Language: UR
حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمدرضی اللہ عنہ نے 1915ء میں مسئلہ کفر و اسلام کے متعلق ایک تفصیلی مضمون تصنیف فرمایا تھا جو رسالہ ریویوآف ریلجنز اردو کے مارچ اپریل 1915ء کے شمارہ کی زینت بنا تھا۔ اس کتاب میں انہوں نے ابواب میں تقسیم کرکےثقہ دلائل سے ثابت فرمایا کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام پر ایمان لانے کی کیا اہمیت و ضرورت ہے اور آپ علیہ السلام کا انکار انسان کو کہاں لا کھڑا کرتا ہے۔ قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے عالم نوجوانی کی اس تحریر کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کس طرح اللہ کے فضل سے آپ قرآن کریم ، حدیث، جماعتی لٹریچر پر گہری نظر رکھتے تھے اور دلائل وبراہین سے مزین دلنشین انداز کے لکھاری تھے۔ الغرض اس کتاب میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی نبوت کے متعلق جماعتی موقف کی بھرپور وکالت کے ساتھ ساتھ پیغامیوں کے پھیلائے ہوئے غلط نظریات کے رد میں دلائل بھی موجود ہیں۔
آلو گو کہ ہمیں نور خدا پاؤ گے.و تمھیں طور سالی کا بتایا ہم نے جلدم ده سالانه یعنی وا منا البدر بابت ماه مارچ و اپریل ها شام مطابق جمادی الاول و جمادی الثانی راهم فهرست مضامین الفصل ۱۸۴ - ۹۱ نمبر ۳ دلم علم ما طلبا ہو عمر
نمبر ۳ و ۴۴ ریویو آن دیلمجنز جلد ۱۴ الله الرحمن الرحيم لة الكرام درباره مسئله کفر و اسلام در قمر ده حضرت صاجزادہ مرزا بشیر، محمد صاحب بی ) قرآن شریف کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے لوگوں کی ہدایت کے لیے نبوت اور رسالت کے سلسلہ کو جاری فرمایا ہے جیسا کہ فرمایا ان من امة الأخلا فيها نذير يعني صفة دنيا ے کوئی توم جیسی نہیں ہے جس کی ہدایت اور دستگاری کے لیے ہم نے اپنی طرف سے کوئی ایسا شخص مبعوث کیا ہو جو لوگوں کو ان کے بد اعمال کے نتائج سے آگاہ کرے اور ان کو اس آخری عذاب یعلی جہنم میں پڑنے سے بچائے جو ازل سے منکروں کے لیئے تجویز کیا گیا ہے لیکن يا حسرة على العباد ما يأتيهم من رسول الا كانوا به يستهزون ، کوئی رسول لیا نہیں آیا جسکی پہلی آواز پر ہی اس کی تمام قوم نے لبیک کا نعرہ بلند کیا ہو اور بلاچون و چرا اس کے پیچھے ہو لئے ہوں حتی کہ نبیوں کے برتاج سید الاولین والآخرین محمد مصطفے صلی اللہ علیہ الره وسلم بھی لوگوں کی مخالفت سے نہ بیچے بلکہ یہ کما ل نہ ہوگا کہ جس سختی اور شد ومد کے ساتھ آپ کی مخالفت ہوئی ایسی کسی کی نہیں ہوئی اسکی وجہ یہی تھی کہ آپ کو وہ نور دیا گیا تھا جس کی روشنی کے سامنے سارے نور ماند پڑ گئے.غرضیکہ اللہ تعالی کی قدیم سے سنت چلی آئی ہے کہ وہ ایکٹ موں کی مشت کے بعد اسکی قوم کو جو اس مامور کے مبعوث ہو نے پہلا الفرملة واحدة کے حکم کے استحت ایک ہی رنگ میں رنگین ہوتی ہے دو حصوں منقسم کر دیا کرتا ہے.ایک جو اللہ کے رسول کی نیدا پر بہنا انا معنا مناديا ينادى للايمان ان امنوا بربكم فامنا الآیة کہتے ہوئے
۹۲ جلد اس رسول کی جماعت میں داخل ہو جاتے ہیں اور ان نعمتوں کے وارث بنتے ہیں جن کا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے وعدہ فرمایا ہے.مگر اس کے مقابل ایک دوسر اگر وہ ہوتا ہے جو پکار نیوالے کی پکار کو تحقیر کی نظر سے دیکھتا اور خدا کے قائم کردہ سلسلہ کی تباہی کے در پے ہوتا ہے اسکی قیمتی اس سو انکار ہیں اشکار کی داتی ہے اور اسکے عمل کا پردہ اسکی آنکھوں کو آئی تو سے نہ یضیاب ہونے نہیں دیتا اس کی شقاوت اس کے قدموں کو اللہ تعالیٰ اور اسکے نبی کی طرف اٹھنے سے روکتی ہے اور اس کی بد اعمالیاں اسے آخر کار جہنم کے دروازہ تک پہنچا کہ چھوڑتی ہیں غرض یہ رو گردہ ہوتے ہیں ھذا عذب فرات و هذا صلح اجاج جو ہر نامور کی بعثت کے وقت لاہری طور پر پیدا ہو جاتے ہیں یہ غیر ممکن ہے کہ اس استان کی طرف سے کوئی بادی دنیا میں آدے اور پھر تمام کے تمام لوگ پر ایمان لے آویں جیسا کہ بھی غیر ممکن ہے کہ ایک نبی کے پیدا ہونے پر کوئی بھی سعید روح ایسی نہ نکلے جو من انصاری الی الله کی آواز پر نحن انصار اللہ کا نعرہ بلند کر سکے کیونکہ رسولوں کا آنا ایک باریش کے رنگ پر ہے جسکی وجہ سے سطور زمین پر ہر ایک قسم کی روئیدگی ظاہر ہوتی ہے.وہ زمین جواپنے اندرایک گند و یک لیے ہوئے ہے ایک بد بو دار در نست نکالے گی اور دہ زمین جسکے نیچے کسی خوشبودار پھول کا بیج ہے ضرور ہے کہ بارش کے بعد پھٹ کر دنیا کو اپنے منفی خزانہ سے مالا مال کرے ہی اللہ تعالی کی سنت ہے ولن تجد لسنت الله تبدیلا.مثال کے طور پر دیکھ تو نبی کریم مسلم نے یکے مشرکوں کو دل کا ر کرنے مشریکی توجیہ کے جھنڈے کے نیچے چلے آؤ اور اس خدا کی پرستش میں لگ جاؤ جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا اور تمھاری آسائیش کے سامان دنیا میں جیتا کیئے تا خدا کے دفتر میں تمھارا نام کا میاب گردہ میں لکھا جاوے تو اس آواز پر ایک ابو جہل بھی تھا جو اٹھا اور جس نے اس پاک وجود کو اذیت پہنچانی شروع کر دی جسکے اندر الکسی جمال اور جلال اسقدر حلول کر چکا تھا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ما رمیت اذ رمیت ولكن الله رمى ميزات الذين يبايعونك انما يبايعوز الله ید الله فوق ایدیهم ، اور پھر اسکوا ستقدر قرب بخش که فرما دیا قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم اللہ یعنی اے لوگو اگراللہ تعالی کی کوئی محبت تمھارے دلوں میں ہے تو آؤ میرے پیچھے ہو لو تم اللہ تعالیٰ کے محبوب بنجاؤ.سبحان اللہ کتنا بڑا رتبہ ہے اس شخص کا جسکی اتساع انسان کو اللہ تعالی کا محبوب بنا دیوے مگر باوجود اس بات کے انکار کرنے والے نے انکار کیا، اور
نمبر ۳ ريو يو أن المجنز ۹۳ کرنے والے نے کہ دیا کہ نعوذ باللہ یہ مجنون ہے اسے قتل کر دو قید خانے میں ڈالد و ملک سخر نکال دو لیکن جہاں ایسا گروہ تھا وہاں وہ لوگ بھی تو پیدا ہو گئے جن کی نسبت خود ذات باری تعالے سے فتوی آگیا کہ رضی الله عنهم ورضواحتہ اور جنہوں نے اسلام کی خاطر بے شمار مصائب کو برداشت کیا اپنے گھروں سے نکالے گئے بیوی بچوں سے جدا کیئے گئے رشتہ داروں عزیزوں اور دوستوں سے یک قلم الگ ہونا پڑا اخدا کے راستہ میں اپنے خون کو پانی کی طرح بہایا مگر جس در پر سر رکھا تھا اسے نہ چھوڑا اور ہرگز نہ چھوڑا لا اله الا اللہ محمد رسول اللہ کیا تھا ایک بیٹری تھی جس نے اُن کی رگ رگ میں برقی طاقت بھر دی اور ان سے وہ کام کروانے جو بصورت دیگر احکام مربع تھے کیا کوئی قیاف دان اس بات کا پہلے سے ہی اندازہ کر سکتا تھا کہ عرب کے ریگستان سے وہ چشمہ جاری ہونے والا ہے جوساری دنیا کو اپنے اندر لے لے گا؟ اور کیا کسی نجومی کا علم اسے یہ خبر کر سکتا تھا کہ کلہ کے قریش ایک دن سارے جہان کے استاد نہیں گے اور دنیا کے بڑے حصہ پر اسکی حکومت پھیل جائے گی جو مر کے لوگ پرانی رسوم کے سخت پابند تھے اور عر کے قبیلوں میں باہم اتقد کیش کیش تھی کہ کسی کو ہم بھی نہیں گزر سکتا تھا کہ یہ لوگ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں اور ہمیشہ آپس میں دست، بگریباں رہتے ہیں ایک دن اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو کر تمام دنیا پر ایک سیل کی طرح بچھا جائیں گے غرض ہر مامور کی بہشت کے وقت دو گروہوں کا پیدا ہو جانا سنت اللہ میں داخل ہے کیونکہ ماموں کے بھیجنے سے اللہ تعالیٰ کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ طیب کو خبیث سے جدا کرے اور شقی اور سعید کے درمیان تمیز پیدا کر دے.یہ تمیز ماننے والے اور نہ ماننے والے فرقوں کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی ہے اور ان ہر دو مخالف گروہوں میں ہمیشہ اسقدر نمایاں اختلاف ہوتا ہے کہ دیکھنے والا کبھی کسی کے متعلق شک میں نہیں پڑ سکتا کہ وہ کسی گروہ میں سے ہے اور اس نمایاں فرق کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہرد و مخالف گروہوں کا امتیازی نشان دل کی کسی کیفیت کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا بلکہ ہر ایک نبی کی بعثت کے وقت اُس خاص نبی کو اللہ تعالٰی کی طرف سے ہدایت خلق اللہ کے لیے مامور مان لینے یا استلا کر دینے پر سا را مدار ہوتا ہے.وہ جو مان لیتے ہیں حزب اللہ کے نام سے پکارے جاتے ہیں اور وہ جو انکار کردیتے میں دو حزب الشیطان میں داخل ہوتے ہیں.عربی زبان میں چونکہ ان سینے
۹۴ ك يفضل جارہی کے لیے ایمان کا لفظ ہے اس لیئے مان لینے والی جماعت مومنین کی جماعت کہلاتی ہے اور چونکہ انکار کر دینے کے معنی عربی زبان میں کفرکے ہیں اس لیئے انکار کرنے والے لوگ کا ذہ کے نام سے پکارے جاتے ہیں.اس میں کسی کی بہتک عزت مراد نہیں ہوتی ہے بلکہ صرف امر واقع کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ اگر کسی کو مومن کہتے ہیں تو اس سے ہمارا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس نے ان کیا ہے اور اگر گئی کافم کے نام سے یاد کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد فقط ہی ہوتی ہے کہ اس نے امکانہ کر دیا ہے ہاں جگہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بہت سے الفاظ ایسے ہوتے جو اپنے لغوی معنوں کے علاوہ ایک اصطلاحی مفہوم بھی اندر رکھتے ہیں لیکن یہ ضروری ہوتا ہے کہ اصطلاحی سنی لندی معنوں پر منی ہوں کیونکہ اگر ایسا ہو تو اصطلاحات کے مفہوم کو سمجھنا سخت مشکل امر ہو جاوے مال کے طور پر دیکھو تو بی زبان میں رسول اس شخص کو کہتے ہیں جو ایک کی طرف سے دوسرے کی طرف پیغامبر بناکر بھیجا جاوے اور بنی اس شخص کو کہتے ہیں جو کوئی خبر دیوے کیونکہ بی کا لفظ باما سے نکلا ہے جسکے معنی خبر کے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انٹونی باسماءها ولاء ان کنتم صادقین پس گفت کے لحاظ سے جائزہ ہو گا کہ ہر پیغامبر کو رسول اور ہر خبر دینے والے کونبی کے نام سے پکارا جاوے.لیکن میں ابھی بتا آیا ہوں کہ لغوی معنوں کے علاوہ بعض الفاظ کے اصطلاحی معنے بھی ہوتے اب اگر شریعت اسلام کی اصطلاح میں ورسول اور نبی کے الفاظ کے سنے دیکھے جاویں تو معلوم ہو جائیگا کہ رسول کہتے ہیں اس فرد کامل کو جبکہ اللہ تمام اہل دنیا کی طرف پیغامیر بنا کر بھیجے اور جسے امور بیت کا خلعت عطا کر کے خلق اللہ کی ہدایت کیلئے کھڑا کرے اور پھر اسی پر میں نہیں بلکہ یہ ضروری ہے کہ ایسے شخص کو اللہ تعالی کی طرف سے بھی رسول کے نام سے پکارا گیا ہو کیونکہ شریعیت اسلام میں رسول کی اصطلاح کا مفہوم پورا نہیں ہوتا جب تک خدائی سند ساتھ نہ ہو.یہی حال ہے لفظ نبی کا کوئی شخص شریعت کی اصطلاح میں بھی نہیں کہلا سکتا جب تک کہ وہ اللہ تعالی سے مامور کی حیثیت میں بکثرت ہم غریب پاکر لوگوں تک پہنچاہے اور جب تک اللہ تعالٰی کے کلام میں اسکے متعلق صریح طور پر نبی کا لفظ نہ آیا ہو اسی طرح اسلام میں کفر اور ایمان کے الفاظ کے معنی ایک خاص دائرہ میں محدود ہو گئے ہیں روہ یہ کہ شریعت اسلام میں کا فراسکو گئیں گے جو اسلام کے ان اصول میں سے جن پر اسکی ے یعنی ان الفاظ کی اصل یعنی روٹ کی بنا پر میںدو نہ دی تو انکی تشریح میں نعت بھی اصطلاحی مخوف کا ذکر کریگی
نمبر ریویو آف ریلیجنز 90 بنا ہے کسی ایک کا انکار کر دے اور مومن وہ ہے جو ان تمام اصول پر ایمان ہے آوے اسلام نے جو مذہب کے پانچ اصول بتائے ہیں وہ یہ ہیں اللہ تعالی پر ایمان لانگ پیر امان الله کے رسولوں پر ایمان اسی کتابوں پر ایمان اور یوم آخر پر ایمان ان پانچ اصولوں میں اگرکسی یک کا بھی کوئی منکر ہو جاو کی تودہ تمام فرقہ ہائے اسلام کی نظر میں کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہوجاو ہے پس مومن نے اور کھلانے کیلئے ضرور ہی گیا کہ ان پانچ اصول پر ایمان لایا جاوے جن کو اسلام نے ایمان کی شرط قرار دیا ہے یہ ہے ایمان اور کفر کی تعریف جو اسلام نے ہم کو سکھائی ورنہ لغوی معنوں کے لحاظ سے تو شیطان کا انکار کر نیوالا بھی کافر ہے جیسا کہ خود قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی نسبت فرما یا من یکفر بالطاغوت لیکن یہ کفر وہ ہے جسکی نسبت ایک دین، بڑی دلیری کے ساتھ کہ سکتا ہے کہ ہے گر کفر میں بود بخدا سخت کا زرم ؛ پس اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئیے کہ بعض الفاظ کے لغوی اور اصطلاحی معنوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے جیسا کہ میں نے ابھی لکھا ہے کہ ایک وہ کفر ہے جو انسان کو شیطان کے پنجے سے چھڑا کر اللہ تعالیٰ کے دربار میں لاکھڑا کر تا ہے اور جسکی طرف آیت مزیکفر با الطاغوت کھلے لفظوں میں اشارہ کر رہی ہے اور ایک وہ کفر ہے جو لعنت کی صورت میں ایک مکذب انسان پر پڑتا اور ا سکو باری تعالی کے دربار سے ہٹا کر شیطان کے قدموں پر لا ڈالتا ہے جیہ الہ اللہ تعالی نے خودفرمایا ہے و الذين كفروا أولياء هم الطاغوت يخرجونهم من النور الى الظلامات ظاہر ہے کہ پہلا کفر لغوی کفر میں داخل ہے مگر دوسرا کفر اصطلاحی کفر ہے.لغوی طور پر تو کفر کا لفظ ر انکار پر بولا جائیگا خواہ وہ اللہ کا انکار ہوا خواہ شیطان کا مگر اصطلاحی طور پر کافر رفت اسی شخص کو کہیں گے جو ایمان کے پانچ اصولوں میں سے کسی اصل کا انکار کرے.اس جگہ چونکہ صرف ایمان بالرسل کی بحث ہے اس لیے ایمان کے اصولوں میں سے صرف اسی اصل پر بحث کیجائیگی.سو واضح ہو کہ یہاں بالرسل کے یہ معنی نہیں کہ صرف اتنا رسالت گوحق مان لیا جاؤ بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ اللہ تعالی کے ہر ایک رسول پر ایمان لایا جاوے.مومن کا فرض ہے کہ ہر ایک ایسے شخص کو قبول کرے جسکو اللہ تعالی نے رسول بنا کر دنیا میں بھیجا ہے کسی ایک سول کا منکر ایمان کی شرائط میں سے ایک نہایت ضروری شرط کو توڑنے والا اور خدائی حکومت کے
كلمة الفصل جل ۱۴۶ خلاف بغاوت کا جھنڈا کھڑا کر نیوالا ہے.یہی وجہ ہے کہ گو یہود مسیح ناصری سے پہلے کے انبیاء اور مرسلین کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یقین کرتے تھے لیکن سیح کے انکار کی وجہ سے وہ ایسے دور پھینکے گئے اور اللہ تعالیٰ کا وہ غضب اپر نازل ہوا کہ آج کے دن تک انکی قوم دنیا میں ذلت اور قمر کی نظر سے دیکھی جاتی ہے اور مسلمان تو خاص کر انکو منضوب علیہم کے نام سے یاد کرتے ہیں.اس کا سبب یہی تھا کہ انہوں نے اسلام کے اصولوں میں سے ایک اصل مینی ایمان بالرسل کو چھوڑا اور اسکو بھی پوری طرح نہیں چھوڑا بلکہ وہ بہت رسولوں پر ایمان لاتے تھے اور خاصکر حضرت موسیٰ جو صاحب شریعت نبی تھے انکی غلامی کا تو انکو خاص فخر تھائم صرف میسج کے انکار سے اپر لعنت کی مار پڑی اور موسی جیسے عظیم الشان نبی کی طرف منسوب ہونے کے باوجود بھی انکو کافر کا خطاب دیا گیا اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا کیونکہ خدا کے رسولوں کو نظر استخفاف سے دیکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نام کو روشن کرنے کے لئے دنیا میں آتے ہیں پس جو انسے جنگ کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نام کو مٹانا چاہتا ہر اسلیئے خود اس کا نام و نشان صنفوۂ روزگار سے شادیا جاتا ہے.یہ کہنا کہ اللہ تعالٰی کے بعض نہی تو مانتے کے قابل ہوتے ہیں مگر بعض نعوذ باللہ اس قابل نہیں ہوتے کہ پنیر ضر در ایمان لایا جاو ہر ایک لعنتی خیال ہے کیونکہ للہ تعالیٰ کے مرسلین نبی یا رسول ہونے میں ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کلا نفرق بين احد من رسله خدا دارم نے نبوت کو ایک سلسلہ کے طور پر اسی لیے رکھا ہے کہ تا اسی نور ایک خاص وقت میں محدود نہ ہو جاتے بلکہ مختلف زمانوں اور مختلف مقاموں میں اس کا ظہور ہو کیونکہ جس طرح ہر ایک دن کے بعد بات کا آنا ضروری ہے اسی طرح ہر ایک نبی کے بعد جسکے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا پر نور کا نزول ہوتا ہے ایسے زمانے کا آنا بھی ضروری ہے جو اندھیرے ہوش بہت رکھتا ہو یہ اس لیے ہے کہ زمانہ میں اللہ تعالٰی نے یہ تاثیر رکھدی ہے کہ وہ پرانے خیالات اور جذبات کو کمزور کرتا چلا جاتا ہے جیسے دیکھو آج اگر ایک عورت کا جوان بیٹا مر جا دے تو وہ کے صدمہ میں اسقدر غم والم کا اظہار کرے گی کریں قریب ہے کہ اپنے آپکو ہلاک کر دے لیکن ایک عرصہ کے بعد غم کا اور اسکے دل پر سے کم ہوتا چلا جائے گا حش کہ ایک دن آئین گا کہ دہ
ریویو آن را میجنز نچہ اسے یاد بھی نہ ہو گا یہی حال انبیاء کی تعلیم کا ہے.جب وہ دنیا میں آتے ہیں تو اپنے جذب اور روحانی قوت سے سعید روحوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اوران کی تعلیم وگوں کے دلوں کے اندر گھر کر جاتی ہے لیکن اس کے بعد اک مدت گذر جانے پرکچھ تو انکی تعلیم ہی وجود بعض بیرونی عناصر کے ساتھ لیجانے کے اپنی حقیقت کو کھو بیٹھتی ہے اور کچھ کسی کامل روحانی وجود کے نہ ہونے کی وجہ سے اس مذہب کے متبعین کے دلوں پر رنگ بیٹھ جاتا ہے اور اسکے جوش ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں اور دنیا کی محبت انکے رگ وریشہ میں رچ جاتی ہے تب آسمان پر ایک بنگل بجایا جاتا ہے جو آنیوالے رسول کی منادی کرتا ہے اور سو نیوالوں کو خواب غفلت سے بیدار کر دیتا ہے اور پھر وہی وایت سے محروم رہتا ہے جسکو اسکی بدبختی نفس نے جسم کے لیے تیار کیا ہو کیونکہ مربی کی ست کے وقت اللہ تعالی کا ارادہ ہوتا ہے کہ تمام ان دکھوں کو جن میں سعادت کا کوئی مادہ ہو ایک جگہ جمع کرے پس یہ یقینی اور قطعی طور پر یقینی ہے جواللہ تعالیٰ کے کسی امور کی مخالفت پر مرتا ہے وہ سعادت کے مادہ سے بالکل خالی ہوتا ہے ورنہ اللہ تعالی اور رفع کرتا اور نہ تمام مرسلین ایک ہی رنگ میں ہوتے ہیں اسلئے یہ کہنا صحیح ہے کہ اگر موسی کو نہ ماننے والے میسی کا وقت پاتے تو اس کا بھی انکار کرتے اور اگروہ نبی کریم کے زمانہ میں پیدا کیئے جاتے تو آپ کی مخالفت ہے بھی کھڑے ہو جاتے.اسی طرح ایمان لانے والوں کا حال ہے.پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ نبی کریم صلعم کے زمانہ کے سبھی لوگ حقیقت میں سیمی نہ تھے بلکہ وہ صرف اس لیئے مسیحی تھے کرا اباؤ اجداد مسیح کے متبع تھے ورنہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک واقعی سیمی ہوتے توجہ ور تھا کہ انکے پاس منہاج نبوت کا پورا علم ہوتا اوروہ نبی کریم کی آواز پر نور لیک کر اٹھتے.اسی طرح دو جنہوں نے عیسی کا انکار کیا در حقیقت موسیٰ کے پیرو نہ تھے بلکہ صرف اسمی اور رسمی طور پر یو کی جماعت میں داخل تھے اور ایمان انکے دل سے پرواز کر چکا تھا ورنہ کیا وجہ ہے کہ ان کو سیٹ پر ایمان لانے کی توفیق نہ ملی غرض ایسے ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر مجھ لینا چاہئیے کہ و اللہ تعالیٰ کے ایک مامور کا انکار کرتا ہے وہ اگر دوسرے کسی مامور کے زمانے میں ہوتا تو ضرور اس کا بھی انکار کرتا کیونکہ اللہ تعالٰی کے تمام مرسلین منہاج نبوت پر پرکھے جاتے ہیں اللہ ہر ایک زمانے میں انکے شناخت کرنے کا فریق ایک ہی ہوتا ہے پس وہ جسکے معیار کے
94 كلمة الفصل جلد مطابق محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نود باشہ ایک جھوٹا مدعی رسالت ہے کبھی بھی حقیقی طور پر عینی اور موسیٰ علیہم السلام کی رسالت کو سچا نہیں جان سکتا خواہ وہ زبان سے ہزار دعوی کرے اور بخدا اگر وہ عیسی اور موسی کا زمانہ ہا تا تو ان سے بھی وہی سلوک کرتا جو اس نے نبی عربی سے کیا کیونکہ اس کا دل سعادت کے مادہ سے خالی ہو چکا ہے اور اسکی آنکھو نہیں نور ایمان باقی نہیں رہا وہ اندھی ہیں اللہ تعالٰی کے نور کو نہیں دیکھ سکتیں خواہ وہ نور موسی اور معینی کی شکل میں نازل ہو اور واہ میر مسلم کے وجود باجود میں اسکا ظہور ہوں.پس یہی یہی ہے کہ اللہ تعالٰی کے ایک امور کا انکار حقیقت میں سب ما موروں کا انکار ہے کیونکہ ایل ملخص جب ایک مامور من اللہ کا انکار کرتا ہے تو اسکی روح زبان حال سے پکار پکار کر کہتی ہے کہ میں ازلی شقی ہوں مجھ میں نور نبوت کا حصہ نہیں.یہی عقیدہ میرا ایمان ہاسہ کے متعلق ہے.صرف خدا کی ذات کا قائل ہو جانا اور اس پر ایمان لے آنا انسان کو نجات نہیں دلا سکتا کیونکہ نجات کے لیئے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالی کو اسکے تمام صفات کے ساتھ متصف مانا جادے : یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص خدا کا قائل ہو لیکن اُس نے اپنے خدا کو ایسی صفات دے رکھی ہوں جن سے اسکی ذات پاک پر کوئی دھیہ آمے یا جو اسکے نورانی چہرہ کو لوگوں کی نظروں سے چھپانے والی ہوں مثلاً ایسا ہو سکتا ہو کہ ایک شخص خدا کو واحد لاشریک جانے لیکن اسکے خیال میں سورج ہی خدا ہو یا اس کا ایمان ہو کہ دو میں سب انادی میں خدا کوئی روح پیدا نہیں کر سکتا یا اسکا ایمان ہو کہ خدا ک کی فضل کے ساتھ سنجات نہیں دے سکتا یا اسکا یہ ایمان ہو کہ خدا سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں تو کار ریب ایسا شخص خدا کی ذات کا تو قاتل ضرور ہے مگر اسکو اسکی تمام صفات کے ساتھ متصف نہیں انتا اس لیے یہ کہنا جائز ہوگا کہ ایسے شخص کا اللہ پر ایمان نہیں ہے کیونکہ اللہ نام ہو اس فرات کا جو تمام صفات حسنہ سے متصف اور تمام عیوب سے پاک ہے اور چونکہ ان لوگوں کا جواشد تعالی کی طرف سے مامور ہوتے ہیں سب سے بڑا فرض اور کام اللہ تعالی کے روشن چہرہ کو دنیا پر ظاہر کرنا ہوتا ہے اس لیے ہم کہ سکتےہیں کہ جو شخص کسی مامورین اللہ کا انکار کرتا ہے اس نے اللہ تعالی کو نہیں دیکھا اور نہیں پہچانا کیونکہ الہ تعالی کسی مرسل کو مبعوث نہیں فرماتا
نمبر ۳ ریویو آف ریلیجنز 99 جب تک اس کے اپنے چہرہ پر ہل دنیا کی نظر میں کوئی گرد نہ آجادے اور جب تک اس کی صفات میں سے کسی صفت کو دنیا کے لوگ عملی طور معطل نہ قرار دینے لگ جائیں اور جیساکہ میں اور پر بیان کر آیا ہوں زمانہ کا اثر اس بات کا مقتضی ہے کہ ایک عرصہ کے بعد لوگ نبی کی تعلیم کو بھلا دیں اور افتد کی طرف وہ باتیں منسوب کرنے لگ جادیں جن سے اسکی ذات والا صفات بالکل پاک ہو.دیکھو موسی نے لوگوں کو توحید سکھائی اور اللہ تعالیٰ کے نورانی چہرہ کو لوگوں پر ظاہر کیا مگر ایک عرصہ کے بعد موسی کی سکھائی ہوئی توحید صرف لوگوں کی زبانوں پر رہ گئی اور اسد علی کا نورانی چہرہ گرم آلود ہو گیا تو ضرورت پیش آئی کہ سین ناصری کو کھڑا کر کے توحید کو از سر و قائم کیا جاوے لیکن کیا بیت کی سکھائی ہوئی توحید کا نقش لوگوں کے دلوں پر ایا جا کہ پھر کبھی محو ہ ہوا یہ نہیں بلکہ چھ سو سال کے بعد دنیا کا وہی حال ہو گیا جو سب سے پہلے تھا بلکہ اس سے بھی بدتر ی س م م صلی الہ علیہ سلم کو کھڑا کیا گیا تا دو صدیوں کی میل کو خدا کے چہرہ سے دھوڈالے اور اسکی صفات کا ملہ کا لوگوں کے دلوں پر نئے سرے سے نقش پیدا کرے تاکہ وہ کئے توحید سے سرشار ہوں اور دنیائے فانی سے اپنے دل چھوڑ کر اس ذات پاک سے لولگائیں جس کا دامن تمام گندوں سے یک قلم ر ہائی بخشتا ہے غرضیکہ ہرایک نبی کا ہی کام ہوا ہے کہ دنیا میں کام اورحقیقی توحید کو قائم کرے اس سے وہ جو کسی نبی کی مخالفت کرتا ہے اس کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ توحید کی مخالفت کرتا ہے یہی وجہ ہے کہاللہ تعالی نبیوں کے انکار کو خوداپنے اسکار کے طورپر پیش کیا ہے جیسا کہ کفار کی صیفیت میں آیا ہے پریدن از قیف توابین الله و رساله یعنی وہ اللہ اور اسکے رسولوں میں تفریق کرنا چاہے ہیں مطلب ی کہ انکا یہ خیال ہوتا ہے کہ سولوں پر ایمان لانے کے بغیر اسان توحید پر قائم ہوسکتا ہے حلانکہ یہ بالکل غلط ہے.اب یہ دونوں اصول با لکل صاف ہیں اول یہ کہ ایک مامور من اللہ اسکا حقیقت میں بے اروں کا انکار ہوتا ہےکیونکہ وہ دنیامیں ایک ہی رنگ پر آتے ہیں اور ایک ہی تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان کا وہی انکار کرتا ہے جوگذشتہ مامورین پر ایمان لانے کے دعوے میں جھوٹا ہوتا ہے اور یہ اصول میرے اپنے دماغ کا اختراع نہیں ہو بلکہ اللہ تعالٰی نے خود اسکو قرآن شریف میں بیان فرمایا ہے جیب کہ فوج کے منکرین کے متعلق آتا ہے کہ کذمت قوم نوح
۱۰۰ كان يفصل ن المرسلین حالانکہ نوح کی قوم نے تو صرف نوح کا ہی انکار کیا تھالیکن چونکہ خدا کے نزدیک ایک مامور کا انکار حقیقت میں سب ماموروں کا انکار ہے اس لیے نوح کے واسطے المرسلین کا لفظ بولا گیا.فتدبر دوسرا اصول یہ کہ اگر غور سے دیکھا جاوے تو ایک مامور کا انکار خود ذات باری تعالٰی کا انکار ہے کیونکہ منکر خواہ زبان سے توحید کے قائل ہونے کا ہزار دعوی کرے لیکن دراصل دہ توحید کا یمن ہے اور اسکے دل میں شرک پوشیدہ ہے کیونکہ وہ اس شخص کی مخالفت پر کھڑا ہوا ہے جو دنیا میں توحید کے پھیلانے کے لیے بھیجا گیا اس اصول کو حضرت مسیح موعود تانے بڑی وضاحت کے ساتھ عبدالحکیم خاں مرتد کے جواب میں قرآن شریف کی آیات سے ثابت کیا ہے اور اسپر بڑی سیر کن بحث کی ہے (دیکھو حقیقۃ الوحی صفحه ۱۲۵ تا ۱۳۰) اب ان دونوں اصولوں کو اچھی طرح صاف کر دینے کے بعد میں اپنے اصل مضمون کی طرف آتا ہوں اور وہ یہ کہ کیا اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود مرسل یزمانی پر ایمان لانا ضروری نہیں ؟ سو واضح ہو کہ مسیح موعود اس زمانہ میں مبعوث کیا گیا جب دنیا میں چاروں طرف اندھیرا اچھا کیا تھا ہ بر و بحر میں ایک طوفان عظیم بر پا ہو رہا تھا مسلمان جن کو خیر الامت کا خطاب طاقتھا نہی عربی کی تعلیم سے کوسوں دور جاپڑے تھے وہ عبادت کی راہیں جن پر قدیم مارنے سے پہلوں نے خدا کے دربار تک رسائی حاصل کی تھی حقارت اور استخفات کی نظریہ دیکھی جاتی تھی شرک جسکے خلاف سارا قرآن بھرا پڑا ہے مسلمانوں کے حرکات اور سکنات سے کھلے کھلے طور پر ظاہر ہو رہا تھا رو ہے سے محبت کی جاتی تھی اور اسپر وہ بھر دو سا کیا جاتا تھا جو خود ذات باری تعالیٰ کے شایان شان ہے.قبروں پر جاکر سجدے کیئے جاتے تھے.شراب خوری زناکاری اور قمار بازی کا میدان گرم تھا.مسلمانوں کی تمام سلطنتیں تباہ ہوچکی تھیں اور دو تین جوری ہی باقی تھیں انکا یہ حال ہو رہا تھا کہ اسلام کے لیئے جائے فخر ہونا تو بجائے خود رہا اسکے لیے جائے عار ہو رہی تھیں ادھر اسلام کا وجود خود بیرولی حملوں کا اسقدر شکار ہو رہا تھا کہ خیال کیا جاتا تھا.کہ بس یہ آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں نہیوں کے سرتاج محمد مصطفے صلی اللہ علیہ آلہ وسلم پر گندی گندے اعتراض کیئے جاتے تھے آپ کے ازواج مطہرات کو مختلف قسم کے الزامات کا نشانہ بنایا
نمبر ۳ ریویوار ریویو ان ریجنز جا رہا تھا.دجال نے پورے زور کے ساتھ خروج کیا تھا یا جوج ماجوج کی فوجیں ہر ایک اور نمی جنگہ سے انڈی چلی آتی تھیں، اسلام عیسائیت کے پاؤں پر جان کنی کی حالت میں پڑا تھا اور دہر دیست اپنے آپکو ایک خوبصورت شکل میں پیش کہ یہ ہی تھی مگر اس پر بھی مسلمانوں کے کانوں پر جوں تلک ہینگی اور وہ خواب غفلت میں سویا کیئے حتی کہ وقت آیا جب محمد صلعم کی روح اپنی امت کی حالت پار کو دیکھ کہ تڑپتی ہوئی آستانہ الہی پر گری در عرض کیا کہ اے بادشاہوں کے بادشاہ اگر غریبوں کے مدد کرنے والے ! میری کشتی ایک خطرناک طوفان میں گھر گئی ہے میری بھیڑوں پر بھیڑیئے ! میں ٹوٹ پڑے ہیں میری است شیطان کے پنجے میں گرفتار ہے تو خود میری مدد فرما اور میری بھیڑ ہیں.کے لیے کسی چرواہے کو بھیج تب ی کا ایک آسمان پر سے ظلمت کا پردہ پھٹا اور خدا کا ایک نبی فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے زمین پرانتہا تا دنیا کو اس طوفان عظیم سے بچاوے اور امت محمدیہ کی گرتی ہوئی عمارت کو سنبھال لے ليکن يا حسرة على العباد يا حسنة على العباد يا حسرة على العياد ما ياتيهم من رسول الا كانوا به يسهر رونم وہ جو دنیا کا آخری نجات دینے والا بنکر آسمان پر سے دنیا کی مصیبت کے وقت زمین پر اترا وہ جو امت محمدیہ کی بھیڑوں پر حملہ کرنے والے بھیڑیوں کو ہلاک کرنے کے لیے آیا وہ جو سلام کی کشتی کو طوفان میں گھرے ہوئے دیکھ کر اُٹھاتا اسے کنارہ پر لگائے وہ جوخیرا نام کو شیطان کے پنچھ میں گرفتار پاکر شیطان پرحملہ آور ہو آدہ جو دجال کو زوروں پر دیکھکر اسکے طلسم کو پاش پاش کرنے کے لیے آگے بڑھا وہ جو یا جوج ماجوج کی فوجوں کے سامنے اکیلا سینہ سپر ہوا وہ جو مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں کو دور کرنے کے لیے امن کا شہزادہ بنکر زمین پر آیا وہ جو دنیا پر ندھیرا چھایا ہوا پاکر آسمان پر سے نو کو لایا ہاں وہ مسلم کا اکلوتا بیٹا ج کے زمانہ پر رسولوں نے ناز کیا تھا جب وہ زمین پر اترا تو امت محمدیہ کی بھیڑ یں اسکے لیے بھیڑیئے بن گئیں اپر پتھر برسائے گئے اسکو مقدمات میں گھسیٹا گیا اسکے قتل کے منصوبے کیئے گئے اسپر کفر کے فتوے لگائے گئے اسکو اسلام کا دشمن قرار دیا اسکے پاس جانے سے لوگوں کو روکا گیا اس کے متبعین کو طرح طرح سے تکلیفیں دی گئیں لیکن آخر کار خدا کا فرمان پورا ہوکر رہا کہ کتب الله لا غلبن ان اور سلی.وہ جو خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہتے تھے مس کے الہی والله
كار الفصل جلد ۱۳ متم نوره ولو كره الكافرون ذلیل اور خوار کیئے گئے فاعتبروا یا اول ابعا آہ کیا یہ مسلمانوں کے لیے شرم کے مارے ڈوب مرنے کا مقام نہیں کہ مسیح موعود کی سب سے زیادہ مخالفت انہوںنے کی کیا انکو سلام نے بنی تعلیم ی تھی کہ وہ جسکی مرکا ایک ایک منٹ اسلام کی خدمت میں گذرتا ہے او اسلام کا دشمن قرار دیا جائے اور اسکو کافر کے نام پکارا جائے.مسیح موعود سے پہلے تو ان لوگوں کے ایمان کا حال صرف خدا کو معلوم تھا کیونکہ وہ اس میں کی مانند تھے جو اپنے اندر کوئی سیج لیے ہوئے ہو اور بارش نے ابھی اس پیج کو کسی پودہ کی شکل میں ظاہر ہ کیا ہو لیکن مسیح موعود کی بعثت کے بعد انکے دلوں کا سارا گند باہر آگیا اور یہ صاف طور پر ظاہر ہوگیا کہ جیسے عیسی کے زمانہ کے لوگ با وجود تورات کے حامل ہونے کے در حقیقت موسی نے پیرونہ رہے تھے اور جیسے محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ سلم کے زمانہ کے عیسائی صرف نام کے عیسائی تھے ورنہ عیسیٰ ان سے بیزار تھا اور وہ عیسی سے بیزار اسی طرح مسیح موعود کا وقت پانیوالے در عمان، سلام اس نذہ سے بہت دُور جاپڑے تھے جس مذہب کو فاران کی چوٹیوں پر سے اُترنے والا آج سے تیرہ سو سال پہلے دنیا میں لایا.سچ ہے اگر مسلمان اسلام پر قائم ہوتے تو کیا ضرورت تھی کہ اللہ تعالیٰ مسیح موعود کو بھیجتا جس نے اگر بھائی سے بھائی کو جدا کر دیا اور اپنے بیٹے کو اور بظاہر اسلام میں ای نے تفرقہ کی بنیاد قائم کردی مگر نہیں اللہ تعالے جو دلوں کے بھیدوں سے واقف ہے خوب جانتا تھا کہ ایمان دنیا سے مفقود ہے اور اسلام صرف زبانوں تک محدود اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے کہ لو کان الایمان معلقاً بالثريا لناله جل من فارس - مخبر صادق نے پہلے سے ہی یہ خبر دے رکھی تھی کہ ایک وقت این گا جب ایمان دنیا سے اُٹھ جائیگا تب اللہ تعالی ایک فارسی النسل کو کھڑا کر یگا اوہ نئے سرے سے لوگوں کو اسلام پر قائم کرے پس یہ کس مٹن ہو سکتا ہے کہ بخبر صادق کی خبر غلط نکلے.ہم ساری دنیا کو جھوٹا مانے کے لیے تیار ہیں لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ محمد صلعم ! کو ایک جھوٹی خبر دینے والا یقین کریں اس نے جو کہا سچ کہا ایمان واقعی ثریا پر چلا گیا تھا مسیح موعود اسے پھر دنیا میں لایا پس وہ جس نے مسیح موعود کا انکار کیا اس نے مسیح موعود کا انکار نہیں کیا بلکہ
نمبر ۳ ریویو آف ریجنز....اس نے اس ایمان کے لینے سے انکار کیا جو مدرسول اله صل للہ علیہ وسلم دنیا میں ایا تا اورہ جس نے مسیح موعود کو مان لیا اس نے اس ایمان کو حاصل کیا جو دنیا سے مفقود ہو چکا تھا.کیونکہ حدیث مذکورہ بالا صاف طور پر بتا رہی ہے کہ دنیا ایمان سے خالی ہے پس ہم اس شخص کو اب کس طرح مومن کہیں جو اس ایمان کے لینے سے انکار کرتا ہے جسے مسیح موعود ثریا سے اتار کر دنیا میں لایا ہے کیونکہ وہ وہی ایمان ہے جو آج سے تیرہ سو سال پہلے عرب کے ملک کو منور کر چکا ہی فتدبر اب آن دو اصولوں کو لوجن کا میں اوپر ذکر کر آیا ہوں اور وہ یہ کہ اول ہر مامور کا انکار تمام ما موروں کا انکار ہے کیونکہ ایمان ایمان کی وجہ سے نصیب ہوتا ہے پس وہ جو امام وقت کا انکار کرتا ہے اُسے پہلوں پر بھی کامل ایمان نہیں یا یوں کہو کہ انکار کر نیوالا چونکہ سعادت کے مادہ سے خالی ہے اس لئے اگر وہ اللہ تعالیٰ کے کسی اور مرسل کے زمانہ کو پاتا تو اس کا بھی یقیناً انکار کرتا کیونکہ ہر ایک مرسل منہاج نبوت پر پرکھا جاتا ہے پس وہ جسکے معیار کے مطابق مسیح موعود ایک نعوذ باللہ جھوٹا مدعی رسالت ہے کس بنا پر محمد صلعم کی رسالت کو سچا جان سکتا ہے اور کس طرح عیسی اور موسیٰ کو خدا کے رسول مان سکتا ہے.وہ جھوٹا ہے خواہ زبان سے ہزار دعوی کرے.لہذا یہ یقینی اور قطعی طور پر یقینی ہے کہ اگر اس زمانہ کے یہودی صفت مسلمان نبی کریم کے وقت میں پیدا کیئے جاتے تو آپ کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتے جو انہوں نے اس زمانہ کے رسول کے ساتھ کیا اور اگر وہ موسیٰ اور علی کا زمانہ پائے تو انکا بھی اسی طرح انکار کرتے کیونکہ مسیح موعود اللہ تعالٰی کا ایک نور ہے اور وہ آنکھ جو اس نور کو نہیں دیکھ سکی وہ اندھی ہے کسی اور نور کو بھی نہیں دیکھ سکتی.حضرت مسیح موعود نے بھی اس اصل کو بیان فرمایا ہے جیسا کہ آپ مخالفوں کا ذکر کرتے ہوئے اربعین صفحہ ۲۳ پر فرماتے ہیں کہ ایک شخص اگر انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پا تاتو آپ کو بھی نہ مانتا اور اگر حضرت عیسی کے زمانہ میں ہوتا تو انکو بھی قبول نہ کرتا ، پس مخالفین کا یہ دعوئی کہ ہم مسلمان میں ایک بانی دعوی ہے ورنہ اگر انہوں نے رسول عربی گو در حقیقت پہچانا ہوتا تو انکی آنکھ مسیح موعود کے پہچانے میں دھوکا نہ کھاتی کیونکہ مسیح موعود اپنے آقا کے لباس میں دنیا پر اترا ہے.پس وہ صرف اس لیے مسلمان ہیں کہ وہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے وہ نہ اسلام سے ان کو کوئی
۱۰۴ كلمة الفصل جلدم سروکار نہیں کیا کوئی احمد کا نام لیوا اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ اگر اس زمانہ کا بڑا مفر تیرہ سو سال پہلے عرب میں پیدا کیا جاتا تو ابو جہل سے جہالت میں کم رہتا اور کیا اگر اس زمانہ کا مرند پٹیالوی رسول عربی کے وقت کو پاتا تو مسیلمہ کذاب کی طرح آپ کے غداری نہ کرتا ہے دوستو! انہاں تم نے احمد کو محمد کا کامل بروزمانا ہے وہان احمد کے سنکہ ان کو محمد کے منکرین کا کامل بروز مانتے ہوئے تمھیں کو نسی بات روکتی ہے.اور پھر اس پر بھی تو غور کرو کہ اللہ تعالٰی نے نبی تم کی دو بعثتوں کا قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے جیسا کہ آتا ہے ھو الذی بعث فی الامیین رسولاً يتلوا عليهم ايته ويذكيهم ويعلمهم الكتب والحكمة وان كانوا من قبل لفي ضلال مبين.وأخرين منهم لما يلحقوا بهم وهو العزيز الحکیم.اس آیت کریمہ میں اللہ تعالٰی نے صاف خدایا ہے کہ جس طرح نبی کریم کو امتیوں یعنی لکھے والوں میں رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اسی طرح ایک اور قوم میں بھی آپ کو مبعوث کیا جائے گا جو ابھی تک دنیا میں پیدا نہیں کی گئی.لیکن چونکہ یہ قانون قدرت کے خلاف ہے کہ ایک شخص جب فوت ہو جاوے تو اسے پھر دنیا میں لا یا تبادے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کے متعلق قرآن کریم میں صاف فرما دیا ہے که انه کار جعون پس یہ وعدہ اس صورت میں پور ہو سکتا ہے کہ جب نبی کریم کی بعثت ثانی کے لیے ایک ایسے شخص کو چنا جادے جس نے آپ کے کمالات نبوت سے پورا حصہ لیا ہو اور جو حسن اور احسان اور ہدایت خلق اللہ میں آپ کا مشابہ ہو اور جو آپکی اتباع میں اسقدر آگے نکل گیا ہو کہ بس آپ کی ایک زندہ تصویر بنجا دے تو بلا ریب ایسے شخص کا دنیا میں آنا خود نبی کریم کا دنیا میں آتا ہے اور چونکہ مشابہت تامہ کی وجہ مسیح موعود اور نبی کریم میں کوئی دوئی باقی نہیں رہی حتی کہ ان دونوں کے وجود بھی ایک وجود کا ہی حکم رکھتے ہیں جیسا کہ خود مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ صار وجود وجود دیکر خطبہ امامیہ صفحہ ۱۷) اور حدیث میں نہیں آیا ہے کہ حضرت نبی کریم نے فرمایا کہ مسیح موعود میری قبر دفن وہ میری میں دفن کیا جاویگا جس سے بھی مراد کہ وہ میں ہی ہوں یعنی مسیح موعود نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ وہی ہے جو بروزی رنگ میں دوبارہ دنیا میں آئیگا تا اشاعت اسلام
نمبر ۳ ریویو ان الجز.کا کام پورا کرے اور ھو الذی ارسل رسوله با الهدى ودين الحق ليظهرة على الدین کلہ کے فرمان کے مطابق تمام ادیان باطلہ پر اتمام محبت کر کے اسلام کو دنیا کے کونوں تک پہنچا دے تو اس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیان میں اللہ تعالی نے پھر محمد صلعم کو اتارا ا اپنے وعدہ کو پورا کیے جو اس نے آخرین منهموما یلحقوا بهم میں فرمایا تھا یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ مسیح موعود نے خود خطبہ الہامیہ صفحہ ۱۸۰ میں آیت آخرین منھم کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ در کس طرح منہم کے لفظ کا مفہوم تحقیق ہو اگر رسول کریم آخرین میں موجود نہ ہوں جیسا پہلوں میں موجود تھے ، پس وہ جس نے مسیح موعود اور نبی کر غم کو دو وجودوں کے رنگ میں لیا اس نے مسیح موعود کی مخالفت کی کیونکہ مسیح موعود کہتا ہے صار وجودی موجو اور جس نے مسیح موعود اور نبی کریم میں تفریق کی اس نے بھی مسیح موعود کی تعلیم کے خلاف قدم مارا کیونکہ مسیح موعود صاحت فرماتا ہے کہ من فرق بینی و بین المصطفة فما عرفنی و ماملائی ، دیکھو خطبہ الہامیہ صفورا) اور نہ دیں مسیح موت کی میت کے نبی کریم کی بعثت ثانی نہ جانا اس نے قرآن کو پس پشت ڈالدیا کیونکہ قرآن پکار پکار کر کہ رہا ہے کہ محمد رسول للہ ایک دفعہ پھر دنیا میں آئیگا.پس ان سب باتوں کے سمجھ لینے کے بعد اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ وہ جس نے مسیح موعود کا انکار کیا اس نے مسیح موعود کا انکار نہیں کیا.بلکہ اس نے اس کا انکار کیا جسکی بہشت شانی کے وعدہ کو پورا کرنے کے لیے مسیح موعود مبعوت ) کیا گیا اور اس نے اسکا انکار کیا جس نے اخرین میں آنا تھا اور پھر اس نے اس کا انکار کیا جس نے اپنی قبر سے اٹھکر حسب وعدہ پھر اپنی قبر میں جانا تھا پس اے نادان ! تو مسیح موعود کے انکار کو کوئی معمولی بات نہ جان کیونکہ محمد نے اپنے ہاتھوں سے اپنی نبوت کی چادر اسپر چڑھائی ہے اور اگر تیرا دل غیروں کے پنجے میں گرفتار ہے اور انکی محبت تجھے چین نہیں لینے دیتی تو بجا پہلے آخرین منھم کی آیت قرآن سے نکال پھینک اور پھر جو تیرے دل میں آئے گئے.کیونکہ جبتک یہ آیت قرآن کریم میں موجود ہر اسوقت یک تو مجبو ہے کہ مسیح موعود کو محمد کی شان میں قبول کرنے اور یا مسیح موعود سے ارتدادی
كلمة الفصل جلد ۱۴ تک راہ اختیار کر کے کھلے بندوں غیروں سے ہم آغوش ہو جائے دوسرا اصول جو بینے اس مضمون کے شروع میں بیان کیا تھا وہ یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالی کسی مامور کو مبعوث نہیں فرماتا جناب دنیا کے لوگ انہی صفات میں سے کسی صفت کو عملی طور پر معطل نہ قرار نہ دینے لگیں اور جب تک اللہ تعالیٰ کا نورانی چہرہ اہل دنیا کی نظر میں گرد آلود نہ ہو جاوے اس لیے یہ کہنا صحیح ہے کہ وہ جو اللہ تعالیٰ کے کسی مرسل کا انکار کرتا ہے در حقیقت خود ذات باری تعالی کا انکار کرتاہے یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے ایمان باللہ اور ایمان بالرسل کو لازم ملزوم کے طور پر رکھا ہے کیونکہ رسولوں پر ایمان لانے کے بغیر توحید کامل نہیں ہو سکتی.نجات کے لیے صرف یہ کہد بنا کافی نہیں ہے کہ اللہ ایک ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کو اسکی تمام صفات کے ساتھ منصف ماننا از بس ضروری ہے اور یہ بات کبھی حاصل نہیں ہو سکتی جبتک توحید کو رسولوں کے ذریعہ نہ سیکھا جائے اس مضمون کو حضرت مسیح موعود نے حقیقة الوحی میں خوب کھول کر بیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ فطرتی ایمان ایک لعنت ہے اور یہ کہ ایمان باللہ ایمان بالرسل کے بغیر کچھ حقیقت نہیں رکھتا.اب اگر یہ مانا جاوے کہ مسیح موعود کی بعثت سے پہلے دنیا میں حقیقی توحید موجود تھی جس پر کہ نجات کا مدار ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑیگا کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو بھیجنے سے نعوذ باللہ ایک لغو کام کیا اورتحصیل حاصل کے لیے دنیا کو خواہ مخواہ مصائب کے پنجے میں گرفتار کر دیا اور اگر یہ مانا جاوے کہ میسنج موعود عین وقت پر دنیا میں بھیجا گیا جب کہ دنیا کو اسکی بڑی ضرورت تھی تو پھر اس بات کا سے انکار نہیں ہو سکتا کہ جو اُسے نہیں مانتا اس میں حقیقی تو حید نہیں پس اب تم کو اختیار سے کہ یا تو مسیح موعود کی بعثت کو بے وقت قراردو اور خدا کے کام کو لغو جانو اور یا پھر اس بات کا اقرار کرو کہ و مسیح موعود کا انکار کرتا ہے اس میں ایمان کی بو نہیں اور وہ باطن میں خدا کا منکر ہے.غرض : دو اصول جو مینے اوپر بیان کیئے ہیں صاف طور پر بتا رہی ہیں کہ کسی و زین اللہ کا انکار کوئی معمولی بات نہیں ہے اور خاصکہ اُس فرد کامل کا انکار میں کا دنیا میں انا خود محمد صلعم کا آنا ہے.فتدبر اب اسقدر سمجھ لینے کے بعد مسیح موعود کے اس فقرہ پر نظر ڈالو جو اس نے حقیقۃ الوحی
ریویو آف ریلیجنز 1.6 صفحه ۱۶۳ پر تحریر فرمایا ہے کہ " جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا اور پھر دیکھو د کورہ بالا دونوں اصول میری اپنی طرف سے نہیں ہیں بلکہ ابھی سچائی پر اس شخص نے قہر لگائی ہے جس کو تم لوگ حکم اور عدل کے نام سے پکارتے ہو.اس قدر لکھنے کے بعد میں اس مضمون کو مختلف ابوں میں تقسیم کرتا ہوں ا مختلف پہلوؤں سے مضمون پر روشنی ڈالی جاسکے.دما توفیقی الا بالله باب اول اس ب میں بعض ان قرآنی آیت کا ذکر ہو گا جن سے اس بات کا پتہ لگتا ہے کہ امرتان نے تمام رسولوں پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا ہے اور اُن لوگوں کو کافر کے نام سے پکارا ہے جو سب رسولوں پر ایمان لانا ضروری نہیں سمجھتے.سوجو اضح ہو کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی صفت میں فرمایا ہے کہ انکاتی قول ہوتا ہے کہ لا نفرق بین احد من رسله (آخری رکوع سوره بقری مینی انلاین کے رسولوں میں تفریق نہیں کرتے یہ کہ بعض کو مانیں اور بعض کا انکار کر دیں پس ثابت ہوا کہ مومن بننے کے لیے اللہ تعالٰی نے اس بات کو ضروری قرار دیا ہے کہ اسکے تمام رسولوں کو بلا تفریق مانا جادے اور یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ آیت مذکورہ بالا رسولوں کے مدارج کے متعلق ہے ان پر ایمان لانے کے متعلق نہیں یہ ایسے لوگوں کی کم علمی اور قلت تدبیر پول است کرتا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دوسری جگہ قرآن کریم صاف الفاظ میں فرماتا ہے کہ تلک الرسول فضلنا بعضهم على بعض معنی ہم نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت دی ہو.پس ایسی صاف اور محکم آیت کے موجود ہوتے ہوئے تبھی جو شخص کا نفرق بین احد مزے مسلہ کے یہ معنی کرتا ہے کہ ہم رسولوں کے مدارج میں فرق نہیں کرتے وہ قرآن کریم کی اس آیت سے ڈرے کہ فاما الذين في قلوبهم زيح فيتعون ما تشابه منه الخ پس یہ بات بالکل یقینی ہے کہ ہر ایک وہ شخص جسکو ایمان
كلمة الفصل جلد ۱۴ کا دعوئی ہے مومن نہیں کہلا سکتا جب تک اسکی حالت اس آیت کی مصداق نہ ہو کہ لا نفرق بین احد من مسلہ اور عقل بھی یہی چاہتی ہے کہ ہم کسی شخص کو مومن نہ کہیں جب تک وہ اللہ تعالٰی کے تمام فرستادوں پر ایمان لے آدے کیونکہ اگر انسان اللہ تعالیٰ کے بعض رسولوں کا انکار کر کے پھر بھی مومن کہلا سکتا ہے تو اسکے یعنی ہونگے کہ مذہب بھی ایک کھیل ہے انسان جو دل میں آئے کرے میں رسول کو چاہے ان لے جس کا چاہے انکار کر دے اور پھر مومن کا مومن ! غرض یہ بات عند القرآن اور عند العقل پایہ ثبوت تک پہنچی ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام رسولوں کو ماننے کے بغیر ایمان قائم نہیں رہ سکتا.ورنہ یہ ماننا پڑ گیا کہ بعض رسولوں کی معیشت نعوذ باشند لغو ہوتی ہے.اجگہ یہ بھی یادر ہے کہ کفر و قسم کا ہوتا ہے ایک ظاہری کفر اور ایک باطنی کفر.ظاہری کف تو یہ ہے کہ انسان کسی نبی کا گھلے طور پر انکار کر دے اور اسکو مامور بعد ایت خلق اللہ نہ مانے جس طرح پر کہ یہود نے مسیح ناصری کا انکار کیا یا جس طرح نصاری نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا کی طرف سے نہ مانا اور باطنی کفر یہ ہے کہ ظاہر طور پر تو کسی نبی پر ایماری لانے کا اقرار کیا جائے اور اسکو اللہ کی طرف سے مامور بجھ جاوے لیکن حقیقت میں انسان اس نبی کی تعلیم سر بہت دُور ہو اور اس کی پیشگوئیوں پر پورا ایمان لائے اور صرف اسمی طور پر اسکی طرف منسوب کیا جاؤ اور جیسا کہ مسیح ناصری کے زمانہ میں یہود کا حال تھا.وہ گو ظاہر طور پر تورات کے حامل تھے موسٹی کی اُمت میں اپنے آپ کو شمار کرتے تھے لیکن مسیح کی آمد نے انکاس را راز طشت از بام کر دیا اور یہ بات صاف طور پر ظاہر ہوگئی کہ حقیقت میں یہود موسی کی تعلیم سے بہت دور جاپڑے تھے اور انہوں نے تورات کو پس پشت ڈالدیا تھا اور آپکا موسی کی اُمت میں ہو سکا دعوی صرف زبانی دعوی تھا جو آزمانے پر غلط نکلا.میچ ناصری بود کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک امتحان کی شکل میں نازل ہوا تا خبیث اور طیب میں تمیز پیدا ہو جاوے اور تا اس بات کا پتہ لگے کہ یہود میں سے کون اپنے دعوے میں سچا اور کون جھوٹا ہے پس یہود نے مسیح کے انکار سے اپنے اوپر دو کفر لیے ایک مشیح کا ظاہری کفر اور ایک موسی اور موسیٰ سے پہلے گزرے ہوئے انبیائی کا بانی کریمی حال نبی کریم مسلم کا نہ ان پانے والے
نمبر ۳ ریویو انت میجز 1-9 نصار فی کا ہے جنہوں نے آپ کا انکار کر کے اس بات پر بھی مہر لگادی کہ وہ مسیح ناصری پہ ایمان لانے کے دعوئی میں جھوٹے تھے اور اسکی تعلیم کو دلوں سے بھلا چکے تھے پس انہوں نے بھی قدیم کا کفر کیا اول نبی کریم کا ظاہری کفر اور دوسرے بیج ناصری اور اس سے پہلے کے تمام انبیاورم کا باطنی کفر.اب یہ مسئلہ بالکل صاف ہے کہ ایک رسول کے انکار سے باقی تمام رسولوں کا ان کار لازم آتا ہے.ہاں ہم یہ نہیں کہتے کہ ایک رسول کا ظاہری کفر باقی رسولوں کا بھی ظاہری کفر ہے کیونکہ ظاہری کفر زبانی انکار سے تعلق رکھتا ہے اس لیے بغیر کسی کی طرف سے زبانی انکار کے اُس پر ظاہری کفر کا فتویٰ لگانا جائز نہیں ایک شخص اگر کرتا ہے کہ میں نبی کریم کو مانتا ہوں تو پھر ہمارا کوئی حق نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ وہ آپ کا ظاہری کا فر ہے ہاں اگر وہ اللہ تعالٰی کے کسی اور رسول کے ظاہری کفر کو اپنے اوپر لیتا ہے تب ہم کہ سکتے ہیں کہ اس نے نبی کریم صلعم کا بھی باطنی کفرکیا کیونکہ ایک رسول کے ظاہری کفر سے دوسرے رسولوں کا باطنی کفر لازم آتا ہے جیسا کہ میں اور پر بتا آیا ہوں.یہی وجہ ہے کہ کا نفرق بین احد من رسلہ میں اللہ تعالٰی نے مومن کے لیے تمام رسولوں پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا ہے.تا انسان کسی ایک رسول کا انکار کر کے اپنے پہلے ایمان کو بھی ضائع نہ کر دے.ہاں یہ ہم میں کہتے کہ سارے کا ایک سے ہی ہیں.لاریب ہندوؤں کی نسبت یہود ہمارے زیادہ قریب ہیں اسی طرح یہود کی نسبت نصاریٰ ہم سے قریب تر ہیں مگر کافر کا لفظ سب پر یکساں عایدہ ہوگا اور انہیں سے کوئی بھی مومن نہیں اسلا سکیگا کیونکہ مومن کے لیے سبب رسولوں پر ایمان لانا ضروری ہے جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں.پھر پہلے پارہ کے آخری کوع میں بھی للہ تعالیٰ نے تمام مومنوں کو حکم دیا ہے کہ کمولا نفرق بین احد منهم اور پھر تیسرے پارہ کے آخری رکوع میں اسی آیت کا اعادہ کیا ہے جس سے اس حکم کی تاکید مزید ثابت ہوتی ہے.پھر چھٹے پارہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان الذین یکفرون بالله ورسله ويريدون ان يفرقوا بين الله ورسله ويقولون نومن ببعض وتكفر بعض ويريدون ان يتخذوا بين ذلك سبيلا او كيك هم الكافرون حقا واعتدنا للكافرین عذابا مھینا.یعنی وہ لوگ
کا لفصل جلد جو اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں میں تعریق کریں یعنی اللہ پر ایمان لے آئیں اور رسولوں کو نہ مانیں یا کہتے ہیں کہ ہم بعض رسولوں کو مانتے ہیں اور کسی کو نہیں بھی مانتے اور چاہتے ہیں کہ کوئی بین بین کی راہ نکالیں یہی لوگ پکتے کا فر ہیں اور.اللہ نے کافروں کے لیے ذلیل کرنیوالا عذاب تجویز کیا اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کھلے الفاظ میں ان لوگوں کا ذکیا ہے جو تمام رسولوں کا مانناجر، و ایمان نہیں سمجھتے ہیں اس آیت کے ماتحت ہر ایک ایسا شخص جو موسی کو تو مانتاہی کی سٹی کونہیں مانا یا عیسی کو اتار کر خود کو نہیں مانتا اور تا محمد کو مانتا ہے پر سیح موعود کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کا فر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور یہ فتوی ہماری طرف سے نہیں ہے بلکہ اُس کی طرف سے ہے جس نے اپنے کلام میں ایسے لوگوں کے لیے اولیك هم الكافرون حقاف باہر نتدبروا اور اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت میں تو صرف رسولوں پر ایمان لانے کا سوال ہے سیح موعود کا کوئی ذکر نہیں ایساکسن ایک فلم عظیم ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں سیح موعود کے متعلق بیسیوں جگہ نبی اور رسول کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جیسا کہ فرمایا.دنیا میں ایک نہی آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا ، یا جیسے فرمایا یا ایھا النبي اطعو الجائع والمعتر يا جس طرح فرمایا انى مع الرسول اقوم اور مسیح رود نے ابھی اپنی کتابوں میں اپنے دعوئی رسالت اور نبوت کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے جیسا کہ آپ لکھتے ہیں کہ ہمارا دعوی ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں بار دیکھو تری ہ مارچ مشگیام یا جیساکہ آپ نے لکھا ہے کہ مد میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا.اور میں حالت میں خامیرا نام نہی رکھتا ہے تومیں کیونک اس سے انکار کر سکتا ہوں.میں اس پر قائم ہوں اسوقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں " دیکھ موخ حضرت مسیح موعود بطرف ایڈیٹر اخبار عام لاہور ) یہ خط حضرت مسیح موعود نے اپنی وفات صرف تین دن پہلے یعنی ۲۳ میٹی مسئلہ کو لکھا اور آپ کا یوم وصال ۲۶.مئی منشاء کو اخبار عام میں شائع ہوا.پھر اسی پر بس نہیں کہ مسیح موعود نے نبوت کا دعوی کیا ہے بلکہ جنوں کے ران محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پی اے سی کا نام ہی اللہ رکھا یا ان مسلم سے
نمیره ریویو آن ایمیجز ظاہر ہے پس ان تین عظیم الشان شہادتوں کے ہوتے ہوئے کون ہے جو مسیح موعود کی نبوت سے انکار کرے اور اگر یہ کہو کہ جب رسول کریم صلعم کو اللہ تعالٰی نے خاتم النبین قرار دیا ہے تو پھر آپکے بعد کوئی نہیں کس طرح آسکتا ہے تو اس کا یہ جوا ہے کہ اول تو خاتم کا لفظ استعمال کیا گیا.خاتم کا نہیں کہ تا آخری کے معنی کیئے جائیں اور دوسرے یہ کہ اگر خاتم النبین کے یعنی ہیں کہ آپکے بعد کوئی نبی نہیں ہے پھر آپنے کیوں خود آنیوالے مسیح کا نام نبی اللہ رکھا اور اسکو اپنی زبان مبارک سے اس نام کے ساتھ پکارا.پس یہ صاف ظاہر ہے کہ نبی کریم نے کبھی بھی خاتم النبیین کے یہ معنی نہیں کیئے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ورنہ آپ ہرگز ہر گز مسیح موعود کا نام نبی اللہ نہ رکھتے اور اگر یہ کہو کہ پر نبی کریم نے یہ کیوں فرمایا کہ لا نبی بعدی جس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئیگا تو اس کا جواب وہی ہے جو مسیح موعود نے اپنی کتابوں میں وضاحت کے ساتھ لکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ جیکب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نہی نہیں ہے جو آپ کی نبوت میں رخنہ انداز ہوا اور آپکے جوئے سے آزاد کر نبوت کا انعام پاوے یا آپ کی لائی ہوئی شریعت پر کوئی ایزاد یا کمی کرے گھر وہ جو آپکی امت میں سے ایک فرد ہے اور آپ کی غلامی کو اپنے لیے فخر خیال کرتا ہے اور آپ کی محبت اور اتباع میں اس قدر آگے نکل گیا ہے کہ اس کا اپنا وجود درمیان میں باقی نہیں رہا تو بلاریب ایک شخص نبی کریم صلعم کی ایک زندہ تصویر ہے اور اس میں اور آپ میں کوئی دوائی نہیں پس اس پر تقی طور پر آپکی نبوت کی چادر چڑھائی جائیگی تا مشابہت پوری ہو اسی واسطر حضرت مسیح موعود نے اپنی نبوت کے متعلق اشتہار ایک غلطی کے ازالہ میں تحریر فرمایا ہے کہ مد محمد کی چیز محمد کے پاس ہی رہی اور یہی لا نبی بعدی کے معنی ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی لا نبی بعدی کی حدیثہ منکر یہ ڈر پیدا ہوا کہ کہیں لوگ اس سے یہ غلط مفہوم نکال لیں کہ آنحضرت مسلم کے بعد ہر ایک قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہے اس لیے انہوں نے لوگوں کو ٹھوکر سے بچانے کے لیے فرمایا کہ قولوا خاتم النبین ولا تقولوا لا نبي بعده بینی تم لوگ یہ کہا کرو کہ رسول کریم خاتم النبین ہیں لیکن یہ کہا کرو کہ آکے بعد کوئی نبی نہیں.حضرت عائیشہ خود تو اپنی فراست اور نبی کریم کے قرب کی وجہ سے اس بات کو
۱۱۲ کا لفصل جلد ۱۴ خوب سمجھتی تھیں کہ لا نبی بعدی کے وہی معنی ہیں جو خاتم النبین کے ہیں لیکن آپ نے عوام الناس کو ٹھوکر سے بچانے کے لیے فرمایاکہ قولوا خاتم النبيين ولا تقولوا لا نہیں بعدہ مگر وائے قسمت مسلمانوں کی کہ میں ٹھوکر سے انکو ان کی مادر شفق نے متنی کردیا تھا انہوں نے اسی جگہ ٹھوکر کھائی.اس جگہ یہ یاد رہے کہ آجتک نبوت تین قسم پر ظاہر ہوچکی ہے اول تشریعی نبوت جس کی دو موٹی مثالیں موسی کی نبوت اور نبوت محمدیہ میں ایسی نبوت کو مسیح موعود نے حقیقی نبوت کے نام سے پکارا ہے.دوئیم وہ نبوت جس کے لیے تشریعی یعنی حقیقی منافرودی نہیں بلکہ صرف اتنا ضروری ہے کہ وہ بلا واسطہ جناب باری تعالٰی کی طرف سے ملے جیسے عیسی یمنی داؤد سلیمان اور ذکریا علیہم السلام کی نبوتیں یہ لوگ گو موسی کی شریعیت کے پابند تھے اور ان کاشن صرف تورات کی اشاعت تھا لیکن تاہم انہوں نے موسی کی اتباع کی وجہ سے نبوت نہیں پانی کیونکہ تورات کی تعلیم و و خصوصیات زمانی اور مکانی کے اس درجہ کی نہ تھی کہ اس پر کار بند ہونے کی وجہ سے کوئی شخص نبوت کا درجہ پا سکے بلکہ ایک حد تک تورات انسان کو چلاتی تھی اور پھر جبکو اللہ تعالیٰ نے نبوت کا درجہ دینا ہوتا تھا اور براہ راست بلند کر کے نبوت عطا کی جاتی تھی اسی نبوت حضرت مسیح موعود کی اصطلاح میں مستقل بنوت ہے تیسری قسم نبوت کی ظلی نبوت ہے جنکے یہ معنی ہیں کہ ن تو انسان کوئی نئی شریعت لائے جس سے حقیقی نبی بنجاتا ہے جیسے موسیٰ اور نہ اُسے براہ راست نبوت ملی ہو جس سے مستقل نبی کہلاتا ہے جیسے عیسی بلکہ ایک ایسے کامل انسان کی اتباع کی وجہ سے نبوت ملے جسکے قدم بقدم چلنا نبوت کے درجہ تک پہنچا دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسی نبوت بھی کر یم کلم سے پہلے ممکن تھی کیونکہ آپے پہلے کوئی ایسا شخص نہ گذرا تھا جسکی کامل اتباع کی وجہ سے اللہ تعالی کی طرف سے نبوت مل سکے اور نہ قرآن کریم سے پہلے کوئی ایسی کتاب تھی جسپر پورے طور پر کاربند ہونے سے انسان نبوت کا درجہ حاصل کر سکے یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم سے پہلے حقیقی اور مستقل نبی تو ہوتے رہے گرفتی نبی کوئی نہ ہوا کیونکہ آپ سے پہلے دنیا میں کوئی کامل انسان موجود نہ تھا اور قرآن سے پہلے کوئی کامل کتاب نہ تھی مگر آپ کی آمد سے
ریویو ان المجنز آف مستقل اور حقیقی نبوتوں کا دروازہ بند ہو گیا اور ظلی نبوت کا دروازہ کھولا گیا پس اب جو ظلی نبی ہوتا ہے وہ نبوت کی مہر کو توڑنے والا نہیں کیونکہ اسکی نبوت اپنی ذات میں کچھ چیز نہیں بلکہ دہ محمد کی نبوت کا ظل ہے نہ کہ مستقل نبوت اور یہ جو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خلقی یا بروزی نبوت گھٹیا قسم کی نبوت ہے یہ محض ایک نفس کا دھوکا ہے جس کی کوئی بھی حقیقت نہیں کیونکہ علی نبوت کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان نبی کریم مسلم کی اتباع میں استقدر فرق ہو جاوے کہ من تو شدم تو من شدی کے درجہ کو پالے ایسی صورت میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جمیع کمالات کو کس کے رنگ میں اپنے اندر ترم پائیگا حتی کہ ان دونوں میں قرب اتنا بڑھینگا کہ نبی کریم صلعم کی نبوت کی چادر بھی اس پر چڑھائی جائیگی تب جا کر وہ ظلی نبی کہلائیگا پیش جب مغل کا یہ تقاضا ہے کہ اپنے اصل کی پوری تصویر ہو اور اسی پر تمام انبیاء کا اتفاق ہے تو وہ ناداں جو مسیح موعود کی علی نبوت کو ایک گھٹیا قسم کی نبوت سمجھتا یا اسکے معنی ناقص نبوت کے کرتا ہے وہ ہوش میں آوے اور اپنے اسلام کی فکر کرے کیونکہ اس نے اس نبوت کی شان پر حملہ کیا ہے جو مام نبوتوں کی سرتان ہے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ لوگوں کو کیوں حضرت مسیح موعود کی نبوت پر ٹھوکر لگتی ہے اور کیوں بعض لوگ آپ کی نبوت کو ناقص نبوت سمجھتے ہیں کیونکہ میں تویہ دیکھتا ہوں کہ آپ انحضرت صلعم کے بروز ہونے کی وجہ سے ظلی نبی تھے اور اس طقی نبوت کا پایہ بہت بلند ہے.یہ ظاہر بات ہے کہ پہلے زمانوں میں جو نبی ہوتے تھے انکے لیے ہے ضروری نہ تھا کہ ان میں وہ تمام کمالات رکھےجادیں جو نبی کریم مسلم میں رکھے گئے مکہ ہر ایک نبی کو اپنی استعداد اور کام کے مطابق کمالات عطا ہوتے تھے کسی کو بہت کسی کو کم مار شیخ موعود کو کوب نبوت ملی جب اس نے نبوت محمدیہ کے تمام کمالات کو حاصل کر لیا اور اس قابل ہو گیا علی نہیں کہلائے پس قلی نبوت نے بیچ موعود کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا بلکہ آگے بڑھایا اور اسقدر آگے بڑھایا کہ نبی کریم کے پہلو بہ پہلولا کھڑا کیا.اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ عیسی کے لیے یہ ضروری نہ تھا کہ وہ نبی کریم کے تمام کمالات حاصل کر لینے کے بعد ہی بنایا جاتا.دو اورسیلان کے لیے ضروری نہ تھا کہ انکونی کا خطاب تب دیا جاتا جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کمالات سے پورا حصہ لے لیتے اور پھر میں تو یہ بھی کہوں گا کہ موسیٰ کے لیے بھی یہ ضروری نہ تھا
کا لفصل جلد ۱۳ کہ اسے سوقت تک نبوت نہ ملے جب تک وہ محمد صلم کی خوبیوں کو اپنے اندر جمع کر لے کیونکمان ب لوگوں کا کام خصوصیات زمانی اور مکانی کی وجہ سے ایک تنگ دائرہ میں محدود تھا لیکن مسیح موجود چونکہ تمام دنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا گیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے ہرگز نبوت کا خلعت نہیں پہنایا جب تک اس نے نبی کریم کی اتباع میں چلکہ آپکے تمام کالات کو حاصل کر لیا پس مسیح موعود کی نطقی نبوت کوئی گھٹیا نبوت نہیں بلکہخدا کی قسم اس نبوت نے جہاں آقا کے درجہ کو بلند کیا ہے وہاں غلام کو بھی اس مقام پر کھڑا کر دیا ہے جس تک انبیائے نبی اسرائیل کی پہنچ نہیں.مبارک وہ جو اس نکتہ کو مجھے اور ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے اپنے آپکو بچائے.غور کا مقام ہے کہ ہم موسیٰ کو تو صرف اس لیئے نبی کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں اسکو ہی کہا ہے.عیسی کو نبی اللہ صرف اس لیئے جائیں کہ قرآن کریم میں اسکی نسبت نبی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر تب مسیح موعود کا سوال ہونے تو ہم اس اصول کو چھوڑ کر لفظی تاویلات میں پڑ جائیں.موسی اور غیبی کی نبوت کا ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں سوائے اسکے کہ اللہ کے کلام نے انکو بطور نبی کے پیش کیا ہے پس جب اُسی فدا کے کلام میں مسیح موعود کو کئی دفعہ نہی کے نام سے پکارا گیا ہے تو ہم کون ہیں کہ اسکی نبوت کا انکار کریں.کیا جس طرح آج سر تیر مسوسال پہلے خدا صادق القول تھا اور اس کا کلام سچا اور غلطی سے پاک تھا اس زمانہ میں وہ نعوذ باللہ صادق القول نہیں ہے اور اس کا کلام اس قابل نہیں رہا کہ انسان اسکو سنتا جان سکے اور اسپر ایمان لے آئے.نعوذ باللہ من ذلک.غرضیکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ مسیح موعود اللہ تعالیٰ کا ایک رسول اور نبی تھا اور و ہی نہی تھا جس کو نبی کریم صلعم نے نبی اللہ کے نام سے پکارا اور وہی نہیں تھا جسکو خود اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی میں یا ایھا النبی کے الفاظ سے مخاطب کیا ہاں مسیح موعود صرف نبی نہیں بلکہ ایک پہلو سے نہیں اور ایک پہلو سے امتی تانبی کریم کی قوت قدسیہ اور کمال فیضان ثابت ہو.اسجد یک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ہی کر یم کی قوت قدسی کا اچھا ایمان ہے کے موسی کی شریعت کی خدمت کے لیے تو سینکڑوں نہیں آئے مگر امت محمدیہ میں ایسا شخص
نمبر ۳ ریویو افت ایمیجز 110 صرف ایک ہی نکلا جسکو رسالت اور نبوت کا درجہ عطا کیا گیا حالانکہ کہا جاتا ہے کہ امت محمد یونسی کی امت سے شان میں ہزار ہا درجہ بڑھکر ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ موسیٰ کو جو کتاب دی گئی تھی وہ کئی لحاظ سے ناقص تھی مثلا س سے بڑا نقص اس میں یہ تھا کہ اس میں دعاوی بھی عادی بھرے ہوئے تھے مگر دلائل نہ تھے اس لیئے ضرورت پیش آتی تھی کہ تو رات کے قیام کیلئے پے در پے نبی بھیجے جائیں تا وہ اپنے معجزات کی مدد سے اسکو خدا کا کلام ثابت کرتے رہیں جب ایک نبی مر جاتا اور اس کے معجزات لوگوں کے لیے قصے کہانیاں ہو جاتے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ تو رات ایک مردہ جسم کی طرح رہ جاتی تھی کیونکہ اس کے اندر مجوز ات اور زندہ نشان اور بینات موجود نہیں تھے اس لیے فورا دوسرے نبی کو کھڑا کیا جاتا تھا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ معجزات دکھائے اور لوگوں پر اپنی سچائی ظاہر کر رہے اور پھر اپنی وساطت سے تو رات پر لوگوں کو قائم کرے لیکن قرآن کے ہر ایک دعوئی کے ساتھ دلائل موجود ہیں اور اسلیئے قرآن کو ایسے نبیوں کی ضرورت نہیں جو لوگوں کو آکر پہلے کچھ معجزات دکھا ئیں اور پھر قرآن پر ایمان پیدا کر ائیں ہاں امت محمدیہ میں ایسے لوگ بے شک ہوتے رہے ہیں جو اللہ کی طرف سے ان غلطیوں کے ذحد کر نیکے کام پر لگائے جاتے تھے جو عوام الناس کو قرآن کریم کے سمجھنے میں وقتاً فوقتاً پیدا ہوتی ہی ہیں اور یا اُن کا یہ کام ہوتا تھا کہ لوگوں کو قرآن کریم کی طرف متوجہ کرتے رہیں اور انکو اعمال میں سست نہ ہونے دیں مگر قرآن کریم تو رات کی طرح مردہ کبھی نہیں ہوا تا اسے نبیوں کی ضرورت پیش آتی ہاں نبی کریم کی اُمت میں سے ایک نبی ضرور ہونا تھا اور وہ اس طرح کہ نبی کریم نے پیشگوئی کی تھی کہ میری امت پر ایک وقت آئیگا کہ انکے درمیان سے قرآن اٹھ جائیگا اور ایمان ثریا پر چلا جائیگا اب ایک شخص کو خدا کھڑا کہ کیا تو گم شده قرآن کو دوبارہ دنیا میں لائیگا اور امت محمدیہ کو پھر شریعت اسلام پر قائم کر یگا پس اب معاملہ صاف ہے چونکہ قرآن کو کسی نبی کے ذریعہ بیرونی دلائل کی ضرورت نہیں اس لیئے جب تک وہ دنیا میں موجود رہا کوئی نبی مبعوث کیا گیا لیکن جب قر آن حسب پیشگوئی بھر صادق دنیا سے مفقود ہوگیا تب ضرورت پیش آئی کہ ایک نبی کو بھیجک اس پر دوبارہ
114 الفصل جلد قرآن کریم کاتارا جاوے تا قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ پورا ہو اور یہ نبی کوئی اور نہیں ہے بلکہ خود محمد رسول اللہ صلیم ہے جو بروزی رنگ پر دنیا میں آیا کیونکہ غیر کے آنے سے مہر نبوت ٹونتی ہے.دوسرے یہ کہ چونکہ خاتم النبین کی بعثت سے پہلے نبوت مستقل کا دروازہ کھلا تھا اس لیئے موسیٰ کی امت میں بہت نبی آئے کیونکہ ان کے لیے یہ ضروری نہ تھا کہ جب تک وہ نبوت کے تمام کمالات کو حاصل نہ کرلیں انکو نبوت نہ ملے بلکہ ہر ایک زمانہ کی ضروریات کے مطابق نبیوں میں نہ کیلئے کمالات رکھے جاتے تھے لیکن خاتم النبین کی بہشت سے نبوت مستقلہ کا دروازہ ہمیشہ کے بند ہو گیا اور خلقی نبوت کا دروازہ کھولا گیا جسکے یہ معنی ہیں ہم کو بد بوت صرف اسی کو مل سکتی ہے.جو آپکی اتباع میں اسقدر آگے نکل گیا ہو کہ اسکا اپنا وجود درمیان میں نہ رہے کیونکہ ظل کا یہ تقاضا ہے کہ اپنے اصل کی کامل تصویر ہو اب اگر آپ کے بعد بھی بہت سے نبی آجا.تے تو پھر آپ کی شان لوگوں کی نظروں سے گر جاتی کیونکہ آپکے بعد بہت سے نبیوں کے ہونے کے یعنی ہیں کہ نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلعم کا درجہ اتنا معمولی ہے کہ بہت سے لوگ محمد رسول اللہ بن سکتے ہیں کیونکہ جو کوئی بھی ظلی نبی ہوگا وہ بوجہ نبی کریم صلعم کے تمام کمالات حاصل کر لینے کے محمد رسول ہی کہلائے گا.پس اس لیے امت محمدیہ میں صرف ایک شخص نے نبوت کا درجہ پایا اور باقیوں کو یہ رتبہ نصیب نہیں ہوا کیونکہ ہر ایک کا کام نہیں کہ اتنی ترقی کر سکے.بیشک اس امت میں بہت سارے ایسے لوگ پیدا ہوئے جو علماء امتی کا بنیاء بنی اسرائیل کے حکم کے ماتحت انبیائے بنی اسرائیل کے ہم پہ تھے لیکن ان میں سوائے مسیح موعود کے کسی نے بھی بھی کریم کی اتباع کاتا نمونہ نہیں دکھایا کہ نبی کریم کا کامل ظل کہلا سکے اس لیئے نبی کہلانے کے لیے صرف مسیح موجود مخصوص کیا گیا.ہاں اگر نبوت مستقلہ کا دروازہ اس امت میں گھلا ہوتا تو یقیناً اس امت کے نبیوں کی تعداد انبیائے بنی اسرائیل سے بہت بڑھ جاتی پس بے شک نبیوں کی تعداد کے لحاظ سے موضوعی سلسله محمدی سلسلہ پر ایک گونہ فوقیت رکھتا ہے جگہ یہ فوقیت اسی قسم کی ہر جیسی بنی اسحاق کو بنی اسماعیل پر حاصل ہے.لا ریب اسرائیل عورتوں نے کئی ایسے بیٹے جنے جو نبی کہلائے گار خدا کی قسم آمنہ کے بطن سے
ریویو آف ریلیجنز 116 جو بیٹا پیدا ہوا اسکے مقابل اگر اسرائیل خاندان کے سارے بیٹے بھی ترازو میں رکھے جاویں تو تب بھی اسمعیلی پا اضر ور بھکار ہیگا اسی طرح اور ٹھیک اسی طرح بیشک تو رات کو بہت سے نبی خدمت کے لیے عطا ہوئے لیکن قرآن کی خدمت کے لیے جو نبی امت محمدیہ میں پیدا کیا گیا وہ اپنی شان میں کچھ اور ہی زنگ رکھتا ہے.علاوہ اسکے ہیں یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ مسیح موعود تمام انبیاء کا مظہر ہے جیسا کہ اسکی شان میں اللہ تعالی فرماتا ہے جری اللہ فی حلل الا نبیاء اسلئے اسکے آنے سے گویا امت محمدیہ میں تمام گذشتہ نبی پیدا کیئے گئے پس نبیوں کی تعداد کے لحاظ سے بھی محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ سے بڑھکر رہا کیونکہ علاوہ ان نبیوں اور رسولوں کے جو توریت کی خدمت کے لیے موسیٰ کو عطا ہوئے تھے اس امت میں وہ تمام نبی بھی مبعوث کیئے گئے جو موسی سر پہلے گزر چکے تھے بلکہ خود موسیٰ بھی دوبارہ دنیا میں بھیجے گئے اور یہ سب کچھ مسیح موعود کے وجود باجود میں پورا ہوا پران کیا یہ پرلے درجہ کی بے غیرتی نہیں کہ جہاں ہم لا نفرق بین احد من سر سلہ میں داؤد اور سلیمان زکریا اور بیٹی علیهم السلام کو شامل کرتے ہیں وہاں میں موجود جیسے عظیم الشان نبی کو چھوڑ دیا جاوے.کیا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حقیقی اور مستقل نبیوں کا ذکر کیا ہے.اگر ایسا ہے تو اس کا ثبوت پیش کیا جاوی ظاہر ہے کہ اس آیت کریمہ میں رسول کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.اب جس طرح رسول کا لفظ حقیقی اور مستقل نبیوں پر بولا جائیگا اسی طرح ملتی اور بروزی نبی پر بھی بولا جائیگا در نہ گرفتی اور بروزی نبی کو صرف نہی کے نام سے پکارنا جائز نہیں تو کیوں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو بار ہانبی اور رسول کے الفاظ سے یاد کیا.خدا نے تو اپنے کلام میں کبھی بھی لی یا بروزی کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ہمیشہ صرف نبی اور رسول کے الفاظ استعمال کرتا رہا پس اگر مسیح موعود کو صرف نبی کے نام سے پکارنا جائز نہیں تو نعوذ باللہ سے پہلے نا جائز حرکت کر نیوالا خود خدا ہے.مگر دراصل ہمارا نفس کا دھوکا ہے کیونکہ جس طرح حقیقی اور مستقل نبوتیں نبوت کی اقسام ہیں اسی طرح علمی اور بروزی نبوت بھی نبوت کی ایک قسم ہے مگر تم حقیقی استقل نیوں کو ہمیشہ صرف نبی کے نام سے پکارتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ظلی نبی کو نبی کے نام سے
١١٨ كالفصل نہ پکار سکیں اسکی ایسی ہی مثال ہے جیسے اگر شیر تین قسم کے ہوتے ہوں ایک سفید ایک سرخ اور ایک زرد تو ہم سفید اور سرخ شیر کو تو شیر کہیں مگر زرد شیر کو شیر کے نام سے نہ پکاریں ظاہر ہے کہ شیر کا زرد ہونا اسے شیر ہونے کی حیثیت سے نیچے نہیں گرا دیتا اسی طرح مسیح موعود کا علی نبی ہوتا مسیح موعود سے نبوت کو نہیں چھینتا بلکہ صرف نبوت کی قسم ظاہر کرتا ہے اور اگر ایک چیز کی قسم بتانے سے اس چیز کی ہستی باطل ہو جاتی ہے تو نعوذ باسد نبی کریم کی نبوت بھی باطل ٹھہرتی ہے کیونکہ آپ کی نبوت بھی تشریعی نبوت تھی جو نبوت کی ایک قسم ہے پس یہ ایک بچوں کا سا خیال ہے کہ لا نفرق بین احد من رسلہ میں حقیقی ہو تنتقل نی تو شامل ہیں مگر ظلی نبی نہیں کیونکہ جس طرح حقیقی اور مستقل نبوتیں نبوت کی قسمیں ہیں.اسی طرح ظلی نبوت بھی نبوت کی ایک قسم ہے اور جو حقیقی اور مستقل نبیوں کو حقوق مال ہیں وہی ظلی نبی کو بھی حاصل ہیں کیونکہ نفس نبوت میں کوئی فرق نہیں.دراصل یہ سارا د ھو کا نموت کے حقیقی معنوں پر غور نہ کرنے سے پیدا ہوا ہے.حضرت مسیح موعود ۴ برا ہمیں حصہ پنجم صفحہ ۱۳ میں لکھتے ہیں کہ نبی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ شریعت لائے اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ کسی صاحب شریعت نبی کا متبع نہ ہو بلکہ نبی کے لیے صرفت اسی قدر ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالٰی سے بکثرت امور غیبیہ سے اطلاع پائے اور خدا اس سے کثرت کے ساتھ مکالمہ مخاطبہ کرے اور اپنی وحی میں اس کا نام نبی رکھے پس اگر کسی افسان میں یہ تین باتیں جمع ہیں تو لاریب وہ نبی ہے.باقی رہا نبوت کی قسم کا سوال سوا سکے متعلق میں اور پر لکھ آیا ہوں کہ اب حقیقی نبوت اور نبوت مستقل کا دروازہ قطعی طور پر بند ہے اور جو کوئی بھی قرآن کے بعد نئی شریعت لانے کا دعوی کرتا ہے یا کہتا ہے کہ نبی کریم سے آزاد رہ کرمجھ کو نبوت ملی ہے وہ پکا کا فرادر دائرہ اسلام سے خارج ہے مگر ظلی نبوت کا دروازہ بند نہیں اور اسی قسم کی نبوت کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی کیا ہے.اس جگہ میں یہ بات بھی بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مضمون میں جہاں کہیں بھی حقیقی بوت کا ذکر ہے وہاں اس سے مراد ایسی نبوت ہے جسکے ساتھ کوئی نئی شریعت ہو ورنہ حقیقی کے لغوی معنوں کے لحاظ سے تو ہر ایک نبوت حقیقی ہی ہوتی ہے جعلی یا فرضی نہیں اور مسیح
ریویو آن بالمسجد 119 موجود بھی حقیقی نبی تھا اور جہاں کہیں بھی مستقل نبوت کا ذکر ہے وہاں ایسی نبوت مراد ہے جو کس کی بلا واسطہ بغیر اتباع کسی نبی سابقہ سے بھی ہو ورنہ مستقل کے لغوی معنوں کے لحاظ سے تو ہر ایک نبوت مستقل ہوتی ہے عارضی نہیں اور مسیح موعود بھی مستقل نہی تھا.فقیر پس اب کوئی شخص مسیح موعود کی فعلی نبوت کا انکار کر دے تو کر دے مگر آپ کو ظلی نبی مانگر پھر اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ آپ کے منکرین کی نسبت وہی فتوئی ہے جو قرآن کریم نے انبیاء کے منکرین کے متعلق بیان فرمایا ہے.یہ ایک موٹی سی بات ہے کہ جب مسیح موعود و خدا کا ایک رسول اور نبی ہے تو پھر اسکو وہ سارے حقوق حاصل ہیں جو اور نبیوں کو میں اور اس کا انکار ایسا ہی ہے جیسے اللہ تعالٰی کے کسی اور نبی کا انکار.اب ظاہر ہے کہ جو شخص مسیح موعود کا انکار کرتا ہے وہ اللہ تعالٰی کے رسولوں میں تفریق کرتا ہے یعنی باقی رسولوں کو تو مانتا ہے.گر مسیح موعود کو نہیں مانتا اس لیے اسکی طرف یہ قول منسوب نہیں کیا جا سکتا کہ لا نفرق بین احمد من رسلہ کیونکہ اس نے مسیح موعود کے انکار سے رسولوں میں تفریق کر دی پس اس لیے وہ حق نہیں رکھتا کہ اسے مومن کے نام سے پکارا جاوے یہ ہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے دوسری جگہ ایسے لوگوں کو جو خدا کے بعض رسولوں کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے پتا کافر کہنا ہے جیسا کہ پارہ ششم کے شروع میں آتا ہے :- ان الذين يكفرون بالله ورسله ويريدون ان يفرقوا بين الله ورسله ويقولون نومن ببعض و نكفر ببعض ويريدون ان يتخذوا بين ذلك سبيلا او ليك هم الكافرون حقا و اعتدنا للفرين عذاب جھینا.اب کہاں ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مسیح موعود کا انکار و ایمان نہیں ہے امریکہ مسیح موعود کے انکار کی وجہ سے کفر لازم نہیں آتا وہ خدا برا غور کریں کہ اللہ تعالٰی نے صاف الفاظ میں ایسے لوگوں کو کافر کے نام سے پکارا ہے جو اسکے سارے نبیوں کو نہیں مانتے اور اگر یہ کہا جاوے کہ اس آیت میں رسل سے مراد صرف وہی رسول ہیں جو نبی کر ٹیم تک آپکے اور آپ کے بعد آنیوالا کوئی رسول اس میں شامل نہیں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم تو
۱۲۰ كلمة الفصل جلد قرآن کے پیچھے چلنے والے ہیں اگر آپ اس آیت میں یہ الفاظ ہم کو دکھا دیں کہ رسل سے مراد مرت وہی رسول ہیں جو نبی کریم تک مبعوث ہو چکے تو ہم بسر وچشم انے کے لیے تیار ہیں گر ظلم تو یہ ہے کہ آیت کریمہ میں کوئی تخصیص نہیں کی گئی بلکہ رسل کا لفظ رکھا گیا ہے جو بوجہ نکرہ ہونے کے عمومیت کو چاہتا ہے پیس اب ہم کون ہیں کہ اپنی طرف سے تخصیص کریں اور ایک عام لفظ کو پلا کسی پختہ دلیل کے خاص معنوں میں محدود کر دیں.در اصل بات یہ ہے کہ ہر ایک زمانہ کے لیے ایمان کی جزئیات مختلف ہوتی ہیں.فرعون کو موسیٰ سے انکار کے متعلق سوال کیا جائیگا مگر میسی کے بارے میں اس سے کوئی سوال نہ ہوگا یہ اس لیے کہ فرعون کی سطر صرف موسیٰ اور اپنے پہلے گزرے ہوئے انبیا نڈ کو مانا جز و ایمان تھا عیسی کو اتنا بھی جزو ایمان با تاکی کا بھی ایک عینی مبعوث کیا گیا تھا اس طمع عیسی کے راز کےلوگوں کیلئے میٹی کا انا توجہ ایمان ضرور تھالیا بی کریم کا انتا بھی نہ کیا ایمان میں داخل ہوا تھا کیونکہ آپ بھی دنیا میں امر تھے اس طرح نبی کریم کے ان میں میں موجود کو امن امان کا جز نہ تھا مسیح موعود اللہ تعالی طرب رسول نگر گیاتو اسکا مان بھی جن کا بیان یا ایا این که با این امیری کانوں کان کے نام سر کار گیا ہر ایک اصول کے زرنگ پر ہے اور وہ زمانی اور مکانی نہیں بلکہ ہر زمانہ اور ہر جگہ کے لیے ہے اس لیے جب وہ زمانہ آیا کہ امت محمدیہ کے ایک فرد کے سر پر رسالت اور نبوت کا تاج مزین کیا گیا تو اس آیت کے لفظ رسل کے مفہوم میں بھی ایک اور رسول کی زیادتی ہو گئی.پس یہ کہنا غلط اور بالکل غلط ہے کہ آیت مذکورہ بالا میں اور تو سارے رسول شامل گر مسیح موعود شان نہیں ہے کیا اس خیال سے اس بات کی بو نہیں آتی کہ کہنے والے کو مسیح موعود کی ذات سے کوئی خاص نقار ہے کہ اُسے اللہ تعالٰی کے اس انعام سے محروم کرنا چاہتا ہے جواللہ تعالی نے خود اسے عطا فرمایا ہے قد بدت البغضاء من افواههم وما تخفى صدورهم أكبر کیا خلیفہ اول کو مہدی جاننے والے اپنے مہدی کی بات ماننے کو تیار ہیں ؟ وہ سنہیں کہ میں اُس خدا کی قسم کھا کہ کہتا ہوں کہ جسکی جھوٹی قسم کھانا ایک لعنتی آدمی کا کام ہے کہ پینے اپنے کانوں سے حضرت خلیفہ المسیح خلیفہ اول کو اولئك هم الكافرون حقاً
ریویو آفت هیجز ۱۲۱ والی آیت کو غیر احمدیوں پر چسپاں کرتے ہوئے اور رسل کے لفظ میں حضرت مسیح موعود کو شامل کرتے ہوئے سُنا ہے.مجھے ایک عرصہ گزر جانے کی وجہ سے حضرت خلیفتہ المسیح اول کے الفاظ یاد نہیں ہیں گر مجھے یہ اچھی طرح یاد ہے کہ آپنے مذکورہ بالا آیت کو خیر احمدیوں پر چسپاں کیا بلکہ سننے والوں نے اس دن تعجب بھی کیا تھا کہ حضرت مولوی صاحب نے خلاف عادت صریح الفاظ میں مسئلہ کفر کی تصدیق فرمائی ورنہ عام طور پر مولوی صاحب کی عادت تھی کہ اگر کوئی آپ سے اس مسئلہ کے متعلق سوال کرتا تو آپ یہ کھڑ ٹال دیا کرتے تھے کہ تمھیں دوسرے کے کفرد اسلام سے کیا تم اپنی فکر کہ وہ سی طرح مولوی صاحب کی ایک تحریری شہادت بھی ایمان بالرسل کے متعلق موجود ہے اور آج سے چار سال پہلے چھپ چکی ہے آپنے فرمایا اور ایمان کے یے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالی پر ایمان ہو اسکے ملائکہ پر کتب سماویہ پر اور رسل پر اور خیر وشر کے اندازہ پر اور بحث بعد الموت پر.اب غور طلب امر یہ ہے کہ ہمارے مخالف بھی یہی مانتے ہیں اور اس کا دعوی کرتے ہیں لیکن یہاں سے ہی ہمارا اور انکا اختلاف شروع ہو جاتا ہے.ایمان بالرسل اگر نہ ہو تو کوئی شخص مومن مسلمان نہیں ہو سکتا.اور ایمان بالرسل میں کوئی تخصیص نہیں عام ہے خواہ وہ نہی پہلے آئے یا بد دیں یا بندی اور ہندوستان میں ہوا کہ میں کسی مامور من اللہ کا انکار کفر ہو جاتا ہے.ہمارے مخالف حضرت مرزا صاحب کی ماموریت کے ملک میں اب بتاؤ کہ یہ اختلاف فروٹی کیونکہ ہوا.قرآن مجید میں تو لکھا ہے لا نفرق بین احد من رسله - لیکن حضرت مسیح موعود کے انکار میں تو تفرقہ ہوتا ہے.رہی یہ بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید میں خاتم النبین فرمایا.ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہمارا یہ ہے کہ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین یقین نہ کرے تو وہ بالاتفاق کا ذ ہے.یہ جدا امر ہے کہ ہم اس کے کیا معنی کرتے ہیں.اور ہمارے مخالف کیا.اس خاتم النبین کی بحث کو لا نفرق بين احد من رسله سے تعلق نہیں وہ ایک الگ بھر ہے اس لیے میں تو اپنے اور غیر احمدیوں کے درمیان اصولی فرق سمجھتا ہوں ؟
WF کا لفصل جلد ۱۴ اس تحریر سے ہم کو اتنی باتوں کا پتہ لگتا ہے اول یہ کہ حضرت مولوی صاحب کا یہ عقیدہ تھا.که مسلمان کہلانے کے لیے ایمان بالرسل ضروری ہے دوسرے یہ کہ رسل کے مفہوم میں سارے رسول شامل ہیں خواہ کوئی رسول نبی کریم صلعم سے پہلے آئے یا بعد میں ہندوستان میں ہو یا کسی اور ملک میں.تیسرے یہ کہ حضرت مسیح موعود بھی اللہ تعالی کے ایک رسول تھے اور ایمان بارسل میں آپ پر ایمان لانا بھی شامل ہے.چوتھے یہ کہ جو مسیح موعود کو نہیں مانتادہ اللہ کے رسولوں میں تغفرقہ کرتا ہے اس لیے وہ کافر ہے.اب کہاں ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب غیر احمدیوں کو مسلمان سمجھا کرتے تھے وہ دیکھیں کہ ذکورہ بالا تحریر ان کے سارے دجالی علیکم پاش پاش کر دیتی ہے میرا یہ مطلب نہیں کہ حضرت مولوی صاحب مقید میں ہمارے لیئے حکم میں کیونکہ حکم صرف وہی ہے جس کو خدا کے رسول نے حکم کے نام سے پکارا ہے نیز میرا ایمان ہے کہ غیر احمد خلیفہ عقائد میں حکم نہیں ہو سکتا اور اس سے اختلاف رکھنا نا جائز نہیں، اس لیے حضرت مولوی صاحب کے عقیدہ کو بیان کرنے سے میرا مطلب صرف اسقدر بتانا ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کفر کے مسئلہ میں حضرت میاں صاحب کے خلاف تھے یہ بالکل غلط اور خلاف واقعہ ہے دوسرے چونکہ حضرت مولوی صاحب تمام احمدیوں کی نظر میں دینی علوم کے اُستاد تھے اور رموز قرآن سے خوب ماہر اسلیئے آپ کا عقیدہ اہل حقل کیلئے بہت وزن رکھتا ہے تیرے لیئے اس لیے بھی حضرت مولوی صاحب کے عقیدہ کو بیان کیا ہے تا وہ ان لوگو نیر صحت ہو جو حضرت مولوی صاحب کو آپ کی وفات کے بعد مہدی موعود کا درجہ دینے لگ گئے ہیں.اب میں پھر اس مضمون کی طرف آتا ہوں جو میں بیان کر رہا تھا یعنی قرآن کریم نے سیح موعود کے منکروں کے لیے کیا فتوی دیا ہے.میں پہلے بتا آیا ہوں کہ قرآن کریم نے مومن کہلانے کے لیے ایمان بالرسل کو ضروری قرار دیا ہے جیسے فرمایا کا نفرق بین احدا من سلے اور پھر اسی مضمون کی تشریح ایک اور آیت میں یوں کر دی کہ جو شخص بعض رسولوں کو مانتا ہے اور بعض کو نہیں.وہ پکا کا فر ہے جیسا کہ اوليك هم الكافرون حقا والی آیت سے ظاہر ہے.اب میں یہ بتانا چاہتا ہو کہ اللہ تعالی نے اپنے کلام میں دو
نمبر ۳ ریویو ان المجنز ۱۲۳ شخصوں کی رہے بڑا کافر بیان فرمایا ہے اول وہ جواللہ تعالٰی کی طرف کوئی چھوٹی بات منسوب کرتا ہے؟ شلا کتا ہے کہ مجھے اللہ تعالی نے الہام کیا ہے حالانکہ در حقیقت اسے کوئی الہام نہیں ہوا.دوسرے وہ جو خدا کے کلام کی تکذیب کرتا ہے جیسے فرمایا ومن اظلم ممن افترى على الله كذباً ، وكذب بانته راس آیت میں ظالم سے کا زمراد ہے اور حضرت مسیح موعود نے بھی ظالم کے یہی معنی کیئے ہیں دیکھو حقیقۃ الوحی محفو ۱۶۳ حاشیہ) اب مسیح موعود کا یہ دعوئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نامور ہے اور یہ کہ اللہ تعالی اسکے ساتھ ہم کلام ہوتا ہے وہ حالتوں سے خالی نہیں.یا تو دو و نعوذ باللہ اپنے دھوئی میں جھوٹا ہے اور محض افتر کی علی اللہ کے طور پر دعوی کرتا ہے تو ایسی صورت میں نہ صرف وہ کا فریبلکہ بڑا کا فر ہے اور یا مسیح موعود اپنے دعونی امام میں سچا ہے اور خدا کی ہے اس سے ہم کلام ہوتا تھا تو اس صورت میں بلا شبہ یہ کفرا انکار کر نیوالے پر پڑیگا جیسا کہ الله نے اس آیت میں خود فرمایا ہے.پس اب تم کو اختیار ہے کہ یا مسیح موعود کے منکروں کو مسلمان امکہ مسیح موعود پر کفر کا فتونی لگاؤ اور یا مسیح موعود کو سچا مانگر اسکے منکروں کو کا فرجانا کے نہیں ہو سکتا کہ تم دونوں کو مسلمان سمجھو کیونکہ آیت کریمہ صاف بتا رہی ہے کہ اگر می کافر نہیں ہے تو مکذب ضرور کا فی ہے پس خدا را اپنا نفاق چھوڑو اور دل میں کوئی فیصلہ کرو.دنیا کے اموال چند روزہ ہیں پھر اس خدا کی طرف جانا ہے جسکے دربار کا مسیح موعود ایک معزز کرسی نشین ہے دیکھو دو کشتیوں میں پاؤں نہ رکھو کیونکہ ان سے ایک نے ضرور غرق ہوتا ہے اگر تم کو مسیح موعود کے دعاوی کے متعلق کوئی شکوک پیدا ہو گئے ہیں تو انپر دوبارہ غور کر لو شاید اللہ تعالی مشکلات حل کر دے.آخر تم احمد کے نام لیوا ہو کچھ تو اسکی عزت کا پاس کر دیغیروں کو خوش کرنے کے لیے تم اس شخص کی شان میں گستاخی کر رہے ہو جسکے نام کے ساتھ خدا کا نام اس زمانہ میں وابستہ ہے لیکن خوب جان رکھو کہ تم اسکے درجہ ہوگا نہیں سکتے کیونکہ للہ تعالی نے اسکے ساتھ وعدہ کیا ہوا ہے کہ انی مهین من اراد اهانتك - الله تعالی تمپر اپنا رحم کرے.مبشرا برسول یا تی من بعدی اسمہ احمد کی بحث کے لیئے دیکھو باب الهامات حضرت مسیح موعود
۱۲۴ كلمة الفصل جلد ۱۴ باب دویم اس باب میں حضرت مسیح موعود کی بعض ان تحریروں کو متورطور پر لکھا جائیگا جن میں آپنے اپنی منکروں کو کافر کے نام سے پکارا ہے.لیکن اس سے پیشتر ایک دھوکے کا ازالہ کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا جو بعض لوگوں کے لیے ٹھوکر کا موجب ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود نے اپنی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ میرے انکار سے کفر لازم نہیں آتا اور میرا منکر گواہمی مواخذہ کے نیچے ہوگا گر تا ہم وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں.سو اس کے متعلق خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ انبیاء اپنے عقائد میں اس قدر محتاط ہوتے ہیں کہ وہ کوئی نئی بات نہیں کہتے جب تک اللہ تعالی کا صریح الہام اس کا حکم نہ دے مثال کے طور پر دیکھو حضرت مسیح موعود نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں لکھا ہے کہ مسیح ناصری آسمان پر ہے اور زمین پر نازل ہوگا اور قریباً بارہ برس اس عقیدہ کا اعلان کیا حالانکہ آپ کو الہام ہو چکا تھا کہ تو ہی آنے والا عینی ہے مگر آپ ایسے الہامات کی تاویل فرماتے رہے مگر بعد میں لکھا کہ وہ میسیج مر گیا ہے اور آنیوالا مسیح میں ہی ہوں.ان دونوں عبارتوں میں ایک ظاہر بین شخص کی نظر میں تناقض ہے مگر ایک مومن خوب سمجھتا ہے کہ پہلا عقیدہ عام عقیدہ کی بنا پر کھا گیا تھا اور بد کا عقیدہ الہی الہام کی بنا پر ہے تناقض تو اس صورت میں ہوتا جب اپنے اجتہاد کی بنا پر دونوں عقائد کا اظہار کیا جاتا اس طرح فضیلت بر سیج ناصری کا عقیدہ ہے اسکے متعلق بھی حضرت مسیح موعود نے ایک وقت میں ایک خیال ظاہر کیا مگر دوسرے وقت میں اسکے خلاف کیا اسی طرح نبوت مسیح موعود کا عقیدہ ہے آپ اوائل میں اپنے آپ کو جزوی نبی اور محدث کے طور پر پیش کیا کرتے تھے حالا نکو برا امین کے وقت سے ہی آپ کو نبی اور رسول کے ناموں سے پکارا جا چکا تھا مگران الفاظ کی تا دیل فرماتے رہے لیکن جب مد میں ندا کی طرف سے آپ کو صریح طور نبی کا خطاب دیا گیا اور اس کے متعلق خدا کی وحی آپ پر بارش کی طرح نازل ہوں تو اُس نے آپ کی اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اس لیے آپنے اسکے خلاف کیا اور اپنے آپ کو کامل اور ظلی نبی کے طور پر پیش کیا پس ان باتوں کے ہوتے
نمبر ۳ ریویو آن سلمجز ہوئے کار ہم حضرت میں موجود کی شروع کی کتابوں میں کسی ایسی تحریر کو پڑھیں میں میں لکھا ہو کہ میرے انکار سے کفر لازم نہیں آتا تو ہم کو دھوکا نہ کھانا چاہیئے کیونکہ بعد میں حضرت مسیح مولود کی اس رائے کو اللہ تعالٰی نے اپنے الہام سے بدل دیا جب کہ خود حضرت مسیح موعود عبد الحلی ایران مرتد کے ایک خط کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :- ہر حال جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جسکو سری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ اب میں ایک شخص کے کہنے سے جس کا دل ہزاروں تاریکیوں میں مبتلا ہے خدا کے حکم کو چھو دوں.اس سے سہل تر بات یہ ہے کہ ایسے شخص کو اپنی جماعت سے خارج کرتا ہوں.ہاں اگر کسی وقت صریح الفاظ میں اپنی تو بہ شائع کریں اور اس خبیث عقیدہ سے باز آجاویں تو رحمت اسمی کا دروانی کھلا ہے.وہ لوگ جو میری دعوت کے رد کرنے کے وقت قرآن شریف کی نصوص.یہ کو چھو ہیں اور خدا تعالٰی کے کھلے کھلے نشانوں سے منہ پھیرتے ہیں انکو را استنبازہ قرار دینا اسی شخص کا کام ہے جس کا دل شیطان کے پنجے میں گرفتار ہے ؟ حضرت مسیح موعود کی اس تحریر سے بہت سی باتیں حل ہو جاتی ہیں اول یہ کہ حضرت صاحب کو اللہ تعالی نے الہام کے ذریعہ اطلاع دی کہ تیرا انکار کرنے والا مسلمان نہیں اور نہ صرف یہ اطلاع دی بلکہ حکم دیا کہ تو اپنے منکروں کو مسلمان نہ سمجھے.دوسرے یہ کہ حضرت صاحب نے عبد الحکیم خان کو جماعت سے اسواسطے خارج کیا کہ وہ غیر احمدیوں کومسلمان کہتا تھا.تیسرے یہ کہ مسیح موعود کے منکروں کو مسلمان کہنے کا عقیدہ ایک خبیث عقیدہ ہے.چوتھے یہ کہ جو ایسا عقیدہ رکھے اسکے لیے رحمت الہی کا دروازہ بند ہے.پانچویں یہکہ جو شخص مسیح موعود کی دعوت کو رد کرتا ہے وہ قرآن شریف کی نصوص صریحہ کو چھوڑتا ہے اور خدا کے کھلے نشانات سے منہ پھیرتا ہے.چھٹے یہ کہ جو مسیح موعود کے منکروں کو راستبانی قرار دیتا ہے اس کا دل شیطان کے پنجے میں گرفتار ہے.اب کون ہے جو مسیح موعود کی کسی پہلی تحریر کو پیش کر کے آپ کے انکار کی اہمیت کو گرانا چاہے.کیا وہ ایسے شخص کے
كلام يفصل جل مشابہ نہیں جو حضرت مسیح موعود کی طرف یہ عقیدہ منسوب گرتا ہے کہ سیح ناصری مع جسم عنصری آسمان پر بیٹھا ہے اور اس کے ثبوت میں براہین کی عبارت کو پیش کرتا ہے ؟ خود با صد من یکتا اس جگہ ایک اور مشبہ بھی پڑتا ہے اور وہ یہ کہ جب حضرت مسیح موعود اپنے مسکروں کو حسب حکم الہی اسلام سے خارج سمجھتے تھے تو آپ نے اُنکے لئے اپنی بعض آخری کتابوں میں بھی مسلمان کا لفظ کیوں استعمال فرمایا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر حضرت صاحب انہیں مسلمان نہ لکھتے تو اور لکھتے ؟ کیا وہ یہودی ہیں کہ انہیں یہودی لکھا جاتا ؟ کیا وہ عیسائی ہیں کہ انکو اس نام سے پکارا جاتا ؟ کیا وہ ہندو ہیں کہ انکے متعلق ہندو کا لفظ استعمال کیا جاتا ؟ کیا وہ بدھ مذہب میں داخل ہیں کہ انکو بدھ کے متبعین کے طور پر پیش کیا جاتا ؟ اب جبکہ وہ ان مذاہب میں سے کسی کے ساتھ بھی تعلق نہیں رکھتے تو انکو ان ناموں میں سے کوئی نام کس طرح دیا جا سکتا ہے.کیا قرآن شریف میں عیسی کی طرف منسوب ہو نیوالی قوم کو نصاری کے نام سے یاد نہیں کیا گیا ؟ ضرور کیا گیا اور بہت دفعہ کیا گیا.مگر وہاں معترض نے اعتراض کیا.کہ جب وہ عینی کی تعلیم سے دُور جاپڑے ہیں تو انکو نصاری کیوں کہا جاتا ہے.پھر اب بہار، اعتراض کیا ؟ افس میں بات یہ ہے کہ عرف عام کی وجہ سے ایک نام کو اختیار کرتا پڑتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ چیز اسم بامسمٹی ہوگئی ہے مثلا دیکھو اگر یک شخص سراج دین نامی مسلمان سے عیسائی ہو جاوے تو اسے پھر بھی سراج دین ہی کہیں گے حالانکہ عیسائی ہو جانیکی وجہ سے وہ اب سراج دین نہیں رہا بلکہ کچھ اور بن گیا ہے لیکن عرف عام کی وجہ سے اس نام سے پکارا جا دیگا.معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود کو بھی بعض وقت اس بات کا خیال آیا ہے کہ کہیں میری تحریروں میں غیر احمدیوں کے متعلق مسلمان کا لفظ دیکھ کہ لوگ دھوکا نہ کھائیں، اسلیئے آپ نے کہیں کہیں بطور ازالہ کے غیر احمدیوں کے متعلق ایسے الفاظ بھی لکھ دیئے ہیں کہ وہ لوگ جو اسلام کا دعوی کرتے ہیں ، تا جہاں کہیں بھی مسلمان کا لفظ ہو اس سے مدعی اسلام سمجھا جا دے نہ کہ حقیقی مسلمان.چنانچہ حضرت صاحب تحفہ گولڑویہ صفحو ۱۸ پر تحریر فرماتے ہیں :.ماسی کی طرف حدیث بخاری کے پہلو میں اشارہ ہے کہ امامکم منکم یعنی سب سے نازل ہو گا تو تمھیں دوسرے
نمبر۳ ریویو آت الحر ۱۲۷ فرقوں کو جو دعوائے اسلام کرتے ہیں بکلی ترک کرنا پڑیگا یا پھر اس کے علاوہ اشتہار ایک غلطی کے ازالہ میں حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ معہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیشگوئیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دیے گئے ہیں اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہند و یا یہودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت کہ سکے نبوت کی تمام کھڑا کیاں بند کی گئی ہیں مگرایک مکھڑ کی اس تحریر میں حضرت موعود نے غیر احمدیوں کو ہی مسلمان کے نام سے یاد کیا ہے پس یہ ایک یقینی بات ہے کہ حضرت صاحہ نے جہاں کہیں بھی غیر احمدیوں کو مسلمان کہ کر پکارا ہے وہاں صرف یہ مطلب ہے کہ وہ اسلام کا دھوئی کرتے ہیں ورنہ آپ حسب حکم الہی اپنے منکروں کو مسلمان نہ سمجھتے تھے دیکھو خط حضرت یح موعود بجواب خطاب العلیم خان رقم اس سنت حضرت مسیح موعود کے ایک امام نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے.اور وہ الہام یہ ہے :- چودور خسرو می آغاز کردند مسلمان را مسلمان باز کردند اس العامی شعر میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کے منگروں کو مسلمان بھی کیا ہے اور پھر ان کے اسلام کا انکار بھی کیا ہے ان کو مسلمان تو اس غرض سے کہا گیا کہ وہ دنیا میں اسی نام سے مشہور ہیں اور اگر یہ نام ان کے لیے استعمال نہ کیا جاتا تو پھر پہ کس طرح لگتا کہ کون لوگ مراد ہیں اور پھر انکے اسلام کا اہم کار اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمان نہیں ہیں فتد بردا.اسی حقیقت کو حضرت مسیح موعود ے تحفہ گولڑویہ صفحہ ۸ و ۸۲ میں اشکارا کیا ہے چنا نچھا آپ اپنے زمانہ کے متعلق ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ :.در یہ ایک ایسا مبارک زمانہ ہے کہ فضل اور جودا امی نے مقدر کر رکھا ہے کہ یہ زمانہ پرلوگوں کو سی پڑ کے رنگ میں لائیگا اور آسمان سے کچھ ایسی ہوا چلے گی کہ یہ تہتر فرقے مسلمانوں کے جن میں بجز ایک کے سب عار اسلام اور بدنام کننده اس پاک چشمہ کے میں خود بخود کم ہوتے جائینگے اور تمام ناپاک فرقے جو اسلام میں مگر اسلام کی حقیقت کے منافی ہیں صفحہ زمین سے نابود ہو کر ایک ہی فرقہ رہ جائیں گا جوصحابہ رضی اللہ عنہم کے رنگ پر ہو گا یا حضت مسیح علی
۱۲۸ كالفصل جلد کی یہ تحریر بھی بہت سارے جھگڑوں کے لیے فیصلہ کن ہے کیونکہ اس سے صاف طور پر پتہ لگتا ہے کہ اولی جو حضرت مسیح موعود کی جماعت میں داخل ہوا وہ صحابہ کرام کے زمرہ میں داخل ہو گیا.دوم یہ کہ سلمانوں کے جو تہتر فرقے ہیں ان میں سے سوائے احمدی جنات کے باقی سب عار اسلام ہیں.شوم یکہ تمام غیر احمدی مسلمان اسلام کے پاک چشم کے بدنا نشد ہیں.چہارم یہ کہ وہ اک فرقوں میں داخل ہیں پنجم یہکہ وہ باوجود مسلمان کہلانے کے اسلام کی حقیقت کے منافی ہیں.چھٹے یہ کہ وہ صفحہ زمین سے نابود ہو جائیں گے.پس یہ بالکل یقینی ہے کہ حضرت مسیح موعود نے جہاں کہیں بھی غیر احمدی لوگوں کی سامان کہا یا لکھا ہے وہاں صرف عرف عام کی وجہ سے ایسا کیا ہے ورنہ جو رائے حضرت صاحب نے اپنے منکروں کے متعلق حسب حکم الہی قائم کی تھی وہ مذکورہ بالاحوالوں سے صاف ظاہر ہے جو لوگ حضرت مسیح موعود کے منکروں کو حقیقی مسلمان سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کے انکار سے کوئی شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا وہ خدا را غور کریں اور دیکھیں کہ کہیں وہ نام میں ایسے لوگوں کوتو داخل نہیں کر ہے جو ار اسلام اور بدنام کننده اس پاکتی کے میں اور نا پاک فرقوں میں داخل ہو کر اسلام کی حقیقت کے منافی ہوچکے ہیں.اور پھر ہیں تو یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ وہ اسلام کیا اسلام ہے جو انسان کو نجات نہیں دلا سکتا کیونکہ ہم حضرت مسیح موعود کے صریح الفاظ میں لکھا ہوا پانتے ہیں کہ میرے مانے کے بغیر نجات نہیں جیسا کہ آپ اربعین نمبر ۳ صفحہ ۳۲ پر تحریر فرماتے ہیں کہ :.ایسا ہی آیت و اتخذ و امن مقام ابراهیم مصلے اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب امت محمدیہ میں بہت فرقے ہو جائیں گے تب آخری زمانہ میں ایک ابراہیم پیدا ہوگا اور ان سب فرقوں سے وہ فرقہ نجات پائیگا کہ اس ابراہیم کا پیرو ہوگی پھر براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۸۲ میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ :." انہی دنوں میں سے ایک فرقہ کی بنیاد ڈالی جاونگی اور خدا اپنے منہ سے اس فرقہ کی حمایت کے لیے ایک کرنا بجائیگا اور اس کرنا کی آواز پر ہر ایک سعید اس فرقہ کی طرف کھینچا آئیگا جو ان لوگوں کے جو شقی ازلی ہیں جو دوزخ کے بھرنے کے لیے پیدا کیئے گئے ہیں ؟ ایسا ہی اشتہا •
ریویو آن المجنز رحسین کا می سفیر سلطان روم میں آپ لکھتے ہیں کہ :.کامی ۱۲۹ خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں سے مجھ سے الگ ہیگا وہ کاٹا جا دیگا گیا پھر ایک حضرت مسیح موعود کا الہام ہے جو آپنے اشتہار معیار الاخیار مورخہ ہو سٹی منتشراع صفحہ پر درج کیا ہے اور وہ یہ ہے:.” جو شخص تیری پیروی نہیں کریگا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہیگا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنیوالا اور جہنمی ہے“ اختصار کے طور پر اتنے حوالے دیئے جاتے ہیں ورنہ حضرت مسیح موعود نے بیسیوں جگہ اس مضمون کو ادا کیا ہے.حضرت خلیفہ المسیح قول کا بھی یہی عقیدہ تھا چنانچہ جب ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ حضرت مرزا صاحب کے ماننے کے بغیر نجات کے یا نہیں ؟ و اپنے فرمایا اگرخدا کا کلام ہی ہے تو مرزا صاحب ے کانے کے بغیر نجات نہیں ہوسکتی دیکھو بدر نمبر ۲ جلد ۱۲ مورخه ۱۱- جولائی تا ۶ ) آب جبکہ یہ مسئلہ بالکل صاف ہے کہ مسیح موعود کے ماننے کے بغیر نجات نہیں ہو سکتی تو کیوں خواہ مخواہ غیر احمدیوں کو مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کیا اگر مسیح موعود کے منکر مسلمان ہیں تو یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ ایک اسلام ایک ابھی ہے جو انسان کو باوجود نیک اعمال کے نجات نہیں دلا سکتا ؟ کیا ایسا عقیدہ اسلام کو اسکی بنیاد سے ہلا دینے والا نہیں ہے ؟ یاد رہے کہ یہاں اعمال کا سوال نہیں بلکہ عقائد کا سوال ہے پس وہ جسکے عقائد میں مسیح موعود پر ایمان لانا د اخل نہیں بقول حضرت مسیح موعود جہنمی ہے اور نجات نہیں پا سکتا.اب کہاں ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مسیح موعود کو ما نشاجره و ایمان نہیں ہے وہ خدارا اس بات پر غور کریں کہ جب مسیح موعود پر ایمان نے کے بغیر نجات نہیں ہے تو یہ کہنا کہاں تک امانت اور دیانت پر مبنی ہے کہ آپ کا مانا جزو ایمان نہیں.حضرت صاحب تو تحریر فرماتے ہیں کہ : " دنیا میں ماموروں کے انکار جیسی کوئی شقاوت نہیں اور ان مقبولوں کو مان لینے جیسی کوئی سعادت نہیں" ردیکھو الندی صفحہ ۴ پھر اسی صفحہ میں ذرا آگے چلکہ لکھتے ہیں." اور فی حقیقت دو
١٣٠ جدا در شخص بڑے ہی بد بخت میں اور انس و جن میں سے ان سا کوئی بھی بد طالع نہیں.ایک جس نے خاتم الانبیائ کونہ مانا.دوسرا وہ جو خاتم الخلفاء پر ایمان نہ لایا کہ اس حوالے سے یہ پتہ لگتا ہے کہ مسیح موعود کا منکر شقاوت میں ہی کریم کے منکروں کے سوا باقی تمام رسولوں کے منکروں سے آگے نکل گیا ہے.پھر کتاب ضرورة الامام صفحہ ۲۴ میں حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں کہ : جو لوگ ارشاد اور ہدایت خلق ، اللہ کے لیے مامور نہیں ہوئے اور نہ وہ کمالات انکو دئیے گئے وہ گو دلی ہوں یا ابدال ہوں امام الز مان نہیں کہلا سکتے.اب بالآخر یہ سوال باقی کا کو اس زمانہ میں امام الزمان کون ہے جسکی پیر دی تمام عام مسلمانوں اور زاہدوں اور خواب بینوں اور مہموں کو کرنی خدا تعالیٰ کی طرف سے فرض قرار دیا گیا ہے سو میں اسوقت بے دھڑک کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور عنایت سے وہ امام الزمان میں ہوں “ اس طرح کشتی نوح صفحہ 4ہ میں حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ :- دو مبارک وہ جس نے مجھہ کو پہچانا میں خدا کی سب راہوں میں ایسے آخرمی راہ ہوں.اور اسکے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں.بد قسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریخی ہے کہ مجھے تعجب پر تعجب آتا ہے کہ بعض لوگ غیروں کو خوش کرنے کے لیے اپنے آقا حضرت مسیح موعود کی شان کو گھٹانا چاہتے حالانکہ مسیح موعود نے اپنی نسبت لکھا ہے کہ.دو میں اپنے رہے اس مقام پر نازل ہوا ہوئی جس کو انسانوں میں سے کوئی نہیں جانتا اور میرا بھی اکثر اہل اللہ سے پوشیدہ اور دور تر ہے قطع نظر اس سے کہ عام لوگوں کو اس سے کچھ اطلاع ہو سکے.....پس مجھے کسی دوسرے کے ساتھ قیاس مت کر اور نہ کسی است کو میرے ساتھ " ( دیکھو خطبہ الہامیہ صفحہ ۱ و ۱۹ ) انجن یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ خطبہ الہامیہ وہ خطہ ہے جو خدا کی طرف سے ایک معجزہ کے رنگ پر مسیح موعود کو عطا ہوگا جیسا کہ اس کا نام ظاہر کرتا ہے پس اس کتاب کو عام کتابوں کی طرح سمجھنا چاہیئے.کیونکہ اس کا ہر ایک فقرہ الہامی شان رکھتا ہے.پھر اسی کتاب ہے صلحہ ۱۷ پر حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں:- در جو شخص مجھے میں اور مصطفے میں
ریویو آف ریلیجز بهشت تفریق کرتا ہے اس نے مجھ کو نہیں دیکھتا ہے اور نہیں پہچانا ہے" اسی طرح صفوا میں لکھا ہے کہ :.وہ جس نے اس بات سے انکار کیا کہ نبی علیہ اسلام کی بند چھٹے ہزار سے تعلق نہیں رکھتی ہے جیسا کہ پانچویں ہزار سے تعلق رکھتی تھی پس اس نے حق کا ار نص قرآن کا انکار کیا کہ حق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی ان دنوں میں بہ نسبت ان سالوں کے اقومی اور اکمل اور راشد ہے؟ ان حوالوں سے پتہ لگتاہے کہ مسیح موعود کوئی معمولی شان کا انسان نہیں ہے بلکہ امت محمدیہ میں اپنے دریہ کے لحاظ سے سب پر فوقیت لے گیا ہے یہی وجہ ہے کہ نبی کا لقب پانے کے لیئے صرف وہ چنا گیا اور باقی کسی کو یہ درجہ عطانہ ہوا.خدا کال کے لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہم کو ہ زمانہ دیا جس پراللہ تعالیٰ کے تمام ہی ناز کرتے آئے ہیں اور جس کے پانے کے لیے اس امت کے بڑے بڑے ابدال دعائیں کرتے کرتے اس دار فانی سے کوچ کر گئے.پس ہم اللہ تعالیٰ و جسقدر بھی شکر اداکریں وہ کم ہے.کچھ الہ تعالی نے محض اپنے فضل سے اس زمانہ میں پیدا کیا جو صحابہ کے زمانہ سے مشابہ ہے بلکہ خود صحا بہ کا زمانہ ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ :.وہ جو میری جماعت میں داخل ہوا در حقیقت میرے سردار خیرالمرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا.یہی وجہ ہے کہ خو نبی کریم نے اس زمانہ پر ناز کیا ہے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے آپنے فرمایا کیا ہی مبارک ہے وہ امت جس کے ایک کنارے پر میں پہلی اور دوسرے کنارے پر مسیح موعود ہے پھر ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ نبی کریم نے فرمایا جو سیع کو پارے وہ اسے میرا سلام پہنچا دے آہ افسوس نبی کریم تو سیح موعود کو سلام پہنچانے کی اپنے متبعین کو وصیت کرتے ہیں مگر مسلمان ہیں کہ اسی مسیح کو کافراور د قبال بنارہے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنا رحم کرے.یہ مضمون کچھ طوالت چاہتا ہے گر چونکہ میرا اصل ضمون اور ہے اس لیئے میں اپنے دل پر جبر کر کے اسے چھوڑتا ہوں اور اصل بات کی طرف متوجہ ہوتا ہوں.اور وہ یہ کہ کیا حضرت مسیح موعود کا ماننا جز و ایمان ہے کہ نہیں سکے متعلق کچھ میں حضرت صاحب کی کتابوں سے اوپر والے لکھ آیا ہوں باقی ماندہ ہنگا نکھ دئے جاتے ہیں.آپ کتاب ضرورۃ الامام صفحہ ہم پر تحریر فر ماتے ہیں کہ : " کوئی ظلم ہوں
۱۳۲ كالفصل جل یا خواب میں اگر وہ امام الزمان کے سلسلہ میں داخلی نہیں ہے تو اس کا خاتمہ خطر ناک ہے ؟ پھر فتح اسلام صفحہ ۲۰ پر لکھتے ہیں کہ.وہ اس نے دیعنی خدا نے ، اس سلسلہ کے قائم کر نیکے وقت مجھے فرمایا کہ زمین میں طوفان ضلالت برپا ہے تو اس طوفان کے وقت میں یہ کشتی طیار کہ جو شخص اس کشتی میں سوار ہو گا وہ غرق ہونے سے نجات پا جائیں گا اور جو انکار میں رہیگا اکرلیے موت در پیش ہے " پھر اپنی کتاب تحفہ گولڑا یہ صفحہ ۶ہ میں حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں کہ : دیکھودہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریے، کہ خدا اس سلسلہ کی دنیا میں بڑی قبولیت پھیلا گیا.اور یہ سلسا مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا اور دنیا میں اسلام سے مرادی عسل ہوگا یہ باتیں انسان کی باتیں نہیں.یہ اس خدا کی وحی ہے جسکے آگے کوئی بات ان ہونی نہیں.پھر جب حضرت مسیح موعود نے دسمبر شام کے جلسہ میں کسی شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں سوائے اسکے کوئی فرق نہیں کروہ لوگ وفات مسیح کے تایا نہیں اور یہ لوگ وفات مسیح کے قائل ہیں تو اس پر اپنے ۲۶- دسمبر تنشد ع کو ایک مبسوط تقریر فرمائی جس میں آپنے کھو کہ بتایا کہ یا احمدیوں اور احمدیوں میں کیا فرق ہے.تقریر اپنے اندر ایک خاص رنگ رکھتی ہے اس لیے ہر ایک احمدی کو ایسے پڑھنا چاہیئے.حضرت مسیح موعود نے بہت سی ایسی باتوں کو بیان کیا جو احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان ما بہ الامتیاز کے طور پر ہیں.آپنے اپنی تقریر کے آخر میں فرمایا در فرم اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جو کہ ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جن سے خدا تعالٰی ناراض ہے اور جو اسلامی رنگ کے مخالف ہیں.اسواسطے اللہ تعالیٰ اب ان لوگوں کو مسلمان نہیں جانتا جب تک وہ غلط عقاید کو چھوڑ کر راہ راست پر نہ آجائیں اور اس مطلہ کے لیے خدا تعالٰی نے مجھے مامور کیا ہے ، اب مسیح موعود کے اس فیصلہ کے بعد ہم کسی ایسے شخص کی کہ بات کو پریشہ کے برابر بھی وقعت نہیں دیتے جو احمدی کہلا کر غیر احمدیوں کو مسلمان جانتا ہے.ہم مجبور ہیں ہم نے مسیح موعود کو مصلحت وقت کے لیے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے اسے واقعی حکم سمجھ کرانا ہے اور اسکی ہر ایک بات کو سچا پایا ہے.پس جب مسیح موعود کہتا ہے کہ اس کے
نمبر ۳ ۱۳۳ منکروں کو خدا مسلمان نہیں جانتا تو ہم کون ہیں کہ اس بات کا انکار کریں.اس جگہ میں اس تقریر کے متعلق یہ بتا دینا بھی مناسب خیال کرتا ہوں کہ اسے مالا بار کے ایک دوست نے حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں الگ چھپوا کر شائع کیا تھا.حضرت خلیفہ اول نے اسے بہت پسند فرمایا اور شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری کے سامنے اسکی بہت تعریف کی اور فرمایا کہ کی بہت اشاعت ہونی چاہیئے.چنا نچو شیخ صاحب موصوف نے اسے اپنے خرچ پرلاہور میں بار چھپوا کر شائع کروایا.جزاہ اللہ احسن الجزا اسی طرح ایک اور جگہ حضرت سیح موعود لکھتے ہیں کہ." خداتعالی ارشاد فرماتا ہے اسلام اور غیر اسلام میں روحانی غذا کا قحط ڈال دونگا اور روحانی زندگی کے ڈھونڈ نے والے بجز اس سلسلہ کے کسی جگہ آرام نہ پائیں گے اور ہر ایک فرقہ سے آسمانی برکتیں چین لی جائینگی اور اس بندہ درگاہ پر جو بول رہا ہے ہر ایک نشارہ کا انعام ہوگا.پس وہ لوگ جو اس روحانی موت سے بچنا چاہیں گے وہ اسی بندہ حضرت عالی کی رجوع کرینگے (دیکھو بر این احمدیہ حصہ جم صفر ) پھر اسی کتاب کے صفحہ ۷۳ و ۴ ، پر یوں تجربہ کرتے ہیں کہ :.ہ محمدیوں کا پاؤں ایک بہت بلند و حکم مینار پر پڑا ہے.محمدیوں کے لفظ سے مراد اس سلسلم کے مسلمان ہیں...اور مقدر یوں ہے کہ وہ لوگ جو اس جماعت سے باہر ہیں وہ دن بدن کم ہوتے جائینگے اور تمام فرقے مسلمانوں کے جو اس سلسلہ سے باہر ہیں وہ دن بدان کم ہو کہ اس سلسلہ میں داخل ہوتے جائیں گے یا نابود ہوتے جائینگے جیسا کہ یہودی گھٹتے ! گھٹتے یہاں تک کم ہو گئے کہ بہت ہی تھوڑے رہ گئے ایسا ہی اس جماعت کے مانو انجام گام پھر نزول المسیح صفحہہ کے حاشیہ میں حضور نے لکھا ہے کہ :.دو آخری زمانہ کے لیے خدا نے مقر کیا ہوا تھا کہ وہ ایک عام رجعت کا زمانہ ہوگا تا یہ امت مرحومہ دوسری امتوں سے کسی بات میں کم نہ ہو.پس اس نے مجھے پیدا کر کے ہر ایک گذشتہ نبی سے مجھے اس نے تشبیہ دی کو ہی میرا نام رکھ دیا چنانچہ آدم ابراهیم نوح - موسی ، داؤد سلیمان پوست بیچینی.عینی وغیرہ یہ تمام نام بر امین احمدیہ میں میرے رکھے گئے اور اس صورت میں گویا تمام انبیا گذشتہ اس امت میں دوبارہ پیدا ہو گئے یہاں تک کہ سیب کے آخر میں پیدا
۱۳۴ كل يفصل جان ہو گیا اور جومیرے مخالف تھے ان کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا " علاوہ اس کے حضرت مسیح موعود نے کئی جگہ لکھا ہے کہ اس امت کا صحیح پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھکہ ہے مطلب یہ کہ بقدر شانیں مسیح ناصری میں پائی جاتی ہیں ان تمام میں مسیح محمدی اس سے افضل ہے اب ظاہر ہے کہ منجملہ اور شانوں کے مسیح ناصری کو اللہ تعالیٰ نے یہ شان اور رتبہ بھی دیا تھا کہ اس کا انکار کر نیوالا مغضوب علیہ اور کافر ہو جاتا تھا لیکن چونکہ سیم محمدی صبح ناصری سے تمام شان میں بڑھکہ ہے اسلئے اسکو اس خاص شان میں بھی سکا ینے ذکر کیا ہے بڑھکر مانا پڑیگا اور یا اس بات کا اعتراف کرنا ہو گا کہ مسیح ناصری کا منکر کافر نہیں.فتدبر وا پھر جب حضرت مسیح موعود سے کسی غیر احمدی نے یہ سوال کیا کہ :." حضور عالی نے ہزاروں جگہ تحریر فرمایا ہے کہ کلمہ گو اور اہل قبلہ کو کافر کہنا کسی طرح صحیح نہیں ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ علاوہ ان مومنوں کے جو آپ کی تکفیر کرکے کا فربنجا ئیں صرف آپکے نہ مانے سے کوئی کافر نہیں ہو سکتا لیکن عبد الحکیم خان کو آپ لکھتے ہیں کہ ہر اک شخص جسکو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے.اس بیان 1 پہلی کتابوں کے بیان میں تناقض ہے یعنی پہلے آپ تریاق القلوب وغیرہ میں لکھ چکے ہیں.کہ میرے نہ ماننے سے کوئی کافر نہیں ہوتا اور اب آپ لکھتے ہیں کہ میرے انکار سے کافر ہو جاتا ہے گا اس کا حضرت مسیح موعود نے یہ جواب دیا کہ دو یہ عجیب بات ہے کہ آپ کافر کہنے والے اور نہ ماننے والے کو دو قسم کے انسان ٹھہراتے ہیں حالانکہ خدا کے نزدیک ایک ہی قسم ہے کیونکہ جو مجھے نہیں مانتا وہ اسی وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ مجھے مفتری قرار دیتا ہو گا نہ تھا فرماتا ہے کہ خدا پر افترا کرنے والا سب کا فروں سے بڑھکر کا فر ہے جیسا کہ فرماتا ہے ومن فیلم همن افترى على الله كذبا او كذب بایا ته یعنی بڑے کا فرد ہی ہیں ایک خدا پر افترا کرنے والا دوسرا خدا کی کلام کی تکذیب کرنے والا پس جب بیتنے ایک مذہب کے نزدیک خدا پر افترا کیا ہے اس صورت میں میں صرفت کا فر بلکہ بڑا کافر ہوا اورگرمیں مفتری نہیں تو بلاشبہ وہ کفر اس پر پڑیگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خود فرمایا ہے.علاوہ اسکو
نمبر ۳ ریویو ان الحجز...۱۳۵ جو مجھے نہیں مانتادہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا کیونکہ میری نسبت خدا اور رسول کی میشکونی موجود ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ آخری زمانہ میں میری اُمت سے ہی مسیح موعود آئیگا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی خبر دی تھی کہ میں معراج کی ربات مسیح بن مریم کو ان نبیوں میں دیکھ آیا ہوں جو اس دنیا سے گذر گئے ہیں اور بیٹی شہید کے پاس دوسرے آسمان میں انکو دیکھا ہے اور خدا تعالٰی نے قرآن شریف میں خبر دی کہ صحیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور خدا نے میری سچائی کی گواہی کے لیے تین لاکھ سے زیادہ آسمانی نشان ظاہر کیئے اور آسمان میں کسوف خوف رمضان میں ہوا اب جو شخص خدا اور رسول کے بیان کو نہیں مانتا اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے اور عمد اخدا تعالی کے نشانوں کو رد کرتا ہے اور مجھکو باوجود صد ہا نشانوں کے مفتری ٹھہراتا ہے تو وہ مومن کیونکر ہو سکتا ہے اور اگر وہ مومن ہے تو میں بوجہ افترا کرنے کے کافر ٹھہرا کیونکہ میں انکی نظر میں مفتری ہوں اور اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے قالت الاعراب امنا قل لم تؤمنوا ولكن قولوا اسلمنا ولمّا يدخل الإيمان في قلوبكم یعنی عرب کے دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ان سے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ہاں ہوں کہو کہ ہم نے اطاعت اختیار کر لی ہے اور ایمان ابھی تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.پس جبکہ خدا اطاعت کر نیوالوں کا نام مومن نہیں رکھتا پھر وہ لوگ خدا کے نزدیک کیونکر مومن ہو سکتے ہیں جو کھلے کھلے طور پرخدا کے کلام کی تکذیب کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ہزار ہانشان دیکھکر جون مین اور آسمان میں ظاہر ہوئے پھر بھی میری تکذیب سے باز نہیں آتے اگر دیکھو حقیقۃ الوحی صفحه ۱۶۳ و ۱۶۴) حضرت مسیح موعود نے اس جواب کو اور بھی لیا کیا ہی کی بروقت طوال ایجنگ صرف اسی قد دیکھا جاتاہے اس سوال و جواب میں یہ خاص طور پر وہ کے نیک ابال کریں سائل نے یہ کہا کہ اب آپ لکھتے ہیں میرے انکار سے انسان کافر ہو جاتا ہے تو اسپر حضرت اقدس نے جواب میں یہ نہیں کہا کہ میں تو اپنے انکار سے لوگوں کو کافر نہیں کہتا تم مجھے پر کیوں الزام لگاتے ہو بلکہ معترض کی بات کو حضرت صاحب بنے ، انکر اس کی تشریح شروع کر دی پس جواب کی طرفہ ہی اس بات کو ظاہر کر رہی ہے کہ حضرت اقدس
یا كلمة الفصل نے اس بات کو مان لیا ہے کہ آپ کے انکار سے انسان کا فر ہو جاتا ہے.ورنہ جواب کا پہلو ی اختیار کرنا چاہیئے تھا کہ میں تو اپنے مفکروں کو کافر نہیں کہتا یہ تم مجھ پر الزام لگاتے ہو مگر حضرت مسیح موعود نے ایسا نہیں کیا جس سے ظاہر ہے کہ آپ اپنے منکروں کو کا ز جانتی تھے.پھر حضرت مسیح موعود حقیقة الوحی صفحہ ۱۷۸ پر لکھتے ہیں کہ : دو میں یہ کہتا ہوں کہ چونکہ میں مسیح موعود ہوں اور خدا نے عام طور پر میرے لیے آسمان سے نشان ظاہر کیئے ہیں پس جس شخص پر میرے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں خدا کے نزدیک اتمام حجت ہو چکا ہے اور میرے دعوے پر وہ اطلاع پا چکا ہے وہ قابل مواخذہ ہو گا کیونکہ خدا کے استادوں سے دانستہ منہ پھیرنا ایسا امر نہیں ہے کہ اسپر کوئی گرفت نہ ہو.اس گناہ کا داد خواہ میں نہیں ہوں بلکہ ایک ہی ہے جسکی تائید کے لیئے میں بھیجا گیا معنی حضرت بھی مصطفی صلی اللہ علیہ سلم جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ میرا نہیں بلکہ اس کا نا فرمان ہو جس سے میرے آنے کی پیشگوئی کی " پھر ذرا آگے چل کہ تحریرفرماتے ہیں کہ :.دیر ہم اس قدر تھی کر سکتے ہیں کہ خدا کے نزدیک جس پر اتمام محبت ہو چکا ہے اور خدا کے نزدیک جو منکہ ٹھر چکا ہے وہ مواخذہ کے لایق ہو گا.ہاں چونکہ شریعت کی بنیاد ظاہر پر ہے اس لیئے ہم منکر کو مومن نہیں سکتے اور نہ یہ کر سکتے ہیں کہ وہ مواخذہ سے بری ہو اور کافر منکر کو ہی کہتے ہیں کیونکہ کا فرکا لفظ مومن کے مقابل پر ہے اور کفر دو قسم پر ہے داول ، ایک کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ سلام خدا کار سول نہیں مانتا.( دوم ) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا، در سکو با وجود اتمام محبت کے جھوٹا جانتا ہے جسکے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے میں اسلیئے کہ وہ خدا اور رسول کا منکر ہے کافر ہے اور اگر غور سے دیکھا جاوے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں کیونکہ جو شخص با وجود شناخت کر لینے کے خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتا وہ بموجب نصوص صریحہ قرآن اور حدیث کے خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا اور اس میں شک نہیں کہ جس پر خدا کے نزدیک اول قسم کفر یاد دوسری قسم کی
نمبر ۳ ریویو ان المجزر نیست اتمام حجت ہو چکا ہے وہ قیامت کے دن مواخذہ کے لائق ہو گا اور جسپر خدا کے نزدیک اتمام محبت نہیں ہوا اور وہ مکذب اور منکر ہے تو کو شریعیت نے رجکی بنا ظاہر پر ہے ، اس کا نام سبھی کا فر ہی رکھا ہے اور ہم بھی اسکو با تباع شریعت کافر کے نام سے ہی پکارتے ہیں کہ پھر بھی مہندا کے نزدیک موجب آیت کا مکلف الله نفسا إلا وسعها قابل مواخذہ نہیں ہو گا.ایجاہ میں پھر اس خط کے ایک حصہ کو نقل کر دیتا ہوں جو حضرت مسیح موعود م نے عبد الحکیم خان مرتد کو لکھا.عبد الحکیم خان کے خطا کا مضمون یہ تھا کہ آپ تو خادم اسلام ہیں کہ خود وجود اسلام پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں کروڑ مسلمان جنہوں نے آپ کو قبول نہیں کیا سب کا فر ہو گئے تو اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود نے تحریر فرمایا کہ بہر حال جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے تو یہ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اب میں ایک شخص کے کہنے سے جس کا دل ہزاروں تاریکیوں میں بتلا ہے خدا کے حکم کو چھوڑ دوں اس سے بہتر بات یہ ہے کہ ایسے شخص کو اپنی جماعت سر خارج کرتا ہوں کہ پھر حضرت مسیح موعود اپنی کتاب تجلیات کے مصفرہ و پر تحریر راتے ہیں.و یہ مکالمہ المیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے.اگر میں ایکدم کے لیے بھی اس میں شک کروں تو کافر ہو جاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود کے الہامات کا جن میں آپ کا دعوی مسیحیت بھی ہے اگر کوئی منکر ہو تو وہ کافر ہو جاتا ہے ہاں اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا کبھی حضرت مسیح موعود نے اپنے مخالفوں کو خود کا فر کہکہ پکارا بھی ہے یا نہیں یا ہمیشہ استفسار پر ہی اس فتوی کا اظہار کیا ہے سو اول تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسکی کوئی ضرورت نہیں ہو کہ اس نام سے اپنے اپنے مخالفوں کو پکارا بھی ہو کیونکہ جب آپ کا اس کے متعلق صاف فتونی موجود ہے تو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں.دوسرے یہ کہ آپنے اس نام سے اپنے مخالف کو
۱۳۸ كار يفصل جلد ۱۳ پکارا بھی ہے چنانچہ حقیقت الوحی صفحہ ۲۹ میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ ایک قسم کے نشان تو میری جماعت میں ظاہر ہوئے اور دوسری قسم کے نشان کافروں کے گروہ میں ظہور پذیر ہوئے ، اور پھر تمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۷ پر آپ نے لکھا ہے کہ وہ ہر ایک پہلو سے خدا نے مجھ کو برومند کیا چنانچہ ہزار ہا کہ کایہ مقا ہے کہ قریبا چار لاکھ انسان اب تک میرے ہاتھ پر اپنے گناہوں سے اور کفر سے توبہ کر چکے ہیں کیا اب بھی اگر کوئی شخص مسیح موعود کے منکر کو مسلمان سمجھتا ہے تو اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.ہماری طرف سے محبت پوری ہو چکی ہے ہم تو کہتے ہیں کہ اگر تم ہماری نہیں ہے اور مسیح موعود کی بات کو قبول نہیں کرتے تو چلو غیر احمدی مولویوں سے ہی فتوئی پوچھے کہ جو آنے والا صحیح ہے اسکا منکر مسلمان ہے یا کافر جو وہ اپنے خیالی مسیح کے منکر کو سمجھتے ہیں اس سے بڑھکہ ہم اپنے حقیقی مسیح کے منکر کو خیال کرتے ہیں.کیونکہ ہلکا آنیوالا تو بذات خود مینی ہے مگر ہمارا مسیح نبی کریم کی اتباع کی وجہ سے عیسی سے کہیں آگے نکل گیا ہے.فقد ہوا باب سویم اس باب میں بعض ان الہامات کا ذکر کیا جائیگا جوحضرت مسیح موعود پر وقتا فوقتا انزال ہوتے رہے اور جن میں آپ کے منکروں کو اعلہ تعالیٰ نے کا ٹر ٹھہرایا ہے.وما توفیق کا بالله سود واضح ہو کہ حضرت مسیح موعود کو انعامات میں کئی دفعہ احمد کے نام سے یاد کیا گیا جیسا کہ مندرجہ ذیل الہامات سے ظاہر ہے : يا احمد بارك الله فيك - بشرى لك احمدى.يا احمد امكن انت وزوجك الجنة - انا ارسلنا احمد الى قومه فاعرضوا وقالوا كذاب اشر يا احمد فاضت الرحمة على شفتيك - بوساكت يا احمد -
نمبر ۳ ریویو آف امیجز ان تمام الہامات میں اللہ تعالی نے مسیح موعود کو احمد کے نام سے پکارا ہے.دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود بیعت لیتے وقت یہ اقرار لیا کرتے تھے کہ آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں.پھر اسی پر بس نہیں بلکہ آپنے اپنی جماعت کا نام بھی احمدی جماعت رکھا.پس یہ بات یقینی ہے کہ آپ احمد تھے.اب معاملہ بالکل صاف ہے قرآن شریف سے سورۃ صف نکال کر دیکھ لوکہ احمد کے نہ ماننے والوں کے لیے کیا فتویٰ ہے.وہاں صاف لکھا ہے که والله متم نوره ولوکرۃ الکافرون.یہ آیت حضرت مسیح موعود پر اسلام کی صورت میں بھی اتر چکی ہے جن سے اس خیال کو اور بھی تقویت پہنچتی ہے.جگہ کسی کو ید و هم به گذرے کہ ہم نعوذ باللہ ہی کریم مسلم کو احمد نہیں مانتے.ہمارا ایمان ہے کہ آپ احمد تھے بلکہ ہمارا تو یہاں تک خیال ہے کہ آپکے سوا کوئی احمد نہیں ہے اور نہ کوئی احمد ہو سکتا ہے.مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا آپ اپنی پہلی بعثت میں بھی احمد تھے ؟ نہیں بلکہ آپ اپنی پہلی بیشت میں محمدیت کی بھلائی صفت میں ظاہر ہوئے تھے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سورۃ صف میں کسی ایسے رسول کی پیشگوئی کی گئی ہے جو احمد ہے پس ثابت ہوا کہ یہ پیشگوئی نبی کریم کی پہلی بعثت کے متعلق نہیں بلکہ آپ کی دوسری بعثت یعنی سیج موجود کے متعلق ہے کیونکہ سیح موعود جمالی صفت کا منظر یعنی احمد ہے.اس حقیقت کو خود حضرت یہ و علیہ اسلام نے اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ صفحہ اس پر بیان فرمایا ہے چنانچہ آپ لکھتے ہیں : " آیت مبشرا برسول ياتي من بعدي اسمه احمد میں یہ اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کا آخری زمانہ میں ایک مظہر ظاہر ہوگا گویادہ اسکا ایک ہاتھ ہوگا.جس کا نام آسمان پر احمد ہو گا اور وہ حضرت مسیح کے رنگ میں جمالی طور پر دین کو پھیلا ئیگا یا پھر اس تحریر پر ایک حاشیہ لکھا ہے جس میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ : "چونکہ خداتعالی و منظور تھا کہ یہ دونوں صفتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے اپنے وقتوں میں فلموں پذیر ہوں اس لیئے خدا تعالی نے صفت جلالی کو صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذریعہ ظاہر فرمایا اور صفت جالی کو سیح موعود اور اسکے گروہ کے ذریعہ سے کمال تک پہنچایا.اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے وآخرين منهم لما يلحقوا بهم پھر اسی کتاب تختہ گولڑویہ کے صفحہ ۶ ۱۵ پر حضرت مسیح موعود لکھتے ہیں کہ : " انحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ
۱۴۰ كلام يفصل جلد ۱ ہزار پنجم تھا جو ہم محمد کا منظر تجلی تھا یعنی یہ بحث اول جلالی شان ظاہر کرنے کے لیے تھا مگر بعث دوم جس کی طرف آیت کریمہ واخرین منهم لما لحقوا بهم میں اشارہ ہے وہ مظہر محتی اسم احمد ہے جو آسم جمالی ہے جیسا کہ آیت مبشرا برسول یا تی من بعدی اسمه احمد اسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اس حقیقت کو حضرت مسیح موعود نے اپنی کتاب المجاز المسیح میں بھی بڑی وضاعت کے ساتھ بیان کیا ہے اور کھو کر کھو کہ بتایا ہر کہ نبی کریم کے دو بعث ہیں.بحث اول میں اسم محمد کی تجلی تھی مگر بحث دوم اسم احمد کی تخلی کے لیے ہے ناظرین کو چاہیے کہ اس کتاب کا ضرور مطالعہ کریں کیونکہ یہ معارف قرآنیہ کا ایک خزانہ ہے (دیکھو اعجاز المسیح از صیفی ۱۰۰ تا ۱۲۴ ) اس موقعہ پر ایک عجیب نکتہ یا د رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہکہ نبی کریم کی دونون بخشیں آپ کے دنیا میں آنے سے پہلے بتائی جاچکی تھیں.چنانچہ موسی علیہ السلام جو جلالی صفت میں ظاہر ہوئے تھے انہوں نے نبی کریم کی پہلی بعثت مینی محمد کی پیشگوئی کی.لیکن چونکہ عینی و جمال کا پہلے عطا کیا گیا تھا اس لیے انہوں نے نبی کریم کی دوسری بعثت یعنی احمد کی پیشگوئی کی.اس بات کو حضرت مسیح موعود نے اعجاز المسیح صفحہ ۱۲۳ پر بیان کیا ہے چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ : " ثم من عجائب القرآن أنه ذكر اسم احمد حكاية عن عيسى وذكر اسم محمد حكاية عن موسى - ليعلم القارئ ان النبي الجلالى اعـ موسیٰ اختار اسما یشا به شانه اعنى محمدن الذى هو اسم الجلال وكذالك اختار عينى اسم احمد الذى هو اسم الجمال بما كان نبيا جماليا وما اعطى له شى من القهر و القتال فحاصل الكلام ان كلا منهما اشار الى مثيله التام آنجاہ کوئی صاحب یہ دھد کا نہ کھا جائیں کہ شاید حضرت مسیح موعود کا اس عبارت سے یہ مطلب ہو کہ حضرت موسیٰ اور عیسی علیہم السلام نے نبی کریم کی پہلی بعثت کے متعلق ہی دو مختلف پہلوؤں کے لحاظ سے پیشگوئی کی ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود اسی صفحہ پر لکھتے ہیں کہ:- " و اشعار عیسی
ریویو انت المجنز IM بقوله كذريع اخرج شطأ لا الى قوم أخرين منهم واما مهم المسيح - بل ذكر اسمه احمد بالتصريح ؟ ان تمام حوالجات سے یہ بات یقینی اور قطعی طور پر ثابت ہے کہ سورۃ صفت میں جس احمد رسول کے متعلق عیسی علیہ السلام نے پیشگوئی کی ہے وہ احمد مسیح موعود ہی ہے جیکی بعثت حسب وعده الهی و آخرین منھم خود ہی کریم کی بعثت ہے علاوہ اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ اسی سورۃ صف میں لکھا ہے کہ یریدون ليطفوا نور الله با خواهم اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پیشگوئی مسیح موعود کے متعلق ہے کیونکہ نبی کریم کے زمانے میں منہ کی پھونکوں یعنی کفر کے فتوے وغیرہ سے اللہ کے نور کو بجھانے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ آپ کے مخالفوں نے آپ کے خلاف تلوار اٹھائی لیکن مسیح موعود یعنی احمد کا زمانہ تلوار کا زمانہ نہیں بلکہ یضع الحرب کا زمانہ ہے اس لیے مخالف تلوار تو نہیں اٹھا سکے مگر انہوں نے ناخنوں تک زور لگایا لطف وما نور الله با خوا همو لیکن ان کے مقابل بھی کوئی معمولی انسان نہ تھا بلکہ دم سے کا فر مرتے تھے.فقد بروا خلاصہ کلام ہے کہ حضرت مسیح موعود کا اللہ تعالی نے بار بار اپنے الہام میں احمد نام رکھا.اس لیے آپ کا شکر کا فرہے کیونکہ احمد کے منکر کے لیے قرآن میں لکھا ہے والله متم نوره ولوكرة الكافرون - پھر حقیقۃ الوحی صفحہ ہے پر حضرت مسیح موعود کا ایک الهام درج ہے وبشر الذين أمنوا ان لهم قد مصدق عند ربهم اس الہام میں اللہ تعالی نے مومن صرف ان لوگوں کو کہا ہے جو حضرت مسیح موجود پر ایمان لے آئے ہیں.پھر اسی کتاب کے صفورا ، پر ایک الہام لکھا ہے کہ وما كان الله ليتركك حتى يميز الخبيث من الطیب اس الہام میں دو گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے خبیث اور طبیب.اور وہ دو گروہ مومنین اور منکرین کے ہیں.پھر حضرت صاحب کا یہ بھی ایک الہام ہے ان الذین کفر را وصدوا عن سبيل الله بردّ عليهم رجل من فارس شكر الله سعيده پھر یہ الہامات بھی حضرت صاحب کے قابل غور ہیں دنی فتدلی فکان قاب قوسین
۱۴۲ كا يفصل جل ؟ اداد ئی.قل ان کنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله انت منی بمنزلة توحيدي و تفريدى - انت منی بمنزلة عرشي انت منی بمنزلة ولدى - يا قمر يا شمس انت منى و انا منك انت مرادی و معى سترك سترى بشرى لك يا احمدى - كمثلك در لا يضاع شانك عجيب و اجرك قريب انت منى بمنزلة لا يعلمها الخلق انت وجيه في حضر تي اخترتك لنفسی.ابن الہامات سے اُس شخص کی شان کا پتہ لگتا ہے جس کے قلب پر ان کا نہ دل ہوا.کیا ایسے شخص کا انکار کرنے والا مومن کہلا سکتا ہے.اگر ایسے شخص کے انکار سے بھی ایمان قائم رہ جادے تو دنیا سے امان اٹھ جائے پھر حضرت مسیح موعود کا ایک الہام ہے دینا اتنا سمعنا منادیا گنادی الایمان و داعيا الى الله وسراجاً منيرا.اس میں اللہ تعالٰی نے مسیح موعود پرایمان لانیوالوں کا قول نقل کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ مسیح موعود ہی وہ شخص ہے جولوگوں کو ایمان کی طرف بلاتا ہوں پس وہ شخص جو مسیح موعود کی طرف نہیں آتا وہ ایمان سے محروم ہے.پھر حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۸۰ پر حضرت صاحب کا یہ الہام درج ہے کہ قل جاء کم نور من الله فلا تكفروا ان کنتم مؤمنین یعنی تو لوگوں کو کہدے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھارے پاس نور آیا ہے اب اگر تم اپنے دعوئی ایمان میں پچھتے ہو تو کفر ہ کرو.اس الہام سے صاف طور پر پتہ لگتا ہے.کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں مومن ہونے کا معیار مسیح موعود پر ایمان لانے کو رکھا ہے جو سیح موعود کا انکار کرتا ہے اس کا پہلا ایمان بھی قائیم نہیں.پھر اسی صفحہ پر ایک الہام درج ہے جو یہ ہے لعلك باخع نفسات الا يكونوا مومنین یعنی کیا تو اس لیئے اپنی جان کو ہلاک کر دیگا کہ وہ مومن کیوں نہیں بنتے.اس الہام سے بھی صاف طور پر پتہ لگتا ہے کہ انسان مومن نہیں بن سکتا جب تک مسیح موعود کو نہ مانے.اور پھر صفح ۸۲ پر حضرت مناسب کا یہ الہام درج ہے کو جعلنا جھنم للكافرين حصيرا.اور حضرت مسیح موعود کا یہ الہام تو عالیہا نے سنا ہوگا کہ یا عيسى اني متوفيك ورافعك الي و جاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا الى يوم القيامة
نمبر ۳ ریویو آف ریلیجنز ۱۴۳ اس الہام کی تشریح میں حضرت مسیح موعود نے الذین کفروا غیر احمدی مسلمانوں کو قرار دیا ہے.فند بردا.پھر حضرت صاحب کا یہ الہام بھی چھپ چکا ہے کہ :.یریدون ليطفوا نور الله با فواههم والله متم نوره ولو كره الكافرون ان العام میں تو صریح کا فر ا لفظ موجود ہے.یہ الہام بھی حضرت مسیح موعود کو بہت دفعہ ہوا کہ :- و امتازوا اليوم ايها المجرمون یعنی اے مجر مو ! تم بہت مدت سے اسلام کو بدنام کر رہے ہو آج کے دن سے تم کو الگ کر دیا جاتا ہے.پھر ایک اور الہام ہے جس میں انکار کی گنجائش باقی رہتی ہی نہیں سوائے اسکے کہ الہام کا انکار کردیا جاوے اور وہ الہام یہ ہے قل يا ايها الكفار انى من الصدقین (دیکھو حقیقۃ الوحی صفحہ ۹۲) اب کہاں ہیں وہ لوگ جن کا یہ قول ہے کہ مسیح موعود کو ماننا جز و ایمان نہیں وہ دیکھیں کہ خدا مسیح موعود کو حکم دیتا ہے کہ تو کہ اے کا فرد میں صادقین میں سے ہوں یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ اس الہام میں مخاطب ہر ایک ایسا شخص ہے جو حضرت مسیح موعود کو صادق نہیں سمجھتا کیونکہ فقرہ انی من الصدقین اس کی طرف صاف طور پر اشارہ کر رہا ہے.پس ثابت ہوا کہ ہر ایک جو آپ کو صادق نہیں جانتا اور آپکے دعاوی پر ایمان نہیں لاتا وہ کافر ہے.پھر اسکے ساتھ یہ الہام بھی قابل غور ہے کہ قطع دابر القوم الذين لا يؤمنون.ہمیں حضرت سیح موعود کے منکروں کو قوم کا یومنون کے طور پر پیش کیا گیا ہے.پھر حقیقۃ الوحی صفحہ ا پر حضرت صاحب کا یہ الہام درج ہے کہ :.چه دور خسروی آغاز کردند مسلمان را مسلمان باز کردند اس الہامی شعر میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ کفرہ اسلام کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے.اس میں خدا نے غیر احمدیوں کو مسلمان بھی کہا ہے اور پھر ان کے اسلام کا انکار بھی کیا ہے سلمان تو اس لیے کہا ہے کہ وہ مسلمان کے نام سے پکارے جاتے ہیں اور جب تک لفظ استعمال ہ کیا جا رہے لوگوں کو پتہ نہیں چلا کہ کون مراد ہے مگر ان کے اسلام کا اسلئے انکار کیا گیا ہے کہ وہ اب خدا کے نزدیک مسلمان نہیں ہیں بلکہ ضرورت ہے کہ انکو پھر نئے سرے سے مسلمان کیا جادے.پھر حضرت مسیح موعود کا ایک اور الہام ہے جو آپ کو اپنی وفات سے چند دن پہلے
۱۴۴ کا لفصل جلد ۱۴ ہوا اور وہ یہ ہے ڈرومت مومنو اس میں حضرت صاحب کی وفات کی نسبت پیشگوئی متقی اور بتا یا گیا تھا کہ آپ جلد وفات پا جانے والے ہیں لیکن چونکہ آپ کی وفات سے آپکے متبعین کو ایک صد عظیم پہنچنا تھا اس لیئے اللہ تعالی نے بڑے رحم کے ساتھ پہلے سے ہی تسلی دیدی اور کہا کہ دردست مومنو اگر غیر احمدی بھی مومن تھے تو پھر یہ الہام نعوذ باللہ بالکل لغو اور بے معنی تھا کیونکہ حضرت صاحب کی وفات سے مخالف تو خوش ہوئے تھے انکو ڈرنے کا کونسا موقعہ تھا پس اس جگہ مومن صرف ان لوگوں کو کہا گیا ہے جو مسیح موعود پر ایمان لے آئی ہیں.فقد بروا باب چهارم اس باب میں بعض احادیث کا ذکر ہو گا جن سے مسیح موعود کے انکار کی اہمیت ثابت ہوتی ہے.سود واضح ہوکہ جب آیت و اخرین منهم ماری اورصحابہ کرام نے انصار الا السلام سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ وہ آخرین کون ہیں تو آپنے سلمان فارسی کی پیٹھ پر ہاتھ مارکر کیا کہ لو كان الايمان معلقاً بالثريا لناله رجل من فارس.اس میں ایک باریک اشارہ تھا کہ ایک وقت آئیگا جب ایمان دنیا سے اللہ جائیگا تب اللہ تعالی ایک فارانی سیل انسان کو کھڑا کر کے پھر اس کے ذریعہ سے ایمان کو دنیا میں قائم کریگا.یہ حدیث سیم موجود است کی طرف سے الہام کی صورت میں بھی نازل ہوئی ہے اور مسیح موعود نے فارسی انسل انسان اپنے آپکو ٹھہرایا ہے پس جو شخص مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ حقیقت میں اس ایمان لینے سے انکار کرتا ہے جو محمد رسول اللہ صلعم کے ساتھ دنیا میں آیا گر آپ کے ایک عرصہ کے بعد پھر دنیا سے اٹھ گیا.کیونکہ حدیث مذکورہ بالا صاف طور پر بتا رہی ہے کا ایک وقت آئے گا جب ایمان دنیا سے مفقود ہو جا.پس اب مسیح موعود کے منکر کو مومن کہنے کا یہ مطلب ہوگا کہ حدیث مذکورہ بالا و حضرت مسیح موعود پر الہام کی صورت پر بھی نازل ہوئی نعوذ باللہ غلط ہے اس لیے ہم اس بات پر مجبور ہیں کہ حضرت مسیح موعود کے منکروں کو ایران سے محروم قرار دیں کیونکہ ایمان دنیامیں اسی موعود لایا ہے.جو
ریویو آف ریلیجز ۱۴۵ سیح موعود کو نہیں مانتا اور اسکے لائے ہوئے ایمان کو قبول نہیں کرتا اسکو مومن کہنا اس شخص کا کام ہے جو یا تو حدیث کو غلط قرار دیتا ہے اور یا مسیح موعود کو فارسی النسل انسان نہیں جانتا.اللہ تعالی ہمیں ان دونوں سے بچا دے پھر ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ من مات ولم یعروف امام زمانه فقد مات ميتة الجاهلية یعنی جو شخص انام وقت کی شناخت کے بغیر کر جاتا ہے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے.اس جگہ جاہمیت سے مراد کفر ہے کیونکہ زمانہ جاہمیت اس زمانہ کا نام ہے جو نبی کریم سے پہلے عرب پر گذرا اور وہ کفر کا زمانہ ہے.حضرت مسیح موعود نے بھی جاہلیت کے معنی صراط مستقیم سے محروم رہنے کے لیئے ہیں دیکھو حقیقۃ الوحی صفر ۱۴۷ پس یہ یقینی بات ہے کہ جو امام وقت کو شناخت کرنے کے بغیر مرتا ہے وہ کفر پر مرتا ہے.اب دیکھو ی موعود امام وقت تھا یا نہیں؟ اگر وہ وقت کا امام نہ تھا تو بیشک اسکا انکار کفر نہیں لیکن اگر وہ امام وقت تھا اور ضرور تھاتو یہ بات یقینی ہے کہ اس کا انکار کفر ہے.معلوم ہوتا ہے جو لوگ حضرت مسیح موعود کے منکروں کو کفر پر نہیں سمجھتے وہ در پردہ مسیح موعود سے پھر گئے ہوئے ہیں اور آپ کو امام نہیں مانے کیونکہ اگروہ در حقیقت مسیح موعود کو وقت کا امام جانتے ہیں تو اسکے انکار کو جاہلیت اور کفر کیوں نہیں سمجھتے.نفاق آخر کہاں تک چلیں گا.پھر ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم نے فرمایاکہ میری امت بھی ایک وقت یہودی صفت ہو جائیگی اور پاک ان کے قدم بقدم چلنے لگ جائیگی حتی کہ اگر یہود میں سے کسی نے اپنی ماں کے ساتھ زنا کیا ہے و یہ بھی کرینگے.اس حدیث میں اشارہ تھا اس طرف کہ اس امت میں سے ایک بیٹی پیدا ہو گا کیونکہ جب تک عیسی پیدا نہ ہو مسلمانوں کی یہود سے مشابہت پوری نہیں ہوتی اب جبکہ وہ عینی موجود پیدا ہو گیا تو کیا ہمارا حق نہیں کہ ہم اسکے منکروں کو یہود سمجھیں اور یہود جو کچھ ہیں اسکو آپ لوگ جانتے ہی ہیں بلکہ حق تو یہ ہے کہ چونکہ یہ عیسی پہلے جیسی سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اس لئے اس زمانہ کے یہودی بھی مسیح نامری کے منکروں سے کفر میں کہیں بڑھ پڑھکر ہیں.پھر ایک یہ حدیث ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ : عن عبد الله بن عمر وتفترق امتی على ثلث وسبعين امة كلهم فى النار الأملة واحدة.وعن معاوية ثنتان وسبعون في النار واحدة في الجنة
لفصل 125 جلد هي الجماعة بعنی میری امت تہتر فرقوں پرمنقسم ہو جائیگی وہ سب فرقے دوزخ میں جائیں گے سوائے ایک کئے.اور معاویہ سے روایت ہے ک نبی کریم نے فرمایا کہ بہتر فرقے وزرع میں پڑینگے اور ایک جنت میں جائیگا اور وہ جنت میں جانے والا جماعت کا فرقہ ہوگا.اب کہاں ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مسیح موعود کا ماننا جز و ایمان نہیں ہے.اگر ایسا ہے تو کیوں مسیح موعود کی جماعت جنت میں جائیگی اور مسیح موعود کے منکر بقبول نبی کریم فی النار ہو نگے.یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ ہر ایک وہ بات جس پر نجات کا مدار ہے جزو ایمان ہوتی ہے کیونکہ نجات کا پہلا ذریعہ ایمان ہے پس اگر مسیح موعود پر ایمان لانا ج د ایمان نہیں تو کیا وجہ ہے کہ مسیح موعود کے ماننے کے بغیر نجات نہیں ہے اور کیوں مسلمانوں کے بہتر فرقے آگ میں ڈالے جاویں گے ؟ اور پھر حدیث میں آتا ہے کہ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ایما رجل مسلم اكثر رجلا فات كان كا شراً والا كان هو الكافر (ابوداؤد ) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس مسلمان نے کسی مسلمان کو کا فر کہا پس اگر وہ کافر نہیں تو وہ خود کافر ہو جائیگا.اس حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ ایک پیچھے مسلمان کو کافر قرار دینے سے انسان خود کا فر ہو جاتا ہے.اب جن لوگوں نے مسیح موعود پر کفر کافتوی لگایا ہے ہم انکو کس طرح مومن جان سکتے ہیں.اور ظاہر ہے کہ ہر ایک وہ شخص جو سیم موعود کو سچا نہیں جانتا وہ آپ کو کافر قرار دیتا ہے کیونکہ اگر مسیح موعود سچا نہیں ہے تو نعوذ بالله مفتری علی اللہ ہے اور مفتری علی الله قرآن شریف کی رو سے کافر ہوتا ہے پس اس حدیث ہے پتہ لگا کہ نہ صرف وہ لوگ کافر ہیں جو صاف طور پر سیح موعود پر کفر کا فتو ی لگاتے ہیں بلکہ ہر ایک ہیں جو مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ آپ کو کافر قرار دیکر مو جب حدیث صحیح خود کافر ہو جاتا ہے.تقدیر را پھر ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ مسیح موعود میری قبر میں دفن ہو گا جسکے یہ معنی ہیں کہ میسج موجود کوئی الگ چیز نہیں ہے بلکہ وہ میں ہی ہوں جو بروزی طور پر دنیا میں آونگا اور حدیث مذکورہ کے یہ معنی لینے اپنی طرف سے نہیں کیئے بلکہ خود حضرت مسیح موعود نے اسکی یہی تشریح فرمائی ہے ملاحظہ ہو کشتی نوح صفحہ 10 - اب معاملہ صاف ہے اگر نبی کریم کا انکار کیفی ہے تو مسیح موعود کا انکار بھی کفر ہونا چاہیئے کیونکہ مسیح موجود نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں ہے
نمبر ۳ لولو اف الجز ۱۴۴۷ بلکہ وہی ہے اور اگر مسیح موعود کا منکر کافر نہیں تو نعوذ باللہ نبی کریم کا منکر بھی کافر نہیں کی کہ کس طرح ممکن ہے کہ پہلی بہشت میں تو آپ کا انکار کفر ہو مگر دوسری بعثت میں میں میں بنوں حضرت مسیح موعود آپ کی روحانیت اقوئی اور اکمل اور اشتہ ہے آپ کا انکار کفر نہ ہو.باب اس باب میں حضرت خلیفہ اول کے فتاولی دربارہ مسئلہ کفر و اسلام درج کیئے جائیں گے تا اس بات کا پتہ لگے کہ مہدی علیہ السلام پر ایمان لانے کے دعوئی میں کون سچا ہے اور کس کا دعوئی نفاق اور مصلحت وقت پر مبنی ہے.سود واضح ہو کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کے سوال پیش ہوا کہ جوغیر احمدی مسلمان ہم ہے.پوچھے کہ ہماری بابت تمھارا کیا خیال ہے اسے کیا جواب دیا جائے.فرمایا " لا اله الا اللہ کے مانے کے نیچے خدا کے سارے ماموروں ے مانے کا حکم آجاتا ہے.اللہ کو مانے کا یہی حکم ہے کہ اسکے سارے حکموں کو مانا جاوے.اب سارے ماموروں کو مانا لا اله الا اللہ کے معنوں میں داخل ہے حضرت آدم - حضرت ابرا ہیم حضرت موسی.حضرت مسیح ، ان سب کا ماننا اسی لا اله الا اللہ کے ماتحت ہے حالانکہ انکا ذکر اس کلمہ میں نہیں ہے.قرآن مجید کا مانا سیدنا حضرت محمد خاتم النبین پر ایمان لانا.قیامت کا ماننا سب مسلمان جانتے ہیں کہ اس کلمہ کے مفہوم میں داخل ہے اور یہ جو کہتے ہیں کہ ہم مرزا صاحب کو نیک مانتے ہیں لیکن وہ اپنے دعوی میں جھوٹے تھے یہ لوگ بڑے جھوٹے ہیں خدا تعالٰی فرماتا ہے.ومن اظلم ممن افترى على الله كذبا او كذب بالحق لما جاءه.دنيا میں سے بڑھکر ظالم دو ہی ہیں ایک وہ جو اللہ پر افترا کرے.دوم جو حق کی تکذیب کرے پس یہ کہنا کہ مرزا نیک ہے اور دعاوی میں جھوٹا گو یا نور و ظلمت کو جمع کرنا ہو جو نا ممکن ہے کہ مضمون چھپ چکا ہے دیکھو بہ نمبر ۱۶ جلد ۱۰ مورخه ۹ ماین اندامی پھر ایک دفعہ اور نہ ایک دوست کا خط حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ بعض غیر احمدی
۱۴۸ كلم يفصل جلد ۱۴ یہ لکھ دینے کو تیار ہیں کہ ہم مرزا صاحب کو سلمان مانتے ہیں.فرمایا پھر وہ مرزا نا سکے دعوی اور الہام کے متعلق کیا کہیں گے.مرغی وحی و الہام کے معاملہ میں دو گروہ ہی ہو سکتے ہیں اللہ تعالٰی فرماتا ہے ومن اظلم ممن افترى على الله كذبا او كذب بالحق لأجاءه اليس في جهنم مثوى للكافرین اس سے بڑھکر ظالم کون ہے جو خدا پر افترا کرے اسے خدا کی طرف سے الہام نہ ہوا ہوا اور کہے کہ مجھے ہوا ہے.ایسا ہی اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اس حق کی تکذیب کرے.یا تو مرزا صاحب اپنے دعوئی میں بچے تھے انکو مانا چاہیئے یا جھوٹے تھے انکا انکار کرنا چاہئیے اگر مرزا صاحب مسلمان تھے تو انہوں نے سچ بولا اور وہ فی الواقع مامور تھے اور اگر انکا دعوی جھوٹا ہے تو پھر مسلمانی کیسی ؟ ( دیکھو بدر نمبر ۲۴ جلدا مورخه ۱۳ اپریل ۱۹۱۷م) پھر بدر غیر ۲۷ جلد ۱۰ مورخہ ہم.مئی مسئلہ میں آپ نے ایک اعلان چھوا یا کہ دو میں اللہ کی قسم کھاکر اعلان کرتا ہوں کہ میں مرزا صاحب کے تمام دعاوی کو دل سے مانتا اور یقین کرتا ہوں اور معتقدات کو نجات کا مدار مانا میرا ایمان ہے یا پھر بدر نمبر ۳۹ جلد ۱۰ مورخہ ۲۷ - جولائی سلام میں آپ کی طرف سے کسی کے خط کا جواب چھپا ہے جس میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ حدیث شریف میں آیا ہے من قال لاخيه المسلم يا كافر فقد باء به احد هما- ہم یقینا اللہ تعالیٰ کو وحدہ لا شریک مانتے ہیں.طائکہ انبیاء ورسل کتب اللہ پر ایمان ہے نمازیں پڑھتے ہیں زکواتیں دیتے حج کرتے روزہ رکھتے ہیں اور یہ ہمارا ایمان ہے.پھر جو نہیں کا فرکہتا ہے اور کافر سے بد تر ہم سے معالمہ کرتا ہے وہ اس حدیث کے ماتحت اپنے آپ کو کیا فتویٰ دیتا ہے.ہم فتویٰ نہیں دیتے.قرآن کریم نے دو شخصوں کو بڑا ظالم ٹھرایا ہے ایک وہ جواللہ تعالی پر افترا با دست دو سرزده جو را ستہانہ اور اس کی حق تعلیم کا انکار کرے.قرآن مجید میں ہے ومن اظلم ممن افترنی علی الله کن با او كذوب بالحق لما جاءه اب ظالم تر یا مرزا ہے یا یہ مکفرین.مرزا کو تو ہم مفتری نہیں مان سکتے اب انکو کیا کہیں.پیغمرون کسی قدر تفصل لکھنے کے قابل ہے اور بیماری اجازت نہیں دیتی.اگر مفید نہ ہوا تو انشاء الله استان مکرر عرض کرونگا (نور الدین ہے.جولائی شاع)
ریویو آن رو نمیجنز ۱۴۹ پھر ایک دفعہ ایک احمدی کا خط پیش ہوا کہ مجھ آپکے میموریل جعہ کے ساتھ اتفاق ہے.میں اپنے خیال کے مطابق کسی مسیح کی آمد کا منتظر ہیں ہوں نہ کسی کی ضرورت ہے اور نہ خلیفہ المسیح کی ضرورت ہے ابت نیکو کا خدا پرست رہبروں کی ہر زمانہ میں ضرورت ہے.اور مرزا صاحب مرحوم اور جناب کی مثال جتنے بزرگ دنیا میں پیدا ہوں کم ہیں.فرمایا.یہ محلہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے فقرات بولنے والے لوگ کیا مطلب اپنے الفاظ کا رکھتے ہیں.مرزا صاحب کا دعوی تھا کہ میں میسیج ہوں.صدی ہوں خدا مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے.وہ برابر اپنے العلام شنا تے رہے.اب یا تو ایسا شخص اپنے دعوئی میں سچا ہے اور اس قابل ہے کہ اسے مسیح مان لیا جاوے اور یا وہ خدا پر افترا کرتا ہے اور قرآن شریف میں لکھا ہے کہ مفتری سے بڑھکر کوئی ظالم نہیں.راہ ہیں تو دوری ہیں.معلوم نہیں کہ یہ تیسری راہ کہاں سے لوگوں نے فرض کرتی ہے یا دیکھ بد تبر یا وہ ہم جلد مورخه ۵ اکتوبر شده ) پھر بدر نمبر ۲ جلد ۱۲ مورخہ 11 جولائی ۱۹۱۳ء میں چھپ چکا ہے کہ ایک شخص نے حضرت خلیفہ المسیح سے سوال کیا کہ حضرت مرزا صاحب کے ماننے کے بغیر نجات ہے یا نہیں ؟ فرمایا اگر خدا کا کلام سچ ہے تو مرزا صاحب کے ماننے کے بغیر نجات نہیں ہو سکتی ) یا پھر ایک دفعہ اور ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ غیر احمدیوں کو مسلمان سمجھتے ہیں یا نہیں فرمایا میرے نزدیک مسلمان وہ ہے جواللہ تعالیٰ کے حکموں کو مانے ایک شخص اگر مسیح اور حمدی ہو گا دعوی کرتا ہے تو مدعی دو حال سے خالی نہیں یاتو وہ جھوٹا ہے تب تو اس سے بڑھ کر کوئی شریر نہیں.اور اگر وہ سچا ہے تو اسکو نہ مانے والا خدا تعالیٰ سے جنگ کرتا ہے کہ دیکھو بہر نمبر اعلام ۱۹۱۳ مورخه ۲۳- اکتوبر شد ۶ ) پر کلام الامام مندرجه الحکم تیر ۲۴ جلد ۱۳ مورخہ ۲۸ جون شام میں حضرت مولانیات کے الفاظ میں یوں لکھا ہے کہ دو ایک غیر احمدی مولوی نے ہماری دعوت کی یہ غلام محمد امرتسری بھی ہمالہ سے ساتھ تھے وہ میزبان خودتو پنکھا جھلنے کھڑا ہوگیا اور دوسرے مولوی کو پہلے ہی ہم سے بحث کرنے کولا کہ ہمارے پاس بٹھا دیا تھا.بہت سی باتیں زمی ومحبت کی کرتا رہا کہ ہم تو عین کو مرا ہوا مانتے ہیں اور مرزا صاحب کو بڑا راستباز جانتے ہیں اور بھی سب باتوں کو مانتے ہیں گویا آپکے
جلد ۱۴ مرید ہی ہیں.مولوی صاحب ! ذرا یہ چھوٹا مسئلہ بتائیے کہ جو مرزا صاحب کو نہ مانے اسکے متعلق آپ کیا کہتے ہیں نے کہا کہ ایک طرف موسی علیہ السلام دوسری طرف حضرت محمدصلی اله علیم ہیں.پھر ایک طرف موسوی مسیح ہے دوسری طرف میری سیح.موسی علیہ اسلام کے منکروں کو کیا سمجھنا چاہئیے آپ جانتے ہی ہیں پھر حضر محمدصلی اللہ علہ وسلم کے منہ کو کیا بجھا چاہیئے یہ بھی آپ کو معلوم ہے.اسی طرح موسوی مسیح کے مندر کو بھی جو کچھ سمجھتے ہیں.اس کے مقابہ میںمحمد می صحیح کے منہ کو کیا مجھیں.یہ آپ خود ہی تجویز فرما سکتے ہیں.یہ شنکر اپنے لڑکے سے کہنے لگا لا جلدی سے کھانا، ان سے بحث کرنا کوئی معمولی بات نہیں (فرموده ۱۵ مئی اندام در سبد مبارک پھر ایک اور موقعہ پر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ دو اگر مرزا صاحب کو خدا کا مامور د مرسل مانے سے تم ہم کو کافر بناتے ہو تو تم خود سوچ لو کہ ایک مامور مرسل کے انکار سے تم کی بن سکتے ہوں فرتون کانٹے کا نام ہے ماننے والے تو مومن ہی کہلاتے ہیں.دیکھو الحکم نمبر ۲ ۲۶ جلد مورخه ۲۱ و ۲۸ - جولائی شاع) پھر لاہور احمد یہ بلڈ نگس کے مسجد نما ہال میں کھڑے ہو کر حضرت خلیفہ اول نے جو تقریر فرمائی وہ مستند کفرہ اسلام کو بالکل صاف کر دیتی ہے.آپ نے فرمایا." دوسرا مسئلہ جس پر اختلاف ہوتا ہے وہ اکفار کا مسلہ ہے.اپنے مخالفوں کو کیا سمجھنا چاہیئے ؟ اس مسئلہ کے متعلق تم آپس میں جھگڑتے ہو.ہمارے بادشاہ ہمارے آقا مرزا صاحب نے اسکو کھو کہ بیان کر دیا ہو گر تم پھر بھی جھگرتے ہو.انبیائی کی ضرورت اور ان پر ایمان کے متعلق قرآن مجید نے کھولکر بیان کیا ہے.پس یہ کیسی صاف راہ ہے.ہر نبی کے زمانہ میں لوگوں کے کفر اور ایمان کے اصول کلام الہی میں موجود ہیں جب کوئی نہی آیا اسکے مانے اور زمانے والوں کے متعلق کیا وقت باقی رہ جاتی ہے ؟ ایچاپیچی کرنی اور بات ہے ورنہ اللہ تعالٰی نے کفر ایمان اور شرک کو کھول کر بیان کر دیا ہے.پہلے نہی آتے رہے انکے وقت میں دل ہی تو میں تمھیں.ماننے والے اور نہ مانخی حوالے کیا ان کے متعلق کوئی شبہ تمھیں پیدا ہوا ؟ اور کوئی سوال اٹھا کہ ماننے والوں کو کیا کہیں جو اب تم کہتے ہو کہ مرزا صاحب کے زمانے والوں کو کیا کہیں......غرض کفروہ ایمان کے صول تم کو بتا دیے گئے ہیں حضرت صاحب خدا کے مرسل میں اگروہ نبی کا لفظ اپنی نعت ہو تے
نمبرام ریلویو آپ پلیجز 101 تو بخاری کی حدیث کو نعوذ باللہ غلط قرار دیتے جس میں آنیوالے کا نام نبی اللہ رکھا ہے پس نبی کا لفظ بولنے پر مجبور ہیں.اب انکے ماننے اور انکار کا مسئلہ صاف ہے.عربی بولی میں گفت انکار ہی کو کہتے ہیں.ایک شخص اسلام کو مانتا ہے.اس حصہ میں اسکو اپنا قریبی سمجھ لوجیں شمع پر یہود کے مقابلہ میں عیسائیوں کو قریبی سمجھتے ہو اسی طرح یہ مرزا صاحب کا انکار کر کے ہمارے قریبی ہو سکتے ہیں.(دیکھو بدر نمبر جلد ۱۲ مورخہ ۴.جولائی ۴۱۱۳) پھر الفضل نمبر ٠ ه ج مورخہ ۲۷ - متى شراء میں حضرت خلیفہ المسیح اول کا ایک فتونی چھپا ہے وہ بھی مسئلہ کفر کو بالکل صاف کر دیتا ہے.حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں " سینکڑوں امور کفر کے ایسے ہیں کہ اگران میں سے ایک کا بھی معتقد ہو تو ا و سوسکا ہے کجا ۹۹ - مثلاً کوئی کے اللہ کا مانا لغو ہے یا یہ کہ رسولوں کا ، اعتقاد بیہودہ ہے تو کیا آپ اسکے کفر میں تردد ہو گا.اسرائیلی مسیح کے وقت مسیح کے منکر ہو اللہ تعالٰی کو مانتے تھے توریت پر ان کا ایمان تھا سب رسولوں کو مانتے تھے سوائے حضرت مسیح کے کیا وہ کیا فر تھے یا نہ تھے ؟ ہمارے پاک سردار سعید و مولا خاتم الرسل خاتم الانبيا وشفيع يوم الجو، جو رسول شده صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہوا اور نصاری اللہ کو مانتے ہیں اللہ تعالیٰ کے رسولوں کتابوں فرشتوں کو مانتے ہیں کیا اس انکار پر کافر ہیں یا نہیں ؟ کافر ہیں ! اگر اسرائیلی مسیح رسول کا منکر کافر ہے تو محمدی مسیج رسول کا منکر کیوں کافر نہیں اگر اسرائیلی میسج موسیٰ کا خاتم الخلفا یا خلیفہ یا متبع ایسا ہے کہ اس کا منکر کا فر ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم الخلف یا خلیفہ یا متبع کیوں ایسا نہیں کہ اسکا منکر کا فر ہو.اگر وہ مسیح ایسا تھا کہ اس کا منکر کا فر ہے.و یہ میسج بھی کسی طرح کم نہیں یہ محمدی سی او محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین اور اس کا غلام ہے کیا پھر حضرت خلیفہ اول کا ایک خط ہے جو حضرت مسیح موعود کی زندگی میں چھپ چکا ہے.ہمیں آپ تحریر فرماتے ہیں :- میاں صاحب السلام علیکم ورحمتہ ال وہ رکا نہ آپ کے سوالات پر خاکسار کو تجب
١٥٢ صل جلد آتا رہا.مجھے معلوم نہیں کہ آپ مقلد ہیں یا غیر مقلد ہیں پھر آپ کی استعداد کس قدر ہے جوابات کے لیے مخاطب کی حالت اگر معلوم ہو تو جیب کو بہت آرام ملتا ہے بہر حال گزارش ہے.آپ کفر دون کفر کے قائل معلوم ہوتے ہیں کیونکہ آپنے کفر کے سادات کالا تذکرہ خط میں بہت فرمایا ہے.میاں صاحب با رسولوں میں تفاضل تو نر در ہے اللہ فرماتا ہے تلك الرسل فضلنا بعضهم على بعض ابتداء بارہ تیسرا.جب رسل میں مساوات نہ رہی تو اسکے انکار کی مساوات بھی آپ کے طرز پر نہ ہو گی تو آپ ایسا خیالی فرمالیں کہ موسی علیہ السلام کے میچ کا منکہ جس فتوے کا مستحق ہے اس سے بڑھکر خاتم الانبیاء کے بیچ کا منکر ہے صلواۃ اللہ علیہم اجمعین.میاں صاحب اللہ تعالٰی مومنوں کی طرف سے ارشاد فرماتا ہے کہ ان کا قول ہوتا ہے لا نفرق بین احد من رسله اور آپ نے بلا وجہ یہ تفرقہ نکالا کہ صاحب شریعت کا منکر کا فر ہو سکتا ہے اور غیر صاحب شرع کا منکر کا فرنہیں مجھے ایس تفرقہ کی وجہ معلوم نہیں ہوئی.نیز عرض ہے خلفاء کے منہ پر بھی کفر کا تو میقان مجید میں موجود ہے.آیت خلافت جو سورۃ نور میں ہے اسمیں ارشاد الہی ہے ومن كفر بعد ذلك فأولينك هم الفسقون اور فاسق کو اللہ تعالٰی نے مومن کے مقابلہ پر رکھا ہے.ارشاد ہے اطمن کان مومنا لمن كان فاسقام بلکہ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسولوں میں تفرقہ کنندے کو قرآن کریم نے کافر فرمایا ہے پارہ چنے میں ہے یفرقون بین الله ورسله پھر مایا او ليك هم الكافرون حقاً پاره چه رکوع اول یہاں تفرقه بین الله و بین الرسل کے بچے کفر کا بات قرار دیا ہے.جن دلائل وجوہ سے ہم لوگ قرآن کریم کو مانتے ہیں انہیں دلائل و وجوہ سے ہمیں میسج کو ماننا پڑا ہے اگر دلائل کا انکار کریں تو اسلام ہی جاتا ہے.آپ اس آیت پر خود و اویں واذا قيل لهم أمنوا بما انزل الله قالوا نو من بما انزل الينا ويكفرون بما وراءه وهو الحق مصدقا لما معهم - دلائل کی مساوات پر مدلول کی مساوات کیوں نہیں مانی جاتی کیا آپ کے نزدیک مسلم رسا و حساب شرمیت
نمبر ۴ ریویو ان المجنز ۱۵۳ نہیں انکا ان کام بھی کفر نہیں ؟ یہ رے خیال میں میں اور اکثر عقلمند مرزائی یہ نہیں مانتے کہ تمام مسادی ہیں.کفر دون کفر کے قائل ہیں ی ( نور الدین ۵ - جولائی (۶) اس باب میں چند اعتراضوں کا مختصر جواب دیا جا دیگا جو خلافت کے مخالفین کی طرف سے مسئلہ کفر کے متعلق ہم پر ہوتے ہیں :- پہلا اعتراض جودہ لوگ پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے بعض کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ میرا انکارکر کے کوئی شخص کافر نہیں ہو جاتا مثلاً وہ لوگ کہا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے تریاق القلوب صفحہ ۱۳۰ پر لکھا ہے :." میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعوے کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کا فر یا دجال نہیں ہو سکتا ہاں مال اور جادہ صواب سے منحرف ضرور ہو گا اور میں اس کا نام ہے ایمان نہیں رکھتا ہاں ایسے سب لوگوں کو ضال ا در جادہ صواب سے دور سمجھتا ہوں جو ان سچائیوں سے انکار کرتے ہیں جو خدائے تعالیٰ نے میرے پر کھولی ہیں.لیکن یں کسی کلمہ گو کا کا نام نہیں رکھتا جب تک وہ میری التکفیر اور تکذیب کر کے اپنے تئیں خود کا فرنہ بنا لیوے سو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک ایک وقت حضرت صاحب نے ایسا لکھا کہ میرے انکار سے کوئی کا نہیں ہوتا مگر بعد میں اللہ تعالٰی نے آپ کو الہا ، اس عقیدہ سے بدل دیا جیسا کہ آپ عبد الحکیم خان کو لکھتے ہیں کہ :.بہر حال جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جسکو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے تو یہ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اب میں ایک شخص کے کہنے سے جس کا دل ہزاروں تاریکیوں میں مبتلا ہے خدا کے حکم کو چھوڑ دوں کیا دوسرے یہ کہ حضرت صاحب یہ تو ہمیشہ ہی لکھتے آئے ہیں کہ بموجب حدیث معین تھے کا ر کھنے والا خود کافر ہوجاتا ہے.اب دیکھنا یہ ہے کہ حضرت صاحب کے کون کافر کہتا ہر قرار دی
۱۵۴ کا لفصل.جلد ۱۴ میں آیا ہے کہ فمن اظلم ممن افترى على الله كذبا او كذب بأيته یعنی دو شخص سب سے بڑھکر کا فر ہمیں ایک وہ جو خدا پر افترنی کرتا ہے دوسرے وہ جو خدا کے کلام کی تہذیب کرتا ہے پس اس لیئے ہر ایک وہ شخص جو حضرت صاحب کو نہیں مانتا آپکو کا فر قرار دیتا ہے اس لیے خود کافر ہو جاتا ہے اور یہی ہمیشہ سے حضرت صاحب کا عقیدہ ہے.خلاصہ کلام یہ کہ حضرت مسیح موعود او ائل زمانے میں اپنے منکروں کو صرف اپنے انکار کی وجہ سے کا نہیں کہتے تھے لیکن انکو اپنی تکفیر کی وجہ سے ضرور کافر قرار دیتے رہے اور یہ یاد رہے کہ آپ کے خیال میں تکفیر کرنے والا ہر ایک وہ شخص ہے جو آپ کو نہ مانے جیسا کہ آپ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۶۳ پر لکھتے ہیں کہ یہ خدا کے نزدیک کافر کہنے والے اور نہ ماننے والے ایک ہی قسم کے انسان میں کیونکہ جومجھے نہیں مانتا وہ مجھے مفتری علی اللہ قرار دیگر میری تکفیر کرتا ہے کہ یہ تو وہ عقیدہ ہے.جو حضرت صاحب کا شروع سے لیکہ آخر یک رہا لیکن آپ کا دوسرا عقیدہ کہ میرے انکار کی وجہ سے کفر لازم نہیں آتا اللہ تعالیٰ کے الہام نے بدل دیا جیسا کہ میں اوپر بتا آیا ہوں.اور اس تبدیلی عقیدہ کی یہ وجہ تھی کہ آپ اوائیل میں اپنی نبوت کو جزوی نبوت سمجھتے رہے.مگر بعد میں اللہ تعالیٰ کی متواتر وحی نے آپکے اس خیال کو بدل دیا اور آپ کو اس بات پر مجبور کیا کہ آپ اپنے آپ کو کامل ظلی نبی کے طور پر پیش کریں جس کے انکار سے انسان بموجب آیت أو ليك هم الکافرون حقا کا فر ہو جاتا ہے.فقد بروا دوسرا یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ایک کلمہ گو کس طرح کا فر ہو سکتا ہ اور غیر اناری سلمان تمام کلمہ گو ہیں وہ مسیح موعود کے انکار کس طرح کا ر ہو جائینگے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کلمہ گو کو کافر نہیں کہتے ہاں جسکے اندر خود کوئی کفر کی وجہ پیدا ہو جائے اسے کس طرح مومن جان سکتے ہیں.غور کا مقام ہے کہ اگر ایک کلمہ گود و سر کلمہ گو کو کافر آکر خود کافر ہو جاتا ہے تو کیوں وہ کفر کی کسی اور وجہ کے پید اہو جانے سر کافر نہیں ہو سکتا مثال کے صوبہ پر دیکھو زید اور بکر دو کلمہ گو مسلمان ہیں ان میں سے زید بغیر کسی کافی ثبوت کے بکر کو کافر کہتا ہے تو زید بموجب فتوئی حضرت نبی کریم با وجود
نمبر ام ریویو ان المجنز به کلمہ گو ہونے کے کافر ہو جائیگا جب زید کو اس کا کلمہ گو ہونا کافر ہو جانے سے بچا نہیں سکتا تو پھر یہ کہنا کہ کلمہ گو کسی صورت میں بھی کافر نہیں ہو سکتا کیسا بیہودہ اور بے معنی مسئلہ ہے میں میں بات یہ ہے کہ کار یعنی لا اله الا الله محمد رسول اللہ ایک اصول کے طور پر ہے اس میں باقی تمام رسول بھی شامل ہیں.محمد رسول اللہ کا نام اس واسطے کلمہ میں رکھا گیا ہے کہ وہ تمام رسولوں کے سرتاج ہیں پس وہ جو آپ کے کسی ماتحت افسر کا انکار کرتا ہے وہ حقیقت میں میں آپ کا انکار کرتا ہے اس لیئے باوجود زبانی دعوی کرنے کے اسکے لیے ہی کہا جائیگا کہ وہ محمد رسول اللہ کو نہیں مانتا.حدیث میں آتا ہے من قال لا الله الا الله دخل الجنة یعنی جس نے کہا کہ احد کے سوا کوئی خدا نہیں وہ جنت میں جائیگا.اب اس فقرہ کے ظاہرہ معنی لیے جاویں تو نعوذ باللہ ماننا پڑیگا کہ نبی کریم پر ایمان لانا بھی ضروری نہیں ہے صرف اللہ کو ایک مانا نجات کے لیے کافی ہے حالانکہ یہ قرآن کی صریح تعلیم کے خلاف ہے، اسلئے تمام علمائے امت نے لا اله الا اللہ میں محمد رسول اللہ کو داخل سمجھا ہے پر جب الا اله الا اللہ میں محمد رسول اللہ شامل ہو سکتا ہے تو کیوں محمد رسول اللہ میں باقی سارے رسول شامل نہیں ہو سکتے.یہ مضمون کسی قدر لمبا بیان چاہتا ہے گر بخوف طوالت اسی پر اکتفا کرتا ہوں.تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ مرزا صاحب تو صرف بطور اسلام کے ایک خاد کرے آئے تھے اور ان کا کام صرف نبی کریم کا منوانا تھا اس لیے مرزا صاحب کی ذات پر ایمان لانا ضروری نہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ حضرت مسیح موعود نبی کریم کو منوانے آمر تھے مگریہ بھی تو درست ہے کہ نبی کریم خدا کو منوانے آئے تھے اب نبی کریم کے ماننے سے بھی چھٹی ہوئی صرف خدا کو لیے بیٹھے رہو.نادان اس بات کو نہیں سمجھتے کہ جس طرح نبی کریم نے خدا کو منوانے کے لیے اپنے آپ کو منوایا اور اس بات کو ضروری قرار دیا کہ آپ پر ایمان لایا جاوے یہی حال مسیح موعود کا ہے وہ بے شک نبی کریم کو منوانے کے لیے مبعوث کیا گیا.گر ساتھ ہی سپر ایمان لانا بھی ضروری ہو گیا.کیا معترض کو ہم یہ نہیں کر سکتے کہ جب نبی کریم
104 کا مفصل جلد ۱۴ خدا کو منوانے آئے تھے تو پھر آپ کو ماننے کی کیا ضرورت ہے اور اگر خدا کو ماننے کے لیے نبی کریم کان مناضروری ہے تو ہم کہتے ہیں اس زمانہمیں نبی کریم کو منانے کے لیے مسیح موعود پر ایمان لانا ضروری ہے اور اگر ہمارے مخالف یہ کی کہ کیا نبی کریم کو بغیر بار مسیح موعود نہیں ان جان آخر اتنے لوگ آپ کو پہلے مانتے ہی تھے تو ہم کہیں گے کہ کیا خدا کو بغیر اتباع نبی کریم نہیں مانا جا سکتا آخر اتنے لوگ پہلے اسکو مانتے ہی تھے اور اگر یہ کہ کہ بغیر مانے نبی کریم کے خدا پر ایمان کامل نہیں ہو سکتا تو ہم کہتے ہیں کہ اسی طرح بغیر سیح موعود کو ماننے کے اس زمانہ میں نبی کریم پہ ایان کامل نہیں ہو سکتا بغرض ایسی محبتیں نکالنا صرف ان لوگوں کا کام ہے جو قرآن اور حدیث کے محاورات سے بالکل بے خبر ہیں اور نہیں جانتے کہ ایمان باللہ اور ایمان بالرسل کے کیا معنی ہیں.اور پھر ہمارے مخالف اس بات پر بھی تو غور کریں کہ گرمسیح موعود پر ایمان انا ضروری نہیں تو کیوں نبی کریم نے اس پر ایمان لے آنے کی اپنی امت کو وصیت فرمائی اور اسکے زمانے والوں کو یہودی قرار دیا.چوتھا اعتراض یہ پیش کیا جاتا ہے کہ صرف شرعی نبی کا انکار کفر ہوتا ہے غیر شرعی نبی کا انکار کفر نہیں ہوتا اس کا جواب یہ ہے کہ اس بات کا ثبوت پیش کیا جائے کہ غیر شرعی نبی کا انکار کفر نہیں ہونا قرآن کریم میں تو یہ آتا ہے ان الذین یکفرون بالله ورسله ويريدون ان يفرقوا بين الله ورسله ويقولون نؤمن بعض ونكفر ببعض ويريدون ان يتخذوا بين ذلك سبيلا أوليك هم الكافرون حقا واعتدنا للکافرین عذاباً مھینا.اس آیت کریہ میں تو اللہ تعالیٰ نے رسل کا لفظ رکھا ہے جس میں ہر ایک قسم کے رسول شامل ہیں کوئی خصوصیت نہیں چاہے کوئی رسول شرعی ہو یا غیر شرعی ہندوستان میں آدے یا کسی اور ملک میں کسی ایک کا انکار کفر ہو جاتا ہے اور اگر یہ کہو کہ پھر حضرت مسیح موعود نے تریاق القلوب میں کیوں لکھا ہے کہ صرف شرعی نبی کا منکر کافر ہوتا ہے کسی اور کا نہیں.تو اس کا یہ جوا ہے کہ ہم تو دونوں کو سچا جانتے ہیں.قرآن تو خود ذات باری تعال کا کلام ہے اور مسیح موعود کا قول بھی اس شخص کا قول ہے جسکو نبی کریم نے حکم کے نام سے
نمبر ہ یوید آن به همجنز 106 کانا ہے.پس ہم کو چاہیے کرکسی کسی طرح پر دو اقوال کو تطبیق دینے کی کوشش کریں کنی کے ہمارے لیے دونوں واجب القبول ہیں.اب اگر ہم غور کریں تو بات مشکل نہیں رہتی بلکہ بہت جلد حل ہو جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ چونکہ شرعی نبی اپنے ساتھ احکام لاتا ہے اسلئے اس کا انکار براہ راست انسان کو کافر بنا دیتا ہے مگر غیر شرعی نبی کے معاملہ میں یہ بات نہیں سینی وہ اپنے ساتھ کوئی نئے احکام نہیں لاتا س لیے اس کا انکار براہ راست انسان کو کافر نہیں بناتا بلکہ چونکہ ایسے نبی کا انکار حقیقت میں اس نبی کا انکار ہوتا ہے جس کی شریعت پر وہ لوگوں کو قائیم کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا ہے اس لیئے اسکے منکروں پر کفر کا فتوئی اسی واسطہ سے ایک ہوتا ہے یعنی غیر شرعی نبی کا انکار انسان کو بلا واسطہ کا فرنہیں بناتا بلکہ بالواسطہ کا فر بناتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ جو مجھے نہیں مانتا وہ حقیقت میں خود محمد رکواللہ کو نہیں مانتا کے لیے میں مبعوث کیا گیا ہوں پس مسیح موعود نے بھی سچ لکھا ہو کہ صرف شرعی نبی کا انکار کفر ہے اور قرآن کریم بھی سچ کہتا ہے کہ ہر ایک نبی کا انکار کفر ہے.مسیح موعود کا کلام تو اس طرح سچا ہے کہ وہ جسکے انکار سے بلاواسطہ انسان کا فر ہو جاتا ہو صرف شرعی بنی ہی ہے کیونکہ احکام صرف ایسے نبی کو ہی ملتے ہیں.اور قرآن کریم کا فرمان اس طرح سے ہے کہ غیر شرعی نبی کا انکار خواہ بالواسطہ کفر ہو مگر آخر ہے تو کفر ہی.پس اس لحاظ سو! کہ نتیجہ ہر ایک نبی کے انکار کا خواہ وہ شرعی ہو یا غیر شرعی کفر ہی ہوتا ہے قرآن کریم کا فتوئی بھی حق ہو آپس مسیح موعود کا منکر کا فر تو ضرور ہو اگر ہاں آپ کفر کا فتوی مسیح موعود کی طرف تھے نہیں لگایا جائیگا بلکہ خود دربار محمدی سے یہ فرمان جاری ہوگا کیونکہ مسیح موعود اپنی ذات میں کچھ چیز نہیں بلکہ صرف محمد رسول اللہ کا کامل ظل ہونے کی وجہ سے قائم ہے.فقد بروا پانچواں اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر نبی کر یم کے بعد مرزا صاحب بھی ایسے نہیں ہیں کہ ان کا ماننا ضروری ہے تو پھر مرزا صاحب کا کلمہ کیوں نہیں پڑھتے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب انسان کسی حق کا انکار کرتا ہے تو اسکی مقتل ماری جاتی ہے اور وہ ایسی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے کہ ایک بچہ بھی انہیں شنکر ہے.اب کیسی بیوقوفی کی بات ہے کہ مرزا صاحب کا ماننا اگر ضروری ہے تو ان کا کلمہ کیوں نہیں پڑھتے.غالباً
IDA کا لفصل جلد ۱۳ معترض کا یہ خیال ہے کہ کلمہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کا اسم مبارک اس غرض سے رکھا گیا ہے کہ وہ آخری نبی ہیں تبھی تو یہ اعتراض کرتا ہے کہ اگر محمد رسول اللہ کے بعد کوئی اور نبی ہے تو اس کا کلمہ بناؤ نادان آنا نہیں سوچتا کہ محمد رسول اللہ کا نام کلمہ میں تو اس لیے رکھا گیا.ہے کہ آپ نبیوں کے سرتاج اور خاتم النبین ہیں اور آپ کا نام لینے سے باقی سب نبی خود اندر آجاتے ہیں ہر ایک کا علیحدہ نام لینے کی ضرورت نہیں ہے ہاں حضرت مسیح موعود کے آنے سے ایک فرق ضرور پیدا ہو گیا ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود کی بعثت سے پہلے تو محمد رسول اللہ کے مفہوم میں صرف آپنے پہلے گزرے ہوئے انبیا ء شامل تھے مگر مسیح موجود کی بعثت کے بعد محمد رسول اللہ کے مفہوم میں ایک اور رسول کی زیادتی ہو گئی اندا مسیح موعود کے آنے سے نعوذ با سد لا اله الا الله محمد رسول اللہ کا کلمہ باطل نہیں ہوتا بلکہ اور بھی زیادہ شان سے چمکنے لگ جاتا ہے.غرض اب بھی اسلام میں داخل ہونے کے لیے یہی کلمہ ہے صرفت فرق اتنا ہے کہ مسیح موعود کی آمد نے مھمد رسول اصد کے مفہوم میں ایک رسول کی زیادتی کر دی ہے اور ہیں.علاوہ اسکے اگر ہم بفرض محال یہ بات مان بھی لیں کہ کلمہ شریعت میں نبی کریم کا اسم مبارک اس لیے رکھا گیا ہے کہ آپ آخری نبی ہیں.سے تو تب بھی کوئی حرج واقع نہیں ہوتا اور ہم کو نئے کلمہ کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ سے موعود نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے صار وجودی وجود کا نیز من فرق بيني وبين المصطفة فما عرفنی و ماری اور یہ اس لیئے ہے.کہ اللہ تعالی کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دقعہ اور خاتم النبین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے پس مسیح موعود خود محمد رسول اللہ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے.اس لیئے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت لیئے نہیں ہاں اگر محمد رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آیا تو ضرورت پیش آتی.فتدبر دا چھٹا اعتراض یہ ہے کہ لا نفرق بین احد من سرسلہ کے لفظ ر سال کے مفہوم میں صرف وہی رسول شامل ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گذر چکے ہیں اور اس کا ثبوت یہ دیا جاتا ہے کہ سورۃ بقر کے پہلے رکوع میں منتقی کی شان میں
ریویو آب المجزر 109 آتا ہے والذین یؤمنون بما انزل اليك وما انزل من قبلك بالأخرة هم یو قنون.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف نبی کریم اور آپ کے پہلے انبیاء پر ایمان ا نفروری ہے بعد میں آنیوالے پر ایمان لانا ضروری نہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں تو رسولوں کا ذکر نہیں بلکہ الہام الہی اور کتب کا ذکر ہے جیسے ما انزل اليك وما انزل من قبلک سے ظاہر ہے اب چونکہ نبی کریم کے بعد کوئی نئی وحی شریعت نہیں اس لیے آپ کے بعد کے زمانہ کا ذکر ضروری نہ تھا.اسی وجہ سے اسے چھوڑا گیا.ہاں چونکہ ہمارے لیے ما انزل اليك وما انزل من قبلاک پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے اسلئے ہمارا فرض ہے کہ دیکھیں کہ ما انزل الیک اور نما انزل من قبلک میں کیا تعلیم دیتی ہے.اب ما انزل الیک یعنی قرآن میں ہم لکھا دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو سارے نبیوں کو ماننا ضروری نہیں سمجھتے اور بعض کو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں وہ پکتے کافر ہیں.دوسرے معترض کو اتنا تو دور کرنا چاہئے تھا کہ قرآن کریم کی آیت لا نفرق بين اخد من س مسلہ ایک اصول کے رنگ پر ہے.ار صحابہ کرام میں سے کسی ایک کے منہ سے یہ کلمہ نکلتا تھا تو اسکا مطلب یہ ہوتا تھاکہ میں نبی کریم اور آپسے پہلے گذرے ہوئے تمام انبیاء کو مانتا ہوں کین اس زمانہ میں چونکہ لفظ ہر سال کے مفہوم میں ایک رسول کی زیادتی ہو چکی ہے اس لیے لا نفری بین احد من رسله حقیقی طور پر صرف اس شخص کا قول ہو سکتا جو اس میں مسیح موعود کو بھی شامل تھے.یہ ایک موٹی سی بات ہے کہ مسیح موعود کی بعثت سے پہلے رسل کے مفہوم میں محمد رسول اللہ مینی سینی زکریا سلیمان داؤد موسی یوسف یعقوب افق اسمعیل ابراهیم نوح علیهم السلام شامل تھے مگر مسیح موعود نہ تھا لیکن مسیح موعود جب دنیا میں آگیا ہے اور ایک سوال کی حیثیت میں لوگوں کے سامنے کھڑ ا ہوا تو پھر اسے بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا.اگر آیت کر میم میں لفظ رسل کے مفہوم میں صرف آنحضرت اور اپنے پہلے گزری ہور کا سال تھے تو قرآن کریم اس آیت کو کبھی اصول کے رنگ میں پیش کرتا گھر اس نے تو اسے ایک اصول ٹھہرایا ہے اور یہ تاباں ہے کہ مومن وہی ہوتا ہے جس کا یہ قول ہو تو پھر ، کیسے غضب کی بات ہے کہ مسیح موعود کو لغفار سال میں شامل نہ کیا جاوے اگر وہ خدا کا رسول ہے تو ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں اُس پر ایمان لانا بھی ضروری
14.کا لفصل جل ہے پھر شاید معترض کی اس طرف نظر نہیں گئی روما انزل من قبلات کے آگے و بالآخرة هم یو قنون بھی لکھا ہوا ہے.یہاں یوم الأحترق کا لفظ تو نہیں ہے کہ ہم ضرور جز اروسا کے دن کے معنی کریں بلکہ اس سے نبی کریم کے بعد نازل ہونے والا المهام مراد ہے کیونکہ یہاں طمانات کا ہی ذکر ہے پس ہم کہتے ہیں کہ دہی بیج موعود ہے اور یہ نی لینے اپنے پاس سر نہیں کیئے بلکہ خود حضرت مسیح موعود نے آخرت سے اپنی وحی مراد لی ہے اور حضرت خلیفہ اول نے بھی جو پہلا پارہ با ترجمہ چھپوایا تھا ان میں آخرہ سے مراد مبین موعود کا الہا میا ہے.غرض معترض خواہ ہزار سر پیٹے اب مسیح موعود کے ماننے کے بغیر تو نجات نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ آسمانی نوردوں میں سے آخری نور ہے اور اسکے بغیر سب تاریکی ہے.پھر ساتواں اعتراض یہ کیا جاتاہے کہ مسیح موعود تو آنحضرت کا ایک خلیفہ تھا اس لیئے اس کا منکر تو فاسق ہوا نہ کہ کافر.تو اس کا جواب یہ ہے کہ غیر احمدیوں کے ڈر سے تمھا.خون خشک ہوتا ہے تم بھلا ان کو فاسق کیوں کہنے لگے.اچھا اگر کچھ بہت ہے اور یہ قول تمھارا نفاق پر مبنی نہیں تو اپنے اخبار میں موٹے الفاظ میں چھپوا دو کہ چونکہ سیح موعود نبی کریم کا خلیفہ ہے اس لیے ہم تمام غیر احمدیوں کو بموجب قرآن کریم کی تعلیم کے فاسق سمجھتے ہیں تب ہم مان لیں گے کہ آپ کا یہ قول کہ مسیح موعود نبی کریم کا چونکہ خلیفہ ہے اس لیے اس کا منکر کافر نہیں بلکہ فاسق ہے نفاق پر منی نہیں ورنہ عورتوں کی طرح اپنے گھروں کی چار دیواری میں بیٹھ کر باتیں بنانے کے ہم قائل نہیں.اگر بہت ہے تو مرد میدان بنو اور اپنے قومی کوشائع کرو ورنہ ہم سمجھ لینگے کہ آئے گی مسیح موعود کو آنحضرت کا خلیفہ بھی نہیں مانتے.میں اس بات پر علی وجہ البصيرة قائم ہوں کہ آپ لوگوں کو خلافت ثانی کا ابتلا نہیں ہے بلکہ خلافت کے مسئلہ کو تو ایک آڑ بنالیا گیا ہے ورنہ در اصل حضرت مسیح موعود کے دعاوی کے متعلق سارا ابتداء ہے لیکن چونکہ ایک دفعہ ان کو سیع موجود مان چکے ہو وہ اپنی بہت نہیں رکھتے کہ عبد الحکم خان کی طرح کھلے لفظ میں انکار کر دو اس لیے ساتھ لگے چلے جاتے ہو.اگر آپ سارے ایسے نہیں تو کم از کم آپ میں سے بعض تو یقیناً در پرده احمدیت کو اشاعت اسلام کے لیے سم قاتل ٹھہرا چکے ہیں.اسہ لیسی اس کے متعلق اہم ایک شہادت معصوم ہوا کے حاشیہ پر درج کہتے ہیں انشا اللہ اس شہا دت سے معترضین کے اعتراضش على منه
نمبر ۲ ریویو آن را لحجز اپنا رحم کرے.اب اپنے اعتراض کا حقیقی جواب بھی سن لو اور وہ یہ کہ مسیح موعود کی دو حیثیتیں ہیں وہ خلیفہ بھی ہیں اور نبی بھی.اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی میں ان مہر دو ناموں سے یاد کیا ہے جیسا کہ آپ کا امام ہے اردت ان استخلف فخلقت ادم یعنی خدا کہتا ہے کہ لینے ارادہ کیا کہ ایک خلیفہ بناؤں پس لینے اس آدم کو پیدا کیا.اس الہام میں سیح موعود کو خلیفہ کیا گیا ہے اسکے علاوہ مسیح موعود نے ویسے بھی اپنے آپ کو آنحضرت کے ایک بینی خلیفہ کے طور پر پیش کیا ہے مگر ایک اور آپ کا الہام ہے یا ایھا النبی عموا الجائع والمحتر اس میں آپ کو نبی کا خطاب دیا گیا ہے پھر ایک اور الہام ہے آنی مع الرسول اقوم اس الہام میں مسیح موعود کو رسول کہا گیا ہے.اب بات بالکل صاف ہے.چونکہ آپ خلیفہ تھے اس لیے آپ کا منکر فاسق ہے اور چونکہ آپ نبی اور رسول تھے اس لیے آپ کا منکر کا فر ہے.فتد بروا آٹھواں اعتراض یہ پیش کیاجاتا ہے کہ اگر مسیح موعود واقعی ہر ایک این شخص کو کافر سمجھتے تھے جس نے آپ کو قبول نہیں کیا تو پھر آپ نے یہ کیوں لکھا کہ اگر میرے مخالف ان مولویوں کو کا فرکہدیں جنہوں نے مجھ پر کفر کا فتوی لگایا ہے تو میں انکو مسلمان سمجھ لونگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف مسیح موعود کے انکار سے کوئی شخص کافر نہیں ہو جاتا بلکہ ایک ایسی صورت بھی نکل سکتی ہے جس میں انسان مسیح موعود کو قبول بھی کرے اور پھر حقیقی مسلمان بھی رہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خیال قلبت تدبر کا نتیجہ ہے ورنہ بات بالکل صاف ہے.اور وہ یہ کہ اصل عقیدہ حضرت مسیح موعود کا رہی ہے جو اپنے اپنے الہام کی بناپر عبد الحلی منان کو لکھا اور باقی جو کچھ ہے وہ اس الہام کے ثبوت میں ہے.ورنہ یہ کیسے مکن ہے کہ آپ اور تھا کے مرتاح حکم کے خلاف بات کہنی شروع کر دیں اس لیئے ہمارا فرض ہے کہ ہم آپ کی تمام عیار توس کو آپکے امام کی تشریح قرار دیں کیونکہ الہام ایک محکم آیت کی صورت میں ہے پس میں تو یہی کہوں گا کہ حضرت مسیح موعود نے مختلف طریقوں میں اپنے الہام کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور دلائل کے طور پر کئی باتوں کو پیش کیا ہے مثلا یہ کہ جو مجھے نہیں مانتا وہ حقیقت میں مجھے کو کافر قرار دیتا ہے اس لیے خود کافر بنتا ہے یا یہ کہ جو مجھے نہیں مانتا وہ حقیقت میں
الفصل جلد ۱۴ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا جنہوں نے میرے آنے کی پیشگوئی کی اسی طرح وہ عبارت بھی جیر معترض کو دھوکا لگا ہے در حقیقت اسی مطلب کے لیے ہے چنانچہ اصل عبارت کو دیکھنے سے سب معاملہ صاف ہو جائیں گا.حضرت مسیح موجود تحریر فرماتے ہیں کہ :.اگر دوسرے لوگوں میں تخم دیانت اور ایمان ہے اور وہ منافق نہیں ہیں تو انکو چاہیے کہ ان مولویوں کے بارے میں ایک لمبا اشتہار ہر ایک مولوی کے نام کی تصریح سے شایع کردیں کہ یہ سب کا فر ہیں کیونکہ انہوں نے ایک مسلمان کو کافر بنایا تب میں انکو مسلمان سمجھ لونگا.بشرطیکہ ان میں کوئی نفاق کا شبہ نہ پایا جاوے اور خدا کے کھلے کھلے پھر رات کے مذب نہ ہوں ، ( دیکھو حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۶۵) یہ ہیں حضرت مسیح موعود کے الفاظ جو ہمارے سامنے بار بار پیش کیئے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس تحریر میں آپنے اس بات کی امکان ضرور رکھی ہے کہ ایک شخص آپ کے انکار کر کے بھی مسلمان رہ سکتا ہے.گر معترض نے غور نہیں کیا کہ یہ بات تعلیق بالمحال کے طور پر ہے جس طرح قرآن میں بھی آتا ہے قل ان كان الله حسن ولدا فانا اول العابدین معنی کہو کہ اگر کوئی رحمن کا بیٹا ہے تو میں اس کا اسے پہلا عبادت کر نیوالا ہوں کیا اس تحریر کو پیش کر کے ہم سے کوئی یہ کہ سکتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے امکان تو اسبات کا ضرور رکھا ہے کہ رحمن کا لڑکا ہو سکتا ہے؟ نہیں اور ہرگز نہیں کیونکہ یہاں تو یہ اشارہ کیا گیا.ہے کہ نہ خدا کا بیٹا ثابت ہو سکیں گا اور نہ ہمیں اسکی عبادت کرونگا.اسی طرح حضرت مسیح موعود نے تعلیق بالمحال کے طور پر اس بات کو پیش کیا ہے کہ اگر کوئی شخص غیر احمدیوں میں سے ہمارے مکفر مولویوں کے نام لیکر اشتہار کے ذریعہ ان کے کافر ہونیکا علان کرے اور مسیح موعود کو سچا مسلمان جانے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ان نشانوں کو بھی سچا جانتا ہو جو اس نے مسیح موعود کے ہاتھ پر ظاہر کیئے میں اور یہ سب کچھ نفاق سے نہ ہو تب ہم ایسے شخص کو مومن مان لیں گے.اب یہ ظاہر بات ہے کہ جو شخص حضرت مسیح موعود کو واقعی سچا مسلمان جانتا ہے اور آپکے مکذبین کو کافر سمجھتا ہے اور آپ کے الہامات اور نشانات کو بھی اللہ تعالٰی کی طرف سے مانتا ہے اور پھر آپ کی بیعت نہیں
نمبر ام ریویو اف امیجز کرتا ایا شخص یقیناً منافق ہے اور صرف زبانی دعوی کرتا ہے ورنہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ حضرت صباحب توری کہیں کہ میری بیت اللہ تعالی کی طرف سے ہر ایک شخص پر ضروری ہے اور وہ باوجود آپ کو راستباز جانے اور آپ کے نشانات اور الہامات پر ایمان لانے کے آپ کی بیعت میں داخل نہ ہو.اسلیئے اگر کوئی شخص ایسا اشتہار دے بھی دے جس میں حضرت صاحب کے مکفرین کو کافر لکھا گیا ہو اور یہ بھی اعلان کرے کہ میں حضرت مرزا صاحب کو راستباز مسلمان سمجھتا ہوں اور آپکے نشانات پر ایمان لاتا ہوں لیکن بیعت کرے تو تب بھی ہم اسکو مسلمان نہیں کہیں گے کیونکہ وہ منافق ہے اور صرف زبان سے دعوی کرتا ہے.پس حضرت صاحب نے تو ایک محال بہت پیش کر کے مخالفین پر محبت قائم کی ہے نہ کہ انکے لیے راستہ کھولا ہے.میں حضرت مسیح موعود کی مقد به کرده شرایط کو پڑ کر اندر ہی اندر بہت لطف اُٹھاتا ہوں کہ آپ نے ایسی شرایط رکھدی ہیں جن کا لازمی نتیجہ بیعت کرنا ہے.پہلی شرط تو یہ ہے کہ مفرین کو کافر کہکر غیروں سے قطع تعلق کرے اور حضرت مسیح موعود کو سچا مسلمان سمجھ کر آپ سے ایک گونہ تعلق پیدا کر رہے.پہلا زینہ ہے جو غیر احمدیت سے احمدیت کی طرف انسان کو لیجاتا ہے دوسری شرط حضرت صاحب نے یہ رکھی ہے کہ خدا کے ان گھلے گھلے نشانات پر ایمان لائے جو اس نے آپ کو عطافرنگی ہیں.یہ دوسرازینہ ہے جو مخالف کو غیروں سے قطعی طور پر الگ کر کے حضرت مسیح موعود کے پاس لاکھڑا کر تا ہے.تیسری شرط حضرت صاحب نے یہ رکھی ہے کہ ان تمام باتوں میں نفاق ہرگز نہ ہو بلکہ یہ سب کچھ دل کے انجان تو کرے اور یہ ظاہر ہے کہ جو شخص با وجود اس دعونی کے کہ وہ حضرت مرزا صاحب کے نشانات پر ایمان لاتا ہے آپ کی بعیت میں داخل نہیں ہواوہ منافق ہے صرف زبانی دعوی کرتا ہے میں اب یہ تیسرا زمینہ ہو گا جو انسان کو مجبور کرگیا.کہ آگے بڑھکر مسیح موعود کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیدے اور آپ کی جماعت میں داخل ہو.کاش اس نکتہ کو ہمارے مخالف بھائی سمجھتے اور ٹھو کر کھانے سے بچتے.علاوہ ازیں ہم کہتے میں کہ جب ابھی تک ایسا شخص کوئی پیدا ہی نہیں ہوا جس نے حضرت مسیح موعود کی مقرر کردہ شرائط کے باتحت کوئی اشتہار نکالا ہو تو اس معالمہ پر بحث کرنا ہی فضول ہے اور اگر کوئی ایسا شخص ہے تو اسے پیش کیا جاوے ہم انشاء اللہ ضرور حضرت مسیح مولد
۱۶۴ کا لفصل جلد ۱۳ کے ارشاد کے ماتحت اسے مسلمان سمجھ لیں گے بشرطیکہ اس میں کوئی نفاق کا شبہ نہ پایا جائے گرمی ہی ہے کہ اس حوالے کی وہی تاویل ہے جو او پر لکھی گئی حضرت صاحب نے در حقیقت اس تحریر میں تمام ان دلائل کو جمع کیا ہے جو آپ وقتاً فوقتاً غیر احمدیوں کے کفر کے متعلق بیان فرماتے رہے.پہلی دلیل آپ یہ دیا کرتے تھے کہ مخالف مجھ پر کفر کا فتوی لگا کر موجب حدیث صحیح خود کار حاشیه متعلق صفحه 14.ایک شہادت ر روی عبدالکریم صاحب کی زندگی میں راتای لای لالو واسلام ایک مولانا کے بینی باران میں تشریف لار اور فرمایاکہ آج میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ قرآن شریف کی وحی اور اس سے پہلی وحی پرایمان کا نی کا ذکر تو قرآن شریف میں موجود ہے.ہماری دی پر ایمان ان کا ذکر کیوں ہیں اس امر پر توجہ کر رہا تاکہ خدا ای کی طرف سر بطور القاء کے سیکا ایک پیٹرول میں یہ بات ڈالی گئی کہ آیہ کریمہ والذین یومنون بما انزل اليك و ما انزل من قبلك وبالأخرة هم يوقنون میں تینوں وجیوں کا ذکر ہے.ما انزل الیسان سو قرآن شریف کی وحی اور مانزل من قبلك سر انبیاء سابقین کی دھی اور آخرقہ سے مراد مسیح مونود کی بھی ہے.آخر کرنے میں مجھے آنیوالی وہ مجھے ایوالی چیز کیا ہے سیاتی کلام سے ظاہرکی کہ ہاں مجھے آنیوالی چیز سر مراد وحی پر قرآن کریم کے بعد نازل ہوگی.کیونکہ اس سے پہلو دیوں کا ذکر ہے.ایک جو انحضرت صلی اللہ علیہ سلم پر نازل ہوئی.دوسری جو آنحضرت مسلم سے قبل نازل ہوئی اور میری وہ جو آپکے بعد آنیوالی تھی حضرت مسیح موعود نے بہت دیر تک اسی مضمون پر بڑی درس گنگو وائی اور بڑے دانت یقین کے ساتھ بظاہر ا ا ا ا ا اخر هم یو فنون میں امری ہی وحی کا ذکر ہے.پینے اسکے بعد حضرت خلیفہ الیسع اول مر بھی اپنے درس میں ہی معنی بیان فرماتے ہوئے ہر اور مولوی مد علیہما نے اپنی نگریزی ترجمہ کا پلا پر بھی دیکھنے کیلیے دیا تواسوقت بھی تیز حضرت مسیح موعود کے یعنی انکو ٹا ئی تھے اور اس معلوم ہوا تھا ان کو بھی ضرت مسیح موعود کے ان مونکی پر علم ہے اگر اس بات کا ذکر کردینا بھی نامعلوم ہو کہ کہ حضرت اقدس علیہ الصلوة و السلام کی عیادت تھی کہ جب کوئی نیا انکشاف یا نئی دلیل یا نا ا ن ا ر نو او مسجد مینی جاتے ہی مسکر متعلق بڑے زور سحر تقریر شروع کر دیتے تھے.اس روز بھی اسی طرح ہوا.اور آپ نے اس دن اس مضمون پر سی طریق سر گفتگو فرمائی جب آپ کسی اور انکشاف کے وقت توری و ایاکرتے تھی جسکو بہت ہی ضروری خیال فرماکر اپنی دائم نایا کرتے تھے یہی ہے کہ حضور کی وہ تقریر اس وقت تک میری دل من میخ فولاد کی طرح گاڑی ہوئی اور کبھی نہیں بھائی کا شیر علی ۱۰- دریل شام تشریف
نمبر ۴ ریویو است المجنز 190 بن گئے اس لیے آپنے تحریر مندرجہ بالا میں سب سے پہلی یہ شرط لگائی کہ مخالف میرے مسلمان ہونے کا اعلان کرے.دوسری دلیل آپ کی یہ ہوا کرتی تھی کہ چونکہ وہ لو جو مجھ کو کافر نہیں کہتے ان تمام لوگوں کو مسلمان سمجھتے ہیں جنہوں نے مجھ پر کفر کافتونی لگایا ہے اور اس طرح کا فروں کو مومن سمجھنے سے خود کافر ہو جاتے ہیں اس لیے دوسری شرط آپنے یہ لگائی کہ وہ میرے تمام مکفرین کو کافر جانے اور اس بات کا بذریعہ اشتہا ر ا علان کرے.تیسری دلیل حضرت مسیح موعود یہ دیا کرتے تھے کہ چونکہ ہر ایک دو شخص جو مجھے کو قبول نہیں کرتا مجھے مفتری علی اللہ قرار دیتا ہے اور مفتری علی الله نہ صرف کا ف بلکہ بڑا کافر ہوتا ہے اس لیے وہ میری تکفیر کر کے خود کا فر ہو جاتا ہے علاوہ اس کے چونکہ میرا مخالف آیات اللہ کی تکذیب کرتا اور آیات کی تکذیب کرنے والا موجب آیت و من اظلم همن افترى على الله كذبا او كذب بایتہ صرف کا بلکہ بڑا کافر ہے اس لیئے حضرت مسیح موعود نے اس دلیل کے مقابل اس شرط کو رکھا کہ ایسا اشتہار دینے والا ان کھلے کھلے نشانوں کو بھی سچا جانے جو اللہ تعالیٰ نے آپکے ہاتھ پر ظاہر کیئے.چوتھی دلیل حضرت مسیح مد عود یہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ چونکہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مرسل ہوں اس لیے ہر ایک جسکو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھ کو نہیں مانادہ مسلمان نہیں ہاں مجس پر خدا کے نزدیک اتمام حجت نہیں ہوا اور وہ مکذب اور منکر ہے تو گو شریعت نے رجسکی بنا ظاہر ہے ہے اس کا نام بھی کافر ہی رکھا ہے اور ہم بھی اسکو باتباع شریعت کافر کے نام سے ہی پکارتے ہیں مگر پھر بھی وہ خدا کے نزدیک موجب آیت کا یكلف الله نفسا إلا وسعها قابل مواخذه نہیں ہوگا.(دیکھو حقیقت الوحی صفحہ ۱۸) اس دلیل کے مقابل حضرت صاحب نے یہ شردا رکھی کہ اشتہار دینے والا منافق نہ ہوجس سے مراد یہ ہے کہ وہ ظاہر طور پر سبعیت بھی کرلے جیسا کہ میں اوپر بتا آیا ہوں.خلاصہ کلام یہ کہ حضرت سیح موعود نے بڑے اس طریقہ پر اپنے مخالفین پرحجت قائم کی ہے اور انکو ایک ایسی بات پر آمادہ کرنا چاہا.ہے جو درجہ بدرجہ انکو احمدیت کے اند فتد بردا نواں اعتراض یہ ہے کہ جب حضرت مسیح موعود کا نبوت کا بھی دعوی تھا تو کیوں آپ نے سات توپر اس بات کو نہیں لکھا کہ میرے نہ ماننے سے چونکہ خدا کے رسولوں میں تفریق ہوتی ہے اس لیے میرا ے نشانات کو مانے کا دعوی کر کے بیعت کرنیوالے کا نام ہنے منافق اس دے رکھا ہو کے نشانات کو احمد تعالی نے حضرت ان کر کے اسے مانتاہور ہے کہ انکی گواہی پر سچے دل سے ایمان بھی لائر یعنی آپکو آپکے تمام دعاوی جب حضرت مسیح موعود کا یہ ارشاد بھی موجود ہے کہ میری بیعت اور تعالٰی کی دق جانتا ہو اور پھر باقاعدہ سلسلہ میں داخل نہ ہونا صکر ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہو.منہ
144 کا لفصل جلد لاف اسلامی با این مجھ کو قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں باقی یہ ضروری نہیں کہ حضرت مسیح موعود ان تمام دلیلوں کو جمع کرتے جن سے غیر احمدیوں کے کفر کا پتہ لگتا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ پر ظاہر کیا کہ تیر اینکر اسلام سے خارج ہے دیکھو خط بطرف عبدالعلیم خان اور چونکہ یہ ایک دعوی تھا جسکی دلیل ہونا چاہتے اسلئے حضرت مسیح موعود نے اس کے ثبوت میں دلیلیں دیں اور بہت دیں.ہاں یہ ضروری نہیں کہ حضرت مسیح موعود تمام دلائل کو جمع کر دیتے ہم نبی کریم کے سچا ہونے کی بیشمار ایسی دلیلیں دیتے ہیں جو نبی کریم نے نہیں ہیں بلکہ خود حضرت مسیح موعود نے نبی کریم کی صداقت ثابت کر نیکے لیئے کئی ایسی دلیلوں کو پیش کیا ہے جن کو نبی کریم نے اپنی صداقت کے ثبوت میں پیش نہیں کیا تو کیا اس بات سے مسیح موعود کے وہ حب دلائل نعوذ باللہ باطل ہو جائینگے.اصل میں بات یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ مدعی اپنے دعوی کی صداقت میں دنیا کے سارے دلائل جمع کر دے بلکہ اسکے لیے صرف اتنا ضروری ہے کہ اپنا دعوئی لوگوں کی نظروں میں سچا کر دکھائے.اگر کوئی دوسرا شخص اُسی بات کے ثبوت میں کوئی ایسی دلیل پیش کرتا ہے جو مدعی نے پیش نہیں کی تو اس سے اس دلیل کی کمزوری ثابت نہیں ہوتی بلکہ کسی دلیل کی صداقت کا معیار عقل ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک انسان کو کم و بیش دے رکھی ہے.پس اپ یہ کہنا کہ چونکہ او با هم الکافرون حقاد الی دلیل حضرت مسیح موعود نے پیش نہیں کی اس لیئے ہم اسکو نہیں مانتے سخت درجہ کا ظلم ہے.کیا ہم وفات مسیح کا مسئلہ ثابت کرنے کے لیے کوئی ایسی دلیل نہیں دیتے جو حضرت مسیح موعود نے لکھی ہو.کیا ہم مسیح موعود کے دعویٰ میمیت کی صداقت میں کسی ایسی دلیل کو پیش نہیں کرتے بسکو خود مسیح موعود نے بیان کیا ہو ؟ پس جب ان عظیم الشان امور میں ہم قابل، اعتراض نہیں شہر تے تو کیا وجہ ہ کفر و اسلام کے مسئلہ میں ہم کو اسی بات کے بینی اعتراض کا نشان بنایا جاوے.اب میں وہ بات بھی لکھ دیتا ہوں جسکی وجہ سے حضرت مسیح موعود نے اُولیک هم الكافرون حقا والی آیت کو پیش نہیں کیا.سو واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو لوگ مامور ہو کر آتے ہیں انکا یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے دعادی کی صداقت ثابت کرنے کے لیے ہمیشہ
نمبر ۴ ریویو ان المحز.146 اس پہلو کو اختیار کرتے ہیں جو مخالفین کے اپنے معتقدات پر مبنی ہوتا کہ جھگڑے کا جلد فیصلہ میاد اس اصل کے ماتحت مسئلہ کفر و اسلام پر نظرڈالنے سے سب معاملہ صاف ہو جاتا ہے.چونکہ غیر مردوں میں ایسے بہت سے لوگ تھے جو ظاہر ا طور پر حضرت مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ نہیں لگاتے تھے اور آپ کو مسلمان سمجھتے تھے اس لیئے آپنے ایسے لوگوں پر محبت پوری کرنے کے لیے انکو گیا کہ چونکہ تم ان تمام لوگوں کومسلمان سمجھے ہو جنوں نے مجھہ کو کافر قرار دیا ہے اس لیے ثابت ہوا کہ تم بھی حقیقت میں مجھ کو کافر سمجھتے ہو ورنہ تمھاری نظروں میں وہ لوگ جو میری تکفیر کر کے کا ر ہو گئے ہیں.ہرگز مسلمان نہ ہوتے پس میرے مکفرین کو مسلمان سمجھنے سے تم خود کافر ہو گئے.یا حضرت صاحب نے یہ پیش کیا کہ چونکہ جو لوگ مجھ کو نہیں مانتے وہ مجھ کو حسب آیت ومن اظلم ممن افتری علے اللہ کذبا کا فر قرار دیتے ہیں اس لیے وہ بموجب حدیث صحیح خود کافر ہو جاتے ہیں.یہ دلائیں چونکہ ایسے تھے کہ مخالفین کے اپنے معتقدات پر مبنی تھے اس لیے وہ ان کے مقابل ہے بالکل بے دست کیا ہو گئے.اور ان کا سارا نفاق باہر آ گیا.یہی وجہ تھی کہ حضرت میرینم موعود نے ان نہ لائیل کو اختیار کیا.لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اولیت هم الکافران حقا والی آیت مسیح موعود کے منکروں پر چسپاں نہیں ہوتی ہوتی ہے اور ضرور ہوتی ہے مگر حضرت صاحب نے اسکو اختیار نہیں کیا کیونکہ اس سے مخالفین پر کوئی زد پڑتی تھی اور ان کا نفاق چھپا رہتا تھا دوسرے اس لیے بھی اس کو نظر انداز کیا گیا کہ اس سے نبوت مسیح موعود کی بحث چھڑ جاتی اور اصل مطلب ضائع ہو جاتا.فتد بروا ہاں اگر اس بات کا ثبوت چاہو کہ حضرت مسیح موعود اپنے مخالفین کو اس آیت کے ماتحت سمجھتے تھے یانہیں تو الحکم نمبر ۳ جلد م ت ا ر پڑھ لوساری حقیقت کمیل بنائیگی.وہاں ۲ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا ایک خطبہ درج ہے جو مولوی صاحب مرحوم نے حضرت سیح موعود کے سامنے پڑھا.مولوی صاحب موصوف نے اس نمیلمہ کو اولیك هم الکافرون والی آیت سے ہی شروع کیا اور احمدیوں گونی طلب کر کے کہا کہ اگر تم مسیح موعود کو ہر ایک امری حکم نہیں ٹھہراؤ گے اور اس پر ایسا ایمان نہیں لاؤ گے جیسا سمانہ نبی کریم پہلا نے تو تم بھی ایک گونہ غیر احمدیوں کی طرح اللہ کے رسولوں میں تفریق کرنے والے ہونگے.حضرت اویک کا ہجوم
IYA کا لفضل جلد نے اس خطہ میں یہ بھی کہا کہ اگر میں اس خیال میں غلطی پر ہوں تو میں التجا کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود مجھے میری غلطی سے مطلع فرما دیں مگر حضرت صاحب نے ایسا نہیں کیا بلکہ جب مولوی صاحب آپ کو جمود کی نماز کے بعد ملنے کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا کہ یہ بالکل میرا نہ ہے جو آپ نے بیان کیا ، اور فرمایا کہ یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ آپ معارف الہیہ کے بیان میں بلند چٹان پر قائم ہو گئے ہیں.(دیکھو الحکم نمبر ۳ جلد ہ منشاء ) دسواں اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ نی کریم نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ مکہ و مدینہ ہمیشہ مسلمانوں کے قبضے میں رہیں گے.اس سے پتہ لگا کہ اب بھی لگنے کے قابض مسلمان ہی ہیں.جو ابا عرض ہے کہ اول تو اس پیشگوئی کے لتھا نا کھاؤ جس یہ مطلب نکلتا ہے اگر کوئی ایسی پیشگوئی ہی نہیں تو اعتراض کیا پھر اگر کوئی ایسی پیشگوئی بفرض محال نکل بھی آئے تو بھی ہم پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ مکہ معظمہ کی تو تی ایک نعمت الہی ہے اور ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ جب کفار سے مقابل موان تو مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ میں وہ توتی حاصل ہوئی.اور قرآن مجید میں ہے ذلك بان الله لميك مغير ا نعمة انعمها على قوم حتى يغيروا ما بانفسهم والله تعالی اس نعمت کو جو اس کی قوم پر انعام فرمائی نہیں بدلاتا جب تک وہ اپنی اندرونی حالتوں کو تبدیل نہ کریں) پس جب مسلمانوں نے مسیح کا انکار کر کے اپنی حالت کو بدلنا شروع کیا تو خدا بھی ان سے ملک پر ملک چھینا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہت مہلت دیتا ہے تاکہ لوگ اصلاح ر سکیں.اور وہ جو سعید روحیں ہیں وہ دین الحق میں داخل ہو لیں چنانچہ فرماتا ہے لو تنزیلوا لمدينة الذين كفروا منهم عذابا اليما ( سورة فتح ) پس جب خدا کو ناراض رنے والی قوم کا پیمانہ لبر نے ہوجائیگا تو اللّہ تعالی جس قوم کو ان کا وارث قرار دیا وہ پیچھے مسلمان ہونگے.قیصر و کسری کے خزانے اور بیت المقدس کی چابیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مقدر تھیں مگر حضرت عمر کے زمانے میں جاکر یہ پیشگوئی پوری ہوئی.علاوہ اس کے یہ بھی تو خون کرنا چاہیے کہ ایسی پیشگوئی جوکسی قوم کے حق میں ہو اسکا تعلق صرف اس قوم کی ذات یعنی اسم کے ساتھ ہوتا ہے مثلاً قرآن مجید میں آیا ہے یا عینی انى متوفيك ورافعك الى مظهرك من الذين كفروا وجاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا الى يوم القيمة
نمبر ام ریویا کنید میجر ۱۶۹ جس سے ظاہر ہے کہ مسیح کے ماننے والوں (خواہ حقیقی طور پر پیرو ہوں یا برائے نام) کا جب کبھی منکر ان بیچ سے مقابلہ ہوا.تو مستعان مسح ان منکران مسیح پر غالب رہے.ملا کی حقیقت عیسائی مسیح کے پیرو نہیں بلکہ صرف اسمی طور پر اسکی طرف منسوب ہیں اگر پیشگوئی کا تعلق میر حالا نکرد حقیقی متبعین سے ہوتا تو عیسائیوں کا غلبہ ہر گز نہ ہوتا.پس برائے نام پیروں کا خلیفہ ثبوت ہے اس بات کا کہ پیشگوئی کا تعلق اسم سے ہوتا ہے اسلئے جب تک موجودہ مدعیان اسلام می طور سے مسلمان کہلاتے ہیں اور عیسائیوں اور یہودیوں میں مل نہیں جاتے اسوقت تک اگر وہ کہ مدینہ پر قابض رہیں تو پیشگوئی کے صدق پر کوئی نقص لازم نہیں آتا.پھر ہم کہتے ہیں کہ یہ اعتراض تو غیر احمدیوں کی طرف سے ہو سکتا ہے خلافت کے منکرین کی طرف سے نہیں ہوسکا کیونکہ خلافت کے منکرین کے لیئے تو اتنا سوچنا ہی کافی ہے کہ مکہ مدینہ کے علما کی طرف سے بھی مسیح موعود پر کفر کا فتوی لگ چکا ہے پس وہ تو تکفیر کی وجہ سے کا فربن چکے ہیں اور تکفیر کا مسئلہ منکری خلافت کے نزدیک بھی مسلم ہے.فتد تروا گیارھواں اعتراض یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اچھا اگر حضرت مسیح موعود واقعی اپنے منگروں کو کافر سمجھتے تھے تو کیوں آپ نے ان سے وہ سلوک روا رکھا جو کافروں سے جائز نہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا اعتراض کرنا معترض کی نا واقفیت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے غیر احمدیوں کے ساتھ صرف وہی سلوک جائیز رکھا ہے جو نبی کریم نے عیسائیوں کے ساتھ کیا.غیر احمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں ان کو لڑکیاں دینا حرام قرار دیا گیا انکے جنازے پڑھنے سے روکا گیا اب باقی کیا رہ گیا ہے جو ہم انکے ساتھ ملکر کر سکتے ہیں.دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں ایک دینی دوسرے دنیوی.دینی تعلق کا ہے بڑا ذریعہ عبادت کا اکٹھا ہوتا ہے اور دنیوی تعلقات کا بھاری ذریعہ رشتہ و باطر ہے سوید دوں ہمارے لیے حرام قرار دے گئے.اگر کہوکہ ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے تو میں کہتا ہوں انصاری کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے.اور اگر یہ کہو کہ خیر احمدیوں کی سلام
کا لفصل جلد ؟ کیوں کہا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کریم نے یود تک کو سلام کا جواب دیا ہے ہاں اشد مخالفین کو حضرت مسیح موعود نے کبھی سلام نہیں کہا اور نہ انکو سلام کہنا جائز ہے غرض ہر ایک طریقہ سے ہم کو حضرت مسیح موعود نے غیروں سے انگ کیا ہے اور ایپ کوئی تعلق نہیں جو اسلام نے مسلمانوں کے ساتھ خاص کیا ہو اور پھر ہم کو اس سے نہ روکا گیا ہو.انجکہ یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ بات ہے تو کیوں ؟ ایسی ا محمدی عورت کا نکاح فسخ نہیں قرار دیا جاتا جس کا خانہ ند غیر احمدی ہے یا کیوں ایک احمدی باپ کا ور نہ غیر احمدی بیٹے کو جاتا ہے حالانکہ مسلمان کا کا فروارث نہیں ہو سکتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ شریعت کے احکام دو قسم کے ہیں ایک وہ جو ہر ایک انسان کے لیے ہیں اور ایک وہ جو صرف حکومت کے لیے ہیں مثلاً نماز پڑھنا ہر ایک کا فرض ہے لیکن چور کے ہاتھ کاٹنا ہر ایک کا فرض نہیں بلکہ حکومت کا فرض ہے اسی طرح روزہ رکھنا ہر ایک مسلمان کے لیے فرض ہے مگر زانی کو سنگسار کرنا ہر ایک مسلمان کا فرض نہیں بلکہ صرف اسلامی حکومت کا فرض ہے اب گر اس مہل کے ماتحت غیر احمدیوں اور احمدیوں کے تعلقات پر نظر ڈالی جاوے تو سارے جھگڑے کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور وہ اس طرح کہ چونکہ نماز الگ کرنے کا مسئلہ حکومت کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا اس لیئے اسپر مل در آمد کاحکم دیا گیا یہی حال جنازوں اور رشتے اور ناطوں کا ہے لیکن وراثت اور نکاح فسخ ہو جانے کا مسئلہ حکومت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس لیے حضرت مسیح موعود نے اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا اگر آپ کو حکومت دی جاتی تو آپ انکے متعلق بھی حکم جاری فرماتے پس مسئلہ وراثت کے متعلق نہم پر کوئی اعتراض نہیں ہاں اگر کوئی ایسا مسئلہ ہے ہر حکومت کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا اور پھر حضرت مسیح موعود نے اس کے متعلق فیصہ نہیں دیما یا تو اسکو پیش کیا جاوے ورنہ یہ کہنا کہ غیر احمدیوں کے ساتھ بعض اسلامی سلوک جائز رکھے گئے ہیں ایک دعوی ہے جسکی کوئی بھی دلیل نہیں.فقد بروا بارھواں اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے جو عبد الکی کو خط لکھا ہے اس میں آپنے لکھا ہے کہ خدا تعالٰی نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ جسکو تیری دعوت پہنچی ہے اور ؟ اس نے تھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں اس سے پتہ لگتا ہے کہ کم از کم وہ لوگ کافر
نمبر ۲ ریویو ان پر امیجز آف ریله نہیں ہیں جن کو مسیح موعود کی دعوت نہیں پہنچی.سو اس کے جواب میں گزارش ہے کہ اول تو مقرش نے دعوت پہنچنے کا مطمہ کی نہیں کیا دعوت کے لیئے یہ ضروری نہیں کہ فرداً فرداً لوگوں کو علم دیا جاوے بلکہ جب عام تبلیغ ہو جائے اور ملک میں ایک بات کی شہرت ہو جاوے تو کر سکتے ہیں کہ سارے ملک کو دعات پہنچ گئی حضرت مسیح موعود نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ مالک امریکہ اور یورپ کے دور دراز ملکوں! تک ہماری دعوت پہنچ گئی ہے ، دیکھو حقیقت الوحی صفحہ ۱۶۷) علاوہ اسکے معترض نے مختلف باتوں کو ایک سمجھ لیا ہے.قابل مواخذہ ہونا اور بات ہے اور کافر ہونا اور بات.ممکن ہے کہ ایک شخص کا فرہو لیکن قابل مواخذہ نہ ہو.اور وہ اس طرح کہ چونکہ شریعت کا فتونو ظاہر پر ہے اس لیئے ہر ایک وہ شخص جو کسی نبی کی جماعت میں داخل نہیں ہوا کا نہ ہے لیکن یہ ضرورت نہیں کہ ہر ایک ایسا شخص قابل مواخذہ بھی ہو کیونکہ قابل مواخذہ ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اور یا کے نزدیک تمام محبت ہو نا ہو پہ ہم کسی شخص کی نسبت قابل مواخاہ ہونے کا فتوی نہیں لگا سکتی کیونکہ تم لوگوں کے دلوں سے واقف نہیں ہاں چونکہ کفر اور ایمان ظاہر کی حالت کے متعلق ہے ایلئے اسکے متعلق ہم کو علم ہو سکتا ہے.مثال کے طور پر دیکھو دنیا میں لاکھوں ایسے آدمی ہونگے جنہوں نے عمر ہر نبی کریم کا نام سنا ہو گا تو کیا ہم ایسے لوگوں کو مسلمان جانیں گے.ہرگز نہیں بلکہ وہ کفار کے زمرہ میں ہی شمار ہونگے لیکن ہاں وہ قابل مواخذہ نہیں ہو سکتے کیونکہ ان تک ابھی نبی کریم کی دعوت نہیں پہنچی.اسی طرح بیشک دنیا میں بلکہ خود ہندوستان میں ہزاروں ایسے لوگ ہوں گے جن تک مسیح موعود کا نام نہیں پہنچا لیکن جب تک وہ مسیح موعود کی جماعت میں داخل ہوجائیں منکرین کے گروہ میں ہی شامل سمجھے جائیں گے کیونکہ حسب تعلم قرآن مسلمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ خدا کے سارے رسولوں پر ایمان لا دے پس وہ جو ابھی تک خدا کے مرسل پر ایما نہیں لایا خواہ عدم علم کی وجہ سے ہی ہو کس طرح مومن اور مسلمان کہلا سکتا ہے ؟ اس حقیقت کو خود حضرت مسیح موعود نے حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۸۰ پر اپنے کافروں اور نبی کریم کے کافروں کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے چنانچہ آپ لکھتے ہیں :- و اس میں شک نہیں کہ ج ر خدا تعالی کے نزدیک اول تم کو یا دوسری قسم کر کی نسبت امامت
کا لفصل جل ہو چکا ہے وہ قیامت کے دن مواخذہ کے لائق ہو گا اور جس پر خدا کے نزدیک اتمام محبت نہیں ہوا اور وہ مکذب اور منکر ہے تو گو شریعیت نے رجس کی بنا ظاہر پر ہے، اس کا نام بھی کا فری لکھا ہے اور ہم بھی اسکو باتباع شرعیت کافر کے نام سے ہی پکارتے ہیں مگر پھر بھی وہ خدا کے نزدیک بموجب آیت لا يكلف الله نفسا إلا وسعها قابل مواخذہ نہیں ہو گا کیا حضرت مسیح موعود کی یہ تحریر تمام جھگڑے کا فیصلہ کر دیتی ہے کسی مزید تفصیل کی ضرورت نہیں.تیرھواں اعتراض یہ پیش کیا جاتا ہے کہ جب تمام شریعت نبی کریم پہ ختم ہوچکا ہے اور آپکے بعد کوئی ایسا شخص نہیں آسکتا جو قرآن میں کمی یا زیادتی کر سکے تو پھر نبی کریم کے بعد کسی اور شخص کو ماننے کی کیا ضرورت ہے.سو اس کا جواب یہ ہے کہ معترض نے شاید یہ سمجھ رکھا ہے کہ صرف ان نبیوں کا انکار کفر ہے.جن کو احکام شرعی عطا ہوتے ہیں حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے قرآن شریف میں جس جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کے رسولوں پر ایمان لاؤ وہاں رسولوں کی تخصیص نہیں کی گئی کہ فلاں قسم کے رسولوں کو مانا کرو اور باقیوں کے ماننے کی ضرورت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے رسل کا لفظ رکھا ہے.جو بوجہ نکرہ ہونے کے عمومیت چاہتا ہے.اصل میں یہ سارا د ھو کا اس لیے لکھا ہے کہ مامورین کی بہشت کی غرض کو نہیں سمجھا گیا.اور اس لیے نہیں بھیجے جاتے کہ وہ ضرور کوئی نیا حکم جاکر نہیں بلکہ ان کے مبعوث کرنے سے صرف یہ غرض ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے ایمانوں کو تازہ کر یں پورت بات دیکھ کر ان کے دلوں کوزندگی بخشیں اور کامل توحید کو دنیا میں قائم کریں اور گذشتہ مامورین کی تعلیم کو ان تمام باتوں سے پاک کر کے جو لوگوں نے بعد میں اسکے ساتھ ملادی ہوں اصل شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کریں.بنی اسرائیل میں بیسیوں ایسے نبی ہوئے جن کو کوئی کتاب نہیں دی گئی بلکہ وہ توریت پر ہی لوگوں کو قائم کرتے تھے جیسا کہ محکمہ جما النبيون منے پر ہے تو کیا انپر ایمان لانے کو بھی غیر ضروری قرار دو گے ؟ انسان جب ایک سچائی کو چھوڑتا ہے.تو اسکو بہت سی اور سچائیوں کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے.معترضن نے اس بات کی خواہش میں کوکہیں مرزا صاحب کا ماننا ضروری نہ ہو جاوے اللہ تعالٰی کے بہت سے رسولوں پر ایمان لانی کو غیر ضروری
ریویو آفت المجزر قرار دیدیا.صاحب شریعت نبی جن کا قرآن میں ذکر ہے وہ دو ہی ہیں حضرت موسی اور نبی کریم.انکے سوا جتنے نبی ہیں وہ سب غیر شرعی ہیں.تو گویا کہ معترض کے اصل کو لیکر سوائے دو نبیوں کے اللہ تعالٰی کے باقی تمام نبیوں کو چھوڑنا پڑتا ہے.نعوذ باللہ من ذلک.خدا تو کہتا ہے کہ مومن کا یہ قول ہونا چاہیئے کہ لا نفرق بین احد من را مسلہ لیکن ہم کو یہ بنایا جاتا ہے کہ نہیں صرف دو نبیوں کو ماننا ضروری ہے باقیوں کو نہ ماننے سے کوئی حرج واقع نہیں ہوتا.اے کاش ہمارے مخالف اعتراض کرنے سے پہلے قرآن شریف پر تو غور کرلیتے.قرآن کھلے اور غیرت دیل طلب الفاظ میں کہ رہا ہے کہ ما نرسل المرسلين الا مبشرين ومنذرين یعنی مرسلین کے بھیجنے سے ہمارا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ ماننے والوں کو بشار میں دیں اور نہ مانے والوں کو مذاب الہی سے ڈرائیں پس جب مامورین کے مبعوث کرنے کی بڑی غرض ہی اندارد تبشیر ہوتی ہے تو شرعی اور غیر شرعی کا سوال ہی بیجا ہے.اور پھر ہم کہتے ہیں کہ اگر نبی کر یہ کے بعد کسی اور کے بانی کی ضرورت نہیں تو کیوں خود نبی کریم نے مسیح موعود پایمان لانے کو ضروری قرار دیا اور اس کا انکار کرنے والوں کو یہودی اور ناری ٹھہرایا.اگر مسیح موعود پر ایمان لانے کو ضروری قرار دینا غلطی ہے تو یہ غلطی ہے پہنے خود ہی کریم سے سرزد ہوئی نعوذ باللہ من ذلک.اور پھر یہ غلطی اللہ تعالیٰ سے سرزد ہوئی جس نے ایک ایسے شخص کی خاطر جس پر ایمان لانا ضرور ہی نہیں دنیا کو عذابوں سے بھر دیا.مجھے تعجب پر تعجب آتا ہے کہ نبی کریم تو یہ فرما دیں کہ ایک وقت میری امت پر اب آئیں گا کہ ان کے درمیان سے قرآن اللہ جائیگا اور لوگ قرآن کو پڑھیں گے مگر وہ انکے حلق سے نیچے نہیں اور یگا لیکن ہم کو یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کے ہوتے ہوئے کسی شخص کو ماننا ضروری کیسے ہو گیا.ہم کہتے ہیں کہ قرآن کہاں موجود ہے.اگر قرآن موجود ہوتا تو کسی کے آنے کی کیا ضرورت تھی مشکل تو یہی ہے کہ قرآن دنیا سے اٹھ گیا ہے.اسی لیئے تو ضرورت پیش آئی کہ محمد رسول اللہ کو بروزی طور پر دوبارہ دنیا میں مبعوث کر کے آپ پر قرآن شریف اتارا جاوے.معترض کو چاہیے کہ بہشت مامورین کی " غرض پر غور کرے کیونکہ یہ دھر کا قلت تدبر کی وجہ سے ہی پیدا ہوا ہے ہندوستان میں چونکہ اکثر لوگ کا مذہب میں اسلیئے نہ حاشیہ پنجگہ موسیٰ اور اسکے بعد کے انبیاء کا ذکر ہے.منو
۱۷۴ کا لفصل جلد یہاں کے مانوں میں ایک ایس اگر وہ بھی پیدا ہو گیا ہے جو کہتے ہیں کہ ہم مرزا صاحب کو بڑا بزرگ مانتی ہیں اور کی مرزا صاحب نے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے بلکہ بعض تو یہاں تک کہنے لگ گئے ہیں کہ ہم مریم حیات کو اس صدی کا مجدد ماننے کے لیے تیار ہیں اگر مسیح موعود کا دھونی نہیں مانتے ایسے لوگ یا تو لامذہب ہیں اور یا منافق.کیونکہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ مرزا صاحب کو ایک طرف تو محمد و مان لیا جاوے اور دوسری طرف انکو مسیح موعود کے دعوئی میں مفتری علی اللہ سمجھا جاوے ظلمت اور نور جمع نہیں.ہو سکتے اگر مرزا سچا ہے اور مسلمان ہے تو وہ اپنے تمام دعاوی میں صادق ہے ورنہ وہ نعوذ باشد مفتری علی اللہ اور دائرہ اسلام سے خارج ہے.دو ہی راہیں ہیں.یاتو مرزا صاحب کو مسیح موعود مانگر انکی بیعت میں داخل ہونا چاہیے اور یا پھر ان کو مفتری علی اللہ قرار دیکر کافر سمجھا جاو 5- تیسری راہ تو کوئی ہے نہیں.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے حقیقۃ الوحی میں لکھا ہے کہ جو مجھے نہیں مانتا وہ مجھے مفتری علی اللہ قرار دیکر کار شهر آتا ہے.فتد تبروا پس اب ہم کس طرح مان لیں کہ ایک ہم یہ بائی کو مفتری علی اللہ قراردینے والا سلمان رہ سکتا ہے جبکہ ہم قرآن میں پڑھتے ہیں کہ ومن اظلم ممن افترى على الله كذباً او كذب بایتہ.ہم کس طرح مان لیں کہ ایک معمولی مومن کے ایمان کا انکار کرنے والا تو کافر ہے لیکن ایک نبی کی نبوت اور ایک کو کی ماموریت کا منکر مسلمان كا مسلمان تلك اذا قسمة ضيزى.پھر ہم کس طرح مان لیں کہ اس شخص کا مانا غیر ضروری ہے جسکے متعلق تمام نبی خبریں دیتے آئی ہیں کہ اسکے زمانہ میں شیطان اور رحمان کی آخری جنگ ہوگی.پھر ہم کس طرح مان میں کہ اس شخص کے انکار سے بھی آدمی مسلمان ہی رہتا ہے جسکی آمد و خداوند کریم نے خو نبی کریم کی آمد قرار دیا ہے جیسا کہ آیت و اخرین منھم سے ظاہر ہے.پھر ہم کس طرح مان ہیں کہ ایک شخص کے ماننے کے بغیر نجات نہ ہو گر تا ہم اس کا مانتا جو و ایمان نہ ہو.پھر ہم کس طرح مان ہیں کہ ایک شخص کے انکار کی وجہ سے اسد تعالی دنیا پر عذاب پر عذاب نازل کرے لیکن اس شخص کا مانا غیر ضروری ہو.پھر ہم کس طرح مان لیں کہ خدا تو ایک شخص کو کہے کہ انت منی بمنزلة ولدى - انت منی بمنزلة توحیدی و تفریدی لیکن دو شخص ایسا معمولی ہو کہ اس کا مانا اور نہ انا قریب قریباً برابر ہو.پھر ہم کس طرح مان لیں کہ ایک شخص کے انکار سے انسان یہودی بن کر
نمبر ۴ ریویو ان المجنز 160 مخضوب علیہم بنجارے لیکن اسکو مائنا ایمانیات میں ہے نہ ہو.پھر ہم کس طرح مان لیں کہ ایک شخص پکار پکار کر کے ے ابن مریم کے ذکر کو چھوڑ د 4 اس سے بہتر غلام احمد ہے.لیکن اری کا شکر و کافر ہو اور غلام احمد کا شکا ر نہ ہوا اور پر ہم کس طرح ان ہیں کہ ایک شخص کو نہ ایمان بار بار اپنے الہام میں رسول اور نبی کہ کر پکارے لیکن وہ لا نفرق بين احد من ساله کے لفظ رسل میں شامل ہو.اور اسکا شکر و کیک ھم الکافرون حق سے باہر ہو.یہ تمام باتیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں ہماری سمجھ سے بالا تر ہیں.ہم مندر کی وجہ سے کوئی بات نہیں کہتے بلکہ جو کچھ لکھا ہے اسکو درست اور صحیح سمجھ کر لکھا ہے.اگر کوئی صاحبان خیالات بلکہ اور کو قرآن شریف احادیث صحو اور کتب حضرت مسیح موعود سے غلط ثابت کر دیں تو ہم بفضلہ تعالی رجوع کرنے کو ہر وقمت حاضر ہیں کیونکہ ہمیں کوئی ضد نہیں.وأخر د عوامنا ان الحمد لله رب العالمين اصل مضمون اسی جگہ ختم ہوتا ہے لیکن میں مناسب بجھتا ہوں کہ مضمون ختم کرنے سے پہلے جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کے رسالہ دور بارہ مسلہ کفر و اسلام پر الگ ریویو کیا جاتا تا شاید کسی سعید روح کے لیے ہدایت کا موجب ہو.وما توفیقی الا بالله - جناب الوی محمد علیا کے سال کود اسم پر ایک سرانی جناب مولوی محمد علی صاحب اپنے سال کے شروع میں لکھتے ہیں کہ مسلہ کفر و اسلام کے متعلق ظالم لوگوں کو اس لیے دھوکا لگا ہے کہ کفر اور اسلام کے معنوں کو ایک تنگ دائرہ میں محدود کردیا گیا ہے حالانکہ یہ الفاظ اپنے اندر وسعت رکھتے ہیں.اور اسکے آگے چلکہ لکھتے ہیں کہ اسلام ان لینے کا نام ہے اور کفر انکار کر دینے کا اسلام کی بڑی اور آخری حد بندی توحید آئی ہے ہیں ؟ شخص توحید الہی کا قائل ہوتا ہے وہ اسلام میں آجاتا ہے.(دیکھو رسالہ صفورس ) سو اس کے جواب میں گزارش ہے کہ بیشک یہ درست ہے کہ کفر اور اسلام کے الفاظ کے معانی میں وسعت ہے مگر اس وسعت کی بھی آخر کوئی حد ہونی چاہیے.مولوی صاحب سنئے
164 كل فصل جل الفاظ دو قسم کے معنی اپنے اندر لکھتے ہیں ایک لغوی معنی ایک اصطلاحی.لغوی معنوں کا فیصلہ تو لخت کرتی ہے مگر اصطلاحی معنوں کے لیے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ کس علم کی اصطلاح مقصود ہے اگر کسی لفظ کے معنی علم طباعت میں دیکھنے ہونگے تو کسی طبیب سے پوچھا جائیگا اگر قانون کی اصطلاح دریافت کرلی ہوگی تو فیصلہ کے لیے کسی وکیل کو نا جائیگا اور اگر علم ریاضی کی کوئی اصلاح ہو تو اسکے معنی ریاضی دان سے دریافت کیئے جائیں گے.غرض کسی لونا کے اسطلاحی معنی کرنیکا پر ایک شخص مجاز نہیں ہے بلکہ وہی ہے جو اس علم کا استاد ہے.اب اس بات کو سمجھ لینے کے بعد کفر کے لفظ کو لو، اس لفظ کے بھی دو ہی معنی ہونگے ایک لغوی معنی اور ایک اصطلاحی معنی لغوی معوں کا تو لغت فیصلہ کر یگی لیکن اصطلاحی معنوں کے لیے قرآن کریم اور حدیث کو دیکھنا ہوگا.اب جب ہم لغت کو دیکھتے ہیں تو کفر کے معنی صرف کار کے ہیں اور مورنی صاحب موصوف نے بھی ان معنوں کو تسلیم کیا ہے جیسا کہ آپ لکھتے ہیں کہ " کفر انکار کا نام ہے؟ پس لغوی معنوں کے لحاظ سے جائز ہوگاکہ ہر ایک انکار کو کفرکے نام سے پکاریں اور ہر ایک چیز کے مکر و کا نکلیں.دا کا انکا بھی کافر ہوگا اور شیطان کی انوار روایات کا ان کی کیفیت ان تینوں قسم کے فقروں میں کوئی تمیز نہیں کریگی کیونکہ لغت عرب میں کفر کے معنی صرف انکار کر دینے کے ہیں اور ہیں.ور لیکن اصطلاح اسلام میں کفر کے معنی اتنے وسیع میں رہتے بلکہ ایک دائرہ کے اندر محدود ہو جاتے ہیں جیسا کہ عام اصطلاحات کا قاعدہ ہے.لفظ کفر کے اصطلاحی معنی جو قران نے کیئے ہیں وہ یہ ہیں.چھٹے پارہ کے شروع میں آتا ہے ان الذین یکفرون بالله ورسله | ويريدون ان يفرقوا بين الله ورسله ويقولون نؤمن ببعض و نكفر ببعض ويريدون ان يتخد وا بين ذلك سبيلا أو ليك هم الكافرون حقاد اعتدنا للكافرين عذا با مھینا.یعنی وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں یا چاہتے ہیں کہ اللہ و ر اسکو رسول نہیں تفریق کریں یعنی اللہ کو مان ہیں.اور رسولوں کو نہ مانیں یا کہتے ہیں کہ ہم بعض رسولوں کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ کوئی بین بین کی راہ نکالیں وہی لوگ حقیقی کافی ہیں اور اللہ نے کافروں کے لیئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کیا ہے + اس اہستہ کریمیہ میں اللہ جلشانہ لے کفر کے اصطلاحی
ريو يو أن المجنز ریویوان 166 معنی بتلائے ہیں جیسا کہ لفظ حفاظا ہر کہ رہا ہے.پس اب معاملہ بالکل صاف ہے شریعیت اسلام کیا کفر کے یہ معنی ہوئے کہ یا اللہ کا انکار کیا جائے اور یا اللہ کے رسولوں کا اور یا اسد کو مان لیا جائے اور یہ سولوں کو نہ مانا جائے اور یا بعض رسولوں کو مانا جانے اور بعض کا انکار کر دیا جائے ہاں ایک سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ یہ کس طرح پتہ لگے کہ کسی عبارت میں کفر لغوی معنوں میں آیا ہے یا اصطلاحی معنوں میں تو اس کا جواب یہ ہے کہ لغت کی کتابوں میں جب کفر کا لفظ آئیگا تو اسکے لغوی معنی کیئے جائینگے لیکن جب خدا اور اسکے رسول کے کلام میں اس کا استعمال ہوگا تو اصطلاحی معنی کیئے جاہیں گے.ہاں شریعت اسلام کی کتاب میں چونکہ عربی میں ہیں اور کفر کا لفظ عربی زبان سے تعلق رکھتا ہے اس لیے بعض اوقات ان میں بھی یہ لفظ لغوی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے مگر ایسی صورتوں میں اسکے ساتھ کسی واضح قرینہ کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے من یکفر بالطاغوت اس جگہ کفر سے صرف لغوی کفر مراد ہے کیونکہ طاغوت کا لفظ ساتھ لگا ہوا ہے.پس اس اصل کے ماتحت کوئی دقت پیش نہیں آتی اور سارا جھگڑالے ہو جاتا ہے.کفر کے مقابل پر جو اللہ تعالیٰ نے ایمان کے معنی کیئے ہیں یہ ہیں کہ اللہ پرایمان کا یا جاوے اسکے فرشتوں پر اسکے رسولوں پر اسکی کتابوں پر اور یوم آخر پز اس تعریف سے بھی کفر کی تعریف کا پتہ لگ سکتا ہے کیونکہ کفر ایمان کے مقابل ہوتا ہے.ایمان کی پانچ شرایط میں سے اگر کوئی شخص کسی ایک کا منکر ہو جائے تو اس پر مومن کا لفظ نہیں بول سکتے کیونکہ ایمان کے لیے یہ کافی نہیں کہ صرف ایک شرط کو مان لیا جاوے بلکہ سب پر ایمان لانا ضروری ہے.پس اب کیسی بیہودہ بات ہے کہ " جب ایک شخص اللہ تعالی کی توحید پر ایمان لے آتا ہے تو وہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے یا دیکھو رسالہ مذکور صفوم) گویا کہ سلمان بننے کے لیے نبی کریم کا مانا بھی ضروری نہیں.نعوذ بالسد من ذکمک.اللہ تعالٰی تو فرماتا ہے کہ شریعت اسلام کی اصطلاح میں وہ جو اللہ تعالیٰ کو مان لے مگر اس کے رسولوں کو نہ مانے وہ حقیقی کا فر ہے مگر مولوی محمد علیمیت لکھتے نہیں کہ مسلمان بننے کے لیے کسی رسول کو ماننے کی ضرورت نہیں صرف توحید کا قائل ہو جانا کافی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب نے کفر کے صرف لغوی معنوں کو مد نظر رکھا.ہے اور اصطلاحی معنوں پر غور نہیں کیا.تب ہی تو وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جو
16A للفصل جلدم لا اله الا اللہ کا اقرار کر کے کسی اور حصہ کو چھوڑتا ہے وہ دائرہ کے اندر تو ہے مگر اس خاص حصہ کا کافر ہے (دیکھو رسالہ صفحہ ۴ ) اگر لفظ کفر کے صرف لغوی معنوں کا خیال رکھا جائے تومولوی صاحب کی یہ رائے بالکل صحیح اور درست ہے کیونکہ ایسی صورت میں واقعی جس حصہ کو انسان با نتا ہے اس کام میں کہا گیا اور میں کا انکار کرتا ہے اس کا کافر.مگر سوال تو اصطلاحی کفر اور اصطلاحی ایمان کا ہے نہ کہ لغوی کفر اور لغوی ایمان کا جس پر اصطلاحی طور پر کفر کا لفظ عاید ہو وہ کسی صورت میں بھی اصطلاحی مومن نہیں ہو سکتا اسی طرح جسر اصطلاحی معنوں میں مومن کا لفظ آئے وہ کسی صورت میں بھی اصطلاحی کافر نہیں کہلا سکتا ہیں جب اللہ تعالٰی نے ہر ایک ایسے شخص کو جو خدا کو تو مانے مگر رسولوں کو نہ مانے یا بعض رسولوں کو مانے اور بعض کو نہ مانے کافر کے نام سے پکارا ہے تو یہ کیسا بے معنی فقرہ ہے کہ جوخدا کو مائکر کسی اور حصہ کو چھوڑتا ہے وہ مومن تو ہے گر اس خاص حصہ کا کافی ہے.معلوم نہیں مولوی صاحب نے یہ کہاں سے اصول نکالا ہے کہ اسلام میں آنے کے لیے صرف توحید کا قائل ہونا کافی ہے شاید قل اللہ ہم ذرهم والی آیت نے اسی مضمون پر کوئی خاص روشنی ڈالی ہو واللہ اعلم.اچھا مولو یقینا آپ اس صحیح حدیث کے کیا معنے کہتے ہیں جو مشکوۃ کی کتاب الایمان میں درج ہے اور وہ یہ کہ عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قال 5.بينما نحن عند رسول اللہ صلی الله عليه وسلم ذات يوم اذ طلع علينا حل شدید بیا ضر الشباب شدید سواد الشعر لا يرى عليه اثر السفر ولا يعرفه منا احد حتى جلس الى النبي صلى اللہ علیہ وسلم فأسند ركبتيه إلى كبتيه ووضع كفيه على فخذيه وقال يا محمد اخبرني عن الاسلام قال الاسلام ان تشلا لا اله الا الله وان محمدا رسول الله وتقيم الصلوة وتولى الذكورة وتصوم رمضان وتجمع البيت ان استطعت اليه سبيلا قال صدقت.اس حدیث میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ اسلام میں آنے کے لیے لا اله الا اللہ پر ایمان لانا کافی نہیں بلکہ محمد رسول اللہ پر ایمان لانا بھی ضر در سی ہے اللہ یہ صرف نبی کریم کا خیال ہی نہیں بلکہ اسپر اصہ تعالیٰ کی طرف سے بھی شہر صداقت ہے کیونکہ سوال کر نیوالا جبریل تھا جسکو اللہ تعالیٰ نے آدمی کی شکل میں متمثل کر کے زمین پر بھیجا تھا.
نمبر ۲ ریویو آن ید امیجز 169 تا وہ ایک ذریعہ سے لوگوں کو اسلام کی تعریف کھائے ہیں جب اس نے آنحضرت کے قول پر صدقت کہ تو گویا خود رات باری تعالٰی نے صدقت کہا.اب اسکے بعد کوئی شخص مسلمان ہونیکی حالت میں ہ نہیں کہ سکتا کہ دائرہ اسلام کے اندر آنے کیلئے صرف توحید کا اقرار کافی ہے دیکھو قرآن کریم شہادت دے رہا ہو کہ ایان کے لیے صرف لا الہ الا اللہ کافی نہیں ہے بلکہ جو لوگ ایمان باللہ کے ساتھ ایمان الرسل نہیں لاتے انکو او ليك هم الكافرون حقا کہتا ہے پھر بی کریم صاف الفاظ میں فرمارہے ہیں کہ صرف توحید کے اقرار سے کوئی شخص اسلام میں داخل نہیں ہو جاتا پھر جبریل نبی کریم کے اس قول پر صدقت کہتا ہے اور پھر اس پر بس نہیں بلکہ عقل سلیم بھی یہی کہتی ہو کہ خشک توحید جسکے ساتھ رسالت کی شمع نہ ہو ایمان کے لیے کافی نہیں بلکہ حضرت مسیح موجود نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ وہ ایمان باللہ جسکے ساتھ ایمان بالرسل شامل نہیں ایک لعنتی ایمان ہے جو آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں.پس ہم اب آپنی شہادتوں کے بعد مولوی محمد علی صاحب کی کسی تحری کہ کیا کریں.مولوی صاحب موصوف نے اپنے قول کے ثبوت میں یہ حدیث بھی لکھی ہے.من قال لا اله الا الله دخل الجنة - سو اس کے متعلق میں پہلے ہی لکھ آیا ہوں کہ اسکے معنی ہرگز نہیں کہ توحید کا قائل ہونا نجات کے لیے کافی ہے بلکہ لا الہ الا اللہ کو بطور اختصار کے لیا گیا ہے ور نہ حقیقت اسکے اندر محمد رسول اللہ بھی شامل ہے جیسا کہ خود نبی کریم نے اسکے معنی کیئے ہیں حدیث میں آتا ہے قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اتدرون ما الإيمان بالله وحده قالوا الله ورسوله اعلم قال شهادة ان لا اله الا الله وان محمدا رسول الله یعنی نبی کریم نے صحابہ سے دریافت کیا کہ کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کو ایکٹ بنے کے کیا معنی ہیں ؟ صحابہ نے جواب دیا اللہ اور اسکا رسول بہتر جانتے ہیں آپنے فرمایا کہ ایمان باشد کے یعنی ہیں کہ تو اس بات کا اقرار کرے کہ خدا کے سوائے کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کا رسولی ہے.اب بتاؤ کہ کیا.خلق خدا کو دھوکا دنیا نہیں ہے کہ من قال لا اله الا الله دخل الجمعة کے یعنی کیئے جاویں کہ صرف تو حید نجات کے لیے کافی ہے.اصل میں آیات قرآنی اور احادیث کے معنی کرتے ہوئے بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیئے.اور اس اصول کو کبھی بھولنا نہیں چاہیے کہ متشابہات کو محکمات کے ماتحت کا یا جاد ہے.ورنہ اگر ایسانہ کیا جاوے تو شریعت اسلام
لفصل جلد ۱۳ میں ایک طوفان عظیم برپا ہو جائیگا.پس قرآن کی کسی آیت یا حدیث کے کسی فقرے کے معنی ہمیشہ وہ رنے چاہئیں جو اسلام کی کھلی کھلی تعلیم کے خلاف نہ ہوں جب حکیم خاں کے ارتداد کا ہی باعث ہوا کہ اس نے قرآن کریم کی بعض آیات سے یہ نتیجہ نکالنا چاہا کہ نعوذ بالش نبی کریم پر ایمان لانے کے بغیر بھی نجات ہو سکتی ہے.حضرت مسیح موعود نے عبد الحکیم کے اعتراضات کا جواب حقیقۃ الوحی میں مفصل لکھا ہے اور وہاں بتایا ہے کہ ایمان بالرسل کے بغیر ایمان باللہ کوئی چیز نہیں دیکھو صفحہ ۱۰۸ تا ۱۴۷ ) آپ انہی صفحات میں نجات کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ در جو لوگ ایسا عقیدہ رکھتے ہیں کہ بغیر اسکے کہ کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائر صرف توحید کے اقرار سے اسکی نجات ہو جائیگی ایسے لوگ پوشیدہ مرتد ہیں اور درحقیقت وہ اسلام کے شمن ہیں اور اپنے لیے ارتداد کی ایک راہ نکالتے ہیں (دیکھو حقیقۃ الوحی صفحہ 119) پھر اسی صفحہ میں کسی اور جگہ لکھتے ہیں کہ " ایسا شخص کہ جو یہ خیال کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کو واحد لا شریک جانتا ہو اور آنحضرت صلی الہ علیہ سلم کو مانتا ہوہ نجات پا جائیگا یقیناً سمجھو کہ اس کا دل مجزوم ہے اور وہ اندھا ہے اور اسکو تو عید کی کچھ بھی خبرنہیں کہ کیا چیز ہے اور ایسی توحید کے اقرار میں شیطان اس سے بہتر ہے یہ ہے حضرت مسیح موعود کا عقیدہ نجات کے متعلق اور پڑھنے کے بعد بھی اگر کوئی احمدی لکھے کہ نجات پانے کے لیے صرف توحید کافی ہے تو وہ اپنا انجام آپ سوچ لے ت ایک صاف بات ہے کہ خدا کو ایک مان لینا کوئی چیز نہیں ہے بلکہ خدا کو اسکی تمام صفات حسنہ کے ساتھ متصف ماننا از بس ضروری ہے ورنہ اس طرح تو ایک سورج پرست بھی خدا کا قائل ہے کیونکہ اسکے خیال میں سورج خدا ہے اور وہ موحد بھی ضرور ہے کیونکہ وہ خدا کے ایک ہونے کا قائل ہے یہ اور بات ہے کہ اس کا خدا وہ خدا نہیں جو اسلام کا خدا ہے لیکن ظاہر ہے کہ ایسے خدا کو ماننا کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور ہم ایسے شخص کو حقیقی طور پر موقد نہیں کر سکتے جب تک کہ وہ اس باطل عقیدہ سے تائب ہو کر اس خدا کا پرستار نہ بنے جو تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور ظاہر ہے کہ ایسا خدا آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم اور پھر آپکے بعدمسیح موعود کی رسالت کی وساطت کے بغیر نظر نہیں آسکتا ، فتد بردا اب میں پھر اصل مضمون کی طرف آتا ہوں اور وہ یہ کہ کیا شخص توحید کا قائل ہوتا ہے
نمبر ۴ ریویو است میجر ریویوان IAI وہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے ؟ سوا سکے تعلق مینے بفضلہ تعالٰی قرآن کریم سے اور حدیث سر اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اسلام میں آنے کے لیے صرف توحید کا اقرار کوئی چیز نہیں بلکہ ایوان بالرسل سخت ضروری ہے.نیز میں یہ بھی ثابت کر آیا ہوں کہ جس شخص پر شریعت اسلام کی اصطلاح میں کافر کا لفظ عا یہ ہو وہ کسی لحاظ سے بھی مومن نہیں کہلا سکتا کیونکہ شریعت کی رو سے کفر کے ا معنی ہیں.ہیں کہ ایمان کی شرائط میں سے کسی کا انکار کر دیا جاوے.باقی رہا کردون کفر کا مسئلہ جس پر مولوی محمد علیہا نے بہت درد یا با اوراس کا کرارا ایک ایک کرکے دور میں ہم ان یا انکا نہیں کرتے بلکہ اسکے قائل ہیں ہاں ہم مولوی صاحب کی طرح اسلام کی حد کے اندر اسکے قابل نہیں بلکہ ہمار ایران ہے کہ کفر دون کفر حدود اسلام کے باہر کے لیے ہے یعنی اسلام کے اندر کوئی کفر کے دریچے نہیں بلکہ دائرہ اسلام میں صرف اسلام ہی اسلام ہے ہاں اسلام کی حد کے اندر اسلام دون اسلام اور ایمان درون ایمان ضرور ہے اسی طرح کفر کی حدود میں کفر دون کفر ہے یعنی جو لوگ اسلام سے باہر ہیں ان کے کفر میں تفاوت ہے.مثلاً دہر یہ لوگ ہم سے بہت دُور ہیں کیونکہ رسول تو بجائے خود رہے وہ خدا کی ہستی کے بھی قائل نہیں لیکن ان کی نسبت ہندو ہم سے قریب ہیں کیونکہ وہ توحید کو مانتے ہیں.پھر ہندوؤں کی نسبت یہود قریب تر ہیں کیونکہ وہ خدا کو بھی مانتے ہیں اور اسکے بہت سے رسولوں پر بھی ایمان لاتے ہیں.پھر بہبود کی نسبت نصاری ہمارے اور زیادہ قریب ہیں کیونکہ انکے ایمان میں ایک رسول کی زیادتی ہو گئی ہے اور پھر نصاری کی نسبت غیر احمدی مسلمان ہم سے اور بھی زیادہ قریب ہیں کیونکہ وہ سوائے مسیح موعود کے اللہ تعالی کے باقی تمام رسولوں پر ایمان لانے کا دعوی کرتے ہیں.یہ ہیں کفر د دن کفر کے اصلی معنی نہ کہ یہ کہ آپ اسلام کے اندر ہی کفر کے درجے شمار کرنے لگ جائیں.اس جگہ کوئی شخص یہ اعتراض نہ کرے کہ جب تم نے خود اسلام کے لیے صرف اسقدر کافی سمجھا ہے کہ اقرار کیا جاوے کہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ اور اس کے ثبوت میں تم نے حدیث سے اسلام کی تعریف پیش کی ہے تو اب تم کس طرح لکھتے ہو کہ جو مسیح موعود کونہ مانے وہ بھی مسلمان نہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ محمد رسول الہ میں باقی تمام رسول بھی شامل ہیں جیسا کہ ا اله الا اللہ میں محمد رسول الله کو شامل سمجھا جاتا ہے.کلمہ شریف میں محمد رسول اللہ کا نام اس لیئے رکھا گیا ہے کہ وہ نبیوں کے
IAF جل سردار اور خاتم النبیین ہیں اور انکا نام لینے میں باقی تمام انبیائڈ خود آجاتے ہیں.آپ سے پہلے گزرے ہوئے تو اس لیئے کہ آپ ان سے مصدق ہیں اور ان پر ایمان لانے کو آپنے ضروری قمار دیا ہے اور بعد میں آنیوالے اس طرح آجائینگے کہ وہ بوجہ ظلی نبی ہونے کے آپ سے الگ نہیں ہوتے کیونکہ کل اپنے اصل سے الگ ہو کہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا.پس اس لیے کلمہ میں صرف آپ کا نام رکھا گیا.اور اگر کلب میں ہر ایک رسول کے نام کو شامل کیا جاتا تو کہ پھر کام نہ رہتا بلکہ ایک فیم کتاب بنجاتا اس لیے اس عزت کے لیئے صرف خاتم النبین کو چا گیا پھر ہم کہتے میں حضرت سیح موعود کو کم از کم حکم تو آپ لوگ بھی مانتے ہیں اس لیئے آؤ دیکھیں کہ آپ اسلام کی کیا تعریفہ فرماتے ہیں کیونکہ وہ تعریف کم از کم کسی احمدی کے نزدیک قابل جرح نہیں ہو سکتی سو واضح ہو کہ حضرت مسیح موعود اپنی کتاب اربعین نمبر یہ صفحہا کے حاشیہ پر تحریر فرماتے میکی یہ جب میں دہلی گیا تھا اور میاں نذیر حسین غیر مقلد کو دعوت دین اسلام کی گئی تھی تب انکی ہر ایک پہلو سے گریز دیکھ کر اور انکی بد زبانی اور دشنام دہی کو مشاہدہ کر کے آخری فیصلہ یہیں ٹھہرایا گیا تھا کہ وہ اپنے اعتقاد کے حق ہونیکی قسم کھائے پھر اگر قسم کے بعد ایک سال تک میری زندگی میں فوت نہ ہوا تو میں تمام کتابیں اپنی جلا دوں گا اور اسکو نعوذ باللہ حق پر سمجھ لونگا لیکن وہ بھاگ گیا کہ وہ الفاظ جو موٹے خط میں لکھے گئے ہیں ان پر غور کرد اور پھر دیکھو کہ حضرت مسیح موعود اسلام کی کیا تعریف فرماتے ہیں.علاوہ اس کے انا تو سوچنا چاہیئے کہ کالمہ گو ہونے کے یعنی نہیں کہ طوطے کی طرح زبان سے کلمہ کے الفاظ کر دیئے جائیں بلکہ یہ ضروری ہے کہ کلمہ کے مفہوم کو پورا کیا جاے.ایک شخص اگر ظاہر طور پر کلمہ گو ہے لیکن وہ نبی کریم کے صریح احکام کے خلاف چلتا ہے تو ہم کبھی بھی ایسے شخص کو حقیقی رنگ میں کلمہ گو نہیں کر سکتے ہیں وجہ ہے کہ مسلمان کے کفر کو نبی کریم نے کافر قرار دیا ہے اور اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کی کہ تکفیر کرنیوالا بھی آخر کلمہ گو ہی ہے.پس وہ شخص جو مسیح موعود کو نہیں مانتا جس کے ماننے کے لیے خدا اور اس کے رسول نے تاکید فرمائی ہے تو وہ کلمہ گو کس طرح ہو سکتا ہے.کام آخر اسی شخص کا تجویز کردہ ہے جسکی تعلیم ہے کہ کہو لا نفرق بین احمد من رسله پس کلمہ کے یہ معنی کسی طرح ہو سکتے ہیں کہ محمد رسول اللہ کے سوا کسی اور رسول کا
نمبر ۲ رولو ات المجنز ما نا ضروری ہی نہیں.بعض لوگ یا وجود علم کا دعوی کرنے کے پھر ایسا بے معنی فقرہ بول دیتے ہیں.کہ اگر مسیح موعود کو مانا بھی مسلمان بننے کے لیے ضروری ہے تو پھر محمد رسول اللہ اور مسیح موعود میں سے اسلام کا نبی کو نسا ہوا ؟ نادان اتنا نہیں سوچتے کہ اسلام کا نبی نہ صرف محمد رسول الله ہے اور مسیح موعود بلکہ قرآن شریف کی صریح تعلیم کے رو سے آدم علیہ السلام سے لے کر مسیح موعود تک جتنے اللہ تعالیٰ کے نبی آتے ہیں سب اسلام کے نبی ہیں.ان میں سے کسی ایک کا انکار کر کے آدمی مسلمان نہیں رہ سکتا جیسا کہ آیت او ليك هم الكافرون حق سے ظاہر ہے.فتدبروا پھر اپنے رسالہ کے صفحہ چلنے پر مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہیں:.در مسیح موعود کے نہ ماننے سے ایک شخص قابل مواخذہ ہے مگر وہ دائرہ اسلام سے اسوقت تک خارج نہیں ہوتا جب تک لا اله الا اللہ کا انکار نہ کرے اگر مولوی صاحب موصوف کا واقعی یہی اعتقاد ہے تو پھر ان کے نزدیک یہ فقرہ بھی درست ہونا چاہیے کہ :- مربی کریم کے نہ ماننے سے ایک شخص قابل مواخذہ ہے مگر وہ دائرہ اسلام سے اسوقت تک خارج نہیں ہوتا جب تک کہ لا اله الا اللہ کا انکار نہ کرے کیا تف ہے ایسے اسلام پر جس کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں وہ خبیث رو میں بھی شامل ہیں جن کا کام ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دن راست گالیاں نکا بنتا ہے.اور جو قرآن کو انسان کا کلام اور محمد کی مغتربات خیال کرتے ہیں نعوذ باللہ من ذریت مولوی صا حب نے اپنے رسالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں سے بعض حوالجات بھی نقل کیئے ہیں لیکن میں چونکہ ان کے متعلق باب دوم میں کافی بحث کر آیا ہوں اس لیے اس جگہ ان کے متعلق لکھنا توضیح وقت کے سوا کچھ نہیں.پھر مولوی صاحب نے اپنے رسالہ کے آخر میں اس بات کے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت خلیفہ اول کفر و اسلام کے مسئلہ میں ان دیعنی مولوی محمد علی صاحب ) کے ہم عقیدہ تھے.مجھے ضرورت نہیں کہ اس بات کے متعلق کچھ بحث کروں کیوں کہ میں باب پنجم میں حضرت خلیفہ اول کے عقیدہ کے متعلق کافی سے زیادہ لکھ آیا ہوں
۱۸۴ کا لفيل جلدم وہ باب پڑھ لیا جاوے انشاءاللہ ساری تعینات گھل جائیگی.پھر میں کھتا ہوں کہ اگر بفرض محان یہ مان بھی لیا جائے کہ حضرت خلیفہ اقول " کا یہی خیال تھا جو مولوی محمد معنی صاحب نے ظاہر کیا ہے تو تب بھی کوئی حرج واقع نہیں ہوتا کیونکہ حضرت خلیفہ اول نے مامور نہیں تھے کہ عقید میں ان کا فیصلہ ہمارے لیے محبت ہو ہمارے لیے اگر محمد رسول الله کے بعد کسی کا فیصلہ محبت ہو سکتا ہے تو وہ مسیح موعود ہی ہے کیونکہ وہ خدا کا ایک رسول ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکو حکم قرار دیا ہے.قندیرو میں آخر میں یہ بتا دینا بھی ضروری خیال کرتا ہوں کہ مولوی محمد علی صا حب نے جو خیالات اپنے اس رسالہ میں ظاہر کیئے ہیں وہ بعینہ وہی خیالات ہیں جو عبد الحکیم خاں کے لیے ارتداد کا باعث ہوئے.لیکن افسوس کہ مولوی صاحب موصوف نے اس نظیر ہے فائدہ نہ اٹھایا.اللہ تعالیٰ اپنا رحم کرے خاكسار میرزا بشیر احمد - فروری شاله مطابق ۲۱ بیع الاول