KalameMahmood

KalameMahmood

کلام محمود

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
منظوم کلام

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک فصیح البیان مقرر، ایک منجھے ہوئے لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قادر الکلام شاعر بھی تھے، زیر نظر مجموعہ کلام میں آپ کی دو سو سے زیادہ نظموں کے علاوہ قطعات، الہامی مصرعوں وغیرہ کو جمع کردیا گیا ہے۔ اور اس قیمتی مجموعہ میں ہر منظوم کلام کے نیچے ایک اس کا ماخذ و حوالہ بھی درج ہے نیز اس مجموعہ کلام کے مضامین کی وسعت اور گہرائی آپ کے دیگر لٹریچر کی طرح بہت ہی متنوع اورجذب وکیفیات سے  پُر اور گہرا اثر لئے ہوئے ہے۔


Book Content

Page 1

کلام محمود منظوم کلام حضرت مرزا البشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود شائع کرده نظارت نشر و اشاعت قادیان

Page 2

نام کتاب کلام محمود منظوم کلام حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد المصلح الموعود تعداد بار اول سن اشاعت تعداد بار دوم 1500 فروری 2000 3000 سن اشاعت مارچ 2002 شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت قادیان مطبوعه پرنٹ دل پریس امرتسر ISBN - 81-7912-022-8

Page 3

1 A 1.۱۳ ۱۵ 14 ۲۱ ۲۲ ۲۴ ۲۵ p.فہرست اپنے کرم سے بخش دے میرے خدا مجھے پڑھ لیا ترآن عبد الحی نے میاں اسحق کی شادی ہوتی ہے آج اے لوگو یاد ایام کہ تھے ہند پر اندھیر کے سال مثل ہوش اڑ جائیں گے اس زلزلہ آنے کے دن ده قصیدہ میں کروں وصف مسیحا میں رقم غصہ میں بھرا ہوا خُدا ہے جدھر دیکھو ابر گنہ چھا رہا ہے گناہ گاروں کے دردِ دل کی بس اک قرآن ہی دوا ہے دوستو ! ہرگز نہیں یہ ناچ اور گانے کے دن ہر چار سُو ہے شہرہ ہوا قادیان کا اسے مولویو ! کچھ تو کرد خوف خدا کا یوں الگ گوشتہ ویراں میں جو چھوٹا ہم کو کیوں ہو رہا ہے خرم و خوش آج کل جہاں نہ کچھ قوت رہی ہے جسم و جاں میں 9 ۱۲ ۱۴

Page 4

LE ۳۵ ۴۰ ۴۱ ۴۲ سمسم ۴۵ وم ۴۹ ۵۰ ۵۳ ۵۴ ۵۶ 04 ۵۹ + الا ۶۲ 14 14 A ۲۲ ۲۳ نشان ساتھ ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں ظہور مہدی آخر زماں ہے مُسند پر ہماری جاں دا ہے باب رحمت خود بخود پھر تم پر وا ہو جائے گا.یا الہی ! رحم کر اپنا کہ میں بیمار ہوں.اے میرے مولی بر سرے مالک! میری جاں کی سپر ! کوئی گیسو میرے دل سے پریشاں ہو نہیں سکتا دہ خواب ہی میں گر نظر آتے تو خوب تھا میں نے جس دن سے ہے پیارے تیرا چہرہ دیکھا کیا جانئے کہ دل کو میرے آج کیا ہوا قصہ ہجر ذرا ہوش میں آئوں تو کہوں دہ چہرہ ہر روز ہیں دکھاتے رقیب کو تو چھپا چھپا کر آؤ محمود ! ذرا حال پریشاں کر دیں مجھے سانہ اس جہاں میں کوئی دل فگار ہو ہائے وہ دل کہ جسے طرز وفا یاد نہیں دہ نکات معرفت بتلائے کون مئے عشق خدا میں سخت ہی مخمور رہتا ہوں جگہ دیتے ہیں جب ہم ان کو اپنے سینہ دل میں یہیں سے اگلا جہاں بھی دکھا دیا مجھ کو دل پھٹا جاتا ہے مثل ماہی بے آب کیوں ۲۵ ۲۷ YA ۲۲ ۲۵

Page 5

} ཨཱ ۶۵ ۷۳ A- Ar Ar ۸۵ A ۹۰ 41 ۹۲ ۹۴ ۴۰ ۴۲ حمید شکنی نہ کرو اہل دن ہو جاؤ نہ قید لفس دلی سے مجھے چھڑائیں گے کب درد ہے دل میں میرے یا خار ہے خُدا سے چاہیئے ہے کو لگانی کیا سبب میں ہو گیا ہوں اس طرح زار و نزار روڑے جاتے ہیں بامید تمنا سوئے باب اسے چشمہ علم و ہر ملی اسے صاحب فہم و ذکا محمود ! بحال زار کیوں ہو ؟ م نہ کے رہے نہ رہے خم نہ یہ سبو باقی ۲۵ ملت احمد کے ہمدردوں میں غمخواروں میں ہوں محمد عربی کی ہو آل میں برکت آہ دُنیا پہ کیا پڑی اُفتاد ہے دست قبلہ نما لا اله الا الله غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا پڑے ہمیں ۴۹ اد ۵۲ ۵۳ ۵۵ مری تدبیر جب مجھ کو مصیبت میں پھنساتی ہے تری محبت میں میرے پیارے ہر اک مصیبت اُٹھائیں گے ہم نونہالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے یادجس دل میں ہو اس کی وہ پریشان نہ ہو آریوں کو میری جانب سے سنائے کوئی ساغر حسن تو پڑ ہے کوئی کے خوار بھی ہو

Page 6

│F 1.0 1+6 J-A 1-9 11+ ۱۱۲ 110 114 114 HA 119 ۱۲۰ 14 ۵۶ مجھ سے ملنے میں انہیں مذر نہیں ہے کوئی میں تیرا در چھوڑ کر جاؤں کہاں طور پر جلوہ گناں ہے وہ ذرا دیکھو تو حقیقی عشق گر ہوتا تو سیتی جستجو ہوتی ملک بھی رشک ہیں کرتے وہ خوش نصیب ہوں میں میرے مولیٰ مری بگڑی بنانے والے پیٹھ میدان ونا میں نہ دکھائے کوئی پرده زلعب دوتا رخ سے ہٹالے پیارے کیوں غلامی کروں شیطاں کی خُدا کا ہو کر ۶۵ ہے رضائے ذات باری اب رضائے قادیاں ۶۶ MA ۶۹ 60 میں تو کمزور تھا اس واسطے آیا نہ گیا صید و شکار غم ہے تو مسلم خستہ جان کیوں اہل بینام ! یہ معلوم ہوا ہے مجھ کو نہیں ممکن کہ میں زندہ رہوں تم سے جُدا ہو کر مریم نے کیا ہے ختم قرآں دل میرا بے قرار رہتا ہے.یارو بسیح وقت کہ تھی جن کی انتظار کونسا دل ہے جو شرمندہ احسان نہ ہو ہوتا تھا کبھی میں بھی کسی آنکھ کا تارا پوچھو جو اُن سے زُلف کے دیوانے کیا ہوئے

Page 7

174 [PA ۱۳۵ ۱۳ ۱۴۵ ۱۴۸ ۱۵۰ ۱۵۳ ۱۵۴ ۱۵۵ 66 GA A+ ام Ar ۸۵ Aч AA ہم انہیں دیکھ کے حیران ہوئے جاتے ہیں بخش در رحم کر دشکوے گلے جانے دو تو وہ قادر ہے کہ تیرا کوئی ہمسر ہی نہیں مرے ہمراز بیشک دل محبت کا ہے پیمانہ پہنچائیں در پہ یاد کے وہ بال و پر کہاں سعی پیہم میری ناکام ہوتی جاتی ہے یہ خاکسار نابکار دلبر و ہی تو ہے تیرے در پر ہی میری جان نکلے ہے زمیں پر سر مرا لیکن وہی مسجود ہے میں تمہیں جانے نہ دوں گا اک عمر گزر گئی ہے روتے روتے میں اپنے پیاروں کی نسبت ہرگز نہ کروں گا پسند کبھی خُدایا اے میرے پیارے خدا یا مرا دل ہو گیا خوشیوں سے معمور چھلک رہا ہے میرے علم کا آج بہیمانہ کر رحم اسے رحیم ! میرے حالِ زار پر ۹۲ آه پھر موسم بہار آیا اسے چاند تجھ میں نورِ خدا ہے چمک رہا دشمن کو ظلم کی پرچھی سے تم سینہ و دل بر مانے دو پڑھ چکے احرار نیسں اپنی کتاب زندگی

Page 8

IDA 104 190 ۱۶۲ ١٩٣ ۱۲۵ 144 146 YA 14.(41 수 ۱۳ ۱۷۳ ۱۷۴ ۱۷۵ 144 99 }** 1+1 1+ ۱۰۵ 1.4 J-4 1-A ۱۰ H ١١٢ میری نہیں زبان جو اس کی زباں نہیں موت اس کی زہ میں گر تمہیں منظور ہی نہیں ذرا دل تھام لو اپنا کہ اک دیوانہ آتا ہے کل دوپہر کو ہم جب تم سے ہوتے تھے رُخصت نہیں کوئی بھی مناسبت رو شیخ و طرز ایاز میں ہم کس کی محبت میں دوڑے چلے آئے تھے بادۂ عرفاں پلادے ہاں پلا دے آج تُو یوں اندھیری رات میں نئے چاند تو چمکا نہ کر یہ نور کے شعلے اُٹھتے ہیں میرا ہی دل گرمانے کو اک دن جو آہ دل سے ہمارے نکل گئی میری رات دن بس یہی اک صدا ہے زخم دل جو ہو چکا تھا مدتوں سے مندمل ایمان مجھ کو دیدے عرفان مجھ کو دیدے گھر سے میرے وہ گلعذار گیا با دلِ ریش و حالِ زار گیا اے میری جاں ہم بندے ہیں اک آقا کے آزاد نہیں دہ میرے دل کو چھینکیوں میں کل کل کر یوں فرماتے ہیں ۱۱ انكِي عَلَيْكِ كُلَّ يَوْ مِروَلَيْلَةٍ ۱۱۴ وہ یار کیا جو یار کو دل سے اُتار دے کبھی حضور میں اپنے جو بار دیتے ہیں داا

Page 9

164 KA 169 ۱۸۰ IMI JAY lar JAD JAY JAA 19.191 ۱۹۲ ۱۹۴ ۱۹۵ 194 194 19A 144 114 HA 114 ذرہ ذرہ میں نشاں ملتا ہے اس دلدار کا دست کوتاہ کو پھر درازی بخش اے حسن کے جاؤد ! مجھے دیوانہ بنادے كَمْ نَورَ وَجْهَ النَّبِيِّ صَحَابُهُ تعریف کے قابل ہیں یا رب تیرے دیوانے معصیت و گناہ سے دل میرا داغدار تھا ہم نشیں تجھ کو ہے اک پر امن منزل کی تلاش اللہ کے پیاروں کو تم کیسے بُرا سمجھے ۱۳۴ درد نہاں کا حال کسی کو سُنائیں کیا ۱۲۵ يَا رَازِقَ الثَّقَلَيْنِ اَيْنَ جَنَاكَ شاخ طوبی پہ آشیانہ بنا ۱۲۸ بٹھانہ مسند پر پاس اپنے نہ دے جگہ اپنی انجمن میں نگاہوں نے تری مجھ پر کیا ایسا فسوں ساتی ۱۳۹ مرادیں لوٹ لیں دیوانگی نے عشق و وفا کی راہ دکھایا کرے کوئی مُردوں کی طرح باہر نکلو اور ناز و ادا کو رہنے دو ۱۳۲ ہوا زمانہ کی جب بھی کبھی بگڑتی ہے ذکر خدا پر زور دے ظلمت دل مٹائے جا منور کر دیا مجھے دیوانہ کر دیا ہو چکا ہے ختم اب چکتر تبری تقدیر کا } } ۱۳۵

Page 10

I ۲۰۵ ۲۰۹ ۲۱۰ ٢١١ 114 ما ۱۳ ۱۴۵ ۱۴۸ 10.101 ۱۵۲ چھوڑ کر چل دئے میدان کو دو ماتوں سے کو آنکھے میں وہ ہماری رہے ابتدا یہ ہے عاشق تو وہ ہے جو کہ کہے اور سُنے تیری وہ گل رعنا کبھی دل میں جو مہماں ہو گیا وہ آتے سامنے منہ پر کوئی نقاب نہ تھا دل دے کے ہم نے ان کی محبت کو پالیا کھلے جو آنکھ تو لوگ اس کو خواب کہتے ہیں آآ کہ تیری راہ میں ہم آ نکھیں بچھائیں سُنانے والے افسانے ہما کے بتاؤں تمہیں کیا کہ کیا چاہتا ہوں عشق نے کر دیا خراب مجھے اے بے یاروں کے یار نگاہ نطف غریب مسلماں پر عقبیٰ کو بھلایا ہے تو نے تو احمق ہے ہشیار نہیں حریم قدس کے ساکن کو نام سے کیا کام چاند چمکا ہے گال میں ایسے جو دل پہ زخم لگے ہیں مجھے دکھا تو سہی نکل گئے ہو ترے دل سے خار کیسے ہیں ۱۵ تم نظر آتے ہو ذرہ میں غائب بھی ہو تم ۱۵۳ اے شاہ معالی آبھی جا ارا دے غیر کے ناگفتنی ہیں هدا ٢١٢ ۲۱۴ ۲۱۵ 높은 44 H ۲۱۸ ۲۱۹ ۲۲۰

Page 11

۲۲۱ ۲۲۵ ۲۲۷ ۲۲۸ ۲۲۹ ۲۳۰ ۲۳۱ ۴۳۲ ۲۳۳ ۲۳۴ ۲۳۵ ۲۳۶ ۲۳۹ £ £ TFA ۲۴۰ ط 104 106 109 14.141 ۱۲۵ زمیں کا بوجہ دہ سر پر اُٹھائے پھرتے ہیں یہ کیسی ہے تقدیر جو مٹتے نہیں مٹتی آنکھ گر مشتاق ہے جلوہ بھی تو بیتاب ہے شید کافی ہے فقط اس محسن عالمگیر کی تو بہ کی بیل چڑھنے لگی ہے منڈھے پر آج سر پہ حاوی وہ حماقت ہے کہ جاتی ہی نہیں ایک دل شیشہ کی مانند ہوا کرتا ہے جو کچھ بھی دیکھتے ہو فقط اس کا نور ہے اس کی رعنائی میرے قلب حزیں سے پوچھتے جونہی دیکھا انہیں چشمہ محبت کا اُبل آیا آؤ ! تمہیں بتائیں محبت کے راز ہم جب وہ بیٹھے ہوئے ہوں پاس میرے عاشقوں کا شوق قربانی تو دیکھ کیا آپ ہی کو نیزہ چھونا نہیں آتا لگ رہی ہے جہاں بھر میں آگ دنیا میں یہ کیا فتنہ اُٹھا ہے میرے پیارے گھر کی طاقتوں کا توڑ ہیں ہم دہ دل کو جوڑتا ہے تو ہیں دلفگار ہم الفت اُلفت کہتے ہیں پر دل اُلفت سے خالی ہے ارے مسلم ! طبیعت تیری کیسی لا ابالی ہے ۱۹۹ 194 14^ 14.147 140

Page 12

۲۴۲ ۲۴۳ ۲۴۵ ۲۴۸ ۲۵۲ ۲۵۵ ۲۵۶ ۲۵۸ ۲۵۹ سهم ۶ ۲۶۵ MA ۲۶۹ 16+ ی 144 164 16A 149 [A+ JA jar JAY IAM د JAY 1A4 JAA ۱۹ 19.۱۹۳ 147 ۱۹۵ دل کعبہ کو چھلا میرا ثبت خانہ چھوڑ کر ہے مدت سے شیطان کے ہاتھ آئی دلبر کے در پہ جیسے ہو ، جانا ہی چاہیے ہے تاروں کی دُنیا بہت دُور ہم سے آدم سے لے کر آج تک پیچھا ترا چھوڑا نہیں میں نے مانا میرے دلبر تبری تصویر نہیں کر رہا ہے بھوک کی شدت سے بیچارہ غریب بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے دید کی راہ بتائی تھی ہے تیرا احسان کرد جان قربان راہِ خدا میں اے خدا ! دل کو میرے مزرع تقومی کر دیں میرے آقا ! پیش ہے یہ حاصل شام و سحر ہوئی طے آدم و حوا کی منزل اُنس و قربت سے بلا کی آگ برستی ہے آسماں سے آج ایک دل شیشہ کی مانند ہوا کرتا ہے آمد کا تیری پیارے ہو انتظار کب تک جناب مولوی تشریف لائیں گے تو کیا ہو گا خدا کی رحمت سے مہر عالم افقی کی جانب سے اُٹھ رہا ہے قدموں میں اپنے آپ کو مولا کے ڈال تو دل دے کے مشت خاک کو دلدار ہو گئے

Page 13

۲۷۲ ۲۷۲ ۲۷۳ ۴۷۳ ۲۷۴ ۲۷۴ ۲۷۵ ۲۷۵ ۲۷۶ ۲۸۷ ۲۸۸ ۱۹۶ روتے روتے ہی کٹ گئیں راتیں ۱۹۷ اس کی چشم نیم وا کے میں بھی سرشاروں میں ہوں ۱۹۸ یا فاتح رُوح ناز ہو جا ۱۹۹ گو بحر گنہ میں بے بس ہو کر ۲۰۰ ہو فصل تیرا یا رب یا کوئی راہبتلا ہو ۲۰۱ نکال دے میرے دل سے خیال غیروں کا ۲۰۲ پڑے سورہے ہیں جگا دے ہمیں ۲۰۳ عشق خدا کی مے سے بھرا جام لائے ہیں ۲۰۴ ہے بھاگتی دُنیا مجھے دیوانہ سمجھ کر ۲۰۵ لاکھ دوزخ سے بھی بدتر ہے جدائی آپ کی اے محمد ! اے حبیب کردگار ۲۰ میرے تیرے پیار کا ہو رازداں کوئی نہ اور ۲۰۸ صبح اپنی دانہ چیں ہے شام اپنی ملک گیر وہ علم دے جو کتابوں سے بے نیاز کرے ۲۱۰ گناہوں سے بھری دُنیا میں پیدا کر دیا مجھ کو ۲۱۱ خم ہو رہی ہے میری کمر جسم چور ہے ۳۱۳ قطعات ۲۱۳ الہامی قطعه ۲۱۴ متفرق اشعار

Page 14

Page 15

اپنے کرم سے بخش دے میرے خدا مجھے بیمارعشق ہوں ترا دے تو شفا مجھے جبتک کہ دم میں دم ہے اسی دین پر انہوں اسلام پر ہی آئے جب آئے قمنا مجھے بے کس نواز ذات ہے تیری ہی اسے خُدا آتا نظر نہیں کوئی تیرے سوا مجھے منجملہ تیرے فضل و کرم کے ہے یہ بھی ایک میٹی سیخ سا ہے دیا رہنا مجھے تیری رضا کا ہوں میں طلب گار ہر گھڑی گریہ سٹے تو جانوں کہ سب کچھ ملا مجھے ہاں ہاں نگاہ رحم ذرا اس طرف بھی ہو بھیر گند میں ڈوب رہا ہوں بچا مجھے مونٹی کے ساتھ تیری رہیں کن ترانیاں زنہار میں نہ مانوں گا چیتر دکھا مجھے احسان نہ تیرا بھولوں گا تازیست مسیح پہنچا دے گر تو یار کے در پر ذرا مجھے سجدہ کناں ہوں در پہ تے اے مرے خدا اُٹھوں گا جب اٹھائیگی یاں سے قضا مجھے ڈوبا ہوں بحر عشق الہی میں شادیں کیا دے گا خاک فائدہ آب بقا مجھے ه سال تشمی الناز بان ماه اگست شله ت یه نظم سنشانہ کی ہے جب آپ شاد تخلص رکھتے تھے.

Page 16

پڑھ لیا فترآن عبدالکی نے خوش بہت میں آج سب چھوٹے بڑے ایسی چھوٹی عمر میں ختم قر آن کم نظیریں ایسی رہتی ہیں یہاں مولوی صاحب مبارک آپ کو اور عبد الحی کے استاد کو جس نے محنت کی شب روز اسکے ساتھ اور پڑھایا اس کو قرآن ہاتھوں ہاتھ صد مُبارک مہدی مسعود کو کیوں خوشی سے نہ بڑھ کر اس کو ہو جس کی سچائی کا ہے یہ اک نشاں جانتا ہے بات یہ سارا جہاں اے خدا تو نے جو یہ لڑکا دیا کر اسے سب خوبیاں بھی اب عطا یا الهی با عمر طبیعی اس کو دے رکھ اسے محفوظ رنج و درد سے ہو یہ سر شار الفت دیں میں مدام رکھ اسے کوئین میں تو شادکام خود سے تیرے رہے دل پر خطر پہنچے اس کو اصل دُنیا سے نہ شر مہربانی کی تو اس پہ رکھ نظر کو عنایت اس پہ تو شام وسر کر پہ دین ودنیا میں بڑا ہو مرتبہ عمر و صحت بھی اسے کر تو عطا تیرا دلدادہ ہو دیں پر ہوندا ہو یہ عاشق احمدِ مختار کا غیرت دینی ہو اس میں اس قدر واسطے دیں کے ہو یہ سینہ پر ہے مری آخر میں یہ ، یا سب دُعا سایہ رکھ اِس پر تو اپنے فضل کا اخبار انکم جلد ۲۰۰۹ ریبون نشده - به نظر حضرت خلیفہ ایسی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادہ میاں عبدالمی کی تقریب ختم قرآن کے موقعہ پر سکھی گھتی.

Page 17

میاں ہن کی شادی ہوئی ہے آج اسے لوگو ہر اک منہ سے میں آواز آتی ہے مبارک ہو دُعا کرتا ہوں میں بھی ہاتھ اٹھا کر حق تعالی سے کہ اپنی خاص رحمت سے وہ اس شادی میں برکت ہے خدا یا اس بنی پر اور بہنے پر فضل کر اپنا اور انکے دل میں پیدا کرنے جوش میں کی خدمت کا کلام پاک کی الفت کا انکے دل میں گھر کرے نبئی سے ہو محبت اور تعشق ان کو ہو تجھ سے ہر اک تمن کے شرسے بچانا اسے خدا ان کو ہمیشہ کے لیے رحمت کا تیری ان پر سایہ ہو ہمیشہ کیلئے ان پر ہوں یارب برکتیں تیری دعا کرتا ہوں یہ مجھ سے ندا یان دو میری انہیں صبح دوستان دیں اور دنیا میں ترقی دے نہ اکو کوئی چھوٹا سا بھی آزار اور دکھ پہنچنے عطا کر انکو اپنے فضل سے محبت بھی ائے لی ہمیشہ ان پہ برسا ابر اپنے فضل و رحمت کا میں اگلے شعر پر کرتا ہوں ختم اس نظم کو یارو اب اسکے واسطے تم بھی خدا سے کچھ دعامانگو بہت بھایا ہے اسے تمحمودیہ مصرعہ سے دل کو مبارک ہو یہ شادی خانہ آبادی مبارک ہو اخبار بدر جلد ۵ - ۱۰ / فروری شاه : به نظم حضرت میر محمد اعلی بن حضرت میر ناصر نواب منی امت نہ کی تقریب شادی کے موقع پر کسی گئی.

Page 18

یاد ایام کہ تھے بند پر اندھیر کے سال ہر گھی کوچہ پہ ہر شہر پہ آیا تھا ذبال روز روشن میں لٹا کرتے تھے لوگوں کے مال دل میں اللہ کا تھا خوف نہ حاکم کا خیال ہر طرف شور و فعال کی ہی صدا آتی تھی سخت سے سخت دلوں کو بھی جو تڑپاتی تھی رحم کرنا تو کیا ظلم ہوا تھا پیشہ لوگ بھوٹے تھے کہ ہے نام مروت کس کا چارسو ملک میں تھا ہو رہا شور و غوغا بلکہ سچ ہے کہ نمونہ وہ قیامت کا تھا کبھی آتا نہ کوئی دوست کسی دوست کے کام دل سے تھا محو ہوا مہر و محبت کا ہم طنت میں بھی تزلزل کے نمایاں تھے نشاں صاف ظاہر تھا کہ ہے چند دنوں کی سماں قاضی و نفتی بھی کھو بیٹھے تھے اپنا ایماں رحم و انصاف کئے ہ نام سے بھی تھے انجاں ایسے لوگوں سے تھا انصاف کا پا نا معلوم خیال انصاف کا تھا جنکے دلوں سے معدم افسر فوج لڑائی کے فنوں میں چوپٹ منہ سے جو بات نکل جائے پھر اس پرتھی ہٹ رہتی آپس میں بھی ہر وقت تھی انکی کھٹ پٹ تھے وہ بتلاتے ہر اک دوسرے کو ڈانٹ پٹ پر کوئی موقع لڑائی کا جو آ جاتا تھا ہر کوئی صاف وہاں آنکھیں چرا جاتا تھا اخبار بدر جلد ۵ - ۱۴ جون نشانه /

Page 19

سلطنت کچھ تو انہی باتوں سے بے جان ہوئی کچھ ٹیٹروں نے غصب کر دیا آفت ڈھائی اک طرف مرہٹوں کی فوج سے لڑنے کو کھڑی دُوسری جاپہ ہے سکھوں نے بھی شورش کردی چاروں اطراف میں پھیلا تھا غرض اندھیرا نشکریاس نے ہر سمت سے تھا آگھیرا لڑتے بھڑتے رہیں آپس میں امیر اور وزیر کیوں پیس گھن کی طرح ساتھ غریب اور فقیر مدعا انکا تو لڑنے سے ہے بس تاج و سرپر ہاتھ میں یاروں کے رہ جائے گی خالی کفگیر ان غریبوں کو امیروں نے ڈبویا افسوس بات جو بیت بھی اس پر کریں کیا افسوس الفرض چین کیجے کو نہ دل کو آرام رات کا فکر لگا رہتا تھا سب کو سر شام می کو خوف کہ ہو آج کا کیسا انجام رات دن کاٹتے اس طرح سے تھے ناکام دل سے انکے دیکھتی تھیں دعائیں دن رات یا الہی تیرے فضلوں کی ہو ہم پر برسات اُن پر ڈالی گئی آخر کو تلف کی نظر مثل کا فور اڈا دل سے جو تھا خوف خطر یک تعلم ملک سے موقوف ہوئے شورش و شیر نہ تو رہزن کا رہا کھٹکا نہ چوروں کا ڈر پھائے رکھے گئے واں مریم کا فوری کے دیئے جاتے تھے جہاں زخم جگر کے چھڑ کے قوم انگلش نے دیا آکے سمارا ہم کو بھی افکار کے ہے پار اُتارا ہم کو در نہ صدموں نے تو تھا جان سے مارا ہم کو آگے مشکل تھا بہت کرنا گذارا ہم کو ہند کی ڈوبی ہوئی کشتی ترائی اُس نے ملک کی بجڑی ہوئی بات بنائی اُس نے

Page 20

رحم وہ ہم پر کئے جن کی نہیں کچھ گنتی جن میں سے سب سے بڑی مذہبی ہے آزادی ساتھ لاتے یہ ہزاروں نئی ایجادیں بھی جو نہ کانوں تمھیں منی اور نہ آنکھوں دیکھی عدل و انصاف میں وہ نام کیا ہے پیدا آج ہر ملک میں جس کا کہ بجا ہے ڈنکا شیر و بکری ہی ہیں اک گھاٹ پر پانی پیتے نہیں نکن کہ کوئی تر بھی نظر سے دیکھے ایک ہی جا پہ ہیں سب رہتے بڑے اور بھلے کیا مجال ان سے کسی کو بھی جو صدمہ پہنچے سب جو آپس میں ہیں یوں ہو ہ سے شیر وشکر اس لیے ہے کہ نظر سب پر ہے ان کی بخیر ہند میں ریل اُنھوں نے ہی تو جاری کی ہے آمد و رفت میں میں سے بہت آسانی ہے صیغہ ڈاک کو انھوں نے ہی ترقی دی ہے ملک میں چاروں طرف تار بھی پھیلائی ہے تاکہ انصاف کے پانے میں نہ ہو کچھ وقت منصفوں اور جوں تک کی بھی کی ہے کثرت علم کا نام و نشاں یاں سے مٹا جاتا تھا شوق پڑھنے کا دلوں میں سے اُٹھا جاتا تھا کوئی عالم کبھی اس ملک میں آجا تا تھا دیکھ کر اس کا یہ حال اشک بہا جاتا تھا یہ وہ بیمار تھا جس کو سبھی رو بیٹھے تھے ہاتھ سب اس کی شفایابی سے دھو بیٹھے تھے پر وہ رب جس نے کہ سب کچھ ہی کیا ہے پیدا نہ تو ہے باپ کسی کا نہ کسی کا بیٹا سارے گندوں سے ہے پاک اور ہے واحد یکتا نہ وہ تھکتا ہے نہ سوتا ہے نہ کھاتا پیتیا رحم کرتا ہے ہمیشہ ہی وہ ہم بندوں پر کرستی عدل پہ بیٹھے گا جو روزِ محشر

Page 21

جو کہ قادر ہے جسے کچھ بھی نہیں ہے پروا ٹھیک کرے اسے دم میں کہ ہو جو کچھ بگڑا دیکھ کر اپنی یہ حالت اسے جب رحم آیا دیکھیو انگلینڈ سے اس قوم کو یاں سے آیا جس نے آتے ہی وہ نقشہ ہی بدل ڈالا ہے جس جگہ خار تھا اب واں پہ گل لالہ ہے سلسلے ہر جگہ تعلیم کے جاری ہیں گئے شہروں اور گاؤں میں اسکول بکثرت کھولے کا لجوں کے بھی ہیں شہروں میں گھلے دروان سے ہر جگہ ہوتے ہیں اب علم و ہنر کے چرچے کام ڈہ کر کے دکھایا کہ جو ناممکن تھا آئے جب ہند میں وہ کیا ہی مبارک دن تھا انگلش ! تیری ہر فرقے پہ ہے ایک نظر اس لئے تجھ پہ ہمیں ناز ہے سبسے بڑھ کر تھا مسیحا بھی تو پیدائش وقت قیصر زندگی چھوٹے بڑے چین سے کرتے تھے بسر اب مکرر جو ہے پھر وقت سیما آیا قیصر روم کا کیوں ثانی نہ پیدا ہوتا ابن مریم سے ہے جس طرح یہ عالی رتبہ قیصر ہند بھی ہے قیصر روما سے بڑا مصطفے کا یہ غلام اور وہ علامہ موسی دیکھ لو کس کا ہے دونوں میں سے درجہ بالا قیصر روم کے محکوم تھے اک فوٹو ہے تاج انگلشیہ پہ ممکن نہیں سُورج ڈوبے حق سے محمود بس اب اتنی دُعا ہے میری جس نے ہم کو کیا خوش رکھے اسے وہ راضی فتح و نصرت کی انہیں روزی پہنچے خوشی دُور ہو دین میں ہے ان کی جو یہ گمراہی ت این اسلام میں اب ان کی بجھ میں آجائے بات یہ کچھ بھی نہیں رحم اگر وہ فرمائے *

Page 22

ظہور مہدی دوراں مثل ہوش اُڑ جائیں گے اس زلزلہ آئی کے دن بارغ احمد پر جو آتے ہیں یہ مُرجھانے کے دن یوں نہیں ہیں جھوٹی باتوں پر یا ترانے کے دن ہوش کر غافل کہ یہ دن تو ہیں گھبرانے کے دن سختیوں سہی جو جاگے گی تو جاگے گی یہ قوم اسے بنی ہرگز نہیں یہ کلمے سہلانے کے دن مہدی آخر زماں کا ہو چکا ہے اب ظہور میں بہت جلد آنیوالے میں کچھیلانے کے دن یه شرارت سب دھری رہ جائیگی جب کہ خدا ہوش میں لائے گا تم کو ہوش میں لانے کے دن طوطے اُڑ جائیں گے ہاتھوں کے تمہارے غافلو اس خدائے مقدر کے چہرہ دکھلانے کے دن اک جہاں مانے گا اس دن قمت خیر الرسل اب تو تھوڑے رہ گئے اس دیس کے جھٹلانے کے ان چھوڑ دو سب عیش یارو اور فکر دیں کرد آجکل ہرگز نہیں ہیں پاؤں پھیلانے کے دن کچھ صلاحیت جو رکھتے ہو تو حق کو مان لو یا درکھو دوستو یہ پھر نہیں آنے کے دن بر ونخوت سے خدا را باز آؤ تم کہ اب جلد آنیوالے ہیں وہ آگ بھڑ کانے کے دن نام لکھوا کر مسلمانوں میں تو خوش ہے عزیز پر میں بیچ کہتا ہوں میں یہ خون دل کھانے کے دن جس لیے یہ نام پایا تھا، نہیں باقی وہ کام اب تو اپنے حال پر میں خود ہی شرمانے کے دین لوگوں کو غفلت کی تو ترغیب دیتا ہے مگر بھول جائیگا یہ سب کچھ تو سزا پانے کے دن اخبار محکم جلد ۱۰-۲۴ جون سنه

Page 23

کس لیے خوش ہے یہ کھ کو بات ہاتھ آئی ہے کیا یہ نہ خوش ہونے کے دن ہیں بلکہ تھرانے کے ان مہد کی آخر زماں کا کس طرح ہو گا ظہور جب نہ آئینگے کبھی اس دیس کے اٹھ جانے کے ن دین احمد پر اگر آیا زمانہ مضعف کا آپ کے تب تو میسح وقت کے آنے کے دن کچھ بھی گر عقل و خرد سے کام تو لیتا تو یہ دیں میں جو میں بل پڑے ہیں انکے سکھانی کے دن تو تو ہنستا ہے گھر روتا ہوں میں اس فکر میں ڈو میں اس دنیا سے اگر دنیا کے اٹھ جانے کے دبن جلد کر توبہ کہ پچھتانا بھی پھر ہو گا فضول ہاتھ سے جاتے رہیں گے جبکہ پچھتانے کے بین اک قیامت کا سماں ہوگا کہ جب آئینگے وہ مال کی ویرانی کے اور جان کے کھانے کے دن گو کہ اُس دن پھیل جائے گی تباہی چارٹو جبکہ پھر آئیں گے یارو زلزلہ آنے کے دن پھر بھی مردہ ہے انہیں جو دین کے انوار ہیں کیونکہ دو دن ہیں یقینا دیں کے پھیلانی کے دن يَا مَسيحَ الْخَلْقِ عدوانا پکار اٹھینگے لوگ خود ہی منوانے گا سر سے یار منوانے کے دن اسے عزیز دہلوی شن رکھ یہ گوش ہوش سے پھر بہار آئی تو آئے زلزلہ آنے کے دن ہے دُعا محمود کی مجھ سے مرے پیارے خُدا ہو محافظ تو ھمارا خون دل کھانے کے دن

Page 24

دہ قصیدہ میں کروں وصف میم میں رقم فخر بھیں جسے لکھنا بھی مرے دست و قلم میں وہ کامل ہوں کہ ٹن سے مرے اشعار کوگر پھینک نے جام کو اور چوسے مرے پاؤں کی جیم میں کسی بحر میں دکھلاؤں جو اپنی تیزی عرفی و ذوق کے بھی دست زباں ہو دیں قلم کھولتا ہوں میں زباں وصف میں اس کے یارو جس کے اوصاف حمیدہ نہیں ہو سکتے تم جان ہے سارے جہاں کی وہ شہر والا جاہ منبع بود و سنا ہے وہ میرا ابر کرم وہ نصیبا ہے تیرا اے میرے پیارے بیٹی فخر سمجھیں تری تقلید کو ابن مریم فیض پہنچانے کا ہے تو نے اُٹھایا بیڑا لوگ بھوے میں تے وقت میں نام حاتم تاج اقبال کا سر پر ہے مزین تیرے نصرت وفتح کا اُڑتا ہے ہوا میں پرچم شان و شوکت کو تری دیکھ کے متاد د شریر خون دل پیتے ہیں اور کھاتے ہیں منفقہ وتم کونسا مولوی ہے جو نہیں دشن تیرا کون ہے جو کہ یہودی علما سے ہے کم کونسا پھوڑا ہے جیلہ تیری رُسوائی کا ہر جگہ کرتے ہیں یہ حق میں ترے سب وشتم پر تیری پشت پر وہ ہے جسے کہتے ہیں خُدا جس کے آگے ہے ملائک کا بھی ہوتا سر خم جب کیا تجھ پر کوئی حملہ توکھائی ہے شکست ماروہ ان کو پڑی ہے کہ نہیں باقی دم اخبار بدر - جلد ۵ - ۶ ستمبر له

Page 25

مٹ گیا تیری عداوت کے بس سے پیارے کوئی لیتا نہیں اب دہر میں نام آتیم بھنبھناہٹ جو انھوں نے یہ لگا رکھتی ہے چیز کیا ہیں یہ مخالف تو میں پیشہ سے بھی کم کر نہیں سکتے یہ کچھ بھی تبرا اسے شاہ جہاں ہفت خواں بھی جو یہ بن جائیں تو تو ہے رستم چرخ نیلی کی کر بھی ترے آگے ہے خم فیل کیا چیز ہیں اور کس کو ہیں کہتے میغم جس کا جی چاہے مقابل پہ ترے آدیکھے دیکھنا چاہتا ہے کوئی اگر ملک عدم حیف ہے قوم ترے فعلوں پر اور عقلوں پر دوست ہیں جو کہ تے اُن پہ تو کرتی ہے تم ہائے اُس شخص سے تو بغض و عداوت رکھے رات دن جس کو لگا رہتا ہے تیرا ہی غم نام تک اُس کا ہٹا دینے میں ہے تو کوشاں اس کا ہر بار مگر آگے ہی پڑتا ہے قدم دیکھ کر تیرے نشانات کو اسے مہدی وقت آج انگشت بدندان ہے سارا عالم مال کیا چیز ہے اور جاں کی حقیقت کیا ہے آبرو تجھ پر بند کرنے کو تیار ہیں ہم فرق میں بحر معاصی میں ہم اے پیارے میسج پار ہو جائیں اگر تو کرے کچھ ہم پر کرم آج دنیا میں ہر اک مو بے شرارت پھیلی پھنس گئی پنجہ شیطاں میں ہے نسل آدم اب ہنسی کرتے ہیں احکام الہی سرلوگ نہ تو اللہ ہی کا ڈر ہے نہ عقبے کا غم کوئی اتنا تو بتائے یہ اکڑتے کیوں ہیں ؟ بات کیا ہے کہ یہ پھرتے ہیں نہایت غرم بات یہ ہے کہ یہ شیطان کے فسوں خوردہ ہیں ان کے دل میں نہیں کچھ خوف خدائے عالم اپنی کم علمی کا بھی علم ہے کامل اُن کو ڈالتے ہیں انہیں دھوکے میں مگر دام دورم صاف ظاہر ہے جو آتی ہے یہ آواز صریر ان کے حالات کو لکھتے ہوئے روتا ہے قلم یاں تو اسلام کی قوموں کا ہے یہ حال ضعیف اور وال کفر کا ہرانا ہے اُونچی پرچم لاکھوں انسان ہوئے دین سے بے دیں کہیات آج اسلام کا گھر گھر میں پڑا ہے ماتم گھرنے کر دیا اسلام کو پامال غضب شرک نے گھیر لی توحید کی جا وائے ہستم

Page 26

ایسی حالت میں بھی نازل نہ ہو گر فضل خدا کفر کے جبکہ ہوں اسلام پر حملے پیہم جس طرف دیکھئے دشمن ہی نظر آتے ہیں کوئی مونس نہیں دنیا میں نہ کوئی ہمدم دین اسلام کی ہر بات کو جھٹلائیں غوی احمد پاک کے حق میں بھی کریں سب وشتم عاشیق احمد و دلدادہ مولائے کریم حسرت ویاس سے مر جائیں یہ چشم پرنم پر وہ غیور خُدا کب اسے کرتا ہے پسند دین احمد ہو تباہ اور ہو دشمن فترم اپنے وعدے کے مطابق تجھے بھیجا اس نے امت خیر رائل پر ہے کیا اُس نے کرم تیرے ہاتھوں سے ہی دنبال کی ٹوٹے گی گھر شرک کے ہاتھ تھے ہاتھ سے ہی ہو دینگے قلم دخیل کا نام ونشاں دہر سے مٹ جائے گا ظل اسلام میں آجائے گا سارا عالم جو کہ ہیں تابع شیطاں نہیں ان کی پروا ایک ہی حملے میں مٹ جائیگا سب اُنکا بھرم جبکہ وہ زلزلہ جس کا کہ ہوا ہے وعدہ ڈال دے گا تیرے اعداد کے گھروں میں اعتم تب اُنہیں ہوگی خبر اور کہیں گے بیہات ہم تو کرتے رہے ہیں اپنی ہی جانوں پر تم تیری سچائی کا دُنیا میں بجے گا ڈنکا بادشاہوں کے ترے سامنے ہونگے سر خم تیرے اعدار ہو ہیں دوزخ میں جگہ پائیں گے پر جگہ تیرے مریدوں کی تو ہے باغ ارم التجا ہے میری آخر میں یہ اے پیارے مسیح حشر کے روز تو محمود کا بنیو ہمدم

Page 27

غصہ میں بھرا ہوا خدا ہے جاگو ابھی فرصت دعا ہے تم کہتے ہو امن میں ہیں ہم، اور منہ کھولے ہوئے کھڑی بلا ہے ڈرتی نہیں کچھ بھی تو خدا سے اے قوم! یہ تجھ کو کیا ہوا ہے مامورِ خدا سے دشمنی ہے کیا اس کا ہی نام اتقا ہے گمراہ ہوئے ہو باز آؤ کیا عقل تمہاری کو ہوا ہے موسی کے غلام تھے سینما ہاں اُن سے ہمارا کام کیا ہے اب بر راہِ کوئے دلبر واللہ علام مصطفے ہے کس راہ سے ابن مریم آئے مدت ہوئی وہ تو مر چکا ہے اب اور کا انتظار چھوڑو آنا تھا جسے وہ تو آچکا ہے جس کو رکیا ہے خُدا نے مامور اس سے بھلا تم کو کیا گلہ ہے کیوں بھولے ہو دوستو ادھر آؤ اک مرد خندا پکارتا ہے باز آؤ شرارتوں سے اپنی کچھ تم میں اگر بُوئے وفا ہے اخبار بدر جلد ۲۰۰۵ ستمبرست

Page 28

ورنہ ابھی نام کو! تمھارے آئے گا وہ آگے ہو کیا ہے تقدیر سے ہو چکا مقدر قسمت میں تمھاری زلزلہ ہے وہ دن کہ جب آئے گی مصیبت آنکھوں میں ہماری گھومتا ہے حیرانی میں ایک دوسرے سے اُس دن یہ کسے گائیں یہ کیا ہے؟ چکھیں گے مزا عذاب کا جب جائیں گے کہ ہاں کوئی خُدا ہے پتھر بھی پکار کر کہیں گے ان کافروں کی یہی سزا ہے اے قوم خُدا کے واسطے تو بتلا کہ ہو تیرا مدعا ہے حق نے جسے کر دیا ہے مامور تسلیم میں اس کی مذر کیا ہے اللہ سے چاہو عفو تقصیر دیتا ہے اُسے جو مانگتا ہے محمود خدائے لم یزل سے ہر وقت یہی میری دعا ہے اُس شخص کو شاد رکھے ہردم جو دین قویم پر بندا ہے اور اس کو نکالے ظلمتوں سے.جو شرک میں کفر میں پھنسا ہے

Page 29

جدھر دیکھو ابر گنہ چھا رہا ہے گناہوں میں چھوٹا بڑا مبتلا ہے میرے دوستو شیرک کو چھوڑ دو تم کہ یہ سب بلاؤں سے بڑھ کر بلا ہے یہ دم ہے غنیمت کوئی کام کر لو کہ اس زندگی کا بھروسہ ہی کیا ہے محمد پہ ہو جان مشرباں ہماری کہ وہ کوئے دلدار کا رہنما ہے غضب ہے کہ یوں شہرک دنیا میں پھیلے مرا سینہ جلتا ہے دل پھینک رہا ہے خُدا کے لیے مرد میداں بنو تم کہ اسلام چاروں طرف سے گھیرا ہے تم اب بھی نہ آگے بڑھو تو غصب ہے کہ دشمن ہے بے کس ، تمھارا خُدا ہے بجا لاؤ احکامِ احمد خدا را ذرا سی بھی گرتم میں بوئے وفا ہے صداقت کو اب بھی نہ جانا تو پھر کب کہ موجود اک ہم میں مرد خدا ہے تیری عقل کو قوم کیا ہو گیا ہے اسی کی ہے بدخواہ جو رہنا ہے ده اسلام دنیا کا تھا ہو محافظ وہ خود آج محتاج اعداد کا ہے بپا کیوں ہوا ہے یہ طوفاں یکایک باؤ تو اس بات کی وجہ کیا ہے اخبار بدر جلد ۵-۱۴ راکتوبر شانه.

Page 30

میں ہے کہ گمراہ تم ہو گئے ہو نہ پہلا سا علم اور نہ وہ اگتا ہے اگر رہنما اب بھی کوئی نہ آئے تو سمجھو کہ وقت آخری آگیا ہے ہیں ہے اسی وقت ہادی کی حاجت میں وقت اک رہنا چاہتا ہے یہ ہے دوسری بات مانو نہ مانو مگر حق تو یہ ہے کہ وہ آگیا ہے اُٹھو اس کی امداد کے واسطے تم حمیت کا یارو یہی مقصنا ہے اُٹھو دیکھو اسلام کے دن پھرے ہیں کہ نائب محمد کا پیدا ہوا ہے محنت سے کہتا ہے وہ تم کو ہردم اُٹھو سونے والو کہ وقت آگیا ہے دم و غم اگر ہو کسی کو تو آئے وہ میدان میں ہر اک کولکاتا ہے ہراک دشمن دیں کو ہے وہ بلاتا کہ آؤ اگر تم میں کچھ بھی جیسا ہے متقابل میں اس کے اگر کوئی آئے نہ آگے بچے گا نہ اب تک بچا ہے مسیحا د مهدی دوران آخر وہ جس کے تھے تم منتظر آگیا ہے قدم اس کے ہیں شرک کے سر کے اوپر علم ہر نہ اس کا بھرا رہا ہے خُدا ایک ہے اُس کا ثانی نہیں ہے کوئی اس کا ہمسر بنانا خطا ہے نہ باقی رہے شرک کا نام تک بھی خُدا سے یہ محمود میری دُعا ہے

Page 31

گناہ گاروں کے درد دل کی بس اک قرآن ہی دوا ہے یہی ہے خضر رہ طریقت یہی ہے ساغر جوجی نما ہے ہر اک مخالف کے زور و طاقت کو توڑنے کا یہی ہے مربہ میں ہے تلوار جس سے ہر ایک دیں کا بدخواہ کا نپتا ہے تمام دنیا میں تھا اندھیرا کیا تھا ظلمت نے یاں بسیرا ہوا ہے جس سے جہان روشن وہ معرفت کا یہی دیا ہے نگاہ جن کی زمین پر تھی نہ آسماں کی جنہیں خبر تھی خُدا سے اُن کو بھی جا ملایا دکھائی ایسی رو مھدی ہے بھٹکتے پھرتے ہیں راہ سے جو، اُنہیں یہ ہے یار سے ملاتا جواں کے واسطے یہ خضر رہ ہے، تو پیر کئے اسطے عصا ہے مصیبتوں سے نکالتا ہے، بلاؤں کو سر سے ٹالتا ہے گلے کا تعویذ اسے بناؤ ، ہمیں یہی حکم مصطفے اخبار بدر جلد ۲۱۰۶ فروری شاه ہے

Page 32

A یہ ایک دریائے معرفت لگائے اس میں جو ایک غوطہ تو اس کی نظروں میں ساری دنیا فریب سے بھوٹ سے دعا ہے مگر مسلمانوں پر ہے حیرت جنہوں نے پائی ہے ایسی نعمت ولوں پہ چھائی ہے پھر بھی غفلت نیاد عقبی ہے نے خُدا ہے نہیں ہے کچھ دیں سے کام ان کا یونسی مسلماں ہے نام ان کا ہے سخت گندہ کلام ان کا ہر ایک کام ان کا فتنہ زا ہے زمیں سے جھگڑا فلک سے قضیہ یہاں ہے شور اور وہاں شہر با نہیں ہے اک دم بھی چین آنا خبر نہیں ان کو کیا ہوا ہے یہ چلتے ہیں یوں اکٹڑ اکڑ کر کہ گویا ان کے ہیں جبر اور پیر پڑے میں ایسے سمجھ پہ پتھر کہ نرم ہے کچھ نہ کچھ حیا ہے لڑیں گے آپس میں بھائی باہم نہ ہو گا کوئی کسی کا ہمدم میرا پیارا رسول اکرم.یہ بات پہلے سے کہا گیا ہے نہ دل میں خوب خُدا رہے گا نہ دین کا کوئی نام لے گا فلک پہ ایمان جا چڑھے گا یہی ازل سے لکھا ہوا ہے مگر خدائے رحیم درحماں جو اپنے بندوں کا ہے نگہباں جو ہے شہنشاہ جن و انساں جو ذرہ ذرہ کو دیکھتا ہے کرے گا قدر سے اپنی پیدا وہ شخص جس کا کیا ہے عدہ میسیج دوران مثیل میں جو میری اُمت کا رہنما ہے سوساری باتیں ہوئی ہیں پوری نہیں کوئی بھی رہی ادھوری دیوں میں اب بھی رہے جو دوری تو اس میں اپنا تصور کیا ہے

Page 33

14 پڑا عجب شور جا بجا ہے جو ہے وہ دُنیا پر ہی خدا ہے نہ دل میں خوف خدا رہا ہے نہ آنکھ میں ہی رہی حیا ہے میسیج دوراں میل میسٹی ، بجا ہے دُنیا میں جس کا ڈنکا خُدا سے ہے پا کے حکم آیا ، ملا اسے منصب مدعی ہے ہے چاند سورج نے دی گواہی پڑی ہے طاعون کی تباہی بچائے ایسے سے پھر خُدا ہی ہو اب بھی انکار کر رہا ہے ده مطلع آبدار لکھوں، کہ جس سے عتاد کا ہو دل نوں حروف کی جا گھر پروؤں، کہ مجھ کو کرنا یہی روا ہے میج دنیا کا رہنما ہے ، غلام احمد ہے مصطفے ہے بروز اقطاب دانبیاء ہے، خُدا نہیں ہے خدا نما ہے جہاں سے ایمان اٹھ گیا تھا، فریب و مکاری کا تھا چرچا فساد نے تھا جمایا ڈیرا ، وہ نقشہ اس نے اُلٹ دیا ہے اسی کے دم سے مرا تھا آتھم، اس نے دیکھو کا سر کیا نم اسی کا دُنیا میں آج پرچم ، ہما کے بازو پہ اُڑ رہا ہے اس کی شمشیر خونچکاں نے کیا قصوری کو ٹکڑے ٹکڑے یہ زلزلہ بار بار آئے ، اسی کی تصدیق کر رہا ہے جھایا طاعوں نے ایسا ڈیرا ، ستون اس کا نہ پھر اکھیڑا دیا ہے خلقت کو وہ تریڑا ، کہ اپنی جاں ہوئی خفا ہے مقابلہ میں جو تیرے آیا ، نہ خالی پیچ کر کبھی بھی لوٹا یہ دبدبہ دیکھ کر سینما، ہو کوئی حاسد ہے جل رہا ہے

Page 34

مندائے لاکھوں نشاں دکھائے ، نہ پھر بھی ایمان لوگ لائے عذاب کے منتظر ہیں ہائے نہیں جو بد بختی یہ تو کیا ہے صبا تر اگر وہاں گذر ہو تو اتنا پیغام میرا دیکھو اگرچہ تکلیف ہوگی تجھ کو یہ کام یہ بھی ثواب کا ہے کہ اے مثیل مسیح و عیسی : ہوں سخت محتاج میں دُعا کا خدا تری ہے قبول کرتا کہ تو اس اُمت کا ناخُدا ہے ندا سے میری یہ کر شفاعت که علیم و نور و دمی کی دولت مجھے بھی اب وہ کرے عنایت، یہی میری اس سے التجا ہے رہ خُدا میں ہی جاں فدا ہو ، دل عشق احمد میں مبتلا ہو اسی پہ ہی میرا خاتمہ ہو ، یہی میرے دل کا مدعا ہے نہیں ہے محمود کر اس کا ، کہ یہ اثر کس قدر کرے گا سخن کہ جو دل سے ہے نکلتا، وہ دل میں ہی جا کے بیٹھتا ہے

Page 35

دوستو ہرگز نہیں یہ ناچ اور گانے کے ان مشرق ومغرب میں میں یہیں کے پھیلا نیکے ن اس مین پر جبکہ تھا دور رخزاں وہ دن گئے اب تو میں اسلام پر یار و بہار آنے کے ن ظلمت و تاریکی و بند و تعصب مٹ چکے آگئے ہیں اب خُدا کے چہرہ دکھلانے کے بن جاہ وحشمت کا زمانہ آنے کو ہے عنقریب رہ گئے تھوڑے سے میں اب گالیاں کھانی کے دن ہے بہت افسوس اب بھی گرنہ ایمان میں لوگ جبکہ ہر ملک وطن پر میں عذاب آنے کے ان پیشگوئی ہو گئی پوری مسیح وقت کی پھر بہار آئی تو آئے صبح کے آنے کے دن ان دنوں کیا ایسی ہی بارش ہوا کرتی تھی یاں سیم کو کیا تھے یہ سمردی سے ٹھٹھر جانے کے بین دوستو اب بھی کرو تو بہ اگر کچھ عقل ہے ورنہ خود سمجھائے گا وہ یا سمجھانے کے دن وزد و دکھ سے آگئی تھی تنگ اسے محمود قوم اب گر جاتے رہے ہیں رنج وغم کھانے کے بن اخبار بدر جلد ۶-۲۸ ر ضروری نشانه

Page 36

۲۲ H ہر چار سو ہے شہرہ ہوا قادیان کا مسکن ہے جو کہ مہدی آخر زمان کا آئیں گے اب سے دوبارہ زمیں پر کیوں نظارہ بھا گیا ہے اُنہیں آسمان کا عیسی تو تھا خلیفہ موسی او جاہلو! تم سے بتاؤ کام ہے کیا اس جوان کا ثم امت محمد خير ال سیسل سے ہو بے تکلف و فضل تم پر ای مهربان کا کھتے ہیں وہ اہم تھا راتیں سے ہے جو ہے بڑی ہی شوکت و خیبرت دوشان کا پہنچے گا جلد اپنے کیے کی سزا کو وہ اب بھی گماں جو بد ہے کسی بدگمان کا ہاں جو نہ مانے احمد مرسل کی بات بھی کیا اعتبار ایسے شقی کی زبان کا سچ سچ کہونڈا سے ذرا ڈر کے دو جواب کیا تم کو انتظار نہ تھا پاسبان کا اب آگیا تو آنکھیں چراتے ہو کس لیے کیوں راستہ ہو دیکھ رہے آسمان کا جس نے خُدا کے پاس سے آنا تھا آچکا تو آکے بوسہ سنگ در آستان کا اسلام کو اسی نے کیا آگے پھر درست ہوش کر کس طرح سے ادا مہربان کا سینہ سپر ہوا یہ مقابل میں کفر کے خطرہ نہ مال کا ہی کیا اور نہ جان کا توحید کا سبق ہی جو تعلیم شرک ہے ہاں کفر ہے بتانا اگر یقی بیان کا اخبار بدر جلد ۱۴۰۶/ مارچ شاه

Page 37

تو ایسے شہرک پر ہوں میرا مال و آبرو اور ایسا گھر روگ بننے میری جان کا اے قوم کچھ تو عقل فرد سے بھی کام سے لڑتی ہے میں سمو دہ ہے کیسی شان کا گوں اکھ تو مقابلہ اس کا کرے مگر بیکا نہ بال ہو گا کوئی اس جو ان کا اے دوستو! جو سی کیلئے رنج سہتے ہو یہ رنج و دردوغم ہے فقط در میان کا کچھ یاس نا امیدی کو دل میں جگہ یہ دو اب جلد ہو چکے گا یہ موسم خزان کا اب اسکے پورا ہوتے ہی آجائیگی سیار وعٹ دیا ہے حق نے نہیں جو شان کا چاہا اگر خدا نے تو دیکھو گے جلد ہی چاروں طرف ہے شور بپا الامان کا کا فر بھی کہا اٹھیں گے کہ تچاہئے ، بزرگ دعوی کیا ہے میں نے مسیح الزمان کا محمود کیا بعید ہے دل پر جو قوم کے نالہ اثر کرے یہ کیسی نوحہ خوان کا

Page 38

١٢ انے مولویو ! کچھ تو کرد خوف خدا کا کیا تم نے مناسک بھی نہیں نام حیا کا کیا تم کو نہیں خوف رہا روز جزا کا یوں سامنا کرتے ہو جو محبوب خدا کا ہر جنگ میں کفار کو ہے پیٹھ دیکھائی تم لوگوں نے ہی نام ڈبویا ہے وفا کا ٹھہراتے ہیں کا فراُسے جو بادی دیں ہے یہ خوب نمونہ ہے یہاں کے علما کا بیٹھا ہے فلک پر جو اسے اب تو بلاؤ چپ بیٹھے ہو کیوں تم ہے یہی وقت دُعا کا پر حشر تلک بھی جو رہو اشک فشاں تم ہرگز نہ پست پاؤ گے کچھ آہ رسا کا دہ شاہ جہاں جس کے لیے چشم بڑہ ہو کہ قادیاں میں بیٹھا ہے محبوب خدا کا وحشی کو بھی دم بھریں مہذب ہے بناتی دیکھو تو اثر آ کے ذرا اس کی دعا کا دہ قوت اعجاز ہے اس شخص نے پائی دم بھر میں اُسے مار گرایا جسے تا کا محمود نہ کیوں اس کے مخالف ہوں پریشاں نائب ہے نبی کا وہ فرستادہ خُدا کا اخبار بدر جلد ۶ - ۱۴۴ رما پیچ نشانه

Page 39

۲۵ یوں الگ گوشتہ ویراں میں جو چھوڑا ہم کو نہیں معلوم کہ کیا قوم نے سمجھا ہم کو کل تلک تو یہ نہ چھوڑے گا کہیں کا ہم کو آج ہی سے جو لگا ہے غیر منڈا ہم کو ہے خدا کی ہی عنایت پہ بھروسہ ہم کو نہ عبادت کا نہ ہے اُحد کا دعوی ہم کو درد اُلفت میں مزہ آتا ہے ایسا ہم کو کہ شفایابی کی خواہش نہیں اصلا ہم کو تجھ پہ رحمت ہو خدا کی کہ سیٹھا تو نے رشتہ الفت دوحدت میں ہے باندھا ہم کو اپنا چہرہ کہیں دکھلائے وہ رب العزت مدتوں سے ہے میں دل میں تم ہم کو گالیاں دشمن دیں ہم کو جو دیتے ہیں تو دیں کام میں صبر وتحمل سے ہے زیب ہم کو یکچھ نہیں فکر لگائی ہے خُدا سے جب نو گو سمجھتا ہے بڑا اپنا پرایا ہم کو ایک تسمہ کی بھی حاجت ہو تو مانگو مجھے سے ہے ہمیشہ سے یہ اُس یار کا ایسا ہم کو زخم دل زخم جگر بنتے ہیں کھل کھیل کر کیوں حالت قوم پہ آتا ہے جو رونا ہم کو کیں مونٹی کی طرح حشر میں ہوش نہ ہوں لگ رہا ہے اسی عالم میں یہ دھٹر کا ہم کو ایک دم کے لیے بھی یاد سے کیوں توڑتے اور محبوب کہاں تجھ سالے گا ہم کو اخبار پدر جلد ۲۳۰۰ مئی شانه

Page 40

۲۶ تجھ پہ ہم کیوں نہ مریں مرے پیارے کہ ہے تو دولت و آبرو و جان سے پیارا ہم کو آدمی کیا ہے تو امتنع کی نہ عادت ہو جسے سخت لگتا ہے بڑا گھر کا پتلا ہم کو دشمن دین درندوں سے ہیں بڑھ کر خونخوار چھوڑ یو مست برے مولی کبھی تنہا ہم کو دیکھ کر حالت دیں خون جگر کھاتے ہیں مر ہی جائیں جو نہ ہو تیرا سہارا ہم کو دل میں آپ کے تیری یاد نے اسے رب کوڈوو بار ہا پہروں تلک خون رلایا ہم کو چونکہ توحید پہ ہے زور دیا ہم نے آج اپنے بیگانے نے چھوڑا ہے اکیلا ہم کو حق کو کڑوا ہی بتاتے چلے آئے ہیں لوگ یہ نئی بات ہے لگتا ہے وہ میٹھا ہم کو جوش اُلفت میں یہ لکھتی ہے غزل اسے محمود کچھ ستائش کی تمنا نہیں ادا ہم کو

Page 41

۲۷ ۱۴ کیوں ہو رہا ہے خرم و خوش آج کل جہاں کیوں ہر دیار و شهر بنوا رشک بوستان چہرہ پہ اس مریض کے کیوں رونق آگئی جو کل تلک تھا سخنت ضعیف اور ناتواں ان بے کسوں کی تہمتیں کیوں ہوگئیں بلند جن کا کہ کل جہاں میں نہ تھا کوئی پاسباں وہ لوگ جو کہ راہ سے بے راہ تھے ہوئے کیوں ان کے چہروں پر ہے خوشی کا اثر عیاں تاریکی و جهالت و ظلمت کدھر گئی دُنیا سے آج ان کا ہوا کیوں ہے گم نشاں مجھ سے سنو کہ اتنا تغییر ہے کیوں ہوا جو بات کل نہاں تھی ہوئی آج کیوں عیاں یہ وقت وقت حضرت عیسی ہے دوستو جو نائب خدا ہیں جو ہیں مہدی زمان ہو کر غلام احمد مرسل کے آئے ہیں قربان جن کے نام یہ ہوتے ہیں انٹ جاں سب دشمنان دیں کو اُنھوں نے کیا ذلیل بخشی ہے رب عز وجل نے وہ عرب وشاں جو ان سے لڑنے آئے وہ دُنیا سے اٹھ گئے باقی کوئی بچا بھی تو ہے اب وہ نیم جاں ان کو ذلیل کرنے کا جس نے کیا خیال ایسا ہوا ذلیل کہ جینا ہوا محال رنج و غم و ملال کو دل سے بھلا دیا جو داغ دل پہ اپنے لگا تھا مٹا دیا ہم بھوٹے پھر رہے تھے کہیں کے کہیں گر جو راہ راست تھا نہیں اس نے بتا دیا اک جام معرفت کا جو ہم کو پلا دیا جتنے شکوک وشبہ تھے سب کو مٹا دیا اخبار بدر جلد ۳۰۰۶ رمئی سنشله

Page 42

دکھلا کے ہم کو تازہ نشانات دسمجزات چہرہ خدائے عز وجل کا دکھا دیا ہم کیوں کریں منہ اس پر فدا جان و آبرو روشن کیا ہے دین کا جس نے بجھا دیا رہ دل جو بغض رکینہ سے سمجھے اور ہوا ہے دیں کا کمال اُن کو بھی اس نے دیکھا دیا اس نے ہی آئے ہم کو اُٹھایا زمین سے تھا دشمنوں نے خاک میں ہم کو بلا دیا ڈوئی تصوری.دھلوی.لیکھو سوتراج ساروں کو ایک وار میں اس نے گرا دیا ایسے نشاں دکھائے کہ میں کیا کہوں تمہیں کفار نے بھی اپنے سروں کو تُجھکا دیا احسان اس کے ہم پہ میں بے حد دیگراں ہوگن کے انہیں نہیں ایسی کوئی زباں برطانیہ جو تم پر حکومت ہے کہ رہا تم جانتے نہیں ہو کہ ہے بھید اس میں کیا یہ بھی اُسی کے دم سے ہے نعمت نہیں کی تائش کر جان و دل سے خدا کا کر دارا نازل ہوئے تھے ٹیسٹی مریم جہاں وہاں اس وقت جاری قیصر روما کا حکم تھا گو تھی میٹودیوں کی نہ وہ اپنی سلطنت پر اپنی سلطنت سے بھی آرام تھا سوا ویسی ہی سلطنت تھیں اللہ نے ہے دی تا اپنی قیمتوں کا نہ تم کو رھے گلہ پر جیسے اُس سیخ سے بڑھ کر ہے یہ مسیح یہ سلطنت بھی پہلی سے ہے امن میں ہوا یہ رعب اور شان بھلا اس میں تھی کہاں یہ دبدبہ تھا قیصر روما کو کب ملا ہے ایسی شان قیصر مہندوستان کی ہے دشمن اس کی خنجر براں سے کاپیتا اس سلطنت کی تم کو بتاؤں وہ خوبیاں جن سے کہ اس کی مہر و عنایات ہوں میں اس کے سبب سے ہند میں امن امان ہے نے شور و شر کیں ہے نہ آہ وفغان ہے ہندوستاں میں ایسا کیا ہے انہوں نے عدل ہر شورہ پشت جس سے ہوا نیم جان ہے

Page 43

کہ جا جہاں پہ ہوتی تھی ہر روز ٹوٹ اور ہر طرح اس جگہ پہ اب امن امان ہے خفیہ ہو کوئی بات تو بتلاؤں میں تمہیں طرز حکومت ان کی ہر اک پر میان ہے ہندوستاں میں چاروں طرف ریل جاری کی ان کا ہی کام ہے یہ، یہ ان کی ہی نشان ہے چیزیں ہزاروں ڈاک میں بھیجو تم آج کل نقصان اس میں کوئی، نہ کوئی زبان ہے پھیلایا تار ملک میں آرام کے لیے یہ سلطنت ہی ہم یہ بہت مہربان ہے چھوٹوں بڑوں کی چین سے ہوتی ہر ہیں نہبر نے مال کا خطر ہے نہ نقصان جلن ہے پیٹتے ہیں ایک گھاٹ پر شیر اور گو سند اس سلطنت میں یاں تلک امن امان ہے پھر بھی کوئی نہ مانے جو احساں تو کیا کریں ایسے کو بے خرد کیں یا بے حیا کہیں ہندوستاں سے اٹھ گیا تھا علم اور سہی یاں آتا تھا نہ عالم و فاضل کوئی نظر پھیلا تھا ہر چہار طرف جہل ملک پر کوئی نہ تھا جو آئے همارا ہو چارہ گر اپنے پرائے چھوڑ کے سب ہو گئے الگ ہم بے کسوں پر آخر انہوں نے ہی کی نظر انگریزوں نے ہی بے کس و بد حال دیکھ کر کھوئے ہیں علم و فضل کے ہم پر ہزار در مذہب میں ہر طرح ہمیں آزاد کر دیا چلتا نہیں سروں پر کوئی جبر کا تیر پوجا کرے نماز پڑھے کوئی کچھ کرے آزاد کر دیا ہے اُنھوں نے ہر اک بشر القتہ سلطنت یہ بڑی مہربان ہے آتی نہیں جہان میں ایسی کوئی نظر فضل خدا سے ہم کوئی ہے یہ سلطنت جو نفع دینے والی ہے اور ہے بھی بے ضرر اور اس سے بڑھ کے رحم خدا کا یہ ہم پہ ہے مینی سیستم سا ہے دیا ہم کو راہبر محمود درد دل سے یہ ہے اب میری دُعا قیقتر کو بھی ہدایت اسلام ہو عطا

Page 44

۱۵ نہ کچھ توت رہی ہے جسم وجاں میں نہ باقی ہے اثر میری زباں میں ہے تیاری سفر کی کارواں میں میرا دل ہے ابھی خواب گراں میں نہیں پھٹتی نظر آتی میری جاں پھنسا ہوں اس طرح قید گراں میں مزا جو یار پر مرنے میں ہے وہ نہیں لذت حیاتِ جاوداں میں ہر اک عارف کے دل پر ہے وہ ظاہر خُدا مخفی نہیں ہے آسماں میں خدایا درد دل سے ہے یہ خواہش مرا تو ساتھ دے دونوں جہاں میں نظر میں کاموں کی ہے وہ کامل اُترتا ہے جو پورا امتحاں میں یہی بھی ہے کہ پہنچے یار کے پاس ہے مریغ دل تڑپتا آشیاں میں و سنتا ہے کپڑ لیتا ہے دل کو تڑپ ایسی ہے میری داستاں میں ہدائے دوست آئی کان میں کیا کہ پھر جاں آگئی اک نیم جاں میں کریں کیونکر نہ تیرا شکر یا رب کہ تو نے لے لیا ہم کو اماں میں ہر اک رنج و بلا سے ہم میں محفوظ مصیبت پڑ رہی ہے گو جہاں میں ہر اک جانور سے تیسر منور ترا ہی جلوہ ہے کون ومکاں میں کہاں ہے لالہ وگل میں وہ ملتی جو خوبی ہے میرے اس دلستاں میں ہے اک مخلوق رب ذوالینن کی بھلا طاقت ہی کیا ہے آسماں میں ندا کا رحم ہونے کو ہے محمود تغیر ہو رہا ہے آسماں میں اخبار بدر جلد ۶-۲۶ ستمبرسته

Page 45

14 نشان ساتھ ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں ہمارے دین کا قصوں پر ہی مدار نہیں وہ دل نہیں جو جدائی میں بے قرار نہیں نہیں وہ آنکھ جو فرقت میں اشکبار نہیں وہ ہم کہ فکر میں دیں کے ہیں قرار نہیں وہ تم کہ دین محمد سے کچھ بھی پیار نہیں دہ لوگ درگہ عالی میں جن کو بار نہیں اُنھیں فریب و دغا، نکر سے بھی عار نہیں ہے خوف مجھ کو بہت اسکی طبع نازک سے نہیں ہے یہ کہ مجھے آرزوئے یار نہیں تڑپ رہی ہے مری روح جسم خاکی میں برے ہوا مجھے اک دم بھی اب قرار نہیں نہ طعنہ زن ہو میری بے خودی پر اے ناصح میں کیا کہوں کہ میرا اس میں اختیار نہیں مثال آئینہ ہے دل کہ یار کا گھر ہے مجھے بھی سے بھی اس دہر میں غبار نہیں جو دل میں آئے سو کہ لو کہ میں بھی کہ گلف خُدا کے علم میں گر ہم ذلیل و خوار نہیں ہوا دہ پاک جو قدوس کا ہوا شیدا پلید ہے جسے حاصل یہ افتخار نہیں وہ ہم کہ عشق میں پاتے ہیں نُطف یکتائی ہمارا دوست نہیں کوئی غمگسار نہیں چڑھتے ہیں سینکڑوں ہی سولیوں پہ ہم منصور ہمارے عشق کا اک دار پر مدار نہیں یونسی کھو نہ ہمیں لوگو ! کافر و مرتد ہمارے دل کی خبر تم پر آشکار نہیں امام وقت کا لوگو گرد نہ تم انکار جو جھوٹے ہوتے ہیں وہ پاتے اقتدار نہیں اخبار بدر جلد ۶ - ، راکتو برنامه

Page 46

دل دیگر کے پر نچھے اُڑے ہوئے ہیں ایں اگر چہ دیکھنے میں اپنا حال زار نہیں جگا رہے ہیں سیٹیا کبھی سے دنیا کو مگر غضب ہے کہ ہوتی وہ ہوشیار نہیں مقابلہ میں میسیج زماں کے جو آئے وہ لوگ وہ ہیں جنھیں حق سے کچھ بھی پیار نہیں کلام پاک بھی موجود ہے اسے پڑھ لے ہمارا تجھ کو جو اسے قوم اعتبار نہیں بھی تو دل پر بھی جاکر اثر کرے گی بات سُنائے جائیں گے ہم تم کو ہزار نہیں کروڑ جاں ہو تو کر دوں جندا محمد پر کہ اس کے لطف و عنایات کا شمار نہیں

Page 47

16 ظهور مهدی آخر زماں ہے سنبھل جاؤ کہ وقت امتحاں ہے محمد میرے تن میں مثل جاں ہے یہ ہے مشہور جاں ہے تو یہاں ہے گیا اسلام سے وقت خزاں ہے ہوئی پیدا ہار جاوداں ہے اگر پوچھے کوئی عیسی کہاں ہے تو کہدو اس کا مسکن قادیاں ہے ہر اک دشمن بھی اب طب انساں ہے مرے احمد کی وہ شیریں زباں ہے مقدر اپنے حق میں عز وشاں ہے جو ذلت ہے نصیب دُشمناں ہے میمائے زماں کا یاں مکاں ہے زمین متدیان دارالاماں ہے خدا تجھ پہ میٹھا میری جاں ہے کہ تو ہم بے کسوں کا پاسباں ہے سیما سے کوئی کہہ دو یہ جا کر مریض عشق تیرا نیم جاں ہے نہ پھولو دوستو دنیائے دوں پر کہ اس کی دوستی میں بھی زیاں ہے دو زندگی سے ہمیں ہے سخت نفرت جو دل میں ہے جبیں سے بھی عیاں ہے ترہے اس حال بد کو دیکھ کر قوم جگر ٹکڑے ہے اور دل خوں فشاں ہے جسے کہتی ہے دنیا سنگ پارس مسیحا کا وہ سنگِ آستاں ہے دیا ہے رہنا بڑھ کر بھر سے جدا بھی ہم پر کیا مہرباں ہے اخبار بدر جلد ۲۶۰۶ دسمبر سنه

Page 48

فلک سے تا منارہ آئیں میلے مگر آگے "تلاش نردباں ہے ترقی احمدی فرقہ کی دیکھے بٹالہ میں جو اک پیر مغاں ہے نہ یوں حملہ کریں اسلام پر لوگ ہمارے منہ میں بھی آخر زباں ہے مخالف اپنے ہیں گو زور پر آج مگر ان سے قوی تر پاسباں ہے کرا ڈوئی دم معجز نما سے یہ میٹی کی صداقت کا نشاں ہے مسلمانوں کی بدحالی کے غم میں دھرا مینہ پر اک سنگِ گراں ہے پریشاں کیوں نہ ہوں دشمن بسیما ظفر کی تیکر ہاتھوں میں عناں ہے نہیں دنیا میں جس کا بوڑ کوئی ہمارا پیشوا وہ پہلواں ہے کرے قرآن پر چشمک حد سے کہاں دوشمن میں یہ تاب و تواں ہے نہیں دنیا کی خواہش ہم کو ہرگز خدا دیں پر ہی اپنا مال و جاں ہے نہیں اسلام کو کچھ خوف محمود کہ اس گلشن کا احمد باغباں ہے

Page 49

۲۵ IA محمد پر ہماری جاں فدا ہے کہ وہ کوئے صنم کا رہنما ہے مرا دل اس نے روشن کر دیا ہے اندھیرے گھر کا میرے وہ دیا ہے نمبر ے اے مسیحا درد دل کی ترے بمیار کا دم گھٹ رہا ہے دل آفت زدہ کا دیکھ کر حال مرا زخم جگر بھی ہنس رہا ہے کسی کو بھی نہیں مذہب کی پروا ہر اک دنیا کا ہی شیدا ہوا ہے بھنور میں پھنس رہی ہے کشتی دیں تلاطم بحجر بستی میں بپا ہے سروں پر چھا رہا ہے ابر ظلمت اُسی سے جنگ ہے جو ناخُدا ہے خدا یا اک نظر اس گفته دل پر کہ یہ بھی تیرے در کا اک گدا ہے غیم اسلام میں میں جاں بلب ہوں کلیجہ میرا منہ کو آ رہا ہے ہمارے حال پر ہنستی ہے گو قوم ہمیں پر اس پر رونا آ رہا ہے سیحا کو نہیں خوف وخطر کچھ حمایت پر تلا اس کی خدا ہے ہوئے ہیں لوگ دشمن امر حق کے اسی کا نام کیا صدق و صفا ہے حیات جاوداں ملتی ہر اس سے کلام پاک ہی آپ بہت ہے اخبار بدر جلد ۲۷ فروری شنبه

Page 50

PY دم میسی سے مردے جی اُٹھے ہیں جو اندھے تھے اُنہیں اب سوجھتا ہے ذرا آنکھیں تو کھولو سونے والو! تمھارے سر پر سورج آگیا ہے زمین و آسماں ہیں اس پر شاہد جہاں میں ہر طرف پھیلی دہا ہے میرا ہر ذرہ ہو شربان احمد میرے دل کا یہی اک مدعا ہے اُسی کے عشق میں نکلے مری جاں کہ یاد یار میں بھی اک مزا ہے مجھے اس بات پر ہے فخر محمود مرا معشوق محبُوبِ خُدا.فخر سنو اے دُشمنان دین احمد نتیجہ بد زبانی کا بڑا ہے کہاں کو اک نظر دیکھو حدادا جو ہوتا ہے اُسی کو کاٹتا ہے نہیں لگتے بھی کیس کر کو انگور نہ حنظل میں کبھی حشر ما لگا ہے لگیں گو سینکڑوں تلوار کے زخم زباں کا ایک زخم اُن سے بُرا ہے شفا پا جاتے ہیں وہ رفتہ رفتہ کہ آخر ہر مرض کی اک دوا ہے خزاں آتی نہیں زخم زباں پر یہ رہتا آخری دم تک ہرا ہے ہمارے انبیا کو گالیاں دو پھر اس کے ساتھ دعوی صلح کا ہے گریبانوں میں اپنے منہ تو ڈالو ذرا سوچو اگر کچھ بھی کیا ہے ہماری مسلح تم سے ہو گی کیونکر تمھارے دل میں جب یہ کچھ بھرا ہے محند کو بُرا کہتے ہو تم لوگ ہماری جان و دل جس پر فدا ہے مُحند ہو ہمارا پیشوا ہے مُحند ہو کہ محبوب خُدا ہے ہو اس کے نام پر قربان سب کچھ کہ وہ شاہنشہ ہر دوسرا ہے اسی سے میرا دل پاتا ہے تسکیں وہی آرام میری روح کا ہے خدا کو اس سے مل کر ہم نے پایا وہی اک راہ دیں کا رہنا ہے

Page 51

پس اس کی شان میں جو کچھ ہو کہتے ہمارے دل جنگز کو چھنید تا ہے مزہ دو بار پہلے چکھ چکے ہو مگر پھر بھی وہی طرز ادا ہے خُدا کا قہر اب تم پر پڑے گا کہ ہونا تھا جو کچھ اب ہو چکا ہے پکھائے گی تمھیں غیرت خدا کی جو کچھ اس بد زبانی کا مزا ہے ابھی طائون نے چھوڑا نہیں ملک نئی اور آنے والی اک وبا ہے شرارت اور بدی سے باز آؤ دلوں میں کچھ بھی گر خوف خدا ہے بزرگوں کو ادب سے یاد کرنا یہی اکسیر ہے اور کیمیا ہے

Page 52

19 باب رحمت خود بخود پھر تم یہ وا ہو جائے گا جب تمھارات اور مطلق خُدا ہو جائے گا دشمن جانی جو ہو گا آشنا ہو جائے گا یوم بھی ہو گا اگر گھر میں نہا ہو جائے گا آدمی تقوی سے آخر کیمیا ہو جائے گا جن میں دل سے چھوٹے گا وہ طلا ہو جائے گا جو کہ شرع رُوئے دلبر پر فدا ہو جائے گا خاک بھی ہوگا تو پھر خاک شفا ہو جائے گا جو کوئی اس یار کے در کا گدا ہو جائے گا ملک روحانی کا وہ ترانہ وا ہو جائے گا جس کو تم کہتے ہو یار دیرین ہو جائے گا ایک دن سارے جہاں کا پیشوا ہو جائے گا کفر مٹ جائے گا زور اسلام کا ہو جائے گا ایک دن حاصل ہمارا مدعا ہو جائے گا مدتی دوران کا جو خاک پا ہو جائے گا مہر عالمتاب سے روشن سوا ہو جائے گا پا جو کوئی تقویٰ کرے گا پیشوا ہو جائے گا قبلہ رخ ہوتے ہوئے قبلہ نما ہو جائے گا جس کا مسلک زُہد و ذکر و اتقا ہو جائے گا پنجہ شیطاں سے وہ بالکل رہا ہو جائے گا دیکھ لینا ایک ان خواہش پر آئے گی میری میرا ہر ذرہ محمد پر برا ہو جائے گا پا پر جو ھمن کے چلے گا ایک دن پیروی سے اس کی محبوب خُدا ہو جائے گا دیر کرتے ہیں جو نیکی میں ہے کیا ان کا خیال موت کی سمت میں بھی کچھ انتوا ہو جائے گا دشمن اسلام جب دیکھیں گے اک تری نشاں جان نکل جائے گی ان کی دم فنا ہو جائے گا اخبار بد ر جلد ۲۵۰۰ جون شاه

Page 53

۳۹ نائب خیر الرسل ہو کر کرے گا کام یہ وارث تخت محمد میرزا ہو جائے گا حکم رتی سے یہ ہے پیچھے پڑا شیطان کے اسکے ہاتھوں اب اس کا فیصلہ ہو جائے گا اس کی باتوں سے بی ٹوٹے گا یہ دبالی علیم اس کا ہر ہر لفظ موشی کا عصا ہو جائے گا خاک میں ملکر ملیں گے تجھ سے یارب ایکدن درد جب حد سے بڑھے گا تو دوا ہو جائے گا آئے ٹھانی سے جب سیراب ہو گا مل جہاں پانی پانی شرم سے اک بے حیا ہو جائے گا ہیں در مالک پر بیٹھے ہم لگائے کیمسٹ کی ہاں بھی تو اپنا نالہ بھی رسا ہو جائے گا جبکہ پانی کا ہے انساں نہیں کرتا خیال ایک ہی صدمہ اُٹھا کر وہ ہوا ہو جائے گا سختیوں سے قوم کی گھرانہ ہرگز سے عزیز کھا کے یہ پتھر تو کھیل بے بہا ہو جائے گا جو کوئی دریائے فکر دیں میں ہو گا غوطہ زن میل اتر جائیگی اس کی بول صفا ہو جائے گا قوم کے بغض و عداوت کی نہیں پر ڈا میں وقت یہ کٹ جائے گا فضل خدا ہو جائے گا چھوڑ دو اعمال بد کے ساتھ بد مثبت بھی تم زخم سے انگورسل کر پھر ہرا ہو جائے گا حق پہ ہم ہیں یا کہ یہ تضاد میں جھگڑا ہے کیا فیصلہ اس بات کا روز جزا ہو جائے گا تیرا ہر ہر لفظ اے پیارے سیتائے زماں حتی کے پیاسوں کے لیے آب بقا ہو جائے گا کیوں نہ گرداب ہلا کر پیسے نکل آئے گی قوم کی دیں کا خدا جب ناحت را ہو جائے گا کر لو ہو کچھ موت کے آنے سے پہلے ہو سکے تیر چھٹ کر موت کا پھر کیا خطا ہو جائے گا عشق مولی دل میں جب محمود ہوگا موجزن یادگر اس دن کو تو پھر کیا سے کیا ہو جائے گا

Page 54

۲۰ یہ اپنی رحم کر اپنا کہ میں بھیار ہوں دل سے تنگ یا ہوں اپنی جان سے بیزار ہوں بس نہیں چلتا تو پھر میں کیا کروں لاچار ہوں ہر مصیبت کے اُٹھانے کے لیے تیار ہوں ہو گئی ہیں انتظار یار میں آنکھیں پید اک بُبت نہیں بدن کا طالب دیدار ہوں کرم خاکی ہوں نہیں رکھتا کوئی پروا میری دشمنوں پر میں گراں ہوں دوستوں پر بار ہوں کچھ نہیں حال کلیسا و صنم جینا انہ کا علم نشتہ جام سئے وحدت میں میں سرشار ہوں اس کی ڈوری کو بھی پاتا ہوں قلم قرب میں خواب میں جیسے کوئی سمجھے کہ میں بیدار ہوں کیا کروں جاکر حرم میں مجھ کو ہے تیری تلاش دار کا طالب نہیں ہوں طالب دیدار ہوں مبر و تسکیں تو الگ دل تک نہیں باقی رہا راہ اُلفت میں لٹا ایسا کہ اب نادار ہوں اب تو جو کچھ تھا حوالے کر چکا دلدار کے وہ گئے دن جبکہ کہتا تھا کہ میں ڈال اور ہوں اخبار بد ر جلد ۷ - ۹ جولائی شاه

Page 55

۲۱ اسے میرے سوئی کے مالک سے ہی جہاں کی سیر مبتلا ئے رنج و غم ہوں جلد نے میری عمیر دوستی کا دم جو بھرتے تھے کہ سب دن ہے اب کسی پر تیرے بن پڑتی نہیں میری نظر امن کی کوئی نہیں جا خوف دامن گیر ہے سانپ کی مانند مجھ کو کاٹتے ہیں بحر و بر ہاتھ جوڑوں یا پڑوں پاؤں بتاؤ کیا کروں دل میں بیٹیا ہے مگر آستا نہیں مجھ کو نظر جبکہ ہر شے ملک سے تیری ہے مولی تو پھر جس سے تو جاتا رہے بلا کہ وہ جائے کہ ھر کام دیتی ہے عصا کا آیتِ لا تقنطوا ورنہ عصیاں نے تو میری توڑ ڈالی ہے کمر بے کسی میں رھزن زرنج مصیبت آپڑا سب متاع صبر و طاقت ہو گئی زیر زبر اخبار بدر جلد ، ۲۰ ستمبر له

Page 56

۴۲ کوئی گیسو میرے دل سے پریشاں ہونہیں سکتا کوئی آئینہ مجھ سے بڑھ کے حیراں ہو نہیں سکتا کوئی یاد خدا سے بڑھ کے مہماں ہو نہیں سکتا وہ ہو جیں خانہ دل میں وہ ویراں ہو نہیں سکتا اللی پھر سبب کیا ہے کہ درماں ہو نہیں سکتا ہمارا درد دل جب تجھ سے پنہاں ہو نہیں سکتا کوئی مجھ سا گنا ہوں پر پشیماں ہو نہیں سکتا کوئی یوں فضلتوں پر اپنی گریاں ہو نہیں سکتا چھپا ہے اکبر کے پیچھے نظر آتا نہیں مجھ کو میں اس کے چاند سے چہرہ پر قربانی نہیں سکتا خدارا خواب میں ہی آکے اپنی شکل دکھلائے بس اب تو بر مجھ سے اسے بری ما ہو نہیں سکتا وہاں ہم جانہیں سکتے یہاں وہ آ نہیں سکتے ہمارے درد کا کوئی بھی درماں ہو نہیں سکتا چھیں کو لاکھ پڑوں میں ہم انکو دیکھ لیتے ہیں خیال روئے جاناں ہم سے پنہاں ہو نہیں سکتا زر خالص سے بڑھ کے فنا ہونا چاہیئے دل کو ذرا بھی کھوٹ ہو جس میں مسلماں ہو نہیں سکتا ہوا آخر نکل جاتی ہے آزار مثبت کی چھپاؤ لا کھ تم اس کو وہ پنہاں ہو نہیں سکتا نظر آتے تھے میرے حال پر وہ بھی پریشاں یہ میرا خواب تو خواب پریشاں ہونہیں سکتا خدایا منہ میں گذریں تڑپتے تیسری فرقت میں ترے ملنے کا کیا کوئی بھی ساماں ہو نہیں سکتا بھلاؤں یا دے کیو نکر کلام پاک لہر ہے جدا مجھ سے تو اک دم کو بھی قرآن ہو نہیں سکتا اخبار بقدر جلد ۲۲۰ راکتو بر سنشاه

Page 57

مکان دل میں لاکرئیں فہم سب کو رکھوں گا مُبارک اس سے بڑھ کر کوئی ماں ہونہیں سکتا وہ ہیں فردوس میں شاداں گرفتار بالا ہوں میں وہ فنگس ہو نہیں سکتے میں خنداں ہو نہیں سکتا معافی سے نہ جبتک وہ ہے سے سارے گناہوں کی جدا ہا تھوں سے میرے اس کا داماں ہو نہیں سکتا ہر اک دم اپنی قدر سکے انہیں مجھ سے کھاتا ہے جو اس کے ہور میں پھر ان سے پنہاں ہو نہیں سکتا ہزاروں حسرتوں کا روز دل میں خون ہوتا ہے بھی ویران یہ گنج ٹھیراں ہو نہیں سکتا مثال کو و آتش بار کرتا ہوں فغاں مردم بھی کا مجھ سے بڑھ کے سینہ بریاں ہو نہیں سکتا ہوں آنا منفعل اس سے کہ بو لانگ نہیں جاتا میں اسے منفرت کا بھی تو خواہاں ہو نہیں سکتا کیا تھا پہلے ان کا نوان اب جہاں سے کے پھو ٹینگے دیت کا بھی تو میں اس ڈر سے خواہاں ہو نہیں سکتا

Page 58

مهم بهم ۲۳ وہ خواب ہی میں گر نظر آتے تو خوب تھا مرتے ہوئے کو آگے چلاتے تو خوب تھا اس بے وفا سے دل نہ لگاتے تو خوب تھا مٹی میں آبرو نہ ملاتے تو خوب تھا دلبر سے رابطہ جو بڑھاتے تو خوب تھا یوں عمر رائیگاں نہ گنواتے تو خوب تھا اک غمزدہ کو چہرہ دکھاتے تو خوب تھا روتے ہوئے کو آگے ہنساتے تو خوب تھا اک لفظ بھی زباں پر نہ لاتے تو خوب تھا دُنیا سے اپنا عشق چھپاتے تو خوب تھا نظروں سے اپنی تم نہ گراتے تو خوب تھا پہلے ہی ہم کو منہ نہ لگاتے تو خوب تھا محمود دل خدا سے لگاتے تو خوب تھا شیطاں سے دامن اپنا چھڑاتے تو خوب تھا یونسی پڑے نہ باتیں بناتے تو خوب تھا کچھ کام کر کے ہم بھی دکھاتے تو خوب تھا دنیائے دُوں کو آگ لگاتے تو خوب تھا کوچہ میں اس کے دھونی رماتے تو خوب تھا آب حیات پی کے خضر تم نے کیا لیا تم اس کی رہ میں خون نڈھاتے تو خوب تھا اے کاش! عقل عشق میں دیتی ہیں جو اب دیوانہ وار شور مچاتے تو خوب تھا مدرسے میں بھٹک رہے وادی میں عشق کی وہ خود ہی آکے راہ دکھاتے تو خوب تھا عزت بھی اس کی ڈوری میں بے آبروئی ہے کوچہ میں اس کے خاک اُڑاتے تو خوب تھا بحر گنہ میں پھر کبھی کشتی نہ ڈوبتی ہم نا خُدا حرا کو بناتے تو خوب تھا فرقت میں اپنا حال بنوا ہے یہاں ہو غیر احباب اُن کو جاکے سُناتے تو خوب تھا اخبار بدر جلد ۲۰۸ در جنوری نشته

Page 59

۴۵ ۲۴ میں نے جس دن سے ہے پیار بڑا چہرہ دیکھا پھر نہیں اور کسی کا رخ زیبا دیکھا سچ کہوں گا کہ نہیں دیکھی یہ خوبی ان میں چهره یوسف و انه از زیما دیکھا خاک کے پتلے تو دنیا میں بہت دیکھے تھے پر کبھی ایسا نہ تھا نور کا پتلا دیکھا جب کبھی دیکھی ہیں یہ میری غزالی آنکھیں میں نے دنیا میں ہی فردوس کا نقشہ دکھیا تیرے جاتے ہی تیرا خیال چلا آتا ہے تیرے جانے میں بھی آنے کا تماشا دیکھا تیری آنکھوں میں سے دیکھی ملک الموت کی آنکھ ہم نے ہاتھوں میں تیرے قبضہ قضا کا دیکھا مشتری بھی ہے ترا مشتری اے جان جہاں اس نے جس دن سے سے تیرا رخ زیبا دیکھا اپنی آنکھوں سے کئی بار ہے سورج کا بھی پیشہ اُلفت میں تری میں نے پگھلتا دیکھا دیکھ کر اس کو ہیں دنیا کے میں دیکھ لئے کیا بتاؤں کہ ترے چہرہ میں ہے کیا دیکھا تیری ہفتہ بھری آنکھوں کو جو دیکھا ئیں نے شور کی آنکھ میں دوزخ کا نظارا دیکھا ہلتے دیکھا ہو کبھی تیرا ہلال ابرو پارہ ہائے جگر شمس کو اڑتا دیکھا ظلم کرتے ہو جو کتے ہو شفق پھولی ہے تم نے عاشق کا ہے یہ خونِ تمنا دیکھا اخبار بدر جلد ۸ - ۲۵ فروری شاه

Page 60

۲۵ کیا جانئے کہ دل کو مرے آج کیا ہوا کس بات کا ہے اس کو یہ دھر کا لگا ہوا کیوں اس قدر یہ رنج و مصیبت میں پور ہے کیوں اس سے امن رمیش ہے بالکل چھٹا ہوا دہ جوش اور فروش کہاں اب چلے گئے رہتا ہے اس تدریہ بھلا کیوں دبا ہوا خالی ہے فرحت اور مری ہے، کیا سبب رہتا ہے آبلہ کی طرح کیوں بھرا ہوا چھائی ہوئی ہے اس پر بھلا مردنی یہ کیوں جیسے کہ وقت مسیح دیا ہو جب ہوا باد سموم نے اسے مر جھا دیا ہے کیوں؟ رہتا ہے کو گلہ کی طرح کیوں بھب اہوا کیوں اس کی آب و تاب وہ مٹی میں مل گئی ؟ جیسے ہو خاک میں کوئی موتی ملا ہوا کیا غم ہے اور درد ہے کس بات کا اسے کس رنج اور مذاب میں ہے مبتلا ہوا مجھ پر بھی اس کی فکر میں آرام ہے حرام میں اس کے غم میں خود ہوں شکار بلا ہوا سب بشعر و شاعری کے خیالات اُڑ گئے سب لطف ایک بات میں ہی کر کرا ھوا آہ و فغان کرتے ہوئے تھک گیا ہوں میں نالہ کہ جو رسا تھا مرا نارسا ہوا ہر اک نے ساتھ چھوڑ دیا ایسے حال میں مجھے تھے باوفا جسے وہ بے وفا ہوا اس درد و غم میں آنکھیں تلک لے گئیں جواب آنسو تنگ بہانا اُنہیں ناروا ہوا سارا جہاں مرے لیے تاریک ہو گیا ہو تھا مثال سایہ وہ مجھ سے جدا ہوا رہتی ہے پاک جیب شکیبائی ہر گھڑی دامان میسر رہتا ہے ہر دم پھٹا ہوا رساله تمجید الازبان ما و فروری سنشاه

Page 61

اک عرصہ ہو گیا ہے کہ میں سوگوار ہوں بیدار ہائے دہر سے زار و نزار ہوں مدت سے پارہ ہائے جگر کھارہا ہوں میں رنج دین کے قبضہ میں آیا ہوا ہوں میں میری کم کو قوم کے غم نے دیا ہے تو کسی ابتلا میں ہائے ہوا مبتلا ہوں میں کوشاں حصول مطلب دل میں ہوں اس قدر کہتا ہوں تم کو سچ ہمہ تن التجا ہوں میں کچھ اپنے تن کا منکر ہے مجھ کو نہ جان کا دین محندی کے لیے مر رہا ہوں میں میں رو رہا ہوں قوم کے مُرجھائے پھول پر ٹیبل تو کیا ہے اس سے کہیں خوشنوا ہوں میں بیمار روح کے لیے خاک شفا ہوں میں ہاں کیوں نہ ہو کہ خاک در مصطفے ہوں میں پھر کیوں نہ مجھ کو مذہب اسلام کا ہو کر جب جان دول سے معتقد میرزا ہوں میں دل اور جگر میں گھاؤ ہوئے جاتے ہیں کہ جب چاروں طرف فساد پڑے دیکھتا ہوں میں مرگ پسر یہ پیٹتی ہے جیسے ماں کوئی حالت پہ اپنی قوم کی یوں پیٹتا ہوں میں دل میرا ٹکڑے ٹکڑے ہوا ہے خدا گواہ غم دور کرنے کے لیے گو ہنس رہا ہوں میں تسکین وہ میرے لیے بس اک وجود تھا تم جانتے ہو اس سے بھی اب تو جدا ہوں میں برکت ہے سب کی سب اسی جان جہان کی دور نہ میری بساط ہے کیا اور کیسا ہوں میں شیطاں سے جنگ کرنے میں جان تک لڑاؤ نگا یہ عہد ذات باری سے اب کر چکا ہوں میں افسوس ہے کہ اس کو ذرا بھی خبر نہیں جس سنگ دل کے واسطے یاں مرہٹا ہوں میں کتا ہوں سچ کہ فکر میں میری ہی فرق ہوں اے قوم مشن کہ تیرے لیے مر رہا ہوں میں کیا جائے تو کہ کیسا مجھے اضطراب ہے کیسا تپاں ہے سینہ کہ دل تک کباب ہے حالات پر زمانے کے کچھ تو دھیاں کرو بے فائدہ نہ عمر کو یوں رائیگاں کرد

Page 62

شیطاں ہے ایک عرصہ سے دنیا پی کران اُٹھو اور اُٹھ کے خاک میں اس کو نہاں کرد دکھلاؤ پھر صحابہ کا جوش و خروش تم دنیا پر اپنی قوت بازو عیاں کرد پھر آزماؤ اپنے ارادوں کی بیست گی پھر تم دلوں کی طاقتوں کا امتحال کرو دل پھر محن الفان محمد کے توڑ دو پھر دشمنان دین کو تم بے زباں کرو پھر ریزہ ریزہ کر دو ثبت شرک و کفر کو کفار و مشرکین کو پھر نیم جاں کرد پھر خاک میں ملا دو یہ سب قصر شیطنت نام و نشاں مٹا کے انہیں بے نشاں کرو کے چھوڑو جھوٹوں کو پھر انکے گھر تک ہاں پھر سمند طبع کی جولانیاں کرد ہاں پھر میلان فوج لعیں کو پچھاڑ دو میدان کارزار میں پھر گرمیاں کرد پھر تم اُٹھاؤ رنج و تعب دیں کے واسطے قربان راو دین محمد میں جاں کرو پھر اپنے ساتھ اور خلائق کو لوملا نامہربان ہو ہیں اُنہیں مہرباں کرو پھر دشمنوں کو حلقہ اُلفت میں بانڈ کو جو تم سے لڑ رہے ہیں انہیں ہم زباں کرد سینہ سے اپنے پھر اُسی مد رو کو لو لگا پھر دل میں اپنے یا و جدا میهمان کرد پھر اس پر اپنے حال زبوں کو عیاں کرو پھر اس کے آگے نالہ آہ و فغاں کرد ہاں پھر اُسی منم سے تعلق بڑھاؤ تم پھر کاروان دل کو ادھر ہی رواں کرد پھر راتیں کاٹو جاگ کے یاد حبیب میں پھر آنسووں کا آنکھ سے دریا رواں کرو پھر اس کی میٹھی بیٹی صداؤں کو تم سنو پھر اپنے دل کو دل سے تم شادماں کرد ہاں ہاں اسی صدی ہے پھر دل لگاؤ تم پھر نئمین لوگوں کے انعام پاؤ تم

Page 63

۴۹ قصہ ہجر ذرا ہوش میں آئوں تو کہوں بات لمبی ہے.یہ سر پیر جو پائوں تو کہوں عشق میں اک گل نازک کئے ہوا ہوں مجنوں دھجیاں جامہ تن کی میں اڑائوں تو کہوں حال دل کہنے نہیں دیتی یہ بے تابی دل آرمینہ سے تمھیں اپنے لگائوں تو کہوں حال یوں ان سے کہوں میں سےوہ بخود ہو جائیں کوئی چھیتی ہوئی میں بات بنائوں تو کہوں شرم آتی ہے یہ کہتے کہ نہیں ہلتا تو تیری تصویر کو میں دل سے مٹائوں تو کہوں دہ مزا ہے غم دبر میں کہ میں کہتا ہوں رنج فرقت کوئی دن اور اُٹھائوں تو کہوں راز داں اس کی شکایت ہو اسی کے آگے اس کی تصویر کو آنکھوں سے ہٹائوں تو کہوں سخت ڈرتا ہوں میں اظہار محبت کرتے پہلے اس شوخ سے میں عہد وفائوں تو نوں دہ خفا ہیں کہ بلا پوچھے چلا آیا کیوں یاں یہ ہے فکر کوئی بات بنائوں تو کہوں تیرے یوسف کا مجھے خوب پیر ہے اے دل کوئی دن اور کنوئیں تجھ کو ٹھنکالوں تو کہوں دل نہیں ہے یہ تو اصل دین افعی ہے دل کو اس زُلف میں سے جو چھڑائوں تو کہوں چہرہ دکھلائے مجھے صدقے ہیں ان آنکھوں کے دامن ان کا کبھی آنکھوں سے لگائوں تو کہوں جان جائے گی یہ چھوٹے گا نہ دامن تیرا پتے لمبی کے میں دو چار چھائوں تو کہوں یا الٹی تیری اُلفت میں ہوا ہوں مجنوں خواب میں ہی کبھی میں تجھ کو جو پائوں توکٹوں اخبار بدر جلد ۸ - ۱ار مارچ شاه

Page 64

۵۰ ۲۷ دہ چہرہ ہر روز ہیں دکھاتے رقیب کو تو چھیا چھیا کر دہ ہم ہی آفت زدہ ہیں جن سے چھپاتے ہیں منہ دکھا دکھا کر ہے مارا اک کو ڈ لاڈلا کر تو دوسر نے کو ہنسا ہنسا کر جگر کے ٹکڑے کئے ہیں کس نےیہ دل کی حالت دکھا دکھا کر اُڑائے گا نہ ہوش میرے غزالی آنکھیں دکھا دکھا کر چھری ہے چلتی دل وجگر پر نہ کیجئے باتیں چبا چبا کر کوئی وہ دن تھا کہ پاس اپنے وہ تھے بٹھاتے بلا بلا کر نکالتے ہیں مگر وہاں سے دھتا مجھے اب بتا بتا کر فراق جاناں نے دل کو دوزخ بنا دیا ہے جلا جلا کر یہ آگ بجھتی نہیں ہے مجھ سے میں تھک گیا ہوں بجھا بجھا کر جو ہے رقیبوں سے تم کو لغت تو دل میں پوشید رکھو اس کو مجھے ہو دیوانہ کیوں بناتے بہت ابت کر جتا جتا کر اخبار بد و جلد ۸ - ۱۸ ر ما پیر

Page 65

مجھے سمجھتے ہو کیا قلی تم کہ نت نئے بوجھ لادتے ہو بس اب تو بجانے دو تھک گیا ہوں غم ومصیبت اُٹھا اُٹھا کر پڑے بلا جس کے سر پہ آکر اُسے وہی خوب جانتا ہے تماشا کیا دیکھتے ہو صاحب ہمارے دل کو دکھا دکھا کر کبھی جو تعریف کیجئے تو وہ کہتے ہیں یوں بگڑہ بگڑ کر مزاج میرا بگاڑتے ہیں بنا بنا کر بنا بنا کر رہا الگ وہ ہمارا یوسف نہ اس کا دامن بھی چھو سکے ہم یونسی عبت میں گنوائیں آنکھیں ہیں اشک نو نہیں سہا سہا کر جو کوئی ہے بن بلائے آیا تو اس کو تم کیوں نکالتے ہو ہیں ایسے لاکھوں کہ بزم میں ہو اُنھیں بیٹھاتے بلا بلا کر ہیں چاندنی راتیں لاکھوں گذریں کھلی نہ دل کی کلی کبھی بھی وہ عہد جو مجھ سے کر چکا ہے کبھی تو اے بے وفا ! وفاکر جدائی ہم میں ہے کس نے ڈالی خضر تھیں اسکا کچھ پتہ ہے؟ وہ کون تھا جو کہ لے گیا دل ہے مجھ سے آنکھیں ملا بلاگر فراق جاناں میں ساتھ چھوڑا ہر ایک چھوٹے بڑے نے میرا تھی دل پہ اُمید سوا سے بھی وہ لے گیا ہے لبھا بٹھا کر ہزار کوشش کرے کوئی پر وہ مجھ سے عہدہ برآ نہ ہو گا جسے ہو کچھ زعم آزمانے ہوں کہتا ڈنکا بجا بجا کر یہ چھپ کے کیوں چٹکیاں ہے لیتا ہے بھلا کس کا ڈر پڑا ہے جو شوق ہو دل کو چھیڑنے کا تو شوق سے کر نکلا ملا کر

Page 66

۵۲ یہی ہے دن رات میری خواہش کہ کاش مل جائے وہ پری کو مٹاؤں پھر بے قراری دل گلے سے اس کو لگا لگا کر جو مارنا ہے تو تیر مژگاں سے چھید ڈالو دل وجگر کو نہ مجھ کو تڑپاؤ اب زیادہ تم آئے دن یوں سنا سنا کر حشدا پہ الزام بے وفائی یہ بات محمود پھر نہ کیئو ہوا تجھے بندہ خدا کیا ، خدا خدا کر خدا خدا کر جو کو چہ عشق کی خبر ہو تو سب کریں ایسی بے حیائی یہ اصل ظاہر جو مجھ سے کہتے ہیں کچھ تو اے بے حیا ! حیا کر

Page 67

۵۳ ۲۸ آؤ محمود ذرا حال پریشاں کر دیں اور اس پردے میں دشمن کو پشیماں کر دیں خنجر ناز پہ ہم جان کو شہرباں کر دیں اور لوگوں کے لیے راستہ آساں کر دیں کھینچ کر پردہ کرخ یار کو عریاں کر دیں وہ نہیں کرتے ہیں ہم ان کو پریشاں کر دیں ڈہ کیں ہم کہ گداگر کو سلیماں کر دیں وہ کریں کام کہ شیطاں کو مسلماں کر دیں پہلے ان آرزوؤں کا کوئی ساماں کر دیں دل میں پھر اس شبہ خوباں کو مہماں کر دیں ایک ہی وقت میں چھپتے نہیں سورج اور پان یا تو رخسار کو یا ابرو کو عریاں کردیں آج بے طرح چڑھی آتی ہے لعل لب پر ان کو کہدو کہ وہ زلفوں کو پریشاں کر دیں آدمی ہو کے تڑپتا ہوں چکوروں کی طرح کبھی بے پردہ اگر وہ رخ تا بان کر دیں اک دفعہ دیکھ چکے موسی تو پردہ کیسا ان سے کند و کہ وہ اب چہرہ کو عریاں کریں دل میں آتا ہے کہ دل پیج دیں دلدار کے ہے اور پھر جان کو ہم ہدیۂ جاناں کر دیں وہ کریں دم کہ مسیحا کو بھی حیرت ہو جائے شیر قالیس کو بھی ہم شیر نیستاں کر دیں اخبار بد ر جلد ۸-۲۹ را پریل شنشانه

Page 68

۵۴ ۲۹ مجھ سا نہ اس جہاں میں کوئی دلفگار ہو جس کا نہ یار ہو نہ کوئی نگا ر ہو کتنی ہی پل صراط کی گوتیز دھار ہو یا رب میرا وہاں بھی قدیم استوار ہو دل چاہتا ہے طور کا وہ لالہ زار ہو اور آسماں پر جلوہ گناں میرا یار ہو ساتی ہوئے ہو جام ہو ابر بہار ہو اتنی پہیوں کہ حشر کے دن بھی شمار ہو جس سر پہ بھوت عشق ستم کا سوار ہو قسمت یہی ہے اُس کی کہ دنیا میں خوار ہو تقویٰ کی جڑھ میں ہے کہ خالق سے پیارا گو ہا تھ کام میں ہوں مگر دل میں یار ہو دنیا کے عیش اس پہ سراسریں پھر حرام پہلو میں جس کے ایک دلِ بے قرار ہو وہ لطف ہے خلش میں کہ آرام میں نہیں تیز نگاہ کیوں میرے سینہ کے پار ہو رنج فراق گل نہ کبھی ہو سکے بیاں میرے مقابلہ میں ہزاروں ہزار ہو جاں چاہتی ہے تجھ پہ نکلتا ہے میری جہاں دل کی یہ آرزو ہے کہ تجھ پہ نثار ہو کیسا فقیر ہے وہ جو دل کا نہ ہو غنی وہ زار کیا جو رنج و مصیبت سے زار ہو خضر ویسے بھی نہ بیچے جبکہ موت سے پھر زندگی کا اور کسے اعتبار ہو اخبار بدر جلد ۱۳۰۸ مئی شاه

Page 69

سنتے ہیں بعد مرگ ہی تمہا ہے وہ منم مرنے کے بعد ہو جو ہمارا سنگار ہو یں کیوں پھروں کہ خالی نہیں آجتک پھر جو تیرے فضل در حم کا اُمید وار ہو سمان سے تو نے طور پر جو کچھ کیا سلوک مجھ سے بھی اب دہی مرے پر وردگار ہو معشوق گر نہیں ہوں تو عاشق ہی جان کو ان میں نہیں تو اُن میں ہمارا شمار ہو یونٹی پہ بوجھ اُونٹ کا ہے کون لاوتا اس جاں پہ اور یہ ستیم روزگار ہو بتلاؤ کس جگہ پر اسے جا کے ڈھونڈیں ہم جس کی تمام ارمن رسما میں دپیکار ہو قربان کر کے جان دُوئی کا مٹاؤں نام وہ خواب میں ہی آئے ہو مجھ سے دوچار ہو شاہ و گدا کی آنکھ میں شرمہ کا کام دے وہ جان جو کہ راہ خدا میں مُبار ہو

Page 70

04 ہائے وہ دل کہ جسے طرز وفا یاد نہیں وائے وہ رُوح جسے قول بلی یاد نہیں بے حسابی نے گناہوں کی مجھے پاک کیا میں سراپا ہوں خطا مجھ کو خطا یاد نہیں جب سے دیکھا ، اُسے اُس کا ہی رہتا ہے خیال اور کچھ بھی مجھے اب اس کے سوا یاد نہیں درد دل سوز جگر اشک ہواں تھے کے دوست یار سے مل کے کوئی بھی تو رہا یاد نہیں ایک دن تھا کہ محبت کے تھے مجھ سے اقرار مجھ کو تو یا دیں سب آپ کو کیا یاد نہیں بے وفائی کا لگاتے ہیں وہ کسی پر الزام میں تو وہ ہوں کہ مجھے لفظ وہ غا یاد نہیں میں وہ بیخود ہوں کہ تھے میں نے ڈاکے مرے ہوش مجھے کو خود وہ نگہ ہوش ربا یاد نہیں کوچہ یار سے ہے مجھ کو نکلنا دوبھر کیا تجھے وعدہ ترا لغزش پا یاد نہیں ہائے بد بختی قسمت کہ لگا ہے مجھ کو وہ مرض جس کی مسیحا کو دوا یاد نہیں دہ جو رہتا ہے ہر اک وقت مری آنکھوں میں ہائے کم بختی مجھے اس کا پتہ یاد نہیں ہم وہ ہیں پیار کا بدلہ جنھیں ملتا ہے پیار - بھولے ہیں روزِ جزا اور جزا یاد نہیں 14-9 اخبار در جلد ۲۰۰ مئی شاه

Page 71

۵۰ ۳۱ دہ نکات معرفت بتلائے کون جام وسل دلربا پہلوائے کون ڈھونڈتی ہے جلوۂ جاناں کو آنکھ چاند سا چہرہ ہمیں دکھلائے کون کون دے دل کو تسلی ہر گھڑی اب اڑے وقتوں میں آڑے آئے کون کون دکھلائے ہیں راہ ھدی حضرت باری سے اب بلوائے کون سرد مہری سے جہاں کی دل ہے سرد گرمی تاشیر سے گرمائے کون کون دُنیا سے کرے ظلمت کو ڈور راہ پر بھولے ہوؤں کو لائے کون یاس و نومیدی نے گھیرا ہے مجھے اس کے پنجے سے مجھے چھڑوائے کون کون میرے واسطے زاری کرے درگہ ربی میں میرا جائے کون دہ گل رعنا ہی جب مُرجھا گیا پھر بہارِ جانفزا دکھلائے کون کل نہیں پڑتی اسے اُس کے سوا اس دل غمگیں کو اب سمجھائے کون کس کی تقریروں سے اب دل شاد ہو اپنی تحریروں سے اب پھڑکائے کون کس کے کہنے پر بلے دل کو غذا ہم کو آپ زندگی پلوائے کون اخبار بدر جلد ۸-۲۷ متی شاه

Page 72

DA گرمی اُلفت سے ہے یہ زخم دل مرہم کا فور سے کل پائے کون اے مسیما تیرے سودائی جو ہمیں ہوش میں مبتلا کہ ان کو لائے کون کو تو راں جنت میں خوش اور شاد ہے ان غریبوں کی خبر کو آئے کون اے سیما ہم سے گو تو پھٹ گیا دل سے پر اگفت تری چھڑوائے کون جانتا ہوں کینسر کرنا ہے تو اب اس دل نادان کو سمجھائے کون تجھ سے بھی ہم کو تسلی ہر گھڑی تیرے مرنے پر ہیں بہلائے کون کون دے دل کو میرے صبر و قرار اشک تو نہیں آنکھ سے پچھوائے کون

Page 73

کے عشق خدا میں سخت ہی مخمور بہت ہوں یہ ایسا نشہ ہے جس میں کہ ہردم چور رہتا ہوں وہ ہے جو میں مال غیر وں پردہ ہے اسے لازم تبھی تو پیشم بد بیاں سے میں ستور رہتا ہوں قیامت ہر کہ وصل یار میں بھی رنج فرقت ہے.میں اس کے پاس رہ کر بھی ہمیشہ دور رہتا ہوں لیا کیوں ڈرتہ پری و اداری نہ کیوں چھوڑی نگاہ دوستاں میں میں کبھی مقہور رہتا ہوں مجھے اس کی نہیں پر وا کوئی ناراض ہو بیشک میں غداری کی سرے سے بہت ہی دور رہتا ہوں مجھے فکر معاش و پوشش و خور کا الم کیوں ہو میں عشق حضرت یزداں میں جب خود رہتا ہوں تڑپ سے دین کی مجھ کو اسے دنیا کی لانچ ہے مخالف پر ہمیشہ میں تبھی منصور رہتا ہوں اُسے ہے قوم کا غم اور یں دنیا سے بچتا ہوں میں اب اس دل کے ہاتھوں محبت مجبور رہتا ہوں اخبار بدر جلد ۸ در جولائی شاه ☆

Page 74

جگہ دیتے ہیں جب ہم انکو اپنے سینہ دوں میں ہیں وہ بیٹھنے دیتے نہیں کیوں اپنی محفل میں بڑے چھوٹے بھی کعبہ کو بیت اللہ کہتے ہیں تو پھر تشریف کیوں لاتے نہیں وہ کعبہ دل میں کرے گا نصر اللہ اکبر کوئے قاتل میں ابھی تک کچھ نہ کچھ باقی ہے ہم اس مرغ سبل میں اُسی کے علوہ ہائے مختلف پر کرتے ہیں عاشق یہی گلی میں وہی مل میں وہی سے شمع محفل میں وہی ہے طرز دلداری وہی رنگ ستم گاری بختس کیوں کروں اس کا کہ ہے یہ کون عمل میں بلاتے ہیں مجھے وہ پر ہوئیں اُٹھوں تو کہتے ہیں کدھر جاتا ہے او غافل میں بیٹھا ہوں ترے دل میں ہزاروں دامنوں پر خون کے دستے چمکتے ہیں مرے آنے پہ کیا ہوئی ہوتی ہے کوئے قابل میں میں سجا تھا کہ اسکو دیکھ کر پڑ جائیگی ٹھنڈک غیر کی تھی کہ میٹنگ جاؤں گا جا کر اسکی مفصل میں گلوں پر پڑ گئی کیا اوس دید روئے جاناں سے کوئی دیکھو تو کیا شور برپا ہے عنا دل میں مصیبت راہِ الفت کی کئے گی کس طرح یارب مرے پاؤں تو بالکل رہ گئے ہیں اپنی منزل میں اخبار بدو جلد ۸-۲۹ جولان نشانه A

Page 75

یہیں سے اگلا جہاں بھی دکھا دیا مجھ کو ہے ساغر سے اُلفت پلا دیا مجھ کو بتاؤں کیا کہ مسیحا نے کیا دیا مجھ کو میں کرم خاکی تھا انساں بنا دیا مجھ کو کسی کی موت نے سب کچھ بھلا دیا مجھ کو اس ایک پوٹ نے ہی سٹپٹا دیا مجھ کو کسی نے ثانی شیطاں بنا دیا مجھ کو کسی نے لے کے فرشتہ بنادیا مجھ کو نہ اس کے منض نے پیچھے ہٹا دیا مجھ کو نہ اُس کے پیلید نے آگے بڑھا دیا مجھ کو یہ دونوں میری حقیقت سے دور میں محمود خُدا نے جو تھا بنانا بنا دیا مجھ کو کبھی جو طالب دید رخ نگار ہوا تو آئینہ میں میرا منہ دیکھا دیا مجھ کو بنائے اہلِ جہاں کا ہوا جو میں شاکی تھپک کے گود میں اپنی سلا دیا مجھ کو جہاں حمد کا گذر ہے نہ دخل بد میں ہے ہے ایسے ملک کا وارث بنا دیا مجھ کو مرے تو دل میں تھا کہ بڑھ کر نثار ہو جاؤں پر اُس کے تیر نگہ انے ڈرا دیا مجھ کو میرا قدم تھا کبھی عرش پر نظر آتنا اٹھی خاک میں کس نے بلا دیا مجھ کو نیم جماعت احمد نہیں سہا جاتا یہ آگ دُہ ہے کہ جس نے جلا دیا مجھ کو +14-4 اخبار در جلد ۸-۱۶ ستمبر شاه

Page 76

۳۵ دل پھٹا جاتا ہے مثل ماہی بے آب کیوں ہو رہا ہوں کس کے پیچھے اس قدر بیتاب کیوں خالق اسباب ہی جب ہوں کسی پر خشمگیں پھر بھلا اس آدمی کا ساتھ دیں اسباب کیوں مجھ کو یہ بھی کہ ہوں اُلفت میں مرفوع القلم میرے پیچھے پڑرہے ہیں ہے حجاب کیوں جب کلید معرفت ہا تھوں میں میرے آگئی تیرے انعاموں کا مجھ پر بند ہے پھر باب کیوں اس میں ہوتی ہے مجھے دید شرخ جاناں نصیب میری بیداری سے بڑھ کر ہو نہ میرا خواب کیوں امت احمد نے تھوڑی ہے صراط مستقیم کیوں گھر وں نہ کھاؤں دل میں میں تاب کیوں جبکہ وہ یار یگانہ ہر گھڑی مجھ کو بلائے پھر بتاؤ تو کہ آئے میرے دل کو تاب کیوں جبکہ رونا ہے تو پھر دل کھول کر روئیں گے ہم نہر چل سکتی ہو تو بنوائیں ہم تالاب کیوں چھوڑ دو جانے بھی دو سنتا ہوں یہ بھی ہے کلاج ڈالتے ہو میرے زخم دل پہ تم تیزاب کیوں گفتگوئے عاشقاں سُن سُن کے آخر یہ کہا بات تو چھوٹی سی تھی اتنا کیا اطناب کیوں اخبار بد د جلد ۸ - ۴۰ نومبر شاه

Page 77

۳۶ جد شکنی نہ کرو اہلِ وفا ہو جاؤ اہل شیطاں نہ ہو اہل حرا ہو جاؤ گرتے پڑتے در مولیٰ پر رہا ہو جاؤ اور پروانے کی مانند پیدا ہو جاؤ جو ہیں خالق سے نفا اُن سے خفا ہو جاؤ جو ہمیں اس در سے جُدا اُن سے جُدا ہو جاؤ ستی کے پیاسوں کے لیے آپ بقا ہو جاؤ خشک کھیتوں کے لیے کالی گھٹا ہو جاؤ فنچہ دیں کے لیے بار سب ہو جاؤ کفر و بدعت کے لیے دست قضا ہو جاؤ سر خرو رو بروئے اور محشر جاؤ کاش تم حشر کے دن عہدہ بر آہو جاؤ بادشاہی کی تمنا نہ کرو ہرگز تم کوچہ یار یگانہ کے گیا ہو جاؤ بحر عرفان میں تم غوطے لگاؤ ہردم بانی کعبہ کی تم کاش دُعا ہو جاؤ وسل مولی کے جو بھٹو کے ہیں انہیں سیر کرد وہ کر د کام کہ تم خوان ہری ہو جاؤ قطب کا کام دو تم ظلمت و تاریکی میں بھولے بھٹکوں کے لیے راہ نما ہو جاؤ پی غیبہ مرہم کا فور ہو تم زخموں پر دل بیمار کے درمان ردوا ہو جاؤ طالبان سُرخ جاناں کو دکھاؤ دلبر عاشقوں کے لیے تم قبلہ نما ہو جاؤ امر معروف کو تعویذ بناؤ جاں کا بے کسوں کے لیے تم معقدہ کشا ہو جاؤ دم میسی سے بھی بڑھ کر ہو دُعاؤں میں اثر ید بینا بنو موسسی کا عصا ہو جاؤ راہ مولیٰ میں جو مرتے ہیں وہی جیتے ہیں موت کے آنے سے پہلے ہی فنا ہو جاؤ ورد فضل و کرم دارت ایمان و مدی عاشق احمد و محبوب خدا ہو جاؤ اخبار بدر جلد ۳۱۹ مارچ شاشه

Page 78

دہ قید نفس دنی سے مجھے چھڑائیں گے کب رہائی پنجنہ غم سے مجھے دلائیں گے کب یہ صدمہ ہائے جُدائی انٹا جائیں گے کب دل اور جان میرے اُن کی تاب لا ئینگے کب وہ میرے چاک جگر کا کریں گے کب کہاں جو دل پہ داغ لگے ہیں انہیں بنائینگے کب یونہی تڑپتے تڑپتے نہ دم نکل جائے کوئی یہ پوچھ تو آؤ مجھے بلائیں گے کب خوشی امنی کو ہے زیبا جو صاحب دل میں جو دل میں اب پچکے پھر وہ نہیں نسائینگے کب وفا طریق ہے اُن کا وہ میں بڑے ٹھن لگا کے منہ نظروں سے مجھے گرائینگے کب جو تم نے اُن کو بلانا ہو دل وسیع کرد بڑے وسیع ہیں وہ اس جگہ سمائینگے کب نہیں یہ پوش کہ خود ان کے گھرمیں رہتا ہوں یہ رٹ لگی ہے کہ میرے گھر پہ آئینگے کب یہ میں نے مانا کہ ہے ان کی ذات بے پایاں مگردہ پیتر زیبا مجھے دکھا ئیں گے کب مینت بن چکے مچھی نہیں گے کب میرے وہ مجھ کو مار تو بیٹے ہیں اب چلا ئینگے کب نگاہ چہرہ جاناں پر جاپڑی جن کی پھر اور لوگوں کے انداز ان کو بھا ئینگے کب جو خود ہوں نور جنھیں نور سے محبت ہو غریق بھر ضلالت سے دل بلا ئینگے کب الی آپ کی درگہ سے گر پھر حالی تو پھر جو دشمن جاں ہیں وہ منہ لگا ئینگے کب سُنا ہے خواب میں ممکن ہے رویت جاناں میں منتظر ہوں کہ وہ اب مجھے سلا ئینگے کب اخبار در جلد ۹ - ۹ ربون الله *

Page 79

۳۸ ورو ہے دل میں میرے یا خار ہے کیا ہے آخر اس کو کیا آزار ہے اف گناہوں کا بڑا انبار ہے اور میری جاں نحیف و زار ہے جلوۂ جانان و دید یار ہے خواب میں جو ہے وہی بیدار ہے اپنی شوکت کا وہاں اظہار ہے اپنی کمزوری کا یاں اقتدار ہے گو مجھے مدت سے یہ اصرار ہے منہ دکھانے سے انہیں انکار ہے کوئی خوش ہے شاد ہے سرشار ہے کوئی اپنی جان سے بیزار ہے میرے دل پر رنج وغم کا بار یہ ہاں خبر لیجے کہ حالت زار ہے میرے دشمن کیوں ہوئے جاتے ہیں لوگ مجھ سے پہنچا اُن کو کیا آزار ہے میری غمخواری سے میں سب بے خبر جو ہے میرے در پتے آزار ہے فکر دیں میں گھل گیا ہے میرا جسم دل میرا اک کو وہ آتشبار ہے کیا ڈراتے ہیں مجھے منبر سے وہ جن کے سر پر کھینچ رہی تلوار ہے میری کمزوری کو مت دیکھیں کہ ہمیں جس کا بندہ ہوں بڑی سر کار ہے اخبار بدر جلد ۱۰ - ۲۷ را پریل ساله

Page 80

.بادشاہوں کو غرض پر وہ سے کیا ہم نے کمپنی آپ ہی دیوار ہے وہ تو بے پردہ ہے پر آنکھیں ہیں بند کام آساں ہے مگر دشوار ہے پھوڑتے ہیں غیر سے مل کر تجھے یا الٹی اس میں کیا اسرار ہے خدمت اسلام سے دل مرد ہیں گرم کیا ہی کفر کا بازار ہے پارہ ہائے دل اُڑے جاتے ہیں کیوں یہ جگر کا زخم کیوں خونبار ہے تنگ ہوں اس بے وفا دُنیا سے میں مجھ کو یا رب خواہش دیدار ہے

Page 81

۳۹ مین حصر رها جزادی امته الحقيقة لمها الله العا خدا سے چاہیے ہے کو لگانی کہ سب فانی ہیں پر وہ غیر فانی وہی ہے راحت و آرام دل کا اُسی سے رُوح کو ہے شادمانی وہی ہے چارۀ آلام ظاهر وہی تکیں دو درد نهانی رسپر بنتا ہے کہ ہر نا تواں کی وہی کرتا ہے اس کی پاسبانی بچاتا ہے ہر اک آفت سے ان کو ملاتا ہے بلائے ناگہانی جسے اس پاک سے رشتہ نہیں ہے زمینی ہے ، نہیں وہ آسمانی اُسی کو پا کے سب کچھ ہم نے پایا کھلا ہے ہم پہ یہ راز نهانی خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ اللَّذِي أَدْنَى الْأَمَانِي ہمارے گھر میں اس نے بھر دیا نور ہر اک ظلمت کو ہم سے کر دیا دور ملایا خاک میں سب دشمنوں کو کیا ہر مرحلہ میں ہم کو منصور حقیقت کھول دی اُن پر ہماری مگر تاریکی دل سے ہیں مجبور ہماری فتح و نصرت دیکھ کر وہ غم و رنج و مصیبت سے ہوئے پور اخبار الحكم جلده - ۱۲ ؍ جولائی سائله

Page 82

ہماری رات بھی ہے نور افشاں ہماری مسیح خوش ہے شام مسرور خدا نے ہم کو وہ جلوہ دکھایا جو موسیٰ کو دکھایا تھا سرِ طور ہلے ہم کو وہ اُستاد و خلیفہ کہ سارے کہہ اُٹھے نور کلے نُور حدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ اللذِي أَولَى الْأَمَانِي خُدا کا اس قدر ہے ہم پر احسان کہ جس کو دیکھ کر ہوں سخت حیراں نہیں معلوم کیا خدمت ہوئی تھی کہ سکھلایا کلام پاک یزداں ہزاروں ہیں کہ ہیں محروم اس سے نظر سے جن کی ہے وہ نور پنہاں جسے اس نور سے حصہ نہیں ہے نہیں زندوں میں ہے وہ جسم بے جاں یہی دل کی تسلی کا ہے موجب راسی سے ہو میکسر دید جاناں اسی میں مردہ دل کی زندگی ہے میں کرتا ہے ہر مشکل کو آساں یہ ہے دنیا میں کرتا رہنمائی یہ عقبی میں کرے گا شاد و فرحاں میں ہر کامیابی کا ہے باعث یہی کرتا ہے ہر مشکل کو آساں بلاتا ہے یہی اُس دلربا سے یہی کرتا ہے زائل درد ، ہجراں یہ نعمت ہم کو بے خدمت کی ہے سکھایا ہے ہمیں مولیٰ نے قرآں خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ اللَّذِي أَولَى الْأَمَانِي کلام اللہ میں سب کچھ بھرا ہے یہ سب بیماریوں کی اک دوا ہے یہی اک پاک دل کی آرزو ہے میں ہر متقی کا مدعا ہے یہ جامع کیوں نہ ہو سب خوبیوں کا کہ اس کا بھیجنے والا خدا ہے

Page 83

مٹا دیتا ہے سب زنگوں کو دل سے اسی سے قلب کو ملتی جلا ہے یہ ہے تسکیں دو عشاق مضطر مریضان محبت کو شنا ہے خضر اس کے سوا کوئی نہیں ہے یہی بھولے ہوؤں کا رہنما ہے جو اس کی دید میں آتی ہے لذت کہ سب دنیا کی خوشیوں سے ہوا ہے جو ہے اس سے الگ حق سے الگ ہے جو ہے اس سے جُدائی سے جدا ہے یہ ہے بے عیب ہر نقص دکھی سے کرے جو حرف گیری بے حیا ہے ہیں حاصل ہے اس سے دید جاناں کہ قرآن مظهر شان خدا ہے حدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ اللَّذِي أَدْنَى الْأَمَا فِي ہیں اس دُنیا میں جتنے لوگ حق ہیں سچائی سے جنھیں کوئی نہیں رکیں دہ دل سے مانتے ہیں اس کی خوبی وہ پاتے ہیں اسی میں دل کی تیکس خُدا نے فصل سے اپنے نہیں بھی کھلائے اِس کے ہیں اثمار شیریں حفیظہ جو میری چھوٹی بہن ہے نہ اب تک وہ ہوئی تھی اس میں رنگیں ہوئی جب ہفت سالہ تو خُدا نے یہ پہنایا اُسے بھی تاج زریں کلام اللہ سب اس کو پڑھایا بنا یا گلشن قرآں کا گل میں زباں نے اس کو پڑھ کر پائی برکت ہوئیں آنکھیں بھی اس سے نور آ گئیں اکٹھے ہو رہے ہیں آج احباب منائیں تاکہ مل کر روز آمین ہوئے چھوٹے بڑے ہیں آج شاداں نظر آتا نہیں کوئی بھی غمگیں حدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ اللَّذِي أَدْنَى الْأَمَانِي

Page 84

سے اپنی جیسی یہ دولت عطا کی ہمیں توفیق دے صدق و صفا کی ترے چاکر ہوں ہم پانچوں اپنی ہمیں طاقت عطا کر تو دن کی تری خدمت میں پائیں جان و دل کو گھڑی جب چاہے آجائے قضا کی رہیں ہم دُور پر بدکیش و بد رہے محبت ہیں اہلِ دینا کی بنائیں دل کو گلزارِ حقیقت لگائیں شاخ زهد و الفت کی شفا ہوں ہر مریض رُوح کی ہم دوا بن جائیں دردِ لا دوا کی نہ زور و ظلم کے خوگر ہوں یا رب نہ عادت ہم میں ہو جور و بجھا کی محبت تیری دل میں جاگزیں ہو لگی ہو تو ہمیں یاد خدا کی ہمارے کام سب تیرے لیے ہوں اطاعت ہو غرض ہر مدعا کی رسُول اللہ ہمارے پیشوا ہوں بے توفیق اُن کی اقتدا کی دا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ اللَّذِي أَولَى الْأَمَانِي الٹی تو ہمارا پاسباں ہو ہمیں ہر وقت تو راحت رساں ہو تیرے بن زندگی کا کچھ نہیں لطف ہمارے ساتھ پیارے ہر زماں ہو مصیبت میں ہمارا ہو مددگار ہمارے دردِ دل کا راز داں ہو ہیں اپنے لیے مخصوص کرے ہمارے دل میں آگر میاں ہو تجھے جس راہ سے لوگوں نے پایا وہ راز معرفت ہم پر عیاں ہو ہماری موت ہے فرقت میں تیری ہمیشہ ہم پہ تو جلوہ کناں ہو ہمارا حافظ و ناصر ہو ہر دم ہمارے باغ کا تو باغباں ہو کرے اس کی اگر تو آبپاشی تو پھر ممکن نہیں بیم خزاں ہو

Page 85

ذلیل و خوار و رُسوا ہو جہاں میں جو حاسد ہو لڈو ہو بدگماں ہو عبادت میں کئیں دن رات اپنے ہمارا سر ہو تیرا آستاں ہو حشرا نے ہم کو دی ہے کامرانی نَسُبْحَانَ اللَّذِي أَدْنَى الْأَمَانِي ہماری اے خُدا کر دے وہ تقدیر کہ جس کو دیکھ کر حیراں ہو تدبیر ڈہ ہم میں قوت قدسی ہو پیدا جسے چھوویں رہی ہو جائے اکسیر زباں مرہم بنے پیاروں کے حق میں مگر اعداء کو کاٹے مثل شمشیر دہ جذبہ ہم میں پیدا ہو الہی جو دشمن ہیں کریں اُن کی بھی تسخیر دلوں کی فلموں کو دور کر دیں ہماری بات میں ایسی ہو تاثیر گناہوں سے بچالے ہم کو یارب نہ ہونے پائے کوئی ہم سے تقصیر خضر بن جائیں اُن کے واسطے ہم جو میں بھولے ہوئے رستہ کے رہ گیر وہی بولیں جو دل میں ہو ہمارے خلاف فعل ہو اپنی نہ تقدیر خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ اللَّذِي أَدْنَى الْأَمَانِي عطا کر جاہ و عزّت دو جہاں میں بے عظمت زمین و آسماں میں نہیں ہم نُمبل بُستان احمد رہے برکت ہمارے آشیاں میں ہمارا گھر ہو مثل باغ جنت ہو آبادی ہمیشہ اس مکاں میں ہماری نسل کو یا رب بڑھائے ہمیں آباد کر کون و مکاں میں ہماری بات میں برکت ہو ایسی کہ ڈالے روح مرده استخواں میں الہی ! نور تیرا جاگزیں ہو زباں میں سینہ میں ، دل میں، وہاں میں

Page 86

و رنج و مصیبت سے بچا کر ہمیشہ رکھ ہمیں اپنی اماں میں نہیں ہم سب کے سب خدا ہم امحمد کلام اللہ پھیلائیں جہاں میں خطا کر عمر و صحت ہم کو یارب ہمیں مت ڈال پیارے امتحاں میں یہ ہوں میری دُعائیں ساری مقبول ہے عزت ہمیں دونوں جہاں میں ترا وه فصل ہو نازل الہی کہ ہو یہ شور ہر کون و مکاں میں حدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ اللَّذِي أَوْفَى الأَمَانِي

Page 87

۴۰ کیا جب میں ہو گیا ہوں اس طرح تارودار کسی مصیبت نے بنایا ہے مجھے نقش جدار کیوں پھٹا جاتا ہے سینہ حبیب عاشق کی مثال روز و شب تسبیح و مسارتا ہوں میں کیوں دلفگار کیوں تسلی اس دل بے تاب کو ہوتی نہیں کیا سب اس کا کہ رہتا ہے یہ ہر دم بے قرار محبت عیش و طرب اس کونہیں ہوتی نصیب درد و غم رنج و الم اس تعلق سے ہے دو چار کیا سبب جو خون ہو کر ہر گیا میرا جگر بھی کیا ہے میری آنکھیں جو رواں ہیں میل دار زرد ہے چہرہ تو آنکھیں گھس گئیں منقوں مں میں جسم میرا ہو گیا ہے خشک ہو کر مثل خسار سوچتا رہتا ہوں کیا دل میں مجھے کیا فکر ہے جستجو میں کس کی چلاتا ہوں میں دیوانہ وار چھوڑے جاتے ہیں مجھے ہوش و حواس عقل کیوں کیوں نہیں باقی رہا دل پر مجھے کچھ اختیار کون ہے میاد میرا کس کھندے میں ہوں میں کس کی افسونی نگاہ نے کر لیا مجھ کو شکار مرغ دل میرا پھنسا ہے کس کے اہم عشق میں بس کے نقش پا کے پیچھے اُڑ گیا میرا غبار صفحہ دل سے مٹایا کیوں مجھے احباب نے کیوں کے مین ہوتے کیوں مجھ سے ہے کیان نقار جو کوئی بھی ہے کہ مجھ سے بر سر پیر فاش ہے ہر کوئی ہوتا ہے اگر میری چھاتی پر سوار سرنگوں ہوں میں مثال سایۂ دیوار کیوں پشت کیوں قسم ہے ہوا ہوں استاد کیوں زیر بار ہے بہار باغ و گل مثل خزاں افسردہ کن ہے جہاں میری نظر میں مثل شب تاریک تار اخبار التحكم جلد ۱۶ - جنوری ١٣له

Page 88

ابر باراں کی طرح آنکھیں ہیں میری اشک بار ہے گریباں چاک گر میرا تو دامن تار تار میں جو ہنستا ہوں تو ہے میری ہنسی بھی بری نہیں جس کے پیچھے پھر مجھے پڑتا ہے رونا بار بار کات کرتا ہے میرادن بھی اندھیری رات کو میری شب کو دیکھ کر زلف حسیناں شرمسار میری ساری آرزوئیں دل ہی دل میں مرگئیں میرا سینہ کیا ہے لاکھوں حسرتوں کا ہے مزار ہو گیا میری تمناؤں کا پوداخٹک کیوں کیا بلا اس پر پڑی میں سے ہوا بے برگ بار کیوں میں میدان تفکر میں برہنہ پا ہوا کیوں چلے آتے ہیں دوڑے میری پابوسی فار اپنے ہم پیشوں کی آنکھوں میں ٹیک کیوں ہو گیا دیدن اختیار میں ٹھہرا ہوں کیوں بے اعتبار دشت غربت میں ہوں تنہا رہ گیا با حال دار پھوڑ کر مجھ کو کہاں کو چل دیتے اختیار دیار کچھ خبر بھی ہے تمھیں مجھے سے یہ سب کچھ کیوں ہوا کیوں ہوے اتنے مصائب مجھ سے اگر ہمکنار کیا تصور ایسا ہوا جس سے بہو ا معتوب میں کیا گیا جس پر تھوئے چاروں طرف سے مجھ پر دار اک بے تاباں کی اُلفت میں پھنسا بیٹھا ہوں دل اپنے دل سے اور جہاں اس سے میں کرتا ہوں پیار دہ مری آنکھوں کی ٹھنڈک میرے دل کا نور ہے ہے بدلا اُس شعلہ رو پر میری جاں پروانہ دار اُس کا اک اک لفظ میرے واسطے ہے جانفزا اُس کے اک اک قول سے گھٹیا ہے ڈرتا ہوار ایک کن کہنے سے پیدا کر دیئے اس نے تمام یہ زمیں یہ آسماں یہ دورہ لیل و نہار یہ چمن یہ باغ در بستاں سی گل یہ مینوں سب کرتے ہیں اُس ماہ رو کی قدرتوں کو آشکار ذرہ ذرہ میں نظر آتی ہیں اس کی طاقیتں ہر مکان و ہر زماں میں جلوہ گاہ حسن یار ہر حسین کو حُسن بخشا ہے اُسی دلدار نے ہر گل و گلزار نے پانی اسی سے ہے بہار ہر نگاہ فتنہ گرنے اُس سے پائی ہے جلا دور نہ ہو تی بخت عاشق کی طرح تاریک وتار اور اُس کا جلوہ گر ہے ہر در و دیوار میں ہے جہاں کے آئنہ میں منعکس تصویر یار اُس کی اُلفت نے بنایا ہے مکاں ہر نفس میں ہرول دیندار اس کے رخ پر ہوتا ہے نشار

Page 89

60 بیلیں بھی سر پکھتی ہیں اسی کی یاد میں بجلی بھی رہتے ہیں اس کی چاہ میں سینہ فگار سرز بھی ہیں سرد قد رہتے اُس کے سامنے قمریاں بھی میں محبت میں اُسی کی بے قرار سب حسینان جہاں اُس کے مقابل پہنچے ہیں ساری دنیا سے نرالا ہے وہ میرا شہر یار اب تو سمجھے کس کے پیچھے ہے مجھے یہ منظر یاد میں کس ماہ رُو کی بہوں میں رہتا است کبار کس کی فرقت میں مہوا ہوں رنج وغم سے بہکنا ہجر یں کس کی تڑپتا رہتا ہوں لیل ونہار کیس کے مل رب نے چھینا سب شکیب مصطبار بس کی ڈز دیے نگاہ نے لے لیا میرا قرار کس کے نازوں نے بنایا ہے بے پنا شکار کس کے غمزہ نے کیا ہے مثل باراں اشکبار ہائے پر اسکے مقابل میں نہیں میں کوئی چیز ڈہ سراپا نور ہے میں مفعہ تاریک تار اُس کی شاں کو عقل انسانی سمجھ سکتی ہیں ذرہ ذرہ پر ہے اس کو مالکانہ اقتدار وہ اگر خالق ہے میں ناچیز سی مخلوق ہوں ہر گھڑی محتاج ہوں اُس کا وہ ہے پروردگار پاک ہے ہر طرح کی کمزور یوں اس کی ذات اور مجھ میں پائے جاتے ہیں نقائص صد ہزار منبع ہر خوبی وہ حسن و ہر نیکی ہے وہ میں ہوں اپنے نفس کے ہاتھوں خلوب اور خوار وہ ہے آقا میں ہوں خادم وہ ہے الک میں ظلم میں ہوں اک ادنی رعایا اور دہ ہے تاجدار علم کامل کا وہ مالک اور میں محرو بر مسلم وہ سراسر نور ہے لیکن ہوں میں تاریک تار اس کی قدرت کی کوئی بھی انتہا پاتا نہیں اور پوشیدہ نہیں ہے تم سے میرا حال زار اپنی مرضی کا ہے وہ مالک تو میں محکوم ہوں میری کیا طاقت کہ پاؤں زور سے گاہ میں بار عزت افزائی ہے میری گر کوئی ارشاد ہو فخر ہے میرا جو پاؤں رتبہ خدمت گذار طالب دنیا نہیں ہوں طالب دیدار ہوں تب جگر ٹھنڈا ہو جب دیکھوں رخ تابان یار کہتے ہیں ہر خرید یوسف فرخ فال ایک بڑھیا آئی تھی یا حالت زار و نزار ایک گالا روٹی کا لائی تھی اپنے ساتھ وہ اور یوسفٹ کی خریداری کی معنی اُمیدوار

Page 90

64 وہ تو کچھ رکھتی بھی تھی پر میں تو خالی ہاتھ ہوں بے عمل ہوتے ہوئے ہے تجھ سے دست یار کیوں غلامی میں مگر ہے عشق کا دعوی تھے پیا کروں میں ہوں مگر ہے خواریش قربے ہور پر وہ عالی بارگہ ہے منبع فضل و کرم کیا تعجب ہے جو نچھ کو بھی بنا دے کامگار بات کیا ہے گروہ میری آرزو پوری کرے دے مری جان کو تسلی دے میرے قول کو قرار ہو کے بے پردہ وہ میرے سامنے آئے کل میرے دل سے دور کرے مجرد فرقت کا اخبار جس قدر رستہ میں روکیں ہیں بہائے وہ انہیں جس قدر حائل ہیں پڑے ان کو کردے تارتار بے نے اس کے تو جینا بھی ہے بد تر موت سے ہے وہی زندہ جسے اس کا بلے قرب دبوار کور ہیں آنکھیں جنھوں نے مشکل وہ دیکھی نہیں گوش گز ہیں جو نہیں سنتے کبھی گفت اریار آرزو ہے گر فلاح و کامیابی کی تھیں اس شبہ خوباں پہ کر دو بے ٹائل جاں نثار کھول کر قرآن پڑھو اس کے کلام پاک کو دل کے آئینہ پر تم اک کھینچ لو تصویر یار شوق ہو دل میں اگر کوئی تو اس کی دید کا کان میں کوئی صدا آئے نہ جز گفتار یار بزرگ وریشہ میں ہو اس کی محبت جاگزیں ہر کہیں آئے نظر نقشہ وہی منصور وار اپنی مرضی چھوڑ دو تم اس کی مرضی کے لیے جو ارادہ وہ کرے تم بھی کرو وہ اختیار عشق میں اس کے نہ ہو کوئی ملونی جھوٹ کی جو زباں پر ہو وہی اعمال سے ہو آشکار پاک ہو جاؤ کہ وہ شاہ جہاں بھی پاک ہے جو کہ ہو نا پاک دل اس سے نہیں کرتا وہ پیار چھوڑ دور سنج و عداوت ترک کر دو نفض ہیں پیار و الفت کو کرو تم جان و دل سے اختیار چھوڑ دو غیبت کی عادت بھی کہ یہ اک زہر ہے روح انسانی کو ڈس جاتی ہے یہ منند مار بھر کی عادت بھلاؤ انکساری سیکھ لو جہل کی عادت کو چھوڑ دو علم کر لو اخت سیار دونوں ہاتھوں سے پکڑ لو د امن تقومی کو تم ایک ساعت میں کرا دیتا ہے یہ دیدار یار کتے ہیں پیاروں کا جو کچھ ہو وہ آتا ہے پسند اس لیے جو کوئی اُس کا ہو کہ تم اس سے پیار

Page 91

66 اُس کے ماموروں کو کھوتم دل وجاں سے عزیز اُس کے نبیوں کے رہو تم چاکر د خدمت گذار اُس کے بھوں کو نہ ڈالو ایک سم کے واسطے بال دولت جان بول ہر ھے کرو اس پر نشانہ ساری دنیا میں کرو تم مشتہر اس کی کتاب تاکہ ہوں بیدار وہ بند سے جو میں غفلت شعار ابتدار میں لوگ گور پاگل پکاریں گے تمھیں اور ہوں گے در تے ایڈا رہی دیوانہ وار گالیاں دیں گے تمھیں کا فر بتائیں گے تمھیں جس طرح ہو گا گریں گے وہ تمھیں رسوا و خوار سنگ باری سے بھی ان کو کچھ نہ ہوگا اجتناب بے جھجک دکھلائیں گے وہ تم کو تیغ آبدار پر خدا ہو گا تمہارا ہر مصیبت میں معین شتر سے دشن کے بچائے گا تمھیں لیل ونہار اُس کی اُلفت میں کبھی نقصاں اُٹھاؤ گے نہ تم اُس کی الفت میں کبھی ہوگے نہ تم رسوا و خوار استعمال میں پورے اُترے گر تو پھر انعام میں عام وصل یار پینے کو ملیں گے بار بار تم پہ کھولے جائیں گے جنت کے دردان ہے ہیں تم پہ ہو جائیں گے سب سہرابر قدرت آشکار درد میں لذیلے گی دُکھ میں پاؤ گے سردار بے قراری بھی اگر ہوگی تو آئے گا قرار سرنگوں ہو جائیں گے شیشن تمہارے سامنے مکتبھی ہوں گے برائے عفو وہ با حال زار الغرض یہ عشق مولیٰ بھی عجب اک چیز ہے جو گداگر کو بنا دیتا ہے دم میں شہر یار بس یہی اک راہ ہے میں سے کہ ملتی ہے تجا بس یہی ہے اک طریقہ جس سے ہو عزر دو قا

Page 92

۴۱ روڑے جاتے ہیں بامید بنا ہوئے باب شاید آجائے نظر رُوئے دل آرا بے نقاب غافل کیوں ہو رہے تو عاشق چنگ در باب آسمان پکھل رہے ہیں آج سب عرفان کباب مست ہو کیوں اس قدر اغیار کے اقوال پر اس شہر خوباں کی تم کیوں چھوڑ بیٹے ہو کتاب اس تم کیا بہوا کیوں عقل پر ان کے پتھر پڑ گئے چھوڑ کر دیں عاشق دنیا ہے تے ہیں شیخ و شاب نے پیچھے چھوڑے جاتے ہیں یا ک من میں بھاگے جاتے ہیں یہ احمق کیوں بھلا کوئے جاتے امر بالمعروف کا بیڑا اٹھاتے ہیں جو لوگ ان کو دینا چاہتے ہیں ہر طرح کا یہ مذاب پر جو مولیٰ کی رضا کے واسطے کرتے ہیں کام اور ہی ہوتی ہے ابھی عزوشان و آب تاب دہ شجر میں سنگباروں کو بھی جو دیتے ہیں پھل ساری دُنیا سے بالا ان کا ہوتا ہے جواب لوگ اُن کے لاکھہ روشن ہوں کہ سب کے دوست ہیں ناک کے بدلے میں ہیں وہ پھینکتے مشک گلاب یا الہی آپ ہی اب میری نصرت کیجئے کام میں لاکھوں مگر ہے زندگی مثل حباب ہیں کیا بتاؤں کس قدر کمزوریوں میں ہوں پھنسا سب جہاں بیزار ہو جائے جو ہوں میں سے نقاب میں ہوں خالی ہاتھ مجھ کو یونسی جانے دیجئے شاہ ہو کر آپ کیا لیں گے فقیروں سے حساب تشنگی بڑھتی گئی جتنا کیا دُنیا سے پیار پانی سمجھے تھے جسے وہ تھا حقیقت میں سراب رساله تشحمید الا زبان ماہ فروری سالاد

Page 93

میری خواہش ہے کہ دیکھوں اس مقامیہ پاک کے ہیں جگہ نازل ہوئی ہوئی ترمی ام الکتاب این ابر استیم آئے تھے جہاں باتشنہ لب کر دیا خشکی کو تونے ان کی خاطر آب آب میرے والد کو بھی ابراہیم ہے تو نے کہا جس کو جو چاہے بنائے تیری عالی جناب ابن ابراہیم بھی ہوں اور تشنہ لب بھی ہوں اس لیے جاتا ہوں میں منہ کو باتید آب راک برخ روشن سدا رہتا ہے آنکھوں کے تلے میں نظر آتے مجھے تاریک ماہ و آفتاب اس قدر بھی بے رخی اچھی نہیں عشاق سے ہاں کبھی تو اپنا چھرہ سمجھئے گا بے نقاب چشمہ انوار میرے دل میں جاری کیجئے پھر دکھا دیجے مجھے عنوان روتے آفتاب

Page 94

۴۲ اے چشتہ علم و دی اے صاحب نماز کا اے ایک سال سے با صفا سے پاک طینت باسیا اے مقتدا اسے پیشوا اے میرزا اے رہنما اے مجھے اے مصطفے اپنے نائب رب العرمی کچھ یاد تو کیجے ذرا ہ ہم سے کوئی اقرار ہے یتے تھے تم جس کی خبر بند متی تھی میں یہاں کمر مٹ جائیگا سب شور و شرموت آیگی شیطان پور پاؤ گے تم فتح و ظفر ہوں گے تمہارے بحرو بر آرام سے ہوگی بسر ہوگا خدا منہ نظر واں تھے وہی سے خوبے یاں حالت ادبار ہے ہروں میں پر ہے بعین میں ہرنفس شیطاں کار میں ہو ہو ندائے نور دیں ، کوئی نہیں کوئی نہیں ہر ایک کے بے سریں کیں، ہے کبیر کا دیو لیں اک دم کو یاد آتی نہیں، درگاہ رب العالمیں بے مین ہے جان ترین حالت ہماری زار ہے کہنے کو سب تیار ہیں، چالاک ہیں مہشیار ہیں منہ سے تو سو اقرار ہیں، پر کام سے بیزار ہیں ظاہر میں سب ابرار ہیں، باطن میں سب شہر میں مسلم میں پر بدکارہیں ، میں ڈاکٹر پرزار میں حالات پر اسرار ہیں دل مسکن افکار ہے رساله تشحمید الاوزبان - ماه مارچ ساله

Page 95

چھینے گئے ہیں تک باقی ہیں اب شاہ جب بیچے پڑا ہے ان کے اب ڈھن لگائے بانقب ہم ہو رہے ہیں جاں بلب بنتا نہیں کوئی سبب ہیں منتظر اس کے کہ کب، آتے ہیں امداد رب پیالہ بھرا ہے لب لب 0 ٹھوکر ہی اک کار ہے کیا آپ پر الزام ہے، یہ خود ہمارا کام ہے غفلت کا یہ انجام ہے مستی کا یہ انعام ہے قسمت یونسی بد نام ہے دل خود اسیر دام ہے اب کس جگہ اسلام ہے باقی فقط اک نام ہے ملتی نہیں شیام ہے بس اک میں آزار ہے

Page 96

۴۳ محمود بحال زار کیوں ہو کیا رنج ہے بے قرار کیوں ہو کس با سے تم کو پہنچی تکلیف کیا صدمہ ہے دل نگار کیوں ہو ہاں سوکھ گیا ہے کونسا کھیت کچھ بولو تو اشکبار کیوں ہو جب تک نہ ہو کوئی باعث درد بے وجہ پھر اضطرار کیوں ہو میں باعث رنج کیا بتاؤں کیا کہتے ہو بے قرار کیوں ہو دل ہی نہ رہا ہو جس کے بیس میں وہ صبر سے شرمسار کیوں ہو سب جس کی اُمیدیں مرچکی ہوں زندوں میں وہ پھر شمار کیوں ہو دولہا نہ رہا ہو جب دُلہن کا بیچاری کا پھر سنگار کیوں ہو کالے گئے جب تمام پوڑے گلشن میں میرے بہار کیوں ہو آنکھوں میں رہی نہ جب بصارت دیدار رخ نگار کیوں ہو جس شخص کا ٹٹ رہا ہو گھر بار خوشیوں سے بھلا دو چار کیوں ہو اسلام گھرا ہے دشمنوں میں مسلم کا نہ دل نگار کیوں ہو ماضی نے کیا ہے جب پریشان آئیندہ کا اعتبار کیوں ہو کیا نفع اٹھایا ترک دیں سے ؟ دنیا پر ہی جاں نثار کیوں ہو رساله تشحمید الازمان - ماه بون ساله

Page 97

Ar ۴۴ نہ کے رہے نہ رہے تم نہ یہ سٹو بائی بس ایک دل میں رہے تیری آرزو باقی پڑی ہے کیسی مصیبت یہ غنچہ دیں پر رہی وہ شکل و شباہت نہ رنگ و بو باقی کمال ده مجلس عیش و طرب وه راز و نیاز بس اب تو رہ گئی ہے ایک گفتگو باقی کہاں جو پوچھ لو بھی اتنا کہ آرزو کیا ہے رہے نہ دل میں میرے کوئی آرزو باقی ملا ہوں خاک میں باقی رہا نہیں کچھ بھی مگر ہے دل میں میرے اُن کی جستجو باقی دہ گاؤں گا تیری تعریف میں ترانہ محمد رہے گا ساز ہی باقی نہ پھر گلو باقی گیا ہوں سوکھ غیر ملت محمد میں رہا نہیں ہے مرے جسم میں لہو باقی قرون اولیٰ کے مسلم کا نام باقی ہے نہ اُس کے کام ہیں باقی نہ اس کی خو باقی خدا کے واسطے مسلم ذرا تو ہوش میں آ نہیں تو تیری رہے گی نہ آبرو باقی شکائیتیں تمھیں ہزاروں بھری پڑی دل میں رہی نہ ایک بھی پر اُن کے رُو برو باقی اخبار الفضل جلد ۱ - ۲۷ اگست ۱۱ه

Page 98

۴۵ بقمت احمد کے ہمدردوں میں غمخواروں میں نہیں بیوفاؤں میں نہیں ہوں میں وفاداروں میں انہوں فخر ہے مجھ کو کہ ہوں میں خدمت سرکار میں ناز ہے بھگو کہ اس کے ناز برداروں میں ہوں سرمین ہے جوش جنوں دل میں بھرا ہے اردو علم میں دیوانوں میں شامل ہوں ہشیاروں میں ہوں پوچھتا ہے مجھ سے وہ کیونکر ترا آنا ہوا کیا کہوں اس سے کہ میں تیرے طلبگاروں میں ہوں میں نے مانا تو نے لاکھوں نعمتیں کی ہیں عطا پر میں ان کو کیا کروں تیرے طلبگاروں میں منفوس شاہوں کی کیا ضرورت ہے کیسے انکار ہے میں تو خود کہتا ہوں مولی میں گنہگاروں میں ہوں حملہ کرتا ہے اگر دشمن تو کرنے دو اسے وہ ہے اغیاروں میں میں اس بار کے پیروںمیں نئیں فکتیں کافور ہو جائیں گی اک دن دیکھنا میں بھی اک نورانی چہرہ کے پرستاروں میں ہوں اصل دنیا کی نظر میں خواب غفلت میں ہمیں میں اصل دل پر جانتے ہیں یہ کہ بیداروں میں ہوں ہوں تو دیوانہ مگر بہتوں سے معاقل تر ہوں میں ہوں تو بیماروں میں لیکن تھے بیماروں میں ہوں مدتوں سے مر چکا ہوتا غم و اندوہ سے گرنہ یہ معلوم ہوتا میں تیرے پیاروں میں ہوں جانتا ہے کس پہ تیرا وار پڑتا ہے مدد کیا تجھے معلوم ہے کسی کے جگر پاروں میں ہوں ساری دنیا چھوڑے پر میں نہ چھوڑوں گا تجھے درد کہتا ہے کہ میں تیرے وفاداروں میں ہوں ہو رہا ہوں مست دید چشم مست یار میں لوگ یہ سمجھے ہوئے بیٹھے ہیں مےخواروں میں ہوں عشق میں کھوئے گئے ہوش وحو اس دفکر وقتل اب سوال دید جائز ہے کہ ناداروں میں ہوں گو مرا دل مخزن تیر نگاہ یار ہے پر یہ کیا کم ہے کہ اس کے تیر بزاروں میں ہوں اخبار الفضل - جلد ۱ - ۲۷ اگست ۱۹۱۳

Page 99

AD ۴۶ محمد عربی کی ہو آل میں برکت ہو اس کے حسن میں برکت جمال میں برکت ہو اُس کی قدر میں برکت کمال میں برکت ہو اُس کی شان میں برکت جلال میں برکت حلال کھا کہ ہے رزق حلال میں برکت زکوۃ دے کہ بڑھے تیرے مال میں برکت لے گی سالک رہ بانجھ کو حال میں برکت کبھی بھی ہوگی میسر نہ سال میں برکت جہاں پر کل تھے وہیں آج تم نہ رک رہنا قدم بڑھاؤ کہ ہے انتقال میں برکت لگا ئیو نہ درخت شکوک دل میں بھی نہ اس کے پھل میں بابرکت نہ ڈال میں برکت یقین کی نہیں نعمت کوئی زمانے میں نہ شک میں خیر ہے نے احتمال میں برکت جو چاہے خیر تو کر استخارہ مسنون عبث تلاش نہ کر تیر و فال میں برکت ہر ایک کام کو تو سوچ کر بیچار کے کر ہمیشہ پائے گا اس دیکھ بھال میں برکت ندا کی راہ میں دے جس قدر بھی ممکن ہو کہ اس کے فضل سے ہو تیر کال میں برکت ہے عیش وعشرت دُنیا تو ایک فانی شئے خدا کرے کہ ہو تیرے مال میں برکت تلوب صافیہ ہوتے ہیں منبط انوار کبھی بھی دیکھی ہے رنج و ملال میں برکت نہ چُپ رہو کہ خموشی دلیل نخوت ہے دُعائیں مانگو کہ ہے عرض حال میں برکت اخبار افتل - جلد ه - در جنوری مشالله - ۵- در

Page 100

گنہ کے بعد ہو تو بہ سے باپ رحمت وا خطا کے بعد ملے انفعال میں برکت رہ سداد نہ تفریط ہے نہ ہے افراط خدا نے رکھی ہے بس اعتدال میں برکت اُسی کے دم سے فقط ہے بقائے موجود است خدا نے رکھی ہے وہ اتصال میں برکت ہو ماند چودھویں کا چاند بھی مقابل پر خداوہ سختے ہمارے ہلال میں برکت روئیں روئیں میں سما جائے عشق خالق حسن ظہور جس سے کرے بال بال میں برکت چڑھے تو نام نہ لے ڈوبنے کا پھر وہ کبھی کچھ ایسی ہو میرے یوم الوصال میں برکت

Page 101

آہ دنیا پر کیا پڑی اُفتاد دین و ایمان ہو گئے برباد میر اسلام ہو گیا مخفی سارے عالم پہ چھا گیا ہے سواد آج مسلم میں رنج و غم سے پور اور کافر ہیں خندہ زن دلشاد روح اسلام ہو گئی محصور کفر کا دیو ہو گیا آزاد جو بھی ہے دشمن صداقت ہے دین حق سے ہے اسکو بغض و عناد جھوٹ نے خوب سر نکالا ہے ہے صداقت کی ہل گئی بنیاد دشمنان شریعت حقہ چاہتے ہیں تعلب و افساد اس ارادے پر گھر سے نکلے ہمیں دین اسلام کو کریں برباد ہے ہمارے علاج کا دعوی کہتے ہیں اپنے آپ کو فصاد مگر اس فصد کے بہانے سے کر رہے ہیں وہ کار صد جلاد رستم و بخور بڑھ گیا مد انتہا سے نکل گئی ہے داد ہے غضب میں وہ شائق بیداد پھر ستم یہ کہ میں ستم ایجاد پھر یہ ہے قہر ظلم کر کے وہ خود ہمیں سے میں ہوتے طالب داد اے خدا اے شہ لیکن دمکان قادر و کارساز و رب عباد دین احمد کا تو ہی ہے بانی پس تبھی سے ہماری ہے فریاد اخبار الفضل جلد ، هر جنوری تله - 4

Page 102

تیسرا در چھوڑ کر کہاں جائیں کس سے جاکر طلب کریں امداد چاروں اطراف سے گھرے ہیں ہم آگے پیچھے ہمارے سے ہیں محتار ہے ادھر پاشکستگی کی قید اور اُدھر سر پر آگیا میاد زلزلوں سے ہماری ہستی کی ہل گئی سر سے پا تلک بنیاد کچھ تو فرمائیے کریں اب کیا کچھ تو اب کیجئے ہمیں ارشاد کب تلک بے گناہ رہیں گے ہم تختہ مشق بازوئے جلاد تب علیم فریب ٹوٹے گا کب گرے گا وہ پنجہ فولاد ان دکھوں سے نجات پائیں گے کب ہوں گے کب ان نغموں سے ہم آزاد کب رہا ہو گی قید سے فطرت دُور کب ہوگا دور استبداد شان اسلام ہوگی کب ظاہر کب مسلماں ہوں گے خرم وشاد پوری ہوگی یہ آرزو کسی وقت کب بر آئے گی یہ ہماری مراد میں بھی کہتا ہوں آج تجھ سے وہی جو ہیں پہلے سے کہہ گئے اُستاد نام لیوا رہے گا تیرا کون ہم اگر ہو گئے یوسی برباد کون ہوگا خدا تیرے رُخ پر کون کہلائے گا تیرا فریاد کون رکھے گا پھر امانت عشق کس کے دل میں رہے گی تیری یاد احمدی اٹھ کہ وقت خدمت ہے یاد کرتا ہے تجھ کو ربت عباد شکر کر شکر یاد کرتا ہے گدگداتی تھی دل کو جس کی یاد خدمت دیں ہوئی ہے جیسے پیرو دُور کرنا ہے تو نے شر و فساد تجھ پہ ہے فرض نصرت السلام تجھ پہ واجب ہے دعوت ارشاد خدمت دیں کے واسطے ہو جا ساری قیدوں کو توڑ کر آزاد

Page 103

دشمن حق میں گو بہت لیکن کام دے گی انہیں نہ کچھ تعداد کفر و اسکار کے بنانے کی حق نے رکھی ہے تجھ میں استعداد فتح تیرے لیے مقدر ہے تیری تائید میں ہے رہت عباد قصر کفر و ضلالت و بدعت تیرے ہاتھوں سے ہو گا اب ہر باد ہاں تیری راہ میں ایک دوزخ ہے جس میں بھڑکی ہے نار بغض و عناد کہ انکے شعلوں کی زد میں جو آ جائے دیکھتے دیکھتے ہو مل کے رماد پر نہ لا خوف دل میں تو کوئی کیونکہ ہے ساتھ تیرے رب عباد بے دھڑک اور بے خطر اس میں خود جاکہ کے ہرچه بادا باد

Page 104

۴۸ ہے دست قبلہ نما لا إله إلا الله ہے دردوں کی دوا لا اله الا الله رکسی کی چشم فسوں ساز نے کیا جاؤں تو دل سے کلی صدا لا إِلهَ إِلَّا الله جو پھونکا جائیگا کانوں میں دل کے مردوں کے کرے گا حشر بپا لا إله إلا الله قریب تھا کہ میں گر جاؤں بار عصیاں سے بنا ہے ایک عصا لا إِلهَ إِلَّا الله گرہ نہیں رہی باقی کوئی میرے دل کی ہوا ہے عقدہ كُنا لا إله إلا الله عقيدة ثنویت ہو یا کہ ہو تثلیث ہے کذب بحث خطا لا إله إلا الله ہے گاتی نغمہ توحید ئے نیتاں میں ہے بستی بادِ صبا لا إله إلا الله ترا تو دل ہے صنم خانہ پھر تجھے کیا لفع اگر زباں سے کہا لا اله الا الله حضور حضرت دیاں شفاعت نادم کرے گا روز جزا لا إله إلا الله زمیں سے ظلمت شرک ایک دم میں ہوگی دُور ہوا جو جلوہ نما لا إله إلا الله ہزاروں ہوں گے جیں لیک قابل افت وہی ہے میرا پیا لا إله إلا الله نہ دھوکا کھائیونا واں کو شش جہات میں ہیں وہی ہے چہرہ نما لا اله الا الله چھپی نہیں بھی رہ سکتی وہ نگہ جس نے ہے مجھ کو قتل کیا لا اله إلا الله بروز حشر سبھی تیرا ساتھ چھوڑیں گے کرے گا ایک فا لا اله الا الله ہزاروں بلکہ ہیں لاکھوں علاج روحانی مگر ہے رُوح شفا لا إِلهَ إِلَّا الله ☆ گلدسته احمدیه - جسته دوم - ۱۵ر ضروری نشمه

Page 105

= ۹۱ ۴۹ غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا پڑے ہیں اختیار کا بھی بوجھ اُٹھانا پڑے ہیں اس زندگی سے موت ہی بہتر ہے اسے خدا جس میں کہ تیرا نام چھپانا پڑے ہمیں منبر پر چڑھ کے غیر کے اپنا مدعا سینہ میں اپنے ہوش ربا نا پڑے ہیں یہ کیسا عدل ہے کہ کریں اور ہم بھریں اغیار کا بھی قضیہ بچکانا پڑے ، ہمیں ئن مدعی نہ بات بڑھاتا نہ ہو یہ بات کوچہ میں اس کے شور مچانا پڑے ہیں آتنا نہ دور کر کہ کئے رشتہ کو واد سینہ سے اپنے غیر لگانا پڑے ہیں پھیلائیں گے صداقت اسلام کچھ بھی ہو جائیں گے ہم یہاں بھی کہ جانا پڑے ہیں پروا نہیں جو ہاتھ سے اپنے ہی اپنا آپ حرف غلط کی طرح مٹانا پڑے ہیں محمود کر کے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار روئے زمیں کو خواہ ہلانا پڑے ہیں اخبار الفضل - جلد ۷-۲۹ را پریل سنه

Page 106

۹۲ مری تدبیر جب مجھ کو مصیبت میں پھنساتی ہے تو تقدیر الہی آن کر اس سے پھڑاتی ہے جدائی دیکھتا ہوں جب تو مجھ کو موت آتی ہے اُمید واصل لیکن آئے پھر مجھ کو چلاتی ہے نگاہ مہر سالوں کی خصومت کو بھلاتی ہے خوشی کی اک گھڑی برسوں کی گفت کو مٹاتی ہے محبت تو وفا ہو کر وفا سے جی چراتی ہے ہماری بن کے اسے ظالم ہماری خاک اڑاتی ہے محبت کیا ہے کچھ تم کو خبر بھی ہے مست مجھ سے یہ ہے وہ آگ جوخود گھر کے مالک ملاتی ہے کہاں یہ خانہ ویراں کہاں وہ حضرت دی شہباں کشش لیکن ہمار دل کی انکو کینی لاتی ہے ہوئی ہے بے سبب کیوں عاشقوں کی جان کی شمن نسیم صبح ان کے منہ سے کیوں آنچل اٹھاتی ہے منائیگا ہمیں کیا، تو ہے اپنی جان کا دشمن اسے ناداں کبھی مشتاق کو بھی موت آتی ہے نہ اپنی ہی خبر رہتی ہے ئے یادِ اعزہ ہی جب اس کی یاد آتی ہے تو پر سب کچھ بھلاتی ہے خُدا کو چھوڑنا اسے مسلم اکیا کھیل سمجھے تھے تمہاری تیرہ بختی دیکھئے کیا رنگ لاتی ہے محبت کی جھلک چھیتی کہاں ، لاکھ ہوں پڑے نگاہ زیر میں مجھ سے بھلا تو کیا چھپاتی ہے معاذ اللہ میرا دل اور ترک عشق کیا ممکن میں ہوں وہ با وفا جس کو فا کو شرم آتی ہے وہ کیسا سر ہے جو بہکتا ہے آگے ہر کہ میر کے دیکھیں آنکھ ہے جو ہر جگہ دریا بہاتی ہے آنا فل ہو چکا صاحب خبر لیجے نہیں تو پھر کوئی دم میں یہ کن لو گے فلاں کی نقش جاتی ہے اخبار الفضل - جلد ۷ - ۱۲ راگست سنه

Page 107

طریق عشق میں اسے دل سیادت کیا غلامی کیا محبت خادم و آقا کو اک حلقہ میں لاتی ہے جانے ناگہاں بیٹھے ہیں ہم آغوشش دہر میں خبر بھی ہے مجھے کچھ تو کہیں آنکھیں دکھاتی ہے تیری رہ میں بھپائے بیٹھے ہیں دل مدتوں سے ہم سواری دیکھئے اب دلئہ پا کب تیری آتی ہے ہمارا متماں نے کر تمھیں کیا فائدہ ہوگا؟ ہماری جان تو بے امتحاں منی نکلی جاتی ہے بھرا ہوں حلقہ احباب میں گو میں مگر تجھ بن ہرے یار ازل تنہائی پھر بھی کالے کھاتی ہے ہماری خاک تک بھی اڑ چکی ہے اسکے رستہیں ہلاکت تو بھلا کس بات سے ہم کو ڈراتی ہے غم دل لوگ کہتے ہیں نہایت تلخ ہوتا ہے مگر میں کیا کروں اس کو غذا یہ مجھ کو بھاتی ہے مری جاں تیر کجام وصل کی خواہش میں اے پیارے مشال ماہی بے آب ہر دم تلملاتی ہے ہاں مہ کی مرے دل میں تو آتا ہے کہ سب احوال کنٹرالیوں نہ شکوہ جان میں، اس سے طبیعت ہچکچاتی ہے بھی جو روتے روتے یاد میں میں اس کی موجاں شیر یار اگر مجھ کو سینے سے لگاتی ہے انانیت پرے ہٹ جا مجھے مت منہ دکھا اپنا میں اپنے مال سے واقف ہوں تو کس کی بناتی ہے کبھی کا ہو چکا ہو تا شکار یاس و نومیدی مگر یہ بات اسے محمود میرا دل بڑھاتی ہے جو ہوں قدام دیں ان کو خدا سے نصرت آتی ہے جب آتی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے

Page 108

۵۱ تری محبت میں میرے پیارے ہر اک مصیبت اُٹھائیں گے ہم گر نہ چھوڑیں گے تجھ کو ہرگز نہ تیرے در پر سے جائیں گے ہم تری محبت کے جرم میں ہاں جو میں بھی ڈالے جائیں گے ہم تو اس کو جائیں گے مین راحت نہ دل میں کچھ خیال لائیں گے ہم مینیں گے ہرگز نہ غیر کی ہم نہ اس کے دھوکے میں آئیں گے ہم بس ایک تیرے حضور میں ہی سر اطاعت جھکائیں گے ہم جو کوئی ٹھو کر بھی مارے گا تو اس کو سہہ لیں گے ہم خوشی سے کیں گے اپنی سزا یہی تھی زباں پر شکوہ نہ لائیں گے ہم ہمارے حال خراب پر گو ہنسی اُنہیں آج آ رہی ہے مگر کسی دن تمام دنیا کو ساتھ اپنے دلائیں گے ہم ہوا ہے سارا زمانہ دشمن ہیں اپنے بیگانے خوں کے پیاسے جو تو نے بھی ہم سے بے رخی کی تو پھر تو بس مر ہی جائیں گے ہم یقین دلاتے رہے ہیں دُنیا کو تیری الفت کا مدتوں سے جو آج تُو نے نہ کی رفاقت کسی کو کیا منہ دکھائیں گے ہم پڑے ہیں پیچھے جو فلسفے کے انہیں خبر کیا ہے کہ عشق کیا ہے مگر میں ہم رہبر و طریقت ثمار الفت ہی کھائیں گے ہم ۱۹۲۰ اختبار الفضل - جلد ۷ - ۱۹ ستمبر سنشله

Page 109

سمجھتے کیا ہو کہ عشق کیا ہے یہ عشق پیارو کٹھن بلا ہے جو اس کی فرقت میں ہم پر گذاری کبھی وہ قصہ سنائیں گے ہم ہمیں نہیں عطر کی ضرورت کہ اس کی خوشبو ہے چند روزہ بُوئے محبت سے اس کی اپنے دماغ و دل کو بہائیں گے ہم ہمیں بھی ہے نبدت تلمذ کسی مسیحا نفس سے حاصل ہوا ہے بے جان گو کہ مسلم مگر اب اس کو ملائیں گے ہم مٹا کے نقش و نگار دیں کو یو منی ہے خوش دُشمن حقیقت جو پھر کبھی بھی نہ مٹ سکے گا اب ایسا نقشہ بنائیں گے ہم خُدا نے ہے خضر رہ بنایا ، ہمیں طریق محمدی کا جو بھولے بھٹکے ہوئے ہیں ان کو صنم سے لا کر ملائیں گے ہم ہماری ان خاکساریوں پر نہ کھائیں دھوکا ہمارے دشمن جو دیں کو تر بھی نظر سے دیکھا تو خاک اُن کی اُڑائیں گے ہم مٹا کے کفر و ضلال و بدعت کریں گے آثار دیں کو تازہ خُدا نے چاہا تو کوئی دن میں ظفر کے پرچم اُڑائیں گے ہم خبر بھی ہے کچھ تجھے او ناداں کہ مردم چشم یار میں ہم اگر ہمیں کچھ نظر سے دیکھا تو تجھ پہ بجلی گرائیں گے ہم وہ شہر جو کفر کا ہے مرکز ہے جس پہ دین مسیح نازاں ندائے واحد کے نام پر اک اب اس میں مسجد بنائیں گے ہم پھر اس کے مینار پر سے دنیا کو حق کی جانب بلائیں گے ہم کلام ربت رحیم در همان بیانگ بالا سنا ئیں گے ہم *

Page 110

۹۶ ۵۲ نو نهالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے پر ہے یہ شرط کہ ضائع ہرا پیغام نہ ہو چاہتا ہوں کہ کروں چین نصائح تم کو تاکہ پھر بعد میں مجھ پر کوئی الزام نہ ہو جب گذر جائیں گے ہم تم پر پڑیگا سب بار شستیاں ترک کر و طالب آرام نہ ہو خدمت دین کو اک فضل الہی جا تو اس کے بدلے میں کبھی طالب نعام نہ ہو دل میں جو سوز تو آنکھوں سے رواں ہوں آنسو تم میں اسلام کا ہو من را فقط نام نہ ہو سر میں نحوست نہ ہو آنکھوں میں ہو برق غضب دل میں کینہ نہ ہو لب پر کبھی دشنام نہ ہو خیر اندیشی احباب رہے مد نظر عیب چینی نہ کرو مفید و نام نہ ہو چھوڑ دو برس کرد زهد و قناعت پیدا کر نہ محبوب بنے سیم دل آرام : زر نہ ہو رغبت دل سے ہو پابند نماز و روزہ نظر انداز کوئی حصہ احکام نہ ہو پاس ہو مال تو دو اس سے زکوۃ وصدقہ فکر سکیں رہے تم کو غم ایام نہ : محسن اس کا نہیں کھلتا تمہیں یہ یاد رہے دوش مسلم پر اگر چادر احرام نہ ہو عادت ذکر بھی ڈالو کہ یہ ممکن ہی نہیں دل میں ہو عشق صنم لب پہ مگر نام نہ ہو عقل کو دین پر حاکم نہ بناؤ ہرگز یہ تو خود اندھی ہے گر نیز الہام نہ ہو جو صداقت بھی ہو تم شوق سے بانو اسکو علم کے نام سے پر تابع اوہام نہ ہو اخبار الحكم بلد ۱۷۰۲۲ اکتوبر ستشاه ہو

Page 111

94 دشمنی ہو نہ محبان مُحسند سے تمہیں جو معاند میں تمہیں ان سے کوئی کام نہ ہو امن کے ساتھ رہو فتنوں میں حصہ مست او باعث نکرد پریشانی حکام نہ ہو اپنی اس عمر کو اک نعمت عظمی سمجھو بعد میں تاکہ تمھیں شکوہ ایام نہ ہو حُسن من ہر رنگ میں اچھا ہے مگر خیال ہے دانہ مجھے ہو جسے تم وہ کہیں وام نہ ہو تم مدینہ ہو کہ جرنیل ہو یا عالم ہو ہم نہ خوش ہوں گے کبھی تم میں گر سلام نہ ہو سیلف رسپکت کا بھی خیال رکھو تم بیشک یہ نہ ہو پر کہ کسی شخص کا اکرام نہ ہو عمر ہو ئیسر ہو تنگی ہو کہ آسائش ہو کچھ بھی ہو بند مگر دعوت اسلام نہ ہو تم نے دنیا بھی جو کی فتح تو کچھ بھی نہ کیا نفس وحشی و جفا کیش اگر رام نہ ہو من و احسان سے اعمال کو کرنا نہ خراب رشته وصل کہیں قطع سیر بام نہ ہو بھولیو مت کہ نزاکت ہے نصیب نسواں مرد وہ ہے جو جفا کش ہو گل اندام نہ ہو شکل نے دیکھ کے گرنا نہ منگل کی مانند دیکھ لینا کہ کہیں درد نہ جام نہ ہو یاد رکھنا کہ کبھی بھی نہیں پاتا عزت یار کی راہ میں جب تک کوئی بدنام نہ ہو کام مشکل ہے بہت منزلِ مقصود ہے اور اے میرے اصل وفائت کبھی کام نہ ہو گامزن ہو گے رو صدق و صفا پر گر تم کوئی مشکل نہ رہے گی جو سرانجام نہ ہو حشر کے روز نہ کرنا ہیں رُسوا ؤ خراب پیار و آموخته درس وفا خام نہ ہو ہم تو جس طرح بننے کام کیے جاتے ہیں آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو میری تو حتی میں تمھارے یہ دُعا ہے پیار و سر پہ اللہ کا سایہ رہے نا کام نہ ہو ظلمت رنج و غم و درد سے محفوظ رہو میر انوار درخشندہ رہے شام نہ ہو SELF RESPECT

Page 112

۵۳ یاد جس دل میں ہو اس کی وہ پریشان نہ ہو ذکر جس گھر میں ہو اس کا کبھی ویران نہ ہو عیف اس سر پہ کہ جو تابع فرمان نہ ہو تفف ہے اس دل پر کہ جو ہنڈا احسان نہ ہو مسلم سوختہ دل یو سنی پریشان نہ ہو تجھ پہ اللہ کا سایہ ہے ہراسان نہ ہو وقت حسرت نہیں یہ بہت کوشش کا ہے قت عقل و دانائی سے کچھ کام سے نادان نہ ہو رت افواج خود آتا ہے تری نصرت کو باندھ سے اپنی کمر بندہ حربان نہ ہو اُٹھ کے دشن کے مقابل پر کھڑا ہو جاتو اپنے احبابے ہی دست وگریبان نہ ہو یاد رکھ لیک کہ غلبہ نہ ملے گا جب تک دل میں ایمان نہ ہو ہاتھ میں قرآن نہ ہو اپنے الہام پر نازاں نہ ہو اسے طفل سلوک تیرے بہکانے کو آیا کہیں شیطان نہ ہو کیا یہ ممکن ہے کہ نازل ہو کلام قادر ظاہر اس سے گر اللہ کی کچھ شان نہ ہو تم نے منہ پھیر لیا ان کے اُلٹتے ہی نقاب کیا یہ ممکن ہے کہ دلبر کی بھی پہچان نہ ہو اس میں جو بھول گیا دونوں جہانوں سے گیا کو چہ عشق میں دال کوئی انجان نہ ہو ہجر کے درد کا درماں نہیں ممکن جب تک برگ اعمال نہ ہوں شربت ایمان نہ ہو نہ تو ہے زاد نہ ہمت نہ ہی طاقت نہ رفیق میرے جیسا بھی کوئی بے سرو سامان نہ ہو کس طرح جانیں کہ ہے عشق حقیقی تم کو جبیب پارہ نہ ہو گر چاک گریبان نہ ہو اختبار الفضل - جلد ۷-۲۱ اکتو برسنه

Page 113

خانہ دل کبھی آباد نہ ہو گا جب تک میزباں میں نہ بنوں اور وہ مہمان نہ ہو رند مجلس نظر آئیں نہ بھی یوں نور جام اسلام میں گر بادۂ عرفان نہ ہو کسی طرح مانوں کہ سب کچھ بے خزانہ میں تھے پر تیرے پاس میرے درد کا درمان نہ ہو نہیں تو بھوکا ہوں فقط دید رخ جاناں کا باغ فردوس نہ ہو روضہ رضوان نہ ہو یہ جو معشوق لیے پھرتی ہے اندھی دنیا میرے محبوب کی ہی ان میں کہیں آن نہ ہو عشق وہ ہے کہ جو تن من کو جلا کر رکھ دے درد فرقت وہ ہے جس کا کوئی درمان نہ ہو کام وہ ہے کہ ہو جس کام کا انجام اچھا بات وہ ہے کہ جیسے کہ کے پیشمان نہ ہو رہ بھی کچھ یاد ہے جو یار سے کہاں نہ کرے وہ بھی کیا یار ہے جو خوبیوں کی کان نہ ہو عشق کا لطف ہی جاتا ر ہے اے اللہ طبیب درد گر دل میں نہ ہو درد بھی انسان نہ ہو منے دیتا ہے مجھے بات تو تب ہے واعظ اس کو تو دیکھ کے انگشت بدندان نہ ہو اے عدو مگر تیرے کیوں نہ ضرر پہنچائیں ہاں اگر سر پہ میرے سایہ رحمان نہ ہو ہے یہ آئین سماوی کے منافی محمود عشق ہو دل کا لیکن کوئی سامان نہ ہو

Page 114

۵۴ آریوں کو میری جانب سے سنائے کوئی ہو جو ہمت تو میرے سامنے آئے کوئی مرد میدان بنے اپنے دلائل لائے گھر میں بیٹھا ہوا باتیں نہ بنائے کوئی آسمانی بو شهادت ہو اسے پیش کرے یونہی بے ہودہ نہ بے پر کی اُڑائے کوئی سچا مذہب بھی ہے پر ساتھ دلائل ہی نہیں ایسی باتیں کسی احمق کو سُنائے کوئی ہے وہ صیاد جسے صید سمجھ بیٹھے ہیں ان کی عقلوں سے یہ پردہ تو اُٹھائے کوئی بیٹھ کر شیش محل میں نہ کرے نادانی ساکن قلعہ پہ پتھر نہ چلائے کوئی تاک میں شکر محمود ابھی بیٹھا ہے ہاں سمجھ کر ذرا ناقوس بجائے کوئی ہم ہیں تیار بتانے کو کمال قرآن خوبیاں دید کی بھی ہم کو بتائے کوئی

Page 115

کس طرح مانیں کہ مولیٰ کی ہدایت ہے وہ دید کو جب نہ پڑھے اور نہ پڑھائے کوئی ایسی ویسی جو کوئی بات نہ ہو دیدوں میں ان کو اس طرح سے کیوں گھر میں چھپائے کوئی خود ہی جب دید کے پڑھنے سے وہ محروم رہے پھر کسی غیر کو کس طرح سکھاتے کوئی یہ نظم انداز اسلہ کی ہے.مجلہ الجامعہ مصلح موعود میر مست ۱۳

Page 116

۵۵ ساغر حسن تو پر ہے کوئی کے خوار بھی ہو ہے وہ بے پردہ کوئی طالب دیدار بھی ہو وصل کا لطف تبھی ہے کہ رہیں ہوش بجا دل بھی قبضہ میں ہے پہلو میں دلدار بھی ہو رسیم مخفی بھی رہے الفت ظاہر بھی رہے ایک ہی وقت میں انتخا بھی ہو اظہار بھی ہو عشق کی راہ میں دیکھے گا رہی روئے فلاح جو کہ دیوانہ بھی ہو عاقل د ہشیار بھی ہو اس کا ڈر چھوڑ کے کیوں جاؤں کہاں جاؤں میں اور دنیا میں کوئی اس کی سی سر کار بھی ہو ہمسری مجھ سے تجھے کس طرح حاصل ہوئدو حال پر تیر او ناداں نظیر یار بھی ہو بات کیسے ہو موثر جو نہ ہو دل میں سوز روشنی کیسے ہو دل مهبط انوار بھی ہو یونہی بے فائدہ سر مارتے ہیں دید و لیب اُن کے ہاتھوں سے جو اچھا ہو وہ آزار بھی ہو درد کا میرے تو اسے جان فقط تم ہو علاج چارہ کار بھی ہو محرم اسرار بھی ہو دل میں اک درد ہے پر کس سے کہوں میں جا کر کوئی دنیا میں میرا مونس و غمخوار بھی ہو سالک راہ بینی ایک ہے منہاج وصول عشق دلدار بھی ہو محبت ابرار بھی ہو ۱۹۲۱ اخبار الفضل - جلد - و ر جنوری ست

Page 117

مجھ سے ملنے میں انہیں عذر نہیں ہے کوئی دل پر قابو نہیں اپنا یہی دشواری ہے پیاس میری نہ بھی گر تو مجھے کیا اس سے چشمہ فیض و عنایات اگر جاری ہے پاک کر دیجئے، ہیں.بیچ میں جتنے یہ حجاب میری منظور اگر آپ کو دلداری ہے مر کے بھی دیکھ لو ید کہ میستر ہو وصال لوگ کہتے ہیں یہ تدبیر بڑی کا ری ہے میری یہ آنکھیں کجا رویت دلدار کجا حالت خواب میں ہوں میں کہ یہ بیداری ہے دل کے زنگوں نے ہی مجوب کیا ہے اس سے شاہد اس بات پہ اک پردۂ زنگاری ہے دشمن دین کے حملے تو سب میں نے سے اب ذرا ہوش سے رہیو کہ میری باری ہے مخل اسلام پر رکھا ہے مخالف نے تبر داخیا شاہ کہ ساعت یہ بڑی بھاری ہے عشق کہتا ہے کہ محمود لسٹ جا اُٹھ کر رعب کہتا ہے پئے بہت بڑی چاری ہے اخبار الفضل جلد ۰۹ یکم اگست سله

Page 118

میں ترا در چھوڑ کر جاؤں کہاں چین دل آرام جاں پاؤں کہاں یاں نہ گر روؤں کہاں روؤں بتا یاں نہ چلاؤں تو چلاؤں کہاں تیرے آگے ہاتھ پھیلاؤں نہ گر کس کے آگے اور پھیلاؤں کہاں جاں تو تیرے در پہ قرباں ہو گئی سر کو پھر میں اور ٹکراؤں کہاں کون غمخواری کرے تیرے سوا بار مکر و حزن لے جاؤں کہاں دل ہی تھا سو رہ بھی تجھ کو دے دیا اب میں اُمیدوں کو دفناؤں کہاں بڑھ رہی ہے خارش زخیم نہاں کس طرح کھجلاؤں.کھجلاؤں کہاں کثرتِ عصیاں سے دامن تر ہوا ابر اشک تو بہ براؤں کہاں احمدی جنتری شه - دسمبر شه

Page 119

1+0 طور پر جلوہ گناں ہے کہ ذرا دیکھو تو محسن کا باب کھلا ہے بخدا دیکھو تو رعب من شبہ خوباں کو ذرا دیکھو تو ہاتھ باندھے ہیں کھڑے شاہ دگنا دیکھو تو اپنے بیگانوں نے جب چھوڑ دیا ساتھ میرا وہ میرے ساتھ رہا اس کی وفا دیکھو تو ماخلو! عقل پر اپنی نہ ابھی نازاں ہو پہلے تم ده نگیہ ہوش ربا دیکھو تو غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے اے میرے فلسفیو ! زور دیا دیکھو تو ہیں تو معشوق مگر ناز اُٹھاتے ہیں میرے مجمع ہیں ایک ہی باحسن ورفا دیکھو تو عاشقو! دیکھ چکے عشق مجازی کے کمال آب مرے یار سے بھی دل کو لگا دیکھو تو ہے کبھی رویت دلدار بھی وصل حبیب کیسی مشاق کی ہے شبح و مسا دیکھو تو چاروں اطراف میں مینوں ہی نظر آتے ہیں نہ ہوا ہو کہ کہیں جلوہ نما دیکھو تو ہے کہیں جنگ کہیں زلزلہ طاعون کہیں سے گرے کا ہے کہیں شور پڑا دیکھو تو شور کسی نے اپنے رخ زیبا پر سے الٹی بے نقاب جس سے عالم میں ہے یہ حشر بپا دیکھو تو عالم حلوہ یار ہے کچھ کھیل نہیں ہے لوگو ! احمدیت کا بھلا نقش منا دیکھو تو لوگو کیا ہوا تم سے جو ناراض ہے دنیا محمود کس قدر تم پر ہیں الطاف خُدا دیکھو تو اخبار الفضل جلد ۲۰۹ جنوری ۱۹۲۲ انفلونزا

Page 120

۵۹ حقیقی عشق گر ہوتا تو سختی بستر ہوتی تلاش یار ہر ہر وہ میں ہوتی کو بگھو ہوتی سے وصل حبیب لا یزال ولم یزل ہوتی تو دل کیا میری جاں بھی بڑھ کے قربان سیلو ہو تی جو تم سے کوئی خواہش تھی تو بس آنی ہی خواہش تھی تمھارا رنگ چڑھ جاتا تمہاری مجھ میں جو ہوتی دا تجھ سے بری شہرت نہیں برعکس ہے قصہ تیری ہستی تو مجھ سے ہے نہ میں ہوتا نہ تو ہوتی جہاں جاتا ہوں اُن کا خیال مجھ کو ڈھونڈ لیتا ہے نہ ہو تا پیار گر مجھ سے تو کیا یوں جستجو ہوتی نہ رہتی آرزو دل میں کوئی جز دید جاناناں کبھی پوری اعلیٰ یہ ہماری آرزو ہوتی اگر تم دامن رحمت میں اپنے مجھ کو لے لیتے تمہارا کچھ نہ جاتا لیک میری آبرو ہوتی نہ بنتے تم جو بیگا نے تو پھر پردہ ہی کیوں ہوا یہ یاد آکر خود بخود ہی رُو بُرد ہوتی در نے خانہ اُلفت اگر میں وا کبھی پاتا تو بس کرتا نہ گھونٹوں پر صراحی ہی سٹو ہوتی مری جنت تو یہ تھی میں ترے سایہ کیلئے بہت رواں دل میں سے عرفان بے پایاں کی خبر ہوتی تسلی پاگیا تو کس طرح ؟ تب ملف تھا سالک کہ آنکھیں چار ہوئیں اور باہم گفتگو ہوتی ہوئی ہے پارہ پارہ چادر تقومی مسلماں کی تیرے ہاتھوں سے ہوسکتی تھی مولی گر رٹو ہوتی اخبار الفضل جلد ۹ - ۵ر جنوری ساله

Page 121

1.6 ٹنگ بھی رشک ہیں کے لئے وہ خوش نصیب ہوں میں وہ آپ مجھ سے ہے کہتا نہ ڈر قریب ہوں میں غضب ہے شاہ بلائے اسلام منہ موڑے ستم ہے چپ رہے یہ، وہ کسے طبیب ہوں میں دہ بوجھ اٹھا نہ سکے میں کو آسمان و زمیں اُسے اُٹھانے کو آیا ہوں کیا عجیب ہوں میں مقابلہ پر مدد کے بہ گالیاں دُوں گا کہ وہ تو ہے وہی جو کچھ کہ ہے نجیب ہوں میں ہے گالیوں کے سوا اس کے پاس کیا رکھا غریب کیا کرے مخفی ہے وہ شعیب ہوں میں کرے گا فاصلہ کیا جب کہ دل اکھٹے ہوں ہزار دور ہوں اس سے پھر قریب ہوں میں ہے عقل نفس سے کہتی کہ ہوش کرنا واں مرا رقیب ہے تو اور تری رقیب ہوں میں کر اپنے فضل سے تو میرے ہم سفر پیدا کہ اس دیار میں اسے جان من غریب ہوں میں ہرے پکڑنے پہ قدرت کہاں تجھے میاد کہ باغ حسن محمد کی عندلیب ہوں میں نہ سلطنت کی تمنا نہ خواہش اکرام میں ہے کافی کہ مولیٰ کا اک نقیب ہوں میں میری طرف چلے آئیں مریض رُوحانی ر کہ ان کے دردوں دُکھوں کے لیے طبیب ہوں میں اخبار الفضل مبله ۱۰- ۲ اکتوبر ۲۲ له

Page 122

۱۰ 41 میرے مولیٰ مری بگڑی کے بنانیوالے میرے پیارے مجھے فتنوں سے بچا نیوالے جلوہ دکھلا مجھے او پیرہ چھپانے والے رحم کر مجھ پہ اورمنہ پھیر کے جانے والے میں تو بلد نام ہوں میں دم سے ہوتا ہوں عاشق کہ لیں جو دل میں ہو الزام لگانے والے تشنہ لب ہوں بڑی مد سے خُدا شاہد ہے بھرے اک جام تو کوثر کے کٹانے والے ڈالتا جائنگر مر بھی اس نمیگیں پر نظر قہر سے مٹی میں ملانے والے کبھی تو جلوہ بے پردہ سے ٹھنڈک پہنچا سینہ و دل میں میرے آگ لگانے والے مجھ کو تیری ہی قسم کیا یہ دن داری ہے دوستی کر کے مجھے دل سے بھلانے والے کیا نہیں آنکھوں میں اب کچھ بھی مروت باقی مجمد مصیبت زدہ کو آنکھیں دکھانے والے مجھ کو دکھلاتے ہوئے آپ بھی رہ کھو بیٹھے اے جھنر کیسے ہو تم راہ دکھانے والے جعفر ڈھونڈتی ہیں مگر آنکھیں نہیں پاتیں اُن کو میں کہاں کہ مجھے روتے کو ہنسانے والے ساتھ ہی چھوڑ دیا سر بلے شب ظلمت میں ایک آنسو میں لگی دل کی بجھانے والے تا قیامت رہے جاری یہ سخاوت تیری او میرے گنج معارف کے لٹانے والے رہ گئے منہ ہی ترا دیکھتے وقت رحلت ہم پسینہ کی جگہ خون بہانے والے ہو نہ تجھ کو بھی خوشی دونوں جہانوں میں نصیب کوچہ یار کے رستہ کے بھلانے والے ہم تو ہیں شبح و مسا رنج اُٹھانے والے کوئی ہوں گے کہ جو ہیں میں منانے والے مجھ سے بڑھ کر ہے میرا فکر تجھے دامن گیر تیرے قربان میرا بوجھ اٹھانے والے خيار الفضل مینه ۱۰-۲۷ نومبر لله

Page 123

۶۲ پیٹھ میدان ونا میں نہ دکھائے کوئی منہ پہ یا عشق کا پھر نام نہ لائے کوئی حسن فانی سے نہ دل کا لگائے کوئی اپنے ہاتھوں سے نہ تھاک اپنی اُڑائے کوئی کون کہتا ہے لگی دل کی بجھائے کوئی عشق کی آگ میرے دل میں لگائے کوئی صدمہ درد و غم وہ ہم سے بچائے کوئی اس گرفتار مصیبت کو چھڑائے کوئی رہ سے شیطان کو جب تک نہ بنائے کوئی اس کے ملنے کے لیے کس طرح آئے کوئی اپنے کوچے میں تو کتے بھی ہیں بن جاتے شیر بات تب ہے کہ میرے سامنے آئے کوئی دھوئی حسن بیاں پہنچ ہے میں تب جانوں مجھ سے جو بات نہ بن آئے بنائے کوئی ہجر کی آگ ہی کیا کم ہے جلانے کو ہے غیر سے بل کے مرا دل نہ دُکھائے کوئی دیدہ شوق اُسے ڈھونڈ ہی بے گا آخر لا کہ پردوں میں بھی گو خود کو چھپائے کوئی گرز و نگار کے اُٹھانے سے بھلا کیا حاصل خاک آلودہ برا اور کو اُٹھائے کوئی خفگی دو چار دنوں کی تو ہوئی پر یہ کی سالہا سال مجھے منہ نہ دکھائے کوئی جوعہ بادہ اُلفت جو کبھی مل جائے دُختِ رز کو نہ کبھی منہ سے لگائے کوئی تشنگی میری نہ پیالوں سے بجھے گی ہر گز غم کا غم ہے کے میرے منہ لگائے کوئی خلق و تکوین یہاں راست پر سچ پوچھو تو بات تب ہے کہ میری بگڑی بنائے کوئی دے دیا دل تو بھلا شرم رہی کیا باقی ہم تو جائیں گے بلائے نہ بلائے کوئی قرب اس کا نہیں پاتا نہیں پاتا محمود نفس کو خاک میں جب تک نے ملائے کوئی اخبار الفضل جلد ۱۰ جنوری ۱۹۲۳

Page 124

۶۳ - پردہ زلف دو تاریخ سے بہالے پیارے ہجر کی موت سے نہ بچائے پیارے چا در فضل رعایت میں چھپالے پیارے مجھے گنہ گار کو اپنا ہی بنا ہے پیارے نفس کی قید میں ہوں مجھ کو چھڑالے پیارے غرق ہوں بھر معاصی میں بچاے پیارے تو کے اور نہ مانے میرا دل ناممکن کس کی طاقت ہے ترے حکم کوٹالے پیارے جلد آجلد کہ ہوں لشکر امداد میں گھرا پڑتے ہیں مجھے اب جان کے لالے پیارے فضل کو فضل کہ میں یکہ و تنہا جاں ہوں میں مقابل پر حوادث کے رسالے پیارے رہ چکے پاؤں ، نہیں جسم میں باقی طاقت رحم کر گود میں اب مجھ کو اُٹھائے پیارے غیر کو سونپ نہ دیجو کہ کوئی مادرم در کر گیا تھا میں تیرے ہی حوالے پیارے دشت و کو ہسار میں جب آئے نظر جلوہ چھن تیرے دیوانے کو پھر کون سنبھالے پیارے کیوں کروں فرق یونسی دونوں مجھے کیساں ہیں سب تیرے بند ہیں گویے ہوں کہ کالے پیارے ہو کے کنگال جو عاشق ہو رخ سُلطاں پر حوصلے دل کے وہ پھر کیسے نکالے پیارے مجھ سے بڑھ کے میری حالت کو یہ کرتے ہیں بیاں منہ سے گو چپ میں میرے پاؤں کے چھالے پیارے ظاہری دُکھ ہو تو لاکھوں میں بندائی موجود دل کے کانٹوں کو مگر کون نکالے پیارے اختبار الفضل جلد ۱۰- د جنوری ساده

Page 125

训 ہم کو اک گھونٹ ہی دے مصدقہ میں مینا کے پی گئے لوگ نئے اس کے پیارے پیارے گرنه دیدار میسر ہو نہ گفتار نیب کو چہ عشق میں جا کر کوئی کیا ہے پیارے فضل سے تیرے جماعت تو ہوئی ہے تیار جزب شیطان کہیں رخنہ نہ ڈالے پیارے قوم کے دل پر کوئی بات نہیں کرتی اثر تو ہی کھولے گا تو کھولے گا یہ تالے پیارے پردہ غیب سے امداد کے ساماں کردے سب کے سب بوجہ میرے آپ اُٹھالے پیارے نام کی طرح مرے کام بھی کر دے محمود مجھ کو ہر قسم کے میلبوں سے بچالے پیارے

Page 126

۱۱۲ ۶۴ کیوں غلامی کروں شیطاں کی خُدا کا ہوکر اپنے ہاتھوں سے بڑا کیوں بنوں اچھا ہو کر مدعا تو ہے رہی جو رہے پورا ہو کر انتجا ہے وہی جو ٹوٹے پذیرا ہو کر درد سے ذکر ہوا پیدا ہواذکر سے جذب میری بیماری لگی مجھ کو مسیحا ہو کر رہ گیا سایہ سے محروم ہوا بے برکت سرد نے کیا لیا احباب سے اُونچا ہو کر جب نظر میری پڑی ماضی پر دل خون ہوا جان بھی تن سے میری نکلی پسینہ ہو کر چاہیئے کوئی تو تقریب تر خم کے لیے میں نے کیا لینا ہے اے دوستو اچھا ہو کر نہ ملے تو بھی دھٹرکتا ہے میں تو بھی اے دل تجھ کو کیا بیٹھنا آتا نہیں بنتا ہو کر حسن ظاہر یہ نہ تو بول که سوحسرت د غم پھوڑ جائے گا ہیں آخر یہ تماشا ہو کر اس کی ہر جنبش لب کرتی ہے مُردے زندہ حشر دکھلائے گا اب کیا ہمیں برپا ہو کر دل کو گھیرا نہ سکے لشکر افکار و هموم بارک اللہ ! لڑا خوب ہی تنہا ہو کر ہائے وہ شخص کہ جو کام بھی کرنا چاہے دل میں رہ جائے دہی اس کے تمنا ہو کر ایسے بیمار کا پھر اور ٹھکانا معلوم دے سکے تم نہ شفا جس کو میٹھا ہو کر انہ دہ غنی ہے یہ نہیں اس کو یہ ہرگز بھی پسند غیر سے تیرا تعلق رہے اُس کا ہو کر اخبار الفضل جلد ۱۱- ۴ / جنوری ۲۳

Page 127

IF ذلت ذبحبت و خواری ہوئی مسلم کے نصیب دیکھئے اور ابھی رہتا ہے کیا کیا ہو کر داغ بدنامی اُٹھائے گا جو ستی کی خاطر آسماں پر وہی چکے گا ستارا ہو کر غیر ممکن ہے کہ تو مائدہ سلطاں پر کھا سکے خوان صدایت سگ دُنیا ہو کر قلب عاصی جو بدل جائے تو کیوں پاک نہ ہو نے اگر طیب و صافی بنے سرکہ ہو کر حق نے محمود ترا نام ہے رکھا محمود چاہیے تجھ کو چمکنا ید بینا ہو کر

Page 128

۶۵ ہے رضائے ذات باری اب منائے قادیاں مدعائے حق تعالے مدعائے قادیاں رہ ہے خوش اموال پر، یہ طالب دیدار ہے بادشاہوں سے بھی فضل ہے گدائے قادیاں گر نہیں عرش معلی سے یہ کراتی تو پھر سب جہاں میں گونجتی ہے کیوں صدا قادیاں دعوی طاعت بھی ہوگا ادعائے پیار بھی تم نہ دیکھو گے کہیں لیکن وفائے قادیاں میرے پیارے دوستو تم دم نہینا جب تلک ساری دنیا میں نہ امرائے بوائے قادیاں بن کے سورج ہے چمکتا آسمان پر روز و شب کیا عجب معجز نما ہے رہنمائے قادیاں غیر کا افسون اس پر چل نہیں سکتا کبھی لے اڑی ہو جس کا دل زلف دوتائے قادیاں اسے بتو اب جستجو اس کی ہے امید محال لے چکا ہے دل میرا تو دلربائے قادیاں یا تو ہم پھرتے تھے اُن میں یا ہوا یہ انقلاب پھرتے ہیں آنکھوں کے ہو گے کو چہ ہائے قادیاں خیال رہتا ہے ہمیشہ اس مقام پاک کا سوتے سوتے بھی یہ کہ اٹھتا ہوں رائے قادیاں آہ کیسی خوش گھڑی ہوگی کہ با نیل مرام باندھیں گے رخت سفر کو ہم برائے قادیاں پہلی اینٹوں پر ہی رکھتے ہیں نئی اینٹیں پیش ہے تبھی چرخ چہارم پر بنائے قادیاں صبر کراسے ناقہ راہ ھدی بہمت نہ ہار دُور کر دے گی اندھیروں کو نیائے قادیاں ایشیا د یورپ و امریکہ و افریقہ سب دیکھ ڈالے پر کہاں وہ رنگ ہائے قادیاں منہ سے جو کچھ چاہے بن جائے کوئی پرتی یہ ہے ہے بہار اللہ فقط حسن و بہائے قادیاں ختن احمد کے پھولوں کی اُڑا لائی جو بُو زخم تازہ کر گئی بادِ صبا ئے قادیاں جب کبھی تم کو بے موقع دُعائے خاص کا یاد کر لینا ہیں اصل وفائے قادیاں اخبار الفضل مجلد ۱۲-۲۵ جولائی ۱۳۳ + سے یہ نظم حضور نے ۱۹ ء میں سفر یورپ کے دوران فرمائی تھی.

Page 129

ئیں تو کمزور تھا اس واسطے آیا نہ گیا کس طرح مانوں کہ تم سے بھی بلایا نہ گیا نفس کو بھولنا چاہا پر سبلایا نہ گیا جان جاتی رہی پر اپنے پرایا نہ گیا.عشق اک راز ہے اور راز بھی ایک پائے کا مجھ سے یہ راز صدافسوس چھپایا نہ گیا دیکھ کر ارض و سما بار گران تشریح رہ گئے ششدر و حیران اُٹھایا نہ گیا ہم بھی کمزور تھے طاقت نہ تھی ہم میں ہی کچھ قول آت کا مگر ہم سے ہٹایا نہ گیا کس طرح تجھ کو گناہوں پر ہوئی کیوں جرات اپنے ہاتھوں سے بھی زہر تو کھایا نہ گیا کفر نے لاکھ تدابیر کیں لیکن پھر بھی صفحۂ دہر سے اسلام مٹایا نہ گیا لا کس طرح کہ تدبیر ہی صائب نہ ہوئی دل میں ڈھونڈا نہ گیا غیر میں پایا نہ گیا اس کے جلوے کی تباؤں تمہیں کیا کیفیت مجھ سے دیکھا نہ گیا تم کو دکھایا نہ گیا جاہ دعزت تو گئے ، کہر نہ چھوٹا مسلم ! بھوت تو چھوڑ گیا تجھ کو پر سایا نہ گیا پین سے بیٹھتے تو بیٹھتے کس طرح کرانم دور بیٹا نہ گیا پاس بٹھایا نہ گیا جان محمود ترا حسن ہے اک حُسن کی کان لاکھ چاہا پہ ترا نقش اُڑایا نہ گیا اخبار الفضل جلد ۱۲ - ۷ار اگست ۱۱۲۳ه *

Page 130

46 مید دشکارِ غم ہے تو مسلم خستہ جان کیوں اٹھ گئی سب جہان سے تیرے لیے امان کیوں بیٹھنے کا تو ذکر کیا ، بھاگنے کو جگہ نہیں ہو کے فراغ اس قدر تنگ ہوا جہان کیوں ڈھونڈتے ہیں تبھی کو کیوں سارے جہاں کے مبتلا پیستی ہے تبھی کو ہاں گردش آسمان کیوں کیوں بنیں پہلی رات کا خواب تیری بڑائیاں قتہ ما معنیٰ ہوئی تیری وہ آن بان کیوں ہاتھ میں کیوں نہیں وہ زور بات میں کیوں نہیں اور چھینی گئی ہے سیف کیوں کاٹی گئی زبان کیوں واسطہ جہل سے پڑا وہم ہوار نیستی دہر علم کدھر کو چل دیا جاتا رہا بیان کیوں رہتی ہیں بے شمار کیوں تیری تمام منتیں تیری تمام کوششیں جاتی ہیں رائیگان کیوں سارے جہاں کے ظلم کیوں ٹوٹتے ہیں تبھی پر آج بڑھ گیا ستمبر سے عرصہ امتحان کیوں تیری زمیں سے بہن کیوں ہاتھ میں گبر سنت کے تیری تجارتوں میں ہے صبح دمسازیان کیوں کسب معاش کی رہیں تیری ہر اک گھڑی ہے جب تیر عزیز پھر بھی ہیں فاقوں سے نیم جان کیوں کیوں ہیں یہ تیرے قلب پر گھر کی چیرہ دستیاں دل ہوئی ہے تیرے وفصلت امتنان کیوں خلق ترے کدھر گئے خلق کو جن پہ ناز تھا دل تیرا کیوں بدل گیا بگردی تبرمی زبان کیوں تجد کو اگر خبر نہیں اس کے سبب کی مجھ سے سُن تجھ کو تاؤں میں کہ برگشتہ ہوا جہان کیوں منبع امن کو جو تو چھوڑ کے دور چل دیا تیرے لیے جہان میں امن ہو کیوں مان کیوں ہو کے غلام تو نے جب رسم وداد قطع کی اس کے علامہ ارم میں تجھ پہ ہوں اوران کیوں اخبار الفضل جلد ۱۲ - ۲۳ را گست ۱۹۲۴ به

Page 131

ЧА اصل پیغام ! یہ معلوم ہوا ہے مجھ کو بعض احباب وفا کیش کی تحریروں سے میرے آتے نہیں اور تم پہ کھلا ہے یہ راز تم بھی میدان دلائل کے ہورن بیروں سے تم میں وہ زور وہ طاقت ہے اگر چاہو تو چھلنی کر سکتے ہو تم پشت عدد تیروں سے آزمائش کے لیے تم نے پچھنا ہے مجھ کو پشت پر ٹوٹ پڑے ہو مری شمشیروں سے مجھ کو کیا شکوہ ہو تم سے کہ میرے دشمن ہو تم ٹونی کرتے چلے آئے ہو جب میں سے حق تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں میں یاد ہے وہ بچائے گا مجھے سارے خطا گیروں سے میری غیبت میں لگا لو جو لگانا ہو زور تیر بھی پھینکو کر و حملے بھی شمشیروں سے پھیر لو جتنی جماعت ہے میری بیعت میں باندھ لو ساروں کو تم مکروں کی زنجیروں سے پھر بھی مغلوب رہو گے میرے تایوم السبت ہے یہ تقدیر خداوند کی تقدیروں سے ماننے والے ہرے بڑھ کے رہینگے تم سے یہ قضادہ ہے جو بدلے گی نہ تدبیروں سے مجھ کو حاصل نہ اگر ہوتی جدا کی امداد کب کے تم چھید پچکے ہوتے مجھے تیروں سے ایک تنکے سے بھی بدتر تھی حقیقت میری فضل نے اس کے بنایا مجھے شہتیروں سے تم بھی گر چاہتے ہو کچھ تو جو اس کی طرف فائدہ کیا تھیں اس قسم کی تدبیروں سے نفس طامع بھی کبھی دیکھتا ہے روئے نجات فتح ہوتے ہیں کبھی ملک بھی کف گیری سے تم مرے قتل کو نکلے تو ہو پر غور کرو! شیشے کے ٹکڑوں کو نسبت بھلا کیا ہیں سے جن کی تائید میں مولی ہو انہیں کسی کا ڈر بھی میاد بھی ڈر سکتے ہیں نچیروں سے ۲۴ اخبار الفضل جلد ۱۲- در تمبر ہے حضور نے یہ نظم سید کے سفر یورپ کے دوران کسی تھی.۱۹۲۴ (ناشر)

Page 132

JJA نہیں مکن کہ میں زندہ رہوں تم سے جدا ہو کر رہوں گا تیرے قدموں میں ہمیشہ خاک پا ہو کر جو اپنی جان سے بیزار ہو پہلے ہی اے جاناں تمھیں کیا فائدہ ہو کا بھلا اس پر خفا ہو کر ہمیشہ نفس امارہ کی باگیں متام کر رکھیں گرا دے گا یہ سرکش ورنہ تم کو سیخ پا ہوکر علاج عاشق مضطر نہیں ہے کوئی دنیا میں اُسے ہوگی اگر راحت میسر تونٹ ہو کر خدا شاہد ہے اسکی راہ میں سے نے کی خواہش میں میرا ہر ذرہ تن ٹھیک رہا ہے التجا ہو کر پھرایسی کچھ نہیں پر دا کہ دکھ ہو یا کہ راحت ہو رہو دل میں میرے گر مر بھر تم کدھا ہو کر میری حالت پہ جاناں رحم آئے گا ہ کیا تم کو اکیلا چھوڑ دو گے بعد کو کیا تم باوفا ہو کر کہاں ہیں ماتی و بست زا در دیکھیں فن احمد کو دکھایا کیسی خوبی سے شیل مصطفیٰ ہو کر اخبار الفضل جلد ۱۲ - ۱۹ دسمبر ۲۲اء

Page 133

114 سیدہ مریم صدیقہ کی آمین مریم نے کیا ہے ختم قرآں اللہ کا ہے یہ اس پر احسان الفاظ تو پڑھ لیے ہیں سارے اب باقی ہے مطلب اوعرفاں اللہ سے یہ ہری دُعا ہے ان کو بھی کرے وہ اس پر آساں.آمین توفیق لے اُسے عمل کی کامل ہو ہر اک جہ سے ایماں - آمین ہراک جیسے مولیٰ کی عنایت و کرم کا سایہ ہے اس کے سر پہ ہر اک - آمین سلقہ میں ملائکہ کے کھیلے ہر دم ہے دُور اس سے شیطاں - آمین.ہو فضلِ خُدا کی اس پہ بارش پھیلا ہ سے خوب اس کا داماں.آمین ہو مریم رغم دل شکستہ ہو عادت مهر و لطف احساں - آمین سر وقت خیال یار ازلی دل نور وفا سے مہرتا ہاں.آمین ہو عرصہ منکر رشک گلشن میدان خیال صد گلستان - آمین آنکھوں میں حیا پیک رہی ہو منہ حکمت علم سے دُرافشاں.آمین نکروں سے خُدا اسے بچائے پیدا کرے نرمی کے ساماں.آمین ہو دونوں جہان میں معزز ہوں چھوٹے بڑے سبھی شنا خواں - آمین مرضی ہو خُدا کی اس کی مرمضی مولیٰ کی رضا کی ہو یہ جو یاں.آمین سب عمر بسر ہو اتتا میں ہر لحظہ رہے یہ زیر فرماں.آمین آمین.کہیں میری دعا پر بیٹھے ہیں تمام لوگ جو یاں.آمین مولیٰ سے دُعا سے پیاری بہنو ! تمکو بھی دکھائے وہ یہ خوشیاں آمین اخبار الفضل جلد ۱۲ - ۱۴ ر مئی ۱۹۲۵ ه

Page 134

دل میرا بے قرار رہتا ہے سینہ میرا نگار رہتا ہے نیک وبد کا نہیں مجھے کچھ ہوش سر میں ہر دم خمار رہتا ہے تیرے عاشق کا کیا بتائیں حال رات دن اشکبار رہتا ہے اس کی شب کا نہ پوچھ تو جس کا دن بھی تاریک و تار رہتا ہے دل مرا توڑتے ہو کیوں جانی آپ کا اس میں پار رہتا ہے کیا برائی یہ رسم ہے عاشق دے کے دل بے قرار رہتا ہے المدد ! ورنہ لوگ سمجھیں گے تیرا بندہ بھی خوار رہتا ہے مجھ کو گندہ سمجھ کے مست دشتکار قرب گلی میں ہی مار رہتا ہے ہے دل سوختہ کی بھاپ طبیب تو یہ بھا بخار رہتا ہے وحشت عارضی ہے ورنہ حضور کہیں بندہ فرار رہتا ہے باب رحمت نہ بند کیجئے گا ایک اُمیدوار رہتا.اس کو بھی پھینک دیجئے گا کہیں ایک مسٹمی غبار رہتا ہے فکر میں جس کی گھل رہے ہیں ہم ان کو ہم سے نھار رہتا ہے برکتیں دینا گالیاں سننا اب یہی کا روبار رہتا ہے فربہ تن کس طرح سے ہو محمود رنج وغم کا شکار رہتا ہے اخبار الفضل جلد ۱۲ - ۱۶ جون ۱۹۲۵ء ہے

Page 135

یاره ایی وقت کہ تھی جن کی انتظار رہ سکتے سکتے جن کی کروڑوں ہی مرگئے آئے بھی اور آکے پہلے بھی گئے وہ آہ: ایام سعد اُن کے بسرعت گذر گئے آمد تھی ان کی یا کہ حسدا کا نزدل تھا صدیوں کا کام تھوڑے سے عرصہ میں گر گئے ڈو پیٹر ہورہے تھے جو دس سے چوب خشک پڑتے ہی ایک چھینا ولن سے بھر گئے پل بھر یں میں سینکڑوں برسوں کی فصل گئی صدیوں کے بگڑے ایک نظر میں سدھر گئے پر کر گئے فلاح سے بھولی مراد کی دامان آرزو کو سعادت سے بھر گئے پر تم کو منی پڑے رہے غفلت میں خواب کی دیکھا نہ آنکھ کھول کے ساتھی کدھر گئے صد حیف ایسے وقت کو ہاتھوں سے کھو دیا واحسرتنا ! کہ جیتے ہی جی تم تو مر گئے سونگھی نہ ہوئے خوش نہ ہوئی دید گل نصیب افسوس دن بہار کے یونہی گزر گئے اخبار الفضل جلد ۱۲ - ۹ جون ۱۲۵

Page 136

کونسا دل ہے بوشہر منڈ احسان نہ ہو کونسی روح ہے جو خالف و ترسان نہ ہو میرے ہاتھوں سے بدا یار کا دامان نہ ہو میری آنکھوں سے کہ اوبل کبھی اک آن نہ ہو مصنفہ گوشت ہے وہ دل میں جو ایمان نہ ہو خاک سی خاک ہے وہ جسم میں گر جان نہ ہو اپنی حالت پہ یونسی فرم دستاران نہ ہو یہ سکوں پیش رو آمد طوفان نہ ہو مبتلائے غم و آلام پر خندان نہ ہو یہ کہیں تیری تباہی کا ہی سامان نہ ہو اپنے اعمال پہ غزہ ارے نادان نہ ہو تو بھلا چیز ہے کیا اُس کا جو احسان نہ ہو نہ ٹیمیں گے نہ نکلیں گے نہ ملیں گے سر بھی جب تلک سر بد ع د کفر کا میدان نہ ہو رنگ بھی روپ بھی ہوشن بھی ہو لیکن پھر فائدہ کیا ہے اگر سیرت انسان نہ ہو نہ سہی خود پر وہ کام تو کر تو جس میں غیر کا نفع ہو تیرا کوئی نقصان نہ ہو عشق کا دعوی ہے تو عشق کے آثار دکھا دعوی باطل ہے وہ جس دعوی پہ برہان نہ ہو مرحبا ! وحشت دل تیرے سب سے یہ نا میں ترے پاس ہوں سرگشته و حیران نہ ہو بادہ نوشی میں کوئی لطف نہیں ہے جبتک صحبت یار نہ ہو مجلس رندان نہ ہو مبیل زار تو مرجائے تڑپ کر فوراً گوگل تازہ نہ ہو بُوئے گلستان نہ ہو اخبار الفضل جلد ۱۲ - ۱۶ ربون له

Page 137

١٢٣ تیری خدمت میں یہ ہے عرض بعد عجز و نیاز قبضہ غیر میں اے جاں مری جان نہ ہو تو ہے مقبول الہی بھی تو یہ بات نہ بھول سامنے تیرے کوئی موسی عمران نہ ہو ابن آدم ہے نہ کچھ اور تجھے خیال رہے مد نسیان سے بڑھ کر کہیں عصیان نہ ہو مجھ میں ہمت ہے تو کچھ کر کے دکھا دُنیا کو اپنے اجداد کے اعمال پہ نازان نہ ہو اپنے ہاتھوں سے ہی خود اپنی عمارت مدگرا مخرب دین نہ بن دشمن ایمان نہ ہو ہی خود بود و احسان شہنشہ پر نظر رکھ اپنی بخور اخیار پر افسردہ و نالان نہ ہو اپنے اوقات کو اسے نفیس مریس و طابع شکر منت میں لگا طالب احسان نہ ہو آگ ہوگی تو دھواں اس سے اٹھے گا محمود غیر ممکن ہے کہ ہو عشق پہ اعلان نہ ہو

Page 138

۷۴ ہوتا تھا بھی میں بھی کسی آنکھ کا تارا بتلاتے تھے اک قیمتی دل کا مجھے پارا دنیا کی نگہ پڑتی تھی جن ماہ وشوں پر وہ بھی مجھے رکھتے تھے دل وجان سے پیارا ہو جاتی تھی موجود ہر اک نعمت دینا بس چاہئے ہوتا تھا میرا ایک اشارا مجھولوں کا مجوب تھا دلداروں کا دلدار معشوقوں کا معشوق دلاروں کا دلارا تھوڑی سی بھی تکلیف مری اُن پہ گراں تھی کرتے نہ تھے اک کانٹے کا چھنا بھی گوارا یا آج میرے حال پہ روتا ہے فلک بھی سورج کا جگر بھی ہے غم ورنج سے پارا یا غیر بھی آکر میری کرتے تھے خوشامد یا اپنوں نے بھی ذہن سے اپنے ہے اتارا یا میری ہنسی بھی تھی عبادت میں ہی داخل یا زهد و تعبد میں بھی پاتا ہوں خارا یا گند پھری ہاتھ میں دیتا نہ تھا کوئی یا زخموں سے اب جسم مرا چور ہے سارا یا زانوئے دلدار میرا تکیہ تھا یا آب سر رکھنے کو ملتا نہیں تھر کا سلا جو گھنٹوں محنت سے کیا کرتے تھے باتیں اب سامنے آنے سے بھی کرتے ہیں کنارا جس پر مجھے اُمید تھی شافع مرا ہو گا اس ساعت عسرت میں ہے اس نے بھی بیسارا ہے مہر جو جاں سوز تو فریاد حیاسوز بے تاب خموشی ہے نہ گویائی کا چارا اخبار الفضل جلد ۱۲ - ۹ جولائی شد

Page 139

۱۲۵ قونت تو مجھے چھوڑ چکی ہی تھی کبھی کی اب صبر بھی کیا جانے کدھر کو ہے سدھارا اب نکلوں تو کس طرح ان آنا سے نکلوں یہ ایسا سمندر ہے نہیں جس کا کنارا سالک تھا اسی منکر و غم و رنج میں ڈوبا جاگاہ اُسے باتت نیسی نے پکارا اے سید مصائب بنگہ یار کے کشتے میں نے تجھے مارا ہے رہی ہے ترا چارا تکلیف میں ہوتا نہیں کوئی بھی کسی کا اسباب بھی کر جاتے ہیں اس وقت برکنارا مرنا ہے تو اس در پہ ہی مرجی تو وہیں ہی ہوگا تو وہیں ہوگا ترے درد کا چارا مانا کہ ترے پاس نہیں دولت اعمال مانا تیرا دُنیا میں نہیں کوئی سہارا پر صورت احوال اُنہیں جا کے بتا تو شاہاں چه عجب گر بنوازند گدا را

Page 140

60 عشق و وفا کے افسانے پوچھو جو اُن سے زُلف کے دیوانے کیا ہوئے فرماتے ہیں کہ میری بلا جانے کیا ہوئے اے شمع رو بتار ترے پر دانے کیا ہوئے بل قبل کے مررہے تھے جو دیوانے کیا ہونے کیا نم خانہ دیکھتے تھے جو آنکھوں میں یار کی تھے بے پنے کے مست بوستانے کیا ہوئے جن پر ہر اک حقیقت مخفی تھی منکشف کہ واقفان را زده فرزانے کیا ہوئے سب لوگ کیا سب سے کہ بے کیف ہو گئے ساقی کدھر کو چل دیتے میخانے کیا ہوئے ابواب بغض و نذر و شقاوت میں کھل رہے عشق رونار مرکے افسانے کیا ہوئے اُمید وصل حسرت و غم سے بدل گئی نقش تدوم یار خُدا جانے کیا ہوئے اخبار الفضل جلد ۱۳ - ۱۲ را گست ۲۵ ہے نے اس نظم میں پہلا شعر حضور کی حرم محترمہ حضرت امتہ الحمی کا منتخب کردہ ہے باقی شعر حضور کے اپنے ہیں.

Page 141

فضل الہی کے غیبی سامان ہم انہیں دیکھ کے حیران کئے جاتے ہیں خود بخود چاک گریبان ہوئے جاتے ہیں دشمن آدم کے جو نادان ہوئے جاتے ہیں ہائے انسان سے شیطان ہوئے جاتے ہیں گیسوئے یار پریشان ہوئے جاتے ہیں اب تو واعظ بھی پشیمان ہوئے جاتے ہیں غیب سے فضل کے سامان ہوئے جاتے ہیں مرحلے سارے ہی آسان ہوئے جاتے ہیں حسن ہے داد طلب عشق تماشائی ہے لاکھ پردوں میں وہ عریان ہوئے جاتے ہیں تیری تعلیم میں کیا جادُو بھرا ہے مرزا جس سے حیوان بھی انسان ہوئے جاتے ہیں سینکڑوں عیب نظر آتے تھے جن کو اس میں وہ بھی اب عاشق قرآن ہوئے جاتے ہیں گورے کالے کی اٹھی جاتی ہے دنیا سے تمیز سب ترے تابع فرمان ہوئے جاتے ہیں سختہ اشک پروئی ہے وہ تو نے والہ گھر بھی اب تو مسلمان ہوئے جاتے ہیں مرد و زن عشق میں تریے ہمیں برابر سرشار ہر ادا پر تری قربان ہوئے جاتے ہیں ہے ترقی پہ میرا جوش جنوں ہر ساعت تنگ سب دشت بیابان ہوئے جاتے ہیں بیٹھ جاؤ ذرا پہلو میں میرے آگے کہ آج سب ارادے میرے ارمان ہوئے جاتے ہیں جوش گریہ سے پھٹا جاتا ہے دل پھر محمود اشک پھر قطرہ سے طوفان ہوئے جاتے ہیں - اختبار الفضل جلد ۱۳ - ۸ / جنوری ۱۹۲۶مه

Page 142

ITA 66 بخش دو رحم کرو شکوے گلے جانے دو مرگیا ہجر میں میں پاس مجھے آنے دو دوستو ! کچھ نہ کہو مجھ سے مجھے جانے دو نمبر ناز سے تم سر مجھے کٹوانے دو پڑ گئی جس پہ نظر ہو گیا مد ہوش رہی میرے دلدار کی آنکھیں ہیں کہ منانے دو دوستو ! رحم کرو کھول دو زنجیروں کو جا کے جنگل میں مجھے دل ذرا سہلانے دو سر ہے پر فکر نہیں ، دل ہے پر امید نہیں اب میں بس شہر کے باقی یہیں ویرانے دو تمھیں تریاق مبارک ہو مجھے زہر کے گھونٹ غم ہی اچھا ہے مجھے تم بھے غم کھانے دو دوستو آبجھ تو ہے زندگی اس موت کا نام یار کی راہ میں اب تم مجھے مرجانے دو دل کی دل جانے مجھے کام نہیں کچھ اس سے اپنی ڈالی ہوئی گئی اسے سکھانے دو نفس پر بوجھ ہی ڈالو گے تو ہو گی اصلاح اونٹ لاتے ہیں کونسی بینے چلانے دو فکر پر فکر تو غم پر ہے غموں کی بوچھاڑ سانس تو لینے دو تھوڑا سات ستانے دو اک طرف عقل کے شیطان تو اک جانب نفس ایک دانا کو میں گھیرے ہوئے دیوانے دو بھی غیرت کے بھی دکھلانے کا موقع ہو گا یا یو نہی کہتے چلے جاؤ گے تم جانے دو کٹ گئی عمر رگڑتے ہوئے ما تھا اور پر کاش تم کہتے کبھی تو کہ اسے آنے دو مجھ سے سے اور تو غیروں سے سے کچھ اور سلوک دلبرا آپ بھی کیا رکھتے ہیں پیمانے دو تن سے کیا جان جدا رہتی ہے یا جان سے تن راستہ چھوڑ دو دربانو مجھے جانے دو اخبار الفضل جلد ۱۴ - ۲۴ راگست شله

Page 143

CA تودہ قادر ہے کہ تیرا کوئی ہمسر ہی نہیں میں کو بے بس ہوں کہ بے دربھی ہوں بے پر ہی نہیں لذت جہل سے محروم کیا علم نے آہ ! خواہش اُڑنے کی تو رکھتا ہوں گر پرہی نہیں گھونسلے چڑیوں کے ہیں مانیں ہیں شیروں کیلیئے پر میرے واسطے دنیا میں کوئی گھر ہی نہیں نوف اگر ہے تو یہ ہے تجھ کو نہ پاؤں ناراض جان جانے کا تو اے جانِ جہاں ڈر ہی نہیں عشق بھی کھیل ہے ان کا کہ جو دل رکھتے ہیں ہو جو سودا تو کہاں ہو کہ یہاں سر ہی نہیں آنکھیں پرنم میں گڑ گڑے ہے سینہ ہے پاک یاد میں تیری تڑ تا دا منظر ہی نہیں ذرہ ذرہ مجھے کالم کا یہ کہتا ہے کہ دیکھ میں بھی ہوں آئنہ اس کا مہ و اختر ہی نہیں دل کے بہہ جانے کی نالے بھی خبر دیتے ہیں شاہد اس بات پہ نوک مشرہ تر ہی نہیں خواہش و مل کروں بھی تو کروں کیو کریں کیا کہوں اُن سے کہ مجھ میں کوئی جو ہری نہیں دل سے ہے وسعت ترجیب مبنت منقود ساقی استادہ ہے مینا لیے ساغر ہی نہیں قرب دلدار کی راہیں تو کھلی ہیں لیکن کیا کروں میں جسے اسباب میتر ہی نہیں ہے ظلم نفس ادھر شکر ادھر عالم کا پین ممکن ہی نہیں، امن مقدر ہی نہیں اخبار الفضل جلد ۱۴ - ۳۱ را گست ۱۹۲۶

Page 144

۱۳۰ 69 مرے ہمراز بیشک ال محبت کا ہے پیمانہ ہے اس کا حال برندانہ تو اس کی چال مستانہ کے جاں بجٹ لیتی ہے جہاں ہے یہ وہ میخانہ مگر وہ کیا کرے میں کا کردل ہو جائے ویرانہ نظر آئیں تمناؤں کی چاروں ہمت میں قبریں ہرے ہمراز کہتے ہیں کہ اک نئے نور ہوتی ہے جب آتی ہے تو تاریکی معا کا فور ہوتی ہے علاج رنج و غم ہائے دل رنجور ہوتی ہے طبیعت کتنی ہی افسردہ ہو مسرور ہوتی ہے گر ہم کیا کریں جن کے گردن بھی ہو گئے راتیں ہرے ہمراہ آنکھیں بھی نقل کی ایک نعمت میں ہزاروں دوستیں قربان ہوں جس پر وہ دولت ہیں بنائے جسم میں پہنچ ہے کہ باب علم وحکمت میں مثال خضر ہمراہ طلب گار زیارت ہیں مگر وہ منہ نہ دکھلائیں توپھر ہم کیا کریں آنکھیں دہ خوش قسمت ہیں جو گر پڑ کے اس مجلس میں اپنے بھی پاؤں پہ سر رکھا کبھی دامن سے جاہیے فرم میں طرح بن آیا مطالب اُن سے منوائے میرے ہمراز اپر وہ پرشکستہ کیا کریں جن کے ہوا میں اُڑگئے نالے ، گئیں بے کار فریادیں اخبار الفضل جلد ۱۴ - ۲۸ ستمبر ۱۱۲

Page 145

بجا ہے ساری دنیا ایک لفظ میں کا ہے نقش پدھر دیکھو چک اس کی مدھر کیوں طور اس کا میرے ہمراز سب دنیا کا کام اس میں پر ہے چلتا مگر میں بھی بھی ہوتی ہے جب ہو سامنا تو گا بھلا وہ کیا کریں مین کو جو ان کی یاد سے اُتریں دل مایوس سینہ میں اندھیرا چاروں جانب میں نہ آنکھیں ہیں کہ رہ پائیں نہ پر ہیں جن سے اڑ جائیں نہ احساس انا نیست کہ اس کے زور سے نہیں مرے دلدار ہم پر بندیں سب مسل کی راہیں سوا اس کے کراب خود آپ ہی کچھ لطف فرمائیں ہمارے بیکسوں کا آپ کے بن کون ہے پیارے نظر آتے ہیں مارے غم کے اب تو دن کو بھی تارے نہیں دل اپنے سینوں میں دیے ہیں بلکہ انگارے پھینکے جاتے ہیں سر سے پاؤں تک ہم ہمبر کے بارے بس اب تو رحم فرمائیں چلے آئیں چلے آئیں

Page 146

۱۳۲ پہنچائیں در پہ یار کے وہ بال و پر کہاں دیکھے جمال یار جو ایسی نظر کہاں کر دے رسا دُعا کو میری وہ اثر کہاں کھو دے جو سب گند میرے وہ چشم تر کہاں ہر شب اسی اُمید میں سوتا ہوں دوستو ! شاید ہو وسل یار میتر، مگر کہاں سجدہ کا اذن دے کے مجھے ماہور کیا پاؤں ترے کہاں مرا ناچیز سر کہاں میری طرح ہر اک ہے یہاں مبتلائے عشق حیران ہوں کہ ڈھونڈوں میں اب نامہ بر کہاں از بس که انفعال سے دل آب آب تھا آنکھوں سے بہہ گیا میرا نور نظر کہاں فرقت میں تیری ہر جگہ ویرانہ بن گئی اب زندگی کے دن یہ کروں میں بسر کہاں هر لحظه انتظار ہے ہر وقت جستجو رہتا ہے اب تو منہ پہ میرے بس کدھر کہاں جب نقد جان سونپ دیا تجھ کو جان من پاس آسکے بھلا مرے خوف و خطر کہاں کچھ بھی خبر نہیں کہ کہاں ہوں کہاں نہیں جب جان کی خبر نہیں تن کی خبر کہاں حیران ہوں کہ دن کسے کہتے ہیں دوستو! سُورج ہی جب طلوع نہ ہو تو سحر کہاں عاشق کے آنسوؤں کی ذرا آب دیکھ لیں میرے کہاں ہیں لعل کہاں ہیں گھر کہاں درد آشنائی غم ہجراں میں میں کہاں فرقت نصیب مادر و نا قد پدر کہاں اخبار الفضل جلد ۱۴- ۱۹ اکتوبرته

Page 147

١٣٣ اے دل اُسی کے در پہ بس اب جا کے بیٹھ جا مارا پھروں گا ساتھ ترے در بدر کہاں تیری نگاہ لطف اُتارے گی مجھ کو پار کئے ہیں مجھ سے عشق کے یہ بحروبر کہاں دیکھوں کہ پھینکتی ہے قضا و قدر کہاں ہچکولے کھا رہی ہے میری ناؤ دیر.ہے دیکھو کہ دل نے ڈالی ہے جاکر کہاں کنند کودا تو ہے یہ بحر محبت میں پر کہاں ممکن کہاں کہ غیر کرے مجھ سے ہمسری وہ دل کہاں وہ گھر دے کہاں وہ جگر کہاں

Page 148

۱۳۴ M ستی پٹیم میری ناکام ہوتی جاتی ہے صبح آتی ہی نہیں شام ہوئی جاتی ہے وہ سب شرع میں گویائی پر آمادہ پھر سخت ارزاں مئے گلفام ہوئی جاتی ہے تکلف خلوت جو اُٹھانا ہو اُٹھا لو یارو دعوت پیر مغاں عام ہوئی جاتی ہے مضطرب ہو کے چلے آتے ہیں میری جانب موت ہی وصل کا پیغام ہوئی جاتی ہے ان کو اظہار محبت سے ہے نفرت محمود آہ میری یونسی بدنام ہوئی جاتی ہے عشق ہے جلوہ فگن فطرت وحشی پہ میری دیکھ لینا کہ ابھی رام ہوتی جاتی ہے راتِ زُلف تو دیکھو کہ بروزِ روشن در پئے قتل سر بام ہوئی جاتی ہے خود سری تیری گر اسلام ہوئی جاتی ہے ان کی نجش بھی تو انعام ہوتی جاتی ہے لذت میں جہاں دیکھ کے بھولا مسلم دانہ سمجھا تھا جسے دام ہوئی جاتی ہے کیا سبب ہے کہ تجھے دے کے دل ایسے چشمہ فیض میری جاں معرض الزام ہوتی جاتی ہے پھر مئے جاتے ہیں ہر قسم کے دُنیا سے فساد عقل پھر تابع الام ہوئی جاتی ہے از احمدی جنتری اره مطبوعه دسمبر ۱۱۲

Page 149

۱۳۵ Ar یہ خاکسار نابکار دلبراڈ ہی تو ہے کہ جس کو آپ کہتے تھے ہے بادفا وہی تو ہے جو پہلے دن سے کہہ چکا ہوں دعاؤ ہی تو ہے میری طلب کوہی تو ہے میری دُعا ہی تو ہے جو غیر بنگہ نہ ڈالے آشنا وہی تو ہے جو غیر کے سوا نہ دیکھے چشم وا ر ہی تو ہے نظر تھی جس پر رحم کی جو خوشہ چین فضل تھا دلی غلام جاں نثار آپ کا وہی تو ہے یہ بے رخی ہے کسی بہت سے میں رہی ہوں کہ تھا میرے گنہ وہی تو ہیں میری خطا وہی تو ہے سزائے عشق ہجر ہے جزائے مبر وصل ہے میری سزا د ہی تو ہے میری جزاء ہی تو ہے نہیں ہیں میرے قلب پہ کوئی نئی تجلیاں حرامیں تھا جو جلوہ گر میرا خدا وہی تو ہے نہیں ہے جس کے ہاتھ میں کوئی بھی تو ہی تو ہوں جو ہے قدیر خیر و شر میرا خدا وہی تو ہے بھنور میں پھنس رہی ہے گو نہیں ہے خوف ناؤ کو بچایا جس نے نوح کو تھا نا خُدا وہی تو ہے ہے جس کا پھول خوشنما ہے جس کی چال جانفزا میرا جین وہی تو ہے میری صبا د ہی تو ہے از احمد می جنتری ۱۹۲ مطبوعہ دسمبر ۹۲

Page 150

Ar تیرے در پر ہی میری جان نکلے خدایا یہ میرا ارمان نکلے نکل جائے مری جاں خواہ تن سے نہ دل سے پر میرے ایمان نکلے ہوں اک عرصہ سے نوابان اجازت میرے بارے میں بھی فرمان نکلے میرے پاس آئے اللہ بیٹھ جاؤ کہ پہلو سے میرے شیطان نکلے سمجھتا تھا ارادے ساتھ دیں گے مگر وہ بھی یونسی مہمان نکلے مجھے سب رنج و کلفت بھول جائے جو تیری دید کا ارمان نکلے گنوا دی رقشر کی خواہش میں سب عمر دریغا اہم بہت نادان نکلے ہوا کیا سیر عالم کا نتیجہ پریشاں آئے تھے حیران نکلے تیرے ہاتھوں سے اے نفس دنی من جنھیں دیکھا وہی نالان نکلے ٹا دوں جان و مال و آبرو سب جو میرے گھر بھی تو آن نکلے نکلتی ہے میری جاں تو نکل جائے نہ دل سے پر ترا پیکان نکلے نہ پایا دوسرا تجھ سا کوئی بھی زمین و آسماں سب چھان نکلے غضب کا ہے تیرا یہ حسن مخفی جنیں دیکھا ترے خواہان نکلے تری نسبت منے تھے جس قدر عیب وہ سارے جھوٹ اور بہتان نکلے کبھی نکلے نہ دل سے یاد تیری کبھی سر سے نہ تیرا دھیان نکلے نہ کی ہم نے کمی کچھ مانگنے میں مگر تم بخششوں کی کان نکلے سمجھتا تھا کہ ہوں سید مصائب مگر سوچا تو سب احسان نکلے از احمدی جنتری سایه مطبوعہ دسمبر ۹۲

Page 151

174 ہے زمیں پرسہ مرا لیکن وہی میجود ہے آنکھ سے او قبل ہے گو دل میں وہی موجود ہے مطلقا غیر از فنا راه بقا مسدود ہے مٹ گیا جو راہ میں اس کی وہی موجود ہے سوچتا کوئی نہیں فردوس کیوں مقصود ہے آرزو باقی ہے لیکن مدعا مفقود ہے شاید اس کے دل میں آیا میری جانب سے غبار آسماں چاروں طرف سے کیوں غبار آلود ہے وہ مرا ہے کا ایک میں ہوں اس کا از ازل مجھ کو کیا خور و جناں سے دُہ مرا مقصود ہے احتیاج اک نقص ہے جلوہ گرمی ہے اک کمال مقتضائے حسن سر شاہد و مشہور ہے بے ہنر کو پوچھتا رہی کون ہے دُنیا میں آج ہے کوئی تو تجھ میں جو ہر تو اگر محمود ہے مانگ پر ہوتی ہے پیداوار چونکہ وہ نہیں جنس تقومی اس لیے دُنیا سے اب مفقود ہے کیوں نہ پاؤں اُس کی درگہ سے جبرا بے حساب ہے میری نیست تو بے حد گو عمل محدد ہے دل کی حالت پر کسی بندے کو ہو گیا اطلاع بس وہی محمود ہے جو اس کے ہاں محمود ہے مدعا ہے میری ہستی کا کہ مانگوں بار بار مقتضا اُن کی طبیعت کا سنخاد جُود ہے باپ کی سنت کو چھوڑا ہو گیا میسر ہوا ابن آدم بارگہ سے اس لیے منظرور ہے جب تملک تدبیر پنجه کش نہ ہو تقدیر سے آرزو بے فائدہ ہے التجا بے سود ہے عشق و بیکاری اکٹھے ہو نہیں سکتے کبھی عرصہ سعی محبتاں تا ابد ممدود ہے از احمدی جنتری شده مطبوعه دسمبر شد *

Page 152

۱۳۸ ۸۵ میں تمھیں جانے نہ دوں گا کیا محبت جائے گی یوں کیا پڑا روؤں گا میں خوں یاد کر کے چشم کے گوں میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا خواہ تم کتنا ہی ڈانٹو خواہ تم کتنا ہی کوسو خواہ تم کتنا بھی جھڑ کو میں تمھیں جانے نہ دوں گا تم میں تمھیں جانے نہ دوں گا کیا ہوئی اُلفت ہماری کیا ہوئی چاہت تمہاری کھا چکا ہوں زخم کاری میں تمھیں جانے نہ دوں گا ئیں تھیں جانے نہ دوں گا مجھ سے تم نفرت کرو گے سامنے میرے نہ ہو گے ساتھ میرا چھوڑ دو گے میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا دل میں رکھوں گا چھپا کر آنکھ کی پتلی بنا کر اخبار المفضل جلد ۱۵- ۱۰ فروری شاه

Page 153

پنے سینے سے لگا کر میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا اس قدر محنت اُٹھا کر دولت راحت کا کر تم کو پایا جاں گنوا کر اب تو میں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا آسماں شاہد نہیں کیا میرے اقتدار وفا کا اے میری جان میرے سوئی میں تمہیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا تم ہو میری راحتِ جاں تم سے وابستہ ہے ارمان زور سے پکڑوں گا داماں میں تمھیں جانے نہ دوں گا ئیں تمھیں جانے نہ دوں گا کیا سُناتے ہو مجھے تم کیوں بتاتے ہو مجھے تم بس بناتے ہو مجھے تم میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا سد کو پاؤں پر دھروں گا آنکھیں تلووں سے کلموں گا نقش پا کو چوم لوں گا میں تمہیں جانے نہ دوں گا ئیں تمھیں جانے سنہ دوں گا کیا ملات توں کی رائیں تھیں جو مجھ کو شب براتیں یوں ہی ہو جائیں گی باتیں میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا

Page 154

میری حالت پر نظر کر عیب سے سے غض بصر کر ڈھیر ہو جاؤں گا مرکز پر تجھے جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا ٹوٹ جائیں کس طرح سے عمر کے مضبوط رشتے اس لیے ہم کیا ملے تھے میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا خواہ مجھ سے روٹھ جاؤ مُنہ نہ سالوں تک دکھاؤ یاد سے اپنی بھلاؤ میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا تم تو میرے ہو چکے ہو تم میرے گھر کے دیے ہو میرے دل میں بس رہے ہو میں تمہیں جانے نہ دوں گا میں تمہیں جانے نہ دوں گا آؤ آؤ مان جاؤ مجھ کو سینے سے لگاؤ دل سے سب شکوے بناؤ میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا *

Page 155

۱۴۱ اک عمر گذر گئی ہے روتے روتے دامان عمل کا داغ دھوتے دھوتے یاران وطن یہ خواب جنت کسی کام دوزخ میں پہنچ چکے ہو سوتے سوتے آتا ہے تو اب گنہ میں نطف آتا ہے نوبت یہ پہنچ گئی ہے ہوتے ہوتے کیا کعبہ کو جاؤ گے تبھی تم جس وقت تھک جاؤ گے کشت ظلم ہوتے ہوتے چھانا کئے سب جہاں کو ان کی خاطر جب دیکھا تو دیکھا ان کو سوتے سوتے.دیکھا نہ نگاہ یار پا لی ہم نے فُرقت میں جو اس و ہوش کھوتے کھوتے اخبار الفضل جلد ۱۹-۶ ر جولائی مسئلہ

Page 156

AL میں اپنے پیاروں کی نسبت ہرگز نہ کروں گا پسند بھی وہ چھوٹے درجہ پہ راضی ہوں اور اُن کی نگاہ رہے پنچی وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر شیروں کی طرح غراتے ہوں اونی سا تصور اگر دیکھیں تو منہ میں گف بھر لاتے ہوں وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر امید لگائے بیٹھے ہوں وه ادنی اونی خواہش کو مقصود بنائے بیٹھے ہوں شمشیر زباں سے گھر بیٹے دشمن کو مارے جاتے ہوں میدان عمل کا نام بھی لو تو جھینتے ہوں گھبراتے ہوں گیدڑ کی طرح وہ تاک میں ہوں شیروں کے شکار پہ جانے کی بیٹھے خوابیں دیکھتے ہوں وہ ان کا جوٹھا کھانے کی الفت کے طالب! یہ میرے دل کا نقشہ ہے اب اپنے نفس کو دیکھ لے تو وہ ان باتوں میں کیسا ہے اور اے میری اخبار الفضل جلد ۱۷ ۰ار جنوری منتشله 11-14

Page 157

گر تیری ہمت چھوٹی ہے گر تیرے اراد سے مردہ ہیں گر تیری اُمنگیں کو تہ ہیں گر تیرے خیال افسردہ ہیں کیا تیرے ساتھ لگا کر دل میں خود بھی کمینہ بن جاؤں ہوں جنت کا مینار ، مگر دوزخ کا زینہ بن جاؤں ہے خواہش میری اُلفت کی تو اپنی نگاہیں اُونچی کر تدبیر کے جالوں میں مت پھنس کر قبضہ جا کے معتذر پر میں واحد کا ہوں دل داده اور واحد میرا پیارا ہے گر تو بھی واحد بن جائے تو میری آنکھ کا تارا ہے تو ایک ہو ساری دنیا میں کوئی سا بھی اور شریک نہ ہو تو سب دُنیا کو دے لیکن خود تیرے ہاتھ میں بھیک نہ ہو

Page 158

۱۳۴ ندایا اے میرے پیارے خُدایا الہ العالمين رب البرایا میک و مالک و خلاق عالم رحیم و راحم و بحر العطایا تری درگہ میں اک اُمید ہے کہ تیرا اک بندہ عامی ہے آیا وہ خالی ہاتھ ہے ہر پیشکش سے نہیں لایا وہ ساتھ اپنے ھدایا جو تُو نے دی تھی اس کو طاقت خیر وہ کر بیٹھا ہے اس کا بھی صفایا ره حیوانوں سے بدتر ہو رہا ہے نہیں تقویٰ میں حاصل کوئی پایا رسمٹ کر بن گئی نیکی سویدا اُفق پر چھا گئیں اس کی خطایا بتاؤں کیا کہ شیطاں نے کہاں سے کہاں لے جائے ہے اس کو گرایا نہیں آرام پل نمبر بھی میسر ہے اس ظالم نے کچھ ایسا ستایا جہاں کا چپہ چپہ دیکھ ڈالا مگر کوئی ٹھکانا بھی نہ پایا ہوا مایوس جب چاروں طرف سے نہ جب کوشش نے اس کا کچھ بنایا تو ہر پھر کر یہی تدبیر شو بھی تری تقدیر کا در کھٹکھٹایا یہی ہے آرزو اس کی الٹی یہی ہے التبہ اس کی خُدایا کہ مشرق اور مغرب دیکھ ڈالے سکوں لیکن کہیں اس نے نہ پایا تری درگاہ میں وہ آخر الامر تمنا دل میں لے کر ہے یہ آیا تری رحمت کی دیواروں کے اندر کلام اللہ کا مل جائے سایا تو وہ دھونی محبت کی رہا کر جلا دے سب جہالت اور مایا اخبار الفصل جلد ۱۷ ۱۷ر جنوری سنه

Page 159

۱۴۵ عزیزان امته السلام بیگم - مرزا نا صراحه - ناصرہ بیگم - مرزا مبارک احمد - امته القوم بگیرم مرزا منور احمد - امته الترسشید بیگم امتہ العزیز بیگم سلمهم الله و بارك لهم : مرا دل ہو گیا خوشیوں سے معمور ہوئے ہیں آج سب رنج و الم دور نوید راحت افزا آرہی ہے بشارت ساتھ اپنے لا رہی ہے سلام - اللہ کی پہلی عنایت مسیحا نے جسے بخشی تھی برکت میرا ناصر - مرا فرزند اکبر ملا ہے جس کو حق سے تاج و افسر ده میری نافترہ وہ نیک اختر عقیله با سعادت پاک بوهر مبارک جو کہ بیٹا دوسرا ہے ندا نے اپنی رحمت سے دیا ہے بری تسیوم - میرے دل کی راحت خدا نے جس کو بخشی ہے سعادت منور جو کہ مولیٰ کی عطا ہے بشارت سے خدا کی جو ملا ہے رشیدہ جس کو حق نے رُشد بخشا بنایا نیک طینت اور اپنا عزیزہ سب سے چھوٹی نیک فطرت بہت خاموش پائی ہے طبیعت یہ سارے ختم قرآن کر چکے ہیں دلوں کو نور حق سے بھر چکے ہیں خُدا کا فضل ان پر ہو گیا ہے کلام اللہ کا خلعت ملا ہے یہ نہت سارے انعامور کی میں ہے جو سچ پوچھو یہی باغ جناں ہے اخبار الفضل میلد ۱۹ - ، جولائی اس نے حفظ قرآن

Page 160

فی ہے ہم کو یہ فضل خدا سے جیب پاک حضرت مصطفے سے شد کولاک یہ نعمت نہ پاتے تو اس دُنیا سے ہم اندھے ہی جاتے گنجا ہم اور کتب مولیٰ کی باتیں کجا دن اور کجا تاریک راتیں رسائی کب تھی ہم کو آسماں تک جو اُڑتے بھی تو ہم اُڑتے کہاں تک خدا ہی تھا کہ جس نے دی یہ نعمت محمدی ہی تھے ہو لائے یہ فلکت پس اے میرے عزیزو میرے بتوں دل و جاں سے اسے اسے مجوب رکھو یہی ہے دین و دنیا کی بھلائی اسی سے دُور رہتی ہے بُرائی اسی سے ہوتی ہے راحت میتر اِسی میں دیکھتے ہیں رُوئے دبر میں لے جاتی ہے مولیٰ کے ڈر تک یہی پہنچاتی ہے مومن کو گھر تک خدایا اے میرے پیارے خُدایا اله العالیس رب البرايا ہو سب میرے عزیزوں پر عنایت ہے تجھ سے انہیں تقویٰ کی خلعت کلام اللہ پر ہوں سب دُه عامل نگا ہوں میں تیری ہوں نفس کامل بس اک تیری ہی ان کے دل میں جاہو نہ دیکھیں غیر کو کوئی ہو کیا ہو محبت تیری اُن کے دل میں رچ ملائے ہر اک شیطان کے پنجے سے بچ جائے علوم آسمانی اُن کو مل جائیں دلوں کی اُن کے کلیاں خوب کھل جائیں ترا السام بھی ہو ان پہ نازل تیرا اکرام بھی ہو ان کے شامل کریں تیرے فرشتے ان سے باتیں معارف کی نہیں سینوں میں نہریں ہر هراگ ان میں سے ہو شمع ہدایت بتائے اک جہاں کو راز قدرت دلوں کو نور سے ہوں بھرنے والے ہوں تیری رہ میں ہر دم مرنے والے بڑائی دشمنوں کی بھی نہ چاہیں ہمیشہ خیر ہی دیکھیں نگاہیں

Page 161

۱۴۷ لڑائی اور جھگڑے دُور کر دیں دلوں کو پسیار سے معمور کر دیں جو بیکس ہوں یہ ان کے یار ہو جائیں سر ظالم پر اک تلوار ہو جائیں بنیں ابلیس نافرماں کے قاتل لوائے احمدیت کے ہوں حال میدان وفا میں جب بھی آئیں تو دل اعدام کے سینوں میں دُہل جائیں بنائے بشرک کو بڑے پلا دیں نشان کفر و بدعت کو ہٹا دیں خدا کا نور چمکے ہر نظر میں ملک آئیں نظر چشم بشر میں بڑھیں اور ساتھ دُنیا کو بڑھائیں پڑھیں اور ایک عالم کو پڑھائیں اپنی دُور ہوں ان کی بلائیں پڑیں دشمن پر ہی اس کی جفائیں اہی تیز ہوں ان کی نگاہیں نظر آئیں سبھی تقویٰ کی راہیں ہوں بحر معرفت کے یہ شناور سمائے علم کے ہوں مہر یہ قصیر احمدی کے پاسباں ہوں یہ ہر میداں کے یا رب پہلواں ہوں شریا سے یہ پھر ایمان لائیں یہ پھر واپس تیرا قرآن لائیں انور

Page 162

۱۴ 9.وہ پھلک رہا ہے میرے غم کا آج پیمانہ کسی کی یاد میں میں ہو رہا ہوں دیوانہ زمانہ گذرا کہ دیکھیں نہیں وہ مست آنکھیں کہ جن کو دیکھ کے میں ہو گیا تھا مستانہ ده شمع رو کہ جسے دیکھ کر ہزاروں شمع بھڑک اُٹھی تھیں بسوز ہزار پروانہ دہ جس کے چہرہ سے ظاہر تھا نور ربانی ملک کو بھی جو بناتا تھا اپنا دیوانہ کہاں ہے وہ کہ ملوں آنکھیں اسکے تلوں سے کہاں ہے وہ کہ گروں اس پر مثل پروانہ وہ محبتیں کہ نئی زندگی دلاتی تھیں وہ آج میرے لینے کیوں بنی ہیں افسانہ ده یار جس کی محبت پہ ناز تھا مجھ کو کوئی بتاؤ کہ کیوں ہو رہا ہے بیگانہ جو کوئی روک تھی اس کو یہاں پر آنے کی بلا لیا نہ رہیں کیوں نہ اپنا دیوانہ نہ چھیڑ دشمن ناداں نہ چھیڑ کہتا ہوں چھلک رہا ہے مرے غم کا آج پیمانہ تری نیستیں بے کار تیرے کمر فضول یہ چھیڑ جائے کسی اور جاپہ افسانہ چھڑائے گا بھلا کیا دل سے میرے یا داس کی تو اور مجھ کو بناتا ہے اُس کا دیوانہ نہ تیرے ظلم سے ٹوٹے گا رشتہ الفت نہ حرص مجھ کو بنائے گی اُس سے بیگانہ ہے تیری سعی دلیل حماقت مطلق ہے تیری جد و جہد ایک فعل طفلانہ ترا خیال کدھر ہے یہ سوچ اے ناداں رہا ہے دُور کبھی شرع سے بھی پروانہ حدیث مدرسه و خانقاه مگو بخدا فتاد بر سر حافظ ہوائے میخانہ اخبار الفضل جلد ۲۰- یکم جنوری ساند

Page 163

حضرت سید مسار بیگم کی وفات پر کر رحم اے رحیم مرے حال زار پر زخم جگر پہ دردِ دل بے قرار پر مجھ پر کہ ہوں عزیزوں کے حلقہ میں مثل غیر اس بے کس و نحیف و غریب الدیار پر جس کی حیات اک ورق سوز و ساز تھی جیتی تھی جو غذائے تمنائے یار پر مقصود جس کا علم و تعٹی کا حصول تھا رکھتی تھی جو بنگر نگر لطف یار پر تھی ماحصل حیات کا اک سئی ناتمام کائی گئی غریب حوادث کی دھار پر دل کی اُمیدیں دل ہی میں سب دفن ہو گئیں پائے اُمید ثبت رہا انتظار پر ہاں اسے مغیث سُن لے میری التجا کو آج کر رحم اس وجود محبت شعار به سر اُس نے گسار بادہ اُلفت کی رُوح پر اُس بوستان عشق و وفا کی مزار پر ہاں اُس شھید علم کی تربت پہ کر نزول خوشیوں کا باب کھول غموں کی شکار پر میری طرف سے اس کو جزا ئے نیک دے کر رحم اے رحیم دل سوگوار پر حاضر نہ تھا وفات کے وقت اے کے خُدا بھاری ہے یہ خیال دل ریش و زار پر ڈرتا ہوں کہ مجھے نہ کسے با زبان حال جاؤں کبھی دُعا کو جو اس کے مزار پر سر جب مرگئے تو آئے ہمارے مزار پر اختبار الفضل جلد پھتر پڑیں صنم ترے ایسے پیار پر ۲۱ - ۱۹ جولائی دا پہلے حضور کی حرم محترم جنون سر میں وفات پائی.انا لله وانا اليه راجعون

Page 164

۱۵۰ ۹۲ آه پھر موسم بہار آیا دل میں میرے خیالِ یاد آیا لالہ و گل کو دیکھ کر محمود یاد مجھ کو وہ گلزار آیا زخم دل ہو گئے ہرے میرے ہر چمن سے میں اشکبار آیا خوں رُلاتا تھا لالہ زار کا رنگ مجلس یار کی بہار کا رنگ تازہ کرتے تھے یاد اس کی پھول یاد آتا تھا گلزار کا رنگ لوگ سب شادمان و خوش آئے ایک میں تھا کہ سوگوار آیا سبزہ گیاہ کا کہوں کیا حال چپہ چپہ پہ ڈالتا تھا حال مست نظارۂ جمال تھے سب آنکھیں دنیا کی ہو رہی تھیں لال زخم دل ہو گئے ہرے میرے ہر چمن سے میں اشکبار آیا ئیں وہاں ایک اور خیال میں تھا کیا کہوں میں نرالے حال میں تھا سبزہ اک عکس زلف جاناں ہے یہ تصور ہی بال بال میں تھا لوگ سب شادمان و خوش آئے ایک میں تھا کہ سوگوار آیا اخبار الفضل جلد ۰۲۱ ۲۵ جولائی ۱۹۳۳

Page 165

ندیاں ہر طرف کو بہتی تھیں قلب سانی کا حال کہتی تھیں آبشاروں کی شکل میں گر کر صدمہ افتراق سستی تھیں زخم دل ہو گئے ہرے میرے ہر مین سے میں اشکبار آیا دیو داروں کی ہر طرف متھی قطار یاد کرتا تھا دیکھ کر تد یار لوگ دل کر رہے تھے ان پر نثار جان سے ہو رہا تھا میں بیزار لوگ سب شادمان و خوش آئے ایک میں تھا کہ سوگوار آیا ابر آتے تھے اور جاتے تھے دل کو ہر اک کے خوب بھاتے تھے بجلیوں کی چمک میں مجھ کو نظر جلوے اس کی ہنسی کے آتے تھے زخم دل ہو گئے ہرے میرے ہر مین سے میں استکبار آیا شاخ گل پر هزار بیٹی تھی کا نچتی ہے تدار بیٹھی تھی نغمہ سُن سُن کے اسکے سب خوش تھے وہ مگر دل فگار بیٹھی تھی لوگ سب شادمان و خوش آئے ایک میں تھا کہ سوگوار آیا کیسی ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں ناز و رعنائی سے پھلتی تھیں اُن کی رفتار کی دلا کر یاد دل میرا چٹکیوں میں کلتی تھیں زنیم دل ہو گئے ہرے میرے.ہر میمن سے میں اشکبار آیا

Page 166

۱۵۲ تھے طرب سے درخت بھی رقصان گویا قسمت پر اپنی تھے نازاں پتے پتے کے پاس جا کر میں سونگھتا تھا بُوئے مہ کنعاں لوگ سب شادمان و خوش آئے ایک بین مت کہ سوگوار آیا جلوے اس کے نمایاں ہرلئے ہیں سر اُسی کی تھی پیدا ہوئے ہیں رنگ اُسی کا چھلک رہا تھا آہ کف ساقی میں ساغر ئے میں زخم دل ہو گئے ہرے میرے ہر چمن سے میں استکبار آیا اس کے نزدیک ہو کے دُور بھی تھا دل اُمیدوار چور بھی تھا نارِ فُرقت میں جل رہا تھا ئیں کو پس پردہ اک ظہور بھی تھا لوگ سب شادمان و خوش آئے ایک میں بھتا کہ سوگوار آیا دیکھتے کب وہ منہ دکھاتا ہے پردہ چہرہ سے کب اُٹھاتا ہے کب مرے غم کو دور کرتا ہے پاس اپنے مجھے بلاتا ہے ہنس کے کہتا ہے دیکھ کر مجھ کو دیکھو وہ میرا دل نگار آیا میں یونسی اس کو آزماتا تھا پاک کرنے کو دل جلاتا تھا عشق کی آگ تیز کرنے کو منہ چھپاتا کبھی دکھاتا تھا میری خاطر اگر یہ تھا بے چین کب مجھے اس کے بن مقدار آیا

Page 167

اے چاند تجھ میں نورِ خدا ہے چمک رہا جس سے کہ جامہ حسن ترا ہے چھلک رہا تیری زمین پاک سے لوٹ گناہ سے محفوظ خاک ہے تری ہر د سیاہ سے توزیر تابش رخ انور ہے روز و شب حکمت کدہ میں لوٹ رہا ہوں میں ہم یہ لب قرآن پاک میں بھی ترا نام نور ہے کیف و سال سے ترا دل پر سرور ہے گم گشتہ راہ کے لیے تو خضر راہ ہے تیری نیا - رفیق ازل کی نگاہ ہے تجھ میں جمال یار کی پاتا ہوں میں جھلک اٹھتی ہے جس کو دیکھ کے دل میں نے کسک ڈوری کو اپنی دیکھ کے میں شرمسار ہوں عاشق تو ہوں پہ حرص و ہوا کا شکار ہوں آ اک شعاع نور کی مجھ پر بھی ڈال دے تاریکی گناہ سے باہر نکال دے اخبار الفضل جلد ۲۳ - ۱۳ جولائی کا ر جولائی ۳۵

Page 168

۱۵۴ ۹۴ وشن کو ظلم کی برچھی سے تم سیند و دل بنانے وہ یہ درد سے گا بن کے وا تم مہر کر وقت آنے دو یشی ورون کے میت کہیں نوں سنے بغیر پہنیں گے اس میں جان کی کیا پڑ جاتی ہے اگر تو جانے دو تم دیکھو گے کہ اسی میں قطرات محبت پلکیں گے بادل آفات مصائب کے چھاتے ہیں اگر تو چھانے دو صادق ہے اگر تو صدق دکھ قربانی کر ہر خواہش کی میں جنس وفا کے اپنے کئے دنیا میں ہیں پیمانے دو جب سے نا آگ میں پڑتا ہے تو لندن سے پھلتا ہے پھر گالیوں سے کیوں ڈرتے ہو دل جلتے ہیں مں جانے دو ال کایہاں پر کام نہی کو لکھوں بی بی خانہ میں مقصود مرا پورا ہواگر بن جائیں مجھے دیوانے تو وہ اپنا سر ہی چھوٹے گاڑہ اپنا خون ہی بیٹے گا دشمن حق کے پہاڑ سے گزر کر آتا ہے کرانے و یہ زخم تھالے مینوں بن جائینگے.شک چین اس دن ہے قادر مطلق یار مراہ تم میرے یار کو آنے دو جو پتھے مومن بن جاتے ہیں موت بھی اُن سے ڈرتی ہے تم پیچھے مومن بن جاؤا در خوف کو پاس نہ آنے در یا صدیق محمد عربی ہے یا احمد ہندی کی ہے دعا باقی تو پرانے قھتے ہیں زندہ ہیں میں انسانے دو د تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیں یہ کیا ہی سستا سودا ہے دشمن کو تیر مانے دو میخانہ دہی ساتی بھی رہی پھر اسمیں کہاں غیرت کا عمل ہے روشن خود بھینگا جس کو آتے ہیں نظر مخا نے وو محمود اگر منزل ہے کٹھن تو راہ نما بھی کامل ہے تم اس پر توکل کر کے چلو آفات کاخیال ہی جانے دو اخبار الفضل جلد ۲۳-۱۴ جولائی ۱۹۳۵

Page 169

۱۵۵ ۹۵ پڑھ چکے اخبار اس اپنی کتاب زندگی ہو گیا پھٹ کر ہوا اُن کا کباب زندگی انے نکلے تھے کہ امن وسکون پکیاں خود انہی کے لٹ گئے حسن و شباب زندگی دیکھ لینا اُن کی امیدیں نہیں کی حسرتیں اک پریشاں خواب نکلے گا یہ خواب زندگی فتنه و افساد دست وشتم و بنزل و ابتذال اس جماعت کا ہے یہ کت لباب زندگی پڑ رہی ہیں انگلیاں ارباب حل و عقد کی.بیج رہا ہے اس طرح ان کا رُباب زندگی کیا خبر ان کو ہے کیا جام شہادت کا مزا دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں جو سراب زندگی ہے حیات شمع کا سب ما حصل سوزو گداز اک دل پر خون ہے یہ کتاب زندگی دھیرا الزام تو دیتے ہیں چھپنے کا تجھے اوڑھے بیٹے ہیں مگر ہم خود نقاب زندگی دست عزرائیل میں معنی ہے سب از حیات موت کے پیالوں میں مبتی ہے شراب زندگی فضلت خواب حیات عارضی کو دور کر ہے تجھے گر خواہش تعبیر خواب زندگی اختبار الفضل جلد ۲۳ - ۲ ستمبر ۱۹۳۵ ۶

Page 170

104 ۹۶ میری نیس زبان جو اس کی زباں نہیں میرا نہیں کہ دال کہ جو اس کا مکاں نہیں ہے دل میں عشق پر میرے منہ میں زباں نہیں نامے نہیں میں آئیں نہیں ہیں فغاں نہیں فرقت میں تیری حال دل زار کیا کہیں وہ آگ لگ رہی ہے کہ جس میں ھواں نہیں قرباں ہوں زخم دل پر کہ سب حال کہہ دیا شکوہ کا حرف کوئی مگر درمیاں نہیں کیوں چھوڑتا ہے دل مجھے اسکی تلاش میں آوارگی سے فائدہ کیا ، وہ کہاں نہیں مطلوب ہے فقط مجھے خوشنودی مزاج اُمید خورد خواہش باغ جناں نہیں جلوہ ہے ذرہ ذرہ میں دہر کے حسن کا سارے مکاں اسی کے ہیں وہ لامکاں نہیں شاق ہے جہاں کہ سُنے معرفت کی بات لیکن حیا د شرم سے چلتی زباں نہیں یا رب تیری مدد ہو تو اصلاح خلق ہو اُٹھنے کا دور نہ مجھ سے یہ بارگراں نہیں کھویا گیا خود آپ کسی کی تلاش میں کچھ بھی خبر نہیں کہ کہاں ہوں کہاں نہیں نے دوست تیرا عشق ہی کچھ نام ہو تو ہو یہ تو نہیں کہ یار ترا مہرباں نہیں ایمان جس کے ساتھ نہ ہو توت عمل کشتی ہے جس کے ساتھ کوئی بادباں نہیں اختبار الفضل بلد ۲۴-۳۱ دسمبر

Page 171

46 موت اس کی رہ میں گر تمہیں منظور ہی نہیں کہ دو کہ عشق کا ہمیں معت دور ہی نہیں کیوں جرم نقض عہد کے ہوں ترکیب جناب جب آپ صمد کرنے پر ٹور ہی نہیں مومن تو جانتے ہی نہیں بزدلی ہے کیا اس قوم میں فرار کا دستور ہی نہیں ڈر کا اثر ہو ان پر نہ لالچ کا ہو اثر ہوش آئیں جن کو ایسے یہ مضموڑ ہی نہیں دل دے چکے تو ختم ہوا قعہ حساب مشوق سے حساب کا دستور ہی نہیں پھر فن میں غوطہ لگانے کی دیر ہے منزل قریب تر ہے وہ کچھ دور ہی نہیں دشمن کی چیرہ دستیوں پر اے خدا گواہ ہمیں زخم دل بھی سینے کے ناسور ہی نہیں اس میم روز کو دیکھیں تو کس طرح آنکھوں میں ظالموں کے اگر نور ہی نہیں اخبار المفضل بعد ۲۲-۲۹ رسم رب تشنه

Page 172

10% 2^ ذرا دل تھام لو اپنا کہ اک دیوانہ آتا ہے شرار جن کا جلتا ہوا پروانہ آتا ہے سکمال جرات انسانیت عاشق دکھاتا ہے کہ میدان بلا میں بس وہی مردانہ آتا ہے نگاہ لطف میری جستجو میں بڑھتی آتی ہے ہوں وہ میخوار جس کے پاس خود میخانہ آتا ہے مجھے کیا اس سے گر دنیا مجھے فرزانہ کہتی ہے تمنا ہے کہ تم کہہ دو میرا دیوانہ آتا ہے بھڑک اٹھتی ہے پھر شمع جہاں کی روشنی یکدم قدم سے سوئے بہتی جب کوئی پرانا تا ہے مری تو زندگی گشتی ہے تیری یاد میں پیارے بھی تیری زباں پر بھی مرا افسانہ آتا ہے ہزاروں حسرتیں مل کر فنا ہونے کی رکھتا ہے ہٹا بھی دیں ذرا فانوس اک پڑا نہ آتا ہے اخبار الفضل جلد ۲۶ - ۳۱ دسمبر له

Page 173

109 ۹۹ تها بزادی امتہ القیوم کی تقریب رخصتانہ کے موقعہ پر کل دو پسر کو ہم جب تم سے ہوئے تھے رخصت ظاہر میں چپ تھے لیکن دل خون ہو رہا تھا افسردہ ہو رہا تھا محزون ہو رہا اے میری پیاری بیٹی میرے جگر کا ٹکڑا میری کمر کی پیٹی تم یاد رہی ہو دل کو ستا رہی ہو ئیں کیا کروں کہ ہر دم تم دُور جا رہی ہو ٹوٹی ہوئی کا اللہ ہی سہارا اللہ ہی ہے ہمارا اللہ ہی ہو تمھارا اللہ کی تم رحمت اللہ کی تم برکت اللہ کی مہربانی اللہ کی ہو عنایت ده تمھارا آنکھوں کا میری تارا الله کا ہو پیارا اخبار الفضل جلد ۲۷ - ۲۸ / دسمبرشت

Page 174

14.تو میری پیاری بچی تم اس کرنا خدا کو خدا کو سونیا مهربان آقا اس باؤن کو سونپا سے اُلفت الفت رہنا تم اس سے ڈر کر تم اس سے بسیار ار رکھنا بس بس اسر رکھنا عشق اس کا تم دل کے رکھنا ہے وہ ہمارا تم اس چاہ رکھنا نگاہ رکھنا مشکل کے وقت دونوں اس اُلفت نہ اُس کی کم ہو رشتہ نہ اُس کا ٹوٹے چھٹ جائے خواہ کوئی دامن نہ اس کا چھوٹے

Page 175

141 ۱۰۰ نہیں کوئی بھی تو مناسبت رو شیخ و طرز ایاز میں اُسے ایک آہ میں بل گیا نہ ملا جو اس کو نماز میں جو ادب کے محسن کی بجلیاں ہوں چمک رہی کف ناز میں تو نگاہ حُسن کو کچھ نہ پھر نظر آئے رُوئے نیاز میں تجھے اس جہان کے آئینہ میں جمال یار کی جستجو مجھے سو جہان دکھائی دیتا ہے چشم آئنہ ساز میں نظر آ رہا ہے وہ جلوہ حُسن ازل کا شمع مجاز میں کہ کوئی بھی اب تو مزا نہیں رہا قیس عشق مجاز میں مرا عشق دامن یار سے ہے کبھی کا جاکے پیسٹ رہا تری عقل ہے کہ بھنک رہی ہے ابھی نیب فراز میں ترے جام کو مرے خون سے ہی بلا ہے رنگ یہ دلفریب ہے یہ اضطراب یہ زیر و بم میرے سوز سے تیرے ساز میں اختبارا ر الفضل جلد ۲۸ - ۳/ جنوری ساله

Page 176

۱۹۲ ہم کس کی محبت میں روڑے پہلے آئے تھے وہ کونسے رشتے تھے جو کھینچ کے لائے تھے آخر وہ ہوئے ثابت پیام ہلاکت کا جو غمزے میرے دل کو بیحد ترے بھائے تھے جن باتوں کو سمجھے تھے بنیاد ترقی کی جب غور سے دیکھا تو مٹتے ہوئے سائے تھے اکسیر کا دیتے ہیں اب کام وہ دنیا میں خون دل عاشق میں جو تیر بجھائے تھے تما غرق گنہ لیکن پڑتے ہی بنگہ اُن کی اشک آنکھوں میں اور ہا تھوں میں عرش کے پائے تھے یہ جسم مرا سر سے پا تک جو معطر ہے راز اس میں ہے یہ زاہد وہ خواب میں آئے تھے اس مریم فردوسی میں حق ہے ہمارا بھی کچھ زخم تری خاطر ہم نے بھی تو کھائے تھے اخبار الفضل جلد ۲۸ - ۳ / جنوری نشده

Page 177

یادہ عرفاں پلائے ہاں پلا دے آج تو چہرہ زیبا دکھا دے ہاں دکھائے آج تو خواب غفلت میں پڑا سویا کروں گا کب تک اور محشر جگا دے ہاں جگا دے آج تو جس کے پڑھ لینے سے کھل جاتا ہے.از کائنات وہ بہتی مجھ کو پڑ ھمارے ہاں پڑھائے آج تو مجھ کو سینہ سے لگا لے ہاں لگا لے پھر مجھے حسرتیں دل کی مارے ہاں منائے آج تو ناامیدی اور مایوسی کے بادل پھاڑ دے حوصلہ میرا بڑھا دے ہاں بڑھا ہے آج تو کب تلک رستا رہے گا جان من ناسور دل زخم پر مرہم لگا دے ہاں لگائے آج تو یا میرے پہلو میں آکر بیٹھ جا پھر بیٹھ جا یا میری خواہش مٹادے ہاں مارے آج تو جس سے مل جائیں خیالات من و مانی تمام آگ دہ دل میں لگائے ہاں لگائے آج تو دامن دل پھیلتا جاتا ہے بے حد و حساب دیتیاں اس کی اُڑائے ہاں اُڑا نے آج تو جس کسب چھوٹے بڑے شاداب ہوں میرا ہوں دل سے وہ چشمہ بہارے ہاں بہارے آج تو میرے تیرے درمیاں حائل ہوا ہے اک عدد خاک میں اس کو ملائے ہاں ملائے آج تو کب تلک پہنا کروں اور اق جنت کا لباس چادر تقوی اوڑھارے ہاں اوڑھائے آج تُو پھر مری خوش قسمتی سے جمع ہیں ابر و بہار جاسم اک بھر کر پلائے ہاں پلائے آج تو ساکنان جنت فردوس بھی ہو جائیں مست دل میں وہ خوشبو بسائے ہاں بسائے آج تو ارتباط عاشق و معشوق کے سامان کر پھر مری بگردی بنادے ہاں بنا دے آج تو مطرب عشق و محبت گوش بر آواز ہوں نغمہ شیریں سُنا دے ہاں سُنا ہے آج تو 140 اخبار الفضل جلد ۲۸-۴ رجبور می ۱۹۳ه

Page 178

یا محمد دلبرم از عاشقان روئے تست مجھ کو بھی اس سے ملائے ہاں بلائے آج تو دست کو تا ہم کجا اثمار فردوسی گجا شاخ گوبی کو بلائے ہاں ملائے آج تو درس الفت ہی نہ گر پا یا تو کیا پا یا بتا گرفت کے سکھائے ہاں سکھائے آج تو

Page 179

١٠٣ یوں اندھیری رات میں لے چاند تو چپکا نہ کر مشرک ہمیں بدن کی یاد میں برپا نہ کر کیا لب دریا میری بے تابیاں کافی نہیں تو جگر کو پاک کر کے اپنے یوں تڑپا نہ کر دُور رہنا اپنے عاشق سے نہیں دیتا ہے زیب آسماں پر بیٹھ کر ٹوٹیوں مجھے دیکھا نہ کر مکس تیرا چاند میں گر دیکھ لوں کیا عیب ہے اس طرح تو چاند سے اے میری جاں پردہ نہ کر بیٹھ کر جب عشق کی کشتی میں آؤں تیرے پاس آگئے آئے چاند کی مانند تو بھاگا نہ کر اے شعاع نور یوں ظاہر نہ کر میرے عیوب غیر میں چاروں طرف ان میں مجھے رسوا نہ کر ہے محبت ایک پاکیزہ امانت اے عزیز عشق کی عزہ سے واجب عشق سے کھیلا مذکر ہے عمل میں کامیابی موت میں ہے زندگی جاپسٹ بالر سے ڈریا کی کچھ پروا نہ کر اخبار الفضل جلد ۲۸ - ۶ جولائی سنگه

Page 180

194 ۱۰۴ یہ نور کے شعلے اُٹھتے ہیں میرا ہی دل گرمانے کو جو بجلی افق میں چکی ہے چکی ہے مرے تڑپانے کو یا بزم طرب کے خواب نہ تو دکھلا اپنے دیوانے کو یا جام کو حرکت دے نیلی اور چکر دے پیمانے کو پھر عقل کا دامن چھٹتا ہے پھر وحشت جوش میں آتی ہے جب کہتے ہیں کہ دنیا سے چھیڑو نہ مرے دیوانے کو کچھ لوگ وہ ہیں جو ڈھونڈتے ہیں آرام کو ٹھنڈے سایوں میں پر ملتی ہے لیکن دل جلنے میں ترے پروانے کو یہ میری حیات کی اُلجھن تو ہر روز ہی بڑھتی جاتی ہے دہ نازک ہاتھ ہی چاہیئے ہیں اس گھٹتی کے مسلجھانے کو عرفان کے رازوں سے جاہل تسلیم کی راہوں سے غافل جو آپ بھٹکتے پھرتے ہیں آئے ہیں مرے سمجھانے کو 140 اخبار الفضل جلد ۲۰- ۹ جولائی سنه

Page 181

۱۰۵ اک دن بو آہ دل سے ہمارے نکل گئی آه غیرت کی اور عشق کی آپس میں چل گئی ے ہی چلی تھی جلد سے میری خطا مجھے اُن کی نگاہ سر سے تقدیر مل گئی شاید کہ پھر اُمید کی پیدا ہوئی جھلک نتھنوں تک آ کے رُوح ہماری پھل گئی آئینہ خیال میں صورت دکھا گئے یوں گرتے گرتے میری طبیعت سنبھل گئی احوال عشق پوچھتے ہو مجھ سے کیا ندیم طبع بشر پھلنے پہ آئی پھسل گئی محمود راز محسن کو ہم جانتے ہیں خوب سورت رکسی کی نور کے سانچے میں ڈھل گئی اختبار الفضل جلد ۲۸-۲۹ اکتوبرت شدید

Page 182

104 A ہری رات دن بس میں اک صدا ہے کہ اس عالم کون کا اک خدا ہے اُن نے ہے پیدا کیا اس جہاں کو تاروں کو سورج کو اور آسماں کو وہ ہے ایک اس کا نہیں کوئی ہمسر وہ مالک ہے سب کا وہ حاکم ہے سب پر نہ ہے باپ اُس کا نہ ہے کوئی بیٹا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا نہیں اُس کو حاجت کوئی بیویوں کی ضرورت نہیں اُس کو کچھ ساتھیوں کی ہر اک پیز پر اس کو قدرت ہے حاصل ہر اک کام کی اُس کو طاقت ہے حاصل پہاڑوں کو اُس نے ہی اونچا کیا ہے سمندر کو اُس نے ہی پانی دیا ہے یہ دریا جو چاروں طرف بہہ رہے ہیں اُسی نے تو قدرت سے پیدا کیے ہیں سمندر کی پھلی ہوا کے پرندے گھریلو چرندے بنوں کے درندے سبھی کو وہی رزق پہنچا رہا ہے ہر اک اپنے مطلب کی نئے کھانا ہے ہر اک کتے کو روزی وہ دیتا ہے ہردم خزانے کبھی اس کے ہوتے نہیں کم دہ زندہ ہے اور زندگی بخشتا ہے وہ قائم ہے ہر ایک کا آسرا ہے کوئی نشے نظر سے نہیں اس کے معنی بڑی سے بڑی ہو کہ چھوٹی سے چھوٹی اخبار الفضل جلد ۲۹ - یکم جنوری ساله

Page 183

149 دلوں کی چینی بات بھی جانتا ہے بدوں اور نیکوں کو پہچانتا ہے دہ دیتا ہے بندوں کو اپنے ہایت دکھاتا ہے ہاتھوں پر اُن کے کرامت ہے فریاد مظلوم کی سُننے والا صداقت کا کرتا ہے کہ بول بالا گناہوں کو بخشش سے ہے ڈھانپ دیتا غریبوں کو رحمت سے ہے تمام لیتا یہی رات دن اب تو میری صدا ہے یہ میرا خدا ہے یہ میرا خدا ہے

Page 184

1+6 رغم دل جو ہو چکا مت لذتوں سے منڈیل پھر ہرا ہونے کو ہے وہ پھر ہرا ہونے کو ہے پھر میرے سر میں لگے اُٹھنے خیالات بجنوں فتنہ محشر میرے دل میں بپا ہونے کو ہے پھر مری شامت کہیں لے جا رہی ہے کھینچ کر کیا کوئی پھر مائل جور و جا ہونے کو ہے پھر کبھی کی تیغ ابرد اُٹھ رہی ہے بار بار پھر میرا گھر مورد کرب و بلا ہونے کو ہے پھر کہا جاتا ہے آنکھوں سے مری اک سیل اشک پھر مرے سینہ میں اک طوفان بپا ہونے کو ہے پھر کچھٹا جاتا ہے ہاتھوں سے میرے دامان صبر ناله آه و فعال کا باب کا ہونے کو ہے عمر گذرے گی میری کیا یونسی اُن کی یاد میں کیا نہ رکھیں گے قدم وہ اس دلِ ناشاد میں ۱۹۴۲ اخبار الفضل جلد ۳۰ یکم جنوری ساده

Page 185

161 1.A ایمان مجھ گورے دے عرفان نجد کوڑے کے قربان جاؤں تیرے قرآن مجھ کو دے دے دل پاک کردے میرا دنیا کی چاہتوں سے تو حیت سے حصہ سیمان مجھ کوڑے دے دل مبل رہا ہے میرا فرقت سے تیری ہردم جام وصال اپنا اے جان مجھ کو دے دے کر دے جو حق و باطل میں امتیاز کامل اسے میرے پیار کیا فرقان مجھ کو دے دے ہم کو تیری رفاقت حاصل رہے ہمیشہ ایسانہ ہو کہ دھو کہ شیطان مجھ کو دے دے دہ دل مجھے عطا کر جو ہو نٹار جاناں جو ہو فدائے دلبر وہ جان مجھ کو دے دے دُنیائے کفرو بدعت کو اس میں فرق کر دوں طوفان نوح سارک طوفان مجھ کو دے دے جن پر پڑیں فرشتوں کی رشک سے بنگا ہیں اے میرے محسن ایسے انسان مجھ کو دے دے ڈھل جائیں دل بد کی کیسے ہوں نور سے پر امراض روح کا وہ درمان مجھ کو دے دے دنبال کی بڑائی کو خاک میں ملادوں قوت مجھے عطا کر سلطان مجھ کو دے دے ہو جائیں میں سے ڈھیلی سب فلسفہ کی پولیس میرے حکیم ایسا بر ہان مجھ کو دے دے اخبار الفضل جلد ۳۲ ۲۱۰ مئی ۱۳۳

Page 186

1.4 میری مریم گھر سے میرے وُہ گلزار گیا دل کا سکھ بہ ئین اور قرار گیا شکراتے ہوئے ہوا رخصت ساتھ اس کے میں اشکبار گیا باغ ہونا ہوا مراجب سے ر سبز و بار دار گیا اب تو ہم ہیں جنزاں ہے، نالے ہیں بلبلو ! موسم بہار گیا ہو گیا گل دیا میرے گھر کا امن اور بیین کا حصار گیا نغمہ ہائے چمن ہوئے خاموش کیا ہوا کس طرفہ ہزار گیا آہوئے عشق رہ گیا باقی عنبریں مود مشک بار گیا درد ہی درد رہ گئی ہے اب میں دنیا کا سب خُمار گیا وہ گئے تھے تو خیر جانا تھا دل پہ کیوں میرا اختیار گیا ہر طرف سے رہا مجھے گھاٹا دل گیا دل کا اعتبار گیا اے خُدا اس کا چارہ کیا جس کا غم کے بڑھتے ہی غمگسار گیا سانس رکتے ہی اس کا اے محمود تیر اک دل کے آر پار گیا حضرت سیده مریم بگم مرحومه (امیر طاہر) اخبار الفضل جلد ۲۲ - ۲۴ مئی ۲

Page 187

11.بحضور رب و دور با دلِ ریش و حال زار یا اس کی درگہ میں بار بار گیا دل اندر نگیں کو لے کر ساتھ چاک دامان و استکبار گیا آہیں بھرتا ہوا ہوا حاضر سینہ کوبان و سوگوار گیا ساری عرضوں کا پر ملا یہ جواب ہم نے مانا ترا ترار گیا پر تجھے کیا محل شکوہ ہے یار کے پاس اُس کا یار گیا IF سیدہ مریم بیگم مرحومہ کی روح کو خطاب اے میری جاں ہم بندے ہیں اک آقا کے آزاد نہیں اور بچے بندے مالک کے ہر حکم پہ قرباں جاتے ہیں کا ہے حکم تمہیں گھر جانے کا اور ہم کو ابھی کچھ شہرنے کا بحضور رب غفور تم ٹھنڈے ٹھنڈے گھر جاؤ ہم پیچھے پیچھے آتے ہیں ١١٢ ڈہ میرے دل کو چٹکیوں میں کل کل کر یوں فرماتے ہیں کیا عاشق بھی معشوق کا شکوہ اپنی زباں پر لاتے ہیں ئیں ان کے پاؤں چھوتا ہوں اور دامن چوم کے کہتا ہوں دل آپ کا ہے جاں آپ کی ہے پھر آپ یہ کیا فرماتے ہیں اخبار الفضل ۲۴ مئی ۱۹۲۳

Page 188

قرية حضرة سيد أمر طاهر ابكى عَلَيكِ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ اَرثِيكِ يَا ذَرجي بقلب دان میری بیوی میں تجھ پر ہر دن رات روتا ہوں.میں خون آلودہ دل سے تیسرا مرثیہ کہتا ہوں صرتُ كَصَيْدٍ عِيدَ فى الصّبحِ غِيْلَةٌ قَدْ غَابَ عَنِى مَقْصَدِي وَمَرَائِي میں اس شکار کی طرح ہو گیا ہوں جو شیخ ہی اس کی غفلت کی وجہ پھانس لیا جاتا ہے میرا اس مقصد میری آنکھوں سے اوتھل ہو گیا لَوْلَمْ يَكُن تَابِيدُ رَى مُسَاعِدِى لَأَصْبَحْتُ مَيْتًا عُرْضَةً لِسِهَا فِي اگر خدا تعالیٰ کی تائید میری مو پر نہ ہوتی تو میں اپنے دل کے تیروں کا نشانہ بن کر مردہ کی طرح ہو جاتا وَلكِنَّ فَضْلَ اللَّهِ جَاءَ لِنَجْدَتِ والقَدَنِي مِنْ زَلَةِ الأقدام مگر اللہ تعالیٰ کا فضل میری مدد کے لیے آگیا اور اس نے مجھے مقدموں کے پھیلنے سے محفوظ رکھا يَا رَبِّ سَتَرْنِي بِجُنَّةِ عَفُوكَ كُن نَاصِيرِى وَ مُصَاجِي وَ مُحَامِي اے میرے رب! مجھے اپنی بخشش کی ڈھال سے ڈھانپ سے میرا ساعتی میرا مددگار اور میرا محافظ بن جا الْغَمُعَا بِصِرُفَاءِ يَأْكُلُ لَحْمَنَا لَا تَجْعَلَنِي نُعْمَةَ الضَّرْفَام غم شیر کی طرح ہمارا گوشت کھا رہا ہے.اے خدا مجھے اس شیر کا لقمہ نہ بننے تو کھیتو يَا رَبِّ صَاحبها بِلُطْفِكَ دَائِمًا وَاجْعَلْ لَّنَا مَأْوَى بِقَبْرٍ سَامِي اے میرے ربت اس پر ہمیشہ کلف کرتے رہنا اور اس کا ٹھکانا ایک بلند شان قبر میں بنانا يَا رَبِّ الْعِمُهَا بِقُربِ مُحَمَّدٍ ذِى المجدِدَ الإِحْسَانِ وَالإِكْرَام اے میرے رب اسکو قرب محمد کی نعمت عطا فرما جو بڑی بزرگی اور بڑا احسان کر نیوالے ہیں جنکو تو نے عزت بخشی ہے اخبار الفضل جلد ۳۲ - ۱۲ جولائی سلام

Page 189

۱۱۴ دہ یار کیا جو یار کو دل سے اُتار دے وہ دل ہی کیا جو خوف سے میدان بارے اک پاک ساف دل مجھے پروردگار دے اور اس میں مکس محسن ازل کا اُتار دے دہ سیم تن جو خواب میں ہی مجھ کو پیار دے دل کیا ہے بندہ جان کی بازی بھی ہار دے افسردگی سے دل میرا مر جھارہا ہے آج اے چشمہ فیوض نئی اک بہار دے دنیا کا غم ادھر ہے ادھر آخرت کا خون یہ بوجھ میرے دل سے الہی اُتار دے مسند کی آرزو نہیں بس جوتیوں کے پاس درگہ میں اپنی مجھ کو بھی اک بار بار دے گذری ہے عمر ساری گناہوں میں اے خُدا کیا پیشکش حضور میں یہ شہر مار دے وحشت سے پیٹ رہا ہے میرا سر میرے خُدا اِس بے قرار دل کو ذرا تو قرار دے تو بارگاہ حُسن ہے میں ہوں گدائے حُسن مانگوں گا بار بار میں تو بار بار دے دن بھی اس کے راتیں بھی اس کی جو خوش نصیب آقا کے در پہ عمر کو اپنی گذار دے دل چاہتا ہے جان ہو اسلام پر انتشار توفیق اس کی اے میرے پروردگار دے میرے دل و دماغ پہ چھا جا او خوبرو اور ماسوا کا خیال بھی دل سے اُتار دے ممکن نہیں کہ چین ملے وصل کے سوا فرقت میں کوئی دل کو تسلی ہزار دے کیسے اُٹھے وہ بوجھ جو لاکھوں پہ بار ہو جب غم دیا ہے ساتھ کوئی غمگسار دے ہے سب جہاں سے جنگ سیٹی تیرے لیے اب یہ نہ ہو کہ تو ہمیں دل سے اُتار ھے تنگ آگیا ہوں نفس کے ہاتھوں سے میری جاں جلد اور آگے اس مرے دشمن کو مار دے بچھڑے ہوؤں کو جنت فردوس میں بلا * جبر صراط سے یہ سہولت گذار دے اخبار الفضل مبلد ۲۲ - ۲۷ جولائی ۱۱۳

Page 190

144 ۱۱۵ کبھی حضور میں اپنے جو بار دیتے ہیں ہوا و حرص کی دُنیا کو مار دیتے ہیں ده عاشقوں کے لیے بیقرار ہیں خود بھی وہ بے قرار دلوں کو قرار دیتے ہیں بکسی کا قرض نہیں رکھتے اپنے سر پر وہ جو ایک دے انہیں اس کو ہزار دیتے ہیں عطار بخشش و انعام کی کوئی حد ہے جسے بھی دیتے ہیں کہ بیشمار دیتے ہیں جو اُن کے واسطے اوٹی سا کام کرتا ہے وہ دین ودنیا کو اُس کی سُدھار دیتے ہیں جو دن میں آہ بھرے ان کی یاد میں اک بار وہ رات پہلو میں اُس کے گزار دیتے ہیں بگاڑے کوئی ان کے لیے جو دنیا سے وہ سات پشت کو اُس کی سنوار دیتے ہیں وہ جیتنے پر ہوں مائل تو عاشق صادق خوشی سے جان کی بازی بھی ہار دیتے ہیں وہی فلک پہ چمکتے ہیں جن کے شمس و قمر بو در پہ یار کے عمریں گزار دیتے ہیں وہ ایک آہ سے بتیاب ہو کے آتے ہیں ہم اک نگاہ پہ سو جان ہار دیتے ہیں جو تیرے عشق میں دل کو لگے ہیں زخم اے جہاں ادھر تو دیکھ وہ کیسی بہار دیتے ہیں اخبار الفضل جلد ۳۲ - ۲ اگست ۱۹۳۳مه

Page 191

164 114 ذرہ ذرہ میں نشاں ملتا ہے اس دلدار کا اس سے بڑھ کر کیا ذریعہ چاہیے اظہار کا فلسفی ہے فلسفہ سے را ز قدرت ڈھونڈتا عاشق صادق ہے جو یاں یار کے دیدار کا عقل پر کیا طالب دنیا کی ہیں پردے پڑے ہے عمارت پر بند منکر مگر معمار کا تیری رہ میں موسسے بڑھ کر نہیں عزت کوئی دار پر سے ہے گذرتا راہ تیرے دار کا فیر کیوں آگاہ ہو راز محبت سے میرے دشمنوں کو کیا پتہ ہو میرے تیرے پیار کا ڈھونڈتا پھرتا ہے کو نہ کو نہ ہی گھر گھر میں کیوں اس طرف آئیں پتہ دوں تجھ کو تیرے یار کا اے خدا کر دے منور سینہ و دل کو میرے سر سے پا تک میں بنوں محنزن تیرے انوار کا سیر کروا دے مجھے تو عالم لاہوت کی کھول دے تو باب مجھ پر روح کے اسرار کا قید و بند عرس میں گردن پھنسائی آپ نے اس حماقت پر ہے دعوی فاعل مختار کا رشتہ الفت میں باندھے جارہے ہیں آج لوگ توڑ بھی کیا فائدہ ہے اس ترے زنار کا فلسفہ بھی را از قدرت بھی رموزِ عشق بھی کیا نرالا ڈھنگ ہے پیارے تری گفتار کا بن رہی ہے آسماں پر ایک پوشاک جدید تانا بانا ٹوٹنے والا ہے اب کفار کا اُن کے ہاتھوں سے تو جام زہر بھی تریاق ہے دو پلائیں گر تو پھر زہرہ کے انکار کا پھٹ گیا ہاتھوں سے میرے دامن میٹر شکیب چل گیا دل پر مرے جادو تری رفتار کا اخبار الفضل جلد ۳۲ - ۱۳ نومبر ۸۳

Page 192

16A 116 دست کوتاہ کو پھر درازی بخش خاکساروں کو سرفرازی بخشن جیت لوں تیرے واسطے سب دل وہ ادا ہائے جاں نوازی بخش پانی کر دے علوم قرآن کو گاؤں گاؤں میں ایک رازی بخش روح خاتوں سے ہو رہی ہے نڈھال ہم کو پھر نعمت حجازی بخش بت مغرب ہے ناز پر مائل اپنے بندوں کو بے نیازی بخش جھوٹ کو چاروں شانے چت کردیں مومنوں کو دہ راستبازی بخش روح الترام و دوربین زنگاه قلب شیرد نگاه بازی بخش پائے اقدس کو چوم ٹوں بڑھ کر مجھ کو تو ایسی پاکبازی بخش سرگرانی میں عمر گذری ہے سروری بخش سرفرازی بخش کفر کی چیرہ دستیوں کو ہٹا دست اسلام کو درازی بخش سید الانبیاء کی انت کو جو ہوں غازی بھی دہ نمازی بخش ہوں جہاں گرد ہم میں پھر پیدا بسند باد اور پھر جہازی بخش میرے محمود بن میرا محمود مجھ کو تو سیرت ایازی بخش اخبار الفضل جلد ۳۲ ۳۰۰ دسمبر ۶۱۹۳۳

Page 193

169 اے حسن کے جادو مجھے دیوانہ بنائے اے شمع رخ اپنا مجھے پر دانہ بنا دے ہر وقت مئے عشق یہاں سے رہے بتی ویرانہ دل کو میرے میخانہ بنادے مجھ کو تیری مخمور نگاہوں کی قسم ہے اک بار ادھر دیکھ کے مستانہ بنا دے کر دے مجھے اسرار محبت سے شناسا دیوانہ بنا کر مجھے فرزانہ بنا دے اُس اُلفت ناقص کی تمنا نہیں مجھ کو جو دل کو میرے گوہر یکتا نہ بنا میں جائزہ عشق میرے عشق سے عاشق دل کو میرے معشاق کا پیمانہ بنا دے جو ختم نہ ہو ایسا دکھا جلوہ تاباں جو مر نہ سکے مجھ کو وہ پروانہ بنادے دل میں مرے کوئی نہ بسے تیرے سوا اور گر تو نہیں بستا اسے ویرا نہ بنادے ابلیس کا سر پاؤں سے تو اپنے مسل دے ایسا نہ ہو پھر کعبہ کو بت خانہ بنادے رے اختبار الفضل جلد ۳۲ - ۳۰ دسمبر ۳ ۳۰۰ ۱۱۳۳

Page 194

١١٩ فیضان محمدی سالم علی رستم كُمْ نَورَ وَجْهَ النَّبِيِّ صَحَابَهُ كَالفُلْكِ ضَاءَ سَطْحُهَا بِنُجُومِهَا آپ کے صحابہ نے نبی کریم کا چرہ کس قدر منور کر دیا.جیسے سطح سمادی اپنے تاروں سے روشن ہو جاتی.كَم تَنْفَعُ الثَّقَلَيْنِ تَعْلِيْمَاتُهُ تَدْخُصَ دِينُ مُحَمَّدٍ بِعُمُؤْمِهَا آپ کے علوم جن و انس کو کسقدر نفع دے رہے ہیں.یہ علوم سارے کے سارے دین محمدی سے ہی خاص ہیں ظَهَرَتْ هِدَايَةُ رَبِّنَ بِقَدُومِهِ ذَالَتْ ظَلَامُ الدَّهُرِ عِنْدَ قُدُومِها ہمارے رب کی ہدایت آپ کے آنے سے ظاہر ہوئی.ہدایت کے آنے سے زمانہ بھر کا اندھیرا دُور ہو گیا جاءَ بِتِرْيَاقٍ مُّزِيلٍ سِقَامَنَا غَابَتْ غَوَايَتُنَا بِكُلِّ سُمُؤْمِهَا ایسا تریاق لائے جو ہماری بیماریاں دور کرنے والا تھا.ہماری گھرا ہی اپنے تمام زہروں سمیت چھپ گئی نَزَلَتْ مَلَيْكَةُ السَّمَاءِ لِنَصْرِه قَدْ فَاقَتِ الْأَرْضُ سَى يَظُلُومها آپ کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتے اُتر ہے.اپنی چمک دمک سے زمین آسمان پر فوقیت لے گا رَدَّ عَلَى الْأَرْضِ كَنُونَا مِحَابُهُ فَتِنَ الْمَوْدُ بِبَقْلِهَا وَ بِفُوْمِنَا آپ کے صحابہ نے زمین کو اس کے خزانے واپس کر دیتے مگر یہود اپنی ترکاریوں اور لہسن کے فتنہ میں پڑ گئے رُفِعَتْ بُيُوتُ المُؤْمِنِينَ رَفَاعَةُ حُسِفَ الْبِلادُ لِفُرُ سِهَا وَ بِرُومِهَا مرتبہ میں مومنوں کے گھر بند ہو گئے.فارس اور روم کے شہروں کے شہر ذلیل ہو گئے دَخَلَتْ صُفُوفَ عِدًى بِغَيْرِ رَوَيَّةٍ فَازَتْ جَمَاعَةً صَحْبِهِ بِتُعُومِهَا دشمن کی صفوں میں بے دھڑک جاگئے.آپ کے صحابہ کی جماعت با وجود کمزور ہونیکے کامیاب ہوگئی منح الْعُلُومُ صَغِيْرَهَا وَكَبِيرَهَا صَبَّتْ سَمَاءَ العِلماء غير مها چھوٹے بڑے سب ہی کو علوم بختے.علم کے آسمان نے علم کے بادلوں کا پانی بہا دیا فَاضَتْ ضَفُونَ الكَوثَر شَوْقَالَهُ وَعَدتُ إِلَيْهِ الْحَينَةُ بكُرُومِهَا کوثر کے پانی بہہ پڑے ان کے اشتیاق کی وجہ سے.جنت دوڑی آپ کی طرف اپنے انگوروں کو لے کر اخبار الفضل جلد ۳۳ - ۴ ر جنوری ۱۹۳۵ کولے

Page 195

EAL ۱۲۰ تعریف کے قابل ہیں یا رب تیرے دیوانے آباد ہوئے جن سے دنیا کے ہیں ویرانے کب پیٹ کے دھندواں مسلم کو بلا فرصت ہے دین کی کیا حالت یہ اس کی بلا جانے جو جاننے کی باتیں تھیں اُن کو بھلایا ہے جب پوچھیں سب کیا ہے کہتے ہیں خُدا جانے رستی سے خالی ہے دل عشق سے عاری ہے بیکار گئے اُن کے سب سامرہ پیمانے خاموشی سی طاری ہے مجلس کی فضاؤں پر فانوس ہی اندھا ہے یا اندھے ہیں پڑانے فرزانوں نے دنیا کے شہروں کو اجاڑا ہے آباد کریں گے اب دیوانے یہ ویرانے ہوتی نہ اگر روشن وہ شمع رخ انور کیوں جمع یہاں ہوتے سب دنیا کے پروانے ہے ساعتِ سعد آئی اسلام کی جنگوں کی آغاز تو میں کردوں انجام خدا جانے اخبار الفضل جلد ۳۴۲ - ۱۲ جنوری ۱۹۳

Page 196

JAY ١٢١ معیت و گناہ سے دل میرا داغدار تھا پھر بھی کسی کے وصل کے شوق میں بیقرار تھا بے عمل و خطا شعار بیکس دبے وقار تھا پر میری جان یہ تو سوچ کن میں میرا شمار تھا بھر میں وصل کا مزا پالیا میں نے ہمیش لب پہ تو تھا نہیں مگر آنکھ میں ان کی پا تھا سوؤں تو تجھ کو دیکھ کر جاگوں تو تجھ پہ ہو نظر موت سے تھا کے دیریغ اس کا ہی انتظار تھا آہ غریب کم نہیں غلیظ شیہ جہاں سے کچھ جس سے ہوا جہاں تباہ دل کا مرے غبار تھا شکوہ کا کیا سوال ہے ان کا عتاب بھی ہے مہر منہ سے میں داد خواہ تھا دل میں میں شرمسار تھا دیر کے بعد وہ ملے اُٹھ کے لئے کسے شکست دل میں خوشی کی لہر تھی آنکھ سے اشکبار تھا شکر را گذرگئی ناز و نیاز میں ہی عمر مجھکو بھی ان سے عشق تھا انکو بھی مجھ سے پیار تھا اخبار الفضل جلد ۳۲ - ۲ ر جنوری نشده

Page 197

١٢٢ ہمنشیں تجھ کف ہے اک پر امن منزل کی تلاش مجھ کو ایک آتش فشاں پر و تولہ دل کی تلاش سعی پیم اور پنج مافیت کا جوڑ کیا مجھ کو بے منزل سے نفرت تجد کو منزل کی تلاش ڈھونڈتی پھرتی تھی شمع نور کو محفل کبھی اب تو ہے خود شمع کو دنیا میں محض کی تلاش یا تو سرگردان تھا دل جستجوئے یار میں یا ہے اس یار ازل کو خود مرے دل کی تلاش ہیں وہ مجنوں ہوں کہ جس سکول میں ہے گر یار کا اور ہو گا وہ کوئی ہی کو ہے عمل کی تلاش گلشن عالم کی رونق ہے فقط انسان سے گل بنانے ہوں اگر تو نے تو کر گل کی تلاش اس رخ روشن سے بہٹ جاتی ہیں باریکیاں عاشق سفلی کو ہے کیوں اس میں اک تل کی تلاش آسمانی ہی میرا زمینی ، اس لیے میں فلک از ا ہوں اس کو سے بل کی تلاش اخبار الفضل جلد ۳۴ - ۲۰ را پریل شد

Page 198

IAM ١٢٣ اللہ کے پیاروں کو تم کیسے بُرا سمجھے خاک ایسی سمجھد پر ہے سمجھے بھی تو کیا مجھے شاگرد نے جو پا یا استاد کی دولت ہے احتمال کو محمد سے تم کیسے جُدا مجھے دشمن کو بھی جو مومن کہتا نہیں وہ باتیں تم اپنے کرم سرما کے حق میں روا مجھے جو چال چلے ٹیڑھی جو بات کسی اُلٹی بیماری اگر آئی تم اس کو شفا مجھے لعنت کو پکڑ بیٹھے انعام سمجھ کر تم حق نے جو روا بھیجی تم اس کو کر دی مجھے کیوں قعر مذلت میں گرتے نہ پہلے جاتے تم بوم کے سائے کو جب حق شما مجھے انصاف کی کیا اس سے اُمید کرے کوئی بے داد کو جو ظالم آئین دنا مجھے و غفلت تری رائے مسلم کب تک چلی جائے گی سمج یا فرض کو تو سمجھے یا تجھ سے خدا سمجھے اخبار الفضل جلد ۳۳ - ۲۸ دسمبر ۰۹۳۶

Page 199

۱۲۴ درد نہاں کا حال کسی کو سنائیں کیا طوفان اُٹھ رہا ہے جو دل میں بتائیں کیا کچھ لوگ کھارہے ہیں غم قوم مسبح وشام کچھ صبح و شام سو چتے بہتے ہیں کھائیں کیا جس پیار کی نگہ سے ہیں دیکھتا ہے وہ اُس پیار کی نگاہ سے دیکھیں گی مائیں کیا جام شراب در ساز طرب رقص پرخروش دنیا میں دیکھتا ہوں میں یہ دائیں بائیں کیا دنیا ہے ایک زال عمر خوردہ و ضعیف اس زال زشت رُو سے بھلا دل لگائیں کیا دامن تہی ہے ، فکر مشوش ، نگہ غلط آئیں تو تیرے در پہ مگر ساتھ لائیں کیا حرص و ہوا و بجبر و تغلب کی خواہشات چمٹی ہوئی ہیں دامن دل سے بلائیں کیا اپنا ہی سب قصور ہے اپنی ہی سب خطا الزام اُن پر تسلم و جفا کا لگائیں کیا 1972 اخبار الفضل جلد ۱ - لاہور پاکستان - ۲۸ / دسمبر ۱۳۶

Page 200

۱۲۵ يا رَازِقَ الثَّقَلَيْنِ اَيْنَ جَنَاكَ جِئْنَاكَ رَاجِينَ لِبَعْضِ نَدَاكَ اے جن و انس کے رازق تیرا اپیل کہاں سےہم تیری بخشش سے کچھ حصہ لینے کے اُمیدوار بن کر تیرے پاس آئے ہیں نشد َأمَامَ النَّاسِ غَصَ جَفَاكَ وَالحَقِّ يَمْسَ وَفَاءنَا كَوَفَا كَ ہم لوگوں کے سامنے تیری جنا کا شکوہ تو کرتے ہیں مگر بات یہ ہے کہ ہماری وفا تیری و نا جیسی نہیں ہے كُنتَ تَنَعِي عَنْهُ كُلَّ تَنْتِي يَا قَلْبيَ الْمَجْرُوحَ كَيْفَ رَمَاكَ اے میرے زخمی دل ! تو تو اس بت کنارہ کش رہتا تھا.اب ہو تو اس کی محبت کا شکار ہوگیا ہے تو یہ تیرا نے تجھ پر کیسے چلایا لَمَّا يَبْتُ وَقُلتُ اَيْنَ نَبَاتِي قَالَتْ عَنَايَتُه هِنَاكَ مِنَاكَ جب میں مایوس ہو گیا اور کہا کہ میری نجات کہاں گئی ؟ تو اللہ تعالیٰ کی عنایت نے کہا یہاں یہاں میرے پاس يَا هَادِيَ الأَرْوَاحِ كَاشِفَ هَتِهَا حُنَا بِبَابِكَ مابين هداك اسے روحوں کے ہاری اور ان کے غم کو دور کر نیوا ہے.ہم تیری رہنمائی کے طلبگار بن کر تیرے پاس آئے ہیں يَا أَيُّهَا المَتَان من بِرَحْمَةٍ وَارْزُقْ قُلُوبَ عِبَادِكَ تَقُونَكَ اسے مشان اپنی رحمت اور اپنے فضل سے احسان کو اور اپنے بندوں کے دلوں کو تقویٰ عطا کر احيلت لي بابتِسَامِ وَنَظرَةٍ غَطَتْ وَجُودِي كُلَّهُ نُعماك تو نے ایک ہی مسکراہٹ اور نظر محبت کے ساتھ مجھے زندہ کر دیا اور تیری نعمتوں نے میرے سراپا کو ڈھانک لیا اختبار الفضل جلد ۲ - لاہور پاکستان ۲ جنوری نشده

Page 201

AL مَن تُحجلُ الوَردَ الطَّرِي يكونِهِ عَيْنَايَ دَامِيَتَانِ أَو خَدَات اپنے شریع رنگ سے تر و تازہ بل گلاب کو کون شر ما رہا ہے میری دونوں خو نبار کیس یا تیرے مرغ رضار منك التكون وكُلّ رَوْحِ وَرَوَاحَةٍ مَنْ ذَا الَّذِي لَا يَبْتَغِي لقياك سکون اور ہر قسم کا آرام و راحت تبھی سے (تا) ہے (تو پھر) وہ کون ہے جو تیرے دیدار کا طالب نہ ہو يَا مَنْ تَخَافُ عَدُوكَ مُتَزَحْزِهَا عِندَ المَلِيكِ المُقْتَدِرِ مَثْوَان سے وہ شخص جو دشمن سے گھبراتا اور ڈرتا ہے تجھے ڈرنے کی کیا وجہ ہے تو خُدائے ملیک مقتدر کے پاس بھید ہے عَطِشَتْ قُلُوبُ العَاشِقِيْنَ يَرَاحِكَ فَادِرُ كُوسَكَ وَاسْقِ مِنْ سُفْيَاكَ عاشقوں کے دل تیری شہر کے لیے تڑپ رہے ہیں ہیں تو نکی جس میں نے پیالوں کا دور چلا اور شراب محبت کی تقسیم سے انکو بھی بست وی

Page 202

JAA.شاخ کوبی پہ آشیانہ بنا تا ابد جو رہے فسانہ بنا عرش بھی جس سے مُرتعش ہو جائے سوزش دل سے دُہ ترانہ بنا فلسفی ! زندگی سے کیا پایا؟ حیف ہے گر تیرا خدا نہ بنا لذت وصل ہی میں سب کچھ ہے اس سے ملنے کا کچھ بہانہ بنا چھوڑنا ہے جو نقش عالم پر ! کسی کمر عزم مقبلا نہ بنا وہ تو بے پردہ ہو گئے تھے مگر حیف یہ دل ہی آئینہ نہ بنا دل کو لے کر میں کیا کروں پیارے تو اگر میرا دلربا نہ بنا خاک کر دے ملا دے مٹی میں پر میرے دل کو بے وفا نہ بنا گر کے قدموں پہ ہو گیا ئیں ڈھیر وقت پر خوب ہی بہانہ بنا چال عشاق کی چپلوں میں بھی تو بھی انداز دلبرانہ بنا نعمت وصل بے سوال ہی دے اپنے عاشق کو بے حیا نہ بنا جو بھی دینا ہے آپ ہی دیدے مجھ کو اغیار کا گدا نہ بنا تجھ سے مل کر نہ غیر کو دیکھوں غیر کا مجھے کا مبتلا نہ بنا اخبار الفضل جلد ۲ - لاہور پاکستان - ۲۲ را پر میل نشده

Page 203

149 جس کے نیچے ہوں سب مجمع مشاق اپنی رحمت کا شامیانہ بنا بخشش حق نے پالیا مجھ کو کیا ہوا میں اگر بھلا نہ بنا مجھ سے لاکھوں میں تیسری دنیا میں تجھ سا پر کوئی دوسرا نہ بنا تیری صنعت پر حرف آتا ہے توڑ دے پر مجھے بُرا نہ بنا دل و دلبر میں چھیڑ جاری ہے ہے یہ اک طرفہ شاخسانہ بنا دیکھ کر آدمی میں دانہ کی حرص آج ابلیس خود ہے دانہ بنا

Page 204

۱۲۷ بٹھانہ مسند پہ پاس اپنے نہ دے جگہ اپنی انہن میں یہ میرادل تو مر ہی دل ہے سے تو رہنے دیسی گن میں نہ ہو تیری ہو فریت تو ہے بے وطن آدمی من میں قفس قض ہی رہیگا پھر بھی ہزار رکھو اسے چمن میں جو دل سلامت رہے تو علم کا ذرہ ذرہ ہےمسکراتا ہزار اہم نظرمیں آتے ہزار پیوند پیرہن میں جے نوازنے خدا کی رحمت ہی میں سب بیان میں پیدا غزال لکھوں ہیں اور بھیت سے بت کیا آٹھوئے من میں ہوا جو مکہ میں تو پیدا اسی کو مکہ نے دور پھینکا کبھی ٹی ہے نبی کو عزت بتا تواسے معترض دین میں میں رنگ لیاں منا رہے لوگ ساغر کے چھلک ہے ہیں وہ لطف انکو کہاں میسر لما جو مجھ کو تری لگن میں تری محبت ہی میرے دل میں مری محبت سے میرے دل میں زبان میری تم سے تصرف میں بات تیری ہر دین میں مقابلہ دین مصطفے کا یہ دیگر ادیان کیا کریں گے ہمیں مردہ نہیں کے مردہ مذہب پیسٹ لکھو انہیں کفن میں نظر بقا ہر ہے عاشقوں اور مالداروں کا حال کیاں وہ مست رہتے ہیں اپنی دھن میں سیرت ہے میں امن میں ہزاروں کلیاں چنک ہی ہیں ہزاروں فنچ سکتے ہیں نیم رحمت کی چل رہی ہے چین چین میں چین چین میں اخبار العمل جلد ۲ - لاہور پاکستان - ۱٫۲۰ پریل شده

Page 205

۱۲۸ یه غزل جو درحقیقت پندرہ سولہ سال پہلے بھی گئی تھی مگر کہیں گم ہوگئی.اب کچھ یادسے کام کے کوکچھ نئے شعر کہ کرکل ہوتی ہے.(مرزا محمود احمد) نگاہوں نے تری مجھ پر کیا ایسافسوں ساتی کہ دل میں جوش وحشت ہے تو سر میں ے جنوں ساقی جیوں تو تیری خوشنودی کی خاطر ہی ہوں ساتی مروں تو تیرے دروازے کے آگے ہی مروں ساقی پلائے تو اگر مجھ کو تو میں اپنی پہیوں ساتی رہوں گا حشر قدموں پر ترے میں سرنگوں ساقی تری دنیا میں فرزانے بہت سے پائے جاتے ہیں مجھے تو بخش دے اپنی محبت کا جنوں ساتی ہوا اک تیرے میخانے کے رہنے منانے خالی ہیں پلائے گر نہ تو مجھ کو تو پھر میں کیا کروں ساقی تجھے معلوم ہے جو کچھ میرے دل کی تمنا ہے مرا ہر ذرہ گویا ہے زباں سے کیا کھوں ساتی دہ کیا صورت ہے جس سے بین نگاہ مکلف کو پاؤں چھووں دامن کو تیرے پاتے پاؤں پڑوں ساتی مجھے قید مجتت لاکھ آزادی سے اچھلتی ہے کچھ ایساکر کہ پابند سلاسل ہی رہوں ساتی ترے در کی گدائی سے بڑا ہے کونسا درجہ مجھے گر بادشاہت بھی ملے تو میں نہ گوں ساتی ندا ہوتے ہیں پروانے اگر شمع منور پر تو تیرے روئے روشن پر نہ میں کیوں جان دں ساتی نہ صورت ان کی مسجد میں پیدا ہے نہ مندرمیں زمانہ میں یہ کیا ہو رہا ہے کشت و خوں ساتی میدان محبت سے ہی میخانے کی رونق ہے پھلکتا ہے ترے پیمانہ میں اُن کا ہی خوں ساتی اخبار الفضل جلد ۲ - لاہور پاکستان - درستی نشانه

Page 206

۱۲۹ مرادیں ٹوٹ ریس دیوانگی نے نہ دیکھی کامیابی آگهی نے میری جانب یونسی دیکھا کسی نے نظر آنے لگے ہر جا دینے مزاج یار کو برہم کیا ہے مری اُلفت مری دلبستگی نے زمین و آسماں کی بادشاہت عطا کی مجھ کو تیری بندگی نے جُدائی کا خیال آیا ہو دل میں لگے آنے پسینوں پر پینے کنارہ آ ہی جائے گا کبھی تو چلائے جا رہے ہیں ہم سفینے اُسی کے در پہ اب دھونی رمادوں کیا ہے فیصلہ یہ میرے جی نے جو میرا تھا اب اس کا ہو گیا ہے مرے دل سے کیا یہ کیا کسی نے جدائی میں تری تڑپا ہوں برسوں یونسی گزرے ہیں ہفتے اور مہینے دہ منہ رُخ آگیا خود پاس میرے لگائے چاند مجھ کو بے بسی نے وہ آنکھیں جو ہو ئیں اُلفت میں بے نور نہیں وُہ اُس کی اُلفت کے نگینے اُسی کا فضل ڈھاپنے گا میرا ستر نہ کام آئیں گے پینے مرینے اختبار الفضل جلد ۲ - لاہور پاکستان - ۱۲ امتی بنده

Page 207

پرستاران زر یہ تو بتاؤ غریبوں کو بھی کو پچھا ہے کسی نے کنوئیں جھانکا گیا بہنوں عمر بھر میں ڈبویا مجھ کو دل کی دوستی نے انہیں ٹوٹا ہی سمجھو ہر گھڑی تم وہ دل جو بن رہے ہیں آبگینے خُدا را اس کو رہنے دیں سلامت یہ دل مجھ کو دیا تھا آپ ہی نے علامت کفر کی ہے تنگی نفس مگر اسلام سے کھلتے ہیں سینے رہی ہیں غوطہ خور بحرِ ہستی ڈرز سے میں بھرے جن کے سفینے مهاجر بننے والو یہ بھی سوچا کہ پیچھے چھوڑے جاتے ہو دینے

Page 208

۱۳۰ عشق دونا کی راہ دکھایا کرے کوئی راز وصال یار بتا یا کرے کوئی نکھوں میں نور بن کے سمایا کرے کوئی میرے دل دو ماغ پہ چھایا کرے کوئی سالوں تک اپنا منہ نہ دکھایا کرے کوئی یوں تو نہ اپنے دل سے بھلایا کرے کوئی دنیا کو کیا غرض کہ سُنے داستان عشق یہ قصہ اپنے دل کو سنایا کرے کوئی میں اُس کے ناز روز اُٹھاتا ہوں جان پر میرے کبھی تو ناز اُٹھایا کرے کوئی چہرہ میرے حبیب کا ہے مہر نیم روز اس آفتاب کو نہ چھپایا کرے کوئی ہے دعوت نظر تیری طرز حجاب میں ڈھونڈا کرے کوئی مجھے پایا کرے کوئی محفل میں قصے عشق کے ہوتے ہیں صبح وشام حُسن اپنی بات بھی تو سُنایا کرے کوئی پیدائش جہاں کی غرض بس یہی تو ہے بگڑا کرے کوئی تو بنا یا کرے کوئی ١٩٤٨ اخبار الفضل جلد ۲ - لاہور پاکستان - ۲۳ رمتی ۱۹۳۵

Page 209

۱۹۵ ۱۳۱ اترسوں خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص ہے اور وہ میری ایک نظم خوشش آسمانی سے بلند آواز سے پڑھ رہا ہے آنکھ کھلی تو شعر تو کوئی یاد نہ رہا گھر وزن اور قافیہ ردیف خوب اچھی طرح یاد رہے.اسی وقت ایک مصرعہ بنایا کہ وزن تانیہ رویف یا د رہ جائیں صبح اس پر غزل کہی جو چھپنے کے لیے ارسال ہے.( مرزا محمد واحمد) مردوں کی طرح باہر نکلو اور ناز واذا کو رہنے دو بس رکھ لوپنے سینوں پر اور آہ و بکا کو رہنے دو اب تیر نظر کو پھینک کے تم اک خبر آئن ہاتھ میں تو یہ فولادی پہ جوں کے ہی دن اب مست بنا کو رہنے دو کیا جنگوں مومن کیسے ڈور وہ موت کیلا کرتا ہے تم اس کے سر کرنے کیلئے میدان وفا کو رہنے دو تمام طب میں ساتھ رہے جب نام یا تم بھاگ اٹھے ہے دیکھی ہوئی اپنی یہ نام اپنی وفا کرنے دو مسلم جو خدا کا بندہ تھا افسوس کہ اب یوں کہا ہے اسباب کرو کوئی پیدا جبریل و خدا کو رہنے دو خود کام کو چوپٹ کرکے تم اللہ کے سر من دیتے ہو تم اپنے کاموں کو دیکھو اوراس کی قضا کو رہنے دو و اس کے پیچھے چلتے ہیں ہرم کی رات ہی ہیں اور اس کی عادت میں اور ان چار کو رہنے دو کہ اسکی تیکمی چون میں جنت کا نظارہ دیکھتا ہے اس جور و جفا کے واسطے تم پابند وفا کو رہنے دو اخبار الفضل جلد ۲ - لاہور پاکستان - ۲ جون شاه

Page 210

144 ۱۳۲ ہوا زمانہ کی جب بھی کبھی بگڑتی ہے مری نگاہ تو بس جا کے تجھ پہ پڑتی ہے بدل کے بھیس معالج کا خود وہ آتے ہیں زمانہ کی جو طبیعت کبھی بگڑتی ہے زبان میری تو رہتی ہے اُنکے آگے گنگ نگاہ میری نگاہوں سے اُن کی لڑتی ہے الجھ اُلجھے کے میں گرتا ہوں دامن تر سے میری اُمیدوں کی بستی یونسی اُجڑتی ہے کبھی جو ناشین تدبیر میں ہلاتا ہوں مجھے شکنجہ میں قیمت مری جکڑتی ہے رمنٹ منٹ پہ میرا امتحان لیتے ہیں قدم قدم پہ مصیبت یہ آن پڑتی ہے * اخبار الفضل جلد ۲ - لاہور پاکستان - در جولائی منش

Page 211

144 ١٣٣ ذکر خُدا پر زور دے فلکمت دل منائے جا گوہر شب چراغ بن دُنیا میں جگمگائے جا دوستوں دشمنوں میں فرق داب سلوک یہ نہیں آپ بھی جام کئے اڈا غیر کو بھی پلائے جا خالی اُمید ہے فضول منفی عمل بھی چاہیے ہاتھ بھی تو ہلائے جا آش کو بھی بڑھائے جا جو لگے تیرے ہاتھ سے زخم نہیں علاج ہے میرا نہ کچھ خیال کر زخم یونہی لگائے جا مانے نہ مانے اس سے کیا بات تو ہو گی دو گھڑی قصہ دل طویل کر بات کو تو بڑھائے جا کشور دل کو چھوڑ کر جائیں گے وہ بھلا کہاں آئیں گے وہ یہاں ضرور تو انہیں بس بلائے جا منزل عشق ہے کشن راہ میں راہزن ہی میں پیچھے نہ مڑ کے دیکھ تو آگے قدم بڑھائے جا عشق کی سوزشیں بڑھا جنگ کے شعلوں کو دبا پانی بھی سب طرف چھڑ ک آگ بھی تو لگائے جا اخبار الفضل جلد ۲ - لاہور پاکستان - ۹ جولائی شد

Page 212

۱۹۸ (۱۳۴ مسحور کر دیا مجھے دیوانہ کر دیا تیری نگاہ نطف نے کیا کیا نہ کر دیا جادو بھرا ہوا ہے وہ آنکھوں میں آپ کی اچھے بھلے کو دیکھ کے دیوانہ کر دیا سوز دروں نے جوش جو مارا تو دیکھنا خود شمع بن گئے مجھے پروانہ کر دیا آنکھوں میں گھس کے وہ میرے دل میں سما گئے مسجد کو اک نگاہ میں ثبت خانہ کر دیا غم کی طرف نگاہ کی ساتی نے جب کبھی میں نے بھی اُس کے سامنے پیمانہ کردیا ہیں نا خدائے قوم بنے صاحبان فصل ہے اس خیال نے مجھے دیوانہ کر دیا ہر جلوہ جدید نے تختہ الٹ دیا خود مجھ کو اپنے آپ سے بیگانہ کر دیا میری شکایتوں کو ہنسی میں اُڑا دیا لایا تھا جو میں سنگ اُسے وانہ کردیا کہتے ہیں میرے ساتھ رقیبوں کو بھی تو چاہ کو اور مجھ غریب پر جرمانہ کر دیا ناسخ وہ اعتراض تیرے کیا ہوئے بتا یکتا کے پیار نے مجھے یکتا نہ کر دیا؟ اختيار الفضل بند ۲ - لاہور پاکستان - ۱۳مر جولائی شده

Page 213

144 ۱۳۵ ہو چکا ہے ختم اب پکر تری تقدیر کا سر نے والے اٹھے کہ وقت آیا ہے اب تدبیر کا شکوہ جور ملک کب تک رہے گا ہر زباں دیکھ تو اب دوسرا رخ بھی ذرا تصویر کا کاندی جامہ کو پھینک اور آہنی زیر میں مین وقت اب جاتا رہا ہے شوخی تحریر کا نیزه دشمن ترے سینہ میں پیوستہ نہ ہو اس کے دل کے پار ہو سونار تیرے تیر کا اپنی خوش اخلاقیوں سے موہ سے دشمن کا دل دلبری کر، پھوڑ سودا نالہ دل گیر کا مدتوں کھیلا کیا ہے لعل و گوہر سے کرو اب دکھا دے تو ذرا جو ہر اُسے شمشیر کا پی کے دھندوں کو پھوڑا اور قوم کے فکروں میں سے ہاتھ میں شمیشرے عاشق نہ بن کف گیر کا ملک کے چھوٹے بڑے کو وعظ کر پھر وعظ کر وعظ کرتا جا، نہ کچھ بھی منکر کر تاثیر کا گل کے کاموں کو بھی ممکن ہو اگر تو آج کر اسے میری جاں وقت یہ ہرگز نہیں تاخیر کا ہو چکی مشق ستم اپنوں کے سینوں پر بہت اب ہو دشن کی طرف رُخ خنجر د شمشیر کا اے میرے فرہاد رکھ دے کاٹ کر کوہ جبیل تیرا فرض اولیں لانا ہے جوئے شیر کا ہو رہا ہے کیا جہاں میں کھول کر آنکھیں تو دیکھ وقت آپہنچا ہے تیرے خواب کی تعبیر کا اختبار الفضل جلد ۲ - لاہور پاکستان - ۱۴ار جولائی شد

Page 214

۲۰۰ ١٣٦ چھوڑ کر چل دئے میدان کو دو باتوں سے مرد بھی چھوڑتے ہیں دل کبھی ان باتوں سے ئیں دل و جاں بخوشی ان کی نذر کر دیتا ماننے والے اگر ہوتے وہ سوناتوں سے دن ہی پڑھتا نہیں قسمت کا مری اے افسوس منتظر ہوں تیری آمد کا کئی راتوں سے رنگ آجاتا ہے اُلفت کا نگا ہوں میں تیری دور نہ کیا کام تیرے بندوں کا برساتوں سے میرا مقدور کہاں شکوہ کروں اُن کے حضور محمد کو فرصت ہی کہاں اُن کی مناجاتوں سے کامیابی کی تہمت ہے تو کر کوہ کئی یہ پری شیشے میں اُتری ہے کہیں باتوں سے بار مل جاتا ہے مجلس میں کسی کی دو پہر دن ہوئے جاتے ہیں روشن ہر اب راتوں سے ناز سے غمزہ سے عشوہ سے فسوں سازی سے لے گئے دل کو اڑا کر مرے کن گھاتوں سے کبھی گریہ ہے کبھی آہ و فغاں ہے اے دل تنگ آیا ہوں بہت میں ترمی ان باتوں سے تو میری جاں کی غذا ہے مرے دل کی راحت یہ پیٹ بھرتا ہی نہیں تیری ملاقاتوں سے اخبار الفضل جلد ۲ - لا ہو ر پاکستان - ۲۵/ جولائی ساله

Page 215

آنکھوں میں وہ ہماری رہے ابتدا یہ ہے ہم اس کے دل میں بسنے لگیں انتہا یہ ہے روزہ نماز میں کبھی کٹتی تھی زندگی اب تم خدا کو بھول گئے، انتہا یہ ہے لاکھوں خطائیں کر کے جو ٹھکتا ہوں اُس طرف پھیلا کے ہاتھ ملتے ہیں مجھ سے وفا یہ ہے راتوں کو آکے دیتا ہے مجھ کو تسلیاں مُردہ خُدا کو کیا کروں میراندا یہ ہے کیا حرج ہے جو ہم کو پہنچ جائے کوئی شتر پہنچے کسی کو ہم سے اگر شتر برا یہ ہے اس کی وفا ومر میں کوئی کمی نہیں تم اس کو چھوڑ بیٹھے ہو ظلم وجنایہ ہے مارے ملاتے کچھ بھی کرے مجھ کو اس سے کیا مجلس میں اُس کے پاس رہوں مدعا یہ ہے وئے چمن اُڑائے پھرے ہو ، وہ کیا صبا لائی ہے بوئے دوست اُڑا کر مبا یہ ہے اخبار الفضل حبله ۲ - لاہور پاکستان ۲۰ / جولائی شداد

Page 216

عاشقی تو وہ ہے جو کہ کسے اور سنے تری دنیا سے آنکھ پھیر کے مرضی کرے تیری جو کام تجھ سے لینا تھا وہ کام لے چکے پر ڈاہ رہ گئی ہے یہاں اب کیسے تری اتید کامیابی و شغل سرود و رقص یہ بیل چڑھ سکے گی نہ ہرگز منڈھے تری ہو ر در عشق تیری میرے دل میں جاگزیں تصویر میری آنکھ میں آکر بسے تری مٹ جاتے میرا نام تو اس میں حرج نہیں قائم جہاں میں عزت و شوکت ہے تیری میدان میں شیر نر کی طرح لڑکے جان نے گردن کبھی نہ غیر کے آگے مجھکے تری دل مانگ جان مانگ کے مذر ہے یہاں منظور ہے ہمیشہ سے خاطر مجھے تری نکلے گی وصل کی کوئی صورت کبھی ضرور چاہت تجھے مری ہے تو چاہت ہے تری سکتا ہے تو تو میں بھی ہوں اک منفرد وجود میرے سوا ہے آج محبت کسے تیری اخبار الفضل مجلد ۲ - لاہور پاکستان - ۲۱ جولائی شد

Page 217

٢٠٣ ده گل رھنا بھی دل میں جو مہماں ہو گیا گوشہ گوشہ خانہ دل کا گلستاں ہو گیا محسن بد میں کی محبت حق کی خاطر چھوڑ دی کا فرقت بنا لیکن مسلماں ہو گیا دل کو ہے وہ قوت و طاقت عطا کی ضبط نے نالہ جو دل سے اٹھا میرے وہ طوفاں ہو گیا کم نہیں کچھ کیمیا ہے سوز اُلفت کا اثر اشک خوں جو بھی نہا لعل بدخشاں ہو گیا آپ ہی وہ آگئے بیتاب ہو کر میرے پاس در وجب دل کا بڑھا تو خود ہی درماں ہو گیا سامنے آنے سے میرے جس کو برتا تھا گریز دل میں میرے آچھپا غیروں سے پنہاں ہو گیا میں دکھانا چاہتا تھا ان کو حالِ دل ، مگر وہ ہوئے ظاہر تو دل کا درد پنہاں ہو گیا پہلے تو دل نے دکھائی خود سری بے انتہا رفتہ رفتہ پھر یہ سرکل بھی مسلماں ہو گیا عشق کی سوزش نے آخر کر دیا دونوں کو ایک وہ بھی حیران رہ گیا اور میں بھی حیراں ہو گیا اس دل ناز کے صدقے جو میری لغزش کے وقت دیکھ کر میری پریشانی پریشاں ہو گیا اک مکمل گلستان ہے وہ مرا نچہ دہن جب بہوا وہ خندہ زن میں گل بداماں ہو گیا آگیا غیرت میں فوراً ہی میرا مینی نفس مرتے ہی پھر زندگی کا میری ساماں ہو گیا میں بڑھا اک گز تو وہ سو گز بڑھے میری طرف کام مشکل تھا مگر اس طرح آساں ہو گیا حیف اس پر جس کو روی جان کر پھینکا گیا در منہ ہر ہر گل چمن کا نذرِ جاناں ہو گیا اخبار افضل مجله ۲ - لاہور پاکستان ۱ را گست شانه -

Page 218

م.۱۴ دہ آئے سامنے منہ پر کوئی نصاب نہ تھا یہ انقلاب کوئی کم تو انقلاب نہ تھا میرے ہی پاؤں اُٹھائے نہ اُٹھ سکے افسوس انھیں تو سامنے آنے میں کچھ حجاب نہ تھا تھا یادگار تیری کیوں بیٹا دیا اس کو میرا یہ درد محبت کوئی مذاب نہ تھا بو دل پہ ہجر میں گذری بتاؤں کیا پیارے عذاب تھا وہ مرے دل کا اضطراب نہ تھا ہوئے نہ انجمن آرا.اگر تو کیا کرتے کہ ان کے حسن کا کوئی بھی تو جواب نہ تھا بلا رہے تھے اشاروں سے بار بار مجھے مُراد یں ہی تھا مجھ سے مگر خطاب نہ تھا و فورشن سے آنکھیں جہاں کی خیرہ تھیں نظر نہ آتے تھے منہ پر کوئی نقاب نہ تھا عطائیں ان کی بھی بے انتہا تھیں مجھ پہ مگر مطالبوں کا مرے بھی کوئی حساب نہ تھا چھڑک دیا جو فضاؤں پہ عفو کا پانی ڈہ کو نسا تھا بدن جو کہ آب آب نہ تھا بس ایک ٹھیں سچی پھٹ کے ہو گیا اسے شیخ یہ کیا ہوا ترا دل تھا کوئی حباب نہ تھا ضیا پر مہر ہے ادنی سی اک جھلک اس کی نہ میں کو دیکھ سکا نہیں وہ آفتاب نہ تھا جو پورا کرتے اُسے آپ کیا خرابی بھی مرا خیال کوئی بوالہوس کا خواب نہ تھا اخبار الفضل جلد ۲ - لاہور پاکستان - ۱۳در نومبر سه گانه

Page 219

۱۴۱ دل دے کے ہم نے ان کی سات کو پا نیا بے کار چیز دے کے ڈر بے بہا لیا ئیں مانگنے گیا تھا کوئی اک نیا گا لیکن وہاں اُنھوں نے میرا دل اُڑا لیا که کہتے ہیں لوگ کھاتے ہیں یہ صبح و شام غم ہم ان سے کیا کہیں کہ نہیں غم نے کھا لیا گر کر گڑھے میں عرش کے پانے کو جانتھنوں کھوئے گئے جہاں سے گر اُن کو پا لیا نکلا تھا ئیں کہ بوجھ اُٹھاؤں گا اُن کا نہیں لیکن اُنھوں نے گود میں مجھ کو اُٹھا لیا بھاگا تھا اُن کو چھوڑ کے یونس کی طرح ہیں لیکن انھوں نے بھاگ کے پیچھے سے آلیا ہنتے ہی ہنتے رُوٹھ گئے تھے وہ ایک دن ہم نے بھی رُوٹھ روٹھ کے اُن کو منا لیا جا جا کے اُن کے در پہ تھکے پاؤں جب سے وہ چال کی کہ ان کو ہی دل میں بسا لیا یہ دیکھ کر کہ دل کو لیے جا رہے ہیں کہ میں نے بھی اُن کے حُسن کا نقشہ اُڑا لیا ناراضگی سے آپ کی آتی ہے لب پہ جان اب تھوک دیجے غصہ بہت کچھ ستا لیا کیا دام عشق سے کبھی نکلا ہے قید بھی کیا بات تھی کہ آپ نے عہد وفا لیا نقصاں اگر ہوا تو فقط آپ کا ہوا دل کوستا کے اسے میرے دلدار کیا لیا میں صاف دل ہوں مجھ سے خطا جب کبھی کئی آپ خیال سے میں اسی دم بنا لیا ہونے دی ان کی بات نہ ظاہر کسی پہ بھی جو زخم بھی لگا اسے دل میں چھپا لیا عشق دونا کا کام نہیں نالہ دفناں بھر آیا دل تو چھکے سے آنسو بہا لیا اخبار الفضل جلد ۲ - لاہور پاکستان ۱۲۰۰ دسمبر شانه

Page 220

۱۴۲ کھلے ہو آنکھ تو لوگ اس کو خواب کہتے ہیں ہو عقل اندھی تو اس کوسٹ باب کہتے ہیں بھی کے من کی ہے اس میں آب کہتے ہیں بنی ہے عین اسی سے تراب کہتے ہیں وہ عمر جس میں کہ پاتی ہے عقل نور وجبلا تم اس کو شیب کہو ہم شباب کہتے ہیں شرور روح جو چاہے تو دل کی سُن آواز کہ تار دل ہی کو چنگ و رباب کہتے ہیں ڈہ سلسبیل کا چشمہ کہ جس سے ہو سیراب جگہ سے اس کو مدد کیوں سراب کہتے ہیں نگارہ یار سے ہوتے ہیں سب طبق روشن رموزِ عشق کی اس کو کتاب کہتے ہیں یمیں بھی تجھ سے ہے نبت اور نہ بادہ نوش نگاہ یار کو ہم بھی شراب کہتے ہیں جو چاہے تو تو وہی غیر فانی بن جائے وہ زندگی کہ جسے سب حباب کہتے ہیں یہ فخر کم نہیں مجھ کو کہ دل مسل کے میرا دو پیار سے مجھے خانہ خراب کہتے ہیں بڑھا کے نیکیاں میری خطائیں کر کے معاف وہ اس ظہور کرم کو حساب کہتے ہیں فراق میں جو میری آنکھ سے بسے تھے اشک انہی سے محسن نے پائی ہے اب کہتے ہیں قدم بڑھا کہ ہے دیدار یار کی ساعت الٹنے والا ہے مُنہ سے نقاب کہتے ہیں *.۱۹۴۹ اخبار الفضل فیلد ۳ - لاہور پاکستان ۱۳۱۰ دسمبر شانه

Page 221

۱۴۳ آ آ کہ تری راہ میں ہم آنکھیں بچھائیں آآ کہ تجھے سینہ سے ہم اپنے لگائیں تو آئے تو ہم تجھ کو سر آنکھوں پہ بٹھائیں جاں نذریں دیں تجھ کو تجھے دل میں بسائیں آپ آکے محمد کی عمارت کو بنائیں ہم گھر کے آشار کو دنیا سے مٹائیں ہیں مغرب و مشرق کے تو معشوق ہزاروں بھاتی ہیں مگر آپ کی ہی مجھ کو ادائیں رحمت کی طرف اپنی نگر کیجئے آت جانے بھی دیں کیا چیز ہیں یہ میری خطائیں ئیں جانتا ہوں آپ کے انداز تلطف مانوں گا نہ جب تک کہ میری مان نہ جائیں ہے چیز تو چھوٹی سی مگر کام کی ہے چیز دل کو بھی مرے اپنی اداؤں سے بھا ئیں دے ہم کو یہ توفیق کہ ہم جان لڑا کر اسلام کے سر پر سے کریں دُور بلائیں ربوہ کو ترا مرکز توحید بناکر اک نعرہ تجیر فلک بوس لگائیں پھر ناف میں دُنیا کی ترا گاڑ دیں نیزہ پھر پرچم اسلام کو عالم میں اُڑائیں جس شان سے آپ آئے تھے مکہ میں کی جاں اک بار اسی شان سے ربوہ میں بھی آئیں رکوہ رہے کتبہ کی بڑائی کا دھاگو کید کی پہنچتی رہیں ربوہ کو دعائیں اخبار الفضل جلد ۴ - لاہور پاکستان - ۱۹ار جنوری سنشله

Page 222

الدله در سُنانے والے افسانے بُجا کے بھی دیکھے بھی ہیں بندے خُدا کے نہ واپس آیا دل اس در پہ جا کے وہیں بیٹھا رہا ڈھونی رما کے بھٹکتے پھر رہے ہو سب جہاں میں لیا کیا تم نے دلبر کو بھلا کے ئے خانہ پا کر بند اے شیخ چلے میں آپ بھی گھر کو خدا کے یہ تم کو ہو گیا کیا اہل ہمت نہیں کیا یاد وہ وعدے وفا کے کیا کرتے ہیں ہم سیر در عالم کسی کو اپنے پہلو میں بٹھا کے خدا ہی نے لگائی پار اُٹھائے یونی احساں ناخدا کے مجھے دیگر جب بھی دیکھتے ہیں بٹھا لیتے ہیں پاس اپنے بلا کے بھی دن لے کے چھوڑیں گے دو یہ مال بھلا رکھو گے کب تک دل چُھپا کے جو پھر نکلو تو جو چاہو سو کہنا ذرا دیکھو تو اس محفل میں آئے جنھوں نے ہوش کے خانہ میں کھوئے وہ کیا لیں گے بھلا مسجد میں جائے یزیدی شان کے مالک ادھر آ مناظر دیکھتا ب کربلا کے مرے کانوں میں آوازیں خُدا کی تیرے کانوں میں آپکے بم کے دہما کے میری اُمید وابستہ فلک سے تیری نظروں میں اس دُنیا کے خاکے بلا تجھ کو نہ کچھ دنیا میں آئے نہ تو دیکھے گا راحت یاں سے جاکے اخبار الفضل جلد ۴ - لاہور پاکستان - ۰ ارمئی سنت اسمه

Page 223

۱۴۵ بتاؤں تمھیں کیا کہ کیا چاہتا ہوں ہوں بندہ مگر میں خُدا چاہتا ہوں میں اپنے سیاہ خانہ دل کی خاطر وفاؤں کے خالق ! دنا چاہتا ہوں ہو پھر سے ہرا کر دے ہر خشک پودا چمن کے لیے وہ سب چاہتا ہوں مجھے بیر ہرگز نہیں ہے کسی سے میں دُنیا میں سب کا بھلا چاہتا ہوں دہی خاک جس سے بنا میرا پتلا ہیں اس ناک کو دیکھنا چاہتا ہوں بکالا مجھے جس نے میرے چمن سے میں اس کا بھی دل سے بھلا چاہتا ہوں میرے بال و پر میں وہ ہمت ہے پیدا کہ لے کر قفس کو اُڑا چاہتا ہوں بھی جس کو رشیوں نے منہ سے لگایا وہی جام اب میں پیا چاہتا ہوں رقیبوں کو آرام و راحت کی خواہش مگر میں تو کرب و بلا چاہتا ہوں.دکھائے جو ہر دم ترا حُسن مُجھ کو مری جاں! میں وہ آئنہ چاہتا ہوں } رساله مصباح - ماہ جنوری ۱۹۵۷

Page 224

١٤٦ عشق نے کر دیا خراب مجھے ورنہ کہتے تھے لاجواب مجھے کچھ اُمنگیں تھیں کچھ اُمیدیں تھیں یاد آتے ہیں اب کہ خواب مجھے یں تو بیٹھا ہوں برلب ہو کیا رکھاتا ہے تو سراب مجھے مست ہوں میں تو روز اول سے فائدہ دے گی کیا شراب مجھے زشت روئیں ہوں آپ مالک حُسن چھوڑیئے دیجئے لعاب مجھے داروئے ہر مرض شفائے جہاں حتی نے بخشی ہے وہ کتاب مجھے جس میں حصہ نہ ہو میرے دیس کا کیسے بھائے وہ آب تاب مجھے میرا باجا ہے تیغ کی جھنکار زہر لگتا ہے یہ رباب مجھے دشمنوں سے تو رکھ مرا پر وہ اس طرح کر نہ بے حجاب مجھے بے حد و بے شمار میرے گناہ کس طرح دیں گے وہ حساب مجھے عزم بھی اُن کا ہاتھ بھی اُن کے دُہ کریں کام دیں تو اب مجھے بس کے آنکھوں میں دل میں گھر کر کے کر گئے یوں کہ لا جواب مجھے دل میں بیداریاں ہیں پھر پیدا پھر دکھا چشم نیم خواب مجھے اختبار الفضل جلد ۵ - لاہور پاکستان - ۲۲ مارچ ۱۵

Page 225

اے بے یاروں کے یار نگاہ لطف غریب مسلماں پر اس بیچارے کا ہندوستاں میں اب کوئی بھی یار نہیں اے ہند کے مسلم صبر بھی کر ہمت بھی کر شکوہ بھی کر فریادیں کو الفاظ ہی ہیں پر پھر بھی وہ بے کار نہیں ہر حکم بھی شہہ ہر بات بھی من پر دین کا دامن تھامے رہ غدار نہ بن بُزدل بھی نہ بن یہ مومن کا کردار نہیں تو ہندوستان میں روتا ہے میں پاکستان میں گڑھتا ہوں ہے میرا دل بھی زار فقط تیرا ہی حال زار نہیں اگر جائیں ہم سجدہ میں اور ستجادوں کو تر کر دیں اللہ کے در پر سر پلکیں جس سا کوئی دربار نہیں اخبار الفضل جلد ۵ - لاہور پاکستان - ۲۰ ر مارچ ساله

Page 226

۱۴۸ عقلی کو بلایا ہے تو نے تو امتی ہے ہشیار ہیں یہ تیری ساری سانی بے کار ہے گر گرد انہیں اس پیار کے پرپر جانا کچھ شکل نہیں کچھ دشوار نہیں اس طرف جو راہیں جاتی ہیں کہ ہرگز نا ہموار نہیں میں اس کا ہاتھ پکڑ کرنا خلا سے اونچا اڑتا ہوں پر میرے دشمن کا کوئی دربار نہیں سر کارنہیں دہ خاک سے پیدا کرتا ہے پردے زندہ کرتا ہے جو اس کی راہ میں کرتا ہے وہ زندہ ہے مردار نہیں تم انسانوں کے پہلے ہوئیں اس کے رکا ریزہ ہوں میں علم ہوں میں فاضل ہوں پر سر پر سے اتار نہیں جادو ہے میری نظروں میں تاثیر ہے میری باتوں میں میں سب دنیا کا فاتح ہوں ہاتھوں میں مگر تلوار نہیں میں تیز قدم ہوں کاموں میں بجلی ہے برمی رفتار نہیں میں مظلوموں کی بھاری ہوں مرہم ہے مری گفتار نہیں وں سد کرشاہ کوئی ہی ہوں یں ان سرو کر یوں بیلوں سرکار مری ہے دین میں یہ لوگ میری سرکار نہیں تو اس کے پیارے ہاتھوں کو اپنی گردن کا طوق بنا کیا تو نے گلے میں ڈالا ہے ڈوالنسار ہے یہ کرتا نہیں اسلام یہ آفت آئی ہے لیکن تو نافل بیٹھا ہے اٹھو دشت پر یہ ثابت کر تو زندہ ہے مردار نہیں جن معنوں میں دیکہتا ہے کتا بھی ہے جتبار بھی ہے جن معنوں میں تم کہتے ہو تمہار نہیں جب انہیں دوزخ میں جلنا سخت برا پر یہ بھی کوئی بات نہ منفی سو عیب کا اس میں عیب سے یہ گفتار نہیں دیدار نہیں کچھ اس کی شش بی ایس سے دل ہاتھ سے نکل جاتا ہے ورنہ میں اپنی جان سے کچھ ایسا بھی تو بیزار نہیں اخبار الفضل جلد ۱۳۰۵ پریل ۹۵ - لاہور پاکستان -

Page 227

جاں میری گھٹتی جاتی ہے دل پارہ پارہ ہوتا ہے تم بیٹے ہو چپ چاپ جوئیوں کیا تم میرے وگدار نہیں میں تیرے فن کا شاہد ہوں تو میری کمزوری کا گواہ تجھ سابھی طبیب نہیں کوئی مجھ سا بھی کوئی بیمار نہیں وہ جو کچھ مجھ سے کہتا ہے پھر میں جو اس سے کہتا ہوں اک راز محبت ہے جس کا اعلان نہیں اظہار نہیں میں ہر صور س سے اچھا ہوں اک دل میں سوزش رہتی ہے گرمشق کوئی آزار نہیں مجھ کو بھی کوئی آزار نہیں کیا اس سے بڑھ کر را دست کہاں نکلے تیرے ہاتھوں میں تو جان کا لینے والا بین مجھ کو تو کوئی انکار نہیں

Page 228

۲۱۴ ۱۴۹ ہوگا حریم قدس کے سائن کو نام سے کیا کام ہوا و حرص کے بندہ کو کام سے کیا کام ہوں امکان تو قصر رحام سے کیا کام جو ہر جگہ ہو اسے اک مقام سے کیا کام ربین عشق کو کیف مدام سے کیا کام پلائیے مجھے آنکھوں سے جام سے کیا کام ہر ایک حال میں ہے لب پہ میرے نام خدا خدا پرست ہوں میں رام رام سے کیا کام سیلوئے دل کو ڈبوتا ہوں جوئے رحمت میں مجھے ہے ساغر و مینا و جام سے کیا کام ہے میرے دل میں محمد تو اسکے دل میں میں مجھے پیامبروں کے پیام سے کیا کام مجھے پلائی ہو ساتی تو ابر رحمت بھیج بغیر ابر کے ہار دجام سے کیا کام مرا حبیب تو بستا ہے میری آنکھوں میں مجھے حسینوں کے ڈر اور بام سے کیا کام بو اس کی ذات میں کھو بیٹھے اپنی ہستی کو اُسے ہو اپنے پرایوں کے نام سے کیا کام بھی بھی عشق میں سو دے تو انہیں کرتے جو جاں ہی دینے پہ آئے تو دام سے کیا کام سمند عزم پہ جو ہو گیا سوار تو پھر اُسے رکاب سے مطلب لگام سے کیا کام اُسے تو موت کے سایہ میں بن چکی ہے حیات شہید عشق کو عیش دوام سے کیا کام مجھے خدا نے سکھایا ہے علیم ربانی مجھے ہے فلسفہ منطق کلام سے کیا کام جو ہولی کھیلتے رہتے ہیں خونِ مسلم سے انہیں وفا و وفاق و نظام سے کیا کام بغل میں بیٹھے ہوئے دستوں کی کیا حاجت ہوں پختہ کار توپھر عشق خام سے کیا کام بچھے ہیں وام تو ان کے لیے جو اُڑتے ہیں ، اسیر عشق ہوں میں مجھ کو دام سے کیا کام اخبار الفضل جلد ۱۹۰۵ را پریل سانائه - لاہور پاکستان

Page 229

۲۱۵ ۱۵۰ چاند چمکا ہے گال میں ایسے تاج ہو جیسے بال ہیں ایسے تن پہ کمخواب یہ سیٹ میں حلوان جاں پہ ان کی وبال ہیں ایسے جن کو یقینی کا فکر رہتا ہو ہیں مگر خال خال ہیں ایسے لوٹنے سے اُنہیں کہاں فرصت وُہ پریشان حال ہیں ایسے لیڈر قوم بھی ہیں ڈاکو بھی اُن کے اندر کمال ہیں ایسے نے کے پھندے میں جو پھنسا سو پھنسا اس کے مضبوط بال ہیں ایسے جن کے رہ جاتے ہیں تمام افکار دل کے اندر اُبال ہیں ایسے جو کہ شرمندہ جواب نہیں ان کے دل میں سوال ہیں ایسے اُن کو فرصت ہی مصلح کی کب ہے؟ وقعت جنگ و جدال ہیں ایسے دہ کریں بے وفائی اسے تو بہ آپ کے ہی خیال ہمیں اپنے ، قوم کے مال پھر خیانت سے کون چھوڑے یہ مال ہیں ایسے سجدة بارگہ بھی بوجھل ہے کیا کریں کہ نڈھال ہیں ایسے گا یہاں تکیہ کلام اُن کا یہ عدو خوش خصال میں ایسے دین ودنیا کی شدہ نہیں اُن کو موخن و جمال ہیں ایسے توڑنے کو بھی دل نہیں کرتا یہ محبت کے جال ہیں ایسے ساری دنیا میں مشک پھینکیں گے.میرے بھی کچھ غزال ہیں ایسے اختار افضل جلد ۵ - ۲۲ ا پریل سنشاه - لاہور پاکستان را

Page 230

۱۵۱ جو دل پہ زخم لگے ہیں مجھے دیکھا تو سہی ہوا ہے حال تیرا کیا مجھے سُنا تو سہی شمار عشق میں کیسے کبھی تو کچھ کر دیکھ یہ بیج باغ میں اپنے کبھی لگا تو سہی لگاؤں سینہ سے دِل میں بٹھاؤں میں تجھ کو نہ دُور بھاگ یونسی.میرے پاس آ تو ہی ڈہ منہ چھپائے ہوئے مجھ سے ہم کلام ہوئے وصال گونہ ہوا خیر کچھ ہوا تو ہی فریب خوردہ اُلفت فریب خوردہ ہے مگر تو سامنے اس کو کبھی بلا تو سہی دہ آپ خود پہلے آئیں گے تیری مجلس میں خودی کے نقش ذرا دل سے تو مٹا تو سہی بُرا ہما کہ بھلا اپنی اپنی قسمت ہے ہمارے دل پہ ترا نقش کچھ جا تو سہی زمانہ دشمن جاں ہے نہ اس کی جانب پھر تو اُس کو اپنی مدد کے لیے بلا تو سہی نظر نہ آئے وہ تجھ کو یہ کیسے ممکن ہے حجاب آنکھوں کے آگے سے تو ہنا تو ہی نکلتے ہیں کہ نہیں رُوح میں پیر پرواز تو اپنی جان کو اس شمع میں جلا تو سہی جو دشت و کوہ بھی رقصاں نہ ہوں مجھے کینو تو اس کی سر سے ذرا اپنی سر ملا تو سہی ☆ ۱۹۵۱ اخبار الفضل جلد ۵ - - درمئی ۹۵ لاہور پاکستان

Page 231

۱۵۲ نکل گئے جو ترے دل سے خار کیسے ہیں جو تجھ کو چھوڑ گئے وہ نگار کیسے ہیں نہ آرزوئے ترقی نہ صدمہ ذلت خدا بچائے یہ لیل و نہار کیسے ہیں بھی سے خانہ شمار کا کھلا ہے در جو چھکے بیٹے ہیں وہ بادہ خوار کیسے ہیں یہ حسن خلق ہے تجھ میں نہ حُسن سیرت ہے تو ہی بتا کہ یہ نقش و نگار کیسے ہیں خُدا کی بات کوئی بے سبب نہیں ہوتی نہیں ہے ساتی تو ابر و بہار کیسے ہیں نہ غم سے غم نہ خوشی سے میری تجھے ہے خوشی خُدا کی ماریہ قرب و جوار کیسے ہیں نہ دل کو چین نہ سر پر ہے سایہ رحمت ستم ظریف ! یہ باغ و بہار کیسے ہیں نہ وصل کی کوئی کوشش نہ دید کی تدبیر خبر نہیں کہ وہ پھر بے قرار کیسے ہیں رہی ہے چال وہی راہ ہے وہی ہے روش ستم وہی ہیں تو پھر شرمسار کیسے ہیں ده لالہ رخ ہی یہاں پر نظر نہیں آتا تو اس جہان کے یہ لالہ زار کیسے ہیں دہ حسرتیں ہیں جو پوری نہ ہو سکیں افسوس بتاؤں کیا میرے دل میں مزار کیسے ہیں مصیبتوں میں تعاون نہیں تو کچھ بھی نہیں جو غم شریک نہیں غمگسار کیسے ہیں * اخبار الفضل جلد ۵ - ۲۳ مئی ۱۹۵۷ء لاہور.پاکستان

Page 232

PIA ۱۵۳ تم نظر آتے ہو ذرہ میں نائب بھی ہو تم سب خطاؤں سے بھی ہو تم پاک تا رب بھی ہو تم فہم سے بالا بھی ہو نہم مہتم بھی ہو تم عام سے عام بھی ہو بستر غرائب بھی ہو تم تم ہی آتا ہو میرے تم ہی میرے مالک ہو میرے ساعات غم و رنج میں نائب بھی ہو تم غیر کی نصرت و تائید سے ہو ہو مستغنی اور پھر صاحب اجناد و کتائب بھی ہو تم منبع خلق تم ہی ہو که خالق باری شنب بھی تم ہو میری جان تائب بھی ہو تم اخبار الفضل جلد ۱۵ در جولائی سنه - لاہور پاکستان A

Page 233

۱۵۴ اے شاہ معالی آ بھی.ے شاہ جلالی آ بھی ج روح جمالی آ بھی جا تو میرے دل میں دل تجھ میں قَصْدِى وَ مَالِي آ بھی ب دشمن نے گھیرا ہے مجھ کو صبرى و بالي آ بھی جا سب کام میرے تجھ بن اے جاں نہیں لطف سے خالی آ بھی جا ب *

Page 234

۱۵۵ ارادے غیر کے ناگفتنی ہیں نگا ہیں زھر میں ڈوبی ہوئی ہیں حقارت کی نگاہیں ہیں سکتی محبت کی نگاہیں پھیلتی ہیں اُمیدوں کو نہ مار دشمن جاں اُمیدیں ہی تو مغز زندگی ہیں محبت سے تجھے ہے روکتا کون محبت کی شرائط پر کڑی ہیں کوئی یا نہیں دُنیا کو رہبر نگاہیں آ کے مجھ پر ہی نیکی ہیں اخبار الفضل جلد ۵ - ۱۸ / جولائی انہ لاہور پاکستان

Page 235

۲۲۱ 104 زمیں کا بوجھ وہ سر پر اُٹھائے پھرتے ہیں اک آگ سینہ میں اپنے دبائے پھرتے ہیں وہ جس نے ہم کو کیا برسر جہاں رُسوا اُسی کی یاد کو دل میں چھپائے پھرتے ہیں دہ پھول ہونٹوں سے ان کے بھڑے تھے جو اک بار انی کو سینہ سے اپنے لگائے پھرتے ہیں کشو ہماری جان تو ہاتھوں میں اُس کے ہے جدھر بھی جب بھی وہ اس کو پھرائے پھرتے ہیں دہ دیکھ لے تو ہر اک ذرہ پھول بن جائے دہ موڑے منہ تو سب اپنے پرائے پھرتے ہیں خدا تو عرش سے اُترا ہے مُنہ دکھانے کو پر آدمی ہیں کہ بس منہ بنائے پھرتے ہیں اختبار الفضل جلد ۵ - ۱۱۹ جولائی سالہ لاہور.پاکستان

Page 236

106 نوٹ : اُردو میں عام طور پر منائے نہیں مٹتی بولا جاتا ہے اور وہاں یہ مراد ہوتا ہے کہ انسان مٹانا چاہتا ہے مگر نشان نہیں بیٹا.اس کے برخلاف ایک نقش ایسا ہوتا ہے کہ کوئی خود تو اسے مٹانا نہیں چاہتا، لیکن مرور زمانہ سے وہ کمزور پڑتا جاتا ہے، پونکہ میں نے اسی مضمون کو لیا ہے ، اس لیے بجائے مٹائے نہیں مٹی کے بٹتے نہیں مٹی استعمال کیا ہے.جاہل اور ہوں کے نزدیک یہ بات ناجائز تعترف معلوم ہوگا مگر واقعوں کے نزدیک مفید اضافہ.مرزا محمود احمد - (۲۸ جولاتی شه) یہ کیسی ہے تقدیر ہو ہٹتے نہیں مٹتی پتھر کی ہے تحریر جو ہٹتے نہیں ملتی سب اور تصور تو میرے دل سے مٹے ہیں ہے اک تری تصویر جو مٹتے نہیں مٹتی اب تک ہے میرے قلب کے ہر گوشہ میں موجود ان لفظوں کی تاثیر جو مٹتے نہیں مٹتی رکس زور سے کعبہ میں کہی تم نے مری جاں اک گو نجتی تعبیر جو ہٹتے نہیں ہٹتی انسان کی تدبیر پر غالب ہے ہمیشہ اللہ کی تدبیر جو ہٹتے نہیں ملتی ڈلہوزی و شملہ کی تو ہے یاد ہوئی مجھ ہے خواہش کشیر جو ہٹتے نہیں ملتی اسلام کو ہے نور بلا نورِ خدا سے ہے ایسی یہ تنویر جو ہٹتے نہیں ملتی کن کر کے نیا باب بلاغت کا ہے کھولا ہے چھوٹی سی تقریر جو مٹتے نہیں ملتی اخبار الفضل جلد ۵ - ۳۱ر جولائی سنہ لاہور پاکستان

Page 237

۲۲۳ ۱۵۸ آنکھ گر مشتاق ہے جلوہ بھی تو بیتاب ہے دل دھڑکتا ہے میرا آنکھ اُن کی بھی پُر آب ہے ئر میں ہیں انکار یا اک بادلوں کا ہے ہجوم دل مرا سینہ میں ہے یا قطرہ سیماب ہے ظلمتوں نے گھیر رکھا ہے مجھے پر غم نہیں دُور اُفق میں جگمگاتا چہرہ مہتاب ہے • حق کی جانب سے ملا ہو جس کو تقویٰ کا لباس جسم پر اس کے اگر گاڑھا بھی ہو کمخواب ہے جسم ایمان سعی و کوشش سے ہی پاتا ہے نمو آرزوئے بے عمل کچھ بھی نہیں اک خواب ہے عشق صادق میں تیرا رونا ہے اک آب حیات بے غرض رونا تیرا اک بے پینہ سیلاب ہے اخبار الفضل جلد ۴۰۵ راگست شاه لاسور پاکستان

Page 238

۲۲۴ ۱۵۹ قید کافی ہے فقط اس حسن عالمگیر کی تیرے عاشق کو بھلا حاجت ہی کیا زنجیر کی ڈہ کہاں اور ہم کہاں پر رحم آڑے آ گیا رہ گئی عزت ہمارے نالہ دلگیر کی ب کہیں جا کر ہوا حاصل وصال فرات پاک مدتوں میں نے پرستش کی تری تصویر کی مجھ کو لڑنا ہی پڑا احدار کینہ تو ز سے جنگ آخر ہو گئی تدبیر سے تقدیر کی جن کے سینوں میں نہ دل ہوں بلکہ پتھر ہوں مگر کیا پہنچے ان تک ہمارے نالئہ دیگر کی مید رضی کی تڑپ میں تم نے پایا ہے مزہ ہے مرا دل جانتا لذت تمہارے تیر کی مجھ کو رہتی ہے ہمیشہ اس کے ہاتھوں کی تلاش فکر رہتی ہے تجھے صبح و مسا کف گیر کی جستجوئے خن نہ کر تو دوسرے کی آنکھ میں فکر کر نادان اپنی آنکھ کے شہتیر کی اخبار الفضل جلد ۵ - ۹ راگست سه لاہور پاکستان

Page 239

۲۲۵ 14 توبہ کی بیل پڑھنے لگی ہے منڈھے پہ آج اے درد میری آنکھ کا فوارہ چھوڑ دے ! رحمت کے چھینٹے دینے پر صد صد شکر و امتنان دل کے لیے بھی پر کوئی انگارہ چھوڑ دے جنت میں ایسی جنس کا جانا حرام ہے.اپنے ذنوب کا نہیں پشتارہ چھوڑ دے لعنت خدا کے بندوں پر ماشا ! کبھی نہیں بچنا ہے گر تو لعنت کفارہ چھوڑ دے اسلام کھانے پینے پہننے کے تھی میں ہے پر یہ نہ ہو کہ نفس کو آوارہ پھوڑ دے اخبار الفضل جلد ۵ - ۱۹ راگست ساشه لاہور - پاکستان

Page 240

141 سر پر عادی وہ حماقت ہے کہ جاتی ہی نہیں کفرد بدعت سے وہ رغبت ہے کہ جاتی ہی نہیں نہ خُدا سے ہے محبت نہ محمت سے ہے پیار تم کو دہ دیں سے عداوت ہے کہ جاتی ہی نہیں نام اسلام کا ہے گھر کے ہیں کام تمام اس پہ پھر ایسی رعونت ہے کہ جاتی ہی نہیں تم نے سو بار مجھے نیچا دکھانا چاہا پر مرے دل کی مروت ہے کہ جاتی ہی نہیں تم کو مجھ سے ہے عداوت تو مجھے تم ہے سے پیار میری یہ کیسی محبت ہے کہ جاتی ہی نہیں ہر مصیبت میں دیا ساتھ تمہارا لیکن تم کو کچھ ایسی شکایت ہے کہ جاتی ہی نہیں تو یہ بھی ہو گئی مقبول حضوری بھی ہوئی پر مرے دل کی ندامت ہے کہ جاتی ہی نہیں گالیاں کھائیں، پیٹے ، خوب ہی رُسوا بھی ہوئے عشق کی ایسی حلاوت ہے کہ جاتی ہی نہیں کیا ہوا ہاتھ سے اسلام کے نکلی ہو زمیں دل پر وہ اُس کی حکومت ہے کہ جاتی ہی نہیں وسوسے غیر نے ڈالے گئے اپنوں نے فساد میری تیری وہ رفاقت ہے کہ جاتی ہی نہیں غیر بھی بیٹھے ہیں اپنے بھی میں گھیرا ڈالے مجھ میں اور تجھ میں وہ خلوت ہے کہ جاتی ہی نہیں پھینکتے رہتے ہیں اعدار مرے کپڑوں پر گند تو نے دی مجھ کو وہ بہت ہے کہ جاتی ہی نہیں رنج ہو غم ہو کوئی حال ہو خوش رہتا ہوں دل میں کچھ ایسی طراوت ہے کہ جاتی ہی نہیں صدیوں سے ٹوٹ رہا ہے تیری دولت تبال دلیرا تیری وہ ثروت ہے کہ جاتی ہی نہیں گفر نے تیرے گرانے کے لئے لاکھ جتن تیری دہ شان و شوکت ہے کہ جاتی ہی نہیں میں تیری راہ میں مر مر کے جیا ہوں منٹو بار موت سے مجھ کو وہ رغبت ہے کہ جاتی ہی نہیں اخبار المفضل جلد ۱۶۰۵ نومبر سالمه لا ہو ر پاکستان

Page 241

147 ایک دل شیشہ کی مانند ہوا کرتا ہے ٹھیس لگ جائے ذرا سی تو صدا کرتا ہے میں بھی کمزور مرے دوست بھی کمزور تمام کام میر تو بھی میرا خدا کرتا ہے بوش کر دشمن ناداں یہ تورکیا کرتا ہے ساتھ ہے جس کے خُدا اُس پہ جفا کرتا ہے زندگی اُس کی ہے دن اس کے ہیں راتیں اُس کی دہ ہو محبوب کی محبت میں رہا کرتا ہے قلب مومن پہ ہے انوار سماوی کا نزول روشن اس جنگ کو یہ اللہ کا دیا کرتا ہے (۹۳۶مہ کراچی کے سفر میں ) اخبار الفضل جلده - اور نومبر اطالیہ لاہور.پاکستان

Page 242

١٩٣ جو کچھ بھی دیکھتے ہو فقط اُس کا ٹور ہے ورنہ جمال ذات تو کوسوں ہی دُور ہے ہے ہر گھڑی کرامت و هر لحد معجزه یہ میری زندگی ہے کہ حق کا ظہور ہے دیکھا نہ تو نے ایہہ خانہ میں بھی جمال تیری تو عقل میں کوئی آیا فستور ہے مُردہ دلوں کے واسطے ہر لفظ ہے حیات میری صدا نہیں یہ فرشتوں کا سور ہے زندگی میں دخل نہ کچھ موت پر ہے زور تو چیز کیا ہے ایک سر پر غرور ہے ده نوشت رو کہ جس سے چڑیلیں بھی خوف کھائیں اس کو بھی دیکھئے کہ تمنائے ٹور ہے (جولائی ۱۹۴۷ سندھ) اخبار الفضل جلد ۵ - ۱۱ر نومبر ۹۵اہ لاہور پاکستان.

Page 243

E ۲۲۹ ۱۶۴ اس کی رضائی میرے قلب حزیں کو چھٹے فورد فلماں کی خبر خُلد بریں سے پوچھئے استجابت کے مزے عرش بریں سے پوچھئے سجدہ کی کیفیتیں میری جبیں سے پوچھئے نسوز وصل خُدا ہے بس میری دکان پر بھر جگہ پر دیکھ لیجے گا کہیں سے پوچھئے کوچه دلبر کے رستہ سے ہے دنیا بے خبر پوچھنا ہو آپ نے گر تو ہمیں سے پوچھئے آسمانی بادشاہت کی خبر احمد کو ہے کس کی ملکیت سے کام یہ گیس سے پوچھئے ابتدائے عشق سے دل کھو چکا ہے عقل و ہوش بستر گفت اُس نگاہ شرمگیں سے پوچھئے دوسروں کی خوبیاں اس کی نظر میں عیب میں تجھہ کو اپنی بھی خبر ہے ؟ نکتہ میں سے پو چھٹے آسماں کی راز ہوئی عقل سے ممکن نہیں راز خانہ پوچھنا ہو تو مکیں سے پوچھئے فقر نے بخشا ہے لاکھوں کو شہنشاہی کا تاج کیا ہوا ہے سحر یہ نان جویں سے پوچھئے کس قدر تو بائیں توڑی میں یہ ہے دل کو خبر کس قدر پونچھے میں آنسو آئیں سے پوچھئے کس قدر صدمے اُٹھائے ہیں ہمارے واسطے قلب پاک رحمۃ لِلعالمین سے پوچھئے الفضل جلده - ۱۲۴ نومبر اہ لاہور - پاکستان.(اکتوبر را ۹۵ امیہ لاہور )

Page 244

140' جونہی دیکھا اُنہیں چشمہ محبت کا اُبل آیا درخت عشق میں مایوسیوں کے بعد پھیل آیا خطائیں کیں جفائیں کیں ہر اک ناکردنی کر لی کیا سب کچھ مگر پیشانی پر اُن کے نہ بل آیا ملمع ساز اس کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں دُنیا میں مگر وہ عاشق صادق کے پہلو سے نکل آیا اُمیدیں روز ہی ہوتی تھیں پیدا شکل کو لے کر مگر قلب مزیں کو مسبر آج آیا نہ کل آیا نہیں بیچارگی و جبر کا دخل ان کی محفل میں جو آیا ان کی محفل میں وہ پل کے سر کے بل آیا ادر جولانی شده دوران سفر سکیسر اخبار الفضل جلد ۲۰۰۵ نومبر انه لا ہور - پاکستان -

Page 245

194 آؤ تمھیں بتائیں نجحت کے راز ہم پیٹریں تمھاری رُوح کے خوابیڈ ساز ہم میدان عشق میں ہیں رہے پیش پیش وه محمود بن گئے وہ بنے جب ایاز ہم بطحا سے نکلے وہ کبھی سینا سے آئے کہ جدت طراز وہ ہیں کہ جدت طراز ہم ایسی وفاٹے گی ہمیں اور کس جگہ آئیں گے اُن کے عشق سے ہرگز نہ باز ہم وہ آئے اور عشق کا اظہار کر دیا پڑھتے رہے اندھیرے میں چھپ کر نماز ہم عشق منم سے عشق خدا غیر چیز ہے اس رہ کے جانتے ہیں نشیب و فراز ہم اک ذرہ حقیر کی قیمت ہی کیا بھلا کرتے ہیں اُن کے لطف کے بل پر ہی تازہم گاتے ہیں جب فرشتے کوئی نغمہ جدید ہاتھوں میں تھام لیتے ہیں فوراً ہی ساز ہم اخبار الفضل مجلد ۵ - ۶ / دسمبر سنہ لاہور - پاکستان.

Page 246

۲۳۲ 146 جب کہ بیٹے ہوئے ہوں پاس میرے پاس آتے ہی کیوں ہراس مرے ساعت ول آ رہی ہے قریب ہو رہے ہیں بجا حواس میرے میرے پہلو سے اٹھ گئے گر تم گرد گھوما کرے گی پاس میرے خاک کر دے گی کفر کا خاشاک ول نیکلی ہے جو بھڑاس میرے دے گئے تھے جواب تاب و تواں کام آتی ہے ایک آس میرے اختبار الفضل جلد ۵ - ۹ر دسمبر سالہ لاہور - پاکستان

Page 247

۱۶۸ و عاشقوں کا شوق قربانی تو دیکھ خون کی اِس رہ میں ارزائی تو دیکھ بڑھ رہا ہے حد سے کیوں تقریرہ میں ہوش کر کچھ اُن کی پیشانی تو دیکھ طعن پاکان شغل منبح و شام ہے مولوی صاحب کی کتانی تو دیکھ صدیوں اس نے ہے تیرا پہرہ دیا اس نگہباں کی نگہبانی تو دیکھ افظ قرآن پر کبھی تو کان دھر فلم کی اس میں فراوانی تو دیکھ شكوه قیمت کے چکر میں نہ پھنس اپنی غفلت اور نادانی تو دیکھ خورده گیری آسماں کی چھوڑ بھی ابن آدم ! اپنی عریانی تو دیکھ اپنے دل تک سے ہے انساں بے خبر پھر یہ دعوائے ہمہ دانی تو دیکھ فرش سے جا کر لیا دم عرش پر مصطفے کی سیر روحانی تو دیکھ ابر رحمت پر تعجب کی لیے کفر کی دُنیا میں طغیانی تو دیکھ دا من رحمت وہ پھیلائے نہ کیوں مومنوں کی تنگ دامانی تو دیکھ آسماں سے کیوں نہ اُتریں اب تلک کُفر کی افواج طوفانی تو دیکھ اب نہ باندھیں گے تو کب باندھیں گے بند کفر کا بڑھتا ہوا پانی تو دیکھ کفر کے پیشے سے کیا نسبت اسے میرے چشمہ کا ذرا پانی تو دیکھ ہے اکیلا گھر سے زور آزما احمدی کی رُوح ایسانی تو دیکھ اخبار الفضل جلد ۶ - یکم جنوری سالہ لاہور پاکستان.

Page 248

149 کیا آپ ہی کو نیزہ چھونا نہیں آتا؟ یا مجھ کو ہی تکلیف میں رونا نہیں آتا حاصل ہو سکون چھوٹوں اگر دامن دلبر دامن کا مگر ہاتھ میں کونا نہیں آتا بھر جاؤں تو اُٹھتے ہوئے طوفانوں سے کن کشتی کو سمندر میں ڈبونا نہیں آتا جو کام کا تھا وقت وہ رو رو کے گزارا اب رونے کا ہے وقت تو رونا نہیں آتا کہتے ہیں کہ مٹ جاتا ہے دھونے سے ہر اک داغ اے وائے مجھے داغ کا دھونا نہیں آتا آجاتے ہو تم یاد تو لگتا ہوں تڑپنے ورنہ کے آرام سے سونا نہیں آتا دامن بھی ہے غفراں کا سمندر بھی ہے موجود دامن کو سمندر میں ڈبونا نہیں آتا ہوتی تو ہیں پر ان کو یہ مرونا نہیں آتا آنسو تو میں آنکھوں میں پر رونا نہیں آتا میں لاکھ جتن کرتا ہوں دل دینے کی خاطر پر اُن کی نگہ میں یہ کھلونا نہیں آتا کیا فائدہ اس در پہ تجھے جانے کالے دل دامن کو جو اسکوں سے بھگونا نہیں آتا کس برتے پہ اُمید رکھوں اُس سے جزا کی کاٹوں گا میں کیا خاک کہ ہونا نہیں آتا اخبار الفضل جلد ۶-۳ جنوری ۵ه - لاہور - پاکستان.

Page 249

۲۳۵ 16.لگ رہی ہے جہان بھر میں آگ گھر میں ہے آگ رہ گذریں آگ بھائی بھائی کی جان کا بیری لب پہ ہے مسلح اور بڑ میں آگ دشمنی کی پہلی ہوئی ہے کو بات بیٹی ہے پر نظر میں آگ کس پہ انسان اعتبار کرے زور میں آگ ہے تو زر میں آگ مٹی پانی کا ایک پتلا تھا بھر گئی کیسے پھر بستر میں آگ ابن آدم کو کو لگ گیا کیا روگ آگ ہے دل میں اور سر میں آگ کیسے نکلی ہے نور سے یہ نار باپ میں نور تھا پسر میں آگ کھا رہی ہے جیم دنیا کو شہر میں آگ ہے نگر میں آگ اُن کو جنت سے واسطہ ہی کیا ہو لگی جن کے نام دور میں آگ بن نہ بد خواہ تو کسی کا بھی خیر میں شمج ہے تو شعر میں آگ ابر رحمت خدا ہی برسائے ہے بھڑک اُٹھی بحر و بر میں آگ ۱۹۵۱ اختبار الفضل جلد ۶ - یکم اگست سه لا ہو ر پاکستان.

Page 250

161 دنیا میں یہ کیا فتنہ اٹھا ہے میرے پیارے ہر آنکھ کے اندر سے نکلتے ہیں شرارے یہ منہ ہیں کہ آہنگروں کی دھونکنیاں ہیں دل سینوں میں ہیں یا کہ پیروں کے پائے رائیں تو ہوا کرتی ہیں راتیں ہی ہمیشہ پر ہم کو نظر آتے ہیں اب دن کو بھی تارے ہے امن کا داروغہ بنایا جنہیں تو نے خود کرر ہے ہیں فتنوں کو آنکھوں سے اشارے اسلام کے شیدائی ہیں خونریزی پر مائل ہاتھوں میں جو بنجر ہیں تو پہلو میں کنارے یچ بیٹھا ہے اک کو نہ میں منہ اپنا ٹھکا کر اور جھوٹ کے اُڑتے ہیں فضاؤں میں غبارے ظلم وستم و جور بڑھے جاتے ہیں مد سے ان لوگوں کو اب تو ہی سنوارے تو سنوارے طوفان کے بعد اُٹھتے چلے آتے ہیں طوفاں لگنے نہیں آتی ہے میری کشتی کنارے گر زندگی دینی ہے تو اسے ہاتھ سے اپنے کیا جینا ہے یہ جیتے ہیں غیروں کے سہارے اخبار الفضل جلد ۶ - ۵ را گست ، لاہور - پاکستان.

Page 251

٢٣ ۱۷۲ کفر کی طاقتوں کا توڑ ہیں ہم گیتوں ان روح سلام کا نچوڑ ہیں ہم معتام بالا ہے ایک بھی ہوں اگر کروڑ ہیں ہم نما ہے گر تو ہم سے بل وصل کی وادیوں کے موڑ ہیں ہم تم میں ہم میں مناسبت کیسی؟ تم مفاصل ہو اور جوڑ ہیں ہم ہم اُمیدوں سے پر ہیں تم مایوس رونی صورت ہو تم ہنسوڑ ہیں ہم ۱۳ / جولائی شده بر مقام سیکیسر اخبار الفضل جلد ۶ - ۱۲ را گست سہ لاہور پاکستان -

Page 252

۲۳۸ دہ دل کو جوڑ تا ہے تو ہیں دلفگار ہم وہ جان بخشتا ہے تو میں جاں نثار ہم تو دولہا ہمارا زندہ جاوید ہے جناب کیا بے وقوف ہیں کہ نہیں سوگوار ہم در اس کا آج گر نہ کھلا خیر کل ہی جائیں گے اس کے در پر یونسی بار بار ہم تدبیر ایک پردہ ہے تقدیر اصل ہے ہوں گے بس اس کے فضل سے ہی کامگار ہم کوئی عمل بھی کر نہ سکے اُس کی راہ میں رہتے ہیں اس خیال سے ہی شرمسار ہم دنیا کی مفتوں سے تو کوئی بنا نہ کام روئیں گے اُس کے سامنے اب زار زار ہم اٹھ کر رہے گا پردہ کسی دن تو دیکھنا باندھے کھڑے ہیں سامنے اس کے قطار ہم دشمن ہے خوش کہ نعمت دنیا ملی اسے ٹوٹیں گے اس کی گود میں جا کر بہار ہم تمت نے کیسا جوڑ ملایا ہے دیکھنا دہ خالق جہاں ہے تو مُشتِ غبار ہم ۱۹۵۲ء اخبار الفضل جلد ۶ -۳۱ دسمبر سالہ لاہور: پاکستان

Page 253

ألفت الفت کہتے ہیں پر دل اُلفت سے خالی ہے ہے دل میں کچھ اور منہ پر کچھ دُنیا کی ریت نرالی ہے کہتے ہیں آؤنیا کو دیکھ ہیں اس میں کیسے نظارے ئیں کہتا ہوں بس چپ بھی رہو یہ میری دیکھی بھالی ہے یاں عالم انکو کہتے ہیں جو دیں سے کورے ہوتے ہیں جب دیکھو بھیڑیا نکلے گا جو بھیڑوں کا رکھوالی ہے تقویٰ کا جھنڈا جھکتا ہے پر کفر کی گڈی چڑھتی ہے اس دنیا میں اب نیکوں کا کوئی تو اللہ والی ہے اندھیاری راتوں میں سجدے کرنا تو پہلی باتیں تھیں آب دن ایک مجلس میش کی ہے اور رات جو ہے دیوالی ہے اب صوفے کو چلیں گرجا میں اک شان سے رکھے رہتے ہیں مسجد میں بٹھائی ہوتی تھی سو ظالم نے سرکالی ہے - کافر کے ہاتھ میں بندوقیں مومن کے ہاتھ سلاسل میں کافر کا ہاتھ خزانوں پر مومن کی پیالی خالی ہے اخبار الفضل جلد ۷ - ۳/ جنوری تشنه - لاہور - پاکستان.=

Page 254

۲۴۰ 160 ارے مسلم طبیعت تیری کیسی لا ابالی ہے ترے اعمال دنیا سے جُدا فطرت نرالی ہے خدا کو دیکھ کر بھی تو کبھی خاموش رہتا ہے کبھی اس زرتشت رو کو دیکہ کرائے اہ کہتا ہے.بھی اس چشمہ صافی کے ہمسائے میں بستا ہے کبھی اک قطرہ آپ منظر کو ترستا ہے بھی فردار نفتے کے اٹھا کر پھینک دیتا ہے بھی چیونٹی کے ہاتھوں کبھی نہ چھین لیتا ہے کبھی آفاتِ ارضی و سماوی سے ہے ٹکراتا کبھی ٹو بھی جو لگ جائے تو تیرا منہ ہے مُرجھاتا بھی کہتا ہے تو اللہ کو کس نے بنایا ہے ؟ کبھی کہتا ہے راز خلق دنیا کس نے پایا ہے ؟ کبھی اللہ کی قدرت کا بھی انکار ہے تجھ کو کبھی انسان کی رفعت پہ بھی اصرار ہے تجھ کو کمال ذات انسانی پر تشوشتو ناز کرتا ہے کبھی شان خداوندی پر شو شو حرف دھتا ہے جو راحت ہو تو منہ راحت کہاں سے موڑ لیتا ہے مصیبت ہو تو اس کے در پہ ستر تک پھوڑ لیتا ہے جہان فلسفہ کی علتوں کا چارہ گر ہے تو گر جو آنکھ کے آگے ہے اس سے بے خبر ہے تو تو مشرق کی بھی کہتا ہے تو مغرب کی بھی کہتا ہے گر راز درون خانہ پوشیدہ ہی رہتا ہے سرود و ساز و رقص و جام انگوری و کے خواری پھر اسکے ساتھ تکبیریں بھی ہیں کیسی ہے خود واری اگر چاہے تو بندے کو خدا سے بھی بڑھا دے تو اگر چاہے تو کتر وبی کو دوزخ میں گرا دے تو اخبار المصلح جلد ۶ - ۲۵ ستمبر ۱۱۵ - کراچی پاکستان

Page 255

۲۴۱ غلامی روس کی ہو یا غلامی مغربیت کی کوئی بھی نام رکھ لے تو وہ ہے زنجیر لعنت کی تو آزادی کا ٹھپتہ کیوں غلامی پر لگاتا ہے خلاف کو منویت لے کے قرآن پر چڑھاتا ہے یہ کھیل امداد کی عرصہ تیرے گھرمیں جاری ہے کبھی ہے مارکس کا چرچا کبھی درس بخاری ہے مسلمانی ہے پر اسلام سے نا آشنائی ہے نہیں ایمان کسی باپ دادوں کی کمائی ہے کبھی نعروں پر تو قرباں کبھی گفتار پر قرباں مرے ہوئے میٹم میں اس تھے گزار پر قرباں

Page 256

۲۴۲ 164 دل کعبہ کو چلا مرا بت خانہ چھوڑ کر زمزم کی ہے تلاش اُسے میخانہ چھوڑ کر کیوں چل دیا ہے شمع کو پروا نہ چھوڑ کر جاتا ہے کوئی یوں کبھی کاشانہ چھوڑ کر منجدھار میں ہے بخشی ڈبوئی خیرو نے آہ کیا پایا میں نے خصلت رندانہ چھوڑ کر راک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہیے کیوں کر جیوں گا ہاتھ سے پیمانہ چھوڑ کر رج ہے کہ فرق دوزخ و جنت میں سے خیف پائی نجات دام سے اک دانہ چھوڑ کر ہے لذت سماع بھی لطف نگاہ بھی کیوں جا رہے ہو محبت جانا نہ چھوڑ کر ملک و بلا ؤ سونپ دیئے دشمنوں کو سب بیٹے ہو گھر میں فصلت مڑا نہ چھوڑ کر ہے گنج عرش ہاتھ میں قرآن طاق پر مینا کے ہو رہے ہیں وہ میتخانہ چھوڑ کر دل دے رہا ہوں آپ کو لیتے تو جائیے کیوں جا رہے ہیں آپ یہ نذرانہ چھوڑ کر اختیار الفضل جلد ۲۶۰۰ ستمبر سا لا ہو ر پاکستان

Page 257

166 قصد ہے مدت سے شیطان کے ہاتھ آئی حکومت جہاں کی خدا کی خدائی ہر اک چیز اُلٹی نظر آ رہی ہے بھلائی بُرائی ، بُرائی سلائی یہ گنگا تو الٹی ہے جا رہی ہے جو مسلم کی دولت تھی کا فر نے کھائی میں خود اپنے گھر کا بھی مالک نہیں ہوں ہے غیروں کے ہاتھوں میں میری بڑائی فرائڈ کا ہے ذکر ہر اک زباں بہ سر ہیں بھولے ہوئے اب بخاری نسائی شجر کفر کا کاٹنا ہے مصیبت ہے دمری کی بڑھیا نکا سر منڈائی ترے باپ دادوں کے مخزن متن تیرے دل کو بھائی ہے دولت پرائی ہیں مدح وشن حصہ گیر و ترسا یہ مسلم کی قیمت میں ہے جگ ہنسائی شیا میں کا قبضہ ہے مسلم کے دل پر خدا کی دُہائی خدا کی رہائی تو اک بار مجلس میں محب کو بلا تو کروں گا نہ تجھ سے بھی بے وفائی خدا میرا بدلہ ہے لیتا ہمیشہ جو گذری میرے دل پہ دُنیا پر آئی شنا کرتے ہیں دل کی حالت ہمیشہ کبھی آپ نے بھی ہے اپنی سنائی میرا کام جلتی پر پانی چھڑکن رقیبوں کا جیتہ لگائی بھائی محمد کی امت میٹھا کا شکر پہیلی یہ میری سمجھ میں نہ آئی نبوت سے منکر وراثت کا دعوی ذرا دیکھت مولوی کی ڈھٹائی رہی ہے نہ تیری نہ شیطان کی وہ کچھ ایسی ہے بگڑی خدا یا خدائی اخبار الفضل میله - ، اکتوبر سہ لاہور - پاکستان -

Page 258

14A ولیبر کے در پہ جیسے ہو جانا ہی چاہیئے گر ہو سکے تو حال سنانا ہی چاہیئے بیکار رکھ کے سینہ میں دل کیا کرونگا ئیں آخر کسی کے کام تو آنا ہی چاہیئے رنگ دنا دکھاتے ہیں ادنی و خوش بھی غم دوستوں کا کچھ تھیں کھانا ہی چاہیئے اس سیہ روٹی پہ شوق ملاقات ہے محبت اس ماہ رُو کا رنگ چڑھانا ہی چاہیئے بے عیب چیز لیتے ہیں تحفہ میں خوبرو داغ دل اسیم مٹانا ہی چاہیئے شتر و فساد دہر بڑھا جا رہا ہے آج اس کے بہانے کو کوئی دانا ہی چاہیئے ساتھی بڑھیں گے تب کہ بڑھاؤ گے دوستی دل فیہ کا بھی تم کو لبھانا ہی چاہیئے تعمیر کعبہ کے لیے کوئی جگہ تو ہو پہلے صنم کدہ کو گرانا ہی چاہیئے رونق مکاں کی ہوتی ہے اس کے مکین سے اس دائر ہا کو دل میں بسانا ہی چاہیئے دائر دل ہے شکار حرص و ہوا و ہوس ہوا پنجہ سے ان کے اس کو چھڑانا ہی چاہیئے (اگست شاه ناصر آباد، شده) اخبار الفضل میلد ۰ - ۱۲ را کتوبر له لاہور پاکستان -

Page 259

۲۴۵ 169 ہے تاروں کی دُنیا بہت دُور ہم سے ہم ان سے ہیں اور وہ میں مسجود ہم سے خدا جانے ان کو ہے آزادی حاصل کہ ہمیں وہ بھی معذور مجبور ہم سے زمانہ کو حاصل ہو نور نبوت جو سیکھے قوانین و دستور ہم سے خدا جانے دونوں میں کیا رس بھرا ہے ہم ان سے ہیں اور وہ ہیں مخمور ہم سے ہم ان سے نگاہیں لڑائیں گے پہیم دہ باتیں کریں گے سر طور ہم سے ادھر ہم بعد میں اُدھر دل بھید ہے ہم اُس سے ہیں اور وہ ہے مجبور ہم سے رقیبوں سے بھی چھیڑ جاری رہے گی تعلق رہے گا بدستور ہم سے دلِ دوستاں کو نہ توڑیں گے ہرگز نہ ٹوٹے گا ہرگز یہ بلور ہم سے دھرا ہم پہ بارِ شریعیت تو پھر کیوں فرشتوں پر ظاہر ہو مستور ہم سے مبارک ہو یہ ڈارون کو ہی رشتہ قرابت نہیں رکھتے لنگور ہم سے اخبار الفضل جلد ۸ - ۲۱ اکتوبر سه لاہور - پاکستان ( ناصر آباد سندھ)

Page 260

آدم سے لیکر آج تک پیچھا ترا پھوڑا نہیں شیطان ساتھی ہے تبر لیکن دو ہے میں انفرین گو بارہا دیکھا انہیں لیکن وہ لذت اور تھی دل سے کوئی پوچھے ذرا لطف نگاہ اولیس اُن سے اسے نسبت ہی کیا وہ نور میں یہ تار ہے گردہ بلائے تو ہمیں ان کے قدم میری جنہیں تو بار تو بہ توڑ کر بھکتی نہیں میری نظر ٹھکتی ہے نا کر وہ گنہ ان کی نگاہ شرمگیں آنے کو وہ تیار تھے میں خود ہی کچھ شرما گیا ان کو بھاؤں میں کہاں دل میں فائی تک نہیں ابدال کیا، اقطاب کیا، جبریل کیا ، میکال کیا جب تو خدا کا ہو گیا سب ہو گئے زیرنگیں اس پر ہوئے ظاہر محمد مصطفے جب انوری بالا ہے نہ افلاک سے کتر و بیو! میری زمیں کھولا ہے کس تدبیر سے باب لقائے دلربا آئے ہیں کس انداز سے اور سے بردار المرسلیس آدوست دامن تھام میں ہم مصطفے کا زور سے ہے اک میں بچنے کی رہ ہے اک میں جبل المیں کیا فکر ہے کھبکو اگر شیطاں ہے بازی لے گیا و نیا خُدا کی ملک ہے تیری نہیں میری نہیں * اخبار الفضل جلد ۸ - ۲۳ / نومبر له لاہور - پاکستان

Page 261

۲۴۷ JAI میں نے مانا میرے دلبر تری تصویر نہیں تیرے دیدار کی کیا کوئی بھی تدبیر نہیں سب ہی ہو جائیں مسلماں تیری تقدیر نہیں یا دُعاؤں میں ہی میری کوئی تاثیر نہیں دل میں بیٹھے کہ سائے میری آنکھوں میں تو میری تعظیم ہے اس میں تری تحقیر نہیں دار با کیسا ہے جو دل نہ بٹھائے میرا پینے کے پار نہ ہو جائے تو وہ تیر نہیں ہے قیادت سے بھی پر لطف اطاعت مجھکو ہوں تو میں پیر مگر شکر ہے بے پیر نہیں صاف ہو جائے دل کا فر منکر جس سے تیری تقدیر میں ایسی کوئی تدبیر نہیں اس کی آواز پر پھر کیوں نہیں کہتے بیک طوق گردن میں نہیں پاؤں میں زنجیر نہیں مجھ سے وحشی کو کیا ایک اشارے میں رام کیا یہ جادو نہیں کیا رُوح کی تسخیر نہیں سبق آزادی کا دیتے ہیں دل عاشق کو اُن کی زُلفوں میں کوئی زُلف گرہ گیر نہیں کوئی دشمن اُسے کر سکتا نہیں مجھ سے جدا ہے تصور ترا دل میں کوئی تصویر نہیں ان کی جادو بھری باتوں پہ مرا جاتا ہوں قتل کرتے ہیں مگر ہاتھ میں تمشیر نہیں جس کی تمھی چیز اسی کے ہی حوالے کردی دے کے دل خوش ہوں میں اس بار دیگر نیں جس پر عاشق ہوا ہوں میں وُہ اسی قابل تھا خود ہی تم دیکھ لو اس میں میری تقصیر نہیں روح انسانی کو جو بخشے جلا ہے اکسیر مس کو چھو کر جو طلا ر کر دے وہ اکسیر نہیں اخبار الفضل جلد ۱۰۰۰ دسمبر ۹۵ لاہور - پاکستان

Page 262

۱۸۲ تصویر کا پہلا رخ مر رہا ہے بھوک کی شدت سے بیچارہ غریب ڈھانکنے گوتن کے گاڑھا تک نہیں اسکو نصیب کھاتے ہیں زردہ پلا دو تور ما دشیر مال مخملی دوشالے اور سے پھرتے ہیں اسکے رقیب تیرے بندے اسے ندا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں اسطبل میں گوئے ہیں بھینسیں بھی ہیں کچھ شہر دار سبنرے کی کثرت سے گھر بھی بن رہا ہے مرغزار لب پر انکے قہتے ہیں اُن کی آنکھوں میں بہار روح انسانی ہے پر خاموش بیٹی سوگوار تیرے بندے اسے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں جب دیا آئے تو پہلے اس سے مرتے ہیں غریب مالداروں کو مگر لگتے ہیں دیکے رہے عجیب موت جس کے پاس ہے ہے وہ تو محروم دوا اور جو محفوظ ہیں ان کو دوائیں ہیں نصیب تیرے بندے اے خُدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں نور قرآن کی تبتی ہے زمانہ بھر میں آج احمد ثانی نے رکھ لی احمد اول کی لاج گھر نے بت توڑ ڈالے زیر کو ویراں کیا پر مسلمانوں کے گھر میں ہے جہالت ہی کا راج تیرے بندے اسے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں اخبار الفضل جلد ۳۱۰۸ دسمبر ۵۳ه ریوه پاکستان

Page 263

ور شدہ نبوی کے ڈر سے مولوی کا احترام الفت پدری کی خاطر سستیدوں کے میں غلام جو بھی کچھ ہے غیر کا ہے ان کی حالت ہے تو یہ دولت مقنی سے خالی نعمت دنیا حرام تیرے بندے اسے ندا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں یاد میں ستر آن کے الفاظ تو ان کو مقام اور پونچھیں تو ہیں کہتے یہ ہے اللہ کا کلام ریتیں نقود ہے ایمان ہے بالکل ہی نام علم و عرفاں کی غذا ان پر ہے قطعا ہی حرام تیرے بندے اسے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں مال سے بنے جیب عالی علم سے خالی ہے سر یا د خالق سے ہے غفلت رہتی ہے فکر وگر مال خود بر باد ویران مال دیگر پر نفسه منزل آخر سے غافل پھر رہے ہیں در بدر تیرے بندے اسے خُدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں ہے قدم دُنیا کا ہر دم آگے آگے جا رہا تیز تر گردش میں ہیں پہلے سے اب ارض و سما آج کوئی بھی نظر آتا میں ساکن ہمیں ایک مسلم ہے کہ ہے آرام سے بیٹھا ہوا تیرے بندے اسے خُدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں فکر انسانی فلک پر اُڑ رہا ہے آج کل فلسفہ دکھلا رہا ہے خوب اپنا زور دیل پر مسلماں راستہ پر محو حیرت ہے کھڑا کہہ رہا ہے اس کو ملا اک قدم آگے نہ چل تیرے بندے اسے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں شمع نور آسمانی کو دیا جس نے عجب باب و حتی حق کا جس نے بند بالکل کردیا جس نے فضل ایزدی کی راہیں سب مسدود کیس ہے اسی ملا کو مسلم نے بنایا راہ منا تیرے بندے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں تصویر کا دوسرا رخ وہ بھی ہیں کچھ جو کہ تیرے عشق سے منور ہیں زیوکی آلائشوں سے پاک ہیں اور دُور ہیں

Page 264

۲۵۰ دنیا والوں نے انہیں بے گھر کیا بے در کیا پھر بھی ان کے قلب حب خلق سے معمور ہیں تیرے بندے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں ڈھانتے رہتے ہیں ہردم دوسروں کے عیب کو ہمیں چھپاتے رہتے وہ دنیا جہاں کے عیب کو ان کا شیوہ نیک ملتی نیک خواہی ہے سدا آنے دیتے ہی نہیں دل میں کبھی بھی زیب کو تیرے بندے اسے خدا سے ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں روز و شب قرآن میں فکر د د برشن اُن پہ دروازہ کھلا ہے دین کے اسرار کا بعد میں اُن میں غیر بیت کوئی نظر آتی نہیں ہیں اگر وہ مال تیرا تو بھی ان کا ہے صلہ تیرے بندے اسے خُدا یہ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں اک طرف تیری محبت اک طرف دُنیا کا درد دل پھٹا جاتا ہے سینے میں ہے چہرہ زرد زرد ہیں لگے رہتے دُعاؤں میں وہ دن بھی رات بھی ہیں زمین و آسماں میں پھر رہے وہ کرہ نورد تیرے بندے اسے خُدا ہی ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں جن کو ہماری لگی ہے وہ ہیں غافل سو ر ہے پر یہ ان کی فکر میں میں سخت بے کل ہو ہے ایک بیماری سے گھائل ایک فکروں کا شکار دیکھئے دنیا میں باقی یہ رہے یا وہ رہے تیرے بندے اے خدا سے ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں بادۂ عرفاں سے تیری ان کے سر منور ہیں جذبہ الفت سے تیرے ان کے دل معمور ہیں ان کے سینوں میں اُٹھا کرتے ہیں طوفان استان دہ زمانہ بھر میں دیوانے ترے شہور ہیں تیرے بندے اسے خُدا سے ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں طاقت وقوت کے مالک ان کا منہ کرتے ہیں بند دین کی گنتی کے وارث پھینکتے ہیں ان پر گند وہ ہر اک میاد کے تیروں کا بنتے ہیں ہدف جس کا بس چلتا ہے پہنچاتا ہے وہ ان کو گزند تیرے بندے اے خُدا ہی ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں

Page 265

۲۵۱ فکر خود سے نکر دنیا کے لیے آزاد ہیں شاد کرتے ہیں زمانہ بھر کو خود ناشاد ہیں دنیا والوں کی نظر میں پھر بھی مہرے ہیں حقیر ہیں گنہ لازم مگر سب نیکیاں برباد ہیں تیرے بندے اے خدانی ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں بند کر کے آنکھ دنیا کی طرف سے آج وہ رکھ رہے ہیں تیرے دیس کی سب جہاں میں تاج وہ تیری خاطر سہہ رہے ہیں ہر طرح کی ذلتیں پر ادا کرتے نہیں شیطاں کو ہرگز باج وہ تیرے بندے اے خدا ہی ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں ساری دُنیا سے ہے بڑھ کر حوصلہ ان کا بلند پھینکتے ہیں عرش کے کنگوروں پر اپنی کمند کیوں نہ ہو وہ صاحب معراج کے شاگردہیں آسمان پر اڑ رہا ہے اس لیے ان کا سمند تیرے نے اسے ندا پر سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں جن کو بھی تھی بر او نیا ڈہی تیرے ہوئے شیر کی مانند اٹھے ہیں وہ اب بھرے ہوئے نام تیرا کر رہے ہیں ساری دنیا میں بلند جان تھیلی پر دھرے سر پر کفن باندھے ہوئے تیرے بندے اسے ندا بیچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں

Page 266

۲۵۲ JAP بڑھتی رہے خُدا کی محبت خدا کرے حاصل ہو تم کو دید کی لذت خُدا کرے توحید کی ہولب پر شہادت خدا کرے ایمان کی ہو دل میں حلاوت خُدا کرے پڑ جائے ایسی نیکی کی عادت خُدا کرے سرزد نہ ہو کوئی بھی شرارت خُدا کرے حاکم رہے دلوں پر شریعیت خدا کرے حاصل ہو مصطفے کی رفاقت خُدا کرے مٹ جائے دل سے زنگ زالت خُدا کرے آجائے پھر سے دور شرافت خُدا کرے ل بجائیں تم کو زہد و امانت خدا کرے مشہور ہو تمہاری دیانت خُدا کرے بڑھتی ہے ہمیشہ ہی طاقت خدا کرے جموں کو چھو نہ جائے نقابت خُدا کرے مل جائے تم کو دین کی دولت خُدا کرے چمکے فلک پہ تارہ قسمت خُدا کرے مل جائے جو بھی آپ کے مصیبت خُدا کرے پہنچے نہ تم کو کوئی اذیت خُدا کرے منظور ہو تمھاری اطاعت خُدا کرے مقبول ہو تمھاری عبادت خُدا کرے سُن سے بنائے حق کو یہ اُمت خُدا کرے پکڑے بزور دامن ملت خُدا کرے چھوٹے کبھی نہ جام سخاوت خُدا کرے ٹوٹے کبھی نہ پائے صداقت خُدا کرے رامنی رو خدا کی قضا پر ہمیش تم سب پر نہ آئے صرف شکایت خُدا کرے احسان و لطف عام رہے سب جہان پر کرتے رہو ہر اک سے مروت خُدا کرے گہوارہ علوم تمھارے نہیں قلوب پھٹکے نہ پاس تک بھی جہالت خُدا کرے اخبار الفضل مبله ۹ یکم جنوری شانه ربوه ن پاکستان

Page 267

۲۵۲ بدیوں سے پہلو اپنا بچاتے رہو مدام تقولی کی راہیں طے ہوں مجلت خُدا کرے سننے لگے کہ بات تمھاری بذوق و شوق دنیا کے دل سے دور ہو نفرت خُدا کرے اخلاص کا درخت بڑھے آسمان تک بڑھتی رہے تمہاری ارادت خُدا کرے پھیلاؤ سب جہان میں قولِ رسول کو حاصل ہو شرق و غرب میں سطوت خُدا کرے پایاب ہو تمھارے لیے بحر معرفت کھل جائے تم پہ راز حقیقت خُدا کرے اٹھا ر ہے ترقی کی جانب قدم ہمیش ٹوٹے کبھی تمھاری نہ ہمت خُدا کرے تبلیغ دین و نشر ہدایت کے کام پر مائل رہے تمھاری طبیعت خُدا کرے سایہ فگن رہے وہ تمھارے وجود پر - شامل رہے خدا کی عنایت خُدا کرے زندہ رہیں علوم تمھارے جہان نہیں پایندہ ہو تمھاری لیاقت خُدا کرے سوسو حجاب میں بھی نظر آئے اُس کی شان تم کو عطا ہو ایسی بصیرت خُدا کرے ہر گام پر فرشتوں کا لشکر ہو ساتھ ساتھ ہر ملک میں تمہاری حفاظت خدا کرے قرآن پاک ہاتھ میں ہو دل میں نور ہو مل جائے مومنوں کی فراست خُدا کرے قبال کے بچھائے ہوئے بال توڑ دو حاصل ہو تم کو ایسی ذہانت خُدا کرے پرواز ہو تمھاری نہ افلاک سے بند پیدا ہو بازوؤں میں وہ قوت خُدا کرے بطما کی وادیوں سے جو نکلا تھا آفتاب بڑھتا رہے وہ نور نبوت خُدا کرے قائم ہو پھر سے حکم محمد جہان میں ضائع نہ ہو تمہاری یہ محنت خُدا کرے تم ہو خُدا کے ساتھ خدا ہو تمہارے ساتھ ہوں تم سے ایسے وقت میں خصت خُدا کرے خدا راک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ رمت کے اس فدائی پہ رحمت خُدا کرے

Page 268

۲۵۴ ۱۸۴ دید کی راہ بتائی تھی ہے تیرا احساں اس کی تدبیر بھائی تھی ہے تیرا احساں تم سے ملنے کی خدا کو بھی ہے خواہش یہ خبر مصطفے ہو نے سنائی تھی ہے تیرا احسان ہفت اقلیم کو جو راکھ کئے دیتی تھی تو نے وہ آگ بھائی تھی ہے تیرا احساں راہ گیروں کو بچانے کے لیے ظلمت میں شمع رک تو نے جلائی تھی ہے تیرا احساں جس نے ویرانوں کو دُنیا کے کیا ہے آباد بستی وہ تو نے بسائی تھی ہے تیرا احساں جس کی گرمی سے میری روح ہوتی ہے پختہ تو نے وہ آگ جلائی ملتی ہے تیرا احساں عرش سے کھینچ کے لے آئی خدا کو جو چیز تیری بر وقت دو ہائی تھتی ہے تیرا احساں آج مسلم کو جو ملتی ہے ولایت واللہ سب ترے جمعہ میں آئی تھی ہے تیرا احساں تید شیطاں سے چھڑانے کے لیے عاصی کو کس نے تکلیف اٹھائی تھی ہے تیرا احساں تُو نے انسان کو انسان بنایا پھر سے در نہ شیطان کی بن آئی مھتی ہے تیرا احساں الفضل بعد ۹ - ۰ار فروری ششده - ربوه - پاکستان

Page 269

دد ۱۸۵ کرد جان قربان راہ خدا میں بڑھاؤ قدم تم طریق دن میں فرشتوں سے مل کر اُڈو تم ہوا میں مہک جائے خوشبو تے ایماں فضا میں ہوا کیا کہ دشمن ہے ابلیس پیارو ندا نے نوازا ہے ہر دوسرا میں ہے قرآن میں جو سرور اور لذت نہ ہے مثنوی میں نہ بانگِ درا میں محبت رہے زندہ تیرے ہی دم سے تو مشہور عالم ہو مرونا میں خُدا کی نظر میں رہے تو ہمیشہ ہو مشغول دل تیرا ذکرِ خُدا میں تجھے غیر کے غم میں مرنے کی عادت مہارت ہے غیروں کو جور و جفا میں مساواتِ اسلام قائم کرو تم رہے فرق باقی نہ شاہ و گدا میں اخبار الفضل جلد ۱۰-۳۰ دسمبر ۵۶ه ربوه - پاکستان

Page 270

۲۵۶ JAY کچھ دن کی بات ہے بارہ بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو زبان پر یہ اشعار جاری تھے.گویا یہ غزل القائی ہے.ہاں اتنا فرق ہے کہ پہلا شعر تو لفظ بلفظ یا د رہا ہے اور باقی اشعار میں سے اکثر ایسے ہیں جن کے بعض لفظ تو بھول گئے اور جاگنے پر خود اسکمی کو پورا کیاگیا اور دو تین شعر ایسے ہیں جو سارے کے سارے جاگنے پر بنائے گئے.اب یہ سب اشعار اشاعت کے لیے الفضل کو بھجوائے جاتے ہیں.) مرزا محمود احمد) اے خُدا دل کو میرے مزرع تقومی کر دیں ہوں اگر بد بھی تو تو بھی مجھے اچھا کر دیں میری آنکھیں نہ ہمیں آپ کے چہرہ سے کبھی دل کو وارفتہ کریں مجھ تماشا کردیں دانہ سخہ پراگندہ ہیں چاروں جانب ہاتھ پر میرے انہیں آپ اکٹھا کر دیں ساری دُنیا کے پیاسوں کو کروں میں سیراب چشمه شور بھی ہوں گر مجھے میٹھا کر دیں میں بھی اُس ستید بطحا کا غلام در ہوں دُم سے روشن مرے بنی داد تی بلا کر دیں ٹیڑھے رستہ پہ پہلے جاتے ہیں تیرے بندے پھیر لائیں اُنھیں اور راہ کو سیدھا کر دیں منتظر بیٹھے ہیں دروازہ پر عاشق اے رب تھوک دیں غصہ کو دروازہ کو پھر ڈا کر دیں احمدی لوگ ہیں دُنیا کی نگاہوں میں ذلیل اُن کی عزت کو بڑھائیں اُنہیں اُونچا کر دیں میرے قدموں پہ کھڑے ہو کے تجھے پکھیں لوگ رت ابرام مجھے اس کا مصلے کر دیں اختبار الفضل مجلد ۱- هر فروری شیشه ریوه - پاکستان مراد مسلمان ہیں کے ابراہیم علیہ السلام

Page 271

۲۵۰ مجھ سے کھویا ہوا ایمان مسلمان پالیس ہوں تو سفلی پہ مجھے آپ ثریا کر دیں لوگ بتیاب ہیں بیحد کہ نمونہ دیکھیں سالک رہ کے لیے مجھ کو نمونہ کر دیں مقصد خلق بر آئے گا یہی تو ہو گا اندھی دنیا کو اگر فضل سے بنا کر دیں فلمیں آپ کو سھتی نہیں میرے پیارے پرے سب چاک کریں چہرہ کو نگا کر دیں اپنے ہاتھوں سے ہوتی ہے میری صحت برباد میری بیماری کا اب آپ داوی کردیں بار آور ہو جو ایسا کہ جہاں بھر کھائے دل میں میرے وہ شجر خیر کا پیدا کر دیں یں تہی دست ہوں رکھتا نہیں کچھ راس عمل جو نہیں پاکس ہرے آپ مہیا کر دیں

Page 272

۲۵۰ میرے آقا ! پیش ہے یہ حاصل شام دھر سینہ صافی کی آئیں آنکھ کے لعل و گہر میں نے سمجھا تھا جوانی میں گذر جاؤنگا پیار اب جو دیکھا سامنے ہیں پھر وہی خوف وخطر کثرت آنام سے ہے غم ہوئی میری عمر اب میں اس کا مداوا ہے کہ کر دیں درگذر آپ تو ہیں مالک ارمن وسمائے میری ماں آپ کا خادم مگر پھرتا ہے کیوں یوں در بدر بے سرو ساماں ہوں اس دنیا میں اسے میرے خُدا اپنی جنت میں بنا دیں آپ میرا ایک گھر آدم اول سے لیکر وہ ہے زندہ آج تک ایسی طاقت دے کچل ڈالوں میں اب شیطاں کا سر مومن کامل کا گھر ہے جنت اعراف میں اور دوزخ کا میکس ہے جو بنا ہے مَن كَفَرُ دہ بھی او قبل ہے مری آنکھوں سےجو ہے سامنے ہے ترے علم ازل میں جو ہے نائب مستتر میرے ہاتھوں میں نہیں ہے نیک ہو یا ب ہو بلک میں تیری ہے یارب خیر ہو وہ یا کہ شر آج سب مسلم خواتیں کی ہیں عریاں زینتیں تونے فرمایا تھا ہے پردے سے باہر ماظهر سایہ کفار سے رکھیں مجھے باہر ہمیش اے میرے قدوس اے میرے ٹکیک بحر و بر لاکھ حملہ کی ہو مجھ پر فتنہ زندیقیت پیچ میں آجائیو بن جائو میری بیٹر میں ترے بندے مگر ہاتھوں کی طاقت سب سے کفر کا خیمہ لگا ہے قریہ قریہ گھر بہ گھر جن کو حاصل تھا تقرب دہ ہیں اب معتوب دہر اور میں مسند پہ بیٹے جو ہیں چھتر اور خر اخبار الفضل جلد ۱۱-۳۱ دسمبر سه ربوه - پاکستان

Page 273

۲۵۹ JAA ہوئی لے آدم و حوا کی منزل انس و قرب سے مگر ابلیس اندھا تھا کہ مہاتی کی لعنت سے خُدا کا قرب پائیگا نہ راحت سے نہ غفلت سے یہ درجہ گر ملے گا تو فقط ایثار و محنت سے الہی تو بچانے سب مسلمانوں کو ذلت سے کہ جو کچھ کر رہے ہیں کر رہے ہیں و جہالت سے عزیزو ! دل رہیں آباد ہیں اس کی محبت سے بنو زاہد، کر و الفت نہ ہرگز مال و دولت سے خُدا سے پیار کر دل سے اگر رہنا ہو عزت سے کہ ابراہیم کی عزت تھی سب مولیٰ کی قلت سے اگر رہنا ہو ا جس سے تو رہ کامل قناعت سے کبھی بھی تر نہ ہو تیری زباں حرف شکایت سے تعلق کوئی بھی رکھا نہ تم بغض و عداوت سے کہ مومن کو ترقی ملتی ہے مہر و محبت سے تری یہ عاجزی بالا ہے سب دنیا کی عزت سے تجھے کیا کام ہے دنیا کی رفعت اور شوکت سے ترا دشمن بڑائی چاہتا ہے گر شرارت سے تو اس کا توڑے منہ تو محبت سے مروت سے بلا ہے علم سے محمد کو نہ کچھ اپنی لیاقت سے ملا ہے مجھ کو جو کچھ بھی سو مولیٰ کی عنایت سے بسر کر عمر تو اپنی نہ سو سو کر نہ غفلت سے کہ ملتی ہے مراک عزت اطلاع سے عبادت سے گئی ابلیس کی تقریر ضائع سب بہ فضل اللہ کی ہے آدم و حوا کو جنت حق کی رحمت سے کلیم اللہ کے پیرو بنے ہیں پیر و شیطان دکھا یا سامری نے کیا تماشہ اپنی ثبت سے جنہوں نے پانی ہے اللہ کی کوئی شریعیت بھی انھیں تو ٹھیک کر سکتا نہیں ، پر حق و حکمت سے اخبار الفضل جلد ۱۲ - ۲۱/ دسمبر شانه - ربوه - پاکستان

Page 274

مرے ہاتھوں تو پیدا ہوگئی ہیں الجھنیں لاکھوں ہو سلجھیں گی تو سلجھیں گی تیرے دست مرد ہی سے مرا سردار کوثر بانٹنے بیٹھا ہے جب پانی تو دل میں خیال کا ست را کہ وہ بانٹے گا خشت سے میٹھا کے لیے لکھا ہے وہ شیطاں کو مارے گا نہ مارے گا وہ آہن سے کریگا قتل محبت سے مربی خشش تو وابستہ ہے تیری چشم پوشی سے اپنی رحم کر مجھ پر مرا جاتا ہوں خفت سے مجھے تو اے خُدا دنیا میںہی کو بخش دے جنت تستی پا نہیں سکتا ، قیامت کی زیارت سے ترے در کے سوا دو کیوں نہ دروازہ کسی گھر کا کبھی مت کھینچ رہا تھا اپنا تومیری کفالت سے نہ بھول اے ابن آدم اپنے دادا کی حکایت کو نکالا تھا اُسے ابلیس نے دھوکہ سے جنت سے خُدا سے بڑھ کے تم کو چاہنے والا نہیں کوئی کسی کا پیار بڑھ سکتا نہیں ہے اسکی چاہت سے کرو د قبال کو تم سرنگوں اطراف عالم میں کہ ہے لبریز دل اس کا محمد کی عداوت سے بھی مغرب کی باتوں میں نہ آنا اسے میرے پیار نہیں کوئی ثقافت بڑھے کے اسلامی ثقافت سے یہ ظاہر میں غلامی ہے مگر باطن میں آزادی نہ ہونا منحرف ہرگز محمد کی حکومت سے کیا تھا طور پر موٹی کو اس نے لن ترانی پیر محمد پر ہوا جب وہ ترکی کا عنایت سے تمسے دشمن تو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ جائیں گے نہ ڈران سے کھڑا ہو سامنے تو انکے جرات سے - ہے کرنا زیر شیطاں کا بہت مشکل مگر سمجھو کہ مل ہوتی ہے یہ شکل ماؤں کی اجابت سے خُدایا دور کردے ساری بدیاں تو میرے کول سے ہوا برباد ہے میرا سکوں عقبی کی دہشت سے

Page 275

بلا کی آگ برستی ہے آسماں سے آج ہیں تیر پھٹ رہے تقدیر کی کہاں سے آج اُٹھ اور اُٹھ کے دیکھا زور محبت مت کا یہ التجا ہے ہری پیر اور جواں سے آج دہ چاہتا ہے کہ ظاہر کرے زمانہ پر ہمارے دل کے ارادے اس اہتماں سے آج جو دل کو چھید دے جا کر عدد مسلم کے وہ تیر نکلے الہی سری کماں سے آج خدا ہماری مدد پر ہے جو کہ میں مظلوم بنائے گا وہ مدد کو مرے جہاں سے آج جلا کے چھوڑیں گے اعدائے کینہ پرور کو نکل رہے ہیں جو شعلے دل کہاں سے آج ہزار سال مسلماں نے تجھ کو پالا ہے یہ فیقا تجھ میں اُبھر آیا ہے کہاں سے آج بو قلب مومن صادق سے اُٹھ رہی ہے دُعا اُتر رہے ہیں فرشتے بھی کہکشاں سے آج ہمارے نیک ارادوں پر اس قدر شبہات خُدا ضرور ہی بیٹے گا بدگماں سے آج عدد یہ چاہتا ہے ہم کو لا مکاں کردے ہمیں بھی آئے گی اعداد لا مکاں سے آج فرشتے بھر رہے ہیں اس کو اپنے دامن میں نکل رہی ہے دُعا جو میری زباں سے آج پڑے گی رُوح نئی جسم زار مسلم میں وہ کام ہو گا مرے جسم نیم جاں سے آج اخبار الفضل جلد ۹۴ - ۱۵ ستمبر شه ربوه - پاکستان -

Page 276

دعائیں شعلہ جوالہ بن کے اُتریں گی بلا کے رکھ دیں گے اعدار کو ہم فغاں سے آج بیوش ابرہہ کو تہس نہس کر دے گی اُڑے گی فوج طیور اپنے آشیاں سے آج شھید ہوں گے جو اسلام کی حفاظت میں ملاتی ہوں گے وہی اپنے دلستاں سے آج انہیں کے نام سے زندہ رہے گا نام وطن گھروں سے نکلیں گے جو ہاتھ دھو کے جان سے آج ہیں وہ دامن رحمت سے ڈھانپ لیں گے نٹور بھریں گے گھر کو ہمارے وہ ارمغاں سے آج مشام جان معطر کرے گی جو خوشبو ! مہک رہی ہے وہی میر کوستاں سے آج

Page 277

19.یہ نظم بہت پرانی ہے نائبا ساہ کے لگ بھنگ کی کھو گئی تھی.صرف حضور کو مطلع یا د رہ گیا تھا اور حضور نے منہ میں دوبارہ اسی مطلع پر نظر کسی تھی جو 9 نومبر شاہ کے الفضل میں شائع ہوئی.اب کاغذات دیکھتے ہوئے پہلی نظر حضور کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی لگتی ہے.جو ذیل میں شائع کی جارہی ہے.) مریم صدیقہ ) ایک دل شیشہ کی مانند ہوا کرتا ہے ٹھیس لگ جائے ذرا سی تو صدا کرتا ہے میں نے پوچھا جو ہو کیوں چپ تو تنک کر بولے ہم بھرے بیٹھے ہیں جانے بھی دے کیا کرتا ہے دوستی اور وفاداری ہے سب عیش کے وقت آڑے وقتوں میں بھلا کون وفنا کرتا ہے چلتے کاموں میں مدد دینے کو سب حاضر ہیں جب بگڑ جائیں فقط ایک خدا کرتا ہے کیا بتاؤں تجھے کیا باعث خاموشی ہے میرے سینہ میں یومنی درد ہوا کرتا ہے ئیں تو بیداری میں رکھتا ہوں سنبھالے دل کو جب میں سو جاؤں تو یہ آہ و بکا کرتا ہے تم نے بھی آگ بھائی نہ کبھی آئے میری میری آنکھوں سے مرا دل یہ گلہ کرتا ہے درد تو اور ہی کرتا ہے تقاضا دل سے پر وہ اظہارِ محبت سے کہا کرتا ہے تھر میں زیست مجھے موت نظر آتی ہے کوئی ایسا بھی ہے عاشق جو بھیا کرتا ہے بیٹھ جاتا ہوں وہیں تھام کے اپنے سر کو جب کبھی دل میں میرے درد اُٹھا کرتا ہے * 1999 اخبار الفضل جلد ۵ - ۲۲ مارچ ۸

Page 278

191 قبل از هجرت قادیاں میں آمد کا تیری پیارے ہو انتظار کب تک ترسے گا تیرے مُنہ کو یہ دلفگار کب تک کرتا رہے گا وعدے اسے گلزار کب تک پچھتا رہے گا دل میں سرت کا خار کب تک کھولے گا مجھ پہ سب تک یہ راز خلق و خالق دیکھونگا تیری جانب آینہ دار کب تک ہر چیز اس جہاں کی ڈھلتا ہوا ہے سایہ روز شباب کب تک لطف بهارب تک ان وادیوں کی رونق کب تک رہے گی قائم یہ ابر و باد و باراں یہ سبزہ زار کب تک یہ خدو خال کب تک یہ چال ڈھال کب تک اس حُسن مارمنی میں آخر نکھار کسب تک بیٹھیں گے ابن آدم کب سنج عافیت میں شور و شغب یہ کب تک یہ فرخشار کب تک بعد هجرت سندھ کے سفر میں تیری تدبیر جب تقدیر سے لڑتی ہے ان اداں تو اک نقصان کے بدلے تیرے ہوتے ہیں نقصاں دہ خود دیتے ہیں جب مجھ کو بھلا انکار ممکن ہے میں کیوں فاقے رہوں جس بات کے گھر میں واہماں بیٹھا کر مادہ پر لاکھ وہ خاطر کریں میری گا پھر بھی گہرا ہے اور سلطاں پھر بھی ہے سلطاں جب آئے دل میں آؤ اور جو چاہو کو اس سے یہ ڈر ہے کہ جس کا کوئی حاجت ہے، نہ ہے درباں 1444 اخبار الفضل بلد ۵ - ۲۶ ر ما رح له

Page 279

۲۶۵ ۱۹۲ جناب مولوی تشریف لائیں گے تو کیا ہو گا دہ بھڑکائیں گے لوگوں کو مگر اپنا خدا ہو گا میں ہو گا نا.غصہ میں وہ ہم کو گالیاں دیں گے سنائیں گے وہ کچھ پہلے نہ جو ہم نے سُنا ہو گا ہم اُن کی تلخ گفتاری پہ ہرگز کچھ نہ بولیں گے جو بگڑے گا تو اُن کا منہ.ہمارا ہرج کیا ہو گا دہ کافر اور ملحد ہم کو بتلائیں گے منبر پر ہمارے زندقہ کا فتویٰ سب میں برملا ہو گا کہیں گے قتل کرنا اس کا جائز بلکہ واجب ہے جو اس کو قتل کر دے گا وہ مجنوبِ خُدا ہو گا ہو.اس کا مال ٹوٹے گا وہ ہو گا داخل جنت جو حملہ اس کی عزت پر کرے گا با صفا ہو گا جو اس کے ساتھ چھو جائے اچھوتوں کی طرح ہو گا جو اس سے بات کرے گا وہ شیطاں سے بُرا ہو گا اخبار الفعل ربوده ۱۲۰۰ جون سنتر -

Page 280

۲۶۶ ہر اک جاہل یہ باتیں سُن کے بھر جائے گا خستہ سے ہمارے قتل پر آمادہ ہر چھوٹا بڑا ہوگا دہ جن کے پیار و الفت کی قسم کھاتے تھے ہم ابتک ہر اک اُن میں سے کل پیایسا ہمارے خون کا ہوگا تعلق چھوڑ دیں گے باپ ماں بھائی برادر سب جو اب تک یار جانی تھا وہ کل نا آشنا ہو گا دہ جس کی محبت و مجلس میں دن اپنے گزرتے تھے ہمارے ساتھ اس کا کل سٹوک ناروا ہو گا ہماری سنگ باری کے لیے پھر چنیں گے سب سمبر میں ہر کس و ناکس کے اک خنجر بندھا ہو گا اکابر جمع ہو کر بھنگیوں کے گھر بھی جائیں گے کہیں گے گر کرو گے کام ان کا تو بڑا ہو گا اگر سودے کی خاطر ہم کبھی بازار جائیں گے ہراک تاجر کے گا جا میاں ! ورنہ بڑا ہو گا ہمارے واسطے دنیا بنے گی ایک ویرانہ ہوا اس یار جانی کے نہ کوئی دوسرا ہو گا ہمیں وہ ہر طرف سے ڈھانپ لے گا اپنی رحمت سے جو آنکھوں میں کیا ہو گا تو دل میں وہ چھپا ہو گا تبھی توحید کا بھی لطف آئے گا ہمیں صاحب زمیں پر بھی خدا ہوگا فلک پر بھی جدا ہو گا

Page 281

سمجھتے ہو کہ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ کیوں ہو گا ؟ یہ عظیم ناروا کس وجہ سے ہم پر روا ہو گا؟ ہمارا مجرم بس یہ ہے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ جب ہو گا اسی اُمت سے پیدا رہنما ہو گا نہ آئے گا مسلمانوں کا رہبر کوئی باہر سے جو ہو گا خود مسلمانوں کے اندر سے کھڑا ہو گا ہمارے سید و مولا نہیں محتاج غیروں کے قیامت تک بس اب دُورہ اُنہی کے فیضن کا ہوگا جو اپنی زندگی اُن کی غلامی میں گزارے گا بنے گا رہنمائے قوم فخر الانبیاء ہوگا

Page 282

۱۹۳ خدا کی رحمت سے مہر عالم آفتی کی جانب سے اٹھ رہا ہے رگ ممبت پھڑک رہی ہے دل ایک شعلہ بنا ہوا ہے تمہارے گھٹتے ہوتے ہیں سائے ہمارے بڑھتے ہوتے ہیں سائے ہماری قسمت میں یہ لکھا ہے تمہاری قسمت میں وہ لکھا ہے ادھر بھی دیکھو اُدھر بھی دیکھو زمیں کو دیکھو فلک کو دیکھو تو راز کھل جائے گا یہ تم پر کہ بندہ بندہ ، خُدا خُدا ہے دہ شمس دُنیائے معرفت جو چمک رہا تھا کبھی فلک پر خُدا کے بندوں کی غفلتوں سے وہ دلدلوں میں پھنسا ہوا ہے کلام یزداں پہ آج ملا نے ڈھیروں کپڑے پڑھا رکھے ہیں بھی جو تھا زندگی کا چشمہ وہ آج جو ہٹر بنا ہوا ہے نگاہ کافر زمیں سے نیچے نگاہ مومن فلک سے اوپر وہ قصر دوزخ میں مل رہا ہے یہ اپنے مولیٰ سے جاملا ہے تلاش اس کی عبث ہے واعظ کجا ترا دل کجا وہ دلبر دہ تیرے دل سے نکل چکا ہے نگاہ مومن میں بس رہا ہے ہیں مجھ میں لاکھوں ہی عیب پھر بھی نگاہ دلبر پر چڑھ گیا ہوں جو بات سچی ہے کہہ رہا ہوں نہ کچھ تھا ہے نہ کچھ ریا ہے اختبار الفضل ربوه ۱۱۰ جنوری تله ۱۹۵۰ یہ اشعار جون نشانہ میں سندھ کے سفر میں کیے گئے تھے.

Page 283

۱۹۴ قدموں میں اپنے آپ کو مولا کے ڈال تو خوف و ہراس غیر کا دل سے نکال تو ل د گھر کے عشق میں دُنیا ہے پھنس رہی تو اس سے آنکھ موڑ ہے مولا کا لال تو سایہ ہے تیرے سر پر خدائے جلیل کا دشمن کے بور و فلم سے ہے کیوں نڈھال تو اے میرے مہربان خُدا ! اک نگاه مهر کانٹا جو میرے دل میں چٹھا ہے نکال تو اس لالہ رخ کے عشق میں میں مست حال ہوں آنکھیں دکھا رہا ہے مجھے لال لال تو دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلا ہوا ہے گند i ہر ہر قدم پہ ہوش سے دامن سنبھال تُو تیدا جهان وہم ہے میرا جہاں عمل میں مست حال ہوں تو ہے مست خیال تو ) نومبر الله ) اخبار الفضل ۳۱ دسمبر تنة

Page 284

۱۹۵ دل دے کے مُشتِ خاک کو دلدار ہو گئے اپنی عطار کے آپ فریدار ہو گئے پہلے تو ساحروں کے عصا ناز ہو گئے لیکن عصائے موسی سے بیکار ہو گئے اس عشق میں گلاب بھنی اب خار ہو گئے دل کے پھیپھولے جل اُٹھے انگار ہو گئے تیسری عنایتوں نے دکھایا ہے یہ کمال اعدام سخت آج بچوں سار ہو گئے میرے مسیح ! تیرا تقدس کمال ہے بے دین تھے جو آج وہ دیندار ہو گئے کیوں کا نپتا ہے دشمن جاں تیرے پیار سے جو دوست تھے وہ طالب آزار ہو گئے اُن کو سرا بھی دی تو بڑائی ہے اس میں کیا جو خود ہی اپنے نفس سے بیزار ہو گئے اللہ کے فرشتوں کی طاقت تو دیکھ تو جو ہم کو مارتے تھے گرفتار ہو گئے جھوٹوں کو حق نے کر کے دکھایا ہے سر بند ہو تھے ذلیل قوم کے سٹرار ہو گئے بھائی زمانہ کا یہ تغیر تو دیکھنا جو صاحب جلال تھے بے کار ہو گئے مولا کی مہربانی تو دیکھو کہ کس طرح جو تابع فرنگ تھے سرکار ہو گئے ستی نے خون قوم کا چوسا ہے اس طرح جو سربراہ کار تھے بے کار ہو گئے عشق خدا نے خول چڑھایا تھا اس کے گرد انگار بھی فلیشل پہ گلزار ہو گئے اخبار الفضل جلد ۲۴ - ۲۶ دسمبر منشاد

Page 285

194 حضور کی یہ نظم ہیں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ من ظلما العالی نے عطا فرمائی ہے.روتے روتے ہی کٹ گئیں راہیں ذکر میں ہی بسر ہوئیں رائیں جن میں ہوتا ہے وصل یار نصیب ایسی بھی ہوتی ہیں کہیں راہیں ایسی راتوں کو یاد کرتا ہوں دل مکاں ہے تو میں مکیں راتیں جن کو ہوتا ہے یار کا دیدار میں انہیں کے لیے بنی راتیں لاکھ دن ان کے نام پہ قرباں لگتیں رائیں عنبریں راتیں عاشقوں کے لیے ہیں اک رحمت ناز بردار نازنیں راتیں دن کی تاریکیاں ہیں کہتی دُور مہ نما ہیں یہ مہ جبیں رائیں جن میں موقع ہے تب کا ہوتی ہیں بس وہ بہتریں راہیں شمع پروانوں کو نصیب ہو جب دن کہو ان کو وہ نہیں راتیں سوتے سوتے میں جو گذر جائیں وہی راتیں ہیں بدتریں راتیں

Page 286

۲۲ 196 اس کی چشم نیم و اسکے میں بھی سرشاری پایان درمیاں میں ہوں نہ سوتوں میں دریاوں میں گرد اس کے گھومتا ہوں روز و شب دیوان دار لوگ گر سمجھیں تو بس اک میں ہی شیاروں میں بنوں ہم سفر سنبھلے ہوئے آنا کہ رستہ ہے خراب پر قدم ڈھیلا نہ ہوئیں تیز رفتاروں میں ہوں خود چلائی ہے مجھے اُس نے مئے عرفان خاص معترض ! نازاں ہوں میں اس پر کہ میخواروں میں پائی جاتی ہے وفا ہو اُس میں مجھ میں وہ کہاں میں کیوں کس منہ سے اسکو میں وفاداروں میں کی * 19A یا فاتح رُوح ناز ہو جا یا تو ہمہ تن نیاز ہو جا خدمت میں ہی عشق کا مزا ہے محمود نہ بن ایاز ہو جا کر خانہ منکر کو مقفل ہاتھوں میں کسی کے ساز ہو جا ہے جسنبر صراط پر اترا پاؤں وا دین و گوش باز ہو جا کوتاہ نگاہیاں یہ کب تک گیسو کی طرح دراز ہو جا جا دھونی گرما دے اُس کے در پر انجام سے بے نیاز ہو جا پیارے تجھے غیر سے ہے کیا کام آآ میرے دل کا راز ہو جا * اخبار الفضل جلد ۱۳ - ۲۲ نومبر ۱۹۲۳ اخبار الفضل جلد ۲۰ - ۳ / جنوری ۱۹۳۳ء

Page 287

۲۳ ١٩٩ گو بر گنہ میں بے بس ہو کر پینم غوطے کھاتے جاؤ دل مت چھوڑو پیارو اپنا سر نہروں میں اُٹھاتے جاؤ جس ذات سے پالا پڑتا ہے وہ دل کو دیکھنے والی ہے مایوس نہ ہو تم جتنا ڈوبو اتنی امید بڑھاتے جاؤ ۲۰۰ ہو فضل تیرا یا رب یا کوئی راہت لا ہو راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو مٹ جاؤں میں تو اس کی پروا نہیں ہے کچھ بھی میری فنا سے حاصل گردین کو بقا ہو سینہ میں جوش غیرت اور آنکھ میں حیا ہو کب پر ہو ذکر تیرا دل میں تیری وفا ہو شیطان کی حکومت مٹ جائے اس جہاں سے حاکم تمام دنیا پہ میرا مصطفے ہو محمود عمر میری کٹ جائے کاش یونسی ہو رُوح میری سجدہ میں سامنے خُدا ہو نکال دے میرے دل سے خیال غیروں کا مجمت اپنی مرے دل میں ڈال دے پیارے یہ گھر تو تُو نے بنایا تھا اپنے رہنے کو بتوں کو کعبہ دل سے نکال دے پیارے اچھل چکا ہے بہت نام لات دختر بی کا اب اپنا نام جہاں میں اچھال نے پیارے حیات بخش وُہ جس پر فنا نہ آئے کبھی نہ ہو سکے جو تبہ ایسا مال دے پیارے بجھا دے آگ مرے دل کی آپ رحمہ سے مصائب اور مکارہ کو ٹال دے پیارے اخبار الفضل جلد ۲۰ - ۲ جنوری ۱۳۳ه اله رساله فرقان - ماه اپریل له اخبار الفضل جلد ۲۲ - ۱۷ رمئی ۱۹۳۳ء

Page 288

۲۰۲ پڑے سو رہے ہیں جگا دے ہیں مرے جا رہے ہیں چلا دئے ہیں ارادت کی راہیں دکھا دے ہمیں محبت کی گھاتیں سکھا دے ہیں جو پیاروں کے کانوں میں کہتے ہیں لوگ وہ میٹھی سی باتیں سُنا دے ہیں دہ کثرت پر اپنی ہیں رکھتے گھمنڈ تو اپنے کرم سے بڑھا دے ہیں ہیں رو رو کے آنکھیں بھی جاتی رہیں مری جان اب تو ہنسا دے ہیں ( ناصر آباد سندھ) عشق خدا کی مے سے بھرا جام لاتے ہیں ہم مصطفے کے ہاتھ پہ اسلام لائے ہیں عاشق بھی گھر سے نکلے ہیں جہاں دینے کیلئے تشریف آج وہ بھی سبر بام لائے ہیں تم غیر کو دکھا کے ہمیں قتل کیوں کرو ہم کب زباں پر شکوہ سر عام لائے ہیں ہم اپنے دل کا خون انہیں پیش کرتے ہیں گرو کے واسطے مئے گلفام لائے ہیں دنیا میں اس کے عشق کا پھر چاہے چار سُو تھنہ کے طور پر دل بد نام لائے ہیں قرآن سے ہم نے سیکھی ہے تدبیر بے خطا مید ہما کے واسطے اک وام لائے ہیں کنجیجی (سندھ) اور ربوہ کے سفر کے دوران) اخبار الفضل جلد ۰۰ در تبر شاہ لاہور پاکستان اخبار افضل جلد ۱۲۰۰ ستمبر سال لاہور پاکستان

Page 289

۲۷۵ ہے بھا گئی دنیا مجھے دیوانہ سمجھ کر ہے شمع قریب آرہی پر دانہ سمجھ کر دیکھا تو ہر اک جام میں تھا زہر ملال ہم آئے تھے اس دنیا کو میخانہ سمجھ کر میں تم سے ہوں تم مجھ سے ہوتی ایک سے جان کی کیوں چھوڑتے ہو تم مجھے بیگانہ سمجھ کر کہتے رہے ہم اُن سے دل زار کی حالت سُنتے رہے وہ غیر کا افسانہ سمجھ کر کی ہے ہر اک گوشہ میں تصویر کسی کی دل کو نہ میرے چھوڑیئے ویرانہ سمجھ کر ۲۰۵ لاکھ دوزخ سے بھی بدتر ہے جدائی آپکی بادشاہی سے ہے بڑھ کر آشنائی آپ کی اک نگہ میں زال دنیا چھین کر دل سے گئی رہ گئی بے کار ہو کر دل رُبائی آپ کی مسلم بے چارہ قید عیسوی میں ہے پھنسا یہ خدائی کفر کی ہے یا خدائی آپ کی حسن و احساں میں نہیں ہے آپ کا کوئی نظیر آپ اندھا ہے جو کرتا ہے بُرائی آپ کی اس کا ہر ہر قول محبت ہے زمانہ بھر یہ آج میرزا میں جلوہ گر ہے میرزائی آپ کی ⭑ اختبار الفضل جلد ۲۹۰۰ اکتوبر کہ لاہور پاکستان : اخبار الفضل علیه ۱۴۰۰ تومیریس لاہور پاکستان

Page 290

۲۰۶ اے محمد ! اے حبیب کردگار! میں تیرا عاشق ، تیرا دلدادہ ہوں گو ہیں قالب دو مگر ہے جان ایک کیوں نہ ہو ایسا کہ خادم زادہ ہوں اے مرے پیارے ! سہارا دو مجھے بیکس و بے بس ہوں خاک افتادہ ہوں جنت فردوس سے آیا ہوں میں تشنہ لب آئیں کہ جام بادہ ہوں میری الفت بڑھ کے ہر اگلفت سے ہے تیری رہ میں مرنے پر آمادہ ہوں * میرے تیرے پیار کا ہو راز داں کوئی نہ اور روک مجھ میں اور تجھ میں پھر نہ کچھ باتی ہے ایک میں ہوں پینے والا ایک تو ساتی رہے کاش تو پہلو میں میرے خود ہی آکر بیٹھ جائے عشق سے منمنور ہو کر وصل کا ساغر پلائے ایک بیکس نیم جاں کو آزمانا چھوڑ دے تارِ فرقت سے مرے دل کو جلانا چھوڑدے ☆ اخبار الفضل جلد ۱۲ - ۱۶ جولائی شانه - ربوہ - پاکستان اخبار الفضل جلد ۱۶ - ۲۵/ دسمبر سنته - ربوه - پاکستان

Page 291

۲۰۸ متبسم اپنی دانہ میں ہے شام اپنی ملک گیر نان بڑھاتے با قدر سستی نہ کر اسے ہم صفیر اپنی تدبیر و تفکر سے نہ ہرگز کام سے راہ نما ہے تیرا کامل راه او محکم بگیر آسماں کے راستوں سے ایک تو ہے باخبر ورنہ بھٹکے پھر رہے ہیں آج سب برنا پر میر ذرہ ذرہ ہے جہاں کا تابع فرمان حق تم ترقی چاہتے ہو تو بنو اس کے اسیر ڈہ علم دے جو کتابوں سے بے نیاز کرے وہ عقل دے کہ دو عالم میں سرفراز کرے وہ بھر دے جوش جنوں غیر گھر میں اسے مولیٰ جو آگے بڑھ کے در وصل پھر سے باز کرے مجھے تو اس سے غرض ہے کہ رامنی ہو دلبر یہ کام تیس کرے یا کوئی ایاز کرے نہ آئیں اس کے بلانے پر وہ ہے نائکن جو شخص عشق کی راہوں میں دل گداز کرے خدا کرے اسے دنیا و آخرت میں تباہ جو دشمنان محمد سے ساز باز کرے تری ہتھیلی پہ میں اپنے جان و دل دھر ڈوں گر اپنا ہاتھ میری سمت تو دراز کرے خدا کرے ہری سب عمر یوں گذر جائے میں اس کے ناز اٹھاؤں وہ مجھ پہ ناز کرے مجلة الجامعه ربوه بابت ماه اکتوبر نومبر دسمبر ۱۹۶۵ ه رساله مصباح ریوه بابت ماہ نومبر دسمبر له

Page 292

PA ۲۱۰ گناہوں سے بھری دنیا میں پیدا کر دیا مجھ کو مرے خالق مرے مالک یہ کیسا گھر دیا مجھ کو تقدس کی تڑپ دل میں تو آ نکھوں میں چہا رکھی مگران خواہشوں کے ساتھ دامن تر دیا مجھ کو انہیں امداد میں گر زندگی میری گذرنی تھی نہ کیوں اک عقل و دانائی سے خالی کر دیا مجھ کو مثال سنگ بھر سعی پی ہم میں پڑا رہتا نہ کچھ پرواہ ہوتی پاس رہتا یا جب دا رہتا ڑکن ہی تھا قیمت میں تو بیوشی بھی کی ہوتی نہ احساس دفار بتا نہ پاس آشنا رہتا مگر یہ کیا کہ میرے ہاتھ پاؤں باندھ کر تونے لگا دی آگ اور وقف تمنا کر دیا مجھ کو ٢١١ خم ہو رہی ہے میری کمر ہم چور ہے منزل خدا ہی جانے ابھی کتنی دور ہے کمر جسم میرا تو کچھ نہیں ہے اُسی کا ظہور ہے فانوس ہوں میں اور خدا اس کا نور ہے گکھڑ کی جمال یار کی ہیں " عجز و انکسار" سب سے بڑا حجاب مسیر پر مغرور ہے ہمت نہ ہارہ اس کے کرم پر نگاہ رکھ مایوسیوں کو چھوڑ وہ رب غفور ہے اخبار الفضل عش ۱۹ر دسمبر ۵ه - ربوه - پاکستان

Page 293

قطعا

Page 294

Page 295

بارغ کفار سے ہم نت نئے پھل کھاتے ہیں دل ہی دل میں وہ جسے دیکھ کے جل جاتے ہیں یہ نہ کھو کہ دو بن کھاتے اپنے بیتے ہیں وہ بھی کھاتے ہیں نگر نیزوں کے پھل کھاتے ہیں بدر ۱۸؍ فروری شاه یکھو سے کہا تھا جو ہوا وہ پر پورا کیا تم نے وہ دیکھی نہیں مرزا کی دُعا اب بھی کرو انکار تو حیرت کیا ہے مشہور ہے بے شرم کی ہے دُور بلا بقدر بدر مارچ شنگه چھ مارچ کو لیکھو نے اُٹھایا سنگر دُنیا سے کیا کوچ سُوئے نار سقر تھی موت کے وقت اس کی یہ طرفہ حالت لب پہ تھی اگر آہ تو تن میں مخبر یہ آریہ کہتے ہیں کہ دیکھو ہے ٹھیہ ایسی تو نہ بھی ہم کو بھی اُن سے امید تھی موت کہ ذلت کی شہادت کیسی کیا جن پر پڑے قہر خدا ہیں وہ شہید بدر ۲۱ / مارچ سنه کہتا ہے زاھد کہ میں فرمانروائی چھوڑ دوں گر خدا مجھ کو ملے ساری خدائی چھوڑ دوں دانه تسبیح اور اسکوں کا مطلب ہے اگر آب وانہ کے لیے سب پارسائی چھوڑ دوں بدره و در ضروری نشانه ہائے کثرت ہرے گناہوں کی وائے کوتاہی میری آہوں کی اس پر یہ فضل یہ کرم یہ رحم کیا طبیعت ہے بادشاہوں کی بدر ۲۰ زنانه

Page 296

PAY ہائے اس غفلت میں ہم یا روس پیچھے رہ گئے یہ بھی کیسا پیار ہے پسیاروں سے پیچھے رہ گئے بڑھ گئے ہم سے صحابہ توڑ کر سر زدک کو ہم ٹیک ہو کر گر انباروں سے پیچھے رہ گئے بد که ۲۰ جولائی سنامه عابد کو عبادت میں مزا آتا ہے قاری کو تلاوت میں مزا آتا ہے میں بندہ عشق ہوں مجھے تو صاحب ہبہ کی محبت میں مزا آتا ہے الفضل و راگست ستشاه مرکز شرک سے آوازہ توحید اُٹھا دیکھنا دیکھنا مغرب سے ہے خورشید اُٹھا نُور کے سامنے ظلمت بھلا کیا ٹھہرے گی جان کو جلد ہی اب حکیم صنادید اُٹھا ۲۱ ستمبر نه امعنی آواز جب اذاں کی اللہ کے گھر سے تو گونج اُٹھے گا لندن نعسر الداکبر سے اُڑے گا پر چم توحید پھر سقف معلی پر مینگے دھکے دیو شرک کو گھر گھر سے ڈر ڈر سے الفضل ا را کتوبر له بر جان و دل کے ایک میری جان نکل رہی ہے تیری یاد چکیوں میں میرے دل کوئل رہی ہے نہیں جز دعائے یونس کے رہا کوئی بھی چارہ کہ غم والم کی پھلی مجھے اب نگل رہی ہے کبھی وہ گھڑی بھی ہو گی کہ کہوں گا یا الہی! سری عرض تو نے سُن لی وہ مجھے گل ہی ہے اخبار الفضل ۲۲ نومبر له عبث میں بارغ احمد کی تباہی کی یہ تدبیریں چھپی بیٹی ہیں تیری راہ میں مولیٰ کی تقدیریں بھلا مومن کو قاتل ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے نگا میں اس کی بجلی ہیں تو آہیں اس کی شمشیریں تری تقصیری خو ہی تجھ کوٹے وہیں گی اسے ظالم پیسٹ جائیگی تیرے پاؤں میں موہن کے زنجیریں اخبار الفضل ۳۰ ر و سیمر الله

Page 297

PAP نظر آرہی ہے چمک احسن ازل کی شمع مجاز میں کہ کوئی بھی اب تو مزا نہیں رہا تیں عشق مجاز میں سمندر سے ہوائیں آرہی ہیں مرے دل کو بہت گرما رہی ہیں عرب جو ہے میرے دلبر کا مسکن بوتے خوش اس کی لے کر آرہی ہیں بشارت دینے سب خورد و کلاں کو اچھلتی کودتی وہ آ رہی ہیں اے سیمیا کبھی پوچھو گے بھی بیمار کا حال کون ہے جس سے کسے جا کے دل غار کا حال آنکھ کا کام نکل سکتا ہے کب کانوں سے دل کے اندھوں سے کہوں کیا ترے پیار کا حال رہے عمرتوں کا پیارے میری جاں شکار کب تک ؟ ترے دیکھنے کو ترسے دل بے قرار کب تک؟ شب ہجر ختم ہو گی کہ نہ ہو گی یا الہی! مجھے اتنا تو بتا دے کروں انتظار کب تک؟ کبھی پوچھو گے بھی آکر کہ بتا تو حال کیا ہے یوں ہی نوں بہائے جاتے دلِ داغدار کب تک؟ اندازاً ٣ - ١٩٣٩ء اندازاً ۱۹۲۸ یا ۹۳اته لے سے تقریب جلسہ سیرة النبی صلی اله علیه وتم منعقدہ مورخہار سمیرہ مسجد اتعلی میں بعد نماز عصر حضرت مصلح موعود نے اپنی تقریر میں خود یہ اشعار بیان فرمائے.(ناشر) می کند اخبار المفضل امور دسمبر سته

Page 298

۲۸۴ گل میں پر ان میں پہلی سی آب جو نہیں رہی موٹی تو بل ہی جاتے ہیں پڑھو نہیں رہی مغرب کا ہے بچھونا تو مغرب کا اوڑھنا اسلام کی تو کوئی بھی اب تو نہیں رہی از رساله ریویو آف ریلیجینز اردو ماہ جولائی ۱۳۳ اس زمانہ میں اماموں کی بڑی کثرت ہے مقتدی ملتے نہیں ان کی بڑی قلت ہے اس پہ یہ اور ہے آفت کہ میں باغی پیرو اور لیڈر کو جو دیکھو تو وہ کم ہمت ہے از رساله ریویو آف ریلیجنز اردو - ما و جولائی ساید یہ متابع بوش دینداری کبھی گھٹنا بھی ہے اس جہاں کی قید و بندش سے کبھی چھپنا بھی ہے کر تو کل جس قدر چاہے کہ اک نہر ہے یہ یہ بتادے باندھ رکھا اُونٹ کا گھٹنا بھی ہے ۲۰ جولائی شاہ نوشہرہ اپنا لیا عدد نے ہر ایک غیر قوم کو تقیم ہو کے رہ گئے ہو تم شعوب میں سالک تجھے نوید خوشی دینے کے لیے پھرتا ہوں شرق و غرب و شمال و جنوب میں فقی سے اس سوال کا حل ہو نہیں سکا ہیں تجھ میں ہی قلوب کہ تو ہے قلوب میں ۲۰ جولائی شاه قرض سے دور رہو قرض بڑی آفت ہے قرض لیکر جو اکڑتا ہے وہ بے غیرت ہے اپنے من پر ستم اس سے بڑا کیا ہو گا قرمن لیکر جو نہ دے سخت ہی بد فطرت ہے اختيار الصلح بعد ۳۰۰ / جنوری شاه - کراچی - پاکستان

Page 299

PAD فاقوں مر جائے پر جائے نہ دیانت تیری دُور و نزدیک ہو مشهور امانت تیری جان بھی دینی پڑے گر تو نہ ہو اس سے دریغ کسی حالت میں نہ بھوٹی ہو ضمانت تیری غضب خدا کا کہ مال حرام کھاتا ہے نہیں بے جرم کی مدا صبح و شام کھاتا ہے نماز چھوٹے تو پھٹ جائے کچھ نہیں پڑھا مگر حرام کی روٹی مدام کھاتا ہے تو مال پہ تو جان و دل سے مرتا ہے وہ میں طرح سے بھی ہاتھ آئے کر گزرتا ہے یہ کیسا پیار ہے اصل وعیال سے تیرا شکم غریبوں کا انگاروں سے جو بھرتا ہے وقف ہے جاں ہر مال وسیم و زر مال دینے والے سے ہے بے خبر ایسے اندھے کا کریں ہم کیا علاج مغز سے غافل ہے پچھلکے پر نہ وقف کرنا جاں کا ہے کسب کمال جو ہو صادق وقت میں ہے بیمثال چیکس گے واقف کبھی مانند بدر آج دنیا کی نظر میں ہیں جلال بلال دھیرے دھیرے ہوتا ہے کسب کمال بو بکر کو بننا پڑتا شمس پہلے دن سے کہلاتا ہے شمس بدر ہوتا ہے مگر پہلے حلال دراز آ کہ پھر ظاہر کریں اُلفت کے راز یار میں ہو جائیں گم، عمرت میرے پیچھے پیچھے چلتا آ کہ میں بندہ محمود ہوں اور تو آیاز

Page 300

۲۸۶ تیری اُلفت کا جو شکار ہوا مرکے پھر زندہ لاکھ بار ہوا ر کو سینہ پر رکھ لیا میرے غم سے جب بھی میں اشکبار ہوا ۱۳۱ جنوری ۱۹۵۶مه میری نوشی گیاہ میں میری خوشی نگاہ میں میرا جہان اور ہے تیرا جہان اور ہے ہیں اسی بھر کے گھر ہے اسی حبیب کا یہ نور ظالمو ! بات ہے وہی ایک زبان اور ہے رساله جامعه المنفرت میگزین جلد هم مبرا - باسبت ماه جون نشانه

Page 301

الهامی قطعه آج ۲۲ ؍ جنوری کی رات کو میں نے دیکھا کہ کراچی کا کوئی اخبار ہے.جو کسی دوست نے مجھے بھیجا ہے اور اس میں کچھ باتیں احمدیت کی تائید میں لکھی ہوئی ہیں، اس اخبار میں سیاہی سے اس دوست نے نشان کر دیا ہے تاکہ میں اس کو پڑھ سکوں.اس کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے دیکھا کہ اخبار کے اوپر کے حصہ میں چار کالموں میں چار قطعات در دو شعر کے پھیلے ہوئے ہیں اور اچھے اچھے موٹے ہوئے حروف میں لکھے ہوئے ہیں مضمون تو میرے ذہن میں نہیں مگر مجھے وہ پسند آیا اور میں نے چاہا کہ میں ہی ایک قطعہ لکھوں.اس پر میں نے رویا میں ایک قطعہ کہنا شروع کیا جو یہ ہے : میں آپ سے کہتا ہوں کہ اے حضرت مولاک ہوتے نہ اگر آپ تو ہفتے نہ یہ انسلاک جو آپ کی خاطر ہے بنا آپ کی شے ہے میرا تو نہیں کچھ بھی یہ ہیں آپ کے املاک یلوں معلوم ہوتا ہے کہ جوں جوں یہ شعر کہا جاتا ہوں گویا اس جگہ یعنی اس اخبار میں بہت ہی خوبصورت معلوم ہوتا ہے کہ پیش کرتا ہوں اس جنگ مین بار می بستی طور پر ساتھ ہی لکھے بھی جاتے ہیں.میں یہ نہیں کہ سکتا کہ یہ الفاظ بعینہ سارے کے سارے اسی طرز پر تھے لیکن مضمون اور اکثر الفاظ میں تھے.پھر کیا کی حالت بدل جانے کے بعد غنودگی میں ہیں یہ شعر پڑھتا رہا ہوں.اس لیے لیکن ہے کہ بعض الفاظ اس میں بدن کو آگئے ہوں.اخبار الفضل مجله ۶-۲۷ ر جنوری شاہ لاہور - پاکستان -

Page 302

KAN اک طرف تقدیر مبرم اک طرف عرض ودعا فضل کا پڑا تھکا دے اے مرے مشکل کشا روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے * اخبار الفضل بابت ۱۳۵ رہے وفا و صداقت پیرا پاؤں مدام ہو میرے سر پہ مری جان تیری چھاؤں مدام ا اختیار الفضل بیلد ۲۵-۲ نومبر ۱۱۳ جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب پاؤں کے نیچے سے میرے پانی بہا دیا دارالہجرت ربوہ کے متعلق الهامی شعر اندازاً اپریل ۱۹۴۷ الألم

Page 302