Kahanian

Kahanian

اچھی کہانیاں

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

اچھی کہانیاں رانی کی عید غزالی کے دوست

Page 2

اچھے بچوں کی دُعا الہی مجھے سیدھا رستہ دکھا دے مری زندگی پاک وطبیب بنادے مجھے دین ودنی کی خوبی عملا کر ہر اک در داور دکھ سے مجھ کو شفا دے زباں پر مری جھوٹ آئے نہ ہر گز کچھ ایسا سبق راستی کا پڑھا دے گناہوں سے نفرت بدی سے عداوت ہمیشہ رہیں دل میں اچھے ارادے ہراک کی کروں خدمت اور خیر خواہی جو دیکھے وہ خوش ہو کے مجھ کو دھارے بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت سراسر محبت کی نیت کی بنادے بنوں نیک اور دوسروں کو بناؤں مجھے دین کا علم اننا سکھا دے خوشی تیری ہو جائے مقصود میرا کچھ ایسی لگن دل میں اپنی لگا دے خندے سجائے جیادے.وفائے ہاری دے تقی ہے.بتادے.رضا دے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل

Page 3

اچھی کہانیاں برى قريتي

Page 4

نام نام کتابیه اچھی کہانیاں مصنف بشری قرتی

Page 5

بسم الله الرحمنِ الرَّحِيم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے لجنہ اماء اللہ ا صد ساله جشن تشکر کی خوشی میں کتب شائع کرنے کی توفیق پا رہی ہے الحمد لله کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ وہ نہ صرف بڑوں کے لئے بلکہ ننھے منے بچوں کے لئے بھی آسان زبان میں کتابیں پیش کر رہی ہے.ان کتب کی مقبولیت سے اندازہ ہو رہا ہے کہ بچوں کو ان کتب کی بہت ضرورت تھی.تعلیمی نصاب اور سیرت پاک پر کتب کے ساتھ ساتھ اب کہانی کے رنگ میں ہلکے پھلکے دلچسپ انداز میں تربیتی امور سکھائے جا رہے ہیں.جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاہر ہے.اس میں بہت اچھی اچھی کہانیاں ہیں.پھول سے بچوں کے ذہنوں میں شبنم کی طرح جذب ہو کر دین ودنیا میں بھلائی کے یہ انداز جزو کہ دار بن جائیں گے.خدا کم سے بچے ان اچھی کہانیوں سے سبق سیکھیں اور اپنی محسنہ بشری قریشی صاحبہ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں جنہوں نے یہ کہانیاں لکھی

Page 6

ہیں.ان کے علاوہ شعبہ اشاعت کی ٹیم عزیزہ امتہ الباری ناصر صاحبہ ، اور دیگر معاونات کو جن کی محنت سے کتا ہیں آپ تک پہنچتی ہیں.دعاؤں میں یاد رکھیں.اللہ تعالیٰ.جزا ہائے خیر سے نوازے اور اپنی رضا کی جنتوں کا وارث بنائے.آمین اللهم آمین

Page 7

رائی کی عید عید کے دن جوں جوں قریب آرہے تھے رابی کا پھول سا چہرہ کماتا جارہا تھا.اس کی شوخ آنکھوں کی چمک کم ہوتی جا رہی تھی.گالوں میں اُداسی کا رنگ غالب آتا جا رہا تھا.یوں لگتا تھا کہ جیسے کسی نے گلاب سے چہرے کی رونق چھین لی ہو.اس وقت وہ اپنی گڑیا کو سامنے رکھے کچھ سوچ رہی تھی.وہ گڑیا سے مخاطب ہوئی گڑیا تمہیں پتہ ہے لالہ نے عید کے لیے سنہری پٹیوں والا شرارہ سلوا لیا ہے.کل جب میں اس کے ہاں گئی تھی تو اس نے مجھے دکھایا تھا.ہائے ! اتنا پیارا لگ رہا تھا.اس کی امی نے اس کے لیے میچنگ جوتے بھی خرید سے ہیں اور جوڑیاں بھی.اور پتہ ہے گل کا غرارہ سوٹ تو لاکر کے شرارے.بھی زیادہ حسین ہے اس نے مجھے پہن کر بھی دکھایا تھا.فیروزی سے

Page 8

نفرارہ.اس پر گولڈن موتیوں کی کڑھائی شہزادی لگ رہی تھی وہ اور میری سہیلی طوبی کا گلابی فراک ہے جس کے ساتھ چوڑی دار یا جامہ ہے.اُس کی امی نے تلنے والا گھسہ بھی لیا ہے اس کے لیے.فراک کے گلے پر سفید موتیوں کا کام ہے اس لیے اس نے سفید جیولری بھی لی ہے اس کے ساتھ.سفید موتیوں کا ہار - ٹالپیس اور سفید چوڑیاں.دادی اماں جو پریوں کی کہانی سناتی ہیں ناں انگل کے کپڑے بالکل اُن پریوں جیسے ہیں اور نائلہ کا سوٹ پتہ ہے کیسا ہے ؟ اس پر گوٹے کا کام ہے.بہت پیارا ہے وہ بھی ، لیکن ! مجھے تو امی نے اس دفعہ کپڑے لیکر ہی نہیں دیے" یہ کہتے ہوئے رانی کی آواز بھر الٹی.کل امی ابو سے کہہ رہی تھیں کہ اس مرتبہ ہم عید پر کپڑے نہیں بنائیں گے.کیونکہ گنجائش نہیں ہے.پتہ ہے کیوں.امی ابو نے ایک بہت اچھا کام کیا ہے.ہمارے محلہ میں جو باجی ہیں نا ! جو محلے کے سب بچوں کو قاعدہ پڑھاتی ہیں ان کی شادی کے سارے کپڑے اور زیور امی نے بنوائے ہیں.باجی کے ابو نہیں ہیں نا ! اسی لیے تو امی ابو نے سارا خرچ اُٹھایا ہے.امی کہہ رہی تھیں کہ اپنے اخراجات کم کر کے لوگوں کی مدد کرنا بہت

Page 9

بڑی نیکی - دروازے سے لگی اس کی امی سب باتیں سن رہی تھیں.را بی ان کی اکلوتی بیٹی تھی.تین بھائیوں کی لاڈلی سی بہن ماں باپ کی آنکھ کا تارا ، لیکن اتنا لاڈ پیار ملنے کے باوجود رابی بے حد سمجھی ہوئی تھی.رابی کی امی بھی بہت سمجھدار خاتون تھیں.رات کو جب سب بستر پر لیٹ گئے تو رابی نے امی سے پوچھا.انی جان میں عید پر اپنے پرانے کپڑوں میں سے کون سا سوٹ پہنوں گی ؟ امی بولیں " بیٹا اچھے نیک بچے کچھ بھی پہن لیں ان کی اصل خوبصورتی اُن کے اچھے اخلاق ہوتے ہیں.اچھا یہ تو بتاؤ ہماری اس عید کا کیا نام ہے ؟ "عیدالاضحیہ" رابی نے فوراً جواب دیا.اسے عید قربان بھی کہتے ہیں " شاباش امی نے کہا.اچھا اسے عید قربان کیوں کہتے ہیں ؟ یہ کس قربانی کی یاد میں منائی جاتی ہے ؟ یہ عید حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد میں منائی جاتی ہے جو آپ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے اپنے بیٹے اسمعیل علیہ السلام کو اس کی راہ میں قربان کرنے کا ارادہ کیا

Page 10

A رابی کو اسلامیات کی کتاب سے یاد کیا ہوا جواب یاد تھا اس کے علاوہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک اور امتحان لیا تھا اُس کی امی نے کہا." وہ کیا تھا امی ! اس کے بارے میں بتائیے؟ رابی نے اشتیاق سے پوچھا.وہ یہ تھا بیٹے ! کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے فرمایا تھا کہ تم اپنی بیوی اور بچے کو ایک ایسی جگہ چھوڑ آؤ جو ویران جنگل ہو چنانچہ آپ ان دونوں کو ویران جنگل میں چھوڑ آئے جہاں نہ تو پانی تھا نہ کسی ذی روح کا دُور دُور تک نشان تھا.آپ کی پاک بیوی حضرت ہاجرہ صابر و شاکر خاتون تھیں.انہوں نے خدا تعالیٰ کے حکم کے آگے فرمانبرداری کا ثبوت دیا.اللہ تعالیٰ کو اپنے ان پاک بندوں کی قربانیاں بہت پسند آئیں ، ان قربانیوں کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ہر سال عید الاضحیہ منائی جاتی ہے.آپ کو علم ہے حضرت ابراہیم کو خلیل اللہ یعنی "اللہ کا دوست کا لقب دیا گیا ہے.خدا تعالیٰ نے جس آزمائش میں بھی آپ کو ڈالا آپ پورے اُترے اور صبر و رضا سے کام لیا زبان سے اُف تک نہ کہا.کسی قسم کی کوئی شکایت نہ کی.یہ بھی نہ سوچا کہ بیوی اور معصوم بیٹا کس طرح زندہ رہیں گے.نہ وہاں پانی تھا نہ کھانے کا کوئی انتظام تھا اور نہ ہی اس جنگل

Page 11

بیابان میں کوئی انسان تھا جو ان ماں بیٹے کی دیکھ بھال کر سکے.اللہ تعالیٰ تو اپنے بندے کا صرف امتحان لے رہا تھا.پھر اس نے اپنے صابر و شاکر بندوں کے لیے جن کے لیے اس نے انعامات کا وعدہ کر رکھا تھا ایک مثال بھی تو قائم کرنی تھی نا.تو حضرت ابراہیم کی اس قربانی کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے لوگوں کے لیے مشعل راہ بنا دیا.جو لوگ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں اور مصیبتوں پر صابر و شاکر رہتے ہیں ان کے لیے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی متعدد انعامات ہوتے ہیں.ان کے لیے جنت کی بشارتیں ہیں اور خوشیاں بھی.کسقدر عظیم تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند را بی نهایت عقیدت سے ساری باتیں سُن رہی تھی.امی کہنے لگیں خدا تعالیٰ نے ان نعمتوں کو حاصل کرنے والی راہوں کو بند نہیں کیا بلکہ پانچ وقت نماز میں یہ دعا سکھائی." چلا ہمیں سیدھے راستے پر ان کے راستے پر جن پر تیرا انعام نازل ہوا.(سورة الفاتحه ) تو یہ انعامات یہی ہیں جو ان انبیاء علیہم السلام پر خدا نے نازل دریائے.آج ہم بھی ان انبیاء کے نقش قدم پر چل کر ان انعامات کے حقدار بن سکتے ہیں.شہداء میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی ایک روشن مثال

Page 12

ہمارے سامنے ہے کہ آپ نے نہایت صبر و شکر کے ساتھ نہایت بہادری سے شہید ہونا قبول کیا مگر اسلام پر آنچ نہ آنے دیا.اسی طرح سلسلہ احمدیہ کے ایک جید بزرگ حضرت صاجزادہ عبد اللطیف صاحب ہیں.آپ نے جب حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو ) کی بیعت کر لی تو بادشاہ اور ان کے ملک کے لوگوں نے نہایت بے رحمی سے آپ کو شہید کر دیا.را بی بولی " لیکن امی جان حضرت امام حسین علیہ السلام اور صاحبزادہ عبداللطیف صاحب نہی تو نہ تھے.بے شک نبی تو نہ تھے لیکن نبیوں کے پیچھے چلنے والے تو تھے نا ! اسی لئے تو انہوں نے کامل اطاعت کا نمونہ دکھ یا.پھر خدا تعالیٰ نے نبیوں سے ہر قسم کی مثالیں قائم کروائیں اور سب سے بڑھکر نبیوں کے سردار ہمارے پیارے آقا صبر و شکیر کے پیکر تھے.حتی کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آقائے دو جہان اور آپ کے ساتھیوں کو شعب ابی طالب میں محصور کر دیا گیا.اور آپؐ کے ساتھیوں کا یہ حال تھا کہ بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے ، لیکن کوئی شکوہ زبان پر نہ لائے.اپنی اُمت کی بہتری کے لیے دُعائیں فرماتے رہے.

Page 13

آپ کی اُمت کے لوگوں کو بھی اللہ تعالی آزمائش میں ڈالتا ہے.ہمیں بھی خدا نے آج آزما ہے.بتاؤ تو کس طرح ؟ ہم کہاں سے ہر عید پرنٹے نئے کپڑے، ہوتے ، اچھے اچھے کھانوں کی نعمتیں لاتے ہیں ؟ خدا دیتا ہے نا ! اگر اس عید پر ہم نے صرف اس لیے ہم نے اس کی خوشنوری کی خاطر تھوڑی سی قربانی دی ، کپڑے نہ بنا سکے تو کیا ہوا.اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے جو دوسرا نیکی کا کام ہم نے کیا ہے کاش وہ قبول کرے.یہ ذرا سی قربانی ہمیں اپنے دوسرے کم نصیب بہن بھائیوں کی یاد دلاتی ہے جن کی کئی عیدیں ایسی ہی گزر جاتی ہیں." تو کیا یہ آزمائش ہوتی ہے اتنی ؟ "ہاں بیٹا ! یہ پہلی عید ہے جس پر آپ کے نئے کپڑے نہیں بنائے.ذرا اس قربانی کا مقابلہ حضرت ہاجرہ اور آپ کے بیٹے کی اس مشکل سے کرد.پھر تمہیں پتہ چلے گا کہ یہ تو کوئی مصیبت ہی نہیں.اندھیری راتیں تپتے ہوئے صحرا.بے یارو مددگار ماں بیٹا ! جبکہ آپ کے پاس گھر ہے امی ابو ہیں.بھائی ہیں.ہر نعمت موجود ہے." ہاں ! یہ تو ہے امتی " رابی نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا.

Page 14

001) تم نے اس بادشاہ کا قصہ تو سنا ہے نا ! جس کا ایک غلام تھا جو نہایت وفادار تھا.ایک بار بادشاہ نے کڑوا خربوزہ کاٹ کر درباریوں کو دیا.سب نے منہ بنایا، مگر وفا دار غلام مزے لیکر کھاتا رہا جیسے نہایت شیریں پھل ہو.سمارے درباری حیران تھے کہ اتنا کڑوا پھل یہ غلام کیسے کھا رہا ہے ؟ * بادشاہ نے وجہ پوچھی تو پتہ ہے غلام نے کیا جواب دیا.عالی جاہ ! آپ کے ہاتھوں سے کئی قسم کی نعمتیں ملتی رہیں اگر ان ہاتھوں سے آج معمولی ساکٹ واخر بوزہ مل گیا تو ناشکری کیسی ؟ " دیکھا بیٹی ! وہ ایک غلام تھا لیکن ہمارا اور ہمارے رب کا معاملہ تو اس سے کہیں زیادہ وفا کا تقاضا کرتا ہے.ہمارا رب تو بن مانگے اتنی نعمتیں عطا کرتا ہے جن کے ہم حقدار بھی نہیں.آج اس کی طرف سے ذرا مشکل وقت آگیا تو کون سی بڑی بات ہے.وہ اللہ بڑا پیار کرنے والا ہے وہ ضرور دیا اور بہت دیگا " آپ ٹھیک کہتی ہیں امتی.کیا ہوا اگر اس عید پر میں نے کپڑے نہ بنوائے.باجی کی شادی تو بڑا ضروری فرض تھا جو خدا نے آپ کو اور ابو کو توفیق دی اور ادا ہوا.میں تو اس عید پر شرارہ نہیں لوں گی پچھلی دفعہ والا.ایک ہی مرتبہ تو پہنا ہے.ابھی نیا ہی ہے؟

Page 15

۱۳ راکی وقف نو کی بچی تھی ، نیک مزاج بیچی.اس پر ان نیک باتوں کا بہت اثر ہوا " اب میں ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر کبھی نہ روؤں گی.اس نے ماں کے گلے گنتے ہوئے کہا.اسے اپنی کلاس کی سہیلی فرحت یاد آئی جس کا سال بھر میں صرف ایک سوٹ بنتا تھا، لیکن وہ کبھی محسوس نہیں کرتی تھی اور پڑھائی میں سب سے آگے ہوتی.سوچتے سوچتے نہ جانے کب وہ نیند کی آغوش میں پہنچ گئی.دوسرے دن اس کی امی نے بازار سے خوبصورت سی چوڑیاں لادیں.رات کو جب را بی مہندی لگانے بیٹھی تو وقاص بھائی خوشی - ٹی سے چلاتا ہوا داخل ہوا " ماموں ، ماموں آگئے - پھر تو سب نے ملکر نعرہ سا لگایا " ماموں جان آگئے " عید سے ایک رات پہلے ماموں کا آجانا عبید کے چاند سے کم خوشی نہ تھی.سارے گھر کی خوشیاں دوبالا ہوگئیں.ماموں سعودی عرب.عید منانے اپنی آپا کے گھر آئے تھے.رات کو انھوں نے سب کو تحائف دینے کے لیے بیگ کھولا تو راکی کی یہ نکھیں خوشی سے چمک اُٹھیں.سفید رنگ کا فراک جس پر فرل لگی تھی اور سفید بروچ بھی لگا ہوا تھا راجی کو دیا.فراک کے رنگ برنگے ربن عجب بہار دکھا رہے تھے.سفید بروچ ہیرے کی مانند چمک رہا تھا.

Page 16

کیا یہ خواب ہے" وہ بڑ بڑائی.بار بار فراک پر ہاتھ پھیرتی.خواب کو حقیقت میں ڈھلتے دیکھ کر رابی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا.دوسرے دن عید تھی.نیا فراک اور ساتھ سلکی پاجامہ پہن کر رابی نماز پڑھنے گئی.راجی اللہ کی مہربانیوں کی شکر گزار تھی کہ اس نے کس طرح اپنی معصوم بندی کو اس کی نیکی کا صلہ دیا.خوشیوں کے پھول اس کے اطراف میں رقص کر رہے تھے اور وہ کسی تتلی کی مانند اپنی سہیلیوں کے جھرمٹ میں خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کر رہی تھی.

Page 17

۱۵ غزالی کے دوست سے اسکول میں چھٹی کی گھنٹی بجی.تمام بچے اپنی اپنی کلاسوں.نکل کمرہ بیرونی دروازے کی جانب روانہ ہوئے.جن بچوں کی دین آئی وہ دین میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے اور جو بچے بس پر جاتے تھے وہ بس پر بیٹھ کر گھروں کو چلے.کچھ بچوں کے والدین اپنے بچوں کو لینے کے لئے آئے.غزا کی اور رحمان کا گھر چونکہ اسکول کے قریب ہی تھا اس لئے دونوں پیدل ہی گھر کی جانب روانہ ہوئے.دونوں نہ صرف کلاس فیلو تھے بلکہ دونوں ایک دوسرے کے بہترین دوست بھی تھے اس وجہ سے دونوں ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے.ان کے گھر کے راستے میں ایک میدان پڑتا تھا جس میں اکثر لڑکے کرکٹ یا ہاکی کھیلتے رہتے تھے.اس وقت بھی جب دونوں دوست قریب سے گزرے تو انھوں نے دیکھا کہ لڑکے کرکٹ کھیل رہے ہیں.کھیلنے والا ایک لڑکا جو باؤنڈری کے قریب تھا اس نے

Page 18

آوازہ کسا " ارے دیکھو تو لمبو آ رہا ہے " تمام لڑکوں نے گھوم کہ غزالی کو دیکھا اور ہنسنے لگے.غزالی ساتویں کا طالب علم تھا وہ ایک ہونہار لڑکا تھا دوسروں سے تمسخر نہیں کرتا تھا نہ ہی دوسروں پر طنز کرتا تھا.اس کا قد کم عمری میں ہی نمایاں نظر آنے لگا تھا.اکثر اس کے دوست بھی اس کو قد کی وجہ سے چھیڑتے تھے مگر وہ ٹھنڈی طبیعت کا مالک تھا مسکرا کر چپ ہو جاتا تھا.رحمان اس کے مسکرانے پر چڑ جاتا " تم انہیں ٹھیک کیوں نہیں کرتے تمہارے سامنے ہونے سے لگتے ہیں ؟ وہ کہتا." کوئی بات نہیں دوست.اگر میں انہی کی طرح بولنے لگ جاؤں تو پھر مجھ میں اور ان میں کیا فرق رہ جائے گا.یہ تو چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں میری خواہش ہے دوست کہ میں اپنے آئیڈل جیسا بن کر دکھاؤں تب یہ مذاق اُڑانے والے ہونٹ خاموش ہوں گے.16 آئیڈل ! کیسا آئیڈل ؟ کیا تم نے کوئی آئیڈل بنایا ہوا ہے؟ رحمان نے حیرت سے پوچھا.ہاں ! میرے آئیڈل ایک عالمی اہمیت کی شخصیت ہیں ، سر محمد ظفر اللہ خان صاحب ہیں اور میرے ہیرو پروفیسر عبد السلام صاحب ہیں اور میں محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد جیسے ہ سالاروں کو پسند کرتا ہوں.یہ وہ ہیرو ہیں جن کے نقش قدم پر چل کر ہم دین و دنیا پالیں گے " وا شاباش بیٹے " پیچھے سے ایک بزرگ کی آواز آئی جو دونوں کی

Page 19

16 باتیں سنتے آرہے تھے.انھوں نے غزا کی کو تھپکی دی اور آگے بڑھ گئے.دونوں دوست بھی میدان سے نکل کر گھر کی طرف چل پڑے.راستے میں رحمان نے غزالی سے کہا.آئیڈیل اتنے بڑے بڑے تو پھر ڈش کیوں لگوایا ہے ؟ غزالی نے ٹھہر ٹھہر کر جواب دیا.میرے دوست تم یقین مشکل سے کرو گے مگر یہ حقیقت ہے اور نہیں تو پتہ ہے کہ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا.حدیث میں ہے کہ جھوٹ بولنا گناہ ہے جو انسان کو جہنم میں لے جاتا ہے.تم سمجھتے ہو کہ ڈش پر صرف فلمیں ہی دیکھی جاتی ہیں.نہیں دوست اُس کے ذریعے ہم ایم ٹی اے کے پروگرام دیکھتے ہیں.اس چینل پر کون سی فلمیں آتی ہیں ؟ رحمان کا لہجہ پر اشتیاق تھا.اُس پر فلمیں نہیں آتیں.اس پر تو ہمارے پیارے آقا کا خطاب آتا ہے.جماعت کے مختلف پروگرام آتے ہیں جن میں حمدیہ نظمیں اور نعتیں ہوتی ہیں.کبھی ہمارے ہاں آنا تمہیں دکھاؤں گا کہ ہمارے امام کتنی پیاری پیاری دلوں پر اثر کرنے والی روحانی باتیں کرتے ہیں اور یہ پروگرام ساری دنیا کو دکھائے جاتے ہیں.سب سے اچھی بات یہ کہ قرآن پاک کو صحیح اور صحت تلفظ کے ساتھ ساری دنیا کے لوگوں کو سکھایا جاتا ہے جو بھی نظر آن کو سیکھنا چاہتے ہیں وہ اِس پروگرام سے بخوبی قرآن سیکھ سکتے ہیں.ہمارے پیارے آقا کا ارشاد ہے کہ جماعت کا ہر فرد خواہ

Page 20

طفل ہو ، خادم ہوا ناصر ہو یا لجند و ناصرات میں ہو.سب کے سب صحت تلفظ کے ساتھ قرآن سیکھیں اور دوسروں کو بھی سکھائیں اس طرح وہ اس بات کی عملی تفسیر بن جائیں گئے کہ بہترین مومن وہ ہے جو خود قرآن سیکھتا ہے اور دوسروں کو بھی سکھاتا ہے." تمہیں تو حدیثیں بھی آتی ہیں " رحمان نے متاثر ہوتے ہوئے کہا.اس میں میرا صرف یہ کمال ہے کہ میں یاد کر لیتا ہوں.محنت تو میرے امی ابو کی ہے اور پھر ناظم اطفال الاحمدیہ کی جو ہمارے حلقے کے ہیں.یہ سب لوگ ملکہ ہمیں احادیث اور دُعائیں یاد کرواتے ہیں.تم اکثر دیکھتے ہو کہ میں غصہ نہیں کرتا مجھے یہ بات بچپن میں ہی بتا دی گئی ہے کہ غصہ نہیں کرنا چاہئے.اس کے بارے میں حدیث میں آتا ہے اِجْتَنِبُو الْغَضَب سخت غصہ سے بچو.یہ ہمارے پیارے نبی کا فرمان ہے کیونکہ غصہ فساد اور لڑائی جھگڑے کا باعث بنتا ہے.ایک اور مختصر سی حدیث ہے احفظ لسانک تو اپنی زبان کی حفاظت کی.اسی طرح فرمایا.اطع آبَاكَ اپنے باپ کی اطاعت کر غزا کی فرفر احادیث سنائے جا رہا تھا اور رحمان حیرت سے اسے دیکھے جا رہا تھا.دونوں کا گھر آچکا تھا.دونوں نے اللہ حافظ کہا اور اپنے اپنے گھر میں داخل ہو گئے.دوسرے دن غزا کی اپنے کمرے میں بیٹھا ہوم ورک کر رہا تھا

Page 21

۱۹ کہ رحمن کمرے میں داخل ہوا لیکن وہ ہوم ورک میں اتنا منہمک تھا کہ خبر نہ ہوئی کہ کب رحمن داخل ہوا اور کب سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا.دراصل کل اسکول سے آتے ہوئے دونوں دوستوں میں جو باتیں ہوئی تھیں ان سے رحمن بے حد متاثر ہوا تھا.زیادہ حیرانگی اسے اس بات پر تھی کہ آج کے ویڈیو ، وی سی آر اور ڈیش کے دور میں غزالی فلمیں کیوں نہیں دیکھتا ؟ جبکہ رحمن کے امی ابو نے کبھی اسے منع نہیں کیا.اسی لیئے آج دوبارہ وہ غزالی کے ہاں آیا تھا اُس سے مزید گفتگو کرنے اور اس گتھی کو سلجھانے.وہ M.T.A کے پروگرام بھی دیکھنا چاہتا تھا.اسی لئے تو وہ غزالی کے گھر آیا تھا اس کی اتھی نے بتایا کہ وہ ہوم ورک کر رہا ہے تو وہ وہیں چلا آیا.لکھتے لکھتے اچانک غزالی نے سر اُٹھایا تو رحمن کو میٹھے پایا تم کب آئے دوست مجھے خبر ہی نہ ہوئی " " ہاں بھٹی پڑھا کو میاں ! اب تم ہماری خبر کیوں رکھنے لگے یا رحمن مصنوعی خفگی سے بول." ارے نہیں ایسی کوئی بات نہیں تم تو جانتے ہو ہوم ورک اتنا زیادہ ملتا ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتا " غزالی جھینپتے ہوئے بولا."اچھا تم بیٹھو میں تمہارے لئے گرما گرم چائے لاتا ہوں" یہ کہتے ہوئے غزالی کچن کی طرف بھاگا.ادھر رحمن جو فارغ بیٹھا تھا اس نے یونی غزالی کی کتابیں رکھنا شروع کر دیں.زیادہ تر کورس کی کتب تھیں سو اس نے وہیں رکھدیں

Page 22

لیکن ایک کتاب اس نے اُٹھالی.یہ ایک سیاہ جلد والی ڈائری تھی رحمن نے بے خیالی میں اسے کھول لیا حالانکہ اسے علم تھا کہ کسی کی ڈائری بغیر اجازت پڑھنا بُری حرکت ہے ، لیکن چونکہ گہرا دوست تھا اس لئے کوئی حرج نہ سمجھا.پہلا صفحہ پلٹتے ہی اس کی نظر ایسی تحریر پر پڑی کہ وہ پڑھتا چلا گیا.اللہ تبارک تعالیٰ کے بابرکت نام سے وہ ڈائری شروع کی گئی تھی اور موٹے الفاظ میں یہ شعر درج تھا حمد و ثنا اسی کو جو ذات جاودانی ہمسر نہیں ہے اسکا کوئی نہ کوئی ثانی السينا a اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث درج تھیں کچھ اس طرح شخص کبھی دوزخ میں نہیں جا سکتا جو اللہ کے خوف سے روتا ہو" "حسم اور لباس کی صفائی نصف ایمان ہے."ایمان صبر اور فراخدلی کا نام ہے " " بہترین ایمانی حالت یہ ہے کہ تیری دوستی اور دشمنی صرف اللہ کے لئے ہو " ہمیشہ سچی اور حق بات ہی کہو" تم میں سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں." تم اپنے بھائی کی مصیبت پر خوش مت ہوا کرو ہو سکتا ہے اللہ اس کو اس کی مصیبت سے نکال دے اور تمہیں اس میں مبتلا کر دے " " وہ ذلیل ہے جس نے والدین کو بڑھاپے میں پایا لیکن ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کر سکا " "دعا کبھی بیکار نہیں جاتی " " اپنے بھائی سے ملتے وقت مسکرا دینا بھی صدقہ ہے " "مومن کا چہرہ

Page 23

۲۱ ہشاش بشاش اور دل غمگین ہوتا ہے؟ پھر بڑے بڑے حروف میں شعر لکھا تھا.محمد پر ہماری جاں خدا ہے کہ وہ کوئے صنم کا راہنما ہے.اگلا صفحہ پلٹا تو پورا شعروں سے مزین تھا.پہلا شعر ہی دلوں کو کھینچے لینے والا تھا.لکھا تھا.محمود عمر میری کٹ جائے کاش یونی و ہو روح میری سجدہ میں سامنے خدا ہو برائی دشمنوں کی بھی نہ چاہیں کو ہمیشہ خیر ہی دیکھیں نگاہیں حاجتیں پوری کرینگے کیا تیری عاجز بشر ا کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے رحمن اشعار پڑھتا جا رہا تھا اور ایک عجیب سرور کی کیفیت اس پر طاری تھی.اتنے پیارے پیارے اشعار نہ جانے کس کے ہیں اس نے دل میں سوچا.اگلے صفحہ پر تحریر تھا.بروز ہفتہ صبح پانچ بجے امی جان نے نماز کے لئے اُٹھا یا مسجد میں جاکر نماز پڑھی.درس القرآن کی کلاس لی.دوستوں.وں کے ساتھ کرکٹ کھیلی پھر گھر چلا آیا.اسکول کا وقت ہو رہا تھا جلدی جلدی ناشتہ کیا، تیار ہو کر امی کو خدا حافظ کہا، امی نے حسب معمول میری پیشانی پر انگلی کی مدد سے دُعا لکھی.یاحفیظ ، يَا عَزِیز یا رفیق.اور میں اسکول کے لئے روانہ ہو گیا.اسکول پہنچنے میں کچھ دیر ہو گئی کیونکہ گھر سے نکلا ہی تھا کہ محلہ کی ایک بزرگ خاتون نے کہا کہ بیٹا انڈے اور دودھ لا دو، میں انکار نہ کر سکا.اسکول پہنچے میں کچھ دیر ہوگئی

Page 24

۲۲ اب میں سب کو سبب کیا بتاتا ! ڈیڑھ بجے چھٹی ہوئی.پھر گھر آیا.نہا دھو کر کھانا کھایا.آج امی نے میری پسند کا کھانا پکایا تھا ، اس لئے خوب کھایا کھانے کے بعد ظہر کی نماز گھر میں ہی پڑھی.کچھ دیر آرام کیا.۴ بجے امی جان نے جگا دیا.منہ ہاتھ دھو کر آیا تو میرا پسندیدہ رسالہ تشحید الا زبان پڑا تھا.فوراً پڑھنا شروع کر دیا.بانی جماعت احمدیہ کے ارشادات اور حضرت اقدس ایدہ اللہ کے خطاب کا خلاصہ پڑھا.پھر ایمان افروز کہانیاں اور دلچسپ لطیفوں کا کالم پڑھا خوب لطف آیا.اس کے بعد ایم.ٹی.اسے کا پروگرام دیکھا.عصر کی نماز مسجد میں جاکر پڑھی.واپس آکر بچوں کا کارٹون پروگرام اور سائنسی پروگرام ٹی.وی پر دیکھا.جس میں سائنس کی حیرت انگیز ایجادات کا تذکرہ تھا.اس کے بعد نمخفی کو انگریزی پڑھائی ، ساتھ ساتھ اپنا ہوم ورک بھی کیا.مغرب کی نماز مسجد میں ادا کی.نماز کے بعد قرآن کلاس ہوئی جس میں قاری صاحب نے صحت تلفظ کے ساتھ قرآن سکھایا.واپس آکر رات کا کھانا کھایا.عشاء کی نماز پڑھی سو گیا.مال کی ڈائری لکھی ہے".رحمن نے ڈائری بند کرتے ہوئے کہا." دوست تھوڑی دیر ہو گئی وہ امی نے ایک ضروری کام سے کہیں بھیجوا دیا تھا.غزالی نے چائے کی ٹرے لاتے ہوئے کہا " " تمہیں کسی قسم کی کوفت تو نہیں ہوئی." نہیں بھٹی کوفت کیسی بس تم سے

Page 25

شرمندہ ہوں تمہاری ڈائری اجازت کے بغیر پڑھ لی " رحمن نے جواباً کہا.کوئی بات نہیں بس روزانہ کی باتیں تحریر کر لیتا ہوں " "اقوال زریں کے علاوہ اشعار بھی دلوں پر اثر کرنے والے تھے خصوصاً وہ شعر جو مجھے زیادہ ہی متاثر کر گیا اس نے ڈائری کھولی اور ترنم سے پڑھنے لگا ہے خدا شاہد ہے اسکی راہ میں مرنے کی خواہش میں میرا ہر ذرہ تن جھک رہا ہے التجا ہو کر یہ شعر ہماری جماعت کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا ہے - غزالی نے بتایا." تمہیں اتنے سارے اشعار کیسے یاد ہو جاتے ہیں.رحمن بولا.ہمارے بیت بازی کے مقابلے ہوتے رہتے ہیں اس وجہ سے ہمیں شعر یاد ہو جاتے ہیں.رحمن سوچنے لگا کہ میری ہی عمر کا لڑکا، میرا کلاس فیلو لیکن ہم سے کسقدر مختلف ہے.غزالی نے حضرت مسیح موعود کے عربی قصیدے کے چند اشعار پرسوز آواز میں سنانے کے بعد بتایا کہ یہ عربی اشعار ہمارے امام مهدی و مسیح موعود کے ہیں جو آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کہے ہیں تمہیں پتہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا بہت بڑی نیکی ہے.حضور خود فرماتے ہیں کہ جو مجھے پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے.یہ باتیں ہورہی تھیں اتنے میں عصر کی اذان ہو گئی.غزالی نے اُٹھتے ہوئے کہا.اب تم بھی نماز پڑھنے

Page 26

جاؤ میں بھی جا رہا ہوں" غزالی بیٹے ! اس کے کانوں میں امی کی آوازنہ آئی.جی امی جان تمہارا دوست ہما یوں آیا ہے انھوں نے کہا.اس وقت وہ پینٹنگ میں مصروف تھا.اس نے برش ہاتھ سے رکھا اور باہر نکل کر دیکھا.اس کا دوست ہمایوں کھڑا تھا.آجاؤ دوست اس نے اسے اپنے کمرے میں ہی بلا لیا.آہا ! مصوری ہو رہی ہے ہمایوں کی نظر جیسے ہی اس کی بنائی ہوئی تصویر پر پڑی " بس مصوری کیا میں ذرا دیکھ رہا تھا کہ مجھے کچھ بنانا بھی آتا ہے کہ خالی لکیریں ہی کھینچتا ہوں.خیر تم سناؤ کیسے آٹا ہوا - غزالی نے پوچھا." میری سالگرہ ہے کچھ دنوں بعد اس کا کارڈ دینے آیا تھا.خود اس لئے آیا ہوں کہ گذشتہ سال بھی تم نہیں آئے تھے لیکن اب ضرور آنا.موسیقی کا پروگرام بھی ہے.کرن پلیس میں تقریب ہوگی.ضرور آنا سب دوست آرہے ہیں خوب ہلا گلا رہے گا.اس نے کارڈ غزالی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا.شکر یہ دوست لیکن افسوس یں نہ آسکوں گا.غزالی نے کہا.مگر کیوں ؟ ہمایوں فوراً بول پڑا.کیا کوئی ضروری کام ہے اُس دن ؟ " نہیں ایسی کوئی بات نہیں دراصل بات ہے کہ ہم احمدی ایسے سالگرہ نہیں مناتے.ہمارے پیارے امام نے ایسی عضول رسم اور اس پر اُٹھنے والے اخراجات کی فضول خرچی سے منع فرمایا ہے.دراصل یہ رسم انگریزوں کی جاری کردہ ہے.امی جان

Page 27

۰۲۵ کہتی ہیں کہ زندگی کا ایک سال کم ہونے کی خوشی منانا کونسی نیکی ہے.اس دن تو نفل پڑھ کر صدقہ دینا چاہئے اور بس.اس طرح تقریبات منعقد.کر کے پیسہ ضائع کرنا اچھی بات نہیں ہے ؟ تم سالگرہ نہیں مناتے نہ مناؤ لیکن میری سالگرہ پر تو آؤ ہمایوں بولا.میں جو کام غلط سمجھ رہا ہوں اس میں شامل ہونا بھی غلطی ہی ہوگی تا- میں بہت معذرت خواہ ہوں پلیز تم بُرا نہ منانا سچ بتاؤ کہ کیا واقعی تم سالگرہ نہیں مناتے ؟ ہاں میں نیچ بتا رہا ہوں جب میری سالگرہ کا دن آتا ہے تو امی میرے نام سے صدقہ دے دیتی ہیں کسی کو اور گھر میں ہی کچھ بچا لیتی ہیں اور ہم سب گھر والے ملکر کھا لیتے ہیں.میں نفل پڑھ کر اپنے لئے خصوصی دعا کرتا ہوں اور لین یوں سالگرہ کا دن گزر جاتا ہے.ہمایوں اس کا منہ تکتا رہ گیا اور پھر بنا کچھ کہے اُٹھ کر چلا گیا.کچھ دنوں سے غزالی کی طبیعت کچھ خراب تھی اور وہ اسکول نہ جا سکا تھا.اسے پریشانی تھی کہ ہوم ورک بہت جمع ہو گیا ہو گا اور میں نے پڑھا بھی بہت دیا ہوگا ، ذرا طبیعت سنبھلی تو وہ رحمان کے گھر ہوم ورک معلوم کرنے کی غرض سے گیا.وہ جیسے ہی گیٹ کے اندر داخل ہوا ایک خوشی سے بھر پور نعرہ نما چیخ سنائی دی.وہ ما را با یہ رحمان ہی کی آواز تھی.وہ آواز کی سمت بھاگا.نہ جانے کونسی دولت رحمن کو اچانک مل گئی ہے

Page 28

74 اس نے دل میں سوچا نہ قریب پہنچا تو جو منظر دیکھا وہ زیادہ خوش کن نہ تھا.رحمن نے ہاتھوں میں غلیل پکڑی ہوئی تھی اور ایک ننھی منی چڑیا زمین پر تڑپ رہی تھی دیکھا تم نے میرا نشانہ کتنا پکا ہے رحمن غزالی کو دیکھ کر مسکرایا.پہلے ہی وار میں ڈھیر ہوگئی وہ فخر سے بولا.ثبت بُرا کیا تم نے - غزالی افسردگی سے بولا اور زمین پر بیٹھ کر چڑیا کو دیکھنے لگا." ارے! یہ تو زندہ ہے لگتا ہے زیادہ پچوٹ نہیں آئی، شاید یہ بیچ جائے جاؤ ذرا بھاگ کر پانی تو لاؤ غزالی خوشی سے بولا." لیکن..لیکن ولیکن کچھ نہیں بھاگ کر پانی لاؤ رحمن پانی لینے چلا گیا.دونوں نے مکر پڑیا کی چونچ کھولی اور پانی کے قطرے ٹپکائے.کچھ دیر میں چڑیا کی جان میں جان آئی اور وہ ٹھیک ہوگئی غزالی اس کو قطرہ قطرہ پانی پلاتا رہا " کتنے افسوس کی بات ہے یہ خوش رنگ پرندے ہمارا دل بہلاتے ہیں.درختوں پر بیٹھ کر چہچہاتے ہیں اور تم نے ان کو اپنا نشانہ بنایا معصوم بے زبان پرندوں کو ستانا بہت بڑی بات ہے غزالی نے سمجھاتے ہوئے کہا.اس بیچاری نے تمہارا کیا بگاڑا تھا؟ لیکن میں تو نشانہ بازی کی مشق کر رہا تھا.رحمن نے صفائی پیش کی.بھٹی اتنے نشانہ باز ہو تو جنگل میں جا کر بڑے جانوروں کو شکار بناؤ.ان معصوم پرندوں پر کیوں ظلم کرتے ہو ؟ اتنی دیر میں چڑیا چوں چوں کرتی "

Page 29

۲۷ اُڑ کر درخت پر بیٹھ گئی اور ان کی طرف دیکھ کر چوں چوں کرنے لگی جیسے دونوں کا شکریہ ادا کر رہی ہو.پتہ ہے اگر یہ مرجاتی ناتو اس کے چھوٹے چھوٹے بچے جن کے لئے یہ دانہ دنکا اکھٹا کرنے تمہارے لان میں آئی ہوگی وہ بھی مرجاتے اور یوں یہ سب معصوم پرندے تمہاری ذراسی نشانہ بازی کی مشق کی نذر ہو جاتے ذرا سوچو تو اب تو رحمن بھی پیشمان دکھائی دینے لگا.اچھا اب میں وعدہ کرتا ہوں کبھی جانوروں کو نہیں سناؤں گا.کل مالی بابا بھی منع کر رہے تھے مگر میں نہ مانا تھا.اچھا تم بتاؤ کیسے آئے تھے ؟ اوہو! یہ تو میں بھول ہی گیا تھا میں تم سے ہوم ورک لینے آیا تھا کچھ دنوں سے طبیعت خراب تھی اس لئے اسکول نہ آسکا تھا.آؤ اندر چلتے ہیں تم ڈرائنگ روم میں بیٹھو.چلو پہلے ایک دلچسپ فلم دیکھتے ہیں بھائی جان رات کو لائے تھے اس نے وی سی آر لگاتے ہوئے کہا.رک جاؤ دوست" غزالی نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا "میرے امی ابو نے لغو فلمیں دیکھنے سے منع کیا ہے“ مگر ! یہاں تمہارے امی ابو تو نہیں دیکھ رہے رحمن بولا.نہیں نہیں والدین کسی بات سے منع کر دیں تو اس میں ضرور کوئی بھلائی ہوتی ہے اور اگر وہ نہیں دیکھ ہے تو کیا ہوا ، اللہ تعالیٰ سے کیسے چھپاؤں گا وہ تو سب کچھ دیکھ رہا ہے والدین سے چھپ جانے والی ا

Page 30

۲۸ ہر حرکت خدا تعالیٰ کی نظر سے کیسے چھپ سکتی ہے وہ تو انسان کی شہ رگ سے بھی قریب تر ہے." ایک دن رحمن غزالی کے گھر آیا.ایم.ٹی.اسے پر اردو سکھانے کی کلاس آرہی تھی.پیارے آقا اردو سکھا رہے تھے دنیا بھر کے لوگوں کو.انداز اتنا سادہ و دلکش تھا کہ ہر شخص کی سمجھ میں آ سکتا تھا.پھر پیارے حضور ایدہ اللہ محبت سے سکھا رہے تھے.سب گھر والے شوق سے دیکھ رہے تھے اؤ دوست میرے پاس بیٹھو، اس نے یمن کے لئے کہ سی ٹھیک کرتے ہوئے کہا.رحمن شوق سے دیکھنے لگا.ایم ٹی اے پر دنیا کی کئی زبانیں سکھائی جاتی ہیں یہ اُردو کلاس ہے جو ہمارے حضور ایدہ اللہ خود لیتے ہیں غزالی نے بتایا.رحمن بڑی دلچسپی سے پروگرام دیکھتا رہا غزالی نے بتایا کہ اس کے علاوہ کوئٹہ پروگرام - درس القرآن ہومیو پیتھک کلاس اور بچوں کے ورانٹی پروگرام بھی دکھائے جاتے ہیں.اب تو مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تم ڈش پر اتنے اچھے پروگرام دیکھتے ہو جن کے بارے میں اکثر بتاتے ہو.تم واقعی سچ کہتے ہو.بھٹی میں ان کے علاوہ دوسرے ٹی وی پر کارٹون اور سانسی معلوماتی پروگرام بھی شوق سے دیکھتا ہوں جن سے میرے علم و معلومات

Page 31

۲۹ میں اضافہ ہو.دونوں دوست مُسکرا دیئے اور امام جماعت احمدیہ کی دلچسپ پیاری پیاری باتوں کو غور سے سننے میں محو ہو گئے.

Page 32

لطائف بچہ.ریلی فون پر آج میرالہ کا بہار ہے اس لئے سکول حاضر نہیں ہوسکتا استاد - آواز پہچان کر) کون بول رہا ہے ؟ بچہ میرے ابا بول رہے ہیں.نیاگرا آبشار کے پاس گائیڈ کھڑے ہوئے سیاحوں سے کہہ رہا تھا.یہ دنیا کی سب سے بڑی آبشار نیاگرا ہے.اس کی آواز میلوں تک سنی جاسکتی ہے.اب میں خواتین سے التجا کر وں گا کہ کچھ دیر کے لئے خاموش رہیں تاکہ اس عظیم الشان آبشار کی آواز سنی جاسکے.ایک شخص جو تیر نا نہیں جانتا تھا.ندی میں تیرنے کی کوشش میں ڈوبنے لگا تو فوراً باہر نکل آیا اور پھر پانی کی طرف دیکھ کہ کہا.ر جب اچھی طرح تیرنا سیکھ لوں گا پھر سہی پانی میں اتروں گا.“ پہلا آدمی.انسان چاند تک پہنچ گئے تو سورج تک کیوں نہیں پہنچ سکتے.دوسرا آدمی.وہ بہت روشن ہوتا ہے اور گرم بھی

Page 33

۳۱ پہلا آدمی.تورات کو چلے جائیں.استاد.بتاؤ مکھی اور ہاتھی میں کیا فرق ہے ؟ ایک شاگرد - جناب بھی اُڑ سکتی ہے ہاتھی اُڑ نہیں سکتا.دوسرا شاگرد مکھی چھوٹی ہوتی ہے ہاتھی بڑا ہوتا ہے.تیسرا شاگرد - مکھی کی سونڈ نہیں ہوتی ہاتھی کی سونڈ ہوتی ہے.چوتھا شاگرد مکھی ہاتھی پر بیٹھ سکتی ہے جبکہ ہاتھی مکھی پر نہیں بیٹھ سکتا.پہلا آدمی.تم پہلے سے بلبلے ہو گئے ہو دوسرا آدمی.تمہیں کیسے اندازہ ہوا پہلا آدمی.تمہارا سر ہالوں میں سے نکلتا نظر آ رہا ہے.ایک لکڑ ہارا اپنے بیٹے کے ساتھ لکڑیاں کاٹے گیا شام کو واپسی کے وقت راستہ بھول گئے.لکڑ ہارا بیٹے سے غصے سے بولا.بے وقوف ہیں تو راستہ بھول گیا تم تو گھر جاؤ ماں انتظار کر رہی ہوگی ؟ بیوی اپنے شوہر سے جھگڑ پڑی اور زور سے کہا " میں یہ حلوہ کسی فقیر کو 66 دے دوں گی مگر تمہیں نہیں دوں گی " کافی دیر کے بعد باہر سے آواز آئی.

Page 34

بی بی فقیر جائے یا کھڑا رہے “ ایک موٹا آدمی کسی کے گھر مہمان گیا.رات کو زلزلہ آگیا.موٹا آدمی پنگ سے نیچے گر گیا.میزبان بولا.ود تم زلزلے سے نیچے گرے ہو یا تمہارے گرنے سے زلزلہ آیا ہے یا میسنجر.امید ہے آپ کی رات سکون اور اطمینان سے کئی ہوگی.مسافر.جی ہاں ! آپ کے مچھر مجھے اُڑا کر لے جاتے.اگر بستر کے کھٹمل مجھے پکڑ نہ لیتے.ایک چیونٹی دوڑتی ہوئی جارہی تھی.چیونٹے نے پوچھا ایسی جلدی رو بھی کیا ہے چیونٹی بولی " دو ہاتھیوں کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے.دونوں کو خون کی ضرورت ہے.وقت پہ نہ پہنچی تو کیا فائدہ ہے تم بھی آجاؤ.مرسله ، اسد طاہر ، عطاء الثني

Page 34