Language: UR
حضرت مرزا طاہر احمد، خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ایک قادر الکلام شاعر تھے جو مفاہیم کاسمندر اپنے ایک ایک مصرعے میں سمیٹ رکھتےتھے، آپ کی نکتہ پروری، فن سخن پر گرفت اور عارفانہ نظر کی ماورائیت کا ایک زمانہ قائل تھا۔ آپ زمام خلافت سپرد ہونے سے مدتوں پہلے، وقت نوجوانی سے ہی شعر و سخن کے شہسوار تھے اور آپ کے دور خلافت میں تو گہرے مضامین سے پر آپ کے منظوم کلام کاانتظار ہر صاحب ذوق کو رہتاتھا۔ یہ منظوم کلام اخبارات و رسائل میں ساتھ ساتھ شائع بھی ہوجاتا تھا۔ اس منظوم کلام کو لجنہ اماء اللہ کراچی نے 1995ء میں بہت محنت اور لگن کے ساتھ خوبصورت اور دیدہ زیب طرز پر طبع کروایا تھا، جس کے بعد اس مجموعہ کلام کے متعدد ایڈیشن شائع ہوتے رہے جیسا کہ اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز لندن نے اضافہ جات ، ترمیمات اور تصحیحات کے ساتھ ایک ایڈیشن شائع کیاتھا۔ زیر نظر ایڈیشن نظارت نشر و اشاعت قادیان کا شائع کردہ ہے جس میں کلام طاہر کو مرتب کرنے میں خصوصی معاونت کرنے والی مکرمہ امت الباری ناصر صاحبہ کا ایک مضمون ’’الہام کلام اس کا‘‘ بھی حضور ؒ کے ارشاد کے مطابق شامل کیا گیا ہے۔ آخر پر مشکل الفاظ کا رومن حروف میں درست تلفظ، ان الفاظ کا اردومعانی اور انگریزی مفہوم بھی نظم وار درج کیا گیا ہے جس سے اس مجموعہ سے استفادہ حاصل کرنا مزید آسان ہوگیا ہے۔
کلامِ طاہر KALAM-E-TAHIR
Kalaam-e-Tahir- A collection of Urdu poems of: Hadhrat Mirza Tahir Ahmad- Imam and the Head of the Ahmadiyya Muslim Jama'at- Khalifatul Masih IV First Published by: Second (revised) edition in 1997 Third (updated) edition [Germany] in 1998 Fourth (revised and updated) edition Published in UK in 2001 Present Edition in India 2004 Islam International Publications Limited Present edition published by: Nazarat Nashro Ishaat Sadr Anjuman Ahmadiyya Qadian 143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) India Printed in India by: Printwell, 146-Industrial Focal Point, Amritsar (Punjab) India.ISBN 185372 7180 (UK) ISBN 81-7912-060-0 (India)
عرض ناشر امام جماعت احمد یہ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسح الرابع حمہ اللہ تعالیٰ کے منظوم مجموعة کلام ” کلامِ طاہر کی اس سے قبل لجنہ اماءاللہ کراچی نے بہت محنت اور لگن کے ساتھ خوبصورت اور دیدہ زیب طباعت کروائی تھی.پھر اسکا جدید ایڈیشن سابقہ ایڈیشن میں کی جانے والی بعض تصحیحات اور ترامیم کے علاوہ نی نظموں کے اضافہ کے ساتھ اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ لندن نے شائع کیا تھا.اب نظارت نشر و اشاعت قادیان اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ کے نسخہ کو ہی فور کلر میں مدید جاز بیت پیدا کرنے کی غرض سے شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے.لیکن " کلامِ طاہر کے متعلق محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ کا ایک مضمون بعنوان الہام کلام اس کا کوسیدنا حضرت اقدس خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق کہ آئندہ جب بھی ” کلام طاہر چھپے اس مضمون کو بھی ضرور شامل اشاعت کیا جائے.لہذا حضور انور رحمہ اللہ کی اس خواہش کو پورا کرتے ہوئے اس ایڈیشن میں مذکورہ مضمون کو بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے.اللہ کرے یہ کلام بہتوں کیلئے راحت و ہدایت کا موجب ہو آمین.ناظر نشر واشاعت، قادیان
پیش لفظ لجنہ اماء الہ ضلع کراچی صد سالہ جشن بنش کر کے موقع پر کتب شائع کرنے کی توفیق پرہی ہے.لیکن اتنے بڑے شہر میں لگے کبھی سوچا بھی نہ تھا.اللہ تعالی کے احسانات پر قربان جانے کو جی چاہتا ہے.امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفة اسمع الرابع رحمہ اللہ تعالی کا منظوم کلام کلام طاہر کی صورت میں جو آپ کے ہاتھ میں ہے.حضور نے لجنہ کے شعبہ اشاعت کی درخواست پر شائع کرنے کی بجازت اور سعادت مرحمت فرمائی ہے.اور ساتھ ساتھ پوری رہنمائی بھی کی ہے.دعا کی خاطر عرض کرتی ہوں کہ اس کتاب کی تیاری میں لجنہ اماء اللہ کراچی کی سیکرٹری اشاعت محترمہ امتہ الباری ناصر کی انتہائی کا دش شامل ہے.انہوں نے کتاب کو مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ مشکل الفاظ کے صحیح تلفظ اور پھر ان کے معانی لکھ کر مطلب سمجھنے میں آسانی پیدا کر دی ہے.اشاعت کے مختلف مراحل میں جن لوگوں نے تعاون فرمایا ہے.اللہ تعالے سب کو جزا ہائے خیر عطا کرے.اور اس خدمت کو صدقہ جاریہ بنا دے.قارئین کرام ضرور اپنے محبوب امام کے کلام میں پیار کی جھلک دیکھ کر اُن کی صحت و سلامتی کی دعا انگیں گے.اللہ تعالٰی اس نام کو رہتی دنیا تک زندہ و تابندہ رکھے.آمین
عرض حال خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کو نظر ثانی شدہ کلام طا ہر حتی المقد در حسن صورت کے ساتھ شائع کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.قبل ازیں شائع شدہ کلام ولا سر دیکھ کر خیال آتا یہ مئے عرفان اور یہ جام کچھ توشایان شان ہونا چاہیے.اپنی بضاعتی کے اس پر کچھ قابو پاک حضور حمد اللہ کی خدمت میں شاعت کی اجازت مرحمت فرمانے کی درخواست کر دی.اب فقط اتنا یاد ہے کہ کھل جاسم سم، میں نے کہا تھا پر چکا چوند خزانوں کی بھیڑ یں ایسا کھوئی کہ اب واپس آنے کا ہوش ہے نہ ارادہ.حضور پر نور نے نظر ثانی کی ضرورت کا ذکر فرمایا اور پھر فاکسر کی درخواستوں پر وقت نکال کر از داو شفقت نظرثانی فرمائی.خاکسار کی خوش قسمتی کہ اس سلسلے میں آپ جیسے بلند پایہ منی شناس سے کچھ قلمی گفتگو رہی تنقید کی نیم کتب پر بھاری ایک ایک جملہ.الفاظ کی تراش اور انتخاب کے اسلوب سمجھاتا ہوا.مفاہیم کا سمندر سموئے ایک ایک شعر آپ کی نکتہ پروری، فن پر گرفت اور عارفانہ نظر کی ما در ایر بہت قائید نہی ہے.خیرات ہو مجھ کو بھی اک جلوہ عام اس کا پھر یوں ہو کہ ہو دل پر الہام کلام اس کا آپ کے کلام کی تہ تک اترنا، وسعتوں کو پانا اور رفعتوں تک نگاہ کر ناصرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ کوئی وہ تمام سفر آپ کے دل و نظر کے ساتھ طے کرے جو آپ نے اللہ پاک کی انگلی پکڑ کر کیا ہے.اس لئے تحسین کا حق ادا کرنا متبادکان سے باہر ہے.اس سے آگے قلم کے قدم نہیں اُٹھتے.اس بابرکت کام میں تعاون کرنے والوں کے لئے نہ دل سے ممنونیت کے ساتھ دعا کی درخواست کرتی ہوں.فجزاهم الله تعالى احسن الجزاء في الدارين خيراً
تیرا ہی فیض ہے کوئی میری عطا نہیں این چشمیر روان که خلق خدا دیم
نمبر شمار نظم کا پہلا مصرع 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 ترتیب اک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی اے شاہ مکی و مدنی، سید الوری حضرت سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم ذکر سے بھر گئی ربوہ کی زمیں آج کی رات ہیں بادہ مست بادہ آشام احمدیت دو گھڑی صبر سے کام لو سا تھیو! آفت ظلمت وجور مل جائے گی پیغام آرہے ہیں کہ مسکن اُداس ہے اے مجھے اپنا پر ستار بنانے والے کیا موج تھی جب دل نے جسے نام خدا کے دیار مغرب سے جانے والو!دیار مشرق کے باسیوں کو 11 آئے وہ دن کہ ہم جن کی چاہت میں گنتے تھے دن اپنی تسکین جاں کے لئے 12 دیکھو اک شاطر دشمن نے کیسا ظالم کام کیا 13 پورب سے چلی پر نم پرنم با روح و ریحان وطن تو مرے دل کی شش جہات بنے 14 15 ہر طرف آپ کی یادوں پہ لگا کر پہرے 16 ہم آن ملیں گے متوالو، بس دیر ہے کل یا پرسوں کی 17 گلشن میں پھول، باغوں میں پھل آپ کے لیے 18 19 تری راہوں میں کیا کیا ابتلاروزانہ آتا ہے دشت طلب میں جابجا، بادلوں کے ہیں دل پڑے صفحہ نمبر 1 4 7 11 13 15 17 لت میں تق الله الله 19 23 26 28 31 2 5 3 7 ♡ 34 41 43 44 46 49 49 53
55 58 60 62 64 66 68 71 77 لا لا لا له چای من 74 79 81 85 87 93 94 97 22 55 83 89 99 101 103 20 یہ دل نے کس کو یاد کیا، سپنوں میں یہ کون آیا ہے 21 ان کو شکوہ ہے کہ ہجر میں کیوں تڑپایا ساری رات جائیں جائیں ہم روٹھ گئے ، اب آکر پیار جتائے ہیں 23 وقت کم ہے.بہت ہیں کام.چلو 24 جو درد سسکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے 25 گھٹا کرم کی، ہجوم بلا سے اُٹھی ہے 26 اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا 27 کبھی اذن ہو تو عاشق دریار تک تو پہنچے نہ وہ تم بدلے نہ ہم، طور ہمارے ہیں وہی 29 تری بقا کا سفر تھا قدم قدم اعجاز 30 ہے حسن میں ضو غم کے شراروں کے سہارے 31 یہ پُر اسرار دھندلکوں میں سمویا ہوا غم 32 33 34 35 بہار آئی ہے ، دل و قف یار کر دیکھو ہیں آسمان کے تارے گواہ، سورج چاند تو خوں میں نہائے ہوئے ٹیلوں کا وطن ہے جب اپنی راہ اُس کے فرشتے کریں گے صاف 36 آؤ سجنو مل ہی.تے گل اوس یار دی چلتے 37 مرے درد کی جو دوا کرے، کوئی ایسا شخص ہوا کرے 38 اک برگد کی چھاؤں کے نیچے 39 خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے اذانیں دے کے دُکھاؤ نہ دل خدا کے لئے
104 106 107 109 111 112 113 116 120 123 126 129 132 134 41 سوچا بھی کبھی تم نے کہ کیا بھید ہے مُلاں 43 44 Have you ever pondered over the secret - O Mullah جھو ٹو تم نے ٹھیک الزام دھرا ہو گا توحید کے پر چارک.مرے مرشد کا نام محمد ہے 45 دن آج کب ڈھلے گا.کب ہو گا ظہورِ شب 46 جاتی ہو میری جان خدا حافظ و ناصر 47 روٹھ کے پانی ساگر سے جب بادل بن اُڑ جائے تم نے بھی مجھ سے تعلق کوئی رکھا ہوتا شه ن ج چ حه به همه ما ل میں لا اله الا ان الان 42 48 49 50 اذن نغمہ مجھے تو دے تو میں کیوں نہ گاؤں منصورہ لے کر آئی ہے 51 ہارٹلے پول میں کل ایک کنول ڈوب گیا اے عظیم.انڈونیشیا 52 53 دور از آتا ہے گھر پر ہمارے ٹی وی پر 54 باپ کی ایک غم زدہ بیٹی
نمبر شمار ابتدائی کلام کے چند نمونے نظم کا پہلا مصرع 55 تیرے لئے ہے آنکھ کوئی اشکبار دیکھ 56 57 لوح جہاں پہ حرف نمایاں نہ بن سکے بہیں اشک کیوں تمہارے انہیں روک لو خدارا 58 کبھی اپنا بھی اک شناسا تھا 59 میرے بھائی آپ کی ہیں سخت چنچل سالیاں 60 گو جدائی ہے کٹھن دور بہت ہے منزل 61 62 63 64 65 2 بذل حق محمود سے میری کہانی کھو گئی منتظر میں ترے آنے کا رہا ہوں برسوں اک پیسہ پیسہ جوڑ کر بھائیوں نے شوق سے یہ دو آنکھیں ہیں شعلہ زا.یا جلتے ہیں پروانے دو ہیں لوگ وہ بھی چاہتے ہیں دولتِ جہاں ملے 66 اُف یہ تنہائی تری الفت کے مٹ جانے کے بعد صفحہ نمبر 138 140 141 142 144 145 146 147 149 151 152 154
الله ظہورِ خیر الانبياء علي اک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی جو نور کی ہر مشکل ظلمات پہ وار آئی تاریکی په تاریکی ، گمراہی پر گمراہی ابلیس نے کی اپنے لشکر کی صف آرائی طُوفانِ مفاسد میں غرق ہو گئے بحر و بر ایرانی و فارانی - رومی و بخارائی بن بیٹھے خدا بندے.دیکھا نہ مقام اُس کا طاغوت کے چیلوں نے ہتھیا لیا نام اُس کا تب عرش معلی سے اک نور کا تخت اُترا اک فوج فرشتوں کی ہمراہ سوار آئی اک ساعت نورانی ، خورشید سے روشن تر پہلو میں لئے جلوے بے حد وشمار آئی کافور ہوا باطل ، سب ظلم ہوئے زائل اُس شمس نے دیکھلائی جب شانِ خود آرائی ابلیس ہوا غارت ، چوپٹ ہوا کام اُس کا توحید کی یورش نے در چھوڑا نہ بام اُس کا
وہ پاک محمد ہے ہم سب کا حبیب آقا انوار رسالت ہیں جس کی چمن آرائی محبوبی و رعنائی کرتی ہیں طواف اُس کا قدموں پہ نثار اُس کے جمشیدی و دارائی نبیوں نے بھائی تھی جو بزم مہ و انجم واللہ اُسی کی تھی سب انجمن آرائی دن رات درُود اُس پر ہر ادنی غلام اُس کا پڑھتا ہے بصد منت جیتے ہوئے نام اُس کا آیا وہ غنی جس کو جو اپنی دعا پہنچی ہم ڈر کے فقیروں کے بھی تخت سنوار آئی ظاہر ہو وہ جلوہ جب اُس سے نگہ پلٹی خود حُسنِ نظر اپنا سو چند نکھار آئی اے پشم جواں دیدہ کھل گھل کہ سماں بدلا اے فطرت خوابیدہ اُٹھ اُٹھ کہ بہار آئی ، اللہ امام اُس کا نبیوں کا امام آیا سب تختوں سے اونچا ہے تخت عالی مقام اُس کا اللہ کے آئینہ خانے سے شریعت کی نکلی وہ دُلہن کر کے جو سولہ سنگار آئی اُترا وہ خدا کو و فارانِ محمد پر موسیٰ کو نہ تھی جس کے دیدار کی یا رائی سب یادوں میں بہتر ہے وہ یاد کہ کچھ لمحے جو اُس کے تصور کے قدموں میں گزار آئی وہ ماہِ تمام اُس کا ، مہدی تھا غلام اُس کا روتے ہوئے کرتا تھا وہ ذکر مدام اُس کا 2
: ☐ مرزائے غلام احمد تھی جو بھی متاع جاں کر بیٹھا نثار اُس پر.ہو بیٹھا تمام اُس کا دل اُس کی محبت میں ہر لحظہ تھا رام اُس کا اخلاص میں کامل تھا وہ عاشق تام اُس کا اس دور کا یہ ساقی ، گھر سے تو نہ کچھ لایا نے خانہ اس کا تھارئے اُس کی تھی، جام اُس کا سازندہ تھا یہ، اس کے.سب ساجھی تھے میت اُس کے و ھن اس کی تھی ، گیت اُس کے لب اس کے، پیام اُس کا اک میں بھی تو ہوں یا رب ، صیدہ دام اُس کا دل گا تا ہے گن اس کے ملب چہیتے ہیں نام اُس کا آنکھوں کو بھی دکھلا دے، آنالپ بام اُس کا کانوں میں بھی رس گھولے، ہر گام خرام اُس کا خیرات ہو مجھ کو بھی.اک جلوہ عام اُس کا پھر یوں ہو کہ ہو دل پر ، الہام کلام اُس کا اُس بام سے نور اُترے نغمات میں ڈھل ڈھل کر نغموں سے اُٹھے خوشبو ، ہو جائے سُرود عنبر 28 28 28 یہ نعت (192ء میں لکھی تھی.بعد میں اس میں بعض اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ پہلے ۱۹۹۳ء کے جلسہ سالانہ انگلستان یں اور پھر جلسہ سالانہ جرمنی میں پڑھی گئی.
اے شاہ مکی و مدنی سید الوری بزبان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) اس کی شان نزول یہ ہے کہ رویا میں ایک شخص کو دیکھا کہ انتہائی درد میں ڈوبی ہوئی نے کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ایک نعت اس انداز سے پڑھ رہا ہے گویا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سامنے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے آپ کے حضور حال دل پیش کیا جارہا ہو.آپ کا وہ کلام تو اٹھنے پر لفظاً لفظا میرے ذہن میں نہیں تھا مگر اس کے ٹیپ کا مصرعہ ع اے میرے والے مصطفیٰ خوب ذہن پر نقش ہو گیا کیونکہ وہ اسے بار بار ایک خاص کیفیت میں ڈوب کر د ہرا تا تھا.پس اسی روز گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نمائندگی میں اس اثر کو اپنے لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش کی جو اس نعت کو سنتے ہوئے دل پر نقش ہو گیا.اگر چہ معین الفاظ کی صورت میں نہیں ڈھلا.اور کوشش یہی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نعتوں میں سے ہی کچھ مضمون اخذ کر کے پیش کیا جائے اور جہاں ممکن ہو آپ ہی کے اشعار زینت کے طور پر جود یے جائیں.اے شاہِ مکی و مدنی ، سید الوری تجھ سا مجھے عزیز نہیں کوئی دوسرا تیرا غلام در ہوں ، ترا ہی اسیر عشق تو میرا بھی حبیب ہے ، محبوب کبریا
! تیرے جلو میں ہی میرا اٹھتا ہے ہر قدم چلتا ہوں خاک پا کو تیری چومتا ہوا تو میرے دل کا نور ہے، اے جانِ آرزو روشن تجھی سے آنکھ ہے، اے نیر بدی ہیں جان و جسم ، سو تری گلیوں پر ہیں نثار اولاد ہے، سو وہ ترے قدموں پہ ہے فِدا تو وہ کہ میرے دل سے جگر تک اتر گیا میں وہ کہ میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا اے میرے والے مصطفیٰ، اے سید الوری اے کاش ہمیں سمجھتے نہ ظالم جدا جدا رب جلیل کی ترا دل جلوہ گاہ سینہ ترا جمال الہی کا مستقر ہے قبلہ بھی تو ہے، قبلہ نما بھی تیرا وجود شانِ خدا ہے تیری اداؤں میں جلوہ گر نور و بشر کا فرق مٹاتی ہے تیری ذات " بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر تیرے حضورتہ ہے مرا زانوئے ادب میں جانتا نہیں ہوں کوئی پیشوا دگر تیرے وجود کی ہوں میں وہ شارخ با شمر جس پر ہر آن رکھتا ہے ربُّ الوری نظر ہر لحظہ میرے در پئے آزار ہیں وہ لوگ جو تجھ سے میرے قرب کی رکھتے نہیں خبر مُجھ سے عناد و بغض و عداوت ہے اُن کا دیں اُن سے مجھے کلام نہیں لیکن اس قدر اے وہ کہ مُجھ سے رکھتا ہے پر خاش کا خیال ” اے آں کہ سوئے من پر ویدی بصد تمر
از باغباں پترس که من شارخ متمرم خدا بعشق محمد محترم بعد از گر کفر این بود بخدا سخت کارفرم آزاد تیرا فیض زمانے کی قید سے بر سے ہے شرق و غرب پر یکساں تر اگرم تو مشرقی نہ مغربی اے نور شش جہات تیرا وطن عرب ہے، نہ تیرا وطن عجم تو نے مجھے خرید لیا اک نگہ کے ساتھ اب تو ہی تو ہے تیرے سوا میں ہوں کالعدم ہر لحظہ بڑھ رہا ہے میرا تجھ سے پیار دیکھ سانسوں میں بس رہا ہے ترا عشق دم بدم میری ہر ایک راہ تری سمت ہے رواں تیرے سوا کسی طرف اٹھتا نہیں قدم اے کاش مجھ میں قوت پرواز ہو تو میں اُڑتا ہوا بڑھوں ، تری جانب سُوئے حرم تیرا ہی فیض ہے کوئی میری عطا نہیں " این چشمہ رواں کہ خلق خدا دہم یک قطره زبحر کمال محمد است جان و دلم فدائے جمال محمد است خاگم نثار کوچه آل محمد است
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم سید ولد آدم ، صلى الله علیه وسلم سب نبیوں میں افضل و اکرم ، صلى الله علیه وسلم محمد ، کام مكرم صلی اللہ علیہ وسلّم ہادی کامل ، زبیر اعظم ، صلى الله علیه وسلم آپ کے جلوہ حُسن کے آگے ، شرم سے نوروں والے بھاگے مہر و ماہ نے توڑ دیا دم ، صلى اللہ علیہ وسلّم اک جلوے میں آنا فانا بھر دیا عالم ، کردیے روشن اثر دکھن پورب پچھتم صلی اللہ علیہ وسلم ، اول و آخر شارع و خاتم صلی الله 6 7
ختم ہوئے جب گل نبیوں کے دور نبوت کے افسانے بند ہوئے عرفان کے چشمے ، فیض کے ٹوٹ گئے پیمانے تب آئے وہ ساقی کوثر ، مست مئے عرفان ، پیمبر مُغانِ بادۂ اطہر ، کے نوشوں کی عید بنانے گھر آئیں گھنگھور گھٹائیں ، جھوم اُٹھیں مخمور ہوائیں جھک گیا ابر رحمت باری ، آب حیات کو برسانے کی سیراب بلندی پستی ، زندہ ہوگئی بستی بستی بادہ گشوں پر چھا گئی مستی ، اک اک ظرف بھرا برکھا نے برسات کرم کی صلی الله چارہ گروں کے غم کا چارہ ، دُکھیوں کا امدادی آیا * ☆ راہنما بے راہرووں کا راہبروں کا ہادی آیا $ عارف کو عرفان سکھانے ، متقیوں کو راہ دکھانے جس کے گیت زبور نے گائے ، وہ سردار مُنادی آیا انہیں الف کی مد کے ساتھ راہ نما اور ر آہ بروں پڑھنا ہے.8
وہ جس کی رحمت کے سائے یکساں ہر عالم پر چھائے وہ جس کو اللہ نے خود اپنی رحمت کی ردا دی ، آیا صدیوں کے مُردوں کا گی ، صَلَّ عَلَيهِ كَيفَ يُحْـي موت کے چنگل انسان کو دلوانے آزادی آیا جس کی دعا ہر زخم کا مرہم صلی الله علیہ شیریں بول ، انفاس مطهر ، نیک خصائل ، پاک شمائل حامل فرقاں ، عالم و عامل ، علم و عمل دونوں میں کامل جو اُس کی سرکار میں پہنچا ، اُس کی یوں پکٹا دی کایا کبھی بھی خام نہیں تھا ، ماں نے جنا تھا گویا کامل اُس کے فیضِ نگاہ سے وحشی ، بن گئے حلم سکھانے والے مُعطى بن گئے شہرہ عالم ، اُس عالی دربار کے سائل نبیوں کا سرتاج ، ابنائے آدم کا معراج محمد ایک ہی جست میں طے کر ڈالے ، وصل خدا کے ہفت مراحل صلی الله تاریخی کا بنده
وہ احسان کا افسوں پھونکا ، موہ لیا دل اپنے عدو کا کب دیکھا تھا پہلے کسی نے ، حُسن کا پیکر اس خُوبو کا نخوت کو ایشیار میں بدلا ، ہر نفرت کو پیار میں بدلا عاشق جان نثار میں بدلا ، پیاسا تھا جو خار لہو کا اُس کا ظہور ، ظہور خدا کا ، دکھلایا یوں نور خدا کا طاری کردیا عالم بہو کا بتکدہ ہائے لات و منات ظلمات کا گھیرا ، دُور کیا ایک ایک اندھیرا توڑ دیا جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِل - إِنَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا گاڑ دیا توحید کا پرچم صلی الله وسلم شعر میں یہاں وقف کرنا ہے اس لئے باطل کی بجائے باطل پڑھا جائے 10
آج کی رات ربوہ میں ۲۷ رمضان المبارک کی رات کے روح آفریں مناظر سے متاثر ہوکر ذکر سے بھر گئی ربوہ کی زمیں آج کی رات اُتر آیا ہے خداوند یہیں آج کی رات شہر.جنت کے ملا کرتے تھے طعنے جس کو بن گیا واقعہ خُلدِ بریں آج کی رات وا در گرید، کشا دیده و دل ، لب آزاد کس مزے میں ہیں جرے خاک نشیں آج کی بات کوچے کوچے میں بپاشور" متى نصر الله لا جرم نصرت باری ہے قریں، آج کی رات جانے کس فکر میں للکاں ہے میرا کافر گر " ادھر اک بار جو آ نکلے کہیں آج کی رات غیر مسلم“ کسے کہتے ہیں.اُسے دکھلائے ایک اک ساکن ربوہ کی جبیں ، آج کی رات کافر و ملحد و دجال بلا سے ہوں مگر تیرے عشاق کوئی ہیں تو ہمیں.آج کی رات
آنکھ اپنی ہی تیرے عشق میں ٹپکاتی ہے وہ لہو جس کا کوئی مول نہیں.آج کی رات دیکھ اس درجہ غم ہجر میں روتے روتے مر نہ جائیں ترے دیوانے کہیں.آج کی رات جن پہ گزری ہے وہی جانتے ہیں.غیروں کو کیسے بتلائیں کہ تھی کتنی حسیں آج کی رات کاش اُتر آئیں یہ اُڑتے ہوئے سیمیں لمحات کاش یوں ہو کہ ٹھہر جائے یہیں آج کی رات 12 لهند :
خُدام احمدیت ہیں بادہ مست بادہ آشام احمدیت چلتا ہے دور مینا و جام احمدیت تشنہ لبوں کی خاطر ہر سمت گھومتے ہیں تھامے ہوئے سبوئے گلفام احمدیت خدام احمدیت ، خدام احمدیت جب دہریت کے دم سے مسموم تھیں فضائیں پھوٹی تھیں جا بجا جب الحاد کی وبائیں تب آیا اک مُنادی.اور ہر طرف صدادی آؤ کہ ان کی زد سے اسلام کو بچائیں زور دعا دکھائیں ، خُدام احمدیت پھر باغ مصطفے کا روحیان آیا دوالمین کو سینچا پھر آنسوؤں سے احمد نے اس چمن کو آہوں کا تھا بلاوا پھولوں کی انجمن کو اور کھینچ لائے نالے مُرغان خوش سخن کو لوٹ آئے پھر وطن کو ، خذام احمدیت 13
چمکا پھر آسمان مشرق پہ نام احمد مغرب میں جگمگایا ماہِ تمام احمد وہم و گماں سے بالا عالی مقام احمد ہم ہیں غلام خاک پائے غلام احمد مُرغانِ دَامِ احمد ، خُدامِ احمدیت ربوہ میں آجکل ہے جاری نظام اپنا پر قادیاں رہے گا مرکز مدام اپنا تبلیغ احمدیت دنیا میں کام اپنا دارالعمل ہے گویا عالم تمام اپنا پوچھو جو نام اپنا ، خُدام احمدیت اُٹھو کہ ساعت آئی اور وقت جارہا ہے پیر مسیح دیکھو کب سے جگا رہا ہے دیر بعد آیا از راه دور لیکن وہ تیز گام آگے بڑھتا ہی جارہا ہے گو تم کو بلا رہا ہے ، خدام احمدیت ! X X X ی ظلم ربوہ کی تعمیر کے دوران ۱۹۴۸ء میں کہی گئی تھی.بعض اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ ۱۹۸۹ء میں صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر پڑھی گئی.14
مرد حق کی دُعا دو گھڑی صبر سے کام لو ساتھیو! آفتِ ظلمت و کور ٹل جائے گی آو مومن سے ٹکرا کے طوفان کا ، رُخ پلٹ جائے گا ، رُت بدل جائے گی دعائیں کرو یہ دُعا ہی تو تھی ، جس نے توڑا تھا سر کبر نمرود کا ہے ازل سے یہ تقدیر نمرودیت ، آپ ہی آگ میں اپنی جل جائے گی یہ دُعا ہی کا تھا معجزہ کہ عصا ، ساحروں کے مقابل بنا اثر دھا آج بھی دیکھنا مُردِ حق کی دُعا ، سحر کی ناگنوں کو نگل جائے گی خوں شہیدانِ اُمت کا اے کم نظر ، رائیگاں کب گیا تھا کہ اب جائے گا ہر شہادت ترے دیکھتے دیکھتے ، پھول پھل لائے گی ، پھول پھل جائے گی ہے تیرے پاس کیا گالیوں کے ہوا ، ساتھ میرے ہے تائید رب الوریٰ نکل چلی تھی جو لیکھو یہ تیل دعا ، آج بھی ، اذان ہوگا تو چل جائے گی 15
دیر اگر ہو تو اندھیر ہرگز نہیں ، قولِ اُملِي لَهُم إِنَّ كَيْدِى مَتِين سنت الله ہے لاجرم بالیقیں ، بات ایسی نہیں جو بدل جائے گی یہ صدائے فقیرانہ حق آشنا ، پھیلتی جائے گی شش جہت میں سدا تیری آواز اے دُشمن بد نوا دو قدم دور دو تین پل جائے گی عصر بیمار کا مرض لا دوا ، کوئی ہے 6 چاره نہیں اب دُعا کے سوا اے غلام مسیح اتر ماں ہاتھ اُٹھا ، موت بھی آگئی ہو تو مل جائے گی 16 (جلسه سالانه ربوه ۱۹۸۳ء)
موسیٰ پکٹ کہ وادی ایمن اُداس ہے پیغام آرہے ہیں کہ مسکن اُداس ہے طائر کے بعد اس کا نشیمن اداس ہے اک باغباں کی یاد میں سرو و سمن اُداس اہل چمن فسردہ ہیں گلشن اُداس ہے مرگیس کی آنکھ نم ہے تو لالے کا داغ اُداس غنچے کا دل خیز میں ہے تو سوسن اُداس ہے ہر موج خون گل کا گریباں ہے چاک چاک ہر گل بدن کا پیرہن تن اُداس ہے آزرده گل بہت ہیں کہ کانٹے ہیں شاد کام برق تپاں نہال، کہ خرمن اُداس ہے سینے پہ غم کا طور لئے پھر رہا ہے کیا موسیٰ پکٹ کہ وادی ایمن اُداس ہے ئس نامہ بر ، اب اتنا تو جی نہ دُکھا کہ آج پہلے ہی دل کی ایک اک دھڑکن اُداس ہے بن باسیوں کی یاد میں کیا ہوں گے گھر اُداس جتنا کہ بن کے باسیوں کا من اُداس ہے مجنوں کا دشت اُداس ہے صحنِ چمن اُداس صحرا کی گود ، لیلیٰ کا آنگن اُداس ہے چشم بریں میں آ تو ہے ہو مرے حبیب کیوں پھر بھی میری دید کا مسکن اُداس ہے 17
گھبرا کے درد ہجر سے اے مہمانِ عشق جس من میں آکے اترے ہو وہ من اُداس ہے آنکھوں سے جو لگی ہے جھڑی تھم نہیں رہی آکر ٹھہر گیا ہے جو ساون اُداس ہے کس یار دوست اور نہ کر فرش دل پہ رقص سن اکستنی تیرے پاؤں کی جھانجن اور اس ہے تو نغمہ ہائے درد نہاں تم بھی کچھ سنو دیکھونا ، میرے دل کی بھی راگن اُداس ہے (جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۸۴ء) 18
} آ رہے ہیں مری بگڑی کے بنانے والے اے مجھے اپنا پرستار بنانے والے جوت اک پریت کی ہر دے میں جگانے والے سرمدی پریم کی آشاؤں کو دھیرے دھیرے مدھ بھرے سر میں مدھر گیت سُنانے والے اے محبت کے امر ریپ جلانے والے پیار کرنے کرنے کی مجھے ریت سکھانے والے فرقت میں کبھی اتنا رُلانے والے کبھی دلداری کے جُھولوں میں چھلانے والے کر دل کو نکلتا ہوا ہاتھوں کبھی رس بھری لوریاں دے دے کے سُلانے والے 19
کیا ادا ہے میرے خالق ، میرے مالک ، میرے گھر چھپ کے چوروں کی طرح رات کو آنے والے راہ گیروں کے بسیروں میں ٹھکانا کر کے ہے ٹھکانوں کو بنا ڈالا ٹھکانے والے مجھ سے بڑھ کر میری بخشش کے بہانوں کی تلاش کس نے دیکھے تھے کبھی ایسے بہانے والے تو تو ایسا نہیں محبوب کوئی اور ہوں گے تو تو وہ جو کہلاتے ہیں دل توڑ کے جانے والے ہر بار سر ره سے پکٹ آتا ہے دل میں ہر سمت پل پل میرے آنے والے مجھ سے بھی تو کبھی کہہ رَاضِيــة مـــــرضــــــه بیتاب ہے رُوحوں کو بلانے اس طرف بھی ہو کبھی ، کاشف اسرار ، نگاه می روح ہم بھی والے ہیں ایک تمنا کے چھپانے والے درد کو سینے میں بسانے والے اپنی پلکوں مے اشک سجانے والے 20
خاک آلوده ، پراگنده زبوں حالوں کو کھینچ کر قدموں ނ زانو بٹھانے والے شکایت آقا! میں کہاں اور کہاں حرف ہاں یونہی ہوں اُٹھتے ہیں ستانے والے ہو اجازت تو تیرے پاؤں پہ سر رکھ کے کہوں کیا ہوئے دن تیری غیرت کے دکھانے والے ہو روتے ہی رہ جائیں ترے در کے فقیر اور ہنس ہنس کے روانہ ہوں رُلانے والے ہم نہ ہوں گے تو ہمیں کیا ؟ کوئی کل کیا وقت آج دکھلا دیکھے جو دکھانا ہے دکھانے والے ہے وقت مسیحا کسی اور کا وقت کون ہیں تیری تحریر مٹانے والے چھین لے ان سے زمانے کی عناں مالک وقت 6 بنے پھرتے ہیں کم اوقات - زمانے والے چشم گردُوں نے کبھی پھر نہیں دیکھے وہ لوگ آئے پہلے بھی تو تھے آکے بھی تو تھے آکے نہ جانے والے 21
سُن رہا ہوں قدم مالک تقدیر کی چاپ آرہے ہیں مری بگڑی کے بنانے کرو تیاری ! بس اب آئی تمہاری باری یوں ہی ایام پھرا کرتے ہیں باری باری و توکل گزاری باری ہم نے تو صبر و ہاں مگر مگر تم بہت ہوگی بھاری باری 22 والے (جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۸۴ء)
دل سے زباں تک کیا موج تھی جب دل نے جیسے نام خدا کے اک ذکر کی دھونی میرے سینے میں رہا آہیں تھیں کہ تھیں ذکر کی کے گھنگھور گھٹائیں نالے تھے کہ تھے سیل رواں حمد ثنا کے Люби دیئے اُسلوب بہت صبر رضا کے اب اور نہ لمبے کریں دن کرب , بلا کے اُکسانے کی خاطر تیری غیرت تیرے کیا مجھ بندے دعا مانگیں ستم گر کو سُنا کے رکھ لاج کچھ ان کی میرے ستار کہ زخم جو دل میں پُچھیا رکھے ہیں پتلے ہیں کیا کے 23
لاکھوں میرے پیارے تیری را ہوں کے مسافر پھرتے ہیں تیرے پیار کو سینوں میں بسا کے کتنے ६ ہی پابند سلاسل وہ گنہگار نکلے جو سینوں ترا نام سجا کے میں اُن جدا ہوں مجھے کیوں آئے کہیں چین سے دل منتظر اُس دن کا کہ ناچے انہیں کے عشاق ترے چین کا قدم تھا قدم صدق جال دے دی نبھاتے ہوئے اڑ گئی سایہ چھت اُڑ گئی ارمانوں کے دن جاتے اتنا تو کریں اُن کو بھی کر کبھی دیکھیں وفا پیمان کے رہا کتنے سروں پر رہے پیٹھ دکھا کے ایک ایک کہیں ނ لگا کے آداب محبت کے غلاموں کو سیکھا کے کیا چھوڑ دیا کرتے ہیں دیوانه بنا کے؟ مُجھ کو اجازت کہ کبھی میں بھی تو رُوٹھوں دیں لطف آپ بھی لیں رُوٹھے غلاموں کو منا کے 24
عين دیوانه ہوں دیوانه زیبا نہیں شکوے میرے مالک ہوگئی اوقات بھلا کے برا مان جانا صدقے میری جاں ، آپ کی ہر ایک ادا کے سنیئے تو سہی پگلا ناراض بھی ہوتا ہے دل پگلے کی باتیں کوئی دل کو لگا کے ہے ٹھہریں تو ذرا دیکھیں خفا ہی تو نہ ہو تو کچھ جانا ہے 6 جائیں درس تو دیں صبر و رضا کے جو چاہیں کریں صرف نگہ ہم نہ پھیریں جو کرنا ہے کر گزریں مگر اپنا فطرت میں نہیں تیری غلامی کے سوا نوکر ہیں ازل سے تیرے چاکر ہیں سدا کے آئیں تو پھر اس بار جب آپ آئیں کر گزروں گا 25 کے کے تو دیکھیں جا کے ذرا دیکھیں تو جا کے (جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۸۶ء)
اے میرے سانسوں میں بسنے والو دیار مغرب سے جانے والو! دیارِ مشرق کے جانے والو! دیارِ مشرق کے باسیوں کو لمحہ کسی غریب الوطن مُسافر کی چاہتوں کا سلام کہنا ہمارے شام و سحر کا کیا حال پوچھتے حال پوچھتے ہو کہ لمحہ نصيب ان کا بنا رہے ہیں تمہارے ہی صُبح و شام کہنا تمہاری خوشیاں جھلک رہی ہیں مرے مُقدر کے زائچے میں تمہارے خونِ جگر کی کے سے ہی میرا بھرتا ہے جام کہنا ، الگ نہیں کوئی ذات میری تمہی تو ہو کائنات میری تمہاری یادوں سے سے ہی معنون ہے زیست کا انصرام کہنا اے میرے سانسوں میں بسنے والو ! بھلا جُدا کب ہوئے تھے مجھ سے خدا نے باندھا ہے جو تَعلُّق رہے گا قائم مدام کہنا 26
تمہاری خاطر ہیں میرے نغمے ، مری دعائیں تمہاری دولت تمہارے درد و الم سے تر ہیں مرے سجود و قیام کہنا تمہیں مٹانے کا زعم لے کر اُٹھے ہیں جو خاک کے بگولے خدا اُڑا دے گا خاک اُن کی ، کرے گا رُسوائے عام کہنا خدا کے شیرو! تمہیں نہیں زیب خوف جنگل کے باسیوں کا گرجتے آگے بڑھو کہ زیر نگیں کرو بساط دنیا اُلٹ رہی رہی ہے فتح جهان ہر مقام کہنا حسین اور پائیدار نقشے بدل رہا ہے نظام.کہنا کہنا کو کے اُبھر رہے ہیں و ظفر تھائی تمہیں خدا نے اب آسماں پر فتح نشان ظفر ہے لکھا گیا تمہارے ہی نام بڑھے چلو شاہراہ دین متیں درانا سائیاں ہے تمہارے سر پر خدا کی رحمت قدم قدم گام گام کہنا (جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۸۶ء) 27
پھول تم پر فرشتے نچھاور کریں آئے وہ دن کہ ہم جن کی چاہت میں گنتے تھے دن اپنی تسکین جاں کے لئے پھر وہ چہرے ہویدا ہوئے جن کی یادیں قیامت تھیں قلب تپاں کے لئے جن کے اخلاص اور پیار کی ہر ادا ، بے غرض ، بے ریا ، دلنشیں ، دلربا بے صدا جن کی آنکھوں کا کرب و بلا ، کربلا ہے دل عاشقاں کے لئے پیار کے پھول دل میں سجائے ہوئے ، نور ایماں کی شمعیں اُٹھائے ہوئے قافلے دور دیسوں سے آئے ہوئے ، غمزدہ اک بدلیں آشیاں کے لئے ویر کے بعد اے ڈور کی راہ سے آنے والو ! تمہارے قدم کیوں نہ لیں میری ترسی نگاہیں کہ تھیں منتظر ، اک زمانے سے اس کارواں کے سئے پھول تم پر فرشتے نچھاور کریں ، اور کشادہ ترقی کی راہیں کریں آرزوئیں مری جو دُعائیں کریں ، رنگ لائیں میرے مہماں کے لئے 28
میرے آنسو تمہیں دیں زم زندگی ، دُور تم سے کریں ہر غم زندگی میہماں کو ملے جو دم زندگی قوم ، وہی امرت بنے میزباں کے لئے نور کی شاہراہوں پہ آگے بڑھو ، سال کے فاصلے لمحوں میں طے کرو خوں بڑھے میرا تم جو ترقی کرو ، قرة العین ہو سارباں کے لئے تم چلے آئے میں نے جو آواز دی ، تم کو مولیٰ نے توفیق پرواز دی پر کریں ، پر شکستہ وہ کیا جو پڑے رہ گئے پشمک دُشمناں کے لئے میری ایسی بھی ہے ایک رُودادِ غم ، دل کے پردے پر ہے خون سے جو رقم دل میں وہ بھی ہے اک گوشہ محترم ، وقف ہے جو غم دوستاں کے لئے یاد آئی جب اُن کی گھٹا کی طرح ، ذکر اُن کا چلا ئم ہوا کی طرح بجلیاں دل پہ کڑکیں بلا کی طرح ، رُت بنی خُوب آہ و فغاں کے لئے پھر افق تا افق ایک قوس قزح ، اُن کے پیکر کا آئینہ بن کر بھی اک حسیں یاد لے جیسے انگڑائیاں عالم خواب میں خُفتگاں کے لئے ہر تصور سے تصویر ابھرنے لگی ، نام بن کر زُباں پر اُترنے لگی ذکر اتنا حسیں تھا کہ ہر لفظ نے فرط الفت سے بوسے زباں کے لئے اُن کی چاہت میرا مدعا بن گیا ، میرا پیار اُن کی خاطر دُعا بن گیا بالیقیں اُن کا ساتھی خدا بن گیا وہ بنائے گئے آسماں کے لئے ، Seats 29
حبس کیسا ہے میرے وطن میں جہاں ، پا بہ زنجیر ہیں ساری آزادیاں ہے فقط ایک رستہ جو آزاد ہے ، یورشِ سیل اشک رواں کے لئے ایسے طائر بھی ہیں جو کہ خُود اپنے ہی آشیانے کے بینکوں میں محصور ہیں اُن کی بگڑی بنا میرے مُشکل گشا ، چارہ کر کچھ غم بیکساں کے لئے بن کے تسکین خود اُن کے پہلو میں آ ، لاڈ کر ، دے اُنھیں لوریاں ، دل بڑھا بکہ بلا ، یا بتا کتنے دن اور ہیں صبر کے امتحاں کے لئے ؟ دور کر 30 (جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۸۷ء)
جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِل دیکھو اک شاطر دشمن نے کیسا ظالم کام کیا پھینکا مکر کا جال اور طائر حق زیر الزام کیا ناحق ہم مجبوروں کو اک تہمت دی جلادی کی قتل کے آپ ارادے باندھے ہم کو عبث بدنام کیا دیکھو پھر تقدیر خدا نے ، کیسا اُسے ناکام کیا مکر کی ہر بازی اُلٹا دی ، دجل کو طشت از بام کیا اُلٹی کیا پڑ گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دعا نے کام دیکھا اس بیماری دل نے ، آخر کام تمام کیا زنده باد غلام احمد ، پڑ گیا جس کا دشمن جھوٹا جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِل ، أَنَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا 31
جب سے خُدا نے ان عاجز کندھوں پر بار امانت ڈالا راہ میں دیکھو کتنے کٹھن اور کتنے مہیب مراحل آئے بھیڑوں کی کھالوں میں لیٹے ، کتنے گرگ ملے رستے میں مقتولوں کے بھیس میں دیکھو ، کیسے کیسے قاتل آئے آخر شیر خدا نے پھر کر ، ہر بن باسی کو للکارا کوئی مبارز ہو تو نکلے ، سامنے کوئی مسائل آئے ہمت کس کو تھی کہ اُٹھتا ، کس کا دل گردہ تھا نکلتا کس کا پتا تھا کہ اُٹھ کر ، مردِ حق کے مقابل آئے آخر طاہر سچا نکلا ، آخر ملاں نکلا جھوٹا جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِل ، انَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ملاں کیا روپوش ہوا اک ، پلتی بھاگوں چھینکا ٹوٹا اپنے مُریدوں کی آنکھوں میں بجھونکی دُھول اور پیسہ لوٹا قریہ قریہ فساد ہوئے تب ، فتنہ گر آزاد ہوئے سب احمدیوں کو بستی بستی پکڑا دھکڑا مارا کوتا کر ڈالیں مسمار مساجد کوٹ لئے کتنے ہی معاہد جن کو پلید کہا کرتے تھے، لے بھاگے سب اُن کا جوٹھا 32
کاٹھ کی ہنڈیا کب تک چڑھتی ، وہ دن آنا تھا کہ پھٹتی وہ دن آیا اور فریب کا ، چوراہے میں بھانڈا پھوٹا کہتے ہیں پولیس نے آخر ، کھود پہاڑ نکالا چوہا جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِل ، أَنَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا جاؤں ہر دم تیرے وارے ، میرے جانی میرے پیارے تو نے اپنے کرم سے میرے ، خود ہی کام بنائے سارے پھر اک بار گڑھے میں تو نے ، سب دُشمن بچن چن کے اُتارے کر دیئے پھر اک بار ہمارے آقا کے اُونچے مینارے اے آڑے وقتوں کے سہارے ، سُبحان اللہ یہ نظارے اک دشمن کو زندہ کر کے مار دیئے ہیں دشمن سارے دیکھا کچھ.مغرب کے اُفق سے کیسا سچ کا سُورج نکلا مجھ گئے ویب طلسم نظر کے بیٹ گئے جھوٹ کے چاند ستارے اپنا منہ ہی کر لیا گندا ، پاگل نے جب چاند پر تھوکا جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِل ، انَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا 33 جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۸۸ء)
کس حال میں ہیں یارانِ وطن پورب برکھا برکھا سے چلی پرنم پرنم باد روح و ریحان وطن اُٹھے اُڑتے اڑتے پہنچے پچھم سُندر سُندر مُرغانِ وطن یادیں اُٹھیں ، طوفاں طوفاں جذبے بلائیں برسانے ، لیکے باد باد و باران وطن سینے آبیٹھ مُسافر پاس ذرا ، مجھے قصہ اہل درد سُنا اُن اہل وفا کی بات بتا ، ہیں جن سے خفا سگان وطن اور اُن کی جان کے دشمن ہیں جو دیوانے ہیں جانِ وطن اے دیس سے آنے والے بتا.کس حال میں ہیں یارانِ وطن 34
بسم اللہ جو گوئے دار سے چل کر سُوئے یار آئے آنکھوں پر ہر راہ خدا کا مُسافر ، سو سو بار آئے یہ سب کے نصیب کہاں ، ہر ایک میں کب یہ طاقت ہے کہ پیار کی پیاس بجھانے کو وہ سات سمندر پار آئے میں اب سمجھا ہوں وہ کیفیت کیا ہوتی ہے جب دل کو ہر دُور اُفتاده اولیس سے بڑھ کر پیار آئے لخت جگر ان مجبوروں کا حال بھلا کیا جانیں تن آسان وطن اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن ہے تجھ تو جور و جفا کی نگری ، صبر و وفا کے دیس سے آیا ہے عیاں میرے پیاروں پر غیروں نے ستم جو ڈھایا ہے آنکھوں میں رقم شکووں کی کتھا ، آہوں میں بجھے نالوں کی صدا میرے محبوبوں کیا میرے نام یہی ہیں بتا جو تو سندیسے لایا ہے؟ صبح و مسا ، پڑتی ہے کیسی کیسی بکلا برسوں گئے ان اندیشوں کا سایہ ہے میری روح پر 35 1
| کیا ظلم و ستم رہ جائیں گے اب دُنیا میں پہچان وطن اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن ظالم بد بخت کا نام نہ لے ، بس مظلوموں کی باتیں کر آزرده محکوموں کی باتیں کر حاکم کا ذکر نہ چھیڑ وہ جن سے لله لِله بَیر ہوئے ، جو اپنے وطن میں غیر ہوئے ان تختہ مشق ستم مجبوروں محروموں کی باتیں کر جیلوں میں رضائے باری کے جو گہنے پہنے بیٹھے ہیں ان راه خدا کے اسیروں کی ، اُن معصوموں کی باتیں کر جن کی جبینوں کے انوار سے روشن ہیں زندان وطن اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یاران وطن وہ کیا اب بھی عوام وہاں ، جب بگڑیں بھاگ ، اذانیں دیتے ہیں سیلاب تھیڑے ماریں تو سب جاگ اذانیں دیتے ہیں 36
ہے کیا اب بھی سفید مناروں سے نفرت کی منادی ہوتی دھرتی کے نصیب اُجڑتے ہیں جب ناگ اذانیں دیتے ہیں سے یارانے بلبل کو دیس نکالا ہے اور زاغ و زغن ہر سمت چمن کی منڈیروں پر کاگ اذانیں دیتے ہیں محرومِ اذاں گر ہیں تو فقط مُرغان خوش الحان وطن اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن اک ہم ہی نہیں چھنتے چھلتے چن کے سب حق معدوم ہوئے رفته رفته آزادی سے سب اہل وطن محروم ہوئے چلتا ہے وہاں اب کاروبار سکہ نوکر شاہی کا اور کالے دھن کی فراوانی سے سب دھندے مخدوم ہوئے ملا آزاد کہاں وہ ملک جہاں قابض ہو سیاست پر جو شاہ بنے بے تاج بنے ، جو حاکم تھے محکوم ہوئے اور گھر کے مالک ہی بن بیٹھے باوردی دربانِ وطن اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن 37
بخیر سُورج ہی نہیں ڈوبا اک شب سب چاند ستارے ڈوب گئے ظلمات کی طغیانی میں نور کے دھارے ڈوب گئے نفرت کا طوفان اُٹھا ، ہر شہر سے امن و امان اُٹھا جلب زَر کا شیطان اُٹھا ، مفلس کے سہارے ڈوب گئے وہ اے قوم تیرا حافظ ہو خدا ، ٹالے سر ٹالے سر سے ہر ایک بلا تا حد نظر سیل عصیاں ، ہر سمت کنارے ڈوب گئے بے کس بے بس کیا دیکھ رہی ہے اب چشم حیران وطن اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن اُس رحمت عالم ابر کرم کے وہ وہ آگ بجھانے آیا تھا کیسے متوالے ہیں آگ لگانے والے ہیں والی تھا مسکینوں کا بیواؤں اور یتیموں کا " یہ ماؤں بہنوں کے سر کی چادر کو جلانے والے ہیں سخا کا شہزادہ تھا بُھوک مٹانے آیا تھا وہ و یہ ٹھوکوں کے ہاتھوں کی روٹی چھین کے کھانے والے ہیں 38
یہ زر کے پجاری بیچنے والے ہیں دین و ایمان وطن اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن ظالم مت بھولیں بالآخر مظلوم کی باری آئے گی مکاروں پر پتھر کی لکیر یا ہر فکر کی ہر تقدير بازی اُلٹائی جائے گی ، مٹا دیکھو گر ہمت ہے ظلم مٹے گا دھرتی سے یا دھرتی خود مٹ جائے گی مگر انہی پر الٹے گا کا ہر بات مخالف جائے گی بالآخر میرے مولا کی تقدیر ہی غالب آئے گی جیتیں گے ملائک ، خائب و خاسر ہوگا ہر شیطان وطن اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن اک روز تمہارے سینوں بھی وقت چلائے گا آرا ٹوٹیں گے مان تکبر کے بکھریں گے بدن پارہ پارہ 39
مظلوموں کی آہوں کا دھواں ظالم کے اُفق گجلا دے گا نظاره نمرود جلائے جائیں گے دیکھے گا فلک کیا حال تمہارا ہوگا جب شداد ملائک آئیں گے سب ٹھاٹھ دھرے رہ جائیں گے جب لاد چلے گا بنجارا ظالم ہوں گے رُسوائے جہاں ، مظلوم بنیں گے آنِ وطن اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یاران وطن (جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۸۹ء) 40
آ مرے چاند میری رات بنے تو مرے دل کی شش جہات بنے اک نئی میری کائنات بنے تو جو میرا بنے تو بات بنے جو تیرا ہے لاکھ ہو میرا نچ ہے مجھ سے منقطع ہر ذات جس کا تو ہو اُسی کی ذات بنے عالم رنگ و بُو کے گل بوٹے! خواب ٹھہرے ، توہمات بنے سادہ باتوں کا بھی ملا نہ جواب سب سوالات مظلمات بنے یہ شب و روز و ماه و سال تمام کیسے پیمانہ صفات بنے! ہوئی میزان ہفتہ کب آغاز؟ کیسے دن رات سات سات بنے؟ عالم حیرتی کے مندر میں کبھی بُت مظہر صفات بنے کبھی مخلوق ہو گئی ہمہ اوست آتش و آب ، عین ذات بنے کتنے منصور چڑھ گئے سر دار کتنے نعرے تعلیات بنے 41
جو کتنے غزلی بنے ؟ مٹے گے بار ؟ کتنے لات اُجڑے کتنے لات بنے کتنے محمود آئے ، کتنی بار سومنات اُجڑے ، سومنات بنے کھنڈر تھے محل بنائے گئے کتنے محلوں کے کھنڈرات بنے عالم بے ثبات میں شب و روز آج کی جیت کل کی مات بنے تیرے مُنہ کے سنگ نہانے بول دل کے بھاری معاملات بنے دن بہت بے قرار گزرا ہے آ مرے چاند ، میری رات بنے المحمر اب صد ساله جشن تشکر نمبر - مرتبه لجنہ کراچی ۱۹۸۹ء) 1 42
برطرفا وباؤن لگا کریم جی کڑا کر کے میں بیٹھاتھا کہ ایسے کر ناگہاں 43 مهم
ہم آن ملیں گے متوالو! ہم آن ملیں گے متوالو ، بس دیر ہے گل یا پرسوں کی تم دیکھو گے تو آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی ، دید کے ترسوں کی ، ہم آمنے سامنے بیٹھیں گے تو فرط طرب دونوں کی آنکھیں ساون برسائیں گی اور پیاس بجھے گی برسوں کی ثم دُور دُور کے دیسوں سے جب قافلہ قافلہ آؤ گے تو میرے دل کے کھیتوں میں ، پھولیں گی فصلیں سرسوں کی یہ عشق و وفا کے کھیت رضا کے خوشوں سے لد جائیں گے موسم بدلیں گے ، رُت آئے گی سائن ! پیار کے درسوں کی میرے بھولے بھالے حبیب مجھے لکھ لکھ کر کیا سمجھاتے ہیں کیا ایک اُنہی کو دُکھ دیتی ہے ، جدائی لمبے عرصوں لی؟ 44
یہ بات نہیں وعدوں کے لمبے لیکھوں کی ، تم دیکھو گے ہم آئیں گے ، جھوٹی نکلے گی ، لاف خدا نائرسوں کی ڈور ہوگی گلفت عرصوں کی اور پیاس بجھے گی برسوں کی ہم گیت مکن کے گائیں گے پھولیں گی فصلیں سرسوں کی 45 الفضل ربوه - صد سالہ جشن تشکر نمبر ۱۹۸۹ء)
غزل آپ کے لئے گلشن میں پھول ، باغوں باغوں میں پھل آپ جھیلوں میری بھی آرزو اشکوں مژگاں بنیں کھل کے رہے ہیں کنوں آپ کے لئے اجازت ملے تو میں اک پروؤں غزل آپ کے لئے حکایت دل کے لئے حکم ہو روشنائی ، آنکھوں کا جل آپ کے لئے ان آنسوؤں کو چرنوں گرنے کا اذن دل آپ کا ہو آنکھوں میں جو رہے ہیں مچل آپ کے لئے ہے 6 آپ کی جان ، آپ کا بدن غم بھی لگا ہے جان گئل آپ کے لئے 46
میں آر ہی کا ہوں وہ میری زندگی نہیں جس گو آرہی ہے ماہر ، زندگی کے آج نہ کل آپ کے لئے ہی گیتوں کی بازگشت ہے میرے نغمه سرا ہیں دشت فراق گزرا آ جائیے کہ سکھیاں موسم گئے ہم جیسوں کے بھی ظاہر ہوا یہ ہے غمر چین و جیک آپ کے لئے دراز غم کوئی پل آپ کے لئے میل مل کے گائیں گیت ہیں کتنے بدل آپ کے لئے دید کے سامان ہو گئے تھا حُسنِ ازل آپ کے لئے صلی اللہ علیہ وسلم یہ تین شعر اصل نعتیہ کلام کا حصہ نہیں اور غزل کی روایت کے مطابق قافیوں کی رعایت سے الگ مضمون میں الجھ گئے ہیں، اس لئے ان کو نعتیہ کلام کا حصہ نہ سمجھا جائے.اب حسرتیں کسی ہیں وہاں آرزوؤں نے خوابوں میں جو بنائے محل آپ کے لئے 47
گیر ہیں تمام گھل گئیں جو آرزوئے وصل رکھ چھوڑا ہے اس عقدے کا حل آپ کے لئے گل آنے کا جو وعده تھا آکر تو دیکھتے ، طرح گل آپ کے لئے کس طرح تڑپا تھا کوئی کس 48 (جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۸۹ء)
وفا کا امتحان انہی تیری راہوں میں میں کیا کیا ابتلا روزانہ آتا ہے وفا کا امتحاں لینا مجھے کیا کیا نہ اُحد اور مکہ اور طائف انہی راہوں شعب پر تشنہ لبوں کی کی آزمائش کو آتا ملتے ہیں و دانہ آتا جو طالب بے آب و ہے کہیں گرب و بکا کا اک کڑا ویرانہ آتا ہے پشاور مرا شہزادہ نے کر جان کا نذرانہ آتا اے عشق و وفا کے جرم میں سنگسار کرتے ہیں انہی راہوں سنگستان کابل کو ہے تو ہر پتھر دم تیج دانه دانہ آتا ہے 49 49
جہاں اہلِ جفا اہل وفا پر وار کرتے ہیں سیر وار اُن کو ہر منصور کو لٹکانا آتا ہے جہاں شیطان مومن پر رمی کرتے ہیں وہ راہیں جہاں پتھر ہے مرد حق کو سر ٹکرانا آتا جہاں پسران باطل عورتوں وار کرتے ہیں تر مردان کو پر " شيوة مردانه آتا ہے کبھی سکھر ، کبھی سکرنڈ جاتی ہیں یہی راہیں انہی ، پر پنوں عاقل واره اور لڑکا نہ آتا ہے کبھی ذکر قتها حیدر آباد ان ملتا ہے کہیں تو ابشاہ کا وکھ گھرا افسانہ آتا ليل کوئٹہ کی ہے داستان ظلم و سقا کی ہے کہیں اوکاڑہ اور لاہور اور بچیانہ آتا کہیں ہے ماجرائے گجرانوالہ کی لہو کہیں اک سانحہ ٹوپی کا سفاکانہ آتا پاشی ہے خوشاب اور ساہیوال اور فیصل آباد اور سرگودھا بلائے ناگہاں اک نت نیا مولانا آتا ہے 50
معايد شریروں سے مٹا کر کلمه توحید کو عباد اللہ کا آئے دن دل بر مانا آتا ہے کیا انداز ہیں کیسے چکن ہیں کیسی رسمیں ہیں انہیں تو ہر طریق نامسلمانانہ آتا ہے بگولے بن اڑ جانا روش غول بیاباں کی بن کے اُڑ ہمیں آپ بقا پی کر امر ہو جانا آتا ہماری خاک پا کو بھی عدو کیا خاک پائے گا ہمیں رکنا نہیں آتا اسے چلنا نہ آتا ہے ہے اسے رُک رُک کے بھی تسکین جسم و جاں نہیں ملتی ہمیں مثل صبا چلتے ہوئے ستانا آتا ہے تصور ان دنوں جس ره بھی ربوہ پہنچتا ہے ہے کبھی ہر اُس راه ننکانہ آتا ہے پر یادوں کی اک بارات یوں دل میں اُترتی ہے که گویا رند تشنہ لب کے گھر کے خانہ آتا ہے عجب مستی ہے یاد یار کے بن کر برستی ہے سرائے دل میں ہر محبوب دل رندانہ آتا ہے 51
وہیں رونا بجر یار میں بس فرق ہے اتنا کے آتا تھا اب آزادانہ آتا ہے (جلسه سالانه امریکہ ۱۹۸۹ء) 52
دَشتِ طلب میں طلب میں جا بجا 6 بادلوں کے ہیں دل پڑے کاش کسی کے دل سے تو چشمہ فیض اُبل بے آسراؤں کے لئے کوئی تو اشکبار ہو پیاس بجھے غریب کی تشنہ کیوں کو گل دردوں دُکھوں سے لد گیا سموم چمن آه فقیر ނ مرے اشک اُبل اُبل پڑے چشم خویں کے پار اُدھر درد نہاں کی جھیل پر رکھلتے ہیں کیوں کسے خبر ، حسرتوں کے گنول پڑے شود و زیاں سُرور و غم ، روشنیوں کے زیر و بم آس مجھے تو پاس کے ریپ کی کو اُچھل پڑے 53 }
چاند نے پی ہوئی تھی رات ڈول رہی تھی کائنات ، نور کی کے اُتر رہی تھی ، عرش گئی بزم شش جہات ور و میکده ނ ، جیسے کل پڑ.پڑے تجليات چھوڑ کر بند نکل نکل حرم کو چھوڑ کر حال دل سُنا پڑے مبر کا درس ہو چکا اب ذرا حال کہتے ہیں تجھ کو ناصحا چین نہ ایک پل پڑے آنکھ میں پھانس کی طرح ہجر کی شب اٹک گئی اے میرے آفتاب آ رات ملے تو گل پڑے کون ره فراق سے کوٹ کے پھر نہ آ سکا کس کے نقوش منتظر راه خدا میں منزل مرگ ره گئے ہے محل پڑے مچل گئے ہم بھی رُکے رُکے سے تھے ، اذن ہوا تو چل پڑے (61990) 54
یہ دل نے کس کو یا د کیا یہ دل نے کس کو یاد کیا ، سپنوں میں یہ کون آیا ہے جس سے سپنے جاگ اٹھے سینے جاگ اٹھے ہیں خوابوں نے نور کمایا ہے گل بوٹوں ، کلیوں ، پتوں سے ، کانوں سے خوشبو آنے لگی اک عنبر بار تصور نے یادوں کا چمن مہکایا ہے گل رنگ شفق کے پیراہن میں قوس قزح کی پینگوں اک یاد کو جھولے کو جھولے دے د.دے دے کر پگلے نے دل بہلایا ہے دیکھیں تو سہی دن کیسے کیسے حُسن کے رُوپ میں ڈھلتا ہے بدلی نے شفق کے چہرے پر جس رُخ دیکھیں ہر من موہن تیرا مکھڑا ہی تکتا کالا گیئو ہے لہرایا ہے ہر اک محسن نے تیرے حسن کا ہی احسان اُٹھایا ہے 55
میرے دل کے افق پر لاکھوں چاند ستارے روشن ہیں لیکن جو ڈوب چکے ہیں اُن کی یادوں نے منظر دھندلایا ہے جب مالی دارغ جدائی دے مُرجھا جاتے ہیں گل بوٹے فُرقت نے کیسے پھول سے چہروں سے چہروں کو گملا یا دیکھیں ہے یہ کون ستارہ ٹوٹا جس سے سب تارے بے نور ہوئے کس پندرما نے ڈوب کے اتنے چاندوں کو گہنایا ہے کیا جلتا ہے کہ چمنیوں سے اُٹھتا ہے دُھواں آہوں کی طرح اک درد به داماں سرمئی رت نے سارا افق گجلایا ہے کوئی احمدیوں کے امام سے بڑھ کر کیا دنیا میں غنی ہوگا ہیں سچے دل اس کی دولت اخلاص اس کا سرمایا ہے اے دشمنِ دیں! ترا رزق فقط تکذیب کے تھوہر کا پھل ہے شیطاں نے تجھے صحراؤں میں اک باغ سبز دکھایا ہے ہے میں ہفت افلاک کا پنچھی ہوں ، مرا نور نظر آکاشی تو اوندھے چلنے والا اک والا اک بے مُر بے مُرشد چوپایہ ہے بانٹ کے دُکھ مرا تن من دھن اپنا بیٹھے سکھ کے ساتھی تھے ہی پرائے کون گیا ، کون آیا ہے ساتھی 56
غفلت میں عمر کی رات کئی ، دل میلا بال سفید ہوئے اٹھ چلنے کی تیاری کر ، سورج سر پر چڑھ آیا ہے (جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۹۰ ء ) 57 i
1 کون پیا تھا؟ کون پر یمی؟ اُن کو شکوہ ہے کہ ہجر میں کیوں تڑپایا ساری رات چن کی خاطر رات کٹا دی ، چین نہ پایا ساری رات اُن کے اندیشوں میں دل نے کیسے کیسے گھبرا کر سجی سینے کے دیوار و در ، سر ٹکرایا ساری رات یادوں کی محفل ، مہمانوں نے تاپے ہاتھ نے اپنا کوئلہ کوئلہ أن ت دل دہکایا ساری رات شکوہ کیا جن کی یاد نے بیٹھ کے پہلو میں ساری رات آنکھوں میں کائی < ورد بٹایا ساری رات اُن سے شکایت کس منہ سے ہو جن کے ہوں احسان بہت جن کی گومل یاد نے دُکھتا دل سہلایا ساری رات 58
! گرد آلود تھا پتہ پتہ ٹوٹ کے یادیں برسیں ، کلی کلی کھلائی ہوئی ہر بوٹا نہلایا ساری رات روتے روتے سینے پر سر رکھ کر سو گئی اُن کی یاد کون پیا تھا ؟ کون پریمی ؟ بھید نہ پایا ساری رات وہ یاد آئے جن کے آنسو تھے غم کی خاموش گتھا میرے سامنے بیٹھ کے روئے ، دکھ نہ بتایا ساری رات رات وہ یاد آئے جن کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہ تھا سوجے نین دکھائے اپنے اور رُلایا ساری بچے بھوکے گریاں ترساں ، دیپک کی کو لرزاں لرزاں کٹیا میں افلاس کے بھوت کا نا چا سایا ساری رات مجھ ہے ڈولا اوروں کے دُکھ درد میں تو کیوں ناحق جان گنواتا کو کیا کوئی بے شک تڑپے ، ماں کا جایا ساری رات صُبح صادق صادق پر صدیقوں کا صدیقوں کا ایمان نہیں اندھی رات کے گھور اندھیروں نے بہکایا ساری رات راتوں کو خُدا سے پیار کی کو اور صبح جُوں سے یارانے نادان گنوا بیٹھے دن کو جو یار کمایا ساری رات (جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۹۰ء) 59
ہم نے تو آپ کو اپنا اپنا، کہہ کر لا کھ بلا بھیجا ی نظم استاذی المکرم حضرت ملک سیف الرحمن صاحب کی یاد میں ۱۹۹۰ء میں کہی گئی اور ان ہی کی زبانی اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہی تھی جائیں جائیں ہم رُوٹھ گئے ، اب آکر پیار جتائے ہیں جب ہم خوابوں کی باتیں ہیں ، جب ہم یادوں کے سائے ہیں ت اب کس کو بھیج بلائیں گے ، کیسے سینے لگائیں گے مر کر بھی کوئی کوٹا ہے ، سائے بھی کبھی ہاتھ آئے ہیں کیا قبروں پر رو رو کر ہی ، مکینوں کی پیاس بجھا لیں گے کیا یوں بھی کسی نے رُوٹھے یار منا کر بھاگ جگائے ہیں جو آنکھیں مُند گئیں رو رو کر.اور گھل گھل کے جو چراغ بجھے اب اُن کی پچھلی یادوں میں ، کیا بیٹھے نیر بہائے ہیں 60
جو صبح کا رستہ تکتے تکتے ، اندھیاروں میں خواب ہوئے اُن کے بعد آپ اُن کے لئے ، کیا خاک سویرے لائے ہیں ہم نے تو آپ کو اپنا اپنا کہہ کر لاکھ بلا بھیجا اس پر بھی آپ نہیں آئے ، آپ اپنے ہیں کہ پرائے ہیں اب آپ کی باری ہے تڑپیں ، اب آپ ہمیں آوازیں دیں سوتے میں نہیں روتے جاگیں کہ خواب ملن کے آئے ہیں ہم جن راہوں پر مارے گئے سچ کی روشن راہیں تھیں ظالم نے اپنے ظلم سے خود ، اپنے ہی افق دھندلائے ہیں وہ ہم ابھی بسے ہیں اپنے خوابوں کی سرمد تعبیروں میں آپ اب ہر خوشبو اور ہر رنگ کے لاکھوں پھول کھلے ہیں آنگن میں پھر چند گلوں کی یادیں کیوں ، کانٹوں کی طرح تڑپائے ہیں تک فانی دنیا میں ، سپنوں سے دل بہلائے ہیں ہم سر افراز ہوئے رُخصت ، ہے آپ سے بھی امید بہت یہ یاد رہے کس باپ کے بیٹے ہیں ، کس ماں کے جائے ہیں (جلسہ سالانہ جرمنی ۱۹۹۰ء) 61
ہو تمہی کل کے قافلہ سالار وقت کم ہے.بہت ہیں کام.چلو ملگجی سجی ہو رہی ہے شام.چلو زندگی اس طرح تمام نہ ہو کام رہ جائیں ناتمام - چلو کہہ رہا ہے خرامِ بادِ صبا منزلیں جب تلک دم چلے مُدام چلو شام چلو دے رہی ہیں آوازیں صُبح محو سفر ہو ،.چلو ساتھیو! میرے ساتھ ساتھ رہو قُربتوں کا لئے پیام تم اُٹھے ہو تو لاکھ اُجالے اُٹھے تم چلے ہو تو برق گام چلو کبھی ٹھہرو تو مثلِ ابرِ بہار جب برس جائے فیض عام.چلو رات جاگو مہ و نجوم کے ساتھ دن کو سورج سے ہم خرام چلو ہو تمہی کل کے قافلہ سالار آج بھی ہو تمہی امام.چلو تم سے وابستہ ہے جہانِ نو تمہیں سونپی گئی آگے بڑھ کر قدم تو لو زمام - چلو.دیکھو ہے تمہارے نام.چلو عبد 62
پیشوائی کرو.تمہاری طرف آرہا ہے نیا نظام اے خُوشا.دل بیار.دَست بکار بہر در پہر شاد کام چلو میرے پیارو! خدا کے پیاروں پر دائماً بھیجتے سلام زیر و بم میں دلوں کی دھڑکن کے موجزن ہو خدا کا نام چلو دل اُٹھے جو نعرہ تکبیر ہو ریا غم دُنیا کی دوا غم عشق ہے سے ہمکلام چلو عیسی نہیں 6 ہوا قوم عشق عالم میں اک بپا کر پیار کا غلغلم 63 رو تلاطم عشق (جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۹۱ء)
0 کشکول میں بھر دے جو مِرے دل میں گھر ا ہے.جو درد سکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے شاید کہ یہ آغوشِ جُدائی میں پلا ہے غم دے کے کے فکر مریض شب غم ہے یہ کون ہے جو درد میں رس گھول رہا ہے یہ کس نے میرے درد کو جینے کی طلب دی دل کس کے لئے عمر خطر مانگ رہا ہے ہر روز نئے فکر ہیں ، ہر شب ہیں نئے غم یا رب یہ مرا دل ہے کہ مہمان سرا ہے ہیں کس کے بدن دیس میں پابند سلاسل پردیس میں اک رُوح گرفتار بلا ہے کیا تم کو خبر ہے کہ مولا کے اسیرو! تم سے مجھے اک رشتہ جہاں سب سے سوا ہے آ جاتے ہو کرتے ہو ملا قات شب و روز یہ سلسلہ ربط بہم صبح و مسا ہے اے تنگی زنداں کے ستائے ہوئے مہمان کا حکم ہے ، دل باز ، درسینہ گھلا تم نے مری جلوت میں نئے رنگ بھرے ہیں تم نے مری تنہائیوں میں ساتھ دیا ہے تم چاندنی راتوں میں مرے پاس رہے ہو تم سے ہی میری نظر کی ٹیموں میں ضیا ہے وا ہے 64
کس دن مجھے تم یاد نہیں آئے مگر آج کیا روز قیامت ہے! کہ اک حشر کیا ہے یادوں کے مُسافِر ہو تمناؤں کے پیکر بھر دیتے ہو دل، پھر بھی وہی ایک خلا ہے سینے سے لگا لینے کی حسرت نہیں مٹتی پہلو میں بٹھانے کی تڑپ حد سے سوا ہے یا رب یہ گدا تیرے ہی ڈر کا ہے سوالی جو دان ملا تیری ہی چوکھٹ سے ملا ہے گشته اسیرانِ رَهِ مولا کی خاطر مُدَّت سے فقیر ایک دُعا مانگ رہا ہے جس کہ میں وہ کھوئے گئے اُس راہ پر گدا ایک کشکول لئے چلتا ہے لب پر یہ صدا ہے مخیرات کر اب ان کی رہائی میرے آقا! کشکول میں بھر دے جو مرے دل میں بھرا ہے میں تُجھ سے نہ مانگوں تو نہ مانگوں گا کسی سے میں تیرا ہوں ، تو میرا خدا میرا خدا ہے (جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۹۱ء) 65
گھٹا گرام کی ہجوم بلا سے اٹھی ہے گھٹا کرم کی ، نجوم بلا سے اٹھی ہے کرامت اک دل درد آشنا سے اٹھی ہے جو آہ ، سجدۂ صبر و رضا سے اُٹھی ہے زمین بوس تھی ، اس کی عطا سے اٹھی ہے رسائی دیکھو! کہ باتیں خدا سے کرتی ہے دعا.جو قلب کے تحت العرسی سے اٹھی ہے یہ کائنات آڈل سے نہ جانے کتنی بار خلا میں ڈوب چکی ہے خلا سے اٹھی ہے سدا کی رسم ہے، اہلبیسٹیٹ کی بانگ زبوں آنا کی گود میں پل کر اباء سے اٹھی ہے ہے کیا سے عاری ، سیہ بخت، نیش زن ، مردُود یہ واہ واہ کسی کربلا سے اٹھی خموشیوں میں کھنکنے لگی کسک دل کی اک ایسی ہوک دلِ بے نوا سے اُٹھی ہے مسیح بن کے ، وہی آسماں سے اتری ہے جو التجا ، دل ناکتخدا سے اٹھی ہے وہ آنکھ اٹھی تو مُردے جگا گئی لاکھوں قیامت ہوگی ، کہ جو اس ادا سے اٹھی ہے 66 i
آمر ہوئی ہے وہ مجھ سے محمد عربی ندائے عشق ، جو قول ملی سے اٹھی ہے ہزار خاک سے آدم اُٹھے ، مگر بخدا شبیہ وہ ! جو تری خاک پا سے اٹھی ہے بنا ہے مبط انوار قادیاں.دیکھو وہی صدا ہے، سنو ! جو سدا سے اٹھی ہے کنارے گونج اُٹھے ہیں زمیں کے ، جاگ اُٹھو کہ اک کروڑ صدا، اک صدا سے اٹھی ہے ، جو دل میں بیٹھ چکی تھی ، ہوائے عیش و طرب بڑے جشن سے ، ہزار انتجا سے اُٹھی ہے حیات کو کی تمنا.ہوئی تو ہے بیدار مگر یہ نیند کی ماتی ، دُعا سے اُٹھی ہے المحراب سوواں جلسہ سالانہ نمبر بند کراچی.جلسہ سالانہ جرمنی ۱۹۹۱ء) 67
اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا نظم 1991ء میں قادیان کے سفر کے دوران کہی گئی اور جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر پڑھی گئی.اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا جیسی سُندر تھی 09 گھر بھی سُندر تھا بستی ویسا وہ دلیس بدلیں لئے پھرتا ہوں اپنے دل میں اُس کی گتھا ئیں میرے من میں آن بسی ہے تن من دھن جس کے اندر تھا سادہ اور غریب تھی جنتا.لیکن نیک نصیب تھی جنتا فیض رسان عجیب تھی جنتا ہر بندہ ، بندہ پرور تھا کچے لوگ تھے ، کچی بستی.کرموں والی اُچی بستی - جو اُونچا تھا ، نیچا بھی تھا ، عرش نشیں تھا ، خاک بسر تھا اُس کی دھرتی تھی آکاشی ، اُس کی پر جا تھی پر کاشی جس کی صدیاں تھیں متلاشی ، گلی گلی کا کا وہ منظر تھا 68
کرتے تھے آ آ کے بیرے ، پنکھ پکھیرو شام سویرے پھولوں اور پھلوں سے بوجھل ، بستاں کا ایک ایک شجر تھا اُس کے سُروں کا چرچا جا جا ، دیس بدیس جا ، دیس بدیس میں ڈنکا باجا اُس بستی کا پیتم را جا ، کرشن گٹھیا مرلی دھر تھا چاروں اور بجی شہنائی بھیجنوں نے اک دُھوم مچائی رت بھگوان مکن کی آئی ، پیتم کا درشن گھر گھر تھا گوتم بدھا بندھی لایا ، سب رشیوں نے درس دکھایا عیسی اُترا مہدی آیا جو سب نبیوں کا مظہر تھا مہدی کا دلدار محمد نور نگه سرکار محمد نبیوں کا سردار جس کا وہ منظور نظر تھا 6 آشاؤں کی اُس بستی میں ، میں نے بھی فیض اُس کا مجھ پر بھی تھا اُس کا چھایا ، جس کا میں ادنی چاکر تھا اتنے پیار سے کس نے دی تھی ، میرے دل کے کواڑ یہ دستک رات گئے میرے گھر کون آیا ، اُٹھ کر دیکھا تو ایشر تھا عرش سے فرش پہ مایا اُتری ، روپا ہو روپا ہو گئی ساری دھرتی ٹ گئی گلفت چھا گئی مستی.وہ تھا میں تھا من مندر تھا 69
پر میری جان نچھاور ، اتنی کرپا اک پاپی پر جس کے گھر نارائن آیا ہ کیڑی بھی کمتر تھا - وہ رب نے آخر کام سنوارے ، گھر آئے پرہا کے مارے آ دیکھے اُونچے مینارے ، نُورِ خدا تا حد نظر تھا مولا نے وہ دن دکھلائے ، پریمی رُوپ نگر کو آئے ساتھ فرشتے پر پھیلائے " ، سایہ رحمت ہر سر پر تھا عشق خدا مونہوں پر دستے “ پھوٹ رہا تھا نور.نظر سے اکھین سے کے پیت کی برسے ، قابل دید ، ہر دیدہ ور تھا لیکن آہ جو رستہ تکتے جان سے گزرے تجھ کو ترستے کاش وہ زندہ ہوتے جن پر ، ہجر کا اک اک پل دُوبھر تھا کو پکارا ، آس نہ ٹوٹی ، دل نہ ہارا آخر دم تک تجھ سدا سہاگن مصلح عالم باپ ہمارا ، پیکر صبر و رضا بستی ، جس میں پیدا ہوئی وہ ہستی رہے یہ رہبر تھا جس سے نور کے سوتے پھوٹے ، جو نوروں کا اک ساگر تھا ہیں سب نام خدا کے سُندر واہے گرو ، الله اكبر سب 6 فانی ، اک وہی ہے باقی ، آج بھی ہے جو کل ایشر تھا 70 (جلسه سالانه قادیان (۱۹۹۱ء)
مِیرا نالہ اُس کے قدموں کے غبار تک تو پہنچے کبھی اذن ہو تو عاشق درِ یار تک تو پہنچے وہ ذرا سی اک نگارش ہے نگار تک تو پہنچے نکل چکا ہے ، یا رب دِلِ بے قرار قابو نگاہ رکھ کہ پاگل سرِ دار تک تو پہنچے جو گلاب کے کٹوروں میں شراب ناب بھر دے نسیم آه ، پھولوں کے نکھار تک تو پہنچے کچھ عجب نہیں کہ کانٹوں کو بھی پھول پھل عطا ہوں میری چاہ کی حلاوت رگِ خار تک تو پہنچے محبتوں کا لشکر جو کرے گا فتح خیبر ڈرا تیرے بغض و نفرت کے حصار تک تو پہنچے 71
تیری ہی قم کہ دوبارہ جی اٹھوں گا ہے ترا نفخ رُوح میرے دل زار تک تو پہنچے جو نہیں شُمار اُن میں تو غُراب میں تو غُراب پر شکستہ تیرے پاک صاف بگلوں کی قطار تک تو پہنچے تیری بے حِساب بخشش کی گلی گلی ندا چا کر گنہگار دول نوید تیرے گنہگار تک تو پہنچے شجر خزاں رسیده ہے مجھے عزیز یا رب اک اور وصل تازہ کی بہار تک تو پہنچے میلا سُراغ تیرا جنہیں اپنی حبلِ جاں میں نہ خود اپنی ہی انا کے بُہت نار تک تو پہنچے وہ کے فکر عاقبت ہے انہیں بس یہی بہت ہے کہ رہین مرگ داتا کے مزار تک تو پہنچے ہے عوام کے گناہوں کا بھی بوجھ اس خبر کسی طریقے بھاری حمار تک تو پہنچے 72
خبر ہے گرم یا رب کہ سوار خواهد آمد کروں نقدِ جاں نچھاور ، میرے دار تک تو پہنچے وہ جوان برق یا ہے وہ جمیل دلربا ہے پہنچے میرا نالہ اُس کے قدموں کے غبار تک تو (جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۹۲ء) - الله 73
وہ فاصلے بڑھ گئے جو خدا کو ہوئے پیارے یہ نظم اپنی بیوی آصفہ مرحومہ کی یاد میں ۱۹۹۲ء میں کہی تھی.تم بدلے نہ ہم ، طور ہمارے ہیں وہی قرب تو سارے ہیں وہی پر آکے دیکھو تو سہی بزم جہاں میں ، کل تک جو تمہارے ہوا کرتے تھے تمہارے ہیں وہی سے وہی کھیلیں گے کھیل جھٹپٹوں میں اُنہی یادوں وہی گلیاں ہیں وہی صحن ، چو بارے ہیں وہی ، وہی جلسے وہی رونق وہی بزم آرائی ایک تم ہی نہیں مہمان تو سارے ہیں وہی < شام غم ، دل شفق رنگ دکھی زخموں کے تم نے جو پھول کھلائے مجھے پیارے ہیں وہی 74
am چاند راتیں ہیں وہی گلشن میں وہی وہی پھول کھلا کرتے ہیں ، چاند ستارے ہیں وہی وہی جھرنوں کے مدھر گیت ہیں مدہوش شجر نیلگوں رُود کے گل پوش پوش کنارے کنارے ہیں ہیں وہی ئے برستی ہے بلا بھیجو - کہاں ہے ساقی ي بھری برسات میں موسم کے اشارے ہیں وہی بے بسی ہائے تماشا کہ تیری موت نجشیں مٹ گئیں پر رنج کے مارے ہیں وہی تم وہی تو کرو کچھ تو مداوا غم کا ہو جن کے تم چارہ تھے میرے آنگن 09 ورد تو سارے ہیں وہی سے قضا لے گئی چن چن کے جو پھول جو خدا کو ہوئے پیارے مرے پیارے ہیں وہی ، تم نے جاتے ہوئے پلکوں سجا رکھے تھے جو گہر اب بھی میری آنکھوں کے تارے ہیں وہی منتظر کوئی نہیں ہے ساحل درنه وہی طوفاں ہیں ، وہی ناؤ کنارے ہیں وہی 75
然 تیرے کام ہیں مولا ، مجھے دے صبر و ثبات ہے وہی راہ کٹھن ، بوجھ بھی بھارے ہیں وہی (جلسہ سالانہ یو کے - ۱۹۹۲ء) 76 الله 罪 翼
خدا کے سپرد اس نظم کا پہلا مصرعہ آصفہ بیگم کی زندگی ہی میں ایک معمولی فرق کے ساتھ رویا میں زبان پر جاری ہوا تھا.اس پر نظم شروع کی تو ان کی زندگی میں صرف دو شعر ہو سکے تھے.باقی نظم ان کی وفات کے بعد مکمل کی ہے.اس مناسبت سے پہلے مصرعہ کو کچھ تبدیل کرنا پڑا یعنی پہلے یہ مصرعہ یوں تھا.ع تری شفا کا سفر ہے قدم قدم اعجاز تیری بقا کا سفر تھا قدم قدم اعجاز بدن سے سانس کا ہر رشتہ دم بہ دم اعجاز ترا فنا کے اُفق سے پلٹ پلٹ آنا دُعا کے دوش پہ نبضوں کا زیروبم اعجاز تھا اک کرشمہ پیہم ترا دل بیمار دکھایا ہوگا کسی دل نے ایسا کم اعجاز نحیف جان ، بہت بوجھ اُٹھا کے چلتی رہی ہر ایک نقشِ قدم پر تھا مقسم اعجاز 77
اس کا فیض تھا ورنہ میری دُعا کیا تھی کہے سے اُس کے دکھاتا تھا میراعلم انجانہ اُسی دیکھا جب اُس کا اذن نہ آیا ، خطا گئی فریاد رہی نہ آہ کرشمند ، نه پشم تم اعجاز غنا نے اُس کی جو عرفانِ بندگی بخشا نہیں تھا وہ کسی جُود و عطا سے کم اعجاز پیشم تم تمہیں سمجھایا ، بس خدا کے لئے دکھاؤ نا ، سر تسلیم کر کے کم اعجاز یونہی ثمنت اعدا سے مت ڈرو بي بي! ہمارے حق میں دکھائیں گے یہ بشم اعجاز بی ہوموت اُس کی رضا پر ، یہی کرامت ہے خوشی سے اُس کے کہے میں جو کھا ئیں سم ، اعجاز وہیں تمہاری انا کا سفر تمام ہوا حیات و موت وہیں بن گئے بہم اعجاز لحیف ہونٹوں سے اٹھی برائے استغفار ٹوائے تو یہ تھی اللہ کی قسم انجاز مجھے کبھی بھی تم اتنی نہیں لگیں پیاری وہ محسن تھا ملکوتی ، وہ شیط کم اعجاز اُس کی ہوگئیں تم ، اُس کے آمر ہی سے تمہیں امر بنانے کا دکھلا گئی عدم اعجاز کبھی تو آ کے ملیں گے ، چلو ، خدا کے سپرد کبھی تو دیکھیں گے احیائے ٹو کا ہم اعجاز همه 78 (۱۹۹۲ء)
جو گل کبھی زندہ تھے آج سے تقریباً چالیس برس پہلے یادرفتگاں کے طور پر کچھ اشعار کہے تھے لیکن غزل نامکمل رہی.اب آصفہ بیگم کی یاد میں ربط مضمون قائم رکھتے ہوئے اُسی غزل میں چند اشعار کا اضافہ کر کے اسے اُن کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے.ہے حُسن میں خو غم کے شراروں کے سہارے اک چاند معلق ہے ستاروں کے سہارے اک شعلہ سا لرزاں ہے سر گور تمنا اک غم چئے جاتا ہے مزاروں کے سہارے تو رُوٹھ کے اُمیدوں کا دل توڑ گیا ہے اے میری اُمنگوں کے سہاروں کے سہارے ناداری میں ناداروں کے رکھوالے تھے کچھ لوگ بخشش کے بھکاری، گنہگاروں کے سہارے سکھ بانٹتے پھرتے تھے مگر کتنے دکھی تھے بے چارگی غم میں بچاروں کے سہارے مرتے ہیں جب اللہ کے بندوں کے نگہبان رہتے نہیں کیا اُن کے دُلاروں کے سہارے؟ وہ ناؤ ، خدا بنتا ہے خود جس کا رکھویا پاگل ہے کہ ڈھونڈے وہ کناروں کے سہارے کانٹوں نے بہت یاد کیا اُن کو خزاں میں جو گل کبھی زندہ تھے بہاروں کے سہارے 79
( ۹۹۲) کیا اُن کا بھروسہ ہے جو دیتے تھے بھر سے لو.مرگئے، جیتے تھے جو پیاروں کے سہارے تم جن کا وسیلہ تھیں وہ روتی ہیں کہ تم نے دم تو ڑ کے توڑے ہیں ہزاروں کے سہارے وہ آخری ایام ، وہ بہتے ہوئے خاموش حرفوں کے بدن، اشکوں کے دھاروں کے سہارے بھیگی ہوئی بجھتی ہوئی ، مٹتی ہوئی آواز اظہار تمنا وہ اشاروں کے سہارے وہ ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہنا دَمِ رخصت میں نے نہیں جینا نگہداروں کے سہارے وہ جن کو نہ راس آئے طبیبوں کے دلا سے شاید کہ بہل جائیں ، نگاروں کے سہارے آبیٹھ مرے پاس مرا دست تھی تھام مت چھوڑ کے جا درد کے ماروں کے سہارے 80
اجنبی غم یہ نظم کالج کے زمانہ میں مری میں کہی تھی لیکن اس وقت نامکمل چھوڑ دی گئی تھی.اس کے بعد ۱۹۹۳ء میں بعض اور بند شامل کر کے اسے مکمل کیا گیا.پر اسرار دھندلکوں میں سمویا ہوا غم اک جذبہ مہم بن کر چھا گیا رُوح فضاؤں میں يسكتنا ہوا إحساس الم ديدة ڈھلکے لگا تنبر بن جانے وکھ ہے تمہارا کہ زمانے کا ستم أجنبي ہے کوئی مہمان چلا آیا ہے يني چہرے کو جان ہے اس نہ پہچان کو چھپائے نی نقاب چلا آیا ہے شب 6 81
ہے یا ہے کوئی مہمان سرائے غم آنکھ دل ہے میری کہ اشکوں کی ہے اک را بگذار و خون ہے سینہ کہ جواں مرگ اُمنگوں کا مزار اک زیارت کہ صد قافلہ ہائے غم یا تیرے دھیان کی جوگن خون ہمہ رنج آزار خود چلی آئی پہلو میں بجائے غم و حزن ہے رات بھر چھیڑے گی احساس کے دُکھتے ہوئے تار ایک اک تار سے اُٹھے گی نوائے غم و مخزن ہے جیسے کسی راہب کا چراغ دل جلے جاتا ہے ٹمٹماتا ہو کہیں دور بیابانوں میں قافلے درد کے پا جاتے ہیں منزل کا سُراغ اک کرزتی ہوئی کو دیکھ کے ویرانوں میں 82 الله
بھی شاید کوئی بھٹکا ہوا رو گھڑی ہے قلب کے غم خانے میں ستائے گا راہی اوٹ تیرگی پاس کی جب وقت سحر کرن امید اُمید کی پھوٹے گی چلا جائے گا خانہ دل میں اتر کر فقیروں کے غم ناله شب نصیب اپنا جگا لیتے ہیں دل کو اک شرف عطا کرکے چلے جاتے ہیں أجنبي غم محسن مرے مرا کیا لیتے ہیں کوئی مذہب ہے سسکتی ہوئی رُوحوں کا نہ رنگ ہر ستم دیده کو انسان ہی پایا ہم نے بن کے اپنا ہی لیٹ ہی لیٹ جاتا ہے جاتا ہے روتے روتے غیر کا دُکھ بھی جو 83 سے لگایا لگایا ہم نے
کوئی قشقہ دکھوں کا ہے نه عمامه کوئی ہندو ہے ہر ستم گر کو گر کو ہو ہو نہ مسلم ہے اے کاش نہ عیسائی ہے یہ عرفان نصیب بھی ہر دین کی رُسوائی ہے بادة عشق ہے درمان اگر ہے کوئی مت ہمیں چھوڑ کے جا ساقی کہ غم باقی ہیں ہم نہ ہوں گے تو اُجڑ جائے گا کے خانہ غم درو کے جام لنڈھا ساقی کہ ہم باقی ہیں جہانوں کے لئے بن کے جو رحمت آیا ہر زمانے کے دکھوں کا ہے مد اوا وہی ایک اُس کے دامن سے ہے وابستہ گل عالم کی نجات بے سہاروں کا ہے اب ملیا ماوی وہی ایک 84 ( صلى الله عليه و على آله و سلّم) (جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۹۳ء) 1
جاء المسيح جاء المسيح ( کچھ اہل وطن سے ) بہار آئی ہے ، دل وقف یار کر دیکھو خرد کو نذر جنونِ بہار کر دیکھو غضب کیا ہے جو کانٹوں سے پیار کر دیکھا اب آؤ پھولوں کو بھی ہمکنار کر دیکھو جو کر سکے تھے کیا ، غیر ہمیں بنا نہ سکے ہم اب بھی اپنے ہیں ، اپنا شمار کر دیکھو بس اب نہ دُور رکھو اپنے دل سے اہل وطن ہے تم سے پیار ہمیں ، اعتبار کر دیکھو ہمیں کبھی تو تم اپنی نگاہ سے دیکھو تعصبات کی عینک اتار کر دیکھو لگا رکھی ہیں جو چہروں پہ مولوی آنکھیں نظر کی یہ مچھی ان آنکھوں سے پار کر دیکھو نحوستوں کا قلندر ہے پیر تسمہ پا کسی دن اس کو گلے سے اُتار کر دیکھو نقاب اوڑھ رکھا ہے جو مولویت کا اُتار پھینکو اسے تار تار کر دیکھو تمہارا چہرہ بُرا تو نہیں ، نہا دھو کر کبھی تو حُسنِ شرافت نکھار کر دیکھو 85 }
مسیح اُترا ہے عِندَ المَنَارَةِ البيضاء اُٹھو.کہ جائے ادب ہے.سنوار کر دیکھو لگاؤ سیڑھی اُتارد ، دلوں کے آنگن میں نثار جاؤ ، نظر وار وار کر دیکھو جو اُس کے ساتھ ، اُس کی دُعا سے اُترا ہے یہ مائدہ ہے ، ڈشوں میں اُتار کر دیکھو بلا رہی ہیں تمہیں پیار کی کھلی بانہیں چلے بھی آؤ نا ، اللہ پیار کر دیکھو محبتوں کے سمندر سے دُوریاں کیسی لپٹ کے موجوں سے بوس و کنار کر دیکھو (جلسہ سالانہ یو کے ۱۹۹۴ء) 86
آمد امام کامگار (منکرین سے خطاب) ہیں آسمان کے تارے گواہ ، سُورج چاند پڑے ہیں مائد ، ذرا کچھ بچار کر دیکھو ضرور مهدي دوراں کا ہوچکا ہے ظہور ذرا سا نُور فراست نکھار کر دیکھو کڑانے تم پہ لٹائے گا لا جرم لیکن بس ایک نذرِ عقیدت گزار کر دیکھو لر ہے ضد کہ نہ مانو گے ، پر نہ مانو گے تو ہو سکے جو کرو ، بار بار کر دیکھو بدل سکو تو بدل دو ، نظامِ شمس و قمر خلاف گردشِ لیل و نہار کر دیکھو پکٹ سکو تو پکٹ دو ، شرامِ شام و سحر حساب چرخ کو بے اعتبار کر دیکھو جو ہو سکے تو بستاروں کے راستے کاٹو کوئی تو چارہ کرو ، کچھ تو کار کر دیکھو سوار لاؤ ، پیارے بڑھاؤ ، چڑھ دوڑو جو بن سکے جو بن سکے وہ بیٹے کار زار کر دیکھو خُدا کی بات ملے گی نہیں ، تم ہو کیا چیز اٹل پٹان ہے ، سر مار مار کر دیکھو اُتر رہی ہیں فلک سے گواہیاں.روکو وہ غل غپاڑہ کرو ، حال زار کر دیکھو - 87 ---.+
} گواہ دو ہیں ، دو ہاتھوں سے چھائیاں پیلو تخوف شمس و قمر ، بار بار کر دیکھو جلن بہت ہے تو ہوتی پھرے نہ نکلے گی بھڑاس سینے کی ، بک بک ہزار کر دیکھو قفس کے شیروں سے کرتے ہو روز دو دو ہاتھ دو آنکھیں بن کے بیر سے بھی چار کر دیکھو مری سُنو تو پہاڑوں سے سر نہ ٹکراؤ جو میری مانو تو عجز اختیار کر دیکھو (جلسہ سالانہ یو کے ۳۱ / جولائی ۱۹۹۴ء) 88
* اے بوسنیا بوسنیا! بوسنیا ، زنده باد! ہے تو خُوں میں نہائے ہوئے ٹیلوں کا وطن گل رنگ شفق - قرمزی چھیلوں کا وطن ہے خُوں بار بلکتے ہوئے جھرنوں کی زمیں ہے نو خیز جواں سال قبیلوں کا وطن اک دن تیرے مقتل میں بہے گا الشام ہے جلاد اے بوسنیا بوسنیا ! 6 بوسنیا زنده باد 89
وائے سر ، چن کی اُتاری گئی چادر وہ سر پا بسته پدر اور پتر جن کے برابر ہوتی رہی رسوا دیکھے ہیں تیری آنکھ نے پتھر بھی وہ ، زبانیں ہوں تو ، کرنے لگیں فریاد کہیں دختر کہیں مادر ظلم کہ جن پر بوسنياً بوسنیا بوسنیا ! زنده باد قبروں میں پڑے عرش نشینوں کی رولے ہوئے مٹی میں نگینوں کی قسم بہنوں کی اُمنگوں کے دفینوں کی قسم کے سلگتے ہوئے ماؤں کے ہے ہے ؟ سینوں کی قسم ہے ہو جائیں گے آنگن ترے اُجڑے ہوئے آباد اے بوسنیا بوسنياً ! 90 بوسنیا زنده باد
چھٹ جائیں گے اک روز مظالم کے اندھیرے لہرائیں گے ہر آنکھ میں گلرنگ سویرے صبحوں کے اُجالوں ނ لکھیں گے تیرے نغمے سر پر ترے باندھیں گے فتوحات کے سہرے اللہ کی رحمت اے بوسنیا بوسنياً ! جائیں گے دلشاد بوسنیا زنده باد سینوں زبانیں تری سطوت رقم ہیں تری عظمت کے فسانے گاتی ہیں زبانیں تری کے ترانے اُترے گا خدا جب تیری تقدیر بنانے مٹ جائیں جائیں گے نکلے جو تیرا نام مٹانے جس جس نے اُجاڑا مجھے ہو اے بوسنیا بوسنیا جائے گا برباد بوسنياً ! زنده باد 91
اپنے حسیں خوابوں کی خوابوں کی تعبیر بھی تازہ نئی صبح کی بھی دیکھے سینه شمشیر کو بھی چیر کے رکھ دنیا ترے ہاتھوں میں وہ شمشیر بھی دیکھے پیدا بوسنیا اے ہوں نئے حامی دیں دشمن الحاد بوسنیا بوسنياً ! زنده باد 92 جلسه سالانہ جرمنی - ۲۸ / اگست ۱۹۹۴ء)
کلام ط ہوں گواہی کا اشارہ تر آئیں گے 93
شاوا سوہنے یار مبشر ينظم جماعت جرمنی کے ایک نہایت مخلص اور فدائی خادم مبشر احمد صاحب باجوہ کے متعلق ہے جو ایک حادثہ کے نتیجہ میں ۱۹۹۵ء میں وفات پاگئے.آؤ سجنو مل لیتے تے گل اوس یار دی چلے کردے جیدے دانے ملک گئے کل پرسوں دی گل اے آؤ سجنو مل لیتے تے گل اوس یار دی اتلے یار نے جد صد ماری پین سٹی دُنیا دی یاری مار لقاء عرشاں تائیں لائی تاری اُڈاری گلے آؤ سجنو مل لیتے تے گل اوس یار دی چلے رہ کے عمر ہنڈائی دا سیوک ذات اُچی سی ، کم وڈے پر نت بیندا سی تھلے نیچا پائی آؤ سجنو مل لیتے تے گل اوس یار " دی 94
شور خود همه این همه جو کم آکھیا حاضر سائیں ، کہہ کے چھاتی ڈائی بس دیاں سارے پاپڑ ویلے سارے جھمیلے جھتے آؤ سجنو مل لیتے تے گل اوس یار دی چلے ایم ٹی اے دی خاطر گبھرو کونیا چار چفیرے کو نیا مخلص منڈے گڑیاں لبھ کے چونویں چونویں ونے آؤ سجنو مل لیئے تے گل اوس یار دی وڈیاں سوچاں نیک عمل تے عالی شان ارادے پائی پھر دا سادے ماڑے موٹے ٹلے گل وچ ि آؤ سجنو مل لیئے تے گل اوس یار دی چلے نیچا کے اندر ره اندر احيا یار کمایا جیویں لکھ ہووے پلے باروں دڑ وٹ رکھی میرا آؤ سجنو مل لیتے تے گل اوس یار ساتھ نبھاون تائیں کوئی راہ جیڑے رستیاں توں میں لنگیا اوہی نہ چھڑی رتے ملے دی آؤ سجنو مل لیتے تے گل اوس یار دی چلے 95
| اونوں کیویں دستاں کہ میں تیتھوں آج سکھ پائیا شادا سوہنے یار مبشر واه واه بگلے لگے آؤ سجنو مل لیتے تے گل اوس یار دی چلے گوڑے چار دناں دے میلے اگو گل ای اگو گل ای سچ اے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّه لَّهُمَّ صَلَّ آؤ سجنو مل لیتے تے گل اوس یار دی چلے جلسہ سالانہ جرمنی ۱۹۹۵ء) 96
محبتوں کے نصیب میرے درد کی جو دوا کرے ، کوئی ایسا شخص ہوا کرے وہ جو بے پناہ اُداس ہو ، مگر ہجر کا نہ گلہ کرے مری چاہتیں میری قربتیں جسے یاد آئیں قدم قدم تو وہ سب سے چُھپ کے لباس شب میں لپٹ کے آہ و بکا کرے بڑھے اُس کا غم تو قرار کھو دے ، وہ میرے غم کے خیال ނ اُٹھیں ہاتھ اپنے لئے تو پھر بھی میرے لئے ہی دُعا کرے قصص عجیب و غریب ہیں یہ محبتوں کے نصیب ہیں مجھے کیسے خود سے جُدا کرے ، اُسے کچھ بتاؤ کہ کیا کرے کبھی طے کرے یونہی سوچ سوچ میں وہ فراق کے فاصلے میرے پیچھے آکے دبے دبے ، میری آنکھیں موند ہنسا کرے 97
کو جنون ہے بڑا شور ہے میرے شہر میں کسی اجنبی کے نزول کا وہ میری ہی جان نہ ہو کہیں ، کوئی کچھ تو جا جا کے پتہ کرے تو میرے دِل ہی کا عکس ہے ، میں نہیں ہوں پر مری آرزو مجھے بنا دے تو پھر جو چاہے قضا کرے بھلا کیسے اپنے ہی عکس کو میں رفیق جان بنا سکوں کوئی اور ہو تو بتا تو دے ، کوئی ہے کہیں تو صدا کرے اُسے ڈھونڈتی ہیں گلی گلی میری خلوتوں کی اُداسیاں وہ ملے تو بس یہ کہوں کہ آ ، میرا مولیٰ تیرا بھلا کرے 98
{ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِن خَيْرٍ فَقِير حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مشہور دعا رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِن خَيْرٍ فَقِير کس شان سے اور کتنے رنگوں میں پوری ہوئی، اس کے متعلق یہ نظم ہے.اک برگد کی چھاؤں کے نیچے اک مسافر پڑا تھا غم چور کیسے کچھ عرض مدعا کرتا اپنی حاجات کا بھی تھا نہ شعور دل سے بس ایک ہی دعا اٹھی میں اسی کا اسی کا فقیر ہوں آقا جو میرے لئے بھلا سمجھے مجھے اے کاش ہر کوئی تیرا فقط تیرا ہی گدا سمجھے اور یہی 99 اٹھی
میری جھولی میں کچھ نہیں مولا پیٹ خالی ہے ہاتھ خالی ہے زندگی کا سفر نبھانے کو میں اکیلا ہوں.ساتھ خالی ہے دل تنہا سے صدا اٹھی بے ٹھکانہ ہوں گھر نہیں اپنا سر پہ چھت ہے، نہ بام و در اپنا ہے گاؤں کی چمنیوں سے اٹھتا گو دھواں، وہ مگر نہیں اپنا مصر جانے کو جی مچلتا ہے دل سے یہ شعلہ سا نوا اٹھی اکیلا ہوں خوف کھاؤں گا پر دست و بازو کوئی عطا کردے کوٹ کر تب وطن کو جاؤں گا 100 دل سے یہ مضطرب دعا اٹھی
1 مرے وطن مجھے تیرے افق سے شکوہ ہے احمد ندیم قاسمی ایک بزرگ شاعر اور بہت بڑے ادیب ہیں.مگر اپنے وطن کے لئے دعا کے وقت کبھی انہیں یہ خیال نہیں آیا کہ وہاں رسول اللہ مے کے غلاموں پر جو ظلم ہو رہے ہیں ان کے خلاف بھی آواز اٹھائیں.اس لئے میں نے اُن کی ایک نظم کی تضمین کہی ہے.اگر ان کو اس سے اختلاف ہو تو میں مجبور ہوں.خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لئے حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو سوائے اس کے کہ وہ شخص احمدی کہلائے تو سانس لینے کی بھی اس کو یاں مجال نہ ہو وہ سبزہ زاروں میں ہو سب سے سبز تر پھر بھی رگیدا جائے اگرچہ 101 وہ پائمال نہ ہو
چمن میں وہ گل رعنا جو خاک سے اٹھے اکھاڑنے میں اسے تم کو کچھ ملال نہ ہو وہ پھول ہو کے بھی آنکھوں میں خار سا کھٹکے ہو تو ایسا زخم لگاؤ کہ اند مال نہ لاکھ علم و عمل کا ہو ایک اوجِ کمال فقط وہ غازی گفتار و قیل و قال نہ ہو مگر سب اہل وطن یہ بھی سوچ لیں کہ کہیں لباس تقوی میں لیٹی یہ کوئی چال نہ ہو میرے وطن مجھے تیرے افق شکوه ނ کہ اس وہ ہے ثبت ہے عبدالسلام نام کا چاند اسے ڈبو کے کوئی اور اچھال کام کا چاند تو یہ کرے تو کبھی تجھ پہ پھر زوال نہ ہو ہر ایک شہری ہو آسودہ ہر کوئی ہو نہال کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو 102
بزبان مولویانِ پاکستان گویادہ احمدیوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں) اذانیں دے کے دُکھاؤ نہ دل خدا کے لئے درود پڑھ کے ستاؤ نہ.مصطفی کے لئے سلام کر کے دعائیں نہ دو ہمیں.ہم لوگ وہ لوگ ہیں کہ ترستے ہیں بددعا کے لئے 103
ملال سوچا بھی کبھی تم نے کہ کیا بھید ہے کیوں تم.گھن آتی ملاں ہے اچھے نہیں لگتے ہر بات تمہاری ہے فقط جھوٹ کا پتلا بھولے سے بھی سچ بولو تو بچے نہیں لگتے ویسے تو ہو آدم ہی کی اولاد بلا ریب سر پر ہے عمامہ بڑا.بجھتے میں بڑی جیب پر سوچو کہ تم میں سے ہے بعضوں میں وہ کیا عیب وہ جو بھی ہوں، انسان کے بچے نہیں لگتے 104
عیاری و جلادی و سفاکی میں پکتے تم قلب و ذہن دونوں کی ناپاکی میں پکتے گو قول کے کچے ہو ہمیشہ مگر ان اوصاف حمیدہ میں تو کچے نہیں لگتے 105 }
MULLAH the lies personified --- Have you ever pondered over the secret - O Mullah, Of why you are so nauseating and do not please the eyes? Even if forgetfully you bray the truth you are never right, Everything you say is merely a package of lies.You are certainly the children of Adam - no doubt, There is a large turban on your head and in the gown a large gaping pocket, But try to discover what fault lies with some among you, Whatever you are, you never appear to be the sons of man.Hard in cunning, and butchery, and mercilessness; As for the filth of heart and mouth, in both you are pig-headed, Of word, forever unrealiable, but in these, praiseworthy qualities you are never undependable.106
5 تم پر بھی تو ایک عدالت بیٹھے گی جھوٹو تم نے ٹھیک الزام دھرا ہوگا اللہ والوں ہی نے کفر بکا ہوگا احمدیوں نے جب بھی درود پڑھا ہوگا دل میں اور کسی کا نام لیا ہوگا تم سچے تو جنگ میں کون رہا جھوٹا ہم جھوٹے تو سچا کون رہا ہوگا تنگ آئے ہیں روز کی بک بک جھک جھک سے کر گزرو جو کچھ تم نے کرنا ہوگا 107 1 $
لیکن شاید کبھی سوچا ہوگا روز قیامت تم جیسوں سے کیا ہوگا تم پر بھی تو ایک عدالت بیٹھے گی جیسا کیا ہے، ویسا ہی بھرنا ہوگا ہم تو رضائے باری پر ہی جیتے ہیں اس کی رضا پر ہی اک دن مرنا ہوگا روئیں گے تو اُس کے حضور مگر تم سے ہنس ہنس کر ہم نے ہر دکھ سہنا ہوگا تم میں اگر ہے اچھا، ایک.ہزار بُرے ہم میں ایک بُرا تو ہزار اچھا ہوگا 1 108
شه خواهان هر نذر الاسلام کی ایک نظم کا منظوم ترجمہ توحید کے پر چارک.مرے مُرشد کا نام ہے بات یہی بر حق.مرے مُرشد کا محمد ہے نام محمد ہے اُس نام کے جینے سے قرآن.کا ہوتا ہے ادراک مجھے سندر نام ہونٹوں سے دل تک.کر دیتا ہے پاک مجھے اللہ کے بہت پیارے - مرے مُرشد کا نام محمد ہے وہ اک مولی سے ملواتا ہے جب نام اُس کا میں لیتا ہوں بحر نور کی موجوں پر.اک نور کی کشتی کھیتا ہوں اے جگ والو سن لو مرے مُرشد کا نام محمد ہے 109
اُس نام کے دیپ جلاتا ہوں تو چاند ستارے دیکھتا ہوں سینے سے عرش تک اٹھتے ہوئے نوروں کے دھارے دیکھتا ہوں مرے نورِ مجسم - صلی اللہ.مُرشد کا نام محمد ہے اُس نام کا پلو پکڑے پکڑے اُس دنیا تک جاؤں گا اُس کے قدموں کی خاک تلے میں اپنی جنت پاؤں گا ہر دم - نذر الاسلام - مرے مُرشد کا نام محمد ہے 110 (نذر الاسلام)
دن آج کب ڈھلے گا.کب ہوگا ظہو رشب دن آج کب ڈھلے گا.کب ہو گا ظہورِ شب ہم کب کریں گے چاک گریباں.حضور شب آہ و بکا پہ پہرے ہیں.دل میں فغاں ہے بند اے رات! آ بھی جا کہ رہا ہوں طیورِ شب ہوش و حواس گم تھے.کے تاب دید تھی جب جگمگا رہا تھا برقی تجلی سے طور شب امشب نہ تو نے چہرہ دکھایا تو کیا عجب صبح کا منہ نہ دیکھے دل ناصبور شب لیلائے شب کی گود میں سویا ہوا تھا چاند سیماب زیب تن کئے بیٹھی تھی حُورِ شب ئے سی اُتر رہی تھی کواکب سے نور کی ہر سمت بٹ رہی تھی شراب طهور شب ناگاہ تیری یاد نے یوں دل کو بھر دیا گویا سمٹ گیا اُسی کوزہ میں نور شب اس لمحہ تیرے رشک سے شبنم تھی آپ آب میگی میں میل رہا تھا پکھل کر غرور شب سب جاگ اٹھے تھے پیار کے ارماں نہ تمام پھونکا تھا کس نے گوش محبت میں مصور شب لمحات وصل جن یہ ازل کا گمان تھا چنگی میں اُڑ گئے وہ طیور سرور شب الفضل انٹر نیشنل لندن.۱۲ر جون ۱۹۹۸ء) 111
جاتی حافظ عزیزہ طوبی کی شادی پر ہو میری جان خدا حافظ و ناصر رہے سلطان خدا حافظ و ناصر امی کی پہنچتی رہیں طوبی کو دعائیں ا با کی رہو جان خدا حافظ و ناصر سلطان کی ملکہ بنو، سلطان تمہارا سرتاج ہو، ہر آن خدا حافظ و ناصر جاتی ہو میری جان خدا حافظ و ناصر مولا ہو نگہبان، خدا حافظ و ناصر 112
آمیری موجوں سے لپٹ جا حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کے صاحبزادے ناصر ظفر کو خدا تعالیٰ نے بڑی سریلی اور دل میں اتر جانے والی آواز سے نوازا ہے.کالج کے زمانہ میں وہ ہمیں ایک ہندی گانا سنایا کرتے تھے جس میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر تھا اور یہ مثال بھی دی گئی تھی کہ پھول سے رنگت باغی ہو کر تتلی بن اڑ جائے باس کلی کا سینہ چیرے اور دنیا پر چھائے اسی طرح بادلوں کے پہاڑوں کی طرف اُڑ جانے کا ذکر تھا.اس پر میں نے صرف سمندر سے بادلوں کے اٹھنے، پہاڑوں پر برسنے اور پھر واپس سمندر میں آملنے کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ کھاری پانی سے شفاف بخارات اٹھاتا ہے اور کل عالم پر محیط ایک نظام کے تابع نہیں اونچے پہاڑوں پر برساتا اور پھر واپس سمندر میں لے آتا ہے.اس نظم میں ملی جلی ہندی اور اردو زبان میں اظہار مطلب کی کوشش کی گئی ہے.رُوٹھ کے پانی ساگر سے جب بادل بن اُڑ جائے ساگر پاگل سا ہوکر ، سر ساحل سے ٹکرائے 113
روٹھا روٹھا ، غم کا مارا ، وہ بادل آواره دیس سے ہو کے بدیس کسی انجانے دیس کو جائے ہردے پر جبر کرے لیکن جب صبر نہ آئے چھم چھم نیر بہائے би بے چارہ دکھیا نکینوں سے پھر بھی چین نہ آئے ، گھر کی یاد بہت ترسائے جیسے زخمی مچھلی تڑپے، تڑپے اور بل کھائے یادوں کا طوفان اٹھ کر مَن میں کہرام مچائے برہا کی اگنی بجلیاں بن کر آگ کا مینہ برسائے دکھ کا ایک جوالا مکھی سینے میں پھٹ جائے پھوٹ کے بادل برسے ، گرجے ، کڑکے ، شور مچائے پچھتائے اور اپنے من پر آپ ہی دوش لگائے بلک بلک کر اک سنیاسن کا یہ دوہا گائے جاؤ سدھارو تم بھی سدھارو ، روکے تم کو کوئے اس سنسار کی ریت یہی ہے جو پائے ہے جو پائے سو کھوئے راہ میں پر بت پاؤں پڑے بہلائے اور پھیلائے یار کسی کا اپنانے کو حیلے لاکھ بنائے 114
پربت کا کٹنا یا اس کے جی پر آفت ڈھائے اولوں کا پتھراؤ کرے اس پر اور شرم دلائے نالے تین کریں اور ندیاں منہ جھاگ اڑائے اپنا پتھروں پھیلیں کو بھرائے سینے کو آخر سما کھلے تو دیکھے پھٹ بھی گئے ، اندھیارے من جلائے مندر میں سورج بیٹھا اُس کا دیپ سوندھی سوندھی باس وطن کی مٹی میں سے اٹھے تب سب نوحے بھول کے وہ بس راگ ملن کے گائے پیتیم یاد میں ڈوبا ڈوبا پریم نگر کو جائے ایک ہی دھن میں گم ہو ، من میں ایک ہی یار بسائے اس کے پاؤں دھو کے پئیں ساگر کی موجیں جب وہ جھینپا جھینپا اس میں اترے شرمائے شرمائے.میری موجوں سے لپٹ جا ساگر تان اڑائے یہ بھی تو سنسار کی ریت ہے جو کھوئے سو پائے 115
دل شوریدہ کا خواب تم نے بھی مجھ سے تعلق کوئی رکھا ہوتا کاش یوں ہوتا تو میں اتنا نہ تنہا ہوتا لب پر آجاتا کبھی دل سے اچھل کر مرا نام تو میں اس جبش لب کی طرح یکتا ہوتا دل میں ہر لحظہ دھڑکتا یہ تمہارا احسان اُس کی ہر ضرب سے سینے میں اُجالا ہوتا ظلمتیں دل کی اُسی نور سے ہوتیں کافور نور کتنا مدھر جب تصور کے نہاں خانہ میں ھنگامہ عشق کتنا رو پہلا ہوتا ہم کیا کرتے تو کچھ اُس کا نہ چرچا ہوتا 116
جانتا کون ہمارے دل شوریدہ کا خواب دیکھتا کون جو ہم دونوں نے دیکھا ہوتا یوں ہی چھپ چھپ کے میلا کرتے پس پردہ دل دل ہی دل میں کیسے معلوم ! یوں ہی بڑھتی چلی جاتی رہ و رسم الفت کیا کیا ہوتا ہم نے جی کھول کے اک دوجے کو چاہا ہوتا دل دھڑکتے جو کبھی راہ میں ملتے سر عام مجھ سے تم بے دھڑک پیار کے اظہار کا دھڑکا ہوتا ثم نظریں چرا لیتے بدن لیا کر پھر مجھے دیکھتے ایسے کہ نہ دیکھا ہوتا ادار دل کو لبھاتی تو ستاتی بھی بہت سوچتا تم نہ مرے ہوتے تو پھر کیا ہوتا میرے سب خواب بکھر جاتے سرابوں میں.بس ایک ہر طرف پھیلا ہوا اس تصور سے کہ تم چھوڑ کے جاتے تو سدا عالم صحرا ہوتا دل محبت کی اک اک بوند کو ترسا ہوتا
آنکھ سے میری برستا وہ لہو کہ پہلے شاید ہی اور کسی آنکھ سے برسا ہوتا ڈوب جاتا اُسی خونابہ میں افسانہ عشق بہت آنکھ کھلتی تو بس اک خواب سا دیکھا ہوتا ہوتا مری آنکھ سے سیلاب بلا نہ وہ موجیں کہیں ہوتیں نہ وہ دریا ہوتا چھا چکی ہوتی جدائی کی سسکتی ہوئی رات مجھے بانہوں میں شب غم نے لپیٹا ہوتا چار سُو تم نہ دکھائی کہیں دیتے.اک میں اپنے ہی اشکوں میں بھیگا ہوا لیٹا ہوتا دُور اک عارض گیتی ڈھلکتا ہوا اشک دیده شب افق چھلکتا ہوتا عکس اُس میں ہر لحظہ لرزتا ہوا بجھتا ہوا اک حسیں چاند سے چہرے کا جھلکتا ہوتا کس نے کوٹا ہوا ہوتا مرے چندا کا قرار کروٹیں کس کی جدائی میں بدلتا ہوتا 118
یاد میں کس کی وہ آفاق بہتا ہوا ہوا حُسن نت نئی دنیا نئے دیس میں ڈھلتا ہوتا - عمر بھر میں بھی تمہیں ڈھونڈتا بے سود اگر عالم خواب میرا ملجاً اب علاج غم تنہائی کہاں ماوی ہوتا تے لاؤں تم کہیں ہوتے تو اس غم کا مداوا ہوتا اب - ڈھونڈوں تصور میں بسانے کے لئے چاند کوئی نہ رہا اپنا بنانے کے لئے میرے اس دنیا میں لاکھوں ہیں مگر کوئی نہیں میرا تنہائیوں میں ساتھ نبھانے کے لئے 119
2 اذنِ نغمہ مجھے تو دے تو میں کیوں نہ گاؤں ( ٹیگور کی ایک نظم کا آزاد ترجمہ) اِذنِ نغمہ مجھے تو دے تو میں کیوں نہ گاؤں تیرے اس لطف و کرم سے تو مرے کون و مکان ذلک اٹھے ہیں مری دھرتی چمک اُٹھی ہے میر اسورج بھی ہے تو چاند ستارے بھی تو اپنے جیون پہ مر افخر ترے دم سے ہے.دیکھتا ہوں میں ترالحسن تو چشم نم سے میرے بہتے ہوئے اشکوں میں جھلکتا ہے تو 120
تیرا احسان ہے کہ تو نے مجھے گیتوں کے لئے کچن لیا ہے کہ میں بنتا رہوں ، گاتا رہوں.گیت زندگی میں نہ کثافت رہی کوئی نہ جمود ساری بے ربطگی.موسیقی میں تحلیل ہوئی ایسی موسیقی.جو اک آبی پرندے کی طرح اپنے پر وسعتِ افلاک میں پھیلائے ہوئے نیلگوں بحر محبت یہ تھی محو پرواز اپنی ہی موچ طرب میں.تھی فضا پر رقصاں اُسکے پر چھونے لگے پر تیرے قدم کی محراب کوئی باقی نہ رہی پھر کسی معبد کی تلاش اتنا نشہ ہے ترے پیار کے گیتوں میں کہ میں دوست کہہ دیتا ہوں تجھ کو 121
: i 122 اسی مد ہوشی میں تو تو مالک ہے خداوند ہے خالق ہے مرا مجھ سے ناراض نہ ہونا میں ترا چا کر ہوں
آخر وہ دن آیا آج یہ نظم عزیزه منصورہ منیب کی بچی کی پیدائش پر کہی تھی جس کے متعلق پہلے ہی عزیزہ ارم کو رویا میں دکھایا گیا تھا کہ بیٹی ہو گی.منصورہ مکرمہ صادقہ حیدر صاحبہ مرحومہ اور سید مقصود حیدر صاحب کی بیٹی ہیں اور ان کے میاں عزیزم منیب احمد ، میجر منیر احمد شہید کے صاحبزادہ ہیں.منصورہ لے کر آئی ہے اپنی بھولی بھالی بچی معجزہ ہے جو اک اللہ کا اونچی قسمت والی بچی حمد گل ثنا کے نغمے گاؤ برساؤ اُردو کلاس 123 ' I 1
ڈاکٹرز نے تو تھا ڈرایا منصورہ اور نیب کا بچہ ہوا بھی تو معذور ہی ہوگا پر ہول نہ نکلا سچا بات ہوئی پوری تو وہی جو نے بتلائی تھی الله خواب میں اک خوشخبری بھاری منصورہ کو دکھلائی تھی حمد و ثنا کے نغمے گاؤ گل برساؤ اُردو کلاس و ثنا کے نغمے گاؤ گل برساؤ اُردو کلاس ارم نے بھی تو دیکھی تھی خواب میں منصورہ کی لال پیاری، لمبی اور لم ڈھینگی کرتی تھی جو دل کو نہال حمد گل ثنا کے نغمے گاؤ برساؤ اُردو کلاس 124
ماں اور باپ ہیں دونوں خوش خوش ہیں منصورہ کی ساس تہنیت کرتی ہے پیش جھک کر سب کو اُردو کلاس گل و ثنا کے نغمے گاؤ برساؤ اُردو کلاس 125
ہار ٹلے پول کا وہ پھول ، وہ محبوب گیا مکرم ڈاکٹر حمید احمد خان صاحب آف ہارٹلے پول (Hartlepool) کی وفات پر.ہارٹلے پول میں کل ایک کنول ڈوب گیا ہارٹلے پول کا وہ پھول، پھول وہ محبوب گیا مسکراتا تھا ہمیشہ وہ نجیب ابن نجیب اس کے اخلاق نرالے تھے ،ادا ئیں تھیں عجیب پیکر ضبط تھا وہ - صبر کا شہزادہ تھا اس کے گرویدہ تھے سب.ہر کوئی دلدادہ تھا اس کے ہی غم سے تو آج آنکھیں ہوئی ہیں پُر آب ذکر سے جس کے کھیل اٹھتے تھے کبھی دل کے گلاب 126
یاد رکھے گی وہ اک پھول سدا اردو کلاس دل سے اٹھلاتی ہوئی اٹھے گی اُس کی بُو باس وہ سمندر کے کنارے ہمیں لے جاتا تھا دیر تک وہ لب ساحل ہمیں ٹہلاتا تھا راگ موجوں کا بڑوں چھوٹوں کو بہلاتا تھا ب خیال آتا ہے وہ اس کے ہی گن گاتا تھا کبھی ہم اُس کو لطیفوں سے ہنساتے تھے بہت کبھی گاتے تھے تو وہ پیار سے سمجھاتا تھا آؤ اب بنچوں ساگر کے کنارے بیٹھیں تھک چکے ہو گے تمہیں کل بھی تو جگراتا تھا تمہیں مچھلی کھلاؤں گا تروتازہ چلو میں ابھی تک کھلا فش فش شاپ کا دروازه چلو ہے اس کی مہمان نوازی ہمیں یاد آئے گی بے غرض اس کی محبت ہمیں تڑپائے گی وہ کئے رکھتا تھا پہلے سے ہی کئی کھانوں کی لگا رکھتا تھا میزوں تیار قطار 127
ہمیں بٹھلا کے بڑی تیزی سے پھر جاتا تھا اپنے بچوں کو لئے ساتھ وہ سوئے بازار جلد بازار سے لے آتا تھا تازہ مچھلی گرم بھاپ اٹھتی تھی مچھلی سے نہایت مزیدار اب اسے ڈھونڈنے جائے تو کہاں اردو کلاس اسے اب دیکھے گی دل ہی میں نہاں اردو کلاس صبر جس کی خاطر وہ ہمیں کرتا تھا پیار اے وائے وہ بھی غمگین ہے اُس کے لئے بے حد، ہائے کی کرتا تلقین وہ اوروں کو مگر ہے کاش اُس کو بھی تو اس غم سے قرار آجائے دفن ہو جائے گا کل ساجدہ کی قبر کے ساتھ اے خدا قرب دونوں کو بہت بہلائے فاتحہ کے لئے ہم جائیں تو ہم نہ ہو کہیں شکوہ کریں وہ قبریں کہ اب کیوں آئے کبھی ہم سے ملو گے بھی تو بس خوابوں میں کنول اب نہ کھلیں گے کہیں تالابوں میں 128
اندونيشيا ابے عظیم - انڈونیشیا جايا له - انڈونیشیا تجھ میں تھیں جو چشم ہائے تر رحمت علی بہرہ ور آج بھی ہیں اُن میں سے کئی نرگسی خصال دیده ور جن کو نور کر نور کر گیا عطا وہ خدا کا بے ریا بشر وہ فقیر جس کی آنکھ میں نور مصطفی تھا ابے عظیم - انڈونیشیا جايا له - انڈونیشیا جلوه گر 129
ابراهیم وقت کا سفیر تھا جسے تسلط آگ پر وہ بے شمار گھر جلا کے غلام اُس کے در کا تھا جس کی آگ تھی غلام در جب پہنچی شعلہ زن وہ اُس کے گھر سرد پڑ گئی اور ہو گئی ڈھیر آپ اپنی راکھ پر بے عظیم - انڈونیشیا جايا له - انڈونیشیا تیری سرزمیں کی خاک مثل آدم لياء Par پھر انہی کی خاک پاک ہے شمار باخدا اُٹھے اُن کی سرمدی قبور آج بھی یہی ندا اُٹھے کاش تیری مٹی ނ مدام جو اُٹھے وہ ابے عظیم - انڈونیشیا جايا له - انڈونیشیا کتنا خوش نصیب ہوں کہ میں تجھ سے ہو رہا ہوں ہم کلام اک غلام خیر الانبياء کا غلام در غلام در غلام بھیجتا ہوا سلام تحفہ خلوص لایا ہوں نفرتوں کا میں نہیں نقیب صلح و آشتی کا ہوں پیام 130
تیرا ہر سر ہے تاجدار حسین کوهسار عظیم - انڈونیشیا جايا له - انڈونیشیا دن ہے خاک پا ہے سبزہ زار پھوٹتی ہے آبشار محسن جس سے وادیوں میں ہر طرف بہ رہی ہے رُود بار محسن ہر گھڑی ہوں تجھ یہ گل ثار سبز پوش اے نگار حُسن اے عظیم - انڈونیشیا جايا له - انڈونیشیا انڈونیشیا کے تاریخی سفر کے دوران جلسہ سالانہ انڈو نیشیا۲۰۰۰ء کے موقع پر پڑھی گئی.131
وہ روز آتا ہے گھر پر ہمارے ٹی وی پر اس بحر اور قافیہ ، ردیف میں احمد فراز صاحب کی ایک بہت ہی اعلیٰ پایہ کی نظم ہے.اس پر کسی نے مزاحیہ تضمین کہی ہے.پس یہ اسی کی تضمین پر تضمین ہے اور اس کا رنگ اختیار کرتے ہوئے پنجابی، سندھی، سرائیکی الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے.ہے وہ روز آتا ہے گھر پر ہمارے ٹی وی پر تو ہم بھی اب اسے انگلینڈ چل کے دیکھتے ہیں وہ جس کی بچے بھی کرتے ہیں پیشوائی روز وہ اس کو شوق سے سنتے ہیں بلکہ دیکھتے ہیں عجب مزا ہے جب اُردو کلاس ہوتی تو چھوٹے لڑکے بھی بلیوں اچھل کے دیکھتے ہیں سنا ہے پیار وہ کرتا ہے غم کے ماروں سے تو ہم بھی درد کے قالب میں ڈھل کے دیکھتے ہیں ہے ایم ٹی اے بڑا مقبول اس کو پنجابی لگا کے اپنے گھروں پر ذیل کے دیکھتے ہیں جو غیر احمدی سندھی ہیں ملاں کے ڈر سے وہ چھپ کے احمدی گوٹھوں میں چل کے دیکھتے ہیں پٹھان مثلا کو ہیں اپنے گھر ہی لے جاتے اور اس کا چٹکیوں میں دل مسل کے دیکھتے ہیں 132
غریب نقل کے دوکانوں میں ٹیلی ویژن کی بڑی لگن ، بڑی چاہت سے کھل کے دیکھتے ہیں خدا کے فضلوں پر ہوتا ہے اپنا دل ٹھنڈا تو مولوی ہمیں کیوں اتنا جل کے دیکھتے ہیں عروج اپنا مقدر ہے اور ان کا زوال یہ وہ اُبال ہے جس میں اُبل کے دیکھتے ہیں ہمارے حال کے جب آئینے میں جھانکتے ہیں تو اس میں اپنے زبوں حال ، کل کے دیکھتے ہیں جلسہ سالانہ یو کے.جولائی ۲۰۰۰ء) 133 1
باپ کی ایک غم زدو بیٹی باپ کی ایک غم زدہ بیٹی کے بعد دی مسکرائی ہے مگر پھر بھی مسکراہٹ لیوں آئی ہے پر آنکھ نمناک ہے کہنے لگی کہ کیوں ابا آپ اتنے اداس بیٹھے ہیں سب کو غمگین کر دیا ہے جو آپ کے آس پاس بیٹھے ہیں اپنے دل میں بسا کے میرا غم کب تلک میرا درد پالیں گے میرے دکھ کو لگا کے سینے سے کیا میرا ہر ستم اٹھا لیں گے پ کی بیٹیاں ہیں اور بھی جو اپنوں ، غیروں کے ظلم سہتی ہیں اپنے ماں باپ سے بھی چھپ چھپ کر راز دل آپ ہی سے کہتی ہیں سب احمد کی بچیاں 134
رات سجدوں میں اپنے رب کے حضور اُن کے غم میں بھی آپ روتے ہیں جن کے ماں باپ اور کوئی نہ ہوں اُن کے ماں باپ آپ ہوتے ہیں آپ نے زندگی گزارنی ہے ساری دنیا کے بوجھ اٹھائے ہوئے آپ سے مانتے ہیں مرہم دل سب کے ہاتھوں سے زخم کھائے ہوئے اُن کو سمجھائیں ان سے بھی زیادہ ہیں ستم دیدہ لوگ دنیا میں اپنوں کے ہاتھ مرنے والوں پر روز ہوتے ہیں سوگ دنیا میں 135
میں مجھ سے نہ مانگوں تو نہ مانگوں گا کسی سے میں تیرا ہوں تو میرا خدا میرا خدا ہے Beats 136 }
ابتدائی کلام کے چند نمونے 137
تیرے لئے ہے آنکھ کوئی اشکبار دیکھ آنکھ کوئی اشکبار تیرے لئے ہے نظریں اُٹھا خدا کے لئے ایک بار او دل کشتی گل نظر اُٹھا من میں حال زار نزار ہزار اٹھی بس ان ایک نوائے جگر خراش ٹوٹے پڑے ہیں بربط ہستی ہستی کے تار مجھ آج وعدة ضبط الم لے ان آنسوؤں کا کوئی نہیں اعتبار دیکھ 138
کانٹوں توڑ کر آنسو برس اپنوں بھی نہیں میں ہائے کیوں میری ہستی اُلجھ گئی ہے مجھے اختیار وہ کھیل کھیلا اٹھا ہے لاله زار دیکھ نوٹ : کالج کے ابتدائی زمانہ کی ایک غزل جس کا پہلا شعر والدہ مرحومہ کی ایک تصویر کا مرہون منت ہے.139
لوح جہاں پہ حرف نمایاں نہ بن سکے لوح جہاں پہ حرف نمایاں نہ بن سکے ہم جس جگہ بھی جا کے رہے بے نشاں رہے اتنا تو یاد ہے کہ جہاں تھے اُداس تھے یہ کس کو ہوش ہے کہ کہاں تھے کہاں رہے حال دل خراب تو کوئی نہ پا سکا چین جبیں سے اہلِ جہاں بدگماں رہے آنکھوں نے راز سوز دروں کہہ دیا مگر بزم طرب میں ہونٹ تجسم کناں رہے یاروں نے ، اپنے اپنے مقاصد کو جالیا یاں عقل و دل بشکش این و آں رہے یا جوش و ذوق و شوق یا کم ہمتی سے شعف سب کچھ ہوا کیا پہ جہاں کے تہاں رہے مجھ کو جو دُ کھ دیے ہیں نہیں مجھ سے کچھ گلہ میری دُعا یہی ہے کہ تو شادماں رہے اپنی تو عمر روتے کئی ہے پر اس سے کیا جا ، میری جان ، تیرا خدا پاسباں رہے إحساس نامرادی دل شعلہ سا اٹھا ہم جاں بلب پڑے رہے آتش بجاں رہے ور ستمبر ۹۴۸ء) 140
بہیں اشک کیوں تمہارے انہیں روک لو خدارا ہیں اشک کیوں تمہارے انہیں روک لو خدا را مجھے دُکھ قبول سارے یہ ستم نہیں گوارا لوخدا ہو کسی کے تم سراپا مگر آہ کیا کروں میں میری روح بھی تمہاری میرا جسم بھی تمہارا میں غم والم کی موجوں سے اُلجھ رہا ہوں تنہا مجھے آکے دو سہارا مجھے تھام لو خدارا میری دل شکستگی پر مجھے غرق غم سمجھ کر وہ جو ایک آرزو تھی وہی کر گئی کنارا مجھے اذنِ مرگ دے کر وہ افق پہ چاند ڈوبا دو میرا نصیب لے کر کوئی بجھ گیا ستارا لوڈھلک گیا وہ آنسو کہ جھلک رہا تھا جس میں تری شمع رُخ کا پر تو تیر ا عکس پیارا پیارا ہے مجھے تلاش اُس کی جو کبھی کا کھو چکا ہے مجھے جستجو کا کر کے کہیں دُور سے اشارا مجھے چھوڑ کر گئے ہو میرا صبر آزمانے تو سنو کہ اب نہیں ہے مجھے ضبط غم کا یارا 141
عشق نارسا کبھی اپنا بھی اک شناسا تھا کوئی میرا بھی آسرا سا تھا کبھی میں بھی کسی کا تھا مطلوب یا مجھے بس یونہی لگا سا تھا حُسن صنعت کا معجزہ سا تھا 09 نرگسی سراپا جمال چشم نیم باز اُس کی چمن دل کھلا کھلا سا تھا خم لب.برگ گل کی انگڑائی ذہن غنچہ.نیم وا سا تھا حُسن کی چاندنی سے تابندہ پھول چہرہ کھلا کھلا سا تھا خوش تکلم سا خوش ادا سا تھا بے تکلف سا بے ریا سا تھا پہلی بار جیسے صدیوں سے آشنا سا تھا یوں لگا جب ملا وہ بھر دیا اُس نے وہ جو برسوں سے میرے سینے میں اک خلا سا تھا اک گرشمه فسوں کا پُر اسرار حیرتوں کا مجسمہ سا تھا 142
خامشی میں سرودِ بے آواز گفتگو میں غزل سرا سا تھا دھوپ میں سائے دار اُس کا پیار اور اندھیروں میں اک دیا سا تھا آشنا ہو کے اجنبی تھا وہ شخص ساتھ رہ کر جُدا جُدا سا تھا دل میں گھر کر گیا وہ دل کا چور دل نشیں کتنا دلربا سا تھا بن سکا نہ مرا کبھی لیکن وہ ہمیشہ میرا میرا سا تھا اُس کے دائم فراق میں شب و روز وصل کا سرمدی مزا سا تھا جب بھی وہ آیا ساتھ نغمہ سرا آرزوؤں کا طائفہ سا تھا ب گیا حسرتوں کا اُس کے ساتھ ایک غمناک ایک غمناک جمگھٹا سا تھا مجھے کنگال کر گیا وہ شخص میرا تو بس وہی اثاثہ تھا میں نہیں جانتا وہ تھا کیا چیز تھی حقیقت کہ واہمہ سا تھا تھا وہ تعبیر میرے خوابوں کی یا ہیولی سا خواب کا سا تھا پیار میں جس کے عُمر بیت گئی گئی کیا فقط ایک دم دلاسہ تھا؟ ہوش جب گھلا.دیکھا ہر طرف پھر وہی خلا سا تھا دیده وہی میں تھا وہی طلب دل کی وہی اک عشق نارسا سا تھا پیاس بجھ نہ سکی کسی کے سے جانے دل کس بلا کا پیاسا تھا 143
داڑھی کا برگد میرے بھائی آپ کی ہیں سخت چنچل سالیاں شعله جواله ہیں آفت کی ہیں پر کالیاں کی داڑھی کا برگر دیکھ پاتیں وہ اگر پینگیں ڈالتیں ، گائیں ، بجائیں تالیاں اس توڑ دیتیں ڈالیاں ، آتا نہ کچھ ان کو خیال آپ تو داڑھی منڈا کر بچ گئے ہیں بال بال یہ بہت پرانے شعر ہیں جو میاں وسیم احمد صاحب کی اجازت سے ہم شائع کر رہے ہیں.144
۱۹۴۴ء کی نظم کے دوشعر رض بروفات حضرت امی جان گو جُدائی ہے کٹھن ڈور بہت ہے منزل پر میرا آقا بُلا لے گا مجھے بھی اے ماں اور پھر تم سے میں مل جاؤں گا جلدی یا بدیر اُس جگہ.مِل کے جُدا پھر نہیں ہوتے ہیں جہاں 145
نذرِ ” راوی غرق راوی بذل حق محمود 66 سے میری کہانی کھو گئی وہ بذل حق سے روٹھ کر واصل حق ہوگئی نذر "راوٹی کی تھی میں نے کتنے ارمانوں کے ساتھ 66 ناؤ لیکن کاغذی تھی غرق " راوی ہوگئی (1) ایڈیٹر راوی (۲) گورنمنٹ کالج لاہور کا میگزین الله) پنجاب کا مشہور دریا 146
بدلا ہوا محبوب ایک بہت پرانی نظم.معمولی تبدیلیوں کے ساتھ منتظر میں ترے آنے کا رہا ہوں برسوں لگن تھی تجھے دیکھوں تجھے چاہوں برسوں رات کے پردے میں چھپ چھپ کے تجھے یاد کیا دن نکل آیا تو دن تجھے سے ہی آباد کیا لیکن افسوس که فرقت کے زبوں حال کے بعد دل میں روندی ہوئی اک حسرت پامال کے بعد آہ جب وصل کی امید کی کو جاگ اٹھی کلفت هجر شب و روز و مہ و سال کے بعد 147 }
آج آیا بھی تو بدلا ہوا محبوب آیا غیر کے بھیس میں لپٹا ہوا کیا خوب آیا اس طرح آیا کہ اے کاش کاش نہ آیا ہوتا مجھ سے چھینیا ہوا.سو پردوں میں محبوب آیا جسم اس کا ہے سب انداز مگر غیر کے ہیں آنکھ اس کی ہے پر اطوار نظر غیر کے ہیں چاند تھا میری نگاہوں کا مگر دیکھو تو بام و در جن کے اجالے ہیں وہ گھر غیر کے ہیں اے مجھے ہجر میں دیوانہ بنانے والے غم فرقت میں شب و روز ستانے والے اے کہ تو تحفہ درد و غم لایا ہے دیر کے بعد بڑی دُور سے آنے والے جا کہ اب قرب سے تیرے مجھے دُکھ ہوتا ہے اے شب غم کے سویرے مجھے دُکھ ہوتا ہے (غالبا ۱۹۴۵ء) 148
میاں چھیمی کا حلوہ یہ نظم بچپن میں ضلع کانگڑہ کے ایک پر فضا پہاڑی مقام دھر مسالہ میں کہی تھی جہاں ہم آٹھ بھائی اپنے ابا جان کے ساتھ گئے ہوئے تھے.وہاں بھائیوں نے آپس میں پیسے ڈال کر حلوہ بنانے کا پروگرام بنایا تھا.جب حلوہ پک چکا تو میاں وسیم جنہیں ہم اُن دنوں تھیمی کہا کرتے تھے ، حلوہ اٹھائے ہوئے تیزی سے ہماری طرف آرہے تھے کہ رستے میں فکر لگی اور ان کے ہاتھ سے دیگچھ چھوٹ کر سارا حلوہ مٹی میں مل گیا.ہم نے انہیں چھیڑ نے کی خاطر یہ قصہ بنایا اور میں نے اسے نظمایا لیکن یہ نظم محض بچپن کی اک چھیڑ چھاڑ تھی ورنہ میاں ، سیم کی نیت ہر گز حلوہ اکیلے کھانے کی نہیں تھی.قیض میری بڑی بہن، بیگم مرزا مظفر احمد صاحب کا ایک ملازم تھا جو اُن دنوں اُن دونوں کے ساتھ ہی وہاں ٹھہرا ہوا تھا اور چھوٹا ہونے کی وجہ سے بے تکلف اس کا گھر میں آنا جانا تھا.امی سے مراد میری امی مرحومہ ہیں جن سے میاں و سیم بلاوجہ بچپن میں بہت ذرا کرتے تھے.یہ نظم میاں وسیم احمد صاحب کی اجازت سے شامل اشاعت کی جار ہی ہے.اک پیسہ پیسہ جوڑ کر بھائیوں نے شوق سے سوچا تھا یہ کہ سوجی کا حلوہ بنائیں گے 149
پھر بیٹھ کر مزے سے کسی بند کمرے میں اک دوسرے کو حلوے پہ حلوہ کھلائیں گے چھیمی نے سوچا کیوں نہ اکیلا ہی کھاؤں میں باورچی خانہ چوری چھپے کیوں نہ جاؤں میں ہوشیار بننے والوں کو بدھو بناؤں میں جب مجھ کو کھانے دوڑیں، کہیں بھاگ جاؤں میں یہ سوچ کے چلا گیا باورچی خانے میں باورچی تھا مگن وہاں حلوہ پکانے میں اُس سے کہا میں تھک گیا ہوں آنے جانے میں بھائی ہیں میرے منتظر اندر زنانے میں جب پھر دیگچی اٹھا کے وہ تیزی سے چل پڑا حلوہ کی طرح منہ سے بھی پانی اُبل پڑا کیا علم تھا کہ راہ میں دیکھے گا قیص کو دیکھا تو ڈر سے سینہ میں دل ہی اچھل قیص نے کہا تمہیں امی بلاتی ہیں امی کا نام سنتے ہی بس سنتے ہی بس وہ ٹھیٹھر گیا دیکھئے کہ کہاں ٹوٹی جا کمند طوه قریب دہن ہی آیا تھا ، گر گیا پڑا 150
یہ دو آنکھیں ہیں شعلہ زا دو آنکھیں ھیں ہیں شعلہ زا.یا جلتے ہیں پروانے دو اشک ندامت پھوٹ پڑے.یا ٹوٹ گئے پیمانے دو تو مری موجودگی میں تم اکتائے سے سے رہتے تھے اب میرے بعد تمہارا دل گھبرائے گا گھبرانے دو دکھ اتنے دیئے میں سہہ نہ سکا یوں زیست کا رشتہ ٹوٹ گیا اب اپنے کئے پر ظالم دل پچھتاتا ہے پچھتانے دو خوش ہو کے کرو رخصت دیکھو.تم ناحق اپنی پلکوں پر جو اشک سجائے بیٹھے ہو.ان اشکوں کو ڈھل جانے دو ر کر بھی مرا ، یہ بھیگی آنکھیں ، چین اڑادیں گی.تو یہ مجھے چراغ سجاؤ گے میرے مرقد کے سرہانے دو نیند آئی ہے تھک ہار چکا ہوں چھوڑو بھی پچھلی باتیں میں رات بہت جاگا ہوں ، اب تو ، صبح تلک سستانے دو (۱۹۴۴) 151
ہم کو قادیاں ملے ہیں لوگ لوگ وہ بھی چاہتے ہیں دولت جہاں ملے زمین ملے مکاں ملے.سکون قلب و جاں ملے پر احمدی وہ ہیں کہ جن کے دعا ہاتھ اُٹھیں تڑپ تڑپ کے یوں کہیں کہ ہم کو قادیاں ملے ہوا کہ مشرکوں نے بت کدے بنا دیئے خُدا کے گھر که درس وحدت خدا جہاں ملے تمہاری راه دیکھتی ہیں مسجدیں وہ ہیں خانه خدا بڑھے براه دیں نصیب کہ تمہیں خوش نصیب پھر اذاں یار - خليفة ނ امیر کارواں 152 1
کامران جیو شہید ہو تو اس طرح جاوداں ملے دین کو تمہارے بعد عمر ہے زندہ قوم نہ جس میں ضعف کا نشاں ملے طفل طفل وہ طفل ، پیر پیر ، جس کا تو جواں ملے (جلسہ سالانہ لاہور ۱۹۴۹ء) 153
رنج تنہائی اُف یہ تنہائی تری اُلفت کے مٹ جانے کے بعد تیری فرقت میں تو اتنا رنج تنہائی نہ تھا اب پتا کر عمر ہوش آئی تو یہ عقدہ کھلا عشق ہی پاگل تھا ورنہ میں تو سودائی نہ تھا کیسی کیسی شرم تھی ، کیا کیا حیا تھی پردہ دار پیار جب معصوم تھا اور وجه رسوائی نہ تھا وائے پیری کی پشیمانی ، جوانی کے جنون خود سے میں شرمندہ تھا، مجھ سے مرا آئینہ تھا 154
الھام کلام اس کا مصنفہ امہ الباری ناصر
نام کتاب: الہام کلام اُس کا مصنفہ : امتہ الباری ناصر طبع اول: ۲۰۰۳ کاپی رائٹس : اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیایند پبلشر: islamabad Sheephatch Lane Islam International Publications Ltd.Tilford, Farnham, Surrey, GU10 2 AQ 2 رقیم پر لیں.اسلام آباد ISBN:1853727474 مط
صفحہ نمبر ۲۱ ۲۱ ۱۸ 19 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۶ IA = > > N کام کا آغاز عناوین انڈیکس شوکت مضمون اور کیفیات کی لطافت کی چند مثالیں فلسفہ اصلاح لفظوں کے حکیمانہ انتخاب میں جانکا ہی کی چند مثالیں نظم نمبر.ظہور خیر الانبیا ملے i تار یکی پر تاریکی اندھیروں پر اندھیرے ii.آیا وہ فنی جس کو جو اپنی دعا پہنچی iii.اشعار میں اضافہ نظم نمبر ۲.اے شاہ مکی و مدنی سید الوری میں ا.اے میرے والے مصطفی و اے میرے رہنما ii.اڑتے ہوئے بڑھوں ، ترکی جانب سوئے حرم نظم نمبر ۳.حضرت سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم ام نبیوں کا سرتاج ابنائے آدم کا معراج محمد ا ہے ii.مہر و ماہ نے توڑ دیا دم ili.تنا ا طم عرفان کا قلزم نظم نمبر ۴.آج کی رات ا.آنکھ اپنی ہی ترے ہجر میں ٹپکاتی ہے ii.کاش اتر آئیں یہ اُڑتے ہوئے سیمیں لمحات نظم نمبرے.موسیٰ پلٹ کر وادی ایمن اداس ہے 3
۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۸ ۲۹ ۲۹ ۳۰ ۳۲ سم ۳۲ هم لم ا.برق تپاں ہے خندہ کہ خرمن اُداس ہے نظم نمبر ۸.اے مجھے اپنا پرستار بنانے والے ا غم فرقت میں کبھی اتناز لانے والے نظم نمبر ۹.کیا موج تھی جب دل نے جے نام خدا کے ا.اک ذکر کی دھونی مرے سینے میں رما کے ii.میں ان سے جدا ہوں مجھے چین آئے تو کیوں آئے نظم نمبر ۱۰.دیار مغرب سے جانے والو دیار مشرق کے باسیوں کو ا.اے میرے سانسوں میں بسنے والو نظم نمبر ۱۳.پورب سے چلی پر نم پر نم باد روح و ریحان وطن ا.کیا حال تمہارا ہو گا جب شداد ملائک آئیں گے ii.آزاد کہاں وہ ملک جہاں قابض ہو سیاست پر ملاں نظم نمبر ۱۴.تو مرے دل کی شش جہات بنے ا.تیرے منہ کی سبک سبک باتیں ii.کتنے دل کھنڈر بنائے گئے نظم نمبر ۱۸ تری راہوں میں کیا کیا ابتلاء روزانہ آتا ہے ا.بلائے ناگہاں اک نت نیا مولا آتا ہے نظم نمبر ۲.ان کو شکوہ ہے کہ ہجر میں کیوں تڑپایا ساری رات ا.کچھ لوگ گنوا بیٹھے دن کو جو یار کما یا ساری رات نظم نمبر ۱۳ جائیں جائیں ہم روٹھ گئے اب آکر پیار جتائے ہیں ا.جو آنکھیں مند گئیں رو رو کر اور گھل گھل کر جو چراغ بجھے ا.ظالم نے اپنے ظلم سے خود اپنے ہی افق دھندلائے ہیں نظیم نمبر ۱۳.وقت کم ہے بہت ہیں کام چلو i.کہہ رہا ہے خرام بادصبا 4
۳۵ ۳۵ سم ۳۸ ۳۸ سهام بهم ۴۵ iiبحر عالم میں اک بپا کر دو نظم نمبر ۳۹.اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا ا.آخر دم تک تجھ کو پکا را آس نہ ٹوٹی دل نہ ہارا ا.سب فانی اک وہی ہے باقی آج بھی ہے جو کل ایشر تھا نظم نمبر ۱۹ تری بق کا سفر تھا قدم قدم اعجاز نظم نمبر ۳۰.ہے حسن میں ضو غم کے شراروں کے سہارے اشعار میں اضافہ اعراب اور تلفظ کے بارہ میں رہنمائی فرهنگ GLOSSARY کلام طاہر کی طباعت پر اظہار خوشنودی اور دعائیں کلام طاھر میں اضافے اور لندن سے طباعت اپنی جھولی کے چند لعل و جواہر 5
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود آج جو شاہ کار آپ کی خدمت میں پیش کر رہی ہوں وہ کچھ ٹکڑوں کو جوڑ کر بنا ہے.ہرنکڑ اسیدی؛ آقائی حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی تخلیق ہے.میں نے صرف انہیں ترتیب دے کر فریم کیا ہے.یہ میرے پاس ایک امانت تھی جو اس کے حقداروں یعنی ساری جماعت کو ادا کر رہی ہوں.پس منظر یہ ہے کہ 1991ء میں کلام طاہر دیکھ کر خیال آیا کہ طباعت شایان شان نہیں ہے چھوٹی سے پتلی سی کتاب ، کتابت کی غلطیاں نظمیں نامکمل سرورق پر دھندلی تصویر.یہ کتاب تو اس سے بہت بہتر طریق پر شائع ہونی چاہئے ، کیوں نہ لجنہ کراچی یہ کام کرلے.اپنی رفیقہ کار مسز برکت ناصر سے مشورہ کیا تو وہ اچھل پڑیں.ہم نے دعا کی اور حضور پُر نور سے اجازت حاصل کرنے کے لئے خط لکھ دیا.۱۲ مارچ ۱۹۹۲ء کا تحریر کردہ مکتوب موصول ہوا: ' آپ نے جو کلام طاہر کے متعلق لکھا ہے اس پر آپ کا شکریہ.اس میں کئی جگہیں ایسی ہیں جن میں ابھی تک پوری تسلی نہیں.شاید کسی وقت اصلاح کا موقع مل جائے.لیکن آپ کے نزدیک کوئی خطی رہ گئی ہے تو اس کی طرف بھی متوجہ کریں اس کو بھی ٹھیک کر لیں گے اور پھر انشاء اللہ چھپوانے کی اجازت بھی دی جاسکتی ہے.کچھ پرانی نظموں میں سے بھی ایک آدھ شامل کی جا سکتی ہے.خاکسار نے سرخوشی میں چند کتابت کی غلطیاں لکھیں اور کچھ اشعار پر نظر ثانی کی درخواست کی.مقصد صرف یہ تھا کہ بات آگے بڑھے اور حضور اپنے کلام پر نظر ثانی کا کام شروع فرما دیں.حضور پر نور کا پذیرائی کا مکتوب ملا : " آپ کا خط ملا.نثر میں ایسے لطیف اور اعلیٰ پائے کے شعر بہت کم پڑھنے میں آتے ہیں جیسے آپ کا یہ خط ہے.بعض چھوٹے چھوٹے لطیف اشاروں کے ساتھ بعض مضامین پر ایسے عمدہ تبصرے آپ نے کئے ہیں جیسے کسی خوبصورت سیرگاہ میں جاتے ہوئے انسان کبھی دائیں کبھی بائیں 6
قابل دید مقامات کی طرف اشارہ کرتا ہے.ماشاء اللہ آپ کو یہ خوب فن عطا ہوا ہے.اللہ آپ کی ذہنی قلبی صلاحیتوں کو اور بھی چمکائے اور روشن تر فرمائے.خلاصہ آخری بات کا یہی ہے کہ اگر آپ متوجہ نہ کراتیں تو شاید اپنے کلام پر نظر ثانی کی توفیق ہی نہ ملتی.اور ملتی بھی تو بہت محنت کرنی پڑتی.آپ نے تو ایک ایک جگہ جہاں ضرورت تھی کہ توجہ کی جائے ہاتھ لگا لگا کر دکھا دی.امید ہے جب باقی مسودہ آئے گا تو پھر باقی کام بھی انشاء اللہ اسی طرح آسان ہو جائے گا.اب تو اس کی شدت سے انتظار ہے.ابھی تک تو آپ نے بھیجا ہی نہیں حالانکہ اب تک دیر کرنے کا دوش مجھ پر رہا..امید ہے جب آپ کلام شائع کرائیں گی تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مستند ہوگا اور وہ لوگ جو اپنی طرف سے نئے نئے نمونے شائع کراتے رہتے ہیں وہ سلسلہ اب ختم ہو جائے گا.اللہ آپ کے ساتھ ہو.(مكتوب ۲۸ فروری ۱۹۹۳) شوکت مضمون اور کیفیات کی لطافت کی چند مثالیں جو مشورے حضور پُر نور کو بھجوائے تھے ان میں محترم محمد سلیم صاحب شاہجہانپوری کی آراء بھی شامل تھیں.حضور نے ہمیں فن شعر اور فن اصلاح، خاص طور پر اشعار میں مضامین کے بیان کی اہمیت سمجھائی.یہ اس لائق ہے کہ اعلیٰ پائے کی تنقیدی کتب میں جگہ پائے.آپ نے تحریر فرمایا: وو شعر کی دنیا اس سے زیادہ وسیع ہے کہ زبان درست ہو اور غلطیوں سے پاک ہو اور محاورہ ٹکسالی کا ہو اور اوزان کے لحاظ سے اور لفظوں کے استعمال کے لحاظ سے کلام نوک زبان پر بھاری نہ ہو.بعض اوقات صحت زبان اور صحت محاورہ کے تقاضے جذبات کی شدت کے اظہار اور اظہار حق سے متصادم ہو جاتے ہیں یعنی اظہار حق جس زبان میں ممکن ہو اس سے بہتر مرصع زبان میں مگر حق سے کچھ ہٹ کر ایک بات کی جاسکتی ہے.بعض دفعہ ممکن نہیں رہتا کہ بیک وقت کوئی اپنے متموج جذبات اور سچائی اور گہرے درد کے تقاضے پورے کرتے ہوئے زبان کی صحت اور قاعدے قانون کی پابندی کا بھی حق ادا کر سکے.ایسی صورت میں کبھی کبھی کچھ نہ کچھ مروج قاعدوں کوتوڑنا 7
بھی پڑتا ہے اور استثناء کی نئی کھڑکیاں کھولی جاتی ہیں.دنیا کے تمام چوٹی کے شعراء نے کیفیات کے اعلی تقاضوں پر بار ہازبان دانی کی قیود کو قربان کیا ہے.شیکسپیر میں بھی یہ بات ملتی ہے اور غالب میں بھی.اور دیگر شعراء میں بھی اپنے اپنے مرتبہ اور اسلوب کے اعتبار سے کچھ نہ کچھ ایسی مثالیں دکھائی دیتی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اردو اور عربی کلام میں بھی یہی بالا اصول کارفرما ہے که شوکت مضمون اور کیفیات کی لطافت پر زبان دانی کے نسبتا ادنی تقاضوں کو قربان کیا جائے.66 (مكتوب ١٦ جنوری ۱۹۹۳ء صفحه ۱) آئین سخن اور آئین حق اس ٹھوس تحریر کے ساتھ اسی مکتوب سے ایک ہلکا پھلکا ٹکڑا بھی پیش کرتی ہوں.انداز لطیف لیکن سبق بہت ثقیل تحریر فرماتے ہیں: مکرم محترم سلیم صاحب شاہجہانپوری نے خوب لکھا ہے کہ آئین سخن میں اصلاح تجویز کرنا گستاخی شمار نہیں ہوتا ، یہ بالکل درست ہے.اسی سے حوصلہ پاکر میں ان کی خدمت میں یہ بھی گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ آئین سخن میں اصلاح قبول نہ کرنا بھی غالبا گستاخی شمار نہیں ہوگا.خصوصاً جبکہ پاسِ ادب رکھتے ہوئے احترام اور معذرت کے ساتھ ایسا کیا جائے.دوسری بات یہ ہے کہ آئین سخن ہی کی بات نہیں، آئین حق یعنی سچائی کے آئین میں بھی تو ازل سے یہی دستور چلا آ رہا ہے کہ صحیح گستاخی شمار نہیں ہوتی.نماز با جماعت میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی سبق ہمیں دیا ہے.سبحان اللہ ! کیا پاکیزہ طریق اصلاح کا سکھایا.سبحان صرف اللہ ہی کی ذات ہے.(مکتوب ۱۶ جنوری ۱۹۹۳ء صفحه ۲) فلسفہ اصلاح
اصلاح کے مشورے اور اصلاح قبول کرنے کے اختیار کے ساتھ آپ نے فلسفہ اصلاح بھی سمجھایا.فرماتے ہیں: رہا فلسفہ اصلاح تو میرے نزدیک ہر قادر الکلام استاد کا یہ حق تو ہے کہ کسی دوسرے کے شعر کی اصلاح کرے لیکن اصلاح کا حق صرف اتنا ہی ہے کہ اس مضمون کو تبدیل کئے بغیر جو شاعر بیان کرنا چاہتا ہے.بہتر الفاظ میں (زبان کے سقم کو دور کر کے ) بیان کرنے میں اس کی مدد کرے یا اگر طرز بیان بے جان ہے تو الفاظ کے تغیر و تبدل سے اسی مضمون میں جان ڈال دے مگر نیا مضمون داخل کرنے کو میں اصلاح نہیں سمجھتا ، نہ ہی زبان کی اصلاح کرتے کرتے مضمون کا حلیہ بگاڑ دینا میرے نزدیک اصلاح میں داخل ہے.(مکتوب ۱۶ جنوری ۱۹۹۳ء صفحه ۳) خاکسار تسلیم کرتی ہے کہ اپنی کم فہمی کی وجہ سے ذوقِ سلیم کی بلندیوں پر متمکن پیارے حضور کی کوفت کا سامان کیا.مگر یہ تو دیکھئے کہ اس معدن علم پر ہلکی سی دستک سے کیا کیا خزائن ابل پڑے، کیسے کیسے ٹھنڈے میٹھے پانیوں کے چشمے جاری ہو گئے.ایک کوہ وقار کے نہاں خانہ دل کی کچھ کھڑکیاں کھل گئیں.پس میری کوتاہیوں سے صرف نظر کر کے اس سدا بہار گلستان کی سیر کیجئے.فرماتے ہیں: جو کام سالہا سال سے کرنے کو پڑا تھا مگر نہ وقت ملتا تھا نہ دماغ میسر آتا تھا وہ آپ نے آسان کر دیا.نشان لگا کر بھیج دئے اور پیچھے پڑ کر مجبور کر دیا کہ اب اس کام کو نہ ٹالو حسنِ اتفاق سے مسودہ ملنے کا وقت بھی نہایت موزوں ثابت ہوا.چنانچہ کینیڈا سے واپسی پر ہالینڈ میں قیام کے دوران کچھ فرصت میسر آگئی اور اللہ کے فضل سے دو دن کے اندر ہی ان مقامات کی تصحیح کی توفیق مل گئی جن کے متعلق دیرینہ خلش تو تھی مگر وقت کے ہاتھوں مجبور تھا.یہی روک تھی کہ کبھی کسی کو کلام شائع کرنے کی اجازت نہیں دی اور جنہوں نے بلا اجازت شائع کیا انہوں نے نہ صرف اس حصے کو اسی طرح غلط شائع کر دیا جس پر میں نظر ثانی کرنا چاہتا تھا بلکہ ہو کتابت کی وجہ سے سو نہم کی بناء پر کلام میں مزید بہت سے سقم پیدا کر دئے.مثلاً اضافت کا غلط استعمال، الفاظ کی بے جا تکرار وغیرہ.جس نے 9
مضمون بھی بگاڑا اور وزن بھی تو ڑا.علاوہ ازیں بعض الفاظ کا چھٹ جانا وغیرہ وغیرہ.اب ان سب جگہوں پر میں نے درستی کر دی ہے مگر یہ غلطیاں نہیں تھیں بلکہ کتابت یا ناشر کے فہم کا قصور تھا.لیکن اس قبیل کے قابل اصلاح شعروں کے علاوہ بھی متعدد ایسے اشعار تھے جو کئی طرح کے ستم رکھتے تھے جن کے لئے دماغ اور وقت کا میسر آنا ایک مسئلہ بنا ہوا تھا.مدت سے ذہن یہی بات سوچتا اور ٹالتا رہا کہ کسی وقت تسلی سے ٹھیک کر کے زبان کے تقاضے قربان کئے بغیر مضمون کا حق ادا کرنے کی کوشش کروں گا.اور اگر آپ اس طرح مستقل مزاجی اور صبر کے ساتھ مجھے بار بار تنگ نہ کرتیں تو شاید یہ کام کبھی بھی نہ ہوتا.کا کا ☆......✰ (مكتوب ١٦ جنوری ۱۹۹۳، صفحه (۳) لفظوں کے حکیمانہ انتخاب میں جانکاہی کی چند مثالیں پیارے حضور نے نظموں کی اصلاح کرتے ہوئے جو حکمتیں سمجھائی ہیں وہ علوم کا ایک خزانہ ہیں.جن کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کسی چیز کو سرسری نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ حرف حرف اور لفظ لفظ کے مزاج کی تہ میں اترتے ہوئے مناسب جگہ پر استعمال فرماتے ہیں.اور اس کے ساتھ ایک مربوط فکری پس منظر ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں: آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ میں جو شعر کہتا ہوں وہ صرف اکیلا ہی نہیں بلکہ بعض دفعہ اس کی دس دس اور پندرہ پندرہ متبادل صورتیں ذہن میں آئی ہوتی ہیں اور پھر ان میں سے ایک کو کسی وجہ سے چتا ہوں.تو اب میں آپ کو اپنے ساتھ وہ سارا سفر کس طرح کرواؤں کہ کیوں بالآخر متعدد امکانی صورتوں میں سے ایک کو اختیار کیا.(مکتوب محرره ۲۲/اکتوبر ۱۹۹۳ء صفحه ۱۳) ☆ اب حضور پر نور کے مکاتیب سے لفظوں کے چناؤ میں جانکاہی کی کچھ مثالیں پیش کرتی ہوں.نظم نمبر ا 10
تاریکی یہ تاریکی اندھیروں پر اندھیرے په حضور انور نے تحریر فرمایا: آپ کا خط ملا.اندھیروں پر اندھیرے کے متعلق آپ نے لکھا ہے کہ اسے ان دھیرا پڑھنا پڑتا ہے.اس سے میں آپ کا جو مطلب سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ نون غنہ غائب سا پڑھا جائے جو وزن میں اضافہ نہ کر سکے.آپ کے نزدیک اگر نون غنہ پڑھا جائے تو سویروں پر سویرے کی طرز اور وزن پر اندھیروں پر اندھیرے پڑھا جائے گا.ورنہ ان اور دھیرا دو حصے پڑھنے پڑیں گے.آپ کی دلیل بڑی واضح ہے اور خلاصہ اس کا یہی نکلتا ہے کہ نون غنہ اس طرح ادا ہو کہ گویا زائد لفظ موجود ہی نہیں.اس طرح ادھیرے اور اندھیرے کا ایک ہی وزن ہوگا.اسی اصول کو مندرجہ ذیل مثالوں پر بھی چسپاں کر کے دکھا ئیں.انگاروں پر انگارے اس میں آپ اُن گارہ پڑھیں گی یا نون غنہ کے ساتھ ان گارہ کر کے پڑھیں گی.اور اگر نون غنہ پڑھیں گی تو کیا نون کا لعدم سمجھا جائے گا اور اگارے اور انگارے کو ایک ہی وزن پر پڑھا جائے گا ؟ صاف ظاہر ہے کہ جب نون غنہ آئے تو بعض دفعہ بہت خفیف پڑھا جاتا ہے.اور بعض دفعہ وہ بعد والے حرف میں مدغم ہو کر اس میں ایک قسم کی تشدید ( شد ) پیدا کر دیتا ہے.پس باوجود اس کے کہ انگارے کو ان گارے نہیں پڑھتے.پھر بھی نون کے گاف میں ادغام کی وجہ سے گاف میں ایک قسم کی تشدید آجاتی ہے.لیکن واضح تشدید نہیں ہوتی.پس اس کو اپنے ذہن میں دہرائیں تو میری بات سمجھ میں آجائے گی کہ انگارے اور اگارے دونوں کا ایک وزن نہیں جبکہ آپ کے بتائے ہوئے طریق سے دونوں کا ایک ہی وزن بنتا ہے جو سویرے کے وزن پر ہے.اسی طرح انگیخت لفظ ہے پھر انبار ہے انجام ہے نیز انگشت نہیں پڑھا جاتا.اور نہ ہی ان گشت پڑھا جاتا ہے انگشت پڑھا جاتا ہے.میں آپ کو مصرع بتا تا ہوں : انگشت نمائی سے کچھ بات نہیں بنتی اس کو چاہئے ان گشت پڑھیں یا انگشت.وزن پر کوئی فرق نہیں پڑتا.اسی طرح دندان ہے اس کو 11
نہ دن دان اور دں داں پڑھا جاتا ہے.آپ کے اصرار نے تو مجھے انگشت بدنداں کر دیا ہے کہ آپ اندھیروں پر اندھیرے کو سویروں پر سویرے کے وزن پر پڑھنا چاہتی ہیں جبکہ میں اسے قندیلوں پر قندیلیں اور زنجیروں پر زنجیروں کے وزن پر پڑھتا ہوں نہ زن جیریں“.بعد میں آپ نے اس مصرع کو تبدیل فرما دیا: تاریکی په تاریکی گمراہی پر گمراہ آیاد فنی جس کو جو اپنی دعا پہنچی (مكتوب ۵/ دسمبر ۱۹۹۳ء) چوتھے بند کے پہلے شعر آیا وہ غنی جس کو جو اپنی دعا پہنچی، میں آپ نے جو کو جب سے بدل دیا ہے.سمجھ نہیں آئی کہ کیوں جب سے بدلا گیا ہے اصل میں جو اور جب میں ایک بہت لطیف فرق ہے جس کو وہی جان سکتا ہے جس نے جان کا ہی سے معنوں کی تہ میں اتر کر الفاظ کا چناؤ کیا ہو.جب اپنی دعا پہنچی کا تو مطلب یہ ہے کہ بس ہماری دعا کی دیر تھی جیسے ہی پہنچی لگ گئی.حالانکہ کلمہ طیبہ کے لئے یرفعه العمل الصالح بھی ہونا چاہئے.یہ تو نہیں کہ جس کسی نے درود شریف پڑھاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو جا پہنچا.خاص کیفیات میں اٹھتی ہوئی دعا ہی ہے جو رفعتوں کو پاتی ہے اور وہی ہے جو مقدر سنوارا کرتی ہے.اس لئے جو ہی رہنے دیں.وہی دعا بخت سنوار سکتی ہے جو اس تک پہنچنے کی سعادت پا جائے.جو میں جو انکسار ہے اس کا لطف جب میں نہیں.☆ (مکتوب ۱۶ جنوری ۱۹۹۳ء صفحه ۶) نظم ” ظہور خیر الانبیاء سے خاکسار کو بے حد پیار تھا.نظم حضور کی ہے اضافے بھی آپ نے خود 12
فرمائے لیکن بہت دُور کھڑی میں اس بات سے لطف لیتی رہتی ہوں کہ ہو سکتا ہے اس تبدیلی میں خاکسار کی تحریک کا کوئی دخل ہو.جب یہ نظم جلسہ سالانہ جرمنی ۱۹۹۳ ء میں پڑھی گئی تو میں نے فون پر سنی اور نوٹ کی.آپ نے درج ذیل اشعار کا اضافہ فرمایا تھا.مکتوب میں تحریر ہے: " کہیں کہیں مضمون کو مزید اجاگر کرنے کے لئے بعض اشعار کا اضافہ بھی کرنا پڑا ہے مثلاً ظہور خیر الانبیاء کے آخری بند کو تبدیل کرنے کے علاوہ ایک بند بڑھا بھی دیا ہے.اب اس کی شکل یوں بن جائے گی: دل اس کی محبت میں ہر لحظہ تھا رام اس کا اخلاص میں کامل تھا مرزائے غلام احمد -.وہ تھی عاشق نام اس کا جو بھی متاع جاں کر بیٹھا نثار اس پر.ہو بیٹھا تمام اس کا اس دور کا ساقی - گھر سے تو نہ کچھ لایا ئے خانہ اس کا تھا.کے اُس کی تھی جام اُس کا سازندہ تھا یہ اس کے.سب ساجھی تھے میت اس کے دُھن اُس کی تھی گیت اُس کے لب اس کے پیام اُس کا اک میں بھی تو ہوں یارب.صید نه دام اُس کا دل گاتا ہے گن اس کے لب جیتے ہیں نام اُس کا آنکھوں کو بھی دکھلا دے.آنا لب بام اُس کا کانوں میں بھی رس گھولے.ہر گام.خرام اس کا خیرات ہو مجھ کو بھی.اک جلوہ - عام اُس کا سته 13
پھریوں ہو کہ ہو دل پر - الہام کلام اُس کا اُس بام سے نور اترے نغمات میں ڈھل ڈھل کر نغموں سے اٹھے خوشبو.ہو جائے سرود عنبر (مکتوب ۱۲ جنوری ۱۹۹۳ء صفحه ۵.۴) شاعری جزویست از پیغمبری اس سے زیادہ کہیں اور صادق نہیں آتا.کچھ ترامیم و اضافے کے بعد اس کا حسن دوبالا ہو گیا تھا.میں نے حضور انور کی خدمت میں نظم سن کر اپنے تاثرات لکھے.میں نے تو کیا لکھا ہوگا ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں مگر آپ کا مکتوب آ پ کے حسن و احسان کا مرقع ہے.آپ کی طرف سے لجنہ امریکہ سے خطاب کا اردو ترجمہ اور میرے کلام کا کتابت شدہ مسودہ موصول ہوا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اپنے خط میں آپ نے نعت ظہور خیر الانبیاء صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حوالے سے جو تبصرہ کیا ہے اس میں دو باتیں قابل غور ہیں.ایک تو یہ کہ ماشاء اللہ بہت ہی خوبصورت زبان میں تبصرہ کیا ہے اور جن جذبات کا اظہار کیا ہے وہ بھی بہت لطیف ہیں.اور یہ بھی بالکل درست ہے کہ اس نظم پر محض آپ کی یاد ہی نہیں آئی بلکہ جذبہ احسان کے ساتھ یاد آتی رہی.کیونکہ اس کے بہت سے شعر ایسے تھے جن کے متعلق مجھے خیال تھا کہ اصلاح کے محتاج ہیں لیکن وقت نہیں ملتا تھا.آپ نے درست طور پر ان کی نشان دہی کی اور اصلاح کروا کے چھوڑی اور نہ میں کئی سال سے اسے ٹال رہا تھا اس لئے یہ نعت اور اس کے علاوہ کئی اور نظموں پر آپ کی توجہ کے نتیجہ میں جو وقت نکالا ہے یہ مواقع ہمیشہ جذ بہ احسان کے ساتھ آپ کی یاد دلاتے ہیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء فی الدنیا والاخرة “.نظم نمبر ۲ (مکتوب ٢٢ أكتوبر ١٩٩٣ء) 14
نظم اے شاہ مکی و مدنی سید الوری کے ایک مصرع - اے میرے والے مصطفیٰ اے میرے مجتبی کے متعلق پیارے آقا نے خاکسار کو اچھی طرح سمجھانے کے لئے وضاحت سے، دلائل سے علمی وزن کے ساتھ ایک اچھوتا نقطہ بیان فرمایا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں: ”آپ نے میرے والے مصطفی میں لفظ والے کو قتم سمجھتے ہوئے تو ہی تو مصطفیٰ ہے مرا تجویز کیا ہے.یہ دو وجوہات سے مجھے قبول نہیں.ایک یہ کہ اس نظم کی شان نزول تو ایک رویا میں ہے جس میں ایک شخص کو دیکھا جو بڑی پُر درد آواز میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی کلام پڑھ رہا ہے.ان شعروں کا عمومی مضمون تو مجھے یا در ہا مگر الفاظ یاد نہیں رہے البتہ ایک مصرع جو غیر معمولی طور پر دل پر اثر کرنے والا تھا وہ ان الفاظ پر مشتمل تھا: اے میرے والے مصطفی خواب میں اس کا جو مفہوم سمجھ میں آیا وہ یہ تھا کہ لفظ والے نے بجائے اس کے کہ نقم پیدا کیا ہو اس میں ) غیر معمولی اپنائیت بھر دی اور قرآن کریم کی بعض آیات کی بھی تشریح کر دی جن کی طرف پہلے میری توجہ نہیں تھی.عموما یہ تاثر ہے کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہی مصطفیٰ ہیں حالانکہ قرآن کریم میں حضرت آدم ، حضرت نوح ، حضرت ابراہیم اور آل ابراہیم (اسحق ، یعقوب ، اسمعیل ) حضرت موسیٰ اور حضرت مریم حتی کہ بنی آدم کے لئے بھی لفظ اصطفی استعمال ہوا ہے.تو مصطفیٰ ایک نہیں، کئی ہیں.پس اگر یہ کہنا ہو کہ باقی بھی مصطفیٰ ہونگے مگر میرے والا مصطفیٰ یہ ہے تو اس کا اظہاران الفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ میں ممکن نہیں.یہ بات ایسی ہی ہوگی جیسے کوئی بچہ ضد کرے کہ مجھے میرے والی چیز دو.میرے والی کہنے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ مجھے محض یہ چیز نہیں چاہئے بلکہ وہی چیز 15
چاہئے جو میری تھی.اس طرز بیان میں اظہار عشق بھی محض میرے مصطفیٰ، کہنے کے مقابل پر بہت زیادہ زور مارتا ہے.پس رویا میں ہی میں یہ نہیں سمجھ رہا کہ اس میں کوئی نقص ہے بلکہ اس ظاہری نقص میں مجھے فصاحت و بلاغت کی جولائی دکھائی دی اور مضمون میں مقابلہ بہت زیادہ گہرائی نظر آنے لگی.علاوہ ازیں چونکہ یہ طرز بیان محض ریڑھی والوں کی نہیں ہوا کرتی جو کہ ایک عامیانہ طرز ہے بلکہ بچوں کی سی ادا بھی ہوا کرتی ہے جس میں معصومانہ پیار اور اپنائیت جوش مارتے ہیں.پس اس پہلو سے میں نے نہ صرف خواب میں ظاہر کردہ الفاظ کے ساتھ وفا کی بلکہ اسے ہر دوسری طرز بیان سے بہتر بھی پایا.ہاں اے میرے والے مجتبی اے میرے مصطفیٰ کے بعد پورا ستجتا نہیں.ویسے بھی مصطفی مجتبی ، مرتضی و غیرہ خدا کی طرف منسوب ہوتے ہیں اس کی جگہ میں سوچ رہا ہوں کہ یہ کردوں : اے میرے والے مصطفیٰ ، اے میرے راہنما یا پھر ”اے میرے والے مصطفیٰ میں ہو چکا ترا بھی کر سکتے ہیں.لیکن اس شعر کے دوسرے مصرع میں جو الفاظ ہیں رویا میں قریباً یہی الفاظ تھے جیسا کہ مجھے یاد پڑتا ہے مگر سو فیصد یقین سے نہیں کہہ سکتا.اس میں لفظ ” تیری شامل ہوتا تو لفظ امت کی وضاحت تو ضرور ہو جاتی کہ کس کی امت مراد ہے مگر ایسی اُمت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف منسوب کرنا جو مہدی کو ہادی سے جدا سمجھے پسندیدہ بات نہیں ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بھی عُلَمَاءُ هُمْ کہہ کر ان علماء کو اُن لوگوں کی طرف منسوب کر دیا جن کا ذکر سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانُ....کی حدیث میں مذکور ہے.اور ان کے لئے عُلَمَاءُ امنی نہیں فرمایا ہاں جہاں ربانی علماء کا ذکر فرمایا وہاں یہ فرمایا کہ عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَآئِیل.پس اگر چہ محض امت کا لفظ کچھ خلا کا سا احساس پیدا کرتا ہے مگر اسے تیری امت کی بجائے کسی اور رنگ میں بدلا جا سکے تو بہتر ہو گا.مثلاً اس طرح کہ اہل 16
دنیا یا علماء سوء ہمیں جدا جدا نہ سمجھتے.مگر یہ اظہار اس چھوٹے سے مصرع میں سمانا مشکل ہے.بہر حال خواب میں جو کیفیات تھیں میں اُن کے ساتھ وفاداری کرنا چاہتا ہوں.ان میں درد کا مضمون تھا بحث کا نہیں.آپ نے جو یه تجویز دی امت تری سمجھتی نہیں کیوں یہ ماجرا.اس کیوں میں تو بحث کا رنگ ہے جبکہ جداجدا میں اظہار درد اور بیکسی ہے.ایک متبادل یہ بھی زیر غور لایا جا سکتا ہے بلکہ یہی اختیار کرلیں.اے میرے والے مصطفیٰ اے سید الوری اے کاش ہمیں سمجھتے نہ ظالم جدا.☆......☆ اُڑتے ہوئے بڑھوں ،ترکی جانب سوئے حرم“ جدا اس مصرع میں آپ نے اُڑتا ہوا، تجویز کیا ہے.آپ کی یہ تجویز مجھے قبول تو ہے.لیکن میں نے اگر چہ اردو گرائمر زیادہ نہیں پڑھی پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ اُڑتے ہوئے بھی ٹھیک ہے.خصوصیت سے یہ تخاطب کے وقت استعمال ہوتا ہے.غائب میں اُڑتا ہوا پڑھتے ہیں لیکن مخاطب میں اُڑتے ہوئے پڑھنا جائز ہے.اس لئے میں تو اسے اُڑتے ہوئے پڑھوں تو مجھے زیادہ اچھا لگتا ہے.مگر آپ کی یہ تجویز مان لیتا ہوں کیونکہ میرے مضمون پر اس کا اثر نہیں پڑے گا“.نظم نمبر ۳ حضرت سید ولد آدم الله (مكتوب ۹۳.۱۱.۱ صفحه ۱۲) پیارے حضور نے ایک شفیق ماں کی طرح جو اپنے نادان بچے کو قریب تر کر کے زیادہ تفصیل سے آسان الفاظ میں سمجھاتی ہے ایک ایک تبدیلی کی حکمت سمجھائی.نبیوں کا سرتاج ابنائے آدم کا معراج محمد " 17
مجھے ڈر تھا کہ آپ دونوں کا معراج کو کئی میں بدل دیں گے کیونکہ مکرم سلیم شاہجہانپوری صاحب نے اپنے کلام میں معراج کو کئی یعنی تانیشی نسبت سے باندھا ہے اور اُردو کتب لغات بھی اسے تانیث میں ہی پیش کرتی ہیں.مگر ہم نے قادیان میں ہمیشہ اس کو مذکر ہی سنا اور ذہنی طور پر معراج کو تانیث کے ساتھ استعمال کرنے پر دل آمادہ نہیں ہوتا.اس لئے میں نے عمد ایا یوں سمجھ لیں کہ ضد کر کے اس غلطی پر اصرار کیا ہے.نبیوں کا سرتاج کہنے کے بعد اگر یہ کہا جائے کہ ابنائے آدم کی معراج تو گھٹیاسی ترکیب نظر آتی ہے جو معراج کی شان کے خلاف ہے.پس مجھے تو آنحضرت ہمیشہ ہی ابنائے آدم کا معراج دکھائی دیتے ہیں نہ کہ ابنائے آدم کی معراج.پس بعض ایسے مقامات بھی ہوتے ہیں کہ جہاں شاعر اپنا حق سمجھتا ہے کہ چاہے دنیا اس کے کسی استعمال کو غلط قرار دے وہ اپنی مرضی سے عمدا کسی خاص مقصد کے پیش نظر اپنی غلطی پر مصر ہوں“.صلى الله (مکتوب ۱۲ جنوری ۱۹۹۳ء صفحه ۱۷.۱۶ اس نظم میں بھی آپ نے نظر ثانی کے دوران کچھ تبدیلیاں فرمائیں اور ہر جگہ بات کو خوب کھول کر بیان فرمایا مثلاً.آپ نے ایک مصرع 'مٹ گئے مہر و ماہ و انجم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبدیل فرمایا.اور مفہوم کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: ” میں نے اس مصرع کو یوں کر دیا ہے.مہر و ماہ نے توڑ دیا دم - صلی اللہ علیہ وسلم اور بھاگنے کے ساتھ دم کا ٹوٹنا ایک اور لطیف مناسبت بھی رکھتا ہے.کسی پر شوکت جلوہ کے مقابل دم تو ڑ دینا اور دوڑتے ہوئے دم تو ڑنا ہم آھنگ ہیں.(مکتوب ۹۳-۱-۱۲ صفحه ۱۳) اب اس شعر کو پڑھ کر زیادہ لطف آئے گا.آپ کے جلوۂ حسن کے آگے.شرم سے نوروں والے بھاگے صلی اللہ علیہ وسلم ماہ نے توڑ دیا دم و 18
پہلے یہ مصرع یوں تھا : متلاطم عرفان کا قلزم.بہ نکلا عرفان کا قلزم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضور رحمہ اللہ نے اس کو درست فرمایا.سوچ کی گہرائی کا اندازہ کیجئے.درست کرنے کی وجہ اور مضمون سے وفا کا اندازہ لگائیے.تحریر فرماتے ہیں: یہ بھی ان جگہوں میں سے ایک ہے جس کو میں نے پہلے ہی نشان لگا رکھا تھا کہ وقت ملا تو ٹھیک کرنا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی تجویز موج میں تھا عرفان کا قلزم بہ نکلا عرفان کا قلزم سے بہت بہتر ہے.مگر پہلے جو مضمون بیان ہوا ہے اس کے ساتھ موج میں تھا...مطابقت نہیں رکھتا.موج میں تھا' کا مضمون ایک ساکت جامد حالت کو پیش کر رہا ہے لیکن پہلی طرز بیان تقاضا کرتی ہے کہ ایک چیز سے دوسری چیز ہو گئی کی طرز پر اس میں کچھ ہو جانے یا کسی تبدیلی کا ذکر پایا جانا چاہئے جیسے عربی میں اصبح سات وغیرہ کلمات سے ادا کیا جاتا ہے.موج میں ہو گیا کا انداز ہونا چاہئے تھا یا پھر فعل کا استعمال کلیۂ ختم کر کے اس مصرع کو صفت موصوف کی ترکیب میں پڑھا جائے تو تب بھی کوئی حرج نہیں.اس مجبوری کی وجہ سے میں نے موج میں تھا کی بجائے بہہ نکلا کے الفاظ میں مضمون بیان کرنے کی کوشش کی لیکن دل میں یہ کھٹک تھی کہ بہہ نکلا...قلزم کے متعلق کہنا جائز نہیں.کیوں نہ اس مصرع کا تعلق پہلے بند کے جاری مضمون سے توڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات سے باندھ دیا جائے.اس صورت میں یہ مصرع یوں بنے گا: لیتا ہے.متلاطم عرفان کا قلزم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح مصرع کا پہلا نصف دوسرے نصف کے ساتھ نسبت توصیفی یا نسبت بدل اختیار کر (مکتوب ١٦ جنوری ۱۹۹۳ء صفحه (۱۵) 19
نظم نمبر ۲ نظم آج کی رات میں ایک شعر ہے.آنکھ اپنی ہی ترے ہجر میں پکاتی ہے وہ لہو جس کا کوئی مول نہیں ، آج کی رات اس کے پہلے مصرع کے متعلق حضور فرماتے ہیں.اس کے متعلق تجویز ہے کہ اسے یوں بدل دیا جائے چشم عاشق ہی ترے ہجر میں ٹپکاتی ہے.مجوزہ مصرع دیکھنے میں تو بہت چست لگتا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ ، آنکھ اپنی ہی ترے ہجر میں ٹپکاتی ہے.میں جو بات میں کہنی چاہتا ہوں وہ چشم عاشق میں آہی نہیں سکتی.میں تو طعنہ آمیز دشمن کے مقابلہ پر اپنی ہی آنکھ کی محبت کو نمایاں کرنا چاہتا ہوں، چشم عاشق نے تو اس مضمون کا کچھ رہنے ہی نہیں دیا جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں.دوسرے میں نے عمداً ہجر کو چھوڑ کر عشق اختیار کیا تھا کیونکہ بحث یہ نہیں کہ ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصل سے محروم ہیں کہ نہیں.بحث یہ ہے کہ ہمارا دل آپ کے عشق سے خالی ہے یا لبالب بھرا ہوا ہے.پس ہر چند کہ اس مصرع میں لفظ ہجر پڑھنا عشق پڑھنے کی نسبت زبان پر ہلکا ہے.مضمون کی مناسبت سے عشق ہی موزوں ہے.پس یہ مصرع یوں ہی رہے گا ، آنکھ اپنی ہی ترے عشق میں ٹپکاتی ہے.“ ☆.....( مكتوب ۱۶.۱.۹۳ صفحه (۸) و کاش اُتر آئیں یہ اڑتے ہوئے سیمیں لمحات کا متبادل آپ نے یہ تجویز کیا ہے.کاش رُک جائیں یہ اڑتے ہوئے سیمیں لمحات یہ تو بڑا خطرناک مشورہ ہے کیونکہ اڑتے ہوئے رکیں گے تو مریں گے گر کر.میرا جو تصور ہے وہ تو یہ ہے کہ جس طرح پرندے اترتے ہیں اسی طرح یہ روحانی لمحات نور کے پرندوں کی طرح اتر 20
آئیں.آپ نے دو مضامین کو دو مصرعوں میں Repeat کیا ہے یعنی رُک جائے اور ٹھہر جائے.جبکہ میں نے پہلے مصرع میں اڑتے ہوئے لمحات پرندوں کی طرح اترنے کا مضمون باندھا ہے.پرواز میں رک کر دھڑام سے گرنے کی بات نہیں کی.میرے تصور پر میرا زیادہ حق ہے.براہ کرم اس کے پر نہ باندھیں.اس بیچارے کو تسلی سے اڑنے دیں“.نظم نمبرے (مكتوب د ارمنی ١٩٩٣ء صفحه ۲) ” برق تپاں ہے خندہ کہ خرمن اداس ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ نظم پہلی اشاعت سے نقل کی ہے.میں نے تو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو ان کے یہ نظم بھجوانے کے بعد یہ ہدایت کی تھی کہ برق تپاں ہے خنده......مصرع کی فوری اصلاح بھجوادیں اور غالباوہ الفضل میں چھپ بھی گئی ہوگی.لیکن اس کے باوجود آپ کو سہو کتابت والی نظم ہی مل سکی بہر حال اس کی دوصورتیں میرے سامنے آتی ہیں.(۱) برق ، تپاں ہے خندہ زن.خرمن اداس ہے مگر اس میں یہ سقم ہے کہ وزن کی تال کے لحاظ سے خندہ زن تک کے مضمون کو پہلے نصف مصرع میں ہی سما جانا چاہئے تھا.کیونکہ اس نظم کا ہر مصرع دو حصوں میں بٹا ہوا ہے.گویا ” برق تپاں ہے خندہ پر ایک ضرب ختم ہوتی ہے اور " کہ خرمن اداس ہے‘ پر دوسری.مگر خندہ زن کر دیا جائے تو زن کا قدم اپنے نصف مصرع کی حدود میں رہنے کی بجائے دوسرے نامحرم نصف پر جاپڑتا ہے.اسی خیال سے میں نے اسے یوں کر دیا تھا.برق تپاں نہال.کہ خرمن اداس ہے غالباً یہی بہتر رہے گا.خنداں اس لئے جائز نہیں کہ یہاں خندہ صرف زبر کا متحمل ہے الف کا متحمل نہیں.21 (مکتوب ۹۳ - ۱- ۱۶ صفحه ۱۸)
نظم نمبر ۸ حضور ایدہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: دو غم فرقت میں کبھی انتشار لانے والے اس میں اصلاح یہ تجویز ہوئی ہے.غم فرقت میں کبھی خوب رلانے والے.لفظ خوب بہت خوب ہے.مگر لفظ اتنا میں جو اپنائیت اور شکوہ پایا جاتا ہے وہ خوب میں ہرگز نہیں.غالبا یہ اصلاح اس لئے تجویز کی گئی ہے کہ اتنا کے بعد اس کا جواب آنا چاہیئے.حالانکہ یہ ضروری نہیں ہوا کرتا.بعض دفعہ بغیر جواب کے ہی شرطیہ حصہ پر کلام ختم ہو جاتا ہے اور قرآن کریم میں اس کی بہت ہی پیاری مثالیں موجود ہیں.ایک کہنے والا یہ بھی کہ دیتا ہے کہ آپ نے مجھے اتنا لایا ہے.ضروری نہیں کہ بعد میں وہ یہ بھی کہے کہ آنسو پونچھ پونچھ کر میری آنکھیں سرخ ہو گئیں.اس کے مقابل پر آپ نے مجھے خوب رلا یہ ہے میں لگتا ہے کہ بات ختم ہو گئی اور اپنی ذات میں یہ مضمون و ہیں مکمل ہو گیا.لیکن لفظ اتنا ایک تشنگی باقی چھوڑ دیتا ہے.وہ خواہ شکوے کی ہو یا کسی اور چیز کی.پھر یہ تشنگی مضمون کو اور بھی رفعت عطا کرتی ہے.اس لئے میرے نزدیک یہاں بھی تبدیلی کی ضرورت نہیں.“ (مکتوب ۱.۹۳.۱۲ صفحه ۱۷) نظم نمبر 1 اک ذکر کی دھونی مرے سینے میں رما کے پہلے اس مصرع میں لفظ بھبا کے آتا تھا.جس پر نظر ثانی کی درخواست پر حضور انور نے تحریر فرمایا: لفظ بھیا کے سے متعلق آپ کی بات درست ہے کیونکہ بھیک سے بھیا کا کسی ڈکشنری میں نہیں ملا.یہ دراصل ہماری بچپن کی Slang تھی.خوشبو کے لئے ہمارے ذہن میں قادیان میں جو تصور پیدا ہوتا تھا وہ گویا اس طرح تھا کہ چھوٹا سا خوشبو کا جھونکا ہو تو اسے بھی کا' کہتے مگر خوشبو کا ایسا بھب کا کہ گویا اس طرح تھا کہ چھوٹا سا خوشبو کا جھونکا ہو تو اسے اس کو ہم بچپن کی Slang میں 'بھیا کا' کہا کرتے تھے.22
اسی طرح اگر شدید بد بو کا ذکر کرنا ہوتا تو اس کو ہم اس طرح بیان کیا کرتے تھے کہ فلاں شخص یا جگہ سے تو بد بو کے بھبا کے اٹھ رہے ہیں.پس ایسی Slangs مختلف علاقوں میں رائج ہو جاتی ہیں جو ڈکشنریوں میں راہ پانے کے لئے لمبا عرصہ لیتی ہیں.اس لئے میں آپ کی بات مانتا ہوں.یہ لفظ ابھی تک عرف عام کی سند نہیں پاسکا لیکن ممکن ہے ہمارے گھر کی حد تک محدود رہا ہو.پس اس مصرع کو اب اس طرح تبدیل کیا جا سکتا ہے....سینے میں مرے ذکر کی اک دھونی رما کے بیٹھا رہا وہ ذکر کی اک دھونی رما کے اک ذکر کی دھونی مرے سینے میں رہا کے غالباً یہ آخری بہتر ہے.مگر تینوں میں سے جو آپ پسند کر لیں.اس معاملہ میں آپ کی پسند پر اعتماد کرتا ہوں.اگر تینوں ہی دل کو نہ لگیں تو مجھے ایک اور موقع دیں.(مکتوب (مکتوب ۵/ دسمبر " کیا مون تھی جب دل نے جسے نام خدا کے" اس نظم کے ایک شعر سے میں ان سے جدا ہوں مجھے چین آئے تو کیوں آئے دل منتظر اس دن کا کہ ناچے انہیں پاکے اس کے پہلے مصرع پر نظر ثانی کی درخواست کی تھی.پہلے تو ایسی جسارتوں پر بہت نادم ہوتی تھی.مگر اب اس کے نتیجے میں خاکسار کو سمجھانے کے لئے جو شعر میں زبان و بیان کے متعلق علم کے دریا بہائے ہیں مجھے نازاں کر رہے ہیں.جو بھی پڑھے گا اس کا عالم مجھ سے مختلف نہیں ہو گا.ایسا لگتا ہے ساری عمر صرف ادب کا مطالعہ فرمایا ہے.تحریر ملاحظہ ہو: میں ان سے جدا ہوں مجھے چین آئے تو کیوں آئے 23
اس مصرع کے بارے میں آپ نے ترتیب بدلنے یا کیوں آئے کی جگہ کوئی دوسر الفظ لانے کی تجویز پیش کی ہے.لیکن مجھے آپ کے اصرار کی سمجھ نہیں آئی کہ کیوں ترتیب بدلی جائے.اسے اہلِ کلام جب پڑھتے ہیں تو آئے دو آوازیں نہیں نکلتیں بلکہ دونوں آپس میں مدغم ہو جاتی ہیں.جس طرح غالب کے مرثیہ میں ہائے ہائے میں آخری ئے کی آواز نمایاں نہیں ہے.آئے اور ہائے کی آواز کبھی Soft پڑھی جاتی ہے اور کبھی ئے کر کے الگ پڑھی جاتی ہے جب soft پڑھی جاتی ہے تو عملاً یہ اتنی خفیف ہو جاتی ہے کہ زبان پر بوجھ نہیں پڑتا اور اہل کلام اس کو نا گوار خاطر نہیں سمجھتے.مکرم سلیم صاحب کا غالبا یہ بھی اعتراض ہے کہ کیوں آ پر وزن کا دم ٹوٹ جاتا ہے.انکو بتا دیں کہ یہ آ اور ائے نہیں ہے یعنی ائے پر الگ زور نہیں.معلوم ہوتا ہے کہ سلیم صاحب کو جسطرح آتش کے اس مصرع میں آئے استعمال ہوا ہے صرف اسی طرح آئے کہنے کی عادت ہے اور وہ soft ' آئے پڑھ ہی نہیں سکتے آتش کا پورا شعر یوں ہے: بجا کہتے آئے ہیں بیچ اس کو شاعر کمر کا کوئی ہم ނ مضموں نکلا اب یہاں آ ئے پڑھنا پڑتا ہے اگر آئے Soft پڑھیں گے تو وزن ٹوٹ جائے گا.اس کے مقابل پر غالب کی نظم میں Soft پڑھنے کی مثال موجود ہے.اسکی ہائے ہائے والی نظم میں آخری ہائے کو Soft پڑھتے ہیں اور لمبا کر کے ہلائے نہیں پڑھتے بلکہ ہا اے آؤ پر ہی بات ختم ہو جاتی ہے.غالب کہتا ہے: داد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے اگر دوسرے ہائے کو بھی با ائے پڑھیں تو اس میں ائے کی آواز زائد ہے.اصل میں ہائے ہا 24 24
ہونا چاہیے تھا.اس کی یہ ساری نظم اسی طرح چلتی ہے.پھر غالب کہتا ہے.عمر بھر کا تو نے پیغام وفا باندھا تو کیا ی بڑا چست مصرع ہے اس میں کچھ زائد نہیں ہے اس کے مطابق اگلا مصرع یوں ہونا چاہئے تھا عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہا اگر آپ پہلے کو کیائے کردیں تو جسطرح کیائے میں ائے زائد ہوتی ہے بالکل اسی طرح آئے میں ئے زائد ہوئی ہے.اور نہائے ہائے، میں آخری 'ئے زائد ہے.صرف پڑھنے کے انداز کا فرق ہے.پس میرے اس مصرع کی تقطیح کا جہاں تک تعلق ہے اس میں غالب کی 'ہائے ہائے والی نظم کی طرح ہی آئے زائد ہے اور یہاں ائے کی اس طرز کی واضح آواز نہیں ہے کہ گویا آ' اور ائے دو حرف ہیں.بلکہ آ' کے ساتھ ائے کی آواز کو نرمی کے ساتھ مدغم کیا گیا ہے.بہر حال یہ کوئی سقم نہیں چوٹی کے شعراء کے کلام میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں.آپ دونوں بھی ماشاء اللہ ما ہرفن اور قادر الکلام شعراء ہیں.مجھے تو آپ کا کلام بھی اس سے خالی دکھائی نہیں دیتا اور پڑھتے وقت کئی مثالیں سامنے آتی ہیں.لیکن چونکہ اردو ادب میں اس کی اجازت سمجھی جاتی ہے اور اہل فن بھی استعمال کرتے ہیں.اس لئے میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا مثال کے طور پر مکرم سلیم صاحب کا یہ شعر ملاحظہ ہو.زیست کیا ہے سکینت اگر نصیب نہ ہو جو موت وجہ سکوں ہوتو کیا ہے کم اعجاز اس میں اگر زیست پڑھیں گے تو کیا کا' کاف اور دی دونوں زائد ہیں.کیونکہ فنی نکتہ نگاہ سے اس کا وزن زیستا بنتا ہے.گویا کاف اوری دونوں زائد ہیں.لیکن اگر کیا پورا پڑھنا ہو تو پھر زیست کی ت زائد بنتی ہے.اب یہ دیکھ لیں کہ ماشاء اللہ یہ شعر چوٹی کا ہے.لیکن پڑھنے کے انداز کے فرق سے وزن 25
پر اثر پڑتا ہے اور ستم نظر آتا ہے.لیکن میرے نزدیک یہ ستم نہیں.پھر سلیم صاحب کا یہ شعر دیکھیں.ان بہتے آنسوؤں کا ہی تحفہ قبول ہو ہے اس کے پاس کیا جو یہ تیرا غلام ہے اس کے پہلے مصرع میں ظاہر اوزن ٹوٹتا ہے.اور بہتے میں زیر پڑھنی پڑتی ہے.بڑی نے نہیں پڑھی جاسکتی.یا ساکن یا زیر کے ساتھ الگ سے ت آ سکتی ہے؟ ئے کی گنجائش ہی نہیں.ان کی اس نظم کا اس سے اگلا شعر.پہرے بٹھا دے میری سماعت پر یا خدا ہی اس کی مثال ہے.حالانکہ بڑے قادر الکلام ہیں مگر یہ ستم ہے.اور وزن کے اعتبار سے پہرے میں صرف زیر پڑھنی پڑتی ہے.اس پہلو سے اگر آپ اپنے کلام پر نظر ڈالیں تو اس میں بھی آپ کو اس کی کئی مثالیں ملیں گی.صرف کلام کی مجبوریاں سمجھانے کی خاطر ایک آدھ مثال بیان کر دیتا ہوں.کیا خوب مصرع ہے.خشک آنکھوں سے نیر بہاؤں چہرے پر مسکان سجاؤں لیکن اس میں صرف سجا پڑھا جا سکتا ہے.'وں زائد ہے لیکن شعراء عملاً ایسا کرتے ہیں.اجازت ہوتی ہے.ہرگز معیوب نہیں سمجھا جاتا.پھر یہ مصرع ملا حظہ فرمائیں.پھر کس گن پر اتر اؤں اور فخر و مباہات کروں اب اس میں اگر پھر ہلکا پڑھیں تو پھر کسی گن پر اتراؤں میں، ہونا چاہئے یعنی ایک میں ڈالنا پڑے گا.اور اگر پھر زور سے پڑھیں تو آپ والا مصرع موزوں ہو جائے گا.پس اس میں پڑھنے کے انداز کے فرق کی وجہ سے دو صورتیں ممکن ہیں.ایک ہے.دپھر کس گن پر اتراؤں 26
پھر کس گن پر میں اتراؤں اس میں لفظ میں زائد کرنے کے باوجود وزن دونوں کا ایک ہے.بہر حال انداز قراءت نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض اوقات نقص کا گمان ہوتا ہے.پڑھنے والے کے انداز پر اس کی درستی یا سقم کا انحصار ہے.عام بول چال میں بھی اس کی مثالیں بہت ملتی ہیں.چنانچہ بولنے والا حسب حالات' آ.ائے کہتا ہے اور کبھی soft 'آئے کہتا ہے.جیسے کہتے ہیں.کب آؤ گے پیتیم پیارے یہاں.اؤ دو آوازیں ہیں اور آؤنا جب کہتے ہیں تو اس میں دو آواز میں نہیں نکلتیں اور دوسری حرکت شدید نہیں پڑھی جاتی.زیر نظر مصرع میں آپ کو کیوں آئے پر اعتراض ہے.اگر آپ اس کی ترتیب بدل لیں یا اس کی جگہ دوسر الفظ لانے پر مصر ہیں تو بے شک اس کو یوں کر لیں.میں اس سے جدا ہوں مجھے کیوں آئے کہیں چین " نظم نمبر ۱۰ (مکتوب ۹۳-۵-۱۵ صفحه ۷ تا ۹) اے میرے سانسوں میں بسنے والو آپ نے میری سانسوں تجویز کیا ہے.ہم نے تو سانس کا لفظ ہمیشہ مذکر ہی استعمال کیا ہے.اور بالعموم اس کا مذکر استعمال ہی سنا ہے.آپ کی اس تجویز پر میں نے لغت بھی چیک کی ہے اس میں اس کا استعمال مذکر اور مؤنث دونوں طرح سے آیا ہے.جامع اللغات میں لکھا ہے سانس اندر کا اندر باہر کا باہر.سانس پورے کرتا ہے.سانس کا روگ وغیرہ وغیرہ.بہر حال اگر چہ مؤنث استعمال ہوسکتا ہے اور شاید لکھنوی زبان کی نزاکتوں اور لطافتوں کے تابع وہاں مونث کا استعمال رائج ہولیکن میں نے گھر میں اسے کبھی مؤنث نہ استعمال کیا نہ سنا.لغت بھی اس کے استعمال سے مانع نہیں اس 27 22
لئے اسی طرح رہنے دیں.☆..نظم نمبر.مكتوب ١٦ جنوری ۱۹۹۳ء صفحه ۲۱) کیا حال تمہارا ہو گا جب شد او ملائک آئیں گے آپ نے مسودہ میں شداد کے معانی کی وضاحت کرتے ہوئے حاشیہ میں سورۃ تحریم کی آیت لائِكَةٌ غَلَاظٌ شِداد کا جو حوالہ دیا ہے وہ اطلاق نہیں پاتا، یہ آیت نہ لکھیں کیونکہ هند او پر شداد کی مثال صادق نہیں آتی.اگر اس کا حوالہ دینا ہے تو پھر لکھ دیں کہ اگر چہ آیت میں لفظ شداد ہے لیکن اُردو میں یہی معنی لفظ شداد سے ادا ہوتا ہے.خد ادقوم عاد کے اس بادشاہ کا نام ہے جس نے خدائی کا دعوی کیا تھا اور شعر کہتے وقت یہی میرے پیش نظر تھا.دوسرے لغوی لحاظ سے آیت میں جو لفظ شداد ہے وہ شدید کی جمع ہے.شدید کی جمع کی دوسری مثال قرآن کریم میں اشراء بھی آئی ہے جبکہ میں نے لفظ شد اداستعمال کیا ہے جو کہ شدید سے مبالغہ کا صیغہ ہے اس لئے اگر چہ معنوی طور پر یہاں بھی مراد وہی ہے لیکن بہتر ہے کہ آپ قرآن کریم کا حوالہ دینے کی بجائے لغت کا حوالہ دیں کہ یہ شدید سے مبالغہ کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے بہت زیادہ تختی کرنے والا یہ قوم عاد کے ایک بادشاہ کا نام بھی ہے جس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا.لغت کے حوالے سے بس یہ نوٹ دے دیں.آزاد کہاں وہ ملک جہاں قابض ہو سیاست پر ملاں خاکسار نے عرض کی کہ ملاں میں نون غنہ غیر ضروری ہے.آپ نے تحریر فرمایا: " آپ کی یہ تجویز کہ لفظ ملاں کی بجائے مثلاً ہونا چاہئے ں کی ضرورت نہیں.آپ سے اتفاق ہے.نون غنہ کٹوا دیں.آپ کی اس بہت عمدہ تجویز پر بے حد جزاکم اللہ احسن الجزاء.(مکتوب ۲۲ اکتوبر ۱۹۹۳ء) 28 ☆....
نظم نمبر ۱۴ تو میرے دل کی شش جہات بنے.اس نظم میں تبدیلیاں اور ان کی حکمتیں ملاحظہ ہوں.پیارے آقا فرماتے ہیں: وو تیرے کی سبک سبک باتیں تحریر ول کے بھاری معاملات بنے پر نظر ثانی کی آپ نے خواہش کی ہے.یہ مضمون در اصل حدیث كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللَّسَانِ ثَقِيْلَتَانِ فِی الْمِيزَانِ سے اخذ کیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ تیرے منہ کی ہلکی ہلکی باتیں ہمارے دل کی بڑی وزنی باتیں بن جاتی ہیں.آپ کی بات درست ہے کہ بنے کی ضمیر باتیں کی طرف جاتی ہے جو مونث ہے لہذا بنے نہیں بلکہ بہنیں چاہئے تھا.اس مصرع کو بدل کر میں نے یوں کر دیا ہے.تیرے هند کے سبک سہانے بول دل کے بھاری معاملات بنے اگر سہانے کی بجائے آپ ریلے پسند کریں تو اسے سبک رسیلے بول کر دیا جائے لیکن سبک سہانے زبان پر زیادہ ہلکا ہلکا لگتا ہے.“ کتنے کھنڈر محل بنائے گئے ( مكتوب ۱۰.۹۳-۲۲ صفحه ۳) کتنے محلوں کے کھنڈرات بنے اکثر و بیشتر تو خاکسار کے بچگانہ بلکہ بیوقوفانہ مشوروں پر تبصروں میں معرفت کے سکتے حاصل 29
ہوئے.دو مقامات ایسے بھی ہیں جہاں ڈھنگ سے توجہ نہ دلا سکنے کی وجہ سے وضاحت موصول ہوئی.مثلاً مندرجہ بالا شعر میں کھنڈر کے ان کی آواز نون غنہ ہوتی تو بہتر تھا.خوف اس قدر مسلط تھا کہ نہ جانے کیا لکھ دیا.مناسب وضاحت نہ کی جواب موصول ہوا.وو دوسرے خط میں جو آپ نے کھنڈر لفظ پر نظر ثانی کے لئے بڑی ہی ملائمت سے توجہ دلائی ہے اس کے لئے معذرت کی تو کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن آپ نے وضاحت نہیں کی کہ اس پر اعتراض کیا ہے.مجھے ابھی سمجھ نہیں آئی کہ لفظ کھنڈر پر اعتراض کیا ہے.اگر یہ وہم ہے کہ کبھی کھنڈر محل نہیں بنائے گئے تو یہ درست نہیں.تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ بار ہا کئی شہر اجڑے اور پھر آباد کئے گئے اور جومحل کبھی آباد تھے ان کے کھنڈروں کو آباد کیا گیا.موہنجودڑو کے متعلق یہی ذکر آتا ہے.ویسے بھی دنیا میں یہی ملتا ہے کہ بعض محل ویران ہوئے اور پھر ان کھنڈرات کو آباد کیا گیا.اگر کوئی اور بات ہے تو بے تکلفی سے لکھیں.قم کی طرف توجہ دلانا تو قابل تحسین ہے.بے شک مجھے بتائیں کیا کمزوری نظر آ رہی ہے اور اگر اس کا کوئی اچھا حل نظر آئے او وہ بھی تجویز کر دیں.غالباً دتی والے لفظ کھنڈر پڑھتے ہیں.اگر یہ بات ہے تو شعر یوں کر لیں.جو کھنڈر تھے محل بنائے گئے اور محلوں کے کھنڈرات بنے مكتوب ١١ / دسمبر ۱۹۸۹ء) ☆..30
نظم نمبر ۱۸ بلائے ناگہاں اک نت نیا مولا نا آتا ہے.ہر مولانا فی ذاتہ بلائے ناگہاں ہے.وہ کوئی خاص خاص مولا نا نہیں جو بلائے ناگہاں ہوں.بلکہ ہر مولا نا جب آتا ہے بلائے ناگہاں کی طرح ہی آتا ہے.کبھی ایک ہی بار بار آتا ہے بھی نت نیا.میرے ذہن میں نت نئے مولانا کے آنے کا تصور تھا.بن کر آنے کا محاورہ میرے دل کی بات ظاہر نہیں کرتا.میں تو ہر مولوی کو ہی بلائے ناگہاں سمجھتا ہوں.اس لئے اسے اسی طرح رہنے دیا جائے 'نت نیا “ کہہ کر تو ان کی روزانہ بڑھتی ہوئی تعداد کی طرف اشارہ مقصود ہے اور جتنے بھی آتے ہیں ہمیشہ بلائے ناگہاں ہی ثابت ہوں گے.66 ☆ (مکتوب ۹۳-۱-۱۶ صفحه ۲۷،۲۶) کچھ لوگ گنوا بیٹھے دن کو جو یار کما یا ساری رات.آپ کی تجویز یہ ہے کہ 'لوگ گنوا بیٹھے سب دن کو جو بھی کمایا ساری رات.لیکن اس میں عمومیت کی آگئی ہے کہ جو اچھا برا کمایا وہ دن کو گنوادیا.جبکہ جو مضمون میرے پیش نظر ہے اس میں خدا کمانے اور ساری رات اس کی عبادت میں گزارنے کا مضمون ہے.اور مطلب یہ ہے کہ اگر انسان راتیں تو ذکر الہی میں گزارے اور دن بھر دنیا کے پیچھے بھاگتا پھرے تو یہ اچھا عمل نہیں.اگر یار کمانے کے اظہار بیان پر اعتراض ہے.تو یہی محاورہ تو اس شعر میں میری جان ہے اور شعر کی بھی.یار یونہی نہیں مل جاتے ، کمانے پڑتے ہیں.“ جو آنکھیں مند گئیں رو رو کر.اور گھل گھل کر جو چراغ بجھے مكتوب ۱۲.۱.۹۳ صفحه ۲۰) اس مصرع کے بارہ میں آپ کا مشورہ درست ہے اور جو آنکھیں مندھ گئیں رو رو کر زیادہ بہتر ہے لیکن پھر اس سے اگلے مصرع کا پہلا جزو آن پرختم ہو اور دوسرا حصہ اس طرح شروع 31
ہو کھیں گھل گھل کر جو چراغ بجھے.تو پھر وزن درست رہتا ہے.اگر چہ یہ کم ہے.اس لئے اگر اسے بدلنا ہے تو پھر اس سے اگلے حصہ مصرع کو بھی وزن کی درستی کے لئے بدلنا پڑے گا اور اس میں وہ یا نیوں یا اور زائد ڈالنا پڑے گا.آپ کے مجوزہ متبادل میں پہلا تو مکمل ہے.لیکن دوسرے میں جوڑنے کے لئے جو لفظ چاہئے وہ غائب ہے مثلاً یوں گھل گھل کر جو چراغ بجھے' کر دیا جائے تو پھر ٹھیک ہے.پڑھنے کے انداز کے فرق سے جو تم سا پیدا ہوتا ہے اس کی مثالیں قادر الکلام شعراء کے حوالے سے بیان کر چکا ہوں جو مکروہ نہیں کبھی جاتیں.اس لئے وزن ٹھیک رکھنے کی خاطر اگر نصف مصرع کا کچھ آخرکی ٹکڑا دوسرے نصف مصرع کو شروع میں مستعار بھی دینا پڑے تو کوئی حرج نہیں.بہر حال اس مصرع کی شکل دو طرح بن سکتی ہے پہلی تجویز میں یوں اگر زائد لگتا ہو تو اسے اور کرلیں.ہیں.ا.جو آنکھیں مند گئیں رو رو کر.یوں گھل گھل کر جو چراغ بجھے ۲.جو مند گئیں آنکھیں روتے روتے.گھل گھل جو چراغ بجھے مجھے تو پہلی تجویز کیوں کی بجائے اور کے ساتھ اچھی لگ رہی ہے.آپ کو جو پسند ہو وہ رکھ (مکتوب ۱۵ مئی ۱۹۹۳ء صفحه ۱۱) ظالم نے اپنے ظلم سے خود اپنے ہی افق دھندلائے ہیں کے متعلق آپ نے تجویز دی ہے کہ آپ کی بجائے خود بھی ہو سکتا ہے.آپ کی تجویز منظور ہے.بہت اچھی ہے.جزاکم اللہ تعالی.ٹھیک ہے اس کے مطابق اب اسے یوں کر دیں: ظالم نے اپنے ظلم سے خود اپنے ہی افق دھند لائے ہیں (مكتوب ٫۵دسمبر ۱۹۹۳ء) الله 32
نظم نمبر ۲۳ کہہ رہا ہے خرام بادصبا جب تلک دم چلے مُدام چلو خرام مندرجہ بالا شعر میں پہلی اشاعت میں مؤنث باندھا گیا تھا.نظر ثانی کی مؤدبانہ درخواست پر نه برامانا ، نہ گستاخی پر محمول سمجھا.کھلے لفظوں میں حقیقت حال بیان فرمائی.اعلیٰ ظرفی اور وسیع القلمی کا ایسا مظاہرہ دنیا کے بڑوں میں کہاں دیکھنے کو ملتا ہے.یہ حصہ صرف اس سبق کے لئے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے کہ بڑا دل دکھانے سے کوئی چھوٹا نہیں ہو جاتا.وضاحت سے تحریر فرمایا: دیگرام کے متعلق میری غلط فہمی ان شعروں کی وجہ سے ہے جن میں لفظ خرام استعمال ہوا اور جہاں ضمیر لفظ خرام کی طرف نہیں بلکہ مضاف کی طرف جاتی ہے جیسے : موج خرام ناز بھی کیا گل کتر گئی اسی طرح میرے علم میں خرام کے معنوں میں جتنے لفظ مستعمل ہیں وہ سب چونکہ تانیث کا مرتبہ رکھتے ہیں جیسے چال ورفتار وغیرہ.اس لئے اس خیال سے بھی ہمیشہ اس لفظ کو تانیث کے درجہ پر رکھتا رہا.اب آپ نے توجہ دلائی تو لغات اٹھا کر دیکھیں جس سے معلوم ہوا کہ اہل ادب کے ہاں اسکو مؤنث استعمال کی کوئی سند نہیں.ویسے بھی یہ شعر کچھ کمزور تھا کیونکہ صبا تو صبح کی ہوا کو کہتے ہیں شام کی ہوا کو نہیں اور صبا کا پیغام صبح چلنے کا تو ہوسکتا ہے ، شام چلنے کا نہیں.لیکن چونکہ یہ دونوں نظمیں جو جلسہ میں پڑھی گئیں جلسے سے چند دن پہلے شروع ہوئیں اور جلسہ کے ہنگامے کے دنوں میں مکمل ہوئیں اس لئے پوری طرح نظر ثانی نہیں ہو سکتی تھی.اگر خرام لفظ استعمال ہوتا تو پھر بھی مؤنث میں ہی ہونا تھا.لیکن ہو سکتا ہے کہ متبادل شعر میں یہ لفظ آتا ہی نہ.اس لئے اگر وقت ملا تو پہلا مصرع تبدیل کر کے الفضل کو ترمیم کے لئے لکھ دوں گاور نہ اس شعر کو حذف کرنے کے لئے اعلان کروایا جا سکتا ہے.(مكتوب ١٢ / نومبر ١٩٩١ء ) 33
بحر عالم میں اک بپا کر دو پیار کا غلغلہ تلاطم عشق خاکسار نے پہلے مصرع میں اک کی جگہ "تم تجویز کیا جو حضور نے از راہ شفقت منظور فرمالیا مگر جب مسودہ اصلاح کے لئے گیا تو تم کو پھر اک ہی تحریر کروایا.میرے توجہ دلانے پر آپ نے بڑا دلچسپ جملہ لکھا: بحر عالم میں اک بپا کر دو والے مصرع میں اک کی بجائے ”تم کی اجازت دی ہو گی لیکن بادل نخواستہ دی ہو گی کہ آپ کی ہر بات کا تو انکار نہیں ہوسکتا.ویسے مجھے تو اک زیادہ پسند ہے“.☆ ☆ ☆.....(مکتوب ۵/ دسمبر ۱۹۹۳ء) اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا اس نظم میں انیسواں شعر ہے.آخر دم تک تجھ کو پکارا.آس نہ ٹوٹی دل نہ ہارا مصلح عالم باپ ہمارا.پیکر صبر ورضار ہبر تھا خاکسار کی معمولی سی ترمیم کی درخواست پر آپ نے اصولی بحث کے ساتھ اچھی طرح سمجھایا تحریر فرماتے ہیں.ول نہ ہارا کی بجائے آپ نے دل بھی نہ ہارا کی تجویز دی ہے.وزن تو اس میں بھی نہیں ٹوٹتا.صرف پڑھنے کے انداز کا فرق ہے.کسی لفظ پر زیادہ زور دے کر پڑھا جائے یا کم زور دے کر پڑھا جائے.تو اس سے بعض اوقات شعر کا وزن ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے.مثلاً اس نظم کا پہلا مصرع ہے اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا لفظ میں اس مصرع کے دوسرے نصف میں واقع ہے.لیکن جو اسے پہلے حصہ کے ساتھ ملاتے ہیں وہ وزن تو ڑ دیتے ہیں.جیسا کہ قادیان میں پڑھنے والے نے یہ مصرع پڑھا ہے.اور جس جگہ زور آنا چاہیئے اس سے ہٹا کر دوسرے لفظ پر منتقل کرنے کے نتیجہ میں بالکل بے وزن مصرع لگ رہا ہے 34
پہلے مصرع کے نصف کے آخری حرف کا قدم دوسرے نصف کے شروع میں جاپڑنے کے بہت سے نمونے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عربی فارسی کلام میں ملتے ہیں.اور شعراء کے نزدیک ایسا کرنا جائز ہے.ایسی صورت میں اگر اس کو پہلے حصے سے ملا کر پڑھیں تو وزن ٹوٹ جائے گا ورنہ نہیں.بیسویں شعر میں لفظ انوار کے بارے میں آپ نے لکھا ہے کہ ہندی تسلسل میں اجنبی لگ رہا ہے.اس وجہ سے دوسرے مصرع کو یوں ہونا چاہئے.جس سے نور کے سوتے پھوٹے.روشنیوں کا جو سا گر تھا اس نظم کا مزاج ملا جلا ہے.یہ صرف سکھوں اور ہندوؤں کے لئے ہی نہیں بلکہ پاکستانیوں کے لئے بھی تھی.اس لئے میں نے اس نظم میں بعض جگہ عربی اور فارسی الفاظ استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا تاکہ ہم اپنا حق بھی قائم رکھیں.جہاں تک انوار کے لفظ کا تعلق ہے، نور کی یہ جمع شاید زیادہ اجنبی لگ رہی ہو.لیکن اس کو روشنیوں کی بجائے نوروں میں تبدیل کر دیا جائے تو اور کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں.کیونکہ لفظ نور جو پہلے آیا ہوا ہے وہ تو پھر بھی موجود رہے گا.جس کو نور کی سمجھ آ جائے گی وہ نوروں کو بھی سمجھ جائے گا.پس یہ شعر یوں بن جائے گا.سیرا سہاگن رہے یہ بستی جس میں پیدا ہوئی وہ ہستی جس سے نور کے سوتے پھوٹے جو نوروں کا اک ساگر تھا اس نظم کا آخری شعر ہے.ہیں سب نام خدا کے سندر.(مكتوب ۱۵.۵.۹۳ صفحه ۵،۴) وا ہے گرد.اللہ اکبر سب فانی.اک وہی ہے باقی.آج بھی ہے جو کل ایشر تھا خاکسار کی پہنچ محض لغت تک تھی.لغت دیکھ کر تجویز کر دیا کہ ایشر کی جگہ ایشور ہو تو وزن نہیں ٹوٹتا.35
حضور پر نور کی لفظوں پر تحقیقات کے دائروں کا اندازہ لگائیے.آپ نے تحریر فرمایا.اول تو یہ درست نہیں کہ ایشور سے وزن نہیں ٹوٹتا.دوسرے جہاں تک ایشر کا تعلق ہے بات یہ ہے کہ قادیان میں ہندی دان احمدی سکالرز سے میں نے چیک کروا لیا تھا اور ان سب نے اس پر صاد کیا.لغوی لحاظ سے اس کا اصل ایش ہے.جسے ایس بھی پڑھا جاتا ہے.دونوں متبادل ہیں.ہندی اردو لغت میں ان دونوں کا مطلب مالک، خدا، حاکم، بادشاہ، خداوند تعالی دیا گیا ہے.یہ لفظ ور یا محض در کے اضافہ کے ساتھ بھی مستعمل ہے.اردو لغت جامع اللغات میں لکھا ہے کہ ایسر دراصل وہ شہر ہے - جہاں سب سے بڑے دیوتا یعنی خدا کی عبادت ہوتی ہے.چنانچہ یہ مضمون کھول کر جامع اللغات ایئر ، ایشز اور ایشور تینوں لفظ متبادل کے طور پر پیش کرتی ہے.جن کا مطلب بڑا دیوتا، خدا یا مالک یا خدا تعالیٰ ہے.اسی طرح ایسر میں ایشر لکھ کر آگے خدا، ایشور ، اللہ معانی دئے ہوئے ہیں.گویا ایشور کا دوسرا تلفظ ایئر اور ایشر ہے اس لئے کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ایشر ہی ٹھیک ہے.چند دن کے بعد آپ کا ایک مکتوب موصول ہوا.( مكتوب ۲۲.۱۰.۹۳ صفحه (۸) میرا گزشتہ خط آپ کو مل چکا ہو گا ایشر کے لفظ پر.اس میں آپ کی تجویز کی روشنی میں تبصرہ تو کر چکا ہوں.لیکن اس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ حضرت اقدس مسیح موعود نے اپنی دو نظموں بعنوان شانِ اسلام میں کوئی ۶ دفعہ اور ہندوؤں سے خطاب میں ۵ مرتبہ لفظ ایشر استعمال فرمایا ہے.اس شہادت سے تو مزا ہی آگیا ہے.اس کے بعد تو کسی اور سند کی ضرورت ہی نہیں آپ نے در یمشین کی اتنی عمدہ کتابت کروائی ہے لیکن آپ نے بھی اسے نوٹ نہیں کیا.(مکتوب ۱.۱۱.۹۳) 36
نظم نمبر تری بقا کا سفر تھا قدم قدم اعجاز.اس نظم کو پڑھتے ہوئے ایک شعر مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا.ہو موت اس کی رضا خوشی پر یہی کرامت ہے سے اس کے کہے میں جو کھائیں سکھر ، اعجاز میں نے پڑھتے ہوئے اس پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا کہ مزید غور کروں گی.پیارے آقا کی نظر اس سوالیہ نشان پر پڑ گئی میری الجھن دور کرنے کے لئے وضاحت فرمائی: اس نظم کے دسویں شعر کے دوسرے مصرع کے سامنے آپ نے سوالیہ نشان ڈالا ہے.یہ مصرع یوں ہے.خوشی سے اُس کے کہے میں جو کھا ئیں سم اعجاز.یہاں خدا تعالیٰ کا اعجاز مراد نہیں ہے بلکہ انسان کی کرامت اور اس کا اعجاز مراد ہے.یہی مضمون ہے جو پہلے مصرع نے واضح کر دیا ہے.گویا اعجاز تو یہ ہے کہ انسان اس کے کہے میں خوشی سے زہر بھی کھا جائے اور موت کی قطعا پر واہ نہ کرے.پر واہ ہو تو صرف اس کی رضا کی ہو اور اس کی خاطر انسان تلخ سے تلخ گھونٹ پینے پر ہرلمحہ مستعد رہے." نظم نمبر ۳۰ (مكتوب ۱۵.۵.۹۳ صفحه ۳) الفضل کے رمئی ۱۹۹۲ء کے شمارہ میں صفحہ اول پر میری ایک پرانی نظم بی بی کے وصال پر چسپاں ہونے والے کچھ نئے اشعار اضافہ کے ساتھ شائع ہوئی ہے اس پر بھی میں نے نظر ثانی کی ہے.اور اس کے علاوہ آخر پر بعض مزید اشعار کا اضافہ کیا ہے وہ بھی شامل کر لیں.تم جن کا وسیلہ تھیں وہ روتی ہیں کہ تم نے دم توڑ کے توڑے ہیں ہزاروں کے سہارے وه آخری ایام - وہ بہتے ہوئے خاموش 37
حرفوں کے بدن.اشکوں کے دھاروں کے سہارے بھیگی ہوئی بجھتی ہوئی.مٹتی ہوئی آواز اظہار تمنا وه اشاروں کے سہارے وہ ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہنا رخصت سہارے میں نے نہیں جینا نگہداروں کے وہ جن کو نہ راس آئیں طبیبوں کے دلاسے شاید کہ بہل جائیں.نگاروں کے سہارے T بیٹھ مرے پاس مرا دست تہی تھام چھوڑ کے جا درد کے ماروں کے سہارے آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آخری دو اشعار کی طرف توجہ دلا دی کہ ان کے درمیان کچھ کمی تی معلوم ہوتی ہے.مجھے بھی لگ رہا تھا.بہر حال آپ نے بہت اچھا کیا جو توجہ دلائی.شروع میں ان سے میں مخاطب ہوں مگر آخر پر وہ مجھ سے مخاطب ہیں.اس لئے مضمون کو مزید کھولنے کے لئے میں نے چند نئے شعروں کا اضافہ کر دیا ہے.امید ہے اب اس سے بات واضح ہو جائے گی.انشاء اللہ تعالٰی “ ( مكتوب ۱۹۳-۱۲ صفحه ۲۹٬۲۸) اعراب اور تلفظ کی غلطیوں کے بارہ میں راہنمائی اعراب کی غلطیاں بھی آپ نے سمجھا سمجھا کر لغات کے حوالے سے بتائیں.صرف چند مثالیں ملاحظہ ہوں :.☆ لفظ مناروں نہیں ، مناروں ہے.مینار درست ہے جب 'ی' کے ساتھ آئے اور جب 66 دی کے بغیر ہو تو منا ر ہوتا ہے." 38
تحتَ الثّرى درست نہیں.یہ لفظ تَحتُ الشَّریٰ“ ہے.فیروز اللغات میں بھی اسے تحتُ الشَّریٰ“ ہی لکھا ہے...☆ لفظ گرفتار نہیں اگر چہ عموماً بولا اسی طرح جاتا ہے.لغت کی کتابیں چیک کی ہیں.اس کا صحیح تلفظ گرفتار ہے.“ ☆ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ“.اردو میں تو زُهَقَ الباطل ٹھیک ہے.لیکن آیت کریمہ میں اس پر پیش موجود ہے.تا ہم عربی میں جس لفظ پر بھی قاری ٹھہرتا ہے وہ اس کی آخری حرکت کو نہیں پڑھتا لیکن حرکت اسی طرح لکھی جاتی ہے.صرف وقف کی وجہ سے پڑھنے میں نہیں آتی.اس لئے پیش ضرور ڈالیں.لیکن نیچے نوٹ دے دیں کہ شعر میں چونکہ یہاں وقف کرنا ہے.اس لئے حرکت نہیں پڑھی جائے گی.بلکہ باطل کی بجائے باطن پڑھا جائے گا.“ ☆ آپ نے مسودہ میں اویس کے نیچے تصحیح کرتے ہوئے الف کی زبر کے ساتھ اسے اولیس لکھا ہے.یہ لفظ اولیس ہے ، الف کی پیش کے ساتھ.اسے اولیس لکھنا یا پڑھنا غلط ہے.عربی لغت کی کتابوں لسان العرب، القاموس المحیط اور المنجد وغیرہ میں اولیس ہی لکھا ہے.“ مسودہ میں جاں لکھا ہے.یہ جاں نہیں بلکہ نون کے ساتھ جان ہے.ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر آپ کو گہری نظر رکھنی پڑے گی اور جہاں جہاں میں نے اعراب کو واضح کیا ہے.وہاں آئندہ مسودہ واضح کر کے لگوائیں.ان میں سے کوئی حرکت زیر زبر چھوٹنے نہ پائے.سب اعراب اس مقصد سے لگائے جانے چاہئیں کہ آجکل کے اردو پڑھنے والے بھی عربی کی طرح اعراب کے محتاج ہو چکے ہیں.خصوصاً پاکستان سے باہر پیدا ہونے والے تو اس کے بہت محتاج ہیں.“ لفظ خاتم کے معنی ختم کرنے والا درست نہیں.ت کی زبر کے ساتھ اس کے معنی انگوٹھی اور مہر کے ہوتے ہیں.اور مرا دسب سے اعلیٰ ، سب سے افضل.جس پر مقام ختم ہو جائے اور ہر 39 39
قسم کے فیوض کا اجراء جس کی ذات سے وابستہ ہو جائے.یہ معنی ہیں جو کھول کر بیان کرنے چاہئیں.“ (مکتوب ۱۵.۵.۹۳ صفحه ۱۹) حمد الفظ مہک کے متعلق آپ کی بات درست ہے.یہ مہک اور مہک دونوں طرح آ جاتا ہے.مگر مجھے تو مہک سے زیادہ لگاؤ ہے اور ہمارے گھروں میں بھی مہک ہی پڑھا جاتا تھا.لیکن اہل زبان ح ، و ھ سے پہلے زبر آجائے تو اس میں امالہ بھی کرتے ہیں جیسے رہنا، کہنا سہنا وغیرہ.اسی طرح میں بھی مہک کو مہک کی بجائے امالہ کر کے مہک پڑھتا ہوں لیکن بعض شعراء جب ضرورت سے زیادہ اپنی اردو جتاتے ہیں تو وہ مچل کے وزن پر مہک پڑھتے ہیں.(مکتوب ۳ دسمبر ۱۹۹۳ء) چاروں اور بچی شہنائی اور پر زبر نہیں ہے.یہ لفظ اور ہے اور نہیں.اور کا مطلب ہوتا ہے ☆ مزید جبکہ اور کا مطلب ہے سمت.جس طرح چور کو چور پڑھنا جائز نہیں اسی طرح اور کو اور پڑھنا جائز نہیں.☆ (مکتوب ۵/ دسمبر ۱۹۹۳، صفحه ۸) لفظ ضائع کا ایک تلفظ اگر چہ ضایا بھی چل پڑا ہے مگر جب ادبی کلام پڑھا جائے تو پھر اس کو ضایا پڑھنا یا لکھنا غلط ہے اور اس کو پسند نہیں کیا گیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس سے بہت الرجک تھے.لیکن اب یہ عرف عام میں مستعمل ہو چکا ہے.اس لئے اس کے اوپر کوئی گرائمیرین دھونس ڈالنی مناسب نہیں.زبان دانی کی دھونس لفظوں پر ضرور چلتی ہے لیکن جب کوئی لفظ غلط العام ہو جائے تو پھر اس کے سامنے ادب کی ساری لگا میں ڈھیلی پڑ جاتی ہیں.چنانچہ باوجود اس کے کہ حضرت مصلح موعود کافی عرصہ لفظ ضایا کے خلاف احتجاج فرماتے رہے ہیں مگر پھر بھی ”ضایا راہ پاہی گیا.آپ اس ناپسندیدگی کا اظہار ا کثر ایسے پڑھنے والوں پر فرماتے تھے جو آپ کے کلام میں ”ضایا میرا پیغام پڑھ دیا کرتے تھے.اور ایسے اعلیٰ او بی کلام میں واقعی ضائع کو ضائع ہی پڑھنا چاہئے اور ضایا نہیں کہنا چاہئے.باقی جو عام درست الفاظ ہیں ان میں اگر کوئی غلط پڑھے تو بہت تکلیف دیتا ہے مثلا نشان کو نشان پڑھنا...(مکتوب ۵ اپریل ۱۹۹۵ء صفحه (۳) 40
درد.ضمنا یاد آیا کہ شعروں میں تو در دلفظ مذکر استعمال ہی ملتا ہے جیسے: در دمنت کش دوا نہ ہوا دل میں اک در داٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے لیکن بول چال میں بسا اوقات سر درد ہو رہی ہے سننے میں آتا ہے.یا مجھے درد ہورہی ہے اس کو آپ کس مقام پر رکھیں گی.غلط العام شمار ہوگا یا غلط شمار ہوگا ؟ (مکتوب ١٢ / نومبر ١٩٩١ء) مشکل الفاظ کے معانی (Glossary) کی تیاری متن کے بعد دوسرا مرحلہ مشکل الفاظ کے معانی اور تلفظ کو واضح کرنا تھا.ابتدائی طور پر جو گلاسری (Glossary) خاکسار نے بنا کر بھیجی اس کے متعلق آپ نے تحریر فرمایا تھا: ”جہاں تک حاشیہ میں الفاظ معانی دینے کا تعلق ہے یہ بہت اچھا خیال ہے اور ضرورت بھی ہے لیکن ان کا انتخاب ہر قسم کے پڑھنے والوں کی پہنی اور علمی سطح کا خیال رکھتے ہوئے کرنا چاہئے.بعض تو بہت ہی عام فہم الفاظ کے معنی آپ نے دئے ہوئے ہیں.لیکن بعض ایسے الفاظ جو روز مرہ مستعمل نہیں اور بعض اوقات اچھے بھلے پڑھے لکھے شخص کے ذہن میں بھی متحضر نہیں ہوتے ان کے معانی نہیں دیئے گئے.اس لحاظ سے انتخاب کو Balance بنانے کی ضرورت ہے.اردو میں تلفظ دینے کی بجائے انگریزی میں تلفظ دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا.کیونکہ اُردو میں جس طرح تلفظ دئے گئے ہیں ان سے پڑھنے والوں کو الجھن پیدا ہو سکتی ہے.مثلا منت کو مِن نَست، آئینہ خانے کو آئی نا خانے ، متسی نصر الله کو متانص ژل لاہ، ٹیلہ کوئی لہ، نیر بد کی کوئی ہی رے دا وغیرہ وغیرہ.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں بڑی محنت کی گئی ہے.لیکن پڑھنے والوں کو اس سے الجھن بھی ہوسکتی ہے.اسلئے ساتھ انگریزی میں بھی تلفظ دیں اور اردو میں ساتھ یہ نوٹ دے دینا چاہئے کہ یہ لفظ ایک ہی ہے صرف پڑھتے 41
ہوئے صوتی لحاظ سے اس کی آواز جس طرح بننی چاہئے اس کی وضاحت کے لئے اس طرح لکھا گیا ہے.✰✰✰....☆ ( مكتوب ۹۳-۵-۱۵ صفحه ۱۱۸ خاکسار نے ان ہدایات کے مطابق الفاظ معنی کو Balance کیا.انگریزی تلفظ اور معانی دئے اور آپ کی خدمت اقدس میں روانہ کئے.آپ نے ایک ایک لفظ کا جائزہ لیا.آپ کے ساتھ ایک ٹیم کام کرتی تھی.جو اصلاحوں کو نوٹ کر کے کمپوز کر کے مجھے بھجوا دیتی.الفاظ معنی کی درستی کے بعد کمپوزنگ کا مسئلہ تھا اور کمپوزنگ سے بڑھ کر پروف ریڈنگ کا جس میں آخر تک کچھ نہ کچھ خامیاں رہیں.جولائی ۱۹۹۵ء میں جلسہ سالانہ پر کتاب بھیجنے کے جنون نے دن رات کام پر لگائے رکھا.صفحہ کے ڈیزائن اور سائز تک کی منظوری حضور سے لی.طباعت کے کام میں سر دینے والے ہی اندازہ کر سکتے ہیں کہ قدم قدم پر کیسی کیسی دشواریاں راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہیں اور پھر کراچی کے مخصوص حالات میں ایسی جگہوں پر صبر آزما د ریگتی رہی جو پہلے سوچا بھی نہیں تھا.مولا کریم کے فضل و احسان سے ۱۹؍ جولائی ۱۹۹۵ء کو کتاب چھپ کر آ گئی.اور جلسہ سالانہ پر حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں ہماری قائم مقام صدرامتہ الحفیظ بھٹی صاحبہ نے پیش کی حضور نے پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور دعائیں دیں.اس کام میں محترمہ سلیمہ میر صاحبہ صدر لجنہ کی سرپرستی حاصل رہی.برکت ناصر صاحبہ نے کلام جمع کرنے میں مدد دی.محترم سلیم شاہجہانپوری صاحب نے کلام اور گلاسری(Glossary) دونوں کی نظر ثانی کی.محترم عبید اللہ علیم صاحب نے قیمتی مشوروں سے نوازا اور طباعت میں شیخ داؤ د احمد صاحب نے محنت کی.فجزاهم الله تعالى الاحسن الجزك.☆ ☆ ☆......42
کلام طاھر کی طباعت پر اظہار خوشنودی اور دعائیں پیارے حضور نے آپا سلیمہ صاحبہ کے نام مکتوب میں تحریر فرمایا: "آپ کی سرپرستی میں کلام طاہر“ پر جو کام ہوا ہے وہ بہت ہی اعلیٰ ہے.ماشاء اللہ بہت خوبصورت پیشکش ہے.جن کے نام آپ نے لکھے ہیں ان سب کا شکریہ اور میری طرف سے انہیں محبت بھرا سلام اللہ تعالیٰ ان کے اموال نفوس اور اخلاص میں برکت دے اور اپنی رحمتوں سے نوازے.“ خاکسار کے نام آقا نے تحریر فرمایا:.کلام طاہر کی خوبصورت دیدہ زیب طباعت پر بے حد شکریہ.آپ نے اس پر بہت محنت کی.ط جزاکم اللہ احسن الجزاء اللہ آپ سب کو علمی، ادبی، تعلیمی، تربیتی اور تبلیغی خدمات سرانجام دینے کی توفیق دے اور سب بچوں کی طرف سے آنکھوں کی راحت عطا فرمائے.سب کو بہت بہت محبت بھر اسلام“.روز نامہ الفضل نے تبصرہ لکھا: احمد یہ جماعت میں سب سے خوبصورت کتاب کاغذ ، پرنٹ ، جلد اور فلیپ کی خوبصورتی کو مد نظر رکھتے ہوئے چھپنے والی کتاب کا اعزاز شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کے حصہ میں آیا ہے.“ ( روزنامه الفضل ربوه ۱۶ اکتوبر ۱۹۹۵ء) سب سے آخر میں حسین ترین بات کہ پیارے حضور نے کتب ملنے پر خاکسار کو کلام طاہر کا تحفہ بھیجا اور اس پر دست مبارک سے تحریر فرمایا.عزیزہ امتہ الباری ناصر سلمھا اللہ، یہ پہلا نسخہ ہے جو کسی کو پر خلوص دعاؤں کے ساتھ بھجوا رہا ہوں ظاہر ہے آپ کا حق فائق ہے.جزاک اللہ احسن الجزاء فی الدنیا والآخرة.دستخط (۹۵-۷ - ۲۵ لنڈن) 43
کس زباں سے میں کروں شکر کہاں ہے وہ زباں کہ میں ناچیز ہوں اور رحم فراواں تیرا ☆..نیم سیفی صاحب نے الفضل ۲۲ اگست 1990ء کے شمارے میں ایک دلچسپ قطعہ شائع کیا.سلیمہ میر و باری کو مبارک ہو طاہر دل بہت شایانِ شان آیا کلام حضرت کچھ ایسی دیدہ زیب اس کی کتابت و طباعت ہے که از خود ہو گیا مفہوم اس کا ظاہر و خاکسار نے جوابا لکھا:.باہر کلام حضرت طاہر کی خدمت اک سعادت ہے اسے فصل خداوندی کا سارا سلسلہ کہہ دوں اللہ کا احسان ہے اس کی عنایت ہے ہے مجھ کو اک درویش کے دل کی دعا کہہ دوں سلیمہ میز و باری تو ہیں اک تنظیم کا حصہ میں سب لجنہ کراچی کی طرف سے شکریہ کہہ دوں W کلام طاھر کی لندن سے طباعت اور اضافے اللہ تعالیٰ کے احسانات کا جتنا بھی شکر کروں کم ہے.۲۰۰۱ء میں لندن سے کلام طاہر کا نیا ایڈیشن شائع ہوا.حضور پر نور کے ارشاد پر نئی شامل ہونے والی نظموں کی پروف ریڈنگ اور گلاسری کی تیاری کی سعادت نصیب ہوئی.لندن سے جو کتاب شائع ہوئی وہ بدرجہا خوبصورت ہے.لجنہ کراچی کا اشاعت کا اسلوب برقرار رکھا جس کی ہم سب کو بہت خوشی ہے.کتاب موصول ہوئی جس پر پیارے آقا کا دلکش نوٹ تھا : 44
پیاری امتہ الباری ناصر صاحبہ کلام طاہر کے تعلق میں آپ کے بہت ہی قیمتی مشورے ملتے رہے ہیں اور بڑی محنت سے آپ نے اس کی گلوسری بنائی ہے.اس کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے ، حق ادا نہیں ہوسکتا.بہر حال میری طرف سے یہ عید کا تحفہ، جس میں آپ کا بڑا دخل ہے ذرا تاخیر سے پیش ہے، قبول فرمائیں.والسلام خاکسار دستخط ۱۸ دسمبر ۲۰۰۱ء دستخط کر کے مجھے بھیجی کلام طاہر آپ جیسا کوئی دلدار نہ دیکھا نہ سنا اپنے عشاق سے یہ پیار نہ دیکھا نہ سنا لطف اور ایسا طرحدار نہ دیکھا نہ سنا میری جھولی کے لعل و جواھر کلام ظاہر کی تیاری کے مہ و سال میری زندگی کا سنہری دور تھا کل تو ہوتے ہی حسین ہیں خار بھی بہت حسین تھے.حضور انور کی خدمت میں خط لکھنا: چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد والا معاملہ نہیں ہوتا.جان و ایمان تھیلی پر رکھا ہوتا ہے.آپ کی طرف سے جواب موصول ہوتا تو ہر دفعہ یہ سوچ کر کھولتی کہ لکھا ہوگا.عزیزہ ! اگر مبلغ علم کی کوتاہ قامتی کا یہ عالم ہے تو زحمت نہ ہی کریں جزاکم اللہ.مگر آپ نے بڑے تحمل و برداشت بلکہ صبر سے میری کوتاہیوں سے صرف نظر فرمایا.اور سمجھا سمجھا کر حوصلہ بڑھاتے رہے.میری جھولی میں ایسے لعل و جواہر بھی ہیں جن پر مجھے بجا طور پر عاجزانہ فخر ہے.یہ بھی کلیتہ 45
آپ کا حسن نظر ہے صلى الله ظہور خیر الانبیا میل ۱۹۹۳ء کے جلسہ سالانہ لندن اور پھر جرمنی میں پڑھی گئی.کچھ ترامیم و اضافے کے بعد اس کا حسن دوبالا ہو گیا تھا.میں نے حضور انور کی خدمت میں نظم سن کر اپنے تاثرات لکھے.میں نے تو کیا لکھا ہوگا ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں مگر آپ کا مکتوب آپ کے حسن و احسان کا مرقع ہے.آپ کی طرف سے لجنہ امریکہ سے خطاب کا اردو تر جمہ اور میرے کلام کا کتابت شدہ مسودد موصول ہوا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اپنے خط میں آپ نے نعت ظہور خیر الانبیاء صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حوالے سے جو تبصرہ کیا ہے اس میں دو باتیں قابل غور ہیں.ایک تو یہ کہ ماشاء اللہ بہت ہی خوبصورت زبان میں تبصرہ کیا ہے اور جن جذبات کا اظہار کیا ہے وہ بھی بہت لطیف ہیں.اور یہ بھی بالکل درست ہے کہ اس نظم پر محض آپ کی یاد ہی نہیں آئی بلکہ جذبہ احسان کے ساتھ یاد آتی رہی.کیونکہ اس کے بہت سے شعر ایسے تھے جن کے متعلق مجھے خیال تھا کہ اصلاح کے محتاج ہیں لیکن وقت نہیں ملتا تھا.آپ نے درست طور پر ان کی نشان دہی کی اور اصلاح کروا کے چھوڑی اور نہ میں کئی سال سے اسے ٹال رہا تھا اس لئے یہ نعت اور اس کے علاوہ کئی اور نظموں پر آپ کی توجہ کے نتیجہ میں جو وقت نکالا ہے یہ مواقع ہمیشہ جذبہ احسان کے ساتھ آپ کی یاد دلاتے ہیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء فی الدنیا والاخرة“.☆☆☆....(مکتوب ۲۲ اکتوبر ۱۹۹۳ء) رکھتی نہیں ترتیب سے یا دیں کبھی لیکن باندھا ہے ترے نام کا اک باب علیحدہ میرے اس علیحدہ باب میں الگ باندھ کے رکھا ہوا ایک مکتوب مجھے بے حد عزیز ہے.اس میں 46
پیارے آقا کی شخصیت کے کئی روپ کھلتے ہیں.دست مبارک سے تحریر فرمایا: ۹-۹۰ - ۱۹ عزیزه مکرمه امته الباری ناصر السلام علیکم ورحمۃ اللہ و بر کانت.جلسہ پر پڑھی جانے والی نظموں کے متعلق محبت بھرے رنگا رنگ خطوط ملتے ہیں لیکن سب پر محبت کا رنگ غالب رہتا ہے اس لئے پوری طرح اطمینان نہیں ہوتا کہ کسی نے متوازن تنقیدی نظر سے بھی جائزہ لیایا نہیں.کبھی کبھی سلسلہ کے بعض چوٹی کے شعراء اور ادیب بھی جب اپنی پسند کا اظہار کرتے ہیں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ تعریف تو سچی کر رہے ہیں لیکن خامیوں کے متعلق صرف نظر کر جاتے ہیں آپ کا آج کا خط مستثنیٰ ہے.پہلی بات تو یہ نمایاں ہے کہ تمام تریج ہے اور سچ کے سوا کچھ نہیں.جہاں کچھ اصلاح کی گنجائش دیکھی وہ بڑے علائم دلپسند الفاظ میں تجویز کر دی.انکسار کی آمیزش نے ان الفاظ کو اور بھی شائستہ بنا دیا.دوسری نمایاں بات یہ ہے کہ آپ کے تبصرہ میں بھنورے کا سا رنگ پایا جاتا ہے.دور ہی سے دیکھا اور سونگھا نہیں بلکہ بھنورے کی طرح ہر شعر کے دل میں ڈوب کر پردوں میں لپٹی ہوئی روح سے شناسائی کے بعد لب کشائی کی ہے.یہ تو میں نہیں کہتا کہ میرے دل کی سب باتوں تک آپ اتر گئیں لیکن یہ ضرور کہ سکتا ہوں کہ بند کواڑوں والے گھر کو راستہ چلتے ٹھہر کر نہیں دیکھا بلکہ کواڑ کھول کر اندر سے بھی جائزہ لیا.ایک اور بات یہ بھی کہہ سکتا ہوں کواڑ کھلوائے نہیں خود کھولے ہیں یعنی آپ کی اپنی چابی ہی سے تالے کھل گئے.جہاں تک اصلاح کے اشاروں کا تعلق ہے ذوق لطافت سے تو انکار نہیں لیکن میری سوچیں جن راہوں سے گزر چکی ہیں ان کا آپ کو علم نہیں..47
ہم نے کوئلہ کوئلہ اپنا دل.میں یہ امر مانع تھا کہ اول اس طرح ایک ایک کر کے کوئلے کے بعد دوسرے کو ملے کا تصورا بھرتا ہے جبکہ موجودہ جگہ پر کوئلہ کی تکرار پہلے ہی سے جل جل کر کوئلہ ہوئے ہوئے دل کا تصور پیش کرتی ہے.آنچل لہرانے یا بکھرانے میں یہ روک پیش نظر تھی کہ دو تین شعر جو اس غزل میں پڑھے نہیں گئے اُن میں ایک آنچل لہرانے والا شعر بھی تھا.دوسرے یہ نہ بھی ہوتا تو شفق کے چہرے پر آنچل ہرانے یا بکھرانے کی بجائے گیسو بکھرانے کا مضمون زیادہ بر حل معلوم ہوتا ہے.آنچل سے یا پلو سے چہرہ چھپایا تو جاتا ہے چہرے پر آنچل لہرایا یا بکھرایا نہیں جاتا.جو شعر پڑھے نہیں گئے ان میں سے جو یاد ہیں وہ لکھ دیتا ہوں.سه خالق کی طرح پر بت بھی ایک نئی شان ہر آن بدلتا ہے موسم کے رقص وسرود نے جلووں کا دربار لگایا ہے چمپئی ، کاسنی، اودے، پہلے پھول کھلے ہیں بہکی بہکی مست ہواؤں نے آنچل لہکایا ہے دور افق پر اور ہی رُت ہے چھائی ہے گھنگھور گھٹا بادل نے بجلی نے گرج نے ایک کہرام مچایا ہے اس طرح کے سچے اچھے خط آپ بے شک، بے جھجک لکھا کریں.ایسے خطوں سے چلتے چلتے ، ر کے بغیر سستانے کے سامان ہو جاتے ہیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء.آپ کی لجنہ کی مصروفیات کی رپورٹ دل سے دعا ئیں کومتی ہے جزاکم اللہ احسن الجزاء.والسلام 48 خاکسار ( دستخط )
پیارے آقا کو خوشیاں بانٹنے کا عجیب ملکہ حاصل تھا.یہ الفاظ اب بھی دماغ میں گونجتے ہیں.ایم ٹی اے کی نشریات کے بالکل آغاز میں ۱۴؍ جنوری ۱۹۹۴ء کو ملاقات پروگرام میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ امتہ الباری ناصر یہ پروگرام سن رہی ہوں تو یہ رباعی بھی کلام طاہر میں شامل کرلیں.بذل حق محمود میری کہانی کھوگئی ނ وہ بذل حق سے روٹھ کر واصل حق ہوگئی نذر راوی کی تھی میں نے کتنے ارمانوں کے ساتھ ناؤ لیکن کاغذی تھی غرق راوتی راوتی ہو گئی.✰✰✰...✰ وہ کرتے ہیں احسان احسان ہمیشہ وراثت میں پائی ہے شان کریمی ہیں مرد خدا میں خدا کی ادائیں وگرنہ میں کیا میری ہستی ہی کیا ہے ہے ناچیز ذروں کی خاطر شغف میرے سورج کا شعر و ادب میں غنیمت ہے سایه نگن آسماں معرفت کا زمیں رو بہت آیا ہوا ہے میں لاؤں کہاں سے وہ الفاظ جن میں ادا کرسکوں شکریہ جیسا حق ہے ہے جا رہے ہیں تشکر کے آنسو مرا پگلا دل آج پگھلا ہوا ہے بڑی عاجزی سے میں سر کو جھکائے خدا سے یہی اک دعا مانگتی ہوں میرے آقا کی ساری دعائیں ہوں پوری ، علاوہ ازیں، چاہئے اور کیا ہے ☆☆☆.....49
KALAM-E-TAHIR کلام طاہر GLOSSARY مشکل الفاظ تلفظ اور معانی
زیر زیرے Symbols for Pronunciation and Transliteration.Vowels Consonants a a e ت ط t ف ق ک گ (- ای ل S م ن ز ج ش س، ص u ,00 او sh ش 11 پیش au او ں ch ai اے 0'0' h i kh رڈ رڈ عء d Z r , i gh g m n n W y ی
اک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی ik rāt mafāsid ki مقاسید matasid خرابیاں، برائیاں، جھگڑے Riots, disturbances, disorder تیره و تار tirah-o-tar تی را او تار) بالکل تاریک گھپ اندھیرا Pitch darkness ظلمات zulmat اندھیرے، تاریکیاں Multiple darknesses گمراہی gumrahi زائل za'il دور ہو گئے To vanish, to disappear شان خود آرائی shan-e-khud araee خود کو بنانا سنوارنا To reveal one's beauty with majesty غارت gharat تباہ برباد Ruined, destroyed چوپٹ chaupat تباہ برباد Ruined, come to nought, to be scattered یورش yurish حملہ Onslaught بے دینی، بے راہ روی Irreligiousness, to lose the right path, crookedness دار آئی waraee صدقے کر آئی، نچھاور کر آئی.Sacrificed every source of light on the altar of darkness صف آرائی safaraee جنگ یا مقابلے کے لئے سپاہیوں کی صفیں، قطاریں درست کرنا بام bam چھت Roof, balcony چمن chaman باغ Garden جمشیدی و دارائی jamshaidi-o-darai جمشید اور دارا ایران کے مشہور بادشاہ تھے مراد یہ ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی بادشاہتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نثار ہو رہی تھیں To be arrayed in battle formation بحروبر bahr-o-bar سمندر اور زمین، خشکی اور تری Land and sea طاغوت taghut شیطان گمراہوں کا سردار Satan چیلوں chelon چے لوں) شاگردوں، مریدوں Disciples ہتھیا لیا hathya liya قبضہ کرلیا Misappropriate عرش معلیٰ arshe-mualia اعرش معل (لا سب سے اونچا آسمان Most exalted heaven ساعت نورانی saate noorani روشن گھڑی Luminous hour خورشید khursheed سورج The sun کافور ہوا kafoor hua غائب ہوا Vanished, disappeared the feet of the They would willingly sacrifice their kingdoms and all they stand for at Holy Prophet (pboh) بزم مه و انجم bazme maho anjum ابز مے صو انجم) چاند ستاروں کی محفل was All the earliest Prophets who graced the world a constellation of stars and moons like but a manifestation of the beauty and glory of the Holy Prophet (pboh) اونی adna معمولی The most humble منت minnat عاجزی Humble and earnest supplication میت meet دوست Intimate friend پیام payam پیغام Massage, advice صیدہ دام saide tah-e-dam جال میں پھنسا ہوا شکار Trapped prey 1
گن گانا gun gana تعریف کرتا Sing praises لب بام lab-e-bam کو ٹھے یا چھت کا کنارا Edge of the balcony گام gam قدم.ایک قدم کا فاصلہ A step گرام khiram چلتا - ناز و انداز سے چلنا Gait جلوه قاسم am jalwah - e - سب کے سامنے آتا - نمودار ہوتا To unravel one's beauty سرود surood نغمه - راگ A melody عبر ambar خوشبو Ember اے شاہ مکی و مدنی سید الوری ay shahe Makkio Madani....sayyed ul wrā سید الورى مخلوقات کے سردار Supreme in the entire creation اسیر aseer قیدی A captive حبيب habeeb محبوب sweetheart Beloved, ندا tida Ready to lay down one's life for the sake of a cause of a person مصطفی mustafa چنا ہوا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک The chosen one (title of the Prophet Muhammad) جدا juda الگ وہ Separate جلوه گاه jalwah gah جگہ جہاں جلوہ دکھایا جائے یا دیکھا جائے Seat of glory متنفر mustaqar عارضی ٹھکانہ ٹھرنے کی جگہ Temporary abode, resting place جلوه jalwah ظاہر، منعکس Unveiling of splendour بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ba'ad az khudā buzurg tui qissah خدا تعالیٰ کے بعد بزرگ ترین وجود تیرا ہے.mukhtasar You are the noblest after God زانوئے ادب نہ کرنا zanue adab teh karna ادب سے بیٹھنا، اطاعت اختیار کرنا شاگرد ہوتا someone in a humble and To sit before respectful posture کبریا Kibriya بزرگی شان و شکوہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام an of attribute God جلو jilau معیت ، ساتھ In company of خاک پا khake pa Grandeur, magnificence, پاؤں کی دھول The dust under one's feet نیر بدی nayyire huda ہدایت کا سورج، مراد سیدھا چمکدار راستہ The sun of guidance پیشوا peshwa رہنما امام Leader; guide دگر digar دوسرا Any other; another شاخ با شمر shakh - e - basamar پھل دار شاخ یا شمنی A bough laden with fruit, Fruit bearing عناد anad دشمنی Grudge, enmity بغض bughz کینه Malice کلام kalam بات گفتگو ، شعر، نظم، ملفوظات، تصنیف Poem, Verse, prose له 2
پرخاش parkhash رنج، لڑائی، نا اتفاقی A grudge انے آں کے سوئے من......سخت کا فرم" ae an ke...داوین میں حضرت مسیح موعود کا کلام ہے، ترجمہ ہے:.حضرت سید ولد آدم صلے اللہ علیہ وسلم Hazrate Sayyede wulde......سيد ولد آدم sayyed -e- wulde Adam اے وہ جو میری طرف سینکڑوں کلہاڑے لے کر دوڑ رہا ہے آدم کی اولاد میں سے سب سے محترم سردار باغباں سے ڈر کیونکہ میں ایک پھلدار شاخ ہوں" The best among the sons of Adam This is a poem of promissed messiah and it means 'O those who are running towards me with hatchets in their hands, beware of the gardener because I am a bough laden with fruit akram افضل afzal بزرگ ترین بهترین Most excellent; prominent اکرم فیض faiz بہت مہربان / بہت کریم Most gracious قائدہ، سخاوت، نیکی بھلائی، Beneficence, charity ,favour مکرم mukarram نجم ajam عرب کے سوا کوئی بھی ملک Non - Arabs کالعدم kal - adam نہ ہونے کے برابر As if non - existent لحظہ lahzah ثانیہ ، سیکنڈ ، پل لحہ ' دم بھر A passing moment و میدم dam ba dam ہر سانس کے ساتھ عزت دیا گیا، محترم، معزز Venerable هروماه mehr -o- mah سورج اور چاند Sun and moon دم توڑنا dam torna سانس اکھڑنا' مرجانا To breathe one's last, to die عالم alam دنیا کائنات The world tr anan fanan Breath by.breath (continuously), every moment سوئے حرم su-e-haram ایک دم فورا ، جلدی In a twinkle of an eye اثر uttar شمال North خانہ کعبہ کی طرف in the direction of the house of God این چشمه روان مسیح موعود کا کلام ہے een chashma - e - rwān محمد است " وادین میں حضرت ترجمہ :- مصارف کا دریائے رواں جو میں مخلوق کو دے رہا ہوں یہ محمد کے کمالات کے سمندر میں سے ایک قطرہ ہے.دکھن dakhan جنوب South پورب purab مشرق East pacham means This is a poem of the Promised Messiah and it The flowing rivers of wisdom that I am giving to mankind is but a drop in the of excellences of Muhammad (pboh) ocean 3 مغرب West شارع share شریعت لانے والا شریعت والا، حاکم، راہ راست کو فروغ دینے والا law bearing prophet
khātam مستی masti انگوٹھی مہر سب سے اعلیٰ سب سے افضل، جس پر مقام ختم ہو جائے خمار نشر Intoxication اور ہر قسم کے فیوض کا اجراء جسکی ذات سے وابستہ ہو جائے Fountainhead of beneficence (pinnacle) افسانے afsane قصے کہانیاں Tales legend عرفان irfan خدا شناسی پہچان Profound knowledge ساقی کوثر saqi -e- Kausar ظرف zarf برتن.پیمانہ - جام Capacity, vessel چاره گر charah gar معالج Physician امدادی imdadi ردگار Helper بے راہرووں berahrawon جنت کی نہر کوثر سے پانی پلانے والے روحانی علوم سکھانے والے گھرا ہوں.غلط رستوں پر چلنے والوں The waywards Steward of the eternal spring in paradise mast خدا تعالی کی معرفت کے نشے میں چور Intoxicated پیر مغاں peer-e-mughan مے خانے کا سردار Master of revelry, a tavern keeper باده اطهر badah-e-athar پاک شراب Very pure wine گھر آنا ghir ana امنڈ آتا.چاروں طرف سے " tr.To hover, گھنگھور گھٹائیں ghanghur ghatain گہرے سیاہ بادل Thick dark grey clouds gathered from all sides ہادی hadi ہدایت دینے والا Guide عارف arit خدا کو پہچان لینے والا One who delves deep into the secret of things منادی munadi پکارنے والا A proclaimer یکساں yaksan برابر - ایک Equal, alike, even روا rida چاور A cloak می muhyee زندہ کرنے والا Life giver (an attribute of God محمود makhmoor نشہ میں چور مد ہوش Intoxicated ابر abr بادل Clouds آب حیات ab-e- hayat امرت جس کے پینے سے آدمی کو ہمیشہ کی زندگی مل جاتی ہے Elixir پستی pasti نشیب Low lying places بلندی bulandi اونچائی Every height بادہ کش badah kash شراب پینے والے Given to drinking wine صل علیہ کیف بھی sall - e - alaihe kaifa yuhye اس پر ورور ہو اس نے کیسا زندہ کیا Seek blessings of Allah upon him how wonderfully he revives the dead شیریں بول sheereen bol میٹھی باتیں Man of sweet words انفاس antas نفس کی جمع.سانس The breaths مطهر mutahhar نهایت پاکیزه Purified and holy
خصائل khasail خصلت کی جمع.نیک عادات والا Characteristics, someone with excellent conduct, of good disposition and habits شمائل shama'il عادتیں.خصلتیں Good natured, good qualities حامل hamil رکھنے والا.اٹھانے والا Bearer, carrier عامل amit عمل کرنیوالا The one who not only speaks of good things, but also performs good deeds کامل kamil مکمل Perfect, complete سرکار sarkar بادشاہت August presence پلٹادی کایا palta dee kaya حالت یکسر بدل دی Metamorphosed, complete transformation.How completely has he transformed سائل sail سوال کرنے والا.فقیر Begger, an applicant سرتاج sartaj A chief, a leader ابنائے آدم abna-e-adam اولاد آدم Adam's children معراج miraj مرتبہ بلندی The loftiest celestial point which the Holy Prophet (pboh) reached in a grand vision showing that he was the closest to God.جست jast چھلانگ Leap, spring, jump ہفت مراحل haft marahil سات مرحلے.یعنی ہر قسم کی مشکلات To leap the seven stages of heaven in one bound.افسوں afsun جارو Magic, charm موہ لیا moh lia جیت لیا خام kham نامکمل حالت میں.کچا Raw, imperfect جنا تھا jana tha پیدا کیا تھا Had given birth وحشی wahshi جنگلی.غیر مذب-جو انسانوں سے گھبراۓ Savage hilm برد باری.تحمل Forbearance معلی moti عطا کرنے والا.دینے والا Donor شہرہ عالم shuhrah-e-alam پوری دنیا میں مشہور Renowned, famous عالی ali بلند High, sublime To enamour and to fascinate with one's charms پیکر paikar چہرہ.شکل و صورت Personification خوبو khu bu خصلت رنگ ڈھنگ Style and bearing نخوت nakhwat گھمنڈ Arrogance, pride pomp ایثار isar قربانی Modesty, sacrifice خار khar کانٹا.ناگوار Thorn, thistle بتکده but kadah مندر.مورتی کی پوجا کی جگہ House of idol worship لات و منات lat-o-manat بتوں کے نام Names of idols
عالم ہو گا (ہو کا عالم) alam hu ka خاک نشیں khak nasheen عالم لاہوت اجاڑے دیرانہ عالم ذات الہی جہاں سالک کو فنافی اللہ کا عاجز لوگ Humble, dervish مقام حاصل ہوتا ہے.مراد یہ ہے کہ بتکدہ ہائے لات و منات فنا ہو گئے متی نصر الله mata nasrullah صرف ذات الہی باقی رہ گئی.اللہ کی مدد کب آئے گی When will come the aid of God? لا جرم la jaram بے شک یقیناً Undoubtedly Complete annihilation of all that was other than God, a state of bewilderment ظلمات zulmat اند میرے Darkness, regions of darkness نصرت nusrat جاء الحق وزهق الباطل ان الباطل کان زھوقا (بنی اسرائیل : 82) ja al haqqo wa zahaqal batilo innal batila kānā zahūqā.حق آگیا اور باطل چلا گیا باطل کو تو جاتا ہی تھا It is in the nature of falsehood to flee in the presence of truth.Truth has come and falsehood has fled.گاڑ دینا gar dena ٹھونک دیتا Firmly planted the flag of unity پرچم parcham جھنڈا A flag Help قرین qareen قریب Near, close at hand غلطاں ghaltan لڑھکتا ہوا Engrossed کا فر گر kafir gar کافر بنانیوالا To give verdict about someone who is a non-believer ساکن sakin رہنے والا Inhabitant محمد mulhid ذکر سے بھر گئی ربوہ کی زمیں آج کی رات خدا تعالی کو نہ ماننے والا An infidel zikr sey bhar وات" waqiatan دراصل حقیقت میں In fact, in reality خلد بریں khulde bareen سب سے اونچا آسمان - عرش الہی The most exalted paradise وا در گرید wadar-e-giryah کھلا.دروازہ.رونا جی بھر کر رونا دجال dajjal جھوٹا The Anti - christ عشاق ushshaq چاہنے والے Lovers مول mol قیمت Price, value ہجر hijr جدائی.فراق Separation ہیں simin نقرئی.چاندی جیسے Silvery To weep bitterly, the opening of the gate of wailing or moaning کشا دیده و دل kusha deedah-o-dil کھلی آنکھیں اور دل.کھلے دل سے استقبال کرنا The eyes and heart feel free and the lips are at liberty 6
ہیں بادہ مست بادہ آشام احمدیت ذوالمنن zulminan ذل م نن) صفت خداوندی بخشش اور احسان کرنے والا Forgiver, bestower (attribute of God) hain bādah mast badah باره badah شراب Wine, spirits mast ☑ سرشار intoxicated آشام asham پینے والا One who drinks meenā شیشہ شراب کی بوتل A long-necked flask جام jam پیالہ.شراب پینے کا برتن.گلاس A goblet تشنه tishnah پیاسا.خواہشمند Thirsty سیو sabu گھڑا.مٹکا Wine jug, ewer, pitcher, jar گلفام guitam پھول جیسے رنگ والا معشوق Rosy دہریت dahriyat المحاور خدا کو نہ ماننا Atheism masmoom Polluted or poisoned air سموم الحاد ihad سینچتا seenchna آبپاشی کرنا.کھیتوں کو پانی دیتا To irrigate چمن chaman باغ کے قطعات.گلزار.پھواری A flower garden انجمن anjuman مجلس محفل کمیٹی Union, society, congregation nāle Lt فریادیں.واویلے - فغاں - شوروغل Lamentations, bewailings خوش لحن khush lahn چھی آواز والا.سریلا - خوش گلو Melodious Sweet voice ماه تمام mah-e-tamam چودھویں رات کا چاند.بدر ید ر Full moon گمان guman خیال - اندازه - شک و شبہ - وہم Suspicion, guess.perception دام dam جال پھندا.دھوکا Net, snare دام mudam -- سدا - دائم Forever, eternally, always, everlasting ہمیشہ.پر pisar بیٹا.لڑکا.فرزند Son, child از az سیدھے راستے سے پھر جانا ملحد ہو جانا.مرتد ہوتا Aostasy دبائیں waba ain (حرف جر ) سے From, than, by, of, out of متعدی بیماریاں، وہ بیماری جو ہوا کے خراب ہونے سے پھیلتی ہے.تیز گام taizgam Epidemics منادی munadi تیز چلنے والا ,Swift, quick پکارنے والا.اعلان کرنے والا proclaimer زو zad مار چوٹ.نشانہ Hit, stroke, target 7
lekhū لیکھرام ایک آریہ مذہبی لیڈر جس کے حق میں حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی پوری ہوئی اور وہ مقررہ میعاد میں مرگیا).Lekhram was an Aryan religious leader who used to abuse the Holy Prophet in the vilest terms.The Promised Messiah warned him; 'If you do not desist from abusing our holy master, then | will pray against you in response to his prayers he saw a dream that an angle of revenge would kiil Lekhram with a sharp dagger.The prophecy fixed the time to within six years, with the addition that the day of his death would be adjacent to Eid.prophecy Lekhram on his part made a counter declaring 'you talk of six years, God has told me it was Satan talking to you.God has told me that you will be totally annihilated within.three years and no-one in Qadian would even remember your name.So a spiritual duel began and resulted in the death of Lekhram as prophecied.His own prophecy came to nought.taigh تلوار Sword, dagger ازن izn اجازت خدا تعالی کا حکم leave, permission, command L دو گھڑی صبر سے کام لو ساتھیو.do ghari sabr se kam lo sathio......گھڑی ghari رات دن کا ساٹھواں حصہ 24 منٹ کا وقفہ.قلیل وقت Moment ظلمت وجور zulmat -o- jor تاریکی.اندھیرا.ظلم جفا Darkness and tyranny رت Tut رسم Weather, season کبر نمرود kibr-e-namrud تکبر نمرود وہ بادشاہ جس نے حضرت ابراہیم کا مقابلہ کیا تھا اور انہیں بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈلوا دیا تھا (مراد نمرود کا تکبر) Arrogance of Namrud.Namrud was the king who opposed Hadhrat Abraham and intended to have him thrown into a burning fire اعجاز ijaz معجزه کرامت Miracle, wonder عما asa سونٹا.حضرت موسیٰ کے ہاتھ کی لکڑی جس سے وہ معجزہ دکھاتے تھے.Staff, the rod of Moses with which he worked miracles ساحر sahir جادوگر Sorcerer, magician رائیگاں raigan فضول.بے کار in vain پھول پھل جانا phul phal jana درختوں میں پھول پھل لگنا To flower and to bear fruit پھول پھل لانا phul phal lana سر سبز ہوتا.بامراد ہونا ترقی کرتا To flower and to bear fruit, to prosper رب الورى rabb-ul-wara مخلوقات کا رب Lord of creation املی لھم ان کیدی متین Umli lahum in na kaidee mateen سوره اعراف آیت 184 اور میں انہیں سردست ڈھیل دے رہا ہوں میری تدبیر بڑی مضبوط ہے." Surah Al-Araf, ch.7, v.184.means'l give them respite, surely my plan is mighty.لا جرم la jaram بے شک Doubtless بالیقیں bil yaqeen یقین کے ساتھ With certainty نوا nawa آواز Voice, sound 8
موج خون گل moje - khoone - gul پھول کے خون کی مر (خون کی طرح سرخ) A wave of colour born out of the swaying of blood red roses پل pal پلک جھپکنے کا عرصہ بہت تھوڑا وقت.لحظہ.سیکنڈ In the twinkling of an eye.A fleeting moment.عصر asr زمانه ,Time, age چاره charah علاج Treatment, remedy پیغام آرہے ہیں کہ مسکن اداس ہے Paighām ārahe hain keh مسکن maskan رہنے کی جگہ گھر Home, residence طائر tair رنده Bird تیمن nasheman گھونسلا Nest, residence سرو سمن sar wo saman درخت پودے Cypress tree, jasmine نرگس nargis پھول کا نام جسے شعراء آنکھ سے تشبیہ دیتے ہیں گل بدن gul badan نازک اندام Delicate like a flower, flower like in build پیرہن pairahan جسم کا لباس Dress آزرده azurdah اداس - Sorrowful, sad شاد shad خوش Pleased, happy برق تپاں barq-e-tapan جلانے والی بجلی A bolt of lightening نال nihal خوش.بے فکر.Exalted, pleased, happy خرمن khirman کھلیان، غلے کا ڈھیر Stockpile of grain وادی ایمن wadee-e-aiman واری اے اے من) وہ جنگل جہاں حضرت موسیٰ اپنی بیوی کو چھوڑ کر آگ کی تلاش میں نکلے تو ایک درخت پر خدا کی تجلی نظر آئی یہ مقام کوہ طور کے دائیں طرف تھا اس لئے وادی ایمن مشہور ہوا.The blessed valley by the side of mount Sinai where Moses had a glimpse of God.Daffodil, narcissus.Flower with which the poet compares a beautiful eye.طور tur کوہ سینا.جزیرہ نمائے سینا.جہاں حضرت موسیٰ پر تجلی الہی کا ظہور ہوا اس مصرع میں غم کا پہاڑ مراد ہے.دوسرے مصرع میں موسی اور وادی ایمن کے ذکر سے معنوی حسن نمایاں ہے.Mount Sinai.Here, metaphorically, it means moun- tain of grief.namah bar نامه پر چٹھی رساں.قاصد Carrier of a message, courier بن بای ban basi جنگل میں جاکر رہنے والا.جلا وطن Exiled, dweller of the wilderness nam Moist, damp, تم لالے کا داغ lale ka dagh گل لالہ سرخ رنگ کا پھول Black spot in the heart of a poppy ریں hazin غمگین Sad, sorrowful سوسن sosan آسمانی رنگ کا پھول جسے شعراء زبان سے تشبیہ دیتے ہیں A lily, the iris with which the poet compares a tongue 9
من man دل Heart مجنون majnun محبت میں پاگل A lover who became a legend because he was madly in love.دشت dasht صحرا.جنگل Wilderness جھڑی لگنا ihari lagna بارش ہونا ، متواتر مینہ برسنا Incessant rain جھا بجھن ihanjhan پاکل پاؤں کا ایک زیور madh p شهد - شیریں Nectar مدھر گیت madhur geet میٹھے شہد جیسے گیت Sweet songs امرویپ amar deep کبھی نہ ختم ہونے والے چراغ Eternal lamp ریت reet رسم دستور طریق Custom, rite غم فرقت gham-e-furqat جدائی کا غم Grief of separation دلداری dildari روی Solace, to soothe and comfort, to treat some ɔne with special kindness and love with the purpose to soothe and console Dancer's anklet fitted with small bells را گن ragan گانے والی Female singer اے مجھے اپنا پر ستار بنانے والے ay mujhay apnā pristār پرستار paristar پوجا کرنے والا پرستش کرنے والا A worshiper, an adorer, a devoted servant بیرون baseron ٹھکانوں Lodgings ٹھکانا کرنا thikana karna کسی جگہ رہنے لگنا Shelter for temporary or permanent abode کرده rah sar e- راہ میں Edge of the road را فیشه "مرضیه raziatan marziyah تو اسے پسند کرنے والا ہے اور اس کا پسندیدہ بھی جوت jot لگن ، آگ Flame of love پرینت preet Love, affection ✓✓ پردے hardey سینه دل Heart, breast سرمدی پریم sarmadee praim ہمیشہ رہنے والا پیار Everlasting love آشاؤں ashaon آرزووں Longings, hopes, desires دھیرے دھیرے dheere dheere آہستہ آہستہ Slowly, slowly Portion of a verse from the Holy Quran, meaning with one who is pleased بے تاب be tab بے قرار Restless, impatient کاشف اسرار kashif-e-asrar 'to be pleased with you.' پوشیدہ راز بتانے والا Discoverer of secrets تمنا tamanna آرزو خواهش Desire, request اشک ashk آنسو Tears خاک آلوده khak aloodah جس کو مٹی لگی ہو Dusty 10
پراگنده paragandah پریشان حال in a shattered and miserable state زبوں حال zabun hal كرب و بلا karb-o-bala دکھ.مصیبت Anguish, affliction اکسانا uksana ابھارنا.اٹھانا.تحریک دیتا To excite, to arouse, to agitate برا حال In a miserable condition, in a pitiable condition زانو zanu گھٹنا، گھٹنے پر بٹھانے کا مطلب تو قیر دینا، قریب کرلیتا Knee,lap ہول hol خوف ڈر Terror, horror, fright غیرت ghairat لحاظ شرم حیا.حمیت Sense of honour عنان inan نظام.باگ ڈور A reign کم اوقات kam auqat کم حیثیت Ignoble, lowly گردوں gardan آسمان The heavens in orbit چاپ chap قدموں کی آواز Sound of footsteps باری bari موقع.نمبر Turn ایام ayyam دن.زمانہ Days time ستم گر sitam gar ظلم کرنے والا Tyrant, oppresser لاج رکھنا taj rakhna عزت کی حفاظت کرنا To protect the honour, to have a sense of shame ستار sattar بیبوں کو ڈھانپنے والا.خدا تعالی کی ایک صفت One who covers other's faults (an attribute of God) putle مورتی Image, puppet سلاسل salasil سلسلہ کی جمع.بیڑیاں.زنجیریں Chains paimän k Promise, agreement ✓✓ ارمان arman خواہش Wish.desire زیبا zeba مناسب To behove, becoming کیا موج تھی جب دل نے جیسے نام خدا کے اوقات auqat kiä mauj thi jab dil.دھونی رمانا dhuni ramana کسی جگہ آگ جلا کر جوگیوں کی طرح بیٹھ جاتا.فقیر ہو کر بیٹھ جاتا حیثیت Status, position درس dars To reveal one's face to someone, admonition☑ Like a hermit who sits lost in the memory of with incense burning before him God سیل رواں sail - e - rawan تیز سیلاب Flood اسلوب usloob طریقہ - طرز - روش Way, style, manner 11 چاکر chakar نوکر Servant سرا sada ہمیشہ Ever
شاہراہ shahrah دیار مغرب سے جانے والو! دیار مشرق کے باسیوں کو بڑی سڑک Highway diyare maghrib say jane....دین متین deene mateen مضبوط معقول دین - یعنی اسلام ویار diyar شهر، علق Country, region بای basi رہنے والا Dweller, inhabitant غریب الوطن gharib -ul- watan مسافر پردیسی Living in exile راچی za'iche جنم پترا.مستقبل یا قسمت کے متعلق اندازے Horoscope معنون mo - an - won (م عن دن) کسی کے نام سے منسوب کیا گیا Dedicated انصرام insiram انتظام Management, organisation alam غم، رنج Agony, pain, torment, grief سجود sajood سجدے Prostrations قیام qiyam نماز میں کھڑے ہونا Standing posture in prayer زگم zum گمان، ظن Presumption مجھولے bagule ہوا کے چکر، گردبار Whirlwinds زیب zeb منا Behove زیر میں zere nagin تحت.زیر حکومت Subjugated بسات bisat حوصلہ.چوسر یا شطرنج کھیلنے کا تختہ A chess board کلید فتح و ظفر kleede fath-o-zafar فتح اور کامیابی کی چابی Key to ultimate victory Solid and sound religion (Islam) درانا darrana بلا خوف Without any fear گام گام gam gam قدم قدم Step by step آئے وہ دن کہ ہم جن کی چاہت میں گنتے تھے.....a ay woh din keh.......تسکین taskeen سکون Comfort ہویدا havaida ظاہر To appear قلب تپاں qalb-e-tapan تڑپنے والا دل Burning heart بے غرض be gharaz بے مطلب Selfless بے ریا be riya بغیر دکھا دے کے Without any show or formality, sincere دلنشیں dilnasheen دل میں گھر کرنیوالا Something or someone who finds a place in one's heart.'The one who has occupied my heart is also the one who has carried it away.' دلربا dilruba دل پر اثر کرنے والا The one's steals who one fascinating, carries away.heart, enchanting, 12
کرب و بلا karb-o-bala تکلیف.دکھ Anguish بدیس آشیاں badais, ashian غریب الوطن.پردیس میں رہنے والا افق utuq وه جگہ جہاں آسمان اور زمین ملے ہوئے دکھائی دیتے ہیں Horizon قوس قزح qaus-e-quzah وہ سات رنگ کی کمان جو آسمان پر بارش کے بعد دکھائی دیتی ہے.A rainbow Someone expected back home but seeming to be settled elsewhere.کاروان carvan قاتل A caravan نچھاور nichhawar نار کرنا.قربان کرتا.To shower, to make an offering امرت amrat اکسیر.آب حیات شہد Elixir قرة العین qurratulain آنکھوں کی ٹھنڈک Coolness of eyes ساربان sarban اونٹ چلانے والا.میر کارواں A camat driver, leader توفیق پرواز tofeeq-e-parwaz اڑنے کی ہمت - موقع طاقت Ability or strength to undertake a journey رشکستہ par shikastah پر جس کے پر ٹوٹ گئے ہوں.مجبور Helpless, with broken wings چشمک chashmak رنجش.مخالفت - تحقیر To bear grudge, to jeer روداد rudad کہانی.داستان.ماجرا Narration رقم raqam لکھنا To Write گوشه محترم gosha-e-mohtaram قابل عزت کونا.عزت والی جگہ A special space reserved for someone as a mark of honour and respect آہ و فغاں ah-o-fughan آہ بھرنا.رونا Cry of pain پیکر paikar چہرہ.شکل و صورت Face, appearance عالم خواب alame khab (عالے خاب) نیند کی حالت In a world of dreams خفتگان khuttagan سوئے ہوئے Asleep زینت zinat خوبصورتی Beauty, elegance فرط الفت fart-e-ulfat محبت کی زیادتی With overwhelming love بوت bose چومنا Kisses دعا mudda'a مقصد Objective, goal بالیقیں bilyaqeen یقین کے ساتھ Most certainly جس habs Detention, imprisonment پا به زنجیر pabah zanjeer پاؤں میں زنجیر ہونا Feet in chains یورش yurish حمله، وهاوا,Attack, storm طائر tair پرنده Bird آشیانه ashiyanah گھونسلا Nest محصور mahsoor گھرا ہوا Fortified, surrounded 13
مشکل کشا mushkil kusha مشکل دور کرنیوالا One who removes or solves difficulties بديلا bad bala مشکل Evil things, misfortune دیکھو اک شاطر دشمن نے کیسا ظالم کام کیا جاء الحق وز حق الباطل ان الباطل كان زهوقا ja al haqqo wa zahaqal batilo innal batila kāna zahooqā.حق آگیا ہے اور باطل بھاگ گیا.اور باطل تو ہے ہی بھاگ جانے والا The truth has come and falsehood has fled, it is in the nature of falsehood to flee.Dekho ek shatir dushman nen..شاطر shatir شوخ، عیار، چالاک Sharp-shooter, devious فكر makr دھوکا، فریب، ریا نفاق، چالاکی، عیاری، چال عاجز ajiz کمزور بے بس، مجبور لاچار Humble امانت amanat سپرد کی ہوئی چیز (یہاں مراد خلافت ہے ) Trust کٹھن kathin kathan مشکل Difficult Deception, cheating, fraud, cunning بار bar طائر tair پرنده Bird تهمت tuhmat الزام Accusation, or an unfounded accusation جلادي jalladi سفاکی، ظلم Butchery عبت abas بے فائدہ بیکار in vain, useless دجل dail جھوٹ' قریب، دھوکا Fraud, deception, duplicity طشت از بام tasht az bam ظاہر، مشہور عام، عیاں بوجھ وزن ذمہ داری Burdon, load حیب maheeb, muheeb خوفناک خطرناک، ڈراؤنا Formidable, dreadful, frightful مراحل marahil منزلیں.درجے Challenges کھالوں khalon چھڑی Garb گرگ gurg بھیڑیا Wolf مقتولوں maqtulon جنکو قتل کردیا گیا Stain bepharnā, bapharnā to For the truth to come out, for the sins and follies to be disclosed.Expose تدبیریں tadbeerain Schernes ونا dagha Artifice nafs جان، روح وجود Spirit, person, self, soul بے قابو ہونا Ride back.To become enraged.Charge at بن باسی ban basi بے وطن جنگل کا رہنے والا 14 In exite, a dweller of the wilderness للكارا lalkara پکارا مقابلے پر بلایا Challenged مبارز mubariz مقابلہ پر چڑھ کر لڑنے والا سپاہی، جنگجو Courageous
مباحل mubahal.جسکو مباہلہ کا چیلنج دیا گیا ہو One who is challenged to mubahalah فریب traib دل گرده dil gurdah ہمت، طاقت ، حوصلہ Guts, Courage pitta توصله ، ہمت Courage, vator دھوکہ Deceit How long can flimsy excuses be of avail.چوراہا chauraha وہ جگہ جہاں سے راستے نکلتے ہیں Crowded market place پھوٹا Phoota ٹوٹ گیا.Exploded چورا ہے میں بھانڈا پھوٹنا سرد حق mardehaq سچا انسان Man of truth روپوش ruposh چہرہ چھپاتا.منہ چھپائے پھرتا.Absconde chaurahe main bhanda phootnā سب کے سامنے راز کھل جانا Exposing a secret resulting in public disgrace یتی بھاگوں چھینکا ٹوٹا billi bhagon cheenka toota کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا اس چیز کا ہو جاتا یا مل جاتا جس کا خیال بھی نہ ہو A windfall سریدوں mureedon Devotees جھونکی دھول honkee dhool Throw dust Place Hooligans khoda pahār aur nikla chooha To dig up a mountain and discover only a mole گڑھا garha گری جگہ کھائی A hole, a pit منارے manare (لفظی مطلب چراغ دان) مسجد کے مینار Minarets آڑے aray مشکل Troubled افق ufuq وہ جگہ جہاں زمین و آسمان ملتے دکھائی دیتے ہیں.Horizon ریپ deep A small earthen lamp, a light b Capture, general arrest قریه qaryah فتنه گر fitnah gar پکڑو پکڑ pakar dhakar عام گرفتاری سمار mismar گرایا ہوا منهدم Ruined, demolish talism معابد ma abid (معبد کی جمع) چارو lllusory, a spell, an enchantment, a magic عبادت خانے Places of worship جوٹھا jootha پس خورده مستعمل Used articles or food کاٹھ کی ہنڈیا kath ki handiya محاورہ ہے جھوٹ بار بار فائدہ نہیں دیتا.پورب سے چلی پر نم پر نم باد روح و ریحان وطن poorab say chali purnam purnam...پورب purab مشرق East 15
purnam بھیگی ہوئی ، آنسوؤں سے بھری ہوئی 15 باد bad ہوا wind روح rauh With tears سوئے یار su-e-yar محبوب کی طرف To the beloved one دور افتاده dur uftadah جو فاصلے پر ہو توجہ سے محروم Distant, forgotten, abandoned آسائش و فرحت تازگی، ٹھنڈی ہوا خوشبو fragrance لخت جگر lakhta jigar Freshness, ریحان raihan علمی، مجازا" شراب گل سرخ کے سوا تمام پھولوں پر بھی صادق آتا جگر کا ٹکڑا اولاد A part of one's life, a darling child a piece of one's heart, ہے The fragrant flower of sweet basil باد روح ریحان وطن bad-e-rauho raihan-e-watan وطن کی طرف سے آنے والی ہوا کے فرحت بخش مشکبار جھونکے A breeze laden with the memory of comfort and fragrant flowers of one's homeland pachham مغرب West سندر sundar خوب رو Beautifut مرغان وطن murghan-e- watan وطن کے پرندے مراد ہم وطن لوگ Song birds of my homeland اولیس ovais حضرت اویس قرنی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں یمن میں اسلام قبول کر چکے تھے ، مگر اپنی والدہ کی خدمت میں مصروف رہنے کی وجہ سے آنحضور کی صحابیت کا شرف حاصل نہ کر سکے.اُنحضور نے اس خدمت کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا اور بسا اوقات یمن کی طرف منہ کر کے فرماتے تھے کہ مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے.آنحضور نے حضرت اویس قرنی کو سلام بھجوایا اور حضرت عمر کو نصیحت فرمائی کہ ان سے دعا کی درخواست کریں.Ovais Qarni, although not a companion of the Holy Prophet (pboh), but because of exceptionally profound love for him, the Holy Prophet (pboh) held him very dear to his heart.Among the contemporaries, he is the only one to whom the Holy prophet (pboh) sent his salaams as an expr- ession of his love.He was prevented from visiting the Holy Prophet (pboh) for the only reason that his mother was ill and constantly needed attention.برکھا barkha برسات' بارش Rain, clouds امین umdeen اترین Welled up, to overflow باران baran بارش مینه Rain سکان Sukkan رہنے والے باشندے Inhabitants, citizens یاران yaran دوست Friends کوئے دار Ru-e-dar پھانسی گھاٹ place of execution by hanging تن آسان tan asan ست کامل Easy going, indolent جوروجفا jorojafa ظلم، تکلیف ایذا نگری nagri : Tyranny.oppression and cruetly.To treat one's lover without mercy.گاؤں، قصبہ A town, a village عیاں iyan واضح ظاہر، نمایاں نظر آنے والا Manifest ستم sitam ظلم ، زیادتی، آزار Oppression, tyranny 16
katha کہانی بیان، روایت Tale تالوں nalon آہ و بکا آنسو، فریاد Lamentations سندیسے sandese پیغامات، خوشخبریاں Messages masā ✓ شام Evening صبح و مسا subh-o-masa صبح و شام جاری، مسلسل Day and night بدبخت bad bakht بری قسمت والا The cursed one حاکم hakim حکومت کرنے والا بادشاہ A ruler, king آزرده azurdah ناراض، ناخوش، خفا Unhappy محکوموں mahkumon تابع، رعایا ، حکم کیا گیا Vassals and subjects در bair ،دشمنی عداوت Enmity, hostility تختہ مشق ستم takhta-e- mashq-e-sitam جن پر بے دردی سے ظلم ہو Under the tyranny گہنے gahne زیور ,Ornaments, jewels جبينون jabinon پیشانیاں، ماتھے The foreheads زندان zindan قید خانہ جیل Jail, prison بھاگ bhag قسمت Luck, fortune تھپیڑے thapere تیز ہوا کے جھونکے Gusts منادی munadi پکارنے والا ڈھنڈورچی A proclaimer ناگ nag پهن دار سیاه سانپ Viper, cobra زاغ zagh کو ا Crow زغن zaghan چیل (Kite (bird of prey منڈیروں manderon دیوار کا اوپر کا حصہ جو ڈھلوان ہو تا ہے ، پشتہ Ledge کال kag کو ا Crow مرغان خوش الحان murghan -e- khush ilhan خوش آواز پرندے Birds of song with melodious voice معدوم ma'dum مٹایا گیا' نابود Non-existent, vanished سکھ نوکر شاہی sikkanaokar shahi اثر حکم، سرکاری افسر The bureaucracy reigns supreme, influence, bureaucrats کالا دھن kala dhan حرام کا مال Black money فراوانی frawani زیادتی کثرت افراط Abundance مجزوم majzum کوڑھی Leprous قابض qabiz قبضہ کرنے والا دخیل Someone in occupation, occupier باوردی دربان.ba wardi darban فوجی نگران A uniformed watchman بحر ظلمات bahre zulmat اندھیروں کا سمندر جہالت کا سمند (An ocean of darkness طغیانی tughyani سرکشی، سیلاب Violent upsurge دھارے dhare چشمے سوتے ، دریا Storm flood, column of water جلب زر jalbe zar 17
دولت کا حاصل کرنا Greed for wealth, avarice مفلس muftis غریب ' کنگال Poor, penniless تاحد نظر ta had -de- nazar جہاں تک نظر کام کرے As far as one can see سیل عصیاں sail-e-isyan گناہوں کا سیلاب A flood of sins بے کس bekas بے یارو مدد گار Helpless ابر کرم abr-e-karam بخشش کا بادل.بادل کی طرح سخاوت A cloud of mercy متوالے matwale - مدہوش.مخمور Intoxicated محبت میں مست.والی wali مالک.سردار دوست Mentor, supporter جود jud To be frustrated in one's designs, completely defeated to be man مان گھمنڈ.غرور To be confident of someone,s loyalty, friendship پاره پاره parah, parah ٹکڑے ٹکڑے Pieces, slices ریزه ریزه افق ufuq وہ جگہ جہاں زمین و آسمان ملے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.Horizon کھلانا kajlana مدھم ہو جانا.سانولا پڑ جاتا After sunset, the dusk becomes murky فلک falak آسمان Sky, heaven شداد shaddad قوم عاد کے ایک بادشاہ کا نام جس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا بخشش سخاوت Charity sakha A king who became a symbol of cruelty and despotism.The name of the king of the people of 'Aad' who claimed that he was god.فیاضی بخشش - خیرات Charity, generosity پجاری pujari پوجنے والا.عبادت کرنے والا A worshipper, a priest مکار makkar مکرو فریب کرنے والا.Cunning, deceitful فکر makr دھوکا.چالا کی Conspiracy, plotting, cunning, play بازی bazi کھیل تماشا.داؤ Play ٹھاٹھ thath شان و شوکت تکلفات Dignity, pomp و هزاره جانا dhara reh jana رکھا رہ جاتا.بیکار رہ جاتا To remain useless بنجارا banjara A grain merchant, a roving trader carrying merchandise on his back غلے کا سوداگر - بیوپاری آن an شان و شوکت فخر This word has 3 meanings : مالک malaik فرشتے Angels خاب khaib محروم نا امید unsuccessful خاسر.khasir گھانا کھانے والا.نقصان اٹھانے والا loser خائب و خاسر kha'ib-o-khasir 18 1.Honour, modesty, coyness 2.Fleeting moment 3.Instead of 'Aa'' Aan' is sometimes used in poetry and it means to come' تو مرے دل کی شش جہات بنے too mere dil ki shash jihat....شش جهات shash jihat چھ اطراف تمام عالم The whole universe, all six sides
کائنات kainat عالم رنگ و بو دنیا The world, universe neech Low, mean کمینہ ذلیل منقطع munqati کٹا ہوا ' الگ Disjoined, broken, cut off گل ہوئے gul bute سارا تمام کل وہی ہے، صوفیانہ تصور ہے کہ سب کچھ خدا ہی ہے ، خدا کے سوا کسی کا وجود نہیں ہے اور یہ خدا ہی ہے جو مختلف شکلوں میں جلوہ مر ہے is everything Pantheism Wholly, entirely, he It is a Sufi concept that everything is God, nothing exists beside God.It is God who is manifested in all creation.عین ذات ayne zat پھول پودے مراد زیب زینت Roses and flowering plants خدائی صفات اور ذات کا مظہر اس حد تک مظہر کہ گویا وہی ذات ہو جاتا توہمات tawahhamat و ہم گمان ، شک Imagination, superstition معلمات muzlimat God's attributes personified منصور mansoor ایک ولی اللہ کا نام جنہوں نے حالت جذب میں انا الحق کا نعرہ بلند کیا جس کی پاداش میں انہیں سولی دی گی.Name of a holy man and negated himself who believed in Pantheism separate entity from سردار sare dar as a مظلمہ کی جمع ہے جو ظلم سے باب افعال میں اسم فاعل ہے اسکے بنیادی معنی تو تاریکی کے ہیں لیکن سوالات کے معلمات بننے سے یہاں مراد یہ ہے کہ (1) وہ تاریک چیزیں یا سوالات جو سمجھ میں نہیں آرہے اور خود میم ہیں (2) اند میرے پیدا کرنے والے یعنی ایسے سوالات جن کے نتیجہ میں انسان اندھیروں میں کھویا جائے دونوں صورتوں میں مراد ایسے تعلیمات ta'alliyat لاجواب سوال ہیں جن کا کوئی جواب نہیں اور جس طرح رات لاف گزاف بڑکیں Boastings, bragging اندھیری ہوتی ہے اور دوسروں پر اندھیرا ڈالنے والی ہوتی ہے اسی طرح ان سوالوں کی حقیقت ہے اور بعینہ ویسا ہی مضمون ہے جیسا کہ اذا ظلم عظیم کامنوا میں بیان ہوا ہے" or over پھانسی کے تختے پر سولی پر On the gallows God.عربی uzza عربوں کا بت A well known idol of the Arabs لات lat عربوں کا بت A well known idol of the Arbas Uzza and Multiple darkness, things incomprehensible shadows casts which something dark other things so that they become indiscernible and also things which cast shadows of doubt.پیمانه صفات paimanah -e- sifat سفات کو سمجھنے کا ذریعہ آلہ Lat were two imaginary gods of the Arabs محمود mahmood تعریف کیا گیا، محمود غزنوی جس نے ہندوستان پر حملے کے دوران سومنات کے مندر سے بت توڑے تھے.Praiseworthy Ghaznavi and a name which refers to Mahmud times 17 India invaded who succeeded at last in demolishing the Somnaat temple.سومنات somnat گجرات (انڈیا) کا مشہور بت خانہ The most revered temple in India کھنڈر khandar ٹوٹا ہوا مکان، ویرانہ Ruins 19 A goblet sparkling with God's attributes میزان meezan ترازو تقسیم : Balance, scale, measure عالم حیرتی alame hairati حیران کن دنیا Wonder world mazhar ظاہر کرنے والا One who reflects something ہمہ اوست hama, ust
بے ثبات be sabat فانی Mortal, perishable, trail جیت jeet فتح Victory, gain مات mat شکست Defeat سبک subuk ہلکا کم وزن تیز Light, delicate سانے suhane دل پسند بھلا pleasant ساجن sajan محبوب A lover, sweetheart در سول darson To make a public appearance لیکھوں laikhon حساب کتاب Account لاف lat جھوٹ Vain boasting ناترس matars بے خوف نڈر Audacious, fearless, devoid of God's fear ہر طرف آپ کی یادوں پر لگا کر پہرے کلفت kulfat har taraf ap ki yadun.....پرے pehre جمبانی رکھوالی Watch, guard جی کڑا کرنا jee kara karna سخت کرنا رنج ، تکلیف Exhaustion, fatigue, weariness لمن milan Meeting of two friends l گلشن میں پھول باغوں میں پھل آپ کیلئے To brace oneself, to muster one's courage ناگہاں nagahan اچانک Suddenly gulshan main phul....کنول Kanwal چاتی میں کھلنے والا پھول Lotus, water lily ہم آن ملیں گے متوالو بس دیر ہے کل یا پرسوں کی پرونا pirona ham an milain ge matwalo....متوالو matwalo دھاگہ ڈالنا To stringe مژگاں miygan پلکیں Eye lashes ( محبت میں مست مخمور مدہوش.Those intoxicated by love دید deed دیکھنا To see فرط طرب fart-e-tarab خوشی کی زیادتی Overwhelming pleasure سرسوں پھولنا sarson phulna سرسوں کے پوروں پر پھول آنا، زرد ہی زرد نظر آتا Flowering of the rape seed plants 'when you see riots of golden colour' خوشوں khoshon کچھا، بالی bunches روشنائی raushna'i سیاہی ink جل jal پانی.Tears, water چرنوں charnon قدموں Feet ازن izn اجازت، حکم Permission, command جان گسل jan gusal جان کو گھٹانے والا A profound sorrow which kills 20
بازگشت baz gasht گونج Echo نغمه سرا naghmah sara نغمہ گانے والے.غزل سرا Singer دشت dasht صحرا جنگل Wilderness جبل jabal پہاڑ Mountain جز juz سوائے Except وصل wasi Meeting, union t عقده uqdah بھید.معمہ.راز Knot, mystry فراق firaq دوری Separation, distance دراز daraz طویل لمبا Long or stretched out سکھیاں sakhiyan سیلیاں Bevy of merry making girls ازل azal ابتداء Beginning, source, origin, eternity تری راہوں میں کیا کیا ابتلا روزانہ آتا ہے teri rahon main kia kia....اتلا ibtila آزمائش Trial, persecution احمد ohud بے آب و دانه be ab -o- danah Without food and water بغیر پانی اور کھانے کے کنار آب kinar-e-ab ندی کے پانی کے کنارے By the bank of a brook, river or stream کڑا ویرانہ Kara veeranah سخت Inhospitable desert سنگستان کابل sangistan -e- kabul کامل کا پہاڑی علاقہ Rock terrain of Kabul Afghanistan شهزاده shahzadah Prince, princely حضرت شہزادہ عبد اللطیف شهید مراد ہیں جن کو کامل افغانستان میں 1903ء میں حضرت مسیح موعود پر ایمان لانے کی پاداش میں نہایت ظالمانہ طریق پر سنگسار کر دیا گیا.Shahzada to who Latif Abdul was Refers martyred by being cruel, stoned to death only because he believed in the Promised Messiah.سنگسار کرنا sangsar karna پتھر مارتا ، پتھر مار مار کر مار دینا Stoned to death دم تسبیح dam-e-tasbeeh تسبیح کے وقت Like the beads of a rosary, while lost in the memory of God (he was being stoned to death) اہل جفا ahl-e-jafa ظلم کرنیوالے Tyrant اہل وفا ahl-e- wafa وفا کرنیوالے The faithful رمی rami پتھر پھینکنا Showering stones سردار sare dar On the gallows مدینہ منورہ کی ایک پہاڑی جس کے دامن میں جنگ احد لڑی گئی جس میں پسران باطل pisran -e- batil مسلمانوں نے اپنے سے بہت زیادہ تعداد میں کفار قریش سے شدید جنگ جھوٹ کی اولاد یعنی جھوٹے لوگ Children of falsehood لڑکی nar; A hill in Medina near which the battle of Ohud مرد Male 21 took place
مردان Mardan سفاکی saffaki سرحد کا ایک شہر جہاں ایک خاتون رخسانہ کو 1986 میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا ظلم Cruelty, sheddering of blood A town of North West Frontier where in 1986.A lady by the name of Rukhsana was martyred by the local men.She was shot down.شیوه shewah طریقہ عادت Mode سکرنڈ.پنوں عاقل.دارہ.لڑکا نہ.حیدر آباد.نواب شاہ Sukhar, Sakrand, Punnonāqil, Wārā, Larkana, Hyderabad, Nawabshah صوبہ سندھ اوکاڑہ.لاہور.خوشاب.ساہیوال فیصل آباد.سرگودھا Okārah, Lahore, Khushāb, Sāhiwāl, Faisalabad, Sargodha شہر جہاں مظالم توڑے گئے کلمہ کا پیج پر صوبہ پنجاب کے وہ کلمہ لکھنے صدر دروازوں بيوت الصلواة کے لگانے اور دیگر اسی قبیل کے "جرائم" کی پاداش میں زدو کوب کا نشانہ بنایا گیا مقدمات قائم کر کے قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار کیا گیا اور بعض کو راہ خدا میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کی توفیق ملی.سندھ کے شہر جہاں احمدیوں کو شہید کیا گیا.لڑکانہ دراصل لاڑکانہ ہے ضرورت شعری کیوجہ سے لڑکا نہ کیا گیا ہے.Cities of Punjab district where atrocities were unleashed.Houses were burnt, shops were gutted, some Ahmadis were martyred.Many were imprisoned for declaring the Kalima Shahada.In each of these towns of the Sindh district in Pakistan, Ahmadis were martyred.حیدر آباد qatil - e - Hyderabad قتل سندھ میں ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر 1974 میں حیدر آباد میں ے گئے.شہید کر دیئے.One murdered in Hyderabad, in 1974 Dr.Aqeel, son of Abdul Qadir was martyred in Hyderabad, Sindh.نواب شاہ Nawabshah لهوپاشی lahu pashi خون بہانا Bloodshed سانحہ sanihah واقعہ حارث A tragic occurrence ٹوپی topi سرحد میں مردان کے قریب شہر جہاں احمدیوں پر مظالم توڑے جناب عبد الرزاق کو بھریا روڈ نواب شاہ میں 1985 کو شہید کر دیا گیا نواب شاہ شہر میں بیت الصلواۃ محمود ہال کو آگ لگائی گئی مربی اور متعدد احمدیوں کو زدو کوب کیا گیا.جماعت کے گئے.A city near Mardan in the NWFP where atrocities were unleashed against the Ahmadis.بلائے ناگہاں bala-e-nagahan اچانک آنیوالی مصیبت Sudden unexpected appearance of Maulana like a bolt of the blue.Everyday a new freak نت نیا nit naya ہر دفعہ نیا of a Mautana appear like a bolt of the blue.The tale of misery relating to Nawabshah.In 1986 Abdur Razzaq was maryred in Bhiriya Road Nawabshah.Mahmud Hall the place of worship in the town was set on fire and the missionary as well as many other Ahmadis were beaten up, attacked and stoned.All worshippers were imprisoned.Wagon loads of people were stoned stabbed by a mob led by Mullas.and کوئٹہ Quetta صوبہ بلوچستان کا شہر جہاں بیت الصلواة پر تالا ڈال دیا گیا.اور متعدد احمدیوں کو جیل میں رکھا گیا.22 A city of Balochistan district where our place of worship was locked up and many of the Ahmadis were put in jail.معابد maabid عبادت گاہیں Places of worship عباد الله ibadullah اللہ کے نیک بندے Servants of God دل برمانا dil barmana دل کو زخمی کرنا To drill through one's heart
چلن chalan طریقہ Vile conduct روش ravish طور طریقہ Walk, path غول بیاباں ghol-e-bayaban جنگل کے شیاطین Like a drunkard سرائے sara'e مسافرخانه Roadside inn دشت طلب میں جا بجا بادلوں کے ہیں دل پڑے dashte talab main ja baja....Hobgoblins, demons of the wilderness آب بقا ab -e- baqa زندگی کا پانی آب حیات Elixir, the water of life ول dal بہت گہرا ابر، گھنے بادل Layers of dense clouds اشکبار ار ashkbar آنسو بہانا Shedding tears امر amar جس کو فنا نہ ہو عدو adu دشمن Enemy مثل mist Everlasting tishnah پیاسا Thirsty درد نہاں dard-e-nihan چھپا ہوا درد Concealed pain سود و زیاں sud-o-ziyan کی طرح Like, as, resembling مبا saba نفع نقصان Gain and loss خوشی.مسرت Ecstacy, delight سرور Suroor صبح کی نرم تازہ ہوا A gentle breeze, a morning breeze sastānāt آرام کرنا To rest a while ننکانہ Nankana صوبہ پنجاب کا ایک قصبہ A town in Punjab, Pakistan where all Ahmadi houses were set ablaze rind شرابی Thirsty for a drop of wine تشنه لب tishnah lab پیاسے ہونٹ One with thirsty, parched tips as if a bartender - یا دیار ے yadeyar se The memory of the beloved pours down like a rain of wine ہجر یار hijreyar In separation of one's beloved رندانه rindanah 23 زیروبم zeer-o-bam نیچے.اوپر Ebb and tide باد سموم bad-e-samum گرم ہوا Blazig wind اس as امید خواهش Longing, desire, hope یاس yas نا امیدی Despair ریپ deep دیا، چراغ Lamp لو lau موم بتی کا شعلہ Flame طل tall Heavy dew or light drizzle تجلیات tajalliat تجلی کی جمع، ظاہر ہونا، روشنی، خدا تعالیٰ کے جلوے Illuminations, divine manifestations
در dair temple, place for idol worship حرم haram خانہ کعبہ کی چار دیواری The sacred house of God in Mecca näsih Et گیسو Desu کر کے لیے بال لٹ Tress من موہن man mohan دل موہ لینے والا Charms one's heart away, charmer of heart نصیحت کرنیوالا Admonisher پھانس phans لکڑی کا ٹھا سا ریشہ کا خلش اندیشہ نگر Sprinter کل پڑتا kal parna چین آنا To be at ease بے محل be mahal بے جگہ ، غیر مناسب Out of place, improper مرگ marg موت Death ازن izn اجازت Leave, permission کھڑا mukhra نه چهره Visage, countenance, the face داغ جدائی dagh-e-judai جدائی کا غم An aching spot in the heart left by separation فرقت furqat جدائی Separation kumlānātur مرجھانا خشک ہونا To wither چند رما chandarma چاند مهتاب Full moon, eclipsed یہ دل نے کس کو یاد کیا.....N.8.As a phrase: Having dressed his precious memory in an attire of rosy coloured twilights, The madman is swinging that memory on a swing of a-rainbow gahnānā tt yeh dil ne kis ko yad...سپتوں Supnon خواب رویا Dreams بوٹوں buton چھوٹے درخت، پودے plants عنبر بار amberbar خوشبودار : Showering fragrance > پیراهن pairahan لباس ، کپڑا کر ما robe, attire, garment قوس قزح qaus-e-quzah رهنگ Rainbow پینگوں paingon جھولے Swings گہن لگنا رونق گھٹتا To eclipse درد بداماں dard badaman دامن میں درد لئے ہوئے Carrying deep pathos, sadness, the grey misty air laden with sorrow has darkened the entire horizon غنی ghani آسوده، مطمئن، دولت مند Rich wealthy تھوہر thohar ایک خاردار زہریلا پودا جس کے پتے سبز اور پھول رنگ برنگے ہوتے ہیں Cactus ہفت افلاک haft aflak سات آسمان Seven heavens پنچھی panchi پرندہ پکھیرو A bird 24
آکاشی akashi آسمانی آفاقی Heavenly بے مرشد be murshid بے راہ نما Without a spiritual guide chaupāyā چار پاؤں کا مویشی A quadroped, an animal تن tan جسم، شخص Body man دل، ضمیر Conscience, heart, soul دهن dhan مال، قسمت Wealth پرائے prae غیر بیگانه ، اجنبی Stranger خوفزدہ ڈرے ہوئے Afraid kutya جھونپڑی Cottage, hut دیپک dipak تھا چراغ A poor man's small earthen lamp افلاس atlas غربت، ناداری Poverty ماں کا جایا man ka jaya گئے ماں کی اولاد ,Born of the same mother صدیقوں sid-digon صدیق کی جمع کچے The truthful, the steadfast ڈولا dola لڑکھڑایا Stagger پیار کی پینگیں peyar ki paingain پیار کے تعلقات Swings of love ان کو شکوہ ہے کہ ہجر میں کیوں تڑپایا ساری رات جائیں جائیں ہم روٹھ گئے اب آکر پیار جتائے ہیں.un ko shikwah he ke.....درو بٹانا dard batana نین nain jäin jäin ham rooth دکھ میں شریک ہوتا Shared pain کومل komal نرم و نازک ، شیریں Soft, tender کجلائی kajlai سرمئی، کاجل لگی ہوئی piyā Leaves are all coverd with soot محبوب Beloved, sweetheart پریمی premi محبت کرنیوالا Lover کتھا katha کہانی Tale سوجے نین suje nain سوجی ہوئی آنکھیں Swollen eyes گریاں giryan روتے ہوئے Weeping, crying ترسان tarsan آنکھ Eyes ruthe روٹھے خفا ناراض To shame, anger بھاگ جگائے bhag jagae قسمت جگائی To awaken one's sleeping fortune ر گئیں mund gaeen مند بند ہو گئیں Closed نیر neer یانی آنسو دریا Tears milan ملاقات ، ملنا، میل جول Meeting of lovers سرد sarmad ہمیشہ رہنے والا Everlasting سرفراز sarfaraz ممتاز ، سربلند ، معزز Exalted, and honoured 25
جایا jaya بیٹا فرزند لڑکا Born of the same mother وقت کم ہے، بہت ہیں کام چلو waqt kam hai.....لملکجی malgajee میلی مٹی کے رنگ کی Light grey, after dusk خرام khiram ناز و ادا کی چالcolloquially-kharam) walk or stately gait) باد صبا bad-o-saba وہ ہوا جو مشرق سے چلے ، موسم بہار میں چلنے والی ہوا Morning breeze دام mudam ہمیشہ سدا Always محمو mahv زائل دور هم Engrossed ,absorbed, charmed قربتیں qurbatain نزدیکی رشته پاس Nearness, intimacies برق گام barq gam constant tasks daily remains simultaneously in his rememberance of God.دائما " ( دائن) daiman ہمیشہ سے لگاتار Continuously, Always زیروبم zer-o-bam نیچا اور اونچا Low and high, eb and tide موجزن mojzan ٹھاٹھیں مارنے والا Stormy, tumultuous ریا surayya جھمکا وہ سات ستارے جو پاس پاس رہتے ہیں Pleides, (cluster of seven 7 stars in taurus) غلغلہ ghuighulah ہنگامہ شور و غل Tumult تلاطم talatum موجوں کا زور پانی کے تھپیڑے موج لہر جوش Storm جو درد سکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے jo dard sisakte hue...سکتے ہوئے sisakte hue سسکیاں لیتے ہوئے Sobbing, sighing بجلی کی تیزی سے انتہائی تیز رفتاری سے Swift as lightening ڈھلا ہے dhala hai ابر abr بادل گھٹا Cloud مه و نجوم mah-o-nujum چاند و ستارے Moon & stars زمام zimam باگ، تکمیل Rein, bridle پیشوائی peshwa'i رہبری رہنمائی استقبال Guidance, leadership, reception خوشا khusha بہت اچھا خوب Happy, how fortunate, blessed دل بیار دست بکار dil bayar dast bakar دل میں ہر وقت خدا تعالی کی یاد اچھی چیز کا خیال مصروفیت میں بھی دل ر نہیں ہوتا ست رور شکل پائی ہے، رواں ہوا ہے Moulded into Lap آغوش aghosh گود مریض شب غم mareez-e-shab-e-gham غم کی رات کا مریض A patient tormented by the night of grief رس ras شیرینی، مٹھاس Juice عمر خضر umr-e-khizar طویل عمر Eternal مهمان سرا mihman sara مهمان خانه مہمانوں کے گھرنے کا مکان Caravan serai - a roadside inn سلاسل salasil بیٹریاں زنجیریں Chains 26 A proverb - a person, whilst engaged in his
گرفتار بلا gariftar-e-bala آزمائشوں میں مبتلا Chained, imprisoned, prisoner of calamities اسیر aseer قیدی بندی Captive رشتہ جاں rishta-e-jan سانس لینے کا سلسلہ Bondage like lifeline, relationship like a lifeline ربط بہم rabt-e-baham آپس میں تعلق آپس میں جو ڑیا رشتہ Mutual relationship masā نذر ، خیرات تحفہ Alms, charity جو کھٹ chaukhat چوک دروازے کی چار لکڑیاں جس میں پٹ لگائے جاتے ہیں Threshold گم گڑھ.gum gashtat کھویا ہوا بھاگا ہوا ، بھولا ہوا One who is lost کشکول kashkol فقیروں کا پیالہ ، زنبیل Begging bowl خیرات khairat صدقہ نیکی Alms, chairty صدا sada گونج ، آہٹ Voice, call رہائی rihai نجات فراغت معافی آزادی Liberation گھٹا کرم کی ہجوم بلا سے اٹھی ہے شام Evening زندان zindan قید خانہ جیل Prison وا wa کھلا ہوا کشادہ Open باز آنا baz ana پلٹنا ، پیچھے واپس آنا To abstain جلوت jalwat با ہر عام جگہ To be in company نقرئی nuqrai چاندی کا بنا ہوا چاندی جیسا سفید Silvery فيا ziya روشنی چمک رونق ,Light, splendour جسر بر پا کرنا hashr bapa karna قیامت آفت شور و غل - برپا کھڑا قائم ghatā karam ki hujoome..گھٹا ghata ابر، بادل، کالی بدلی Dense, dark clouds کرم karam بزرگی عنایت Kindness, grace ہجوم بلا hujum -e- bala آزمائشوں کا ہجوم ابتلاوں کی کثرت Trials The whole phrase means: The thick clouds which are about to shower the blessings of Allah, rose from the storms of overwhelming calamities.کرامت karamat معجزه Miracle To cry or wail, to create an uproar پیکر paikar ورد آشنا dard ashna درد سے واقف ہمدرد چهره شکل صورت Personification, embodiment پہلو pahlu کروٹ ، بغل ، طرف Angle, side گدا gada فقیر بھکاری ، منگتا.دان dan Beggar Aware of pain, sympathiser (A miracle has arisen from the heart, long accustomed to sorrow) زمین بوس zameen bos جو شخص حاضر ہو کر اظہار ادب کے لئے زمین چومے Wonder at its reach that it has started talking to God on high while it was merely a thing lying.on the dust, but raised by the command of Allah.27
رسائی rasai دخل ، واقفیت reach غلب qalb دل ضمیر Heart, soul تحت الثریٰ tahtussara زمین کا سب سے نیچے کا طبقہ مٹی کے نیچے Under the earth the deepest region of the earth ازل azal آغاز (Eternity (in past tense خلا khala خالی جگہ A void sāda ہمیشہ دائم، ہروقت Always ابلیسمت ibleesiyat سرکشی، فتنه انگیزی Satanic بانگ bang آواز Call زبوں zabun عاجز، ضعیف اباء iba انکار، نفرت ، نا فرمانی Rebellious rejection سیه بخت siyah bakht بد نصیب بد بخت خموشیوں khamoshion سکوت سناٹا Moments of absolute silence ھنکنی khanakne lagi بجنے لگی کھڑکنے لگی To single, jingling کیک kasak ٹیں ہلکا ساورد Stitches of pain ہوک huk وہ درد جو دل یا سینے میں ٹھہر ٹھر کر اٹھے Excruciating groan بے نوا be nawa بے آواز - زبان فقیر Soundless, silent التجا iltija آرزو منت سماجت درخواست To beseech, to entract ناکتخدا na katkhada بن بیاہا کنوا را Virgin ارا ada انداز قرینه Captivating style دا nida آواز 'پکار Voice, call قول بلی qaule bala ہاں کہنا To say yes (قرآن پاک کی آیت: "الست بربکم قالو بلی" کی طرف اشارہ ہے) According to Holy Quran, even before the creation of life in the blue print of Gods scheme of creation.He enquired form each soul; Am I your Lord or not? " they all responded; why not, why not? 1F Extremely ill-fated, one who's fate is charred نیش زن nesh zan برائی کرنے والا Ever-stinging, vicious مردود mardud رد کیا گیا' بے عزت کیا گیا Accused کریلا karbala بخدا bakhuda By God...refers to the verse 7:173 خدا کی قسم 173 شبیہ shabeeh شکل تصویر ، مانند Portrait, image, resemblance رنج و آفت کا مقام، بیابان عراق میں اس جگہ کا نام جہاں حضرت امام حسین نے شہادت پائی' وہ جگہ جہاں پانی نہ ملے خاک پا pa khak -e- پاؤں کے نیچے کی مٹی عاجز ، مسکین The image is that image which rises form the dust under your feet.28 The battlefield where Imam Hussain, the second son of Hazhrat Ali, was martyred mercilessly.It is a place near the bank of the Euphrates.No family members were allowed to take water.
وسط انوار mahbat-e-anwar نور کے اترنے کی جگہ Place manifestations where of God's light constantly descend.صداsada گونج، گنبد کی آواز آواز The same voice which is eternally raised time after time.اچی uchchi بلند اونچی High, tall, elevated عرش نشیں arsh nasheen ممتاز جگہ پر بیٹھنے والا Heavenly خاک بسر khak basar پریشان حال خراب و خسته in a miserable state آکاشی akashi ہوائے عیش و طرب hawa -e- aisho -o- tarab آسمانی آفاقی Heavenly خوشی اور چین کی خواہش lust for luxurious life جتن jatan دھرتی dharti کوشش، سعی، تدبیر، تجویز، علاج، محنت Ploy, manouevres, strategums, measures بیدار bedar ہوشیار چوکنا، جاگتا ہوا Awake.watchful ماتی mati سرشار مست متوالی Intoxicated زمین دنیا مٹی Earth پر جا parja رعایا ، محکوم مخلوق پر کاشی parkashi The earthly occupants who are illuminated with the light of God.ظاہر ہونا فاش ہونا روشن ہونا Manifest, shining متلاشی mutalashi تلاش کرنے والا جستجو کرنے والا Seeker اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا پنکھ پکھیرو pankh pakheru apne dais main apni basti....سندر sundar خوبصورت ، حسین Beautiful کتھائیں kathaain بیاں‘ مقولے قصے Tales من man دل، جی، ضمیر Conscience, heart, soul, spirit جنا janta گروہ بہت سے آدمی، مجمع بھیٹر People فیض رسان faiz rasan فائدہ پہنچانے والا Bountiful, gereous, beneficient بندہ پرور bandah parwar غلام کو پالنے والا بندہ نواز Cherisher of servants, patrons بازو پر بال Visitor on wings بستان bustan باغ Garden جاة جگہ مقام موقع Room, place, shop ڈنکا باجا danka baja نقارہ بجانے کی لکڑی، نقارہ شہرت Beat of a drum peetam معشوق نہایت پیارا Most beloved, sweet heart کنیا رکن ہی نیا) konhiyya سری کرشن جی ، خوبصورت لڑکا معشوق One who plays with a flute (name of Krishna) مرلی دھر murtee dhar کرشن جی کا لقب اکثر ہندوؤں کا نام ہوتا ہے One who plays the flute (name of Krishna) 29 29
شہنائی shahnai نفیری ایک ساز جسے منہ سے بجاتے ہیں Clarion bhajan وظیفہ خدا کی تعریف کا راگ A hymn وهوم dhum شورا غل شهرت Fame, pomp رت rut موسم کسان Season, weather بھگوان bhagwan خدا تعالی پر میشر ایشر God, supreme being لمن milan ملاقات ، میل جول Meeting of lovers درشن darshan دیدار نظاره To look at, interview گوتم بدھا gotam buddha بدھ مذہب کے بانی کا نام The name of the founder of Budhism آشا asha امید آرزو Desire, hope chakar نوکر خادم ملازم Servant کواڑ kiwar دروازه Doors ایٹر eeshar بھگوان، خدا God maya! خدا کی قدرت، رحم ، پیار، دولت رونق ، کرشمه Wealth روپا rupa چاندی Silver کلفت kulfat رنج، تکلیف Trouble, distress مندر mandir ہندوؤں کی عبادت گاہ A temple kirpā✓ درس daras نظارا درشن دیدار Seeing, showing, displaying بدهی buddhi دانائی، عقل، سمجھ ، فہم گیان Wisdom رشیں rishion خدا پرست سادھو Saintly people مظهر mazhar ظاہر ہونے کی جگہ تماشاگاہ Manifestation, spectacle مینی isa حضرت عیسی ابن مریم اللہ تعالیٰ کے نبی Jesus مہربانی عنایت Pity, mercy پاپی papi پاپ کرنے والا گنہگار، مجرم ظالم بد کار The sinful نارائن narain قدیم ہمیشہ رہنے والا خدا The supreme being کیری kiree چیونٹی Ant (The visit by the most supreme being, to the the most humblest of creatures.) رہا birha noor - e - nazar نور نظر.آنکھ کی روشنی Apple of the eye منظور نظر manzoor - e - nazar پسندیدہ مقبول A favourite ولدار dildar تسلی دینے والا معشوق Charming, beloved ہجر جدائی، فراق Separation حد نظر hadd -e- nazar دیکھنے کی حدود ، آنکھوں کی پہنچ e پریمی praimi محبت کرنے والا دوست Lover As far as one can see 30
کبھی اذن ہو تو عاشق دریار تک تو پہنچے kabhi izn ho to ashiq.ازن izn Permission روپ نگر rup nagar خوبصورتی کا مرکز Land of the beloved ر wasse ظاہر ہو The love of God dwells on their faces akhiyan اکھین آنکھیں Eyes mai 2 شراب Wine, spirit بیت peet محبت، عشق دوستی love دیدہ ور deedah war دانا ہوش مند One who has vision ہجر higr جدائی ، مفارقت علیحدگی Separation, absence دو بھر dubhar دشوار مشکل hard to bear اُس as امید خواهش، آرزو Desire muslih اصلاح کرنے والا درست کرنے والا Reformer سهاگن suhagan لہ عورت جس کا خاوند زندہ ہو در یار dare yar دروازه محبوب Threshold of one's beloved نگارش nigarish تحریر لکھا ہوا Plea, humble request نگار nigar تصویر بہت خوبصورت Beloved شراب ناب sharab'e'nab خالص شراب Grape liquer naseem پچھلی رات کی نرم و معطر ہوا ، صبح کی ٹھنڈی ہوا Let the breeze of my sigh reach the blossoming chah خواهش آرزو ، محبت ، مزہ ، ضرورت، مانگ Love حلاوت halawat مٹھاس لذت sweetness رگ خار rage'khar کانٹے کی رگ The lifeline of the thorn of flowers.(Let the sweetness of my love, reach the lifeline of the thorn.) A woman whose husband is alive ہستی hasti وجود‘ قیام‘ موجودگی Existence سوتے saute پانی نکلنے کی جگہ سر چشمہ Spring, fauntain اگر sagar سمندر Sea, ocean وا ہے گرد wahe guru ایک خدا One and only God بغض bughz نفرت ، عداوت، دشمنی will حصار hisar ill - will احاطه ، قلعہ گھیرا Fortification نفخ روح natkhe ruh روح کا پھونکنا life Breath of life دل زار dil-e-zar پریشان دل، تکلیف میں The lamenting heart 31
غراب ghurab کوا Crow شکستہ shikastah ٹوٹا ہوا خراب bird with broken wing) ندا nida آواز Call نوید naveed خوشخبری بشارت Glad tidings چاکر chakar نوکر، خادم، اہل کار Servant نقد جاں نقد دل naqde jan, naqde dil دل اور جان I will shower the treasures of my life but at least it should pass by my house.نچھاور nichhawar شار Offering, sacrifice دار dar گھر جگہ مقام House, place, country برقی پا barq pa تیز قدموں والا With the speed of lightening دلربا dil ruba دل لبھانے والا ، معشوق Steeler of hearts شجر خزاں رسیدہ shajar khizan raseedah درخت جس پر خزاں آئی ہو The tree which has not of another autumn.seen the desolation وصل wasl ملاقات معشوق سے لمنا Meeting between lovers قبل habi ری کوٹا دھاگا Rope, cord ana tl شعور ، خودی خودداری Ego بت نار but -e- nar آگ کا پتلا Idol shaped of fire جمیل jameel حسین ، خوبصورت Beautiful, elegant غبار نالہ ghubare nalah گرد رنج ملال Let my lamentation reach the dust نہ وہ تم بدلے نہ ہم طور ہمارے ہیں وہی na wuh tum badle na ham....عاقبت aqibat آخر انجام نتیجه Destination, fate, final outcome رہین مرگ raheen -e- marg مرنے والا Prisoner of death دا تا مراد حضرت داتا گنج بخش data دینے والا ہی The idolised saint Data Gang Baksh حمار himar Donkey, ass گدھا ، خبر احمق ss سوار خواهد آمد sawar khahad amad سوار آنا چاہتا ہے a rider is about to arrive طور taur حالت، طرز، قسم Habits قرب qurb پاس، نزدیکی، مرتبہ Close بزم جہاں bazm-e- jahan دنیا کی محفل The universe جھٹپٹوں ihutpaton صبیح یا شام کی سیاہی Twilight چوبارا chaubara کو ٹھا مکان کے اوپر کا وہ کمرہ جس کے چار دروازے ہوں یا مار کھڑکیاں ہوں A room on the housetop with four doors or windows, a summer house 32
بزم آرائی bazm arai محفل آراستہ کرنا To arrange a meeting شفق shafaq علاج تدبیر Remedy, cure چاره charah علاج تدبیر Cure, remedy, medicine سرخی جو طلوع آفتاب سے بیشتر صبح اور غروب آفتاب کے بعد شام کو نمودار ہوتی ہے Twilight گلشن gulshan باغ پھلواری Flower garden جھرنوں Jharnon پانی کی چادر آبشار Cascade, waterfalls madhur p آنگن angan گھر کے اندر کا صحن Courtyard قضا gaza حکم خدا فرمان الہی Destiny, decree, death گر گوہر gohar موتی جو ہر مادہ Pearl لب ساحل tab -e- sahil کنارا River bank شیریں بیٹھا ، سریلا Sweet, melodious مدہوش madhosh بد مست متوالا حیران Astonished, drunk, senseless نیلگوں nilgun نیلے رنگ کا ' آسمانی رنگ کا Azure رود rud ندی شهر، تالا Creek, stream گل پوش gul posh پھولوں کا لباس پہنے ہوئے Covered with flowers ٹاؤ nao Boat ثبات sabat قرار پائیداری Steadfastness, stability ٹھن kathan سخت دشوار Difficult, hard تری بقا کا سفر تھا قدم قدم اعجاز tiri baqa ka safar tha...mai شراب Wine, liquor بقا baga قیام، باقی رہنا، زندہ رہنا Eternity ساقی saqi اعجاز ijaz شراب یا حقہ پلانے والا A cup bearer, the beloved one معجزه Miracle رنجش ranjish غم آزردگی بگاڑ Grief, unpleasantness مداوا mudawa 33 fana موت ہلاکت Mortality, death دوش dosh کندھا نشانہ Shoulder
زیروبم zer -o- bam نچا اور اونچا سر طبلے یا نقارے کا دایاں بایاں رخ شمانت shamatat کسی کے نقصان پر خوش ہو تا خندہ زنی Ebb and tide کرشمه Karishmah کرامت Wonder, miracle Rejoicing over an enemy's misery or misfortune اعداء ada دشمن، مخالف Enemies paiham (☑ لگا تار متواتر پے در پے Incessently, repeatedly نحیف naheef دبلا پتلا، کمزور لاغر ، ناتواں، ضعیف Weak مرتم.murtasam نشان کیا گیا، مہر لگایا گیا To be etched on nam گیلاپن، رطوبت Moist غنا ghana تو نگری دولت مندی indifferent / independant عرفان fan : شناخت اللہ تعالٰی کی معرفت خداشناسی ستم sitam ظلم، زیادتی، غضب، قباحت Tyranny, outrage, injustice سم samm زہر Poison baham اکٹھے (ایک دوسرے کے ساتھ ) باہم کا مخفف Together استغفار istighfar بخشش چاہنا ، تو یہ کرنا begging for forgiveness نوا nawa آواز صدا راگ نغمه Call, sound, voice ملکوتی malakuti فرشتوں کے متعلق فرشتوں جیسی Angelic knowing the underlying بندگی bandagi عبادت بجز Humility, worship جو دو عطا jud - o - ata انعام ، بخشش ، سخاوت Generosity, charity بچشم نم bachashm- e - nam آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ With tearful eyes تم کرنا kham karna جھکانا موڑنا ، گھمانا To bend, to twist ضبط zabt نگهبانی ، حفاظت Self sorrow control, control of one's sorrow, suppress امر amr حکم فرمان Command امر amar نہ مرنے والا لازوال Eternali mmortal, imperishable علام adam نہ ہوتا ، نیستی غیر حاضری ، نقصان Non-existence احیائے نو ihya-e-nau دوبارہ زندہ کرنا Revival of the dead 34
وسیلہ wasilah ہے حسن میں ضو غم کے شراروں کے سہارے ذریعہ واسطہ سمارا Who intercedes, intercessor, link between the two he husn main zau gham.....ضو zau روشنی چمک Light شرارے sharare چنگاری Sparks of fire معلق mu'allaq لٹکا ہوا ، آویزاں Suspended, hanging لرزان farzan ་ لرزنے والا ملنے والا Trembling, fearing سرگور sar -e- gor قبر کے کنارے By the graveside هزار mazar زیارت کرنے کی جگہ A tomb امنگیں umangain جوش ولولے شوق Longing, excessive desire دم توڑنا dam torna نزع کی حالت میں ہوتا' سانس اکھڑنا To breathe one's last اشک ashk آنووا A tear, tears دھارا dhara چشمہ سوتا Stream, current نگهدار nigahdar نگهبان پاسبان محافظ Guardian, keeper راس آنا ras ana موافق آنا ٹھیک ہوتا To agree with ولات dilase تلی، تشفی، تسکین نگار nigar encouragement, consolers, Comfort, commisorators ناداری nadari مفلسی، تنگی Poverty بخشش bakhshish معانی در گزر Forgiveness بے چارگی be chargi بے بسی ، مجبوری Helplessness نگهبان nigahban چوکیدار محافظ Guard, keeper, watchman دلاری dulare پیارے لاڈلے ، عزیز Dear, darling, beloved ناؤ nao کشتی Boat کھویا khiwayya ملاح کشتی چلانے والا A boatsman, a sailor تصویر بہت خوبصورت زیبائش painting, picture دست تهی tihi dast - e - خالی ہاتھ The empty hand یہ پراسرار دھندلکوں میں سمویا ہوا غم ye pur asrar dhundalkon.مهم mubham مشکوک گول مول بات غیر واضح Undifinable الم alam رنج ، غم ، دکھ Grief ze j (از کا مخفف) سے with راه گزار rahguzar راه گزر راسته Path 35
مہمان سرا mihman sra مہمانوں کے ٹھرنے کی جگہ Roadside inn حزن huzn رنج لمال ، غم Grief, sorrow زیارت که ziyaratgah زیارت گاہ.ایسی جگہ یا شخص جس کی زیارت کی جائے A place of pilgrimage صد قافلہ ہائے sad qatilah hae سو قافلے مراد ان گنت قافلے Hundreds of caravans جوگن jogan mohsin احسان کرنے والا A benefactor, generous قق qashgah تلک‘ ٹیکا جو ہندو ماتھے پر لگاتے ہیں Mark on forehead indicating a Hindu sect عمامه imamah پگڑی، دستار A turban صليب saleeb وہ لکڑی جس پر رومی عیسائیوں کو لٹکاتے تھے A cross عرفان irfan جوگی کی مونٹ جو گی وہ مرد جس نے دنیا ترک کر کے فقیری شناخت Profound understanding, insight اختیار کرلی ہو Female ascetic آزار azar بیمار کی تکلیف Pain and sorrow personified راہب rahib زاہد یا عابد دنیا چھوڑ دینے والا Hermit chiragh 'charagh 'z دیا ، شمع A lamp, a light سراغ suragh کھوج پتہ نشان Search tracks sastānā t To repose a آرام کرنا little اوٹ ot رسوائی ruswai بد نامی ذلت Disgrace, dishonour ماوا mudawa علاج چاره تدبیر Cure وابسته wabastah بندھا ہوا، متعلق Bound, attached malja وہ مقام جہاں پناہ لے Place of refuge اور باوا mawa جائے پناہ گھر، ٹھکانہ Refuge بہار آئی ہے دل وقف یا ر کر دیکھو روک ، پرده نقاب تیرگی tirgi From behind a cover تاریخی Darkness, obscurity پاس yas مایوی Despair ر sahar صبح فجر 2 Mornin ناله شب nala -e- Shab رات کے وقت رونا Lamentation of night شرف sharat بزرگی برتری عزت Mark of honour bahār a'i he dil waqfe yar جاءا ja al masih المسيح h مسیح آگیا The Promised Masiah has come وقف یار waqt -e- yar صرف خدا تعالیٰ کے لئے Dedicated to God خرو khirad Wisdom, intelligence Nazr پیش کرتا An offering 36
جنون junun دیوانگی، پاگل پن ، دھن یہاں مراد ہے جو بن ، نکھار Full bloom, Madness, insanity غضب ghazab شدید غصہ Violence, oppression, anger ہم کنار ham kinar گلے لگاتا Embrace تعصبات ta as subat مذہبی جانبداری Prejudice, religious persecution برچھی barchi چھوٹا بھالا، بلم، نیزہ A small spear نحوست nuhusat بچار bichar سوچ - غور - فکر Consideration, thinking ظهور zuhoor ظاہر ہونا Appearance فراسه است firasat دانائی - تیز نمی Preception, understanding لا جرم la - jaram بے شک - یقیناً" Undoutedly عقیدت aqeedat اعتقاد ندہی اصول پر بھروسا Faith, firm blief, a creed نظام nizam سلسلہ ترتیب انتظام Order, arrangement, system منحوس ہوتا ، بد نصیبی Bad presage, omitune, evil, misfortune نس Shams گندر bhagandar ایک قسم کا پھوڑا Fistula in rectum, a boil in or close to anus.سورج آفتاب گردش gardish The sun پیر تسمہ پا peer -e- tasma pa پیچھا.ا نہ چھوڑتا.To stick, to cling, to dog, to be pasted منار بیضا manar -e- baiza روشن سفید مینار White minarret جائے ادب ja-e-adab ادب کی جگہ Place of respect or courtesy آنگن angan صحن Courtyard مانده ma'idah کھانا نعمت Food الله lillah اللہ کے لیے For God sake, in the name of God بوس و کنار bus -o- Kinar چومنا، گلے لگانا Kissing, embracing Revolution, circulation لیل lail رات شب Night نهار nahar روز دن Day خرام khiram چال Stately gait, walk حساب چرخ hisab -e- charkh آسمان کا حساب نظام شمسی Calender of solar system بے اعتبار be - i'tebar جس پر اعتبار نہ ہو نا قابل اعتبار Untrustworthy, Unreliable چاره charah علاج تدبیر Remedy, cure پیارے peyade ہیں آسمان کے تارے گواہ سورج چاند پیدل چلنے والے فوجی Infantry hain asman ke tare gavah.....ماند پڑنا mand narna مدھم ہو جاتا.ر Aclipsed, faded, dull, fain 37 چڑھ دوڑنا charh daurna حملہ کرتا To attack pa'e واسطے وسیلہ ہے.For
کارزار carzar لڑائی، جنگ Combat, battle, war اٹل atal نده ٹکتے والا Firm inevitable غل غپاڑا ghul ghaparā بیحد شور و غونا حد سے زیادہ چیخ و پکار Disturbance, brawl, shouts تو خوں میں نہائے ہوئے ٹیلوں کا وطن ہے Too khoon main nahas hue.....بوسنیا ہرزگو دنیا.Bosnia Herzegovina is a sovereign state which came into existence in 1992 after the collapse of Soviet Union.Yugoslavia, which was a communist country (outside the Soviet Union) broke up into three parts Serbia, Croatia and Bosnia Herzegovina - along ethnic lines.Bosnia has а mix of the three races with Muslims in majority.To lement, to beat the breast in sorrow چھاتیاں، پیٹنا chatian poetna ماتم کرنا كسوف Kusuf سورج گرہن Solar eclips بھڑاس نکلنا bhras nikalna جی کا بخار نکلنا (غبار کینہ عداوت) To vent one's rage or spleen نفس qafas پنجرا جال پھندا A cage دو دو ہاتھ کرنا do do hath karna لڑائی کرنا ، آزمائش کے لئے تھوڑی سی لڑائی کرنا To be at war, to make a querrel babar سوق sinafaq شام کی سرخ روشنی Twilight in the evening خوں بار Khun bar خون بہاتا Shedding blood جھرنا gharna چشمه آبشار A spring, a water fall نوخیز nau khez نوجوان Newly risen, youngsters قتیل qateel قتل کیا گیا Killed, murdered مقتل maqtal بڑا شیر جس کی گردن پر بال ہوتے ہیں A lion بن ban جنگل بیابان صحرا A forest, jungle, a wood آنکھیں چار کرنا ankhain char karna رو برو ہونا To come face to face عجز iiz کمزوری، شکست ، مسکینی Humility, submission اختیار ikhtiyar پسند کرنا قبول کرنا Adopt, choose قتل کرنے کی جگہ A place of slaughter or of execution دم dam خون Blood يا pa پاؤں Foot بسته bastah بندھا ہوا Tied, bound, helpless میاد sayyad شکاری Hunter دختر dukhtar بیٹی Daughter عرش نشیں arsh nasheen ممتاز جگہ پر بیٹھنے والا Heavenly 38
رولنا rolna پھٹکنا، چھانتا 1 برنا To roll, to pick up دفینه dafeenah خزانه Hidden treasure آنگن angan صحن Courtyard گلرنگ gulrang پھولوں کے رنگ والا Red, rosy رقم raqam تحریر خط To write, to note سطوت satwat دید به رعب Power, authority تنویر tanwir روشنی نور چمک Enlightenment سینه شمشیر seena -e- shamsheer تلوار کا پھل Blade at sword حامی hami از A protector, a supporter حمایت کرنے والا مددگار - بلا لیا Called back ین سٹی pan sutti توڑ پھینکی.Broke loose عرشاں تائیں arshan taeen عرش تک آسمانوں تک Upto the heavens لائی تاری rai tari Jumped مار اڈاری mar udari اڑنا.اڑان Flew, moved very fast kalle اکیلے All alone عمر ہنڈائی Umar handaee عمر گزاری Throughout the life سیوک sevak خادم Servant پائی Pa'i Brother friendly الحار ilhad سیدھے راستے سے ہٹ جاتا Atheism, Apostasy آؤ مجنو مل ہیے.......نت nit ہمیشہ Always kam Works, deeds بیندای banda see Used to sit thal le ao sajno mil ba'iay مجنون sajnon ساتھیو.دوستو Friends, companions مگر ان لب mil bai ay Let us sit together ٹردے turday On the way, while travelling dane muk gaey وانے تک گئے زندگی کے دن گنے گئے.یا دنیا سے اسکا رزق اٹھ گیا.وفات پا گیا.Expression meaning days that were numbered صد ماری sad mari تھے نیچے Down چھاتی ڈائی chati dai تابعداری کی فرمانبرداری کی To charge head on پاپڑ دیئے papar welay بہت مشکلات برداشت کیں Toiled, laboured جھمیلے jhameele مشکلات Hazards جھلے ihalle برداشت کئے Faced Toterated 39
ایم ٹی اے M.T.A M.T.Mulsim Television Ahmadiyya کھرو ghabroo جوانی Youth چار چفیرے char chaterey چاروں طرف All around پویا pooya پیدل چلا Walked, on foot منڈے کڑیاں munre kuryan Boys & girls چونویس چونویں chonvain chonvain چنیده - منتخب Selected رے walle Collected, brought together کوڑے Koore جھوٹے False لا الہ الا اللہ La ilaha il lal lah اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں There is no God but Allah اللهم صلى Alla humma Salle Blessings upon the Holy Prophet مرے درد کی جو دوا کرے.کوئی ایسا شخص ہوا کرے merey dard ke jo dawa karey..آہ و بکا ano buka روها ناله و فریاد کرتا Groan, cry قرار grar آرام سکون Rest Tranquillity قصص qesas اقصہ کی جمع) کہانیاں، داستانیں Fiction, narration, stories ماڑے موٹے mare mote Simple, unexppensive worthless, ordinary ٹے talle کپڑے Clothes بارون baron اوپر اوپر سے Apparently وڑوٹ رکھی dar vat rakh khi خاموش رہے Kept quite لکھ نہ پلے kakh na hove palle نہ ہووے کچھ بھی پاس نہ ہوتا..Divested of every thing نبهاون nebhawan نیا ہنا نبھاتا To be constant in relation.To be faithful فراق teraq بدائی Separation موندنا mundna بند کرنا ڈھانپنا Shut, close cover نزول nuzul اترنا Decent جنون junun دیوانگی، دهن، سودا Madness.have a zeal قضا gaza حکم، حکم خدا فرمان الہی Divine decree rafeeq 3 دسان dassan بتاؤں To Express.To tell تیتھوں tethon تم سے From you ← 40 ساتھی، دوست Friend خلوت khalwat تنہائی، علیحدگی، گوشہ نشینی Privacy
اک برگد کی چھاؤں کے نیچے ik bargad ki chãoṇ ke neeche مدعا mudda'a Objective, goal حاجات hajat ضرورتیں Needs مُقْطَرب muztarib بے چین، بے قرار Agitated, Uneasy خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لئے آسوده asoodah مطمئن، خوشحال Contented, Satisfied نبال nehal خوش مطمئن مسرور Happy, Prosperous ملول malool اُداس رنجیده، غمگین Dejected, depress khasta خراب بدحال، مفلس In a miserable state سوچا بھی کبھی تم نے کہ کیا بھید ہے ملاں Khuda kre ke mire ik bhee ham watan ke lie socha bhi kabhi tum ne ke kia bhaid he mullan وبال wabal بوجھ، عذاب، آفت، مصیبت Clamity رگیدنا ragaidna پیچھا کرنا ، تعاقب کرنا To pursue, To chase پائمال pa-e-mal (پائے مال) پامال.با مال روندا ہوا، کچلا ہوا Ruined, tampered ص رعنا gule ra'na سرخ و زرد پھول، محبوب A beautiful delicate rose اند مال indemal زخم بھرنا Healing of a wound اوج auj اونچائی، بلندی، شان Highest, summit غازی گفتار و قیل و قال ( غازی اے گفتار و قیلو قال) ghāzi-e-guftāro qeeloqāl بلاريب bela reib بیشک، بے شبہ، قطعی درست ست No doubt عیاری ayyari' فریب، دندا، دھو که بازی Craftiness, cunningness جلادی jalladi سخت ظلم، سنگدلی، بے رحمی Cruelty, butchery سفاکی saffaki بے رتی، ستمگری، ظلم، خوں ریز کی Mercilessness اوصاف حمیده ausaf-e-hameedah وصف کی جمع خوبیاں Praiseworthy qualities جھوٹو تم نے ٹھیک الزام دھرا ہوگا ghooto tum ne theek ilzām dharā hoga غازی.لڑنے والا ، گفتار - گفتگو، قیل و قال - جھگڑا فضول بحث بک بک جھک جھک bak bak ghak ghak Champion of vain talk ثبت sabt نقش، تحریر An impression 41 بکواس کرنا Babble gabble عدالت adalat A court of justice
رضائے باری raza-e-bari اللہ تعالی کی خوشنودی Pleasure of Allah توحید کے پر چارک مرے مرشد کا نام محمد ہے سامنے مجلس میں Presence, Presence of a superior authority آه بگاه ah-o-buka , رونا، فریاد کرنا Wailing فغاں fughan tauheed ke parchārak mere murshid ka nām Mohammad he پر چارک parcharak مبلغ، پر چار کرنے والا Preacher مرشد murshid ہدایت دینے والا ، پیشوا، رہنما، پیر Spiritual guide جینا japna Cry of pain or distress طیور tuyoor طائر کی جمع ، پرندے Birds تاب دید tabe deed دیکھنے کی طاقت Endurance of sight تجلی tajalli ظاہر ہونا Manifestation بار بار ایک ہی نام لینا، خاموشی سے ذکر الہی کرنا ، پوجا کرنا To repeat the طور toor اوراک idrak name of God سمجھ بوجھ ، عقل، فہم، رسائی Perception, Comprehension ھینا kheina کشتی چلانا To row دن آج کب ڈھلے گا کب ہوگا ظہو ر شب din aj kab dhalay ga kab hoga zuhoor-e-shab ظہور zuhoor ظاہر ہوتا To appear, To become visible گر یہاں greiban کوہ سینا، وہ پہاڑ جہاں حضرت موسی پر اللہ تعالیٰ کی تجلتی ہوئی Mount Sinai امشب imshab آج کی رات Tonight ناصبور na suboor بے صبر، کم حوصلہ Devoid of patience, impatient, restless لیلائے شب laela-e-shab اندھیری رات Night of darkness سیماب seemab بے قرار Mercurial زیب تن zeib-e-tan پہننا To adorn one's body لباس کا وہ حصہ جو گلے کے نیچے رہتا ہے The opening or breast کواکب kawakeb چاک گریباں chake greiban گریباں کا کھلا حصہ Slit of a garment حضور huzoor of a garment کوکب کی جمع، ستارے Stars طهور tahoor انتہائی پاک، پاک کرنے والا Pure, Purifying 42
ناگاه nagah یکدم اچانک All of a sudden کوزه koozah آتش فشاں پہاڑ Volcano سنیاسن sanyasan مند و فقیر عورت جس نے دنیا چھوڑ دی ہو دوہا doha مٹی کا برتن A small earthen pot for water, Pitcher, gablet ر نجوم tahi-nujoom ستاروں کے نیچے یعنی رات کے وقت Under the stars, at night صور پھونکنا soor phoonkna اعلان کرنا To blow a horn سُرور suroor با کامل کا نشہ خمار Slight intoxication, pleasure Hindu ascetic woman A religious mendicant دو مصرعوں کا ہندی شعر A Hindi couplet سنسار sansar جہان، دنیا، عالم World, The universe, The mankind ریت reet ریم Custom, fashion, manners, habit پربت parbat پہاڑ Mountain کٹنا پا kutnapa روٹھ کے پانی ساگر سے جب بادل بن اُڑ جائے rooth ke pani sāgar se jab badal ban ur jāe چاپلوسی، مداهنت Cunning Weather, time, season, state samay وقته، مدت، موسم، رت تان اُڑانا tan urana گانوں میں سُروں کو خوبصورت انداز سے ادا کرنا..To strike up a tune تم نے بھی مجھ سے تعلق کوئی رکھا ہوتا To sing tum ne bhee mujh say ta'alluq ko'i rakhā hotā ساگر sagar سمندر Ocean Sea بدلیس badais ولیس سے باہر Abroad, foreignland Someone expected back home but seeming to be settled elsewhere.مردے hird ey دل، قلب، ضمیر Heart neer آنسو Tears پر ہا Birha ، جدائی، فراق Seperation اگنی agni آگ Fire جوال لکھی jawalamukhi شوریده shoridah محبت میں دیوانہ Desperately in love خونابه khoon-nabah خون کے آنسو Tears of blood سیلاب بلا sailab-e-bala مصائب کا ریلا Flood of calamities عارض ariz The cheek E 43
کیتی geeti جہان، دنیا، عالم زمانہ The earth آفاق afaq افلاک آسمان Horizons بے سود be sood بے فائدہ Unprofitable, Useless لیا malja وہ مقام جہاں پناہ ملے Place to refuge ماوی mawa جائے پناہ، گھر ٹھکانہ Resort, refuge, shelter مداوا mudawa علاج چاره، تدبیر Cure, remedy اذن نغمہ مجھے تو دے تو میں کیوں نہ گاؤں بے ترتیبی ack of harmony کلیل tahleel گھل جانا Dissolve افلاک aflak آسمان The heavens نیلگوں neelgoon نیلے رنگ کا ، آسمانی رنگ کا Azure or blue coloured موج طرب moujetarab خوشی کی لہر A wave of pleasure محراب mehrab قوس کی شکل میں یا خمدار Dome of prayer.Curvature of feet معبد mabad عبادتگاه Place of worship منصورہ لے کر آئی ہے Mansoora ley karai he ہول houl izne naghma mujhe too de to main kioon na gā oon کون و مکاں kaunomakan عالم موجودات، دنیا، جهان The universe بننا bun-na سلائیوں کی مدد سے اُون سے سویٹر وغیرہ بنانا، معنوی طور پر کوئی گیت بنانا کثافت kasafat To spin a song غلاظت بوجھ، گندگی Impurity, filth جمود jamood ٹھہراؤ Staleness بے رنگی berabtgi ڈر، خوف، اندیشہ، گھبراہٹ Horror, fear, fright لم ڈھینگی lam dheengi قدآور Long legged ہارٹلے پول میں کل ایک کنول ڈوب گیا Hartleypool main ka! aik kanwal doob gia نجیب najeeb شریف بزرگ Person of ncble birth, gentte, honourable 44
گردیده garweedah لداده، فریفتہ Captivated یوباس boobas خوشبو Smell, fragrance جگراتا jagrata جاگتے ہوئے رات گزارنا Sleepless night اے عظیم انڈونیشیا ae azim Indonesia مدام mudam ہمیشہ Ever, always غلام خیر الانبیاء ghulame khairul ambiya رسول الله علل کا غلام The servent of the Best Prophet of Allah نقیب naqueeb تشہیر کرنے والا A proclaimer صلح و آشتی sulhoashti امن Peace & Harmony رودبار roodbar چشم ہائے تر chashmha-e-tar ندی، نالہ نہر Creek, stream, gulf, strait area بھیگی ہوئی آنکھیں Eyes full of tears بہرہ ور bahrawar فائدہ اٹھانے والا، خوش قسمت Prosperous, fortunate نرگس nargis پھول کا نام جسے شعراء آنکھ سے تشبیہ دیتے ہیں Narcissus تصال khisal عادتیں Habits, Ostentation بے ریا beriya وہ روز آتا ہے گھر پر ہمارے ٹی وی پر wo roz ata he ghar par hamare T.V.par پیشوائی کرنا peishwa-i-karna استقبال کرنا ، خوش آمدید کہنا Going out to receive, To welcome بلیوں اچھلنا ballion ochalna دل بہت دھڑکنا Leeping high, high leap قالب qalib دکھاوے کے بغیر Without any show or formality سانچہ Frame, A mould, A model تسلط tasal lut حکومت، غلبه، قابو Domination, Command سرمدی sarmadi ہمیشہ رہنے والا Eternal, Everlasting قبور quboor قبر کی جمع Graves ربل dabal خوب، زیادہ (Excessive (Punjabi expression گوٹھ gouth گاؤں دیہہ (A village (Sindhi expression تھل thal پاکستان کا ایک صحرائی علاقہ A desert area in Pakistan 45
khal بے نشاں be nishan بے نام و نشان Without name چین جبیں cheene jabeen کھڑے ہو کر Khal means standing according to the usage of Thal پیشانی کے بل Frown اہل جہاں ehle jahan دنیا والے People of the world تیرے لیے ہے آنکھ کوئی اشکبار دیکھ Tere liye he ankh ko‘i ashkbār daikh بدگماں bad guman بے اعتبار شک کرتا Suspicious, mistrustful اشکبار ashkbar سوز دروں soz - e - drun دل کی جلن Hidden fire آنسو برسانے والا ، رونے والا.Weeping.Shedding tears زار ونزار zaro nezar کمزور weak بزم طرب bazm-e- tarab خوشی کی محفل A joyful assembly تبسم کناں tabassum kanan نوائے جگر خراش nawa'e jigar Kharash مسکراتے ہوئے Smiling جگر کاٹ دینے والی آواز، انتہائی دکھ بھری آواز A heart rending voice barbat b مقاصد maqasid مقصد کی جمع Objects, aims ایں و آں an een - o ایک قسم کا ساز A kind of harp وعدة ضبط الم wa'dah-e zabte alam غم برداشت کرنے کا وعدہ Assurance to control anguish, severe misrey.بنده bande shakaib Tie of endurance.Bounds of endurance لالہ زار lalah zar یہ اور وہ This and that ضعف Zut کمزوری Weakness.feebleness شادماں shadman خوش Happy پاسباں pasban محافظ Guard, watchman سرخ پھولوں والا باغ A bed of tulips نا مرادی na muradi مایوسی ناکامی Frustration, disappointment لوح جہاں پہ حرف نمایاں نہ بن سکے جاں بلب jan balab lohe jahan pe harfe.....لوح جہاں loh -e- jahan سطح زمین پر Face of the earth مرنے کے قریب ting, at the point of death آتش بجان atish bajan جس کے بدن میں آگ لگی ہو The soul is aflame 46
حسن صنعت rusne sanat ہیں اشک کیوں تمہارے انہیں روک لو..کاریگری Creative skills bahain ashk kiyon....دل شکستگی dil shikastagi ٹوٹ پھوٹ At the breaking of my heart, the scenario is like a boat capsising the only hope معجزة mujizah وہ کام جو انسانی طاقت سے باہر ہو A miracle نرگس چشم nargis -e- chashm رگس کے پھول کی طرح حسین آنکھیں Beautiful eyes like narcissus flower غرق gharq which I cherished, deserted me.ڈوبا ہوا Drown, sink کنارہ کرنا kinara karna نیم باز neem baz آدمی کھلی Half open, intoxicated برگ barg Headed for the shore شمع رخ shamal rukh چہرہ کی چمک radiant face, the reflection of the lamp یر تو partau عکس Reflection یارا yara طاقت ہمت Strength, courage, power کبھی اپنا بھی اک شناسا تھا of the beauty kabhi apna bhee ik.....اسرا asra سارا Support مطلوب Matlūb طلب کیا گیا، محبوب The desired one, beloved سراپا sarapa سرسے پاؤں تک Personification جمال jamal خوبصورتی، حسن Beauty سرتا پا sar ta pa سر سے پاؤں تک From head to foot, totally پتہ Leaf دہن dahan امنه Mouth ادیان کا مخفف).نیم وا neem wa آدھی کھلی Half open تابنده tabindah روشن Bright, luminous takallum بات کرنا ، گفتگو Conversation خوش ادا khush ada خوبصورت انداز Graceful, charming بے ریا be riya سیدھا، صاف، بے تکلف Withont austentation کرشمه Karishmah انوکھی بات کرامات A miracle فسوں fusun افسوں، جادو Fascination پراسرار purasrar سر بھید، پوشیدہ باتیں Mysterious مجسمه mujassamah Personification ☑ سرود surud نغمه راگ A melody 47
غزل سرا ghazal sara ترنم سے غزل پڑھنے والا Singer of an ode ائم dalim ہمیشہ سدا Perpetual, permanent فراق firaq جدائی Separation وصل wasl Meeting, union سردی sarmadi دا گی Eternal نغمه سرا naghmah sara گیت سنانے والا One who sings a melody طائفہ ta'ifah گروه Troupe کنگال kangal مفلس، محتاج Penniless ایا asasah جمع کیا ہوا سرمایہ Wealth واہمہ wahimah وہ طاقت جس سے ایسی باریکیاں معلوم ہوتی ہیں جن کا تعلق محسوسات ہے ہے.Illusion, fancy, imagination ہوتی hayala میرے بھائی آپ کی ہیں سخت چنچل سالیاں Mearye Bhai ap ki haen sakht......chanchal شوخ کھلنڈری playful, naughty فعلہ جوالہ shu'lah-ejawwalah گردا گرد پھرنے والا شعلہ مراد ہے شوخ ، بے قرار An encircling flame, mischievous پرکاله parkalah چنگاری A spark برگد bargad بڑ کا درخت، اس درخت کے ریشے شاخوں سے لٹک کر زمین تک پہنچتے ہیں.A banyan tree ڈالیاں dalian ٹہنیاں.شاخیں.Branches منتظر میں ترے آنے کا رہا ہوں برسوں muntazir main tere āne ka rhā hoon barsoon Aetherial image, outline وم ولا سا dam dilasa بلاوا Consolation دیده deedah eye Fi The eye nārasā t نہ پہنچ سکنے والا Unfulfilled love ma'e 2 شراب Wine فُرقت furqat ہجر، جدائی Seperation زبوں حال zaboon hal برا حال خراب حال hi ser able condition, pitiable گلفت kulfat رنج، تکلیف Affliction, trouble, distress محجوب mahjoob حجاب میں، پوشیدہ، مخفی Bashful, modest, veiled 48
أطوار نظر atwar-e-nazar دیکھنے کے طریق، طرز، ڈھنگ Manners of looking at بام و در bam o dar چھت اور دروازے یعنی رہائش گا ہیں Roof, terrace, balcony and doors mean residences ہم وثم hamogham دکھ، تکلیف تم Anxiety, Grief, sadness, worry and grief اک پیسہ پیسہ جوڑ کر بھائیوں نے شوق سے Ik pesa pesa jorr kar….......بدھو buddhoo بے وقوف A fool, devoid of sense thitharnā کپکپانا ، سردی سے لرزنا زیست zeest زندگی، عمر Life, Existence مرقد margad قبر Grave, Tomb ہیں لوگ وہ بھی چاہتے ہیں دولت جہاں ملے Hain log wo bhi chahtey hain......بت کدے butkade مندر Idol temples درس وحدت خدا darse wahdate khuda خدا تعالی کے ایک ہونے کا سبق A lesson of oneness of God خوشا نصیب khushanaseeb خوشا، خوشی کا کلمہ ہے.بہت خوب قسمت ، خوش قسمت How fortunate.Extremely fortunate To shiver.To be numb.to be chilled کمند karmand رسی کی سیڑھی، پھندا A rope ledder for scaling dahan امیر کارواں ameere karwan سالار قافلہ The leader of the caravan عمر جاوداں umre jawedan ہمیشہ کی زندگی Eternal life طفل tifl بچہ An infant.A child منه mouth بت کده butkadah مندر An idol temple peer بوڑھا ، عمر رسیدہ An old man یہ دو آنکھیں ہیں شعلہ زا یا جلتے ہیں پروانے دو اف یہ تنہائی تری الفت کے مٹ جانے کے بعد ye do ankhain hain shola za ya jalte hain parwāne do شعله زا sholah za جلتی ہوئی Blazing, flashing 49 uf yeh tanhai teree ulfat ke.....اف أن آه او ہو درد یا رنج کے اظہار کیلئے کہا جاتا ہے O, woe (a sad sigh)
تنائی tanhai اکیلا پن Lonliness الفت ulfat محبت چاہت Love, friendship فرقت furqat جدائی، فراق، دوری The days of parting.A separation گر بتانا umr bitana عمر گزارنا Span of life, spending time t ہوش hosh حواس میں آنا To come to one's senses عقده ugdah گره معما پیچیده بات A question unsolved, entanglement A riddle, سودائی saudai دیوانہ پاگل Melancholic, crazy, mad پرده دار pardah dar حجاب، شرم رکھنا Covers of coyness معصوم ma'soom ور Modest.Simple.Pure.Innocent بے گناہ بے قصور رسوائی ruswai بدنامی بے عزتی Blame, dishonour; M reputation, disgrace وائے walay کلمه افسوس جو اظهار مصیبت یا رنج و الم کے موقع پر زبان پر آتا ہے Oh (an expression of torment) Atas, Woe پیری peeri پڑھایا old age پشیمانی pashemani شرمندگی ندامت افسوس Regret, Repentance جنون junoon دیوانگی Craze, madnese 50 شرمنده sharmindah شرم سار، ناوم Ashamed آئینه a'eenah A looking glass, mirror