Language: UR
اپریل 1964ء میں ضیاء الاسلام پریس ربوہ سے یہ کتاب شعبہ اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ مقامی ربوہ پاکستان نے طبع کروائی ہے جو مولانا موصوف کی جلسہ سالانہ 1963ء کی تقریر کا متن ہے جس میں جماعت اسلامی کے بانی مولوی مودودی کے ذاتی خاندانی کوائف، ولادت، ابتدائی حالات، قلمی خدمات، ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کی تصنیف، مجلس تحریک قرآن مجید سے تعلقات، ادارہ ’’دارالاسلام‘‘ کا قیام، وغیرہ کا ذکرکرکے جماعت اسلامی کے ماضی اور حالات کا تفصیلی فوٹو پیش کیا گیا ہے اور اس جماعت سے منسلک احباب کے کارہائے نمایاں اور جہادی سرگرمیوں کا تفصیلی پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے۔
كالعَدَم 2 جماعت اسلامی سند کا ماضی اور حال سے تقریب مولوی دورت و محمد صاحب ہد ۲۷ ؍ دسمبر ۶۱۹۶۳ شعبہ اشاعت مجله حقدام الاحمدیہ مقامی ربوه
جماعت اسلامی کا منی او مال س الناشر.شعر انشاء کی مجلب قدام الاحمدیہ مقامی ریوة
(الف) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ے رسوله الكونيم پیش لفظ را ز قلم حضرت صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب مدل های توری مرکزی) فی زمانہ اسلام سے سچی ہمدردی رکھنے والوں کے لئے ایک نہیں ملکہ دو غم ہیں.ایک تو یہ کہ دینِ حق کی ہمدردی رکھنے والے اور اکس کی حفاظت کے لئے قربانی کرنے والے بہت کم لوگ ہیں.اور دوسرے یہ کہ وہ لوگ جو اسلام کی حفاظت کا دم بھرتے ہیں وہ خود اس کی تاریخ عزیز پر ڈاکہ ڈالتے ہیں.اور اسلام کو اپنی نفسانی اغراض کی خاطر ایسی شکل میں پیش کرتے ہیں جو اپنوں اور غیردی کو اسلام سے متنفر کرنے والی ہے.اسلام کے حقیقی دشمن یہی لوگ ہیں.جن کے متعلق خدا تعا کی
فرماتا ہے.هُمُ الـ فاحْذَر هم که یہی اصل دشمن ہیں.ان سے ہوشیار رہنا چاہیئے.اور ان ہی لوگوں کو چوب خشک قرار دیا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے.كَانَّهُمْ خَشْبَ مَسَنَدَة - يعنى بعض لوگ اسلام کی محبت کے اور آنحضور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کے بڑے بڑ دعا دی کہتے ہیں دیکھنے میں بڑے باوقار معلوم ہوتے ہیں اور یا تیں بھی بظاہر بڑی اچھی کرتے ہیں.جو جاذب توجہ ہوتی ہیں.مسترد کر دیا نیت سے بے بہرہ ہوتے ہیں.ان کی مثال اس چوب خشک کی ہے جسے سہارا دے کر کھڑا کر دیا جائے.جس طرح نکرهای درخت نہیں بن جاتی.اور شیریں اور نفع مند میوے نہیں اُگائی اور اس کے سایہ میں تھکے ہارے پناہ نہیں لے سکتے.اسی طرح ان اسلام کے بزعم خود ٹھیکہ داروں کا بھی حال ہے.کہ روحانیت سے عاری ہوتے ہیں.کوئی روحانی اور اخلاقی فیض کسی کو نہیں پہنچا سکتے.انسانی ہمدردی اور خدا اور رسول کی سچی محبت اور اخلاص سے ان کے دل خالی ہوتے ہیں.ایمان کے شیری تمہار یعنی تعلّق بالله - دعاؤں کی قبولیت - نصرت الهی خدا تعالی کی معیت اور نیمن رسانی جو خدا کے اولیاء کی نشانی ہوتی ہے.اسلامی حکومت کے ان متدینین میں پائی نہیں جاتی.جو اس بات کا ثبوت
(ع) ہوتی ہے کہ یہ لوگ خدا اور اس کے رسولی کا نام لے کر اپنے بھرنا چاہتے ہیں.اور اسلامی حکومت کے تیرے لگا کر خود حکومت کرنا چاہتے ہیں.اگر ان کے مد نظر خدا کی حکومت ہوتی تو اللہ والوں کی صفات اور خدا کی محبت میں فنا ہونے والوں میں سے جو اخلاص و محبت کی خوشبو آتی ہے.وہ ان میں سے بھی آتی.اور ان کے چہروں پر بھی خدا کا نور چمکتا دکھائی دیتا.زیر نظر کتاب جماعت اسلامی کا ماضی وحال ایک ایسی ہی جماعت اور اس کے امیر کے دعادی کا تنقیدی جائزہ ہے.جو برادرم مکرم مولوی دوست محمد صاحب ناهار نے بڑی محنت اور کاوش سے لکھا ہے.اس کے پڑھنے سے آپ کو معلوم ہو جائے گا.کہ آیا یہ جماعت شجرہ طیبہ کی مثالی ہے.جو خدا کے حکم سے ہر وقت ایمان اور اخلاص کے پھل دیتا ہے.یادہ چوپ خشک ہے جس سے کسی کو کوئی برکت اور نفع حاصل نہیں ہوتا.ملیکہ وہ باغ محمدی کے حسن میں داغ لگانے والی ہے.میں پاکستان کے تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ سے توقع کرتا ہوں کہ وہ اس کتاب کو غور سے پڑھیں گے.اور نہ صرف خود اس سے استفادہ کریں گے.بلکہ اپنے حلقہ احباب میں بھی اکس
(د) کی اشاعت کریں گے.تاکہ ملک کا جوان طبقہ ان عناصر کے خلاف صحت آراء ہو جائے.جو اسلام کا پاک نام استعمال کر کے اپنی ذات کے لئے وجاہت اور حکومت، والسلام چاہتے ہیں.
نمبر شمار فهرست مضمون پیش لفظ از قلم حضرت صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب جناب سید الحال خالی مودودی صاحب کے خاندائی کو ائت م ولادت اور ابتدائی حالات Y A 4 " سلمی خدمات الجہاد فی الاسلام کی تصنیف مجلس مسخر یاک قرآن مجید (حیدر آباد سے تعلق ادارہ دارالاسلام" کا قیام صفر الف A A 10 19 اسلم ۲۲ Po مطالبہ پاکستان اور جناب سیدا بو الا علی صاحب مردودی ۲۷ جماعت اسلامی کی بنیاد جماعت اسلامی کی ابتدائی تاریخ پاکستان میں جماعت اسلامی کے مجاہدانہ کارنامے ۳۳
مضمون پہلا جہاد دوسرا جہاد ۱۵ تمیرا جہاد چوتھا جہاد پانچواں جہاد {A چند اور کارنا ہے ایک نظر میں 19 مستقبل کا لائحہ عمل ۲۰ اختتام صفحه ۵۶ DA ۵۹ ۶۲ A.AN
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ : غرة ونص عَلَى رَسُولِهِ الگو تیر وتصلح الكريم آيَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا فَوَامِيْنَ لِلَّهِ شُهَدَ بِالْقِسْطِ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَن لَّا تَعْدِلُواء إعْدِلُوا تدهُوَ اقَرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا الله ، إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (المائده من آيت ) حضر است! یہ آمیت کہ یہ جو میں نے ابھی تلاوت کی ہے.ہر مسلمان کیلئے تمہید امشعل راہ ہے.اور اس میں یہ تاکید کردیا گیاہے.کراسے ابیات کا دعوی کرنے والو! محض اللہ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر حق و انہ راحت کی شہاد دینے کے لئے کمربستہ ہو جاؤ.اور یاد رکھو کسی قوم سے نظریاتی اختلاف اور عداوت تمہیں دامن انصاف چھوڑ دینے پر آمادہ نہ کر دے ہمیشہ عدل وانصاف سے کام لو کہ یہی تقوی کے سب سے زیادہ قریب راہ ہے.متقی بن جاؤ.بلا شبہ خدا توانی تمہار سے جملہ اعمال سے پوری طرح واقت اور باخبر ہے.
خدا تعالیٰ کے اس واضح ارشاد کی تعمیل میں اس وقت مجھے جو کچھ عرض کرتا ہے حق و اعتدال کی راہ سے ہی فرض کرتا ہے.خدا گواہ ہے ہم ہر شخص ، ہر قوم اور ہر جماعت کے خادم ہیں.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ارشاد فرماتے ہمیں کچھ کیں نہیں بھائیو نصیحت ہے غریبانہ کوئی جو پاک دل ہووے دل وجانی اس پہ قربان ہے اور خصوصا مسلمانوں کے بار سے میں تو حضور کا مسلک یہ ہے کہ سے اسے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار کا فر کنند دعوائی رت بمیرم ہیں کسی مخصوص شخصیت یا مخصوص گروه کو براہ راست ہر جت تنقید بنانا ہمارا شیدہ نہیں.ہم صرف اور صرف غلط اور باطل اور گمراہ کن نظریات و افکار کے مخالف ہیں.اور اس کے لئے حکمت اور موعظہ حسنہ سے علمی اور قلمی جہاد کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں.پھر ہم وہ نہیں جو یہ کہتے ہوں.کہ اگر فغان کر لینگ کی طرف سے کوئی فرشتہ بھی بطور امیدوار کھڑا کر دیا جائے.تب بھی ہم اس کی حمایت نہیں کریں گے (امروز ۲۰ اگست ۱۹۶۳ صفحہ ہے بلکہ ہم وہ ہیں ، جن کا نعرہ خدا کے فضل سے اپنے آقا و مولے فخر کائنات سید الموجود است تاج المرسلين خاتم النبیین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں حفظ یہ ہے کہ قُلْ إِنْ كَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدُ فانَا اَوَّلُ الْعَابِدِينَ (الزخرف ع ) یعنی اگر خدائے رحمان کا کوئی
بیٹا ہوتا تو سب سے پہلے میں اس کی پرستش کرتا.امیر جماعت اسلامی جناب سید ابو الا علی صاحب مودودی کو اعترفان ہے کہ ان کی جماعت الجماعة " نہیں کہلا سکتی.رشہادت حق صدام.اسی طرح ان کا یہ بھی فرمان ہے کہ لوگ اسلام سے انحراف کرنے ہی پر اکتفاء نہیں کرتے ملیکہ ان کا نظریہ اب یہ ہو گیا ہے کہ مسلمان جو کچھ بھی کرے وہ اسلامی ہے.حتی کہ وہ اگر اسلام سے بغاوت بھی کرے تو وہ اسلامی بغاوت ہے.یہ (سودی بینک کھولیں تو اس کا نام اسلامی بینک ہوگا.یہ انشورنس کمپنیاں قائم کریں گے تو وہ اسلامی انشورنس کمپنی ہوگی.یہ جاہلیت (غیر اسلام کی تعلیم کا ادارہ کھولیں تو وہ مسلم یونیورسٹی، اسلامیہ کالج ، یا اسلامیہ اسکول ہوگا.انکی کا برا نہ ریاست کو اسلامی ریاست کے نام سے موسوم کیا جائے گا.ان کے فرعون اور نمرود اسلامی بادشاہ کے نام سے یاد کئے جائیں گے.ان کی جاہلانہ زندگی اسلامی تہذیب و تمدن قرار دی جائے گی.ان کی موسیقی و مصوری اور ثبت تراشی کو اسلامی آرٹ کے معزز لقب سے ملقب کیا جائے گا.حتی کہ یہ سب سوشلسٹ بھی ہو جائیں تو مسلم سوشلسٹ کے نام سے پکارے جائیں گے.ان سب ناموں سے آپ آشنا ہو چکے ہیں.اب صرف اتنی کسر باقی ہے کہ اسلامی شراب خانے ، اسلامی قحبہ خانے اور اسلامی قمار خانے جیسی اصطلاحوں سے بھی آپ کا تعارف ہو جائے" رسیاسی کشمکش حصہ سوم طبع اولی من ) اس طویل اقتباس کے پیش کرنے کا مقصود صرف یہ ہے کہ چین امیر جما تقویت
4 اسلامی کی نظر میں "اسلامی" کا لفظ ہر مسلمان بے دریغ استعمال کر سکتا ہے اور کو رہا ہے تو ان کی جماعت کو رجیسے وہ پارٹی کا مترادف لفظ سمجھتے ہیں ) سئلہ قومیت ها، آخر کیوں اسلامی کہلانے کے حق سے محروم کیا جائے؟ یقینا اس نوع کی قدغن لگانا بہت بڑی زیادتی ہوگی.لہذا میں اپنی تقریر میں جناب سید ابو انا علی در حسب مودودی کی پارٹی کو جماعت اسلامی ہی کے نام سے یاد کردن گا.اور کوشش کروں گا کہ آپ کی خدمت میں از خود کچھ کہنے کی بجائے زیادہ تر جماعت اسلامی کے لٹریچر سی سے اپنے موضوع کا تھا کہ پیش کروں.اور اس پر تبصرہ ناظرین پر چھوڑ دوں کہ اس کی ذمہ داری شاید اتنی مجھے یہ نہیں جتنی آپ پر ہے.جماعت اسلامی کی یہ خدمات سر انجام دیتے ہوئے میں بلا تامل کہ سکتا ہوں کہ ہے انہیں کی محفل سنوارتا ہوں چراغ میرا ہے رات ان کی انہیں کے مطلب کی کہہ رہا ہوں زبان میری ہے بات ان کی حضرات إجماعت اسلامی" کے بانی جنا سید ابوالاعلیٰ کے جناب سید ابو الاعلیٰ صاحب مود و دی وہیل کے خاندانی کوائف ایک ساد استہ خاندان کے چشم و چراغ ہیں.چنانچہ آپ نے اپنی مفصل خود نوشت سوانح حیات میں تحریر فرمایا ہے:.میرا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس میں تیرہ سو برس نایک سلسلہ ہ اب یہ جماعت غیر آئینی است رار پا چکی ہے.زناشر
q ارشاد و ہدایت اور فقیر و در دیشی جاری رہا ہے.سادات اہل بیت کی ایک شاخ تیسری صدی ہجری میں ہرات کے قریب ایک مقام پر آکر آباد ہوئی تھی.یہ پشت کے نام سے تمام دنیا میں پر مشہور ہوئی.اسی خاندان کے نامور بزرگ حضرات ابو احمد ابدال چشتی اگر متوفی ۳۵۵) حضرت حسن مثنی ابن حضرت امام حسن علیه السلام کی اولاد سے تھے.انہی سے صوفیہ کا مشہور سلسلہ چشتیہ جاری ہوا ہے.ان کے نواسے اور رجانشین حضرت ناصر الدین ابو یوسف چشتی ؟ رمتونی شتی سادات کی ایک دوسری شاخ سے تعلق رکھتے تھے جس کا سلسلہ نسب امام علی نقی علیہ السلام کے واسطے سے امام حسین علیہ السلام تک پہنچتا ہے.حضرت ناصر الدین ابو یوسف کے فرزند اکبر حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی کو متوفی شستہ تھے جو تمام سلاسل چشتیہ ہند کے شیخ الشیوخ اور خاندان مود و دیئے یہ مورث ہیں.......خاندان مودود یه کی جبین شاخ سے میرا تعلق ہے.وہ نویں صدی ہجری کے اواخر سے مہند دستان میں آباد ہے اس شاخ کے پہلے بزرگ جنھوں نے مینار دوستان میں مستقل سکونت اختیار کی حضرت ابو الاعلیٰ مودودی (متوفی ۱۳۵ نر) تھے.وہ سکند ربودی کے زمانے میں ثابت سے مہند دوستان آئے اور کرنال کے قریب تصمیہ بر اس میں مقیم ہوئے شاہ عالم کے زمانہ میں یہ خاندان مستقلاً دہلی میں آباد ہوا " مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں مست ۳۳)
پھر لکھتے ہیں :- ننھیال کی طرف سے میں ترکی الاصل ہوئی.میرے نانا میرزا قربان علی بیگ خال سالات گوخود شاعر اور صاحب قلم تھے مگر پشتہا پشت سے ان کا پیشہ آباد سیہ گری تھا.(ایضاً ص ۳۳-۳۳) آپنے تفصیل محض اپنے سوانح بیان کرنے کی غرض سے دی ہے.ورنہ آپ اپنے ایک رسالہ مسلمانوں کا ماضی وحال میں گزشتہ صوفیا اور پیشہ ور سپرگروں کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ :- صوفیا کا حال دیکھئیے تو چند پاکیزہ ہستیوں کے سوا جنہوں نے اسلام کے حقیقی تصوف پر خود عمل کیا اور دوسروں کو اس کی تعلیم دی.باقی سب ایک ایسے تصوف کے معلم ومبلغ تھے.جس سے اشتراقی اور ویدانتی اور مانوی اور زردشتی فلسفوں کی آمیزش ہو سکی تھی اور میں کے طریقوں میں جوگیوں اور راہبوں اور اشرافیوں اور رواقیوں کے طریقے اس طرح مل جیل گئے تھے.کہ اسلام کے خالص عقائد و اعمال سے ان کو مشکل ہی سے کوئی مناسبت رہ گئی تھی پھر جب اگلوں کے بعد پچھلے ان کے سجادوں پر بیٹھے تو انہوں نے میراث میں دوسری املاک کے ساتھ اپنے بزرگوں کے مرید بھی پائے اور ان سے تربیت دارشاد کی بجائے صرف نذرانوں کا تعلق باقی رکھا.ان حلقوں کی تمام تر کوشش پہلے بھی یہ رہی ہے اور آج بھی ہے کہ جہاں جہاں بھی ان کی پیری و پیر زادگی کا اثر پھیلا ہوا ہے وہاں دین کا صحیح علم
بھاڑے کا ٹٹور کسی طرح نہ پہنچنے پائے.کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ عوام الناس پر ان کی خداوندی کا طلسم اسی وقت تک قائم رہ سکتا ہے.جب تک وہ اپنے دین سے مباہل رہیں.یہ بھی ہماری مذہبی حالت جس نے انیسویں صدی میں ہم کو غلامی کی منزل تک پہنچانے میں بڑا حصہ لیا.اور آج اس آزادی صبح آغاز میں بھی یہی حالت اپنی پوری قیامتوں کے ساتھ ہماری دامنگیر ہے.اب اخلاقی حیثیت سے دیکھئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ عام طور پر اس زمانے ہیں ہما را طبقہ متوسط جو ہر قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے.مسلسل اخلاقی انحطاط کی بدولت mercenary ) بن کر رہ گیا تھا.اس کا اصول یہ تھا کہ جو بھی آجائے اُجرت پر اس کی خدمات حاصل کرے اور پھر جس مقصد کے لئے چاہے اس لیے کام کے لئے......ہماری اس اخلاقی کمزوری سے ہمارے ہر دشمن نے فائدہ اٹھایا خواہ وہ مرہٹے ہوں ، سکھ ہوں.فرانسیسی ہوں یا ولندیزی.آخر کار انگریز نے آکر خود ہمارے ہی سپاہیوں کی تلوار سے ہم کو فتح کر لیا.اور ہمارے ہی ہاتھوں اور دماغوں کی مدد سے ہم پر حکومت کی.ہماری اخلاقی حس اس درجہ گند ہو چکی تھی کہ اس روش کی قیادت سمجھنا تو درکنار ہمیں آٹا اس پر فخر تھا چنانچہ ہمارا شاعر اسے اپنے خاندانی مفاخر میں شمار کرتا ہے.ہ وشت سے ہے پیشہ آیا د سپہ گری.
حالانکہ کسی شخص کا پیشہ ور سپاہی ہونا حقیقت میں اس کے اور اس سے تعلق رکھنے والوں کے لئے باعث ننگ ہے نہ کہ باعث حرقت.جب وہ اپنی قوم کے دشمنوں کے ہاتھ خود اپنے آپ کو بیچ سکتے تھے تو کیوں وہ ابن الوقت اور پڑھتے سورج کے پرستار نہ ہونے ؟ اور کیوں ان میں یہ وصف پیدا نہ ہوتا کہ جس کے اتھ سے انہیں تنخواہ ملتی ہو اس کے لئے وہ اپنے ایمان میمیر کے خلاف سب کچھ کرنے پر آمادہ ہو جائیں.اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے ملازمت پیشہ طبقے کی اکثریت آج جن اوصاف کا اظہار کر رہی ہے وہ کوئی اتفاقی کمزوری نہیں ہے......بلکہ اس کی جرایی بیماری روایات میں گہری بھی ہوئی ہیں!" ر مسلمانوں کا ماضی و حال از جناب مودودی صلا طبع دوم جناب سید ابو الا علی صاحب مودودی کے والد ماجد مولوی سید محمد احسن صاحب تھے جوش منہ کے ہنگامے سے دو سال پہلے دہلی میں پیدا ہوئے.آپ مدرستہ العلوم علی گڑھ کے بالکل ابتدائی دور کے طالب علموں میں سے تھے.ر مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر س ص ۳۲) کچھ عرصہ آپ الہ آباد جا کر وکالت کی تعلیم بھی حاصل کرتے رہے اربعین (۳۵) جو جناب سید ابوال علی صاحب مودودی کی نگاہ میں قانونِ الہی کے خلاف کھلی بغاوت ہے اور زنان بازاری کے بعد دوسرے نمبر پر ہے چنانچہ آپ رسائل و مسائل میں فرماتے ہیں :-
وکالت.....قانون الہی کے خلافت کھلی بغاوت ہے اس کے مقابلہ میں اگر کسی دوسرے پیشہ میں کچھ حرام کی آمیزش ہو بھجوا تو بہر حال ده بغاوت سے تو کم درجہ ہی کا گناہ ہے.تجارت ، زراعت، صنعت و حرفت مزدوری پرائیویٹ فرموں کی ملازمت اور اسی قسم کے دوسرے پیشوں میں ایسی صورتیں ہم پہنچ سکتی ہیں.جن کے اندر کم سے کم ناگزیر معصیت کی حد پر آدمی قائم رہ سکتا ہے.اور وہ کم سے کم اس وجہ میں توحرام نہیں ہیں.جس درجہ کی یہ وکیلا نہ بادرت حرام ہے کہ نیز تحریر فرماتے ہیں :.یا کا سب حرام کی دو نوعیتیں ہیں.ایک وہ جس کا پیشہ فحشاء کی تعریعت میں آتا ہے.مثلاً زنان بازاری کا کرب.اس کے تقریب جانا بھی جائزہ نہیں کیا اس کے ہاں نوکر ہوتا.دوسرا کا سب حرام دہ ہے جس کا پیشہ حرام تو ہے مگر فحشاء کی نظریف " میں نہیں آتا جیسے وکیل " (ص ۱۱۳ ۱۳۸ طبع اول ، جناب ستیدا بوان علی صاحب مودودی کے والد بزرگوار مولوی بنی بر احمد حسن ما وکالت کے لئے 1997 میں حیدر آباد دکن میں تشریف لے گئے جس کے نہ کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب مودودی صاحب نے اپنی کتاب دولت آصفیہ اور حکومت برطانیہ میں بالتفصیل لکھا ہے کہ زیارت کے 1 حکمرانوں نے عا ئے اور 191 نہ میں اپنی پوری قومت انگریزوں کی انداد واعانت میں صرف کر دی.اور انھیں کی مرد سے سلطنت برطانیہ
سند دستان میں از سر نو مستحکم ہوئی.(م) اس دعوئی کی تفصیل میں آپ نے مزید لکھا کہ و اعلیحضرت میر عثمان علی خان بہادر مسند آرائے سلطنت ہوئے.آپ کے زمام امور سلطنت ہاتھ میں لینے کے تین ہی سال بعد وہ جنگ عظیم بر پا ہوئی.کہ جس میں انگریزی حکومت کے لئے زندگی و موت کا سوال درپیش تھا.اس نازک وقت میں مسلمانوں کے لئے سلطنت برطانیہ کا وفادار رہنا سب سے زیادہ مشکل تھا.کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت جس کے بادشاہ کو تمام مسلمان اپنا امام مھتے تھے برطانیہ کے خلاف برسر پیکار تھی.اور وہ ممالک اعمال جنگ کی زد میں تھے جن کی تعظیم و تکریم ہر مسلمان کا جیہ وہ ایمان تھی لیکن اس موقعہ پر اعلیحضرت میر محبوب علی خان بہادر نے سلطنت برطانیہ کے ساتھ وہ وفاداری ہوتی.جو اس سلطنت کے تمام دوستوں کی وفاداری سے زیادہ قیمتی اور خود اعلیحضرت کے پیشروؤں کی وفاداریوں پر بھی فائق منفی.ایک طرف حضور محمدوح نے اپنے اس اخلاقی درومانی اثر کو استعمال کیا.جو انہیں ہندوستان کے مسلمانوں پر حاصل تھا اور مسلمانوں کو پور سے زور کے ساتھ تلقین کی کہ وہ سلطنت برطانیہ کے مواعید پر بھروسہ کر کے اس کی وفاداری پر ثابت قدم رہیں.یہ خلاقی امداد اس قدر موثر ہوئی.کہ خود انگریزی سلطنت کے ارباب حل وہ عقد کو اعتراف ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے جن اثرات کے
با تحت جنگ میں سلطنت کی امداد کی.ان میں سب سے زیادہ حصہ اعلیحضرت نظام دکن کا تھا.دوسری طرفت اعلیحضرت نے اپنی سلطنت کے تمام ذرائع دولت برطانیہ کے لئے وقف کر دیئے کیا دور این جنگ سرکارہ عالی کے تمام کارخانے سامان حرب کی تیاری کے لئے وقف رہے.اور چار سال کی مدت میں انہوں نے وہی کچھ روپے کا سامان سلطنت برطانیہ کے لئے مہیا کیا.اعلیحضرت نے اپنی عزیز رعایا کو ہزاروں کی تعداد میں بھرتی کر کے میدان جنگ میں جانیں قربان کرنے کے لئے بھیجا.آغاز جنگ سے اختیامت تک دولت آصفیہ کی باضابطہ فوج جنگ کی عملی خدمات سر انجام دیتی رہی.اور اس کا خرچ سر کار نظام نے اپنے خود اپنے سے دیا.حکومت مہند کی شدید مشکلات کے زمانے میں پچاس لاکھ روپے کی چاندی کی اینٹیں مستحالہ دے کر اس کی مالی ساکھ کو بحال کیا.اور اسی طرح کی بیش قیمت اور مخلصانہ امانتوں کی بدولت پخت نوشت سلطنت برطانیہ پر سے ٹل گیا.جس میں اس کا برباد ہو جانا کوئی مشتبہ نہ تھا.ر دولت آصفیہ اور حکومت برطانیہ صا۱۷ تا ۱۶۳) جناب د دری فضا کی خلاف مولوی سید احمدحسن صاحب کو ریاست حیدر آیا میں قیام پذیر ہوئے جب ساتواں پوری ہوا.اور ابتدائی ایام تو ان کے ان ۲۵ ستمبر 19 کو میں اسلامی
کے موجودہ امیر جناب سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی پیدا ہوئے (مکاتید نے ان جناب سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی کا بچپن کس صورت سے گزرا ؟ اس پر مناسب ہے کہ خود آپ ہی کے قلم سے روشنی ڈالی جائے.فرماتے ہیں.میں اپنے گھر میں سب سے چھوٹا تھا.میرے ایک بھائی مجھ سے تین چار برس بڑے تھے.مجھے کھانے کی جو چیز ملتی تھی.اُسے ہیں فوراً کھا لیتا تھا.مگر بھائی صاحب سنبھال کو کسی اچھے وقت پر کھانے کے لئے اٹھا رکھتے تھے اسی طرح جو پیسے مجھے ملتے تھے ان کو بھی فوراً خرچ کر ڈالتا تھا.اور بھائی صاحب انہیں جمع کر کے کبھی کوئی اچھی چیز خرید لاتے تھے.لیس یہ میرے اور ان کے درمیانی گھگڑے کی بنیاد تھی.میں ہمیشہ ان کے حصہ میں سے اپنا حق وصول کرنے کی کوشش کرتا تھا.اور وہ ہمیشہ تھوڑی دیر تک مقابلہ کرنے کے بعد کچھ نہ کچھ میرے حوالے کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے.اول اول تو میں سمجھا کرتا تھا.کہ اس طرح میں انہیں شکست دیگر مال غنیمت حاصل کرتا ہوں.مگر بعد میں مجھ کو معلوم ہوا کہ یہ ہ ہیں بھائی کو مجھ سے محبت ہے.اور انہیں خود بھی اس میں مزا آتا ہے کہ میں لڑ بھڑ کر ان سے اپنا حصہ وصول کر لیا کروں.اس طرح میں والدین کے عطیقوں میں سے 20 فیصدی کا ایک ہوتا تھا پیچاں ، فیصد اپنے حساب میں سے اور ۲۵ فیصد بڑے بھائی صاحب کے حساب میں سے.
مشہور بات تو یہ ہے کا سنگ باش برادر خوردمباش که یعنی چھوٹا بھائی بننے سے کتا بننا بہتر ہے.مگر میرا تجربہ اس کے خلاف ہے.نیز لکھتے ہیں:.میرے والد مرحوم نے میری تربیت بڑے اچھے طریقے سے کی تھی.وہ دہلی کے شرفاء کی نہایت سنخصری زبان بولتے تھے.انہوں نے ابتداء سے یہ خیال رکھا کہ میری زبان بزرگ نے نہ پائے.جب کبھی میری زبان پر کوئی غلط لفظ چڑا ہے جاتا یا کوئی بازاری لفظ سیکھ لیتا تو وہ مجھے ٹوک دیتے.اور مجھے صحیح لفظ بولنے کی عادت ڈالتے.یہی وجہ ہے کہ دکن میں پر درکش پانے کے باوجود میری زبان محفوظ رہی......وہ مجھے زیادہ تر اپنے ساتھ اپنے دوستوں کی صحبت میں لے جاتے تھے اور ان کے دوست سب کے سب سنجیدہ، شائستہ اور اعلی تعلیم یافتہ لوگ تھے.ان محبتوں میں بیٹھنے سے میں چھوٹی عمر میں تہذیب عادات سیکھ گیا.اور بڑی بڑی باتوں کو سمجھنے کے قابل ہو گیا.میری طبیعت میں جتنی شوخی متی والد مرحوم کی اس تقریبت کی وجہ سے وہ شرارتوں با دور دنگے فساد کی بجائے ظرافت کی شکل میں ڈھل گئی.رمولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظریں ص۲۶۲) اس خظرافت کے پاکیزہ اور نفیس نمونے تو میں انشاء اللہ آگے چل کر عرض کروں گا.مگر یہائی کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی قلعہ معلی کی یکسالی زبان سے بطور مثال آپ کی ایک فاضلانہ تقریر کا مختصر سا اقتباس سنانا ضروری
سمجھتا ہوں.آپ نے مسلمان امراء کی طرف نظر التفات کرتے ہوئے باوقار لری لہجہ سے ارشاد فرمایا.ر ہے ہمارے امراء تو ان کے لئے دنیا میں صرف دو ہی چیزیں پیپسی کا مرکز رہ گئی تھیں.ایک پریٹ دوسرے شرمگاہ.ان کے سوا کسی دوسری چیز کی ان کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہ رہی تھی.ساری کوشش اور ساری محنتیں ہیں انہی کی خدمت کے لئے وقت تھیں.اور قوم کی دولت سے اپنی پیشوں اور صنعتوں اور حرفتوں کو پروان چڑھایا جدار بہا تھا.جو ان دو چیزوں کی خدمت کریں" مسلمانوں کا ماضی و حال مس، طبع دوم) ہ میں جناب سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نے مولوی کا امتحان دیا.پھر حیدر آبا دمیں دارالعلوم کی جماعت مولوی عالم میں شریک ہو گئے.اس دوران میں آپ کے والد ماجد حیدر آباد سے بھوپال چلے گئے.کچھ ماہ بعد می آپ بھی بھو پال پہنچ گئے اور اپنے والد محترم کی خدمت میں مصروف ہو گئے.جوان دنوں بستر علالت پر موقت رحیات کی کشمکش سے دوچار تھے.رفتہ رفتہ ان کے صحت یاب ہونے کی تمام امیدیں منقطع ہوگئیں.ڈیڑھ دو سال کے تجربات نے آپ کو سبق سکھایا کہ دنیا میں عورت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لئے اپنے پاؤں پر آپ کھڑا ہونا ضروری ہے.اور معاشی استقلال کے لئے حید و جہد کئے بغیر چارہ نہیں.فطرت نے تحریر و انشاء کا ملکہ ودیعت دربار کھا تھا.عام مطالعے سے اس کو اور تحریک ہوئی.اسی زمانہ میں علامہ
19 تیکر فتحپوری مدیز گار سے آپ کے دوستانہ تعلقات قائم ہوئے.اور ان کی صحبت بھی وجہ تحریک بنی.غرض ان وجوہ سے آپ نے یہی فیصلہ فرمایا کہ علم ہی کو وسیلہ معاش قرار دینا چاہیئے.خود نوشت سوانح عمری مشمولہ کتاب مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظریں ملک تا ۴۳ ) ت قلی میدان میں اترنے کے بعد آپ نے کیا کیا علمی خدمات سرانجام علمی خدما دیں.ان کا تذکرہ خود آپ کے فلم سے سنیئے.فرماتے ہیں.سلہ میں سب سے پہلے میرے بھائی نے اخبار نویسی کے میدان میں قدم کھا اور انبالہ مدینہ (بجنور) کے ایڈیٹر ہوئے.میں بھی ان کے ساتھ گیا اور ہم دونوں نے ساتھ مل کر کام شروع کیا لیکن ڈیڑھ دو مہینے سے زیادہ کرنان نہ نباہ سکے.وہاں سے ہم دہلی واپس ہوئے.یہ وہ زمانہ تھا جی بہند وستان میں سیاسی تحریک کے بہت زبر دست طوفان کی ابتداء ہو رہی معنی یہ ہم نے امین امانت نظر میدان اسلام میں کام کرنا شروع کیا اور 1919ء میں جب خلافت اور ستیہ گرہ کی سحریک کا آغازہ ہوا تو اس میں بھی حصہ لیا.اسی زمانے میں میں نے گاندھی جی کی سیرت پر بھی ایک کتاب لکھی (یعنی خود نوشت سوانح عمری مساله) پھر را نے سر میں مسٹر گاندھی کی گرفتاری پہ آپ نے لکھانا فقط ہوگا اگر ہم یہ کہیں کہ نہیں مانتا کی گرفتاری سے رنج نہیں ہوا.ہمیں رنج ہے کہ ایک ایسا آدمی ہم سے چھین لیا گیا.جو پرامن طریقوں سے ہماری رہنمائی کر رہا تھا.اور ہم اس کے پیچھے چل کر منزل مقصود سے 1 بہت قریب ہو گئے تھے کہ مولانا مودودی اپنی اور دوسری کی نظر میں مشہ! )
آہ ! یہ خلش ہر عاشق رسول کے دل میں ہمیشہ رہے گی کہ وہ مولینا" جنہوں نے سیرت گاندھی تصنیف فرمائی تھی آجتک سیرت محمد مصطفے صلے اللہ علیہ وسلم لکھنے کی توفیق نہ پاسکے.ھٹو اپنا اپنا ہے نام اپنا اپنا کئے جاؤ مے خوار و کام اپنا اپنا خرابات میں میکشو جاگے چن لو ! نبی اپنا اپنا امام اپنا اپنا بہر کیف گیریت گاندھی کی خدمت سر انجام دینے کے بعد آپ اخبار تاج (جبلپور) کی ایڈیٹری کے فرائض سر انجام دیتے رہے.آپ کے ایک مضمون پر حکومت نے گرفت کی اور اخبار کے پر نرا در پیلیٹر پر مقدمہ چل گیا.مگر آپ صاف بچکر دہلی آگئے انہ کا ابتدائی زمانہ تھا.کہ آپ کو ملاقات جناب مفتی کفایت اللہ صاحب اور جناب احمد سعید صاحب صدر و ناظم جمعیتہ علمائے ہند یعنی کانگریسی علماء) کی طرف سے اخبار مسلم نکالا اور جناب مودودی اس کے ایڈیٹر مقرر اخبار 31970 کئے گئے.یہ اختبار سے وار میں بند ہو گیا تو ۱۹۳۵ء میں کانگریسی علماء کا دوسرا مشہور رجان الجمعیت کے نام سے جاری ہوا.۱۹۲۷ء تک آپ اسے تنہا چلاتے رہے.ادارت کے دوران سوامی شردھانند ایک مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوئے اور گاندھی جی نے کہا :.اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا ہے جس کی فیصلہ کن
۲۱ طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے کیا (دیباچہ الجہاد فی الاسلام) الجهاد في الاسلام" اس انسان کے جواب میں آپ نے الجمعية کے کاموں میں ایک سلسلہ مضامین شروع کیا.جس نے بڑا طول کھینچا کی تصنیف اور بالاخر الجهاد فی الاسلام کے نام سے کتابی محل میں شائع ہوا.الجهاد فی الاسلام کے جواب سے گاندھی جی کے نظریہ کی کہانتک تردید ہوئی اس کا اندازہ الجہاد فی الاسلام کے مندرجہ ذیل اقتباس سے بآسانی لگ سکے گا.آپ نے لکھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ برس تک غرب کو اسلام کی دعوت دیتے رہے.وعظ و تلقین کا جو مونثر سے مؤثر اندازہ ہو سکتا تھا.اُسے اختیار کیا.مضبوط دلائل دیئے واضح سجیں پیش کیں.فصاحت و بلاغت اور زور خطابت سے دلوں کو گرمایا.اللہ کی جانب سے مجبر العقول معجزے دکھائے لیکن قوم نے آپ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا.جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد ائی اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی....تو دلوں سے رفتہ رفتہ بدی دسترارت کا زنگ چھوٹنے لگا.طبیعتوں سے فاسد مادے خود بخود نکل گئے.دلوں کی کثافتیں دُور ہو گئیں اور صرف یہی نہیں کہ آنکھوں سے پردہ ہٹ کر حق کا نوریات
۲۲ عیاں ہو گیا.ملیکہ گردنوں میں وہ سختی اور سروں میں وہ نخوت بھی باقی نہ رہی جو ظہور حق کے بعد انسان کو اس کے آگے جھکنے سے باز رکھتی ہے.....اسلام کی تلوار نے ان پیروں کو چاک کر دیا.ان حکومتوں کے تختے الٹ دیئے جو حق کے دشمن اور باطل کی پشت پناہ تھیں" ڈالجہاد فی الاسلام" ( ۱۳ ) والہ میں آپ نے اخبار الجمعية " سے قطع تعلق کر لیا.اسی سال کے آخر ہیں آپ دہلی سے حیدر آباد پہنچے اور اگست تہ تک نہیں فروکش رہے اسی مدت میں آپ نے بعض کتابیں تالیف کیں.اور ابن خلکان کے ایک حصہ کا ترجمہ بھی کیا.اگست سورہ میں آپ واپس دہلی تشریف لے آئے چند ماہ بعد بھوپال گئے اور تاریخ دکن کا مواد فراہم کرتے رہے.جولائی اسے فوائد میں آپ پھر حیدر آباد پہنچے گئے.اور دوبارہ تاریخ دکن کا مواد فراہم کرنے میں منہمک ہو گئے.اکتابت مولانا مورد درد کی اپنی اور دوسرں کی نظر میں مست (۴۹) مجلس تحریک قرآن مجید تعلق حیدر آباد میں ان دنوں ذہنی اور روحانی بنیادوں پر قرآنی انقلاب بر پا کرنے کے لئے ایک ادارہ مجلس تحر یک قرآن مجید کے نام سے قائم ہوا تھا.جس کے محرک جناب نذیر جنگ بہادر، صدر نواب سیف نو از جنگ بہادر اور معتمد نواب بہادر یار جنگ بہادر اور مشہور ارکان میں سے ابو محمد مصلح صاحب نواب سفینه نو از جنگ بہادر اور مولوی مناظر احسن صاحب
سالم سالم میدانی وغیرہ شامل تھے.ز از همان القرآن خیلید به محروم ان لانه م مه ) اس ادارہ کے روح و روان نواب بہادر یار جنگ جماعت احمدیہ کی تنظیم اور اسلامی خدمات کے بہت مداح تھے اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی اثار الله تعالیٰ کے خطبات بڑے ذوق و شوق سے مطالعہ کیا کرتے تھے.نواب صاب موصوف مارچ ء میں قرارداد پاکستان کے تاریخی اعلاس میں شرکت کے بعد لاہور سے قاریان بھی گئے.اور مرکز احمدیت کو دیکھے کہ از حارمتاثر ہوتے اور اپنے تاثرات میں سیکھا کہ ہ.میری دلی تمنا ہے کہ ہیکں تمام دنیا کے مسلمانوں کو اس چھوٹی سی جماعت کی طرح نظم اور ایک مرکز کے تحت جو اصول اسلامی کے مطابق ہے حرکت کرتا ہوا دیکھوں " مرکز احمدیت نظام موقف جناب شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم ) مجلس سنخر یک قرآن مجید ہی کی سرپرستی میں ایک رسالہ ترجمان القرآن یار سے جاری ہوا جس کی ادارت ابو محمد مصلح صاحب کے سپرد ہوئی.ماہر القادری ایڈیٹر فاران" (کراچی کا بیان ہے کہ ریاست حیدر آباد دکن کا محکمہ امور فارسی رسالہ ترجمان العشر آن کے کئی سو پر چھے خریدتا تھاتا ر مولانا مودودی اپنی اور دوسری کی نظر میں.حث ۳۲) جناب مودودی صاحب چونکہ اب تک کئی رسالوں کی ادارت کرنے کے علاوہ
۲۴ متقد و تالیفات بھی کر چکے تھے.اس لئے مجلس تمر باب قرآن مجید" (حیدر آباد دکن) نے امحرم الحرام ۱۳۵۶ مطابق ۹۳۳ار سے) یہ رسالہ جناب مودودی صاحب کی ادارت میں دے دیا.مجلس کے ارکان کی نظر میں قرآنی انقلاب دماغی اور ذہنی اور روحانی انقلاب کا نام تھا.اسی لئے مجلس کی تمام تر سرگرمیاں صرف قرآنی تعلیمات کی اشاعت تک ہی محدود رہیں.مگر افسوس مجنس کا یہ رسالہ جناب مودودی صاحب کے ہاتھ آنے کے بعد رفتہ رفتہ اپنی بنیادی حیثیت کھو بیٹھا.بعد اور میلہ کی جناب سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی کے ذاتی نظریات کا ترجمان بن گیا.حتی کہ جب...مودودی صاحب خیار یہ آباد کو خیر باد کہ کے ۱۹۳۶ میں سابق پنجاب میں آگئے.اور رسالہ پر ان کی واحد اجارہ داری قائم ہوگئی تو انھوں نے اشتراکیت اور فاشزم اور دوسرے لا دینی نظاموں سے اسلام کومشابہت دیتے ہوئے لکھنا شروع کر دیا کہ کیہ اسٹیٹ فائشی اور اشترا کی حکومتوں سے ایک گونہ مماثلت رکھتا ہے " را سلام کا نظام سیاسی از جناب مودودی صاحب) ر جو الہ طلوع اسلام دسمبر له ص۱۳) اسی طرح اُن کے رفقاء کی طرف سے سکھا گیا کہ اس کا سیاسی نظام صرف ظاہر میں اسلام سے ہی بحث کرتا ہے اور اسی سے بحث کر سکتا ہے اس وجہ سے اس کے اندر جیسا کہ آپ نے دیکھا خارجیت اور انار گز مت تک کے لئے گنجائش نکل آتی ہے.اسلامی ریاست شہر تریقے کے حقوق و فرائض - شائع کردہ مکتبہ جماعت اسلامی)
یہی نہیں ترجمان القرآن میں یہ بھی عقیدہ شائع کیا گیا کہ ، جب صالحین کا گروہ منظم ہو ان کے پاس طاقت موجود ہو، اہل ملک کی عظیم اکثریت ان کے ساتھ ہو یا کم از کم اس بات کا ظن غالب ہو کہ عملی جدو جہد شروع ہوتے ہی اکثریت ان کا ساتھ دے گی اور کسی بڑی تیا ہی و خونریزی کے بغیر مفسرین کے اقتدار کو ہٹا کر صالحین کا اقتدار قائم کیا جا سکے گا.اس صورت میں بلاشبہ صالحین کی جماعت کو نہ صرف حق حاصل ہے لیکہ ان کے اوپر یہ شرعی فرمن ہے کہ وہ اپنی طاقت منظم کر کے ملک کے اندر برویم شیر انقلاب بر پا کر دیں اور حکومت پر قبضہ کر لیں کا ترجمان القرآن جلد ۳۳ علم ) فإنا لله وإنا الَيْهِ رَاجِعُونَ جنا بها مودودی حیدر آباد سے سابق پنجاب میں ادارہ دارالاسلام کا قیام کس طرح منتقل ہوئے بنا جماعت اسلامی کے آرگن چرایی راه وستحریک اسلامی نمبر میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر اقبال مرحوم کے پیش نظر ایک سکیم نفقہ اسلامی کی تدوین جدید کے سلسلہ کی تھی.علامہ مرحوم نے خواہش ظاہر کی کہ مولانا مودودی اس میں ان کے ساتھ تعاون کریں.مراسلت کے بعد ۹۳اڑ کے آخر میں مولانا مودودی علامہ اقبال سے ملنے کے لئے لاہور آئے.اور اسی ملاقات کے دوران یہ بات طے پاگئی کہ مولانا موصوف پنجاب منتقل ہو جائیں.پٹھانکوٹ کے قریب اس وقت کی عمارات میں جن کا نام دونوں نے
۲۶ بالاتفاق دار الاسلام تجویز کیا تھا.ایک ادارہ قائم کیا جائے جہاں دینی تحقیقات اور نوجوانوں کی تربیت کا کام کیا جائے علامہ اقبال مرحوم نے یہ وعدہ کیا تھا.کہ ہر سال وہ بھی چند مہینے دارالاسلام میں قیام فرمایا کریں گے.چنانچہ اسی قرار داد کے مطابق مولنا مودودی صاحب با ریچ سواء میں دارای اسلام پٹھانکوٹ منتقل ہو گئے.رچراغ راہ کا تحریک اسلامی نمبر ۱۹۶۳ (۱۳۸۰) پٹھانکوٹ منتقل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ادارہ دارالاسلام کے اصل بانی چوہدری نیاز علی خانصاحب پٹھانکوٹ ہی میں تھے.چنانچہ چراغ راہ دستر یا ب اسلامی نمبر میں لکھا ہے کہ 1491 به اداره داران اسلام در اصل جائداد کے مکانات میں ہی قائم کیا گیا تھا.جو چو ہدری نیاز علی خانصاحب نے وقف کی تھیں اس وقفت جائداد کے لئے ایک انگ ٹرسٹ قائم ہوا تھا.رایضا فسا) ڈاکٹر سر محمد اقبال کے ذہن میں ادارہ دارالاسلام کا ایک مخصوص تخیل تھا انہوں نے علامہ مصطفے المراغی سابق شیخ جامعہ ازہر سے یہ درخواست کی حتی کہ ایک روشن خیال مصری عالم کو جامعہ از ہر خرچ پر بھیجے جو علوم شرعیہ اور تاریخ تمدن اسلامی کا ماہر ہو.اور انگریزی زبان پر بھی کامل عبور رکھنا ہو.امکاتیب اقبال حصہ اول میں ) For جیسا کہ میں بتا چکا ہوں جناب سیدا بوران علی صاحب مودودی ۶۱۱۹۳۹ میں پٹھانکوٹ چلے گئے.مگر افسوس سر محمد اقبال کی زندگی نے وفا نہ کی اور آپ کا
وسرے ماہ ہی انتقال ہو گیا.دستر یک اسلامی نمبر صفحہ (۱۲۸) ڈاکٹر سر محمد اقبال کی آنکھیں بند ہوتے ہی چوہدری نیاز عمل صاحب اور جناب مودودی صاحب میں خطر ناک کشمکش پیدا ہو گئی.جو بالا خر مولانا کے ہور آ جانے پر ختم ہوئی.چنانچہ جماعت اسلامی کے امیر خو پدری غلام محمد صاحب کا اقرار ہے کہ چند ماہ کے قیام کے اندر اندر ہی اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ دائف اس مقام پر اس طرح کی کسی انقلابی تحریک کی بجائے صرف درس تبلیغ قرآن حکیم تک اپنے کام کو محدود رکھنا چاہتے ہیں.چنانچہ یہ ادارہ جنوری سال ۱۹۳ ء میں لاہور منتقل کر دیا گیا.چراغ راہ تحریک اسلامی نمبر من ۱۳) مطالبہ پاکستان اور جناب ڈاکٹر سرمد اقبال قومیت کو نہایت درجہ امنیت دیتے تھے.چنانچہ آپ نے اکبر سید ابو الا على حساب مودودی الہ آبادی کے نام ایک خط میں لکھا.مذہب اسلام کا ایک نہایت ضروری پہلو تو میت ہے.جس کا مرکز کمیت اللہ ہے کہ (مکاتیب اتبالی حصہ دوم ص ) اور اسی نظریہ قومیت کی بنیاد پر آپ نے ۲۸ مٹی ایس وائے کو قائد اعظم مسٹر محمد علی جناح کے نام غلط لکھا:.اسلامی سہندوستان میں ان مسائل کے حل، با کسانی رائج کرنے کے لئے ملک کی تقسیم کے ذریعہ ایک یا زائد اسلامی ریاستوں
۲۸ کا قیام انشد لازمی ہے.کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیں آن پہنچا؟ (مکاتیب اقبال حصته دوم ما ) اور جون شاہ کو آپ نے قائد اعظم کے نام ایک اور خط میں لکھا کہ مند دستان میں قیام امن اور مسلمانوں کو غیر مسلمانوں کے غلبہ دوست سے بچاننے کی واحد ترکیب مسلم صوبوں کے ایک جداگانہ وفاق میں اسلامی اصلاحات کا نفاذ ہے.شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو مہندا اور بیرون سفر کی دوسری اقوام کی طرح حق خود اختیاری سے کیونکر محروم کیا جا سکتا ہے یا مکاتیب اقبال صفحه ۲۱ - ۲۲ حصہ دوم) اس خط میں مسلمانوں کی قومی بستی کے قیام کے لئے جو مطالبہ پیش کیا گیا تھا ، اس کو عملی جامہ پہنانے کا فخر قائد اعظم اور مسلم لیگ کو حاصل ہوا.جنہوں نے مارچ سکا میں مسلم لیگ کے اجلاس لاہور میں پاکستان کا ریزولیوشن پاس کر کے مسلم اکثریت کے علاقوں کے لئے آزاد اور خود مختار ریاست کا مطالبہ کیا.اس تاریخی اجلاس میں قائد اعظم نے فرمایا.مسلمان ہر حیثیت سے ایک قوم ہیں.اور اس قوم کو اپنا ملک اور اپنی جداگانہ حکومت چاہیئے لہ چراغ راہ تحریک اسلامی نیر" میں لکھا ہے کہ اقبال نے ملت کی عملی سیاست میں بھی حصہ لیا.اور یہاں اس کا سب سے بڑا contributine نظریاتی بنیادوں پر تقسیم ملک کا تصور ہے.مثلا
٢٩ قائد اعظم کی اس آوازہ پر ہندوستان کے ایک سرے سے لیکر دوسرے مرے تک مسلمانوں میں ایک برقی لہر دوڑ گئی.اور مسلمانان ہند پاکستان کے حصول کے لئے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے.مگر سید ابوانی علی صاحب دودی وں کی مخالفت میں پورے زور سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے سب سے قبل 1 ستمبر کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اسٹریچی ہال میں ایک مقالہ پڑھا جس میں عامتہ المسلمین اور قائد اعظم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں یہ چھا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی تنظیم تمام دردوں کی دوا ہے اسلامی حکومت یا آزاد ہندوستان میں آزاد اسلام کے مقصد تک کی سبیل یہ بھی جار ہی ہے کہ مسلمان قوم مین افراد سے مرکب ہے وہ اسب ایک مرکز پر جمع ہوں.متحد ہوں اور ایک مرکزی قیادت کی اطاعت میں کام کریں.لیکن در اصل یہ ایک قوم پرستانہ کام ہے.اس کے نتیجہ میں ایک قومی حکومت بھی میسر آسکتی ہے اور بدرجہ اقل وطنی حکومت میں اچھا خاصہ حصہ بھی مل سکتا ہے لیکن اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت کے مقصد تک پہنچنے کے لئے یہ پہلا قدم بھی نہیں بلکہ وہ الٹا قدم ہے یہاں میں قوم کا نام سلمان ہے وہ ہر قسم رطب و یا بس لوگوں سے نے یہاں اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کے ریزولیوشن پاس ہونے سے قبیل آپ اس نظریہ کی تائید میں تھے اور آپ کو اختلاف صرف مسلمانوں کی قیادت عظمی سے تھا مگر جب مسلمان قائد اعظم کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے تو آپ نے براہ راست نظریہ پاکستان کے خلاف محاذ قائم کا بیا د ملاحظہ جو سیاسی کشمکش حصہ دوم و حصہ سوم )
بھری ہوئی ہے کیر کیر کے اعتبار سے جتنے ٹائپ کا فرقوموں میں پائے جاتے ہیں اتنے ہی اس قوم میں موجود ہیں.عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں دینے والے جس قدر کا فر قومیں فراہم کرتی ہیں بنا لیا اسی تناسب سے یہ بھی فراہم کرتی ہے.رشوت ، چوری زنا، جھوٹ، اور دوسرے تمام زمانم اخلاق میں یہ کفار سے کچھ کم نہیں ہے.پیٹ بھرنے اور دولت کمانے کے لئے جو تدبیریں کفار کہتے ہیں وہی اس قوم کے لوگ بھی کرتے ہیں ایک مسلمان وکیل جان بوجھ کہ حق کے خلاف اپنے مؤکل کی پیروی کرتے وقت اتنا ہی خدا کے خوف سے خالی ہوتا ہے جتنا ایک غیر مسلم وکیل ہوتا ہے......یہ اخلاقی حالت جس قوم کی ہو اس کی تمام کالی اور سفید بھیڑوں کو جمع کر کے ایک منظم گلہ بان بنا دیا اور سیاسی تربیت سے ان کو لومڑی کی ہوشیاری سکھانا یا فوجی تربیت سے ان میں بھیڑیے کی درندگی پیدا کرنا جنگل کی فرماندہ وائی حاصل کرنے کے لئے تو ضرور سفید ہو سکتا ہے.مگر میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اعلائے کلمہ اللہ کس طرح ہو سکتاہ ہے" بعض لوگ یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ غیر اسلامی طرز ہیں کا بھی مسلمانوں کا قومی اسٹیٹ قائم تو ہو جائے.پھر رفتہ رفتہ تعلیم و تربیت اور اخلاقی اصلاح کے ذریعہ سے اس کو اسلامی اسٹیٹ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے.مگر میں نے تاریخ سیاسیات، اور اجتماعیات کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اس کی بناء پر نہیں
اس کو نا ممکن سمجھتا ہوں.اور اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جائے قومیں اس کو ایک معجزہ مجھوں گا جناب مودودی صاحب نے اپنے اس نظریہ کی وجہ یہ بتائی کہ جب تک اجتماعی زندگی میں تغیر واقع نہ ہو کسی مصنوعی تدبیر سے نظام حکومت میں کوئی مستقل تغیر پیدا نہیں کیا جا سکتا.حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسا زبردست فرماند و امین کی پشت پر تابعین و تبع تابعین کی ایک بڑی جماعت بھی بنتی.اس معاملہ میں قطعی نا کام ہو چکا ہے.کیونکہ سوسائٹی ثیت مجموعی اس اصلاح کے لئے تیار نہ تھفتی محمد تغلي اور عالمگیر جیسے طاقتور بادشاہ اپنی شخصی دینداری کے باوجود نظام حکومت میں کوئی تغیر نہ کر سکے.مامون الرشید بیا با جبروت حکمران نظام حکومت میں نہیں صرفت، اس کی اُوپر کی شکل میں تبدیلی پیدا کرنا چاہتا تھا اور اس میں بھی ناکام ہوا.یہ اس وقت کا حال ہے جب کہ ایک شخص کی طاقت بہت کچھ کر سکتی تھی.اب یکں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو قومی اسٹیٹ جمہوری طرز پر تعمیر ہو گا.وہ اس بنیادی اصلاح ہیں آخر کس طرح مددگار ہو سکتا ہے.جمہوری حکومت میں اقتدار ان کے لوگوں کے ہاتھ میں آتا ہے.جن کو ووٹروں کی پسندیدگی حاصل ہو ووٹروں میں اگر اسلامی ذہنیت اور اسلامی فکر نہیں ہے اگر وہ صحیح اسلامی کریکٹر کے عاشق نہیں ہیں.اگر وہ اس بے لاگ مدل اور ان ہے لچک اصولوں کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.
جمن پہ اسلامی حکومت چلائی جاتی ہے.تو ان کے دونوں سے کم بھی مسلمان" قسم کے آدمی منتخب ہو کہ پارلیمینٹ یا اسمبلی میں نہیں آسکتے.اس ذریعہ سے انتدار تو ان ہی لوگوں کو ملے گا جو مردم شماری کے رجسٹر میں توچاہیے سلمان ہوں مگر اپنے نظریات اور طریق کار کے اعتبار سے جن کو اسلام کی ہوا بھی نہ لگی ہو اس قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار آنے کے معنی یہ ہیں.کہ ہم اس مقام پر کھڑے ہیں جس مقام پر غیر مسلم حکومت میں تھے ملیکہ اس سے بھی بد تر مقام ہے.کیونکہ وہ قومی حکومت جس پر اسلام کا نمائشی لیبل لگا ہوا ہوگا.اسلامی انقلاب کا راستہ روکتے ہیں اس سے بھی زیادہ جبر کی رہے باک ہوگی جتنی غیر مسلم ہوتی ہے.راسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے.زیر عنوان خام خیالیاتی طبع اول شد تا ۲۱ اس سے زیادہ کھل کر مودودی صاحیے سیاسی کشمکش حصہ سوم ص ۳۲ - ۳۳ میں دخواسے کیا.کہ جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اگر مسلم اکثریت والے علاقے سہند و اکثریت سے آزاد ہو جائیں اور یہاں جمہوری نظام قائم ہو جائے تو اس طرح حکومت اپنی قائم ہو جائے تھی.ان کا مکان غلط ہے دراصل اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہوگا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہوگی اس کا نام حکومت الہی رکھنا اس پاک نام کو ذلیل کرنا ہے کہ ڈی سی شکلی حصہ سوم طبع اقول مثلا)
۳۳ جماعت اسلامی کی بنیاد جناب مودودی صاحب نے سیاسی کشمکش حد سوم کے آخر میں نظریہ پاکستان کی علمبردار جماعت مو حالات قبل از پاکستان مسلم لیگ کے نازی ایک نئی پارٹی کے قیام کی ضرورت کا جی اعلان کیا جس کا نام انہوں نے اسلامی جماعت رکھا جو مسلم لیگ ہی مترادف ہے.کچھ وقت کے بعد جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے حلقہ اثر کے مخصوص حباب اس دعوت و تلقین پر ایک نئی پارٹی کی تشکیل پر آمادہ ہو سکیں گے.تو آپ نے ترجمان القرآن کے ذریعہ سے اعلان کردیا.کہ جو لوگ اس نوعیت کی جماعت سے وابستہ ہونے کو تیار ہوں وہ انکو مطلع کریں.جس پر کئی لوگوں کی چھیاں شمولیت کے لئے موصول ہوئیں.چنانچہ کا ر داد جماعت اسلامی حصہ دل کے مطابق جناب مودودی صاحب کی تحریک پر ۲۵ اگست ستہ کون ہور میں 20 افراد جمع ہوئے.جناب مودودی صاحب نے اپنی نئی جماعت کا پر گرام ان کے سامنے رکھا.اور دوسری جماعتوں کے مقابل اس کی اہم ترین خصوصیت یہ بیان فرمائی که ان تحریکوں کی نظر سند دوستان تک اور منہا دوستان میں بھی صرف کلم قوم تک محدود رہی ہے وہاں وسعت اختیار کی تو زیادہ سے زیادہ بین اتنی کہ دنیا کے مسلمانوں تاک نظر پھیلادی.مگر بہر حال یہ تحریکیں صرف ان لوگوں تک محدود رہیں جو پہلے سے مسلم قوم میں شامل ہیں....بالفعل ان میں سے اکثر کی سرگرمیاں غیر سلیموں کے اسلام کی طرف آنے میں الٹی سد راہ بن گئی ہیں.ان کے کاموں میں کوئی چیز اسی شامل
نهم سلام نہیں رہی ہے جو غیر مسلموں کو اپیل کرنے والی ہو.ہماری جماعت میں نہ صرف پیدائشی مسلمانوں کا صالح خلط کھینچ کر آئے گا.بلکہ نسلی غیر مسلموں میں بھی جو سعید روحیں موجود ہیں وہ انشاء اللہ اس میں شامل ہوتی جائیں گی.ز روداد جماعت اسلامی هشت) به بیان فرمانے کے بعد جناب سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نے بتایا.اسی بناء پر ہم اپنی جماعت کو اسلامی جماعت اور اپنی تحریک کو اسلامی نظریات کہتے ہیں.رابعا مت) ان الفاظ سے پور کی طرح کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ مودودی صاحب جماعت اسلامی کی بنیاد کے وقت یہاں سیاسی اعتبار سے مسلم لیگ کے نظریہ پاکستان کی راہ میں حائل ہو رہے تھے وہاں تنظیمی اعتبار سے وہ حجامت احمدیہ کے مقابل ایک دوسری جماعت تیار کر رہے تھے.ورنہ در حقیقت ان کی بیان کردہ تمام خصوصیات صحیح اسلامی روح و مزاج کے ساتھ پوری شان سے جماعت احمدیہ میں پہلے سے موجو د تھیں.خصوصا ایک عالمگیر نظام کے تحت غیر مسلموں میں تبلیغ اسلام کا جہاد تو وہ چیز ہے جس میں آج خدا کے فضل سے عرفت جماعت احمدیہ ہی مشغول و معروف ہے.اور دنیا جانتی ہے کہ اس کے سوا کسی اور جماعت نے عہد حاضر میں اس میدان میں قدم ہی نہیں رکھا.اس لئے.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح پیشگوئی ہے.إذا تَرَكَتِ الأَمْرَ بالمَعْرُونِ وَانتَهى عَنِ الْمُنْكَرِ
۳۵ حُرِمَتْ بَرَكَةُ الوَحى : ( شرح جامع الصغیر مصرى جلد اول طلا یعنی جب میری امت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑ بیٹھے گی تو وجی کی برکات سے محروم ہو جائے گی.پس موجودہ زمانے میں صرف وہی جماعت تبلیغ اسلام کا علم بلند کرنے کی توفیق پاسکتی ہے جس میں وحی کی برکات کا دوباہرہ حول ہو.اور یہ دخونی آج دنیا کے پردے پر صرف اور صرف جماعت محمدیہ کا ہے.کہ اسے امام الزمان کے ذریعہ سے الہام و کلام کی برکتیں حاصل ہیں.اس کے مقابل جناب مودودی صاحب کی طرف سے اپنی جماعت کا تعارف ہی یوں کہا یا جاتا رہا ہے.کہ و خودی اور خوابوں اور کشون دکرابات اور شخصی تقدیس کے تذکر دی سے ہماری تحریک بالکل پاک ہے.شہادت حق ما ) ینان ضمناً یہ بتانا بچسپی کا موجب ہوگا کہ سن 190ء کی بات ہے کسی نے جناب مودودی صاحب سے یہ سوال کیا کہ آپ کیسے مطمئن ہیں.کہ آپ کی تحریک ہی دین اسلام کے مزاج کے مطابق ہے؟ کیا اس بارے میں آپ کو آسمانی راہنمائی حاصل ہوئی ہے شے وحی والہام سے پاک ہونا کسی امر کی سند ہے اس کا جوان، جناب مودودی کے رسالہ ترجمان القران اکتو بر ۳) میں یہ لکھا ہے کہ اہل یورپ کے پاس تشم نگرانی تو ہے لیکن ان کو بڑی محرومی ہے کہ ان کے دلوں کو وحی اور الہام سے منور نہیں کیا گیا اور یہ حمت اتباع نبوت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی یا دوسری طرف دھی کی عظمت بیان کرتے ہوئے کھتے ہیں.روح کی تعریف ہے مد حیات اور اصل زندگی حیوانی زندگی کی اصل روح حیوانی ہے انسانی زندگی کی اصل روح مستانی اور اخلاقی زندگی کی اصل روح القدس اور وحی (مکاتیب زندان صلاا )
My آپ نے جواب دیا کہ :.دھی میرے نزدیک اب نہیں آسکتی.رہا الہام تو وہ ضروری نہیں.ہو تو اچھا ہے نہ ہو تو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہماری راہ نمائی کے لئے بالکل کافی ہے.ترجمان القرآن مارچ شفاء مثلا) مگر میں عرض کروں گا کہ یہ تو محض ایک ادعا ہے.ورنہ ان کا دل بھی حقیقت تسلیم کرتا ہے کہ تحریک اسلامی کے قیام اور اشاعت دونوں کے لئے خدائی راہ نمائی کا ہونا ضروری ہے.چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:.گر ہا آپ کا یہ خیال کہ پہلے تو وحی کی راہ نمائی کام کرتی تھی اس لئے صحیح وقت پر صحیح تدبیر اختیار کر لی جاتی منفی.مگر اب کیا ہوگا تو اس کا جواب قرآن مجید میں دے دیا گیا ہے.کہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلنا.وہ خدا جو پہلے راہ نمائی کرتا تھا دہی اب بھی راہ نمائی کرنے کے لئے موجود ہے.اس کی راہ نمائی سے فائدہ اٹھانے والے موجود ہونے چاہئیں.ہمارے اندر اگر ایک دو آدمی بھی ایسے موجود ہ ہیں.جو قرآن کی روح اپنے اندر جذب کر چکے ہوں....تو انشاء اللہ تعالے خدا کی را سہنمائی بھی ہمیں ہر مرحلہ پر حاصل ہو گی.اور ہم اس کی راہ نمائی سے فائدہ بھی اٹھا سکیں گے." (چراغ راه کا تحریک اسلامی نمبر ص ) بہر حال جماعت اسلامی تو وحی و الہام کی راہ نمائی سے آجینگ محروم ہے مگر یہ الہام
۳۷ کیم کی برکتوں ہی کا نتیجہ ہے.کہ خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کے مبلغین کو ایشیا ہی میں نہیں.امریکہ ، افریقہ اور یورپ میں بھی اعلائے ت الاسلام میں مصروف ہیں اور اس شان سے اسلامی خدمات انجام دے رہے ہیں.کہ غیر از جماعت متفقین بھی ان کو خراج تحسین ادا کئے بغیر نہیں رو سکتے.چنانچہ علامہ نیاز فتح پوری مدیر نگار جن کے نین محبت سے جناب مودودی صاحب کو قلمی میدان میں آنے کی تحریک ہوئی اپنے رسانہ نگار میں لکھتے ہیں :.میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مرزا صاحب جھوٹے انسان نہیں تھے.وہ واقعی اپنے آپ کو تبدئی موجود سمجھتے تھے اور یقینا انہوں نے یہ دعوی ایسے زمانے میں کیا جب قوم کو اصلاح و تنظیم کے لئے ایک بادی و مرشد کی سخت ضرورت تھی.علاوہ اس کے دوسرا معیار میں سے ہم کسی کی صداقت کو جان سکتے ہیں نتیجہ عمل ہے.سو اس باب میں احمدی جماعت کی کامیابیاں اس درجہ واضح و روشن ہیں کہ اس سے ان کے مخالفین بھی انکار کی جرات نہیں کر سکتے.اس وقت دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں.جہاں ان کی تبلیغی جماعتیں اپنے کام میں مصروف نہ ہوں.اور انہوں نے خاص عزت و وقار حاصل نہ کر لیا ہوتا زنگار" اگست 190) اسی طرح ملک کے مشہور مورخ و ادیب شیخ محمد اکرام صاحب ایم ہے لکھتے ہیں.
٣٨ بر صغیر کے مسلمانوں میں کوئی مذہبی جماعت ایسی نہیں ہے جو اس قدر منتظم اور سرگرم عمل ہو.نئے تعلیم یافتہ لوگوں کو مادیت اور دنیا داری نے عملی کام کے قابل نہیں چھوڑا.اور پرانے علماء زمانے کی ضروریات سے نادا نفت ہونے کی وجہ سے ایک عالم جمود میں ہیں.ان کے مقابلے میں احمد یہ جماعت میں غیر معمولی مستعدی ، جوش ، خود اعتمادی اور باقاعدگی ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تمام دنیا کے روحانی امراض کا علاج ان کے پاس ہے.یہ اعتقاد غلط ہو یا سچ لیکن اس نے ان کے کاموں میں ایک شرح پھونک دی ہے....احمدی جماعت کے فروغ کی ایک اور وجہ ان کی تبلیغی کوششیں ہیں.مرزا صاحب اور ان کے معتقدوں کا عقیدہ ہے کہ اب جہاد بالسیف نہیں بلکہ جہاد بالقلم اور جہاد باللسان یعنی تحریری ور بانی تبلیغ کا زمانہ ہے.ان کے اس عقیدہ سے عام مسلمانوں کو اختان ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ آج جہاد بالسیف کی اہلیت نہ احمدیوں میں ہے اور نہ عام مسلمانوں میں طاقت حلوه سینا نه تو داری و نه من عام سلمان تو جہاد بالسیف کے عقیدے کا خیالی دم بھر کے نہ عملی جہاد کرتے ہیں اور نہ تبلیغی جہاد لیکن احمدی...دوسرے جہاد یعنی تبلیغ کو ایک فریضہ ند سبی سمجھتے ہیں اور اس میں نہیں خاص کا میابی ہوئی ہے.I موج کوثر ص ۱۹ او ۱۹۳)
۳۹ مایہ احمد یہ جماعت کی تبلیغی کوششیں صرف انگلستان تک محدود نہیں جگہ انہوں نے کئی دوسرے ممالک میں کبھی اپنے تبلیغی مرکز کھوئے ہیں.دنیا کے مسلمانوں میں سب سے پہلے احمدیوں اور قادیانیوں نے اس حقیقت کو پایا کہ اگر چہ آج اسلام کے سیاسی زوال کا زمانہ ہے لیکن یاتی حکومتوں میں تبلیغ کی اجازت کی وجہ سے مسلمانوں کو ایک ایسا موقع بھی حاصل ہے جو نہ ہرے کی تاریخ میں نیا ہے اور جس سے پورا پورا فائدہ اٹھا نا چا ہئیے.....انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے ایک نیا راستہ کھول دیا ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے نا مرب کی بڑی خدمت کر سکتے ہیں.....اسلامی مسلمتوں کا تقاضا ہے کہ مینمی اور تبلیغی ملیکہ اقتصادی اور تمدنی امور میں بھی پاکستان اور بند دیوان کے مسلمان دنیائے اسلام یا کم از کم اسلامی ایشیا کی راہ نمائی کریں.یہ خیال قوم کے مطمح نظر کو بلند کر کے ایک نئی کہ درمانی زندگی کا باعث ہوگا.لیکن اس کے ایک حصہ کی عملی تشکیل سب سے پہلے احمدیوں نے کی کہ (ایضاً ص ۲۳) شیخ محمد اکرام صاحب نے جو حقیقت بڑی وضاحت سے بیان کی ہے وہ جناب مودودی صاحب کو ایک حد تک خود بھی مسلم ہے.چنانچہ انہوں نے اپنے ایک عدالتی بیان میں صاف کہا.، قادیانیت ایک تبلیغی تحریک تھی" د عدالتی بیان مودودی صاحب )
اس کے برعکس جناب مودودی صاحب کے سامنے تبلیغ اسلام کا مرے ہے کوئی پروگرام ہی نہیں تھا.ملیکہ وہ تو جماعت اسلامی کے طریق کارا اور ب العین کے بارے میں صاف صاف لکھ چکے تھے کہ یہ مدرسی تبلیغ کرنے والے واعظین (Preachers) اور مبیشترین و Mittionaries ) کی جماعت نہیں ہے.ملیکہ خدائی فوجدار دل کی جماعت ہے.التکونوا شهد او عَلَى النَّاس ) اور اس کا کام یہ ہے کہ دنیا سے خفته، فساد، بد اخلاقی، طعبیان اور ناجائز انتفاع کو برمور مٹا دے.لہذا اس پارٹی کے لئے حکومت کے اقتدار پر قبضہ کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے.کیونکہ مفسد ہے نظام تمدن ایک فاسد حکومت کے بل پر ہی قائم ہوتا ہے.اور ایک صالح نظام تمدن اس دانت کی طرح قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ حکومت مفسدین سے مسلوب ہو کر معلمین کے ہاتھ میں نہ آجائے؟ ر تفہیمات بعنوان جہاد فی سبیل اللہ حصہ اول طبع چہارم صدا ) ناظرین کے لئے یہ امر کچھ کہ تعجب کا موجب نہ ہوگا.کہ متشددانہ انقلاب کے ان عزائم کے باوجود جناب مودودی صاحب نے خاکسار تحریک کی بھی سخت مخالفت کی.ہم الیکہ جب آپ مذہبی دا خطین اور میترین کو نہایت حقارت سے ایک بیکار چیز کی طرح نظر انداز فرما کر خدائی فوجداروں کو دیکھنا چاہتے تھے.تو وہ مسلمانوں کی اس عسکری تنظیم کو جو علامہ مشرقی نے قائم کی منفی نظیر
M تی سے دیکھتے اور اس کی پشت پناہی کرتے یا کم از کم اس کی راہ میں مختل نے جوتے.مگر آپ نے ان میں سے کوئی بات بھی گوارا نہ فرمائی.اور خاکسار ریک کے بانی کے خلاف بہت کچھ لکھا، جو جناب محمد منظور صاحب نعمانی کی کتابی اک تحریک مذہب و سیاست کی روشنی میں" کے صفحہ 114 پر طبع شدہ من کتاب میں جناب مودودی صاحب نے علامہ مشرقی صاحب کو جھوٹا" نے دل تک قرار دیا.اسی طرح زنگون کے ایک مذہبی رسالہ الحمود یہ میر نے جب مشرقی تحریک کے بارے میں آپ سے استفسار کیا تو آپ نے جواب دیا کہ مشرقی صاحب جس چیز کو اسلام کے نام سے پیش کرتے ہیں اس کو اسلام سے کوئی تعلق نہیں.بلکہ وہ خالص مادہ پرستی ہے....جگہ زیادہ صحیح طور پر میں یہ کہوں گا کہ یہ صاحب مرزائے قادیانی سے اور اس سے پہلے کے مدعیان نبوت سے بھی آگے نکل گئے ہیں.احمد ان لوگوں نے نبوت کی حقیقت کو بدلا نہیں تھا.مگر ان صاح سے نبوت کی حقیقت کو ہی بدل ڈالا ہے.اور مسلمانوں کو یہ یا در کرانے کی کوشش کی ہے کہ انبیاء علیہم السلام دنیا میں وہی شین لے کر آئے تھے ہو ہٹلر اور مسولینی کا مشن ہے.مرزا صاحب نے اتنا کیا تھا کہ صرف جہاد بالسیف کو منسوخ ٹھہرایا ہے مگر جہاد کی غرض اور اس کے مقصد میں شائد کوئی نہ تو بدل نہیں کیا.مگر ان جناب نے جہاد کی روح ہی سلب کر لی ہے....مرزا صاحب نے تو جب ہے کے
عقیدہ کو غالباً چھیڑا نک نہیں.مگر مشرقی صاحب نے اس عقیدہ کو اس کی بنیاد سے اکھیڑ پھینکا ہے......پھر جب انشاک میں سمجھتا ہوں مرزا جیا صاحب نے عمل صالح کی حقیقت میں بھی کوئی ترمیم نہیں کی ہنگا مشرقی صاحب نے اس پر بھی ہاتھ صاف کیا ہے.ان کے نزدیک عمل صالح اس نوعیت کے عمل کا نام ہے جو جنگل میں بھیڑ یا بکری کے ساتھ کیا کرتا ہے.اور جو انسانوں میں چنگیز اور ہلاکو نے سکند را اور نپولین نے کیچز اور خوش نے کیا.مشرقی صاحب کی اصطلاح میں عمل صالح ہے ہوائی جہاز یم اور گیس تیار کرتا غیر صالح یعنی ایسے ذرائع نہ رکھتے یا کم رکھنے والی ہر قوم پر چڑھ دوڑنا اور اسے مغلوب کر کے اس کے گھر بار اور اس کی دولت و ثروت پہ قابض ہونا اس کا نام عملی صالح ہے.اور اس عمل کے نتیجہ میں جو مقبوضات ہاتھ آئیں وہ دور داشت ارضی کی تعریفیت میں آتے ہیں.جس کا وعدہ صالحین سے کیا گیا ہے....ہمیں ایسے لوگوں کو کافر کی سجائے منافق کہنا زیادہ صحیح سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک یہ کھلے دشمنان اسلام سے زیادہ خطرناک ہیں کفار اور کھلے ہوئے دشمنوں کو ہر شخص پہچانتا ہے.اور ان کا مقابلہ کہ سکتا ہے.مگر یہ منافقین اندر سے حملہ کرتے ہیں.قرآن کا نام لیکو اس کی تعلیم کو بدلتے ہیں.آیات قرآنی کی تما دمت کر کے ان کے معنوں کو مسخ کرتے ہیں " (الفرقان بریلی بابت صفر و ربیع الاول ۱۳۵۴ ملتاه)
خیر یہ بات تو برسبیل تذکرہ آگئی.میں یہ عرض کر رہا تھا کہ جناب سید ابوالاعلی احب مودودی نے جماعت اسلامی قائم کرنے کے لئے مختلف دوستوں کالا ہو ی سید جستماع کیا.اس اجتماع میں جو پچھتر نفوس پر مشتمل تھا.آپ نے دستور حبت اسلامی" کا مسودہ پڑھ کر سنا یا جو بعض ترمیمات اور اضافوں کے اتفاق رائے سے پاس ہو گیا.دستور کی دفعہ ۳ میں نظام سماعت کے میں یہ قرار پایا کہ اس جماعت میں کوئی شخص محض اس مفروضہ پر شامل نہیں ہو سکتا کہ جب وہ مسلمان گھر میں پیدا ہوا ہے.اور اس کا نام مسلمانوں کا سا ہے تو ضرور مسلمان ہو گا کا در دستور جماعت اسلامی طبع اول مشتنا ) استور میں بہت سی شرائط مزید ایسی عائد کی گئیں.جنہیں جماعت اسلامی" میں غیرت کے بعد پورا کرنا ضروری تھا.مثلاً اگر کوئی شخص کسی غیر الہی نظام کی طرفف نے سے خطاب رکھتا ہو.تو اس کو واپس کرے" (صفحہ ۱۱ زیر دفعہ ہم ) وہ اکثر سرا قبال اگر اس وقت زندہ ہوتے تو انہیں جماعت اسلامی کا ممبر بنات سے انکار کر دیا جاتا کیونکہ برطانوی حکومت نے ان کو اور ان کے کہنے پر اُن کے استاد میر حسن صاحب سیا لکوٹی کو خطاب دے رکھا تھا ) جماعت اسلامی میں داخل ہونے والوں کو تین طبقوں میں تقسیم کرنے کا فیصد مواد و لیسے اشخاص جوتن من دھن سے جماعت میں شریک ہوں جو اسلامی * نا یہ اجتماع دفتر از جمان القرآن پونچھ روڈ مبارک پارک لاہور میں منعقد ہوا تھا.یہ مسودہ آپ سیاسی کشمکش حصہ سوم میں شائع کر چکے تھے..
ہم تم نصب العین کے حصول کی جد و جہد میں ہر قربانی کے لئے تیار ہوں.....جماعت کا اصل کا رکن د کار فرما عنصر وہی ہوں گے اور راہنمائی و سربراہ کاری انہی کے ہاتھ میں ہوگی کا محمول (س) وہ لوگ جو اپنے آپ کو بالکلیہ وقت کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور نہ خطرات اور قربانیوں کا پورا بار اٹھا سکتے ہوں.....وہ طبقہ دوم میں شمار ہوں گے.....ذمہ داری کا کوئی منصب ان کے سپرد نہ کیا جائے گا.(۳) جو لوگ کلمہ اسلام پر اصولی حیثیت سے ایمان لائیں مگر غیر الہی نظام سے ان کے جو مفاد وابستہ ہیں ان کا نقصان گوارا نہ کر سکیں.طبقہ سوم میں داخل ہوں گے.اور ان کا شمار صرف مردوں میں ہوگا بشرطیکہ وہ دوسری وفاداریوں پر.خدا کی وفا داری کو مقدم رکھیں.جماعتی مشورہ میں وہ صرف اس حد تک شریک ہو سکتے ہیں جس حد تک جماعت کو ان کے اخلاص پر اعتماد ہوئے وايضا صفحہ ) دستور کے دفعہ 10 میں یہ پاس ہوا کہ :.اس جماعت کا ایک امیر ہو گا.....اس کی اطاعت فی المعروفت جماعت کے کل افراد اپنے امیر (با صطلاح شرعی) کی حیثیت سے کریں گئے (رح) جماعت اسلامی کے اس اولین دستور میں جو شاہ کے ابتدا تک نافذ رہا.ابتداء کوئی ایسی شق نہیں رکھی گئی تھی.کہ یہ جماعت آئینی ذرائع استعمال
کرے گی.البتہ تیرے دستور میں جو ۲۶ رمٹی شاہ سے نافذہ ہوا.زیر دفعہ ہ یہ اضافہ کیا گیا کہ جماعت جمہوری اور آئینی طریقیوں سے کام کرے گی.ر دستور جماعت اسلامی تاریخ شهوه طبع ثانی ص۲۶) المختصر جناب مودودی صاحب دستور کی منظوری حاصل جماعت اسلامی کی کر چکے تو آپ نے کلمہ شہادت کا اعادہ کر کے فرمایا.لوگو! ابتدائی تاریخ گواہ رہو کہ میں آج از میر تو ایمان لاتا اور جماعت اسلامی میں شریک ہوتا ہوں.دروداد جماعت اسلامی حصہ اول حشم اس کے بعد آپ نے حاضرین کو توجہ دلائی کہ اسلام بغیر جماعت کے نہیں ہے.اور جماعت بغیر امارت کے نہیں ہے.اس قاعدہ کلیہ کے بموجب آپ کے لئے ضروری ہے.کہ جماعت بننے کے ساتھ ہی آپ اپنے لئے ایک امیر منتخب کرلیں ) روداد جماعت اسلامی حصہ اول طبع اول ما حضرات ! دنیائے اسلام میں غالبا یہ پہلا موقع تھا کہ جماعت تو موجود تھی مگر امیر موجود نہ تھا.بہر حال سوچے سمجھے پو گرام کے مطابق حاضر افراد کے اتفاق رائے سے جناب ستیارا ابوالاعلیٰ صاحب مودودی امیر منتخب ہو گئے.پہلے تبعیت عام ہوئی اور آپ نے فرمایا.میں جانتا ہوں کہ یہ وہ سحریک ہے جس کی قیادت اولوا العزام من میں نے کی ہے " درو دا د جماعت اسلامی حصّہ اوّل ممشا ) قیام جماعت کے پیچھے کیا جذبہ کار فرما تھا اور آپ کس طرح مصنوعی طریق سے انقلاب فکر و عمل بر پا کرنا چاہتے تھے ؟ اس کا علم بناب مودودی صاحب
۴۶ کے ان الفاظ سے ہو سکتا ہے.فرماتے ہیں.را صرف آٹھ برس کی قلیل مدت میں دنیا کے سب سے بڑے بادی در راہبر نے مدینہ کے پاور ہاؤس میں اتنی زیر دست قوت بھر دی کہ اس نے دیکھتے دیکھتے سارے رب کو منور کر ڈالا.اور پھر عرب سے نکل کر اس کی روشنی روئے زمین پر پھیل گئی.ہم اس پاور ہاؤس کی نقل کرنا چاہتے ہیں : رچراغ راہ تحریک اسلامی نمبر مثا، اس کے ساتھ ہی آپ کا قطعی نظریہ یہ تھا کہ لوگ اس کو معجزہ کی قسم کا واقعہ سمجھ کر کہ دیتے ہیں اب یہ کہاں ہوتا ہے ؟ بنی ہی آئے تو یہ بات ہو مگر تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ با لکل ایک طبیعی قسم کا واقعہ ہے.اس میں علت اور معلول کا پور ا منطقی اور سائنیف ربط ہمیں نظر آتا ہے.آج بھی ہم اس اهنگ پر کام کریں تو دی ماتی بر آمد ہو سکتے ہیں.ر سیاسی کشکئی حصہ سوم طبیع اول من ) سے نقل کے بارے میں جناب کا ایک مخصوص نظر یہ بھی یا درکھنے کے قابل ہے فرماتے ہیں الہ ہی سنت کی پیروی نہیں بلکہ اس کی خلاف ورزی ہے کہ حقیقی مومن اسلم منتفی اور محسن بنائے بغیر لوگوں کو متقیوں کے ظاہری سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے اور ان سے حسنین کے چند مشہور و مقبول عام افعال کی نقل اتروائی جائے.میرے نزدیک تو ایک کھلی ہوئی جعلساز کیا ہے یا تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں منہ کا
عالم بہر کیف جب --- مودودی صاحب امیر منتخب ہو چکے تو آئندہ طریق کانہ ---- کے بارہ میں مفصل پروگرام تجویز کیا گیا.اور جماعت احمدیہ کی طرح مختلف شعبہ جات قائم کئے گئے.اور ایک مرکزی بیت المال بھی کھولا گیا جس میں سابق ادارہ دارالاسلام کے حسابات بھی منتقل کر دیئے گئے.اس سلسلہ میں ایک شعبہ دعوت و تبلیغ " بھی تجویز کیا گیا.چنانچہ روداد جماعت اسلامی حصہ اول میں لکھا ہے.سے یہ مشتبہ (اس جماعت کا سب سے اہم شعبہ ہے.اور دراصل کامیابی کا بخار ہی اس شعبہ کی کارگزاری پر ہے.یہ شخص جو جماعت اسلامی پر کارکن ہو.لازمی طور پر اس شعیہ کا رکن ہوگا.اس کو دائماً ایک مبلغ کی زندگی میسر کر نی ہوں گی.اس کے لئے لازم ہوگا کہ جہاں میں عانقہ میں بھی اس کی پہنچے ہوسکتی ہو.جماعت کے عقیدہ کو پھیلائے.اس کے نصب العین کی طرف دعوت دے اور جماعت کے نظام کی تشریح کرے مگر تبلیغی مصالح کے لحاظ سے یہ ضروری معلوم ہوا کہ کام کرنے کے لئے آٹھ مختلف حلقے معین کر دیئے جائیں.اور جماعت کا ہر کارکن اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے صرف انہیں حلقوں میں تبلیغ کرے.جن سے وہ زیادہ مناسبت رکھتا ہے.یہ حلقے حسب ذیل ہیں :- ا.کالجوں اور جبارید تعلیم یافتہ لوگوں کا مسلطہ.۲.علماء اور مدارس غریبیہ کا حلقہ.صوفیا اور مشائخ طریقت کا حلقہ.
۴۸ م سیاسی جماعتوں کا حلقہ ۵- شہری خوام کا حلقہ.دیہاتی عوام کا حلقہ -.خورتوں کا حلقہ غیر مسلموں کا حلقہ.ر گرو داد جماعت اسلامی حصہ اول ص ۲۲-۲۴) جناب مودودی صاحب نے مسند امارت پر متمکن ہوتے ہی بعض ہدایات بھی جاری کیں.مثلاً ارشاد فرمایا : - جماعت کے ارکان کو قرآن اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ سے خاص شغف ہونا چاہیئے......اس تحریک کی حیان در اصل تعلق باللہ ہے.اگر اللہ سے آپ تحقیق کز دور ہو تو آپ حکومت الہیہ قائم کرنے اور کامیابی کے ساتھ چلانے کے اہل نہیں ہو سکتے.....جلسے اور جلوس جھنڈے اور نعرے ، یونیفارم اور مظاہرے، ریزولیوشن اور ایڈریس ، بے لگام تقریریں اور گرما گرم تحریریں اور اس نوعیت کی تمام چیزیں ان ستر کیوں کی جان ہیں.مگر اس سنتحر یک کے لئے سم قاتل ہیں کا پرند با یاد آپ کو اسمبلیوں اور ڈسٹرکٹ بورڈوں اور انکے الیکشنوں سے اور مہند واور مسلمان اور سکھ وغیرہ قوموں کے نفسانی جھگڑوں سے اور مختلف پارٹیوں اور
۴۹ ذہبی فرقوں اور مقامی قبیلوں اور برادریوں کے تنازعات سے بالکل کنارہ کش رہنا چاہیئے " از وداد جماعت اسلامی حصہ اول صفحہ ۶ ۲ تا ۲۸) جناب مودودی صاحب اور ان کے رفقاء ابتدا ہی سے جماعت اسلامی کے سوا باقی سب طریقہ ہائے کار کو سراسر باطل قرار دیتے آئے ہیں.درود او جماعت اسلامی حصہ سوم صلا) اور مسلمانان عالم کو چڑ یا گھر کے جانور ٹھہراتے رہے ہیں ر رو دا د جماعت اسلامی حصہ خواتین صفحه ۱۷) مسلمان اماموں کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ رہا ہے کہ اپنی کی وجہ سے نمازیں بے اہ ہو گئیں.چنانچہ ان کا کہنا ہے :- مسجدوں کی امامت کے لئے ان لوگوں کو چنا جاتا ہے جو دنیا میں کسی اور کام کے قابل نہیں ہوتے مسجد کی روٹیاں کھانے والے فرض دین کو کمائی کا ذریعہ سمجھنے والے ، جاہل ، کم حوصلہ اور بیت اخلاق لوگوں کو آپ نے اس نماز کا امام بنایا ہے جو آپ کو خدا کا خلیفہ اور دونی میں خدائی فوجدار بنانے کے لئے مضر کی گئی تھی یہ خطبات با رفتم صلا) العینہ اس بارہ میں ان کی دیانتدارانہ رائے یہ ضرور تھی.کہ نالائق امام مسجدوں میں خود نہیں آئے بلکہ مسلمان ان کو لائے ہیں مسلمانوں کو دراصل وہ لوگ مطلوب ہی نہیں ہیں جو بستیوں میں ان کے واقعی امام بن کر رہیں.اور مسجدوں کو اسلامی زندگی کا مرکز باکر دیکھیں.ان کا بگڑا ہوا مذاق، ان کی دینی ہے جیسی ، ان کی اخلاقی نیستی
ان کا دنیا میں استغراق اور خدا کے ساتھ ان کا منافقانہ رویہ صرف ایسے امام پسند کرتا ہے جو بستیوں کے پیشہ ورکمینوں کی طرح ایک تم کے کمین بن کر ان کی مسجدوں میں رہیں.اور ان کی دی ہوئی روٹیائی کھا کہ پیش نمازی کا کام میں اس طرح انجام دیا کریں جس طرح وہ ان سے لینا چاہتے ہیں.پس خرابی یہ نہیں کہ جسم یعنی مسلم سوسائٹی) زندہ ہے مگر کسی حادثہ سے اس کے دل ریعنی مسجد) پر جمود و سکون طاری ہو گیا.بلکہ حقیقی خرابی یہ ہے کہ جسم خود ٹھنڈا ہو گیا ہے اور اس نے بالآخر دل کو ٹھنڈا کر کے چھوڑا ہے.درو داد جماعت اسلامی حصہ سوم طالات (۱۰۲) دستور جماعت اسلامی میں چود سکہ یہ شرط بھی رکھی گئی تھی کہ صالحین دو سر لوگوں سے جو خدا سے غافل اور فساق ہوں.بالکل قطع تعلق کر لیں.ردستور جماعت اسلامی ۱۹۲ء صلا، اس لئے جماعت کے بعض ارکان کی طرف سے جب یہ تجوینہ پیش کی گئی کہ ارکان اپنی اور اپنے بچوں کی شادیاں صرف دیندار لڑکی یا لڑکے سے کریں تو امیر جماعت اسلامی جناب مودودی صاحب نے فرمایا :- یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے تجویز کی حیثیت سے پیش کیا جائے یہ تو حقیقتی دینی شعور پیدا ہو جانے کا لازمہ اور اس کا قطر نی نتیجہ ہے جس آدمی میں بھی یہ شعور پیدا ہو جائے گا وہ لانگا دین سے پھرے ہوئے اور اخلاقی حیثیت سے گرے ہوئے لوگوں کو شادی بیاہ کے تعلق کے لئے تو در کنانہ دوستی در نشینی کے لئے بھی پسند نہ کرے گا.اور اگر
۵۱ کوئی شخص ایسا ہے جو دینی شعور رکھنے کا دعوی کرتا ہے مگر شادی بیاہ کے لئے دین و اخلاق دیکھنے کی بجائے مال و دولت و دنیوی و جاہت کا لحاظ کرتا ہے تو اس کا دعوی یا تو فریب ہے یا پھر ایک غلط فہمی ہے جو اسے اپنی نسبت ہو گئی ہے.ایسے لوگ اگر خدانخواستہ ہماری جاکات میں پائے جائیں.تو انہیں ضرور مطلع کر دینا چا ہیئے.کہ آپ کے لئے یہاں کوئی میگہ نہیں ہے کا ڈرودار جماعت اسلامی حصہ سوم ) جناب مودودی صاحب نے جماعت اسلامی میں داخل ہونے والوں کو ها قیام جماعت کے موقعہ پر ہی یہ انتباہ کر دیا تھا کہ :- یہ وہ راستہ نہیں ہے جس میں آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹ جانا دونوں جہاں ہوں.نہیں.یہاں پیچھے ہٹنے کے معنی ارتداد کے ہیں یہ دروداد جماعت اسلامی حصہ اول صه) جناب مودودی صاحب کے مراسم جو قبل ازیں بچو ہدری نیاز علی صاحب سے قطع ہو چکے تھے اب پھر استوار ہو گئے.اور آپ لاہور چھوڑ کر دوبارہ جمالپورہ منفصل پٹھانکوٹ، چلے گئے.اور وہیں اپنا مرکز قائم کر کے اپنا کام شروع کر دیا چنانچہ روداد جماعت اسلامی" حصہ اول ص۳۲ پر لکھا ہے :- یچو ہدری نیاز علی خانصاحب نے ازراہ عنایت اپنے ونفت کی عمارات ہمیں مستعار دنیا نیول فرمالیا.چنانچہ اس فیصلہ کے مطابق دار خون ملہ کو امیر جماعت نے چند رفقاء سمیت وہاں نقل مقام کیا.اوراس وقت سے یہ مقام جماعت کا مرکن قرار پا گیا کا
۱۹۴۶-۴۵ء کے سال مسلمانان ہند کی سیاسی جد و جہاد میں انقلابی سال تھے.کیونکہ ان میں ملکی انتخابات ہوئے جس میں مسلمانوں کی اکثریت نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالئے.یہ قومی جد و جہد کا زیر دست معرکہ تھا جس میں دوسرے مسلمانوں کے دوش بدوش جماعت احمدیہ نے بھی گذشتہ روایات کے مطابق یہ جوش حصہ لیا.جناب ابوالکلام آزاد کے ساتھیوں نے مسلم لیگ میں احمدیوں کی شمولیت پر اعتراض اٹھایا تو مشہور الملحدیث عالم میرا ابراہیم صاحب سیالکوٹی مرحوم نے اس کے جواب میں یہا تک لکھا کہ احمد یوی کا اس اسلامی جھنڈے کے نیچے آ جانا اس کی دلیل ہے کہ تمھی مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے.وجہ یہ کہ احمد سی لوگ کانگریس میں تو شامل ہو نہیں سکتے کیونکہ وہ خالص مسلمانوں کی جماعت نہیں ہے اور نہ احرار میں شامل ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ سب مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ صرف اپنی احراری خیانت کے لئے لڑتے ہیں بین کی امداد پر کانگریسی جماعت ہے.اور حديث الدين النصيحة" کی تفصیل میں خود رسول مقبول نے عامر مسلمین کی خیر خواہی کو شمار کیا ہے.(صحیح مسلم ، ہاں اس وقت مسلم لیگ ہمیں ایک ایسی جماعت ہے جو خالص مسلمانوں کی ہے.اس میں مسلمانوں کے سب فرقے شامل ہیں.پس احمدی صاحبان بھی اپنے آپ کو ایک اسلامی فرقہ جانتے ہوئے اس میں شامل ہو گئے جس طرح کہ اہلحدیث اور حنفی اوررر شیعہ و غیر مسلم شامل ہونے اور اس امر کا افزار کہ احمدی لوگ
اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہیں مولانا ابوالکلام صاحب آزاد کو بھی ہے.دپیغام ہدایت در تائید پاکستان مسلم لیگ میر ابراہیم سیالکوٹی طلا املا ) جناب رئیس احمد صاحب جعفری نے اپنی کتاب حیات محمد علی جناح ہیں قیام پاکستان میں جماعت احمدیہ کی خدمات کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے.مسلم قوم کی مرکزیت ، پاکستان یعنی ایک آزاد اسلامی حکومت کے خیام کی تائید مسلمانوں کے پاس انگیز مستقبل، عامتہ المسلمین کی صلاح و فلاح ، بنجاح و مرام کی کامیابی ، تفریق بین المسلمین کے خلاف ریمی اور غصہ کا اظہار کون کر رہا ہے.امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور جماعت حزب اللہ کا داعی اور امام الہند ؟ نہیں پھر کیا جانشین شیخ الہند اور دیوبند شیخ الحدیث وہ بھی نہیں ؟ پھر کون؟ وہ لوگ جن کے خلاف نفر کے فتووں کا پشتارہ موجود ہے.جن کی نا سلمانی کا چرچا گھر گھر ہے جن کا ایمان جن کا عقیدہ مشکوک مشتبہ اور محل نظر ہے.کیا خوب کہا ہے ایک شاعر نے سے کامل اس فرقہ زیا د سے اٹھا نہ کوئی کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوتے (۴۸۴۳) قیام پاکستان کی اس جنگ میں جہاں دوسرے مسلمانوں کی اکثریت شامل ہوئی وہاں جناب سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی نے انتخابات میں شرکت ہی کو حرام قرار دے دیا.اور تقریر فرمایا.
ووٹ اور الیکشن کے معاملہ میں ہمارہ کی پوزیشن کو صاف صاف، ذہین نشین کر لیجئے.پیش آمدہ انتخابات یا آئندہ آنے والے انتخابات کی اہمیت جو کچھ بھی ہوا ور ان کا جیسا کچھ بھی اللہ ہماری قوم یا ملک پر پڑتا ہو بہر حال ایک با اصولی جماعت ہونے کی حیثیت سے ہمارے لئے یہ ناممکن ہے کہ کسی وقتی مصلحت کی بناء پر ہم ان اصولوی کی قربانی گوارا کر لیں.جن پر ہم ایمان لاتے ہیں کہ ا ترجمان القرآن ضروری ۱۹۲۶ ۶ (۱۳۵۰) اس کے بعد انہوں نے فروری ۱۹۳۶ء میں نظریہ پاکستان کی مخالفت میں انتقال نگیز مضمون لکھا جس میں کہا.رہے وہ علاقے جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے تو اگر بالفرض وہ پاکستان کی صورت نہیں خود مختار ہو جائیں......تو جو حالات اس وقت پائے جاتے ہیں ان نہیں یہ ممکن نہیں ہے کہ آزاد پاکستان کے نظام کو اسلامی دستور میں تبدیل کیا جا سکے.کیونکہ حنت المقار میں رہنے والے لوگ اپنے خوابوں میں خواہ کتنے ہی سبز باغ دیکھا ہے ہوں لیکن آزاد پاکستان را گردہ فی الواقع بنا بھی تو ) ناز کا جمہوری لا دینی اسٹیٹ کے نظریہ پر بنے گا." رتر جمان القرآن فروری ۱۹۲۶ ۱۹۲) پھر اپنا ایک جدید پر وگرام بیان کرنے کے بعد لکھا :.چونکہ منزل حق یہی ہے اس لئے ہم اس کی طرف دوڑتے ہوتے
AD مرجانا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں یہ نسبت اس کے کہ جانتے بوجھتے غلط مگر آسان راہوں میں اپنی قوت صرف کریں.یا نادانی کے ساتھ جنت الحمقاء کے حصولی میں اپنی قوت ضائع کریں (ایضاً ما ) اور آخر میں طنزاً لکھا :- را ایک اصول تقریبا کے کارکنوں کو یہ خبر دنیا کہ تمہارے لئے ایک قوم مستانہ ستخر یاک نے بڑے اچھے مواقع پیدا کر دیئے ہیں.کسی بصیرت اور معاملہ فہمی کا ثبوت نہیں ہے.اس کی مثال تو بالکل ایسی ہے جیسے کسی عازم کلکتہ کو یہ خبر دی جائے کہ کراچی میل تیار کھڑا ہے.- رايفنا متا) جناب مودودی صاحب پوری شان سے یہ زہریلا پراپیگنڈہ کر رہے تھے.کہ خدا کے فضل سے ہار اگست ما ء کو پاکستان کا چاند طلوع ہوا.اور دنیا کے نقشہ میں ایک اور مسلمان حکومت اُبھر آئی.قیام پاکستان کے ساتھ ہی مہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات اُٹھ کھڑے ہوئے.اور جناب مودودی صاحب جو پہلے یہ اعلان فرما چکے تھے کہ ہم پاکستان میں قدم رکھنے کی بجائے مر جانا زیادہ بہتر سمجھیں گے.۳۰ اگست کی 19ء کو اپنا دار الاسلام سکھوں کے حوالے کر کے رحبت الحمقاء میں تشریف لے آئے یعنی پاکستان میں پناہ گزین ہو گئے اور اچھر کو اپنی جماعتی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا.(ترجمان القرآن اگست 19 ملل ) ا حضرات آپ اس انکشات پاکستان میں تمام اسلامی کے مجاہد ہے کا پر حیران ہوں گے کہ جماعت اسلامی
ស។ عرب ممالک ہیں یہ پراپگینڈہ کر رہی ہے کہ امیر الجماعة الاسلاميه...يقودها الى ميادين الجھا دیا یعنی جماعت اسلامی کے امیر جہاد کے میدانوں میں جماعت اسلامی کی قیادت فرماتے ہیں.(الجماعة الاسلاميه دعوتها واهدافها ونهاج عملها - مشح.پاکستان میں آنے سے قبل جو اسلامی مجاہدانہ کارنا ہے جناب مردودی صاحب اور آپ کی جماعت نے انجام دیتے رہ میں اختصار سے عرض کر چکا ہوں.پاکستان میں قدم رکھنے کے بعد آجینگ یہ حضرات میدان جہاد کی کین کین مہمات کو سر کر چکے ہیں.دہ تو آنکھوں دیکھی چیز ہے جس پر شاید کچھ زیادہ تفصیل سے روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے.لہذا میں مختصرا ان مجا این کرام کے صرف چند جہاد ترم کرنے پر ہی اکتفاء کروں گا." پہنا جہاد جناب مودودی صاحبے یہ سرانجام دیا کہ حکومت پاکستان پہلا جهاد ا کی طرف سے ترجمان القرآن کے دوبارہ اجراء کی اجازت ملتے ہی جو سب سے پہلا پرچہ جون شاہ میں شائع کیا.اس میں حکومت پاکستان اور تمام مسلم قوم پر سخت نا پاک - رکیک اور سوقیانہ حملے کئے گئے بلکہ انہیں معاش تک کہ ڈالا.چنانچہ کہا :- انسان انسان سے بارہا لڑا ہے مگر لڑائی میں کمینہ پن اور بد معاشی کا جو مظاہرہ یہاں ہوا ہے یہ اپنی نظیر بس آپ ہی ہے.یہاں انسان صورت جانوروں نے وہ وہ کام کئے ہیں کہ اگر کتوں اور بھیڑیوں پر ان کا الزام تھوپ دیا جائے تو وہ بھی اسے اپنی تو ہیں محسوس کریں.
اور یہ کر توت چند گنے چنے ہر معاشوں کے نہیں تھے بلکہ پوری پوری قوموں نے اپنے آپ کو بد معاش ثابت کیا.باقاعدہ حکومتیں بدمعاش بن گئیں، بڑے بڑے لیڈروں اور رئیسوں اور وزیر وں نے معاشی کی اسکیم سوچی اور حکومتوں کے پورے نظم ونسق نے اپنے مجسٹرٹیوں اور اپنی پولیس اور اپنی فوج کے ذریعہ سے اس کمی کو عملی جامہ پہنایا.کیا یہ سب کچھ جو واقع ہوا محض ایک اتفاقی حادثہ تھا ؟ جو لوگ پچھلے نہیں سال سے اس ملک کی راہنمائی کرتے رہے ہیں اور جن کی قیادت میں یہ انقلاب رونما ہوا ہے ریعنی قائد اعظم وغیرہ.ناقل ) وہ ایسا ہی کچھ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.وہ اس فساد عظیم کے اسباب کی بحث کو باتوں میں ٹالنا چاہتے ہیں.....کیونکہ یہ محبت ان سب لوگوں کا منہ کالا کر دینے والی ہے.جنہوں نے پچھلی ربع صدی میں ہمارے ملک کی سیاسی تحریکوں کی قیادت فرمائی ہے: (ص ۴) اس قیادت کی غلطیاں اس سے بہت زیادہ ہیں کہ چند سطروں میں نہیں شمار کیا جا سکے.مگر اس کی چند غلطیاں تو اتنی نمایاں ہیں کہ آج ہردی ہوش آدمی ان کو بری طرح محسوس کر رہا ہے.مثال کے طور پر اس نے (1) حصول پاکستان کی جنگ میں اُن علاقوں کے مسلمانوں کو شریک کیا جنھیں لامحالہ سہندوستان میں ہی رہنا تھا.آج یہ اس کا خمیازہ ہے کہ ہندوستان کی سر زمین بان عزیش کے لئے جہنم بن گئی ہے.حالانکہ ان غریبوں کے لئے مولانا مودودی صاحب کے دل میں کتنا درد ہے اس کا اندازہ اس سے ریقیه منده پر)
۵۸ اگر تقسیم کے بعد ہندوستانی اور پاکستانی مسلمانوں کا متقبیل ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہو جانے والا تھا.تو کوئی وجہ نہ معنی کہ تقسیم سے پہلے دنوں کی پالیسی ایک ہوتی (۲) اس نے مہندوستانی مسلمانوں کو ایک ہفتہ پہلے بھی خیر دار نہ کیا کہ تقسیم کے وقت ان پر کیا طوفان ٹوٹنے والا ہے ؟ اگر فی الواقع اسے ان حالات کا اندازہ ہی نہ تھا.تو اس کی غفلت و بے خبری قابل نائم ہے.اور اگر اس نے جان بوجھو کہ مسلمانوں کو بے خبر رکھا تو اس غداری کے لئے اسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا ہے ر ترجمان القرآن جون شاه منت اس پرچہ میں دوسرا جہاد جماعت اسلامی کے امیر جناب دوسرا جهات المواد مودودی صاحب نے یہ کیا کہ اس میں یہ فتوی کشمیر شائع کیا کہ پاکستان کے باشندوں کے لئے اس میں حصہ لینا اس وقت تک جاری نہیں جب تک ان کی نمائندہ حکومت اور حکومت ہند کے درمیان معاہدانہ مرد تعلقات قائم ہیں.رابعنا م ) حالانکہ انہیں یہ حکم تھا کہ کثیر کے معاملہ میں حکومت ہند اور حکومت پاکستان کا کوئی معاہدہ نہیں بقیه حاشیہ وہ ہوتا ہے کہ انہوں نے سواء کی تحقیقاتی عدالت میں بھارتی مسلمانوں کے متعلق یہ بیان دیا کہ مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا اگر بھارتی حکومت مسلمانوں سے کیوں اور شودروں کا سا سلوکی کرے ان پر مینو کے قوانین کا اطلاق کیا گیا.اور انہیں حکومت میں حصہ اور شہریت کے حقوق نہ دیئے جائیں " ر رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو ص ۲۳) ۲۴۵
وه ہوا ہے بلکہ یہ معاملہ ان کے درمیان ما بہ النزاع ہے.اور حکومت پاکستان انڈین یونین کے ساتھ کشمیر کے الحاق کو تسلیم کرنے سے انکار کر چکی ہے.والعنا ملا (۷۷) اس فتوے پر سکھ اخبارات نے ان کو مرد مجاہد اور شمع ہدایت کے خطابات سے نوازا.ملاحظہ ہور شیر پنجاب بحوالہ نوائے وقت ۳۰ اکتوبر ۱۹۹) تیسرا جہادا انگریزی دور حکومت میں جناب مودودی صاحب سے کسی نے دریافت کیا.کیا کافر حکومت کے اندر رہتے ہو ئے.یہ کو جائز ہے کہ آدمی لائسنس کے بغیر شکار کھیلے اور بغیر لیمپ کے راتوں کو موٹریا بائیس کل چلائے.جناب مودی نے جواب دیا.اگر آپ ایسی حکومت میں رہتے ہیں تو انتظام ملکی کو بر قرار رکھنے کے لئے جو منا بطے اس نے بنائے ہیں اور جو تو ائین ، بہر حال ایک منتظم سوسائٹی کو سجال رکھنے کے لئے ضروری ہیں انہیں خواہ مخواہ توڑنا آپ کے لئے درست نہیں......قانون شکنی کے معنے بد نظمی پیدا کرنے کے ہیں.جو اللہ تعالے کے منشاء کے خلاف ہے.اللہ تعالے اپنی زمین میں نظم دیکھنا چاہتا ہے.نہ کہ بد نظمی.اس لئے اگر آپ خواہ مخواہ اس کی زمین کا نظم گا ڑیں گے تو اس کی تائید سے محروم رہیں گے کیا د رسائل و مسائل ۴ و ۴۶۴) یہی نہیں جب جناب مولوی مناظر احسن صاحب گیلانی نے ہندوستان کو دار ہم ریز قرار دیا تو آپ نے جواب دیا کہ
۶۰ مهند وستان بلاشبہ اس وقت دار الحرب تھا جب انگریزی حکومت یہاں اسلامی سلطنت کو مٹانے کی کوشش کر رہی تھی.اس وقت مسلمانوں کا فرض تھا کہ یا تو اسلامی سلطنت کی حفاظت میں جائیں لڑاتے یا اس میں ناکام ہونے کے بعد یہاں سے ہجرت کر جاتے.لیکن جب وہ مغلوب ہو گئے.انگریزی حکومت قائم ہو چکی اور سلمان نے اپنے پرسنل لاء " پر عمل کرنے کی آزادی کے ساتھ یہاں رہنا قبول کر لیا.تو اب یہ ملک دارالحرب نہیں رہا ہے اسود حصہ اول عمده حاشیه از جناب موودی) برطانوی دور کے بعد آپ کے رفقاء نے یہاں پاکستان میں اگر مملکت پاکستان کے بارہ میں فر مایا :- اس جمہوری دور نہیں ریاست کے ساتھ ہمارا معاملہ اس توقع پرینتی ہے کہ یہ قطعی طور پر ایک اسلامی ریاست بنے گی.اگر ہماری یہ توقعات پوری ہو گئیں تو اسلامی ریاست کی خدمت اور اس کی دفاداری عین ہما را جز و ایمان ہوگی اور اگر خدا نخواستہ یہ ایک غیر دینی ریاست ) Scutar stade ) بنادی گئی.تو ہم اس کی وفاداری کے لئے ہر گز تیار نہیں ہوں گے بلکہ اسے دیسی ہی طاعوتی ریاست سمجھیں گے جیسی کہ سابق انگریزی حکومت تھی " المفلٹ جماعت اسلامی کے اصول و مقاصد - طریق کار نظام جماعت اور تازہ پروگرام شائع کردہ شعبہ نشر و اشاعت جماعت اسلامی لاہو ر شتری مال لاہورمت
41 پھر انہوں نے حکومت پاکستان کے خلاف شورش بر پا کرتے ہوئے یہ کہنا شروع کر دیا ہے عزیزوں زلیخاؤں نے کر کے سازش، رکھا صرف عصمت پہ جن بوسفوں کی وہ یوسف جو زنداں میں بھڑتے رہے ہیں اب ان کے لئے تخت تمکیں بچھا دو یہ ترتیب الٹی ہے اس کو الٹ دو، یہ تنظیم باطل ہے اس کو بدل دو جو نیچے دیے ہیں انہیں لا کے اُوپر ، جو اوپر لدے تھے اب انکو گرادو یہ مالی، یہ گل چیں یہ صیاد کیا ہیں، تمہاری یہ اپنی ہی کٹھ پنڈیاں ہیں انہیں بر طرف کر کے نظم حمین سے پرانے چمن میں نئے گل کھلا دو یہ ثبت ہیں تو بہت ہی ؟ خدا تو نہیں ہیں؟ در دان سے کیوں خود ہی انکو گھڑا تھا انہیں توڑ دو پھوڑ دو چور کرد د پڑھو ان کو استھان پر سے گرا دو ر قاصد انتخابات نمبر صفحه را ۲۸ اگست ۱۱۹) حضرات ! یہ جماعت اسلامی کے مشہور راہنما جناب نعیم صدیقی کی ایک لمبی نظم کے چند شعر ہیں جو اپنی تفسیر آپ ہیں.جناب نعیم نے نظم کے علاوہ شریں بھی کھل کر ان خیالات کا اظہار فرمایا.اور واضح لفظوں میں کہا.انقلاب قیادت کے داعی ہونے کی حیثیت سے جماعت کی دینی دارایی ی بھی ہے کہ وہ فاسد قیادت کو صالح قیادت سے بدلے.وہ اپنے لئے کسی طرح اس بات کو جائز نہیں سمجھتی کہ زندگی کے سارے معاملات فاسقین کے ہاتھوں میں رہیں اور وہ صالحین کو اپنے ساتھ جمع کر کے ایک گوشہ خمول میں پڑی رہے.رسالہ ترجمان القرآن جون له م
۶۲ حکومت پاکستان کے خلاف جماعت اسلامی کا یہ پراپگینڈا اتنی خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے کہ جماعت اسلامی کے ایک ممتانہ عالم مسعود عالم صاحب ندوی نے ایک عرب عالم کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہیں ایک صاحب علم ملے جن کی نظر سے ترجمان القرآن کا تازہ پر چینہ گذر چکا تھا.بولے تم لوگ حکومت پاکستان کے شاکی ہوا اور یہ شکوہ ایک خند ناک بجا بھی ہے، مگر اس پرچہ میں جتنا کچھ نعیم صاحب نے لکھا ہے اگر اس کا عشر عشیہ بھی یہاں لکھا جائے تو رسالہ کی ضبطی کے لئے کافی ہے کہ روبار عرب میں حدت بحوالہ جماعت اسلامی پر ایک نظری " جماعت اسلامی اور اس کے امیر کا چور تھا جہا دست شاہ کی تحر کیا جو تھا جہاد میں شموریت ہے جسے جماعت اسلامی کے لٹر پر کی روشنی میں تحریک ختم پاکستان د ستر یک ختم اسلام قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا.یہ تحریکی اٹھانے والے کون تھے اور اس کا نتیجہ کیا ہوا.اس کی تفصیل جناب نعیم صدیقی صاحب نے بایں الفاظ لکھی ہے.قسمتی سے اس مسئلہ کوگذشتہ کئی سال سے ایسے عناصرے کے چل رہے تھے جو ایک طرف اپنے سیاسی کہ دار کے لحاظ سے تعلیم یافتہ حلقوں میں کبھی وقار نہیں پا سکے....ان کی زبان اور ان کا اندا نہ بیان بسا اوقات رکاکت اور ابتدال تسخر اور استہزا کے حد کو چھو جانے کی وجہ سے کبھی سہیل نہیں کر سکے...مزید مشکل یہ کہ یہ عناصر مسئلہ کے حل کے لئے عوام کو تربیت دے دے کر اور منظم کر کرکے کوئی منصوبہ سند دستوری جد و جہد کرنے کی
صلاحیتوں سے خالی تھے اور ان کا طریقہ صرف اندھا د هند جوش و خروش پھیلا دیتا رہا ہے تحریک اسلام کے ایک بنیادی عقیدے کے تحفظ کے لئے اُٹھائی گئی تھی.مگر اس کے دوران میں آتشزنی اور لوٹ ارکا وہ ہنگامہ اہل پڑا کہ جس پر جتنا افسوس بھی کیا جائے کم ہے...ان دافغاست نے سحریک کو بدنام کیا مقصد کو بدنام کیا.دین کو بدنام کیا.ان واقعات نے پاکستان کے دینی عناصر کی قوت گھٹائی ہے.اور ملحد عناصر کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں.رچراغ راه مارچ ۹۵۳ به صفحه ۱۸-۱۹) قادیانی مسئلہ کی تصنیف ہے، قادیانی مسئلہ کے کھنے کا پر نظر پانچواں جہانے کی ہے؟ یہ ایک نہایت اہم بات ہے جس پر ذرا تفصیل سے روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے.جماعت اسلامی کے لٹریچر سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب مودودی صاحب برسوں سے مسلمانوں کو الٹی میٹم دے چکے تھے.کہ ہم سایہ تک نفوذ و اثر پیدا کر کے اسلامی انقلاب برپا کر دیں گے.ترجمان القرآن دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۵ ) اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے جناب مودودی صاحب نے 1922ء میں ملک بھر میں وسیع دورے کئے.چنانچہ خود ہی لکھتے ہیں.میں نے شملہ اور سٹالہ میں تقریبا پورے پنجاب کا دورہ کیا ہے.اور شہروں کے علاوہ دیہاتی علاقوں تک بھی گیا ہوں.د ترجمان القرآن جلد اسم ما صفحه ۲۳ عدالتی بیان متقابه ورودی) یہ وہ زمانہ تھا جبکہ جماعت اسلامی ایک سکیم کے تحت اندر ہی اندریزی
Yir کے ساتھ ملک کے مختلف محکموں اور طبقوں اور شعبوں پر چھا جانے کی کوشش میں محو تھی جس کا اعتراف خود جناب مودودی صاحب نے ار و بیر ایڈ کو کہ اچھی میں ان الفاظ سے کیا کہ ہم اپنے ارکان اور کارکن متفقین کو ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے مختلف حلقوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر ایک کے سپر د وہ کام کرتے ہیں جن کے لئے وہ اہل تر ہو.ان میں سے کوئی شہری عوام میں کام کر رہا ہے کوئی کسانوں کی طرف متوجہ ہے.اور کوئی مزدوروں کی طرف کوئی متوسط طبقے کو خطاب کر رہا ہے.اور کوئی اونچے طبقے کو کوئی سر کاری ملازمین کی اصلاح کے لئے کوشاں ہے.اور کوئی تمہارت پیشہ اور کوئی صنعت پیشہ لوگوں کی اصلاح کے لئے کسی کی توجہ پرانی درسگاہوں کی فطرت ہے.اور کسی کی نئے کالجوں کی طرف یہ سب اگر چہ اپنے الگ حلقہ ائے کا ر رکھتے ہیں مگر رب کے سامنے ایک مقصد اور ایک سکیم ہے جس کی طرف وہ قوم کے سارے طبقوں کو گھیر کر لانے کی کوشش کر رہے ہیں " مسلمانوں کا ماضی و حال صلح ) اس گھیر کر لانے کی سازش سے ملک کے سبھی حلقوں میں مہیجان کا پیدا ہوتا ضروری تھا.چنانچہ جناب مودودی صاحب نے خود ہی اعترافت کیا ہے کہ ا جب تک ہم نے یہ قدم نہ اٹھایا تھا کسی نہ کسی طرح ہمیں برداشت کیا جارہا تھا.مکا جو نہی کہ یہ قدم ہم نے اٹھا یا قیادت فاسفر اور اس کے مددگار
سب کے سب بیکلحت بھڑک اُٹھے پاکستان سے لے کر ہندوستان تک خطرے کی گھنٹی بج گئی پر اپنے پرانے دشمن جو کبھی جمع نہ پراپنے ہو سکتے تھے.اس خطرے کو آتے دیکھ کر متحد ہو گئے دیوبند اور بریلی گلے مل گئے.پیروں اور دہائیوں میں استاد ہو گیا.الحدیث اور منکرین حدیث متفق ہو گئے.قادیانیوں اور احراریوں نے مل کر لیگ کا دامن تھام لیا " رجماعت اسلامی اس کا مقصد تا در بیخ اور اس کا لائحہ عمل از جناب ۱۰۵ سیدا بوالاعلیٰ صاحب ورودی مثا ) حکمت اسلامیہ کی صفوں میں یہ خطرہ اس درجہ تشویشناک صورت اختیار کر گیا اگر سبھی مکاتیب فکر کی طرف سے ان کی جماعت کے خلاف سخرہ احتجاج بلند ہونا شردھے ہو گیا.چنانچہ جناب مودودی صاحب خود ہی لکھتے ہیں :.یہاں تو پاکستان سے سند دوستان تک ہر طرف فتو ولی خلیوں اشتہاروں اور مضامین کی ایک فصل اگ رہی ہے جس میں کمیونسٹ ، سوشلسٹ فریگیت زده ملحدین ، قادیانی منکرین حدیث ، المحدبیت، بریلوی اور دیو بندی سب ہی اپنے اپنے نگو نے چھوڑ رہے ہیں...ہم نے ایسی بھی گولیاں نہیں 2 سے جماعت اسلامی کی سچی گولیوں کے بارے میں روداد جماعت اسلامی حصہ سوم طال پر لکھا ہے.میں مسلمانوں کی موجودہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں سے کسی میں صلاحیت نہیں دیکھتا کہ وہ ہماری بتائی ہوئی گولیوں کو ضم کر سکے لئے آگے تھا ہے یہ شیطان کی و وانگ یونین ختم کر سکے.فصل ہے وہی اسے کاٹے گا یہ
حضرات ! یہ ام کوئی غیر متوقع نہیں تھا بلکہ جنابہ ، موود کی صاحب کو پہلے ہی دن سے کھوکا تھا کہ جب مسلمان قوم یہان کے در پردہ عزائمر بے نقاب ہوجائینگے تو وہ ان کے خلاف یقیناً پوری قوت سے اٹھ کھڑی ہوگی.چنانچہ آغاز کا رہی ہے ان کے بعض رفقاء کار پر ملایہ اظہار کر چکے تھے.و اس ملک کی جماعتوں میں سے کوئی جماعت ایسی نہیں ہے جس سے اس مقصد کے لئے کوئی مدد ملنے کی توقع ہو رہا ہے زیادہ جس قوم سے مدد ملنے کی امید ہوسکتی تھی دو مسلمانوں کی قوم تھی لیکن میں نہایت صفائی کے ساتھ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں سے نہ صرف یہ کہ کسی مرد کی آپ کو توقع نہیں رکھنی چاہیے.بلکہ ان کی طرف سے ایک شدید مزاحمت اور مخالفت کے لئے تیار رہنا چاہئیے." اروداد جماعت اسلامی حصہ پنجم صدا یہ تھا دراصل وہ مود و دی مسئلہ جس نے کلاک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہر طرف اضطراب و تشویش کی بے پناہ لہر دوڑا دی تھی.اسی مودودی مسئلہ کے ہولناک اثرات و عوامل پر پردہ ڈالنے کے لئے انھوں نے قادیانی مسئلہ لکھا.اور اس کی وجہ تالبیعت یہ بتائی کہ تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد ابھی تک اس کی صحت و معقولیت کی قائل نہیں ہوسکی ہے.اور پنجاب دیہا ولپور کے ماسوا دوسرے علاقوں خصوصا نیگال میں ابھی عوام الناس بھی پوری طرح اس کا وزن محسوس نہیں کر رہے ہیں.اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ان صفحات اشا
۶۷ میں پوری وضاحت کے ساتھ وہ دلائل بیان کر دیں جن کی بناء پر علما اپنے بالاتفاق یہ تجویز پیش کی ہے.(قادیانی مسئلہ طبع ہشتم مث ) وہ دلائل کیا تھے ؟ جن کی بناء پر علماء نے بالاتفاق" احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا ان کا تجزیہ خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کے لڑکیچر میں پوری تفصیل سے آچکا ہے.مجھے اس کے دہرانے کی ضرورت نہیں میں اس موقع پر مختصر طور پر صرف چند اصولی باتیں کہوں گا.(1) جناب سید ابو الا علی صاحب مودودی نے ۱۴ اکتو بر شتاء کو ایک پبلک لیکچر میں عوام کو نصیحت فرمائی کہ ہماری پبلک میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو ایک طرف کی داستان شنکر اس پر ایمان لے آتے ہیں اور صحیح رائے قائم کرنے کے لئے دوسرے فریق کی بات سننا ضروری نہیں سمجھتے.یہ غلط عادت جب تک آپ کے اندر رہے گی آپ ہمیشہ چھوٹے پراپیگنڈا سے دھوکا کھاتے رہیں گے اور اپنے خیر خواہوں کو اپنا دشمن سمجھ کر اپنے بد خواہوں کی اغراض پوری کرتے رہیں گے.انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کسی شخص ، جماعت ، یا اخبار کے خلاف کسی الزام کو اس وقت تک قبول نہ کریں جب تک خود اس کا بیان نشن لیں.یہ اصول اپنی گرہ میں باندھ لیجیئے.پھر انشاء اللہ کوئی آپ کو دھوکہ دینے ( میں کامیاب نہ ہو سکے گا " د دستوری سفارشات پر تنقید ماله ) افسوس یہ زریں اصول جو انھوں نے دوسروں کے سامنے بڑے زور دار طریق سے پیش کیا تھا جماعت احمدیہ کے خلاف قلم اٹھاتے ہوئے کیسر فراموش کر دیا چنانچہ آپ کا کہتا ہے :
یہ نہایت ضروری ہے کہ جس تحریک پر بھی تنقید کرنی ہو اس کا غائر مطالعہ کرنا چاہیے.لیکن میری یہ حالت ہے کہ اگر میں قادیانی.ناقل ) لٹریچر کی کوئی کتاب پڑھتا ہوں تو پندرہ منٹ کے بعد میرے سرمیں درد شروع ہو جاتا ہے." ر اخبار آزاد و ر نومبرتک بیان جناب مودودی صاحب حد ۳ میں پوچھتا ہوں.کیا یہ انتہاء درجہ کی خدا نا ترسی نہیں کہ جناب مودودی حیات جو آ جنگ اپنے قول کے مطابق پندرہ منٹ سے زیادہ جماعت احمدیہ کا لٹر کر پڑھنے کی توفیق نہیں پاسکے انہوں نے احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت میں شامل فرما دیا.(۲) جیسا کہ میں پہلے عرض کہ آیا ہوں قادیانی مسئلہ لکھنے کی ایک بھاری وجہ یہ بھی ستی کہ قبل ازیں مودودی مسئلہ ملک کے چاروں طرف چھڑا ہوا تھا.چونکہ بعض عناصر کی مسلسل اشتعال انگیزی نے عوامی مخالفت کا رخ جماعت احمدیہ کی طرف پھیر دیا تھا.اس لئے جناب کو دودی صاحب کو موقع مل گیا اور آپ نے اسے تحقیقاتی عدالت کے جز کے الفاظ میں قادیانی مسئلہ کا بم پھینک دیا.ورنہ آپ کی نگاہ میں نہ تو ان علماء کی کوئی وقعت تھی جن کا مطالبہ تھا کہ احمدی غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جائیں اور نہ آپ عوام کو حقیقتا مسلمان سمجھتے تھے.اسی طرح جناب مولانا کی نگاہ میں موجودہ مسلم معاشرہ کی بھی کوئی اہمیت نہ تھی جس سے کٹ جانے کا آپ نے اپنے اس رسالہ میں جماعت احمدیہ کو طعنہ دیا ہے.بلکہ یہ وہی مسلم معاشرہ تھا جس کی تصویر آپ دیکھینچتے آرہے تھے کہ
44 یہ انبورہ عظیم میں کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے.اس کا حال یہ ہے کہ اس کے 999 فی ہزا ر ا فراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں.نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشنا ہیں نہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آرہا ہے.اس لئے یہ سلمان ہیں؟ رسیاسی کشمکش حصہ سوم طبع اول مشا) پھر یہ دہنی سلم معاشرہ تھا جس کی مرثیہ خوالی کرتے ہوئے آپ برسوں سے منادی کر رہے تھے کہ ود اب ذرا اس قوم کی حالت پر نظر ڈالئے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہے نفاق اور بد عقیدگی کی کونسی قسم ہے جس کا انسان تصور کر سکتا ہو اور وہ مسلمانوں میں موجود نہ ہو.اسلامی جماعت کے نظام میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اسلام کی بنیادی تعلیمات تک سے ناواقف ہیں.اور اب تک جاہلیت کے عقائد پر جمے ہوئے ہیں.وہ بھی ہیں جو اسلام کے اساسی اصولوں میں شک رکھتے ہیں اور شکوک کی اعلانیہ تبلیغ کرتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو علانیہ مذہب اور مذہبیت سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں وہ بھی ہیں جو خدا اور رسول کی تعلیمات کے مقابلہ میں کفار سے حاصل کئے ہوئے تخلیقات دانکار کو ترجیح دیتے ہیں.وہ بھی ہیں جو خدا و رسول کے دشمنوں کو خوش کرنے کے لئے شعائر اسلامی کی تو مین کرتے ہیں.وہ بھی ہیں جو اپنے چھوٹے سے چھوٹے فائدے کی خاطر اسلام
کے مصالح کو بڑے سے بڑا نقصان پہنچانے کے لئے آمادہ ہو جاتے ہیں جو اسلام کے مقابلہ میں کفر کا ساتھ دیتے ہیں.اسلامی اغراض کے خلافت کفار کی خدمت کرتے ہیں.اور اپنے عمل سے ثابت کرتے ہیں کہ اسلام ان کو اتنا عزیز نہیں کہ اس کی خاطر وہ ایک بال برابر بھی نقصان گوارہ کر سکیں.راسخ الایمان اور صحیح العقیدہ مسلمانوں کی ایک نہایت قلیل حیات کو چھوڑ کر اس قوم کی بہت بڑی اکثریت اس قسم کے منافق اور بد عقیدہ لوگوں پر مشتمل ہے : تنقیحات طبع مفیستم منه ۲ - ۲۵۶) کا ما (۳) رسالہ قادیانی مسئلہ میں بنیادی بات صرف یہ تھی کہ قادیانی حضرات نے تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتم النبیین کی یہ ترالی تفسیر کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کی فہر ہیں.(قادیانی مسئلہ مت ) یہ اعتراض کہا تاک حقیقت کے مطابق ہے؟ اس کا اندازہ لگانے کیلئے فقط اتنا تانا کاتی ہے بزرگان سلف میں سے حضرت شاہ رفیع الدین حضرت شیخ سعدی شیرازئی اور مفتی عزیز الرحمن صاحب کے تو احجم قرآن میں خاتم کے معنے مہری کے سکھتے ہیں.علاوہ ازیں جناب مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی اور جناب مولوی محمود الحسن صاحب دیوبندی نے جو مباعت احمدیہ کے شدید مخالفت علماء میں سے تھے اپنے ترجمہ قرآن میں خاتم النبیین کے معنے یہ کئے ہیں مہر سب نبیوں پڑا اور اس کی تشریح میں حاشیہ پر تحریر فرمایا ہے کہ جس طرح روشنی کے تمام مراتب عالم اسباب میں آفتاب پرختم ہو جاتے میں اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام مراتب و کمالات کا سلسلہ میں شرح
41 ادری صلعم پرختم ہوتا ہے.بدین لحاظ ہم کہ سکتے ہیں کہ آپ رہی اور زمانی حریت سے خاتم النبیین ہیں.اور جن کو نبوت ملی ہے آپ ہی کی ٹر نگ کو ملی ہے.یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ خاتم النبیین کے معنے.ایسی مہر کے ہیں جس کے ذریعہ سے ایک لاکھ چوبیس ہزا رنبی بنتے ہیں.چند برس پہلے کی بات ہے کہ جماعت اسلامی کے ایک سابق ضلعی امیر الہ العربی میں خاکسار کا جماعت اسلامی سے تعلق مفصل مقالہ پڑھ کر ربوہ تشریعیت لائے دوراہے گفتگو میں عاجز نے ان کی خدمت میں نہایت ادب سے عرض کیا.کہ اس تفسیر سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ خاتم النبیین کے معنے بنی بنانے والی ہر کے ہیں اب اختلاف صرف اتنا رہ گیا کہ آیا دہ مہر میں سے بنی بنا کرتے تھے اب معاذ اللہ ہی کیا ہو چکی ہے.یا وہ اب بھی کام کر سکتی ہے؟.ہمارہ ہی نگاہ میں وہ مہراب بھی قائم ہے اس کے نقش بھی قائم ہیں اور وہ اب بھی بنی بنا سکتی ہے مگر آپ جو محافظ ختم نبوت کہلاتے ہیں اس مہر کی یہ عظیم الشان خصوصیت تسلیم کرنے کو تیار نہیں فرمائیے ختم نبوت اور تکمیل دین پر ایمان لانے کا یہ کون سا صالحانہ انداز ہے ؟ حضرات ! مگر اسے خدائی تصرف کہنا چاہیئے.کہ دہی مودودی صاب ہوں نے سہ میں قادیانی مسئلہ میں نیوں کی شہر کی تفسیر پر اعتراض کیا تھا چند سال بعد اپنے رسالہ ختم نبوت میں تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے کہ خاتم النبیین میں خاتم کے معنی مہر کے بھی کئے جا سکتے ہیں.مگر ساتھ ہی لکھا کہ خاتم کے معنی ڈا کھانے
کی مہر کے نہیں ہیں جسے لگا کر خطوط جاری کئے جاتے ہیں.ملکہ اس سے مراد وہ مہر ہے جو لفا نے پر اس لئے لگائی جاتی ہے کہ نہ اس کے اندر سے کوئی چیز باہر نکلے نہ باہر کی کوئی چیز اندر گرما لیکن بند کرنے کے معنوں پر جناب مودود کی صاحب نے نزول مسیح کا خفیہ تسلیم کر کے خود اپنے قلم سے خط انبیخ کھینچ دیا.اور صاف کھل گیا کہ خاتم سے مراد وہ ہر تو بہرحال نہیں ہوسکتی ہو نا کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے.اگر ایسا ہوتا تو حضرت مسیح کس طرح واپس آسکتے تھے؟ ہم کہ قادیانی مسئلہ کا اثر مالک کے تخلصت دماغوں پر کیا ہوا.اس کے لئے صرف دو شکیٹ پیش کرنا کانی ہو گا.رائف) ڈاکٹر غلام جیلانی برآن جماعت احمدیہ کے خلاف لڑ پیپر استیمولی قادیانی مسئلہ) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- آنک، احمدیت پر جس قدر پر پر علمائے اسلام نے پیش کیا ہے اس میں دلائل کم تھے اور گالیاں زیادہ.ایسے دشنام اور لٹریچر کوکون پڑھے اور متعلقات کون نے کا وحرف محرمانہ صا ) ایی جان نام احمد صاب پرویز مدیر طلوع اسلام لکھتے ہیں..سب سے زیادہ امبریت مودودی صاحب کے رسالہ قادیانی مسئلہ کو دیجاتی ہے.ہمارے نز دیک اس سالہ { کے دلائل استقدر پوچے ہیں کہ اسکا نتیجہ یہ کیا جائے تو وہ خود احمدیوں کے حق میں چلے جاتے ہیں.امزاج شناس رسول ".اس رسالہ سے بیرونی دنیا نے کیا تا ثر کیا ہے؟ اس کے اندازہ کے لئے صرف ایک مثال کافی ہوگی را مریکہ کی ٹفٹس یونیورسٹی ) Tufts annensis میں تاریخ کے پروفیسر مسٹر فری لینڈ ایبٹ (Free and ot نے مڈل ایسٹ جرنل کی
سرمائی اشاعت (شادی میں جماعت اسلامی پاکستان کے متعلق ایک طویل تحقیقی مقالیکھا جو انکے دو سالہ ذاتی مطالعہ و مشاہدہ کا نتیجہ تھا.مسٹرایٹ نے قادیانی مسئلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:." اس پمفلٹ میں خواہ علمی لحاظ سے کیسے ہی عمدہ دلائل کیوں نہ دیئے گئے ہوں.بہر حال آیا کشیدگی کی موجودگی میں اسکی اشاعت یقینا کھچاؤ میں اضافہ کا باعث ہوئی.احمدی قبل ازیں ایک مدت سے جماعت اسلامی کی مخالفت میں بہت سرگرم رہتے تھے بین ممکن ہے کہ مولانا مودودی اس مخالفت سے سرگویاں ہو چکے ہوں اور مولانا موصوف نے مسلم سوسائٹی سے ان لوگوں کے اخراج کا موقع قیمت جان کر یہ پمفلٹ لکھا ہوا اور انہیں اس بات کا خیال نہ آیا ہو کہ پمفلٹ بھی کشیدگی میں اضافر ی کر گیا.مولانا مودودی کو اس انت معلوم ہونا چاہیئے تھا کہ وہ در حقیقت ایک بہت بڑے انتشگیر بم سے کھیل رہے میں ان کا یہ عدم حساس در حقیقت ایک زیر دست غیر ذمہ داری کے مترادف ہے.(ترجمہ) رنجواله تحریک اسلامی نمبر مش۳۶ چراغ راه) 4.قادیانی مسئلہ اور اس طرز کے دوسرے لٹریچر کا جماعت احمدیہ پر کیا اثر پڑا اس کا جواب شیخ محمد اکرام صاحب ایم اے کے مندرجہ ذیل الفاظ میں جھولی مل سکتا ہے.لکھتے ہیں؟.د قرآن نے مسلمانوں بلکہ مسلمانوں اوردوسری قوموں کے درمیان فونیت پانے کا طریقہ یہ بتایا تھا کہ نیک کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں...انسانی زندگی کا یہ اٹل قانون دور حاضر کے بعض مناظر میں نے پوری طرح نہیں سمجھا.حبیب جوئی مخالفت اور تشدد سے دوسرے فرقوں اور جا خون کی ترقی سند نہیں ہو سکتی.جو فرد اپنی جماعت کی ترقی چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ نیک کاموں میں دوسروں سے بڑھ جائے ہما ریہ رگوں
نے نظم و نسق مذہبی جوش اور تبلیغ اسلام میں مرزائیوں پر فوقیت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھائی.لیکہ بیشتر فتوں اور عام مخالفت سے فتنہ قادیان کا سد باب کرنا چا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کسی قوم کے ساتھ بیجا سختی کی جائے تو اس میں ایشیار اور قربانی کی خواہش بڑھ جاتی ہے چنانچہ جب کبھی عام مسلمانوں نے قادیانیوں کی مخالفت میں معمولی اخلاق اسلامی تہذیب اور رواداری کو ترک کیا ہے تو ان کی مخالفت سے قادیانیوں کو فائدہ ہی پہنچا ہے ان کی جماعت میں ایشیار اور قربانی کی طاقت بڑھ گئی ہے اور ان کے عقائد اور بھی مستحکم ہو گئے ہیں.(موج کوثر ص ۱۹).جناب مودودی صاحب کا دعوی تھا کہ وہ اقامت دین کیلئے کھڑے ہوئے ہیں.مگر انہوں نے لائنا بزوا بالا نقاب کے صریح قرآنی ارشاد کے باوجود اس رسالہ کا نام قادیانی مسئلہ" رکھا.حالانکہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اپنی جماعت کا نام احمدی جماعت رکھا ہے اور اپنے معتقدین کو احمد کی کے نام سے موسوم فرمایا ہے.آپ سے نہایت ادید سے اس روش پر نظر ثانی کی درخواست بھی کی گئی مگر انہوں نے یہ کیکڑ ٹائی دیا کہ عرف عام میں ان کا نام قادیانی رائج ہو چکا ہے.از جان القرآن جلد ۳۶ عش ۶ صفحه ۳۰۳) انسوس یا عرف عام میں مشہور القاب ہی سے اجتناب کرنیکا حکم اللہ تعالے نے دیا تھا.سرگرا آبی پہنا نے اسٹی عرف عام کو سند نیا لیا !! مگر میں نیا نا چا ہتا ہوں کہ یہ تو الفان کا محض محمد رگناہ تھا.وگرنہ قادیانی " کا لفظ استعمال کرتے ہوتے ان کے سامنے ایک خاص وجہ تھی.جیسے میں آپ ہی کے الفاظ میں تحریر کر دیتا ہوں.فرماتے ہیں :.
پروپیگنڈا کے کارگر نسخوں میں سے ایک یہ ہے کہ جس گروہ کو آپ زک پہنچانا چاہیں اسے پہلے ایک نام دیجئے اور تمام برائیاں جو اس کی طرف منسوب کرنا چاہتے ہوں ان سب کے معنی اس خاص نام میں پیدا کر دیجئے.پھر اس نام کا اتنا اشتہار کیجئے کہ جہاں وہ نام لیا گیا.اور فورا سننے والوں کے سامنے ان ساری برائیوں کی تصویر آ جائے.جو آپ نے اس نام کے ساتھ وابستہ کر دی ہیں.اس طرح لمبی چوڑی تقریر وں اور تحریروں کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی بلکہ ان سب کی جگہ صرف ایک لفظ زبان سے نکال دینے سے کام چلا جاتا ہے.موجودہ زمانے میں مختلف جماعتوں نے اپنے پراپیگینڈا کے لئے اس طریقے کو استعمال کیا ہے " ر روداد جماعت اسلامی حصہ سوم مثه طبع دوم شیشه) اس ضمن میں آٹھویں اور آخری اصولی بات میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جناب مودودی صاحب کا احمدیوں کو دستوری اور آئینی حیثیت سے غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کے مطالبہ کی تائید کرنا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے برا ایر خلاف تھا.چنانچہ جناب مودودی صاحب 1914ء سے یہ حدیث رسول پیش فرا ہے آرہے تھے کہ جس شخص نے وہ نماز ادا کی جو ہم ادا کرتے ہیں ، اس قبلہ کی طرف رخ کیا جس کی طرف ہم رخ کرتے ہیں اور ہمارا ذبیجہ کھایا وہ مسلمان ہے جس کے لئے اللہ اور اس کے رسولی کا ذمہ ہے.پس تم اللہ کے دیئے ہوئے ذلتے ہیں اس کے ساتھ دنیا بازی نه کروی مسئله قومیت صفحه ۲۲-۲۵ طبعی پنجم) او ستوری سفارشات پر تنقید منا طبع هفتم)
44 اس فیصلہ کن حدیث کے علاوہ وہ برسوں قبل ایک دوسری حدیث نبوٹی کی روشنی میں تیا تے آ رہے تھے کہ به انا جی.ناقل ) گردہ نہ کثرت میں ہو گا نہ اپنی کثرت کو اپنے برحق ہونے کی دلیل ٹھہرائے گا.بلکہ اس اُمت کے تہتر فرقوں میں سے ایک ہو گا.اور اس معمور دنیا میں اس کی حیثیت اجنبی اور بیگا نہ لوگوں کی ہو گی.جیسا کہ فرمایا ہے بدء الاسلام غريبا وسيعود كما بدء فطولي للغرباء هم الذين يصلحون ما افسد الناس بعدى من پس جو جماعات محض اپنی کثرت تعداد کی بناء پر اپنے آپ کو دہ جماعت قرار دے رہی ہے جس پر اللہ کا ہاتھ ہے......اس کے لئے تو اس حدیث میں امیار کی کوئی کرن نہیں کیونکہ اس حدیث میں اس جماعت کی دو علامتیں نمایاں طور پر بیان کر دی گئی ہیں ایک تو یہ کہ وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے طریق پر ہو گی دوسری یہ کہ نہایت اقلیت میں ہوگی " ( ترجمان القرآن ستمبر و اکتوبر شاء منه) پس ان کا جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا عدالت نیوٹی کے اسس فیصلہ کے صریح خلاف تھا.ان کے نزدیک فیصلہ ہوئی تو یہ بتاتا تھا کہ ۷۳ میں سے صرف ایک صحیح اور خالص مسلمان ہے.مگر وہ پاکستان کی دستور سانہ اسمبلی سے یہ کہلانا چاہتے تھے کہ ۷۲ فرقے تو پیچھے
.اور پکتے مسلمان ہیں مگر صرف قادیانیوں کا اقلیتی فرقہ باطل پر ہے.اس وقت تو یہ بات غالباً جماعت اسلامی اور ان کے امیرے اوجھل ہو گئی.مگر اب پھر ان کے ذہنوں میں تازہ ہو رہی ہے.چنانچہ چراپنے راہ کے تحریک اسلامی نمبر میں لکھا ہے :- صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں میں پہلی بار جماعت اسلامی کے نمائند ہوتے ہیں.آئندہ انتخابات میں انشاء اللہ جماعت اسلامی ایک موثر اقلیت کی حیثیت میں پارلیمانی سیاست کے اندر بھر گی.ر چراغ راه تحر یک اسلامی نمیبر من) چند اور کارنامے ایک نظر میں حضرات ! اگر دقت اجازت دیتا تو میں ان مجاہدین کے شہری اور قابل فخر کارناموں پر ذرا اور تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے بتاتا کہ ان.عمرانہ نے اخوان المسلمون سے ساز باز کی.اور اخوان لیڈر خیر انتقا در عودہ سے تحریری معاہدہ بھی کیا ر اخبار تسنیم ۲۵ دسمبر ۹۵ ) انہوں نے ابتدائی امریکی امداد قبول کرنے پر ملک کی خارجہ پالیسی پر زبردست تنقید کی.وجہ اپنے راہ کا 140 ستحریک اسلامی نمبر ص ) پھر خود ہی امریکہ کو اسلامی ممالک کی عوامی پارٹیوں سے رابطہ قائم کرنے کا مشورہ دیا (تسنیم ، دسمبر ) جناب مودودی نے فہرست رائے دہندگان میں نام لکھا نے کو جھاد
LA فی سبیل الله - تسنیم ۲۰ مئی شاہ صت ) قرار دے کر ووٹ خریدنے کی کوشش کی اور اس کا نام مؤلفة القلوب (المنیر و انتشارا رکھا.نیز متوالی دیا کہ + عملی زندگی کی بعض ضرورتیں ایسی ہیں جن کی خاطر جھوٹ کی نہ صرت اجازت ہے بلکہ بعض حالات میں اس کے وجوب تک کا فتومی دیا گیا ہے کہ (ترجمان القرآن مئی شت له ) ازاں بعد الیکشن جیتنے کے لئے مارچ سالہ کو رسالہ ختم نبوت شائع فرمایا اور جب یہ تمام مراحل بخیر و خوبی طے ہو گئے تو غلاف کعبہ کی نمائش سے ملک میں بد عادت کا دروازہ کھول دیا.اس دوران میں انہوں نے سعودی مملکت کی پشت پناہی میں تبلیغ اسلام کے منصوبے بھی تیار کئے.دور ساتھ ساتھ مطبوعہ خطبات کے ذریعہ سے عرب حکمرانوں کے خلاف پراپیگنڈا بھی جاری رکھا.ر خطیات از جناب مودودی چه طبع نفستم اور بالآ خر و جیسا کہ پریس کے ذریعہ یہ بات منظر عام پر آچکی ہے ، جمعیت الطلبہ کو آلہ کار بنا کہ ملک میں خطرناک شورش برپا کرنے کی کوشش کی اور سمجھ لیا گیا کہ ترکی کی طرح یہاں بھی طلبہ کے ذریعہ حکومت کا تختہ الٹا جاسکتا ہے.غرض کہاں تک بیان کیا جائے.اسلام کے النا علمی اردن مجاہد دین کا غازہ یوں " اور سر فروشوں کے کارنا ہے تو اس کثرت سے ہیں.کہ ایک نشست میں ان کا شمار کرتا ہی ممکن نہیں.کجا یہ کہ ان کچھ تفصیل سے روشنی ڈالی جاسکے.لہذا مجھے افسوس ہے اور اس کے لئے تین
آپ سب بزرگوں اور دوستوں سے معذرت خواہ بھی ہوں کہ رعایت وقت کے پیش نظر جماعت اسلامی کے میادین الجھاد میں سے آپ کی خدمت میں صرف چند میدان جہادی رکھ سکا ہوں.اور وہ بھی اجمالا.غالبا یہی وہ معر کے ہیں.جن کا تصور کر کے جماعت اسلامی کے شعراء اپنے کارکنوں کی تعریف میں رطب اللسان ہو کہ یہاں تک نغمہ سرائی فرما رہے ہیں کہ مجاہدوں کے سے انداز نمازیوں کی سی چال یہی تو حق و صداقت کے ہیں علم بردار و چراغ راه تحریک اسلامی نمبر میت ۳۳) یہ قافلۂ شوق ، یه مردان جہاں گیر گفتار میں کردار میں اسلام کی تصویر یہ صاحب لولاک یہ اللہ کی شمشیر بے باک و جری، صف سکن و معرکہ آراد ہیبت سے ہمہ آب ہے ان کی دل خارا ر چراغ راه نظر یک اسلامی نمبر من ۳ (۳۱) اس پریس نہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے لیڈروں نے یہ کہ کر اپنے ان بے باک اور صف شکن مجاہدوں کے لئے جہاد الیکشن کی تیاری کا کھیل ہے دیا ہے.کہ جماعت کو ابھی سے تیاری کرنی چاہئیے..اپنے تئیں مختلف خلقت کا انتخاب سے اس طرح نمایاں کرنا چاہیے.کہ وہ اس علاقہ کے عوامی
A- سمان راہنما بن جائیں.اور پھر انہیں کو بنیادی جمہوریتوں ، صوبائی کیلیوں اور قومی اسمبلی کے لئے انتخابات میں کھڑا کیا جائے " ر تحریک اسلامی نمبر ۴۲۶۵) میں اس پر جناب مجید صاحب لاہوری کے الفاظ میں صرف اتنا کہوں گا.چندہ بھی دیا جنگ میں بھرتی بھی کرائی دادا نے میرے مکہ یہ گولی بھی چلائی ادر باپ نے انگریز سے جاگیر بھی پائی ہمت نے میری جیتی تھی جرمن کی لڑائی پھر خیر سے آیا ہے الیکشن کا زمانہ میں خان بہادر ہوں مجھے بھول نہ جانا مستقبل کے لئے لائحہ عمل حضرات ! آئندہ الیکشن میں کامیاب ہو جانے کے بعد جماعت اسلامی کیا جہاد کرنے والی ہے ؟ اس کا نقشہ جماعت کے امیر جناب سید ابو الاعلی اصحاب مودودی کے قلم سے پیش کر نا چاہتا ہوں.مگر اس دل ہلا دینے والے اور لرزا دینے والے جہاد کا تذکرہ کرنے سے پہلے ضروری سمجھتا ہوں کہ فرقہ ہائے اسلام کے بارے میں آپ کا نظریہ بھی بتا دوں.آپ لکھتے ہیں:.خدا کی شریعت میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے، جس کی بناء پر اہلحدیث ، دیوبندی بریلوی ، شیعه شنی و غیرد الگ
Al الگ اُمتیں بن سکیں یہ اُمتیں جہالت کی پیدا کی ہوتی ہیں یا ر خطبات صفحه ۶ ۷ بار رفتم از جناب مودودی فضا اس نظریہ کی روشنی میں اب میں جناب تیدا بو انا علی مودودی صاحب کا وہ اعلان عام پیش کرتا ہوں جو انہوں نے جہالت کی پیدا کی ہوئی ان امتوں کو ختم کرنے کے لئے برسوں سے کر رکھا ہے.فرماتے ہیں :- ر جس علاقہ میں اسلامی انقلاب رونما ہو وہاں کی مسلمان آبادی کو نوٹس دے دیا جائے کہ جو لوگ اسلام سے اعتقاداً و عملاً منحرف ہو چکے ہیں.اور منحرف ہی رہنا چاہتے ہیں.وہ تاریخ اعلان سے ایک سال کے اندر اندر اپنے غیر مسلم ہونے کا باقاعدہ اظہار کر کے ہمارے نظام اجتماعی سے باہر نکل جائیں.اس مدت کے بعد ان سب لوگوں کو چھ کلمانوں کی نسل سے پیدا ہوئے ہیں مسلمان سمجھا جائے گا.تمام قوانین اسلامی ان پر نافذ کئے جائیں گے.فرائض واجبات دینی کے الزام پر انہیں مجبور کیا جائے گا اور پھر جو کوئی دائرہ اسلام سے باہر قدم رکھے گا اسے قتل کر دیا جائے گا.رار نداد کی سزا اسلامی قانون میں من یہ قتل خفیہ رنگ میں نہیں کھلم کھلا ہو گا، چنانچہ دستور جماعت اسلامی میں لکھا ہے :-
۸۲ جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جد وجہ خفیہ تحریکوں کی طرز پر نہیں کرے گی.ملکہ کھلم کھلا اور اعلانیہ کرے گی کا ر دستور جماعت اسلامی مجربه ۶۱۹۵۶ ۲۰۰ طبع دوم) انگیر کی شراب کا پینا حرام ہے انسان کا لہو ہیں، اذنِ عام ہے اختتام مگر میرے بزرگو اور عزیزو ! ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالے مسلمانوں کوان خونی منصوبوں سے انشاء اللہ محفوظ رکھے گا.اس لئے کہ اب خدا کی تقدیر میں مسلمانوں کے تباہ ہونے کا نہیں بلکہ دنیا کی باگ ڈور سنبھالنے کا زمانہ قریب سے قریب تر آ رہا ہے.چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کو خدا تعالے نے الہا کا خبر د سے دیکھی ہے :- بخرام که وقت تو نز دیک رسیدہ و پائے محمدیاں بر منار بلند تر محکم افتاد خوش ہو کہ تیرا وقت قریب آچکا ہے اور سلمانوں کا قدم ایک لمبند و بالا مینار پر مضبوط ہونے والا ہے.اس کے علاوہ سہ میں جبکہ اسلامی دنیا مرد ہمار کی طرح سنگ راہی تھی اور مراکش سے انڈونیشیا تک مسلمانوں پر سخت تاریخی چھائی ہوئی متی اور کوئی روشنی کی کرن دکھائی نہ دیتی تھی.حضور کو عالم رویاء میں
دنیا کے اسلام کی عالمگیر ترقی و سربلندی کا نظارہ دکھایا گیا.اور بتایا گیا کہ " عنایات الہیہ مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کی طرف متوجہ ہیں اور یقین کامل ہے کہ اس قوت ایمان اور اخلاص اور نوگل کو بوسلمانوں کو فراموش ہو گئے.پھر خدا وند کریم یاد دلائے گا.اور بہتوں کو اپنے خاص برکات سے متمتع کرے گا.کہ ہر برکت ظاہری اور باطنی اس کے ہاتھوں میں ہے.(تذکرہ طبع دوم صفحہ ۶۱-۶۲) اس الہام اور رویاء کے علاوہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو پاکستان کے متعلق یہ الہامی دعا بھی سکھائی گئی کہ خدا یا پاک زمین میں مجھے جگہ دے.اور اس کے بارے میں آپ کو تفہیم ہوئی کہ یہ ایک روحانی طور کی بحیرت ہے.و رساله دافع البلاء س ۲۱ مطبوعه اپریل ۶۱۹۰۳ اس روحانی ہجرت کا ظاہری پہلو چونکہ حضور کے نائب حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہجرت سے پورا ہو چکا ہے اس لئے ہم یقین رکھتے ہیں.کہ اللہ تعالی پاکستان کو تباہی سے بچائیگا.اور اس کے ذریعہ سے اسلام کا جھنڈا بلند سے بلند تر ہوتا جائیگا.چنانچہ خود حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پاکستان میں ہجرت کے بعد جماعت احمدیہ کے پہلے سالانہ جلسے پر فرمایا تھا کہ پاکستان کا مسلمانوں کو مل جانا اس لحاظ سے بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اب مسلمان کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سانس لینے کا موقع میسر آگیا ہے ادردہ آزادی کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں اب انکے سامنے ترتی کے اتنے غیر محدود ذرائع ہیں کہ اگر وہ ان کو اختیار کریں تو دنیا کی کوئی
قوم ان کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتی.اور پاکستان کا مستقبل نہایت ہی شاندار ہو سکتا ہے.ہم نے اسلام کی میرانی شوکت کو پھر قائم کرتا ہے.ہم نے خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں پھر قائم کرنی ہے.ا ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کرتی ہے ہم نے عدل اور انصاف کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور ہم نے عدل وانصاف پر مبنی پاکستان کو اسلامک یونین کی پی ٹی سیڑھی بنائی ہے.یہی اسلامستان ہے جو دنیا میں حقیقی امن قائم کرے گیا.اور ہر ایک کو اس کا حق دلائے گا.جہاں روس اور امریکہ فیل ہوا وہاں صرف مکہ اور مدینہ ہی انشاء اللہ کامیاب ہوں گے؟ ر الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۵۶ شه م ۲۸ واخر دعوانا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ طبع دوم تاریخ انتراخت رضاء الاسلام پر کیا بولا )
اسير مطبوعات مجلس خدام الاحمدية ربوة ت حضرت ام المومنين رضي الله عنها " نصرة الحق،، ۲.سیرت حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی الله عنه حضرت مسیح پاک کی بیش بہا نصائح م اقوال زریں ۵- دینی معلومات ملنے کا پته چوهدری عبدالعزیز واقف زندگی مهتمم مقامی مجلس خدام الاحمديه ربوه ٹائٹل نصرت آرٹ پریس ریدہ میں چھپا.- ۰۲۵