Kalam-eZafar

Kalam-eZafar

کلامِ ظفرؔ

مجموعہٴ کلام
Author: Other Authors

Language: UR

UR
منظوم کلام

Book Content

Page 1

کلام ظف (1982 1908) حضرت مولانا ظفر محمد ظفر

Page 2

كلام ظفر (نئے اضافوں کے ساتھ ) منظوم کلام حضرت مولانا ظفر محمد ظفر نام کتاب : مجموعه کلام : طبع اول : طبع دوم : طبع سوم : کلام ظفر حضرت مولانا ظفر محمد ظفر $ 1980 $2010 $2015 In der Spitz.15 54516 Wittlich Germany E_mail:asifbaloch786@ymail.com E_mail:zafar@t-online.de

Page 3

انتساب اپنی بہت ہی پیاری والدہ محترمہ اور بے حد شفیق بھائیوں مکرم منصور احمد ظفر صاحب ، مکرم ناصر احمد ظفر صاحب اور مکرم مبارک احمد ظفر صاحب و ہمشیرہ محترمہ کے نام جن کی بے پایاں محبت اور بے پناہ شفقت ، میرا سب سے قیمتی اثاثہ ہے.اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُم طاہر احمد ظفر

Page 4

ii عنوان منظومات صفحہ 61 63 65 67 71 75 78 82 82 84 893 87 85 85 90 92 24 94 97 99 99 خدا تعالیٰ نمبر شمار 16 فهرست عنوان صفحہ 17 18 1 2 لا إله إلا الله 19 نعت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم 20 نعت خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم نمبر شمار 1 2 اظہار تشکر یہ خوشنما پھولوں کا گلدستہ ہے تبصرہ: حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفہ المسح الرابع) 3 4 5 6 7 8 9 10 پیش لفظ : حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر حضرت مولانا ظفر محمد صاحب ظفر تعارف اور جماعتی خدمات (ایڈیشن اول) تعارف (ایڈیشن سوم ) حضرت خلیفہ اسیح الثالث" کے ارشاد پر عربی نظم لکھنے کی توفیق حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی زبان مبارک سے آپ کا ذکر خیر پرنسپل جامعہ احمد یہ ملک سیف الرحمن صاحب کا ایک خط طلبا جامعہ احمدیہ سے خطاب حضرت مولا نا دوست محمد صاحب شاہد کا ایک مکتوب 11 حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کی طرف سے ذکر خیر 3 4 12 14 16 20 21 24 26 12 مکرم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر کا کلام (از طرف پروفیسرڈاکٹر پرویز پروازی صاحب) 27 13 حضرت مولانا ظفر محمد صاحب ظفر کی یاد میں ( از طرف محمد نواز مومن صاحب) 33 14 15 حکیم نیر واسطی (ستارہ خدمت) کے خطوط محترم مولانا ظفرمحمد صاحب کی یاد میں (از طرف مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری) 21 نعت خیر الرسل صلی اللہ علیہ وسلم 22 مقام احمد صلی اللہ علیہ وسلم سُورہ فاتحہ کے آئینہ میں 23 نعت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم 24 خطاب به حضرت خاتم النبین ع 25 در مدح قرآن کریم 26 نذرانہ عقیدت بحضور امام آخر الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام 27 حضرت بانی جماعت احمدیہ کی تصویر دیکھ کر 28 چودھویں کے چاند کو دیکھ کر 29 در مدح حضرت مصلح موعود حافظ ( حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی یورپ کو روانگی ) تیرے بغیر رُوح جماعت اُداس ہے 30 51 31 59

Page 5

iv نمبر شمار 32 در مدح حضرت مصلح موعود عنوان صفحہ نمبر شمار 33 رود چناب پر حضرت مصلح موعودؓ کی سیر 34 35 36 حضرت مصلح موعودؓ کا ایک پیغام پڑھ کر حضرت امیر المومنین سے التجا عنوان 48 بعض مظلوم احمد یوں کی زبان سے جن کا بائیکاٹ کیا گیا 49 اس کا ہے نام گھر تو کافر ہیں احمدی ! 136 صفحه 138 141 101 104 50 106 51 109 دیار افریقہ (1970 ء) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی پہلی بار افریقہ 111 روانگی 37 اهلا وسهلا و مَرْحَبًا: حضرت خلیفہ مسیح الثالث کی افریقہ سے کامیاب مراجعت پر 38 خوش آمدید: حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی افریقہ سے کامیاب مراجعت پر میں کون ہوں؟ عزم وفا 41 جذبات ظفر 39 40 42 میری آرزو عالم باعمل و عاشق قرآن بنوں“ 43 44 مقام توکل اور دُعا زندگی 45 دار فانی 46 شمع کے حضور پروانے 47 ربوہ ہے وہ چٹان جو ٹکر ا یا مٹ گیا مشکل ہے ترانه ناصرات احمدی خاتون کے نام.اپنی بیگم کی زبان سے 53 بعض یورپین لیڈیز کو برقعے میں دیکھ کر ( بزبان اہلیہ ام ) مقبول جہاں.قادیان 55 ایک دوست کو فراق قادیان میں روتے دیکھ کر درویشان قادیان کے نام 57 طلبا جامعہ کے نام 54 113 115 56 117 119 58 121 123 125 127 62 130 131 134 سرچشمه مرت 59 نَحْنُ أَنْصَارُ الله 60 سورہ جمعہ کا پیام دور حاضر کے مسلم کے نام 61 آسمانی نوشته اپنے خالق کے حضور 63 مجھ کو تو خُدا میرا نظر آتا ہے ہر جا 64 عالم سے دور بیٹھے ہیں عالم کے درمیاں وو 65 وہ بھی نشاطِ رُوح کا ساماں نہ کر سکے 142 144 146 147 149 151 153 155 159 161 165 167 169 171 173

Page 6

66 زندگی جاوداں V 175 215 vi 83 سیاحت کشمیر (1938ء) عنوان نمبر شمار عنوان صفح نمبر شمار 67 68 69 مر دراه دان حوالات کی رات 71 84 177 179 86 181 87 183 187 89 189 192 کراچی 1964ء 85 غزل ورشه داؤد رباعی 88 نصرت الہی دعوت مشاعرہ کے جواب میں 70 دل بھی اپنا پاک کر اے بندہ حرص و ہوا جبر و قدر 72 استاذی المکرم حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی یاد میں 73 حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ کی وفات پر 74 حَبَّذا ! اے حافظ روشن علی ! 75 حضرت مولانا ابو العطاء مرحوم کی وفات پر 194 197 76 امام مسجد لندن مکرم و محترم مولوی فرزند علی خان صاحب کی یورپ سے 199 قادیان واپسی پر 77 عزیزم طاہر احمد ظفر سلمہ اللہ کی پیدائش پر 78 79 80 ابتدائی کلام کے چند نمونے 90 بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا 91 خطاب به ساقی 92 بارگاہ ایزدی میں مسلم کی فریا د اور اُس کا جواب 193 میں احمدی ہوں اور مجھے اس پہ ناز ہے 94 تحريض عمل 95 201 خدا حافظ ( عزیزم منیر نواز ابن چودھری شاہ نواز کی امریکہ روانگی کے موقع پر 203 خضر حیات خان کے استعفاء دینے پر سیاست احرار 81 احرار کی باطل توقعات کا مومنانہ جواب 82 کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہو گئے 96 96 206 97 208 210 98 213 جلسہ سالانہ قادیان کا روح پرور نظارہ مقام محمد عليه وسلم صلى الله متفرقات فارسی کلام صفحه 217 218 220 221 222 223 225 227 228 232 234 236 246239 247 249

Page 7

307 صفحہ 316 322 329 334 335 338 344 346 349 351 viii vii 99 صلى الله نعت النبي عليه وسلم 100 بر روئے خاک شجره راحت خلافت است نمبر شمار عنوان 101 مانند آفتاب در خشد امام ما 102 | "هرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق“ 251 253 114 | وَمَنْ كَانَ لِلَّهِ الْعَلِيِّ سَيَغْلِبُ الْجَوَابُ مِنْ قِبَلِ الْإِسْلَامِ صفحه نمبر شمار عنوان 255 257 103 | شراب روح پرور بخش ساقی مصرع اول فارسی ، مصرع ثانی عربی) 260 104 | اقبال کی ایک فارسی غزل عربی لباس میں 105 عربی کلام 266 269 271 274 106 قَصِيدَةٌ عَرَبَيَّةٌ فِي مَدْحِ الْقُرآنِ الكَرِيمِ 107 قَصِيدَةٌ عَرَبَيَّةٌ فِي مَدْحِ الْقُرآنِ الكَرِيمِ 108 ترجمه اشعار سید نا حضرت بانی جماعت احمدیہ 109 بمناسبة وُرُودُ سَيّدِنَا أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ بِقَرْيَةِ أَحْمَد نَغَرَ ( وَقْتَ المَسَاءِ ) 110 التَّرْحِيبُ.استقباليه قصيده بِوُرُودِ امير المؤمنين بَعْدَ سَفَرِه 283 277 279 115 آمِتُنِي فِي الْمَحَبَّةِ وَلْوِدَادِ وَكُنْ فِي هَذِهِ لِي وَالْمَعَادِ 116 ذِكْرُ نَصْرِ اللَّهِ الْعَظِيمِ 117 التَّرْحِيْب - بِفَخَامَةِ مُعَمَّرَ الْقَذَا فِي رَئِيسِ مَمُلُكَةِ لِيُبيَا 118 ایک عرب عیسائی پادری کے خط کے جواب میں 119 صَلُّوا عَلَيْهِ وَالِهِ 120 فِي ذَمِّ الأَحْزَابِ الْمُسْتَعْمِرَةِ الْجَائِرَةِ 121 | فِي رَجُلٍ مُتَكَبِّرٍ سَبَّ إِمَامَنَا 122 حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی بلاد شام سے واپسی پر 123 | فِي ذِكُرى - مَوْلُنَا جَلَالِ الدِّين شَمس المرحوم 124 | التَرْحِيْبُ بِفَخَامَةِ رَئِيسِ الْجَمُهُورِيَّةِ الْعَرَاقِيَّةِ آنریبل صدر جمہوریہ عراق کو خوش آمدید 288 291 300 إِلَى بَلَادِ اَوْرُبا 111 الدعا بحضرة الباري في حق سيدنا خليفة المسيح الثاني 112 | صَوْتُ السَّمَاءِ 113 خیر مقدم حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب

Page 8

اظہار تشکر کلام ظفر مکرم و محترم حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا میں بے حد ممنون ہوں کہ انہوں نے باوجود گوناگوں مصروفیات کے میرے کلام کو دیکھا اور اس پر تبصرہ فرمایا.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.آمین ایسے ہی میں مکرم و محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت ہائے احمد یہ ضلع فیصل آباد کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے باوجود پیرانہ سالی اور کمزوری صحت کے میرے کلام کو دیکھنے کی تکلیف گوار فرمائی اور پیش لفظ تحریر فرمایا.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے.آمین علاوہ ازیں میں محترم صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب کا بھی بہت ممنون ہوں کہ جنہوں نے اپنی بے حد مصروفیات کے باوجود اس کتاب کی کتابت اور طباعت کے فکر سے مجھے بے نیاز کر کے خود ہی اس کا اہتمام و انتظام فرما دیا.صاحبزادہ صاحب موصوف کی امداد کے بغیر جلسہ سالانہ سے پیشتر اس کی اشاعت میرے لئے ناممکن تھی.محترم صاحبزادہ صاحب کے اس غیر معمولی تعاون کا میں شکر گزار ہوں.فجزاه الله احسن الجزاء 2 کلام ظفر یہ خوشنما پھولوں کا گلدستہ ہے حضرت صاحبزادہ مرزاطاہراحمد صاحب (خلیفہ مسیح الرابع) میں نے شروع سے آخر تک یہ تمام کلام پر لطف اور پُر مغز پایا ہے.ممکن نہیں کہ انسان اس پر محض سرسری نظر ڈالتے ہوئے گزر جائے.کئی مقامات پر ٹھہر کر اطمینان سے اسی طرح لطف اندوز ہونا پڑتا ہے جیسے حسین قدرتی مناظر انسان کے قدم تھام لیتے ہیں.ایک بھی نظم ایسی نہیں جو بے مقصد شاعری یعنی شاعری برائے شاعری کے ضمن میں آتی ہوا اور حقیقت اور خلوص سے عاری ہو.زبان بھی نہایت سلیس اور ہلکی پھلکی ہے سوائے اس کے کہ معانی کا وفو رمشکل عربی اور فارسی الفاظ کے استعمال پر مجبور کر رہا ہو.طرز بیان نہایت دل نشین.فارسی اُردو اور عربی پر برابر دسترس ! ما شاء اللہ.یہ مجموعہ کلام علم وفضل کا ایک مرقع اور ایک خوشنما پھولوں کا گلدستہ ہے جسے آپ کے خلوص اور ایمان نے ایک عجیب تازگی اور مہک عطا کر دی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی عمر صحت علم اور عمل میں برکت دے اور حقیقی اور دائمی مسرتیں عطا فرمائے اور اولاد کی طرف سے بھی آپ کو آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کی طمانیت نصیب ہو.“ خاکسار مرزا طاہر احمد 17 مارچ 1358 هش

Page 9

3 کلام ظفر 4 کلام ظفر پیش لفظ محترم مولانا ظفر محمد صاحب سابق پروفیسر جامعہ احمد یہ ربوہ کی نظموں کا یہ مجموعہ احباب کی خدمت میں پیش ہے.یہ نظمیں وقتا فوقتا سلسلہ حقہ کے اخبارات ورسائل میں شائع ہوتی رہی ہیں اور بفضلِ خدا مقبول خاص و عام ہو چکی ہیں.محترم مولانا ظفر محمد صاحب اُردو کے بہت خوش گوشاعر ہیں.علاوہ ازیں انہیں عربی اور فارسی نظم لکھنے کا بھی ملکہ ہے اور یہ بات خاکسار نے خاص طور پر دیکھی کہ باوجود ایک اعلیٰ شاعر ہونے کے وہ سراپا عجز وانکسار ہیں اور نام و نمود سے بے نیاز.محترم ظفر محمد صاحب کا اسلوب کلام ، سلاست اور روانی محاورہ اور بندش کی خوبی اور فن شاعری کے لحاظ سے ایک قابل قدر تصنیف ہے اور بہت سی نظمیں اپنی خوبی کے لحاظ سے سہل ممتنع ہیں.یہ مجموعہ سلسلے کے لٹریچر میں ایک قیمتی اضافہ ہے اور احباب اس مجموعے کو انشاء اللہ دلکش اور مفید پائیں گے.نظموں میں دینی پہلو کو مد نظر رکھنا اور بے جا مبالغہ سے بچنا جماعت کے شعراء کا ایک امتیاز ہے جو اس مجموعے میں بھی نمایاں ہے.اللہ تعالیٰ مولانا ظفر محمد صاحب کو جزائے خیر دے اور ان کے اس مجموعہ کلام میں برکت عطا فرمائے.حضرت مولاناظفر محمد صاحب ظفر تعارف اور جماعتی خدمات (ایڈیشن اوّل) خدا تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ جس نے اس ناچیز کو والدم بزرگوار محترم ظفر محمد صاحب ظفر کا متفرق کلام جمع کر کے شائع کرنے کی توفیق بخشی.میں نے چاہا کہ اس مجموعہ کلام کے ساتھ محترم والد صاحب کے مختصر حالات زندگی بھی بغرض تعارف شائع کر دیے جائیں.سو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مختصر کوائف سپر د قلم ہیں.آپ 19اپریل 1908ء کو بستی مندرانی میں پیدا ہوئے.یہ بستی ضلع ڈیرہ غازیخان کے مشہور قصبہ تونسہ شریف کے جنوب مغرب کی جانب چار پانچ میل کے فاصلہ پر کوہ سلیمان کے دامن میں واقع ہے.آپ کے والد بزرگوار حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی رفیق حضرت مسیح موعود زمیندار تھے.آپ اپنے علاقہ میں اپنے علم وفضل کی بدولت مشہور تھے.آپ عربی اور فارسی زبان کے عالم تھے.فارسی زبان میں فی البدیہ اشعار کہتے تھے.اُن کا ایک مجموعہ کلام تھا مگر افسوس کہ وہ ضائع ہو گیا.آپ مثنوی رومی کا درس دیا کرتے تھے.سفید ریش پٹھان اور بلوچ آپ کے شاگرد تھے.آپ کے اُستاد حضرت حافظ میاں رانجھا صاحب ایک صاحب کشف و کرامات بزرگ تھے.ایک دفعہ انہوں نے آپ سے فرمایا: حافظ صاحب ! میں اس دار فانی سے گزر جاؤں گا اور آپ زندہ ہوں گے کہ امام مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے.انکار نہ کرنا

Page 10

5 کلام ظفر چنا نچہ آپ نے سابقہ روایات کے پیش نظر جہاد کی غرض سے تلوار خرید رکھی تھی.1901ء میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آواز آپ تک پہنچی تو آپ مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو گئے اور جو نمازی آتا اُسے کہتے حضرت امام مہدی علیہ السلام آگئے ہیں.لہذا اُن کی بیعت کے لئے اپنا نام لکھوا دو.سو ہر نمازی نے اپنا نام لکھوا دیا اور اسی سال آپ کو پہلے تحریری پھر 1903ء میں اپنے تمام ساتھیوں سمیت قادیان جا کر دستی بیعت کا شرف حاصل ہوا.آپ کی بیعت کا اعلان 24 ستمبر 1901ءالحکم کے صفحہ 12 پر موجود ہے.اس طرح یہ چھوٹی سی بستی حضرت بانی جماعت احمدیہ کے غلاموں کا گہوارہ بن گئی.ان بزرگوں کے حالات الفضل میں شائع ہو چکے ہیں.آپ نے اپنے چوتھے فرزند یعنی ہمارے ابا جان کو بعمر 13 سال قادیان بھجوادیا.آپ 23 مارچ 1921ء کو قادیان پہنچے اور مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے.آپ کی ذہانت کا یہ حال تھا کہ ایک سال میں دو جماعتوں کا امتحان دیا اور حافظہ اس پایہ کا تھا کہ جو کچھ پڑھتے زبانی یاد ہو جاتا.غالباً 1923 ء میں صاحبزادہ میاں ناصر احمد صاحب موجوده امام جماعت احمد یہ ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور اس طرح ابا جان کو آپ کے ہم جماعت ہونے کا شرف حاصل ہو گیا.1929ء میں والد صاحب بیمار ہو گئے.آپ کے اساتذہ نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ اس سال مولوی فاضل کا امتحان نہ دیں لیکن آپ نے کہا مجھے اجازت دے دیں میں انشاء اللہ تعالیٰ فیل نہیں ہوں گا.چنانچہ آپ مولوی فاضل میں اچھی پوزیشن لے کر کامیاب ہو گئے.اور حضرت میاں صاحب بھی نہایت شاندار پوزیشن لے کر کامیاب ہو گئے.31-1930 ء تک والد محترم جامعہ احمدیہ میں داخل رہے.جہاں سے آپ نے رسالہ ”جامعہ احمدیہ کے دو شمارے نکالے جن میں سے ایک سالانہ نمبر دسمبر 1930ء تھا جو بے حد مقبول ہوا.جامعہ احمدیہ سے مبلغین کلاس پاس کرنے کے بعد 17 جولائی 1931ء کو آپ کا نکاح صوبیدار میجر حضرت ڈاکٹر ظفر حسن صاحب رفیق حضرت مسیح موعود کی 6 کلام ظفر صاحبزادی محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ سے ہوا.ہماری امی جان ایک فرشتہ سیرت ، نیک فطرت اور دعا گو خاتون ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کا سایہ تا دیر ہمارے سر پر قائم رکھے.آمین محترم والد صاحب جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بہاولپور میں بطور مبلغ متعین کئے گئے.حضرت مولانا غلام احمد صاحب اختر جو کہ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب سجادہ نشین کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے اُن دنوں بہاول پور میں مقیم تھے.ایک دن اُنہوں نے آپ سے کہا.”مولوی صاحب آپ قادیان سے تشریف لائے ہیں مجھے ایک فتویٰ دیں.اس وقت میری عمر اسی سال ہے.کیا میں روزہ رکھوں یا نہ؟ آپ نے جواب دیا.”آپ کے چھوٹے بچے کی عمر کتنی ہے؟ انہوں نے جواب میں کہا ”سال ڈیڑھ سال ہے.“ اس پر آپ نے کہا ”آپ ضرور روزے رکھیں.“ اس جواب پر حضرت اختر صاحب مرحوم بہت ہنسے اور فرمایا ”آپ نے مجھے مارڈالا ہے.“ ย بہاولپور میں آپ تھوڑا عرصہ ہی رہے تھے کہ آپ کو مدرسہ احمدیہ قادیان میں معلم مقرر کر دیا گیا.1934ء میں آپ حضرت مصلح موعودؓ کے اسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری اور 1935ء میں پہلے سیکرٹری نیشنل لیگ قادیان مقرر ہوئے.1937ء میں بطور ناظم کارِ خاص حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی زیر نگرانی کام کرتے رہے.حضرت میاں صاحب کو آپ سے بہت پیار تھا اور آپ پر بہت مہربان تھے اور کبھی کبھی آپ کے گھر پر تشریف بھی لاتے تھے.آپ 1938 ء تک نصرت گرلز ہائی سکول میں بھی پڑھاتے رہے.آپ ان تمام کاموں کے ساتھ ساتھ دارالقضاء میں بطور قاضی کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے.حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو طالب علمی کے زمانہ میں ہی قاضی مقرر کر دیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک دفعہ مدرسہ احمدیہ، ہائی سکول اور جامعہ احمدیہ کے طلباء نہر پر گئے وہاں جا کر لڑکوں میں کچھ کشمکش ہوگئی.اس کی تحقیق کے لئے ایک لڑکا ہائی سکول سے، ایک جامعہ احمدیہ سے اور آپ کو مدرسہ احمدیہ سے لیا گیا.آپ کو اس سہ رکنی کمیشن کا صدر مقرر کیا گیا.

Page 11

7 کلام ظفر آپ نے تحقیق کے بعد جو فیصلہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں پیش کیا حضور اُس سے بے حد خوش ہوئے اور فر مایا دنیا کا کوئی قاضی اس سے بہتر فیصلہ نہیں دے سکتا.یہی وجہ تھی کہ بعد میں حضور نے آپ کو مستقل قاضی مقرر فرما دیا.ایک دفعہ بٹالہ کے دو دوستوں کا قضیہ قادیان دارالامان میں آیا.پہلے کچھ عرصہ دفاتر میں چلتا رہا پھر قضاء میں آیا.پہلے ایک قاضی نے فیصلہ کیا، پھر دو قاضیوں نے فیصلہ کیا، پھر تین قاضیوں کے بورڈ میں پیش ہوا جس میں آپ بھی شامل تھے.دفاتر اور جملہ قاضیوں کا فیصلہ مدعی کے حق میں تھا لیکن آپ نے اُن سب فیصلوں سے اختلاف کیا اور الگ اپنا فیصلہ لکھا.اس پر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں اپیل ہوئی.حضور نے اسی ضمن میں جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کو جو بعد میں ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے لاہور سے بلو ایا اور آپ کا فیصلہ دکھایا.محترم شیخ صاحب نے آپ کے دیئے ہوئے فیصلہ کی تائید فرمائی اور حضور نے اسی فیصلہ کو نافذ فرما دیا.اس فیصلہ کے پڑھنے کے بعد محترم شیخ صاحب موصوف نے فرمایا کہ میں اس نوجوان کو دیکھنا چاہتا ہوں.چنانچہ آپ جب شیخ صاحب موصوف سے ملے تو اُنہوں نے آپ کو مبارک با داور داد دی.مارچ 1939ء میں آپ کو اپنے وطن ضلع ڈیرہ غازی خان جانا پڑا اور مارچ 1944ء تک آپ وہیں رہے.اس عرصہ میں آپ نے ادیب فاضل، منشی فاضل اور ایف اے کے امتحانات پاس کئے.1944ء میں آپ کو جامعہ احمدیہ میں پروفیسر لگا دیا گیا.آپ 1956ء تک جامعہ احمدیہ میں پڑھاتے رہے.پھر آنکھوں کی تکلیف کے باعث درس تدریس کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے.اور قضاء میں وکالت شروع کر دی.کسی کا وکیل بننے سے پہلے آپ خود تسلی کر لیتے تھے کہ آیا موکل حق پر ہے یا نہیں اور اگر کسی کو حق پر نہ پاتے تو اُس کی وکالت کرنے سے انکار کر دیتے تھے.آپ 1964ء تا 1966ء کراچی میں رہے اور وہاں مکرم و محترم چودھری احمد مختار 8 کلام ظفر صاحب امیر جماعت کراچی کی خواہش پر حضرت بانی جماعت احمدیہ کی عربی کتب کا اُنہیں اُردو میں ترجمہ کر کے دیا.واپس آکر آپ نے ایک کتاب بعنوان ”معجزات القرآن تصنیف فرمائی (جو کہ 2001ء میں چھپ چکی ہے.) جس کی بعض اہم اور بزرگ ہستیوں نے بہت تعریف فرمائی جن میں حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ اور حضرت مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ صوبائی امیر خاص طور پر قابل ذکر ہیں.آپ کی دیگر کتب کی تفصیل (1) حروف مقطعات کی حقیقت (2) ” قرآن زمانے کے آئینہ میں ( 3 ) ” ہمارا قرآن اور اس کا اسلوب بیان یہ تینوں کتب ابھی تک طبع نہیں ہو سکیں.اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو کچھ عرصہ کے بعد شائع ہو جائیں گی.(4) سوانح صوفیا (شائع شدہ 1951ء) 1975ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے محترم مولانا صادق صاحب کو سورۃ کہف کی اردو تفسیر جو حضرت مصلح موعودؓ نے لکھی تھی.اُس کا عربی میں ترجمہ کرنے کا ارشاد فرمایا ساتھ ہی ابا جان کو بھی ان کی مدد کے لئے مقرر کیا گیا.آپ کا زیادہ تر لگا ؤ قرآن شریف سے ہے اور قرآنِ شریف ہی کے بارے میں مضامین لکھواتے رہتے ہیں جو وقتا فوقتع الفضل میں شائع ہوتے رہتے ہیں.آخر میں آپ کی زندگی کے چند ایسے واقعات پیش کرتا ہوں جو آپ کی ذہانت ،فراست، راست بازی اور توکل علی اللہ کے آئینہ دار ہیں.کافی عرصہ پہلے کی بات ہے آپ نے ایک دفعہ ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خاص مسمریزم کی قوت ودیعت کی ہوئی ہے لیکن میں نے کبھی اس کی مشق نہیں کی.پھر آپ نے اپنے بچپن کے دو واقعات سنائے.پہلے دونوں واقعات مسمریزم ہی سے متعلقہ ہیں.(1) آپ نے بتایا جب میں دس گیارہ برس کا تھا تو پہاڑ کے دامن میں ایک بہت بڑے پتھر پر میری نظر پڑی میں اس کے پاس کھڑا ہو کر اُسے دیکھنے لگا اور دل میں خیال آیا کہ

Page 12

9 کلا ظفر اگر اس کو اس طرح چیرا جائے تو یہ خر اس کے دو پاٹ بن جائیں گے اور اس تصور کے بعد میں آگے چلا گیا.چند لحوں کے بعد جب میں واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی پتھر بعینہ اسی طرح چیرا پڑا تھا جس طرح میں نے تصور کیا تھا.(2) مسمریزم کا دوسرا واقعہ : ایک دفعہ 14 ،15 سال کی عمر میں ایک سنسان ویرانے میں سے گزر رہے تھے کہ ایک خانہ بدوش قوم کا ایک بھیانک اور خونخوار کتا آپ کی طرف دوفر لانگ کے فاصلہ سے لپک کر آیا.گتے کے مالک نے زور سے آواز دی کہ بھاگ جاؤ ورنہ یہ تمہیں کھا جائے گا.مگر بھا گنا بے سود تھا.آپ گتے کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو گئے اور گتا دو تین گز کے فاصلہ پر آکر یکدم رک تو گیا مگر زور سے غر ا تا اور دم مارتا رہا اور آپ آنکھ جھپکے بغیر ٹکٹکی لگا کر اُسے گھورتے رہے.ایک دومنٹ کے بعد گنتے نے چیخ ماری اور پیچھے گر پڑا اور جب گھر کی طرف بھاگنے لگا تو بار بار چیخ مار کر منہ کے بل گر پڑتا تھا.(3) ایک دفعہ آپ اپنی ایک رشتہ دار خاتون کے ساتھ چلے جا رہے تھے کہ سامنے سے ایک بارہ تیرہ سال کا لڑکا دُور سے آتا ہوا نظر آیا.آپ نے اُس خاتون سے کہا.میں نے ایک نظارہ دیکھا ہے.وہ یہ ہے کہ اس لڑکے نے آپ سے مذاق کیا ہے اور میں نے اسے تھپڑ مارا ہے.اُس خاتون نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کچھ دیر کے بعد جب وہ لڑکا قریب آیا تو اُس نے خاتون سے مذاق کیا اور آپ نے اس پر اُسے تھپڑ لگا دیا.(4) ایک رات قادیان میں ایک احمدی کے گھر سے بہت سے قیمتی زیورات کی چوری ہو گئی.آپ بٹالہ جانے کے لئے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو وہاں ایک شخص نے آپ کی طرف دیکھا اور آپ نے اُس کی طرف دیکھا تو آپ کو یقین ہو گیا کہ یہی شخص چور ہے.آپ نے پولیس کو اطلاع دے دی.چنانچہ بعد میں چوری ثابت ہوگئی اور وہ شخص قید ہو گیا.(5) پاکستان بننے پر جب ہندوستان میں مسلمانوں کا قتلِ عام شروع ہو گیا اور قادیان کے گردونواح میں بھی خطرہ لاحق ہو گیا.مرکز نے آپ کو کسی کام کے سلسلہ میں ملتان ڈویژن 10 کلام ظفر جانے کا حکم دیا.آپ نے درخواست دی کہ مجھے اجازت دی جائے میں اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے جاؤں.اس پر اجازت تو مل گئی لیکن مشکل یہ پیش آئی کہ آپ کے پاس اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے جانے کے لئے کرایہ نہ تھا.لہذا آپ ساری رات نوافل پڑھتے رہے اور رو رو کر دعائیں کرتے رہے اور جب صبح کی نماز کا وقت قریب ہونے کو تھا تو آپ کو سجدہ میں زور سے ایک آواز آئی هُوَ الَّذِي أَحْيَاكُمُ بَعْدَ مَا أَمَاتَكُمْ “ یعنی خدا نے تمہیں موت کے بعد زندگی بخش دی.چنانچہ جب صبح ہوئی آپ نے اپنے بیوی بچوں سے کہا کہ آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے بخریت پاکستان پہنچ جائیں گے.اللہ تعالیٰ کرایہ کا بھی انتظام کر دے گا.پھر تھوڑی دیر بعد کسی نے دروازہ پر دستک دی.آپ دروازہ پر پہنچے تو ایک شخص نے آپ کو پچاس روپے دیئے اور کہا یہ رقم حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے آپ کو بھیجی ہے اور فرمایا ہے اگر مزید ضرورت ہو تو اور بھی منگوالیں اور اس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ساری مشکلات حل کر دیں.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِکَ.(6) ایک دفعہ آپ حکیم غیر واسطی صاحب کے پاس بیٹھے تھے اور طب کے موضوع پر باتیں ہو رہی تھیں کلونجی کی بات چھیڑی تو آپ نے کہا کہ اس کے نام کے اندر ہی اس کی افادیت بیان ہے.حکیم صاحب نے دریافت کیا وہ کیا ؟ اس پر آپ نے کہا کہ یہ لفظ گل اور نجا سے مرکب ہے یعنی کھا اور بیماری سے نجات پا جا.حکیم صاحب مرحوم نے اس نکتے پر بڑی تحسین کی اور دیر تک جھومتے رہے.ہمارے والد محترم اپنی طبیعت کے لحاظ سے ایک خوش مزاج، سادگی پسند، نام و نمود سے متنفر ، دنیا طلبی سے بے نیاز مستغنی مزاج اور بچوں سے پیار کرنے والے بزرگ ہیں.ایک دفعہ مالی تنگی کے ایام میں آپ نے اللہ تعالیٰ سے ہیں روپے مانگے.اللہ تعالیٰ نے ہیں روپے تو دے دیئے لیکن ساتھ ہی خواب میں ایک ایسا نظارہ آپ کو دکھایا جس کا مقصد یہ تھا کہ مجھ سے یہ چیز کیوں مانگتے ہو؟ مجھ سے میرافضل مانگو.غالباً یہی وجہ ہے کہ میں نے ہمیشہ، خواہ

Page 13

11 کلا ظفر حالات سازگار ہوں یا ناسازگار ہوں آپ کو خوش و خرم اور مطمئن دیکھا ہے.آپ اپنے خطبات جمعہ اور درسوں میں حُسنِ معاملہ، حسنِ اخلاق اور تربیت اولاد پر بے حد زور دیتے ہیں.آج کل آپ بینائی کی کمزوری کے باعث قرآن شریف کی تلاوت سے محروم ہیں لیکن اس کمی کو پورا کرنے کے لئے آپ نے پورے قرآن مجید کے کیسٹ رکھے ہوئے ہیں جنہیں آپ باقاعدگی سے دیر تک سنتے رہتے ہیں.آپ قیموں، غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کی جستجو میں رہتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہو اُن کی مدد کرتے ہیں.آپ کا اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے سلوک بھی قابلِ رشک ہے.بالآخر ہماری دُعا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے اور ہم آپ کی دعاؤں سے مستفیض ہوتے رہیں.آمین ثم آمین خاکسار طالب دعا مبارک احمد ظفر احمد نگر نز در بوه ضلع جھنگ مؤرخہ 25 ماہ ذوالحجہ 1400 ہجری قمری بمطابق 4/ ماہِ نبوت 1359 هجری شمسی و 4 رنومبر 1980ء 12 تعارف (ایڈیشن سوم ) کلام ظفر خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے خاکسار کو والد محترم حضرت مولانا ظفر محمد صاحب ظفر مرحوم کے کلام کو نئے اضافوں کے ساتھ شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.الحمد للهِ عَلَى ذَالِكَ پہلا ایڈیشن 1980ء میں جبکہ دوسرا 2010ء میں شائع ہوا پہلے دونوں ایڈیشن میرے بڑے بھائی مکرم مبارک احمد ظفر صاحب کو شائع کرنے کی توفیق ملی.اس سلسلہ میں انہوں نے خاصی عرق ریزی کی اور بڑی محنت و محبت سے ابا جان کے کلام کو یکجا کیا.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ان کی جزا بن جائے.آمین اللهم آمین.نئے ایڈیشن میں محترم والد صاحب کے بارے میں خلفاء سلسلہ احمدیہ اور چند بزرگان کی آراء اور ذکر خیر کوبھی شامل کیا گیا ہے اور بعض اعلیٰ اہل علم شخصیات کا بھی ذکر ہے جن کا والد صاحب سے علم وادب اور شاعری کے حوالہ سے گہرا اور دیر یہ تعلق رہا ہے.محترم والد صاحب کی وفات جو کہ 23 راپریل 1982ء میں ہوئی اُن کی وفات پر اذْكُرُوا مَوْتَاكُمُ بِالْخَيْرِ کے حوالہ سے چند خطوط بھی شامل ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت ہماری والدہ صاحبہ اور ہم سب بہن بھائیوں کے ساتھ تقریبا نصف گھنٹہ قصر خلافت میں تعزیت کی.حضرت مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ) نے جو کہ اُس وقت ناظم وقف جدید تھے اپنے تعزیتی خط میں تحریر فرمایا: ”حضرت مولوی صاحب مرحوم سے میرا بہت گہرا ذاتی تعلق تھا اور بہت ہی شفقت فرماتے تھے.اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے.سلسلہ کا ایک مخلص خدا ترس، خدا رسیدہ عالم گزر گیا جوسب جماعت کا نقصان ہے محض آپ کا نہیں.“

Page 14

13 کلام ظفر 14 کلام ظفر مزید برآں میں اپنے بھتیجے مکرم آصف احمد ظفر صاحب ابن برادرم محترم ناصر احمد ظفر صاحب کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ جنہوں نے جماعت کے پرانے اخبارات اور رسائل سے حضرت ابا جان کا کچھ ایسا کلام تلاش کیا ہے جو اس سے قبل ” کلام ظفر“ کی زینت نہیں بنا تھا.کچھ حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے ارشاد پر ایسی نظموں کو بھی مکمل کیا جو کلام ظفر میں شامل تو تھیں لیکن نامکمل تھیں نیز فارسی حصہ میں پہلے سے موجود فارسی نظموں کے تراجم کے علاوہ نئی شامل ہونے والی عربی نظموں کے بھی تراجم کروائے.اور یہ بھی کوشش کی گئی ہے کہ ممکن حد تک تمام نظموں کے حوالہ جات درج کر دیئے جائیں.نیز نظموں کی ترتیب کو بھی پہلے سے بہتر کرنے کی کوشش کی گئی ہے.عزیزم آصف نے پہلے دوایڈیشنوں کی کمی کو دور کیا اور پروف کی غلطیوں کی نشاندہی کی اور بڑی محنت ،شوق اور توجہ کے ساتھ اس کی تیاری اور تکمیل کی اللہ تعالیٰ اُسے بے بہا فضلوں سے نوازے.آمین علاوہ ازیں خاکسار اپنی اہلیہ محترمہ جو کہ جرمن احمدی ہیں اور الحمد للہ جماعتی خدمت کی بھی توفیق پا رہی ہیں اُن کے لئے اور اپنی اولاد کے لئے بھی خصوصی طور پر دعا کی درخواست کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو مقبول خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے اور ان کو اپنے بزرگوں کی نیک روایات کو برقرار رکھنے والا بنائے.اور مجھے ابا جان کی ان دعاؤں کا حقیقی وارث بنائے جو انہوں نے اپنی ایک نظم میں میرے متعلق کی ہیں.(آمین ) اللہ تعالیٰ والد صاحب مرحوم کی ساری اولاد اور سارے خاندان کو ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھے.اور ہمیشہ احمدیت کے پرچم کو بلند سے بلند تر کرنے والے ہوں.آمین آخر پر میں مکرم و محترم پروفیسر محمد سلطان اکبر صاحب اور عطاء الکریم منظور صاحب مربی سلسلہ کے غیر معمولی تعاون کا بے حد شکر گزار ہوں.کہ جنہوں نے کچھ عربی اور فارسی نظموں کے تراجم کر کے دیئے نیز خاکسار مکرم محمد مقصود احمد صاحب مربی سلسلہ کا بھی شکر گزار ہے کہ جنہوں نے بڑی محبت اور محنت کے ساتھ سارے کلام کو دیکھا اور اپنی قیمتی آراء سے نوازا.فجزاهم الله احسن الجزاء.(28فروری2015ء) خاکسار طاہر احمد ظفر عربی اعظم لکھنے کی توفیق ينظم (اردو) جس کا پہلا شعر " فلک سے آئی صدا لا اله الا اللہ “ مکرم عبدالمنان صاحب ناہید کی ہے جو جلسہ سالانہ 1980 ء کے موقع پر ربوہ میں پڑھی گئی تھی.اُس 1ء جلسه سالانہ میں شمولیت کے لئے سیرالیون کے وزیر مملکت اور سیرالیون مسلم کانگرس کے سربراہ آنریبل الحاج سنوسی مصطفیٰ جنہوں نے 27 دسمبر 1980ء کو دوسرے سیشن میں احباب جماعت سے خطاب بھی کیا.حضور نے ان کو جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے مدعو کیا تھا.( وہ احمدی نہیں تھے ) ( بحوالہ الفضل 3 /جنوری 1981ء) جس وقت نظم مذکورہ پڑھی گئی تو وزیر موصوف بھی سُن رہے تھے.موصوف نے حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سے اس اُردو نظم کو عربی منظوم کلام میں ڈھالنے کی خواہش کا اظہار کیا.جس پر حضور نے بوقت ملاقات جنوری 1981 ء کے پہلے ہفتہ میں میرے بڑے بھائی مکرم مبارک احمد ظفر صاحب سے ارشاد فرمایا’ اپنے ابا سے کہیں کہ عبدالمنان صاحب ناہید کی اُردو نظم جو جلسہ سالانہ پر پڑھی گئی ہے اُس کا عربی منظوم تیار کریں.لہذا والد صاحب محترم نے ناسازی طبع کے باوجود ارشاد کی تعمیل شروع کر

Page 15

15 کلام ظفر دی.13 جنوری 1981 ء کو بھائی جان کی طرف سے لکھے گئے دعائیہ خط پر اپنے دستِ مبارک سے حضور نے یہ نوٹ تحریر فرمایا ” دعا.اور میری نظم عربی ترجمہ اور یہ خط واپس بھیجوا دیا.16 کلام ظفر حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ خاکسار کے پاس یہ خط اب بھی موجود ہے.جب مذکورہ عربی نظم مکمل ہو گئی جس میں والد صاحب نے مزید اشعار بھی شامل کئے اور حضور کی خدمت میں پیش کی گئی تو حضور نے بڑی خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا.عربی منظوم نے مفہوم کو مزید اجاگر کی زبان مبارک سے آپ کا ذکر خیر کیا ہے.مذکورہ عربی نظم 1989ء میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھجوائی گئی محررہ 18 جنوری 1989ء میں لکھے گئے خط میں حضور نے پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور لکھا.محترم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر کی ماشاء اللہ یہ بڑی اچھی کوشش ہے..محترم مولانا ظفر محمد صاحب کی کوئی اور عربی نظمیں یا عربی مضامین ہوں تو وہ بھی یہاں بھجوا دیں یہاں سے اُنہیں انشاء اللہ عربی رسالہ میں شائع کیا جائے گا....لہذا یہ نظم اُردو مکرم عبدالمنان صاحب ناہید کی ہے اور صوت السماء عربی منظوم خاکسار کے والد محترم مولا نا ظفرمحمد صاحب ظفر کا ہے.طاہر احمد ظفر نوٹ : مذکورہ عربی نظم صوتُ السَّمَاء‘ صفحہ 291 پر موجود ہے.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے درس القرآن (حروف مقطعات) مورخہ 10 جنوری 1987ء میں فرمایا جو کہ انگریزی میں تھا اور ساتھ ہی اس کا اُردو میں ترجمہ بھی نشر ہوا.وہ پیش خدمت ہے......احمدی سکالر مولوی ظفر محمد صاحب تھے (جنہیں ) مقطعات پر تحقیق کرنے کا بڑا شوق تھا اور بڑی محنت سے اُن پر تحقیق کیا کرتے تھے.ایک دفعہ مقطعات کی رُو سے اُنہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثالث تیسرے خلیفہ ہوں گے...یہ منع ہے کہ کسی ایک خلیفہ کی موجودگی میں کسی دوسرے خلیفہ کا نام لیا جائے انہوں نے ایک کاغذ پر لکھا اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثالث کو ہی دے دیا) اور ساتھ ہی نصیحت کی کہ میری وفات کے بعد اس کو پڑھیں یا پھر جب میں آپ کو کہوں گا پڑھیں اور بعد میں ثابت ہو گیا یہ پیشگوئی صحیح تھی.ایک دن وہ میرے پاس وقف جدید کے دفتر میں آئے اور میری طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے اور کہنے لگے میں نے چوتھے خلیفہ کا نام بھی معلوم کر لیا ہے لیکن میں آپ کو بتاؤں گا نہیں.میں نے کبھی بھی اس کے متعلق نہیں سوچا اور

Page 16

17 کلا ظفر نہ ہی اس پر کبھی توجہ دی جب اُن کی وفات ہوگئی جب میں خلیفہ بنا تو مجھے ان کی بات یاد آئی میں نے اُن کی اولاد میں سے خاص طور پر بڑے بیٹے سے کہا کہ اُن کے کاغذات میں دیکھیں.اُنہوں نے بتایا کہ ایک ڈائری وہ ہمیشہ اپنے پاس رکھا کرتے تھے لیکن وہ ہمیں مل نہیں سکی.ہوسکتا ہے وہ کہیں پڑی ہوئی ہو.میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ کس صورت کے کون سے حروف مقطعات میں سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ چوتھے خلیفہ کون ہوں گے.اب مجھے یاد آتا ہے کہ جب وہ میرے پاس آئے تھے تو اُن کی آنکھوں کی ایک چمک تھی ایک روشنی تھی اور اس سے بھی جو میرا نظریہ ہے تقویت پکڑتا ہے کہ واقعی اس میں آنے والے زمانے کی پیشگوئیاں ہیں جو آنے والے وقت میں پوری ہوتی رہتی ہیں.“ ( درس القرآن 10 جنوری 1987 ء سورة آل عمران) حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے شعراء کے...پروگرام مورخہ 15 مارچ 1994ء میں فرمایا: وو مولوی ظفر محمد صاحب ظفر مرحوم مغفور اُردو، عربی...( فارسی ) میں بہت اعلیٰ پایہ کا کلام تھا.آپ کا میرے ساتھ اگر چہ طالب علمی اور استاد کا رشتہ تو نہیں رہا لیکن مجھ سے تعلق بہت گہرا تھا.وقف جدید میں اکثر آ کر بیٹھتے تھے اور قرآن کریم کے اوپر بھی بہت عبور تو کسی کو نہیں ہو سکتا مگر قرآنی مطالب کو سمجھنے کا شوق بہت تھا اور کئی دفعہ بڑے اچھے نکتے نکال کر لاتے تھے.ایک عجیب در ولیش انسان تھے.مولوی ظفر محمد صاحب ظفر ان کا بھی ذکر خیر اس مجلس میں چلے بھی.ان حروف مقطعات کے ضمن میں والد محترم کی کتاب ”معجزات القرآن“ شائع ہو چکی ہے.18 کے اشعار کے نمونے بھی ہوں تو اچھی بات ہے.“ کلام ظفر حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کی اطفال کے ساتھ ملاقات مورخہ یکم مارچ 2000ء کے موقع پر حضور نے فرمایا: وو ظفر محمد صاحب ظفر کی ایک غزل الفضل میں چھپی تھی اور اُس پر نوٹ تھا مدیر صاحب کا کہ ان کی ایک ہی غزل ہے تو میں سمجھا وہ کہتے ہیں ان کی ایک ہی نظم ہے.یعنی انہوں نے کبھی نظم کہی ہی نہیں تو میں نے اُن سے پوچھا یہ کیا آپ کر رہے ہیں ان کی تو بہت نظمیں ہیں.اُردو میں بھی ہیں، فارسی میں بھی ہیں ، عربی میں بھی ہیں تو پھر انہوں نے بتایا کہ وہ نظمیں ساری دینی نظمیں ہیں.جو غزل ہے وہ کوئی نہیں یعنی غزل میں تو کچھ دنیا کی باتیں کچھ دین کی سب آ جاتی ہیں تو میں نے کہا اچھا اب مجھے سمجھ آئی ہے.انہوں نے تیار کی ہے ایک غزل وہ جو الفضل میں چھپی تھی.وہ اب ظہیر سنا ئیں گے.سوچتا ہوں کہ تجھے یاد کروں یا نہ کروں دل ترے پیار سے آباد کروں یا نہ کروں تو مری جان بھی ہے دشمن ایمان بھی ہے جان و ایمان کو برباد کروں یا نہ کروں عشق کے دام میں آزار بھی آرام بھی ہے دل کو اس دام سے آزاد کروں یا نہ کروں

Page 17

19 کلام ظفر تجھ کو تیری ہی قسم جانِ جہاں تو ہی بتا تیری مجبوری میں فریاد کروں یا نہ کروں تو ملے یا نہ ملے یہ تو ہے تقدیر کی بات تیری تصویر سے دل شاد کروں یا نہ کروں چشم اغیار سے چُھپ چھپ کے کہیں رو رو کر دل افسردہ کی امداد کروں یا نہ کروں میں تو ہر لمحہ تجھے یاد کئے جاتا ہوں یونہی کہتا ہوں تجھے یاد کروں یا نہ کروں یاد میں اُس کی جو شیریں سے بھی شیریں ہے ظفر زندہ پھر قصۂ فرہاد کروں یا نہ کروں جزاکم اللہ بہت اچھے! حبذا ! ما شاء اللہ ! بہت اچھا.کلام بھی بہت اعلیٰ درجہ کا ہے.فصاحت و بلاغت کا کمال ہے.اس میں کئی جگہ تو بہت اونچے شعر ہیں.شیریں اور فرہاد والا.شیریں فرہاد کی محبوبہ تھی اور شیریں سے شیریں ہے زیادہ.تو شیریں سے بھی بڑھ کر شیریں ہے.بہت مزے کا کلام ہے.ماشاء اللہ سارا کلام میں نے ان کا دیکھا ہے.بہت اچھا کلام ہے.شاباش جزاکم اللہ یہ غزل عزیزم ظہیر نے خوش الحانی سے پڑھ کر سنائی.ناقل ) 20 کلام ظفر ملک سیف الرحمن صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ کا ایک خط به سلسله تقسیم انعامات سالانہ سپورٹس جامعہ احمدیہ مکرم محترم مولانا ظفرمحمد صاحب.احمد نگر السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ امسال جامعہ احمدیہ کی سالانہ کھیلیں انشاء اللہ العزیز 29، 30، 31 صلح (جنوری) 1980ء کومنعقد ہورہی ہیں.31 صلح (جنوری) کو اڑھائی بجے تا ساڑھے تین بجے آخری کھیلیں اور تقسیم انعامات کی تقریب ہوگی.شمولیت کے لئے درخواست ہے نیز تقسیم انعامات کے لئے حضور کی خدمت میں درخواست کی گئی ہے.حضور نے شرف قبولیت فرمالی تو جامعہ احمدیہ کے لئے عین سعادت اور خوش بختی ہوگی.بصورت دیگر آپ سے یہ بھی درخواست ہے کہ اس روز جامعہ میں تشریف لا کر اور انعامات تقسیم کر کے طلبہ کو اپنے برمحل خطاب سے مستفید ہونے کا موقع بخشیں.جزاكم الله احسن الجزاء.والسلام خاکسار (ملک سیف الرحمن) 2 جنوری 1980ء

Page 18

جامعہ احمدیہ کی سالانہ سپورٹس کی اختتامی تقریب کے موقع پرمحترم ظفر محمد صاحب ظفر سابق پروفیسر جامعہ حمد یہ انعامات تقسیم کر رہے ہیں.مکرم یوسف خالد صاحب آف سیرالیون (ویسٹ افریقہ ( انعام وصول کر رہے ہیں.( 31 جنوری 1980ء)

Page 19

21 کلا ظفر 22 کلام ظفر طلباء جامعہ احمدیہ سے خطاب اگر طالب علم شریعت کا پابند نہیں تو وہ علم سے محروم ہو جائے گا جامعہ احمدیہ کی سالانہ کھیلوں کی اختتامی تقریب سے مہمان خصوصی مولانا ظفر محمد ظفر کا خطاب (ربوہ جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل اور سابق استاد جامعہ محترم مولانا ظفر محمد ظفر صاحب نے کہا کہ اگر طالب علم شریعت کا پابند نہیں تو وہ علم سے محروم ہو جائے گا.وہ یہاں 31 جنوری (1980ء) کی شام کو جامعہ احمدیہ کی سالانہ کھیلوں کے اختتام پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کر رہے تھے.روزنامه الفضل ربوہ 6 فروری 1980ء) انہوں نے جامعہ احمدیہ کے طلباء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر عمل نہیں تو کچھ نہیں کیونکہ جو کتابیں آپ پڑھتے ہیں وہی دوسرے لوگوں نے بھی پڑھی ہوئی ہیں لیکن اگر آپ ان پر برتری حاصل کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ کا اس پر عمل بھی ہے اس لئے کوشش یہ کریں کہ جو پڑھیں اس کو اپنالیں.انہوں نے کہا کہ نفس امارہ کو مارنا آسان نہیں یہ آہستہ آہستہ مرتا ہے.اس کے لئے ہمیں ہر بات میں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے.اس کی مثال دیتے ہوئے مولا نا محترم نے کہا کہ آپ کھانا کھاتے ہوئے بسم اللہ نہیں پڑھتے تو آپ کمزور ہیں اگر کھانے کے بعد الحمد للہ نہیں کہتے تو کمزور ہیں.مسجد میں داخل ہوتے ہوئے اگر دعا نہیں پڑھتے تو کمزور ہیں.انہوں نے طلباء کونصیحت کی کہ وہ یہ یادرکھیں کہ ہر کام کا دارو مدار ضمیر اور نیت پر ہے.انہوں نے بتایا کہ انہیں خوشی ہے کہ انہیں بڑے بلند پایہ اساتذہ سے جن میں حضرت حافظ روشن علی صاحب اور حضرت میر محمد الحق صاحب وغیر ہم شامل تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا.انہوں نے کہا کہ حضرت حافظ روشن علی صاحب کا اتنا احترام ہے میرے دل میں کہ آپ لوگ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.وہ ایک چلتی پھرتی لائبریری تھے اور جس کے مقابلے پر آتے اسے منٹوں میں خاموش کرا دیتے.مولانا ظفر صاحب نے طلبائے جامعہ کے لئے دعا کی کہ فرشتے آپ کے دل و دماغ کو روشن کریں اور آپ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں.بعد ازاں محترم ملک سیف الرحمن صاحب پرنسپل نے طلباء اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور درخواست کی کہ احباب کرام جامعہ کے طلباء اور اساتذہ کے لئے دعا کریں کہ وہ اپنے فرائض بہتر سے بہتر طور پر ادا کرسکیں.اس کے بعد مہمان خصوصی محترم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر نے انعامات تقسیم فرمائے اور دعا کے بعد تقریب کا اختتام ہوا.اس تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا اور اس کے بعد جامعہ کے استاد مولانا جلال الدین قمر صاحب نے مہمان خصوصی محترم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر کا تعارف کروایا.انہوں نے کہا کہ مولانا ظفر صاحب کی پیدائش سے ایک دن قبل ان کی والدہ مرحومہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک تالاب سے ایک کٹورہ پانی کا بھر کر لائی ہیں جس کی تعبیر یہ کی گئی کہ ان کا ہونے والا بچہ زیور علم سے آراستہ ہو گا.اسی طرح بچپن میں ان کے والد مرحوم نے انہیں فرمایا کہ مبارک ہو تم پڑھ جاؤ گے.یہ پوچھنے پر کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ انہوں نے بتایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے.مولانا ظفر صاحب کا حافظہ غضب کا ہے.آپ نے

Page 20

23 کلا ظفر ایک دفعہ ایک گھنٹہ میں قرآن کریم کے نو رکوع یاد کر لئے اور مولوی فاضل کے امتحان کے لئے منطق کی مشہور کتاب شرح سلم العلوم کے ۴۰ اصفحات زبانی یاد کر لئے تعلیمی امور میں آپ کی محنت اور انہماک کا یہ عالم تھا کہ آپ نے دیوان منگھی جو کہ ایک ضخیم اور مشکل کتاب ہے از خود مولوی ذوالفقار کی اردو شرح کی مدد سے صرف سات دن میں ختم کر لی.مولانا ظفر صاحب فارسی ، عربی اور اردو تینوں زبانوں میں روانی سے اشعار کہتے ہیں.جلال الدین قمر صاحب نے ان کے مختلف اشعار بھی سنائے.مکرم جلال الدین قمر صاحب نے احباب سے درخواست کی کہ وہ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مکرم مولانا ظفر صاحب کے جسمانی عوارض دور فرمائے اور باقی عمر اچھی صحت ، اطمینان قلب اور سکون سے گزار نے کی توفیق دے اور جب اس محبوب کا بلاوا آئے تو یہ اس سے راضی ہوں اور وہ ان سے راضی ہو.آمین 24 اللہ تعالیٰ نے انہیں ذہانت اور علم کی صلاحیتوں سے نوازا تھا (حضرت خلیفہ امسح الثالث) محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کا ایک مکتوب ) محترم و مکرم جناب مبارک احمد صاحب ظفر کلام ظفر خلف الصدق مولانا ظفر محمد صاحب ظفر السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.عرض خدمت ہے کہ: 1- ایک بار میں سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کی خدمت اقدس میں پرانے قصر خلافت کی بالائی منزل کے ایک کمرہ میں حاضر تھا کہ حضور انور نے مولانا ظفر محمد صاحب ظفر کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ( نے ) انہیں ذہانت اور علم کی عظیم صلاحیتوں سے نوازا تھا جو ورطہ حیرت میں ڈالنے والی تھیں.گوالفاظ یہ نہیں تھے مگر مفہوم ( جہاں تک میری یادداشت کام دیتی ہے ) یقیناً ایسا ہی تھا.2- مولانا ظفر محمد صاحب نے مجھے ایک دفعہ برسبیل تذکرہ یہ ایمان افروز واقعہ سنایا کہ حضرت خلیفہ ثالث اور میں مدرسہ احمدیہ کی ایک ہی کلاس میں پڑھتے اور ایک ہی ڈیسک پر بیٹھتے تھے اور ہم دونوں عربی ادب سے گہرے ذوق و شوق اور شغف کے باعث یہ تمنا رکھتے تھے کہ

Page 21

25 کلام ظفر حضرت قاضی امیر حسین صاحب (ہمارے استاد ) سب سے پہلے ہمیں ہی کتاب پڑھنے کا ارشاد فرمائیں.یہی میری خواہش ہوتی اور یہی حضرت صاحبزادہ صاحب کی مگر ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ حضرت قاضی صاحب نے کمرہ میں تشریف لاتے ہی مجھے کتاب پڑھنے کی ہدایت کی.میں پڑھنے لگا تو حضرت صاحبزادہ صاحب نے میرے کان میں کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ آج تم نے مجھے سے زیادہ دعا کی ہے.اَللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ والسلام طالب دعا ( دوست محمد شاہد ) مؤرخ احمدیت *1991 23 26 کلام ظفر حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت احمدیہ فیصل آباد کی طرف سے ذکر خیر برادر محترم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ محترم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے.إِنَّا الله و انا اليه راجعون.وہ میرے دیرینہ دوست تھے اور اپنی قابلیت میں بہت آگے تھے.نظم و نثر اُردو اور عربی دونوں میں دسترس رکھتے تھے.یہ بات بہت ہی کم علماء کو حاصل ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور آپ سب بھائیوں اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے.میرا دل آپ سب کے لئے دردمند ہے.سب لواحقین سے میری طرف سے تعزیت کر دیں.اللہ تعالیٰ آپ کا کارساز ہو.والسلام خاکسار ( محمد احمد مظہر ) یکم جون 1982ء

Page 22

27 کلام ظفر مکرم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر کا کلام (پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی) باون ترپن کے زمانہ میں ، جب ہم لوگ ابھی ادب شناسی کی آنکھیں کھول رہے تھے ربوہ میں مکرم مولوی ظفر محمد صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ کی نظموں کا بہت شہرہ تھا.مولوی صاحب موصوف احمدنگر میں رہتے تھے.اس لئے ان سے روشناسی نہ ہوسکی حالانکہ حضرت خلیفة اصبح الثالث اور ابا جی اور مولوی صاحب تینوں کلاس فیلو تھے اور ہمارے گھر میں مولوی صاحب کا چرچا بھی رہتا تھا مگر کچھ ایسا حجاب آڑے آتا رہا کہ باوجود ان کی بعض نظموں کو پسند کرنے کے ان سے ملاقات کی جرأت نہ ہوئی اور سب سے زیادہ قلق اس بات کا ہے کہ مولوی صاحب کے عین حیات میں ان سے تعارف ہی حاصل نہ ہو سکا.اب جب ان کے مجموعہ کلام پر کچھ لکھنے بیٹھا ہوں تو پرانی باتیں یاد آ رہی ہیں اور اپنی کوتاہی پر افسوس ہو رہا ہے کہ اتنے نابغہ وجود سے ملاقات کا شرف کیوں حاصل نہ کیا! آپ عربی ، فارسی اور اُردو کے فاضل تھے.مدرسہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہوکر سلسلہ کی خدمت میں مستعد رہے.ہم نے اپنی ہوش میں انہیں جامعہ احمدیہ کے استاد کی حیثیت سے جانا پہچانا.حضرت مولانا ابو العطا صاحب کا رسالہ الفرقان جماعت کا فکری ترجمان سمجھا جاتا تھا.مکرم مولوی صاحب کی اکثر نظمیں الفرقان میں شائع ہوتی تھیں.الفضل میں بھی ان کی نظمیں احترام سے چھاپی جاتی تھیں.یہ بات ہر شخص کے علم میں ہے کہ قادیان سے ہجرت 28 کلام ظفر کرنا بہت بڑا سانحہ تھا.تمام بزرگ حتی کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی بھی قادیان کے فراق میں آہیں بھرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے بموجب قادیان واپس جانے کی تمنائیں کرتے تھے مگر ان کی زندگیوں میں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا نہ ہوا اور وہ قادیان میں دوبارہ حاضر نہ ہو سکے.مولوی صاحب کی جس نظم نے بہت شہرہ حاصل کیا وہ ان کی درویشان قادیان والی نظم تھی.چھوٹے بڑے بینظم گنگناتے پھرتے تھے.بہت بڑا ہے تمہارا مقام درویشو! کرو قبول ہمارا سلام درویشو! اس کے ساتھ ان کی ایک اور نظم نے بھی قبول عام کی سند حاصل کی : نہ بھر آہیں فراق قادیاں میں نہ ہو مصروف یوں آہ و فغاں میں خدا کے کام بے حکمت نہیں ہیں ہوا ہے مبتلا تو کس گماں میں رفتہ رفتہ قادیان کی ہجرت کا کرب گوارا ہوتا گیا.وہ زخم مندمل تو نہ ہوا مگر اس کی کسک کم ہوتی گئی اور اب بھی جماعت احمدیہ قادیان سے محبت میں تو اسی طرح مستحکم ہے مگر اس کے ہجر و فراق میں اس طرح بے قرار نہیں رہی جتنی اس زمانہ میں تھی.ربوہ میں نیا مرکز بن گیا.پروانے شمع خلافت کے گرد جمع ہوتے رہے.ربوہ نے مرجع

Page 23

29 کلام ظفر خلائق ہونے کا شرف حاصل کر لیا.اس مرکز کے تبلیغ اسلام کی کوششیں جاری ہو گئیں.اس مرکز کے ساتھ بھی مولوی صاحب کی وابستگی اسی طرح پختہ اور مستحکم رہی.1973ء میں سیلاب آیا.آغا شورش کا شمیری نے نظم لکھی.ربوہ مٹے گا قہر الہی بالضرور تاخیر ہو گئی ہے خدا کے عذاب میں! اس زور دار نظم کا جواب مولوی ظفر محمد صاحب ظفر نے اس سے بھی زیادہ زور دار اور شان دار الفاظ میں لکھا.آغا ہے آج جانے کیوں پیچ و تاب میں دل اس کا بے قرار ہے ، جاں اضطراب میں کوئی یہ اس سے پوچھے کہ اے بے ادب بتا! گستاخیاں یہ کیسی ہیں ربوہ کے باب میں ! ربوہ کے پاؤں چوم کر جاتا ہے کیوں گزر! پاس ادب ہے گویا کہ آب چناب میں ! نادان تیرے دل میں تعصب کی آگ ہے تو جل رہا ہے بغض وحسد کے عذاب میں! مولوی صاحب کی یہ نظم اپنے اندر سیلاب کی سی روانی رکھتی اور شورش کا شمیری کی نظم کا مسکت جواب ہے.30 کلام ظفر سیلاب کے ذکر سے اپنے تنویر صاحب مرحوم کا ایک قطعہ بھی ذہن میں گھوم رہا ہے مگر افسوس کہ اس کے لفظ مستحضر نہیں.مضمون کچھ یوں تھا کہ سیلاب جھوم جھوم کر آگے گزر گیا ؟ اور چوتھا مصرع بڑا جستہ تھا کہ پانی ربوہ کے پاؤں چوم کر آگے گزر گیا! بیانیہ مکرم مولوی صاحب کے ہاں بیانی نظمیں بہت ہیں اور بیا نیہ نظمیں لکھنے کے لئے زبان پر قدرت کا ہونالازمی امر ہوتا ہے.مثلاً یہ نظم جامعہ احمد یہ احمد نگر کے ان فارغ التحصیل مہمانوں کی تقریب میں پڑھی گئی جو 1955ء میں جامعہ میں تشریف لائے تھے.اے طالبان علم دبستان جامعه دیکھو انہیں جو آج ہیں مہمان جامعہ ظاہر ہیں قوم قوم میں آثار زندگی جاری ہے ملک ملک میں فیضان جامعہ لیکن وہ علم موت ہے جس میں عمل نہ ہو نکتہ رہے یہ یاد عزیزان جامعه! کیا صاف ستھری، سادہ، شستہ اور رفتہ زبان ہے.اسی لئے تو شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے لکھا ہے ان کا اسلوب کلام ، سلاست اور روانی محاورہ اور بندش کی خوبی اور فن شاعری کے لحاظ سے قابل قدر تصنیف ہے اور بہت سی نظمیں اپنی خوبی کے لحاظ سے سہل ممتنع ہیں.سہل ممتنع ادب کی اصطلاح ہے اور ایسے کلام کے بارے میں استعمال کی جاتی ہے کہ ہر پڑھنے والا سمجھے

Page 24

31 کلام ظفر کہ اس قسم کے شعر کہنا تو بہت آسان ہے مگر خود کہنے بیٹھے تو کہہ نہ سکے! یعنی وہ شعر جو اتنا آسان ہو کہ فوراً سمجھ میں آ جائے مگر اتنا مشکل ہو کہ اسے اپنے لفظوں میں بیان نہ کیا جاسکے! مکرم مولوی ظفر محمد ظفر صاحب کے ہاں مقصدی شاعری کی فروانی ہے.بے مقصد قافیہ پیمائی یا تگ بندی نہیں.خود فرماتے ہیں: یا رب مشاعرے کو نہ اپنا قدم چلے جب تک دماغ لے کے نہ مضموں اہم چلے بے سود شاعری میں نہ اپنا گھے قلم تائید دین حق میں ہمارا قدم چلے! اور یہ رنگ ، تمام احمدی شعراء کا منفر درنگ ہے.تبلیغ حق ان کا مطمع نظر ہے اس لئے وہ اپنے قلم کی جولانیوں کو اسی مقصد کے لئے وقف رکھتے ہیں.مکرم ظفر محمد صاحب نے اپنی قدرت کلام کو اس مقصد کے لئے محدود کر رکھا ہے.انہیں عربی ، فارسی اور اُردو تینوں زبانوں پر قدرت حاصل تھی.اس لئے ان کے ہاں تینوں زبانوں کی یکجائی کے نمونے ملتے ہیں اور تینوں زبانوں میں علیحدہ علیحدہ طبع آزمائی کے نمونے بھی.حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ان کا طرز بیان نہایت دل نشین ( ہے ) فارسی ، اردو اور عربی پر برابر دسترس (حاصل ہے).مکرم حضرت شیخ محمداحمد صاحب مظہر نے بھی ان خصوصیات کو سراہا ہے کہ: 32 انہیں عربی اور فارسی نظم لکھنے کا بھی ملکہ ہے“ کلام ظفر میرا یہ مقام نہیں کہ میں ان کے فارسی اور عربی کلام پر رائے زنی کروں مگر مجھے ان کے اردو کلام نے ان کی استادانہ چابک دستی کا ادراک عطا کیا ہے.ان کے عربی اور فارسی کے امتزاج کا ایک نمونہ ان کی وہ نظم ہے جس کا ایک مصرع عربی اور دوسرا فارسی کا ہے: شراب روح پرور بخش ساقی تَكَادُ تَبْلُغُ النَّفْسُ التَّرَاقِى قسم بخدا که صادق پست احمد إِلَى رَبِّ الْعُلَى نِعْمَ الْمَرَاقِى پیام وصل جاناں احمدیت تُبَشِّرُنَا بِرَيْحَانِ التَّلاقِى ظفر گرہوش میداری تَوَكَّلُ عَلَى اللَّهِ الَّذِي حَيٌّ وَّ بَاقٍ اب ہمارے ہاں ایسی چابک دستی سے عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں کے برتنے والے شاعر کہاں ہیں؟ اب انہیں ڈھونڈ چراغ رُخ زیبا لے کر نے لکھنے والوں کے لئے مکرم مولوی صاحب کا کلام بہر حال مشعل راہ رہے گا اور انہیں الفاظ کو برتنے کا سلیقہ سکھانے کا موجب بنے گا ! الفضل انٹر نیشنل 9 جون 1995 ، صفحہ 10)

Page 25

33 کلام ظفر حضرت مولانا ظفر محمد صاحب ظفر کی یاد میں مکرم محمد نواز مومن صاحب) علم وادب کے بحر ذخار، ثبات و استقامت کے کوہسار، خاک راہ احمد مختار، بلوچی روایات کے مطابق مہمان نواز ، بلا کے ذہین ، فقیر طبع عربی ، فارسی اور اردو زبان کے عدیم النظیر شاعر، خاندان کی وجاہت اور اپنے کردار کی نجابت کے اعتبار سے ایک ایسے انسان تھے جو اس کرہ خا کی پر صدیوں کے بعد پیدا ہوتے ہیں.یہ تھے میرے جلیل القدر استاد حضرت مولانا ظفر محمد صاحب ظفر دیدہ پرنم کے ساتھ چند ایسے واقعات سپر و قلم کر رہا ہوں جو ان کی وسعت علمی، اخلاقی بلندی اور حق گوئی پر روشنی ڈالتے ہیں.ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے چیلنج کا جواب ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا نام محتاج تعارف نہیں ، آپ نے جماعت احمدیہ کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ” حرف محرمانہ کے نام سے ایک کتاب جماعت کے خلاف لکھی ہے اور اس میں بے جا تعلی سے کام لیتے ہوئے ایک چیلنج بھی دیا ہے.ہمارے خیال میں اگر برق صاحب وہ چیلنج نہ دیتے تو ان کی علمیت اور تنقیدی صلاحیتوں کا بھرم قائم رہتا.اس چیلنج نے ان کی لٹیا ہی ڈبو کر رکھ دی ہے.برق صاحب نے اپنے چیلنج میں لکھا ہے کہ دنیا کی کسی زبان میں کوئی ایسا مضاف موجود نہیں جو مضاف الیہ کا مالک ہو اور پھر آپ نے ایک لمبی فہرست دے کر اپنے چیلنج کو مبرہن کیا ہے.34 کلام ظفر مجھے اچھی طرح یاد ہے اور یہ 1955ء کی ایک سرد صبح کا واقعہ ہے، استاذی المحترم میر کمرے میں تشریف لائے اور فرمایا کرسی دھوپ میں رکھ دو، ہمیں ایک چیلنج کا سامنا ہے اور میں اس کا جواب لکھنا چاہتا ہوں، میں نے صحن میں کرسی رکھ دی اور آپ برق صاحب کے چیلنج کا جواب تحریر کرنے لگے آپ نے برق صاحب کو لکھا.میں نے آپ کے چیلنج کا بغور مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آپ کو قرآن کریم کا قطعاً کوئی مطالعہ نہیں ہے.اگر چیلنج دینے سے پہلے آپ قرآن کریم کا مطالعہ کرتے تو اس کا جواب اس میں آپ کو مل جاتا اور یہ زحمت آپ کو نہ اٹھانا پڑتی.آپ نے لکھا ہے کہ دنیا کی کسی زبان میں ایسا کوئی مضاف نہیں جو مضاف الیہ کا مالک ہو.آپ ذرا سورہ فاتحہ کا مطالعہ کیجئے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.رب العالمین اس میں رب مضاف ہے اور العالمين مضاف الیہ ہے اور رب جو مضاف ہے، وہ العالمین کا مالک اور خالق ہے.پھر فرماتا ہے مالک یوم الدین اس میں مالک مضاف ہے اور یوم الدین مضاف الیہ ہے.اس میں بھی مضاف، مضاف الیہ کا مالک اور خالق ہے.پھر آپ نے رب الناس، ملك الناس، اله الناس، رب الفلق وغیرہ آیات کی بیشمار مثالیں پیش کر کے انہیں لکھا کہ آپ مجھے اس کا جواب دیں.آپ نے برق صاحب کو رجسٹر ڈ لیٹر لکھا اور اس کی وصولی کی رسید بھی آپ کو بذریعہ ڈاک موصول ہوئی.استاذی المحترم نے برق صاحب کو ایک شعر بھی لکھا.جو تو دل لگا کے پڑھ لے سخن ہائے عارفانہ تجھے بھول جائے یکسر تیرا حرف محرمانہ برق صاحب نے مولوی ظفر صاحب کے اس علمی محاسبہ کا جواب نہ دیا لیکن اپنی کتاب رمزایمان سال اشاعت 1976ء میں ضمیمہ نمبر 1 میں اعترافات کے زیر عنوان اپنے بعض نظریات میں تبدیلی کا اعتراف کیا اور علمی لغزش کے عنوان سے اپنی بعض کتابوں کی کچھ اغلاط کو بیان کیا ہے،

Page 26

35 کلا ظفر مثلاً نمبر 4 حرف محرمانہ کے بارے میں لکھا ہے کہ صفحہ نمبر 21 کی آخری سطر نحو کی رو سے صفحہ نمبر 23 کی دوسری سطر کسی زبان میں نہیں مل سکتی ، تک خارج از کتاب.بہر حال اپنی غلطی کو انہوں نے تسلیم کر لیا.برق صاحب نے جس نا تمام انداز سے اپنی غلطی کا اعتراف کیا ہے وہ اُن کے طرز تحریر سے عیاں ہے، اس سے قاری کے پلے کچھ نہیں پڑتا ، چاہئے تھا کہ اس شخص کا شکر یہ ادا کرتے جس نے ان کی علمی راہنمائی کی اور نہ انہوں نے یہ واضح کیا ہے کہ اس میں مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے، اور کیوں یہ سطور خارج از کتاب ہیں، دیا ازاں بعد محترم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لاکپوری نے ”حرف محرمانہ “ کا جواب تحقیق عارفانہ کے نام سے دیا اور یہ نام بھی استاذی احترم مولانا ظفر صاحب کا ہی تجویز کیا ہوا ہے.نیز آپ نے حرف محرمانہ کے جواب میں جو کچھ لکھا ہوا تھا.وہ قاضی صاحب کے سپر د کر دیا اور انہوں نے اس کا مدلل جواب لکھا.علم عروض کے متعلق پانچ اشعار علم عروض ایک خاصا مشکل علم ہے اور بڑے بڑے جغادری اس میں سکندری کھا جاتے ہیں مگر استاذی المحترم اس علم میں اعلیٰ درجہ کی مہارت رکھتے تھے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ نے جب بھی اس کے متعلق کوئی بات فرمائی وہ حرف آخر کی حیثیت رکھتی تھی.خاکسار جب فاضل عربی کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا تو ایک دن میں نے استاذی المحترم سے عرض کیا کہ علم عروض کو پانچ دائروں میں بیان کیا گیا ہے اور ہر دائرے میں متعدد بحریں ہیں پھر ان کے مختلف اوزان ہیں.جن کے یاد کرنے میں خاصی مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے مجھے کوئی ایسا طریق بتائیں جس سے فوراً دائرے کا پتہ چل جائے اور بحر بھی معلوم ہو 36 کلام ظفر جائے اور اس کا وزن بھی معلوم ہو جائے.آپ نے تبسم فرمایا اور باہر کی طرف چل دیئے.ایک دن صبح صبح تشریف لائے اور فرمایا.آپ کی الجھن کو میں نے حل کر دیا ہے.قلم لے آؤ اور لکھو آپ نے مجھے پانچ اشعار لکھوائے.جن میں دائرے کا نام بھی تھا اور اس میں جو بحریں استعمال ہوتی ہیں ان کے نام بھی تھے اور ان کے اوزان معلوم کرنے کا طریق بھی تھا.میں نے آپ کی ہدایت کے مطابق جب ان اشعار کی آزمائش کی ، تو علم عروض میرے لئے اس قدر آسان ہو گیا کہ چند دن کی مشق کے بعد میں خود کو عروضی خیال کرنے لگا.اس بات کی توضیح کیلئے ایک شعر تحریر کرتا ہوں جس سے آپ خود اندازہ کر لیں گے کہ استاذی المحترم کو اللہ تعالیٰ نے کس قدر زرخیز ذہن عطا فرمایا تھا.علم عروض کے ایک دائرہ کو مشتبہ کہتے ہیں اس میں نو بحریں استعمال ہوتی ہیں.1 سریع، 2 جديد 3- قريب، 4- منسرح، 5.خفیف، 6.،مضارع 7 - مقتضب، 8- مجتث 9- مشاكل استاذی امحترم نے اسے لباس شعر میں یوں بیان کیا.يَا مُشْتَبِه مَـاظـالمـا مَنْ سماك سَرُ، جَدُ، قَرِى، مَنْ، حَفُ، مضًا، مق، مَعُ، شَاك اس میں آپ نے ہر بحر کے پہلے حروف کو لے کر شعر بنایا ہے تا پتہ چل جائے کہ اس میں فلاں فلاں بحر استعمال ہوئی ہے اور ہر بحر کے وزن معلوم کرنے کا طریق یہ ہے کہ تین تین بحروں کو ملا کر پڑھا جائے تو بحر کا وزن معلوم ہو جاتا ہے.مثلاً آپ کو بحرِ سریع کا وزن معلوم کرنا مطلوب ہے تو آپ اسے یوں پڑھئے.سرجد قرى من خـف مـضـاء مـق مـج شـاك ستفعلن مستعفلن - مفعولات خلاصہ کلام یہ کہ آپ جس بحر کا وزن معلوم کرنا چاہیں، اسی سے آغاز کریں اور دائرے

Page 27

37 کی صورت میں اس کے پہلے حرف پہ آ کر ختم کر دیں.کلا ظفر میں ایک اور مثال کے ذریعے اس کی توضیح کرتا ہوں مثلاً آپ بحر منسرح کا وزن معلوم کرنا چاہتے ہیں تو آپ اسے یوں پڑھئے.مــن خـف مــضـــا مـق مــج شـــاك ســـرجـد قــرى مستفعلن مفعولات مستفعلن اس طرح آپ ہر بحر کا وزن آسانی کے ساتھ معلوم کر سکتے ہیں، استاذی المحترم نے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے اور یہ ایک ایسی علمی بات ہے جس کے موجد اور خاتم آپ ہی ہیں آپ سے پہلے کسی شخص نے اسے اس رنگ میں بیان نہیں کیا.اللھم اغفرلہ وارحمہ.ان دو علمی باتوں کے بعد میں آپ کے سامنے آپ کی سیرت کی چند جھلکیاں پیش کرنا چاہتا ہوں جن سے قارئین کرام کو معلوم ہو گا کہ آپ اپنے کردار و عمل کے لحاظ سے بھی ایک نادرہ روزگار شخصیت تھے.تو کل علی اللہ سب سے پہلے میں آپ کے تو کل کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں.مجھے نہایت قریب سے آپ کو دیکھنے کا موقعہ ملا ہے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر بے انتہا تو کل تھا.باوجود عسرت کے آپ نے کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کیا.پیش ارباب کرم ہاتھ وہ کیا پھیلاتا گوارا نہ ہوا جس کو تنکے کا بھی احسان ایک دفعہ جامعہ احمدیہ کے پرنسپل صاحب نے اپنے سٹاف کو حکم دیا کہ وہ اچکن پہن کر جامعہ آیا کریں.آپ کے پاس کپڑا تھا اور نہ سلائی کیلئے رقم تھی.اتفاق سے کسی جگہ سے کچھ کپڑے آئے اور سٹاف کے بعض ممبران نے ان سے استفادہ کیا اور آپ سے بھی کہا کہ آپ بھی 38 کلام ظفر فلاں جگہ سے کوٹ لے آئیں.آپ نے فرمایا.میں کوٹ لینے کے لئے نہیں جاؤں گا.اپنی کسمپری پر نظر کرتے ہوئے آپ رات کو اٹھے اور اللہ تعالیٰ کے حضور با چشم تر عرض کیا میرے مولی ! تو میری دلی کیفیت سے خوب آگاہ ہے کہ میں کسی کے سامنے سوال کرنے کا عادی نہیں اب تو ہی میرا انتظام کرنا اس حکم کی تعمیل میری مقدرت سے باہر ہے.صبح آپ بیدار ہوئے تو بذریعہ ڈاک مولوی غلام حسین صاحب ایاز کا ایک پارسل آپ کے نام آیا اس میں اچکن کا کپڑا تھا.ایاز صاحب نے لکھا کہ میں بازار گیا تو اچکن کیلئے ایک کپڑا مجھے پسند آ گیا میں نے آپ کی اچکن کیلئے بھی کپڑا لے لیا اور اسے آپ کو بھجوا رہا ہوں.یہ ایک عجیب بات ہے کہ ایاز صاحب نے پندرہ بیس سال میں آپ کو کوئی خط نہیں لکھا تھا عین اس وقت جب آپ ایک حکم کی تعمیل سے عاجز تھے اللہ تعالیٰ نے سنگا پور سے آپ کیلئے اچکن کا کپڑا بھجوا دیا.اب کپڑا تو آپ کو مل گیا اس کی سلائی کا کام باقی تھا اس کا انتظام یوں ہو گیا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک موکل آپ کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ اس سے فیس لے کر اس کا مقدمہ لڑیں.چنانچہ اس شخص نے آپ کو فیس ادا کی اور آپ نے اس سے اچکن سلوالی.توکل کے بارے میں آپ کا ایک شعر ہے ظ ـفــ عَلَ رضاء بالقضاء هوش میــــداری تــــــــــل ه الذِي حَى وَبَاقِ 1941,42ء کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹی سے نوازا جس کا نام آپ نے مبارکہ بیگم رکھا.بچی کیا تھی ایک پارہ ماہتاب تھی جس کی من موہنی صورت ہر کسی کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی.آپ کی بیگم صاحبہ کو بھی اس سے بے حد پیار تھا.قضاء الہی سے وہ بچی فوت ہوگئی ہم کا ہونا تو طبعی بات تھی.اس وقت استاذی المحتر م نہایت عسرت کی زندگی بسر کر رہے تھے، اس غم نے

Page 28

39 کلا ظفر آپ کو مزید پریشان کر دیا.مگر قربان جائیے آپ کے ثبات و استقلال کے جب بچی کی تدفین سے فارغ ہو کر آپ گھر آئے تو بیگم صاحبہ سے فرمایا.آج گوشت پکاؤ اور نہایت لذیذ پکاؤ، چنانچہ آپ کی حسب منشاء گوشت پکایا گیا آپ نے کھانا کھا کر فرمایا ہمیں مبارکہ بیگم کی وفات کا غم ضرور ہے لیکن ہم وہی بات کریں گے جس سے ہمارا رب راضی ہو، رضا بالقضاء کی ایسی مثال شاید ہی آپ کو کہیں ملے.صورتیں الہی کس دیس بستیاں ہیں اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں نفس مطمئنہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نفس مطمئنہ عطا فرمایا تھا جو کسی بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی پریشان نہ ہوتا تھا ایک دفعہ آپ کی اکلوتی صاحبزادی کا خاوند رات کو آپ کے پاس آیا.آپ سوئے ہوئے تھے اس نے آپ کو جگایا تو آپ نے پوچھا.اس وقت آنے کی کیا وجہ ہے اس نے کہا میں آپ کی بیٹی کو طلاق دینے آیا ہوں، آپ نے فرمایا.دے دو اس نے طلاق نامہ آپ کے ہاتھ میں تھمایا اور چل دیا، آپ نے طلاق نامہ کو تکیے کے نیچے رکھا اور سو گئے صبح بیدار ہوئے تو فرمایا ، جو ہونا تھا ہو چکا، ہم کیوں پریشان ہوں جس بات سے ہمارا رب راضی ہے ہم بھی اسی سے راضی ہیں آپ نے سچ کہا ہے.ہے خوش نصیب ظفر آج تک جسے پریشاں نہ کر سکے کتنا دنیا کے حادثات 40 کلام ظفر کسی اور کے ساتھ یہ روح فرسا واقعہ پیش آتا تو اس کی نیندیں حرام ہو جاتیں اور آہ و بکا سے وہ آسمان سر پر اٹھا لیتا.حق گوئی و بیا کی اہل دنیا حق گوئی کی تلقین تو کرتے ہیں مگر جب حق گوئی کا موقع آتا ہے تو بلطائف الحیل اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں.لیجیے ہم آپ کو استاذی المحتر م کا ایک واقعہ سناتے ہیں جس سے معلوم ہوگا کہ آپ حق کے بالمقابل کسی عزیز کی بھی پرواہ نہ کرتے تھے.ایک دفعہ آپ کے بھتیجے نے اپنے بڑے بھائی پر کلہاڑی سے وار کیا جس سے اسے گہرا زخم آیا آپ کے لواحقین نے تھانے میں کچھ لوگوں کے خلاف پرچہ دے دیا کہ انہوں نے ہمارے آدمی پر حملہ کیا ہے.استاذی المحتر م کو جب حقیقت حال کا علم ہوا تو آپ تھانے گئے اور تھانیدار سے کہنے لگے یہ سب آدمی جن کو آپ نے گرفتار کیا ہے.بے گناہ ہیں اور اصل مجرم میرا بھتیجا ہے.تھانیدار آپ کی صاف گوئی پر حیران رہ گیا اور اس نے آپ کی شخصیت سے متاثر ہو کر آپ کو پنکھا اور مشروب بھجوایا اور آپ کی حق گوئی کے طفیل اس نے فریقین کے درمیان مصالحت کرادی.اسی تعلق میں ایک اور واقعہ بھی سماعت فرمائیے ، ایک احمدی نے ایک غیر از جماعت دوست سے کچھ رقم لینی تھی آپ کے بیٹے برادرم ناصر احمد ظفر نے وہ رقم لے کر ایک آدمی کے پاس بطور امانت رکھ دی.احمدی دوست نے خیال کیا کہ ناصر احمد رقم خرد برد کر گیا ہے اس نے استاذی المحترم سے کہا کہ ناصر احمد مجھے رقم نہیں دیتا.آپ نے اسے مشورہ دیا کہ آپ قضاء میں ناصر احمد کے خلاف دعوی دائر کر دیں.چنانچہ اس نے قضاء میں ناصر احمد کے خلاف دعوی دائر کر دیا.پہلی پیشی پر ہی قضاء نے ناصر احد کو بری کر دیا کیونکہ جس کے پاس رقم بطور امانت پڑی تھی اس نے کہا کہ یہ دعویٰ بالکل جھوٹا ہے، رقم میرے پاس موجود ہے.

Page 29

41 کلا ظفر استاذی المحتر م کو اپنے لخت جگر کے بارے میں یقین تھا کہ وہ ایسی حرکت نہیں کرسکتا لیکن پھر بھی آپ نے مدعی کے سامنے اپنے بیٹے کی بریت نہیں کی اور نہ ہی کوئی صفائی پیش کی بلکہ اسے دعوی دائر کرنے کا مشورہ دیا کہ اگر میرابیٹا خطا کا رہے تو اسے سزا ملے اور اگر بے گناہ ہے تو اس کی سچائی آشکار ہو.کیا اس دور ہوس کار میں آپ نے کوئی ایسا آدمی دیکھا ہے جو اپنے حقیقی بیٹے کے خلاف دعوی دائر کرنے کا مشورہ بھی دے ڈالے.؟ ؎ انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد حاضر جوابی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ذہن رسا عطا فرمایا تھا اور آپ حاضر دماغی میں بھی اپنا ثانی نہ رکھتے تھے ایک دفعہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ( جو آپ کے کلاس فیلو بھی تھے ) نے آپ کو دیکھ کر دریافت کیا.ناصر کے ابا کا کیا حال ہے؟ آپ نے برجستہ جواب دیا.ناصر سے پوچھئے.اس سے مجلس کشت زعفران بن گئی.ایک دفعہ دوران تعلیم آپ نے مجھے فرمایا.حدیث عیسی ابن ہشام کا مطالعہ کرو.میں نے پوچھا حدیث عیسی ابن ہشام کیا ہے آپ نے فرمایا عیسی ابن ہشام کا خواب ہے، میں نے کتاب کو دیکھا تو اڑھائی تین سو صفحات کی کتاب تھی.میں نے پوچھا اس نے اتنا لمبا خواب دیکھا پھر کیا ہوا.آپ نے فرمایا پھر وہ بیدار ہو گیا آپ کے اس جواب پر ساری کلاس لوٹ پوٹ ہو گئی.فراست مومنانه حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مومن کی فراست سے بچو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے.مولوی محمد شفیع صاحب اشرف مرحوم ابھی طالب علم تھے کہ ایک روز استاذی انتر م نے انہیں فرمایا.تم ناظر امور عامہ بنو گے اور تمہیں کار بھی ملے گی.بات آئی گئی ہو گئی.40-35 سال 42 کلام ظفر بعد مولوی محمد شفیع اشرف صاحب ناظر امور عامہ بنے اور انہیں کار بھی ملی اور آپ کی بیان کردہ بات من وعن پوری ہوئی.آپ نے یہ بات انہیں اس وقت بتائی جب کسی ناظر کے پاس شاید سائیکل بھی نہیں تھی.اسی قسم کی ایک بات حضرت خلیفة المسیح الرابع سے بھی تعلق رکھتی ہے آپ کے خلیفہ بننے سے دس بارہ سال قبل استاذی المحترم نے فرمایا کہ مجھے مقطعات قرآنی سے معلوم ہوا ہے کہ چوتھے خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمد ہوں گے.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی وفات کے بعد آپ چوتھے خلیفہ بنے اور آپ نے فراست مومنانہ سے جو بات معلوم کی تھی وہ ہو بہو اسی طرح پوری ہوئی.مزاح و ظرافت آپ خشک زاہد نہ تھے بلکہ بڑی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے اور باتوں باتوں میں ایسی پھلجھڑیاں چھوڑتے تھے کہ سننے والے لطف اندوز ہوتے تھے.ایک دفعہ آپ بحری جہاز میں سفر کر رہے تھے.کچھ علماء حضرات بھی اس میں سوار تھے وہ آپس میں علمی گفتگو کرنے لگے تو آپ بھی ان میں شامل ہو گئے ، ایک مولوی نے دوسرے سے پوچھا.آپ کیا پڑھے ہوئے ہیں؟ اس نے کہا میں سکندرنامہ پڑھا ہوا ہوں.سب لوگ اس کی عبقریت سے مرعوب ہو کر خاموش ہو گئے ان میں سے ایک نے استاذی المحترم سے پوچھا آپ کیا پڑھے ہوئے ہیں آپ نے کہا میں قواعد اللغة العربيه المصريه پڑھا ہوا ہوں وہ بھی لمبا تڑنگا نام سن کردم بخودرہ گئے اور کہنے لگے واقعی آپ سب سے بڑے عالم ہیں.حالانکہ قواعد اللغة العربیه عربی گرائمر کی ایک کتاب ہے جو جامعہ احمدیہ کی دوسری یا تیسری کلاس میں پڑھائی جاتی تھی.استاذی المحترم نے اس رنگ میں اس کا نام لیا کہ وہ اس کا نام سنتے ہی سہم گئے.

Page 30

43 کلا ظفر ادب عربی کی شہرہ آفاق کتاب حماسہ میں بنو ذھل بن شیبان کی مدح میں ایک شاعر نے کہا ہے.قَوْمُ إِذَا الشَّرُّ ابدَى نَا حِدَيهِ لَهُمْ طَارُوا إِلَيْهِ زُرَافَاتٍ وَوُحْدَانَا ترجمہ: جب جنگ ان کے سامنے اپنی کچلیاں نمایاں کرتی ہے تو وہ فردا فردا اور گروہ در گروہ اس کی طرف لپکتے ہیں.ایک روز استاذی المحتر م ہمارے ہوٹل میں تشریف لائے.نانبائی روٹیاں پکا رہا تھا اور لڑکے کھانا لینے کے لئے دوڑے چلے آرہے تھے.آپ کی رگ ظرافت پھڑ کی اور آپ نے اس حالت کی منظر کشی کرتے ہوئے اس شعر کو یوں تبدیل کر دیا.إِذَا مَا رَأَوْا أَنَّ الْخُبْزَ مَطبوخ طَارُوا إِلَيهِ زُرَافاتٍ وَوُحْدَانَـ ترجمہ : جب وہ دیکھتے ہیں کہ روٹی پک چکی ہے تو وہ اس کی طرف فرد فردا اور گروہ در گروہ لپکتے ہیں.قوت حافظہ آپ کی قوت حافظہ اس قدر تیز تھی کہ آپ کو اپنے بچپن کے واقعات بھی یاد تھے.آپ نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ میں اپنی والدہ کا دودھ کیسے پیا کرتا تھا.فاضل عربی کے کورس میں حماسہ اور متنیتی ، ادب کی دو ضخیم کتابیں ہیں جن کے مجموعی صفحات ڈیڑھ ہزار کے قریب ہوں گے استاذی المحترم فرمایا کرتے تھے کہ ان دونوں کتابوں سے کوئی ایک مصرعہ پڑھو اور اس کا دوسرا مصرعہ میں آپ کو سنا دوں گا اور واقعی بات ایسے ہی تھی.اشعار کا منظوم ترجمہ اس فن میں بھی آپ کو کمال حاصل تھا.دوران تعلیم عربی زبان کے اشعار کا منظوم ترجمہ بھی کیا کرتے تھے.ایک دفعہ آپ نے ہماری کلاس کو پڑھاتے ہوئے یہ شعر پڑھا اور اس کا ترجمہ کیا.چل بسے وہ 44 أحِبُّه کلام ظفر لوگ جن عشق تھا ایک اور شعر پڑھا اور اس کا ترجمہ کیا.ނ فَيا مَوْلايَ مَنْ حَدَّثَ عَنّى مرے مولی مجھے کس نے بتایا ان کے علاوہ بھی کچھ اشعار کا آپ نے منظوم ترجمہ کیا تھا جو اس وقت میرے ذہن سے اتر گئے ہیں.شعر و شاعری شاعرانہ طبیعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اور زبان زمین سے ملتی ہے.آپ محبوب کی ایک نگاہ سے مرجانے والے اور رگ گل کے ساتھ بلبل کے پر باندھنے والے شاعر نہ تھے.آپ کی شاعری ،شریعت کی حدود اور اخلاقی قیود کی پابند تھی اور آپ شعراء کے اس گروہ سے تعلق نہ رکھتے تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ ہر وادی میں بہکنے والے اور خواہش پرست اور گمراہ ہیں.استاذی المحترم کی شاعری ان نقائص سے پاک تھی آپ نے اس سے دعوت الی اللہ کا کام لیا اللہ تعالیٰ کی حمد کی نعتیں کہیں.قرآن کریم کی مدح کی اور ان کے علاوہ بہت سے قیمتی مضامین کو اپنے اشعار میں بیان کیا.میں بطور نمونہ آپ کے چند اشعار پیش کر کے اپنی بات کو مبرہن کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ اگر لوگ زمین و آسمان کی پیدائش اور سیارگان فلک کے متعلق غور و فکر کریں تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ یہ بھی چیزیں تو حید الہی کا اعلان کر رہی ہیں.استاذی المحترم نے اس حقیقت کو ایک شعر میں یوں اجاگر فرمایا ہے.زبان حال سے ہر آن دے رہے ہیں صدا نجوم و شمس و قمر، لا اله الا الـ

Page 31

45 کلا ظفر دور نبوت سے لے کر مسلمان شعراء نے حضرت نبی کریم ﷺ کی مدح کو اپنا موضوع بنایا ہے اور ایسے اشعار لکھتے ہیں کہ ان کی مثال نہیں ملتی میں ان کی مثالیں پیش کر کے اپنے مضمون کو طول نہیں دینا چاہتا.لیکن استاذی المحترم نے آپ کی مدح میں ایک ایسی زبردست نعت رقم فرمائی ہے.جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے.عام دنیائے شعر و شاعری میں اس کی مثال نہیں پائی جاتی آپ نے انبیاء کرام کے جملہ کمالات کو آپ کی ذات ستودہ صفات میں ثابت کیا ہے میں بطور نمونہ اس نعت سے تین بند لکھتا ہوں جن سے واضح ہوگا کہ آپ فن نعت گوئی میں بھی امام تھے.آپ فرماتے ہیں.موسوی اعجاز انشق الحجر آر کا اعجاز القمر دونوں میں قدرت حق ہے جلوه گر ہے موسیٰ یا ابن عبدالمطلب الله میں جو رکھے تھے صنم جن کے آگے گردنیں تھیں کی خم کر دیئے اُن کے تو نے قلم تو ہے ابراہیم یا ابن المطلب الغرض جتنے جن جن خوبیوں ہوئے وہ تو ہے جامع کا یا یا ابن قصہ بهره پیغامبر ور مختصر عبدالمطلب 46 کلام ظفر قرون اولیٰ سے لے کر آج تک مسلمانوں نے حضرت نبی کریم ﷺ کی مدح توصیف میں بہت کچھ لکھا ہے.مگر قرآن کریم کی مدح میں آپ کو بہت کم مدحیہ کلام ملے گا.استاذی لمحترم نے قرآن کریم کی مدح میں بھی بے مثال اشعار رقم فرمائے ہیں ، تین اشعار آپ بھی ملاحظہ فرمائیں..قرآن پاک جہان میں تو وہ بے مثال کتاب ہے جو کمال حسن و جمال میں فقط آپ اپنا جواب ہے تری آیہ آیہ کے ربط میں ترے امر و نہی کے ضبط میں مری زندگی کا ہے ضابطہ مری بندگی کا نصاب ہے تو کلامِ ربّ خبیر ہے تو نشان شان قدیر ہے ترا کر سکے جو معارضہ بھلا کس غریب کی تاب ہے جماعت احمدیہ کے ساتھ آپ کو قلبی وابستگی تھی ایک دفعہ بعض وجوہ کی بناء پر آپ کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے اپنے وطن جانا پڑا وہاں سے آپ نے حضور کی خدمت میں ایک نظم ارسال فرمائی جس کا مضمون یہ تھا کہ مجنوں لیلیٰ سے بیزار ہوسکتا ہے ، بلبل ، نثار خار ہوسکتی ہے.پروانہ شب تار کی زلفوں کا اسیر ہو سکتا ہے.مچھلی مسکن آبی کو چھوڑ سکتی ہے، پانی اپنی برودت کو چھوڑ کر آگ میں بدل سکتا ہے اور آخر میں اپنے آقا کو مخاطب کر کے کہتے ہیں.یہ ممکن ہے کوئی محمود شان بے نیازی میں ایاز با وفا برسر غرض سب کچھ یہ ممکن ہے مگر ہو جائے یہ ہو نہیں سکتا کہ احمد کی جماعت کا ظفر غدار ہو جائے

Page 32

47 کلا ظفر 48 کلام ظفر حضرت مصلح موعود کے متعلق بانی جماعت احمدیہ نے جو مفصل پیشگوئی فرمائی ہے اس میں اس کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا بریکٹ میں آپ نے لکھا ہے کہ اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے.جماعت کے علماء اور شعراء نے اس کی کئی تو جیہات کی ہیں مگر جو توجیہ استاذی المحترم نے کی ہے اس کا ایک خاص مقام ہے آپ فرماتے ہیں.پہلے تین تھے ایسے بشر حضرت احمد حق تعالیٰ کی بشارت سے ملے جن کو پسر پدر حضرت ابراہیم اول، دوم بیٹی کے تھی مولیٰ کی نظر سوم مریم محصنہ جس تیری پیدائش نے احمد کو کھڑا ان میں کیا ہیں یہی وہ تین جن کو چار تو نے کر دیا ایک دوست فراق قادیاں میں گر یہ کناں تھے.استاذی المحترم نے ان کی تسلی کیلئے ایک نظم لکھی اور حسن تعلیل سے انہیں قادیان چھوڑنے کی حکمت سے اس طرح آگاہ کیا کہ بس لطف ہی آ گیا آپ فرماتے ہیں.ہمارا قادیاں اک بوستاں ہے ہم اس کی بُوئے خوش ہیں اس جہاں میں تو فطرت کے مخالف کہ خوشبو ہے محدود گلستاں میں پراگنده ہوئے ہیں نزدیک پھیلے جہاں میں مرے سمجھا ظفر گر ہوں بہاریں ہیں نگاہیں میں ہی بہاریں ہیں خزاں ایک دفعہ موضع احمد نگر میں کچھ جھگڑا ہو گیا جس میں ایک صاحب کی نوازش سے استاذی المحتر م کو بھی ملوث کر کے حوالات میں بند کرا دیا گیا.مدتوں بعد آپ کوخلوت نصیب ہوئی آپ نے یہ رات اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرتے اور نوافل ادا کرتے گزاری.اللہ تعالیٰ نے اس شب آپ کو بعض بشارات سے نوازا تو علی الصبح آپ نے اختر شیرانی مرحوم کے انداز میں ایک نظم لکھی اور اس دوست پر طنز کرتے ہوئے لکھا..میرے ہمدم یہ میرے یہ مری تلخی اوقات کی رات لئے عین عنایات کی رات بن گئی محتسب پاتا اگر آج برکات کی رات ضبط کر لیتا ظفر تیری حوالات کی رات جامعہ کے طلباء کو آپ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا.جس علم کے ساتھ عمل نہ ہو وہ موت کے مترادف ہے آپ فرماتے ہیں.لیکن وہ علم موت ہے جس میں عمل نہ ہو نکته رہے یاد عزیزان جامعه دنیا میں ہر انسان کی کچھ آرزوئیں ہوتی ہیں جن کی تعمیل کیلئے وہ مسلسل مصروف جدوجہد رہتا ہے.کوئی سخن دان، کوئی سحبان ، کوئی نعمان اور کوئی رستم زماں بنا چاہتا ہے، استاذی المحترم بھی اپنے دل میں ایک آرزو رکھتے تھے اور وہ آرزو یہ تھی کہ آپ عالم باعمل اور عاشق قرآن بنیں.آپ فرماتے ہیں..

Page 33

49 کلام ظفر ہاں مرے دل میں بھی ہے ایک تمنا مولیٰ 50 میرے دل میں تو آگ ایسی لگا کلام ظفر دے وہ اگر پوری ہو تو بندہ احسان بنوں جو ہر آتش کو خاکستر بنا دے آرزو تیرے ظفر کی ہے یہی بچپن تو ہی محبوب ہے اے میرے داور عالم باعمل و عاشق قرآن بنوں محبت میں فنا کر نہیں حاجت سوا تیرے کسی کی بس کونین ہے میں درکار تو ہی دنیا میں بیشمار لوگوں نے مسئلہ تدبیر و تقدیر پر بحث کی ہے اور افراط و تفریط کا شکار ہو کر جادہ مستقیم سے بھٹک گئے ہیں.استاذی المحترم نے اس مشکل عقدہ کو صرف ایک شعر میں حل کر دیا ہے آپ فرماتے ہیں.تدبیر بھی تقدیر میں ظفر قبضة ہے مولی تجھے تو گل مقام عطا کرے اللہ تعالیٰ کی ذات سے آپ کو بے پناہ عشق تھا اور وہی آپ کا مطلوب و مقصود تھا.ایک عربی قصیدے میں فرماتے ہیں.وَاشْعِلُ فِي جَنَانِي نَارَحُتٍ مَادٍ تُغَادِرُ كُلَّ نَارٍ فلاشـ مِنكَ الْمَحَبَّةِ وَالْوَدَاد ولا يـ جَّةٌ إِلَّا إِلَيكَ استاذی المحتر م کو قرآن کریم کی تفسیر میں بڑا کمال حاصل تھا مجھے افسوس ہے کہ احمد نگر میں آپ جو درس دیا کرتے تھے اس کے نوٹس محفوظ نہیں کئے گئے ورنہ دنیا دیکھتی کہ آپ کس قدر عبقری تھے.آپ نے مقطعات قرآنی کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے سردست میں اس مضمون میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا.مشک آنست که خود ببوید نه که عطار بگوید اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو ایک مفصل مضمون میں آپ کے علم قرآن پر روشنی ڈالوں گا جس سے دنیا انگشت بدنداں ہو کر بے اختیار پکار اٹھے گی.ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق ارزاں فرمائے.آمین فَكُنُ في هذه لِى وَالْمَعَادٍ ان اشعار کا منظوم ترجمہ آپ کے شاگرد نے کیا ہے، قارئین کی سہولت کیلئے اسے بھی درج کیا جاتا ہے کہ ان اشعار کا مفہوم سمجھنے میں دقت نہ ہو.ے (روز نامه الفضل 27 جنوری 2014ء صفحہ 4)

Page 34

51 کلام ظفر حکیم نیر واسطی (ستاره خدمت) کے خطوط دنیائے طب کے عظیم سکالر جنوبی ایشیا کے حکماء اور اطباء کی کوئی تاریخ جناب علامہ حکیم سید علی احمد نیر واسطی بجنوری (1901ء - 1982ء) کے بغیر مکمل نہیں قرار پاسکتی.آپ اپنے زمانہ کے مایہ نا ز طبیب ہی نہیں ایک عالمی شخصیت علم طب کے عظیم سکالر، بلند پایہ شاعر، ماہر لسانیات اور ممتاز دانشور تھے.پروفیسر ایڈورڈ جی براؤن کی کتاب عریبین میڈیسن (Arabian Medicine) 1921ء میں کیمبرج یونیورسٹی پریس لندن سے شائع ہوئی جس کا شگفتہ نفیس اور سلیس اردو ترجمہ ” طب العرب آپ کے قلم سے 1954ء میں شائع ہوا.یہ ترجمہ آپ کی قوت انشاء پردازی کا گویا ایک اعجاز تھا جس پر اصل کا گمان ہوتا تھا.پاکستان کے علمی حلقوں نے طب العرب کی بڑی قدر کی.پنجاب یونیورسٹی نے مارچ 1956ء میں اسے خصوصی انعام کا مستحق قرار دیا.پاک و ہند کے مشہور رسائل مثلاً معارف اعظم گڑھ اور صدق جدید لکھنؤ نے اس پر زور دار تعریفی تبصرے کئے.سید وقار عظیم صاحب نے ریڈیو پاکستان میں ایک طویل نشریہ میں اسے زبر دست خراج تحسین ادا کیا.شفاء الملک حکیم احمد عثمانی صاحب نے مصنف کو لکھا ”دنیائے طب آپ کے احسان سے سبکدوش نہیں ہو سکتی.حکومت پاکستان نے اس کی بلند پایہ علمی وادبی خوبیوں کی بناء پر اسے طبی درسگاہوں کے نصاب میں داخل کیا.پیش لفظ ” طب العرب طبع دوم 1990ء از ڈاکٹر شیخ محمد اکرام ایم اے ڈی لٹ ناظم ادارہ ثقافت اسلامیہ لا ہور و تاریخ طب مؤلف آغا اشرف نا شر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز لاہور ) ( بحوالہ الفضل 21 ستمبر 2006ء) 52 شعراء وادباء کے مکاتیب کلام ظفر حضرت خلیفہ اسیح الثانی (اللہ تعالی پر راضی ہو کا علمی حلقہ اور تہذیبی وثقافتی روابط کا دائرہ از حد وسیع تھا.برصغیر کے اکثر ادیب، صحافی ، شعراء اور حکما ء اپنے مکاتیب کے ذریعے حضور سے رابطہ اور حضور کے مشوروں سے مستفید ہوتے رہتے تھے.لاہور سے آپ سے اس نوع کا علمی وادبی ربط وضبط رکھنے والے بعض سرکردہ افراد کے نام یہ ہیں: (1) مولانا عبدالمجید سالک صاحب.(2) مولانا سید حبیب صاحب.(3) شاعر مشرق علامہ اقبال صاحب (4) مولانا صلاح الدین احمد صاحب.(5) حکیم علی احمد صاحب غیر واسطی.( بحوالہ روزنامہ الفضل 24 /اکتوبر 2009ء) جناب حکیم نیر واسطی صاحب نے ایک خط اکتوبر 1933ء میں حضور کو تحریر کیا جو کہ علم طب کے بارہ میں تھا.قادیان نے ہمیشہ علم طب کی سرپرستی کی ہے.خود مرزا صاحب ( مراد حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ ایک بہت بڑے فاضل جید اور حاذق طبیب تھے.حکیم نورالدین صاحب بھیروی کا مرتبہ اطبائے کاملین کی صف اول میں خصوصاً بہت بلند ہے.اُن کے مجربات کے نسخوں اور اُن نسخوں کی ترکیبوں کو دیکھ کر جالینوس اور شیخ کے عہد کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے....تاریخ احمدیت جلد 6 صفحہ 127) اور پھر حضرت خلیفہ امسیح الثانی بھی اپنے قلم مبارک سے اُن کو جواب دیتے رہے.احباب جماعت کے ساتھ بھی اُن کا بڑا اچھا ادبی و علمی تعلق رہا.ان کا پورا نام سید علی احمد نیر واسطی تھا.موصوف کا تعلق والد صاحب مرحوم سے سن 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں ہوا.جبکہ والد صاحب نے اُن کی ایک عربی نظم کی اصلاح کی جس کی بناء پر یہ ادبی اور علمی تعلق تا دمِ حیات جاری رہا اور والد صاحب کی وفات پر تعزیتی خط سے اختتام پذیر ہوا اور پھر والد صاحب کی وفات

Page 35

53 کلام ظفر 54 کلام ظفر کے چند ماہ بعد غالباً جون 1982ء میں خود بھی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے.اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے.آمین.اُن کے چند تاریخی خطوط بطور نمونہ پیش خدمت ہیں جن سے والد صاحب مرحوم کے علم و ادب کی عکاسی ہوتی ہے.والد صاحب جب لاہور جاتے تو اُن کی خواہش ہوتی تھی کلینک کی بجائے گھر میں چلیں جو کہ کلینک کے ساتھ ہی تھا.ایک دو دفعہ اس علمی اور ادبی محفل میں خاکسار کو بھی شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی ہے.”طب العرب“ کا کتابی نسخہ جوانہوں نے والد صاحب کو بھجوایا تھا اُن کے ان الفاظ کے ساتھ خاکسار کے پاس موجود ہے.یادگار خلوص و نیاز بحضرة المکرم ظفرمحمد ظفر احمد نگری از نیر واسطی 16 جنوری 1972ء موصوف اپنی مذکورہ کتاب "طب العرب“ کے صفحہ 524 میں لکھتے ہیں: ’اطبائے پنجاب میں حکیم نورالدین صاحب بھیروی معالج ریاست کشمیر و جموں کا نام نامی نہایت سر بلند ہے جن کے گنگا جمنی طریق علاج نے نظام طب میں ایک عجیب تاثیر اور رنگینی پیدا کر دی ہے.آپ 1841ء میں پیدا ہوئے.فارسی لاہور میں مفتی محمد قاسم صاحب سے پڑھی اور طب میں آپ نے لکھنؤ کے مشہور حکیم مولوی علی حسین صاحب سے شرف تلمذ حاصل کیا.“ طب العرب صفحہ 524 رموز الاطباء صفحہ 266) نیر واسطی صاحب کے چند خطوط کے نمونے جو موصوف اپنے علمی ادبی تعلقات کی بناء پر خاکسار کے والد صاحب کو ارسال کرتے رہے.وہ قارئین ملاحظہ فرماویں.مولنا سلام مسنون عطوفت نامہ شرف صدور لایا.آپ نے نیازمند کے لئے جس خلوص اور محبت کا اظہار فرمایا ہے اس کے لئے ہر بنِ مو سے آپ کا شکر گزار ہوں.خدائے برتر آپ کو جزائے خیر عطا کرے.عربی نظم میرے ماہنامہ نباض کے مدیر کو بہت پسند آئی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ وہ اس کو مع اردو ترجمہ کے نباض میں شائع فرمائیں.لہذا اگر زحمت نہ ہو تو بین السطور میں ہر شعر کا اُردو ترجمه تحریر فرما کر یہ نظم دوبارہ ارسال فرما دیجئے دوائیں ابھی محفوظ رکھئے اور جب مناسب معلوم ہو ان کا استعمال شروع فرما دیجئے.شعر وحکمت پر نظر کرم کا دلی شکریہ از راہ کرم عافیت مزاج سے مطلع فرماتے رہئے ممنون ہوں گا.فقط والسلام نیر واسطی

Page 36

55 کلام ظفر 56 کلام ظفر مکرمی! سلام مسنون.آپ کے عزیز مکرم کی زیارت ہوئی اور انہوں نے قرآن کریم کا ایک تحفہ بھی عطا کیا جس کے لئے آپ کا اور ان کا شکر گزار ہوں.میں نے ان سے عرض کر دیا ہے کہ مریض کا ایکسرے دکھا ئیں تا کہ میں کوئی مشورہ عرض کرسکوں.آپ کے اشعار کا دلی شکر یہ عرض کرتا ہوں جن سے محبت و خلوص کی خوشبو آتی ہے.ایک شعر مجھ سے بھی فی البدیہ ہو گیا ہے جو عرض خدمت ہے.کہہ دو کوئی ظفر سے کہ اے شاہ علم وفن اک بے نوا فقیر سے نسبت ہے آپ کی بخدمت شریف جناب ظفر محمد ظفر صاحب سکنہ احمد نگر مغربی پاکستان والسلام ( پروفیسر حکیم نیر واسطی ) ستاره خدمت 6 دسمبر 1968ء مولنا ! ہدیۂ سلام و تشکر و سپاس نامہ منظوم ملا.اُردو نظم میں اظہار مدعا پر آپ کی قدرت کلام، طرز بیان کی روانی اور نہایت لطیف پیرایہ میں قافیوں کے استعمال کو دیکھ کر حیرت ہوئی.خدا آپ کو خوش و خرم اور تابد بر سلامت رکھے.فقط والسلام مع الاحترام (نیر واسطی) 16 فروری 1972ء

Page 37

57 کلام ظفر 58 کلام ظفر مولنا ! سلام مسنون.عنایت نامہ ملا.یاد آوری کا دلی شکریہ.آپ اور آپ کے بچوں کے لئے دواؤں کی قیمت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.میں اور میرا دواخانہ آپ کا خادم ہے.عزیز گرامی! دلی دعا ئیں آپ کے والد مرحوم کی وفات کا خط ملاغم سے دل پارہ پارہ ہوگیا.خدائے برتر آپ سب کو صبر اور مرحوم کو راحت کی دولت عطا کرے.تمام بھائیوں دوستوں اور عزیزوں کی خدمت میں میری تعزیت پہنچا دیجئے.والسلام غمگسار بخدمت شریف مولنا ظفر محمد صاحب ظفر احمد نگر.جھنگ والسلام (پروفیسر حکیم نیر واسطی ) ستاره خدمت (نیر واسطی)

Page 38

59 کلام ظفر محترم مولاناظفر محمد صاحب مرحوم کی یاد میں مولانامحمد صدیق امرتسری سابق مبلغ مغربی افریقہ ) 60 کلام ظفر علوم شرقیہ کے ماہر تعلیم و تربیت ادب کا اک دُرِ تاباں تھے مولانا ظفر صاحب بڑے ہی کام کے انسان تھے مولانا ظفر صاحب رہے وہ حضرت ناصر کے ہم مکتب لڑکپن میں حقیقی بنده رحمن تھے مولانا ظفر صاحب بجا اس فخر پر نازاں تھے مولانا ظفر صاحب ادیب و فاضل و شاعر ، فقیه و عالم قرآں علوم دیں کا اک بستاں تھے مولانا ظفر صاحب عطا خُلدِ بریں کر ان کو یا رب اپنے فضلوں کہ یہ نعمت نہیں ملتی کسی کو صرف عملوں.ނ روزنامه الفضل 13 مئی 1982ء ص 2) یکے از عاشقان سرور و سردار عالم تھے خدا کے دین پر قرباں تھے مولانا ظفر صاحب غنی بے شک تھے لیکن بے نیاز دولت وحشمت عجب اک مومن ذیشاں تھے مولانا ظفر صاحب

Page 39

61 منظومات کلام ظفر 62 کلام ظفر تیری آپی آمیہ کے رویا میں ترکے امر وانی کے خبط میں

Page 40

63 خدا تعالیٰ کلام ظفر مکرم میاں سراج الدین صاحب آف لاہور نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا پرمشتمل نظموں کے انعامی مقابلہ کا ایک اعلان الفضل کے ذریعہ کیا تھا.اس پر بہت سی نظمیں موصول ہوئیں.مندرجہ ذیل نظم اس سلسلے میں اول قرار پائی ہے.چنانچہ میاں سراج الدین صاحب نے مبلغ پچاس روپے بطور انعام مکرم مولوی ظفر محمد صاحب کو دیئے ہیں.اللہ تعالیٰ مبارک کرے.عدم سے جس نے ہمیں نکالا ه پاک ہستی وہ ذاتِ والا وہ حقیر ہم.وہ بزرگ و بالا (ادارہ) ذلیل ہم.وہ اجل و اعلیٰ ادب کے لائق ہے ذات اس کی ہے نام اس کا خدا تعالیٰ وہی ہے اوّل وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر گمان عاجز.قیاس قاصر مقام اس کا مرد سے بالا قریب بھی ہے بعید عجیب ہے وہ بھی ہے خدا تعالیٰ نہاں ہے پردوں میں ذات اُس کی عیاں ہیں لیکن صفات اُس کی نہ چھیڑ جاحد تو بات اُس کی تجھے تو ہم نے مار ڈالا نگاه مومن سے پوچھئے گا کہاں نہیں ہے خدا تعالیٰ وہ ہ گلستاں میں مہک رہا ہے 64 کلام ظفر کلی کلی میں چٹک رہا ہے وہ مہر و مہ میں چمک رہا ہے اُسی کے پرتو ہے اجالا نظر ہے اپنی حجاب اپنا عیاں ہے ورنہ خدا تعالیٰ شریک اُس کا نہ کوئی ہم سر نبی ولی سب اُسی کے چاکر جھکائیے سر اُسی کے در پر جو لَمْ يَزَلْ ہے وَلَنْ يَزَالَا یہ عالم رنگ و بُو ہے فانی ہے جاودانی خدا تعالیٰ سلام بھیجا پیام بھیجا وہ جس نے خیر الانام بھیجا اُس نے ہم میں امام بھیجا اُسی نے پھر وقت پر سنبھالا رحیم و رحماں ہے ذات اُس کی کریم ہے وہ خدا تعالیٰ کسی کو کہنا ”جناب اعلیٰ کسی کو کہنا ”حضور والا“ غضب ہے لیکن وہ ذاتِ والا جو سب سے فائق ہے لا محالا زباں پہ جب اُس کا نام آئے تو بھول جائے تمہیں ”تعالیٰ“ روزنامه الفضل 21 جنوری 1956 صفحہ 4)

Page 41

65 کلام ظفر 66 کلام ظفر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ دوائے درد جگر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ شفائے قلب و نظر لا إلهَ إِلَّا الله یه آب و دانہ تو ہے جسم عنصری کے لئے نہ زادِ رہ کی ضرورت نہ خطرہ رہنزن مرا رفیق سفر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ سوا خدا کے کسی سے کوئی امید نہ رکھ کبھی کسی سے نہ ڈر لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ کوئی کسی کا زمانے میں کار ساز نہیں غذائے رُوح بشر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ پدر ہو یا کہ پر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ زبانِ حال سے ہر آن دے رہے ہیں ندا نجوم و شمس و قمر لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مراد ظفر کوئی سُنے نہ سُنے کاش تیرا دل تو سُنے تو مَا و مَن سے گزر لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ روزنامه الفضل 17 دسمبر 1975ء صفحہ 2) صدائے شام و سحر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ زباں سے تو نے کہا بھی تو اس سے کیا حاصل نہیں ہے دل میں اگر لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ زہے نصیب کہ ہے آج ہاتھ میں اپنے بوائے فتح و ظفر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ

Page 42

67 کلام ظفر نعت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم یہ نظم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے ایک خاص واقعہ کی ترجمان ہے.جنگ حنین میں کافروں نے جب ارد گرد کی پہاڑیوں سے مسلمانوں پر تیروں کی بوچھاڑ کر دی تو مسلمانوں کی سواریاں بھاگ اٹھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بجز چند صحابہ کے تنہا میدان میں رہ گئے مگر اس حالت میں بھی حضور آگے بڑھ رہے تھے.حضرت عباس نے حضور گوروکنا چاہا.تو آپ نے فرمایا مجھے مت روکو.أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ اس نظم میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے.یا حبیب اللہ اللہ کے حُجب جانتا تھا مسمریزم تو نہ طب صدیوں کے بیمار اچھے کر دیے تو ہے عیسی یا ابن عبدالمطلب لَا كَذِبُ أَنْتَ النَّبِيُّ لَا كَذِبُ تھی سلیماں کی حکومت ریح پر آپ بھی ان سے نہیں ہیں کم مگر مَا رَمينَ ذرا کیجئے نظر تو سلیماں یا ابن عبدالمطلب پر لَا كَذِبُ أَنْتَ النَّبِيُّ لَا كَذِبُ حق نے بخشا تجھ کو وہ فصل الخطاب جس سے عاجز آگئے اھل کتاب تھی تیری تقریر ہر اک لا جواب تو ہوا داؤد يا ابن المطلب لَا كَذِبُ أَنْتَ النَّبِيُّ لَا كَذِبُ 68 کلام ظفر موسوی اعجاز انشق الحجر آپ کا اعجاز و انشق القمر دونوں میں ہے قدرت حق جلوہ گر تو ہے موسیٰ یا ابن عبدالمطلب لَا كَذِبُ أَنْتَ النَّبِيُّ لَا كَذِبُ معرفت کا تو ہے وہ بحر عظیم محو حیرت ہے جہاں چشم کلیم کشتی مسکین و دیوار یتیم تو خضر ہے یا ابن عبدالمطلب لَا كَذِبُ أَنْتَ النَّبِيُّ لَا كَذِبُ يوسف مظلوم جب میں مضطرب اور غار ثور میں تو محتجب ظالموں پر قحط آیا فارتقب تو ہے یوسف یا ابن عبدالمطلب لَا كَذِبُ أَنْتَ النَّبِيُّ لَا كَذِبْ کعبہ اللہ میں جو رکھے تھے صنم جن کے آگے گردنیں تھیں سب کی کم کر دیے اُن سب کے تو نے سر قلم تو ہے ابراہیم یا ابن المطلب لَا كَذِبُ أَنْتَ النَّبِيُّ لَا كَذِبُ جب ضلالت کا بیا طوفان تھا غرق بحر معصیت انسان تھا اس گھڑی میں تو ہی کشتی بان تھا نُوح ہے تو یا ابن عبدالمطلب لَا كَذِبُ أَنْتَ النَّبِيُّ لَا كَذِبُ

Page 43

تو 69 کلا ظفر ہے سر ابتدائے زندگی تیری ہستی منتہائے زندگی تجھ سے وابستہ بقائے زندگی تو ہے آدم یا ابن عبدالمطلب لَا كَذِبُ أَنْتَ النَّبِيُّ لَا كَذِبُ الغرض جتنے ہوئے پیغامبر تھے وہ جن جن خوبیوں سے بہرہ ور تو ہے جامع سب کا قصہ مختصر یا محمد یا ابن عبدالمطلب لَا كَذِبُ أَنْتَ النَّبِيُّ لَا كَذِبُ تیرے دم سے ہم ہوئے خیر الامم تیرے بڑھنے سے بڑھا اپنا قدم ختم تجھ پر خوبیاں کان کرم تو ہے خاتم یا ابن عبدالمطلب لَا كَذِبُ أَنْتَ النَّبِيُّ لَا كَذِبُ اہلِ تثلیث و یہود و بُت پرست تو اکیلے نے ہی دی سب کو شکست چھاگئے چھا گئے رُوئے زمیں پر تیرے مست یا جرئی اللہ یا ابن المطلب لَا كَذِبُ أَنْتَ النَّبِيُّ لَا كَذِبُ جب جگا کر تجھ سے دشمن نے کہا کون اب تجھ کو بچائے گا بتا مُسکرا کر آپ نے فرما دیا ”میرا مولیٰ“ یا ابن عبدالمطلب لَا كَذِبُ أَنْتَ النَّبِيُّ لَا كَذِبُ 70 کلام ظفر يا مُطِيعَ الْاَمرِ واسْجِدُ وَاقْتَرِب“ إِنَّ قلبي نحو حُسنِكَ قَد جُذب وَالجَنانُ فِي فِراقِكَ مُضطرِب یا محمد یا ابن عبدالمطلب لَا كَذِبُ أَنْتَ النَّبِيُّ لَا كَذِبُ روز محشر جب نبی جائیں گے ڈر خلق کی ہو گی فقط تجھ پر نظر تب پکارے گا تجھے آثم ظفر يا شفيع الخلق يا ابن المطلب لَا كَذِبُ أَنْتَ النَّبِيُّ لَا كَذِبُ نوٹ : یہ نظم الفضل قادیان 23 نومبر 1945ء میں شائع ہوئی.بعد میں رسالہ الفرقان خاتم النبین نمبر دسمبر 1952ء صفحہ 63,64 میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے اسے شائع کرتے ہوئے یہ نوٹ تحریر فرمایا:.دو یہ پر کیف نظم جناب مولوی ظفر محمد صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ نے ایک خاص ساعت میں لکھی ہے.اس میں غزوہ حنین کے موقع پر رسول اکرم ﷺ کا فوج اعداء میں گھر جانے کے باوجود اَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ ، اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ کہتے ہوئے آگے بڑھنے کا نظارہ سامنے ہے.شاعر نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی جامعیت اور خاتمیت کو دلکش انداز میں قلم بند کیا ہے.جزاه الله خَيْرًا (ابو العطاء ) روزنامه الفضل 10 مارچ 2014 ، صفحہ 2)

Page 44

71 کلام ظفر نعت خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم آؤ درود پڑھ کے کریں اس نبی کی بات ہے جس کی ذات باعث تخلیق کائنات جس کی ضیا سے چھٹ گئیں سے چھٹ گئیں تاریکیاں تمام روئے زمیں چھا گئیں جس کی تجلیات انساں بھٹک رہا تھا کوئی راہبر نہ تھا چھائی ہوئی تھی جہل کی کالی سیاہ رات اکراه و جبر و جور کا دنیا میں دور تھا تھا بے بسوں تنگ ہوا عرصہ حیات اہلِ جہاں تھے حق و صداقت سے بے خبر شخص تھا طلسم تو ہمات ہر اسیر تھا مال و زر ہی باعث اکرام و افتخار سنتا نہ تھا غریب کی کوئی جہاں میں بات 72 کلام ظفر آئے جو آنحضور تو حل ہو گئیں تمام انسانیت کی راہ میں جتنی تھیں مشکلات لاکھوں دلوں کو لوٹ لیا اک نگاہ میں میرے رسول پاک کے کیا کیا ہیں معجزات کیا کم یہ معجزہ ہے کہ خانہ بدوش قوم اُٹھ کر جہاں کو گئی درس النہیات منکر دامن گو زبان مگر مانتے ہیں دل ہے ہے مصطفے کا فقط دامن نجات بادِ بہار بن کے وہ آئے جہان میں سوکھے چمن کا ہو گیا سر سبز پات پات ایسا دیا بشر کو مساوات کا سبق باقی رہی دلوں میں نہ تفریق ذات پات ختم الرسل ہمارے سراج منیر ہیں روشن انہیں کے نور سے ہے ہر نبی کی ذات

Page 45

73 کلام ظفر دل جھومے کیوں نہ سُن کے اذاں دن میں پانچ بار اٹھتی ہے گونج نام محمد کی شش جہات سنتے بھی ہو ظفر کہ اذان سحر ہوئی حَيَّ عَلَى الْفَلاح و حَيَّ عَلَى الصَّلوة (روز نامه الفضل 6 2/فروری 1979ء صفحہ 2) 74 کلام ظفر ہے پریشانی خاطر کا فقط ایک علاج مولی میں ظفر دل کا پریشاں ہونا یادِ مولی

Page 46

کلام ظفر 75 کلام ظفر نعت خیر الرسل صلی اللہ علیہ وسلم احسان ہے عظیم خدائے رحیم کا خادم بنا دیا جو رسول کریم کا خوئے التفات الطاف یہ کرم کیونکر ادا ہو شکر رؤف و رحیم کا لاکھوں درود آپ پر اے امن کے رسول پھر وقت ہے حضور کی فتح عظیم کا تند آندھیوں کا زور چمن سے گزر گیا اب گلستاں میں دور ہے بادِ نسیم کا انسان کو آج حقائق کی جستجو ہے بالا ہے آج بول کتاب حکیم کا آزادی ضمیر کی دولت ہے، اب نصیب اب وقت ہے اشاعت دین قویم کا 76 دشمن بھی اب تو آپ کو پہچاننے لگا چرچا ہے اب حضور کے خُلق عظیم کا يا فاتح القلوب مبارک ہو آپ کو قبلہ ہیں اب حضوڑ ہی قلب سلیم کا ختم الرسل کی شان سے جو بھی ہے بے خبر فضل عظیم کا انکار کر رہا ہے وہ پیغام آنحضور کا قرآن ہی تو ہے ناسخ ہے بالیقین جو صحف قدیم کا اب کوئی بھی نہ آئے گا لے کر نئی کتاب فتوى ہے ابتداء سے یہی ہر فہیم کا وہ آمد مسیح کا وعدہ کدھر گیا؟ کیا ہے جواب آپ کی عقلِ سلیم کا ختم الرسل کی شان کی عظمت اسی میں ہے سے ہو ظہور مسیح و کلیم کا امت سے

Page 47

77 دیں سابقہ اُمم کو خدا نے جو نعمتیں وارث بنا دیا ہے ہمیں اُن نعیم کا مذہب نہیں سکھاتا ہے رکھنا کسی سے پیر لطفِ عمیم کا تو پیام دیتا ہے اب مذہبی جدال کا انداز اور ہے اب ساحری ہے اور عصا ہے کلیم کا دجال کے زوال میں اب کوئی شک نہیں تھوڑا سا وقت باقی ہے اب اس لئیم کا خوبی ہے تجھ میں کون سی یہ تو بتا ظفر مشتاق کس بناء پہ ہے دُر یتیم کا کلا ظفر روزنامه الفضل 4 اپریل 1979ء صفحہ 2) 78 کلام ظفر مقامِ احمد صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ فاتحہ کے آئینہ میں سیدنا حضرت بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کو اس لئے الحمد سے شروع کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک کی طرف ایما ء ہو.الحمد میں ہے مضمر احمد مقام تیرا پردے میں لام کے ہے پوشیدہ نام تیرا اللہ محض اللہ جینا ہو یا کہ مرنا حمد خدا وظیفہ ہر صبح و شام تیرا خود رب العالمیں نے دل تیرا دیکھ کر ہی للعالمين رحمت رکھا ہے نام تیرا رحمن مہرباں ہے جیسے کہ ہر بشر پر ویسے ہی ہر بشر پر ہے فیض عام تیرا

Page 48

کلام ظفر 79 تو رحیم مومنوں پر ماں باپ سے بھی بڑھ کر رافت کلام ظفر ہے شان تیری رحمت مقام تیرا تو مالک جزا کا مظہر ہے میرے آقا لطف و کرم میں مضمر ہے انتقام تیرا اياكَ نَعْبُدُ سے معراج تو نے پایا اسرا بعبده “ ہے ”قصى مقام تیرا اقصی سارا ایاک نستعین کا اعجاز ہے یہ ہر اک مہم میں ہونا فائز مرام تیرا دعاء اهدِنَا جس کے طفیل حق نے ہے بھیجا امام مہدی احمد غلام تیرا امکان تھا کہ دشمن اس کو مٹا ہی دیتے ہوتا اگر نہ آقا اس پر سلام تیرا اب پل صراط پر سے امت گزر رہی ہے شفقت گرتوں کو تھام تیرا لیتا پھر مستقیم 80 رہ پر چلنے کو کارواں ہے پیش نظر ہے اس کے ہر آن گام تیرا صد شکر ہے کہ ہم بھی انعام یافتہ ہیں احسان ہے یہ ہم پر خیر الانام تیرا مغضوب جب اور ضالیں مقہور ہی رہیں گے نه کلمه تک پڑھیں نہ پیارے امام تیرا یہ تشنگی اپنی جانبر نہ ہو سکیں گے جب تک نہیں پئیں گے پُر کیف جام تیرا گورے ہوں یا کہ کالے بندے ہیں سب خدا کے ہیں سارے بھائی بھائی یہ ہے پیام تیرا کوئی نظام عالم خالی نہیں خلل سے جو پاک ہے خلل سے وہ ہے نظام تیرا تو نورِ اوّلیں تو ختم مرسلیں والله ہر ہے مرسلیں ہے نبی ہے ادنی غلام تیرا

Page 49

81 جیسے کہ عرش پر ہے ویسے ہی فرش پر بھی بالا ہو بول تیرا اونچا ہو نام تیرا جاتا ہے مال جائے جاتی ہے جان جائے وہ وقت جلد آئے جلوہ ہو عام تیرا کلام ظفر کانٹے ہٹا رہے ہیں آنکھیں بچھا رہے ہیں گلشن میں آ کہ آیا وقت خرام تیرا لاکھوں درود تجھ پر لاکھوں سلام تجھ پر 82 کلام ظفر نعت رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پہ قربان میری جان رسول عربی کیا ہی اونچی ہے تیری شان رسُولِ عربی تجھ سا پیدا نہ ہوا اور نہ ہو گا کوئی! تیری یکتائی پہ قربان رسُولِ عربی جیتے ہیں ہم جہاں میں لے لے کے نام تیرا دور سے دیکھا جسے چشم کلیم اللہ نے ہم حسب استطاعت تبلیغ کر رہے ہیں ہے وہ جلوہ فاران رسُولِ عربی کرنا مدد دعا سے آگے ہے کام تیرا اللہ ہی جانتا ہے جذبات کا وہ عالم بھی ظفر محمد لیتا ہے نام تیرا (ماہنامہ الفرقان فروری 1976 ء نعت نبوی نمبر 2 صفحہ 35,36) ذاتِ واجب کے سوا فوق ترے کچھ بھی نہیں غایت عالم امکان رسُولِ عربی تیرے ہی جام سے ملتی ہے حیاتِ دائم ساقی کوثر عرفان رسُولِ عربی تیری آمد سے ہوا رحمتِ باری کا نزول تُو ہے ہے وہ بندہ رحمان رسُولِ عربی

Page 50

83 تیرے ہی فیض سے موقوف ہوا وادِ بنات محسن طبقه نسوان رسُولِ عربي کلام ظفر یہ بھی اعجاز ہے تیرا کہ شتر بانِ عرب ہو گئے شاہ جہاں بان رسُولِ عربی سلک وحدت میں پروئے تھے جو موتی تُو نے آج ہیں پھر وہ پریشان رسُولِ عربی آج امت ہے تری لہو و تجارت میں مگن مسجدیں ہو گئیں ویران رسُولِ عربی مغربی فلسفه محبوب امت کو تری ہے اور مہجور ہے قرآن رسُولِ عربی ہاں دعا کیجئے گا می موتی کے حضور پھر مسلماں ہوں مسلمان رسُولِ عربی ہو گنہگار ظفر پر بھی ذرا چشمِ کرم میرے آقا میرے سلطان رسُولِ عَرَ صاحب 84 کلام ظفر صلى الله خطاب بحضرت خاتم النبین علی علوم اصفیا لولاک ختم الانبیاء مقتدائے انبیاء و تیری آمد سے ہے یہ عقدہ کھلا ارفع و اعلیٰ ہے تو بعد از خدا کو ہی ختم الانبیاء لا جرم ہے ☆ ہے سر ابتدائے زندگی تیری ہستی منتہائے زندگی تجھ سے وابستہ بقائے زندگی تو حقیقی راہنمائے زندگی لا جرم ہے تو ہی ختم الانبیاء تیرے دم سے ہم ہوئے خیر الامم تیرے بڑھنے سے بڑھا اپنا قدم ختم ترے نام پر شانِ ختم تو سراپا جود ہے ابر کرم لا جرم ہے سابقین ہی ختم الانبیاء و لا لاحقین از انبیاء نقطہ نفسی ترا ان کی ضیاء تیری خاتم سے انہیں منصب ملا سب ترے مظہر ہیں اے خیر الوریٰ کو ہی ختم الانبیاء لا جرم ہے تجھ سے پہلے جس قدر تھے نامور تھے وہ جن جن خوبیوں سے بہرہ ور تگو ہے جامع سب کا قصہ مختصر تیرے سر ہے سہرۂ فتح و ظفر لا جرم ہے تو ہی ختم الانبیاء (ماہنامہ الفرقان جنوری، فروری 1960ء صفحہ 26) انبیاء کیلئے مہر الفضل انٹر نیشنل صفحہ 16 جون 2000 ء تا22 جون 2000ء صفحہ 2) بمعنی مهر

Page 51

85 در مدح قرآن کریم قرآنِ پاک جہان میں تو وہ بے مثال کتاب ہے جو کمال حسن و جمال میں فقط آپ اپنا جواب ہے کلا ظفر 86 کلام ظفر کبھی شرق میں کبھی غرب میں تیری رحمتوں کی ہیں بارشیں ہے جہاں جہاں پہ کرم تیرا ہمہ گیر تیرا سحاب ہے جو نہ پی سکا وہ نہ جی سکا، جو نہ جی سکا وہ نہ پی سکا صفت دوگونه سے متصف تری زندگی کی شراب ہے تری سورتوں میں تجلیات ربوبیت کا ظہور ہے تو کلامِ رب خبیر ہے تو نشانِ شانِ قدیر ہے ترے لفظ لفظ میں نور ہے ترے حرف حرف میں آب ہے تیرا کر سکے جو معارضہ بھلا کس غریب کی تاب ہے ترا ایک یہ بھی کمال ہے کہ مقطعات کی ذیل میں تیری امت اسلام کی دو نشانوں کا حساب ہے تری بسملہ بھی عجیب ہے کہ جو برکتوں کی کلید ہے جو عمل ہو اپنا اعوذ پہ تو شیطنت پر شہاب ہے وہ تری فاتحہ کا وجود بھی ترا معجزه در معجزه تو لباب سارے علوم کا تو یہ تیرا لب لباب ہے شاداب ہے دلِ زندگی تری آب یاری کے فیض سے تری آب یاری اگر نہ ہو تو یہ زندگانی سراب ہے تیری آیہ آیہ کے ربط میں ترے امر و نہی کے ضبط میں مری زندگی کا ہے ضابطہ مری بندگی کا نصاب ہے مجھے رحم آتا ہے اے ظفر ان بے نصیبوں کے حال پر جو جہاں میں آج ذلیل ہیں اور پاس ایسی کتاب ہے (روز نامه الفضل 6 دسمبر 2006 صفحہ 2 نیز " کلام پاک نمبر 13 دسمبر 2007 ءسالانہ نمبر 26)

Page 52

87 کلا ظفر 88 نذرانہ عقیدت بحضور امام آخر الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام ملت بيضا مبارک تجھ کو رعنائی تری بعد اک مدت کے ہے امید بر آئی تری اے مسیح وقت قرباں جاؤں تیرے نام پر معجزے کیا کیا دکھاتی ہے مسیحائی تری دور سے آیا ہے تو اور دیر سے آیا ہے تو بعد صدیوں کے ہمیں صورت نظر آئی تری گاہ ڈھونڈا آسماں پر گاہ غاروں میں تجھے تھی تری آمد سے پہلے خلق شیدائی تری کل جو شیدائی تھے اب وہ مبتلائے وہم ہیں زعم سے ان کے کہیں برتر ہے رعنائی تری جو سمجھتے تھے تجھے روشن ستارے کی طرح اے خور تاباں انہیں گرمی نہ راس آئی تری غوطہ زن ہو جس قدر بھی عقل پاسکتی نہیں قلزم عرفان! گہرائی نہ پہنائی تری جو بشر نادان ہیں لقمان بن جائیں سبھی ڈال دے گر عکس اپنا اُن پہ دانائی تری اے خدا کے شیر اے اسلام کے بطل جری لرزه بر اندام ہیں ہیبت سے عیسائی تری کم ہے کیا یہ معجزہ مُردے ہزاروں جی اُٹھے قم باذن الله کی جونہی صدا آئی تری چند مُردے ابن مریم نے کئے زندہ تو کیا ایک عالم کر گئی زندہ مسیحائی تری یوسف آخر زماں آئے گی آخر وہ گھڑی سر جھکا کر مان لیں گے برتری بھائی تری کلام ظفر

Page 53

89 تجربہ ہے بار ہا کا آپ ہی رُسوا ہوا یا مسیح اللہ! چاہی جس نے رُسوائی تری چودھویں کا چاند بھی تجھ کو نظر آتا نہیں ہم نشیں میں کیا کروں ہے ختم بینائی تری بادشاہوں سے ہے افضل وہ گدائے بے نوا مل گئی ہے جس کو اے احمد پذیرائی تری ٹور سے تیرے منور ہو گیا قلب ظفر اے خُدا کے نور جب سے روشنی پائی تری کلا ظفر روزنامه الفضل مسیح موعود نمبر 21 مارچ 1979ء صفحہ 6) 90 کلام ظفر حضرت بانی جماعت احمدیہ کی تصویر دیکھ کر عکس جمیل و صورت زیبا و باوقار پڑتی ہیں کیوں لگا ہیں میری تجھ پہ بار بار دنیا میں ہم نے دیکھے بہت خوبرو مگر صورت تیری ہے صنعت صانع کا شاہکار تیری جبیں پہ محسن ازل کی تجلیاں طلعت سے تیری نورِ صداقت ہے آشکار دنیا سے بے نیاز نگاہیں جھکی جھکی غض بصر کے حُسن کی تفسیر شاندار آقا تری دُعاؤں سے وہ دن قریب ہیں تیری جھکی نگاہوں کو ہے جن کا انتظار

Page 54

91 کلام ظفر اسلام غالب آئے گا دنیا میں عنقریب دجال کو ہے آج تلاش ره فرار اب ساعت ہلاکت باطل قریب ہے یا جوج بے قرار ہے ماجوج بے قرار مغرب کے بت کدوں میں قیامت ہوئی بپا تثلیث ہوتی جاتی ہے توحید کا شکار (روز نامہ الفضل 25 جولائی 1979 ، صفحہ 2) 92 کلام ظفر چودھویں کے چاند کو دیکھ کر اے چودھویں کے چاند قسم تیرے نور کی تمہید بن گیا ہے تو آج اک سرور کی وہ آئی چودھویں کا چاند کہ احمد ہے جس کا نام تجھ مجھے آنحضور کی ہے یاد اے چاند تو بھی شرق میں آکر ہوا تمام مشرق ہی اس کی سمت ہے اتمامِ نور کی اس چودھویں کے چاند سے اے چودھویں کے چاند نسبت تجھے ضرور لیکن دُور کی ہے ہے جس چودھویں کی رات میں تجھ کو ملا کمال چودھویں کی رات ہے، اس کے ظہور کی احمد وہ ماہتاب محمد وہ آفتاب لاکھوں تجلیاں ہیں جہاں کوہ طور کی

Page 55

93 ان کے ہی ٹور پاک سے تاریکیاں چھٹیں الحاد و کفر و شرک کی بدعات و زور کی روحانی روشنی ہو کہ جسمانی روشنی روشن ہیں روشنی سے فقط آنحضور کی اے عالم الغیوب تجھے کیا خبر نہیں جو کیفیت ہے میرے دل ناصبور کی کیا چیز ہیں خطائیں مری اے میرے خدا! رکھ لاج اپنے نام رحیم غفور کی و یا رب تو میری ساری خطائیں معاف کر کر ڈور میل دل سے مرے ہر قصور کی وہ دے کلام ظفر جو کل کو آج دیکھ سکے نگاه شہور کی منزلیں سمیٹ سنین و دے دیوانگی عشق کی ہوں مستیاں عطا ہشیاریاں معاف ہوں عقل و شعور کی احمد کے عاشقوں میں ظفر کا بھی نام ہے اُڑتی خبر سُنی ہے زبانی طیور کی ( روزنامه الفضل 26 دسمبر 1954 ء جلسہ سالانہ نمبر صفحہ 14) 94 در مدح حضرت مصلح موعود اے تخیل گر رسائی پر تجھے کچھ ناز ہے تا سر عرش بریں تیری اگر پرواز ہے شاخ ہائے سدرہ پر گر تو نشیمن ساز ہے عالم ملکوت سے تو کچھ اگر ہم راز ہے پنجه تسخیر کلام ظفر تو مرے محمود کے احسان کی تصویر کھینچ ! نقش ان کے حسن کا در پردۂ تحریر کھینچ ؟ سے بالا میہ کامل نہیں توڑنا تارے فلک کے یہ کوئی مشکل نہیں غیر ممکن کچھ بیان جذبہ ہائے دل نہیں اور بیروں از احاطہ بحرِ بے ساحل نہیں پر احاطه مردِ کامل کا بہت دشوار ہے یہ وہ نکتہ ہے جہاں ادراک بھی لاچار ہے

Page 56

95 دیدہ ظاہر میں اے محمود اک انساں ہے تو اہل دل کی دید میں پر بحر بے پایاں ہے تو صورت زیبا میں اپنی یوسف کنعاں ہے تو سیرت حسنہ میں اپنی مظہر رحماں ہے تو کلام ظفر احمد مرسل کے ثانی حسن میں احسان میں خوبیاں تجھ سی نہیں ہرگز کسی انسان میں تو مقدس باپ کے ہم رنگ اے محمود ہے نصرت اسلام روح والد و مولود ہے یہ حقیقت وہ ہے جو خود شاہد و مشہور ہے لا جرم لا ریب تو ہی مصلح موعود ہے دیر سے آیا ہے تو اور دُور سے آیا ہے تو یعنی اک نور ازل کے نور سے آیا ہے تو حضرت احمد سے پہلے تین تھے ایسے بشر حق تعالیٰ کی بشارت سے ملے جن کو پسر پدر حضرت ابراہیم اول دوم کمیٹی کے سوم مریم محصنہ جس پر تھی مولی کی نظر تیری پیدائش نے احمد کو کھڑا ان میں کیا ہیں یہی وہ تین جن کو چار تو نے کر دیا 96 ارض ربوہ پر ہیں جب سے آپ جلوہ گر ہوئے اس کے ذرے جگمگا کر ہم سر اختر ہوئے آپ کی ہمت سے ہی آبا دا جڑے گھر ہوئے اور قائم از سر نو مرکزی دفتر ہوئے کلام ظفر بالیقیں اپنی اولوالعزمی میں تو اک فرد ہے اے خدا کے شیر! تو اک آسمانی مرد ہے تیرے دم سے اے مسیحی روح فاروقی دماغ خانہ اسلام کا روشن ہوا دھندلا چراغ عاشقانِ ملت احمد کے دل ہیں باغ باغ دشمنان تیرہ باطن کے ہیں سینے داغ داغ حق نے باندھا ہے ترے سر سہرۂ فتح و ظفر اے بشیر الدین محمود احمد و فضل عمر (ماہنامہ مصباح ربوہ مارچ 1954 ، صفحہ 17 نیز روز نامه الفضل مصلح موعود نمبر 17 فروری 2012 ، صفحہ 4) نوٹ : یہ نظم سلور جوبلی کے موقع پر قادیان میں پڑھی گئی.نیا مرکز ربوہ بننے کے بعد اس نظم میں مولانا نے چند اشعار کا اضافہ کیا.اب اسے مکمل شائع کیا جارہا ہے.

Page 57

97 خدا حافظ کلا ظفر حضرت خلیہ اسیح الثانی کی یورپ کو روانگی ہمیں تیری فرقت گوارا نہیں مگر ہے گوارا که چارا ہے نہیں ہے خدا کی حفاظت میں جاؤ کہ جس سے کوئی بڑھ کے حافظ تمہارا نہیں ہے چلی سُوئے مغرب ہے رحمت خدا کی کہ مشرق کا اس یہ اجارا نہیں ہے مسلماں زمیں پر ہے نائب خدا کا حد اور کنارا نہیں ہے نیابت کی یہ مشرق یہ مغرب ہیں سارے ہمارے فقط ایشیا ہی ہمارا نہیں ہے وہ مغرب کہ صدیوں سے جس میں خدا نے کوئی برگزیدہ اتارا نہیں ہے 98 چلا ہے وہاں پھر مسیحا کا وارث خدا نے اُسے بھی بسارا نہیں ہے شکایت تھی عیسائیوں کو خدا سے کہ کیوں ابن مریم اُتارا نہیں ہے ہے احمد ہی موعود اقوام عالم کوئی اور منجی تمہارا نہیں ہے اسے مان لو گے تو پاؤ گے برکت اطاعت میں اس کی خسارا نہیں ہے چلا چاند اپنے ستاروں کو لیکر مجاہد کو منزل گوارا نہیں ہے خدایا محافظ تو ہی کبھی کا ہے سوا تیرے کوئی ہمارا نہیں ہے ظفر دردِ فرقت اُٹھانا پڑے گا یہ وہ درد ہے جس کا چارا نہیں ہے کلام ظفر (روز نامه الفضل 26 مارچ1955 ، صفحہ 5)

Page 58

99 کلام ظفر 100 کلام ظفر تیرے بغیر رُوح جماعت اُداس ہے اے آفتاب حسن ترے حُسن کے بغیر دنیائے مہر و عشق نہایت اُداس ہے ربوہ کی سر زمیں میں وہ رونق نہیں رہی مجھ کو قسم ہے لذت ایامِ وصل کی اب صابروں کے صبر کی طاقت اُداس ہے ہے شک مسیح مغرب مُردہ ہے تو مگر مشرق میں زندگی کی حرارت اُداس ہے مسجد اُداس قصر خلافت اُداس ہے جز وصل یار چین چین میسر نہیں ظفر منبر پہ ترے جلوہ دیدار کے لئے وہ گردنوں کے اٹھنے کی عادت اُداس ہے اس زندگی کی جو بھی ہے ساعت اداس ہے روزنامه الفضل 4 اگست 1955ء صفحه 2 نیز 23 مئی 2014ء خلافت نمبر صفحہ 13) کتنی کسی خطیب کی تقریر ہو عجیب تیرے بغیر ذوق سماعت اُداس ہے باقی نہیں نماز میں بھی وہ سرور و ذوق محراب بے قرار امامت اُداس ہے اے چشمہ مسرت ارواح قدسیاں تیرے بغیر رُوح جماعت اُداس ہے

Page 59

101 کلام ظفر 102 کلام ظفر در مدح حضرت مصلح موعودہؓ جس کی اخبار احادیث میں صدیوں سے رقم جس کا مذکور ہے قرآن میں قرآں کی قسم جس کی احمد نے ہمیں دی تھیں بشارات اہم مظہر حق و علا نور خُدا في رُخ وہ أمم ہم میں موجود وہی مصلح موعود ہے آج مند آرائے خلافت وہی محمود ہے آج جلوہ انوار کہ حیران قمر لب پہ وہ طاقتِ گفتار کہ جادو کا اثر دل ہے وہ مخزن اسرار کہ قُربان گہر من میں وہ قوتِ کردار کہ بالائے بشر بعد صدیوں کے ملا گوہر مقصود ہمیں لله الحمد ملی نوبت محمود ہمیں کھینچ سکتا نہیں محمود میں تصویر تری کھینچتی دامن دل ہے مرا تقریر تری اک کرامت ہے کہ اعجاز ہے تحریر تری حُسنِ قرآن کی تصویر ہے تفسیر تری حق نے بخشے ہیں تجھے ظاہر و باطن کے علوم چار اقصائے جہاں میں تیرے عرفان کی دُھوم کتنے فتنے ہیں بھیانک کہ مٹائے تو نے کتنے دشمن ہیں کمینے کہ بھگائے تُو نے کتنے سوئے ہوئے انسان جگائے تو نے کتنے ہیں غرق ضلالت کہ بچائے تو نے کھول دیتا ہے گرہ ناخن تدبیر ترا چین لیتا ہی نہیں جذبہ تعمیر ترا

Page 60

103 وہ اولوالعزم کہ مشکل ہے ملے جس کی مثال صدیوں کا کام لیا آپ نے سالوں میں نکال صاحب شان و شکوه جامع احسان و جمال حق تعالیٰ نے دیا آپ کو ہر ایک کمال کلام ظفر احمدی دور کے آغاز کو پایا ہم نے لِلَّهِ الْحَمْد کہ بگڑی کو بنایا ہم نے (ماہنامہ خالد خلافت نمبر مارچ 1955 ء صفحہ 9) نوٹ: سابقہ ایڈیشن میں بینظم نامکمل تھی اب اسے مکمل شائع کیا جارہا ہے.104 کلام ظفر رود چناب پر حضرت مصلح موعود کی سیر ( جو حضور کے سامنے پڑھی گئی ) رود چناب رحمت پروردگار دیکھ کتنے ہیں خوش نصیب یہ تیرے کنار دیکھ پرچم اُڑے گا جس کی ظفر کا جہان میں اُترا تیرے کنارے ہے وہ شہسوار دیکھ دیکھے ہیں تیری آنکھ نے لاکھوں حسین سین منظر مگر ہے آج کا کیا شاندار دیکھ وابستہ تیرے نام سے ہے داستانِ عشق اس داستانِ عشق کی رنگیں بہار دیکھ محمود غزنوی کا تعارف تجھے نصیب محمود احمدی کا رُخ تابدار دیکھ اُس غزنوی کے ساتھ تھی تلوار کی چمک اس احمدی میں نور خُدا آشکار دیکھ

Page 61

105 کلام ظفر 106 کلام ظفر ٹوٹی ہوئی ہے تیری بھی زنجیر موج آج یعنی اسیر ہونے لگے رُستگار دیکھ صدیوں کی انتظار نے بخشا ہے یہ گہر دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ مدت سے ہے اسیر کمند ہوا ظفر ہے آقا بخشیم لطف ادھر ایک بار دیکھ روزنامه الفضل 16 جنوری 2015 ، صفحہ 2) حضرت مصلح موعود کا ایک پیغام پڑھ کر اے آنکہ ہے عزیز ہمیں جاں سے تیرا نام سایہ رہے سروں پہ ہمارے تیرا مدام پیغام کل دیا ہے جو ہم کو حضور نے تازیست ہم نہ بھولیں گے یہ آپ کا پیام لبیک عرض کرتے ہیں اس کے جواب میں صدق و وفا کی رُوح سے سرشار یہ غلام کم مایہ ہیں جہاں میں اگر ہم تو کیا ہوا ضامن ہے کامرانی کا اپنی خدا کا نام وابستگی ذیل خلافت کے فیض سے پیدا نئی زمین کریں گے نیا نظام

Page 62

107 کلام ظفر 108 جب تک نہ ہو گا پرچم اسلام سربلند لڑتے رہیں گے کفر سے لڑتے رہیں گے ہم حجت کی لے کے ہاتھ میں شمشیر بے نیام سمجھیں گے اپنی زیست کو اپنے لئے حرام کل جس نے آدمی کو نکالا تھا خُلد سے آقا یقین جانئے اللہ کی قسم اب لیں گے اس سے احمدی گن گن کے انتقام ضائع کبھی نہ جائے گا یہ آ.یہ آپ کا پیام ہر ظلم کو مٹائیں گے دُنیا سے اس طرح یا رب تو التجائے ظفر کو قبول کر ظلمت کو چھانٹ دیتا ہے جیسے مہ تمام محمود کو شفا دے تو یا شافی و سلام منوائیں گے صداقتِ اسلام اس طرح خود فلسفی کہیں گے بصد عجز و احترام قرآن کے معارف صافی کے سامنے مغرب کا فلسفہ ہے فقط اک خیالِ خام منوائیں گے جہان سے منوائیں گے ضرور آقا تیرے حبیب کے لولاک کا مقام کلام ظفر روزنامه الفضل خلافت نمبر 26 مئی 1959 ء صفحہ 8)

Page 63

109 کلام ظفر حضرت امیر المومنین سے التجا اے آنکہ نور حق ہو معارف کی کان ہو وے آنکہ حسن وعشق و محبت کی جان ہو مانا کہ تم ہو کشتی مسلم کے ناخدا مسرا سالار کاروان سی الزمان ہو تم مانا کہ آج چشمه آب بقا ہو پانی سے جس کے زندہ ہوا اک جہان ہو مانا که مثل نام ہے محمود تیرا کام پاتے تم اپنی ذات میں ہر ایک شان ہو پر تیری ان صفات کا کیا فائدہ اُسے دردِ فراقِ یار سے جو نیم جان ہو اک میری التجا ہے اگر مان لو اُسے الله مان لو کہ بڑے مہربان ہو وہ شمع حسن جس کا ہے پروانہ دل ترا 110 اور شک اگر ہو اس کو مری تاب دید میں تو مختصر تجلی سے ہی امتحان ہو دشوار گر ہو دید تو گفتار ہی سہی چہرہ نہیں دکھاتے تو گویا زبان ہو ہائے وہ اپنی ہستی باطل کو کیا کرے جس پر کہ مہربان ہی نا مہربان ہو آقا اُسے خدا سے ملا دو تو بات ہے جو مجھ سا پر شکستہ ہو اور نیم جان ہو تازیست میں نہ بھولوں گا احسان کو تیرے گر تیری مہربانی سے وہ مہربان ہو محروم وصلِ یار کو غربت ہے ہر وطن ملہ ہو یا مدینہ ہو یا قادیان ہو ملتا نہیں کسی سے وہ دلدار اے ظفر جب تک نہ اس کی راہ میں قربان جان ہو کلام ظفر (روز نامه الفضل قادیان 4 ستمبر 1936ء صفحہ 2) میرے بھی طورِ دل پہ وہ آتش فشان ہو نوٹ : سابقہ ایڈیشن میں بینظم نامکمل تھی اب اسے مکمل شائع کیا جارہا ہے.

Page 64

111 کلام ظفر 112 کلام ظفر دیار افریقہ $1970 ( حضرت خلیفہ امسیح الثالث کی پہلی بار فریقہ روانگی ) نگاه رحمت پرودگار افریقہ ہے خاص طور پہ سوئے دیارِ افریقہ خدا کا شکر ہے بے حد ہے بے حد کہ کٹ گئی آخر شب دراز شب انتظار افریقہ امام وقت کو اپنے دیار میں پاکر سے جھوم رہے ہیں خیار افریقہ خوشی زہے نصیب کہ ہم میں امام وقت آیا خوشا نصیب کہ آئی بہارِ افریقہ یہی امام ہے ماوی ضیعف قوموں کا عالمیاں، غمگسار افریقہ پناه کبھی نہ اتنے مُبارک تھے عہدِ ماضی میں کہ جتنے آج ہیں لیل و نہارِ افریقہ خدا کے بندے ہیں گورے ہوں یا کہ ہوں کالے صدا یہ دیتے ہیں لیل و نہارِ افریقہ ہزار زور لگائیں سفید فام مگر بلند ہو کے رہے گا منار افریقہ دیار جبش میں آکر امانِ جاں پاکر بڑھا گئے ہیں صحابہ وقار افریقہ ہمارے سید و مولی سیاہ فام بلال یسا گئے ہیں دلوں میں پیار افریقہ خدا کرے کہ لوائے بلال کے نیچے قرار پائے دل بے قرار افریقہ ظفر قریب ہیں وہ دن کہ احمدی ہوں گے دیار مشرق و مغرب دیار افریقہ ย (روز نامہ الفضل 23 اپریل 1970ء صفحہ 2 و28 دسمبر 2004 ء سالانہ نمبر )

Page 65

113 کلام ظفر 114 کلام ظفر ) اَهلا و سهلا وَ مَرْحَبًا حضرت علیہ السیح الثالث کی افریقہ سے کامیاب مراجعت پر ) آقا ہمارے اَهْلًا وَسَهْلًا و مَرْحَبًا کیا خوب کام کر کے دکھایا حضور نے آواز تھی حضور کی یا حضور کی یا نفخ صور تھا دنیا کو روز حشر دکھایا حضور نے بنیاد کفر و شرک کی جس سے لرز گئی توحید کا وہ نعرہ لگایا حضور نے کچھ بھی نہیں ہے فرق سفید و سیاہ میں انسان کو سبق یہ پڑھایا حضور نے الست روحوں کو بیدار کر دیا خالق کو خلق سے ہے ملایا حضور نے دنیائے رنگ و بُو نے تھا سمجھا جنہیں حقیر سینے سے اپنے ان کو لگایا حضور نے اللہ کرے کہ اور بھی یہ سرفراز : اسلام ہو کا علم جو اٹھایا حضور نے ممکن نہ تھا کہ صدیوں میں انجام پاسکے جو کام آج کر کے دکھایا حضور نے کرتے ہیں رشک آقا! تری شان پر ملک جو جاگتے تھے اُن کو ہوئی روشنی عطا وہ رتبہ بلند ہے پایا حضور نے جو سو رہے تھے اُن کو جگایا حضور نے ہر دم رہے حضور کے سر سہرہ ظفر قلب و نظر پہ چھا گئیں جس کی تجلیاں اسلام کا وہ نور دکھایا حضور نے ملت کی شان کو ہے بڑھایا حضور نے روزنامه الفضل 20 جون 1970 ء صفحہ 5)

Page 66

115 کلام ظفر 116 کلام ظفر خوش آمدید حضرت عایق لمسیح الثالث کی افریقہ سے کامیاب مراجعت پر ) ربوہ کی سر زمین کی دولت تمہی تو ہو حُسن و جمال و شوکت و عظمت تمہی تو ہو وابستگی رُوح جماعت تمہی تو ہو حضن حصین و یمن و سعادت تمہی تو ہو اے زینت سریر خلافت خوش آمدید ہے آپ کا وجود ہی اس باغ کی بہار رخصت ہوئے جو آپ تو رخصت ہوا قرار ہر دم دُعائے خیر تھی ہر آن انتظار شکر خدا کہ آگئی پھر باغ میں بہار اے آنکه آمدی به سلامت خوش آمدید فطرت ہو جس کی نُورِ نبوت سے مستنیر ممکن نہیں کہ سمجھے کسی کو کبھی حقیر اپنے گلے لگایا انہیں تو نے اے امیر دل دادگانِ رنگ نے سمجھا جنہیں حقیر اے پیکر خلوص و محبت خوش آمدید رحمت خدائے پاک کی تجھ پر ہو اے امام پہنچایا شرق و غرب میں اسلام کا پیام کوئی سیاہ فام ہو یا سفید فام دی روشنی سبھی کو مثال تمام ای ماه آفتاب رسالت خوش آمدید کس شان سے ہے ناصر احمد میں جلوہ گر بِالرُّعْبِ قَدْ نُصِرُتُ “ کا مضمون اے ظفر مرعوب ہو ہی جاتا ہے ملتا ہے جو بشر دیتا نہیں سہارا کسی کو بھی زور و زر اے صاحب وجاہت و عظمت خوش آمدید (روز نامہ الفضل 27 جون 1970ء صفحہ 4)

Page 67

117 کلام ظفر 118 کلام ظفر میں کون ہوں؟ ایک دن حضرت خلیفہ اسیح الثالث اپنی حد عمر کی اراضی پر تشریف لائے تو خاکسار بھی حاضر خدمت ہوا.حضور نے مجھے دیکھتے ہی ( شاید میری کمزور نگاہوں کا امتحان لینے کے لئے ) از راه خوش طبعی فرمایا.”میں کون ہوں؟“ ذیل کے اشعار حضور کے اس سوال کے جواب میں پیش کئے گئے.کیا بتاؤں میں کہ حضرت کون ہیں ملت اسلامیہ کے عون ہیں بدر میں جو دین کو نصرت ملی ہیں اس دور میں نصرت وہی آپ بھی اک چودھویں کے چاند ہیں انجم ماند ہیں جس کی تابانی ނ احمد و محمود و ناصر خوش خصال ہیں کبھی ابنائے فارس کے رجال طالمود آپ کی عظمت کی شاہد معترف تھی آپ کی قوم یہود یا کریم ابن الكريم ابن الكريم أنتَ تَهْدِينَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم میں تو ہوں بس اس قدر ہی جانتا اس سے بڑھ کر کچھ نہیں پہچانتا آپ ہیں وہ رہنمائے قافله حق نے جس کا نام رکھا نافلہ جانشینِ حضرت محمود ہیں وارث موعود بن موعود ہیں مثل فقیر بے ہے ہر دوسروں کے حال دل سے قوم کے سر پر ہو سایہ آپ کا جانتا ہے حق ہی پایہ آپ کا روزنامه الفضل 6 نومبر 1982ء صفحہ 5)

Page 68

119 کلام ظفر 120 یہ ممکن ہے کوئی نوشیرواں سا حاکم عادل عَزمِ وفا عدالت چھوڑ دے اور ظلم میں سرشار ہو جائے یہ ممکن ہے کوئی ہٹلر عدوّ جرمنی بن کر یہ ممکن ہے کہ اس اُلٹے زمانے میں کوئی مجنوں کسی انگریز دشمن کا علم بردار ہو جائے کلام ظفر بگڑ کر اپنی لیلی سے کبھی بیزار ہو جائے یہ ممکن ہے کوئی بلبل خلاف اپنی طبیعت کے گلوں سے دشمنی رکھ کر نثار خار ہو جائے یہ ممکن ہے طواف شمع تاباں چھوڑ پروانہ اسیم زلف لیلائے شبان تار ہو جائے یہ ممکن ہے کہ ماہی مسکن آبی سے گھبرا کر جستجوئے رفعت کوہسار ہو جائے یہ ممکن ہے کہ پانی چھوڑ کر اپنی برودت کو حرارت میں بدل جائے سراسر نار ہو جائے یہ ممکن ہے کوئی محمود شانِ بے نیازی میں ایاز با وفا سے برسر پیکار ہو جائے غرض سب کچھ یہ ممکن ہے مگر یہ ہو نہیں سکتا کہ احمد کی جماعت کا ظفر غذار ہو جائے ہفت روزہ بدر قادیان 18 /اکتوبر 2001، صفحه 12 نیز روزنامه الفضل خصوصی اشاعت 20 مارچ 2007ء صفحہ 13

Page 69

121 عد بات ظفر کلام ظفر خدا کی رہ میں ذلیل ہونا اور اس کی رہ میں فقیر ہونا 122 کلام ظفر بشارت وصال کی دی کبھی مجھے ہجر سے ڈرایا سمجھ میں آیا ہے اس طرح بھی ترا بشیر و نذیر ہونا مزا تو جب ہے حضور انور کہ دل ہمارا بھی ہو منوّر یہی تو عزت ہے عاشقوں کی یہی ہے ان کا امیر ہونا اگر چہ ہے ہر طرح مسلم تیرا سراج منیر ہونا کٹھن ہے عشق و وفا کی منزل تڑپ رہے ہیں ہزار ہا دل قسم تجھے تیری حُسنِ کامل ذرا مرے دستگیر ہونا وزیر بننے کی مجھ کو خواہش نہ چاہتا ہوں سفیر ہونا مجھے تو بھاتا ہے میرے پیارے ترے ہی در کا فقیر ہونا میری فقیری مجھے امیری، مری گدائی ہے مجھ کو شاہی رہے تمہیں منعمو مبارک! امیر ہونا کبیر ہونا عزیز ہوں گر نگہ میں تیری تو مجھ کو منظور ہے خوشی سے بچشم دنیائے بے حقیقت ذلیل ہونا حقیر ہونا میں دینِ احمد پہ جان و دل سے کروں گا قربان ذرّہ ذرّہ مگر یہ ہے شرط میرے پیارے کہ تو بھی میرا نصیر ہونا اگر نہیں آتشِ محبت تو خاک ہے زندگی کی لذت عجیب نعمت ہے اس جہاں میں ظفر کسی کا اسیر ہونا (ماہنامہ مصباح ستمبر 1951ءصفحہ 9)

Page 70

123 میری آرزو کلام ظفر عالم با عمل و عاشق قرآن بنوں آرزو ہے یہ کسی کی کہ سخندان بنوں ناقه عشق و محبت کا حدی خوان بنوں کوئی کہتا ہے کہ بن جاؤں مقرر اچھا دھاک تقریر کی ہو خانی سحبان بنوں ہے تمنا یہ کسی کی کہ سیاست سیاست میں بڑھوں رہنما قوم کا، ملت کا نگہبان بنوں 124 کوئی کہتا ہے کہ مل جائے خزانہ مجھ کو مال و دولت ہو بہت صاحب سامان بنوں کلام ظفر کوئی کہتا ہے کہ مل جائے حکومت مجھ کو سلّم چلتا ہو مرا صاحب فرمان بنوں آرزو ہے یہ کسی کی کہ بڑھوں حکمت میں بو علی سینا بنوں ہمسر لقمان بنوں کوئی کہتا ہے کہ بن جاؤں میں ایسا شہرور رستم وقت نہیں، رستم ازمان بنوں الغرض جتنے ہیں دل اتنی تمنائیں ہیں ہے خلاصہ یہ سبھی کا کہ میں ذیشان بنوں ہاں میرے دل میں بھی ہے ایک تمنا مولیٰ وہ اگر پوری ہو تو بندہ احسان بنوں کوئی کہتا ہے کہ اے کاش ہو شہرت حاصل آرزو تیرے ظفر کی ہے یہی بچپن.عالم باعمل و عاشق قرآن بنوں جس کا ہر گھر میں ہو چر چاہیں وہ انسان بنوں (ماہنامہ الفرقان سالانہ نمبر نومبر دسمبر 1951ء صفحہ 43)

Page 71

125 مقام مقام تو نگل اور دُعا اب میرے دردِ دل کی نہ کوئی دوا کرے یہ درد لا دوا ہے مگر ہاں دُعا کرے وہ مُرغ پر شکستہ جو اُڑنے سے رہ چکا رورہ کے گر ز میں یہ نہ رہے تو کیا کرے 66 فرمان تیرا خوب ہے ادْعُونِي أَسْتَجِبْ “ لیکن جو بے زباں ہو وہ کیونکر صدا کرے ہمت نہ جس غریب میں ہو التجاء کی بھی تُو ہی بتا کہ تجھ سے وہ کیا التجاء کرے یا رب تو اُس کو اور بھی اپنے قریب کر جو میرے حق میں قُرب ترے کی دُعا کرے کلا ظفر 126 احوال محسر و ئیسر دگرگوں نہ کر سکیں بندہ ہر ایک حال میں بندہ رہا کرے طول أمل میں نفس مرا مبتلا نہ ہو راضی رہوں اسی جو میرا خدا کرے میں غیر کی جفاؤں کے شکوے کروں تو کیا اے میرے دل جو تو ہی نہ مجھ سے وفا کرے تدبیر بھی ہے قبضہ تقدیر میں ظفر مولی تجھے مقامِ تو گل عطا کرے کلام ظفر (ماہنامہ الفرقان مئی 1959 ء صفحہ 25 نیز روزنامه الفضل 27 نومبر 1995ء صفحہ 2)

Page 72

127 کلام ظفر 128 زندگی زندگی اے اسیر مشکلات پیچ و تاب آبتاؤں تجھ کو میں تعبیر خواب زندگی عالم ظاہر کے پیچھے ایک عالم اور ہے در حقیقت اک نقاب زندگی ہے زندگی ہے وجود ذات باری منبع آب بقا مستيز اُس نور سے ہے ماہتاب زندگی مستور ہے علم و دانش سے جمالِ زندگی • عشق پیدا کر کہ اُٹھ جائے جحاب زندگی تو نہ سمجھا ہے نہ سمجھے گا کبھی اے فلسفی چھیڑتے ہیں کس طرح تارِ رُباب زندگی آگے پیچھے دوڑتے ہیں نفع وخسر وعسر ویسر گاه خنداں گاہ گریاں ہے سحاب زندگی دیکھتے ہی دیکھتے ہر نقش جاتا ہے بدل ٹوٹنے بننے میں رہتا ہے حباب زندگی زندگانی کی حقیقت کا اگر جویا ہے تو فلسفہ حائل ہے اس کی رفعت پرواز میں مكتب احمد سے لے درس کتاب زندگی عشق کے پر ہوں تو اُڑتا ہے عقاب زندگی زاہدا! تو انتظار جنت فردا میں ہے گر حریم قدس سے یہ رُوح نامحرم رہی مل رہا ہے نقدیاں اجر و ثواب زندگی تا ابد پیچھا نہ چھوڑے گا عِقاب زندگی کلام ظفر

Page 73

129 اس کی آب و تاب سے بینا بھی نابینا ہوئے ہائے کیا ظالم ہے یہ موج سراب زندگی بارگاه ایزدی میں تو اگر مقبول ہے رُوح پرور کیف آور ہے شراب زندگی کلام ظفر کلام ظفر 130 بسکہ دنیا خواب غفلت میں ہی اپنی عمر ساری کٹ گئی دَارِ فانی دار فانی ہے اس کی ہر چیز آنی جانی ہے نوجوانوں سے چھن گیا بچپن بوڑھوں سے چھن گئی جوانی ہے صاف ہے اے محتسب اپنا حساب زندگی روشنی میں تو پہنچ جا منزل مقصود تک اے مسافر ڈھل رہا ہے آفتاب زندگی اے ظفر اس رمز سے اکثر بشر ہیں بے خبر طاعت و تقوی میں ہے حسن و شباب زندگی دوستو ہو سکے تو کام کرو کام کرنے میں کامرانی ہے مگی مدنی کی داستان پڑھو سب سے خوش تر یہی کہانی ہے زیست انساں کی بعد مرنے کے بن کے رہ جاتی اک کہانی ہے اب یہ بچپن کبھی نہ آئے گا اب نہ آنے کی یہ جوانی ہے روز نامه الفضل 4 مئی 1968 ، صفحہ 7) کہانی سنوار کر لکھ لو گر طبیعت میں کچھ روانی ہے کیجئے ابھی سے مرنے کی وہ گھڑی سخت ہے جو آنی ہے روزنامه الفضل 7 /اکتوبر 1990 ء صفحہ 2)

Page 74

کلام ظفر 131 شمع کے حضور پروانے اے شمع دیکھ پھر ترے پروانے آگئے بندھن تمام توڑ کے دیوانے آگئے دریا و بحر و کوه و بیاباں کو پھاند کر رگر پڑ کے تیرے در پہ ہیں مستانے آگئے اہلِ زمیں نے چاہا پہنچنے نہ پائیں یہ افلاک سے ملک انہیں پہنچانے آگئے اڑ کر ہے کوئی پہنچا تو گھٹنوں کے کل کوئی چاروں طرف سے کیسے خدا جانے آگئے ارض صہیب سے کوئی ارض بلال سے دیکھو تو رنگا رنگ کے پروانے آگئے کلا ظفر 132 آنکھیں ہیں اشکبار تو لب پر درود ہے عشاق تیرے لے کے یہ نذرانے آگئے باندھے رہیں گے خدمت اسلام پر کمر تیرے حضور عہد یہ دہرانے آگئے دیکھا تھا جس کو دُور سے چشم کلیم نے اس آگ سے دلوں کو یہ گرمانے آگئے یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اُتار دے نا محرموں کو راز یہ سمجھانے آگئے ان عاشقوں کی مستی کا عالم تو دیکھئے لکھوانے آگئے نام اپنا فردِ جرم میں دیکھو ذرا نظام خلافت کی برکتیں رگرد امام بکھرے ہوئے دانے آگئے

Page 75

133 بھر دے گل مراد سے اب ان کی جھولیاں دامن تیرے حضور پھیلانے آگئے ان کے گھروں کا آپ محافظ ہو اے خدا تیرے سپرد کر کے یہ کاشانے آگئے ہیں کتنے خوش نصیب وہ عشاق اے ظفر کلا ظفر اپنے دلوں کی آگ جو بھڑکانے آگئے (روز نامه الفضل جلسہ سالانہ نمبر 26 دسمبر 1977 ء صفحہ 4) نوٹ: یہ نظم جلسہ سالانہ قادیان 2010ء میں تیسرے دن کے اجلاس میں پڑھی گئی.(بحوالہ ہفت روزہ بدر قادیان 6 تا 13 جنوری 2011ءصفحہ 18) 134 کلام ظفر ربوہ ہے وہ چٹان جو ٹکر ایا مٹ گیا معاندین احمدیت کی طرف سے جب بھی احمدیت پر تحریر و تقریر کے ذریعہ کوئی اعتراض کیا گیا سلسلہ احمدیہ کے جید علماء کی طرف سے ہمیشہ ان کا مدلل و مسکت جواب دیا گیا.بعض دفعہ معاند شعراء نے جماعت احمدیہ کے خلاف اپنے بغض و نفرت کا اظہار نظموں کی صورت میں کیا تو جماعت کے شعراء نے نظم میں ہی اس کا جواب دیا.ذیل میں ہم ایسی ہی ایک نظم پیش کر رہے ہیں جو ایک معاند احمدیت آغا شورش کا شمیری کی ایک نظم (مطبوعہ چٹان 23 جولائی 1973ء) کے جواب میں لکھی گئی جس میں اس نے کہا تھا کہ وو ربوہ مٹے گا قہر الہی سے بالضرور تاخیر ہو گئی ہے خدا کے عذاب میں محترم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر کی یہ نظم اس کی باطل توقعات کے جواب میں ہے.(مدیر) آغا ہے آج جانیئے کیوں پیچ و تاب میں دل اس کا بے قرار ہے جاں اضطراب میں کوئی یہ اس سے پوچھے کہ اے بے ادب بتا گستاخیاں یہ کیسی ہیں ربوہ کے باب میں آغا شورش کا شمیری نے یہ ظلم 1973ء میں سیلاب آنے کے بعد لکھی

Page 76

135 یہ کیا کہا کہ ربوہ بھی غرق ہو گا بالضرور شاید تو بگ رہا ہے خمار شراب میں ربوہ تو وہ مقام ہے جس کا کہ ذکر ہے اے بے خبر حدیث رسالت مآب میں ہے سارے جہاں کا ملجا و ماویٰ یہی تو قومیں امان پاتی ہیں اس کی جناب میں ربوہ ہے وہ چٹان جو ٹکرایا مٹ گیا اے بے بساط تو ہے بھلا کس حساب میں ربوہ ہی آج کشتی طوفانِ نوح ہے آ جلد ہو سوار نہ ہو غرق آب میں ربوہ کے پاؤں چوم کے جاتا ہے یوں گزر پاسِ ادب ہے گویا کہ آب چناب میں نادان تیرے دل میں تعصب کی آگ ہے مو جل رہا ہے بغض وحسد کے عذاب میں اللہ تجھ کو چشم بصیرت عطا کرے ہے یہ دُعا ظفر کی خدا کی جناب میں کلام ظفر الفضل انٹرنیشنل 8 جولائی تا 14 جولائی 1994 ، صفحہ 2) حَرِّزُ عِبَادِى إِلَى الطُّور.میرے بندوں کو پہاڑی پر بچا کے لے جا.136 کلام ظفر بعض مظلوم احمدیوں کی زبان سے جن کا بائیکاٹ کیا گیا گر صداقت کی حمایت میں ہوئے برباد ہم تو نگاہِ یار میں سمجھو ہوئے آباد ہم سختیاں راہِ صداقت میں ہمیں محبوب ہیں طالب شیریں نہیں تلخی کے ہیں فرہاد ہم کر نہیں سکتا جسے مرعوب کوئی سنگ دل رکھتے ہیں پہلو میں اپنے وہ دل فولاد ہم اے خدا ہر گز کسی کے بغض کی پرواہ نہیں گر رہے تو شاد ہم سے اور تجھ سے شاد ہم

Page 77

137 اور کیا معنی ہیں بائیکاٹ کے اس کے سوا یہ کہ دنیا کی کشاکش سے ہوئے آزاد ہم ہو گیا مسمار دل کا بُت کدہ اچھا ہوا خانہ توحید کی رکھنے کو ہیں بنیاد ہم ساری دنیا ہو خفا ہم سے تو کوئی غم نہیں گر رہے تو یاد ہم کو اور تجھ کو یاد ہم کلام ظفر 138 کلام ظفر اس کا ہے نام کفر تو کافر ہیں احمدی ایمان ہے خدا پر خدا کے رسول محکم ا ہے دین کے ہر اک اصول پر دن رات محو رہتے ہیں تسبیح رہتے ہیں تسبیح و حمد میں روتے ہیں زار زار یہ ادنی سی بھول اس کا ہے نام کفر تو کافر ہیں احمدی پابند جان و دل سے ہیں صوم وصلوٰۃ کے تا نہ ہو جائے کہیں ویران یہ گلشن ترا قائل بصد خلوص ہیں حج و زکوۃ کے جو کچھ زبان پر ہے وہی ان کے دل میں ہے آہ تک بھرتے نہیں ہیں دیکھ اے صیاد ہم کاپ اُٹھے گا خدا کا عرش بھی جس سے ظفر گر کریں گے تو کریں گے اس طرح فریاد ہم (روز نامہ الفضل 29 جولائی 1989 صفحہ 2) بچے ہیں اپنے قول کے پکے ہیں بات کے اس کا ہے نام کفر تو کافر ہیں احمدی ختم الرسل کی شان کو پہچانتے ہیں یہ بعد از خدا بزرگ انہیں مانتے ہیں یہ تخلیق کائنات کی غایت وہی تو ہیں اس راز کو سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں یہ اس کا ہے نام کفر تو کافر ہیں احمدی

Page 78

139 کلام ظفر قرآن وہ کتاب ہے ان کی نگاہ میں برتر ہے ہر کتاب سے جو عز و جاہ میں اس کی ہی روشنی میں اٹھاتے ہیں ہر قدم مینار روشنی ہے جو سالک کی راہ میں اس کا ہے نام کفر تو کافر ہیں احمدی بیٹھا ہوا بشر ہو کوئی آسمان پر حیرت کی ان کو ہوتی ہے ایسے گمان پر سی یہ مانتے نہیں ہیں کہ عیسی مسیح کو حاصل یہ برتری ہے شہِ دو جہان پر اس کا ہے نام کفر تو کافر ہیں احمدی باندھے ہوئے ہیں خدمتِ اسلام پر کمر قربان ہو رہے ہیں محمد کے نام پر ہر جا دیارِ کفر میں بنتی ہیں مسجدیں کرتے ہیں جاں نثار لٹاتے ہیں مال و زر اس کا ہے نام کفر تو کافر ہیں احمدی آدمی نہیں ہیں ملگ ہیں زمین پر مامور ہیں جو خدمت دین متین صدق و صفا کی مہر ہے گویا لگی ہوئی سجدوں کا جو نشان ہے ان کی جبین پر اس کا ہے نام کفر تو کافر ہیں احمدی ہفت روزہ لاہور یکم دسمبر 1975 ، صفحہ 9 نیز الفضل انٹرنیشنل 22 جولائی 1994ء صفحہ 2) 140 کلام ظفر جھلا اس بوستان پر گیا خان آئے گی اسے نادان کہ جن کے بھول بھرتے ہی گلستان ہوتے جاتے ہیں

Page 79

141 کلام ظفر 142 کلام ظفر شکل ہے سنے گا کوئی ہمارا پیام مشکل ہے کہ ترک عیش و فنا کا مقام مشکل ہے ہے جبر غیر پہ اسلام کی اگر تعلیم وہ ہو جہان میں مقبول عام مشکل ہے وہ ملک جس میں کہ آزادی ضمیر نہ ہو کرے گا اس کا کوئی احترام مشکل ہے وہ ملک جس میں بہت سے ہوں مولوی اس کا خلل پذیر نہ ہو انتظام مشکل ہے پکڑ نا سانپ کوگردن سے سہل ہے لیکن خلاف مرضی واعظ کلام مشکل ہے وہ مولوی جسے آتا نہ ہو وضو کرنا بنے وہ سارے جہاں کا امام مشکل ہے تجھے ہے یاد بھی اے سرزمین پاکستاں کہ لوگ کہتے تھے تیرا قیام مشکل ہے خدائے پاک کے بندوں پہ ہو ستم جس میں وہ سر زمین رہے نیک نام مشکل ہے ملی رہی اگر احرار کو یہ حریت تو حریت کا زمیں پر قیام مشکل ہے خدا پر رکھ کے نظر تو کئے جا کام ظفر نه شکوہ سنج کبھی ہو کہ کام مشکل ہے روزنامه الفضل 26 دسمبر 1952ء جلسہ سالانہ نمبر صفحہ 16) ترانه ناصرات ہم احمدی بنات ہیں خدا کی ناصرات ہیں رسولِ پاک مصطفی کی دل سے خادمات ہیں ہم احمدی بنات ہیں خدا کی ناصرات ہیں ہے جس کے ہاتھ خیر وشر بنائے جس نے بحروبر اسی پہ اپنی ہے نظر ہم اس کی عابدات ہیں ہم احمدی بنات ہیں خدا کی ناصرات ہیں خدائے پاک کی قسم اُٹھا کے دین کا علم بڑھیں گی جو قدم قدم ہمیں وہ مومنات ہیں ہم احمدی بنات ہیں خدا کی ناصرات ہیں ہمارا جذبہ جواں بسائے گا نیا جہاں ابھی تو ہم ہیں بچیاں ابھی تو طالبات ہیں ہم احمدی بنات ہیں خدا کی ناصرات ہیں

Page 80

143 بلند اپنے حوصلے کٹھن ہیں گرچہ مرحلے ہمارے پاک ولولے جمال کائنات ہیں کلام ظفر ہم احمدی بنات ہیں خدا کی ناصرات ہیں طویل ہے اگر سفر تو کچھ نہیں ہمیں خطر خدا ہے ضامنِ ظفر کہ ہم مجاہدات ہیں ہم احمدی بنات ہیں خدا کی ناصرات ہیں (ماہنامہ مصباح مارچ 1981 ء صفحہ 6) 144 احمدی خاتون کے نام اپنی بیگم کی زبان سے کلام ظفر اے عزیزه احمدی خاتون سُن تجھ کو کرتی ہوں نصیحت یاد رکھ حضرت احمد کی بیعت تو نے کی ہر زماں مفہوم بیعت یاد رکھ پاک رکھ دامن کو اپنے شرک سے شرک سے ہے حق کو نفرت یاد رکھ کچھ خدا کے غیر سے مانگا نہ کر اس میں ہے تیری ہی ذلت یاد رکھ رات دن ماں باپ کی خدمت میں رہ ان کی خدمت ہے سعادت یاد رکھ طاعت خاوند سے تو غافل نہ ہو فرض ہے اسکی اطاعت یاد رکھ اپنے بچوں کو بچا دوزخ سے تو تیرے قدموں میں ہے جنت یا درکھ آجکل سب نیکیوں کی جان ہے دین احمد کی اشاعت یاد رکھ جو شریعت میں نہ ہو اس کو نہ کر یہ بھی ہے حکم شریعت یاد رکھ

Page 81

145 کلام ظفر آجکل کے چھوڑ دے رسم و رواج بیشتر ان میں ہے بدعت یاد رکھ اپنے اخراجات میں مُسرف نہ بن یہ تو ہے شیطاں کی عادت یاد رکھ اپنی بہنوں کی کبھی غیبت نہ کر یہ بہت گندی ہے عادت یاد رکھ عصمت کو اپنی پاک رکھ قیمتی چادر جوہر ہے عصمت یاد رکھ دل لگا ہر گز نہ اپنا غیر کر نہ خاوند سے خیانت یاد رکھ تو امانت میں کبھی خائن نہ ہو فرض ہے حفظ امانت یاد رکھ اے رشیدہ تو بھی خود غافل نہ ہو کوچ کر جانے کی ساعت یاد رکھ (ماہنامہ مصباح جون 1981 ء صفحہ 5) 146 کلف ظفر بعض یورپین لیڈیز کو بُر تھے میں دیکھ کر بزبان اہلیہ ام) اب طبائع میں ہے پیدا ہو رہا یوں انقلاب جس طرح مشرق سے تا مغرب ہے جاتا آفتاب دور تاریکی گیا اب چاند پھر چڑھنے کو ہے تین دن سے دیکھتی ہوں انسلاخ ماہتاب چھوٹنے والا ہے مغرب شرک کے پھندوں سے اب اب سمجھتا جا رہا ہے خواب کو اپنے وہ خواب یا وہ دن تھے نشہ کے میں وہ خود مخمور تھا یا یہ دن آئے کہ چھڑواتا ہے اوروں سے شراب یا وہ دن تھے میرے برقعے پر تھے لگتے قہقہے یا یہ دن میں پھرتی ہیں خود لیڈیاں پہنے نقاب احمد مدنی میں قرباں جاؤں تیرے نام پر کس قدر پیدا کیا ہے تو نے آکر انقلاب روزنامه الفضل 29 /اکتوبر 2014 ء صفحه (2)

Page 82

147 کلام ظفر 148 کلام ظفر مقبول جہاں.قادیان اے مقدس سر زمیں اے قادیان اے زمین محترم دارالاماں اے پیارے ہم غریبوں کے وطن اے ہماری جان کی روح رواں اے کہ ہستی تھی تری گمنام تر جانتا کوئی نہ تھا نام و نشان کون سا وہ لعل پیدا کر دیا ہو گئی جس سے تو مقبول جہاں بن گئے رستے ترے فج عمیق عشق میں پھنس کر گیا سارا جہاں یہ شرف تجھ کو ملا اس ذات سے جس کو کہتے ہیں مسیحائے زماں عیلی ثانی لقب جس کا ہوا ہو گئی اس کے سبب ذی عزّ وشاں ثائی جت بنی جس کے طفیل ہے غلام احمد آخر زماں وہ جو مسجودِ ملائک تھا بشر حمد اُس کی کرتے ہیں کرو بیاں موجود ہوتا ہم میں آج وہ ہمارا شہر یار دو جہاں ہاں اگر کرتے ہم فریاد اُس کے سامنے کیوں نہیں ملتی مسلماں کو اماں چھوڑنے پر ہو گئے مجبور ہم اُس کی اک اک چیز تھی آرام جاں ہم جدائی سے بہت رنجور ہیں کب ہمیں واپس ملے گا قادیاں؟ اس کے ملنے کے لئے مضطر ہیں ہم کب نظر آئے گا سنگِ آستاں؟ انتہائے بے قراری سے مری پہنچے نعرے از زمین تا آسماں کیوں نہیں سنتے نہ دیتے ہو جواب اے مرے پیارے مسیحا ہو کہاں سن کے فرمایا کہ مت ہو بے قرار بعد میرے ہے پسر میرا وہاں جا کے حاضر ہو اُسی دربار میں ہے وہ اب اسرار دیں کا رازداں (روز نامه الفضل 11 جون 1948ء صفحہ 2 نیز 21 مارچ 2014 ء مسیح موعود نمبر صفحہ 6)

Page 83

149 کلام ظفر ایک دوست کو فراق قادیان میں روتے دیکھ کر نہ بھر آہیں فراق قادیاں میں نہ ہو مصروف یوں آہ و فغاں میں ترقی پا خدا کے کام بے حکمت نہیں ہیں ہے میرا تو کس گماں میں نہیں سکتے کبھی بھی ہوا پڑیں مومن نہ جب تک امتحاں میں پنپتی ہیں مصائب ہی میں قومیں یہی سنت رہی ہے ہر زماں میں شدائد سے مصائب سے نہ گھبرا یہی تو مرحلے ہیں امتحاں میں جہادِ زندگی عدد ہر کا ایک پہلو مکمل ہو چکا تھا قادیاں میں سُو شکستیں کھا چکا تھا دلائل میں، براہیں میں، بیاں میں جہادِ زندگی زندگی کا دوسرا رخ چمک سکتا نہ تھا دارالاماں میں 150 ضرورت تھی کہ پھر مومن کے جوہر ☆ عیاں ہوں عرصہ تیغ و سناں میں کلام ظفر خدا نے تب اسے باہر نکالا نہ چاہا وہ رہے امن و اماں میں ہمارا قادیاں اک بوستاں ہے ہم اس کی بُوئے خوش ہیں اس جہاں میں یہ فطرت کے مخالف ہے کہ خوشبو رہے محدود صحن گلستاں گلستاں میں وو ہوا پورا نشان داغ ہجرت خدا دیکھا ہے ہم نے اس نشاں میں مقدس داغ“ ہے رہنے دے دل پر نہ اُڑ جائے کہیں آہ و فغاں میں تو سمجھا ہم پراگندہ ہوئے ہیں میرے نزدیک ہم پھیلے جہاں میں ظفر گر ہوں حقیقت ہیں نگاہیں بہاریں ہی بہاریں ہیں خزاں میں ه عرصه معنی میدان روزنامه الفضل 11مارچ 1949 ء صفحہ 4)

Page 84

151 کلا ظفر 152 کلام ظفر درویشان قادیان کے نام چند درویشوں کی آمد پر بہت بڑا ہے تمہارا مقام درویشو! کرو قبول ہمارا سلام درویشو نہ پی سکے جسے دنیا کے زور و زر والے پیا ہے ہے فقر کا تم نے وہ جام درویشو رہے گا زینت تاریخ احمدیت جو خدا نے تم سے لیا ہے وہ کام درویشو ریاض قدس کے اشجار کی عنادل ہو زہے نصیب زہے صبح و شام درویشو ہے بادشاہی سے افضل تمہاری درویشی رہے گا زندہ ہمیشہ یہ نام درویشو نہیں ہے آج اگر چہ تمہاری کچھ وقعت بنو گے تم ہی جہاں کے امام درویشو خدا کے واسطے کرنا دُعا ظفر کے لئے نظر سے گزرے جو اس کا کلام درویشو (روز نامہ افضل 15 مئی 1954ء صفحہ 2 نیز هفت روزه بدر در ویشان قادیان نمبر دسمبر (382011

Page 85

153 کلا ظفر 154 کلام ظفر طلباء جامعہ کے نام یہ نظم اس استقبالیہ تقریب میں پڑھی گئی جو 5 جنوری 1955ء کو جامعہ احمد یہ احمد نگر کی طرف سے انڈونیشیا اور ٹرینیڈاڈ سے آئے ہوئے مہمانوں کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی جو جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل تھے.اے طالبان علم دبستان جامعه دیکھو انہیں جو آج ہیں مہمان جامعہ پروردہ ہیں یہ لوگ اسی درسگاہ کے ان گوہروں کی کان بھی ہے کانِ جامعہ علم حدیث و فقہ و معانی تمہیں نصیب حاصل تمہیں معارف قرآن جامعہ لیکن وہ علم موت ہے جس میں عمل نہ ہو نکتہ رہے یہ یاد عزیزان جامعہ ہاں اتباع سنت نبوی کے فیض دنیا کے ہوں امام جوانان جامعہ روحانیت کے نان کی دنیا ہے گرسنہ تقسیم کر دو کر دو نان یه از خوان جامعه خوشبوئے معرفت سے معطر جہان ہو بن جاؤ تم نسیم گلستان جامعه ان کی ہی کوششوں سے جہاں میں ہے انقلاب قائم انہی کے کام سے ہے شانِ جامعہ ظاہر ہیں قوم قوم میں آثارِ زندگی جاری ہے ملک ملک میں فیضان جامعہ زندہ کیا ہے ان کو اسی درسگاہ نے اللہ کرے کہ تم بھی بنو جانِ جامعہ تعلیم کا مکان ظفر تنگ ہے تو کیا بیر عمل وسیع ہے میدان جامعہ (روز نامه الفضل 8 جنوری 1955 ء صفحہ 2) اس وقت جامعہ احمدیہ احمد نگر میں ایک چھوٹے سے مکان میں تھا.

Page 86

155 سرچشمه مسرات انسان مبتلا ہے غم جانکاہ میں چاروں طرف ہیں کانٹے ہی کانٹے نگاہ میں ہے دولتِ تسکین دل کہیں ملتی نہیں کلام ظفر 156 جنت کہ ایک منزل رضوانِ یار ہے سامانِ ذوقِ دل ہے اُسی بارگاہ میں تجو اسکی ذات پاک کے جو کچھ ہے کیا ہے حقانیت ہے صرف اسی بادشاہ میں فرزند و مال و زن ہیں سبھی سومنات دل بھاگ ان سے دُور دُور خدا کی پناہ میں مسجد میں مدرسے میں کسی خانقاہ میں سرچشمه مسرتِ انساں وہی تو ہے دیکھا ہے خوب غور سے تسکین درد دل ہوتی اسی سے آہ مبدل ہے واہ میں نے تخت و تاج میں ہے نہ دلق و گلاہ میں حاصل نہیں سکون وہ شاہوں کو تخت پر مسجود ساکنان فلک تھا جو کل تلک یوسف کو جو سکون ملا قعر چاہ میں کھاتا ہے آج ٹھوکریں کیوں راہ راہ میں درویش جو کہ زیپ مصلی دُعا میں ہے نور ازل کی طائر دل کو تلاش ہے اُس کا ہے آشیانہ اُسی جلوہ گاہ میں بیٹھا ہے اپنے تخت پہ حفظ سپاہ میں کلام ظفر

Page 87

157 مومن جسے نصیب ہے توحید کا مقام اُسکی نظر میں فرق نہیں کوہ و کاہ میں مومن کی ایک آہ میں طاقت ہے اس قدر جس کا نہیں جواب مسلح سپاہ میں کلام ظفر شان سکندری ہو کہ آن قلندری مہمل سی ایک بات ہے اسکی نگاہ میں ایمان ہو خدا تو پھر کوئی غم نہیں ܀ کے بٹ رہی ہے ساغر شام و پگاہ میں تیری سزا یہی ہے رہے مبتلائے غم غافل تجھے یقین نہیں لاالہ میں شاہد ہے تیرا قال ظفر تیرے حال پر ہمت نہیں مکرنے کی شاید گواہ میں روزنامه الفضل 21 جنوری 1955 ء صفحہ 6) 158 کلام ظفر میاں ہو جائے

Page 88

159 نَحْنُ اَنْصَارُ الله ہم ہیں انصار الله عہد ہے اپنا والله نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّـ حق نے جو برسائی ہم ہیں بھائی بھائی کلام ظفر 160 کلام ظفر ہم ہیں قول کے پکے ہم ہیں بات کے نیچے کام ہمارے اچھے ہم ہیں انصار الله نَحْنُ أَنْصَارُ الله شاہد رہ تو اللہ ہم ہیں حق کے حامی باطل کی ناکامی ہم ہیں انصار الله نام ہو یا بدنامی ہم ہیں انصار الله نَحْنُ أَنْصَارُ الله نعمت ہم نے پائی جائیں گے ہم گھر گھر دستک دیں گے در در ہم ہیں انصار الله پھول پڑیں یا پتھر ہم ہیں انصار الله نَحْنُ الضار الله توڑے ہم نے پھندے ہم ہیں انصار الله روز نامه الفضل 30 نومبر 1955 ء صفحہ 3) بگڑی بات بنا دی ہم ہیں انصار الله نَحْنُ أَنْصَارُ الله چھوڑے ہم نے دھندے ہم ہیں اس کے بندے نَحْنُ أَنْصَــار الـلــــه آیا احمد ہادی ہم اس کے امدادی نَحْنُ أَنْصَارُ الله

Page 89

161 سورہ جمعہ کا پیام کلام ظفر دورِ حاضر کے مسلم کے نام وَإِذَا رَأَوُا تِجَارَةً أَوْ لَهُوَا نِ انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا 162 نگاہ حق تعالیٰ میں یہ حرکت نامناسب تھی برنگ سُوره جمعه خدا سے تب پیام آیا رسُول اللہ اکیلے ہوں مسلمانوں کے میلے ہوں تجارت کے جھمیلے ہوں شریعت میں حرام آیا مسلمانو نہ سمجھو تم اسے اک قصہ ماضی تمہارے واسطے ہے در حقیقت یہ پیام آیا رسُول اللہ کو تم نے اکیلا آج چھوڑا ہے نظر دجال کا جب کاروانِ خوش خرام آیا مسلمانو! سنو اک سُورہ جمعہ میں پیام آیا پیام آیا ہے اور ہے آج کے مسلم کے نام آیا ہمارا الف ششم مثل جمعہ یوم ششم ہے سو اس سورۃ میں ہے اس دور کا نقشِ تمام آیا حبيب خالق اکبر کھڑے تھے جبکہ منبر پر گویا پیشگوئی تھی کہ مسلم الف ششم میں تو کوئی قافلہ لے کر وہاں اشیائے خام آیا منافق چھوڑ کر حضرت کو سُوئے قافلہ دوڑے وہ خوش خوش تھے کہ سامانِ تجارت آج عام آیا سراسر منتشر ہوں گے جب ان میں سے امام آیا رسُول اللہ اکیلے ہیں مسلمانوں کے میلے ہیں تجارت کے جھمیلے ہیں عجب نازک مقام آیا کلام ظفر

Page 90

163 کلام ظفر إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ مسلمانو! مسلمانو! ارے بکھرے ہوئے دانو! تمہیں تسبیح وحدت میں پرونے کو امام آیا دھرا کیا ہے تجارت میں ادھر آؤ جماعت میں 164 کلام ظفر تری حجت کے آگے سرنگوں جادو بیاں کافر عصائے موسوی بن کر تیرا علم کلام آیا ہمارے یوسف دوراں ترے دشمن ہوئے اخواں درندہ بھیڑیا بن کر مقابل خاص و عام آیا خریداران یوسف میں ظفر بھی آتو پہنچا ہے مگر افسوس بے چارہ ہے بے دینار و دام آیا لباس احمدیت میں محمد کا غلام آیا (ماہنامہ الفرقان ستمبر، اکتوبر 1958ء صفحہ 8،7 نیز ہفت روزہ بدر قادیان 13 مارچ2002ء مسیح موعود نمبر صفحہ 15) مہ ہندی خور مدنی کا مظہر بن کے تاباں ہے خوشا قسمت! کہ وہ محبوب پھر بالائے بام آیا مُبارک ہو! غلام ساقی کے خانہ میٹرب اُسی کے خانے کی کے سے لئے پر کیف جام آیا سلام اے حضرت احمد ! سلام اے مہدی دَوراں! کہ تُو وہ ہے جسے سرکار یثرب سے سلام آیا

Page 91

یا 165 آسمانی نوشته کلا ظفر ملک استبداد مٹ کر بے نشاں ہو جائے گا آدمی انسان بن کر کامراں ہو جائے گا قدر ہو گی آدمی کی علم سے عرفان مال و زر کا زور گھٹ گھٹ کر نہاں ہو جائے گا یہ چمن جس پر ہیں اب چھائے ہوئے زاغ و زغن طوطیوں کا قمریوں کا آشیاں ہو جائے گا گلشن اسلام کی رنگیں بہاریں دیکھ کر خادمان باغ خوش باغباں ہو جائے گا ނ دیکھنا تم ملک ملک و نسل نسل و قوم قوم اک کٹھالی میں پڑیں گے امتحاں ہو جائے گا پھر کتاب زندگی میں ثبت ہونگے نقش کو عشق آتش گزر کر جاوداں ہو جائے گا نُور ނ محمد ! مجھ کو مجھ کو تیرے تیرے اسم احمد کی قسم سے تیرے منور گل جہاں ہو جائے گا 166 کلام ظفر احمدیت پھیل جائے گی جہاں میں چار سُو مطلع خورشید مغرب سے عیاں ہو جائے گا روس بھی جو رٹ رہا ہے لا الہ آج کل ذکر إِلَّا الله سے رطب اللساں ہو جائے گا جگمگا اُٹھے گی یہ دھرتی خدا کے نور سے مسکن نورانیاں خاک داں ہو جائے گا سامنے ہو گا ثبوت رَحْمَة للْعَالَمِين ملجاء اقوام تیرا آستاں ہو جائے گا الغرض میں کیا کہوں کہ کیا سے کیا ہو جائے گا اک نیا پیدا زمین زمین و آسماں ہو جائے گا ہم ہو! جنت دھتکارا ہوا قافلہ ایک دن پھر داخل باغ جناں ہو جائے گا وہ ملک جو بے خبر تھے خاکیوں کی شان سے سِرِ إِنِّي أَعْلَمُ “ اُن پر عیاں ہو جائے گا " دیکھنا تم اے ظفر ظالم و جاہل بشر حامل عرش خدائے دو جہاں ہو جائے گا (ماہنامہ الفرقان اپریل 1959ء صفحہ ب)

Page 92

کلام ظفر 167 اپنے خالق کے حضور دل کے آنگن میں بہاروں کا نظارا ہوتا تو کبھی آکے جو مہمان ہمارا ہوتا کلام ظفر 168 تیری دہلیز پہ مر جاتا خوشی کے مارے اندر آنے کا اگر مجھ کو اتارا ہوتا اے مری جان تمنا ! مجھے اتنا تو بتا وہ ادا کیا ہے کہ میں بھی تیرا پیارا ہوتا آسمانوں کے فرشتے مجھے سجدہ کرتے میں تو اندھا تھا میری جان تجھے پا نہ سکا تیری طاعت میں اگر وقت گزارا ہوتا ڈھونڈ پاتا جو مجھے تو نے پکارا ہوتا جا گراتا جو ترے نور کے قلزم میں مجھے دل کے دریا میں مرے کاش مرے کاش وہ دھارا ہوتا عہد پیری کو سمجھتا میں ملاقات کی رات رفتہ کو اگر میں نے سنوارا ہوتا یوں کڑی دھوپ میں کیوں مار کے پھینکا ہے مجھے ڈوب جاتا میں ترے بحر محبت میں اگر اپنی دیوار کے سائے میں تو مارا ہوتا پھر تلاطم نہ سفینہ نہ کنارا ہوتا آج تک دل میں ظفر کے یہ تڑپ ہے پیارے چھوڑ کر سارے جہاں کو وہ تمہارا ہوتا ہائے تنکوں کے سہاروں نے ڈبویا ہے مجھے جو ترے کاش نہ کوئی بھی سہارا ہوتا روز نامه الفضل 4 مارچ 1990 صفحه 2)

Page 93

169 کلام ظفر 170 کلام ظفر مجھ کو تو خدا میر انظر آتا ہے ہر جا ہے دُور بہت دور مسافر تری منزل بے باک نہ ہو ساتھ لئے زادِ سفر جا دُنیا کی کسی شے سے کبھی دل نہ لگا تو ہاں ڈالتا ہر چیز عبرت کی نظر جا یہ مال یہ اولاد یہ احباب اک بوجھ ہیں یہ بوجھ اسی خاک رشتے پہ دھر جا پھولوں میں نزاکت ہے تو کانٹوں میں جراحت گلشن پر خار سے بچ بچ کے گزر جا اس افراط بھی مہلک ہے تو تفریط بھی مہلک اے بندہ حق تو نہ ادھر جا نہ اُدھر جا جس تخت حکومت خدا یاد نہ آئے نادان تو اُس تخت حکومت سے اُتر جا اے فلسفیو تم کو نظر آئے نہ آئے مجھ کو تو خدا میرا نظر آتا ہے ہر جا اے یا وصل کا سامان ہو یا درد کا چارہ خوبی تقدیر کوئی کام تو کر جا روزنامه الفضل 5 مئی 1979ء صفحہ 2)

Page 94

171 کلام ظفر 172 عالم سے دور بیٹھے ہیں عالم کے درمیاں ایک دن خاکسار اپنے چوبارہ پر بیٹھا تھا کہ ایک طرف پڑوسی کے گھر سے نوحہ و ماتم کی دلدوز چیچنیں اُٹھ رہی تھیں اور دوسری طرف کے پڑوسی کے گھر سے نغمات شادی اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے.اسی متضاد کیفیت سے متاثر ہوکر یہ اشعار کہے.بیٹھے ہوئے ہیں شادی و ماتم کے درمیاں روح فنا بقا و لقا کے ہیں مرحلے حضرت مسیح و یحیی و مریم کے درمیاں آیا خدا بھی دوڑ کے دوڑی جو ہاجرہ کوه صفا و مروه و زمزم کے درمیاں حائل ہے تیرا تیرا پیار تیرے پیار کی قسم زخم دل فسردہ و مرہم کے درمیاں کلام ظفر عالم سے دور بیٹھے ہیں عالم کے درمیاں جنت کی آرزو ہے تو آتش میں گود جا کچھ بھی نہیں ہے فرق سوا درد کے ظفر قطرات اشک و قطرۂ شبنم کے درمیاں روزنامه الفضل 2 مارچ 1978 ء صفحہ 2) جنت ملے گی تجھ کو جہنم کے درمیاں تجھ کو غم معاش ہے مجھ کو غم جہاں کتنا لطیف بعد ہے غم غم کے درمیاں جاری ہے آج بھی تو وہی پہلی کشمکش ابلیس اور حضرت آدم کے درمیاں مریم کا مقام فنا ہے.بیٹی کا مقام بقا ہے اور مسیح کا مقام لقا ہے.

Page 95

وو 173 کلام ظفر 174 کلام ظفر وہ بھی نشاط رُوح کا ساماں نہ کر سکے ی نظم کسی کی فرمائش پر لکھی گئی ) جو شب کو اہتمام چراغاں نہ کر سکے پیدا کبھی وہ مطلع تاباں نہ کر سکے ہے ان مناظر قدرت کو بارہا یہ بھی ہمارے درد کا درماں نہ کر سکے دیکھا ابرو بهار و چشمه و کوهسار و لاله زار مغموم دل ہمارے کو شاداں نہ کر سکے سمجھے تھے جن کو باعث تسکین درد دل وہ بھی نشاط رُوح کا ساماں نہ کر سکے پابند وضع کو تو مسلماں ہوئے مگر پابندی اوامر قرآن نہ کر سکے بھر لیں گلِ مراد سے غیروں نے جھولیاں مسلم علاج تنگی داماں نہ کر سکے پڑھ پڑھ کے تھک گئے ہیں مگر یہ یہ علوم کو روشن ہمارا کلبه احزاں نہ کر سکے کر لیں ہیں اہل علم نے سب مشکلات حل پر مشکلات عشق کو آساں نہ کر سکے تر دامنی میں اور ریا کار بڑھ گیا پاک اس کے دل کو دیدہ گریاں نہ کر سکے کتنا ہے خوش نصیب ظفر آج تک جسے دنیا کے حادثات پریشاں نہ کر سکے روز نامه الفضل 15 جولائی 1991 ء صفحہ 2)

Page 96

175 کلام ظفر 176 کلام ظفر زندگی جاوداں خدا کی ذات کا زندہ نشاں ہے ربوہ میں مثیل مهدی آخر زماں ہے ربوہ میں وہ • حُسنِ یارِ ازل جس کو ٹور کہتے ہیں برنگ دین محمد عیاں ہے ربوہ میں وہ ذات پاک کہ دنیا نہ پاسکی جس کو بہت قریب بہت مہرباں ہے ربوہ میں کسی میں ذوقِ طلب ہے تو آزما دیکھے شراب زندگی جاوداں ہے ربوہ میں مرے پکڑنے کو صیاد آنہیں سکتا اُسے خبر ہے میرا آشیاں ہے ربوہ میں نہ پوچھ مجھ سے ظفر ظفر بزم یار کا عالم نئی زمین نیا آسماں ہے ربوہ میں (بحوالہ کتاب ”ربوہ دسمبر 1962 ء بار دوم صفحہ 268) سختیاں راہِ صداقت میں ہمیں محبوب ہیں طالب شیریں نہیں تلخی کے ہیں فرہاد ہم

Page 97

(177) مر دراه دان (کسی کی فرمائش) سُنا نہ عشق و محبت کی داستان مجھے کلام ظفر 178 میں اس کے قدموں پہ سر رکھ کے جاں شمار کروں P ملے جو راہ محمد کا راہ دان مجھے بنالوں آنکھ کا سُرمہ میں یا رسُول اللہ کبھی ملے جو تیری خاک آستان مجھے مجھے یقیں ہے کہ آخر میں ڈھونڈ لونگا تجھے کہ تیرے پیار سے پیاری ہے اپنی جان مجھے قدم قدم پہ ہے ملتا ترا نشان مجھے تو اپنے پیار کو اپنے ہی پاس رہنے دے کہیں نہ کر دے ترا پیار بدگمان مجھے ترے چمن کے گلوں کی مجھے نہیں حاجت نہ سبز باغ دکھا تو اے باغبان مجھے جہاں میں صدق و صفا کا کہیں بھی نام نہیں فریب دیتے رہے میرے مہربان مجھے سکون دل جو میتر نہیں تو کچھ بھی نہیں اگر سکوں ہے تو حاصل ہیں دو جہان مجھے خدا ہی جانے کہ کیوں آج میں ذلیل ہوا تھے سجدہ کرتے کبھی اہل آسمان مجھے کہیں بلند ہے میری خودی کا پیمانہ سمجھ سکا نہ کبھی میرا راز دان مجھے مقابلے جو آئے گا تک اُٹھائے گا خدا نے بخشی ہے وہ قوت بیان مجھے خدا کا شکر بجا لاؤں کس طرح جس نے حقیقتوں کا بنایا ہے ترجمان مجھے اب آسمان جاکر اُسے میں ڈھونڈوں گا میں اس جہان میں مرغ نہال سدرہ ہوں زمیں پہ مل نہ سکا مردِ راہ دان مجھے نہ آپ سمجھے زندانی مکان مجھے کلام ظفر

Page 98

179 کلام ظفر 180 کلام ظفر حوالات کی رات حلقہ شعر میں مشہور ”وہ گجرات کی رات“ ایک شاعر کی محبت کی محرکات کی رات میرے ہم دم یہ مری تلخی اوقات کی رات بن گئی میرے لئے عین عنایات کی رات اپنے مولائے حقیقی سے مناجات کی رات اور پھر اس کی کریمانہ بشارات کی رات ئے گساروں کی بھی اک رات ہے برسات کی رات باده آشامی و سرمستی و لذات کی رات محتسب پاتا اگر آج یہ برکات کی رات ضبط کر لیتا ظفر تیری حوالات کی رات روزنامه الفضل 5 مئی 1990 ء صفحہ 2) عشق کے ماروں کی مخصوص ملاقات کی رات پہلوئے حُسن میں اک عالم جذبات کی رات اور زرداروں کی پُر عیش محلات کی رات جبکہ یہ رات ہو بالائی فتوحات کی رات نیز کچھ یاروں کی آزاد فکاہات کی رات مل کے ہننے کی ہنسانے کی مساوات کی رات یہ سبھی راتیں ہیں مانا کہ بڑی بات کی رات ان سے خوش تر ہے کہیں میری حوالات کی رات

Page 99

181 کلا ظفر دعوت مشاعرہ کے جواب میں یا رب مشاعرے مشاعرے کو نہ اپنا قدم تک دماغ لے کے نہ مضموں اہم چلے جب شود شاعری میں نہ اپنا 182 نذر و نیاز جان ہے شرط رضائے تف ایسی عاشقی جو اک رو کتنے ہیں بد نصیب جو عاکف بتوں کلام ظفر قدم چلے ہیں کیا خوش نصیب وہ ہیں جو سوئے حرم چلے اس دن بنے گا دل یہ ہمارا خدا کا گھر ހނ صنم چلے کوئی بھی مشرک جہان میں ہے نہ اپنا گھسے قلم جس دن ہمارے خانہ دل تائید دین حق میں ہمارا قلم چلے باقی رہے نه آؤ نہ ہم بھی کام کریں تابعین سا یا رب! جہان شرک کچھ ایسا بم چلے کم چلے دھوکا ہے شرمندگی سی ہو گی اگر ان جس موج غم سے شاد ہوئے بندگان حق اے کاش اپنے دل میں وہی موج غم چلے دل ہوں وفور نور مانند کوه طور پھر ان سے شق و مہر و محبت کی یم چلے ہے آؤ چلیں بلاتا خود ساقی اگست پھر کب چلیں گے دوستو گر اب نہ ہم چلے ہوائے سراب وجود میں ہشیار ہیں تو وہ ہیں جو سوئے عدم چلے قسمت نہ تھی ہماری کہ ہم شاد کام ہوں ہیں متہم چلے ہم حفل یا رب تری ہی یاد میں تیرا ظفر جئے تک کہ جاں میں جان رہے اور دم چلے روزنامه الفضل 22 فروری 1990 صفحہ 2) جب

Page 100

183 کلام ظفر دل بھی اپنا پاک کر اے بندہ حرص و ہوا اب نہیں ہے تو غلام اہل انگلستان تو کیا اب نہیں گردن میں تیری طوق ہندوستاں تو کیا دل بھی اپنا پاک کر اے بندہ حرص و ہوا رکھ لیا اپنے وطن کا نام پاکستاں تو کیا 184 شادماں ہے تو کہ پھولوں سے ہے پر دامن ترا تیری ملت کا اُجڑتا ہے اگر بستاں تو کیا قیمتی پردوں سے ہے آراستہ کوٹھی تری کلف ظفر جھونپڑی میں اک پڑوسن ہے پڑی عریاں تو کیا خندہ زن ہے کفر تیرے دعوای اسلام پر ہاتھ میں اپنے لئے پھرتا ہے تو قرآں تو کیا حکمت و فهم و فراست سے تجھے نسبت ہی کیا دیکھ اپنے آپ کو آئینہ کردار میں خود نمائی میں ہے اپنی ہم سر لقماں تو کیا قوت گفتار پر اپنی ہے تو نازاں تو کیا خدمت انسان میں مضمر ہے شانِ زندگی واعظانہ شان میں اپنی ہے تو ذیشاں تو کیا وو فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں تو اکیلا رہ کے ہے قارون یا ہاماں تو کیا تو مجاہد ہے تو اپنے نفس امارہ کو مار نرغہ اغیار میں ہے ملتِ بیضا تری حلقہ احباب میں ہے تو اگر خنداں تو کیا مارتا پھرتا ہے کمزوروں کو اے ناداں تو کیا کیا ترے من میں بھی ہے خوفِ خدا سچ سچ بتا ناز ہے تجھ کو کہ ہے آباد کے خانہ ترا ہو رہا ہے خانہ اہلِ وطن ویراں تو کیا تن ترا خوفِ خدا سے ہے اگر لرزاں تو کیا

Page 101

185 کلام ظفر 186 جو ہر ذاتی کبھی تبدیل ہو سکتا نہیں ایک دانا کو کوئی کہہ دے اگر ”ناداں“ تو کیا پھول آخر پھول ہیں ہر حال میں مہکیں گے وہ گلستاں کا نام رکھ دے کوئی خارستاں تو کیا روزنامه الفضل 6 دسمبر 1995 ء صفحہ 2) مجھے گے مل پہلے میں بھی چہارے میں کلام ظفر

Page 102

187 کلام ظفر 188 کلام ظفر جبر و قدر دیدنی ہے میری مجبوری کا عالم ہم دم خود کو آزاد سمجھنے یہ بھی مجبور ہوں میں میری تدبیر بھی جب قبضہ تقدیر میں ہے خود کو مجبور سمجھتا ہوں تو معذور ہوں میں تو ہی بتلا میرے مولیٰ یہ معمہ کیا ہے تو ہے نزدیک مرے تجھ سے مگر دُور ہوں میں اپنے اس نام سے کچھ شرم سی آتی ہے مجھے اشرف الخلق کے جس نام سے مشہور ہوں میں رکرم خاکی سے نہیں بڑھ کے حقیقت میری پھر وہ کیا بات ہے جس بات پہ مغرور ہوں میں میں ترا عبد ہوں مولا میرا معبود ہے تو مزد کی بات نہ کر کیا کوئی مزدور ہوں میں عالم شود و زیاں سے میرا برتر ہے مقام تیرا صد شکر کہ ہر حال میں مسرور ہوں میں کاش آ کر میرے دل میں کوئی جھانکے تو سہی دین اسلام کے انوار سے معمور ہوں میں مجھ سے ناراض ہیں کچھ لوگ تو معذور ہیں وہ اُن کے افکار کی دُنیا سے بہت دُور ہوں میں کوئی کافر تجھے کہتا ہے تو کہنے دو ظفر اپنے مولیٰ کی نگاہوں میں تو منظور ہوں میں (روز نامه الفضل 14 نومبر 1978 ء صفحہ 2)

Page 103

189 کلام ظفر 190 استاذی المکرم حضرت مولوی سید محمد سرورشاہ صاحب کی یاد میں آرہی ہے یاد سرور شاہ کی حضرت استاذ عالی جاہ کی عشق احمد جن کو لایا کھینچ کر ہو گئے قربانِ حق وہ سر به سر آگئے وہ چھوڑ کر سارا جہاں دیکھ کر حُسن و جمال قادیاں خدمت دینی رہا ان کا شعار کٹ گئی یوں زندگی مستعار جامعہ میں آپ ہی افسر رہے پھر وصایا میں بھی خدمت گر رہے عالمان احمدیت نامور آپ کے ہی فیض سے ہیں بہرہ ور ماہِ رمضاں درس قرآں آپ کا مسجد اقصیٰ میں روحانی فضا تھے مناظر اس قدر وہ کامگار مولوی تھے آپ کا ادنی شکار وہ مقام ”مد“ وہ تاریخی خصام ادعائے علم و ساداتی غرور ہو گئے کافور احمد کے حضور ثناء اللہ پہ کی حجت تمام حضرت احمد کے دیوانے ہوئے مل گیا جس پر غضنفر کا خطاب دیکھئے اعجاز احمد کی کتاب شمع نورانی کے پروانے ہوئے مراد حضرت اقدس کی کتاب اعجاز احمدی کلام ظفر

Page 104

191 کلام ظفر 192 کلام ظفر فقه و منطق، فلسفه دیگر علوم حاضر ذہن صفا تھے بالعموم آہ وہ لمبی نمازیں آپ کی شاہد ذوق و سرور سرمدی ہم میں یہ ہمت کہاں طاقت کہاں دل میں آتش ہو تو اٹھتا ہے دھواں آپ سا اب کوئی بھی عالم نہیں بے مثل تھے مفتی شرع جبیں پاگئے وہ احمدیت میں مقام اُن پہ ہو رحمت خدا کی والسلام اصحاب احمد جلد 5 سیرت حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب صفحہ 305 نیز روز نامہ الفضل 21 نومبر 2014ءصفحہ 2) حضرت سید ہ سارہ بیگم صاحبہ کی وفات پر (1933) حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ کی وفات کے وقت حضرت مصلح موعود اللہ ان پر راضی ہو قادیان سے باہر تھے.اسی احساس کے تحت حضور نے ایک نظم (مطبوعہ افضل 9 جولائی 1933ء صفحہ 2) لکھی جس کا پہلا شعر تھا: حاضر نہ تھا وفات کے وقت اے مرے خدا بھاری ہے یہ خیال دل ریش و زار پر اور آخری دو شعر تھے : ڈرتا ہوں وہ مجھے نہ کہے با زبانِ حال جاؤں کبھی دعا کو جو اس کے مزار پر ” جب مر گئے تو آئے ہمارے مزار پر پتھر پڑیں صنم ترے ایسے پیار پر ذیل کی نظم اسی نظم کے جواب میں بزبانِ حضرت سیدہ مرحومہ کہی گئی اور جب حضور نے ملاحظہ فرمائی تو مجھے لکھا: اللہ تعالیٰ آپ کی زبان مبارک کرے اور ایسا ہی ہو جیسا کہ آپ نے کہا ہے.“ حاضر نہ تھے وفات پہ بھاری ہے یہ خیال اے میرے پیارے تیرے دل ریش وزار پر

Page 105

193 اس بے وفائی کا تھا مجھے بھی گلہ ضرور جو لکھ گئی تھی آنکھوں سے تصویر یار پر پر اب تو حال یہ ہے کہ باغ جناں میں بھی رشک آرہا ہے آپ سے اُلفت شعار پر آقا تیری دعاؤں نے آکر دیئے ہیں کھول خوشیوں کے لاکھ باب غموں کی شکار پر چاروں طرف سے رحمتِ حق کا ہوا نزول اس بے کس و نحیف و غریب الدیار پر ہاں ہاں وہ مجھ پہ راضی ہے اور مہربان ہے جس کے لئے کٹی میں حوادث کی دھار پر شکوہ کسی جفا کا بھی دل میں نہیں ہے اب آپ آیا کیجئے گا ہمارے مزار پر کلام ظفر (روز نامہ الفضل 12 ستمبر 2013ء صفحہ 2) 194 کلام ظفر حَبَّذا ا حافظ روشن علی ! حَبَّذا اے حافظ روشن علی پیکر خاکی سراپا روشنی عالم و فاضل بہت دیکھے مگر آپ سا فاضل نہیں دیکھا کبھی حافظ قرآن و استاذ بیاں ماہر علم حدیث و فلسفی قاری و صوفی مناظر مجتهد پھر فقیہہ بے مثال و منطقی حسن ترتیل و تلاوت آپ کی میرے کانوں میں ہے اب تک گونجیتی

Page 106

195 ر قرآن کی تاثیر سے ہر نفس میں آپ کی تھی روشنی ذات ان کی جامع علم وعمل زندگی اسلام کی تفسیر تھی مطمئنہ نفس نے اُن کے کبھی بے قراری بے کلی دیکھی نہ تھی مستر تھی ہر ادا میں آپ کی دلکشائی، دلربائی دلبری حلقہ احباب میں اک جوئے شیر نرغه اغیار میں شیر جری اپنے شاگردوں میں اک مشفق پدر دوستوں میں اپنے اک نغم الولی کلا ظفر 196 یاد تھیں اتنی کتابیں آپ کو اک کتب خانہ تھے گویا آپ ہی خوش بیان و خوش کلام و خوش ادا ختم تھی حاضر جوابی زیر کی مسجد ماہِ رمضاں درسِ قرآں آپ کا اقصیٰ میں بارش نور کی بازوئے احمد تھے گر عبدالکریم بازوئے محمود تھے روشن علی کلام ظفر (ماہنامہ الفرقان دسمبر 1960 ء صفحہ (23)

Page 107

197 کلام ظفر 198 حضرت مو لا نا ابو العطاءصاحب کی وفات پر ٹال سکتا ہے خدا وند تیری تقدیر کون توڑ سکتا ترے قانون کی زنجیر کون ہے اپنی تو تدبیر بھی ہے قبضہ تقدیر میں ین ترے ہے میرے مولا مالک تدبیر کون اے ہمارے بُو العطاء تجھ پر ہزاروں رحمتیں اب ترے منہ سے سنے قرآن کی تفسیر کون وہ ترا فرقان تیرے علم و عرفاں کا امیں اب عطا اس کو کرے گا دلکشا تحریر کون خود بنا دے گا جسے چاہے وہ تیرا جانشین کلام ظفر جز خدا کرتا ہے ملت کی بھلا تعمیر کون موت کے آگے کسی کی پیش جا سکتی نہیں ہے بھروسہ قادر مطلق پہ ورنہ اے ظفر ورنہ اپنی جاں بچانے میں کرے تقصیر کون اصفیا کی موت پر ہوتا نہیں دل گیر کون چھوڑ کر دنیا کو خالد جابسا ہے خُلد میں اب چلائے حجت و بُرہان کی شمشیر کون کون دے گا دشمنانِ دیں کو اب مُسکت جواب اب مجالس میں کرے گا دل رُبا تقریر کون روزنامه الفضل 20 جون 1977 ء صفحه (2)

Page 108

199 کلام ظفر 200 کلام ظفر امام مسجد لندن مکرم و محترم فرزند علی خان صاحب کی یورپ سے قادیان واپسی پر کیا خوب ہوا گلشن احمد میں چلی ہے جس سے کہ شگفتہ ہوئی ہر ایک کلی ہے بچے ہوں کہ بوڑھے ہوں کہ ہوں مرد توانا ہر ایک کی کافور ہوئی مُردہ دلی ہے ہاں کیوں نہ مسرت ہو کہ اک مردِ مجاہد گفتار میں کردار میں اپنے جو ولی ہے مغرب کہ جہاں باد ضلالت کی چلی ہے مغرب کہ جہاں کفر ہے اور شرک جلی ہے اس خطہ میں گاڑ آیا ہے اسلام کا پرچم ہے تیغ قلم سے صف دشمن کو اُڑایا فرزند علی واقعی فرزند علی ہے اس بزم میں بے سوچے کہی ہے یہ ظفر نے کیا جانیے یہ نظم ہے ناقص کہ بھلی ہے (روز نامہ الفضل 30 نومبر 2013ءصفحہ 2) یہ بندہ رحمان جو فرزند علی ہے

Page 109

09 کلام ظفر 202 کلام ظفر 201 عزیزم طاہراحمد ظفر سلمہ اللہ کی پیدائش پر تم میرے نورِ چشم ہو دل کا قرار ہو تم اک نشانِ رحمت پرور دگار ہو پائے خدا تعالیٰ عمر دراز تو اسلام کی سٹیج کا تو شہسوار انسانیت کے جوہر عالی ہیں جس قدر تو بہرہ ور سبھی سے ہو اور کامگار ہو وہ ہو نفس مطمئنہ تجھے حق کرے عطا احوال عُسر و ئیسر میں جو باوقار ہو محصول آئے پھول ہیں ہر حال میں جنگیں گلستان کا نام رکھے کوئی خارستان تو (*1956)

Page 110

(203 کلام ظفر 204 کلف ظفر خدا حافظ عزیزم منیر نو از ابن محترم چودھری شاہنواز کے حصول تعلیم کے لئے امریکہ جانے پر سوئے امریکہ چلے حق تعالی ہو اے منیر ہو تمہارا دستگیر ملک امریکہ ہے مُلک علم و فن صنعت و ایجاد میں شاہ زمن و فن میں اب اسی کا راج ہے ساری دنیا اس کی اب محتاج ہے ہاں بظاہر چمن پر نور ہے پر حقیقت سے نہایت دُور ہے نور میں اس کے نہاں ہے نار بھی اسکے پھولوں میں ہیں پنہاں خار بھی عالم مادی پہ ہے اس کی نظر آسمانی نور ނ ابن مریم کو خدا سمجھا ہے یہ ہائے سمجھا بھی تو کیا سمجھا ہے یہ ابن اس کو پابندی اب نہیں کچھ بھی رہا اس پر حرام کام بدکاری ہے اس کا صبح و شام ہے بے خبر کفارہ ہوا سے چھٹکارا ہوا نشہ کے میں سدا مخمور ہے عارضی خوشیوں سے معمور ہے اس کے تہذیب و تمدن بے حیا عیش و عشرت میں ہے یہ ڈوبا ہوا دامن عقت اے عزیزم ہوشیار ہاں ہوشیار کرنا داغدار

Page 111

205 اس چمن میں بعض لیلائیں بھی ہیں دشمن یوسف زلیخا ئیں بھی ہیں کلام ظفر بچ کے رہنا ان سے ہر دم اے عزیز دشمن ایمان ہیں گر قضا را پیش آئے ابتلا حرز ایمانی ہو لا حول ہر ولا بد تمیز گھڑی مقصد پیش نظر رہے توڑنا کانٹوں سے بچ بچ کر ثمر احمدی تو اور این احمدی موجزن ہے تجھ میں نور سرمدی بن کے رہنا احمدیت کے سفیر امریکہ ہو روشن اے منیر کامراں لوٹو ނ به انجام سفر سر پر باندھے سہرة فتح و ظفر 206 کلام ظفر خضر حیات خان کے استعفیٰ دینے پر ۱۹۴۷ء میں پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کی حکومت تھی اور خضر حیات خاں اس کے سربراہ تھے.قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہش تھی کہ خضر حیات خان استعفیٰ دے دیں لیکن وہ نہیں مانتے تھے.اس پر حضرت مصلح موعود نے محترم چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو ان کے پاس بھجوایا اور خواہش ظاہر کی کہ آپ ملت اسلامیہ کے وقار کی خاطر استعفیٰ دے دیں.چنانچہ انہوں نے استعفیٰ دے دیا.اس پر قائد اعظم نے حضرت مصلح موعود اللہ اُن پر راضی ہو کا شکریہ ادا کیا نظم ہذا میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے.اشارے دست قدرت کے نمایاں ہوتے جاتے ہیں خدا کے دین کی نصرت کے ساماں ہوتے جاتے ہیں عدد شتری برانگیزد که خیر مادر آن باشد شرارے کفر کے رحمت کی باراں ہوتے جاتے ہیں کہیں گاندھی کی تحریریں کہیں نہرو کی تقریریں مسلماں اُن کو سُن سُن کر مسلماں ہوتے جاتے ہیں مسلمانوں میں پھر احساس بیداری ہوا پیدا یہ قطرے ملتے جاتے اور طوفاں ہوتے جاتے ہیں

Page 112

207 کلا ظفر 208 کلام ظفر ترے مکروں سے اے باطل نہیں نقصانِ حق ہر گز مگر ہاں تیری رسوائی کے ساماں ہوتے جاتے ہیں بھلا اس بوستاں پر کیا خزاں آئے گی اے ناداں کہ جس کے پھول جھڑتے ہی گلستاں ہوتے جاتے ہیں کسی یعقوب کی آہوں کا شاید یہ نتیجہ ہے کہ جھونکے ہوئے یوسف کے نمایاں ہوتے جاتے ہیں مت مومنو وقت ظفر نزدیک آ پہنچا سپاہی لشکر شیطاں کے بے جاں ہوتے جاتے ہیں ڈرو روزنامه الفضل قادیان 10 اپریل 1947 ، صفحہ 2) سیاست احرار پھر لاشته احرار میں حرکت ہوئی پیدا و, پھر عالم بالا سے ہوئے ان کو اشارے اے قوم مسلمان خبر دار خبردار پھر خرمن وحدت میں پڑے آ کے شرارے احرار ہیں وہ بحر سیاست کے شناور گرداب میں ہو قوم تو ڈھونڈیں یہ کنارے عشاق محمد سے رکھتے ہیں عداوت اعدائے محمد ہی مگر ان کو ہیں پیارے توہین محمدم کا لگاتے ہیں یہ یہ الزام اف! ہم پہ جو جیتے ہیں محمد کے سہارے

Page 113

(209 کلام ظفر محبت نہ نہ ہو جب پاس تو پھر اور کریں کیا ہے ہر اک ڈوبتا تنکوں کے سہارے لیتا اپنی مجبور ہیں مجبور ہیں حرکات سے اغیار کے ہاتھوں میں ہیں جب ان کے گزارے جب دیکھتے ہیں تم کو تو کہتے ہیں مسلماں احراریو! ہم دیر سے واقف ہیں تمہارے جو لوگ ظفر کرتے ہیں توہین محمد اللہ انہیں قعر مذلت میں اتارے روزنامه الفضل 27 جنوری 1950 ء صفحہ 2) 210 کلام ظفر احرار کی باطل توقعات کا مؤمنانہ جواب کل مجھ سے ایک لیڈر احرار نے کہا آساں نہیں ہے فتح تو دشوار بھی نہیں پنجاب کے ہیں احمدی چھپن ہزار گل پھر لطف یہ کہ واقف پیکار بھی نہیں احرار ہند ان کے مقابل کروڑہا ان میں تمیز اندک بسیار بھی نہیں و سارے جہاں کی قوموں سے ہے ان کی چپقلش ان سر پھروں کا کوئی مددگار بھی نہیں سرکار جس کے کھونٹے یہ سب ان کا ناچ تھا حامی رہی اب ان کی وہ سرکار بھی نہیں ناداں بگاڑ بیٹھے ہیں حکام وقت سے پہچانتے زمانے کی رفتار بھی نہیں

Page 114

211 تیغ و تفنگ و توپ سے ٹھانی ہے جنگ کی اور حال یہ کہ ہاتھ میں تلوار بھی نہیں کلام ظفر محمود آج ان کی ہے کشتی ڈبو رہا افسوس ان میں کوئی سمجھدار بھی نہیں یہ قول اس کا سُن کے کہا میں نے بس خموش تجھ میں تو کچھ سلیقہ گفتار بھی نہیں یہ کیا کہا کہ حامی ہمارا نہیں کوئی دیوانہ تو نہیں تو ہشیار بھی نہیں ہے ناداں ہماری پشت وہ بادشاہ ہے دنیا یہ جس کے وار کی اک مار بھی نہیں احرار چیز کیا ہیں خُدا کی قسم مجھے بچ سکتی اس کے وار سے سرکار بھی نہیں تیغ و تفنگ و توپ سب اس کے غلام ہیں تلوار کیا ڈراتی ہمیں نار بھی نہیں 212 کلام ظفر اسباب دنیوی ہماری نہیں نظر سامان ظاہری کے طلب گار بھی نہیں صرف اس خدائے پاک پہ اپنی نگاہ ہے جس سا جہاں میں کوئی وفادار بھی نہیں محمود کا کمال سیاست یہی تو ہے لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں روزنامه الفضل قادیان 7 1 نومبر 1935ء صفحہ 5)

Page 115

213 کلام ظفر (214) کلام ظفر " کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہو گئے" ظاہر لباس اصل میں احرار ہو گئے لو آج صاف معني غدار ہو گئے پہلے تو غدر کرتے تھے اسلامیوں سے یہ آج اپنے لیڈروں کے بھی غدار ہو گئے دیکھا جو پیسے مانگتے ”حضرت امیر کو تو جھٹ غریب و مفلس و نادار ہو گئے جب بند ہوتے دیکھی زباں ”ترجمان“ کی روپوش ان کے درہم و دینار ہو گئے تنظیم و اتحاد کے حامی تھے خواب میں جب امتحان آیا تو بیدار ہو گئے اسلامیانِ ہند کے واحد اجاره دار اف کس قدر ہیں مفلس و نادار ہو گئے کرتے دراز ہم پہ تھے کل جو زبانِ طعن ہو گئے وہ آج شرمسارو نگونسار ملا عنایت اور مجاہد ہیں قید میں وو کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہو گئے“ روزنامه الفضل 29 مئی 1936ء صفحہ 2) " اے چودھری“ ہے شرم تو راوی میں ڈوب مر احرار تیرے تجھ سے بھی بیزار ہو گئے

Page 116

(215 سیاحت کشمیر کلام ظفر 216 ہر ذرہ کوہسار ہے اک طور تجلی ہر شجرہ وادی ہے انا اللہ کی حکایت (1938) سنتے تھے بہت دیر سے کشمیر کی شہرت ارمان تھا دل میں کہ کریں ہم بھی سیاحت اس سال خداوند نے توفیق جو بخشی ہر چشمہ شیریں و مصفی کی صدائیں ہر هر غالب و اقبال کو دیتی ہیں یہ دعوت دنیا کی کشاکش سے تم اے بھاگنے والو آجاؤ میرے پہلو میں مونس ہے یہ خلوت کشمیر کے باشندوں کا پر حال نہ پوچھو ہم رخت سفر باندھ کے گھر سے ہوئے رخصت افلاس کے ماروں سے معمور یہ جنت اُڑتی ہوئی گاڑی چلی کشمیر کی جانب موٹر بھی بڑھی شوق سے با سرعت و عجلت پُر لطف ہے پُر کیف ہے کشمیر کا رستہ اشجار کی بالیدگی سبزہ کی طراوت کلام ظفر ماہنامہ خالد جولائی 1956 ، صفحہ 21)

Page 117

(217 کلام ظفر 218 کلام ظفر کراچی ہم تو سنتے تھے کراچی ہے مسلمانوں کا شہر اور جب دیکھا تو پایا نیم عریانوں کا شہر گندی تصویروں سے ہے ہر بام و در آراستہ یہ مسلمانوں کی بستی ہے کہ بت خانوں کا شہر بی.اے، بیٹی بنتے بنتے بیٹیاں ٹیڈی بنیں ہائے غافل ڈیڈیوں کا اور نادانوں کا شہر (1964) غزل یکم مارچ 2000ء کو ایم ٹی اے کے ایک پروگرام میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی موجودگی میں ایک بچے نے خوش الحانی سے پڑھ کر سنائی.سوچتا ہوں کہ تجھے یاد کروں یا نہ کروں دل ترے پیار سے آباد کروں یا نہ کروں تو مری جان بھی ہے دشمن ایمان بھی ہے جان و ایمان کو برباد کروں یا نہ کروں عشق کے دام میں آزار بھی آرام بھی ہے دل کو اس دام سے آزاد کروں یا نہ کروں تجھ کو تیری ہی قسم جانِ جہاں تو ہی بتا تیری مہجوری میں فریاد کروں یا نہ کروں

Page 118

219 کلا ظفر تگو ملے یا نہ ملے یہ تو ہے تقدیر کی بات تیری تصویر سے دل شاد کروں یا نہ کروں چشم اغیار سے چُھپ چُھپ کے کہیں رو رو کر دل افسردہ کی امداد کروں یا نہ کروں میں تو ہر لمحہ تجھے یاد کئے جاتا ہوں یونہی کہتا ہوں تجھے یاد کروں یا نہ کروں یاد میں اُس کی جو شیریں سے بھی شیریں ہے ظفر زندہ پھر قصہ فرہاد کروں یا نہ کروں روزنامه الفضل 19 جنوری 2000، صفحہ 2) نوٹ : مولانا کی یہ واحد غزل ہے جو آپ نے اپنے قیام کراچی کے دوران 28 ستمبر 1966ء کو لکھی.220 کلام ظفر ورثة داؤد دوستو! ہم کو خلیفہ ہے ذیشان ملا وہ مبدء فيض ہر اک جسے فیضان ملا عیسوی شان لئے یوسف کنعان میلا حکم یحیی کو کو لئے لئے فہم سلیمان میلا حسن و احسان میں احمد محمود ہے میلا این داؤد کو ہے ورثه داود میلا (ماہنامہ خالد مارچ 1955ء خلافت نمبر صفحہ 37)

Page 119

(221 رُباعی ابھی وقت ہے اب بھی ہشیار ہو جا بہت دن گنوائے ظفر سوتے سوتے مجھے ڈر ہے ناداں کہ دار العمل سے نہ جائے کہیں تو گزر سوتے سوتے کلام ظفر (ماہنامہ خالد فروری 1956 ء صفحہ 19) 222 نصرت الہی کافر کو اپنی فوج کی کثرت طیارہ ٹینک، توپ کی طاقت کلام ظفر ناز ہے ناز ہے مؤمن کا دل بھی ناز سے خالی نہیں اس کو خُدائے پاک کی نصرت ظفر ناز ہے روز نامہ الفضل 15 دسمبر 1971ء صفحہ 2)

Page 120

(223 کلام ظفر ابتدائی کلام کے چند نمونے عاشقون 224 کلام ظفر

Page 121

(225 کلام ظفر 226 کلام ظفر بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا خود مسلماں کا بھی مشکل ہے مسلماں ہونا کب الہی تیرے فضلوں سے مسلماں ہونگا اب تلک ہاتھ نہ آیا مجھے انساں ہونا کوئی مومن بھی ہو پھر سُست ہو، ناممکن ہے شانِ ایمان سے ہے دُور تن آساں ہونا عيش دو روزہ میں کھو دینا نشاط جاوید اس سے کیا بڑھ کے بھلا اور ہے ناداں ہونا جاده عشق پہ چلنا جو ہے دشوار تو کیا کار مشکل کا بھی مشکل نہیں آساں ہونا کیوں مرے خانہ دل کی یہ بنا ڈالی تھی گر نہ منظور تھا یاں آپ کو مہماں ہونا کششِ ذوق طلب نے مجھے کیا بخشا ہے چشم دل کر گیا وا آپ کا پنہاں ہونا اپنے ہی فضل سے وہ بات عطا کر مولیٰ لوگ کہتے ہیں جسے صاحب ایماں ہونا یہ جہاں بیچ ہے مل جائے ہمیں دار بقا گر میتر ہو ہمیں عامل قرآں ہونا لا جرم سارے مذاہب میں ہے کچھ قربانی لیکن اسلام ہے ہر حال میں قرباں ہونا بات دل کی نہ کبھی مان کہ ناداں ہے یہ چاہیے نفس پہ تو عقل کا سلطاں ہونا کیسی پھر لیت و لعل کہہ چکے آمنا جب کام اپنا ہے فقط تابع فرماں ہونا جُز تَوَكَّلْتُ عَلَى الله نہیں زاد مرا مجھے کو منظور نہیں بندہ ساماں ہونا ہے پریشانی خاطر کا فقط ایک علاج یاد مولیٰ میں ظفر دل کا پریشاں ہونا زمانہ طالب علمی رسالہ جامعہ احمدیہ جولائی 1930 ء صفحہ 11)

Page 122

(227 خطاب به ساقی اگر ساقی پلا دے تو مجھے اک جام عرفاں کا تو پھر جھگڑا ہی مٹ جائے خودی کا نفس و شیطاں کا کلام ظفر زمانے میں چلے ایسی ہوا مہر و محبت کی کہ مخمور مئے اُلفت ہو دل ہر اک مسلماں کا گلستان محمد میں چلے بادِ بہاری پھر کھلے تازہ بتازہ تو بہ کو ہر پھول بستاں کا شپ تاریک پھر بدلے ضیاء صبح صادق - ہو وظلمت دُور دنیا کی چڑھے پھر چاند کنعاں کا مئے توحید سے مخمور ہو پھر حضرتِ انساں نشاں مٹ جائے دنیا سے ضلال و شرک و عصیاں کا خدایا پھر خلافت کو عطا پہلی سیاست ہو ظفر کا پھر اُڑے پرچم زمانے میں مسلماں کا (مطبوعہ رسالہ جامعہ احمدیہ اکتوبر 1930 ء صفحہ 25) 228 بارگاہِ ایزدی میں مسلم کی فریاد اور اس کا جواب کلام ظفر نہ وہ باغ ہے نہ بہار ہے، نہ وہ پھول ہیں نہ ہزار ہے نہ رہی وہ صحبت یار ہے، جو رہا ہے کچھ تو وہ خار ہے نہ وہ شمع بزم کی کو رہی، نہ مگس کی وہ تگ و دو رہی نہ وہ سوز ہے نہ وہ ضو رہی، نہ وہ نور ہے نہ وہ نار ہے نہ شراب ہوش ربا رہی، نہ صدائے ساقیا لا رہی! نہ وہ ئے کشوں کی ادا رہی، نہ وہ کیف ہے نہ خمار ہے نہ وہ پہلی سی ہیں عنایتیں، نہ قرار دہ وہ بشارتیں نہ وہ میٹھی میٹھی حکایتیں، نہ وہ لطف ہے نہ وہ پیار ہے نہ وہ شوکت عمران ہے، نہ وہ دولت عثمان ہے نہ علی کی حیدری شان ہے، ہوا سب رہینِ مزار ہے یعنی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا

Page 123

(229 کلام ظفر نہ وہ خالد بن ولید ہے، نہ وہ ، نہ وہ فتح ملک جدید ہے نہ وہ دشمنوں کو وعید ہے، نہ وہ رعب ہے نہ وقار ہے نہ وہ رنگ فتح و ظفر رہا، نہ عدو کو کوئی خطر رہا نہ کسی پہ میرا اثر رہا، نہ کسی میں میرا شمار ہے گئے ہاتھ سے مرے ملک سب نہیں پاس اپنے رہا کچھ اب فقط ایک ہیں عجم و عرب، مگر ان کا حال بھی خوار ہے مرے رب وہ میری خطا ہے کیا ، تو ہے جس سے مجھے پہ خفا ہوا میں وہی ہوں مسلم با وفا، تجھے مجھ سے کیسا نقار ہے مرا باغ دین اُجڑ گیا، مرا کاروبار بگڑ گیا !! مرا کارواں ہے بچھڑ گیا، مری آج حالتِ زار ہے 230 کلام ظفر نہ ہوا نزول مسیح کا، نہ ہوا امام ہی رونما کوئی آج اپنا نہیں رہا، ظلمات ہیں شب تار ہے یہی شکوہ میرا تھا مشتہر، تو ندا یہ آئی کہ اے ظفر تو بگو به مسلم بے خبر، کہ عبث یہ تیری پکا رہے میں بتاؤں کیا وہ خطا ہے کیا ہمیں ہوں جس سے تجھ پہ خفا ہوا اگر ایک ہو تو میں دوں بتا، نہیں ان کا کوئی شمار ہے ترے دل میں خوفِ خدا نہیں تجھے یاد روزِ جزا نہیں ترے لب پہ حرف دعا نہیں، تجھے اس جہاں سے پیار ہے تری طرز طرز یہود ہے، تری وضع وضع ہنود ہے تو سمجھتا سُود میں سُود ہے ، کوئی تجھ میں دیں کا شعار ہے؟ کیا یہ تو نے پہلے کہا نہیں، کہ کبھی بھی ہو گے فنا نہیں کیا ترک صوم و صلوۃ کو، دیا چھوڑ حج و زکوۃ کو! گیا بھول وقت ممات کو، نہ ہی یاد روز شمار ہے تجھے یاد بھی ہے کہ یا نہیں، کوئی ہم سے قول و قرار ہے ترے نیچے وعدے وہ کیا ہوئے نہیں آج تک جو وفا ہوئے کبھی جائے تو جو سُوئے حرم، تو ہزار دل میں لئے صنم نہیں ہم تو تجھ سے جُدا ہوئے ، تجھے ہم سے کیسا نقار ہے ہے زباں سے کہنا کرم کرم، ترا دل بتوں کا شکار ہے

Page 124

231 کلام ظفر نہیں بھیجا میں نے امام کیا؟ کیا تو نے اس کو سلام کیا ہے یہی وفا کا مقام کیا؟ کہ مرے ولی سے نقار ہے ہے اسی کے دم سے بہار دیں، ہے یہی مسیح مزارِ دیں ہے اسی پہ دارو مدار دیں، یہی تیرا حصن و حصار ہے مری جس پہ لاکھ ہیں رحمتیں، کرے اس پہ لاکھ تو لعنتیں کروں کیوں میں تجھ پہ عنایتیں، ترا ظلم و جور شعار ہے جو مری نظر میں لعین ہے، وہی تیرے دل کا قرین ہے تجھے مجھ یہ خاک یقین ہے، وہی تیرا دل بر و یار ہے اگر آج بھی اسے مان لو تو وہ پہلی شوکت و شان لو 232 کلام ظفر میں احمدی ہوں اور مجھے اس پہ ناز ہے دونوں جہاں کے عیش سے وہ بے نیاز ہے جو دل کہ اس کی یاد میں وقف گداز ہے دنیائے بے ثبات حقیقت تھی خواب میں کھولی جو آنکھ دیکھا حقیقت مجاز ہے جو اس کی ذاتِ پاک کے جو کچھ ہے بیچ ہے حقانیت ہے جس میں وہی بے نیاز ہے نہیں بلکہ دونوں جہان لو، یہ ازل سے پایا قرار ہے زندہ ہیں بس وہی جو مٹے اس کی راہ میں لویا نہ ہونا، ہونے کا ہستی کا راز ہے نہ تو مجھ کو تجھ سے نقار ہے نہ تیرے عدد سے پیار ہے مجھے بس اسی سے پیار ہے، جسے میرے پیاروں سے پیار ہے زمانہ طالب علمی رسالہ جامعہ احمدیہ اکتوبر 1930ء صفحہ 39،38،37) آئینہ دل کا توڑنا ہے اُس کا جوڑنا ہاں کیوں نہ ہو کہ خواہش آئینہ ساز ہے اہل وطن جو چاہو کہو تم مجھے مگر میں احمدی ہوں اور مجھے اس ناز ہے

Page 125

233 اسلام کا ہے درد میرے دل میں جاگزیں رونا میرا وضو ہے تڑپنا نماز ہے کلا ظفر يارب تو میری ساری خطائیں معاف کر بگڑی مری بنا دے کہ تو کارساز ہے مانا کہ میں گناہوں میں حد سے گزر گیا لیکن تری بھی چادر رحمت دراز ہے اپنے خدائے پاک سے بس دل لگا ظفر گر ساتھ گوش ہوش ہے اور چشم باز ہے زمانہ طالب علمی رسالہ جامعہ احمد یہ سالانہ نمبر دسمبر 1930ء صفحہ 7 روز نامہ الفضل 24 /اکتوبر 1974 ء صفحہ 2) 234 تحريض عمل نفس امارہ و شیطان سے لڑنا ہے مجھے دو جہاں جس سے ملیں کام وہ کرنا ہے مجھے بس ابھی آتا ہوں میدانِ عمل میں ہم دم جو ہر علم سے کچھ اور سنورنا ہے مجھے دیکھ لوں راہ عمل علم کی عینک سے ذرا آگے آگے ابھی اس راہ یہ چلنا ہے مجھے زندہ ہوسکتی ہے گر قوم میرے مرنے سے تو بہت شوق سے منظور یہ مرنا ہے مجھے صورت شمع جلا قوم کی محفل میں مجھے یا الہی میری جنت یہی جلنا ہے مجھے کلام ظفر

Page 126

(235 کلام ظفر 236 کلام ظفر جلسہ سالانہ قادیان کا روح پرور نظارہ اب تو فرصت دے مجھے اپنی پرستش سے ذرا اے مرے نفس کہ کچھ اور بھی کرنا ہے مجھے کام کچھ کر کے دکھاتے تو ظفر بات بھی تھی کب تلک کہتے چلے جاؤ گے کرنا ہے مجھے (زمانہ طالب علمی.رسالہ جامعہ احمد یہ سالانہ نمبر دسمبر 1930 ءصفحہ 58 نیز روز نامہ افضل 13 مارچ 1995 ، صفحہ 2) ترقی فضل حق سے دم بہ دم ہے زمین قادیاں اب محترم ہے خدا کا فضل ہے چھوٹی سی بستی ہجوم خلق سے ارضِ حرم ہے چلی آتی ہے دنیا ہر طرف سے اُسی جانب اٹھا اب ہر قدم ہے وہی بہتی جو گمنامی میں گم تھی اسی کا سب سے اونچا اب علم ہے ہے بے شک فرض حج کعبۃ اللہ زیارت قادیاں کی بھی اہم ہے عرب نازاں ہے گر ارض حرم پر تو ارض قادیاں فخر عجم ہے بفضل ایزدی جلسہ ہمارا برائے تشنگاں ابر کرم ہے فنا ہو جاؤ گے اے دشمنو! تم عناد احمدیت اک سم ہے نشانوں پر نشاں دیکھے ہیں سب نے اگر اب بھی نہ مانو تو ستم ہے خدا کا قہر ہو گا تم پہ نازل ازل سے یہ نوشتوں میں رقم ہے جہاں باطل ہو چکنا چور گر کر ہمارا ان چٹانوں پر قدم ہے مسیحا! پھر ترے مہمان آئے معزز محترم انسان آئے تقدس کا جہاں قائل ہے جن کی یہاں وہ صاحب عرفان آئے

Page 127

237 کلام ظفر 238 کلام ظفر دبائی ہیں بغل میں گر حدیثیں تو ہاتھوں میں لئے قرآن آئے مسیحا سر کے بل چل کر گھروں ترے دیوانے اور مستان آئے بہت تکلیفیں رستے میں اٹھا ئیں مگر شادان اور فرحان آئے یہ بنگالی ہیں گر تو وہ ہیں سندھی یہ کشمیری ہیں وہ افغان آئے بہت آئے قریشی اور مرزے ہزاروں، شیخ! سید! خان! آئے یہ شامی ہیں تو یہ مصری و رومی بہت از سرحد ایران آئے غرض ہر ملک سے آئے ہیں مہماں جزائر کے بھی ہیں سگان آئے تجھے اے دشمن ناداں خبر کیا کہ کیوں ہیں یہ سبھی مہمان آئے یہ پروانے کبھی اسلام کے ہیں یہ سارے سیکھنے قرآن آئے ابھی کر دیں گے قرباں اپنی جانیں خلافت کا اگر فرمان آئے ظفر صد شکر ہے کہ پھر جہاں میں مسلماں صاحب ایمان آئے الفضل قادیان 25 دسمبر 1932ء صفحہ 9) باد شیریں میں اس کی جو تیر میں سے بھی شیریں ہے فقر قصيح قربانی گردن یا نه گردن نوٹ : سابقہ ایڈیشن میں یہ نظم نامکمل تھی اب اسے مکمل شائع کیا جا رہا ہے.

Page 128

239 کلام ظفر 240 کلام ظفر متفرقات میرے حق میں به من گئی اور بھی اپنے قریب گئے گی را گرے

Page 129

کلام ظفر عر 242 کلام ظفر (241 O چکر میں آسماں ہے گردش میں ہے زمانہ تقدیر نے لگایا کیا خوب تازیانہ اس جبر کے جہاں میں آزادیاں ہماری قصه ابلیس و آدم رانگر تو آدم و ابلیس کے قصہ کو غور سے دیکھ تابیابی نُور دل نورِ نظر تا تو نور دل (اور) نور نظر کو سکے نوٹ : ایک دفعہ خاکسار قرآن شریف کے حروف مقطعات کی روشنی میں غور کر رہا تھا کہ کیا قرآن شریف میں جو واقعات بار بار آئے ہیں اُن کے الفاظ میں زمانے کے مطابق تبدیلی ہوتی ہے یا نہیں.اس پر مجھے اوپر کا شعر القاء ہوا.اس پر میں نے بعد از تدثر اس اک آہنی قفس میں تنکوں کا آشیانہ سختی نہ کر زیادہ اے محتسب مبادا اظہارِ بے بسی ہو اقرار مجرمانہ الہامی شعر کے جواب میں بطور تشکر یہ شعر کہا: عر قصة ابليس و آدم دیده ام میں نے ابلیس و آدم علیہ السلام کے قصہ کو دیکھا ہے دِل مُنوّر شد از و هم دیده ام میں نے دل کو وہم سے دور ہو کر منو ر ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے

Page 130

کلام ظفر (244) کلام ظفر (243 O عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ جہاں کو پہنچا دے اے پیمبر! بہ لفظ شیریں پیام میرا دلوں میں کر انقلاب پیدا سُنا سنا کر کلام میرا مگر رہے یاد یہ حقیقت کہ تو مصیطر نہ محتسب ہے حساب لینا نہ تو کسی سے، حساب لینا ہے کام میرا ہم احمدی جواں ہیں خُدام احمدیت خدام ملک و ملت ، خُدامِ آدمیت دُنیا میں دو ہی چیزیں مقصودِ زندگی ہیں اللہ کی عبادت، خلق خدا کی خدمت

Page 131

کلام ظفر 246 کلام ظفر (245 ایک دوست نے حیدر آباد دکن سے مجھے اپنا بہت سا کلام به غرض اصلاح بھجوا دیا اور ساتھ ہی لکھا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب مجھے خواب میں ملے اور فرمایا کہ اپنا کلام ظفر محمد سے ٹھیک کراؤ.میں بیمار تھا.ذیل کے تین شعر لکھ کر انہیں اُن کا کلام واپس بھجوا دیا.سچ کہہ دوں اے برادر! گر تُو بُرا نہ مانے بھاتے نہیں مجھے اب شِعروسخن، ترانے پیری کے فیض سے اب حالت بدل چکی ہے شاید ہیں یاد تجھ کو گزرے ہوئے زمانے جس نُورِ دیں نے تجھ کو رستہ میرا دکھایا آیا نہیں مجھے وہ رستہ تیرا دکھانے آپ بد قسمت ہے جو محروم ہے ورنہ تیرے فیض کا ہے در کھلا نہ کسی سے دوستی ہے نہ کسی سے دشمنی ہے به فقر عجب ظفر ہے ہر حال میں غنی ہے ایسے ہیں آپ جامعہ والوں کے سامنے تمام ہلالوں کے زمانے آئے میرے عزیز ہیں مرے مزار پر رحمت خدا کی مانگنے مُشتِ غبار پر 邀

Page 132

247 فارسی کلام کلام ظفر 248 کلام ظفر أو سرايا نور بست و من سراپا تیرگی دره خاکی منم ، او آفتاب انور است ، آئینه دار بهر رسالت خلافت است شیرازه بنو زوج جماعت خلافت است

Page 133

249 کلام ظفر 250 کلام ظفر صلى اللَّهِ عَلِيه مقام محمد الـ وآله وسلم بنگر چسان بلند مقام محمد است ہے دیکھ! کس قدر بلند مقام محمد احمد الله مسيح خلق غُلام محمد است السلام احمد، مخلوق کا مسیحا، محمد کا غلام ہے.دیدم بسے کتاب ، شنیدم بسے کلام بہت سی کتابیں دیکھیں اور بے تحاشا کلام سنے سرتاج ہر کلام کلامِ محمد است ہر کلام کا سرتاج، کلام محمد ہے.بر یک نظام دشمن تسكين آدمى ہر ایک نظام ، انسان کی اصلاح کا دشمن ہے حِصُنِ حصين امن نِظامٍ محمد است جبکہ امان کی ضمانت صرف اور صرف نظام محمد ہے جن و بشر ملائکه مشتاق نور او جن و بشر اور فرشتے اس کے نور کے مشتاق ہیں بعد از خدا بزرگ مقام محمد است خدا کے بعد محمد سالم ای یتیم کا مرتبہ سب سے بلند و بالا ہے (ماہنامہ الفرقان جون، جولائی 1959 ، صفحہ 56)

Page 134

251 کلام ظفر نعتُ النّبي الا الله عليه ( به اعتراف عجز ) وآله وسلم ازلبم تَوصِيفِ احمد کو ز وهمم برتر است اپنے لبوں سے احمد مجتبی کی تعریف کرنا تو میرے وہم و گمان سے بھی بالا تر ہے مدحتِ خورشید گوئی از زبان شهر است گویا چمگاڈر کی زبان سے خورشید کی تعریف کرنا ہے.وہ أو سراپا نور بست و من سراپا تیرگی سراپا نور اور میں گھٹا ٹوپ اندھیرا ذره خاکی منم ، أو آفتاب انور است میں تو ذره خاکی ہوں اور وہ انوار کا آفتاب ہے 6 من گدائے ہے نوا أو خواجه پر دوسرا میں گدائے بے نوا اور وہ خواجہ ہر دوسرا ہے من کمترم از کرمکی ، أو فخر ہر پیغمبر است میں کیڑے سے بھی کم تر ہوں اور وہ ہر رسولوں کا فخر ہے 252 کلام ظفر من خزان بے بہار و او بہارِ بے خزاں میں بے بہار کی خزاں ہوں اور اُن کا وجود ایسے ہے جیسے بے خزاں میں بہار آ جائے قطرهٔ ناچيز من ، أو سلسبیل و کوثر است میں قطرہ ناچیز اور سلسبیل و کوثر وہ ہے.من أسير نفس خویش و در معاصی پیش پیش السلام میں اپنے نفس کا اسیر اور گناہوں میں ڈوبا ہوا (ہوں) أو إمام انبياء الله و رهبران را رهبر است وہ انبیاء کا امام اور رہبروں کا رہبر ہے از مقامات محمد هیچ کس آگاه نیست محمد کے (ارفع ترین مقامات سے کوئی بھی آگاہ نہیں ہے جبرئیل از رفعتِ پرواز أوبم ششدر است جبرائیل بھی اس کی رفعت پرواز سے حیرت میں ہے.اے ظفر خاموش شو تو لائق مدحش نه اے ظفر ! خاموش رہ ( کیونکہ ) اس کی مدح کرنا تیرے بس کی بات نہیں ہے مے ندانی خامشی از نُطق بے جا بہتر است کیا تو جانتا نہیں کہ خاموشی، بے موقع بولنے سے بہتر ہے (ماہنامہ الفرقان سالنامه نومبر، دسمبر 1976 ، صفحہ 75,74)

Page 135

253 کلام ظفر برروئے خاک شجره راحت خلافت است است آئینه دار مہرِ رسالت خلافت خلافت، رسالت کے آفتاب کی آئینہ دار ہے شیرازه بندِ رُوح جماعت خلافت است خلافت، جماعت کے اتحاد اور تنظیم کی روح رواں ہے نظام بروئے زمیں مگر بسے میں نے زمین پر بہت سارے نظام دیکھے ہیں لیکن جان نظام و حُسن سیاست خلافت است خلافت، سیاست کے حسن و نظام کی جان ہے.دیدم میزان پادشاہی جمہوریت غلط جمہوریت اور بادشاہت کے سب طریق عبث ہیں قسطاس مستقيم عدالت خلافت است خلافت، عدل و انصاف قائم کرنے والا ترازو ہے.254 کلام ظفر ہر یک طریق دُشمنِ تسكين رهروان راہ حق کے مسافروں کے لئے دوسرا ہر راستہ بے امن اور بے سکون ہے راه نجات و امن و سلامت خلافت است جبکہ خلافت ہی راہ نجات، امن و سلامتی ہے.در مسجد و امام ندانی که راز چیست تو مسجد اور امام کے بارے میں نہیں جانتا کہ ان دونوں میں کیا بھید پوشیدہ ہے؟ مسجد جماعت است و امامت خلافت است یعنی مسجد جماعت اور خلافت امامت ہے.اے بے خبر به ظِل خلافت بیا! بیا!! اے غافل شخص! خلافت کے زیر سایہ آ جا! (کیونکہ) بر روئے خاک شجره راحت خلافت است خلافت، رُوئے زمین پر راحت کا (سایہ دار ) درخت ہے بگذر ز نفس خویش ظَلُوم و جهول باش اپنے نفس کو چھوڑ اور ظلوم و جہول ہو جا نشنيدم که بار امانت خلافت است کیا تو نے سنا نہیں کہ خلافت ہی ہے جو امانت کا حق ادا کر سکتی ہے.روزنامه الفضل 24 نومبر 1957 ء صفحہ 3)

Page 136

255 کلام ظفر مانند آفتاب درخشد امام ما ہمارا امام سورج کی طرح چمکتا ہے حضرت خلیفہ امسح الثالث کے 1980ء میں دیار مغرب تشریف لے جانے پر از دست عقل خویش گرفته زمام ما ہم نے اپنی لگام ،اپنی عقل سے لے لی ہے ما ساختیم عِشق و جنون را امام ما ما (کیونکہ) ہم نے عشق و جنون کو اپنا امام بنا لیا ہے یافتیم نُور ز ز انوار مصطفی ہم نے زندگی کے نور کو محمد مصطفی کے انوار سے ہی لیا ہے حسن و جمال ماست زِ خَيرُ الْأَنَامِ ما اور ہمارا حسن و جمال بھی ہمارے اسی خیر الانام سے وابستہ ہے گاهی به سمت شرق گهے در جہاتِ غرب کبھی مشرق کی جانب سے اور کبھی مغرب کے اطراف سے مانند آفتاب دَرَخُشد ما امامٍ ہمارا امام سورج کی مانند چمکتا ہے.256 کلام ظفر اسلام ماست محسن انسانيت فقط صرف ہمارا مذہب اسلام ہی محسن انسانیت ہے این است بہرِ مشرق و مغرب پیام ما (اور) یہی شرق و غرب کو ہمارا پیغام ہے.مادر جهان بغض نه داریم با کسے ہمیں اس جہان میں کسی سے کوئی بغض نہیں ہے ہمدردی عوام بنائے نظامِ ما ہمارے نظام کی بنیاد ہی عوام کی ہمدردی ہے.خواهید گر نجات بیائید سوئے ما اگر تو نجات چاہتا ہے تو ہماری طرف آ اے غافلاں! نجات ببخشد کلام ما اے غافلو! ہمارا پیغام تو نجات بخش ہے ما چشم امتیاز نه داریم اے ظفر؟ اے ظفر ! ہم کوئی امتیاز نہیں رکھتے آشود سَلامِ ما بهد و عام است أبيض ہمارا سلامتی کا پیغام ہر گورے اور کالے کیلئے یکساں اور عام ہے روزنامه الفضل 2 دسمبر 1980 ء صفحہ 2)

Page 137

257 کلام ظفر 258 کلام ظفر " هرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق ،، ذیل کے اشعار برادرم قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی مرحوم کی وفات پر انہی کی زبان سے کہے گئے از دست عقلِ خویش گرفته زمام ما ہم نے اپنی لگام، اپنی عقل سے لے لی ہے ما ساختیم عشق و جنون را امام ما (کیونکہ) ہم نے عشق و جنون کو اپنا امام بنا لیا ہے.ما از جهان شود و زیان در گذشته ایم ہم اس جہان کے سود و زیاں سے ماوراء ہو گئے ہیں چشمِ جہانیاں نشناسد مقامِ ما (اسی لیے ) اہل دنیا کی آنکھ ہمارے مقام کو نہیں پہنچانتی.صورت نگر ز معنی ما بے خبر رود دنیا دار ہماری حقیقت سے بے خبر جا رہا ہے یک ما آبدار تيغ بدارد نیام حالانکہ ایک تیز دھار تلوار ہماری نیام میں ہے در کاسه حريف بجُز درد بیچ نیست حریف کے کاسہ میں سوائے تلچھٹ کے کچھ نہیں صہبائے پاک و صاف بجو شد به جام ما اور ہمارا جام، مطہر شراب سے چھلک رہا ہے مجروح راه یار مقامِ شہید یافت محبوب کے راستے کا زخمی شہید کا رتبہ پا گیا آمد ہمائے اوج و سعادت به دام ما جبکہ اوج سعادت کا ہما ہمارے قبضے میں ہے ما تیز رو به منزل جاناں رسیده ایم ہم تو تیزی سے سفر طے کر کے محبوب کی منزل تک جا پہنچے ہیں آے شست گام تیز بیا تا مقامِ ما ے ست چلنے والے ہمارے مقام تک پہنچنے کیلئے ذرا تیز دوڑ کے آ اے خوش بختی کی معراج ۲ ایک فرضی پرندہ : اہل فارس میں مشہور ہے کہ ہما ایسا پرندہ ہے کہ جو کسی پر بیٹھ جائے اسے دنیا کی سلطنت و دولت سے نوازتا ہے.اس لئے اسے شعراء خوش بختی و بلندی مقام کے لئے استعمال کرتے ہیں.(مترجم)

Page 138

" 259 کلام ظفر برگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق جس کا دل عشق سے زندہ ہو سے زندہ ہو گیا وہ شخص کبھی نہیں مرتا گیاوہ ثبت است بر جريده عالم دوام ما“ ہمارا ہمیشہ رہنا صفحہ عالم پر ثبت ہے.مُسْتَبْشِرُونَ نَحْنُ بِمَنْ لَاحِقُ بِنَا ہم تو خوشخبری دینے والے ہیں جو بھی ہمارے ساتھ ملتا ہے یا رَبِّ رساں غریب ظفر را پیام ما اے رب! ہمارے اس پیغام کو بیچارے ظفر تک پہنچا دے.روزنامه الفضل 27 جنوری 1970ء صفحہ 4) 260 کلام ظفر شراب روح پرور بخش ساقی شراب مصرع اول فارسی ،مصرع ثانی عربی) روح پرور بخش ساقی اے ساقی! تو ہمیں رُوح پرور شراب عنایت فرما تَكَادُ تَبْلُغُ النَّفْسُ التَّرَاقِي کیونکہ ہماری جان گلے تک پہنچنے کے قریب ہے ( یعنی ہمارا سانس بند ہونے کے قریب ہے) ده مئے اخلاص و تسليم و رضا اخلاص و و تسلیم اور رضا کی شراب ہمیں عطا کر فَقَد صَارَ الْوَرى أَهْلَ النِّفَاقِ کیونکہ ساری مخلوق نفاق اختیار کرنے والی بن گئی ہے دلم از جُرعه تسکیں نیابد میرا دل ایک گھونٹ سے تسکین نہیں پائے گا فَرَةِ الْقَلْبَ مِنْ كَأْسٍ دِهَاقٍ بس میرے دل کو لبالب جام سے سیراب کردے

Page 139

261 کلام ظفر خُدا داند که بعْضِ ایل ایماں بغض رکھنا کہ اہل ایمان سے خدا جانتا ہے لسم مُهْلِكَ مُرُّ الْمَذَاقِ ایک ایسا مہلک زہر ہے جس کا ذائقہ بڑا تلخ دل "احرار“ چوں ایں زہر چونکہ احراریوں نے زہر ہوتا ہے خورده کھا لیا ہے فَلَا يُشْفَى بِتِرْيَاقٍ وَ رَاقٍ پس کسی تریاق یا تعویز ٹونے ٹوٹکے سے اسے شفا نہیں مل سکتی نیایند باز از تكفير الا یہ لوگ کافر قرار دینے سے باز نہیں آئیں گے سوائے (اس کے کہ ) إذَا الْتَفَّتُ لَهُمْ سَاقٌ بِسَاقِ جب ( مرتے وقت ) ان کی ایک پنڈلی دوسری پنڈلی کے ساتھ لپیٹ دی جائیگی ز بس نُور خُدا بست احمديت چونکہ احمدیت ہی صرف نور خدا فَنُورُ الله لا يُعطى لِعَاقِ ہے اس لئے نور الہی کسی نا فرمان کو ہرگز عطا نہیں کیا جاتا ہلاک 262 ظالماں از عيش کلام ظفر خوشتر ایسے ظالموں کا ہلاک کیا جانا ان کے زندہ رہنے سے بہتر ہے إذَا عَاشُوا بِظُلْمٍ وَ انْشِقَاقِ جب وہ ظلم کرنے اور پھوٹ ڈالنے والی زندگی بسر کر رہے ہوں نترسند وہ نترسند از خُدا ہرگز خدا تعالیٰ سے ہرگز ہرگز نہیں ڈرتے ولا يَخْشَوْنَ أَلَامَ الْفِرَاقِ اور نہ ہی وہ دنیا سے ایک دن رخصت ہو جانے کا خوف کھاتے ہیں بجائے آخرت دنيا خریدند وہ آخرت کی بجائے دنیا خریدتے ہیں فَعَيْشُهُمْ لِأَرْغِفَةٍ رقاق وہ تو صرف پتلے پتلے پراٹھے کھانے کے لئے زندہ ہیں نخواهند کوثرے“ سلسبیلے“ نے وہ اگلے جہاں کے حوض کوثر اور سلسبیل“ کے چشموں کے ہرگز خواہاں نہیں.فقط طلاب اشْرِبَةِ رِحَاقِ وہ تو صرف دنیا کی نشہ آور شرابوں کے طالب ہیں

Page 140

263 ”زمیں جنبد نجنبد كُل کلام ظفر (ان کی مثال تو اس گل محمد نامی موٹے آدمی کی طرح ہے) کہ زمین ہل گئی لیکن گل محمد نہ ہلا.إذَا مَلَكُوا بُطُونَّا كَالرِّقَاقِ جب کہ وہ مشکیزوں کی طرح اپنے پیٹوں کو خوب بھر تے رہتے ہیں ( کھا کھا کر ) چه آرند عذر پیش حق " تعالى خدائے حق تعالیٰ کے سامنے کیا عذر پیش کریں گے آعَادِي الْحَقِّ مِنْ بَعْدِ الْمَسَاقِ یہ راستی کے دشمن جب (مرنے کے بعد ) جانا ہوگا خدا کے حضور بیاید روز فیصل ہمچو برقے فیصلہ کا دن بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اچانک آ جائے گا فَلَا يَجِدُونَ مِنْ مُنْجِ وَوَاقٍ تب وہ کوئی نجات دہندہ اور بچانے والا نہ پائیں گے.نصیب شان شود خواری رسوائی و ذلت ان کے شامل حال ہو گی وَتُحْبَرُ فِي الْجِنَانِ مَعَ الرَّفَاقِ ذلت جب کہ (انشاء اللہ) ہم اپنے ساتھیوں سمیت عزت اور خوشیوں سے سرفراز کئے جائیں گے ایزد (264) جنگ ورزیدند کلام ظفر والله اللہ کی قسم! انہوں نے خدا سے جنگ چھیڑ دی ہے بايذاء الْوَلِي وَبِالشَّقَاقِ اللہ کے ولی کو دکھ دے کر اور اس کی مخالفت کر کے سُوئے جنُوں منشوب گہے کردند کبھی تو اس ولی اللہ کی طرف پاگل پن منسوب کرتے ہیں وَطَوْرًا يَنْسِبُونَ إِلَى الْمِرَاقِ اور کبھی اس کی طرف مالیخولیا ہو جانا منسوب کرتے ہیں.قسم بخدا که صادق هست احمد اللہ کی قسم! احمد (القادیانی) صادق ہے إلى رَبِّ الْعُلَى نِعْمَ الْمَرَاقِي اور خدا تعالیٰ کے حضور بہترین بلند درجات پانے والا ہے.علاج درد فرقت احمدیت خدا تعالیٰ سے دوری کے مرض کا علاج احمدیت ہے لتُنْجِيْنَا مِنْ أَحْزَانِ الْفِرَاقِ اور یقینا احمدیت ہی ہمیں خدا سے دوری کے غموں سے بچالے گی

Page 141

پیامِ وصل احمدیت ہی محبوب 265 جاناں کلام ظفر احمدیت ملنے کا پیام ہے تُبَشِّرُنَا بِرَيْحَانِ التَّلَا فِي جو ہمیں تعلق باللہ کی معطر خوشخبری دے رہی ہے جہانے شد انوارش منور ایک جہان اس (احمدیت) کے نوروں سے منور ہو گیا ہے يصُبْحِ يَنجَلِي لَيْلُ الْفِرَاقِ (خدا سے) دُوری و جدائی کی رات (احمدیت ) کی صبح سے جلوہ افروز ہو گئی ہے.ميا نزدیک من آے زال دنيا اے دنیا دار شخص میرے قریب مت آ فَلَسْتُ بِرَاجِعِ بَعْد الطلاق کیونکہ میں چلا جانے کے بعد واپس لوٹنے والا نہیں ہوں ظفر گر ہوش میداری ظفر اگر تو سمجھدار ہے تَوَكَّلْ تو تو توکل علَى اللهِ الَّذِي حَتَّى وَبَاقٍ اس اللہ پر جو حی و قیوم اور باقی رہنے والا ہے.روزنامه الفضل لاہور 9 اگست 1952ء صفحه (2) 266 کلام ظفر اقبال کی ایک فارسی غزل عربی لباس میں از چشم ساقی مست شرابم وَسَاقٍ عَيْنَهُ مِنْهَا سَكِرْتُ میں تو ساقی کی آنکھوں سے شراب پی کر مست اور کئی ایسے ساقی ہیں کہ اس کی آنکھ کی جھلک سے میں ایسی مستی کا شکار ہو گیا ہو گیا چور ہو گیا بے کے خرابم بے مے خرابم كَانِي قَدْ شَرِبْتُ وَمَا شَرِبْتُ میں (ظاہری) شراب پیئے بغیر ہی نشہ میں چور گویا کہ میں نے شراپ پی ہوئی ہے حالانکہ میں نے شراب نہیں پی شو قم فزوں تر از بے حجابی وَتَذْكُوْ نَارُ شَوْقِي بِالْوِصَالِ اس (محبوب) کے بے حجاب ہو کر میرے سامنے اور میرے عشق و شوق کی آگ اُس کے آنے سے میرا شوق جنوں مزید تیز ہو گیا وصال سے بھڑک اٹھی.بینم نه بینم در پیچ و تابم فَلِي قَلَقْ دَنَوْتُ أَمْ نَأَيْتُ میں اس کو دیکھوں نہ دیکھوں ، دونوں صورتوں میں اُس کے قرب کو پاؤں یا اس سے دور میں بے چین رہتا ہوں رہوں میں بے چینی اور قلق سے دو چار ہوں.چون رشته شمع آتش بگیرد كَخَيْطِ الشَّمْعِ يَذْكُو الْوِتْرُ نَارًا جس طرح شمع کا دھاگا آگ سے جل اٹھتا شمع کے دھاگہ کی طرح میرا رشتہ جان ہے.( یعنی دل ) جل اٹھتا ہے.

Page 142

267 کلام ظفر از زخمه من تار ربابم إِذَا عُوْدِي بِمِضْرَا بِي ضَرَبْتُ (اسی طرح) میرے مضراب سے رباب کے جب بھی اپنی بانسری کو چھیڑتا ہوں تو وہ تار فریاد کرنے لگتے ہیں درد بھرے راگ الاپنے لگتی ہے از من پرُوں نیست منزل گهِ من قَرِيبْ مَنْزِلِي مِنِّي وَلَكِنْ میری منزل (عشق ) مجھ سے باہر تو نہیں میری منزل قریب ہے لیکن من بے نصیبم را بے نیابم أنَا الْمَحْرُوْمُ نَهْجِي مَا وَجَدْتُ لیکن میں بدقسمت ہوں کہ مجھے کوئی راستہ میں بے نصیب ہوں مجھے میرا راستہ نہیں مل رہا سمجھائی نہیں دیتا جب تک مشرق سے سورج طلوع نہیں ہوتا تا آفتابی خیزد ز خاور لِكَيْمَا تَطْلُعَنْ شَمْسَ بِأَفْقِ جب تک سورج اُفق سے طلوع نہیں ہوتا مانند انجم بستند خوابم مِثَالَ النَّجْمِ مِنْ نَوْمِي حُرِمْتُ ستاروں کی طرح مجھے جگا رکھا ہے ستاروں کی مانند میں بھی سونے سے محروم رہتا ہوں 268 کلام ظفر وَدَعْ كُلَّ هَدْيِ بَعْدَ هَدْيِ مُحَمَّدٍ وَ أَقْبِلُ إِلَى الْإِسْلَامِ تَنْجُ وَتُغْفَرٍ

Page 143

269 عربی کلام کلام ظفر 270 کلام ظفر لاولاد من شَهُ أَرَادَ

Page 144

271 کلام ظفر (272 کلا ظفر قَصِيدَةٌ عَرَبَيَّةٌ فى مَدحِ الْقُرآنِ الكَرِيمِ تَلوتُكَ يَا قُرآنُ يَا نُورَ مُهْجَتِي اسے قرآن ! اے میری جان کے ٹور! میں نے تیری تلاوت کی.فَإِنَّكَ رَيْحَانِي وَ رَوْحِي وَجَنَّتِي یقینا تو ہی میری خوش بو ہے اور میری راحت اور میری جنت ہے أرى فِيْكَ نُورًا لَيْسَ يُمْكِنُ وَصْفُهُ میں تجھ میں ایک ایسا نور دیکھتا ہوں جو نا قابل بیان ہے تقربِه عَيْنِي وَتَهْتَزُّ نَسْبَتِي اس سے میری آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں اور میری رُوح وجد میں آجاتی ہے فلولا هُدَاكَ مَا عَرَفْنَا إِلهَنَا اگر تیری راہنمائی نہ ہوتی تو ہم اپنے معبود کونہ پہچان سکتے فَمَا أَنتَ إِلَّا مِنْهُ فَيُضَانُ رَحْمَةٍ سو تو اُس کی طرف سے فیضانِ رحمت ہے لَقَد كَانَتِ الْأَرْوَاحُ قَبْلَكَ فِي الدُّجى تیرے نزول سے پہلے روھیں تاریکی میں تھیں فَجَليتَهَا عَنْ دُخْتِهَا فَتَجَلَّتِ پس تو نے اُن کو دھوئیں سے نکالا اور وہ چمک اُٹھیں كَشَفْتَ عَنِ الْأَذْهَانِ أَسْتَارَ غَفْلَةٍ تو نے ذہنوں سے غفلت کے پردے اُٹھا دیئے وَجَلَّيْتَ لِلْإِنْسَانِ نُورَ الْحَقِيقَةِ اور تُو نے انسان کے لئے نورِ حقیقت کو نمایاں کیا ا إنسان العيون

Page 145

(273 فَكَمْ مِنْ عُلُومٍ قَدْ كَشَفْتَ غِطَاءَهَا کتنے ہی علوم ہیں جن پر سے تو نے پردہ اُٹھایا وَكَمْ مِنْ نِكَاتٍ قَد أَرَيْتَ بِايَةٍ اور ایک ایک آیت میں کتنے ہی نکات تو نے دکھا دیئے فَكَيْفَ يفكر وَالتَّهَكُرُ نِعْمَةً پس تیرا شکر کیونکر ہو اور شکر اپنی ذات میں ایک انعام ہے فَتَحْتَ عَلَيْنَا بَابَ عِلْمٍ وَحِكْمَةٍ تُو نے ہم پر علم وحکمت کا دروازہ کھول دیا فَمَا زِلْتَ يَا قُرآنُ رَاحِي وَنَشْوَتِي کلام ظفر سوائے قرآن ! تو ہمیشہ میرے لئے کیف اور شراب کی طرح ہے وَمَا دُمْتُ حَيًّا دُمْتَ نُورًا لِمُهْجَتِي اور جب تک میں زندہ ہوں تو ہی میرے لئے نورِ جان ہے (ماہنامہ الفرقان سالانہ نمبر نومبر، دسمبر 1951 ء صفحہ 51) 274 60 قَصِيدَةً عَرَبَيَّةً کلام ظفر فِي مَدْحِ الْقُرآنِ الكَرِيمِ آيَا مَنْ أَحَاطَ الْكَائِنَاتِ بِرَحْمَةٍ اے وہ ذات جس نے تمام کائنات کا اپنی رحمت سے احاطہ کیا ہوا ہے وَاحْيَا قُلُوبَ الْعَاشِقِينَ بِجَلُوَة اور جس نے عاشقوں کے دلوں کو ایک جلوہ سے زندہ کر دیا فَلَوْلا تَجَلِيكَ الْمُسَاعِدُ رَبَّنَا اے ہمارے رب ! اگر تیری تجلی ہماری دست گیری نہ کرتی لكُنَّا حَيَارَى فِي غَيَاهِبِ ظُلُمَةٍ تو ہم تاریکیوں میں حیران و پریشان بھٹک رہے ہوتے

Page 146

275 لَذَابَ الْمُحِبُّوكَ الْمَسَاكِينُ كُرْبَةٌ تیرے مسکین عاشق بے چینی سے پگھل جاتے إذَا لَمْ تُدَارِكُهُمْ بِلُطفِ الرِّسَالَةِ اگر تو اپنے پیغمبر بھیج کر اُن کا تدارک نہ کرتا وَأَنْزَلْتَ قُرْآنًا عَظِيمًا بِرَحْمَةٍ تو نے اپنی رحمت سے قرآنِ عظیم کو نازل فرمایا وَنَجَيْتَ خَلْقَكَ مِنْ ظَلَامِ الضَّلالة اور تو نے اپنی مخلوق کو گمراہی کی تاریکی سے نجات دی وَأَوْدَعْتَ فِيْهِ كُلَّ عِلْمٍ وَحِكْمَةٍ کلام ظفر تو نے قرآن حکیم میں ہر علم و حکمت رکھ دی وَفَضَّلْتَ تَفْصِيلَ التَّقَى وَالْهِدَايَةِ اور تقویٰ اور ہدایت کے تمام امور کھول کر بیان کر دیئے فَأَنجَيْتَنَا مِنْ كُلِّ مَا هُوَ مُهْلِكَ پس تو نے ہلاک کرنے والی ہر بات سے ہمیں نجات دی وَبَصَرتَنَا نَهْجَ الْهُدَى وَالسَّلَامَةِ اور تو نے ہمیں ہدایت اور سلامتی کا راستہ دکھایا 276 يُسمّونَ بِالنَّاسِ وَلَا أُنسَ بَيْنَهُمُ کلام ظفر لوگوں کو اُنس کی وجہ سے انسان کہا جاتا ہے جب کہ ان میں باہم محبت نہیں رہی يمزقُ كُلُّ غَيْرَهُ كَالْفَرِيسَة ہر کوئی دوسرے کو شکار کی طرح چیر پھاڑ رہا ہے وَانْزَلْتَ ذَا الْقُرْآنَ نُورًا وَحِكْمَةً تو نے اس قرآن کو بطور نور و حکمت نازل کیا وَ أَحْيَيْتَ اَمْوَاتَ الْقُرُونِ بِجَلوَة اور تو نے ایک ہی جلوہ سے صدیوں کے مردوں کو زندہ کر دیا إذَا مَا طَلَبتَ الْخَيْرَ فَالْخَيْرُ عِنْدَهُ اے دوست جب تو خیر کا طالب ہو تو خیر اسی کے پاس ہے الا إِنَّهُ مِفْتَاحُ خَيْرٍ وَبَرَكَة یا درکھو کہ وہ خیر و برکت کی کلید ہے وَمَا إِنْ مَدَحْتُكَ يَا حَبِيبُ بِكَلِمَتِي اے میرے محبوب اگر میں نے اپنے کلام سے تیری کوئی تعریف کی ہے ولكن يمدحِكَ قَد مَدَحْتُ قَصِيدَتِي تو وہ میں نے تیری تعریف سے اپنے قصیدے کی تعریف کی ہے (ماہنامہ الفرقان جنوری، فروری 1952 ، صفحہ 40)

Page 147

(277 کلام ظفر ترجمه اشعارسیّد نا حضرت بانی جماعت احمدیہ 1- جمال وحسنِ قرآں نورِ جانِ ہر مسلماں ہے ثمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے اِنَّ الْكِتَابَ فَحُسْنُهُ وَجَمَالُهُ هُوَ نُورُ مُهْجَةٍ مُسْلِمٍ وَهِلَالُهُ بَدْرُ الْخَلَائِقِ بَدُرُهُمْ لَكِنَّنا بدرُ لَّنَا قُرانُنَا وَجَمَالُهُ نظیر اُس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے فَلَقَدْ نَظَرْتُ فَمَا وَجَدتُّ نَظِيرَةً آلى النظيرُ وَذَا الْمَقَالُ مَقاله 278 - بہار جاوداں پیدا ہے اُس کی ہر عبارت میں کلام ظفر نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اُس سا کوئی بستاں ہے انْظُرْ تَجِدُ فِي اللَّفْظِ بَهْجَةً نَضْرَةٍ مَا لَيْسَ يُوجَدُ فِي الرِّيَاضِ مِقَالة - کلامِ پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز اگر ٹو ٹوئے عثماں ہے وگر لعلِ بدخشاں ہے قَوْلُ الْمُهَيْمِنِ لَا يُشَابِهُ حُسْنَهُ لَؤْلُؤُ عَمَّانٍ وَلَا أَمْثَالُهُ ۵- خُدا کے قول سے قول بشر کیوں کر برا بر ہو وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہے ما كَادَ إِنْسَانُ يُعَارِضُ لَفَظَهُ آيْنَ الضَّعِيفُ مِنَ الْقَدِيرِ وَحَالُهُ

Page 148

279 کلام ظفر بمناسبة ورُودِسَيِّينَا أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ رضي الله عنه بِقَرْيَةِ أَحْمَدَ نَغَرَ (وَقتَ المَسَاءِ ) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی احمد عمر کے گاؤں میں بوقت شام تشریف آوری يَا أَرْضَ قَرْيَتِنَا الصَّغِيرَةِ أَسْلِمِي اے ہماری چھوٹی سی بستی ! تم سلامت رہو وعمى مَسَاءً يَا سَعِيدَةُ وَانْعِمِي اے خوش نصیب بستی ! تجھ پر شام کا سلام اور تم خوشحال رہو.وَضَعَ الْأَمِيرُ عَلَى تُرَابِكَ رِجْلَهُ امیرالمومنین نے تیری سرزمین پر اپنا قدم رکھا ہے فَتَلالاً اللَّدَاتُ مِثْل الأنجم تو تیرے ذرات ستاروں کی مانند چمک اٹھے ہیں 280 كَمْ مِنْ مَّسَاء قَد رَأَيْتَ مُرُورَة تو نے کئی شا میں اپنے پر گزرتی دیکھی ہیں هَلْ فُزْتِ قَط بِمِثْلِ هَذَا الْمَقْدَمِ کلام ظفر لیکن کیا تو کبھی اس قسم کی مبارک تشریف آوری سے سرفراز ہوئی ہے؟ رُدَّتُ إِلَيْكِ الشَّمْسُ بَعْدَ غُرُوبِهَا اے بستی ! سورج غروب ہونے کے بعد دوبارہ تیری طرف لوٹا دیا گیا ہے ( یعنی سید نامحمود کی صورت میں ) وَاللهِ إِنَّكِ ذَاتُ حَقٌّ أَعْظَمِ اللہ کی قسم! تو سب سے بڑھ کر خوش نصیب ہے.يَا قَلْبُ صَبْرًا لَا أُحِبُّكَ شَاكِيًا اے میرے دل ! تو صبر سے کام لے.مجھے تمہارا شکوہ کرنا پسند نہیں أَنظُنُ أنَّ اللهَ لَيْسَ بِعَالِمِ کیا تو گمان کرتا ہے کہ اللہ تیری قلبی کیفیت سے واقف نہیں؟

Page 149

281 اللهُ يَعْلَمُ مَا تُكِن صُدُورُنَا کلام ظفر اللہ تعالیٰ ہمارے سینوں کے چھپے ہوئے جذبات سے خوب آگاہ ہے ما كان مُطلِعَ السَّرَائِرِ ادمي لیکن ایک انسان پوشیدہ اسرار پر مطلع نہیں ہو پاتا.اجَزِعْتَ يَا مِسْكِينُ إِنْ لَّمْ تَسْعُدِ اے مسکین ! کیا تو بے چین ہو گیا ہے؟ کہ يخطَابِ سَيْدِكَ الْعَزِيزِ الْمُكْرَمِ تو اپنے معزز، مکرم آقا کے مخاطب ہونے کی سعادت نہ پاسکا اتظُنُّ أَنَّكَ مُسْتَحِقُ كَلَامِهِ کیا تو گمان کرتا ہے کہ تو اس کے مخاطب ہونے کا اہل تھا كَيْفَ الْكَلَامُ وَأَنْتَ لَمَّا تَكَلَّمِ وہ تجھ سے کیسے بات کرتا جبکہ تو خود ہی نہیں بولا 282 يَا مَنْ أَرَى يُحْيِي النُّفُوسَ كَلَامُهُ اے وہ عظیم ہستی ! جس کا کلام نفوس کو ایک نئی زندگی بخشتا ہے لا تُحْرِمَن عَنِ الْكَلَامِ وَكَلِّمِ تو مجھے اپنے کلام سے محروم نہ رکھ اور ضرور کچھ گفتگو فرمائیے نَفْسِى فَدَتُكَ أَلَسْتَ تَعْلَمُ انَّنِي میری جان آپ پر قربان! کیا آپ کو معلوم نہیں ؟ مُصْغِ إِلَيْكَ وَنَاظِرُ نَحْوَ الْفَمِ میں ہمہ تن گوش ہوں اور آپ کے منہ کی طرف ہی دیکھ رہا ہوں کلام ظفر ( روزنامه الفضل 15 اپریل 1949ء ربوہ نمبر صفحہ 2)

Page 150

283 کلام ظفر (284) کلام ظفر التَّرْحِيبُ.استقباليه قصيده بِوُرُود امير المؤمنين بَعْدَ سَفَرِهِ إِلَى بِلَادِ اَوْرُبا یورپین ممالک کے سفر سے حضرت خلیفہ المسیح کی واپس آمد پر أهْلًا وَسَهْلًا مَرْحَبًا يؤرُودِكُمْ آپ کی آمد پر ہم اھلا و سھلاً و مرحبا کہتے ہیں! ا لأَرْضُ مُشْرِقَةٌ بِنُورِ سُعُودِكُمْ ارضِ (ربوہ) آپ کے ڈرو مسعود سے (خوشی سے) چمک اُٹھی ہے وَآمِيرَنَا وَحَبِيبَنَا أمَامَنَا اے ہمارے امام، اے ہمارے امیر اور اے ہمارے حبیب! انا وَجَدْنَا رُوحَنَا بِوُجُودِكُمْ آپ کے ہمارے درمیان موجود ہونے سے ہمارے جسموں میں جان پڑ گئی ہے الشرورُ عَنِ الْقُلُوبِ بِبُعْدِكُمْ آپ سے دوری کے باعث ( ہمارے ) دلوں سے سب خوشیاں جاتی رہیں وَالْيَوْمَ ابَ سُكُونَها بِشُهُودِكُمْ آج آپ کے واپس تشریف لانے سے ہمارے دلوں کا سکون واپس لوٹ آیا قَرَّتُ عُيُونُ الْمُسْلِمِينَ بِلَحْظِهَا مسلمانوں کی آنکھیں اُسے یہ دیکھ کر ٹھنڈی ہو گئیں آن قد نَزَلْتُمْ فِيهِمْ بِوُفُودِكُمْ کہ آپ نے اپنے وفد سمیت اُن کے درمیان و رو دفرمایا.فَالحَمدُ لِلَّهِ الْمُحَافِظِ عَبْدَهُ تو یہ سب اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ اپنے بندہ کا محافظ رہا.إذْ قَد وَقَاكُمْ شَرِّ كُلِّ حَسُودِكُمْ کہ اُس پاک ذات نے آپ کو حاسدین کے شر سے بچایا

Page 151

285 وَالشُّكُرُ لِلَّهِ الْمُبَرِءِ جِسْمَكُمْ کلام ظفر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے آپ کے وجود کو کامل شفا عطا فرمائی مِن كُلِّ دَاءِ مَانِعِ لِهجُودِكُمْ ہر ایک ایسی بیماری سے جو آپ کی شب بیداری میں رکاوٹ بن رہی تھی يَا أَهْلَ أُورُبَّا جَاءَ وَقْتُ حِسَابِكُمْ اے اہل یورپ ! تمہارے محاسبہ کا وقت آن پہنچا.فَسَتُؤْخَذُنَ عِمَالِكُمْ وَجُنُودِكُمْ عن قریب تم اپنے مال و دولت اور لشکروں سمیت پکڑے جاؤ گے يَا أَهْلَ أُورُيَّا أَسْلِمُوا كَى تَسْلَمُوا اے اہل یورپ ! تم اسلام قبول کر لو تا کہ بچ جاؤ.اِنَّ الْعَذَابَ مُوَكَّلَ بِصُدُودِكُمْ يقيناً عذاب آنے کا دارو مدار تمہارے (اسلام سے ) اجتناب پر ہے فَلَقَد شَبِعْتُمْ مِن مَوَائِدِ كُلِّهَا تم یقینا ہر طرح کے دنیوی دستر خوانوں سے سیر ہو چکے ہو فالان سَاعَةُ اِنْتِكَاسِ جُدُودِكُمْ اب تمہارے نصیبوں کے الٹ جانے کی گھڑی آگئی ہے 286 فَتَعَالَوْا فِي حِصْنِ الْآمَانِ تَسْلَمُوا پس تم امان کے قلعے میں آ جاؤ تا کہ سلامت رہو.اِنَّ الْمُهَيْمِنَ غَائِظٌ لِبُعُودِكُمْ کلام ظفر (اسلام کا ) نگہبان خدا تمہارے انکار کی وجہ سے غضب ناک ہو رہا ہے مَا مِنْ مُنَجٌ بَعْدَ أَحْمَدَ فِي الدُّه لَى دنیا بھر میں احمد کے سوا کوئی نجات دہندہ نہیں.هَلْ تُؤْمِنُونَ بِعَبْدِهِ مَوْعُودِكُم پس تم اللہ کے بندے مسیح موعود پر ایمان لے آؤ ؟ ان السَّلامَةَ كُلَّهَا فِي دِينِيا کیوں کہ ہر طرح کی سلامتی صرف ہمارے دین اسلام میں ہی ہے وابغوا السَّلَامَةَ مِن يَدّى مَحْمُودِكُمْ پس (اے اہل یورپ) یہ سلامتی اب اپنے محمود ( خلیفہ ثانی) کے ہاتھوں پر بیعت کر کے طلب کرو.يا ال احمد أَشْكُرُوا نُعَبَانَه اے آل احمد ! اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر بجالاؤ بِقِيَامِكُمْ وَرُكُوعِكُمْ وَسُجُودِكُم اللہ تعالیٰ کے حضور نمازوں میں قیام رکوع اور سجدوں کے ذریعے

Page 152

287 کلام ظفر 288 کلام ظفر هذِي الْقَصِيدَةُ صُغُتُ اهْدَاء لَكُمْ یہ قصیدہ میں نے آپ کے حضور ہدیہ پیش کرنے کیلئے تیار کیا ہے إن تَقْبَلُوا فَقُبُولُهَا مِنْ جُودِكُم اگر آپ یہ قبول فرما لیں تو آپ کا یہ قبول کرنا آپ کی عنایت ہوگی.روزنامه الفضل 20 ستمبر 1955 ء صفحه 3) الدعاء بحضرة البارى فى حق سيدنا خلیفة المسیح الثانى دعا برائے صحت یابی حضرت مصلح موعود يَا رَبِّ مَتِّعْنَا بِطُولِ حَيَاتِهِ مَنْ كَانَ مَحْمُودًا بِحُسْنِ صِفَاتِهِ اے اللہ! تو اس وجود کی درازی عمر سے ہمیں بہرہ ور فرما جو اپنے حسن صفات کے باعث محمود ہے.مَنْ لَيْسَ يَبْغِي غَيْرَ وَجُهِكَ رَبَّنَا مِن نُسُكِهِ وَصِيَامِهِ وَصَلَاتِهِ اے اللہ ! یہ وہ ہے جو سوائے تیری رضا جوئی کے اپنی عبادت اور صوم وصلوٰۃ سے اور کچھ نہیں چاہتا.

Page 153

289 مَنْ هَمُّهُ ارْوَاءُ بُسْتَانِ الْهُدَى مِنْ مَاءٍ مُزْنِ الحُبِّ أَوْ عَبْرَاتِهِ کلام ظفر اس کو محض یہ فکر دامن گیر ہے کہ کسی طرح محبت کے بادلوں اور اپنے اشکوں سے امت کے باغ کو سیراب کر دے مَن فِي الشَّجَاعَةِ وَالْحَمَاسَةِ أَسْوَةٌ لوفاة دِينِ مُحَمَّدٍ وَحُمَاتِهِ جو حامیان دینِ محمدؐ کے لئے اپنی شجاعت اور بہادری میں بہترین نمونہ ہیں.يحيى حَمَى الدِّينِ الْمَتِينِ يَمَالِهِ وَلِسَانِهِ وَبِبَثْلِهِ صِحَاتِهِ جو دینِ متین کی اپنی جان و مال اور زبان کے ساتھ حمایت کر رہے ہیں.اني آرَاهُ مُشَابِهًا يَمَسِيحِنَا في حُسْنِ سِيرَتِهِ وَفِي عَادَاتِهِ میں انہیں حسن سیرت اور اخلاق و عادات میں اپنے مسیح کے مشابہ پاتا ہوں.وَنَظِيرَة فِي حُسْنِه وَجَمَالِهِ ومَئِيلَةَ فِي حِلْمِهِ وَانَاتِهِ نیز انہیں حسن و جمال اور علم اور برد باری میں بھی آپ کا مثیل پاتا ہوں.(290 أأَنتَ الْآنَ تُنْكِرُ شَأْنَهُ وَعَرَفْتَهُ مِنْ قَبْلِ ذَا بِصِفَاتِهِ کلام ظفر کیا اب تو اُن کی شان سے منکر ہے حالانکہ اس سے پہلے تو اُن کی صفات کا معترف تھا.أَنْتَ الَّذِي قَدْ قُلْتَ فِيْهِ مُقَرَّظًا لِمَسِيحِنَا ذَا الْإِبْنُ مِنْ آيَاتِهِ تو وہی تو ہے جس نے اُن کی زندگی میں تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسیح موعود کا یہ فرزند آپ کے نشانات میں سے ہے.فالان لِمَ غَادَرُتَهُ يَا ابْنَ الْجَفا وَأَقَمْتَ نَفْسَكَ فِي صُفُوفِ رُمَاتِهِ پس آے جفا کار! اب تو اُن کو کیوں چھوڑ گیا ہے اور اپنے آپ کو اُن کے طعنہ زنوں کی صفوں میں کیوں کھڑا کر لیا ہے؟ اتظُنُّ نَفْسَكَ بِالْخِلَافَةِ أَجْدَرًا کیا تو اپنے آپ کو خلافت کا اہل سمجھتا ہے ان عِندَكَ الْبُرْهَانُ كَانَ فَهَاتِهِ اگر تیرے پاس کوئی دلیل ہے تو اُسے پیش کر ( مطبوعہ الفضل قادیان 21 دسمبر 1933 ، صفحہ 2)

Page 154

291 کلام ظفر 292 کلام ظفر صَوتُ السَّمَاء آسمانی آواز عبد هذه الأبيات الفريدة تعريب منظوم من الأستاذ المولوى ظفر محمد ظفر (رحمه الله لقصيدة باللغة الأردية للاستاذ المنان ناهيد، ألفها بمناسبة إرساء حجر الأساس لمسجد بشارة في أسبانيا سنة ١٩٨٠ على يد حضرة الحافظ مرزا ناصر أحمد ( رحمه الله) الخليفة الثالث لسيدنا الإمام المهدى و المسيح الموعود عليه السلام ، وقد نُشرت القصيدة الأردية في جريدة " الفضل » (باكستان) في عدد ۲۴ ديسمبر ۱۹۸۰ء لقد كان للأُستاذ المولوى ظفر محمد ظفر يد طولى في اللغة العربية نظماً و نثراً، وقد عمل أستاذًا في الجامعة الأحمدية (معهد تأهيل الدعاة) بربوة.يا حبذا لو تفضل أحد الإخوة ذو الصوت العذب الأخاذ بقراءة القصيدة وإرسالها إلينا مسجلة في شريط.(مجلة التقوى مايو 1991ء ص 29) (التحرير) ترجمہ : حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالی خلیفہ مسیح الثالث نے 1980ء میں مسجد بشارت سپین کا اپنے دست مبارک سے سنگ بنیا درکھا.اس کی مناسبت سے محترم استاد عبدالمنان ناہید صاحب نے اردو میں قصیدہ تحریر فرمایا.جو الفضل پاکستان کے شمارہ 24 دسمبر 1980ء میں شائع ہوا.اس قصیدے کو محترم استاد مولوی ظفر محمد صاحب ظفر (رحمہ اللہ ) نے فصیح عربی زبان میں منظوم فرمایا یہ بے مثال اور منفرد اشعار ان کی تخلیق ہیں.محترم استاد مولوی ظفر محمد صاحب ظفر زبان عربی نظم و نثر میں ید طولیٰ رکھتے تھے.آپ جامعہ احمد یہ ربوہ کے طلبا کو زیور علم سے آراستہ کرتے رہے.( جو مبلغین تیار کرنے کا ادارہ ہے ) کیا ہی اچھا ہوا گر کوئی بھائی خوش لحن جادوئی آواز رکھنے والے وہ ہمیں اس عربی قصیدہ کو کیسٹ میں ریکارڈ کر کے از راہ کرم بھجوا دیں! (1) وَحَى السَّمَاءُ الا لا إله إلا الله فلک آئی صدا لا الله الا الله وَفِي الْقُلُوبِ سَرَى لَا إِلَهَ إِلَّا الله الله حریم دل نے سنا لا الہ الا (2) إذِ الْبِحَارُ بِرَقُصٍ تَمَةٍ جَتْ طَرَبَا محیط بحر کی موجوں نے ہم نوا ہو کر نشيد مجملها لا إله إلا الله ابھر ابھر کے کہا لا اله الا الله

Page 155

293 کلام ظفر (3) تَرَى الْفَضَاءَ طَرُوبًا بِحُسْنِ جَلْوَتِهَا رہا ہے خلاؤں میں ارتعاش اس کا وَلَحْنُ نَعْمَتِهَا لَا إِلَهَ إِلَّا الله 294 کلام ظفر (7) وَبَرُدُ شُعْلَةٍ نَارٍ وَذَبِّحُ إِسْمَاعِيلُ بہار آتش نمرود فَكَانَ أَصْلُهُمَا لَا إِلَهَ إِلَّا الله فضا ہے نغمه سرا لا اله الله جلال طور لا و حرا الا الله الله (4) مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ نَقْشُ قُدْرَتِهِ نظر میں حد نظر تک ہے ایک نقش رواں وَحُسْنُ لَهُجَتِهَا لَا إِلَهَ إِلَّا الله میان ارض سما لا الله الا الله (5) الا مَتَاعُ غُرُورٍ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا فتور و ہم و گماں اک جہانِ تیره شباں وَنُورُ فطرتها لا إله إلا الله ظہور نور ضيا لا اله الله (8) بناءُ مَعْرَكَةِ الْكَرْبَلاء إِذْ وَقَعَتْ حصول معركة وشت کربلا کیا تھا أكان شيئ سوى لا إلهَ إِلَّا الله تھا کچھ اس کے سوا لا الہ الا اللہ (9) مَقَامُ عَارِفِهِ بَيْنَ خِيفَةٍ وَرَجَا مقام بنده مومن میان بیم رجا وَكَانَ بَيْنَهُمَا لَا إِلَهَ إِلَّا الله الله مقام بیم (6) وَشَرفُ سَجدَةِ آدَم بِهذِهِ النَّغْمَهُ نغمہ سجدہ آدم کی رفعتوں کا نقیب عِلاج داء أنا لا إله إلا الله ساز ،، انا لا اله الله , رجا الا الله الله (10) صَعَالِك وَمُلُوكَ تَرى جَميعَهُمُ مکین قصر شبی یا فقیر خا نقهی لخَيْرِه فُقَرَاء لا إلهَ إِلَّا الله سب اس کے در کے گدا لا الہ الا الله

Page 156

295 کلام ظفر (11) عِقَارُنَا وَبَنُونَا مَتَى تُسَاعِدُنَا؟ عیال و اہل نہ علم و ہنر نہ مال و منال تَحلُّ إِلَهَ عُقدتنا لا إله إلا الله جو ہے تو عقدہ کشا لا اله الا الله (12) فَلَا آخَافُ عِتَابًا وَلَا أُرِيدُ رِضى غم عتاب خوشنودی جہاں نظر يما جننتُ أنا لا إلهَ إِلَّا الله مرے 296 کلام ظفر (15) هُوَ اللَّطِيفُ فَمَا مُبْصِرُ يَمُدُرِكه نکته کارگه کائنات کا مركز هُوَ الخَبِيرُ الا لا إله إلا الله فتا کی بنا لا الہ الا الله (16) آال فارس التَّوْحِيدَ شَأْنَكُمْ سنو تو فارس کے بیٹو! سنو خذوا التوحيد اتَأْذَنُونَ لَهَا لا إله إلا الله جنوں کی انا لا الله الا الله تمہیں حکم ہوا لا الله الا الله (13) فَلَسْتُ أطْلُبُ أَثْمَارَ جَنَّةٍ أَبَدًا بہار , رونق جنت نہیں ہے میری طلب نَعِيمُ جَنَّتِنَا لَا إلَهَ إِلَّا الله ملے تو حُسن عطا لا الله الا (17) لَكُمْ بِزُمْرَة مِنْ هَؤُلَاء رَابِطَةٌ تمہیں ہے زمرة من هؤلاء سے پیوند لاَنْتُمُ السُعَدا لا إله إلا الله الله تمہارا بخت رسا لا اله الا الله (14) په الحياةُ تَقُومُ وَمِنْهُ جَوْهَرُهَا وہی کا حیات لَهُ الْبَقَاءُ الا لا إله إلا الله (18) أَتَسْمَعُونَ نداء الْخَلِيفَةِ الثَّالِث جوہر وہی توانائی ظهور قدرت شانی کا تیسرا مظهر لا إله إلا الله وہی ہے زنده خدا لا اله الا الله لگا رہا ہے صدا لا اله الا الله نداء ناصِرِنا لا إله

Page 157

(297 کلام ظفر (19) مُبَارَكَ لَكِ انْدُلُسٌ تَجَدُّدُ الْعُهد 298 کلام ظفر (23) تَرَى ابْنَ مَرْيَمَ رَبِّ خَلِيقَةٍ سَفَها زاده مریم کی ہم سری کا خیال وَسَوْفَ تَترُكهَا، لَا إلَهَ إِلَّا الله دور تو مجھے ہسپانیہ مبارک ہو خدا بناء خدا الله دلوں إله إلا الله مَسْجِدِنَا لا إله کے گھر کی بنا لا اله الا (20) أَأَرْضَ أَنْدُلُسَ بُشْرَى أَرَاكِ رَاجِعَةً زمین اندلس نے صدیوں کے انتظار کے بعد إلَى الزَّمَانِ مَتى لَا إِلَهَ إِلَّا الله سُنی بانگ درا درا لا اله الا الله (21) وَسَوْفَ تَطْلُعُ بِالْغَرْبِ شَمْسُ مِلَّتِنَا طلوع شمس کا مغرب کی وادیوں میں سماں وَشَمْسُ مِلَّتِنَا لا إله إلا الله بدل رہی ہے ہوا لا الله الله (22) مناظر يطلُوعِ السَّراج مُعْجِبَةٌ طلوع شمس هدای کے حسین نظاروں تُضِيئُ مَغْرِبَنَا لَا إِلَهَ الة الا الله ہو گا جدا لا اله الا الله (24) لَعَدُّ ذَرٍ رِمَالٍ رِمَالِ فَهَيْن فَهَيْن سَهْل جہاں کی ریت کے ذرے تو گن سکے گا جہاں عددا لا إله إلا الله وَمُعْجِز گن سکے گا صدا لا اله الا الله (25) وَ أَنْفُسُ اَنفَتُ ذِكرَ رَبَّهَا خدا کے نام بے زار آدمیت کے وَغَدًا تَكُونُ كَلِمَتُهَا لَا إِلَهَ إِلَّا الله لبوں الله ہو گی دُعا لا الم الا (26) بِفَيْضِ مَنْ هُوَ نُورٌ لِعَلَمِينَ تَرى میں بفیض ختم رُسُن اب تمام دنیا ساعتها لا إلهَ إِلَّا الله تُقِيمُ منور غرب ہوا لاالہ الا الله کرے گا حشر حشر بپا لا اله الا اللہ

Page 158

299 کلام ظفر (27) دِيَارَ انْدُلُسَ بُشْرَى تَعُودُ كَرتُنَا اے دیار اُندلس تجھے ہمارا لوٹنا مبارک ہو اور وَسَيْفُ كَرينَا لَا إِلَهَ إِلَّا الله اس دفعہ ہمارے حملے کی تلوار کلمہ شریف لا الہ الا اللہ ہو گی (28) أَطارِقُ ابْنُ زِيَادٍ أَتَى يُهَبِّئُكُمْ اور اے طارق بن زیاد کی روح تجھے ہمارے ناصر نداء ناصِرِنَا لا إله لا إله إلا الله لا الہ الا اللہ کی تہنیت پیش کرتے ہیں (اردو نظم مطبوعه الفضل جلسہ سالانہ نمبر 24 دسمبر 1980ء) نوٹ : 27 اور 28 نمبر کے عربی اشعار اور ان کا اُردو ترجمہ مولانا کی طرف سے اضافی ہے.مذکورہ بالا عربی قصیدہ حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے تحت ایم ٹی اے ربوہ نے بحوالہ 14-2-7081/1 مورخہ 2 فروری 2014ء کو ایم ٹی اے لندن کو اپ لوڈ کیا.300 کلام ظفر خیر مقدم حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب یہ میری سب سے پہلی عربی نظم ہے جو زمانہ طالب علمی میں میں نے کہی.محترم حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب سات سال تک دیار افریقہ میں فریضہ تبلیغ سرانجام دینے کے بعد وطن تشریف لائے تو اساتذہ و طلبا جامعہ احمدیہ قادیان نے اُن کو ایک استقبالیہ پارٹی دی.حضرت مصلح موعود اللہ تعالیٰ اُن پر راضی ہو بھی اس تقریب میں تشریف فرما تھے.جب یہ نظم پڑھی گئی تو حضور نے اس نظم کے بارہ میں ایک طویل تقریر فرمائی اور بے حد خوشی کا اظہار فرمایا.مجھے یاد ہے کہ اس تقریر میں حضور نے فرمایا میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہمارے جامعہ کا کوئی طالب علم ایسی فصیح و بلیغ سکتا ہے.تقریب کے خاتمہ پر جامعہ کے اساتذہ کو حاضرین نے بہت مبارکباد پیش کی.فالحمد اللہ علی ذلک هذه القَصِيدَةُ ( یہ قصیده) يحيى المُحْتَرَمِ ظَفَر محمد أَنْشَدَها في مدح مُبَيرِنا المكرم الحكيمِ فَضْل الرَّحْمن ہمارے پیارے محترم ظفرمحمد صاحب کا ہے.جو انہوں نے ہمارے مبلغ مکرم حکیم فضل الرحمن صاحب کی مدح میں پڑھا.حِينَ وَرَدَ قَادِيَانَ بَعْدَ إِمْضَائِهِ سَبْعَ سِنِيْنَ فِي أَفْرِيُقيهِ فِي مَجْلِسِ الشَّعْوَةِ الَّذِي جب وہ افریقہ میں سات برس گزارنے کے بعد قادیان وارد ہوئے اس دعوت کے موقع پر

Page 159

301 دعى فِيهِ هو وسَيْدُنا خليفةُ المَسِيحَ الثَّانِي کلام ظفر جس میں مکرم حکیم صاحب اور سید نا حضرت خلیلہ اسیح الثانی وغَيْرُهما مِنَ الإِحْبَابِ الكِرَامِ وَأَظْهَرَ سَيِّدُنَا المشرةَ له (المدير) اور دوسرے احباب کرام کو مدعو کیا گیا تھا.اور حضور نے یہ قصیدہ سُن کر ظفر صاحب کے متعلق خوشی کا اظہار فرمایا.(مدیر) قَفَلَ الْمُبَشِّرُ فَائِزًا مَنصُورًا مبلغ اسلام کامیاب و کامران واپس آگئے ہیں يَارَب فَاجْعَلْ سَعْيَهُ مَشْكُورًا یا اللہ ! تو اُن کی مساعی کو منظور و قبول فرما رجَعَ الْمُبَلِّغُ بَعْدَ عَامٍ سَابِحٍ مبلغ محترم قریباً سات سال کے بعد واپس آئے ہیں أَو نِيفَ هَذَا مَا عَدَدْتُ شُهُورًا یا اس سے کم و بیش میں نے مہینوں کو شمار نہیں کیا 302 كُلُّ يُسَابِقُ غَيْرَهُ لِلقَائه سب ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر آپ سے مل رہے ہیں كُل يُبَادِرُ نَحْوَهُ لِيَزُورًا کلام ظفر اور سب آپ کی زیارت کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے ہیں فَصَغِيرُنَا وكَبِيرُنَا لِمَجِيئه پس ہم میں سے ہر چھوٹا بڑا آپ کی آمد کی وجہ سے كُلا تَرَى مُسْتبْرًا مَسْرُورًا آپ سب کو خوش باش اور مسرور دیکھ رہے ہو.الْيَوْمَ يُكْرَمُ كَالْمُلُوكِ لِسَعْيِهِ آج اُن کی مساعی کی بدولت اُن کا شاہانہ استقبال کیا جارہا ہے وَغَدًا سَيُوهَبُ جَنَّةً وَقُصُورًا اور کل انہیں انشاء اللہ جنّت اور محل دئے جائیں گے

Page 160

303 أَمُجَاهِدَ الْإِسْلَامِ أَنْتَ مُعَظَّمُ اے مجاہد اسلام ! ہم آپ کی تعظیم اور احترام کرتے ہیں فِينَا وَنَشْكُرُ سَعْيَكَ الْمَبْرُورا اور آپ کی حسن مساعی کی وجہ سے آپ کے شکر گزار ہیں أُرْسِلْتَ مِنْ خَلَفِ الْمَسِيحِ وَنَحْلِهِ کلام ظفر آپ مسیح موعود کے خلیفے اور بیٹے کی طرف سے اُن لوگوں کی طرف نحوَ الَّذِينَ غَوَوُا وَكَانُوا بُوْرًا گئے جو بھٹکے ہوئے اور تباہ ہو رہے تھے كانوا قُبَيْلَكَ مِثْلَ مَيْتٍ ذِلَّةً وہ آپ سے پہلے ذلت کے باعث ایک مردہ کی طرح تھے يَتَزَايَدُونَ مَزَلَّةً وَعُفُورًا اور اپنی لغزش اور پھسلا ہٹ میں بڑھتے ہی جا رہے تھے 304 فَهَدَيْتَهُمْ وَارَيْتَهُمُ سُبُلَ الْهُدَى کلام ظفر پس آپ نے اُن کی راہنمائی فرمائی اور اُن کو ہدایت کے راستے دکھائے وَحَشَرُ تَهُمْ وَنَفَخْتَ فِيهِمْ صُورًا پھر انہیں جمع کر کے اُن میں صور پھونک دیا وجنَّبتَهُمْ نَحوَ الإِلَهِ وَدِينِهِ آپ نے انہیں خدائے واحد اور اس کے دین اسلام کی طرف کشش دلائی وَبِنُورِهِ نَورَّتَهُم تَنْوِيرًا اور اُس ( دین ) کے نور سے آپ نے انہیں خوب منور کیا و نَفَخْتَ فِيْهِمْ رُوحَ حُدٍ مُحَمَّدٍ اور آپ نے ان میں محمد مصطفی صلی نے یتیم کی محبت کی روح پھونک دی وَمَلَاتَ كُلَّا بَهْجَةً وسُرُورًا اور ان سب کو مسرتوں اور خوشیوں سے بھر پور کر دیا.

Page 161

305 علمْعَهُمْ أَرْكَانَ دِينِ الْمُصْطَفى آپ نے انہیں دین محمدی کے ارکان سکھلائے کلام ظفر ويمَائِهِ طَهَّرُتَهُمْ تَطْهِيرًا اور اس (دین) کے پانی سے دھو کر انہیں خوب پاک صاف کر دیا.صبحتَهُمْ كَأْسَ الْهُدَى وَغَبَقْتَهُمْ آپ نے انہیں صبح وشام ہدایت کا جام پلایا وَسَقَيْتَهُمْ بَعْدَ الْخُمُورِ جُمُورًا اور انہیں شراب پر شراب پلاتے رہے ما ذَلِكَ إِلَّا مِنْ فُيُوضِ مَسِيحِنَا یہ سب کچھ ہمارے اس مسیح کے فیض سے ہے ذُو كَانَ عَيْنًا لِلْآنَامِ وَنُورًا جولوگوں کے لئے سرچشمہ ہدایت اور نور ہیں 306 وَاللهُ يُعْطِي مَنْ يَشَاءُ وَيَمْنَعُ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے یا نہیں عطا کرتا.وَ عَطَاءُ رَبِّي لَمْ يَكُن مَحْظُورًا اور میرے رب کی عطا ہر گز محدود نہیں.أ مُجَاهِدَ الْإِسْلَامِ هَذَا فَضْلُهُ اے مجاہد اسلام ! یہ آپ پر محض اللہ کا فضل ہے فَعَلَيْكَ صَاحِ أَن تَكُونَ شَكُورًا سواے دوست! آپ کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوں کلام ظفر (رسالہ جامعہ احمدیہ قادیان جولائی 1930 ء صفحہ 56) ( نوٹ : پہلے ایڈیشن میں یہ قصیدہ نامکمل تھا.اب اسے مکمل شائع کیا جارہا ہے.)

Page 162

307 کلام ظفر 308 وَمَنْ كَانَ لِلهِ الْعَلِي سَيَغْلِبُ جو خدائے برتر کا ہے وہ ضرور غالب آئے گا الْمُبَارَزَةُ بَيْنَ الْكُفْرِ وَالْإِسْلَامِ (گفر و اسلام کی جنگ ) تَحَذِي الْكُفْرِ (گفر کا چیلنج ) الا ايُّهَا الْإِسْلَامُ : لَا تَتَبَخْتَرِ اے اسلام! تو ناز وادا چھوڑ دے ولا تَتَمَثَّ مِشْيَةَ الْمُتَكَير اور متکبرانہ چال نہ چل فَمَا أَنْتَ إِلَّا مِثْلُ شَيْحٍ مُّفَنَّدٍ تو ایک ایسے بڑھے کی طرح ہے جو حواس باختہ، ضَعِيفٍ فَقِيرٍ جَاهِلٍ وَمُحَقَّرٍ ضعیف، فقیر، جاہل اور حقیر فَمَا لَكَ مِنْ أَرْضِ وَلَا لَكَ جَنَّةٌ نہ تو تیرے پاس کوئی زمین اور نہ ہی کوئی باغ، وَلا لَكَ مِنْ حَوْضٍ وبرٍ وَجَعْفَرٍ حوض، کنواں یا نہر ہے وَلَا لَكَ مِنْ مَّالٍ وَلَا لَكَ عِزَّةٌ نہ تیرے پاس مال ہے، نہ عزت ہے وَلَا لَكَ مِنْ حِزْبٍ مُعِينٍ وَنَاصِرٍ اور نہ ہی تیرا کوئی یار و مددگار ہے وَلكِنَّنِي مِنْ فَضْلِ أَفْكَارِى الْعُلى لیکن میں اپنے بلند پایہ نظریات کی بدولت عَليْكَ يَقِينًا غَالِبٌ يَا مَفَاخِرِى یقینا تجھ پر غالب ہوں اے میرے مقابل فخر کر نیوالے! کلام ظفر

Page 163

309 المْ تَرَ قَد أُوتِيتُ عِنَّا وَشَوَكَةً کیا تو نے دیکھا نہیں کہ مجھے عزت و شوکت دی گئی ہے وَأُوتِيتُ مِن مَّالٍ وولد موقرٍ اور مجھے مال اور اولا د کثرت سے دی گئی ہے فَكَمْ لِي مِنْ أَرْضِ وَزَرْعٍ وَجَنَّةٍ دیکھ تو میرے پاس کتنی زمینیں ،کھیتیاں اور باغات ہیں وَكَمْ لِي مِنْ حَوْضٍ وَنَهْرٍ مُفَجِّرٍ اور کتنے میرے حوض اور چلتی ہوئی نہریں ہیں وَكَمْ لِى مِنْ قَصْرٍ مُّبِيْفٍ وَفِضَّةٍ اور کتنی میرے پاس شاندار کوٹھیاں ہیں اور وَكَمْ لِي مِنْ تِبْرٍ كَثِيرٍ مُّقَنْطَرٍ کس قدر میرے پاس ڈھیروں ڈھیر سونا چاندی ہے کلام ظفر 310 فَشَانَ مَا بَيْنِي وَبَيْنَكَ فِي الْعُلَى تیری اور میری بلندی میں بڑا فرق ہے فَلَسْتَ عَلَى هَزْلِي وَقَتْلِي بِقَادِرٍ سوٹو مجھے شکست دینے اور مجھے قتل کرنے پر قادر نہیں تَعَالَ إِلَى وَ اتْرُكِ الدِّينَ يَا أَخِي اے بھائی !تو دینِ اسلام کو چھوڑ اور میری طرف آکر وَكُنْ سَهِما بِي فِي العُلى وَالْمَفَاخِرِ میری بلند اور قابلِ رشک شان میں شریک ہو جا کلام ظفر وَإِنْ شِئْتَ حَرْبًا طَالِبَ الْمَوْتِ والرَّدى لیکن اے موت اور ہلاکت کے طالب ! اگر تو مجھ سے جنگ ہی کرنا چاہتا ہے فَبَارِزُ وَنَادِ مَنْ تُنَادِى لِيَنصُ تو میدان میں آ، اور جسے چاہے اپنی مدد کے لئے بلالے

Page 164

(311 کلام ظفر اغرك 312 کلام ظفر انك ذُو عِقَارٍ وَجَنَّةٍ کیا تم اس لئے مغرور ہو کہ تم جائیداد اور باغات والے ہو الْجَوَابُ مِنْ قِبَلِ الْإِسْلَامِ (اسلام کی طرف سے جواب ) آیا كُفْرُ مَهْلًا بَعْضَ هَذَا التَّكَبُر آے گفر ! متکبر جانے دے وَإِن كُنتَ قَد أَزْمَعْتَ حَرْبًا فَشَير اور اگر تو نے جنگ کی ٹھانی ہے تو اپنی آستینیں چڑھالے میلی آنبي في ملةٍ مَذَلَّةٍ اغرك کیا تو میرے بارے میں اس لئے دھوکے میں ہو کہ آج میں ذلت میں ہوں وَان قَد تَوَلَّتْ دَولَتِي مِثْلَ مُدْبِرٍ اور میرا شان و شوکت کا زمانہ منہ پھیر گیا ہے اغرك متى انَّنِي فِي مُصِيبَةٍ اور کیا تم اس لئے دھوکے میں ہو کہ آج میں مصیبت میں ہوں وَان قَد جَفَتْنِي أُسْرَتي وَعَشَائِرِى اور میرے خاندان اور قبیلے نے مجھ سے جفا کی ہے وَانَّكَ اور ذُو مَالٍ بڑے مالدار ہو الا لا وكلا انْتَ يَا غِرُ مُخْطِيُّ نہیں ، یہ بات ہر گز نہیں.اے نادان تو غلطی پر ہے فَلَن تَجْعَلَ اللهُ السَّبِيلَ لِكَافِرِ اللہ کبھی کسی کافر کو کامیابی کی راہ پر نہیں ڈالے گا فَإِنِّي وَإِن كُنْتُ الضَّعِيفَ لَقَادِرُ میں اگرچہ کمزور ہوں لیکن پھر بھی بفضل خدا على أخذ كُلِّ مُعَانِدٍ مُتَكَثِر اور متکبر کی گرفت پر قادر ہوں فَكُمْ مِّنْ ضَعِيفٍ سَلَّطَ اللهُ ضُعْفَة کتنے ہی کمزور ہیں کہ جن کی کمزوری کو اللہ تعالیٰ نے على قوة الْمُسْتَكْبِرِينَ الْجَبَابِرِ متکبروں اور جابروں کی طاقت پر غالب کر دیا ہر معاند اور

Page 165

اذا جب 313 مُسْلِم يدعو الالة کلام ظفر تَضَرُّعًا مسلمان خدا تعالیٰ کو عاجزی سے پکارتا ہے فَيُعطى قُوَى لَيْثٍ وَصَولَةً حَيْدَرٍ تو اُسے شیر کی سی طاقت اور حیدری حملہ عطا کیا جاتا ہے وَ مَن كَانَ لِلهِ تكانَ لِلهِ الْعَلِيِّ سَيَغْلِب سو جو خدائے برتر کا ہے وہ ضرور غالب آئے گا جَبَّارٍ عَنِيدٍ وَقَاهِرٍ على كُلّ ہر جبار معاند اور إليكَ فَإِنِّي فَإِنِّي لَسْتُ حمن يهوله سے نہیں ہوں جاؤ! جاؤ! میں اُن لوگوں میں سے جنہیں شُرُوعُ الرَّمَاجِ أَوْ وَمِيْضُ الْبَوَاتِرِ نیزوں کا حرکت میں آنا اور تلواروں کی چمک دمک ڈرا سکے وَكَيْفَ أَخَافُ مِنْ عَدُةٍ وَإِنَّنِي میں کسی دشمن سے کیونکر ڈر سکتا ہوں جبکہ لاَعْلَمُ أَنَّ الله درعى وَمِغْفَرِى مجھے معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ میری زرہ اور خود ہے (314) کلام ظفر فَيَا كُفَرُ دَعْ عَنْكَ الْفِخَارَ فَإِنَّهُ اے کُفر ! اس فخر کو جانے دے لقَد حَانَ وَقُتُ هَوَانِكَ الْمُتَقَرِرُ تیری ذلت کا مقررہ وقت آچکا ہے إذَا جَاءَ يَوْمُ اللهِ تُهْلَكُ بَغْتَةً جب خدا تعالیٰ کے عذاب کا دن آیا تو تو نا گہاں ہلاک کر دیا جائے گا وَتَصْلَى بِنَارٍ قَد أُعِدَّتُ لِكَافِرِ اور ایسی آگ میں جلے گا جو کافر کے لئے تیار کی گئی ہے فَإِن كُنتَ تَهْوَى أَنْ تَعِيْشَ مُخَلَّدا اگر تو چاہتا ہے کہ دائی زندگی پائے فَا مِن بِخَيْرٍ الانبياء الْمُوَقِّرِ تو صاحب عظمت سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی پر ایمان لے آ وَدَعْ كُلَّ هَدْيِ بَعْدَ هَدِي مُحَمَّدٍ اور حضرت محمد مصطفی کی ہدایت کے بعد ہر روش چھوڑ دے وَاقْبِلُ إِلَى الْإِسْلامِ تَنجُ وَتُغْفَر اور اسلام کی طرف متوجہ ہو تا کہ تو نجات پائے اور بخشا جائے

Page 166

الهي! الهي! 315 يا کلام ظفر محمد! الة اے میرے اللہ ! اے میرے اللہ !! اے الہ محمد ؟!!! الج أَصْل دِينِ الْكُفْرِ وَالْح وبتر تو کُفر کی بیخ کنی کر کے اُسے مٹا دے لَقَد جَاوَزَ الْمَاءُ الرُّؤُوسَ الهَنا! اے ہمارے خُدا! اب تو پانی سر سے گزر چکا ہے فإن كان في الْإِسْلَامِ حَقٌّ فَأَظهر اگر اسلام میں صداقت ہے تو اسے غلبہ عطا فرما مندرجہ بالا دلچسپ عربی قصیدہ مکرم مولوی ظفر محمد صاحب مولوی فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ نے ہندوستان کی موجودہ حالت کے متعلق تحریر کیا ہے.کفر جس طرح سے اسلام سے برسر پیکار ہے اور اسے چیلنج کر رہا ہے اس کا نقشہ کھینچ کر جناب مولوی صاحب نے اسلام کی طرف سے اس کا جواب دیا ہے اور سر زمین ہند میں اسلام کے مستقبل کا ذکر کیا ہے.یہ قصیدہ سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ کے ایک الہامی مصرع پر مبنی ہے.(ایڈیٹر ) روزنامه الفضل قادیان 30 جون 1947 ، صفحہ 2) 316 کلام ظفر آمِتْنِي فِي الْمَحَبَّةِ وَالْوِدَادِ وَكُنْ فِي هَذِهِ لِي وَالْمَعَادِ الہام حضرت بانی جماعت احمد یہ تذکرہ صفحہ 663 ایڈیشن چہارم 2004) ذیل کی نظم اسی الہام پر متضمن ہے جس کا آزاد اردو ترجمہ میرے ایک عزیز نے کیا ہے.تَمَكَّن حُبُّ حِثَّ فِي فُؤادِى کسی پیارے کی الفت دل نشین ہے وَدُونَ وَصَالِهِ خَرْطُ الْقَتَادِ مگر ملنا اُسے آسان نہیں ہے سَمِعْتُ مُنَادِيًا لَيْلًا يُنَادِي بوقت شب عنائیں نے منادی وَيُنذِرُ قَوْمَهُ فِي كُلِّ نَادِ نداء نے جس کی ہر محفل جگادی

Page 167

317 آيَا قَوْمِ اتَّقُوا يَوْمَ التَّنَادِى ارے لوگو! ڈرو روز جزا سے آفِيقُوا وَاتْرُكُوا دَأْبَ الْفَسَادِى اور آ ؤ باز ہر اک کج ادا سے وَتُوبُوا يَا أُولِي الْأَلْبَابِ تُوبُوا کرو تو به عزیز و! باز آؤ إلى اللهِ الَّذِي رَبُّ الْعِبَادِ فامنت خُد ا ناراض ہے اُس کو مناؤ به رَبِّ وَلكِن کہا لبیک میں نے بھی زباں سے بِقَلْبِ لَا يَرَى نَهْجَ الرَّشَادِ مگر لاتا دل دانا کہاں سے کلام ظفر 318 أَضَعْتُ الْعُمْرَ فِي لَهُرٍ وَلَعْبِ جوانی عیش و عشرت میں گنوادی هَائِما في كُلِّ وَادٍ بھٹکتا رہ گیا وادی به وادی قَرِيبًا كُنتَ يَا فِرْدَوْسَ رُوحِى میرے فردوس ! تُو نزدیک تر تھا اثرتُ النَّقْعَ بُطَلًا فِي الْبَوَادِى بلا حاجت رہائیں دشت پیما ظلمتُ النَّفْسَ نَاقَتَهَا عَقَرْتُ غلط رو ناقہ جاں رہ میں ہاری وَزَادِي قَد تَأْذَنَ بِالنَّفَادِ نہیں زاد سفر قسمت ہماری کلام ظفر

Page 168

کلا ظفر 319 انا المِسْكِينُ مَقْصُوصُ الْجَنَاج غریب و بے نوا بے بال و پر ہوں وَشَوقُكَ قَدْ نَقَى عَنِّي رُقَادِي جدائی میں تڑپتا رات بھر ہوں فَكَمْ مِنْ لَيْلَةٍ لَا نَوْمَ فِيهَا گزاریں میں نے یوں راتوں پر راتیں وَقَاسَيتُ السُّهَادَ عَلَى السُّهَادِ رہا کر تا ستاروں ہی سے باتیں فَهَلْ مِنْ حِيْلَةٍ تُنْجِي جَنَانِي در دولت پہ تیرے کیسے آؤں وتُدنِينِي بِبَابِكَ يَا مُرَادِى وہ کیا حیلہ ہے جس سے تجھ کو پاؤں کلام ظفر 320 تَعَالَ إِلَى يَا مَلَكَ الْمُلُوكِ عدوا اقلیم دل کرتا ہے ویراں وَاخْرِجُ مَنْ تَحَكَمَ فِي بِلادِى نکال آ کر اُسے اے شاہ شاہاں وَاشْعِلُ فِي جَنَانِي نَارَ حُبّ میرے دل میں تو آگ ایسی لگادے تُغادِرُ كُل نَارٍ كَالرِّماد جو ہر آتش کو خاکستر بنادے وهبي لي ودادًا مِنْ لَدُنْكَ عطا کر وہ مجھے مہر و محبت فَدَيْتُكَ بِالطَّرِيفِ وَبِالتَّلَامِ لٹا دوں جس پر میں ہر ایک دولت

Page 169

321 وكُلُّ الْاَمرِ مَوْقُوفٌ عَلَيْكَ تیرے ہاتھوں میں ہے مولا کبھی کچھ فَانْتَ الْمُسْتَعَانُ وَاَنْتَ زَادِى بجز تیرے نہ ہو مجھ سے کبھی کچھ فَلا شَيْ اَحَبَّ إِلَى مِنْكَ تو ہی محبوب ہے اے میرے داور! آمننى فِي الْمَحَبَّةِ وَالْوِدَادِ مجھے اپنی محبت میں فنا کر وَلَا لِي حَاجَةٌ إِلَّا إِلَيْكَ نہیں حاجت سوا تیرے کسی کی وَكُن في هذِهِ لِي وَالْمَعَادِ ہے بس گوئین میں در کارتو ہی کلام ظفر (ماہنامہ الفرقان جون 1969 ، صفحہ 15، 16) 322 کلام ظفر ذِكْرُ نَصْرِ اللهِ الْعَظِيم خدائے عظیم کی نصرت کا تذکرہ بِلُطْفِكَ يَا الهَ الْعَالَمِينَا اے الہ العالمین ! تو نے محض اپنے فضل وکرم سے نَصَرْتَ عِبَادَكَ الْمُسْتَضْعَفِينَا اپنے کمزور بندوں کی مددفرمائی إمَامًا هَادِيًا اَرْسَلْتَ فِينَا تو نے امام ہادی کو ہم میں بھیجا فا منا به مُسْتَيْقِنِينَا اور ہم اُس پر یقین سے ایمان لائے

Page 170

323 وَأَمَّا الْجَاحِدُونَ بَغَوُا عَلَيْنَا لیکن انکار کرنے والوں نے ہم پر زیادتی کی وَقَامُوا لِمَحُونَا حِيْنًا فَحِينَا اور وہ وقتاً فوقتاً ہمیں مٹانے کے لئے کھڑے ہوتے رہے فَقُمْتَ تَوَيْدُ الْمُسْتَضْعَفِيْنَا پس (اے خدا ) تو بھی کمزوروں کی تائید کے لئے کھڑا ہو گیا وَصِرْتَ هَجِنَّةٌ لِلْمُؤْمِنِينَا اور تو مومنوں کے لئے ڈھال بن گیا إِذَا مَا كَادُوا كَيْدًا كِلتَ كَيْدًا جب کبھی وہ تدبیر کرتے ہیں تو تو بھی کوئی تدبیر کر کے وَاوُهَنْتَ مَكَائِدَ كَائِدِينَا اُن کی سازشوں کو کمزور کر دیتا ہے کلام ظفر 324 وَقَالُوا الْيَوْمَ يُهْلِكُكُم فَقُلْنَا کلام ظفر اُنہوں نے کہا کہ آج ہم تمہیں تباہ کر دیں گے ہم نے جواب دیا يَقِينا الله مَوْلَانَا يَقِينا ہمارا مولیٰ یقینا ہمیں بچائے گا وبانوا يَمْكُرُونَ لِيُهْلِكُونَا سو وہ رات بھر ہمیں ہلاک کرنے کی سازشیں کرتے رہے وبتنا رَاكِعِينَ وَسَاجِدِينَا اور ہم رات بھر رکوع اور سجود کرتے رہے فَلَمَّا أَصْبَحُوا كَانُوا هَشِيمًا جب صبح ہوئی تو وہ چور چور تھے وَاصْبَحْنَا وَكُنَّا ظَاهِرِينَا اور ہم غالب تھے

Page 171

کلام ظفر 325 فَابُوا خَائِبِينَ وَخَاسِرِينَا پس وہ ناکام و نامرادلوٹے وَأَبْنا حَامِدِينَ وَشَاكِرِينَا اور ہم خدا تعالیٰ کی حمد وشکر کرتے ہوئے کوٹے بِفَضْلِكَ يَا إِلهِي قَد غَلَبْنَا اے اللہ ! ہم تیرے فضل سے اپنے على أَعْدَائِنَا الْمُسْتَكْبِرِينَا متکبر دشمنوں پر غالب آئے لقَد أَعْطَيْتَ أَحْمَدَ مَا وَعَدَتَ تو نے احمد سے جو وعدہ کیا تھا وہ بِفَضلِكَ بَيْنَنَا وَالْمُعْتَدِينَا ہم میں اور ہمارے مخالفوں میں فیصلہ کر کے پورا کر دیا کلام ظفر 326 اعَنْتَ مَنْ إعَانَتَهُ أَرَادَ جس نے احمد کی مددکا ارادہ کیا تو نے اُس کی مدد کی آهنتَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يُبِينَا اور جس نے تذلیل کا ارادہ کیا اُس کو ذلیل کر دیا آرَاكُمْ مَعْشَرَ الْأَعْدَاءِ جُرْتُم اے دشمنوں کے گروہ! میں دیکھتا ہوں کہ تم نے ظلم و جور کیا وَمَا اخْتَرْتُمْ طَرِيقَ الْعَادِلِينَا اور انصاف کرنے والوں کا طریق اختیار نہ کیا يغير الحق قَدْ كَفَرْتُمونا تم نے ناحق ہمیں کا فر قرار دیا وَمَا خِفْتُم إِلهَ الْعَالَمِينَا اور اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں کیا

Page 172

327 بحمد الله نَحْنُ مُسْلِمُونَ الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور رَضِيْنَا مِلَّةَ الْإِسْلَامِ دِينًا دین اسلام ہی ہمارا پسندیدہ دین ہے الة الْعَالَمِينَ قَد مَنَنْتَ اے الہ العالمین !تو نے اپنے على انْصَارِكَ الْمُسْتَضْعَفِيْنَا کمزور انصار پر احسان فرمایا فَنَحْنُ حَامِدُونَ وَشَاكِرُونَ سو ہم تیری حمد کرتے ہیں اور شکر ادا کرتے ہیں وَنُثْنِي عَلَيْكَ خَيْرًا مَا حَبِينَا اور جب تک زندہ رہیں گے تیری اچھی تعریف کرتے رہیں گے کلام ظفر 328 وَ نَشْهَدُ لَا إِلَهَ إِلَّا انْتَ ہم گواہی دیتے ہیں کہ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وَانَّكَ أَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَا اور یہ کہ تو ، ہاں تو ہی رب العالمین ہے وَانَّ مُحَمَّدًا خَيْرُ الْأَنامِ اور یہ کہ محمد صالنا ہی یہ سب لوگوں سے افضل ہیں رَسُولُ اللَّهِ خَاتَمَ الْمُرْسَلِينَا اور اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم المرسلین ہیں.عَفُوٌّ أَنْتَ رَبِّ فَاعْفُ عَنَّا اے اللہ! تو بہت معاف کرنے والا ہے ہمیں معاف کر دے إذَا أَخْطَأْنَا يَوْمًا أَوْ نَسِينَا جب کبھی ہم سے کوئی خطا یا بھول ہو جائے کلام ظفر (ماہنامہ الفرقان جنوری 1971 ء صفحہ 8)

Page 173

329 کلام ظفر 330 کلام ظفر التَّرْحِيب بِفَخَامَةِ مُعَمَّرَ الْقَذَا فِي رَئِيسِ مَمْلَكَةِ لِيبيا نوٹ فروری ۱۹۷۴ ء میں لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر قصیدہ ہذا خاکسار نے حکومت پاکستان کے سابق وزیر اطلاعات ونشریات مولانا کوثر نیازی کو بھیجا.انہوں نے جواباً لکھا کہ فریم کروا کر بھجوادیں.(خط شامل اشاعت ہے) چنانچہ ایک شان دار فریم میں لگوا کر یہ قصیدہ اُن کو دیا گیا.أَهْلًا وَ سَهْلًا مَرْحَبًا بِوُرُودِكُمْ آئیے! تشریف لائیے!! خوش آمدید!! الأَرْضُ مُشْرِقَةٌ بِنُورِ سُعُودِكُمْ ہماری سر زمین آپ کے نور سعادت سے چمک اٹھی ہے يَا مَنْ يُشَرِفُ بِالنُّزُولِ بِلَادَنَا آپ نے ہماری سرزمین میں تشریف لا کر اسے شرف بخشا ہے قد رادَ عَبْدًا شَانهَا بِشُهُودِكُم اور آپ کو دیکھ کر اس کی شان اور بڑھ گئی ہے قَرَّتُ عُيُونُ الْمُسْلِمِينَ إِذَا رَأَتُ مسلمانوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں جب انہوں نے بیلاد باكِسْتَان خَفَقَ بِنُودِكُمْ بلاد پاکستان میں آپ کے جھنڈوں کو لہراتے دیکھا يَا ضَيْفَنَا وَحَبِيبَنَا وَخَلِيلَنَا! اے ہمارے مہمان اور حبیب اور خلیل! مِنَّا السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَوَفُودِكُمْ ہماری طرف سے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو سلام إنَّا نُعَانِدُ مَنْ يُعَانِدُ شَعْبَكُمْ جو لوگ آپ کی قوم کے دشمن ہیں ہم اُن کے دشمن ہیں وَنُحِبُّكُمْ وَنُحِبُّ كُلَّ وَدُودِكُمْ اور ہمیں آپ سے اور آپ سے محبت کرنے والوں سے محبت ہے شُكْرًا لَّكُمْ وَلِشَعُبِكُمْ إِذْ أَنْتُمْ آپ کا اور آپ کی قوم کا شکریہ کیونکہ آپ لم تخذُلُوا اِخوَانَكُمْ بِقُعُودِ كُمْ اپنے بھائیوں کو بے یارو مددگار چھوڑ کر بیٹھ نہیں رہے

Page 174

انا 331 بنِي الْإِسْلَامِ طُرًّا اِخوَةٌ ہم ابنائے اسلام سب سب بھائی بھائی ہیں الدين أصْلُ جُدُودِنَا وَجُدُودِكُمْ ہمارے اور آپ کے آباؤ واجداد کا اصل تو دین اسلام ہے کلام ظفر أَحْمَاةَ دِينِ اللهِ قُومُوا وَانْصُرُوا اے اللہ کے دین کے حامیو کھڑے ہو جاؤ اور اپنے بھائیوں إخوانكُمْ بِسِلاحِكُمْ وَجُنُودِكُمْ کی اپنے ہتھیاروں اور فوجوں سے مدد کرو يَا قَادَةَ الْإِسْلَامِ لَا تَتَفَرَّقُوا اے قائدین اسلام! تفرقه مت اختیار کرو بَلْ عَاوِنُوا وَتَجَمَّعُوا بِجُنُودِكُمْ بلکہ ایک دوسرے سے تعاون کرو اور اپنی فوجوں سمیت اکٹھے ہو جاؤ يَا أَيُّهَا الْإِخْوَانُ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا اے بھائیو! ایک دوسرے کو معاف کرو لا تُفيتُوا أَعْدَالَكُمْ بِصُدُودِكُمْ اور اپنے دشمنوں کو اپنی ہٹ دھرمی پر مت ہنساؤ 332 او ما رأيتُمُ قَد تَفَرَّقَ شَمْلُكُمْ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ تمہاری جمعیت پریشان ہو چکی ہے فَالْوَقْتُ يُوقِظُكُمْ يجمع أُسُودِكُمْ سو وقت تمہیں جگا رہا ہے کہ اپنے شیروں کو اکٹھا کرو اللهُ سَلَّطَكُمْ عَلَى انا کلام ظفر على أَعْدَائِكُمْ اللہ تمہیں تمہارے دشمنوں پر غلبہ عطا فرمائے وَوَقَاكُمُ الرَّحْمَن شَرِّ حَسُودِكُمْ اور خدائے رحمان تمہیں حاسدوں کے شر سے بچائے ابتلينا ههنا بهنا دِكِ ہم یہاں ہندوؤں کی مصیبت میں مبتلا ہیں وَيَكُومُ فَوْقَكُم بَلاءُ يَهُودِكُمْ اور تمہارے سروں پر بلائے یہود منڈلا رہی ہے أَيَهُودُ مَهْلًا جَاءَ وَقُتُ حِسَابِكُمْ اے یہودیو! ٹھہرو تمہارے حساب کا وقت آ گیا ہے مستوحدنَ يُجَمْعِكُمْ وَجُنُودِكُمْ پس عنقریب تم اپنی جمعیت اور فوجوں سمیٹ پکڑے جاؤ گے

Page 175

333 أَهَنُودُ مَهْلًا جَاءَ وَقُتُ تَبَابِكُمُ اے ہندوؤ ! تم بھی ٹھہر و.تمہاری تباہی کا وقت بھی آ گیا ہے فَسَتحْرَقُنَ بِعِجْلِكُمْ مَعْبُودِ كُمْ عن قریب تم اپنے معبود بچھڑے سمیت جلائے جاؤ گے کلام ظفر يَا مَعْشَرَ الْإِسْلَامِ بُشْرَى إِنَّهُ اے اہل اسلام! تمہیں خوشخبری ہو کہ قَد جَاءَ وَقْتُ عُلُوكُمْ وَصُعُودِ كُمْ تمہاری برتری اور سرفرازی کا وقت آگیا ہے! أَحمَاةَ دِينِ اللهِ أَرْضُوا رَبَّكُمْ اے اللہ کے دین کے حامیو! اپنے قیام بِقِيَامِكُمْ وَرُكُوعِكُمْ وَسُجُودِ كُمْ رکوع اور سجود اللہ کو راضی کرو هذِي الْقَصِيدَةَ قُلْتُ تَرْحِيْبًا بِكُمُ یہ قصیدہ میں نے آپ کو خوش آمدید کہنے کے لئے کہا ہے إن تَقْبَلُوا فَقَبُولُكُمْ مِنْ جُودِكُمْ آپ اگر اسے قبول فرمائیں تو آپ کی نوازش ہو گی 334 کلام ظفر ایک عرب عیسائی پادری کے خط کے جواب میں ذیل کے دو شعر ایک عرب عیسائی پادری کے عربی خط کے جواب میں کہے گئے.كتابكَ جَاءَ أَيُّهَا الْمُتَنَظِرُ فَهَذَا جَوَابِى خُذْهُ إِنْ كُنْتَ تَشْعُرُ اے نصرانی! تیری چٹھی مجھے مل گئی ہے سو اگر تجھ میں سمجھ ہے تو لو یہ میرا جواب ہے.وَمَا أَنْتَ إِلَّا عَبْدُ فَانٍ وَمَيَّتُ فَانتَ عَلَى تَرْدِيدِهِ لَا تَقْدِرُ تو ایک فانی اور وفات یافتہ انسان کا عبد ہے سوتو اس کا جواب نہیں دے سکتا.°

Page 176

335 صَلُّوا عَلَيْهِ وَالِهِ حضرت شیخ سعدی کی روح کے شکریہ کے ساتھ غَلَبَ الْعِدَى بِجَلالِهِ غَمَرَ الْوَرى بِنَوَالِهِ کلام ظفر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال نے آپ کے مخالفوں کوز یر کر لیا، اور بخشش سے لوگوں کا دامن بھر دیا.صَعِدَ الْمَعَارِجَ كُلّها بَلَغَ الْعُلَى بِكَمَالِهِ حضور تمام بلندیوں سے او پر نکل گئے اور حضور کمال انتہاء کو جاپہنچے.صَلُّوا عَلَيْهِ وَالِهِ سوحضور اور حضور کی آل پر صلوۃ وسلام بھیجو.قسما به 336 لما بدا طَلَعَ الصَّبَاحُ كَالمَا کلام ظفر (حضور صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مُبارک وجود کی قسم جب آپ تشریف لائے تو گویا صبح صادق نمودار ہو گئی بِضِيَائِهِ مَلاً الدُّى كَشَفَ الدُّجى بِجَمَالِهِ کائنات حضور کے نور سے معمور ہوگئی اور حضور کے حسن و جمال سے تاریکی چھٹ گئی.صَلُّو عَلَيْهِ واله حضور اور حضور کی آل پر صلوٰۃ وسلام بھیجو.سَبَقَ الْكِرَامَ مُرُوءَةً شَغَفَ الانام محبة حضور ہر کریم سے مروت میں آگے نکل گئے اور لوگوں کو محبت سے اپنا فریفتہ بنالیا.

Page 177

337 کلام ظفر 338 کلام ظفر جَمَعَ الْمَحَاسِنَ أجمعا حَسُنَتْ جَمِيعُ خِصَالِهِ حضور نے تمام خوبیاں جمع کر لیں اور حضور کی سب خصلتیں حسین ترین ہیں.صَلُّوا عَلَيْهِ عَلَيْهِ وَاله حضور اور حضور کی آل پر صلوٰۃ وسلام بھیجو.روزنامه الفضل جلسه سالانہ نمبر 24 دسمبر 1974 ، صفحہ 9) فِي ذَمِ الْأَحْزَابِ الْمُسْتَعْمِرَةِ الْجَائِرَةِ (ظالم استعمار پسندوں کی مذمت میں ) نوٹ : منظوم اردو ترجمہ میرے ایک شاگرد نے کیا.1 أنظر إِلَى الْمُسْتَعْبِرِينَ وَدَأْ بِهِمُ اہلِ استعمار کے تو کام دیکھ وَإلَى الْفَسَادِ الْعَامِ فِي أَحْزَابِهِمُ اور پھر اُن کا فسادِ عام دیکھ الصَّائِلِينَ عَلَى الْعِبَادِ تَحكُما کرتے ہیں قوموں حملہ ناروا وَالشَّاهِرِينَ سُيُوفَهُمْ لِرِقَابِهِمُ کھینچ کر تلوار دیں گردن اُڑا

Page 178

الْغَافِلِينَ 339 عَنِ الإِله الإله واخذه اخذ مولی ہیں ناداں بے خبر وَالْفَاخِرِينَ جَهَالَةً بِسَرَابِهِمُ مفتخر کلام ظفر ہیں اپنی عقل خام پر مِن كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ بِسُرْعَةٍ ہر طرف سے آرہے ہیں دوڑتے قَد صَارَتِ الْأَقْوَامُ فَرُسَى تَابِهِمُ اور قوموں کے سروں کو پھوڑتے ابناء 340 إسْرَائِيلَ شَر عَادَةً آل اسرائیل ہیں اب اس طرح الْيَوْمَ هُمْ قَامُوا مَقَامَ ذِنَا بِهِمُ اک درندہ بھیڑیا ہو جس طرح کلام ظفر الْيَوْمَ الْفَ سَابِعُ وَمَقَامُهُ ہے مقدس اُن کے ہاں ہفتم ہزار كَمَقَامِ يَوْمِ السَّبْتِ حَسْبَ حِسَابِهِمُ سبت کا دن جس طرح حسب وَالصَّيْدُ يَوْمَ السَّبُتِ شَيْءٍ مُحرَم ہے شکار اُن کے لئے اُس دن حرام لِشُعُوبِ إِسْرَائِيلَ وَفْقَ كِتَابِهِمُ شمار دے چکی تورات ہے فتوی عام

Page 179

341 کلام ظفر 342 کلام ظفر هُمْ يَسْفِكُونَ دِمَاءَ قَوْمٍ مُسْلِمٍ قتل کرتے ہیں مسلمانوں کو وہ وَالْيَوْمَ صَارَ الْعَرَبُ فَرْسَى تَابِهِمُ ہیں عدو اعراب کی جانوں کے وہ مَنْ مُبْلِغُ الْأَعْرَابِ عَلَى أَنَّهُمْ کون عربوں کو میرا پیام مَا قُتِلُوا إِلَّا لِتَرُكِ كِتَابِهم ہو رہے مقتول ہیں جو چھوڑ کر حق کا کلام والخيرُ كُلُّ الْخَيْرِ فِي قُرانِنَا ہے بھلائی سب کی قرآن میں هُم يَحْسَبُونَ الْخَيْرَ فِي أَنْسَابِهِمُ سمجھتے ہیں نسب کی آن میں وہ نحن الآعَاجِمُ اعْتَصَمْنَا بِحَبْلِهِ اِنَّ الْهَنَادِكَ خَائِرُونَ تُجَاهَنَا ہند کے گوسالے آئے سامنے گی يَنْطَحُونَا شَائِلِي اذْنَا بِهِم دم اٹھا کر ہم کو ٹکر مارنے السامري لَا مِسَاسَ مَقَالُهُمْ قول اُن کا ہے ہمیشہ لا مساس وَكَذَاكَ كَانَ الْعِجْلُ مِنْ أَرْبَا هم سامری کی گائے کا ہے اُن کو پاس فَالنَّارُ رَاصِدَةٌ لِتَأْكُلَ لَحْمَهُمْ منتظر ہے آگ کھانے کے لئے وَالْيَةُ مُنْتَظِرُ لِنَسْفِ تُرَاجِمُ حامل قرآن ہیں ہم انجمی وَالاعْتِصَامُ بِحَبْلِهِ أولى بام وہ عرب ہو کر ہیں قرآں سے غنی اور دریا ہے بہانے کے لئے

Page 180

کلام ظفر (344) کلام ظفر 343 ۴ يَا مَعْشَرَ الْإِسْلَامِ بُشْرَى إِنَّهُ آے مسلمانو! بشارت ہو تمہیں قد جَاءَ وَقْتُ عُلُوكُمْ وَتَبَابِهِمُ اب تمہیں عزت ملے گی دوستو! ذلّت اُنہیں هَلْ هَذِهِ الْأَحْزَابُ تُهزَمُ كُلُّهَا: ہار جائیں گے یہ لشکر کیا سبھی؟ قُل إى وَرَبِّي جَاءَ وَقْتُ حِسَابِهِمْ ہاں خُدا شاہد ہے میں ہو گا یہی فِي رَجُلٍ مُتَكَبِّرٍ سَبَ اِمَا مَنَا ایک متکبر شخص کے بارہ میں جس نے ہمارے امام کو گالی دی) يَا أَيُّهَا الْعَبْدُ الضَّعِيفُ الْاَحْقَرُ القَبْرُ مَثْوَاكَ فَلِمَ تَتَكَبَرُ اے کمزور اور حقیر ترین بندے! قبر تیرا ٹھکانا ہے.پھر تو کیوں تکبر کرتا ہے؟ الكبرُ عِنْدَ الْعَاقِلِينَ سَفَاهَةٌ مَنْ كَانَ ذَا لُةٍ فَلَا يَتَكَبَرُ تکبر کرنا عقل مندوں کے نزدیک حماقت ہے.عقلمند کبھی تکبر نہیں کرتا.مَنْ كَانَ ذَا لُكٍ يَكْفُ لِسَانَهُ يَا رَبِّ سَلِّمْنَا بِوَجْهِ محمد ہم کو بچا گوئی سے کام لیتا ہے.مصطفی محمد ظالموں کے ظلم يَا رَبِّ نَحَ الْخَلْقَ مِنْ قِرْضَابِهِم خداوند فَلا يُؤْذِي إِنْسَانًا وَلَا يَتَثَرُثَرُ عقل مند اپنی زبان قابو میں رکھتا ہے.نہ تو کسی انسان کا دل دُکھاتا ہے اور نہ ہی یا وہ

Page 181

345 کلام ظفر 346 کلام ظفر قالَ النَّبِيُّ كَرِيمَ قَوْمٍ اكْرِمُوا وَاللهُ قَالَ لَا تَسُبُّوا وَتَسْخَرُوا حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر قوم کے بزرگ کی عزت کرو اور ارشاد الہی ہے کہ کسی کو گالیاں مت دو اور ٹھٹھا نہ کرو.يَا مَنْ سَبَبْتَ اِمَامَنَا وَشَتَبْتَهُ اسَأُ فَإِنَّكَ صَاغِرُ بَلْ أَصْغَرُ اے ہمارے امام کو بُرا بھلا کہنے اور گالیاں دینے والے! تیراستیا ناس ہو.تو خود ذلیل بلکہ ذلیل تر ہے.هذِي تِجَارَتُكَ الَّتِي اخْتَرْتَهَا يا طالب الدُّنْيَا تَبُورُ فَتَخْسَرُ اے دُنیا کے طالب ! تو نے جو یہ سودا بازی اختیار کی ہے یہ تباہ ہونے والی ہے اور تُو گھاٹے میں ہی رہے گا.إنَّ الْكَرِيمَ كَرِيمَ قَوْمٍ يُكْرِمُ اما اللَّهِيمُ فَلَا فَحَالَةَ يَحْذَرُ شریف انسان ہر قوم کے بزرگ کی عزت کرتا ہے لیکن کمینہ آدمی ہمیشہ یاوہ گوئی سے کام لیتا ہے.کی بلا د شام سے واپسی پر بحسب السَّعي إكْرَامُ الْعِبَادِ انسان کی کوشش کے مطابق اُس کا احترام ہوتا ہے فَخَيرُ النَّاسِ مِكْتَارُ الْآيَادِي پس لوگوں میں بہترین وہ ہے جس کے احسانات زیادہ ہوں جَلَالَ الدِّينِ إِنَّكَ قَد سَعَيْت اے جلال الدین! آپ نے کوشش کی فَفُقْتَ وَنِلْتَ مِنْ كُلِ الْمُرَادِ تو فوقیت لے کر اپنی ہر مراد کو پالیا

Page 182

347 وكَمْ مِنْ لَيْلَةٍ أَحْيَيْتَ سَعيًا کتنی ہی راتیں ہیں جو آپ نے جہاد میں صرف کیں وَيَوْمٍ قَد قَتَلْتَهُ بِالْجِهَادِ اور کتنے ہی دن ہیں جن کو آپ نے جہاد کرتے ہوئے ختم کیا قتلتهم کلام ظفر وَكَمْ مِنْ خَاصِمٍ الْحَبْتَ قَوْلًا کتنے ہی خصیم ہیں جن کا آپ نے ناطقہ بند کر دیا فَابَ خَاسِرًا قَلقَ الْفُؤَادِ جو پریشان خاطر ہو کر نامراد لوٹے بِبُرْهَانِ صَرِيحٍ مارا آپ نے انہیں بُرہانِ صریح سے وَسُلْطَانٍ كَرُفح في السَّدَادِ اور ایسے دلائل سے جو نیزے کی طرح سیدھے تھے إذا عجزوا عن التَّرْدِيدِ قَوْلًا جب وہ زبانی طور پر جواب دینے سے عاجز آگئے اتوكَ إِذَا بِأَسْلِحَةِ حِدَادٍ تو تیز ہتھیار لے کر آپ پر حملہ آور ہوئے 348 کلام ظفر هناك دَعَوْتَ رَبِّ الْعَالَمِينَ تب آپ نے العالمین کو پکارا وَانْشَدَتَ هُنَالِكَ بَيْتَ هَادٍ اور اس موقع پر ایک عظیم ہادی کا شعر پڑھا فَلَسْتُ آخَافُ مِنْ مَوْتِي وَقَتْلِي نہیں ڈرتا قتل میں موت سے اور إذا ما كَانَ مَوْتِي فِي الْجِهَادِ جبکہ میری موت جہاد فی سبیل اللہ میں ہو (1931)

Page 183

349 في ذكرى کلام ظفر مَوْلَانَا جَلالُ الدِّين شمس المرحوم جَلالَ الدِّينِ يَا بَدِي وَشَمسِی احَقًا قَد أَفَلْتَ فَدَتُكَ نَفْسِي اے جلال الدین! اے میرے مہر و ماہ! کیا سچ سچ تو غروب ہو گیا ہے.میں تیرے قربان جاؤں.بِنُورِك قَدْ آنَرْتَ الْعَالَمِينَ فَكَيْفَ سَكَنتَ فِي ظُلُمَاتِ رَمس تُو نے اپنے ٹور سے دُنیا کو روشن کیا.اب تو قبر کی ظلمت میں کیونکر جا ٹھہرا.على الاعداء قُمْتَ مَقَامَ سَيْفٍ وَلِلْإِسْلَامِ نُبُتَ مَنَابَ تُرس دشمنوں کے مقابل تو ایک تلوار تھا اور اسلام کے لئے تو ایک ڈھال تھا.350 کلام ظفر وَلَوْ قَبلَ الْحِمَامُ فداءَ نَفْسٍ لقَامَتْ في فِدَائِكَ أَلْفُ نَفْسٍ اگر موت کسی انسان کا فدیہ قبول کرتی تو تیرے فدیے کے لئے ہزارنفس کھڑے ہو جاتے.يُذكرني طُلُوعُ الشَّمْسِ شَمسا وَاذْكُرُون بِكُلِّ غُرُوبِ شَمْسٍ جب سورج نکلتا ہے تو وہ مجھے سمس ، کو یاد دلاتا ہے اور جب ڈوبتا ہے تو بھی.(ماہنامہ الفرقان شمس نمبر جنوری 1968 ، صفحہ 55)

Page 184

351 کلام ظفر التَّرْحِيبُ بِفَخَامَةِ رَئِيسِ الْجَمْهُورِيَّةِ الْعَرَاقِيَّةِ آنریبل صدر جمہوریہ عراق کو خوش آمدید گزشتہ دنوں عراق کے صدر جمہوریہ کے پاکستان تشریف لانے پر جناب مولوی ظفر محمد صاحب فاضل مدرس تعلیم الاسلام ہائی سکول کراچی نے یہ عربی قصیدہ ان کی خوش آمدید کے طور پر لکھا تھا.(ادارہ) أهلا وسهلا مَرْحَبًا يؤرُودِكُمْ آپ کی تشریف آوری پر ہم آپ کو اھلاً و سہلاً ومرحبا کہتے ہیں الأَرْضُ مُشْرِقَةٌ بِنُورِ سُعُودِكُمْ آپ کے مبارک نور سے ہماری سرزمین خوشی سے تمتما اٹھی ہے يَا مَنْ يُقرفُ بالنزول بلادنا اے وہ ہستی ! جس نے ہمارے وطن میں تشریف لانے کا شرف بخشا ہے قد زَادَ هَجَدًا شَاءُهَا بِشُهُودِكُمْ آپ کی موجودگی سے اُس کی شانِ عظمت میں اضافہ ہوا ہے 352 يَا ضَيْفَنَا عَبْدَ السَّلَامِ الْعَارِفَا اے ہمارے مہمان عبدالسلام العارف ! منا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَوُفُودِكُمْ کلام ظفر ہماری طرف سے آپ کو اور آپ کے جملہ ممبران وفد کو ” السلام علیکم الله سَلَّطَكُمْ عَلَى أَعْدَائِكُمْ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے دشمنوں پر غلبہ عطا کرے وَوَقَاكُمُ الرَّحْمَانُ شَرِّ حَسُودِكُمْ اور خدائے رحمان آپ کو ہر حاسد کے شر سے محفوظ رکھے.إنَّا نُعَانِدُ مَنْ يُعَانِدُ شَعْبَكُمْ ہم اُس کے دشمن ہیں جو آپ کی قوم کا دشمن ہے وَتَوَدُّكُمْ وَتَوَدُّ كُلَّ وَدُودِكُمْ ہم آپ کے دوست اور آپ کے ہر دوست کے دوست ہیں انا ابتلينا هُهُنَا بِهَنَادِكِ ہمیں اس ملک میں ہندوؤں کی دشمنی سے واسطہ پڑا ہے وَيَحُومُ فَوْقَكُمْ بَلاءُ يَهُودِكُمْ اور تمہارے سروں پر یہودیوں کا خطرہ منڈلا رہا ہے.

Page 185

353 يَا مَعْشَرَ الْإِسْلَامِ بُشْرَى إِنَّهُ اے مسلمانوں کے گروہ ! تمہیں خوشخبری ہو کہ قد جَاءَ وَقْتُ عُلُوكُمْ وَصُعُودِكُمْ تمہاری سر بلندی اور ارتقاء کی گھڑی آن پہنچی ہے آيَا قَادَةَ الْإِسْلَامِ لَا تَتَفَرَّقُوا اے قائدین اسلام ! آپس میں تفرقہ وانتشار پیدا نہ کرو بَلْ عَاوِنُوا وَتَوَكَّدُوا بِجُنُودِكُمْ بلکہ با ہم تعاون کرو اور اپنے لشکروں سمیت متحد ہو جاؤ أَ وَلَاةَ قَوْمِ الْمُسْلِمِينَ تَعَاوَنُوا اے اُمت مسلمہ کے حکمرانو! آپس میں تعاون کرو.لا تَكْذِلُوا اِخْوَانَكُمْ بِقُعُودِكُمْ کلام ظفر اور اپنے مسلمان بھائیوں کو پیچھے بیٹھے رہ کر بے یارو مددگار مت چھوڑو اِنَّ الكَشَامِرَ يَصْرَحُونَ تَظُلُّما کشمیری لوگ ظلم سہہ سہہ کر چیخ و پکار کر رہے ہیں وَاِغَاثَةُ الْمَظْلُومِ طِينَةُ عُودِكُمْ اور مظلوم کی داد رسی کرنا تمہاری سرشت میں داخل ہے 354 إِنَّا بَنِي الْإِسْلَامِ طُرًّا اِخْوَةٌ ہم فرزندان اسلام سب بھائی بھائی ہیں.الدِّين أَصْلُ جُدُودِنَا وَجُدُودِكُمْ کلام ظفر اور دین اسلام ہی تمہاری خوش نصیبیوں اور ہماری خوش بختیوں کی جڑ ہے.هَذِي الْقَصِيدَةُ قُلْتُ إهداء لكُم یہ قصیدہ تمہارے لئے بطور ھدیہ کے میں نے عرض کیا ہے إن تَقْبَلُوا فَقُبُولُكُمْ مِنْ جُوْدِكُمْ اگر آپ اسے شرف قبولیت بخشیں تو یہ آپ کی عنایت ہوگی.(ماہنامہ الفرقان جون 1964 ءصفحہ 41)

Page 186

محمد صلى على دولة الليا شعبه تاریخ احمدیت ربوه (پاکستان) تاریخ 23 06 حجرت 1370 القرآن، الخير كله في 23 MAY 1991 محترم و مکرم جناب مبارک احمد صاحب ظفر خلف الصدق مولانا ظفر محترم به ظفر ;- اسلام علیکم ورحمتہ ایک وبر کاتہ.عرضی خدمت ہے کہ 0 ایک بار میں سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رو کی حدیث ائوس میں پرانے قصر خلافت کی بالائی منزل کے ایک کمرہ میں حاضر تھا کہ حضور انور نے مولانا ظفر عمر جاب ظفر کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی انہیں ذہانت اور علم کی علیکم صدر میتوں سے نوازا تھا جو فرطہ حیرت میں ڈالنے والی تھیں.گو الفاھ پر نہیں تھے مگر مفہوم اما اشک میری یادداشت کم دیتی ہے، تینا.ایسا ہی تھا.ف مولانا ظفر عمر آپ نے مجھے ایک دفعہ پر سبیل تذکرہ ایمان افروز واقعه سنایا کہ حضرت خلیفہ ثالث اور میں مدرسہ شیریں کی ایک ہی کلاس میں ڈرتے اور ایک ہی ڈیک پر بیٹھے تھے - میں اور ہم دونوں عربی ادب سے گہرے ذوق و شوق اور

Page 187

شعبه تاریخ احمدیت ربوه (پاکستان) وو الخير كله في القرآن شلف کے باعث یہ تمہار کہتے تھے کہ حضرت قاضی ایرحسین صاحب (ہمارے استاد سب سے پہلے اللہ ہمیں ہیں کتاب پڑھنے کا ذرشاد فرمائیں.یہیں میر می خور نہیں ہوتی اور نہیں حضرت صاجزادہ باب کی ہی ہے مگر ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ حضرت قاضی جیسے کرہ میں شریف لاتا ہے مجھے کتاب پڑھنے کی ہدایت کی.میں پڑھنے لگے کان میں کہا کہ معلوم و حضرت صاضر اوہ جب نے میرے ہوتا ہے کہ آج تم نے سب سے زیادہ دعا کی ہے انفر قبلی لئے نشیب و آل ٹھیک والسلام طالب دعا دوست گهر شاهد مشرع الحریت

Page 188

Telegrams: CABSEC No F 4/1/PA-IAH/72 Adviser to the President for InformBINGªDand; BRÓN Government of Pakistan Secretariat No.IV Rawalpindi, the 6th March My dear Zafar, I went through your Arabic "KASIDA" which met my appreciation.You are advised to submit it duly framed.Mr.Zafar Mohd Zafar, td.Professor Jamia Ahmedia, Ahmed Nagar, Teh.Chanot, District Jhang.Yours cincavaly, داہر نوازی MAULANA KAUSAR NIAZI)

Page 189

فون : ۶۳۲۵۲ حکم تیر واسطی (ستاره خدمت) بیرون ។ ٹ لاہور سمبر ۴۶۸ Phone : 63252 Hakim Nayyar Wasti, S.K.os MASTI GATE, LAHORE مکرمی -----لام مشدون آپ کے عزیز مکرم کی زیارت ہوئی اور انہوں نے قرآن کریم کا ایک تحقہ بھی عطا کیا جسکیلئے آپکا اور انکا شکر گزار هون - عين تے ان ނ عرض کر دیا هے که مریض کا ایکسرے دکھائیں تاکہ مین کوئی مشورہ عرض کر تسکون.- آپ کے اشعار کا دلی شکریة فرض کرنا هون جن سے محبت و خلوص کی خوشبو آتی هے ـ ایک شعر مجھ - بھی ނ في البدية هو گیا ھے جو عرض خدمت ھے - کہہ دو گوشی ظفر ایک که شاه علم و فن نوا فقير نسبت سے آپ کی سمن بخدمت شریف جناب ظفر محمد ظفر صاحب سكنة أحمد نگر مغربی پاکستان - - فقط والـ H ( پروفیسر حکیم ستاره خدمت واسطى )

Page 190

خون :- ۶۳۲۵۲ حکم نیر واسطی (ستاره خدمت) بیرون مستی گیٹ لاہور ا در فروزی سری وارع Phone : 63252 Hakim Nayyar Wasti, S.K..ois MASTI GATE, LAHORE نوشت با پدیده سلام تو شکر یا پس نامه منظوم ما را دارد اما با ایبار برای پر کی قدرت کلام صرف بیات کی روانی اور ریفایت لطیف پیرایہ ستافیوں کے استمال گھر دیکھ کر حیرت ہوئی خدا آپ کو خوش وخرم اور تا بد پر سلامت رکھے نشر اور سالمی

Page 191

Prof.Hakeem Nayyar Wasty S.K.NAYYAR 313, Cird LAHORE 1- WEBT PAKISTAN) مولت با سلام مسنون علونت تا در شرف مدور لایا : آپ میں نیازمند کے لئے جس خلوص اور بیعت کا اختیار - کرنا یا ہے اس کے لئے ہر تین سو سے آپ کا شکر گزار ہوں.مدار نے بر تر آب ا نام میرے نام ان کے مدیر کوبہت ستاتی ہے اوران کی خواہیں یا کسی اور رات تهم من بین شایع زمائی ، ہندا اگر همت نیا با این روایت دور نہیں ابھی محفوظ رکھنے اور جیب مناسب معلوم میر ان کا استعمال شروع زما دیجئے.شور که بر و کرم مادی مشکی ، از رنہ کم امنیت تابع سے ضلعے رائے ہے خون میں کیا ہے نیز در وسطی

Page 192

کرا حیکم نیر واسطی بیرون مستی گیٹ.لاہور عزیز گرامی بادی دباش Phone: 325391 Hakim Nayyar Wasti, o/s MASTI GATE, LAHORE پارہ.آپ کے والد وقوم کی فخات کا خطر غم سے مل 2010 ہو گیا.خدات برتر زب سب کو صبر اور وجوم کو راحت کی دوست خطے کرے.تمام بیرون در ستوں اور اگر میزوں کی خدمت میں میری تحریت ہونے دیتے و اسلام نمنگار نیر در طی

Page 193

نحمده ونصلى على رسوله الكريم مسجد فضل گول احمدیه بسم الله الرحمن الرحيمة جماعت احمد مفصل آباد براید مردم وعلى عبده السبيع الموعود روانگی نہیں.- 1.6-8280 السلام عليكم و رحمت الله وبركاته جیسا کہ آپ کو معلوم ہے میں بقد عرصہ بھارتی ہوں اب اچھا ہوں اس اثناء میں محرم موناظر محراب ظفر اللہ تعالے کو پیارے ہو گئے را نایک کا کر اتار لید راجعون وه میره دیرینه دوست تھے اور اپنی قابلیت میں بہت آگے تھے نظم ونثر اردو اور پانی دونوں میں دسترس رکھتے تھے یہ بات بہت ہی کم علما و چال ہوتی ہے اللہ تعالی انکی مغفرت فرمائے اور آپ سب بھائیوں اوران کے لواحقین کو میر جو مطا نوائے.میٹرول آپ سب کیلئے درد مند ہے سب لواحقین سے میری طرف سے تعریف کردیں.اللہ تعالٰی آپ کا کار سازی والسم

Page 194

وہ پاک ک ہستی وہ ذاتِ والا عدم سے جس نے ہمیں نکالا حقیر ہم، وہ بزرگ و بالا ذلیل ہم، وہ اجل و اعلیٰ ادب کے لائق ہے ذات اس کی ہے نام اس کا خدا تعالٰی وہی ہے اوّل وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر گمان عاجز، قیاس قاصر مقام اس کا خرد سے بالا بھی ہے خدا تعالیٰ وہ قریب بھی ہے بعید عجیب ہے وہ جس نے خیر الانام بھیجا | سلام بھیجا پیام بھیجا اسی نے ہم میں امام بھیجا اُسی نے پھر وقت پر سنبھالا رحیم و رحماں ہے ذات اُس کی کریم ہے وہ وہ خدا تعالیٰ Kalam-e-Zafar Manzoom Kalam (Hadhrat Maulana Zafar Muhammad Zafar)

Page 194