئے.ہم وہ فہرست لے آئے اُن دنوں فوٹوسٹیٹ کی سہولت تو تھی نہیں.چنانچہ راتوں رات اس کی نقول تیار کی گئیں.صاحبزادہ صاحب اور ہم سب اُن کے رفقاء ساری رات اس اہم کام کی تکمیل میں بجھتے رہے حتی کہ طلوع آفتاب سے قبل یہ مرحلہ طے پا گیا اور دوسرے روز نہ صرف وہ ریکارڈ بحفاظت سرکاری دفتر کھلنے سے قبل متعلقہ دفتر میں پہنچ گیا.اس کی مناسب حفاظت کا انتظام بھی ہو گیا تا کہ بوقت ضرورت بطو رسند پیش کیا جاسکے.پروفیسر سپیٹ کے تیار کردہ کار آمد نقشوں اور انگلستان سے منگوائی جانے والی اہم کتب کا ذکر چوہدری محمد ظفر اللہ خان نے اپنی خود نوشت سوانح حیات تحدیث نعمت میں بڑے ہی تحسین آفرین انداز میں فرمایا ہے.چوہدری صاحب موصوف نے اپنی ذمہ داری اس عمدگی سے نبھائی اور مسلم لیگ کا کیس ایسے مؤثر ہبر بہن اور مدلل انداز میں کمیشن کے روبرو پیش کیا کہ جس روز فریقین کی بحث ختم ہوئی.اُسی روز پنجاب کے معروف ایڈووکیٹ اور سابق لیگل ریمیمبر نسر شیخ عبدالحق نے کانگرس کے سینیٹر وکیل مسٹر موتی لعل سیلواڈ کے اعزاز میں دعوت چائے دی.اس موقع پر انہوں نے شیخ موصوف سے کمیشن کی کارروائی پر تذکرہ کے دوران کہا.اگر حد بندی کا فیصلہ بحث میں پیش کردہ دلائل کی بناء پر ہوا تو تم لوگ بازی لے جاؤ گے.“ ( تحدیث نعمت صفحہ 509، ایڈیشن اوّل دسمبر 1971ء) اس پر چوہدری صاحب نے (صدفی صد سچ ) فرمایا: باؤنڈری کمیشن کی کارروائی صرف ایک ڈھونگ ہے.“ تحدیث نعمت صفحہ 510 ، ایڈیشن اول دسمبر 1971ء) 297

Page 294

باب دوم ریاست جموں وکشمیر اور دیگر ہندوستانی ریاستیں مشرقی پنجاب کا (اور خاص کر مغربی پنجاب کے وہ علاقے جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ) پاکستان سے نکل جانا اس قدر مہلک اور نقصان رساں نہیں ہے جس قدر یہ بات کہ کشمیر کا ہندوستان سے الحاق ہو جائے اور پاکستان منہ تکتارہ جائے.“ (روز نامہ الفضل 23 /اکتوبر 1947ء ) تقسیم ہند کے وقت برصغیر میں ساڑھے پانچ سو سے زائد بڑی چھوٹی ریاستیں موجود تھیں ان میں سب سے بڑی ریاست حیدر آباد دکن تھی.جس کی آبادی پونے دو کروڑ اور سالانہ آمدنی پچھپیس کروڑ روپے سے زیادہ تھی.آبادی میں اکثریت ہندوؤں کی تھی.گو مسلمان بھی پندرہ فیصد تھے.جن میں بڑے بڑے جاگیردار اور ذی اثر و ذی وجاہت تجار موجود تھے اور ریاست کا والی مسلمان تھا.اس کے مقابل کشمیر کی ریاست کا رقبہ تو ریاست حیدرآباد سے زیادہ تھا.لیکن آبادی صرف چالیس لاکھ تھی.جس میں سے زائد 77 فیصد آبادی مسلمان تھی.مگر والٹی ریاست غیر مسلم تھا.آبادی کے اعتبار سے ہندوستان کی ریاستوں میں اس کا تیسرا نمبر تھا.کیونکہ حیدر آباد کے ریاست میسور کی آبادی تمام دوسری ریاستوں سے زیادہ تھی.298

Page 295

والیان ریاست کو اختیار برطانوی ہند کی تقسیم تو ریڈ کلف کے سپرد تھی لیکن ریاستوں کے لئے یہ تین صورتیں رکھی گئی تھیں کہ آزادی کے بعد والیان ریاست کو یہ اختیار دے دیا گیا تھا کہ وہ چاہیں تو اڈل.پاکستان سے الحاق کریں.دوم.ہندوستان سے الحاق کریں.یا سوم.اگر چاہیں تو دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی الحاق نہ کریں اور آزا در ہیں.گویا ملک کی آزادی کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی ساری کی ساری ریاستیں خود بخود آزاد قرار پاتی تھیں.یکساں کیس جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے حیدر آباد دکن اور کشمیر کی ریاستوں کا کیس یکساں نوعیت کا تھا.شاید اسی لئے یہ دونوں ریاستیں آخری فیصلہ کرنے میں متنذ بذب تھیں.یہ صورت حال اس امر کی متقاضی تھی کہ حکومت پاکستان بہت چوکس ہو کر اپنے حقوق منوائے چنانچہ حضرت امام جماعت احمدیہ صاحبزادہ میرزا بشیر الدین محمود احمد نے بر وقت یہ انتباہ فرمایا کہ اس وقت یہ دونوں ریاستیں محل نزاع بنی ہوئی ہیں حیدرآباد بھی پوری آزادی کا مطالبہ کرتا ہے اور کشمیر بھی پوری آزادی کے ارادے ظاہر کر چکا ہے.بعد کے حالات نے دونوں ریاستوں کے ارادوں میں تذبذب پیدا کر دیا ہے.حیدر آباد اور کشمیر دونوں محسوس کر رہے ہیں کہ اقتصادی دباؤ سے ان دونوں حکومتوں کو تباہ کیا جاسکتا ہے.اس لئے لازمی طور پر ان کو کوئی نہ کوئی سمجھوتہ ہندوستان یا پاکستان سے کرنا پڑے گا کشمیر کی سرحدیں چونکہ دونوں ملکوں سے ملتی ہیں.( ہندوستان سے کم اور پاکستان 299

Page 296

سے زیادہ) اس لئے بوجہ اس کے کہ راجہ ہندو ہے اس کی کوشش یہ ہے کہ اگر کسی حکومت سے ملنا ہی پڑے تو وہ ہندوستان سے ملے.“ شیخ جی کا نظریہ ( بحوالہ روزنامہ الفضل مورخہ 19 اکتوبر 1947ء) لیکن کشمیری رہنما شیخ محمد عبداللہ ان دنوں اس کوشش میں تھے کہ کشمیر کے الحاق کا سوال اُس وقت اٹھایا ہی نہ جائے بلکہ تمام تر توجہ کشمیر کے حق خود اختیاری حاصل ہونے کے سوال پر مرتکز کی جائے.حضرت امام جماعت احمدیہ کو یہ نقطہ نظر اور یہ مصلحت آمیز سوچ کشمیر کے مستقبل کے لئے خطرناک نظر آئی چنانچہ آپ نے شیخ محمدعبداللہ.مسلمانان کشمیر اور حکومت پاکستان کو واضح الفاظ میں انتباہ کیا اور فرمایا کہ: اس وقت جب انڈین ڈومینیئن نہایت تیز رفتاری سے ہندوستان کی بڑی بڑی ریاستوں کو اپنے اندر مدغم کرنے کے لئے کوشاں ہے.اور ریاست حیدر آباد کو ہی مجبور نہیں کر رہی بلکہ خود کشمیر کا رجحان بھی اسی طرف ہے بلکہ بعض آثار سے مثلاً ہندوستانی علاقہ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لئے راستوں اور دریاؤں کے پل تعمیر کرانا وغیرہ سے صاف نظر آتا ہے کہ مہاراجہ کشمیر کے ارادے کیا ہیں.تو ایسے حالات میں کہ اس معاملہ کو کھٹائی میں ڈال دینا نہ صرف کشمیریوں کے لئے بلکہ پاکستان کے لئے بھی نہایت خطرناک ہے.“ ( بحوالہ روزنامه الفضل 19 اکتوبر 1947ء) 300

Page 297

پھر فرمایا: اگر اس وقت کشمیری مسلمانوں اور حکومت پاکستان نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں ذرا بھی کوتاہی کی اور ایک لمحہ بھی تساہل اور شستی کی نذر کیا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم ہمیشہ کے لئے کشمیر کو اپنے ہاتھوں سے کھو بیٹھیں گے.جب تک لوہا گرم ہے ہمیں ضرب لگانی چاہئیے لیکن اگر لو ہا ٹھنڈا ہو گیا تو پھر تمام دنیا کی طاقت بھی ہمارے کسی کام نہیں آئے گی.جیسا کہ ہم نے پہلے توجہ دلائی ہے کشمیر اور حیدر آباد کا فیصلہ ایک ہی وقت اور ایک ہی اصول کے مطابق ہونا چاہیے اور اس مقصد کے حصول کے لئے صرف آج ہی وقت ہے پھر کبھی نہیں آئے گا.“ انتباہ پر انتباه (بحوالہ روزنامہ الفضل 21 اکتوبر 1947ء) حضرت امام جماعت احمدیہ نے بار بار اور بڑے زور سے کشمیر کے معاملہ کو پیش کیا اور اسے اول وقت میں سلجھا لینے کے مشورے دیئے.وہ اپنی بصیرت سے آئندہ وقت اور اس میں پیدا ہونے والی الجھنوں اور پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ فرما چکے تھے.اس لئے انہوں نے بڑی دردمندی سے اور بڑی بے قراری سے بار بار کشمیر کے مسلمانوں اور حکومت پاکستان کو جھنجھوڑا اور کہا که خدا را یہ سہل انگاری سے کام لینے کا وقت نہیں ہے.یہ وقت ہاتھ سے جاتا رہا تو تمام عمر پڑے لکیر کو پیٹتے رہو گے چنانچہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا: مشرقی پنجاب کا اور خاص مغربی پنجاب کے وہ علاقے جن 301

Page 298

میں مسلمانوں کی اکثریت تھی.پاکستان سے نکل جانا اس قدر مہلک اور نقصان رساں نہیں ہے جس قدر یہ بات کہ کشمیر کا ہندوستان سے الحاق ہو جائے اور پاکستان منہ تکتارہ جائے.“ (بحوالہ روزنامه الفضل 23 /اکتوبر 1947ء) یہاں تک کہ آپ نے اس سلسلہ میں حکومت پاکستان اور مسلم لیگ ہائی کمان کو بھی اُن کی کوتاہیوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: حکومت پاکستان نے شروع ہی سے ریاستوں کے متعلق خاموشی کی پالیسی پر عمل کیا ہے اور جہاں ہندوستان کی عارضی حکومت نے تقسیم سے بھی پہلے ریاستوں سے جوڑ توڑ شروع کر دیا تھا.یہاں تک کہ دھمکیوں سے بھی گریز نہیں کیا تھا.مسلم لیگ کی ہائی کمانڈ نے صرف دفاعی بیانات ہی پر اکتفا کیا.“ ( بحوالہ روزنامه الفضل 23 اکتوبر 1947ء) اس کے بعد مہاراجہ کشمیر کے منصوبوں کو بھانپتے ہوئے حکومت پاکستان کو اس اہم فرض کی ادائیگی کے لئے ابھارتے ہوئے فرمایا: کشمیر کے حالات روز بروز پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں.اور مہاراجہ کشمیر جن کا ذاتی رجحان ہندوستان کی طرف ہے اس معاملہ کو طویل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پاکستان کو ایسی باتوں میں اُلجھائے رکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنا ارادہ پورا کرنے کے لئے تیاری نہ کر سکیں.اس لئے اب وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے اور حکومت پاکستان کو چاہئے کہ فوراً 302

Page 299

کوئی ایسا قدم اٹھائے کہ یہ معاملہ معرض بحث میں آ جائے اور فیصلہ ہو جائے.(بحوالہ روز نامہ الفضل مورخہ 23 /اکتوبر 1947 ء) 303

Page 300

باب سوم جنگ آزادی کشمیر اور فرقان بٹالین امام جماعت احمدیہ نے اپنی جماعت کی خصوصی مجلس شوری ستمبر ۱۹۴۷ء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: و آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مقدس يضع الحرب کی تعمیل میں حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد باالسیف کے التواء کا جو اعلان فرمایا تھا اب اُس کا زمانہ ختم ہو رہا ہے اس لئے جماعت کے افراد کو چاہئے کہ وہ جہاد بالسیف کے لئے تیاری کریں اور جونہی ان کے امام کی طرف سے صدائے جہاد بلند ہوتن من اور دھن سے اُس میں حصہ لیں.“ (روز نامہ الفضل 9 ستمبر 1947ء) تقسیم برصغیر کے بعد ہندوستان نے اپنی ہمسایہ مملکت پاکستان کے معاملہ میں جس قسم کا معاندانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا.پاکستان کے صاحب فراست لوگوں کی نگاہیں اُس کے اثرات و عواقب کا اندازہ لگا رہی تھیں چنانچہ امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اپنی چشم بصیرت سے یہ دیکھتے ہوئے کہ وطن عزیز کو اپنی سرحدوں کے دفاع کے لئے فرزندانِ وطن کی کسی وقت بھی ضرورت پڑ سکتی ہے.اپنی عارضی قیام گاہ رتن باغ لاہور ہی میں اپنی جماعت 304

Page 301

کے نمائندگان کی ایک خصوصی مجلس شوری بلوائی اور اُس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مقدس " يضع الحرب" کی تعمیل میں حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد بالسیف کے التواء کا جو اعلان فرمایا تھا اس کا زمانہ اب ختم ہورہا ہے.اس لئے جماعت کے افراد کو چاہئے کہ وہ جہاد بالسیف کے لئے تیار ہو جائیں اور جونہی ان کے امام کی طرف سے صدائے جہاد بلند ہو تن من اور دھن سے اس میں حصہ لیں.“ چنانچہ اس کے بعد جماعت کے چیف آرگن (الفضل ) میں یہ اشتہار چھپنا شروع ہوا.ضرورت ہے فوراً ایسے فوجیوں کی جو فوج سے فارغ ہو چکے ہیں.عمر میں سے تمیں ہو تو اچھا ہے.ایسے سپاہی ہونے چاہئیں جنہوں نے لڑنے والے سپاہیوں کے طور پر کام کیا ہوا ایسے اصحاب فورا مندرجہ ذیل پستہ پر خط و کتابت کریں.“ ( بحوالہ روزنامه الفضل 19 ستمبر 1947 ء اور 24 ستمبر 1947 ء وغیرہ) اس تلقین جہاد پر زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ احمدی نوجوان جمع ہونا شروع ہو گئے جنہیں ایک ٹرینگ کیمپ میں جنگی تربیت دینے کا کام شروع ہو گیا.انہی ایام میں پاکستان کے بعض فوجی افسروں نے امام جماعت احمدیہ سے جنگ آزادی کشمیر میں حصہ لینے کے لئے جموں محاذ پر کم از کم ایک پلاٹون بھیجنے کی فرمائش کی جس کے جواب میں چند ہی دنوں میں ۴۵ کے لگ بھگ کڑیل جوانوں پر مشتمل ایک مستعد و چاق و چوبند پلاٹون امام جماعت احمدیہ کے دوسرے صاحبزادہ میرزا مبارک احمد صاحب کی زیر کمان حکومت کو پیش کر دی گئی جس کوڈ پٹی کمشنر سیالکوٹ کے ایما پر جموں کی 305

Page 302

سرحد پر معراجکے کے محاذ پر متعین کیا گیا.جہاں پر بھارتی بمباروں کی بمباری روز کا معمول تھا.اور بھارتی توپوں کی مسلسل گولہ باری کے باعث سارے علاقے میں بے دلی اور ہراس پھیلا ہوا تھا.معراجکے کا محاذ کمپنی کے نوجوان معراجکے پہنچتے ہی اپنے مورچوں میں ڈٹ گئے پہلی رات ہی سے پٹرولنگ کا نظام قائم ہو گیا اور ان دیندار منچلوں کی جرات آفرینیوں سے چند ہی دنوں میں آس پاس کے دیہات میں اعتماد کی فضا بحال ہوگئی.بلکہ ایک دن ایک دست بدست جھڑپ میں (جس میں دشمن کے کئی فوجی کھیت رہے ) اس پلاٹون کے دو نوجوان برکت علی (آف دانه زید کا ضلع سیالکوٹ اللہ رکھا ( آف جسو کے ) نے داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا.انا للہ وانا الیہ راجعون.یہ ہے پلاٹون جذ بہ جہاد سے سرشار معراجکے کے محاذ پر دشمن سے پنجہ آزما تھی کہ اس کی جراتوں اور ولولوں سے متاثر ہو کر حکومت کی طرف سے حضرت امام جماعت احمدیہ کی خدمت میں ایک پوری بٹالین عطا کرنے کی درخواست کی گئی.ایک ایسی رضا کار بٹالین جس کے فوجی اپنی گرہ سے کھائیں.ان کے تمام خرچے جماعت احمد یہ برداشت کرے اور وہ اپنی جانیں تحفظ و سلامتی وطن کے لئے قربان کریں.مادر وطن کی پکار پر کسی سوچ بچار کی گنجائش ہی کہاں تھی اس پر مستزاد آزادی و رستگاری اہل کشمیر کے لئے حضرت امام جماعت احمدیہ کی تڑپ آپ نے فوراً حامی بھر لی اور یہ اپنی خواہش احباب جماعت تک پہنچائی.اولین فرصت میں حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد المعروف بہ فاتح الدین کی قیادت میں رضا کاروں کی بھرتی کے لئے ایک کمیٹی نامزد کر دی 306

Page 303

گئی اور چند دنوں کے اندر ملک کے کونے کونے سے احمدی جوان خدمت مادر وطن کے جذبہ سے سرشار بھرتی کے لئے پہنچنے شروع ہو گئے.(واضح رہے فاتح الدین اس کمیٹی کے صدر کا عسکری نام تھا) جون 1948ء میں ایک پوری بٹالین معرض وجود میں آگئی جسے فرقان بٹالین“ کا نام دیا گیا اور معراجکے کی پلاٹون کو اس میں ضم کر دیا گیا.فرقان بٹالین سرائے عالمگیر ( متصل جہلم) میں برلب جوئے آب ابتدائی تربیت کے لئے فرقان کیمپ قائم ہوا.اس تربیت میں ہر قسم کے ہتھیاروں کے استعمال فیلڈ کرافٹ، پٹرولنگ المقصد ہر قسم کی جنگی تربیت شامل تھی.ابتدائی تربیت کے بعد یہ فرقان بٹالین جو 1948 ء سے جون 1950ء تک اگلے مورچوں میں دشمن سے نبرد آزمارہی لیفٹینٹ ، جرنل اے ایم شیخ ( جواس وقت بریگیڈیئر تھے ) اور ایڈ جو ئنٹ جرنل محمد ایوب خان بھی اس بٹالین کے معائنہ کے لئے آئے ہر دفعہ ہر لحاظ سے مطمئن اور جوانوں کے جذبہ جہاد کو دیکھ کر مسرور و تنتظر لوٹے.فرقان بٹالین کی قیادت کے فرائض شروع میں (کرنل) سردار محمد حیات صاحب قیصرانی نے بعد ازاں (کرنل) صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے انجام دیئے.صاحبزادہ صاحب کا فرقان کی فوجی اصطلاح میں ” کلیڈ“ کے نام سے یاد کئے جاتے تھے.فرقان کیمپ کا نام ز بیر اور محاذ جنگ کے امیر کا نام ”عالم کباب تجویز ہوا بٹالین کی نفری کو پورا رکھنے کی ذمہ داری ایک کمیٹی کے سپرد تھی جس کے صدر فاتح الدین (عسکری نام) صاحبزادہ حضرت مرزا ناصر احمد (جماعت کے تیسرے امام ) چونکہ عملاً بٹالین کی ساری ذمہ داری انہی پر تھی اس لئے ہر وقت محاذ 307

Page 304

جنگ کے متعلق باخبر رہنا پڑتا تھا.اور اکثر محاذ پر پہنچ کر ان کا دل بڑھانا پڑتا تھا.جون 1948ء میں بٹالین کا قیام عمل میں آیا اور 10 جولائی 1948ء کو اُس کو بھمبر کے علاقہ میں محاذ جنگ باغسر (عسکری نام بربط ) پر بھجوا دیا گیا.جہاں پہنچتے ہی جوانوں نے مورچے سنبھال لئے.محاذ جنگ پر بٹالین کو پانچ کمپنیوں (نصرت، برکت ، تنویر شوکت اور عظمت) میں تقسیم کر دیا گیا.اس وقت بھارتی فوجی نومینز لینڈ (No Mans Land) پر قابض تھے فرقان بٹالین کے جوانوں نے انہیں پہنچتے ہی چند شدید یورشوں کے بعد پیچھے دھکیل دیا.آگے آنے والے جاسوسوں کا صفایا کر دیا اور ماحول پر پوری طرح مسلط ہو گئے.دونوں طرف سے روزانہ گولہ باری تو خیر معمول تھا ہی.دشمن کی فوج بمباری کا حربہ بھی آزمایا کرتی تھی لیکن فرقان بٹالین کے ارادے ایسے جوان تھے کہ دشمن کا کوئی حربہ بھی کامیاب نہ ہوا یہ اللہ تعالیٰ کا احسان تھا کہ اُس نے ہر جھڑپ اور ہر یورش میں فرقان بٹالین کو فوقیت عطا فرمائی یہاں تک کہ جب فرقان بٹالین دشمن سے اس کی پہاڑی ( ریچھ ) کو چھنے کے لئے ایک بڑے حملہ کی تیاری کر رہی تھی.اقوام متحدہ کی مداخلت سے جنگ بندی کا اعلان ہو گیا اور جوانوں کے ولولے دل کے دل ہی میں رہ گئے.امام جماعت احمدیہ محاذ پر فرقان بٹالین کے رضا کاروں کو عام فوجیوں کی سی مراعات اور سہولتیں بھی حاصل نہ تھیں خوراک بھی نپی تلی ہی ملتی تھی.گزارہ بھی بہت قلیل ملتا تھا.لیکن ان کے لئے بھی یہی مسرت بہت تھی کہ ان کے ساتھ ان کے امام کی دعائیں تھیں جو ایک دفعہ خود جنگ کے ایام میں بھی اُن سے ملنے کے لئے محاذ پر پہنچے اور ان سے باتیں کیں انہیں جہاد کی برکات ذہن نشین کیں.اس وقت تو 308

Page 305

ان رضا کاروں کی دلی مسرتوں کا نظارہ دیدنی تھا.شہدائے بٹالین محاذ جنگ کوئی بچوں کا کھیل تو ہوتا نہیں یہ تو آگ اور خون کا کھیل ہوتا ہے جس میں جانوں کے نذرانے داؤ پر لگائے جاتے ہیں.چنانچہ معراجکے کے محاذ پر شہید ہونے والے دو نو جوانوں کے علاوہ نو احمدی نوجوان محاذ بربط پر بھی کام آئے.کیا ہی معنی نگر ہے اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کے لئے ارشادربانی کہ وَلَا تَقُولُو لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ اَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَّ لَكِن لَّا تَشْعُرُونَ (بقره:155) جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں اُن کے متعلق یہ مت کہو کہ وہ مردہ ہیں وہ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں مگر تم نہیں سمجھتے.یہ نو جوان جنہوں نے جنگ آزادی کشمیر میں جام شہادت نوش کیا اور جن کے نام تاریخ حریت کشمیر کے اوراق پر ہمیشہ جلی حروف میں ثبت رہیں گے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے) یہ تھے.سرگودھا (1) میاں برکت علی صاحب.....ساکن دانه زید کا ضلع سیالکوٹ (2) میاں اللہ رکھا صاحب...ساکن جسو کے ضلع گجرات (3) چوہدری نصیر احمد صاحب..ولد چوہدری عنایت اللہ صاحب چک نمبر 35 ضلع (4) چوہدری محمد اسلم صاحب مانگ......ولد چوہدری جہان خان صاحب ساکن 309

Page 306

مانگٹ اونچے ضلع گوجرانوالہ (موجودہ حافظ آباد) (5) چوہدری منظور احمد صاحب اوجلوی ولد چوہدری دین محمد صاحب چک نمبر ۹۳ فورٹ عباس ضلع بہاولنگر (6) چوہدری عبدالرزاق صاحب ولد چوہدری محمد علی صاحب چک نمبر 68 ٹھیکری والا ضلع لائل پور ( موجودہ فیصل آباد ) (7) میاں سنی عرف منگ صاحب ولد میاں امام بخش صاحب بھڑ تا نوالہ ضلع سیالکوٹ (8) چوہدری غلام ین صاحب ولد چوہدری غلام نبی صاحب اور حمد ضلع سرگودھا (9) میاں محمد خان صاحب ولد میاں ابراہیم صاحب بھینی ضلع شیخو پورہ (10) میاں بشیر احمد ریاض صاحب ولد میاں دیوان صاحب مانسہرہ کیمپ (11) میاں عبدالرحمن صاحب ولد میاں ولی محمد صاحب واہ کیمپ اللَّهُمَّ اغْفِرُ لَهُمُ وَارحَمُهُمُ ( نوٹ : شہدائے فرقان بٹالین کا تذکرہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے : اپنے خطبہ جمعہ 21 رمئی 1999ء میں فرمایا تھا.شہدائے احمدیت ناشر طاہر فاؤنڈیشن ربوہ کے صفحہ نمبر 77 تا 82 تک ان شہداء کا ذکر موجود ہے ) اس کے علاوہ متعدد ایسے نوجوان بھی تھے جو ایسے زخمی ہوئے کہ عمر بھر کے لئے اپنے کڑیل جتوں کی تب و تاب اور رعنائیاں کھو بیٹھے لیکن وطن عزیز کی سلامتی پر سب کچھ نثار کر دیا.اعزاز واکرام سے سبکدوشی دو سال تک جنگ میں شاندار خدمات انجام دینے اور حکومت پاکستان کے تصفیے کے بعد کمانڈر انچیف (جنرل ڈگلس گریسی) کی طرف سے فرقان بٹالین کو اعزاز واکرام سے فارغ 310

Page 307

کرنے کی ہدایات دی گئیں جس کے لئے ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں برگیڈیئر کے.ایم.شیخ نے کمانڈر انچیف کا پیغام پڑھ کر سنایا اور ۹۱۷ مجاہدوں میں تمغات تقسیم کئے.کمانڈر انچیف نے خود اس تقریب میں آنا تھا لیکن انہیں بیرون ملک دورہ پر جانا پڑا تھا.کمانڈر انچیف نے اپنے پیغام میں نہایت شاندارالفاظ میں اس اطمینان کا اظہار کیا کہ فرقان فورس کے سب کے سب نوجوان خدمت پاکستان کے جذبہ سے سرشار تھے.اور انہوں نے اپنی قربانیوں کے بدلے میں جس کے لئے انہوں نے اپنے آپ کو رضا کا رانہ پیش کیا.کسی قسم کی شہرت و نمود کی توقع نہیں کی.اس پیغام میں یہ اعتراف بھی کیا گیا تھا کہ جو محاذ جنگ فرقان بٹالین کے سپرد کیا گیا تھا.اُس پر دشمن نے فضا اور زمین سے ہر طرح کے شدید سے شدید حملے کئے.لیکن انہوں نے ہر ایسے حملے کا ثابت قدمی اور اولوالعزمی سے مقابلہ کیا اور ایک انچ زمین بھی ( باوجود دشمن کی بے پناہ یورشوں کے ) اپنے قبضہ سے جانے نہیں دی.لکھا: آپ کی بٹالین خاص رضا کار بٹالین تھی جس میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے.ان میں کسان بھی تھے.مزدور پیشہ بھی کاروباری بھی اور نوجوان طلبہ و اساتذہ بھی وہ سب کے سب خدمت پاکستان کے جذبہ سے سرشار تھے.آپ نے اس قربانی کے بدلے میں جس کے لئے آپ میں سے ہر ایک نے اپنے آپ کو بخوشی پیش کیا کسی قسم کے معاوضہ یا شہرت و نمود کی توقع نہ کی.آپ جس جوش اور ولولے کے ساتھ آئے اور اپنے فرائض کی بجا آوری کے لئے تربیت حاصل کرنے میں جس ہمہ گیر اشتیاق کا اظہار کیا اس سے ہم سب بہت متاثر ہوئے.ان 311

Page 308

تمام مشکل مراحل پر جونئی پلٹن کو پیش آتے ہیں.آپ نے ، آپ کے افسروں نے بہت جلد عبور حاصل کیا.کشمیر میں محاذ کا ایک اہم حصہ آپ کے سپر د کیا گیا اور آپ نے ان تمام توقعات کو پورا کر دکھایا جو اس ضمن میں آپ سے کی گئی تھیں دشمن نے آپ پر فضا سے اور زمین پر سے شدید حملے کئے لیکن آپ نے ثابت قدمی اور اولوالعزمی سے آپ اُس کا مقابلہ کیا اور ایک انچ زمین بھی اپنے قبضے سے نہ جانے دی آپ کے انفرادی اور مجموعی اخلاق کا معیار بہت بلند تھا اور آپ میں تنظیم کا جذبہ انتہائی قابل تعریف اب جب کہ آپ کا مشن مکمل ہو چکا ہے اور آپ کی بٹالین تخفیف میں لائی جارہی ہے.میں اس قابل قدر خدمت کی بناء پر جو آپ نے اپنے وطن کی انجام دی ہے آپ میں سے ہر ایک کا شکر یہ ادا کرتا ہوں.‘ خدا حافظ نوٹ (اصل پیغام جو مطبوعہ تھا او تقسیم بھی کیا گیا تھا.کی فوٹو کاپی شامل ہے) تاریخ احمدیت جلد ششم ایڈیشن اوّل صفحہ 674 سے آگے، اس کا چر بہ لگایا گیا ہے ) 312

Page 309

باب چهارم حکومت آزاد کشمیر کا قیام ” جب یہ ذمہ داری پہلے (4/ اکتوبر کو ) خواجہ غلام نبی گلکار المعروف بہ انور کے اور پھر 24 /اکتوبر کوسردار محمد ابراہیم خان کے سپرد کی گئی تو ان دونوں میں سے کسی نے بھی مسلم کا نفرنس کی مجلس عاملہ کے بعض دوسرے ارکان کی طرح یہ غذ رلنگ پیش نہیں کیا کہ ہمارے تو رشتہ دارا بھی ریاست کشمیر میں بیٹھے ہیں اس لئے ہمیں اس ذمہ داری سے باز رکھا جائے.“ برطانوی حکومت نے اپنے اعلان میں ریاستوں کو جو یہ رعایت دی تھی کہ وہ پاکستان یا ہندوستان (جس مملکت سے چاہیں الحاق کر سکتے ہیں ) جونا گڑھ نامی ریاست کے والی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا جونا گڑھ اور کشمیر میں یہ مشابہت تھی کہ اگر کشمیر کا سر براہ ہندو اور رعایا کی اکثریت مسلمان تھی تو جونا گڑھ کا نواب مسلمان تھا.اور رعایا کی اکثریت ہند و یعنی غیر مسلم تھی.ہندوستان کی حکومت نے یہ سنا تو چراغ پا ہوگئی وہ بھلا یہ کیونکر برداشت کر سکتی تھی کہ ایک چھوٹی سے چھوٹی ریاست بھی اُس کے چنگل سے نکل جائے.چنانچہ اُس نے اس شوشہ کو ہوا دیتے ہوئے کہ نواب آف جونا گڑھ نے اپنی رعایا کی اکثریت کی منشاء کے خلاف الحاق کا فیصلہ کیا ہے.فوراً بمبئی میں سمل داس گاندھی کی صدارت میں جونا گڑھ کی ایک متوازن حکومت قائم کر دی.ظاہر 313

Page 310

ہے اس اقدام کے غیر معمولی نتائج بھی نکل سکتے تھے اس لئے ضروری تھا کہ اس شر سے بچنے کے لئے حکومت پاکستان اولین فرصت میں فوری اقدامات کرے.تاریخی اجلاس ان ایام میں امام جماعت احمدیہ صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب عارضی طور پر رتن باغ لاہور میں قیام پذیر تھے جہاں آئے دن کشمیر کے مسئلہ پر غور وفکر اور ( ملنے کے لئے آنے والے کشمیری کارکنوں سے ) اس سلسلہ میں مستقبل کے اقدامات کا جائزہ لیا جاتا رہتا تھا.بمبئی میں جونا گڑھ کے متوازی حکومت قائم کئے جانے کی خبر یہاں پہنچی تو آپ نے مقتدر کشمیری مہاجرین اور ارکان مسلم کانفرنس کو ( اُن میں سے جتنے بھی اکٹھے ہو سکے ) اس سلسلہ میں مستقبل کے اقدامات کا جائزہ لیا جاتا رہتا تھا.بمبئی میں جونا گڑھ کے متوازی حکومت قائم کئے جانے کی خبر یہاں پہنچی تو آپ نے مقتدر کشمیر مہاجرین اور ارکان مسلم کا نفرنس کو ( اُن میں سے جتنے بھی اکٹھے ہو سکے ) 2 /اکتوبر 1947 ء کورتن باغ میں جمع کیا.اس اجلاس میں مسئلہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال پر غور و فکر اور عمیق تبادلہ خیال کے بعد درج ذیل فیصلہ کیا گیا کہ آزاد کشمیر حکومت کا قیام (0) حکومت آزاد کشمیر کا فوری قیام اور اعلان از بس ضروری ہے جس میں اب دن کی تاخیر بھی مہلک ثابت ہوسکتی ہے.(ب) مقررہ آزاد کشمیر حکومت (جس کے طریق کار کا ڈھانچہ اس اجلاس نے تیار کیا ہے ) کے قیام کا اعلان بلا تاخیر ریڈیو پاکستان اور پاکستانی پریس کے ذریعہ کر دیا جائے.(ج) اس سلسلہ میں تمام برقیئے (بشمول بیرونی پریس) راولپنڈی سے بھجوائے جائیں.314

Page 311

(1) نوزائیدہ حکومت کے صدر مقام کے طور پر مظفر آباد کا اعلان کیا جائے.(0) مسلم کانفرنس کے سرگرم رکن کشمیر اسمبلی کے ممبر اور تحریک آزادی کشمیر کے ابتدائی مجاہد وراہنما جناب خواجہ غلام نبی گل کار ( جنہیں مجوزہ آزاد کشمیر حکومت کا صدر مقرر کیا جاتا ہے ) فی الحال اپنا نام ظاہر نہ کریں.اور تمام کچھ عرصہ تک اپنے قلمی نام (انور کے ) سے کریں.(و) مغربی پاکستان کے صدر مقام لاہور میں نوزائیدہ آزادکشمیر حکومت کے حق میں فوراً ایک پراپیگنڈا دفتر کھول دیا جائے.واضح رہے اُس وقت موجودہ کوئی اور کشمیر راہنما بھی یہ ذمہ داری اُٹھانے کے لئے تیار نہ تھا لہذا خواجہ غلام نبی گل کار صاحب کو یہ امر مجبوری یہ ذمہ داری اٹھانا پڑی اُن کے نام کے اختفاء میں رکھے جانے کے پس پردہ یہ حکمت بھی تھی کہ آزاد کشمیر حکومت کے قیام کا اعلان ہوتے ہی انہیں فوراً سری نگر پہنچ کر وہاں اس اجلاس کے مجوزہ منصوبہ کے مطابق ( زیر زمین ) کام شروع کرنا تھا.اعلان قیام حکومت چنانچہ اس تاریخی اجلاس کے فیصلہ کے مطابق خواجہ غلام نبی گل کار کی صدارت میں آزاد کشمیر حکومت قائم ہوگئی اور 4-5 را کتوبر 1947ء کو ریڈیو پاکستان کے لاہور اسٹیشن سے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد اس کے قیام کا اعلان نشر ہوتا رہا.جس سے کشمیر اور ہندوستان میں تہلکہ مچ گیا.مسلمانان کشمیر نے اس طمانیت بخش نوید کوسنتے ہی اظہار مسرت کے طور پر مٹھائیاں تقسیم کیں اور مشہور انگریزی جریدہ سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اس اہم ترین خبر کو ان الفاظ میں شائع کیا.( ترجمہ ) ہفتہ کی رات کو راولپنڈی سے تاخیر سے موصول ہونے والے تار کے مطابق ریاست کشمیر کے لئے عارضی جمہوری حکومت کا قیام 315

Page 312

پاکستان کی سرحد سے 20 میل دور مظفر آباد میں عمل میں آیا.یہ اعلان مسٹرانور کے دستخطوں سے جاری ہوا ہے جو اپنے تئیں عارضی جمہور یہ کشمیر کا صدر بیان کرتے ہیں.اس کے مطابق برطانیہ کا اقتدار اعلیٰ ختم ہوتے ہی کشمیر کے حکمران خاندان کے وہ تمام حقوق زائل ہو گئے ہیں جن کا دعویٰ وہ بیعانہ امرتسر کی بنا پر کرتا تھا.جس کے ذریعہ برطانیہ نے کشمیر کو 50 لاکھ روپے کی معمولی رقم (75 لاکھ نانک شاہی) کے عوض گلاب سنگھ جو موجودہ ( راجہ ) ہری سنگھ کا جد تھا فر وخت کر دیا تھا ریاستی عوام نے مظفر آباد کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا کر عارضی جمہوری حکومت قائم کی ہے.اعلان میں مزید بتایا گیا ہے کہ 4/اکتوبر 1947ء کو ایک بجے رات کے بعد موجودہ حکمران ہری سنگھ یا کوئی اور شخص جو اس کے احکام یا ہدایات پر ریاست کی حکمرانی کا دعوی کرے گا.اسے عارضی جمہور یہ کشمیر کے قوانین کے تحت سخت سزادی جائے گی.آج سے تمام قوانین احکامات اور ہدایات جو عارضی جمہوریہ کشمیر کی جانب سے شائع اور جاری ہوں گے عوام کا فرض ہے کہ وہ ان احکام کی تعمیل اور ان کا احترام کریں مسٹر اور کشمیر مسلم کانفرنس کے ممتاز مبر ہیں جس مسلم کانفرنس کے پریذیڈنٹ چوہدری غلام عباس اور جنرل سیکرٹری آغا شوکت علی ہیں جو ایک سال سے بحکم کشمیر گورنمنٹ محبوس ہیں.66 سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور 8 اکتوبر 1947ء) 316

Page 313

ہفتہ وار رسالہ لائیٹ کا نوٹ اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے ایڈیٹر ہفتہ وار رسالہ لائیٹ (Light) مولانا محمد یعقوب خان نے ( جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے رکن رہ چکے تھے اور یوں انہیں اس کارِ خیر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین صاحب سے عملی تعاون کی سعادت حاصل ہو چکی تھی.) لکھا: ترجمہ ہم پریس میں جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ کشمیر سے کشمیر کے عوام کی طرف سے خود مختاری کے اعلان کی خوشخبری موصول ہوئی جس سے منکشف ہوا کہ ” بمقام مظفر آباد ایک عارضی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے.خود مختاری کے اس اعلان میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہری سنگھ کا راج ۱۵ راگست ۱۹۴۷ ء کے قانونِ آزادی ہند کے مطابق ختم ہو گیا ہے.اب اُسے کوئی اخلاقی قانون اور مذہبی حق نہیں رہا کہ وہ ریاست کی مرضی کے خلاف اُن پر حکمرانی کرے لہذا اس کے نتیجہ میں اُسے معزول کیا جاتا ہے اور 4 را کتوبر سے اس پر عمل ہوگا.اعلان میں مزید کہا گیا ہے کہ اب تمام وزراء اور عہدیداران اور ملازمین پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عارضی جمہوریہ کشمیر کے احکامات و ہدایات کی پوری پوری پابندی کریں جس شخص نے بھی اس قائم کردہ آئینی حکومت کی خلاف ورزی کی یا کسی رنگ میں معزول شدہ غاصب مہاراجہ کی امداد یا حوصلہ افزائی کی اُس کا یہ فعل بغاوت کے مترادف ہوگا اور اُسے مناسب سزا دی جائے گی.“ 317

Page 314

ویکلی لائٹ لاہور 8 /اکتوبر 1947ء) عارضی جمہوریہ کشمیر کے قیام کا اعلان چونکہ مسلمانان کشمیر کے دلوں کی دھڑکنوں کی آواز تھا اس لئے اُس کے نشر ہوتے ہی ریاست بھر میں ہر کہیں حریت پسندانہ جوش و خروش کا مظاہرہ کیا گیا.جسے دیکھ کر مشہور کشمیر مصنف و مؤرخ پنڈت پریم ناتھ بزاز بھی یہ لکھے بغیر نہ رہ سکے.یه تاریخی اعلان ریڈیو پاکستان سے نشر کیا گیا جسے باشندگانِ کشمیر نے پُر جوش جذبات سے سنا (ہسٹری آف دی مسٹر گل فار فریڈم ان کشمیر صفحہ 620) مشرقی پنجاب میں راقم الحروف انہی ایام میں مشرقی پنجاب میں حضرت امام جماعت احمدیہ کے فرزند ارجمند صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد ایم.اے.آکسن (موجودہ امام جماعت احمدیہ ) کی زیر قیادت کام کر رہا تھا.ہم لوگ مسلمانوں کے انخلاء اور مغویہ خواتین کی بازیابی کے لئے سرگرم عمل تھے.محترم صاحبزادہ صاحب جماعت کے جوانوں کی مرکزی تنظیم خدام الاحمدیہ کے صدر تھے اور خاکسار آپ کی مجلس عاملہ کا ایک رکن حضرت صاحبزادہ صاحب کے منصوبوں اور احکام کے تحت جس طرح گولیوں کی بوچھاڑوں کی پروانہ کرتے ہوئے مسلمان عورتوں اور بچوں کو فرقہ واریت کے درندوں کے چنگل سے چھڑایا گیا.اُس کی تفاصیل کے لئے ایک علیحدہ کتاب کی ضرورت ہے.جسے اللہ تو فیق عطا فرمائے گا وہ جب اس خونی داستان کو رقم کرے گا تو واضح ہو گا کہ کس طرح ہمارے کئی ساتھی اس نیک سعی کو بروئے کار لاتے ہوئے ہماری آنکھوں کے سامنے شہید کر دیئے گئے لیکن ان جوانوں نے اپنا خون دے کر ہزار ہا جانوں کو بچالیا.خدا ان جان شاران قوم پر اپنی ان گنت رحمتیں نازل فرمائے.آمین.جب انخلاء کا کام تقریباً مکمل ہو گیا اور دونوں حکومتوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب قافلوں کا 318

Page 315

تبادلہ نہ ہوگا تو ہمیں بھی ارشاد پہنچا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب اپنے ان ساتھیوں کو ساتھ لے کر جو پاکستان آنا چاہیں لے کر لاہور پہنچ جائیں چنانچہ اس ارشاد کی تعمیل میں آخری قافلہ ترتیب پایا جس میں کئی وہ بے بس اور مسکین مسلمان لڑکیاں بھی تھیں جنہیں احمدی جوانوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر برآمد کیا تھا.یہ قافلہ بفضلہ تعالیٰ بخیر وعافیت 16 /نومبر 1947ء کو لاہور پہنچ گیا.قیام کب عمل میں آیا جیسا کہ اوپر ریڈیو پاکستان کے نشریوں نیز سول اینڈ ملٹری گزٹ کے خبر ئیے اور ہفتہ وار لائٹ کے اُچٹتے سے تبصرے میں بتایا گیا ہے عارضی حکومت آزاد کشمیر کا قیام 4/اکتوبر 1947ء کو عمل میں آیا تھا.البتہ اس کی تنظیم نو 24 اکتوبر 1947 ء کو کی گئی.افسوس کہ بعض قلم کاروں نے آزاد کشمیر حکومت کے قیام کے سلسلہ میں شاید اصل واقعہ معلوم نہ ہونے کے باعث 24 راکتو بر کی تاریخ ہی کو قیام حکومت کی تاریخ لکھا ہے.حالانکہ اس حقیقت کو کشمیر کے ثقہ اور مشہور مؤرخین پنڈت پریم ناتھ بزاز اور جسٹس محمد یوسف صراف نے بھی تسلیم نہیں کیا ہے بلکہ پاکستان اور یورپ کے جرائد کے کالم بھی دستاویزی شہادتوں کے طور پر موجود ہیں.اور ان سب پر مستزاد 24 اکتوبر کو با قاعدہ قائم کی جانے والی حکومت کا یہ اعلان کہ ہم قائم شدہ آزاد کشمیر حکومت کی تنظیم نو کر رہے ہیں.پہلا صدر اتور اس بات میں کسی باخبر کو اختلاف نہیں کہ 2 /اکتوبر 1947ء کورتن باغ لاہور میں کارکنان کشمیر کا جو تاریخی اجلاس منعقد ہوا تھا اور جو حضرت امام جماعت احمدیہ ( صاحبزادہ مرزا 319

Page 316

بشیر الدین محمود احمد ) کے ایما پر بلایا گیا تھا اور اُن کی قیام گاہ ہی پر منعقد ہوا.اسی اجلاس میں عارضی آزاد کشمیر حکومت کی داغ بیل پڑی تھی.جس میں اقتضائے حالات کے باعث اُس کے پہلے صدر کا قلمی نام ، انور تجویز ہوا تھا.راقم الحروف نے جب ”“ لکھنے کا ارادہ کیا تو بعض موضوعات کے بارے میں رہنمایان کشمیر سے بھی استصواب کیا.چنانچہ آزادکشمیر حکومت کے قیام کے ذکر پر تحریک آزادی کشمیر کے ابتدائی معروف رکن ( جنہوں نے اپنی حریت پسندانہ سرگرمیوں کے باعث جلا وطنی اور قید و بند کی اذیتیں بھی برداشت کیں.مفتی ضیاء الدین صاحب ضیاء نے بتایا کہ......دراصل 2 اکتوبر کے تاریخی اجلاس میں جتنے بھی وو کارکنان کشمیر موجود تھے ہم سب کی یہ متفقہ رائے تھی کہ اس منصب کے لئے سوائے خواجہ غلام نبی گل کار اور کوئی اہل نہیں ہے.وہ کشمیر کے نڈر لیڈر ہیں مسلم کا نفرنس کے سرکردہ رکن ہیں جب چوہدری غلام عباس ایسا لیڈر بھی نیشنل کانفرنس کے جال میں جا پھنسا تھا گل کار اس وقت بھی مسلم کا نفرنس کا علم بلند کئے رہے.حالانکہ شیخ محمد عبداللہ سے اُن کے تعلقات بہت قدیمی تھے پھر وہ تاریخ کشمیر کی معروف شخصیت اور کشمیر اسمبلی کے ممبر بھی تھے اور ان سب پر مستزاد یہ بات کہ وہ ہم سب سے زیادہ اوپر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے.مفتی صاحب نے اپنے اظہار کو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ اس ساری بحث میں خواجہ گل کارخاموش اور غیر متعلق سے رہے یہاں تک کہ اُن کے بارے میں شر کا ء اجلاس کو مخاطب کر کے حضرت مرزا صاحب نے فرمایا: 320

Page 317

اُن کی ان تمام خوبیوں کے باوصف آپ بات کے اسی پہلو کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں.کہ گل کار احمدی بھی ہیں.اگر میں انہیں صدر بننے کی اجازت دے دوں تو جنونی ملا مذہبی منافرت آرائی شروع کر دے گا.اور دشمن کو اس سے فائدہ پہنچے گا.اور ہمارا مقصد دشمن کے ظالم پنجے سے مظلومین کشمیرک نجات ہے.“ اس پر تین چار متبادل نام پیش ہوئے جن میں ایک میرا ( مفتی ضیاء الدین صاحب ضیاء) کا نام بھی تھا.میں نے کہا کہ یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے اس کے لئے ایک اچھے خاصے پڑھے لکھے اور اعلی تعلیم یافتہ شخص کی ضرورت ہے.اور میں انگریزی نہیں جانتا.صرف علم دین جانتا ہوں.اسی طرح ایک یا دوسرے عذر پر پیش کئے جانے والے تمام متبادل نام نظر انداز ہو گئے.اس پر چار و ناچار حضرت مرزا صاحب کو گل کار صاحب کو یہ ذمہ داری قبول کرنے کے لئے اجازت دینا پڑی لیکن اس کے باوجود آپ نے یہ شرط لگادی کہ وہ عارضی صدر ہوں گے اپنے قلمی نام سے کام کریں گے اور پھر کسی موزوں وقت پر مستقل صدر کا فیصلہ ہو جائے گا.“ اور مجھے خوب یاد ہے حضرت مرزا صاحب نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا تھا کہ ”جب پاکستان میں عارضی حکومت کے قیام کا اچھی طرح اعلان ہو جائے تو گل کار صاحب سری نگر جا کر (انڈر گراؤنڈ ) کام کرنا شروع کر دیں.“ کشمیر سے واپسی پر اور خواجہ گل کار نے اس ارشاد کی تعمیل کی.وہ اعلان کے فوراًبعد ہی سرینگر چلے گئے اور وہاں کام کرتے ہوئے گرفتار کر لئے گئے.پھر جب قیدیوں کے تبادلہ میں پاکستان آئے اور ان 321

Page 318

سے ان کے بحیثیت صدر تقرر کا ذکر چھڑا تو انہوں نے نہ صرف مفتی ضیاء الدین صاحب ضیاء کے متذکرہ بالا بیان کی حرف بہ حرف تصدیق کی بلکہ اس بات کی تصدیق بھی کی کہ انہی کا قلمی نام انور تھا اور یہ لفظ انور اس وقت سے ان کے نام کا حصہ بن گیا ہے.چنانچہ انہوں نے آتے ہی اس بارے میں برملا انکشاف کیا کہ انور بی غلام نبی گل کا رہی تھا.وہی آزاد کشمیر کا صدر تھا.اور ان کا یہ بر ملا انکشاف واعلان اخبارات کے کالموں کی آج بھی زینت ہے.منظوم تاریخ میں ذکر مفتی ضیاء الدین صاحب ضیاء نے بھی ایک منظوم ” تاریخ حریت کشمیر تحریر فرمائی ہے.جو ایک ہزار کے لگ بھگ اشعار پر مشتمل ہے.راقم الحروف کو اس کے متعدد حصے خود شاعر و مصنف کی زبان سے سننے کی سعادت حاصل ہوئی.اس منظوم ” تاریخ حریت کشمیر کے بعض حصے اخبارات میں بھی شائع ہوتے رہے ہیں.اس میں جابجا خواجہ غلام نبی گلکار کی حریت پسندانہ سرگرمیوں کا ذکر آتا ہے.اس سوال کے جواب میں کہ عارضی آزاد کشمیر حکومت کا صدر...انور کون تھا.مفتی صاحب کہتے ہیں: غلام نبی گلکارانور دریں دور مردیکه گلکار ہست برائے وطن بسکہ غم خوار ہست یسے دیده باشی با اخبار با ز حالات انور بسا کا رہا ہموں کس با نماز فتنه فساد ز کشمیر بسته کمر خوش نهاد 322

Page 319

سرحد بیروں نہاد قدم این نکو کام بہر جہاد رو چارش به همراه کفار شد ز تدبیر او کفر لاچار شد بنزدیک دو میل پرچیم بلند بازادئی ملک میں ہوشمند ازاں پس ز کشمیر تا شام و روم چو برق این خبر شد بہر خرد بوم بہر سمت کیں شہرہ مقبول شد که از حکم گلکار معزول شد ہری سنگھ کہ آں راجہ کشمیر کز و نتنگ بودند بر ناو پیر ز انور چو اعلان جاری شده حقش کزاں بعد خواری شده چهارم که از ماه اکتوبر آں سن یکهزار نیز نهصد بدال مزید برآں چہل و ہفت اے عزیز ز دل بشنو ایں قصہ اے پر تمیز شده با دل ازیں کس نکو تر هده قیام حکومت ز انور شده دریس نیست رہے کہ تحریر شد بلا کیف و کم راست تسطیر شد ازاں پس ز دو میل ایں خوش سیر روانه شده سوے سری نگر بجا مع در آنحال پیش کساں کم و بیش گال ماجرا شد بیاں شنیدند ز گلکار چون این پیام که شد پرچم دین زیں نیک نام زدستش بسرحد بلند ای خوشا حقش ندائے نکو مرحبا چپ و راست برخاست بہجت کناں ہزار آفرین بر چنیں نوجواں چو نیکو بنائے کہ تعمیر شد زد ستش پیئے فتح کشمیر شد 323

Page 320

ازاں پس غازی براہیم خاں منظم حکومت شده فی العیاں بتاريخ در بست و چارم بدان که در انور کون ہے ماه اکتوبر اینک بخواں اسی طرح اس تاریخی واقعہ کے ایک چشم دید گواہ گل احمد کوثر ہیں جنہوں نے ان تمام حالات پر مشتمل تفصیل اپنے اخبار ”ہمارا کشمیر، مظفر آباد میں قلمبند کی اور واضح طور پر لکھا کہ انور..فی الحقیقت خواجہ غلام نبی گلکار ہی تھے اور وہی آزاد کشمیر حکومت کے پہلے صدر تھے.“ اس سلسلہ میں اگر کسی ذہن میں اب بھی کوئی اشتباہ باقی رہ گیا ہو تو اس کے ازالہ کے لئے یقیناً ان تین ثقہ و غیر جانبدار مؤرخین کی آراء کافی ہونی چاہئیے.پنڈت پریم ناتھ بزاز لکھتے ہیں: (الف) ترجمہ انور....غلام نبی گلکار (جو مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کے رکن اور تحریک حریت کشمیر کے آزمودہ کارفرما تھے ) کے سوا اور کوئی نہیں تھا.“ (The History of stranggte for freedom in Kashmir pandit prem by Nath Bazaz P 621) (ب) ترجمہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ مسٹر غلام نبی گلکار ہی تھے جنہوں نے پریس کے نام تاروں کے ذریعہ راولپنڈی سے یہ اعلان جاری کیا تھا.“ (Kashmiris Fight for freedom by Justice M.Y.Saraf chief Justice Kashmir H.C.PP 1286-1287) (ج) ترجمہ یہ بھی ثابت شدہ امر ہے کہ جب وہ ( غلام نبی گلکار ) لاہور سے راولپنڈی 324

Page 321

آئے تو یہ ڈرافت اُن کے پاس تھا.اس وقت کوئی بھی تو سامنے نہیں آیا جس نے ڈرافٹ کے مصنف ہونے کا دعوی کیا ہو.مسٹر غلام نبی گلکار جو سری نگر میں نومبر 1947 ء میں گرفتار ہوئے پاکستان میں دوسروں کے ساتھ 1949ء میں ہندوستانی قیدیوں کے بدلہ میں ( رہا ہو کر ) وارد ہوئے اور یہاں پہنچتے ہی فوراً انہوں نے اپنے (عارضی حکومت کے پہلے صدر ہونے کا دعوی کیا.“ (Kashmiris Fight for freedom PP 1287 by Saraf) (د) ترجمہ حکومت آزاد کشمیر کی بنیاد 4 اکتو بر کو پڑی تھی اور اُس کے پہلے صدر خواجہ غلام نبی گلکار تھے اور سردار محمد ابراہیم خاں اس حکومت کے پرائم منسٹر تھے جب خواجہ غلام نبی گل کار مظفر آباد سے اندرون کشمیر گئے تو اُس کے بعد 24 /اکتوبر 1947ء کو امام حکومت سردار محمد ابراہیم کے ہاتھ میں آگئی.“ (Two Nations & Kashmir 1956 Edition PP.81) خواجہ غلام نبی گلکار کو ریڈیو پاکستان لاہور سے ہونے والے بار بار کے اعلانات نیز سول اینڈ ملٹری گزٹ اور ہفتہ وار لائٹ میں عارضی آزاد کشمیر حکومت سے متعلقہ اعلان کی نشر و اشاعت سے اطمینان ہو گیا کہ ابتدائی مرحلہ طے ہو گیا ہے تو وہ پروگرام کے دوسرے مفوضہ حصے کی انجام دہی کے لئے سرینگر چلے گئے.ایک اور شہادت چیف جسٹس محمد یوسف صراف بیان فرماتے ہیں کہ وہ شروع ( ماہ) اکتوبر میں راولپنڈی پہنچے.چند دن بعد اُن سے سردار محمد ابراہیم خاں نے لاہور جانے کے لئے کہا تا کہ وہاں تحریک کے لئے نشر واشاعت کا دفتر قائم کیا جا سکے.لکھتے ہیں: ( ترجمہ ) انہوں نے مجھے یہ بتایا کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کے (امام) میرزا بشیر 325

Page 322

الدین محمود احمد صاحب سے پہلے ہی بات کر لی ہوئی ہے اور مجھے دفتر قائم کرنے کے لئے ان کی اعانت حاصل کرنے کے لئے ) اُن کے پاس جانا ہے.“ (Kashmiries Struggle for Freedom Page 1285 by Saraf) آگے لکھتے ہیں: لاہور پہنچ کر میں آپ (حضرت مرزا صاحب) کی رہائش واقع رتن باغ پہنچا اور اُن سے اُن ہدایات کا ذکر کیا جو مجھے دی گئی تھیں.اس گفتگو میں مجھ پر یہ منکشف ہوا کہ اُن کا اس تمام کارروائی اور عمل میں بڑا گہرا تعلق ہے.اور حصول آزادی کے مقصد کے لئے وہ مقدور بھر کوشش کر رہے تھے.انہوں نے کسی کو مقررفرمایا کہ میرے لئے میکلوڈ روڈ پر بروسر ہوٹل کے قریب دفتر کے لئے انتظام کیا جائے اور یوں 24 گھنٹوں میں دفتر تیار ہو گیا.اور اُس کا نام مسلم کانفرنس پبلسٹی بیورو رکھا گیا.“ (Kashmiries Struggle for Freedom Page 1285 by Saraf) قانون اور آئین کی بات تاریخ حریت اقوام وملل سے نابلد کوئی معترض یہ دریافت کر سکتا ہے کہ کیا آزاد جموں کشمیر حکومت کا قیام.اس کا اعلان اور اُس حکومت کے صدر اور وزراء کا تقر ر غیر قانونی تو نہ تھا.آخر یہ سب کچھ کس ضابطہ اور آئین کے تحت ہوا؟ ایسے سوال کا سب سے پہلا جواب تو یہ ہے کہ ہاں یہ سب کچھ اُس آفاقی آئین کے تحت عمل میں آیا تھا.اقوام متحدہ کے چارٹر تک میں تسلیم کیا گیا ہے اور جس کی رو سے جبر وغصب 326

Page 323

سے آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور الزامی جواب یہ ہے کہ...جس حکومت کے جواب میں یہ آزاد حکومت کی گئی تھی.جس کی نیو بیعانہ امرتسر پر اٹھائی گئی اور جس میں 22 لاکھ مظلوموں کو 50 لاکھ روپے کے عوض فروخت کر کے اُس کے سپرد کر دیا گیا کہ وہ جس طرح چاہے اُن کی جانوں، جسموں اور عصمتوں سے کھیلے.کیا اس کا قیام اور کیا دھرا سب کچھ آئینی تھا.آزاد کشمیر حکومت کے قیام کا جواز تو انہی آثار وشواہد سے واضح ہے کہ اس کے قیام کا اعلان سنتے ہی نہ صرف پاکستان میں بلکہ مقبوضہ کشمیر کے کونے کونے میں اُس کا خیر مقدم ہوا.ریڈیو پاکستان نے اس کے قیام کا بار بار اعلان نشر کیا.پاکستانی اور بیرونی پریس نے اس اعلان کو نمایاں طور پر شائع کیا.مظلومین کشمیر نے یہ اعلان سنتے ہی مٹھائیاں تقسیم کیں.گویا جمہور کے رد عمل نے بہ بانگ دہل اس قیام کے جواز کی تصدیق کر دی.سوائے ہندوستان کے سیاسی پنڈتوں کے جن کے خرید نے اور بیچنے کے باٹ ہمیشہ مختلف رہے ہیں.اور جس نے دیدہ دانستہ حکومت برطانیہ کے اعلان کو پس پشت ڈال کر کشمیر اور حیدر آباد کی ریاستوں پر بالجبر تسلط جمانے کے لئے دو مختلف طریقے اختیار کئے.تاریخ سے نابلد لوگوں کی موشگافیوں کا کیا ہے.4 اکتوبر 1947 ء کو آزاد حکومت قائم کر کے اور اُس کا اطراف و جوانب میں خیر مقدم ہونے کے بعد جب اس کے پہلے صدر پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق سری نگر تشریف لے گئے اور اُن کے بعد حکومت کی تنظیم نو عمل میں آئی اور اُن کی جگہ سردار محمد ابراہیم خاں آزاد کشمیر حکومت کے دوسرے صدر مقرر ہوئے.تو مجھے خوب یاد ہے.اس کی تائید میں لاہور میں ایک جلسہ کا انعقاد ہوا جس میں ایک مقرر نے در دو سوز سے یہ تحریک 327

Page 324

کی کہ (۲) ہمیں آزاد کشمیر کی نوزائیدہ حکومت کی بھر پور اعانت کرنی چاہئے.تو مسلم کانفرنس ہی کے ایک انتہائی ذمہ دار یہ کہتے ہوئے بھی سنے گئے تھے کہ مقرر کو ایسی غیر قانونی حکومت کے قیام کا اپنی تقریر میں یوں بر ملاذ کر نہیں کرنا چاہئے تھا.ع قیاس کن زنگلستان من بهار مرا کاش کوئی منچلا اُن سے دریافت کرتا....کہ جب کسی امن پسند شہری کے گھر پر غاصب اور ڈاکو حملہ آور ہوں اور گھر کے مکینوں کو نکال باہر کر کے اُس پر قبضہ کر لیں اور مالک مکان اپنا گھر چھین جانے کے بعد اُس کا کچھ حصہ زور بازو سے خالی کرا کے اُس پر دوبارہ قبضہ کر لے.تو کیا یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی.حیرت ہے جب جونا گڑھ کی مسلم ریاست کو ہضم کرنے کے لئے مسٹر سمل داس گاندھی کی سرکردگی میں جونا گڑھ کی ریاست سے باہر بمبئی میں متوازی حکومت بنائی گئی.ایسے احباب کو اُس وقت اُس کے خلاف آئینہ اور غیر مستند ہونے کے اعتراض کیوں نہ سوجھے.اور پھر جب بالآخر ہندوستان نے جونا گڑھ کو ہڑپ کر کے اپنے اندر ضم کر لیا.تو ایسا کسی آئین اور قانون کے تحت کیا گیا تھا.بے شک کشمیری قوم ہی نہیں پوری انسانیت شکر گزار ہے.ان محسنوں کی جنہوں نے خدا داد فراست و بصیرت سے کام لیتے ہوئے عین وقت پر اقدام پر کر کے ریاست کا ایک حصہ واگزار کرالیا.ورنہ جو حال جونا گڑھ منگرول منا در اور حیدر آباد کا ہوا ہے.وہی حال کشمیر کا ہوتا.اور پوری کی پوری ریاست ( بلکہ دوسرے الفاظ میں پاکستان کی شہ رگ ) ہندوستان کے قبضہ میں ہوتی اور کوئی استصواب کا نام لینا تو درکنار استصواب کے 328

Page 325

بارے میں خواب تک نہ دیکھ سکتا.سردار ابراہیم کی نامزدگی اب جو آزاد کشمیر حکومت کے قیام اور اُس کے پہلے (عارضی) صدر خواجہ گلا کار کے سرینگر چلے جانے کے بعد اس کی تنظیم نو کا ذکر چھڑ ہی گیا ہے تو اس دوسرے حصہ کی کچھ تفصیل بیان کر دینا بھی بے محل نہ ہوگا.سردار محمد ابراہیم خان سے منسوب یہ بیان شائع شدہ موجود ہے کہ وہ 23 اکتوبر 1947ء کو اپنی قیام گاہ پر سوئے ہوئے تھے کہ نصف شب کے بعد خواجہ عبدالرحیم صاحب ( کمشنر راولپنڈی ڈویژن) اور بیگم شاہنواز صاحبہ کی صاحبزادی نسیم شاہ نواز نے انہیں بیدار کر کے یہ اطلاع دی کہ اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ تمہاری صدارت میں آزاد جموں و کشمیر حکومت کی از سر نو تنظیم کی جائے اور اس کا اعلان کرنے میں تا خیر مکن نہیں.“ (Kashmiries Struggle for Freedom PP by Saraf) گویا 23 /اکتوبر 1947 ء کو رات گئے تک خودسردار محمد ابراہیم خاں کو بھی یہ علم نہ تھا کہ وہ صدر بنائے جا رہے ہیں اور وہ بھی اس طرح صدر نامزد ہوئے تھے جس طرح خواجہ گلکار ( عارضی) صدر بنے تھے.گل کار و ابراهیم تاریخ کشمیری قوم کے ان دو مجاہدوں کے اس ایثار کو ہرگز فراموش نہیں کر سکتی کہ جب یہ عظیم ذمہ داری پہلے 1/4اکتوبر کو خواجہ غلام نبی گلکار المعروف بہ انور اور پھر 24 اکتوبر کوسردار محمد ابراہیم خاں 329

Page 326

کے سپرد کی گئی.تو ان دونوں میں سے کسی نے بھی مسلم کا نفرنس کی مجلس عاملہ کے بعض دوسرے ارکان کی طرح یہ عذر لنگ پیش نہیں کیا کہ ”ہمارے تو رشتہ دار بھی ریاست کشمیر میں بیٹھے ہیں اس لئے ہمیں اس ذمہ داری سے باز رکھا جائے.“ حالانکہ یہ وقت اپنے چند اعزہ واقربا کی طرف دیکھنے کا نہیں پوری کشمیری قوم کی نجات و آزادی کے لئے سوچنے اور ایثار کرنے کا وقت تھا.کیا یہ سچ نہیں کہ سردار محمد ابراہیم خاں کے نام قرعہ فال پڑنے سے بھی پہلے اراکین مسلم کانفرنس نے خواجہ گل کار کی جگہ مسلم کانفرنس کے دو معروف رہنماؤں کے نام صدارت کے لئے پیش کئے تھے.مگر ان دونوں نے بھی اسی عذر پر کہ ان کے عزیز وا قارب ابھی ادھر ہیں.اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے ہاتھ کھینچ لئے تھے.اس کے برعکس خواجہ گل کار کا کردار یہ ہے کہ انہیں کشمیر سے عارضی طور پر بلایا گیا تھا.اور وہ یہاں عارضی آزاد حکومت قائم کر کے پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے تحت پھر سرینگر پہنچے تھے جہاں جیل کی کال کوٹھڑی اُن کے انتظار میں تھی.تاریخ تحسین کے پھول تھر دلوں پر کب نچھاور کرتی ہے.خوب یاد ہے.کشمیر سے پنڈی آئے ہوئے مسلم کانفرنس کے اراکین 23 / تاریخ کو اپنے ساتھ راولپنڈی کے بعض کارکنوں کو لے کر لاہور آئے تھے.یہاں اُن کی ملاقات آزادی کشمیر سے دلچسپی رکھنے والے بعض احباب اور صحافیوں کے علاوہ حضرت امام جماعت احمدیہ (صاحبزادہ میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب) سے بھی ہوئی.کاش اس وفد کا کوئی رکن ان ملاقاتوں کا ما حصل من و عن بیان کر دیتا.کچھ اور نہیں مورخین کا کام تو آسان ہو جاتا.330

Page 327

باب میشیم مسئلہ کشمیر ( اقوام متحدہ کی ) مجلس امن میں صاحب صدر ! آپ کو اور اراکین مجلس کو یاد ہو گا کہ ابھی چند دن ہوئے ہندوستان کے فاضل نمائندہ نے شکوہ کے طور پر کہا تھا کہ کشمیر جل رہا ہے اور مجلس امن ستار بجارہی ہیں.“ کیا میں ہندوستان کے نمائندہ سے دریافت کرنے کی جرات کر سکتا ہوں.کہ اب کیا کشمیر کو جلانے والی آگ ٹھنڈی ہوگئی ہے؟ اور اگر نہیں تو اب کون ستار بجارہا ہے.“ (نمائندہ کولمبیا ) برطانوی حکومت کا رویہ برصغیر کی تقسیم کے معاملہ میں شروع ہی سے کانگریس کے حق میں اور مسلم لیگ کے خلاف تھا.وہ نہ تقسیم چاہتی تھی نہ پاکستان کا قیام.لیکن جب حالات نے ایسی صورت اختیار کر لی کہ تقسیم برصغیر ناگزیر ہوگئی تو پھر اس نے اپنی ساری کوششیں اس سازش پر مرتکز کر دیں کہ پاکستان کو بنیادی طور پر اتنا کمزور کر دیا جائے کہ اس کا وجود ہمیشہ خطرے میں رہے.مسٹرائیلی اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا رویہ گاندھی جی اور پنڈت نہرو کے بارے میں جتنا خوشگوار اور ان سے روابط جتنے گہرے تھے.قائد اعظم کا وجود ان کے لئے اتنا ہی نا قابل برداشت تھا.مسٹرا ٹیلی کا تو یہ حال تھا کہ وہ ایک دن پارلیمنٹ میں بھی اپنے اس غیض وغضب کا اظہار برملا 331

Page 328

طور پر کئے بغیر نہ رہ سکے.انہوں نے کہا.ہم تو چاہتے تھے کہ آزادی کشمیر کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے پہلے گورنر جنرل ہوں.لیکن افسوس ہے کہ مسٹر جناح رضامند نہ ہوئے.( تحدیث نعمت صفحه 499) اس کے بعد باؤنڈری کمیشن کی کارروائی کے دوران جو بد یا فتیاں کی گئیں اور جن سیاسی پر کاریوں سے ریاست جموں و کشمیر کی 75 فیصد آبادی کو ہندوستان کی جھولی میں ڈالا گیا.اس پر دیانت وانصاف ہمیشہ سر پیٹتے رہیں گے.آئیے ذرا ان سیاسی پر کاریوں پر بھی ایک نظر ڈال دیں.سیاسی پر کاریاں لارڈ ماؤنٹ بیٹن جون 1947ء میں سرینگر تشریف لے گئے.ان کے اس سفر کی اصل غرض و غایت یہ تھی کہ بالواسطہ انداز میں مہاراجہ کو اس سے باز رکھیں کہ وہ مسلمانوں کی بھاری اکثریت کے باعث ریاست کے پاکستان سے الحاق میں جلدی نہ کرے.ریاست کے مقتدر اور صائب الرائے ہندوؤں تک کی یہی رائے تھی کہ مذہبی ، تمدنی، معاشی اور ثقافتی اعتبار سے ریاست کا الحاق پاکستان ہی کے ساتھ ہونا چاہیئے.بعد میں جب حقائق منظر عام پر آئے اور ضلع گورداسپور کی بندر بانٹ کی گئی تو یہ راز اچھی طرح منکشف ہو گئے کہ ماؤنٹ بیٹن کے سفر کشمیر کی غرض و غائت اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ مہاراجہ کو جلد بازی میں الحاق کے سلسلہ میں کوئی قدم اٹھانے سے باز رکھا جائے.عجیب بات ہے کہ جب قائد اعظم نے حالات سے آگہی کے لئے کشمیر جانا چاہا تو وائسرائے نے انہیں حالات کی ناسازگاری کا بہانہ پیش کر کے وہاں تشریف نہ لے جانے کا مشورہ دیا.لیکن اس کے برعکس اس 332

Page 329

عرصہ میں گاندھی جی کے وہاں جانے کے خفیہ انتظامات کر دیے گئے.جو یکم اگست 1947ء کو سرینگر پہنچے.مہاراجہ اور مہارانی کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ورغلایا.ہندو تنظیموں سے ملے.جن میں نیشنل کانفرنس بھی تھی.کیونکہ اس کی حیثیت بھی کانگریس کی ایک وفا شعار کنیر سے زیادہ نہ تھی.شیخ عبداللہ جیل میں تھے اور بخشی غلام محمد پارٹی کے کرتا دھرتا تھے.گاندھی جی نے انہیں شرف ملاقات سے نوازا.بخشی جی نے شیخ عبداللہ کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا.ان دنوں ریاست کے وزیر اعظم پنڈت رام چندر کاک تھے.جو ریاست کے سینکڑوں اعلی تعلیم یافتہ اور سمجھدار ہندوؤں کی ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں تھے.چنانچہ گاندھی جی کے کشمیر سے واپس جاتے ہی پنڈت کاک کو وزارت عظمی سے سبکدوش کر دیا گیا.اور ان کی جگہ ایک شدید قسم کے متعصب ڈوگرہ جرنیل جنگ سنگھ کو ریاست کا وزیر اعظم بنادیا گیا.صرف اس لئے کہ وہ مسلم دشمنی میں یدطولیٰ رکھتا تھا.اور اس کی پالیسی یہ تھی کہ قتل و غارت گری، آتش زدگی ، لوٹ مار اور غنڈہ گردی سے ریاست کے مسلمانوں کو اس قدر ہرساں کر دیا جائے کہ وہ ریاست چھوڑ کر پاکستان بھاگنے پر مجبور ہو جائیں.اور ریاست کشمیر میں بھی انسانیت دشمنی کا وہی جنونی ڈرامہ دوہرایا جائے جو پٹیالہ اور کپورتھلہ کی ریاستوں میں دوہرایا جا چکا تھا.گاندھی جی کے کشمیر سے واپس جانے کے بعد دوسرا اقدام یہ کیا گیا کہ شیخ محمد عبداللہ تو رہا کر دیے گئے.لیکن مسلم کانفرنس کے تمام بڑے بڑے لیڈر بشمول چوہدری غلام عباس جیلوں میں پڑے رہے.جنگ سنگھ نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی ہر طرف آتش زنی قتل و غارت گر دی اور غنڈہ گردی کا بازار گرم کر دیا.ہزاروں بے گناہ مسلمان قتل اور زخمی ہوئے.اور لاکھوں اپنی جانیں 333

Page 330

بچا کر گرتے پڑتے پاکستان کے گھاٹ آگئے.جنگ سنگھ کے بعد جب یہ شیطانی منصو بہ ایک بڑی حد تک کامیاب رہا تو جرنیل جنگ سنگھ کو بھی جواب دے دیا گیا.اور دو اہم تقرریاں کی گئیں.پہلی یہ کہ کانگریس کے معتمد اور مسلمانوں کے دشمن مسٹر جسٹس مہر چند مہاجن کو کشمیر کا وزیراعظم اور مسٹر کو پالا سوامی آئنگر کو جو سات سال تک ریاست کے وزیر اعظم رہ کر مسلمان دشمنی میں اپنا نام پیدا کر چکے تھے.اور جن کے پہنچائے ہوئے زخموں سے ابھی تک خون بہہ رہا تھا.بھارت کی حکومت میں وزیر بے محکمہ کے طور پر شامل کر لیا گیا.اس بات کا ذکر کیا جا چکا ہے کہ جب 4 اکتوبر 1947ء کو حکومت آزاد کشمیر کا قیام عمل میں آیا تو پنڈت نہرو نے اس خبر پر بوکھلا کر فوراً ہندوستانی فوجیں ریاست میں داخل کر دیں لیکن مجاہدین نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا.جس پر ہندوستان نے واویلا مچانا شروع کر دیا.فیڈرل کورٹ سے استعفے چوہدری محمد ظفر اللہ خان تقسیم ہند سے قبل فیڈرل کورٹ آف انڈیا میں سینئر جج تھے.جون 1947ء میں جو نہی تقسیم ہند کے منصوبہ کا اعلان ہوا.وہ فوراً اپنے منصب سے مستعفی ہو گئے.نواب آف بھوپال ان دنوں دہلی ہی میں مقیم تھے.جب انہیں چوہدری صاحب کے مستعفی ہو جانے کا علم ہوا تو انہوں نے فوراً ان سے اپنے مشیر قانونی کی حیثیت سے بھوپال تشریف لے چلنے کی پیش کش کی جسے چوہدری صاحب نے منظور فرمالیا.چوہدری صاحب نواب صاحب کے ساتھ منسلک رہنے کا کل عرصہ چھ ماہ بنتا ہے جس میں سے چار ماہ کے قریب موصوف حضرت قائد اعظم کے ایما پر پہلے باؤنڈری کمیشن میں اور پھر اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستانی وفد کے قائد کی حیثیت سے مصروف رہے.حتی کہ دسمبر 1947ء میں جب آپ قائد اعظم کی خدمت میں اقوام متحدہ میں 334

Page 331

کارروائی کی رپورٹ پیش کرنے کے لئے حاضر ہوئے اور آخر میں بھوپال کو واپسی کی اجازت چاہی تو قائد اعظم نے اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ وہ بھوپال جا کر وہاں سے جلد پاکستان آ جائیں.نواب آف بھوپال کے دل میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا بڑا جذ بہ اور درد تھا وہ قائد اعظم کو بھی بڑے احترام کی نظروں سے دیکھتے تھے انہیں چوہدری صاحب کی زبانی جب قائد اعظم کی خواہش کا علم ہوا تو فرمایا: آپ کو علم ہے کہ اس وقت ہم والیان ریاست پر بڑی ہی کڑی آزمائش کا وقت ہے.آپ کے یہاں ہونے سے مجھے ایک گونہ قلبی اطمینان حاصل تھا.لیکن پاکستان کی ضرورت اس نوزائیدہ اسلامی مملکت کی بہبود کو میں اپنی ضرورت پر ترجیح دیتا ہوں.میری طرف سے آپ کو اجازت ہے." اس کے ساتھ ہی چوہدری صاحب کی بحفاظت واپسی کے تمام انتظامات کی خود نگرانی فرمائی.حتی کہ اپنا بیچ کرافٹ طیارہ بھی چوہدری صاحب کے حوالے کر دیا.جس کے ذریعہ آپ 25 دسمبر 1947ء کو کراچی پہنچے.پہلے وزیر خارجہ 25 / دسمبر کو جو قائداعظم کے یوم ولادت کی تاریخ ہے.کراچی میں آپ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا جا رہا تھا.جس میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان بھی مدعو تھے.جو نہی قائداعظم تقریب میں تشریف لائے آپ نے شرکاء استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اب چوہدری محمد ظفر اللہ خان وزیر خارجہ پاکستان کے منصب کا حلف اٹھائیں گے.“ جس پر چوہدری صاحب نے پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ کے عہدہ کا حلف لیا اور کا بینہ 335

Page 332

میں ان کا مرتبہ وزیر اعظم کے بعد مقرر ہوا.اس تقریب میں حضرت قائد اعظم نے چوہدری صاحب سے کہا کہ 4 / جنوری 1948ء کو برما کا جشن آزادی ہے.جس میں آپ بحیثیت وزیر خارجہ پاکستان کی نمائندگی کریں گے.چوہدری صاحب نے دبی زبان میں کہا آج کے اخبارات سے یوں معلوم ہوا ہے جیسے ہندوستان کا ارادہ قضیہ کشمیر کو مجلس امن میں پیش کرنے کا ہے.جس کے لئے مجھے تیاری کرنا ہو گی.کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ برما کے جشن آزادی میں کوئی اور وزیر نمائندگی کرے.مگر قائد اعظم نے اُن کی تجویز سے اتفاق نہ کیا اور فرمایا کہ د نہیں.آپ خود جائیں“ چوہدری صاحب پر اعتماد اس کا یہ مطلب تو ہو نہیں سکتا کہ قائد اعظم کو مسئلہ کشمیر کی اہمیت اور پیچیدگیوں کا پوری طرح احساس نہ تھا.دراصل بانی پاکستان کو چوہدری صاحب کی فراست ، ذہانت اور محنت شاقہ ہی پر اعتماد نہ تھا بلکہ ان کے تعلق باللہ کا بھی یقین تھا اور وہ دل سے یہ سمجھتے تھے کہ خواہ کتنا ہی تھوڑا وقت ملے اللہ کا یہ بندہ باقی خلاء اپنے رب کے حضور عاجزانہ دعاؤں سے پورا کرلے گا.اور یقیناً یہ بات بھی ان کے ذہن میں ہوگی کہ اس عالمی حیثیت کی تقریب میں پاکستان کے بیدار مغز وزیر خارجہ کا اجتماعی تعارف ہو جائے گا.قائد اعظم کو چوہدری صاحب پر کس قدر اعتماد تھا.اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ جب ہندوستان نے اقوام متحدہ کو یہ غلط تاثر دینے کے لئے کہ کشمیر کے مسلمان باشندے حکومت ہند کے ساتھ ہیں.شیخ محمدعبداللہ کو اپنے وفد کا رکن بنا کر اقوام متحدہ میں بھجوایا تو پاکستان نے ان کے مقابل پر سردار محمد ابراہیم کو (جو اس وقت حکومت آزاد کشمیر کے صدر مقرر ہو 336

Page 333

چکے تھے ) بھجوایا.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے سردار صاحب نے راقم الحروف کو بتایا: امریکہ کو روانگی سے قبل وہ قائد اعظم کی خدمت میں ہدایات حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوئے تو قائد اعظم نے ان سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا: "Well Gentleman Go and see Zafarullah Khan - He knows everything." ہیں.ترجمہ اچھا آپ جائے اور وہاں ظفر اللہ خان سے ملئے وہ تمام حالات سے بخوبی باخبر قضیہ کشمیر مجلس امن میں یکم جنوری 1948 ء کو ہندوستان نے اقوام متحدہ کے منشور کی اس دفعہ کے تحت کہ ہر مبر کو اختیار ہے کہ وہ ہر اس مسئلہ کو مجلس امن میں بحث کے لئے پیش کر سکے گا.جس سے بین الاقوامی امن و سلامتی کو خطر لاحق ہونے کا اندیشہ ہو.“ اپنا کیس اقوام متحدہ کی مجلس امن میں پیش کر دیا.چوہدری صاحب برما سے 7 جنوری 1948ء کو واپس کراچی پہنچے تو وزارت خارجہ کے ڈپٹی سیکرٹری نے جو آپ کے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے آپ کو ہندوستان کے مجلس امن میں قضیہ کشمیر پیش کر دینے کی خبر سنائی اور کہا کہ کیس کی سماعت کے لئے 11 جنوری کی تاریخ مقرر ہوئی ہے.اس لئے آپ کو کل شام ہی ایک سکیس کے لئے روانہ ہونا ہو گا.چنانچہ آپ دوسرے روز ہی اپنے اس نئے سفر پر روانہ ہو گئے.اس بے سروسامانی میں کہ فائلیں اور کاغذات بکس میسر نہ آ سکنے کے باعث تھیلوں میں بند کر کے ساتھ لے جانا پڑیں.محترم چوہدری صاحب اپنی خود نوشت سوانح 337

Page 334

حیات موسومه به تحدیث نعمت میں اس سفر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس حالت میں چوہدری محمد علی سیکرٹری جنرل (جو بعد میں وزیراعظم پاکستان بھی رہے ) کی رفاقت اور تعاون بہت اطمینان کا باعث ثابت ہوا.اس پیچیدہ کیس کی تیاری بڑے نامساعد حالات اور بے سروسامانی کی حالت میں اور درمیانی تمام رکوں کی موجودگی میں ) ہوئی.تیاری کے لئے بہت کم مہلت دی گئی.لیکن اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے تمام مشکلات آسانیوں میں تبدیل ہو گئیں.ع مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل کشاء کے سامنے چوہدری صاحب محترم نے نہ صرف ہندوستان کے تمام الزامات کا مدلل ومسکت جواب تیار کیا.بلکہ الٹا ہندوستان کو مجرم قرار دلانے کے لئے بھی مبسوط کیس تیار کر لیا.اُس وقت مجلس امن کے گیارہ رکن تھے.(1) ریاست ہائے متحدہ امریکہ (2) برطانیہ (3) فرانس (4) چین اور (5) روس تو مستقل ممبر تھے.(6) ارجنٹائن (7) بیلجیم (8) کولمبیا (9) کینیڈا (10) شام اور (11) یوگوسلاویہ معیادی رکن تھے.سماعت کا آغاز 15 جنوری 1948ء کو مجلس امن کے پہلے اجلاس میں اپنا کیس پیش کرتے ہوئے ہندوستانی وفد کے سربراہ سر کو پالا سوامی آئنگر نے کہا کہ ”مہاراجہ کشمیر نے ریاست کا الحاق ہندوستان کے ساتھ برضاء و رغبت کیا ہے.جس کے خلاف پاکستان کی انگیخت پر اور اس کی مدد سے قبائلیوں نے ریاست پر دھاوا بول کر ریاست میں بہت خون خرابہ کیا ہے.جس کی روک تھام کے لئے ہندوستان کو وہاں اپنی فوج بھیجنی پڑی ہے.اب یہ چپقلش جنگ کی صورت اختیار کر گئی ہے.پاکستان قبائلیوں کی ہر طرح مددکر 338

Page 335

رہا ہے.پاکستان کے فوجی اور افسر بھی قبائلیوں کے ساتھ ہیں.پاکستانیوں کا یہ طرز عمل بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے.پاکستان کو اس سے روکنا از بس ضروری ہے کہ پاکستان قبائلیوں کی مدد کرنا بند کر دے.اور انہیں واپس جانے پر آمادہ کرے.“ مسٹر آئنگر نے مزید کہا کہ الحاق کے متعلق ہندوستان کا موقف یہ ہے کہ جہاں فرمانروائے ریاست ایک مذہب کا ہو اور رعایا کی کثرت دوسرے مذہب کی وہاں فرمانروا کا فرض ہے کہ وہ الحاق کا فیصلہ رعایا کی کثرت رائے کے مطابق کرے.چنانچہ جب ریاست میں امن ہو جائے گا.تو پھر کشمیر کی رعایا کے منشاء کے مطابق الحاق کے معاملہ میں آخری فیصلہ کریں گے.“ مسکت و مدلل جواب ہندوستانی مندوب کی تقریر کے بعد اجلاس جب دو دن کے التواء کے بعد شروع ہوا تو پاکستان کے وزیر خارجہ نے ہندوستانی مندوب کی تقریر کی ہر شق کا مسکت و مدلل جواب دیا.آپ کا یہ جواب پانچ گھنٹوں پر پھیلے ہوئے تین اجلاسوں میں مکمل ہوا.آپ نے ابتداء میں کونسل کو یہ بتایا کہ ہندوستانی نمائندہ نے عمداً اس قضیئے کے پس پردہ باتیں بیان نہیں کیں اور سارا زور پاکستان ہی کے خلاف الزامات پر صرف کیا ہے.لہذا ہمارے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ اس پیچیدہ اور اہم ترین قضیئے کے پس پردہ تمام حالات کو تفصیل سے بیان کر کے ہندوستان کو مجرم کی حیثیت میں دکھا ئیں.اُن تمام امور کی وضاحت اصل قضیئے کو سمجھنے کے لئے از بس ضروری ہے.ہندوستان کے نمائندہ نے جنہیں اس لئے نظر انداز کر دیا ہے کہ وہ ان کے خلاف جاتے 339

Page 336

ہیں...اور اس کے بعد بڑی وضاحت سے تمام پس پردہ حالات کھنگالنے شروع کئے.چوہدری صاحب موصوف ذاتی طور پر مظلومین کشمیر کی داستان سے آگاہ تھے.وہ 1931ء کی تحریک آزادی کشمیر میں بھی آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے تحت شاندار خدمات انجام دے چکے تھے.اور اس زمانہ میں مظلوم مسلمانان کشمیر کی داستان جانگزا انگلستان میں پارلیمنٹ کے ارکان اور برطانوی کا بینہ پر واضح کر چکے تھے.آپ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ کس طرح انگریزوں نے ایک حقیر رقم کے عوض خطہ کشمیر راجہ گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ فروخت کیا جس پر ڈوگرہ راجہ نے اس خطہ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کو بھی بھیڑوں بکریوں کی مانند اپنے زرخرید سمجھا اور انہیں تمام ابتدائی انسانی حقوق سے محروم کر کے بُری طرح مظالم کی چکی میں پیسا.اور ایسی ایسی چیرہ دستیاں کیں جن کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.آپ نے کہا: کشمیریوں کی اعلیٰ فنی صلاحیتوں کا تو ہر کس و ناکس کو علم ہے.چیز پر لیکن جس چیز کا انہیں علم نہیں وہ ایک صدی پر پھیلے ہوئے ڈوگرہ راج کے مظالم ، کشمیریوں کی ناگفتہ بہ حالت نکبت، افلاس اور ان سے ہمہ وقت روا رکھے جانے والا تشدد ہے جن کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اُن کے لئے موت یا زندگی دونوں میں سے کونسی چیز بڑا المیہ ہے.کیونکہ موت عموماً محرومیوں کی نہ ختم ہونے والی زنجیر سے نجات مہیا کرتی ہے.اور نکبت و مفلوک الحال مہد سے شروع ہو کر لحد ہی میں ختم ہوتی ہے.“ ( ترجمہ رپورٹ ہائے سیکورٹی کونسل 1948، صفحہ 47) 340

Page 337

سیتلواڈ کازور خطابت دو تین دن کے وقفے سے چوہدری صاحب کی تقریر کا جواب مسٹر آئنگر کے بجائے مسٹر ستیلواڈ نے دیا.جس میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے چوہدری صاحب کے دلائل کو نا درست ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا.وہ زور خطابت میں اتنے آگے نکل گئے کہ جھوٹ اور بیچ کی تمیز بھی نہ کی.بلکہ پرانے اور تجربہ کار وکیل ہونے کے باوجود آداب مجلس کو نظر انداز کر کے درشت کلامی پر اتر آئے.جس سے اراکین مجلس امن بھی کبیدہ خاطر ہوئے.تیسرے اجلاس میں بعض ارکان مجلس کا خیال تھا کہ چوہدری صاحب مسٹر سیلواڈ کی درشت کلامی کے خلاف احتجاج کریں گے.اور جوابا ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں.کا تھوڑا بہت ثبوت مسٹر سیلواڈ کی خدمت میں ضرور پیش کریں گے.لیکن وہ اس درشت کلامی پر قطعا برافروختہ نہ ہوئے.کیونکہ انہیں یقین تھا کہ اراکین مجلس نے ضرور اندازہ کر لیا ہو گا کہ مسٹر سیلواڈ کا درشت کلامی پر اتر نا اُن کے موقف کی کمزوری کا ثبوت ہے.آپ نے اس ضمن میں اپنی جوابی تقریر میں صرف اسی پر اکتفا کیا کہ پچھلے اجلاس میں میرے فاضل دوست مسٹر سیلواڈ نے اپنی تقریر میں میرے متعلق کچھ درشت الفاظ استعمال کئے تھے.اُن کے متعلق مجھے یہ کہنا ہے کہ میں مسٹر سیلواڈ کو عرصہ سے جانتا ہوں.جب میں ہندوستان کی فیڈرل کورٹ کا جج تھا تو مجھے بارہا اُن کے دلائل سننے کا اتفاق ہوا.میری رائے میں مسٹر سیلواڈ ہندوستان کے قابل ترین وکیل ہیں.اور درشت کلامی ان کا شعار نہیں اس موقع پر اُن کے موقف کی کمزوری کو جانتے ہوئے ان کی مشکلات کا اندازہ کر سکتا ہوں.مسٹر سیلواڈ کی 341

Page 338

66 درشت کلامی ایک استثنائی صورت تھی.جو قابل اعتناء نہیں.“ ایک رکن مجلس کا تاثر تحدیث نعمت ایڈیشن اول دسمبر 1971 ء صفحہ 533 تا 534) اس کے بعد اُن کے بودے دلائل پر ایک ایک کر کے تنقید وجرح کی جس کا اراکین پر اتنا اچھا اثر ہوا کہ چند سال بعد کولمبیا کے نمائندے نے چوہدری صاحب سے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا: د کشمیر کے معاملہ میں ہندوستانی نمائندہ کی پہلی تقریر سننے کے بعد مجلس امن کے اراکین کی اکثریت کا یہ تاثر تھا کہ پاکستان نے آزادی حاصل کرتے ہی فساد کا راستہ اختیار کر لیا ہے اور دنیا کے امن کے لئے.ایک خطرے کی صورت پیدا کر دی ہے.لیکن جب جواب میں تمہاری طرف سے اصل حقیقت کے رُخ سے پردہ ہٹایا گیا تو ہم سب نے سمجھ لیا کہ ہندوستان مکاری اور عیاری سے کام لے رہا ہے اور کشمیر کی رعایا پر ظلم ہو رہا ہے.اور ہمارا یہ تاثر بعد میں کسی وقت بھی زائل نہیں ہوا.“ مہاجن کی تصریحات ( تحدیث نعمت صفحہ 533) چوہدری صاحب کی مجلس امن میں مدلل و مبسوط بحث کا تاثر اتنا گہرا تھا کہ مسٹر مہر چند مہاجن (جن کا ذکر پہلے آچکا ہے) نے ایک دفعہ انہیں پر اپنے جلے دل کے پھپھولے اس طرح پھوڑے لکھتے ہیں: وو (ترجمه) " سر محمد ظفر اللہ پاکستانی وفد کے سربراہ تھے.342

Page 339

انہوں نے اپنی اعلیٰ قابلیت اور عمدہ وکالت - Brilliant) (Advocary کے بل بوتے پر ان غلط بیانیوں اور مزعومہ کارروائیوں کے بیان کرنے کی وجہ سے جو ہندوستان کی طرف منسوب کی گئیں.ہندوستانی وفد پر فوقیت حاصل کی اور ہندوستانی وفد کم و بیش مایوس ہی لوٹا.کیونکہ نہ تو مجلس امن کی طرف سے اُسے (پاکستان کو ) جارح قرار دیا گیا اور نہ ہی اسے کشمیر خالی کرنے کے لئے کہا گیا.وفد کی ہندوستانی واپسی کے بعد جب میری مسٹر نہرو سے ملاقات ہوئی تو وہ اُس پر جو کچھ ہوا.مایوس ہی نظر آئے.“ ہندوستانی پریس (Looking Back by Mahajan PP172) اور مسٹر مہاجن پر ہی کیا موقوف ہے.ہندوستانی پریس نے بھی اپنے وفد کی نا کامی پر بڑا واویلا کیا اور اپنی حکومت کو غلط انداز سے لگانے پر موردالزام ٹھہرایا.ملاحظہ فرمائیں.روز نامہ پرتاپ (23 راگست 1950 ء) نے لکھا: یو این او سے پاکستان کے خلاف فریاد کرنا ہمالیہ جیسی بڑی غلطی تھی.ہم وہاں گئے تھے مستغیث بن کر اور لوٹے وہاں سے ملزم بن کر “ اُس کا ( حکومت ہند کا یہ عمل بھی غلط تھا کہ وہ یو این او کے پاس مستغیث بن کر گئی.“ آج تک ہم یو این او میں جانے کی سزا بھگت رہے ہیں.“ ایک ہندوستانی رسالہ ”سنت سپاہی نے اپنی ستمبر 1951ء کی اشاعت میں لکھا: کشمیر کے معاملہ میں ان (حکومت ہند کی سیاست تباہی والی ہے اور انہوں نے یہ دو 343

Page 340

سوال متحدہ قوموں کی انجمن میں پیش کر کے ہمالیہ جتنی بڑی غلطی کی ہے.“ اور ماہنامہ پر بیت لڑی“ نے اپنی جون کی اشاعت میں لکھا کہ (ترجمہ) ” مونٹ بیٹن نے پنڈت نہرو کو تلقین کر کے کشمیر کا معاملہ متحدہ قوموں کی انجمن میں امریکہ بھجوا دیا.وہاں ہمیں لینے کے دینے پڑ گئے.اور ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکے.“ اپنوں کی نظر میں چو ہدری محمدعلی سیکرٹری جنرل ( جنہوں نے اس کارروائی کی پوری تفصیل اپنی تالیف میں شائع کی ہے.اس سلسلہ میں لکھتے ہیں: ترجمہ " مجلس امن نے 15/جنوری 1948ء سے ہندوستان کی شکایت، پاکستان کے جواب اور بالمقابل درخواست کی سماعت شروع کی.ظفر اللہ خان کی ماہرانہ بحث نے سیکورٹی کونسل کو اس بات کا قائل کر دیا کہ معاملہ کی نوعیت صرف اتنی نہیں کہ مزعومہ حملہ آوروں کو کشمیر سے نکالا جائے.جب کہ ہندوستانی نمائندہ نے مجلس کو باور کرانا چاہا تھا.بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہندو پاک تعلقات کو منصفانہ اور پر امن بنیاد پر معمول پر لا کر کشمیری عوام کی منشاء اور خواہش کے مطابق اسے طے کیا (Emergence of Pakistan Page 301) "26 پہلی کامیابی اور آزاد کشمیر کے سابق چیف جسٹس مسٹر صراف لکھتے ہیں: (ترجمہ) سر ظفر اللہ کی پیروی کے نتیجہ میں آئنگر کے زبر دست احتجاج کے باوجود 24/ نومبر 1948ء کو ایجنڈا میں تبدیلی 344

Page 341

کر کے کشمیر کا سوال کو انڈیا پاکستان کا سوال کر دیا گیا.(Kashmiries Fight for Freedom P 1050) گویا 22 جنوری 1948ء کو مجلس امن میں پاکستان کی یہ ” پہلی کامیابی تھی.مسٹر آئنگر نے شدت سے اس امر پر احتجاج کیا کہ چونکہ کونسل میں شکایت لے کر ہم آئے ہیں.اس لئے پاکستانی مندوب کا بالمقابل دعوئی قابل سماعت نہیں.لیکن بفضلہ تعالیٰ ان کا ہر احتجاج صدا بصحر اثابت ہوا.مجلس امن کا تاثر اب جو ایجنڈا میں کیس کی نوعیت ہی تبدیل ہوگئی تو ہندوستان کی طرف سے قدم قدم پر رکاوٹیں ڈالی جانے لگیں.انہوں نے یہاں تک کہا کہ استصواب کرا نا کشمیر کی موجودہ حکومت کا داخلہ معاملہ ہے.اس لئے پاکستان کا یہ موقف کہ استصواب اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو.درست نہیں.لیکن امن کونسل نے پاکستان ہی کے نظرئیے کو درست تسلیم کیا.لکھتے ہیں: چنانچہ مسٹر جوزف کا ربل ( جو یو این او سی آئی پی میں ہندوستان کی طرف سے نامزد تھے ) (ترجمہ) ''ایک مرتبہ پھر اراکین امن کونسل نے پاکستان ہی کے نقطہ نظر کی حمایت کی اور اس بات کی اہمیت کا اقرار کیا کہ کشمیر میں رائے شماری اقوام متحدہ کی نگرانی میں کرائی جائے.انہوں نے ہندوستان کے اس نظرئیے کو کلیہ رد کر دیا کہ رائے شماری کا انصرام، اور عملاً رائے شماری کرانا کشمیر کا داخلہ معاملہ ہے.“ (Mr.Josif Karbel as quoted by Saraf P 1053) 345

Page 342

تائید کرنے کی سزاء وزیر خارجہ پاکستان کے براہین قاطعہ سے متاثر ہو کر جن اراکین نے پاکستان کے مؤقف کی تائید کی اُن میں رائٹ آنریبل مسٹر فلپ نوئیل بیکر ( جنہیں بعد میں امن کا نوبل پرائز ملا ) مجلس امن میں برطانیہ کے اور سینیٹر وارن آسٹن ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نمائندہ تھے.ان دونوں نے پاکستان کے موقف کی برملا تائید کی تو ہندوستان نے ان دونوں کو بھی نہ بخشا.چنانچہ مسٹر ایلین کیمل جانسن لکھتے ہیں: ترجمہ آسٹن اور نوئیل بیکر ہر دو صاحبان پر پاکستان کا حمایتی ہونے اور کھل کر پاکستان کا ساتھ دینے کا شرمناک اور وحشیانہ طریق پر متعدد وجوہات کی بناء پر الزام لگایا جاتا ہے.جبکہ اُس کی ایک وجہ تو ہندوستانی وفد کی اپنے کیس کو ثابت کرنے میں مکمل ناکامی ہے.اور اُس کے علاوہ پاکستانی وفد کے سربراہ اُن کے وزیر خارجہ مسٹر ظفر اللہ خان تھے.جو تجربہ کار اور اقوام متحدہ میں مقبول شخصیت تھے.مسٹر ظفر اللہ خان کا انداز اتنا ہی دھیما اور اعلیٰ تھا.جتنا کہ ہندوستانی نمائندہ کا اندازہ بھدا اور بے جوڑ (Mission with Mountbettan PP 287) نمائندہ ارجن ٹائن کی رائے کہا: مجلس امن میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان کی تقاریر سننے کے بعد ارجنٹائن کے نمائندہ نے ترجمہ مناسب ہے کہ اس لاطینی محاورہ کو یاد کر لیا جائے.جس کا مطلب یہ ہے کہ علت کو ختم کر دو معلول خود ہی ختم ہو جائے گا.اس معاملہ میں فسادات چاہے ہندوستان کی طرف سے 346

Page 343

ہوں یا پاکستان کی طرف سے ہوں.یا پھر قبائلیوں کی طرف سے اُن کی علت غائی کشمیر کے باشندوں کی اس بغاوت میں مضمر ہے جو انہوں نے اس مطلق العنان حاکم کے خلاف کی جو اُن پر اس طرح حکومت کرتا ہے.گویا وہ ایک فارم چلا رہا ہے اور چالیس لاکھ باشندوں کو وہ اتنے عدد جانور سمجھ رہا ہے.“ ہندوستانی وفد کی پسپائی (Qvoted by Saraf P 1057) بحث و تمحیص اور تبادلہ خیالات کا سلسلہ ختم ہوا تو اراکین مجلس امن نے اس قضیہ کے حل کے لئے ایک قرار داد تیار کی جس کے بارے میں سب کو یقین تھا کہ وہ متفقہ طور پر پاس ہو جائے گی.شائد ایک ملک غیر جانبدار رہے.لیکن جب اس قرار داد پر رائے شماری کا وقت آیا تو بھارت کے نمائندہ مسٹر آئنگر نے بولنے کی اجازت طلب کی اور پھر اجازت ملنے پر کہا: ہمیں اپنی حکومت کی طرف سے ہدایت موصول ہوئی ہے کہ ہم مزید ہدایت کے لئے دلی واپس جائیں.اس لئے ہم رخصت کی اجازت چاہتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ ہماری واپسی تک اجلاس ملتوی رکھا جائے.“ ( تحدیث نعمت صفحہ 537) یا تو وہ شورا شوری تھی یا یہ بے نمکی.اور اپنے ہی پیش کردہ قضیے کا فیصلہ سننے سے گریز! تمام اراکین مسٹر آئنگر کی اس درخواست پر پتھر ہو کر رہ گئے.یہاں تک کہ کولمبیا کے نمائندے نے صدر مجلس مجلس امن کو مخاطب ہوئے کہا:....صاحب صدر! آپ کو اور اراکین مجلس کو یاد ہوگا کہ ابھی چند دن ہوئے.ہندوستان کے فاضل نمائندے نے شکوہ کے طور پر کہا تھا 347

Page 344

کہ کشمیر جل رہا ہے.اور مجلس امن ستار بجارہی ہے.کیا میں ہندوستان کے نمائندے سے دریافت کرنے کی جرات کر سکتا ہوں کہ اب کیا کشمیر کو جلانے والی آگ ٹھنڈی ہو گئی ہے اور اگر نہیں تو اب کون ستار بجا رہا ہے.“ التوائے اجلاس کیوں؟ ( تحدیث نعمت صفحه 537) کولمبیا کے نمائندہ کا یہ اظہار خیال ہندوستانی وفد کے منہ پر ایک چپت کے مترادف تھی لیکن ” چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے“ کے اصول کے ماتوں کے ماتھے پر جوں تک نہ رینگی.اُن کا یہ اقدام صاف بتارہا تھا کہ جو مطلب وہ دلائل و حقائق کی بناء پر حاصل نہیں کر سکے اب التواء اجلاس کے بعد سیاسی پر کاری کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتے ہیں.اب صورت حال مدعی ست گواہ چست کی سی پیدا ہو گئی تھی.مجلس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ اجلاس ملتوی کر دے.لہذا اجلاس ملتوی کر دیا گیا.خدشه درست نکلا اور وہی ہوا جس کا خدشہ تھا.اگر مقصود واقعی محض اپنی حکومت سے مزید ہدایت حاصل کرنا ہوتا تو وہ چند دنوں کی مہلت طلب کر سکے تھے.لیکن چونکہ یہ مقصود نہ تھا اس لئے التوا کا یہ زمانہ طویل ہوتا چلا گیا.جس سے چوہدری صاحب اور اُن کے رفقاء کار کے دل میں بجاطور پر شبہات پیدا ہوئے اور آپ چوہدری محمد علی صاحب کو ساتھ لے کر یہ معلوم کرنے کے لئے لنڈن پہنچے کہ اندرون خانہ کیا تار ہلائے جا رہے ہیں.لنڈن میں چوہدری صاحب کی وزیر خارجہ برطانیہ سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ 348

Page 345

ہندوستان نے سرسٹیورڈ کرپس کے ذریعہ وزیر اعظم برطانیہ پر بہت دباؤ ڈالا ہے.جس کے بعد صورت حال کافی تبدیلی ہو چکی ہے.“ اُن کے اس تاثر کی توثیق وزیراعظم برطانیہ سے ملاقات کے دوران ہوگئی اور انہیں اس بارہ میں حق الیقین ہو گیا کہ اندر ہی اندر خطر ناک چال چلی جا رہی ہے.اور ماؤنٹ بیٹن اور سرکر پس ہندوستان کی بہت تائید کر رہے ہیں.جبکہ پاکستان کے حق میں کلمہ خیر کہنے کی کسی کو جرات نہیں.ہوا کا بدلہ ہوا رخ اس سازش کی تکمیل کے بعد جب امن کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو ہوا کا رخ کاملاً بدل چکا تھا.برطانیہ کو دیکھ کر امریکہ نے بھی اپنا رویہ بدل لیا تھا.اور وہ اسے دولت مشترکہ کا مسئلہ قرار دے کر برطانیہ ہی کی رائے کی تائید کر رہا تھا.اور اقوام متحدہ میں کسی بھی ملک کا نمائندہ اپنی حکومت کی ہدایت کے مطابق رائے دینے پر مجبور ہوتا ہے.وزیر اعظم برطانیہ نے اپنے نمائندہ کو یہ ہدایت کی کہ وہ اصل اور قطعی قسم کی قرارداد کی بجائے اس متبادل اور کمزور قرارداد کی حمایت کرے.جس کا مسودہ چینی صدر ملس ڈاکٹر سیا نگ چونے مجلس میں پیش کیا.جس میں نہ پہلی قرار داد سا زور تھا نہ قطعیت تھی اور نہ اُس میں پاکستان کے موقف کو پورے طور پر مدنظر رکھا گیا تھا.حیرت انگیز چوہدری محمد ظفر اللہ خان نے اس نئی قرار داد کو حیرت انگیز قرار دیتے ہوئے واضح الفاظ میں فرمایا کہ حکومت پاکستان تنازعہ کشمیر سے متعلق اس قرارداد کو منظور نہیں کر سکتی“ 349

Page 346

چوہدری صاحب کی یہ رائے رائٹر نے فوراً ہی خبر میں ڈھال کر ساری دنیا میں پھیل دی اور پاکستانی پریس نے اپنی حکومت کے نمائندے کے اس جرات مندانہ موقف کو بے حد سراہا مثلاً ایک معروف جریدہ نے لکھا: سر محمد ظفر اللہ خاں نے اس فارمولا یا قرار داد کو حیرت انگیز“ قرار دیا ہے اور اُن کا یہ تبصرہ بالکل درست ہے.حفاظتی کونسل کے گزشتہ اجلاس میں ممبروں کا رجحان اس قرار داد کے بین السطور سے بالکل مختلف تھا.ممبروں کی اکثریت اپنے اس رجحان کا واضح لفظوں میں اظہار بھی کر چکی ہے.اب التوائے اجلاس کے بعد چینی صدر کی اس قرارداد کو حیرت انگیز نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے.اس قرار داد کے مطابق استصواب کی حیثیت ڈھونگ سے زیادہ نہ ہوگی.وقت لاہور مورخہ 24 مارچ 1948ء) (نوائے رائٹر نے اس نئے مخمصے سے متعلق ایک سکیس سے جو خبر جاری کی وہ یہ تھی.حفاظتی کونسل کے بیشتر ارکان دیانتداری سے اعتراف کر رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر نے اب جونئی صورت اختیار کر لی ہے اس سے وہ عجیب الجھن میں گرفتار ہو گئے ہیں.باخبر حلقوں کی رائے میں یہ ظاہر ہے کہ پاکستانی مندوب چینی قرارداد کے متعلق اپنی روش پر ثابت قدم رہے گا.350 (رائٹر بحوالہ نوائے وقت)

Page 347

ارکان مجلس سے ملاقاتیں لیکن مومن کبھی مایوسی نہیں ہوتا نہ حالات کی نامساعدت ہی اس کی مساعی کو مدہم کر سکتی ہے.پاکستانی مندوب اور ان کے رفیق کار چوہدری محمد علی نے اپنی مساعی دو چند کر دیں.وہ صدر مجلس کے علاوہ ایک ایک رکن مجلس سے ملے.انہیں قرارداد کی خامیوں اور اُن کے دور رس خطرناک اثرات و نتائج سے آگاہ کیا.یہاں تک کہ ایک حد تک برف کو پگھلانے میں کامیاب ہو گئے.چوہدری محمد ظفر اللہ خان نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں تاریخ کشمیر کے اس نازک موڑ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.....جب نئی قرار داد مجلس امن میں پیش ہوئی تو چوہدری محمد علی نے اور میں نے پھر دن رات اراکین مجلس کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ شروع کیا اور اس کوشش میں لگ گئے.کہ جہاں تک ہو سکے نئی قرار داد کو مضبوط کیا جائے.چینی صدر کے ساتھ متواتر مشورے ہوئے بعض معمولی سی ترامیم اور وضاحتیں اُنہوں نے تسلیم بھی کیں.لیکن قرار داد کا ڈھانچہ وہیں رہا جو وزیر اعظم اٹیلی تجویز کرا چکے تھے.آخر یہ قرار داد ا پریل میں کولمبین مندوب کی صدارت میں منظور ہوئی.اسی قرارداد میں یہ تجویز تھی کہ تین اراکین کا ایک کمشن مقرر کیا جائے جو برصغیر پاکستان و ہند جا کر قرارداد کی مختلف تجاویز کو فریقین کے مشورے اور ان کی رضا مندی سے عملی جامہ پہنائے اور کشمیر کے باشندگان کی آزادانہ رائے شماری کا اہتمام کرلے.کولمبین صدر صاحب کی تجویز پر 351

Page 348

کمشن کے اراکین کی تعداد تین سے بڑھا کر پانچ کر دی گئی.“ کشمیر کا فیصلہ کشمیر میں ( تحدیث نعمت صفحه 540) ہندوستان کی تو سرشت میں دجل ہے.جب اس کی حکومت کو یقین ہو گیا کہ مجلس امن اس نزاع کا فیصلہ اپنی نگرانی میں کرانے پر مضبوطی سے قائم ہے تو اس نے کشمیر میں اپنی فوجی سرگرمیاں تیز تر کر دیں.چوہدری صاحب موصوف نے بھی اس نئی سازش کی بھنک پاکروز یر اعظم پاکستان کے نام اس مفہوم کا بر قید ارسال کر دیا کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیر میں ہوگا نیو یارک میں نہیں ہو گا.“ چنانچہ باہم مشورہ کے بعد چوہدری صاحب کی اس تجویز کے مطابق اپریل کے آخری ہفتہ اور مئی کے شروع میں ہماری فوجوں نے بھی وہاں پہنچ کر اپنا کام شروع کر دیا.وزیر اعظم پاکستان اپنی خدادا فراست سے چوہدری صاحب کا مفہوم پا گئے اور انہوں نے پاکستانی فوجوں کو کشمیر میں دفاع کے لئے بھجوادیا.کمشن کے ارکان جولائی 1948ء کے پہلے ہفتہ میں برصغیر میں پہنچے.دونوں ملکوں نے اپنا اپنا کیس سمجھایا.13 اگست 1948ء کو کمشن نے ایک قرارداد تیار کی جسے حکومت ہند نے تو قبول کر لیا لیکن پاکستان نے اس لئے منظور نہ کیا کہ اس میں پاکستان کے مفاد کا پوری طرح خیال نہیں رکھا گیا تھا.جس پر کمشن قرارداد کا نتمہ تیار کرنے پر مجبور ہو گیا.جسے دونوں ملکوں نے منظور کر لیا.اس طرح 13 اگست کی قرار داد تتمہ کے ساتھ 5 جنوری 1949ء کو منظور ہوکر مکمل ہوئی.القصہ یہ ہیں وہ قراردادیں جن کی بنیاد پر یہ مسئلہ حل ہونا قرار پایا تھا.لیکن ہندوستان کی ہٹ دھرمی کہ ابھی تک یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی.حالانکہ دونوں ملکوں کے درمیان دو خونریز جنگیں بھی لڑی جا چکی ہیں.352

Page 349

مؤلف تاریخ کشمیر کی رائے حکومت آزاد کشمیر نے یہ اہتمام خاص اپنے چیف جسٹس خواجہ محمد یوسف صراف سے تاریخ کشمیر مرتب کرائی جو (Kashmiries Fight for Freedom کے نام سے شائع ہو چکی ہے.یہ تاریخ 1413 صفحات پر مشتمل ہے اور دوجلدوں میں شائع ہوئی ہے.جس میں پاکستان کے بانی (حضرت قائد اعظم) کے معتمد ترین رفیق کار اور پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان کی قضیہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں مساعی جمیلہ کو بھر پور خراج تحسین پیش کیا گیا ہے.ایک جگہ لکھتے ہیں: ترجمہ ”ہندوستان کے اقوام عالم میں چلے جانے پر ہم میں سے اکثر فکر مند ہو گئے تھے.مبادا مجلس امن پر مسلط بڑی طاقتوں کے سیاسی مفادات حکومت پاکستان کو ہمارے اور ہماری آزادی کے مابین آڑے آنے پر مجبور نہ کر دے.اس اہم سیاق وسباق کے پیش نظر سرظفر اللہ خان کی سربراہی میں پاکستانی وفد کے درخشندہ کردار کا جائزہ لینا ہوگا.سر ظفر اللہ کی انتہائی فاضلانہ بحث کے نتیجہ میں جو آپ نے ہمارے کیس کے سلسلہ میں فرمائی.(ہندوستان کی ) سراسر کذب وافترا اور میکاولی ( شاطرانہ چال) پر مبنی شکایت کی قلعی کھل گئی.“ جسٹس صراف صفحہ 1050) قارئین باتمکین ! اقوام متحدہ آج بھی موجود ہے.اور اس کی قرار دادیں بھی لیکن کشمیر کی درد ناک کہانی جہاں سے شروع ہوئی تھی اب بھی وہیں رکی کھڑی ہے.اور 353

Page 350

میرے نزدیک یہ کشمیری قوم ہی کے لئے نہیں دعویداران قیام امن عالم کے لئے بھی لمحہ فکر یہ ہے.خدا کی گرفت میں بھی کے اس باب کو چوہدری محم ظفر اللہ خاں کے ان الفاظ ہی پرختم کرتا ہوں جو میرے نزدیک آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں.فرمایا: آزادی حاصل کرنے کے لئے کشمیریوں کو حق خود اختیاری دلانے کے لئے پاکستان کی مساعی اور قیام امن کے لئے مجلس امن کی تجاویز کو تو ہندوستان نے اب تک کچھ طاقت سے، کچھ جبر سے اور کچھ تلیس و فریب سے زائل و بے اثر کر دیا ہے.بے شک اس کے نتیجہ میں بین الاقوامی حلقوں میں اپنا وقار کھو چکا ہے.بظاہر ہندوستانی ارباب حل و عقد نے اسے سستا سودا سمجھا ہے.لیکن وہ ایک حقیقت کو بھولے ہوئے ہیں.جس کے ایک پہلو کو شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے.بترس از آه مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن اجابت از در حق بهر استقلال می آئید کشمیر کی مسلمان آبادی ایک صدی سے زائد عرصہ تک ڈوگرہ مظالم کا شکار رہی اور اُس کے بعد زائد از بیس سال ( اور اب تو زائد از چونتیس سال ہونے لگے ہیں مؤلف ) ”ہندوستانی مظالم سہہ رہی ہے.ان مظالم میں تخفیف ہونے کے بجائے ان کی شدت بڑھ رہی ہے.اللہ تعالیٰ کسی ملک کسی قوم کسی گروہ کسی فرد، کا محض ان کے نام کی وجہ سے حمائتی نہیں.اس کی شان اس سے بہت بلند ہے.لیکن وہ حق اور راستی ، امن اور انصاف ، شفقت اور رحم، 354

Page 351

عجز وانکسار سے ضرور محبت رکھتا ہے.جبر اور تعدی، ظلم اور سختی ، ایذا دہی اور ضرر رسانی اس کے غضب کو بھڑکاتی ہیں.وہ عقوبت میں دھیما ہے.لیکن مظلوم کی فریاد کوسنتا اور آخر ظالم کو پکڑتا ہے.وہ شدید البطش ہے.اس کی گرفت بہت سخت ہے.“ ( تحدیث نعمت صفحہ 55) 355

Page 351