Kalam Ullah Ka Martaba Aur Hazrat Musleh Maud

Kalam Ullah Ka Martaba Aur Hazrat Musleh Maud

کلام اللہ کا مرتبہ اور حضرت مصلح موعود ؓ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ

مولانا موصوف کا قیمتی اور تفصیلی مقالہ احمداکیڈمی ربوہ کی طرف سے ضیاء الاسلام پریس سے شائع کیا گیا جس میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے عشق قرآن اور خدمت قرآن کا بیان ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کس طرح حضور رضی اللہ عنہ کے ترتیب قرآنی کے معجزانہ نظام سے دنیا کو آگاہی بخشی، مستشرقین کے الزامات اور وساوس کا مسکت جواب دیکر قرآنی تاریخ کی حقانیت کا ثبوت مہیا کیا، فیضان قرآن کی تجلیات کا اظہار فرمایا، قرآن کریم اور دور حاضر کے جدید سائنسی انکشافات اور قرآن کریم کی بیان فرمودہ غیبی خبروں کا ذکر کیا، اور بتایا گیا ہے کہ آپ کی تصنیف کردہ تفسیر صغیر کی تیاری کا معجزہ مذکور ہے۔


Book Content

Page 1

کلام اللہ کا مرتبہ اور حضرت مصلح موعود

Page 2

کام اللہ کا مرتبہ اور حضرت مصلح موعود مولانا دوست محمد شاہر مورخ احمدية احمد اليد

Page 3

تعاون ودعا محترم الحاج میاں غلام احمد صاحب مرحوم آف انصاف کیلنی فیصل آباد کو اسلام اور احمدیت کے طفیل کلام اللہ اور حضرت مصلح موعود سے والہانہ محبت و عقیدت تھی.اس جذبہ خدمت و ایثار اور اخلاص و وفا کی یاد ہیں، میاں صاحب موصوف کے بھائی محترم میاں مبارک احمد صاحب اور صاحبزادگان محترم میاں محمود احمد صاحب و میاں منصور احمد صاحب نے کتاب کلام اللہ کا مرتبہ اور حضرت مصلح موعود کی اشاعت کے لئے ابتدائی اخراجا برداشت کئے ہیں.جزاکم اللہ.دعا ہے کہ مولیٰ کریم میاں صاحب مرحوم کو اپنے قُرب خاص سے نوازے اور اپنی رضا کی جنتوں کا وارث بنائے ، لواحقین کے مذکورہ صدقہ جاریہ کو قبول فرمائے اور ان کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے.آمين ناشران - جمال الدين الجمر، غلام تعلی ظفر مطبعة ضیاء الاسلام پولیس ریوہ

Page 4

قرآن کریم خالق کائت کی نظر میں اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِكرِ لَمَّا جَاءَهُمْ وَإِنَّهُ لَكِتُبُ يؤُهُ لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِه تَنْزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيْدٍ رحم السجدة آیت ٣٣٤٢٢) وہ لوگ جو کہ اس ذکر ر(یعنی قرآن) کا جب وہ ان کے پاس آیا انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ ایک بڑی عربت والی کتاب ہے دوہ اپنی تباہی کا سامان اپنے ہاتھوں کو رہے ہیں، باطل نہ اس کے آگے بے آسکتا ہے نہ اس کے پیچھے سے بڑی حکمتوں والے اور بڑی تعریفوں والے خدا کی طرف سے وہ اُترا ہے.

Page 5

رار ن قرآن سهم قرآن جند انما ہے خدا کا کلام ہے دانما ہے اس کے معرفت کا چھین ناتمام ہے.اس نے درخت ولی کو معارف کا پھل دیا ہر سینہ شک سے دھودیا ہر دل بدل دیا.کوہ روشنی جو پاتے ہیں ہم اس کتاب میں ہم میں ہو گی نہیں کبھی وہ ہزار آفتاب میں (حضرت بانی سلسله احمدیه)

Page 6

صفحه 1.1 ۱۶ IA ۲۳ ۲۵ ۳۵ ۳۸ نمبر شمار مضمون کی اہمیت.معارف قرآنی کا گہرا تعلق مطهرون آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقیت افروز ارشادات - تفسیر کا الہامی ماخذ اور صلحائے امت.علوم قرآنی کے انکشافات کا انقلابی دور.حضرت بانی احمدیت کا عشق قرآن - حضرت مصلح موعود کا عشق قرآن اولین پہلو (خدا تعالیٰ سے علوم قرآن کی تعلیم ) دوسرا پہلو ( کلام اللہ صرف قرآن ہے) تیسرا پہلو د کلمہ طیبہ سے متعلق قرآنی مرتبہ کی شاندار تفسیر) چوتھا پہلو (ترتیب قرآنی کا معجزانہ نظام) پانچواں پہلو (مستشرقین کا مسکت جواب اور قرآنی تاریخ کی ۶۴ حقانیت کا ثبوت) 1." ۱۲

Page 7

نمبر شمار ۱۳ عنوان چھٹا پہلو (فیضان قرآن کی تمہکے ۱۴ ساتواں پہلو ( معارف قران عظیم ۱۵ آٹھواں پیلو ( قرآن ہمہ گیر شریعت ہے) پ اسکات صفحہ ۷۲ AY ۱۲۳ ۱۶ نواں پہلو ( قرآن اور عہد حاضر کے جدید سائنسی انکشافات ) ۱۳۳ 14 ۱۸ دسواں پھلو (قرآن مجید میں غیبی مخبروں کی کثرت ) گیارھواں پہلو (تفسیر صغیر کی بلند پایہ تالیف) ۱۹ بارھواں پیلو ( قرآن مجید کی عالمگیر شریعت نم ۲۰ حضرت مصلح موعود کی آسمانی خلعت - موعود کی 15

Page 8

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم وَعَلَى الِهِ وَاصْحَابِهِ أَجْمَعِين اسے حق کے طاہر اور اسلام کے بچے مجبو! جو اولوا العزم مومنوں کے انو او آثار با قید ہو میرے مقالہ کا موضوع ہے "کلام اللہ کا مرتبہ اور حضرت مصلح موعود یا مضمون کی اہمیت بر ایران اسلام با ہر عارف و سالک اس نکنید معرفت سے بخوبی آشنا ہے کہ جس طرح گذشتہ تمام نبیوں کا ظہور ہمارے نبی حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفے احمد مجتبے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے استقبال کی خاطر ہوئی.اسی طرح پہلی سب آسمانی کتابیں محض اس لئے نازل ہوئیں تا اقوام عالم کو خاتم ! قرآن مجید کی خدمت کے لئے تیار کیا جائے اور غار حرا سے پھوٹنے والے آسمانی چشمہ سے تمام بنی نوع انسان قیامت تک فیضیاب ہوتے رہیں سے شمسُ الهُدَى طَلَعَتْ لَنَا مِن بَية عين الندى تبعث ا انجام آنتی صفحه ۲۸ مؤلفه حضرت بانی سلسلہ احمدید

Page 9

اس عظیم الشان پس منظر سے ظاہر ہے کہ یہ مضمون عالمی اور دائمی نوعیت کا حامل ہے جس کا براہ راست تعلق نہ صرف پوری ملت اسلامیہ سے ہے بلکہ عہد حاضر اور زمانہ مستقبل کے ہر فرد بشر سے ہے.خدا کرے کہ جناب الہی سے یہ توفیق بھی عطا ہو جائے کہ یہ عاجزا سے کما حقہ بیان کر سکے.آمین معارف قرآنی کا گھر تعلق مطقرون سے اللہ جل شانہ قرآن کریم کی جلالت مرتبت اور عظمت شان کا بصیرت افروز تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :- فلاا قسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ هُ وَإِنَّهُ لَقَسَمُ لوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمُ هُ إِنَّهُ لَقَرانَ كَرِيمٌ لا في كتب مكنون لا لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ، تَنْزِيلُ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ (الواقعة : ۷۶-۸۱) سید نا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے مقدس الفاظ میں اس آیت کا ترجمہ اور تفسیر یہ ہے :.کی قسم کھاتا ہوں مطالع اور مناظر نجوم کی اور یہ قسم ایک بڑی قسم ہے.اگر تمہیں حقیقت پر اطلاع ہو کہ یہ قرآن ایک بزرگ اور عظیم الشان کتاب ہے اور اس کو وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاک باطن ہیں اور اس قسم کی مناسبت اس مقام میں یہ ہے کہ قرآن کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ وہ کریم ہے یعنی روحانی بزرگیوں پر

Page 10

مشتمل ہے اور باعث نہایت بلند اور رفیع دقائق معائق کے بعض کوتاہ مینوں کی نظروں میں اسی وجہ سے چھوٹا معلوم ہوتا ہے جس وجہ سے ستارے چھوٹے اور نقطوں سے معلوم ہوتے ہیں اور یہ بات نہیں کہ در حقیقت وہ نقطوں کی مانند ہیں بلکہ چونکہ مقام اُن کا نہایت اعلیٰ وارفع ہے اس لئے جو نظریں قاصر ہیں ان کی اصل ضخامت کو معلوم نہیں کر سکتیں لے پس ان آیات کریمہ میں خدا وند حکیم و قدیر نے مواقع النجوم کی قسم کھا کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ستا رہے اپنی رفعتوں کی وجہ سے چھوٹے نقطوں کی طرح نظر آتے ہیں مگر جیسا کہ جدید تحقیق نے ثابت کر دیا ہے وہ اصل میں نقطوں کی طرح نہیں ہیں بلکہ اُن میں سے اکثر و بیشتر ہمارے سورج سے بھی بہت بڑے ہیں اور اُن کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ اب تک تقریباً تیس ارب ستاروں کی تصویریں دنیا کی سب سے بڑی دوربین کے ذریعہ سے اُتاری جا چکی ہیں.سائنس دان جتنی ضخیم دور میں استعمال کرتے ہیں ستاروں کی تعداد میں بھی اُتنا ہی اضافہ ہوتا جا رہا ہے.بالکل یہی معجز نماشان قرآن مجید کی ہے کہ ه جنگ مقدس صفحه ۵ روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۹۸۷

Page 11

بباعث نہایت بلند اور رفیع حقائق و دقائق کے کوتاہ بینوں کی نظروں میں چھوڑا سا معلوم ہوتا ہے حالانکہ اس کی ہر آیت اور ہر لفظ میں حقائق و معارف کی ایک وسیع اور حیرت انگیز دنیا آباد ہے جس پر خدا تعالیٰ کے صرف ان خاص بندوں کو اطلاع دی جاتی ہے جن کو وہ خود اپنے مقدس ہاتھ سے پاک کرتا اور اپنے پاک الہام و کلام سے نوازتا ہے اور یہی بھاری ثبوت اس دعوای کی صداقت کا ہے کہ قرآن کریم فی الحقیقت بے مثال اور عدیم النظیر ربانی کتاب ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعیت افروز ارشاد است چنانچہ قرآن مجسم ، رحمت دو عالم ، فخیر دو جہاں حضرت رسول عربی صلی الله علیہ و آلہ وسلم (فداه روحی و جنانی ) کی حدیث مبارک ہے :- " إِنَ مِنَ الْعِلْمِ كَهَيْئَةِ الْمَكْنُونِ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا العلماء بالله (ترجمہ) علوم قرآنی میں سے بعض علم ایک بند کتاب کی شکل میں اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ رکھے جاتے ہیں جنہیں اس کی حقیقی معرفت " الدر الثّمين في مناقب الشیخ محی الدین صفحه ۴۴ از حضرت ابو الحسن علی ابن ابراہیم متوفی ۸۲۱ هو ناشر موشکسته التراث العربی بیروت ؟

Page 12

" رکھنے والے علماء کے سوا کوئی نہیں جان سکتا.اسی طرح ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ مہر سے مراد خدا کے وہ مقرب بندے ہیں جن پر معارف قرآنی کھولے جاتے ہیں لیے اس تعلق میں حضور نے ایک بار نہایت واضح لفظوں میں یہ بھی فرمایا."LENDANT KE اللهُ بِعَبْدِ خَيْرًا طَهَّرَهُ قَبْلَ مَوْتِهِ قَالُوا وَمَا طَهُورُ الْعَبْدِ قَالَ عَمَل صَالِحُ يُلْهِمُهُ إِيَّاهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ عَلَيْهِ لَه (ترجمہ) جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو کسی عظیم نعمت سے سرفراز کرنا چاہتا ہے تو وہ اُس بندے کی موت سے پہلے اُس کے لئے کامل پاکیزگی کے سامان مہیا کر دیتا ہے، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس بندے کی پاکیزگی کے وہ کونسے سامان ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ عمل صالح بجالانے کا "الدر المنثور للسيوطى " جو ساوس ص : طبراني عن ابى امامه بحوالہ " جامع الصغير جز اوّل صا للحافظ علامه سيوطى مطبعة الخيريه مصر وكنز العمال للعلامة علاؤ الدین متقی جز عام مطبعة الثقافة حلب

Page 13

شوق و جذبہ ہے جیسے اللہ تعالیٰ اس کے دل میں الہام کرتا رہتا ہے حتی کہ اسی حالت میں اُس کی روح کو قبض کر لیتا ہے.نیز فرمایا :- إذا ارادَ اللَّهُ بِعَبْدِ خَيْرًا فَقَهَهُ فِي الدِّيْنِ وَ الهمة رُشده ل (ترجمہ) جب اللہ تعالیٰ کسی بندر سے کی بہتری کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کرتا اور اسے رشد و خیر کا الہام فرماتا ہے.چونکہ اہل اللہ اور اولیاء کی سب سے بڑی فضیلت اور کمال یہ ہے کہ وہ کتاب اللہ کے عاشق صادق ہوتے ہیں اور برکت تعشق قرآن ان کو علم قرآنی دیا جاتا ہے اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :- إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَ أَهْلِينَ مِنَ النَّاسِ وَإِنَّ أَهْلَ الْقُرْآنِ أَهْلُ اللهِ وَخَاقَتُهُ لَ (ترجمہ) بے شک لوگوں میں سے بندگان الہی تو (بہت) ہیں لیکن اہل اللہ اور خدا کے خاص بندے وہ ہیں جن کو قرآن به معجم الصغير للسيوطى جز اول من.کے مسند احمد بن حنبل الجزء الثالث ".

Page 14

۱۳ کے علوم و برکات حاصل ہیں.تفسیر کا الہامی ماخذ اور صلحائے امت " آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہی ارشادات ہمیشہ اکابر امت کے لئے راہ نما اور اُن کے افکار و خیالات کی حقیقی روح اور احساس رہے ہیں اور جلیل القدرصوفیاء محمد دین اور تکلمین نے الہام الہی کو تفسیر قرآن کا ایک مستند مانند او یقینی سرحت تسلیم کیا ہے.چنانچہ غوث اعظم سید عبد القادر جیلانی نے الفتح الربانی اور فتوح الغیب، میں مشہور " ہسپانوی صوفی الشیخ الاكبر حضرت محی الدین ابن عربی تم نے الفتوحات المكية ، میں ، حضرت امام عبد الوہاب شعرانی نے "الیواقیت الجواہر ہیں ، حضرت مجدد الف ثانی نے اپنے مکتوبات اور مکاشفات میں الشیخ الکامل حضرت روز جهانی ابن ابی النصر شیرازی آن و تفسیر عرائس البیان میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث له ولادت ۴۷۰ در وفات ۵۷۱ و نه ما ے مقالہ ۲۶ شه ولادت ۵۶۰ه وفات ۳۰ به هر شے جلد افت جلد ۲ جلد ۶۳۰ مه ۱۳۰۳۵ نه متوفی 14 هـ که جلدا من ۹۱۷۸۶۷۸۴ شه ولادت ۹۷۱ ه وفات ۱۰۳۲ که دفتر دوم شد ، ت و مکاشفات عینیہ محمد دید ما دیبا چه م 149.صدا متوفی :

Page 15

۱۴ دہلوی نے الفوز الکبیرہ میں اور حضرت حافظ عبد العزیز الفراروی نے ابتراشی میں اسی نظریہ کو پیش کیا ہے.راسی طرح بلند پایہ مفترین میں سے حضرت علامہ ابو القاسم جار اللہ محمود بن عمر زمخشری ، حضرت شہاب الدین احمد خائی اور ممتاز تر کی عالم حضرت الشیخ اسماعیل حقی البروشی نے اپنی تفسیروں میں مظہرین سے مراد امیت کے صاحب وحی و الہام بزرگ ہی لئے ہیں.تاریخ اسلام ان بے شمار صلحائے امت کے ایمان افروز واقعات سے لبریز ہے جنہیں معلیم حقیقی کی طرف سے حقائق قرآنی سکھلائے گئے.حضرت ابویزید بسطامی د جن کا شمار تیسری صدی ہجری کے سب سے زیادہ مشہور صوفیاء میں ہوتا ہے، فرمایا کرتے تھے اخدم علتَكُمْ مَنَا عَنْ مةٍ وَاخَذْنَا عِلْنَا عَنِ الحَي الذي لا يموت تم نے اپنا علم يَمُوتُ مُردہ سے مردہ ہی کے واسطے لیا ہے اور ہم نے اپنا علم اس حتی وقیوم سے لیا له ولادت ۱۱۴ د وفات ۱۱۷۶ هو سے اردو ترجمہ مطبوعہ دہلی مشه سے متوفی ۱۲۳۹ھ شه ولادت ۴۶۷ هو وفات ۵۳۸ هر کشان جلد ۳ ص ۱۶ ن متوفی ۱۰۰۰ در حاشیه الشباب علی البیضاوی جلد ، منٹو که دزمانه باد هوی صدی تفسیر روح البیان جلد ؟ نے الیواقیت والجواہر للشعرانی جلد احدث ؟ 1

Page 16

ہے جو کبھی نہیں کر سکتا.قدیم اسلامی لٹریچر میں ان مقربان بارگاہ الہی کے جو الہامات و کشوف درج ہیں ان کے مطالعہ سے اس عادت اللہ کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ہر ایک کامل سلم پر عجائبات خفیہ فرقان بھی ظاہر ہوتے ہیں اور بسا اوقات قرآن شریف کی آیت بھی الہام کے طور پر القاء ہوتی ہے.چنانچہ حضرت شہاب الدین سر رویان حضرت محی الدین ابن عربی اور حضرت مولینا عبد الرحمن جامی نے سید نا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے کا ہر مشہور واقعہ لکھا ہے کہ ایک بار آپ نماز میں غش کھا کر گر پڑے.جب اس بارہ میں دریافت کیا گیا تو حضرت امام نے فرمایا " مَا زِلتُ أردد الآيَةَ حَتَّى سَمِعْتُهَا مِنَ المُتم بھا میں ایک ارْدِدُ یت کو بار بار دہراتا رہا یہاں تک کہ میں نے اس آیت کو خود اس سے متکلم بینی رت کعبه یا فرشتہ اسے سننے کا شرف حاصل کیا ہے آپ کے علاوہ جن روحانی شخصیات پر قرآنی آیات کا الہاما نزول ہوا آن میں حضرت محی الدین ابن عربی حضرت مجدد الف ثانی ہے حضرت خواجہ میر درد دہلوی نے حضرت مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی اور حضرت سید امیر الاطمانندی ، عبد لے متوفی ۶۳۲ : کے متولی ۸۹۸ ده سکه ولادت ۸۰ هر وقات ۱۳۸ عربه کے تفسیر ابن عربی 3 امت - عوارف المعارف و الا نفحات الأنس مع سلسلة الذهب من ولادت ۹۷۱ ه وفات ۱۳۴ ه * ته ولادت ۱۳۳ هر وفات 1199 هـ ؟ شه ولادت ۱۲۳۰ هر وقات ۱۲۹۸هـ

Page 17

۱۶ انقشبندی مجد و صدی سیز و ہم (پیر کوٹھا شریف، خاص طور پر قابل ذکر ہیں.یہ عجیب بات ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ دیگر الہامی کتب کے مطالب انکی زبانوں کو جاننے والے علماء ظواہر پر منکشف ہوتے رہتے ہیں مگر قرآن کریم کے متعلق یہ شرط ہے کہ خواہ ظاہری طور پر کوئی بڑا عالم نہ ہولیکن اللہ تعالی سے الہام و کلام کا سچا تعلق رکھتا ہو قرآنی معارف اسی پر کھلیں گے.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک سے لے کر آج تک قرآنی علوم صرف خدا کے برگزیدہ بندوں کے ہاتھ سے ہی گھلتے رہتے ہیں.جہاں دوسروں نے بڑی بڑی ٹھوکریں کھائیں جو لوگوں کے لئے گمراہی کا موجب بنیں وہاں صوفیہ اور اولیاء نہ صرف ان سے محفوظ رہے بلکہ انہوں نے لاکھوں کروڑوں کو كلمه طيبة لا إله إلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ" کے ذریعہ مسلمان کر کے درگاہ خدا وندی تک پہنچا دیا.علوم قرآنی کے انکشافات کا انقلابی دور چودھویں صدی ہجری میں علوم قرآنی کے انکشاف کا ایک انقلابی دور ه ولادت ۱۲۱۰ در وفات ۱۲۹۴ه کے الفتوحات المكية جلادس من روضہ قیومی کا ترجمہ صدیقه محمود یہ ص۲۲۳ علم الكتاب طلقت ، سوانح عمری حضرت مولوی عبد الله غر نوی مثا مطبوعه 161-177 امرتسر، سلك السير في نظم الدرر مطبوعه و علی ۳۳۳).

Page 18

16 شروع ہوا جب کہ ایک طرف کتاب اللہ پر ہزار ہا انواع و اقسام کے عقلی اور فلسفیانہ حملے انتہا کو پہنچ گئے اور دوسری طرف وعده خداوندی وران من شَى الا عِندَنَا خَزائِنُهُ وَمَا نَتَزَلَهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (الحجرع) ایک بار پھر اپنی پوری شان کے ساتھ ظاہر ہوا اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ سے بطلونِ قرآن میں چھپے ہوئے ان بے شمار وقائق و حقائق کا پورے زور سے ظہور ہوا جن سے ہی اسلام ادیان باطلہ پر مشتمل فتح پاسکے گا.یہ سچی اور حقیقی فتح قرآنی معارف اور لطائف اور کامل صداقتوں کے لشکر کے ساتھ ہی ممکن تھی جو آپ کو حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غلامی کے طفیل بذریعہ الہام عطا کیا گیا، جیسا کہ اہل کشف بزرگوں " نے صدیوں قبل یہ خبر دی تھی کہ :.يلهم الحكم بِشَرِيعَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحُكمِ الْمَطَابَقَةِ بِحَيْثُ لَوْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَوْجُودُ الأَقرَّهُ عَلَى جَمِيمِ احکامِه كَمَا أَشَارَ اِلَيْهِ فِي حَدِيثِ ذِكْرِ الْمَهْدِي بِقَوْلِهِ يَقْفُو أَثْرِى لَا يُخْطِي له یعنی امام محمدی علیہ السلام کو پورے طور پر شریعت محمدی لے " کتاب المیزان" سید عبد الوہاب شعرانی الجزء الاول من مطبعہ مجازی بالقاهره

Page 19

IA على صاحبها الصلوۃ والسلام کے مطابق حکم کرنے کا الہام کیا جائے گا یہاں تک کہ اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہوتے تو ان کے تمام جاری کر وہ احکام کو تسلیم فرماتے اور انہی کو قائم رکھتے.چنانچہ اس حدیث نبوی میں جس کے اندر امام مہدی علیہ السلام کا تذکرہ ہے اس طرف اشارہ بھی ہے کیونکہ آپ اس میں فرماتے ہیں کہ یقفو اثری لا يُخطی یعنی میرے قدم بقدم چلیں گے اور ذرا بھی خطا نہ کریں گے لیے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی نے اپنے مکتوبات میں پیش گوئی بھی فرمائی کہ علمائے خوا ہر مسیح محمدی کے مجتہدات سے ان کے ماخذ کے کمال دقیق اور پوشیدہ ہونے کے باعث انکار کر جائیں گے اور ان کو کتاب و سنت کے مخالف گردانیں گے لیے حضرت بانی احمدیت کا عشق قرآن سیدنا حضرت اقدس باقی احمدیت (علیه الف الف التحیات) کو قرآن عظیم سے ایک والہانہ عشق تھا جس کی نظیر زمانہ نبوی کے بعد گذشتہ تیرہ صدیوں لے "مواہب رحمانی اُردو ترجمہ میزان الشعرانی" جلد اول مثلا ( مطبع گلزار ہند سٹیم پریس لاہور) سے مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی دفتر دوم من مكتوب ۵۲۷

Page 20

19 میں کہیں نہیں ملتی.اسی طرح آپ نے جس شان کے ساتھ کتاب اللہ کی عظمت اور جلالت مرتبت کا سیکہ مذاہب عالم پر بٹھایا اور منکرین اسلام پر محبت اسلام پوری کی وہ بھی اپنی مثال آپ ہے.اس سلسلہ میں حضور کی انقلاب انگیز تصنیف "البراهين الاحمديه على حقیت كتاب الله القرآن والنبوة المحمدیہ کا نام ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا جس کو متفقہ طور پر اسلامی دنیا کا شاہکار تسلیم کیا گیا.چنانچہ مشہور اہل حدیث عالم جناب مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی نے اس لاجواب کتاب پر شاندار تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:." ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں....اور اس کا مولف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر سہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے.یہ نیز لکھا:.مولف براہین احمدیہ نے مسلمانوں کی عزت رکھ دکھائی

Page 21

ہے اور مخالفین اسلام سے شرطیں لگا لگا کر تختی کی ہے اور یہ منادی اکثر روئے زمین پر کر دی ہے کہ میں شخص کو اسلام کی حقانیت میں شک ہو وہ ہمارے پاس آئے اور اس کی صداقت ودلائل عقلیہ قرآنیہ ومنجزات نبوت محمدیہ سے (جس سے وہ اپنے الہامات و خوارق مراد رکھتے میں بچشم خود ملاحظہ کرنے پہلے اسی طرح لدھیانہ کے ممتاز روحانی پیشوا حضرت صوفی احمد جان صاحب نے جنہیں اُس زمانہ کے علماء ظواہر قدوۃ الواصلین اور مسیحائے دوران“ کے خطابات سے یاد کرتے تھے اشتہار واجب الانظار میں لکھا:.یہ کتاب دین اسلام اور نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف کی حقانیت کو تین سو مضبوط دلائل عقلی اور نقلی سے ثابت کرتی ہے اور عیسائی ، آریہ ، نیچریہ ، ہنود اور پر ہم سماج وغیرہ جمیع مذاہب مخالفین اسلام کو از روئے تحقیق کر ذکرتی ہے.....یہ کتاب مشرکین و مخالفین اسلام کی بیخ و بنیاد کو اکھاڑتی ہے اور اہل اسلام کے اعتقادات کو ایسی قوت بخشتی ہے جس سے اشاعت السنه جلد ۷ صفحه ۱۶۹، ۱۷۰ صفحه ۱۳۱۸

Page 22

۲۱ معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور اسلام کیا نعمت عظمی ہے اور قرآن شریف کیا دولت ہے اور دین محمدی کیا صداقت ہے کیا لے حضرت اقدس کے قلب صافی میں عشق قرآن اور انوار قرآنی سمندر کی طرح موجودن تھے.آپ کی باطنی کیفیت کا اندازہ لگانے کے لئے آپ کے عارفانہ کلام میں سے صرف دو شعر کافی ہیں :.(۱) (۲) جمال و حسین قرآن نو یہ جان ہر مسلمان ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآن ہے تے دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآن کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے کے آپ کی سب سے بڑی دلی تمنا یہ تھی کہ قرآن عظیم کا خوبصورت اور خدا نما چہر مشرقی اور مغربی دنیا پر پوری طرح آشکارا ہو جائے جیسا کہ فرماتے ہیں :.صد بار رقص با کنم از خرمی اگر بینم که حسن دلکش فرقاں عیاں نماند یعنی یکی خوشی کے مارے سینکڑوں دفعہ رقص کروں اگر یہ دیکھ لوں کہ مشر آن کا نے " تاثرات قادیان صفحه ۶۳ ۶۸ (مرتبه ملک فضل حسین صاحب) + نے براہین احمدیہ حصہ سوم م ب نے قادیان کے آریہ اور ہم" من : ۱۸ :

Page 23

۲۲ دلکش حسن و جمال مخفی نہیں رہا.ہیں سے آپ کا دل در دو سوز میں ڈوب کر خون کے آنسو روتا تھا.خود فرماتے جانم کباب شد زنیم این کتاب پاک چندان بسوختم که خود امید جای نماند اس کتاب کے غم میں میری جان کباب ہو گئی اور کہیں اِس قدر جل گیا ہوں کہ بیچنے کی کوئی امید نہیں.آپ نے سراپا فریاد بین کہ اپنے مولیٰ سے التجا کی سے یا رب ! چه بهر من غم فرقان مقدر است یا خود دریں زمانہ کیسے رانه وای نماند نے یعنی اسے رب ! کیا میری تقدیر میں ہی فرقان کے لئے غم کھانا لکھا ہے یا اس زمانہ میں میرے سوا اور کوئی راز دان اور واقف حقیقت ہی نہیں.خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے اس عدیم المثال عاشق فرقان کی دعاؤں کوسنا اور اپنی رحمت سے بپا یہ قبولیت جگہ دی اور اپنے پر شوکت الہام سے مخاطب کرتے ہوئے یہ بشارت دی کہ وہ آپ کو ایسا جلیل القدر فرزند عطا فرمائیگا جس سے مرتبہ کلام اللہ کا ظہور ہوگا چنانچہ فرمایا."اے مظفر تجھے پر سلام خدا نے یہ کہاتا وہ جو زندگی کے خواہاں به اشتہار" اہل اسلام کی فریاد در ثمین مترجم م ہے

Page 24

۲۳ ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظا ہر ہو ئے اس عظیم الشان پیش گوئی کے عین مطابق مصلح موعود کی شکل میں آپ کو ایک عظیم الشان راز دان قرآن بخشا گیا.جیسا کہ حضرت مصلح موعود خود فرماتے ہیں.وہ بوجھ اُٹھا نہ سکے جس کو آسمان و زمیں اُسے اُٹھانے کو آیا ہوں کیا عجیب ہوں میکس حضرت مصلح موعود کا عشق قرآن سلطان البیان حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ اسیح الثانی المصلح الموعود ۱۳ جنوری ۱۸۸۹ ء کو پیدا ہوئے.سالانہ جلسہ ۶۱۹۰۶ پر سترہ سال کی عمر میں پہلی پبلک تقریر چشمۂ توحید کے مضمون پیر کی.فروری 1910ء میں دریں قرآن کا آغاز کیا.۱۴ مارچ ۱۹۱۷ء کو مسند خلافت پر متمکن ہوئے اور در نومبر ۱۹۶۵ء کو انتقال فرمایا.حضور نے اپنے پچاس سالہ عہد خلافت میں قرآنی مباحث سے متعلق ضمیمه ریاض بسند امر تسر مطبوعه یکم مارچ ۶۱۸۸۶ هنگا داشتهار ۲۰ فروری ۶۱۸۸۶)

Page 25

: ۲۴ شاندار اسلامی لٹریچر پیدا کیا.ہزاروں بصیرت افروز تقاریر فرمائیں اور خطبات ارشاد فرمائے جن کا مرکزی نقطہ قرآن مجید ہی تھا.معرفت کا یہ لازوال اور بیش بہا خزانہ سلسلہ کے اخبارات میں بہت حد تک محفوظ ہے اور کتابی صورت میں بھی منظر عام پر آچکا ہے.علاوہ ازیں حضور کے قلم مبارک سے قرآن مجید کی بہت سی معرکہ آراء اور ایمان افروز تفاسیر شائع ہوئیں.مثلاً پہلے پارہ کی نادر تفسیر "حقائق القرآن" " درس القرآن" "معارف القرآن تفسیر کبیر اور "تفسیر سیر صغیر ان میں سے ہر تفسیر تنتقل امتیازی شان اور کئی خصوصیات کھتی ہے خصوصاً تفسیر کبیر اور تفسیر صغیر جسے علم تفسیر کا شاہکار کہا جائے " تو مبالغہ نہ ہوگا.تفسیر کبیر زیاده تر آن درسوں یا تفسیری نوٹوں پرمشتمل ہے جو حضور نے قادیان، ڈاموزی ، کوئٹہ اور ربوہ میں دئے.اس عظیم الشان تفسیر کی ۱۱ (گیارہ جلدیں اور شکل صفحات قریباً ۵۰۰ ہیں اور تفسیر کا پہلا ایڈیشن ۱۳۵۴ صفحات پر محیط ہے.اس طرح تفسیر کبیر و تفسیر صغیر کے صفحات کی مجموعی تعداد تقریباً ۷۲۶۰ تک جا پہنچتی ہے.حضرت سید نامحمود المصلح الموعود نوراللہ مرقدہ کی ذات بابرکات سے مرتبہ کلام اللہ کا اظہار کس شان سے ہوا اور اس اصیل تاباں اور مہر درخشاں کی کر نہیں کسی طرح ہزار ہا پہلوؤں سے افق عالم پر چمکیں ؟؟ اس کی تفصیل کیلئے تو ایک دفتر درکار ہے.بچے سفینہ چاہئیے اس بحر بیکراں کے لئے

Page 26

اس مقالہ میں بطور نمونہ اس کے صرف بارہا پہلو بیان ہوں گے.وما توفیقی الا بالله العلى العظيم اولین پیلو خدا تعالی سے علوم قرآن کے تعلیم) اس سلسلہ میں اولین پہلو یہ ہے کہ قرآن مجید کا حقیقی مرتبہ اہل اللہ پر ہی کھل سکتا ہے جیسا کہ فرمایا لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة :.) چنانچہ حقیقت ہے کہ اگر چہ حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ نے کسی مدرسے کا کوئی ایک امتحان بھی پاس نہیں کیا تھا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے الہامات' کشوف اور رؤیا کے ذریعے سے علیم قرآن سکھایا اور غیر مذاہب کے مقابل پر ایسے ایسے حقائق و معارف کھولے کہ غیرمسلم دنیا کو دم مارنے کی مجال نہ رہی.حضرت مصلح موعود ہی کے الفاظ میں اس حقیقت پر روشنی ڈالنا زیادہ مناسب ہوگا.فرمایا :- - ا میں نے کوئی امتحان پاس نہیں کیا.نہر دفعہ فیل ہی ہوتا رہا ہوں مگر اب میں خدا کے فضل سے کہتا ہوں کہ کسی علم کا مدعی آجائے اور ایسے علم کا مدعی آجائے جس کا میں نے نام بھی نہ سُنا ہو اور اپنی باتیں میرے سامنے مقابلہ کے طور پر پیش کرے اور میں اسے لا جواب نہ کر دوں تو جو اس کا جی چاہے کہے.ضرورت کے وقت ہر علم خدا مجھے سکھاتا ہے اور کوئی شخص

Page 27

۲۶ نہیں ہے جو مقابلہ میں ٹھہر سکے یا اے ۲." یکی ابھی چھوٹا سا تھا میری عمر پندرہ سولہ سال کی ہوگی کہ میں نے رویا میں دیکھا جیسے کوئی کٹورہ ہوتا ہے اور اس کے اُوپر کوئی چیز آ کر گر سے تو اس میں سے ٹن کی آواز نکلتی ہے اسی طرح اس میں سے ٹن کی آواز آئی پھر وہ آواز پھیلنی شروع ہوئی پھر متم ہوئی.پھر وہ ایک فریم بن گئی پھر اس میں سے ایک تصویر بنی پھر وہ تصویر متحرک ہو گئی اور اس میں سے ایک وجود نکل کر میر سے سامنے آیا اور اُس نے کہا ئیں خدا تعالیٰ کا فرشتہ ہوں اور یکی آپ کو سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھانے کے لئے آیا ہوں یکں نے کیا سکھاؤ.اُس نے سورۂ فاتحہ کی تفسیر مجھے سکھانی شروع کی.جب وہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پر پہنچا تو کہنے لگا آج تک جتنی تفسیریں لکھی گئی ہیں وہ اس آیت سے آگے نہیں بڑھیں.کیا میں آپ کو آگے بھی سکھاؤں ؟ میں نے کہا ہاں ! چنا نچہ اس نے مجھے اگلی آیات کی بھی تفسیر سکھا دی.میری عمر اس وقت پندرہ سال کی تھی اور اب اس رویا پر چوالیس سال گذر گئے ہیں.اس عرصہ دراز میں جو علوم خدا تعالیٰ نے مجھے سورۂ فاتحہ سے سکھائے ہیں اُن کے ذریعہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر نہ ہب کا رد ه ملائکة الله ۵۴۵۳

Page 28

۲۷ اس سورت سے کر سکتا ہوں اور پھر میرا دعوی ہے کہ سورۂ فاتحہ میں دنیا کی تمام اقتصادی تھیوریوں کا جواب موجود ہے خواہ بالشوزم ہو یا کپیٹل ازم ہو یا کوئی اور ہویا اے ۱۹۵۵ء کے سفر یورپ کے دوران حضور نے زیورچ میں اِس موضوع پر چار پر معارف خطبے دئے اور مدلل انداز میں ثابت کیا کہ سورہ فاتحہ میں اشتراکیت اور سرمایہ داری کارڈ موجود ہے.سے ۳.حضور فرماتے ہیں :.قرآن کریم کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مضامین ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے القاء اور الہام کے طور پر مجھے سمجھائے ہیں.اور میں اس بارہ میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا جس قدر شکر ادا کروں کم ہے.اس نے کئی ایسی آیات جو مجھ پر واضح نہیں تھیں اُن کے معانی بطور وحی یا القاء میرے دل پر نازل کئے اور اس طرح اپنے خاص علوم سے اس نے مجھے بہرہ ور کیا.مثال کے طور پر یکیں سورہ بقرہ کی ترتیب کو پیش کرتا ہوں.لیکن ایک دن بیٹھا ہوا تھا کہ یکدم مجھے القاء ہوا کہ فلاں آیت اس کی گنجی ہے.اور جب میں نے غور کیا تو اس کی تمام 064 به تفسیر کبیر جلد : الفضل مئی جون ۱۹۵۵ء " تاریخ احمدیت جلد ، اصلها :

Page 29

ترتیب مجھے پر روشن ہو گئی.اس طرح سورۂ فاتحہ کے مضامین مجھے القاء اور الہانا اللہ تعالٰی کی طرف سے رویا میں بتائے گئے تھے اس کے بعد خدا تعالیٰ نے میرا سینہ سورہ فاتحہ کے حقائق سے بریز فرما دیا.قرآن کریم کی ترتیب میں بیسوں آیات کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور القاء مجھے سمجھائی گئی ہیں مثلاً سورہ بروج اور شورہ طارق کا یہ جوڑ کہ اُن میں سے ایک سورت میں مسیحیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور دوسری سورت میں مہدویت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ بھی ان مضامین سے ہے جو لوگوں کی نگاہ سے مخفی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ الکو ظاہر فرما دیا اور مجھے وہ دلائل دئے جن سے میں اپنے اس استدلال کو پوری قوت کے ساتھ ثابت کر سکتا ہوں اور کوئی منصف مزاج ان دلائل کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتا.عقلی طور پر اسے بہر حال ماننا پڑے گا کہ میرا دعوی دلائل پر مبنی ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ کہہ دے کہ میں ان دلائل کو تسلیم نہیں کرتا لیکن اسے یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ میں نے جو دعوی کیا ہے اس کے دلائل اور وجوہ موجود ہیں یا اے.غرض قرآن کریم کے کئی مشکل آیات کے معانی اللہ تعالیٰ نے اپنے NAY له تفسیر کبیر جز چهارم نصف اول ،

Page 30

۲۹ القاء اور الہام کے ذریعہ مجھ پر منکشف فرمائے ہیں اور اس قسم کی بہت سی مثالیں میری زندگی میں پائی جاتی ہیں انہیں مشکل آیات میں سے میرے لئے ایک یہ سورة (فجر) بھی تھی....جوں جوں سورۂ فجر کا دری نزدیک آتا گیا میرا اضطراب بھی بڑھتا چلا گیا میں نے کہا جب اس سورۃ کے متعلق میری اپنی قسمتی ہی نہیں ہوئی تو میں دوسروں کو کیسے مطمئن کر سکتا ہوں ؟ مفسرین نے جو معنے بیان سکتے ہیں وہ ایک بیان کر سکتا تھا مگر جو تر تیب گذشتہ سورتوں سے یکیں بتاتا آ رہا ہوں اس کے لحاظ سے چاروں کھونٹے قائم نہیں ہوتے تھے.پہلے خیال آیا کہ میں دوسروں کے معانی ہی نقل کر دوں کیونکہ یہ درس اب جلد کتابی صورت میں چھپنے والا ہے.کب تک یکیں اُن معافی کا انتظار کروں جو ترتیب کے مطابق ہوں شاید ترتیب کے مطابق معنے اللہ تعالیٰ پھر کسی وقت کھول دے آخر پرانے منتروں نے کوئی نہ کوئی معنے ان آیات کے کئے ہی ہیں.رازی نے بھی ان کے معنے لکھتے ہیں پھر محیط والوں نے بھی معنے لکھے ہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے بھی معنے کئے ہوئے ہیں اور ان تمام معافی کو ملحوظ رکھ کر کچھ نہ کچھ بات بن ہی جاتی ہے مگر چونکہ میرا دل یہ کہتا تھا کہ ترتیب آیات کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ معافی پوری طرح با هم منطبق نہیں ہوتے مجھے اطمینان نہ ہوا.یہاں تک که ۷ ار ما و صلح ۱۳۲ پیش مطابق ، در جنوری ۱۹۳ به بروز

Page 31

بدھ یکی سورہ غاشیہ کا درس دینے کے لئے مسجد مبارک میں آیا یکس نے درس سورہ غاشیہ کا دینا تھا مگر میں غور سورۂ فجر پر کر رہا تھا.اسی ذہنی کشمکش میں میں نے عصر کی نماز پڑھانی شروع کی اور میرے دل پر ایک بوجھ تھا لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ جب یکی عصر کی نماز کے آخری سجدے سے سر اُٹھا رہا تھا تو ابھی سر زمین سے ایک بالشت بھر اُونچا آیا ہو گا کہ ایک آن میں یہ سورت مجھ پر حل ہو گئی.پہلے بھی کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ سجدہ کے وقت خصوصا نماز کے آخری سجدہ کی حالت میں اللہ تعالے نے بعض آیات کو مجھ پر حل کر دیا مگر اس دفعہ بہت ہی زبر دست تقسیم تھی کیونکہ وہ ایک نہایت مشکل اور نہایت وسیع مضمون پر حاوی تھی.چنانچہ جب یکی نے عصر کی نماز کا سلام پھیرا تو بے تحاشا میری زبان سے الحمد للہ کے الفاظ بلند آواز سے نکل گئے یا اے ۵ - قرآن مجید نے صفات الہیہ کا جو مکمل نقشہ کھینچا ہے اس کی تفصیل آپ پر ایک پر از عرفان رویا میں ظاہر کی گئی جس سے انسان پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے.فرماتے ہیں :.ایک دفعہ میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک جرمن نومسلم نے مجھ سے له تفسیر کبیر جز چهارم نصف اول صدا ۴۸۵ - ۳۸۳

Page 32

کوئی سوال کیا ہے جس کے جواب میں میں نے اللہ تعالیٰ کی بعض صفات پیش کی ہیں جن میں سے ایک رب بھی ہے.اِس پر اُس بر من نو مسلم نے کہا کہ ان صفات کا ذکر تو بائیبل میں بھی آتا ہے.اس فقرہ کے دونوں معنے ہو سکتے تھے.یہ بھی کہ چونکہ بائیبل میں بھی بعض صفات کا ذکر ہے اس لئے یہ دلائل عیسائیوں پر بھی اترکر سکتے ہیں اور یہ معنے بھی ہوسکتے تھے کہ گویا قرآن کریم بائیبل کی نقل کرتا ہے.یکس نے ان دونوں معنوں کا خیال کر کے دل میں سوچا کہ یہ تو مسلم ہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے دل میں یہ خیال آیا ہو کہ قرآن کریم کی بہت سی تعلیم بائیبل سے ملتی جلتی ہے پھر اس کی فضیلت کیا ہوئی ؟ اس خیال کے پیدا ہونے پر میں نے بڑے جوش سے اُن کے سامنے تقریر شروع کی کہ بائیبل میں جو یہ صفات آئی ہیں اُن سے قرآنی صفات کو امتیاز حاصل ہے.بائیبل میں محض رسمی ناموں کے طور پر وہ صفات بیان کی گئی ہیں اور قرآن کریم نے ان صفات کی باریکیوں کو بیان کیا ہے اور ان مضامین میں وسعت پیدا کی ہے اور ان کے راز بیان گئے ہیں.چنانچہ میں نے کہا.دیکھو! ارب کا لفظ ہے بائیبل نے بھی خدا تعالی کو پیدا کرنے والا یا پالنے والا کہا ہے یا زمین آسمان کا خالق کہا ہے لیکن قرآن کریم یہ نہیں کہتا بلکہ قرآن کریم شوره فاتحہ میں خدا تعالیٰ کو رَبُّ العالمین کے طور پر پیش کرتا ہے

Page 33

اور لفظ رب اور لفظ عالمین دونوں اپنے اندر امتیازی شان رکھتے ہیں.رب صرف اس مضمون پر دلالت نہیں کرتا کہ وہ پیدا کرنے والا اور پالنے والا ہے بلکہ اس امر پر بھی دلالت کرتا ہے کہ وہ نہایت ہی مناسب طور پر انسان کی باریک دربار یک قوتوں اور طاقتوں کو درجہ بدرجہ اور مناسب حال ترقی دیتا چلا جاتا ہے اور عالمین کا لفظ محض زمین و آسمان پر دلالت نہیں کرتا بلکہ زمین و آسماں کے علاوہ مختلف اصناف کی مختلف کیفیتوں پر بھی دلالت کرتا ہے اور یہ مضمون پہلی کتب میں بالکل بیان نہیں ہوا.مثلاً عالمین میں جہاں یہ مراد ہے کہ اِس جہان کا بھی رب ہے اگلے جہان کا بھی رب ہے.آسمانوں کا بھی رب ہے زمینوں کا بھی رب ہے.وہاں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ عالم اجسام اور عالم ارواح اور عالم نساء اور عالم رجال پھر عالیہ منکر اور عالم شعور اور عالیم تصور اور عالیم تقدیر اور عالمیم عقل ان سب کا بھی وہی رب ہے یعنی وہ صرف روٹی ہی مہیا نہیں کرتا وہ صرف انہی چیزوں کو مہیا نہیں کرتا جو جسموں کو پالنے والی ہیں بلکہ وہ ارواح کے پالنے کا بھی سامان کرتا ہے اور پھر مختلف تقاضے جو انسان کی فطرت میں پائے جاتے ہیں اُن میں سے ہر ایک کی نشو ونما کے لئے اس نے قرآن کریم میں تعلیم دی ہے چنا نچہ اس قسم کے مضمون پر یکی تفصیل لیکچر ان کے سامنے دے

Page 34

رہا ہوں اور خود مجھے بھی نہایت لذت اور سرور حاصل ہو رہا ہے اور یکن محسوس کرتا ہوں کہ ایک نیا مضمون اور نئی کیفیت میرے اندر پیدا ہو رہی ہے.یہی لیکچر دیتے دیتے میری آنکھ کھل گئی یا لے 4 - " وہ قرآن جو لوگوں کے لئے ایک سر بمہر لفافہ تھا ہمارے لئے کھلی کتاب ہے.اس کی مشکلات ہمارے لئے آسان کی جاتی ہیں اور اس کی باریکیاں ہمارے لئے ظاہر کر دی جاتی ہیں.کوئی دنیا کا مذہب یا خیال نہیں جو اسلام کے خلاف ہو اور جیسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم صرف قرآن کریم کی تلوار سے کاٹ کر ٹکڑے نہ کر دیں اور کوئی آیت ایسی نہیں جس پر کسی علم کے ذریعہ سے کوئی اعتراض پڑتا ہوا اور خدا کی مخفی وحی ہمیں اسکے جواب سے آگاہ نہ کر دے “ کے حضور نے فضائل القرآن کے نام سے ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۶ء تک سالانہ جلسہ پر نہایت مبسوط لیکچر دئے جن میں دوسری مذہبی و الہامی کتب کے بالمقابل قرآن کی افضلیت کے چھیں وجوہ پیش فرمائے اور آخر میں قرآنی استعارات کی فلاسفی بیان کر کے دنیا بھر کے غیر مسلم لیڈروں کو چیلنج دیا کہ :- کے تفسیر کبیر جلده حصہ دوم 19 تا مث 1 ے دعوۃ الامیر از حضرت مصلح موعود

Page 35

۳۴ قرآن کریم میں کئی مقامات پر مجاز اور استعارہ بھی استعمال کیا گیا ہے مگر چونکہ قرآن کریم دائمی شریعت ہے اس لئے اس نے ساتھ ہی محکم آیات بھی رکھ دی ہیں کہ جو کوئی دوسرے معنے کرنے ہی نہیں دیتیں.جب استعارے کو استعارے کی حد تک محدود رکھا جائے گا تو اس کے معنے ٹھیک رہیں گے مگر جب استعارہ کو حقیقت قرار دے دیا جائے گا تو دو آیتیں آپس میں کرا جائیں گی.غرض قرآن کریم کا یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے جس کے مقابلہ میں باقی الہامی کتب قطعا نہیں ٹھر سکتیں....قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی اور کیسی کتاب کو حاصل نہیں.اور اگر کسی کا یہ دعوی ہو کہ اس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو میں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے اگر کوئی وید کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اگر کوئی تو ریت کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اگر کوئی انجیل کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اور قرآن کریم کا کوئی ایسا استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو یکیں بھی استعارہ سمجھوں پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی نہ پیش کر دوں تو وہ بے شک مجھے اس دعوی میں جھوٹا سمجھے لیکن اگر پیش کر دوں تو اسے ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں قرآن کریم کے سوا دنیا کی اور کوئی کتاب اس خصوصیت کی حامل مشین کیا نے فضائل القرآن ص ۳۳ ۲۳۹ به 4.

Page 36

خدا کا یہ شیر ساری عمر مخالفین اسلام کو للکارتار با مگر کسی کو جرأت نہ ہوسکی کہ مرد میدان بن کر آپ کے سامنے آسکے.جیسا کہ حضرت مصلح موعود خود فرماتے ہیں سے دوسرا پیلو میرے پکڑنے پہ قدرت کہاں ؟ تجھے میاد ! که باغ محسن مستند کی عندلیب ہوں میں (کلام محمود) (کلام اللہ صرف قرآن ہے) دنیا کی تمام مذاہب کی الہامی کتب میں صرف قرآن مجید کو یہ امتیازی خصوصیت اور منفر د شرف حاصل ہے کہ وہ کلام اللہ ہے.چنانچہ دوسرا پہلو جس سے حضرت مصلح موعود کے ذریعہ کلام اللہ کا مرتبہ طور پذیر ہوا وہ یہ ہے کہ آپ نے یہ نظریہ پیش کر کے علمی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا کہ قرآن کریم ایک ہی کتاب ہے جو کلام اللہ کہلا سکتی ہے.دوسری کتب خواہ الہامی بھی ہوں کلام اللہ نہیں کیونکہ ان میں انسانی کلام بھی شامل ہے.خالصہ کلام الله الف سے لے کردی، ایک، بسم اللہ سے لے کر والناس بانک صرف قرآن کریم ہے.یہ کتاب اُس وقت سے کہ نازل ہوئی ہمارے زمانہ تک جوں کی توں ہے نہ ایک لفظ کم نہ ایک لفظ زیادہ، نہ کوئی حکم نا قابل عمل نہ کوئی آیت منشوخ ہر ایک حرکت و وقف بعینہ نہیں اس کے سوا اور کوئی کتاب نہیں

Page 37

جسے اس تعیین کے ساتھ اپنے لئے مشعل راہ بنایا جاسکے کہ اس سے کوئی مشتبہ حکم نہ ملے گا یا ہے آپ نے ثابت کیا کہ جس طرح ” بیت اللہ کا لفظ صرف خانہ کعبہ کے ساتھ مخصوص ہے اسی طرح قرآن کے سوا کوئی اور کتاب کلام اللہ کہلانے کی مستحق نہیں ہو سکتی.اس زبر دست تحقیق کا خلاصہ میں حضورہ ہی کے الفاظ میں پیش کرتا ہوں :- قرآن کریم میں کلام اللہ کا لفظ تین جگہ آیا ہے اور تینوں جگہ قرآن کریم کے متعلق ہی استعمال ہوا ہے کسی اور کتاب کے متعلق نہیں.اس لئے عقلاً یہی کہا جائے گا کہ قرآن ہی کلام اللہ ہے اور ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہم بلادلیل یہ خیال کریں کہ قرآن کریم کے سوا کوئی اور آسمانی کتاب بھی کلام اللہ کے نام کی مستحق ہے.کتاب اللہ اور کلام اللہ میں فرق ہے.کتاب اللہ ہر اس کتاب کو جس میں خدا کی باتیں ہوں کہا جاسکتا ہے لیکن کلام اللہ ہر ایک کو نہیں کہا جا سکتا.دوسری الہامی کتابوں کو کتاب اللہ کہا گیا ہے اور کتاب اللہ کا لفظ قرآن کے متعلق بھی موجو د ہے مگر دوسرا لفظ کلام اللہ صرف قرآن کے لئے استعمال کیا گیا ہے کسی اور کے لئے نہیں.یہ فرق ہے اور یہ بغیر حکمت کے نہیں.اس فرق کو سمجھنے کیلئے ے تفسیر کبیر جلد اول (دیباچہ) جز اول ہے

Page 38

۳۷ یا درکھنا چاہیے کہ انبیاء کی وحی کئی قسم کی ہوتی ہے: (۱) ایک وہ وجی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں کانوں پر پڑتی ہے اور زبان پر جاری ہوتی ہے (۲) دوسری وحی رویا و کشوف ہیں یہ الفاظ میں نہیں بلکہ نظاروں میں ہوتی ہے (۳) تیسری وحی خفی ہوتی ہے جو الفاظ میں نازل نہیں ہوتی نہ نظارہ دکھایا جاتا ہے بلکہ تقسیم اور انکشان کے ذریعہ ہوتی ہے.دل میں ایک خیال پیدا ہوتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی دل میں ڈالا جاتا ہے کہ یہ تمہارا خیال نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ڈالا گیا ہے اور الفاظ اس کو خود بنانے پڑتے ہیں.یہ سب سے ادنیٰ وحی ہے.اب اگر ایک نبی اپنی تمام وحی کو ایک کتاب میں جمع کر دیے جس میں وہی کلام بھی ہو اور وہی کشف و رڈیا بھی ہو اور وحی خفی بھی نبی کے اپنے الفاظ میں ہو تو اسے ہم کتاب اللہ تو کہ سکتے ہیں لیکن ہم اسے کلام اللہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ سب کی سب کلام اللہ نہیں بلکہ اس میں ایک حد تک کلام بشر بھی ہے گو مضمون سب کا سب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس وجہ سے وہ کتاب کتاب اللہ ہے.اب اس فرق کو مد نظر رکھ کر دیکھ لو دنیا کی کوئی کتاب خواہ کیسی قوم کی ہوا اور کس قدر ہی شد و مد کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کی بھاتی ہو کلام اللہ نہیں ہوسکتی کیونکہ ایک بھی ایسی کتاب نہیں نہ موجودہ صورت میں اور نہ اُس صورت میں جس طرح کیسی

Page 39

نہیں نے دی تھی کہ اس کے تمام کے تمام الفاظ خدا تعالی کے ہوں.غرض قرآن کریم کلام اللہ کے نام میں منفرد ہے.جس طرح کعبہ بیت اللہ کے نام میں دوسرے بہوت سے منفرد ہے.خدا تعالی نے خانہ کعبہ کو بیت اللہ قرار دیا ہے اور قرآن کو کلام اللہ قرار دیا ہے.سے میرا سیلو کر طیبہ سے تعلق قرآنی مرتبہ کی شاندار تفسیر مشہور عربی گفت "لسان العرب" میں ہے :- "المرتبة المنزلة عبد الملوك" (جلد من یعنی وہ مقام جو بادشاہوں کے نزدیک کبھی کو حاصل ہو مر تبہ " کہلاتا ہے.خدا تعالیٰ شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے متحد و آیات قرآنیہ سے ہی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بارگاہ ایزدی میں قرآن پاک کو بلند ترین مقام حاصل ہے.حضرت مصلح موعود نے ان آیات کی تفسیر بھی انیسی اچھوتی، دلکش اور حسین انداز میں فرمائی ہے کہ انسان کا قلب اس پختہ یقین سے لبریز ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید ے فضائل القرآن از حضرت مصلح موعود صفحه ۲۱ تا ۲۱۷ (تلخیص)

Page 40

کا مرتبہ دیگر الہامی کتب سے فائق اور رفیع تو ہے اور یہ حضرت مصلح موعود کی قرآن دانی کا کمال ہے مثلاً سورہ بنی اسرائیل کی آیت مَثَلُ كَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ كشجرة طيبة میں قرآن مجید کا عالی مرتبہ بیان ہوا ہے.اگر ہم اس تعلق میں حضور کی حق و معرفت سے بھری ہوئی تفسیر کا ہی مطالعہ کریں تو انسان کی روح وجد میں آجاتی ہے.ذیل میں اس تفسیر کا خلاصہ حضور ہی کے الفاظ میں پیش کرتا ہوں :- یہ علامات شجرہ طبقیہ کی جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں تازہ کلام الی کی جو مصفی اور زندہ ہو ایسی یقین تشریح کر دیتی ہیں کہ پیچھے اور جھوٹے کلام میں فرق کرنے میں کوئی مشکل ہی باقی نہیں رہتی.چنانچہ جب ہم ان علامات کی روشنی میں قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہر علامت اس میں ایسے حیرت انگیز طور پر پائی جاتی ہے کہ بلید سے بلید آدمی بھی اس امر کو تسلیم کرنے سے رک نہیں سکتا کہ یہ کلام اپنے اندر بے نظیر خوبیاں رکھتا ہے اور وہ فوق العادت طاقتیں اس میں پائی جاتی ہیں اس حد تک کہ نہ کوئی انسانی کلام اور سابقہ آسمانی کتب اس سے ان امور میں برابری کر سکتی ہیں.ایک مختصر تفسیر میں ان امور کی تفصیلات بیان کرنے کا تو موقع نہیں مل سکتا لیکن اختصار ا یک بان امور کو قرآن کریم پہ چسپاں کر کے بتاتا ہوں کہ یہ سب علامات قرآن کریم میں ایسے اعلیٰ اور الکمل طور پر پانی جاتی ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے.

Page 41

۴۰ سب سے پہلے میں طلبہ کے لفظ میں جن خوبیوں کی طرف اشارہ ہے انہیں لیتا ہوں.طَيِّبَةُ کا لفظ جس چیز کے لئے بولا جائے اس کے لئے شرط ہے کہ اس میں ظاہری یا باطنی کوئی نقص نہ ہو.کوئی ضرر نہ ہو.اب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو اس کے اندر ہمیں یہ بات غیر معمولی طور پر نظر آتی ہے کہ باوجود اس کے کہ اس میں ایسے مضامین بیان کئے گئے ہیں جو نہایت نازک ہیں لیکن پھر بھی اس کی زبان نہایت اعلیٰ اور تحذیب کے انتہائی نقطہ پر قائم رہتی ہے.میاں بیوی کے تعلقات ، حیض و نفاس کا ذکر ، عورت مرد کی جذباتی زندگی یہ سب کچھ اس میں بیان ہے لیکن ایسے عمدہ طریق سے کہ نازک سے نازک طبیعت اس سے صدمہ محسوس نہیں کرتی.اس کی زبان ایسی صاف ہے کہ نہ فقیل لفظ ہیں نہ پیچیدہ بندشیں نہ شاعرانہ تخیلات بلکہ ہر مضمون کو خواہ کسی قدر مشکل ہو وہ اس محمدگی سے اور ایسے سادہ لفظوں میں ادا کرتا ہے کہ نہ کانوں پر اس کی عبارت گراں گزرتی ہے نہ دماغ اس سے پریشان ہوتا ہے.تعلیم ایسی سادہ اور لطیف ہے کہ اس پر عمل کر کے کسی نقصان کا خطرہ معلوم ہی نہیں ہوتا.دوسرے معنے طیبہ کے یہ ہیں کہ اس کا موصوف خوبصورت ہو.ان معنوں کی رُو سے بھی قرآن کریم سب کتب سے ممتاز نظر آتا ہے.اس کا ظاہری حسن ایسا نمایاں ہے کہ کوئی کتاب اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی.الفاظ کی خوبی،

Page 42

بندش کی شہستی محاورہ کا بر محل استعمال ، عبارت کا تسلسل مضمون کی رفعت ، معافی کی وسعت، ایک سے ایک بڑھ کر خوبیاں ہیں کہ انسان نہیں کہہ سکتا کہ اسے سرا ہے یا اُس کی تعریف کرے.انہی عربی الفاظ سے وہ دیتا ہے جو ہزاروں لاکھوں اور کشہر میں استعمال ہوئے ہیں مگر کیا مجال کہ کوئی اور کتاب اسکے قریب تک پہنچ سکتی ہو.عرب اپنے خیالات کی نزاکت اور اپنے ادب کی بلندی اور اپنے ذخیرہ الفاظ کی کثرت کی وجہ سے سب دنیا کے لوگوں پر فوقیت رکھتے ہیں.اور عرب قوم ادب کی اس قدر دلدادہ ہے کہ زور اور ڈر اور علوشان جیسی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی اشیاء بھی اُن کے نزدیک ادب کے مقابلہ پر پہنچے ہیں.وہ اپنے شاعروں کو پیغمبر اور اپنے ادیبوں کو دیوتا سمجھنے والے لوگ جن میں ادب اور ادیب کو ترقی کرنے کا بہترین موقع مل چکا تھا جب قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو زبانوں پر مہر لگ جاتی ہے اور آنکھیں چندھیا جاتی ہیں.با وجود اس کے کہ نزول قرآن کریم کا زمانہ ان کا بہترین ادبی زمانہ تھا.یا تو عرب کے چوٹی کے ادیب قریب ہی میں گذر چکے تھے یا ابھی زندہ موجود تھے وہ جب قرآن کریم کو سُنتے ہیں تو بے اختیار اس کے سحر ہونے کا شور مچا دیتے ہیں مگر وہی لفظ جو اس کے جھوٹا ہونے کے ثبوت کے

Page 43

طور پر استعمال کیا گیا تھا اس نے ظاہر کر دیا کو شر کا متفقہ فید تھا کہ قرآن کریم کا حسن انسانی قوت تخلیق سے بالا تھا.انسانی دماغ نے بہتر سے بہتر ادبی مقالات بنائے تھے مگر اس جگہ اسے اپنے بیجز کا اعتراف کئے بغیر کوئی چارہ نہ تھا.سبحان اللَّهِ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ اس کے مضامین کا بھی یہی حال ہے.ان کی بلندی، ان کی وسعت، ان کی ہمہ گیری ، ان کا انسانی دماغ کے گوشوں کو منتوبه کر دیا، انسانی قلوب کی گہرائیوں میں داخل ہو جانا، نرمی پیدا کرنا تو اس قدر کہ فرعونیت کے ستونوں پر لرزہ طاری ہو جائے، جرات پیدا کرنا تو اس حد تک کہ بنی اسرائیل کے قلوب بھی ابراہیمی ایمان محسوس کرنے لگیں، عضو کو بیان کرتے تو اس طرح کہ عیسی علیہ السلام بھی انگشت بدنداں ہو جائیں، سفرا کی ضرورت کو ظاہر کرے تو اس طرح کہ موسی کی روح بھی حال علی کہہ اُٹھے.مرض بغیر اس کے مضامین کی تفاصیل میں پڑنے کے ہر انسان سمجھ سکتا ہے کہ وہ ایک سمندر ہے جس کا کنارہ نہیں.AL

Page 44

ایک باغ ہے جس کے پھلوں کا خاتمہ نہیں.آج تک اسکے حسن کو دیکھ کر لوگ یہ کہتے چلے جاتے ہیں کہ یہ کلام بہت سے لوگوں نے مل کر بنایا ہے مگر کیا ؟ یہ خود اقرار حسن نہیں !! دوسری علامت کا ہر طبقہ کی یہ بتائی گئی تھی کہ اصلها ثابت اس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی علامت کی تشریح میں میں نے چھ باتیں بتائی تھیں جن کو اگر قرآن کریم کے متعلق دیکھا جائے تو وہ سب کی عرب اس میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں.اقول : قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے یعنی جس طرح زندہ درخت جس کی بڑھیں زمین میں پھیلی کہ ہر وقت غذا لے رہی ہوتی ہیں تازہ رہتا ہے اسی طرح قرآن کریم کی تازگی قائم ہے اور ہر وقت تازہ معانی اس سے ملتے ہیں.تیرہ سو سال سے لوگ اس کی تفاسیر لکھ رہے ہیں اور بعض نے تو سو سو جلدوں کی تفسیریں لکھی ہیں مگر با وجود اس کے تمام مطالب ختم نہیں ہوئے آپ بھی اس ہیں سے نئے نئے مطالب نکل رہے ہیں جس طرح درخت بظا ہر وہی نظر آتا ہے لیکن اس کے اندر تازہ رس حیات کا زمین سے آتا رہتا ہے اسی طرح کلام وہی رہتا ہے لیکن اس کے تازہ مطالب حسب ضرورت گھلتے رہتے ہیں اور ان کی طرف ذہن کا پھر انا اللہ تعالے اپنے اختیار میں رکھتا ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے جہ

Page 45

لا يَمَة إِلَّا الْمُطَوون یعنی اس کلام کو سوائے اُن کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے پاک کیا ہو پوری طرح نہیں سمجھ سکتے (و اقعد است) مضبوط جڑوں والے درخت کی دوسری خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ صدمات سے جھکتا نہیں.حوادث کا مقابلہ مضبوطی سے کرتا ہے.کلام وہی مضبوط جڑھ والا کہلا سکتا ہے جو ہر زمانہ کے ماندہ اعتراضوں کی برداشت کرسکے اور ان کا ہو اب اس کے اندر موجود ہو قرآن کریم میں یہ خوبی بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے.اس کے اصول ایسے واضح ہیں کہ اس کے جھکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا نہ اسے بہلانے کی کسی کو اجازت ہے اور نہ خود اس کے اپنے الفاظ اس کے معانی کو بدلنے کی اجازت دیتے ہیں.اسی طرح روحانی طور پر بھی ممکن نہیں کہ قرآن کریم کے بعض ٹکڑوں کو کوئی اختیار گر سے اور بعض کو چھوڑ دے.اسی طرح یہ امر بھی ثابت ہے کہ قرآن کریم تبدیلی زمانہ سے متاثر نہیں ہوتا.کوئی علم نکلے، کوئی ایجاد ہو اسکی تعلیم پر کوئی حملہ نہیں ہوسکتا.تیسری خصوصیت مضبوط جڑھ والے درخت کی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی جگہ کو چھوڑتا نہیں.یہ معنے بھی قرآن کریم میں بعد بعد اعلی پائے جاتے ہیں.قرآن کریم کے اصول ایسے پختہ ہیں کہ وہ کبھی بلد سلتے نہیں.تھی خصوصیت مضبوط جڑھ کے درخت کی یہ ہوتی ہے کہ

Page 46

اس کی علمبی ہو جس قدر چڑھیں مضبوط ہوں درخت لمبی عمر باتا ہے قرآن کریم پر تیرہ سو سال گذر چکے ہیں اب تک اس کی تعلیم قابل عمل ہے اور قابل عمل رہے گی.بلکہ جو لوگ اسے چھوڑ رہے تھے اب پھر اس کی تعلیم کی طرف واپس آرہے ہیں.یورپین تہذیب کے دلدادہ آب پھر اس کی ظاہری خوبصورتی کا تلخ تجربہ کر لینے کے بعد دوبارہ قرآن کریم کی ٹھوس تعلیم کی خوبی کے قائل ہو رہے ہیں.سٹور کی حرمت، سٹراب کی ممانعت ، کثرت ازدواج کی اجازت ، طلاق، عورت اور مرد کے اختلاط میں حزم و احتیاط، ورثہ وغیرہ بیسیوں امور ہیں کہ جن میں قرآنی اصول کی برتری کو دنیا پھر تسلیم کرنے پر مجبور ہو رہی ہے اور اس طرح قرآن کی عمر جو ہمارے نز دیک تو تا قیامت ہے دشمنوں کے نزدیک بھی لمبی ہوتی نظر آتی ہے.پانچویں خصوصیت مضبوط جڑھوں والے درخت کی یہ ہوتی ہے کہ وہ اچھی مٹی میں اگتا ہے اسی طرح کلام الہی اپنے حسن کو تبھی ظاہر کر سکتا ہے جید ایسی قوم اس کی حامل ہو تو اس سے مناسبت رکھتی ہو اور اسے اپنے دلوں میں جگہ دینے کو تیار ہو.اس کی طرف قرآن کریم میں یہ کہ کر اشارہ کیا گیا ہے وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (فاطر و کوع ۲ عمل صالح ایمان کو ترقی دیتا ہے، یعنی درخت تو ایمان ۲) ہے لیکن وہ عمل صالح کے بغیر پڑھتا نہیں.

Page 47

قرآن کریم کو یہ بات بدرجہ اتم حاصل ہے.جب یہ ظاہر ہوا تب بھی ایک ایسی جماعت اسے بہتر ہوئی جنہوں نے اس کا درخت اپنے دلوں میں لگایا اور اپنے خون سے، اس کی آبیاری کی اور اس کے ہور سے لے کر آج تک یہ بات اسے بہتر ہے چھٹی خصوصیت مضبوط جڑھوں والے درخت کی یہ ہوتی ہے کہ اس کا منبع ایک ہوتا ہے.چلا کر ہم و نے ہیں کہ قرآن کریم کی انسانی اند کا اس کو میں دخل نہیں.اس نے آہستہ آہستہ نشو و نما حاصل نہیں کیا بلکہ یکدم ایک ہی شخص کے دل پندار سے نازل کیا گیا.وہ زمانہ کی کردو کی ترجمانی نہیں کرتی کہ اسے صدیوں کے فلسفہ کا خلاصہ کہا جائے جیسا کہ اچھی انسانی کتاب کا حامی ہے بلکہ وہ اکثر امور میں زمانے کے رو کا مقابلہ کرتی اور اُن کے خلاف چلتی ہے اور اپنے لئے ایک بالکل نیا راستہ بناتی ہے جس سے صاف نظر آتا ہے کہ وہ اپنی غذا ایک ہی جگہ سے لیتی ہے.تیسری رسی علامت شجره طیبہ کی یہ بیاید تین کی یہ بیان فرمائی تھی کہ فرمها في السناريو باس و ان شاء ہوئی ہوتی ہیں.آسمان میں شاخیں پھیلنے کے ساء ائے اوپر بیان کئے ہیں اور بانی معافی کے دو سے بھی قرآن کریم ایک تار کتاب نظر آتی دکان پہلی خصوصیت فرها في الستار کی لیکن نے یہ بتائی تھی کہ

Page 48

۴۷ اس پر چڑھ کر انسان آسمان تک پہنچ سکے گا.یہ خصوصیت قرآن کریم میں واضح طور پر پائی جاتی ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے عاملین میں ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جو اس امر کے مدعی تھے کہ قرآن کریم کے ذریعے سے انہیں روحانی صعود حاصل ہوا یہاں تک کہ وہ خدا تعالیٰ ایک جاپہنچے اور اس کے خاص فضلوں کو انہوں نے حاصل دوسری خصوصیت فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ کلامی اٹھی کی تعلیم اعلیٰ اخلاق پرش تمل ہوتی ہے کیونکہ اونچا درخت بلند خیالی اور وسعتِ اخلاق پر بھی دلالت کرتا ہے.یہ امر بھی قرآن کریم میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے.قرآن کریم کی اخلاقی تعلیم ایسی اعلی التعلیم ہے اور درخت کی شاخ کی طرح اوٹی سے اعلیٰ کی طرف گئی ہے کہ کسی اور کتاب میں اس کی نظیر نہیں ملتی.تیسری خصوصیت فرعها في السَّمَاءِ کے ماتحت یہ ہے کہ اس کی شاخیں بہت ہوں.اس خصوصیت میں بھی قرآن کریم کو ایک ممتاز درجہ حاصل ہے اس کی تعلیم اس محمد ر مطالب پر حاوی ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ بھاتی ہے.ایک مختصر سی کتاب ہے.انا جیل سے بھی چھوٹی لیکن اس کے اندر اس قدر مطالب پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اس سے ہزاروں گئے زیادہ مجھم کی کتب میں وہ مضامین نہیں ملتے.

Page 49

۴۸ عبادات ہیں تو ان کی ہر شاخ اس میں تفصیل سے بیان کی گئی ہے.معاملات ہیں تو ان کی ہر شاخ اس میں تفصیل سے بیان کی گئی ہے.علم الاخلاق تمدن سیاست اقتصادیات پیش گوئیاں.الہیات تصوف علم المحاد علم کلام اور ان سب علوم کے فلسفے او تفصیلات قرآن کریم میں موجود ہیں اور ایسے کامل طور پر موجود ہیں کہ اس کے بعد کسی اور کتاب کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی.چوتھی خصوصیت فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ کے ماتحت یہ ہے کہ اس کا سایہ وسیع ہو یعنی وہ ہر فطرت کے انسانوں کے لئے نستی دینے کا موجب ہو.قرآن کریم میں یہ صفت بھی بدرجہ اتم موجود ہے.کسی طبعی تقاضے کو ضائع نہیں کیا گیا.گھلا نہیں گیا.چو بھی علامت شجرہ طیبہ کی یہ تائی گئی تھی کہ ہر آن اپنے پھل دیتا ہے.ایک تو یہ خصوصیت معلوم ہوتی ہے کہ وہ اعلیٰ سے اعلیٰ پھل دیتا ہے یعنی اس میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو اس کی اعلیٰ تعلیم کے مظہر ہوں.یہ خاصیت بھی قرآن کریم میں پائی جاتی ہے بلکہ اس وقت صرف اس میں پائی جاتی ہے.یعنی اس پر عمل کرنے والے لوگ اس کے ذریعہ سے ایسے اعلیٰ مقامات تک پہنچتے ہیں کہ گویا وہ مجتم قرآن ہو جاتے ہیں.دوسری خصوصیت توت اكلها كل حنین کے ماتحت یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ دائمی نجات دے.اس دعوتی میں بھی قرآن کریم

Page 50

۴۹ سب دوسری کتب سے بڑھا ہوا ہے ہمیشہ کی زندگی کا مضمون جس وضاحت سے اور جس طرح با دلائل قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اس سے دسواں حقہ بھی دوسری کتب میں نہیں ہے اگر ہے تو کوئی شخص ے اگر ہے پیش کر کے دیکھ لے.نچویں خصوصیت اس آیت میں کلم طبیبہ کی یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ باذن ربھا پھل ہے.اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس کے نتائج طبیعی نہ ہوں بلکہ طبیعی نتائج سے بالا ہوں طبیعی نتائج صرف اس قدر ثابت کر سکتے ہیں کہ اس کتاب نے قوانین قدرت کا اچھا نقشہ پیش کیا ہے لیکن یہ ثابت نہیں کرتے کہ وہ کتاب کسی ایسی ہستی کی طرف سے ہے جو طبعیات پر حاکم ہے.پس ضروری ہے کہ اگر کتاب آسمانی ہے تو اس کے طبعی نتائج کے علاوہ فوق الطبیعی نتائج بھی نکلیں اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی ایسی علامات ظاہر ہوں کہ جو طبیعی نتائج سے متاز اور علیحدہ ہوں اس امر میں بھی قرآن کریم دوسری کتب سے بدرجہ غایت اعلیٰ اور اکمل ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں جس طرح فوق الطبیعی نشانیا آپ کے لئے اور آپ کے انبائی کے لئے ظاہر ہوئے وہ دوسری مثال نہیں رکھتے اور آپ کے بعد بھی قرآن کریم پر سچے طور پر عمل کرنیوالے لوگوں کے ساتھ نشانات الہیہ کا سلسلہ اس طرح وابستہ چلا آیا ہے کہ پر عقلمند اس سے یہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کریم کے ساتھ کسی ایسی

Page 51

ہستی کا تعلق ہے جو طبیعی قوانین پر حاکم ہے اور جس پر خوش ہوتی ہے اس کے لئے غیر معمولی سامانوں سے نصرت کے سامان پیدا کر دیتی ہے اس وقت بھی حضرت مسیح موعود علیہ اسلام بانی سلسلہ احمد دین کی برکت سے اس آیت کے اس قدر وسیع مطالب گھلتے ہیں کہ اس پیادن ربها والے نتائج کی تازہ مثال ہیں اور آپ کے بعد آپ کی جماعت سے بھی.اللہ تعالٰی کے اسی سلوک کے تحت با وجود شدید مخالفت کے وہ روز بروز ترقی کر رہی ہے.فسبحان الله والحمد لله والله اكبر بله چوتھا پہلو د ترتیب قرآن کا معجزانہ نظام، حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے ( آپ پر اللہ تعالیٰ کی ہزاروں ہزار سلامتی ہو، خدا اسے علم پا کر تفسیر قرآن کا ر نہری اصول مسلمانان عالم کے سامنے رکھا کہ قرآن شریف کی ظاہری ترتیب پر جو شخص دلی یقین رکھتا ہے اس پر صدہا معارف کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور صد با بار یک درباریک نکات تک پہنچنے کے لئے یہ ترتیب ه تغیر کیر جلد سوم من تا ما (تلخیص)

Page 52

اس کو رہنما ہو جاتی ہے اور قرآن دانی کی ایک گنجی اس کے ہاتھ میں آجاتی ہے گویا ترتیب ظاہری کے نشانوں سے قرآن خود اسے بتلاتا جاتا ہے کہ دیکھو میرے اندر یہ خزانے ہیں لیکن جو شخص قرآن کی ظاہری ترتیب سے منکر ہے وہ بلاشبہ قرآن کے باطنی معارف سے بھی بے نصیب ہے یا اے نیز فرمایا کہ بعد ا ترتیب کا ملحوظ رکھنا بھی وجوہ بلاغت میں سے ہے بلکہ اعلیٰ درجہ کی بلاغت یہی ہے جو حکیمانہ رنگ اپنے اندر رکھتی ہے...یہ بات تو ہر ایک شخص ماتا ہے کہ اگر چہ ترک ترتیب جائز ہے لیکن اس میں کچھ کلام نہیں کہ اگر مثلا دو کلام ہوں اور ایک اُن میں سے علاوہ دوسرے مراتب فصاحت و بلاغت کے ترتیب ظاہری کا بھی لحاظ رکھتا ہو اور دوسرا کلام اس درجه فصاحت سے گرا ہوا ہو اور اس میں قدرت نہ ہو کہ سلسلہ ترتیب کو نباہ سکے تو بلاشبہ ایک فصیح اور ادیب اور نقاد کلام کا اس کلام کو بہت زیادہ درجہ فصاحت دے گا جو علاوہ دوسرے کمالات فصاحت اور بلاغت کے یہ کمال بھی اپنے اندر رکھتا ہے یعنے اس میں ترتیب بھی موجود ہے اور اس سے زیادہ کوئی گواہ لے تریاق القلوب مش حاشیه در حاشیه روحانی خزائن جلده صفحه ۲۵۶

Page 53

۵۲ نہیں کہ قرآن کریم نے اول سے آخر تک صنعت ترتیب کو اختیار کیا ہے اور باوجود اس کے تنظیم بدیع اور عبارت سلیس کو ہاتھ سے نہیں دیا.اور یہ اس کا بڑا معجزہ ہے جو ہم مخالفین کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اس صفت اور ترتیب کی برکت سے ہزار ہا نکات قرآن شریف کے معلوم ہوتے جاتے ہیں یا لے سید نا حضرت مصلح موعود وہ عظیم مفسر ہیں جنہیں ترتیب کا مضمون اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر چھا گیا جس سے آیتوں اور سورتوں کے تسلسل اور ربط کا حیرت انگیز نظام قرآنی آنکھوں کے سامنے آگیا.حضور خود فرماتے ہیں :- میرا تر جمہ اور میری تفسیر ہمیشہ ترتیب آیات اور ترتیب موڑ کے کے ماتحت ہوتی ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جو شخص اس نکتہ کو مد نظر رکھے گاوہ فوراً یہ نتیجہ نکال لے گا کہ اس ترتیب کے ماتحت فلاں فلاں آیات کے کیا معنیٰ نہیں کیا اس طرح میری تفسیر کے نوٹوں سے انسان سارے قرآن کی تفسیر سمجھ سکتا ہے " سے حضرت مصلح موعود کے نزدیک قرآنی مضامین کی ترتیب عام کتب کی ترتیب کے ا تریاق القلوب ۱۴۲ ۱۲۵ روحانی خزائن جلده ام ۳۵ : کے تفسیر کبیر جلد سوم و یا چرم ہے سے افضل اور جولائی ۱۹۶۲ و

Page 54

۵۲ مطابق نہیں بلکہ طبعی ترتیب ہے.وہ اپنے مضامین میں جو ترتیب رکھتا ہے وہ اس ترتیب سے علیحدہ ہے جو انسان اپنی کتابوں میں رکھتے ہیں.قرآن کریم اس چیز کو ہر سب سے پہلے بیان ہوئی ضروری ہو بیان کرتا ہے اور پھر اس کے متعلق انسانی قلب میں پیدا ہونیوالے تمام وساوس اور شبہات کا ازار کرتا ہے.غرض قرآن کریم کا یہ کمال ہے کہ اس نے اپنے مضامین میں ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی ترتیب رکھی ہے جو فطرت انسانی کے عین مطابق ہے.اُدھر ایک سوال فطرت انسانی میں پیدا ہوتا ہے اور ادھر قرآن کریم میں اس کا جواب موجود ہوتا ہے اے حضور رحمتہ اللہ علیہ قرآن کریم کی اس نہایت لطیف اور فلسفیانہ ترتیب کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ :- قرآن کریم بغیر اس کے کہ ترتیب کی طرف اشارہ کرے علم النفس کے ماتحت اپنے مطالب کو بیان کرتا ہے اور جو سوال یا جو ضرورت کسی موقعہ پر پیش آتی ہے اس کا اگلی عبارتوں میں جواب دیتا ہے گویا اس کی ہر اگلی آیت میں پچھلی آیات کے مطابق جو سوال پیدا ہوتے ہیں اُن کا جواب دیا جاتا ہے اور یہ باریک ترتیب اور کسی کتاب میں نہیں ہے.بائبل کے متعلق لوتھر (LUTHER) لکھتا تفسير سورة البقره ۴۹

Page 55

۵۴ "The Gospels do not keep order in their account of miracles and deeds of Jesus.This is of small moment.When there is dispute about Holy Writ and no comparison is possible let the matter drop." Emile Ludwig in his Book "Son of man" says, "Almost all the contradic- tions arise out of the disorderly nature of the reports.The Gospels, the four main sources of knowledge, contradict one another in many res- pects and are upon some points con- tradicted by the scanty non-christians authorities"."Moreover there is confusion in serial arrangement, a confusion which has been deplored through out cen- turies".(Page 11, 12) ہے.یعنی بائبل میں ترتیب واقعات کا لحاظ نہیں رکھا گیا.پس اس کے بیانات کے بارہ میں جب کوئی جھگڑا پیدا ہو اور سلجھاؤ کی کوئی صورت دکھائی نہ دے تو اسے چھوڑ دینا چاہیئے.

Page 56

انیل لڈوگ نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ بیان کرتا ہے کہ موجودہ انجیل ہمیں بالکل بے ترتیب نظر آتی ہے.وہ اپنی کتاب این آدم ہیں اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ انجیل میں نہیں جو بھی تضاد نظر آتا ہے وہ واقعات کی بے ترتیبی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے.انا جبیل جو ہمارے علم کے چار بڑے سرچشمے ہیں کئی امور میں ایک دوسرے کے مخالف بیانات کی حامل ہیں اور غیر عیسائی محققین نے بھی انہیں متضاد قرار دیا ہے.اس کے علاوہ ان کی ترتیب میں اس قدر الجھنیں ہیں کہ صدیوں سے خود سیمی اس پر افسوس کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں.اسی طرح ویدوں کو پڑھا جائے تو وہاں بھی ترتیب کا کچھ پتہ نہیں لگتا معلوم نہیں ہوسکتا کہ ایک واقعہ کا دوسرے واقعہ سے کیا جوڑ معلوم نہیں ہوسکتا کہ ایک وا ہے سینکڑوں آیات جو بے ربط اور بے جوڑ سمجھی گئیں سید نا حضرت مصلح موعود ( نور اللہ مرقدہ) نے خدا دا د علم اور فراست سے ان کی ایسی شاندار ترتیب نمایاں فرمائی کہ عقل انسانی دنگ رہ گئی نمونہ چار مثالیں پیش کرتا ہوں.پہلی مثال :- لوگوں کو سورۂ بقر کی ترتیب میں وقتیں پیش آئی ہیں.لوگ حیران ہوتے ہیں جوال فضائل القرآن من

Page 57

64 کہ کہیں کچھ ذکر ہے کہیں کچھ.کہیں بنی اسرائیل کا ذکر آجاتا ہے کہیں نماز روزہ کا.کہیں طلاق کا کہیں ابراہیم علیہ السلام کے مباحثات کا اور کہیں طالوت کا.ان تمام واقعات کا آپس میں جوڑ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ایک بار فہم قرآن کی ایک خاص تجلی سے آپ کو پوری سورت کا باہمی ربط سکھلا دیا اور ایک آسمانی کلید اس کے حل کے لئے عطا فرمائی.اس ایمان افروز واقعہ کی تفصیل حضر مصلح موعود کی زبان مبارک سے پڑھئے.فرماتے ہیں:." حضرت مولانا نورالدین رحمتہ اللہ علیہ ناقل) کی زندگی کا واقعہ ہے کہ منشی فرزند علی صاحب نے مجھ سے کہا کہ کیں تم سے قرآن پڑھنا چاہتا ہوں.اس وقت اُن سے اس قدر واقفیت نہ تھی.یکی نے عذر کیا مگر انہوں نے اصرار کیا.میں نے سمجھا کوئی منشاء الہی ہے آخر میں نے اُن کو شروع کرا دیا.ایک دن پڑھا رہا تھا کہ میرے دل میں بجلی کی طرح ڈالا گیا کہ آیت رَبَّنَا و ابعث فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُم ( الأيد: البقره ۱۳:۱ سوره بقره کی کلید ہے اور اس سورۃ کی ترتیب کا راز اس میں رکھا گیا ہے.اس کے ساتھ ہی سورہ بقرہ کی ترتیب پورے طور پر میری سمجھ میں آگئی راستے دوسری مثال :- سورہ مریم میں پہلے حضرت ذکریا پھر حضرت یحیی اور پھر حضرت مسیح کا ذکر کیا له منصب خلافت ( تقریر مصلح موعود ) ۱۳در اپریل ۱۹۱۴ منت

Page 58

گیا ہے اور حضرت شیخ کے بعد بالترتیب حضرت الحق أحضرت یعقوب ، حضرت موسائی اور پھر حضرت اسمعیل کا ذکر کیا گیا ہے.عیسائی کہتے ہیں کہ یہ ترتیب نبیوں کی تاریخی ترتیب کے بالکل خلاف ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاذ اللہ حضور کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ کون سائبی پہلے گذرا ہے اور کون سا بعد میں ؟ دوسری تفسیروں میں تو اس کا کوئی حل نہیں ملتا مگر حضرت مصلح موعود نے اس قرآنی ترتیب کا ایسا تعجب خیر فلسفہ پیش کیا ہے کہ تاریخی ترتیب اس کے سامنے بالکل پہنے نظر آتی ہے اور قرآنی ترتیب ہی طبیعی ترتیب معلوم ہوتی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: ر مشیح کے بعد ابراہیم کا ذکر قابل اعتراض نہیں بلکہ طبعی ترتیب ہی تھی کہ ابراہیم کا ذکر کیا جاتا اور یہ ترتیب دو وجوہ سے اختیار کی گئی ہے.اول یہ بتانے کے لئے کہ بانی سلسلہ موسویہ یا اسرائیلی شرک کا دشمن تھا پھر ان کی نسل کا ایک فرد شرک قائم کرنے والا کس طرح ہو سکتا ہے ؟ دوم یہ بتانے کے لئے کہ ابراہیم نے دو بیٹوں کے متعلق خبر دی تھی ایک اسحق کی جس میں سے موسٹی نے سلسلہ کی بنیاد رکھی دوسرے اسمعیل کی.موسوی سلسلے کو کبھی ختم ہونا چاہیئے تھا تا کہ اسمعیلی سلسلے کے وعدے شروع ہوتے پیس سیٹھ کی آمد سے جو بغیر باپ کے تھا اسرائیلی سلسلہ ختم ہو تا کہ امیلی سلسلہ شروع ہوا.اسی

Page 59

DA وجہ سے اس سورۃ میں پہلے ذکریا کا ذکر کیا توشیح کے لئے بطور ارہاص آنے والے وجود کے والد تھے.پھر حضرت بیٹی کا ذکر کیا کہ وہ شیخ کے لئے بطور ا رہا م آئے تھے.پھر شیح کا ذکر کیا اور اس بات کے دلائل دئے کہ وہ خدا تعالٰی کی توحید کے قائل تھے اس کے بعد ابراہیم کا ذکر کیا اور بتایا کہ جب حجیت ایک شاخ سے ابراہیمی سلسلہ کی تو تم سوچو کیا یہ شرک کی تعلیم جوڑ میں بھی پائی جاتی تھی یا نہیں.جب ابراہیم جس کی تم ایک شاخ ہو موحد تھا تو اس کی نسل کا ایک فرد شرک کو قائم کرنے والا کس طرح ہوگیا...انبیاء کی ترتیب کے بارے میں یہ وہ علم ہے جو خدا تعالیٰ نے صرف مجھے ہی عطا فرمایا ہے.چنانچہ تیرہ سو سال میں جس قدر تفاسیر لکھی گئی ہیں اُن میں سے کسی تفسیر میں بھی یہ مضمون بیان نہیں کیا گیا اور کوئی نہیں بتاتا کہ نبیوں کا ذکر کرتے وقت یہ عجیب ترتیب کیوں اختیار کی گئی ہے صرف مجھ پر خدا تعالیٰ نے اس نکتہ کو کھولا ہے جس سے اس ترتیب کی حکمت اور اہمیت بالکل واضح ہو جاتی ہے اسے تیسری مثال :- قرآن میں ہے :- جعل لكم السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.(نحل: 9) تفسیر کبیر جلد ۴ ص۲۶۴۰۲۶۳

Page 60

09 اس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل پیدا کئے تا کہ تم شکر ادا کرو.حضرت مصلح موعود نے اس آیت کی تفسیر بڑے سائنٹیفک انداز میں کی ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- و اس آیت میں کانوں کے بعد آنکھوں اور آنکھوں کے بعد دونوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اسی ترتیب سے یہ اعضاء انسان کے علم بڑھانے کا موجب ہوتے ہیں.سب سے پہلے بچہ کے کان کام کرتے ہیں اس کے بعد آنکھیں اور سب کے بعد دل یعنی قوت منکر یہ کام کرتی ہے.آج سائنس نے ثابت کیا ہے کہ سب سے پہلے بچہ کے کان کام کرنے لگتے ہیں اور اس کے بعد آنکھیں کام شروع کرتی ہیں اور سب سے آخر قوت منکر یہ کام کرنا شروع کرتی ہے.چنانچہ جانوروں میں تیجہ کی آنکھیں بعض دفعہ کئی کئی دن کے بعد گھلتی ہیں.اس عرصہ میں صرف کان کام کر رہے ہوتے ہیں.انسانوں کے بچوں کی آنکھیں بظا ہر گھلی ہوتی ہیں لیکن ان کا فعل کانوں کے فعل سے بعد شروع ہوتا ہے اور قوت فکر یہ تو ایک عرصہ کے بعد کام شروع کرتی ہے.یہ ترتیب بھی قرآن کریم کے کلام الہی کا ایک ثبوت ہے کیونکہ اس میں وہ مضمون بیان کئے گئے ہیں جو اس زمانہ میں مخفی تھے یا اے ه تفسیر کبیر جلد سوم صفر ۴ ۷۰، ۹۷۰۵ +

Page 61

چومتی مثال :- سورہ نور کا آغاز حضرت عائشہ کے واقعہ افک سے ہوتا ہے اور اختتام آیت استخلاف پر.ان کا باہمی اتصال کیا ہے ؟ اس نہایت اہم پہلو پر کسی مفتر نے آج ایک فلم نہیں اُٹھایا لیکن حضرت مصلح موعود نے تاریخ کی روشنی میں ان کے باہمی اتصال کو ایساباتین اور واضح کر دیا ہے کہ علم کلام کے زاویے ہی بدل گئے !ا حضور معاند این اسلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.آپ پر الزام یا تو رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم سے نبض کی دوستے لگایا گیا یا پھرحضرت ابو بکر کے بعض کی وجہ سے ایسا کیا گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مقام حاصل تھا وہ تو الزام لگانے والے کسی طرح چھین نہیں سکتے تھے انہیں جس بات کا خطرہ تھا وہ یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی وہ اپنی اغراض کو پورا کرنے سے محروم نہ رہ جائیں.وہ دیکھ رہے تھے کہ آپ کے بعد خلیفہ ہونے کا اگر کوئی شخص اہل ہے تو وہ ابو بکر نہیں ہے.پس اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے انہوں نے حضرت عائشہ پر الزام لگا دیا تا حضرت عائشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے گر جائیں اور ان کے گھر جانے کی وجہ سے حضرت ابو بکر کو مسلمانوں میں جو مقام حاصل ہے وہ بھی جاتا رہے اور مسلمان آپ سے بد خلق ہو کہ اس عقیدت کو ترک کر دیں جو انہیں آپ سے تھی اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بردہ کے خلیفہ ہونے کا

Page 62

دروازہ بالکل بند ہو جائے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عائشہ پر الزام لگنے کے واقعہ کے بعد خلافت کا ذکر بھی کیا ہے کتاب اللہ کے نظام ترتیب کو عارفانہ انداز میں اجاگر کرنے کا کارنامہ اس اعتبار سے بھی غیر معمولی عظمت و اہمیت رکھتا ہے کہ مستشرقین یورپ نے خاص طور پر قرآن کریم کی لیے ریلی کا اعتراض اٹھایا ہے.چنانچہ مسٹر تھامس کارلائل (MR.THOMAS CARLYLE ) جیسے مشہور مستشرق نے کیا ہے :- "I must say, it is as toil some reading as I undertook.A wearisome confus ed jumble, crude, incondite; endless iterations, long windedness, entangle- -in ment; most crude, incondite- supportable stupidity, in short - No- thing but a sense of duty could carry any European through the Koran”.ه تفسیر کبیر جلد ۵ حصہ اول ۳۲۵ ON HEROES HEROE-WORSHIP Ľ BY THOMAS CARLYLE-Page 79 GEORGE G.HARRAP & Co.LTD.PARKER STREET KINGSWAY--LONDON

Page 63

۶۲ (ترجمہ) مجھے یہ ضرور کہنا چاہیے کہ مطالعہ قرآن میرے لئے نہایت ہی تھکا دینے والا ایک کٹھن عمل تھا، جو کبھی میں نے اختیار کیا ہو.قرآن کی عبارتیں اُکتا دینے والی ، ژولیدہ بیانیوں سے بھر پور، بھونڈے انتشر اور بے ہنگم الفاظ کا ملغوبہ ، انتہائی بے ترتیبی، بے ربطی اور بدنظمی سے معمور ہیں.اس میں نہ ختم ہونیوالی تکرار، فقرات اور بندشیں نہایت ہی دراز ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ایک طویل سانس کی ضرورت ہے.المختصر را یہ نا قابل برداشت حماقتوں کا مرقع ہے.ایک یورو میں اسے صرف اس وقت زیر طاہی رکھ سکتا ہے جب کہ ادائیگی فرض کے لئے اسے مجبور کیا جاگہ (معاذاللہ اس سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس حقیقت سے نا آشنا ہونے کے باعث بہت سے مسلمان بھی قرآن کے بارہ میں مملک شکوک و شبہات میں مبتلا ہوگئے جیسا کہ جناب سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی اپنی تفسیر کے دیباچہ میں تحریر کرتے ہیں :.اقرآن کا مطالعہ کر کے آدمی پریشان ہو جاتا ہے اور اسے یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ غیر مرتب غیر مربوط، منتشر کلام ہے جو اول سے لے کر آخر تک بے شمار چھوٹے بڑے مختلف شذرات پر مشتمل ہے مگر مسلسل عبارت کی شکل میں رکھ دیا گیا ہے مخالفانہ نقطۂ نظر سے دیکھنے والا اسی پر طرح طرح کے اعتراضات بنا کر رکھ دیتا ہے اور موافقانہ نقطہ نظر رکھنے والا کبھی معنی کی طرف سے

Page 64

۶۳ آنکھیں بند کر کے شکوک سے بچنے کی کوشش کرتا ہے کبھی اسس ظاہری ہے ترقی کی تاویلیں کر کے اپنے دل کو سمجھا لیتا ہے ، کبھی سے عجیب عجیب نتائج نکالتا ہے اسہ ایک عام کتاب خواں کی سی ذہنیت لے کر جب ہم میں کا کوئی شخص قرآن کا مطالعہ شروع کرتا ہے تو اسے کتاب کے موضوع اندھا اور مرکزی مضمون کا سراغ نہیں ملتا.اس کا اندازہ بیان اور طرز تعبیر بھی اسے کچھ اجنبی سا محسوس ہوتا ہے اور اکثر مقامات پر اس کی عبارات کا پس منظر بھی اس کی نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ متفرق آیات میں حکمت کے جو موتی بکھرے ہوئے ہیں ان سے کم و بیش مستفید ہونے کے با وجود آدمی کلام اللہ کی اصلی روح تک پہنچنے سے محروم رہ جاتا ہے اور علم کتاب حاصل کرنے کے بجائے اس کو کتاب کے محض چند منتشر نکات و فوائد پر قناعت کر لینی پڑتی ہے.بلکہ اکثر لوگ جو قرآن کا مطالعہ کرکے شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں ان کے بھٹکنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فہیم کتاب کے ان ضروری مباری سے ناواقف رہتے ہوئے جب وہ قرآن کو پڑھتے ہیں تو اس کے صفحات پر مختلف مضامین انہیں بکھرے ہوئے نظر آتے تفہیم القرآن از سفید ابو الاعلیٰ مودودی جلد اول ما.

Page 65

۶۴ ہیں بکثرت آیات کا مطلب اُن پر نہیں گھلتا بہت سی آیات کو دیکھتے ہیں کہ بجائے خود نور حکمت سے جنگ گا رہی ہیں مگر سیاق عبارت میں بالکل بے جوڑ محسوس ہوتی ہے یا اے مولانا نے اس کا جو حل پیش کیا ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے.تحریر فرماتے ہیں :."" یہ قرآن اس نوعیت کی کتاب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اسے لکھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ اسے شائع کر کے لوگوں کو ایک خاص رویہ زندگی کی طرف بلائیں نیز یہ اس نوعیت کی کتاب بھی نہیں کہ اس میں مصنفانہ انداز پر کتاب کے موضوع اور مرکزی مضمون کے متعلق بحث کی گئی ہو.یہی وجہ ہے کہ اس میں نہ تصنیفی ترتیب پائی جاتی ہے نہ کتابی اُسلوب الله فَانَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پانچواں پہلو مستشرقیضے کا مسکت جواب اور قرآن سے تاریخ کی حقانیت) قرآن کریم نے اپنا ایک مرتبہ فرقان بھی بتایا ہے یعنی وہ حق و باطل میں خود له تفہیم القرآن از سید ابو الاعلیٰ مودودی جلد اول مثلا : "

Page 66

۶۵ امتیاز پیدا کر دیتا ہے.اس کا علم حضرت مصلح موعود کو کمال درجہ کا عطا کیا گیا.چنانچہ مستشرقین کا مسکت جواب اور قرآنی تاریخ کی حقانیت کا ثبوت آپ کو حضرت المصلح الموعود کی تفسیر میں جا بجا نظر آئے گا بلکہ یہ کہنا ہے جانہ ہوگا کہ مخصوص کی بیان فرمودہ تفسیر عصر حاضر کی وہ منفرد اور واحد تفسیر ہے جس میں نہ صرف یہ کہ فولڈک تھیوڈور (NOLDEK THEODOR) ، ریورنڈ دیری (REVEREND VERY) ہے.ایم.راؤول (J - M.RODELL) سرولیم میور (SIR WILLIAM MUIR) اور آرنلڈ (ARNOLD) و غیر مستشرقین کے قرآن مجید پر کئے ہوئے اعتراضات کے مسکت اور مدلل جواب دئے گئے ہیں بلکہ اسلام کے بارہ میں اُن کی جہالت اور عربی زبان کی باریک خوبیوں کے علم سے محرومی بھی بے نقاب کی گئی ہے اور آفتاب نصف النہار کی طرح ثابت کر دیا گیا ہے کہ قرآن مجید کی بیان مفسر کو دہ موسوی تاریخ ہی ہر جہت سے مستند ہے اور اس کے مقابلہ میں بائبل پر اعتماد کرنا کسی طرح درست نہیں.اس تعلق میں بطور نمونہ میں حضرت مصلح موعود کا یہ قرآنی انکشاف پیش کرنا چاہتا ہوں کہ مسیح علیہ السلام کی پیدائش جولائی اگست کے مہینہ میں ہوئی ہے اور عیسائی کلیسیا کا ۲۵ دسمبر کو ولادت سیح کا دن قرار دینا خلاف واقعہ ہے.حضور حصورہ مریم کی آیت وَهُرِى إِلَيْكِ بجوعِ النَّخْلَةِ تُسقط عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا (مریم : ۲۶) کی تفسیر میں فرماتے ہیں :- در قرآن تو سچی بات بتاتا ہے اس نے وہ بات بتائی ہے جو عین فطرت

Page 67

انسانی کے مطابق ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے سر شیخ کی پیدائش دسمبر میں نہیں ہوئی جیسا کہ عیسائی بتلاتے ہیں بلکہ جولائی اگست میں ہوئی ہے جب کہ کھجور کے درخت پر کثرت سے پھیل تیار ہو جاتا ہے.عیسائیوں نے دسمبر کی پیدائش محض اس لئے بیان کی ہے تاکہ اصل واقعہ پر پردہ پڑا ہے اور لوگ یہ جھیں کہ حضرت شیخ شادی کے بعد جائز حمل سے پیدا ہوئے ہیں.پھر انجیل میں مشیح کی پیدائش کا موقع بیان کرتے ہوئے لکھا ہے.اسی علاقے میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلے کی نگہبانی کر رہے تھے یا اے ظاہر ہے کہ یہ گرمی کا موسم تھانہ کہ شدید سردی کا.دسمبر کا مہینہ تو علاوہ شدید سردی کے فلسطین میں سخت بارش اور دھند کا ہوتا ہے کون ہی تسلیم کر سکتا ہے کہ ایسے موسم میں گھلے میدان میں چرواہے اپنے گلوں کو لے کر باہر نکل آئے تھے.صاف ظاہر ہے کہ یہ گرمی کا موسم تھا.چنانچہ پکیں تفسیر بائبل میں انجیل لوقا کے منتر پرنسپل اسے بھی.گریو ایم، اسے اڈی کی طرف سے لوقا کے اس بیان پر کہ حضرت شیخ کی پیدائش جس موسم میں ہوئی تھی اس وقت پروا ہے گلوں لے لوقا باب ۲ آیت ۸ به

Page 68

46 کو باہر نکال کر کھلے میدان میں راتیں بسر کرتے تھے.مندرجہ ذیل تبصرہ موجود ہے کہ یہ موسم ماہ دسمبر کا نہیں ہو سکتا.ہمارا کرسمس ڈے (CHRISTMAS DAY) مقابلہ بعد کی ایک روایت ہے جو کہ پہلے پہل مغرب میں پائی گئی.اسی طرح بشپ جارنس اپنی کتاب "RISE OF CHRISTINIATY" میں تحریر کرتے ہیں :- اس تحقین کے لئے کوئی قطعی ثبوت نہیں کہ ۲۵ دسمبر ہی کو مشیح کی پیدائش کا دن تھا.اگر ہم لوقا کے بیان کر دہ ولادتِ مشیح کی کہانی یقین کر لیں تو اس موسم میں گڈریے رات کے وقت اپنے بھیڑوں کے گلہ کی نگرانی بیت لحم کے قریب کھیتوں ہیں کرتے تھے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی پیدائش موسم سرما میں نہیں ہوئی جب کہ رات کا ٹمپر پھر اتنا گر جاتا ہے کہ یہودیہ کے پہاڑی علاقہ میں برفباری ایک عام بات ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کرسمس ڈے کافی بحث و تمحیص کے بعد قریاتہ میں متعین کیا گیا ہے یا لے کا سر صلیب کے فرزند جلیل کے بیان فرمودہ اس قرآنی انکشاف نے کلیپ یا پر لرزہ طاری کر دیا ہے اور اس سے صدیوں کے خیالات پر زبر دست ه تغییر کبیر خادم ۱۱۸۲۵ ۱۸۵

Page 69

۶۸ ضرب کاری لگی ہے اور امریکہ کے مقتد را و محق عیسائی حلقوں کی طرف سے یہ آواز بلند ہونا شروع ہو گئی ہے کہ حقیقت میں کرسمس کاند سہبی تہوار یوم ولادت مسیح سے ہر گز کوئی تعلق نہیں رکھتا بلکہ اسے نہایت قدیم ایک رومن تہوار برومالیا (BRUMALIA) سے مستعار لیا گیا ہے جو سرکاری طور پر ان کے زراعت کے دیوتا ستارہ عطارد (SATURN) کی یاد میں ۱۹ دسمبر کو منایا جاتا تھا.رومن شهنشاه انگسٹس ( AUGUSTUS ) (حکومت ، قبل مسیح) نے پہلے اسے تین دن اور بعد میں ایک ہفتے تک بڑھا دیا.یہ تہوارا سٹریلیا ( SATURNALIA) کے موسم میں منایا جاتا تھا.لے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا جلد ۳ امت مطبوعہ یونیورسٹی آف شکاگو سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کرسمس کا یہ دن غالباً سینٹ پال (SAINT PAUL) کے اشارہ سے غیر اسرائیلیوں کو یسوع مسیح کی بھیڑوں میں شامل کرنے کیلئے مقرر کیا گیا تھا کیونکہ لکھا ہے:."Along with his conversion came his call to be Apostle to the Gentiles and to break down the barriers of prejudice and hostility that the Law had erected between the Jewish peo- ple and their Neighbours”.914 ۱۹۷۳ ے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا مطبوع شکاگو از جلد من

Page 70

۶۹ (ترجمہ) تبدیلی عقیدہ کے ساتھ ہی اسے ایک مکاشفہ ہوا کہ وہ ایک رسول کی حیثیت سے تعصب اور مخاصمت کی اُن تمام دیواریں کو توڑ پھوڑ ڈالے جو تورات نے یہودیوں اور اُن کے ہمسایوں کے درمیان تعمیر کر رکھی ہیں.چنانچہ امریکہ کے ایک با اثر اور کثیر الاشاعت ماہنامہ " دی پلین ٹرتھ " (THE PLAIN TRUTH) اپنے دسمبر 1960ء کے الیشوع میں اس سوال کے جواب میں آیا کہ کرسمس ڈے کو میسوع مسیح کی ولادت ہوئی ؟ واشکان لفظوں میں لکھا ہے کہ :."ANSWER : False.Scholars know Jesus was not born on or anywhere.near December 25th.The Romans anciently observed their “Brumalia" on that date it was the "Saturnalia” season when the pagan Romans peti- tioned their imagined "sun-god” to begin his annual jourte.into nor- therly latitudes, once more".(Page 28) (ترجمہ) یہ بالکل سفید جھوٹ ہے.سکالر ز جانتے ہیں کہ کیوں ہے ۲۵ دسمبر کی تاریخ یا اس کے قریبی عرصے میں قطعاً پیدا نہیں ہوئے.اہل روما اپنا تہوار پر و مالیا BRUMALIA تقدیم

Page 71

نے اس تاریخ کو مناتے تھے.یہ " (SATURNALIA) کا موسم تھا جب کہ مشرک اہل روما اپنے مزعومہ سورج دیوتا سے ملتیجی ہوتے کہ وہ ایک بار پھر اپنے شمالی عرض بلد کے سفر پر جادہ پیما ہو.بائیبل نے گذشتہ انبیاء علیہم السلام کو نہایت بھیانک شکل میں پیش کیا ہے.مثلاً حضرت آدم پر گناہ کرنے ، حضرت سلیمان پر شرک کا مرتکب ہونے ، حضرت ہارون پر کھڑا بنانے، حضرت لوط پر اپنی بیٹیوں کی آبروریزی کرنے کے شرمناک الزامات عائد کئے ہیں.افسوس ! بائیبل اور طالمود اور اس نوع کی دوسری اسرائیلی روایات مسلمانوں میں راہ پاگئیں اور تفسیر کے نام پر عقیدہ اور ایمان کا جز بن گئیں.خدا کا شکر ہے کہ مشرق اوسط کے بعض فاضل اور محقق ان اسرائیلیات کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے لگے ہیں.سید نا حضرت مصلح موعود نے قرآن مجید کی صفت مُبین اور مھیمن کے پیش نظر ایسی روح پرور تفسیر فرمائی کہ خدا کے سب نبیوں اور مرسلوں کے نورانی چھرے آفتاب کی طرح بالکل مصفا اور پوری طرح روشن دکھائی دینے لگے.چنانچہ حضور نے "سیر روحانی" کی تاریخی تقریروں میں قرآن مجید کی اس مثالی خصوصیت پر خاص طور پر روشنی ڈالی جس نے انبیاء کی معصومیت اور حقیقی شان کو ظاہر کر دکھلایا چنانچہ فرمایا.آثار قدیمہ کی جن لوگوں کے ہاتھوں میں خدا نے گنجیاں دی تھیں انہوں نے ان آثار قدیمہ کو خراب کر دیا، تباہ کر دیا اور اس قدر

Page 72

ان کی حالت کو مشتہیہ کر دیا کہ ان پر کوئی شخص اعتبار کرنے کے لیے کر کہ تیار نہیں ہو سکتا تھا.تب اللہ تعالٰی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ قرآن کریم کو نازل کیا.یہ آپ کے دل کا خون ہی تھا جو آسمان سے قرآن کو کھینچ لایا.اس قرآن کے آثار قدیمہ کے مختلف کمروں میں آدم اور نوح اور ابراہیم اور موسی اور ہارون اور دیگر تمام انبیاء کی چیزیں ایک قرینہ سے پڑی ہوئی ہیں میل کچیل سے مبری، داغوں اور دھبوں سے صاف چھینٹوں اور غلاظت سے پاک، ہر چیز اصلی اور حقیقی رنگ میں ہمارے پاس ہے.پرانے سے پرانے آثار اس میں پائے جاتے ہیں اور صحیح سے صحیح حالات اس میں موجود ہیں.مگر افسوس ہزار افسوس کہ لوگ اس عظیم الشان خزانہ کی تود قدر نہیں کرتے مگر چند پھٹے ہوئے کاغذ چند ٹوٹی ہوئی چھریاں چند پرانے اور بوسیدہ کپڑے اور چند شکستہ برتن جب کوئی زمین سے نکالتا ہے تو اس کی تعریف کے شور سے آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں اور کہتے ہیں واہ واہ اس نے کسی قدر عظیم الشان کارنامہ سر انجام دیا.وہ خزانہ جو خدا نے ان کو دیا تھا اس کو وہ بُھول گئے.وہ سمندر جو خدا نے ان کو عطا کیا تھا اس سے انہوں نے

Page 73

منہ موڑ لیا اور وہ تمام رصد گا ہیں جو قرآن میں موجود تھیں اُن سے وہ غافل اور لا پروا ہو گئے تب خدا نے میرے دل پر اس عظیم الشان راز کا انکشاف کیا اور میرے دل نے کہا میں نے پا لیا، نہیں نے پالیا اور جب میں نے کہا میں نے پالیا تو اس کے معنے یہ تھے کہ اب یہ نعمتیں دنیا سے زیادہ دیر تک مخفی نہیں رہ سکتیں میں دنیا کے سامنے ان تمام نعمتوں کو ایک ایک کر کے رکھوں گا اور اسے مجبور کروں گا کہ وہ اس طرف توبہ کرے یا لے چھٹا پیلو (فیضان قرآن کی تجلیات) قرآن مجید کا ایک مرتبہ عظمیٰ یہ ہے کہ اس کے فیض و برکت سے خدا تعالے سے ایک زندہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور فرشتے اس سے ہم کلام ہوتے ہیں چنانچہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے :- اللَّهَ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِم المليكة الا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُم تُوعَدُونه (لحم سجده : اسم یعنی وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر منتقل مزاجی سے له سیر روحانی جلد سوم صفحه ۱۱۵ ۱۹۷ +

Page 74

اس عقیدہ پر قائم ہو گئے اُن پر فرشتے اتریں گے یہ کہتے ہوئے کہ ڈرو نہیں اور کسی پچھلی فلملی کام نہ کرو اور اس جنت کے ملنے سے خوش ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا.آپ آئے یہ معلوم کریں کہ فیضان قرآن کی ان تجلیات کا ظہور حضرت مصلح موعود کے بابرکت وجود سے کس طرح نمایاں رنگ میں ہوا ؟ کے معلوم نہیں وجود باری تعالی، ملائکہ اور وحی و نبوت، یہ ایمانیات کے وہ تین بنیادی مسائل ہیں جن پر کلام اللہ کی تمام تعلیمات کا دارو مدار ہے.اس کی پوری عمارت انہی مسائل پر قائم ہے مگر افسوس ! کہ گذشتہ صدی میں بعض چوٹی کے مسلم مفکروں اور صاحب طرز مصنفوں اور مورخوں نے جن میں جواد الدولہ عارف جنگ ڈاکٹر سرسید احمد خاں بانی علی گڑھ کالج ، جناب جسٹس سید امیر علی اور جناب نیاز حمد خان صاحب نیاز فتح پوری سر فہرست ہیں اس نظریہ کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی کہ خدا تعالی لفظوں میں کلام نہیں کرتا.فرشتے کوئی جدا مخلوق انسان سے بالا تر نہیں ہیں بلکہ انسانی قومی کو ملائک سے تعبیر کیا گیا ہے.کلام الہی صرف ایک ملکہ فطرت ہے اور وحی کوئی خارجی چیز نہیں ہے.کسی ایلچی یا قاصد کی وساطت سے نازل نہیں ہوتی بلکہ خود بخود ایک چیز اس کے دل سے اُٹھتی ہے اور اسی پر گرتی ہے بیہ ل (1) حیات جاوید سوران سرسید احمدخان مرحوم از الما والا اما این حال اداری با او “THE LIFE AND TEACHINGS OF (۲) MUHAMMED" BY SYED AMEER ALI ۵۵۸۵۵ مطبوعہ لکھنوی (Page 195) (۳) " من و یزدان» از مولانا نیاز فتحپوری صداه

Page 75

سرسید کا مشہور شعر ہے سے زجبرئیل امیں قرآن به پیغامی نمی خواهم ہمہ گفتار معشوق است قرآنی که می دارم اے علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کی خود نوشت ڈائری میں ہے کہ :.میرے دوست اکثر مجھ سے سوال کرتے ہیں" کیا تم خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہو ؟ قبل اس کے کہ میں اس سوال کا جواب دوں یکن سوچتا ہوں کہ اس سوال میں مستعمل اصطلاحات کے مفاہیم جاننے کا مجھے حق حاصل ہے.اگر میرے دوست اپنے سوال کا جو اب چاہتے ہیں تو ان کو مجھے پہلے سمجھانا چاہیئے کہ یقین" ، "جود" اور خدا بالخصوص آخرالذکر دو لفظوں سے اُن کی کیا مراد ہے ؟ مجھے اعتراف ہے کہ میں ان اصطلاحات کو نہیں سمجھتا ہوں اور جب میں ان سے جمع کرتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ خود بھی ان دونوں اصطلاحات کو نہیں سمجھتے " ہے اور جناب غلام احمد صاحب پرویز نے اپنی کتاب " نظریہ پیش کیا ہے کہ اللہ سے مراد معاشرہ ہے." کے حیات جاوید جلد ۲ ص + "STRAY REFLECTIONS“ ”بکھرے خیالات“ علامہ اقبال کی ڈائری کا ترجمہ از بابائے اُردو ڈاکٹر عبد الحق من

Page 76

یہ تو روشن خیال مسلم زعماء کے نظریات ہیں.جہاں تک مذہبی حلقوں کا تعلق ہے اُن کے نزدیک فرشتوں کا کیا تصور ہے جس کا بخوبی اندازہ ایک عالم دین کی کتاب " مجالس المؤمنین کے ایک اقتباس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ارشاد ہوتا ہے :.یہ فرشتے بعض گائے کی شکل کے ہیں بعضے سانپ کی الینے گدھے کی اور بعضوں کا آدھا بدن برف کا اور آدھا آتش کا ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام : خداوند تعالیٰ نے ان کے سپر دوجی کا کام کیا ہے.پانچ سو برس بعد میکائیل کے پیدا ہوئے.ایک ہزار چھ سو باز و ہیں اور سر سے پاؤں تک زعفرانی ہیں.دونوں آنکھوں کے درمیان سورج اور ہر بال پر چاند تا ر ہے ہیں.ہر روز ۳۶۰ دفعہ نور کے دریا میں بیٹھتے ہیں اور جب نکلتے ہیں تو ان کے بازوؤں سے جس قدر قطر سے گرتے ہیں وہ سب فرشتے حضرت جبرائیل کی صورت پیدا ہوتے ہیں یا " حضرت میکائیل علیہ السلام ۱ ۵۰۰ برس بعد حضرت اسرافیل علیہ السلام کے پیدا ہوئے.ان کے سپر و مینہ برسائے رزق پہنچانے کا کام مقرر ہے.سر سے پاؤں تک زعفرانی بالی ہیں ، زیر جلد کے بازو ہیں، ہر بال میں دس لاکھ آنکھیں ہیں ہر آنکھ سے روتے ہیں اور ہر زبان سے مغفرت مانگتے ہیں.ہر آنکھ سے ستر ہزار بوندیں ٹپکتی ہیں اور ہر بوند سے ایک فرشتہ میکائیل علیہ السلام کی صورت پیدا

Page 77

49 ہو جاتا ہے یا اے ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیئے اللہ تعالیٰ کی بے شمار برکتیں اور سلام حضرت مصلح موعود پر ہوں کہ جنہوں نے اپنے روحانی ، الهامی اور کشفی مشاہدات اور تجربات کی بناء پر زندہ خدا کی حقیقی تجلیات کے بے شمار نمونے دنیا کو دکھلائے اور ثابت کیا کہ خدا تعالیٰ کلام کرتا ہے اور فرشتے حقیقتاً موجود ہیں اور وہ خدا اور انسانوں کے درمیان واسطہ ہیں.انسانوں کو علم سکھاتے اور تعلیم دیتے ہیں اور میں اس کا عینی شاہد ہوں.چنانچہ فرمایا : و ملائکہ لوگوں کوعلم سکھاتے اور تعلیم دیتے ہیں یعنی ان کو مقرر کیا جاتا ہے کہ وہ لوگ جو علم کی طرف توجہ کرنے والے ہوں ان کے قلوب پر علم کی روشنی ڈالتے رہو...فرشتوں کے علوم سکھانے کا بھی عجیب طریقی ہے وہ جو بات سکھاتے ہیں اسے OBJECTIVE MIND (قلب عامل) میں نہیں رکھتے SUB-CONCIOUS (قلب غیر عامل) میں رکھتے ہیں یعنی دماغ کے پچھلے حصے میں رکھتے ہیں تا کہ سوچ کر انسان اسے نکال سکے.اس میں ظاہری دماغ سے حفاظت کی زیادہ طاقت ہوتی ہے اور یہ ذخیرہ کے طور پر ہوتا ہے.ملائکہ جو کچھ سکھاتے ہیں اسی MIND لمجالس المؤمنین، ۲۹۳ از محمد عطاء الله ان علار مطیع سعیدی، قرآن عمل کراچی و

Page 78

حصہ دو ماغ میں ڈالتے ہیں.الا ما شاء اللہ.دماغ کے تین حصے ہوتے ہیں ایک وہ حصہ جس کے ذریعہ ہم چیزوں کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں دوسرا وہ حصہ جو خیرہ کے طور پر ہوتا ہے اس میں باتیں محفوظ رکھی جاتی ہیں جو یاد کرنے پر یاد آجاتی ہیں اور تیسرا وہ حصہ جس میں ذخیرہ تو ہوتا ہے مگر یاد کرنے سے بھی اس میں جو کچھ ہو یاد نہیں آتا بلکہ بہت کریدنے سے وہ بات سامنے آتی ہے ملائکہ کبھی اس تیسرے حقے میں بھی علوم داخل کر جاتے ہیں جب ان کی ضرورت ہو اس وقت ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں کہ وہ علوم سامنے آجاتے ہیں.یوں یاد کرنے سے نہیں آتے.یہ میرا ذاتی تجربہ ہے میری کوئی ۱۷ ۱۸ سال کی عمر ہوگی....خواب میں میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ آیا ہے جو مجھے کہتا ہے کیا تمہیں کچھ سکھائیں ؟ میں نے کہا سکھاؤ.اس نے کہا سورۂ فاتحہ کی تفسیر سکھائیں ؟ میں نے کہا ہاں اسکھائیے اس رویا کا بھی عجیب نظارہ تھا.یہ شروع اِس طرح ہوئی کہ پہلے اس میں مجھے ٹن کی آواز آئی اور پھر وہ پھیلنے لگی اور پھیل کر ایک میدان بن گئی اس میں سے مجھے ایک شکل نظر آنے لگی جو ہوتے ہوتے صاف ہو گئی اور یکیں نے دیکھا کہ فرشتہ ہے اس نے مجھے کہا تمہیں علم سکھاؤں بائیں نے کہا سکھاؤ.اس نے کہا لو اسورۂ فاتحہ کی تفسیر سیکھو.اس پر اس نے سکھانی شروع کی اور ایاک نعبد پر پہنچے کر کہا سب نے اسی حد تک تفسیریں لکھی ہیں آگے نہیں لکھیں.

Page 79

یکیں بھی اُس وقت سمجھتا ہوں کہ ایسا ہی ہے.پھر اس نے کہا مگر کیں تمہیں اس سے آگے سکھاتا ہوں.چنانچہ اس نے ساری سورۃ کی تفسیر سکھائی اور میری آنکھ کھل گئی.اس وقت مجھے اس کی ایک یادو باتیں یاد تھیں جن کی نسبت اتنا یاد ہے کہ نہایت لطیف تھیں مگر دوبارہ سونے کے بعد جب میں اُٹھا تو یکیں وہ بھی بھول گیا تھا.حضرت خلیفہ البیع الاول رضی اللہ عنہ کو جب میں نے یہ رویا سنائی تو آپ بہت ناراض ہوئے کہ کیوں اسی وقت نہ لکھ لی ؟ جو کچھ سکھایا گیا تھا اسے اُسی وقت لکھ لینا چاہیے تھا.اس دن کے بعد آجتک سورہ فاتحہ پر کبھی نہیں بولا کہ مجھے اس کے نئے نئے نکات نہ سمجھائے گئے ہوں لیکن سمجھتا ہوں یہ اسی علم کی وجہ سے ہے جو مجھے سکھایا گیا.ایک وفعہ مجھے اس علم کا خاص طور پر تجربہ ہوا ہمارے اسکول کی ٹیم امرتسر کھیلنے کے لئے گئی.میں اس وقت اگر چہ اسکول سے نکل آیا تھا لیکن مدرسہ سے تعلق تھا کیونکہ میں نیا نیا نکلا تھا اس لئے یکن بھی ساتھ گیا وہاں ہمارے لڑکے جیت گئے اس کے بعد وہاں مسلمانوں نے ایک جلسہ کیا اور مجھے تقریر کرنے کے لئے کیا گیا جب ہم اس جلسہ میں گئے تو راستہ میں لیکن ساتھیوں کو سُناتا جا رہا تھا کہ خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ جب بھی یکں سورہ فاتحہ پر تقریر کروں گا نئے نکات سمجھائے جائیں گے.جلسہ میں پہنچ کر

Page 80

49 جب میں تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا تو کوئی آیت سوائے سورۂ فاتحہ کے میری زبان پر ہی نہ آئے.آخر کس نے خیال کیا کہ میرا امتحان ہونے لگا ہے اور مجھے مجبوراً سورہ فاتحہ پڑھنی پڑی.اسکے متعلق کوئی بات میرے ذہن میں نہ تھی میں نے یونہی پڑھی لیکن پڑھنے کے بعد فورا میرے دل میں ایک نیا نکتہ ڈالا گیا اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب سورۂ فاتحہ اتری ہے اُس وقت آپ کے مخاطب کفار تھے یہودی اور عیسائی نہ تھے مگر دعا اس میں یہ سکھائی گئی ہے کہ ہمیں یہودی اور عیسائی بننے سے بچا کہ ہم ان کی طرح نہ بنیں.حالانکہ چاہیئے یہ تھا کہ جو سامنے تھے انکے متعلق دعا سکھائی جاتی کہ ہم ان کی طرح نہ بنیں.اس میں یہ نکتہ ہے کہ مشرکین نے چونکہ تباہ و برباد ہو جانا تھا اور بالکل مٹائے جانا تھا اس لئے ان کے متعلق دعا کی ضرورت نہ تھی لیکن عیسائیوں اور یہودیوں نے چونکہ قیامت تک رہنا تھا اس لئے ان کے متعلق دعا سکھائی گئی.یہ نکتہ مگا مجھے سمجھایا گیا اور میں نے خدا تعالیٰ کا شکر یا دا کیا کہ اس موقعہ پر اُس نے میری آبرو رکھ لی.تو یہ علم جو خدا تعالیٰ کی طرف سے سکھایا جاتا ہے ہمیشہ ضرورت کے وقت کام آتا ہے اور اس کی یاد نہ رہنے میں یہ حکمت ہے کہ اگر بات یا د رہتی تو ایک ہی دفعہ کے لئے ہوتی مگر اس طرح یہ

Page 81

علم ہمیشہ کام آتا ہے.اب کبھی کوئی اعتراض کرنے اور کوئی حافظ نہ ہو جس سے قرآن کی کوئی اور آیت پوچھی جا سکے تو خدا تعالیٰ سورہ فاتحہ ہی سے مجھے اس کا جواب سمجھا دیتا ہے.تو سماوی علوم میں یہ برکت ہوتی ہے کہ جب ضرورت پڑے اِن سے کام لیا جاتا ہے.پس ملائکہ کے ذریعہ علوم سکھائے جاتے ہیں.محی الدین ابن عربی فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں کہ مجھے بہت سے علوم ملائکہ نے سکھائے ہیں.صوفیاء میں سے بھی ہیں جنہوں نے ملائکہ کے متعلق بحث کی ہے اگر چہ اُن کی بحث حضرت مسیح موعود کے مقابلہ میں سواں حقہ بھی نہیں.حضرت مسیح موعود فرمایا کرتے تھے کہ کئی ہزار الفاظ کا مادہ آپ کو سکھایا گیا ہے میں نے بھی اور بہت سی باتیں ملائکہ کے ذریعہ سیکھی ہیں.ایک دفعہ گناہ کے مسئلہ کے متعلق اِس وسعت کے ساتھ مجھے علم دیا گیا کہ میں اس کا خیال کر کے حیران ہو جاتا ہوں کہ کسی عجیب طریق سے کوتاہیوں اور غلط کاریوں کا نقشہ کھینچا گیا نیز فرماتے ہیں:.منکرین الہام سے جب بھی میری گفت گو ہوتی ہے تو میں انہیں کہا کرتا ہوں کہ میں تمہاری دلیلوں کو کیا کروں جبکہ خدا مجھ سے خود ل "ملائكة الله من - ۲۳ طبع اول ( تقریر جلسہ سالانه ۱۱۹۲۰)

Page 82

AI ہمکلام ہوتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر الہامات نازل نہ ہوتے تو شاید یکیں خیال کر لیتا کہ تمہاری دلیلوں میں کچھ وزن ہو گا لیکن اب ان دلائل کا مجھ پر کیا اثر ہو سکتا ہے جبکہ خود مجھ پر الہامات نازل ہوتے ہیں.مجھے تو یہ دلیلیں شنکر ہنسی آتی ہے کہ خدا موجود ہے اس کا کلام ہم پر نازل ہوتا ہے اور دلائل یہ دئے جارہے ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتا.پھر جو چیز میں نے دیکھ لی ہے حالانکہ میں محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے ہوں اس کے متعلق میں کس طرح یہ تسلیم کر سکتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیکھی ہوگی.جب نیچری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات عالیہ کا نام قرآن ہے تو منکر ہنسی آتی ہے کہ جب ہمیں معین الفاظ میں الہام ہوتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تو بہت بالا ہے آپ پر خدائی الفاظ میں ہی قرآن کیوں نازل نہیں ہو سکتا تھا یات اس سلسلے میں حضور نے اپنا ایک دلچسپ واقعہ بھی بیان فرمایا ہے :.ر مجھے یاد ہے یکس ایک دفعہ دہلی گیا تو وہاں مجھے علم حساب کے ایک بہت بڑے ماہر جن کا نام پروفیسر مولر (PROFESSOR MULLER) تھا ملے اور انہوں نے دوران گفت گو میں مجھ سے ذکر کیا کہ وہ اور ه تفسیر کبیر جلد طه ۳، ۳۸۲

Page 83

Ar نیویارک کے بعض اور پروفیسر تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس ساری یونیورس ( UNIVERSE) کا ایک مرکز ہے جس کے گیر و پر سورج اور اس کے علاوہ اور لاکھوں اور کروڑوں سیتا ہے چکر لگا رہے ہیں.اور انہوں نے کہا کہ میری تھیوری (THEORY) یہ ہے کہ یہی مرکز خدا ہے.گویا انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ پہلے تو سائینس خدا تعالیٰ کے وجود کو رد کرتی تھی مگر آب ہم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس سارے نظام کا ایک مرکز ہے جو حکومت کر رہا ہے اور وہی مرکز خدا ہے.کہیں نے ان سے کہا کہ نظام عالم کے ایک مرکز کے متعلق آپ کی جو حقیقی ہے مجھے اس پر اعتراض نہیں.قرآن کریم سے بھی ثابت ہے کہ یہ تمام دنیا ایک نظام کے ماتحت ہے اور اس کا ایک مرکز ہے مگر آپ کا یہ کہنا کہ وہی مرکز خدا ہے درست نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے الہامات نازل ہوتے ہیں اور وہ مجھے اپنے غیب سے اطلاع دیتا ہے.اگر آپ کا تجویز کردہ مرکزہ ہی خدا ہے تو آپ مجھے بتائیں کہ کیا وہ بھی کسی پیر الہام نازل کر سکتا ہے ؟ کہنے لگے الہام تو نازل نہیں کر سکتا.میں نے کہا کہ پھر یکی کس طرح تسلیم کر لوں کہ وہی مرکز خدا ہے مجھے تو ذاتی طور پر اس بات کا علم ہے کہ خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے اور وہ باتیں اپنے وقت پر پوری ہو جاتی ہیں.کوئی بات چھ مہینے کے بعد پوری ہو جاتی

Page 84

Ar ہے کوئی سال کے بعد پوری ہو جاتی ہے کوئی دو سال کے بعد پوری ہو جاتی ہے کوئی چار سال کے بعد پوری ہو جاتی ہے اور اس طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ مجھ پر جو الہام نازل ہوا تھا وہ خدا تعالیٰ کی طرف ہی سے تھا.پھر کسی نے انہیں مثال دی اور کہا کہ آپ مجھے بتائیں کہ کیا آپ کا وہ گرہ جسے آپ خدا قرار دیتے ہیں کسی کو یہ بتا سکتا ہے کہ جنگ عظیم میں امریکہ کی طرف سے انگلستان کی مد کے لئے ۲۸۰۰ ہوائی جہاز بھجوایا جائے گا.میرا اشارہ اس رویا کی طرف تھا جو گذشتہ جنگ عظیم میں مجھے دکھایا گیا اور جس میں مجھے بتایا گیا تھا کہ امریکہ ، انگلستان کو ۲۸۰۰ ہوائی جہاز مدد کے طور پر بھجوائے گا بلکہ مجھے خواب میں تار کے الفاظ بھی بتائے گئے تھے اور مجھے دکھایا گیا تھا کہ برطانوی نمائندہ نے امریکہ سے یہ تار دیا ہے کہ :." "The American government has de- livered 2800 aeroplanes to the British government".یعنی امریکن گورنمنٹ نے ۲۸۰۰ ہوائی جہاز برطانوی گورنمنٹ کو دئے ہیں.چنانچہ دوماہ کے بعد بعینہ یہی الفاظ برطانوی نمائندہ نے امریکہ سے بند ربیعہ تار بھجوائے اور انگلستان کو ۲۰۰۰ ہوائی جہانہ پہنچے

Page 85

گئے.وہ کہنے لگے کہ اُس گرہ سے تو کوئی ایسی بات نہیں بتائی جاسکتی.یں نے کہا تو پھر ماننا پڑے گا کہ اس گسترہ کا اور اسی طرح اور ہزاروں لاکھوں گتروں کا خدا کوئی اور ہے کیونکہ میں اپنے ذاتی تجربہ سے جانتا ہوں کہ اللہ تعالی کا کلام انسان پر نازل ہوتا ہے جوکئی قسیم کی غیب کی خبروں پرمشتمل ہوتا ہے....اس پر وہ کہنے لگے کہ اگر یہ باتیں درست ہیں تو پھر ا نا پڑیگا کہ یہ تھیوری (THEORY) باطل ہے کیونکہ اس کلام کے ہوتے ہوئے ہم نہیں کہ سکتے کہ کوئی ایسا خدا نہیں جس کے تابع یہ تمام مرکز ہویا اے حضرت مصلح موعود د نوراللہ مرقدہ) نے ایسی زبر دست تحدی کے ساتھ اپنے یہ روحانی تجربات اور عینی مشاہدات قلمبند کئے کہ مولانا نیاز محمد خان صاحب نیاز فوری جیسے نڈر اور جری نقاد جو الہام ووحی اور ملائکہ کے متعلق نیچری خیالات کے پُر جوش علمبردار تھے تفسیر کبیر جلد سوم کے بہ نظر غائر مطالعہ سے ہی گویا تیرہ و تار شب میں سے نکل کر دفعتا روز روشن کی تابانیوں میں آگئے او اُن کے دل کی دنیا کی کایا ہی پلٹ گئی اور اپنے غلط نظریات کو الوداع کہتے ہوئے پھر سے صحیح معنوں میں خدا، رسول اللہ اور قرآن مجید کے پاکیزہ دامن سے وابستہ ہو گئے اور حضرت مصلح موعود کی خدمت بابرکت میں نہایت ہی اخلاص وعد سے بھر پور مکتوب لکھا کہ :- تفسیر سوره البقره از حضرت مصلح موعود صفحه ۲۰۹، ۹۲۱۹٬۲۱۸

Page 86

۸۵ " حضرت کی تفسیر کبیر جلد سوم آجکل میرے سامنے ہے.لیکن اسے بڑی نگاہ غائر سے دیکھ رہا ہوں.اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویہ ن کر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حُسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے.آپ کا تبحر علمی، آپ کی وسعت نظر، آپکی غیر معمولی فراست ، آپ کا حسین استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ میں کیوں اس وقت تک اس سے بے شہر یہ ہا.کاش کہ میں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا.کل شورہ ہود کی تفسیر میں حضرت لوط پر آپ کے خیالات معلوم کر کے جی پھڑک گیا اور بے اختیار یہ خط لکھنے پر مجبور ہو گیا.آپ نے ھؤلاء بناتی کی تفسیر کرتے ہوئے عام مفسرین سے بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے اس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں " نیز لکھا:." میرے نزدیک یہ اگر دو کی بالکل پہلی تفسیر ہے جو بڑی حد تک ذہین انسانی کو مطمئن کر سکتی ہے.اسے له ملاحظات نیاز مرتبہ مولانا محمد اجمل صاحب شاہد ایم.اسے حال امیر و مبلغ جماعت احمدیہ نائیجیر یا صفحه ۱۲۵ و ۱۴۳ +

Page 87

AY ساتواں پیلو (معارف قرآنی کے تین سے منتخب نکات) حضرت بانی احمدیت ( اللہ تعالیٰ کی ہزاروں برکتیں آپ پر ہوں) قرآن مجید کے عدیم المثال مرتبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :.جو معارف و حقائق و کمالات حکمت و بلاغت قرآن شریف میں اکمل اور اتم طور پر پائے جاتے ہیں عظیم الشان مرتبہ اور کسی کتاب کو حاصل نہیں لے یر علوم و معارف اکمل اور اتم طور پر چونکہ قرآن شریف کے کامل تابعین کو عطا ہوتے ہیں اس لئے حضور ان مقدسین و معترین پر ہونے والے فیضانِ الہی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں کہ :.جو جو علوم و معارف و دقائق و لطائف و نکات و ادله و براهین انکو سو جھتے ہیں وہ اپنی کمیت اور کیفیت میں ایسے مرتبہ کاملہ پر واقع ہوتے ہیں کہ جو خارق عادت ہے اور جس کا موازنہ اور مقابلہ دوسر سے لوگوں سے ممکن نہیں کیونکہ وہ اپنے آپ ہی نہیں بلکہ تنضیم غیبی اور تائید محمدی اُن کی پیش رو ہوتی ہے....اور باوجودیکہ ان میں اکثروں کی ه توضیح مرام مال ( طبع اول)

Page 88

AL سرشت پر امیت غالب ہوتی ہے اور علوم ریمیہ کو باستیفاء حاصل نہیں کیا ہوتا لیکن نکات اور لطائف عظیم الہی میں اس قدر اپنے ہمعصروں سے سبقت لے جاتے ہیں کہ بسا اوقات بڑے بڑے مخالف ان کی تقریروں کو شنکر یا ان کی تحریروں کو پڑھ کر اور دریائے حیرت میں پڑ کر بے اختیار بول اٹھتے ہیں کہ ان کے علوم و معارف ایک دوسرے عالم سے ہیں جو تائید الہی کے رنگ خاص سے رنگین ہیں یا ا سیدنا حضرت مصلح موعود رحمۃ اللہ علیہ کو خوان نعمت فرقانیہ اسے جو حصہ وافر علاوہ تو بے حدو نہایت ہے مگر یکیں اس جگہ نمونہ کے طور پر حضور کے بیان فرمودہ لاکھوں نکات معرفت میں سے تیس پاروں کے تین منتخب نکات اس یقین سے ہدیہ قارئین کرتا ہوں کہ ہر طالب حق کو اس کے مطالعہ سے زندہ ایمان و عرفان کی دولت نصیب ہوگی اور وہ قرآن کریم کی معجز نمائی کا والاوشید اہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا.انشاء الله تعالى حضرت مصلح موعود " بسم اللہ کو کلید قرآنی قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :." بسم اللہ کی آیت تمام سورتوں میں مشترک ہے جو ہر سورۃ سے پہلے آتی ہے.میری تحقیق کے مطابق " بسم اللہ مضامین سورۃ کھولنے براہین احمدیہ حصہ چهارم ۱۳۸۳ حاشیه در حاشیه ۳ به صدا

Page 89

AA کی گنجی ہے اور اس میں ایسے گر بتائے گئے ہیں جن سے اگلی سورۃ کے مضایی خود بخود کھل جاتے ہیں.بڑی چیز جو بسم اللہ کے ذریعہ ظاہر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی ہر سورۃ میں کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور ہوتی ہے جو غیر معمولی ہوتی ہے.مثلاً یا وہ غیر معمولی ہوتی ہے عقیدہ کے لحاظ سے، یعنی دنیا کے عقائد کچھ اور ہوتے ہیں اور قرآن کریم کوئی اور عقیدہ پیش کرتا ہے جس کی وجہ سے دنیا کہہ دیتی ہے کہ یہ غلط ہے.یا وہ غیر معمولی ہوتی ہے آئندہ واقعات کے لحاظ سے یعنی اس میں ایسی پیشگوئی ہوتی ہے جو حیرت انگیز ہوتی ہے یا وہ غیر معمولی ہوتی ہے پرانے اخبار کے لحاظ سے یعنی تاریخ کچھ اور کہتی ہے مگر قرآن کہتا ہے کہ یہ میچ نہیں.اصل واقعہ یوں ہے.یا غیر معمولی ہوتی ہے اس لحاظ سے کود نیوی قانونِ قدرت جو لوگوں نے سمجھ رکھا ہوتا ہے اس کے خلاف ہوتی ہے اور لوگ کہتے ہیں قرآن کریم نے یہ بات سائنس کے خلاف کہہ دی ہے.بہر حال کوئی نہ کوئی غیر معمولی بات اس میں آجاتی ہے یا اے سورۂ فاتحہ سے قومی ترقی و تنزل کے اصولوں کا استدلال کیس جامعیت سے کرتے ہیں :.در سورۂ فاتحہ سے لیکر والناس تک سارا قرآن ان بیانات سے ۱۲۹ له تفسیر کبیر جلد و جز چهارم حصہ سوم ما :

Page 90

٨٩ بھرا پڑا ہے کہ قومی ترقی کے کیا گھر ہیں ؟ بے شک اور بھی بہت سے مضامین قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں.اس کے اندر عقلی مضامین بھی بیان کئے گئے ہیں اور علمی بھی ، روحانی مضامین بھی بیان کئے گئے ہیں اور جسمانی بھی، اقتصادی مضامین بھی بیان کئے گئے ہیں اور سیاسی بھی ، مرض سینکڑوں اور ہزاروں مضامین اس کے اندر بیان ہوئے ہیں لیکن سورۂ فاتحہ کی ابتداء ہی ایسے رنگ میں کی گئی ہے کہ اس میں قومی ترقی اور تنزل سے تعلق رکھنے والے تمام اصول بیان کر دیئے گئے ہیں....الحمد اللہ میں میں مضمون کو چشمے سے نکلتے ہوئے ایک چھوٹے سے نالے کی طرح بیان کیا گیا ہے اُسے غَيْر الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ تک پہنچ کر ایک عظیم الشان دریا کی طرح واضح کر دیا گیا ہے.کوئی شخص اگر روحانی نابینا ہو تو الگ بات ہے ورنہ ہر شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ترقی اور تنزل کی تمام منزلیں اس چھوٹی سی سورۃ کے اندر واضح طور پر بیان کی گئی ہیں.اهْدِنَا الصراط المستقیم میں تو ترقی کا مضمون بیان ہوا ہے کہ اسےاللہ ہم ہیں راستہ دکھا جس پر چلنے والے انعام حاصل کر سکتے ہیں اور ہمیں ان قوموں میں شامل فرما جن قوموں نے ترقی کی تھی.مگر آگے چل کر غیر المغضوب علیھم میں بتا دیا کہ کہ ہر وہ قوم جس نے ترقی حاصل کی وہ آخر کار گر پڑی.مگر یہ دعا سکھا کر اللہ تعالیٰ نے تنزل اور پتی سے بچنے کا ایک گر بھی بہتا

Page 91

ہے مستقبل کے متعلق اللہ تعالٰی ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے اور کیا ہو گا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ دعا سکھا کہ اس امر کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی گئی ہے کہ اگر مسلمان تو بہ سمجھے اور عقل کو کام میں لائیں تو وہ تنزل سے نیچے سکتے ہیں یہ لے حروف مقطعات کے بارے میں آپ کی تحقیق یہ ہے کہ : حروف مقطعات اپنے اند ربہت سے راز رکھتے ہیں.ان میں سے بعض راز بعض ایسے افراد کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جن کا قرآن کریم سے ایسا گہرا تعلق ہے کہ اُن کا ذکر قرآن کریم میں ہوتا چاہیے لیکن اس کے علاوہ یہ الفاظ قرآن کریم کے بعض مضامین کے لئے فضل کا بھی کام دیتے ہیں.کوئی پہلے ان کو کھولے تب ان مضامین تک پہنچ سکتا ہے.جس جس حد تک ان کے معنوں کو سمجھتا جائے ایسی حد یک قرآن کریم کا مطلب گھلتا جائے گا.میری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جب حروف مقطعات بدلتے ہیں تو مضمون قرآن جدید ہو جاتا ہے اور جب کسی سورۃ کے پہلے حروف مقطعات استعمال کئے جاتے ہیں تو جس قدر شور میں ان کے بعد ایسی آتی ہیں جن کے پہلے مقطعات نہیں ہوتے اُن میں ایک ہی مضمون ہوتا ہے اسی طرح جن سورتوں میں وہی حروف مقطعات ه تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ دوم ماه

Page 92

۹۱ ہر لائے جاتے ہیں وہ ساری سورتیں مضمون کے لحاظ سے ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ہوتی ہیں یا لے " وأتوا البيوتَ مِنْ اَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (البقره: ۱۹۰) اس میں بتایا کہ کامیابی ہمیشہ ابواب ہی کے ذریعہ آنے سے ہوا کرتی ہے.اگر تم ایسا نہیں کرتے اور دروازوں میں سے داخل ہونے کی بجائے دیواریں پھاند کر اندر داخل ہونا چاہتے ہو تو تمہیں کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی.مثلاً لڑائی کے زمانے میں اگر تم مہتھیاروں سے کام لینا نہ سیکھو اور جنگی فنون کی تربیت نہ لو بلکہ یوں ہی سینہ تان کر دشمن کے سامنے چلے جاؤ تو تم کامیاب نہیں ہو سکتے لیکن اگر چھوٹی سے چھوٹی تلوار بھی تمہارے پاس ہو یا تمہیں لاٹھی چلانا ہی آتا ہو توتم قوم کے لئے مفید وجود بن سکتے ہو.پس کامیابی کے لئے ان ذرائع اور اسباب کو استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہوئے ہیں یا کہ آیت لَا تَقُولُوا لِمَنْ الْقَى إِلَيْكُمُ السَّلمَ (نساء: ۹۵) سے یہ اہم قانونی نکته اخذ فرمایا کہ :- تفسیر کبیر جلد اول جز اول ص : کے تفسیر سورة البقره از حضرت مصلح موعود من ۲۱۹۴۴۱

Page 93

۹۲ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ دل تو الگ رہا اگر کوئی شخص اسلام کی تفصیلات سے ناواقف ہو اس نے اسلام کے صرف ظاہری آداب سیکھے ہوں تو وہ اپنے آپ کو مسلمانوں میں سے ظاہر کرے تب بھی اس کو یہ کہنا کہ تو مسلمان نہیں، جائز نہیں اور فرماتا ہے کہ جو شخص ایسے شخص کو غیر مسلم کہتا ہے وہ درحقیقت اس کو ٹوٹنے کی خاطر راستہ کھولتا ہے.یہ لے آیت رَبِّ ارتي انظر اليك (اعراف : ۱۲۲) کی وجد آفریں تفسیر ملاحظہ ہو: ر میرا اپنا یہ خیال ہے گو یہ خیال ایک ذوقی نظر یہ ہے کہ جس وقت کو مینار پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت موسیٰ کو بشارت دی گئی (دیکھو استثنا باب ۱۸ آیت ۱۸) اور انہیں معلوم ہوا کہ ایک عظیم الشان نبی میرے بعد پیدا ہونے والا ہے تو اُنکے دل میں یہ معلوم کرنے کی خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کونسی تجلی ہو گی جو اس نبی پر ظاہر کی جائے گی جس پر انہوں نے عرض کیا رب ارنی انظر اليك ذرا مجھ پر بھی وہ محمدی تجلی ظاہر فرما تا کہ میں بھی تو دیکھوں کہ اس پر تو کس شان سے ظاہر ہو گا.اس کا انہیں یہ جواب دیا گیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا ہ شخص اپنے مناسب حال ہی تجلی دیکھ سکتا ہے.ه مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اصل 4

Page 94

۹۳ میرے اس بیان کی تائید اس سے بھی ہو جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ اس سے پیشتر روحانی تجلی دیکھ چکے تھے جیسا کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا الى انا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ هویه (طلہ ہوں) پھر جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کی تجلی دیکھ دیکھے تھے تو اُنکے اس قول کے کیا معنے ہوئے کہ اسے اللہ مجھے اپنا آپ دکھا مگر اسکے یہ معنے کئے جائیں کہ پہلے روحانی تجلی دیکھی تھی اب وہ اللہ تعالی کو اس کی اصلی صورت میں دیکھنا چاہتے تھے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام جیسے برگزیدہ نبی کو بیوقوف قرار دیا جائے نعوذ باللہ من ذالک کیونکہ کسی کا یہ کہنا کہ اسے خدا تو مجھے مجسم ہو کر نظر آنا دانی کی بات ہے.اور یہ بات حضرت موسیٰ کی طرف ہرگز منسوب نہیں ہو سکتی.پس یہ رویت کی درخواست روحانی ہی قرار دی جاسکتی ہے.اور چونکہ موسوی تحتی پہلے ان پر ہو چکی تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب جو خواہش انہوں نے کئی تو وہ کیسی اور رویت کے لئے تھی اور چونکہ اس درخواست سے معا پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت دی گئی تھی میں ہی قیاس کرتا ہوں کہ درخواست اُن کی محمدی تجلی کے دیکھنے کے بارے میں تھی جس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ لن ترانی " کہ تو مجھے اس صورت میں نہیں دیکھ سکتا جس صورت میں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھنا ہے کیونکہ اس کے دیکھنے کے لئے محمدی مرتبہ کی

Page 95

۹۴ ضرورت ہے جو تجھے حاصل نہیں.یہی وجہ تھی کہ ” لن ترانی کمر کہ پھر اللہ تعالیٰ نے وہ جلوہ دکھایا.چنانچہ اب موسی نے دیکھ لیا کہ واقعہ میں وہ اس جلوہ کے مطابق ظرف نہ رکھتے تھے اس وجہ سے وہ اس جلوہ کو دیکھتے ہی بیہوش ہو گئے.میں سمجھتا ہوں کہ حضرت موسی علیہ السلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اعلیٰ دیکھانے کے لئے اللہ تعالٰی نے یہ کشف دکھایا اور اس کشف کا خضر میر احمد ہی ہے جس کے ساتھ چلنے کی موسی علیہ السلام کو طاقت نہ تھی.اللھم صل على محمد وعلى ال محمد وسلم انك حميد مجيد الله قرآن مجید کے کتاب مبین (یوسف : ۲۲ ہونے کی کیا لا جواب تشریح فرمائی ہے : بیان کمد کو بتا یا کہ یہ کتاب دلائل اور برا ہیں ساتھ رکھتی ہے اور نہ صرف وہ خود واضح ہے بلکہ اپنے سے پہلی کتب پر بھی روشنی ڈالتی ہے.اس لفظ سے ان اعتراضات کا جواب دیا ہے کہ جو قرآن کریم پر آئندہ ہونے والے تھے یعنی اس میں پچھلی کتب کی بیان کر وہ تاریخ سے اختلاف ہے اور بتایا ہے کہ قرآن کریم کا تو فرض ہے کہ پچھلی 449/996 تفسیر کبیر جلد ۳

Page 96

۹۵ کتب کی غلطیوں کو بیان کرے پھر اختلاف کیوں نہ ہو....مہابن کے لفظ سے اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ قرآن کریم اپنی ذات میں کامل کتاب ہے اور اپنے دعوئی کے ثبوت کے لئے بیرونی دنیل کی محتاج نہیں بلکہ خود ہی دعوشی بیان کرتی ہے اور خود ہی وسیل بھی دیتی ہے.مباین کے لفظ سے اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ وصول الی اللہ کے لئے جس قدر امور کی ضرورت ہے ان کو یہ کتاب واضح کر دیتی ہے.اس طرح تمام وہ امور جو احکام یا اخلاق فاضلہ یا اعتقادات صحیحہ وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں یہ ان سب کو بیان کرتی ہے یا اے وَمَا اَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ (ابراہیم : ماما آپ عربی کے اُم الائتہ ہونے کا لطیف استدلال کرتے ہیں کہ :.اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عربی اتم الالسنہ ہے کیونکہ جو رسول عرب میں آیا اسی کے سپر وسب دنیا کی اصلاح کی گئی.پس عربی میں نازل ہونیوالی وحی کو سب دنیا کے لئے ہدایت قرار دینے سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ عربی کسی نہ کسی رنگ میں ساری زبانوں کی ماں ہے اور دوسری زبانیں اس کی بیٹیوں کی طرح لے تفسیر کبیر جلد سوم ما

Page 97

ہیں.اس آیت میں اِس اعتراض کا بھی کہتی ہو جاتا ہے جو وہ یوں کرتے ہیں کہ کلام اٹھی ایسی زبان میں آنا چاہیئے جیسے کوئی بولتا نہ ہو تا کہ سب میں برا ہوہی رہے مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ ایسی زبان میں وحی ہونی چاہیئے جس کو لوگ بولتے ہوں تا کہ نبی ان کو سمجھا سکے او وہ سمجھ سکیں جس زبان کو دنیا نہ بول سکتی ہے نہ سمجھ سکتی ہے اس میں کلام الہی آنے کا فائدہ ہی کیا ہوا.آریوں کا یہ عقیدہ اس طرح بھی غلط ہے کہ جب وید نازل ہوئے اگر اُسی وقت رشیوں نے اسے نہیں سمجھا تو اُن کا نزول بے فائدہ ہو جاتا ہے اور اگر ان کو دید سمجھا دیا گیا تو پھر برابری نہ رہی.اور اگر اس وقت لوگ موجود تھے اور انہیں بھی سمجھا دیا گیا تھا تو گو اس وقت کے لوگوں کے لئے ہوا ہری ہوگئی مگر جو لوگ بعد میں پیدا ہوئے اُن کے لئے برابری کہاں رہی آب تو پنڈت تک دیدوں کی زبان سے ناواقف ہو رہے ہیں.چونکہ اس زمانہ کے مامور (حضرت اقدس.ناقل ) پر عربی کے بعد اُردو میں الہام زیادہ کثرت سے ہوا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس آیت کو بد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ زبان ہندوستان کی اُردو ہوگی اور دوسری کوئی زبان اسکے مقابل پر نہیں ٹھر سکے گی یائے له تفسیر کبیر جلد سوم ۴۳۲۵

Page 98

فرمایا :- 94 لُوا اهْلَ الذِكرِان كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ٥ كل ٢٢٠ کہہ کر کفار کو شرمندہ کیا گیا ہے.وہ دعویدار تھے کہ وہ ابراہیم اور اسمعیل کی اولاد ہیں اور ان کے حالات بھی ان کے سامنے تھے کہ کس طرح تکالیف اُٹھا کر کامیاب ہوئے.پس فرماتا ہے کہ تم تو شاید اپنے بزرگوں کو بھول گئے ہو.اگر تم کو ان باتوں کا علم نہیں تو دوسری اقوام سے دریافت کر لو.ذکر کے معنے چونکہ یاد کرنے کے بھی ہیں.اھل الذکر سے مراد یا درکھنے والے کے بھی ہو سکتے ہیں.اس صورت میں یوں معنے ہوں گے کہ اگر تم نہیں جانتے اور باپ دادوں کی باتوں کو بھول گئے ہو تو جن کو یاد ہیں اُن سے پوچھ لو یعنی مسلمانوں سے.یہ پیرایہ کلام نہایت لطیف اور بلیغ ہے.کفار یہ طنز سُن کر دل میں کٹ ہی مرے ہوں گے.نوحی الیھم کہہ کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ نبی کا شرف فوجوں اور سامانوں سے نہیں ہوتا بلکہ اس کی دولت اس کی وحی ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ سے وہ فتح پاتا ہے.اس آیت میں اِس طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر کفار خیال کریں کہ اس بے سامان آدمی کے ذریعہ مسلمانوں کو حکومت کہاں سے مل جائے گی تو اُن کو یاد رکھنا چاہیے کہ پہلے انبیاء بھی ایسے ہی

Page 99

۹۸ تھے اور اُن کے پاس وحی الہی کے سوا کچھ نہ تھا.پھر اللہ تعالے نے اُن کے ذریعہ دنیا میں بہت بڑے تغیرات پیدا کر دئے اور اسی دنیا میں ایک محشر برپا کر دیا.یہاں پر رجالا اس لئے فرمایا کہ اُن کا مطالبہ یہ تھا کہ ہمارے پر ملائکہ کیوں نازل نہیں ہوتے چنانچہ پہلی سورۃ میں بھی ان کا مطالبہ کو مَا تَأْتِينَا بِالْمَلَكَةِ کے الفاظ میں گذر چکا ہے.یہاں ان کے خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک طنز بھی ہے اور وہ یہ کہ تم تو فرشتوں کو خدا تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے ہو پھر وہ ایچی بن کر تمہارے پاس کیونکہ آئیں اہلیچی بن کر تو مرد ہی آئیں گے.چونکہ ہجرت کے بعد حکومت ملنی تھی اور حکومت کے ساتھ ان لالچیوں کے گروہ نے بھی پیدا ہونا تھا جو اس حکومت کو دنیوی حکومت سمجھ کر اس میں سے حصہ بٹانے کی کوشش کرنے والے تھے.جیسے مسیلمہ ، سجاح وغیرہ نے کی.اس لئے کوئی بعید نہیں کہ اس آیت میں اس آنے والے فتنہ کا بھی سد باب کیا گیا ہو جب لوگوں نے فصاحت پر و سوئی نبوت کی بنیا د رکھی تھی اور بعض عورتیں بھی نبوت کا دعوی کرنے والی تھیں ان دونوں خیالات کا رد رجالا اور نُوحِی اِلَيْهِمْ کے الفاظ سے کیا گیا ہے تفسیر کبیر حصہ سوم به

Page 100

۹۹ آیت اِن لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبرة (نخل : ۶) خالقِ کائنات کی ہستی پر کتنی زبر دست ودلیل پیش فرمائی ہے :- یہ آیت اس امر یہ بھی شاہدہ ہے کہ قرآن کریم کا نازل کر نیوالا دنیا کا خالق بھی ہے کیونکہ اس میں دودھ کے پیدا ہونے کا وہ طریق بتایا گیا ہے جو اس وقت دنیا کو معلوم نہ تھا اور بعد میں دریافت ہوا ہے اور وہ یہ کہ غذا معدہ میں سے انٹریوں میں آتی ہے اس سے فرٹ تیار ہوتا ہے اس فرش سے ایک مادہ خون بن جاتا ہے اور اس خون سے دودھ بنتا ہے.یہی وہ حقیقت ہے جونزول قرآن کے بعد کی تحقیق سے ثابت ہوئی ہے چنانچہ بعد کے مفسرین نے ابتدائی مفسرین کی غلطی کو پیش کر کے ظاہر کیا ہے کہ در حقیقت فرش سے خون اور خون سے لبن بنتا ہے مگر جو تشریح انہوں نے بیان کی ہے وہ بھی پوری طرح سائنس کے مطابق نہیں لیکن قرآن کے الفاظ سائنس کی موجودہ تحقیق کے بالکل مطابق ہیں.اور وہ یہ ہے کہ غذا معدہ سے انٹریوں میں جاتی ہے وہاں سے اس کا منہضم لطیف حصہ بعض عروق کے ذریر سے ایک حصہ سیدھا دل تک جاتا ہے اور وریدوں میں سے گزر کر فوراً خون بن جاتا ہے اور ایک اور لطیف حصہ متحدہ سے براہ راست جگر میں جاکر وہاں سے وریدوں کے ذریعہ دل میں گر کر خون بن جاتا ہے پھر یہ خون جب تھنوں کے قریب جاتا ہے تو وہاں اللہ تعالے

Page 101

*** H نے ایسے سامان پیدا کئے ہیں کہ وہ خوکی وہاں جا کر دودھ بن جاتا ہے لے يوم ينفخ في الصور النمل ۸۸۱) کی تفسیر نے حالات حاضرہ کا نقشہ کھینچ دیا ہے :- اس آیت میں ہوائی جہازوں اور ایٹم بموں کا ذکر معلوم ہوتا ہے.ہوائی جہاز آسمان پر اڑتے ہیں اور ایٹم بم زمین میں پھٹ کر زمین کے رہنے والوں کو تباہ کر دیتا ہے پھر آتشیں مادے کو آسمان کی طرف دھکیل دیتا ہے.الا من شاء اللہ میں بتایا کہ با وجود اس کے یہ تبا ہی عام ہوگی پھر بھی خدا تعالی کے حضور دعا کا راستہ کھلا رہے گا اور جو خدا تعالیٰ کو خوش کر سکے گا وہ اس تباہی سے محفوظ رہے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سائنسدانوں نے اپنی کوششوں اور تدبیروں کے ساتھ موت کے ذریعہ کو معلوم کر لیا ہے مگر اسلام کو قائم کرنے والا وہ خدا ہے جس کے ہاتھ میں موت بھی ہے اور حیات بھی.وہ موت کے ذریعہ کو اپنے ہاتھ میں لے کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا پر حاکم ہوگئے حالانکہ اصل حاکم وہ ہے جس کے قبضہ میں موت اور حیات دونوں ہیں اور اُس نے بتایا ہے کہ اگر لوگ دعاؤں سے کام لیتے رہیں گے تو اس تباہی له تفسیر کبیر جلد سوم صفحه ۶۸۸

Page 102

سے بچاؤ کا کوئی نہ کوئی سامان پیدا فرمادے گا لے (٣) مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذكر او انثى (النحل: ۹۸) سے حقانیت اسلام کا لا جواب ثبوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.اس آیت میں ایک طرف تو مسلمانوں کو بتایا ہے کہ اسلام میں مرد و عورت دونوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے.آئندہ جدو جہد میں ہر شخص کو مرد ہو یا عورت اس کے عمل کے برابہ بدلہ ملے گا اور عورت و مرد میں فرق نہ کیا جائے گا.دوسری طرف کفار کو یہ تو قبہ دلائی ہے کہ تم عورت کو مارتے ہو تم کو حکومت کس طرح دی جاسکتی ہے.اب تو وہ حکومت قائم کی جائے گی جس میں مرد اور عورت دونوں کے حقوق محفوظ ہوں.اسلام کی سچائی کا یہ کس قدر زیر دست ثبوت ہے کہ ہزاروں سالوں کی انسانی زندگی کے بعد اس نے پہلی مرتبہ مرد اور عورت کے حقوق کو تسلیم کیا اور اس کے جاری کرنے کی اس وقت خبر دہی جبکہ ابھی مسلمانوں کو حکومت بھی نہ ملی تھی اور اس کے باوجود ن اسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں عورتوں کے حقوق کی نگہداشت نہیں کی گئی یہ ہے تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ سوم صا تفسیر کبیر حصہ سوم هنا :

Page 103

آیت قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادَ الكَلِمَتِ رَي (كهف : ۱۱۰) سے مغربی اقوام کی ایجادات کا استدلال و استنباط حضرت مصلح موعود کے بلند روحانی مقام پر برہان ہے.فرماتے ہیں :.وہ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ ہم نے یہ یہ ایجادات کی ہیں اور اتنے علوم دریافت کئے ہیں اور کائنات کا راز دریافت کرنے کے قریب ہیں.فرماتا ہے اسے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو ان سے کہہ دے (یعنی اس زمانہ کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع اُن سے یوں کہ دیں، کہ تمہارا راز کائنات کو دریافت کرنے کی کوشش کرنا ہمیشہ روز اول ہی رہے گا اور با وجود اس قدر کوششوں کے تم کو بہو کے بیل کی طرح وہیں کے وہیں کھڑے رہو گے اور وہ قوتیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں پیدا کی ہیں ان میں اس قدر بھی دریافت نہ کر سکو گے جس قدر سمندر کے مقابل پر ایک قطرہ کی حیثیت ہوتی ہے.ر اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ وہ تصانیف کا زمانہ ہو گا اور یہ قو میں سائنس پر کثرت سے کتابیں لکھیں گی یا اے (۱۳) مجمع البحرين (كف : ۵۶) کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:.ے تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ ۱۰۰۷ 4

Page 104

۱۰۳ در مجمع البحرین سے مراد در حقیقت وہ زمانہ تھا جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ ختم ہوا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ شروع ہوا.یعنی وہ گھڑی جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلا الهام نبوت ہوا مجمع البحرین تھی.وہاں موسی جو ایک روحانی عادل شفیق اور دنیا کے لئے ضروری بادشاہ تھے ان کا علاقہ ختم ہوتا تھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اور بھی بڑے روحانی سمند رتھے ان کا زمانہ شروع ہوتا تھا.حضرت موسی علیہ السلام کو کشف میں دو بڑے سمندروں کے ملنے کا مقام دکھا کر گویا یہ بتایا گیا کہ اس زمانہ تک آپ کی اُمت کا زمانہ ہے آگے ایک اور سمند ر سشروع ہوتا ہے آپ کا زمانہ ختم ہو کہ اس نئے نبی کا کام شروع ہوگا اور وہی شخص روحانی زندگی کا سامان حاصل کر سکے گا جو اس سمندر میں غوطہ لگائے گا رہے ۱۵) فرمایا : و الله لك الا تجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعُواىهُ وَانَّكَ لَا تَطْمَوا فيها ولا تضحي و (طلاع ) یعنی اے آدم جس مقام پر ہم تم کو رکھنے لگے ہیں اس میں تمہارا فرض ہوگا کہ بھوکے نہ رہو اور نہ نکلے رہو اور پیا سے نہ رہو اور دھوپ کی تکلیف نہ اُٹھاؤ بعض لوگوں ے تفسیر کبیر جلد سوم من

Page 105

۱۰۴ نے غلطی سے یہ بجھا ہے کہ یہ آدم کی جنت کی تفصیل ہے لیکن یہ جنت کی تفصیل نہیں ہو سکتی بھو کے پیاسے تو د رند سے بھی نہیں رہتے اور نہ وہ دھوپ میں پہنتے ہیں یہ امور تو اسی دنیا میں جانوروں تک کو میسر ہیں پس یہ جنت کی تفصیل نہیں آدم کے تمدن کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور پہلی انسانی سوسائٹی کو بتایا گیا ہے کہ ایک جگہ رہنے سہنے کے نتیجے میں بعض دفعہ ایک حصہ آبادی کا خوراک حیا نہیں کر سکتا یا لباس مہیا نہیں کر سکتا.پیس جہاں تم کو تمدن کی برکات سے حصہ دیا جاتا ہے وہاں اس کی خرابیوں کو دور کرنے کا خیال رکھنا بھی تمہارا فرض ہے لالے (19) آیت اِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ ( النور : ٢٠) كا ذكر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.ور اس آیت میں خدا تعالیٰ نے علم النفس کا ایک ایسا نکتہ بیان کیا جو قرآن کریم کے کلام الہی ہونے کا ایک زبر دست ثبوت ہے کیونکہ علم النفس کی تحقیق پہلے زمانے میں نہیں ہوئی تھی.یہ پہلے تحقیق انیسویں صدی میں شروع ہوئی اور اب انیسویں صدی ہیں اس نے ایک علم کی صورت اختیار کی ہے.وہ مسئلہ جو قرآن کریم نے ان آیات میں بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ بری باتوں کا مجالس تفسیر کبیر جلد اول جز اول من ؟

Page 106

میں تذکرہ نہیں کرنا چاہیے ورنہ وہی برائیاں لوگوں میں کثرت کے ساتھ پھیل جائیں گی یا لے واد ابلة الأطفال منكم الحلم فليستأذنوا (النور: ٢٢٠ آیت کریمہ حضور کے نزدیک تاریخ کا ایک عبرتناک ورق ہے.فرماتے ہیں ور اسی طرح اس آیت میں پیش گوئی بھی پائی جاتی ہے کہ جب مسلمانوں کو قومی طور پر غلبہ حاصل ہو گا تو غلاموں کا رواج اُن میں بڑھ جائے گا چنانچہ اندلس اور بغداد میں زیادہ تر کام غلاموں سے ہی لیا گیا اور یہی مسلمانوں کی تباہی کا موجب ہوا.لیکن سمجھتا ہوں کہ اس آیت کے مضمون کو گھر یلو مضمون نہ سمجھا جاتا بلکہ یہ مجھا جاتا کہ یہ آیت چونکہ خلافت کے ذکر کے بعد آئی ہے اس لئے اس میں کوئی قومی مضمون بیان ہوا ہے.تو مسلمان اپنے کمزوری کے وقتوں میں اور زیادہ ہوشیار ہو جاتے جیسا کہ حضرت عثمان اور حضرت علی ہے کے آخری ایام ہیں.اور کسی غیر کو خواہ کتنا ہی بے ضر نظر آتا اپنے نظام کے پاس پھٹکنے نہ دیتے.اگر وہ ایسا کرتے تو نہ حضرت عثمان کی شہادت ہوتی اور نہ حضرت علی کی...مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اپنی طاقت کے زمانہ میں اس له تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ اول ص ۲۷

Page 107

ہدایت پر عمل نہ کیا اور وہ اپنی حفاظت سے ایسے فاضل ہوئے کہ دشمن انہیں تباہ کرنے میں کامیاب ہوگیا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تک بھی گھروں کے دروازے ہوتے تھے جن کے کھولے بغیر کوئی شخص اندر داخل نہیں ہو سکتا تھا لیکن خلافت عباسیہ اور خلافت اندلس اور خلافت فاطمیہ میں دروازے نہیں ہوتے تھے بلکہ صرف زینت کے طور پر پڑے گرائے جاتے تھے گویا زینت مقدم ہو گئی تھی اور حفاظت نفس مؤخر ہو گئی تھی جس کا نتیجہ یہ ہو کہ کئی لفظ غلاموں کے ہاتھ سے مارے گئے یا اسے ۱۸) فرمایا :- چونکہ اسلام ایسا مذہب تھا جس نے لِيَكُونَ لِلْعَلَمِينَ نَذِيرًا (الفرقان (۲) کے ماتحت دنیا کے ہر مذہب اور قوم کو مخاطب کرنا تھا اس لئے لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ فرما کہ اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ اسلامی علماء کو دنیا کی تمام زبانیں کینی چاہئیں...تا کہ ہر جگہ وہ قرآن کریم کو پھیلا سکیں یا تے 19 آیت اَنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الكتب يتلى عَلَيْهِمْ (العنكبوت : ۵۲) کی ے تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ اول صفحه ۳۹۳ تا ۱۳۹۰ نے تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ دوم مث :

Page 108

1.4 تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں :.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جویہ فرمایا کہ قرآن کریم کے سات بطلن ہیں اس کے ایک معنے یہ ہیں کہ دنیا میں سات بڑے بڑے تغیرات آئیں گے اور یہ تغیر کے زمانہ میں لوگوں کے ذہن بدل جائیں گے اس وقت خدا تعالٰی قرآن کریم کے ایسے معنی کھول دیگا جو لوگوں کو اس وقت کے ذہنوں اور قلوب کو تسلی دینے والے ہوں گئے اس زمانہ میں مبیعیوں مسائل ایسے رنگ میں کھلے ہیں کہ پہلے ان کی ضرورت اور اہمیت محسوس نہیں کی جا سکتی تھی....تو قرآن کریم کے سات بطلن سے مراد سات عظیم الشان ذہنی اور عقلی اور علمی تغیرات ہو سکتے ہیں اور اس میں بتایا گیا ہے کہ ہر ایسے تغیر میں قرآن کریم قائم رہے گا اور کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ ہمارے زمانہ کی ضروریات کو قرآن پورا نہیں کرتا باقی الہامی کتابیں تو ایسی ہیں کہ جن کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب زمانہ بدلا اور دنیا میں تغیر آیا تو ان کتب میں جو کلام تھا اس کے وہ معنی نہ نکلے جو اس زمانہ کے ذہنوں کے مطابق ہوتے اس لئے وہ قابل عمل نہ رہیں مگر قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جوں جوں دنیا میں تغیر آتے جاتے رہیں گے اور لوگ قرآن پڑھیں گے اس زمانہ کی ضروریات کو پورا کرنے والا مفہوم اس میں سے نکلتا آئے گا اور لوگ تسلیم کریں گے کہ ہاں قرآن کریم ہی اس زمانہ کیلئے

Page 109

۱۰۸ بھی کافی ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس زمانہ کیلئے بھی رسول ہیں.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ قرآن کے سات بطن ہیں اس سے ضروری نہیں کہ یہی مراد ہو کہ سات ہی بطن ہیں بلکہ ہو سکتا ہو گی.نہیں.پچاس ہو.ہزار.دو ہزارہ بطن ہوں کیونکہ عربی زبان میں سات کا عدد کثرت پر دلالت کرتا ہے.چنانچہ سبع سموات کے معنے یہی ہیں کہ خدا تعالٰی نے انسانی ترقیات کے لئے ہزاروں بلندیاں پیدا کی ہیں غرض فرمایا کہ قرآن کریم کو ہم نے ایسا بنایا ہے کہ یہ ہر زمانہ کے لئے کافی ہوگا.اس میں ہر زمانہ کے خیالات پر بحث موجود ہوگی اگر اس زمانہ کے لوگوں کے خیالات غلط ہوں گے تو اُن کی تردید کی جائے گی اور اگر صحیح ہوں گے تو تائید کی جائے گی کیا ہے آيت ليظهر على الدين كلام الصف ع ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں.ار یہ زمانہ ایسا ہے جس میں فلسفہ اور تعلیم کی وجہ سے لوگ جزئیات کے متعلق سوالات کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اگر کوئی مذہب ستا ہے تو جزئیات میں اپنے آپ کو سچا ثابت کر کے دکھائے محض ایک دو مسائل میں کسی مذہب کا دوسرے مذہب پر غالب آجانا کافی نہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے لِيُظْهِرَهُ عَلَى الذين علم کے الفاظ ه تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ سوم م۳۵

Page 110

1.9 استعمال فرمائے ہیں.دین کے لفظ میں سارے ادیان شامل ہیں اور کلام کے لفظ نے بتا دیا کہ اسلام کے مقابلہ میں اُن کی جزئیات تباہ کر دی جائے گی یا اے آيت يُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ (الدھر (۲۸) کی روشنی میں یہ نکتہ پیش فرمایا ہے کہ :." قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کے راستہ میں جو روکیں ہوتی ہیں اُن کے متعلق ایک گر بتایا ہے اور وہ گریہ ہے کہ ناکام رہنے والے لوگوں کی ناکامی کا سبب يُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَ يذَرُونَ وَرَاءَهُمْ يَوْمًا ثَقِيلاً ہوتا ہے.وہ نہایت ہی محدود نگاہ سے معاملات کو دیکھتے ہیں قریب ترین نتائج ان کے نزدیک محبوب ہوتے ہیں اور حقیقی اور اصلی غیر متبدل اور دائمی اثرات و نتائج ان کے پیش نظر نہیں ہوتے.دنیا میں جس قدر لڑائیاں، فسادات اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اگر ان کے اسباب پر غور کیا جائے تو ننانوے فیصدی ایسے نکلیں گے جن کا سبب فریقین میں سے کسی نہ کسی کا یا دونوں کا بغیر کا فی غور وفکر کے جلدی سے کیسی نتیجہ پر پہنچے جانا اور ایک عاجل نتیجہ پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہوگا ہے له الفضل ۲۰ اپریل ۶۱۹۴۳ حت کالم ۳ به که الفضل ۱۹.اپریل ۶۱۹۲۹ ص 4

Page 111

١١٠ (۲۲) فرمایا : كوَاعِبَ أَتْرَابًا (النبا : ۳۴) میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ ایسی برکتیں دے گا کہ جب وہ مقام مقالہ میں پہنچیں گے تو ان کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہوگی کہ ان کی عورتوں کا دینی معیار بھی اُونچا ہو جائے گا اور پھر وہ اس معیار میں ایک دوسری کے برابر ہوں گی....چنانچہ اسلامی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو کثرت سے ایسی عورتوں کی مثالیں نظر آتی ہیں جنہوں نے جنگوں میں بہت بڑی جرات اور تہمت کا ثبوت دیا.مہاجرین کی بیویوں کو ہم دکھتے ہیں توان میں بھی ہمیں یہ شان نظر آتی ہے اور انصار کی بیویوں کو دیکھتے ہیں تو ان میں بھی ہمیں یہ شان نظر آتی ہے.ہزار ہا عورتیں ایسی ہیں جن کا تاریخوں میں ذکر آتا ہے او جنہوں نے مختلف مواقع پر گواعب اترابا ہونے کی ایسی شان دکھائی کہ آجکل کے مرد بھی ان کے مقابلے میں پہنچے نظر آتے ہیں یا بلے ۲۳) فرمایا : قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و التزعتِ غَرْقَاهُ و النشطتِ نَشگاه کر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو عمل کرتے کرتے بالکل اس میں محو ہوجاتے ہیں اور اُن کے دل کی تمام گرہیں کھل جاتی تفسیر کبیر جلد چهارم نصف اول مه به له الشرطت ہوس له

Page 112

ہیں اور پھر وہ اس کام میں خوشی اور بشاشت محسوس کرنے لگتے ہیں اور فرمایا یہی لوگ ہیں جو کامل مومن ہیں یا لے (۲۴) فرمایا : یکن نے جو کہا ہے کہ اس زمانے میں تبلیغ کا راستہ پہلے سے زیادہ کھلا ہوا اس سے تو اس کی میرے پاس دلیل بھی موجود ہے.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَاِذَا الْجَنَّةُ ازْ لِغَتْ (التکویر : ۱۴) کہ آخری زمانہ میں جنت قریب کر دی جائے گی جس کے معنے یہ ہیں کہ تبلیغ کار استہ پہلے کی نسبت زیادہ کھل جائے گا کیونکہ جنت تبھی قریب ہو سکتی ہے جب بغیر کسی خاص مشقت کے جنت میں داخل ہونے کے سامان میستر آجائیں چنانچہ موجودہ زمانہ میں ایسے ہی حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ اب لوگوں کے دل خود بخود موجودہ دینوں سے متنفر ہو رہے ہیں.جس طرح یوروپین لوگوں کے دل ایشیائیوں کی حقارت سے پر ہیں اسی طرح اُن کے دل مذہب کی تحقیر سے لبریز ہیں پس اگر ایک طرف وہ ہمارا مٹی کا گھر توڑنے کی فکر میں ہیں تو دوسری طرف وہ اپنے رحمانی گھر کو آپ توڑ رہے ہیں.پس یہ کیسا اچھا موقع ہے کہ جب وہ ہمارے مٹی کے گھر کو توڑ رہے ہوں ہم انہیں تبلیغ کے ذریعہ کے خطبات محمود جلد اول ص ناشر فضل عمر فاؤنڈیشن :

Page 113

اپنے روحانی گھر میں لے آئیں اس کے بعد خانہ واحد کا معاملہ ہو جائے گا اور ہمارا نقصان ان کا نقصان اور ہمارا قائدہ ان کا فائدہ ہو جائے گا.غرض یہ ایک ایسی آنکھیں کھولنے والی بات ہے کہ اگر اس کو دیکھتے ہوئے بھی کسی شخص کے دل میں تبلیغ کے متعلق بیداری پیدا نہ ہو اور یہ عدیمیم کر کے نہ اٹھے کہ میں اپنے ارد گرد کے رہنے والوں کو اور اپنے ہمسایوں کو اور جہاں جہاں پہنچ سکتا ہوں وہاں تک رہنے والوں کو اسلام کی تبلیغ کروں گا تو اس سے زیادہ بد قسمت انسان اور کوئی نہیں ہوسکتا.آج اسلام کی ترقی کے لئے چاروں طرف تلوار کا راستہ بند اور مسدود ہو چکا ہے.اسلام کی ترقی کے لئے بندوق کا راستہ بند اور مسدود ہو چکا ہے.اسلام کی ترقی کے لئے توپ کا راستہ بند اور مسدود ہو چکا ہے.اسلام کی ترقی کے لئے جہازوں اور ہوائی جہازوں کا راستہ بند اور مسدود ہو چکا ہے.ایک ایک قلعہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اپنے خون کو بہا کر قائم کیا تھا آج مسمار ہوتا نظر آرہا ہے اور تلواروں، بندوقوں، توپوں اور ہوائی جہازوں سے ان قلعوں کو محفوظ رکھنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا لیکن اسی دنیا کے پردہ پر ایک احمدیہ جماعت ایسی ہے جو اپنے دلوں میں یہ یقین اور ایمان رکھتی ہے کہ تو یوں کے ذریعہ سے نہیں تلواروں کے ذریعہ سے نہیں بندوقوں کے ذریعہ سے نہیں ہوائی جہازوں کے

Page 114

١١٣ ذریعہ سے نہیں بلکہ تبلیغ اور تعلیم اور وعظ ونصیحت کے ذریعہ سے پھر دوبارہ ان گرتے ہوئے قلعوں کی تعمیر کی جائے گی.پھر دوبارہ اسلام کے احیاء کی کوشش کی جائیگی.پھر دوباره محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو کسی چوٹی پر نہیں، کسی پہاڑ پر نہیں کسی قلعہ پر نہیں، بلکہ دنیا کے قلوب پر گاڑا جائے گا.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ وہ دلوں پر گاڑا ہوا جھنڈا اس جھنڈے سے بہت زیادہ بلند اور بہت زیادہ مضبوط اور بہت زیادہ پائیدار ہوتا ہے جسے کسی پہاڑ کی چوٹی یا قلعہ پر گاڑ دیا جائے اسے (۲۵) فرمایا : مومن تو اس لئے جنت کو پسند کرتا ہے کہ اس میں اس محبوب کی خواہش ہوتی ہے.اسی لئے جہاں خدا تعالیٰ نے جنت کا وعدہ فرمایا وہاں اپنے عاشقوں کے دل رکھنے کے لئے یہ فرمایا فادخلی فی ے خطبات محمود جلد اول صفحه ۲۶۴۰۲۶۳

Page 115

۱۱۴ عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِی یعنی اسے پاکیزہ رُوح فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِى (الفجر ۳، ۳۱ تومیرا استاد اور فرمانبردار ہوتے ہوئے اس باغ میں داخل ہو جا جس میں مکیں بھی تیر سے ساتھ ہوں گا.اس میں دو وجوہ بتائی ہیں کہ مومن جنت میں کیوں داخل ہو گا ایک تو اس لئے کہ وہ میرا فرمانبردار ہو گا اور دوسرے یکس او وہ اکٹھے اس میں ہوں گے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ مومن کو گویا یہ بتاتا ہے کہ میں جانتا ہوں تو جنت کی خاطر جنت میں نہیں جائیگا بلکہ میرے قرب کی وجہ سے جائے گا.اس میں جنت کے انعام کو ایسا حقیر بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب تک یکی بندہ سے یہ نہ کہوں گا کہ اس میں داخل ہونے میں میری اطاعت ہے وہ داخل نہ ہوگا اور دوسرے جب تک میں اسے یہ نہ کہوں گا کہ یہ جنت اصل مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود اس میں داخل ہونے کا یہ ہے کہ تو میرے ساتھ رہے گا وہ داخل نہ ہو گا.تو اس چھوٹی سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے عشق و محبت کے بے انتہاء باب کھول دئے ہیں یا اے (٣٦) آيت إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ) انشراح : ، ، میں پوشیدہ اشارات کا ذکر بایں الفاظ کرتے ہیں :.لے خطبات محمود جلد اول ص ؟ '.

Page 116

HA " العسو جو دوباره بیان فرمایا اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام پر دو تاریک زمانے آنے والے ہیں ایک زمانہ تو وہ تھا جو بعثت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوا اور آپکی زندگی میں ہی ختم ہوگیا.تمام تکالیف و مصائب اور محمله مشکلات جو اسلام کے راستہ میں دشمنوں کی طرف سے کھڑی کی گئیں وہ رسول کریم صلى ال علیہ وسلم کی زندگی میں ہی آپ کی دعاؤں اور آپ کی قربانیوں کی وجہ سے ختم ہو گئیں اور آپ کی وفات ایک فاتح جرنیل کی حیثیت سے ہوئی اور آیت اِن مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا میں اسی کی طرف اشارہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ اسے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) جو تنگیاں اور تکالیف تجھے پہنچ رہی ہیں ان کے بعد خد اتعالے کی طرف سے بہت بڑی کامیابیاں تجھے ملنے والی ہیں.تنگیاں تو " ال“ لگا کر محصور و محدود بتائی ہیں مگر سہولت نکرہ کی طرح وسیع ہوگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تنگی کا زمانہ سارا ۲۳ ۲ سال ہے مگر اس کے مقابلہ میں اسلامی فتوحات کا زمانہ اتنا لمبا ہے کہ وہ تنگیاں اور تکالیف اس کے سامنے پہنچے ہیں یا اے فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُشْرِ يُسْرًا میں اللہ تعالیٰ نے ایک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عظیم الشان لے خطبات محمود جلد سوم ص 4

Page 117

۱۱۶ انعامات کا وعدہ فرمایا ہے اور اسے دہرا کر اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ آخری زمانہ میں اسلام پر پھر مشکلات اور مصائب آنیوالے ہیں مگر اسے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم تیری قربانیاں اتنی بڑھی ہوئی ہیں کہ دوبارہ جب اسلام پر تنگی اور تکالیف کا زمانہ آئے گا تو انہی کے طفیل ہم دوبارہ ٹیسر پیدا کر دیں گے.آخری زمانہ کی تنگیوں کی قیمت بھی ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی قربانیوں کی صورت میں وصول کرلی ہے اور یہی قربانیاں دوبارہ اسلام کے لئے رحمت اور فضل کا دروازہ کھولنے کا ذریعہ بن جائیں گی.(٣٤) آيت فيها كتب قيمة (البینہ : ہم سے قرآنی حقائق کی جامعیت کا استدلال کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ : در حقیقت قرآن کریم میں ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ جب وہ کوئی مضمون لیتا ہے تو اس کے تمام متعلقہ مضامین کو اس کے نیچے تہ بہ تہ جمع کر دیتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح زمین کے طبقات ہوتے ہیں....وہ سب مطالب جو قرآنی الفاظ کی تہوں میں چھپے ہوئے ہیں اگر باہر نکال لئے جاتے اور ظاہری الفاظ میں انہیں بیان کیا جاتا تو جیسے اس زمین کے اندر کی چیزیں اگر باہر آجائیں تو وہ چیزیں پھیل کر سینکڑوں میل کا علاقہ رک جاتا اسی طرح قرآن کریم بھی اتنا پھیل جاتا کہ کوئی انسان اسے پڑھ نہ سکتا اور یہ کتاب نہ رہتی بلکہ ایک عظیم الشان

Page 118

114 لائبریری ہو جاتی اور اس میں ہزاروں کتب رکھی ہوئی ہوتیں.ایک نسل انسانی کهہ دیتی کہ ہم نے اس کے پانچ سو صفحات پڑھتے ہیں.دوسری کہتی ہم نے اس کے ایک ہزار صفحات پڑھے ہیں لیکن آب قرآن کریم ایک چھوٹی سی کتاب کی شکل میں ہے اور زمین کی طرح اسکی ایک تہ کے نیچے ایک مضمون ہے، دوسری تہ کے نیچے دوسرا مضمون ہے، تیسری تہ کے نیچے تیسرا مضمون ہے اور اسی طرح تھوڑے سے الفاظ میں ہزاروں مضامین بیان کر دئے گئے ہیں حفظ کر نیوالے اسے آسانی سے حفظ کر سکتے ہیں اور پڑھنے والے اسے جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم نے کہا ہے كه فيها كتب قيمة یعنی اس کے اندر تمام ایسی تعلیمیں پائی جاتی ہیں جو قیامت تک کام آنے والی ہیں اور کوئی ایسی تعلیم جو دائمی ہو اس سے باہر نہیں رہی.اسی شان اور عظمت کے اظہار کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک نام قرآن مجید بھی رکھا اور دنیا میں یہ اعلان فر ما دیا وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامُ وَ الْبَحْرُ يَمُدُّهُ من بَعدِ سَبْعَةُ ابحرِ مَا نَفِدَتْ كَلِمَتُ اللهِ القَمَن : ۲۸) یعنی زمین میں تمہیں جس قدر درخت دکھائی دیتے ہیں اگر ان تمام کو کاٹ کاٹ کر فلمیں بنا لیا جائے اور سمند رسیا ہی بنا دیا جائے اور پھر اور سمندروں کا پانی بھی سیاہی بنا دیا جائے اور ان قلموں اور سیاہی سے اللہ تعالیٰ کے کلمات لکھے جائیں تو دنیا بھر کے درختوں

Page 119

اور باغات کے درختوں کی قلمیں ٹوٹ جائیں گی اور ساتوں سمندروں کی سیاہی ختم ہو جائے گی مگر قرآنی میمند رپھر بھی بھرا ہوا ہی کھائی دے گا اور اس کے معارف کبھی ختم ہونے میں نہیں آئیں گے کیونکہ جس طرح خدا مجید ہے اسی طرح یہ قرآن بھی مجید ہے (البرج) اور بڑی شان اور عظمت کا کلام ہے.دنیا پر کوئی زمانہ ایسا نہیں آسکتا جس میں قرآن مجید لوگوں کی راہنمائی کرنے سے قاصر ہو وہ ہر زمانہ میں ایک نئی شان سے جلوہ گر ہوتا ہے اور مخالفین اسلام کی آنکھوں کو اپنی چمک سے خیرہ کر دیتا ہے.وہ تورات اور ژوند اوستا اور وید کی طرح ایک مردہ کتاب نہیں جو ہر نہ مانہ کی مشکلات کا حل پیش کرنے سے قاصر ہو بلکہ وہ ایک زندہ کتاب ہے جس سے ہر زمانہ میں زندگی کا تاندہ سامان لوگوں کو میستر آ سکتا ہے اور وہ معارف اور حقائق کا ایک ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم ہونے میں نہیں آسکتا ہی لے (۲۸) آپ کے نزدیک سورہ کوثر پوری دنیائے اسلام خصوصاً اہل پاکستان کے لئے دائمی مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ فرماتے ہیں:.إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَه فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُهِ إِنَّ شائِكَ هُوَ الابترہ کے الفاظ کو ایک رنگ میں رسول کریم لے تغیر کبیر جلد نجم حصہ سوم صفحه ۳۵۶- ۳۵۸ ہے

Page 120

119 صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں ہوتے ہیں مگر ایک رنگ میں آج پاکستان کے ہر فرد کے سامنے یہ الفاظ رہنے چاہئیں اِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ خدا نے آپ لوگوں کو ایک آزاد حکومت دے دی ہے جس میں اسلامی طریقوں پر عمل کرنے کا آپ لوگوں کے لئے موقع ہے.اب اس دوسرے حصے کو پورا کرنا مسلمانوں کا کام ہے.فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں عبادتیں بجالائیں اور اپنی زندگی کو اسلامی زندگی بنائیں اس کے ساتھ ہی وہ اپنے ملک اور اپنی قوم اور اپنے مذہب کی عزت بچانے کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہو جائیں.یہ دو چیزیں ایسی ہیں کہ اگر مسلمان ان پر عمل کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان سے وعدہ کرتا ہے کہ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ وہ دشمن جو آج انہیں کچلنا چاہتا ہے خود کچلا جائے گا، وہ دشمن جو انہیں تباہ کرنا چاہتا ہے خود تباہ ہو جائے گا....یہ ایک چھوٹی سی سورت ہے مگر قومی فرائض اور ذمہ داریوں کی و تفصیل جو اس سورۃ میں بیان کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ سے امداد حاصل کرنے کے وہ ذرائع جو اس سورۃ میں بیان کئے گئے ہیں اُن کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سورۃ آج ہر پاکستانی کے سامنے رہنی چاہئیے ؟ اسے (۲۹ سوره فیل اور سورۂ ایلف کی نسبت حضرت مصلح موعود کی الہامی تفسیر له الازهار لذوات الخمار حصہ دوم ص ۳ طبع دوم به

Page 121

حسب ذیل ہے :." یہاں وہ مضمون آتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں صرف مجھے پر کھولا ہے اور حسین کی طرف تیرہ سو سال تک مسلمانوں کی توبہ نہیں گئی.وہ مضمون یہ ہے کہ دو سورتیں یعنی سورہ الفیل اور سورہ ایلان اس حقیقت کا اظہار کرتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بلکہ آپ کی پیدائش سے بھی پہلے آپ کے دشمنوں اور دوستوں نے تیاری شروع کر دی تھی....اس سورۃ میں در حقیقت آخری زمانہ کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے اور مسلمانوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ....پھر ایک زمانہ میں عیسائی دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت اور آپ کی قوت کو مٹانے کی کوشش کرے گی اور رستی دیتا ہے کہ تمہیں مایوس نہیں ہونا چاہیئے جس خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہونے سے بھی پہلے آپ کا ادب اور احترام کیا تھا اس خدا کے متعلق کون یہ خیال بھی کر سکتا ہے کہ وہ آپ کی پیدائش کے بعد، آپ کے دعوی نبوت کے بعد آپ کی بے مثال اور حیرت انگیز قربانیوں کے بعد، آپ کی خدا تعالیٰ سے بے انتہا محبت کے اظہار کے بعد، آپ کی اعلیٰ درجے کی نیک اور پاک جماعت دنیا میں قائم ہو جانے کے بعد، آپ کی کامل اور ہر قسیم کے نقائص سے منزہ شریعت لوگوں کے سامنے پیش ہو جانے کے بعد، آپ کے دین اور مذہب کے تمام دنیا میں پھیل جانے کے بعد

Page 122

۱۲۱ اب اس بہتک کو برداشت کر لے گا کہ اُسے تباہ ہونے دے اور دشمن کو اس کے بد ارادوں میں کامیاب کر دے.کوئی عقلمند جو ذرا بھی ان واقعات پر نگاہ رکھنے والا ہو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان رکھتے ہوئے ایک لحظہ کے لئے بھی یہ بات نہیں مان سکتا کہ اس مقابلہ میں عیسائیت کو کامیابی حاصل ہو سکتی یقینا ایک مسلمان کے لئے اس شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ وہ مگر جو اسلام اور عیسائیت میں ہونے والی ہے اس کا وہی کچھ نتیجہ نکلے گا جواہرعہ کے وقت میں نکلا جب کہ وہ خانہ کعبہ سے ٹکر لینے کے لئے آیا ہے اے ۳۰) سورۃ النصر کی عارفانہ تفسیر ملاحظہ ہو : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے فتح کے ساتھ ہی استغفار کا ارشاد فرمایا ہے کیونکہ کسی قوم کو بڑھنے اور ترقی کرنے کا جو وقت ہوتا ہے وہی وقت اُن کے تنزل کے اسباب کو بھی پیدا کرتا ہے اور جب کوئی قوم بڑھ جاتی ہے اُسی وقت اُس میں فساد اور فتنے بھی شروع ہو جاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ قوم ہیں ایسے لوگ آجاتے ہیں جو نبی کی خدمت اور محبت میں نہیں رہے ہوتے ، اچھی طرح آلائشوں سے پاک وصاف نہیں ہوتے اور جنہیں وہ مشکلات ۲۱۸۸۶۱۸۷ ،۱۳۵ تفسیر کبیر جلد ششم جز چهارم حقه سوم صفحه و

Page 123

۱۲۲ پیش نہیں آئی ہو تیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے بندوں کو پاک کرنے کے لئے مقرر فرمائی ہوئی ہیں اس لئے وہ فتنہ فساد پیدا کرتے ہیں اور قوم کو تباہی کے گھاٹ اتارنا چاہتے ہیں.آپ لوگ اس مضمون کو غور سے سنیں اس کا کچھ حصہ علمی اور تاریخی ہے اس لئے ممکن ہے کہ بعض کومشکل معلوم ہو لیکن یہ وہ بات ہے اور یکس کامل یقین سے کہتا ہوں یہ وہ بات ہے جو خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تو بیان فرمائی ہے لیکن آج تک کیسی نے اسے قرآن شریف سے سیکھ کر بیان نہیں کیا.مجھے خدا تعالٰی نے سکھائی ہے اور اس بات کا موقع دیا ہے کہ آپ لوگوں کو سناؤں.پس جو شخص اسے سنے گا پھر اس پر عمل کرے گا وہ کامیاب اور با مراد ہو جائے گا یا ہے اور بالآخر قرآن کا خلاصہ حضور یہی کے الفاظ میں درج ہے:." بشیر اللہ کی اب اسے لے کر والناس کی س سیرک قرآن کریم کا ایک ایک کلمہ ، اس کا ایک ایک لفظ اور اس کا ایک ایک حرف خدا تعالیٰ کی طرف سے بندے کے لئے سلام کا پیغام ہے کہ آیا ہے اور له انوار خلافت مو

Page 124

۱۲۳ اپنے اندر اتنی طاقت رکھتا ہے کہ آپ بھی مسلمان خدا تعالیٰ کے پیغام کے جواب کے لئے تیار ہو جائیں اور اس کی اطاعت کے لئے اپنے دلوں کے دروازے کھول دیں تو یقینا ان کی دُنیا بدل سکتی ہے پیاسے سچ فرمایا حضرت مصلح موعود نے کہ : میر سے ظاہری علم کو لیا جائے تو کسی صورت میں بھی عالم نہیں کوملا سکتا مگر میں نے قرآن کو قرآن سمجھ کر پڑھا اور اس سے فائدہ اُٹھایا....کوئی مضمون ہو بغیر سوچنے کے کھڑا ہوتا ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ پر علم کے دروازے کھول دیتا ہے.خدا تعالیٰ نے مجھ پر قرآن کریم کے ایسے ایسے نکات ظاہر کئے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت اقدس.ناقل ) کو مستثنی کر کے اس تیرہ سو سال کے عرصہ میں کسی سے ظاہر نہیں ہوئے پایا تے آٹھواں پہلو ( قرآن ہمہ گیر شریعت ہے) قرآن مجید کی ایک امتیازی شان یہ ہے کہ وہ مکمل ضابطہ حیات ہے.تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ دوم ص + له الازهار لذوات الخمار صفحه ۲۳۷۰۲۳۶

Page 125

۱۲۴ جیسا کہ فرماتا ہے :- اليوم المَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المائدة )) پچھلی صدیوں میں یورپ کے دانشوروں نے اس قرآنی دعوئی کا مذاق اڑایا چنانچہ ایک برطانوی مصنف لیفٹیننٹ ولیم ہر برٹ ( LEIUT: ( WILLIAM HERBERT (جس نے فوجی جرنیل کی حیثیت سے ۱۸۷۷ء میں قمر کی اور روس کی جنگ میں ترکی کی طرف سے حصہ لیا تھا ، اپنی کتاب و مجار به پیوند میں لکھتا ہے :.در اسلام کی اہم ترین اور سب سے بڑی غلطی جو ایک دن میری رائے میں ضرور مہلک ثابت ہو گی یہ ہے کہ وہ اپنے تئیں (یعنی مسلمان اپنے مذہب کو ایسا کامل و مکمل سمجھتے ہیں جس میں اصلاح و ترسیم کی گنجائش نہ رہ گئی.اس غلط فہمی کی وجہ سے وہ زمانہ کی روز افزوں شائستگی اور ترقی کے قدم بقدم نہیں چل سکتا اور غلطی توحید کاملہ اور مذہب کے اعلیٰ ترین حصول سے بھی مانع ہے یا اے اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود کو چونکہ ہر پہلو سے قرآنی عظمتوں اور فیتوں کو نمایاں کرنے کے لئے بھیجا تھا اس لئے آپ نے مغرب کے اس زہریلے پراپیگنڈا له محاربات ملیونه حصہ اول صد اُردو ترجمہ مطبوعہ حمیدیہ اینجلیسی لاہور +119.0

Page 126

۱۲۵ کا پُر زور جواب دیا اور اپنی کتابوں ، تفسیروں اور تقریروں میں ثابت کیا کہ اسلام اور قرآن زندگی کے ہر شعبے کی رہنمائی کرتے ہیں اور نہ صرف مذہبی اور دینی علوم بلکہ اخلاقیات، سیاسیات ، نفسیات ، معاشیات اور عمرانیات غرض کہ انسانی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا موجود نہیں جس کے بارہ میں قرآن مجید میں جامعیت کے ساتھ دائمی تعلیمات موجود نہ ہوں.یہ پراپیگنڈا بر طانیہ سے اٹھا تھا اور حضور نے ۶۱۹۲۴ کی برطانوی ویلے کا نفرنس WEMBLEY CONFERENCE میں ہی لیکچر دیا جس میں اسلام کو ایک کامل مکمل دین کی حیثیت سے پیش فرمایا جس سے علمی حلقے بہت متاثر ہوئے.ویلے کا نفرنس ( CONFERENCE میں آپ نے اللہ تعالیٰ کے خصوصی القاء کے ماتحت ایک ایسا عظیم الشان انکشان فرمایا جس کے متعلق یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ گذشتہ تیرہ سو سال کے مفسرین میں سے قطعی طور پر کسی نے نہیں کیا.وہ انکشا (WEMBLEY یہ تھا کہ قرآن مجید نے عالمی امن کے قیام کے لئے ایک اسلامی لیگ آف نیشنز دیا موجودہ اصطلاح کے مطابق اسلامی 4.۵م کے ایک مکمل اور خود مختار ادارہ کا تخیل پیش فرمایا ہے اور جب تک اقوام عالم اس سے وابستہ نہ ہوں دُنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے فرمایا.جھگڑوں کو مٹانے کے لئے ایک عجیب حکم دیا ہے جسے آج ہم لیگ آف نیشنز (LEAGUE OF NATIONS ) کی شکل میں دیکھتے ہیں لیکن ابھی تک یہ لیگ ویسی مکمل نہیں ہوئی جس حد تک کہ اسلام اسے لے جانا چاہتا ہے.اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ وادی

Page 127

طار يفتنِ مِنَ الْمُؤمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا.فَإِنْ بَغَتْ احد يهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِى حَتَّى تَقى إلى امرِ اللهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا اِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (الحجرات : 10) یعنی اگر دو قومیں مسلمانوں میں سے آپس میں لڑ پڑیں تو ان کی آپس میں صلح کرا دو یعنی دوسری قوموں کو چاہیے کہ بیچے نہیں پڑ کر ان کو جنگ سے روکیں اور جو وجہ جنگ کی ہے اس کو مٹائیں اور ہر اک کو اس کا حق دلائیں لیکن اگر با وجود اس کے ایک قوم باز نہ آئے اور دوسری قوم پر حملہ کر دے اور مشتر کہ انجمن کا فیصلہ نہ مانے تو اس قوم سے جو زیادتی کرتی ہے سب قومیں مل کر لڑو یہاں تک گر خدا کے حکم کی طرف وہ کوٹ آئے یعنی ظلم کا خیال چھوڑ دے پس اگر وہ اس امر کی طرف مائل ہو جائے تو ان دونوں قوموں میں پھر صلح کرا دو مگر انصاف اور عدل سے اور مروت سے کام لو اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.اس آیت میں بین الاقوامی ضلع کے قیام کے لئے مندرجہ ذیل لطیف گر بتائے ہیں :- سب سے اول جب دو قوموں میں لڑائی اور فساد کے آثار ہوں معا دوسری قومیں بجائے ایک یا دوسری کی طرفداری کرنے کے ان دونوں کو نوٹس دیں کہ وہ قوموں کی پنچائت سے اپنے جھگڑے کا

Page 128

۱۲۷ فیصلہ کرائیں اگر وہ منظور کر لیں تو جھگڑا مٹ جائے گا لیکن اگر ان میں سے ایک نہ مانے اور لڑائی پر تیار ہو جائے تو دوسرا قدم یہ اُٹھایا جائے کہ باقی سب اقوام اس کے ساتھ مل کر لڑیں ظاہر ہے کہ سب اقوام کا مقابلہ ایک قوم نہیں کر سکتی ضرور ہے کہ جلد اس کو ہوش آ جائے اور وہ مصلح پر آمادہ ہو جائے.پس جب وہ صلح کے لئے تیار ہو تو تیسرا قدم یہ اٹھائیں کہ ان دونوں قوموں میں جن کے جھگڑے کی وجہ سے جنگ شروع ہوئی تھی صلح کرا دیں یعنی اس وقت اپنے آپکو فریق مخالف بنا کر خود ہی اس سے معاہدات کرنے نہ بیٹھیں بلکہ اپنے معاہدات کو جو پہلے تھے وہی رہنے دیں صرف اس سے پہلے جھگڑے کا فیصلہ کریں جس سبب سے جنگ ہوئی تھی اب جنگ کی وجہ سے نئے مطالبات قائم کر کے ہمیشہ کے فساد کی بنیاد نہ ڈالیں.چوتھے یہ امر مد نظر رکھیں کہ معاہدہ انصاف پر مبنی ہو یہ نہ ہو کہ چونکہ ایک فریق مخالفت کر چکا ہے اس لئے اس کے خلاف فیصلہ کر دو.باوجود جنگ کے اپنے آپ کو ثالثوں کی ہی صف میں رکھو فریق مخالف نہ بن جاؤ.ان امور کو یہ نظر رکھ کر اگر کوئی انجمن بنائی جائے تو دیکھو دنیا میں کسی طرح بین الاقوامی مصلح ہو جاتی ہے یا اے پھر حضور نے ۱۹۳۲ء میں فرمایا :- له احمدیت یعنی حقیقی اسلام نوشته ۱۱۹۲۴ صفحه ۲۲-۲۲۹ ۵

Page 129

۱۲۸ 31 چونکہ اسلام کے اصول نہایت بیچتے ہیں اس لئے جب میں اسلام کے اصول کے ماتحت کسی علم کو دیکھتا ہوں تو اس کا سمجھنا میرے لئے نہایت آسان ہو جاتا ہے.کوئی علم ہو خواہ وہ فلسفہ ہو یا علم النفس ہو یا سیاست ہو ئیں اس پر جب بھی غور کر وں گا ہمیشہ صحیح نتیجہ پر پہنچوں گا.یہی وجہ ہے کہ دنیا کا کوئی علم ایسا نہیں جس کے اصول کو لیکن نہ سمجھتا ہوں بغیر اس کے کہ میں نے ان علوم کی کتابیں پڑھی ہوں مجھے خدا تعالیٰ نے ان کے متعلق علم دیا ہے اور چونکہ میکس قرآن کے ماتحت ان علوم کو دیکھتا ہوں اس لئے ہمیشہ صحیح نتیجہ پر پہنچتا ہوں اور کبھی ایک دفعہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے اپنی رائے کو تبدیل کرنا نہیں پڑا.بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ ان علوم کے جاننے والوں سے میری گفت گو ہوئی اور گفت گو کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ کا مطالعہ اس علم میں نہایت وسیع معلوم ہوتا ہے حالانکہ میں نے اس علم کے متعلق ایک کتاب بھی نہیں پڑھی تھی.عرض میں نے قرآن مجید کے ماتحت ہر علم کو دیکھا اور اب اس کی وجہ سے قرآن مجید سے باہر کسی چیز کی ضرورت نہیں سوائے ان تفاسیر کے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت اقدس.ناقل ) نے کیں اور وہ بھی قرآن کا ایک حصہ ہی ہیں اس سے باہر نہیں لے له الفضل قادیان ، جولائی ۱۹۳۲ء مث و

Page 130

۱۲۹ یہاں اس دعوای کی حقانیت کی ایک درخشندہ مثال پیش کئے بغیر نہیں رہتا اور وہ یہ ہے کہ سوویٹ انقلاب ( Soviet Revolution) کے پہلے قائد لینن (LENIN) نے ۲۰ مئی ۱۹۲۰ء کو ہندوستان کے سوشلسٹوں ( SOCIALISTS ) کے نام خصوصی پیغام بھیجا کہ ہم سلم اور غیر مسلم عناصر کے بچے اتحاد کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس بات کے خواہشمند ہیں کہ یہ اتحاد مشرق کے تمام محنت کشوں کو اپنے آغوش میں لے لے کیونکہ صرف اسی طرح استحصال کر نیوالوں کے مقابلہ میں فیصلہ کن فتح یقینی ہو سکتی ہے.یہ پیغام آزاد ایشیا زندہ باد کے نعرہ پر ختم ہوا ہے اس پیغام اور اشتراکی لیڈروں کے براہ راست ہندوستانی مزدوروں سے روابط اور دلچسپی کے نتیجہ میں متحدہ ہندوستان (جو اس وقت سیاسی اتار چڑھاؤ کی آماجگاہ بنا ہوا تھا ، چند سالوں کے اند ر روسی خیالات کا زبر دست مرکز بن گیا اور بعض کا نگریسی لیڈروں کی پشت پنا ہی نے اس کی مقبولیت کے بڑھانے میں بڑا سرگرم حصہ لیا حتی کہ بعض چوٹی سے مسلم حلقے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے عین اس وقت سید نا محمد مصلح موعود مضطرب دل لئے میدان عمل میں آئے اور آپ نے اسلام کے نظام اقتصاد کی برتری دنیا کے تمام ازموں، خصوصا اشتراکیت پر ثابت کر دکھلائی اور نظام کو اور اسلام کا اقتصادی نظام جیسے ولولہ انگیز اور معلومات افروز اور معرکہ آرا لیکچر دئے ے پنجاب کی سیاسی تحریکیں از عبد الله ملک صفحه ۱۰۶ ۱۰۸ ؛

Page 131

جس نے اشتراکیت کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیا دوسری طرف خدا کے اس جرسی پہلوان نے یہ اعلان کیا کہ ایک سچا اور غیور مسلمان اور عاشق رسول اشتراکی تحریک کو کبھی برداشت نہیں کر سکتا.چنانچہ آپ نے نہایت پر شوکت انداز میں فرمایا کہ :.جہاں تک واقعات کا سوال ہے کمیونسٹ نظام میں ان لوگوں کی کوئی جگہ نہیں.کہیں دوسری دنیا کو نہیں جانتا مگر یکیں اپنے متعلق یہ کہ سکتا ہوں کہ وہ نظام جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ نہیں خدا کی قسم اس میں میری بھی جگہ نہیں ہم اسی ملک کو اپنا ملک اور اس نظام کو اپنا نظام سمجھتے ہیں جس میں ان لوگوں کو پہلے جگہ ملے اور بعد میں ہمیں جگہ ملے وہ ملک اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بند ہے تو یقیناً ہر سچے مسلمان کے لئے بھی بند ہے وہ حقیقت پر پردہ ڈال کر مذاہب پر عقیدت رکھنے والوں کو اس نظام کی طرف لا سکتے ہیں مگر حقیقت کو واضح کر کے کبھی نہیں لا سکتے کیا ہے اس کے برعکس شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال نے سر فرانس بینگ ہینڈ (SIR FRANCIS YOUNG HUSBAND ) کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا : ے اسلام کا اقتصادی نظام صفحہ ۱۶۶۷۶۵ ۷۰۱۶۷؛

Page 132

۱۳۱ اگر بالشوزم ( BOLSHOVISM ) میں خدا کی ہستی کا اقرار شامل کر دیا جائے تو بالشوزم اسلام کے بہت ہی قریب آجاتا ہے.اس لئے ایک متعجب نہ ہوں گا اگر کسی زمانے میں اسلام روس پر چھا جائے یاروس اسلام پیر یا اے اسی طرح متحدہ ہندوستان کے مشہور لیڈر جناب چودھری افضل حق صاحب دو مفکر احرار نے لکھا:.دو اسلام کو روس کے اقدامات سے کوئی خوف نہیں بلکہ اس کا اقتصادی پروگرام اسلامی پروگرام ہے.سوویٹ روس سرمایہ ار کے مقابلے میں غریبوں کا حامی ہے.اس کا اصول مساوات اسلامی شریعت سے ماخوذ ہے.اسلام سے پہلے صنف نازک کی حالت نہایت ذلیل تھی غلام پر عرصہ حیات تنگ تھا.غریب کی دُنیا تاریک تھی.اسلام نے دنیا کو مساوات کی بنیاد پر نئی تعمیر کی دعوت دی.روس کے اقدامات اس اسلامی دعوت کی تجدید ہیں یا تے چوہدری صاحب نے یہ بھی تحریر فرمایا :- " لوگ بجاطور پر پوچھتے ہیں کہ احرار کو کیا ہو گیا کہ مذہب کی دلدل ے مطبوعہ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور ۳۰ جولائی ۱۹۳۰ء کو الہ چٹان لاہور ۱۹ دسمبر ۱۹۶۵ م و نه سوشلزم ایک مسلمان کی نظر میں از چودھری افضل حق ترتیب محمد مهدی انور کلاسیک لاہور :

Page 133

۱۳۲ میں پھنس گئے یہاں پھنس کر کون نکلا ہے جو نہ نکلیں گے ؟ مگر یہ کون لوگ ہیں ؟ وہی جن کا دل غریبوں کی مصیبتوں سے خون کے آنسو روتا ہے.وہ مذہب اسلام سے بھی بیزار ہیں اس لئے کہ اس کی ساری تاریخ شہنشاہیت اور جاگیر داری کی دو ناک کہانی ہے کسی کو کیا پڑی کہ وہ شہنشاہیت کے خس و خاشاک کے ڈھیر کی چھان بین کر کے اسلام کی سوئی کو ڈھونڈے تا کہ انسانیت کی چاک دامانی کا رفو کر سکے اس کے پاس ۲۸) کے سائنٹیفک سوشلزم کا ہتھیار موجود ہے.وہ اس کے ذریعے سے امراء اور سرمایہ ارون کارل مارکس () -(KARL MARX), کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے اسے اسلام کی اتنی لمبی تاریخ میں سے چند سال کے اوراق کو ڈھونڈ کر اپنی زندگی کے پروگرام بنانے کی فرصت کہاں لے یا د ہیں قرآن کے الفاظ تو اُن کو تمام اور پوچھیں تو ہیں کہتے یہ ہے اللہ کا کلام یقین مفقود ہے ایمان ہے بالکل ہی خام علم و عرفاں کی غذا ان پر ہے قطعاً رہی حرام تیرے بندے اسے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں نے ای این موارد در فصل من امیر علی اور اسلام پاکستان ای دو بار کے کلام کو نشا

Page 134

١٣٣ نواں پیلو قرآن اور عہد حاضر کے جدید سائنسی انکشافات کلام اللہ کے مرتبہ کا ایک اور عظیم الشان ظهور حضرت مصلح موعود کی ذات گرامی سے اس طرح ہوا کہ حضور نے یورپ کے باطل فلسفہ کے مقابل پر قرآن مجید کی صداقتوں کو اجاگر کیا اور بے شمار ایسے علمی انکشافات قرآن سے ثابت کر کے دکھلا وئے جن کا موجودہ زمانہ سے پہلے نام و نشان نہیں ملتا اور مغربی دنیا کی رسائی بڑے طویل اور کٹھن تجربوں کے بعد ان تک ہوسکی.سر مارچ ۱۹۲۷ ء کا واقعہ ہے کہ حضور کا ایک لیکچر " مذہب اور سائنس کے موضوع پر جبیبیہ ہال لاہور میں شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال کی صدارت میں ہوا حضور نے اڑھائی گھنٹہ تک تقریر فرمائی اور قرآن و حدیث کو سائنس اور علوم جدیدہ کی بعض نئی تحقیقا توں کے بالمقابل رکھ کر کئی مثالوں سے واضح فرمایا کہ سائنس نے جو باتیں آج دریافت کی ہیں ان کا انکشاف تیرہ سو سال پہلے قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں.یہ علمی لیکچر ہر پہلو سے نہایت کامیاب لیکچر تھا.چنانچہ ڈاکٹر سرمحمد اقبال نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ :." ایسی پر معلومات تقریر بہت عرصہ کے بعد لاہور میں سننے میں آئی ہے اور خاص کو جو قرآن شریف کی آیات سے مرزا صاحب نے استنباط کیا ہے وہ تو نہایت عمدہ ہے.میں اپنی تقریر کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھ سکتا تا مجھے اس تقریر سے جو لذت حاصل ہو رہی

Page 135

۱۳۴ ہے وہ زائل نہ ہو جائے اس لئے میں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں یا اے قیام پاکستان سے قبل حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ایک دفعہ پنجاب یونیورسٹی کے ایک پروفیسر مسٹر گوری حاضر ہوئے تو حضور نے زراعت کے متعلق جب قرآنی تحقیق بیان فرمائی تو وہ دنگ رہ گئے.اس ایمان افروزواقعہ کی تفصیل حضرت مصلح موعود نے بایں الفاظ بیان فرمائی ہے :.و پنجاب یونیورسٹی کا ایک پروفیسر تھا جس کا نام مسٹر گوری تھا.وہ ایک دفعہ قادیان آیا.وہ گورنمنٹ کی طرف سے اس تحقیقات پر مقرر کیا گیا تھا کہ اپنے ملک کے زمینی اجزاء دیکھ کر معلوم کرے کہ اُن میں کیمیاوی اجزاء کتنے ہیں اور وہ کسی حد تک گندم یا دوسری چیزیں پیدا کر سکتے ہیں ؟ وہ مجھے ملا اور کہنے لگا کہ میرا علم اس بارہ میں بڑا وسیلے ہے اور آپ کو مجھے جیسا کوئی اور آدمی نہیں ملا ہوگا.مجھے کومنٹ نے خاص طور پر اس کام کے لئے مقرر کیا ہے اور میری تحقیقات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ڈھائی سو من تک فی ایکڑ گندم پیدا ہوسکتی ہے اور مجھے اپنی اس تحقیق پر بڑا ناز ہے.اس نے لاہور کے پاس ایک بہت بڑی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بنائی تھی.وہی جگہ بعد میں ہمیں بھی الاٹ ہوئی تھی اور کچھ عرصہ تک ہماری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی وہیں رہی.جب اس نے یہ بات کہی تو میں نے کہا " اڑھائی سو من بہ قرآن کریم له الفضل ۱۵ مارچ ۶۱۹۲۷ مث

Page 136

۱۳۵ سے تو پتہ لگتا ہے کہ سات سو من تک پیداوار ہو سکتی ہے.وہ یہ شنکر بالکل گھبرا گیا اور کہنے لگا قرآن کریم میں یہ لکھا ہے !! ؟ یکس نے کہا ہاں ! قرآن میں ذکر ہے.کہنے لگا پھر مجھے وہ آیت لکھوا دیں.چنانچہ میں نے اپنے سیکر ٹری کو بلا کر کہا کہ یہ آیت اسے لکھ کر دے دیں.وہ کہنے لگا مجھے اس کا بالکل علم نہیں تھا یہ تو بالکل نیا علم ہے اور ابھی ہند وستان میں شروع بھی نہیں ہوا ایک پہلا آدمی ہوں جس نے اس کی تحقیقات شروع کی ہے اور یورپ کی سٹڈی (STUDY) کر کے مجھے اس کام پر مقرر کیا گیا ہے.میں نے کہا سات سو من ہی نہیں قرآن کہتا ہے وَاللهُ يُضَاعِفُ لمن يشاء اللہ تعالیٰ چاہے تو سات سو سے بھی بڑھاوے.کہتے لگا میری تحقیقات اس وقت تک صرف اتنی ہی ہے کہ ہما رے ملک میں اتنے کیمیاوی اجزاء موجود ہیں کہ فی ایکٹر اڑھائی سومن تک گندم پیدا ہو سکتی ہے مگر جو باہر کی کتابیں ہیں نے پڑھی ہیں اُن سے چار سو من تک پتہ چلتا ہے.میں نے کہا پھر ان کتابوں سے بھی بڑھ کر قرآن کریم میں علم موجود ہے قرآن کہتا ہے کہ فی ایکٹر سات سومین تک گندم ہوسکتی ہے ؛ لے الغرض جہاں تک فلسفہ اور تحقیقات جدیدہ کے مقابل پر قرآنی عظمت کے قیام لے سیر روحانی جلد سوم صفحه ۶۶۷۶۵ به

Page 137

۱۳۹۶ کا تعلق ہے، حضرت مصلح موعود کے ذریعہ اس کا بھی پوری آب و تاب کے ساتھ اظہار ہوا اور اس طرح حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی یہ پیش گوئی لفظا لفظاً پوری ہو گئی کہ : اس زمانہ میں جو مذہب اور علم کی نہایت سرگرمی سے لڑائی ہو رہی ہے اس کو دیکھ کر اور علم کے مذہب پر حملے مشاہدہ کر کے بیدل نہیں ہونا چاہیئے کہ اب کیا کریں یقینا سمجھو کہ اس لڑائی میں اسلام کو مغلوب اور عاجزہ دشمن کی طرح مصلح جوئی کی حاجت نہیں بلکہ آب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے جیسا کہ وہ پہلے کسی وقت اپنی ظاہری طاقت دکھلا چکا ہے.یہ پیش گوئی یاد رکھو عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن وقت کے ساتھ پ پا ہوگا اور اسلام فتح پائے گا.حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زور آور حملے کریں کیسے ہی نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ چڑھ چڑھ کر آویں مگر انجام کار اُن کے لئے ہزیمت ہے.ہمیں شکر نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ اسلام کی اعلی طاقتوں کا مجھ کو علم دیا گیا ہے جس علم کی رو سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اسلام نہ صرف فلسفۂ جدیدہ کے حملہ سے اپنے تئیں بچائے گا بلکہ حال کے علوم مخالفہ کی جہالتیں ثابت کر دے گا.اسلام کی سلطنت

Page 138

۱۳۷ کو ان چڑھائیوں سے کچھ بھی اندیشہ نہیں ہے جو فلسفہ اور طبعی کی طرف سے ہو رہی ہیں.اس کے اقبال کے دن نزدیک ہیں اور یکں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں.یہ اقبال روحانی ہے اور فتح بھی روحانی تا باطل علم کی مخالفانہ طاقتوں کو اس کی الہی طاقت ایسا ضعیف کر دہونے کہ کالعدم کر دیوے....یادر ہے مشر آن کا ایک نقطہ یا شعہ بھی اولین اور آخرین کے فلسفہ کے مجموعی حملہ سے ذرہ سے نقصان کا اندیشہ نہیں رکھتا.وہ ایسا پتھر ہے کہ جس پر گرے گا اس کو پاش پاش کرے گا اور جو اس پر گرے گا وہ خود پاش پاش ہو جائے گا یہ اے و شوان پیلو ا قرآن مجید میں نہیں خبروں کی کثرتے) خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدْ رَاهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ، وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بضنيه ( التكوير : ۲۳، ۲۵) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیب کو یقیناً آئینہ کمالات اسلام حاشیه صفحه ۲۵۴، ۲۵۵، ۲۵۷، ۶۲۵۸

Page 139

۱۳۸ کھلے اُفق پر دیکھا ہے اور آپ غیب کی خبریں بتانے میں ہر گز بخیل نہیں.اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اخبار غیبیہ سے نوازا جو ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانوں پر مشتمل ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ :.كِتَابُ اللهِ فِيهِ نَبَأُ مَنْ قَبْلَكُمْ وَخَبَرُ مَنْ بَعَدَكُمْ...وَلَا تنقضي عجائبة له یا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تم سے پہلے اور بعد کی خبریں موجود ہیں اور اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کایہ حقیقت افروز فرمان ہر مفسر اور مورخ کیلئے قیامت یک مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے.یہ شرف اور سعادت بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود کے لئے ازل سے رکھی تھی کہ قرآن مجید سے تاریخ اسلام کے ہر اہم موڑ کے لئے کلام اللہ میں جو پہلے سے خبریں موجود ہیں یا جن کا واقعات عالم کے ساتھ گھرا تعلق ہے ان کو قرآن مجید سے منکشف کر دیکھائیں.حضور نے اس سلسلہ میں قرآن سے جو تاریخی انکشافات فرمائے وہ نہایت درجہ حیرت انگیز ہیں.یہ بات دوس مفترین سے یکسر او جھل رہی اور انہوں نے مستقبل سے متعلق تمام قرآنی پیشگوئیوں کو یا قیامت پر چسپاں کر دیا یا گذشتہ واقعات پر مگر حضرت الصلح الموعود نے اپنی كنز العمال في سنن الاقوال والأفعال - 19 للعلامة علاء الدين على المتقى.

Page 140

۱۳۹ تفسیر میں قرآن شریف کی ایسی بہت سی پیش گوئیوں کی نشاندہی فرمائی جو قرآن مجید میں موجود تھیں اور اب اس زمانہ میں پوری ہو چکی ہیں اور قرآن مجید اور آخرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر زندہ نشان کی حیثیت رکھتی ہیں مثلاً مغربی اقوام اور روس کی ترقی ، ہر سویز اور نہر پانامہ کی پیش گوئی ، دخانی جہازوں کی پیش گوئی ریل ، موٹر، ہوائی جہاز کی ایجاد کی پیش گوئی ، ایٹم ہم اور ہائیڈ روجن بم کی پیش گوئی کا سمک ریزہ اور بموں کی پیش گوئی، بادشاہتوں کی تباہی اور جمہوریتوں کے قیام کی پیش گوئی، چڑیا گھروں کے قیام کی پیشگوئی ، وحشی اقوام کے متمدن بن جانے کی پیش گوئی، پریس کے قیام اور کتابوں کی بکثرت اشاعت کی پیش گوئی ، علم ہیئت کی ترقی کی پیش گوئی علم طبقات الارض کی ترقی کی پیش گوئی ، چاند اور مریخ کے زمین کے ساتھ وابستہ ہونے کی پیش گوئی ، علماء ظواہر کے عظیم دین سے لیے بہرہ ہو جانے کی پیش گوئی وغیرہ سینکڑوں پیش گوئیاں تفسیر کبیر میں ملتی ہیں جن سے قرآن مجید کا زندہ کتاب ہونا ثابت ہوتا ہے.حضرت المصلح الموعود نے قرآنی آیات کی روشنی میں مستقبل کے متعدد النقلابات کے ظہور کا استدلالی تفسیر کبیر میں فرمایا جن میں سے بعض اس تفسیر کی اشاعت کے بعد ظاہر ہوئے مثلاً حضور نے مدتوں قبل سورہ بنی اسرائیل کی بعض قرآنی آیات سے استدلال کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ یہود نا مسعود کو سزا دینے کے لئے نہیں ایک دفعہ پھر فلسطین میں جمع کر دے گا.یہ پیش گوئی ۱۹۴۸ء میں پوری ہوگئی جس کے بعد حضرت مصلح موعود نے قرآنی آیت اَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ المَلِحُونَ (الانبیاء : ۱۰۶) کی تفسیر کرتے ہوئے یہ پیش گوئی فرمائی کہ :

Page 141

۱۴۰ " پھر یہودی وہاں سے نکالے جائیں گے اور لازہ گا اس کے معنے یہ ہیں کہ سارا نظام جس کو یو.این.او ( ۷۰.۵) کی مدد سے اور امریکہ کی مدد سے قائم کیا جارہا ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق دیگا کہ وہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں اور پھر اس جگہ پر لا کر مسلمانوں کو بسائیں.دیکھو حدیثوں میں بھی یہ پیشگوئی آتی ہے.حدیثوں میں یہ ذکر ہے کہ فلسطین کے علاقہ میں اسلامی لشکر آئے گا اور یہودی است بھاگ کر پتھروں کے پیچھے چھپ جائیں گے اور جب ایک مسلمان سپاہی پتھر کے پاس سے گزرے گا تو پتھر کہے گا اے مسلمان !خدا کے سپاہی !! میرے پیچھے ایک یہودی کا فر چھپا ہوا ہے اس کو مار جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تھی اس وقت کسی یہودی کا فلسطین میں نام و نشان بھی نہیں تھا.پس اس حدیث سے صاف پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیش گوئی فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ میں یہودی اس ملک پر قابض ہوں گے مگر پھر خدا مسلمانوں کو غلبہ دے گا اور اسلامی لشکر اس ملک میں داخل ہوں گے اور یہودیوں کو چن چن کر چٹانوں کے پیچھے باریں گے پس عارضی، میں اس لئے کہتا ہوں کہ اَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّلِحُونَ کا حکم موجود ہے مستقل طور پر تو فلسطین عبادی الصالحون کے ہاتھ میں رہتی ہے.سو خدا تعالیٰ کے عبادی الصالحون، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ لاز گا اُس ملک میں جائیں گے.نہ

Page 142

امریکہ کے ایٹم بم کچھ کر سکتے ہیں نہ ایک بم (BOMB.4 کچھ کر سکتے ہیں نہ روس کی مدد کچھ کر سکتی ہے.یہ خدا کی تقدیر ہے یہ تو ہو کر رہتی ہے چاہے دنیا کتنا زور لگا لے لے اب یکی ایک ایسا تفسیری نمونہ پیش کرتا ہوں جس سے قرآن کی عظمت کا سکہ ساری دنیا پر بیٹھ گیا اور قرآن کی فتح مبین کے نقارے ہر جگہ بچ گئے.آیت قرآنی ایک ہی ہے مگر اس میں دو تاریخی نشان دُنیا نے مشاہدہ کئے ان نشانوں میں سے ایک چودھویں صدی کے آغاز میں اور دوسرا چودھویں صدی کے اختتام پر حال ہی میں ظاہر ہوا ہے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ نے دیباچہ تفسیر القرآن میں تحریر فرمایا.یوروپین مصنفوں کا یہ خیال کہ قرآن کریم میں پیش گوئیاں نہیں بالکل غلط ہے.قرآن کریم شروع ہی پیش گوئی سے ہوا ہے چنا ہے اس کی پہلی چند آیتوں ہی میں جو غار حرا میں نازل ہوئی تھیں پیش گوئی کی گئی تھی کہ قرآن کریم کے ذریعہ وہ علوم بیان کئے جائیں گے جو اس سے پہلے انسان کو معلوم نہیں تھے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے وہ باتیں بیان کی ہیں جو پہلی کتابوں نے بیان نہیں کی تھیں اور اُن کی غلطیاں نکالی ہیں اور اس زمانہ میں اُن کی ه سیر روحانی جلد سوم صفحه ۵۲ ۶۵۳

Page 143

۱۳۲ تصدیق ہو رہی ہے.مثلاً قرآن کریم نے یہ بتایا تھا کہ فرعون کی لاش اس کے ڈوبنے کے وقت ہی بچائی گئی اور محفوظ کر دی گئی تھی تاکہ وہ آئندہ زمانہ کے لوگوں کے لئے نشان کے طور پر کام آئے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :- - وجوزنا يبنى اسراوِيلَ الْبَحْرَ فَاتْبَعَهُم فِرْعَوْنُ وجنوده بغْيَا وَ عَدْ وَأَحَتَّى إذا أَدْرَكَهُ الْغُرَقُ قَالَ امَنْتُ أَنَّهُ لا إلهَ إِلَّا الَّذِي أَمَنَتْ بِهِ بَنُوا إِسْرَائِيلَ وانَا مِنَ المُسلِمِينَ ه الينَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ منَ الْمُفْسِدِينَ ، فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَن خَلْفَكَ آيَةً وَاِن كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ ابْتِنَا لَغَفِلُونَ ( یونس (ع) ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار سلامتی سے اُتار دیا اور اُنکے بعد فرعون اور اس کا لشکر سرکشی اور دشمنی سے اُن کے پیچھے آیا اور پیچھا کرتا چلا گیا یہاں تک اس کے غرق کرنے کے ہم نے سامان کر دئے.اس وقت فرعون نے کہا میں ایمان لاتا ہوں کہ بنو اسرائیل جس خدا پر ایمان لائے ہیں اس کے سوا اور کوئی خدا نہیں تب ہم نے کہا تو اب ایمان لاتا ہے اس سے پہلے تو نے فساد مچا رکھا تھا.پس اب تیر سے اس ناقص ایمان کے بدلے میں ہم تیرے جسم کو نجات دیں گے تا دیرا جسم ہمیشہ ہمیش بعد کو آنے والے لوگوں

Page 144

۱۴۳ کے لئے عبرت کا موجب ثابت ہو اور لوگوں میں سے اکثر ہمارے نشانوں سے غافل رہتے ہیں.یہ مضمون نہ بائبل میں مذکور ہے نہ یہودیوں کی تاریخ میں مذکور ہے نہ کسی اور معروف تاریخ میں مذکور ہے.تیرہ سو سال پہلے قرآن نے یہ خبر دی اور اس خبر دینے کے تیرہ سو سال کے بعد فرعون موسی کی تھی مل گئی جس سے معلوم ہوا کہ ڈوبنے کے بعد اس کی لاش ضائع نہیں ہو گئی تھی بلکہ بچائی گئی تھی.اُسے حفوظ کیا گیا تھا اور وہ محفوظ کر دی گئی.ہو سکتا تھا کہ حنوط کرنے کے باوجود ان بہت سے تغیرات کی وجہ سے جو مصر میں ہوئے فرعون موسی کی لاش ضائع ہو جاتی مگر اس کی لاش محفوظ رہی اور اس وقت دنیا کے سامنے عبرت کا نمونہ پیش کر رہی اور قرآن کریم کی سچائی پر گواہی دے رہی ہے “ لے حضرت مصلح موعود کا یہ شہرہ آفاق دیباچہ دنیا کی مختلف زبانوں میں چھپ کر جب یورپ و امریکہ میں پہنچا تو مخالفین اسلام کو بھی اس حقیقت کے اعتراف کے بغیر کوئی چارہ نہ رہا کہ قرآن کو یہ منفرد حیثیت حاصل ہے کہ جس معاملہ میں بائیبل خاموش ہے قرآن مجید نے چودہ سو سال پہلے اس کی خبر دے دی تھی.قرآن کی فضیلت اور برتری کی یہ ایسی زیر دست دلیل ہے کہ ۱۹۷۶ء میں ایک ے دیباچه تفسیر القرآن صفحه ۴۳۴۰۴۳۳ بے

Page 145

فرانسیسی مفکر ڈاکٹر موریش بکائی ( BUCAILLE نے اپنی کتاب SCIENCE" ( DR.MAURICE "THE BIBLE THE QURAN AND میں ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا جس کے صفحہ ۲۲۳ تا ۲۴۲ پر خاص طور پر اس قرآنی پیش گوئی کا ذکر کیا اور اعتراف کیا کہ اس بارہ میں قرآن کی فضیلت اور بر تمری بائیبل پر پوری طرح ثابت ہو گئی ہے.قرآن مجیدہ ذو المعارف ہے اور اس میں ماضی، حال اور مستقبل کے متعلق خبریں موجود ہیں.آیت لتكون لمن خلف میں بھی فرعون کی لاش کے واقعہ کے علاوہ مستقبل کی ایک عظیم الشان خبر کا اشارہ ملتا ہے جس کا انکشاف سیدنا حضرت مصلح موعود نے تصرف الہی سے اگست ۱۹۴۵ء میں ان الفاظ میں فرمایا :- اس پیش گوئی کے دوسرے ظہور کے وقت انیسویں صدی میں کوئی فرعون اتنا خطرناک ظلم کرے گا کہ جماعت پیکار اُٹھے گی یوسی إِنَّا لَمُدْرَكُونَ اے موسیٰ اب تو ہماری تباہی سر یہ آپہنچی اب ہم کسی طرح اس فرعون کے پنجہ اظلم سے بچ نہیں سکتے...اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام جماعت احمدیہ کو روحانی طور پر اس کے خلیفہ اور امام کی زبان سے کیونکہ وہ دو نہیں بلکہ ایک ہی وجود ہوں گے، جب کہ وہ علم و ستم کے تمثیلی ه نقل مطابق اصل (مراد بیسویں صدی - ناقل)

Page 146

۱۴۵ سمندر کے کنار سے پر کھڑا ہوگا یا ممکن ہے کہ مصریا اور کسی ملک میں ایسے ہی حالات پیدا ہونے پر اور واقعہ میں دریائے نیل کے کنارے پر یا اور کسی دریا کے کنارے پر بڑے جاہ و جلال کے ساتھ فرمائیں گے گلا اِنَ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ - ملا کے معنے یہی ہیں لا تَحْزَنُ غم مت کرو ان مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ میرے ساتھ میرا رب ہے یعنی ایک وتر بھی ہمارے ساتھ ہے اور وہ اس لیل میں سے ہمیں نکال کر لے جائے گا یاہے نیز انکشان فرمایا کہ یہ کیل یعنی شب تاریک ۱۳۹۷ ه یعینی ۱۹۷۷ء میں ختم ہوگی.تے قارئین کرام ! کلیم وقت اور موٹئی دوراں نے ربوہ میں دریا کے کنارے کس طرح كلا انَ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ کی صدائے ربانی بلند کی اور عرش سے اِنا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْرِئين كا وعدہ عطا ہوا ؟ پھر کس طرح ٹھیک ۱۹۷۷ء میں وہ رات ہمیشہ کے لئے چلی گئی.یہ تاریخ عالم کا ایک کھلا ورق اور اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا زندہ اور تابندہ نشان ہے جس کے ہر گوشہ پر عالمی پریس اور ذرائع ابلاغ کی بے شمار شہادتیں ثبت ہیں.کلام اللہ کے اس بے نظیر نشان صداقت نے چین ، روس ، اه تفسیر کبیر جز چهارم نصف اول ما سے تفسیر کبیر سوره فجر ماه به

Page 147

امریکہ، یورپ غرضیکہ تمام مشرقی اور مغربی دنیا پر اسلام کی محبت تمام کر دی ہے اور ثابت ہو گیا ہے کہ قرآن اور صاحب قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں زندہ ہیں اور کوئی نہیں جو دین محمدی کے سامنے ٹھر سکے!! ہمارے دین کا قصوں پہ ہی مدار نہیں نشان ساتھ ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں کروڑ جاں ہوں تو کر دوں فدا محمدہ پر کہ اس کے لطف و عنایات کا شمار نہیں (کلام محمود) یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ سید نا حضرت مصلح موعود پر اگرچہ بے شمار علوم قرآنی کا انکشاف ہوا مگر اس کے باوجود آپ دنیا کو بار بار اس قرآنی فضیلت کی طرف تو تبہ دلاتے رہے کہ رب جلیل کے وعدوں کے مطابق قرآنی حقائق اور معارف جس طرح پہلوں پر کھلے اور آج مجھ پر کھل رہے ہیں اسی طرح قیامت تک گھلتے چلے جائیں گے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں : اسے دوستو! ایکس اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان خزانہ سے تمہیں مطلع کرتا ہوں.دُنیا کے تمام علوم اس کے مقابلہ میں پہنچے ہیں.دنیا کی تمام تحقیقاتیں اس کے مقابلہ میں پہنچے ہیں اور دنیا کی تمام سائنس اس کے مقابلہ میں اتنی بھی حقیقت نہیں رکھتی جتنی سورج کے مقابلہ میں ایک کرم شب تاب حقیقت رکھتا ہے.دنیا کے علوم قرآن کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں.قرآن ایک زندہ خدا کا کلام ہے اور وہ غیر محدود

Page 148

۱۴۷ معارف و حقائق کا حامل ہے.یہ قرآن جیسے پہلے لوگوں کے لئے کھلا تھا اسی طرح آج ہمارے لئے کھلا ہے.یہ ابو بکرہ کے لئے بھی کھلا تھا.یہ ٹر کے لئے بھی کھلا تھا.یہ عثمان کے لئے بھی کھلا تھا یہ علی کے لئے بھی کھلا تھا.یہ بعد میں آنے والے ہزاروں اولیاء و صلحاء کے لئے بھی کھلا تھا اور آج جبکہ دنیا کے علوم میں ترقی ہو رہی ہے یہ پھر بھی کھلا ہے بلکہ جس طرح دنیوی علوم میں آج کل زیادتی ہو رہی ہے اسی طرح قرآنی معارف بھی آجکل نئے سے نئے نکل رہتے ہیں مانا اے نیز فرمایا : اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں بڑے بڑے علم والے لوگ پیدا کئے ہیں مگر کوئی نہیں کر سکتا کہ یکی نے سارا علیم قرآن حاصل کر لیا ہے یکی بھی جس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے بے شمار معارف کھولے ہیں نہیں کر سکتا کہ قرآن کریم کا سارا علم میں نے حاصل کر لیا ہے.اگر ایسا ہوتا کہ کوئی شخص اس کے تمام معارف سمجھ لیتا تو قیامت آجاتی کیونکہ قرآن کریم قیامت تک کے لئے ہے اور اس کے بعد اور کوئی کتاب نہیں.جب اِس میں سے نئے نئے مضامین نکلنے ه سیر روحانی جلد اول صفحه ۱۱۱۷۶۱۱۶

Page 149

بند ہو جائیں گے اُس وقت قیامت آجائے گی.پس اس کے معارف کبھی ختم نہیں ہو سکتے اور یہ کتاب ہمیشہ نئے نئے مطالب دنیا میں ظاہر کرتی رہے گی.لے گیارھواں پیلو (تفسیر صغیر کی بلند یا یہ تالیف) مرتبہ کلام اللہ کا گیارھواں اہم پہلوہ تفسیر صغیر کی شکل میں ظہور پذیر ہوا."تفسیر صغیر" حضرت مصلح موعودؓ کے عمر بھر کے بیان فرمودہ نکات قرآنی اور دقائق قرآنی کا ایک نہایت حسین مرقع، انتہائی دلآویز اور بہترین خلاصہ ہے اور بوجہ اس کے کہ ملائکہ اللہ کی تحریک خاص اور القاء خداوندی کے تحت لکھی گئی ہے ادبی لغوی اور معنوی محاسن اور کمالات میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے لیے یہ اُردو کی انتہائی اثر انگیز اور انقلاب آفریں تفسیر ہے جس کے ایک ایک لفظ سے محبت الہی کے چشمے پھوٹتے ہیں.ملائکہ اللہ اور وحی اور انبیاء علیہم السلام کی اصلی شان کا عارفانہ رنگ میں پتہ چلتا ہے اور صاحب المعراج سراج منیر حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مثال جمال و کمال کے کے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو خاکسار کا مقالہ تفسیر بے نظیر کے کمالات ناشر شعبه اشاعت خدام الاحمدیہ ضلع لاہور - (۴۱۹۸۱)

Page 150

ima خارق عادت تقدس اور زندہ تاثیرات قدسیہ کی جلوہ نمائی ہوتی ہے اور مقدس سیرت نبوی کی قرآنی جھلکیوں کا نظارہ کر کے زبان پر بے اختیار درود شریف جاری ہو جاتا ہے.اللهم صل على محمد وعلى آل محمد وبارك وسلم اس تفسیر کی اشاعت پر ادارہ نوائے وقت“ کے ترجمان رسالہ ہفت روزہ قندیل نے ۱۹ جون ۱۹۶۶ء کو مندرجہ ذیل تبصرہ کیا کہ :- قرآن مجید کا با محاورہ اردو ترجمہ مع مختصر تفسیر ادارۃ المصنفین بالا سائز ۲۰ ضخامت ۸۵۴۳ صفحات - ہدیہ عکسی اعلیٰ کا غذ کی پیں روپے).انجمن حمایت اسلام لاہور اور تاج کمپنی لیڈر کی طرف سے قرآن حکیم کی طباعت میں جو خوش ذوقی کا ثبوت دیا جاتا رہا ہے وہ قابل تحسین ہے تفسیر صغیر کی اشاعت سے اس روح آفریں سعی میں اضافہ ہوا ہے.قرآن پاک کا یہ نسخہ اول سے آخر تک اعلیٰ ترین آرٹ پیپر پر شائع کیا گیا ہے.نسخ ونستعلیق دونوں خط فن کتابت کے عمدہ ترین نمونے پیش کر رہے ہیں.آفسٹ کی طباعت نہایت صاف اور دیدہ زیب ہے.جلد عمدہ اور مضبوط اور اس پر پلاسٹک کا جاذب نظر غلاف ہے.تفسیر صغیر میں ترجمہ اور تفسیر امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی کاوش کا نتیجہ ہے.ترجمہ اور حواشی کی زبان عام فہم ہے تاکہ ہر

Page 151

علمی استعداد کا آدمی اس سے مستفید ہو سکے ترجمہ او تغییر میں یہ التزام بھی ہے کہ جملہ تفاسیر متقدمین آخر تک پیش نظر رکھی گئی ہیں.ابتداء میں حروف تہجی کے اعتبار سے مضامین و مفاہیم کے تین معلومات آفریس انڈکس (INDEX) بھی شامل کئے گئے ہیں جس سے قاری کو مختلف آیات تلاش کرنے میں آسانی ہو جاتی قرآن مجید کو اس خوبصورتی سے شائع کرنا ایک بہت بڑی خدمت اسلام ہے یا ملے تفسیر صغیر سے حضرت اقدس بانی سلسلہ عالیہ احمديه عليه الف الف رحمة و بوكة) کی ایک دیرینہ خواہش پوری ہوئی ہے جس کا ذکر حضو ازالہ اوہام میں اس طرح فرماتے ہیں :- اس زمانہ میں بلاشبہ کتاب الہی کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں کی ایک نئی اور صحیح تفسیر کی جائے کیونکہ حال میں جن تفسیر وں تلی علیم دی جاتی ہے وہ نہ اخلاقی حالت کو درست کر سکتی ہیں اور نہ ایمانی حالت پر نیک اثر ڈالتی ہیں بلکہ فطرتی سعادت اور نیک روشنی کی مزاحم ہو رہی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ در اصل اپنے اکثر زواید کی وجہ سے قرآن کریم کی تعلیم نہیں ہے قرآنی تعلیم لوگوں کے دل لے بحوالہ روزنامه الفضل ربوه ۲۳ جون ۱۹۶۶ء ص به

Page 152

سے مٹ گئی ہے کہ گویا قرآن آسمان پر اٹھایا گیا ہے.وہ ایمان جو قرآن نے سکھلایا تھا اس سے لوگ بے خبر ہیں.وہ عرفان جو قرآن نے بخشا تھا اس سے لوگ غافل ہو گئے ہیں.ہاں یا یہ کیا ہے کہ قرآن پڑھتے ہیں مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اثر نہ انہی معنون سے کہا گیا ہے کہ آخری زمانے میں قرآن آسمان پہ اٹھایا جائے گا.پھر انہی حدیثوں میں لکھا ہے کہ پھر دوبارہ قرآن کو زمین پر لانے اور ایک مرد فارسی الاصل ہو گا یا کے اور فرماتے ہیں کہ قران مجید کی ایسی تفسیر تیار کرتا یہ میرا کام ہے دوسرے سے ہر گز ایسا نہیں ہوگا جیسا مجھ سے یا اس سے جو میر کی شاخ ہے اور مجھ ہی میں داخل ہے اسے پس یہ تفسیر بھی جوشن و احسان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نظیر حضرت مصلح موعود نے تالیف فرمائی ہے حضرت اقدس کی خواہش کو پورا کر رہی ہے.یہ وہ تفسیر ہے جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ایک کشف میں چنہ اوردین کی صورت میں دکھائی گئی جو کتاب بن گئی جس کو تفسیر کبیر کہتے ہیں.حضرت اقدس نے اس کشف کی تعبیر یہ بیان فرمائی کہ یہ ہمارے لئے موجب عورات اور زینت ہوگی نیز یہ کہ اسے لوگوں کی نظروں سے غائب کرنے کی کوئی سازش کامیاب ے ازالہ اوہام صفحہ ۷۲۷ حاشیه با کے ازالہ اوہام صفحہ ۳ نے نے ہے

Page 153

۱۵۲ نہیں ہو گی.اے بالفاظ دیگر آسمانوں پر تعظیم الشان تفسیر اپنی جامعیت کے اعتبار سے تفسیر کبیر ہی کا درجہ رکھتی ہے جو دنیا میں بکثرت پھیلے گی اور اسلام اور سلمانان عالم کے لئے عزت و شرف کا موجب بنے گی.سے جس بات کو کہے کہ کروں گا اسے ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے حضرات ! آپ کو یہ بات معلوم کرکے یقیناً بہت حیرت اور مسرت ہو گی کہ " تفسیر صغیر جس کی اولین اشاعت جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء کے موقع پر ہوئی تھی اب تک اس کے متعد دایڈیشن چھپ چکے ہیں.اس تفسیر کی بہ کثرت اشاعت بارگاہ الہی میں مقبولیت کی دلیل ہے ، الحمد للہ.بر صغیر کے طول و عرض میں تورخم سے لے کر سری لنکا تک اور کراچی سے لے کر بنگلہ دیش تک ہزاروں عشاق قرآن کے گھروں میں پڑھی جاتی ہے اور بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تفسیر بین الاقوامی شہرت حاصل کر چکی ہے اور وہ دن دور نہیں جبکہ اس کی برکت سے نور قرآن کی تجلی دنیا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے گی اور حضرت مصلح موعود کے دل سے نکلی ہوئی یہ دعا قبولیت کا شرف پالے گی کہ ہے پانی کر دے علوم متر آپ کو گاؤں گاؤں میں ایک رازہ نئی بخش ه اخبار بدر قادیان در ستمبر ۶۱۹۰۶ صفحه ۳ +

Page 154

۱۵۳ بارھواں پیلو (قرآیض مجید عالمگیر شریعت) اللہ جل شانہ فرماتا ہے:.تبوك الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ العلمين نديراة ( الفرقان : ۲) وہ ذات بڑی برکت والی ہے جس نے فرقان اپنے بندے پر اتارا ہے تا کہ وہ سب جہانوں کے لئے ہوشیار کرنے والا ہو.نیز فرمایا : ومَا أَرْسَلْنَاكَ اللَّا كَانَةٌ لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا رسیا : ۲۹) ریا رسول اللہ ہم نے تجھ کو تمام بنی نوع انسان کی طرف (جن میں سے ایک بھی تیرے حلقۂ رسالت سے باہر نہ رہے ایسا، رسول بنا کر بھیجا ہے جو (مومنوں کو خوشخبری دیتا اور (کافروں کو ) ہوشیار کرتا ہے.ان آیات سے ثابت ہے کہ قرآن مجید عالمگیر شریعت ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے ساری دنیا کو متعارف کرایا جائے.حضرت مصلح موعود کے ذریعہ کلام اللہ کے اس عالمگیر مرتبہ کا ظہور غیرملکی زبانوں میں تراجم قرآن کی دُنیا بھر میں اشاعت سے ہوا جس کی خبر حضرت مصلح موعود کی پیدائش سے پہلے اشتہار ۲۰ فروری

Page 155

۱۵۴ ۱۸۸۶ء میں ان الفاظ میں بھی دی گئی تھی :- "نور آتا ہے نور....وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطۂ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.پیش گوئی اُس زمانہ میں کی گئی جب کہ تراجم قرآنی کے بارے میں سخت بے میں بلکہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا.چنانچہ نامور اہلحدیث عالم اور مفتر قرآن مولانا وحید الزماں خاں صاحب نے یہ ہجری یعنی چودھویں صدی کے پہلے سائل لکھا:.بڑا افسوس ہے کہ مسلمان اس سے بالکل غافل ہیں اور ان کے ملا اور مولوی اور درویش سوائے آرام سے روٹیاں کھانے کے دین کا کوئی کام نہیں کرتے ہیں نہ اور ملک کی اقوام کی زبانیں سکھتے ہیں نہ اور زبانوں میں اسلام کی کتابوں کا اور قرآن کا ترجمہ پھیلاتے ہیں.ہائے ابٹر سے رنج کی بات ہے کہ نصاری نے اپنی واقفیت کے واسطے قرآن کا ترجمہ انگریزی، فرانسیسی اور جرمن زبانوں میں کیا پر مسلمانوں کو یہ توفیق نہیں کہ وہ قرآن کا اور دین کی کتابوں کا ترجمہ غیر زبانوں میں خصوصاً کافروں کی زبانوں میں کر کے اس کے ہزاروں لاکھوں نسخے کا فروں میں پھیلا دیں تا کہ وہ نیچے دین شریعت سے واقف ہوں یا لے له المعلم ترجمه صحیح مسلم جلد اول صفحه ۲۸۱۷۲۸۰ مطبع صدیقی لاہور ۱۳۰۱ ھر ہے

Page 156

یہ تھا وہ درد ناک اور روح فرسا ماحول جس میں مصلح موعود کی بشارت دی گئی اور نور آتا ہے نور اور دیگر الہامی الفاظ میں آپ کے عید مبارک کے تراجم قرآن سے متعلق مجاہدانہ کارناموں کا پورا نقشہ کھینچ دیا گیا.چنانچہ دنیائے اسلام میں تراجم قرآن کی سب سے پہلی، علمی او منظم تحریک آپ ہی کی قیادت میں اٹھی بڑھی اور پروان چڑھی.اور آپ کی زندگی میں نہ صرف یہ کہ قرآن مجید کے انگریزی ڈچ ، جرمن اور سواحیلی زبانوں میں تراجم شائع ہو گئے بلکہ آپ کو اس وقت تک خالق حقیقی کی طرف سے واپسی کا بلاوا نہیں پہنچا جب تک ہسپانوی پر نکالی اطالوی، روسی، فرانسیسی، انڈو نیشی، ملائی ہم کانیا، لویو اور اور زبانوں میں تراجم قرآن خدا کے فضل سے مکمل نہیں ہو گئے.فتبارک اللہ احسن الخالقين.اس وقت یک صرف انگریزی ترجمہ قرآن کی پہلی جلد کے متعلق عرب پریس اور مغربی دنیا کے شاندار تبصرے درج کرتا ہوں :- (اہم مشہور اسلامی ملک اُردن کے اخبار الاردن نے ۲۱ نومبر ۶۱۹۴۸ کے شمارہ میں زبر دست خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا:.بدَا النَّاسُ يُعْجِبُونَ بِالرَّقِيمِ عَنْ اِنْهَمَا كِيهِمْ فِي بَدَأَ أمُورِ دُنْيَا هُمْ بِنَشَاطِ الْحَرَكَةِ الْأَعْمَدِيَّةِ وَجِهَادِهَا لِنَشْرِ الإِسْلَامِ فِي الْقَااَرَاتِ الْخَمْسِ سَوَ مِنْ أَعْظَمِ : قَامَ بِهِ الْأَحْمَدِ يَونَ فِي السَّنَوَاتِ التِي تَلَتِ الْحَرْبَ ترجمتهم القران المَعِيدَ لِلنَاتِ الأَجْنَبِيَّةِ الحَيّة

Page 157

كَالْاِنْكِلِيزِيَّةِ وَالْاَلْمَانِيَّةِ وَالْأَفْرَنْسيَةِ وَالرُّوْسَيَةِ والايطالية وَالْأَسْبَانِيَّةِ وَغَيْرِهَا تَحْتَ ارْشَادِ إِمَامٍ الْجَمَاعَةِ الْأَحْمَدِيَّةِ حَضْرَةِ مِيرَنَا بَشِيرِ الدِّينِ محمود احمد وقَدْ عَتِ التَّرْيَمَةُ الانكليزية فَرَأَيْنَاهَا.تَفُوقُ كُل تَرْجَمَةٍ سَبَقَتْهَا مِن الاتقان وجودة الْوَرَقِ وَالطَّبْعِ والترتيب والانسة جَامِ وَصِدقِ التَّرْجَمَةِ الْحَرْبيَّةِ وَتَفْسِيرِهَا تَفْسِيرًا مُنهَبًا بِأَسْلُوبِ جَدِيدٍ يدل على عِلْمٍ عَزِيرِ وَاِطلاعِ وَاسِعَ عَلى حَقَائِقِ الدِّيمُ وَرُوحِهِ وَتَعَالَمِهِ السَّامِيَّةِ - وَقَد كُتِبَتِ الْآيَاتُ العَرَبِيَّةِ فِي الْجَانِبِ في الجانب الانسبر و تخت راقية.وَإِنَّ الْمُطَالِعَ لِهذَا التَّفْسِيرا اِمَامَ الْجَمَاعَةِ الأَحمد يدافع عن الدِّينِ العَنِ الَّذِي يَجِدُ النَّاسُ مَا السَّبِيلَ الْقَاعِدَ لِلِقَاءِ رَبِّهِمْ وَفَامَّةُ فِي الْوَقْتِ الَّذِي تعددت الطرُقُ عَلَى السَّالِمِ كَيْنَ فَابْتَعَدُوا بِهَا عَنْهُ

Page 158

106 وَحَضْرته يرد يَرُدُّ فِي تَنْ هَذَا عَلى خَصُوْمِ الْإِسْلَامِ وَبِالْخَاصَّةِ الْمُسْتَشْرِقِيْنَ وَيُبْطِلُ مَزَاعِمَهُمْ وَمَطَاعِنَهُم بِأَسْلُوبِ عَلي مُنْقَطَعِ النَّظِيرِ وَقَدْ بَيَّنَّ فِي نَفْسَيْرِهِ هَذَا عِلَاقَةَ السُّورِ بِبَعْضِهَا دود وكذالك الآيَاتِ وَأَسْبَابَ الزُولِ وَمُلَخَّصَ مَضَامِيْنِ السور في اوائلِهَا لِيَزِيدَ القُرَاء عِلْمًا وإيضاحا لِحَقِيقَةِ الْمَعَانِي وَلا تُمَامِ الْفَائِدَةِ الْحَقِّ هَذِهِ التَّرْجَمَةَ النَّفَيْسَةَ سيرة مُسْهَبَةٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَنَيه فَجَاءَتْ هذهِ السّيرَةُ فَايَةً فِي الْإِثْقَانِ وَالْأَسْلُوبِ وَالْمَوَاضِيع اپنی دنیوی مصروفیتوں میں بے حد مشغول و منہمک ہونے کے با وجود لوگ تحریک احمدیت اور اس کی نتیجہ خیز کوششوں اور ساتوں بر اعظموں میں تبلیغ و اشاعت اسلام کے لئے جد و جہد اور قربانیوں کو استعجاب و پسندیدگی اور دلچسپی کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں.گذشتہ جنگ عالمگیر کے چند سالوں میں ان کا عظیم ترین اور نمایاں کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے امام جماعت حضرت مرزا بشیر الدین خواحد له الاردن ۲۱ نومبر ۰۶۱۹۴۸

Page 159

18 A کی رہنمائی اور آپ کی زیر ہدایات مختلف رائج الوقت کئی غیر ملکی اہم زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کئے ہیں جیسے انگریزی ، جرمن فریج ، روسی، اطالوی اور ہسپانوی وغیرہ.انگریزی ترجمہ جو زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آچکا ہے دیکھ کر ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ قرآن مجید کے جتنے بھی (انگریزی تراجم اس سے قبل شائع ہو چکے ہیں، ان سب پر یہ ترجمہ فوقیت لے گیا ہے ( تفوق كل ترجمة سبقتها) کیا بلحاظ طباعت کی خوبی اور دیدہ زیب ہونے کے اور کیا بلحاظ اپنی عمدگی اور ترتیب و با محاورہ ترجمہ ہونے کے اور کیا بلحاظ فضلی ترجمہ کی درستگی کے اور کیا بلحاظ اس کی تشریح و تفسیر کے جو جدید اسلوب اور پیرا یہ میں ایک مبسوط تفسیر ہے جسے پڑھ کر نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ علیم دین کے رموز و حقائق اور اس کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم اور روحانیات سے متعلق جملہ علوم سے غیر معمولی طور پر بہرہ ور ہیں اور دین کے بارہ میں بھر پور علم رکھتے ہیں.اس ترجمہ میں قرآن مجید کی آیات عربی الفاظ میں ہر صفحہ کے اوپر دائیں جانب اور اس کے بالمقابل انگریزی ترجمہ اور ان دونوں کے نیچے باقی حصہ صفحہ میں فصیح و شستہ اعلیٰ درجہ کی انگریزی زبان میں تفسیری نوٹ لکھے گئے ہیں.

Page 160

۱۵۹ اس جدید تفسیر کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے اسلام پر اعتراضات کے جواب اصل اسلام کو مد نظر رکھ کر دئے ہیں وہ حقیقی اسلام جس میں تمام لوگ اپنے ریت سے ملاقات کا طریق مستقیم پاتے ہیں بالخصوص ایسے وقت میں جبکہ سالکین کے سامنے بے شمار راستے رونما ہو چکے ہیں کہ جن کی وجہ سے وہ اصل راستہ سے بہت دُور جا پڑے ہیں.جناب امام جماعت احمدیہ نے اپنی اس تفسیر میں دشمنان اسلام کا بخوبی کہ وہ کیا ہے بالخصوص مستشرقین کے پیدا کردہ غلط خیالات اور اُن کے اعتراضات کا جواب بے نظیر علمی رنگ میں دیا ہے.اس تفسیر میں آپ نے سورتوں کا باہمی تعلق نیز آیات کا باہمی ربط واضح کیا ہے.اسی طرح آپ نے ہر سورت کی ابتداء میں اس سورت کے اندر بیان شدہ مضامین کا خلاصہ اور سورت کی شان نزول کا بھی ذکر فرما دیا ہے تاکہ پڑھنے والوں پر معانی کی حقیقت اور ان میں بیان شدہ مضمون کا اصل مفہوم اچھی طرح آشکارہ ہو جائے اور ان کے علم و معرفت میں اضافہ کا موجب ہو.مزید بر آن تفسیر کو مفید تر بنانے کے لئے اس نفیس ترجمہ کے ساتھ نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سیرت طیبہ بھی آپ نے لکھ کر شامل کر دی ہے.حضور کی یہ سوانح حیات بھی غایت درجہ عمدگی اور بہترین اسلوب اور اعلیٰ مضامین کی حامل ہے.

Page 161

14.(۲) مصر و اردن کے جریدہ "وكالة الانباء العربية نے اس ترجمہ سے متعلق یہ لکھا ☑ والكتاب الشَّيْنُ فِي مَجْمُوعِهِ دِفَاعٌ عَنِ الْإِسْلَامِ وَ رَةٌ عَلَى خَصُومِهِ وَخَاصَّةَ المُسْتَشْرِقِيْنَ يُبْطِلُ مَزَاعِمَهـ...وَمِمَّا يَجدِرُ ذِكْرَهُ اَنَّ الْمِسّر ذِكْرَهُ أَنَّ الْمِسَر زُمُ مَانَ الكَاتِبَة ال الْمَعْرُوفَةَ قَامَتْ بِتَرْجَمَةِ القُرانِ لَى الْهَوْلَندِيّةِ ، وَمَا كَادَتْ تُفْرِغْ مِن قد اعتنقت الإسلام ال یہ بیش قیمت کتاب مجموعی طور پر اسلام کی طرف سے دفاع اور مخالفین اسلام خصوصا مستشرقین کے اعتراضات کا رد ہے جو کہ ٹھوس علمی رنگ میں اِن کے نظریات کا ابطال کرتی ہے.....ایک اور بات قابل ذکر یہ ہے کہ ہالینڈ کی ایک مشہور مصنفہ مستر زهرمان نے قرآن مجید کا انگریزی سے ڈچ زبان میں ترجمہ کرنا شروع کیا.ابھی وہ ترجمہ کے کام سے فارغ نہ ہو پائی تھیں کہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہو چکی تھیں.(۳) شام کے مشہور اخبار النصر نے اپنی ۱۲ ستمبر ۱۹۴۸ء کی اشاعت میں لکھ ه شماره ۶ فروری ۶۱۹۴۹ + (عکس آخر میں ملاحظہ فرمائیں ) 1

Page 162

14) جماعت احمدیہ نے امریکہ اور یورپ کے بر اعظموں میں ثقافت اسلامیہ کی اشاعت کا نمایاں کام کیا ہے اور یہ کام لگاتار مبلغین کی روانگی سے ہو رہا ہے اور مختلف کتب و اشتہارات کی اشاعت سے بھی جن کے ذریعہ سے فضائل اسلام اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو بیان کیا جاتا ہے.یہیں قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ دیکھ کر بہت ہی خوشی ہوئی یہ ترجمہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کی زیر نگرانی کیا گیا ہے.ترجمہ قرآن مجید جاذب نظر اور ناظرین کے لئے قرة العیون ہے.یہ ترجمہ بلند مرتبہ خیالات کا حامل ہے.کاغذ مہایت عمدہ ہے.قرآنی آیات ایک کالم میں درج ہیں اور دوسرے کالم میں بالمقابل ترجمہ دیا گیا ہے.بعد ازاں مفصل تفسیر کی گئی ہے.مطالعہ کرنیوالا ان تفاسیر جدیدہ میں مستشرقین اور یوروپین معاندین کے اعترافضا کے مفصل جوابات پاتا ہے....یہ امر قابل ذکر ہے کہ امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اس ترجمہ کیساتھ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بھی تحریر فرمائی ہے.اور یہ سیرت اور ترجمہ بے نظیر ہے.(ترجمہ) (۴۳) مسٹرا ہے.جے.آربری (MR.A.J.ARBERRY) نے لکھا:.

Page 163

۱۶۲ قرآن شریف کا یہ نیا ترجمہ اور تفسیر ایک بہت بڑا کارنامہ ہے.موجودہ جلد اس کا رنامہ کی گویا پہلی منزل ہے.کوئی پندرہ سال کا عرصہ ہوا جماعت احمدیہ قادیان کے محقق علماء نے یہ عظیم الشان کام شروع کیا اور کام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی حوصلہ افزا قیادت میں ہوتا رہا.یہ ترجمہ اور تیسیر جماعت احمدیہ کی فہم قرآن کی صحیح ترجمانی کرنے والی ہے.اگر ہم اس کام کو اسلام کے ذوق علیم تحقیق کی عظیم یادگار کہ کرپیش کریں تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا.اس کی تیاری کے ہر مرحلے پرستند کتب تفسیر و گفت و تاریخ وغیرہ سے استفادہ کیا گیا ہے.ان کتب کی طویل فہرست پڑھنے والے کو متاثر کرتی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ترجمہ و تفسیر تیار کرنیوالوں نے نہ صرف تمام مشہور عربی تفسیروں کو زیر مطالعہ رکھا ہے بلکہ ان کے ساتھ ساتھ یور میں مستشرقین نے تنقیدی رنگ میں جو کچھ لکھا ہے اسے بھی مد نظر رکھا ہے.اگر صرف ترجمہ پر نظر ڈالی جائے تو کہنا پڑتا ہے کہ ترجمہ انگریزی غلطیوں سے پاک اور پروقار ہے.دنیا بھر کے نیک خیال لوگ دل سے چاہیں گے کہ یہ شاندار ترجمہ اور تفسیر مبل تکمیل کو نیچے علم اور تحقیق اور اہمیت کے اس شاہ کار کو کون ہے جو قدر کی نگاہ سے نہ دیکھے گا ؟ یہ شاندار کام حضرت مرزا بشیر الدین محمود کی زیر نگرانی سر انجام پایا ہے جن کو مسیح موعود کا دوسرا جانشین اور خلیفہ کہا جاتا

Page 164

ہے.(تلخیص و ترجمہ لے ۱۶۳ (4) ڈاکٹر چارلس ایس بریڈن ( DR.CHARLES S.BRADEN ) صدر شعبه تاریخ و ادب مذہبیات نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی اونٹن (EYHANSTON) امریکہ نے لکھا :.بحیثیت مجموعی انگریزی زبان کے اسلامی لٹریچر میں یہ ایک قابل قدر اضافہ ہے جس کے لئے دنیا جماعت احمدیہ کی از حد ممنون ہے.(ترجمہ) کے (4) مسٹرریکیں بلاشهر ( MR.REGIS BLACHERE ) پروفیسر ادبیات عربی مدرسہ السنہ شرقیہ پیریس (PARIS) نے اِن الفاظ میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا :- یہ ترجمہ جیسا کہ فرانسیسی زبان کی ایک ضرب المثل ہے " متن کا ہو بہو چربہ ہے" (STICKING TO THE TEXT) ترجمہ کی یہ صحت جس سے قرآن کے مبہم اور مشکل مقامات کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے یہ ہر تعریف سے بالا ہے.(ترجمہ) سے (6) پروفیسر ایچ.اے.آر گب (PROF.H.A.R.GIBB) نے لکھا:.یہ ترجمہ قرآن مجید کو انگریزی کا جامہ پہنانے کی ہر سابقہ کوشش کے لے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد دہم مع ضمیمه صفحه ۶۷۴۶۷۳ که تاریخ احمدیت جلد دهم صفحه ۶۷۴ سے ایضاً

Page 165

۱۶۴ مقابلے میں زیادہ قابل تحسین ہے.(ترجمہ ہے (۸) مسٹر رچرڈ بیل (MR.RICHARD BELL) نے لکھا:.یقیناً قرآنی تعلیمات کو جامعیت کے ساتھ پیش کرنے کا یہ انداز جدت کا حامل اور ہر طرح تحسین کے قابل ہے.اگر انجمن اقوام متحدہ اس میں بیان کردہ اصولوں پر عمل پیرا ہوسکے تو یقینا کسی حد تک وہ اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کر سکتی ہے تفسیر جامع ہے اور بہت حد تک روحانی اقدار اور اُن کے اس تفہیم کی آئینہ دار ہے.(ترجمہ) کے خدمت قرآن کے اس عظیم کارنامہ کے متعلق ایک بار مولانا ظفر علی خاں صاب مدیر زمیندار نے ناقدین احمدیت کو مخاطب کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا تھا:- رو کان کھول کرشن و اتم اور تمہارے لگے بندھے میرزامحمود ا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے میرزامحمود کے پاس قرآن کا علم ہے تمہارے پاس کیا دھرا ہے....تم نے کبھی خواب میں بھی متر آن نہیں پڑا....میرزا محمود کے پاس ایسی جماعت ہے جو تن میں بھی اس کے ایک اشارے پر اس کے پاؤں پر نچھاور کرنے کو تیار ہے.میرزا محمود کے پاس مبتلنے نہیں.مختلف علوم کے ماہر ہیں ه تاریخ احمدیت جلد دہم ص۶۷۲ حد که تاریخ احمدیت جلد دہم صفحہ ۶۷۵ +

Page 166

۱۶۵ دنیا کے ہر ملک میں اس نے جھنڈا گاڑ رکھا ہے یا اے اسی طرح جناب مولا نا عبد الرحیم صاحب اشرف ایڈیٹر المن ہو نے اعتراف کیا کہ حضرت مصلح موعود کے عہد مبارک میں جماعت احمدیہ نے اشاعت قرآن اور خدمتِ قرآن کی نمایاں عالمی خدمات انجام دیا ہیں.چنانچہ انہوں نے فرمایا.در قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جو ہر موجود ہیں ان میں اولین اہمیت اس جد و جہد کو حاصل ہے جو اسلام کے نام پر وہ غیر مسلم مالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں.یہ لوگ قرآن مجید کو غیر ملکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں.سید المرسلین کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں.ان ممالک میں مساجد بنواتے ہیں اور جہاں کہیں ممکن ہو اسلام کو امن و سلامتی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ؟ یہ امر قابل اعتراف ہے کہ فلبلغِ الشَّاهِدُ الْغَائِب کا فرض جو امت محمدیہ پر عائد کیا گیا تھا امت کی کوتاہی کے باعث محتمل یا کم از کم نیم محفل تھا اس باطل گروہ کے ذریعہ اسلام اور صاحب اسلام کا رسمی تعارف اور بعض حصوں میں تفصیلی تعارف ان کے ذریعے کرایا جا رہا ہے.یا غیر مسلم ممالک میں قرآنی تراجم اور اسلامی تبلیغ کا کام صرف قادیانیت کی بقا اور وجود کا باعث ہی نہیں ہے ظاہری حیثیت سے ے ایک خوفناک سازش» ما مولفہ مولانا منظور علی اظہر +

Page 167

144 بھی اس کی وجہ سے قادیانیوں کی ساکھ قائم ہے.ایک عبرت انگیز واقعہ جو ہمارے سامنے وقوع پذیر ہوا.شام میں جب جسٹس منیر انکوائری کورٹ میں علم اور اسلامی مسائل سے دل بہلا رہے تھے اور تمام مسلم جماعتیں قادیانیوں کوغیر مسلم ثابت کرنے کی جد و جہد میں مصروف تھیں قادیانی عین انہیں دنوں ڈچ اور بعض دوسری غیرملکی زبانوں میں ترجمہ قرآن کو مکمل کر چکے تھے اور انہوں نے انڈونیشیا کے صدر حکومت کے علاوہ گورنر جنرل پاکستان مسٹر غلام محمد اور جسٹس منیر کی خدمت میں یہ تراجم پیش کئے گویا وہ بزبان حال و قال کہہ رہے تھے کہ ہم ہیں وہ غیرمسلم اور خارج از جماعت ملت اسلامیہ جماعت جو اس وقت جبکہ ہمیں آپ لوگ کافر قرار دینے پر پر تول رہے ہیں غیر مسلموں کے سامنے قرآن ان کی مادری زبان میں پیش کر رہے ہیں یا لے ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں ؟ دل سے ہیں خدام ختم المرسلین سارے حکموں پر ہمیں ایمان ہے ؟ جان و دل اس راہ پر قربان ہے دے پکے دل اب تین خاکی رہا ہے ہے بہی خواہش کہ ہو وہ بھی خدا حضرت مصلح موعود کے وصال (۸) نومبر ۴۱۹۶۵) پیر بر صغیر پاک و ہند کے روشن خیال عالم صحافی اور مفتر جناب مولانا عبد الماجد دریا آبادی نے آپ کی خدمت قرآن پر زبر دست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا :.المنیر لائلپور (فیصل آباد) ۲ مارچ ۱۹۵۶ء صفا +

Page 168

۱۶۷ " قرآن و علوم قرآن کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کی آفاق گیر تبلیغے میں جو کوششیں انہوں نے سرگرمی اور اولوالعزمی سے اپنی طویل عمر میں جاری رکھیں ان کا اللہ انہیں صلہ دے علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح، تبیین و تر جمانی وہ کر گئے ہیں ان کا بھی ایک بلند و ممتاز مرتبہ ہے کیا لے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیه الف الف رحمة وبركة اور صلح موعود کے فیض تربیت کی بدولت جماعت احمدیہ خدا کے فضل سے جہاد بالقرآن کا پرچم سےاسے عالم میں بلند کئے ہوئے ہے جس سے اس کے باطنی اور معنوی کمالات دنیا پر کھل رہے ہیں اور اذہان و قلوب فتح ہو کر حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے پرچم تلے جمع ہو رہے ہیں.چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ :- " خدا نے ہمیں وہ تلوار دی ہے جسے کبھی زنگ نہیں لگتا اور جو کسی لڑائی میں بھی نہیں ٹوٹ سکتی.تیرہ سو سال گذر گئے اور دنیا کی سخت سے سخت قوموں نے چاہا ہے کہ وہ اس تلوار کو توڑ دیں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور اسے ہمیشہ کے لئے ناکارہ بنا دیں مگر دنیا جانتی ہے کہ جو قوم اس کو توڑنے کے لئے آگے بڑھی وہ خود ٹوٹ گئی مگر یہ تلوار اُن سے نہ ٹوٹ سکی یہ یہ وہ قرآن ہے جو خدا نے ہم کو دیا ہے اور یہ وہ تلوار ہے صدق جدید لکھنو ۱۸ نومبر ۶۱۹۹۵ با خود از مضامین منظور صفحه ۴۶ *

Page 169

۱۶۸ جس سے ہم ساری دنیا کو فتح کر سکتے ہیں.فرماتا ہے جاهِد هم به جهاد ا كبيرا تلوار کا جہاد اور دوسرے اور جہاد سب چھوٹے ہیں قرآن کا جہاد ہی ہے جو سب سے بڑا اور عظیم الشان جہاد ہے.یہ وہ تلوار ہے جو شخص اس پر پڑے گا اس کا سر کاٹا جائے گا اور جس پر یہ پڑے گی وہ بھی مارا جائے گا یا مسلمانوں کی غلامی اختیار کرنے پر مجبور ہوگا.اگر تیرہ سو سال میں بھی ساری دنیا میں اسلام نہیں پھیلا تو اسکی وجہ یہ نہیں کہ یہ تلوار گند تھی بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے اس تلوار سے کام لینا چھوڑ دیا.آج خدا نے پھر احمدیت کو یہ تلوار دے کر کھڑا کیا ہے اور پھر اپنے دین کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کرنے کا ارادہ کیا ہے ا لئے اس جہاد بالقرآن کے مقابل " خدمت قرآن کے نام پر کیا کیا نئی تدبیریں کی جارہی ہیں اس کا ذکر جودھپور (بھارت) کے ایک نامور عالم دین جناب مولانا ابو الاسرار رمزی اٹاوی کے ایک تازہ بیان سے ملتا ہے جو بمبئی کے ایک ہفتہ وار اخبار بلر (BLITZ) میں چھپا ہے.انہوں نے بتایا ہے کہ :.و پاکستان میں چالیس ٹن وزنی شهری قرآن مجید تقریباً ۲ (ہیں) لاکھ روپے کی لاگت سے تیار کیا جارہا ہے جس میں مصوری اور خطاطی کے نادر نمونے موجود ہوں گے.کسی چیز کی گہری عقیدت کیسے کیسے ه تیره و حالی جلد سوم صفحہ ۳۱۵

Page 170

۱۶۹ کارناموں کی محرک بن جاتی ہے.دنیا کو اس سے زیادہ اور کوئی فائد نہ ہوگا کہ خانہ کعبہ کی زیارت کے ساتھ ساتھ اس کی بھی زیارت ہوا کریگی لیکن یہ قرآن مجید کی خدمت نہیں بلکہ آرٹ کی خدمت ہوگی.قرآن مجید اپنے دعوی اور دلائل میں لاثانی ہے وہ تدبر اور غور کرنے کے لائق ہے.بڑی برکت والی کتاب ہے.اس کی خدمت یہ ہے کہ اس کو کم از کم بینی زبانوں میں منتقل کیا جائے اور اس کے نسخے مفت تقسیم کئے جائیں یا دنیا کی بڑی لائبریہ یوں میں ان کو بھیجا جائے تاکہ بندگان خدا قانون خداوندی اور مشیت الہی سے واقف ہوں.....احمدیہ فرقے کے لوگ اِس میدان میں بہت آگے نظر آتے ہیں جنہوں نے تقریباً سولہ سترہ زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کرنے میں پیپل کی.جب قوم کے پاس کوئی ٹھوس پروگرام نہیں ہوتا تو وہ ایسی نمائش گاہ کی طرف رخ کرتی ہے اور قرآن حکیم کی جگہ قرآن ضخیم کو اہمیت دیتی ہے یا لے قرآن شریف کا ایک نام ذکر بھی ہے یعنی عزت و شرف کا ذریعہ حضرت مصلح موعود کے ذریعہ بار بار قرآن کریم کا جو ہرعظیم الشان مرتبہ ظاہر ہوا اس کی برکت سے خدائے عزیز نے یہ ارادہ کیا کہ آپ کا نام گسترہ ارض پر تا ابد باقی رہے اور آسمان شہرت پر بھی ہمیشہ چمکتا رہے.چنانچہ حضور خود فرماتے ہیں :.نے ہفتہ وار بلٹز (217) کمیٹی ۱۵ اگست ۶۱۹۸۱ بحواله هفت روزه بدر قادیان ، ار ستمبر ۶۱۹۸۱

Page 171

14.ود یکی اُسی خدا کے فضلوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ میرا نام دنیا میں ہمیشہ قائم رہے گا اور گوئیں مر جاؤں گا مگر میرا نام بھی نہیں مٹے گا.یہ خدا کا فیصلہ ہے جو آسمان پر ہو چکا ہے اور وہ میرے نام اور میرے کام کو دنیا میں قائم رکھے گا....خدا نے مجھے اس مقام پر کھڑا کیا ہے کہ خواہ مخالف مجھے کتنی بھی گالیاں دیں.مجھے کتنا بھی بُرا سمجھیں بہر حال دنیا میں کسی بڑی سے بڑی طاقت کے بھی اختیار میں نہیں کہ وہ میرا نام اسلام کی تاریخ کے صفحات سے مٹا سکے پہلے حضرت مصلح موعود کی آسمانی خلعت حضرات !! اب آخر میں نہایت ادب سے یہ عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ اگر قرآن مجید ہی اسلام کا حقیقی دستور ہے اور یہ دستور قانون وقت کے احترام، تبلیغ اور اسلامی نمونہ کے علمی و اخلاقی و روحانی ذرائع سے قائم ہوتا ہے اور انہیں ذرائع سے مستقبل میں اسلام کی عالمگیر حکومت قائم ہونے والی ہے (جیسا کہ ہر پیچھے او حقیقی مسلمان کو یقین کامل ہے، تو یکی اسلام اور احمدیت کے مقدس پلیٹ فارم سے دنیا بھر کے ایک کروڑ احمدی مسلمانوں کا یہ ولی عقیدہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ بین الاقوامی نظام جو امریکہ سے لے کر چین تک اور یورپ که حضرت مصلح موعود کا روح پرور خطاب بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ 4/1991

Page 172

141 سے لے کر افریقہ ایک کے ہر فرد بشر پر حاوی ہوگا وہ کلام اللہ کی صرف اس تشریح اور تفسیر کے مطابق نافذ ہو گا جو سید نا حضرت مصلح موعود نے خدا سے علم پا کر دنیا کے سامنے پیش فرمائی اور کسی ماں نے ایسا بیٹا نہیں جنا جو لا يمسه إلا المُطَهَّرُونَ کی دائمی صداقت کو غلط ثابت کر سکے !! اور الہامی او کشفی برکتوں سے تہی دامن ہونے کے باوجود غیر مسلم دنیا کے دل فتح کر کے انہیں خاتم الانبیاء حضرت محمد صطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لے آئے.یہ آسمانی سعادت او اعزانہ اور فخر خدا نے اندل سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے لخت جگر ستیہ نا محمود کی بیان فرمودہ تفسیر کے لئے ہی مقدر کیا ہے.کوئی نہیں جو اس آسمانی خلعت کو چھین سکے جیسا کہ حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ نے جلسہ سالانه ۶۱۹۴۴ کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ :.یکن وہ شخص تھا جسے علوم ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لئے بھجوایا اور مجھے قرآن کے اُن مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آ سکتے تھے.وہ علم جو خدا نے مجھے عطا فرمایا اور وہ چشمہ روحانی جو میرے سینے میں چھوٹا وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پر دے پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعوی کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اُس سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن میں جانتا ہوں

Page 173

کہ آج دنیا کے پر وہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو.خدا نے مجھے علیم قرآن بخشا ہے اور اس زمانہ میں اس نے قرآن سکھانے کیلئے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے.خدا نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں.دُنیا زور لگا لے وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کرنے عیسائی بادشاہ بھی اور اُن کی حکومتیں بھی مل جائیں.یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے.دنیا کی تمام بڑی بڑی مالدار اور طاقتور قومیں اکٹھی ہو جائیں اور وہ مجھے اس مقصد میں نا کام کرنے کے لئے متحد ہو جائیں پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام یہ ہیں گی اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے اُن کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دیگا اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اتباع کے ذریعہ سے اس پیش گوئی کی صداقت ثابت کرنے کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے طفیل اور صدقے اسلام کی عزت کو قائم کرے گا اور اس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ

Page 174

دنیا میں قائم نہ ہو جائے اور جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم نہ کر لیا جائے.یکس اس پنچائی کو نہایت گھلے طور پر ساری دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں.یہ آواز وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی آواز ہے.یہ مشقت وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی مشیت ہے.یہ سچائی نہیں ملے گی نہیں ملے گی اور نہیں ملے گی.اسلام دنیا پر غالب آکر رہے گا سیحیت دنیا میں مغلوب ہو کر رہے گی.اب کوئی سہارا نہیں جو عیسائیت کو میرے حملوں سے بچا سکے.خدا میرے ہاتھ سے اس کو شکست دے گا اور یا تومیری زندگی میں ہی اس کو اس طرح کچل کر رکھ دے گا کہ وہ سر اٹھانے کی بھی تاب نہیں رکھے گی اور یا پھر میرے بوٹے ہوئے بیج سے وہ درخت پیدا ہو گا جسکے سامنے عیسائیت ایک خشک جھاڑی کی طرح مرتھا کہ رہ جائیگی اور دنیا میں چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا انتہائی بلندیوں پر اڑتا ہوا دکھائی دے گا ؟ اے زمیں سے ظلمت شرک ایک دم میں ہو گی دُور ہوا جو جلوہ نما لا إله إلا الله ل الموعود" تقرير حضرت المصلح الموعود بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ ۲۸ دسمبر ۶۱۹۴۴ صفحه ۲۱۱ - ۲۱۴ ۰

Page 175

کامر کلام اللہ کا منہ حضرت مصلح موعود کے عارفانہ اشعا یہ رحمت سارے انعامون کی جان ہے ہے جو سچ پوچھو میں باغ جناں ہے یلی ہے ہم کو یہ فضل خدا سے ہے حبیب پاک حضرت مصطفے سے شہ لولاک یہ نعمت نہ پاتے ، تو اس دنیا سے ہم اندھے ہی جاتے کجا ہم اور گیا مولیٰ کی باتیں بے گجا دن اور گجا تاریک راتیں! رسائی کب تھی ہم کو آسماں تک ہے جو اُڑتے بھی، تو ہم اُڑتے کہاں تک خدا ہی تھا کہ میں نے دی یہ نعمت و محمد ہی تھے جو لائے یہ خلعت پس اسے میرے عزیزو میرے بچو ! دل و جاں سے اسے محبوب رکھو

Page 176

وَكَالَةُ الْأَنْبَاءِ الْعَرَبِيَّه رحمان ، تارا قاہر) در ربیع الثانی سوره بروز اتوار مطابق بر فروری ) ترجمة القرآن الكريم عمان - تلقى فضيلة الميرزا رشيد والانسجام وصدق الترجمة الحرفية وتفسيرها احمد جغتائي المبشر الاسلامي المعروف تقسيرا مسهبا باسلوب جديد يدل على علم وعضو الجماعة الاحمدية والمقيم حاليا بعمان غزير واطلاع واسع على حقائق الدين نسخة من الكتاب القيم الذي اصدرته الاسلامي الحنيف وتعاليمه السامية.الجماعة في الهند باللغة الانكليزية خاويا والكتاب الثمين في مجموعه دفاع عن ترجمة القرآن المجيد.ويقع الكتاب في الاسلام ورد على خصومه وخاصة المستشرقين ٩٦٨ صفحة تضم ترجمة السور المجيدة بحال مزاعمهم باسلوب على رائع.الالفاتحة والبقرة وآل عمران والنساء والمائدة وقد علمنا من حضرة الاستاذ ميرزا والانعام والاعراف والانفال والتوبة وقد قدم لها بمقدمة قيمة تقع فى ثلاثمائة رشيد احمد انه سيضع هذا الكتاب صفحة كتبها امام الجماعة حضرة ميرزا القيم في مكان عام بحيث يتيسر الجميع بشير الدين محمود احمد تضم مصادر طلاب العلم والمعرفة الاطلاع عليه وقراءته الكتاب ومحرثا قيمة عن قيمة القرآن | ومما يجدر ذكره ان المسز زمرمان المجيد وسيرة الرسول الاعظام وشخصيته الكاتبة الهواندية المعروفة قامت بترجمة وكيفية جمع القرآن وغيرها.والترجمة القرآن المجيد من الانكليزية الى الهولندية، الانكليزية تفوق كل ترجمة سبقتها من وما كادت تفرغ من ترجمتها حتى كانت حيث الانقان وجودة الورق والطيب ع قد اعتنقت الاسلام.

Page 177

تر را احباب درخواست کا مندرجہ ذیل احباب نے اس کتاب کی اشاعت میں بہت امداد فرمائی خاکسار ان کا بہت ممنون ہے.احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے کئے گئے وعدوں کے مطابق ان کے اموال اور نفوس میں بے پناہ برکت ڈالے.آمین ثم آمین (جمال الدین انجم) مکرم جناب شیخ خالد مسعود صاحب فیصل آباد مکرم جناب شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت احمدیہ صوبہ بلوچستان مکرم جناب شیخ نثار احمد صاحب سمن آباد لاہور مکرم جناب میاں مبارک علی صاحب پاک ٹمبر ز لاہور مکرم جناب چوہدری شرف دین صاحب ره بوه مکرم جناب چوہدری احمد دین صاحب گوئی آزاد کشمیر مکرم جناب چوہدری محمد سلیمان صاحب گوئی آزاد کشمیر مکرم جناب عبد الرشید صاحب شکار پور سندھ مکرم جناب حکیم عبدالحمید صاحب اعوان مشهور دواخانہ گوجرانواله مکرم جناب ملک منظور احمد صاحب نتھو کہ ربوہ مکرم جناب خواجہ ظفراحمد صاحب سابق قائد مجلس خدام الاحمدیہ سیالکوٹ مکرم جناب ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب نواب شاہ سندھ

Page 178

ناشران 3 جمال الدين مجمع غلام مرتضى الخير

Page 178