Kafir Kaun

Kafir Kaun

کافر کون؟

Author: Other Authors

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات
تبلیغ ، دعوت الی اللہ، نومبایعین

’’کل رات میں نے کفر احمدیت پر بہت غور کیا‘‘ یہ ضخیم کتاب ایک دلچسپ اور ایمان افروز داستان ہے ایک نومبائع کی۔ جس کا تعلق وادی ہزارہ سے تھا، جسے احمدیت قبول کرنے کی سعادت یوں ملی کہ وہ اپنے ایک واقف کار سے ملاقات کرنے حوالات اور جیل تک گیا کیونکہ اسے اپنے ہمسائے سے صرف انسانی ہمدردی تھی، محبوس قیدی کی ایمانی قوت، سلاخوں کے پیچھے بھی ہنستا مسکراتا چہرہ اور ایسا اطمینان جو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا، نے اس ملاقاتی کو بھی سوچنے پر مجبور کیا، اسے ایمان کی دولت سے سرفراز کردیا۔ اس افسانے کی طرح دلچسپ اور قدم قدم پر توجہ کھینچنے والے موڑ مڑنے والی اس کہانی میں دراصل سلسلہ عالیہ احمدیہ کے موقف کی خاموش تبلیغ پیش کی گئی ہے۔


Book Content

Page 1

99 الحمديت پر بہت غور کیا ممد از خدا بعد کرمان برد بعد است کالری 66 رادی: فریدون خان جدون تحریر: اصغر علی بھٹی

Page 2

2 صل اللَّهِ عَلِيه عشق رسول ﷺ اگر کفر ہے تو خدا کی قسم میں سخت کافرہوں وادی ہزارہ کے ایک نو مبائع کی قبول احمدیت کی داستان جواز راہ ہمدردی ایک اسیر راہ مولا سے ملنے حوالات گئے اور ایمان کی دولت سے سرفراز ہو گئے راوی فریدون خان جدون تحریر اصغر علی بھٹی

Page 3

3 انتساب میں اپنی اس پہلی تحریری کاوش کو اپنی والدہ محترمہ کے نام منسوب کرتا ہوں جن کی شبانہ روز دعاؤں نے مجھے وقف جیسی لازوال دولت سے بہرہ مند کیا اور مجھے امام آخر الزمان علیہ السلام کی پہچان نصیب ہوئی

Page 4

4 داستان بزبان راوی قصہ ایبٹ آباد کے ایک ڈی سی صاحب کے فرمان کا...میہ ان دنوں کی بات ہے جب میں Posting کے سلسلے میں وادی ہزارہ کے سرمائی ہیڈ کوارٹر ایبٹ آباد میں مقیم تھا.میرا بنگلہ شہر سے تھوڑا ہٹ کر کا کول گاؤں کے پاس بلند و بالا خوبصورت پہاڑیوں کے دامن میں ایک ٹیلے پر واقع تھا.جس کی مغربی جانب پہلی سی پگڈنڈی تھی جو بل کھاتی ہوئی نیچے جا کر مین روڈ سے مل جاتی تھی جبکہ مشرقی جانب دور تک سبز گھاس کے پھیلے ہوئے قالین میری ہر صبح کو یاد گار نشے میں بدل دیتے.میں دفتری امور سے فارغ ہو کر جلدی جلدی گھر پہنچ جاتا جہاں عصر کے بعد میں اور میری نو بیا بہتا بیگم ڈوبتے سورج کی سنہری شعاعوں کی چھاؤں میں چائے کی چسکیاں لیتے کبھی غم دوراں کے قصوں اور کبھی مستقبل کے سہانے خوابوں میں کھو جاتے.وارفتگیوں کے یہ لامحدود سلسلے اُس وقت ٹوٹتے جب پہاڑوں کے دامن میں اترتی ہوئی خاموش خنک شام ہمیں اپنے دامن میں چھپا لیتی اور ہزارے کی برفیلی ہوائیں ہمیں ڈرائنگ روم کی طرف بھاگنے پر مجبور کر دیتیں.وقت معمول کے مطابق گزررہا تھا کہ ایک دن میں جب گھر آیا تو خلاف معمول بیگم بڑی حواس باختہ ہی نظر آئی.اس کی خوف سے پھیلی آنکھیں کسی متوحش ناک خبر کا اعلان کر رہیں تھیں.بہر حال لاحول پڑھنے کے بعد میں نے ہمت کر کے پوچھا کیوں بیگم گھر میں سب خیریت تو ہے ناں؟ جواب تھا گھر میں تو سب خیریت ہے مگر یہ جو ہمارے ہمسائے ہیں مبشر صاحب آج پولیس ان کو گرفتار کر کے لے گئی ہے.میری بے اختیار ہنسی نکل گئی.میں نے بیگم کو بتایا کہ وہ تو ایک قادیانی ہے.میرا کہنا شاید بیگم کو اچھانہ لگا کیونکہ آخر وہ میری بیگم کی اکلوتی سہیلی کے میاں صاحب تھے.زنانہ چہرے کے تاثرات اور حالات کی نزاکت سے مجھے فرمانبردار شوہر بننے میں ذرا دیر نہ لگی اور میں نے کھسیانے انداز میں جلدی جلدی پوچھنا شروع کر دیا کہ بتائیں کیا بات ہوئی؟ کیوں گرفتار کیا گیا؟ وہ تو بڑے شریف انسان اور ایک معزز عہدے پر فائز ہیں وغیرہ وغیرہ.

Page 5

5 جواب میں بیگم نے اپنی سہیلی سے حاصل شدہ تفصیلات جو زیادہ تر گرفتاری کے متعلق تھیں بیان کر دیں.گرفتاری کے وقت کے حالات سن کر مجھے انسانی ہمدردی سے زیادہ بیگم کی ہمدردی میں بہت دکھ ہوا.میں نے بیگم کو تسلی دی کہ میں ابھی تھانے جا کر ملاقات کرتا ہوں اور جرم کی نوعیت دیکھ کر ضمانت کا بندو بست کرتا ہوں.چنانچہ مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد میں تھا نہ صدر کینٹ جاپہنچا.بڑی مشکل سے حوالات میں ملاقات کی سبیل نکلی.میرے مطلوب مجرم کے ساتھ سات آٹھ اور باریش بزرگ بھی حوالات کی سلاخوں کے پیچھے گندے فرش پر بیٹھے نظر آئے.بہر حال سلام دعا کے بعد میں نے حقیقت حال پوچھی اور اپنی خدمات پیش کیں.مبشر صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا بہت بہت شکریہ آپ نے تشریف لانے کی زحمت کی.صرف گھر میں بیگم بچوں کو اطلاع کر دیجئے گا کہ ہم سب خیریت سے ہیں.باقی جب اللہ تعالیٰ انتظام فرمائے گا رہائی ہو جائے گی.ان کا مسکراتا پر سکون چہرہ اور روشن آنکھیں اور پھر حوالات کی سلاخیں میرے دل و دماغ کی تاروں میں کہیں الجھ کے رہ گئیں.اسی ادھیڑ بن میں گھر میں آیا اور پھر رات میں ٹھیک سے سو بھی نہ سکا.بات یہ نہ تھی کہ میرا ہمسایہ جیل میں کیوں گیا؟ بلکہ اس ملزم کی وہ پرسکون آنکھیں بار بار یاد آرہی تھیں جو کسی ایسے ”جرم“ کی نشاندہی کر رہیں تھیں جو شاید صدیوں بعد ارتکاب پذیر ہوتے ہیں.اگلے دن یہ لوگ حوالات سے جیل میں منتقل ہو گئے اور میں 26 روزہ دورے پر داسو اور پٹن کی طرف چلا گیا.واپسی پر اطلاع ملی کہ وہ سب لوگ ابھی تک جیل ہی میں ہیں اور مقدمہ سیشن کورٹ میں چلا گیا.چنانچہ میں دفتر سے چھٹی لیکر جیل گیا.مبشر صاحب حسب معمول جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی تروتازہ اور مسکراتے نظر آئے بلکہ وہ مجھے فرمارہے تھے کہ آپ نے تکلیف کی چھٹی لیکر تشریف لائے یہاں سب خیریت ہے امید ہے دو چار روز میں ضمانت ہو جائے گی اور پھر ہفتہ بعد ان کی ضمانت ہو گئی.مجس سے مجبور اور پر سکون آنکھوں کے تعاقب میں میں ایک شام ان کے بنگلے پر جا پہنچا ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں نے F.I.R کی نوعیت جاننا چاہی.وہ بات کو خوبصورتی سے ٹال گئے.مگر میری سوئی اک بار پھر جرم کی نوعیت پر جانکی.مجھے بضد دیکھ کر وہ بنگلی کمرے کی طرف گئے اور ایک کاغذ کا ٹکڑا لے کر واپس آگئے.یہ تھانہ صدر ایبٹ آباد کی طرف سے کاٹی گئی F.IR تھی.کاغذ ہاتھ میں لیکر میں نے اُسے ایک دفعہ پڑھا.دو دفعہ پڑھا.جلدی جلدی پڑھا اور پھر رک رک کر پڑھا.مطالعہ کے بعد آہستہ آہستہ مجھے محسوس ہوا کہ مجرم میں ہوں اور بے گناہ شیخص.یہیں سے اُس کہانی نے جنم لیا جو اس تصنیف کا سبب بن گئی ہے.وہ F.I.R کیا تھی.اس میں درج جرم کیا تھا میں اس کو پورا ہی یہاں درج کیے دیتا ہوں.

Page 6

6 17 جنوری 1992 کو تھانہ صدر کینٹ ابیٹ آباد میں وقار گل جدون صدر تحفظ ختم نبوت ایبٹ آباد کی تحریری درخواست پرزیر دفعه 298C مندرجہ ذیل افراد پر F.IR کائی گئی.(1) محمد احمد بھٹی (2) مبشر احمد (3) ابرار (4) احمد بھٹی (5) انور احمد بھٹی (6) مدثر احمد (7) شیر از احمد (8) اعجاز احمد (9) شوکت احمد تحریری درخواست میں لکھا گیا کہ میں اپنے دوست مسمی اعجاز احمد سکنہ اقبال روڈ کو ملنے آیا.جو نہ ملا جس پر ہم واپس جارہے تھے کہ ایک مکان 77 تنولی ہاؤس جس کے باہر تنولی ہاؤس لکھا ہوا تھا جو اقبال روڈ پر واقع ہے کے قریب پہنچے تو اندر سے آواز آئی کہ وضو جلدی کر لیں نماز کا وقت ہو گیا ہے جس پر ہم دونوں سمجھے کہ مسجد ہے.اندر چلے گئے اور وہاں پر موجود ایک سفید داڑھی والے شخص نے کہا کہ نماز کے بعد درس بھی ہوگا.وہاں پر چند افراد نماز پڑھنے کے لیے تیار کھڑے تھے اور ہم مسجد کے آثار نہ پا کر باہر آ گئے.جب اس گھر سے باہر نکلے تومسمی عابد علی ولد صادق ساکن مغلپورہ سے ملاقات ہوئی جس سے ہم نے اس گھر کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہاں پر مرزائی عرصہ دراز سے اکٹھے ہو کر نماز پڑھتے اور اذان بھی ہوتی ہے.اس کے آگے دل آزاری کی داستان، قانون شکنی کی نشاندہی اور اس خوفناک جرم کو روکنے اور مجرمان کو پابند سلاسل کرنے کی دہائی درج ہے.یہ رپٹ درج کروانے والا شخص ایک مجاہد ختم نبوت تھا جس کی آہ وزاری پر یہ پرچہ درج ہوا اور ملزموں کی گرفتاری کے لیے قانون حرکت میں آ گیا.پھر ڈوبتے سورج نے ایبٹ آباد کے فوارہ چوک میں یہ حیرت انگیز منظر بھی دیکھا کہ شہر کے سرکردہ علماء نے شاہراہ ریشم بلاک کر کے چوک میں صفیں ڈال دیں.مغرب کی نماز ادا کی گئی اور پھر ملزموں کی گرفتاری کے لیے لمبی چوڑی تقاریر کی گئیں.جرم اور اس کی قباحت و کراہت واضح کی گئی.دلوں کے مجروح ہونے کی دکھی بپتا سنائی گئی.ایبٹ آباد سے سلہڈ تک اور مانسہرہ کی طرف میر پورتک ٹریفک کی لمبی قطاریں کسی ہولناک جرم کے سرزد ہونے کی نشاندہی کر رہیں تھیں.رات گئے مکرم عزت مآب جناب DC صاحب، ایبٹ آباد کے سرکٹ ہاؤس میں ایک پر ہجوم پریس کا نفرنس سے خطاب کر رہے تھے جسے اگلی صبح کی تمام لوکل اخبارات نے Lead Story کےطور پر جگہ دی.آپ نے فرمایا تھا کہ آئندہ سے ضلع ایبٹ آباد کی حدود میں کسی قادیانی کو عبادت کرنے کا موقع نہیں دیا

Page 7

7 جائے گا.اس کے ساتھ ہی آپ نے 77 تنولی ہاؤس جس میں ملزمان آخری دفعہ عبادت کے جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے پائے گئے تھے کو سیل کر دینے کے ارشادات فرما دیئے.اگلے چند گھنٹوں میں 77 تنولی ہاؤس کے تمام تالوں پر لاکھ سے لگی سیلیں اور دیوار پر سیل توڑنے کی سزا کے اشتہارات چسپاں نظر آرہے تھے.قانون اس قدر سرعت سے حرکت میں تھا کہ ابھی 24 گھنٹے بھی مکمل نہ ہونے پائے تھے کہ تمام ملزمان حوالات کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ چکے تھے.اورپھر اُس رات میں نے کفر احمدیت پر بہت غورکیا مبشر صاحب ! جرم، فرد جرم، مدعیان، قانون ، عدالت ، حوالات اور زنداں کی روشوں کی داستاں سناتے رہے اور میں حیرت کے سمندر میں ڈوبا اس کہانی کی ڈور کو ماضی کے دور کے کسی گوشے سے توڑنے اور جوڑنے میں مصروف رہا.اس وقت ان کا چہرہ ان اشعار کی سرا پا تفسیر بنا نظر آ رہا تھا.اب لفظ بیاں سب ختم ہوئے اب دیدہ و دل کا کام نہیں عشق خود پیغام اپنا اب عشق کا کچھ پیغام نہیں ہے زاہد ترے ان سجدوں کے عوض سب کچھ ہو مبارک تجھ کو مگر.وہ سجدہ یہاں ہے کفر جبیں جو سجدہ کہ خود انعام نہیں زندان کے یہ مسافر لوہے کی ہتھکڑیاں پہنے نماز پڑھنے ، آذان دینے اور کلمہ کا بیج لگانے کا جرم سینے پر سجائے کس شان سے موت کے اندھیروں کی طرف محوسفر تھے اور مجھے ان کے جرم کا سنہرا پن آسمان کی وسعتوں پر پھیلا نظر آنے لگا.صحن ،درویش، یہ لالہ و گل، ہونے دو جو ویراں ہوتے ہیں تخریب جنوں کے پردے میں تعمیر کے ساماں ہوتے ہیں منڈلائے ہوئے جب ہر جانب طوفاں ہی طوفاں ہوتے ہیں دیوانے کچھ آگے بڑھتے ہیں اور دست و گریباں ہوتے ہیں تو خوش ہے کہ تجھ کو حاصل ہیں میں خوش کہ میرے حصے میں نہیں وہ کام جو آساں ہوتے ہیں، وہ جلوے جو ارزاں ہوتے ہیں آسودہ ساحل تو مگر شاید تجھے معلوم نہیں ہے

Page 8

00 8 ساحل سے بھی موجیں اٹھتی ہیں، خاموش بھی طوفان ہوتے ہیں خون جو ہے مظلوموں کا، ضائع نہ ہو جائے گا لیکن کتنے وہ مبارک قطرے ہیں جو صرف بہاراں ہوتے ہیں جو حق کی خاطر جیتے ہیں مرنے سے کہیں ڈرتے ہیں جگر جب وقت شہادت آتا ہے دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں ظلم کی اس اندھی دوپہر کے خلاف مجھے کچھ لوگ سراپا احتجاج بھی نظر آئے چنانچہ ایک دل کی آواز دی تھی: اس مرحلہ پر اینٹی احمد یہ آرڈینینس کو زیر بحث لانا یا اس پر تبصرہ کرنا میرے موضوع سے خارج ہے.ویسے بھی اس نوع کے جملہ آرڈیننسوں پر صیح تبصرہ تاریخ ہی کرے گی.اسلام کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ الزام تو لگتا رہا ہے کہ مسلمانوں نے کافروں کو ز بر دتی کلمہ پڑھوایا البتہ کلمہ پڑھنے والوں کو بنوک شمشیر اس سے باز رکھنے کی کوئی مثال پہلے موجود نہیں تھی.کلمہ پڑھنے کا یہی مطلب ہے نا کہ اس کا فر“ نے اقرار کیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں او محمد اللہ کے رسول ہیں.جناب اکبر الہ آبادی کو شکایت تھی کہ: رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں اُس زمانے میں شاید یہ شاعرانہ مبالغہ آرائی تھی.کا فرانگریز حکومت میں خدا کا نام لینے پر کسی نے کوئی پابندی عائد نہیں کی تھی.کوئی رپٹ نہیں لکھوائی تھی یہ سعادت اسلامی حکومت کو نصیب ہوئی ہے کہ غیر مسلموں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی معبودیت کے اقرار کی اجازت نہیں.وہ مطمئن کہ سب کی زباں کاٹ دی گئی ایسی خموشیوں دوکھانیاں دوتصویریںاوردوانجام حضرت فرید الدین گنج شکر ” کا قول ہے: مگر ڈر لگے ہے (مذہب کا سرطان صفحه 30 تا 33 ) انسان کی تکمیل تین چیزوں سے ہوتی ہے.خوف ، امید اور محبت.خوف خدا گناہ سے بچاتا ہے.امید اطاعت پر آمادہ کرتی ہے اور محبت میں محبوب کی رضا کود یکھنا پڑتا ہے.انسان لاکھ خطا کا رسہی لیکن فطرت کی آواز کسی بھی سانحہ پر چر کہ لگانے اور سائرن بجانے سے نہیں چوکتی.

Page 9

9 نماز کے قیدی سے ملاقات سے واپسی میرے جیسے بے نماز کے لیے ایسے ہی دلگداز لمحوں میں تبدیل ہو گئی تھی.رات کے ایک بجے تک میں ایک ” کا فرنمازی اور بے عمل مسلمان کے تقابلی جائزہ میں مصروف تھا.بے چینی تھی کہ ہرلمحہ بڑھتی جا رہی تھی آخر میں اس امید کے ساتھ خود کو پرسکون کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ صبح ان کے عقائد کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کروں گا؟ ان کے اعمال کی خوبصورتی لاکھ سہی ان کے اعتقادات میں ضرور خامیاں ہوں گی ؟ صبح ضرور میں ان کی نشاندہی حاصل کروں گا.ہو سکتا ہے اوپر سے اور کلمہ پڑھتے ہوں اندر سے اور کلمہ پڑھتے ہوں؟ ہو سکتا ہے ظاہری اعمال اور ہوں اور اندر منصوبے اور ہوں؟ ہو سکتا ہے یہ انگریزوں کی تیار کردہ جماعت ہوں؟ یا یہودیوں کے کسی خفیہ ایجنڈے پر عمل کر رہے ہوں ؟ ضرور یہ ختم نبوت کے منکر ہونگے تبھی تو علماء نے انکو کافراور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ہے.یہ اسلام کے متوازی یا مخالف کسی تنظیم کا نام ہوگا..یا اسلام کو دنیا میں نقصان پہنچانے کے لیے کسی سامراجی طاقت نے ان کو کھڑا کیا ہوگا.غرض ان کے کفر کی بہت سی وجوہات ہوں گی تبھی تو 72 کے 72 فرقے ان سے گھبراتے اور ان کے کفر اور دائرہ اسلام سے اخراج پر متفق ہیں.غرض رات گئے تک میں جماعت احمدیہ کے کفر کے بارے میں مفروضے قائم کرتا رہا اور پھر کسی پہر نیند نے یہ سلسلہ توڑ دیا.آنے والے دنوں میں میں نے جماعت احمدیہ کے لٹریچر کا تفصیلی مطالعہ کیا علماء کے اعتراضات اور تاریخی وضاحتوں اور محاکموں کو سامنے رکھا.جہاں میں نے دعوۃ الا میر احمدیت یعنی حقیقی اسلام، احمدیت کا پیغام تحقیق عارفانه ، راه هدی ، نظام نو ، زجاجہ، پاکٹ بک، آئینہ کمالات اسلام، نزول امسیح ، شہادۃ القرآن ازالہ اوہام جیسی مشہور احمدی کتب کا مطالعہ کیا.وہیں: مرزائیت اور اسلام قادیانیت ختم نبوت کامل از احسان الہی ظہیر از ابوالحسن ندوی از مفتی محمد شفیع

Page 10

قادیانیت کے عقائد اور عزائم 10 از مودودی ختم نبوت اور تحریک احمدیت ملت اسلامیہ کے خلاف قادیانی سازشیں عقيدة الامة في معنى ختم النبوة عقیدہ ختم نبوت اور مرزا غلام احمد قادیانی مرزا قادیانی اپنی تحریروں کی رو سے نزول عیسی “ چند شہبات کا ازالہ خسوف و کسوف از غلام احمد پرویز از منظور احمد چنیوٹی از مولوی خالد محمود از پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری از یوسف لدھیانوی از یوسف لدھیانوی از منظور احمد چنیوٹی از عبد الغفور اتری وہابیت اور مرزائیت از محمد ضیاءاللہ قادری زیروزبر از ارشد القادری حنفیت اور مرزائیت زلزلہ بریلویت تاریخ نجد و حجاز مذہبی اور سیاسی باوے الوہابیت تبلیغی جماعت جماعت اسلامی قہر حق بر صاحب ندائے حق امام پاک اور یزید پلید تبلیغی جماعت پیر محمد کرم شاہ بھیروی کی صلح کلیت کا انجام از ارشد القادری از احسان الہی ظہیر از مفتی عبد القیوم قادری از امیر حمزه از محمد ضیاء اللہ قادری از ارشد القادری از ارشد القادری از حافظ محمد حبیب اللہ ڈیروی از محمد شفیع اوکاڑوی از عبید الرحمن محمدی از سید بادشاه قسم بخاری

Page 11

11 اقبال اور احمدیت مذہب کے نام پرخون القول المبين في تفسير خاتم النبين پاکستان کے مذہبی اچھوت مذہب کا سرطان قادیانیت کا سیلاب اور ہماری حکمت عملی از شیخ عبد الماجد از حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ از مولانا ابوالعطاء جالندھری از تنویر احمد میر اور مرتضیٰ علی شاہ از کوثر جمال از اسرار احمد وڑائچ زهق الباطل بجواب قادیانیت اسلام کے لیے سنگین خطرہ از حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کے دس سوالوں کے جوابات از مولانا جلال الدین شمس صاحب جیسی کتب بھی وقتا فوقتا مطالعہ کی زد میں آئیں.جنوری 1992ء سے جس سفر کا آغاز ہوا تھا آج اگست 1996ء میں اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے.ان سارے سالوں کے دوران میں نے دعا عقل اور مطالعہ کے ساتھ ساتھ حضرت فرید الدین گنج شکر کے اس ارشاد مبارک کو ہمیشہ سامنے رکھا.خوف، امید اور محبت کے تحت دونوں طرف کے نقطہ نظر کا تفصیل سے مطالعہ کیا دونوں معاشروں کی تصویر تفصیل سے تیار کی اور دونوں کے نظریات اور عمل میں تضاد یا ہم آہنگی کو خاص طور پر لوح ذہن پر نقش کیا.دونوں طرف کی تصویروں کو میں نے بعینہ اصل الفاظ میں آمنے سامنے رکھوا دیا ہے اور حاصل وصول اپنی الجھنوں کو اپنی مشکلات کے نام سے الگ رقم کروادیا ہے.دوستو ! میں نے زندگی کے چار قیمتی سال تحقیق میں گزارے اور ان کے بعد جو مشکلات میرے سامنے آئیں.جو تضادات اور خامیاں میرے لئے پریشانی کا مسئلہ بنیں میں ان سب کو صفحہ قرطاس پر منتقل کروا کے تمام علماء دین کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ میری اس مسئلہ میں مدد کریں اور میری ان مشکلات کو حل کرنے میں میری راہنمائی فرمائیں.میں آج اپنی اُن 85 مشکلات کو سپر دتحریر کروا کے اس فرض سے سبکدوش ہوتا ہوں اور صلائے عام دیتا ہوں کہ کوئی ہے جو میری راہنمائی کرے؟ خاکسار فریدون خان جدون 18/08/1996

Page 12

12 وہ مینار پر چڑها دهشت گرد اور اک برسوں پرانی داستان صحرائے اعظم کی طرف جانے والی عظیم قدیمی شاہراہ کے کنارے ”برنی کونی“ کا ایک چھوٹا سا قصبہ روزانہ سینکڑوں پور بی سیلانیوں سے بھرا رہتا ہے.سیاح ایک لمبے تھکا دینے والے صحرائی سفر پر روانہ ہونے سے پہلے کچھ خریداری کرتے ہیں.گاڑیوں کے ٹینک فل کروانے کے ساتھ ساتھ اضافی کین بھی بھرتے ہیں اور پھر کچھ دیر آرام کر کے آغا دیں اور زینڈر کے دور افتادہ تاریخی صحرائی شہروں کو دیکھنے نکل پڑتے ہیں.بسوں کے اڈے سے چند قدم کے فاصلے پر واقع آبادی کے بیچوں بیچ احمد یہ مسجد کے مینار اور مشن ہاؤس کے دروازے ہر ایسے اجنبی کا استقبال کرتے اور اسے ابدی زندگی کی لازوال حقیقتوں کی طرف جانے والی شاہراہ کی طرف راہنمائی کے لئے موجود نظر آتے ہیں.28 مئی 2010 کی صبح بھی خاکسار اپنے دفتر میں آئے ہوئے چند مہمانوں کو جماعت کا تعارف کروانے میں مصروف تھا کہ اچانک گھر سے آنے والی چیچنوں اور رونے کی آوازوں نے مجھے گھر کی طرف دوڑنے پر مجبور کر دیا.میں جب بھاگتا ہوا ڈرائینگ روم میں پہنچا تو دیکھا سب بچے ٹی وی کے سامنے کھڑے اپنی امی سے لیٹے رو ر ہے تھے.Dunya news چینل کے کیمرے گڑھی شاہولا ہور کی احمدیہ مسجد کے مینار پر چڑھے کلاشنکوف والے دہشت گرد کو بار بار دکھا رہے تھے جو کسی جانب ہاتھ اٹھا کر فتح کا نشان بنا رہا تھا.نیوز کاسٹر حضرات بڑی مہارت کے ساتھ تول تول کر لفظ بول رہے تھے کہ کہیں سینکڑوں سجدے میں سر کٹانے والوں کے لئے نمازی کا لفظ منہ سے نہ پھسل جائے.وہ قانون وقت کی لٹکتی تلوار کے نیچے خون مطہرہ سے تازہ تاز فنسل کی ہوئی چار میناروں والی

Page 13

13 اس عمارت کو مسجد کی بجائے بار بار عبادت گاہ کہتے ہوئے کتنا گڑ بڑا رہے تھے.خون کی ہولی پر لائیو ٹرانسمیشن ختم ہوئی تو اینکر حضرات میزیں سجا کر بیٹھ گئے اور Table Talk پروگرام شروع ہو گئے.اور پھر پہروں پہر گزر گئے مگر نہ جلوس ، نہ پتھر نہ نعرے، نہ توڑ پھوڑ نہ ہاؤ ہو کار.حکومتی ارباب حل و عقد حیران اور مخالفین پریشان.کون لوگ ہیں یہ اور کس مٹی سے بنے ہیں یہ ؟ اتنے پر سکون چہرے.اتنی پرسکون آنکھیں.کہاں سے سیکھے ہیں یہ آداب شہادت؟ مسجد کے اندر شہید ہو تا مر بی.درود پڑھنے اور صبر کی تلقین کا اعلان کر رہا ہے.دوسرے کو بچانے کے لئے ہر کوئی آگے بڑھ بڑھ کر اپنی جان پیش کر رہا ہے.بم چل رہے ہیں.کلاشنکوف کی گولیوں کی باڑ پہ باڑ آ رہی ہے.نہ گلہ نہ سسکیاں ، نہ گالیاں، نہ دھاڑ.شور ہے تو درود جیتی ٹوٹتی سانسوں کا.اتنی آقا صلی یہ الم سے محبت.اتنی جانثاری.کہاں سے سیکھے ہیں یہ آداب فدائیت؟ کہیں تاریخ کے جھروکے سے حضرت زید بن الدشنہ کا مقتل اور اس سے اٹھتا ہوا نعرہ مستانہ تو نہیں لوٹ آیا؟ کیونکہ یہ پرسکون چہرے تو صرف اور صرف عاشقان رسول صلی پریتم کی ہی میراث ہیں.فَلَستُ أبالى حِينَ عَلَى أَي جَنبِ مسلماً أقتل كانَ لِلهِ مصرعى وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الاله وَ اِن يَشَاءُ يبَارِد عَلى أَوصَالِ شلو مُمَزّع رات ڈھلی تو صحرائی بھیگی ہوئی ہواؤں کے دوش پر میں بھی اپنے دیس واپس لوٹ گیا.وہ دیس جس میں اللہ کا نام لینے پر دو دفعہ جیل کائی.ایبٹ آباد، مانسہرہ ، ہری پور، ڈاڈر ، جبوڑی ، بالاکوٹ ، کے بیسیوں اسیران راہ مولا کی دس سال خدمت کا موقعہ ملا.یادوں کے دیپ جلے تو جلتے چلے گئے اور پھر اسی وادی ہزارہ کی برسوں پہلے کی سنی ہوئی اک داستان یاد آ گئی.فریدون خان جدون کی داستان جوایسی ہی پرسکون آنکھوں کی کھوج میں نکلا تھا.میں نے وہ داستان لکھی اور پھر بھول گیا مگر آج 14 سال بعد شہدائے لاہور نے ہر گر د کو دھو ڈالا اور ہر ایسی داستان کو زندہ کر دیا.ہاں وہی عظیم شہدائے

Page 14

14 لا ہور جو ہر سوال کا جواب بن گئے.جنہوں نے اپنے خون سے یہ انمٹ داستان لکھ دی کہ حسین کبھی نہیں مرتے اور پھر بھیگتی ہوئی رات کے اس پہر میں دور سے آنے والے ایک دیوانہ کی آواز کے سحر نے جیسے پورے ماحول کو سو گوار کر دیا جو اونچے سروں میں گا رہا تھا یہ کون لوگ ہیں حق کا علم اٹھائے ہوئے جو راہ غم میں ہیں چپ چاپ سرجھکائے ہوئے گواہی دینے کو جھکتا ہے آسمان جن کی جو تاج سر پر شہادت کا ہیں سجائے ہوئے جنہیں زمین شوق سے سو بار چومتی ہے سفید پوش ہیں جو خون میں نہائے ہوئے ہے ان کے پاس تو ان کے لیے بھی کلمہ خیر کہ جن کی تیغ ستم کے ہیں ستائے ہوئے گینوں تو کم ہیں جو سمجھو تو ان گنت ہیں یہ کہ دو جہاں کی ہیں وسعتوں که مقام بلند ان کا منتظر چھائے ہوئے یہ جا رہے ہیں کہیں اور گھر لٹائے ہے کہیں ہوئے یہی تو لوگ ہیں مقبول بارگاہ رسول یہی ہیں اب دو عالم کے آزمائے ہوئے یوں تو یہ کہانی ان سینکڑوں ہزاروں متلاشیان حق میں سے ایک فریدون خان جدون کی کہانی ہے جو جب کسی احمدی کے قریب ہوتے ہیں اور پھر اس کے اخلاق اور عشق رسول صلی سی ہستی سے متاثر ہوکر بے ساختہ بول اٹھتے ہیں کہ ” پھر یہ ہمارے مولوی آپ کو کا فرکیوں کہتے ہیں؟“ فریدون خان جدون کا واسطہ بھی ایک ایسے ہی احمدی نماز کے ملزم سے پڑا تو وہ حیران ہو گیا اور اسی حیرانی میں تحقیق حق کی کھوج میں نکل کھڑا ہوا.سالوں کتابوں کی گرد چھانتا اور اپنے مولا کے حضور

Page 15

15 گڑگڑاتا رہا.بعد میں اپنی اس داستان کا بوجھ میرے کندھوں پر ڈال کر پرسکون ہو گیا.مگر میں نے اس امانت کو الفاظ اور حوالوں کا قالب پہنا کر ہر ایسے شخص کی آواز بنادیا ہے جو تحقیق تو کرتا ہے اور منزل بھی پا لیتا ہے مگر الفاظ کو کاغذ کا سینہ نصیب نہیں کرتا میں یہ داستان سپر تحریر کر کے سبکدوش ہوتا ہوں.ان میں سب سے پہلے تو برادرم مکرم حنیف احمد محمود صاحب نائب ناظر اصلاح و ارشاد مرکز یہ ربوہ کا شکر گزار ہوں جنہوں نے دن رات ایک کر کے ناصرف اس میں درستگی فرمائی بلکہ مفید مشوروں سے بھی نوازا.اس کے علاوہ مکرم فرحان احمد فانی صاحب، مکرم را نا محمد ظفر اللہ صاحب اور مکرم محمد حسین شاہد صاحب مربیان کرام کا بھی دلی طور پر شکر یہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مکرم حنیف محمود صاحب کے ساتھ مل کر اس مسودہ میں حسن پیدا کیا.ان سب کے لئے فجزاهم الله تعالی احسن الجزاء في الدنيا والآخرة کے مبارک الفاظ میں دعا پیش ہے.والسلام اصغر علی بھٹی مبلغ سلسلہ نائیجر، مغربی افریقہ 6/6/2010

Page 16

16 عرض حال 1998 کی بات ہے خاکسار جب لاہور سے ٹرانسفر ہو کر پشاور گیا.وہاں خیبر پختونخواہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر جو مربیان تشریف لائے.ان میں ایک نو جوان مگر ہو نہار، ہنس مکھ مربی برادرم مکرم اصغر علی بھٹی بھی تھے.جو مانسہرہ میں مقیم تھے.مجھے آپ سے کوئی واقفیت نہ تھی بلکہ نام سے بھی لاعلم تھا.آپ نے ایک رات میرے ساتھ بیت احمد یہ سول کوارٹر میں قیام کیا.اس دوران آپ نے اپنی علمی کاوشوں کا بھی تذکرہ کیا جس میں احمدیوں کی پاکستان کی خدمات کے حوالہ سے بھی ذکر تھا.یہ امر میرے دل کو لگا.مسودہ کود یکھنے کا اشتیاق پیدا ہوا.اتنے میں میرا تبادلہ اسلام آباد ہو گیا.مکرم بھٹی صاحب نے اپنا رابطہ برقرار رکھا اور ایک دن فون کر کے اسلام آباد ہاتھ میں مسودہ تھامے ملنے کو آ گئے اس کو جستہ جستہ دیکھا تحریر بہت گندھی ہوئی اور آداب کے زیور سے آراستہ پائی.انداز بیان بہت اچھوتا اور انوکھا تھا.میری درخواست پر موصوف نے اخبارات میں خط لکھنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا.اسی دوران ان کا تقرر افریقہ کے لئے ہوا.فون پر کبھی ربوہ ان کی آمد پر اور کبھی لندن میں ملاقات ہوتی رہی.گزشتہ سال 2012ء کے جلسہ سالانہ یو کے کے موقع پر ملاقات کے دوران انہوں نے اپنی ایک نئی تحریر " مسئلہ ختم نبوت مسجد سے قومی اسمبلی تک اور مسئلہ تحفظ ختم نبوت قرآن سے مولوی تک "مسمی بہ کل رات میں نے " کفر احمدیت " پر بہت غور کیا، کا ذکر کیا.چند دنوں بعد اس کا مسودہ مجھے تھما دیا اور ساتھ پیش لفظ لکھنے کی بھی فرمائش کر دی.خاکسار نے لندن میں ہی اس کا مطالعہ شروع کر دیا.ابھی 50, 60 صفحات ہی پڑھے تھے کہ جلسہ کے مبارک دن آگئے ہم تمام وہاں مصروف ہو گئے.مگر جلسہ کے تیسرے دن حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے آخری خطاب نے مجھے اس کتاب کے مطالعہ کی طرف میری رغبت کو بڑھا دیا، کیونکہ آپ کا خطاب ختم نبوت

Page 17

17 پر جماعت احمدیہ کے موقف پر تھا.مجھے کتاب کا عنوان تو پہلی نظر سے ہی بہت پسند آپ کا تھا.جوں جوں میں آگے بڑھا.ایک مولوی کا اندرونہ ظاہر وباہر ہوتا گیا کہ یہ تحفظ ختم نبوت کا لبادہ اوڑھ کر کیا کیا گل کھلاتے ہیں.اسی زبان سے تحفظ ختم نبوت کا ذکر کرتے کرتے ان کی زبا نہیں نہیں تھکتی اور اسی زبان سے حضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی یا کیزہ تعلیمات کے برعکس ایک دوسرے کو کفر کے فتوے دینا، گندی گالیاں نکالنا اور مزے لے لے کر انسانوں کے نفسانی جذبات کو ابھارنے کے لئے جتن کرنا ان کا شیوہ حیات بن چکا ہے.یہ نو جوان مربی نے جس کے بالوں میں اب چاندی کے آثار نظر آتے ہیں اپنی اس تاریخی کاوش میں ایک نو مبائع جناب فریدون خان جدون کے احمدیوں کے بارے میں علمائے اسلام کے خیالات ، جذبات ضبط تحریر میں لائے ہیں.جنہوں نے ایک اسیر راہ مولا سے ملاقات کی جس کی پرسکون آنکھوں نے انہیں احمدیت کے بارے میں مزید سوچنے پر مجبور کر دیا کہ یہ احمدیوں کو کافر کہتے ہیں اور ان کے اپنے اعمال غیر اسلامی ہیں.ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف گندی بلکہ لچر زبان استعمال کرتے ہیں.ایسی لچر کہ اس کو تحریر میں لاتے انسان کے رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں.خاکسار نے خود برادرم مکرم اصغر علی بھٹی سے مشورہ کر کے اکثر ایسی تحریرات علماء سوء کی زبانی اس مسودہ سے حذف کروا دیں جو اخلاقیات سے گری ہوئی تھیں اور جن کو ایک باغیرت مسلمان برداشت تو در کنار پڑھ بھی نہیں سکتا.جناب فریدون خان جدون نے اپنی تحقیق کے سفر میں احمدیت کو پہلے سے بڑھ کر سچا پایا اوران کا اعتقاد احمدیت پر اس لئے بڑھتا گیا کہ یہ دوسرے 72 فرقوں کے مسلمانوں سے اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کے حوالے سے بہت بہتر ہیں.آپ کے اس قضیہ میں مجھے اپنے ساتھ بیتا ہوا ایک سچا واقعہ یاد آ رہا ہے.میں لاہور میں بطور مربی ضلع خدمت بجالا رہا تھا.ایک دن مجھے ایک ایسے گروہ کے جنرل سیکرٹری نے فون پر ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کی جو جماعت اسلامی سے اختلاف کرتے ہوئے علیحدہ ہو گیا تھا.اور اپنی تشہیر، رسالہ، کتب اور مرکز کی وجہ سے ایک نام پیدا کر چکا تھا.یہ نومبر 1993 ء کی بات ہے اب تو وہ انٹرنیشنل طور پر اپنا کردار نبھا رہے تھے.وہ مجھ سے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب لینا چاہتے تھے.صبح 10 بجے کا وقت مقرر

Page 18

18 ہوا.انہوں نے اپنے مکتبہ فکر کا تعارف کروایا.اس کے جواب میں مجھے جماعت احمدیہ کا تعارف کروانا تھا.جس کی خاکسار نے بھر پور تیاری کر رکھی تھی جب خاکسار آدھ گھنٹہ سے زائد وقت پر مشتمل جماعت احمدیہ کا تعارف کروا چکا تو مد مقابل 5 افراد پر مشتمل وفد کے امیر (جو اس مکتبہ فکر کے جنرل سیکرٹری بھی تھے ) نے مجھے سے مخاطب ہو کر کہا کہ ایک وادھا ( زیادتی ، خوبی) جو آپ لوگوں میں ہے وہ تو آپ نے بیان نہیں کیا.خاکسار نے پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ وہ کون سا؟ کہنے لگے.سرکاری دفاتر میں احمدیوں کا کردار اور ان کا اسلامی تعلیمات پر کار بند ہونا.وہ رشوت نہیں لیتے ، جھوٹ نہیں بولتے ، وہ وقت پر دفتر آتے ہیں اور دفتری وقت ختم ہونے پر وہ واپس جاتے ہیں.نمازوں کے اوقات میں وہ نماز پڑھتے ہیں.وغیرہ وغیرہ یہ کتاب اسی بات کی عکاسی کر رہی ہے.کہ ایک احمدی سرکاری طور پر غیر مسلم کہلا کر بھی اسلامی عادات، حرکات کا حامل ہے اور ایک مسلمان سرکاری طور پر مسلمان کا لیبل لگا کر بھی غیر اسلامی حرکات و سکنات کے عادی نظر آتے ہیں جن کی آئے روز خبریں اخبارات کی زینت بنتی نظر آتی ہیں.مکرم اصغر علی بھٹی 29 دسمبر 1969ء کو سانگلہ ہل میں چوہدری محمد صدیق بھٹی صدر جماعت احمد یہ مرڑھ چک 45 کے گھر پیدا ہوئے.ابتدائی تعلیم سانگلہ ہل سے حاصل کرنے کے بعد 1985ء میں جامعہ احمد یہ ربوہ میں داخلہ لیا اور 1991ء میں شاہد کی ڈگری کے ساتھ جامعہ کی تعلیم مکمل کی.جامعہ کے فوری بعد آپ کو مانسہرہ میں وادی ہزارہ کے پہلے مستقل مربی ضلع کے طور پر متعین کیا گیا.یہاں آپ 10 سال تک متعین رہے.اس دوران ایک دفعہ خود اسیر راہ مولا بن کر مانسہرہ ، ایبٹ آباد کی حوالا تیں، جیلیں اور عدالتیں کاٹیں تو دوسری طرف بیبیوں اسیران راہ مولا کی خدمت کی توفیق پائی.ہری پور میں وادی ہزارہ کی پہلی مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر میں خدمت کی توفیق پائی.جس کی افتتاحی تقریب میں بھی شمولیت کا موقع ملا.ابھی آپ کی واہ کینٹ میں تقرری کو چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ مرکز کی طرف سے بین Benin مغربی افریقہ کے لئے روانگی کا ارشاد ہوا.10 جولائی 2001ء میں آپ دیگر 2 مربیان کے ہمراہ بینن کے شہر پورتونو ووPorto novo میں وارد ہوئے.اگلے ہی ماہ بینن کے نارتھ میں واقع نو مبائع صوبہ کولنز Collenes کی ذمہ داری آپ کو تفویض ہوئی جس کے لئے آپ نے ایک چھوٹے سے گاؤں توئی Toui کا انتخاب کیا اور پھر اس بجلی پانی سے آزاد گاؤں میں 3 سال تک دھونی رمائے بیٹھے رہے.

Page 19

19 2004 ء کے بین کے تاریخی دورہ کے موقع پر پیارے آقا حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی از راه شفقت اس گاؤں میں تشریف لائے تو ہزاروں احباب جماعت اور روائتی بادشاہوں کے ساتھ استقبال کی سعادت پائی.2005 تا 2008 بینن ، ٹوگو، نائیجر ، غابوں، سینٹرل افریقہ، ساؤتھ ہومے و پرنسپ کے امیر و مشنری انچارج کی حیثیت سے حضور کے دورہ بین کے انتظامات کرنے اور استقبال کی سعادت ملی.کچھ عرصہ برکینا فاسو میں گزارنے کے بعد آپ کی تقرری نائیجر کے صحرائی شہر برنی کونی میں ہوئی.جہاں آپ مارچ 2009ء سے خدمت دین میں مصروف ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مکرم برادرم کی اس علمی کاوش کو قبول فرمائے اس کتاب کو بہتوں کے لئے مفید بنائے.مخالفین احمدیت کو اپنی غیر اسلامی روش چھوڑ کر اسلامی تعلیم اپنانے پر نہ صرف مجبور کرنے والی ہو بلکہ جناب فریدون جیسا سوچ و افکار کا ملکہ پیدا کرنے والی ثابت ہو.تا یہ لوگ احمدیت کے زیور سے آراستہ ہو کر سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرنے والے ہوں آمین حنیف احمد محمود 26/09/2013

Page 20

20 20 جناب ایڈیٹرصاحب رساله مصباح ربوہ کی رائے رزم گاہ ترک و تاز کی جلوہ آرائیوں سے بھر پور ایک حسین گلدستہ آپ کے ہاتھوں میں ہے.ایک داعی اللہ کو اپنے ماحول میں جن اعتراضات اور حالات سے واسطہ پڑتا ہے اور احمدیت کی مخالفت میں کن کن اعتراضات کو کئی قسم کے اشتعال انگیز عنوانات سے مختلف پیراؤں میں سادہ لوح عوام کے سامنے بیان کیا جاتا ہے نہایت اشتعال انگیز عنوانات سٹیکرز، بینرز کے ذریعہ ملک کی پر امن فضا میں فرقہ وارانہ منافقت اور فسادات کی آگ بھڑکائی جاتی ہے.قرآن کریم کی تعلیم کو یکسر نظر انداز کر کے الفاظ کو خود ساختہ معنے پہنائے جاتے ہیں.انبیاء کرام کے اسوۂ حسنہ کی ان کے ذہن و قلب تک رسائی نہیں ہو پاتی.قریش مکہ کی مخالفت اور مظالم کی منظر کشی پر مبنی یہ فلم ان کی آنکھوں کے سامنے بارہا دہرائی جاتی ہے تا وہ اس سے بڑھنے کی فکر میں اپنے مظالم میں اضافہ کرتے چلے جائیں کہ کہیں ہم کفار مکہ سے کسی صورت پیچھے نہ رہ جائیں.کوئٹہ میں ختم نبوت کے ایک مجاہد نے مجسٹریٹ کی عدالت میں اس بات کو تسلیم کیا کہ ہمارا رویہ کفار مکہ جیسا ہے.کل رات میں نے کفر احمدیت پر غور کیا“ مصنف نے احمدیت پر ہونے والے تقریباً تمام اعتراضات کو پیش کر کے ان کے

Page 21

21 علمی ،تاریخی ، واقعاتی اور الزامی جواب دیا ہے.کہیں کہیں محاکمہ بھی ہے محاسبہ بھی.انداز تحریر سادہ سلیس دلچسپ بھی ہے اور دلکش بھی.انداز بیاں میراگر شوخ نہیں ہے شاید ترے دل میں اتر جائے میری بات اصغر علی بھٹی صاحب اس قابل قدر علمی محنت پر داد اور مبارکباد کے مستحق ہیں.یہ مصنف کی دوسری کتاب ہے.مصنف کی پہلی کتاب دیتے ہیں یہ بازی گر دھو کہ کھلا کھلا ( یعنی دیوبندی مولوی کی خفیہ مجبوری ) ہے.اللہ تعالیٰ ان کی تحریر اور علمی کاوش میں برکت دے اور اس کو بہت سی سعید روحوں کی ہدایت کا موجب بنائے.آمین مرزا خلیل احمد قمر ایڈیٹر ماہنامہ مصباح ربوہ 12/09/2013

Page 22

22 22 نمبر شمار داستان بزبان راوی انڈکس مضمون وہ مینار پر چڑھا دہشت گرد اوراک برسوں پرانی کہانی C عرض حال جناب ایڈیٹر صاحب رسالہ مصباح کی رائے صفحہ نمبر 4 12 16 22 22 20 67 N8800 69 80 68 68 71 72 72 73 74 74 باب نمبر 1 انڈکس تاریخ كا سوساله مقدمه تاریخ کا سوسالہ مقدمہ دعوی، جواب دعوی کی شکل میں دو سو سال پہلے کی حالت ختم نبوت حیات مسیح امام مهدی دجال یا جوج ماجوج جواب استغاثہ 1 تا 16...ہم دور جاہلیت کی طرف لوٹ چکے ہیں....علماء کرام کا دعویٰ اگر چھوٹے چھوٹے فتنوں کے وقت مجدد آئے تو اس بڑے فتنے کے مقابل اللہ تعالیٰ نے کسی کو کیوں نہیں بھیجا ؟...جواب دعوی جماعت احمد یہ 1 3 4 150 6 7 8 9 10 11 12

Page 23

23 13 14 15 16 17 18 19 20 20 21 22 23 23 24 22 17..لیکن تمام برائیوں کے باوجود بھی ہم میں نبی پیدا نہیں ہوسکتا...علماء کا دعویٰ 75 یہ بات فیضان محمد صلی علیہ السلام کے خلاف ہے...جواب دعوی جماعت احمد یہ 18...اس لئے کہ ہمارے نبی خاتم النبیین ہیں...علماء کا دعویٰ یہاں تو علماء امتی کا نبیاء بنی اسرائیل کی نوید ہے...جواب دعوی جماعت احمدیہ 19..لیکن ہمیں ایک ہادی کی شدید ضرورت ہے..علماء کا دعویٰ یہ بالکل درست بات ہے...جواب دعوی جماعت احمدیہ 20...کیونکہ تنفیذ دین ایک نبی کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی..علماء کا دعویٰ یہ بات تو سو فیصد درست ہے...جواب دعوی جماعت احمد یہ 21..لیکن امت میں نبی پیدا نہیں ہوسکتا..علماء کا دعویٰ 75 75 76 76 اس سے اللہ اور آپ سلا می ایستم دونوں کی قوت قدسیہ کی ہتک ہوتی ہے...جماعت احمد یہ 22، 23...ہاں آ سکتا ہے ، ضرورت بھی ہے بلکہ ضرور آئے گا مگر دوسری امت 77 سے...علماء کا دعویٰ یہ نبی پاک صلی ا یہ یمن کی صریحا ہتک ہے...جماعت احمد یہ 24...آخری نبی کے بعد بھی نبی آئیگا مگر مسیح ناصری...علماء کا دعوی یہ بات مسیح کو خاتم النبین بنا دیتی ہے...جواب دعوی جماعت احمدیہ 77 25، 26...پیدا ہونے کے لحاظ سے آپ صلی اسلام اور فوت ہونے کے لحاظ سے مسیح" 77 آخری نبی ہیں...علماء کا دعویٰ یہ آپ صلی لی پی ایم کے فیضان جسمانی و روحانی دونوں کا انکار ہے...جماعت احمد یہ 28 تا 32...مسیح علیہ سلام آسمان پر جسم سمیت موجود ہیں...علماء کا دعویٰ یہ ہتک خدا ہے...جواب دعوی جماعت احمدیہ 33.بسیج کو اللہ نے اپنے پاس اٹھالیا..علماء کا دعویٰ یہ ہماری غیرت رسول صلی شما یہ ستم کے خلاف ہے...جواب دعوی جماعت احمد یہ 34 مسیح علیہ السلام چوتھے آسمان پر زندہ موجود ہیں..علماء کا دعویٰ 78 78 79 25 26 27 28 29 22 30 31 32 33

Page 24

24 24 34 =4 35 36 37 38 اگر کسی کو آسمان پر زندہ رہنے کا حق ہے تو وہ صرف محمد رسول اللہ لی لی یہ اہم ہیں...جواب دعوی جماعت احمدیہ مسیح 2000 سال سے بغیر کھائے بیٹے زندہ ہیں...علماء کا دعویٰ 79 خدا را پادریوں کی مدد نہ کریں...جواب دعوی جماعت احمد یہ 42،41..مسیج جنگل جا کر سور ماریں گے اور صلیبیں توڑیں گے...دعویٰ علمائے کرام 79 سؤر بے حیائی کا سمبل ہے اور صلیب عیسائیت کا...جواب دعوی جماعت احمد یہ 6345...یاجوج و ماجوج اور دجال اپنے گدھے پر سوار بعینہ ایک دن ظہور کریں 79 گے...کچھ علماء کا دعویٰ یہ سب جھوٹی احادیث اور افسانے ہیں...دوسرے علمائے کرام کا دعویٰ یہ سب درست احادیث مبارکہ ہیں جو مکاشفات رسول پاک صلیا کی تم پر مبنی زبردست 80 80 60 80 82 83 888 84 39 40 40 41 پیشگوئیاں ہیں...جماعت احمدیہ دجال ثر دجال جماعت احمدیہ کے بنیادی عقائد جماعت احمدیہ کا مذہب جماعت احمدیہ کا کلمہ جماعت احمدیہ کا نبی 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 جماعت احمدیہ کے نزدیک نبی پاک صلی یم کی بلندشان جماعت احمدیہ کا اپنے نبی صلی الا اینم سے عشق جماعت احمدیہ کے نزدیک نجات کس کو ملے گی جماعت احمدیہ کی شریعت جماعت احمدیہ کے مذہب اسلام کی بلندشان جماعت احمدیہ کا اپنے دین کو پھیلانے کا شوق

Page 25

84 85 85 86 80% 89 87 89 91 25 جماعت احمدیہ کی دعا جماعت کو کا فرود جال کہنے والوں کے متعلق جماعت کا اظہار خیال جماعت احمدیہ کا کفر جماعت احمدیہ کا مخالف فرقوں کے بارے نظریہ جماعت احمدیہ کی خواہش جماعت احمدیہ کی ترقیات کا پر سرار راز باب نمبر 2 کیا میں اک پادری صاحب کی بات مان لوں؟ عقیدہ حیات مسیح کی کرشمہ سازیاں اور میری مشکلات کیا میں ایک پادری صاحب کی بات مان لوں عقیدہ حیات مسیح عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نزدیک عقیدہ حیات مسیح کے منکر کی سزا 565...54 55 56 57 58 59 60 886 62 63 64 65 66 مشکل نمبر 1 ایک سر تا پیر بے حقیقت کہانی 68 69 71 72 کسی صحیح حدیث تو کیا کسی وضعی حدیث میں بھی مسیح کے آسمان پر جانے کا ذکر دکھا دو تو 20000 روپے انعام لو...سوسال سے جماعت احمدیہ کا چیلنج مشکل نمبر 2 رنگارنگ قصے 1 مسیح آسمان پر اور رومی سپاہی کی شکل مسیح جیسی بن گئی چنا نچہ اسے قتل کر دیا گیا.2.رومی سپاہی کو نہیں بلکہ ایک یہودی کو شکل دی گئی اور اسے مصلوب کیا گیا.373.نہ معلوم وہ کون شخص تھا جسے پھانسی دی گئی اور نا معلوم اسے کیوں پھانسی دے دی گئی.

Page 26

26 26 4.اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات دے کر پھر ان کی نعش آسمان پر اٹھالے گیا اور سزا کے طور پر یہودا اسکر یوطی کی شکل مسیح جیسی بنادی جسے یہود نے پھانسی دے 74 75 77 78 80 82 84 85 دی..مولا نا جاوید الغامدی مشکل نمبر 3 میں نہ مانوں ایک انوکھا سوال جو مجھ سے حل نہ ہوسکا مشکل نمبر 4 ایک ناقابل تردید حقیقت کا بچگانہ جواب مشکل نمبر 5 نئے علوم کا تازیانہ اورسینکڑوں گروپ مشکل نمبر 6 عقیدہ حیات مسیح رکھنے والوں کی جھنجھلاہٹیں سیح زندہ آسمان پر موجود ہیں.پہلا بیان مسیح" بالکل آسمان پر نہیں گئے قرآن مجید میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے.دوسرا بیان ختم نبوت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا کہ تمام انبیاء کا فوت ہونا ہی ختم نبوت ہے.قرآن مجید سے نہ مسیح کی حیات کا ذکر ملتا ہے نہ وفات کا.11 سال بعد تیسرا بیان 2 ہزار سال پہلے والے مسیح آسمان پر زندہ موجود ہیں ضرور نازل ہونگے.چوتھا بیان 89 قرآن مجید میں مسیح کے آسمان پر جانے کا کوئی ذکر نہیں.پانچواں بیان 86 87 88 90 92 93 95 95 مشکل نمبر 7 حیات مسیح کی بحث فرسودہ عقیدہ ہے مسیح" آجائیں تو بھی ٹھیک ہے نہ آئیں تو بھی ، ہمارا کام تو چل ہی رہا ہے 93 94 88 94 95 97 99 مشکل نمبر 8 حیات مسیح، نزول مسیح سب جھوٹے قصے ہیں جسے دوسرے مذاہب کو دیکھ 100 کر گھڑا گیا ہے حیات و نزول مسیح کی بحث ایمان تو کجا یہ عقیدہ ہی ہم نے پارسیوں اور یہودیوں کو دیکھ کر گھڑ لیا ہے...غلام احمد پرویز صاحب 101 102 دوستو ! اک نظر خدا کے لیے جماعتہ المسلمین کا طنزیہ چیلنج 96 97

Page 27

27 98 مشکل نمبر 9 جماعت احمدیہ کا موقف انتہائی معقول ہے 102 100 مشکل نمبر 10 زندہ آسمان پر جانا اور 2000 سال گزار کر واپس آنا بذریعہ لفظ نزول 103 102 ایک لا حاصل اور جھنجھلاہٹ آمیز کوشش 103 ایک خود ساختہ کہانی کا خود ساختہ انجام 104 مسیح فوت بھی ہو گئے ہوں تب بھی لفظ نزول ان کو زندہ جسم سمیت آسمان سے اُتار لے 104 گا 105 بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کا ایک سوال ؟ 106 106 مشکل نمبر 11 جو کام سردار انبیا فخر کائنات نہ کر سکے وہ حضرت عیسٰی کیسے کر گزرے 107 ؟ تو بڑا کون؟ 108 مشکل نمبر 12 ساری دنیا کا نبی ہو نا صرف اور صرف میری خصوصیت ہے اور شرف ہے 108 فرمان نبوی صلا اله السلام نہیں یہ شرف حضرت عیسی کو بھی حاصل ہے...111 مشکل نمبر 13 112 خدا تعالیٰ نے صرف تاجدار مدینہ کورحمتہ للعالمین بنایا..قرآن مجید نہیں حضرت عیسی علیہ السلام بھی رحمتہ للعالمین ہیں...ہم 114 مشکل نمبر 14 بڑا کون؟ 116 مشکل نمبر 15 خدا تعالیٰ کہاں ہے؟ 118 مشکل نمبر 16 اسرائیلی مسیح کی آمد ثانی اور قرآنی حقائق 120 مشکل نمبر 17 کیا میں پادری صاحب کی بات مان لوں؟؟ 109 109 110 110 112

Page 28

28 121 باب نمبر 3 محافظين ختم نبوت کی عظیم الشان تفسیر سازیاں اور میری مشکلات 126 میں تمہیں ایسی دلدل میں پھنساؤں گا کہ یاد کرو گے 127 مشکل نمبر 18 ہمارے شدید مقابلے کے باوجود قادیانیت مستحکم اور وسیع ہوگئی 129 مشکل نمبر 19 آخری حل ہاں اب ہم مذہبی دلائل کی بجائے سیاسی مار ماریں گے 131 مشکل نمبر 20 ختم نبوت کا نیا ، سرکاری اور دفتری امور کے لئے مذہبی مفہوم 133 مشکل نمبر 21 ختم نبوت کا پرانا اور گھریلو استعمال کے لئے مذہبی مفہوم 135 ختم نبوت یعنی مطلق آخری نبی کے باوجود امت محمدیہ میں ایک نبی ضرور آئے گا اور ایسا عقیدہ نہ رکھنے والا کافر کیسا لگا؟ 115 116 118 119 120 120 136 امت میں ایک نبی تو کیا حضرت ابراہیم.اسمعیل سمیت خود حضرت محمد مصطفی سلیس ایم 122 دوبارہ تشریف لائیں گے اہل تشیع بھائیوں کا مذہبی عقیدہ 137 عام نبی تو کیا ایسا نبی آئے گا جو ختم نبوت کی غیر معمولی پاور اپنے اندر لئے ہوئے ہوگا....دیو بند کا مذہبی عقیدہ 138 صرف نئی شریعت لانے والی نبوت بند ہوگئی.مگر امتی نبی تجدید شریعت کے لیے آسکتا 123 ہے.اہل سنت بریلوی مکتبہ فکر کا مذہب 139 مطلق آخر نبی کے بعد بھی نبی اللہ تشریف لائیں گے اور اس کا منکر کا کافر مکتبہ غیر مقلدین اہل حدیث کا مذہبی عقیدہ 140 مطلق آخری نبی کے بعد مامور من الله معصوم عن الخطا بولتا قرآن“ اور امام 124 حاضر ہر وقت موجود رہے گا..اسمعیلی فرقے کا مذہب 141 امام ( حضرت علی ) کا ظہور اللہ کا ظہور ہے 142 قرآن سے بڑا ہے اب ناطق قرآن.امام کا چہرہ خدا کا چہرہ 125

Page 29

29 29 143 قرآن تو 1300 سال پرانی کتاب صرف عرب کے لئے ہے اب تمہارے لئے نئی شریعت 125 گنان ہے 144 قرآن خلیفہ عثمان کے وقت بدل دیا گیا اصل خلاصے ہمارے پاس ہیں 145 مشکل نمبر 22 ختم نبوت قرآن سے قومی اسمبلی تک...125 147 قومی اسمبلی سے پاس شدہ سرکاری تعریف کو ماننا بھی ضروری ہے کیونکہ جماعت احمدیہ کی 126 دشمنی کا معاملہ ہے اور مسجد والے اصلی مذہبی مفہوم کو ماننا بھی ضروری ہے کیونکہ دین اور ایمان کا معاملہ ہے.148 ہمیں وہ پانچویں وجہ بتائی جائے جس کے تحت کوئی نبی آسکتا ہو.ختم نبوت آف چنیوٹ کا نقطہ نظر 149 آنحضور سی شما ایام کے بعد کوئی بھی نبی رحمت نہیں لعنت ہے.اگر نبی آبھی گیا تو میں اس کا 127 انکار کر دوں گا.ختم نبوت آف منصورہ یعنی جماعت اسلامی کا نقطہ نظر 150 مشکل نمبر 23 مقام نبوت سے مزین یا معزول...152 حضرت عیسی واپس تو آئیں گے لیکن نبوت سے معزول ہو کر شخص یہ دعویٰ کر کے کہ حضرت عیسیٰ نبوت سے معزول ہو کر آئیں گے وہ پکا کافر 154 مشکل نمبر 24 آپ دونوں کا ہی ختم نبوت کا ترجمہ غلط ہے...153 156 حضرت عیسی کی آمد تو کجا الہام وکشف کا دعویدار بھی دنیا میں نہیں آسکتا.ختم نبوت آف طلوع الاسلام 157 ختم نبوت کے بعد اب ہمیں کسی کی بھی ضرورت نہیں ختم نبوت آف اقبال اکیڈیمی 158 ختم نبوت کے بعد اب ہمیں کسی معلم کسی الہام، کسی کشف کی کوئی ضرورت نہیں ختم نبوت آف ندوه 129 130 159 مشکل نمبر 25 ہم صرف دو آدمی ڈاکٹر علامہ اقبال صاحب کی ختم نبوت کے صحیح ترجمان 132 ہیں غلام احمد پرویز صاحب اور میں سابق وفاقی وزیر محمد جعفر خان صاحب

Page 30

30 50 161 سابق وفاقی وزیر صاحب کی تفسیر ختم نبوت 162 مگر افسوس میرے سوا غلام احمد پرویز کی ختم نبوت کا ترجمہ بھی غلط ہے 163 اور آپ دونوں ہی کا ختم نبوت کا ترجمہ غلط تیسرے گروپ کے دو عظیم تر جمانوں کی بھی مزید لڑائی 132 164 جناب! آپ کی تفسیر ختم نبوت بھی غلط پہلے گروپ اور تیسرے گروپ کے علماء کی 133 مزید لڑائی 165 تیسرے گروہ والوں کی ختم نبوت کا مفہوم ” قادیانیت کے ساتھ ساتھ اسلام کی بھی جڑ کاٹ دیتا ہے.....مودودی صاحب 166 اور جناب آپ کی تفسیر ختم نبوت تو سرے سے ہی غلط...دوسرے گروہ کے ممتاز عالم 134 دین کی تیسرے گروہ کے علمائے دین سے مزید لڑائی 167 اور سرکار آپ کی تفسیر ختم نبوت تو ٹوٹل غلط.تیسرے گروہ کے علماء دین کی دوسرے 135 گروہ کے علماء دین سے جوابی لڑائی 168 مشکل نمبر 26 میٹھی میٹھی چوری یا میٹھا میٹھا فریب 170 خاتم النبین یعنی آخری نبی کا صرف مطلب پیدائش میں آخری ورنہ نبی آپ کے بعد بھی 135 136 137 139 آئیں گے.171 ضمیر کا فیصلہ 172 مشکل نمبر 27 مذہبی تاریخ کا انوکھا مذاق 174 میرے سوا آپ سب کی تفسیر ختم نبوت غلط...بریلوی مکتبہ فکر کا پریشانی میں اعلان 175 جس عقیدے کی بناء پر قادیانی غیر مسلم ہیں اسی عقیدے کی بناء پر دیو بندی کیوں نہیں بریلوی اجتجاج 176 ایک ہی تصویر کے دورخ 177 مشکل نمبر 28 آہستہ بولو کہیں احمدی قادیانی سن نہ لیں 140

Page 31

31 183 مشکل نمبر 29 بھائی آپ کی ختم نبوت کی تفسیر غلط کیوں نہیں اور آپ کا فرکیوں نہیں؟ 148 185 آپ کی ختم نبوت کی تفسیر تو کجا کلمہ، وضو، نماز ، آذان ، روزہ ، حج ، زکوۃ ، نکاح ، طلاق تک الگ ہے پھر آپ کافر کیوں نہیں؟ چاروں گروپ کے علماء کا پانچویں گروپ سے 189 دردمندانه سوال ہمارے اسی امتیاز سے تم نے قومی اسمبلی میں ہماری منتیں کر کے فائدہ اٹھایا 149 اور قادیانیوں کو کا فردلوایا اور آج ہمیں کا فربنانے کی باتیں کرتے ہو...شیعہ علماء کا چاروں گروپوں کو جوابی یا دہانی 191 مشکل نمبر 30 غلط ، غلط ، سارے غلط ،غلط ہی غلط...194 وہابی دیوبندی ، پنج پیری ، چکڑالوی ، رافضی ، غیر مقلد، خاکساریہ، احراریہ، جنادھارید آغا خانیه، پرویزی، جماعت اسلامی تبلیغی جماعت والوں کا کفر جماعت احمدیہ کے کفر سے بھی زیادہ بڑا اور خطرناک ہے ہیں ں ں یہ کیا؟ 195 دیوبندی...احمدیوں سے بھی بڑے 196 وہابی دیوبندی، پنج پیری ، چکڑالوی ، رافضی، غیر مقلد، خاکساریہ، احراریہ، جٹا دھاریہ، آغا خانیہ احمدیوں سے بھی بڑے 152 153 154 155 156 جماعت اسلامی...احمدیت سے بھی بُری 197 198 پرویزی...احمدیوں سے بھی بڑے 199 شیعت...احمدیت سے بھی بُری 200 پرویزیت...احمدیت سے بھی بری 201 جماعت اسلامی...احمدیت سے بھی بری 202 پرویزیت...احمدیت سے بھی بری 203 غیر مقلدیت...احمدیت سے بھی بری 204 جاوید غامدی...احمدیوں سے بھی برے 205 مشکل نمبر 31 اسلام سیاسی حربے کے طور پر

Page 32

156 157 157 161 162 163 32 32 208 1953 ء اسلام سیاسی حربے کے طور پر 209 1974 ء اسلام پھر سیاسی حربے کے طور پر 210 74ء کی ختم نبوت تحریک میں اسلام حربے کے طور پر 211 74ء کی ختم نبوت تحریک بادشاہ وقت نے خود سیاسی فوائد کے لیے اٹھائی 212 مشکل نمبر 32 محافظین ختم نبوت کا طرز تبلیغ 219 مشکل نمبر 33 محافظین ختم نبوت اور مشرکین مکہ 221 باب نمبر 4 ختم نبوت اور اسلامی وحدت 223 قومی اسمبلی اور ختم نبوت کی سیاسی برکات 224 سیاسی قاضیوں نے سیاسی فیصلے کرتے ہوئے جب ختم نبوت کی سیاسی برکات لکھیں...225 مشکل نمبر 34 ایک بریلوی کی شیعہ سے اتحاد کی کوشش 227 طاہر القادری بریلوی بمقابلہ مفتی اعظم اشرف القادری بریلوی 228 عرفان قادری بریلوی بمقابلہ طاہر القادری 229 ایک اہل حدیث غیر مقلد کی بریلوی مکتبہ فکر سے اتحاد کی کوشش 230 وحدت امت کا نعرہ لگانے والے بیوقوف اور احمق ہیں 231 جماعت اسلامی اور مجلس احرار کے اتحاد کی کوشش 163 104 165 232 احراری تحریک تحفظ ختم نبوت کے لیے نہیں نام اور سہرے کے لیے تھی...مودودی 166 صاحب کے نزدیک احرار کا اصل چہرہ 233 میں مودودی نہیں کہ بددیانت ہو جاؤں اس سے تو کا فرا چھا...عطاء اللہ بخاری صاحب کے نزدیک مودودی صاحب کا اصل چہرہ 234 اہل حدیث اور اہل تشیع کے اتحاد کی کوشش 235 بریلوں کا اہل نجد سے اتحاد کی کوشش

Page 33

33 33 236 اتحاد امت کے نعرے صرف ایک فیشن کی حد تک ہیں عملاً ممکن نہیں 237 بریلوی دیوبندی اتحاد کی کوشش 167 241 سب بے غیرت بن گئے ہیں.سب اپنی روٹیاں سیدھی اور پیسہ کمانے میں لگے ہوئے 169 ہیں 242 72 فرقوں میں کبھی بھی اتحاد ممکن نہیں 245 باب نمبر 5 ”تحفظ ختم نبوت“کی برکت سے ”آزادیاں“اور میری مشکلات 247 مشکل نمبر 35 خاصے مشکل غیر مسلم 250 مسلمان کی نئی تعریف 253 نئی تعریف کی نئی برکات 254 جماعت احمدیہ کوکافر سمجھیں اور باقی جو چاہے عقیدہ رکھیں....255 تحفظ ختم نبوت کی مزید برکات 256 کسی امتی نبی کی آمد سے امت مسلمہ کو کیا فائدہ ہوگا؟ سوائے اس کے کہ تفرقہ سازی جیسی مگر وہ رسم کو ہی مزید ہوا ملے گی..257 کفر و ایمان کی کشمکش سے مکمل آزادی 258 ایک حسین خواب اور اس کی خوفناک تعبیر 259 مذہبی دنیا کے اس افسانوی سمجھوتے کی داستان ملاخطہ کیجئے 260 دیوبندی عقائد، اعمال اور افعال ماضی میں دوسرے علماء کی نظر میں 261 میں اللہ کا سور ہوں...فرمان سید عطاء اللہ شاہ بخاری 262عوام کا عقیدہ بھی گدھے کے عضو.....جیسا ہے.فرمان اشرف علی تھانوی 263 اشرف علی تھانوی صاحب کے پاؤں دھو کر پینے سے جنت ملتی ہے 170 171 172 173 174 175 176 176

Page 34

177 178 179 34 == 264 اندرا گاندھی میری بیٹی ہے.فرمان سید عطاء اللہ شاہ بخاری 265 قرآن کا ترجمہ پڑھنا عوام کے لئے خطرناک ہے...فرمان اشرف علی تھانوی 266 مولوی غلام غوث ہزاروی نے مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری کے منہ میں شیطان کا عضو تناسل ڈال دیا 267 عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے ہمیں ماں بہن کی گالیاں دیں 268 سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا دوسرا نام پنڈت کر پارام برہم چاری 269 مولانا قاسم اور مولوی رشید احمد کی شادی اور وظیفہ زوجیت 270 آپ صلی ا یہ تم نے خود تشریف لا کر ایک دن دیو بندی مہمانوں کے لئے کھانا پکایا 271 تقویۃ الایمان کے مطابق درج ذیل کام شرک اور کرنے والے مشرک 272 دیوبندی مولوی کی نظر کہاں کہاں 273 میں ایسے پیر کے منہ پر پیشاب بھی نہیں کرتی.کنجریوں کے کوٹھے پر ایک کنجری کا دیوبندی مولوی کو جواب 274 امیر المومنین یزید کی خلافت سید نا علی کی خلافت سے بہتر تھی 275 خلافت کا جھگڑا 276 یزید صالح تھا اور دنیائے اسلام میں اس کا کردار بہت بلند تھا 277 مردوں کا ظاہر جسم سے گھر میں واپسی 278 ایک ہی وقت میں کئی جگہ جسمانی ظہور 281 شیعہ مذہب...مگر الحمدللہ چونکہ آج کے بعد ختم نبوت کی نئی برکت سے 283 اہل تشیع کے عقائد اعمال و افعال ماضی میں دیگر علماء کی نظر میں 284 جناب آیت اللہ خمینی کا فتویٰ 285 شیعہ عقائد توحید و تو ہین باری تعالیٰ 286 شیعہ اور عقیدہ تحریف قرآن مجید 287 شیعہ اور عقیدہ رسالت و تو ہین انبیاء علیہم السلام 182 183 186 187 188 189 191 192 193 194

Page 35

195 35 196 200 204 205 209 212 213 288 شیعہ اور توہین اہل بیت و خاندان نبوت 289 شیعہ اور عقیدہ امامت 290 شیعہ اور توہین خلفاء راشدین 291 اہل حدیث غیر مقلدین 292 اہل حدیث کے عقائد اعمال وافعال ماضی میں دیگر علماء کی نظر میں 294 جماعت اسلامی کے عقائد و اعمال و افعال ماضی میں دیگر علماء کی نظر میں 295 حضرت عثمان حضرت شیخین کی پالیسیوں سے دور ہٹ گئے 296 حضرت عثمان نے بلا شبہ غلط کام کئے اور غلط کام غلط ہوتا ہے 297 حضرت علی نے بھی ایک ایسا غلط کام کیا جس کو غلط کہنے کے سوا چارہ نہیں 298 حضرت عائشہ نے غیر قانونی، غیر آئینی بلکہ غیر شریعتی کام کیا جبکہ حضرت معاویہ نے ٹھیٹھ جاہلیت قدیمہ والا 300 بریلویوں کے عقائد اعمال وافعال ماضی میں دیگر علماء کی نظر 302 فرقہ اسمعیلی و آغا خانی کے عقائد و اقوال ماضی میں علماء کی نظر میں 303 اسمعیلی فرقے کا کلمہ 304 نماز کے لئے قبلہ ضروری نہیں اور نہ پانچ نمازیں ہیں 305 روزہ اصل میں کان آنکھ کا ہے کھانے سے نہیں ٹوٹتا 306 گناہوں کی معافی 307 روزمرہ معمولات کی مختلف دعا ئیں اور سلام 308 سوال پیغمبر یعنی ” ناطق “ اور ” اساس یعنی امام میں سے کس کا درجہ بڑا ہے؟ 309 امام ( حضرت علی ) کا ظہور اللہ کا ظہور ہے 310 قرآن سے بڑا ہے اب ناطق قرآن.امام کا چہرہ خدا کا چہرہ 311 قرآن تو 1300 سال پرانی کتاب صرف عرب کے لئے ہے اب تمہارے لئے نئی شریعت گنان ہے

Page 36

2014 215 216 217 218 219 36 312 قرآن خلیفہ عثمان کے وقت بدل دیا گیا اصل خلاصے ہمارے پاس ہیں 313 قرآن کتابی شکل میں گونگا ہے جبکہ آغا خان بولتا قرآن ہے 314 مولوی طاہر القادری کے عقائد والہامات ماضی میں علماء کی نظر میں 315 طاہر القادری صاحب نے نبی کریم ملی نہ آ ہی ان کو پاکستان بلایا اور ٹکٹ کا بندو بست کیا 316 فرقه مسعودیه 317 فرقہ جماعتہ المسلمین کا تعارف، عقائد اور اعمال ماضی میں علماء کی نظر میں 318 فرقہ مسعودیہ کے عقائد 319 قرآن و اسلام کے بارے عجیب طنزیہ تبصرے 321 غلام احمد پرویز اور بزم طلوع اسلام کے نظریات ماضی میں دیگر علماء کی نظر میں 322 جسمانی معراج کا انکار 323 حضرت آدم کے وجود کا انکار 324 حضرت عیسی کے بن باپ ہونے کا انکار 325 انکار حدیث 326 آپ لیا یہ تم پر ایمان لانے کا مطلب 327 دعا کے اثرات کا انکار 328 توبہ استغفار کا انکار 329 خدا اور رزق کی ضمانت 330 حقوق اللہ کا انکار 331 ملائکہ اور جنات کے بارے نظریہ 332 عبادت کے بارے میں نظریہ 333 نماز پنجگانہ کی فرضیت والی حدیث کا انکار 334 عید الاضحی کی قربانی کے جانوروں کا انکار 335 عرش و جنت کے بارے میں نظریہ

Page 37

221 222 223 223 224 225 225 226 227 228 234 235 37 336 والدین کی اطاعت ضروری نہیں 337 انجمن سرفروشان اسلام 338 تصانیف پیر ریاض احمد گوہر شاہی 339 پیر گوہر شاہی کے عقائد و اعمال ماضی میں دیگر علمائے کرام کی نظر میں 340 گدھے پر معراج 341 20، 30 سال نہ نماز اور نہ روزہ 342 گوہر شاہی کے پیٹ میں کتا 343 بھنگ پینے کا الہامی حکم 344 مستانی کے ساتھ شب باشی 345 مستانی کا عشق 346 ایک عورت کے ساتھ ہم آغوشی 347 قرآن پاک کے دس پارے اور ہیں 348 ظاہری قرآن اور باطنی قرآن میں تضاد ہے 349 شریعت محمدی اور شریعت احمدی دونوں میں فرق 350 شریعت کے قاعدے الگ اور طریقت کے قاعدے الگ ہیں 351 تمہیں اسلام چاہیے یا خدا 352 حضرت آدم نے شیطان کا بیٹا خناس قتل کر کے کھالیا 353 گوہر شاہی کا بادی پیشاپ میں 354 شیطان اور خدا کی ملی بھگت 355 ضمیر کی بغاوت 356 اگر یہ عقیدہ ہے تو بھی درست اور اگر یہ ہے تو بھی 357 بریلوی فرقه 358 قبروں پر مسجدیں

Page 38

236 237 239 241 242 242 243 246 247 248 249 252 38 359 خدا جب دین لیتا ہے حماقت آ ہی جاتی ہے 360 احمدیت کے شدید مخالف عالم دین جناب عطاء اللہ شاہ بخاری کا نوحہ 361 آئین کی پندرھویں ترمیم یا ایک اور طمانچہ 364 باب نمبر 6 یہ جعل سازیاں اور میری مشکلات 366 | فری ہینڈ (Free hand) 367 مشکل نمبر 36 آج تک ایسا ہوتا ہوگا 369 خدائی اور قرانی چیلنج جھوٹا بنی 23 سال کی مہلت نہیں پاسکتا 370 جھوٹے مدعی وحی و الہام کو میں داہنے ہاتھ سے پکڑوں گا اور شہ رگ کاٹ دوں گا اور کوئی انسانی طاقت مجھ سے اس شخص کو نہ بچا سکے گی...قرآن کا چیلنج.371 1400 سو سال میں امت مسلمہ کے ممتاز علماء کی متفقہ تفسیر 372 مرزا صاحب کا چیلنج دیکھو میں 23 سال کا عرصہ پاچکا ہوں 373 لیکن آج کے بعد میں یہ قرآنی بات نہیں مانتا 374 2.آج تک ایسا ہوتا ہوگا 375 1400 سو سال سے مستند حدیث 376 1894ء میں یہ نشان پورا ہو گیا 377 یہ نشان میری صداقت و تصدیق کے لیے ہے...حضرت مرزا صاحب کا اعلان 378 لیکن آج کے بعد میں یہ حدیث نہیں مانتا 379 یہ تو حدیث ہی نہیں بلکہ ایک جعلی روایت ہے بلکہ کوئی گرا پڑا قول ہے.دشمنان مرزا صاحب کا اعلان...علامہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود صاحب مبلغ ختم نبوت 380 کتنی بے شرمی اور بے حیائی کی بات ہے قادیانی اسے حدیث کہتے ہیں...مولوی منظور احمد چنیوٹی صاحب

Page 39

39 381 یہ امام محمد باقر کا قول بھی نہیں بلکہ کوئی گرا پڑا قول اور سند کے اعتبار سے نا قابل اعتبار 253 ہے...فاتح ربوہ مولا نا چنیوٹی کا اگلا اعلان 382 3.آج تک ایسا ہوتا ہوگا 383 حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.فرمان نبوی 384 عیسی فوت ہو چکے ہیں اور ان کا نام پا کر اس دنیا میں آیا ہوں مرزا صاحب کا اعلان 385 لیکن آج کے بعد میں یہ حدیث نہیں مانتا 386 یہ حدیث غلط ہے اصلی حدیث یوں ہونی چاہیے.تعاقبین مرز اصاحب کا اعلان 253 254 387 حضرت عیسی علیہ السلام تو فوت ہو گئے وہ ولد اللہ کیسے ہو سکتے ہیں.نبی پاک سلیمی ایام کا 255 عیسائی پادریوں سے مناظرہ 388 عیسائی پادریوں کی حضرت عیسی علیہ السلام کی خدائی کی دلیل اور آپ سلی کا پیام کا جواب 389 میں اس مناظرے کو بھی تحریف کر کے یوں پڑھوں گا 390 4.آج تک ایسا ہوتا ہوگا 391 آخری زمانے کا سب سے بڑا فتنہ دجال کا ہوگا فرمان نبوی صلی السلام 392 قیامت تک کوئی فتنہ دجال سے بڑا نہیں فرمان نبوی صلی ا یہ تم 393 دجال سے پناہ کے لیے سورۃ کہف کی ابتدائی آیات حفظ کر لینا فرمان نبوی صلی ای سالم 394 دجال یہ عیسائی پادری ہیں....حضرت مرزا صاحب کا اعلان 395 یہی زمانہ دجال کا عہد ہے.حضرت مرزا صاحب کا دوسرا اعلان 396 اس دجال کی سرکوبی کے لیے خدا نے مجھے مسیحیت کا مقام دیا ہے...حضرت مرزا صاحب کا تیسرا اعلان 397 لیکن آج کے بعد میں نہیں مانتا 398 کانا دجال وغیرہ والی احادیث جھوٹی اور افسانوی ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت میں ماننے کے لیے تیار نہیں...تعاقبین مرزا صاحب کا اعلان 257 259

Page 40

40 399 ساڑھے تیرہ سو برس کی تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ دجال کے متعلق آپ سالی یتیم کی 260 باتیں غلط ہیں.یہ آپ صلی سیلم کے قیاس تھے جو غلط ان کو اسلامی عقائد نہ سمجھا جائے تعاقبین مرزا صاحب کا ایک اور اعلان 400 5.آج تک ایسا ہوتا ہوگا 401 امام مہدی 260 402 امام مہدی کی بیعت کے لیے حاضر ہو نا خواہ تمہیں برف کے پہاڑوں پر سے گھٹے ہوئے جانا پڑے لیکن جانا اور بیعت کرنا...فرمان نبوی صلی ا یستم 403 چودھویں صدی سر پر آگئی ہے شاید چند سالوں میں امام مہدی ظاہر ہو جا ئیں مسلمان علماء کی 1870ء کے لگ بھگ امیدیں 404 اے اللہ امام مہدی کو جلد بھیج دین احمد مٹا جاتا ہے.1892ء میں مسلمان علماء کی پکار 261 405 اس زمانے کی اصلاح کے لیے خدا نے مجھے مہدی بنا کر بھیجا ہے حضرت مرزا صاحب کا اعلان 406 لیکن آج کے بعد میں نہیں مانتا 407 امام مہدی اپنے مہدی ہونے کا اعلان نہیں کرے گا.بلکہ اسے خود بھی معلوم نہیں ہوگا کہ وہ امام مہدی ہے ان کے مرنے کے بعد لوگ کہیں گے وہ مہدی تھا.بیعت والی بات تو بہت دور کیے...متقابلین حضرت مرزا صاحب کا اعلان 408 امام مہدی کو کوئی کشف والہام بھی نہیں ہوگا نہ کوئی معجزہ کرامت دکھا ئیں گے.دوسرا 262 اعلان 409 6.آج تک ایسا ہوگا 410 ایک فرقہ جنتی اور 72 فرقے دوزخی ہونگے فرمان نبوی سلایا کی تم 411 لیکن آج کے بعد میں نہیں مانتا 412 آج سے 72 جنتی اور ایک دوزخی اور دائرہ اسلام سے خارج...مخالفین مرزا صاحب کا اعلان 262

Page 41

41 413 7.آج تک ایسا ہوتا ہوگا 414 مسلمان کی تعریف 415 جو شخص خدا کی توحید اور صاحب قرآن کی رسالت کا قائل اور نماز قائم کرتا اور زکوۃ دیتا ہے وہ مسلمان اور سچا مومن ہے.فرمان خداوندی از قرآن حکیم 416 263 خدا اور رسول پر ایمان ہو.نماز زکوۃ ادا کرتا اور بیت کا حج اور رمضان کے روزے رکھتا ہو 265 وہ مسلمان...فرمان نبوی صلاله ای سالم 417 جو شخص لا الہ الا للہ پڑھے اسے کا فرمت کہ...حضرت شاہ ولی اللہ 418 جس میں 99 کفر کی اور ایک ایمان کی وجوہ ہوں تو اسے کا فرمت کہو...حنفی فقہیہ علامہ شامی 419 جس میں 999 کفر کے اور ایک ایمان کا احتمال ہوا اسے بھی کا فرمت کہو...مولوی 266 رشید احمد صاحب گنگوهی 420 جب تک کوئی کلمہ پڑھتا ہے اُس کو کا فرمت کہو....حضرت امام غزالی 421 خدا کو ایک مان کر جو کلمہ پڑھ لیتا ہے وہ مسلمان ہے اسے کسی سے منظوری کی ضرورت نہیں شیخ الاسلام قسطنطنیه 422 جو شخص حالت نزع میں انگریزی ہی میں کلمہ کا مہفوم ادا کر دیتا ہے وہ بلاشبہ مسلمان ہے شیخ الکل مولانا نذیرحسین دہلوی 423 مسلمان ہونے کے لیے صرف آسمان کی طرف انگلی ہی اٹھا دینا کافی ہے یہی اسوہ رسول ہے......مولانا سید سلیمان ندوی 267 424 اللہ فرشتوں، آسمانی کتب، آخرہ کے دن ، قدر خیر شر اور بعث بعد الموت کا جو بھی قائل ہے وہ پکا مسلمان ہے.مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مجاز مولانا عبد الماجد در آبادی 425 اللہ، فرشتوں ، آسمانی کتب آخرہ کے دن قدر خیر شر اور بعث بعد الموت کا جو بھی قائل 268 تمہیں کوئی حق نہیں کہ اس کو کافر کہو 426 سنو! قرآن کہتا ہے کہ جو خدا رسول.نماز زکوۃ پر ایمان رکھتا ہے وہ مسلمان ہے.

Page 42

42 427 سنو! صاحب قرآن کہتا ہے کہ جو ہماری نماز پڑھتا ہمارے قبلے کو مانتا اور ہمارا ذبیحہ کھاتا 269 ہے وہ مسلمان ہے 428 سنو! امام غزالی فرماتے ہیں کہ جو بھی کلمہ پڑھتا ہے اسے کا فرمت کہو 429 لیکن آج کے بعد میں نہیں مانتا 430 آج سے مسلمان کی نئی تعریف یہ ہوگی 431 مسلم 432 غیر مسلم 433 مشکل غیر مسلم 434 باب نمبر 7 افترا سازیاں اور میری مشکلات 270 272 436 دلدلوں کا سفر 437 مشکل نمبر 37 273 274 438 جھوٹ نمبر 1 1935ء میں مرزا غلام احمد قادیانی نے دعوی نبوت کر دیا تو علامہ 274 اقبال نے اپنا بیان بدل لیا....ڈاکٹر وحید عشرت صاحب پی ایچ ڈی کا معصوم جھوٹ 443 جھوٹ نمبر 2 1870ء میں وائٹ ہاؤس لندن میں فیصلہ کیا گیا کہ ایک ظلی نبی کھڑا 274 کیا جائے جمعیۃ العلماء اسلام سرگودھا اور شورش کاشمیری صاحب کا نادر الوقوع جھوٹ 450 بین الاقوامی جھوٹ کا مقابلہ 455 جھوٹ نمبر 3 احمدیوں کو کافر بنانے کے لیے مولانا مودودی صاحب کا حضرت امام | 281 غزالی پر افتراء بلکہ بار بار افتراء یعنی عالمانہ جھوٹ 458 جھوٹ نمبر 4 مولانا طاہر القادری کا آنحضور ملی پی ایم پر افتراء یعنی لانگ مارچہ جھوٹ 282

Page 43

43 460 جھوٹ نمبر 5 خطیب جامع مسجد ریلوے وصدر مجلس تحفظ ختم نبوت فيصل مولانا تاج 283 محمودصاحب کا خوبصورت جھوٹ 463 جھوٹ نمبر 6 فضیلۃ الشیخ مجاہد ختم نبوت وکیل تحفظ ختم نبوت “بانی ادارہ مرکز یہ 284 دعوت وارشاد جناب مولا نا منظور احمد چنیوٹی کا ” بے خوف جھوٹ“ 466 جھوٹ نمبر 7 تحفظ ختم نبوت ایبٹ آباد کا بے باک جھوٹ 468 جھوٹ نمبر 8 عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان کے معرکتہ الآراء جھوٹ 285 285 471 جھوٹ نمبر 9 مجد دملت محدث العصر سید محمد یوسف بنوری صاحب کا فیشن ایبل جھوٹ 286 474 جھوٹ نمبر 10 مجاہد ختم نبوت، وکیل ختم نبوت مولانا یوسف لدھیانوی کا شہنشاہ جھوٹ 287 477 جھوٹ نمبر 11 جسٹس میاں نذیر اختر صاحب کا سنہرا جھوٹ 482 باب نمبر 8 یه کلاه بازیاں اور میری مشکلات 484 آئینہ آئینہ سہی تیرے پندار کا عکس تو ہے 485 موجودہ دور کے علماء کا حال علماء کی ہی زبانی ملاخطہ کیجیے 289 291 292 293 486 487 انفرادی کلاہ بازیاں مشکل نمبر 38 293 488 ایک ایسے کھیل کی داستان جس میں ہر کھلاڑی دوسرے کو ننگا کرنے میں مصروف ہے.489 عطاء اللہ شاہ بخاری نہیں بخار اللہ شاہ عطائی 490 رسالہ صوفی کی نظر میں بخاری صاحب کی تقریر 491 علامہ احسان الہی ظہیر علامہ نہیں شریر، چھچھورا، راشی، نائٹ کلبوں کا رسیا، نوجوان نوکرانیوں سے وابستہ اور مولویت کے لبادے میں فتنہ پرور آدمی 294 492 آغا شورش کا شمیری مجاہد ختم نبوت نہیں اس بازار کا باسی ، گستاخ رسول، بانی فساد، 295 مندروں کا پرشاد کھانے والا نہر وکو یا رسول کہنے والا ، تہذیب و شرم سے ننگا.

Page 44

44 493 مولانا طاہر القادری قائد انقلاب نہیں خود غرض.جھوٹا.دولت کا پجاری.ناشکرا خود پرست اور ان کی مذہب سے محبت محض ڈھونگ ہے 494 مولا نا اختر علی خاں ابن مولانا ظفر علی خاں پروانہ ختم نبوت نہیں بلکہ ناہنجار کا بچہ، بازار کا 296 بچه، غدار ابن غدار، بد کار کا بچہ، کمینہ ضمیر فروش ، کذاب خائن کمہار کا کتا ہے 495 چوہدری غلام احمد پرویز مفکر اسلام نہیں دجال، دشمن دین، کافر، مرتد اسلام کے نام پر 297 کلنک کا ٹیکہ، دین بیزار، نیچری ہے 496 مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی مبلغ اسلام نہیں، زبان دراز مسخرة العلماء بد کلام اور 298 خائن ہے 497 مولانا فضل الرحمن مولا نا نہیں بکاؤ سیاستدان، مولانا ڈیزل ،مولانا سپرے، ایک بدعنوان سیاستدان، یہودیوں کے شیرٹن ہوٹل میں عیاشیاں کرنے والا اور بل ادا کئے بغیر چابی سمیت رفو چکر ہوکر پاکستان کو بدنام کرنے والا شخص 498 مفتی کفایت اللہ ، مولانا ظفر علی خاں ،سبحان الہند مولانا سعید احمد اور مولانا ثناء اللہ 299 امرتسری علماء کرام نہیں مداری ، اصلی ابلیس ،شرافت سے بری بلکہ خبیث شیطان ہیں 499 مولانا احمد شاہ نورانی داعی نظام مصطفیٰ اور عالم دین نہیں رشوت دینے والا اور مولوی 300 خریدنے والا مہرہ 500 مولانا ثناء اللہ امرتسری مبلغ اسلام نہیں، جھوٹا، شریر ، مفسد، بے حیا ملحد، زندیق، پنجابی 301 501 502 ڈھنگہ ، دھوکہ باز، ابلہ فریب علم سے بے بہرہ بلکہ دجالوں میں ایک دجال سعودی خاندان والی حرمین شریفین نہیں، امریکی پٹھو دہشت گرد، دشمنان اسلام کا 302 سر پرست، قرآن وحدیث کا مخالف ،اسلام کو مٹانے کے درپے، حرمین شرفین کو ان سے آزاد کرواؤ مولانا مودودی نبض شناس رسول نہیں خبیث ، مسولینی ہٹلر، گستاخ، گمراہوں کی 303 جڑ تنقیص شان رسول کرنے والا 503 پیر گوہر شاہی دلوں کو اللہ کے ذکر سے بھرنے والا نہیں لڑکیوں پر ہاتھ ڈالنے والا 304

Page 45

305 307 308 309 310 312 312 315 315 316 317 317 318 319 320 45 504 غامدی جھوٹا آدمی ہے ، گرگٹ کی طرح نظریات بدلتا ہے ، گمراہ ہے کا فر ہے 505 جاوید احمد غامدی اپنے دیرینہ دوست پروفیسر مولوی محمد رفیق صاحب کی نظر میں 506 باب نمبر 9 یه اجتماعی کلاه بازیاں اور میری مشکلات 508 مشکل نمبر 39 روز نامہ وفاق لکھتا ہے....آؤ کا فر کا فرکھیلیں 510 آئیے دیکھتے ہیں انفرادی تصویر کشی کے بعد اجتماعی محاذ پر ہم مسلمان اپنے جیسے دوسرے مسلمانوں کی کیا تصویر بناتے ہیں.511 اہل تشیع کی تصویر سپاہ صحابہ کی نظر میں 512 بریلویوں کی تصویر لشکر طیبہ کی نظر میں 513 بریلویوں کی تصویر دیوبندی حضرات کی نظر میں 514 دیوبندی حضرات کی تصویر بریلویوں کی نظر میں 515 دیوبندیوں کی تصویر دیوبندیوں کی نظر میں 516 بریلویوں کی تصویر غیر مقلدین کی نظر میں 517 غیر مقلدین کی تصویر بریلویوں کی نظر میں 518 عیار مکار گستاخ 519 توہین رسول کرنے والا ٹولہ 520 سپولیئے 521 جماعت اسلامی کی تصویرا کا برین دیوبند کی نظر میں 522 جماعت اسلامی کی تصویر بریلویوں کی نظر میں 523 دیگر مسلمانوں کی تصویر جماعت اسلامی کی نظر میں 524 تبلیغی جماعت کی تصویر بریلویوں کی نظر میں 525 حزب الاحناف کی تصویر زمیندار کی نظر میں

Page 46

321 322 323 46 526 حزب الاحناف کی تصویر اہل حدیث کی نظر میں 527 غیر مقلدین کے فقہ کی تصویر حنفیوں کی نظر میں 528 باب نمبر 10 عصر حاضر کی فکرانگیز کلاہ بازیاں اور میری مشکلات 530 مشکل نمبر 40 20 جنوری 1925ء 535 ہم اتنے بگڑ گئے ہیں کہ اگر نبی پاک " بھی دوبارہ آجائیں تو ہم انہیں قبول نہ کریں گے.....ڈاکٹر علامہ اقبال 533 25 ستمبر 1949ء کہاں کا اسلام؟ اور کدھر کا اسلام؟ غلام جیلانی برق 9 دسمبر 1949ء کہاں کے مسلمان اور کدھر کے مسلمان؟ سید عطاءاللہ شاہ بخاری 537 3 ستمبر 1974 ء دنیا کی وہ کونسی برائی ہے جو ہم میں نہیں...امام کعبہ 8539 فروری 1988ء 1400 سو سال بعد آج نہ ہم مسلمان ہیں نہ پاکستانی نہ انسان....صدر ضیاء الحق 324 541 24 فروری 1989 ء بیرون ملک جانے والے مبلغین کے اعمال اگر ان کے چندہ دینے 325 والے دیکھ لیں تو کبھی ایسا نہ کریں.سید سہیم حسن 543 اگست 1990 ء ہم زانی، شرابی ،سمگلر، بدمعاش بلکہ سڑی ہوئی قوم جس کا مولوی ایک پلیٹ پر بک جاتا ہے.میاں محمد طفیل صاحب 545 10 مارچ 1993ء بیرونی دنیا میں تبلیغ کے لیے جانے والومبلّغو ! خود تمہیں مسلمان 326 کرنے کی ضرورت ہے انھیں نہیں 2547 نومبر 1995 ء آج ہم یہودی اور عیسائی بن چکے ہیں اور ہر مورد عذاب ہونے والا فعل 327 کر رہے ہیں 549 5 مئی 1997 ء کا کیاں تاڑ نا میرا مذہب ہے..میں پیر آف کنجر شریف ہوں

Page 47

47 3551 مارچ 1998 ء زنا، شراب، رقص و سرور، بے پردگی، عریانی، فحاشی ،سینما سود قمار بازی 328 ہم نے اپنالی ہے اور مسجدوں میں خاک اڑ رہی ہے...امین احسن اصلاحی 553 پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے 554 باب نمبر 11 مالی دست درازیاں اور میری مشکلات 556 مشکل نمبر 41 علماء کی پیچیر وگاڑیاں اور نورانی صاحب کا مطالبہ 558 سب سے بڑا بکاؤ مال.( قاضی حسین احمد سمیع الحق فضل الرحمن نورانی نیازی ) 559 کیا واقعی مولوی جیت گئے؟ 330 332 333 560 رو قادیانیت ایک دھوکہ ہے جبکہ اصل میں یہ روزی اور ووٹ کا ہتھکنڈہ ہے...مجلس 334 احرار کے سابق سیکرٹری صاحب کی پریس کانفرنس 561 تحفظ ختم نبوت کے نام پر مالی نبی.مولوی عبدالرحیم اشرف مديرالمینر 562 بے حس طبقہ 563 ریال، عمرہ اور پگڑی بند ملاں 564 انٹرنیشنل بلیک میلر مولوی 565 شیرٹن ہوٹل اور راشی مولوی 566 کل راشی مولوی آج قائد اور راہبر 567 علماء حضرات کو رشوت بذریعہ علماء حضرات 568 مبلغ ختم نبوت نہیں کھال فروش قصاب 569 محض چندہ بٹورنے کے لیے ختم نبوت کے مبلغ کا لیبل 570 جہاد جیسے مقدس نام پر کرپشن 571 قصہ جہاد کے نام پر ا کٹھے ہونے والے روپے اور ان کے ہڑپ کرنے کا 572 دس کروڑ روپے یا اربوں روپے ”جہاد کشمیر کے نام پر 336 337 339 340 341 342

Page 48

48 573 جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام سمیت اربوں روپے ہضم 574 یہ کہانی 575 علماء کرام سے غیر مسلموں کے دس سوال 576 افسوس یہ عالم دین دین کے لیے فرصت نہیں رکھتے 577 دعوت کے بغیر سیمینار کیسا؟ 578 یورپ میں علماء دین کی خدمات مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف ہیں 579 باب نمبر 12 تفسیری موشگافیاں اور میری مشکلات 581 مشکل نمبر 42 موجودہ قرآن ہی شراب خورخلفاء کا محرف و مبدل کیا ہوا ہے...مولانا مقبول حسین دہلوی 583 موجودہ قرآن مجید میں تو کئی الفاظ غلط اعراب کے ساتھ ہیں.....عالی جاہ نواب رضاخان 584 جو ہمارے چند تراجم ہیں وہ بھی غلطیوں سے پر ہیں 585 343 344 346 348 350 مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کی تفسیر خزائن العرفان جلا دی جائے....متحدہ عرب 351 امارات کے علماء کرام 586 احمد رضا خاں کے ترجمہ کے علاوہ تمام تراجم میں حرمت قرآن عصمت انبیاء اور وقار انسانیت کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے بلکہ قصداً تحریف کر کے خود بھی گمراہ ہوئے اور گمراہی کا دروازہ کھول دی......جوا با بریلوی علماء کرام 587 احمد رضا خاں کے ترجمہ میں تحریفات ہیں بلکہ جھوٹ بھرا ہوا ہے اس لیے جس کو نظر آئے جلا دے...سعودی مفتیان کرام 588 ممتاز دیو بندی مولوی محمود الحسن کے ترجمہ میں آپ کو گنہ گار بتایا گیا ہے اور بھٹکتا دکھایا گیا 352 ہے...بریلوی علماء دین 589 ملائکہ اللہ کے بارے میں قرآنی آیات کا حشر 354

Page 49

49 590 فرشتے شراب پی کر زنا قتل اور شرک کرنے لگ گئے 591 ملائکہ فرضی وجود ہیں 592 قرآن مجید کے بارے میں آیات کا حشر 593 قرآن مجید کی آیات بے جوڑ ہیں اور کوئی ترتیب نہیں 594 قرآن کے تو بعض حصے چھپنے سے ہی رہ گئے ہیں 595 قرآن کے بعض حصے انسانی سمجھ سے بالا ہیں 596 تفسیر کے نام پر تعجب انگیز افسانے اور خلاف عقل باتیں 597 انبیائے کرام کے بارے میں آیات کا حشر 356 357 358 598 بھائیو! میرے مہمانوں سے شہوت سے باز آؤ بلکہ میری بیٹیاں لے جاؤ جائز شہوت کرلو 359 599 حضرت داؤد کو ہمسائے کی بیوی پسند آ گئی اسے جنگ میں بھیج کر شہید کروادیا اور خود اس 360 سے شادی کر لی.پیغمبر کا یہ داغ خدا کو پسند نہ آیا تو جانچ ہوئی 600 اے نبی اللہ خواہش نفس کے تحت ہونے والا قصور تمہیں زیب نہیں دیتا 601 حضرت ایوب نے بے قصور بی بی کو 100 لکڑیاں مارنے کی قسم کھائی 602 | حضرت ابراھیم نے تین جھوٹ بولے 603 حضرت ابراہیم نے تین بار شرک کیا 604 حضرت یوسف نے 8 چوریاں کیں 605 حضرت یوسف زنا کے لیے عورت کا کمر بند کھولا اور خائن کی طرح بیٹھے 360 361 606 حضرت سلیمان ملکہ سبا پر عاشق ہو گئے تھے اور اس کی پنڈلیاں دیکھنے کے لیے بیت 362 المال سے ہزار ہاروپیہ خرچ کر کے محل بنایا 607 حضرت سلیمان ایک انگوٹھی کے ذریعہ حکومت کرتے تھے ایک دن گم ہو کر مخرہ جن کو مل گئی 362 تو اس نے آپ کا روپ دھار کر حکومت شروع کی اور چھ ماہ تک حضرت سلیمان کی بیوی سے بھی ہم صحبت ہوتا رہا

Page 50

50 50 608 حضرت سلیمان گھوڑے دیکھتے رہے اور نماز نہ پڑھی پھر غصے میں آکر نوسویا 2 ہزار گھوڑوں 363 کے سر قلم کر دیئے 609 حضرت ادریس جنت سے نکال دئے گئے مگر وہ دھوکہ اور فریب سے دوبارہ اندر دوڑ گئے 610 حضرت آدم نے خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے شرک کیا 611 حضرت شاہ رفیع الدین کے ترجمہ اور حضرت شاہ عبدالقادر کے حواشی موضع القرآن 363 مطبوعہ تاج کمپنی لاہور کی خصوصیات پر ایک نظر 612 دیگر انبیاء کے متعلق 613 آنحضور صلی یا سیلم کے بارے میں نظریات 614 آپ سے ایسا فعل صادر ہوا جو آپ کے کرنے کا نہ تھا یعنی ایک غریب سے ترش روئی...نعوذ باللہ من ذلک 615 آپ کی زبان پر شیطان نے تسلط پالیا.العیاذ باللہ 616 آپ کی کوتاہیاں اور لغزشیں ہم نے بخش دیں.العیاذ باللہ 617 آپ نبوت سے قبل 40 سال گمراہ رہے.نعوذ باللہ من ذلک 618 صحابہ کرام کے بارے میں نظریات 619 ازواج مطہرات کے بارے میں نظریات 620 کلمہ اور صدارتی آرڈیننس 621 بیت الخلاء پر کلمہ 622 کلمہ مٹانے پر مبارک باد 623 باب نمبر 13 فقہی گل فرازیاں اور میری مشکلات 625 مشکل نمبر 43 ہمارے اہل حدیث بھائی آئمہ اربعہ کی تو ہین جیسی گمراہی میں مبتلا ہو چکے ہیں.....مولانا داود غزنوی 364 365 366 367 368 369 370 371 372 376

Page 51

51 627 کچھ ہمارے اہل حدیث بھائی آئمہ مجتہدین کو گالی دیتے اور مقلد ہونا زانی شرابی سے بڑا گناہ سمجھتے ہیں.میاں نذیر حسین دہلوی 28 اہل حدیث پیسہ بٹورتے رہے اور تحفظ ابوبکر وصدیق کی لڑائی روافض سے ہم نے 377 629 لڑی...دیوبندی عالم دین غیر مقلد دین کے راہزن ہیں....حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مکی 630 غیر مقلد جاہل اور بیوقوف طبقہ ہے.مولانا قاسم نانوتوی 631 غیر مقلد بے باک فرقہ ہے...مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندی 632 شیطان غیر مقلد ہو کر کافر ومرتد ہو گیا....مولانا مرتضیٰ حسن دیوبندی 633 غیر مقلد فاسق ہیں امام بنانا حرام ہے....مولوی رشید احمد گنگوہی 634 غیر مقلد وہابی دغا باز ہیں، فریب کار، ایمان چھیننے والے ہیں...مولانا حسین احمد مدنی 635 بیباک فرقہ غیر مقلدہ نے پیشوایان اسلام پر بہت زہرا گلا ہے.قاری خلیل احمد لکھنوی دیوبندی 636 یہودی کا ذبیحہ حلال جبکہ وہابی کا حرام....بریلوی اعلیٰ حضرت 637 غیر مقلد جہنم کے کتے اور ہندوؤں سے بدتر ملعون....امام رضا خان بریلوی 638 مقلدین کی فقہ توحید میں ایسی ہی تربیع ہے جیسے تثلیث حضرت عیسیٰ کی توحید میں...غیر مقلد علماء 639 بعنوان : مقلدین کی فقہ کا ننگا فوٹو غیر مقلدین کی نظر میں 640 مقلدین کی حنفی کتب کی قدر و قیمت غیر مقلدین کی نظر میں 641 غیر مقلدین کے فقہ کے تصویر....مقلد علماء کی نظر میں 642 زیر عنوان وہابیوں کی تہذیب 643 قرآن و سنت فرقوں کی ذیلی شریعتوں کی ماتحت 378 379 379 380 382

Page 52

52 644 باب نمبر 14 فتوے سازیاں اور میری مشکلات 646 اگر بقول درج ذیل علماء احمدی سچے مسلمان تھے 647 بقول مولانا نیاز فتح پوری صاحب مدیر نگار لکھنو 648 مشکل نمبر 44 جماعت اسلامی کے کفر کے متعلق دوسرے علماء کا فتویٰ 384 385 388 390 650 جماعت اسلامی معتزلہ، روافض، خوارج وغیرہ کی طرح نیا اسلام بنانا چاہتی ہے اہل اسلام 390 ان کے لٹریچر سے دور رہیں.شیخ الاسلام حسین احمد مدنی دیوبندی 651 بریلوی کا فر.....دیوبندی فتوی 652 شیعہ کافر...دیوبندی فتوی 653 اہل حدیث کا فر.....دیوبندی فتویٰ 654 جماعت اسلامی کا فر......دیوبندی فتوی 655 دیوبندی کا فر...بریلوی فتوی 656 دیوبندی کا فر....مکہ مدینہ کے علماء کا فتویٰ 657 دیو بندی اور وہابی دونوں کا فر...علمائے اہل سنت کا فتویٰ 658 دیو بندی سے شادی زنا.....بریلوی علماء کا فتویٰ 659 بریلوی دجال، کتوں سے بدتر اور آنحضور صلی سیم انہیں لعنت لعنت ڈالیں گے...دیو بندی فتوی 660 شیعہ سب بے ایمان ہیں اسلام سے دور....حضرت سید عبدالقادر جیلانی کا فتویٰ 661 | شیعوں کو قتل کرنا ضروری ہے اسلام کی سر بلندی کے لیے.مکان تباہ مال لوٹ لو....علماء ماور النہر کا فتویٰ 662 شیعہ کا فر...شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا فتویٰ 663 سنی کا فراہذا ان سے نکاح جائز نہیں.شیعہ فتویٰ 391 392 392 393

Page 53

53 664 اے خدا تو اس سنی کے پیٹ میں آگ بھر دے شیعہ فتویٰ 665 شیعہ سے نکاح زنا اور فواحش ہے میل جول بند کر و....دیوبندی فتویٰ 666 دیوبندی کافر، مرتد، بدعتی بد مذہب، ان سے دور بھا گو، ان کو گالیاں دو اور ان سے بغض عین قرآن کے مطابق فرض ،شادی ان سے زنا، جنازہ پڑھنا حرام، مسلمانوں کے قبرستانون میں دفن کرنا حرام.....بریلوی فتویٰ 667 غیر مقلد کافر مرتد قتل کردو.تو بہ کر لے تب بھی قتل کر دو.علماء ان کے قتل کے جلدی 394 فتوی دیں.لیٹ ہونے پر وہ بھی مرتد ہو جائیں گے....مقلدین کا فتویٰ 668 وہابی نجدی کا فرملحد ، مسلمان نہیں بلکہ اپنے ہی پیغمبروں کے قول کے مطابق اسلام سے خارج اہل سنت کا فتویٰ 669 ڈاکٹر اسرار احمد اور ڈاکٹر ذاکر نائک شیطان اور نسل یزید ہے.شیعہ علماء کا فتویٰ 670 ڈاکٹر ذاکر نائک کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج لکھنو کے شیعہ اور سنی علماء کا متفقہ فتویٰ 395 396 397 399 400 405 408 671 ملاں کا قلعہ 672 انداز جفا 673 " کا فر گر" 674 باب نمبر 15 حیاء سوزیاں اور میری مشکلات 676 مشکل نمبر 45 نقل کفر، کفر نہ باشد - گندی دنیا کی گندی سیر 699 باب نمبر 16 جاں بازیاں اور میری مشکلات 701 | ادھر ایک شادی کی کہانی 702 ایک قادیانی خاندان کا مکروہ جرم جس پر جیل کی سلاخیں اور لمبا مقدمہ بھگت رہا ہے...روز نامہ پاکستان

Page 54

54 703 ادھر بھی ایک شادی ہی کی کہانی 704شادی کے بغیر مرد سے تعلقات میں کوئی حرج نہیں ،معروف محب وطن مسلم رقاصہ شیما کرمانی کا فخر یہ اعلان.....روز نامہ اوصاف 705 اُدھر اللہ سب سے بڑا.محمد اللہ کے رسول.نماز کی طرف آؤ 706 ایک قادیانی کا جرم 298 کی حرکت 2 سال قید با مشقت اور 2 ہزار جرمانہ 409 409 707 ادھر ہندو تہوار بسنت پر لاہور میں جو انیوں کا ڈانس.کھلے عام شراب.اربوں روپے کی 410 شراب عید سے زیادہ کوریج گورنر پنجاب اور چیئر مین سینٹ کی معیت میں بسنت شغل میله 708 اُدھر قرآن مجید کا سرائیکی زبان میں ترجمہ کرنے کی جسارت 709 قادیانیوں کے اس جرم پر 2954 ، 2958 اور 295 کا اطلاق اور اس مذموم فعل پر سزائے موت بھی متوقع ہے.710 ادھر صرف کراچی شہر میں 70 شراب خانے مزید کھولنے کی اجازت 711 تبصره 712 اُدھر دوبارہ مسجد کی پیشانی پر لکھ دیا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں 713 ادھر وطن عزیز کی کوئی گلی کوئی کو چہ ایسا نہیں جہاں آج کل جوانہ کھیلا جارہا ہو 714 وطن عزیز میں جاری ایک دلچسپ عوامی کھیل کا آنکھوں دیکھا حال 715 تبصره 716 گلی کوچوں ، چھوٹے بڑے شہروں، چائے پان کے کھوکھوں سے لیکر محلات تک میں یہ جاری کھیل یقینا ایک نفع مند اور عین اسلامی کھیل ہی ہوگا ؟ 411 411 413 414 717 اُدھر نماز جمعہ ادا کرتے ہیں اور جس کلمہ کو ہم نے مٹادیا تھا اس کو دوبارہ تحریر کر دیا ہے.415 718 خوشاب کے 6 قادیانیوں کی مزید دل آزار حرکت.719 قانون حرکت میں 295C توہین رسالت کے تحت فوری جیل میں بند.سزائے موت کی امید ہے.

Page 55

55 720 ادھر 70 شراب خانے اب تین سال بعد 109 میں بدل چکے ہیں یوں کراچی میں پانی 416 مشکل اور شراب آسانی سے میسر ممتاز عالم دین احمد شاہ نورانی کی کراچی میں جاری عوامی اور سرکاری سبیل“ کے بعد اخبار نویسوں سے گپ شپ.....سر را ہے 722 ادھر شہداد پور سندھ کے 3 قادیانیوں کی ایک اور مجرمانہ حرکت 723 724 قانون حرکت میں 298 اور 295 توہین رسالت کے تحت فوری F.IR ادھر 419 419 726 اُدھر گھر کے اندر سے آواز آئی کہ وضو جلدی کریں نماز کا وقت ہو گیا ہے اور نماز کے بعد 420 درس قرآن بھی ہوگا.727 ایبٹ آباد، وادی ہزارہ کے 9 عمر رسیدہ قادیانیوں کی ایک اور مجرمانہ حرکت قانون حرکت میں 298C کے تحت 9 قادیانیوں کو پکڑ کر واصل زندان ڈھائی ماہ کے بعد عقل ٹھکانے آنے پر ہائی کورٹ سے رہائی 728 ادھر صرف لاہور کی ہیرا منڈی میں ہزاروں افراد روزانہ جسم خرید نے جاتے ہیں.بلکہ 421 اب تو ہیرا منڈی ہی نہیں لاہور کے سارے ماڈرن علاقوں میں جسم بکتے ہیں 730 اُدھر کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے کافی نہیں 731 ضلع لاڑکانہ کے 2 قادیانی سر عام چوک میں سکوٹر پر قرآنی آیت کے سٹکر کے ساتھ پائے گئے.732 بے باک جرم پر قانون حرکت میں 298-295 اور 295C کے تحت گرفتار کر کے کال کوٹھڑی کی سلاخوں کے پیچھے بند.733 موٹر سائیکل پر آیات قرآنی کا سٹکر چسپاں کرنے پر توہین رسالت کا مقدمہ 422 734 ادھر انسانی اعضاء کی سمگلنگ ، عورتوں کی خرید و فروخت...بھوک و افلاس نے ڈیرے 425 ڈال دیئے 735 افغانستان میں انسانی اعضاء کی سمگلنگ کا دھندہ عروج پر

Page 56

56 56 736 ڈیرہ غازی خان میں عورتوں کی خرید و فروخت کا کاروبار پھر شروع تکبیر کی رپورٹ پر وزیر اعظم کے حکم سے کی جانے والی کارروائی کے بعد روپوش ہو جانے والے بردہ فروش دوبارہ فعال ہو گئے 737 مجرموں نے بنگالی عورتوں کی جگہ مقامی غریب گھرانوں کی شریف زادیوں اور بدکاری 426 کے اڈوں کی لڑکیوں کو ھدف بنالیا 739 اُدھر اللہ تعالیٰ ایک ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں 740 دنیا پور ضلع لودھراں کی ایک قادیانی استانی کی بھی ایک مجرمانہ کوشش“ 429 741 ادھر پوری دنیا کی نیلی فلمیں پاکستان کے سنیماؤں میں دھڑلے سے دکھائی جا رہی ہیں 430 742 جتنے سینما نیلی فلموں کے ذریعہ عریانی فحاشی اور جنسی بے راہروی کو فروغ دے رہے ہیں وہ تمام سر کردہ اسلامی لیڈران و سیاستدان حضرات کے ہیں.743 بڑی سکرین پر نیلی فلمیں 745 ادھر شروع کرتا ہوں ساتھ نام اللہ کے جو بے حد مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے 432 746 قادیانی ماہنامہ رسالہ انصار اللہ کی ایک اور ایمان شکن اور دل آزار مجرمانہ حرکت 747 قانون حرکت میں 14 احباب کے خلاف 298C اور 295 یعنی توہین رسالت کا مقدمہ درج 748 ادھر آپ فحاشی و عریانی کے مناظر کو بہت عمدگی سے فلم بند کرواتی ہیں“ 749 " آپ کا فرمان ہے اگر آپ کا جسم خوبصورت ہے تو اس کو دکھایا جا سکتا ہے“ 750 فلم بین طبقہ آپ کو سینما سکرین پر نگادیکھنا چاہتا ہے“ 752 اسلامی مملکت خدا داد کی اسلامی پہیلی بوجھیے اور سوچئے 753 داماد ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے مربی عبد القدیر تک 766 باب نمبر 17 یه خدمت نوازیاں اور میری مشکلات 433 435 443

Page 57

444 446 447 448 449 450 451 452 57 768 اک افریقی دربار 769 مشکل نمبر 47 ہماری گھناؤنی خدمات 770 ہماری گھناؤنی خدمات $1946 772 $1915 773 $1918 774 $1924 775 $1936 776 $1953 777 $1984 778 779 اسلامی ملک کی اسلامی خدمات 780 781 $1984 کلمه کیس 782 السلام علیکم کیس $1985 783 784 13 احمدیوں پر کلمہ کیس 785 ڈرگ روڈ کا کلمہ کیس $1986 786 787 سرگودہا کیس 788 مردان کیس 789 ٹوبہ ٹیک سنگھ کے مقدمات 790 ستمبر 1986 ء سرگودھا کیس 791 احمدی درزی کیس پشاور

Page 58

453 454 455 458 458 459 460 461 462 463 464 465 466 470 471 58 $1992 792 793 قادیانی خدمات 794 دفاع کے میدان میں 795 لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک 796 بریگیڈئیر عبدالعلی ملک ( چونڈہ کے ہیرو) 797 جنرل عبد العلی ملک نے چونڈہ کے محاذ پر تاریخ حرب کے تمام ماہرین کو حیران کر دیا 798 فاتح رن کچھ میجر جنرل افتخار جنجوعه (2) مرتبہ ہلال جرأت) 799 قانون بین الاقوامی امور بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کی نمائندگی 800 دنیائے سائنس میں پاکستان کی نمائندگی اور نوبل انعام 801 اردو ادب میں نمائندگی تمغہ حسن کارکردگی کا حصول 802 پشتو ادب میں نمائندگی تمغہ حسن کارکردگی اور ستارہ پاکستان کا حصول 803 میڈیکل سائنس میں نمائندگی ہلال امتیاز ، ستارہ امتیاز کا حصول 804 احمدیوں کو بے دین کہنے والے تو بہت ہیں مگر...807 باب نمبر 18 پیشگوئیاں تباہیاں اورآبادیاں 809 سکاٹ لینڈ کا ایک نالائق بچہ 810 نبی ، پیغمبر، بادشاہ 811 مشکل نمبر 48 ” پیغمبروں کی جنگ“ یا پیغمبروں سے جنگ 813 خدا تعالیٰ کسی جھوٹے نبی کو کبھی سرسبزی نہیں دکھاتا 814 قرآن کا راہنما اصول اور پچھلے سوسالوں پر ایک نظر 815 816 1870ء میری وجہ سے یہ فتنہ ترقی نہ کر سکے گا.پیر مہر علی شاہ 1881.....اہل حدیث لیڈر مولوی محمد حسین بٹالوی

Page 59

59 59 817 1889....جلد یہ فتنہ مضمحل ہو جائے گا...مولانا انور شاہ کشمیری 1934ء جلد قادیانیت صفحہ ہستی سے مٹ کر صرف کتابوں میں رہ جائے گی......اخبار زمیندار لاہور 19 1935....صرف میں اپنے ہاتھوں سے قادیانیت تباہ کروں گا...سید عطاء اللہ شاہ 472 820 821 بخاری 1936ء جلد قادیانیت ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گی....مولانا ظفر علی خان 472 473.....1936 ء ڈاکٹر علامہ اقبال کی رائے 822 علامہ اقبال کی پیشگوئی 823 1952ء 72 فرقوں کا اجتماع 824 اس سال قادیانیت کو شکست دے دی جائے گی...53-1952 ء بخاری کا سال 25 1953.اگر صرف ظفر اللہ خاں کو وزارت سے ہٹا دیا جائے تو قادیانی 50 فیصد ختم ہو جائیں گے...میرے باوا کی امت 1953ء قادیانیوں کی ہر طاقت جلد ختم کر دی جائے گی...ہر طاقت ختم 474 1974ء شاہ فیصل اور جماعت احمدیہ 1974ء...مسٹر بھٹو اور عقبی میں نجات 1974ء فرقوں کا متفقہ فیصلہ 826 827 828 829 830 1974 ء آدھے سے زیادہ قادیانیت ختم ہوگئی....از مولوی مودودی 831 1974 ء اگر قادیانیت کو کا فرقرار دے دو تو خدا کی قسم کوئی طاقت تمہارا بال بھی بیکا نہ کر سکے گی مجلس ختم نبوت کے سر براہ مولوی یوسف بنوری 32 1974 ء قادیانی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے شورش کشمیری 33 1974 ء اب قادیانیت سکڑنے کا وقت آگیا.سردار عبد القیوم صدر آزاد کشمیر 34 1975 ء قادیانیوں کا پردہ چاک ہو گیا.منظور احمد چنیوٹی 835 1978ء افریقہ میں تمام قاد یا مینوں نے تو بہ کر لی ہے.منظور احمد چنیوٹی 475 475

Page 60

60 836 1985ء قادیانیت ایک کینسر ہے ، میری حکومت اس کو ختم کر دے گی...جزل 475 ضیاء الحق 837 میں خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہوں جسے کوئی تباہ نہیں کر سکتا.بانی جماعت احمدیہ کا 476 حیرت انگیز اعلان $1884 1880 838 839 خدا میری سچائی کو زور آور حملوں سے خود ثابت کرے گا....بانی جماعت احمد یہ 840 841 842 843 1893ء میں خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہوں...بانی جماعت احمدیہ 1900....جو منصوبے ہو سکتے ہیں کر لومگر مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے...بانی جماعت احمدیہ 1902 ء میں خدا کا مامور مسیح ہوں میں غالب آؤں گا اور مخالفین شکست کھائیں گے 477...بانی جماعت احمدیہ 1903 اے لوگو! سن لو خدا اس جماعت کو پوری دنیا میں پھیلائے گا...بانی جماعت احمدیہ 844 فیصلہ کن اعلان 845 میرا خدا صرف میری مدد کرے گا مجھے ہرگز ضائع نہیں کرے گا خواہ میری مخالفت میں تمام دنیا درندوں سے بدتر ہو جائے.بانی جماعت احمدیہ 846 بانی جماعت کی طرف سے مخالفین کو چیلنج اور ان کو نا کامی کی پیشگوئی 847 باب نمبر 19 عکس انقلاب اور میری فیصله کن مشکلات 849 سوا صدی کی مسافت کے بعد 477 479 480 850 مشکل نمبر 49 قادیانیت کے سیلاب کے آگے بند باندھنا ہمارے لیے ممکن نہیں 481 رہا

Page 61

61 52 سواصدی کی جنگ کے نتائج ملاحظہ کے لیے پیش ہیں 853 1900 ء مرزا صاحب کے پاس بے تحاشا مالی قربانی کرنے والے فدائی ہیں جبکہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں...مولوی محمد حسین بٹالوی $1926 855 856 گھر بیٹھ کر جماعت احمدیہ کو برابھلا تو ہر کوئی کہہ سکتا مگر یورپ امریکہ میں تبلیغ اسلام صرف 857 یہی لوگ کر رہے ہیں....مولا نا ظفر علی خاں $1947 858 جماعت احمدیہ کا منظم پروگرام پوری دنیا کی مسلمان بنانے کے لیے یورپ تک پھیل گیا 859 ہے دنیا کی مستند دستاویز انسائیکلو پیڈیا برٹین کا کا بھی اعتراف $1956 481 860 ہمارے پہاڑوں جیسے علماء اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود احمدیت سے ہار چکے ہیں بلکہ 482 1953ء کی خوں ریزی بھی ان کی رفتار روک نہیں سکی...مولوی عبدالرحیم اشرف صاحب کا اعتراف $1998 861 862 آج ہر قادیانی تن من دھن سے قربانی کر رہا ہے اور ڈش انٹینا کی مدد سے ان کی تبلیغ دنیا 483 863 کے کناروں کو چھورہی ہے.32 سال بعد ایک اعتراف کا تسلسل $1958 864 پوری دنیا کو تبلیغ اسلام کرنے کا فخر صرف اور صرف احمدیت کے نصیب میں جاچکا ہے...865 ایڈیٹر جد و جہد کا اعتراف اسلامی مساوات 866 بیت المال کا قیام 867 تبلیغ اسلام 484 485 $1969 868

Page 62

62 869 تبلیغ اسلام کا ہر سہرا صرف احمدیوں کے ہی سر پر ہے وہ عیسائیوں کو ہو یا ہندوؤں 485 کو.....مولانا اشرف علی تھانوی خلیفہ مجاز مولانا عبدالماجد دریا بادی کا اعتراف 487 490 491 مہمیز 870 1992 871 872 اگست 1992ء 873 اے لوگو! قادیانیوں کے آگے بندھ باندھو ورنہ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں مئی 1994ء 874 875 قادیانیت ہماری ہر کوشش کے باوجود ختم نہیں ہوئی بلکہ اب تو وہ ساری دنیا میں پھیل گئے ہیں.....علامہ جاوید الغامدی 876 اگست 1994ء 877 قادیانیوں کا ایک امام ہے اور وہ ساری دنیا کو کنٹرول کر رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں جس کے بھی ساتھ 2 آدمی ہیں وہ بھی عالمی مرکز کا صدر کہلا رہاہے.ماہنامہ الحق کی فریاد 878 اسلامی انقلاب کے لئے ایک مرکز کی ضرورت ہے 879 نومبر 1994ء 880 قادیانی اب سٹیلائٹ کے ذریعہ گھر گھر پہنچ گئے ہیں ان سے بچایا جائے..ہفت روزہ 881 882 زندگی کی دہائی مارچ 1997ء ہمارے علماء تو دس سوالوں کے جواب بھی نہیں دے سکتے جبکہ قادیانی اتنی تبلیغ اسلام 492 کر رہے ہیں جتنا کبھی ہم نے سوچا بھی نہیں بین الاقوامی مسلمان اسپرانتو ایسی سی ایشن کی دہائی 883 روز نامہ اساس 24 مارچ 1997 سے غیر احمدی داستان کا ایک عبرت انگیز ورق.493 اگست 1999ء 884

Page 63

494 496 497 498 499 63 885 استہزاء اور طعن تشنیع کا انجام 886 جب استہزاء عروج پر تھا 887 استہزائی مجاسے ٹھرک تک 888 ہم نے زندگی ضائع کردی...مولوی انورشاہ کشمیری کا مرنے سے قبل اعتراف 889 ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی بنے گی 890 بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے دور امامیت 27 مئی 1908 ء تا آخر 1908ء 891 892 $1909 893 $1910 894 $1911 895 $1912 896 $1913 897 898 قدرت ثانیہ کے مظہر ثانی $1914 899 $1915 900 $1916 901 500 1917 902 $1920 903 $1921 904 $1922 905 $1923 906 501 $1924 907

Page 64

64 $1925 908 1926 909 502 $1929 910 1930 911 $1931 912 $1935 913 $1936 914 503 $1937 915 $1938 916 $1939 917 $1940 918 504 $1941 919 $1942 920 $1943 921 $1946 922 $1947 923 $1949 924 505 $1950 925 $1951 926 $1952 927 $1954 928 506 $1955 930 $1956 931

Page 65

507 508 509 510 65 $1957 932 $1958 933 $1959 934 $1960 935 1961 936 $1962 937 $1963 938 $1964 939 940 8 نومبر 1965 تک خلافت ثالثہ 1966ء 941 $1967 942 $1968 943 $1969 944 $1970 945 $1971 946 $1973 947 * 1974 948 $1975 949 $1976 950 $1977 951 511 $1978 952 $1979 953 $1980 954

Page 66

66 512 $1981 955 $1982 956 خلافت رابعہ خلافت خامسه 957 958 $2005 959 514 516 517 519 960 | ” میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں 961 بے نقاب چہرے 962 آخری انتباه 963 ضمیمه

Page 67

67 باب نمبر 1 تاريخ کا سوساله مقدمه

Page 68

68 تاریخ کا سوساله مقدمه دعوى جواب دعوی کی شکل میں دوسو سال پہلے کی حالت 1 - بلکہ ہم تو گمراہ ہو چکے ہیں.( مولانا الطاف حسین حالی.مسدس حالی) 2 - بلکہ امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں.3- بلکہ دور جاہلیت کے طرف لوٹ چکے ہیں.(علامہ اقبال بانگ در اصفحه (222 مولانا مودودی تجدید و احیائے دین صفحہ 37 4- بلکہ کفار مکہ جزیرہ عرب کے مشرکین اور دور جاہلیت کے بت پرست ہم سے زیادہ فاسد اور روی عقیدہ نہ رکھتے تھے.مولانا احسان الہی ظہیر البریلویۃ صفحہ 65 ) 5 - ہمارے ہر فرقے کا اسلام و قرآن الگ ہے.ایک اسلام تو وہ ہے جو 14 لاکھ حدیثوں کے بوجھ تلے دبا کراہ رہا ہے.دوسرا وہ جو مختلف فقہی سکولوں کے نرغے میں پھنسا بچ نکلنے کے لیے فریاد بھی نہیں کر سکتا.اور ایک تیسرا اسلام ہے حضرات اہل بیت کرام کے لکڑی اور کاغذ کے تعزیوں کے ساتھ بندھا ہوا کوچہ بازار میں سالانہ گردش کرتا نظر آتا ہے ایک چوتھا اسلام وہ ہے جو استخواں فروش مجاہدوں اور پیرزادوں کے حلقے میں حق ہو کے نعرے لگانے اور حال وقال کی بزم آرائی کے لیے مجبور ہے.مولانا غلام جیلانی برقی دو اسلام صفحہ 27) 6- ہماری مساجد آباد ہیں لیکن ہدایت سے خالی ہیں.مولانا محمد عاشق الہی بلند شہری علامات قیامت کے بارے آنحضرت صلعم کی پیشگوئیاں صفحہ 11) 7 - ہمارے پیرزادے راہرن ہیں دجال ہیں کذاب ہیں خود بھی دھوکہ میں ہیں اور دوسروں کو بھی دھوکہ دیتے ہیں.

Page 69

69 ( حضرت شاہ ولی اللہ بحوالہ تجدید و احیاء دین از مولانا مودودی صفحه 98 8- ہمارے واعظ عابد اور خانقاہ نشین نے اباطیل کو اپنا لیا ہے اور خلق خدا پر دائرہ تنگ کردیا ہے.( حضرت شاہ ولی اللہ بحوالہ تجدید و احیاء دین از مولانا مودودی صفحه 99 9- ہمارے امراء خوف خدا سے عاری دنیا داری میں ڈوب گئے ہیں علانیہ شرابیں پیتے ہیں.( حضرت شاہ ولی اللہ بحوالہ تجدید و احیاء دین از مولانا مودودی صفحه 99 10 - ہماری عوام عبادت سے غافل اور اللہ کے ساتھ شرک کر رہے ہیں.حضرت شاہ ولی الله بحوالہ تجدید و احیاء دین از مولانا مودودی صفحه 100 11 - ہمارے علماء آسمان کی چھت کے نیچے بدترین مخلوق ہیں.مولانامحمد عاشق الہی بلند شہری، علامات قیامت کے بارے آنحضرت کی پیشگوئیاں صفحہ 8) 12 - ہمارے علماء سے ہی فتنے نکلتے اور انہیں میں لوٹ جاتے ہیں.مولانامحمد عاشق الہی بلند شہری، علامات قیامت کے بارے آنحضرت کی پیشگوئیاں صفحہ 8 ) 13 - ہمارے علماء نے قرآن کو ذریعہ معاش بنالیا ہے.مولانا محمد عاشق الہی بلند شہری ، علامات قیامت کے بارے آنحضرت کی پیشگوئیاں صفحہ (23) 14 - آج دین اسلام پھر آغاز کی طرح اجنبیت کی طرف لوٹ چکا ہے.مولا نا محمد عاشق الہی بلند شہری، علامات قیامت کے بارے آنحضرت کی پیشگوئیاں صفحہ 15) 15.ہم یہود نصاری کے قدم بقدم چل کر گمراہ ہو چکے ہیں.16 - سچ پوچھو تو آج ہر گروہ میں دین کی تحریف پھیلی ہوئی ہے.( حضرت شاہ ولی اللہ بحوالہ تجدید و احیائے دین صفحہ 104 ( حضرت شاہ ولی اللہ بحوالہ تجدید و احیائے دین صفحہ 104 ) ختم نبوت 17- ان تمام برائیوں کے باوجود ہم میں سے کوئی ہادی پیدا نہیں ہوسکتا.کیونکہ نی نبوت اب امت کے لئے رحمت نہیں بلکہ لعنت ہے.فرمان مولانا مودودی صاحب) 18 - اس لئے کہ ہمارے نبی خاتم النبین یعنی آخری نبی ہیں.آنحضرت سلیم کے بعد کسی بھی قسم کی نبوت

Page 70

70 کے مدعی کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں.فرمان سابق صدر پاکستان جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ) 19.لیکن ہمیں ایک بادی کی شدید ضرورت ہے.عالم اسلام کی بڑی ضرورت انبیاء کے طریق پر دعوت کے مطابق امت کو ایمان اور عمل صالح اور صحیح اسلامی زندگی کی دعوت دی جائے.فرمان مولا نا ابوالحسن ندوی صاحب ) 20- اس لئے کہ اس دور میں تنفیذ دین ایک نبی کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی حضرت مہدی علیہ الرضوان کا ظاہر ہونا یا حضرت عیسی " کا نازل ہونا ہمارے دین کی تکمیل کے لئے نہیں دین تو بلا شبہ چودہ سو سالوں سے کامل و مکمل چلا آرہا ہے ان حضرات کی آمد دین کی تکمیل کے لئے نہیں بلکہ تنفیذ کیلئے ہوگی.منشاء خداوندی یہ ہے کہ قیامت سے پہلے تمام ادیان کو مٹا کر انسانیت کو دین اسلام پر جمع کر دیا جائے.(فرمان مولانا یوسف لدھیانوی) نوٹ : مکمل حوالجات آگے درج کئے جائیں گے لیکن 21 - امت میں نبی پیدا ہو نہیں سکتا کیونکہ آپ صلی اینم آخری نبی ہیں.(فرمان مولانا یوسف لدھیانوی) 22 - ہاں نبی آسکتا ہے بلکہ ضرور آئے گا (یعنی دوسری امت سے مجبوراً ما نگا جا سکتا ہے ).(فرمان مولانا یوسف لدھیانوی) 23 - بلکہ نماز، روزہ، حج ، زکوۃ کی طرح ہمارا عقیدہ ہے کہ امت ایک نبی کا منہ ضرور دیکھے گی.(فرمان مولانا یوسف لدھیانوی) یوں 24 - آخری نبی کے بعد بھی نبی آئے گا.لیکن پھر بھی آخری نبی آپ صلی یا پیتم ہی ہیں.25 فوت ہونے کے لحاظ سے حضرت عیسی آخری ہیں.(فرمان مولانا یوسف لدھیانوی) فرمان مولانا یوسف لدھیانوی) 26.لیکن دل سب مسلمانوں کا چاہتا ہے کہ کاش ہم میں سے بھی کوئی امتی نبی پیدا ہو.اکثر لوگ قامت دین

Page 71

71 کی تحریک کے لیے کسی ایسے مرد کامل کو ڈھونڈتے ہیں جو ان میں سے ایک شخص کے تصور کمال کا مجسمہ ہو.دوسرے الفاظ میں یہ لوگ دراصل نبی کے طالب ہیں اگر چہ زبان سے ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں اور کوئی اجرائے نبوت کا نام بھی لے دے تو اس کی زبان گدی سے کھینچنے کے لیے تیار ہو جائیں مگر اندر سے ان کے دل ایک نبی مانگتے ہیں اور نبی سے کم پر راضی نہیں.حیات مسیح ترجمان القرآن دسمبر 1942 ء صفحہ 4 تا 6 27 - حضرت عیسی زندہ جسم سمیت آسمان پر موجود ہیں.( مولانا زاہد الراشدی روز نامہ اوصاف 4 جولائی 98ء) 28- جب یہود آپ کو گرفتار کرنے آئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک رومی سپاہی کا فر کو آپ کی شکل دے دی.شیخ محمود الحسن اور مولانا شبیر احمد عثمانی والا مکی قرآن مجید صفحه 132) 29 - یہود نے غلطی سے اسی شخص کو پھانسی پر چڑھادیا.شیخ محمود الحسن اور مولانا شبیر احمد عثمانی والا کی قرآن مجید صفحه 132 ) 30 - اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کی شکل ایک مخالف کا فر کو دے دی.شیخ محمود الحسن اور مولانا شبیر احمد عثمانی والا مکی قرآن مجید صفحه 132) 31 - یہود آج تک سمجھتے ہیں کہ ہم نے مسیح کو ہی صلیب دی.32 مسیح کو اللہ نے اپنے پاس اٹھالیا.33 - مسیح اللہ کے پاس چوتھے آسمان پر موجود ہیں.شیخ محمود الحسن اور مولانا شبیر احمد عثمانی والا مکی قرآن مجید صفحه 132 ) مودودی صاحب تفہیم القرآن جلد 1 صفحه (419) 34 - مسیح" 2000 سال سے کچھ کھائے پیئے بغیر آسمان میں موجود ہیں.35 - مسیح “ 2000 ہزار سال بعد 33 سال کی عمر کے ہیں.36 - آپ آسمان سے دوزرد چادریں پہنے دو فرشتوں کے کندھے پر ہاتھ رکھے ایک مینار پر جو دمشق کے مشرق میں ہے ایسے اتریں گے کہ کسی آدمی کو شک نہیں رہے گا کہ یہی عیسی بن مریم ہیں یا نہیں.مولانا مودودی صاحب کتاب ختم نبوت صفحه 65-67) 37.لیکن نیچے نہیں اتریں گے بلکہ سیڑھی منگوائیں گے اور پھر اُتریں گے.

Page 72

امام مہدی 72 (سید بدر عالم فاضل دیو بند الامام المهدی صفحہ 9) 38 - زمین پر پہلے سے امام مہدی موجود ہوں گے.39 - امامت امام مہدی کرائیں گے آپ مقتدی ہونگے.40- آپ جنگل میں جا کر سور ماریں گے.41 لکڑی اور لوہے کی صلیبیں توڑیں گے.42- امام مہدی اتنا مال لٹائیں گے کہ کوئی لینے والا نہ ہوگا.دجال (مولانا محمد عاشق الہی علامت قیامت صفحه 108 ) ( مولانا مودودی ختم نبوت صفحه 69) ( سید محمد بدر عالم فاضل دیوبند الامام المهدی صفحہ 26 43- دجال ایک دیو ہیکل بہت گھنگھریالے بالوں والا دا ہنی آنکھ سے کانا ہوگا گویا کہ اس کی آنکھ اوپر کو اٹھا ہوا انگور.(علامات قیامت کے بارے میں آنحضرت کی پیشگوئیاں صفحہ 99) 44- اس کے ساتھ پانی کا ایک بڑا ذخیرہ اور آگ کا بھی بڑا ذخیرہ ہوگا.45- وہ جنت اور دوزخ بھی ساتھ ساتھ لئے پھر رہا ہوگا.46.اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لفظ ”کافر لکھا ہو گا جسے ہر پڑھا لکھا اور ان پڑھ شخص بھی پڑھ لے گا.47- ایک گوشت کا پہاڑ اور ایک روٹیوں کا پہاڑ بھی ساتھ لئے پھر رہا ہو گا.48 پانی کی ایک نہر بھی ساتھ ساتھ لئے پھر رہا ہوگا.49- دجال زندہ کرنے اور مارنے کی صفت اپنے اندر رکھتا ہو گا اسی لئے خدائی کا دعوی کرے گا.50- بارہ ہزار افراد کے علاوہ سب انسان دجال کے تابع ہو جائیں گے اور اس کی خدائی کا اقرار کریں گے.51 - دجال کو دیکھ کر سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھنا کیونکہ ان کا پڑھنا اس کے فتنہ سے امن و امان میں رکھے گا.

Page 73

73 52 -40 دن زمین پر رہے گا جن میں سے ایک دن ایک سال کے برابر ایک دن مہینہ کے برابر ایک دن ہفتہ کے برابر اور باقی عام دن ہو نگے.-53- دجال اتنی تیز رفتاری سے سفر کرے گا جیسے بادل.اسی طرح تیزی سے زمین پر پھرے گا.54- دجال آسمان کو برسنے کا حکم دے گا تو بارش ہونے لگے گی.55- زمین کو کھیتی اُگانے کا حکم دے گا تو کھیتیاں آگ جائیں گی.56 - دجال کھنڈر اور ویران زمین پر سے گزرتے ہوئے کہے گا کہ اندر سے خزانے نکال دے تو اس کے خزانے اس طرح دجال کے پیچھے لگ جائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں اپنے سردار کے پیچھے.57 - دجال ایک جوان آدمی کے ٹکڑے کر کے پھینک دے گا اور پھر بلائے گا تو وہ آدمی ہنستا کھیلتا اس کی طرف آئے گا.اتنے میں حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہو جائیں گے.58 - دجال حضرت عیسی کے دیکھتے ہی پگھلنا شروع ہو جائے گا جیسے پانی میں نمک کھلتا ہے.اگر قتل نہ کریں ایسے ہی چھوڑ دیں تو بھی دجال بالکل پگھل کر ہلاک ہو جائے گا.59.لیکن وہ اسے اپنے ہاتھ سے قتل کریں گے اور اپنے نیزہ میں اس کا لگا ہوا خون دکھائیں گے.60 - دجال جس گدھے پر سوار ہوگا وہ کتنا بڑا ہوگا اس کا اندازہ یہ ہے کہ اس کے دوکانوں کے درمیان ستر (70) باغ کا فاصلہ ہوگا اور ایک باغ دو گز یعنی 6 فٹ کا ہوتا ہے.یا جوج ماجوج (علامات قیامت کے بارے میں آنحضرت کی پیشگوئیاں صفحہ 99 تا 107 ) 61 - یا جوج ماجوج سے لڑنے کی طاقت کسی انسانی ہاتھ میں نہیں.62- کثرت اتنی ہوگی کہ تالابوں کے تالاب پانی پی جائیں گے.63-خمر پہاڑ کے قریب پہنچ کر کہیں گے کہ زمین والوں کو ہم نے قتل کر لیا اب آسمان والوں کو قتل کریں چنانچہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے.64- زمین میں خوب فساد مچائیں گے.65- یا جوج اور ماجوج سے بچنے کی خاطر حضرت عیسی اپنے ساتھیوں کو لے کر طور پہاڑ پر چڑھ جائیں گے.66- اور خدا کے حضور گڑ گڑا کر اس کی بربادی کے لیے دعائیں کریں گے.67- تب خدا ایک بیماری بھیجے گا جس سے وہ سب مر جائیں گے.

Page 74

74 (جواب استغاثه) 1 تا 16...ہم دور جاہلیت کی طرف لوٹ چکے ہیں..علماء کرام کا دعویٰ اگر چھوٹے چھوٹے فتنوں کے وقت مجدد آئے تو اس بڑے فتنے کے مقابل اللہ تعالیٰ نے کسی کو کیوں نہیں بھیجا؟...جواب دعوی جماعت احمدیہ اسلام کی حالت اس وقت سخت نازک ہے اور مسلمان گرتے گرتے انتہائی ذلت کو پہنچ گئے ہیں.اگر آج بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی ترقی کا کوئی سامان نہ ہوتا تو پھر اسلام اور دوسرے مذہبوں میں فرق کیا رہ جاتا ؟ اس زمانہ سے پہلے بہت چھوٹے چھوٹے فتنوں کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجدد آتے رہے ہیں اور قریباً تمام مسلمان اس بات کے قائل ہیں کہ ان مجددوں اور ولیوں کے ذریعہ دین اسلام کی حفاظت ہوتی رہی.حضرت سید عبدالقادر جیلانی حضرت معین الدین چشتی حضرت سید احمد سر ہندی رضوان اللہ علیم اور ہزاروں لوگ ان فتنوں کے فرو کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں مگر تعجب ہے اس وقت کے فتنہ کو فرو کرنے کے لئے جس کے مقابلے میں زمانہ ماضی کے فتنے بالکل بے حقیقت ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بھی شخص نہیں بھیجا گیا.اور اگر کوئی شخص بھیجا گیا تو نعوذ باللہ من ذلک وہ ایک دجال اور مفتری انسان تھا اور پھر غضب یہ ہوا کہ اس نازک موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان پر ایسے نشان بھی ظاہر کر دئے جو مسیح موعود اور مہدی مسعود کے زمانہ کے لئے مقرر تھے.اگر یہ بات فی الواقع سچ ہو تو پھر مانا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا منشاء ہے کہ مسلمان گمراہ ہوں اور دین اسلام تباہ ہو.نعوذ باللہ من ذلک لیکن اللہ تعالیٰ کی شان سے بعید ہے کہ وہ ایسا کرے پس حق یہی ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف (سے) مامور ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کے قیام اور اس کی مضبوطی کے لئے مبعوث فرمایا ہے“.

Page 75

75 ( دعوت علماء، انوار العلوم جلد نمبر 6 صفحہ 550،549) 17..لیکن تمام برائیوں کے باوجود بھی ہم میں نبی پیدا نہیں ہوسکتا..علماء کا دعویٰ یہ بات فیضان محمد صلی یا یتیم کے خلاف ہے...جواب دعوی جماعت احمد یہ و گزشتہ نبیوں کا افاضہ ایک حد تک آکر ختم ہو گیا.اور اب وہ تو میں اور وہ مذہب مردے ہیں.مگر آنحضرت سیتا پریتم کا روحانی فیضان قیامت تک جاری ہے.اسی لئے باوجود آپ کے اس فیضان کے اس امت کے لئے ضروری نہیں کہ کوئی مسیح باہر سے آوے.بلکہ آپ کے سایہ میں پرورش پانا ایک ادنی انسان کو مسیح بنا سکتا ہے جیسا کہ اس نے اس عاجز کو بنایا.چشمه مسیحی، روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 389) عیسی کے معجزوں نے مردے جگا دیئے اور محمد کے معجزوں نے عیسی بنا دیئے 18...اس لئے کہ ہمارے نبی خاتم النبیین ہیں...علماء کا دعویٰ یہاں تو علماء امتی کا نبیاء بنی اسرائیل کی نوید ہے.جواب دعوی جماعت احمدیہ " آپ میں اور پہلے نبیوں میں یہ فرق ہے کہ انکے شاگرد تو محدثیت تک ہی پہنچ سکتے تھے اور نبوت کا مقام پانے کے لئے ان کو الگ تربیت کی ضرورت ہوتی تھی مگر آنحضرت صلی ایلام کی شاگردی میں ایک انسان نبوت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے اور پھر بھی آپ کا امتی رہتا ہے اور جس قدر بھی ترقی کرے آپ کی غلامی سے باہر نہیں جا سکتا.اس کے درجہ کی بلندی اسے امتی کہلانے سے آزاد نہیں کر دیتی بلکہ وہ اپنے درجہ کی بلندی کے مطابق آپ کے احسان کے بار کے نیچے دبتا جاتا ہے“.( دعوت الامیر ، انوار العلوم جلد 7 صفحہ (362) 19..لیکن ہمیں ایک ہادی کی شدید ضرورت ہے...علماء کا دعویٰ یہ بالکل درست بات ہے...جواب دعوی جماعت احمدیہ ”ہمارا عقیدہ ہے کہ جو نبی شریعت نہیں لاتے اور صرف پہلی شریعت کی تفسیر و تشریح کرنے کے لئے نازل ہوتے ہیں وہ ایسے زمانہ میں نازل ہوتے ہیں جب اختلافات ، روحانیت سے بعد ، خدا تعالیٰ سے دوری ، نیکی کا فقدان کلام شریعت کے صحیح معنی کرنے کی قابلیت لوگوں سے مٹا دیتا ہے...اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا نبی بھیجا جاتا ہے جو کلام الہی کی صحیح تفسیر جو اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے لوگوں تک پہنچادیتا ہے.

Page 76

76 ( جماعت احمدیہ کے عقائد، انوار العلوم جلد 8 صفحہ 51،50) 20...کیونکہ تنفیذ دین ایک نبی کے بغیر ہوہی نہیں سکتی...علماء کا دعویٰ یہ بات تو سو فیصد درست ہے...جواب دعوی جماعت احمد یہ ”ہمارا یقین ہے کہ وہ موعود شخص ظاہر ہو چکا اور ان کا نام مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہے.ہم رسول اللہ صلی اینم کی بتائی ہوئی ہدائیت اور آپ سال تھی یہی تم سے پہلے انبیاء کی پیشگوئیوں کے مطابق یقین رکھتے ہیں کہ آپ مسیح موعود تھے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اصلاح کرنی ہے.آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تکمیل اشاعت کا کام کرنا ہے اور وہ کر رہا ہے.(جماعت احمدیہ کے عقائد، انوار العلوم جلد 8 صفحہ 50 ، 51 ) 21..لیکن امت میں نبی پیدا نہیں ہوسکتا..علماء کا دعویٰ اس سے اللہ اور آپ صلی ہی تم دونوں کی قوت قدسیہ کی ہتک ہوتی ہے...جماعت احمدیہ مسیح ناصری علیہ السلام کے دوبارہ واپس آنے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر حرف آتا ہے.آنحضرت مسی یا سیستم کی قوت قدسیہ پر بھی حرف آتا ہے کیونکہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام کو ہی دوبارہ دنیا میں واپس آنا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پہلی تمام استیں جب بگڑتی تھیں تو ان کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ انہیں میں سے ایک شخص کو کھڑا کر دیتا تھا.مگر ہمارے آنحضرت صلی اسلم کی امت میں جب فساد پڑے گا تو اس کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ پہلے انبیاء میں سے ایک نبی کو واپس لائے گا.خود آپ صلی یا پیلم کی امت میں سے کوئی فرد اس کی اصلاح کی طاقت نہیں رکھے گا ( دعوت الامیر ، انوار العلوم جلد 7 صفحہ 351) پاکستان کے مشہور احمدی شاعر جناب حسن روہتاسی فرماتے ہیں فیضانِ خدا وند بھی ہوتے ہیں کبھی بند جو بند کیا حق نے اسے کھول لیا ہے نے شرک خفی بند ہے نے شرک جلی بند القصہ ہر اک قسم کی سب راہیں کھلی ہیں اک بند ہے ان پر تو فقط راہ نبی بند ان سادہ مزاجوں سے کوئی اتنا تو پوچھے فیضان خداوند بھی ہوتے ہیں کبھی بند جب آپ کو تسلیم ہے قرآن کی بدولت صدیق ہیں شہداء ہیں نہ صالح نہ ولی بند کیوں کوثر نبوی میں ہوا بند تموج جب تشنہ لبوں کی ہی نہیں تشنہ لبی بند

Page 77

77 کیوں مصطفوی فیض کو بند آپ ہیں کرتے اب تک نہیں دنیا میں گر بولہی بند کافر پہ کشادہ ہیں اگر قہر کے کوچے مومن یہ ہوئی کس لئے رحمت کی گلی بند شیطان کی گررا ہنر نی باقی ہے اب تک کس وقت ملائک کی ہوئی راہبری بند مغضوب کی ضالین کی آمد ہے مسلسل انعمت علیھم کی ہوئی کب سے لڑی بند 22، 23...ہاں آ سکتا ہے ، ضرورت بھی ہے بلکہ ضرور آئے گا مگر دوسری امت سے...علماء کا دعویٰ یہ نبی پاک سنی ایام کی صریحاً بتک ہے...جماعت احمدیہ ہم کہتے ہیں کہ باہر سے کسی آدمی کے منگوانے میں رسول کریم صلی اا اینم کی ہتک ہے جبکہ آپ سال پیہم ہیں کے شاگرد اور آپ مسلا ایلیم سے ہی سے فیض یافتہ انسان امت کی اصلاح کا کام کر سکتے ہیں تو باہر سے کسی آدمی کے لانے کی کیا ضرورت ہے ( جماعت احمدیہ کے عقائد، انوار العلوم جلد 9 صفحہ 53) 24...آخری نبی کے بعد بھی نبی آئیگا مگر مسیح ناصری...علماء کا دعویٰ یہ بات مسیح کو خاتم النبین بنادیتی ہے...جواب دعوی جماعت احمدیہ پھر یہی عماء روحانی لحاظ سے بھی مسیح ناصری علیہ السلام کو ہی خاتم تسلیم کر رہے ہیں.دیگر نبیوں کے فیض تو پہلے ہی ختم ہو چکے تھے ایک مسیح ناصری زندہ تھے مگر افسوس ان کے فیض کی راہ بند نہ ہوسکی.یہی نہیں ان کی فیض رسانی کی قوت تو پہلے سے بھی بڑھ گئی اور اس وقت جبکہ امت محمدیہ آنحضور صلی و ایم کی عظیم الشان قوت قدسیہ کے باوجود خطرناک روحانی بیماریوں میں مبتلا ہوگی...تو براہ راست آنحضور صلی ایلام کی قوت قدسیہ تو اس امت مرحومہ کو نہ بچاسکی ہاں بنی اسرائیل کے مسیحی دموں نے اسے موت کے چنگل سے نجات دلائی اور ایک نئی زندگی دی انا للہ وانا اليه راجعون..غور فرمائیے کہ کیا جسمانی اور روحانی دونوں معنوں میں حضرت عیسی کو خاتم النبین نہیں تسلیم کیا جا رہا؟ کیا یہ آنحضور صلی ا ی اتم کی گستاخی نہیں؟ محضر نامه صفحه 29 ،30 ) 25، 26...پیدا ہونے کے لحاظ سے آپ سلیم اور فوت ہونے کے لحاظ سے صحیح آخری نبی ہیں...علماء کا دعویٰ 10

Page 78

78 یہ آپ صلی یتیم کے فیضان جسمانی و روحانی دونوں کا انکار ہے...جماعت احمدیہ تمام مخالف فرقے یہ متضاد ایمان رکھتے ہیں کہ آنحضور صلی یمن نعوذ باللہ حضرت عیسی علیہ السلام کو نہ تو جسمانی لحاظ سے ختم فرما سکے نہ روحانی لحاظ سے.آپ سلایا یہلم کے ظہور کے وقت ایک ہی دوسرا نبی جسمانی لحاظ سے زندہ تھے مگر افسوس کہ وہ آپ صلی می بینم کی زندگی میں ختم نہ ہو سکا.آپ صلی علی کی یوم وفات پاگئے لیکن وہ زندہ رہا.اور اب تو وصال نبوی سی لیا مسلم پر چودہ سو برس گزرنے کو آئے لیکن ہنوز وہ اسرائیلی نبی زندہ چلا آرہا ہے...بتائے جب وہ نازل ہو کر اپنا مشن پورا کرنے کے بعد بالآخرفوت ہونگے تو ایک غیر جانبدار مؤرخ زمانی لحاظ سے کس کو آخری قرار دے گا“.28 تا 32..مسیح علیہ سلام آسمان پر جسم سمیت موجود ہیں.علماء کا دعویٰ یہ ہتک خدا ہے...جواب دعوی جماعت احمدیہ ہم ( کیسے ) اپنے خدا کی ہتک کریں؟ اور مسیحی پادریوں کو جو اسلام اور قرآن کے دشمن ہیں مدد دیں اور ان کو یہ کہنے کا موقع دیں کہ وہ جو زندہ آسمان پر بیٹھا ہے کیا وہ خدا نہیں ؟ اگر وہ انسان ہوتا تو کیوں باقی انسانوں کی طرح مر نہ جاتا.( دعوۃ الامیر، انوار العلوم جلد 7 صفحہ 339) جناب حسن روہتاسی اس صورتحال کو یوں منظوم بیان فرماتے ہیں کہاں ہیں مدعی حب محمد سامنے آئیں سمجھتے ہیں جو اپنے آپ کو باریک بینوں میں پڑا ہو آمنہ کا لال میثرب کی زمینوں میں مگر مریم کا ہو نور نظر گردوں میں نشینوں میں احمد میں جب احد ہے تو احمد احد میں ہے لاگر کوئی دلیل تری اس کے رد میں ہے بن باپ کو چڑھاتا ہے تو آسمان پر سارے جہاں کے باپ کو کہتا ہے لحد میں ہے 33.بسیج کو اللہ نے اپنے پاس اٹھا لیا..علماء کا دعویٰ یہ ہماری غیرت رسول صلی ا یتیم کے خلاف ہے...جواب دعوی جماعت احمدیہ ”ہمارے لئے یہ بات سمجھنا بالکل ناممکن ہے کہ حضرت مسیح ناصری کوزندہ آسمان پر چڑھا دیں اور محمد رسول اللہ یلم کوزیر زمین مدفون سمجھیں.اور ساتھ یہ بھی یقین رکھیں کہ آپ صلی اینم مسیح سے افضل ہیں.کس طرح ممکن ہے کہ وہ جسے اللہ تعالیٰ نے ذرہ سا خطرہ دیکھ کر آسمان پر اٹھا لیا ادنیٰ درجہ کا ہو اور وہ جس کا دور دور تک دشمنوں نے

Page 79

79 تعاقب کیا مگر خدا نے اسے ستاروں تک نہ اٹھایا.( دعوۃ الامیر، انوار العلوم جلد 7 صفحہ (341 34..مسیح علیہ السلام چوتھے آسمان پر زندہ موجود ہیں...علماء کا دعویٰ اگر کسی کو آسمان پر زندہ رہنے کا حق ہے تو وہ صرف محمد رسول اللہ صلیم ہیں...جواب دعویٰ جماعت احمدیہ میں جب یہ خیال کرتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی سیستم تو زیرزمین مدفون ہیں اور حضرت مسیح ناصری آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں تو میرے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.اگر کوئی شخص زندہ رہے اور آسمان پر جا بیٹھنے کا مستحق تھا تو وہ ہمارے نبی کریم سی ای ایام تھے اگر وہ فوت ہو گئے تو کل نبی فوت ہو گئے ( دعوۃ الامیر ، انوار العلوم جلد 7 صفحہ (341) 35.مسیح" 2000 سال سے بغیر کھائے بیٹے زندہ ہیں...علماء کا دعویٰ خدا را پادریوں کی مدد نہ کریں...جواب دعوی جماعت احمدیہ ہمیں کفر کے خطاب نہایت بھلے معلوم ہوتے ہیں بنسبت اس کے کہ.....خدا کے برابر مسیح ناصری " کو درجہ دیں اور یہ خیال کریں جس طرح وہ آسمانوں پر بلا کھانے اور پینے کے زندہ ہے مسیح ناصری بھی بلا حوائج انسانی کو پورا کرنے کے آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں“.42،41..مسیح جنگل جا کر سور ماریں گے اور صلیبیں توڑیں گے...دعویٰ علمائے کرام سور بے حیائی کا سمبل ہے اور صلیب عیسائیت کا...جواب دعوی جماعت احمدیہ ایک مرسل کی شان سے بعید ہے کہ وہ محض ایک لکڑی کو توڑنے کے لئے مبعوث کیا جاوے.کیا صلیب کی لکڑی توڑے جانے سے میسیج پرستی مٹ سکتی ہے یا اس سے ساری دنیا کی لکڑی ختم ہو جائے گی.صلیب صرف اسی صورت میں مٹ سکتی ہے کہ مسیحی لوگوں کے دلوں کو فتح کر کے صلیبی مذہب تو ڑ دیا جائے.“ تبلیغ ہدایت صفحہ 131 )

Page 80

80 00 45 تا 63...یا جوج و ماجوج اور دجال اپنے گدھے پر سوار بعینہ ایک دن ظہور کریں گے کچھ علماء کا دعوی یہ سب جھوٹی احادیث اور افسانے ہیں...دوسرے علمائے کرام کا دعویٰ یہ سب درست احادیث مبارکہ ہیں جو مکاشفات رسول پاک ملایا کہ تم پر مبنی زبر دست پیشگوئیاں ہیں...جماعت احمدیہ حمد و جال دجال کے معنی یہ بنے کہ ایک کثیر تعداد جماعت جو تاجر پیشہ ہو اور اپنا تجارتی سامان دنیا میں لئے پھرے.جونہائیت مالدار ہو اور جو تمام دنیا کو اپنی سیر و سیاحت سے قطع کر رہی ہو.اور مذ ہبا ایک نہائیت ہی جھوٹے عقیدہ پر قائم ہوا ور یہ تمام علامات مغربی اقوام کی مسیحی اقوام کے مذہبی راہنماؤں میں موجود ہیں.“ اثر دجال تبلیغ ہدایت صفحه (102) ان احادیث میں دجالی اقوام کی حیرت انگیز ایجادات کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ ایسی تیز رفتار سواریاں ایجاد کریں گی جن میں لائٹس لگی ہونگی.جن پر بیٹھنے کے لئے نشستیں ہونگی.وہ سواریاں زمین پر بھی چلیں گی یعنی ریل گاڑیاں اور موٹریں وغیرہ اور فضا میں بھی اڑیں گی یعنی ہوائی جہاز اور سمندر میں بھی چلیں گی یعنی بحری جہاز.اور گدھے کے دوکانوں کے درمیان فاصلے سے مراد یہ کہ یہ تو میں ایسی ایجادات کریں گی جس سے پیغام رسانی کا کام بہت ہی کم وقت میں سرانجام دیا جا سکے گا جیسے ٹیلی فون، انٹر کام اور پیغام رسانی کی یہ تمام سہولتیں دجال کی ایجاد کردہ سواریوں میں بھی موجود ہوگی اور عملاً ایسا ہو رہا ہے“.ہی انکا یک چشم ہونا ان کی مادیت ہے جس نے ان کے دین کی آنکھ کو بند کر رکھا ہے.آنکھوں کے درمیان کا فرلکھا ہونے سے ان کا بدیہی البطلان الوہیت مسیح کا عقیدہ مراد ہے جسے ہر سچا مومن خواہ وہ خواندہ ہو یا نا خواندہ پڑھ سکتا ہے“.میدان کا زمین آسمان میں تصرفات کرنا خزانے نکالنا اور زندہ کرنا اور مارنا وغیرہ ان کے علوم جدیدہ اور سائنس وغیرہ کی طاقتوں اور سیاسی غلبہ کی طرف مجازی طور پر اشارہ ہے.ورنہ از روئے حقیقت تو یہ سب امور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور انکو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا کفر ہے“.

Page 81

81 یو’دجال کے ساتھ جنت دوزخ کا ہونا یہ ہے کہ جو شخص ان کے ساتھ ہو جاتا ہے اور ان کی بات مانتا ہے اور ان کے مذہب کو اختیار کرتا ہے وہ ظاہر ا ایک جنت میں داخل ہو جاتا ہے گو دراصل وہ دوزخ ہوتا ہے اور جو شخص ان کے بدخیالات سے الگ رہتا ہے اس کو ظاہر ا ایک دوزخ برداشت کرنا پڑتا ہے گو وہ دراصل جنت ہوتی ہے“.گدھے کے کانوں کے درمیانی فاصلے سے مرادریل کے ڈرائیور اور گارڈ ہیں جو ریل کے انتہائی کناروں پر متعین ہوتے ہیں“ تبلیغ ہدایت جی 103 ) یا جوج ماجوج سے مرا دروس، انگریز اور ان کی اتحادی حکومتیں ہیں کیونکہ قرآن وحدیث میں دجال اور یا جوج و ماجوج دونوں کے غلبہ کا ایک ہی زمانہ میں ذکر ملتا ہے.دراصل دجال اور یا جوج ماجوج ایک ہی قوم کے دو نام ہیں.مغربی عیسائی قوموں کے مذہبی راہنماؤں کو دجال کا نام دیا گیا ہے اور ان ہی کا سیاسی وقومی نام یا جوج و ماجوج ہے.تبلیغ ہدایت، ص 108) آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے اس سے مراد ہے کہ یا جوج ماجوج قو میں آگ سے کام لیکر علم ہیت اور خلائی تحقیق میں بہت ترقی کریں گی اور جدید قسم کی خلائی گاڑیاں اور میزائیل وغیرہ ایجاد کر کے مختلف سیاروں پر پہنچیں گی.خلاصه تبلیغ ہدایت ص 107 تا 109

Page 82

82 ” جماعت احمدیہ کے بنیادی عقائد جماعت احمدیہ کا مذہب ،، ”ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لا الہ الا لله محمد مرسول اللہ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سید نا ومولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین وخیرالمرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ ،، نعمت بمرتبہ اتمام کو پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے.جماعت احمدیہ کا کلمہ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 169 ، 170 ) میں عامۃ الناس پر ظاہر کرتا ہوں کہ مجھے اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ میں کا فرنہیں لا اله الا الله محمد مرسول اللہ میرا عقیدہ ہے اور لكن مرسول اللہ وخاتم النبيين پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت میرا ایمان ہے میں اپنے اس بیان کی صحت پر اس قدر قسمیں کھاتا ہوں جس قدر خدا تعالیٰ کے پاک نام ہیں اور جس قدر قرآن کریم کے حروف ہیں.جماعت احمدیہ کا نبی کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد 7 صفحه 67) نوع انسان کے لیے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لیے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم.سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو.اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ“.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 14 ، 13 ) جماعت احمدیہ کے نزدیک نبی پاک سمایی ایتم کی بلندشان وہ اعلی درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملایک میں نہیں تھا نجوم میں نہیں تھا قمر میں نہیں

Page 83

83 تھا آفتاب میں بھی نہیں تھا وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ پھل اور یا قوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولی سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.( آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد 5 صفحه 160 161 ) جماعت احمدیہ کا اپنے نبی صلی یتیم سے عشق محمد پر ہماری جان فدا ہے کہ وہ کوئے صنم کا رہنما ہے میرا دل اس نے روشن کردیا ہے اندھیرے گھر کا میرے وہ دیا ہے میرا ہر ذرہ ہو قربان احمد میرے دل کا یہی اک مدعا ہے مجھے اس بات پر ہے فخر محمود میرا معشوق محبوب خدا ہے (کلام محمود صفحه 20) جماعت احمدیہ کے نزدیک نجات کس کو ملے گی نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اُس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے اور کسی کے لیے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لیے زندہ ہے“.جماعت احمدیہ کی شریعت کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحه 14 جمال وحسن قرآن نور جہاں ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآن ہے نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے جماعت احمدیہ کے مذہب اسلام کی بلندشان ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکا یا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلائے یہ شمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے مصطفیٰ پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت اُس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے (در ثمین) (در ثمین)

Page 84

84 جماعت احمدیہ کا اپنے دین کو پھیلانے کا شوق غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا پڑے ہمیں اغیار کا بھی بوجھ اٹھانا پڑے ہمیں اس زندگی سے موت ہی بہتر ہے اے خدا جس میں کہ تیرا نام چھپانا پڑے ہمیں پھیلائیں گے صداقت اسلام کچھ بھی ہو جائیں گے ہم جہاں پہ بھی کہ جانا پڑے ہمیں محمود کر کے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار روئے زمین کو خواہ ہلانا پڑے ہمیں جماعت احمدیہ کی دعا بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے حاصل ہو تم کو دید کی لذت خدا کرے حاکم رہے دلوں پر شریعت خدا کرے حاصل ہو مصطفیٰ کی رفاقت خدا کرے پھیلا ؤ سب جہاں میں قول رسول کو حاصل ہو شرق و غرب میں سطوت خدا کرے ہر گام پر فرشتوں کا لشکر ہو ساتھ ساتھ ہر ملک میں تمہاری حفاظت خدا کرے قائم ہو پھر سے حکم محمد جہان میں ضائع نہ ہو تمہاری یہ محنت خدا کرے تم ہوخداکےساتھ خدا ہو تمہارے ساتھ ہوں تم سے ایسے وقت میں رخصت خدا کرے جماعت کو کافرودجال کہنے والوں کے متعلق جماعت کا اظہار خیال ربط ہے جان محمد سے میری جان کو مدام دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے کافر و ملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے جماعت احمدیہ کا کفر بعد از خدا بعشق محمد مخمر گر کفر این بود بخدا سخت کافرم جماعت احمدیہ کا مخالف فرقوں کے بارے نظریہ اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار کآخر کنند دعوئے حبّ پیمبرم (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 4 صفحه (182

Page 85

جماعت احمدیہ کی خواہش 85 جانم فدا شود بره دین مصطفی این است کام دل گر آید میسرم جماعت احمدیہ کی ترقیات کا پر سرار راز (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ (182) ایں چشمہ رواں کہ بخلق خدا دهم یک قطره زبحر کمال محمد است

Page 86

86 باب نمبر 2 عقیده حیات مسیح کی کرشمہ سازیاں اور میری مشکلات

Page 87

87 کیا میں پادری صاحب کی بات مان لوب؟ اونچے اونچے چیڑھ کے درختوں میں چھپی ٹاؤن ہال ایبٹ آباد کی لائبریری میں اس وقت شدید ٹھنڈ کا احساس ہو رہا تھا اور پھر عین اس لمحے مین دروازے کے پاس سے چوکیدار کی بھاری بھر کم آواز گونجنے لگی جو ہر روز کی طرح یہ اعلان تھا کہ وقت ختم ہو گیا ہے اور شام بھی ڈھل گئی ہے.مجھے لائبریری کا دروازہ بند ہونے سے پہلے پہلے باہر نکلنا تھا اسی لئے تمام نوٹس کو جلدی جلدی بیگ میں ٹھونسنا شروع ہو گیا.یوں آج چار سال کی طویل مسافت کا تھکا دینے والا سفر اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا.گھر پہنچنے سے پہلے مجھے اپنے سود و زیاں کا حساب بھی کرنا تھا.میں جو ایک ملزم نمازی کے پیچھے نکلا تھا اور جانے کہاں کہاں اور کتنی لائبریریوں سے گزر گیا مجھے آج ایک احمدی اور غیر احمدی کے درمیان حائل اخلاقی ، روحانی اور معاشرتی بعد کے نقطہ آغاز کو پکڑنا تھا.لائبریری سے باہر نکل کر میں گھر جانے کی بجائے کیہال کے پہاڑی نالے کے ساتھ ساتھ ہو لیا.جھرنوں کے اس صاف شفاف پانی کو دیکھ کر دل بے اختیار وضو کے لئے بے چین ہو گیا اور یوں میں اس ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے وضو کر کے مغرب کی نماز کے لئے اپنے مولا کے حضور سربسجودد ہو گیا.نماز سے فارغ ہوا تو ایسے لگا جیسے وہ سینکڑوں، آندھیاں، بے تابیاں، بے یقینیاں سب ختم ہو چکیں تھیں.چار سال کے سفر کا خلاصہ کتنا مختصر ، آسان اور سادہ سی بات لگنے لگا تھا.تمام امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ شریعت مکمل ہو گئی جس میں کسی تبدیلی کی کوئی صورت یا گنجائش نہیں.البتہ آخری زمانے میں امت شریعت پر عمل

Page 88

88 چھوڑ دے گی اور تربیتی لحاظ سے یہود ونصاری جیسے کام شروع کر دے گی.ایسے میں ان کی اصلاح کے لئے ایک مصلح تشریف لائیں گے.یعنی حضرت عیسی علیہ السلام.یہاں تک دونوں کا اتفاق ہے.اختلافی نقطہ صرف یہ ہے کہ آیا وہ حضرت عیسی علیہ السلام جو بنی اسرائیل کے لئے انجیل لیکر آئے تھے وہی دوبارہ آئیں گے یا کسی امتی کو تشبیہی لحاظ سے ان کا نام اور مقام دیا جائے گا.جماعت احمدیہ کا دعوی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام جو بنی اسرائیل کے لئے مبعوث ہوئے وہ ایک خاص قوم اور ایک خاص شریعت کے ساتھ ایک خاص وقت کے لئے ظہور پذیر ہوئے.اور پھر اپنا مشن اور اپنی طبعی عمر پوری کر کے فوت ہو چکے ہیں اور نزول مسیح کی پیشگوئی ایک امتی پر پوری ہوگی.جبکہ غیر احمدی کہتے ہیں امتی والی بات کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام بذات خود آسمان پر زندہ موجود ہیں اور وہی خود آسمان سے اتر کر اصلاح امت مسلمہ کا کام کریں گے.یوں جماعت احمدیہ، اور تحفظ ختم نبوت کی تحاریک کی 129 سالہ لڑائی وفات مسیح یا حیات مسیح ، صعود علی السماء یا کشمیر کی طرف ہجرت، آسمان سے فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے مسیح علیہ السلام کی واپسی یا مثیل مسیح کی پیدائش ، بندش نبوت یا فیضان نبوت.اسی طرح سے آمد امام مہدی علیہ السلام، مسیح دجال، قتل خنزیر، کسر صلیب، یا جوج ماجوج کا نادجال اور خرد جال، جیسے مضامین اور ان کی تفاسیر سے مزین و معنون ہے.یوں ایک صدی پر پھیلی ، اس لڑائی میں مندرجہ ذیل نعروں کی بازگشت بار بارسنائی دیتی ہے.امت مسلمہ بگڑ جائے گی...امت بگڑ چکی ہے....اک مصلح کی ضرورت ہے....اک مصلح ضرور آنا چاہیے صرف آنا نہیں چاہیے بلکہ قرآن وحدیث کے مطابق وہ ضرور آئے گا.اسے اللہ اس کو جلد بھیج.موعود مصلح آسمان سے لٹکتا ہوا اترے گا...موعود مصلح امت میں پیدا ہوگا نہیں ، امت مسلمہ کا مصلح بنی اسرائیل سے آئیگا نہیں، امت مسلمہ کا مصلح امت میں ہی پیدا ہو گا بلکہ پیدا ہو چکا اور جماعت احمد یہ اسی کی جماعت ہے.ہمیں مصلح کی ضرورت تو ہے نہیں ہمیں کسی کی ضرورت ہی نہیں نہیں ہمیں ضرورت ہے نہیں، جو صلح ہونے کا دعویٰ کرے گا وہ کا فر ہے دائرہ اسلام سے خارج اور جیل جائے گا.دوستو یوں میرے لیے سوال یہ بن گیا کہ امت مسلمہ کے بگڑنے پر ان کی اصلاح بذریعہ اسرائیلی مسیح علیہ السلام ہوگی یا محمدی مسیح علیہ السلام؟ اسرائیلی مسیح علیہ السلام کو زندگی کیسے ملے گی؟ آسمان کیا ہوتا ہے اور اس میں زندہ رہنا اور پھر کیسے واپسی ہوگی؟ ان سب کے درمیان میں ختم نبوت کی مختلف تفاسیر کی دیوار کیسے قائم رہے گی؟

Page 89

89 مسیح علیہ السلام کو مقام نبوت سے معزول کرنے یا منسوب کرنے کی کہانی کیسے سلجھے گی؟ مسیح علیہ السلام کس شریعت کے مطابق کام کریں گے؟ اور پرانی شریعت سے معزول کیسے ہونگے ؟ اور نئی سے بہرہ مند کیسے ہونگے؟ وہ جنت دوزخ کیسی ہوگی جو دجال لیے پھر رہا ہو گا ؟ وہ دجال کا گدھا کتنا بڑا ہوگا جو سمندر میں داخل ہوگا تو پانی اس کے گھٹنے گھٹنے آئے گا ؟ سینکڑوں ہزاروں فرقے ، اور لاکھوں ان کے تضادات کا حل آخر کیسے ہوگا ؟ اسی پس منظر اور اس میں ابھرنے والے رنگوں کے ساتھ میں نے اپنے تحقیقی سفر کا آغاز کیا.عقیدہ حیات مسیح عقیدہ حیات مسیح کی اہمیت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نزدیک حضرت عیسی" کے آسمان سے نازل ہونے کا عقیدہ نماز روزہ حج اور زکوۃ کی طرح متواتر اور قطعی ہے اس لیے اس کے منکر کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا ہے“.عقیدہ حیات مسیح کے منکر کی سزا (تعلیم القرآن نومبر 1966 ، صفحہ 21) ایسے شخص سے قرآن وسنت کے دلائل واضح کرنے کے بعد تو بہ کا مطالبہ کر نا ضروری ہے اگر وہ تو بہ کر لے تو بہتر ہے ورنہ اُسے کفر کی حالت میں قتل کر دیا جائے“.کفر اور قتل کی وادیوں تک لے جانے والا مسئلہ کتنا بنیادی ہوگا اور قرآن وسنت اور ایمانیات میں اس کی اہمیت کتنی واضح ہوگی اس پس منظر کے ساتھ جو میں نے اپنا سفر شروع کیا تو مجھے کتنی اور کیا کیا مشکلات پیش آئمیں ایک جھلک پیش ہے.مشکل نمبر 1

Page 90

90 ایک سرتا پیر بے حقیقت کہانی کسی صحیح حدیث تو کیا کسی وضعی حدیث میں بھی مسیح کے آسمان پر جانے کا ذکر دکھا دو تو 20000 روپے انعام لو...سو سال سے جماعت احمدیہ کا چیلنج د کسی حدیث مرفوع متصل میں آسمان کا لفظ پایا نہیں جاتا اور نزول کا لفظ محاورات عرب میں مسافر کے لئے آتا ہے اور نزیل مسافر کو کہتے ہیں.اگر اسلام کے تمام فرقوں کی حدیث کی کتابیں تلاش کرو تو صحیح حدیث تو کیا کوئی وضعی حدیث بھی ایسی نہیں پاؤ گے جس میں یہ لکھا ہو کہ حضرت عیسی جسم عصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے اور پھر کسی زمانہ میں زمین کی طرف واپس آئیں گے اگر کوئی ایسی حدیث پیش کرے تو ہم ایسے شخص کو بیس ہزار روپیہ تک تاوان دے سکتے ہیں اور تو بہ کرنا اور اپنی تمام کتابوں کا جلاس کے علاوہ ہو گا“.(کتاب البریه، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 225-226 حاشیہ ) آسمان والی حدیث تو موجود نہیں البتہ ایک بےہودگی پیش ہے...انورشاہ کشمیری صاحب کا جواب مشہور دیوبندی مولوی محمد عبد الرحمن مظاہری صاحب اپنے استاد مولوی انور شاہ کشمیری دیوبندی کے کسی نامعلوم احمدی سے مناظرے کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وو ( گالیوں کے بعد ) مرزا غلام احمد قادیانی کا یہ عقیدہ تھا کہ سید نا حضرت عیسی علیہ السلام زمین ہی پر وفات پائے ہیں آسمان پر نہیں اٹھائے گئے.اس قادیانی مناظر نے یہی دعوی دہرا دیا.علامہ انور شاہ کشمیری نے اس کا جواب اس طرح دیا کہ سیدنا حضرت عیسی علیہ السلام زندہ حالت میں جسم وروح کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور وہ آج بھی دنیاوی زندگی کے ساتھ آسمان پر باحیات ہیں.اس جواب پر قادیانی مناظر نے علامہ سے سوال کیا جب وہ زندہ حالت میں دنیا وی جسم ورورح کے ساتھ موجود ہیں تو ان کے دنیاوی جسم کے لئے دنیا وی غذاو پانی کی ضرورت ہوگی ؟ آسمانی غذا کافی نہیں.علامہ انورشاہ صاحب نے جواب دیا بے شک انہیں دنیا وی غذا پانی کی ہی ضرورت ہے اور وہ ہر روز صبح و شام اللہ کے فرشتے انہیں زمین سے فراہم کرتے ہیں.قادیانی مناظر نے پھر وہی سوال کیا جب وہ دنیا وی غذ او پانی استعمال کرتے ہیں تو انھیں پیشاپ و پاخانہ کی بھی ضرورت پیش آتی ہو گی.علامہ نے جواب دیا بے شک.انہیں دنیا وی غذا کے

Page 91

91 تقاضے ضرور پیدا ہوتے ہوں گے.قادیانی مناظر نے پھر سوال کیا تو سیدنا عیسی علیہ السلام کا پیشاب پاخانہ جنت جیسی مقدس سرزمین پر کیسے گر سکتا ہے؟ جبکہ جنت نجاست سے پاک ہے.آخر وہ نجاست کہاں جاتی ہے؟ اس موقعہ پر علامہ انورشاہ کی ایمانی حرارت ابل پڑی برجستہ اپنا پستول قادیانی مناظر کے ہاتھ میں تھمادیا اور بلند آواز سے کہا فیصلہ آج ہو گیا ہے.یہ گفتگو شہر قادیان (لاہور) ہی میں ہو رہی تھی چلو مرزا قادیانی کی قبر کھولو.سید نا عیسی کا پیشاب وہیں گر رہا ہے....لا اله الا اللہ 66 جلسہ میں شور وپکار، قیامت خیز ہیجان پیدا ہو گیا.سارا مجمع غلام احمد قادیانی کی قبر کی طرف دوڑ پڑا.قادیانی مناظر اور اس کے چیلے چانٹے ایسے غائب ہو گئے جیسے گدھے کے سینگ.“ اعلیٰ حضرت احمد رضا خان حیات اور علمی کارنامے مصنفہ مولانامحمد عبد الرحمن مظاہری صفحہ 43،42 ناشر ربانی بک ڈپو کٹرہ شیخ چاند لال کنواں دیلی نمبر 6) قادیان ( لاہور ) یہ کون سا شہر ہے؟ قادیان اور لاہور کا فاصلہ کتنے کلو میٹر ہے؟ مناظر کون تھا ؟ کس تاریخ کو یہ مناظرہ ہوا؟ کس نے کروایا؟ کس کتاب میں کوئی ذکر کوئی حوالہ اور دیگر تمام سوالات چھوڑ بھی دیئے جائیں تو بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ حدیث کا جواب بے ہودگی.آخر کیوں ؟ دیوبندی حضرات مولوی انور شاہ کشمیری صاحب کو محدث العصر، شیخ الحدیث، فقیہ الزمان اور دیگر بہت سے القابات سے یاد کرتے ہیں اگر ان کا اس سوال پر یہ حال ہے تو باقی مولویوں کا کیا حال ہو گا ؟ جماعت احمدیہ کا سوال بہت سادہ اور بنیادی تھا مگر میں حیران رہ گیا کہ اس سادہ اور بنیادی سوال کا جواب بھی آج تک کوئی عالم دین پیش نہیں کر سکا اور اس چیلنج کو قبول کر کے قرآن اور حدیث میں آسمان کا لفظ نہیں دکھا سکا اور یہی بات میری پہلی مشکل بن گئی.رنگارنگ قصے مشکل نمبر 2 میری دوسری مشکل مسیح" کو آسمان پر اٹھائے جانے والے واقعہ کی جزئیات و تفصیلات ہیں.اتنے اہم اور بنیادی عقیدے میں ہر عالم دین کی معلومات اور تفسیر ایک دوسرے سے کتنی مختلف ہے.1 مسیح آسمان پر اور رومی سپاہی کی شکل میرے جیسی بن گئی چنانچہ اسے قتل کر دیا گیا.مولانا شیخ محمود الحسن اور جناب شبیر عثمانی والا کسی قرآن مجید سامنے ہے فرماتے ہیں:

Page 92

92 ” جب یہودیوں نے حضرت مسیح کے قتل کا عزم کیا تو پہلے ایک آدمی ان کے گھر میں داخل ہوا.حق تعالی نے ان کو تو آسمان پر اٹھالیا اور اس شخص کی صورت حضرت مسیح کی صورت کے مشابہہ کر دی جب باقی لوگ گھر میں گھس آئے تو اس کو مسیح سمجھ کر قتل کر دیا.( زير آيت ولكن شبه لهم سورة النساء شائع کردہ پاک قرآن پبلشرز پوسٹ بکس 561 ، ریلوے روڈ ، لاہور، صفحہ 132) 2.رومی سپاہی کو نہیں بلکہ ایک یہودی کو شکل دی گئی اور اسے مصلوب کیا گیا.تفسیر ماجدی کے مطابق او پر درج کہانی غلط ہے اصل میں یہ واقعہ یوں ہوا تھا: جیل کے رومی سپاہیوں کے لیے سب یہودی اجنبی ہی تھے انہیں ایک اسرائیلی (یسوع مسیح ناصری ) اور دوسرے اسرائیلی ( شمون کرینی ) کے درمیان کوئی نمایاں فرق ہی نہیں نظر آ سکتا تھا.شمعون نے یقین واویلا مچایا ہوگا لیکن ادھر مجمع کا شور ہنگامہ ادھر جیل کے سپاہیوں کی اسرائیلوں کی زبان سے ناواقفیت اور پھر سولی پر لٹکا دینے کی جلدی اسی افراتفری کے عالم میں اسی شمعون کو پکڑ کر سولی پر چڑھا دیا گیا اور وہ چیختا چلاتا رہا.حضرت مسیح قدر تا اسی ہر بونگ میں دشمنوں کے ہاتھوں سے رہا ہو گئے.( شائع کردہ تاج کمپنی صفحہ 228) 3.نہ معلوم وہ کون شخص تھا جسے پھانسی دی گئی اور نہ معلوم اسے کیوں پھانسی دے دی گئی.مولا نامودودی صاحب کے مطابق او پر والی دونوں تفاسیر من گھڑت ہیں اصل بات یہ ہے کہ: پیلاطوس کی عدالت میں تو پیشی آپ ہی کی ہوئی مگر جب وہ سزائے موت کا فیصلہ سنا چکا تب اللہ تعالیٰ نے کسی وقت آنجناب کو اٹھا لیا بعد میں یہودیوں نے جس شخص کو صلیب پر چڑھایا وہ آپ کی ذات مقدس نہ تھی بلکہ کوئی اور شخص جس کو نہ معلوم کسی وجہ سے ان لوگوں نے عیسی بن مریم سمجھ لیا.(تفہیم القرآن جلد 1 صفحه 419) 4.اللہ تعالیٰ حضرت عیسی علیہ السلام کو وفات دے کر پھر ان کی نعش آسمان پر اٹھا لے گیا اور سزا کے طور پر یہودا اسکر یوٹی کی شکل مسیح جیسی بنادی جسے یہود نے پھانسی دے دی...مولانا جاوید الغامدی مولا نا جاوید الغامدی اس دور میں روشن خیال عالم دین اور جدید علوم سے بہرہ ور ہونے کے دعویدار گنے جاتے ہیں.دوسرے علماء کے برعکس ننگے سر ہر ٹی وی پروگرام میں مذہب سمجھا رہے ہوتے ہیں.آپ کو قرآن وحدیث میں کہیں بھی مسیح علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے کا ذکر تو نہیں ملتا لیکن آپ جماعت احمدیہ کے مؤقف کو بھی درست نہیں ماننا چاہتے.پھر آپ نے اس کا حل کیا نکالا ہے؟ آئیے سنتے ہیں انہی کی زبانی.

Page 93

93 پہلی بات تو یہ کہ ان کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کی کوئی صراحت قرآن مجید میں موجود نہیں.بلکہ جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہ اس سے انکار کرتے ہیں.یہ وہی الفاظ ہیں جو کسی بھی شخص کی وفات کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں.قرآن مجید نے پوری بات کی ہے اور کہا ہے کہ انی متوفيك و رافعك الى ميں تجھے وفات دوں گا.پھر اپنی طرف اٹھا لے جاؤں گا.اب ظاہر ہے کہ وفات کے بعد اپنی طرف اٹھا لے جاؤں گا کے الفاظ ان کے جسم کے لئے ہی ہو سکتے ہیں.اور یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے کیونکہ یہود نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ان کی توہین کریں گے تو بظاہر جو بائیبل سے معلوم ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ جب یہودا اسکر یوطی نے ان کی نشان دہی کی کہ وہ کوہ زیتون میں کہاں بیٹھے ہوئے ہیں اس وقت ان کو پکڑنے کے لئے ایک ہجوم حملہ آور ہوا.اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو یہ سزا دی سیدنا مسیح علیہ السلام کو فرشتے لے گئے لیکن اس کی شبیہ بالکل سیدنا مسیح علیہ السلام کی سی ہو گئی.اسی کو قرآن بیان کرتا ہے ولکن شبه لهم ان کو تو یہی خیال ہوا کہ انہوں نے معاذ اللہ حضرت مسیح علیہ السلام کو پھانسی چڑھایا ہے لیکن قرآن نے اعلان کیا کہ ما قتلوه وما صلبوہ نہ انہوں نے ان کو قتل کیا نہ صلیب دی.تو اس وجہ سے جب قرآن نے متوفيك كے بعد جب یہ الفاظ استعمال کئے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عام قانون کے مطابق کسی اور کو تو ہاتھ نہیں لگانے دیئے گئے لیکن اللہ کے فرشتوں نے ان کو وفات دی اور اس کے بعد ان کو اٹھالے گئے.اب فرض کر لیجئے کوئی شخص اس بات کو ایسے نہیں مانتا تو تب بھی یہ بات بالکل واضح ہے کہ جس بات کو وہ مان رہا ہے کہ زندہ اٹھالئے گئے اس کے لئے بھی قرآن میں کوئی صراحت موجود نہیں.خالی ہے قرآن اس سے.موجود ہی نہیں ہے.اچھا بالکل یہی معاملہ ہے حدیث کا.کوئی حدیث ایسی نہیں ہے جس میں کوئی اس طرح کی صراحت ہو یعنی رسول اللہ نے یہ بات بیان فرمائی ہو.حدیث کے پورے ذخیرے کو دیکھ لیجئے اس میں کوئی ایسی بات نہیں“ یہ تقریر you tube پر ویڈیو کی شکل میں dr israr/javeed al ghamadi کے نام سے موجود ہے ) یقینا جب قرآن وحدیث جیسے مآخذ اسلام میں جس واقعہ کا ذکر نہ ہو تو اس کی تفاصیل میں وہی کچھ ہو گا جو مذکورہ واقعہ میں ہورہا ہے.ہر کوئی اپنی طرف سے اپنی مرضی سے نئی تفصیل روایت کر رہا ہے اور یہی جانکاری میری دوسری مشکل بن گئی.میں نہ مانوں مشکل نمبر 3 قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں زندہ جسم سمیت آسمانوں پر جانے کا تو ذکر نہیں مگر قرآن مجید کے ایک لفظ

Page 94

94 سے اٹھائے جانے کا ذکر نکل سکتا ہے جیسے آپ کے لئے تو فی کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب پورا پورا لے لیا یعنی " آسمان پر اٹھا لیا، یعنی ”وفات دینا نہیں ہے“ میں نے قرآن مجید اور احادیث سے اس لفظ کو ڈھونڈا تو اس کا استعمال اور اسکی تفسیر ایک انوکھا سوال بن کر میرے سامنے آگئی.ایک انوکھا سوال جو مجھ سے حل نہ ہوسکا حضرت مسیح کی نسبت 2 دفعہ تو فی کا لفظ استعمال کیا گیا.ا یہ لفظ ہمارے نبی اکرم صلی الہی ایم کے حق میں بھی قرآن کریم میں آیا ہے.ایسا ہی حضرت یوسف کی دعا میں یہی لفظ استعمال ہوا ہے.آنحضور میلیا ایم کے ملفوظات مبارکہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ جب کوئی صحابہ یا آپ کے عزیزوں میں سے فوت ہوتا تو آپ تو فی کے لفظ سے ہی اس کی وفات ظاہر کرتے.جب آنجناب سالی اسلام نے وفات پائی تو صحابہ نے بھی توفی کے لفظ سے ہی آپ کی وفات ظاہر کی.اسی طرح حضرت ابوبکر کی وفات حضرت عمر کی وفات غرض تمام صحابہ کی وفات توفی کے لفظ سے ہی تقریر تحریر بیان ہوئی.ی پھر مسلمانوں کی وفات کے لئے یہ لفظ ایک عزت قرار پا گیا.احادیث مبارکہ میں 346 مرتبہ یہ لفظ آپ صلی لا الہ سلم ، صحابہ کرام ، ازواج مطہرات اور اولاد نبی اک ملایم کیو ایم کے لئے استعمال ہوا ہے.قرآن مجید میں 23 دفعہ یہ لفظ استعمال ہوا.تو پھر جب یہی لفظ مسیح پر وارد ہوا تو کیوں اس کے معنی وفات نہیں لئے جاتے بلکہ آسمان پر زندہ جسم سمیت اٹھالئے جانے پر اصرار کیا جاتا ہے؟ یہ غیر مساویانہ سلوک کیوں ؟ جحت رسول صلی لا الہ سلم کے دعوی کے ساتھ ساتھ یہ نا جائز اصرار کیوں؟ اور یوں یہی نہ سمجھ میں آنے والا اسرار میری تیسری مشکل بن گئی.مشکل نمبر 4 ایک ناقابل تردید حقیقت کا بچگانہ جواب

Page 95

95 قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یعنی انی متوفیک و رافعل الی کہ عیسی میں تجھے وفات دوں گا اور تیرے درجات اپنے حضور بلند کروں گا.میری چوتھی مشکل عربی کا ایک مسلمہ ناقابل تردید قاعدہ ہے جو چیلنج کی شکل میں جماعت احمدیہ 100 سال سے زائد عرصہ سے شائع کر رہی ہے جس کا جواب کبھی کسی سے نہیں بن سکا آئیے وہ قاعدہ بھی دیکھیں اور اس قاعدے کو توڑنے کی جو کوشش کی گئی اس کو بھی دیکھتے ہیں: اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا اشعار وقصائد ونظم و نثر قدیم وجدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو.....اور باب تفعل سے ہو.سوائے قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنوں پر بھی اطلاق پا گیا ہے ( ماسوائے نیند یا رات کا قرینہ ساتھ ہو تو معنی نیند ہو گا تو ایسے شخص کے لیے 1000 روپیہ انعام“.ملحض ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 603 ) ایک احمدی شاعر اس کو منظوم انداز سے یوں بیان کرتا ہے: احمد صلی ا یلم میں جب احد ہے تو احمد احد میں ہے لاگر کوئی دلیل تری اس کے رد میں ہے بن باپ کو چڑھاتا ہے تو آسمان پر سارے جہاں کے باپ کو کہتا ہے لحد میں ہے اس کے باوجود بھی اصرار ہے کہ نہیں مسیح کے لیے استعمال ہو تو معنی وفات نہیں ہوتے.جناب مودودی صاحب نے مندرجہ بالا چیلنج کوقبول کر کے جو شاندار جواب دیا ہے وہ بھی سنہری لفظوں سے لکھنے کے قابل ہے آپ فرماتے ہیں: دو بعض لوگ جن کو مسیح کی طبعی موت کا حکم لگانے پر اصرار ہے سوال کرتے ہیں کہ توفی کا لفظ قبض روح و جسم پر استعمال ہونے کی کوئی اور نظیر بھی ہے؟ لیکن جبکہ قبض روح و جسم کا واقعہ تمام نوع انسانی کی تاریخ میں پیش ہی ایک مرتبہ آیا ہو تو اس معنی پر اس لفظ کی نظیر پوچھنا محض ایک بے معنی بات ہے“.تفہیم القرآن جلد اول حاشیہ نمبر 195 صفحه 412 آخری پیراگراف) یقینا اس چیلنج کا جواب میری مشکل کو کم کرنے کی بجائے کہیں بڑھا گیا ہے.مشکل نمبر 5 نئے علوم کا تازیانہ اورسینکڑوں گروپ

Page 96

96 دیا ہے.ہزاروں نئے علوم اور تحقیقی جستجو نے حیات مسیح کے عقیدے کو جڑھ سے اکھیڑ کر ایک فرضی قصہ میں بدل کر رکھ NASA جیسے تحقیقی ادارے کی مسیح کے کفن پر سائنٹفک تحقیق.بحیرہ مردار کے کنارے سے برآمد ہونے والے تاریخی کتبے اور سکرولز.تبت کے شہر لیہ ، ہمس اور لداخ سے برآمد ہونے والی دستاویزات.کشمیر کی ہسٹری.اقوام افغان کی تحقیق پر مشتمل بیسیوں کتب.واقعہ صلیب کا چشم دید گواہ جیسی شہرہ آفاق دستاویز.ہندو و بدھ مذہبی اور تاریخی کتب کی گواہیاں.طب اور بائیل کی اندرونی شہادتیں.دوسری ہزاروں تحقیقات نے اس بات کو روز روشن کی طرح عیاں کر دیا ہے کہ مسیح اپنے گم شدہ 10 اسرائیلی قبائل کی تلاش میں سنت انبیاء کے ماتحت فلسطین سے جہاں صرف 2 قبیلے آباد تھے ہجرت کر کے کشمیر کی طرف آئے.یہاں شادی کی اور طبعی لمبی عمر پا کر 120 سال کی عمر میں فرمان نبوی سالی یا پیلم کے مطابق فوت ہوئے اور اب محله خان یارسری نگر میں حضرت بل کی درگاہ کے تہہ خانے میں آپ کا روضہ مبارک ہے.تحقیق کے نئے نئے ذرائع اور ہزاروں نئے علوم کی آمد جہاں کلیسا پر بجلی بن کر گری اور انہیں اپنے اس طلسمی عقیدہ کو سہارا دینے کے لئے ہزاروں جتن کرنے پڑرہے ہیں وہیں حیات مسیح کے قائل مسلمان علماء دین کو بھی سراسیمگی کے بے رحم صحرا میں لا پنچا ہے.نئے علوم کے اس تازیانے نے جماعت احمدیہ کے مخالف کیمپ کو کتنے بلاکس میں تقسیم کر دیا ہے.یہی میری پانچویں پریشانی ہے.کچھ اصحاب مضبوطی سے مسیح کے زندہ آسمان میں موجود ہونے والے نظریے پر قائم و دائم ہیں جیسے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان.کچھ اصحاب کھل کر وفات مسیح کے قائل نظر آتے ہیں جیسے علامہ سرسید احمد خاں، علامہ مشرقی ، علامہ جاوید الغامدی اور جامعہ ازہر کے اساتذہ کرام وغیرہ.کچھ اصحاب مجبوراً وفات مسیح کے قائل ہو گئے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی وہ نزول مسیح والی تمام احادیث کو

Page 97

97 جھوٹ اور مجوسی روایات قرار دے کر نزول مسیح کے سرے سے ہی منکر بن گئے ہیں.جیسے غلام احمد پرویز اور چکڑالوی صاحبان وغیرہ.حمد کچھ اصحاب کہتے ہیں کہ حضرت عیسی فوت ہو گئے تو بھی ٹھیک.زندہ ہیں تو بھی ٹھیک.نازل ہو جائیں تو بھی ٹھیک.نہ نازل ہوں تو بھی ٹھیک.کام ہمارا چل رہا ہے جیسے غلام جیلانی برق صاحب وغیرہ.حمد ان سب سے بڑھ کر ایسے عالم دین بھی منصہ شہود پر آئے ہیں جو ایک محفل میں حیات مسیح کے قائل ہیں تو دوسری میں وفات مسیح کے.اور تیسری میں نہ منکر نہ قائل ایسے گروہ کے سرخیل جناب مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب قرار پائے ہیں.پانچ بڑے بلاکس میں تقسیم یہ جماعت احمدیہ کا مخالف کیمپ ہی میری پانچویں مشکل بن گیا.مشکل نمبر 6 عقیدہ حیات مسیح رکھنے والوں کی جھنجھلاہٹیں مولانا مودودی صاحب دور حاضر کے ممتاز علماء دین میں شمار ہوتے ہیں.آپ نے اپنی زندگی جماعت احمدیہ کی شدید مخالفت میں گزاری لیکن عقیدہ حیات مسیح رکھنے کے نتیجے میں انہیں کتنی بے قراریوں سے گزرنا پڑا.اسے پڑھ کر ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ عقیدہ کتنا Base Less“ ہے.مسیح زندہ آسمان پر موجود ہیں.پہلا بیان پیلاطوس کی عدالت میں پیشی تو آپ ہی کی ہوئی مگر جب وہ سزائے موت کا فیصلہ سناچ کا تب اللہ تعالیٰ نے کسی وقت آنجناب کو اٹھا لیا ( آسمان ) بعد میں یہودیوں نے جس شخص کو صلیب پر چڑھا یا وہ آپ کی ذات مقدس نہ تھی.(تفہیم القرآن جلد 1 صفحه 419) مسیح" بالکل آسمان پر نہیں گئے قرآن مجید میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے.دوسرا بیان آپ نے 28 مارچ 1951 ء کواچھرہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا: حیات مسیح اور رفع الی السماء قطعی طور پر ثابت نہیں قرآن کی مختلف آیات سے یقین پیدا نہیں ہوتا“.(ماخوذ از آئینه مودودیت مصنفہ مفتی محمد فیض اویسی رضوی بہاولپور ) ختم نبوت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا کہ تمام انبیاء کا فوت ہونا ہی ختم نبوت ہے.پیغمبر روز روز پیدا نہیں ہوتے اور نہ ضروری ہے کہ ہر قوم کے لئے ہر وقت ایک پیغمبر موجود ہو.پچھلے پیغمبر

Page 98

98 مر گئے کیونکہ جو تعلیم انہوں نے دی تھی دنیا نے اس کو بدل ڈالا.جو کتا ہیں لائے ان میں سے ایک بھی آج اصلی صورت میں موجود نہیں.یہ بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کسی زمانے میں پیدا ہوئے؟ کہاں پیدا ہوئے؟ کیا کام کئے ؟ کس طرح زندگی بسر کی؟ کن باتوں کی تعلیم دی اور کن باتوں سے روکا ؟ یہی ان کی موت ہے.“ (کتاب دینیات، مؤلف مولوی مودودی صاحب صفحہ 72 73 مطبع ڈے ٹائم پر نٹر لاہور، ناشر ادارہ ترجمان القرآن غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور طبع اول 1937 قرآن مجید سے نہ مسیح کی حیات کا ذکر ملتا ہے نہ وفات کا.11 سال بعد تیسرا بیان 1962ء میں یعنی 11 سال بعد آپ کی طرف سے تیسرا اعلان سامنے آیا: قرآن کی رو سے زیادہ مطابقت اگر کوئی طرز عمل رکھتا ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ رفع جسمانی سے بھی اجتناب کیا جائے اور موت کی تصریح سے بھی...اس کی کفیت کو اسی طرح مجمل چھوڑ دیا جائے جس طرح خود خدا نے مجمل چھوڑ دیا ہے.(مولانا مودودی پر اعتراضات کا علمی جائزہ مصنفه مولوی محمد یوسف حصہ اول صفحه 169 ) ان تین بیانات کے مطالعہ کے بعد آگے چلیے چند ماہ بعد 1962ء میں ہی وطن عزیز میں الیکشن آنے والے ہیں.جماعت اسلامی بھر پور طریقے سے حصہ لے رہی ہے.زیادہ سے زیادہ ووٹ لینے کے لیے اور خود کو سچی مذہبی جماعت اور جماعت احمدیہ کو دشمن اسلام ثابت کرنے کے لیے، اس سیاسی ماحول میں مولانا مودودی صاحب ایک رسالہ ختم نبوت تحریر کرتے ہیں اور اسے شہر شہر گاؤں گاؤں پھلا دیتے ہیں.گویا تیسرے بیان کے ایک ماہ بعد چوتھا بیان منظر عام پر آتا ہے یادر ہے کہ اب کی بار روئے مبارک خالصتاً جماعت احمدیہ کی طرف ہے.2 ہزار سال پہلے والے مسیح آسمان پر زندہ موجود ہیں ضرور نازل ہونگے.چوتھا بیان یہ تمام حدیثیں صاف اور صریح الفاظ میں اُن عیسی کے نازل ہونے کی خبر دے رہی ہیں جواب سے 2000 ہزار سال پہلے باپ کے بغیر حضرت مریم کے بطن سے پیدا ہوئے تھے“.پھر مزید دلائل دینے کے بعد فرماتے ہیں: ( ختم نبوت صفحه 13 ) اس مسیح دجال کا مقابلہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کسی مثیل مسیح کو نہیں بلکہ اس اصلی مسیح کو نازل فرمائے گا جسے دو ہزار برس پہلے یہودیوں نے ماننے سے انکار کر دیا تھا اور جسے وہ اپنی دانست میں صلیب پر چڑھا کر ٹھکانے لگا

Page 99

99 چکے تھے.ختم نبوت طبع ڈے ٹائم پر نٹر لاہور، ناشر ادارہ ترجمان القرآن، غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور صفحہ نمبر 73 حیرانگیوں کا سفر جاری ہے ابھی ختم نہیں ہوا کیونکہ عشق کے امتحان اور بھی ہیں.الیکشن کا ہوا ہوگزر کر نعرہ بازی کی گرد بیٹھ چکی ہے چنانچہ اس گرد کے بیٹھتے ہی آپ کو قرآن و حدیث میں حیات مسیح کا عقیدہ نظر آنا بند ہو گیا چنانچہ اس پس منظر کے ساتھ آپ کا اگلا اور پانچواں اعلان ملاحظہ ہو.قرآن مجید میں مسیح کے آسمان پر جانے کا کوئی ذکر نہیں.پانچواں بیان ”میرے اعتقاد میں کوئی ابہام نہیں میں نے صرف یہ کہا ہے کہ زندہ آسمان کی طرف اٹھائے جانے کی صراحت قرآن مجید میں نہیں.ہفت روزہ ایشیا صفحہ 5 مورخہ 21 اپریل 1962 ء ) مشکل نمبر 7 حیات مسیح کی بحث فرسودہ عقیدہ ہے مولانا مودودی صاحب کے بعد جماعت احمدیہ کے شدید مخالف اور ایک عدد انتہائی مبسوط کتاب "حرف محرمانہ کے مصنف مولانا غلام جیلانی برق صاحب سے ملتے ہیں.آپ بیسوں کتب کے مصنف ہیں.دو اسلام اور اس کے بعد دو قرآن جیسی کتب نے بہت شہرت حاصل کی.اس کے بعد جماعت احمدیہ کے خلاف ایک ضخیم کتاب "حرف محرمانہ کے نام سے لکھی جس میں گویا تمام اعتراضات کو نچوڑ کے پیش کر دیا.کتاب نے کافی شہرت حاصل کی.جناب حضرت قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری جو جماعت احمدیہ کے جید عالم دین اور ناظر اصلاح و ارشاد تھے نے اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ کو مورخہ 22 ستمبر 1964ء کو خط لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا: اولین فرصت میں ان دو باتوں کا جواب دے کر ممنون فرمائیں اول: کیا آپ وفات مسیح کے قائل ہیں.دوم کیا آپ نزول مسیح کی احادیث کو صحی سمجھتے ہیں.“ جناب برق صاحب نے اس کے جواب میں جو چھٹی بھیجی وہی میری ساتویں مشکل بلکہ ساتویں پریشانی بن گئی ہے.

Page 100

100 مسیح" آجائیں تو بھی ٹھیک ہے نہ آئیں تو بھی، ہمارا کام تو چل ہی رہا ہے محترم السلام علیکم 1 - یادآوری کا شکریہ احادیث پر مفصل رائے میری تصنیف ”دو اسلام میں ملاخطہ فرمائیں.2 - حضرت مسیح بن مریم کی وفات وحیات کا مسئلہ متشابہات میں سے ہے.اگر مسیح نے آنا ہے تو مسیح ہی آئے گا نہ کہ مثیل مسیح اگر نہیں آنا تو کام چل رہا ہے.حیات مسیح کی بحث بہت فرسودہ ہو چکی ہے اور اس کا کچھ حاصل نہیں.مخلص برق مولا نا برق صاحب کا فرمان کہ کام تو چل رہا ہے یہ ان کی بے رخی کو ظاہر کرتا ہو یا ان کی بے بسی کو مگر ان کے راہ فرار حاصل کرنے کی کوشش کی ضرور نشاندہی کرتا ہے اور حیات مسیح کے لئے دلائل کی یہی بے کسی میری ساتویں مشکل بن گئی ہے.یہ تو آغاز سفر ہے.ان سے بھی آگے جناب پرویز صاحب تشریف رکھتے ہیں.مشکل نمبر 8 حیات مسیح، نزول مسیح سب جھوٹے قصے ہیں جسے دوسرے مذاہب کو دیکھ کر گھڑا گیا ہے جناب غلام احمد پرویز صاحب اس دور کا ایک ایسا نام جو کسی تعارف کا محتاج نہیں.جماعت احمدیہ کی افقی بلندیوں نے آنجناب کی توجہ بھی اپنی طرف مبذول کروائی چنانچہ آپ نے بھی ایک ضخیم کتاب نامے نامی "ختم نبوت اور تحریک احمدیہ لکھی.یہ کتاب کیا ہے؟ اک حرف آخر ؟ نہیں بلکہ آپ کے خیال میں ساٹھ ستر سال سے ہونے والی جنگ کا آخری باب.اسی لیے آپ اپنی تعریف خود بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: چونکہ میں اس مسئلہ پر قرآنِ خالص کی روشنی میں گفتگو کرتا ہوں.روایات میں نہیں الجھتا اس لئے فریق مخالف ( جماعت احمدیہ ) کے پاس میرے دلائل کا کوئی جواب نہیں ہوتا“ ( ختم نبوت صفحه 15 طلوع اسلام اگست 1973 ، صفحہ 48) اسی طرح ایک اور موقعہ پر آپ اپنے ہی دعویٰ کی مزید پذیرائی کرتے ہوئے فرمایا: ساٹھ ستر برس سے میرزائیوں کے ساتھ مناظرے اور مباحثے ہو رہے ہیں لیکن یہ مسئلہ گرداب میں پھنسی ہوئی لکڑی کی طرح اپنے مقام سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھا.اگر اس مسئلہ پر خالص قرآن کی روشنی میں بحث کی جاتی تو سارا قصہ چند منٹ میں طے ہو جاتا لیکن ہمارے ملاں قرآن خالص کو اس لئے نہیں سامنے لاتے کہ اس کی رو سے اگر مرزائیت ختم ہو جاتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ ملائیت بھی ختم ہو جاتی ہے“

Page 101

101 وہ کون سے دلائل ہیں جن کا جماعت احمدیہ کے پاس کوئی جواب نہیں ؟ وہ کون ساحر بہ جس نے ساٹھ ستر سال سے جاری اس جنگ کا اچانک پانسہ پلٹ کر رکھ دیا؟ آپ نے اپنی اس شاہکار کتاب میں آنے والے کا عقیدہ اور اس کی پیشگوئی کے نام سے ایک ذیلی عنوان جمایا ہے اور اس کے تحت جو گل افشانی کی ہے وہی میری آٹھویں مشکل بن گئی ہے.حیات و نزول مسیح کی بحث ایمان تو کجا یہ عقیدہ ہی ہم نے پارسیوں اور یہودیوں کو دیکھ کر گھڑلیا ہے......غلام احمد پرویز صاحب آپ فرماتے ہیں: یہودیوں نے کہا کہ ایک مسیحا آئے گا جو ان کی تمام مصیبتوں کو حل کر دے گا.عیسائیوں نے کہا کہ حضرت مسیح زندہ آسمان پر موجود ہیں وہ آخری زمانے میں آئیں گے...ہند و آخری زمانے میں کلگی اوتار کے منتظر ہیں.بدھ مت کے پیر و میتا بدھ کے منتظر.مجوسی بھی عیسائیوں کی طرح اپنے نبی متھرا کو زندہ آسمان پر تصور کرتے ہیں اور آخری زمانے میں اس کی آمد کے منتظر ہیں“.آپ مزید فرماتے ہیں کہ ان مذاہب کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی ایک عقیدہ گھڑ لیا چنانچہ ان کا بیان خود پڑھئے.لیکن ہم نے دوسرے مذاہب کی طرح اپنے ہاں بھی آنے والے کا عقیدہ وضع کر لیا.ہر صدی کے آخر ایک مجدد آخری زمانہ میں امام مہدی اور ان کے ساتھ آسمان سے نازل ہونے والے حضرت عیسی.جماعت احمدیہ کے خلاف یہ آخری دلیل کیسی ہے ؟ جس کے لئے 1500 سو سالہ اسلامی لٹریچر کا یکسر انکار ضروری ہے.یہی جانکاری میری آٹھویں مشکل بن گئی.دوستو ! اک نظر خدا کے لیے دوستوں! یہاں کچھ دیر کے لیے رک کر اگر جماعت احمدیہ کے مخالف کیمپ کے موقف کو دوبارہ پڑھ لیا جا تو اس کیمپ سے بھاگنے والوں کی جھنجھلاہٹ کو سمجھنا آسان ہو جائے گا.حضرت عیسی کے آسمان سے نازل ہونے کا عقیدہ نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ کی طرح متواتر اور قطعی ہے اس لیے اس کے منکر کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا ہے.تعلیم القرآن نومبر 1966 ، صفحہ 21 ) ساتھ ہی ساتھ اس فتویٰ کو بھی پڑھ لیں تا کہ انتظامات کرنے میں آسانی ہو سکے کہ ہم نے اپنے ہی کیمپ کے کتنے ممتاز علماء اور کتنے کروڑوں مسلمانوں کو قتل کرنا ہے.

Page 102

102 ایسے شخص سے قرآن وسنت کے دلائل واضح کرنے کے بعد تو بہ کا مطالبہ کرنا ضروری ہے اگر توبہ کرلے تو بہتر ورنہ اسے کفر کی حالت میں قتل کر دیا جائے“ جماعتہ المسلمین کا طنزیہ چیلنج مولوی مسعود احمد جو فرقہ جماعتہ المسلمین کے سر براہ ہیں.کسی زمانے میں غیر مقلدین کے فرقے غرباء اہل حدیث کے ممبر ہوا کرتے تھے اسی زمانے میں دو کتابیں تلاش حق اور اتحقیق فی جواب التقلید لکھیں.شہرت ملنے پر 1395ھ میں اپنا اعلیحدہ فرقہ بنایا اور اس کا نام جماعتہ المسلمین رکھا.آپ نے تمام فرقوں کو جو مقلدین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں غیر اسلامی قرار دے دیا.چنانچہ آپ نے دوسرے علماء کو 100 سوالوں کا ایک چیلنج دیا اور اس میں حضرت عیسی کے حوالے سے یہ دو مشکل مطالبے بھی شامل کر دیے.مطالبہ نمبر ۳ ” کیا حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ تشریف لانے کے بعد نزول من اللہ دین اسلام کی پیروی کریں گے یا مذاہب خمسہ میں سے کسی ایک کی.“ مطالبہ نمبر ۴ کیا حضرت عیسی علیہ السلام دنیا میں تشریف لا کر مسلم کہلا ئیں گے یا اہل حدیث ، حنفی ، شافعی ، حنبلی ، مالکی ، دیوبندی، بریلوی سنی ، شیعه وغیره (فرقہ جماعت اسلامی کا تحقیقی جائزہ غیر مقلدیت کا نا روپ صفحه 62 مؤلف مولوی الیاس گھن، ناشر مکتبه ال السنة والجماعت 87 جنوبی لاہور روڈ سرگودہا ) مشکل نمبر 9 جماعت احمدیہ کا موقف انتہائی معقول ہے جماعت احمدیہ حضرت مسیح کی وفات کے سلسلے میں اپنے ساتھ.قرآن وحدیث.بزرگان امت مسلمہ کے اقوال ( حضرت امام حسن ، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت امام ابن حزم ، حضرت امام جبائی، شیخ سعید اتمی مجمد عمر زمخشری، امام فخر الدین رازی ، امام عبد الوہاب شعرانی، امام ابن جریر طبری، شیخ اکبر محی الدین ابن عربی ، علامہ علاء الدین بغدادی خازن، امام ابن قیم ، علامہ ابن خلدون، علامہ ابن حیان اندلسی، شیخ خواجہ محمد پارسا، سید علی ہجویری داتا گنج بخش، حضرت شمس تبریز ، حضرت امام غزالی ، حضرت امام عبدالوہاب نجدی ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، سرسید احمد خان، مولانا محمد قاسم نانوتوی، سید علی الحائری شیعہ مجتہد، خواجہ غلام فرید ، مولانا ابوالکلام آزاد عنائیت اللہ مشرقی ،مولانا عبید اللہ سندھی ، حافظ محم لکھو کے، مولانا مفتی محمد یوسف ، شیخ محمد عبده مفتی مصر، علامہ محمد رشید

Page 103

103 رضا مفتی مصر، شیخ محمود الشلتوت مفتی و ڈائریکٹر جامعہ ازہر، شیخ مصطفی المراغی رئیس الازہر، علامہ عبدالوہاب نجار محمد اسد، مختلف ممالک کی تاریخ، طب کی تاریخ ، زمین سے برآمد ہونے والی دستاویزات، بائبل کی اندرونی گواہی اور اس کے ساتھ ساتھ نئے سائنسی علوم کے قوی دلائل رکھتی ہے.یہ سارے علوم ملکر جماعت احمدیہ کے موقف کو اتنا مضبوط کرتے ہیں جن سے تعلیم یافتہ طبقہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا چنا نچہ ڈاکٹر علامہ اقبال کو بھی یہ اقرار کرنا پڑا کہ: ”مرزائیوں کا یہ عقیدہ کہ حضرت عیسی ایک فانی انسان کی مانند جام مرگ نوش فرما چکے ہیں.نیز یہ کہ ان کے دوبارہ ظہور کا مقصد یہ ہے کہ روحانی اعتبار سے ان کا ایک مثیل پیدا ہو گا.کسی حد تک معقولیت کا رنگ لئے ہوئے ہے“.اخبار آزاد 6 اپریل 1950 ء ) جب یہ نظریہ معقول ہے تو ختم نبوت حضوری باغ والوں کے عقیدے کا کیا بنے گا اور پھر اسی بناء پر کافر اور منکر کے آوازے کیوں ؟ یہی بات میری نویں مشکل.ہے.مشکل نمبر 10 زندہ آسمان پر جانا اور 2000 سال گزار کر واپس آنا بذریعہ لفظ نزول ایک لا حاصل اور جھنجھلاہٹ آمیز کوشش قرآن وحدیث میں کہیں لفظ آسمان کا ذکر نہ پانے کے بعد اور توفی کے معنی میں بھی آسمان کی گنجائش نہ پیدا ہونے کے سبب اگلی کوشش لفظ نزول پر کی گئی اور خیال کر لیا گیا ہے کہ نزول کے معنی آسمان سے اترنے کے ہیں اور پھر ساتھ یہ خود بخو دلازم ہو گیا کہ زندہ آسمان سے وہی اترے گا جو چڑھا ہوگا اور یوں خود ہی نزول کے معنی آسمان سے اترنا اور خود ہی چڑھنا بنالئے اور خود ہی اسے حیات مسیح کے لیے دلیل بھی تجویز کر لیا.چنانچہ جماعت احمدیہ کا مخالف کیمپ جہاں جہاں مسیح کے لئے نزول کا لفظ لکھا دیکھتے ہیں جھٹ سے دلیل پیش کر دیتے ہیں کہ دیکھ لیں فلاں بزرگ بھی مسیح کے آسمان پر چڑھنے کے قائل ہیں اور فلاں بھی اور ایک تم ہو کہ صاف منکر ہو.ایک خود ساختہ کہانی کا خود ساختہ انجام عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ جناب یوسف لدھیانوی صاحب کو کسی دوست نے خط لکھا کہ بہت سے بزرگان امت وفات مسیح کے قائل تھے اور دوسری بات یہ کہ آسمان پر جانے کا کہیں ذکر اسلامی لٹریچر میں نہیں ملتا.مولانا نے نزول عیسیٰ علیہ السلام چند شبہات کا جواب“ کے نام سے پورا رسالہ لکھ ڈالا اور آسمان سے جانے اور آنے کی دلیل کے طور پر لفظ نزول کا سہارا لیا اور ان تمام بزرگوں کا ذکر فرمایا جونزول مسیح کے قائل تھے چنانچہ آپ نے لکھا.

Page 104

104 1 - ” آپ نے امام مالک اور امام ابن حزم کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ وفات مسیح کے قائل تھے اور اس سے جناب نے یہ سمجھا کہ وہ ان کے نزول کے بھی منکر ہوں گے مگر یہ میچ نہیں امام مالک اور امام ابن حزم دونوں اس اجماعی عقیدہ پر ایمان رکھتے ہیں کہ سید نا عیسی آخری زمانہ میں نازل ہو نگے.(صفحه 6) 2 - پھر صفحہ 20 پر بہت بزرگوں کے نزول والے حوالے درج کرنے کے بعد بحث کو یوں سمیٹتے ہیں : آنجناب نے مجموعہ مکاتیب اقبال جلد اول صفحہ 194 کے حوالے سے مولانا سید سلیمان ندوی کا فقرہ نقل کیا ہے کہ ابن حزم وفات مسیح کے قائل تھے ساتھ نزول کے بھی اگر یہ صورت بھی تجویز کی جائے تب بھی ہمیں مضر نہیں...اصل بحث تو ان کے نزول ہی کی ہے.(صفحه 20) مسیح" فوت بھی ہو گئے ہوں تب بھی لفظ نزول ان کو زندہ جسم سمیت آسمان سے اُتار لے گا مولانا یوسف لدھیانوی یہاں پہنچ کر ایک حیرت انگیز انکشاف کرتے ہیں کہ لفظ نزول کی موجودگی اتنی ثقہ ہوتی ہے کہ یہاں موجود ہو وہاں لازماً معنی آسمان سے اترنے کے ہی ہوتے ہیں.اگر مسیح فوت بھی ہو گئے ہیں تو بھی مذائقہ نہیں اس لفظ نزول کی وجہ سے لازماً آپ کو آسمان سے اترنا ہوگا.آپ کا یہ قیمتی انکشاف آپ ہی کی زبانی ملاحظہ کریں: اصل بحث تو ان کے نزول ہی کی ہے.حیات و وفات کا مسئلہ تو نزول یا عدم نزول کی تمہید ہے کیونکہ جولوگ حیات کے قائل ہیں وہ ان کے نزول ہی کی خاطر قائل ہیں اور جو لوگ وفات کے منکر ہیں ( غلطی سے اصل میں قائل.ناقل ) ہیں ان کی اصل دلچسپی بھی انکار نزول سے ہی وابستہ ہے پس جبکہ امام ابن حزم نزول عیسی کے قائل ہیں تو گویا نتیجہ و مال میں اجماع امت کے ساتھ متفق ہیں.(صفحه 20) اس اقرار کے بعد بتائیے کہ مال اور نتیجہ کے اعتبار سے میرے عقیدے پر کیا زد پڑی.اور منکرین نزول مسیح کو ابن حزم کے موقف سے کیا نفع ہوا.اگر نزول کے معنی آسمان سے اترنا ہے تو مندرجہ ذیل احادیث کے معنی امت کو سمجھا دیجئے : 1 - آنحضور سالا ایام کی ہجرت مدینہ کو بھی نزول سے ہی بیان کیا گیا ہے.قد خرج من مكة ونزل شرب (صفحه 21)

Page 105

105 دجال کا بیان صفحہ 39 مشکوۃ جلد سوئم) 2 - حضرت عمر “ ایک دن چھوڑ کر دربار نبوی میں نازل ہوتے تھے اور آپ کا ہمسایہ انصاری بھی نازل ہوتا.وكنا تناوب النزول على مرسول الله صلى الله عليه وسلم ينزل يوما وأنزل يوما ، فإذا نزلت جئته بخبر ذلك اليوم من الوحي وغيره، وإذا نزل فعل مثل ذلك، فنزل صاحبي الأنصاري يوم نوبته ( بخاری جلد اول کتاب العلم باب التناوب فى العلم باب 69 اردو تر جمه صفحه 135 ) 3- قرب قیامت میں میری امت نازل ہوگی.ینزل اناس من امتی بفائط يسمونه 4.مسلمانوں کا ایک بہت بڑا گر وہ نازل ہوگا.حتی تنزلوا بمرح 5- آپ اور آپ صلی یا یتیم کے صحابہ نازل ہوئے.عن زيد بن ارقم قال كنا مع رسول الله فنزلنا منزلاً - 6- آپ صلی السلام منبر رسول سے نازل ہوئے.حتى كادت ان تنشق فنزل النبي ( مشکوۃ جلد سوئم صفحہ (22) ( مشکوۃ جلد سوئم صفحہ (22) (21/5354 مشکوۃ مترجم جلد سوئم صفحہ 80 (33/5649 مشکوۃ مترجم جلد سوئم صفحہ 181 معجزات کا بیان ) 7- بعد کے زمانہ میں میری امت کا ایک گروہ ایک نہر کے کنارے نازل ہوگا.حتى ينزلوا على شط النهر ( مشکوۃ جلد سوئم صفحہ (23) 8 - قیامت سے پہلے بنو اسحاق کے 70 ہزار افراد نازل ہوں گے.صل الله قال لا تقوم الساعة حتى بغزوها سبعون الفا من بنى اسحاق فاذاجآؤهانزلوا.9.اور تو اور اہل روم بھی نازل ہو نگے فرمان نبوی صلی یا یہ تم قال رسول الله لا تقوم الساعة حتى بنزل الروم بالاعماق 10 - آپ صلی الاسلام میدان خیبر میں نازل ہوئے.فقال انا نازل ثم قام وبطنه معصوب ( مشکوۃ جلد سوئم صفحہ (20) (11/5185 جلد سوئم صفحہ 11 لڑائیوں کا بیان )

Page 106

106 11 - جنگ خیبر میں آپ صل للہ یہ الم نازل ہوئے.قال الله اكبر خَرِبَتْ خيبرانا اذانزلنا بساحة قوم 12 - واقعہ ایلاء کے بعد آپ صلی ہے کہ تم نازل ہوئے.فاقام في مشريةٍ تسعا وعشرين ليلة ثم نَزَل 13 - فتح مکہ میں آپ مسائی ایم نازل ہوئے.قال مثل هذا ثلاث مرات ثم نزل ومشى إلى المروة 14 - حضرت ابن عباس نازل ہوئے.مررتُ بين يدى بعض الصف فنزلت وارسلت الآثان مولانا لدھیانوی بتا سکتے ہیں کہ جب ایک لفظ ا فخر کائنات تاجدار مدینہ کے لیے لا خلفاء راشدین المہدین کے لیے حمد قیامت تک پیدا ہونے والی مسلمان امت کے لیے لا صحابہ رضوان اللہ یھم کے لیے یا حتی عیسائی رومی لوگوں کے لیے (10/5626 مشكوة جلد سوئم صفحہ 170 معجزات کا بیان ) (11/3110 عورتوں کے حقوق کا بیان جلد دوم صفحہ 94 لغت کی تمام کتب میں صدیوں سے ہر عام انسان کے لیے ( مشکوۃ جلد اول صفحہ 563 حجۃ الوداع کا بیان ) استعمال ہو تو کسی بھی جگہ معنی آسمان سے اترنا نہیں لیکن جب مسیح کے لیے استعمال ہو تو اس کا مطلب آسمان سے اترنا ہی ہوتا ہے.کیوں؟ اور آخر کس وجہ سے اور کس شوق سے اتنا بڑا ظلم؟ یہ کیوں ہی میری دسویں پریشانی ہے.بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کا ایک سوال؟ اگر پوچھا جائے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ حضرت عیسی اپنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے تو نہ کوئی آیت پیش کر سکتے ہیں اور نہ کوئی حدیث دکھلا سکتے ہیں صرف نزول کے لفظ کے ساتھ اپنی طرف سے آسمان کا لفظ ملا کر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں.نزول کا لفظ محاورات عرب میں مسافر کے لیے آتا ہے اور نزیل مسافر کو کہتے ہیں.چنانچہ ہمارے ملک کا بھی یہی محاورہ ہے کہ ادب کے طور پر کسی وارد شہر کو پوچھا کرتے ہیں کہ آپ کہاں

Page 107

107 اترے ہیں اور اس بول چال میں کوئی بھی یہ خیال نہیں کرتا کہ بشخص آسمان سے اترا ہے“.(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 225 حاشیہ ) کہاں ہیں مدعی حب محمد سامنے آئیں سمجھتے ہیں جو اپنے آپ کو باریک بینوں میں پڑا ہو آمنہ کا لال یثرب کی زمینوں میں مگر مریم کا ہونو رنظر گردوں میں نشینوں میں مشکل نمبر 11 جو کام سردار انبیاء فخر کائنات نہ کر سکے وہ حضرت عیسی کیسے کر گزرے؟ تو بڑا کون؟ کفار مکہ نے آنحضور صلی شما پیام سے جو نشانات طلب کئے ان میں سے ایک یہ بھی نشان انہوں نے طلب کیا اور سب سے آخر میں رکھا اور اپنے ایمانی فیصلہ کواس پر ٹھہرایا وہ نشان کیا تھا.او ترقی فی السماء کہ آسمان پر چڑھ کر دکھا جواب تھا قل سبحان ربى هل كنت الا بشر امر سولا ( بنی اسرائیل ع 11 ) یعنی کہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور وہاں سے کتاب لائیں جس کو ہم پڑھ کر آپ پر ایمان لائیں.آپ کی طرف سے اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ تو ان سے کہہ دے میرا رب جہتوں سے پاک ہے.اور میں بندہ اور رسول ہوں.خاتم النبین اور رحمۃ للعالمین کی غلامی کرنے والوں بھائیو! جہاں ہماری دینی غیرت کا تقاضا ہے کہ ہم کچھ دیر کے لیے سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا جواب دیا.میں جہتوں سے پاک ہوں یعنی آسمان پر بیٹھا ہوا نہیں ہوں..آنحضور صلہ یہ تم ایک بشر ہیں.iii- بشر آسمان پر چڑھا نہیں کرتے.اگر ہم یہ بات مان لیں کہ حضرت عیسی کو اللہ تعالی آسمان پر اپنے پاس اٹھا لے گیا تو مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں حضرت عیسی کے لیے.i - اللہ تعالیٰ دور کہیں آسمان پر بیٹھا ہوا ہے اور جہتوں سے پاک نہیں ہے.ii- حضرت عیسی آسمان پر چڑھ گئے اور اللہ کے پاس پہنچ گئے.

Page 108

108 iii.آپ پھر بشر نہیں کوئی اس سے بڑی ہستی تھی.iv - حضرت عیسی کے لیے اللہ نے وہ کام کیا جو آپ کے لیے نہیں کیا پیارا کون؟ یا بڑا کون؟ غیرت کی جا ہے عیسی زندہ ہوں آسماں پر مدفون ہوں زمین میں شاہ جہاں ہمارا اور یوں یہی آگہی میری گیارہویں مشکل بن گئی.مشکل نمبر 12 ساری دنیا کا نبی ہونا صرف اور صرف میری خصوصیت ہے اور شرف ہے.فرمان نبوی سینی سیستم نہیں یہ شرف حضرت عیسی کو بھی حاصل ہے..ہم آنحضور سیلی اسلام نے فرمایا کہ مجھے 15 ایسی خصوصیات عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے گزرے ہوئے کسی نبی کو نہیں دی گئیں یہ صرف اور صرف خدا نے مجھے امتیازی شرف عطا کیا ہے اس میں پہلا کوئی نبی حصہ دار نہیں وہ 5 خصوصیات کیا آپ کی زبان سے سنئیے.عن جابر قال مرسول الله صلى الله عليه وسلم اعطيت خمسالم يعطهن احد " قبلى...وكان البنى يبعث الى قومه خاصةً وبعثت الى الناس عامة 111 ( مشکوة 5500 / 9 جلد سوئم صفحہ 122 آپ کے فضائل ) خدا تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں یہ ٹائٹل صرف اور صرف آپ صلی ال ایام کو عطا کیا ہے اور یہ بات ہر مسلمان مومن کا زیور ایمان ہے.وما أرسلتال الاكاف للناس بشير أونذيرا (سبا: 28) لیکن جب حضرت عیسی علیہ السلام واپس آسمان سے تشریف لائیں گے تو آپ بھی قرآن کریم کو ہاتھ میں تھام کر تمام اقوام اور تمام مذاہب کو مخاطب کریں گے تو : سوال نمبر 1 آنحضور سلیم کا یہ فرمان کہ یہ شرف صرف اور صرف مجھے عطا کیا گیا ہے مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں اس کی کیا حیثیت ہوگی؟

Page 109

109 سوال نمبر 2 کیا آنحضور صلی اینم کا ٹائٹل رسول العالمین کسی پرانے نبی کے ساتھ share ہوسکتا ہے؟ سوال نمبر 3 بلکہ حضرت عیسی تو اس طرح نعوذ باللہ آپ سے آگے بڑھ جائیں گے یعنی مرسولاً الی بنی اسرائیل نیز مرسولا الى العالمین کیا خیال ہے؟ مشکل نمبر 13 خدا تعالیٰ نے صرف تاجدار مدینہ کو رحمتہ للعالمین بنایا...قرآن مجید نہیں حضرت عیسی علیہ السلام بھی رحمتہ للعالمین ہیں...ہم ہر نبی ورسول امت کے لیے رحمت ہوتا ہے اور جب حضرت عیسی بھی مرسولا الی العالمین ٹھہرے تو اس طرح سے رحمتہ للعالمین بھی ٹھہرے.سوال نمبر 4 رحمتہ للعالمین صرف اور صرف تاجدار مدینہ ہیں حضرت عیسی کی آمد ثانی کے بعد اس کی کیا حیثیت ہوگی؟ سوال نمبر 5 کیا حضرت عیسی امت مسلمہ کے لیے رحمت نہ ہونگے ؟ اور ساری دنیا کے لیے؟ سوال نمبر 6 کیا آپ سی لیا یہ ہم کا لقب رحمۃ للعالمین کسی سابقہ نبی سے share ہوسکتا ہے؟ سوال نمبر 7 بلکہ آپ تو رحمت میں بھی بڑھ جائیں گے.پہلی دفعہ مرحمة لنبی اسرائیل اور دوسری دفعہ بڑا کون؟ رحمة للعالمين مشکل نمبر 14 ہم مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آنحضور صل اا اینم خدا تعالیٰ کے سب سے مغرب نبی تھی اسی لیے صرف آپ " کو معراج نصیب ہوا اور آپ ایک رات میں ہفت افلاک کی سیر کر کے واپس تشریف لے آئے.اب ہم ایک رات کی آسمانی سیر کے ساتھ حضرت عیسی کے آسمان میں زندہ ہونے کے واقعہ کو ملا کر دیکھتے ہیں.سوال نمبر 8 اگر ایک رات کی سیر آپ کو شرف امتیاز بخشی ہے تو اس شخص کا کیا مقام ہوگا جو

Page 110

110 734380 دنوں سے آسمان پر ہی بیٹھا ہوا ہے؟ یہی بات میری چودہویں مشکل ہے.خدا تعالیٰ کہاں ہے؟ مشکل نمبر 15 اگر ہم یہ بات مان لیں کہ بل رفعہ اللہ الیہ“ کا مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی کو اپنی طرف اٹھالیا.چلیں مان لیا.معراج کی رات میں آنحضور سی ایم نے آپ کو حضرت یحیی کے ساتھ چوتھے آسمان پر دیکھا اور یہیں آپ سے ملاقات ہوئی.اب سوال نمبر 9 خدا تعالیٰ نے مسیح کو اپنی طرف اٹھایا تھا جبکہ مسیح تیسرے آسمان پر ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ حضرت بیجی اور حضرت عیسی کے ساتھ چوتھے آسمان پر ہے؟ دوستو! یہ میری پندرہویں مشکل ہے.مشکل نمبر 16 اسرائیلی مسیح کی آمد ثانی اور قرآنی حقائق ( آج سے اگر ) حضرت عیسی بن مریم جو کہ قرآنی ارشاد کے مطابق 2 ہزار سال قبل بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کئے گئے تھے بعینہ دوبارہ واپس تشریف لے آئیں اور امت محمدیہ کی بذریعہ قرآن خدمت کرنے لگیں تو قرآنی حقائق کو نعوذ باللہ از سر نو مرتب کرنا پڑے گا.کہیں تاریخی غلطی بن رہی ہوگی.کہیں واقعاتی تخالف و تضاد بن رہا ہو گا.کہیں خدا تعالیٰ کے واضح فرامین تبدیل یا منسوخ کرنے پڑیں گے.بلکہ بعض آیات ہمیں مزید قرآن مجید میں داخل کرنا پڑیں گی.نعوذ باللہ من ذلک مندرجہ بالا سطور میں درج بیان کی دستاویزی شہادتیں ملاحظہ کرنے کے بعد ہر قاری پر یہ بات کھل جائے گی کہ وہ ایسا عقیدہ رکھ کر قرآنی تعلیم سے کیا سلوک کر رہا ہوگا ؟ آیئے دیکھئے کہ اگر بعینہ حضرت عیسی تشریف لے آئیں تو قرآن مجید کیا کہہ رہا ہوگا اور زمین پر کیا صورت حال ہوگی.

Page 111

1 111 دور اول دور ثانی آپ انجیل کا نام بھی نہ لیں گے بلکہ قرآن مجید کی تبلیغ آپ کو انجیل عطا فرمائی گئی.کریں گے.1 - اتينه الانجيل فيه هدى ونور 2- وأتيته الإنجيل (مائدہ:47) 3- بلکہ جب حضرت عیسی کی پیدائش مقصود تھی اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ حضرت مریم کے پاس بھیجا کہ وہ بشارت دے کہ آپ حاملہ ہونگی.آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہوگا.وہ بیٹا نبی ہوگا.اور اس نبی کو ہم تو رات اور انجیل دیں گے.يعلمه الكتاب والحكمة والتوراة والانجيل قرآنی حقائق ( آل عمران (50) زمین پر صورت حال حضرت عیسی پیدا ہو کرصرف توراۃ اور انجیل کی تعلیم دیں آپ توراۃ وانجیل کا نام بھی نہ لیں گے بلکہ قرآن مجید کی اشاعت کریں گے.سوال نمبر 10 قرآن مجید کی یہ آیات کیا نعوذ باللہ منسوخ ہو جائیں گی؟ سوال نمبر 11 کیا قرآن مجید میں مزید آیات داخل کی جاسکتی ہیں جن میں آپ کے صاحب قرآن ہونے کا ذکر ہو؟ سوال نمبر 12 کیا خدا تعالیٰ کا علم نعوذ باللہ ناقص تھا جس میں بشارت کے وقت صرف توریت اور انجیل کا ذکر کیا قرآن کا نہیں؟ دور اول دور ثانی آپ صرف بنی اسرائیل جیسی 12 قبائل پر مشتمل قوم آپ پوری دنیا کے لیے نبی ہو نگے.کے نبی تھے.1 - رسولاً الى بنى اسرائيل ( آل عمران: 50)

Page 112

112 2 - يا بنى اسرائيل إنّي رسول الله اليكم ومصدقا لما بين يدى من التوراة قرآنی حقائق زمین پر صورت حال (الصف:7) اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ آپ صرف بنی اسرائیل کے نبی آپ فرما رہے ہونگے کہ یہ حکم پرانا ہو چکا ہے یعنی ہیں جو 12 قبائل پر مشتمل ایک چھوٹی قوم ہے.out of date ہے.اب میں ساری دنیا اور سارے مذاہب کا نبی ہوں.سوال نمبر 13 کیا حضرت عیسی کو محدود المکاں اور محدود الزماں نبی قرار دینے والی یہ 2 آیات بھی منسوخ ہو جائیں گی؟ سوال نمبر 14 کیا قرآن مجید میں مزید 2 آیات داخل کی جائیں گی کہ آپ تمام دنیا کے نبی ہیں؟ دور اول دور ثانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں کچھ نشان لے کر وہ یہ سور قتل کریں گے.صلیب کو توڑیں گے دجال سے مقابلہ ہیں کہ پرندے پیدا کرسکتا ہوں.اندھوں اور برص کریں گے.لہذا پہلے دور والے نشان اس دور میں نہیں والوں کو صحیح کروں گا اور یہ بھی بتا دوں گا کہ تم نے کل کیا دکھائیں گے.کھایا اور تم نے کیا ذخیرہ کیا.إنِّي قد جئتكم باية من تريكم إنِّي اخْلُقُ لكم من الطين كهئية الطير فانفخ فيه كون طير باذن الله...وابرى الاكمه...ان م مومنین.قرآنی حقائق (آل عمران : 50 ) زمین پر صورت حال حضرت عیسی کے 5 کام ہیں جو او پر درج ہیں.دور ثانی میں نہ یہ منجزات ہونگے اور نہ کام بلکہ صلیب توڑ نا سور مارنا وغیرہ ہو نگے لہذا اس وقت یہ حکم انی قد جئتكم باية من مرب out of date ہوگا ایسے معجزات کا مطالبہ نہ کیا جائے.سوال نمبر 15 کیا دور ثانی میں آل عمران : 50 یہ آیت بھی منسوخ ہو جائے گی.مشکل نمبر 17

Page 113

113 ایک پادری صاحب کی للکار دوستو ! میں نے سورہ بنی اسرائیل ع۱۱ میں آپ صلی یا کی تم سے کفار کی آسمان پر چڑھنے والی demand اور اس کے جواب کو بھی چھوڑ دیا.سورہ سبا : 25 آپ صلی شما یہ نام کے لئے وما ارسلنک الاكافة للناس، اور وما ارسلنک الا رحمة للعالمین کا عظیم ٹائٹل اور اسی کے ساتھ ساتھ سورہ مائدہ: 47 وسورہ حدید : 28 حضرت مسیح کے لئے انجیل ان کی شریعت اور سورہ صف وسورہ آل عمران : 50 بنی اسرائیل ان کی قوم کا اعلان کی بھی تو جیہات ڈھونڈ نا شروع کر دیں تا کہ آخری زمانے کی امت مسلمہ کی گمراہی کے دور میں جب ایمان ثریا ستارے پر چلا جائے گا اسلام کا صرف نام اور قرآن کے صرف حروف رہ جائیں گے، علماء دنیا کے بدترین مخلوق اور فتنوں کے بانی مبانی قرار پا جائیں گے مساجد خوبصورت اور ہدایت سے خالی ہو جائیں گی تا وہ حضرت مسیح جو صدیوں سے زندہ آسمان پر بیٹھے اس دن کا انتظار کر رہے ہیں فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے اتر سکیں.میں مولانا کی یہ بات مان جاتا لیکن ایک پادری صاحب کی للکار نے مجھے اس غیر اسلامی، غیر حقیقی، غیر سائنسی غیر تاریخی اور غیر فطری سمجھوتے سے روک دیا.میری دینی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ شاہ جہاں، فخر کائنات ، تاجدار حرم ، سرکار دو عالم ، رحمت للعالمین ، صاحب طہ اور یسین، خاتم النبین پیوند خاک قرار دیئے جائیں ، مردہ اعلان کئے جائیں اور زندہ و جاوید ابدی زندگی مسیح کے حصے میں آئے.کیا میں یہ سمجھوتا کرلوں؟کیا میں پادری صاحب کی بات مان لوں؟ حیات مسیح کے عقیدے نے مجھ سے اک قربانی مانگی.اک سوال کیا.میں نے اپنے آپ کو ٹولا.اپنے ایمان اور ضمیر کے ساتھ ساتھ اپنی غیرت کو پکارا.سوال کو دہرایا.بار بار دہرایا.اپنے آپ سے بار بار پوچھا کہ مسلمان ہوتے ہوئے ، جب مصطفی سلیم اسلام کا دعوی ہوتے ہوئے بھی کیا میں پادری صاحب کے اس دعوئی کو قبول کر سکتا ہوں جواب ہر بارنفی میں ملا اور یہی نفی میری ستر ہو میں مشکل بن گئی ہے.مکرم پادری اسلم صاحب مسیح کی شان از روئے قرآن نامی اپنی کتاب میں اپنا دعوئی اور دلیل یوں پیش کرتے ہیں:

Page 114

114 ’باقی سب پیوند خاک ہو گئے.مگر وہ زندہ ہے اور ابد تک زندہ رہے گا.اہل اسلام کے مسلمات کی بناء پر وہی ایک زندہ جاوید ہے.اور قرآن کہتا ہے و ما یستوی الاحیاء والاموات یعنی زندہ اور مردے برابر نہیں پس لاریب وہ افضل ہے تمام کائنات سے...اس کے سوا جی کر آسمانوں پر بلند کوئی نہیں ہوا اور اس کے سوا کوئی نہیں جو زندہ آسمان پر رہتا ہو.اخوت اندریا سیہ پنجاب لاہور مکتبہ جدید پریس 3 وارث روڈ ، اپریل 1980 ) غیرت کی جا ہے عیسی زندہ ہوں آسماں پر مدفون ہوں زمیں میں شاہ جہاں ہمارا دوستو! میں اس سمجھوتے سے انکار کرتا ہوں اور یہی انکار میری ستر ہو یں مشکل بن گئی ہے.

Page 115

115 باب نمبر 3 حافظين ختم نبوت کی عظيم الشان تفسير سازیاں اور میری مشکلات

Page 116

116 مسئله ختم نبوت قرآن قومی اسمبلی تک میں تمھیں ایسی دلدل میں پھنسا ؤں گا کہ یاد کروگے مولوی عبد اللہ مرحوم لال مسجد اسلام آباد کے امام اور مولوی عبدالعزیز المعروف مولانا برقعہ پوش کے والد ماجد تھے.بلاشبہ دیوبندی حضرات میں ان کا بڑا نمایاں مقام تھا.جبکہ دوسری طرف مولوی محمد موسیٰ بھٹو سکہ بند دیو بندی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عدد ماہنامہ ”بیداری کے اڈیٹر بھی تھے.دونوں میں ایک بات پر جھگڑا ہو گیا.مولانا عبد اللہ کو اس مسئلہ میں ہار محسوس ہوئی تو آپ نے ایک حیرت انگیز دھمکی لگا دی.آئیے دیکھتے ہیں وہ لڑائی کیا تھی اور اسپر دھمکی کیا تھی؟ مولانا محمد موسیٰ بھٹو اس دلچسپ لڑائی کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مولانا محمد عبد اللہ صاحب خطیب لال مسجد مرحوم ہمیشہ یزید کی حمایت کرتے اور اہل بیت کی تنقیص کیا کرتے تھے.وہ کراچی اور لاہور سے ناصبیوں اور یزیدیوں کی کتب منگوا کر تقسیم کیا کرتے تھے.یہ آں مرحوم پر الزام نہیں بلکہ مولانا مرحوم کا یزیدی ہونا خود انہیں کے خطوط اور تحریرات سے حضرت مولانا قاضی مظہر حسین رحمتہ اللہ علیہ بھی اپنے ماہنامہ حق چار یار میں حتمی دلائل سے ثابت کر چکے ہیں.اسی طرح محمد عظیم الدین صدیقی نے ایک کتاب بنام....سیدنا یزید رحمۃ اللہ علیہ شائع کی اور مولانا کو بھیجیں.کتاب ملنے پر آپ نے انکو درج ذیل خط

Page 117

117 لکھا جو تقریظ کی صورت میں اس کتاب میں شامل ہے.محترم السيد الاستاد المکرم محمد عظیم الدین صدیقی صاحب سلام مسنون خط ملا.آج ہی شیخ القرآن ( مولوی غلام اللہ خان راولپنڈی) سے بات کی کتاب حیات سید نا یزید ان کو ابھی تک نہیں ملی.تبصرہ اور رائے کی درخواست بھی کی.انہوں نے قبول فرمالیا.ویسے بھی وہ حضرت امیر یزید کے بارے میں وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو ہمارا ہے.لیکن وہ بھی میری ہی طرح بر ملا اظہار بوجوہ نہیں کرتے نہ معلوم ہماری کب چلے گی؟ کوئی آنے والا نہیں ورنہ دستی کتب منگوا تا.والسلام محمد عبد الله خطیب مرکزی جامع مسجد اسلام آباد یہ تھا وہ اختلاف اور جھگڑا...ان دو بلند قامت دیو بندی علماء کے درمیان.اب مولوی عبد اللہ صاحب امام لال مسجد نے اپنے آپ کو دبتے دیکھا تو انہوں نے ایک انوکھا ا ؤ گا یا اور پینترا بدل کر اس ساری بازی کو پلٹ کر رکھ دیا.مولا نا محمد موسیٰ خود اس کشتی کا حال سناتے ہوئے فرماتے ہیں: قصہ یوں ہوا کہ ایک مرتبہ مولانا محمد عبد اللہ کو ان کے مؤقف ( یعنی یزید) کے ناحق ہونے کے دلائل پیش کئے تو وہ ناراض ہو گئے اور آں مرحوم نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک ایسی دلدل میں پھنساؤں گا کہ قیامت تک یاد کرو گے.اور پھر واقعی مولانا عبداللہ نے مولانا بھٹو کو اس دلدل میں پھنسا دیا.کس طرح پھنسایا ؟ ان پر احمدی ہونے کا الزام لگا دیا.بس اس کے بعد جہاں میرا ذ کر ہوتا تو فرماتے میں یہ تو نہیں کہتا کہ یہ شخص قادیانی ہے البتہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ قادیانی ہے.اور کبھی کبھی یہ کہتے کہ بھئی لوگ کہتے ہیں ان کے قادیانیوں سے تعلقات ہیں“ اور پھر کیا تھا مولوی محمد موسیٰ صاحب بیچارے کو اپنی ہی پڑ گئی.ہر محفل میں وضاحتیں کرتے نظر آتے کہ میں قادیانی نہیں ہوں.میں الحمدللہ مسلمان ہوں.میں الحمد للہ مسلمان ہوں.میں الحمد للہ یہ ہوں.میں الحمد للہ وہ ہوں.یوں پھر یزید کے خلاف بات کیا کر نا تھی اپنے ہی مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ لینے کے لئے تڑپتے نظر آنے لگے.“ (ماہنامہ بیداری ص 52 شمارہ مئی 2010 مضمون نگار محمد موسیٰ بھٹو لا ہور ) یہی وہ کہانی ہے جو ذرا سے کردار بدل کر مجھے وفات مسیح کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں نظر آتی ہے.

Page 118

118 مسئلہ تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو وہ بعینہ تشریف لائیں گے اور فوت ہو گئے ہیں تو کوئی معنوی طور پر آئے گا.مگر کردار پلٹ دیئے گئے منکرین حیات مسیح فی السماء کومنکرین ختم نبوت کا نام دے دیا گیا.حامیان فیضان نبوت کو گستاخ رسول اور منکرین لا نبی بعدی بنادیا گیا.اگر آمد امام مہدی ہوگی (ویسے تو تیسری ترمیم کی تو موجودگی میں ہمیں ضرورت نہیں ) تو ایک جدید لیڈر کی صورت میں ہوگی جسے خود بھی نہ پتہ ہو گا کہ وہ امام مہدی ہے اور یوں کہانی کا عنوان محافظین ختم نبوت اور منکرین ختم نبوت قرار پا گیا.اس طرح وفات و حیات مسیح" سے شروع ہونے والی کہانی تحفظ ختم نبوت کے پلیٹ فارم پر آئی اور پھر قومی اسمبلی کی طرف موڑ دی گئی.اس ہاری ہوئی کہانی کا حال ایک دیو بندی مولانا کی زبانی سننا ہی میری انگلی مشکل بن گیا.مشکل نمبر 18 ہمارے شدید مقابلے کے باوجود قادیانیت مستحکم اور وسیع ہوگئی جماعت احمدیہ کے شدید مخالف عالم مولانا عبدالرحیم صاحب اشرف مدیر المنیر لائل پور کی زبانی ان لمحوں کی کہانی سنیے.ہمارے بعض واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں سے قادیانیت کا مقابلہ کیا لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیانی جماعت پہلے سے زیادہ مستحکم اور وسیع تر ہوتی گئی.مرزا صاحب کے بالمقابل جن لوگوں نے کام کیا ان میں اکثر تقویٰ ، تعلق باللہ، دیانت، خلوص، علم اور اثر کے اعتبار سے پہاڑوں جیسی شی رکھتے تھے.شخصیتیں سید نذیر حسین دہلوی ، مولانا انور شاہ دیوبندی ، مولانا قاضی سید سلیمان منصور پوری، مولانا محمد حسین بٹالوی ، مولانا عبدالجبار غزنوی ، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور دوسرے اکا بر رحمہم اللہ وغفر لہم کے بارے میں ہمارا حسن ظن یہی ہے کہ یہ بزرگ قادیانیت کی مخالفت میں مخلص تھے اور ان کا اثر ورسوخ بھی اتنا زیادہ تھا کہ مسلمانوں میں بہت کم اشخاص ایسے ہوئے ہیں جو ان کے ہم پایہ ہوں.اگر چہ یہ الفاظ سنے اور پڑھنے والوں کے لیے تکلیف دہ ہوں گے.لیکن ہم اس کے باوجود اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ان اکابر (نور الله مراقدهم ومضاجعهم ) کی تمام کاوشوں کے باوجود قادیانی جماعت میں اضافہ ہوا ہے.متحدہ ہندوستان میں قادیانی بڑھتے رہے تقسیم کے بعد اس گروہ نے پاکستان میں نہ صرف پاؤں جمائے بلکہ جہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے.وہاں ان کے کام کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تو روس، امریکہ سے سرکاری سطح پر آنے والے سائنس دان ربوہ آتے ہیں...اور دوسری

Page 119

119 جانب 1953ء کے عظیم تر ہنگامے کے باوجود قادیانی جماعت اس کوشش میں ہے کہ اس کا 1956-57ء کا بجٹ 25 لاکھ روپیہ کا ہو.1953ء کے وسیع ترین فسادات کے بعد جن لوگوں کو یہ وہم لاحق ہو گیا ہے کہ قادیانیت ختم ہو گئی یا اس کی ترقی رک گئی انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ بلدیاتی اداروں میں بلکہ ( بعض اطلاعات کی بناء پر مغربی پاکستان اسمبلی میں قادیانی ممبر منتخب کئے گئے ہیں“.(المنير 23 فروری 1956ء صفحہ 10 ) پہاڑوں جیسے علماء ہونے کے باوجود ہم ہار گئے یہی جانکاری میری 18 ویں مشکل بن گئی.مشکل نمبر 19 آخری حل ہاں اب ہم مذہبی دلائل کی بجائے سیاسی مار ماریں گے 90 سال بعد جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقیات، وسیع ترین تبلیغی نظام، خدا کی راہ میں بے تحاشا خرچ کرنے والے نفوس ، مضبوط ترین دلائل اور بے لوث کارکنان کے آگے بند باندھنا بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا.تب اس وقت کے علماء دین نے ہمت کر کے وطن عزیز کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کو مجبور کر دیا کہ قادیانی جماعت کو دائرہ اسلام سے ہی خارج قرار دے دیا جائے گویا ” نہ رہے بانس نہ بجے بانسری“ دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کے نعرے کے ساتھ ہی جو پہلی بڑی گلے میں اٹکتی محسوس ہوئی کہ آخر کس بات کو بنیاد بنایا جائے؟ قرآن و سنت و حدیث سمیت ایمان مجمل اور ایمان مفصل سمیت جماعت احمد یہ اسلام کی ہر ہر جزئیات پر پورے صدق دل سے ایمان رکھتی ہے اور عمل پیرا ہے اور ختم نبوت کے معانی و تشریح میں بھی ہمارے ہی بزرگوں کے مسلک پر ہے تو پھر آخر کیا کیا جائے؟ شاید زندگی میں ایسا موقع پھر ہاتھ نہ آئے.تو آخر کیا کیا جائے؟ آخر کیا کیا جائے اور وقت کی کمی نے ایک نیا فلسفہ ضرورت پیدا کیا ٹھیک اسی لمحے علم کلام نے ایک نیا موڑ لیا.روشیں بدل دی گئیں اور نیا اسلحہ زیب تن کر کے جنگ کو بالکل نئے محاذ کی طرف موڑ دیا گیا.وو تاریخ کے ایسے ہی نازک لمحوں کی کہانی اس تنظیم کے اپنے آرگن کی زبانی سنیے : ” جب حجۃ الاسلام حضرت علامہ انورشاہ صاحب کشمیری حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی صاحب اور حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری وغیرہ ہم مرحمہم اللہ کے علمی اسلحہ فرنگی کی اس کاشتہ و داشتہ نبوت کو موت کے گھاٹ نہ اتار سکے تو مجلس احرار اسلام کے مفکر اکابر نے جنگ کا رخ بدل دیا.نئے ہتھیار لئے اور علمی بحث و نظر کے

Page 120

120 میدان سے ہٹ کر سیاست کی راہ سے فرنگی سیاست کے شاہکار پر حملہ آور ہو گئے.“ ( اخبار آزاد 30 اپریل 1951 صفحہ 17 علمی بحث و نظر کے میدان سے ہٹ کر سیاست کی راہ سے حملہ ہی میری انیسویں مشکل بن گیا ہے.مشکل نمبر 20 ختم نبوت کا نیا سرکاری اور دفتری امور کے لئے مذہبی مفہوم وہ شخص جو دین کو سیاسی پروپیگنڈے کا ذریعہ بناتا ہے وہ میرے نزدیک لعنتی ہے.ڈاکٹر علامہ اقبال کا فتویٰ ( زنده رود صفحه 649) سیاسی حملہ کے سیاسی پروگرام میں ختم نبوت کی بھی ایک نئی اور سیاسی تعریف تیار کئی گئی یوں قانون پاکستان میں دفعہ نمبر 260 میں ایک نئی شق نمبر 2 کے نام سے اضافہ کر دیا گیا جسے عرف عام میں آئین کی تیسری ترمیم کا نام دیا گیا ہے.نظریہ ضرورت کے تحت مذکورہ ترمیم کے ذریعہ ختم نبوت کی مندرجہ ذیل سیاسی تعریف منصہ شہود پر لائی گئی.کوئی شخص جو محمد مصطفی سلاا اینم کی کامل اور غیر مشروط اختم نبوت پر ایمان رکھتا ہو.جو خدا کے آخری نبی یا لفظ نبی کے کسی معنی یا تعریف کے مطابق حضرت محمد مصطفی سالی یا ایام کے بعد نبی ہونے کا دعوی کرے یا کسی مدعی نبوت کو تسلیم کرے یا مذہبی مصلح مانے وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے لئے مسلمان نہیں ہے“.کیا معلوم ہوا یہی ناں کہ آنحضور صلی یا ایام کے بعد کسی بھی معنوں میں یا کسی بھی مفہوم میں کسی بھی پیرائے میں کسی بھی تعریف کے مطابق کوئی بھی نبی نہیں ہے.لا نہ امتی نبی لانہ تابع نبی انہ ریٹائرڈ نبی انہ معزول نبی یہی نہیں بلکہ کوئی مذہبی مصلح ہونے کا دعوی بھی نہیں کر سکتا اور جو ایسی گستاخی کرئے وہ قانون کی اغراض کے لئے غیر مسلم اور دائرہ اسلام سے خارج یہ سیاسی تعریف ہی میری بیسویں مشکل بن گئی.

Page 121

121 مشکل نمبر 21 ختم نبوت کا پرانا اور گھر یلو استعمال کے لئے مذہبی مفہوم جماعت احمدیہ کی مخالفت Not a full time job مطلب یہ کہ صرف ایک دشمنی کی خاطر عقائد تو نہیں بدلے جا سکتے اس لئے مندرجہ بالا تعریف کو صرف سیاسی پس منظر کے ساتھ لکھا پڑھا اور سمجھا جائے.گھروں میں دینی عقائد کے طور پر ہم اپنے بچوں کو ختم نبوت کا مندرجہ ذیل مفہوم پڑھاتے ہیں.شروعات اسی پلیٹ فارم سے کرتے ہیں جس نے قومی اسمبلی میں تیسری ترمیم پاس کرانے کی سرتوڑ کوشش کر کے اسے کامیابی کی منزل تک پہنچایا یعنی عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت سے.1 - ختم نبوت یعنی مطلق آخری نبی کے باوجود امت محمدیہ میں ایک نبی ضرور آئے گا اور ایسا عقیدہ نہ رکھنے والا کافر.....کیسا لگا؟ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ روڈ ملتان کا شائع کردہ رسالہ ”نزول عیسی چند شہبات کا ازالہ میرے سامنے ہے جسے جماعت کے اشد مخالف مولانا یوسف لدھیانوی صاحب نے تحریر کیا ہے.مولوی صاحب پر کسی نے اعتراض کیا کہ قرآنی آیات خاتم النبین اور حدیث لا نبی بعدی کے بعد امت میں مطلق کسی نبی کی گنجائش باقی نہیں رہتی.جواب تھا: آپ کا یہ ارشاد کہ قرآنی آیات خاتم النبین اور حدیث لا نبی بعدی میں انقطاع نبوت کا ذکر ہے.لانبی بعدی میں رانی جنس ہے چونکہ نکرہ پر داخل ہے جس کا معنی یہ ہے کہ ہ کوئی نیا نبی آسکتا ہے نہ پرانا نبوت ہر قسم کی بند ہے.آپ کا جواب غور سے پڑھیے اور ذہن میں سیاسی تعریف کو بھی رکھیے.جناب کو اس جگہ متعدد غلط فہمیاں ہوئی ہیں اول یہ کہ جس طرح ختم نبوت کی احادیث متواتر ہیں ٹھیک اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام ( نبی اللہ ) کے دوبارہ آنے کی حدیث بھی متواتر ہیں“.(صفحہ 41-42) یہ عقیدہ نماز روزہ اور حج کی طرح متواتر اور قطعی ہے اس لئے اس کے منکر کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا ہے.چنانچہ نویں صدی کے مجدد امام جلال الدین سیوطی اپنے رسالہ الاعلام بحكم عليه السلام میں ایک معترض کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں...مجھے دو سے ایک صورت لازم آئے گی یا یہ کہ نزول عیسی کی نفی کر و یا بوقت نزول ان سے نبوت کی نفی کرو اور یہ دونوں باتیں کفر ہیں.لا پھر اسی صفحہ پر علامہ سفارینی کو بھی مزید اپنے موقف پیش کر کے لکھتے ہیں.(صفحہ 5-6)

Page 122

122 وہ نازل ہوکر شریعت ( قرآن مجید) کے مطابق عمل کریں گے اگر چہ ان کے ساتھ نبوت قائم ہوگی اور وہ نبوت کے ساتھ متصف ہونگے.صفحہ 12 پر حضرت حافظ ابن حزم کو نقل کیا گیا.نزول مسیح چند شبہات کا ازالہ صفحہ 5 آپ کے بعد کوئی نبی نہیں سوائے عیسی جن کے نازل ہونے پر احادیث صحیح موجود ہیں“.مزید آگے چلتے ہیں : الفضل في الملل والاهواء والنحل ج 1 صفحه (77) 2 - امت میں ایک نبی تو کیا حضرت ابراہیمؑ - اسمعیل سمیت خود حضرت محمد مصطفی صلی اینم دوبارہ تشریف لائیں گے.اہل تشیع بھائیوں کا مذہبی عقیدہ اہل تشیع بھی آئین کی تیسری ترمیم پاس کروانے میں آگے آگے تھے.آئیے دیکھتے ہیں گھر میں بچوں کے لئے کون سا مذہبی عقیدہ بیان کیا جا رہا ہے.حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : جب امام مہدی آئے گا تو یہ اعلان کرے گا کہ اے لوگو تم میں سے کوئی حضرت ابراھیم اور اسمعیل کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ میں ہی ابراھیم و اسمعیل ہوں.اگر تم میں سے کوئی موسیٰ اور یوشع کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ میں ہی موسیٰ اور یوشع ہوں اگر تم میں سے کوئی عیسی اور شمون کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ عیسیٰ اور شمعون میں ہی ہوں.اگر تم میں سے کوئی حضرت محمد مصطفی سالی یا ایلیم اور امیر المومنین حضرت علی کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ محمد مصطفی سال یا اسلام اور امیر المومنین میں ہی ہوں“.( بحارالانوار از علامہ باقر مجلسی ناشر سلامیه تهران خیابان بوذرجمهری شرقی تلفن چاپ اسلامیہ 1357 شمسی) 3- عام نبی تو کیا ایسا نبی آئے گا جو ختم نبوت کی غیر معمولی پاور اپنے اندر لئے ہوئے ہوگا....دیو بند کامذہبی عقیدہ دیو بندیوں کے ہی سرخیل امام قاسم نانوتوی کے نواسے اور مدرسہ دیو بند کے مہتمم قاری طیب صاحب جی ہاں وہی دیو بندی جو تیسری ترمیم کے خالق ہونے کی دعویدار ہے اپنے بچوں کے لئے الگ سے فرماتے ہیں: دد لیکن پھر یہ سوال یہ ہے کہ جب خاتم الد جالین کا اصلی مقابلہ تو خاتم النبین سے ہے مگر اس مقابلہ کے لیے نہ حضور کا دوبارہ دنیا تشریف لانا مناسب نہ صدیوں باقی رکھا جانا شایان شان نہ زمانہ نبوی میں مقابلہ ختم کر دیا جانا مصلحت اور ادھر ختم دجالیت کے استقبال کے لئے چھوٹی موٹی روحانیت تو کیا بڑی سے بڑی ولایت بھی کافی نہ تھی.

Page 123

123 عام مجددین اور ارباب ولایت اپنی پوری روحانی طاقتوں سے بھی اس سے عہدہ برا نہیں ہو سکتے تھے.جب تک کہ نبوت کی روحانیت مقابل نہ آئے.بلکہ محض نبوت کی قوت بھی اس وقت تک موثر نہ تھی جب تک کہ اس کے ساتھ ختم نبوت کا پاور شامل نہ ہو.تو پھر شکست دجالیت کی صورت بجز اس کے اور کیا ہوسکتی تھی اس دجال اعظم کو نیست و نابود کرنے کے لیے امت میں ایک ایسا خاتم المحجد دین آئے جو خاتم النبین کی غیر معمولی قوت کو اپنے اندر جذب کئے ہوئے ہو اور ساتھ ہی خاتم النبین سے ایسی مناسبت تامہ رکھتا ہو کہ اس کا مقابلہ بعینہ خاتم النبین کا مقابلہ ہو.مگر النہ یہ بھی ظاہر ہے کہ ختم نبوت کی روحانیت کا انجذاب اسی مجدد کا قلب کر سکتا تھا جو خود بھی نبوت آشنا ہو.محض مرتبہ ولایت میں ہی قتل کہاں کہ وہ درجہ نبوت بھی برداشت کر سکے چہ جائیکہ ختم نبوت کا کوئی انعکاس اپنے اندر اتار سکے.نہیں بلکہ اس انعکاس کے لیے ایک ایسے نبوت آشنا قلب کی ضرورت تھی جو فی الجملہ خاتمیت کی شان بھی اپنے اندر رکھتا ہو.تا کہ خاتم مطلق کے کمالات کا عکس اس میں اتر سکے...اس کی صورت بجز اس کے اور کیا ہوسکتی تھی کہ انبیاء سابقین میں سے کسی نبی کو جو ایک حد تک خاتمیت کا شان رکھتا ہو اس امت میں مجدد کی حیثیت سے لایا جائے“.( تعلیمات اسلامی اور مسیحی اقوام صفحہ 228-229 از قاری محمد طیب مہتم دارالعلوم دیوبند پاکستانی ایڈیشن اول مطبوعہ مئی 1986 ء شائع کردہ نفیس اکیڈیمی ) 4.صرف نئی شریعت لانے والی نبوت بند ہو گئی.مگر امتی نبی تجدید شریعت کے لیے آسکتا ہے.اہل سنت بریلوی مکتبہ فکر کا مذہب پاکستان کی مشہور پبلشر کمپنی فیروز سنز نے ”ابن عربی کے نام سے اہل السنتہ بریلوی مکتبہ فکر کے مسلمہ بزرگ عالم حضرت محی الدین ابن عربی کے بارے میں کتاب شائع کی ہے.اس کتاب کے صفحہ 39 پر ختم نبوت و ختم رسالت کے حوالے سے درج ذیل ختم نبوت کی تفسیر مفہوم درج ہے: ابن عربی نبوت ورسالت کو مد رسول اللہ العالیہ ہم پر ختم سجھتے ہیں مگر صرف بحیثیت نبوت تشریعی ، یعنی اب ان کے بعد کوئی نئی شریعت نہیں آسکتی مگر ایسا نبی آسکتا ہے جو ان کی لائی ہوئی شریعت کی تجدید کرے.اس نبی کا اکتساب ذاتی اور بلا واسطہ نہیں ہوتا بلکہ رسول اللہ کے واسطے ہوتا ہے“.چند صفحے آگے چل کر صفحہ 51 پر مزید فرمایا: نبوت غیر تشریعی رسول اللہ کے بعد جاری رہے گی بلکہ رسول اللہ کی امت میں اولیاء اللہ کوبھی الہام ہوتار ہا ہے.( مصنفہ ابوجاوید نیازی شائع کردہ فیروز سنز پاکستان )

Page 124

124 5 مطلق آخر نبی کے بعد بھی نبی اللہ تشریف لائیں گے اور اس کا منکر پکا کا فر...مکتبہ غیر مقلدین اہل حدیث کا مذہبی عقیدہ بقول غیر مقلد مولوی مولانا عبدالوہاب امیر و بانی جماعت غرباء اہل حدیث غیر مقلدین مزید 9 چھوٹی چھوٹی فرقیوں میں تقسیم ہیں یعنی 1.جماعت غرباء اہل حدیث 2.کانفرنس اہل حدیث 3.فرقہ ثنائیہ 4.امیر شریعت صوبہ بہار 5.فرقہ حنفیہ عطائیہ 7.فرقہ غزنویہ 6- فرقه شریفیه 8.جمیعت اہل حدیث 9.محی الدین لکھوی فرقہ ( فرقہ جماعۃ المسلمین کا تحقیقی جائزہ ص 10 ناشر مکتبہ اہل السنۃ 87 جنوبی لاہور روڈ سرگودہا ) غیر مقلدین کے یہ تمام ونگز تیسری ترمیم کے پاس کروانے میں پوری طرح پیش پیش تھے مگر ان کے بھی اپنے گھر میں اپنے بچوں کے لئے کیا ترجمہ ہے وہ کچھ یوں ہے: اہل حدیث کے ممتاز عالم دین جناب نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی کتاب حجج الکرامۃ میں اہل حدیث مکتبہ فکر کی مفہوم ختم نبوت کی یوں ترجمانی کرتے ہیں کہ حضرت عیسی تشریف لائیں گے اور وہ نبی اللہ ہونگے اور جو "من قال بسِلْبِ نبوته فقد كفر حقا كما صرح به للسيوطى“ ( حجج الكرامة صفحه 13) 6 مطلق آخری نبی“ کے بعد مامور من الله معصوم عن الخطا بولتا قرآن اور امام حاضر ہر وقت موجود ہے گا....اسمعیلی فرقے کا مذہب اسماعیلی فرقہ شیعوں کی ہی ایک شاخ ہے.پرنس کریم آغا خان ان کے موجودہ سر براہ ہیں.انڈیا اور انڈیا سے باہر افریقہ تنزانیہ میں خاصی تعداد میں پائے جاتے ہیں.پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت، ہنزہ ، چترال وغیرہ ان کے خاص گڑھ ہیں.سینٹ و قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی ہے.تیسری ترمیم میں انہوں نے بھی حصہ بقدر جثہ ڈالا.مگر مذہبی عبادات کے لئے ان کے ہاں ختم نبوت کا کیا مفہوم ہے.سوال: پیغمبر یعنی ” ناطق اور اساس یعنی امام میں سے کس کا درجہ بڑا ہے؟ جواب اساس کا درجہ بڑا ہے کیونکہ جو کام پیغمبروں سے نہیں ہوسکتا تھا وہ اساس کرتے ہیں.پیغمبروں میں سے اماموں کو بنانے کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جیسا حضرت ابراہیم کے لئے ہوا تھا.( درسی کتاب برائے مذہبی اسکولز اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے انڈیا بمبئی)

Page 125

125 امام ( حضرت علی ) کا ظہور اللہ کا ظہور ہے امام ( علی ) کے ظاہر ہونے کے بعد اللہ نے اسلام کو مقبول کیا اور پسند کیا اور پیغمبری کا دور ختم ہوا.اس کے بعد کوئی پیغمبر اس دنیا میں نہیں آیا.اس کے معنی یہ ہیں کہ امام کا ظہور اللہ کا ظہور ہے.جس کی پہچان اللہ کی پہچان ہے جس کی بیعت اللہ کی بیعت ہے.کلام الہی اور فرمان امام از عالی جاہ سلطان 5 نور محمد یکے از مطبوعات اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے تنزانیہ طباعت اسماعیلی پر لیس بمبئی ص 54) قرآن سے بڑا ہے اب ناطق قرآن.امام کا چہرہ خدا کا چہرہ امام حاضر قرآن ناطق یعنی بولتا قرآن ہے.اس کے فرمانوں پر عمل کرنا چاہیے...امام کا ہاتھ خدا کا ہاتھ کے برابر ہے.امام کا چہرہ خدا کے چہرے کے برابر ہے.عقیدت سے امام کا دیدار کرنے والا خدا کا دیدار کر رہا ہے.درسی کتاب شھن مال برائے نائٹ اسکولز ریلیجنس یکے از مطبوعات اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے انڈیا بمبئی سبق نمبر اص (۸) قرآن تو 1300 سال پرانی کتاب صرف عرب کے لئے ہے اب تمہارے لئے نئی شریعت گنان ہے " آپ لوگوں کے لئے جو علم ہے وہ گنان ہے قرآن شریف کو 1300 ہو چکے وہ ملک عرب کی آبادی کے لئے ہے.گنان کو 700 سال ہوئے سو تم لوگوں کے لئے اب گنان ہے اور اسی پر عمل کرنا ( فرمان نمبر 13 ص 81 کلام امام مبین آغا خان ۳ کے فرامین کا مجموعہ یکے از مطبوعات اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے انڈیا بمبئی) قرآن خلیفہ عثمان کے وقت بدل دیا گیا اصل خلاصے ہمارے پاس ہیں توریت، انجیل زبور ، اور قرآن یہ سب کتابیں الگ الگ قوم پر الگ الگ وقفہ سے نازل ہوئیں.قرآن شریف بھی حق تھا مگر خلیفہ عثمان کے وقت میں رد و بدل کر دیا گیا آگے کے الفاظ پیچھے اور پیچھے کے الفاظ آگے رکھ دیئے گئے.اس معاملے میں سارے خلاصے ہمارے پاس ہیں.تم لوگ ہم سے پوچھو گے تو ہم تم کو یہ خلاصے دکھا ئیں گئے“ کلام امام مبین ص 96 حصہ اول فرمان نمبر 38 یکے از مطبوعات اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے انڈیا بمبئی) یہ صرف چند مثالیں نمونہ کے طور پر درج کی گئی ہیں.قارئین کرام! اگر ذہن پر بار نہ ہو تو سر کاری تعریف کو ایک دفعہ پھر پڑھ جائیے.ایک سرے سے دوسرے سرے تک کہاں یہ فرمان کہ نبی کے کسی معنی یا تعریف کے مطابق نبی تو کجامذ ہبی مصلح بھی نہیں آسکتا اور کہاں یہ کہ شدت سے ایک سالم تشریعی نبی ( حضرت عیسی علیہ السلام) کے منتظر ہیں اور یہی نہیں کہ خود بلکہ 1500 سوسالہ آئمہ کرام و علماء دین کو بھی گواہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں.بلکہ مزید طرہ یہ بھی کہ جو نہ مانے اس کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دے رہے ہیں.اسے کہتے ہیں کہ ہاتھی کے کھانے کے دانت اور دکھانے کے اور.دوستو مذہبی دنیا میں مذہب کے نام پر اتنا بڑا اختلاف یا دھوکہ ہی میری اکیسویں مشکل بن گئی ہے.

Page 126

126 مشکل نمبر 22 ختم نبوت قرآن سے قومی اسمبلی تک...بقول شاعر رند کے رندر ہے اور ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی دوستو اس منزل پر پہنچ کر ایک Drmatic Situation پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ قومی اسمبلی سے پاس شدہ سرکاری تعریف کو ماننا بھی ضروری ہے کیونکہ جماعت احمدیہ کی دشمنی کا معاملہ ہے اور مسجد والے اصلی مذہبی مفہوم کو ماننا بھی ضروری ہے کیونکہ دین اور ایمان کا معاملہ ہے.معاملہ کیسے طے ہو کہ دونوں گھر بھی راضی رہیں اور پیٹ کی گاڑی بھی چلتی رہے سوچ و بچار یا Planning کا تو پتہ نہیں ہاں ضمیر کی عدالت نے Practicaly یا واقعاتی طور پر 72 فرقوں کو 2 بڑے بلا کس میں تقسیم کر چھوڑا ہے اور یوں : ید کچھ لوگ ایک گروپ میں شامل ہو کر سر کاری تعریف کو مان رہے ہیں.کچھ لوگ دوسرے گروپ میں شامل ہو کر مذہبی تعریف کو.لیکن ظلم یہ ہو گیا کہ اس دوغلی کہانی اور واضح تضاد کی وجہ سے کچھ لوگوں نے ان دونوں ہی کشتیوں میں سوار ہونے سے انکار کر کے ایک تیسری لانچ بنالی جواب بڑھتی ہوئی سواریوں کے سبب لانچ سے ایک بڑے بحری بیڑے میں تبدیل ہو چکی ہے.آئے دشمنی اور نفرت سے پیدا ہونے والے اس حیرت انگیز طلسم کدے کی سیر کرتے ہوئے اور یہ جانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب مسجد کے کام اور منصب کو قومی اسمبلی کے سیاسی دنگل میں ڈالا جاتا ہے تو پھر اہل مسجد کو کیسے کیسے پینترے بدلنا پڑتے ہیں.جب مسجد کے مدرس قومی اسمبلی کے سیاسی اکھاڑے میں اترے تو دونوں گروپوں کے سرخیل علماء کے مذہبی دلائل ملاحظہ کرتے ہیں.1 ہمیں وہ پانچویں وجہ بتائی جائے جس کے تحت کوئی نبی آسکتا ہو.ختم نبوت آف چنیوٹ کا نقطہ نظر مولا نا منظور احمد چنیوٹی مبلغ ختم نبوت اور سفیر ختم نبوت کے نام سے اندرون و بیرون ملک پہنچانے جاتے ہیں.آپ کے ادارے دعوت وارشاد نے ” قرآن مجید اور ختم نبوت کے نام سے مولانا ابراہیم خادم صاحب کا ایک رسالہ شائع کیا ہے آپ فرماتے ہیں:

Page 127

127 قرآن مجید میں اگر ابتداء سے لیکر انتہاء تک نگاہ ڈالیں تو پتہ چلتا کہ چار ایسے اسباب اور وجوہات ہیں کہ جن کے ماتحت دنیا میں کوئی نہ کوئی نبی اور رسول آتارہا لیکن حضور ملیشیا ایم کے تشریف لانے کے بعد یہ چاروں اسباب اور وجو ہات منقطع ہو چکے ہیں اب قیامت تک کوئی شخص نئی نبوت کے ساتھ نہیں آسکتا.اور آپ کے بعد نبوت ورسالت قیامت تک منقطع ہو چکی.ان اسباب کی تفصیل کچھ یوں ہے: اگر سابقہ نبی کی لائی ہوئی شریعت اور دی ہوئی تعلیم دنیا سے بالکل نا پیدا اور مٹ چکی ہو اور پھر اس شریعت اور تعلیم کو تازہ کرنے کے لیے نئے نبی اور رسول کی ضرورت ہوتی ہے...اب اس سبب کے تحت آپ کے بعد کوئی مدعی نبوت نہیں آسکتا.ii.سابقہ نبی اور رسول کی لائی ہوئی شریعت اور تعلیم میں کوئی خامی اور کمی رہ گئی ہو تو اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ایک نبی کی ضرورت ہوتی ہے.اب وہ کونسی خامی اور کمی ہے جس کو پورا کرنے کے لیے ایک نئے نبی کی ضرورت ہے.iii- تیسری وجہ دنیا میں کسی نبی کے آنے کی یہ ہو سکتی ہے کہ سابقہ نبی اور رسول کسی خاص قوم، علاقہ شہر بستی یا ملک کے لیے ہو تو پھر دوسری قوم اور علاقہ کے لیے ایک نبی رسول کی ضرورت ہے مگر اب اس سب......کے ماتحت بھی حضور اکرم کے بعد کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں ہے.۱۷- چوتھی وجہ کسی دوسرے نبی کے آنے کی یہ ہو سکتی ہے کہ جو نبی موجود ہو اس کی زندگی میں اس کی امداد کے لیے دوسرا نبی معبوث کیا جاتا ہے جیسے حضرت موسیٰ کے ساتھ ان کے بھائی حضرت ہارون کو نبوت سے سرفراز فرمایا.اب ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ کون سی پانچویں وجہ ہے جس کے تحت حضور اکرم صلیانی ایام کے بعد ایک نئے نبی کی ضرورت ہے.( قرآن مجید اور ختم نبوت ، صفحہ 3 تا 7 شائع کردہ ادارہ مرکز یہ دعوت وارشا درجسٹرڈ چنیوٹ) 2 - آنحضور سلام کے بعد کوئی بھی نبی رحمت نہیں لعنت ہے.اگر نبی آبھی گیا تو میں اس کا انکار کر دوں گا.ختم نبوت آف منصورہ یعنی جماعت اسلامی کا نقطہ نظر جماعت اسلامی مولانا مودودی صاحب کو نبض شناس رسول جیسے عظیم ٹائیٹل سے یاد کرتی ہے.آپ نے بھی ایک عدد کتاب ختم نبوت“ کے نام سے مرقوم فرمائی ہے جس میں اوپر درج مولانا ابراہیم صاحب کی چار وجوہات کو من و عن درج کرنے کے بعد مطالبہ کیا ہے کہ اب کسی نبی کے آنے کی پانچویں وجہ مجھے بھی بتائی جائے.( قرآن مجید اور ختم نبوت ملحض صفحہ 43)

Page 128

128 پھر آپ نے اس صفحے پر مونا عنوان لگایا ہے کہ نئی نبوت اب امت کے لیے رحمت نہیں بلکہ لعنت ہے.(ختم نبوت ، صفحہ 43) آپ نے ایک عددسنہری اعلان بھی اس کتاب کی زینت بنایا ہے وہ یہ کہ: اگر بفرض محال نبوت کا دروزہ واقعی کھلا بھی ہو اور کوئی نبی آبھی جائے تو بھی ہم بے خوف و خطر اس کا انکار کردیں گئے.ختم نبوت ، صفحہ 40 مطبع ڈے ٹائم پرنٹر لاہور ناشر ادارہ ترجمان القرآن غزنی سٹریٹ اردو بازارلاہور ) 3- وہ پانچویں وجہ تنفیذ دین ہے اور اس تحفیذ دین کی ضرورت کے تحت نبی کے آنے کا منکر زندیق ہے.ختم نبوت آف حضوری باغ ملتان عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت آف ملتان جس کے بانی سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور حال امیر مولانا خان محمد صاحب آف کندیاں ہیں.مذکور ادارے کے مبلغ مولانا یوسف لدھیانوی صاحب جناب چنیوٹی صاحب کے مطالبہ کو یکسر رد کرتے ہوئے بلکہ اسے زندیق مطالبہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: حضرت مہدی علیہ الرضوان کا ظاہر ہونا یا حضرت عیسی کا نازل ہونا ہمارے دین کی تکمیل کے لیے نہیں.دین بلاشبہ چودہ سو سال سے کامل و مکمل چلا آرہا ہے ان حضرات کی آمد دین کی تکمیل کے لیے نہیں بلکہ تنفیذ کے لیے ہوگی.منشاء خداوندی یہ ہے کہ قیامت سے پہلے تمام ادیان کو مٹا کر انسانیت کو دین اسلام پر جمع کر دیا جائے“.( ختم نبوت ،صفحہ 45) مولا نا چنیوٹی جیسے لوگ جو بنی آنے کی پانچویں وجہ دریافت کر رہے ہیں ان کو تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آپ جو اپنی علمی قابلیت کے زور سے یہ منوانا چاہتے ہیں کہ لا نبی بعدی کے معنی یہ ہیں کہ نہ تو کوئی نیا بنی آسکتا ہے نہ پرانا اگر آپ کی یہ زور آوری چل جائے تو کیا اس سے خدا تعالیٰ کی ا انبیاء علیہم السلام کی آنحضور صلی السلام کی صحابہ و تابعین کی آئمہ دین مجدد دین امت کی اکابرملت کی

Page 129

129 تجہیل و تکذیب لازم نہیں آئے گی“.( نزول عیسی چند شبہات کا ازالہ مصنفہ مولانا یوسف لدھیانوی صفحه 42 دوستو! یہی ڈرامائی تفاوت میری بائیسویں پریشانی ہے.مقام نبوت سے مزین یا معزول...مشکل نمبر 23 پہلے گروپ میں شامل علماء دین جو ختم نبوت کے سرکاری اور سیاسی مفہوم کے ترجمان ہیں.آپ حضرت عیسی علیہ السلام کے امت محمدیہ میں دوبارہ نازل ہونے کے تو قائل ہیں لیکن سرکاری تعریف کے مطابق چونکہ اب مطلق کوئی نبی نہیں آسکتا لہذا حضرت عیسی بھی زمین پر قدم رکھتے ہیں اس تعریف کی تیز قیچی کی زد میں آئیں گے اور ان کو متعلقہ عہدے سے Degrade کر دیا جائے گا.چنانچہ اس گروپ کا نقطعہ نظر ممتاز عالم دین جناب مودودی صاحب کی زبانی سنئیے : ہوگی.حضرت عیسی واپس تو آئیں گے لیکن نبوت سے معزول ہوکر : حضرت عیسی کا یہ دوبارہ نزول نبی مقرر ہو کر آنے والے شخص کی حیثیت سے نہیں ہوگا.نہ ان پر وحی نازل نہ وہ خدا کی طرف سے کوئی نیا پیغام یانئے احکام لائیں گے.نہ وہ شریعت محمدی میں کوئی اضافہ یا کوئی کمی کریں گے.نہ ان کو تجدید دین کے لیے دنیا میں لایا جائے گا.حم نہ آکر وہ لوگوں کے اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دیں گے.حمد اور نہ وہ اپنے ماننے والوں کی ایک الگ امت بنائیں گئے.ختم نبوت مصنفه مولوی مودودی صاحب، رنا شر ادارہ ترجمان القرآن غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور صفحہ 64-65) جو شخص یہ دعویٰ کر کے کہ حضرت عیسی منبوت سے معزول ہو کر آئیں گے وہ پکا کافر : دوسرے گروپ میں اہل حدیث علماء دین کے ساتھ ساتھ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت آف ملتان بھی شامل ہے.اہل حدیث کے ممتاز عالم دین نواب صدیق حسن خاں صاحب اس گروپ کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: " من قال بسلب نبوّته فقد كفر حقاكما صرح به للسيوطى“ (حج الكرامة صفحه 131 )

Page 130

130 کہ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ حضرت مسیح نزول کے وقت نبی اللہ نہیں ہونگے بلکہ نبوت سے معزول ہو کر آئیں گے وہ پکا کافر ہے.دوستو! آپ بتائیں کس کی مانیں اور کس کی نہ مانیں اور کیوں نہ مانیں؟ اور یہی کیوں میری تیئسو میں مشکل.مشکل نمبر 24 آپ دونوں کا ہی ختم نبوت کا ترجمہ غلط ہے...ہے.مطلق آخری نبی کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کے نبی اللہ کی حیثیت سے آمد ثانی یا نبوت سے معزول آمد ثانی جیسے موقف سے مایوس ہو کر ایک تیسرا گروپ ختم نبوت کی ایک بالکل نئی تعریف کے ساتھ وارد ہوا.مذکور علماء دین کے نزدیک آنحضور صلی اینم کی ذات گرامی اور قرآن مجید کے دنیا میں آنے کے بعد اب ہمیں کسی کی بھی ضرورت نہیں.یہ وحی ، کشف کا دعوی کرنے والے سب جھوٹے ہیں.آخری وحی یا الہام خدا تعالیٰ قرآن مجید کی شکل میں بھیج چکا ہے.اب جو ہدایت کی راہ حاصل کرنا ہو وہ قرآن مجید پڑھ لے.تفصیل کے لیے کچھ حوالے درج ہیں.حضرت عیسی کی آمد تو کجا الہام و کشف کا دعویدار بھی دنیا میں نہیں آسکتا.ختم نبوت آف طلوع الاسلام جناب غلام احمد پرویز صاحب پڑھے لکھے لوگوں میں بہت مقبول ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ باقی سب لوگ جعلی اور روایات والا اسلام پیش کر رہے ہیں صرف میں قرآن خالص کے ذریعہ اصلی اسلام دنیا میں متعارف کروارہا ہوں.چنانچہ ختم نبوت کے متعلق آپ قرآنی نقطہ نظر یوں بیان فرماتے ہیں: درجن بزرگان سلف نے الہام و کشوف کا دعویٰ کیا وہ عملاً منکر ختم نبوت تھے“.( ختم نبوت اور تحریک احمدیت بحوالہ احمدیت کی امتیازی شان صفحہ 9) ہی ختم نبوت کے بعد اب ہمیں کسی کی بھی ضرورت نہیں ختم نبوت آف اقبال اکیڈیمی ڈاکٹر علامہ اقبال جب 1935ء میں جماعت احمدیہ سے بعض وجوہات کی بناء پر ناراض ہو گئے تو آپ نے چند مضامین جماعت احمدیہ کے خلاف اخبارات میں لکھ ڈالے جس میں آپ نے ختم نبوت کے متعلق یوں اظہار فرمایا: اور اگر ہم نے ختم نبوت کو مان لیا تو گو یا عقیدہ یہ بھی مان لیا کہ اب کسی شخص کو اس دعویٰ کا حق نہیں پہنچتا کہ اس کے علم کا تعلق کسی مافوق الفطرت سر چشمہ سے ہے لہذا ہمیں اس کی اطاعت لازم ہے.

Page 131

131 (ماہنامہ مہارت ، لاہور 13 فروری 1992 ء ) | ختم نبوت کے بعد اب ہمیں کسی معلم کسی الہام کسی کشف کی کوئی ضرورت نہیں.ختم نبوت آف ندوہ مولوی ابوالحسن ندوی صاحب نے جماعت احمدیہ کے خلاف قادیانیت کے نام سے ایک مبسوط کتاب تحریر فرمائی ہے جسے انگریزی میں ترجمہ کر کے اندرون و بیرون ملک وسیع پیمانے پر پھیلایا گیا ہے.آپ ختم نبوت کے متعلق یوں اظہار فرماتے ہیں: عقیدہ ختم نبوت در اصل نوع انسانی کے لیے ایک شرف امتیاز ہے وہ اس بات کا اعلان ہے کہ نوع انسانی سن بلوغ کو پہنچ گئی ہے.اب انسان کو کسی نئی وحی کسی نئے آسمانی پیغام کی ضرورت نہیں اب آسمان کی طرف دیکھنے کی بجائے..زمین کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے.اگر ختم نبوت کا عقیدہ نہ ہوتا تو انسان ہمیشہ تذبذب اور غیر اعتمادی میں رہے گا.وہ ہمیشہ زمین کی طرف دیکھنے کی بجائے آسمان کی طرف دیکھے گا.وہ ہمیشہ اپنے مستقبل کی طرف سے غیر مطمئن ہو گا.“ دوستو! اگر ایک منٹ کے لیے حمل رک جائے اور مندرجہ بالا مشہور اور مسلم علماء دین کی ختم نبوت کی تعریف کے ساتھ جماعت احمدیہ کے شدید مخالف پلیٹ فارم ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے موقف کو بھی ملا کر پڑھ لیا جائے تو ہمیں اپنے گھر کی بدحواسیاں سمجھ میں آسانی سے آجائیں گی.( قادیانیت صفحہ 182-185 ) آپ جو اپنی علمی قابلیت کے زور سے یہ منوانا چاہتے ہیں کہ لا نبی بعدی کے معنی یہ ہیں کہ نہ تو کوئی نیا نبی آسکتا ہے نہ پر انا اگر آپ کی یہ زور آوری چل جائے تو اس سے کیا خدا تعالیٰ کی انبیا علیہم السلام کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ا صحابہ و تابعین کی آئمہ دین کی حمد مجدد دین امت کی حمد اکا بر ملت کی تجہیل و تکذیب لازم نہیں آئے گی“.( نزول عیسی چند شبہات کا ازالہ مصنفہ مولانا یوسف لدھیانوی صفحه 42

Page 132

132 دوستو! اس منزل پر پہنچتے پہنچتے میری دلی حالت اتنی کرب سے مہمیز ہو چکی ہے کہ اگر اسے فیض صاحب کی زبان میں ادا کروں تو یہ ہوگی.میخانوں کی رونق ہیں کبھی خانقاہوں کی اپنالی ہوس والوں نے جو رسم چلی ہے دلداری واعظ کو ہمیں باقی ہیں ورنہ اب شہر میں ہر رند خرابات ولی ہے اور یہی بدلتی روشیں میری چو بیسویں مشکل تھیں.مشکل نمبر 25 ہم صرف دو آدمی ڈاکٹر علامہ اقبال صاحب کی ختم نبوت کے صحیح تر جمان ہیں غلام احمد پرویز صاحب اور میں سابق وفاقی وزیر محمد جعفر خان صاحب سابق وفاقی وزیر صاحب کی تفسیر ختم نبوت سابق وفاقی وزیر محمد جعفر خان صاحب نے جماعت احمدیہ کے خلاف تحریک احمدیہ نامی ایک مسبوط کتاب رقم فرمائی جس میں درج فرمایا: ”ہمارے علم میں پاکستان کے اہل علم حلقوں میں محترم غلام احمد صاحب پرویز تنہا وہ شخص ہیں جنہوں نے بظاہر علامہ اقبال کے نظریے کا تتبع کیا ہے.اقبال کا مطالعہ پرویز کا خاص موضوع رہا ہے.( تحریک احمدیہ، صفحہ 358) مگر افسوس میرے سوا غلام احمد پرویز کی ختم نبوت کا ترجمہ بھی غلط ہے د ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ ترجمان اقبال ( پرویز صاحب نے اس معاملہ میں اقبال کے فکر کی پوری ترجمانی نہیں کی.“ ( تحریک احمدیہ، صفحہ 363 ) گو یا جعفر صاحب کے نزدیک جعفر صاحب کے علاوہ ایک بھی صاحب علم ایسا نہیں جو اقبال کے تصور ختم نبوت کا صحیح طور پر قائل ہے.اقبال کے تصور ختم نبوت کی ترجمانی کرتے ہوئے ان دو عظیم تر جمانوں میں بھی کیا فرق ہے؟ مفکرین و محققین کی دلچسپی کے لیے ہم ذیل میں اختصار کے ساتھ درج کرتے ہیں.اور آپ دونوں ہی کا ختم نبوت کا ترجمہ غلط تیسرے گروپ کے دو عظیم تر جمانوں کی بھی مزید لڑائی

Page 133

133 جعفر صاحب جماعت احمدیہ کے خلاف اپنی کتاب تحریک احمدیہ میں لکھتے ہیں: اقبال کی ترجمانی کرتے ہوئے.ناقل ) پرویز صاحب کے نزدیک ختم نبوت کے بعد ہماری احتیاج فقط یہ ہے کہ شاہراہ زندگی میں جہاں جہاں دورا ہے آئیں وہاں وہاں نشان راہ (Sign Post نصب ہوں جن پر واضح اور بین الفاظ میں لکھا ہو کہ یہ راستہ کدھر جاتا ہے اور دوسرا راستہ کس طرف.اب صورت یہ ہے کہ زندگی کے ہر لمحے ہم ایک دوراہے سے دو چار ہیں sign post یعنی نشان راہ سے پرویز صاحب کی مراد قرآنی آیات ہیں لیکن کیا ان نشان راه (Sign Post) پر کوئی واضح اشارہ موجود ہوتا ہے؟ اس پر ہم متفق ہیں کہ قرآنی آیات میں جو ہدایات درج ہیں وہ واضح اور بین ہے خود قرآن کا یہی دعویٰ ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ پیشتر آیات کے جو معانی پرویز صاحب کرتے ہیں وہ آج تک کسی نے نہیں کئے اور قرآن کی ظاہری عبارت، سیاق و سباق اور تاریخی پس منظر کے سراسر خلاف ہیں اس صورت میں اگر پرویز صاحب کے معانی درست ہیں تو قرآنی آیات ایک ایساSign Post ہیں جن کی عبارت سمجھنے کے لیے ہر وقت ایک مذہبی راہنما کی ضرورت رہے گی بلکہ اس صورت میں بہتر یہی ہوگا کہ یہ را ہنمائی ایک نبی کے ذریعہ کی جائے تا کہ اگر قرآن کے معنی ہماری عقل کے مطابق نہیں تو کم ازکم یہ توتسلی ہو کہ ان معانی کی تائید وحی سے کی گئی ہے.ہمارے نزدیک درست صورت یہ ہے کہ ختم نبوت کی تکمیل پر انسانی مکمل طور پر آزاد ہے.جس طرح راستے پر چلنا اس کے اختیار میں ہے اسی طرح Sign Post مقرر کرنا بھی اس کا اپنا کام ہے جو خیال اس صورت حال کے خلاف ہے وہ لازماً اس حد تک (اقبال ناقل ) نظریہ ختم نبوت کے خلاف ہے“.(احمد به تحریک صفحه 377 ) جناب! آپ کی تفسیر ختم نبوت بھی غلط پہلے گروپ اور تیسرے گروپ کے علماء کی مزید لڑائی پہلے گروپ کے ممتاز عالم دین جناب مودودی صاحب جعفر صاحب کے ساتھ ساتھ پرویز صاحب اور علامہ اقبال بلکہ اس تیسرے گروہ کے سب علماء کو ہی غلط سمجھتے ہیں.نوٹ : یہ الگ بات ہے کہ یہ بات آپ نے 1952ء میں تب کہی تھی جب آپ پہلے گروہ میں شامل تھے لیکن 10 سال بعد 1962ء میں آپ بھی تیسرے گروہ میں شامل ہو گئے بلکہ تیسرے گروہ کے ممتاز عالم دین لیڈر قرار پائے.اس پس منظر کے ساتھ جناب مودودی صاحب کا درج ذیل بیان پڑھیئے آپ کو دوہرا مزہ یا دوہری تکلیف ہوگی.تیسرے گروہ والوں کی ختم نبوت کا مفہوم ”قادیانیت کے ساتھ ساتھ اسلام کی بھی جڑ کاٹ دیتا ہے......مودودی صاحب

Page 134

134 ”ہمارے نزدیک ختم نبوت کے لیے یہ استدلال اپنے مقدمات کے لحاظ سے بھی غلط ہے اور نتیجہ کے اعتبار سے بھی.انسانی ذہن کا ارتقاء جس پر اس پورے استدلال کی بناء رکھی گئی ہے صرف عالم زمانی ، مادی و طبعی کی معلومات تک محدود ہے.رہا دینی و اخلاقی شعور، تو اس معاملہ میں ذہن انسانی کا ارتقاء کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں ہے.آغاز انسانیت سے لے کر آج تک پاکیزه ترین تصور ایمان و اخلاق رکھنے والے انسان اور بدترین عقائد واخلاق رکھنے والے انسان ہر دور اور ہر زمانے میں پہلو بہ پہلو پائے گئے ہیں نوع انسانی نے تاریخ و زمانی تدریج کے لحاظ سے اخلاق و ایمان میں ترقی کے کوئی مدارج طے نہیں کئے...اس لیے ختم نبوت کے حق میں یہ دلیل سرے سے غلط ہے اس سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ قادیانیت کے ساتھ ساتھ اسلام کی بھی جڑ کاٹ دیتا ہے.اگر ہم یہ مان لیں کہ پہلے انبیاء کی ضرورت اس لیے تھی کہ انسان بچہ تھا اور اب ان کی ضرورت اس لیے نہیں کہ اب انسان سن شعور کو پہنچ چکا ہے تو اس سے صاف طور پر نتیجہ نکلتا ہے کہ اب انسان کو سرے سے ہدایت بذریعہ نبوت کی حاجت ہی نہیں رہی یہ ایک ایسا تیر ہے جس نے بیک وقت احمدیت اور اسلام دونوں کو مجروح کر دیا ہے.اگر یہ کہا جائے کہ انسان جوان ہو جانے کی وجہ سے آئندہ نئے سہاروں سے مستغنی ہو گیا ہے تو پھر آخر اس بلوغ دہنی کے بعد پرانے سہاروں کی بھی کیا ضرورت ہے ؟ ( ترجمان القرآن لاہور اکتوبر 1952 ، صفحہ 141 | لیکن 10 سال بعد نئے سہاروں کے متمنی جب تیسرے گروہ میں داخل ہوئے تو آپ کا کیا نظر یہ تھا ؟ اب اگر بفرض محال نبوت کا دروازہ واقعی کھلا بھی ہو تو اور کوئی نبی آبھی جائے تو ہم بے خوف و خطر اس کا انکار کر دیں گے، ختم نبوت صفحہ 40-43 پر آپ نے مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے بتایا جائے کہ آخر اب کسی نبی آسمانی سہارے) کی کیا ضرورت باقی ہے.پھر اسی صفحہ پر موٹاعنوان لگا یا: نئی ثبوت اب امت کے لیے رحمت نہیں بلکہ لعنت ہے“ (صفحہ 43) اور جناب آپ کی تفسیر ختم نبوت تو سرے سے ہی غلط...دوسرے گروہ کے ممتاز عالم دین کی تیسرے گروہ کے علمائے دین سے مزید لڑائی دوسرے گروپ کے ممتاز عالم دین جناب مولوی حسین احمد مدنی صاحب نے مودودی صاحب کو خصوصاً اور تیسرے گروہ کے علماء دین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے فرمایا:

Page 135

135 مودودی صاحب تو رسول خدا کے بعد اور کسی بھی انسان کو معیار حق ماننے کے لیے تیار نہیں لیکن قرآن وسنت کا فیصلہ ہے کہ رسول خدا کے بعد قیامت تک معیاری شخصیات آتی رہیں گئے.پھر مزید فرمایا: مودودی صاحب کا کتاب وسنت کا بار بار ذکر کرنا محض ڈھونگ ہے وہ نہ کتاب کو مانتے ہیں اور نہ سنت کو بلکہ بخلاف سلف صالحین ایک نیا مذ ہب تیار کر رہے ہیں اور وہ اسی پر چلا کر لوگوں کو دوزخ میں دھکیلنا چاہتے ہیں“.(مودودی دستور صفحه 46) اور سر کار آپ کی تفسیر ختم نبوت تو ٹوٹل غلط.تیسرے گروہ کے علماء دین کی دوسرے گروہ کے علماء دین سے جوابی لڑائی تیسرے گروہ کے ممتاز لیڈر جناب پرویز صاحب دوسرے گروہ کے علماء دین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے امام مہدی اور نزول مسیح کے منتظر علماء دین کو یہ جوابی پیغام پہنچاتے ہیں.زوروں کی اس لڑائی کا اگلاسین ملاحظہ ہو.ساٹھ ستر برس سے مرزائیوں کے ساتھ مناظرے اور مباحثے ہو رہے ہیں لیکن یہ مسئلہ گرداب میں پھنسی ہوئی لکڑی کی طرح اپنے مقام سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھا.اگر اس مسئلہ پر خالص قرآن کی روشنی میں بحث کی جاتی ( اور امام مہدی اور نزول مسیح کو مجوسی یہودی نظریہ سمجھا جاتا.ناقل ) تو سارا قصہ چند منٹ میں طے ہو جاتا لیکن ہمارے ملاں قرآن خالص کو اس لیے سامنے نہیں لاتے کہ اس کی رو سے اگر مرزائیت ختم ہو جاتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ ملائیت بھی ختم ہو جاتی ہے“.گویا حاصل وصول یہ کہ پہلا گروہ بھی غلط، دوسرا بھی غلط اور تیسرا بھی غلط تو صحیح کون؟ یہی جانکاری میری مشکل ہے.مشکل نمبر 26 میٹھی میٹھی چوری یا میٹھا میٹھا فریب پہلا گروہ یعنی عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ روڈ ملتان کا موقف کہ آنحضور صلی شایان مطلق آخری بھی ہیں لیکن آپ کے بعد حضرت عیسی بھی نبی ہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے؟ اس گتھی کا حل انہیں سے دریافت کرتے ہیں.خاتم النبین یعنی آخری نبی کا صرف مطلب پیدائش میں آخری ورنہ نبی آپ کے بعد بھی آئیں گے.مولانا یوسف لدھیانوی فرماتے ہیں:

Page 136

136 آپ کا ارشاد مقدس لا نبی بعدی بالکل برحق ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے منصب نبوت پر فائز ہونے کے بعد اب کسی کو نبوت نہ ملے گی اور جو شخص آپ کے حصول نبوت کے بعد حصول نبوت کا دعوی کرے وہ دجال و کذاب شمار ہوگا.اور حضرت عیسی کے بارے میں کون کہتا ہے کہ ان کو آپ کے بعد نبوت ملے گی ان کو نبوت آپ سے پونے چھ سو سال پہلے مل چکی.( نزول عیسی چند شہبات کا ازالہ صفحہ 43) ضمیر کا فیصلہ بھائیو! میں نے اپنے دل سے اور اپنی ایمانی غیرت سے پوچھا کیا واقعی حضرت عیسی علیہ السلام پہلے نبی بنائے گئے اور تاجدار مدینہ بعد میں نبی بنے ؟ کیا ہر غیرت مند مسلمان کا یہ ایمان نہیں کہ آپ کے لیے ہی تو زمین آسمان بنایا گیا.فخر کونین نبی الامی سی تا اینم فداہ ابی وامی کی یہ حدیث مبارکہ کس مسلمان بھائی کو یاد نہیں لولا ل لما خلقت الافلال (حدیث قدسی ) خدا فرماتا ہے کہ اے محبوب میں نے تجھے نہ بنانا ہوتا تو ان زمین و آسمان کو ہی پیدا نہ کرتا.کیا ہمار از یورایمان نہیں کہ ہمارے نبی سی لا یہی ہم تو اس وقت بھی خاتم النبین تھے جب حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا ابھی گارے اور مٹی میں لوٹ پوٹ لگا رہا تھا یہ بھی تو رحمتہ للعالمین کا اپنا ہی فرمایا ہوا فرمان ہے جو ہر مسلمان بچے بوڑھے اور جو ان کے دل کی تختی پر اس طرح سے کندھا ہے کہ وہ سانس لینا تو بھول سکتا ہے مگر اس فرمان بنوی کو نہیں.كنت عند الله خاتم النبين وان ادم لمنجدل بين لماء والطين (مسند احمد جنبل جلد 6 صفحہ (112) میں نے ایک لمحہ کے لیے رک کر احمدی و غیر احمدی دشمنی کو بھول کر مولوی یوسف لدھیانوی صاحب کے اس فرمان کو پھر سے پڑھا حضرت عیسی کے بارے میں کون کہتا ہے کہ ان کو آپ کے بعد نبوت ملی ان کو تو نبوت آپ سے پونے چھ سو سال پہلے مل چکی ہے.اور پھر عین دو پہر کے اجالے کی طرح روشن سرکار دو عالم فخر کا ئنات سی ای ایم کے ذاتی جواب کو ملاخطہ کیا قالوا متى وجبت لك النبوة قال وادم بين الروح والحبسد ( ترمذی جلد 2 ابواب مناقب رسول اللہ صلی ا لم ) آپ جس فرقے کے ساتھ بھی منسلک ہوں میں آپ کی نیت پر حملہ نہیں کروں گا ہو سکتا ہے آخرت کا شوق ہی

Page 137

137 آپ کو اس طرف کھینچ کر لے گیا ہو لیکن کیا ایک لمحے کیلئے آپ یہ سوچنے کی زحمت گوارا فرمائیں گے کہ آخر حملہ آخر ہم نے اتنے ڈھیروں تضادات کو کیوں سینے لگایا ہے؟ اتنی ڈھیروں ہاں اور ناں کو کیوں گلے کا ہار بنایا ہے.؟ ہ کتنے متوازی اور متضاد عقیدوں کو ایک وقت ہی کیوں اپنا یا ہے.؟ جوٹائیٹل صرف اور صرف تاجدار مدینہ کے لیے مخصوص ہیں اس میں کسی کو Share کرتے جارہے ہیں؟ جو بات ہم فخر کائنات کے لیے پسند نہیں کرتے اسے حضرت عیسی کے لیے پسند کرتے جارہے ہیں.؟ ا رسول خدا صلی ایم کے واضح فرامین کی تاویل کرتے جارہے ہیں؟ آخر کیوں اور کس قیمت پر ؟ کیا صرف اس لیے کہ حضرت عیسی علیہ السلام جو محدود الزماں اور محدود المکاں رسولاً الی بنی اسرائیل نبی ہیں کو امت محمدیہ کا رہبر اور محسن ثابت کر سکیں؟ اب خوف الہی اور غیرت رسول کو درمیان میں ڈال کر میں ہر مسلمان بھائی سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ نبی کریم سے یہ بلندشان چھینے کی کوشش کیوں؟ میری غیرت اور حب رسول صلی ا یہی تم نے یہی بات میری چھبیسویں مشکل بنادی.مذہبی تاریخ کا انوکھا مذاق مشکل نمبر 27 معزز قارئین کرام ابھی تک آپ ختم نبوت کے متعلق تین گروہوں کی کھٹ کھٹ سن رہے تھے.ابھی آپ سے چوتھے گروہ کی ملاقات کراتے ہیں جو اس سارے کھیل سے باہر کھڑے حیرانگی کی سرا پا تصویر بنے ہوئے ہیں.میرے سوا آپ سب کی تفسیر ختم نبوت غلط...بریلوی مکتبہ فکر کا پریشانی میں اعلان......کہتے ہیں کہ بے جا محبت اور بے جا نفرت دونوں اندھی ہوتی ہے.کچھ نظر نہیں آنے دیتی.دیو بندی حلقوں کی طرف سے جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت کا گردوغبار اتنا اڑایا گیا کہ ہر آنکھ چھپ گئی.ہر سوچ معطل ہوگئی.لیکن یہ آندھی کبھی تو تمنی تھی.کبھی تو یہ گردوغبار بیٹھنا ہی تھا.اور آج جب یہ گردو غبار تھوڑا سا کم ہونے لگا ہے اور ہلکا ہلکا افق نظر آنے لگا ہے تو بریلوی بھائی چیخ رہے ہیں.اور حیران و پریشان مبہوت کھڑے ہیں اور حیران ہو ہو کر اپنے آپ سے سوال کرتے جارہے ہیں کہ جس عقیدے کی بناء پر ہم سے دیو بندیوں نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دلوالیا اسی عقیدے کی بناء پر وہ خود کیوں غیر مسلم نہیں ؟ آئیے

Page 138

138 مذہبی تاریخ کا یہ انوکھا مذاق مطالعہ کرتے ہیں.جس عقیدے کی بناء پر قادیانی غیر مسلم ہیں اسی عقیدے کی بناء پر دیوبندی کیوں نہیں بریلوی اجتجاج بریلوی مکتبہ فکر کے ممتاز عالم دین جناب ارشد القادری جو ہندوستان کے شہر جمشید پور سے تعلق رکھتے ہیں.آپ ماہنامہ ”جام نور کے ایڈیٹر اور بیسیوں کتب کے مصنف ہیں.آپ ہی کی تصنیف ”زیروز بر میرے سامنے ہے تفصیلی اقتباس درج ہے.قادیانیوں کا یہ دعویٰ اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے کہ وہ حضور اکرم کے خاتم النبین ہونے کا انکار نہیں کرتے بلکہ خاتم النبین کے اس معنی کا انکار کرتے ہیں جو عام مسلمانوں میں رائج ہے اور اسی انکار پر انہیں ختم نبوت کا منکر کہا جاتا ہے.اب دیکھنا یہ ہے کہ خاتم النبین کا وہ کون سا معنی ہے جو عام مسلمانوں میں رائج ہے اور سب سے پہلے اس معنی کا انکار کس نے کیا ہے.یہی وہ مقام ہے جہاں عقیدہ ختم نبوت کے خلاف مولا نا قاسم نانوتوی بانی دار العلوم دیوبند کی سازش بالکل بے نقاب ہو جاتی ہے.ایک قادیانی مصنف مسئلہ زیر بحث میں ان کے موقف کی تحسین کرتے ہوئے لکھتا ہے: تمام مسلمان فرقوں کا اس پر اتفاق ہے کہ سرور کائنات حضرت محمد مصطفی سالی یہ تم خاتم النبین ہیں کیوں کہ قرآن مجید کی نص ولكن مرسول اللہ وخاتم النبيين میں آپ کو خاتم النبین قرار دیا گیا ہے.نیز اس امر پر بھی تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ حضور کے لیے لفظ خاتم النبیین بطور مدح و فضیلت ذکر ہوا ہے اب سوال صرف یہ ہے کہ لفظ خاتم النبیین کے کیا معنی ہیں.یقینا اس کے معنی ایسے ہی ہونے چاہئیں جن سے آنحضر سی ایم کی فضیلت اور مدح ثابت ہو“.اسی بناء پر حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی مدرسہ دیو بند نے عوام کے معنوں کو نا درست قرار دیا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں: عوام کے خیال میں تو رسول اللہ کا خاتم ہونا بائیں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانے کے بعد ہے اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم و تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم و تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں ولکن رسول الله وخاتم النبيين فرما نا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے“.(رسالہ خاتم النبین کے بہترین معنی صفحہ 4 شائع کردہ قادیان تحذیر الناس صفحہ 3 )

Page 139

139 اب قادیانی جماعت کی طرف سے وہ خراج عقیدت ملاحظہ فرمائیے جسے اپنے مسلک کے پیش رو اور مقتدا کی حیثیت سے انہوں نے مولانا قاسم صاحب نانوتوی کے حضور پیش کیا ہے.جماعت احمد یہ خاتم النبین کے مضمون کی تشریح میں اسی مسلک پر قائم ہے جو ہم نے سطور بالا میں جناب مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کے حوالہ جات سے ذکر کیا ہے.(افادات قاسمه صفحه 6) ایک معمولی ذہن کا آدمی بھی اتنی بات آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی مخالف کے مسلک پر قائم رہنے کا ہر گز عہد نہیں کر سکتا پیچھے چلنے کا یہ پر خلوص اعتراف اسی شخص کے حق میں متصور ہو سکتا ہے جسے ہم سفر اور مقتد سمجھا جائے.ایک ہی تصویر کے دورخ اتنی تفصیل کے بعد اب مذکورہ بالا عبارتوں کا تجزیہ کیجئے تو بہت سی حیرت انگیز باتیں معلومات کے اجالے میں آجائیں گی.پہلی بات تو یہ کہ مولانا قاسم نانوتوی کی صراحت کے مطابق خاتم النبیین کے لفظ سے حضور اکرم سلا یا اینم کو آخری نبی سمجھنا معاذ اللہ یہ نا سمجھ لوگوں کا خیال ہے.امت کا سمجھ دار طبقہ خاتم النبین کے لفظ سے کچھ اور ہی معنی مراد لیتا ہے.انہی سمجھ دار لوگوں میں ایک سمجھ دار مولانا نانوتوی بھی ہیں.ل دوسری بات یہ کہ خاتم النبیین کے اجماعی معنی کو مسخ کر کے حضور کے آخری نبی ہونے کا انکار سب سے پہلے مولانا قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیو بند نے کیا ہے کیوں کہ قادیانیوں نے اگر انکار میں پہل کی ہوتی تو وہ ہرگز یہ اعتراف نہ کرتے کہ لفظ خاتم النبیین کے معنی کی تشریح کے سلسلے میں جماعت احمد یہ مولانا نانوتوی کے مسلک پر ہے.تیسری بات یہ کہ خاتم النبین بمعنی آخری نبی کے انکار کے پس منظر میں مرزا غلام احمد قادیانی اور مولانا نانوتوی دونوں کے انداز فکر اور طریقہ استدلال میں پوری پوری یکسانیت ہے.چنانچہ قادیانیوں کے یہاں بھی خاتم النبیین کے اصل مفہوم کو مسخ کرنے کے لیے حضور اکرم کی عظمت شان کا سہارا لیا گیا ہے اور نانوتوی صاحب بھی مقام مدح کہہ کر حضور کی شان عظمت ہی کو بنیاد بنارہے ہیں.وہاں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خاتم النبیین کے لفظ سے حضور کو آخری نبی سمجھنا، یہ معنی عام مسلمانوں میں رائج ہے اور یہاں بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ معنی عوام کے خیال میں ہیں.اتنی عظیم مطابقتوں کے بعد اب کون کہہ سکتا ہے کہ اس مسئلے میں دونوں کا نقطہ نظر الگ الگ ہے دنیا سے

Page 140

140 انصاف اگر رخصت نہیں ہو گیا ہے تو اب اس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ قادیان اور دیو بند ایک تصویر کے دورخ ہیں.ایک ہی منزل کے دو مسافر ہیں کوئی پہنچ گیا ہے کوئی رہ گزر میں ہے.پس....اگر قادیانی جماعت کو منکر ختم نبوت کہنا امر واقعہ ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس انکار کی بنیاد پر دیو بندی جماعت کو بھی منکر ختم نبوت نہ قرار دیا جائے.غور فرمائیے! جب دیوبندی جماعت کے ہاں بھی بغیر کسی قباحت کے حضور کے بعد کوئی نیا نبی پیدا ہو سکتا ہے تو قادیانی جماعت کا اس سے زیادہ اور قصور ہی کیا ہے کہ جو چیز اہل دیوبند کے نزدیک جائز وممکن تھی اسے انہوں نے واقع بنالیا.اسلامی دنیا کا جو الزام قادیانی جماعت پر ہے وہی الزام دیو بندی جماعت پر بھی عائد کیا جائے“.( دیوبندی ادارے.عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت تبلیغی جماعت سپاہ صحابہ ) (زیروز برصفحه 122 تا126 شائع کردہ رومی پبلیکیشنز 38 اردو بازار لاہور ) مذہب میں مرے شیخ کے اتنا ہی فرق ہے میں ہاتھ میں رکھوں تو وہ آستیں میں بت شیخ اتنا بریلوی بھائیوں کے حالیہ چیخ و پکار میری مشکلات کو کم کرنے کی بجائے بڑھارہی ہیں وہ اس طرح سے کہ ایک طرف دیوبندی علماء دین نے باوجود اس علم کے کہ جماعت احمد یہ ختم نبوت کے مفہوم میں انہیں کے بزرگوں کے موقف پر ہیں، پر منکر ختم نبوت کا جھوٹا الزام لگایا اور تقریر وتحریر سے خوب پرو پیگنڈہ کیا اور اسی بنیاد پر انہیں قومی اسمبلی سے غیر مسلم قرار دلوایا.دوسری طرف بریلوی علماء دین با وجود اس علم کے کہ دیوبندی جھوٹ بول رہے ہیں اور جماعت احمد یہ اور دیوبندیوں کا ختم نبوت کا مفہوم یکساں ہے خاموش رہے.اور نہ صرف خاموش رہے بلکہ اسی الزام کی بنیاد پر جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے والی مہم میں دیوبندی لیڈروں کی ماتحتی میں شانہ بشانہ کام کیا.اور آج بیسوں سال بعد خود اپنے آپ سے بڑبڑا رہے ہیں کہ اگر قادیانی جماعت کو منکر نبوت کہنا امر واقعہ ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اسی انکار کی بنیاد پر دیوبندی جماعت کو بھی منکر ختم نبوت قرار نہ دیا جائے“.( زیروز بر صفحه 126 ) مذہبی دنیا میں حالات سے اتنا بڑا سمجھوتا یا اتنا بھیا نک مذاق ہی میری ستائیسویں مشکل بن گیا.

Page 141

141 مشکل نمبر 28 آہستہ بولو کہیں احمدی قادیانی سن نہ لیں تیسری ترمیم کے یہ دونوں خالقین آپس میں زوروں سے لڑ بھی رہے ہیں مگر لڑتے لڑتے ایک دوسرے کو نصیحتی رنگ میں اشارے بھی کرتے جارہے ہیں کہ آہستہ ذرا آہستہ بولو ہیں اندر کی بلی چوراہے میں ہی باہر نہ آ جائے اور احمدی سن نہ لیں.تفصیل یہ ہے کہ دیو بندیوں کے سرخیل مولانا قاسم نانوتوی صاحب نے ایک کتاب......تحذير الناس من انکار اثر ابن عباس...لکھی جس پر بریلویوں کے سرخیل جناب مولوی احمد رضا خان صاحب نے.....المعتمد المستند کے نام سے پکڑ کی.بعد میں اسی کتاب میں مکہ کے مفتیان کرام کے فتاویٰ کفر بھی شامل کر لئے گئے اور یوں اس کو حسام الحرمین کا نام دے دیا گیا.جواب میں دیوبندیوں کی طرف سے 6 کتب سامنے آگئیں.1 ـ المهند علی المفند 2 الشہاب الثاقب على مسترق الكاذب 3_حسام الحرمین اور عقائد علماء دیوبند 4.فیصلہ کن مناظرہ 5.انکشاف حق ( یہ اک بریلوی عالم نے لکھی ہے اور احمد رضا کی تردید میں کمال کر دیا ہے ) 6.عبارات اکابر وغیرہ ذالک پھر کیا تھا دوسری طرف سے بھی جواب میں بیبیوں کی گنتی تھی.اور یوں یہ جواب الجواب کی کہانی اندر کھاتے آج بھی جاری وساری ہے مگر ہر کتاب کے ساتھ دراصل ایک ہی مشورہ لکھا ہوتا ہے کہ آہستہ بولو کہیں احمدی سن نہ لیں.اس کتاب کی وجہ تنازعہ صفحہ 3 ، صفحہ 14 اور صفحہ 28 کی یہ تحریرات ہیں: بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہو نا بدستور باقی رہتا ہے.بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو بھی خاتمیت محمدی صلایا کہ تم میں کوئی فرق نہ آئے گا.عوام کے خیال میں رسول اللہ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہو کہ تقدم یا تاخر زمانی بالذات کچھ فضیلت نہیں.( حسام الحرمین بحوالہ فیصلہ کن مناظرہ 1933 مؤلف محمد منظو نعمانی ص 37 ناشر دار النفاس کریم پارک راوی روڈ لاہور )

Page 142

142 اکتوبر 2012 ء میں سرگودہا کے مشہور دیوبندی مولوی محمد الیاس گھمن صاحب نے ایک اور کتاب کا اس ذخیرے میں اضافہ کیا اور یوں صدی پر پھیلی اس کہانی کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے.مگر خلاصہ وہی کہ آہستہ بولو کہیں قادیانی سن نہ لیں.میں اس کتاب کے صفحہ نمبر 129 تا 136 کو پورا درج کر رہا ہوں.اعتراض نمبر 6 حجتہ الاسلام پر اعتراض کرتے ہوئے سید تقسم شاہ بخاری صاحب لکھتے ہیں: قرآن حکیم نے جب خاتم النبیین فرما دیا تو آیت آپ کے آخری نبی ہونے میں نص قطعی ہوگئی.آخری نبی کا معنی خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا صحابہ کرام تابعین اور تمام امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کا عقیدہ ایمان اسی پر رہا اور اسی پر رہے گا.جملہ آئمہ کرام مفسرین ومحدثین نے قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی بتایا کہ خاتم بمعنی آخری نبی ہے اسی پر اجماع ہے.اور اسی پر تواتر ثابت ہے.اس معنی میں نہ کوئی تاویل مانی جائے گی نہ کوئی تخصیص بلکہ تاویل و تخصیص کرنے والا بھی خارج از اسلام ہوگا اور سمجھ بوجھ کر بھی ایسے کافر کے کفر میں شک کرنے والا اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا.ختم نبوت اور تحذیر الناس صفحہ 23 66 دوسری جگہ لکھتے ہیں : ” انقطاع نبوت کا انکار اور تکمیل نبوت کا اقرار یہ عقیدہ قادیانیت کے لیے بہت مفید ہے.اس سے چند باتیں معلوم ہوئیں.1.اس لفظ خاتم النبیین کا معنی آخری نبی کے علاوہ کوئی اور لینا کفر ہے.2.ایسے کفر کو جو کفر نہ کہے وہ بھی کافر.3.اس کا معنی تکمیل نبوت کرنا، انقطاع کا نہ کرنا قادیانیت کو مفید ہے.اور اس معنی میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں ہو سکتی.ختم نبوت اور تحذیر الناس صفحہ 337 ) القصہ دیکھیے : ”بریلویت بانی فاضل بریلوی نے اپنے والد کی کتاب الکلام الا وضح کی تعریف و توصیف کی اور اسے علوم کثیرہ پر مشتمل کہا ہے“.علوم (دیکھیں: الكلام الا وضح ص ز ) اس میں لکھا ہے : ” جو اس لفظ کو بموجب قرآت عاصم رحمۃ اللہ علیہ کے خاتم النبیین بفتح تا پڑھیں تو ایک اور خاصہ آپ کا ثابت ہوتا ہے.کہ سوا آپ کے یہ لقب بھی کسی کو حاصل نہ ہو.مہر سے اعتبار بڑھتا ہے.اور آپ کے

Page 143

143 سبب سے پیغمبروں کا اعتبار زیادہ ہوا اور مہر سے زینت ہوتی ہے اور آپ انبیاء کی زینت ہیں.(الكلام الا وضع صفحه 797) اس لفظ کا معنی صرف آخری نبی نقی علی خان بھی نہیں مانتا.بلکہ اس کا معنی انبیاء کی نبوت پر مہر لگانے والا کیا ہے.تو یہ بھی نص قطعی کا منکر ، اجماع امت کا منکر ، اس معنی میں تاویل کرنے والا ہے.لہذا کا فر ہوا اور پیچھے گزر چکا کہ جو کسی کفر کی تحسین کرے وہ بھی کافر ہے.لہذا فاضل بریلوی بھی گیا.اس لیے تبسم صاحب ذرا قدم پھونک پھونک کے رکھیے.آگے دیکھیے.پیر جماعت علی شاہ کے بیٹے سید محمد حسین شاہ جماعتی لکھتے ہیں : ” جن اوصاف حمیدہ، اخلاق جمیله شمائل ،حسنه، فضائل برگزیده مکارم اخلاق سے انبیاء کرام خالی تھے.وہ سب کے سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں پائے جاتے ہیں اور آپ ہر طرح سے کامل ومکمل ہے.ختم نبوت کے یہی معنی ہیں کہ نبوت آپکے ذریعے سے تکمیل کو پہنچ گئی.( افضل الرسل سلا ای ان صفحہ 379) اس کو مدون کیا ہے آپ کے جید عالم مولوی صادق قصوری نے اس پر مقدمہ پیر کرم شاہ صاحب نے لکھا ہے.تو یہ سب قادیانیوں کی تائید کرنے والے اور ختم نبوت کے اجماعی معنی اور قطعی معنی سے ہٹ کر معنی کرنے والے ہیں.یہ بھی بقول آپ کے سب کا فراگر کوئی بریلوی اب ان کی تعریف و تحسین کرے گا وہ بھی آپ کے بقول کا فرجا ٹھہرا.آگے آئیے : مولانا محمد ذاکر صاحب خلیفہ مجاز خواجہ ضیاء الدین سیالوی کی ادارت میں چھپنے والے رسالے میں ہے: دوختم نبوت سے مراد قطع نبوت یا انقطاع رسالت نہیں بلکہ تکمیل نبوت و ابدیت رسالت ہے.یعنی نبوت اس کارگہ حیات میں اپنے تمام ارتقائی منازل طے کر کے جس نقطہ عروج پر پہنچی اس کا نام جناب محمد رسول اللہ صل تھا یہ اہم ہے.(الجامعه نومبر دسمبر 1983ء ، جلد نمبر 37، شمارہ نمبر 4، ص 39 کیا مولانا ذاکر صاحب خواجہ قمر الدین سیالوی کے اخص الخواص لوگوں سے تھے.وہ قادیانی نواز ہیں.کیا انہیں آپ کا فر کہیں گے؟ اگر نہ کہیں پھر بھی جاتے ہیں اور اگر کہیں تو پھر بھی.سوچ لیں.مشورہ کر کے جواب دیں آپ کو قیامت تک کی مہلت ہے جو الزامات جناب آپ مولانا نانوتوی پر لگا رہے تھے وہ سب کے سب آپ کے گھر میں ملتے ہیں.پہلے اپنے گھر کی فکر کیجئے.پھر باہر کی.اعتراض نمبر 7

Page 144

144 کاظمی صاحب لکھتے ہیں : ”ہمارے آقائے نامدار صلینی ای ایام سے لے کر حضرت آدم علیہ السلام تک کسی نبی کی نبوت میں دوسرے نبی کی نبوت کے بالمقابل کوئی فرق نہیں پایا جاتا نہ کسی نبی کا وصف نبوت کسی دوسرے نبی کے وصف سے کم و بیش ہو سکتا ہے.اب دیکھیے قارئین کرام! ( ختم نبوت اور تحذیر الناس ص 383 ) جتنے بریلوی لوگ اور اکابرین امت ہم پیش کر چکے ہیں کہ نبی محترم مایلی یہ تم کو اصل اور حقیقی نبی سمجھتے ہیں تو فرق کے تمہارے بریلوی قائل ہو گئے اب آپ اپنے دام میں خود پھنس گئے ہیں.پتہ نہیں بریلویت کے کفر پر ایک کتاب تبسم صاحب کب لکھیں گے.اعتراض نمبر 8 غلام نصیر الدین سیالوی لکھتا ہے : ” بعض حضرات یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ سر کا رعلیہ السلام نے فرمایا: اني عند الله لمكتوب خاتم النبيين وآدم لمنجدل في طينته اس کے بارے میں گزارش ہے کہ اس حدیث سے استدلال درست نہیں کیونکہ اگر سر کا ر علیہ السلام کو سب سے پہلے نبوت ملی ہے تو آپ خاتم الانبیاء کیونکر ہو سکتے ہیں اگر سب سے پہلے سرکار علیہ السلام ختم نبوت سے متصف تھے.تو پھر بعد میں ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء کیسے مبعوث ہوئے.اس طرح تو پھر نانوتوی کا کلام ٹھیک ہو جائے گا کہ اگر بعد زمانہ نبوی کوئی اور نبی آجائے گا تو ختم نبوت میں کچھ فرق نہ آئے گا.نیز دیگر انبیاء علیہم السلام صرف علم الہی میں نبی تھے بالفعل نہیں ہے.تو پھر سر کا رعلیہ السلام ان سے آخری کیسے ہو گئے.آخری نبی ہونے کا مطلب تو یہ ہے کہ سارے انبیاء علیہم السلام کے بعد نبوت کا اعطا ہوا اور اس ہستی کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا.اس سے چند باتیں ثابت ہوئیں.1.اگر نبوت آپ کو سب سے پہلے مانامانی جائے تو آپ خاتم النبین نہیں ہو سکتے.خاتم ( تحقیقات صفحہ 393 394 ) 2.اگر آپ کو شروع سے ہی یعنی تخلیق آدم سے پہلے ہی سے ختم المرسلین مانا جائے تو پھر مولانا نانوتوی کا کلام درست ہو جائے گا.بالفاظ دیگر اس کا اور مولانا نانوتوی کا نظریہ ایک جیسا ہوگا.3.آخری نبی کا مطلب یہ ہے آپ کو نبوت سب کے بعد ملے.4 مفتی عبد المجید خان سعیدی نے غلام نصیر الدین سیالوی کے متعلق لکھا ہے کہ بیٹا اور اس کے توسط سے مولانا

Page 145

145 نادرست اور موید عقیدہ کفریہ نانو تو یہ بتا رہا ہے.(مسئلہ نبوت صفحه 30 ) یعنی یہ کہنا کہ اب جناب آدم سے پہلے ہی خاتم الانبیاء تھے یہ غلام نصیر الدین سیالوی کے نزدک عقیدہ کفریہ کا موید ہے تو پھر اگلے آنے والے سب علماء بھی کفر کے موید ہونے کی وجہ سے کافر ہوئے.پہلی اور تیسری بات تقریباً اک ہی طرح ہے.ہم اس پر کلام کر کے آگے چلتے ہیں.جو نبوت آپ کو شروع ہی سے ملنا مانے وہ خاتم الانبیاء نہیں مان سکتا یا اس صورت میں آپ خاتم الانبیاء نہیں بن سکتے.تو وہ آدمی آپ کے فتوے سے ختم نبوت کا منکر ہوا.تو پھر لیجئے : ان کتابوں کے مصنفین اور مؤیدین اور مصدقین جو تقریباً نصف صد سے زائد بریلوی اکابر علماء ہیں وہ سب ختم نبوت کے منکر ٹھہرے.1.خلاصۃ الکلام مولوی عطا محمد نقشبندی 2.نبوت مصطفی ہر آن ہر لحظہ پروفیسر عرفان قادری 3.نبوت مصطفی اور عقیدہ جمہورا کا بر علماء امت مفتی نذیر احمد سیالوی 4 تنبيهات 5.اہم شرعی فیصلہ مولوی عبدالمجید خان سعیدی پیر محمد چشتی 6 - تجلیات علمی فی رد نظریات سلوی مفتی محمود حسین شائق 7 توضیحات 8.نبی الا نبیاء والمرسلین قاضی محمد عظیم نقشبندی سید ذاکر حسین شاہ سیالوی یہ سب کے سب اس پر مصر ہیں کہ آپ علیہ السلام کو نبوت آدم علیہ السلام کی پیداش سے پہلے ملی تو کیا یہ سب منکرین ختم نبوت ہیں؟ اگر ہیں تو بتا ئیں ورنہ جھوٹ بولنے کی وجہ سے لعنت کا طوق آپ پر ہے.دوسری بات یہ تھی کہ آپ علیہ السلام کو شروع ہی سے خاتم الانبیاء مان لینا مولانا نانوتوی کے کلام سے متفق ہونا ہے.اب دیکھیے کیا ہوتا ہے: آپ کے شارح بخاری مولوی محمود رضوی لکھتے ہیں: حضور نے فرمایا! میں خاتم الانبیاء اس وقت سے ہوں جب کہ آدم آب و گل میں تھے“.(مسند احمد ج 4، صفحہ 372 - دین مصطفی سال لا ال سالم صفحہ 61 ) بریلوی حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی لکھتے ہیں کہ م حمد اور بہیقی اور حاکم نے صحیح اسناد سے حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت کیا کہ حضور اکرم صلی یا ہی ہم نے

Page 146

146 ارشاد فرمایا.میں رب تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبین ہو چکا تھا حالانکہ ابھی آدم علیہ السلام اپنے ضمیر میں جلوہ گر تھے.“ مولوی عبدالاحد قادری لکھتے ہیں کہ : (مشکوۃ ورسائل نعیمیہ صفحہ 84) حضرت عرباض بن ساریہ سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اینم نے فرمایا: ”میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت خاتم النبیین تھا جب ابھی حضرت آدم علیہ السلام مٹی ہی تھے.“ مولوی اشرف سیالوی لکھتے ہیں: ( رسائل میلاد مصطفی ص 716 آنحضرت سال ایام حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق و ایجاد سے پہلے نبوت و رسالت اور خاتم النبیین کے منصب پر فائز تھے.“ ( ملخصا تنویر الابصار صفحہ 77 ، بحوالہ سندیلوی کا چیلنج منظور ہے) کاظمی صاحب لکھتے ہیں: ”حدیث کا مطلب یہی ہے کہ میں فی الواقع خاتم النبین ہو چکا تھا نہ یہ کہ میرا خاتم النبیین ہو نا علم الہی میں مقدر تھا“.(مسئلہ نبوت عند الشیخین صفحه 73) سیالوی صاحب ! آپ کا کیا پروگرام ہے.یہ مولانا نانوتوی کے موافق تمہارے بزرگ ہوئے یا نہ اب ان کے کفر و ایمان کا مسئلہ نہ رہا.بلکہ تمہارے ایمان کا مسئلہ بن گیا اب بھی ان کو بزرگ مانتے ہو تو تم بھی گئے اور اگر ان کو بھی کا فرما نو و یہ تم سے ہو نہ سکے گا کہ باپ کو بھی کا فر کہو.کتاب حسام الحرمین کا حقیقی جائزہ صفحہ 123 تا136 مولفہ الیاس گھن مطلب دارالایمان پرنٹر فرسٹ فلورز بید سنٹر 40ار دو بازار لاہور مکتبہ اھل السنۃ والجماعة 87 جنوبی لاہور روڈ سرگودہا ) اعتراض نمبر 11 جب اہل السنتہ دیو بند کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ اعلیٰ حضرت نے تینوں عبارتوں کو آگے پیچھے کیوں کیا؟ تو بریلوی علامہ قسم شاه بخاری کود کر میدان میں آپکے اور کہنے لگے وہ تین عبارات علیحدہ علیحدہ بھی مستقل طور پر کفر یہ ہیں.( حاشیہ جسٹس کرم شاہ کا تنقیدی جائزہ صفحہ (371) ابو کلیم محمد صدیق خانی بھی چلایا کہ : تحذیر الناس کی تینوں عبارتیں اپنی اپنی جگہ پر مستقل کفریہ عبارتیں ہیں“.(افتخار اہلسنت صفحہ 71)

Page 147

147 الجواب بعون الملک الوہاب پہلی عبارت تحذیرالناس کی جو اعلیٰ حضرت نے پہلے لکھی ہے : ویسے تو وہ صفحہ 14 کی ہے.بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے.تمهید ایمان مع حسام الحرمین صفحه 29 اگر یہ کفر ہے تو دیکھیے بڑے بڑے بریلوی کفر کی دلدل میں پھنس جائیں گے.1.شاہ نقی علی خان صاحب لکھتے ہیں : چار پیغمبر یعنی حضرت اور میں اور حضرت عیسی اور حضرت خضر اور حضرت الیاس کے بعد آپ کی بعثت کے زندہ رہے.مولوی احمد رضا خان فرماتے ہیں: ( سرور القلوب صفحہ (771) چار انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام وہ ہیں جن پر ابھی تک اک آن کے لیے بھی موت طاری نہیں ہوئی دو آسمان پرسید نا اور میں علیہ الصلوۃ والسلام اور سید نا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام اور دوزمین پر سید نا الیاس علیہ الصلوۃ والسلام اور سید نا حضرت خضر علیہ السلام “.مولوی محمد اشرف سیالوی بریلوی لکھتا ہے : (صفحہ 472 ملفوظات مشتاق بک کارنر لاہور ) حضرت عیسی ، حضرت اور میں، حضرت خضر، حضرت الیاس علیہم السلام ظاہری حیات کے ساتھ زندہ موجود ہیں“.(کوثر الخیرات صفحہ (29) یہ سب بریلوی کہہ رہے ہیں کہ اب بھی یہ چار نبی موجود ہیں دوز مین پر اور دو آسمان پر تو یہ کہہ کر یہ سب کافر ہوئے یا نہیں؟ اور آپ پڑھ چکے ہیں جو احمد رضا کا ہم عقیدہ نہ ہو وہ کافر ہے تو پھر دنیا جہان کے بریلوی بشمول فانی صاحب اور تبسم صاحب کا فر ٹھہرے کیونکہ یا تو وہ اس عقیدے کو مانتے ہیں یا منکر ہیں.اگر مانتے ہیں تو پھر بھی ان دو فتوؤں کی وجہ سے کافر نہیں مانتے تو احمد رضا کے ہم عقیدہ نہ ہونے کی وجہ سے کافر ہیں کتاب حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ پس 139 140 مولفہ الیاس گھمن مطبع دار الایمان پر نظر فرسٹ فلورز بیدہ سنٹر 40 اردو بازار لاہور مکتبہ اھل السنۃ والجماعة 87 جنوبی لاہور روڈ سرگودہا) بریلوی کہہ رہے ہیں کہ احمدیوں اور دیوبندیوں کی ختم نبوت کی تفسیر ایک ہے تو جوابا دیو بندی ان کو آئینہ

Page 148

148 دکھا رہے ہیں کہ تمہارے بزرگوں کی اور احمدیوں کی تفسیر بھی تو ایک سی ہے اور پھر دونوں قومی اسمبلی پہنچ کر اور تیسری ترمیم پاس کرواتے ہوئے سمجھوتہ کر لیتے ہیں.تم اپنی تحذیر الناس کو چھپالو ہم اپنی حسام الحرمین کو بھول جاتے ہیں.بند دروازے کے پیچھے چار چار نبیوں کے زندہ موجود ہونے کا درس اور جلسے میں قطعی آخری کی رٹ.یہی بھول بھلیاں اور سمجھوتے اور آہستہ بولو کہ کہیں احمدی سن نہ لیں ہی میری اٹھا ئیسویں مشکل بن گئی.مشکل نمبر 29 بھائی آپ کی ختم نبوت کی تفسیر غلط کیوں نہیں اور آپ کا فرکیوں نہیں؟ آپ کی ختم نبوت کی تفسیر تو کجا کلمہ ، وضو، نماز، آذان، روزه، حج ، زکواۃ ، نکاح، طلاق تک الگ ہے پھر آپ کا فرکیوں نہیں؟ چاروں گروپ کے علماء کا پانچویں گروپ سے دردمندانہ سوال مولانا یوسف بنوری جماعت احمدیہ کے مخالفین میں ایک اور بڑا نام آپ ایڈیٹر ماہنامہ رسالہ البینات تھے ساری عمر جماعت احمدیہ کے خلاف لکھتے گزاری مگر دل کا کرب چھپائے نہیں چھپا آپ امت مسلمہ سے اپیل کرتے ہوئے کہتے ہیں: قادیانی نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور کلمہ گو ہیں بلکہ انہوں نے اپنے نقطہ نظر کے مطابق ایک صدی سے بھی زیادہ مدت سے اپنے طریقے پر اسلام کی تبلیغ واشاعت کا جو کام خاص کر یورپ اور افریقی ممالک میں کیا.اس سے باخبر حضرات واقف ہیں.اور خود ہندوستان میں جو قریباً نصف صدی سے اپنے آپ کو مسلمان اور اسلام کا وکیل ثابت کرنے کے لیے عیسائیوں اور آریہ سماجیوں کا انہوں نے جس طرح مقابلہ کیا.تحریری اور تقریری مباحثے کئے وہ بہت پرانی بات نہیں پھر ان کا کلمہ ان کی آذان اور نماز وہی ہے جو عام امت مسلمہ کی ہے.زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں ان کے فقہی مسائل قریب قریب وہی ہیں جو عام مسلمانوں کے ہیں.لیکن اثناعشریہ (شیعہ ) کا حال یہ ہے کہ: ان کا کلمہ الگ ہے.ان کا وضو الگ ہے.

Page 149

149 مد ان کی نماز اور آذان الگ ہے.زکواۃ کے مسائل بھی الگ ہیں.م نکاح اور طلاق وغیرہ کے مسائل بھی الگ ہیں.حتی کہ موت کے بعد کفن دفن اور وراثت کے مسائل بھی الگ ہیں.مضمون کے آخر میں حضرات علماء کرام سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ اثنا عشری شیعوں کے کفر کے بارے میں اپنی ذمہ داری کب نبھائیں گے.(ماہنامہ البینات کراچی جنوری فروری 1988 ، صفحہ 96) یہ کیا الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے...شیعہ علماء کا جواباً ٹکا سا جواب جاؤ جاؤ سر کار، آپ سب تو 1400 سال سے ہی غلط ہو...ہمارے اسی امتیاز سے تم نے قومی اسمبلی میں ہماری منتیں کر کے فائدہ اٹھایا اور قادیانیوں کو کا فر دلوایا اور آج ہمیں کا فر بنانے کی باتیں کرتے ہو...شیعہ علماء کا چاروں گروپوں کو جوابی یادہانی اگر ہمارا نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ بھی تمہاری اور قادیانیوں کی طرح ایک سا ہوتا تو قومی اسمبلی میں قادیانی کبھی تم سے not muslim قرار نہ پاتے.یاد کرو جب مرزا ناصر نے تمہاری تمام کتابیں اٹھا کر تمہارے منہ پر دے ماری تھیں اور پھر تم قومی اسمبلی کے کیفے ٹیریا میں سر جوڑ کر بیٹھے تھے کہ قادیانی تو ہر مسئلہ میں ہمارے اکابر کے ہی افکار پر چل رہے ہیں پھر ان کو کافر کیسے قرار دلوایا جائے اور پھر تم سب نے فیصلہ کیا کہ شیعہ علماء کو ڈھونڈا جائے کیونکہ ان کا نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ تفسیر سب الگ ہے اور پھر ہم نے یہ مسئلہ حل کیا اور احمدیوں کو not muslim قرار دلوایا.وہ جو 40 تھے اور 40 سے اوپر کے تھے...مشہور شیعہ عالم دین جناب عرفان حیدری حالیہ دور میں علماء کے شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کے اضافے کے مطالبے پر تبصرہ کرتے ہوئے ستمبر 1974ء کی قومی اسمبلی اور اس کی روئیداد علماء کو یاد دلاتے ہیں : میں نے یہ عرض کیا تھا کہ یہ سزا ہے باب علوم رسالت سے دوری کی کہ 1400 برس کے بعد بھی تمہیں مسلمان کہلوانے کے باوجود بھی اپنے مذہب کی وضاحت کرنا پڑ رہی ہے.اگر 1400 برس پہلے مومن بن کر علی کے دروازے پر آجاتے تو نہ مذہب کی وضاحت کی ضرورت رہتی نہ ولدیت کی سند کی پہچان کی ضرورت تھی.مذہب کے خانے میں اضافے کی جو بات کی جارہی ہے تو اس کے لئے مسلسل وضاحتیں بھی کی جارہی ہیں کہ یہ صرف چونکہ قادیانیوں کے نام بھی عام مسلمانوں کی طرح ہوتے ہیں اور انہیں قومی اسمبلی منارٹی ڈیکلیر کر چکی ہے اس لئے کفر

Page 150

150 اور اسلام کو علیحدہ علیحدہ کرنے کے لئے اب مذہب کا اضافہ کیا جا رہا ہے تا کہ پہچان ہو سکے کہ کافر کون ؟ اور مسلمان کون؟ تو میری جان دو قدم آگے بڑھ کر چہرے سے نقاب کیوں نہیں الٹے : حمد ان کا طریق نماز بھی وہی ہے جو سارے مسلمانوں کا ہے.ان کا روزہ کھولنے کا وقت بھی وہی ہے.حمد ان کی نماز بھی ویسی جو سارے مسلمانوں کا طریقہ نماز ہے.ان کے قرآن پڑھنے کا انداز بھی وہی جو سارے مسلمانوں کا انداز قرات.ان کا روزے کھولنے کا وقت بھی ویسا جو سارے مسلمانوں کا وقت ہے.حمد ان کے ارکان حج بھی وہی جو سارے مسلمانوں کے ہیں.ان کا نصاب زکوۃ بھی وہی جو سارے مسلمانوں کا ہے.حمد ان کی توحید بھی وہی.ان کا لا اله الا اللہ بھی وہی جو سارے مسلمانوں کا.ا ان کا خدا بھی تخت پر بیٹھتا ہے.ان کا خدا بھی مسکراتا ہے ان کا خدا بھی روتا ہے.تو جب مسئلہ یہ ہے کہ مرزا غلام احمد نے کوئی نیا فقہ نہیں دیا اسی فقہ پر چل رہا ہے وہ بھی مقلد ہے.وہی شریعت دے رہا ہے کوئی نئی شریعت نہیں لایا.وہی طریقہ نماز دے رہا کوئی نئی طریقہ نماز نہیں لایا.وہی قرآن پڑھ رہا ہے کوئی نیا قرآن لیکر نہیں آیا.اسی آیت سے استدلال کر رہا ہے جس سے تمام مسلمان خاتم النبیین کا استدلال کرتے ہیں.اسی سورۃ سے استدلال کرتا ہے ماکان محمد ابا احدا من رجالكم ولكن مرسول الله وخاتم النبيين.مرزا غلام احمد یہی کہتا ہے کہ میں کب خاتم النبیین کا انکار کر رہا ہوں.میں تو تمہارے ہی بتائے ہوئے طریقوں سے استدلال کر رہا ہوں.ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اگر انگوٹھی ہیں اس انگوٹھی کا نگین ، خاتم میرا رسول ہے وہ میں بھی مانتا ہوں.....دنیا کی کوئی طاقت سارے علماء ملکر بھی قادیانیوں کو کا فرقرار نہ دے سکتے تھے اگر علی والے وہاں موجود نہ ہوتے 80 گھنٹے تک پاکستان کی قومی اسمبلی میں آرڈیننس پاس کرنے کے لئے...خلیفہ نے سارے مسلمان علماء کو پانی پانی پلا پلا کر مارا.پانی پلا پلا کر مارا اور جب فیصلہ نہ ہو سکا تو قومی اسمبلی کے کیفے ٹیریا میں بیٹھ کر سارے علمائے اسلام نے اجتماع کیا.مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد کیا.80 گھنٹے ہو گئے.ہم اسے شکست نہیں دے سکے.جو دلیل لاتے ہیں وہی دلیل یہ پیش کر دیتا ہے.ہم نے یہ دلیل دی کہ نبی معصوم ہوتا ہے مرزا ناصر احمد نے علمائے دیوبند کی ساری کتابیں انکے منہ پر دے ماریں.آ پس میں مشورے کر رہے ہیں کہ کیا

Page 151

151 کریں؟؟ اسے کیسے قابوکریں ؟؟80 گھنٹے ہو گئے ہیں ہمیں بحث کرتے ہوئے ہم اسے قائل نہیں کر سکے.ان علماء میں سے ایک بزرگ عالم نے کہا یہ ختم نبوت کا مسئلہ ہے یہ ہم سے طے نہیں ہو گا کسی علی والے کو بلاؤ.40 کے 40 علماء سر جھکا کر کہنے لگے کہ یہ ہماری تو ہین ہو جائے گی.بڑی سبکی ہوگی.ہم 40 ہیں اور سب 40 سے اوپر کے ہیں 40 ویں نے کہا اس میں سیکی کی کیا بات ہے کہ اگر ہم علی والوں کو بلا رہے ہیں تو کوئی پہلی بار تو نہیں بلا ر ہے.مبلغ اسلام مولانا اسمعیل قبلہ کو خط لکھا گیا اس وقت تبلیغی دورے پر تھے.لیکن جب دیر ہوتی رہی تاخیر ہوتی رہی.میں نے خود ان سے سنا یہاں کراچی کی بارگاہ میں کہ ایک دن جب صبح کی نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو درس آل محمد فیصل آباد کے دروازے پر دستک ہوئی.میں نے جو دروازہ کھولا تو دیکھا کہ درس آل محمد کے دروازے پر 40 کے 40 علماء نہیں پورانظام مصطفیٰ ، پوری کٹ میں کھڑا ہے.وہی عبا، وہی چوغا، وہی تسبیح ، وہی ڈنڈا، مولانا فورا ہی دو قدم پیچھے ہٹ گئے.کہنے لگے سارے علماء وہ بھی اکھٹے غریب خانہ پر کوئی اور کفر کا فتویٰ تو نہیں لائے.سارے علماء آگے بڑھ کر مولانا سے بغلگیر ہو گئے کہ مولانا آپ کیسی بات کرتے ہیں؟ کفر کا کیسا فتویٰ ؟ آپ تو ہمارے چھوٹے بھائی ہیں بلکہ اس وقت تو بڑے بھائی ہیں.مولانا! ہمارا اللہ ایک تمہارا اللہ ایک.آپ کا رسول ایک ہمارا رسول ایک.آپ کا قرآن ایک ہمارا قرآن ایک.ہمارا کعبہ ایک آپ کا کعبہ ایک.مولانا نے کہا کہ یہاں تک تو مان لون گا آپ کے خلفاء مختلف میر اعلی ایک.کہنے لگے اسلام پر برا وقت آ گیا.پوچھا کیا ہوا اسلام پر کیسے برا وقت آگیا؟...کہا ختم نبوت کا مسئلہ خلیفہ قادیانی مامتا نہیں.کہا مجھے تو آپ کے اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں.ہاں میں ایک شہزادی کا فقیر ہوں اس کے باپ کی عزت مجھے بہت عزیز ہے.یہ علماء فورا مولانا اسمعیل کو لیکر قومی اسمبلی کے کیفے ٹیر یا پہنچے اور مرزا ناصر سے تعارف کروایا.مرزا ناصر نے کہا کہ ان کے تعارف کی ضرورت نہیں.میں انہیں خوب جانتا ہوں.علماء نے کہا کہ یہ ہمارے بھائی ہیں.مرزا ناصر نے کہا کہ 1400 برس سے تو ہمیں بھی تو اپنا بھائی کہہ رہے تھے.مرزا ناصر نے کہا کہ نہ میں ان سے ملوں گا اور نہ ان سے مقابلہ کروں گا.اے مولویو میں تم سے مقابلہ کروں گا کیونکہ میرا دعویٰ مسلمانوں سے ہے مومنوں سے نہیں.ان سے مقابلے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ یہ تو 1400 برس پہلے ختم نبوت پر دلیل دے چکے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ لا الہ الا الله محمد مرسول الله على الله ولی الله ( مولانا عرفان حیدری صاحب کی یہ مکمل ویڈیو تقریر بر موضوع شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ ضروری ہے you tube hours debate with qadiyani molvi how qadiyanis were defetedmolvi and 8040 presented by shiamajlis AND 3.2.PART 1/decleared kafir اس تقریر کو شبیر کیسٹ ہاؤس نے

Page 152

152 ریکارڈ کیا ہے ) شیعہ حضرات کے بارے میں علماء کی چیخ و پکار اور شیعہ علماء کی جوابی چڑھائی ہی میری انتیسویں مشکل ہے.مشکل نمبر 30 غلط، غلط ، سارے غلط ، غلط ہی غلط...ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور...کیا یہ محاورہ واقعی درست ہے...جی ہاں بالکل درست ہے.اگر یقین نہیں تو آئیے میرے ساتھ وہابی، دیوبندی، پنج پیری، چکڑالوی، رافضی، غیر مقلد، خاکساریہ، احراریہ، جٹا دھاریہ، آغا خانید، پرویزی، جماعت اسلامی تبلیغی جماعت والوں کا کفر جماعت احمدیہ کے کفر سے بھی زیادہ بڑا اور خطر ناک ہے.ہیں ں ں یہ کیا؟ دیوبندی...احمدیوں سے بھی بڑے بریلویوں کے سرتاج عالم دین جناب مولاناحمد رضا خان نے فتویٰ دیتے ہوئے فرمایا: اگر ایک جلسہ میں آریہ، عیسائی ، اور دیوبندی، قادیانی وغیرہ جو اسلام کا نام لیتے ہیں وہ بھی ہوں تو وہاں بھی دیو بندیوں کا رد ہونا چاہیے کیونکہ یہ لوگ اسلام سے نکل گئے ہیں مرتد ہو گئے ہیں اور مرتدین کی موافقت بدتر ہے کافر اصلی کی موافقت سے“.( ملفوظات احمد رضا خان صفحه 325 326) وہابی، دیوبندی، پنج پیری، چکڑالوی، رافضی، غیر مقلد، خاکساریہ، احراریہ، جنادهاریه، آغا خانی.....احمد یوں سے بھی بڑے بریلوی مولوی احمد رضا خان صاحب مزید فتوی دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ی ایسے ہی وہابی ، قادیانی، دیونبدی، پنج پیری، چکڑالوی ، یہ سب مرتدین ہیں.ان کے مرد یا عورت کا تمام جہان میں جس سے نکاح ہو، مسلم ہو یا کافر.اصلی ہو یا مرتد.انسان ہو یا حیوان محض باطل اور زنا خالص ہوگا.اور اولا دولد الزنا ہو گی“.( ملفوظات مولوی احمد رضا خان حصہ دوئم بحوالہ تہمت وہابیت اور علمائے دیوبند صفحہ 11 مولف نثار خان مفتی )

Page 153

153 مرتد مرد ہو یا عورت مرتدوں میں سب سے بدتر منافق ہے اس کی صحبت ہزاروں کا فروں سے زیادہ مضر ہے کہ مسلمان بن کر کفر سکھاتا ہے.خصوصاً وہابیہ، دیو بند یہ کہ اپنے آپ کو خالص اہل السنۃ والجماعۃ کہتے ہیں، حنفی کہتے ہیں ، چشتی، نقشبندی کہتے ہیں.نماز روزہ ہم سا کرتے ہیں.ہماری کتابیں پڑھتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کو گالیاں دیتے ہیں.یہ سب سے بدتر زہر ہے.(احکام شریعت حصہ اول ص 61 بحوالہ تہمت وہابیت اور علمائے دیو بند صفحہ 11 مولف نثار خان مفتی ) رافضی ، غیر مقلد، پنج پیری ، وہابی، دیوبندی، ان سب کے ذبیحے محض نجس، مردار اور حرام ہیں.لاکھ بار اللہ کا نام لیں یہ سب مرتد ہیں“ (احکام شریعت حصہ اول ص 61 حوالہ تہمت وہابیت اور علمائے دیو بند ص 11 مولف نثار خان مفتی ) وہابیہ، دیوبندیہ وقادیانیہ وروافض و خاکساریہ و چکڑالو یہ واحرار یہ و جٹا دھاریہ (حسن نظامی اور ان کے مرید ) آغا خانیه و غیر مقلدین و وہابیہ مجدیہ اپنے عقائد کفریہ قطعیہ یقینیہ کی بناء پر بحکم شریعت قطعاً اسلام سے خارج اور کافر ومرتد ہیں.جو مسلمان ان میں سے کسی کی یقینی اطلاع رکھتے ہوئے ان کو مسلمان کہے یا ان کے کافر و مرتد ہونے میں شک کرے یا کافر و مرتد کہتے ہوئے توقف کرے وہ بھی یقیناً کافر اور مرتد ہے اور اگر مرا تو بے تو بہ مرا مستحق نار ابد.( ملفوظات مولوی احمد رضا خان حصہ دوئم بحوالہ تہمت وہابیت اور علمائے دیو بندص 453 مولف نثار خان مفتی ) جماعت اسلامی...احمدیت سے بھی بڑی دیوبندیوں کے سرخیل عالم دین اور سہارن پور کے مفتی صاحب جماعت اسلامی کے بارے میں فرماتے ہیں: ”میرے نزدیک یہ جماعت اپنے اسلاف (یعنی مرزائی) سے بھی مسلمانوں کے دین کے لئے زیادہ ضرر کشف حقیقت مصنفہ مولوی سعید احمد مفتی سہار پورص 88 و استفتائے ضروری ص 34 رساں ہے" پرویزی...احمدیوں سے بھی بڑے مولانا امین احسن صلاحی جماعت اسلامی کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ صریح کفر ہے اور بالکل اسی طرح کا کفر ہے جس طرح کا کفر قادیانیوں کا ہے بلکہ کچھ اس سے بھی سخت اور شدید ہے ( مولانا امین احسن اصلاحی روز نامہ تسنیم لاہور 5 اگست 1952 ص 12)

Page 154

154 شیعت...احمدیت سے بھی بُری دیوبندی عالم دین مولا نا بنوری شیعہ اور احمدی اسلام کے فرق کو یوں دیکھتے ہیں : قادیانی نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور کلمہ گو ہیں بلکہ انہوں نے اپنے نقطہ نظر کے مطابق ایک صدی سے بھی زیادہ مدت سے اپنے طریقے پر اسلام کی تبلیغ واشاعت کا جو کام خاص کر یورپ اور افریقی ممالک میں کیا.اس سے باخبر حضرات واقف ہیں پھر ان کا کلمہ ان کی آذان اور نماز وہی ہے جو عام امت مسلمہ کی ہے.زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں ان کے فقہی مسائل قریب قریب وہی ہیں جو عام مسلمانوں کے ہیں.لیکن.....اثنا عشریہ (شیعہ ) کا حال یہ ہے کہ: ان کا کلمہ الگ ہے.ان کا وضو الگ ہے.ان کی نماز اور اذان الگ ہے.زکواۃ کے مسائل بھی الگ ہیں.نکاح اور طلاق وغیرہ کے مسائل بھی الگ ہیں.حتی کہ موت کے بعد کفن دفن اور وراثت کے مسائل بھی الگ پرویزیت...احمدیت سے بھی بری وکیل ختم نبوت جناب مولانا یوسف لدھیانوی صاحب پرویزیت اور جماعت احمدیہ کا تقابلی جائزہ کرنے کے بعد یہ اعلان کرتے ہیں: انگریز کے عہد نخوست میں جو تحریکیں اسلام کو مسخ ومحرفت کرنے کے لیے اٹھیں انمیں سب سے پہلی تحریک نیچریت کی ہے.پھر ایک طرف قادیانیت.دوسری طرف چکڑالویت نے انکار حدیث کا فتنہ برپا کیا اس کے بعد خاکسار تحریک نے سر اٹھایا اور پھر ان سب تحریکوں کا سڑا ہوا ملغوبہ مسٹر پرویز کے حصہ میں آیا اور ان سب پر کمیونزم کا پورا معاشی ڈھانچہ اور اس کی مذہب بیزاری.نیچریت کی مادہ پرستی.قادیانیت کا انکار.چکڑالویت کا انکار سنت.خاکساروں کی تحریف و تاویل سب خرابیاں یکجا موجود ہیں اور مسٹر پرویز کے قلم کی روانی نے ان غلاظتوں میں اور اضافہ کر دیا.مسٹر غلام احمد پرویز بد قسمتی سے ہم وطن بھی اور الحاد وزندقہ میں اس کا ہم مسلک بھی“.ہفت روزہ ختم نبوت 18 تا 24 دسمبر 1992 صفحہ 13 |

Page 155

155 جماعت اسلامی...احمدیت سے بھی بری مشہور بریلوی عالم دین مولانا ارشد القادری ایڈیٹر جام نور جمشید پور جماعت اسلامی اور جماعت احمدیہ کے محاسن کا تقابلی جائزہ لینے کے بعد یہ اعلان فرماتے ہیں جماعت اسلامی جن لوگوں کو اسلام سے قریب تر کرتی ہے وہ ہزار بگڑنے کے باوجود کسی نہ کسی نہج سے اسلام کے ساتھ بہر حال کوئی تعلق رکھتے تھے لیکن قادیانی جماعت کا لٹریچر مغرب کے عیسائیوں کو جو اندر سے لے کر باہر تک اسلام کے غالی دشمن اور حریف ہیں.انہیں اسلام سے قریب ہی نہیں کرتا اپنے طور پر اسلام کا کلمہ پڑھواتا ہے.( جماعت اسلامی صفحه 104 شائع کر دو نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی کچا رشید روڈ بلال سنج پرویزیت...احمدیت سے بھی بری جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے مولوی شیخ الحدیث عبد المالک صاحب پرویزیت اور احمدیت کا تقابلی جائزہ اس طرح سے پیش کرتے ہیں: غلام احمد پرویز اور اس کے پیروکار قادیانیوں سے بھی بڑے کا فر ہیں.اس لئے کہ وہ اپنا مرکز مسجد کے نام سے بناتے ہیں اور نمازوں اور جماعتوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں لیکن یہ لوگ تو مسجد اور نمازوں سے بھی دور ہیں اور اپنے آپ کو مسلمانوں سے اس طرح دور کر رکھا ہے جس طرح خبیث طیب سے الگ ہوتا ہے اور ابھی تک ان کے پاس کسی بھی شہر میں کوئی مسجد نہیں جو ان کا مرکز صلاۃ و اجتماع ہو (فتنہ پرویزیت ملت اسلامیہ کے خلاف استعماری سازش ص 187 ، شیخ الحدیث عبد المالک جامعه مرکز اسلامیہ منصورہ لاہور ) غیر مقلدیت...احمدیت سے بھی بری جماعت احمدیہ کے ابتد کی شدید مخالف مولوی غیر مقلد مولوی ثناء اللہ صاحب فرماتے ہیں ”اسلامی فرقوں میں خواہ کتنا ہی اختلاف ہو مگر آخر کار نقطعہ محمدیت پر جو درجہ والذین معہ کا ہے سب شریک ہیں اس لئے گوان مین سخت با ہمی شقاق ہے مگر اس نقطعہ محمدیت کے لحاظ سے ان کو رحماء بینھم ہونا چاہیئے.مرزائیوں کا سب سے زیادہ مخالف میں ہوں مگر نقطعہ محمدیت کی وجہ سے ان کو بھی اس میں شامل سمجھتا ہوں“ (اخبار اہل حدیث امرتسر 16 اپریل 1915 بحوالہ الھد کی انٹر نیشنل کیا ہے مولفہ مفتی محمد اسمعیل طور و شعبه نشر و اشاعت و شعبه دار الافتاء جامعہ اسلامیہ صدر کامران مارکیٹ راولپنڈی ص 140) جاوید غامدی...احمدیوں سے بھی برے جماعت اسلامی میں مولوی جاوید غامدی کے سابقہ دوست اور بچپن کے قریبی ساتھی ان کے علم کلام کا جائزہ

Page 156

156 یوں پیش کرتے ہیں: ” مغرب سے مرعوبیت کے زیر اثر ہمارے ہاں تجدد پسندی (modrenism) اور انکار حدیث کا فتنہ ڈیڑھ سو سال سے پھیلایا جا رہا ہے اس کا آغاز تو سر سید احمد خان سے ہوا تھا پھر چند اور حضرات اسے آگے لے کر بڑھے پھر غلام احمد پرویز نے اسے خوب پروان چڑھایا اور اب جاوید احمد غامدی نے اسے ضلالت اور گمراہی کی آخری حد تک پہنچا دیا ہے.یہ فتنہ فتنہ ہزار رنگ ہے جو قادیانیت، پرویزیت ، مغربیت ،تجدد، اور اعتدال پسند روشن خیالی جیسے عنصر کا مرکب ہے“ جاوید احمد غامدی اور انکار حدیث مولفہ مولوی رفیق احمد ص 9 مکتبہ قرآنیات یوسف مارکیٹ غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور اہتمام حافظ تقی الدین) جماعت احمدیہ کے پس منظر میں دیو بندیوں کا اعتراض شیعہ پر اور شیعہ کا جواب دیو بندیوں کو، بریلویوں کا اعتراض دیوبندیوں پر اور جماعت اسلامی کا اعتراض پر ویزیوں پر اور بریلویوں کا اعتراض جماعت اسلامی پر.اگر یہ سب بھی درست ہے تو پھر تقویٰ کہاں گیا ؟ اور ڈھٹائی سے جھوٹ بولنا کس چڑیا کا نام ہوا؟ مذہبی دنیا کی یہی اندھی مخالفت ہی میری تیسویں مشکل بن گئی ہے.اسلام سیاسی حربے کے طور پر علامہ اقبال کا فتویٰ مشکل نمبر 31 وہ شخص جو دین کو سیاسی پرو پیگنڈے کا پردہ بناتا ہے وہ میرے نزدیک لعنتی ہے“.( زنده رود صفحه 649) جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینا ایک دینی پروگرام کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ سیاسی عزائم کی خاطر ہوا اور یہ جانچ میری 31 ویں مشکل بن گئی.1953 ء اسلام سیاسی حربے کے طور پر: پاکستان سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب جاوید اقبال اپنی تازہ کتاب یادیں میں اس سیاسی کھیل کا آنکھوں دیکھا حال یوں درج فرماتے ہیں: 1953ء میں ( تحریک تحفظ ختم نبوت کے دوران.ناقل ) علماء نے ایک مرتبہ پھر سیاسی طور پر قوت یا اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ اینٹی احمد یہ موومنٹ تھی.اس کے پیچھے بعض سیاسی عناصر تھے جن کا مقصد یہ تھا

Page 157

157 کہ کسی نہ کسی طریقے سے خواجہ ناظم الدین کی وزرات عظمی کو ختم کیا جائے.پنجاب میں ایسے سیاستدان تھے جو اس کوشش میں تھے کہ مولویوں کو اکسا کر خواجہ ناظم الدین کو ختم کیا جائے.اس موقعہ پر پہلی مرتبہ ( وطن عزیز میں ناقل ) ہم نے اسلام کو بطور سیاسی حربے کے استعمال کیا.1974 ء اسلام پھر سیاسی حربے کے طور پر : (صفحہ 142) جناب حسین نقی روز نامہ دی نیوز“ کے سابق ایڈیٹر اور ممتاز اخبار نویس 1974ء کی تحریک ختم نبوت کا تجزیہ یوں پیش کرتے ہیں: دوختم نبوت تحریک میں احراریوں نے ایک سیاسی حکمت عملی کے ماتحت قادیانیوں کو ہدف بنایا.پیپلز پارٹی اور بھٹو مرحوم دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے سوسالہ پرانا ( قادیانی مسئلہ حل کر دیا.انہوں نے کوئی مسئلہ حل نہیں کیا بلکہ مسئلے کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ اب پاکستان میں ہر فرقے کے لیے یہ مسئلہ پیدا ہو گیا ہے اور ہر فرقہ اس بناء پر ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہا ہے.74ء کی ختم نبوت تحریک میں اسلام حربے کے طور پر : 74 کی تحریک ختم نبوت کا ذکر کرتے ہوئے فرزند اقبال فرماتے ہیں: قومی ڈائجسٹ لاہور مارچ 95 ء ) (74ء میں ) ساری اپوزیشن نے بھٹو کو ہٹانے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ اسلام کو خطرے میں ڈال دیا.حالانکہ آج تک اسلام خطرے میں نہیں ہوا.آپ کو یاد ہوگا کہ بھٹو نے گھوڑ دوڑ اور شراب بند کر دی.احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا سو انہوں نے اپنی طرف سے یوں اسلام نافذ کیا وہ اپنا اقتدار بچانے کی خاطر سب کچھ کرتے چلے گئے.آپ دیکھ لیں کہ اسلام کو کیونکر حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے“.74ء کی ختم نبوت تحریک بادشاہ وقت نے خود سیاسی فوائد کے لیے اٹھائی: ( یا دیں صفحہ 146 ) جناب الطاف حسین قریشی مدیر اردو ڈائجسٹ جیسے کہنہ مشق صحافی اس تحریک کو کس نظر سے دیکھتے ہیں.ذوالفقار علی بھٹو نے (1974ء) میں یہ اقدام سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے اٹھایا تھا.کچھ باخبر حلقے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ قادیانیوں کے خلاف ہنگامہ آرائی کے مواقع مسٹر بھٹو نے ہی فراہم کئے“.

Page 158

158 محافظین ختم نبوت کا طر ز تبلیغ اردوڈائجسٹ مارچ 1976ء) مشکل نمبر 32 سیاسی حربے کے ساتھ ساتھ جو ملی طور پر تبلیغ کا راستہ اختیار کیا گیا تا کہ جلد سے جلد تمام احمدی بھائی حلقہ بگوش اسلام ہو جا ئیں وہ بھی شاید بڑا پاکیزہ تھا.ماضی میں اس کی مثال کہاں اور کس صدی میں ملتی ہے اس کی تحقیق کرنا ہر صاحب ایمان اور رحمتہ للعالمین کے غلاموں پر فرض ہے.سر دست اس شاندار اسلامی تبلیغی خدمت کی صرف چند جھلکیاں.$1974 1 - ترجمان اہل سنت (کراچی) تحریک ختم نبوت 1974 ء کا فخر یہ ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے.جون 1974 ء میں قومی اسمبلی کا اپنا کام جاری رہا اور اسی دوران ایک وقت آیا کہ جب مسلمانوں نے احمدیوں کا ایسا زبردست سوشل بائیکاٹ کیا کہ بعض مقامات پر کئی کئی دن تک ان کو ضروریات زندگی تک سے محروم رکھا.تحریک کی اس کفیت کا خاصا اثر رہا.(شمارہ اکتوبر 74 صفحہ 7) 2- آغا شورش کا شمیری مندرجہ بالا اقدام کی ترجمانی کرتے ہوئے فخریہ فرماتے ہیں: ر بوہ کی ناکہ بندی ہو چکی ہے.مسلمان کسی قادیانی کے ہاتھ کوئی چیز فروخت نہیں کرتے اور نہ ان سے کوئی چیز لیتے ہیں“.بلکہ مزید اطلاعاً فرماتے ہیں: تحفظ ختم نبوت کی مجلس عمل نے (احمدیوں کے خلاف تحریک میں توانائی پیدا کر دی ہے ( یعنی ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ کوئی سرکاری یا غیر سرکاری شخص مرزائیت کی بلاواسطہ تو کیا بلواسطہ حمایت کا تصور بھی نہیں کر سکتا.کراچی سے پشاور تک (ان کے خلاف ) جلسہ ہائے عام منعقد کئے جارہے ہیں.( روز نامچہ 29 جولائی 74 بحوالہ چٹان 7 ستمبر 74ء ) ( روز نامچہ یکم جولائی 74 ء ) گو یا احمدیوں کے خلاف قومی اسمبلی کا فیصلہ کسی آزاد ماحول میں نہیں شدید دباؤ کے تحت کیا گیا نیز اسلام کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا گیا.

Page 159

159 -3 شاندار تبلیغ کا سفر مسلسل جاری ہے.اس وقت ہم 1997ء میں وادی ہزارہ کے ایک گاؤں دانہ میں کھڑے ہیں.علماء دین حضرات بہت غصے اور طیش میں ہیں.ہو سکتا ہے کہ گاؤں میں کسی نے نماز نہ پڑھی ہو چوری کی ہو.زنا یا ڈاکہ مارا ہو.کسی کا مال ضبط کیا ہو گینگ ریپ یا کوئی گھناؤنی واردات ہو گئی ہو.شراب پی ہو رشوت یا سمگلنگ کی ہو.نشہ ہیروئین چرس بیچتا ہو.یا کہیں بے گناہ بچوں کو مسجد میں نماز پڑھتے بم پھینک کر ٹکڑے ٹکڑے کر کے بکھیر دیا گیا ہولیکن ؛ لیکن ایسی واردا تیں تو وطن عزیز کے روزمرہ پروگرام میں تسلسل کے ساتھ ہوتی رہتی ہیں.روزانہ کے اخبارات ہمیں ایسی معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں لیکن کبھی کسی گاؤں ،شہر یا محلہ کے علماءدین کو اتنا بر ہم نہیں دیکھا پھر کیا ہو سکتا ہے؟ یا اس سے بھی بڑی گھناؤنی اور مکروہ حرکت سرزد ہو گئی ہے جی ہاں حرکت ہی ایسی ” قابل شرم ہے اس لیے علماء کا غصے میں آنا فطری بات ہے.آئیے دھما کہ خیز قابل شرم واقعہ کا پتہ لیتے ہیں.واقعہ یوں ہوا کہ ضلع مانسہرہ میں دانہ گاؤں جو دور دراز پہاڑی سلسلے کے اندر شاہراہ ریشم سے کوئی 8 کلو میٹر دور واقع ہے.اس میں موجود چند احمدی گھروں کا علماء دین نے مکمل سوشل بائیکاٹ کر واد یا کہ آئندہ نہ کوئی شخص انہیں گاڑی پر بٹھائے گا اور نہ سودا سلف دے گا اور نہ بات چیت کرے گا اور نہ کوئی دوسرا لین دین کرے گا.یہ سلسلہ کئی سال تک چلتا رہا.چھوٹے چھوٹے بچے میلوں پہاڑی سفر پیدل طے کر کے سکول آتے جاتے رہے.بوڑھے ضعیف والدین تمام ضروریات زندگی اپنی کمروں پر لاد کر پہاڑوں کے اونچے نیچے راستوں پر رواں دواں رہے.گاؤں کے باقی مسلمان لوگ ان پیدل ضعیف لوگوں کے پاس سے گاڑیوں میں سوار گزرتے مذاق اڑاتے رہے.وقت کا بے رحم پہیہ یونہی 4 سال تک چلتا رہا.آخر ایک دن ضلعی انتظامیہ کو خبر ہوئی.علاقے کا تھانیدار گاؤں میں آیا اس نے لوگوں کو بلا کر سمجھایا کہ ایسا ظلم نہ کرو یہ غیر اسلامی حرکت ہے اور تم تو مرحمة للعالمین کے ماننے والے ہو جو انسانوں تو کجا جانوروں کے لیے بھی رحمت ہے.پس علماء دین بگڑ گئے اور اس عظیم دینی کام میں مداخلت ہی آپ کے غصے اور طیش کا موجب بن گئی.ایبٹ آباد میں شائع ہونے والا 11 مئی 97ء کا اخبار روز نامہ شمال میرے سامنے ہے.علماء دین کے مذکورہ واقعہ کے خلاف بیانات ملاحظہ ہوں.دا تا میں مرزائیوں کا سوشل بائیکاٹ ختم کرانے کی کوشش ناکام بنادی گئی.مرزائیوں کو سوز وکیوں میں بٹھایا جائے ان سے لین دین کیا جائے ایس ایچ او تھانہ صدر مانسہرہ کے فرمودات

Page 160

160 داتا کی پرامن فضا کو جان بوجھ کر خراب کرنے کی کوشش کی گئی.غیر دانشمدانہ طرز عمل روار کھنے والے ایس ایچ او کی مذمت.مانسهره (شمال نیوز ) داتا میں مرزائیوں کا سوشل بائیکاٹ ختم کروانے اور شہر کے پر امن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش ناکام بنادی گئی.تفصیلات کے مطابق موضع داتہ میں چار سال سے مرزائیوں کا سوشل بائیکاٹ جاری ہے مگر گزشتہ روز سوز وکیوں کے چند ڈرائیور حضرات غلط فہمی میں پورے گاؤں کے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بعض مرزائیوں کو سوز وکیوں میں بٹھا کر ایک تقریب میں لے گئے جس سے کسی وقت بھی ناخوشگوار صورت حال پیدا ہوسکتی تھی...شام اچانک 5 بجے کے قریب ایس.ایچ.اوتھانہ صدر مانسہرہ اپنی نفری کے ہمراہ گاؤں میں آدھمکے...اور دھمکیاں دینا شروع کردیں کہ تم لوگوں نے مرزائیوں کا سوشل بائیکاٹ کیوں شروع کر رکھا ہے اسے ختم کیا جائے اور مرزائیوں کو سوز وکیوں میں بٹھایا جائے اور ان سے لین دین کیا جائے کیونکہ وہ بھی پاکستانی ہیں.ان کی باتوں سے عوام میں اشتعال پھیل گیا شہر کے عوام اور تحفظ ختم نبوت یوتھ فورس کے راہنماؤں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا جس پر ایس ایچ او دو مساجد کے خطیبوں اور تحفظ ختم نبوت یوتھ فورس داتا کے راہنماؤں کو مانسہرہ تھا نہ لے آئے اور انہیں D.S.P کے دفتر لے گئے.داتا کے عوام کثیر تعداد بھی علماء کے ساتھ آئی.نیز تحفظ ختم نبوت یوتھ فورس مانسہرہ اور مجلس تحفظ ختم نبوت ایبٹ آباد کے راہنما اور مانسہرہ کی مساجد کے خطیب بھی دفتر پہنچ گئے جنہوں نے دانہ میں ناموس رسالت کے تحفظ کا عزم کا اظہار کیا.اہالیان دانہ اور تحفظ ختم نبوت یوتھ فورس داتا کے راہنماؤں نے مرزائی نواز ایس.ایچ.او کے رویہ کی پر زور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ ایس.ایچ.اونے دیدہ دانستہ جان بوجھ کر لوگوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی ہے.انہوں نے مطالبہ کیا کہ.....پر امن حالات کو خراب کرنے والے ایس.ایچ.او کو معطل کیا جائے.(روز نامه شمال اتوار 11 مئی 97 ، فرنٹ پیج ) امت مسلمہ کے زخموں پر نمک پاشی کرنے والا ایس.ایچ.او مانسہرہ کا ایک خش قدم اس مذموم واقعہ کے متعلق ختم نبوت ایبٹ آباد کے صدر کا بیان روز نامہ شمال“ کے پہلے صفحہ پر نمایاں سرخیوں کے ساتھ تین کالمی خبر کے ساتھ یوں شائع ہوا.مرزائیوں کے پشت پناہ ایس ایچ او کو معطل کیا جائے.اس نے کس کے ایماء پر مرزائیوں کا سوشل بائیکاٹ ختم کرنے کے لیے مسلمانوں پر دباؤ ڈالا.وقار گل.ساجد اعوان ایبٹ (نمائندہ خصوصی) دانہ ضلع مانسہرہ کے غیور مسلمانوں نے ایک عرصہ سے گستاخان نبی قادیانیوں سے حکمنامه سوشل بائیکاٹ کر رکھا ہے.گزشتہ روز ایس.ایچ.او تھانہ صدر مانسہرہ اچانک داتہ جیسے حساس علاقہ میں یہ لیکر پہنچے کہ قادیانیوں کا بائیکاٹ ختم کیا جائے ان خیالات کا اظہار تحفظ ختم نبوت یوتھ فورس ابیٹ آباد کے صدر وقار گل

Page 161

161 جدون اور جنرل سیکرٹری ساجد اعوان نے کرتے ہوئے ڈی آئی جی پولیس ہزارہ ڈویثرن اور کمشنر ہزارہ ڈویژن سے مطالبہ کیا کہ اس سرکاری اہل کار کی پشت پر شر پسند عناصر کو بے نقاب کریں اور ایس ایچ او تھانہ صدر مانسہرہ کو فوی طور پر معطل کریں.وقار گل اور ساجد اعوان نے واضح کیا کہ ایس.ایچ.اوکو ایسی تعلیمات دینے کا کوئی حق نہیں ہے جس سے کسی بھی طرح قادیانیوں کی خیر خواہی کا کوئی بھی پہلو نکلتا ہو.انہوں نے کہا کہ ایس ایچ او تھانہ صدر مانسہرہ کا ی بخش اقدام مسلم امہ کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے جسے کسی بھی طور برداشت نہیں کیا جا سکے گا.(روز نامه شمال ایبٹ آباد 11 مئی 1997 صفحہ (1) واقعی یہ قدم بڑ انخش اور امت مسلمہ کے زخموں پر نمک پاشی کرنے والا ایک انتہائی گھناؤنا اور مکروہ فعل ہے.اگر ایس.ایچ.او کے کہنے سے بائیکاٹ ٹوٹ جاتا تو یقینا یہ اس صدی کا سب سے ”غلیظ فعل ہوتا.اور امت مسلمہ کو ایک اہم اور نیک کام سے روکنے کی جسارت ہوتی.دوستو! محافظین ختم نبوت کی یہ شاندار تبلیغ “ ہی میری 32 ویں مشکل بن گیا ہے.محافظین ختم نبوت اور مشرکین مکہ مشکل نمبر 33 دا تا ضلع مانسہرہ میں ہونے والی اسلامی خدمت اور ائیں.ایچ.او مانسہرہ کے نخش اور امت مسلمہ کے زخموں پر نمک چھڑ کنے والے واقعہ کے بارے میں غور کر رہا تھا کہ ان عظیم کارناموں کا سرا‘ ماضی میں کہاں اور کن لوگوں سے جوڑوں تاریخ وسیرت کی کتب کے حوالے سے جو نام ذہن کی سکرین پر آرہے تھے قلم اس کے اظہار سے کانپ رہی تھی.میں اسی گومگو کی حالت میں تھا کہ مولانا تاج محمد صاحب بھی ناظم اعلی تحفظ ختم نبوت کو ئٹہ نے میری مشکل حل کر دی اور ایک فخریہ اعلان 21 دسمبر 1985ء کو مجسٹریٹ درجہ اول کوئٹہ کی عدالت میں داخل کیا.ہم محافظین ختم نبوت احمدیوں کے ساتھ وہی سلوک کر رہے جو مشرکین مکہ مسلمانوں سے کرتے تھے...جناب ناظم اعلیٰ صاحب ختم نبوت کوئٹہ ائر پورٹ پر آئے ہوئے دو احمدیوں کو جنہوں نے سینوں پر کلمہ طیبہ کے بیج لگائے ہوئے تھے تحفظ ختم نبوت کی درخواست پر گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا بعد میں جب مقدمہ شروع ہوا تو جناب ناظم اعلیٰ تحفظ ختم نبوت نے درج

Page 162

162 ذیل بیان عدالت میں داخل کیا.یہ درست ہے کہ حضور رسول اللہ کی یا نیلم کے زمانے میں جو آدمی نماز پڑھتا تھا، اذان دیتا تھا، یا کلمہ پڑھتا تھا اس کے ساتھ مشرک یہی سلوک کرتے تھے جواب ہم احمدیوں سے کر رہے ہیں“.مصدقہ نقل بیان گواه استغاثه 5 نمبر 2 تاج محمد ولد فیروز الدین مجریہ 23 دسمبر 1985 ء ) دوستومی فطین ختم نبوت کا یہ سنہری کارنامہ اور مشرکین مکہ کے نقش قدم پر چلنے والا فخر یہ اعلان میری 33 ویں مشکل قرار پایا.باب نمبر 4 ختم نبوت اور اسلامی وحدت

Page 163

163 قومی اسمبلی اور ختم نبوت کی سیاسی برکات سیاسی قاضیوں نے سیاسی فیصلے کرتے ہوئے جب ختم نبوت کی سیاسی برکات لکھیں...جنرل ضیاء الحق صاحب نے اپنی نام نہاد مجلس شوری ( قومی اسمبلی کے ممبران کو ساتھ ملا کر جماعت احمدیہ کے خلاف دیگر مظالم کے ساتھ ساتھ ایک عدد قر طاس ابیض ” قادیانیت اسلام کے لیے سنگین خطرہ بھی شائع کر کے پوری دنیا میں تقسیم کیا.اور اس میں اپنے ہی وضع کردہ ختم نبوت کے معنوں کی برکات بھی درج کیں.فرمایا گیا کہ اس نظریہ ( یعنی ختم نبوت یا یہ کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا) نے مختلف ادوار مختلف نسلوں اور مختلف رنگ وروپ کے انسانوں کو ایک لڑی میں پروکر ایک امت بنایا ہے شہنشاہ وقت اقتدار کے نشے میں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن عملاً کیا صورت حال بنی اسی کا مشاہدہ میری 34 ویں مشکل بن گیا.مشکل نمبر 34 ایک بریلوی کی شیعہ سے اتحاد کی کوشش بریلوی مولوی طاہر القادری صاحب کو شوق ہوا کہ شیعہ سنی اتحاد کیا جائے.اس کے لئے انہوں نے ایک کتاب لکھی اور عملی طور پر ایک امام بارگاہ میں امام خمینی کی تعزیت کے لئے چلے گئے مگر پھر کیا ہوا:

Page 164

164 طاہر القادری بریلوی بمقابلہ مفتی اعظم اشرف القادری بریلوی طاہر القادری اجماع امت کو پھاڑنے والا ہے، فاسق ہے، یہ مسلمان کیسے ہو سکتا ہے؟ اسلام کے خلاف بکواس کرتا ہے.اہل سنت والجماعۃ میں سے ہرگز نہیں.سنیوں کو دھوکہ دیتا ہے.عقائد کفریہ ہیں.بدترین گمراہ ہے.بدترین بد مذہب ہے.واضح گمراہ آدمی ہے.کفریہ کلمات منہ سے نکالنے والا ہے...مفتی اعظم مفتی محمد اشرف القادری آپ نے فتویٰ دیتے ہوئے فرمایا: اجماع امت کی مخالفت کرنا اور اس سے مقصود تھا جدت زدہ ماڈرن سیکولر زدہ لوگوں سے شاباش لینا مقصود تھا.تو اس نے اجماع امت کو پھاڑا.تو اجماع امت کو پھاڑنے والا جو ہے وہ فاسق ہے.کم از کم فاسق ہے.اسی طرح جس وقت خمینی مر گیا.خمینی کون تھا اثنا عشریہ شیعہ تھا.یہ اس کے تعزیتی پروگرام کے لیے ایک امام واڑے کے اندر کالا جبہ پہن کر گیا.ماتمی لباس پہن کر گیا.اور اس نے جا کر بڑی تقریر کی اور دو باتیں انتہائی قابل گرفت ہیں.ایک بات تو یہ کہی کہ یہ تو ایک خمینی فوت ہوا ہے مگر فکر نہ کرو پاکستان کا بچہ بچہ مینی ہو گا.نعوذ باللہ نعوذ باللہ.جو شخص پاکستان کے بچے بچے کو کا فر بنانا چاہتا ہے تو وہ خود کیسے مسلمان ہو سکتا ہے؟ اور پھر یہ کہا کہ ثمینی کا جینا علی کی طرح تھا اور مرناحسین کی طرح ہے.نعوذ باللہ نا پاک اور کافر اور متفقہ علیہ کا فر جس کو ساری امت سارے اجماع سے کا فرقرار دیتی ہے تو اس شخص کی زندگی کو مولاعلی سے تشبیہ دیتا ہے.پھر شیعہ کا ایک امام واڑہ ہے اسلام آباد میں وہاں جا کر اس نے تقریر میں بکو اس کی اور تقریر میں کہا کہ شیعہ اور سنی دونوں مذہبوں کو ملا کر اسلام مکمل ہوتا ہے نعوذ بالله نعوذ بال...تو جو شخص شیعہ کے کفر کو شامل کئے بغیر اسلام کومکمل نہیں سمجھتا وہ شخص خود مسلمان کیسے ؟ اہل سنت والجماعۃ میں سے ہر گز نہیں.دھوکہ دیا ہوا ہے سنیوں کو.اور یہ شخص بدترین گمراہ ہے.بدترین گمراہ ہے.بدترین گمراہ ہے دھو کہ دیا ہوا ہے سنیوں کو.ابھی اس کی اور گمراہیاں واضح ہونے والی ہیں.اتنے کفریہ عقید ے جو طاہر القادری کے منہ سے نکلے اور اس کے بدترین بد مذہب ہونے کے ساتھ ساتھ جھوٹ بولتا ہے اور آپ صلی یا یہ تم پر بہتان باندھتا ہے.یہ واضح طور پر گمراہ آدمی ہے.اور کئی مرتبہ کفریہ کلمات اپنے منہ سے نکال چکا ہے اور کم از کم حد یہ ہے کہ سخت ترین گمراہ ہے.(مفتی اعظم کا یہ بیان utube پر ویڈیو کی شکل میں اس عنوان کے ساتھ موجود ہے.Dr Tahir ul Qadri Ki (Asliyat By Mufti ye Azam Muhmmad Ashraf ul Qadri عرفان قادری بریلوی بمقابلہ طاہر القادری شیخ الاسلام نہیں شین فی الاسلام ہے.ہیجڑا ہے.دیوث.بے غیرت ، دلاتے مسلماناں دا شیخ الاسلام ھون

Page 165

165 دے قابل نئیں.....عرفان شاہ قادری اہل سنت والجماعۃ کے خطیب جناب مولانا عرفان شاہ قادری نے 9 نومبر 2007 بعد نماز عشاء بروز جمعہ المبارک بزم رضا راولپنڈی کے تحت ہونے والے جلسے سے پنجابی میں خطاب کرتے ہوئے طاہر القادری کی شیعہ بریلوی اتحادی کی کوشش پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا: ( ترجمہ ) شیخ الاسلام ہونے کے لئے تو اندر ایمان ہونا چائیے.یہ توشیخن فی الاسلام ہے..قرآن مجید کہتا ہے کہ کافروں پر شدت کرو.شدت کرنے کے لئے تو طاقت کی ضرورت ہوتی ہے جو ہیجڑوں کے پاس تو نہیں ہوتی.اگر تیرے پاس طاقت نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں جائز نہیں.آگے سے طاہر القادری جواب دیتا ہے کہ نہیں نہیں ہم تو ہر حال میں نرمی کریں گے.میں کہتا ہوں کہ مرحماء بینھم مسلمانوں کے لئے ہے.کفار (شیعہ) سے نرمی کرنا بے غیرتی ہے.اور کافروں میں سے بھی وہ کافر جو گستاخ ہوں لیکن اگر کتا کا فر آپ سنی یا یہ تم پر بھونکتا جائے اور تو کہتا جائے کہ ان سے خلق کروان سے خلق کرو.جو گستاخوں سے خلق کرے اور ان کی گردن نہ کاٹے وہ سب سے بڑا دیوث ہے، بے غیرت ہے، دلا ہے وہ مسلمانوں کا شیخ الاسلام ہونے کے قابل نہیں.عرفان شاہ قادری کی یہ تقریر utube پر بعنوان Irfan shah calls Dr Tahir ul Qadri a Dalla موجود ہے یہ ریکارڈنگ ہے مہر یہ ساؤنڈ ڈھوک کھبہ راولپنڈی.منجانب محمد عامر، ندیم چشتی محمد شفیق قادری اراکین بزم رضا راولپنڈی) ایک اہل حدیث غیر مقلد کی بریلوی مکتبہ فکر سے اتحاد کی کوشش علامہ احسان الہی ظہیر اہل حدیث فرقہ کے مستند اور سرخیل علماء دین میں شمار ہوتے تھے.اندرون و بیرون ملک بہت مشہور تھے عربوں کو عربی پڑھانے والے اس عالم دین نے بریلوی مکتبہ فکر کے بارے میں ایک کتاب بزبان عربی ”البریلویہ تحریر فرمائی اور اس میں اتحاد کی دعوت دینے والوں اور یہ نعرہ لگانے والوں کو کہ ختم نبوت نے ہمیں ایک لڑی میں پرودیا ہے کو اپنی عالمانہ نظر سے یوں دیکھا: وحدت امت کا نعرہ لگانے والے بیوقوف اور احمق ہیں میں جانتا ہوں کہ وحدت و اتحاد اور اسلامی فرقوں کو قریب کرنے کے احمق اور بیوقوف داعیوں کی پیشانیوں پر بل پڑ جائیں گے لیکن میں کئی دفعہ یہ کہہ چکا ہوں کہ عقائد وافکار کے اتحاد و اتفاق کے بغیر اتحاد واتفاق نہیں ہوسکتا کیونکہ اتحاد کا مطلب ہی یہ ہے کہ بنیادی امور میں اتفاق ہو.جبکہ دوسری جگہ بریلوی عقائد کا ذکر یوں کرتے ہیں: (البریلویت صفحه (11)

Page 166

166 کفار مکہ جزیرہ عرب کے مشرکین اور دور جاہلیت کے بت پرست بھی ان سے زیادہ فاسد اور ر ڈی عقیدہ والے نہیں تھے“.جماعت اسلامی اور مجلس احرار کے اتحاد کی کوشش (البریلویۃ صفحہ 65) 1953ء کے عظیم ہنگاموں میں جماعت اسلامی اور مجلس احرار نے مل کر جماعت احمدیہ کے خلاف مظالم ڈھائے اور یوں مولانا مودودی صاحب امیر جماعت اسلامی اور عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری امیر جماعت احرار ملی وحدت اور سالمیت کے علمبرادر بن کر ابھرے.مگر جب یہ ہنگا مے ختم ہو گئے اس کے بعد وحدت اور سالمیت کے یہ علمبر دار کہاں کھڑے تھے وہ اندازہ آپ کو درج ذیل بیانات پڑھ کر کافی وشافی ہو جائے گا.احراری تحریک تحفظ ختم نبوت کے لیے نہیں نام اور سہرے کے لیے تھی.مودودی صاحب....کے نزدیک احرار کا اصل چہرہ احرار کے سامنے اصل سوال تحفظ ختم نبوت کا نہیں بلکہ نام اور سہرے کا ہے اور یہ لوگ مسلمانوں کے جان و مال کو اپنی اغراض کے لیے جوئے کے داؤں پر لگانا چاہتے ہیں.اپنی اغراض کے لیے خدا اور رسول کے نام سے کھیلنے والے جو مسلمانوں کے سروں کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کریں اللہ کی تائید سے کبھی سرفراز نہیں ہو سکتے“.(روز نامہ تسنیم لاہور 2 جولائی 1955 ء ) میں مودودی نہیں کہ بددیانت ہو جاؤں اس سے تو کافر اچھا.....عطاء اللہ بخاری صاحب کے نزدیک مودودی صاحب کا اصل چہرہ میں مودودی نہیں کہ بددیانت ہو جاؤں...آج وہ (مودودی) کہتے ہیں کہ میں تحریک ختم نبوت میں شامل نہیں تھا.میں کہتا ہوں شامل تھا.اگر مودودی شامل نہیں تھا تو میں ان سے حلفیہ بیان کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ صرف یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ لڑکوں کے سروں پر ہاتھ رکھ کر اعلان کریں کہ میں شامل نہیں تھا.کیا کروں علم اور ادب کو میرا کلیجہ پھتا ہے ارے تم سے تو کا فرکیلیو ہی اچھا تھا جس نے زہر کا پیالہ پی لیا“.(حیات امیر شریعت مطبوعہ 1969 ء ) ( بحوالہ فکر اقبال اور تحریک احمدیہ صفحہ 332 ) اہل حدیث اور اہل تشیع کے اتحاد کی کوشش 1982ء میں تہران میں عالمی سیرت کانفرنس میں اہل تشیع اور دوسرے فرقوں کے اتحاد کا موضوع بھی زیر بحث

Page 167

167 آیا.کسی طرح سے اتحاد کی کوئی صورت نہ بن پارہی تھی آخر گو جرانوالہ سے تعلق رکھنے والے ایک اہل حدیث عالم دین نے اہل تشیع اور اہل حدیث بھائیوں کے درمیان اتحاد کی راہ نکال لی.ختم بنوت ہی وحدت امت کی علامت“ کا نعرہ لگانے والوں کے لیے ایک دیدہ عبرت واقعہ.اہل حدیث اور اہل تشیع کے درمیان اتحاد کا ایک ہی راستہ ہے ہم بخاری جلا دیتے ہیں تم اصول کافی.اب تک جو کچھ کہا گیا ہے وہ قابل قدر ضرور ہے، قابل عمل نہیں.اختلاف ختم کرنا ضروری ہے مگر اختلاف ختم کرنے کے لیے اسباب اختلاف کو مٹانا ہوگا.فریقین کی جو کتب قابل اعتراض ہیں ان کی موجودگی اختلاف کی بھٹی کو تیز تر کر رہی ہے.کیوں نہ ہم ان اسباب کو ہی ختم کر دیں.اگر آپ صدق دل سے اتحاد چاہتے ہیں تو ان تمام روایات کو جلانا ہوگا جو ایک دوسرے کی دل آزاری کا سبب ہیں ہم ” بخاری کو آگ میں ڈالتے ہیں آپ اصول کافی کو نذر آتش کر دیں.آپ اپنی فقہ صاف کریں ہم اپنی فقہ صاف کردیں گئے“.( آتش کده ایران مصنفه اختر کشمیری صفحہ 109 ندیم بک ہاؤس لاہور 84 ) ( بحوالہ البریلوہ کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ مصنفہ بریلوں کا اہل مسجد سے اتحاد کی کوشش عبدالحکیم شرف قادری صفحه 81-82 اہل نجد کے ممتاز عالم دین شیخ عطیہ محمد سالم نے البریلویہ کتاب پر چھ صفحے کی تقدیم تحریر کی.اسی تقدیم کے حوالے بریلوی عالم دین اور مسجدی علماء دین اتحاد کے کسی پلیٹ پر کھڑے ہیں کی ہلکی سی جھلک ہمیں یوں نظر آتی ہے.اتحادامت کے نعرے صرف ایک فیشن کی حد تک ہیں عمل ممکن نہیں البریلویہ کا جواب کنندہ جناب عبدالحکیم شرف قادری صاحب فرماتے ہیں: آج کل یہ فیشن بن چکا ہے کہ الفاظ کی دنیا میں اتحاد اور یک جہتی کی تلقین کی جاتی ہے اور جیسے ہی کسی مخالف کا ذکر آیا ہر قسم کی احتیاط بالائے طاق رکھ کر شدید سے شدید تر فتویٰ صادر کر دیا جاتا ہے.شیخ عطیہ محمد سالم مجدی نے البریلویۃ کی تقدیم میں بڑی خوبصورت خواہش کا اظہار کیا ہے وہ لکھتے ہیں.وفي هذا لوقت الذي نحن احوج ما نكون الى وحدة الكلمة وتوحيد الصف اس حسین آرزو کے باوجود چھ صفحے کی تقدیم میں سواد اعظم اہل سنت و جماعت کے بارے میں جو تبصرہ کیا ہے وہ اس آرزو کے یکسر منافی اور قول وفعل کے تضاد کی واضح مثال ہے.مقام حیرت ہے کہ وحدت و اتحاد کو ایک ضرورت قرار دینے والا دنیا بھر کے عامتہ المسلمین کو کس بے دردی سے کافر و مشرک قرار دے رہا ہے“.

Page 168

168 بریلوی دیوبندی اتحاد کی کوشش البريلوة کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ مصنفہ محمد عبد الحکیم شرف قادری صحنه 55-56) مولوی عبد الستا نیازی صاحب جو کسی زمانے میں پاکستان کے مذہبی امور کے وزیر تھے انہوں نے چاہا کہ کیوں نہ دیوبندی بریلوی اتحاد کی کوشش کی جائے آخر دونوں فقہ حنفی کے ماننے والے ہیں.چنانچہ انہوں نے بھی ایک عدد کتاب لکھ ڈالی اور اتحاد کی کوشش شروع کر دی.کتاب میں فارمولا بھی لکھ دیا کہ اتحاد کیسے ممکن ہو سکتا ہے.پھر کیا ہوا جواب کیا ملا.مشہور دیوبندی مولوی الیاس گھمن صاحب اس اتحاد کا آپریشن کرتے ہوئے فرماتے ہیں: " آج سے کچھ عرصہ قبل مولوی عبدالستار خان نیازی صاحب جو بریلوی مسلک کے مقتدر رہنما تھے نے اک آواز اُٹھائی کہ اُمت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق پر زور دیا جائے اور اس سلسلہ میں وہ ایک کتاب لکھتے بھی نظر آتے ہیں.اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ضرورت مگر پڑھ کر افسوس ہوا کہ نام تو کیسا خوبصورت اور اندر سراسر بریلویت کی ترجمانی.بہر کیف انہوں نے چار نکاتی فارمولا پیش کیا تھا کہ اگر اس پر عمل کر لیا جائے تو پاکستان میں فرقہ واریت ختم ہو سکتی ہے.ہم ترتیب سے ہر شق کو لاتے ہیں پھر اس پر کچھ گفتگو عرض کریں گے.کہ اس فارمولے کے مخالف بھی بریلوی ہیں جو کہ امن و اتحاد و اتفاق نہیں چاہتے جو امریکہ سے ڈالر ہی اس بنیاد پر لے رہے ہوں کہ لڑائی اور فساد ڈلوانا ہے وہ کیسے اتفاق کریں گے.میں حیران ہوں کہ حاجی فضل کریم جیسے بریلوی زعماء ختم نبوت کے مقدس عنوان پر تحریک چلے تو اس کا ساتھ بھی نہیں دیتے تو پھر کب یہ اتفاق و اتحاد کریں گے؟ نیازی صاحب لکھتے ہیں: اتحاد ملت کے چار نکات پاکستان کی تمام جماعتیں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے افکار ونظریات پر اصول متفق ہیں لہذا ہم اپنے تمام متنازعہ فیہ امور ان کے عقائد و نظریات کی روشنی میں حل کریں.( اتحاد بین المسلمین ص 33 ) تبصره: نیازی صاحب انتہائی حیرت اور افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ بریلوی دھرم میں ان حضرات کی تحریرات پر کفر اور ان پر گستاخ رسول ہونے کے فتاوی درج ہیں اور ان میں سے بعض تو آپ کے قلم کی زد میں بھی آگئے اب

Page 169

169 آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ ان کو ثالث مانا جائے : بغل میں چھری منہ میں رام رام...والی بات ہی ہوگی کیونکہ : شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ پر بریلوی فتاوی جات 1.بریلوی مذہب کی ریڑھ کی ہڈی جناب غلام مہر علی آف چشتیاں صاحب دیوبندی مذہب لکھتے ہیں : سارے فساد کی جڑ مولوی شیخ احمد معروف بہ شاہ ولی اللہ دہلوی اور وہی سارنگی بجانے والے اس کے بیٹے رفیع الدین و عبد القادر ہیں.وہی مولوی احمد الضد ان يجتمعان کا حیرت انگیز ہیولی تھے اول سنی پھر مجدی.(معركة الذنب ص 2 تا 6 ) آگے لکھتے ہیں : خواجہ اللہ بخش تونسوی فرما یا کرتے تھے کہ شاہ ولی اللہ نے ہگا شاہ عبدالعزیز نے اس پر مٹی ڈالی مگر اسماعیل نے اسے ننگا کر کے سارے ملک کو متعفن کر دیا.آگے لکھتے ہیں : (معركة الذنب ص 6) قرآن مجید کا فارسی واردو میں غلط ترجمہ کرنے والوں میں اس سارے فساد کی جڑ مولوی شیخ احمد ملقب بہ شاہ ولی اللہ معركة الذنب ص (31) جس طرح مرزا قادیانی دجال کو اس کی درثمین نہیں بچا سکتی اسی طرح شاہ ولی اللہ کوبھی اس کی در ثمین نہیں بچا سکتی.(ریحان المقر بين ص 17) اور جن بزرگوں کو نیازی صاحب ثالث مان رہے تھے ان میں سے اک شیخ عبدالحق محدث دہلوی بھی ہیں.مولوی محبوب علی خان قادری برکای صاحب لکھتے ہیں: یہ سارے مترجمین ترجمہ قرآن سے قطعا نا بلد ہیں ورنہ جان بوجھ کر کفریات کے پھنکے لگائے ہیں.( نجوم شبا بید ص 82 تا 86 ) اسی طرح کے کئی فتاویٰ پیش کیے جاسکتے ہیں.جو ہم آگے نقل کریں گے.سوال یہ ہے نیازی صاحب جس شخصیت پر آپ کو خود اعتماد نہیں ہے لوگوں کو کیوں بتا رہے ہیں کہ معتمد ہے نیازی صاحب کو اتنا قرارا جواب ملا کہ دوبارہ ان بیچاروں نے کبھی اتحاد کا نام نہیں لیا.( کتاب حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ ص 23 تا 26 مولفہ الیاس گھمن مطبع دار الایمان پر نٹر فرسٹ فلورز بیدہ سنٹر 40 اردو بازار لاہور مکتبہ اصل الستة والجماعة 87 جنوبی لاہور روڈ سرگودہا )

Page 170

170 سب بے غیرت بن گئے ہیں.سب اپنی روٹیاں سیدھی اور پیسہ کمانے میں لگے ہوئے ہیں پیر نصیر الدین آف گولڑہ مولویوں کے ایک پلیٹ فارم پر اتحاد نہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے اپنے دل کے دکھ کا اظہار درج ذیل گالیاں دے کرتے ہیں: مشائخ کا اور کیا کام ہے.نذرانے بٹورنا.دست بوسی کروانا.پراپرٹی اور جائیداد بنانا.ہمارے باپ دادوں کا کیا کام تھا کہ جو بچھڑے ہوئے لوگ ہیں جو آپس میں ٹوٹ گئے ہیں ان کو جمع کرنا...اگر آج یہ آواز اٹھائی جائے کہ شیعہ کود یو بندی کو بریلویوں کو، سپاہ صحابہ کو سپاہ محمد و شکر طیبہ کو، اورتبلیغی جماعت کو جو کلمہ گو ہیں ان کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوشش کی جائے تو کہتے ہیں یہ آدمی کیوں یہ بولی بول رہا ہے.ہم مخالفت میں ایک دوسرے کو کا فر کہ کر جتنا پیسہ بٹور سکتے ہیں اکٹھا کرنے میں بٹور نہیں سکتے.ہمیں بریلوی کون کہے گا اگر ہم سب کو کافر نہیں کہیں گے.یہ تو اپنی اپنی روٹیاں سیدھی کرنے کے لئے.صرف پیسہ کمانے میں لگے ہوئے ہیں.اسی طرح دیوبندیوں کا بھی یہی حال ہے وہ اپنے اس پنجرے میں بند ہیں.یہ ان کو کافر کہتے ہیں وہ ان کو کافر کہتے ہیں تو یہ با ہمی تکفیر کا سلسلہ کب تک چلے گا.کیا کوئی آواز نہیں اس دنیا میں؟ پاکستان میں انڈیا میں ؟ کوئی ایسا آدمی نہیں ؟ نہ علماء میں ، نہ مشائخ میں؟ سب خاموش ہیں.سب بے غیرت بنے ہوئے ہیں.بے غیرتی کی روٹیاں کھا رہے ہیں“.پیر صاحب کا یہ ویڈیو بیان utube پر بعنوان shut up call to irfan shah by Hazrat pir naseer | 72 فرقوں میں کبھی بھی اتحاد ممکن نہیں naseerud deen موجود ہے) جماعت احمدیہ کے شدید مخالف عالم دین ایڈیٹرالمنیر مولوی عبدالرحیم اشرف صاحب وحدت امت بذریعہ ختم نبوت کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ہم نے متعدد مراحل پر اتحاد امت کے تصور کو پیش کیا اور سب سے زیادہ قادیانیوں کے خلاف مناظرہ کے سٹیج سے ڈائر یکٹ ایکشن کے ویرانے تک ہم نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کے تمام فرقے یکجان ہیں.لیکن کیا حقیقتاً ایسا تھا کیا حالات کی شدید سے شدید تر نا مساعدت کا باوجود ہماری تلوار تکفیر نیام میں داخل ہوئی ؟ کیا ہولناک سے ہولناک تر واقعات نے ہمارے فتاوی کی جنگ کو ٹھنڈا کیا؟ کیا کسی مرحلہ پر بھی ”ہمارا فرقہ حق پر ہے اور باقی تمام جہنم کا ایندھن ہیں“ کے نعرہ سے کان نامانوس ہوئے اگر ان میں سے کوئی بات نہیں ہوئی تو بتائیے اس سوال کا کیا جواب ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان رکھنے والی امت کے اگر تمام فرقے کافر ہیں اور ہر ایک دوسرے کو جہنمی کہتا ہے تو لامحالہ ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو سب کو اس کفر اور جنہم سے نکال کر

Page 171

اسلام اور جنت کا یقین دلا سکتے.171 (المنير 9 مارچ 1956 صفحہ 5) حضرت محمد مصطفے مسلم کی ختم نبوت پر ایمان رکھنے والی امت کے اگر تمام فرقے کا فر ہیں اور ہر ایک دوسرے کو جہنمی کہتا ہے تو لامحالہ ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو سب کو اس کفر اور جہنم سے نکال کر اسلام اور جنت کا یقین دلا سکتے“.احادیث اسی کا نام تو امام مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام بتاتی ہیں.اور جماعت احمد یہ اسی کی ہی دعویدار ہے اگر یہی کڑواسچ ہے تو پھر جماعت احمدیہ پر کفر کے فتاویٰ کیوں؟ باب نمبر 5 " تحفظ ختم نبوت" کی برکت سے "آزادیاں"

Page 172

172 اور میری مشکلات مسئله تحفظ ختم نبوت مسجد خاصے مشکل غیر مسلم سے مولوی تک مشکل نمبر 35 کافر کے کافر...غلیظ کا فر خبیث کا فر کالے کافر کمینے کافر اور مردود کا فرجیسی عام فہم اصطلاحیں تو ہمارے علمائے کرام کے روز مرہ کے معمولات میں ، زیر استعمال رہتی ہیں جس سے وہ اپنے مخالفین کے قلعوں پر سنگ باری کر کے ان کا جنت کی طرف کھلنے والا دروازہ بند کرتے رہتے ہیں مگر مشکل کا فر“ یا ”مشکل

Page 173

173 غیر مسلم کی مذہبی اصطلاح روحانی بستی میں ابھی بالکل نو وارد ہے بلکہ نو زائیدہ اور نومولود ہے مگر اس کا پس منظر بڑا دلچسپ ہے: قادیانی جماعت کو غیر مسلم بنانا خاصہ مشکل تھا یہ الفاظ ممتاز قانون دان اور آمریت کے سائے، جیسی متداول کتاب کے خالق جناب ممتاز حسین شاہ صاحب ایڈووکیٹ کے ہیں.آپ فرماتے ہیں: ”یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ قادیانی جماعت کو غیر مسلم بنانا خاصہ مشکل کام تھا اس لئے کہ مسلمان کی تعریف تو صرف یہ تھی جو شخص تو حید ورسالت پر ایمان لے آئے وہ مسلمان ہے یعنی جو شخص بھی کلمہ طیبہ پڑھ لے اور لا اله إلا الله محمد مرسول اللہ اپنی زبان سے ادا کرے وہ مسلمان ہو جاتا ہے.ایک مسلمان کے لئے جن باتوں پر ایمان لانا ضروری تھا ان میں توحید رسالت.فرشتوں ، آسمانی کتابوں، خیر وشر کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا اور حیات بعد الموت شامل ہیں قادیانی جماعت ان جملہ باتوں پر ایمان رکھتی ہے“.مشکل کام کا آسان حل (373-374) اگر جماعت احمد یہ بھی مسلمان Qualification پر پوری اترتی ہے تو اسے پھر کیسے ” غیر مسلم بنایا جائے؟ ہے ناں مشکل سوال مگر ایک پاکستانی بادشاہ یعنی جنرل ضیاء الحق صاحب نے یہ مسئلہ بھی دومنٹ میں حل کر دیا آپ نے امتناع قادیانیت آرڈینس نافذ کرتے ہوئے لفظ مسلم کی تعریف ہی نئی دریافت فرما دی...یادر ہے کہ اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے جماعت احمدیہ کو قانون کی اغراض کے لئے not muslim قرار دیا تھا مذہبی طور پر نہیں.چنانچہ ممتاز حسین شاہ صاحب 1400 سو سال بعد سرانجام پانے والے اس اہم دینی فریضے کی نشاندہی کرتے ہوئے انگلی لائن میں فرماتے ہیں.اس لئے ضیاء الحق نے قادیانی جماعت کو اسلام سے خارج کرنے کے لئے لفظ مسلم اور غیر مسلم کے مندرجہ بالا ( ذیل ناقل ) معنی متعین کئے.مسلمان کی نئی تعریف (صفحہ 374) جنرل ضیاء الحق صاحب نے آئین کے آرٹیکل نمبر 260 میں ترمیم کر کے مسلم اور غیر مسلم کی تعریف اس طرح کی: (۱) مسلم

Page 174

174 جو شخص اللہ کی وحدانیت اور رسالتمآب می بینیم کی نبوت پر ایمان رکھتا ہو.آپ " کو آخری نبی مانتا ہو.اور آپ کے علاوہ کسی بھی شخص کو نبی یا مصلح تسلیم نہ کرتا ہو وہ مسلم ہے.(ب) غیر مسلم 66 جو شخص مسلم نہ ہو یا جس کا تعلق عیسائی یا ہندو سکھ، بدھ ، یا پاری فرقوں سے ہو، وہ غیر مسلم ہے“.- (آمریت کے سائے 373) نئی تعریف کی نئی برکات امتناع قادیانیت آرڈینس نافذ کر کے ہزاروں احمدی نوجوانوں کو اسلامی شعائر کے استعمال کے جرم میں دفعہ نمبر 2986 کے تحت جیلوں میں بند کرنے کی سعادت حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ نے قادیانیت اسلام کے لئے سنگین خطرہ“ کے نام سے ایک White Paper بھی شائع کیا جسے خطیر سرمایہ خرچ کر کے دنیا کے کونے کونے میں پھیلا یا گیا اس میں گورنمنٹ پاکستان مسلمانوں کی نئی تعریف کی برکات درج کرتے ہوئے فرماتی ہے کہ: اس نظریہ ( یعنی ختم نبوت یا یہ کہ اب کوئی نبی ہادی مہدی مصلح نہیں آئے گا ) نے مختلف ادوار مختلف نسلوں اور مختلف رنگ و روپ کے انسانوں کو ایک لڑی میں پروکر ایک امت بنا دیا ہے.جماعت احمدیہ کو کافر سمجھیں اور باقی جو چاہے عقیدہ رکھیں...وو مولانا مودودی صاحب وہ عظیم شخصیت جنہوں نے تو گویا کفر احمدیت کے تابوت میں آخری میخ ہی ٹھونک دی ہے یا مخالفت کی حد ہی کر دی ہے.باالفاظ دیگر آپ نے مندرجہ بالا نظریے کی ” مزید برکات گنواتے ہوئے تمام علماء دین کی طرف سے یا دیگر تمام فرقوں کو اپنے ساتھ ملا کر وہ نظریہ ضرورت وضع فرمایا ہے جو رہتی دنیا تک احمدی غیر احمدی نزاع کے تجزیہ نگاروں کو انگشت بدنداں کرتا رہے گا.تحفظ ختم نبوت کی مزید برکات آپ جناب اپنی کتاب ختم نبوت میں زیر عنوان ”نئی نبوت اب امت کے لیے رحمت نہیں بلکہ لعنت ہے کے تحت فرماتے ہیں: ختم نبوت امت مسلمہ کے لیے اللہ کی ایک بڑی رحمت ہے جس کی بدولت ہی اس امت کا ایک دائمی اور عالمگیر برادری بنا ممکن ہوا ہے.اس چیز نے مسلمانوں کو ایسے ہر بنیادی اختلاف سے محفوظ کر دیا ہے جو ان کے اندر

Page 175

175 مستقل تفریق کا موجب ہوسکتا ہے“.(صفحہ 44) یعنی امتی نبی.امام مہدی، یا کسی بھی آسمانی مصلح کے انکار کی برکت سے ہی یہ تحفہ امت کومل سکتا تھا.اور اگر یہ دروازہ بند نہ کیا جا تاتو یہ آزادی کیسے ممکن تھی.کہ جو چاہے عقیدہ رکھو اور جو چاہے فرقہ بنالو.چنانچہ آپ مزید فرماتے ہیں: یہ وحدت امت کو کبھی نصیب نہ ہو سکتی تھی اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہو جاتا کیونکہ ہر نبی کے آنے پر یہ پارہ وو پارہ ہوتی رہتی.(صفحہ 44) کسی امتی نبی کی آمد سے امت مسلمہ کو کیا فائدہ ہوگا؟ سوائے اس کے کہ تفرقہ سازی جیسی مکروہ......رسم کو ہی مزید ہوا ملے گی...آپ مزید غور کرنے کے بعد اس نکتے پر پہنچتے ہیں کہ کسی بھی نئے مصلح کی آمد کا کوئی مفید حاصل تو ہو نہیں سکتا ماسوائے اس کے کہ وہ تفرقہ سازی میں مزید اضافہ کرنے والا ہوگا.اور ہمارے موجودہ فرقوں اور ہمارے موجودہ عقائد کے خلاف رد عمل ظاہر کرنے کی وجہ سے ہم اہل ایمان کی وحدت کو توڑنے والا ہی ہوگا.اس لیے آپ فرماتے ہیں: آدمی سوچے تو اس کی عقل خود یہ کہ دے گی نبوت کا دروازہ بند ہو جانا چاہیے تا کہ اس آخری نبی کی پیروی پر جمع ہو کر تمام دنیا میں ہمیشہ کے لیے ( تمام فرقوں کے ناقل ) اہل ایمان کی ایک ہی امت بن سکے.اور بلاضرورت نئے نئے نبیوں کی آمد سے اس امت (بریلوی ، دیوبندی، اہل حدیث، اہل قرآن ، اہل تشیع وغیرہ) میں بار بار تفرقہ 66 برپا نہ ہوتا رہے.کفر و ایمان کی کشمکش سے مکمل آزادی (صفحہ 45) یوں آپ آخری فیصلہ کے طور پر اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اگر صرف کہیں امتی نبی یا واجب الاطاعت مصلح کی آمد کا انکار کر دیا جائے تو حتمی طور پر ایک Long life رحمت کے طور پر یہ بات بھی ہاتھ آجاتی ہے کہ اس طرح سب فرقوں کے سب عقائد مشرف بہ اسلام ہو جائیں گے چنانچہ آپ فرماتے ہیں: اس کی رحمت سے یہ بات قطعی بعید ہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنے بندوں کو کفر و ایمان کی کشمکش میں مبتلا کرے اور انہیں ایک امت نہ بننے دے“.(صفحہ 45)

Page 176

176 قصہ مختصر خلاصہ کلام یہ کہ اگر احمدیت کا انکار کر دیا جائے تو فرقے 72 بنیں یا 72 سو کوئی خطرہ نہیں، وہ مزاروں پہ سجدے کریں یا احادیث کا انکار ، وہ قرآنی آیات کو منسوخ کریں یا توہین صحابہ و امہات المومنین.ان کے پکے مسلمان ہونے کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ وہ ختم نبوت کے پاکستانی معنوں پر دستخط کرتے اور جماعت احمدیہ کو کا فر گردانتے ہیں.ایک حسین خواب اور اس کی خوفناک تعبیر کسی بھی آسمانی مصلح کی آمد آئندہ کے لیے لعنت اور اس کا انکار رحمت اور اس نظریے نے مسلمانوں کو ایسے ہر بنیادی اختلاف سے محفوظ کر دیا جو ان کے اندر مستقل تفریق کا موجب ہوسکتا ہو.اور اس نظریے کی بدولت ہی امت کو ایک دائی اور عالمگیر برداری بنا ممکن ہوا ہے.یہ وہ سنہری خواب یا سنہری سمجھوتہ ہے جو ہمیں اکابر علماء نے احمدیت کو کافر بنانے کے لیے آخری ہتھیار کے طور پر عنایت فرمایا تھا.تحقیق کے اس سفر میں جب میں نے اکابر علماء دین کے خیال میں دوسرے فرقوں کے مذعومہ عقائد یا خود ان کے اپنے اعلامیہ، ڈھیروں ڈھیر عقائد کا جائزہ لیا تو حاصل وصول الجھنیں میری انگلی مشکل بن گئیں.مذہبی دنیا کے اس افسانوی سمجھوتے کی داستان ملاخطہ کیجئے: اگر کسی دیوبندی بھائی کے درج ذیل عقائد بھی ہیں تو بھی فکر نہیں آج سے یہ عین اسلامی عقائد قرار دئیے جاتے ہیں.بریلوی علماء دین عرصہ دراز سے دیو بند مکتبہ فکر سے شدید ناراض تھے اور انہیں کافر، مرتد، ان کا ارتداد کفر سخت در جے پر، جوان کے ارتداد کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ، خبیث سردار فاسق ، فاجر پر خبیث اور مفسد سے بڑھ کر ہٹ دھرم.کمینے تر کا فر، باطن میں خباثتیں، اسلام کے دشمن ، ان سے شادی زنا، نماز جنازہ پڑھنا حرام ، ان کے جنازے کو کندھا دینا بھی حرام، اسلام کے سب سے بڑے دشمن.ان سے کھانا پینا حرام.عبادت حرام.جنازے کی مشایعت حرام مسلمان قبرستان میں دفن کرنا حرام دعائے مغفرت یا ایصال ثواب حرام.ان کا قتل ہر مسلمان پر لازم ہے.رسول اللہ من شما میم کے گستاخ ابلیس.قذاق - زانی.لوطی شرابی - خارجی بے حیائی کی پوٹلی.بے حیاء جھوٹے.تڑا تر جوتیاں تم ان کو مارو وغیرہ وغیرہ جیسے شرعی فتاوی سے یاد کرتے تھے.مگر اب الحمد للہ چونکہ آج کے بعد تحفظ ختم نبوت کی نئی برکت سے تمام فرقوں کو ایک دائمی اور عالمگیر برادری بنا ممکن ہو گیا ہے.اور ہر بنیادی اختلاف اور تفریق سے محفوظ ہو کر تمام فرقوں کا مسلمان بننا ممکن ہو گیا ہے.اس لیے دیوبندی بھائیوں سے یہ فرقہ وارانہ جنگ ختم کی جاتی ہے اور آج 24 اپریل 1984ء کے بعد سے دیو بندی

Page 177

177 بھائیوں کے درج ذیل عقائد عین اسلامی اور مومنانہ قبول کئے جاتے ہیں یا اور بھی جو چاہیں اب عقیدہ رکھیں ہمیں سرو کار نہیں یادر ہے کسی ایسے عقیدہ کی بناء پر آئندہ انہیں مندرجہ بالا القابات سے یاد کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوگی اور نہ فتاوی دینے کی.دیوبندی عقائد، اعمال اور افعال ماضی میں دوسرے علماء کی نظر میں لہ میں اللہ کا سور ہوں...فرمان سید عطاء اللہ شاہ بخاری ریل گاڑی میں سفر کر رہے تھے ایک اسٹیشن پر ایک ادھیڑ عمر وضع دار شخص اس ڈبے میں داخل ہوا...گاڑی چل پڑی تعارف کے لئے شاہ صاحب نے کہا کیا اسم گرامی ہے؟ اس نے کہا میرا نام کلب حسین ہے (حسین کا کتا ) اب اس نے پوچھا جناب کا اسم گرامی؟ شاہ صاحب نے فوراً کہا خنزیر اللہ ( میں اللہ کا سوار ہوں “.( بخاری کی باتیں ص 172 ) عوام کا عقیدہ بھی گدھے کے عضو......جیسا ہے.فرمان اشرف علی تھانوی عوام کا اعتقاد ہے ہی کیا چیز.عوام کے عقیدوں کی بالکل ایسی حالت ہے کہ جیسے گدھے کا عضو.بڑھے تو بڑھتا ہی جائے.اور جب غائب ہو تو بالکل پتہ ہی نہیں چلے.واقعی عجیب مثال ہے“.ید اشرف علی تھانوی صاحب کے پاؤں دھو کر پینے سے جنت ملتی ہے و اللہ العظیم مولانا تھانوی کے پاؤں دھو کر پینا نجات اخروی کا سبب ہے“.اندرا گاندھی میری بیٹی ہے.فرمان سید عطاء اللہ شاہ بخاری ”بھائی پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی کو میر اسلام کہنا کہ میری بیٹی ہے.( ملفوظات حکیم الامت ج 3 ص 62) ( تذكرة الرشيد جلد نمبر 1 ص 113 ( کتاب سید عطاء اللہ شاہ بخاری سوانح نگار شورش کا شمیری ص 298) قرآن کا ترجمہ پڑھنا عوام کے لئے خطرناک ہے...فرمان اشرف علی تھانوی میں اس واقعہ کو دیکھ کر فتوی دیتا ہوں کہ تم کو ترجمہ دیکھنا حرام ہے.جس طرح طب کی کتابیں مفید تو ضرور ہیں مگر طبیب کے لئے مفید ہیں مریض کے لئے مفید نہیں.ایسے ہی قرآن شریف کے ترجمہ کا مطالعہ علوم دینیہ کے واقف کے لئے تو بہت مفید مگر جاہل کے لئے مضر.

Page 178

178 ( ملفوظات حکیم الامت ص 124 عنوانات محترم صوفی محمد اقبال قریشی ناشر ادارہ تالیفات اشرفیہ چوک فواره ملتان پاکستان ) مولوی غلام غوث ہزاروی نے مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری کے منہ میں شیطان کا عضو.....ڈال دیا حضرت غوث ہزارہ کے حکیم حاذق جو کہ بیمار سے کم فیس لیا کرتے ہیں اب یہ معلوم ہوا ہے کہ بخاروں میں حضور کشتہ خایہ ابلیس دیا کرتے ہیں شان ورود.اس کے متعلق خود فرمایا: ” انہی دنوں جنوری 1946 کی بات ہے.میں مجلس احرار اسلام پیشاور کے دفتر میں پڑا ہوا تھا کہ اتنے میں مولانا غلام غوث آئے اور پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے میں نے کہا بخار ہے.کہنے لگے میرے پاس کر نجوا ہے وہ کھا لیجئے جب میں دوا کھا کر پانی پی چکا تو نہایت متانت سے کہنے لگے آپ کو معلوم ہے اسے فارسی میں کیا کہتے ہیں میں نے کہا نہیں.کہنے لگے خانہ ابلیس (شیطان کا عضو...اس پر ایک زور کا قہقہہ لگا اس پر آپ نے یہ قطعہ لکھا فرمایا آپ کی تعریف لکھی ہے تا کہ بیماروں کو آپکے علاج اور دواؤں کا بھی پتہ چل جائے.کہ آپ کیا کچھ کرتے اور کیا کچھ کھلاتے ہیں“.(سواطع الالہام نتیجہ فکر سید نا عطاء اللہ شاہ بخاری ناشر مکتبہ نادیۃ الادب الاسلامی پاکستان کچہری روڈ ملتان ص 93،92) عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے ہمیں ماں بہن کی گالیاں دیں دو تین چار دوستوں نے سازش کی عطاء اللہ شاہ بخاری کو چڑا یا جائے.چنانچہ سب سے پہلے صوفی اقبال احمد شاہ جی کے سامنے پہنچے اور پوچھا شاہ جی آپ کے پاس پن ہوگی.شاہ جی نے کہا نہیں بھائی میرے پاس پن نہیں کئے دوستوں کے بار بار پوچھنے پر) شاہ جی کے مزاج کا پارہ چڑھنے لگا.باہر نکل آئے اور کہنے لگا کیا تم سب کے ٹانکے ادھڑ چکے ہیں.اس کے بعد جو ہر طرف سے شاہ جی پن ہی کے سوالات شروع ہوئے تو شاہ جی اتنے غصے میں آئے کہ مادر و خواہر ( ماں بہن ) کی مغلظات تک سنادیں“.(سید عطاء اللہ شاہ بخاری مصنفہ سوانح افکار از شورش کا شمیری ص (85 سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا دوسرا نام پنڈت کر پارام برہم چاری بہت سے قیدی جیل سے بے وجہ سنسر شپ کی وجہ سے پکڑے جاتے اور ان کی سزا کا موجب ہوتے.شاہ جی نے اس کا توڑ پیدا کیا پنڈت کر پارام برہم چاری کے نام سے اپنے احباب کو دیناج پور جیل سے اکثر خط لکھتے رہے.( سید عطاء اللہ شاہ بخاری مصنفہ سوانح افکار از شورش کاشمیری (86)

Page 179

179 مولانا قاسم اور مولوی رشید احمد کی شادی اور وظیفہ زوجیت ایک بار ارشاد فرمایا میں نے ایک دفعہ ایک خواب دیکھا کہ مولوی محمد قاسم صاحب عروس کی صورت میں ہیں اور میرا ان سے نکاح ہوا ہے.جس طرح زن و شوہر میں ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے اور انھیں مجھ سے فائدہ پہنچا ہے“ (تذکرۃ الرشيد جلد 2 ص 289) آپ سلیم نے خود تشریف لا کر ایک دن دیو بندی مہمانوں کے لئے کھانا پکایا اشرف علی صاحب تھانوی اپنے اعلیٰ حضرت ، حضرت حاجی امداد اللہ کے متعلق لکھتے ہیں: ایک دن اعلیٰ حضرت نے خواب میں دیکھا کہ آپ کی بھاوج آپ کے مہمانوں کا کھانا پکارہی ہے کہ جناب رسول مقبول صلی آیتم تشریف لائے اور آپ کی بھاوج سے فرما یا اٹھ تو اس قابل نہیں کہ امداد اللہ کے مہمانوں کا کھانا پکائے.اس کے مہمانوں کا کھانا میں خود پکاؤں گا“.(امداد المشتاق ص 20، امدادالسلوک ص 40 تاریخ مشائخ چشت ص 248 تالیف مولانامحمد زکریا نا ش مجلس نشریات کراچی نمبر 18) تقویۃ الایمان کے مطابق درج ذیل کام شرک اور کرنے والے مشرک 1.جو کوئی کشف اور استخارہ کا دعویٰ کرے جھوٹا دغا باز اور مشرک ہے.2.جو کوئی اللہ کے نام کے علاوہ کسی کے نام کا ختم پڑھے وہ بھی مشرک.3 محرم کے مہینے میں پان نہ کھانا شرک ہے.4 - محرم کے مہینے میں لال کپڑے نہ پہننا شرک ہے.( تقوية الايمان مع تزكير الاخوان ص 22 بس 50 باب تو حید و شرک کے بیان میں ) دیوبندی مولوی کی نظر کہاں کہاں ایک بار بھرے مجمع میں حضرت ( رشید احمد گنگوہی ) کی کسی تقریر پر ایک نو عمر دیہاتی پوچھ بیٹھا کہ حضرت عورت کی شرم گاہ کیسی ہوتی ہے؟ اللہ رے تعلیم سب حاضرین نے گردنیں نیچے جھکا لیں مگر آپ چیں بہ جبیں نہ ہوئے.بلکہ بے ساختہ فرمایا.جیسے گیہوں کا دانہ ( تذكرة الرشيد جلد 2 ص 100 میں ایسے پیر کے منہ پر پیشاب بھی نہیں کرتی کنجریوں کے کوٹھے پر ایک کنجری کا دیوبندی مولوی کو جواب حضرت حافظ ضامن علی جلال آبادی تو توحید ہی میں غرق تھے.ایک بار ارشاد فرمایا کہ ضامن علی جلال آبادی

Page 180

180 کی سہارن پور میں بہت سی رنڈیاں مرید تھیں.ایک بارکسی رنڈی کے مکان پر ٹھہرے ہوئے تھے.سب مرید نیاں اپنے میاں کی زیارت کے لئے حاضر ہوئیں مگر ایک رنڈی نہیں آئی.میاں صاحب بولے کہ فلاں کیوں نہیں آئی؟ رنڈیوں نے جواب دیا ہم نے اس سے بہتیرا کہا وہ کہتی ہے میں بہت گنہگار ہوں.میاں صاحب کو کیا منہ دکھاؤں ؟...میاں صاحب نے کہا کہ جی تم اسے ہمارے پاس ضرور لانا.چنانچہ رنڈیاں اسے لیکر آئیں.جب وہ سامنے آئی تو میاں صاحب نے پوچھا تم کیوں نہیں آئی؟ اس نے کہا اپنی روسیاہی کی وجہ سے شرماتی ہوں.میاں بولے بی تم کیوں شرماتی ہو کر نے والے کون اور کروانے والے کون.وہ تو وہی ہے.رنڈی یہ سن کر آگ بگولا ہوگئی اور خفا ہو کر ولا حول ولا قوۃ پڑھتے ہوئے بولی میں گنہگار ہوں مگر ایسے پیر کے منہ پر پیشاب بھی نہیں کرتی.( تذكرة الرشيد جلد نمبر 2 ص 242 مرتبہ عاشق الہی ٹائیٹل امیر المطالع میرٹھ میں باہتمام اصغر حسین چھپا ) 1.خدا تعالیٰ کو جھوٹ پر قادر سمجھتے ہیں.(فتاوی رشید یہ حصہ اول صفحہ 19 دیوبندی مذهب از مولانا غلام مہر علی شاہ گولڑوی) 2.آنحضرت مصلای ایام کا علم بچوں، مجنونوں اور جانوروں کے علم کے برابر سمجھتے ہیں.3.شیطان کا علم حضور سے وسیع تر تھا.(حفظ الایمان مصنفہ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی مطبوعہ دیو بند صفحہ 9 4.حاجی امداداللہ صاحب کو رحمتہ للعالمین کہتے ہیں.( براہین قاطعہ مصنفہ خلیل احمد مصدقہ رشید احمد گنگوهی صفحه (51) (افاضات الیومیہ از مولانا اشرف علی تھانوی جلد نمبر 11 صفحہ 105 ) 5.دیوبندیوں نے معاذ اللہ حضور " کو جہنم میں گرنے سے بچایا.6.آنحضرت اردو سیکھنے میں دیو بندیوں کے شاگرد ہیں.( بلغة الحبر ان بحوالہ دیوبندی مذہب صفحہ 26 (براہین قاطعہ بحوالہ دیوبندی مذہب صفحہ 26 | 7.آنحضرت کا گنبد خضراء ناجائز اور حضرت امام حسین اور حضرت مجدد الف ثانی " کے روضے ناجائز اور حرام ہیں.(فتاوی دیو بند جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 26 8.دیو بندی ختم نبوت کے منکر ہیں.رساله تخذيه الناس از مولا نا محمد قاسم صاحب نانوتوی )

Page 181

181 9.دیو بندی خانہ کعبہ میں بھی گنگوہ کا راستہ تلاش کرتے ہیں.10.مولوی رشید احمد گنگوہی بانی اسلام کے ثانی ہیں.11.حضرت فاطمتہ الزہراء کی توہین کرتے ہیں.(مرثیه از مولا نا محمودالحسن ) (مرثیه تحریر کردہ مولانا محمود الحسن ) افاضات الیومیہ جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 37 ) 12.رضی اللہ اور امیر المومنین کی مقدس اصطلاحات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں.رساله تبیان دا د ولی شریف فروری 1954 صفحه 9 13.دیو بندیوں کا کلمہ لا إله إله الله اشرف على مرسول الله ور درود اللهم صلی علی سیدنا و نبینا ومولانا اشرف علی.14.ماں کے ساتھ عقلاً زنا جائز سمجھتے ہیں.15.دیوبندی انگریز کے وفادار ہیں.رسال امداد مولانا اشرف علی بابت ماہ صفر 1376ھ ، صفحہ 45 ) افاصات الیومیه از مولوی اشرف علی صاحب تھانوی جلد 2 اکثر حوالے دیوبندی مذہب از مولانا مہر علی شاہ صاحب سے لئے گئے ہیں.16.نماز میں حضور" کا خیال گدھے اور بیل کے خیال میں ڈوبنے سے برا ہے.(فتاوی رشیدیہ) (صراط مستقیم صفحه 97 مصنفہ مولوی اسمعیل دہلوی کتب خانه اشرافیہ راشد کنی دیوبند) 17.ہر مخلوق بڑا چھوٹا اللہ کی شان کے آگے چمار سے ذلیل ہے.( تقویۃ الایمان صفحه 13 مصنفه مولوی اسمعیل دہلوی را شد کنی دیوبند) 18.سب انبیاء اور اولیاء اس کے رو برو ایک ذرہ ناچیز سے بھی کمتر ہیں.19.حضور کی تعظیم بڑے بھائی کی سی کیجئے.20.حضور“ کا یوم میلاد منانا کنتھیا کے جنم دن منانے کے طرح ہے.( تقویۃ الایمان صفحہ 48) ( تقویۃ الایمان صفحه (52) (براہین قاطعہ صفحہ 152 )

Page 182

182 21.رسول کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا.( تقویۃ الایمان صفحه 50 ) 22.مسئلہ جس جگہ زاغ معروفہ کو اکثر حرام جانتے ہوں اور کھانے والے کو برا کہتے ہوں تو ایسی جگہ اس کو کھانے والے کو کچھ ثواب ہوگا یا نہ ثواب ہوگا نہ عذاب الجواب ثواب ہوگا.(فتاوی رشیدیہ صفحہ 145 جلد (2) 23.میں تو کہتا ہوں کہ ہندوستان کی عورتیں حوریں ہیں.افاضات الیومیہ صفحہ 273 جلد 4 24.عیدین میں معانقہ بدعت ہے.(فتاوی رشید یه صفحه 99 جلد (2) 25 بروز ختم قرآن شریف مسجد میں روشنی کرنا بدعت و نادرست ہے.(فتاوی رشیدیہ صفحہ 460 ) 26.دفع ظلم کے واسطے رشوت دینا درست ہے.(فتاوی رشیدیہ صفحہ 201) 27.کچہری میں جھوٹ بولنا احیاء حق کے واسطے کذب درست ہے.28.منی آرڈر درست نہیں ، ہنڈی درست نہیں دونوں میں معاملہ سود کا ہے.(فتاوی رشیدیہ صفحہ 201 (فتاوی رشیدیہ صفحہ 179 بحوالہ الوہابیت (135) 29.سیدنا حسن حکومت کو بچوں کا کھیل سمجھتے ہوئے کسی کی کچھ پروانہ کرتے تھے اور بزرگوں کے سمجھانے کے باوجو د بھی بعض اوقات جو دل میں آتا کر گزرتے تھے.خلافت رشید ابن رشید صفحه (204) 30.حضرت حسین تو آنحضور صلی شما ایلم کے سفر عقبی کے وقت 5 سال کے معصوم بچے تھے ان کو جلیل القدر صحابی کہنا غلط ہے.خلافت رشید ابن رشید صفحه 156 31.امیر المومنین یزید کی مخالفت کے لئے سیدنا حسین معاویہ کی وفات کے منتظر تھے جو نہی انہیں سیدنا معاویہ کی رحلت کی خبر ملی تو اپنے دلی مقصد کی برآوری کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے.امیر کی اطاعت سے گریز اور اپنی

Page 183

183 خلافت کی طلب کے نتائج پیدا ہونے تک آپ نے جو کچھ کیا وہی دراصل اس تمام مسئلہ کی روح رواں ہے جسے سمجھ لینے کے بعد قارئین با آسانی اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ سید نا حسین نے خود ہی ایسے حالات پیدا کئے تھے جو بالا آخر واقعہ کربلا پر منتج ہوئے.خلافت رشید ابن رشید صفحه (186 32 - امیر المومنین یزید کی خلافت سید نا علی کی خلافت سے بہتر تھی سیدناحسین کو فی تفرقہ بازوں کے سہارے سر کردہ مسلمانوں کی مرضی کے خلاف حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے کوفہ روانہ ہو گئے.یہ وہ باتیں ہیں جنہیں تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے مسلمان اچھی طرح جانتے ہیں.یہ تاریخی حالات واضح طور پر ثابت کرتے ہیں کہ امیر المونین یزید کی خلافت سیدناعلی کی خلافت سے بوجہ خانہ جنگی کے بدرجہ اولیٰ اور اتفاق کی حامل تھی.33.خلافت کا جھگڑا ”اہل حق قارئین ! حقیقت سورج کی طرح روشن ہے کہ سب خلافت حاصل کرنے کا جھگڑا تھا اور خلافت کی آرزو میں کربلا کا حادثہ پیش آیا.“ خلافت رشید ابن رشید صفحه (238 34.یزید صالح تھا اور دنیائے اسلام میں اس کا کردار بہت بلند تھا وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے عربوں کے دل جیت کر بہادر ترین عرب کا خطاب حاصل کیا اس بہادر صالح امیر یزید کے بارے میں تو دنیا کو یہاں تک غلط راہ پر ڈال دیا گیا ہے کہ آج اس اسلام کے سپوت کا نام لینا بھی بڑی جرات اور صبر آزمائی کا کام ہے.میری دانست میں دنیا اسلام کے اس بہادر ترین عرب امیر یزید کا کردار بہت بلند تھا“.خلافت رشید ابن رشید صفحه 354 35.امیرالمومنین یزید مظلوم شخصیت ہے 36.یزید خلیفہ برحق ہے.( معارف یزید صفحه 3 ، 4 حصہ دوم ) ( معارف یزید حصہ دوم ) خلافت رشید ابن رشید صفحه (235) 37.حضرت حسین نے بے موقعہ افتراق و عداوت پیدا کر کے امت مسلمہ کا شیرازہ بکھیر دیا.38.کربلا کا واقعہ مذہبی جنگ نہ تھی بلکہ سیاسی تھا.

Page 184

184 39.امیر المومنین یزید کی تکفیر کر نا غلط ہے.40.بتاؤ وہ کونسا اسلام ہے جو حضرت امام حسین کی شہادت سے زندہ ہوا.؟؟ 41.واقعہ کر بلانے اسلام کو مردہ کر دیا.(خلافت رشید ابن رشید صفحه (231) ( معارف یزید جلد 1 صفحہ 13 ( معارف یزید جلد 1 صفحہ 15 42.امام حسین نے خلیفہ برحق یزید کے خلاف خروج کیا.( معارف یزید جلد 1 صفحہ 13 | 43.سن لوحق وہی ہے جو رشید احمد کی زبان سے نکلتا ہے اور بہ قسم کہتا ہوں کہ میں کچھ نہیں ہوں مگر اس زمانہ میں ہدایت و نجات موقوف ہے میرے اتباع پر.44.رشید گنگوہی کی وفات پر مری محمودالحسن : (تذکرۃ الرشید جلد 2 صفحہ 17 حوائج دین و دنیا کے کہاں لیجائیں ہم یا رب گیا وہ قبلہ حاجات روحانی و جسمانی 45.وفات کے بعد مولانا قاسم نانوتوی جسمانی طور پر مدرسہ دیو بند میں تشریف لائے اور مدرسہ کے صدر مدرسین میں جھگڑ اصل کیا.46.مولوی محمود الحسن فرماتے ہیں کہ : (ارواح شاہ صفحہ 242 پنجاب کے ایک گاؤں میں ایک دیو بندی سادہ سے عالم دین میں اور تیز طرار بریلوی مولوی میں مناظرہ جاری تھا.دیو بندی مولوی ہارنے لگا کہ اچانک عالم برزخ سے مولانا قاسم نانوتوی ان کے پہلو میں جسمانی طور پر پہنچ گئے اور جواب بتانے لگے جو یہ صاحب بریلوی عالم کو دیتے جاتے.یوں جلد ہی بریلوی عالم قدموں میں گر گیا.“ (سوانح قاسمی جلد 1 صفحہ 332 ) 47.ممتاز دیو بندی قاضی عبد الغنی کو علم "مافی الارحام حاصل تھا اور کئی سال پہلے بتا دیتے تھے.(ماہنامہ برمان دیلی اگست 1952 صفحه (68 48.شاہ عبدالرحیم دیو بندی کو علم مافی الارحام حاصل تھا.(ارواح ثله صفحه 163 ) 49.دیوبندیوں کے سرکردہ عالم دین دیوان جی کی قوت کشف اور غیب کا علم اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ دیواروں

Page 185

185 کے باہر سڑک پر ہر آنے جانے والا ان کو نظر آتا تھا.( حاشیہ سوانح قاسمی جلد 2 صفحہ 73 ) 50.ایک عجیب واقعہ (1857ء میں ) انگریزوں کے مقابل میں جو لوگ لڑ رہے تھے ان میں حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی بھی تھے اچانک ایک دن مولانا کو دیکھا گیا کہ خود بھاگے جارہے ہیں اور کسی چودھری کا نام لیکر جو باغیوں کی فوج کی افسری کر رہے تھے کہتے جاتے تھے کہ لڑنے کا کیا فائدہ خضر کو تو میں انگریزوں کی صف میں پارہا ہوں.( حاشیہ سوانح قاسمی جلد 2 صفحہ 103 ) 51.1857ء میں خدا تعالیٰ نے حضرت خضر" کو حکم دیا کہ انگریز کے گھوڑے کی باگ تھام کر چلے چنانچہ حضرت مولا نا فضل الرحمن کے پوچھنے پر بتایا کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہی یہی ہے.( حاشیہ سوانح قاسمی صفحہ 103 ) 52.حضرت مولانا قاسم نانوتوی اپنے ایک شاگرد کو جو کسی لڑکے پر عاشق تھا اور اس سے تنگ تھا کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ کے ساتھ رگڑا.وہ راوی کہتا ہے کہ : خدا قسم ! میں نے بالکل عیانا ( کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ میں عرش کے نیچے ہوں اور ہر چہار طرف نور اور روشنی نے میرا احاطہ کر لیا گویا میں در بارالہی میں حاضر ہو گیا.(ارواح شاہ صفحہ 247) 53.حضرت مولانا قاسم نانوتوی دلوں کے بھید جانتے تھے.54.آپ کے ساتھ شیعہ لوگوں نے مذاق کیا اور ایک زندہ لڑکے کو رکھ کر نماز جنازہ پڑھنے کا کہا.جب جنازہ ختم ہوا تو واقعی مر چکا تھا آپ نے غصے کی حالت میں فرمایا اب یہ قیامت تک نہیں اٹھ سکے گا.( حاشیہ سوانح قاسمی جلد 2 صفحہ 71) 55.حضرت مولانا قاسم نانوتوی کی قبر کسی نبی کی قبر میں ہے.مبشرات صفحہ 36 از مولانا انوارالحسن ہاشمی ) 56.دیو بندی قبرستان جس میں محمود الحسن، مولانا حبیب الرحمن وغیرہ دفن ہیں کے بارے میں عقیدہ ہے کہ اس حصے میں جو بھی دفن ہوگا انشاء اللہ مغفور ہے.(مبشرات صفحہ 31 ) 57.حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے قلب پر وہی بوجھ آتا تھا جو آنحضور صلی یہ مہم کے دل پر وحی کے وقت آتا تھا.اس بوجھ کے بارے دیو بندی عقیدہ یہ ہے کہ ”تم سے حق تعالیٰ کو وہ کام لینا ہے جو نبیوں سے لیا جاتا ہے.“

Page 186

186 58.تحقیق کی غلطی ولایت بلکہ نبوت کے ساتھ بھی جمع ہو سکتی ہے.(سوانح قاسمی جلد نمبر 1 صفحہ 259) (فتوی اشرف علی تھانوی فتاوی امدادیہ جلد 2 صفحہ 62 59.سن لوحق وہی ہے جو رشید احمد گنگوہی ) کی زبان سے نکلتا ہے یہ قسم کہتا ہوں کہ میں کچھ نہیں مگر اس زمانے میں ہدایت و نجات موقوف ہے میرے اتباع پر.( تذکرۃ الرشید جلد 2 صفحہ 17 ) 60.لوگو! کیا کہتے ہو؟ میں مولوی رشید احمد صاحب کا قلم عرش کے پرے چلتا ہوا دیکھ رہا ہوں.(تذکرۃ الرشید جلد 2 صفحہ 322 61.مولانا رشید احمد گنگوہی) کی زبان سے جو بات نکلتی ہے تقدیر الہی کے مطابق ہے.(تذکرۃ الرشید جلد 2 صفحہ 219 ) 62.مولانا رشید احمد گنگوہی ایک بیمار شیعہ کو دیکھنے گئے اور اس کے جسم کے کچھ حصے پر ہاتھ پھیر ا بعد میں وہ خواب میں آئے اور بتایا کہ جسم کے جتنے حصے پر مولوی صاحب کا ہاتھ لگا بس اتنا جسم تو عذاب سے بچا ہے باقی جسم پر بڑا عذاب ہے.(تذکرة الرشيد جلد 2 صفحہ 324) 63.مولانا رشید احمد گنگوہی.گنگوہ میں موجود ہوتے ہوئے روزانہ صبح مکہ معظمہ میں نماز پڑھنے جایا کرتے تھے.لکھا ہے: درجن ایام میں قیام میرا مکہ معظمہ میں تھا روزانہ میں نے صبح کی نماز حضرت کو حرم شریف میں پڑھتے دیکھا اور لوگوں سے سنا بھی کہ یہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ہیں.گنگوہ سے تشریف لایا کرتے ہیں“ (تذکرۃ الرشید جلد 2 صفحہ 212 ) 64.مولانا اشرف علی تھانوی بھی جسمانی طور پر اپنے گھر تھانہ بھون میں موجود ہونے کے کئی کئی دور دراز جگہوں پر بھی جسمانی طور پر موجود ہوتے تھے چنانچہ بیان ہے: در گود یکھنے میں حضرت والا یہاں بیٹھے ہوئے ہیں لیکن کیا خبر اس وقت کہاں پر ہوں.کیونکہ ایک بار میں خود حضرت والا کو باوجود کہ تھانہ بھون میں ہونے کے علی گڑھ دیکھ چکا ہوں جبکہ وہاں نمائش تھی اور اس کے اندر سخت آگ لگی ہوئی تھی.چونکہ میں اکیلا تھا اور بکس بھاری بھی تھے اس لیے میں سخت پریشان ہوا کہ یا اللہ ! دکان سے باہر کیونکر لے

Page 187

187 جاؤں.اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ دفعہ حضرت والا نمودار ہوئے اور بکسوں میں سے ایک بکس کے پاس تشریف لے جا کر فر ما یا جلدی سے اٹھاؤ“.(اشرف السوانح از خواجه عزیز الحسن شائع کردہ خانقاہ امداد یہ تھا نہ بھون ضلع مظفر نگر جلد 3 صفحہ 71) 65.مولانا اشرف علی تھانوی اپنے پڑدادا محمد فرید صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ ایک حادثہ میں شہید ہو گئے مگر شہادت کے بعد ایک عجیب واقعہ ہوا شب کے وقت اپنے گوشل زندہ کے تشریف لائے اور اپنے گھر والوں کو مٹھائی لا کر دی اور فرمایا اگر تم کسی پر ظاہر نہ کروگی تو اس طرح روز آیا کریں گے.لیکن ان کے گھر کے لوگوں کو یہ اندیشہ ہوا کہ گھر والے جب بچوں کو مٹھائی کھاتے دیکھیں گے تو معلوم نہیں کیا شبہ کریں گے اس لیے ظاہر کر دیا اور آپ تشریف نہیں لائے“.66.مردوں کا ظاہر جسم سے گھر میں واپسی ( اشرف السوانح جلد 1 صفحہ 12 ) مولانا اسمعیل دہلوی کے قافلے میں ایک شخص شہید ہو گیا جن کا نام بیدار بخت تھا یہ مجاہد دیو بند کے رہنے والے تھے ان کی شہادت کی خبر آچکی تھی.ان کے والد حشمت علی خاں حسب معمول دیو بند میں اپنے گھر میں ایک رات تہجد کے لیے اٹھے تو گھر کے باہر گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز آئی.انہوں نے دروازہ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ ان کے بیٹے بیدار بخت ہیں.بہت حیرانگی بڑھی کہ یہ تو بالا کوٹ میں شہید ہو گئے تھے یہاں کیسے آگئے.بیدار بخت نے کہا جلدی کوئی دری وغیرہ بچھائیے حضرت مولانا اسمعیل اور سید احمد صاحب یہاں تشریف لا رہے ہیں.حشمت خاں نے فوراً ایک بڑی چٹائی بچھا دی اتنے میں سید صاحب اور مولا نا شہید اور چند دوسرے رفقاء بھی آگئے.حشمت خاں نے محبت پدری کی وجہ سے سوال کیا تمہارے کہاں تلوار لگی تھی ؟ بیدار بخت نے سر سے اپنا ڈھانٹا کھولا اور اپنا نصف چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر اپنے باپ کو دکھایا کہ یہاں تلوار لگی تھی.حشمت خاں نے کہا یہ ڈھانٹنا پھر سے باندھ لو.مجھ سے یہ نظارہ نہیں دیکھا جاتا.تھوڑی دیر کے بعد یہ تمام حضرات واپس تشریف لے گئے.صبح کو حشمت خاں کو شبہ ہوا کہ یہ کہیں خواب تو نہیں تھا مگر چٹائی کو جو غور سے دیکھا تو خون کے قطرے موجود تھے یہ وہ قطرے تھے جو بیدار بخت کے چہرے سے گرتے ہوئے اس کے والد نے دیکھے تھے.( ملفوظات مولانا اشرف علی تھانوی صفحہ 409 مطبوعہ پاکستان بحوالہ ہفت روزہ چٹان 24 دسمبر 1962 ء ) 67 - مولوی حسین احمد مدنی بارش روکنے کی طاقت رکھتے تھے.

Page 188

188 (روز نامه الجمیعہ دہلی کا شیخ الاسلام نمبر صفحہ 147 روایت مولوی جمیل الرحمن سیوہاروی مفتی دار العلوم دیوبند ) 68.ایک ہی وقت میں کئی جگہ جسمانی ظہور مولوی حسین احمد مدنی کے ایک مرید آسام کی پہاڑیوں میں کار پر جارہے تھے راستہ صرف گاڑی کے چلنے کا تھا اچانک سامنے سے ایک تیز رفتار گھوڑ سوار نمودار ہوا خطرہ تھا کہ گھوڑا گاڑی پر چڑھ جائے گا.آگے کا واقعہ سینے : اس شخص نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر پیر ومرشد (مولوی حسین احمد مدنی ) ہوتے دعا کرتے.ابھی اتنا سوچا ہی تھا کہ حضرت شیخ گھوڑے کی لگام پکڑ کہیں غائب ہو گئے.“ انفاس قدسیه از دیوبندی رہنما مفتی عزیز الرحمن بجنوری شائع کردہ مدینہ بک ڈپو بجنور ) 69.ایک ہی وقت میں کئی جگہ جسمانی ظہور حضرت شاہ حاجی امداد اللہ کے آخری دنوں کا واقعہ سنیے آپ کے دومریدوں نے یوم عرفات کے دن سوچا کہ مراقبہ سے پتا چلایا جائے کہ آج حضرت شاہ صاحب کہاں ہیں آگے کا واقعہ درج ہے.انہوں نے مراقب ہو کر دیکھا کہ حضرت جبل عرفات کے نیچے تشریف رکھتے ہیں.ہم لوگوں نے بعد عرض کیا کہ آپ یوم عرفات میں کہاں تھے حضرت نے فرمایا کہ کہیں بھی نہیں مکان پر تھا.ہم لوگوں نے عرض کی کہ حضرت آپ تو فلاں جگہ تشریف رکھتے حضرت نے فرمایا کہ یا اللہ لوگ کہیں بھی چھپا نہیں رہنے دیتے.“ کرامات امداد یہ شائع کردہ کتب خانہ ہادی دیو بند صفحه 20) 70.ایک ہی وقت میں کئی جگہ جسمانی ظہور ایک دیو بندی بھائی کسی سمندری جہاز میں سفر کر رہے تھے کہ طوفان آ گیا قریب تھا کہ جہاز غرق ہو جاتا آگے کا واقعہ خود راوی کی زبانی سنیے : انہوں نے جب دیکھا کہ اب مرنے کے سوا چارہ نہیں ہے.اس مایوسانہ حالت میں گھبرا کر اپنے روشن ضمیر پیر (حضرت مولانا شاہ حاجی امداد اللہ ) کی طرف خیال کیا.اس وقت سے زیادہ اور کون سا امداد کا وقت ہوگا.اللہ سمیع و بصیر اور کار ساز مطلق ہے.اسی وقت آگبوٹ غرق سے نکل گیا اور تمام لوگوں کو نجات ملی.ادھر تو یہ قصہ پیش آیا ادھر اگلے روز مخدوم جہاں اپنے خادم سے بولے ذرا میری کمر دباؤ نہایت درد کرتی ہے خادم نے دباتے دباتے پیراہن مبارک جو اٹھایا تو دیکھا کہ کمر چھلی ہوئی ہے اور اکثر جگہ سے کھال اتر گئی ہے.پوچھا حضرت یہ کیا بات ہے کمر کیوں چھلی ہوئی ہے فرمایا کچھ نہیں پھر پوچھا آپ خاموش رہے تیسری مرتبہ پھر دریافت کیا حضرت یہ تو کہیں رگڑ لگی ہے اور آپ تو کہیں تشریف بھی نہیں لے گئے.فرمایا:

Page 189

189 ایک آگبوٹ ڈوبا جاتا تھا.اس میں ایک تمہارا دینی اور سلسلے کا بھائی تھا.اس کی گریہ زاری نے مجھے بے چین کر دیا اور آگبوٹ کو کمر کا سہارا دے کر اوپر کو اٹھایا جب آگے چلا اور بندگان خدا کو نجات ملی اسی سے چھل گئی ہوگی اور اسی وجہ سے درد ہے مگر اس کا ذکر نہ کرنا.“ نوٹ : مندرجہ حوالے 3 کتب سے لیے گئے ہیں.کرامات امدادیہ صفحہ 18 ) 1 - زلزلہ مصنف مولانا ارشد القادری مدیر جام نور جمشید پور مکتبہ نبویہ لاہور 2- الوہابیت مصنفہ مولانا ابوالحامد محد ضیاء اللہ قادری قادری کتب خانه تحصیل بازار سیالکوٹ - 3 تبلیغی جماعت مصنف مولانا ارشد القادری مکتبہ نبویہ لاہور جاتے ہیں.شیعہ مذہب اگر اہل تشیع بھائیوں کے درج ذیل عقائد بھی ہیں تو بھی فکر نہیں آج سے یہ عین اسلامی عقائد قرار دیئے (دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور جماعت اسلامی سمیت جمہور مسلمان کے تمام علماء دین شیعہ مذہب کو اسلام اور مسلمانوں سے نہ صرف خارج بلکہ ان کا اسلام سے دور کا بھی تعلق ماننے کے لیے تیار نہیں چنانچہ یہ علماء اہل تشیع بھائیوں کو رافضی تبرائی ، کفار، مرتدین، ان کے ہاتھ کا ذبیحہ مردار، ان سے مناکحت نہ صرف حرام بلکہ زنا ، اولا د ولد الزنا خبیث عورت نہ ترکہ کی مستحق نہ مہر کی کہ زانیہ کے لیے مہر نہیں، ماں باپ کا ترکہ بھی نہیں ملے گا ، ان سے کلام گناہ کبیرہ اور اشد حرام، جو ان کو کافر نہ سمجھے وہ خود کا فرو بے دین، خارج از اسلام، اسلام کے اشد ثمن.بادشاہ اسلام بلکہ تمام انسانوں پر ان کا قتل کرنا ان کے مکانوں کو تباہ کرنا اور مال و اسباب لوٹ لینا جائز ہے.وغیرہ سمجھتے تھے.) مگر الحمد اللہ چونکہ آج کے بعد ختم نبوت کی نئی برکت سے 1.تمام فرقوں کو ایک دائگی اور عالمگیر برادری بناممکن ہو گیا ہے اور ہر بنیادی اختلاف اور تفریق سے محفوظ ہوکر تما فرقوں کا مسلمان بنا بھی ممکن ہو گیا ہے.اس لیے اہل تشیع سے بھی یہ فرقہ وارانہ جنگ ختم کی جاتی ہے اور آج 24 اپریل 1984ء کے بعد شیعہ مذہب کے درج ذیل عقائد عین اسلامی اور مومنانہ ہیں یا اور بھی جو چاہیں عقیدہ رکھیں ہمیں سرو کار نہیں.یادر ہے کسی ایسے عقیدہ کی بناء پر آئندہ انہیں مندرجہ بالا القابات سے یاد کرنے کی اجازت نہیں.اہل تشیع کے عقائد اعمال وافعال ماضی میں دیگر علماء کی نظر میں -1 حضرت علی خدا ہیں.(معاذ اللہ )

Page 190

190 ( تزکرۃ الائمه صفحه 91) -2.حضرت علی خدا ہیں اور محمد اس کے بندے ہیں.(معاذ اللہ ) مناقب مرتضوی حیات القلوب جلد 2 باب (49 3.خدا تعالیٰ نے تمام کائنات آئمہ تشیع کے تصرف اور اطاعت پر مامور کر دی ہے.4 - حضرت علی فرزند خدا ہیں.(معاذ اللہ ) ناسخ التواریخ جلد ششم کتاب دوم صفحہ 348 (رساله نورتن صفحه (26) 5.ہم امیر المومنین کو حلال اور کا شف الکروب مانتے ہیں.(شیعہ مذہب میں وہابیت کی روک تھام کے لیے دوسرا مقالہ ظہور علی بمقام قاب قوسین صفحہ 15، 16 ) 6.جب تک کوئی شخص ایک تیسرے جز یعنی اولوالامر کی اطاعت کا اقرار نہیں کرتا اس وقت تک وہ مسلمان نہیں کہلا سکتا.( معارف اسلام لا ہو فاطمہ نمبر اکتوبر 1968 ، صفحہ 74 7 - قرآن در اصل حضرت علی کی طرف نازل ہوا تھا.(معاذ اللہ ) (رساله نورتن صفحه 37 ) 8.حضرت علی جمیع انبیاء سے افضل ہیں.(معاذ اللہ ) (غنیۃ الطالبین اور حق الیقین مجلسی باب 5) 9.اگر حضرت علی شب معراج میں نہ ہوتے تو حضرت محمد صلی علی ایم کی ذرہ قدر بھی نہ ہوتی.(معاذ اللہ ) (جلاء العیون مجلسی از خلافت شیخین صفحه 17) 10.اصل قرآن امام مہدی کے پاس ہے جو 40 پارے کا ہے موجودہ قرآن بیاض عثمانی ہے جس میں کامل اسباق الخلافت تفسیر لوامع التنزیل جلد 4 مصنفہ سید علی الحائری لاہور تفسیر صافی جز 22 صفحہ 411) 10 پارے کم ہیں.11.حضرت عزرائیل حضرت علی کے حکم سے ارواح قبض کرتے تھے.(تذکرة الائمہ صفحہ 91) 12.حضرت ابوبکر اور حضرت عمر دونوں حضرت فاطمہ کے جمال پر فریفتہ تھے اور اسی سبب ہجرت کی.(معاذ اللہ ) 13 - حضرت عمر ( کے متعلق نہایت گندے الفاظ ) ( کتاب کامل بھائی اور کتاب خلافت شیخین صفحہ 91)

Page 191

191 الزہرا بحوالہ شیعہ سنی اتحاد صفحہ 4 14.حضرت ابوبکر سے مسجد نبوی میں منبر نبوی پر سب سے اول بیعت خلافت شیطان نے کی.(معاذ اللہ ) کتاب امالی امام اعظم طوسی شیلعی و خلافت شیخین صفحه 25) 15.قرآن مجید میں جہاں جہاں وقال الشیطان آیا ہے وہیں ثانی ( عمر ) مراد ہے.(معاذ اللہ ) ( بحوالہ مقبول قرآن امامیه صفحه (512) 16.حضرت ابوبکر حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کا فر فاسق تھے.(معاذ اللہ ) 17.شیطان حضرت علی کی شکل پر متمثل ہو کر مارا گیا.حیات القلوب مجلسی باب (51) 18.سوائے چھ اصحاب کے باقی جمیع اصحاب الرسول مرتد اور منافق تھے.( معاذ اللہ ) (تذکرة الائمہ صفحہ 91) کتاب وفات النبی سلیم ابن قیصر الہلال مجالس المؤمنین مجلس سوم قاضی نور اللہ حیات القلوب باب 51 صفحہ 11) 19.حضرت عمر ( کے متعلق نہایت گندے الفاظ ) کتاب عیسائیت اور اسلام مسلمان بادشاہوں کے تحت صفحہ (242) 20.حضور اقدس پر انتہائی نا پاک الزام.(معاذ اللہ) ( انتہائی ظالمانہ الفاظ) خلاصه المنهج علمی جلد اول زیر آیت سورۃ النساء ) 21.حضرت علی اور ان کے باقی ائمہ جمیع انبیاء سے افضل ہیں.(معاذ اللہ ) 22.ہمارے گروہ کے علاوہ تمام لوگ اولا د بغایا ہیں.( حق الیقین مجلسی باب (5) (الفروع من الجامع الکافی جلد 3 کتاب الروضۃ صفحہ 135 ) 23.اگر میت شیعہ نہ ہو اور دشمن اہل بیت ہو اور نماز بضرورت پڑھنا پڑھے تو بعد چوتھی تکبیر کہے اے اللہ تو اس کو آگ کے عذاب میں داخل کر.(تحفۃ العوام صفحہ 216, 217 باب چہارم) نوٹ : مندرجہ بالا اکثر حوالے قاطع انف الشیعۃ الشیعہ اور شیعہ سنی اتحاد کی مخلصانہ اپیل سے ماخوذ ہیں.درج ذیل حوالے مولانا حق نواز جھنگوی کی تقاریر سے اخذ کر کے جناب عبد القدوس نے ہفت روزہ مہارت لاہور 28 جولائی تا 5 اگست 1993 ء میں شائع کئے ہیں.

Page 192

192 24.شراب خور خلفائی کی خاطر قرآن تبدیل کر دیا گیا ہے.(معاذ اللہ ) ( مقبول حسین دہلوی ترجمه قرآن پارہ نمبر 12 رکوع نمبر 16 25.جب تک امام مہدی نہ آئے ہم یہی غلط قرآن پڑھیں گے.(معاذ اللہ ) ( مقبول حسین دہلوی ترجمہ قرآن پارہ نمبر 12 رکوع نمبر 16 26.عمر بن خطاب اصل کا فر اور زندیق تھا.(معاذ اللہ ) آیت اللہ خمینی اپنی کتاب تذکرہ اسرار میں ) 27.متعہ کرنے کے بعد جب جوڑا اغسل کرتا ہے تو اس کے جسم سے گرنے والے پانی کے ہر قطرے سے 70 فرشتے جنم لیتے ہیں اور اس کی سلامتی کی دعا کرتے ہیں.(معاذ اللہ ) 28.جناب آیت اللہ مینی کا فتویٰ: ہفت روزہ مہارت 28 جولائی تا 5 اگست 1993 ، صفحہ 14 میں اس رب کو رب نہیں مانتا جس نے عثمان بن عفان اور معاویہ بن سفیان جیسے بدقماشوں کو حکومت دی.(معاذ اللہ ) ہفت روزہ مہارت 28 جولائی تا 5 اگست 1993 ، صفحہ 13 ) 29.جتنے رسول آئے معہ محمد رسول اللہ کے سب نا کام واپس گئے.(معاذ اللہ ) (ہفت روزہ مہارت 28 جولائی تا 5 اگست 1993 ، صفحہ 13 30.رب نے جو قوم، ورضا کار، جو ساتھی، جو جوان مجھے دیئے ایسے ساتھی مد رسول اللہ کبھی نہیں دیئے.(معاذ اللہ ) (ہفت روزہ مہارت 28 جولائی تا 5 اگست 1993 ، صفحہ (14) 31.ایک دن حضرت علی کی شیطان سے ملاقات ہوئی.حضرت علی نے کہا کہ تو بڑا مردود ہے لعین ہے بے ایمان ہے اور جہنمی ہے.شیطان نے کہا علی تجھے مغالطہ ہے اور یہی مغالطہ مجھے بھی تھا.میں نے رب سے پوچھا کہ اللہ میں بڑا کمینہ ہوں تیری مخلوق میں تو رب نے کہا نہیں تجھ سے دو اور بڑے کمینے ہیں.میں نے کہا میں وہ بڑے بے ایمان دیکھنا چاہتا ہوں جن سے میں بھی چھوٹا ہوں.اللہ نے کہا جاؤ داروغہ جہنم سے میرا سلام کہنا کہ تجھے وہ دونوں دکھائے.شیطان داروغہ جہنم کے پاس گیا جو اسے اس طبقہ میں لے گیا جہاں وہ دو بڑے جہنمی آگ میں جل رہے تھے.وہاں شیطان نے دیکھا کہ ایک ان میں ابوبکر تھا ایک عمر.(معاذ اللہ ) علامہ باقر مجلسی کتاب حق الیقین بحوالہ مہارت صفحه 14 32.حضرت عائشہ کے متعلق توہین آمیز الفاظ.(معاذ اللہ )

Page 193

193 33.عمر بن العاص کی والدہ کے متعلق نہایت گندے الفاظ.(معاذ اللہ ) چراغ مصطفوی بحوالہ مہارت صفحه (14) بغاوت بنوامیہ از جعفر حسین نجفی بحوالہ مہارت صفحہ 15) 34.جن انبیاء نے 12 اماموں کو نہیں مانا اللہ تعالیٰ نے انہیں سزا دی.یونس کو بھی اسی جرم میں مچھلی کے پیٹ میں ڈالا گیا.(معاذ اللہ ) بغاوت بنوامیہ از جعفر حسین نجفی بحوالہ مہارت صفحہ 15) 35.کفر کے تین اصول ہیں پہلی اصل شیطان میں اور دوسری حضرت آدم میں پائی جاتی ہے.(معاذ اللہ ) (اصول کافی از علامہ محمد بن یعقوب کلیمی بحوالہ مہارت صفحہ 12 شیعہ عقائد تو حید و تو بین باری تعالیٰ 36.” نہ ہم اس رب کو مانتے ہیں نہ اُس رب کے نبی کو مانتے ہیں جس کا خلیفہ ابو بکر ہو“.(معاذ اللہ ) الانوار النعمانیہ جلد 2 صفحہ 278 طبع ایران ) 37.کسی نبی کو اُس وقت تک نبوت سے سرفراز نہیں کیا گیا جب تک اُس نے اللہ کے لئے صفت بداء (جھوٹ ) کا اقرار نہیں کر لیا“.(معاذ اللہ ) اصول الکافی جلد 1 صفحہ 265 طبع ایران ) 38.” چہاردہ معصومین اللہ کی طرح بے مثل و بے نظیر ہیں“.چودہ ستارے صفحہ 2 طبع لاہور) 39.اللہ کو حاضر و ناظر کہنا بے دینی ہے“.(جلاء العیون جلد 2 صفحہ 85 طبع لاہور ) 40 - محمد سلیمی ایام اور آل محمدصلی ا ہی تم ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں یہ انہیں کی صفت ہے نہ کہ اللہ کی“.(معاذ اللہ ) (جلاء العیون جلد 2 صفحہ 85 نا شر شیعہ جنرل بک ایجنسی انصاف پریس ریلوے روڈ لاہور ) 41.”خدا جب رحمت کی بات کرتا ہے تو فارسی میں کرتا ہے اور عذاب کی بات کرتا ہے تو عربی میں“.( تاریخ اسلام صفحہ 163 طبع لاہور مؤلفہ غلام محمد بشیر انصاری) 42 - شیعہ کلمہ لا الہ الا الله محمد الرسول الله علی ولی الله وصی رسول الله وخليفة بلا فصل“.( تحفہ نماز جعفریہ صفحہ 10 طبع لاہور ) 43 ” قرآن نے جس کو رب کہا وہ علی ” ہیں“.(معاذ اللہ )

Page 194

194 (جلاء العیون جلد 2 ص 85 ناشر شیعہ جنرل بک ایجنسی انصاف پریس ریلوے روڈ لاہور ) شیعہ اور عقیدہ تحریف قرآن مجید -44 اصل قرآن ظہور امام مہدی تک نظر نہیں آئے گا“.الانوار النعمانیہ جلد 2 صفحہ 360 طبع ایران) 45 - جامعین قرآن نے سورہ احزاب سے جو سورہ البقرہ کی طرح طویل تھی اہل بیت کے فضائل نکال دیئے.( حق الیقین صفحه 66 طبع ایران ) 46 - عثمان نے سورہ رحمن سے منکم کا لفظ نکال کر تحریف کی“.47 - قرآن سے الی اجل مسمی کا لفظ نکال دیا گیا“.( حق الیقین صفحه 525 طبع ایران ) متعہ اور اصلاح الدین صفحہ 60 طبع کراچی ) 48 نبی کریم صلی بینم کی وفات کے بعد اصلی قرآن علی کے پاس تھا جو وہ ابوبکر کے پاس لائے مگر ابو بکر نے اُسے ٹھکرادیا جس کی وجہ سے اُمت مسلمہ اصل قرآن سے محروم ہوگئی“.(معاذ اللہ ) (شیخ سقیفہ صفحہ 138 طبع کراچی ) 49 ” موجودہ ( غلط ) قرآن میں تو پاکستان کا ذکر نہیں ہے جبکہ ہمارے (اصلی) قرآن میں تو پاکستان کا ذکر بھی ہے“.(معاذ اللہ ) شیعہ اور عقیدہ رسالت و تو بین انبیاء علیہم السلام ہزار تمہاری اور دس ہماری صفحہ 554 طبع کراچی) 50 ” علی اور تمام آئمہ معصومین نبی صلی یا ایہام کے سوا تمام انبیاء سے افضل ہیں“.( حق الیقین صفحہ 70 طبع ایران ) 51.امام مہدی جب غار سے باہر آئے گا تو مادر زاد ننگا ہوگا اور سب سے پہلے مہدی کے ہاتھ پر جو ہستی بیعت کریں گے وہ محمد سالہ یتیم کی ذات ہو گی“.( حق الیقین صفحه 347 طبع ایران ) 52.نبی سالم پر بہتان عظیم.( اصل الفاظ بہت گندے ہیں ) (حیات القلوب جلد 2 صفحه 119 طبع ایران) 53 آپ سال مالی سالم تقیہ کرتے تھے“.(معاذ اللہ )

Page 195

195 54 (الفاظ نہایت گندے ہیں) ( حیات القلوب جلد 2 صفحہ 118 طبع ایران ) (جلاء العیون جلد 1 صفحه 251 طبع ماتان ) 55.حضرت آدم کی تو بہ محمد ایم ایم علی ، فاطمہ حسن اور حسین کے توسط سے قبول ہوئی.56.نبی کا گھر.(الفاظ نہایت گندے ہیں ) ( کلید مناظر صفحہ 92 طبع لاہور ) حقیقت فقه حنفیه در جواب فقہ جعفریہ صفحہ 63 طبع لاہور) 57.آنحضرت صلی للہا السلام اور حضرت عائشہ کے متعلق گندے الفاظ.(معاذ اللہ ) حقیقت فقه حنفیه در جواب فقہ جعفریہ صفحہ 63 طبع لاہور) 58.آنحضرت صلی یا اسلام اور حضرت عائشہ کے متعلق گندے الفاظ.(معاذ اللہ ) ( حقیقت فقه حنفیه در جواب فقه جعفر یه صفحه 64 از علامہ غلام حسین نجفی فاضل عراق سر پرست اداره تبلیغ اسلام اینچ بلاک ماڈل ٹاؤن طبع لاہور) شیعہ اور توہین اہل بیت و خاندان نبوت 59 علی کی امامت کے متعلق نہایت گندے الفاظ.(معاذ اللہ ) آثار حیدری صفحہ 557 طبع لاہور) 60 - حضرت عائشہ کے متعلق توہین آمیز الفاظ.(معاذ اللہ ) حقیقت فقه حنفیه در جواب فقہ جعفریہ صفحہ 64 طبع لاہور ) 61 - حضرت حفصہ کے متعلق توہین آمیز الفاظ.(معاذ اللہ ) حقیقت فقه حنفیه در جواب فقہ جعفریہ صفحہ 124 طبع لاہور ) 62.حضرت عائشہ کے متعلق توہین آمیز الفاظ.(معاذ اللہ ) ( حق الیقین صفحه 347 طبع ایران ) 63 - عائشہ اور اہل بیت نے بھی متعہ کیا.(معاذ اللہ ) ( جواز متعہ صفحہ 78 طبع بھکر) 64.عائشہ کی طبیعت میں حسد نفرت و کدورت رواں دواں تھی.(معاذ اللہ ) ( حضرت عائشہ کی تاریخی حیثیت صفحہ 40 مؤلف فروغ کاظمی) 65.عائشہ نبی کریم صلیم کی بے ادبی ، مخالفت ، آواز پر آواز بلند کرتیں ، بحث اور بہتان تراشی

Page 196

196 کرتیں.(معاذ اللہ ) ( حضرت عائشہ کی تاریخی حیثیت صفحه 70 مؤلف فروغ کاظمی) 66 - حضرت عائشہ کے متعلق توہین آمیز الفاظ.(معاذ اللہ ) (حضرت عائشہ کی تاریخی حیثیت صفحہ 88 مؤلف فروغ کاظمی) 67 حضرت عائشہ کے متعلق توہین آمیز الفاظ.(معاذ اللہ ) ( حضرت عائشہ کی تاریخی حیثیت صفحہ 53 مؤلف فروغ کاظمی ) 68.حضرت عائشہ کے متعلق توہین آمیز الفاظ.(معاذ اللہ ) ( حضرت عائشہ کی تاریخی حیثیت صفحہ 54 مؤلف فروغ کاظمی) 69 شیخین ،حفصہ اور عائشہ نے نبی کوز ہر دیا.(معاذ اللہ ) ( ترجمه قرآن مقبول حسین دہلوی پارہ 28 ص894) 70 - حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کے متعلق توہین آمیز الفاظ.(معاذ اللہ ) چراغ مصطفوی اور شرار بولہبی صفحہ 69 طبع لاہور ) نوٹ: مندرجہ بالا تمام حوالوں کی فوٹو کاپی مشہور دیوبندی ویب سائٹ حق چار یار پر بھی موجود ہے.شیعہ اور عقیدہ امامت 71.امام مہدی حضرت شیخین کوقبروں سے زندہ کریں گے اور درخت سے لٹکا کر سزا دیں گے.(معاذ اللہ ) ( حق الیقین صفحه 361 طبع ایران ) 72.امام مہدی جب ظاہر ہونگے تو کفار سے پہلے سنیوں اور سنی عالموں کو قتل کریں گے.73.اماموں کا حمل پیٹ سے نہیں بلکہ والدہ کے پہلو سے ہوتا ہے.( حق الیقین صفحه 527 طبع ایران ) شیعہ اور تو بین خلفاء راشدین (جلاء العیون جلد 2 صفحہ 474 طبع لاہور ) 74.حضرت عمر نے شیطان سے کہا کہ میں نے علی کی خلافت کو غصب کیا.(معاذ اللہ ) الانوار النعمانیہ جلد 1 صفحہ 81 ایران) 75.حضرت جعفر صادق اُس وقت تک جائے نماز سے نہیں اُٹھتے تھے جب تک وہ ابوبکر ، عمر ، عثمان، معاویہ، عائشہ حفصہ ، ہند اور اُم الحکیم پر لعنت نہیں بھیج لیتے تھے.(معاذ اللہ )

Page 197

197 76 - صحابہ کی سند صحابیت اُن کو لعنت سے نہیں بچنے دے گی.(معاذ اللہ ) (معین الحیاۃ صفحہ 599 طبع ایران ) چراغ مصطفوی اور شرار بولہبی صفحہ 79 طبع لاہور ) 77.صحابہ نبی صال السلام کی حدیث کے مصداق نہیں تھے.(معاذ اللہ ) ( حق چار یار صفحہ 68 طبع کراچی ) 78.صحابہ میں بعض فسق و فجور کرتے.ان سے چوری زنا کذب وغیرہ جیسے کبائر کا ارتکاب ہوا.( معاذ اللہ ) (حق چار یار صفحہ 64 طبع کراچی ) 79.عائشہ عثمان کو ایک یہودی سے تشبیہ دیتی تھیں اور کہتی تھی کہ اسے قتل کر دو.(معاذ اللہ ) 80.خلفائے ثلاثہ کے متعلق توہین آمیز الفاظ.(معاذ اللہ ) چودہ ستارے صفحہ 584 طبع لاہور) ( حقیقت فقه حنفیه در جواب فقہ جعفریہ صفحہ 72 طبع لاہور) 81.صحابہ نے رسول اللہ کے بعد دین میں بدعات پیدا کیں.اسلام کا کچومر نکال دیا اور شریعت کا قیمہ کر دیا.82.بعض صحابہ کے متعلق توہین آمیز الفاظ.(معاذ اللہ ) حقیقت فقه حنفیه در جواب فقہ جعفریہ صفحہ 59 طبع لاہور ) ) حقیقت فقه حنفیه در جواب فقہ جعفریہ صفحہ 59 طبع لاہور ) 83.ابوبکر، عمر، عثمان جہنم کے خاص دروازے سے داخل ہو نگے.(معاذ اللہ ) 84.ابوبکر، عمر، عثمان، معاویہ، عائشہ اور حفصہ دنیا کی بدترین مخلوق ہیں.(معاذ اللہ ) 85.رسول اللہ پر سب سے زیادہ جھوٹ باندھنے والا ابو ہریرہ ہے.(معاذ اللہ ) ( حق الیقین صفحہ 500) ( حق الیقین صفحه 519) ( کلید مناظرہ صفحہ 442 طبع لاہور ) 86.ابوبکر اور شیطان کا علم مساوی ہے.(معاذ اللہ ) ( کلید مناظرہ صفحہ 93 طبع لاہور ) 87.معاویہ کی ماں اور نانی فاحشہ عورتیں تھیں.( معاذ اللہ ) کلید مناظره مؤلفه سید برکت علی شاه گوشه نشین وزیر آبادی ناشر مینجر خواجه بک ایجنسی موچی دروازہ لاہور صفحہ 301) 88.زبیر بن العوام متعہ کی پیداوار تھے.(معاذ اللہ )

Page 198

198 89.عمر و بن العاص عیار تھے.(معاذ اللہ ) ( متعہ اور صلاح الدین صفحہ 24 کراچی ) (نہج البلاغۃ صفحہ 339 طبع کراچی ) 90 - عمرو بن العاص کی ماں بہت جھوٹی تھی.(معاذ اللہ ) (نہج البلاغۃ صفحہ 146 طبع کراچی) 91 - عمرو بن العاص نے اپنے آپ کو برہنہ کر دیا.(معاذ اللہ ) نهج البلاغۃ صفحہ 148 طبع کراچی) 92.ابوموسیٰ اشعری ، منافق اور غدار تھے.(معاذ اللہ ) (نہج البلاغۃ صفحہ 474 طبع کراچی ) 93.خلفائے ثلاثہ کی تاریخ جہالت، حماقت ظلم، رشوت خوری اور بد کرداریوں سے بھری پڑی ہے.(معاذ اللہ ) (نہج البلاغۃ صفحہ 252 طبع کراچی ) 94.مغیرہ بن شعبہ ایمان اور اسلام سے بے بہرہ اور اسی بدترین کردار کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئے.(معاذ اللہ ) (نہج البلاغۃ صفحہ 775 طبع کراچی ) 95.مغیرہ بن شعبہ کے والد ملعون تھے.(معاذ اللہ ) (نہج البلاغۃ صفحہ 285 طبع کراچی ) 96.صحابہ کی صحابیت سے دیہاتیت بہتر تھی.(معاذ اللہ ) (نہج البلاغۃ صفحہ 432 طبع کراچی ) 97.دنیا کے چند ایک انتہائی افسوسناک اور شرمناک کرداروں میں سے ایک کردار ز بیر بن العوام کا تھا.(معاذ اللہ ) (نہج البلاغۃ صفحہ 48 طبع کراچی ) 98.عثمان نے جو بویا وہی کاٹا.(معاذ اللہ ) نعثل کو قتل کر دو صفحہ 108 طبع کراچی) 99.عثمان کی والدہ زنا کارتھیں.(معاذ اللہ ) نعتل کو قتل کر دو مؤلفه علی اکبر شاہ ص 18 حمائیت حق پبلی کیشنز ) 100.میں جرات کے ساتھ دعویٰ کرتا ہوں کہ آج کی ایرانی قوم اور اس کی کروڑوں کی آبادی رسول صلی یہ ہی سلم

Page 199

199 کے دور کی حجازی قوم (صحابہ) سے بہتر ہے.(معاذ اللہ ) (صحیفہ انقلاب صفحہ 46 خمینی کا وصیت نامه ) 101.ابوبکر کو گالیاں دینے کی عادت تھی.(معاذ اللہ ) (شیخ سقیفہ صفحہ 148 طبع کراچی) 102.ابوبکر کی زبان پر گالیاں چڑھی ہوئی تھیں.(معاذ اللہ ) شیخ سقیفه طبع کراچی صفحه 12 ) 103.ابوبکر کی کوئی دینی حیثیت نہیں تھی.(معاذ اللہ ) شیخ سقیفه طبع کراچی صفحه 8 104.ابوبکر ہلا کو اور چنگیز خان جیسے تھے.(معاذ اللہ ) (شیخ سقیفہ صفحہ 10 طبع کراچی ) 105.ابوبکر کو خلافت میں صرف لوٹ مار سے غرض تھی.(معاذ اللہ ) (شیخ سقیف طبع کراچی صفحه 142) 106.معاویہ نے عائشہ کو قتل کیا.(معاذ اللہ ) شیخ سقیفه طبع کراچی صفحه 32 ) 107.عمر کو بنت رسول اور نبی بھی محبوب نہ تھے.(معاذ اللہ ) (شیخ سقیفه طبع کراچی صفحہ 94) یا دور ہے اس کتاب کے ٹائیٹل پر کتے کی تصویر بنی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ لکھا ہوا ہے شیخ سقیفہ حضرت ابوبکر کی حیات و کردار مؤلفه علی اکبر شاہ ) ( معاذ اللہ ) 108.عمر نے نبی صل للہ یہ تم کے فرمان پر کہا کہ یہ بکواس کر رہا ہے.(معاذ اللہ ) ( واقعہ قرطاس اور کردار عمر صفحہ 67) 109 - حضرت عمر کے متعلق توہین آمیز الفاظ.(معاذ اللہ ) (زاد المعاد صفحه 404 طبع ایران) 110.حضرت عمر اور حضرت عائشہ اور حضرت معاویہ کے متعلق توہین آمیز الفاظ.(معاذ اللہ ) (زاد المعاد صفحه 43 طبع ایران) 111.عمر کی اس دنیا سے جاتے آخری غذ اشراب تھی.(معاذ اللہ )

Page 200

200 ( ہم مسموم صفحہ 241 طبع لاہور ) 112- عمر اُس خاندان سے تعلق رکھتا ہے جس میں مجوسیوں کی طرح ماں، بہن کو بیوی بنایا جاتا ہے.(معاذ اللہ ) 113 عمر جہنم کا تالا ہے بہتر ہوتا کہ جہنم کا گیٹ ہوتا.(معاذ اللہ ) سہم مسموم صفحہ 306 طبع لاہور ) سہم مسموم صفحہ 430 طبع لاہور) 114.حضرت عمر اور حضرت ولید بن مغیرہ کے متعلق توہین آمیز الفاظ.(معاذ اللہ ) سہم مسموم صفحہ 246 طبع لاہور ) نوٹ: حوالہ نمبر 36 تا 114 کی فوٹو کاپی اور اصل مشہور دیو بندی ویب سائٹ حق چار یار پر بھی موجود ہے.یہ تمام حوالہ جات وہیں سے لئے گئے ہیں.1 - الانوار النعمانية تالیف سید نعمۃ اللہ الموسوی الجزائری المتوفی 1112ھ بنفقہ الحاج محمد باقر کتا بچی حقیقت شارع تربیت تبریز مطبع شرکت چاپ 2.اصول الکافی تالیف محمد بن یعقوب الکلینی الرازی من منثورات المكتبه الاسلامیہ طہران 3.جلاء العیون تالیف ملا باقر مجلسی مترجم علامہ سید عبد الحسین نظر ثانی مقدمہ و حاشیہ مولوی سید ظہور الحسن کوثر خطیب شیعہ ملتان حمائیت اهل بیت وقف وقف رجسٹر ڈ شیعہ جنرل بک ایجنسی انصاف پریس لاہور 4- حق الیقین تالیف ملا باقر مجلسی در اسول دین و معارف از انتشارات کتابفروشی سلامیه تهران خیابان بوذر جمهری شرقی تلفن چاپ اسلامیہ 1357 شمسی 5.چودہ ستارے مؤلفہ السید نجم الحسن کراروی ناظم اعلی پاکستان مجلس علماء مہر حج کمیٹی ناشران امامیہ کتب خانہ متصل حویلی اندرون موچی دروازہ لاہور 8 6 - جواز متعہ مؤلفہ شہید علامہ اثیر جارودی فاضل تم ناشر مکتبہ انوار النجف دریا خان ضلع بھکر اہل حدیث غیر مقلدین اگر اہل حدیث بھائیوں کے درج ذیل عقائد بھی ہیں تو بھی فکر نہیں.آج سے یہ عین اسلامی عقائد ہیں : مقلد علماء دین عرصہ دراز سے اہل حدیث بھائیوں سے بھی شاکی تھے اور انہیں دشمن اسلام، فتنہ پرور، مکار دغاباز، گستاخ، دشمن وطن ، عیار ، غلامان رسول کے قاتل، جاہل، بے باک، دین کے راہزن، کافر مرتد، فاسق،

Page 201

201 شیطانی وجود، فریب کار سخت متعصب اور غالی سمجھتے تھے.( الوہابیت صفحہ 18 تا 50 ) مگر الحمد للہ آج کے بعد کفر احمدیت کی برکت سے یہ جنگ بھی ختم کی جاتی ہے.آج کے بعد اہل حدیث بھائیوں کے تمام عقائد عین اسلامی ہیں اور انہیں مندرجہ بالا ناموں سے کوئی یاد نہیں کرے گا.اہل حدیث کے عقائد اعمال و افعال ماضی میں دیگر علماء کی نظر میں 1.انگریزوں کے خلاف جہاد کو غدر اور حرام سمجھتے ہیں.(رسالہ اشاعۃ السنۃ جلد 9 نمبر 10 صفحہ 308 حیات طیبه صفحه 296 مصنفہ حیرت دہلوی) 2 قرآن پر حدیث کو مقدم جانتے ہیں.(رسالہ اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 10 صفحہ 296 3.کروڑوں محمد پیدا ہو سکنے کا عقیدہ رکھتے ہیں.( تقویت الایمان صفحه (42) 4.کئی خاتم النبین کے قائل ہیں.ر وقول الجاهلين في نصر المومنین صفحہ 6،4-1291ھ مولانا محمد صدیق منشاپوری ) 5.آنحضرت صلی ال ایتم کی شان میں گستاخی کے مجرم ہیں.(صراط مستقیم مترجم صفحہ 201 ناشر شیخ محمد اشرف تاجر کتب کشمیری بازارلاہور ) 6.پنڈت نہر وکو رسول السلام اور گاندھی کو امام مہدی اور بالقوہ نبی سمجھتے ہیں.( تاریخ حقائق صفحہ 59 تا63 مولا نا محمد صادق صاحب خطیب زینتہ المساجد گوجرانوالہ ماہ طیبہ مارچ 1957 ء ) 7 ختم نبوت کے منکر ہیں.اقتراب الساعۃ صفحہ 162 ) 8 سلسلہ وحی والہام کو جاری سمجھتے ہیں.(اثبات الالہام والبیعہ صفحہ 148 وسوانح مولوی عبد اللہ غز نوی مصنفہ مولوی عبد الجبار غزنوی 9.ہمیشہ انگریز کی خوشامد کرتے رہے.(ترجمان وہابیہ صفحہ 121 ، 122 10.1857ء کو جنگ آزادی کی بجائے غدر کہتے ہیں.(الحیات بعد الممات صفحہ 125 مولفه حافظ عبد الغفار )

Page 202

202 11 - حکومت برطانیہ ان کے نزدیک اسلامی سلطنتوں سے بہتر ہے.(اشاعۃ السنۃ جلد 9 نمبر 7 صفحہ 195 ،196 ) 12.سلطنت برطانیہ کے دائی غلام ہونے کے لیے دعائیں کرتے رہے.13.انگریز کا خود کاشتہ پودا.اشاعۃ السنۃ جلد 9 صفحہ 205 206 (رساله طوفان 7 نومبر 1962 ء ) | 14.انگریز اولوالامر ہیں.داستان تاریخ اردو مصنفه حامد حسن قادری صفحه 98 15.ہندوستان سے باہر بھی انگریزوں کی ایجبسٹی کرتے رہے.( ترجمان وہابیہ صفحہ 121 122 ) 16.ترکی کی حکومت کو پارہ پارہ کیا.17.جہاد کے خلاف فتوی دے کر جہالت حاصل کی.تاریخی حقائق صفحہ 78 تا 81 از مولانا مسعود احمد ندوی) (ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک صفحه 29 از مولانا مسعود احمد ندوی) 18.ان کے بڑوں کا مقولہ ہے کہ معاذ اللہ ہمارے ہاتھ کی لاٹھی ذات سرور کائنات علیہ الصلوۃ والسلام سے ہم کو زیادہ نفع دینے والی ہے.ہم اس سے کسی کو بھی دفع کر سکتے ہیں اور ذات فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو یہ بھی نہیں کر سکتے.19 منی پاک ہے.20 منی کا کھانا جائز ہے.21.بنک کا سود جائز ہے.22.شراب کا سرکہ پینا جائز ہے.(الشہاب الثاقب صفحہ 47 سطر 6 تا 12 مطبوعہ دیو بند از حسین احمد مدنی ) (الروضتہ الندیہ صفحہ 13 جلد و بدور الاصله صفحه (15) (فقہ محمدیہ کلاں جلد 1 صفحہ (41) اخبار اہل حدیث امرتسر صفحہ 12 ، 23 اپریل 1937 ء ) (اخبار اہل احدیث امرتسر صفحہ 2 ، 20 جولائی 1945 ء )

Page 203

203 23.خنزیر اور کتے کا جوٹھا پاک ہے.24.خون خنزیر اور شراب پاک ہے.25.گناہ کا خطرہ ہو تو مشت زنی واجب ہے.26.مجبور ہو تو زنا جائز ہے.27 سنگی دادی اور سگی نانی سے نکاح جائز ہے.(ہدایۃ المہدی جلد 3 صفحہ 37) الوہابیت مصنفہ ابوالحامد محمد ضیاء اللہ قادری صفحه 90 ( عرف الجادی صفحہ 207 بحوالہ محمد ضیاء اللہ قادری صفحہ 95 ) ( عرف الجادی صفحہ 215 از مولانا نور الحسن بھوپالوی) (اخبار اہل حدیث 4 / 11 رمضان 1328ھ از الوہابیت صفحہ 104 ) 28.داڑھی والے مرد کو پستان منہ میں ڈالکر دودھ پلادیا جائے تو حرمت واقع ہوسکتی ہے.(الدرر البهہ صفحہ 34 از وہابیت صفحه 108 29.چار عورتوں سے زائد بیویاں رکھنا جائز ہے.(عرف الجادی صفحه 115 از نواب صدیق حسن خاں) 30 لولا ل لما خلقت الافلال یہ حدیث نہیں.افتراء ہے اور گھڑی ہوئی کوئی بات ہے.(اہل حدیث امرتسر صفحہ 13 ، 10 جولائی 1936 ء ) 31.یا محمد.یا رسول اللہ نعرہ شرکیہ ہے.صحیفہ اہل حدیث کراچی صفحہ 3 ذوالقعد 1382ھ ) 32.حقہ اور نسوار کی نہ حرمت ملتی ہے نہ کراہت.اخبار اہل حدیث امرتسر صفحہ 12 ، 7 اپریل 1916 ء ) 33.نبی پاک کا روضہ مبارک ہر لحاظ سے بت ہے.“ (معاذ اللہ ) ( شرح الصدور برحاشیہ صفحہ 20 از محمد بن عبد الوہاب ) 34.نبی اکرم کا قبہ شرک والحاد کا بہت بڑا ذریعہ ہے.(معاذ اللہ ) ( فتح المجید شرح کتاب التوحید صفحه 208 از عبدالرحمن ، مطبوعہ مصر ) 35.نبی اکرم کا مزار پر قبہ بہت بڑی جہالت ہے.(معاذ اللہ ) ( تطہیر الاعتقاد صفحہ 26 از امام محمد بن اسماعیل یمنی ) و بدایۃ السائل صفحہ 319)

Page 204

204 36.نبی پاک کے روضے کو گرا نامسلمانوں پر واجب ہے.(معاذ اللہ ) ( عرف الجادی صفحه 61 از نورالحسن بھو پالوی) 37.نبی پاک اور دیگر انبیاء اور اولیاء کی قبور کی زیارت کے لیے سفر کرنا شرک ہے.(معاذ اللہ ) 38.نبی پاک کے روضہ پر سلام کے لیے جانا ممنوع ہے.(فتح المجید شرح کتاب التوحید صفحه 215 از عبدالرحمن) 39.نبی پاک کی قبر مبارک کے نزدیک دعا مانگنا بدعت ہے.(معاذ اللہ ) ( بداية المستفيد صفحه 811 جلد 1 ) نہج المقبول فارسی صفحہ 43 مطبوعہ بھوپال از نواب صدیق حسن بھوپالوی) 40.اہل حدیث کا کلمہ لا إله الا الله عبد الجبار امام الله اخبار اہل حدیث امرتسر صفحہ 11 کالم 3 ، 5 اپریل 1912 ء ) 41.واقعہ کربلا مذہبی نہ تھا بلکہ سیاسی اور حفظ و ناموس کے لیے تھا.اخبار اہل حدیث امرتسر صفحه 11 یکم فروری 1946 ء از مولانا ثناء اللہ امرتسری ) 42.حضرت امام حسین کا مقابلہ یزید سے صرف حکومت وریاست کے حصول کی غرض سے ہوا.(اہل حدیث امر تسر صفحہ 14، 24 ستمبر و یکم اکتوبر 1909 ء ) 43 حضور ملی اسلام کا مزار گرا دینے کے لائق ہے.اگر میں اس کے گرادینے پر قادر ہو گیا تو گرا دوں گا.(محمد بن عبدالوہاب اوضح براھین بحوالہ قرآن شریف کے غلط تر جموں کی نشاندہی از مولانا قاری رضائے المصطفے مکتبہ نوریہ رضویہ وکٹوریہ مارکیٹ سکھر) 44 محمد بن عبد الوہاب کا عقیدہ تھا کہ جملہ اہل عالم و تمام مسلمانان دیار مشرک و کافر ہیں اور ان سے قتل وقتال کرنا ان کے اموال کو ان سے چھین لینا حلال اور جائز ہے بلکہ واجب ہے.(ماخوذ حسین احمد مدنی الشہاب الثاقب صفحہ 43 کتب خانہ اعزاز یہ دیوبند بحوالہ قرآن شریف کے غلط تر جموں ) ان میں سے اکثر حوالے الوہابیت مصنفہ ابوالحامد محمدضیاء اللہ قادری قادری کتب خانہ تحصیل بازار سیالکوٹ سے لیے گئے ہیں) جماعت اسلامی اگر جماعت اسلامی کے درج ذیل عقائد بھی ہیں تو بھی فکر نہیں.آج سے یہ معین اسلامی عقائد قرار دیئے جاتے ہیں.جمہور مسلمان علماء تقریباً نصف صدی پہلے پیدا ہونے والی تحریک ” جماعت اسلامی کو بھی دشمنان اسلام کا شاخسانہ قرار دیتے اور اسے اسلام کے خلاف زبر دست سازش سے تعبیر کرتے رہے ہیں.چنانچہ وہ جماعت اسلامی کو :

Page 205

205 نبی کریم کی گستاخ، ضال مضلل ، 30 دجالوں میں سے ایک دجال.مودودی صاحب کو، گمراہ ، کافر ، خارج از اسلام، ان کے پیچھے نماز حرام، ان سے تعلق رکھنا صریح کفر اور ضلالت، امریکہ اور سرمایہ داروں کے ایجنٹ، یہ جماعت اپنے اسلاف ( یعنی مرزائیوں) سے بھی زیادہ ضرر رساں، اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی جڑیں کاٹنے والی، مسلم امہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والی خبیث باطن، دین کے قصر کو ڈھانے والے، گمراہوں کی جڑ.مودودی تحریک مہلک زہر قاتل - گمراه مثل معتزلہ، خوارج، روافض، قادیانی ، چکڑالوی ،مشرقی، نیچری مهدوی اور بہائی ہے.وغیرہ وغیرہ قرار دیتے رہے ہیں مگر الحمد للہ.آج کے بعد.” کفر احمدیت کی برکت سے 72 مسلمان فرقوں کے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر صرف ایک فرقے کو کافر قرار دینے کے بعد یہ جنگ بھی ختم کی جاتی ہے.آج کے بعد جماعت اسلامی کے درج ذیل عقائد عین اسلامی اور مومنانہ ہیں.یا اور بھی جو چاہیں عقیدہ رکھیں.کسی ایسے عقیدہ کی بناء پر آئندہ انہیں مندرجہ بالا القابات سے یاد نہیں کیا جائے گا.جماعت اسلامی کے عقائد و عمال و افعال ماضی میں دیگر علماء کی نظر میں حضرت عثمان حضرت شیخین کی پالیسیوں سے دور ہٹ گئے و لیکن ان (حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ) کے بعد عثمان جانشین ہوئے تو رفتہ رفتہ اس پالیسی (شیخین ) سے ہٹتے چلے گئے.(معاذ اللہ ) ( کتاب خلافت و ملوکیت مؤلف مولوی مودودی صاحب صفحہ 106 مطبع ڈے ٹائم پر نٹر لاہور ناشر ادارہ ترجمان القرآن غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور ) حضرت عثمان نے بلاشبہ غلط کام کئے اور غلط کام غلط ہوتا ہے حضرت عثمان کی پالیسی کا یہ پہلو بلا شبہ غلط تھا اور غلط کام بہر حال غلط ہوتا ہے خواہ کسی نے کیا ہو.اس کو خواہ مخواہ کی سخن سازیوں سے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرنا نہ عقل وانصاف کا تقاضا ہے اور نہ ہی دین کا مطالبہ ہے کہ کسی صحابی کی غلطی کو غلطی نہ مانا جائے“.(معاذ اللہ ) کتاب خلافت و ملوکیت مؤلف مولوی مودودی صاحب صفحہ 116 مطبع ڈے ٹائم پر نٹر لاہور ناشر ادارہ ترجمان القرآن غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور ) حضرت علی نے بھی ایک ایسا غلط کام کیا جس کو غلط کہنے کے سوا چارہ نہیں حضرت علی کی ایک چیز ایسی ہے کہ جس کی مدافعت میں مشکل ہی سے کوئی بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ کہ جنگ جمل کے بعد انہوں نے قاتلین عثمان کے بارے میں اپنا رویہ بدل لیا.حضرت علی کے پورے زمانہ خلافت میں ہم کو یہی ایک کام ایسا نظر آتا ہے جس کو غلط کہنے کے سوا چارہ نہیں“.

Page 206

206 کتاب خلافت و ملوکیت مؤلف مولوی مودودی صاحب صفحہ 142 مطبع ڈے ٹائم پرنٹر لاہور ناشر ادارہ ترجمان القرآن غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور ) حضرت عائشہ نے غیر قانونی، غیر آئینی بلکہ غیر شریعتی کام کیا جبکہ حضرت معاویہؓ نے ٹھیٹھ جاہلیت قدیمہ والا " حضرت عثمان کے خون کا مطالبہ جسے لیکر دو فریق اٹھے ایک طرف حضرت عائشہ اور حضرت طلحہ وزبیر اور دوسری طرف معاویہ یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ دونوں کی پوزیشن آئینی حیثیت سے کسی طرح درست نہیں مانی جاسکتی پہلے فریق نے غیر آئینی طریقہ کار اختیار کیا جسے شریعت البجا تو در کنار دنیا کے کسی آئین و قانون کی رو سے بھی جائز کاروائی نہیں مانا جا سکتا.اس سے بدرجہا زیادہ غیر قانونی طرز عمل دوسرے فریق کا یعنی حضرت معاویہ کا ہے.انہوں نے ٹھیٹھ جاہلیت قدیمہ کے طریقہ پر عمل کیا“.( کتاب خلافت و ملوکیت مؤلف مولوی مودودی صاحب صفحہ 124 تا 126 مطبع ڈے ٹائم پرنٹر لاہور ناشر ادارہ ترجمان القرآن غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور ) 1.قرآنی سورتوں کے نام جامع نہیں.تفہیم القرآن حصہ اول صفحه (44) 2.اسلام فاشزم اور اشتراکیت سے مماثل نظام ہے جس میں خارجیت اور انا کترم تک کی گنجائش ہے.اسلام کا سیاسی نظام بحوالہ طلوع اسلام 1963 ، صفحہ 13.آنحضرت سلیم نے قوت حاصل کرتے ہی رومی سلطنت سے تصادم شروع کردیا.4.فرشتے تقریب وہی چیز ہیں جس کو ہندوستان میں دیوی دیوتا قرار دیتے ہیں.( حقیقت جہاد صفحہ 65 ) (تجدید و احیائے دین صفحہ 10 حاشیہ طبع چہارم) نوٹ: نئے ایڈیشنوں میں تحریف کر کے یہ عبارت حذف کر دی گئی ہے.5.قرآن مجید میں نہ تصنیفی ترتیب پائی جاتی ہے نہ کتابی اسلوب.6.حضرت ابوبکر صدیقی سے غلطیاں صادر ہوئیں.7.حضرت عمررؓ کے قلب سے جذ بہ اکابر پرستی محو نہ ہوسکا.(تفہیم القرآن د بیا چه صفحه 25) ترجمان القرآن جلد 33 نمبر 2 صفحہ 99 ( ترجمان القرآن جلد 12 عدد 4 صفحہ 295 بحوالہ مودودیت کا پوسٹمارٹم صفحہ 38

Page 207

207 8.حضرت خالد بن ولید غیر اسلامی جذبہ کے حدود کی تمیز نہ کر سکے.( ترجمان القرآن جلد 12 عدد 4 صفحہ 295 بحوالہ مودودیت کا پوسٹمارٹم صفحہ 38) 9.اسلامی تصوف کے بنیادی نظریے میں بڑی بھاری غلطی موجود ہے.10.بخاری شریف کی حدیثوں کو بلا تنقید قبول کر لینا صحیح نہیں.ترجمان القرآن جلد 37 عدد 1 صفحہ 10 | ترجمان القرآن جلد 3 صفحه 117 11.آنحضرت سے لیکر مصطفے کمال تک کی تاریخ کو اسلامی کہنا مسلمانوں کی غلطی ہے.ترجمان القرآن جلد 2 نمبر 1 صفحه 7 12.اہل حدیث - حنفی.دیوبندی.بریلوی.شیعہ سنی جہالت کی پیدا کی ہوئی امتیں ہیں.13.مسلمان قوم میں 999 ہزار افراد حق و باطل سے نا آشنا ہیں.14.امام مہدی ایک نیا مذہب فکر پیدا کرے گا.خطبات صفحه 76 از مودودی صاحب) ( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحه 115 ) (تجدید و احیائے دین صفحہ 52 54 ) 15.جمہوری اصول پر مبنی اسمبلیوں کی رکنیت بھی حرام اور ان کے لیے ووٹ ڈالنا بھی حرام ہے.( رسائل و مسائل حصہ اول صفحه (374) 16.پاکستان.نا پاکستان.جنت الحمقاء اور مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہے جو مسلمانوں کی مرکب حماقت سے قائم ہوئی.( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش صفحه 29 تا 36 طبع اول حصہ سوم ) 17.قائد اعظم رجل فاجر.( ترجمان القرآن فروری 1946 صفحہ 140 تا 154 ) 18.جہاد کشمیر نا جائز.(نوائے وقت 30 اکتوبر 1948 ء وتر جمان القرآن جون 1948 ء ) | اکثر حوالے مودودی شہ پارے میں درج ہیں ) 19.امام مہدی جدید ترین لیڈر ہوگا جو نہ ہی امام مہدی ہونے کا دعوی کرے گا بلکہ اسے اپنے امام مہدی

Page 208

208 ہونے کا علم بھی نہ ہوگا.اس کے مرنے کے بعد دنیا کو معلوم ہوگا کہ وہ یہی تھا.(تجدید و احیائے دین صفحہ 55) 20.حضرت مجددالف ثانی سے لیکر حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کے خلفاء تک نے مسلمانوں کو غلط غذادی بلکہ وہ غذا دی جس سے پر ہیز ضروری تھا.21 - حضرت امام غزالی کی تبلیغ میں 3 قسم کے نقائص تھے.اول: حدیث میں کمز ور علم تھے.دوم : ان کے ذہن پر عقلیات کا غلبہ تھا.سوئم : تصوف کی طرف ضرورت سے زیادہ قائل تھے.(تجدید و احیائے دین صفحہ 73) ( تجدید و احیائے دین صفحہ 45 ) 22.تقلید نا جائز گناہ بلکہ اس سے بھی شدید تر چیز ہے.رسائل و مسائل جلد 1 صفحه (244) 23.امام غزالی فلسفہ یونانی کے چکر سے آخر تک نہ نکل سکے انہوں نے حقیقت نبوت سمجھنے میں غلطی کی امام غزالی کی شہادت ہم کو کیا مطمئن کر سکتی ہے.ترجمان القرآن جلد 78 صفحہ 334 24.قدیم کتابیں (اصول فقہ.حکمت قرآنیہ.اسلامی معاشیات پر لکھی گئیں ) اب درس و تدریس کے لیے کارآمد نہیں.تنقیحات صفحه (213) 25.فقہاء کا قانون اپنی سختیوں کی وجہ سے عورتوں کی زندگیوں کو تباہ کرنے والا اور انہیں مرتد بنانے والا ہے.( ترجمان القرآن مئی 1949 ء بحوالہ جماعت اسلامی صفحه 31 ارشد القادری) 26.صحابہ کرام ابتدائی لڑائیوں میں جہاد فی سبیل اللہ کی اصلی سپرٹ کو سمجھنے میں بار بار غلطیاں کرتے تھے.ترجمان القرآن ربیع الثانی 57 ھ از جماعت اسلامی ) 27.حضرت عثمان جن پر خلافت کا کار عظیم رکھا گیا تھا پہلے خلفاء کی خصوصیات کے حامل نہ تھے اسی وجہ سے جاہلیت اسلامی نظام میں گھس آئی.(تجدید و احیائے دین صفحہ 33) 28.قرآن مجید نجات کے لیے نہیں ہدایت کے لیے کافی ہے.

Page 209

209 (تفہیمات جلد 1 صفحہ 213 ) 29.جہاں معیار اخلاق پست ہو وہاں زنا اور قذف کی حدود جاری کر نا بلا شبہ ظلم ہے.(تفہیمات جلد 2 صفحہ 281) 30.نبی پاک کو عرب میں جو زبردست کامیابی حاصل ہوئی اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو عرب میں بہترین انسانی مواد مل گیا ( آپ کا اپنا کمال نہ تھا نعوذ باللہ ) اگر خدانخواستہ آپ کو بودے کم ہمت.ضعیف الا رادہ اور نا قابل اعتمادلوگوں کی بھیڑ مل جاتی تو کیا پھر بھی وہ نتائج نکل سکتے تھے.( تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیاد میں صفحہ 17 ) 31.صحابہ کے بعد سے آج تک سوائے مودودی صاحب کے کسی شخص کو کامل الایمان نہیں سمجھتا“.(جماعت اسلامی ہند کا ترجمان زندگی اکتوبر 49 ، رامپور بحوالہ دیوبندی نشریات ) 32.جو امور آپ نے عادہ کئے ہیں انہیں سنت بنا دینا یہ دین میں تحریف ہے.( رسائل و مسائل جلد 2 صفحہ 300 بحوالہ منصب رسالت نمبر ) 33 - انسان خواہ خدا کا قائل ہو یا منکر.خدا کو سجدہ کرتا ہو یا پتھر کو خدا کی پوجا کرتا ہو یا غیر خدا کی جب وہ قانون فطرت پر چل رہا ہے تو لامحالہ وہ بغیر جانے بلا عمد و اختیا رطو أوکر ہأخدا کی عبادت میں لگا ہوا ہے.(تقسیمات جلد 1 صفحه (43) 34.انبیاءعلہیم السلام کی تعلیم کے اثر سے جہاں لوگ خدائے واحد کے قائل ہو گئے مگر انہوں نے انبیاء.اولیاء.ٹھہداء.صالحین - مجاذیب.اقطاب - ابدال.علماء مشائخ طل اللہوں کی خدائی کو عقائد میں پھر بھی جگہ دی.اور جاہل دماغوں نے مشرکین کے خداؤں کو چھوڑ کر ان نیک بندوں کو خدا بنالیا.( تجدید و احیائے دین صفحہ 11) ان میں سے اکثر حوالے ” جماعت اسلامی از علامہ ارشد القادری نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی بلاول گنج لاہور سے لئے گئے ہیں.بریلویت اگر بریلوی بھائیوں کے درج ذیل عقائد بھی ہیں تو بھی فکر نہیں آج سے یہ عین اسلامی عقائد ہیں.دیو بندی اہل حدیث اور دیگر علماء دین عرصہ دراز سے بریلوی بھائیوں کو قبر پرست ہمشرک اور دیگر القابات سے

Page 210

210 یاد فرماتے تھے مگر آج کے بعد کفر احمدیت کی برکت سے یہ جنگ بھی ختم.اور انہیں عقائد کو عین اسلامی قرار دیا جاتا ہے.بریلویوں کے عقائد اعمال و افعال ماضی میں دیگر علماء کی نظر 1.آنحضرت کو خدا کا درجہ دیتے ہیں.(شمع توحید صفحہ 5 مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب) 2.خدا کے علاوہ بزرگوں کو مشکل کشا سمجھتے ہیں اور مدد مانگتے ہیں.(انوار الصوفیہ لا ہور اگست 1915 صفحہ (32 3 علی پورسیداں کو سید القریٰ سمجھتے ہیں.4 ختم نبوت زمانی کے منکر ہیں.5.سلسلہ وحی والہام کو جاری سمجھتے ہیں.(انوار الصوفیہ جون 1915 صفحہ (19) انسان کامل باب 36 مولفہ سید عبدالکریم چیلی) (میخانه درد صفحه 134 ، 135 فتوحات مکیہ جلد 4 صفحہ (196) 6.اصطلاحات اسلامی مثلاً آنحضرت.ام المومنین.رضی اللہ کا خطرناک استعمال اپنے بزرگ کے لیے کرتے ہیں.( اشارات فریدیہ.قلائد الجواہر ) ( نظم الدرر فی سلک ایسر مولفہ ملا صفی اللہ صاحب) 7 انگریزوں کے خلاف جہاد کو حرام قرار دیتے ہیں.(نصرت الابرار صفحہ 129 مطبوعہ 1888ء) 8- انگریز کے خود کاشتہ پودے ہیں.( چٹان 15 اکتوبر 1962 ء ) و انگریزوں کے جاسوس ہیں.10.سید جماعت علی شاہ کو ہادی اور شافع سمجھتے ہیں.چٹان 5 نومبر 1962 ء صفحہ 8 (انوار الصوفیہ لاہور تمبر 1913 ء صفحہ (32) 11.سید جماعت علی شاہ کو حضور کے برابر سیدوں کے سید مظہر خدا نور خدا شاہ لولاک اور ہادی کل قرار دیتے ہیں.(انوار الصوفیہ ستمبر 1912ء صفحہ 15 ستمبر 1911 ء صفحہ 17 ، جولائی 1912 صفحہ 8

Page 211

211 12.آنحضرت کو عرش تک حضرت سید عبد القادر جیلانی نے پہنچایا.13 - حضور کو عالم الغیب اور حاضر و ناظر جانتے ہیں.14.جبرائیل قیامت تک نازل ہوتے رہیں گے.( گلدسته کرامات صفحہ 18 ) (رسالہ العقائد صفحہ 24 مولفہ ابو الحسنات سید محمد احمد قادری) ( دلائل السلوک صفحہ 127 مولفہ مولانا اللہ یار خاں چکڑالہ ضلع میانوالی) 15.حضرت فاطمہ اور حضرت عائشہ کی توہین کرتے ہیں.ارشا در حمانی و فضل یزدانی از مولوی محمد علی مونگیری صفحه 52،51 گلدسته کرامات صفحہ 94) 16.بریلویوں کا عرش.کرسی قلم.حضرت ابراہیم.حضرت موسیٰ اور خود حضرت محمدصلی ای یتم با یزید بسطامی ہیں.(حنفیت اور مرزائیت مصنفہ عبد الغفور اثری صفحه 155 ) 17.فضیل بن عیاض کو عرش.کرسی.لوح قلم.جبرائیل.میکائیل.اسرافیل.عزرائیل موسی علیسی اور محمد صلی اللہ الیہ سلیم مانتے ہیں.18 - بریلوی کلمه لا اله الا اللہ چشتی رسول اللہ ہے.19.بریلوی کا ایک کلمہ لا الہ الا اللہ شبلی مرسول الله 20.پردے کے پیچھے سے حضور بتاتے ہیں اور احمد رضا بولتے ہیں.حنفیت اور مرزائیت صفحہ 156 (حنفیت اور مرزائیت صفحہ 159 ) (حنفیت اور مرزائیت صفحہ (159 پیش لفظ عرفان شریعت صفحه 3 21.احمد رضا خاں اپنے متعلق شعر میں کہتے ہیں کہ حضرت آدم سے لیکر آج تک اس دنیا میں بڑے بڑے لوگ ( انبیائے کرام ) تشریف لاچکے ہیں میں ان سب کے آخر میں آیا ہوں لیکن وہ چیزیں لے کر آیا ہوں جو مجھ سے پہلے کوئی نہ لا سکا.ایک شخص ( احمد رضا خاں ) میں سب جہان کے کمالات جمع کرنا خدا کے نزدیک کوئی اچنبا نہیں.( حسام الحرمین اردو بمعہ تمہید ایمان حنیفیت اور مرزائیت صفحہ 178 ، 179 ) 22.احمد رضا حشر کے دن ساقی کوثر ہوں گے.( حسام الحرمین اردو بمعہ تمہید ایمان حنیفیت اور مرزائیت صفحہ 48

Page 212

212 23.بریلویوں کا ایک اور کلمہ لا الہ الا الله محكم الدين رسول الله 24.آنحضور نے دوسرا جنم منڈیر سیداں میں احمد حسین صاحب کی شکل میں لیا ہے.( تذکره خوشیه صفحه 108 ) السیرت محبوب ذات صفحہ 107 سید مسعود السید ) 25.منڈیر سیداں والے احمد حسین صاحب شاهد أو مبشرا ونذیرا تھے.اور نور مبینا تھے.(السیرت محبوب ذات صفحہ 10، 11 ) 26 علی پور مدینہ منورہ کی مظہر ہے.مدینہ بھی مظہر ہے مقدس ہے علی پور بھی اُدھر جائیں تو اچھا ہے ادھر جائیں تو اچھا ہے ( مقامع الحديد على الكذاب العنيد صفحہ 92 رضاخانی دین صفحه (70) 27.حضرت عیسی " نا کام نبی تھے اور یہود کے ڈر کے مارے کام تبلیغ رسالت سرانجام نہ دے سکے.(جامع الفتاوی المعروف انوار شریعت حصہ نیم صفحہ 38 28.ابوالحسن خرقانی خدا سے دو سال چھوٹے ہیں.29 محکم الدین شاہ کے خدائی دعوے کو مانتے.( فیوضات فرید به صفحه (78) ( تذکره خوشیه صفحه 114 مطبوعہ دار الاشاعت مقابل مولوی مسافرخانہ کراچی.بحوالہ حنفیت اور مرزائیت صفحہ 215 ) 30.السید حسین احمد منڈیر سیداں مردے زندہ کیا کرتے تھے.(السیرت محبوب ذات صفحہ 88 89 31 - قرآن مجید کی بیسوں آیات میں تحریف کرتے ہیں.فرقه اسمعیلی و آغا خانی حنفیت اور مرزائیت صفحہ 231 تا 242 فرقہ اسمعیلی و آغاخانی کے عقائد واقوال ماضی میں علماء کی نظر میں اسمعیلی فرقے کا کلمہ سبق نمبر 1 : اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمد مرسولا لله واشهد ان على الله امير المؤمنين 66 ( درسی کتاب برائے مذہبی اسکولز اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے انڈیا سبمبئی)

Page 213

213 نماز کے لئے قبلہ ضروری نہیں اور نہ پانچ نمازیں ہیں نماز کے لئے قبلہ ضروری نہیں.نماز پانچ وقت نہیں ہیں کیونکہ اللہ نے کہا واسجدوا اور وامركعو الراكعين روزہ اصل میں کان آنکھ کا ہے کھانے سے نہیں ٹوٹتا روزہ در اصل کان آنکھ اور زبان کا ہوتا ہے کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوشتا“.گناہوں کی معافی د گناہوں کی معافی امام کی طاقت میں میں ہے.روزمرہ معمولات کی مختلف دعا ئیں اور سلام سبق نمبر 2: ہمارا سلام...یا علی مدد جواب مولیٰ علی مدد سبق نمبر 11 : رات کو سوتے وقت اور صبح اٹھتے ہی مولا علی سے مدد مانگنا چاہیے.سبق نمبر 17 : کوئی چیز ہاتھ سے گر جائے.پیر شاہ بولنا چاہیے.اسی طرح بیماری کے وقت بھی پیر شاہ بولتے رہنا چاہیے.سوال پیغمبر یعنی ” ناطق“ اور ” اساس یعنی امام میں سے کس کا درجہ بڑا ہے؟ جواب : اساس کا درجہ بڑا ہے کیونکہ جو کام پیغمبروں سے نہیں ہو سکتا تھا وہ اساس کرتے ہیں.پیغمبروں میں سے اماموں کو بنانے کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جیسا حضرت ابراہیم کے لئے ہوا تھا.امام (حضرت علی ) کا ظہور اللہ کا ظہور ہے ( درسی کتاب برائے مذہبی اسکولز اسماعیلیہ ایسوی ایشن برائے انڈیا بمبئی) امام (علی) کے ظاہر ہونے کے بعد اللہ نے اسلام کو مقبول کیا اور پسند کیا اور پیغمبری کا دور ختم ہوا.اس کے بعد کوئی پیغمبر اس دنیا میں نہیں آیا.اس کے معنی یہ ہیں کہ امام کا ظہور اللہ کا ظہور ہے.جس کی پہچان اللہ کی پہچان ہے جس کی بیعت اللہ کی بیعت ہے.کلام الہی اور فرمان امام از عالی جاہ سلطان 5 نور محمد یکے از مطبوعات اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے تنزانیہ طباعت اسماعیلی پریس بمبئی صفحہ 54) قرآن سے بڑا ہے اب ناطق قرآن.امام کا چہرہ خدا کا چہرہ امام حاضر قرآن ناطق یعنی بولتا قرآن ہے.اس کے فرمانوں پر عمل کرنا چاہیے.امام کا ہاتھ خدا کا ہاتھ

Page 214

214 کے برابر ہے.امام کا چہرہ خدا کے چہرے کے برابر ہے.عقیدت سے امام کا دیدار کرنے والا خدا کا دیدار کر رہا ہے.( درسی کتاب شلشھن مال برائے نائٹ اسکولز ریلیجنس یکے از مطبوعات اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے انڈ یا بمبئی سبق نمبر 11 ص8) قرآن تو 1300 سال پرانی کتاب صرف عرب کے لئے ہے اب تمہارے لئے نئی شریعت گنان ہے آپ لوگوں کے لئے جو علم ہے وہ گنان ہے قرآن شریف کو 1300 سال ہو چکے وہ ملک عرب کی آبادی کے لئے ہے.گنان کو 700 سال ہوئے سو تم لوگوں کے لئے اب گنان ہے اور اسی پر عمل کرنا.( فرمان نمبر 13 ص 81 کلام امام مبین آغا خان 3 کے فرامین کا مجموعہ یکے از مطبوعات اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے انڈیا بمبئی) قرآن خلیفہ عثمان کے وقت بدل دیا گیا اصل خلاصے ہمارے پاس ہیں توریت، انجیل زبور ، اور قرآن یہ سب کتابیں الگ الگ قوم پر الگ الگ وقفہ سے نازل ہوئیں.قرآن شریف بھی حق تھا مگر خلیفہ عثمان کے وقت میں رد بدل کر دیا گیا آگے کے الفاظ پیچھے اور پیچھے کے الفاظ آگے رکھ دیئے گئے.اس معاملے میں سارے خلاصے ہمارے پاس ہیں.تم لوگ ہم سے پوچھو گے تو ہم تم کو یہ خلاصے دکھا ئیں گئے.کلام امام مبین ص 96 حصہ اول فرمان نمبر 38 یکے از مطبوعات اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے انڈیا بمبئی) قرآن کتابی شکل میں گونگا ہے جبکہ آغا خان بولتا قرآن ہے قرآن پاک کتابی شکل میں صامت ہے یعنی گونگا اور بہرہ ہے.جبکہ امام آغا خان قرآن ناطق ہے.لہذا آغا خان کے فرامین کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے قرآن پاک کی.( کتاب آغا خانی کی مذہبی کہانی از علامہ مفتی حمد فیض احمد اویسی باہتمام مولانا فضیل رضا قادری عطاری) مولوی طاہر القادری کے عقائد والہامات ماضی میں علماء کی نظر میں مولوی طاہر القادری بریلوی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں.اسی فرقے کے ایک اور عالم جناب بشیر قادری صاحب نے ان کی تقاریر کی سیڈیز اور کسیٹیں سن کر اس کو تحریری رنگ میں شائع کر دیا ہے وہی پیش خدمت ہے.حید و نبی کریم صلی السلام قبر اور سے نکلے اور میرے گلے ملے.دیر تک مجھے اپنے دونوں بازوؤں کے زور سے خوب پیچا.میں نے خود آذان دی اور نبی کریم سلا یا ایلم کے پیچھے پانچ نمازیں ادا کیں“.نبی کریم صلیم کی قبر مبارک گر گئی تھی میں نے بنایا اور پلستر کر دیا.نبی کریم ملا لیا کہ تم نے مجھے سند لکھ کر دے دی اور پاکستان میں اپنا خصوصی نمائندہ مقررکردیا.

Page 215

215 حمد نبی کریم صلی شیا کی تم نے مجھے گود میں بٹھالیا جبکہ تمام صحابہ کرام موجود تھے.نبی کریم صلی الم ناراض ہو گئے میں نے منایا اور ان کے پاکستان آنے کے لئے ٹکٹ کا انتظام بھی میں نے کیا“.جید نبی کریم صلی یا ہی ہم نے میرا نام (مولوی اسحق سے بدل کر ) طاہر خود تجویز فرمایا.ا نبی کریم سی ہیں کہ یہ تمام علماء اور اداروں پر ناراض ہیں فقط مجھ پر اور منہاج القرآن پر راضی ہیں“.میری موت کا وقت آ گیا تھا مگر نبی کریم صلی اسلام نے فرشتہ کو واپس بھیج دیا تو فرمایا طاہر کو 31 سال کی عمر مزید دی“.دوستو اب میری عمر میں 15 سال باقی ہیں لیکن کام بہت کرنا ہے.اللہ نے مصطفوی انقلاب کی کامیابی مجھے دکھا دی جن جن مراحل میں سے گزرے گی.مرکزی دفتر منہاج الفرقان بلدیہ ٹاؤن نمبر 3 داتاری جامع مسجد از مولا نا محمد بشیر القادری) طاہر القادری صاحب نے نبی کریم ملایم کو پاکستان بلا یا اور ٹکٹ کا بندو بست کیا علامہ بشیر قادری صاحب مولوی طاہر القادری کی ایک لمبی چوڑی خواب درج کرتے ہیں : آقا پاکستان تشریف لے آئے.ناراض ہیں خفا ہیں.لوگوں کو زیارت نہیں کرار ہے.سارے لوگ واپس چلے گئے.فقط میں تنہا کھڑا رہا.حضور مجھے دیکھ کر مسکرائے.کمرے میں خود آنے کی اجازت مرحمت فرماتے ہیں.اور فرماتے ہیں طاہر میں پاکستان کے دینی مدارس اور علماء کی دعوت پر پاکستان آیا تھا.لیکن انہوں نے مجھے بڑا دکھ دیا ہے.میں ان سب سے دکھی ہو کر واپس جارہا ہوں.انہوں نے میری کوئی قدر نہیں کی.بس میں پاکستان چھوڑ کر جا رہا ہوں.کبھی واپس نہیں آؤں گا.پھر میں حضور کے قدموں پر گر پڑا.قدمین شریفین پکڑ لیتا ہوں.چومتا ہوں روتا ہوں.چیختا ہوں.ہاتھ جوڑ کر عرض کرتا ہوں آقا ذرا دیر کے لئے فیصلہ بدل دیجئے.حضور بار بار فرماتے ہیں میں بہت دکھی ہوں دیر تک التجا کے بعد آقا کے مزاج میں شگفتگی آتی ہے.مجھے شفقت سے فرماتے ہیں کہ طاہر تم مجھے پاکستان میں مزید ٹھہرانا چاہتے ہو تو اس کی ایک شرط ہے.میں نے عرض کی وہ شرط کیا ہے.فرمایا وہ شرط یہ ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ میں مزید پاکستان میں ٹھہروں تو تم میرے میزبان بن جاؤ تو میں مزید سات روز پاکستان میں قیام کروں گا لیکن میرے ٹھہرنے کا انتظام بھی تمہیں کرنا ہو گا.پاکستان جہاں کہیں جاؤں گا.آؤں گا ٹکٹ اور آمد ورفت کا انتظام بھی تمہارے ذمہ ہوگا“.(مولوی طاہر القادری کے الہامات اور شیطانی وساوس از علامہ بشیر قادری صفحه 9، 11 مرکزی دفتر منهاج الفرقان بلد یہ ٹاؤن نمبر 3 دا ستاری جامع مسجد لاہور )

Page 216

216 فرقه مسعودیه فرقہ جماعۃ المسلمین کا تعارف ،عقائد اور اعمال ماضی میں علماء کی نظر میں مولوی محمد الیاس گھمن صاحب نے فرقہ جماعتہ المسلمین کے بارے میں علمائے اہل سنت کی طرف سے ان کا تعارف اور تنقید پر مبنی ایک ضخیم کتاب بنام نامی فرقہ جمعہ المسلمین کا تحقیقی جائزہ غیر مقلدیت کا نیا روپ مسعودی نام نہاد جماعۃ المسلمین تحریر فرمائی ہے وہی اس وقت خاکسار کے سامنے ہے.آپ فرقہ مسعودیہ کے عقائد کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: فرقہ مسعودیہ کے عقائد جو شخص خدا کو مانتا ہے مگر مسعود احمد کو حاکم وا میر نہ مانے وہ مسلم نہیں بن سکتا.جو شخص رسول کریم ملی تم پر ایمان رکھے مگر مسعود احمد کو مفترض الطاعت نہ مانے وہ مسلم نہیں.جود بین اسلام 1400 سال سے چلا آرہا ہے جو اس کو مانے مگر مسعود احمد کے لٹریچر پر ایمان نہ لائے وہ مسلم نہیں.اللہ تعالیٰ نے جس کا نام مسلم رکھا یہ ان کو مسلم نہیں مانتے صرف اسی کو مسلم مانتے ہیں جن کا نام 1395ھ میں مسعود احمد نے رکھا.ید ان کے ہاں محبت کی بنیاد صرف مسعودی فرقے میں داخل ہونا ہے.جو مسلمان مسعودی فرقہ میں داخل نہ ہوں نہ ان کو سلام کرتے ہیں نہ ان کے سلام کا جواب دیتے ہیں.قرآن و اسلام کے بارے عجیب طنزیہ تبصرے 1 - قرآن ہر لحاظ سے ایک مکمل کتاب ہے یہ ایک خوش نما جملہ تو ضرور ہے مگر حقیقت کچھ بھی نہیں.نہ نماز کا طریقہ اس میں ہے نہ کسی اور عمل کا اور پھر وہ ہر لحاظ سے مکمل ہے یہ عجیب بات ہے“.تفہیم اسلام مؤلفہ مسعود احمد صفحہ 226 بحوالہ فرقہ جماعۃ المسلمین کا تحقیقی جائزہ صفحہ 37) 2 ” قرآن کا اسلام تو بڑا آسان ہے.صلوۃ میں ریح خارج ہو جائے وضو سلامت رہتا ہے.ناچ ورنگ کی محفلیں قائم کرو کوئی ممانعت نہیں ، قحبہ خانے کھولو کوئی ممانعت نہیں“.تفہیم اسلام مؤلفه مسعود احمد صفحہ 232 بحوالہ فرقہ جماعۃ المسلمین کا تحقیقی جائزہ صفحہ 37 ) قرآن میں عریانیت کا درس ہے.تفہیم اسلام مؤلفہ مسعود احمد صفحہ 247,226 بحوالہ جماعت المسلمین کا تحقیقی جائزہ صفحہ 37)

Page 217

217 4.قرآن میں بھی ایسی آیات پائی جاتی ہیں جن سے بظاہر رسول اللہ کی قدر و منزلت کو بڑا دھکا لگتا ہے.تفہیم اسلام مؤلفہ مسعود احمد صفحہ 247 و248 بحوالہ فرقہ جماعۃ المسلمین کا تحقیقی جائزہ صفحہ 37) 5.کیا ان آیات سے دشمنان اسلام کو اسلام پر ہنسنے کا موقعہ نہیں ملتا.تفہیم اسلام مؤلفہ مسعوداحمد صفحہ 248 بحوالہ فرقہ جماعتہ المسلمین کا تحقیقی جائز سفحہ 37 6 - قرآن کی قطعیت پر تو قرآن کی آیات سے بھی چوٹ پڑتی ہے.ستیارتھ پرکاش وغیرہ کتابیں ملاحظہ ہوں“.تفہیم اسلام مؤلفہ مسعود احمد صفحہ 255 بحوالہ فرقہ جماعتہ المسلمین کا تحقیقی جائزہ سفحہ 37 ) 7 وہ مسلم رہ کر بھی قرآن کا انکار کر سکتے ہیں.مسلمانوں کا جم غفیر تحریف فی القرآن پر ایمان رکھتا ہے.“ تفہیم اسلام مؤلفه مسعود احمد صفحہ 269 بحوالہ فرقہ جماعتہ المسلمین کا تحقیقی جائزہ صفحہ 38) 8 سطحی نظر سے حدیث کا مطالعہ غلط فہمی اور گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے.اور نہ حقیقت میں اس کے رموز پالیتی ہے.سطحی نظر سے تو قرآن کا مطالعہ بھی گمراہ کن ہو سکتا ہے.“ (تفہیم اسلام مؤلفہ مسعود احمد صفحہ 135 بحوالہ فرقہ جماعۃ المسلمین کا تحقیقی جائزہ صفحہ 38) 9.اگر ان مذاہب خمسہ میں سے ہر ایک مکمل دین ہے تو کیا رسول اللہ پر پانچ اسلام نازل ہوئے تھے“.(تفہیم اسلام مؤلف مسعوداحم صفحہ 68 حوالہ فرقہ جماعة السلمین کا حقیقی جائزہ صفحہ 38 مؤلف مولوی الیاس گھمن ناشر مکتب ابل السنة والجماعۃ 87 جنوبی لاہور روڈ سرگودہا ) غلام احمد پرویز غلام احمد پرویز اور بزم طلوع اسلام کے نظریات ماضی میں دیگر علماء کی نظر میں جسمانی معراج کا انکار اگر آج سائنس کی کوئی ایجاد اس بات کا امکان بھی پیدا کر دے کہ کوئی شخص روشنی کی رفتار سے مریخ یا چاند کے گروں تک پہنچ جائے پھر چند ثانیوں میں وہ واپس بھی آجائے تو پھر بھی میں حضور اکرم صلی لے ہی یتیم کے معراج جسمانی کو قبول نہیں کروں گا“.(معارف القرآن جلد 2 صفحہ 241 بحوالہ فتنہ پرویزیت صفحه 41 مصنفہ مولوی احمد علی سراج مطبع میٹرو پرنٹر 55 بی چیمبر لین روڈ لاہور تر تیب واشاعت عبد الخالق بھٹی کو یت پی او بکس نمبر 1093 کوڈ نمبر 83001) حضرت آدم کے وجود کا انکار ” جنت سے نکلنے والا آدم کوئی خاص فرد نہیں تھا بلکہ انسانیت کا تمثیلی نمائندہ تھا جس کی ذریت سے مراد تمام بنی نوع انسان ہے نہ کہ کسی فرد واحد کی نسلی اولاد

Page 218

218 آدم و ابلیس صفحه 57 فتنہ پرویزیت صفحه 42 حضرت عیسی کے بن باپ ہونے کا انکار حضرت مسیح حضرت داؤد کی نسل سے تھے اور یہ سلسلہ یوسف نجار کی وساطت سے حضرت داؤد تک پہنچتا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان نسب ناموں کی رو سے حضرت مسیح یوسف کے بیٹے ہی قرار پاتے ہیں.قرآن کریم کی طرف سے اس میں کوئی تصریح کہیں بھی نہیں کہ حضرت عیسی کی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی تھی“.انکار حدیث ( معارف قرآن جلد 2 صفحہ 47 بحوالہ فتنہ پرویزیت صفحه 42 اگر حدیثیں بھی دین کا جزو تھیں تو رسول اللہ ال ام ایم کو چاہیئے تھا کہ جس طرح آپ نے امت کو قرآن دیا تھا اسی طرح اپنی احادیث کا ایک مستند مجموعہ بھی امت کو دے جاتے لیکن رسول اللہ نے ایسا نہیں کیا.آپ ملٹی تم پر ایمان لانے کا مطلب مقام حدیث پیش لفظ ص س بحوالہ فتنہ پرویزیت صفحه 43 رسول اللہ صلی ایتم پر ایمان سے مفہوم اس کی ذات پر ایمان نہیں رسالت محمدیہ پر ایمان سے مقصود اس کی کتاب پر ایمان ہے.جو حضور کی وساطت سے دنیا کو ملی“.دعا کے اثرات کا انکار فردوس گم گشتی ص 393 بحوالہ فتنہ پرویزیت ص 44) آج آدھی دنیا کو پیٹ بھر کے روٹی نصیب نہیں ہو رہی لہذا انسانوں کے خود ساختہ مذہب کے پیدا کردہ خدا پر ایمان لانے اور اس سے دعاؤں پر توکل کرنے سے وہ یقین کسی طرح پیدا نہیں ہو سکتا جو انسانوں کی احتیاج کی فکر سے بے خوف کر دے“.توبہ استغفار کا انکار (سلیم کے نام چودھواں خط صفحہ 226 بحوالہ فتنہ پرویزیت صفحه 44) اگر کسی فرد سے لغزش ہو جائے تو مسجد کے گوشے میں استغفر اللہ کہنے سے معافی نہیں مل سکتی بلکہ اس فرد کو خود چل کر مرکزی اتھارٹی کے پاس آنا ہوگا“.مجله طلوع اسلام جولائی 1963 تحریر غلام احمد پرویز بحوالہ فتنہ پرویزیت صفحه (44) خدا اور رزق کی ضمانت ”مذہب نے جس خدا کو کائنات سے ماوراء عرش پر بٹھا رکھا ہے وہ واقعی کسی انسان کے رزق کی ضمانت نہیں

Page 219

دے سکتا.219 حقوق اللہ کا انکار (سلیم کے نام چودھواں خط تحریر غلام احمد پرویز صفحه 226 بحوالہ فتنہ پرویزیت صفحه 44) " قرآن میں حقوق العباد کا ذکر تو آیا ہے لیکن حقوق اللہ کا کہیں ذکر نہیں آیا“ ملائکہ اور جنات کے بارے نظریہ مجله طلوع اسلام 1965 ، صفحہ 34 بحوالہ فتنہ پرویزیت صفحہ 45 انس شہروں کی مہذب آبادی اور جن صحرا کے بادیہ نشین جو شہری آبادی کی نگاہوں سے اوجھل اور بیابانوں میں رہتے ہیں.یہ دونوں انسانوں کی ہی جماعتیں ہیں.( آدم و ابلیس صفحہ 108 تحریر غلام احمد پرویز بحوالہ فتنہ پرویزیت صفحه 45) ملائکہ ہماری اپنی داخلی قو تیں ہیں.یعنی ہمارے اعمال کے اثرات جو ہماری ذات پر مرتب ہوتے رہتے ہیں.آدم و ابلیس صفحه 162 تحریر غلام احمد پرویز بحوالہ فتنہ پرویزیت صفحه (46) عبادت کے بارے میں نظریہ ”اس نے ہمیں پیدا کیا کہ ہم اس کی عبادت کرتے رہیں خدا کے لئے یہ تصور صحیح نہیں“.نماز پنجگانہ کی فرضیت والی حدیث کا انکار یہ حدیث وضعی ہے اور کسی یہودی کی گھڑی ہوئی ہے.عید الاضحی کی قربانی کے جانوروں کا انکار (طلوع اسلام تمبر 1962ء بحوالہ فتنہ پرویزیت صفحہ 46) قرآنی فیصلے صفحہ 15 بحوالہ فتنہ پرویزیت صفحہ 46) ” حاجیوں کی وہ قربانیاں جو وہ آج کل کرتے ہیں محض ایک رسم رہ گئی ہے" عرش و جنت کے بارے میں نظریہ ( قرآنی فیصلے غلام احمد پرویز صفحہ 57 حوالہ فتنہ پرویزیت صفحہ 48 ” جس طرح مسلمانوں نے اللہ کو عرش پر بٹھا رکھا ہے اسی طرح انہوں نے جنت کو بھی دوسری دنیا کے ساتھ مخصوص کر رکھا ہے.(سلیم کے نام گیارھواں خط صفحہ 159 بحوالہ فتنہ پرویزیت صفحه (49) والدین کی اطاعت ضروری نہیں

Page 220

220 ”ماں باپ کی اطاعت کو فرض سمجھنے والی اولا دساری عمر عقلی طور پر پانج رہ جاتی ہے“.( قرآنی فیصلے صفحہ 129 بحوالہ فتنہ پرویزیت صفحه 49) سید محمد یوسف بنوری اور مفتی اعظم مولوی ولی حسن ٹونکی نے غلام احمد پرویز کے باطل عقائد کے نام سے انکی کتابوں سے ان کے عقائد کو جمع کر کے کتابی شکل میں علماء کے سامنے پیش کر کے ان سے فتاویٰ کفر لئے.1.قرآن میں جہاں اللہ اور رسول کا نام آیا ہے اس سے مراد مرکز ملت ہے.2.جہاں اللہ اور رسول کی اطاعت کا ذکر ہے.مراد مرکزی حکومت کی اطاعت ہے.3.قرآن میں اولی الامر سے مراد افسران ماتحت ہیں.4.رسول کو قطعاً یہ حق نہیں کہ وہ کسی سے اپنی اطاعت کرائے.5.رسول کی حیثیت صرف اتنی ہے کہ وہ اس قانون کو انسانوں تک پہنچانے والا ہے.6.رسول اللہ سال خالی ہیں جب موجود تھے تو بحیثیت مرکز ملک آپ کی اطاعت فرض تھی آپ کی وفات کے بعد آپ سی تی ایتم کی اطاعت کا حکم نہیں کیونکہ اطاعت کے معنی ہی کسی زندہ کے احکام کی تابعداری ہے.7.ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کو اپنے معاملات کے فیصلے آپ کرنے ہوں گے.8 - قرآن کریم کے احکام وراثت، قرضہ لین دین ،صدقہ خیرات زکوۃ وغیرہ سب عبوری دور سے متعلق ہیں.9 - شریعت محمدیہ صرف آنحضرت صلی اینم کے عہد مبارک کے لئے تھی نہ کہ ہر زمانے کے لئے.بلکہ ہر زمانے کی شریعت وہ ہے جس کو اس عہد کا مرکز ملت اور اس کی مجلس شوریٰ مرتب و مدون کرے.10.مرکز ملت کو اختیار ہے کہ وہ عبادت، نماز ، روزہ ، معاملات، اخلاق، غرض ہر چیز جس میں چاہے رد و بدل کر سکتی ہے.11.مرکز ملت اپنے اپنے زمانے کے تقاضے کے ماتحت نماز کی کسی شکل میں رد و بدل کر سکتی ہے.12.حدیث بجمی سازش ہے.13.جنت و جہنم مقامات نہیں انسانی ذات کی کیفیات ہیں.14.جبرائیل انکشاف حقیقت کا نام ہے.15 - تقدیر کا مسئلہ ایمانیات میں مجوسی اساور ہ کا داخل کیا ہوا ہے.16.ثواب کی نیت اور وزن اعمال کا عقیدہ رکھنا ایک افیون ہے جو مسلمانوں کو پلائی گئی ہے.17.انسان کی پیدائش آدم و حوا سے نہیں ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے مطابق ہوئی.18.نماز پوجا پاٹ ، روزہ برت اور حج یا ترا ہے.اور اب یہ تمام عبادات اس لئے سر انجام دی جاتی ہیں کہ یہ خدا کا حکم ہے ورنہ ان امور کونہ افادیت سے کچھ تعلق ہے اور نہ عقل سے کچھ واسطہ.

Page 221

221 19.نماز مجوسیوں سے لی ہوئی ہے.قرآن نماز پڑھنے کے لئے نہیں کہتا بلکہ قیام صلوۃ یعنی نماز کے نظام کے قیام کا حکم دیتا ہے.20 - رسول اللہ صلی ا یلم کے زمانے میں اجتماعات صلوۃ کے لئے یہ 2 اوقات فجر عشاء متعین تھے.21.آج کل زکوۃ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.ایک طرف ٹیکس دوسری طرف زکوۃ.قیصر اور خدا میں تفریق اسلامی ہے.22.صدقہ فطر ڈاک کے ٹکٹ ہیں جنہیں روزوں پر چسپاں کر کے لیٹر بکس میں ڈالا جاتا ہے تا کہ روزے مکتوب الیہ تک پہنچ جائیں.23.حج عبادت نہیں بلکہ عالم اسلامی کی بین الملی کا نفرنس ہے.24.قربانی کے لئے مقام حج کے علاوہ اور کہیں حکم نہیں اور حج میں بھی اس کی حیثیت شرکاء کا نفرنس کے لئے راشن مہیا کرنے سے زیادہ نہیں تھی.25.تلاوت قرآن عہد سحر یعنی جادو کے زمانے کی یادگار ہے.26.دین کے ہر گوشے میں تحریف ہو چکی ہے.27 - قرآن کی رو سے سارے مسلمان کا فر ہو گئے ہیں.اور موجودہ مسلمان برہمو سماجی مسلمان ہیں.(فتنہ پرویزیت زیر عنوان غلام احمد پرویز کے باطل عقائدص 51 تا 54 مصنفہ مولوی احمد علی سراج مطبع میٹرو پر نٹر 55 بی چیمبرلینر وڈلاہور ترتیب و اشاعت عبد الخالق بھٹی کویت کی اور بکس نمبر 1093 کوڈ نمبر 83001) انجمن سرفروشان اسلام پیر گوہر شاہی کی جماعت انجمن سرفروشانِ اسلام کو دوسرے علمائے کرام کا فر ، زندیق ملعون ، سلام اور شعائر اسلام کا دشمن ، متوازی اور خود ساختہ مذہب کا بانی، بدترین سازشی، بدفطرت ، دشمن اسلام، مرتد ملحد ، یہ گناہ اور معصیت کی زندگی میں تھا، اس کے دعاوی مضحکہ خیز ، ان لوگوں کا ذبیحہ مردار وغیرہ وغیرہ کے القاب اور مذہبی فتاوی سے یاد فرماتے ہیں.جبکہ پیر ریاض احمد گوہر شاہی نے 1975 ء میں اپنی نئی جماعت رجسٹرڈ کروائی اور تبلیغی جلسوں کا کام شروع کیا.ان کے مریدوں کا حلقہ پاکستان اور بیرون پاکستان تک پھیلا ہوا ہے.آپ شہر شہر جلسے کرتے ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ وہ دلوں میں اللہ کا ذکر جاری کر دیتے ہیں.ان کا دعوی ہے کہ ان سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے

Page 222

222 مسلمان ہونا ضروری نہیں.آپ اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ” 15 رمضان 1977ء کو اللہ کی طرف سے خاص الہامات کا سلسلہ بھی شروع ہوا.راضیہ مرضیہ کا وعدہ بھی ہوا.مرتبہ بھی ارشاد ہوا.چونکہ آپ کے ہر مرتبے اور معراج کا تعلق 15 رمضان سے ہے اس لئے اس خوشی میں جشن شاهی اسی روز منایا جاتا ہے.آپ کے مرید ان کا دعوی ہے کہ چاند سورج ، حجر اسود، شیو مندر اور کئی دوسرے مقامات پر پیر گوہر شاہی کی تصویر نمایاں ہونے کے بعد اکثر مسلم اور غیر مسلم کا خیال اور یقین ہے کہ یہی شخصیت مہدی ہکلگی اوتار اور مسیحا ہے.“ تصانیف پیر ریاض احمد گوہر شاہی 1.مینارہ نور ناشر سر فروش پبلی کیشنز 2 تحفۃ المجالس حصہ اول دوئم سوئم ناشر سر فروش پبلی کیشنز 3.رہنمائے طریقت و اسرار حقیقت ناشر سر فروش پبلی کیشنز 4.روشناس ناشر سر فروش پبلی کیشنز 5.گوہر سالانہ ناشر سر فروش پبلی کیشنز 6.صدائے سرفروش حیدرآباد(15 روزه) ناشر سر فروش پبلی کیشنز 7.دین البی ناشر سر فروش پبلی کیشنز 8 - روحانی سفر ناشر سر فروش پبلی کیشنز حق کی آواز ناشر سر فروش پبلی کیشنز پیر گوہرشاہی کے عقائد و اعمال ماضی میں دیگر علمائے کرام کی نظر میں گدھے پر معراج آج عصر کی نماز کے بعد جب سفر شروع ہوا تو ایک گدھا میری بائیں جانب میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا.وہ مجھے دیکھ کر بنتا.میں پریشان ہو گیا کہ یہ کیسا گدھا ہے جو ہنس رہا ہے.اب وہ مجھ کو آنکھوں سے اشارہ کرتا ہے.اور آواز بھی آتی ہے کہ میرے اوپر سوار ہو جاؤ.میں بٹتا ہوں اور بچتا ہوں پھر گدھے کے ہونٹ ہلے جیسے کچھ پڑھ رہا ہو.جوں جوں اس کے ہونٹ ہلتے گئے اس کی طرف کھینچتا گیا اور آخر خود بخود اس پر سوار ہو گیا وہ گدھا تھوڑی دیر بھا گا اور پھر ہوا میں اُڑنے لگا.میں نے با قاعدہ راوی چناب کے دریا عبور کئے.یعنی اس گدھے نے پورے پاکستان کی سیر کرادی.میں نے منزل پالی.اب واپس چلتے ہیں“.

Page 223

223 (روحانی سفر تحریر پیر گوہر شاہی ریاض احمد ص 7 صفحہ 8 بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 26 ) 20، 30 سال نہ نماز اور نہ روزہ اس ( گدھے کی سواری کے ) دن کے بعد یعنی 20 سال کی عمر سے 30 سال کی عمر تک اسی گدھے کا اثر رہا.نماز وغیرہ سب ختم ہو گئی.جمعہ کی نماز بھی ادا نہ ہو سکتی.پیروں فقیروں عالموں سے چڑھ ہوگئی...فالتو وقت سینماؤں اور تھیٹروں میں گزارتا.رو پیدا کٹھا کرنے کے لئے حلال وحرام کی تمیز جاتی رہی.کاروبار میں بے ایمانی فراڈ اور جھوٹ شعار بن گیا“.روحانی سفر تحریر پیر گوہر شاہی ریاض احمد صفحہ 7 ، 8 بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 27 گوہر شاہی کے پیٹ میں کتا ”ایک دن ذکر کی ضر میں لگا رہا تھا کہ ایک سیاہ رنگ کا موٹا تازہ کتا سانس کے ذریعہ سے باہر نکلا اور بڑی تیزی سے بھاگ کر دور پہاڑی پر بیٹھ کر مجھے گھورنے لگا.اور جب ذکر کی مشق بند کی تو دوبارہ جسم میں داخل ہو گیا دوران ذکر ناف کی جگہ سے بچے کی طرح رونے کی آواز آنا شروع ہو گی.ناف کی جگہ دھڑکن رہتی ہے جیسے حاملہ کے پیٹ میں بچہ ہو....کچھ ماہ بعد اس کی شکل بکرے کی بن گئی.وہ بکرا میرے ساتھ باتیں کرتا میرے ساتھ نمازیں پڑھتا.( روحانی سفرتحریر پیر گوہر شاہی ریاض احمد صفحہ 21، 22، بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 228 ، 229) بھنگ پینے کا الہامی حکم مستانی نے کہا قلندر پاک اور بھٹ شاہ والے آئے ہیں اور کہتے ہیں ریاض کو آج گھر کی یاد بہت ستا رہی ہے.اس کو ایک گلاس بھنگ ا پلاؤ.اس کے بعد مستانی بھنگ کو ٹنا شروع کرتی ہے.میں چلہ گاہ میں گیا.و ہیں خواب دیکھا کہ ایک سفید ریش بزرگ سامنے آئے اور ناراض ہیں کہ بھنگ کیوں نہیں پی.میں نے کہا کہ شریعت میں حرام ہے اُس نے کہا کہ شرع اور عشق میں فرق ہے.جو شہ اللہ کے عشق میں اضافہ کرے وہ مباح اور جائز ہے.اگر بات صرف نشے کی ہے تو پان میں بھی نشہ ہے، تمبا کو میں نشہ ہے.اناج میں بھی نشہ ہے.عورت میں بھی نشہ ہے.دولت میں بھی نشہ ہے.تو پھر سب نشے ترک کر دو.اب وہ بزرگ بھنگ کا گلاس پیش کرتا ہے اور میں پی جاتا ہوں سوچتا ہوں بھنگ کتناذائقہ دار شربت ہے خواہ مخواہ ہمارے عالموں نے اسے حرام کہا.جب آنکھ کھلی تو سورج چڑھ چکا تھا اب میرے پاؤں خود بخود دمستانی کی جھونپڑی کی طرف جانے لگے.مستانی نے بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور کہا رات کو بھٹ شاہ والے آئے اور تمہیں بھنگ پلا کر چلے گئے.تم نے ذائقہ تو

Page 224

224 چکھ لیا ہوگا یہی شرابا طھورا ہے.مستانی نے کہا بھٹ شاہ جی والے کہہ گئے ہیں اس کو روزانہ ایک گلاس الا ئچی ڈال کر پلایا کرو.میں سوچ رہا تھا پٹوں یا نہ پٹوں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ پٹوں یا نہ پٹوں.کچھ بزرگوں کے حالات پڑھے تھے ان کی ولائت مسلم تھی لیکن بظاہر اُن سے کئی خلاف شریعت کام سرزد ہوئے.جیسا سمن سر کا ر کا بھنگ پینا.لال شاہ کا نسوار اور چرس پینا.سدا سہاگن کا عورتوں کا لباس پہننا.اور نماز نہ پڑھنا.امیر کلاں کا کبڈی کھیلنا.سعید خزاری کا کتوں کے ساتھ شکار کھیلنا.خضر علیہ السلام کا بچے کوقتل کرنا، قلندر پاک کا نماز نہ پڑھنا، داڑھی چھوٹی اور مونچھیں بڑی رکھنا حتی کہ رقص کرنا.رابعہ بصری کا طوائفہ بن کر بیٹھ جانا.شاہ عبدالعزیز کے زمانے میں ایک قلیہ کا ننگے گھومنا لیکن سخی سلطان باہو نے فرمایا تھا کہ بامرتبہ تصدیق اور تالیہ زندیق ہے.خیال آتا کہ کہیں پی کر زندیق نہ ہو جاؤں.پھر خیال آتا ہے کہ با مرتبہ ہوا تو اس لذیذ لذت سے محروم رہوں گا.آخر یہی فیصلہ ہوا کہ تھوڑا سا چکھ لیتے ہیں اگر رات کی طرح لذیذ ہوا تو واقعی شسرا با طھورا ہی ہوگا.“ روحانی سفر تحریر پیر گوہر شاہی ریاض احمد صفحہ 33 ، 34 بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 35 ، 36 ) مستانی کے ساتھ شب باشی اپنے روحانی سفر صفحہ 30.31 پر مستانی کے ساتھ ایک بارش والی رات میں اس کی جھونپڑی میں جانے اور ایک بستر پر رات گزارنے کا ذکر ہے.تفصیل انتہائی ناموزوں ہے.مستانی کا عشق اس واقعے کے بعد میں اور مستانی پہلے سے زیادہ قریب ہو گئے.لڑکیوں کی طرح اتراتی کبھی میرے ہاتھ پکڑ کر سینے سے لگاتی.اور کبھی ناچنا شروع کر دیتی.“ (روحانی سفر تحریر پیر گوہر شاہی ریاض احمد صفحہ 37 بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 38 ایک عورت کے ساتھ ہم آغوشی ایک دو پہر چشموں کی طرف چلا گیا.راستے میں نوجوان عورت لیٹی ہوئی تھی...بانہوں سے لپٹ گئی میں بانہوں سے چھڑانے کی کوشش کر تار ہا لیکن گرفت سخت تھی“.روحانی سفر تحریر پیر گوہر شاہی ریاض احمد صفحہ 31 بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 40) قرآن پاک کے دس پارے اور ہیں یہ قرآن پاک عوام الناس کے لئے ہے.جس طرح ایک علم عوام کے لئے جبکہ دوسرا خواص کے لئے جو سینہ )

Page 225

225 بہ سینہ عطا ہوتا ہے...اس طرح قرآن پاک کے دس پارے اور ہیں.جب ہم نے سہون شریف میں ذکر وفکر اور مجاہدات کئے...پھر وہ 10 پارے سامنے آگئے.ظاہری قرآن اور باطنی قرآن میں تضاد ہے ( حق کی آواز صفحہ 54 بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 59 پھر یہ قرآن مجید کچھ اور ہے اور وہ دس پارے کچھ اور ہیں.یہ کچھ اور بتاتا ہے وہ کچھ اور بتا تا ہے.قرآن کے 40 پارے تھے.30 ظاہری 10 باطنی.ظاہری قرآن ظاہری عوام کے لئے باطنی قرآن خواص کے لئے.( بحوالہ آڈیو کیسٹ خصوصی خطاب نشتر پارک کراچی بحوالہ گو ہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 64) شریعت محمدی اور شریعت احمدی دونوں میں فرق جو لوگ 5 وقت نماز پڑھتے ہیں اُن کی انتہا مسجد ہے تو وہ حضور صلی ال اسلام کے قدموں میں پہنچ جاتے ہیں اس سے پہلے پہلے شریعت محمدی ہے.اس کے بعد شریعت احمدی شروع ہو جاتی ہے.وہاں نماز روحانی ہو جاتی ہے..بیت المعمور سے آگے فرشتے بھی نہیں جا سکتے.اور یہ ولی چلا جاتا ہے وہاں اللہ بڑے پیار سے دیکھتا ہے اور فرماتا ہے اب تو نیچے چلا جا.اب جس نے تجھے دیکھ لیا اس نے مجھے دیکھ لیا.بہت سے ولی یہیں رک جاتے ہیں جو اس سے بھی آگے جاتے ہیں پھر وہ 10 پارے اُس کو ٹکراتے ہیں.“ ( بحوالہ آڈیو کیسٹ خصوصی خطاب نشتر پارک کراچی بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 64) شریعت کے قاعدے الگ اور طریقت کے قاعدے الگ ہیں شریعت کے قاعدے قانون طریقت پر لاگو نہیں ہوتے.اکثر علماء کہتے ہیں شریعت ہی میں طریقت، حقیقت اور معرفت ہے جس سے ہمیں اختلاف ہے.(حق کی آواز صفحہ 10 بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 54 ) تمہیں اسلام چاہیے یا خدا ایک امریکی خاتون اسلام قبول کرنے آئی تو اس سے پوچھا تمہیں اسلام چاہئے یا خدا اُس نے کہا خدا.پھر وضاحت کی.خدا کی طرف 2 راستے جاتے ہیں ایک شہر کے اندر سے اُس پر قوانین، چوک، اشارے ، سپیڈ بریکر وغیرہ یہ ہے شریعت کا راستہ دوسرا بائی پاس شہر میں داخل ہوئے بغیر منزل کی طرف سفر یہ ہے عشق کا جس پر کوئی سگنل نہیں اس پر شہر کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا.“ (سالنامہ گوہر 1996 ، 1997 صفحہ 7 بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 64)

Page 226

226 نماز روزہ میں روحانیت نہیں.روحانیت کا تعلق دل کی ٹک ٹک سے ہے.( حق کی آواز صفحہ 3 بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 57 ) نماز گناہگاروں کے لئے ہے.وہ 10 پارے کہتے ہیں جب نماز کا وقت آئے تو اُسی کو دیکھ لے جس کی نماز ہے.(بحوالہ آڈیو کیسٹ خصوصی خطاب نشتر پارک کراچی بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 64) 10 پارے کہتے ہیں تو رات دن کھا تیرا روزہ نہیں ٹوٹے گا.( بحوالہ آڈیو کیسٹ خصوصی خطاب نشتر پارک کراچی بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 62،61 ) تو کعبہ کی طرف نہ جا کعبہ تیری طرف آئے گا.10 پارے کہتے ہیں کعبے کو ابراھیم نے گارے مٹی سے بنایا اور تجھے میں نے اپنے نور سے تو اُس کعبہ کی طرف کیوں جاتا ہے؟ ( بحوالہ آڈیو کیسٹ خصوصی خطاب نشتر پارک کراچی بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 64) حضرت آدم نے شیطان کا بیٹا خناس قتل کر کے کھالیا لمبا واقعہ ہے جس کا خلاصہ ہے کہ آدم نفس کی شرارت سے زمین پر پھینکے گئے.اور تو بہ کرنے لگے.ایک دن گھر پر نہ تھے شیطان آیا اور اپنے چھوٹے بیٹے خناس کو اماں حوا کے پاس چھوڑ گیا.رات کو آدم واپس آئے ناراض ہوئے یہ دشمن کا بچہ کیوں گھر رکھا؟ اور اُس کو مار کر دفنا دیا.اگلے دن شیطان آیا اور آواز دی یا خناس وہ حاضر حاضر کہتا زمین سے باہر نکل آیا شیطان اُس کو پھر آدم کے گھر چھوڑ گیا.شام کو آدم نے اسے واپس دیکھا تو پھر ناراض.اب کی بار قتل کر کے اُس کا گوشت 4 پہاڑوں پر پھینک دیا.اگلے دن شیطان آیا اور آواز دی خناس پھر لبیک کہتا حاضر ہو گیا.شیطان پھر وہیں پر چھوڑ گیا.شام کو آدم پھر ناراض ہوئے.غصہ میں آکر اس کو قتل کر کے کھا لیا.اگلے دن پھر شیطان آیا اور آواز دی.شیطان نے آدم کے اندر سے کہا لبیک.اس پر شیطان خوش ہو گیا اور کہا یہی تو میں چاہتا تھا اب یہیں رہ.مینارہ نور صفحہ 11، 12 طبع اول بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 64) حضرت آدم نے آپ مالا یا ایہ ان سے حسد کیا جس پر آپ کو دوبارہ سزا ہوئی.گوہر شاہی کا بادی پیشاپ میں روشناس صفحه 9 مینارہ نور صفحہ 11 بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 64) ”ایک دن پتھریلی جگہ پیشاپ کر رہا تھا پیشاپ کا پانی پتھروں پر جمع ہو گیا اور ایسا ہی سایہ مجھے پیشاپ کے پانی میں ہنستا ہوا نظر آیا جس سے مجھے ہدایت ملی تھی“.(روحانی سفر صفحہ 2 بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحه (70)

Page 227

227 شیطان اور خدا کی ملی بھگت ” فرمایا ایک دفعہ شیطان سے ہماری گفتگو ہوئی.اُس نے کہا میں جو بھی کرتا ہوں یہ سب میری اور اللہ کی ملی بھگت ہے.سب اُسی کی مرضی سے کرتا ہوں پھر بتا یا در اصل خدا کی بے پناہ رحمت کی وجہ سے فرشتے اور حور میں خدا سے بے خوف ہو گئے تھے پھر اللہ نے مجھ سے کہا معاملہ خراب ہو گیا ہے اب درست کرنا چاہئے.اس کے بعد میں نے آدم کو سجدے سے انکار کیا.اس طرح مجھے لعین قرار دیا گیا.فرشتوں اور دوسری مخلوقات نے جب دیکھا کہ خدا کے اس قدر نزدیک رہنے اور عبادت کرنے والا خدا کے غضب میں آگیا تو اُن میں بھی خوف خدا پیدا ہو گیا...اس کی یہ دلیلیں سن کر ہم نے درود کی محفل میں اعوذ باللہ پڑھنا چھوڑ دیا ہے.جب یہ سب اُس کی مرضی سے ہوا ہے تو پھر اس کے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ ( یادگارلمحات صفحہ 4 بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 72،71) اللہ اللہ کرنے کے لئے ڈانس کرنا اور چرس پلا نا جائز ہے.یادگارلمحات صفحہ 19 بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 74) چاند میں میری شبیہ ہے جو اس کا انکار کرتا ہے وہ اللہ کی بہت بڑی نشانی کو جھٹلاتا ہے.( یادگار لمحات 18 مئی 1997 ص 10 ، 11 بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 74 ) امریکہ کے ہوٹل میں حضرت عیسی مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور بتایا کہ آجکل وہ امریکہ میں رہ رہے ہیں.اشتہار شائع کردہ سر فروش پبلی کیشنز بحوالہ گوہر شاہی مؤلفہ سعید احمد جلالپوری صفحہ 94) ضمیر کی بغاوت جناب فیض احمد فیض فرماتے ہیں: ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پذیرائی جس بار خزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی آشوب نظر سے کی ہم نے چمن آرائی جو شے بھی نظر آئی ، گل رنگ نظر آئی دوستو یہ بیبیوں فرقے اور ان کے سینکڑوں متضاد عقیدے اور فتاوی اگر بیک جنبش مشرف بہ اسلام اور بیک جنبش کفر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو بتائیے پھر تعصب نفاق اور جھوٹ کس بلا کا نام ہے؟ اگر یہی عقائدالوہابیت، حنفیت اور مرزائیت، الوہابیت اور مرزائیت، زلزله، زیروز بر تبلیغی جماعت جماعت اسلامی ، آئینه، آئینه مودودیت ،فتنہ طاہری، خطرے کی گھنٹی ، فتنہ پرویزیت فتنہ گوہر شاہی، فتنه رافضیت،

Page 228

228 بریلوی کی خانہ تلاشی جیسی کتب کا مصنف تحریر کرے اور اپنے فرقے کا دفاع کرے تو گستاخ رسول، صیہونی طاقتوں کے ایجنٹ اور دائرہ اسلام سے خارج سے کم وزنی لفظوں کا انتخاب شاید ہی ممکن ہے مگر جب بات احمدی اور غیر احمدی دشمنی کی ہو تو اکٹھے حملہ کرنے کی خاطر درج ذیل سمجھوتے کے الفاظ نظر آتے ہیں: ختم نبوت ( کی پاکستانی تعریف.ناقل ) امت مسلمہ کے لیے ایک بڑی رحمت ہے جس کی بدولت ہی اس امت کا ایک دائمی اور عالمگیر برادری بنا ممکن ہوا ہے اس چیز نے مسلمانوں (کے تمام فرقوں) کو ایسے ہر بنیادی اختلاف سے محفوظ کر دیا ہے جو ان کے اندر مستقل تفریق کا موجب بن سکتا ہے“.کاجل کی کوٹھڑی میں داخل ہو کر دودھ کی طرح سفید بے داغ کپڑے لیکر باہر آنے کا چیلنج کرنے والے دوستوں سے صرف اتنا عرض کروں گا کہ اگر تنگی وقت کا آزار نہ ہو تو ایک لمحے کے لیے رک کر صرف اس فقرے کو غور سے دیکھ لیجئے بہت سے حقائق یکسر نقاب الٹ کر عین دو پہر کے اجالے میں آجائیں گے.اور یہیں سے ضمیر اس خوفناک سمجھوتے سے بغاوت کرتے ہوئے سوال کرتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے؟ اور کیسے ممکن ہے کہ : 1.تمام فرقے درست اور عین اسلامی بھی ہیں اور ان کی موجودگی میں اسلام ہر بنیادی اختلاف سے محفوظ بھی ہے.2.ان تمام فرقوں کے تمام عقائد درست اور عین اسلام بھی.3.ان کے ایک دوسرے کے خلاف تمام فتاوی کفر بھی درست اور عین اسلام.4.ایک فرقے کے دوسرے کے خلاف گستاخ رسول اور صیہونی طاقتوں کے ایجنٹ ہونے کے اعلانات بھی درست اور عین اسلام.5 سینکڑوں نہیں ہزاروں.ایک دوسرے کے خلاف لکھی جانے والی کتب بھی درست اور عین اسلام.6.کافر مرتد قرار دے کر دوسرے فرقے کے لوگوں کو قتل کرانا بھی عین اسلام.7 مقتول کا فر“ بھی جنتی اور عین مسلمان.مگر اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی اور اس کا آئین ببانگ دہل اعلان کر رہا ہے کہ ہاں ایسا ممکن ہے اور نہ صرف ممکن ہے بلکہ یہی تو طرہ امتیاز ہے جو اسے تحفظ ختم نبوت اور آئین کی تیسری ترمیم کی برکت.حاصل ہوا ہے.کیا کہوں صرف فیض کی زبان میں ہی دلی کرب کا اظہار کر سکتا ہوں : جو تیری مان لیں ناصحا تو رہے گا دامن دل میں کیا نہ کسی عدد کی عداوتیں نہ کسی صنم کی مزوتیں یہی دلی کرب میری 35 ویں مشکل بن گیا ہے تفصیل یوں ہے یعنی آج سے اگر

Page 229

229 اگر یہ عقیدہ ہے تو بھی درست اور اگر یہ ہے تو بھی 1.اگر ایک شیعہ بھائی کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن مجید محرف و مبدل ہو چکا ہے تو بھی غم نہیں وہ قومی اسمبلی کی رو سے مسلمان ہے.جو آدمی یہ دعویٰ کرے کہ اس کے پاس پورا قرآن ہے جس طرح کہ نازل ہوا تھا وہ کذاب ہے.“ (اصول کافی صفحہ 139 بحوالہ خلافت راشدہ دسمبر 1997 ، صفحہ 9 مضمون نگار حفیظ الرحمن طاہر) اور اگر ایک دیوبندی بھائی اسے صریح کفر خیال کرے تو بھی غم نہیں وہ بھی قومی اسمبلی کی رو سے مسلمان ہے اور درست ہے.شیعت اسلام کے اندر سے تخریب کاری اور مسلمانوں میں اختلاف واشتقاق پیدا کرنے کے لیے یہودیت و مجوسیت کی مشترکہ کاوش ہے.شیعہ صرف توہین و تکفیر اصحاب رسول اللہ لیا ایلم کی وجہ سے ہی کا فرنہیں بلکہ شیعت کے تمام اصول و فروعات اور تمام عقائد و مسائل اسلام سے متصادم و متضاد ہیں“.(ماہنامہ خلافت راشدہ دسمبر 1997 صفحہ 9 2.اگر ایک بریلوی بھائی عید میلاد النبی منانا اپنا ایمان سمجھتا ہے تو وہ بھی درست ہے اور عین اسلام ہے.وقت کا سب سے بڑا ماتم یہ ہے کہ پریس، لٹریچر اور نو ساختہ تحریکوں کے اس موسم برسات سے قبل جس محفل میلاد نے صدیوں تک اسلام کی تبلیغی ضرورتوں کو پورا کیا ہے اور امت کو اسلام اور پیغمبر اسلام کے ساتھ وابستہ رکھنے میں ایک والہانہ کردار کی تاریخ مرتب کی ہے اسی محفل میلاد کو تبلیغی جماعت کے علماء صرف اس لیے حرام کہتے ہیں کہ اس کا نام تبلیغی جماعت نہیں محفل میلاد ہے یا اس لیے کہ اس کی ایجاد چودھویں صدی کی بجائے پانچویں صدی میں ہوئی ہے.“ تبلیغی جماعت از مولانا ارشد القادری صفحہ 42 مکتبہ نبویہ لاہور ) 3.اگر تبلیغی جماعت کے اکابرین اسے خلاف شرع اور منکرات سے خیال کرتے ہیں تو وہ بھی درست اور عین اسلامی حکم تبلیغی جماعت کے اکابرین میں سے مولانا اشرف علی تھانوی سے جب اس کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ”ہماری یہ خوشی جائز ہوتی اگر دلائل شرعیہ منکرات کو منع نہ کرتے اور ظاہر ہے کہ مباح وغیر مباح کا مجموعہ غیر مباح ہوتا ہے“.( کمالات اشرفیہ صفحہ 444 ) اسی طرح مولا نارشیداحمد گنگوہی کا یہ فتویٰ کسی نے سوال کیا:

Page 230

230 انعقاد مجلس میلا دو بدون قیام بروایت صحیح درست ہے یا نہیں جواب مرحمت فرمایا: انعقاد مجلس مولود ہر حال نا جائز ہے.(فتاوی رشیدیہ جلد 2 صفحہ 83 ) 4.اگر اہل حدیث اسے بدعت اور خلاف شرع فرما کر جہنم کی وعید سناتے ہیں تو وہ بھی درست اور عین اسلامی حکم فرماتے ہیں.مجلہ الدعوۃ جولائی 1997ء میں عید میلاد کی شرعی حیثیت کے نام سے ایک لمبا مضمون درج ہے کچھ حصہ ملاحظہ ہو: افسوس آج ہم غیر شرعی اور نمائشی طریقوں میں گھر گئے آج برصغیر میں مسلمانوں کا ایک فرقہ نبی سے اپنی محبت کا ثبوت دینے کے لیے عید میلا دمناتا ہے حالانکہ اس کا شریعت سے اور صحابہ کرام سے کوئی ثبوت نہیں.پھر یہ میلاد منانے کے لیے کیسے کیسے گھٹیا کام کئے جاتے ہیں.“ مزید ارشاد فرمایا: (مجلہ الدعوۃ جولائی 1997 صفحہ (12) عید میلاد کا بانی ابوسفید مظفرالدین کو کبوری تھا جس نے 604 ھ میں اس بدعت کو ایجاد کیا.“ بلکہ مزید ارشاد ہے: مجلہ الدعوۃ جولائی 1997 ، صفحہ 13 ) یہ جھنڈیاں، منبر ومحراب کی سجاوٹ کیا معنی؟ قوالیاں ڈھولک کی تھاپ پر شرکیہ نظمیں ، تالیاں باجے اللہ کے لیے اپنا محاسبہ کیجئے کہیں قیامت کے روز اللہ کی پکڑ میں نہ آجائیں.نبی کی گستاخی کر کے کہیں ان بطش مریل لشدید کی وعید کے مستحق نہ بن جائیں.(مجلہ الدعوۃ جولائی 1997 صفحہ 16) 5- اگر ایک شیعہ بھائی خلفاء راشدین کو شراب خور اور قرآن کے محریف مانتا ہے تو بھی درست اور عین اسلامی عقیدہ رکھتا ہے.مقبول حسیں دہلوی جس کی تائید اہل تشیع کے وقت کے 12 مجتہدوں نے کی ہے وہ قرآن مجید کے بارھویں پارہ کے سولہویں رکوع میں لکھتا ہے : معلوم ہوتا ہے کہ جب قرآن میں ظاہر اعراب لگائے گئے ہیں تو شراب خور خلفاء کی خاطر بدل کر معنی کو زیروز بر کیا گیا ہم اپنے امام کے حکم سے مجبور ہیں کہ جو تغیر یہ لوگ کردیں تم اُس کو اسی کے حال پر رہنے دو اور تغیر کرنے والے کا عذاب کم نہ کر وہاں جہاں تک ممکن ہولوگوں کو اصل حال سے مطلع کر و قرآن مجید کو اُس کی اصلی حالت پر لانا

Page 231

231 جناب (امام مہدی علیہ السلام کا حق ہے اور اسی کے وقت میں وہ حسب تنزیل من اللہ تعالیٰ پڑھا جائیگا.(دیوبندی رسالہ ماہنامہ خلافت راشدہ دسمبر 1997 ، صفحہ 4 عکس ترجمه مقبول حسین دہلوی) 6.اگر ایک دیوبندی عالم دین مندرجہ بالا عقیدہ کو کفر اور ایسا عقیدہ رکھنے والے کو تعین مانتا ہے تو وہ بھی درست اور عین اسلامی عقیدہ رکھتا ہے.سپاہ صحابہ کے بانی مولانا حق نواز جھنگوی مندرجہ بالا عقیدے پر فتویٰ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ایسے کافر کے کفر پر پردہ ڈالنا اپنی عاقبت برباد کرنے کے مترادف ہے وہ لعین جو قرآن مجید کو شراب خور صحابہ کی خاطر تحریف شدہ کتاب قرار دے رہا ہوا سے کا فرنہ کہوں تو کیا کہوں.ہفت روزہ مہارت لاہور صفحہ 12 ، 28 جولائی تا 5 اگست 1997 ء ) 7.اگر ایک شیعہ را ہنما حضرت عمر کو کافر اور زندیق خیال کرتا ہے تو وہ بھی درست اور عین اسلامی عقیدہ رکھتا ہے.انقلاب ایران کے بانی اور شیعوں کے آیت اللہ اور امام یعنی امام خمینی اپنی کتاب تذکرہ اسرار میں فرماتے ہیں: عمر بن خطاب اصل کا فر اور زندیق تھا.“ ( ہفت روزہ مہارت لاہور 28 جولائی تا 5 اگست 1997 ، صفحہ 13 | 8.اگر اس عقیدے کی بناء پر ایک دیو بندی عالم دین امام خمینی کو کافر مرتد دجال لعین قرار دیتا ہے تو بھی درست ہے اور عین اسلامی عقیدہ رکھتا ہے.مولانا حق نواز جھنگوی اس نظریے پر فتوی دیتے ہوئے فرماتے ہیں: جس خمینی نے فاروق اعظم کو اصلی کافر اور زندیق لکھا ہے اور اگر پاکستان کا حکمران طبقہ مجھ سے اس لیے ناراض ہے کہ میں مینی کو کافر کہتا ہوں تو جس خمینی نے مراد مصطفی امام مجتبی فاتح قیصر و کسری حضرت عمر بن خطاب کو جس نے آنحضور سالی یا پی پی کو پہلی نماز بیت اللہ میں پڑھنے کی ترغیب دی اور پڑھائی ہواسے کا فر کہے تو میں خمینی کو دن میں لاکھ مرتبہ کافر ہوں گا.وہ مرتد ہے.کافر ہے.دجال ہے لعین ہے.ابلیس ہے.“ (ہفت روزہ مہارت 28 جولائی تا 5 اگست 1997 ، صفحہ 13 9.اگر بریلوی بھائی غمی میں تیجا.دسواں ، چالیسواں ، شب برات کا حلوہ، فاتحہ ولیوں کی نیاز.بزرگوں کی منت.ختم اور مردے کو مختلف قسم کے کھانے بھیجنا عین ایمان اور دینی فریضہ سمجھتے ہوئے ادا کرتے ہیں تو وہ بھی درست اور عین اسلامی فعل ہے.امام احمد رضاخاں بریلوی کا صرف ایک حکم درج کرتا ہوں.آپ نے اپنی وفات سے 2 گھنٹے سترہ منٹ پہلے

Page 232

232 اپنے بارے میں اپنے اعلاہ کو جو وصیتیں کیں ان میں بارھویں نمبر پر ان چیزوں کے بھیجنے کا حکم فرمایا: اعزہ سے اگر بطیب خاطر ممکن ہو تو فاتحہ میں ہفتہ میں دو تین باران اشیاء سے بھی کچھ بھیج دیا کریں.دودھ کا برف خانہ ساز اگر چہ بھینس کے دودھ کا ہو، مرغ کی بریانی، مرغ پلاؤ خواہ بکری کا ، شامی کباب، پراٹھے اور بالائی، غیر نی ، اُرد کی پھریری دال مع ادرک ولوازم گوشت بھری کچوریاں ،سیب کا پانی ، انار کا پانی سوڈے کی بوتل، دودھ کا برف، اگر روزانہ ایک پنیر ہو سکے یوں کرو جیسے مناسب جانو ، مگر بطیب خاطر میرے لکھنے پر مجبور نہ ہو.“ ( وصایا شریف صفحہ 9، 10 بحوالہ حنفیت اور مرزائیت صفحہ 255 ) وزن ہو؟ اسی طرح ختم کے بارے میں ارشاد ہے: مسئلہ نمبر 2 میت سوئم کا کس قدروزن ہونا چاہیے.اگر چھوہاروں پر فاتحہ دلا دی جائے.تو ان کا کس قدر 66 الجواب : کوئی وزن شرعاً مقرر نہیں اتنے ہوں جس میں ستر ہزار عدد پورا ہو جائے.“ عرفان شریعت حصہ اول صفحه 6 از مولا احمد رضا خان بحوالہ حنفیت اور مرزائیت صفحہ 255 10.اگر دوسرا فرقہ اسے بدعت اور ہندوؤں کی پیروی اور دین سے دور کا بھی واسطہ نہ سمجھ کر اس سے منع کرتا ہے تو وہ بھی درست اور عین اسلامی حکم دیتا ہے.مولانا اشرف علی تھانوی جو ایک فرقے کے ممتاز عالم دین ہیں ان سب باتوں سے جو بریلوی مکتبہ فکر کا طرہ امتیاز ہے سختی سے منع فرماتے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں: عقیقہ و ختنہ و بسم اللہ کے مکتب میں جمع ہونا نہ سب ترک کر دو، نہ اپنے گھر کرو، نہ دوسرے کے یہاں شریک ہو غمی میں تیجا.دسواں، چالیسواں وغیرہ شب برات کا حلوہ یا محرم کا تہوار خود کرو نہ دوسرے کے یہاں جا کر ان کاموں میں شریک ہو.“ پھر عورتوں کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ( قصد السبیل صفحہ 25) فاتحہ ونیاز ولیوں کی مت کرو، بزرگوں کی منت مت مانو.شب برات کا حلوہ محرم، عرضہ تبارک کی روٹی کچھ مت کرو.“ اس کے بعد مزید فرماتے ہیں: ( قصد السبیل صفحہ 26 ) کہیں بیاہ.شادی.مونڈن.چلہ چھٹی.عقیقہ منگنی.چوتھی.وغیرہ میں مت جایا کرو.نہ اپنے یہاں کسی

Page 233

233 کو بلاؤ بہشتی زیور ایک کتاب ہے اس کو یا تو پڑھ لو یا سن لیا کرو اور اس پر چلا کرو.“ ( قصد السبیل صفحہ 26 بحوالہ تبلیغی جماعت صفحہ 62، 63 ) 11.اگر ” دعوت تحریک اسلامی اپنے مردے پر درود تاج نقش نعل،عہد نامہ، اعلی حضرت، قیام الدین انگشت سے لکھنا اپنے مردے کی نجات کے لیے ضرورت دین سمجھتی ہے تو بھی درست اور عین اسلامی اور شرعی فعل ہے.تحریک اسلامی کے بانی پیر الیاس قادری نے اپنی زندگی میں ہی اپنا وصیت نامہ ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر پورے ملک کے چاروں صوبوں میں تقسیم کر دیا ہے جس میں مریدوں کے بقول سنتیں ہی سنتیں ہیں چنانچہ لکھا ہے: ا ممکن ہو تو قبر کے اندر تختے پر یاسین شریف.سورہ ملک اور درودتاج کا پڑھ کر دم کر دیا جائے.ii غسل باریش و با عمامه پابند سنت اسلامی بھائی عین سنت کے مطابق دیں.iii.بعد غسل کفن میں میرا چہرہ چھپانے سے قبل پہلے پیشانی پر انگشت شہادت سے بسم الله الرحم الرحيـم لکھیں.۱۷.اسی طرح سینے پر لا اله یا اللہ محمد رسول اللہ ھیں.۷.دل پر یا رسول اللہ ھیں.Vi.ناف اور سینے کے درمیان یا غوث اعظم دستگیر رضی اللہ عنہ یا امام ابوحنیفہ رضی اللہ.یا امام احمد رضا اللہ عنہ یا شیخ ضیاء الدین رضی اللہ عنہ لکھیں.vii.جنازے کے جلوس میں سب اسلامی بھائی مل کر امام اہل سنت کا قصیدہ درود” کعبہ کے بدر الرحما تم پر کروڑوں دورد پڑھیں.vili.چہرہ کی طرف دیوار قبر میں طاق بنا کر اس میں کسی پابند سنت اسلامی بھائی کے ہاتھ کا لکھا ہوا عہد نامہ، نقش نعل شریف، سبز گنبد کا نقشہ، شجرہ شریف، ہرکارہ وغیرہ تبرکات رکھیں.ix_ قبر میں اذان دیں..ہو سکے تو میرے اہل مجلس میری تدفین کے بعد بارہ روز تک.یہ نہ ہو سکے تو کم از کم بارہ گھنٹے ہی سہی میری قبر پر حلقہ کئے رہیں اور درود اور تلاوت ونعت سے میرا دل بہلاتے رہیں انشاء اللہ عز وجل نئی جگہ میں دل لگ ہی جائے گا.( وصیت نامه صفحه 4 ، 5 ، 6 بحوالہ مجلہ الدعوۃ جون 1996 صفحہ 36 میٹھی میٹھی بدعتیں) یا در ہے دعوت اسلامی کے بانی پیر الیاس قادری صاحب کے بارے میں ان کے متبعین کا عقیدہ ہے کہ: نبی اکرم صلی اینم نے فرمایا ہے کہ الیاس قادری کو میرا سلام کہنا اور خوشخبری دینا کہ تم نے بہت سی سنتیں

Page 234

234 زندہ کی ہیں پس تم جنت میں میرے ساتھ رہو گے.“ اسی طرح یہ بھی عقیدہ ہے کہ: (فیضان سنت صفحه 39) یوں معلوم ہوتا ہے کہ فیضان سنت کے مصنف الیاس قادری کی شفاعت میں بروز حشر یہ سب صحابہ کرام.اہل بیت.امہات المومنین حضرات دلچسپی لیں گے اور ہر ایک انہیں اپنے ساتھ جنت میں لے جانے کی کوشش کرے گا.“ (فیضان سنت صفحه 17 ) 12.اگر اہل حدیث فرقے کا عقیدہ ہے کہ یہ فرقہ بدعات پیدا کرنے کی وجہ سے جہنمی اور نبی پاک پر جھوٹ باندھ باندھ کر گمراہی اور رسم رواج کو پھیلا رہا ہے تو بھی درست اور عین اسلامی فیصلہ ہے.اہل حدیث کا ترجمان مجلہ الدعوۃ نے دو میٹھی میٹھی سنتیں یا میٹھی میٹھی بدعتیں“ کے نام اس فرقے کے بارے میں اپنے عقائد کا یوں اظہار کیا ہے.آپ سارا قرآن پڑھ جائیں، پوری صحاح ستہ پڑھ جائیں پوری کوشش کے باوجود آپ کو کتب احادیث میں کہیں بھی درودتاج نقش نعل.عہد نامہ اعلیٰ حضرت.قیام الدین انگشت سے لکھنا وغیرہ کی سنتیں نہ ملیں گی کیونکہ نہ تو نبی اکرم نے صحابہ کرام نے کبھی کیا تھا نہ ان کے دور میں ان کا وجود تھا.پھر یہ منتیں کیسے بن سکتی ہیں؟ یہ تو بدعتیں ہیں جن کو سنتوں کے نام پر پھیلایا جارہا ہے.جس کے متعلق محمد رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جاتی ہے ایسے ہی کئی اسلام سے متصادم عقا ئد رسوم رواج اور بدعات اپنا کر اور ایک بالکل نئے مذہب کی پرستش کر کے یہ جماعت ایک گمراہ فرقے کا روپ دھار چکی ہے.نبی مکرم اسلام نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے میری طرف ایسی بات منسوب کی اور وہ بات میں نے نہ کہی ہو تو وہ شخص جہنمی ہو گا.فرما یا من کذب علی متعمد أفليتبوأ مقعده من الناس اور حقیقت یہی ہے کہ اس کتاب میں نبی اکرم پر بہت بہتان باندھے گئے ہیں ایسی ایسی باتیں بھی نبی مکرم کی سنتیں ظاہر کی گئی ہیں کہ جن کا ذکر کرتے ہوئے ان پڑھ بھی جانتا ہے کہ وہ سنت وغیرہ کچھ نہیں بلکہ رسم ورواج اور بدعات ہیں.“ مجلہ الدعوۃ ماہ جون 1996 ، صفحہ 26 بریلوی فرقه 13.اگر اولیاء کے مزارات پر حاضر ہو کر دعا کرنا.پھول چڑھانا اور ان کے عرس منانا.اسی طرح صحابہ کرام اور اہل بیت کی قبروں کے سامنے دعا مانگنا.غارحرا اور غار ثور سے تبرک لینا عین ایمان اور خدمت اسلام سمجھتا

Page 235

235 ہے.اسی طرح انبیاء اور صلحاء کو سفارشی مانتا اور خاص طور پر آنحضور سی ایم کے وسیلہ سے دعا مانگنا عین ایمان سمجھتا ہے تو وہ بھی درست اور عین اسلامی عقائد رکھتا ہے.(تفصیل تمام بریلوی لٹریچر میں پھیلی ہوئی ہے ) 14.اگر فرقہ اہل حدیث اسے شرک بلکہ دور جہالت کے شرک سے بڑھ کر مانتا ہے تو وہ بھی درست اور عین اسلامی عقیدہ رکھتے ہیں.علامہ احسان الہی ظہیر بریلویوں کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں : سال کے مخصوص دنوں میں ان لوگوں کی قبروں پر حاضر ہونا جنہیں وہ اولیاء وصالحین گمان کرتے ہیں.عرسوں کا قائم کرنا.عید میلا دوغیرہ منکرات جو ہندوؤں ، مجوسیوں اور بت پرستوں سے مسلمانوں میں در آئے ہیں.15.ان کے عقائد کا اسلام سے دور ونزدیک کا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بعینہ وہی عقائد ہیں جو جزیرہ عرب کے مشرک اور بت پرست رسول اللہ صلی شیو ایم کی بعثت سے پہلے رکھتے تھے.بلکہ دور جاہلیت کے لوگ بھی شرک میں اس قدر غرق نہ تھے جس قدر یہ ہیں.16.بریلویوں کے امتیازی عقائد وہ ہیں جو دین کے نام پر بت پرستوں عیسائیوں ، یہودیوں اور مشرکوں سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہوئے ہیں.17.کفار مکہ جزیرہ عرب کے مشرکین اور دور جاہلیت کے بت پرست بھی ان سے زیادہ فاسد اور ردی عقیدہ والے نہیں تھے.(البريلوۃ صفحہ 55،9-65 کوالہ البریلویہ کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ مصنفہ عبدالحکیم شرف قادری صفحه 44،43) مقدمہ محمد بن عبدالوہاب کے مصنف محمد صادق خلیل صاحب فرماتے ہیں: پاکستان میں قبروں پر پھول ونذرنیاز کے سلسلے کی وجہ سے لوگوں کی عقیدت اللہ تعالیٰ سے ختم کی جارہی ہے.ایسے ملک کو اسلامی کہنا کسی طرح زیب نہیں دیتا.اسی طرح ایک اور اہل حدیث عالم دین محمد سلطان المعصومی ملکی فرماتے ہیں ( ص 16) جو شخص حضور کی قبر کی طرف منہ کرتا ہے اس نے آپ کی قبر کو قبلہ و کعبہ بنالیا.یہی بعینہ بتوں کی عبادت ہے.المشاہدات المعصومیة.ادارات البحوث العلمية السعودية - صفحہ 7 اسی طرح ناصر الدین البانی فرماتے ہیں: 66 انبیاء اور صلحاء کو سفارشی مانا بالکل مشرکوں کا عقیدہ ہے.قبروں پر مسجدیں

Page 236

236 اگر بریلوی فرقہ کا یہ عقیدہ ہے کہ: اگر غیر مقلد دین کے نزدیک کتا، خنزیر ، سانپ، گوہ، کچھوا، جنگلی گدھا منی ، عورت کی شرمگاہ کی رطوبت ، زانیہ کا مال، بنک کا سود، سود خور کی اقتداء میں نماز ،شراب کا سرکہ، خنزیر اور کتے کا جھوٹھا، کتے کا گوشت ، ہڈیاں ، خون ، بال اور پسینہ پاک ہے تو درست اور عین اسلامی فقہ ہے.مولانا ابوالحامد محمد ضیاء اللہ قادری صاحب فرماتے ہیں: حسین مولا کریم جل جلالہ نے دراصل ان کو سزا دی ہے کہ جن کے نزدیک حلال ،طیب اور طاہر نذرانوں اور فاتحہ کی چیزیں حرام بلکہ خنزیر سے بھی بدترین ان کے نزدیک جانوروں کا پیشاب، گوبر، خنزیر کتا ہنی وغیرہ نجس چیزیں حلال طیب اور طاہر ہیں بلکہ ان کی مرغوب غذا ئیں ہیں.جن وہابی اکابر کے نزدیک سیدنا امام عالی مقام امام ح رضی اللہ عنہ کے فاتحہ کی سبیل کا دودھ حرام ہے ان کے نزدیک ان کی بیوی کا غیر محرم کو اپنا محرم بنانے کے لیے ایک داڑھی والے نوجوان کو اپنا دودھ پلانا جائز ہے.جن کے نزدیک گیارہویں کے چاول حرام ہیں ان وہابی اکابر کے نزدیک منی اور بیوی کی شرمگاہ کی رطوبت پاک ہے.جن کے نزدیک نذرانے حرام ہیں ان کے نزدیک بنک کا سود جائز اور حلال ہے یہ سز انہیں تو اور کیا ہے.خدا جب دین لیتا ہے حماقت آ ہی جاتی ہے جس مذہب میں یہ سب چیزیں حلال اور ان کی مرغوب غذا ئیں ہوں ان میں ولایت کہاں سے آئے گی.ان کی عبادت زہد اور تقویٰ کا کیا عالم ہوگا.نیز وہ لوگ قرآن وحدیث کے رموز اور اسرار کیسے جان سکتے ہیں.“ ( الوہابیت صفحہ 23,22 شائع کردہ قادری کتب خانہ تحصیل بازار سیالکوٹ) فاتحہ نذر نیاز ، گیارہویں کو حرام قرار دینے والے غیر مقلدین سے خدا نے عقل چھین کر سزا دی اور ان سے منی اور دوسرے گند حلال قرار دیئے تو یہ بھی عین اسلامی عقیدہ ہے.(نیل الاوطار صفحہ 27 مکمل حوالہ جات پیچھے درج ہیں ) 18.اگر ایک مسلمان فرقے ( ملامتی صوفی فرقہ ) کے نزدیک ڈانس، مجرا اور کا کیاں تاڑ نا عین مذہب اسلام ہے تو بھی درست اور اسلامی حکم کی تعمیل ہے : کا کیاں تاڑنا میرا مذہب ہے.میں پیر آف کنجر شریف ہوں.اسلام میں تضاد آ گیا ہے بڑے ڈانس کریں تو ثقافت.ہیرامنڈی میں کوئی ناچے تو کنجری.یہ الفاظ پیر آف کا کی تاڑ نے ایک مقامی ہوٹل میں ہونے والے ایک مجرے کے دوران اپنے خطاب میں کہی.آپ نے کہا یہ پیر آف کا کی تاڑ کی محفل ہے سب نا چوتا کہ لوگ ملامت کریں“.(روزنامہ خبریں 5 مئی 1997 ء ) |

Page 237

237 نوٹ: یہ مذکورہ پیر صاحب روز نامہ اخبار میں ایک عرصہ تک اپنے انہیں افکار کی تبلیغ بذریعہ کالم کرتے رہے.19.اگر بقول فرقہ توحیدیہ کے بانی جناب ڈاکٹر عثمانی توحید روڈ آف کیماڑی والا یہ تمام فرقے مسلمان توحیدی نہیں بلکہ اتحادی مشرک ٹولہ ہیں ”گزشتہ 18 سال سے تمنا تھی کہ اللہ تعالیٰ وہ دن لائے جب دنیا والوں کے سامنے توحیدی اور اتحادی دین کا فرق واضح کر دوں تو بھی درست اور عین اسلام.( توحید خالص گھر کے چراغ صفحہ 5) اگر بقول بریلوی علمائے کرام ” شیطانی فوج کے افسروں میں سے شیطانی فوج کا ایک کمانڈر ڈاکٹر عثمانی توحید روڈ آف کیماڑی والا بھی ہے.جواللہ کے محبوب بندوں پر تبرا کرتے نہ جھجھکتا ہے نہ شرماتا ہے“.مولوی ابوالرضا محمد عبد الوہاب خان قادری توحیدی فرقہ کے خد و خالص 17 ناشر اختر الامان پبلشرز ) ڈاکٹر عثمانی کے دین کا اصل الاصول اور طرہ امتیاز اولیائے کرام اور فقہائے عظام و علمائے کرام کو مشرک اور توحید کا انکاری بتانا ہے.اور مقبولان بارگاہ عزت کو گالی دینا اور ان کی شان میں گستاخی کرنا اُن کا ایمان ہے.( مولوی ابوالرضا محمد عبد الوہاب خان قادری توحیدی فرقہ کے خد و خالص 17 ناشر اختر الامان پبلشرز ) " ڈاکٹر عثمانی مجددالف ثانی شیخ اکبر ابن عربی، شیخ علاؤالدولہ سمنانی، ابو اسمعیل ہروی ، داتا گنج بخش علی ہجویری اور حضور سیدنا غوث الاعظم عبد القادر جیلانی و غیر ہم سب اولیائے کرام کو مشرک اور مشرک گر کہ رہا ہے اور تیرہ سو سال کے تمام مسلمان جن میں علمائے کرام، محدثین عظام، مفسرین کرام وغیرہ سب کو بیک جنبش قلم مشرک قرار دے رہا ہے.“ تو یہ بھی درست اور عین اسلام (مولوی ابوالرضا محمد عبد الوہاب خان قادری توحیدی فرقہ کے خدو خال ص 17 ناشر اختر الامان پبلشرز ) 20.اگر بانی فرقہ اہل قرآن غلام احمد پرویز اور ادارہ طلوع اسلام نماز ، روزہ ، حج وزکوۃ کا مذاق اُڑائیں.حدیث کو مجوسی سازش کہیں.حج کی قربانیوں کو جاہلیت کی رسم قرار دیں.پانچ نمازوں کا انکار کریں.حج کو عبادت کی بجائے ملی کا نفرنس بتا ئیں تو بھی درست اور عین اسلام ( تفصیلی حوالہ جات پیچھے گزرچکے ہیں ) اگر دیوبندی، اہلحدیث اور جماعت اسلامی کے علماء کہتے ہیں کہ طلوع اسلام، اسلام کے خلاف مکروہ یہودی سازش، اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ، بے حیاء ، بے تہذیب، بے لگام، الحاد پرست طلوع اسلام کے اجتماعات میں شرکت کرنا غیرت ایمانی کے خلاف محبت رسول کے خلاف ، غلام احمد پرویز ملعون ہے ، شریعت محمدیہ کی رو سے کافر، مرتد دائرہ اسلام سے خارج ہے اس کے ساتھ کسی قسم کا بھی اسلامی تعلق شرعاً نا جائز منکر حدیث منکرِ رسالت اس کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات رکھنا حرام، تو یہ بھی درست اور عین اسلام.

Page 238

238 ( تحریک رد پرویزیت مصنفہ مولوی احمد علی سراج مطبع میٹرو پرنٹر 55 بی چیمبر لین روڈ لا ہور ) 21 - گرنبی بھی دوبارہ پیدا ہو کر ہمیں تعلیم دیں تو ہم ان کی بھی نہ مانیں گے.ڈاکٹر علامہ اقبال صاحب اپنی قوم کا نوحہ یوں کرتے ہیں: مجھے یقین ہے کہ اگر نبی کریم بھی دوبارہ پیدا ہو کر اس ملک میں اسلام کی تعلیم دیں.تو غالباً اس ملک کے لوگ اپنی موجودہ کیفیات کے ہوتے ہوئے حقائق اسلامیہ کونہ سمجھ سکیں.“ مکاتیب اقبال بنام نیاز الدین صفحہ 72 خط 20 جنوری 1975 ء ) 22 - نہ ہم اسلام مانتے ہیں نہ ہی قرآن جانتے ہیں مگر کیا غم قو می اسمبلی کی رو سے مسلمان تو ہیں ناں.احمدیت کے شدید مخالف عالم دین جناب عطاء اللہ شاہ بخاری کا نوحہ یہ اسلام جو تم نے اختیار کر رکھا ہے کیا یہی اسلام ہے جو نبی نے سکھلایا تھا ؟ کیا ہماری رفتار و گفتار اور کردار میں وہی دین ہے جو خدا نے نازل کیا تھا؟ یہ روزے اور نماز جو ہم میں سے بعض پڑھتے ہیں اس کے پڑھنے میں کتنا وقت صرف کرتے ہیں.جو یہ کھڑا ہے وہ قرآن سنانا نہیں جانتا اور جو سنتے ہیں وہ نہیں جانتے ہیں کہ کیا سن رہے ہیں اور باقی 23 گھنٹے میں ہم کیا کرتے ہیں؟ میں کہتا ہوں کہ گورنری سے لے کر گداگری تک مجھے ایک ہی بات بتلاؤ جو قرآن اور اسلام کے مطابق ہو.ہمارا سارا نظام نو ہے.قرآن کے مقابلے میں ہم نے ابلیس کے دامن میں پناہ لے رکھی ہے قرآن صرف تعویذ کے لیے اور قسم کھانے کے لیے ہے“.( آزاد مورخہ 9 دسمبر 1949 ء ماخوذ از جوابی تعاقب صفحہ 87 23.ہمارے تو سینکڑوں اسلام اور سینکڑوں قرآن ہیں مگر خوشی کی بات یہ کہ قومی اسمبلی کی رو سے مسلمان تو ہیں ناں.جماعت احمدیہ کے ایک اور شدید مخالف ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب علیحدگی میں فرقوں اور ان کے عقائد کا نوحہ یوں فرماتے ہیں: ” ہمارے ہاں ہر فرقے کا اسلام و قرآن الگ ہے ایک اسلام و قرآن تو وہ ہے جو 14 لاکھ حدیثوں کے بوجھ تلے دبا کراہ رہا ہے.دوسرا وہ جو مختلف فقہی مسلکوں کے نرغے میں پھنسا ہوا بچ نکلنے کے لیے فریاد بھی نہیں کر سکتا اور ایک تیسرا اسلام جو حضرات اہل بیت کرام کے لکڑی اور کاغذ کے تعزیوں کے ساتھ بندھا ہوا کوچہ و بازار میں سالانہ گردش کرتا نظر آتا ہے.ایک چوتھا اسلام وہ جو استخواں فروش مجاہدوں اور پیرزادوں کے حلقے میں حق ہو کے نعرے لگانے اور حال و قال کی بزم آرائی کے لیے مجبور ہے.“ دو اسلام صفحہ 27 کتاب منزل..)

Page 239

239 24.اگر ہم 999 فی ہزار بھی مسلمان نہیں تو کیا غم.قومی اسمبلی کی رو سے مسلمان تو ہیں ناں.جماعت احمد ہے کے عظیم مخالف مولانا مودودی صاحب تنہائی میں قوم کا نوحہ کیا فرماتے ہیں: ید انبوہ عظیم جس کو مسلمان کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے 999 فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشنا ہیں نہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے متعلق تبدیل ہوا ہے باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آرہا ہے.ان کی کثرت رائے کے ہاتھ میں باگیں دے کر اگر کوئی شخص یہ امید رکھتا ہے کہ گاڑی اسلام کے راستے پر چلے گی تو اس کی خوش فہمی قابل داد ہے“.( مسلمانوں اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحہ 108 25.اگر ہم آج نہ ہی مسلمان ہیں اور نہ ہی انسان تو کیا غم قومی اسمبلی کی رو سے تو مسلمان ہیں ناں جماعت احمدیہ پر مظالم کی انتہا کرنے والے جنرل ضیاء الحق صاحب 11 سال تک نفاذ اسلام کے نام پر مطلق العنان حکومت کرنے کے بعد بالاخر اوکاڑہ میں قومی سیرت کانفرنس سے خطاب کے دوران یوں گویا ہوئے.فسوس 14 سو سال بعد ہم نہ مسلمان ہیں نہ پاکستانی اور نہ انسان رہے ہیں.مجھے نظر آ رہا ہے کہ پورے کا پورا معاشرہ گڑھے کی طرف جا رہا ہے“ ) (روز نامہ جنگ لاہور 8 فروری 1988 ء ) | 26.ہم سڑی ہوئی قوم زانی شرابی سمگلر اور دو ٹکے کے فتوی فروش ہیں مگر خوشی کی بات یہ کہ قومی اسمبلی کی رو سے ہم مسلمان تو ہیں ناں.جماعت اسلامی کے دوسرے امیر میاں طفیل محمد صاحب 1990ء میں پاکستانی قوم کا تجزیہ یوں بیان کرتے ہیں: قوم میں کس پہ اسلام لایا جائے.کس پر اسلام نافذ کیا جائے.قوم کا اس وقت کیا حال ہے کیا آپ نہیں جانتے.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ قوم تو بالکل سڑ گئی ہے.پیسے بغیر کوئی ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں.کوئی ناچ رہا ہو.کوئی زانی.زنا کر رہا ہو.کسی کو پرواہ نہیں.پیسہ ہوتو وہ لیڈر بن جائے گا.کسی کو امانت اور دیانت کی کوئی پرواہ نہیں نہ ضرورت ، جتنا بڑا کوئی رشوت خور ہو.جتنا بڑا کوئی بددیانت ہو.جتنا بڑا کوئی سمگلر ہو.زانی ہو.بدمعاش ہو.اس کو ووٹ دیں.اب آپ ہی بتائیں کس پر اسلام نافذ کیا جائے.“ یہی نہیں آپ علماء دین کو چند سکے کا بکاؤ مال بلکہ عوام الناس سے بھی بدتر خیال فرماتے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں: آپ کے علماء کا کیا حال ہے.ایک حلوے کی پلیٹ کسی مولوی صاحب کو کھلا دیں جو چاہیں فتویٰ لے لیں.ہر مولوی دوسرے کو کا فر بنا رہا ہے.جماعت اسلامی 50 سال سے کام کر رہی ہے.مولانا مودودی جیسا آدمی

Page 240

240 اس قوم کے لیے سر کھپاتا رہا.گیارہ کروڑ کی آبادی میں سے اس وقت 5 ہزار جماعت اسلامی کے ارکان ہیں وہ بھی چھوٹی چھوٹی برادر یوں اور ذاتوں سے تعلق رکھنے والے یا دفتروں کے چپڑاسی.کوئی قابل ذکر آدمی جماعت اسلامی کے ساتھ نہیں“.آئین کی پندرھویں ترمیم یا ایک اور طمانچہ بیدار ڈائجسٹ اگست 1990 ، صفحہ 9 ضیاء الحق شہید نمبر ) ہر بنیادی اختلاف سے محفوظ فرقوں نے اپنے اپنے فقہی حقوق کے لیے حکومتوں سے بلکہ خدا تعالیٰ سے کیسے کیسے تحفظات لے رکھے ہیں اس کا اندازہ مجھے جناب نواز شریف صاحب وزیر اعظم پاکستان کے اعلان کردہ نفاذ شریعت بل“ سے ہوا.جناب اصغر علی گھر ال نے نفاذ شریعت مذہبی پیشوائیت اور روشن خیالی کے نام سے قارئین نوائے وقت کو اس طرح سے جھنجھوڑا ہے.نئے نفاذ شریعت بل یا دستور میں پندرھویں ترمیم کی رو سے آرٹیکل 2 - الف کے بعد حسب ذیل نیا آرٹیکل شامل کر دیا گیا ہے.2- ب قرآن وسنت کی برتری.(اس کے جزو 1 میں مندرج ہے 1 قرآن پاک اور پیغمبر پاک صلی آی پیہم کی سنت پاکستان کا اعلیٰ ترین قانون ہوگا.تشریح : کسی مسلمان فرقے کے پرسنل لاء پر اس شق کے اطلاق میں قرآن وسنت کی عبادت کا مفہوم وہی ہو گا.جو اس فرقے کی طرف سے توضیح شدہ قرآن وسنت کا ہے.میں اپنی گذارشات کو دستور کے مجوزہ آرٹیکل 2-ب کی شق 1 تک محدود رکھوں گا.بڑے ادب کے ساتھ میرا پہلا سوال یہ ہے کہ یہ تشریح یعنی قرآن وسنت کے احکام کی تشریح کا یہ طریق کار قرآن پاک کی کس آیت ، حکم یا احکام سے ماخوذ ہے.یہ تشریح Pre-Suppose کرتی ہے کہ اسلام کچھ فرقوں پر مشتمل ہے یا فرقے.اسلام کا جزولاینفک ہیں.اور ان سب کے اپنے اپنے پرسنل لاز ہیں یعنی ان کی اپنی اپنی ذیلی شریعتیں ہیں جو یقینی طور پر ایک دوسرے سے مختلف بلکہ اکثر متضاد ہیں.اسی لئے ان کے درمیان جھگڑے رہتے ہیں اس تشریح کی رو سے احکام خداوندی کو پابند کیا جا رہا ہے کہ جب وہ ایک فرقے کے ہاں جائیں تو ان کا ایک مفہوم ہو اور دوسرے فرقے کے ہاں جا کر قرآن وسنت کے احکام کا مفہوم اس کی ذیلی شریعت کے مطابق دوسرا ہو.یوں نعوذ باللہ قرآن وسنت کے احکام کو فرقوں کی ذیلی شریعتوں کے تابع کر دیا گیا ہے“.امت کو کاٹ ڈالا کافر بنا بنا کر اسلام ہے فقیہو بہت ممنون احسان تمہارا

Page 241

241 جماعت احمدیہ سے ظالمانہ سلوک کر کے ہم اپنا تو کچھ بگاڑ سکتے ہیں ان کا نہیں.باب نمبر 6 یه جعل سازیاں

Page 242

242 اور میری مشکلات بر چرخ کہن کو مٹادو فری ہینڈ (Free hand) قلابازیوں سے آگے میرا سفر گہری اندھی ڈھلانوں پر جاری رہا اور دل مزید اندھیروں کے خوف سے بے چین ہوتا رہا.قلابازیوں کی سرزمین میں تو صرف ایک بات کے مقابل پر دوسری بات مجھے دکھائی گئی مگر اس سرزمین میں انوکھی روایات سے واسطہ پڑا.اور اصول زندگی یہ طے ہوا کہ ” مقابل میں آنے والی ہر چرخ کہن کو مٹا ڈالو سد راہ بننے والی ہر فصیل کو روند کر تہس نہس کر دو.

Page 243

243 1.یعنی خواہ وہ 1400 سو سال سے طے شدہ مسلمہ قرآنی اصول ہوں.2.خواہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمائے ہوئے ارشادات مبارکہ ہوں.3.خواہ بزرگان دین کی لکھی ہوئی مسلمہ تحریرات و کتب ہوں.قادیانی دشمنان اسلام اور وائٹ ہاؤس لندن والے غدار ان سے مقابلہ کے لیے ہر حیلہ جائز ہے.يقين "Free hand کے بغیر کفر و اسلام کی یہ جنگ لڑی نہیں جاسکتی.مگر دوستوں یہی جانکاری میری انگلی مشکل بن گئی ہے.1.آج تک ایسا ہوتا ہوگا مشکل نمبر 36 ی خدائی اور قرانی چیلینج جھوٹا نہیں 23 سال کی مہلت نہیں پا سکتا جھوٹے مدعی وحی و الہام کو میں داہنے ہاتھ سے پکڑوں گا اور شہ رگ کاٹ دوں گا اور کوئی انسانی طاقت مجھ سے اس شخص کو نہ بچا سکے گی...قرآن کا چیلنج.قرآن مجید میں رب العالمین عام مخلوق کو جھوٹے مدعیان وحی والہام سے محفوظ رکھنے کا کام اپنے ذمہ لیتا ہے اور ان الفاظ میں ایسے کا ذبین کو وارننگ دیتا ہے.انه لقول رسول كريم وما هو بقول شاعر قليلا ما تُؤمِنونَ ولا بقول كاهِن قليلا ما تَذَكّرون تنزيل من مرب العالمين ولو تقول علينا بعض الاقاويل لأخذنا منه باليمين ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ بالوتين پروفیسر غلام جیلانی برق اس کا ترجمہ فرماتے ہیں : (سورۃ الحاقہ :2) یہ قرآن رسول کریم کا قول ہے.شاعر کا قول نہیں تم کیوں نہیں مانتے نہ کسی کا بہن کا قول ہے پھر کیوں درس ہدایت نہیں لیتے اس کے اتارنے کا سامان اللہ نے کیا ہے.اگر یہ رسول کریم ہماری طرف غلط باتیں منسوب کرے تو اس کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ گردن کاٹ ڈالیں.“ 1400 سوسال میں امت مسلمہ کے ممتاز علماء کی متفقہ تقف ( حرف محرمانه صفحه 105 ) 1.جھوٹے مفتری کو خدا جلد ہلاک کر دیتا ہے اور ایسا کرنا ضروری ہے تا کہ سچا اور جھوٹا مشتبہ نہ ہو جائے.

Page 244

244 حضرت علامہ فخر الدین رازی مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس آیت میں مفتری کی حالت تمثیلا بیان کی ہے کہ اس سے وہی سلوک ہوگا جو بادشاہ ایسے شخص سے کرتے ہیں جوان پر جھوٹ باندھتا ہے وہ اس کو مہلت نہیں دیتے بلکہ فی الفور قتل کر وا دیتے ہیں.( یہی حال مفتری علی اللہ کا ہوتا ہے) اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ایسا ہونا ضروری اور واجب ہے تا کہ صادق و کاذب کے حالات مشتبہ نہ ہو جائیں.( تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 205 206 مطبع میمنیہ ) 2.اگر آپ سالی کی یہ بھی اللہ پر جھوٹ باندھتے تو اللہ تعالیٰ ان کی بھی شاہ رگ کاٹ دیتا اور مہلت نہ دیتا.امام ابو جعفر طبری اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: اگر آنحضرت نے ہم پر افترا باندھا ہوتا تو ہم اس سے سخت گرفت کرتے اور پھر اس کی شاہ رگ کاٹ دیتے.یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو جلد سزا دیتا اور اتنی مہلت نہ دیتا.( تفسیر ابن جریر جلد 29 صفحہ 42 مطبوعہ مصر ) 3.اگر کوئی مدعی افتراء باند ھے تو خدا انتقام لیتے ہوئے جلد قتل کر دے گا.علامہ زمخشری تفسیر کشاف میں لکھتے ہیں : اگر یہ مدعی ہم پر افتراء کرتا تو ہم اس سے جلد انتقام لیتے اور ان کو قتل کر دیتے جیسا کہ بادشاہ ان کے ساتھ کرتے ہیں جوان پر جھوٹ باندھتے ہیں“.( تفسیر کشاف صفحه 1524 مطبوعہ کلکتہ ) 4.اگر کوئی مدعی افتراء باندھے تو خدا اسے فور اقتل کر دے گا....علامہ شیخ احمد ماوی اگر یہ ہم پر جھوٹ باندھتا تو ہم اس کو فوراً مروا دیتے“ 5.اگر رسول بھی افتراء باندھتا تو خدا جلد سزا دے دیتا...تفسیر ابن کثیر تفسیر ماوی علی الجلالین صفحہ 238 جلد (4) اگر یہ رسول اپنے پاس سے ایک بات بنا کر ہماری طرف منسوب کر دیتا تو ہم اس کو جلد سزا دیتے“.(ابن کثیر جلد 10 صفحہ 71 برحاشیہ فتح البیان ) 6.جب اللہ آپ کو وعید سنارہا ہے تو دوسرا کوئی مفتری خدا کے عذاب قتل سے کیونکر بچ سکتا ہے...تفسیر البیان اس آیت (ولو تقول) میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت سلایا کہ تم اگر کوئی بات اپنے پاس سے کہہ دیتے یاوحی میں کمی و بیشی کر دیتے تو اللہ تعالیٰ ان کو سخت سزا دیتا.آنحضرت صلی اینم با وجود یہ کہ اللہ کے ہاں سب سے اکرم ہیں جب آپ کا یہ حال ہے تو دوسرا مفتری کیونکر بیچ سکتا ہے.

Page 245

245 ( تفسیر البیان جلد 4 صفحہ 462) 7.قطع الوتین کا مطلب ایسے جھوٹے کو فورا مار دیا جائے گا....علامہ سیوطی قطع الوتین سے مراد موت ہے کیونکہ الوتین دل کی رگ کا نام ہے جب وہ کٹ جاتی ہے تو انسان مرجاتا ہے.( جلالین مطبع مجتبائی صفحہ 470) 8.خدا افتراء والے کو جلد ہلاک کر دے گا جیسے بادشاہ جھوٹے کو کرتے ہیں...تفسیر البیان کہ افتراء کی صورت میں ہم اس کو جلد ہلاک کر دیتے.جیسا کہ بادشاہ ان لوگوں کے متعلق کرتے ہیں جو ان پر افتراء باندھتے ہیں.( تفسیر البیان جلد 10 صفحہ 47) 9.یعنی ہلاکت مفتری کا بھیانک ترین نقشہ کھینچا گیا ہے.شہاب علی البیضاوی قطع الوتین وغیرہ میں ہلاکت مفتری کا وہ بھیانک ترین نقشہ کھینچا گیا ہے جو شاہان وقت ان کے لیے اختیار کرتے ہیں جن پر وہ ناراض ہوتے ہیں اور یوں کہ جلاد اس شخص یا مفتری کا دایاں ہاتھ پکڑے گا اور تلوار سامنے چلا کر گردن اڑادے گا“.شہاب علی البیضاوی جلد 8 صفحہ (241) 10- مفتری علی اللہ 23 سال کی مہلت نہیں پاسکتا....شرح عقائد نسفی اہل سنت والجماعت پھر اہل سنت والجماعت کی معتبر ترین کتاب شرح عقائد نسفی میں یہ بات درج ہے اور مسلمہ اصول کے طور پر صدیوں سے رائج ہے.عقل اس بات کو ناممکن قرار دیتی ہے کہ وہ باتیں ایک غیر نبی میں جمع ہو جائیں.اس شخص کے حق میں جس کے متعلق خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ خدا پر افتراء کرتا ہے.پھر اُس کو 23 سال کی مہلت دے“.( شرح عقائد نسفی اہل سنت والجماعت ص 100 ) 23-11 سال کی معیاد کا معیار اس لیے ہے کہ آپ ملیشیا کی تم کو 23 سال تک وحی والہام ہوتا رہا...شرح عقائد 23 سال کی معیاد ہم نے اس لیے بیان کی ہے کہ آنحضرت سلیم 40 سال کی عمر میں نبی ہوئے اور نسفی کی شرح نبراس 63 سال کی عمر میں حضور نے وفات پائی“.( شرح عقائد نسفی کی شرح نبر اس صفحہ 444) 12.جن جھوٹوں نے دعویٰ نبوت کیا چند دن سے زیادہ زندہ نہ رہے.شراح نبراس

Page 246

246 د بعض جھوٹوں نے دعوی نبوت کیا.جیسا کہ مسیلمہ یمامی.اسود عنسی وغیرہ نے پس ان میں سے بعض قتل ہو گئے.اور باقیوں نے تو بہ کر لی اور نتیجہ یہ ہے کہ جھوٹے مدعی نبوت کا کام چند دن سے زیادہ نہیں چلتا.“ ( شرح نبر اس صفحہ 444 مطبوعہ میرٹھ) 13.جھوٹا مفتری علی اللہ کبھی بھی 23 سال کی مہلت پانہیں سکتا...حضرت علامہ امام ابن قیم کا مناظرے میں ایک عیسائی کو آپ صلی یا اینم کی صداقت کی دلیل سمجھانا.یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ خدا پر 23 سال افتراء کرتا ہے اور پھر بھی خدا اس کو ہلاک نہیں کرتا بلکہ اس کی تائید کرتا ہے وہ کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا.پھر مزید فرمایا کہ ہم اس امر کا انکار نہیں کرتے کہ بہت سے جھوٹے مدعیان نبوت کھڑے ہوئے اور ان کی شان و شوکت بھی ظاہر ہوئی مگر ان کا مقصد کبھی پورا نہ ہوا.اور نہ ان کو لمبا عرصہ مہلت ملی.بلکہ خدا نے ان پر فرشتے مسلط کر دیئے جنہوں نے ان کے آثار مٹادیئے اور ان کی جڑیں اکھیڑ دیں اور بنیادوں کو اکھیڑ پھینکا یہی خدا کی اپنے بندوں میں جب سے دنیا بنی اور جب تک دنیا موجود رہے گی سنت ہے.“ (زاد المعاد جلد 1 صفحہ 500 متر جم رئیس احمد جعفری ناشر نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی طباعت چوہدری طارق اقبال گا هندری) خلاصہ یہ کہ ایک مفتری علی اللہ جو خدا تعالیٰ کی طرف وحی و الہام کے دعوے کو منصوب کر کے اس کی تشہیر کرے 23 سال کا عرصہ پا نہیں سکتا.اس سے پہلے پہلے خدا تعالیٰ اس کو ناکام و نامراد بلکہ موت سے ہمکنار کر دے گا اور فرشتے اس کی جڑیں اکھیڑ دیں گے اور وہ چند سال میں غائب و خاسر ہو کر دنیا سے رخصت ہو جائے گا اور پیچھے اس کا نام صرف مذمت سے لیا جائے گا.اور یہ 23 سال کا معیار اس لیے ہے کہ آپ صلی یا آیتم 23 سال تک دعوی وحی والہام فرماتے رہے.یہ جانکاری کے بعد ہم احمدی غیر احمدی کے جنگی میدان میں واپس آتے ہیں.مرزا صاحب کا چیلنج دیکھو میں 23 سال کا عرصہ پاچکا ہوں خدا مفتری کو ہلاک کرتا ہے جبکہ میں 11 سال سے دعوئی ہم کلام الہی کر رہا ہوں اگر میں جھوٹا ہوتا تو خدا مجھے کبھی مہلت نہ دیتا.23 سالہ معیار کے حوالے سے بانی جماعت احمدیہ کا چیلنج حضرت مرزا صاحب خدا تعالیٰ کے چیلنج بابت جھوٹے مدعیان وحی والہام کو درج کرتے ہوئے اپنی صداقت کی دلیل یوں بیان فرماتے ہیں: خدا تعالی قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ جو میرے پر افتراء کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں.اور میں جلد مفتری کو پکڑتا ہوں اور اس کو مہلت نہیں دیتا.لیکن اس عاجز کے دعوئی مجددو مثیل مسیح ہوئے اور دعویٰ ہم کلام الہی

Page 247

247 ہونے پر اب بفضلہ تعالی گیارہواں برس جاتا ہے کیا یہ نشان نہیں ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ کاروبار نہ ہوتا تو کیونکر عشرہ کاملہ تک جو ایک حصہ عمر کا ہے ٹھہر سکتا تھا.“ ( نشان آسمانی ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 37 مطبوعہ لندن 1984 ) اگر میں جھوٹا مفتری علی اللہ ہوں تو اللہ تعالیٰ نے 12 سال سے مجھے مہلت کیسے دی اور مجھے ہلاک کیوں نہیں کیا.23 سالہ معیار کے حوالے سے بانی جماعت احمدیہ کا ایک اور چیلنج حضرت مرزا صاحب 23 سالہ متفقہ معیار کے حوالے سے مزید فرماتے ہیں: پھر تعجب پر تعجب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے ظالم مفتری کی اتنی لمبی مہلت بھی دے دی جسے آج تک 12 برس گزرچکے ہوں اور مفتری ایسا اپنے افتراء میں بے باک ہو“.( شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحه 371 مطبوعہ لندن 1984 ) خدا تعالی کا چیلنج ہے کہ وہ مفتری کی مدد نہیں کرتا بلکہ جلد ہلاک کرتا ہے اور میرے مرنے کے لیے تم نے رو کر دعائیں کیں مگر خدا تعالیٰ نے میری تائید و نصرت فرمائی کیا یہ نشان کافی نہیں.حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں: وہ خود خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ میں مفتری کو مدد نہیں دیتا اور وہ جلد ہلاک کیا جاتا ہے اور اس کی جماعت متفرق کی جاتی ہے بلکہ سید الرسل کو اس نے کہا کہ اگر تو ایک ذرہ افتراء کرتا تو تیری شاہ رگ کاٹ دی جاتی پس اگر یہ بات سچ نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ مفتری کو جو جھوٹا مرسل بن کر خلق اللہ کو گمراہ کرنا چاہتا ہے بہت جلد پکڑ لیتا ہے تو اس صورت میں نعوذ باللہ آنحضرت سیل پیام کی نسبت بھی یہ استدلال صحیح نہیں ہو سکتا کہ اگر آنحضرت صلی یا سیستم نعوذ باللہ مفتری ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو پکڑتا پھر باوجود اس لمبی مہلت اور خدا تعالیٰ کی صدہا تائیدوں اور صدہا نشانوں کے مخالفوں سے بھی اس عاجز پر نزول عذاب کے لیے ہزار ہادعائیں کیں اور اپنے مباہلہ میں بھی رو رو کر اس عاجز پر عذاب نازل ہونا چاہا مگر بجز رسوائی اور ذلت کے ان کو کچھ بھی نصیب نہ ہوا.( شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد 6 صفحه 371-372 مطبوعہ لندن ) لیکن آج کے بعد میں یہ قرآنی بات نہیں مانتا 23 سالہ معیار ہی جھوٹا اور نا قابل قبول ہے اس آیت کا تو مفہوم ہی آج تک تمام مفترین غلط سمجھے ہیں.آغاز جماعت احمدیہ کے شدید مخالف اور نوجوان نسل کے مقبول رائٹر جناب غلام جیلانی برق صاحب کی کتاب حرف محرمانہ سے کرتے ہیں جو آپ نے رو احمدیت کے طور پر لکھی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ اگر مفترین کی 14 سو سالہ تفاسیر مان لیں تو مرزا صاحب سچے ثابت ہو جاتے ہیں اس لیے آج کے بعد میرا یہ اعلان ہے کہ:

Page 248

248 بات یہ ہے کہ آیت زیر بحث کا مفہوم ہمارے علماء سے آج تک مخفی رہا قرآن مفسر قرآن ہے.اس آیت کی تفسیر ایک اور آیت میں موجود ہے.یہاں قابل حل سوال یہ ہے کہ رسول کریم کون ہے؟ اگر اس سے مراد حضور ایلیا ای پیام ہوں تو جناب مرزا صاحب کا استدلال درست ہے.اگر کوئی اور ہوں تو درست نہیں.“ ( حرف محرمانه صفحه 111-112 ) بلکہ جھوٹے نبی کی رگ جاں کاٹنے کی بات ہی غلط ہے بلکہ فرماتا ہے وہ فرشتہ جو نبی پر وحی لے کر آتا ہے وہ اگر غلط وحی Delever کرے تو اس کی رگ جاں کاٹ دوں گا.اللہ اللہ خیر صلی رگ جاں کاٹنے کی وعید اس فرشتے سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ حضور صلی یا ایلیم سے جب بنیاد ہی نہ رہی تو پھر قصر استدلال کیسے قائم رہ سکتا ہے جو مرزا صاحب نے صرف اسی بنیاد پر اٹھایا تھا کہ رگ جان والی وعید کا تعلق حضور علیہ السلام سے ہے.“ (حرف محرمانہ صفحہ 114) بلکہ ایک اور صاحب نے جماعت احمدیہ کے خلاف کتاب لکھنا شروع کی تو اس چیلنج کے قریب پہنچ کر کچھ دیر ٹھٹھکے اور پھر آپ نے یہ اعلان فرما دیا جھوٹے نبی کو برباد کرنے والا چیلنج بالکل باطل ہے.کئی تو دعوی نبوت کر کے پہلے سے زیادہ امیر ہو گئے.چیلنج خدا کا تھا.فرمان قرآن مجید میں درج ہے مگر احمدیت کی مخالفت میں خدا کے متعلق 1400 سو سالہ مفسرین اور بزرگان کے متعلق لکیر پھیرتے ہوئے یہ صاحب اعلان فرماتے ہیں: " قرآن شریف میں کہیں ذکر نہیں ملتا کہ مفتری جلد ہلاک ہوتا ہے خدا پر افتراء کرنے والے بعض جلدی مارے گئے بعض پہلے نہایت غریب تھے مگر افتراء علی اللہ کرنے کے بعد بادشاہ بن گئے اور عرصہ تک بادشاہت کے ساتھ اپنے افتراء کی بھی اشاعت کرتے رہے.یہی حال سچے نبیوں کا ہوا ہے کہ بعض کو دشمنوں نے جلد ہی شہید کر دیا اور بعض زیادہ عرصہ تک ہدایت پھیلاتے رہے.منشی محمد یعقوب مصنف عشرہ کاملہ صفحہ 70 بلکہ مزید یہ کہ 23 سال والا چیلنج بھی بالکل من گھڑت اور جھوٹا ہے کئی جھوٹے نبی 23 سال سے زیادہ عرصہ تک زندہ رہے.....مخالفت احمدیت میں ایک اور اعلان منشی محمد یعقوب صاحب جنہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف "عشرہ کاملہ اور تحقیق لاثانی جیسی کتب لکھی ہیں.فخر یہ اعلان فرماتے ہیں:

Page 249

249 مرزا صاحب آیت ولو تقول علينا بعض الاقاویل سے یہ نتیجہ نکالتے تھے کہ اگر میں جھوٹا ہوتا تو 23 سال تک مہلت نہ پاسکتا جو زمانہ نبوت حضرت ختم الرسل کے برابر ہے لیکن اس آیت سے ان کا یہ استدلال باطل ہے.کیونکہ کئی کا ذب مدعیان نبوت کا زمانہ 23 سال کی مدت سے زیادہ ہے.ولا حول ولا قوة الا بالله عشرہ کاملہ صفحہ 220 - 221 طبع سوم ) دوستو میں حیرانی سے اپنے علماء کا حوصلہ دیکھ رہا ہوں کہ چیلنج خدا کا ہے نہ کہ مرزا صاحب کا.جسے خدا تعالیٰ نے آنحضور صلی لا یتم کی زبان مبارک سے قرآن حکیم میں دلیل کے طور پر پیش کیا اور 1400 سو سال میں مسلمان مبلغین ومفسرین نے علی الاعلان دہرایا لیکن آج ہم نے اس پر باطل کی مہر لگادی ہے آخر کیوں؟ 2.آج تک ایسا ہوتا ہوگا آخری زمانہ میں مہدی کے ظہور کے وقت اس کی سچائی کے لیے سورج اور چاند کو رمضان میں گرہن لگے گا.آنحضور صلی یا ہم نے آخری زمانے میں آنے والے امام مہدی کے علامت اور سچائی کی دلیل کے طور پر فرما یا: إِنْ لِمَهْدِ يَنَا أَيَتَيْنِ لَم تكونا مُنْذُ خَلْقِ السموات والارض تَنْكَسِفُ الْقَمَن لا وَل لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْخَسِفَ الشَّمْسُ في النَّصْفِ مِنْهُ وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوتِ والارْضَ ( سنن دار قطنی جلد نمبر 2 کتاب العید بین باب صفۃ الصلوۃ الخسوف والكسوف و بیتھما 6 مطبوعہ 1966 مطبع دار المحاسن للطباعة 241 شارع الجيش القاہرہ ) ترجمہ : یعنی ہمارے مہدی کے لیے دو نشان ہیں اور جب سے زمین وآسمان پیدا ہوئے یہ نشان (کسی اور مامور کے حق میں ) ظاہر نہیں ہوئے ( ان میں سے ایک ) چاند گوگر ہن رمضان کے مہینے میں ( چاند گرہن کی تاریخوں میں سے ) پہلی رات کو اور سورج کو گرہن ہو گا نصف کو (یعنی درمیانی دن سورج گرہن کی تاریخوں میں سے ) اور جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کئے یہ نشان وقوع پذیر نہیں ہوئے.“ 1400 سو سال سے مستند حدیث مندرجہ بالا حدیث مبارکہ اصول روایت و درایت کے عین مطابق ایک بلند پایہ حیثیت کی حامل ہے.اسی وجہ سے پچھلے 1400 سال سے تمام علماء کرام اس حدیث کو اپنی کتب میں درج فرماتے آ رہے تھے اور امام مہدی کی سچائی کے لیے ایک عظیم نشان بتارہے تھے.دی مثلاً مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کو درج ذیل محدثین و علماء کرام نے اپنی اپنی تصانیف میں تقریباً ہر صدی میں جگہ

Page 250

250 1.الفتاوی الحدیثیہ مولفہ خاتم الفقهاء وخات المحدثین اشیخ احمدشہاب الدین بن حجر العیشی الکی رحمت اله علیه 90 - 29747 ) 2.اکمال الدین مولفہ محدث اکبر شیخ ابو جعفر محمد بن علی المتوفی 381 ھ یہ شیعہ احباب کی معتبر کتاب ہے.3.بحار الانوار مولفہ ریئس العلماء امام محمد باقر بن محد تقی اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ.4- الفرع من الجامع الکافی مولفه رئیس المحد ثین امام ابوجعفر محمد بن یعقوب رحمتہ اللہ علیہ مطبوع منشی نولکشور لکھنو.5.سنن ابی داود مولفه امام سلمان بن اشعث رحمتہ اللہ علیہ مطبوع مجتبائی دہلی 1346ھ.اس کے حواشی میں شیخ الہند مولا نا مولوی محمود الحسن صاحب نے دار قطنی کے حوالے سے رمضان میں مہدی کے لیے کسوف و خسوف والی حدیث کا ذکر کیا ہے.6.مختصر تذکرہ القرطبی مولفہ شیخ عبدالوہاب بن احمد بن علی اشعراتی رحمتہ اللہ علیہ المتوفی 976 ھ مطبوعه 1358 مطبع مصطفی البابی الحلی و اولادہ بمصر.اس کتاب میں رمضان میں 2 مرتبہ گرہن کا ذکر ہے.7.اقتراب الساعة (اردو) مصنفہ نواب نور الحسن ابن نواب صدیق حسن بھوپال مطبوعہ 1301 مطبع مفید عام پریس آگرہ پید اہل حدیث کے مشہور عالم دین تھے.8 - عقائد الاسلام مصنفہ حضرت مولانا عبد الحق حقانی دہلوی رحمتہ اللہ علیہ مطبوعہ ادارہ اسلامیات لاہور.9 مکتوب امام ربانی حضرت مجددالف ثانی جلد دوم مرتبہ حضرت عرفان بیانی مطبع منشی نولکشور لکھنو یہ کتاب فارسی میں ہے.جس میں آپ نے رمضان میں کسوف کو مہدی کے لیے نشان کے طور پر پیش کیا.10 - اربعین فی احوال المهدمین

Page 251

251 مرتبہ حضرت محمد اسماعیل شہید دہلوی رحمتہ اللہ علیہ اس میں حضرت نعمت اللہ ولی رحمتہ اللہ علیہ جن کا زمانہ 560ھ) ہے نے اپنے فارسی قصیدہ میں مہدی موعود کے ذکر کے بعد نشان کسوف و خسوف کی طرف اشارہ فرمایا ہے.11 - الخطاب المليح في تحقيق المهدى والسيح مصنفہ مولانا اشرف علی تھانوی مطبع بلال سٹیم پریس ساڈھورہ ضلع انبالہ صفحہ 28 پر دار قطنی کے حوالے سے پوری حدیث درج ہے.12.ماہوار رسالہ مرقع قادیانی بابت اکتوبر 1907ء ایڈیٹر ابوالوفا ثناء اللہ امرتسر مطبوعہ اہل حدیث اس میں امام مہدی کا خروج اور حضرت مسیح کا نزول“ کے عنوان کے تحت مولانا عنایت الہی صاحب مہتمم مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کے مضمون سے سے پہلے ایڈیٹر صاحب نے یہ نوٹ دیا ہے کہ: یہ مضمون بہت ہی توجہ کے قابل ہے کیونکہ اس میں صرف وہ احادیث ہی پیش کی گئی ہیں جن پر فریقین کو اعتبار ہے.علماء اہل سنت کا اقرار تو ظاہر ہے لطف یہ کہ مرزا صاحب کو بھی ان احادیث پر اعتبار ہے“.اس کے بعد مضمون میں جو احادیث پیش کی گئی ہیں ان میں رسالہ کے صفحہ 4 پر دار قطنی کی رمضان میں کسوف و خسوف والی حدیث بھی درج ہے.13.فیصلہ ناطق مابین کا ذب وصادق مولفہ ڈاکٹر ایس.ایم عظیم الدین صاحب حنفی قادری دیوبندی مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہورا کتوبر 1908ء 14.قیامت کی نشانیاں یہ کتاب حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی کی کتاب ”قیامت نامہ“ کا اردو تر جمہ ہے جو ظفر نیازی صاحب نے کیا ہے مطبوعہ جاوید پریس کراچی بار سوم جولائی 1961ء 15 - مرأة الحق مولفه محمدیار المتخلص به صادق کو ٹلوی مطبوعہ 1318ھ اسلامیہ پریس لاہور اس کتاب میں حدیث نبوی کی رو سے قیامت سے پہلے دجال مسیح موعود و مہدی موعود اور یا جوج ماجوج کے ظہور پذیر ہونے کا ذکر ہے اس ضمن میں رمضان میں کسوف و خسوف کا ذکر ہے.16 - عصاء موسیٰ علیہ السلام مصنفہ الہی بخش مطبوعہ 1318 ھ مطبع انصاری دہلی.

Page 252

252 گر ہنوں کی ممکنہ تاریخوں کی وضاحت پر مبنی کتب 17 - حج الكرامه في اثار القيامة مصنفہ نواب صدیق حسن خان صاحب محدث دہلوی مطبوعه عدد مرتبہ 1271ھ مطبع شاہجہانی بھوپال یہ کتاب فارسی زبان میں ہے اس میں علماء نجوم کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ چاند گرہن سوائے تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں اور سورج گرہن سوائے ستائیسویں اٹھائیسویں اور انتسویں تاریخوں کے کبھی نہیں لگتا.18.احوال الآخرت یہ کتاب منظوم پنجابی زبان میں ہے مولانا مولوی حافظ محمد بن مولوی بارک اللہ مرحوم سکنہ لکھو کے اس کتاب کے مصنف ہیں.مطبوعہ حاجی چراغ دین سراج دین تاجران کشمیری بازار لاہور.اس منظوم کلام میں مصنف نے دار قطنی کی حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے ظہور مہدی کی غیر معمولی علامت چاند گرہن اور سورج گرہن کی تاریخوں تیرھویں چن اور ستائیسویں سورج کا بھی ذکر ہے.یادر ہے 27 تاریخ سہو کا تب یا سہومصنف ہے جس حدیث کی طرف اس شعر میں اشارہ ہے اس کی رو سے 28 کے الفاظ چاہئیں.19.اشارات فریدی حصہ سوم یہ کتاب مشہور صوفی بزرگ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب آف چاچڑاں شریف کے ملفوظات پر اس کتاب میں لکھا ہے کہ بے شک حدیث شریف کے معنی یہ ہیں کہ چاند گرہن ہمیشہ چاند کی 13-14 یا 15 کو ہوتا ہے سورج گرہن ہمیشہ 27-28 یا 29 کو ہوتا ہے.1894ء میں یہ نشان پورا ہو گیا مشتمل ہے.حضرت مرزا صاحب نے 1889ء میں دعویٰ مہدویت کیا.لوگوں نے آپ سے کسوف خسوف کا نشان طلب کیا.جس پر آپ نے انہیں کہا کہ اگر میں سچا ہوا تو یہ نشان ضرور پورا ہوگا چنانچہ دعوی کے 5 سال بعد 1984ء رمضان کے مہینہ میں 13 رمضان کو چاند اور 28 رمضان کو سورج گرہن ہوا.اسی طرح 1895ء میں انہیں تاریخوں پر رمضان میں دوسری دنیا یعنی امریکہ میں یہ نشان ظاہر ہوا.1.سول اینڈ ملٹری گزٹ 7 اپریل 1894 ءلاہور 2 - کتاب CANONDER FINSTERNISSE مطبوعہ 1887ء ویانا، آسٹریا.وغیرہ وغیرہ یہ نشان میری صداقت و تصدیق کے لیے ہے...حضرت مرزا صاحب کا اعلان ” مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے میری تصدیق کے لیے آسمان پر یہ

Page 253

253 نشان ظاہر کیا ہے اور اس وقت ظاہر کیا ہے جبکہ مولویوں نے میرا نام دجال اور کذاب اور کافر بلکہ اکفر رکھا تھا.غرض میں خانہ کعبہ میں کھڑا ہو کر قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ نشان میری تصدیق کے لیے ہے نہ کسی ایسے شخص کی تصدیق کے لیے جس کی ابھی تکذیب نہیں ہوئی.لیکن آج کے بعد میں یہ حدیث نہیں مانتا (تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد 17 صفحه 143 مطبوعہ لندن 1984 یہ تو حدیث ہی نہیں بلکہ ایک جعلی روایت ہے بلکہ کوئی گرا پڑا قول ہے.دشمنان مرزا صاحب کا اعلان....علامہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود صاحب مبلغ ختم نبوت ڈاکٹر علامہ صاحب ارشاد فرماتے ہیں : ایک جعلی روایت کو امام باقر کے نام سے پیش کر کے حضور ما این پیام کی طرف منسوب کرنا کسی صاحب علم اور خدا تعالیٰ کا ڈرر کھنے والے شخص کا کام نہیں ہوسکتا.مرزا غلام احمد قادیانی کے دجل و فریب کے لیے اگر ہم کوئی بھی اور دلیل نہ دیں صرف اس کے اس روایت سے استدلال کرنے کو ہی لوگوں کے سامنے لا دیں تو یہ قادیانیت کے تابوت میں آخری میخ ثابت ہو سکتی ہے.(رساله خسوف و کسوف صفحه 11 ناشر اداره مرکز دعوت وارشاد چنیوٹ پاکستان ) کتنی بے شرمی اور بے حیائی کی بات ہے قادیانی اسے حدیث کہتے ہیں.مولوی منظور احمد چنیوٹی صاحب......مولوی صاحب اپنے رسالہ خسوف و کسوف کے دیباچہ میں مختلف احمدی رسائل کا ذکر کر کے ارشاد فرماتے ہیں.ہر (احمدی ناقل ) مضمون نگار نے بڑی بے شرمی اور بے حیائی سے حضرت امام محمد باقر کے اس قول کو حدیث رسول بنا کر پیش کیا ہے.انصار اللہ رسالہ کے نمبر میں 40 سے زائد مرتبہ اس قول کو حضور اکرم صلی ال ایتم کی طرف غلط منسوب کر کے حدیث رسول صلی یا پیام ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے یہ قادیانی اور اس کی امت کا صریح جھوٹ اور 66 زبردست دھوکہ ہے کہ امام محمد باقر کے قول کو حضور کی حدیث ظاہر کیا اور اس سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے.(خسوف و کسوف صفحه (2) یہ امام محمد باقر کا قول بھی نہیں بلکہ کوئی گرا پڑا قول اور سند کے اعتبار سے ناقابل اعتبار ہے...فاتح ربوہ مولانا چنیوٹی کا اگلا اعلان ”مرزا قادیانی کی عادت ہے کہ اگر کوئی گرا پڑا قول خواہ وہ موضوع اور غلط ہی کیوں نہ ہوا گر کچھ اس کے مفید مطلب ہے تو اس پر ایک عظیم عمارت کھڑی کر دے گا.“ اور مزید فرمایا:

Page 254

254 اول تو ان کا قول سند کے لحاظ سے نا قابل اعتبار ہے دوسرا اگر درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی.مرزا قادیانی اس کا کسی صورت میں بھی مصداق نہیں بن سکتا.“ (رساله خسوف و کسوف صفحه 15 و صفحه 2 اداره مرکز یہ دعوت وارشاد ) میں مولوی صاحب کی بات ہی مان لیتا مگر مشکل یہ ہے کہ پھر جن جن کو بے شرم ، بے حیا، دجال، کذاب کہنا پڑے گا ان میں حضرت شاہ رفیع الدین، حضرت خواجہ غلام فرید ، حضرت مجدد الف ثانی ، حضرت علامہ حجر، مولانا نواب صدیق حسن اور بہت سے بزرگان جن کا ذکر ہم پہلے کر آئے ہیں کو بھی شامل کرنا پڑے گا.کیا خیال ہے 1400 سالہ متفقہ فیصلہ مان لیں یا مولوی چنیوٹی صاحب جیسے فاتحین ربوہ کی؟ 3.آج تک ایسا ہوتا ہوگا حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.فرمان نبوی آنحضور صلہ اسلام کا ارشاد مبارک ہے کہ: ” لوكان عيسى حيّاً ما وَسِعَة الا اتباعى“ ترجمہ: اگر عیسی " زندہ ہوتا تو اسے میری پیروی کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوتا.( شرح فقہ اکبر صفحه 100 مصری ) حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں موعود شخص کو صیح کا نام دینا اس مصلحت کی بناء پر ہے کہ آخری زمانہ میں عیسائیت کا غلبہ ہو گا جس کو وہ توڑے گا.حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں: اس زمانے کے مجدد کا نام مسیح موعود رکھنا اس مصلحت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ اس مجدد کا عظیم الشان کام عیسائیت کا غلبہ توڑنا اور ان کے حملوں کو دفع کرنا کیونکہ سب سے بڑی آفت اس زمانہ میں جو بغیر تائید الہی دور نہیں ہو سکتی ہے عیسائیوں کے فلسفیانہ حملے اور مذہبی نکتہ چینیاں ہیں جن کے دور کرنے کے لیے ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور آئے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 341 مطبوعہ لندن 1984 ) عیسی فوت ہو چکے ہیں اور ان کا نام پا کر اس دنیا میں آیا ہوں مرزا صاحب کا اعلان سچی بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو موعود آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں اور یہ بھی پکی بات ہے کہ اسلام کی زندگی عیسی کے مرنے میں ہے.“

Page 255

255 لیکن آج کے بعد میں یہ حدیث نہیں مانتا لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 42 مطبوعہ لندن 1984 یہ حدیث غلط ہے اصلی حدیث یوں ہونی چاہیے.تعاقبین مرزا صاحب کا اعلان شرح فقہ اکبر چونکہ مصر میں شائع ہوئی تھی اس میں مندرجہ بالا حدیث درج کر دی گئی.مگر جب یہ کتاب بر صغیر پہنچی جہاں مرزا صاحب پہلے ہی وفات مسیح کا اعلان کر رہے تھے تو اس حدیث مبارکہ کی یوں اصلاح کر دی گئی.لوكان موسى حيا ما وسعه الا اتباعى دوستو میں علماء کی بات مان لیتا اگر حضرت امام مہدی کے ساتھ حضرت موسیٰ نے نازل ہونا ہوتا.اور حضرت امام مہدی نے حضرت موسیٰ کو نماز پڑھانے کے لیے درخواست کرنا ہوتی.یہ بات میں تب بھی مان لیتا اگر آنحضور صلی ایم کا حضرت عیسی کے متعلق اس سے ملتا جلتا کوئی اور فرمان نہ ہوتا جبکہ آپ صلی للہ یہ سلام نے فرمایا: لوکان موسی و عیسى حيينِ لَمَا وَسِعَهُمَا الا اتباعى ا.ابن کثیر حاشیہ جلد 2 صفحہ 246 ii.الیواقیت والجواہر جلد 2 صفحہ 22 iii.شرح مواہب اللہ نیہ جلد 6 صفحہ 374 ۱۷.فتح البیان حاشیہ جلد 2 صفحہ 246 وطبرانی کبیر و بحر المحیط جلد 6 صفحه 147 استدلال بروفات خضر لوكان موسى وعيسى في حياتهما لكان من اتباعه ا.مدارج السالکین مصنفہ امام ابن قیم جلد 2 صفحہ 313 ii.بشارات احمد یہ مصنفہ علی حائری صفحہ 24 iii.براہین محمد یہ برحاشیہ بشارات احمد یہ صفحہ 42 حضرت عیسی علیہ السلام تو فوت ہو گئے وہ ولد اللہ کیسے ہو سکتے ہیں.نبی پاک مسلم کا عیسائی پادریوں سے مناظرہ علامہ ابی الحسن علی بن احمد الواحدی النیسا پوری (468ھ ) مشہور مفسر محقق اسلام کی ”اسباب النزول “ صدیوں سے اسلامی دنیا میں شہرہ آفاق تصنیف ہے.اس کی بیروت کی اشاعت کے ص 68 پر آپ صلی یا پی ایم اور نجران کے عیسائیوں کے درمیان مناظرے کا حال درج ہے.

Page 256

256 عیسائی پادریوں کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدائی کی دلیل اور آپ سلیم کا جواب قالا ان لم يكن عيسى ولد الله فمن ابوه وخاصموه جميعاً في عيسى فقال لهما النبى دول العالم الستم تعلمون انه لا يكون ولد الا ويشبه اباه قالوا بلى قال ألستم تعلمون إن ربنا حي لا يموت وان عيسى اتی علیه الفناء - قالوا بلى قال ألستم تعلمون ان ربنا قيم على كل شيء يحفظه ويرزقه“ ترجمہ: اُن دونوں پادریوں نے کہا کہ اگر عیسی علیہ السلام اللہ کا بیٹا نہیں تو بتا و اس کا باپ کون ہے؟ اور پھر انہوں نے خوب جھگڑا کیا.اس پر آپ صلی ہی ہم نے ان سے کہا کہ تم جانتے ہو ناں کہ ہر بچہ اپنے باپ سے مشابہہ ہوتا ہے.انہوں نے کہا ہاں یہ درست ہے.اس پر آپ مصلی نئی ایم نے فرمایا کہ پھر تم یہ بھی جانتے ہو کہ ہمارا رب توحی و قیوم ہے اور عیسی تو فوت ہو چکے یعنی پھر تو وہ اللہ سے مشابہہ نہ ہوئے.میں اس مناظرے کو بھی تحریف کر کے یوں پڑھوں گا اب یہی کتاب جب 1990 میں شائع کی گئی تو اس حوالے میں تحریف کر کے اس کو یوں کر دیا گیا: " قالا ان لم يكن عيسى ولد الله فمن ابوه وخاصموه جميعاً في عيسى فقال لهما النبي والهلال العالم الستم تعلمون انه لا يكون ولد الا ويشبه اباه قالوا بلى قال ألستم تعلمون ان ربنا قيم على كل شيء يحفظه ويرزقه ( اسباب النزول صفحہ 44 زیر تفسیر سوره آل عمران مطبعہ العلمی) بریلویوں کے شیخ الحدیث مولوی عبد المصطفیٰ اعظمی صاحب نے " عجائب القرآن مع غرائب القرآن" کے نام سے قرآنی واقعات کو کتابی شکل میں رقم فرمایا ہے جسے دعوت اسلامی کی مجلس المدینۃ العلمیہ نے کتابی شکل دے کر مکتبہ المدینہ باب المدینہ کراچی سے شائع فرمایا ہے.آپ صفحہ 76 پر عیسائیوں کا مباہلہ سے فرار کا عنوان لگا کر فخر یہ اعلان فرماتے ہیں کہ میں اب اس واقعہ کو بالکل نئے انداز سے یوں پڑھوں گا لکھوں گا اور روایت کروں گا.نجران (یمن) کے نصرانیوں کا ایک وفد مدینہ منورہ آیا یہ چودہ آدمیوں کی جماعت تھی جو سب کے سب نجران کے اشراف تھے اور اس وفد کی قیادت کرنے والے تین اشخاص تھے آپ نے نہایت کریمانہ لہجے میں ن سے گفتگو فرمائی اور حسب ذیل مکالمہ ہوا: نبی صل لله السالم تم لوگ اسلام قبول کر کے اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بن جاؤ.ابوحارثہ (عیسائی): ہم لوگ پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بن چکے ہیں..

Page 257

257 نبی صلی شما السلام : تم لوگوں کا یہ کہنا صیح نہیں کیونکہ تم لوگ صلیب کی پرستش کرتے ہو اور اللہ کے لئے بیٹا بتاتے ہوا اور خنزیر کھاتے ہو.ابوحارثہ (عیسائی) آپ لوگ ہمارے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالیاں کیوں دیتے ہو؟ ہم لوگ حضرت عیسی کو کیا کہتے ہیں؟ نبی صلی السلام : ابوحارثہ (عیسائی): آپ لوگ حضرت عیسی کو بندہ کہتے ہیں حالانکہ وہ خدا کے بیٹے ہیں.نبی صلی ال سالم ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور وہ کلمتہ اللہ جو کنواری مریم کے شکم سے بغیر باپ کے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پیدا ہوئے.ابوحارثہ (عیسائی): کیا کوئی انسان بغیر باپ کے پیدا ہوسکتا ہے؟ جب آپ لوگ یہ مانتے ہیں کہ کوئی انسان حضرت عیسی کا باپ نہیں تھا تو پھر آپ لوگوں کو یہ ماننا پڑے گا کہ اُن کا باپ اللہ تعالیٰ ہے.نبی صلی شما ایلام : اگر کسی کا باپ کوئی انسان نہ ہو تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا باپ خدا ہی ہو.خدا تعالیٰ اگر چاہے تو بغیر باپ کے بھی آدمی پیدا ہوسکتا ہے.ہاں میں بالکل نہیں مانتا عجائب القرآن مع غرائب القرآن صفحہ 76-78 66 100 سالہ مشہور ومتند اول لٹریچر میں جہاں جہاں وائٹ ہاؤس لندن مارکہ لوگوں کی مدد ہوتی تھی سب کو بدل دیا گیا ہے اور یوں عمل جراحی سے گزرنے والی کتب کے صرف نام درج ہیں.1 - مجموعه خطب 2 معراج نامه 3 تذكرة الاولياء مولفہ مولا نا محمد اسلم صاحب مولوی قادر یار صاحب حضرت شیخ فریدالدین عطار -4 اربعین فی احوال المهد بين مولفہ حضرت شاہ اسمعیل شہید 5- تعطیر الانام حضرت شیخ عبد الغنی البابلسی 6.شمائل ترمذی حضرت امام ابوعیسی ترمذی 7 صحیح مسلم شریف حضرت امام مسلم بن حجاج قشیری 8 تفسیر مجمع البیان حضرت الشیخ فضل ابن الحسن الطبریؒ

Page 258

258 9.تفسیر الصافی 10.ترجمہ قرآن کریم حضرت محمد بن مرتضیٰ الفیض الکاشانی حضرت شاہ رفیع الدین عمل جراحی کی مکمل تفصیل دیکھنا ہو تو خوفناک تحریف مولفہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب الناشر احمد اکیڈمی ربوہ سے دیکھی جاسکتی ہے.4.آج تک ایسا ہوتا ہوگا آخری زمانے کا سب سے بڑا فتنہ دجال کا ہوگا.فرمان نبوی صلی اللہ یہ تم مسیح دجال کے فتنوں کی شدت کے بارے میں حضرت ابوہریرہ ، حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ آپ صلی ایتم درج ذیل دعا پڑھتے اور اسے صحابہ کو بھی سکھاتے تھے جیسے قرآن مجید کی کوئی سورۃ سکھاتے تھے فرمایا: اللهم انى اعوذ بك من فتنة المسيح الدجال ( بخاری باب ذکر الدجال کتاب الفتن و تفسیر در منثور جلد 5 صفحه 354) حضرت امام بخاری نے حضرت عبد اللہ بن عمر اور ابن ابی شیبہ نے سفینہ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلاله ای سالم نے دجال پر خطبہ دیا اور فرمایا: انة لم يكن نبي الأحَذَر الدجال امته ( بخاری و تفسیر در منور مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 516 مطبوعہ مصر و ابویعلی ہزار ) یعنی کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے مسیح دجال سے اپنی امت کو خبر دار نہ کیا ہو.قیامت تک کوئی فتنہ دجال سے بڑا نہیں فرمان نبوی صلی یا یہ تم امام مسلم نے عمران بن حصین سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت سلیم نے فرمایا: ما بين خلق ادم الى قيامةالساعةامراكبر من الدجال (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال ) یعنی آدم کی پیدائش سے لیکر قیامت تک کوئی فتنہ دجال کے فتنہ سے بڑھ کر نہیں.دجال سے پناہ کے لیے سورۃ کہف کی ابتدائی آیات حفظ کر لیتا...فرمان نبوی ملا لیتم صحیح مسلم، ابوداود، نسائی ، ترمندی اور تفاسیر میں یہ مشہور حدیث وارد ہوئی ہے کہ جو شخص سورہ کہف کی ابتدائی اور آخری آیات پڑھے گاوہ دجال سے محفوظ رہے گا.مسلم میں نواس بن سمعان سے دجال کے بارے میں ایک لمبی حدیث

Page 259

259 درج ہے جس میں دجال کے فتنوں کی شدت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی شما یہ تم نے فرمایا: من ادركه منكم فليقرء عليه فواتح سورة الكهف فانها جوار كم من فتنته (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال ) یعنی جو شخص تم میں سے اُسے پالے تو اس پر سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے وہ یقینا ان فتنوں سے محفوظ رکھیں گی.دجال یہ عیسائی پادری ہیں.حضرت مرزا صاحب کا اعلان حضرت مرزا صاحب نے عیسائی پادریوں کے متعلق اعلان فرمایا: یا درکھنا چاہیے کہ لغت میں دجال جھوٹوں کے گروہ کو کہتے ہیں جو باطل کو حق کے ساتھ مخلوط کر رہے ہیں اور خلق اللہ کو گمراہ کرنے کے لیے مکر اور تلبیس کو کام لاتے ہیں.دنیا کے تمام ایسے لوگوں کی حالت پر نظر ڈالیں جنہوں نے دجالیت کا اپنے ذمہ کام لیا تھا تو اس زمانہ کے پادریوں کی دجالیت کی نظیر ہم کو ہرگز نہیں ملے گی.“ (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 5 صفحه 362 مطبوعہ لندن) یہی زمانہ دجال کا عہد ہے.حضرت مرزا صاحب کا دوسرا اعلان عیسائی پادریوں کی دجالی کاروائیوں کا تفصیلی ذکر کرنے کے بعد فرمایا: پس وہ کونسا فساد کا زمانہ اور کس بڑے دجال کا وقت ہے جو اس زمانے کے بعد آئے گا اور فتنہ اندازی کی رو سے اس سے بدتر ہوگا صاحبو یہاں وہ دجالیتیں پھیل رہی ہیں جو تمہارے فرضی دجال کے باپ کو بھی یاد نہیں ہونگی.ان کے مکروں نے عام طور پر دلوں پر سخت اثر ڈالا ہے اور ان کی طبیعی اور فلسفہ نے ایسی شوخی اور بے باکی کا تخم پھیلا دیا ہے کہ گویا ہر ایک شخص اس کے فلسفہ دانوں میں سے انا الرب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.“ ( دافع الوساوس مقدمہ، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 52-53) اس دجال کی سرکوبی کے لیے خدا نے مجھے مسحیت کا مقام دیا ہے...حضرت مرزا صاحب کا تیسرا اعلان حضرت مرزا صاحب عیسائی پادریوں کے الوہیت تثلیث اور کفارہ پر مبنی عقائد اور اسلام کے خلاف زہر یلے وپیگنڈہ پر انھیں دجال معہود ثابت کرنے کے بعد اعلان فرماتے ہیں : تمام لوازم موجوده بلند آواز سے یہی پکاررہے ہیں کہ اس صدی کا مجد دمسیح موعود ہو کیونکہ خدا تعالیٰ کی پاک کلام نے جو مسیح موعود کے زمانہ کے نشان ٹھہرائے تھے وہ سب اس زمانہ میں پورے ہو گئے ہیں.کیا تم نہیں دیکھتے کہ عیسائی سلطنت تمام دنیا کی ریاستوں کو نگلتی جاتی ہے.اور ہر ایک نوع کی بلندی انکو حاصل ہے اور میں کل

Page 260

260 حدب ینسلون کا مصداق ہیں.انگریزوں نے تلوار سے کسی کو اپنے مذہب میں داخل نہیں کیا بلکہ لوگ نئے فلسفہ اور نے طبعی اور پادریوں کے وساوس سے ہلاک ہوئے سو اس کا جواب اسلام کی حقانیت کا ثبوت دینا ہے نہ یہ کہ لوگوں پر تلوار چلانا.لہذا خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کی حالت کے ہم رنگ پاکر ان کے لیے حضرت مسیح کی مانند بغیر سیف و سنان کے مصلح بھیجا اور اس مصلح کو دجالیت کے دور کرنے کے لیے صرف آسمانی حربہ دیا ہے.“ لیکن آج کے بعد میں نہیں مانتا شہادت القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 374-375 مطبوعہ لندن 1984 ) کانا دجال وغیرہ والی احادیث جھوٹی اور افسانوی ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت میں ماننے کے لیے تیار نہیں تعاقبین مرزا صاحب کا اعلان مولانا مودودی صاحب عہد حاضر کے روشن دماغ عالم ہونے کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ کے متعاقبین میں اہم مقام رکھتے ہیں.آپ قادیانیت کے دفاع کے لیے اور مرزا صاحب کے دجال کی تشریح کے جواب میں فرماتے ہیں: کانا دجال وغیرہ سب افسانے ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں.ان چیزوں کی تلاش کرنے کی ہمیں کوئی ضرورت بھی نہیں.عوام میں اس قسم کی جو باتیں مشہور ہوں ان کی کوئی ذمہ داری اسلام پر نہیں.اور ان میں سے اگر کوئی چیز غلط ثابت ہو جائے تو اس سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا.“ ( ترجمان القرآن ستمبر اکتوبر 1945 ء ) | ساڑھے تیرہ سو برس کی تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ دجال کے متعلق آپ سلیم کی با تیں غلط ہیں.یہ آپ سلام کے قیاس تھے جو غلط ان کو اسلامی عقائد نہ سمجھا جائے...تعاقبین مرزا صاحب کا ایک اور اعلان مولا نامودودی صاحب دجال کے متعلق آپ سالی یا یہ سلام کے حوالے سے یہ تنقید فرماتے ہیں : دجال کے متعلق جتنی احادیث نبی سالی نہ ہی ہم سے مروی ہیں وہ دراصل آپ کے قیاسات ہیں جن کے بارے میں آپ خود شک میں تھے.یہ باتیں آپ نے وحی کی بناء پر نہیں فرمائی تھی اور آپ کا گمان وہ چیز نہیں ہے جس کے صحیح نہ ثابت ہونے سے آپ کی نبوت پر کوئی حرف آتا ہو یا جس پر ایمان لانے کے لیے ہم مکلف کئے گئے ہوں.لیکن کیا ساڑھے تیرہ سوبرس کی تاریخ نے یہ ثابت نہیں کر دیا کہ حضور کا اندیشہ صحیح نہیں تھا اب ان چیزوں کو اس طرح نقل و روایت کئے جانا کہ گویا یہ بھی اسلامی عقائد ہیں نہ تو اسلام کی صحیح نمائندگی ہے اور نہ ہی اس حدیث کا صحیح فہم کہا جاسکتا ہے.“ (رساله ترجمان القرآن فروری 1941 ء ورسائل و مسائل صفحہ 57 )

Page 261

261 اس کھلے ظلم کے خلاف دل نے صرف فیض کی زبان میں یہ کہا: نه سوال وصل نہ عرض غم نہ حکایتیں نہ شکایتیں ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے 5.آج تک ایسا ہوتا ہوگا امام مہدی امام مہدی کی بیعت کے لیے حاضر ہونا خواہ تمہیں برف کے پہاڑوں پر سے گھٹے ہوئے جانا پڑے لیکن جانا اور بیعت کرنا...فرمان نبوی صلی ایلام اذا مرايتموه فبايعوه ولو حبوا على الثلج فانه خليفة الله المهدى“ ترجمہ: آپ نے فرمایا پھر اللہ ا خلیفہ مہدی آوے گا جب تم اس کو دیکھو تو اس سے بیعت کر وا گر چہ ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل پر چل کر جاؤ کیونکہ وہ اللہ کا خلیفہ مہدی ہے.( سنن ابن ماجہ جلد سوم مترجم صفحه 331 شائع کردہ اہل حدیث اکادمی کشمیری بازارلاہور ) چودھویں صدی سر پر آگئی ہے شاید چند سالوں میں امام مہدی ظاہر ہو جا ئیں مسلمان علماء کی 1870ء کے لگ بھگ امیدیں مشہوراہل حدیث عالم دین ابوالخیر نواب نورالحسن نے لکھا: اب چودھویں صدی ہمارے سر پر آئی ہے اس صدی سے اس کتاب کے لکھنے تک چھ مہینے گزر چکے ہیں شاید اللہ تعالیٰ اپنا فضل و عدل رحم وکرم فرمائے.چار برس کے اندر مہدی ظاہر ہو جاویں.“ ( اقتراب الساعۃ صفحہ 221 ) اے اللہ امام مہدی کو جلد بھیج دین احمد مٹا جاتا ہے.1892ء میں مسلمان علماء کی پکار مولوی شکیل احمد سہوانی 1309ھ ( 1892ء) میں اسلام پر نازل ہونے والی آفات کا جائزہ لینے کے بعد اپنے دلی کرب کا اظہار منظوم انداز میں کرتے ہوئے امام مہدی کی آمد کی یوں تمنا کی.دین احمد کا زمانے سے مٹا جاتا ہے نام قہر ہے اے میرے اللہ یہ ہوتا کیا ہے کس لیے مہدی برحق نہیں ظاہر ہوتے دیر عیسی کے اوتر نے میں خدا یا کیا ہے مولانا حالی اپنی مسدس میں یوں گریہ کناں تھے : الحق الصريح في حياة اسبیح صفحه 133 ) اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

Page 262

262 فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں بیڑہ یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے اس زمانے کی اصلاح کے لیے خدا نے مجھے مہدی بنا کر بھیجا ہے...حضرت مرزا صاحب کا اعلان آپ نے مہدی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا ہے سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا.اور قرآن اور حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہوگا سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں میرا یہی حال ہے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے پس یہی مہدویت ہے جو نبوت محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرار دین بلا واسطہ میرے پر کھولے گئے ہیں.لیکن آج کے بعد میں نہیں مانتا ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد 14 صفحه 394 مطبوعه اندن) امام مہدی اپنے مہدی ہونے کا اعلان نہیں کرے گا.بلکہ اسے خود بھی معلوم نہیں ہو گا کہ وہ امام مہدی ہے ان کے مرنے کے بعد لوگ کہیں گے وہ مہدی تھا.بیعت والی بات تو بہت دور کی ہے.متقابلین حضرت مرزا صاحب کا اعلان جماعت احمدیہ کے بانی نے امام مہدی کے زمانے کی علامات گنوانے کے بعد اعلان فرمایا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ علامات پوری ہوجائیں اور وہ شخص جس کے لیے وہ علامات ظہور میں آئی ہوں موجود نہ ہوں.سو میں وہ شخص ہوں.امام مہدی کے زمانے کی علامات کے پورے ہونے کے بارے میں کہیں بھی دورائے نہیں لیکن اس کے بعد پھر کیا عذر ہے؟ سومولانا مودودی صاحب کی زبان سے ملاخطہ ہو: آنے والا اپنے زمانہ میں بالکل جدیدترین طرز کا لیڈر ہوگا مجھے یہ بھی امید نہیں کہ اپنی جسمانی ساخت میں وہ عام انسانوں سے کچھ بہت مختلف ہوگا کہ اس کی علامتوں سے اس کو تاڑ لیا جائے نہ میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ اپنے مہدی ہونے کا اعلان کرے گا.بلکہ شاید اسے خود بھی اپنے مہدی موعود ہونے کی خبر نہ ہوگی اور اس کی موت کے بعد اس کے کارناموں سے دنیا کو معلوم ہوگا کہ یہی تھاوہ خلافت علی منہاج النبوۃ پر قائم کرنے والا جس کی آمد کا مردہ سنایا گیا تھا.“ تجدید و احیائے دین صفحہ 52-53 اسلامک پبلیکشنز پرائیویٹ لمیٹیڈ.شاہ عالم مارکیٹ لاہور ) امام مہدی کو کوئی کشف والہام بھی نہیں ہوگا نہ کوئی معجزہ کرامت دکھا ئیں گے....دوسرا اعلان آئندہ کے لیے مولانا مودودی صاحب نے حضرت امام مہدی کے Status کو یوں متعین کر دیا ہے :

Page 263

263 مہدی کے کام کی نوعیت کا جو تصور میرے ذہن میں ہے وہ بھی ان حضرات کے تصور سے بالکل مختلف ہے مجھے اس کے کام میں کرامات و خوارق کشوف والہامات اور چلوں اور مجاہدوں کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی." (تجدید و احیائے دین صفحہ 53-54 اے خالقِ ارض و سما ان ہاتھوں سے سیاہی اور برش تو ہی چھین سکتا ہے ورنہ تو فیض کی زبان میں یہی حال منقش ہے : یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سر راہ سیا ہی لکھی گئی یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سر بزم یار چلے گئے 6.آج تک ایسا ہوگا ایک فرقہ جنتی اور 72 فرقے دوزخی ہونگے.فرمان نبوی صلی سیستم آنحضور علیہ السلام نے آخری زمانے کے فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ خود مسلمان کہلانے والے بہت سے گروہوں میں بٹ جائیں گے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ پھر سچا کون ہوگا آپ نے فرما یا وہ ایک ہوگا.چنانچہ فرمان مبارک ہے: ان بنى اسرائيل تفرقت على ثنتى وسبعين ملة وان امتى ستفترق على ثلاث وسبعين مله كلهم في النار الا واحدة قالوا من هي بارسول الله قال ما انا علیہ واصحابی ( ترمذی باب الایمان باب افتراق هذه الامة جلد نمبر 2 صفحه -8-9 ترجمہ: یقینا بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی سوائے ایک کے.باقی سب ناری ہوں گے صحابہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ وہ فرقہ کون سا ہو گا آپ نے فرمایا کہ وہ فرقہ وہ ہوگا جو وہ کام کرے گا جو میں اور میرے صحابہ کر رہے ہیں.لیکن آج کے بعد میں نہیں مانتا آج سے 72 جنتی اور ایک دوزخی اور دائرہ اسلام سے خارج...مخالفین مرزا صاحب کا اعلان جماعت احمدیہ کے سیلاب کے آگے بند بنانے کی خاطر پاکستان اسمبلی حرکت میں آئی اور تمام فرقوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ ہم سب 72 مسلمان اور درست ہیں یہ ایک دوزخی اور دائرہ اسلام سے خارج ہے چنانچہ 7 ستمبر 1974ء کو یہ ممتاز کارنامہ پاکستان اسمبلی میں 72 فرقوں کی موجودگی میں انجام دینے کے بعد مند رذیل فخریہ اعلان فرمایا گیا: قادیانی فرقہ کو چھوڑ کر جو بھی 72 فرقے مسلمانوں کے بتائے جاتے ہیں سب کے سب اس مسئلہ کے حل ( مراد فتوی کفر ) پر متفق اور خوش ہیں.

Page 264

264 (نوائے وقت 6 اکتوبر 1974 ء مضمون قادیانی مسئلے کا حل اور چند دلچسپ حقائق ) میرا دل اس ظلم پر اس احتجاج کے سوا اور کچھ کہنے سے ڈر رہا ہے: وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روز جزا گیا 7.آج تک ایسا ہوتا ہوگا مسلمان کی تعریف جو شخص خدا کی توحید اور صاحب قرآن کی رسالت کا قائل اور نماز قائم کرتا اور زکوۃ دیتا ہے وہ مسلمان اور سچا مؤمن ہے.فرمان خداوندی از قرآن حکیم دنیا میں مسلمان بننے کے لیے کیا افعال اور کیا عقائد رکھنا ضروری ہیں یا مسلمان کی تعریف کیا ہے.میں نے جب اس مقصد کے لیے قرآن حکیم سے پوچھا تو اس نے بتایا: 1 - انما المومنون الذين اذا ذكر الله وجلت قلوبهم واذا تليت عليهم آياته زادتهم ايماناً و على ريهم يتوكلون الذين يقيمون الصلواة وممارزقنهم يتفقون اوليلـــم المومنون حقا (انفال ع 1 آیت 3 تا 5 ) ترجمہ : مومن وہ ہیں کہ ذکر الہی کے وقت ان کے دلوں میں خوف پیدا ہوتا ہے اور جب آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھتا ہے اور وہ خدا پر بھروسہ کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور خدا کے بخشے ہوئے رزق کو خرچ کرتے ہیں یہی لوگ سچے ایمان والے ہیں.2 فان لم يستجيبوالكم فاعلموا أنما أنزل بعلم الله وَأَنْ لا اله الا بو فهل انتم مسلمون ( ہود ع 2 آیت 15 ) ترجمہ: اگر وہ تمہاری بات کا جواب نہ دے سکیں تو سمجھ لو کہ یہ قرآن خدا کے علم کے مطابق اترا ہے اور یہ کہ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں بس کیا تم مسلمان ہو.3 واذا وحيث الى الحوارين آن آمنوبي وبرسولی قالوا آمنا و اشهد باننا مسلمون (المائده ع 15 آیت 112 ) ترجمہ: اور ہم نے حواریوں کو وحی کی کہ وہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لائیں.انہوں نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں.

Page 265

265 4 - قُل انما يوحى إلى أنما الهكم اله واحد فهل انتم مسلمون ترجمہ: کہہ دوکہ مجھ کو تو یہی حکم ملا ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہے پس کیا تم اسلام قبول کرتے ہو.5 - فان تابوا واقاموا الصلوة وأتوالزكوة فاخوانكم في الدين (الانبیاء ع 5) تو به ع 2 آیت (11) ترجمہ: اگر وہ تائب ہو کر نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں.6 فامنوا بالله ورسوله النبى الامى الذي يؤمن بالله وكلماته واتبعوالعلكم تهتدون (اعراف ع 3 ) ترجمہ: پس اللہ اور اس کے نبی امی کی رسالت پر ایمان لاؤ جو خود بھی اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان لایا ہے اور تم اس کی پیروی کرو تا کہ ہدایت پاؤ.اب آپ خواہ کسی آیت سے لفظ مسلم اور مومن کی تعریف اخذ کریں یا تمام آیات کو ملا کر کوئی نتیجہ نکالیں.خلاصہ یہی ہے کہ جو شخص خدا کی توحید اور صاحب قرآن کی رسالت کا قائل ہے نماز قائم کرتا ہے اور زکوۃ ادا کرتا ہے وہ مسلمان ہے سچا مومن ہے.مسلمان کا بھائی ہے.ہدایت یافتہ ہے اور حواری تو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاکر لوگوں کو گواہ بناتے ہیں کہ باننا مسلمون خدا اور رسول پر ایمان ہو.نماز زکوۃ ادا کرتا اور بیت کا حج اور رمضان کے روزے رکھتا ہو وہ مسلمان....فرمان نبوی صلی الیتیم 1.جس شخص نے ہماری نماز پڑھی اور ہمارے قبلہ کو مانا اور ہمارا ذبیحہ کھایاوہ مسلمان ہے.(مشکوة و بخاری) 2.حضرت جبرائیل نے پوچھا ایمان کیا ہے؟ فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر اللہ کے فرشتوں پر.اس کی ملاقات پر.اس کے رسولوں پر.دوسری زندگی پر یقین کرو.فرشتے نے پوچھا اور اسلام؟ فرما یا اسلام یہ ہے کہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر ونماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو.رمضان کے روزے رکھو.( بخاری کتاب الایمان ) 3.اسلام کی بنیاد 5 چیزوں پر ہے اس بات کی شہادت کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد سلیم اللہ کے رسول ہیں.نماز کا قیام.زکوۃ کی ادائیگی.بیت اللہ کا حج.رمضان کے روزے.( بخاری کتاب الایمان )

Page 266

266 4.مدینہ میں پہلی مسلمان مردم شماری کے موقعہ پر فرمایا: آنحضور سلایا تم نے ایک دفعہ مدینہ میں مردم شماری کا حکم دیا اور مسلمانوں کی فہرست مرتب کرنے کی تاکید کی.صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ کس کو مسلمان لکھیں فرمایا: اكتبوالي من بلفظ بالاسلام من الناس ( بخاری باب کتابۃ الامام الناس ) یعنی لوگوں میں سے جو شخص اپنی زبان سے مسلمان ہونے کا اقرار کرتا ہے اس کا نام میرے لیے تیار ہونے والی فہرست میں لکھ لو.جو شخص لا الہ الا للہ پڑھے اسے کا فرمت کہ...حضرت شاہ ولی اللہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اپنی مشہور عالم کتاب حجتہ اللہ البالغہ جلد 1 صفحہ 322 میں حضور کی ایک حدیث نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’ایمان کی تین جڑیں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو شخص لا الہ الا اللہ کہہ دے تو اس کے ساتھ کسی قسم کی لڑائی نہ کر اس کو کسی گناہ کی وجہ سے کا فرنہ بنا اور اسلام سے خارج مت قرار دے.“ (روز نامہ جنگ راولپنڈی مورخہ 23 مئی 1985 مضمون نگار مولانا کوثر نیازی ) جس میں 99 کفر کی اور ایک ایمان کی وجوہ ہوں تو اسے کا فرمت کہو....حنفی فقہیہ علامہ شامی کسی مسلمان کو کا فرقرار دے دینا انتہا درجے کی شقاوت اور سنگ دلی ہے یہی وجہ ہے کہ سلف کے اکابر علماء اور فقہا اس سلسلے میں بے حد محتاط تھے مشہور حنفی فقہیہ علامہ شامی نے اپنی کتاب رد المحتار میں لکھا ہے کہ: ایک مسلمان کے کسی قول اور عقیدے کی سوتاویلیں ممکن ہوں جن میں ننانوے کفر کی ہوں اور صرف ایک احتمال ایمان کا ہو تو اس کی تکفیر جائز نہیں.“ (روز نامہ جنگ راولپنڈی مورخہ 23 مئی 1985 مضمون نگار مولانا کوثر نیازی) جس میں 999 کفر کے اور ایک ایمان کا احتمال ہوا اسے بھی کا فرمت کہو مولوی رشید احمد صاحب گنا گنگوهی یہ قول ( جو او پر درج ہے ناقل ) فقہاء نانو نے احتمال“ کا تحدیدی نہیں ہے اگر کسی کے کلام میں ہزار احتمال ہوں جن میں سے 999 احتمالات کفریہ ہوں اور صرف ایک احتمال ایمان کا ہو تو اس کی تکفیر جائز نہیں.“ (انوار القلوب بحوالہ روزنامہ جنگ پنڈی مورخہ 23 مئی 1985 ء مضمون نگار مولا نا نیازی کوثر) جب تک کوئی کلمہ پڑھتا ہے اُس کو کا فرمت کہو....حضرت امام غزالی میری نصیحت یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے اہل قبلہ کی تکفیر سے اپنی زبان کو روکو جب تک کہ وہ لا الہ الا الله

Page 267

267 محمد رسول اللہ کے قائل رہیں اور اس کے خلاف نہ کریں اور خلاف یہ کہ حضور کو کسی عذر یا بغیر عذر کے کا ذب قرار دیں.کیونکہ کسی کو کافر کہنے میں بڑے خطرات ہیں اور سکوت میں کوئی خطرہ نہیں.“ (التفرقة بين الاسلام والزندقہ صفحہ 56 خدا کو ایک مان کر جو کلمہ پڑھ لیتا ہے وہ مسلمان ہے اسے کسی سے منظوری کی ضرورت نہیں.شیخ الاسلام قسطنطنیہ 1888ء میں ایک یورپین مسٹر شومان نے حضرت شیخ الاسلام قسطنطنیہ کی خدمت میں لکھا کہ وہ اسلام اختیار کرنا چاہتا ہے اسے مسلمان ہونے کا طریق بتایا جائے.شیخ الاسلام کا جواب مسٹر آرنلڈ کی کتاب دعوت اسلام بعنوان THE PREACHING OF ISLAM میں موجود ہے انہوں نے تحریر فرمایا: اسلام کی بنیاد یہ ہے کہ خدا کو ایک مانے اور محم صلی ا یتیم کی رسالت کا یقین کرے یعنی دل سے اس پر ایمان رکھے اور الفاظ میں اس کا اقرار کرے جیسے کہ کلمہ لا اله الا الله محمد رسول اللہ کے الفاظ ہیں جو شخص اس کلمہ کا اقرار کرتا ہے وہ مسلمان ہو جاتا ہے بغیر اس کے کہ وہ کسی کی منظوری حاصل کرے.“ ( دعوت اسلام صفحہ 350 ناشر نفیس اکیڈمی کراچی) جو شخص حالت نزع میں انگریزی ہی میں کلمہ کا مہفوم ادا کر دیتا ہے وہ بلاشبہ مسلمان ہے.شیخ الکل مولانا نذیر حسین دہلوی جناب شیخ کا فتویٰ ہے کہ اگر کوئی شخص حالت نزع میں کلمہ شہادت کا مضمون ہی انگریزی میں ادا کر دے پھر فوت ہو جائے تو وہ بلا شبہ مسلمان سمجھا جائے گا.“ (فتاویٰ نذیر یہ جلد اول صفحہ 7 ناشر اہل حدیث اکاو می کشمیری بازار لاہور ) مسلمان ہونے کے لیے صرف آسمان کی طرف انگلی ہی اٹھا دینا کافی ہے یہی اسوہ رسول ہے...مولانا سید سلیمان ندوی مولاناسید سلیمان ندوی رسالہ اہل سنت و الجماعت میں مسلمان ہونے کے لیے درج ذیل فارمولہ بتاتے تھے: بخاری میں ہے کہ ایک دفعہ ایک صاحب کو ایک مسلمان غلام آزاد کرنا تھا وہ احمق سی کوئی حبشیہ آنحضرت صلی یا یہ یمن کی خدمت میں لے آئے اور دریافت کیا کہ کیا یہ مسلمان ہے؟ آپ نے اس سے پوچھا کہ خدا کہاں ہے؟ اس نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا دی آپ نے ان صاحب سے فرمایا لے جاؤ یہ مسلمان ہے اللہ اکبر اسلام کی حقیقت پر کتنے پردے پڑ گئے ہیں.آپ اسلام کے لیے آسمان کی طرف انگلی اٹھا دینا کافی سمجھتے ہیں لیکن ہمارے نزدیک آج کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ نسفی کے بندھے ہوئے عقائد پر حرفاً حرفاً منت نہ کہتا جائے.“ (رسالہ اہل سنت والجماعت صفحہ 24

Page 268

268 اللہ ، فرشتوں، آسمانی کتب، آخرۃ کے دن، قدر خیر شر اور بعث بعد الموت کا جو بھی قائل ہے وہ پکا مسلمان ہے....مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مجاز مولانا عبد الماجد در آبادی جن دنوں پاکستانی علماء مسلم کی تعریف کے سلسلے میں بے چین و پریشان ہورہے تھے آپ نے مہربانی فرما کر قرآن وسنت کے مطابق ایک مسلمان کی تعریف اپنے رسالے صدق جدید لکھنو میں شائع فرما دی اور ساتھ ہی پاکستانی مولویوں کو نصیحت فرما دی کہ ارد گر د نکریں مارنے کی بجائے اس کا مطالعہ کر کے اسے عدالت میں پیش کر دو چنانچہ آپ نے لکھا: " جب تمہیں مسلمان کی تعریف کا پتہ ہی نہیں تو بندگان خدا کوکس چکر میں کا فر بنا چکے ہو.“ یاد ہوگا کہ مغربی پاکستان میں جو ایجی ٹیشن قادیانیوں کے خلاف ہوا اس کا کیا نتیجہ نکلا ؟ مارشل لاء لگا علماء جیل میں ڈالے گئے.ایک تحقیقاتی عدالت قائم ہوئی جس میں بہت سے علماء اہل حدیث.دیو بندی.بریلوی شیعہ نے شہادتیں دیں.عدالت نے سب سے پوچھا کہ اسلام کی رو سے مسلم کی تعریف کیا ہے عمر بھر درس و تدریس اور فتویٰ دینے والے علماء اس سوال پر بہت چکرائے.مشکل سے جواب دے سکے اور متضاد جوابات دے کر خود ایک دوسرے کی تکذیب کر بیٹھے کوئی ضروریات دین کی حد تک گیا ہے جو شخص ضروریات دین کو مانے وہ مسلمان ہے مگر ضروریات دین کیا ہیں ان کی فہرست کوئی عالم دین پیش نہ کر سکا.چند علماء نے یہ کہہ کر پیچھا چھڑایا کہ عدالت نے اس سوال پر غور کرنے کی مہلت نہیں دی گویا ساری عمر مسلمان کی تعریف سے بے نیاز اور غافل رہے.اور غفلت میں لاکھوں بندگان خدا کو کافر بنا ڈالا.ہم ذیل میں لفظ مسلم کے سلسلہ میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں شاید اس سے پاکستانی علماء کوئی فائدہ اٹھا سکیں اور انہیں لفظ مسلم کی تعریف کے لیے کچھ موادل جائے.“ اللہ فرشتوں ، آسمانی کتب، آخرہ کے دن، قدر خیر شر اور بعث بعد الموت کا جو بھی قائل ہے تمہیں کوئی حق نہیں کہ اس کو کافر کہو آپ آگے چل کر فرماتے ہیں : کتاب وسنت میں لفظ مسلم کی کوئی متفق علیہ تعریف موجود ہے؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ علماء کرام نے کتاب وسنت کا گہرا مطالعہ اور اس کا منشاء معلوم کر کے ایک عقیدہ مقرر کیا ہے اور یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص اس عقیدے کو سچے دل سے مانتا ہے وہ مسلمان ہے خواہ اس کا تعلق کسی فرقہ سے ہو وہ عقیدہ یہ ہے: میں اللہ پر اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر آخرۃ کے دن پر اور اس بات پر کہ خیر وشر کا وہی مالک ہے اور اس پر کہ مرنے کے بعد جینا برحق ہے ایمان لاتا ہوں.“ اگر یہی عقیدہ ایک مسلم کی کسوٹی ہے تو ہر فرقہ سے پوچھو کہ وہ اس عقیدہ کی تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے یا

Page 269

269 نہیں.اگر ایمان رکھتا ہے تو اسے مسلمان سمجھو اور تفصیلات کو عالم الغیوب کے حوالے کر وہ کسی کو یہ حق نہیں کہ پھر ایسے فرقہ کو اسلام سے خارج کر دے اور اس عقیدے کو بے نتیجہ اور بے اثر بنائے.“ سنو! قرآن کہتا ہے کہ جو خدا، رسول ، نماز، زکوۃ پر ایمان رکھتا ہے وہ مسلمان ہے.آپ اپنی مندرجہ بالا مسلم تعریف سے اختلاف کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر اس استدلالی اور استنباطی عقیدہ سے کام نہیں چل سکتا تو پھر کتاب اللہ سے کتاب اللہ کے الفاظ میں پوچھوا ور قرآن کریم سے لفظ مسلم کی تعریف نکالو قرآن ہر زمانہ میں بولنے والی کتاب ہے ناممکن ہے کہ ضرورت کے وقت وہ ہمیں لفظ مسلم کی تعریف سے آگاہ نہ کرے اور ہمیں مسلمان کی تعریف نہ بتا پائے ہم نے جب اس مقصد کے لیے قرآن حکیم سے پوچھا تو اس نے بتایا.“ آگے آپ انفال ع 1 سورہ ہود ع 2 المائدہ ع 15 الانبیاء ع 5 تو بر ع 2 اور سورۃ اعراف ع 3 کی آیات درج کرنے کے بعد فرمایا: اب آپ خواہ کسی آیت سے لفظ مسلم اور مومن کی تعریف اخذ کریں یا تمام آیات کو ملا کر کوئی نتیجہ نکالیں خلاصہ یہی ہے کہ جو شخص خدا کی توحید اور صاحب قرآن کی رسالت کا قائل ہے نماز قائم کرتا ہے اور زکوۃ ادا کرتا ہے وہ مسلمان ہے سچا مومن ہے مسلمان کا بھائی ہے ہدایت یافتہ ہے اور حواری تو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاکر لوگوں کو گواہ بناتے ہیں کہ باننا مسلمون“ سنو! صاحب قرآن کہتا ہے کہ جو ہماری نماز پڑھتا ہمارے قبلے کو مانتا اور ہمارا ذبیحہ کھاتا ہے وہ مسلمان ہے قرآن کے بعد آپ آنحضور صلی للہ یتیم کی زبان مبارک سے مسلمان کی تعریف میں 3 احادیث بخاری کتاب الایمان، مشکوۃ اور بخاری کتاب الایمان سے درج کرنے کے بعد فرماتے ہیں: و مسلم کی تعریف میں خدا نے بتایا کیا صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی دوسری راہ اختیار کی ؟ ایمان کی تعریف میں اور مسلم کی تعریف میں اسلام کی بنیاد میں کیا ہیں.اس کا اجمال قرآن میں اور تفصیل صاحب قرآن کے فرمان میں ہے پس جو شخص جو فرقہ ایمان و اسلام کی ان باتوں کو مانتا ہے وہ پکا مسلمان ہے اور پکا ایمان دار ہے کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ کچھ اپنی طرف سے بڑھا کر کسی کو اسلام سے خارج کرے اور کتاب اللہ اور ارشادات رسول سے تجاوز کر کے صرف اپنے اسلام کا ڈھنڈورا پیٹے.البتہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ آیات اور احادیث مسلم کی تعریف میں کارآمد نہیں ہوسکتیں.کچھ اور آیات اور احادیث ہیں جو لفظ مسلم کی تعریف میں قول فیصل کا حکم رکھتی ہیں اگر ایسا ہے تو وہ آیات اور احادیث پیش کرو اور ان میں اپنی طرف سے کچھ نہ ملاؤ مطلب یہ کہ اسلام سے اس فرقہ کو خارج کرد

Page 270

270 جسے کتاب اللہ اور اقوال رسول اللہ خارج کریں اور ان فرقوں کو مسلمان سمجھو جن کو خدا اور رسول مسلمان قرار دیں ایک حرف کمی بیشی نہ کرو.پھر دیکھو کہ اسلام میں کون داخل ہوتا ہے اور اس سے کون خارج ہوتا ہے.“ سنو! سید سلیمان ندوی صاحب فرماتے کہ آپ کا اسوہ ہے کہ کوئی انگلی اٹھا کر بھی بتا دے کہ خدا کہاں ہے تو وہ مسلمان ہے.آپ نے قرآن و حدیث پیش کرنے کے بعد سید سلیمان ندوی صاحب کا قول بھی درج فرمایا ہے اور لکھتے ہیں : اس موقعہ پر علامہ سید سلیمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول بھی یادرکھنے کے قابل ہے.آگے آپ نے ان کا رسالہ اہل سنت والجماعۃ سے حبشہ والا واقعہ درج فرمایا ہے جس کے بعد ندوی صاحب لکھتے ہیں کہ ) '' آپ اسلام کے لیے آسمان کی طرف انگلی اٹھا دینا کافی سمجھتے تھے.“ سنو! امام غزالی فرماتے ہیں کہ جو بھی کلمہ پڑھتا ہے اسے کا فرمت کہو مولا نا عبد الماجد در آیا بادی مزید آگے چلتے ہوئے حضرت امام غزالی کا قول التفرقة بين الاسلام والزندقة صفحہ 56 سے درج فرماتے ہیں جس میں حضرت امام صاحب نے فرمایا کہ جب تک کوئی شخص کلمہ کا قائل ہے اسے کافر مت کہہ آپ قرآن وحدیث کی بجائے من مانی تعریف بنانا چاہتے ہیں تا کہ آپ جس فرقے کو چاہیں کا فر بنا سکیں.آپ نے مزید بحث کو سمیٹتے ہوئے پاکستانی مولویوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ سطور اہل پاکستان کے ان علماء کے لیے لکھی گئی ہیں جو حکومت سے لفظ مسلم کی تعریف کرانا چاہتے ہیں.اگر چہ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ وہ تعریف سے پہلے ہی بعض فرقوں کو خارج از اسلام قرار دینے کے لیے بے چین ہیں اور تعریف بھی ایسی من مانی کرانا چاہتے ہیں کہ جن کو وہ مسلمان کہنا نہیں چاہتے وہ مسلمان ثابت نہ ہوں اس الجھن کو دور کرنے کے لیے یہ سطور لکھی جارہی ہیں.“ ( صدق جدید لکھنو 6-20 سمبر 1957 ء مضمون کی شکل میں محمد احمد برانڈرتھ روڈ لاہور نے مکتبہ جدید پریس سے شائع کیا ) لیکن آج کے بعد میں نہیں مانتا آج سے مسلمان کی نئی تعریف یہ ہوگی جنرل ضیاء الحق صاحب سابق صدر پاکستان نے امتناع قادیانیت جیسا آرڈنینس پاس کرنے اور لاگو کرنے کے ساتھ ساتھ لفظ مسلم کی بھی نئی تعریف وضع فرمائی تا کہ قادیانیوں پہ کا ہاتھ ڈالا جا سکے.جنرل صاحب نے آئین کے آرٹیکل نمبر 260 میں ترمیم کر کے مسلم اور غیر مسلم کی مندرجہ ذیل تعریف ایجاد فرمائی.1.مسلم

Page 271

271 جو شخص اللہ کی وحدانیت اور رسالت مآب سلاا اینم کی نبوت پر ایمان رکھتا ہو.آپ کو آخری نبی مانتا ہو اور آپ کے علاوہ کسی بھی شخص کو بی یا مصلح تسلیم نہ کرتا ہو وہ مسلم ہے.2.غیر مسلم 66 "جو شخص مسلم نہ ہو.یا جس کا تعلق عیسائی یا ہندو سکھ بدھ یا پاری فرقوں سے ہو، وہ غیر مسلم ہے.“ مشکل غیر مسلم (آمریت کے سائے صفحہ 373 اسی وجہ سے مشہور زمانہ تصنیف ” آمریت کے سائے“ کے مصنف جناب ممتاز حسین ایڈووکیٹ احمد یوں کو مشکل غیر مسلم کے نام سے یاد فرماتے ہیں جی ہاں مشکل غیر مسلم.یقینا یہ مذہبی فتوی باز وادی میں ایک غیر مانوس اور نو وارد اصطلاح ہے اس لیے ہم نے جناب ممتاز حسین صاحب سے ہی اس کا پس منظر جاننا چاہا تو انہوں نے مندرجہ ذیل الفاظ صفحہ قرطاس پر بکھیر کر میری مشکلات کو درد ناک حد تک بڑھا دیا.”یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ قادیانی جماعت کو غیر مسلم بنا نا خاصہ مشکل کام تھا اس لیے کہ مسلمان کی تعریف تو صرف یہ تھی کہ جو شخص بھی کلمہ طیبہ پڑھ لے اور لا اله الا الله محمد مرسول اللہ اپنی زبان سے ادا کر دے وہ مسلمان ہو جاتا ہے ایک مسلمان جن کے لیے باتوں پر ایمان لانا ضروری تھا ان میں تو حید رسالت فرشتوں.آسمانی کتابوں خیر وشر کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا اور حیات بعد الموت شامل ہیں.اور قادیانی جماعت ان جملہ باتوں پر ایمان رکھتی ہے اس لیے ضیاء الحق صاحب نے قادیانی جماعت کو اسلام سے خارج کرنے کے لیے لفظ مسلم اور غیر مسلم کے مندرجہ بالا معنی متعین کئے.“

Page 272

272 باب نمبر 7 افتراسازیاں اور

Page 273

273 میری مشکلات ہر عہد میں ملعون شقاوت ہے شمر کی ہر عہد میں مسعود ہے قربانی شبیر دلدلوں کا سفر تحقیق کا بوجھ کاندھے پر اٹھائے دن ڈھلے میں جس وادی میں داخل ہوا وہ جعل سازوں سے بدتر تھی.کالا سیاہ کیچڑ دلدلی زمین کی نشاندہی کر رہا تھا.یعنی وہ سرزمین جس میں داخلے کے بعد ڈوب مرنے کے چانس تو بہت ہیں مگر ابھر کر بچ نکلنے کے بہت کم.

Page 274

274 تھکے ہارے مسافر کی طرح میں نے بھی ایک لمحہ کے لیے رک کر ماضی کے گزرے لمحوں کو صدا دی.اور ان راستوں کا تصور کیا جہاں سے میں گزر آیا تھا.لیکن جس قیامت سے اب میرا سامنے ہے وہ ماضی کے تمام قصوں کو بھلا دینے والی ہے.یعنی افتراء سازی.یعنی جھوٹ اور سراسر جھوٹ.یعنی بہتان یعنی تقوی سے عاری.یعنی خوف خدا سے دشمنی.یعنی تعصب اور ہٹ دھرمی کی انتہا.میں نے اس لمحے کی لڑائی میں جس کو بھی دیکھا.جس سے بھی ملا.جس کو بھی پڑھا.اور جس بھی مخالف احمدیت کے فن حرب کا ملاحظہ کیا ایک ہی بات نچوڑ کے طور پر سامنے آئی کہ جھوٹ اور افتراء کے بغیر رنگ چھوکھا نہیں ہوتا اور محفل سجی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر.اس محاز جنگ پر کوئی مولوی تھا یا مولانا.کوئی عالم دین تھا مجد دعصر کوئی تاریخ دان تھا یا کوئی صحافی کوئی دانشور تھا یا پی ایچ ڈی فاضل، مجبور تھا جھوٹ بولنے پر.دوستو ! یہی جان کاری میری انگلی مشکل میں بدل گئی.جھوٹ نمبر 1 مشکل نمبر 37 1935ء میں مرزا غلام احمد قادیانی نے دعویٰ نبوت کر دیا تو علامہ اقبال نے اپنا بیان بدل لیا.ڈاکٹر وحید عشرت صاحب پی ایچ ڈی کا معصوم جھوٹ ابتداء ایک پی.ایچ.ڈی ڈاکٹر جو احمدیت کی مخالفت کرنا چاہتا ہے کے خیالات مطہرہ سے کرتے ہیں.پس منظر علامہ اقبال نے 1910ء میں خطبہ علی گڑھ ( اسٹریچی ہال ) میں فرمایا تھا کہ 66 ” جماعت احمد یہ اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ ہے“ صورت حال کا مقابلہ ڈاکٹر علامہ اقبال کے حوار میں نہیں چاہتے کہ ان خیالات سے جماعت احمدیہ کو سپورٹ ملے یا پھر ان نظریات کا دفاع کیسے کیا جائے؟ سو جب 85 ویں برسی کے موقعہ پر اقبالیات نمبر بڑی دھوم دھام سے شائع کیا گیا اس میں ایک پی.ایچ.ڈی ڈاکٹر وحید عشرت صاحب نے یوں تحقیق پیش کی : اقبال نے اس خطبہ ( 1910ء) میں قادیانیوں کے طرز عمل کی تعریف کی ہے اور بعد میں اس سے برأت کا اظہار فرمایا.اس خطبے کے وقت مرزا غلام احمد قادیانی نے قطعی اور حتمی طور پر دعوی نبوت نہیں کیا تھا وہ خود کومحمد مصلح او

Page 275

275 مناظر اسلام کہتے تھے ایسے میں ان کے اور ان کی حمایت کے اسلامی کردار کی اقبال نے تعریف کی مگر جب مرزا صاحب نے پر پرزے نکالے اور نبوت کے دعوے شروع کئے تو اقبال ان اولین لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ان کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ تکفیر کی اور 1935ء میں انتخابات کے وقت انہیں اس لیے غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا.(اقبالیات جلد نمبر 28 جنوری مارچ 1988 ، صفحہ 461) تبصره تبصرہ صرف اتنا ہے کہ 1910ء میں آپ نے جماعت کو اسلام کا ٹھیٹھ نمونہ بیان فرمایا اور بعد کے نبوت کے دعوئی پر 1935ء میں غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کر دیا جبکہ صورت حال یہ ہے کہ مرزا صاحب تو 1910ء سے بھی 2 سال قبل 1908ء میں فوت ہو چکے ہیں.کیسی لگی.جھوٹ نمبر 2 1870ء میں وائٹ ہاؤس لندن میں فیصلہ کیا گیا کہ ایک ظلی نبی کھڑا کیا جائے جمعیۃ العلماء اسلام سرگودھا اور شورش کا شمیری صاحب کا نادر الوقوع جھوٹ پس منظر مئی 1967ء میں جمعیت العلماء اسلام سرگودھا نے خالد پریس سے انگریزی میں ایک پمفلٹ شائع کیا جس کا عنوان تھا: SOME THING TO PONDER OVER اسے مشرقی اور مغربی پاکستان میں خوب تقسیم کرنے کے کئی سال بعد شعبہ نشر و اشاعت مجلس تحفظ ختم نبوت نے اس کا اردو ترجمہ شائع کردیا اور 1973ء کی اپنی مطبوعہ روداد بابت سال 1392ھ میں اس کو اپنا خاص کارنامہ قرار دیا.اسی دوران شورش کاشمیری صاحب نے اسی رسالہ کو اپنے رسالہ ” چٹان میں بجھی اسرائیل“ کے نام سے شائع فرما دیا اور یوں اسے شرعی سند کا درجہ حاصل ہو گیا.1974 ء میں انہوں نے اس کو مستند دستاویز کے طور پر قومی اسمبلی میں پیش کر دیا اور ساتھ ہی اس کے عربی ، اردو، انگریزی ترجمے شائع کر دیئے گئے.وہ پمفلٹ درج ذیل ہے.صورت حال 1869ء میں انگریزوں نے ایک کمیشن لندن سے ہندوستان بھیجا تا کہ وہ انگریز کے متعلق مسلمان کا مزاج

Page 276

276 معلوم کرے.اور آئندہ کے لیے مسلمان کو رام کرنے کے لیے تجاویز مرتب کرے.اس کمیشن نے ایک سال ہندوستان میں رہ کر مسلمانوں کے حالات معلوم کئے 1870 ء میں وائٹ ہاؤس لندن میں کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں کمیشن مذکور کے نمائندگان کے علاوہ ہندوستان میں متعین مشن کے پادری بھی دعوت خاص پر شریک ہوئے جس میں دونوں نے علیحدہ علیحدہ رپورٹ پیش کی جو کہ دی ارائیول آف برٹش ایمپائر ان انڈیا کے نام سے شائع کی گئی جس کا مندرجہ ذیل اقتباس پیش کیا جاتا ہے.رپورٹ سربراہ کمیشن سرولیم ہنٹر مسلمان کا مذہبا عقیدہ یہ ہے کہ وہ کسی غیر ملکی حکومت کے زیر سایہ نہیں رہ سکتے اور ان کے لیے غیر ملکی حکومت کے خلاف جہاد کرناضروری ہے.رپورٹ پادری صاحبان اگر ہم اس وقت کسی ایسے غدار کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں جو ظلی نبوت کا دعوی کرنے کو تیار ہو جائے تو اس کے حلقہ نبوت میں ہزاروں لوگ جوق در جوق شامل ہو جائیں گے.تبصرہ 1.لندن میں تو کوئی وائٹ ہاؤس نہیں وہ تو امریکہ میں ہے.2 دی ارائیول آف برٹش ایمپائر ان انڈیا نامی کتاب جس سے یہ واقعہ وصول کیا گیا دنیا میں بھی شائع ہی نہیں ہوئی.3 سرولیم ہنٹر کی سربراہی میں برصغیر کی تاریخ میں کبھی کوئی کمیشن برصغیر آیا ہی نہیں.-4- غدار اور ظلی نبی کے الفاظ بھی بتاتے ہیں کہ یہ پادری کے نہیں احراری کے الفاظ ہیں.بین الاقوامی جھوٹ کا مقابلہ مکمل تفصیل کے لیے دیکھیں مذہب کے نام پر فسانہ مصنفہ مولانا دوست محمد شاہد ) مشہور امریکی مفکر ایمرسن کا قول ہے کہ عقل کی حد ہو سکتی ہے لیکن بے عقلی کی کوئی حد نہیں“.مندرجہ بالا جھوٹ کبھی برطانیہ کے وائٹ ہاؤس تک ہی محدود رہتا تب بھی اپنی بین الاقوامی حیثیت میں منفرد تھا.مگر مزے کی بات ہے 67 ء کے بعد کے 30 سالوں میں بھی اس پر مزید رنگ وروغن کا سنہری کام جاری رہا.30 سالوں پر پھیلے اس روغنی ہوم ورک کا مختصر حال درج ہے.1.سات سال تک احراری بھائی یہ ڈھنڈورا پیٹتے رہے کہ وائٹ ہاؤس لندن میں ایک ظلی نے

Page 277

277 جانے کی تجویز کی گئی تھی مگر ا پریل 1974ء میں اس میں یہ اضافہ کیا گیا کہ اس رپورٹ کی روشنی میں خطرات کا حل یہ تجویز ہوا کہ کسی شخص سے محمد کا حواری نبی ہونے کا دعوی کرایا جائے.( خاتم النبیین جلد اوّل صفحہ 48 مولفہ مصباح الدین صاحب ای بلاک نمبر 104 سٹیلائٹ ٹاؤن راولپنڈی تاریخ تالیف اکتوبر 1973 ، نظر ثانی اپریل 1974 ء ) 2.خاتم النبین کے اوپر مندرج مولف جناب مصباح الدین نے تاریخ کے دوش پر سفر کرتے ہوئے ” کچھ مزید آنکھوں دیکھا حال بھی مصالحے کے طور پر add کیا ہے.وائٹ ہاؤس لندن کی کہانی کو مزید تقویت دینے والی آپ کی روایت ملاخطہ ہو.فرماتے ہیں کہ ” لدھیانہ میں مہاراجہ پٹیالہ جے سنگھ نے ایک بزرگ خواجہ احمد صاحب کو انگریزوں کی طرف سے پیشکش کی تھی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں ایمان نہیں بیچ سکتا.اس امر کا تذکرہ مرزا غلام احمد کی موجودگی میں ہوا.مرزا صاحب نے مہاراجہ سے ملکر ایمان کا سودا کر لیا.مہاراجہ کا نام جے سنگھ بہادر اور ان کا خطاب جو انگریزوں نے انہیں عطا کیا امین الملک“ تھا.“ تبصره (خاتم النبین جلد اول صفحہ 48-49) خاتم النبین جیسے عظیم نائیل سے کتاب لکھنے والے بھائی کہانی اچھی ہے مگر کمی صرف اتنی ہے کہ مرزا صاحب کا ہم عصر کوئی مہاراجہ جے سنگھ برصغیر میں پیدا ہی نہیں ہوا.منشی دین محمد ایڈیٹر میونسپل گزٹ لاہور نے یاد گار تاج پوشی گیانی گیان سنگھ نے تواریخ خالصہ.لالہ سوہن لال نے عمدۃ التواریخ سر لیپل گریفن اور کرنل چارلس فرانس میں نے The Punjab Chiefs میں پنجاب کی ساری تاریخ محفوظ کر دی.جس میں اس نام کے کسی راجے کا ذکر نہیں.لیکن دوستو! یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ جب ساری دنیا کے اندھوں کو لندن میں واقع وائٹ ہاؤس جیسی عظیم بلڈنگ نظر نہیں آئی تو یہ تو صرف 5،4 مورخ ہیں جن میں سے بھی ایک سردار ہے، کو پٹیالہ ریاست میں ایک مہاراجہ کیسے نظر آسکتا تھا؟ 3.جناب مصباح الدین کی خاتم النبین“ کے مزید 6 سال بعد یعنی 1979ء میں مجلس تحفظ ختم نبوت نے مزید انکشاف کر دیا کہ وائٹ ہاؤس لندن کی عظیم کا نفرنس میں پادریوں نے نہ ہی ظلی نبی اور نہ ہی ”محمد کا حواری نبی کھڑا کرنے کی تجویز دی تھی بلکہ مہدی اور مسیح کو پیدا کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا مجلس تحفظ ختم نبوت کے عظیم سراغرسانوں کا اگلا انکشاف پورے کا پورا پیش ہے.

Page 278

278 پادریوں نے انگلینڈ جا کر رپورٹ پیش کی مسلمانان عالم کا جذبہ جہاد اور اعلاء کلمتہ الحق کا جوش اس قدر ہے کہ ضروری ہے اسے ختم کرنے کے لیے کسی مہدی اور مسیح کو پیدا کیا جائے.“ ناشر نشر واشاعت مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان ملتان شہر مطبوعه رو داد 1979 ء) 4 مجاہد ختم نبوت جناب مصباح الدین کی مہاراجہ جے سنگھ کے ہاتھوں سرانجام پانے والی تاریخی ڈیوٹی کوایک دوسرے مجاہد ختم نبوت فراڈ قرار دے رہے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ یہ ڈیوٹی پٹیالہ کے راجہ جے سنگھ نے نہیں.ڈی سی سیالکوٹ نے ادا کی تھی.آپ کے الفاظ مبار کہ یہ ہیں.پنجاب کے گورنر نے اس کام کی ڈیوٹی ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے ذمہ لگائی چنانچہ نبی کی تلاش کا کام شروع ہوا.آخر قرعہ فال مرزا غلام احمد قادیانی کے نام نکلا جو ڈ پٹی کمشنر کی کچہری میں معمولی ملازم تھا.اور آپ نے اس کام کو 1870 ء میں ہی سرانجام قرار پانا مانا ہے." تبصره 66 مدیر لولاک“ جناب صاحبزادہ طارق محمود صاحب آپ کی کہانی میں بھی اس قدر کمی ہے کہ 1870ء سے صرف تین سال قبل 1867ء میں حضرت مرزا صاحب کی والدہ صاحبہ فوت ہو گئیں تھیں جس وجہ سے آپ اپریل 1867ء سے سیالکوٹ کو چھوڑ کر قادیان چلے گئے.پادریوں کی میٹنگ تھوڑی سی لیٹ ہوگئی ہے ورنہ شاید مرز اصاحب سے سیالکوٹ میں ہی ملاقات ہو جاتی.5.ضروری نہیں کہ ماہر تحقیق صرف دیوبندی مسلک میں ہی پیدا ہوں بریلوی بھائیوں میں بھی ایک سے ایک نابغہ روزگار موجود ہے.فیصل آباد کے ممتاز عالم دین صاحبزادہ محمد شوکت علی چشتی نظامی ایم.اے بانی مرکزی جماعت غریب نواز پاکستان نے 15 نومبر 1985ء کو جامعہ مسجد ت کا یہ فیصل آباد میں ایک تہلکہ خیز انکشاف کرتے ہوئے بہت سارے نقاب تاریخ کے چہرے سے نوچ ہی ڈالے ہیں.آخر ایسا کیوں نہ ہوتا؟ کیونکہ آپ غریب نواز جماعت کے بانی ہونے کے ساتھ ساتھ ایم.اے بھی تو ہیں آپ کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ انگریزی نبی یا ایمان فروش نبی کی تلاش کا کام نہ ہی مہا راجہ پٹیالہ جے سنگھ کے سپرد ہوا اور نہ ہی ڈی سی سیالکوٹ کے بلکہ یہ کام انگریزوں نے بانی دیوبند مولا نا محمد قاسم نانوتوی کے سپرد کیا تھا.یعنی نبی کے عہدے پر متمکن ہونے والے شخص کی دینی گنجائش پیدا کرنے کے لیے پہلے ختم نبوت کے ایسے معنی کروائے گئے اور پھر

Page 279

279 انہیں معنوں کو استعمال کر کے ایک شخص کو سرکاری پروٹوکول کے ساتھ نبی بنادیا گیا.تاریخ کے چہرے پر پڑے نقاب کو تار تار کر دینے والی اصلی رپورٹ ملاحظہ ہو.اس رپورٹ کے مطابق انگریزوں کو یقین ہو گیا کہ جب تک کسی شخص کو نبوت کے مقام پر فائز نہیں کر دیا جاتا ہم اپنے پروگرام میں کلی طور پر کامیابی حاصل نہیں کر سکتے.لہذا کسی شخص کو نبوت کے مقام پر فائز کرنے سے قبل راستہ ہموار کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس خدمت کو دار العلوم دیوبند انڈیا کے بانی مولوی محمد قاسم نانوتوی نے جمیع مسلمانوں کے عقائد ونظریات کے خلاف خوب نبھایا اور اپنی تحریر سے نئی نبوت کی داغ بیل یوں ڈال دی.غرض اختتام اگر بایں معنی تجویز کیا جائے جو میں نے عرض کیا تو آپ کا خاتم ہونا انبیاء گزشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا، بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور بنی ہو جب آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہے گا.“ (تحذیر الناس ) بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی ابھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا“.(تحذیر الناس) بعد حمد وصلوٰۃ کے قبل یہ گزارش ہے کہ اول معنی خاتم النبین معلوم کرنا چاہئیں تا کہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو.سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ لی لی ایم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد ہے اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں ولكن رسول الله وخاتم النبين فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے“.(تحذیر الناس) مذکورہ عبارات ثابت کر رہی ہیں.اہل فہم وہی لوگ ہیں جو خاتم النبین کے معنی آخری نبی نہیں ان میں صرف قاسم نانوتوی.....ہیں فرنگی حکومت نے خود ساختہ نبوت کا راستہ ہموار کرلیا.مدلل تقریر صفحہ 56-57 مولفہ الحاج میاں محمد شوکت علی چشتی نظامی ناشر شعبہ نشر واشاعت مرکزی جماعت رضائے غریب نواز فیصل آباد) تبصره یوں تو مولانا شوکت صاحب حاجی بھی ہیں.امام مسجد بھی ہیں.ایک دینی جماعت کے بانی بھی ہیں ایم.اے الگ سے ہیں.اور مریدین کی نظر میں آپ قبلہ و کعبہ مرشد برحق اور ضیغم اسلام جیسے بلند ٹائیل سے مزین وو ہیں اس لیے آپ کچھ بھی ارشاد فرما سکتے ہیں.میری گستاخی صرف اتنی سی ہے کہ مولا نا صاحب وائٹ ہاؤس لندن

Page 280

280 میں کانفرنس 1870ء میں ہوئی.جس کے بعد راستہ ہموار کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس خدمت کے لیے دار العلوم دیو بند کے بانی مولوی محمد قاسم نانوتوی کی ڈیوٹی لگائی گئی جنہوں نے تحذیر الناس لکھ کر وہ راہ ہموار کر دی.میری عرض صرف اتنی ہے کہ تحذیر الناس تو 1870 ء سے کئی سال پہلے سے دنیا میں موجود تھی.کیسی لگی؟ ہے ناں مزے کی بات.6.بریلوی علماء دین کی تحقیق جاری ہے.ممتاز عالم دین اور مشہور مناظر جناب محمد ضیاء اللہ صاحب قادری مہتمم دارالعلوم قادر یہ سیالکوٹ اپنی دور بین نگاہ سے فضائی تاریخی جائزہ لینے کے بعد فرماتے ہیں کہ مولانامحمد شوکت چشتی صاحب کی تحقیق بھی غلط ہے.انگریزوں نے تو تلاش نبی کا کام حضرت سید احمد شہید بالا کوٹ اور حضرت اسمعیل دہلوی کے سپرد کیا تھا.آپ کی ” تاریخ فرسا تاریخی تحقیق ملاحظہ ہو.سرولیم ہنٹر کی رپورٹ اور تجویز اور پادری صاحبان کی تجویز دونوں کو ذہن نشین رکھ کر اور بعد ازاں سید احمد بریلوی اور مولوی اسمعیل دہلوی نے نام نہاد جو تحریک چلائی اس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ انگریزوں نے سب سے پہلے ان دو حضرات کو اپنے مشن میں کامیابی کے لیے چنا.دہلی کی جامع مسجد میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دینے والے اسماعیل دہلوی تھے.پادریوں کی پیری مریدی کے سلسلہ والی تجویز اسی اسماعیل دہلوی نے سرانجام دینے کا بیڑہ اٹھایا کیونکہ اسماعیل دہلوی نے اپنے آپ کو سید احمد کا مرید ظاہر کرنا شروع کر دیا اور پیری کا چکر چلایا.اس سلسلے میں ایک کتاب صراط مستقیم کے نام سے بھی لکھ دی تا کہ انگریز کو پورا پورا یقین ہو جائے.“ تبصره ( نجد سے قادیان براستہ دیو بند صفحه 62 ناشر قادری کتب خانہ سیالکوٹ از ضیاء اللہ قادری ) بریلوی حلقہ جناب ضیاء اللہ صاحب کو افتخار قادریت، شمع بزم رضویت عندلیب بوستان مصطفی کے معرکتہ الاراء خطابات سے یاد کرتا ہے بلکہ آپ کا مزید مرتبہ یہ ہے کہ فرشتے آپ کے لبوں کے بوسے لیتے ہیں.جیسے شاعر آپ کی شان بیان فرماتا ہے.قدی کیوں بو سے نہ لیں تیرے لبوں کے اے عزیز تجھ کو بخشا ہے مقدر نے بیان مصطفیٰ ( الوہابیت صفحہ 3 مصنفہ ضیاء اللہ قادری ناشر قادری کتب خانه تحصیل بازار سیالکوٹ) چونکہ مقدر نے آپ کو قوت بیان عطا فرمائی اس لیے آپ کچھ بھی فرما سکتے ہیں ہم تاریخ کے ادنیٰ طالب علم صرف اتنا عرض کرتے ہیں.

Page 281

281 کا نفرنس تو 1870ء میں ہوئی.جبکہ حضرت سید احمد شہید اور حضرت شاہ اسمیعل دہلوی تو مئی 1831ء میں ہی فوت ہو گئے تھے یعنی مولانا قاسم نانوتوی کی پیدائش سے بھی 2 سال قبل.میرا خیال ہے فرق صرف 40 سال کا ہے.بڑے بڑے تاریخی واقعات میں اتنی اونچ نیچ تو ہو ہی جاتی ہے.چلو ایسے ہی سہی.7 - سید محمد سلطان شاہ صاحب جیسا کہنہ مشق محقق سب علماء دین سے ناراض ہے.آپ کے خیال میں اوپر درج سب بیانات شرمناک فراڈ ہیں.آپ کی تحقیق کے مطابق وائٹ ہاؤس کانفرنس کے بعد برٹش سنٹرل انٹیلی جنس حرکت میں آگئی اور انہوں نے نبی ڈھونڈنے کا کام ڈی سی سیالکوٹ کے ذمہ لگایا.جس نے باقاعدہ ٹینڈر کیا اور آسامیوں سے انٹرویو لئے جن میں سے مرزا صاحب میرٹ پر سب سے اول نمبر لیکر پاس ہوئے.نئے لوگوں کی نئی تحقیق ملاحظہ ہو: " برطانوی ہند کی سنٹرل اینٹلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر نے چار اشخاص کو انٹرویو کے لیے طلب کیا ان میں سے مرزا صاحب نبوت کے لیے نامزد ہوئے.“ بھٹو اور قادیانی مسئلہ صفحہ 42-43 اشاعت اول اگست 1993 ء ناشر میر شکیل الرحمن جنگ پبلشرز لاہور ) شاہ صاحب کے خیالات پڑھ کر مجھے ایمرسن کا قول ایک دفعہ پھر شدت سے یاد آنے لگ گیا ہے کہ دو عقل کی حد ہو سکتی ہے مگر بے عقلی کی نہیں 8.روزنامہ خبریں بھی اس جاری چشمہ سے کچھ نہ کچھ فیض حاصل کر کے اپنی عاقبت میں سیونگ اکاونٹ کھولنا چاہتا تھا چنانچہ انگریز اور انگریزی نبی کی تیاری کے متعلق آپ کی ریسرچ ملاحظہ ہو.مگر اس ریسرچ کی چاشنی سے کماحقہ حظ اٹھانے کے لیے یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ مرزا صاحب کا انتقال 1934 ء سے 26 سال قبل 26 مئی 1908ء کو ہوا.اب آپ مجاہد ختم نبوت کی تحریر ملاحظہ کریں.1934ء میں انگریزوں نے غلام احمد قادیانی کو جب سیالکوٹ کی کچہری سے اٹھا کر جھوٹی نبوت کے منصب پر فائز کر دیا تو امیر شریعت ناموس رسول پر حملہ آور اس نئے فتنے کی سرکوبی کے لیے میدان میں اتر آئے“.( روزنامہ خبریں اشاعت خاص 27 مئی 1995 ، صفحہ 2 صرف وائٹ ہاؤس لندن کے حوالے سے ہی علماء دانشور.اور صحافی حضرات کی موشگافیوں پر بات جاری رکھی جائے تو بھی کافی طویل مقالہ احاطہ تحریر میں آجائے گا.اوپر درج چند ایک مستند حضرات کی دیانتداری کے نمونہ کو دیکھنے کے بعد مجھے مشہور برطانوی مفکر پوپ الیگزانڈر کا یہ قول شدت سے یاد آرہا ہے کہ ایسے لوگ جو اعلیٰ قابلیت رکھتے ہوئے بد اطوار و پست کردار ہوتے ہیں ان کی مثال ان سڑی گلی ہڈیوں کی سی

Page 282

282 ہے جو چاند کی روشنی میں چمک دمک کے ساتھ بد بو اور تعفن پھیلاتی ہیں.“ جھوٹ نمبر 3 احمدیوں کو کافر بنانے کے لیے مولانا مودودی صاحب کا حضرت امام غزالی پر افتراء بلکہ بار بار افتراء یعنی عالمانہ جھوٹ مولانا مودودی صاحب کو جب جماعت احمدیہ کی مخالفت کی ضرورت پیش آئی تو آپ نے ایک رسالہ بعنوان ختم نبوت“ لکھا اس میں آپ نے حضرت امام غزالی کا درج ذیل حوالہ ان کی کتاب الاقتصاد صفحہ 113 سے یوں درج فرمایا: امت نے بالا تفاق اس لفظ لا نبی بعدی سے یہ سمجھا ہے نبی صلی یا اسلام اپنے بعد کسی نبی اور کسی رسول کے کبھی نہ آنے کی تصریح فرما چکے ہیں اور یہ کہ اس میں کسی تاویل و تخصیص کی کوئی گنجائش نہیں ہے اب جو شخص اس کی تاویل کرے اسے کسی خاص معنی کے ساتھ مخصوص کرے اس کا کلام محض بکواس ہے جس پر تکفیر کا حکم لگانے میں کوئی امر مانع نہیں ہے کیونکہ وہ اس نص کو جھٹلا رہا ہے جس کے متعلق تمام امت کا اجماع ہے“ تبصره (رساله ختم نبوت صفحہ 24-25) عرض صرف اتنا ہے کہ مولانا مودودی نبض شناس رسول جسے ٹائیل سے اپنے حلقہ ارادت میں جانے جاتے ہیں مگر دکھ تو یہ ہے کہ جماعت احمدیہ سے دشمنی میں آپ نے صریح جھوٹ سے کام لیتے ہوئے مندرجہ ذیل عبارت خود گھڑ کر داخل کر دی ہے.اب جو شخص اس کی تاویل کر کے اسے کسی خاص معنی.یہاں سے لیکر آخر کیونکہ وہ اس نص کو جھٹلا رہا ہے“.ظلم تو یہ ہے کہ کتا بچہ ختم بنوت میں آپ نے حضرت امام غزالی کی الاقتصاد کا اردو ترجمہ درج کیا ہے.جس میں صریح جھوٹ سے کام لیا ہے.جبکہ اس کتا بچہ سے کئی سال قبل 1953ء کی مشہور منیر انکوائری رپورٹ میں عدالت عالیہ میں اپنا تحریری بیان جماعت احمدیہ کے خلاف درج کروایا جو تیسرے بیان میں درج ہے یہاں آپ نے الاقتصاد کی عربی عبارت درج کروائی مگر اس عربی عبارت میں عربی الفاظ گھڑ کر داخل کر دیئے.چنانچہ آپ نے عربی عبارت میں درج ذیل الفاظ خود گھڑ کر حضرت امام غزالی کی طرف منسوب کر دیئے.و من اولة بتخصيص وكلامه من انواع الهذيان لا يمنع الحكم بتكفير لانه مكذب لهذا النص الذي اجمعت الامة على انه غير مأوّل ولا مخصوص“

Page 283

283 حیرت ہے کہ 1953ء میں ہی صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے مودودی صاحب کو دیے جانے والے جواب میں چیلنج کیا گیا کہ یہ الفاظ آپ کے خود ساختہ ہیں.اصل سے دکھائیں.اس کا آپ نے کوئی جواب نہ دیا مگر جب چند سال بعد دوبارہ جماعت احمدیہ کی مخالف میں کتاب لکھی تو پھر وہی جھوٹ دوبارہ شامل کر دیا.اور آج تک شامل ہے.جھوٹ نمبر 4 مولانا طاہر القادری کا آنحضور ملی تم پر افتراء یعنی لانگ مارچہ جھوٹ مولوی اسحاق المعروف مولانا طاہر القادری منہاج القرآن کے قارئین میں قائد انقلاب“ کے نام سے جانے جاتے ہیں.چند سال قبل آپ کو جماعت احمدیہ کی مخالفت کی ضرورت پیش آئی تو آپ نے بھی جھوٹ کا ہی سہارا لیا.مگر ظلم یہ ہوا کہ آپ نے اپنا افتراء آنحضور صلی شما اینم کی طرف منسوب کر دیا.چنانچہ آپ نے اپنی کتاب ”عقیدہ ختم نبوت اور مرزا غلام احمد قادیانی میں صفحہ 14 پر ایک حدیث مبارکہ صحیح مسلم جلد نمبر 2 صفحہ 261 سے یوں درج فرمائی.قال رسول الله الله انا محمد وانا احمد وانا الماحي الذي يمخى بي الكفر وانا الحاشر الذى يحشر الناس على عقبى وانا العاقب الذي ليس بعده نبى ( صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 261) الذي ليس بعدہ نبی کے الفاظ نبی پاک کی طرف منسوب کر کے آپ نے عظیم جھوٹ بولا ہے یہ الفاظ حدیث مبارکہ کا حصہ نہیں سرکار دو عالم کا فرمان نہیں جبکہ اصل صورتحال یہ ہے.الذي ليس بعد نبي هذا قول الذهرى یعنی مولا نا قادری صاحب نے صرف 2 خیانتیں کی ہیں اول یہ کہ غیر نبی کے الفاظ نبی اللہ کی طرف منسوب کر دیئے اور دوئم یہ کہ ہذا قول الزھری کو کاٹ دیا.جھوٹ نمبر 5 خطیب جامع مسجد ریلوے وصدر مجلس تحفظ ختم نبوت فیصل آباد مولانا تاج محمود صاحب کا خوبصورت جھوٹ مولانا تاج محمود صاحب جو مجاہد ختم نبوت ہونے کے ساتھ ساتھ فیصل آباد کی مجلس تحفظ ختم نبوت کے صدر بھی تھے ایک کتا بچہ جوکم از کم 112 صفحات پر پھیلا ہوا ہے قادیانیوں کے عقائد وعزائم “ کے نام سے 1974ء میں لکھا.اور بقول ان کے انہوں نے اسے ممبران اسمبلی میں وسیع پیمانے پر تقسیم کیا.مولا ناصفحہ 40 پر انتہائی اشتعال انگیز اور دل آزار تحریریں“ کا عنوان لگا کر لکھتے ہیں.بانی تحریک اور اس کے پیرووں نے اپنی تحریروں میں انبیائے کرام و بزرگان دین کی دل آزار نہ توہین کی.اور ان دل آزار نہ اور

Page 284

284 اشتعال انگیز تحریروں کا سلسلہ آج تک جاری ہے جو مسلمانوں کے لیے ناقابل برادشت ہے ذیل میں ہم مرزا غلام احمد قادیانی کی دل آزار نہ تحریروں کے چند نمونے پیش کر رہے ہیں.آنحضرت سلی ما ایام کے تین ہزار معجزات ہیں تحفہ گولڑویہ صفحہ 67 میرے معجزات کی تعداد دس لاکھ ہے.تبصره (براہین احمدیہ صفحہ 57 مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی) مولانا صاحب انگلستان کے مشہور مفکر ڈاکٹر سموئیل جانسن کا قول ہے کہ بد ترین جھوٹ وہ ہے جس میں کچھ سچ بھی شامل ہو.“ آپ نے حضرت مرزا صاحب کی دو مختلف کتابوں کے دو سیاق و سباق سے کٹے ہوئے فقرے ہی پیش کرنے ہیں تو درمیان میں یہ تیسرا فقرہ کیوں چھوڑ دیا.ایں چشمہ رواں کہ بخلق خدا دہم یک قطره زبحر کمال محمد است یہ دس لاکھ نشانات تو تین ہزار معجزات میں صرف ایک ہی معجزے کی برکت سے حاصل ہوئے ہیں.پھر مولانا آپ نے دس لاکھ نشانات کو دس لاکھ معجزات“ لکھ کر صاف دوسرا جھوٹ بولا.جھوٹ نمبر 6 فضیلة الشیخ مجاہد ختم نبوت وکیل تحفظ ختم نبوت بانی اداره مرکز یہ دعوت وارشاد جناب مولا نا منظور احمد چنیوٹی کا بے خوف جھوٹ“ مولا نا منظور احمد چنیوٹی صاحب کے بارے میں بلا خوف یہ بات کہی جاسکتی ہیں کہ اس شخص نے ختم نبوت اور رد قادیانیت“ کے نام سے صحیح فائدہ اٹھایا.جھنگ کا ایک غریب شخص مربعوں.بنگلوں کاروں کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک کے لمبے چوڑے دوروں کی طاقت بھی حاصل کر گیا.آپ نے اپنی ساری عمر میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کی.اسی مخالفت کے نام پر ووٹ لیے.صوبائی اسمبلی تک پہنچ گے مگر اس ساری کہانی میں جھوٹ کا تڑکہ اور مصالحہ دبا کر ڈالا.ہم آپ کی بیش بہا تصانیف میں سے صرف ” قادیانی اور ان کے عقائد کے صفحہ 42 کا ایک گہر آرائش کے لیے عاریہ لیں گے.آپ صفحہ 42 پر بعنوان ” اپنے مولد قادیان کے متعلق مرزا صاحب کے عقائد ازالہ اوہام صفحہ 34 سے درج ذیل عبارت درج فرماتے ہیں.تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے.مکہ اور مدینہ اور قادیان“.( قادیانی اور ان کے عقائد صفحہ 42 ناشر ادارہ مرکز یہ دعوت وارشاد چنیوٹ پاکستان )

Page 285

تبصرہ 285 مولا نا آپ قادیانیت کو فتح کرنا چاہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ آپ یہ خواہش تصمیم دل سے کر رہے ہوں مگر اس سچی کوشش میں جھوٹ کا سہارا کیوں؟ مشہور ڈرامہ نویس شیکسپیئر کا قول ہے.اس شہد سے کیا فائدہ جو زہر میں ملا ہوا ہو بلکہ اس سے بہتر تو وہ زہر ہے جس میں شہد کی شیرینی ہو.1.پہلی بات یہ کہ ازالہ اوہام کے صفحہ 34 پر یا اس سے اگلے پچھلے صفحوں پر او پر درج حوالہ کہیں موجود نہیں.لگتا ہے سنی سنائی باتوں سے قادیانیت فتح ہورہی ہے.2.دوسری بات یہ کہ جو تحریف شدہ حوالہ آپ نے درج فرمایا ہے وہ خطبہ الہامیہ سے ہے جس میں خواب اور عالم کشف کی بات ہو رہی ہے.اصل الفاظ یہ ہیں : عالم کشف میں میرے دل میں اس بات کا یقین تھا کہ قرآن شریف میں تین شہروں کا ذکر ہے.یعنی مکہ اور مدینہ اور قادیان کا.(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 20 حاشیہ ) آپ اصل الفاظ بھی دیکھ لیں اور پھر عالم کشف کو کاٹنے والا جھوٹ ملاحظہ کر لیں.جھوٹ نمبر 7 تحفظ ختم نبوت ایبٹ آباد کا بے باک جھوٹ تحفظ ختم نبوت ایبٹ آباد کے دامن میں یوں تو بہت سے مثالی کارنامے موجود ہیں.آذان پر ان کی دل آزاری ہو جاتی ہے.شناختی کارڈ کے فارموں میں لکھنے مسلمان لفظ کی ناخوشگوار خوشبو ان کے دماغ کے پردوں پر خوفناک اثر کر دیتی ہے مگر بے ضرر ایسے ہیں کہ ایک دفعہ 80 کے قریب ختم نبوت کے پروانے کھڑے تھے وہاں تین قادیانی نوجوان آئے اور انہوں نے اشتعال انگیز خلاف اسلام نعرے بھی لگانا شروع کر دیے اور حد یہ کہ ”بہت سارے مجاہدین کو ان تینوں نے زخمی بھی کر دیا.کمال صبر دیکھیے 80 مجاہد بالکل ساکت کھڑے رہے اور مجال ہے کسی نے اف“ بھی کی ہو وہ تو بھلا ہو پولیس کا جس نے موقعہ پر پہنچ کر ان تین منہ زور قادیانیوں کو جیل بھجوایا اور مجاہدین کی حفاظت کی.خیر اعلیٰ ظرف لوگوں کی اعلیٰ روایات ہیں مگر دکھ یہ ہے کہ سارے پاکستان کے علماء گرمیوں میں ایبٹ آبادان مجاہدین کی ٹریننگ کے لیے کیمپ لگاتے ہیں مگر اتنے مستند علماء کے اتنے مستند خدام نے بھی قادیانیت پر حملہ کرنے کے لیے جھوٹے الزامات کا ہی سہارا لیا ہے.تحفظ ختم نبوت یوتھ فورس ایبٹ

Page 286

286 آباد کا جہازی سائز کا اشتہار ”مرزائیوں کے کفریہ عقائد کے نام سے تمام ایبٹ آباد کی دیواروں پر موجود ہے.اس میں لکھا ہے کہ مرزائی کہتے ہیں ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پا سکتا ہے حتی کہ محمد رسول اللہ سے بڑھ سکتا ہے“.جھوٹ نمبر 8 (بحوالہ اخبار الفضل قادیان 17 جولائی 1922 ء ) عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان کے معرکتہ الآراء جھوٹ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا تعارف اور ان کی خدمات ساری قادیانیت کو ختم کرنے کے لیے سنگ میل ہیں مگر دیکھیے جھوٹ اور معرکتہ الآراء جھوٹ کے بغیر آپ سے بھی یہ خدمت سرانجام نہیں پارہی.مجلس کا رسالہ قرآن مجید میں رد و بدل میرے سامنے ہے.قرآن کے بارہ میں کفریہ عقائد کے عنوان کے تحت سات جھوٹ بولے گئے ہیں.درج ہیں.1.قصے کہانیوں کی کتاب...قرآن پہلوں کی قصے کہانیاں ہیں.2 صرفی نحوی غلطیاں.....قرآن میں صرف ونحوی غلطیاں ہیں.آئینہ کمالات اسلام مطبع لا ہوری صفحہ (294) 3 " قرآن اور میری وحی ایک ہیں...قرآن کریم اور میری وحی میں کوئی فرق نہیں“.(حقیقۃ الوحی صفحہ 304 ) ( نزول مسیح صفحه 99) 4 " قرآن اٹھالیا گیا.قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن حکیم 1857ء میں اٹھا لیا گیا تھا.تبصره میں نے مذکورہ کتب کے مذکور صفحات کو دیکھا.پھر آگے اور پیچھے کے چند صفحات کو کھنگالا پھر ساری کی ساری کتب کو لفظ لفظ پڑھا یہ فقرات کہیں بھی نہ تھے.عالمی مجلس کے اس بے باک افتراؤں پر میرے لب بے اختیار حضرت عیسی کا یہ قول دہرانے پر مجبور ہو گئے ہیں.میں مردے کو زندہ کرنے سے عاجز نہیں مگر احمق کی اصلاح سے عاجز آ گیا ہوں“ جھوٹ نمبر 9 مجد دملت محدث العصر سید محمد یوسف بنوری صاحب کا فیشن ایبل جھوٹ

Page 287

287 ہفت روزہ ختم نبوت 18 تا 24 دسمبر 1992ء میں مولانا یوسف لدھیانوی صاحب یوسف بنوری صاحب کا تعارف ان الفاظ میں کرواتے ہیں کہ : قادیانیت کی عمارت کو مسمار کر دینے اور پرویزیت کی کمر توڑ دینے والی علم کے زیور سے آراستہ اور عمل کے اسلحے سے مسلح شخصیت.میں حیرت میں گم ہو جاتا ہوں جب جناب محدث العصر کو بھی جھوٹ کا سہارا لیتے دیکھتا ہوں بلکہ آپ تو جھوٹ بھی فیشن ایبل قسم کے بولتے ہیں.کتنی اذیت ناک حقیقت ہے کہ آپ قادیانیت کا محل جھوٹ کے تیشے سے مسمار کرنا چاہتے ہیں.70ء کی دہائی میں آپ نے ربوہ سے تل ابیب تک“ نامی کتاب لکھ کر مورخین ، صحافیوں ، سیاستدانوں، انٹیلی جنس کے سر براہوں اور جغرافیہ دانوں کے سر پر انکشاف کا ایسا پتھر دے مارا کہ وہ سب آج تک فاطر العقل اور مخبوط الحواس بنے پھرتے ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ اس تحقیق کے معلوم ہونے سے پہلے وہ گدھے تھے یا اب.ہے نا حیرانگی کی بات؟ آئیے آپ کی تقویٰ پر مبنی جغرافیائی تحقیق ملاحظہ کیجیے.1.قادیانی تحریک کا یہ دعوی کہ وہ نسلاً اسرائیلی ہیں در حقیقت اس امر کا بر ملا اظہار ہے کہ قادیانیت صیہونیت کے ہی ایک شاخ ہے.2.اسرائیکی سٹیٹ.یہود، برطانیہ اور امریکہ کی سازش سے قائم ہوئی اور ربوہ سٹیٹ انگریز گورنر کی سازش سے“.3.1934 ء میں خلیفہ قادیان نے دنیا میں تبلیغ کا جال پھیلانے کے لیے جو دراصل انگریز کے محکمہ جاسوسی کی ذیلی شاخ تھی تحریک جدید کا اعلان کیا اور اس کے لیے مالیات کا مطالبہ کیا تو سب سے زیادہ رقم فلسطین کی قادیانی جماعت نے مہیا کی“.4.مجھے باوثوق ذرائع سے یہ اطلاع ملی ہے کہ وہاں حبشہ کے عد لیس ابابا میں ان کا ایک مضبوط مشن کام کر رہا ہے جس کا سالانہ میزانیہ 35 ملین ڈالر ہے اور یہ مشن وہاں اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے“.تبصره مولا نا چونکہ محدث العصر بھی ہیں اور دوسرا یہ کہ آپ نے قادیانیت کی عمارت مسمار ہی نہیں کھیتی چھیتی کر دی ہے اس لیے ہم انہیں صرف اور صرف حضرت مہاتما بدھ کا یہ قول ہی تحفہ میں پیش کرتے ہیں.اگر کسی شخص کے دل سے جہالت دور نہیں ہوئی تو نذرانے ، دعا اور قربانیاں سب بے کار ہیں“.

Page 288

جھوٹ نمبر 10 288 مجاہد ختم نبوت، وکیل ختم نبوت مولانا یوسف لدھیانوی کا شہنشاہ جھوٹ محدث العصر کے حوالے سے مولانا یوسف لدھیانوی کا ذکر ہوا تو سوچا کیوں نہ آپ کی خدمات جلیلہ کا بھی جائزہ لے لیا جائے.آپکے اسلحہ کا برانڈ بھی چیک کر لیا جائے.دکھ نے آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا کر دیا جب میں نے آپ کو بھی جھوٹ کے گھوڑے پر سوار جھوٹ کی شمشیر سے ہی زرہ بند پایا.آپ کی کتاب ” شناخت“ سے صرف ایک جھلک پیش کرتا ہوں آپ زیر عنوان وفات اور دفن ایک حدیث مبارکہ کا ترجمہ یوں پیش فرماتے ہیں.آنحضرت نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اپنی مدت قیام پوری کرنے کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انتقال ہوگا مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور انہیں روضہ اطہر میں حضرت ابوبکر وحضرت عمر کے پہلو میں دفن کیا جائے گا.اور سب دنیا جانتی ہے کہ مرزا صاحب کو روضہ اطہر کی ہوا بھی نصیب نہ ہوئی“.تبصره (صفحہ 10-9) ایک عالم دین اچھی طرح جانتا ہے کہ سرکار دو عالم نے اپنے اوپر جھوٹ بولنے والے کے لیے کیا ارشاد فرمایا ہے اس لیے وہ فرمان تو پیش نہیں کرتا البتہ وہ حدیث جس میں مولانا نے جسارت کر کے یہ جھوٹ گھڑا ہے وہ پیش کر دیتا ہوں.حدیث مبارکہ کے الفاظ یہ ہیں.ثم يموت فيد فن معی فی قبری فاقوم انا و عیسی ابن مريم في قبر واحد بين ابي بكر وعمر (مشكوة المصابيح كتاب الفتن الفصل الثالث باب نزول عیسی ) مولانا نے یہ صرف یہ دو چالاکیاں کی ہیں کہ اصل حدیث کے الفاظ پیش ہی نہیں کیے اور ترجمہ کا سہارا لے کر اول قبر کو پورے مقبرہ میں بدل دیا اور دوئم ابو بکر و عمر کے درمیان کو ابوبکر و عمر کے پہلو میں بدل دیا.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ید فن معی فی قبری“ کے ظاہری معنی کوئی غیرت مند مسلمان قبول کر کے مولانا کو سرکار دو عالم کی قبر مبارکہ اکھاڑنے کی اجازت نہ دے گا اس لیے آپ نے ترجمہ قبر مبارک کا پورے روضہ مبارک میں کر لیا.اور دوسرا یہ کہ چونکہ آگے ابو بکر اور عمر کی قبر کے درمیان سے ہم دونوں اٹھیں گے.اس لیے درمیان کو پہلو میں بدل دیا کیونکہ خود مولانا جانتے ہیں کہ آنحضور صلی السلام کی قبر مبارک حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے درمیان میں نہیں.بلکہ پہلے آپ پھر حضرت ابوبکر اور پھر حضرت عمر کی قبر مبارکہ ہے.جسمانی طور پر مدینہ دفن نہ ہونے پر اعتراض دور کرنے کے لیے یہ کیسا عجیب شہنشاہ جھوٹ ہے جس میں

Page 289

289 شہنشاہ دو عالم کی قبر مبار کہ کھولنے کی جسارت ہو رہی ہے.دیوبندی علماء کے ساتھ ساتھ بریلوی علماء بھی اس مسئلہ میں کسی سے پیچھے نہیں چنانچہ بریلوی شیخ الحدیث مولوی عبد المصطفی اعظمی صاحب نے عجائب القرآن مع غرائب القرآن کے نام سے قرآن مجید کے تمام قصوں کو کتابی شکل میں رقم فرمایا ہے جسے مکتبہ المدینہ باب المدینہ کراچی ( دعوت اسلامی ) نے شائع فرمایا ہے.آپ زیر عنوان ”حضرت عیسی آسمان پر لکھتے ہیں: آپ کے آسمان پر چلے جانے کے بعد حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے چھ برس دنیا میں رہ کر وفات پائی ( بخاری ومسلم )) کی روایت ہے کہ قرب قیامت کے وقت حضرت عیسی علیہ السلام زمین پر اتریں گے اور نبی آخر الزمان سی ایم کی شریعت پر عمل کریں گے اور دجال و خنزیر کوقتل فرما دیں گے اور صلیب کو توڑیں گے اور سات برس تک دنیا میں عدل فرما کر وفات پائیں گے اور مدینہ منورہ میں گنبد خضراء کے اندر مدفون ہوں گے.“ عجائب القرآن مع غرائب القرآن صفحہ 75 76 اور یوں آپ نے اپنے تمام تر شیخ الحدیث ہونے کے باوجود یدفن معی فی قبری کے الفاظ گول کر دیئے اور معی فی قبری کا ترجمہ مدینہ منورہ میں گنبد خضراء کے اندر مدفون ہوں گے فرما دیا یہ تقویٰ سے دوری کیوں ؟ اور دھو کہ آخر کس کو؟ اور کیوں؟ جھوٹ نمبر 11 جسٹس میاں نذیر اختر صاحب کا سنہرا جھوٹ عدل وانصاف مہیا کرنے والے حج دین اسلام میں ایک عظیم منصب دار سمجھے جاتے ہیں دین اسلام وہ فطری اور آسمانی مذہب ہے جس نے واشگاف الفاظ میں ایوان عدل کو ڈائریکٹ حکم دیا کیا کہ: لا يجر منكم شنان قوم على الا تعدلوا اعدلوا هو اقرب للتقوى اس امید پر میں نے ایوان عدل کی زنجیر ہلائی مگر جواب اتنا سفاک اور بھیا نک ملا کہ پہلے تمام غم بھول گیا.جسٹس میاں نذیر اختر لاہور ہائی کورٹ کے افکار و خیالات منہاج القرآن کے شمارے ستمبر 97ء میں شائع ہوئے ہیں آپ زیر عنوان ” قادیانی غیر مسلم اقلیت کیوں لکھتے ہیں.مرزائی کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے واضح طور پر لفظ "محمد" سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی ہی لیتے ہیں.اسی طرح وہ مرزا غلام احمد قادیانی پر درود بھیجتے ہیں گویا جب یہ لوگ ( قادیانی) کلمہ طیبہ اور درود پڑھتے ہیں تو ان کے قلب و باطن پر مکمل طور پر مرزا غلام احمد قادیانی کا تصور ہوتا ہے اور اس طرح کرتے ہوئے وہ نبی اکرم حضرت محمد

Page 290

290 کے مقدس نام کی تحقیر کر رہے ہوتے ہیں.تبصرہ (صفحه 26) سنا تھا کہ قانون اندھا ہوتا ہے.آج جسٹس صاحب کی تحقیق پڑھ کر ثابت ہو گیا کہ کم از کم پاکستان میں قانون واقعۂ اندھا ہے.ایک معاشرہ زندہ لوگوں کی بستی میں سو سوا سو سال گزار چکا ہے.مگر دل میں کیا ہوتا ہے اس کا عملی اظہار کہیں نہیں ہوا.یہ خبر تو آئی کہ قادیانی کلمہ پڑھنے کے جرم میں گرفتار ہو گیا مگر اس خبر کو کان ترستے ہی ہیں کہ کلمہ مٹانے کے جرم میں گرفتار ہوا ہے.مشہور برطانوی مفکر پوپ الیگزنڈر کا یہ قول کتنا سچا ہے: ایسے لوگ جو اعلیٰ قابلیت رکھتے ہوئے بد اطوار و پست کردار ہوتے ہیں ان کی مثال ان سڑی گلی ہڈیوں کی ہے جو چاند کی روشنی میں چمک دمک کے ساتھ بد بو اور تعفن پھیلاتی ہیں.مصنف’مذہب کا سرطان علماء دین کی ایسی ہی خدمات پر افسوس کرتے ہوئے لکھتا ہے علماء کی یہ کافر گری مسلمانوں کے دلوں میں نہ صرف علماء کی طرف سے بلکہ خود اس مذہب کی طرف سے بھی بدگمانیاں پیدا کر رہی ہے جس کی نمائندگی یہ علماء کر رہے ہیں روز بروز مسلمانوں کا اعتبار علماء پر سے اٹھتا جارہا ہے.ان کی باتیں سن کر دل مذہب کی طرف راغب ہونے کی بجائے اس سے دور بھاگنے لگے ہیں.مذہبی مجلسوں اور مذہبی تقریبوں کے متعلق یہ عام خیال پیدا ہو گیا ہے کہ ان میں فضول جھگڑوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا.اس غلبہ کفر فسق کے زمانے میں عام مسلمانوں کو مذہبی علوم کی واقفیت بہم پہنچانے کا اگر کوئی ذریعہ ہوسکتا تھا تو وہ یہ تھا کہ علماء دین پر لوگوں کا اعتماد ہوتا.اور وہ ان کی تحریروں اور تقریروں سے فائدہ اٹھاتے مگر افسوس کہ ان کے مشغلوں سے یہ ایک ذریعہ بھی ختم ہوا جا رہا ہے اور یہ مسلمانوں پر نہیں تو خود اپنے اوپر ہی رحم کر کے اس روش سے باز آجائیں جس نے ان کو اپنی قوم میں اسقدر رسوا کر دیا ہے درآنحالیکہ یہی وہ قو میں تھیں جو بھی ان کو سر آنکھوں پر بٹھاتی تھی.مذہب کا سرطان صفحه 95-96 مصنفہ کوثر جمال )

Page 291

291 باب نمبر 8 یه کلاه بازیاں اور ميرى مشكلات علم پڑھیا اشراف نہ ھوون جیہڑے ھوون اصل کمینے

Page 292

292 پتل کدی نئیں سونا بندا بھانویں جڑیئے لعل نگینے شوم تھیں کدی نئیں صدقہ ہوندا پاویں ہو دن لکھ خزینے بلھیا بھاج تو حید نئیں جنت ملنی بھانویں مریئے وچ مدینے ( بابا بلھے شاہ) آئینہ آئینہ ہی تیرے پندار کا عکس تو ہے قادیانیت کا تعاقب کرنے اور اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے برصغیر کی سرزمین پر پچھلی ڈیڑھ صدی سے ایک جنگ جاری ہے.ہمارے بیشتر علمائے کرام نے سنگ باری جیسے ہلکے پھلکے شعبے سے قادیانیت مخالف فوج میں کمیشن لیا اور پھر حکم الامت مجدد العصر - محدث العصر - زبدۃ الشیخ جیسے عظیم بیج سینے پر سجا کر ریٹائرمنٹ لی.قادیانیت کے محل کو مسمار کرنے والا قادیانیت کے قلعہ پر بمبارمنٹ کرنے والا فاتح قادیان“.” فاتح ربوہ جیسے عظیم اور لافانی ٹائیٹل بہت سے خوش نصیبوں کے حصے میں آئے ہوئے ہیں جن کی وہ گاہے بگاہے نمائش بھی کرتے رہتے ہیں.1.اتنا عظیم کام سرانجام دینے والے علماء یقیناً تقویٰ کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہونگے.2.ان کے بلند اخلاق کی چوٹیاں ہمالیہ سے بلند ہونگی.3.وارث دین رسول اور وکلاء ختم نبوت حسن وسیرت کا شاہکار مجسمہ ہونگے.4 حقوق اللہ اور حقوق العباد پر صدق دل سے قائم ہونگے.

Page 293

293 5.ان کی امانت ، دیانت ، شرافت اور صداقت کا زمانہ گواہ ہوگا.6.پرائے مال کی طرف کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے ہونگے.7.ان کی زبان اور ہاتھ سے ہر ہمسائے کو امن ہوگا.8 - مکارم اخلاق میں فرشتوں کو شرماتے ہونگے.9.ہر انسان کی جان مال اور عزت و آبرو کے رکھوالے ہونگے.10.سب سے بڑھ کر یہ ان کے اقوال اور اعمال دونوں میں یکسانیت ہوگی اور منافقت اور مالی بددیانتی اور بے حیائی.ان کے پاس سے بھی نہ گزرتی ہوگی.اور ان کی موجودگی میں کسی بھی مصلح کی کیا ضرورت ہوگی.دوستو! میں نے اسی آس پر ان پہاڑوں جیسے بلند القابات سے مزین علماء کی محفل میں جانے کی جسارت کی.ان کے افکارات عالیہ اور ان کے اخلاق فاضلہ کی صرف ایک جھلک جھیلنے کی ہمت کی.فرشتوں جیسے معصوم اور پر یوں جیسے مطہر لوگوں کے صحن چمن میں داخل ہوتے ہی جس بد بودار بھبھوکے سے میرا دماغ نیم ماؤف ہو گیا وہی میری انگلی مشکل بن گیا.وہ لوگ جو منبر رسول کے وارث کسی کو کافر اور کسی کو مسلمان بنانے کے منصب دار اور جو جنت اور دوزخ کی الا ٹمنٹ کے ٹھکیدار ہیں خود ان کا اپنا کردار کیا ہے.کیا ان کا اپنا مقام اتنا بلند اور مستند ہے کہ ان کے ارشادات پر آنکھیں بند کر کے عمل کیا جا سکے.یہی سوال جب میں نے میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی کے زیر اہتمام ہونے والے قومی سیمینار بعنوان اکیسویں صدی اور عالم اسلام میں حصہ لینے والے جناب طاہر القادری صاحب کے سامنے رکھا تو ان کا جواب تھا: بد قسمتی سے عالم اسلام عالم بے رہنما ہے“ (روز نامہ جنگ لاہور اشاعت خاص 26 فروری 1999 صفحہ 5 موجودہ دور کے علماء کا حال علماء کی ہی زبانی ملاخطہ کیجیے انفرادی کلاہ بازیاں مشکل نمبر 38 ایک ایسے کھیل کی داستان جس میں ہر کھلاڑی دوسرے کو ننگا کرنے میں مصروف ہے.

Page 294

294 1.عطاء اللہ شاہ بخاری نہیں بخار اللہ شاہ عطائی روزنامہ انقلاب کی نظر میں عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کی تصویر کچھ یوں ہے : ”مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری ( بخار اللہ شاہ عطائی) کے خلاف یہ شکایت روز بروز عام ہو رہی ہے کہ وہ بزرگان دین اور ا کا بر امت اسلام کا ذکر کرتے ہوئے مستی اور بے تکلفی کے عالم میں نازیبا انداز اختیار کر لیتے ہیں.ہمیں بے شمار احباب نے یہ بتایا کہ مولوی صاحب مذکور حضور کے لیے میاں کا لفظ استعمال کرتے ہیں.ہم نے ایک دفعہ اپنے کانوں سے سنا کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت علیؓ کا ذکر کرتے ہوئے مولوی عطائی نے اولذکر کو بڈھڑا اور آخر الذکر کو نڈھڑا بتایا.یہ انداز خطابت نہایت گستاخانہ وغیر مود بانہ ہے اور جو شخص حفظ مراتب نہیں کرتا اس کی زندیقیت میں کسی کو ہبہ نہیں.کسی کو توفیق نہیں ہوتی کہ اس بے ادب کو برسر جلسہ ٹوک ہی دے.خدا جانے یہ احرار مسلمانوں کے اخلاق کو اسفل کی کن گہرائیوں میں دفن کر کے رہیں گے.جب تک قوم خود اپنا مذاق درست نہ کرلے گی اس قوم کے خود غرض فرعون برابر اس پر مسلط رہیں گئے.اخبار انقلاب 5 اگست 1936 ء ) 2.رسالہ صوفی کی نظر میں بخاری صاحب کی تقریر ”سید عطاءاللہ شاہ بخاری کی تقریر میں ذلیل گالیاں ہوتی ہیں عدالت کی نظر میں یہ شخص کمینہ مذاق روا رکھتا ہے.(رسالہ صوفی 18 جون 1936 ء ) -3 علامہ احسان الہی ظہیر علامہ نہیں شریر، چھچھورا، راشی، نائٹ کلبوں کا رسیا، نوجوان نوکرانیوں سے وابستہ اور مولویت کے لبادے میں فتنہ پرور آدمی علامہ احسان الہی ظہیر اہل حدیث کے ایک طبقے کے نزدیک مبلغ اسلام تھے جبکہ اہل حدیث کے دوسرے بڑے گروہ کے نزدیک ان کی اخلاقی تصویر کیا ہے وہ پیش ہے.میاں فضل حق صاحب اہل حدیث پاکستان کے راہنما اور سنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں.ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ان کی ادارت میں شائع ہوتا ہے اس پرچے کا شمارہ 3 اگست 1984ء ہمارے پیش نظر ہے اس میں صفحہ پانچ سے سات تک حافظ عبدالرحمن مولوی فاضل مدینہ یونیورسٹی کا ایک مضمون ہے جس کا عنوان ہے.احسان الہی ظہیر کے لیے چیلنج مباہلہ“ ذیل میں اس کے چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ دنیا اس شخص کی محبت میں نہیں بلکہ اس کے شر سے بچنے کے لیے اسے سلام کرنے کی روادار ہے.چنانچہ اس کے پیچھورے پن کا یہ عالم کہ بات بات پر لوگوں کو گالیاں دیتا ہے.

Page 295

295 ان خود ساختہ علامہ صاحب کے کویتی سر پرستوں کو تو ہم نے مباہلہ کا چیلنج پہلے سے دے رکھا ہے.اب ہم ان کے پیش کردہ نہ صرف جملہ نکات پر ان کے مباہلہ کا چیلنج قبول کرتے ہیں بلکہ ان نکات میں ان حضرات کے بد نام زمانہ کردار کا اضافہ کر کے اس کو بھی شامل مباہلہ کرتے ہیں یعنی : ا.کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک میں اس شخص نے قومی اتحاد کی جاسوسی کے عوض بھٹو حکومت سے لاکھوں روپے رشوت نہ لی.ii.یورپ کے نائٹ کلبوں میں پاکستان کے یہ علامہ کیا گل کھلاتے رہے ہیں.ili.اپنے گھر میں نوجوان نوکرانیوں کے قصوں کے بارے میں مباہلہ کی جرات پاتا ہے.علاوہ ازیں ان جملہ خدمات کے ثبوت کے عینی شاہد ان حضرت کے منہ پر یہ باتیں بیان کرنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن چونکہ بات مباہلہ تک پہنچ چکی ہے اس لیے مباہلہ میں مولویت کے لبادے میں اس فتنہ پرور آدمی کے کردار سے پردہ اٹھ ہی جانا چاہیے جس کے باعث جماعت اہل حدیث بری طرح انتشار کا شکار ہوکر رہ گئی ہے.احسان ظہیر نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے گھناونے کردار کو چھپانے کے لیے خود پہلا وار کرنا مناسب سمجھا اور بوکھلا کر خود ہی مباہلہ کا چیلنج دے دیا.یوں معلوم ہوتا ہے یہ شخص جس کی دراز دستیوں اور زبان درازیوں کی ابتداء اپنے ہی باپ پر زیادتی سے ہوئی تھی اپنے انجام کو جلد پہنچنا چاہتا ہے.(ہفت روزہ اہل حدیث لاہور شمارہ 13 اگست 1984 ، صفحہ 5-7 مضمون نگار حافظ عبدالرحمن) 3 - آغا شورش کا شمیری مجاہد ختم نبوت نہیں اُس بازار کا باسی، گستاخ رسول، بانی فساد، مندروں کا پرشاد کھانے والا ، نہرو کو یا رسول کہنے والا، تہذیب و شرم سے ننگا.آغا شورش کشمیری دیوبندی بھائیوں کے نزدیک بطل حریت اور مجاہد ختم نبوت تھے جبکہ بریلوی علماء کے نزدیک ان کی کیا تصویر تھی.اشعار کے قالب میں ملاحظہ ہو.گزری ہے اُس بازار ہی میں جس کی زندگی ہم کو سنا رہا ہے وہ باتیں کھری کھری ہاتھوں میں لے کر پرچم گستاخی رسول کرنے لگا ہے دہر یہ ظاہر شناوری میں پوچھتا ہوں اُس کے اے بانی فساد کب سے ملی ہے تجھ کو سند علم دین کی پر شاد“ مندروں کے بتا کون کھا گیا ہندو کی مہر کس کی جبیں پر بتا لگی نہرو کو بتا یا رسول“ کس نے تھا کہا روندی تھی کس نے سوچ رسالت کی برتری ننگے ہوئے خود ہی شرافت کے نام پر تہذیب و شرم تم میں ذرا بھی نہیں رہی مذہب کا سرطان صفحہ 83-84 مصنفہ کوثر جمال ناشرلڑکیاں کہانیاں پہلی کمیشنز ساندہ کلاں لاہور )

Page 296

296 سید محمد ایوب تنها کپورتھلوی مشہور بریلوی شاعر عالم دین شورش کشمیری صاحب کی اخلاقی تصویر یوں بناتے ہیں: احمد رضا کی شان سے تو آشنا کہاں جا سونگھ ہندوؤں کی لنگوٹی سڑی ہوئی سکے ترا رسول ہیں سکے ترا خدا جس نے ذرا دکھا دیئے وہ تیری پارٹی تو نے تو دم بھرا ہے سدا کفر کا خبیث مسلم کے ساتھ کب سے ہوا ہے کھتری (رسالہ شورش عرف بھاڑے کا ٹو مصنفہ غلام المشائخ جناب شاہ محمد عامی سرہندی و جناب سید محمد ایوب تنها کپور تھلوی صفحہ 7-8 بحوالہ مذہب کے نام پر خون صفحہ 217-218 4.مولانا طاہر القادری قائد انقلاب نہیں خود غرض.جھوٹا.دولت کا پجاری.ناشکرا خود پرست اور ان کی مذہب سے محبت محض ڈھونگ ہے منہاج القرآن سے وابستہ لوگ انہیں قائد انقلاب کے روپ میں دیکھتے ہیں جبکہ ان کے قریبی دوست بلکہ دست راست مشہور بریلوی عالم دین نے عدالت عالیہ میں ان کی کیا تصویر کشی کی.ملک فیض الحسن جی ڈبلیو 15 نے جن کے مسٹر قادری کے ساتھ گہرے تعلقات رہے ہیں اور جنہوں نے ادارہ منہاج القرآن کی تشکیل و تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا.اپنے بیان میں مسٹر قادری کو احسان فراموش، ناشکرا، خود غرض، جھوٹا، دولت کا پجاری ، خود پرست اور شہرت کا بھوکا انسان قرار دیا ہے.انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ مسٹر قادری سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بڑے بے قرار تھے.سیاست میں آنے کا انہیں انتہائی شوق تھا اور یہ کہ مذہب سے اس کی صحبت محض ایک ڈھونگ ہے.( مذہب کا سرطان مصنفہ کوثر جمال صفحہ 46 نقل فیصلہ ہائی کورٹ از اختر حسن حج یک رکنی ٹربیونل مورخہ 08-08-09) 5 - مولا نا اختر علی خاں ابن مولانا ظفر علی خاں پروانہ ختم نبوت نہیں بلکہ ناہنجار کا بچہ، بازار کا بچہ، غدار ابن غدار، بد کار کا بچہ، کمین نمی فروش، کذاب خائن کمہار کا کتا ہے مولانا ظفر علی خاں کے صاحبزادے مولا نا اختر علی خاں کو بعض دیوبندی حلقے بلند پایہ صحافی ، عالم دین اور شمع ختم نبوت کے پروانہ قرار دیتے ہیں.مگر دوسرے ممتاز دیو بندی جو خود بھی پروانہ ختم نبوت ہیں یعنی شورش کا شمیری صاحب وہ آپ کی تصویر کو اشعار اور نثر میں کس قالب میں سموتے ہیں ملاحظہ ہو.شورش کا شمیری صاحب نے ہفت روزہ چٹان کے 19 مئی 1952 ء کے شمارہ 20 کا ایک ضمیمہ شائع کیا جس کے صفحہ اول پر کرم آباد کا کمہار کے نام پر مولانا اختر علی کو یوں مخاطب فرمایا : گلاب و یاسمین سے کھیلتا ہے خار کا بچہ کرم آباد کی اولاد ناہنجار کا بچہ

Page 297

297 یہ اک سر نہاں چی چانگ کی امی سمجھتی ہے کہ ہے محبوب کی آغوش میں بازار کا بچہ وزیروں کی سواری کے لیے دن رات حاضر ہے وزیر آباد کے ”عالی نسب کمہار کا بچہ صدا یہ آرہی ہے جعفر و صادق کی تربت سے کہ ہے اختر علی غدار بن غدار کا بچہ صف آراء ہیں ہمارے سامنے بن باپ کے بیٹے اور ان کا راہبر ہے اک ذلہ خوار کا بچہ زمیندار اور اس کی کوکھ سے پیدا ہوا آخر بشکل و یشیا بغلول کے اخبار کا بچہ یہ پچھیتی جامئہ سالک پہ آکر خوب کھلتی ہے کہ ہے ارشاد کے پہلو میں اک بد کار کا بچہ اسی ضمیمہ کے اداریے میں جناب شورش صاحب فرماتے ہیں: اختر علی خاں تمہارے اخبار کی زد سے کون بچا؟ تم نے کسے گالی نہیں دی.ایک نام بتاؤ جس کا تم نے قصیدہ لکھا ہوا ور دوسری دفعہ گالی نہ دی ہو.اختر علی خاں تمہاری فطرت کے صحیح خدو خال صرف اس ایک فقرے میں سموئے جاچکے ہیں " تم دولت والے کے پیچھے چلتے اور ڈنڈے والے کے آگے آگے دوڑتے ہو شورش صاحب مزید مولانا اختر علی صاحب کی تصویر کشی یوں فرماتے ہیں : اختر علی خاں گر بیاں میں جھانکو.اپنی موٹائی اور گولائی کو دیکھو.اپنی چربی کو پگھلاوا اپنے ضمیر کوٹولو پھر سوچو کہ تم کیا ہواب ذوالجلال کی قسم ! تم سے بڑھ کر ضمیر فروش.کذاب قوم کا تاجر - غدار.دانی الطبع اور خائن آج تک کرہ ارض میں پیدا نہیں ہوا.تم سالک کے الفاظ میں ”شور دارمٹی کی پیدوار ہو محمد علی مرحوم نے تمہارے متعلق کہا تھا ” کمہار کا جس کے...پر مٹی لگی دیکھتا ہے اس کے پیچھے ہو جاتا ہے.66 66 مذہب کا سرطان صفحہ 106 تا 108 زیر عنوان ” جہا د شورش مصنفہ کو ثر جمال ).چوہدری غلام احمد پرویز مفکر اسلام نہیں دجال، دشمن دین، کافر، مرتد اسلام کے نام پر کلنک کا ٹیکہ، دین بیزار، نیچری ہے پاکستان کا بڑا طبقہ جناب غلام احمد پرویز صاحب کو قرآنی بصیرت رکھنے والا ماڈرن مفکر اسلام سمجھتا ہے جبکہ دوسری طرف وکیل ختم نبوت جناب مولانا یوسف لدھیانوی صاحب کے حضور ان کی تصویر وجغرافیہ کیا ہے ملاحظہ ہو.انگریز کے عہد نحوست میں جو تحریکیں اسلام کو مسخ و محرفت کرنے کے لیے اٹھیں ان میں سب سے پہلی تحریک نیچریت کی ہے.پھر ایک طرف قادیانیت.دوسری طرف چکڑالویت نے انکار حدیث کا فتنہ برپا کیا اس کے بعد ” خاکسارتحریک نے سراٹھایا اور پھر ان سب تحریکوں کا سڑا ہوا ملغو یہ مسٹر پرویز کے حصہ میں آیا اور ان سب پر کمیونزم کا پورا معاشی ڈھانچہ اور اس کی مذہب سے بیزاری.نیچریت کی مادہ پرستی.قادیانیت کا انکار.چکڑالویت کا

Page 298

298 انکار سنت.خاکساروں کی تحریف و تاویل سب خرابیاں یکجا موجود ہیں اور مسٹر پرویز کے قلم کی روانی نے ان غلاظتوں میں اور اضافہ کر دیا.مسٹر غلام احمد پرویز بدقسمتی سے ہم وطن بھی اور الحاد و زندقہ میں اس کا ہم مسلک بھی“.ہفت روزہ ختم نبوت 18 تا 24 دسمبر 1992 صفحہ 13 روز نامہ اوصاف میں جناب عبد الخالق بھٹی کو یت صاحب درج فرماتے ہیں.بزم طلوع اسلام کی پوری لابی کو معلوم ہے کہ غلام احمد پرویز اور اس کے متبعین کے کفر وارتدار پر مہر ثبت ہو چکی ہے اور عرب و عجم کے علماء ثقہ دینی اداروں کا اس پر متفقہ اجتماع ہوا ہے اس دین دشمن نے جمہوری مسلمین کے اسلام کو اپنے باطل وملحدانہ تیروں کا نشانہ بنایا ہے پرویزیت اسلام کے نام پر کلنک کا پرویزی ٹیکہ ہے.پرویز کے دجال ہونے میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے؟ (روز نامہ اوصاف 128اکتوبر 99ء زیر عنوان پرویز یوں کو اجماع امت غیر مسلم قرار دے چکا ہے ) 7 - مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی مبلغ اسلام نہیں، زبان دراز مسخرة العلماء بد کلام اور خائن ہے مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی مجلس احرار اسلام کے روح رواں تھے.احرار اسلام انہیں مبلغ اسلام اور پروانہ ختم نبوت اور فاتح قادیانیت قرار دیتی تھی جبکہ برصغیر کے دیگر مسلمانوں کے نزدیک ان کے اخلاق فاضلہ کی کیا تصویر تھی پیش ہے.اخبار سیاست 28 نومبر 1925ء کی اشاعت میں خلافت کمیٹی کے نام پر ملاں حضرات نے غریب مسلم قوم کا پیسہ جس بیدردی سے ہضم کیا پر تبصرہ کرتے ہوئے نوحہ یوں لکھتا ہے.امرتسر خلافت کمیٹی کے کسی گھر کے بھیدی نے اظہار حقیقت کے عنوان سے ایک رسالہ شائع کیا جس میں امرتسر کے خلافتی لیڈروں کے اندرونی حالات پر عموماً اور ان کی ستم ظریفیوں پر خصوصاً نہایت وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں امرتسر کے باہر کی خلافت کمیٹیوں کے حالات کا قطعا کوئی علم نہیں ورنہ امرتسری خلافتی لیڈروں کا رونا رونے کی بجائے تمام ہندوستان کے خلافتی لیڈروں کا رونا روتے خلافتی لیڈروں پر قوم کا مال اپنے عیش و آرام میں صرف کرنے کا جو نا قابل تردید الزام لگایا جاتا ہے تا حال اس کا جواب انگریزی خواں لیڈروں کو تو سوجھا نہیں البتہ احرار اسلام نے کچھ نہ کچھ گھڑ لیا ہے.چنانچہ مولوی صاحب حبیب الرحمن لدھیانوی نے جو زبان درازی اور بد کلامی میں مسخرة العلماء سید عطاء اللہ بخاری سے افضل نہیں تو کم از کم ان کے ہم پلہ ضرور ہیں تمام الزامات غبن کا جواب نہایت مفعول اور مناسب دیا ہے.چنانچہ اس موضوع پر بولتے ہوئے فرمایا ” لوگ ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم خلافت کمیٹیوں کا فراہم کردہ روپیہ کھاگئے ہیں میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں لیکن سوال تو یہ

Page 299

299 ہے کہ کیا کوئی آدمی بتا سکتا ہے کہ فلاں خلافتی لیڈر نے خلافت کے روپے سے شراب پی رنڈی بازی کی یا کوئی دوسرا اور برا کام کیا ہم نے اور ہمارے بال بچوں نے اگر یہ روپیہ کھالیا تو کونسا گناہ کیا“ ( بحوالہ زجاجہ مصنفہ سید طفیل محمد شاہ صفحه 176 - 177 ) 8.مولانا فضل الرحمن مولا نا نہیں بکا و سیاستدان، مولانا ڈیزل ،مولانا سپرے، ایک بدعنوان سیاستدان، یہودیوں کے شیرٹن ہوٹل میں عیاشیاں کرنے والا اور بل ادا کئے بغیر چابی سمیت رفو چکر ہو کر پاکستان کو بد نام کرنے والا شخص دیو بندی مولانا فضل الرحمن جمیعۃ العلماء اسلام کے صدر ہیں.مذکورہ جمیعتہ ان کے ذریعہ وطن عزیز میں خالص اسلام پر مبنی معاشرہ قائم کرنا چاہتی ہے مگر دیگر دیو بندی اور بین الاقوامی مسلمان برداری میں ان کی تصویر مبارک کیا ہے.دیو بند کے غالی فدائی جناب ہارون الرشید نشریا سے زمین پر آسمان نے تم کو دے مارا“ کے عنوان کے تحت مولانا کی بداعمالیوں کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں.اب دیو بند کی پاکستانی وارث جمیعہ علماء اسلام فنا اور تباہی کے دروازے پر کھڑی ہے.نہیں معلوم کہ مولانا فضل الرحمن میں وہ کون سی خوبی ہے کہ جس کی بناء پر قرآن اور رسول کو دل سے راہنما ماننے والوں نے انہیں اپنا لیڈر بنالیا ہے.گستاخی معاف وہ تو نفرت اور ر و عمل میں پیپلز پارٹی کے در پر سجدہ ریز ہو چکے ہیں.خارجہ امور کی کمیٹی کی سر براہی اور اس کے نام پر بے دریغ سرکاری مراعات کسی امر کی علامت ہیں 1993ء میں اس سے انتخابی اتحاد اور اس کے نتیجے میں جماعت کی بربادی کیا ایسی چیز نہ تھی جس سے سبق سیکھا جاتا افسوس کہ وہ نہ سیکھ سکے اور اب ان کی شہرت ایک بد عنوان آدمی کی ہے کہ جب لوگ انہیں مولا نا ڈیزل اور مولا نا سپرے( کھاد) کہتے ہیں.تو میں حیرت ا سے سوچتا ہوں کہ کیا خدا پرستوں کے قبیلے نے حالات سے اس درجہ مفاہمت کر لی ہے.( روزنامہ خبریں 18 جولائی 1996 ، اشاعت خاص ) 9 مفتی کفایت اللہ، مولانا ظفر علی خاں سبحان الہند مولانا سعید احمد اور مولانا ثناء اللہ امرتسری علماء کرام نہیں مداری، اصلی ابلیس ، شرافت سے بری بلکہ خبیث شیطان ہیں مندرجہ بالا علماء کرام کسی تعارف کے محتاج نہیں.تحریک پاکستان اور مخالفت احمدیت میں یہ نمایاں خدمات بجالانے والے بزرگ ہیں مگر ممتاز صحافی و عالم دین جناب سید حبیب کے نزدیک ان کے اخلاق فاضلہ کی تصویر کیا ہے پیش ہے.سید صاحب ظفر علی خاں کے بارے فرماتے ہیں:

Page 300

300 کوئی کہتا ہے مداری اس کو اور کوئی ملہار میں کہتا ہوں کہیں یہ اخترا نائی نہ ہو ظاہراً ابلیس کی صورت پہ گر ہو یہ گمان یہ کہیں مسٹر ظفر کے باپ کا بھائی نہ ہو سنیوں سے یہ الجھنا کیوں ہے تیرا اے ظفر سر میں خارش ہو نہ تیرے چاند کھجلائی ہو چاندکھ آگے چل کر مفتی کفایت اللہ صاحب اور سبحان الہند مولانا سعید احمد صاحب کا ذکر خیر یوں فرماتے ہیں: ہیں کفایت اور سعید احمد شرافت سے بری اک سنار ان میں دوسرا نائی نہ ہو اس سے آگے ثناء اللہ امرتسری صاحب سے مخاطب ہیں : نام ہے شیطان جس کا جس کو کہتے ہیں خبیث اے ثناء اللہ میاں وہ آپ کا بھائی نہ ہو ( سیاست 31اکتوبر 1925 ء بحوالہ زجاجہ صفحہ 172 - 173 ) 10.مولانا احمد شاہ نورانی داعی نظام مصطفیٰ اور عالم دین نہیں رشوت دینے والا اور مولوی خرید نے والا مہرہ مولا نا احمد شاہ نورانی بریلوی حلقہ احباب میں ایک مستند عالم دین ہیں اور وہ ان کی قیادت میں پاکستان میں نظام مصطفیٰ نافذ کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں.جبکہ دوسری طرف بھی بریلویوں کے ہی ممتاز عالم دین مولا نا عبدالستار نیازی صاحب ہیں.کچھ بریلوی بھائی ان کی قیادت میں ملک میں اسلامی انقلاب کی راہ دیکھ رہے ہیں.نورانی میاں کا لوگوں میں کیا مقام ہے اور عبدالستار نیازی صاحب کی نظر میں کیا.دیکھنے کے لائق ہے.14 جون 1995ء کے روزنامہ خبریں میں مولانامحمد ضیاء القاسمی کا مضمون بعنوان ”مولوی جیت گئے شائع ہوا تو پاکستان کے مشہور صحافی جناب ڈاکٹر انوار الحق صاحب نے خبریں میں اپنے مستقل کالم ضرب کلیم میں بعنوان " کیا مولوی واقعی جیت گئے جوابی طور پر ایک عالم دین کی تصویر جو دوسرے عالم دین کے برش سے پینٹ ہوئی ہے انہیں دکھا کر پوچھا کہ کیا آپ اب بھی کہتے ہیں کہ مولوی جیت گئے آپ نے جو تصویر پیش کی وہ درج ذیل تھی.”مولانا نورانی صاحب کے بارے میں ”مولانا عبدالستار نیازی کی وہ پریس کانفرنس بھی آپ کے گوش گزار کرتے چلیں جس میں مولانا نیازی صاحب نے فرمایا تھا کہ نورانی نے اپنے دست مبارک سے انہیں اور ان کے چار ( علماء دین ) ساتھیوں کو بریف کیس میں نوٹوں کی گڑیوں کی رشوت پیش کی تھی شرط صرف یہ تھی کہ بے نظیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش نہ کی جائے ”مولانا عبدالستار نیازی کے مطابق صرف انہوں نے رشوت قبول نہیں کی باقی ان کے ساتھیوں نے لی.اب ضیاء الحق قاسمی صاحب ہمیں بتائیں کہ رشوت لینے والے اور دینے والے کے بارے میں رسول اکرم کے کیا فرمودات ہیں اور اگر ایک عالم دین رشوت آفر کرے اور ایک غیر اسلامی اسلام دشمن حکومت کو قائم رکھنے کے لیے پیش کرے تو کیا ایسا مولوی ” جیت گیا یا دونوں جہانوں میں بری طرح ہار گیا.

Page 301

301 66 آپ دیگر مشہور علماء دین کی تصویر کا نیگٹو بھی ایکسپوز کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مولانا ضیاء الحق القاسمی نے اپنے مضمون کے آغاز میں امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بعد یہ دعویٰ کیا ہے کہ فرزندان مغرب بھی مولویوں کے پیچھے پڑ چکے ہیں.ہم مولانا سے نہایت مؤدب انداز میں پوچھیں گے کہ وہ بے نظیر حکومت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں.اگر بے نظیر دختر مغرب ہیں تو وہ مولویوں کے ساتھ کیا سلوک فرما رہی ہیں.کیا ”مولانا فضل الرحمن کو روز کون بیرونی ممالک کے دوروں پر بھیج رہا ہے کون فضل الرحمن کو شیرٹن جیسے مہنگے ترین ہوٹلوں کے مہنگے ترین کمروں سوئیٹ میں ٹھہرا رہا ہے جب مولا نا بل ادا کئے بغیر ان ہوٹلوں سے چلے جاتے ہیں تو ان کا ہزاروں ڈالرز کابل کون ادا کرتا ہے؟ مولانا ضیاء القاسمی نے اپنے مضمون میں یک جہتی کا ذکر بھی کیا ہے لوگ حیران ہیں اور ہم بردار خلیل ملک کی اس بات سے متفق ہیں کہ کل تک یہ حضرات مساجد پر بم گرا رہے تھے اور نمازیوں پر فائرنگ کر رہے تھے نیز امام باڑوں کے باہر دن کے بارہ بجے نذرونیاز تقسیم کرنے کے بہانے غرباء کو جمع کرتے تھے اور انہیں بم سے اڑا دیتے تھے اب اچانک کیسے شیر وشکر ہو گئے.جناب خلیل ملک صاحب نے صحی تجزیہ کیا کہ بم پھینکنے کا ایجنڈہ بھی اوپر سے آیا تھا اور اب شیر وشکر ہونے کا ایجنڈا بھی اوپر سے آیا ہے“.آپ مزید علماء کے ذریعہ رزق کی تصویر بھی دکھاتے ہیں : ہر بدعت اور ہر شرک“ ایک مولوی کے ہاتھ سے انجام پا رہا ہے جب مولوی بکتا ہے تو سب سے زیادہ بولی لگانے والا خریدتا ہے.آج سب سے زیادہ پیسہ صیہونیوں کے پاس ہے.لہذا سب سے زیادہ ”مولوی صیہونیوں نے اپنے ایجنٹوں کے لیے خرید لئے ہیں.ایسے مولویوں کو چیک کسی مسلم ملک کے ذریعہ آتے ہیں اگر براہ راست اسرائیل یا امریکہ سے آئیں تو ایمان کو جھٹکا لگنے کا خطرہ ہے.اب البتہ بعض مولوی حضرات براہ راست بھی چیک لینے سے گریز نہیں کرتے مثلاً مولا نا فضل الرحمن یہودیوں کے شیرٹن ہوٹل میں ہزاروں ڈالرز لٹا سکتے ہیں.اسی طرح افغانستان میں بھیجے جانے والے طالبان کو برطانیہ اور اقوام متحدہ براہ راست پیسے پہنچا رہے ہیں.علامہ لیاقت فاروقی صاحب دیوبندی مسلک کے باخبر صحافی ہیں آپ بھی نورانی میاں اور نیازی صاحب کی لندن میں مکہ کے متعلق کا نفرنس کو کسی کاروباری مولوی کی بیٹھک کی صورت میں دیکھتے ہوئے فرماتے ہیں: اچھا علامہ قادری صاحب یہ تو بتائیے چند سال پہلے لندن میں کانفرنس ہوئی تھی جس میں مولانا نورانی و نیازی صاحب نے خصوصی شرکت کی تھی اور اس کا نفرنس میں مکہ ومدینہ کوکھلا شہر قرار دے کر اس کا انتظام اقوام متحدہ

Page 302

302 کے سپر د کر نے مطالبہ کیا گیا تھا لندن میں کا نفرنس منعقد کر کے مطالبہ کس سے کیا گیا تھا.یہ تو علامہ قادری صاحب بہتر جانتے ہونگے کیونکہ برصغیر میں انگریز بہادر سب طرف سے ناکام ہونے کے بعد بالاخر بریلی شریف کے مفتی اعظم مولانا احمد رضا خاں سے ہندوستان دار السلام کا فتویٰ لینے میں کامیاب ہو گیا تھا.(بریلی کے فتوووں کا سستا ہے بھاؤ از لیاقت فاروقی روزنامه پاکستان 15اکتوبر 1997ء) 11 - مولانا ثناء اللہ امرتسری مبلغ اسلام نہیں، جھوٹا، شریر، مفسد، بے حیا محمد، زندیق ، پنجابی ڈھنگہ ، دھوکہ باز ابلہ فریب علم سے بے بہرہ بلکہ دجالوں میں ایک دجال مولانا ثناء اللہ امرتسری اہل حدیث کے ایک مشہور عالم دین ہیں جنہوں نے حضرت مرزا صاحب سے لمبی چوڑی جنگ کی اہل حدیث کا ایک طبقہ انہیں عالم دین سمجھتا ہے جبکہ اہل حدیث کا ہی دوسرا طبقہ جو بہت بڑا ہے آپ کے اخلاق فاضلہ کی کیا تصویر پیش کرتا ہے.اس کو علیات خرافات پھکڑ بازی وغیرہ کا موجد کہ لیں.اس کے استاد مولوی احمداللہ صاحب رئیس امرتسر یہ فرما چکے ہیں کہ ثناء اللہ کی تمام کتابیں جلا دینے کے قابل ہیں.اندھوں میں کانا راجہ ہے جھوٹ افتراء پردازی اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے.یہ ایک کشمیری بچہ پنجابی ڈھگہ شریر مزاج مفسد طبع اور تقویٰ اور ورع سے کوسوں دور.اکثر حملہ اس کا قرآن اور حدیث اور مذہب اسلام پر ہی ہوتا ہے.چونکہ یہ کا ذب دھوکہ باز اور ابلہ فریب ہے لہذا وہ حق پرستی کر کے جھوٹے الزامی جواب پر قناعت کرتا ہے.علم سے بے بہرہ تمسخر و استہزاء شعر خوانی و بس عوام الناس کو دھوکہ دینے کے واسطے جاہل مجاہد.اس کا دین بھی پیسہ ایمان بھی پیسہ جنت بھی پیسہ دوستو اس شریر مفسد سے بچو.“ (فاروق 6/ 16-17 پر بنائے نقل مقدمہ واہل فقہ 14 جون 1907 ء بحوالہ زجاجہ صفحہ 178 ) | اسی طرح مشہور اہل حدیث عالم دین مولوی فقیر اللہ مدراسی اپنی کتاب ”اعلام خلق اللہ میں اپنے ہم مسلک بھائی ثناء اللہ کے کردار علم اور اخلاق کی تصویر یوں بناتے ہیں: غرضیکہ مولوی ثناء اللہ کا یہی حال ہے کہ اس نے نفاق ورزی کے ذریعہ سے فقط نام اہل حدیث رکھوانے سے عوام بلکہ خواص کا لعوام کا شکار کرتا جاتا ہے اور گمراہی اور فتنہ وفساد در دین رب العباد میں 72 گمراہ فرقوں اور تمام ملحدوں پر بڑھ گیا اور تحریف کتاب وسنت میں یہاں تک جرأت پیدا کیا ہے کہ اس نے بحکم تعلیم شیطانی اپنی دادی پر دادی نانی پر نانی ساس کی ماں کو اور بھانجا بھانجی بھی بھیجا ان چاروں کی نواسی پوتی کو اپنے اوپر حلال کر دیا.آج تک کسی گمراہ سے گمراہ پیر فقیر نے اور نہ مرزا قادیانی نے اور نہ کسی دوسرے ملحد نے ملتہ وحداہ میں اس پر جرات کی بلکہ یہود و ہنود کو بھی اس میں عار وشنار ہے.مگر اس محد جدید کشمیری دلاور خان بہادر کو اس سے ذرا بھر بھی حیاء وخوف خداو فکر روز جزاء نہیں“.

Page 303

303 اعلام خلق الله صفحه 3 در مطبع کریمی واقعہ مدراس بحوالہ الوہابیت صفحہ 106) 12 سعودی خاندان والی حرمین شریفین نہیں، امریکی پٹھو دہشت گرد، دشمنان اسلام کا سر پرست، قرآن وحدیث کا مخالف، اسلام کو مٹانے کے درپے، حرمین شریفین کو ان سے آزاد کرواؤ سعودی خاندان ساری دنیا کے دیگر فرقوں کو مشرک اور بدعتی کہتے ہیں اور خود کو موحد اسلام کے روپ میں پیش کرتے ہیں جبکہ دیگر مسلمان ان کی توحید کے لبادے میں ان کی اخلاقیات اور عقائد کو کیسے دیکھتے ہیں.روز نامہ اوصاف کا ایڈیٹر حامد میر دہشت گردوں کا سر پرست کون“ کے عنوان سے غیر مقلد سعودی شاہی خاندان کی تصویر یوں بناتا ہے.آج نہیں تو کل یہ حقیقت ضرور کھل کر سامنے آئے گی کہ پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ وارداتیں ایک ایسے گروپ نے کیں جس کا سعودی سفارتکاروں سے گہرا رابطہ رہتا ہے.اب یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ سعودی خاندان دہشت گردی کے زور پر حکومت قائم رکھے ہوئے ہے ان دہشت گرد خاندانوں نے قرآن وحدیث کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حرمین شرفین کے اردگرد یہود و نصاریٰ کی فوجوں کو تعینات کر رکھا ہے.اسلام میں بادشاہت کی کوئی گنجائش نہیں لہذا یہ شاہی خاندان آہستہ آہستہ اسلام کو مٹانے کے در پے نظر آتا ہے.اس بد بخت شاہی خاندان نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ناصر البانی کو نوکری دے رکھی ہے جس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ نبی کریم کے مزار اقدس کو مسجد نبوی سے نکالا جائے.اس جامعہ اسلامیہ میں مقبل بن ہادی الوداعی نامی شخص نے Phd کے مقالے میں لکھا کہ نبی کریم کی قبر مبارک کو مسجد نبوی سے خارج کیا جائے کیونکہ یہ قبر اور مزار رسول کا گنبد بدعت ہے“.(روز نامہ اوصاف 12 فروری 1988 ء اسلام آباد ) 13.مولانا مودودی نبض شناس رسول نہیں خبیث ، مسولینی ہٹلر، گستاخ، گمراہوں کی جڑ تنقیص شان رسول کرنے والا جماعت اسلامی مولانا مودودی صاحب کو نبض شناس رسول اور خدائی فوجداروں کا سپریم کمانڈر اور دیگر بہت سے خطابات سے یاد کرتی ہے.اور خیال کرتی ہے کہ جلد یا بدیر وہ ان کے ارشادات پر عمل کر کے دھرنا دیتے ہوئے اسلام آباد پر قبضہ کر کے اسلامی انقلاب اٹھادیں گے مگر بر صغیر کے دیگر علماء کرام ان کی اعتقادی تصویر کیا بتاتے ہیں.مولانا ارشد القادری ایڈیٹر جام نور جمشید پور مودودی صاحب کے بارے میں رقمطراز ہیں : مودودی صاحب نے اسلام کا نعرہ بلند کیا تو اس نعرہ کی جاذبیت اور ان کی کامیاب انشاء پردازی سے متاثر

Page 304

304 ہو کر کئی علماء جماعت اسلامی میں شامل ہوئے لیکن جب مودودی صاحب کا خبیث باطن ان پر عیاں ہوا تو انہوں نے فوراً جماعت اسلامی سے کنارہ کشی اختیار کر لی.جماعت اسلامی کی مقتدر رہنما غازی عبدالجبار - مولانا امین احسن اصلاحی وغیرہ جماعت سے علیحدہ ہو گئے.اصلاحی صاحب نے 17 جنوری 1958ء کو جماعت سے استعفیٰ دیا اور روزنامہ نوائے وقت ( 21 جنوری تا 27 جنوری 1958 ء ) میں ان کا ایک اہم انٹر ویوقسط وار شائع ہوا جس میں انہوں نے مودودی صاحب کو مسولینی ، ہٹلر، سٹالن، اور مرزا بشیر الدین محمود سے تشبیہ دی.جماعت اسلامی صفحه 3-4) تحفظ ختم نبوت کانفرنس لائل پور میں بخاری صاحب نے مودودی صاحب کو غدار، دروغ گو اور مستحق سزا مجرم ثابت کرنے کے بعد مباہلے کا چیلنج دے دیا.“ المنیر 17 جولائی 1955 صفحہ 9 ی مودودی صاحب نے جو گستاخانہ طرز عمل اختیار کیا تھا وہ بدستور جاری ہے.“ (جماعت اسلامی صفحہ 5) بد مست شرابی کی طرح قلم کی آوارگی ملاخطہ فرمائیے ! بہتان وافترا کو واقعہ کا جامہ پہنادینا اگر کوئی ہنر ہے تو میں اعتراف کرتا ہوں کہ مولانا اس ہنر میں اپنا جواب نہیں رکھتے“.مودودی صاحب کے ایک عقیدے کا ذکر کر کے فرماتے ہیں: (جماعت اسلامی صفحه 99 ) کیا اس سے بھی زیادہ دلیری کے ساتھ کوئی دشمن اسلام، رسالت کی روشن تاریخ کو مسخ کر سکتا ہے.اور پھر کیا خدا اور رسول کی تنقیص شان اور کفران نعمت کے لیے اس سے بھی زیادہ کوئی شرمناک پیرا یہ اختیار کیا جا سکتا ہے“.(جماعت اسلامی صفحہ 46 ) 14.پیر گوہر شاہی دلوں کو اللہ کے ذکر سے بھرنے والا نہیں لڑکیوں پر ہاتھ ڈالنے والا پیر گوہر شاہی کے مرید ان کی تصویر چاند ستاروں کے بعد اب حجر اسود میں دیکھ رہے ہیں اور وطن عزیز کے کوچہ کوچہ میں فخر انقلاب کا نفرنس منعقد کرتے ہیں.جس کے انعقاد سے قبل آپ کی منظم انجمن سرفروشان اسلام ہر گھر ہردیوار پر دل کی تصویر اور اس میں لفظ اللہ نقش کر دیتے ہیں.یہ سب باتیں ایک طرف مگر امریکی جیل میں آپ کے 12 گھنٹے کی قید دوسری طرف.اصلی تصویر کیا ہے پیش ہے.

Page 305

305 امریکہ میں پیر گوہرشاہی کالڑ کی پر مجرمانہ حملہ پولیس نے اندر کر دیا.فرح کو گوہرشاہی کے کمرے میں بند کر دیا گیا جہاں پیر نے مجرمانہ حملے کی کوشش کی لڑکی عزت بچانے کے لیے بھاگ نکلی.باہر موجود اس کا شوہر اسے ہسپتال لے گیا.ڈاکٹر نے جسم پر نشانات دیکھتے ہوئے پولیس کو اطلاع کر دی دنیا میں نور پھیلانے والے پیر گوہر شاہی کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے.مریدوں نے ضمانت پر رہا کرالیا.واشنگٹن ( فقیر حسین نقوی) پچھلے ہفتے لاوڈن کا وٹی پولیس نے صبح کے وقت پاکستان کے مشہور پیر گوہر شاہی کو اس کے پیروکار مظہر فیروز کے گھر واقع ASHBURN سے گرفتار کر لیا.25 سالہ نہایت خوبصورت نوجوان دوشیزہ فرح درانی جو کہ 2 بچوں کی ماں ہے نے 29 ستمبر کو مقامی مجسٹریٹ کے روبرو پیش ہو کر گوہر شاہی پر مجرمانہ حملے کا الزام لگایا جس کے نتیجے میں گوہر شاہی کے وارنٹ گرفتاری حاصل کر لیے گئے مگر گوہر شاہی چونکہ ورجینا ریاست سے باہر گئے ہوئے تھے اس لیے اس پر کوئی عمل نہ ہو سکا.آخر پچھلے ہفتے جو نبی انہوں نے ورجینیا اسٹیٹ میں قدم رکھا ان کو گرفتار کر کے مقامی جیل میں بند کر دیا گیا.“ (روزنامہ خبریں 2 نومبر 1999 ء ) 15.غامدی جھوٹا آدمی ہے، گرگٹ کی طرح نظریات بدلتا ہے، گمراہ ہے کا فر ہے جاوید احمد غامدی اپنے دیرینہ دوست پروفیسر مولوی محمد رفیق صاحب کی نظر میں غامدی صاحب اکثر ٹی وی پروگرامز میں اسلام کے حوالے سے اظہار خیال کرتے نظر آتے ہیں جبکہ دوسری طرف بھی ایک پروفیسر صاحب ہیں جن کے بقول وہ غامدی صاحب کے پرانے رفیق بلکہ ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے وہ انکی ذات کو بہت قریب سے جانتے ہیں.انہوں نے ان کے بارے میں ایک عدد کتاب لکھی فتنہ غامدیت کا علمی محاسبہ جس میں وہ اپنی رائے کا اظہار یوں فرماتے ہیں: موصوف جھوٹا آدمی ہے.اگر کسی فرضی نام کی کتاب کا بھی نام لے دیں تو فوراً جواب دے گا کہ ہاں میں نے پڑھی ہوئی ہے.جھوٹ بولنے کی عام عادت ہے.اسی عادت نے ان کو جماعت اسلامی سے نکلوایا.“ ( غامدیت کا علمی محاسبہ صفحہ 14) غامدی صاحب کا اصل نام محمد شفیق ہے.لیکن بعد میں جاوید احمد ہو گئے.گاؤں پیر کریاں پاکپتن ضلع ساہیوال میں پیدا ہوئے.گلے زئی خاندان سے ہیں مگر انہوں نے نسب تبدیل کر لیا اور آج کل وہ یمن کے ایک

Page 306

306 قبیلے غامد کی نسبت سے غامدی کہلاتے ہیں.صحیح حدیث میں ہے کہ کفی بالمرء ادعاء نسب لا يعرفه او جحده وان دق.یہ کفر ہے کہ آدمی ایسے نسب کا دعوی کرے جس کو وہ خود بھی نہ جانتا ہو.“ ( غامدیت کا علمی محاسبہ صفحہ 13 ) غامدی صاحب آئے دن زبانی اور تحریری طور پر اپنے نظریات گرگٹ کی طرح بدلتے ہیں.“ (غامدیت کا علمی محاسبہ صفحہ 15) (فتنہ غامدیت کا علمی محاسبه از پروفیسر رفیق احمدنا شرمکتبہ قرآنیات یوسف مارکیٹ غزنی اسٹریٹ اردو بازارلاہور پاکستان با تمام حافظ تقی الدین مکتبہ مجددیہ الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور ) 16.جماعة الدعوة الشکرطیبہ اہل حدیث ، مرکزی جمعیت اہل حدیث لشکر طیبہ والوں کی غنڈہ گردی اور دہشت گردی سے ہمیں بچایا جائے.مرکزی جمعیۃ اہل حدیث اہل حدیث کا ایک گروپ جماعتہ الدعوۃ اور لشکر طیبہ کے نام سے اندرون اور بیرون ملک جانے جاتے ہیں.جبکہ دوسری طرف مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے علمائے کرام ہیں.مرکزی جمعیت کے عہدیداروں نے اسلام آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کی اور اس کے بعد سینکڑوں کارکنوں کے ساتھ مظاہرہ بھی کیا.اسلام آباد : مرکزی جمعیت اہل حدیث ملک کی وزارت داخلہ اور حساس اداروں کی توجہ اس طرف مبذول کروانا چاہتی ہے کہ بعض کا لعدم قرار دی گئیں تنظیمیں دیگر مختلف ناموں سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں.ان پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہئے.ان خیالات کا اظہار چیر مین ایکشن کمیٹی ڈاکٹر سید طالب الرحمن شاہ، علامہ عبدالعزیز حنیف امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث اسلام آباد ، حافظ مقصود احمد نے پریس کلب اسلام آباد میں پریس کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا.لشکر طیبہ جس پر حکومت پاکستان نے پابندی عائد کی ہوئی ہے.مرکزی جمعیت اہل حدیث کی مساجد پر یہ عظیم نا جائز قبضے کر رہی ہے.اسلحے کے زور پر اس تنظیم نے مرکزی جمعیت کی بہت سی مساجد پر قبضہ کر لیا ہے.ی تنظیم اپنے ورکرز کے ذریعہ غنڈہ گردی کر رہی ہے جس کے بعد پریس کلب کے سامنے مظاہرہ بھی کیا گیا“ (مرکزی جمعیت اہل حدیث اسلام آباد کی ویب سائٹ پر پہلے صفحے کے نام سے یہ خبر موجود ہے.مزید 2012-10-29 کی اخبارات روزنامہ خبریں، اذکار، اوصاف اسلام آباد)

Page 307

307 باب نمبر 9 یه اجتماعی کلاه بازیاں اور

Page 308

308 میری مشکلات کلاہ بازیاں یعنی پگڑیاں اچھالنا.یعنی عزت و ناموس سے کھیلنا یعنی اخلاق سے ننگے ہو کر دوسرے کو ننگا کرنے کی کوشش کرنا یعنی سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے گھٹیا طریقے استعمال کرتے ہوئے دوسروں کے کردار پر کیچڑ اچھالنا.زندگی کتنے اندوہناک موڑ پر کھڑی ہے کہ یہ کھیل ہمارا قومی کھیل بن چکا ہے انہیں امور کو تفصیل سے بیان کرنے کے بعد روز نامہ وفاق 15 اکتوبر 93ء کی اشاعت میں قوم کے سنجیدہ لوگوں کے سامنے جو سوال رکھا ہے وہ میری فیصلہ کن مشکل بن گیا ہے.مشکل نمبر 39 روز نامه وفاق لکھتا ہے....آؤ کافر کا فر کھیلیں پاکستان میں یا تو شہداء سازی کی صنعت عام ہے یا کفر سازی کی چند سال بیشتر ساندہ خورد کے علاقے کی ایک مسجد میں تولیت کے تنازعہ پر دیوبندی نے اپنے ہم مسلک دیوبندی ہی کو قتل کر دیا.فرقہ وارانہ تعصب

Page 309

309 اور ہوس زر کی یہ صورت حال بار بار مسلمانوں کے شرمناک کردار کا مظہر ثابت ہو چکی ہے کفر سازی کے مذکورہ فتوے ایک بار نہیں بار بار صادر ہوتے ہیں عام مسلمان جسے فقہی مسائل سے اس حد تک آگہی نہیں جس حد تک مذکور کفر ساز علماء کرام کو ہے وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے میں بھی وہی عمیق مطالعہ و مشاہدہ اور تجدید و تحقیق تو کارفرما نہیں جوسنی سے شیعہ اور شیعہ سے سنی کو دائرہ اسلام سے خارج کرانے کا موجب بن رہی ہے؟ اور اگر عام مسلمان کے نزدیک شیعہ بھی مسلمان ہے اور سنی بھی مسلمان ہے تو کیا وہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کو درست تسلیم کرے گا؟ بالخصوص اس وقت تک جب وہ علماء کے ذاتی کردار کے بارے میں پوری طرح باخبر ہے“.(روز نامہ وفاق 15 اکتوبر 93ء) آیئے دیکھتے ہیں انفرادی تصویر کشی کے بعد اجتماعی محاذ پر ہم مسلمان اپنے جیسے دوسرے مسلمانوں کی کیا تصویر بناتے ہیں.اہل تشیع کی تصویر سپاہ صحابہ کی نظر میں سپاہ صحابہ کے جرنیل اعظم طارق نے اڈیالہ جیل سے ایک پیغام بھیجا جسے سپاہ صحابہ کے ترجمان خلافت راشدہ نے ٹائٹیل پر جلی حروف سے شائع کیا.آپ نے اہل تشیع اور برادر ملک ایران کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرمایا: اس وقت عالم اسلام کو رافضیت سے بڑی کسی اسلام دشمن قوت سے زیادہ خطرہ نہیں ہے.کیونکہ یہ وہ فتنہ ہے جس نے مسلمانوں کو اندرونی طور پر وہ کاری ضربیں لگائی ہیں کہ تاریخ اسلام کا مطالعہ رکھنے والا ہر فرد جانتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس دین کی حفاظت کا ذمہ خود نہ لیا ہوتا تو شاید آج اسلام اور مسلمانوں کا وجود ان زخموں اور نا قابل برداشت حملوں کی تاب نہ لاتا ہوا دنیا سے معدوم ہو گیا ہوتا.ہماری بد قسمتی کہیے یا خوش قسمتی کہ آج ایک مرتبہ پھر یہی ازلی دشمن نئے روپ اور جدید سازشوں سے مسلح ہو کر عالم اسلام کی پشت پر چھرا گھونپنے کو تیار کھڑا ہے اس نے اپنے خون خوار چہرہ پر ہمدردی اور غمخواری کا ماسک چڑھا کر زبان سے پر فریب نعرے لگاتے ہوئے مکاری و عیاری کا وہ خوشنما جال بچھا دیا ہے کہ جس پر بھولے پن میں اللہ ورسول کے نام لیوا اڑ اڑ کر قطار اندر قطار بیٹھتے چلے جارہے ہیں.امریکہ دشمنی اور اسرائیل مردہ باد کے جھوٹے نعروں کے ذریعہ وہ امریکہ واسرائیل سے زخم خوردہ مسلم ممالک کو یہ دھوکہ دینے میں مصروف ہے کہ اس وقت وہی اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا خیر خواہ ہے حالانکہ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی بھیٹر یا کتے کے منہ سے شکار چھین کر محبت و پیار کے نام پر خود اس شکار پر دانت صاف کرنا چاہتا ہو.عجیب بات تو یہ ہے کہ وہ ملک جس کے دارالحکومت میں مسلمانوں کو مسجد بنانے اور اس ملک کے اعلیٰ عہدوں

Page 310

310 پر فائز ہونے کا حق حاصل نہیں جس کے زندہ و مردہ رہنماؤں کے خلفاء راشدین اور جماعت اصحاب رسول ملی ایلام کے خلاف کفر کے فتوے سرکاری پریس پر شائع کئے جارہے ہیں جس کے ہاتھوں میں اسلامی حکومت بحرین، کویت اور عراق کی مسلمان حکومتیں صدمے اٹھا رہی ہیں.جس کی سازشوں سے حرمین شریفین کا تقدس بار بار پامال ہو چکا ہے.جس کے ایجنٹ پاکستان میں علماء کرام کے خون سے ہاتھ رنگین کر رہے ہیں جس کے پالتو غنڈے فلسطینیوں کے کیمپوں کا محاصرہ کر کے مسلمان فلسطینیوں کو مردار کھانے پر مجبور کرتے رہے جس کے روس بھارت اور اسرائیل سے منگوائے ہوئے اسلحہ نے مسلمان ملکوں کے شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا.آج وہی ملک عالم اسلام کی سر براہی کانفرنس کی میزبانی کر کے خود کو اسلام اور مسلمانوں کا رہبر و رہنما ثابت کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے.لیکن ہم دنیا کو یہ بتادینا چاہتے ہیں کہ سانپ کو دودھ پلانے سے اس کی فطرت تبدیل نہیں ہو سکتی.اونٹ کے کا سفر کر کے حاجی نہیں بن جایا کرتے جس قوم کے قلب و جگر میں محمد رسول اللہ ﷺ کی مقدس جماعت اصحاب رسول کے لئے ادب واحترام کا ادنی سابھی احساس نہیں وہ خلفاء راشدین کو رہبر ومرشد تسلیم کرنے والے مسلمانوں سے وفاء نہیں کر سکتی ہے.“ ہلا بریلویوں کی تصویر لشکر طیبہ کی نظر میں (ماہنامہ خلافت راشدہ دسمبر 1997 ء ) مولانا امیر حمزہ ایڈیٹر مجلہ الدعوۃ ترجمان لشکر طیبہ نے پاکستان کے تمام بریلوی در باروں کی زیارت کی اور پھر یہ آنکھوں دیکھا حال اپنی کتاب ”مذہبی اور سیاسی بارے میں تفصیل سے درج فرمایا.مزار ، عرس، تصوف ، قوالی، مجاور، یہ بریلوی اسلام کی خاص علامتیں ہیں اسی وجہ سے اہل حدیث انہیں چڑانے کے لیے قبوری بدعتی وغیرہ کہتے ہیں.بریلوی بھائی اپنے بزرگوں کے مزاروں پر کیا کر رہے ہیں؟ بریلوی تصویر اہل حدیث عالم دین کی نظر میں: قارئین کرام آج پھر اسلامی دنیا کا یہی حال ہے.ایران عراق - مصرا اور شام قبر پرستی کے گڑھ بن چکے ہیں.افغانستان میں بھی قبر پرستی کم نہیں انڈیا پاکستان اور بنگلہ دیش تو اس شعبے میں سب سے ممتاز اور نمایاں ہیں یہی وجہ ہے کہ آج اسلام دنیا ذلت ورسوائی کا شکار ہے“.(74-73) حیدر آباد کے مشہور مزار چھتن پیر کے دربار کا حال بیان کرتے ہیں کہ حجرے میں اولاد حاصل کرنے والی عورتیں جاتی ہیں جہاں ایک پردہ پڑا ہوا اس کو بوسہ دے کر اٹھاتی ہیں پیچھے چھتن پیر کی مادر زادنگی تصویر ہے اس جنگی تصویر کی پرستش کے حوالے سے آپ بریلویوں کو مخاطب کرتے ہیں:

Page 311

311 ذرا غور کیجیے کہ یہ امت تو قبر پرستی سے بڑھ کر اب تصویر پرستی اور بت پرستی تک جا پہنچی ہے اور پھر تصویر اور بت بھی وہ کہ جو شرک کی آخر حد کے ساتھ ساتھ فحاشی کو بھی اپنے دامن میں.تقدس کے پردے میں چھپائے ہوئے ہے اور یہ ناٹک کسی اجڈ دنیا میں نہیں.بلکہ ملک کے ایک بڑے اور مہذب شہر کے عین وسط میں رچایا جارہا ہے.تصوف وطریقت کے پردے میں فحاشی بیچ چوراہے کے ناچ رہی ہے.شرم و حیا اپنا دامن بچا کر یہاں سے بھاگ رہی ہے.(صفحہ 82) پھر آپ بریلوی مجذوب ولیوں کے بارے میں لکھتے ہیں : ”ہمارے یہاں قلندر.قطب.غوث دا تا ابدال اور مجذوب ولی بنائے گئے اور مجذوبوں کے کپڑے اتار دیئے گئے تو یہی چیز ہندوؤں میں ہمیں ملتی ہے ان کے ہاں پیشاب پینا تو معمولی بات یہ تو اپنا پاخانہ گندگی اور غلاظت تک کھا جاتے ہیں ایسے ننگے سادھو ہندوؤں کے ہاں متبرک ترین لوگ ہوتے ہیں.قارئین کرام ! یہی کچھ درباروں پر ولی بننے کے لیے ہوتا ہے.اور اگر وہ تنگے ہ کر ڈ گمبر سادھوکہلواتے ہیں تو یہ ننگے رہ کر مجذوب و لی کہلاتے ہیں“.مولا نا حمزہ صاحب مکلی کے مشہور قبرستان میں واقع عظیم درگاہ حضرت پیرٹن شاہ کے دربار کا حال یوں بیان کرتے ہیں: میں جب اس دربار پر پہنچا تو حضرت لٹن شاہ کی قبر سے سیمنٹ کا ایک گولہ نکلا ہوا تھا جو دربار کے باہر کئی میٹر تک چلا گیا تھا.میں نے گدی نشین سے پوچھا تو وہ کہنے لگا ” یہی تو حضرت کی کرامت ہے.حضرت لٹن شاہ صاحب دریائے سندھ کے کنارے بیٹھ جاتے تھے اور دوسرے کنارے پر رہنے والے مرید لٹن شاہ کے پل پر سے چل کر اس کے پاس آجاتے تھے.اسی کی یاد میں یہ سیمنٹ کا گولہ ہے جو حضرت کی قبر سے نکالا گیا ہے.اب بتلائیے ہندو کے برہاد ہوتا اور نام نہاد مسلمانوں کے حضرت لٹن شاہ ولی کے واقعات میں کیا فرق ہے.غرض اگر ہندو انسان کی شرمگاہ کی پوجا کرتا ہے تو قبروں پر گرنے والا بھی اسی راستے پر چل نکلا ہے اور یہ راستہ وہ ہے جو شرک کے ساتھ ساتھ فحاشی کی دلدل میں بھی دھنساتا ہے یہی وجہ ہے کہ شرک کے اڈے فحاشی کے بھی اڈے ہیں.چونکہ ان دنوں یعنی شرک اور زنا کا ایک باہمی گہرا تعلق ہے اس لیے جہاں شرک کا اڈہ ہوتا ہے وہاں زنا کا کاروبار بھی چلتا ہے.(مذہبی وسیاسی باوے صفحہ 101 ) خلاصتہ یہ کہ بریلوی بھائی مندرجہ ذیل مشہور درگاہوں پر درج ذیل کی اشیاء کی پرستش بھی کرتے ہیں : حضرت با یزید بسطامی دربار واقع چٹا گانگ میں پلیتر وں کو مقدس سمجھ کر خوراک ڈالی جاتی ہے.

Page 312

312 حضرت منگو با بادر بار واقع کراچی میں مگر مچھوں کو مقدس سمجھ کر خوراک ڈالی جاتی ہے.لٹن شاہ کے دربار پر عضو انسانی کی پرستش جاری.(صفحہ 48) (صفحه 51) (صفحه 60) چھتن شاہ کے دربار پر ان کی مادر زاد نگی تصویر کو مقدس سمجھ کر بوسے دیئے جاتے ہیں.(صفحه 80) اندرون سندھ ملکانی شہر حضرت لکڑ شاہ کے دربار پر لکڑ چڑھائے جاتے ہیں آپ مادر زاد ننگے رہتے تھے.(صفحہ 89) ناشر ادارہ مطبوعات مجلہ الدعوۃ پاکستان اشاعت اول نومبر 1998 ء ) بریلویوں کی تصویر دیوبندی حضرات کی نظر میں شورش کا شمیری صاحب جو سکہ بند دیوبندی تھے نے بریلوی بھائیوں اور ان کے اکابرین کو سامنے رکھ کر کا فرسا ز ملا‘ میں یہ منظر کشی کی ہے.” جو شخص اکابر دیوبند کے خلاف کفر کا فتویٰ صادر کرتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ شقی القلب ہے.بد بخت ہے.بد زبان ہے.ذلیل ہے.فروتر ہے بلکہ ہم تو یہاں تک کہنے کو تیار ہیں کہ وہ دھوپ چھاؤں کی اولاد ہے“.سرورق کا فرسا ز ملا) رسالہ کے صفحہ 7 پر شورش کا شمیری کے ہفت روزہ چٹان 1962ء کے مقالہ افتتاحیہ کا یہ اقتباس درج ہے: ان کا فر گروں سے ہماری درخواست ہے کہ اپنی زبانوں کو بند رکھیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ ان کا پوسٹمارٹم کرنے کی ضرورت محسوس ہو.ہمیں اس قسم کے فیض درجات حامی سنت.ماحی بدعت.شیخ الحدیث اور ابوالفضل کہلانے والے پٹواریوں کی ضرورت نہیں.یہ فتنہ پرداز ہیں اور فتنہ رسول اللہ کے ارشاد کے مطابق قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے“.اسی زمانہ میں دیو بندیوں کا شائع کردہ دو ورقہ بعنوان "رضا خانی فتنہ پردازوں کا سیاہ جھوٹ بھی فی سبیل اللہ فساد کا مظہر بنا رہا اس میں مدیر چٹان بریلوی بھائیوں کو بھڑوے.دیوانوں کی اولاد بلکہ رب ذوالجلال کی قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ یہ لوگ تو ہمارے اکابرین (یعنی دیوبندی) کی بیت الخلاء کی اینٹ سے بھی کمتر درجہ کے لوگ ہیں.( بحوالہ مذہب کا سرطان مصنفہ کوثر جمال صفحہ 82-83 ممتاز صحافی و عالم دین جناب مولا نا ظفر علی خاں بریلویوں کی یوں تصویر کشی فرماتے ہیں :

Page 313

313 بریلی کے فتووں کا سستا ہے بھاؤ کہ بکتے ہیں ایک ایک کوڑی کے تین خدا نے انہیں کہہ کے یہ ڈھیل دی واملى لهم ان كيدي متين ہندوستان میں ملت بیضا کا انحطاط شرمندہ ہے بریلویوں کے وجود کا وقت آگیا ہے کہ خاک برہوں بریلوی اور قلعہ پاش پاش ہو ان کے جمود کا (روز نامہ پاکستان ”بریلی کے فتوؤں کا سستا ہے بھاؤ از لیاقت فاروقی 15اکتوبر 97ء) دیوبندی حضرات کی تصویر بریلویوں کی نظر میں جماعت اہل سنت سکھر کی جانب سے ممتاز بریلوی عالم دین انیس احمد نوری کے برش سے دیوبندی بھائی کی پینٹ کی گئی تصویر بعنوان کا فر کوبھی کا فرنہ کہنا چاہیے؟ افادہ عام کے لیے پیش کی گئی ہے.دیوبندی تصویر کے نقش ونگار پیش ہیں: رات دن مسلمانوں کو کافر مشرک بدعتی کہنے والوں بلکہ اللہ رب العزت اور اس کے محبوب اعظم کی شان پاک میں سری سری گالیاں لکھ لکھ کر چھاپنے.فروخت کرنے فری تقسیم کرنے والوں کے منہ سے بات کتنی عجیب لگتی ہے کہ ہم کسی کو برا نہیں کہتے.گویا گالیاں بکنا نبی ولی کے لیے مخصوص ہیں.اور گستاخ رسول دیو بندیوں کو برا کہنے کا پرہیز ہے.گستاخ رسول دیو بندی بتائیں کہ اگر کا فرکو کافر نہ کہیں تو کیا کہیں ؟ پھر آگے چل کے خود کو حنفی قرار دینے کے خلاف منظر کشی یوں کرتے ہیں: (95-294) دیو کے ساز یہ نجدی لے میں شرک کے نغمے گاتے ہیں یہ ہوگا لقب ، ابلیس کا لیکن شیخ البحر کہلاتے ہیں دیوبندیوں کے خود کو حنفی قرار دینے کے خلاف منظر کشی یوں کرتے ہیں: یہ (296) اگر وہابیہ.دیوبندیہ کے گستاخانہ عقائد 1200ھ تک کے سنیوں حنفیوں سے ملتے جلتے نظر نہیں آئیں بلکہ بارہ سوسالہ سنی حنفی با ادب اور ان کے مقابلہ وہابیہ دیوبند یہ ادب گستاخ نظر آئیں پھر گستاخ رسول وہابیہ دیو بند یہ کو سنی حنفی سمجھنا ایسا ہے جیسے شراب یا پیشاب بھری بوتل پر شربت یا سرکہ کا لیبل دیکھ کراسے شربت یا سر کہ کہنا.بغض ہے ان کو ہر سنی سے خود کو سنی بتاتے ہیں یہ تہ ان کی ترقی کا یہ سبب ہے تقیہ جھوٹ اپناتے ہیں جھوٹ تقلید کو گریہ چھوڑ دیں مذہب دیو کا گنواتے ہیں یہ

Page 314

314 (صفحه 297) صفحہ 300 پر درج ہے: ان گستاخ رسول دیو بندیوں کے ہزاروں مکروں میں سے ایک مکر بھی ایسا ہر گز کوئی بھی نہیں ثابت کر سکتا خو خبیث الاخبث نہ ہو.ان گستاخوں کے مکر.فریب.داؤ.دھو کہ.دغا چال چلنے سے اس قدر محبت ہے کہ خود تو کرتے ہی ہیں اپنے رب کے لیے بھی قرآن پاک کے ترجمہ میں لکھنے پر بہت مسرور ہوتے ہیں.” وہابی دیو بندی یہ مجدی اور مودودی.خدا کے مصطفیٰ کے دین کے ایمان کے دشمن (صفحه 300) اسی طرح ممتاز دیوبندی اکابرین کی وفات کے متعلق ” گستاخاں رسول کی عبرتناک موت پر چند مختصر جھلکیاں نامی کتاب بریلوی مکتبہ فکر مکتبہ نوریہ رضویہ وکٹوریہ مارکیٹ سکھر نے شائع کی ہے.آغاز منظر کشی یوں ہوا ہے.” میرے پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے دیکھا اور سنا ہو گا کہ گستاخان رسول کی عبرتناک موت پر گستاخ رسول دیو بندی اس کی دوسری علامات مثلاً زانی لوطی.شرابی ہونا.تو سبب بتا دینا گوارا کر لیتے ہیں مگر بھیانک موت کا سبب.اللہ تعالیٰ کے محبوب کی گستاخی کبھی ہر گز بیان نہیں کرتے“.(صفحہ 34) پھر دیوبندیوں کے بارے میں ہوشیار کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: اگر حقیقت میں فاروق اعظم ظاہری حیات میں آج تشریف فرما ہوتے تو گستاخان رسول نجدی وہابی.دیو بندی.ندوی.مودودی اور کراچی کا عباسی.عثمانی.لاہور کا اسراری خارجی.اشرف علی تھانوی ہوتے نہ ان کی کفریہ عبارات ہوتیں اور نہ ان کے پیروکاروں کا دور دور تک نام ونشان ہوتا.خبر دار خبر دار گستاخ رسول فرقے کسی بھی ٹولی میں خود کو شامل نہ کرنا.ہر دم گستاخاں رسول کی مکاریوں سے بچتے رہنا.چنانچہ رب العزت کی اس سنت مطہرہ پر آپ کا انیس عمل کرتے ہوئے چند گستاخانِ رسول کی بہت ہی مختصر عبرتناک موتوں کی طرف اشارے تحریر کرتا ہے (صفحہ 36 ) اشرف علی تھانوی کے بارے میں ہے کہ اس کے بدن میں کیڑے پڑ گئے اور تعفن کی وجہ سے عزیز واقارب تک کو جنازے سے نفرت ہوگئی.(صفحہ 37) رشید احمد گنگوھی اندھا ہو کر فوت ہوا.بلکہ اندھی آنکھوں میں بھی کیڑے پڑ گئے گھر والوں سے بد بو برداشت

Page 315

315 کرنے کا صبر بھی ختم ہو گیا اور یوں اس کا جنازہ باہر والوں کے لیے عبرت بنا.(صفحہ 37) عبرت نمبر 3 کے تحت لکھا ہے : سورۃ نون والقلم میں گستاخ رسول کی دس خبیث خصلتوں سے آخری علامت ذلک زنیم کہ وہ زنا سے پیدا ہوا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمائی اور آگے سزا ارشاد فرمائی کہ سنسمه علی الخرطوم قریب ہے کہ ہم اس سور کی سی تھوتھنی پر داغ دیں گے.چنانچہ اللہ نے دینی سے اہلسنت کا بیج ہی ختم کرنے کے چیلنج کرنے والے گستاخ رسول غلام اللہ خاں کی صورت کو اس طرح داغا کہ رب العزت کے ارشاد کے مطابق اس کی شکل سؤر کی کالی تھوتھنی کی طرح ہو گئی.زبان پیشانی کو لگ گئی.دبئی کی دیوبندی عوام شکل دیکھنے سے بے ہوش ہو گئی.غلاظت کی طرح کینہ بھرا تھا اُس کے سینے میں.ڈاکٹروں کو میت کے صندوق پر بھی یہ لکھنا پڑا کہ کوئی صاحب اس کی شکل دیکھنے کی کوشش نہ کرے.احتشام الحق تھانوی باتھ روم میں فوت ہوا.وغیرہ وغیرہ (صفحه 37-38 ) (صفحہ 38) نوٹ : قرآن شریف کی غلط ترجموں کی نشاندہی کا فرکو بھی کافر نہ کہنا چاہیے،عبرتناک موت، یہ تینوں کتابوں کے متعلقہ صفحات چھوٹے سے کتابچے کی شکل میں مکتبہ نوریہ رضویہ وکٹوریہ مارکیٹ سکھر نے الگ سے شائع کیا ہے مندرجہ بالا حوالہ جات میں نے اسی کتابچے سے لئے ہیں.دیوبندیوں کی تصویر دیو بندیوں کی نظر میں مولوی اللہ یار خان بہت بڑے دیو بندی حلقہ کی نمائندگی کرتے ہیں.بیسیوں کتب کے مصنف اور قاضی اور مفتی اور شیخ الحدیث کے القابات سے مزین ہیں منارہ ضلع چکوال میں براجمان ہیں جبکہ دوسری طرف اکوڑہ خٹک کے مولاناسمیع الحق اور ان کا پورا مکتبہ فکر اور تیسری طرف بنوری ٹاؤن کراچی کے علماء کرام.مولوی اللہ یار خان ان مؤخر الذکر سارے ختم النبوۃ کے محافظین کے کردار اور ایمان وعقائد کو یوں دیکھتے ہیں عوام بھی بے چارے مجبور ہیں کچھ لوگ دنیاوی مفاد کی خاطر اپنے آپ کو دیوبندی کہتے ہیں مگر علمائے دیوبند کے اجماعی عقائد کے منکر ہیں.صالحیہ، کرامیہ، اور خارجیوں کے عقائد جمع کر کے اس ملغوبے کا نام تو حید رکھ لیا ہے.اور اس تعلیمی تو حید کے پر چار کے لئے دیوبندیت کا اسٹیج استعمال کیا.سننے والے سمجھیں دیو بندیت یہی ہے.انہیں کون بتائے کہ یہ بہروپئے تو حنفیت سے بھی کوئی واسطہ نہیں رکھتے بلکہ وہ تو اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت بھی ثابت نہیں کر سکتے“.

Page 316

316 ( عقائد و کمالات علمائے دیو بندص 71 افادات مولوی اللہ یار خان ناشر ادارہ نقشبندیہ اویسیہ دار العرفان منارہ چکوال) بریلویوں کی تصویر غیر مقلدین کی نظر میں غیر مقلدین کے ممتاز عالم دین مولانا احسان الہی ظہیر بریلویوں کی تصویر یوں بناتے ہیں: سال کے مخصوص دنوں میں ان لوگوں کا قبروں پر حاضر ہونا جنہیں وہ اولیاء وصالحین گمان کرتے ہیں.عرسوں کا قائم کرنا.عید میلا دوغیرہ منکرات جو ہندوؤں مجوسیوں اور بت پرستوں سے مسلمانوں میں در آئے ہیں.(البريلوية صفحه 10) ان کے عقائد کا اسلام سے دور نزدیک کا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بعینہ وہی عقائد ہیں جو جزیرہ عرب کے مشرک اور بت پرست رسول اللہ لی لی ایم کی بعثت سے پہلے رکھتے تھے بلکہ دور جاہلیت کے لوگ بھی شرک میں اس قدر غرق نہ تھے جس قدر یہ ہیں.(صفحہ 9) بریلویوں کے امتیازی عقائد وہ ہیں جو دین کے نام پر بت پرستوں ، عیسائیوں، یہودیوں اور مشرکوں سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہوئے ہیں“.(صفحہ 55) کفار مکہ.جزیرہ عرب کے مشرکین اور دور جاہلیت کے بت پرست بھی ان سے زیادہ فاسد اور ردی عقائد نہ رکھتے ہونگے.غیر مقلدین کی تصویر بریلویوں کی نظر میں (البریلویۃ صفحہ 65) بریلویوں کے ممتاز عالم دین و خطیب مرکزی جامع مسجد علامہ عبدالحکیم مولانا فقیرمحمد ضیاء اللہ قادری نے غیر مقلدین کے کردار، اخلاق، فقہ ، اعمال، عقائد سب کو الوہابیت" نامی کتاب میں مزے لے لے کر پینٹ کر دیا ہے چنانچہ آپ اپنی تصویر کا خود ہی تعارف کرواتے ہوئے فرماتے ہیں: عیار مکار گستاخ اس کتاب میں وہابیوں کی اس عیاری اور مکاری کا پردہ بھی چاک کر دیا ہے.کوئی اللہ کریم کو جھوٹ بولنے پر قادر کہ رہا ہے کوئی چوری.زنا.شراب وغیرہ افعال قبیحہ کا اللہ تعالیٰ سے صادر ہو نا ممکن تحریر کر رہا ہے کوئی اللہ تعالیٰ جل مجدہ کے علم غیب ذاتی کا انکار کر رہا ہے.کوئی مکار دغا باز نا معلوم مسلمانوں کے دلوں کولز را دینے والے کفریہ

Page 317

317 الفاظ استعمال کر رہا ہے کہ ایک ملحد کو بھی ایسے الفاظ اور نظریات کی اشاعت کرنے کی جرات نہ ہوئی جو ان وہابی اکابر نے اپنی کتب میں درج کئے ہیں.( صفحه 19 شائع کردہ قادری کتب خانه تحصیل بازار سیالکوٹ) جناب سائر بکنوری.ایم.اے وہابیت کا تعارف کراتے ہوئے فرماتے ہیں: وہ فکر جو خوارج کے بعد کی منظم انداز میں اور کسی مخصوص نام سے سر نہیں اٹھا سکتی تھی باہور میں صدی میں ایک شخص محمد بن عبدالوہاب کی شکل میں مجسم ہو کر ملت اسلامیہ کی پر امن فضا کو درہم برہم کرنے کے لیے رونما ہوئی مسلمانوں میں موجودہ فکری انتشار اس کا رہین منت ہے دنیائے گمراہی اس پر جتنا بھی ناز کرے کیونکہ اس سے پہلے تاریخ اسلام کو شاید کسی بھی اتنے بڑے پیکر دجل و فریب سے واسطہ نہیں پڑا“.توہین رسول کرنے والا ٹولہ صفحہ 36) پاکستان کے غیر مقلد وہابیوں کے بارے میں فرماتے ہیں: پاکستان قائم ہو گیا تو دشمنان پاکستان کا مسجدی ٹولہ اپنی سابقہ ناکامیوں کا انتقام لینے کے لیے مملکت خداداد میں آن دھمکا اب انہوں نے اپنے اصلی منصب یعنی تو ہین رسول کی طرف توجہ دی.اندر ہی اندر مسلمانوں کو عشق رسول کی آتش باطل سوز سے محروم کرنے کے لیے دن رات نا پاک گھناؤنی سازشوں میں مصروف ہیں“.سپولیئے (صفحہ 40) صفحہ 41 پر فرماتے ہیں مجاہد ملت ضیغم اسلام حضرت الحاج مولانا ابوالحمد محمد ضیاء اللہ قادری مدظلہ ان سپولیوں کے زہریلے اثرات سے ملت اسلامیہ کا دفاع کرنا چاہتے ہیں.مجدو د یو بند سے اٹھنے والی شیطانی ظلمتیں ان کے نام سے ہی بھاگتی ہیں“.الوہابیت شائع کردہ قادری کتب خانه تحصیل بازار سیالکوٹ) جماعت اسلامی کی تصویرا کابرین دیوبند کی نظر میں یوں تو جماعت اسلامی علمائے دیوبند اہل سنت بریلوی مسلک کے مقابلہ میں ایک اور آپس میں ایک دوسرے کے حلیف ہیں لیکن اس کے باوجود علمائے دیوبند جماعت اسلامی کے نظام فکر وعمل کو باطل اور دین ملت کے لیے مہلک سمجھتے ہیں.چند سال ہوئے جماعت اسلامی کے خلاف دار العلوم دیو بند سے ایک فتوی شائع ہوا جس کی سرخیاں یہ تھیں :

Page 318

318 الف.سہارن پور سے مودودی فتنہ کو مٹا دو ب.مودودی تحریک مہلک اور زہر قاتل ہے ج.مودودی کے ہم خیال گمراہ ہیں د.مودودیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھو اس فتوے کی اشاعت کے بعد جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا ابواللیث ندوی نے دیوبندی جماعت کے صدر مولا ناحسین احمد مدنی کے نام ایک طویل مراسلہ لکھا.مراسلے کا یہ حصہ پڑھنے کے لائق ہے.اس وقت فوری مسئلہ جس پر میں گفتگو کی سخت ضرورت محسوس کرتا رہا ہوں وہ دارالافتاء دیو بند کا وہ فتویٰ ہے جو سہانپور سے مودودی فتنہ کو مٹادو.مودودی تحریک مہلک اور زہر قاتل کی موٹی موٹی سرخیوں سے شائع ہوا ہے.معلوم نہیں یہ فتویٰ آنجناب کی نظر سے گزرا ہے یا نہیں.یہ فتویٰ قدرتی طور پر ان تمام لوگوں کے لیے انتہائی حد تک تکلیف دہ اور دل آزار ہے جو تحریک اسلامی کو حق سمجھ کر اس میں شریک ہوئے ہیں.( حاشیہ مکتوبات شیخ الاسلام جلد 1 صفحہ 356 ) مولانا مدنی صاحب کا جواب یہ تھا: محترم میرا پہلے یہ خیال تھا کہ آپ کی تحریک اسلامی مسلمانوں کی علمی اور عملی دنیاوی اور دینی کمزوریوں اور ان کے انتشارات دور کرنے اور مسلمانوں کو منظم کرنے تک ہی محدود ہے.اس لیے میں نے اس کے خلاف آواز اٹھانا یا تحریر کرنا مناسب نہ سمجھا.مگر آج جبکہ میرے سامنے اطراف وجوانب ہندو پاکستان سے آنے والے مودودی صاحب کی تصانیف کے اقتباسات کا ڈھیر لگا ہوا ہے اور پانی سر سے گزر گیا ہے تو اس کے دیکھنے اور سمجھنے سے میں مندرجہ ذیل نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور پاتا ہوں.آپ کی تحریک اسلامی خلاف سلف صالحین مثل معتزلہ.خوارج روافض وغیرہ فرق قدیمہ اور مثل قادیانی چکڑالوی ، مشرقی، نیچری ،مہدوی ، بہائی وغیرہ فرق جدیدہ ایک نیا اسلام بنانا چاہتی ہے.اس لیے میں مناسب جانتا ہوں کہ مسلمانوں کو اس تحریک سے علیحدہ رہنے اور مودودی کے لٹریچروں کو نہ دیکھنے کا مشورہ دوں“.( مکتوبات شیخ الاسلام جلد 2 صفحہ 377 ) روز نامہ الجمعیۃ دیلی مورخہ 4 اگست اور پھر سنڈے ایڈیشن 6 اگست 1951ء میں مودودی صاحب کے متعلق علمائے دیو بند کا ایک متفقہ بیان شائع ہوا جس کے الفاظ یہ ہیں.مودودی صاحب کی جماعت اور جماعت کے لٹریچر سے لوگوں پر بداثرات مرتب ہوتے ہیں کہ آئمہ ہدایت

Page 319

319 کے اتباع سے آزادی اور بے تعلقی پیدا ہو جاتی ہے جو عوام کے لیے مہلک اور گمراہی کا باعث ہے.اس لیے ہم ان امور کو اور ان پر مشتمل تحریک کو غلط اور مسلمانوں کے لیے مضر سمجھتے ہیں اور اس سے بے تعلقی کا اظہار کرتے ہیں“.( دو مسئلے صفحہ 16 شائع کردہ دیوبند ) ( بحوالہ جماعت اسلامی صفحہ 11 تا15 شائع کردہ نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی کچا رشید روڈ بلال گنج لاہور ) جماعت اسلامی کی تصویر بریلویوں کی نظر میں برصغیر پاک و ہند کے ممتاز بریلوی عالم دین مولانا ارشد القادری جماعت اسلامی کے بارے میں فرماتے ہیں: گہرا مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جماعت اسلامی پراسرار کمیونٹیسٹوں کی طرح نہایت چالا کی اور خاموشی کے ساتھ ذہنوں پر چھاپہ مارتی ہے.سب سے پہلے پرکشش اور خوشنما لٹریچر کے ذریعہ وہ اپنا اثر اجنبی دماغوں میں اتارتی ہے اور جب ذہن مسحور ہو جاتا ہے تو اسے ایک نہایت مہلک اور خطرناک قسم کی جماعتی نخوت فکر میں مبتلا کر دیتی ہے.ابتلاء کے بعد اس کا ہر ممبر اپنی فکری سطح کو عام مسلمانوں کی سطح سے برتر سمجھنے لگتا ہے.جاہلیت کی نئی اصطلاح ان مسلمانوں پر بولی جاتی ہے جو جماعت سے باہر ہیں یا جماعت کے زہر یلے جراثیم سے اپنے حلقہ اثر کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں.اتنا ہی نہیں بلکہ اس ماحول میں پہنچ کر جماعت کا ہر ممبر جماعت کی فکری اور علمی برتری کی نخوت میں اتنا خود رفتہ بنا دیا جاتا ہے کہ تمام بزرگان امت اور سلف صالحین پر حرف گیری ونکتہ چینی اس کا جماعتی عقیدہ بن جاتی ہے“.(صفحہ 18 تا 20 جماعت اسلامی) اس کے بعد ارشد القادری صاحب نے مودودی صاحب کی نکتہ چینی کے نیچے آنے والی ہستیوں کے نام اور تنقید درج کی ہے.امام ربانی مجدد الف ثانی، امام غزالی ، تمام محققین اسلام، تمام محدثین اسلام.تمام آئمہ مجہتدین وفقہائے اسلام، تمام مجددین امت، حضرت عمر بن عبد العزیز ، حضرت خالد بن ولید ، عام صحابہ رسول صلیشه ای هستم من حضرت ابوبکر صدیق “ ، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی ، حضرت علی ، قرآن مجید اور سرکار دو عالم رسول اللہ صلی لا رہی ہے، آپ نے صفحہ 24 سے صفحہ 46 پر یہ تنقیدی حوالہ جات درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ: مولانا مودودی ایک مطلق العنان فرماں روا کی طرح مسند احتساب پر متمکن ہیں اور ایک ایک شخص کی ہستی کا جائزہ لے رہے ہیں.کسی کا نامہ زندگی بھی ان کی نظر میں بے داغ نہیں.ہر شخص کسی نہ کسی الزام کی زد میں ہے.مولا نا نکتہ چین دماغ کا تار جھنجھنا اٹھے گا اگر فتنہ پرداز ذہن لیکر اسی انداز میں کوئی ان پر بھی تنقید کرنے بیٹھ جائے.....مولانا مودودی کو وہ نگاہ مبارک جس کا کلسیاء کا چراغ لیکر کھبے کے پاسبانوں کا عیب تلاش کیا ہے“.( جماعت اسلامی صفحہ 47 شائع کردہ نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی کچا روڈ بلال گنج لاہور )

Page 320

320 دیگر مسلمانوں کی تصویر جماعت اسلامی کی نظر میں مولانا مودودی صاحب دیگر تمام فرقوں پر مشتمل مسلم معاشرے کی تصویر کشی یوں فرماتے ہیں: دیگر پرمش ید انبوہ عظیم جس کو مسلمان کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے 999 فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشنا ہیں.نہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے متعلق تبدیل ہوا ہے.باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمانوں کا نام ملتا ہے چلا آرہا ہے.ان کی کثرت رائے کے ہاتھ میں باگیں دیگر اگر کوئی شخص یہ امید رکھتا ہے کہ گاڑی اسلام کے راستے پر چلے گی تو اس کی خوش فہمی قابل داد ہے“.( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوئم صفحہ 105 پھر تمام جماعتوں اور ان کے لیڈران کی تصویر کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں: اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی مختلف جماعتیں اسلام کے نام سے کام کر رہی ہیں اگر فی الواقع اسلام کے معیار پر ان کے نظریات اور مقاصد اور کارناموں کو پر کھا جائے تو سب کی سب جنس کا سد نکلیں گی خواہ مغربی تربیت پائے ہوئے سیاسی لیڈر ہوں یا علماء دین ومفتیان شرع متین تبلیغی جماعت کی تصویر بریلویوں کی نظر میں ( سیاسی کشمکش حصہ سوئم ص 95) ممتاز بریلوی عالم دین نے تبلیغی جماعت کی مکمل منظر کشی کے لیے تبلیغی جماعت نام کتاب شائع فرمائی ہے.جس کے پہلے ہی صفحہ پر تبلیغی جماعت کے حقیقی خدوخال کے عنوان کے تحت خدو خالی تعارف ان موٹی سرخیوں میں کروایا گیا ہے.تبلیغ کے نام پر ایک مقدس فریب ایک ایمان دشمن کی تحریک مذہبی تاجروں کا ایک پر فریب کاروبار کعبے کے غلاف میں لپٹا ہوا پر سرار خم کدہ معصوم اعتقادوں کی دلچسپ قربان گاہ کلمہ کے نام پر اسلامی روایات کی نفی تبلیغی اجتماعات میں اسلامی مبلغین کی توہین شائع کردہ مکتبہ نبویہ گنج بخش روڈ لا ہور )

Page 321

321 حزب الاحناف کی تصویر زمیندار کی نظر میں روز نامہ زمیندار انجمن حزب الاحناف اور ان کے پیشوا مولانا احمد رضا خاں بریلوی کا تمسخر اڑاتے ہوئے انہیں رضا کی نسبت سے رضائی اور لحافی کی پھبتی اڑانے کے بعد ہیزم کش.غدار، اسلام فروش ، کھوسٹ جاہلان عالم نما کا خطاب دیتا ہوا لکھتا ہے کہ: ان اوہام پرستوں پیروں اور ان پلا ؤ خور مونٹوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ تم جیسے ہرزہ کا ر اور خشیت الحرکات نہیں ہوتے.انجمن حزب الاحناف کے جلسے میں جن انسان نما طاغوتوں نے زمیندار سے مقاطعہ کا اعلان کیا تھا ان کی تہذیب اور شائستگی پر خود تہذیب اور شائستگی ماتم کر رہی ہے.علی الخصوص ایک بہت بڑی بدعتی مرغی کے گندے انڈے نے جو غلاظت بکھیری اور چند دلال ریچھ (سرخ ریش) بزرگ جس انداز صوفیانہ سے ناچے اور کو دے اس کی یاد اہل لاہور کے دلوں سے کبھی محو نہیں ہوگی.اگر تم ذرا بھی غیرت اور شرم رکھتے ہو تو مسجد وزیر خاں کے حوض میں سب کے سب ڈوب مرو.اگر تمہاری بے شرمی اور سخت دلی تمہیں مرنے نہ دے تو بریلی کے پاگل خانہ میں وہاں کے سڑی سودائیوں کے ساتھ پڑے سڑا گلا کرو“ (روز نامہ زمیندار 30 مئی 1915 ء ) حزب الاحناف کی تصویر اہل حدیث کی نظر میں اہل حدیث 12 جون 1925ء کی اشاعت میں حزب الاحناف کے جلسے کی اپنی طرف سے یوں تصویر کشی کرتا ہے: حزب الاحناف ا جو ایکٹر بھی سٹیج پر نمودار ہوا.اس نے ذریت شیطان کی طرح.سب مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے علیحدہ پارٹ ادا کیا.اور اپنے بڑے شیطان کے آگے خوب ناچے اور اپنے منہ سے اتنی غلاظت پھینکتے گئے کہ تمام روئے زمین کے مسلمانوں کو نا پاک کردیا ان کی تکفیر کی قینچی سے کوئی بھی نہ بچ سکا.اس جماعت شیطانیہ اور خبیثوں کی ناپاک ہستیوں نے اسلام پر جو اس قدر مصائب اور بربادی اسلام کے دروازے کھولے ہیں وہ اظہر من الشمس ہیں مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسی شیطانی جماعت کے گمراہ کن خیالات اور شر انگیزیوں سے بچیں زمانہ ساز.نفس پرست تمہاری جہالت اور گمراہی بے حیاء باش و هر چه خواہی کن ہر غیر مقلدین کے فقہ کی تصویر حنفیوں کی نظر میں

Page 322

322 بریلوی عالم دین محمد ضیاء القادری صاحب منظر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ان کے اکابر کی اخلاق سوز حرکات کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ ان کی مرغوب غذا جو کہ ان کے اکابر نے اپنی مستند کتب میں جائز قرار دی ہیں مثلاً کتا.خنزیر.کچھوا.گوہ.بجو منی اور سود وغیرہ بھی جن کو اصل عبارات سے بیان کر دیا ہے.انسان گہرائی میں جائے تو بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ مولیٰ کریم نے دراصل ان کو سزا دی ہے جن کے نزدیک حلال اور طیب نذرانوں اور فاتحہ کی چیزیں حرام بلکہ خنزیر سے بدتر ہیں ان کے نزدیک جانوروں کے پیشاب.گوبر خنزیر.کتا.منی وغیرہ نجس چیز میں حلال طیب اور طاہر ہیں بلکہ ان کی مرغوب غذائیں ہیں.جن کے نزدیک گیارہویں کے چاول حرام ہیں ان وہابی اکابر کے نزدیک منی اور بیوی کی شرمگاہ کی رطوبت پاک ہے“.( الوہابیت صفحہ 22-23) باب نمبر 10 عصرحاضرکی فکرانگیز کلاہ بازیاں

Page 323

323 اور میری مشکلات 20 جنوری 1925ء مشکل نمبر 40 ہم اتنے بگڑ گئے ہیں کہ اگر نبی پاک " بھی دوبارہ آجائیں تو ہم انہیں قبول نہ کریں گے...ڈاکٹر علامہ اقبال ڈاکٹر علامہ اقبال اپنے مسلمان معاشرے کی 20 جنوری 1925ء کو یہ تصویر کشی فرماتے ہیں: مجھے یقین ہے کہ اگر نبی کریم بھی دوبارہ پیدا ہو کر اس ملک میں اسلام کی تعلیم دیں تو غالبا اس ملک کے لوگ اپنی موجودہ کیفیات اور اثرات کے ہوتے ہوئے حقائق اسلامیہ کو نہ سمجھ سکیں“.25 ستمبر 1949ء (مکاتیب نیاز الدین صفحه 72 خط 20 جنوری 1925 ء ) | کہاں کا اسلام؟ اور کدھر کا اسلام؟ غلام جیلانی برق پروفیسر غلام جیلانی برق صاحب 25 ستمبر 1949ء کو مسلمانوں کی یوں تصویر کشی فرماتے ہیں: ”ہمارے ہاں ہر فرقے کا اسلام و قرآن الگ ہے ایک اسلام و قرآن تو وہ ہے جو 14 لاکھ حدیثوں کے بوجھ تلے دبا ہوا کراہ رہا ہے.دوسرا وہ ہے جو مختلف فقہی مسلکوں کے نرغے میں پھنسا ہوا.بچ نکلنے کے لیے فریاد بھی نہیں

Page 324

324 کر سکتا اور ایک تیسرا اسلام ہے جو حضرات اہل بیت کرام کے لکڑی اور کاغذ کے تعزیوں کے ساتھ بندھا ہوا کوچہ و بازار میں سالانہ گردش کرتا نظر آتا ہے.ایک چوتھا اسلام وہ ہے جو استخواں فروش مجاہدوں اور پیرزادوں کے حلقے میں ہوحق کے نعرے لگانے اور حال و قال کی بزم آرائی کے لیے مجبور ہے.9 دسمبر 1949ء دو اسلام صفحہ 27 کتاب منزل لاہور ) کہاں کے مسلمان اور کدھر کے مسلمان؟ سید عطاء اللہ شاہ بخاری بخاری صاحب 9 دسمبر 1949ء کو علماء کرام اور مسلمان معاشرہ کی یہ تصویر کیمرے میں محفوظ کرتے ہیں : یہ اسلام جو تم نے اختیار کر رکھا ہے کیا یہی اسلام ہے جو نبی نے سکھلایا تھا؟ کیا ہماری رفتار و گفتار کردار میں و ہی دین ہے جو خدا نے نازل کیا تھا؟ یہ روزے اور نمازیں جو ہم میں سے بعض پڑھتے ہیں اس کے پڑھنے میں کتنا وقت صرف کرتے ہیں.جو مصلے پر کھڑا ہے وہ قرآن سنانا نہیں جانتا اور جو سنتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ کیا سن رہے ہیں اور باقی 23 گھنٹے ہم کیا کرتے ہیں؟ میں کہتا ہوں کہ گورنری سے لیکر گداگری تک مجھے ایک ہی بات بتلاؤ جو قرآن اور اسلام کے مطابق ہو پھر میں کمیونزم سے کیوں لڑوں؟ ہمارا نظام کفر ہے قرآن کے مقابلے میں ہم نے ابلیس کے دامن میں پناہ لے رکھی ہے قرآن صرف تعویذ اور قسم کھانے کے لیے ہے.3 ستمبر 1974ء دنیا کی وہ کونسی برائی ہے جو ہم میں نہیں.امام کعبہ احراری اخبار آزاد 9 دسمبر 1949 ء ) مسجد الحرام کے خطیب الشیخ محمد بن سبیل نے بیت اللہ شریف کے سایہ میں کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ہوئے تمام عالم اسلام کی اخلاقی حالت کی یہ تصویر بنائی ہے: آج اکثر بلاد اسلامیہ کے مسلمانوں کی کیفیت سخت الم انگیز ہے مسلمان آنحضرت اور صحابہ کی روش کا مخالف ہو چکا ہے.کیا اکثر مسلمان ممالک میں ہمیں ایسے لوگ نظر نہیں آتے جو اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور ا ور اپنے تئیں مسلم کہتے ہیں اور بائیں ہمہ ان کا اسلام انہیں بڑے بڑے جرائم سے نہیں روکتا.ان کا اسلام انہیں سود اور لوگوں کے اموال کھانے اور فجور سے نہیں روکتا ان کا اسلام انہیں کذب بیانی اور جھوٹی گواہی سے نہیں روکتا اور نہ ہی رقص گاہوں اور شراب خانوں سے منع کرتا ہے.نہ اُن کا اسلام انہیں مسلمانوں کے معاملات میں دھوکا چالبازی اور فریب دہی سے باز رکھتا ہے.نہ ان کا اسلام انہیں نماز وروزہ کے چھوڑنے سے روکتا ہے.وہ حق کو نفرت انگیز

Page 325

325 القاب کے ذریعہ بعض سادہ لوح لوگوں کے سامنے بدنما بتاتے ہیں.اُن کا اسلام قرآن اور احادیث نبویہ کو پس پشت ڈالکر خود ساختہ قوانین کے فیصلہ سے بھی انہیں نہیں روکتا اور ان کا اسلام انہیں اس بات سے بھی نہیں روکتا کہ شریعت اسلامیہ کو عیوب اور نقائص کا تختہ مشق بنا ئیں.وہ اشترا کی مذہب رکھتے ہیں.وہ دہریوں کی مدد کرتے ہیں.اور خدا کے دین اور خدا کے مومن بندوں سے بیگانگی اختیار کئے ہوئے ہیں“.8 فروری 1988ء (اخبار العالم الاسلامی 15 شعبان 1394ھ مطابق 3 ستمبر 1974 ء صفحہ 13 تا 16 ) 1400 سو سال بعد آج نہ ہم مسلمان ہیں نہ پاکستانی نہ انسان....صدر ضیاء الحق 11 سال تک اسلام کے نام پر مطلق العنان حکومت کرنے اور ہر شعبہ میں ملاں حضرات کو مکمل سپورٹ دینے والا شخص آخر 8 فروری 1988 ء کو مسلم معاشرے کی یہ تصویر بناتا ہے: افسوس چودہ سو سال بعد ہم نہ مسلمان ہیں نہ پاکستانی اور نہ انسان رہے ہیں...مجھے نظر آ رہا ہے کہ پورے کا پورا معاشرہ گڑھے کی طرف جا رہا ہے.اوکاڑہ میں سیرت النبی کانفرنس سے خطاب روز نامہ جنگ لاہور 8 فروری 1988 ء ) 24 فروری1989ء بیرون ملک جانے والے مبلغین کے اعمال اگر ان کے چندہ دینے والے دیکھ لیں تو کبھی ایسانہ کریں.سید سہیم حسن جناب سید سهیم حسن بیرون ملک تبلیغ اسلام کے لیے جانے والے مبلغین کے اعمال و افعال کی منظر کشی کر کے یہ خوفناک منظر پیش کرتے ہیں : وہ مسلمان مبلغین جو بیرون ممالک تبلیغ اسلام کے لیے جاتے ہیں ان کا خاص ہدف یورپین ممالک ہی ہوتے ہیں اور ان کا زیادہ تر قیام یورپ میں برطانیہ میں ہوتا ہے یہ مقامی لوگوں سے چندہ وغیرہ لیکر جاتے ہیں اور جاتے آتے وقت اخبارات میں اپنی تصویر مع خبر کے شائع کراتے ہیں تا کہ چندہ دہندگان کو یہ معلوم ہو کہ اب ان کا پیسہ کام میں استعمال ہونا شروع ہو گیا ہے.اس پیسہ کا ایک بڑا حصہ یہ اپنی آسائش قیام و طعام پر خرچ کرتے ہیں جو عموماً 4 سے 5 اسٹار ہوٹلوں میں ہوتا ہے وہاں جا کر بھی یہ جس قسم کی تبلیغ کرتے ہیں اگر اس کا اندازہ ان کے چندہ دہندگان کو ہو جائے تو شاید انہیں چندوں کی ان رقومات سے ہاتھ دھونا پڑیں.وہاں یہ لوگ کافروں کو دائرہ اسلام میں لا نا تو دور کی بلکہ بہت سوں کو تو اسلام سے خارج کرنے کے فتوے صادر کر کے وطن تشریف لاتے ہیں“.اخبار جنگ جمعہ ایڈیشن 24 فروری 1989 صفحہ اول

Page 326

326 اگست 1990ء ہم زانی، شرابی ،مگر بد معاش بلکہ سڑی ہوئی قوم جس کا مولوی ایک پلیٹ پر بک جاتا ہے...میاں مد طفیل صاحب سابق امیر جماعت اسلامی میاں محمد طفیل صاحب پاکستانی مسلم معاشرے کی درج ذیل تصویر بناتے ہیں : قوم میں کس پر اسلام لایا جائے؟ کس پر اسلام نافذ کیا جائے؟ قوم کا اس وقت کیا حال ہے؟ کیا آپ نہیں جانتے...امرواقعہ یہ ہے کہ یہ قوم تو بالکل سڑ گئی ہے پیسے بغیر کوئی ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں.کوئی ناچ رہاہو کوئی زانی زنا کر رہا ہوں کسی کو پرواہ نہیں پیسہ ہوتو وہ لیڈر بن جائے گا.کسی کو امانت اور دیانت کی کوئی پرواہ نہیں نہ ضرورت جتنا بڑا کوئی رشوت خور ہو.جتنا بڑا کوئی بددیانت ہو.جتنا بڑا کوئی سمگلر ہو.زانی ہو.بدمعاش ہو اس کو ووٹ دیں گے اب آپ ہی بتائیں کس پر اسلام نافذ کیا جائے ؟.آپ کے علماء کا کیا حال ہے؟ ایک حلوے کی پلیٹ کسی مولوی صاحب کو کھلا دیں جو چاہے فتویٰ لے لیں ہر مولوی دوسرے کو کافر بنارہا ہے.جماعت اسلامی 50 سالوں سے کام کر رہی ہے.مولانا مودودی جیسا شخص اس قوم کے واسطے سرکھپاتا رہا.گیارہ کروڑ کی آبادی میں سے اس وقت بھی 5 ہزار جماعت اسلامی کے ارکان ہیں وہ بھی چھوٹی برادریوں اور ذاتوں کے تعلق رکھنے والے یا دفتروں کے چپڑاسی کوئی قابل ذکر آدمی جماعت اسلامی کے ساتھ نہیں“.10 مارچ1993ء بیدار ڈائجسٹ اگست 90 صفحہ 9 ضیاء الحق شہید نمبر ) بیرونی دنیا میں تبلیغ کے لیے جانے والے مبلغو! خود تمہیں مسلمان کرنے کی ضرورت ہے انھیں نہیں روز نامہ پاکستان لکھتا ہے: وسط ایشیا کے ضمن میں دو ایسے پہلوؤں کی طرف اشارہ ناگزیر ہے جو انتہائی حساس لیکن انتہائی اہم ہیں.عملاً یہ بات سمجھ لینی از حد ضروری ہے کہ وسط ایشائی ممالک بالخصوص از بکستان کو ہماری تبلیغی کوششوں کی نہ ضرورت ہے اور نہ یہ ممالک اس ضمن میں ہماری روایات طریق کار بلکہ طریق واردات کے متحمل ہو سکتے ہیں.ہمیں یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ ممالک اسلامی علوم اور روایات میں ہم سے کہیں آگے تھے اور ڈیڑھ سو سال کی اسلام دشمنی بھی انہیں اسلام سے نہیں ہٹا سکی اسلام کا احیا و ہاں اپنی فطری رفتار سے ہوگا اور اس میں وسط ایشیائی مسلمان مرکزی کردار ادا کریں گے.جس رفتار سے ان ملکوں میں مسجد میں آباد ہورہی ہیں اور مدارس اسلامی علوم کے شائق طلبہ سے بھر گئے ہیں وہ حیران کن ہے اور اس حقیقت کی بھی نماز ہے کہ یہ سارا کام ہماری تبلیغی معاونت کے بغیر ہوا ہے.

Page 327

327 پاکستان کی تبلیغی کوششوں نے اس سے پہلے یورپی ممالک ( بالخصوص برطانیہ ) میں دیو بندی، بریلوی ،شیعہ اور اہل حدیث فرقوں کی پرورش کی ہے اور کئی مسجدوں میں جھگڑوں، مقدمہ بازیوں اور انجام کار مقامی پولیس کے ہاتھوں تالے لگوانے کے کار ہائے خیر انجام دئے ہیں اگر ہم اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وسط ایشیا کے مسلمان اسلام سے برگشتہ ہو چکے ہیں اور انہیں دائرہ اسلام میں داخل کرنا ہمارا فرض ہے اور اس فرض کی ادائیگی کے لئے وہاں تبلیغی وفد روانہ کرنے چاہیں تو خوش فہمی افسوس ناک اور قابل رحم ہے.وہاں جس طرح اشترا کی زبان اب بھی اہم عہدوں پر فائز ہیں جس طرح امریکہ اور روس احیا اسلام کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور جس دانشمندی اور حکمت سے وہاں کے مسلمان اسلام کی طرف واپس آرہے ہیں ان سب پہلوؤں کے پیش نظر تبلیغی حملے وہاں کے مسلمانوں کو بے پناہ مشکلات سے دو چار کر سکتے ہیں.وسط ایشیا کی اخلاقی حالت ہم لوگوں سے کہیں بہتر ہے.وہ جھوٹ نہیں بولتے ہر کام قاعدے اور تنظیم سے کرتے ہیں جرائم کی شرح حیرت انگیز تک کم ہے.ہمارے مبلغین کو جو آئے دن یورپ اور امریکہ کے دورے کرتے ہیں غالباً یہ نہیں معلوم کہ تبلیغ کی سب.زیادہ ضرورت پاکستان کو ہے.“ 2 نومبر 1995ء روزنامه پاکستان اسلام آباد 10 مارچ 1993 ء ) آج ہم یہودی اور عیسائی بن چکے ہیں اور ہر مورد عذاب ہونے والا نفعل کر رہے ہیں روزنامہ نوائے وقت زیر عنوان ” شریعت کے نفاذ کی ضرورت واہمیت مندرجہ ذیل حیران کن منظر کشی کرتا ہے: آج امت محمد یہ سارے کام کرنے میں مشغول ہے جن کاموں کے کرنے سے دوسری قوموں پر عذاب نازل ہوا.آج امت مسلمہ کا قبلہ و کعبہ زمین پر نہیں ذہنوں میں تبدیل ہو گیا ہے.آج زبان سے اقرار کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم صرف تیری بندگی کرتے ہیں اور صرف تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں اور دکھا ہمیں سیدھا راستہ.راستہ ان لوگوں کا جن پر تیر انعام نازل ہوا نہ وہ مغصوب تھے اور نہ گمراہ لیکن پیروی مغضوب ( یہودی ) اور گمراہ (عیسائی) یہودیوں اور عیسائیوں کی کرتے ہیں اس کی واضح مثال پاکستانی معاشر ہے“.1997 *5 ( روزنامہ نوائے وقت 2 نومبر 95، اشاعت خاص نمبر 1 تحریر برج سیں) کا کیاں تاڑنا میرا مذہب ہے...میں پیر آف کنجر شریف ہوں

Page 328

328 ہیرا منڈی لاہور میں براجمان ایک مشہور پیر صاحب جو روزنامہ خبریں میں مذہبی کالم لکھتے ہیں اپنے آپ کو ملاتی صوفی کہتے ہیں.انہوں نے لاہور کے ایک ہوٹل میں مجرے کے دوران پر یس کا نفرنس کرتے ہوئے پاکستان مسلم معاشرے کی یہ تصویر کشی فرمائی: کا کیاں تاڑ نا میرا مذہب ہے.نواز شریف، شہباز شریف بھی کا کیاں تاڑتے ہیں اور اس کو ثقافت کا نام دیتے ہیں.میں پیر آف کنجر شریف ہوں پیر آف کا کی تاڑ نے کہا کہ یہ پیر کا کی تاڑ کی محفل ہے سب نا چوتا کہ لوگ ملامت کریں.اسلامی مذہب میں تضاد آ گیا ہے بڑے ہوٹلوں میں کا کیاں ڈانس کریں تو ثقافت کہلاتی ہے ہیرا منڈی میں ناچے تو کا کی کنجری کہلاتی ہے سوہنا کا کا نواز شریف کا کیوں کے مجرے بند نہیں کروا سکتا.(روزنامہ خبریں 5 مئی 1997 ء ) 3 مارچ 1998ء زنا، شراب، رقص وسرور، بے پردگی، عریانی، فحاشی سینما سود قمار بازی ہم نے اپنالی ہے اور مسجدوں میں خاک اڑ رہی ہے...امین احسن اصلاحی ممتاز عالم دین جناب امین احسن اصلاحی صاحب کی آخری منظر کشی جوان کی بند ہوتی ہوئی آنکھوں اور ٹوٹتی سانسوں کے درمیان انہوں نے محفوظ کی اور آپ کی وفات کے بعد منظر عام پر آئی یوں تھی: جو چیزیں عیب خیال کی جاتی تھیں وہ اب ہنر سمجھیں جانے لگی ہیں جو باتیں خال خال افراد اختیار کرتے تھے اور وہ بھی ڈرتے ڈرتے اور شرماتے شرماتے.اب ہمارے تہذیبی اداروں اور ہماری کلچرل سوسائیٹیوں اور ہماری تعلیمی مرکزوں میں اب ان کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے.زنا.شراب.رقص و سرود بے پردگی.عریانی فحاشی سینما.سود.رشوت - قمار بازی.یہی ازم اور اس قبیل کی تمام برائیاں اپنے تمام نتائج ولوازم کے ساتھ روز بروز ترقی پذیر ہیں اور ان میں سے ہر چیز وقت کا فیشن بنتی جارہی ہے.اس کے مقابل مسجدمیں ویران ہوتی جارہی ہیں.دینی مدرسوں میں خاک اڑ رہی ہے.دین کے جاننے والے اٹھتے چلے جارہے ہیں اور جو جگہیں خالی ہو رہی ہیں ان کے بھرنے والے نہیں پیدا ہوتے.اسلامی رسائل و اخبارات آہستہ آہستہ دم تو ڑ رہے ہیں.مذہبی طبقہ کی کسمپرسی جو پہلے بھی کچھ کم ن تھی اب اپنی آخری حد کو پہنچ رہی ہے“.(ماہنامہ اشراق 3 مارچ 1998 ء ) |

Page 329

329 پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے علماءدین، حامیاں شرع متین، فضیلتہ الشيخ زيدة الحقين، علماءد ہر، علماء عصر ، مجد دزماں غزالی دوراں، پہاڑوں جیسی شخصیات کی آپس میں چھیڑ چھاڑ اور ذکر یار اور اس ذکر پر نور سے وجود میں آنے والے معاشرے کی ایک جھلک دیکھنے کے بعد دل کی وہی حالت ہے جو اپنے زمانے میں ایسی ہی گھڑی میں فیض صاحب کی تھی.ستم کی آگ کا ایندھن بنے دل پھر سے وادلہا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں خداوندا بنا پھرتا ہے ہر اک مدعی پیغام بر تیرا ہر اک بت کو صنم خانے میں دعوی ہے خدائی کا ہفت روزہ مہارت لاہور نے علمائے کرام کے اس رخ روشن اور قادیانیوں کے مقابل پر ان کی سیرت مبارکہ ذاتیہ کو پیش کرنے کے بعد جو مشورہ دیاوہ کتنا سچا اور ہم جیسے محققین کے دل کا آئینہ دار ہے.اس قسم کے علماء جب قادیانیوں کے ارتداد کے لیے عام سوجھ بوجھ کے مسلمانوں کے عقائد کو محفوظ رکھنے کی اس انداز میں کوشش کریں گے تو یقینا ان کی تمام تر مساعی بے اثر ثابت ہونگی بلکہ الٹا اثر پڑے گا جسے اب ہم دیکھ رہے ہیں.یہ حقیقت حال میرے لیے پریشانی کا موجب ہے اسی طرح بہت سے عام مسلمان جن کا مطالعہ میری طرح سطحی اور معمولی ہے جب مسلمان اور غیر مسلم قادیانیوں کے کردار عمل کا تقابل کرتے ہیں تو سچی بات ہے کہ ان کا اپنا عقیدہ ڈانواں ڈول ہو جاتا ہے علماء کرام ہی اس صورت حال کی اصلاح فرما سکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ جن لوگوں کی اصلاح وہ فرمائیں گے ان کی طرف سے یہ سوال تو علماء کرام سے کیا جائے گا پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے.( مہارت 3 تا 10 اکتوبر 93ء و مذ ہب کا سرطان صفحہ (28)

Page 330

330 باب نمبر 11 مالی دست درازیاں اور

Page 331

331 میری مشکلات بقول مفکر احرار جناب چوہدری افضل حق : ”جماعت احمدیہ کی اسلام کی نشر و اشاعت کی تڑپ تمام اشاعتی جماعتوں کے لیے نمونہ ہے“.فتنہ ارتداد اور پولیٹکل قلابازیاں طبع دوم صفحہ 24 بقول ڈاکٹر علامہ اقبال صاحب: جماعت احمد یہ اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ ہے.بقول مولانا عبد الماجد دریا آبادی ایڈیٹر صدق جدید و خلیفہ مجاز اشرف علی تھانوی ”مبارک ہے وہ دین کا خادم جو تبلیغ واشاعت قرآن کے جرم میں قادیانی یا احمدی قرار پائے“.بقول مولانا یوسف بنوری (صدق جدید 22 دسمبر 1961ء ) قادیانی نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور کلمہ گو ہیں بلکہ انہوں نے اپنے نقطہ نظر کے مطابق ایک صدی سے بھی زیادہ مدت سے اپنے طریقہ پر اسلام کی تبلیغ واشاعت کا جو کام خاص کر یورپ اور افریقی ممالک

Page 332

332 میں کیا ہے اس سے باخبر حضرات واقف ہیں.اور خود ہندوستان میں جو تقریباً نصف صدی تک اپنے آپ کو مسلمان اور اسلام کا وکیل ثابت کرنے کے لیے عیسائیوں اور آریہ سماجیوں کا انہوں نے جس طرح مقابلہ کیا.تحریری اور تقریری مناظرے مباحثے کئے وہ بہت پرانی بات نہیں پھر ان کا کلمہ، ان کی اذان اور نماز وہی ہے جو عام امت مسلمہ کی ہے.زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں ان کے فقہی مسائل قریب قریب وہی ہیں جو عام مسلمانوں کے ہیں“.(ماہنامہ البینات کراچی جنوری فروری 1988 ء صفحہ 96) بقول مولانا ارشد القادری ایڈیٹر جام نور جمشید پور : جماعت اسلامی جن لوگوں کو اسلام سے قریب تر کرتی ہے وہ ہزار بگڑنے کے باوجود کسی نہ کسی نہج سے اسلام کے ساتھ بہر حال کوئی تعلق رکھتے تھے لیکن قادیانی جماعت کا لٹریچر مغرب کے عیسائیوں کو جو اندر سے لے کر باہر تک اسلام کے غالی دشمن اور حریف ہیں.انہیں اسلام سے قریب ہی نہیں کرتا اپنے طور پر اسلام کا کلمہ پڑھواتا ہے.(جماعت اسلامی صفحہ 104 شائع کر دونور یہ رضویہ پبلشنگ کمپنی کچا رشید روڈ بلال گنج لاہور ) لیکن 7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کے علماء دین اکھٹے ہوئے اور انہوں نے قومی اسمبلی کے سیاستدانوں سے انہیں غیر مسلم قرار دلوا کر دائرہ اسلام سے خارج کر وا دیا.میں سمجھتا ہوں کہ اس عظیم کردار کے حامل لاکھوں کروڑوں احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دلوا جانے والے علماء دین یقیناً خودا اپنی ذات میں ان احمد یوں سے بلند بلکہ بلند تر اور ہ تقویٰ اور خوف خدا کے لحاظ سے پہاڑوں جیسی شخصیات ہونگی.حے اس چند روزہ زندگی کو فرمان رسول کے مطابق السجن “ سمجھتے ہو نگے.حمد دنیاوی مال و متاع پر ان کی نظر ہر گز نہ ہوگی.م چند ٹکوں کی خاطر اور سیاسی مفاد کی خاطر دین کو ڈھال نہ بنانے والے ہونگے.حمد دین کو بیچ کر ذریعہ روزگار نہ بنانے والے ہونگے.بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کو پھیلانے والے اور دینا میں ہر مالی بددیانتی اور ہر مالی بلیک میلنگ کے خلاف سد راہ ہونگے.

Page 333

333 اذیت اور کرب سے میری چھینیں نکل گئیں جب میں نے خود علماء کو ہی دیگر علماء کو ننگے کرتے دیکھا.خوفناک مالی کرپشن، بلیک میلنگ، کالا دھن اور بین الاقوامی دہشت گردوں کے ہاتھوں چلنے والے مہرے کے القابات سے نوازتے دیکھا.چنانچہ علماء کا یہی کردار میری انگلی مشکل بن گیا.مشکل نمبر 41 علماء کی پیجیر وگاڑیاں اور نورانی صاحب کا مطالبہ روزنامہ نوائے وقت 14 اکتوبر 97ء کی اشاعت میں لکھتا ہے : جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ مولانا احمد شاہ نورانی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بڑی گاڑیاں رکھنے والے علماء کے خلاف تحقیقات کرائے کہ یہ گاڑیاں انہوں نے کہاں سے حاصل کیں.ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو برادر اسلامی ممالک پاکستان کے دینی مدراس اور مساجد کے لیے امداد دینا چاہیں انہیں یہ امداد وزارت مذہبی امور کے ذریعہ دینی چاہئے.مولانا احمد شاہ نورانی کا یہ مطالبہ بڑا مفعول ہے بعض دینی رہنما ہجیر و اور لینڈ کروزر سے نیچے پاؤں نہیں رکھتے اور جب وہ سڑک پر نکلتے ہیں تو ان کی سکیورٹی وزیر اعظم کی سکیورٹی سے بھی زیادہ ہوتی ہے ایسے علماء دین کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں.(روزنامہ نوائے وقت 14اکتوبر 97 سررا ہے) : " ا سب سے بڑا بکاؤ مال.( قاضی حسین احمد سمیع الحق فضل الرحمن نورانی نیازی) کیا واقعی مولوی جیت گئے؟ روز نامہ خبریں زیر عنوان ” کیا واقعی مولوی جیت گئے؟“ لکھتا ہے : مورخہ 14 جون 1995 ء کے خبریں میں ”مولانا محمد ضیاء القاسمی کا مضمون بعنوان ”مولوی جیت گئے پڑھا.یہ مضمون پڑھ کر ہم حیرت کے دریا میں غوطے لگانے لگ گئے کہ کیا واقعی مولوی پاکستان میں جیت گئے ہیں؟ کیا ”مولانا فضل الرحمن کو روز کون بیرونی ممالک کے دوروں پر بھیج رہا ہے.کون فضل الرحمن کو شیرین جیسے مہنگے ترین ہوٹلوں کے مہنگے ترین کمروں سوئیٹ میں ٹھہرا رہا ہے.جب ”مولا نا بغیر بل ادا کئے ان ہوٹلوں سے چلے جاتے ہیں تو ان کا ہزاروں ڈالرز کا ہل کون ادا کرتا ہے؟ مولانا ضیا القاسمی نے اپنے مضمون میں پجہتی کونسل کا بھی ذکر کیا ہے.لوگ حیران ہیں اور ہم برادر خلیل ملک کی اس بات سے متفق ہیں کہ کل تک یہ حضرات مساجد پر بم گرا رہے تھے اور نمازیوں پر فائرنگ کر رہے تھے نیز امام

Page 334

334 باڑوں کے باہر دن کے بارہ بجے نذرونیاز تقسیم کرنے کے بہانے غرباء کو جمع کرتے تھے اور انہیں بم سے اڑا دیتے تھے.اب اچانک کیسے شیر وشکر ہو گئے.جناب خلیل ملک صاحب نے صیح تجزیہ کیا کہ بم پھینکنے کا ایجنڈا بھی اوپر سے آیا تھا اور اب شیر وشکر ہونے کا ایجنڈا بھی اوپر ہی سے آیا ہے.مولانا نورانی صاحب کے بارے میں ”مولانا عبدالستار نیازی کی پریس کانفرنس بھی آپ کے گوش گزار کرتے چلیں ، جس میں مولانا نیازی نے فرمایا تھا کہ نورانی نے اپنے دست مبارک سے انہیں اور ان کے چار ساتھیوں کو بریف کیس میں نوٹوں کی گڈیوں کی رشوت پیش کی تھی.شرط صرف یہ تھی کہ بے نظیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش نہ کی جائے.مولانا عبدالستار نیازی کے مطابق صرف انہوں نے رشوت قبول نہیں کی ، باقی ان کے ساتھیوں نے لی.اب ضیا القاسمی صاحب ہمیں بتائیں کہ رشوت لینے والے اور دینے والے کے بارے میں رسول اکرم کے کیا فرمودات ہیں اور اگر عالم دین رشوت آفر کرے اور ایک غیر اسلامی، اسلام دشمن حکومت کو قائم رکھنے کیلئے پیش کرے تو کیا ایسا ”مولوی جیت گیا یا دونوں جہانوں میں بری طرح سے ہار گیا“.(روز نامہ خبریں 17 جون 1995 ء زیر عنوان ”بم رشوت اور شیرٹن ہوٹل تحریر ڈاکٹر انوار الحق بجواب کیا واقعی مولوی جیت گئے تحریر مولانا ضیاء القاسمی ) ارد قادیانیت ایک دھوکہ ہے جبکہ اصل میں یہ روزی اور ووٹ کا ہتھکنڈہ ہے.مجلس احرار کے سابق سیکرٹری صاحب کی پریس کانفرنس مجلس احرار یا عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت وہ مجلس ہے جس نے پاکستان میں احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کروانے کے لیے بہت بھر پور قسم کی تحریکیں چلائیں.کئی احمدیوں کے گھر جلائے یا لوٹے کئی احمدیوں کو شہید کیا اور آخر 7 ستمبر 74ء کو اپنا مقصد حاصل کیا لیکن اس تحریک کے پس پردہ عزائم کیا ہیں وہ اس کے سابق سیکرٹری سیفی کشمیری صاحب یوں بیان کرتے ہیں.میں ان تمام مسلمانوں کی خدمت میں جن کے دل میں خدائے قہار و جبار اور اس کے برگزیدہ رسول سرور کائنات حضرت محمد عربی کی ذات والا صفات کی محبت کا جذبہ ہے اپنے ذاتی تجربے کی بناء پر جو کچھ مجھ کو مجلس احرار ( تحفظ ختم نبوت ) کے سرکردہ لیڈروں کی صحبت احرار کے دفتر مرکزی میں ایک لمبے عرصے کی رہائش اور زعماء احرار کی مجالس کی کارروائی سننے کے بعد حاصل ہوا تھا خدائے وحدہ لاشریک کی قسم کھا کر جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے قطعی اور یقینی طور پر کہتا ہوں کہ مجلس احرار کی مرزائیت یا قادیانیت کے خلاف تمام تر جد و جہد اور قادیانیت کے خلاف یہ سب پراپیگینڈہ محض مسلمانوں سے چندہ وصول کرنے اور کونسل کی ممبری کے لیے ان سے

Page 335

335 ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہے.پس مسلمانوں میں اپنی ساکھ بٹھانے اور ان سے چندہ وصول کرنے کا بہترین ذریعہ یہی ہے تبلیغ اسلام اور تردید قادیانیت کو بہانہ بنایا جائے.میں نے خود احرار کے بڑے بڑے لیڈروں کو بارہا یہ کہتے سنا کہ حصول مقصد کے لیے قادیانیوں کے خلاف پروپیگنڈہ ایک ایسا ہتھیار ہمارے ہاتھ میں ہے جس سے تمام مخالفتوں کو دور کر سکتے ہیں اور ہر قسم کی مالی یا انتخابی مشکل اس سے حل ہو سکتی ہے.“ تحفظ ختم نبوت کے نام پر مالی فین.مولوی عبدالرحیم اشرف مدیر المیزر اخبار زمیندار لاہور 28 اگست 1936 ء ) 1953ء میں ختم نبوت کے نام پر جو تحریک چلائی گئی مدیر المنیر اس کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: استہزاء اشتعال انگیزی.یا وہ گوئی.بے سر و پا لفاظی.اس مقدس نام کے ذریعہ مالی نعبن لا دینی سیاست کے داؤ پھیر.مثبت اخلاق فاضلہ سے تہی کردار.ناخدا ترسی سے بھر پور مخالفت کسی بھی غلط تحریک کو ختم نہیں کر سکتی اور ملت اسلامیہ پاکستان کی ایک اہم محرومی یہ ہے کہ مجلس احرار اور تحفظ ختم نبوت کے نام سے جو کچھ کیا گیا ہے اس کا اکثر و بیشتر حصہ ان عنوانات کی تفصیل ہے“.(المنیر لائل پور 6 جولائی 1956 ء ) عطاء اللہ شاہ بخاری کا اگر ختم نبوت کے نام پر یہ فراڈ درست ہے تو میں امانت کی حفاظت والی احادیث کو خیر باد کہتا ہوں.مولوی عبدالرحیم اشرف عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کے اس اعلان پر کہ ختم نبوت تحریک چلانے کا مجھے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں آکر حکم دیا پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں اور پھر اس میں جب ہم مزید یہ دیکھتے ہیں کہ وہ اس خواب سے مراد یہ لیتے ہیں کہ تحفظ ختم نبوت کے نام پر جو نظم ( کاروبار ) انہوں نے قائم کر رکھا ہے حضور خاتم النبیین فداہ روحی و نفسی خود اس نظم کی تائید فرمارہے ہیں تو ہماری روح لزرجاتی ہے.اگر خدانخواستہ یہ نظم اور اس کے تحت متعین کردہ مبلغین کا کام اور اس کے نام پر حاصل کئے گئے صدقات زکاتیں اور چندے اس بری طرح سے صرف ہونے کے باوجود انہیں پیغمبر امن کی پسندیدگی حاصل ہے تو ناگریز ہے کہ ان تمام احادیث رسالت مآب کو خیر باد کہہ دیا جائے جن میں آپ نے مسلمانوں کے مال کے احترام کی اہمیت بیان فرمائی اور جن میں اموال المسلمین میں خیانت کو حرام اور موجب سز ا بتلایا گیا ہے.ہفت روزہ المنیر لائل پور 29 مارچ 1956 صفحہ 4 کالم 1-2 جماعت اسلامی نے جہاد کشمیر کے نام پر کروڑوں روپے لوٹے جماعت اسلامی کے میر میجر مست گل

Page 336

336 میجر مست گل کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے نوائے وقت رقم طراز ہے.”بی بی سی نے جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے امیر غلام محمد بٹ کا ایک انٹرویو نشر کیا ہے جس میں انہوں نے دیگر مجاہد جماعتوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اس انٹرویو پر تبصرہ کرتے ہوئے سانحہ چرار شریف کے ہیر و میجر مست گل نے کہا ہے کہ جماعت کی طرف سے مجاہدین سے لاتعلقی کا اظہار ایک شرمناک فعل ہے انہوں نے کہا کہ جہاد کشمیر کے نام پر جماعت اسلامی نے کروڑوں روپے کمائے ہیں جنہیں جماعت کے لیڈر ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور ان پیسوں سے وہ قیمتی گاڑیوں اور بنگلوں کے مالک بن گئے ہیں انہوں نے کہا کہ اگر جماعت تھک گئی ہے تو کشمیر کا جہاد پھر بھی جاری رہے گا.“ (نوائے وقت 15 دسمبر 97ء) بنوری ٹاؤن سے منسلک اور مشہور عالم دین رعایت اللہ فاروقی صاحب پاکستان کے دوسرے مستند علماء دین ( بشمول سمیع الحق صاحب ) کو کس نظر سے دیکھتے ہیں.آپ نے جمعہ 6 جون 1997ء کے پاکستان اخبار میں ” علماء الریال“ کے نام سے ایک جنگی سائز کا مضمون لکھا ہے کچھ اقتباس ملاحظہ ہوں.بے حس طبقہ افسوس صد افسوس کہ بے حسی کا یہ بہیمانہ مظاہرہ میں نے طبقہ علماء میں دیکھا ہے.جب بھی کسی عالم کو بتایا گیا کہ یہود و نصاری کو ویلکم کہنے والے سعودی حکمرانوں نے پاکستان کے بائیں علماء کو بلا کسی جرم کے گرفتار کر لیا ہے تو سننے والے علماء کے کچھ دیر کے لیے کان بھی کھڑے ہوئے اور حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے بھی لگے لیکن اس کے بعد وہ اپنی مسجدوں اپنے مدرسوں اور اپنی خانقاہوں میں مشغول ہو گئے اور حد تو یہ ہے کہ مولانا عبد الحق مرحوم کے فرزند شیخ الحدیث نے مفتی محمود کے صاحبزادے پر تنقید کی ہے کہ وہ ان مسبحون علماء کے حق میں سعودی حکمرانوں کے خلاف بات کیوں کرتے ہیں اور بڑے اطمینان سے یہاں تک کہہ گئے کہ ابھی تو یہ بھی واضح نہیں کہ گرفتار ہونے والے علماء ہیں بھی کہ نہیں سچ بات تو یہ ہے کہ یہ بات کہی تو مولانا سمیع الحق نے ہے اور شرم سے پانی پانی در دمند علماء ہورہے ہیں“.عمرے یا ریالوں میں چندہ بٹورنے اور ذاتی کوٹھیاں بنانے کے راستے.وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا پاکستان علماء کی اپنی رفقاء کی گرفتاری پر بے حسی کی بنیادی وجہ عمرے کا ویزہ ہے اور عمرے سے ان کی دلچسپی

Page 337

337 اس لیے ہے کہ انہیں وہاں اپنی مسجدوں مدرسوں اور خانقاہوں کے نام پر چندے جمع کرنے ہوتے ہیں اور ان مشائخ عظام کے جبوں قبوں اور رہائش گاہوں کی آب و تاب ان ریالوں کی مرہون منت ہوتی ہے.سعودی عرب کا سب سے بہترین محکمہ وہاں کی پولیس کا ہے اور ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ جب کوئی بڑی آسامی مدرسہ دیکھنے آتی ہے تو یہ اسے دورہ کراتے ہوئے طلباء کے کمرے دکھا کر کہتے ہیں یہ ہاسٹل ہے رقم نہ ہونے کی وجہ سے ان کمروں میں پنکھے نہیں لگ سکے ہیں طلباء گرمی میں رہ رہے ہیں، کچھ آگے چل کر کر کہتے ہیں یہ کچن ہے ہماری بڑی خواہش ہے کہ بچے اچھی خوراک کھائیں لیکن کیا کریں وسائل نہیں ہیں اور پھر اسی شخصیت کو اپنے ائیر کنڈیشنڈ دفتر میں بٹھا کر بکرے کی روسٹنڈرا نہیں اس کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں.یہ علماء کی صفوں میں موجود ابوالفضل فیضی کے روحانی فرزند ہیں جو خدا کے دین کے نام لے کر اپنی توند کا حجم اور بنگلوں کے رقبوں میں اضافے کی فکر میں رہتے ہیں.د ریال، عمرہ اور پگڑی بند ملاں " آج یہ گروہ امریکی فوج کے سعودی عرب میں موجودگی پر اور سعودی حکومت کی یہود ونصاری کو خوش آمدید کہنے پر اس لیے چپ رہتے ہیں کہ ان کے عمرے کا ویزہ بند ہو جائے گا.جو ریالوں کا دروازہ ہے تو میں بڑے اعتماد سے کہتا ہوں کہ بیت اللہ پر امریکی قبضے کے باوجود زبان بند رکھ کر مکہ کی گلیوں میں جمع کردہ ریالوں سے جو مسجد تعمیر ہوگی وہ بیت اللہ کی بیٹی نہیں ہوسکتی اصحاب الصفہ کا مدرس یر غمال ہو اور مولوی اس پر اپنے چندے کی بندش کے خوف سے چپ ہو تو اس چندے سے بنے والا مدرسہ کسی آشرم کا رشتہ دار تو ہو سکتا ہے صفہ کے مدرسے کا نہیں.اور مسجد نبوی اور روضہ انور سے یہودی چند منٹ کی مسافت پر بیٹھے ہوں اور مولوی پگڑی باندھ کر مدینہ کی گلیوں میں چندہ مانگ رہا ہو تو ایسا مولوی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے طبقے سے نہیں پاپائے روم پوپ جان پال کے حلقے سے ہو سکتا ہے اور یہی وہ علماء ہیں جن کے لیے رسول اللہ نے فرمایا اور ان کے علماء آسمان کی چھت کے نیچے بدترین مخلوق ہو نگے.(روز نامہ پاکستان اسلام آباد جمعه 29 محرم الحرام ) جمعیت علماءاسلام پاکستان (نیازی گروپ) اہل سنت والجماعت مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے جس میں مولانا عبدالستار نیازی سمیت جید علماء دین کا ایک بہت بڑا گر وہ شامل ہے.25 جون کولا ہور میں وزارتوں کے جھگڑے پر یہ مذہبی جماعت دوگروپوں میں تقسیم ہوگئی ہے.ایک گروہ کی قیادت خود نیازی صاحب کر رہے ہیں جبکہ دوسرا گروہ جو بہت بھاری اور بڑا ہے کی قیادت صاحبزادہ فضل کریم ( موجودہ وزیر اوقاف) حاجی حنیف طیب اور سعید احمد شرقپوری جیسے جید علماء دین کر رہے ہیں مزید اس گروپ کو

Page 338

338 مولانا غلام علی اوکاڑوی مفتی عبدالقیوم ہزاروی، مفتی محمد شریف رضوی جیسے عظیم علماء دین کا ساتھ نصیب ہے.ان تمام موخر الذکر علماء دین کا ذاتی کردار نیازی صاحب کی نظر میں کیا ہے وہ یقینا محل نظر بھی ہے اور قابل فکر بھی ہے.آپ کے افکار پر مبنی پر یس کا نفرنس 27 جون 97ء کی اخبار ”صحافت میں یوں موجود ہے: زکوۃ خور ملاوں سے اتحاد ممکن نہیں.یہ چند لونڈے زکوۃ خور ملاوں کو ساتھ ملا کر ہمارا کیا بگاڑ لیں گئے ملاں کون ہے زکوۃ خور کون ہے اور اصلی لونڈہ کون ہے ان پہاڑوں جیسی مشہور شخصیات میں میرے لیے فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ دونوں ہی نظام مصطفیٰ کی بات کرنے والے ہیں.انٹر نیشنل بلیک میلر مولوی چند برس پیچھے جھانکتا ہوں تو علامہ احسان الہی ظہیر صاحب کا چہرہ نظر آتا ہے آپ اہل حدیث کے ممتاز عالم دین تھے.مدینہ یونیورسٹی کے فاضل تھے اور عربوں کو عربی پڑھاتے رہے.بیک وقت اردو اور عربی میں تحریری و تقریر کا ملکہ ہونے کی وجہ سے اہل حدیث علماء دین میں آپ کا مقام منفرد حیثیت کا حامل تھا.آپ ایک بم دھما کے میں فوت ہو گئے.سعودی حکومت نے خاص انٹرسٹ لیکر آپ کا علاج جدہ میں کروایا لیکن جانبر نہ ہو سکے اور جنت البقیع میں دفن ہوئے.جبکہ دوسری طرف میاں فضل حق صاحب اہل حدیث پاکستان کے ممتاز راہنما اور سنجیدہ شخصیت کے حامل علمی شخصیت کے مالک ہیں.ہفت روزہ اہل حدیث ان کی ادارت میں شائع ہوتا ہے اس پرچے کے شمارہ 3 اگست 1984 میں صفحہ 5 سے 7 تک ایک حافظ عبدالرحمن صاحب مدنی فاضل مدینہ یونیورسٹی جیسے عالم متبحر اہل حدیث کا ایک طویل مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے: احسان الہی ظہیر کے لیے چیلنج مباہلہ“ مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب نے مولانا احسان الہی ظہیر صاحب پر خوفناک مالی کرپشن اور اخلاقی گراوٹ کے الزام لگائے ہیں اور اپنے الزاموں میں اتنے ثقہ ہیں کہ انہوں نے ان بیانات کے جھوٹے ہونے پر مولانا احسان الہی ظہیر صاحب کو دعوت مباہلہ کا چیلنج تک دیا ہے جیسے قبول نہیں کیا گیا.ذیل میں مضمون کے چند اقتباس پیش ہیں تا کہ آپ بھی اندازہ لگالیں کہ ایک عالم دین جب دوسرے عالم دین کی شان بیان کرتا ہے تو قلم کی نوک پر کیا کچھ آتا ہے.ہی حقیقت یہ ہے کہ دنیا اس شخص کی محبت میں نہیں، بلکہ اس کے شر سے بچنے کے لیے اسلام کی روادار ہے چنانچہ اس کے چھچھورے پن کا یہ عالم ہے کہ بات بات پر لوگوں کو گالیاں دیتا ہے.

Page 339

339 مسجد چینیا نوالی اور احسان الہی ظہیر کے سابق اہل محلہ، ان دنوں کو نہیں بھولے جب یہ شخص چھوٹے بچوں کو چند سکے بلکہ بسا اوقات روپے دے کر یہ سکھلایا کرتا تھا مجھے علامہ کہا کرو.اور اب بھی اس شخص نے اپنی ذات سے دوستی یا دشمنی کا یہی معیار مقرر کر رکھا ہے کہ کون ان کے نام سے پہلے علامہ لگاتا ہے اور کون نہیں.ان خود ساختہ علامہ صاحب کے کویتی سر پرستوں کو تو ہم نے مباہلہ کا چینج پہلے سے دے رکھا ہے اب ہم.....ان حضرات کے بدنام زمانہ کردار کا اضافہ کر کے اس کو بھی شامل مباہلہ کرتے ہیں.1.کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک میں اس شخص نے قومی اتحاد کی جاسوسی کے عوض بھٹو حکومت سے لاکھوں روپے رشوت یا برائے نام قیمت پر پلاٹ اور کاروں کے پرمٹ حاصل نہ کئے تھے؟ 2.یورپ کے نائٹ کلبوں میں پاکستان کے یہ علامہ صاحب "رئیس التحریر مجلہ ترجمان الحدیث کیا گل کھلاتے رہے؟ 3.اس شخص کے وہ راز ہائے دروں“ جو اس کی جلوتوں اور خلوتوں کے امین ساتھیوں کی شہادت سے منظر عام پر آنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں کیا یہ ان کی صداقت کے خلاف مباہلہ کر سکتا ہے.4.اپنے گھر میں جو ان نوکرانیوں کے قصوں کے بارے میں مباہلہ کی جرات پاتا ہے؟ 5.حکومت عراق سے لاکھوں روپے آپ نے کس کار خیر کے سلسلہ میں وصول فرمائے تھے؟ 6.حکومت سعودیہ کو ورغلانے کے لیے موجودہ حکومت پاکستان کی شیعہ حمایت کے بے بنیاد قصوں کے محاسبہ اور دونوں حکومتوں کے درمیان جاسوسی کے متضاد کردار کو بھی شامل مباہلہ فرما لیجیے.7 کویتی وفد کی اعلیٰ حیثیت اور ان کی طرف سے کروڑوں روپے کے تعاون کے اعلانات کے پس پردہ حالیہ حکومت پاکستان کے خلاف اسلام دشمن سیاسی تنظیموں کی سر پرستی اور ایم.آر.ڈی کو تقویت بھی مباہلہ میں شرکت کی اجازت چاہتی ہے.حافظ صاحب کے الزامات سچے ہیں یا غلط اللہ بہتر جانتا ہے.ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ دواہل حدیث کے ممتاز علماء دین جو دونوں مدینہ یورسٹی سعودی عرب کے فاضل ہیں کا ایک دوسرے کے بارے میں نظریہ ہے.شیرٹن ہوٹل اور راشی مولوی عظیم درسگاہ دیوبند کی پاکستان میں نمائندگی کرنے والے احباب مولا نا فضل الرحمن صاحب کا تذکرہ آج کل زبان زد عام ہے.شیرٹن ہوٹل میں ان کا 8لاکھ والا بل دشمن کی افواہ مان لیں.نصیر اللہ بابر صاحب وزیر داخلہ پاکستان کا فرمان کہ مولانا کی ناجائز مراعات کی طلب انتہاء سے بڑھنے پر بینظیر صاحبہ نے گلہ کیا تو میں نے کہا کہ

Page 340

340 سٹیٹ بنک کی چابیاں ہی مولوی صاحب کے سپرد کر دیں یقیناً اسے بھی ہم ایک سیاسی حاسدانہ بیان سمجھ لیتے ہیں تو بھی دیو بند کے عظیم فدائی اور کالم نگار جناب ہارون الرشید کے یہ الفاظ دل دہلا دینے کے لیے کافی ہیں.آپ نے شریا سے زمین پر آسمان نے تم کو دے مارا“ کے عنوان سے پاکستان میں موجود دیو بند کے وارثین ( مولانا فضل الرحمن ) کا نوحہ لکھتے ہوئے فرمایا: اب ان ( مولوی فضل الرحمن صاحب) کی شہرت ایک بد عنوان آدمی کی ہے کہ جب لوگ انہیں مولانا ڈیزل اور مولانا سپرے( کھاد ) کہتے ہیں تو دیوبند کی عظیم الشان روایتیں اس کے دل میں جگمگاتی ہیں اور حیرت سے سوچتا ہوں کہ خدا پرستوں کے قبیلے نے حالات سے اس درجہ مفاہمت کر لی ہے اور پھر مزید افسوس سے فرماتے ہیں.نظریاتی تحریکیں جذبات کی کسی رفعت اور ایثار کے کسی جذبہ سے پھوٹتی ہیں اور رفتہ رفتہ کس طرح نشیب میں اتر جاتی ہیں.کل راشی مولوی آج قائد اور راہبر ( روزنامہ خبریں 18 جولائی 96ء) مجاہد ملت مولا نا عبدالستار نیازی صاحب ، مولانا فضل کریم صاحب وغیرہ سے تو الگ ہو گئے ہیں اب آپ نے اپنا اگلا اتحاد مولانا شاہ احمد نورانی صاحب سے کر لیا ہے جس کا باقاعدہ اعلان ہو گیا ہے ہمیں تو اس اتحاد پر کوئی اعتراض نہیں لیکن انہیں مولانا عبدالستار نیازی صاحب کو آج سے چند سال پہلے مولانا شاہ احمد نورانی صاحب سے شدید مالی کرپشن کا اعتراض تھا جس کی بناء پر جمعیۃ العلماء پاکستان دوگروپوں میں تقسیم ہوگئی.ایک گروپ کی قیادت نورانی صاحب کرنے لگے اور دوسرے کی قیادت نیازی صاحب.الیکشن میں بھی یہ گروپ اسی حیثیت سے حصہ لیتے ہیں وہ کیا سانحہ تھا؟ وہ کیا مصیبت تھی جس نے جمعیۃ العلماء پاکستان کو توڑ کر دوحصوں میں کر دیا اس کی تفصیل بھی جاننے کے لائق ہے.ہوا یوں کہ بینظیر صاحبہ کا دور اول تھا.ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے والی تھی.دونوں پارٹیوں کو مطلوبہ تعداد کے لیے ووٹوں کی ضرورت تھی جس کے لیے کروڑوں روپے میں ممبران خریدے جارہے تھے ایسے میں بے نظیر صاحبہ نے نورانی صاحب کی اور نواز شریف صاحب نے نیازی صاحب کی ہمدردیاں حاصل کر لیں.تحریک عدم اعتماد نا کام ہوگئی اس کے بعد جناب نیازی صاحب کی پریس کانفرنس نے جب اندر کے پردے اٹھائے تو یہ سانحہ ہوا کہ جمعیۃ العلماء پاکستان دوگروپوں میں بٹ گئی.ا علماء حضرات کو رشوت بذریعہ علماء حضرات مولانا نورانی صاحب کے بارے میں مولانا عبدالستار نیازی صاحب کی وہ پریس کانفرنس بھی آپ کے

Page 341

341 گوش گزار ر کرتے چلیں جس میں مولانا نیازی نے فرمایا تھا کہ نورانی نے اپنے دست مبارک سے انہیں اور ان کے چار ساتھیوں کو بریف کیس میں نوٹوں کی گڈیوں کی رشوت پیش کی تھی شرط صرف یہ تھی کہ بینظیر صاحبہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش نہ کی جائے“.(روز نامہ خبریں 7 جون 1995 زیر عنوان ”بم رشوت اور شیرٹن ہوٹل تحریر ڈاکٹرانوار الحق بجواب کیا واقعی مولوی ہار گئے تحریر مولانا ضیاء القاسمی) رشوت پیش کی تھی یا نہیں اللہ بہتر جانتا ہے.ہمیں تو صرف یہ کہنا ہے کہ اگر نورانی صاحب کل مرتشی تھے تو آج ان سے اتحاد کس تقویٰ کی بنیاد پر ہے.اور اگر مرتی نہیں تھے تو کیا کل نیازی صاحب جھوٹ بول رہے تھے.جو بھی صورت ہوتو بلند ترین رتبوں والے علماء دین کے درمیان ہم فیصلہ نہیں کر سکتے کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے؟ د مبلغ ختم نبوت نہیں کھال فروش قصاب چنیوٹ جیسے عظیم تاریخی شہر میں مبلغ اسلام سفیر ختم نبوت بلکہ بقول ہفت روزہ تکبیر بہر فرعونے راموسی فاتح قادیان در بوہ برا جمان نظر آتے ہیں.آپ نے اپنی ذاتی کوششوں سے انٹر نیشنل ختم نبوت یو نیورسٹی و جامعہ عربیہ اور ادارہ مرکز دعوت وارشاد قائم کر رکھا ہے.آپ اندرون و بیرون ملک تبلیغ کے حوالے سے بڑا بلند مقام رکھتے ہیں بلکہ سچی بات یہ ہے کہ پاکستان میں تحریک ختم نبوت کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولا نا چنیوٹی صاحب کا ذکر نہ ہو.لیکن دوسری طرف بھی ہمیں ختم نبوت کے ہی پروانے اور مولانا چنیوٹی کے دست راست نظر آتے ہیں یعنی مولانا اللہ یارارشد صاحب اور بقول مولا نا چنیوٹی ”مولانا اللہ یار رشد تحریک ختم نبوت کے عظیم مبلغ ہیں اور یہی مولا نا چنیوٹی صاحب کے بلند مقام کا یوں ذکر کرتے ہیں.پنجاب اسمبلی میں مولا نا منظور احمد چنیوٹی کا کردار ملت اسلامیہ کی رسوائی کا سبب بنا“.مولانا منظور احمد چنیوٹی نے ختم نبوت کے نام کو بیچ کر قوم سے ووٹ حاصل کئے اور پنجاب اسمبلی میں جا کر جو مذموم کردار ادا کیا وہ پوری ملت اسلامیہ کے لیے رسوائی کا سبب بنا.انہوں نے کہا کہ قوم کے ساتھ یہ دھوکہ بازی ہم ہرگز نہ چلنے دیں گے.مولانا اللہ یا را ارشد نے کہا کہ جھوٹ اس کا مشن ہے دھو کہ اس کا پیشہ ہے.انہوں نے کہا کہ ختم نبوت کے نام پر چندہ بٹور کر اس نے اپنی ذاتی جاگریں اور ڈیرے بنائے ہوئے ہیں.ی محض چندہ بٹورنے کے لیے ختم نبوت کے مبلغ کا لیبل (روز نامه حیدر یکم نومبر 1988 صفحه (2) اسی طرح ختم نبوت تنظیم کے ہی ایک دوسرے ممتاز عالم دین قاری یا مین گوہر صاحب مبلغ ختم نبوت کے بلند

Page 342

342 مقام کو کس نظر سے دیکھتے ہیں.مولوی منظور احمد گھی چنیوٹی ان دونوں تنظیموں میں سے کسی کے کارکن یا مبلغ نہیں لیکن اس شخص نے محض چندہ بٹورنے کے لیے اپنے اوپر مبلغ ختم نبوت کا لیبل لگایا ہوا ہے.اسی کے ساتھ پاکستان علماء کونسل کا بیان بھی پڑھنے کے لائق ہے.(روز نامه حیدر یکم نومبر 1986 صفحه (2) پاکستان علماء کونسل ملک میں مذہب کے نام پر سیاسی دوکانیں چمکانے والے تاجر ملاوں کا محاسبہ کرے گی.مولوی منظور احمد چنیوٹی اب صرف چنیوٹ کے کھال فروش قصاب کے سوا کچھ نہیں“.جہاد جیسے مقدس نام پر کرپشن (روز نامہ مساوات لاہور 29 اپریل 1989 ء ) | حد تو یہ ہے کہ جہاد مقدس جیسا اہم فریضہ ادا کرنے والی تنظیمیں بھی خود اپنے علماء پر کرپشن اور فنڈ ز ہڑپ کرنے کے الزامات لگا رہی ہیں.26 ستمبر 1995ء کو پاک فوج کے انتہائی اعلیٰ افسران جن میں میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی ، بریگیڈئیر مستنصر باللہ درجنوں فوجی افسران اور سویلین کو حرکت الانصار جہادی تنظیم کے سر براہ قاری سیف الاختر سمیت گرفتار کر لیا گیا.گورنمنٹ پاکستان کا ان پر کیا الزام تھا وہ اس وقت شامل بحث نہیں.شامل بحث وہ بیان ہے جو قاری صاحب کی گرفتاری پر ان کے موید حلقہ حرکت الانصار کی طرف سے پریس بریف میں جاری کیا گیا.قصہ جہاد کے نام پر اکٹھے ہونے والے روپے اور ان کے ہڑپ کرنے کا ایک گروپ حرکت الانصار میں قاری سیف الاختر کا مخالف ہے اور مجاہدین کو ملنے والے فنڈ ز ہڑپ کرنے کے لیے انہیں راستہ سے ہٹانا چاہتا تھا حرکت الانصار کے قریبی ذرائع نے اس سازش کی جو تفصیلات بتائی ہیں ان کے مطابق حرکت الانصار کے سر پرست اعلیٰ قاری سیف الاختر کا مخالف گروپ کا فی عرصہ سے انہیں ہٹانے کے چکر میں تھا دراصل گروپ مجاہدین کو ملنے والی امداد خود ہضم کرنا چاہتا تھا لیکن قاری صاحب ان کے اس مذہوم مقصد کی راہ میں رکاوٹ تھے.گورنمنٹ پاکستان اسے آپریشن خلافت کا نام دے کر ایک قومی بغاوت سمجھتی ہے لیکن خود علماء کا گر وہ اسے بھی مالی کرپشن کی حاسدانہ کارروائی قرار دے رہا ہے جو خود ان کے اپنے علماء کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوئی.اللہ اعلم بالصواب.

Page 343

343 دس کروڑ روپے یا اربوں روپے ”جہاد کشمیر کے نام پر حرکت الانصار کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی بھی ” جہاد کے میدانوں میں بہت سرگرم ہے ایسی ہی ایک خبر ان کے بارے میں بھی بہت مشہور ہوئی وزیر اعظم پاکستان جناب نواز شریف صاحب نے بیان کیا کہ قاضی حسین احمد صاحب نے ان سے 10 کروڑ روپیہ جہاد کشمیر کے نام پر وصول کیا تھا اور اس کے علاوہ افغانستان میں گندم کی سپلائی کے حوالے سے بھی مالی کرپشن کے الزام لگائے جماعت اسلامی نے اس کرپشن کے الزام کا جواب تو نہ دیا البتہ سیاست کے میدان میں ہمیشہ کے لیے دونوں پارٹیوں کے راستے الگ ہو گئے.وزیر اعظم نواز شریف صاحب کے اس بیان کو بھی سیاسی بیان سمجھ لیتے ہیں لیکن ایک دوسرے مولانا جو ایک مستند مولانا کے بھائی ہونے کا بھی اعزاز رکھتے ہیں فرماتے ہیں کہ یہ کرپشن جو جہاد کے نام پر جاری ہے کروڑوں میں نہیں اربوں روپے میں ہے.جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام سمیت اربوں روپے مضم جامعہ ازہر کے پروفیسر اور خطیب بادشاہی مسجد مولانا عبد القادر آزاد کے چھوٹے بھائی مولانا عبد الخالق صاحب نے فرمایا: ”مولوی اس قابل نہیں کہ انہیں اقتدار دیا جائے.کشمیر جا کر جہاد کرنا جہاد نہیں ہے.حکومت 500 علماء کا بورڈ بنائے جب تک بورڈ فتوی نہ دے کشمیر میں لڑائی کو جہاد نہیں کہا جاسکتا جماعت اسلامی جمعیت علماء اسلام سمیت متعدد مذہبی جماعتیں قوم کے اربوں روپے ہضم کر چکی ہیں.مولوی پنجابی فلموں کی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں کو غیرت کا مسئلہ بنادیتا ہے.نعت خواں بھی علماء بن گئے ہیں.چند مدرسوں کو چھوڑ کر باقی سب میں فرقہ واریت کی تعلیم دی جارہی ہے.یہ کہانی (روز نامہ الفضل 31 جولائی 1997 صفحہ 8 خبریں ) یہ کہانی درد کی کہانی ہے دکھوں اور مصیبتوں کی کہانی ہے جو بہت لمبی ہے دل چاہتا ہے کہ اپنی اس بے کس قوم کا نوحہ لکھوں لیکن قلم دل کا ساتھ نہیں دے رہا.میرے ایک دوست نے میری یہ مشکل بھی حل کر دی انہوں نے مجھے علماء دین کی کونسل کا خط لا کر دیا جس میں انہوں نے مجموعی طور پر نام لے کر تمام علماء دین پاکستان کا نوحہ لکھا ہے.روزنامہ ” اساس“ کی 24 مارچ 1997ء کی اشاعت عالمی سطح پر علماء دین کی بے حسی کا قصیدہ لے کر چھایا ہوا ہے تفصیل کچھ یوں ہے.

Page 344

344 علماء کرام سے غیر مسلموں کے دس سوال جرمنی میں ہونے والی بین الاقوامی اسلامی کا نفرنس میں غیر مسلموں کے سوالوں کے جواب دینے کون جائے گا 27 اپریل 1997ء کو جرمنی کے شہر آچن Aachen میں اسلامی مرکز میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہو رہی تھی جس میں غیر مسلموں کے ان سوالوں کے جواب دینا مقصود تھے جو یورپ میں مقیم مسلمانوں سے پوچھے جاتے ہیں جن کے مدلل جوابات نہ ہونے کے باعث وہاں کے مسلمانوں کو غیر مسلموں کے سامنے خفت اٹھانا پڑتی ہے.جرمنی بیلجیم اور ہالینڈ کی مشترکہ مسلمان اسپرانتو ایسوسی ایشن نے دعوت نامہ اکتوبر 1996ء میں پاکستان بھیجا تھا.جس کو پاکستان میں موجود عالمی اسپرانتو ایسوسی ایشن نے اردو میں ترجمہ کر کے درج ذیل پاکستانی علماء کرام کو بھیج دیا.کراچی 1.مولانا یوسف لدھیانوی ملتان 2 مولانا تقی عثمانی 3 - علامہ سید عبدالمجید ندیم فیصل آباد 4.پروفیسر ظفر اقبال اہل حدیث 5.پروفیسر طاہرالقادری 6.عبدالرحمن مکی چکوال 7 - خطیب تعلیم القرآن راجہ بازار 8.مولانا عبد الرحمن 9.قاضی مظہر راولپنڈی 10.خطیب جامع امداد یہ لاہور 11.قاضی حسین احمد 12 - قاری یونس اردو بازار 13 - مولانا عبد القادر آزاد 14.ڈاکٹر اسرار احمد 15.مولانا سمیع الحق پیشاور 16.مولا ناضیاءالرحمن فاروقی 17 - عبد اللہ ثانی 18.مولانا اجمل خاں مرید کے 19.مولانا عبد اللہ لال مسجد 20.قبلہ ایاز 21 خطیب جامع مسجد منڈی 22.خطیب جامع مسجد اہل حدیث 23 - قاری سعید 24.علامہ ساجد نقوی 25.خطیب علوم شریقہ بیکری چوک 26.قاسم نوری 27.خطیب جامع فریدیہ 28.ڈاکٹر انیس ناگی اسلامی یو نیورسٹی اورہ تک 29.ادارہ طلوع اسلام 30 - مولانا فضل الرحمن 32 - مولانا ذاکر شاہ 33 - خطیب جامعہ مدینہ 31 مفتی زین العابدین افسوس یہ عالم دین دین کے لیے فرصت نہیں رکھتے تحریر ہے ڈاکٹر انیس احمد کا پیغام آیا ہے کہ میری کتابوں کو پڑھ کر مطلوبہ سوالوں کے جواب تیار کر لیں اس کے علاوہ کسی نے زحمت گوارہ نہیں کی کہ وہ ان سوالوں کا کم از کم اردو میں ہی جواب تیار کر کے بھیج دے جس کا اسپرانتو میں ترجمہ کر لیا جائے.ان تمام علماء کی خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان سب کو دین اسلام کی تبلیغ وترویج سے کتنا گاؤ

Page 345

345 ہے اور نہ تو یہ سب علماء کرام اکٹھے بیمار ہو گئے ہیں نہ سب نے الیکشن لڑنا ہے اور نہ ہی سب نے دھرنا‘ مارنا ہے.لا دعوت کے بغیر سیمینار کیسا؟ 6 ستمبر 1996ء کو اس سلسلے میں راولپنڈی میں ایک اجلاس بھی بلایا گیا تھا لیکن یہ اجلاس کسی پروٹو کول، قیام وطعام اور لوازمات کے بغیر تھا شاید اسی لیے علماء کرام نے شرکت کی زحمت گوارا نہیں کی.اکثر ذہن میں خیال آتا ہے کہ ان لوگوں کو اللہ نے عام افراد سے زیادہ دین کی سمجھ عطا کر کے انہیں صرف دین کو سمجھنے اور سمجھانے کی ذمہ داری عطا کر رکھی ہے اگر وہی ہماری راہنمائی کرنے سے قاصر ہیں تو ممکن ہے وہ کسی اور قوم کو منتخب کرلئے“.ہ یورپ میں علماء دین کی خدمات مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف ہیں یورپ میں موجود غیر مسلموں کے ذہنوں میں اسلام کا تصور ہرگز ہرگز پسندیدہ اور مستحسن نہیں اور یہ ہم سب مسلمانوں کے لیے قابل غور مقام ہے لیکن ہم نے اس پر کبھی غور نہیں کیا بلکہ مغربی دنیا میں مختلف اسلامی فرقوں کو متعارف کرایا ہے اور ان کی الگ الگ مساجد قائم کر کے غیر مسلموں کے لیے اسلام کو اور مشکل بنادیا اب اگر کوئی غیر مسلم قرآنی تعلیمات سے متاثر ہوکر مسلمان ہونا بھی چاہے تو اس کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے گا کہ میں کون سا مسلمان بنوں ؟ سنی دیوبندی بریلوی شیعہ مرزائی یا کوئی نیا اسلام گھڑوں.مرزائی اس لیے لکھا ہے کہ پاکستان کے علاوہ ہر ملک میں یہ لوگ مسلمان ہی کہلاتے ہیں.زیر نظر تحریر پڑھتے وقت یہ بات پیش نظر رہے کہ یورپ کے ایک ملک سے قادیانیوں نے STN طرز کا ایک ٹی وی سٹیشن کرائے پر لے رکھا ہے جس پر 24 گھنٹے اسلام کے نام پر اپنے مسلک کی ترویج اور فروغ کے لیے انگریزی، ہسپانوی، اٹالین، فرانسیسی، جرمن، عربی ، اور اسپرانتو جیسی عالمی زبانوں میں نشریات پیش کی جاتی ہیں.ساری دنیا میں الیکڑانک میڈ یا لٹریچر اور عقلی و سائنسی دلائل کے ذریعے اسلام کے نام پر جتنا کام مرزائی اور قادیانی کر رہے ہیں اتنا ہم مسلمانوں نے سوچا بھی نہیں“.وائے افسوس متاع کارواں جاتا رہا اور کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا قرآن مجید ایک طبقے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں وهو كل على موله اينما يوجهه لآيَاتِ بخير (النحل: 76) جہاں بھی چلے جائیں خیر کی خبر لیکر نہیں آئیں گے یا کہیں بھی چلے جائیں ان کے بارے میں خیر کی خبر نہیں آئے گی.پچھلے دنوں عید میلادالنبی کے سلسلے میں اسلام آباد میں قومی سیرت کانفرنس منعقد ہوئی.صدر پاکستان جناب فاروق احمد خاں لغاری صدر مجلس تھے.مقررین نے آنحضور صلعم کی سیرت کو بیان کیا اور حاضرین یقیناً اس

Page 346

346 نورانی محفل میں بہت محظوظ ہورہے تھے کہ ایسے میں مذہبی امور وفاقی وزیر تعلیم بھی آنحضور صلی اینم کی سیرت پر مقالہ پڑھنے کے لیے تشریف لائے آگے کا حال اخبار کی زبانی سن لیجیے.کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں جس کی صدارت سید خورشید شاہ وزیر مذہبی امور کر رہے تھے علماء کرام نے مقالات کے دوران ہی خورشید شاہ کو درخواستیں پیش کرنا شروع کر دیں جس سے وزیر اعظم سیکرٹریٹ کا ہال کھلی صدر کچہری کا منظر پیش کرنے لگا اس موقعہ پر مندوبین میں سے آواز آئی کہ یہ سیرت کا نفرنس ہے یا کھلی کچہری...مملکت سردار فاروق احمد لغاری نے جو نہی اپنی تقریر ختم کر کے وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے ہال سے باہر آئے تو چند علماء نے انہیں درخواستیں پیش کرنا چاہیں تو صدر مملکت نے کہا کہ میں درخواستیں وصول نہیں کر رہا سیرت کا نفرنس میں آیا ہوں..قومی سیرت النبی کا نفرنس میں جب دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہوا تو علماء کھانے پر ٹوٹ پڑے جس سے ہوٹل والوں کی کئی پلیٹیں ٹوٹ گئیں اور کھانا کھانے کے دوران علماء مشائخ کے کپڑے بھی خراب ہو گئے.(روزنامہ خبریں 31 جولائی 1996 صفحہ 6 قومی سیرت النبی کانفرنس کی جھلکیاں) باب نمبر 12 تفسیری موشگافیاں اور

Page 347

347 میری مشکلات بقول مولا نا عبد الماجد دریا بادی ایڈیٹر صدق جدید قابل رشک ہے وہ احمدی یا قادیانی جس کا تمغہ امتیاز ہی خدمت قرآن یا قرآنی ترجموں کی طبع واشاعت کو سمجھ لیا جائے“.بقول مولوی عبد الرحیم اشرف مدير المنیر لائل پور: صدیق جدید 26 دسمبر 1961 ء ) ہر وہ چیز جو انسانیت کے لیے نفع رساں ہوا سے زمین پر قیام و بقا ہوتا ہے.قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جو ہر موجود ہیں ان میں اولین اہمیت اُس جدو جہد کو حاصل ہے کہ جو اسلام کے نام پر وہ غیر ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں.یہ لوگ قرآن کو غیر ملکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں.تثلیث کو باطل کرتے ہیں.سید المرسلین سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں.ان ممالک میں مساجد بنواتے ہیں اور جہاں کہیں ممکن ہو اسلام کو امن وسلامتی کے مذہب کی

Page 348

348 حیثیت سے پیش کرتے ہیں.غیر مسلم ممالک میں قرآنی تراجم اور اسلام تبلیغ کا کام صرف اصول ” نفع رسانی کی وجہ سے قادیانیت کے بقال اور وجود کا باعث ہی نہیں ہے ظاہری حیثیت سے بھی اس کی وجہ سے قادیانیوں کی ساکھ ہے ایک عبرت انگیز واقعہ خود ہمارے سامنے وقوع پذیر ہوا 1954 میں جب جسٹس منیر انکوائری کورٹ میں علم دور اسلامی مسائل سے دل بہلا رہے تھے اور تمام مسلم جماعتیں قادیانیوں کو غیر مسلم ثابت کرنے کی جد و جہد میں مصروف تھیں.قادیانی عین انھیں دنوں ڈچ اور بعض دوسری غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ قرآن مکمل کر چکے تھے اور انہوں نے انڈونیشیا کے صدر حکومت کے علاوہ گورنر جنرل پاکستان مسٹر غلام محمد اور جسٹس منیر کی خدمت میں یہ تراجم پیش کئے گویا وہ بزبان حال و قال کہہ رہے تھے کہ ہم ہیں وہ غیر مسلم اور خارج از ملت اسلامیہ جو اس وقت جبکہ آپ لوگوں ہمیں کا فرقرار دینے کے لیے پر تول رہے ہو غیر مسلمانوں کے سامنے قرآن اُن کی مادری زبان میں پیش کر رہے ہیں.“ المنیر لائل پور 2 مارچ 1956 ء صفحہ 10 ) بقول مولانا ارشد القادری ایڈیٹر جام نور جمشید پور بھارت : یورپ، ایشیا، امریکہ اور افریقہ کے جن ملکوں میں قادیانی جماعت نے اپنے تبلیغی مشن قائم کئے ہیں.جن کے ذریعہ وہ منظم طریقے پر بنام اسلام اپنے مذہب کا پیغام اجنبی دنیا تک پہنچارہے ہیں کام کی وسعت کا اندازہ لگانے کے لیے صرف ان کے نام پڑھیے: انگلینڈ.امریکہ.ماریشس - مشرقی افریقہ.مغربی نائیجیریا.انڈونیشیا.ملایا.اسپین.سوئٹزر لینڈ.ایران.فلسطین.ہالینڈ.جرمنی.جزائر غرب الہند سیلون.بور نیو.برما.شام _لبنان_مسقط پولینڈ.ہنگری.البانیہ.اٹلی.قادیانی جماعت کے تبلیغی سرگرمیوں اور دائرہ عمل کی وسعتوں کا اندازہ لگانے کے لیے صرف اتنا معلوم کرنا کافی ہوگا کہ دنیا کی چودہ اجنبی زبانوں میں انہوں نے قرآن کریم کے تراجم شائع کئے ہیں ان کی فہرست ملاحظہ فرمائیے: انگریزی.ڈچ.جرمنی سواحیلی.ہندی.گور لکھی.ملائی فمینسٹی.انڈونیشین.روسی.فرانسیسی.پرتگیزی.اطالوی.ہسپانوی “.نوٹ : یہ 1977ء کی بات ہے.بقول مولا نانیاز فتح پوری مدیر نگار لکھنو: ( جماعت اسلامی صفحہ 106 - 107 نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی لاہور )

Page 349

349 اس وقت مسلمانوں میں ان (احمدیوں) کو بیدین و کافر کہنے والے تو بہت ہیں لیکن مجھے تو آج تک ان مدعیان اسلام کی جماعتوں میں کوئی جماعت ایسی نظر نہیں آئی جو اپنی پاکیزہ.معاشرت.اپنے اسلامی رکھ رکھاؤ.اپنی تاب مقارمت اور خوئے صبر و استقامت میں احمدیوں کی خاک پا کو بھی پہنچتے ہوں“.(ماہنانہ نگار لکھنو ماہ جولائی 1960 ، صفحہ 117 تا 119 ) مشکل نمبر 42 اگر مولانا ارشد القادری کی رپورٹ کے مطابق جماعت احمدیہ نے 77ء میں چودہ زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا اور مصنف مذہب کا سرطان کے مطابق 1995ء میں 50 زبانوں میں (اب 70.ناقل ) قرآن مجید کا ترجمہ کر کے اس پوری دنیا میں پھیلا چکے ہیں.(صفحہ 174 مذہب کا سرطان ) اور پوری دنیا میں قرآن اور اسلام اور مساجد تعمیر کر رہے ہیں اور پھر بھی میرے علمائے دین عصر نے انہیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا اور ان کے تراجم قرآن کرنے والوں کو جیلوں کی کال کوٹھریوں میں بند کر دیا اور ان کی تفاسیر پر پابندی لگادی اور انکی قرآنی اشاعت یا قرآنی تبلیغ پر ملکی ریاست کے قانون میں مستقل دفعہ 298C بنا کر ان کے لیے جیل کے 3 سال کا پروانہ جاری فرما دیا تو اس کی وجہ ان کی تفاسیر کے وہ محاسن ہونگے جو قرآن واسلام کے خلاف ہونگے.یا وہ انداز تفسیر نہ ہوگا جو ہمارے مروجہ علماء دین فرما رہے ہیں.یا ان کی تفسیر خدا.رسول.قرآن اور فرشتوں پر گمراہ کن الزامات لگانے والی ہوگی.یا ان کی تفسیر انبیاء کی تنقیص شان کرنے والی ہوگی.یا ان کی تفسیر اپنے پیر فقیر حضرات کو خدائی میں شامل کرنے جیسے عقیدوں پر مشتمل ہوگی.لیکن دکھ اور اضطراب اور ظلم کی انتہاء تو تب ہوئی جب میں نے یہ جانا کہ قادیانی تفسیر کی بجائے خود ہمارے علمائے کرام کی تفاسیر مندرجہ بالا محاسن پر مشتمل ہیں.ہمارا ہر فرقہ دوسرے فرقے کی تفسیر کو خلاف اسلام ، اور خلاف عقل قرار دے کر اس کو بند کر دینے بلکہ اس کو جلا دینے کے احکامات جاری فرما رہا ہے.دوسری زبانوں میں تراجم کرنے کا مشکل کام ہم نے گوارا ہی نہیں کیا اور جو ایک دو تفاسیر علماء کرام نے لکھی ہیں اس پر ساون بادھوں کی بارش کی طرح الزامات کی بارش ہو رہی ہے.دیگر اقوام عالم میں تبلیغ اسلام سے پہلو تہی اور اس کے لیے تراجم قرآن مجید سے بے بہر گی اور علمائے حاضر کی

Page 350

350 تفسیر نویسی کے نام پر خدا رسول فرشتوں اور دوسرے عقائد کے متعلق عجیب وغریب من گھڑت داستانوں کی بھر مار یہ سب اذیت ناک خبریں میری انگلی مشکل بن گئیں.موجودہ قرآن ہی...خلفاء کا محرف و مبدل کیا ہوا ہے...مولانا مقبول حسین دہلوی آغاز ممتاز شیعہ عالم دین ممتاز حسین دہلوی کے ترجمہ سے کرتے ہیں.دہلوی صاحب کے اس ترجمہ کی 12 شیعہ مجتہدین نے تائید فرمائی ہے.مولانا سورہ یوسف کی تفسیر و ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ جب قرآن میں ظاہر اعراب لگائے گئے ہیں تو شراب خور خلفاء کی خاطر یغضرون کو عصروں سے بدل کر معنی کو زیر وزبر کیا گیا ہے یا مجہول کو معروف سے بدل کر لوگوں کے لیے انکے کرتوت کی معرفت آسان کر دی ہے.ہم اپنے امام کے حکم سے مجبور ہیں کہ جو یہ تغیر یہ لوگ کر دیں تو ہم اس کو اسی حال پر رہنے دو اور تغیر کرنے والے کا عذاب کم نہ کرو.ہاں جہاں تک ممکن ہو لوگوں کو اصل حال سے مطلع کردو.قرآن مجید کو اس کی اصلی حالت پر لانا جناب العصر علیہ السلام کا حق ہے اور اُسی کے وقت میں وہ حسب تنزیل تعالیٰ پڑھا جائے گا.“ (پارہ نمبر 12 سوره یوسف صفحه 479 قرآن مجید مترجم ناشر افتخار بک ڈپو کرش نکر لاہور ) (مندرجہ بالا حوالے کی اصل فوٹوسٹیٹ ماہنامہ خلافت راشدہ نے دسمبر 97 کے شمارے میں صفحہ 4 پر شائع کی) موجوده قرآن مجید میں تو کئی الفاظ غلط اعراب کے ساتھ ہیں.عالی جاہ نواب رضا خان عالی جاہ جناب نواب علی رضا خاں صاحب قزلباش سابقہ تعلقہ دار نواب گنج علی آبادی ضلع بہرائچ (اودھ ہند ) نے الف لام میم نامی اپنے رسالے میں قرآن مجید کی اعرابی اور تفسیری بزعم خود غلطیاں نکالی ہیں.جو ان کے خیال میں جمہور مسلمانوں میں آل محمد کی شان کم کرنے کے لیے کی ہیں صفحہ 4 پر فرماتے ہیں: ایک بڑی صاف اور آیہ مبین ملاحظہ ہو سلام علی ال یاسین...جہاں بہت سے اختلاف ہو سکتے ہیں وہاں یہ ان کا سین کا عجوبہ بھی ہے جس میں اگر الف پر کھڑا الف لگا دیا جائے اور لام کے جزم کوزیر میں تبدیل کر دیا جائے تو آل یاسین ہو کر املا بھی صحیح ہو جائے اور معنی میں تو وہ حسن پیدا ہو کہ دشمن آل محمد بھی ان کا کلمہ پڑھے.(صفحہ 4-7 مینجر کتب خانه مطبع یوسفی نسبت روڈ لاہور انصاف پریس لاہور ) قرآن مجید کے الفاظ کی یہ خدمت دیکھنے کے بعد ترجمہ و تفسیر کے میدان کی طرف قدم بڑھاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہاں کیا کیا سجود نیاز لٹائے جارہے ہیں.جو ہمارے چند تراجم ہیں وہ بھی غلطیوں سے پر ہیں جو چند ایک تراجم مارکیٹ میں دستیاب ہیں ان کے متعلق سرکاری طور پر اعلان کیا ہیں.روزنامہ نوائے وقت

Page 351

351 اپنی اشاعت 15 اپریل 1982ء میں نشاندہی کرتا ہے.علامہ سید محمد رضی نے صدر مملکت جنرل محمد ضیاء الحق کو بتایا کہ مارما ڈیوک پکھتال کے قرآن پاک کے انگریزی ترجمہ میں بہت سی غلطیاں ہیں.ان غلطیوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے.صدر سے ملاقات کے موقعہ پر ہالے پونہ.وفاقی وزیر خزانہ غلام اسحاق خاں اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیر مین تنزیل الرحمن بھی شامل تھے.انہوں نے صدر مملکت سے اپیل کی کہ قرآن پاک کانٹے سرے سے انگریزی ترجمہ کرنے کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں انگریزی.اور عربی کے ممتاز دانشور شامل ہوں.انگریزی کے مستند ترجمے سے غیر ملکی افراد کو خاص طور پر قرآن پاک کو سمجھنے میں مدد ملے گی.صدر پاکستان نے اس تجویز پر ہمدردی سے غور کا وعدہ کیا.اسی طرح سے عام لوگوں کے تراجم اور تفاسیر میں جو غلطیاں پائی جاتی ہیں ان کا اعتراف نوائے وقت یوں کرتا ہے.قرآن پاک کے تراجم کی غلطیوں کو دور کیا جائے.قاہرہ 30 جون (ا پ پ شیخ الازہر ڈاکٹر الرحمن بیصار جلد ہی ایک ادارہ قائم کریں گے جو قرآن پاک کے انگریزی تراجم اور تفاسیر کی تصحیح کرے گا.اس ادارہ میں ایسے افراد کام کریں گے جو انگریزی اور عربی دونوں زبانوں پر عبور رکھتے ہوں اور ساتھ ہی قرآن کی روح سے (نوائے وقت کیم جولا ئی 1981 ء ) واقف ہوں مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کی تفسیر خزائن العرفان جلادی جائے متحدہ عرب امارات کے علماء کرام ممتاز بریلوی عالم سیدمحمد نعیم الدین مراد آبادی کی تفسیر خزائن العرفان برصغیر پاک و ہند میں بریلوی گھروں کی زینت ہے مگر روزنامہ نوائے وقت کی خبر کے مطابق 6 مارچ 1982ء کو متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف اسلامی امور اور اوقاف نے بریلویوں کی اس تفسیر میں بے شمار غلطیوں اور بنیادی نوعیت کی غلطیوں کے بناء پر پابندی عائد کر دی ہے اور رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل محمد علی الحر کان کے دستخط سے مسلمانوں سے اپیل کی گئی ہے کہ اس کتاب کے تمام نسخے جلا دیئے جائیں.(نوائے وقت 7 مارچ 1982 ء ) احمد رضاخاں کے ترجمہ کے علاوہ تمام تراجم میں حرمت قرآن عصمت انبیاء اور وقار انسانیت کوٹھیس پہنچائی گئی ہے بلکہ قصداً تحریف کر کے خود بھی گمراہ ہوئے اور گمراہی کا دروازہ کھول دی...جوابا بر یلوی علماء کرام بریلوی حضرات کے نزدیک احمد رضا خاں امام اہلسنت اور مسجد دملت تھے آپ نے کنز الایمان کے نام سے

Page 352

352 ترجمه قرآن مجید بیان فرمایا ممتاز بریلوی عالم دین قاری رضائے المصطفیٰ اس ترجمے کے محاسن بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اعلیٰ حضرت کا ترجمہ قرآن مجید دیکھنے کے بعد جب ہم دنیا بھر کے تراجم پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت منکشف ہوکر سامنے آتی ہے کہ اکثر مترجمین قرآن کی نظر الفاظ قرآنی کی روح تک نہیں پہنچی اور ان کے ترجمہ سے قرآن کریم کا مفہوم ہی بدل گیا ہے بلکہ بعض مقامات پر تو سہواً یا قصداً ترجمے میں ان سے تحریف بھی ہوگئی ہے.یا لفظ بلفظ ترجمہ کرنے کے سبب حرمت قرآن عصمت انبیاء اور وقار انسانیت کو ٹھیس بھی پہنچی ہے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو حلال ٹھہرایا ہے ان تراجم کی بدولت وہ حرام قرار پا گئیں اور انہیں تراجم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ معاذ اللہ بعض امور کا رب العزت کو علم بھی نہیں ہوتا.اس قسم کا ترجمہ کر کے وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور مسلمانوں کے لیے گمراہی کا راستہ کھول دیا.( قرآن کے غلط تراجم کی نشاندہی صفحہ 4 شائع کردہ مکتبہ نوریہ رضویہ وکٹوریہ مارکیٹ سکھر) احمد رضا خاں کے ترجمہ میں تحریفات ہیں بلکہ جھوٹ بھرا ہوا ہے اس لیے جس کو نظر آئے جلا دے....سعودی مفتیان کرام سعودی عرب کے ممتاز عالم دین ومفتی جناب شیخ عبدالعزیز بن باز اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں.ہمیں بھی مختلف اداروں کی طرف سے اس مترجم کے نمونے موصول ہوئے ہیں.جن کی تحقیقات سے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اس میں تحریفات اور جھوٹ بھرا پڑا ہے.لہذا تمام متعلقہ اداروں کو یہ اطلاع کر دی جائے کہ جن مساجد میں اس کے نسخے ہیں یا کسی اور جگہ ہوں تو ان کو ضبط کر لیا جائے اور جلا دیا جائے.اتحاد بین المسلمین مصنفہ مولانا عبد الستار نیازی صفحہ 35 ناشر مکتبہ رضویہ لاہور ) ممتاز دیوبندی مولوی محمودالحسن کے ترجمہ میں آپ کو گنہگار بتایا گیاہے اور بھٹکتا دکھایا گیا ہے.بریلوی علماء دین پروفیسر ڈاکٹرمحمد مسعود پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج سکھر بریلوی حلقہ احباب میں ایک ممتاز دانشور ، مصنف محقق اور عالم دین کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں.آپ بریلوی ترجمہ قرآن پر پابندی اور دیو بندی ترجمہ کو سعودی عرب سے شائع کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.امام احمد رضا کی بات پھیلتی چلی گئی.معاندین اس سیلاب کے آگے باڑھ باندھتے رہے.امام احمد رضا کا ترجمہ قرآن کنز الایمان جب لاکھوں کی تعداد میں مشرق و مغرب میں پھیلنے لگا تو بڑی تشویش ہوئی.کوشش کی گئی الزام تراشیوں کا سہارا لیکر کم از کم عرب ملکوں میں اس پر پابندی لگوائی جائے اور بالاخر پابندی لگا دی گئی جبکہ

Page 353

353 ایسے مترجمین کے ترجموں پر پابندی نہ لگی جو قرآن کی اداوں کے راز دار نہ تھے.جو ترجمے کے مزاج سے واقف نہیں.1991ء کی بات ہے فقیر جب حج بیت اللہ شریف کی سعادت حاصل کر کے جدہ ائیر پورٹ سے کراچی روانہ ہور ہا تھا تو وہاں کی حکومت کی طرف سے تمام پاکستانی حاجیوں کو قرآن کریم کا تحفہ دیا گیا جو احتیاط سے رکھ لیا گیا.بعد میں کھول کر دیکھا تو یہ قرآن مترجم تھا مولوی محمود حسن دیوبندی کا ترجمہ اور مولوی شبیر احمد عثمانی کے تفسیر حواشی.یہ قرآن پاک شاہ فہد قرآن پر نٹنگ کمپلیکس مدینہ منورہ میں چھپا اور وزارت اوقاف سعودی عرب نے اس کو شائع کیا.اس ترجمے میں معاذ اللہ ثم معاذ اللہ حضور انور سلیم کوگنہگار بتایا ہے اور بھٹکتا دکھایا گیا ہے ایسے ترجمے کو اردو کا سب سے اچھا ترجمہ قرار دیا ہے“.پھر یہی نہیں کہ کنز الایمان پر پابندی لگوائی گئی بلکہ اس ترجمہ کے خلاف ایک فاضل کو لالچ دے کر کتاب لکھوائی گئی پھر اس کو شائع کیا گیا“.(البریلو نہ مصنفہ محمد عبد الحکیم شرف قادری صفحه 14 - 15 رضا دار الاشاعت 25 نشتر روڈ لاہور ) یہاں تک تو یہ بات مترجمین کے حوالے سے ایک دوسرے پر کرم فرمائیوں کی تھی جبکہ خود قرآن مجید فرقان حمید پر کیا ” کرم فرمائیاں ہوئی ہیں ان کی جھلک بھی دیکھنے کے لائق ہے.اللہ تعالیٰ.دعا.فریب اور دھوکہ دیتا ہے ان المنافقين يخادعون الله وبوخادعهم (پ 5 نساء 142 ) منافقین دغا بازی کرتے ہیں اللہ سے اور اللہ بھی ان کو دغا دے گا.(عاشق البی میرٹھی.شاہ عبد القادر صاحب.مولا نا محمود الحسن صاحب) اور اللہ فریب دینے والا ہے ان کو ( شاہ رفیع الدین صاحب ) ا خدا ان کو ہی دھوکہ دے رہا ہے (ڈپٹی نذیر احمد صاحب) اللہ انہیں دھو کہ میں ڈالنے والا ہے (فتح محمد صاحب جالندھری) کیا وہ ان کو فریب دے رہا ہے ( نواب وحید الزماں.حیرت دہلوی.سید فرمان علی شیعہ ) اللہ تعالیٰ ٹھٹھا کرتا ہے.جنسی کرتا ہے.دنگی کرتا ہے.بناتا ہے.ان کی ہنسی اڑاتا ہے.

Page 354

الله يستهزى بهم 354 (سوره البقره) اس آیت کا ترجمہ ڈپٹی نذیر احمد دیوبندی شیخ محمود الحسن.فتح محمد جالندھری عبدالماجد دریا بادی ، مرزا حیرت دہلوی نواب وحید الزماں سرسید احمد علی گڑھی اور حضرت شاہ رفیع الدین نے یہ کیا ہے.حمہ اللہ ان سے ٹھٹھا کرتا ہے اللہ ان سے ہنسی کرتا ہے حمید اللہ ان سے دلگی کرتا ہے حمید اللہ انہیں بناتا ہے حمد اللہ ان کی ہنسی اڑاتا ہے يضل به كثير أو يهدى به كثيرا ويسكرون ويسكر الله والله خير الماكرين اليوم ننسهم كما نشو القاء يومهم هذا ان الله لا يَسْتَجِي (البقرہ آیت 27) (انفال آیت 31) (اعراف 52) ولما يعلم الله الذين نسوا الله فَنَسِيَهُمُ مكرو ومكر الله والله خير الماء (بقره 27) (167) (توبه 67) ( آل عمران 55 ) ان آیات مبارکہ کا ترجمہ قرآن مجید مترجم وحشی ملک سراج الدین اینڈسٹر پبلشر لا ہور حمائل شریف مترجم ناشر نولکشور پریس لکھنو تفہیم القرآن اور تدبر قرآن میں درج ذیل ہیں.

Page 355

355 اللہ بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے.لا وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا ہے اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے.آج ہم انہیں اسی طرح بھلا دیں گے جس طرح وہ اس دن کی ملاقات کو بھولے ہے.حمید اللہ اس سے ہر گز نہیں شرماتا.حالانکہ ابھی تو اللہ نے دیکھا ہی نہیں.یہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا.اور مکر کیا ان کا فروں نے اور مکر کیا اللہ نے اور اللہ کا داوسب سے بہتر ہے.میرے مترجمین کرام کے یہ تراجم کہ نعوذ باللہ خدا مذاق کرتا ہے.لوگوں کو گمراہ کرتا ہے.چال چلتا ہے.داؤ کرتا ہے.دھوکہ دیتا ہے.بھول جاتا ہے.مکر کرتا ہے.اور شرم نہیں کرتا.اور خدا کو ابھی معلوم ہی نہیں یہ سب تراجم ہی ہیں جنہوں نے مخالف اسلام ہندووں اور عیسائیوں کو اسلامی خدا پر حملہ کا موقعہ فراہم کیا ہوا ہے.ملائکہ اللہ کے بارے میں قرآنی آیات کا حشر ایمانیات میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات پر ایمان لانے کے بعد ملائکۃ اللہ پر ایمان لانا بھی ایک ضروری اور بنیادی عقیدہ ہے فرشتوں کے بارے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لا يعصون الله ما امرهم ويَفْعَلُون مايؤمرون ( تحریم آیت 7 ) یعنی فرشتے اللہ تعالیٰ کی وہ پاک مخلوق ہیں جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں اور ان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی نہیں کرتے.مگر میرے علماء دین اور علماء دہر کے فرشتوں کے بارے میں عجیب وغریب عقائد میں مثلاً فرشتے بھی نافرمانی کر لیتے ہیں.فرشتے بھی نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں اور ابلیس تو پہلے فرشتہ تھا بلکہ فرشتوں کا سردار تھا.( تفسیر مراح لبید جز اول صفحه 463 از الشیخ محمد نوری سید العلماء حجاز ناشر دار الكتب العربيه الكبرى) جبکہ قصص الانبیاء میں لکھا ہے کہ ابلیس نے تو ساتوں آسمانوں پر ایک ہزار سال تک عبادت کی.پھر چھ لاکھ برس کھڑا ہو کر گریہ وزاری کرتا رہا.بعد ازاں بہشت میں ایک منبر نور کا رکھوا کر درس و تدریس اور وعظ ونصیحت کرتا رہا.اور جبرائیل و میکائیل اسرافیل و عزرائیل اور سب فرشتے اس منبر کے نیچے بیٹھ کر وعظ سنا کرتے تھے.ابلیس کا یہ سلسلہ تدریس وتعلیم بہشت میں ہزار برس تک جاری رہا.اورلکھا ہے کہ ایک دن اُس جہان کا اس جہان کے ہزار

Page 356

سال کے برابر ہے.356 (قصص الانبیاء صفحہ 13-14 ناشر ملک بشیر احمد تاجر کتب کشمیری بازار لاہور ) فرشتے شراب پی کر ز ناقل اور شرک کرنے لگ گئے اسی طرح قرآن کریم میں سورہ بقرہ آیت 103 میں ہاروت ماروت خدا تعالیٰ کے دوفرشتوں کے بارے میں احسن التفاسیر میں یہ عقیدہ درج ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے ملائکہ میں سے دو بڑے عابد فرشتے جن کا نام ہاروت ماروت تھا چھانٹے اور انسان کی سب خواہشیں ان میں پیدا کر کے کوفہ کی سرزمین پر جو ایک جگہ چاہ بابل ہے وہاں ان کو بھیجا اور وہاں وہ ایک عورت زہرہ نامی عورت کی محبت میں مبتلا ہو کر اس کے کہنے پر شراب پی گئے اور شراب...زنا کے علاوہ شرک اور قتل نفس کا گناہ بھی ان سے سرزد ہوا.اور ان گناہوں کی سزا میں قیامت تک ان پر طرح طرح کا عذاب نازل ہوتا رہے گا.(احسن التفاسیر جلد 1 صفحہ 108 - 109 مولفہ مولانا احمد حسن صاحب محدث دہلوی ناشر المكتبة السليفه ) ملائکہ فرضی وجود ہیں مندرجہ بالا مفسرین کرام کے الٹ بعض علماء کرام یہ تفسیر فرما رہے ہیں کہ فرشتوں کا وجود ہی نہیں ہے بلکہ ملائکہ فرضی اور وہمی وجود ہیں جن کا وجود ( سرسید مرحوم کے الفاظ میں برہان عقلی یا قرآن مجید اور احادیث نبوی سے ثابت نہیں.( مقالات سرسید حصہ سوم صفحہ 52 مرتبہ مولانا شیخ محمد اسماعیل پانی پتی ناشر ترقی ادب کلب روڈ لاہور ) قرآن مجید کے بارے میں آیات کا حشر وہ قرآن مجید جس کی محبت کے دعوے ہو رہے ہیں خود اس کے بارے میں افکار وخیالات“ بھی کافی حیرانگی کے باعث ہیں مثلاً ناسخ و منسوخ.قرآن مجید کی آیات کے بارے میں یہ ارشاد کہ ان میں سے بعض بعض کے متضاد ہیں اور باہم ان میں اختلاف پایا جاتا ہے ایسی متضاد آیات کی تعداد 5 سے پانچ سو تک ہے لبنان کے ایک ڈاکٹر صحبی صالح نے اپنی کتاب علوم القرآن میں اس پر مفصل بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ قائلین نسخ نے یہاں تک مبالغہ سے کام لیا ہے کہ عام آیات کو بھی منسوخات کے زمرہ میں شامل کر لیا ہے.ڈاکٹر محی قائلین نسخ کی بعض منسوخ آیات کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: اس میں شبہ نہیں کہ ایسی آیات کے نسخ کا تصور بھی بارگاہ ربانی میں گستاخی اور سوء ادب کا موجب ہے“.

Page 357

357 ( علوم القرآن اردو صفحہ 381 ناشر ملک برادز کارخانه بازار فیصل آباد 1966ء) دوستو میں حیران رہ گیا کہ جب میرے علم میں یہ بات آئی کہ ڈاکٹر صبحی جنہوں نے اس عقیدہ پر زبردست تنقید کی ہے نہ صرف خود بھی ناسخ و منسوخ کے پر جوش مبلغ ہیں بلکہ اس کتاب میں انہوں نے شکوہ کیا ہے کہ اگر چہ مفسرین نے بہت سی آیات بلا دلیل منسوخ قرار دی ہیں مگر بعض اہل اسلام محققین نے جلد بازی سے کام لیکر نسخ کا بالکل ہی انکار کیوں کر دیا ہے؟ بلکہ آپ نے ہمت کر کے نسخ قرآن کے منکرین کو مثل یہود ارشاد فرمایا ہے.قرآن مجید کی آیات بے جوڑ ہیں اور کوئی ترتیب نہیں ( علوم القرآن اردو صفحہ (381) قرآن مجید کی نظم کو خود خدا نے مثال کے طور پر پیش کیا ہے مگر میری بستی کے علماء دین جو قرآن مجید کے دیگر تراجم پر پابندیاں لگوانے میں Masters ہیں کیا ارشاد فرماتے ہیں.مولانا مودودی صاحب جن کو آپ کے مریدین نبض شناس رسول“ قرار دیتے ہیں فرماتے ہیں: و شخص جو قرآن میں تصنیفی ترتیب تلاش کرتا ہے اور وہاں اسے نہ پاکر کتاب کے صفحات میں بھنکنے لگتا ہے اس کی پریشانی کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ مطالعہ قرآن کے ان مبادی سے ناواقف ہوتا ہے وہ اس گمان کے ساتھ مطالعہ شروع کرتا ہے کہ وہ مذہب کے موضوع پر ایک کتاب پڑھنے چلا ہے.مذہب کا موضوع اور کتاب ان دونوں کا تصور اس کے ذہن میں وہی ہوتا ہے جو بالعموم مذہب اور کتاب کے متعلق ذہنوں میں پایا جاتا ہے مگر جب وہاں اسے اپنے ذہنی تصور سے بالکل ہی مختلف ایک چیز سے سابقہ پیش آتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس سے مانوس نہیں کر سکتا اور سر رشتہ مضمون ہاتھ نہ آنے کے باعث بین السطور یوں بھٹکنا شروع کر دیتا ہے جیسے وہ ایک اجنبی مسافر ہے جو کسی نئے شہر کی گلیوں میں کھو گیا ہے“.تفہیم القرآن بحوالہ الوہابیت صفحہ 140 - 141 ) قرآن کے تو بعض حصے چھپنے سے ہی رہ گئے ہیں قرآن مجید جس کی حفاظت کے لیے ہم اپنے تن دھن کو قربان کرنا جز والایمان سمجھتے ہیں میرے علماء کے نزدیک ابھی نامکمل ہے اور بہت سی آیات چھپنے سے ہی رہ گئی میں مگر حقیقت میں قرآن کا حصہ ہیں اور ان پر عمل کیا جائے گا جیسے آیت رجم اور شیعوں کے نزدیک ”سورہ علی شیعوں کے نزدیک اصل قرآن تو حضرت علی کے پاس تھا جو 40 پاروں کا تھا جو ان کی نسل میں بارھویں امام تک موجود رہا.اور بارھویں امام اس کو لیکر دنیا سے روپوش ہو گئے...اور اس موجودہ قرآن نہ صرف 10 پارے کم ہیں بلکہ بعض سورتوں کی آیات بھی کم ہیں اور بعض آیات

Page 358

358 میں تحریف و تغیر ہے.اور ترتیب آیات اور سورتوں میں بھی تبدیلی ہے.(ملاحظہ ہو تفسیر صافی جزء 22 صفحہ 411 تفسیر لوامع التنزیل جلد 4 صفحہ 15 تا 26 مصنفہ علامہ سید علی حائری ) قرآن کے بعض حصے انسانی سمجھ سے بالا ہیں پھر یہ عقیدہ کہ قرآن مجید کے بعض آیات اور بعض حصے انسانی سمجھ سے بالاتر ہیں مثلاً حروف مقطعات اور استوى على العرش اعراف 55 کی حقیقت و دیگر آیات چنانچه مودودی صاحب مقطعات کے بارے میں تفہیم القرآن میں مولانا محمود حسن صاحب شیخ الہند اور مولانا بشیر احمد عثمانی نے تفسیری نوٹسوں میں لکھا ہے کہ حروف مقطعات کے اصل معنی تک کسی کی رسائی نہیں بلکہ یہ بھید ہے اللہ اور رسول کے درمیان جو بوجہ مصلحت و حکمت ظاہر نہیں فرمایا.( ترجمه وحاشیه از مولانا محمود حسن صاحب مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب.مطبوعہ مدینہ پریس بجنور یو.پی انڈیا ) تفسیر کے نام پر تعجب انگیز افسانے اور خلاف عقل باتیں قرآن مجید واضح طور پر ارشاد فرماتا ہے کہ مرنے والے لوگ اس دنیا میں واپس تشریف نہیں لا ئیں گے اس طرح سرکار دو عالم کے واضح فرامین اور شہداء کے حوالے سے اس بات کی وضاحت کے باجود میری بستی کے علماء دین مردوں کو واپس اس دنیا میں لا رہے ہیں یا للعجب 1.سورہ بقرہ آیت 244،57 کی تفسیر میں یہ عقیدہ عام ہو گیا ہے کہ ہزار ہا نبی اسرائیل پر طاعون کی وبا مسلط ہوئی اور وہ ایک میدان میں سب کے سب مارے گئے.اور پھر حضرت حزقیل کی دعا سے سب دوبارہ زندہ ہو گئے.( تفسیر جلالین صفحہ 35 تفسیر حسینی 65 ) 2.سورہ بقرہ آیت 260 کی تفسیر میں یہ عقیدہ کہ حضرت عزیز نبی ایک سوسال تک فوت رہے اور پھر دوبارہ زندہ ہو گئے اور اس سوسال کے عرصہ تک ان کا گدھا بھی زندہ رہا.اور ان کا کھانا پینا بھی ہنوز تازہ رہا.( تفسیر جلالین صفحه 38 تفسیر حسینی (71 3.حضرت ابراہیم نے چار پرندے لئے ان کے سرتن سے جدا کئے اور دھڑ کا قیمہ کردیا اور پھر برابر گولے بنا کر ان پرندوں کے سروں پر رکھتے ہوئے چار مختلف پہاڑوں پر رکھا اور پھر ان کو بلایا تو وہ بھاگتے ہوئے آگئے.(زیر تفسیر بقره 261 تفسیر جلالین صفحه 39 تفسیر حسینی (72 4.بنی اسرائیل نے جب سبت کی نافرمانی کی تو انہیں جسمانی طور پر بندر بنا دیا اور سور بنا دیا.اور وہ تھے تو انسان مگران کی شکلیں بدل کر بندر اور سؤروں جیسی ہوگئیں.مودودی صاحب تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ( تفسیر حسینی صفحه 191 تفسیر جلالین صفحه 101 )

Page 359

359 د بعض اس کے معنی لیتے ہیں کہ ان میں بندروں کی سی صفات پیدا ہوگئی تھیں لیکن قرآن کریم کے الفاظ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سن اخلاقی نہیں بلکہ جسمانی تھا میرے نزدیک قرین قیاس یہی ہے“.5.سورہ اعراف آیت 74 کی تفسیر میں کہ حضرت صالح نے پہاڑ کے پتھروں سے اونٹنی نکالی اور اس نے اسی وقت بچ دیا اور اسی وقت وہ ماں کے برابر ہو گیا اور اس نے حضرت صالح کی نبوت کی شہادت دی.( تفسیر ترجمان القرآن جلد 5 صفحه 667 مطبع صدیقی لا ہورا تفسیر جلالین / تفسیر حسینی زیر آیت 74 سوره اعراف) 6.سورۃ النحل آیت 19 کی تفسیر میں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں چیونٹیاں مرغ اور بھیڑیئے کے برابر بڑی تھیں اور حضرت سلیمان ان سے کلام کرتے تھے.( تفسیر حسینی صفحہ 6-7 و تفسیر جلالین صفحه 316 حاشیہ کمالین) انبیائے کرام کے بارے میں آیات کا حشر خدا، فرشتوں اور اللہ کی کتابوں پر ایمان لانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام کا وجود باجود نظر آتا ہے.قرآن مجید میں تمام انبیاء علیہم السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصولی فیصلہ فرما دیا ہے کہ تمام ادوار میں اور تمام اقوام عالم میں آنے والے میرے انبیاء تمام کے تمام اوصاف حمیدہ.بلند اخلاق اور پاک کردار کے مالک وجود تھے اور سب کے سب واجب التعظیم اور واجب التسلیم ہیں اور ان انبیاء میں سے کسی ایک کی طرف بھی کسی قسم کی اخلاقی کمزوری.برائی یا عیب منسوب کرنا خلاف ایمان ہے جیسے فرمایا: وما ارسلنا من قبلك من رسول...عباد مكرمون لا يسبقونه بالقول وهم بامر يعملون (سورہ الانبیاء آیت 25 تا 27) مگر ظلم کے اندھیرے نے مجھے اس وقت وحشی سا کر دیا جب میرے علم میں یہ بات آئی کہ میرے مجاہد علماء دین اور عصمت انبیاء کے لیے کٹ مرنے کے اعلانات کرنے والے حضرات کن کن نظریات کی آبیاری فرمارہے ہیں.بھائیو! میرے مہمانوں سے شہوت سے باز آؤ بلکہ میری بیٹیاں لے جاؤ جائز شہوت کر لو مولانا مودودی صاحب حضرت لوط پر کس درجہ گھٹیا اور اخلاقی گراوٹ کا الزام لگاتے ہیں اُسے تو سوچ کر بھی شرم آتی ہے.آپ سورہ ہود کی آیت 79 قال يقوم هو لاي نباتی کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لوط نے ان سے کہا بھا ئیو یہ میری بیٹیاں موجود ہیں“ اور اس کی تشریح میں تفہیم القرآن میں لکھتے ہیں :

Page 360

360 یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کا اشارہ خود اپنی صاحبزادیوں کی طرف ہو حضرت لوط کا منشاء صاف طور پر یہ تھا کہ اپنی شہوت نفس کو اس فطری اور جائز طریقے سے پورا کر وجواللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اور اُس کے لیے عورتوں کی کمی نہیں.قرآن کریم کی دوسری آیت قال هؤلاء بناتى ان كنتم فاعلین کا ترجمہ یہ فرماتے ہیں لوط نے عاجز ہو کر کہا: اگر تم میں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ میری بیٹیاں موجود ہیں“.اور اس کی تفسیر میں گل افشانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ کلمات ایک شریف آدمی کی زبان پر ایسے وقت میں آئے جبکہ وہ بالکل تنگ آچکا تھا اور بدمعاش لوگ اس کی ساری فریاد و فغاں سے بے پرواہ ہو کر اس کے مہمانوں پر ٹوٹے پڑ رہے تھے.(تفہیم القرآن ) استغفر الله مربى من ذلك الخرافات.کیا اس سے بھی گھٹیا الزام کسی نبی اللہ پر لگ سکتا ہے؟ بالکل نہیں بالکل نہیں.یہ حرکت کسی نبی سے کجا.کسی شریف انسان سے تو کجا کسی بازاری انسان سے بھی متوقع نہیں.میری الجھن اور بڑھ جاتی ہے جب میں آپ کو مجاہد ختم نبوت، عالم دین حامی اسلام اور دشمنان اسلام کے خلاف سنگی تلوار جیسے القابات سے مزین قادیانیت کے خلاف صف اول میں کھڑا دیکھتا ہوں.کیا قادیانیوں کو ان عقائد میں واپس لوٹانے کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں.اگر جواب ہاں میں ہے تو میرا جواب یہی ہے کہ وہ اپنی منزل اپنے گھر میں ہی ٹھیک ہیں.حضرت داؤد کو ہمسائے کی بیوی پسند آگئی اسے جنگ میں بھیج کر شہید کروادیا اور خود اس سے شادی کر لی.پیغمبر کا یہ داغ خدا کو پسند نہ آیا تو جانچ ہوئی سورہ ص میں حضرت داود“ کا ذکر میں درج ذیل آیات کی تفسیر وهل اتل نبو الحضــم...ان له عندنالزلفى وحشن ماب موضع القرآن میں ان آیات کی تفسیر میں فرمایا گیا ہے کہ (آیت 21 تا 25 پاره 23 ) یہ جھگڑنے والے فرشتے تھے.پردے میں ان کو سنا گئے ماجرا انہیں کا.گھر میں 99 عورتیں تھیں ایک ہمسائے کی صورت پر نظر پڑ گئی چاہا کہ اس کو بھی گھر رکھیں اس کا خاوند موجود تھا انکے لشکر میں.ان کو تعین کیا تابوت سکینہ سے آگے جہاں بڑے مردانہ لوگ لڑائی میں بڑھتے تھے.وہ شہید ہوا پیچھے اس عورت کو نکاح کیا.اس میں کسی کا خون نہیں کیا.بے ناموسی نہیں کی مگر کسی کی چیز لے لی تدبیر سے.پیغمبروں کی ستھرائی والے کو اتنا بھی داغ عیب تھا.اُس

Page 361

پر چانچ ہوئی.361 ( به حاشیہ پارہ نمبر 23 سوره ص ) اے نبی اللہ خواہش نفس کے تحت ہونے والا قصور تمہیں زیب نہیں دیتا مودودی صاحب اگلی آیت 27 کی تفسیر میں اور ہی انکشافات فرماتے ہیں یاداودانا جعلنالخليفة فى الارض فاحكم بين الناس بالحق ولا تتبع الهوى“ ( سورہ ص آیت 27 اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت داود سے قصور تو ضرور ہوا تھا اور وہ کوئی ایسا قصور تھا جو نبیوں والے مقدمہ سے کسی طرح مماثلت رکھتا تھا“.اس سے یہ بات خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے کہ جو عل ان سے صادر ہوا تھا اس کے اندر خواہش نفس کا کچھ دخل نہ تھا.اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی تعلق تھا اور وہ کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا“.تفہیم القرآن زیر آیت 27 ص نوٹ نمبر 27-28 حضرت ایوب نے بے قصور بی بی کو 100 لکڑیاں مارنے کی قسم کھائی حضرت ایوب جیسے عظیم نبی کے بارے میں درج ہے کہ آپ ایک بے قصور عورت پر اتنا خفا ہو گئے کہ مارنے کی ٹھان لی.ص آیت 45 و خذ بيد لضعنا فاضرب به ولا تحنث علامہ محمود الحسن و علامہ شبیر احمد عثمانی اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حضرت ایوب نے حالت مرض میں کسی بات پر خفا ہو کر قسم کھائی کہ تندرست ہو گئے تو بی بی کوسولکڑیاں ماریں گے وہ بی بی اس حالت کی رفیق تھی اور چنداں قصور وار نہ تھی اللہ نے مہربانی فرما کر قسم سچا کرنے کے لیے ایک حیلہ ان کو بتلا دیا جو انہی کے لیے مخصوص تھا.حضرت ابراھیم نے تین جھوٹ بولے ( قرآن مجید مترجم ناشر ملک سراج الدین اینڈ سنز پبلشرز لا ہور ) تفاسیر کے اندر یہاں تک موجود ہے کہ حضرت ابراھیم نے تین جھوٹ بولے اور ان جھوٹوں کی تفاصیل درج کی گئیں ہیں.( تفسیر کمالین/ حاشیه جلالین صفحه 374 / ترمذی جلد 2 مطبع مجتبائی صفحہ 146

Page 362

362 حضرت ابراہیم نے تین بار شرک کیا مزید یہاں تک تفسیری ارشاد ہے کہ آپ نے ستارہ چاند اور سورج کود یکھ کر تین بار ہزار بی کہ کر تین بار شرک کیا ہے.حضرت یوسف نے 8 چوریاں کیں معالم التنزیل زیر تفسیر سوره انعام آیت 77) ان يشرق فقد سرق اخ له من قبل سوره یوسف آیت 78 کی تفسیر میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: حضرت یوسف نے 8 چوریاں کیں“ ( ترجمان القرآن جلد 5 صفحہ 788 مطبوعہ لا ہو + تفسیر جلالین صفحہ (193) حضرت یوسف نے زنا کے لیے عورت کا کمر بند کھولا اور خائن کی طرح بیٹھے حضرت یوسف کی ذات بابرکات کو جس طرح تختہ مشق ظلم بنایا گیا ہے وہ حیرتناک حد تک افسوسناک ہے.حیرت ہے جس ملک میں قادیانیوں کی آذان پر پابندی ہے اور تلاوت کلام پاک کرنے والے کو 295C کے تحت گرفتار کر لیا جاتا ہے کہ مومنوں کی دل آزاری ہوتی ہے وہاں حضرت یوسف پر مزے سے زنا کا الزام لگایا جارہا ہے اور اسے تفسیر قرآن کے نام پر گھروں اور مساجد کی زینت بنایا جارہا ہے.سوره یوسف آیت 35 ولقد هَمَّتْ به وهم بها کی تفسیر میں لکھا ہے کہ هل الهميان وجلس معها مجلس الخائن.یعنی حضرت یوسف عزیز مصر کی بیوی کے ساتھ خائن کی طرح بیٹھے اور اس عورت کا کمر بند کھولا.الیعاذ بالله ( تفسیر محمدی در منشور جلد 4 صفحه 13 / تفسیر خازن جلد 3 صفحہ 14 / ابن جریر جلد 12 صفحہ 109 تفسیر جلالین میں لکھا ہے.) قصدت منه الجماع وهم بها قصد ذلك یعنی عزیز مصر کی بیوی نے یوسف سے جماع کا قصد کیا اور اُس نے بھی اُس سے اس کا ارادہ کیا.العیاذ باللہ تفسیر جلالین صفحہ 189-190 - حضرت سلیمان ملکہ سبا پر عاشق ہو گئے تھے اور اس کی پنڈلیاں دیکھنے کے لیے بیت المال سے ہزار ہاروپیہ خرچ کر کے محل بنایا حضرت سلیمان کے بارے میں قرآن کریم کی آیت قیل لھا ادخلى الصریح نمل آیت 45 کی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ملکہ سبا پر عاشق ہو گئے اور اس کی پنڈلیوں پر بال دیکھنے کی خاطر ایک عالی شان محل

Page 363

363 تیار کروایا جس پر بیت المال کا لکھوکھا ہاروپیہ خرچ کیا اور ملکہ سبا کی مرضی کے خلاف اس کا تخت منگوایا.تفسیر جلالین میں مزید لکھا ہے کہ اس محل کی سطح سفید شفاف شیشہ کی تھی جس کے نیچے پانی جاری تھا اور اس میں ایک مچھلی بھی تھی اور حضرت سلیمان نے یہ حل صرف اس لیے بنایا کہ ملکہ سا بلقیس کے پاؤں دیکھیں کیونکہ شیاطین نے آپ کو خبر دی تھی کہ ملکہ سبا کے پاؤں گدھے کی طرح ہیں اور اس کی پنڈلیوں پر بہت سے بال ہیں.اس لیے آپ نے چاہا کہ اس کی پنڈلیاں دیکھیں.آگے لکھا ہے کہ جب بلقیس اس محل میں داخل ہوئی تو اس نے اسے گہرا پانی خیال کیا اور اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھایا تا کہ پاؤں پانی میں ڈالے تو حضرت سلیمان نے جو وہاں کھڑے تھے دیکھا کہ اس کی پنڈلیاں اور پاؤں دوسرے لوگوں کی نسبت بدر جہا خوبصورت ہیں اس پر آپ نے پکار کر کہا کہ انها صرح مسترد من قوامر سر کہ اے ملکہ سی حل توشیشوں کا بنا ہوا ہے.( تفسیر جلالین صفحه 319) حضرت سلیمان ایک انگوٹھی کے ذریعہ حکومت کرتے تھے ایک دن گم ہو کر مخرہ جن کو مل گئی تو اس نے آپ کا روپ دھار کر حکومت شروع کی اور چھ ماہ تک حضرت سلیمان کی بیوی سے بھی ہم صحبت ہوتا رہا ص آیت 35 کی تفسیر میں لکھا گیا ہے کہ حضرت سلیمان اپنی انگوٹھی کی وجہ سے حکومت کیا کرتے تھے وہ انگوٹھی مخرہ جن کے ہاتھ پڑ گئی.اس نے سلیمان کی شکل اختیار کر لی اور بادشاہ ہو گیا اور حضرت سلیمان محتاج ہو کر ایک ماہی گیر کے ہاں نوکر ہو گئے.بالاخر مخرہ جن نے وہ انگوٹھی دریا میں ڈال دی جسے ایک مچھلی نگل گئی اور وہ مچھلی ماہی گیر نے پکڑ کر حضرت سلیمان کو مزدوری میں دیدی.اور حضرت سلیمان دوبارہ بادشاہ ہو گئے اس درمیانی عرصہ میں حضرت سلیمان بادشاہ نہ رہے.مخرہ جن سلیمان بن کر ان کی بیوی سے ہم صحبت بھی ہوتا رہا.اور یہ بدکاری اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ نہ ماہواری میں چھوڑتانہ غسل کرتا.یہ حالت چھ ماہ تک رہی.العیاذ باللہ ( تفسیر حسینی / تفسیر خازن / تفسیر قادری تفسیر معالم التنزیل / تفسیر جلالین حاشیہ کمالین زیر آیت 35 سوره ص ) حضرت سلیمان گھوڑے دیکھتے رہے اور نماز نہ پڑھی پھر غصے میں آکر نوسویا 2 ہزار گھوڑوں کے سر قلم کر دیئے حضرت سلیمان کے بارے میں قرآن کریم کی آیت فطفق مسحا بالسوق ص 34 کی تفسیر میں ارشاد ہے کہ ایک روز حضرت سلیمان کی عصر کی نماز شاہی گھوڑوں کو دیکھنے میں جاتی رہی جس پر آپ نے غصہ کو فرو کرنے کے لیے یا کفارہ ادا کرنے کے لیے نو سو یا دو ہزار گھوڑوں کا سر قلم کر دیا.( تفسیر خازن صفحه 370 / تفسیر جلالین صفحه 380 )

Page 364

364 حضرت اور میں جنت سے نکال دئے گئے مگر وہ دھوکہ اور فریب سے دوبارہ اندر دوڑ گئے سوره مریم آیت 58 ورفعنه مكاناً علیا کی تفسیر میں ارشاد ہے کہ حضرت ادریس جنت سے نکال دیئے گئے تھے مگر آپ دھوکہ اور فریب سے دوبارہ داخل ہو گئے.حضرت آدم نے خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے شرک کیا ( تفسیر معالم التنزیل / تفسیر محمدی زیر آیت مریم 58) حضرت آدم اور حضرت حوا پر خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرنے اور شرک کا الزام لگایا گیا ہے کہ شیطانی وحی سے شرک کیا اور اپنے بچے کا نام عبد الحارث رکھا.( تفسیر جلالین زیر آیت 190-191 سوره اعراف/ معالم التنزیل عربی تفسیر حسینی فاری ( تفسیر قادری تفسیر محمد زير آيت هذا) حضرت شاہ رفیع الدین کے ترجمہ اور حضرت شاہ عبد القادر کے حواشی موضع القرآن مطبوعہ تاج کمپنی لاہور کی خصوصیات پر ایک نظر حضرت شاہ ولی اللہ کا خاندان برصغیر کا وہ واحد خاندان ہے جس کی حیثیت اہل سنت والجماعت بریلوی و دیو بندی و مقلدین وغیر مقلدین سب میں یکساں مقبول ہے.حضرت شاہ رفیع الدین کا ترجمہ اور حضرت شاہ عبد القادر کے حواشی بعنوان موضح القرآن آج کل پاکستان کے ہر گھر.ہر گاؤں پر شہر اور ہر مسجد میں موجود ہے.تاج کمپنی نے اسے خاص طور پر دیدہ زیب رنگوں میں شائع کیا ہوا ہے آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں.دیگر انبیاء کے متعلق حضرت نوح کو ڈانٹ کہ جاہل نہ بنو (سوره هو درکوع نمبر 4 پارہ نمبر 12 ) حضرت یوسف نے نوکری کے لیے درخواست دی (سوره یوسف رکوع نمبر 7 پارہ نمبر 13 ) حضرت موسیٰ بخشش مانگ اپنے گناہ کی ہلیہ حضرت سلیمان گھوڑوں پر ہاتھ پھرتے رہے اور عصر کی نماز ادا نہ کی حمد حضرت سلیمان نادم ہوئے انشاء اللہ نہ کہا خدا نے سزادی آدھا بیٹا پیدا ہوا ( سوره ص رکوع نمبر 3 پارہ نمبر 27) (سورہ مومن رکوع نمبر 6 پارہ نمبر 24) ( سوره ص رکوع نمبر 3 پارہ نمبر 27 )

Page 365

365 حضرت سلیمان نادم ہوئے انشاء اللہ نہ کہنے پر ( حاشیہ سورہ ص رکوع نمبر 3 پارہ نمبر 22) حضرت سلیمان نے کہا کہ میں نے مال کی محبت کو دوست رکھا خدا کی یاد کے بدلے حضرت ابراہیم نے خدا کی راہ میں جھوٹ بولا جس کا ثواب ہے عذاب نہیں ( حاشیہ ص رکوع نمبر 3 پارہ نمبر 22) (والصفت رکوع نمبر 3 پارہ نمبر 27) حضرت یونس ملامت میں پڑے ہوئے تھے (والصفت رکوع نمبر 5 پارہ نمبر 27) آنحضور راہ بھولے ہوئے تھے.نعوذ باللہ من ذلک (الضحی پارہ نمبر 30) مد بخش واسطے تیرے خدا جو کچھ ہوا تھا پہلے گناہوں سے تیرے اور جو کچھ پیچھے ہوا (سورہ محمد رکوع نمبر 1 پارہ نمبر 26) بخشش مانگ واسطے اپنے گناہ کے ( مخاطب آپ ہیں ) (سوره محمد رکوع نمبر 1 پارہ نمبر 26) حضرت خضر کی طرح حضرت اور میں بھی زندہ ہیں ( مریم رکوع نمبر 4 پارہ نمبر 16 ) حضرت یوسف زنا کے لیے تیار ہو گئے تھے ی خیال گناہ گناہ نہیں اگر گناہ ہے تو کم تر ہے فعل گناہ سے پیغمبر کو اللہ نے بچالیا (سوره یوسف رکوع نمبر 3 پارہ نمبر 12 ) (سوره یوسف رکوع نمبر 3 پارہ نمبر 12 ) لا حضرت موسیٰ نے گناہ کیا (سورۃ الشعرآء رکوع نمبر 2 پار نمبر 19 ) حضرت موسی گمراہ تھے حمد موسیٰ اپنے گناہ سے بخشش طلب کر (سورۃ الشعرآء رکوع نمبر 2 پارہ نمبر 19 ) (سوره مومن رکوع نمبر 6 پارہ نمبر 24)

Page 366

366 آنحضور صلی ستم کے بارے میں نظریات آپ پر عتاب باری تعالی ہوا.نعوذ بالله من ذلك سورہ احزاب آیت نمبر 38 و تخفى في نفسك ما الله مبدیہ مودودی صاحب فرماتے ہیں: علامہ آلوسی نے بھی تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ یہ عتاب ہے ترک اولی پر.اس حالت میں اولی یہ تھا کہ نبی کریم خاموش رہتے یا زید سے فرما دیتے کہ جو کچھ تم کرنا چاہتے ہو کر سکتے ہو.عتاب کا ماحصل یہ ہے کہ تم نے زید سے کیوں کہا کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑ و حالانکہ میں تمہیں پہلے بتا چکا ہوں کہ زنیب تمہاری بیویوں میں شامل ہوگی.تفہیم القرآن زیر آیت نمبر 38 سورہ احزاب ) آپ حضرت زید کی بیوی پر عاشق ہو گئے تھے اور دعائیں کرتے تھے کہ دل پھر جائے.نعوذ باللہ آمسد عليك زوجك واتق الله احزاب 38 کی تفسیر میں جلالین صفحہ 353 میں لکھا ہے کہ حضرت محمد ملی یا پیام حضرت زنیب پر عاشق ہو گئے تھے اور زنیب کی خوبصورتی دیکھ کر کہا یا مقلب القلوب کہ اے دلوں کو پھیرنے والے زنیب کے دل کو میری طرف پھیر دے“.تفسیر جامع البیان میں لکھا ہے کہ فوقع فی نفسہ حُبھا یعنی آنحضرت سلایا ہم اپنی پھوپھی زاد بہن زینب پر عاشق ہو گئے.العیاذ باللہ انہی حوالہ جات کی بناء پر ایک نومسلم انگریز مستشرق الحاج ابوبکر سراج الدین (MARTIN LINGS) نے اپنی کتاب’MUHAMMAD‘ صفحہ 212-213 پہلا ایڈیشن مطبوعہ 1983ء میں انتہائی توہین آمیز با تیں آپ کی طرف منسوب کی ہیں جن کو درج کرنا استطاعت قلم سے باہر ہے.مگر ظلم تو یہ ہے کہ ایسی دل آزار کتاب کے مصنف کو سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے بین الاقوامی سیرت کانفرنس 1983ء کے موقعہ پر 5 ہزار امریکن ڈالر کا انعام بھی دیا ہے.آپ سے ایسا فعل صادر ہوا جو آپ کے کرنے کا نہ تھا یعنی ایک غریب سے ترش روئی...نعوذ بالله من ذلك عبس وتولى أن جاء الا غمی 0 سورہ میں آیت 2 کی تفسیر کرتے ہوئے مودودی صاحب ارشاد فرماتے ہیں: ترش روئی اور بے رخی برتنے کا یہ فعل حضور سے ہی صادر ہوا.یہ ایسا کام تھا جو آپ کے کرنے کا نہ تھا.آپ کے اخلاق عالیہ کو جانے والا اسے یہ دیکھتا تو یہ خیال کرتا کہ یہ آپ نہیں ہیں بلکہ کوئی اور ہے جو اس رویے کا مرتکب ہو رہا ہے.جس نابینا کا یہاں ذکر کیا گیا ہے.اس سے مراد مشہور صحابی حضرت ابن ام مکتوم ہیں.آپ نے ان کو غریب یا کم حیثیت آدمی سمجھ کر اُن سے بے رخی برتی اور بڑے آدمیوں کی طرف توجہ دی“.

Page 367

367 تفہیم القرآن زیر آیت 2 سوره عبس ) اسی آیت کی تفسیر میں زبدۃ المفسرین علامہ محمود الحسن و علامہ شبیر احمد عثمانی رقم طراز ہیں: د یعنی پیغمبر نے ایک اندھے کے آنے پر چیں بجیں ہو کر منہ پھیر لیا حالانکہ اس کو اندھے کی معذوری.منکر حالی اور طالب صادق کا لحاظ زیادہ کرنا چاہیے حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں یہ کلام گو یا اور وں کے سامنے گلہ ہے رسول کا “.( عکسی قرآن مجید مترجم وشی زیر آیت 2 سورة عبس ) آپ کی زبان پر شیطان نے تسلط پالیا.العیاذ باللہ آپ کے بارے میں تفسیر جلالین صفحہ 282 میں لکھا ہے کہ آنحضرت سالی تم پر شیطانی وحی ہوئی آیت افرء يتم اللت والعزى ومنوة الثالثة الاخرى 0 سورہ نجم 20 - 21 پر پہنچے تو شیطان نے آپ کی زبان پر تسلط پا لیا اور کہلوایا تلك الغرانيق العلى وان شفاعتهن لشر تجی یعنی یہ بہت اونچا مقام رکھتے ہیں اور ان کی شفاعت قبول کئے جانے کے لائق ہے.(العیاذ بالله ثم العیاذ باللہ) آپ کی کوتاہیاں اور لغزشیں ہم نے بخش دیں.العیاذ باللہ مودودی صاحب ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تاخر فت 2 فرماتے ہیں: چونکہ روئے سخن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے اور یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ہر انگلی اور پچھلی کو تا ہی کو معاف فرما دیا ہے اس لیے عام الفاظ سے یہ مضمون بھی نکل آیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اُس کے رسول پاک کی تمام لغرشیں بخش دی گئیں.آپ نبوت سے قبل 40 سال گمراہ رہے.نعوذ باللہ من ذلک (تفہیم القرآن ) ووجد لـ ضالا فهدی (سورہ الضحی آیت 18 کے ترجمہ وتفسیر میں مفسرین کی گل آرایاں موجب حیرت ہی نہیں موجب دکھ بھی ہیں لکھتے ہیں کہ : آپ نبوت سے قبل چالیس سال تک ” گمراہ تھے کسی نے کہا راہ گم تھے اور کسی نے کہا آپ "جاہل" تھے.نعوذ باللہ من ذلک مودودی صاحب اس آیت کی تفسیر یوں فرماتے ہیں: ترجمہ تمہیں ناواقف راہ پایا اور ہدایت بخشی ( تفسیر جامع البیان تفسیر قادری زیر آیت سورہ الضحی آیت 8-9)

Page 368

368 تفسیر : ضال کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے اس کے ایک معنی گمراہی کے ہیں دوسرے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص راستہ نہ جانتا ہو اور ایک جگہ حیران کھڑا ہو کہ مختلف راستے جو سامنے ہیں ان میں سے کدھر جاؤں.ایک معنی کھوئے ہوئے کے ہیں.اس درخت کو بھی عربی میں ضالہ کہتے ہیں جو صحرا میں اکیلا کھڑا ہو ضائع ہونے پر بھی ضلال کا لفظ بولا جاتا ہے.غفلت میں بھی ضلال کا لفظ استعمال ہوتا ہے.ان مختلف معنوں میں سے پہلے معنی یہاں چسپاں نہیں ہوتے.البتہ باقی معنی کسی نہ کسی طور پر یہاں مراد ہو سکتے ہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ ایک ایک اعتبار سے سب مراد ہوں.(تفہیم القرآن) صحابہ کرام کے بارے میں نظریات غزوہ تبوک میں آپ اور صحابہ سے بھی لغزشیں ہوئیں سورۃ توبہ آیت 117 لقد تاب على النبي والمهجرين والانصار الذين اتبعوه في ساعة العسرة كا ترجمه اور تفسیر مودودی صاحب نے فرمایا ہے.ترجمہ: اللہ نے معاف کر دیا نبی کو اور ان مہاجرین اور انصار کو جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت نبی کا ساتھ دیا.تفسیر: یعنی غزوہ تبوک کے سلسلہ میں جو چھوٹی چھوٹی لغزشیں نبی سلایا یتیم اور آپ کے صحابہ سے ہو ئیں ان سب کو ان اعلی خدمات کا لحاظ کرتے ہوئے معاف فرما دیا نبی سلان میں سے جواغرشیں ہوئی تھیں ان کا ذکر سورہ تو بہ آیت 43 میں گزر چکا ہے یعنی کہ جن لوگوں نے استطاعت رکھنے کے باوجود جنگ سے پیچھے رہ جانے کی اجازت مانگی تھی آپ نے ان کو اجازت دے دی تھی.ازواج مطہرات کے بارے میں نظریات (تفہیم القرآن ) اے ازواج مطہرات تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں.کج ہو گئے ہیں سازشوں اور کاروائیوں سے باز آ جاؤ.نعوذ بالله من ذلک سوره تحریم آیت 5 ان تتوباً إلى الله فقد صَغَت قلوبكما وان تظهر علیہ کا ترجمہ کرتے ہوئے علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب فرماتے ہیں: اگر تم دونوں اسی طرح کی کاروائیاں اور مظاہرے کرتی رہیں، عکسی قرآن مجید مترجم محشی مولانا اشرف علی تھانوی صاحب بھی قریب قریب یہی ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اور اس طرح اگر پیغمبر کے مقابلے میں تم دونوں کا روائیاں کرتی ہیں جبکہ شاہ رفیع الد ین صاحب فرماتے ہیں :

Page 369

" سکج ہو گئے دل تمہارے“ 369 اس آیت کا ترجمہ حافظ نذیر احمد صاحب یہ فرماتے ہیں: سو پیغمبر کی دونوں بیبیو اس حرکت سے خدا کی جناب میں تو بہ کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے کیونکہ تم دونوں نے کجرائی اختیار کی ہے.اور اگر پیغمبر کے خلاف سازشیں کرو گی تو اس کا حامی و مددگار خدا ہے.جبکہ جماعت اسلامی کے بانی جناب مودودی صاحب ارشاد فرماتے ہیں کہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواتین رسول کریم صلی یا سیستم کی ازواج مطہرات میں سے ہیں.بعض دوسرے لوگ ہمارے اس ترجمہ کو سوء ادب خیال کرتے ہیں.تفهیم القرآن زیر آیت (هذا) تراجم اور اس حوالے سے علماء کرام کی بصیرت اور روشن مزاج تیز نگاہوں“ کی تفصیل بہت لمبی ہے مختصر طور پر خلاصہ میں ذکر کیا ہے جبکہ خود حاصل وصول میں میرے پاس الجھنوں کا ڈھیر لگ گیا ہے کہ جس ملک میں ہم قادیانیوں کے کلمہ پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں اسے ہتھوڑیوں سے توڑ رہے ہیں.جس ملک میں اذان پر پابندی لگوا رہے ہیں ہوسکتا اذان دینے والے کے دل میں کچھ اور خیالات ہو.جس ملک میں ترجمہ قرآن کرنے والوں کو کال کوٹھریوں میں بند کر رہے ہوں ہو سکتا ہے اس کے پیچھے کوئی اور سازش ہو وہاں یہ اعلانیہ اللہ رسول از واج مطہرات قرآن اور صحابہ کی کیا خدمات ہو رہی ہیں؟ یقیناً احمدی حضرات کا قرآن مجید کی مسلسل اشاعت اور ہماری ان پر پابندیاں اور خود ان تراجم کے لیے سرد مہری اصلی عاشقان اور اصلی مجاہدین کو الگ الگ کر کے دکھا رہی ہے.حضرت سلطان باہو جو صاحب کشف و حال بزرگ تھے شائد اسی پر در دصور تحال کو پیشگوئی کے رنگ میں یوں بیان فرما گئے تھے : جے کر دین علم وچ ہوندا تے سر نیزے کیوں چڑھدے ہو اٹھاراں ہزار جو عالم آہا اوہ اگے حسین دے مردے ہو جے کچھ ملاخطہ سرور دا کر دے تے خیمے تمبو کیوں سڑدے ہو جے کر مندے بیعت رسولی تاں پانی کیوں بند کردے ہو ہے صادق دین تساں دے باہو جو سر قربانی کردے ہو مولا نا عبدالخالق سبحانی صاحب نے 16 اپریل تا 13 اپریل 1988 ء کے ہفت روزہ احسان میں ایک طویل مضمون لکھا اور اس میں حکومت سے استدعا کی کہ قادیانیوں کے تراجم قرآن پر پابندی لگائی جائے نہ ان کی روزمرہ

Page 370

370 رہن سہن میں شناخت کے لیے مخصوص لباس مقرر کیا جائے کلمہ طیبہ پڑھنے سے روک دیا جائے اور ان کی مساجد پر سے کھرچ دیا جائے.ان سے ذمیوں والا سلوک کیا جائے وغیرہ وغیرہ.خود ہفت روزہ احسان نے ہی اگلے شمارے میں علماء کے اس رخ روشن کو اس طرح سے دیکھا.گذشتہ شمارے ( 16 اپریل تا 13 اپریل 1988 ء ) میں مولوی عبد الخالق سبحانی صاحب کا ایک مضمون فرقہ احمدیہ کے خلاف شائع ہوا تھا.کلمہ اور صدارتی آرڈیننس مولوی صاحب کو اعتراض ہے کہ فرقہ احمدیہ کے افراد کلمہ طیبہ کیوں پڑھتے ہیں.انہیں کلمہ پڑھنے سے روکا جائے.یہ صرف مسلمانوں کی پہچان ہے.اس طرح قادیانی لوگ صدارتی آرڈینس کی خلاف ورزی کے مرتکب ہور ہے ہیں.مولوی صاحب کے اس نکتہ بلیغ پر ہم نے بہت غور کیا.مگر ہماری ناقص عقل یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ اگر کوئی قادیانی کلمہ پڑھتا ہے یا اسے برکت کے طور پر اپنے مکان کی پیشانی یا اپنی عبادت گاہ پر کندہ کرتا ہے تو اس سے کون سی قیامت آجائے گی یا اسلام کو کون سا نقصان پہنچ جائے گا.رسول اقدس سالی یا ایم کی بعثت کی تو اصل غرض ہی یہ تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ کلمہ طیبہ پڑھیں.آپ فرقہ احمدیہ کے لوگوں کو کلمہ پڑھنے سے روک کر حضور اقدین کے مقدس مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں یا اسے نقصان پہنچارہے ہیں؟ اس پر غور کیجئے.اگر آپ کا مطالبہ یہ ہے که قادیانی حضرات لا إله إِلَّا الله محمد رسول اللہ نہ پڑھیں.یعنی یہ نہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے اور محمد سلیم اس کے رسول ہیں تو پھر کیا وہ یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر گز وحدہ لاشریک نہیں اور حضرت محمد مصطفیٰ ہرگز خدا کے رسول نہیں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعون.اس صورت میں قادیانی حضرات کے لیے ایک قانون بنانا پڑے گا جس کی رو سے ان پر اعلان کرنا واجب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے بہت سے معبود ہیں اور حضرت محمد مصطفی صلی ایستیم (نعوذ باللہ ) ہرگز خدا کے رسول نہیں تھے.انہیں مجبور کیجئے کہ وہ اعلان کریں کہ قرآن شریف خدا کا کلام نہیں نہ یہ آخری شریعت ہے.ان سے اقرار کروائیے کہ روزہ، نماز، حج ، زکوۃ یہ سب عقائد باطل ہیں کیونکہ ان سارے ارکان پر ایمان تو مسلمان کی پہچان ہے اور آپ کے مطالبے کی رُو سے مسلمانوں کے عقائد کوئی قادیانی اختیار نہیں کر سکتا.کیا آپ اس قسم کے قوانین بنوانے کی جرات کریں گے؟ اور کفر پھیلانے کا فریضہ انجام دیں گے؟ اگر ایسا نہیں کریں گے تو پھر ثابت ہو جائے گا کہ فرقہ احمدیہ کے افراد سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ کلمہ طیبہ استعمال نہ کریں بالفاظ دیگر خداوند تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور اقدس کی رسالت کا اقرار و اعلان نہ کریں ایک بے ہودہ اور سراسر غیر اسلامی مطالبہ ہے.بیت الخلاء پر کلمہ

Page 371

371 مولوی سبحانی صاحب شاعر بھی معلوم ہوتے ہیں.کہ تشبیہ پڑھ کر جواب ہم نقل کر رہے ہیں.شاعر تو اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیں گے.فرماتے ہیں کہ قادیانیوں کی عبادت گاہوں سے اگر کلمہ مٹایا جائے تو یہ لوگ شور بر پا کر دیتے ہیں کہ دیکھو کلمہ کی توہین کی گئی ہے.اس کے بعد مولوی صاحب گل افشانی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بیت الخلاء پر کلمہ لکھ دے تو کیا اس کا مٹانا تو ہین ہے؟ یہ تو عین کار ثواب ہے.بلا شبہ بیت الخلاء پر کلمہ لکھنا خباثت کی انتہا ہے.اور ایسی ناپاک جگہ سے کلمہ مٹادینا ہر مسلمان پر فرض ہے مگر کسی عبادت گاہ کو بیت الخلاء سے تشبیہ دینا ایک مومن کا کام نہیں ہو سکتا.مومن تو بہت بڑی بات ہے ایک ادنی ایمان کا حامل مسلمان بھی ایسی نا پاک تشبیہ ایک عبادت گاہ کے لئے استعمال نہیں کر سکتا.ہم مولوی صاحب سے دریافت کرتے ہیں کہ فرقہ احمدیہ کی عبادت گاہ میں کیا ہوتا ہے؟ جہاں تک ہمیں معلوم ہے سنت نبوی کے مطابق اذان دی جاتی ہے ( بلکہ دی جاتی تھی ) رسول اقدس صلی شما پیام کے طریقہ مبارک کے مطابق نماز ادا کی جاتی ہے.قرآن پڑھا جاتا ہے.رکوع و سجود کئے جاتے ہیں.مسنونہ دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسی عبادت گاہ جس میں خدائے واحد ذوالجلال کی عبادت کی جائے اور رسول اقدس کے مسنونہ طریقہ مبارک کے مطابق کی جائے اسے بیت الخلاء سے وہی شخص تشبیہ دے سکتا ہے جس کا دل خوف خدا اور عشق رسول سے بالکل خالی ہو چکا ہو جو ایمان سے تہی دامن ہو چکا ہو.افسوس کہ آپ جیسے مولوی اسلامی اخلاق تو بڑی بات ہے ادنی اخلاق سے بھی محروم ہو چکے ہیں کیونکہ ہم نے کسی ہندو، عیسائی، بدھ اور پاری کو بھی کسی عبادت گاہ کے بارہ میں ایسے ناپاک الفاظ استعمال کرتے دیکھا نہ سنا.اللہ آپ پر رحم فرمائے.اس طرز فکر کے لوگ ہلاکت کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں.کلمہ مٹانے پر مبارک باد مولوی سبحانی صاحب نے حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب دونوں کو ہدیہ تبریک پیش کیا ہے کہ راولپنڈی میں واقع فرقہ احمدیہ کی عبادت گاہ کی پیشانی پر سے کلمہ طیبہ توڑ توڑ کر مٹا دیا گیا.مولوی سبحانی صاحب کے خط کے ساتھ ہی ہمیں بھی یہ اطلاع ملی تھی کہ پولیس کی ایک جمعیت کی موجودگی اور اعلیٰ حکام کی نگرانی میں مری روڈ پر واقع فرقہ احمدیہ کی عبادت گاہ کی پیشانی پر جو کلمہ طیبہ سنگ مرمر پر کندہ تھا اسے ہتھوڑوں اور چھینیوں سے شہید کردیا گیا.یہ ظلم تو ہو گیا مگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ اللہ کے اسم مقدس پر چھینی رکھ کر ہتھوڑے کی ضرب لگائی گئی ہوگی اور اللہ کا پاک نام دوٹکڑے ہو کر زمین پر گرا ہو گا.پھر جب محمد (سالم) کے مقدس نام پر چھینی رکھ کر ہتھوڑے کی ضرب لگائی گئی ہوگی اور محمد کی میم کٹ کر زمین پر گری ہوگی تو کیا اس وقت عرشِ الہی لرز نہیں گیا ہو گا.ہمارے خیال میں تو کلمہ طیبہ کے ساتھ یہ سلوک کر کے خدا کے غضب کو دعوت دی گئی ہے.مت بھولو کہ اللہ تعالیٰ اپنے اور اپنے رسول کے نام کے لئے بڑی

Page 372

372 غیرت رکھتا ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے غضب میں دھیما بھی ہے.اُس نے ابو جہل کو گیارہ سال تک مہلت دی...قادیانی حضرات کے پاس جائیے اور انہیں پیار محبت اور نرمی سے تبلیغ کیجئے.کوئی ذی ہوش اور معقولیت پسند آدمی اس طرز عمل کی ہرگز مخالفت نہیں کرے گا مگر فرقہ احمدیہ کے خلاف شورش بر پا کرنا.ان کے افراد کو قتل کرنا.ان کے اموال کو تباہ کرنا، ان کی عبادت گاہوں پر حملے کرنا، ان کی پیشانیوں پر سے کلمہ طیبہ مٹانا انہیں سر بمہر کر دینا یہ سب فتنہ انگیزی کی باتیں ہیں.ان سے اسلام بدنام ہوگا.ملک میں افراتفری پیدا ہوگی.دشمن ہنسے گا اور پاکستان اس کے لئے نوالہ تربن جائے گا.“ ( 14 تا 21 اپریل 1988 ہفت روزہ احسان لاہور ) باب نمبر 13 فقہی گل فرازیاں

Page 373

373 اور ميرى مشكلات اگر بقول سید محمد از ہر شاہ دیوبندی فرزند مولانا انور کشمیری: قادیانیوں کی تنظیم.اپنی تبلیغ کے لیے ان کا ایثار اور مستعدی اور اپنے مشن کے لیے ان کی فدا کاری ایک مثالی چیز ہے.بقول مولا نانیاز فتح پوری مدیر نگارلکھنو: چٹان 17 فروری 1975 ء صفحہ 15 | اس وقت مسلمانوں میں ان (احمد یوں ) کو بے دین و کافر کہنے والے تو بہت ہیں لیکن مجھے تو آج ان مدعیان اسلام کی جماعتوں میں کوئی جماعت ایسی نظر نہیں آتی جو اپنی پاکیزہ معاشرت.اپنے اسلامی رکھ رکھاؤ اپنی تاب مقارمت اور خوئے صبر و استقامت میں احمدیوں کی خاک پا کو بھی پہنچی ہوائیں آتش نیرنگ نہ سوز و همه کس را یه امرمخفی نہیں کہ تحریک احمدیت کی تاریخ 1889ء سے شروع ہوتی ہے جس کو کم و بیش 70 سال سے زیادہ زمانہ نہیں گزرا

Page 374

374 لیکن اسی قلیل مدت میں اس نے اتنی وسعت اختیار کی کہ آج لاکھوں نفوس اس سے وابستہ نظر آتے ہیں اور دنیا کا کوئی دور دراز گوشہ ایسا نہیں جہاں یہ مردان خدا اسلام کی صحیح تعلیم انسانیت پرستی کی نشر و اشاعت میں مصروف نہ ہوں“.(ماہنامہ نگار لکھنو بابت ماہ جولائی 1960 ، صفحہ 117 تا 119 ) بقول مولانا یوسف بنوری ایڈیٹر البینات: قادیانی نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور کلمہ گو ہیں بلکہ انہوں نے اپنے نقطہ نظر کے مطابق ایک صدی سے بھی زیادہ مدت سے اپنے طریقے پر اسلام کی تبلیغ واشاعت کا جو کام خاص کر یورپ اور افریقی ممالک میں کیا اس سے باخبر حضرات واقف ہیں.اور خود ہندوستان میں جو تقریباً نصف صدی تک اپنے آپ مسلمان اور اسلام کا وکیل ثابت کرنے کے لیے عیسائیوں آریہ سماجیوں کا انہوں نے جس طرح مقابلہ کیا تحریری اور تقریری مناظرے کئے وہ بہت پرانی بات نہیں.پھر ان کلمہ ان کی اذان اور نماز وہی ہے جو عام امت مسلمہ کی ہے زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں ان کے فقہی مسائل قریب قریب وہی پیش ہیں جو عام مسلمانوں کے ہیں لیکن اثنا عشریہ (شیعہ) کا یہ حال ہے کہ ان کا کلمہ الگ ہے.ان کا وضو الگ ہے ان کی نماز اور اذان الگ ہے زکوۃ کے مسائل بھی الگ ہیں.نکاح اور طلوق وغیرہ کے مسائل بھی الگ ہیں حتی کہ موت کے بعد کفن دفن اور وراثت کے مسائل بھی الگ ہیں“.(ماہنامہ البینات کراچی جنوری فروری 1988 ء صفحہ ( 96 ) بقول حضرت پیر غلام فرید صاحب آف چاچڑاں شریف ”مرزا صاحب تمام اوقات خدا کی عبادت نماز یا تلاوت قرآن شریف میں گزارتے ہیں.اس نے دین کی حمایت میں کمر باندھی ہوئی ہے یہاں تک کہ اس دنیا کی ملکہ جو لندن میں رہتی ہے کو بھی دین محمدی سلیلا پیلم کی دعوت دی ہے اور روس فرانس وغیرہ کے بادشاہوں کو بھی اسلام کی دعوت دی ہے اور اس کی تمام محنت و کوشش یہی ہے کہ تثلیث اور صلیب کا عقیدہ مٹائے جو سراسر کفر ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرے.علماء وقت کو دیکھو کہ مذاہب باطلہ کو چھوڑ کر ایسے شخص کے درپے ہو گئے ہیں جو بڑا نیک مرد اور اہل سنت و جماعت سے ہے اور صراط مستقیم پر ہے اور ہدایت کی تلقین کرتا ہے اس پر کفر کا فتوی لگار ہے.اس کا عربی کلام دیکھو جس کا مقابلہ کرنا انسان کی طاقت سے باہر ہے اور اس کی تمام کلام حقائق و معرفت و ہدایت سے بھری ہوئی ہے اور وہ اہل سنت و جماعت کے عقائد اور ضروریات دین کا ہرگز منکر نہیں ہے“.ارشادات فریدی حصہ سوم صفحہ 69-70 مطبوعہ اگر 1320ھ بحوالہ حنفیت اور مرزائیت از عبد الغفور اثری صفحہ 48-49) بقول مشہور شیعہ ذاکر اور عالم دین عرفان حیدری: صرف قادیانیوں کے نام مسلمانوں جیسے نہیں ہوتے ان کا کلمہ بھی مسلمانوں جیسا ہوتا ہے

Page 375

375 حمد ان کی آذان بھی مسلمانوں جیسی ہوتی ہے حمد ان کا فقہ بھی وہی جو سارے مسلمانون کا اعظم فقہ ہے حمد ان کا طریق نماز بھی وہی ہے جو سارے مسلمانوں کا ہے ان کا روزہ کھولنے کا وقت بھی وہی ہے حمید ان کی نماز بھی ویسی جو سارے مسلمانوں کا طریقہ نماز ہے حمید ان کے قرآن پڑھنے کا انداز بھی وہی جو سارے مسلمانون کا انداز قرات ان کا روزے کھولنے کا وقت بھی ویسا.جو سارے مسلمانوں کا وقت ہے حمید ان کے ارکان حج بھی وہی جو سارے مسلمانوں کے ہیں حمد ان کا نصاب زکوۃ بھی وہی جو سارے مسلمانون کا ہے حمد ان کی توحید بھی وہی.ان کا لا اله الا اللہ بھی وہی جو سارے مسلمانوں کا حیح ان کا خدا بھی تخت پر بیٹھتا ہے حمد ان کا خدا بھی مسکراتا ہے ان کا خدا بھی روتا ہے تو جب مسئلہ یہ ہے کہ مرزا غلام احمد نے کوئی نئی فقہ نہیں دیا اسی فقہ پر چل رہا ہے وہ بھی مقلد ہے.وہی شریعت دے رہا ہے کوئی نئی شریعت نہیں لایا.وہی طریقہ نماز دے رہا کوئی نئی طریقہ نماز نہیں لایا.وہی قرآن پڑھ رہا ہے کوئی نیا قرآن لیکر نہیں آیا.اسی آیت سے استدلال کر رہا ہے جس سے تمام مسلمان خاتم النبیین کا استدلال کرتے ہیں.اسی سورۃ سے استدلال کرتا ہے ماکان محمد ابا احدا من رجالكم ولكن ا رسول الله وخاتم النبيين.مرزا غلام احمد یہی کہتا ہے کہ میں کب خاتم النبیین کا انکار کر رہا ہوں.میں تو تمہارے ہی بتائے ہوئے طریقوں سے استدلال کر رہا ہوں.ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اگر انگوٹھی ہیں اس انگوٹھی کا نگین ، خاتم میرا رسول ہے وہ میں بھی مانتا ہوں“ ( مولانا عرفان حیدری صاحب کی یہ ویڈیو تقریر بر موضوع "شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ ضروری ہے " you tube پر Qadiyani And Non Qadiyani with Allama Irfan Haider Abidi part1,2,3 presented by shiamajlis اس تقریر کو شبیر کیسٹ ہاؤس نے ریکارڈ کیا ہے ) اگر مندرجہ بالا علماء کرام کے نزدیک احمدی معاشرے کی یہ تصویر ہے اور وہ حامی دین ، خادم قرآن اور اہل سنت کے ہی عقائد اور ضروریات دین کے قائل ہیں اور شیعہ حضرات کی طرح ان کا کلمہ نماز روزہ الگ بھی نہیں بلکہ

Page 376

376 تمام فقہی مسائل اہل سنت والجماعت کے قریب ہیں.اور یہ یوں احمدی معاشرہ صبر واستقامت کی تصویر بنے قربانی کے جذبے سے سرشار ہو کر پوری دنیا میں خدمت دین اور خدمت قرآن میں مصروف ہے.اگر خدمت قرآن وحدیث و خدمت دین کے جذبے سے سرشار اس معاشرے کو بھی میرے علماء دین نے دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا تو یقینا اس معاشرے کے حسن میں کہیں کمی ہوگی.یعنی وہ کمیاں اور خرابیاں جو میرے علماء دین کی فقہی بصیرت سے پیدا شدہ معاشرے میں موجود نہیں ہونگی.یقیناً میرے معاشرے کے حلال و حرام ، صفائی و پاکیزگی اور روز مرہ کے معمولات کے بارے علماء کرام کی فقہی بصیرت قادیانی وہائٹ ہاؤس لندن مارکہ علماء کرام سے زیادہ ہوگی لیکن دوستو جب میں نے فقہہ کی دنیا میں قدم رکھا.حلال و حرام.صفائی و پاکیزگی کے مسائل کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو بے اختیار میرے دل سے یہ آواز آئی کہ پاکیزگی کے نام پر یہ فتاوی اگر نہ ہی دیئے جاتے تو شاید زیادہ پاکیزگی ہوتی.بریلوی علماء کرام کے نزدیک غیر مقلدین اور دیوبندی حضرات کی فقہی سوچ کیا ہے اور غیر مقلد علماء کرام کے نزد یک فقہ حنفیہ کے متبعین کی فقہی سوچ کیا کیا ہے.یہی جان کاری میری انگلی مشکل بن گئی ہے.مشکل نمبر 43 ہمارے اہل حدیث بھائی آئمہ اربعہ کی تو ہین جیسی گمراہی میں مبتلا ہو چکے ہیں...مولا نا داود غزنوی ممتاز غیر مقلد اہل حدیث عالم دین جناب مولانا محمد داود غزنوی اپنے ہی ہم مسلک بھائیوں کے غلو کو یوں دیکھتے ہیں.دوسرے لوگوں کی یہ شکایت کہ اہل حدیث حضرات آئمہ اربعہ کی توہین کرتے ہیں اور بلا وجہ نہیں ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے حلقہ میں عوام اس گمراہی میں مبتلا ہو رہے ہیں.( داود غزنوی صفحہ 88 بحوالہ چہرہ بے نقاب اہل حدیث واہل سنت از قاری محمد سعید صدیقی صفحہ 17 ناشر تحر یک اصلاح انسانیت پاکستان اشاعت اول جنوری 95 ء ملنے کا پتہ کتب خانہ رشیدیہ مدینہ مارکیٹ راولپنڈی) کچھ ہمارے اہل حدیث بھائی آئمہ مجتہدین کو گالی دیتے اور مقلد ہونا زانی شرابی سے بڑا گناہ سمجھتے ہیں.میاں نذیر حسین دہلوی غیر مقلدین کے شیخ الکل مولانا نذیر حسین دہلوی غیر مقلد بھائیوں کی مقلدین کے بارے میں مذہبی سوچ کو یوں دیکھتے ہیں : اس زمانے میں دوگروہ پیدا ہو چکے تھے کچھ تو آئمہ مجتہدین کو گالی دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم اپنے آپ کو شفی

Page 377

377 یا شافعی کہلا نا زنا کاری اور شراب نوشی سے بھی بڑا گناہ سمجھتے ہیں اور اپنے تئیں دعوی کرتے ہیں کہ ہم حدیث پر عمل کرتے ہیں.(فتاوی نذیر بحوالہ اہل حدیث و اہل سنت از قاری محمد سعید صدیقی صفحه 18 کچھ ہمارے اہل حدیث بھائی ریا کاری اور شہرت پسند ہیں.عوام مسلمانوں کے لیے سنگدل ہیں اور خود کو موحد اور انہیں بدعتی قرار دیتے ہیں.غیر مقلدین کے امام الطائفہ نواب صدیق حسن خاں بھوپالی ہیں : اس زمانہ میں ایک ریا کار اور شہرت پسند فرقہ نے جنم لیا جو ہر قسم کی خامیوں اور نقائص کے باوجود اپنے لئے قرآن وحدیث کے علم اور ان پر عامل ہونے کا دعویدار ہے.میں نے بار ہا انہیں آزمایا.پس میں نے ان میں سے کسی کو سلف صالحین اور مومنین کا طریقہ اپنائے ہوئے نہیں دیکھا.عوام مسلمانوں کی نسبت سنگدل پایا.یہ لوگ اپنے آپ کو موحد گردانتے اور اپنے سوا مسلمانوں کے سب مکاتب فکر کو مشرک اور بدعتی قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ لوگ سب سے زیادہ غالی اور قل شد دہیں........( الخطه فی ذکر الصحاح السته صفحه 151 تا 156 بحوالہ اہل حدیث واہل سنت از قاری محمد سعید صفحه 18 اہل حدیث پیسہ بٹورتے رہے اور تحفظ ابو بکر صدیق کی لڑائی روافض سے ہم نے لڑی....دیو بندی عالم دین 1995ء میں جہلم میں اہل حدیث مبلغ عبدالحمید عامر اور دیوبندی عالم دین قاری حبیب احمد عمر کے درمیان فقہی مسائل پر جنگ چھڑ گئی جو بہت طول پکڑ گئی.درمیان میں ڈنڈوں چاقووں سے مسلح جشن کی تفریح بھی ہوئی.بعد میں اسے تحریک اصلاح انسانیت پاکستان نے جوں ہے جیسا ہے“ کی بنیاد پر شائع فرما دیا.اس جنگ میں دیو بندی مبلغ قاری حبیب احمد عمر اپنے فقہی مسلک کی بین الاقوامی دفاعی لائن کے بارے میں فرماتے ہیں.روافض کی طرف سے جب ابو بکر و عمر وعثمان جیسے محدثین صحابہ پر تبرا بازی کا بازار گرم ہوا تو تحفظ ناموس صحابہ کی جنگ ہم نے لڑی.اور آپ غیر ملکی سرمایہ کاری میں مصروف رہے.منکرین حدیث کی طرف سے جب بخاری مسلم جیسے محدثین صحاح ستہ کی صحت ولقابت پر حملے ہوئے تو جیت حدیث کی جنگ ہم نے لڑکی اور آپ حدیث کے نام پر چندے بٹورتے رہے.اہل حدیث و اہل سنت صفحہ 19) غیر مقلد دین کے راہزن ہیں.حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجرمکی حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی جو اکابر دیو بند مولانا قاسم نانوتوی.رشید احمد گنگوہی ،اشرف علی

Page 378

378 تھانوی.وغیرہ کے ہم پیر و مرشد تھے غیر مقلدین کے بارے میں فرماتے ہیں.غیر مقلد لوگ دین کے راہزن ہیں ان کے اختلاط سے احتیاط کرنا چاہیے.غیر مقلد جاہل اور بیوقوف طبقہ ہے...مولانا قاسم نانوتوی (شمائم امدادیہ صفحہ 28 بحوالہ الوہابیت صفحہ 44) بانی مدرسہ دیوبند مولانا قاسم نانوتوی غیر مقلدین کو بیوقوف قرار دے کر فرماتے ہیں کہ کسی عالم کو غیر مقلد دیکھ کر جاہل اگر تقلید چھوڑ دے تو یوں کہو علم تھا یا نہ تھا عقل دین بھی دشمنوں کو ہی نصیب ہوئی اور جاہلوں کو جانے دیجئے“.( تصفیة العقائد صفحہ 35 مطبوعہ دیوبند کو الہ الوہابیت صفحہ 45 ) غیر مقلد بے باک فرقہ ہے...مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندی مولانا اشرف علی کے ملفوظات میں ہے کہ ایک صاحب نے عرض کیا یا حضرت یہ غیر مقلد بظاہر تو متبع سنت معلوم ہوتے ہیں فرما یا جی ہاں یہاں تک کہ سنت کے پیچھے پیچھے بعض فرائض تک کو بھی چھوڑ بیٹھتے ہیں.یہ ایسے مقتبع سنت ہیں.اکابر امت کی شان میں گستاخی کرنا کیا یہ فرض کا ترک نہیں؟ بہت ہی بے باک فرقہ ہے.(افاضات الیومیہ جلد 5 صفحہ 306-307 بحوالہ الوہابیت صفحہ 45-46 | شیطان غیر مقلد ہوکر کا فرد مرتد ہو گیا....مولا نا مرتضیٰ حسن دیوبندی دیو بندیوں کے مولوی مرتضی حسن اپنے اخبار ” العدل مجریہ 7 ستمبر 1927ء میں لکھتا ہے کہ قول خدا اور قول رسول حکم ہے اور حکم اور ہوتا ہے اور دلیل اور.اور آدم کو سجدہ کرو پر حکم اپنے نفس کے لیے دلیل نہیں ہوسکتا.جو اس حکم واجب التعمیل ہونے کے لیے دلیل ہے.وہ یہاں مذکور نہیں اس وجہ سے اس قول کو بلا دلیل تسلیم کرتا تو تقلید ہے.اور شیطان نے اس حکم کو بلا دلیل نہ ماناغیر مقلد ہوکر کا فر ومرتد ہو گیا“.العدل 7 ستمبر 1927ء بحوالہ فتاویٰ اہل حدیث صفحہ 90 بحوالہ الوہابیت صفحہ 46) غیر مقلد فاسق ہیں امام بنانا حرام ہے....مولوی رشید احمد گنگوہی مولوی گنگوہی صاحب فرماتے ہیں کہ جو غیر مقلدین حنفیہ کو مشرک کہتے ہیں اور تقلید شخص کو مشرک بتاتے ہیں بے شک فاسق ہیں.مکروہ تحریمہ ہے.اور دانستہ ان کو امام بنانا حرام ہے.(تذکرۃ الرشيد جلد اول بحوالہ الوہابیت صفحہ 47) غیر مقلد وہابی دغا باز ہیں، فریب کار، ایمان چھینے والے ہیں....مولانا حسین احمد مدنی

Page 379

379 مولا ناحسین احمد مدنی کے بارے میں اخبار الحدیث دہلی نے لکھی کہ حسین احمد مدنی وہابیوں کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی.وہ جھوٹے ہیں، دغا باز ہیں، فریب کار ہیں ، لوگوں کے ایمان چھینتے ہیں، انہیں بہکاتے ہیں.ان سے ہوشیار رہوار کبھی ان کے جال میں نہ پھنسو تم لوگ ان کی بات سنتے ہی کیوں ہوان کی مجلس میں جاتے ہی کیوں ہو“.(اخبار اہل حدیث دہلی صفحہ 5 یکم فروری 1957ء بحوالہ الوہابیت صفحہ 48) پیاک فرقہ غیر مقلدہ نے پیشوایان اسلام پر بہت زہر اگلا ہے.قاری خلیل احمد لکھنوی دیوبندی دیوبند حضرات کے قاری خلیل احمد غیر مقلدین کے بارے میں لکھتے ہیں: اس بے باک فرقہ غیر مقلدہ کے علماء نے پیشوایان اسلام پر بہت کچھ زہر اگلا ہے اور بہتان لگائے ہیں.میں سچ عرض کرتا ہوں اگر احکام شرعیہ کے اجراء کا زمانہ نہ ہوتا تو ان بے باک مولویوں پر حد افتراء قائم ہوتی جو (اہل سنت) سے جدا ہو کر نار میں گیا.یہودی کا ذبیحہ حلال جبکہ وہابی کا حرام....بریلوی اعلیٰ حضرت ( جلد التهديد على اظهر عدم التقليد بحوالہ الوہابیت صفحہ 50) بریلویوں کے اعلیٰ حضرت مولوی احمد رضا بریلوی صاحب فرماتے ہیں : یہودیوں کا ذبیحہ حلال ہے جبکہ نام البی عرب جلالہ لے کر ذبح کرے.وہابی دیوبندی وہابی غیر مقلد...ان سب کے ذبیحے محض نجس و مردار حرام قطعی ہیں.اگر چہ لاکھ بار نام الہی لیں.اور کیسے ہیمنتقی ، پرہیز گار بنتے ہوں کہ یہ سب مرتدین ہیں.(احکام شریعت حصہ اول صفحہ 122 بحوالہ حنفیت اور مرزائیت صفحہ 35) غیر مقلد جہنم کے کتے اور ہندوؤں سے بدتر ملعون....امام رضا خان بریلوی آپ مزید ارشاد فرماتے ہیں: غیر مقلدین جہنم کے کتے ہیں.وہابی ہندوؤں سے بھی زیادہ ملعون ہیں.جس کسی نے اہل حدیث کے پیچھے نماز پڑھی اس کے پیچھے نماز پڑھنا نا جائز ہے اور اس کا ناقل ہو جاتا ہے“.(فتاوی رضویہ جلد 6 صفحہ 13-90-121 بحوالہ تلاش منزل صفحہ 23 بحوالہ حنفیت اور مرزائیت صفحہ 35 ) مقلدین کی فقہ توحید میں ایسی ہی تربیع ہے جیسے تثلیث حضرت عیسیٰ کی توحید میں...غیر مقلد علماء بعنوان : مقلدین کی فقہ کا نگا فوٹو...غیر مقلدین کی نظر میں (سیف محمدی صفحه 5 - 11 )

Page 380

380 ( سیف محمدی صفحه 158 تا 171 شرم و حیاء ان کو تحریر کرنے سے مانع ہے ) مقلدین کی حنفی کتب کی قدر و قیمت غیر مقلدین کی نظر میں ( صفحه 149 تا158 شرم و حیاء ان کو تحریر کرنے سے مانع ہے) غیر مقلدین کے فقہ کی تصویر....مقلد علماء کی نظر میں ممتاز مقلد عالم دین جناب ضیاء اللہ قادری صاحب نے غیر مقلد اسلامی معاشرے کی مکمل تصویر اپنی مشہور تصنیف الوہابیت میں تفصیل سے تیار کی ہے.درج ذیل صرف عنوانات ہیں اصل ذائقہ کے لیے آپ خود سیر فرما ئیں.مرغوب غذا ئیں کے عنوان سے صفحہ 76 سے وادی غیر مقلدین کے اسلامی معاشرے کی تصویر شروع ہوتی ہے.چنانچہ درج ہے.(صرف عنوانات پیش ہیں ) 1.کتا خنزیر اور سانپ حلال ہیں.2.کافر کا ذبیحہ حلال ہے.3.بچھو کھانا مباح ہے، گوہ حلال ہے.4.جنگلی گدھا، کچھوا، کوکرا،گھونگا حلال ہے.5 منی پاک ہے، ہنی کھانا جائز ، کو کھانا ثواب ہے، گھوڑا گوہ اور زانیہ کا مال حلال ہے.(صفحه 77) (77) (صفحہ 78) (صفحہ 80) 6.بنک کا سود جائز ہے.(83-82) (صفحہ 85) 7.کتا کنویں میں گر جائے تو پانی پلید نہیں ہوتا، کتے کا پیشاب پاک ہے، خنزیر اور کتے کا جھوٹا پاک ہے.8.کتے کا گوشت ہڈیاں خون بال اور پسینہ پاک ہے ،خون خنزیر اور شراب پاک ہے.زیر عنوان وہابیوں کی تہذیب مولانا نے صفحہ 91 سے غیر مقلدین کی اسلامی تہذیب و ثقافت کی فقہی تصویر یہ اتاری ہے.(صفحہ 89) (صفحہ 90)

Page 381

381 1.متعہ جائز ہے.2.مشت زنی واجب ہے.3.چوتڑوں اور رانوں میں وطی کرنا، زنا کی اجازت.4.باپ بیٹے کی مشتر کہ عورت.5.ماں بہن اور بیٹی سے زنا کی اجازت.6.سسر کا بہو سے جماع کرنا.7.ساس سے جماع.(صفحہ 74) (صفحہ 95) (صفحه 96) (صفحه 97) (صفحہ 98) (صفحہ 99) (صفحہ 100 ) 8.بیٹی سے زنا ( یعنی اگر اس لڑکی کی ماں سے زنا کیا اور پھر یہ لڑکی پیدا ہوئی تو اس بیٹی سے زنا حرام نہیں).(صفحہ 102 ) 9 سنگی دادی اور سنگی نانی سے نکاح جائز ہے.(صفحہ 104 ) 10.بھانجے کی پوتی سے نکاح جائز ہے.(صفحہ 104 ) 11.سوتیلی ماں سے نکاح جائز ہے.12.سالی سے منکوحہ حرام نہیں ہوتی.13.عورت کو داڑھی والے کو دودھ پلانے کی اجازت ہے.(صفحه 107 ) (صفحه 107) (صفحہ 108 )

Page 382

382 14.چار عورتوں سے زائد بیویاں رکھنا جائز ہے.15.کچہری میں جھوٹ بولنا اور احیاء حق کے لیے جھوٹ بولنا درست ہے.زیر عنوان وہابیوں کی نماز صفحہ 147 سے مولانا قادری صاحب نے وہابی نماز کی بھی طائرانہ تصویرا تاری ہے جو پیش ہے.1.جانور سے وطی کے بعد غسل کی ضرورت نہیں.(صفحہ 117) (صفحہ 35) 2.عورت مردوں کی امامت کراسکتی ہے.3.نماز میں کتے کو اٹھا کر نماز پڑھنا.4- شرمگاہ پر کیچڑ لتھیڑ کر نماز پڑھنا.(صفحہ 156 ) (صفحہ 158 ) (صفحہ 158 ) (صفحہ 159 ) 5.وہابیوں کی نماز کا عجیب منظر ( منی اتر آئے نماز پڑھتے ہوئے تو وہ کپڑے کے اوپر سے عضو تناسل کو پکڑے رکھے) قرآن وسنت فرقوں کی ذیلی شریعتوں کی ماتحت (صفحہ 164 ) وطن عزیز میں پچھلے 50 سالوں سے مذہبی علماء زور وشور سے تحریک چلا رہے تھے کہ پاکستان میں شریعت نافذ کی جائے.شریعت نافذ کی جائے.شریعت اور فقہی مسلک کے امتزاج سے اس وقت انتہائی خوفناک صورتحال بن گئی جب سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف صاحب نے ہمت کر کے شریعت بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا.یہ بل وطن عزیز کی بڑی بڑی اسلامی جماعتوں کے تعاون سے تیار کیا گیا تھا مگر بل میں شریعت اور فقہی مسلک کو کس طرح اکاموڈیٹ کیا گیا وہ میری ایسی مشکل ہے جس کا حل دنیا کے کسی فرقے کے پاس نہیں سوائے امام مہدی کی فقہ اور فرقے کے.جناب اصغر علی گھرال نے اس حیرت انگیز صورتحال کو یوں قلم میں پرویا ہے.28 اگست کو وزیر اعظم میاں نواز شریف کی طرف سے ملک میں شریعت نافذ کرنے کا اعلان ہوا.آئین میں 15 ویں ترمیم اسمبلی میں پیش ہوگی جس پر ملک میں بحث جاری ہے.نئے نفاذ شریعت بل یا دستور میں

Page 383

383 پندرھویں ترمیم کی رو سے آرٹیکل 2.الف کے بعد حسب ذیل نیا آرٹیکل شامل کر دیا گیا.2.ب قرآن وسنت کی برتری (اس کے جزو (۱) میں مندرج ہے ) (۱) قرآن پاک اور پیغمبر پا می لی ایم کی سنت پاکستان کا اعلیٰ ترین قانون ہو گا.تشریح کسی مسلمان فرقے کے پرسنل لاء پر اس شق کے اطلاق میں قرآن وسنت کی عبادت کا مفہوم وہی ہوگا جو اس فرقے کی طرف سے توضیح شدہ قرآن وسنت کا ہے.میں اپنی گزارشات کے دستور کے مجوزہ آرٹیکل 2.ب کی شق (۱) تک محدود رکھوں گا.بڑے ادب کے ساتھ میرا پہلا سوال یہ ہے کہ یہ تشریح یعنی قرآن و سنت کے احکام کی تشریح کا یہ طریق کار قرآن پاک کی کس نص، حکم یا احکام سے ماخوذ ہے.یہ تشریح Propose کرتی ہے کہ اسلام کچھ فرقوں پر مشتمل ہے یا فرقے ، اسلام کا جزولاینفک ہیں اور ان سب کے اپنے اپنے پرسنل لاز ہیں.یعنی ان کی اپنی اپنی ذیلی شریعتیں ہیں جو یقینی طور پر ایک دوسرے سے مختلف بلکہ اکثر متضاد ہیں.اسی لئے ان کے درمیان جھگڑے رہتے ہیں اس تشریح کی رو سے احکام خداوندی کو پابند کیا جا رہا ہے کہ جب وہ ایک فرقے کے ہاں جائیں تو ان کا ایک مفہوم ہو اور دوسرے فرقے کے ہاں جا کر قرآن وسنت کے احکام کا مفہوم اس کی ذیلی شریعت کے مطابق دوسرا ہو.یوں نعوذ باللہ قرآن وسنت کے احکام کو فرقوں کی ذیلی شریعتوں کے تابع کر دیا گیا ہے.امت کو کاٹ ڈالا کافر بنا بنا کر اسلام ہے فقیہو! بہت ممنون احسان تمہارا جماعت احمدیہ سے ظالمانہ سلوک کر کے ہم اپنا تو کچھ بگاڑ سکتے ہیں ان کا نہیں.

Page 384

384 باب نمبر 14 فتوے سازیاں اور

Page 385

385 میری مشکلات کوئی لڑکی لے گیا، کوئی ایراں لے گیا کوئی دامن لے گیا، کوئی گریباں لے گیا نام رہ گیا تھا باقی ، اک فقط اسلام کا وہ بھی ہم سے چھین کر احمد رضا خاں لے گیا (مولانا ظفر علی خان ) اگر بقول درج ذیل علماء احمدی سچے مسلمان تھے 1864ء وہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے اور خدا کے خاص بندے تھے...از مولانا شمس العلماء میر حسن ( مکتوب 26 نومبر 1922 ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 136 ) 1880 ء مرزا صاحب ایسے مسلمان ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی عزت رکھ لی....مولوی محمد حسین بٹالوی اشاعۃ السنتہ جلد 7 نمبر 9 صفحہ 169-170 1880 ء مرزا صاحب عالم اسلام حامی دین اور نبوت عربی اور فرقان مجید کے مصدق ہیں.مولوی محمد شریف بنگلوری منشور محمدی بنگلور 25 رجب 1300ھ ) 1320ھ مرزا قادیانی بڑا نیک مرد کا مسلمان اور خدمت دین میں کمر بند ہے...حضرت غلام فرید آف چاچڑاں

Page 386

386 1892ء مرزا صاحب قال اللہ اور قال الرسول کی تابعداری کرنے والا شخص ہے...مولوی محبوب عالم (ایڈیٹر پیسہ اخبار 22 فروری 1892ء) 1896ء جلسہ مذاہب عالم میں اسلام کا وکیل مرزا غلام احمد قادیانی.”اسلام کا پہلوان مرزا صاحب کے لیکچر سے اسلام کو فتح نصیب ہوئی.جنرل و گوہر آصفی 24 جنوری 1897 ء ) 1899 مولوی غلام احمد قادیانی اسلام کا بہادر شیر مولوی ارشاد علی صاحب ناگپوری (رساله دست کاری امرتسر 18 جون 1899 ء ) 28 مئی 1908ء مرزا صاحب اسلام کا فتح نصیب جرنیل جس کی خدمات ہماری آنے والی نسلوں کو گراں با را حسان رکھیں گی...مولانا ابوالکلام آزاد اخبار وکیل 28 مئی 1908 ء ) 30 مئی 1908ء مرزا کچے پاکباز مسلمان اور حامی دین اسلام تھے....مولانا ابوالکلام آزاد ( اخبار وکیل 30 مئی 1908 ء ) یکم جون 1908 ء مرزا صاحب نے عیسائیت اور آریہ دھرم اور مخالفین اسلام کا منہ بند کرتے ہوئے خدمت اسلام کا حق ادا کردیا....مرزا حیرت دہلوی کرزن گزٹ یکم جون 1908 ء دہلی ) جون 1908ء مرزا صاحب اسلام کا بڑا پہلوان اور مخالفین اسلام کو دندان شکن جواب دینے والا تھا.اخبار صادق الاخبار ریواڑی جون 1908 بحوالہ تعمیذ الاذہان جلد 3 نمبر 10 صفحہ (382 1908 ء مرحوم مرزا صاحب مسلمان تھے اور کثیر مسلمانوں کے پیشوا تھے.اکتوبر 1921ء احمدی مسلمان ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں.11 نومبر 1922 ء صرف احمدی اسلام کی خدمت کر رہے ہیں.(اخبار البشیر اٹا وہ 2 جون 1908 ء ) (رساله صوفی اکتوبر 1921 ء ) | (روز نامہ پیسہ 11 نومبر 1922 ء ) | 24 جون 1923 ء مسلمانان جماعت احمد یہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں.(روز نامہ زمیندار 24 جون 1923 ء )

Page 387

387 15 مارچ 1923 ء جماعت احمد یہ خلوص سے تبلیغ اسلام کر رہی ہے.(روز نامه مشرق 15 مارچ 1923 گورکھپور ) 29 جون 1923ء احمدی اسلام کے دفاع میں جس طرح مورچہ زن ہیں اس کی مثال نہیں.(روزنامہ زمیندار 29 جون 1923 ء ) || 1925 ء احمدی مسلمان اور امت مسلمہ میں داخل ہیں....مولانا ابوالکلام آزاد ( بحوالہ اخبار دعوت اسلام دہلی جلد نمبر 2 شمارہ نمبر 41 مجریہ 17 شوال 1341ء ) جون 1926 ء احمدی مسلمان ہیں اور احمدیت اسلام کو تقویت دینے آئی ہے.مولانا عبد الحلیم شرر (رساله دلگد از جون 1926 ء ) نومبر 1925 ء احمدی مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ساری دنیا میں سرگرم...غازی محمود دهر پال (رسالہ حنیف نومبر 1925 ء ) 24 ستمبر 1927 ء احمدی مسلمان ہیں اور مرز امحمود جو خدمات مسلمانوں کی بہبودی کے لیے کر رہے ہیں کا ہم گزار ہیں...مولا نا محمد علی جوہر (24 ستمبر 1927ء ہمدرد ) 31 اگست 1927 ء مسلمانوں کی قابل قدر خدمات بجالانے والا اسلامی فرقہ یعنی فرقہ احمدیہ مولانا عبدالمجید سالک اخبار انقلاب 31 اگست 1927 ء ) 22 ستمبر 1927ء قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح کا مسلمان فرقہ یعنی فرقہ احمد یہ (اخبار مشرق 22 ستمبر 1927 ء گورکھپور ) 24 جنوری 1929ء جماعت احمدیہ مسلمان بلکہ قرون اولیٰ جیسے مسلمان...مولانا حکیم بر هم صاحب گورکھپوری (اخبار مشرق 24 جنوری 1929 صفحہ 4 1930 ء احمدی توحید کے قائل ہیں رسالت کے بھی صرف ایک حصے میں ہمارا اور ان کا فرق ہے.مولانا اشرف علی تھانوی سچی باتیں مصنفہ مولانا عبد الماجد دریا بادی صفحه 213 مرتبہ حکیم بلال احمد شائع کردہ نفیس اکیڈمی کراچی نمبر 1)

Page 388

388 24 اکتوبر 1930ء چوہدری سر ظفر اللہ خان مسلمان ہے خواجہ حسن نظامی 27 اگست 1931ء احمدی مسلمان ہیں اور امت محمدیہ کے فرد...مولوی محبوب عالم ( منادی 24 اکتوبر 1934 ء ) | پیسہ اخبار 27 اگست 1931 صفحہ 8 29 اکتوبر 1931 ء لندن کے احمد یو! برصغیر کے 40 کروڑ مسلمان آپ کے ساتھ اور بھائی ہیں.علامہ اقبال (روز نامه انقلاب لاہور 29 اکتوبر 1931 ) 1939ء ظفر اللہ خان مسلمان ہے بلکہ میرا بیٹا ہے قائد اعظم محد علی جناح ہماری جد و جہد مصنفہ عاشق حسین بٹالوی صفحه (76 1932 ء میں بھی مسلمان اور سر ظفر اللہ خان بھی مسلمان.....مولانا شوکت علی ( نامہ اعمال جلد اول صفحہ 616 اشرف پریس لاہور ) یکم جون 44 ء احمدی بھی مسلمان ہیں اور مسلم لیگ میں شامل ہو سکتے ہیں.فرمان قائد اعظم (روز نامه انقلاب یکم جون 44 ) 25 نومبر 1945ء احمدی ایسے مرتد نہیں کہ نفس کلمہ اسلام سے ہی الگ ہوں بلکہ یہ کلمہ گومرتد ہیں...مولانا شبیر احمد عثمانی (انوار عثمانی صفحه 142 مرتبہ پروفیسر محمد انوارالحسن انورشیر کوئی از دیوبند ) جنوری 1946 ء احمدی مسلمان ہیں اور باقی فرقوں کی طرح مسلمان فرقہ ہیں...مولوی محمد ابراہیم سیالکوٹی پیغام ہدایت در تائید پاکستان و مسلم لیگ صفحه 112 113 جنوری 1946 ء ) بقول مولا نانیاز فتح پوری صاحب مدیر نگار لکھنو میں نے جب آنکھ کھولی مسلمانوں کو باہم دست گریباں میں دیکھاسنی، شیعہ، اہل قرآن ، اہل حدیث، دیوبندی، غیر دیوبندی ، وہابی بدعتی اور خدا جانے کتنے ٹکڑے مسلمانوں کے ہو گئے.جن میں سے ہر ایک دوسرے کو کا فر کہتا تھا اور کوئی ایک شخص ایسا نہ تھا جس کے مسلمان ہونے پر سب کو اتفاق ہو.ایک طرف خود مسلمانوں کے اندر اختلاف اور تضاد کا یہ عالم تھا اور دوسری طرف آریائی و عیسوی جماعتوں کا حملہ اسلامی لٹریچر اور اکابر اسلام پر کہ اس زمانہ میں مرزا غلام احمد صاحب سامنے آئے اور انہوں نے تمام اختلافات سے بلند ہو کر دنیا کے سامنے اسلام کا وہ صحیح مفہوم پیش کیا جسے لوگوں نے بھلا دیا تھا یا غلط سمجھا تھا.یہاں نہ ابوبکر وعلی کا جھگڑا تھا نہ رفع یدین

Page 389

389 و آمین بالجبر کا اختلاف یہاں نہ عمل بالقرآن کی بحث تھی نہ استناد بالحدیث کی.اور نہ صرف ایک نظریہ سامنے تھا اور وہ یہ کہ اسلام نام ہے صرف اسوہ رسول کی پابندی کا.اور اس عملی زندگی کا.اس ایثار و قربانی کا.اس محبت و رافت کا.اس اخوت ہمدردی کا اور اس حرکت و عمل کا جو رسول اللہ کے کردار کی تنہا خصوصیت اور اسلام کی تنہا اساس و بنیا تھی.مرزا غلام احمد صاحب نے اسلام کی مدافعت کی اور اس وقت کی جب کوئی بڑے سے بڑا عالم دین بھی دشمنوں کے مقابلے میں آنے کی جرات نہ کر سکتا تھا.انہوں نے سوتے ہوئے مسلمانوں کو جگایا.اٹھایا اور چلایا یہاں تک کہ وہ چل پڑے.اور ایسا چل پڑے کہ آج روئے زمین کا کوئی گوشہ نہیں جو ان کے نشانات قدم سے خالی ہو اور جہاں وہ اسلام کی صحیح تعلیم نہ پیش کر رہے ہوں.(نگار اکتوبر 1960 ، صفحہ 44-45 اگر مندرجہ بالا تمام علماء کرام کے احمدی جماعت کو مسلمانوں کا ہی حصہ سمجھنے کے باوجود اگر جماعت احمدیہ کے سو سالوں میں آریہ سماج عیسائیوں اور ملحدین کے سامنے اپنے آپ کو وکیل اسلام بنا کر پیش کرنے کے باوجود اگر سینکڑوں زبانوں میں تراجم قرآن و حدیث کر کے پوری دنیا میں پھیلانے کے باوجود سینکڑوں نہیں ہزاروں مساجد تعمیر کرنے کے باوجود لاکھوں مشرکین ملحدین و نصاری کو کلمہ توحید پڑھانے کے باوجود افریقہ کے تاریک جنگلات اور پر تپش صحراؤں سے لیکر امریکہ و آسٹریلیا تک تبلیغ اسلام کے جھنڈے گاڑنے کے باوجود ح ہر محاذ پر خدمت اسلام کرنے کے باوجود 7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی سیاسی قومی اسمبلی میں قانون کے ذریعہ 72 فرقوں نے متفقہ طور پر احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا ہے تو یقیناً اس کی وجوہات ہوں گی.اور وہ یہ کہ باقی تمام فرقے جنہوں نے متفقہ طور پر احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ان کے اپنے عقائد عین اسلام قرآن اور شریعت کے مطابق ہوں گے.ا باقی تمام فرقے جنہوں نے احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا خود ایک دوسرے کے نزدیک مستند مسلمان ہوں گے.ا وہ اسمبلی جس نے احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا یقینا متقی پرہیز گار، قال اللہ اور قال الرسول

Page 390

390 پر عمل کرنے والے صاحب ایمان مستند مسلمان لوگوں کی ہوگی.لیکن حیرت اور دکھ کی انتہاء نہ رہی جب میرے علم میں یہ بات آئی کہ احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے والے ہر فرقے کا عقیدہ دوسرے فرقے کے نزدیک خلاف اسلام اور خلاف قرآن ہے.اسی طرح یہ 72 فرقوں کے نزدیک تقریباً باقی سب فرقے دائرہ اسلام سے خارج ہیں مگر سیاسی مصلحتوں کے تحت قانون صرف احمدیوں کے لیے بنایا گیا اور اس سے بھی بڑھ کر ظلم یہ کہ لاکھوں کروڑوں احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے والی اسمبلی چوروں ڈاکووں اور زانیوں پر مشتمل تھی چنانچہ صدر ضیاء صاحب کی حکومت کا وائٹ پیپر اس کا منہ بولتا ثبوت ہے.علماء دین کا سیاستدانوں کے ہاتھوں انجام دلوانے والا یہ فعل میری انگلی مشکل ہی نہیں در دسر بن گیا ہے.علماء کے علماء کے خلاف اور فرقوں کے دوسرے فرقوں کے خلاف فتاویٰ تکفیر کا یہ شغل آج سے نہیں صدیوں سے جاری ہے.اگر یہ مکروہ کھیل نہ ہوتا تو نواسہ رسول کو شہید کرنے کا کوئی یزید سوچ بھی نہ سکتا.ایک خونی کھیل کا آنکھوں دیکھا حال.مشکل نمبر 44 1.جماعت اسلامی کے کفر کے متعلق دوسرے علماء کا فتویٰ مولانا حسین مدنی لکھتے ہیں کہ مودودی صاحب اور ان کے اتباع کے اصول دین حنیف کی جڑوں پر کاری ضرب لگانے والے ہیں اور ان - ن کے ہوتے ہوئے دین اسلام کا مستقبل نہایت تاریک نظر آتا ہے.مولانا ابوالمظفر صاحب اپنے ٹریکٹ مودودیت اور مرزائیت میں لکھتے ہیں: (استفتاء ضروری نمبر 9) بلاریب و شک یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ مرزائیت کی طرح مودودیت بھی ایک نہایت خطرناک عظیم فتنہ ہے.جس کا فرو کرنا ہی ہر بہی خواہ اسلام کا اہم ترین فریضہ ہے.مولوی حامد علی خاں صاحب مفسر مدرسہ عالیہ رام پور لکھتے ہیں کہ وہ بالکل ایک نیا بدعتی فرقہ ہے اس کا انداز تبلیغ غلط اور گمراہ کن ہے.اور تفریق بین المسلمین کا باعث ہے.(استفتاء ضروری نمبر (23)

Page 391

391 دار العلوم دیو بند نے جماعت اسلامی کے خلاف ایک مفصل فتویٰ جاری فرمایا جس کی سرخیاں یہ تھیں.الف.سہارنپور سے مودودی فتنہ کو مٹا دو ب.مودودی تحریک مہلک اور زہر قاتل ہے ج.مودودی کے ہم خیال گمراہ ہیں د.مودودیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھو (حاشیہ مکتوبات شیخ الاسلام جلد 1 صفحہ 356) 2.جماعت اسلامی معتزلہ، روافض ، خوارج وغیرہ کی طرح نیا اسلام بنانا چاہتی ہے اہل اسلام ان کے لٹریچر سے دور ہیں.شیخ الاسلام حسین احمدمدنی دیوبندی دیو بندی شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا ابواللیث ندوی کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: آپ کی تحریک اسلامی خلاف سلف صالحین مثل معتزلہ، خوارج، روافض و غیره فرق قدیمہ اور مثل قادیانی چکڑالوی ،مشرقی ، نیچری ، مہدوی، بہائی وغیرہ فرق جدیدہ ایک نیا اسلام بنانا چاہتی ہے.اس لیے مناسب جانتا ہوں کہ کہ مسلمانوں کو اس تحریک سے علیحدہ رہنے اور مودودی صاحب کے لٹریچروں کے نہ دیکھنے کا مشورہ دوں.4.بریلوی کا فر.....دیوبندی فتویٰ (مکتوبات شیخ الاسلام جلد 2 صفحہ 377 ) جو شخص رسول اللہ صل الا سلام کے عالم الغیب ہونے کا معتقد ہے سادات حنفیہ کے نزدیک قطعا مشرک و کافر ہیں.(فتاوی رشید یه از رشید احمد گنگوہی صفحہ 62 ناشر محمد سعید اینڈ کمپنی قرآن محل مقابل مولوی مسافرخانه کراچی 5.شیعہ کافر....دیوبندی فتویٰ صرف مرتد اور کافر اور خارج از اسلام ہی نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن بھی اس درجہ کے ہیں کہ دوسرے فرق کم نکلیں گے مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے جمیع مراسم اسلامیہ ترک کرنا چاہیے خصوصاً مناکحت.نامور علماء دیوبند کا متفقہ فیصله درباره امداد شیعه اثنا عشریه ناشر مولوی محمد عبد الشکور لکھنو مطبوعہ 1348ھ) 6.اہل حدیث کا فر...دیوبندی فتوی ستر علماء دیوبند نے اپنے دستخطوں کے ساتھ اہل حدیث کے کفر کا فتویٰ دیا ہے اور لکھا ہے کہ ان سے

Page 392

392 میل جول رکھنا ان کو مساجد میں آنے دینا شرعاً ممنوع اور باعث خوف وفتنہ دین ہے.7.جماعت اسلامی کا فر.....دیوبندی فتوی (اشتہار مطبوعہ الیکٹرک ابولعلائی پریس آگرہ) دار العلوم دیوبند کی طرف سے جماعت اسلامی کے متعلق درج ذیل فتوی: یہ جماعت اپنے اسلاف ( یعنی مرزائیوں) سے بھی مسلمانوں کے دین کے لیے زیادہ ضرر رساں ہے“.(استفتائے ضروری صفحہ 37 ناشر محمد وحید اللہ خاں مطبوعہ مرتضیٰ پریس رام پور 1375ھ ) 8.دیوبندی کا فر.....بریلوی فتویٰ علمائے بریلی نے تمام علمائے دیوبند کے متعلق نام بنام یہ فتویٰ دیا ہے کہ: یہ قطعا کافر اور مرتد ہیں اور ان کا ارتداد کفر سخت اشد درجے تک پہنچ چکا ہے.ایسا کہ جوان مرتدوں اور کافروں کے ارتداد و کفر میں ذرا بھی شک کرے وہ بھی انہیں جیسا کا فر و مرتد ہے.9.دیو بندی کا فر مکہ مدینہ کے علماء کا فتویٰ پوسٹر علمائے بریلی بحوالہ روز نامہ آفاق 18 نومبر 1952ء) یہ سب کے سب مرتد ہیں باجماع امت اسلام سے خارج ہیں بے دینی و بد مذہبی کے خبیث سردار.ہر خبیث اور مفسد اور ہٹ دھرم سے بدتر ، فاجر جو اپنی گمراہی کے سبب قریب ہے کہ سب کا فروں سے مبینہ تر کافروں میں ہوں...عالموں فقیروں اور نیکوں کی وضع بنتے ہیں اور باطن ان کا خباثتوں سے بھرا ہوا ہے“.( حسام الحرمین صفحہ 73 تا 76 مصنف مولانا احمد رضا خاں صاحب مطبوعہ مطبع اہل سنت و الجماعت واقع بریلی) 10.دیو بندی اور وہابی دونوں کا فر...علمائے اہل سنت کا فتویٰ اس زمانہ میں اسلام کو جتنا نقصان صرف وہابیہ دیوبندیہ کے الگ گروہ نے پہنچایا ہے تمام باطل فرقے مجموعی طور پر بھی اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے.اسلام سے علیحدہ ہو جانے کے بعد بھی یہ فرقہ اپنے آپ کو سنی حنفی کے نام سے ظاہر کر رہا ہے اور ناواقف سنی حنفی بھائی اس وجہ سے دھو کہ کھا جاتے ہیں اور اپنا ہم خیال سمجھ کر خلا ملا ر کھنے کی وجہ سےان کے دام فریب میں پھنس جاتے ہیں“.11.دیوبندی سے شادی زنا.....بریلوی علماء کا فتویٰ مولانا احمد رضا خاں بریلوی فرماتے ہیں : اشتہار محمد ابراہیم بھاگلپوری مطبوعہ برقی پریس لکھنو )

Page 393

393 شادی بیاہت حرام اور قربت زنائے خالص ہے اور جنازے میں شرکت اور نماز جنازہ پڑھنا حرام بلکہ کفر ہے اور جنازہ کندھوں پر اٹھانا بھی حرام ہے.( عرفان شریعت حصہ دوم صفحه 38-39 نوری کتب خانہ بازاردا تا صاحب لاہور گلزار عالم پریس لاہور ) 12.بریلوی دجال، کتوں سے بدتر اور آنحضور من تم انہیں لعنت لعنت ڈالیں گے....دیو بندی فتویٰ رسول مقبول صلی الم و جال بریلوی اور اُن کے اتباع کو سُحقاً سُحقاً فرما کر اپنے حوض مورود اور شفاعت محمود سے کتوں سے بدتر کر کے دھتکار دیں گے.الشہاب الثاقب على المسترق الكاذب صفحہ (111 13.شیعہ سب بے ایمان ہیں اسلام سے دور حضرت سید عبدالقادر جیلانی" کا فتویٰ انہوں نے اسلام کو چھوڑ دیا ہے اور ایمان سے الگ ہو گئے ہیں.(غنیۃ الطالبین تالیف عبد القادر جیلانی صفحہ 218-220 مطبع حامی طوا ہورا کتوبر 1965 ء ) 14.شیعوں کو قتل کرنا ضروری ہے اسلام کی سربلندی کے لیے.مکان تباہ مال لوٹ لو...علاء اور انہر کا فتوئی بادشاہ اسلام بلکہ تمام انسانوں پر ان کا قتل کرنا اور ان کو مٹادینا دین حق کی سربلندی کے لیے لازمی ہے اور ان کے مکانوں کو تباہ کرنا اور مال و اسباب کو لوٹ لینا جائز ہے“.رڈ روافض صفحه 18 مشمولہ مکتوبات امام ربانی جلد سوم مطبع نامی منشی نول کشور لکھنو ) 15.شیعہ کافر شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کا فتویٰ فرقہ امامیہ حضرت صدیق اکبر کی خلافت کے منکر ہیں اور کتب فقہ میں لکھا ہے کہ جو صدیق اکبر کی خلافت کا انکار کرے گا وہ اجماع قطعی کا منکر اور کافر ہو گا.( مجموعہ فتاوی عزیزی صفحه 191 ناشر مولوی محمد عبد الاحد مطبع مجتبائی دہلی) 16 سٹی کا فرالہذا ان سے نکاح جائز نہیں.شیعہ فتویٰ i.شیعہ سنی کا نکاح جائز نہیں“ ( الفرع من الجامع الکافی جلد 1 صفحہ 142 کتاب النکاح مولفہ ابو جعفر محمد بن یعقوب ) ii.نزدیک محققین کے حرام ہے عقلا مومنہ شیعہ کا مردسنی سے“ (تحفۃ العوام صفحہ 273 بار چهارم مرتبہ سید تصدق حسین مطبع نامی منشی نول کشور لکھنو 1897 ء ) 17.اے خدا تو اس سنی کے پیٹ میں آگ بھر دے...شیعہ فتویٰ اگر کسی شیعہ کو مجبوراً کسی سنی کا جنازہ پڑھنا پڑ جائے تو دعا کرے کہ

Page 394

394 ترجمہ: ”اے خدا اس کے پیٹ میں آگ بھر دے اور اس کی قبر میں آگ بھر دے اور اس پر عذاب کے سانپ اور بچھو مسلط فرما “ فروع الکافی کتاب الجنائز جلد اول ص (100 18.شیعہ سے نکاح زنا اور فواحش ہے میل جول بند کرو...دیوبندی فتویٰ ناظم شعبہ تعلیمات دارالعلوم دیو بند محمد مرتضی حسن کے نزدیک شیعوں سے جمیع مراسم اسلامیہ ترک کرنا چاہیے بالخصوص مناکحت کیونکہ اس میں خود یا دوسروں کو نا اور فواحش میں مبتلا کرنا ہے.علمائے کرام کا متفقہ فتوی در باب ارتداد شیعہ اثنا عشریہ نا شرمولوی محمدعبدالشکور مدیر انجم لکھنو 1929 ء ) 19.دیوبندی کا فر، مرتد، بدعتی بد مذہب، ان سے دور بھا گو، ان کو گالیاں دو اور ان سے بغض عین قرآن کے مطابق فرض، شادی ان سے زنا، جنازہ پڑھنا حرام مسلمانوں کے قبرستانون میں دفن کرنا حرام...بریلوی فتویٰ جب علمائے حرمین طیبین زادهما الله شرفا وتکریما نانوتوی و گنگوہی، تھانوی کی نسبت نام بنام کفر کی تصریح فرما چکے ہیں کہ یہ کفار مرتدین ہیں اور یہ کہ من شک فی کفره و عذابه فقد کفر نہ کہ اس کو پیشوا و سرتاج اہل سنت جاننا بلاشبہ جو ایسا جانے ہرگز ہرگز صرف بدعتی و بد مذہب نہیں قطعاً کافر و مرتد ہے اور اس سے دور بھاگنا اور اسے اپنے سے دور رکھنا.اس سے بغض اس کی اہانت اس کا رد فرض ہے اور تو قیر حرام اور ہدم اسلام اسے سلام کرنا حرام.اس کے پاس بیٹھنا حرام اس کے ساتھ کھانا پینا حرام.اس کے ساتھ شادی بیاہت حرام اور قربت زنائے خالص اور بیمار پڑے تو اسے پوچھنے جانا حرام.مرجائے تو اس کے جنازے میں شرکت اسے مسلمان کا ساغسل و کفن دینا حرام.اس پر نماز جنازہ پڑھنا حرام بلکہ کفر.اس کا جنازہ کندھوں پر اٹھانا حرام.اس کے جنازہ کی مشایعت حرام.اسے مسلمانوں کے مقابر میں دفن کرانا حرام اس قبر پر کھڑا ہونا حرام اس کے لیے دعائے مغفرت یا ایصال ثواب حرام بلکہ کفر.فقیر احمد رضا قادری عفی اللہ عنہ.مہر عبدالمصطفی احمد رضا خان محمدی سنی حنفی قادری عرفان شریعت حصہ دوم صفحه 39-39 نوری کتب خانه بازار داتا صاحب لاہور گلزار عالم پریس لاہور ) 20.غیر مقلد کافر مرتد قتل کر دو.توبہ کر لے تب بھی قتل کر دو.علماء ان کے قتل کے جلدی فتویٰ دیں.لیٹ ہونے پر وہ بھی مرتد ہو جائیں گے....مقلدین کا فتویٰ تقلید کو حرام اور مقلدین کو مشرک کہنے والا شرعاً کافر بلکہ مرتد ہوا اور احکام اہل اسلام کو لازم ہے کہ اُسے قتل کریں اور عذرداری اس کی بائیں وجہ کو مجھ کو اس کا علم نہیں تھا شرعاً قابل پذیرائی نہیں.بلکہ بعد تو بہ کے بھی اس کو مارنا

Page 395

395 لازم ہے.یعنی اگر چہ تو بہ کرنے سے مسلمان ہو جاتا ہے لیکن ایسے شخص کے لیے شرعا یہی سزا ہے کہ اس کو حکام اہل اسلام قتل کر ڈالیں یعنی حد زنا تو بہ کرنے سے ساقط نہیں ہوتی اسی طرح یہ حد بھی تائب ہونے سے دور نہیں ہوتی.اور علماء اور مفتیانِ وقت پر لازم ہے کہ بجر دو مسموع ہونے ایسے امر کے کفر وارتداد دینے میں تردد نہ کریں ورنہ زمرہ مرتدین میں یہ بھی داخل ہوں گے.“ انتظام المساجد باخراج اہل الفتن والمکاسد والمفاسد صفحہ 5-7 مطبوع جعفری پریس لاہور مصنفہ مولوی محمد بن مولوی عبدالقادر لدھیانوی) 21.وہابی مسجدی کا فرمحمد مسلمان نہیں بلکہ اپنے ہی پیغمبروں کے قول کے مطابق اسلام سے خارج...اہل سنت کا فتویٰ غیر مقلدین تو مسلمان ہی نہیں ہیں بلکہ مرتد ہیں.یہ غیر مقلدین وہابی مجدی خود اپنے ہی پیغمبروں کے قول کے مطابق اسلام سے خارج ہیں پس ان کے پیچھے نماز پڑھنا قطعاً حرام ہے.الغرض یہ مقلدین ملحدین کسی طرح مسلمان نہیں ہو سکتے“.(ارتدادا لو بابين في جواب اہل الذكرة تكفير صفحہ 26-30 مرتبہ ابوالحامد احمد علی مطبوعہ روز بازار الیکٹرک سٹیم پریس (امرتسر) 22.ڈاکٹر اسرار احمد اور ڈاکٹر ذاکر نائک شیطان اور نسل یزید ہے.شیعہ علماء کا فتویٰ علامہ سید مظفر شاہ فرماتے ہیں: ڈاکٹر اسرار اور ایک tv پر آنے والے بعض شیطانوں کی باتوں کو سنوں یا قول رسول کو.اس دور کا سب سے بڑا فتنہ یزید کا سب سے بڑا بیٹا ذاکر نائک ہے وہ چلا تھا یزید کو جنتی ثابت کرنے کے لئے.شکل سے خود کا فر لگتا ہے اس لئے جس کی زبان پر یزید کی محبت ہو اور جو حسین کے لئے بغض کے کلمے کہے.اس تحریر میں لکھا ہے کہ حسین معاذ اللہ باغی ہے اور وہ بغاوت کے لئے گئے تھے.جو جنت کے سردار ہیں اب ان حضور سے محبت رکھو گے یا ان شیطانوں سے یہ تقریر youtube پر اس عنوان کے ساتھ موجود ہے (Re Dr Israr Ahmad Nasl-e-Yazeed) اور اس کو www.noorenabi.net کی طرف سے پیش کیا گیا ہے ) 23.ڈاکٹر ذاکر نائک کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج لکھنو کے شیعہ اورسنی علماء کا متفقہ فتویٰ لکھنو کے قاضی شہر ابوالعرفان قادری نے انڈیا tv پر ڈاکٹر ذاکر نائک کے بارے کفر کا فتویٰ جاری کرتے ہوئے درج ذیل انٹر ویو یا اور متفقہ فتوی کی کاپی میڈیا کو پیش کی.ان کے خلاف لکھنو میں الماس ہال میں شیعہ اور اہل سنت علماء کا اجتماع ہوا جو لکھنو سے باہر اردگرد کے شہروں سے بھی تشریف لائے تھے سب کی بات چیت ہوئی ان کے سامنے ذاکر نائک کی cd دکھائی گئی اس میں انہوں نے

Page 396

396 قابل اعتراض باتیں کہی ہیں.حضرت امام حسین جن کا کر بلا کا واقعہ بہت مشہور ہے.جو ان کا قاتل ہے یزید وہ ان کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ ہم اللہ سے دعا مانگیں گے کہ اس کی مغفرت کر دی جائے.یزید وہ شخص ہے جو ظالم ہے فاسق شرابی ہے جواری ہے جس نے ماں بہنوں کے ساتھ نکاح جائز قرار دیا.( اس فتویٰ کی تفاصیل youtube پر ویڈیو کی شکل میں اس ہیڈنگ کے ساتھ موجود ہے Dr Zakir Declared | (Kafir by Ahle Sunnat اسلام اور بنیاد پرستی کے مصنف نے فتاویٰ کفر اور مولویان کرام کے اس شغل کو یوں دیکھتے ہیں : آگ کی قینچیوں سے کٹنے والے ہونٹ“ تر مدی شریف سے حدیث رسول: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرما یا رسول اللہ صلی یا یہ ہم نے کہا میں معراج کی رات ایسی جماعت کی طرف گزرا کہ جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے.میں نے جبرائیل سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں انہوں نے کہا کہ یہ آپ کی امت کے وہ خطیب ہیں جو جو کچھ کہتے ہیں اس پر خود عمل نہیں کرتے“.ملاں کا قلعہ اس حدیث پاک کی روشنی میں اردگرد نظر دوڑائیں مساجد سے ابھرنے والی آواز میں سنیں ، مذہب نما سیاسی جماعتوں کے قائدین کی تقاریر پر غور کریں، مسلم جماعتوں کے طالب علم راہنماؤں کی گفتار پر توجہ دیں، اسلام اسلام کی رٹ لگانے والے قومی را ہنماؤں کے بیانات کا تجزیہ کریں اور خود اپنے قول و فعل کا محاسبہ کریں تو بات کہاں سے کہاں تک جا پہنچتی ہے.ماحول کی آلودگی کا رونا رونے والے صوتی آلودگی سے کیوں اتنے بے خبر ہیں.اسی حدیث مبارک کی روشنی میں ملاں کا مطالعہ کریں تو کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جائے عبادت کے برعکس مسجد ملاں کا قلعہ بن چکی ہے تو مائیک اس کا ہتھیار الہذا وہ اس قلعہ سے محمود غزنوی بن کر دین کے حقیقی مفروضہ اور مبینہ دشمنوں پر حملہ آور ہوتا رہتا ہے.عام لوگوں کا لاؤڈ سپیکر کے بارے میں جو رویہ ہے اس کا روزنامہ جنگ (لاہور : 2 جنوری 1994 ء) کی اس خبر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس کی سرخی ہے.”مولوی کے نام چور کا خط“: موڑ کھنڈا ( نامہ نگار ) چودہ سو سال سے عیسائی مبلغ جو نہ کر سکے وہ ہمارے علماء نے خود کر دکھایا اور مسلمان قوم کو اسلام مخالف قو تیں تقسیم نہ کر سکیں چودھویں صدی کے خود ساختہ علماء نے مسلمانوں کی عظیم قوم کو تقسیم کر دیا.خاص کر ان مولویوں نے مساجد کے لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے سیدھا رستہ دکھانے کی بجائے ایک دوسرے پر کیچڑ

Page 397

397 اچھالنا شروع کر رکھا ہے.یہ بات محمدی مسجد میں لاؤڈ سپیکروں کے 6 طاقت ور یونٹ اتارنے والے چوروں نے ایک خط میں کہی ، جس میں لکھا ہے کہ اب ہم امید رکھتے ہیں کہ دوسری مساجد کے مولوی صاحبان لاؤڈ سپیکروں کو تنقید کی بجائے تعمیری انداز میں استعمال کر کے لوگوں کو اسلام کے عین مطابق رستہ دکھا ئیں گے بصورت دیگر ہمیں اہل شہر کو دوسرے سپیکروں سے بھی نجات دلانا پڑے گی“.اس خبر کے ساتھ علامہ اقبال کا یہ شعر ملا لیں تو بات کہاں سے کہاں تک جا پہنچتی ہے: چناں نالیم اندر مسجد شہر که دل در سینہ ملا گدازیم اور یہ اشعار بھی علامہ اقبال ہی کے ہیں: رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے ہے نماز و روزه و قربانی و حج یہ سب باقی ہے تو باقی نہیں کون باقی نہیں؟ میں یا ملاں؟ جبکہ علامہ اقبال سے کہیں پہلے سودا یہ کہہ گیا ہے : شیخ جی کی بانگ وصلوۃ او پر تواے ناصح نہ جا خانہ قصاب میں بھی روز وشب تکبیر ہے جنگ ( لاہور : 8 جنوری 1994ء) کی ”مولویوں کی جنگ“ کی سرخی کے ساتھ طبع ہونے والی یہ خبر بھی ملاحظہ کیجئے: سانگلہ ہل ( نامہ نگار ) گزشتہ روز محلہ اقبال پور میں دو مختلف مسلکوں سے تعلق رکھنے والی مسجد کے خطیبوں میں ٹھن گئی.مولوی تجمل حسین طاہری نے مختلف گھروں کی چھتوں پر نصب 10 لاؤڈ سپیکر میں دوسرے مولوی سیدامان اللہ بخاری کو چیلنج کیا کہ آؤ مل کر آگ میں بیٹھ جاتے ہیں یا کنویں میں کود جاتے ہیں جو صحیح سلامت رہاوہ سچا ہو گا.مولوی تجمل حسین نے مباہلہ کے لیے شہر میں اشتہار تقسیم کیے تھے مگر مولا نا امان اللہ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا.مقامی پولیس نے بروقت مداخلت کر کے گھروں کی چھتوں سے لاؤڈ سپیکر اتر وادیئے شہر میں ناخوشگوار واقع پر تشویش پائی جارہی ہے.انداز جفا اب لاؤڈ سپیکر کا ذکر چلا ہے تو اس ضمن میں مجھے گنہ گار کوخود کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ اب اس صوتی آلودگی کے خلاف تو وہ حضرات بھی لب کشائی پر مجبور ہو گئے جو ہمارے بر عکس دین کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں.روزنامہ جنگ ہمیں اسلام سے خارج کر دیا جائے گا اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی تعریف کو اختیار کر لیں تو ہم اس عالم کے نز د یک تو مسلمان رہیں گے لیکن دوسرے تمام علماء کی تعریف کی رو سے کا فر ہو جائیں گے.

Page 398

398 جبکہ سیدھی سی بات یہ ہے کہ مسلم کا لغوی مطلب ہے سر جھکا دینے والا یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے سر جھکا دینے والا.سورۃ البقرہ آیت 112 کے بموجب ”وہ جو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکا دے اور یہ جھکنا خوبصورت انداز میں ہو“.کا فرگر س : حضرت علی حضرت امام حسین، امام ابوحنیفہ، امام محمد بن ادریس شافعی ، امام احمد بن جنبل ،غزالی، رازی، ابن رشد ، بوعلی سینا، منصور حلاج، عمر خیام، ابن عربی ، شیخ شہاب الدین، سرمد شاہ ولی اللہ ، شاہ اسماعیل شہید، سید احمد شہید، سرسید احمد خاں ، مولانا شبلی ،مولانا حالی، ڈپٹی نذیر احمد ،مولانا عبدالباری فرنگی محل ، خواجہ حسن نظامی ، مولاناظفر علی خاں ، مولانا عبید اللہ سندھی ، مولانا قاسم نانوتوی ، مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانامحمود الحق ، مولانا حسین احمد مدنی مولانا شبیر احد عثمانی، قائد اعظم ، علامہ اقبال، مولانا احمدعلی ، سید عطا اللہ شاہ بخاری میں کیا خصوصیت مشترک ہے؟ ج: ان سب پر کفر کا فتویٰ لگ چکا ہے.بقول شورش کاشمیری : زباں بگڑی قلم بگڑا روش بگڑی چلین بگڑا خود اپنے ہاتھ سے کافر گروں کا پیرہن بگڑا چلا تکفیر کا جھکڑ کہ شرق و غرب کانپ اٹھے اٹھی دشنام کی آندھی مزاج اہرمن بگڑا کیونکہ دینی راہنما، مشائخ، مذہبی مبلغین، علماء و فضلاء اور مولوی و ملا.مسلمان کی تعریف پر متفق نہیں اس لیے کسی کو بھی کافر، زندیق، بے دین ہلحد، دھریہ قرار دے دینا کتنا سہل ہو جاتا ہے اس کا اندازہ فتوی سازی کی تاریخ سے ہو جاتا ہے جو طویل ہونے کے ساتھ ساتھ اس بنا پر عبرت انگیز بھی ہے کہ عالم اسلام کی کیسی کیسی عہد ساز شخصیات کو کا فرقرار دے دیا گیا.اس امر کو فراموش کر کے کہ کسی کو کافر قرار دینے کا مطلب مسلمانوں کے اس کے ساتھ ہر نوع کے سماجی رشتوں کے انقطاع کے ساتھ ساتھ اس کا اپنی بیوی سے نکاح بھی فسخ ہو جاتا ہے اور از روئے شریعت حاکم وقت پر اس کا قتل لازم ہو جاتا ہے.بقول ذوق : واجب القتل اس نے ٹھہرایا جبکہ حالی کے بقول : امت کو چھانٹ ڈالا کافر بنا بنا کر آیتوں سے روایتوں ނ مجھے اسلام ہے فقهيو ! ممنوں بہت تمہارا

Page 399

399 ایسے میں مصحفی کا یہ شعر یاد آتا ہے: دیکھ کر کتنے نصاریٰ تجھ کو مومن ہو گئے بلکہ مومن بھی کئی اسلام سے جاتے رہے باب نمبر 15 حياء سوزیاں

Page 400

400 اور میری مشکلات روپڑی نے معارف قرآن بیان کرتے ہوئے رنڈیوں اور بھڑوں کا ارمان پورا کیا.اور تماش بینوں کے تمام ہتھکنڈے ادا کئے“ عبد اللہ روپڑی ایڈیر تنظیم کے قرآنی معارف اسے کوک شاستر کہئے یا لذات بالنساء یا ترغیب بدکاری“ یہ الفاظ ایک مشہور و معروف غیر مقلد مولوی محمد جونا گڑھی کے ہیں جو انہوں نے اپنے ہی فرقے کے دوسرے جید عالم دین مولانا محمد عبد اللہ روپڑی کے بارے میں کہے.کیوں کہے؟ اس کا جواب اور اسکی تفصیل اتنی گندی اور گھناؤنی ہوگی یہ میرے وہم میں بھی نہ تھا.ایک دفعہ ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب نے کہا تھا ” میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ پگڑی اور داڑھی آدمی کے وقار اور روحانیت میں اس قدر بھی اضافہ کر سکتی ہے اس جزیرہ اکرم اعوان صفحه 14 مگر میں نے علماء کے اس رخ روشن کو دیکھا تو مجھے ڈاکٹر اجمل نیازی کا یہ قول یوں نظر آنے لگا کہ کبھی میں نے

Page 401

401 سوچا بھی نہ تھا کہ پگڑی اور داڑھی والے باوقار آدمی کے منہ سے بھی ایسے گندے فخش اور بازاری الفاظ نکل سکتے ہیں“.گندی دنیا کی گندی سیر مشکل نمبر 45 میرے لئے ممکن نہیں کہ میں اس باب میں کسی حوالے کے الفاظ درج کرسکوں کیونکہ جماعت احمدیہ کا علم کلام اتنا پوتر اور اتنا تقویٰ سے مزین ہوتا ہے کہ ایک احمدی قاری الزام خصم میں بھی ایسی گندی باتیں پڑھنا گوارا نہیں کر سکتا اس لئے صرف حوالہ لکھ رہا ہوں 1.مولوی نذیر حسین دہلوی صاحب کے ماں بہن اور محرم رشتوں کے حوالے سے گندا فتویٰ (فتاوی نذیر یہ ج 3 صفحه (176) 2..معروف غیر مقلد مولوی مولانا نواب صدیق حسن صاحب کا غیر فطری شہوت کے حوالے سے فتویٰ مشہور غیر مقلد مولوی وحید الزماں صاحب کا لونڈیوں کے حوالے سے نازیبا فتویٰ ( بدور الابله صفحه (175) بلکہ اسی ضمن میں ایک اور عجیب و غریب فحش فتویٰ ماں، بہن، بیٹی کا جسم دیکھنا جائز ہے ہدیہ المہدی ج 1 صفحہ 181 ) (نزل الابراج 1 صفحہ (41) غیر مقلدین کے چوٹی کے مولانا جناب نورالحسن صاحب کا محرم رشتوں کے حوالے سے انتہائی ناجائز فتویٰ مشت زنی واجب ہے مولوی نورالحسن صاحب ارشاد کرتے ہیں : عرف الجادی صفحه (52) ”اگر گناہ سے بچنا مشکل ہو تو مشت زنی واجب ہے“.(عرف الجادی صفحہ 207) بہترین عورت کی علامت مولوی وحید الزمان صاحب کا عورتوں کے حوالے سے بہت نازیبا فتویٰ ( لغات الحدیث پ 6 صفحہ 150 ) |

Page 402

402 عورت کو کتے سے تشبیہ مولوی وحید الزماں صاحب عورتوں کو حیض سے پاک ہونے کے لئے انتہائی نازیبا مشابہت خنزیر ماں کی طرح ہے مولوی صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں: (لغات الحدیث پ 6 ص 152 خنزیر کے حرام ہونے سے اُس کا ناپاک ہونا ہر گز ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ ماں حرام ہے مگر ناپاک نہیں“.عبداللہ روپڑی کے قرآنی معارف ( بدور الابله ص 16) مولوی عبد اللہ روپڑی جو مولوی عبد القادر روپڑی کے چچا ہیں نے قرآن کے معارف بیان کرتے ہوئے عورت اور مرد کی شرم گاہوں کی ہئیت اور مردوزن کے جنسی ملاپ کی کیفیت جیسی خرافات بیان کی ہیں.اور عورت کے رحم کی ہیئت وغیرہ جیسے نازیبا نقشے بنائے ہیں رحم کا پورا نقشہ تنظیم یکم مئی 1932 ص 6 کالم 1 ) مولوی عبد اللہ رو پڑی صاحب رحم کا آنکھوں دیکھا حال انتہائی منخش طریقے سے بیان کیا ہے تنظیم یکم مئی 1932 ص 6 کالم (1) مولوی عبد اللہ صاحب نے مزید قرآن کریم کی تفسیر کے نام پر مرد اور عورت کی شرم گاہوں کا ملاپ اور قرار حمل کو انتہائی بے باک الفاظ میں بیان کیا ہے رحم کا محل وقوع رحم کے اندر کی کہانی مولوی عبد اللہ صاحب مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: تنظیم یکم مئی 1932 ص 6 کالم 1 ) تنظیم اہل حدیث یکم مئی 1932 ص 6 کالم 1) تنظیم اہل حدیث روپڑی کیم مئی 1932 ص 3 کالم 1) تنظیم اہل حدیث روپڑی یکم مئی 1932 ص 3 کالم 3 بحوالہ اخبارمحمدی 15 جنوری 1939 ص 13 کالم (3) ہم بستری کی حالت خدارنڈیوں کی طرح زنا کروائے

Page 403

403 بریلویوں اور دیو بندیوں کی لڑائی تھی.لڑتے لڑتے بات اللہ تک پہنچ گئی اور پھر ایک دوسرے کے اللہ کو بھی نہ بخشا گیا.بریلویوں کے سرتاج جناب احمد رضا خان بریلوی کی دیوبندیوں کے اللہ کو گالیوں کو ایک دیوبندی نے زیر عنوان سری زبان ، گندا کلام یوں نوٹ فرمایا ہے: دیو بندیوں کا خدا رنڈیوں کی طرح زنا بھی کرائے.ورنہ دیوبند کی چکلے والیاں اُس پر نہیں گی کہ نکھٹو تو ہمارے بھی برابر نہ ہوسکا.پھر ضروری ہے کہ تمہارے خدا کی زن (عورت) بھی ہو اور ضروری ہے کہ خدا کا آلہ تناسل بھی ہو یوں خدا کے مقابلے میں ایک خدائن بھی ماننا پڑے گی“.( سبحان السبوح ص 142 احمد رضا خان بریلوی بحوالہ اعلیٰ حضرت حیات اور کارنامے مصنفہ مولوی عبد الرحمن مطاہری ناشر ربانی بک ڈپو کٹر شیخ چاند لال کنواں دہلی 6 ص 64) مولوی احمد رضا خان صاحب کا انبیائے کرام اور ازواج مطہرات کے حوالے سے حیاء سوز انکشاف (الملفوظ حصہ سوئم ص 39 مرتبہ مصطفے رضا صا حبزادہ احمد رضا خان صاحب بحوالہ اعلیٰ حضرت حیات اور کارنامے مصنفہ مولوی عبد الرحمن مطاہری ناشر ربانی بک ڈپوکڑہ شیخ چاند لال کنواں دہلی 6 ص 64) مولوی احمد رضا خان صاحب کی حضرت عائشہ کے لئے گندی بازاری زبان مولوی عبد الرحمن مظاہری صاحب مولوی احمد رضا خان صاحب کا قصیدہ درج کر کے لکھتے ہیں ہمارا قلم نجس و ناپاک، رکیک و بخش بازاری عنوان کی شرح کرنے پر آمادہ نہ تھا لیکن کیا کیا جائے؟ جو شخص اپنے سوا سارے جہان کے مسلمانوں کو بے ایمان ، مرتد ملعون مردود، بے ادب گستاخ کہتا ہو ایسے شخص کی جہالت ، سفاہت، حماقت ، بے ادبی گستاخی نے اس قصیدے میں اُن تمام حدود کو پار کر دیا جو بازاری عاشق اپنی بازاری معشوقہ کے لئے استعمال کرتا ہے.اُم المؤمنین سیدہ عائشہ کا یہ شرمناک تعارف جو بے ادب اعلیٰ حضرت کی زبان و قلم سے جاری ہوا ہم یہ کہہ کر اپنا فلم روک دیتے ہیں خان بابا اپنی ماں کے.......ایسے ہی مخش ور کیک بازاری الفاظ میں ایک بار بیان کر دیتے“ ( حدائق بخشش حصہ سوئم 1345 ه ص 23 متبہ محمد محبوب علی خان بحوالہ اعلیٰ حضرت حیات اور کارنامے مصنفہ مولوی عبد الرحمن مطاہری نا شرر بانی بک ڈپوکر و شیخ چاند لال کنواں دہلی 6 ص 49:47) اوباشوں سے بھی بدتر زبان بریلوی اُمت جس شخص کو مجد والعصر، مفسر قرآن ، محدث دہر جیسے عظیم خطابات سے نوازتی ہے تو دوسری طرف

Page 404

404 دیو بندیوں کے نابغہ روزگار مولانا ہیں.ایک کا کلام ہے تو دوسرے کی تفسیر ہے.ایک کی گالی ہے تو دوسرے کی جواب گالی ہے.فرق کتنا ہے؟ کون زیادہ زور سے گندگی بکھیر رہا ہے؟ بد بو کے بھبھو کے کہاں سے زیادہ آرہے ہیں یہی فیصلہ کرنا میری انگلی مشکل بن گئی ہے.دیوبندی مولوی عبدالرحمن صاحب فرماتے ہیں: ” خان بابا نے مولانا تھانوی کے رسالہ کا جواب جس گندی ، بے ہودہ ، بازاری زبان میں دیا اُس نے بریلی شریف کے ہیجڑوں کو بھی مات کردی ( وقعات السنان ص 60 بحوالہ اعلیٰ حضرت حیات اور کارنامے مصنفہ مولوی عبدالرحمن مطاہری ناشر بانی بک ڈپوکڑہ شیخ چاند لال کنواں دہلی 6 ص 65 میں حیراں ہوں کہ ان علماء کا قافلہ لے کر ہم نکلے تھے احمدیت کو فتح کرنے.جن کے سینوں میں اتنا گند اور جن کے زبانیں اتنی مخش ، وہاں تقویٰ اور خوف خدا کا کیا کام ہوگا.ی جو ایک دوسرے کا تعارف کرواتے ہیں تو بات گالی سے شروع کرتے ہیں.جو دوسرے فرقے کے بارے میں اظہار خیال فرماتے ہیں تو بات گالی پر ختم کرتے ہیں.ید زمانے کا ذکر چلے تو اپنے سمیت زمانے بھر کو جانور سور تک بنادیتے ہیں.جن کے لئے کسی بھی شخص کا نکاح توڑنا، جنازے میں شمولیت سے منع کرنا دائیں ہاتھ کا کھیل ہے.مالی بددیانتی میں مشہور اور مالی بدیانتی کے لئے ایک دوسرے کو خوب ننگا کرتے ہیں.تفسیر کے نام پر اللہ ، رسول ملائکہ اور صحابہ تک کو بخشنے کے لئے تیار نہیں.فتویٰ دینے لگیں تو کا فر سے کم وزنی لفظ کا انتخاب نہیں کرتے.فقہ کے نام پر اپنے گندے خبث کو بخش سے مخش الفاظ کے ساتھ مذہب کا حصہ بنانے پر مصر ہیں اور یہی جانکاری میری 45 مشکل بن گئی ہے.

Page 405

405 باب نمبر 16

Page 406

406 جاں بازیاں اور میری مشکلات ترمیم زہد...وضو 70 شراب خانوں تک مجرم ہو خواہ کوئی رہتا ہے ناموں کا

Page 407

407 روئے سخن ہمیشہ سوئے جگر فگاراں ہے اب بھی وقت زاہد ترمیم زہد کرلے سوئے حرم چلا ہے انبوہ بادہ خواراں (فیض) وہائٹ ہاؤس لندن مارکہ قادیانی جماعت جس کا سنگ بنیاد انتہائی سوچ و بچار کے بعد مغربی استعمار نے ایک اہم اجلاس منعقدہ وہائٹ ہاؤس لندن میں رکھا تھا.کے اہم ترین مقاصد مندرجہ ذیل تھے : 1.بقول مولا نا احسان الہی ظہیر : دشمن رسول لوگوں کا ایک گروہ پیدا کرنا 2.بقول مولا نا منظور احمد چنیوٹی: اسلام اور عالم اسلام کے دشمن پیدا کرنا 3.بقول مولا نازاہدالراشدی ملت اسلامیہ میں فکری انتشار پیدا کرنا“ 4.بقول مولا نا محمد یوسف بن سید محمد ذکر یا النوری: (مرزائیت اور اسلام صفحہ (11) ( ملت اسلامیہ کے خلاف قادیانی سازشیں صفحہ 5) مت اسلامیہ کے خلاف قادیانی سازشیں صفحہ (3) پرفتن اور مبالغہ آمیز گپیں ہانکنا اور قوم کو کفر والحاد کی گہری وادی میں اتار دینا“ 5.بقول علامہ خالد محمود : ملحد لوگ پیدا کرنا ( قادیانی اور ان کے عقائد صفحہ 7) ( قادیانی اور ان کے عقائد صفحہ 3)

Page 408

408 6.اور بقول مجلس تحفظ ختم نبوت: آستین کے سانپ جو ملت اسلامیہ کی رگوں میں زہر گھول کر غداران دین وملت پیدا کرنا ( آستین کے سانپ شائع کردہ مجلس تحفظ ختم نبوت واہ کینٹ جامع مسجد مدینہ 16 ایریا وغیرہ وغیرہ) مختصراً یہ کہ بقول علماء کرام وہائٹ ہاؤس لندن والے آقاؤں نے بانی جماعت احمدیہ کو ایک ایسا ٹولہ تیار کرنے کا ٹاسک (Task) دیا جو: ا.ننگ دین وملت ہوں ii.اخلاق سے عاری iii.رسول خدا کے دشمن iv.خدا کے وجود کے منکر وملحد ۷.اسلام اور عالم اسلام کے غدار vi _ حقوق اللہ اور حقوق العباد سے یکسر نابلد vii کلمہ رسول کے مخالف vili.اور ایک ایسا وحشی ٹولہ جس کا صرف اور صرف یہ مقصد ہو کہ عاشقان رسول سالی یا اینم دنیا سے ختم ہو جائیں اور باقی صرف اور صرف شرابی کبابی ، بے حیائی، جواری ، زانی، ڈانسر ، اسمگلر، ڈاکو، چور، خائن ، قاتل ہلحد اور منکرین ختم نبوت رہ جائیں.جو منکر جہاد ہوں اور قرآن وسنت سے ان کا کوئی تعلق نہ ہو.دوستو تحقیق کی اس منزل پر میں نے بدحواسیوں کی اندھی گلی کو بھلا دیا.جھنجلا ہٹ ہٹوں کی خوفناک بھول بھلیوں سے صرف نظر کر آئینہ کی بدصورت کٹھ پتلیوں کو نظر انداز کر دیا.صرف اور صرف اس لیے تا کہ ان Practial امور اور معاشرتی وجود “ کا جائزہ لے سکوں جس کے لیے یہ تنظیم معرض وجود میں آئی آیا یہ تنظیم ان امور کی کو بخوبی سرانجام دے رہی ہے.جو بقول علماء، استعمار نے ان کو مندرجہ بالا ٹارگٹ کے طور پر دیئے تھے یا پھر ان امور کو جن کا نعرہ بانی جماعت احمدیہ نے تجدید دین اور تنفیذ دین کے نام سے لگایا اور فرمایا کہ وہ پھر سے اسلام کی اصلی شکل کو دلوں میں رائج کرنے کے لیے مسیح و مہدی بنا کر بھیجے گئے ہیں اور وہ دین کو دینا پر مقدم کرنے والے عاشقین رسول کا گروہ تیار کرنے آئے ہیں.

Page 409

409 مشہور محدث حضرت ثعبان ثوری کا قول ہے: ”مبارک ہیں وہ لوگ جن کے پاس نصیحت کرنے کے لیے الفاظ نہیں اعمال ہوتے ہیں“ حضرت مولانا رومی کا قول ہے: جس کے افعال شیطان اور درندوں جیسے ہوتے ہیں کریم لوگوں کے متعلق اس کو بدگمانی ہوتی ہے“ ڈھلتی عمر اور گزرتے زمانے کی قسم تحقیق کی اس منزل پر الحاد کا بہاؤ اور ہوس کی نیا، حیاء باختگی کا جو ہڑ اور بے دینی کی بد بودار بدرو کو میں نے کسی اور کی نہیں اپنی ہمسائیگی میں بہتے پایا اور یہی بات میری انگلی اور فیصلہ کن مشکل بن گئی ہے.اپنے اعمال کی منہ بولتی تصویر میں مبارک کون؟ اور کریم لوگوں کو تہہ خاک سلانے والے شیطان اور درندے کون؟ ایک صدی پر پھیلی ہوئی معاشرتی سائنس کا ایک لامحل سوال سوچئے اور جواب دینے میں میری مدد کیجئے.1.اُدھر ایک شادی کی کہانی ایک قادیانی خاندان کا مکروہ جرم جس پر جیل کی سلاخیں اور لمبا مقدمہ بھگت رہا ہے....روز نامہ پاکستان نکانہ صاحب کے ایک قادیانی ناصر احمد نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے دعوتی کارڈ چھپوایا جس پر بسم اللہ الرحمن - السلام علیکم.انشاءاللہ اور نکاح مسنونہ کے الفاظ درج تھے.مجلس تحفظ ختم نبوت ننکانہ صاحب کے ناظم اعلیٰ نے تعزیرات پاکستان دفعہ 295A اور دفعہ 298C کے تحت نہ صرف ناصر احمد بلکہ ان کی بیگم سرفراز احمد اعجاز احمد اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے خلاف اسلامی شعائر کے ناجائز استعمال کے الزام میں مقدمہ درج کرا دیا.پولیس نے ناصر احمد کو گرفتار کر لیا باقی ملزمان نے لاہور ہائی کورٹ میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں دائر کیں.یہ مقدمہ ہنوز عدالت میں ہے.ادھر بھی ایک شادی ہی کی کہانی (روز نامہ پاکستان 13 اگست 1992 ء مضمون نگار اصغر علی گھر ال ) شادی کے بغیر مرد سے تعلقات میں کوئی حرج نہیں، معروف محب وطن مسلم رقاصہ شیما کرمانی کا فخر یہ اعلان......روز نامہ اوصاف " معروف رقاصہ شیما کرمانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی مسلمان نہیں.اگر مسلمان ہوتے تو پھر لوگ سڑکوں پر بھیک نہ مانگ رہے ہوتے.شیما کرمانی جو ایک این.جی.اوتحریک نسواں کو بھی چلاتی ہیں، نے کہا ہے کہ

Page 410

410 مرد کو دوسری شادی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے.لیکن اگر وہ خواہ مرد ہو یا عورت ایک دوسرے سے شادی کئے بغیر تعلقات قائم کرنا چاہیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں.عورت کو چادر یا دو پٹہ اوڑھنے کی پابندی نہیں ہونی چاہیے.“ (روز نامہ اوصاف 31 جنوری 1999ء) شیما کرمانی کے اس اعلان پر نہ ہی 298C اور نہ ہی 295A حرکت میں آئی نہ مقدمہ درج ہوا کیونکہ موصوفہ نے کوئی ” خلاف شرع بیان نہیں دیا.اور دوسرا آپ سکہ بند رقاصہ ہونے کے ساتھ مسلم بھی تو ہیں.پھر دلآزاری کیسی؟ 2.اُدھر اللہ سب سے بڑا.محمد اللہ کے رسول.نماز کی طرف آؤ ایک قادیانی کا جرم 298C کی حرکت 2 سال قید با مشقت اور 2 ہزار جرمانہ روز نامہ پاکستان لکھتا ہے : منڈی بہاؤالدین لیٹر پیڈ کے اوپر 786 چھپ جانے پر مقدمہ چل رہا ہے اس کے علاوہ کلمہ طیبہ پڑھنے.کلمہ کا بیج لگانے اور درود شریف پڑھنے پر گرفتاریاں ہوئیں.بدوملہی کے مسعود احمد کو سول حج نارووال کی عدالت سے 2 سال قید با مشقت اور 2 ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا.اس کے خلاف اذان دینے کا الزام تھا.ملزم کے خلاف جو فرد جرم مرتب ہوئی وہ کچھ یوں تھی ملزم نے بلند آواز سے کہا کہ: اللہ سب سے بڑا ہے.اللہ سب سے بڑا ہے.اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں.نماز کی طرف آؤ.نماز کی طرف آؤ.بھلائی کی طرف آؤ بھلائی کی طرف آؤ.اللہ سب سے بڑا ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.ادھر 3 اگست 1992 مضمون نگار اصغر علی گھر ال ) ہندو تہوار بسنت پر لاہور میں جوانیوں کا ڈانس.کھلے عام شراب.اربوں روپے کی شراب عید سے زیادہ کوری گورنر پنجاب اور چیئر مین سینٹ کی معیت میں بسنت شغل میلہ روزنامہ نوائے وقت بسنت کے حوالے سے اسلامیان لاہور کے متعلق لکھتا ہے: ”خدا کا شکر ہے کہ اہل لاہور کو بسنت کے بخار سے نجات ملی.ہفتہ اتوار کی درمیانی رات کا پورا دن اہل

Page 411

411 لاہور پر بڑا بھاری گزرا.امراء کی چھتوں پر جوانیاں ناچتی رہیں.فلمی اداکار اور سیاستدان مل کر بھنگڑے ڈالتے رہے.گورنر پنجاب اور چیئر مین سینٹ نے بھی بستیوں کے ساتھ ملکر تصویر میں اتروا ئیں.بھارت سے سکھوں سمیت بہت سے مہمان آئے ہوئے تھے.انہوں نے جی بھر کر بھنگڑا ڈالا.ان کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی بہت سے لوگ بسنت منانے کے لیے لاہور کے ہوٹلوں میں مقیم تھے.شہر میں پانی نایاب لیکن شراب کھلے عام دستیاب تھی.ہمارے ٹی وی نے قومی تہوار قرار دیکر بسنت کو عید سے زیادہ اہمیت دیدی.سارا دن ترنر گولیاں چلتی رہیں.لیکن شام کے وقت تو وہ گولی چلی کہ الامان.یہ بسنت کو الودع کرنے کا وقت تھا.یہ اس قوم کا حال ہے کہ جس کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے.اگر حساب لگایا جائے تو اربوں روپے شراب اور ڈور پر خرچ ہو گئے ہوں گے.بسنت اگر ہندو تہوار ہے تو کیا ہوا مزہ تو ہے ناں.(نوائے وقت 24 فروری 1998 سر را ہے اربوں کی شراب پی تو اپنی جیب سے پی کسی کو حسد کرنے کی ضرورت نہیں.اربوں کی شراب جوانیوں کے کھلے ناچ بھنگڑے.بسنتی کپڑے.پتنگ ڈور میں ان سے کسی کے جذبات مجروح نہیں ہوئے کہ مقدمہ درج کروانے کی نوبت آتی کیوں؟ کیا یہ سب حرکات عین اسلامی ہیں.اور حرکتیں کرنے والے عین مسلم.جس تنظیم کے مندرجہ بالا علماء کے قادیانی کی اذان پر جذبات مجروح ہو گئے تھے وہ تنظیم اس بسنت میں کہاں ہے.ہم پہ تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے دشنام تو نہیں ہے یہ اکرام ہی تو ہے 3.اُدھر قرآن مجید کا سرائیکی زبان میں ترجمہ کرنے کی جسارت قادیانیوں کے اس جرم پر 295، 2958 اور 295 کا اطلاق اور اس مذموم فعل پر سزائے موت بھی متوقع ہے.مورخہ 5 دسمبر 1991ء کو مکرم خان محمد صاحب امیر جماعت احمدیہ ڈیرہ غازی خاں اور مکرم رفیق احمد صاحب نعیم کے خلاف قرآن مجید کا سرائیکی زبان میں ترجمہ کرنے کی وجہ سے زیر دفعہ 2954 تعزیرات پاکستان تھانہ ڈیرہ غازی خان میں ایک مقدمہ درج کیا گیا.روزنامہ ڈان پاکستان کی 26 اپریل 1992 ء کی اشاعت کے

Page 412

412 مطابق یہ مقدمہ مولوی اللہ وسایا امیر مجلس ختم نبوت ڈیرہ غازی خان کی درخواست پر درج کیا گیا.اس نے اپنی درخواست میں لکھا کہ قادیانیوں کو کا فرقرار دیا جا چکا ہے مگر پھر بھی انہوں نے قرآن مجید کا سرائیکی زبان میں ترجمہ کر کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا ہے.“ مقدمہ کے اندراج کے بعد مورخہ 12 جنوری 1992 ء کو رفیق احمد صاحب نعیم کو گرفتار کر لیا گیا اور مورخہ 30 جنوری کو عدالت نے دونوں کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی اس طرح مکرم خان محمد صاحب بھی گرفتار ہو گئے.اسی دوران پولیس نے 295B اور 295C تعزیرات پاکستان کا اضافہ کر دیا.یادر ہے کہ 295A کے تحت دس سال تک قید ہو سکتی ہے جبکہ 2958 کے تحت سزا عمر قید اور 295C کے تحت سزا موت مقرر ہے.روز نامہ جنگ لاہور کے 16 دسمبر 1991ء کے شمارہ کی خبر کے مطابق مولوی اللہ یا را رشد مجلس احرار اسلام اور سپاہ صحابہ سرگودھا کے صدر مولوی احمد علی نے اس خطر ناک فعل پر سزائے موت کا مطالبہ کیا ہے.اور وجہ یہ بتائی کہ قادیانی چونکہ نجس ہیں اس لیے وہ کلام پاک کو ہاتھ نہیں لگا سکتے.ادھر صرف کراچی شہر میں 70 شراب خانے مزید کھولنے کی اجازت روز نامہ خبریں کراچی لکھتا ہے کہ قومی اخبارات میں گذشتہ دنوں یہ افسوسناک خبر شائع ہوئی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے صرف ایک شہر کراچی میں بیک جنبش قلم شراب کی 70 دکانوں کو اجازت نامے عطا کرنے کے علاوہ ایک شراب کی فیکٹری کا لائسنس بھی منظور فرمایا ہے.ابھی اس حکم کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی اور اگلے روز کے اخبارات میں مختلف رہنماؤں کا رد عمل شائع ہوا.اسی روز وزیر اعظم صاحبہ کا یہ فرمان بھی نظر سے گزرا کہ فائیوسٹار اور فور سٹار ہوٹلوں کو شراب کے لائسنس جاری کئے گئے ہیں.کراچی میں دیئے گئے شراب خانوں کے لائسنس کے جواز میں اس دلیل کا سہارا لیا گیا تھا کہ عیسائیوں اور غیر مسلموں کے روپ میں شراب کے پرمٹوں سے دراصل مسلمان فائدہ اٹھاتے تھے.یعنی بالفاظ دیگر جو لوگ چوری چھپے یا غیر مسلم بن کر غیر قانونی طور پر شراب کے پرمٹوں پر دختر انگور سے شوق فرماتے تھے ، اب انہیں قانون کے دائرے میں حصول شراب کی کھلی چھٹی دیدی گئی ہے.جہاں تک شراب نوشی اور اس کی خرید وفروخت کا تعلق ہے.اس معاملے میں دورا ئیں نہیں ہوسکتیں.اللہ تعالیٰ

Page 413

413 نے چودہ سو سال پہلے اسے حرام قرار دیا.قرآن حکیم میں اسے ام الخبائث کہا گیا ہے، اس لحاظ سے شراب کے استعمال کے علاوہ اس کی خرید و فروخت بھی ممنوع اور حرام قرار پائی لیکن وزیر اعظم صاحبہ نے اللہ اور اس کے رسول مقبول کے احکامات کی سراسر نفی کرتے ہوئے شراب کی فروخت کے اجازت نامے اور لائسنس جاری کر دیئے ہیں.میں یہ کہنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا کہ وزیر اعظم بینظیر نے اپنے اعلانات کے ذریعے نہ صرف اسلام کی توہین کی ہے، اسلامی اقدار کی توہین کی ہے بلکہ بارہ کروڑ مسلمانوں کی توہین کی ہے اور سچ پوچھیں تو یہ اعلان اسلام کے نام پر حاصل کردہ ملک پاکستان کو شرابیوں اور بدقماش لوگوں کا ملک بنانے کے مترادف ہے.یہ امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر حصہ ہے جس کے تحت شراب نوشی ، بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دینے کی خفیہ اور کھلے عام کوششیں کی جارہی ہے.ان مذموم مساعی کا ایک نمونہ قاہرہ کی نام نہاد بہبود آبادی کا نفرنس بھی تھی جس میں محترمہ نے سیاسی ودینی جماعتوں اور تنظیموں کی تمام تر مخالفت کے باوجود شرکت کی تھی.اب انہوں نے شراب کی دکانوں اور ہوٹلوں میں فروخت کیلئے اجازت نامے اور فیکٹری کیلئے لائسنس کے اجرا کے ذریعے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے.محترمہ جس تیزی سے اسلامی اقدار کو مٹانے پر تلی ہوئی ہیں اور جس تیزی سے دین دشمن اقدامات کر رہی ہیں اسی تیزی سے شدت کے ساتھ پوری حزب اختلاف اور دینی وسیاسی جماعتیں اور تنظیمیں اور اسلامی نظام کے دعویدار افراد اور ادارے ان کا مقابلہ کرنے کیلئے سرگرم عمل کیوں نہیں دکھائی دیتے.مجھے تو یہ نظر آرہا ہے کہ : حمیت نام تھی جس کے گھر سے گئی وزیر اعظم بینظیر کے علاوہ ان کے وزراء خصوصاً خالد احمد خان کھرل اور جنرل نصیر اللہ بابر نے ٹی وی، ناچ گانے اور کلچر کے نام پر بے ہودگی پر اعتراضات کے بارے میں جو نا مناسب بیانات دیئے ہماری قوم انہیں بھی شیر ما در کی طرح پی گئی.قوم میں برائیوں کے خلاف جو قوت مدافعت تھی شاید وہ ایڈز کی نذر ہوگئی ہے.یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ محترمہ کے حالیہ اعلانات کے تحت شراب خانوں کو عام اور حصول کو ہر فرد کیلئے ممکن بنانے کے بعد حدود آرڈینس اور اس میں تجویز کردہ سزائیں اور متعلقہ عدالتیں بھی ایک مذاق بن کر رہ جائیں گی.قارئین کرام کو یاد ہوگا ) محترمہ بینظیر بھٹو نے حدود آرڈنینس کے تحت تجویز کردہ تعزیرات کے ضمن میں اسلام کی سزاؤں کو سنگین اور ظالمانہ قرار دیا تھا.تبصرہ خبریں اسلام آباد 15 مئی 1995 اشاعت خاص ) قرآن مجید کا سرائیکی زبان میں ترجمہ کرنے والوں کے لیے سزائے موت کے مطالبے کرنے والو ذرا یہ تو بتاؤ

Page 414

414 کہ شراب بھی نجس ہے یا نہیں؟ شراب پینے ، پلانے، بیچنے اور تیار کرنے سے تو کسی کے جذبات مجروح نہیں ہوئے کیوں؟ کہیں شراکت داری تو نہیں ہے.تمہیں کہورند ومحتسب میں ہے آج شب کون فرق ایسا یہ آ کے بیٹھے ہیں میکدے میں وہ اُٹھ کے آئے ہیں مکیدے سے 4.اُدھر دوبارہ مسجد کی پیشانی پر لکھ دیا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں 6 قادیانیوں کا مکروہ جرم کلمہ طیبہ پڑھ کر اور لکھ کر علماء کے دلی جذبات سے کھیلنے کی گھناؤنی سازش 295C اور 298 کا قانون حرکت میں گرفتار کر کے جیل میں بند.موت کی سزا بھی ہوسکتی ہے.وطن عزیز میں علماء کے دل کتنے نازک اور حساس ہونے کے ساتھ ساتھ دین کے لیے کتنی غیرت رکھتے ہیں اس کا علم مجھے سمبڑیال کے علماء حضرات کی طرف سے کٹوائی جانے والی F.IR پڑھ کر ہوا.8 جولائی 1991ء کو تھا نہ سمبڑیال ضلع سیالکوٹ میں مولوی صاحبزادہ سلمان منیر صاحب کی تحریری درخواست پر مندرجہ ذیل احمدی مسلمانوں کے خلاف ایک مقدمہ زیر دفعات 298C ،295C، تعزیرات پاکستان درج کیا گیا ان کا جرم مسجد احمدیہ پر کلمہ طیبہ تحریر کرنا بتایا گیا.چنانچہ مکرم خواجہ محمد امین صاحب، مکرم ملک عنایت اللہ صاحب ، مکرم حمید الحسن شاہ صاحب، مکرم محمد یوسف صاحب ، مکرم ملک نثار احمد صاحب، مکرم محمود احمد صاحب کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے مولوی سلمان منیر صاحب نے پولیس کو اپنی درخواست میں لکھا کہ اس سے قبل علاقہ مجسٹریٹ نے اس مسجد اور کئی قادیانیوں کے گھروں سے کلمہ طیبہ کے متبرک الفاظ کو مٹا کر محفوظ کیا تھا اور دوبارہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کے سلسلہ میں مقدمات درج تھے جو ابھی تک زیر سماعت ہیں اس کے باوجود قادیانیوں نے اپنی مسجد پر دیدہ دانستہ طور پر کلمہ طیبہ لکھ کر قانون کی صریح خلاف ورزی کی ہے اور تمام مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے.اور اس طرح توہین رسالت کے مرتکب ہوتے ہیں.چنانچہ قانون فوری حرکت میں آیا گھناؤنی سازش اور علماء کے مجروح ہوتے ہوئے جذبات کی حفاظت کے لیے ان ناعاقبت اندیشوں کو جیل کی کال کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا ہے.یادر ہے 295C کے تحت ان مجرموں کو سزائے موت بھی ہو سکتی ہے.ادھر وطن عزیز کی کوئی گلی کوئی کو چہ ایسا نہیں جہاں آج کل جوانہ کھیلا جارہا ہو

Page 415

415 وطن عزیز میں جاری ایک دلچسپ عوامی کھیل کا آنکھوں دیکھا حال روز نامہ نوائے وقت کی زبانی: وطن عزیز کے گلی کوچوں میں کرکٹ میچوں پر جو الگانے کی و با تیزی سے پھیل رہی ہے ، اور اس وقت لاہور میں کرکٹ جوئے کے سینکڑوں خفیہ اڈے ہیں جو ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں جہاں بیٹھے ” بکیوں سے رابطے کا ذریعہ ٹیلی فون ہیں جوں ہی میچ شروع ہو گھنٹیاں بجنی شروع ہو جاتی ہیں.اور یہ سلسلہ میچ کے ختم ہونے تک جاری رہتا ہے.اور عام طور پر جوا اس میچ پر لگایا جاتا ہے جس میں پاکستان بھی کھیل رہا ہوا گر قومی ٹیم کا میچ روایتی حریف بھارت سے ہو تو جوا بڑے پیمانے پر ہوتا ہے اور اس کا ریٹ بھی بڑھ جاتا ہے جس میں پیسوں کے ساتھ جذبات کا جو ابھی لگا ہوتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو ا صرف کھلاڑی ہی کھیلتے ہیں یا لوگ ، دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ قومی ٹیم کی صرف فتح پر ہی نہیں بلکہ شکست پر بھی جو الگاتے ہیں.اور اکثریت کی فتح پر جوا کھیلاتی ہے اور جب ٹیم جیت جاتی ہے تو امن وسکون رہتا ہے کیونکہ ٹیم کی شکست پر جو الگانے والوں کی تعداد کم ہوتی ہے لیکن جب ٹیم ہارتی ہے تو سخت رد عمل سامنے آتا ہے.کبھی جلوس نکال کر کھلاڑیوں کے خلاف نعرہ بازی کی جاتی ہے اور کبھی ان کے گھروں پر پتھراؤ کیا جاتا ہے بلکہ اس بار تو شارجہ کپ میں شکست کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کو بم سے اڑانے کی ٹیلی فون دھمکیاں بھی دی گئی ہیں.اس وقت پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں کا خصوصاً لا ہور کا چائے کا کوئی کھوکھا یا پان کی کوئی دکان یا چھوٹے بڑے ہوٹل ایسے نہیں جہاں کرکٹ سیزن کے دوران جوا نہ ہوتا ہو.جوئے کی اس لعنت نے چھوٹے بڑے تمام کو بری طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، خصوصا نئی نسل تو بری طرح شکار ہے بکیوں نے اسے کاروبار ، امراء نے اسے شغل اور غریب طبقے نے آسان روزگار بنا لیا ہے، لیکن عالمی سطح پر بدنامی کس کی ہو رہی ہے اس پاک وطن کی جو پہلے ہی کئی مشکلات کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے.“ تبصره (نوائے وقت 3 جنوری 1998 ء ) | گلی کوچوں ، چھوٹے بڑے شہروں، چائے پان کے کھوکھوں سے لیکر محلات تک میں یہ جاری کھیل یقینا ایک نفع مند اور عین اسلامی کھیل ہی ہوگا؟ کلمہ طیبہ مسجد پر لکھنے، اُسے مٹا دینے کے بعد پھر کلمہ لکھنے ، پہلی دفعہ بھی جیل اور پھر دوسری دفعہ بھی جیل اور پھر تیسری دفعہ بھی جیل کی سلاخیں.کلمہ طیبہ دیکھ کر جذبات مجروح کروانے والو اور جوئے کی لعنت پر دم سادھ لینے والو

Page 416

416 کتنے ہیں وہ خوش نصیب جو گرفتار ہو کر یہ کہہ گئے: دل مدعی کے حرف ملامت سے شاد ہے اے جانِ جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے 5.اُدھر نماز جمعہ ادا کرتے ہیں اور جس کلمہ کو ہم نے مٹادیا تھا اس کو دوبارہ تحریر کر دیا ہے.خوشاب کے 6 قادیانیوں کی مزید دل آزار حرکت.قانون حرکت میں 295C توہین رسالت کے تحت فوری جیل میں بند.سزائے موت کی امید ہے.سیالکوٹ کے بعد خوشاب چلتے ہیں یہاں بھی حسب معمول کچھ قادیانی علماء کے جذبات مجروح کرنے والی حرکات کر رہے تھے مگر الحمد للہ میرے غیور اور باخبر علماء دین کی فوری مداخلت نے گھناؤنی سازش کو طشت از بام کر دیا.کچھ قادیانی قابو آ گئے اور باقی مجرمین کے لیے ہم انشاء اللہ چوکنے رہیں گے.تفصیل یہ ہے کہ: مورخہ 13 اپریل 1987ء کوزیر دفعہ 295 تعزیرات پاکستان ایک مقدمہ تھا نہ خوشاب میں بوقت چار بجے شام مکرم مبارک احمد صاحب، مقصود احمد صاحب، ماسٹر حمید اللہ صاحب، محمد حاکم صاحب اور رانا عطا اللہ صاحب کے خلاف درج ہوا جو خواجہ محمد عثمان ولد عبدالرحمن سکنہ خوشاب کی تحریری درخواست پر درج کیا گیا.درخواست میں لکھا گیا کہ ان احمدیوں نے مسجد پر دوبارہ کلمہ طیبہ تحریر کر دیا ہے.بعض مکانوں میں وہ تبلیغ بھی کرتے ہیں اور انہوں نے جمعہ کے اجتماع کا اہتمام کیا اور خوشی محمد مربی قادیانی کی اقتداء میں مسلمانوں کی طرح نماز جمعہ ادا کی.لہذا استدعا ہے کہ مذکورہ بالا افراد کو فی الفور گرفتار کیا جائے اور دفعہ 295C تعزیرات پاکستان کے تحت کلمہ اور حضور کی گستاخی کا مقدمہ چلایا جائے.آخری اطلاعات آنے تک مندرجہ بالا افراد کوعلماء دین کی نشاندہی پر فوری گرفتار کر لیا گیا ہے اور جیل کی کال کوٹھڑیوں کی طرف ہانک دیا گیا ہے.ادھر 70 شراب خانے اب تین سال بعد 109 میں بدل چکے ہیں یوں کراچی میں پانی مشکل اور شراب آسانی سے میسر ممتاز عالم دین احمد شاہ نورانی کی کراچی میں جاری عوامی اور سرکاری سبیل“ کے بعد اخبار نویسوں سے پ شپ سر را ہے سندھ اسمبلی میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے صوبائی وزیر آبکاری اسمعیل راہو نے بتایا ہے کہ سندھ میں

Page 417

417 اب شراب خانوں کی کل تعداد 109 ہوگئی ہے جن میں سے 55 کراچی ڈویژن ، 34 حیدر آباد ڈویژن، 6 سکھر ڈویژن اور 14 لاڑکانہ ڈویژن میں ہیں.انہوں نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے شراب خانوں کے مزید دس لائسنس جاری کئے ہیں جن میں سے آٹھ کر اچی کیلئے ہیں.مولانا شاہ احمد نورانی نے شاید اس لئے کہا تھا کہ کراچی میں پانی مشکل سے ملتا ہے لیکن شراب آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہے.موجودہ حکومت کے دور میں جس تیزی سے نئے شراب خانے کھل رہے ہیں ان سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ حکومت ملک میں شراب کی نہریں جاری کرنا چاہتی ہے.پچھلے دنوں سینیٹر ڈاکٹر جاوید اقبال نے انکشاف کیا تھا کہ اسلام آباد میں جب قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتا ہے تو شراب کی قیمتیں تین گنا بڑھ جاتی ہیں جس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اکثر عوامی نمائندے پانی کی جگہ شراب استعمال کرتے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگی حکومت اسے شرابا طهورا سمجھ کر عام کرنا چاہتی ہے.اسلام زندہ باد!! پاکستان میں جب بھی بسنت کا موقع آتا ہے، نئے سال کی رات آتی ہے یا کوئی ایس موقع آتا ہے تو مادر پدر آزاد طبقہ شراب کے پیگ چڑھائے ، غل غپاڑے کرتا ہوا سر عام سڑکوں پر نکل آتا ہے اور یوں تاثر دیتا ہے کہ جیسے یہ بے ہودہ کلچر ہمارے معاشرے کا حصہ ہو.حالیہ بسنت میں بھی ایک رپورٹ کے مطابق کئی کروڑ روپے کی شراب اڑائی گئی.حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں یوں تو اپنے خود ساختہ انسانی حقوق کی معمولی خلاف ورزی پر بھی بڑی چینی چلاتی ہیں لیکن فحاشی، عریانی، زناکاری ، ہم جنس پرستی اور ام الخبائث شراب کے خلاف آج تک انہوں نے ایک دفعہ بھی آواز بلند نہیں کی.آخر یہ آواز کیوں بلند کریں.جن آقاؤں سے وہ لاکھوں ڈالر لیتے ہیں، انہوں نے انہیں ایسا کوئی ایجنڈا ہی نہیں دیا.اور اپنے مغربی آقاؤں کے ایجنڈے کے برعکس چلنے کی وہ ہمت ہی نہیں کر سکتے.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ان برائیوں کو برائی سمجھتے ہی نہیں.چنانچہ شراب نوشی اور سگریٹ نوشی ان کی محفلوں کا عام چلن ہے.اسے وہ اپنا سٹیٹس کو سمجھتے ہیں اور جو یہ سٹیٹس نہ اپنائے ، اسے وہ جاہل، گنوار اور مولوی ملاں کہتے ہیں.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں شراب پر سرکاری پابندی کے باوجوداس مادر پدر آزاد طبقے کو کچھڑ.اڑانے کیلئے شراب اتنی وافر مقدار میں کہاں سے اور کیسے دستیاب ہو جاتی ہے.اس مذموم کاروبار کے پس پردہ کون سے سرغنے اور عناصر ہیں.اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ شراب پر پابندی کے باوجود آئین میں ایک ایسا چور دروازہ باقی رہ گیا ہے جس سے فائدہ اٹھا کر اندرون خانہ یہ کاروبار پورے طمطراق سے جاری ہے.یہ چور دروازہ اقلیتوں کے نام پر کھولا گیا.اقلیتوں کے نام پر شراب کے پرمٹ دیئے گئے.ضیاء دور میں بظاہر یہ کام

Page 418

418 اقلیتوں کے ساتھ رواداری کے طور پر کیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندو اور مسیحی دونوں بڑی اقلیتوں کے سنجیدہ مذہبی رہنما یہ بیان کئی بار دے چکے ہیں کہ ان کے مذاہب میں بھی شراب جائز نہیں.اس لئے اس پر مکمل پابندی لگائی جائے.چیئر مین آل پاکستان ہند و پنجایت شری مہنت لکھی چتر ویل چندن اپنے ایک بیان میں نفاذ شریعت اور شراب پر پابندی کا مطالبہ کر چکے ہیں.( خبریں 1992 ء ) اسی طرح سنجیدہ مسیحی رہنما بھی شراب پر پابندی کے حق میں ہیں.مگر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ پرمٹوں کی آڑ میں چھوٹے بڑے ہوٹلوں میں تو یہ کاروبار جاری ہی ہے لیکن سندھ میں شراب کی عام دکانیں بھی کھو لنے اجازت دی گئی ہے.صرف پنجاب بھر میں 20 تا 25000 کے پرمٹ ہیں.ایک پرمٹ دو سے چھ بوتلوں کا ماہوار کوٹہ ہوتا ہے.ان میں سے 30 فیصد کے قریب جعلی پرمٹ ہوتے ہیں جو زیادہ تر ایکسائز کے انسپکٹروں کے پاس ہوتے ہیں.شراب کی سپلائی کے سب سے بڑے مرکز لاہور کے فائیو سٹار ہوٹل ہیں جہاں مسیحیوں کے دو گروپ خاص طور پر بڑے متحرک ہیں اور خوب دولت بنا رہے ہیں.آواری ہوٹل میں حفیظ سراج عرف فیجا اور فلیٹیز ہوٹل میں ضیاء کھوکھر عرف جو جا ہوٹلوں کے مالکوں ،سرکاری انتظامیہ اور ایکسائز انسپکٹروں کے تعاون سے مسیحیوں کے نام پر یہ مکروہ اور کالا دھندا جاری رکھے ہوئے ہیں.پہلے یہ دونوں سرغنے اکھٹے تھے لیکن آواری میں رقم کی بندر بانٹ پر 13 اگست 95 ء کو یہ دونوں شراب فروش پارٹیاں لڑ پڑیں.ایک دوسرے پر گولیاں چلائیں.زخمی ہوئے اور مقدمات بھی درج ہوئے جس کے بعد ان کے راستے الگ الگ ہو گئے.یہی حال فلیٹیز ہوٹل میں شراب فروشی کا کالا دھندا کرنے والے ضیاء کھوکھر عرف جو جا کا ہے.یہ انکشاف بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ ان فائیوسٹار ہوٹلوں میں غیر ملکی مہمانوں کے بھی شراب پر مٹ بنتے ہیں.جو دس دن یا ایک ماہ سے پہلے ہی اپنے وطن واپس لوٹ جاتے ہیں.اور وہ پرمٹ بالآخر محکمہ ایکسائز ، ہوٹلوں کے متعلقہ اہلکاروں ، حفیظ سراج اور ضیاء کھوکھر کے کام آتے ہیں.آواری ہوٹل کے مالک بہرام جی آواری نے ماضی کی نامور فلمسٹار نیلو کے خاوند ریاض شاہد کے چھوٹے بھائی افضال احمد عرف بھولا کو ہوٹل کی تمام شراب کا ذمہ دار بنا رکھا ہے.جو محکمہ ایکسائز کے متعلقہ شراب کے شعبہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفیسر کے عہدے سے ریٹائر ہوا.اور پیشن حاصل کی.بہرام جی آواری نے افضال احمد عرف بھولا کو تیس ہزار روپے ماہوار تنخواہ کے علاوہ گاڑی اور دیگر مراعات بھی دی رکھی ہیں.افضال احمد نے لارنس روڈ پر واقع سہگلوں کے بنگلہ کے عقب میں عالیشان بنگلہ بنایا جس میں حفیظ سراج کی مالی امداد کا بڑا حصہ ہے.شراب کی نام نہا دایسوسی ایشن کے حفیظ سراج وغیرہ نے محکمہ ایکسائز لاہور کے دفتر پر 25 دسمبر 93ء کو حملہ کیا

Page 419

419 اور افسران کو مارا پیٹا.پھر صلح ہونے پر ہوٹلوں کے بار روموں سے شراب کی پیٹیاں حاصل کر کے ہوٹلوں کے لان میں رکھ کر فروخت کی جاتی رہیں.آواری ہوٹل کے ایک غیر ملکی جنرل منیجر مسٹر جوزف کے باعث یہ ہوٹل نا قابل برداشت سرگرمیوں ، ریشہ دوانیوں اور دیگر سماجی برائیوں کا مسکن بنا ہوا ہے.ایک سروے رپورٹ کے مطابق لاہور کے تینوں فائیو سٹار ہوٹلوں میں روزانہ پچیس لاکھ روپے کی شراب فروخت ہوتی ہے جس میں 99 فیصد بلیک اور ایک فی صد پرمٹوں پر فروخت ہورہی ہے.تبصره سابقہ چیف جسٹس و سینیٹر ڈاکٹر جاوید اقبال جو وطن عزیز میں قانون کے رکھوالوں کے بھی رکھوالے تھے آج کل ایوان عدل سے نکل کر ایوان قانون میں براجمان ہیں اسی طرح نظام مصطفیٰ کے داعی اور تبلیغ اسلام “ کہلانے والے مولا نا نورانی صاحب ان دونوں کا وطن عزیز میں جاری ان شراباً طہور کی نہروں پر چھیڑ چھاڑ ٹائپ کی گفتگو یقینا اس بات کی علامت ہے کہ یہ بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے.تو پھر غصہ کیسا؟ قانون کو حرکت میں لانے کا جواز کیسا ؟ اور عوامی نمائندے اگر پانی کی جگہ شراب پیتے ہیں تو کیا مضائقہ کیا وہ گندا پانی پی کر پیٹ خراب کر لیں ؟ اور بیمار ہو جا ئیں.اور اگر اسلامی سلطنت کے یہ رکھوالے بیمار ہو گئے تو وطن عزیز اسلامی مملکت خداداد میں اسلام نافذ کرنے کا کام ادھورا یا سست ہو جائے گا.یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سر رہ سیاہی لکھی گئی یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سر بزم یار چلے گئے 6.اُدھر اے اللہ ! تو سلامتی بھیج محمدصلی اللہ تم پر اور ان کی آل پر جس طرح تو نے سلامتی بھیجی ابراھیم پر ان کی آل پر.اے اللہ! تو برکتیں نازل کر محمد لا لا ریتم پر اور ان کی آل پر جیسے تو نے برکتیں نازل کیں ابراھیم پر اور ان کی آل پر.شہداد پور سندھ کے 3 قادیانیوں کی ایک اور مجرمانہ حرکت قانون حرکت میں 298 اور 295 توہین رسالت کے تحت فوری F.IR خوشاب کے ریگستانی علاقے سے اندرون سندھ چلتے ہیں.حیرت ہے وطن عزیز کے کونے کونے میں قادیانی حضرات علماء کرام کے جذبات مجروح کرنے والی حرکات سے نہیں چوکتے.لیکن داد دینا چاہیے علماء کرام کو جو چاند تک قادیانیوں کا تعاقب کرنے کی قسم کھائے ہوئے ہیں.ان کی بصیرت افروز نگاہیں فوراً اسلامی معاشرے

Page 420

420 میں قادیانیوں کی غیر اسلامی حرکات کو تاڑ کر حرکت میں آجاتی ہیں زیر نظر مقدمہ بھی اس کی روشن مثال ہے.ٹنڈو آدم کے سرگرم اور ممتاز مولانا مولوی احمد میاں حمادی نے 13 اگست 1987ء کو شہداد پور سندھ میں ایک مقدمہ مکرم مختار احمد صاحب.عبدالرحمن صاحب اور علی احمد صاحب کے خلاف درج کروایا جس میں کہا گیا کہ احمدیوں نے ایک جلسہ مورخہ 9 اگست 1987ء کو منعقد کیا اور اس میں قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کرنے کے بعد لاؤڈ سپیکر پر رسول مقبول صلی یا مسلم پر درود بھیجا گیا.اس طرح توہین رسالت کے مرتکب ہوئے.چنانچہ یہ مقدمہ 298C اور 295 تعزیرات پاکستان کے تحت مندرجہ بالا تینوں احمدیوں پر درج ہوا.ادھر سیکس سکینڈل شروع ہوا تو بڑے بڑے کھلاڑی.میدان چھوڑ جائیں گے مجھے پتہ ہے کس وقت جسم کے کون سے حصے کو حرکت دینا ہے...اداکارہ ریشم جسم کی نمائش کرنا کردار کے مطابق کوئی برائی نہیں ایسا کر کے خوش ہوتی ہوں ، سوئمنگ کاسٹیوم پہن کر مخش فلمی ڈائیلاگ......اداکارہ میرا اسلامی مملکت خداداد کی ممتاز اداکاراؤں کا وطن عزیز کی دکھی انسانیت کو تفریح مہیا کرنے کے لیے ”جان جوکھوں میں ڈالنے والا دلچسپ اور خوبصورت مشغلہ “ " 1.ناقابل اشاعت روزنامہ خبریں (14 مارچ 1987ء) 2.ناقابل اشاعت روز نامہ پاکستان (16 اگست 1992ء) 3.ناقابل اشاعت روزنامہ نوائے وقت (28 ستمبر 1989ء) 4.نا قابل اشاعت روز نامہ جنگ (21 جنوری 1991ء) تبصره ریما، میرا، نرگس، ریشم جو بلند خدمات بجالا رہی ہیں ان کو اسلامی سنسر بورڈ آف پاکستان کی پوری پوری سپورٹ حاصل ہے.علماء کرام خود اس کے ممبر ہیں اس لیے ان اسلامی مستورات سے حسد کرنا یقینا قانون سے کھلی بغاوت ہے.یقینا میرا کی خدمات اتنی سردی اور سرد موسم میں جسم کو کپڑوں سے بے نیاز کر دینا خالص پاکستانی عوام کی خدمت کے لیے ہی ہو سکتا ہے جس سے جذبات مجروح کرنے کی بجائے خوش ہونا چاہیے.اور دوسرا یہ کہ تماشین بھی سکہ بند مسلمان اور تماشہ کرنے والیاں بھی آپ کو اس سے کیا؟ رقص وسرور اور تھائی لینڈ کی ثقافت سے خوش اور

Page 421

421 درود شریف سے جذبات مجروح کروا لینے والو یاد رکھو! کہ حریت آدم کی رہ سخت کے رہگیر خاطر میں نہیں لاتے خیال دم تعزیز کچھ ننگ نہیں رنج اسیری کہ پرانا مردان صفاکیش سے ہے رشتہ زنجیر 7.اُدھر گھر کے اندر سے آواز آئی کہ وضو جلدی کریں نماز کا وقت ہو گیا ہے اور نماز کے بعد درس قرآن بھی ہوگا.ابیٹ آباد، وادی ہزارہ کے 9 عمر رسیدہ قادیانیوں کی ایک اور مجرمانہ حرکت قانون حرکت میں 298C کے تحت 9 قادیانیوں کو پکڑ کر واصل زندان ڈھائی ماہ کے بعد عقل ٹھکانے آنے پر ہائی کورٹ سے رہائی وادی ہزارہ خوبصورت پھولوں ، پودوں آبشاروں اور میٹھے جھرنوں کی سرزمین ہے.کسی زمانہ میں صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق و علماء کرام نے یہ رپورٹ پیش کی تھی کہ انہوں نے اس پیاری سرز مین کو قادیانیوں سے پاک کر دیا ہے.مار پیٹ کر یہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے اور جو باقی بچے ان کے گھروں کو ہم نے لوٹ کر آگ لگادی ہے یوں یہ سرزمین اب ”مجرمانہ حرکات کرنے والے قادیانیوں سے بالکل پاک ہوگئی ہے.مگر ہماری حیرت کی انتہاء ہی نہ رہی جب ہمیں یہ خبر ملی کہ اسی وادی کے شہر ایبٹ آباد کے ایک کمرے میں 9 احمدی چھپ کر مجرمانہ افعال سرزد کرنے میں مصروف تھے.وہ تو بھلا ہو ہمارے حاضر باش علماء کا جن کی عقابی نگاہوں اور ابابیلی کا نوں نے اونچی دیواروں کے پیچھے اور بند کمروں کے اندر سے آنے والی حرکات کو محسوس کر کے دلی جذبات مجرح کروا لیئے.اگر یہ جذبات مجروح نہ ہوتے تو نہ جانے اور کتنے سال یہ پیرانہ سال لوگ ایسی ہی دل آزار حرکات کرتے رہتے.تفصیل پیش ہے.17 جنوری 1996ء کو تھا نہ ایبٹ آباد میں وقار گلی جدون صدر تحفظ ختم نبوت ایبٹ آباد کی تحریری درخواست پر زیر دفعه 298C F.IR مندرجہ ذیل افراد پر کاٹی گئی.1 - محمد احمد بھٹی 2 مبشر احمد 3.ابرار 5.انور احمد بھٹی 6.مدثر احمد 7 - شیر از احمد 9.شوکت احمد 4.احمد بھٹی 8.اعجاز احمد تحریری درخواست میں لکھا گیا کہ وہ اپنے دوست مسمی اعجاز احمد ساکنہ اقبال روڈ کو ملنے آیا.جو نہ ملا جس پر ہم واپس جارہے تھے کہ ایک مکان 77 تنولی ہاؤس جس کے باہر تنولی ہاؤس لکھا ہوا تھا جو اقبال روڈ پر واقع ہے کے قریب پہنچے تو اندر سے آواز آئی

Page 422

422 کہ وضو جلدی کریں نماز کا وقت ہو گیا ہے جس پر ہم دونوں سمجھے کہ مسجد ہے.اندر چلے گئے اور وہاں پر موجود ایک سفید داڑھی والے شخص نے کہا کہ نماز کے بعد درس بھی ہو گا.وہاں پر چند افراد نماز پڑھنے کے لیے تیار کھڑے تھے اور ہم مسجد کے آثار نہ پا کر باہر آ گئے.جب اس گھر سے باہر نکلے تومسمی عابد علی ولد صادق ساکن مغلپورہ سے ملاقات ہوئی جس سے ہم نے اس گھر کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہاں پر مرزائی عرصہ دراز سے اکٹھے ہوکر نماز پڑھتے اور آذان بھی ہوتی ہے.زیر دفعہ 298C قانون نے فوری حرکت کی.مجرمین جواکثر سن رسیدہ لوگ تھے کو گرفتار کر کے ایبٹ جیل کی سرد بیرکوں کے پیچھے ڈال دیا گیا.یوں جب یہ لوگ ڈھائی مہینے کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے تو خوفناک سردیوں کا موسم جا چکا تھا.ادھر صرف لاہور کی ہیرا منڈی میں ہزاروں افرا در روزانہ جسم خرید نے جاتے ہیں.بلکہ اب تو ہیرا منڈی ہی نہیں لاہور کے سارے ماڈرن علاقوں میں جسم سکتے ہیں مجاہد عظیم ضیاء الحق کے دور میں نہ صرف یہ منڈی برقرار رہی بلکہ دن دگنی رات چگنی ترقی کرتی رہی.سر عام منعقد ہونے والی اسلامی مملکت خدا داد کے ماڈرن لوگوں کی ماڈرن گیم جس میں روزانہ ہزاروں کھلاڑی حصہ لیتے ہیں.حامد میر اپنے کالم قلم کمان روز نامہ پاکستان میں صحافی بشیر احمد کی کتاب ” ملے تھے جو راستے میں پر لگنے والے کفر کے فتووں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں اس کتاب میں احمد بشیر نے بتایا ہے کس طرح مولانا چراغ حسن حسرت انہیں ایک شراب خانے میں بعد ازاں گانا سننے کیلئے لاہور کی ہیرا منڈی میں لے گئے...حسب توقع مختلف مذہبی لیڈروں اور علمائے کرام نے احمد بشیر پر کفر کے فتوے لگانے شروع کر دیئے ہیں اور شراب نوشی کے الزام میں انہیں کوڑے مارنے کا مطالبہ کر دیا ہے.حالانکہ جس زمانے میں احمد بشیر اور مولانا چراغ حسن حسرت نے شراب نوشی کی اس زمانے میں شراب کھلے عام ملا کرتی تھی اور اس پر کوئی پابندی نہ تھی.انہوں نے ہیرا منڈی میں گانا سنے کا اعتراف بھی کیا ہے.جس زمانے میں وہ اپنے استاد مولانا چراغ حسن حسرت کے ہمراہ ہیرا منڈی گئے اس زمانے میں چند سو افراد یہ شغل کیا کرتے تھے.لیکن آجکل تو لاہور کی ہیرا منڈی میں روزانہ ہزاروں افراد جاتے ہیں جن کی اکثریت گانا سننے کی شوقین نہیں ہوتی بلکہ جسموں کی گا ہک ہوتی ہے.بلکہ اب تو صرف ہیرا منڈی نہیں بلکہ لاہور کے اکثر ماڈرن علاقوں میں جسم بکتے ہیں.

Page 423

423 ہیرا منڈی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اسے روکنے کیلئے آج تک کسی حکومت یا مذہبی جماعت نے کوئی ٹھوس اور قابل عمل منصوبہ پیش کیا نہ ہی کوئی سنجیدہ کوشش کی.اسلام کے عظیم مجاہد جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہیرا منڈی نہ صرف برقرار رہی بلکہ پھیلتی رہی اور اس کی رونقوں میں مزید اضافہ ہوا یہی دور تھا جب اسلام آباد بھی ایک سیاسی ہیرا منڈی کی صورت اختیار کر گیا.فرق صرف یہ تھا وہاں جسموں کی بجائے ضمیر بکنے شروع ہو گئے.ہمارے علماء کرام کے پاس جنرل ضیاء الحق کے دور میں سنہری موقع تھا کہ وہ شراب پر مکمل پابندی لگواتے اور سیاسی وغیر سیاسی ہیرا منڈیاں بند کرواتے لیکن افسوس کہ ان گیارہ سالوں میں ہر برائی آگئی لیکن اسلام نہ آیا.“ تبصرہ بند دروازوں کے پیچھے سے آنے والی آواز کہ وضو کر لیں پر دلی جذبات مجروح کروانے والے دوستو یہ کھلے دروازوں سے آنے والی پائل کی جھنکاریں کیا کہہ رہی ہیں؟ یہ حسن اور بازار کے حسن کے پھیلتے ہوئے سائے مکافات عمل تو نہیں کہ جن کو وضو کے حسن سے نفرت ہو جائے ان کو ہیرا منڈی کے حسن سے دل بہلانا پڑتا ہے.کب دبد بهہ جبر سے دبدتے ہیں کہ جن کے ایمان ویقین دل میں کئے رہتے ہیں تنویر معلوم ہے ان کو کہ رہا ہوگی کسی دن ظالم کے گراں ہاتھ سے مظلوم کی تقدیر 8.اُدھر کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے کافی نہیں ضلع لاڑکانہ کے 2 قادیانی سر عام چوک میں سکوٹر پر قرآنی آیت کے سٹکر کے ساتھ پائے گئے.بے باک جرم پر قانون حرکت میں 295A-298C اور 295C کے تحت گرفتار کر کے کال کوٹھڑی کی سلاخوں کے پیچھے بند.یوں تو اسلامی مملکت خداداد کے کونے کونے میں بکھرے قادیانیوں کی مجرمانہ حرکات کا ہم نے جائزہ لیا مگر ضلع لاڑکانہ کے ان مذکور دو قادیانیوں نے تو اس بے باکی سے جرم کر کے پاکستان کی جرم سازی کی تاریخ میں انو کھا ریکارڈ قائم کر دیا ہے یعنی فدایان ختم نبوت نے دیکھا کہ ایک قادیانی جس کے سکوٹر پر الیس الله بکاف عبدہ کا سٹکر لگا ہوا ہے وہ ایک مسجد میں گئے اور وہاں جا کر امام مسجد محافظ شریعت اسلامیہ کو اطلاع دی.امام صاحب مسجد سے نکل کر معین چوک میں آئے اور یہ قادیانی اتنا لمبا عرصہ اسی چوک میں کھٹر اسکوٹرسمیت مسلسل جرم کا ارتکاب کرتا ہے.

Page 424

424 ظلم اور بے باکی کی انتہا ہے.بھلا ہوا امام صاحب کا جو بروقت پہنچ آئے ورنہ یہ مجرم پتہ نہیں اور کتنی دیر چوک میں کھڑارہ کر قرآنی آیت کی نمائش کرتا رہتا.تفصیل یوں ہے.موٹر سائیکل پر آیات قرآنی کا سٹکر چسپاں کرنے پر توہین رسالت کا مقدمہ مکرم ظہور احمد ولد انور حسین اور مکرم نور حسین ولد مولوی محمد انور ساکنان انور آباد ضلع لاڑکانہ کے خلاف موٹر سائیکل پر الیس الله بکاف عبدہ‘ کا سٹکر چسپاں کرنے پر مورخہ 12 نومبر 1995ء کو زیر دفعات 295A 298 اور 295 تعزیرات پاکستان ایک مقدمہ نمبر 80 تھانہ وارہ ضلع لاڑکانہ میں درج ہوا جو مولوی محمد صدیق امام کی مسجد وارہ کی درخواست پر درج ہوا.مولوی محمد صدیق نے پولیس کو درخواست دیتے ہوئے لکھا: میں ساکن شہروارہ مکی مسجد کا پیش امام اور خطیب ہوں.مورخہ 10 ستمبر 1995ء کو صبح 8 بجے میں قرآن پاک کا مطالعہ کر رہا تھا کہ اچانک شہر کے دوستوں (1) نورحسین ولد غلام مرتضیٰ (2) حاجی محمد ولد محمد اسمعیل (3) محمد اسمعیل ولد حاجی سموں خان نے آکر بتایا کہ ظہور احمد ولد نور حسین ذات ابڑو اور نور حسین ولد محمد انور ذات ابڑو ساکنان انور آباد تعلقہ وارہ جو سکول کے باہر شہر وارہ کے مین چوک میں ایک موٹر سائیکل پر سوار ہو کر آئے ہیں ان کی موٹر سائیکل کے میٹر کے اوپر قرآن پاک کی ایک آیت شریف الیس الله بکاف عبدہ لکھی ہوئی ہے.چونکہ دونوں اشخاص قادیانی ہیں اور اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں اور کافر ہیں ان کو قرآن پاک کی آیت لکھنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ یہ قرآن پاک کی بے حرمتی ہے.میں دوستوں کی اطلاع پر مسجد شریف سے باہر چوک میں آیا اور دیکھا کہ یہ دونوں قادیانی موٹر سائیکل پر سوار ہیں اور شہر وارہ کے مسلمانوں کی کافی تعداد وہاں انہیں گھیراؤ کئے ہوئے ہیں.میں نے خود آ کر دیکھا کہ ان کی موٹر سائیکل پر واقعی قرآن کریم کی مذکورہ آیت لکھی ہوئی ہے.میں نے ان دونوں اشخاص سے پوچھا کہ کیا یہ موٹر سائیکل آپ کی ہے تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہماری ہے.میں نے دوبارہ پوچھا کہ موٹر سائیکل پر یہ آیت آپ نے لکھی ہے تو انہوں نے کہا ہاں ہم نے لکھی ہے.میں نے ان سے کہا کہ تم قادیانی کا فر ہو تم ہمارے قرآن پاک کی آیت نہیں لکھ سکتے کیونکہ پاکستانی قانون کے مطابق کسی بھی قادیانی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے یا مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرے اور قانون کے مطابق اگر کوئی قادیانی مسلمانوں کے احساسات کو مجروح کرے گا یا حضرت محمد لال پیلم کی شان میں گستاخی کرے گا یا قرآن مجید کی کسی بھی آیت کا اس طرح استعمال کرے گا یا شعائر اسلام کو استعمال کرے گا جس کے مطابق وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہو تو وہ پاکستان کے آئین کے مطابق مجرم ہے.اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حق دیا گیا ہے.دوبارہ میں نے ان سے کہا کہ آپ قادیانی کافر ہیں آپ ہمارے قرآن کریم کی آیت نہیں لکھ سکتے کیونکہ مسلمانوں کے

Page 425

425 جذبات مجروح ہوتے ہیں اور تیسرے یہ کہ قرآن پاک میں جو آیات حضرت محمد صلی یا پریم کی شان میں نازل ہوئی ہیں جیسا کہ یہ آیت بھی ان میں سے ایک ہے اور آپ کے جھوٹے نبی مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں لکھا ہے کہ یہ سب آیات میری شان میں نازل شدہ ہیں.تم اس جھوٹے نبی کے پیروکار ہو اور اس آیت کو موٹر سائیکل پر لکھ کر تم رسالت کے منکر ہو چکے ہو.میرے ان الفاظ پر ان دونوں قادیانی اشخاص نے کہا کہ ہم احمدی مسلمان ہیں.ہم نے یہ آیت لکھی ہے اور لکھتے رہیں گے.ہم نے پاکستان کے قانون کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی کریں گے.آپ نے جو کرنا ہے کر لیں.اس کے بعد میں اپنے دوستوں کو وہاں بٹھا کروارہ تھا نہ اطلاع کرنے آیا ہوں کہ آپ ان مجرموں کو گرفتار کریں اور موٹر سائیکل کے میٹر پر قرآن پاک کی آیت تحریر شدہ ہے اس کو اپنی تحویل میں لیں اور دونوں مجرموں کو قانون کے مطابق دفعہ AC295,298 اور C295 تعزیرات پاکستان کے مطابق سزا دلوائیں.اس کی درخواست پر سنئیر سپر نٹنڈنٹ پولیس لاڑکانہ نے بذریعہ چٹھی نمبر 95.11.143554 ، مقدمہ درج کرنے کا حکم صادر فرمایا.چنانچہ مورخہ 12 نومبر 1995ء کو دونوں احمدیوں پر مقدمہ کا اندراج ہو گیا.پولیس نے ظہور احمد کو گرفتار کر لیا اور موٹر سائیکل اپنے قبضہ میں لے لی.بڑی مشکل سے ان کو رہا کروایا گیا مگر بعد میں جمعیت العلمائے اسلام کے لیڈر مولانا فضل الرحمن کے دباؤ کے نتیجہ میں پولیس نے دونوں احمدیوں کو دوبارہ گرفتار کر لیا اور موٹر سائیکل دوبارہ اپنے قبضہ میں لے لی.یادر ہے کہ ظہور احمد اور نور حسین دونوں سکول ٹیچر ہیں.سیشن جج سے ان کی ضمانتیں کروانے کی کوشش کی گئی مگر اس نے درخواست ضمانت کو مستر د کر دیا جس کے بعد ضمانت کے حصول کے لئے سندھ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا مگر وہاں بھی حکومت نے ضمانت کی سخت مخالفت کی.مگر آخر کا ر سندھ ہائی کورٹ کے جج نے دونوں احمدیوں کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی اور اس طرح ان دونوں کو تقریباً تین ماہ جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہائی نصیب ہوئی.8.ادھر الفضل انٹر نیشنل 10 ستمبر 1999ء تا 12 ستمبر 1999 ء ) | انسانی اعضاء کی سمگلنگ ، عورتوں کی خرید و فروخت...بھوک و افلاس نے ڈیرے ڈال دیئے افغانستان میں انسانی اعضاء کی سمگلنگ کا دھندہ عروج پر راولپنڈی (خبر نگار ) انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق افغانستان میں خانہ جنگی کے ساتھ ساتھ انسانی اعضاء کی سمگلنگ کا کاروبار عروج پر ہے.خانہ جنگی میں کیڑوں مکوڑوں کی طرح انسان مر رہے ہیں لوگ پہلے پہل انسانی

Page 426

426 اعضاء روپوں کے لالچ میں شدید مجبوریوں کی بنا پر یہ مذموم دھندہ کرنے والوں کے ہاتھ فروخت کر دیا کرتے تھے.لیکن ہولناک جنگ کی وجہ سے یہ دھندہ ایک با قاعدہ کاروبار اختیار کر گیا ہے.ذرائع کا کہنا ہے کہ اب اس کاروبار میں بین الاقوامی بدنام زمانہ ایجنسیوں کے اہلکار بھی شامل ہو گئے ہیں اور خود ایک مافیا کی شکل میں کام کر رہے ہیں.مافیا کے لوگ شدید زخمیوں کی تاک میں رہتے ہیں.اسکے علاوہ لوگوں کو اغوا بھی کر لیا جاتا ہے اور ان کے دل گردے.آنکھیں محفوظ کر کے خواہشمند حضرات کو فروخت کر دی جاتی ہیں.اور لاکھوں ڈالر کمائے جاتے ہیں پہلے پہل پاکستان میں بھی گردوں کی خرید و فروخت ہوئی تھی اور اکثر و بیشتر خلیجی ممالک کیلئے ان کی فروخت ہوتی تھی.اخبارات میں باقاعدہ ضرورت گردہ کا اشتہار ہوتا تھا ان میں واقعی ضرورت بھی ہوتی تھی بقیہ سب کا روبار تھا.اس میں ایک قباحت یہ بھی ہوتی تھی کہ اکثر و بیشتر یہ کاروبار کرنے والوں کو منشیات کا استعمال کرنے والے لوگ ملتے تھے لیکن اب ان کے کیلئے افغانستان ایک منڈی کی شکل میں سامنے موجود ہے.ذرائع کا کہنا ہے کہ انسانی اعضاء حاصل کرنے کے بعد محفوظ کئے جاتے ہیں اور پھر انہیں بھارت سمگل کر دیا جاتا ہے اور وہاں سے بین الاقوامی سطح پر خواہشمند لوگوں کو فروخت کر دیئے جاتے ہیں.مافیا کے ایجنٹ بھارت میں بھی سرگرم عمل رہتے ہیں اور وہاں سے بھی انسانی اعضاء حاصل کر لیتے ہیں اس وقت یورپین ممالک میں گردوں دل کی بہت مانگ ہے اور اسے پورا کرنے کیلئے مفاد پرست انسانی جانوں سے کھیلنے سے بھی نہیں رکتے.(روز نامہ صحافت اسلام آباد 6 دسمبر 1997ء ) ڈیرہ غازی خان میں عورتوں کی خرید و فروخت کا کاروبار پھر شروع تکبیر کی رپورٹ پر وزیر اعظم کے حکم سے کی جانے والی کارروائی کے بعد روپوش ہو جانے والے بردہ فروش دوبارہ فعال ہو گئے مجرموں نے بنگالی عورتوں کی جگہ مقامی غریب گھرانوں کی شریف زادیوں اور بدکاری کے اڈوں کی لڑکیوں کو حدف بنا لیا تکبیر کے شمارہ 14 میں ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں بااثر زمینداروں اور سرداروں کے زیر سایہ بنگلہ دیشی عورتوں کی خرید فروخت کے بارے میں ایک چشم کشار پورٹ شائع ہوئی تھی اس رپورٹ میں شرافت کے لبادے میں چھپے شیطانی چہروں کو بے نقاب کیا گیا تھا اور ایک بنگلہ دیشی بے سہارا خاتون نے جرائم پیشہ افراد کے چنگل سے آزادی دلانے کے لئے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے اپیل کی تھی جس پر انہوں نے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کر کے فوری تحقیقات اور عورتوں کی خرید وفروخت میں ملوث افراد کی گرفتاری کا حکم دیا.وزیر اعظم کی ہدایت پر ڈی آئی جی ڈیرہ غازی خان مرز امحمد یاسین نے تمام سرکل انچار جوں کو حکم جاری کیا کہ

Page 427

427 عورتوں کی خرید وفروخت میں ملوث یا ان سے جبری شادی کرنے والے افراد کو گرفتار کیا جائے تاہم جام پور ضلع را جن پور کے تھانے میں پولیس نے موقع غنیمت جان کر خوب چاندی بنائی اور ملزمان کے خلاف کسی حقیقی کارروائی کے بجائے ہزاروں روپے رشوت لے کر فرضی اور کاغذی کارروائی کر کے انہیں چھوڑ دیا.اس دوران نمائندہ تکبیر کو مختلف با اثر جرائم پیشہ افراد کی طرف سے سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں جس پر مقامی پولیس نے ابتدائی کارروائی کو کافی جانتے ہوئے رپورٹ نمبر 8 درج کر لی لیکن ان افراد کی طرف سے دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے.رپورٹ کی اشاعت کے بعد ملزمان زیر زمین چلے گئے تھے مگر عورتوں کی خرید و فرخت کا یہ دھندا آج کل پھر زور پکڑ گیا ہے اور اب بنگلہ دیشی عورتوں کی خرید فروخت کی بجائے ملزمان نے مقامی بے سہارا اور غریب لڑکیوں کو اپنا ہدف بنایا ہے اور انہیں مختلف حیلوں بہانوں سے ورغلاء کر اغواء کرنے اور بیرون ملک فروخت کر دینے کا کاروبار جاری ہے.ان ملزمان نے جنوبی پنجاب خصوصاً ڈیرہ غازی خان ڈویژن کو اپنا ہدف بنایا ہے گروہ کے ارکان نہ صرف شریف خاندانوں کی غریب لڑکیوں اور مجبور عورتوں کو ملازمتوں کا جھانسہ دے کر ہمسایہ ممالک میں لے جا کر فروخت کرتے ہیں بلکہ بدکاری کے اڈوں سے بھی لڑکیوں کو سیر و تفریح کے بہانے لے جا کر ڈیرہ غازی خان کے راستے بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں بھاری رقم کے عوض فروخت کر دیا جاتا ہے.وہاں سے علاقہ غیر کے بعض افرادان بے سہارا عورتوں کی منڈی لگا کر مہنگے داموں فروخت کر دیتے ہیں یا پھر انہیں کرائے پر دے دیتے ہیں.معلوم ہوا ہے کہ ایسی متعد دلڑکیاں ان علاقوں میں ظلم و ستم سہتے ہوئے ہلاک ہو چکی ہیں.چند ماہ قبل ملتان سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی ایک گروہ کا سراغ اسٹنٹ کمشنر بارکھان نے لگایا ہے.انہوں نے مسلح فورس کے ہمراہ بارکھان اور مختلف قبائلی علاقوں سے ملتان کی متعدد ایسی لڑکیوں کو برآمد کیا ہے جو مختلف بہانوں کے ذریعے بدکاری کے اڈوں سے یہاں لائی گئی تھیں اور بعد ازاں انہیں بھاری رقوم کے عوض آگے فروخت کر دیا گیا.دن کے وقت ان عورتوں سے بیگار لی جاتی اور رات کو علاقے کے لوگ انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بناتے.ایک ٹیکسی ڈرائیور شیراز نے اس گروہ کے بارے میں سنسنی خیز انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ ایک روز ملتان ریلوے اسٹیشن سے اس کی گاڑی، تین افراد محمد آصف، محمد بلال اور محمد ارشد نے کرائے پر حاصل کی اور کہا کہ وہ اپنی فیملی کے ہمراہ فورٹ منر وسیر و تفریخ کے لئے جانا چاہتے ہیں کرایہ طے ہو جانے کے بعد ان افراد کے ہمراہ نشتر روڈ پہنچا جہاں ایک ہوٹل سے تین لڑکیاں جن کے نام بعد میں گلنار، صائمہ، اور زبیدہ معلوم ہوئے گاڑی میں سوار ہو گئیں شام ڈھلے ہم فورٹ منرو پہنچ گئے.ان افراد نے بہانے سے رکنی تک جانے کو کہا ر استے میں موجود پولیس چیک پوسٹ والوں نے چیک کیا اور آگے جانے

Page 428

428 کی اجازت دیدی رکنی میں ہم ، زمان نامی ایک شخص سے ملے جو ہمیں اپنے وسیع و عریض ڈیرے پر لے گیا وہاں اور بھی عورتیں موجود تھیں.واپسی پر پولیس نے مجھے اکیلا پا کر پوچھ کچھ کی اور حراست میں لے لیا بعدا زاں میرے بیان پر اعلیٰ حکام کی نگرانی میں چھاپہ ماراٹیم نے تینوں لڑکیوں اور اسمگلروں کو گرفتار کر لیا اور ان کی نشاندہی پر درجنوں مقامات پر چھاپے مارے گئے اس دوران متعدد ایسی عورتیں برآمد ہوئیں جو برسوں پہلے یہاں لائی گئی تھیں اور اب بوڑھی ہو چکی ہیں ان عمر رسیدہ عورتوں نے بتایا کہ ایک عرصہ قبل ہمیں خریدا گیا اور ہر آنے جانے والے نے ہم سے زیادتی کی جب ہم اس قابل نہ رہیں تو ان جرائم پیشہ افراد نے ہم سے بیگار لینا شروع کر دی.انہوں نے بتایا کہ ان حویلی نما گھروں سے ہمارے باہر نکلنے پر پابندی تھی مگر اب جب ہم آزاد ہو گئے ہیں تو ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جائیں تو کہاں جائیں؟ مذکورہ بالا واقعہ کے دوسرے روز بردہ فروشوں کے ایک گروہ کا سرغنہ بالا میں پولیس مقابلے کے دوران مارا گیا.اسسٹنٹ کمشنر کو معلوم ہوا کہ دو ایسی لڑکیاں گذشتہ روز جاں بحق ہوگئی ہیں جن کے بارے میں کچھ پتہ نہیں کہ وہ کون تھیں ظالمون نے ان لڑکیوں کی کوچیں کاٹی ہوئی تھیں تا کہ وہ فرار نہ ہو سکیں.عورتوں کی خرید فروخت میں ملوث ایک شخص حاجی بشیر احمد کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ ایک بدنام اسمگلر ہے وہ کہاں کا رہنے والا ہے یہ کوئی نہیں جانتا تاہم اس نے چند برس پہلے ماڈل ٹاؤن ڈیرہ غازی خان میں ایک کوٹھی کرائے پر حاصل کی تھی ایک شخص فیاض احمد نے بتایا کہ حاجی بشیر احمد عورتوں کی اسمگلنگ کے علاوہ اسپئیر پارٹس اور الیکڑونکس اشیاء کی اسمگلنگ بھی کرتا ہے لیکن پولیس نے ابھی تک اس کے خلاف کارروائی نہیں کی.حال ہی میں ڈیرہ غازی خان کی 17 سالہ شازیہ کو اغواء کر کے تہران کے راستے دوبئی لے جانے کی ناکام کوشش کی گئی.شازیہ کی والدہ پچاس سالہ محنت کش مسماۃ عائشہ پولیس کو رپورٹ کرنے گئی تو پولیس اہلکاروں نے اس کی درخواست پھاڑ دی وہ روتی پیٹتی پریس کلب پہنچی تو صحافیوں کے دباؤں پر پولیس نے شازیہ کو بازیاب کرا کر اس کے والدین کے حوالے کیا.شازیہ نے بتایا کہ اسے جعلی پاسپورٹ کے ذریعے تہران بھجوانے کا پروگرام تھا مزید معلوم ہوا ہے کہ صدر مملکت فاروق احمد خان لغاری کے آبائی گاؤں موضعات درخواست جمال خان شمالی جنوبی وسطی میں بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی عورتیں ایک عرصہ سے موجود ہیں ان عورتوں کو مقامی زمینداروں نے کراچی سے خریدا اور بعد ازاں جبراًان سے شادی رچالی.دن بھر ان سے کھیتوں میں مشقت لی جاتی ہے.جن افراد کے گھروں میں یہ عورتیں موجود ہیں ان میں سے چند کے نام یہ ہیں تاہم اگر سرکاری سطح پر خفیہ اداروں سے تحقیقات کرائی جائے تو سینکڑوں عورتوں کی موجودگی کا پتہ چلایا جا سکتا ہے.( تکبیر 19 اگست 97 ء )

Page 429

429 بات صرف اب انسانی اعضاء کی سمگلنگ تک نہیں رہی اب تو وطن عزیز میں وہ کارنامے بھی انجام پار ہے ہیں کہ شیطان بھی اُن سے پناہ مانگتا ہوگا ایک خبیث شخص جاوید اقبال کا 100 بچوں کو گیس چیمبر کے ذریعہ سسکا کر مارنا ایک خبیث شخص کا 52 مردہ عورتوں کو قبروں سے نکال کر زنا کرنا ایک بیوی کا اپنے بچوں کو ساتھ ملکر اپنے خاوند کو قتل کر کے اُس کا سالن پکانا ایک خاندان کا مردہ لاشیں نکال کر پکا کر ان کا گوشت کھانے کی عادت کا کراُن ایک درندہ صفت انسان کا 4 سال کی بچے سے زنا کے بعد اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینکنا تبصره انسانی اعضاء کی سمگلنگ.چھوٹے معصوم بچوں کی سمگلنگ جن کو اونٹ دوڑ میں اونٹوں کے نیچے باندھ کر ریس کا مزہ لیا جاتا ہے.عورتوں کی خرید و فروخت کے لیے منڈیاں بنانا یہ وہ سب کام وطن عزیز میں ہی ہو رہے ہیں.پولیس اور ا نتظا میہ کیا کر رہی ہے الگ مسئلہ ہے؟ لیکن اسلامی معاشرے اور اسلامی شریعت کے حامیوں اور الیس الله بکاف عبدہ پر دلی جذبات مجروح کرانے والو یہ تو بتاؤ ان جرائم پر آپ کی زبانیں کیوں خاموش ہیں کیا یہ سب عین اسلامی افعال ہیں؟ یا کچھ کچھ آپ کا بھی حصہ ہے؟ پھر حشر کے ساماں ہوئے ایوان ہوس میں بیٹھے ہیں ذوی العدل گنہگار کھڑے ہیں ہاں جرم وفا دیکھئے کس کس پر ہے ثابت وہ سارے خطا کار سر دار کھڑے ہیں 9.اُدھر اللہ تعالیٰ ایک ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں دنیا پور ضلع لودھراں کی ایک قادیانی استانی کی بھی ایک مجرمانہ کوشش معصوم معصوم بچوں کو کلمہ طیبہ سکھاتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار ، قانون کی حرکت 295A اور 295 کے تحت توہین رسالت کا مقدمہ درج.سزائے موت کی امید کی جاسکتی ہے.لگتا ہے یہاں آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے.نہ صرف قادیانی مرد بلکہ قادیانی عورتیں بھی پاکستانی معاشرے میں مخصوص جرائم کر کے علماء کے جذبات مجروح کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی ہیں.اب اس مقدمے میں ہی دیکھئے کیسے ڈھٹائی اور بے باکی سے اس قادیانی استانی نے بچوں کو کلمہ سکھانے کی کوشش کر ڈالی.

Page 430

430 بھلا ہو علماء کا اور تاجر برادری کے صدر کا جنہوں نے فوری جلوس نکالا.اور ساری سڑکیں بلاک کر کے ٹائروں کو آگ لگادی.یوں اس قادیانی استانی کے لیے فوری قانون حرکت میں آگیا اور اس کے خلاف توہین رسالت کا مقدمہ درج ہو گیا.اگر تاجر برادری کے صدر جناب عنایت اللہ صاحب اس ایمانی غیرت کا مظاہرہ نہ کرتے تو نا جانے ان معصوم بچوں کے مستقبل کا کیا ہوتا.مقدمہ اور اس کو درج کروانے کے لیے کوششیں ملاخطہ ہوں.محترمہ استانی امتہ اللہ سلیم صاحبہ کے خلاف 4 فروری 1993ء کو ایک مقدمہ زیر دفعہ 2954 اور 295C تھا نہ دنیا پور ضلع لودھراں میں تبلیغ کرنے اور کلمہ سکھانے کے الزام میں درج کیا گیا.یہ مقدمہ دنیا پور کے رہائشی محمد علیم ولد عبدالرشید کی تحریری درخواست پر درج ہوا جس میں انہوں نے لکھا کہ سائل کی دختر گورنمنٹ ہائی سکول دنیا پور میں جماعت ہشتم کی طالبہ ہے مورخہ 27 جنوری 1993ء کو سکول کی چھٹی کے بعد میری بیٹی اور ایک اور طالبہ کلثوم اختر جماعت دہم نے مجھے بتایا کہ آج اسمبلی میں ٹیچر قیصرہ شہزادی نے تمام طالبات کو قادیانیت کا پرچار کیا اور عمومی طور پر تمام طالبات کو کلمہ لا الہ الا الله محمد مرسول اللہ پڑھایا.ٹیچر مذکور کے ساتھ دو اور قادیانی ٹیچر ز امتہ اللہ سلیم اور فرزانہ غنی بھی تھیں.قادیانیت کا پر چار کر کے انہوں نے ہمارے جذبات کو مشتعل کیا.اس لئے ہر سہ کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے.چنانچہ استانی امتہ اللہ سلیم کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا.مقدمہ کے اندراج کے لیے پولیس پر دباؤ ڈالنے کے لیے تاجر برادری کے صدر عنایت اللہ نے ایک جلوس نکالا اور سڑکیں بلاک کر کے ٹائر جلائے جس پر پولیس نے مقدمہ درج کر لیا.ادھر پوری دنیا کی نیلی فلمیں پاکستان کے سنیماؤں میں دھڑلے سے دکھائی جارہی ہیں جتنے سینما نیلی فلموں کے ذریعہ عریانی فحاشی اور جنسی بے راہروی کو فروغ دے رہے ہیں وہ تمام سر کردہ اسلامی لیڈران و سیاستدان حضرات کے ہیں.کراچی کے ایسے 2 سینما حاکم علی زرداری کے ، فیصل آباد کے 4 پیپلز پارٹی کے سرحد کے بلور خاندان، گوجرانوالہ کے 5 مسلم لیگ شیخو پورہ، گجرات اوکاڑہ ، ملتان ، سرگودھا مسلم لیگ کے، راولپنڈی کے 5 میں 2 پیپلز پارٹی کے باقی مسلم لیگ کے ہیں.پشتو فلم ساز ایسی نیلی فلمیں بنارہے ہیں جن پر جرمن اور دیگر پورنوگرافر بھی حیران ہیں.اسلامی مملکت خداداد کے ہر گلی ہر موڑ پر نظر آنیوالے خوبصورت سنیما بورڈ ز کی چلبلی اور گدگداتی رپورٹ : بڑی سکرین پر نیلی فلمیں

Page 431

431 روز نامہ اوصاف لکھتا ہے: پاکستان میں عریاں اور فحش فلموں کی نمائش پر چند گزارشات تین دہائی پہلے بھی مفاد پرست قو تیں اس گھناؤنے دھندے میں مصروف تھیں مگر اس دور میں اس مذموم کاروبار کوسیاسی خانوادوں کی سر پرستی حاصل نہ تھی اور نہ ہی ان گندی فلموں میں ہمیں اپنے ہی معاشرے کے فرد جنسی کمالات دکھاتے نظر آتے تھے مگر اب بعض پاکستانیوں نے اس شرمناک دھندے کو بھی باقاعدہ صنعت کا درجہ دے دیا ہے خصوصاً پشتو زبان کے فلمسازوں نے ایسی ایسی فلمیں بنالی ہیں جنہیں دیکھ کر مغربی پورنوگرافر ( بخش اور عریاں فلمیں بنانے والے ) بھی حیران ہیں.ان نیلی فلموں کی نمائش کے سدباب کے لئے کسی بھی حکومت نے دور رس نتائج کی حامل منصوبہ بندی نہیں کی کبھی کبھار نیم دلی سے بعض سنیماؤں پر بلاشبہ چھاپے مارے گئے مگر ہر بار سینما مالکان کی بجائے نچلے درجے کے ملازمین کو گرفتار کیا گیا اور چھوٹے چھوٹے جرمانے کئے گئے.مگر مارشل لاء کے خاتمہ کے بعد نیلی فلموں کے نمائش کاروں نے نئے عزم اور انتظامات کے ساتھ پہلے سے زیادہ قوت سے اپنا کاروبار شروع کیا.اس بار انہوں نے ممتاز اور موثر سیاست دانوں کی چھتری میں پناہ ڈھونڈی تھی اور بعض سیاستدانوں نے اس منافع بخش کاروبار میں خود کو عملی طور پر شامل کر لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نیلی فلموں کی نمائش کرنے والوں سینماؤں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا.ضیاء الحق کے مارشل لاء سے پہلے اس گھناؤنے بزنس میں صرف تیرہ چودہ سینما ملوث تھے جن کی تعداد اس وقت چار درجن سے تجاوز کر گئی ہے.نیلی فلموں کی نمائش کاروں کی قوت کا رکا اندازہ اس ایک مثال سے لگایا جا سکتا ہے.سردار مہتاب خان عباسی نے صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی عوام مطالبہ پر سرحد کے ایسے تمام سینما بند کرنے کا حکم دیا تھا جو کھلم کھلا نخش عریاں فلموں کی نمائش کاری میں مصروف تھے.ان کے اس پہلے انتظامی حکم پر سر حد عوام نے پسندیدگی کا اظہار کیا تھا مگر مسلم لیگ کی اس وقت کی حلیف سیاسی جماعت کے ارکان پارلیمنٹ نے سردار مہتاب عباسی کے اس فیصلہ پر احتجاج شروع کیا تھا.ان کا مطالبہ تھا کہ سینماؤں پر سے پابندی فوراً اٹھالی جائے.اس دوران پشاور میں ہمارے ایک اخبار نویس دولت کو دعوت ولیمہ میں اخبار نویسوں سے باتیں کرتے ہوئے سرحد کے سابق وزیر اعلیٰ آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے ایک سوال کے جواب میں مسکراتے ہوئے سینماؤں کو بندش کے حکم کو سیاسی سٹنٹ قرار دیا تھا انہوں نے بڑے اعتماد سے اخبار نویسوں کو بتایا تھا کہ چند روز میں سردار مہتاب عباسی اپنا فیصلہ واپس لے لیں گے اور واقعی ایسا ہی ہوا چندروز حکومت سرحد نے سینماؤں پر عائد پابندی اٹھالی تھی.یہ تصدیق شدہ امر ہے کہ فی الوقت ملک میں جتنے بھی سینما نیلی فلموں کے ذریعہ عریانی، فحاشی اور جنسی بے

Page 432

432 راہروی کو فروغ دینے میں مصروف ہیں ان میں سے بیشتر با اثر سیاست دانوں کی ملکیت ہیں ان میں ایسے سیاستدانوں کی اکثریت ہے جو اقتدار کے بدلتے ہی سیاسی وفاداریاں بھی بدل لیتے ہیں.جبکہ چند سینما ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی سرپرستی میں چل رہے ہیں.کراچی کے ایسے سینماؤں میں دو کی ملکیت حاکم علی زرداری کی بتائی جاتی ہے.جبکہ فیصل آباد کے چار سینما مالکان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے بتایا جاتا ہے.کہا جاتا ہے کہ صوبہ سرحد کے نیلی فلمیں دکھانے والے سینما بلور فیملی کی ملکیت ہیں.لاہور سے تقریباً سات سینما اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہیں اور ان سب کی سر پرستی ضلعی انتظامیہ اور پولیس کرتی ہے.گوجرانوالہ کے پانچ سینماؤں میں کھلے عام نیلی فلمیں دکھائی جارہی ہیں ان سب سینماؤں کا تعلق پاکستان مسلم لیگ کے بااثر افراد سے ہے.اسی طرح شیخو پورہ، گجرات ، اوکاڑہ، ملتان سرگودھا اور دیگر شہروں میں سیاست دانوں کی شہ پر نوجوان نسل کو گمراہ کیا جارہا ہے.اسلام آباد پاکستان کا واحد شہر ہے جس کے چاروں سینما صرف صاف ستھری تفریح فراہم کر رہے ہیں جبکہ راولپنڈی کے کم از کم پانچ سینماؤں میں انگریزی اور پشتو زبان کی نیلی فلمیں دکھائی جارہی ہیں ان میں سے دوسینماؤں میں جرمن فلموں کے ٹوٹے دکھائے جارہے ہیں.ان پانچوں سینماؤں میں دکھائی جانے والی فلمیں اس قدر مخش ہیں جنہیں میاں بیوی اکٹھے نہیں دیکھ سکتے.راولپنڈی کے دوسینماؤں کے ٹھیکیداروں کا تعلق پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت سے ہے جو ہر بحران میں اپنا سیاسی اثر ورسوخ استعمال کر کے صاف بچ نکلتا ہے.باقی سینماؤں کو ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی سرپرستی حاصل ہے ان میں سے دو سینما ایک ہی علاقہ مجسٹریٹ اور ایک ہی تھانہ کی حدود میں واقعہ ہیں.ان میں سے ایک سینما میں خود علاقہ مجسٹریٹ صاحب اپنی شا میں رنگین کرتے دکھائی دیتے ہیں.(اوصاف 27 اپریل 1998 ء اسلام آباد ) تبصرہ گلی گلی محلے محلے بکھرے ویڈیوسنٹر،شہر شہر قریہ قریہ پھیلے سینما ہال اور ان کے ارد گرد گھومتے سینکڑوں نہیں ہزاروں نوجوان جرمن انگریز اور پشتو مستورات کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرنے والی یہ مخلوق خدا.کیا یہ سب عین اسلامی حرکات ہیں اور یہ لوگ عین مسلم؟ کلمہ طیبہ کے بارے میں تو سکول سے گھر آکر بچی بتائے تو جذبات مجروح ہو جاتے ہیں مگر ان سینما جات کے بورڈ تو مال روڈ پنڈی ،صدر پشاور اور دیگر تمام اہم شاہراہوں پر دیکھے جاتے ہیں.بلکہ روزانہ کی اخبارات میں گھر گھر پہنچائے جاتے ہیں صرف بالغوں کے لیے جنہیں بیگم اور بیٹی کی موجودگی میں دیکھا اور پڑھا جاتا ہے.آخر کلمہ طیبہ پر جیل کی سلاخیں کب تک؟ 10.اُدھر

Page 433

433 شروع کرتا ہوں ساتھ نام اللہ کے جو بے حد مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے قادیانی ماہنامہ رسالہ انصار اللہ کی ایک اور ایمان شکن اور دل آزار مجرمانہ حرکت قانون حرکت میں 4 احباب کے خلاف 298C اور 295 یعنی تو ہین رسالت کا مقدمہ درج جماعت احمدیہ کے 40 سال سے اوپر کے لوگوں کو انصار اللہ " کہا جاتا ہے.چنانچہ ان کی اس تنظیم کا ایک ماہانہ رسالہ بھی نکلتا ہے جسے انصار اللہ کا ہی نام دیا گیا ہے.اس رسالہ کے مینجر کی بے باک جرات دیکھیے.ربو میں بیٹھے ٹنڈو آدم مجاہد ختم نبوت مولانا احمد میاں حمادی کو خط لکھ دیا اور اس کے اوپر بسم الله الرحمن الرحیم لکھا اور نیچے اپنے دستخط بھی کئے.مولانا کی ایمانی غیرت کو شاباش ہو آپ نے صرف مینجر کی بجائے ایڈیٹر، پہلشر اور پرنٹر کو بھی ساتھ ہی نقصی کر لیا.آخر وہ یہ رسالہ سب مل کر ہی نکالتے ہوں گے.اگر یہ رسالہ ایسی ہی مجرمانہ حرکات کرتا رہتا تو نہ جانے مسلم معاشرے پر اس کے کیا کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں.تفصیل کے لیے مقدمہ اور انداز مقدمہ ملاحظہ ہو.ٹنڈو آدم تھا نہ میں ایک اور مقدمہ مولوی احمد میاں حمادی نے رسالہ ماہنامہ انصار اللہ کے ایڈیٹر مرزا محمد دین صاحب ناز، پبلشر چوہدری محمد ابراہیم صاحب، پرنٹر قاضی منیر احمد صاحب اور مینجر رسالہ انصار اللہ کے خلاف زیر دفعہ 298C اور 295C تعزیرات پاکستان 11 ستمبر 1990ء کو دائر کیا.ملاں حمادی نے اپنی تحریری درخواست میں لکھا کہ مورخہ 90-03-21 کو مجھے ڈاک کے ذریعہ ایک لفافہ ملا جس میں ہلکے سبز رنگ کا کارڈ تھا.اوپر بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريــم لکھا ہوا تھا اور نیچے منیجر ماہنامہ انصار اللہ کے دستخط تھے.چونکہ احمدی محمد مرسول اللہ سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی لیتے ہیں اس طرح رسول اللہ کی بے حرمتی کی ہے.نیز بسم اللہ شریف لکھ کر خود کو مسلمان ظاہر کیا ہے اور میرے مذہبی جذبات مجروح کئے ہیں لہذا 298C اور 295 تعزیرات پاکستان کے تحت قانونی کارروائی کی جائے.قانون حرکت میں آیا.مقدمہ درج کر لیا گیا اور بندے یعنی مجرمین گرفتار کر لئے گئے.یتھی ایک قادیانی ماہنامہ رسالے کی کہانی ادھر ” آپ فحاشی و عریانی کے مناظر کو بہت عمدگی سے فلم بند کرواتی ہیں " آپ کا فرمان ہے اگر آپ کا جسم خوبصورت ہے تو اس کو دکھایا جا سکتا ہے؟

Page 434

434 فلم بین طبقہ آپ کو سینما سکرین پر نگا دیکھنا چاہتا ہے آپ کا یہ قول ہے کہ ”جب تک ہم خوبصورت ہیں اور ہمارا جسم چمک رہا ہے تو ہم سینما اسکرین سے لیکر ہوٹلوں اور بنگلوں میں سائیڈ بزنس بھی کر سکتے ہیں بلکہ فلموں میں ہمیں اتنا پیسہ کہاں ملتا ہے جتنا ہم مجرہ کر کے کما لیتے ہیں.سیکس کے میدان میں ویسے تو بہت سی ادکارائیں موجود ہیں جن میں چکوری، میرا لیلی ، سائرہ خان اور سب سے بڑھ کر ریشم مگر ان کی پہلی انٹری ہی قیامت برپا کر دیتی ہے.“ وطن عزیز کے نگار خانوں کی مستورات کی تھکا دینے والی مصروفیات سے امت مسلمہ کو باخبر رکھنے والے اسلامی ممتاز ماہانہ رسالہ پکچر پوسٹ جنوری 1993ء کی پشتو اداکارہ سنیتا خان کے بارے میں رپورٹ.و پشتو فلموں میں گندے الفاظ ) اداکارہ کا خطاب پانے والی خوبصورت اداکارہ سنیتا خان کا شمار اس وقت پشتو فلموں کی ایک بڑی فنکارہ کے طور پر کیا جاتا ہے اور سیکس کے حوالے سے کافی شہرت حاصل کر چکی ہے فحاشی و عریانی مناظر کو بہت عمدگی سے فلم بند کرتی ہے.ان دنوں اس کی ایک مشہور فلم کچے غوٹے بڑے زور سے نمائش پذیر ہے ٹھیک طرح سے تو معلوم نہیں چل سکا کہ سنیتا خان کی پہلی فلم کون سی تھی البتہ اس نے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز پشتو فلم سے ہی کیا جبکہ وہ اردو اور پنجابی فلموں میں بھی کام کر چکی ہے.ایک پشتو فلم اور دشیطان میں ایک گانے کے دوران اس نے تو فحاشی کی حد کر دی...آگے کی عبارت بہت گندی ہے......) جبکہ وہ مزید یہ کہتی ہے کہ اگر آپ کا جسم خوبصورت ہے تو اس کو دکھایا جاسکتا ہے اور کم از کم میں مسرت شاہین سے تو بہتر ہوں.ان دنوں جن اداکاراؤں کا پشتو فلموں میں راج ہے ان میں سنیتا خان اور بابرہ راج، نایاب، زمرد خان اور شہناز قابل ذکر ہیں ماضی میں جو اداکارائیں پشتو فلموں میں اپنے کام کی بدولت مشہور تھیں ان میں ثریا خان، یاسمین خان ، وحیدہ خان ،عشرت چوہدری، وغیرہ شامل تھیں مسرت شاہین کی آمد کے بعد ان اداکاراؤں پر بہت اثر پڑا اور پھر آج سنیتا خان کے ہوتے ہوئے مسرت شاہین کی مارکیٹ ویلیو متا ثر ہوئی ہے....سنیتا خان نے بہت زیادہ فلمیں نہ کرنے کے باوجود بھی شہرت حاصل کر لی ہے جس کی واحد وجہ ہے کہ اس نے بہت کھل کر عریانیت کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنے جسم کی نمائش بھر پور طریقے سے کی ہے.کیونکہ سنیتا خان کا جسم واقعی بہت خوبصورت ہے اس کا گورا چٹا بدن فلم بینوں کو بہت مزے دیتا ہے اور فلم بین طبقہ بھی سنیتا خان کو سنیما اسکرین پر ننگا دیکھنا چاہتا ہے.

Page 435

435 مسرت شاہین کے سیاست میں چلے جانے کے باعث اب تو سنیتا خان بابر اراج اور شہناز کے درمیان مقابلہ ہے.اس مقابلے میں شہزادی ، آنچل ، اور شبانہ خان بھی شامل ہو چکی ہیں مگر اصل مقابلہ صرف بابرا راج اور سنیتا خان کو اپنے خوبصورت جسم کی بدولت بابرہ راج پر برتری حاصل ہے.کیونکہ با برا راج اپنے جسم پر کنٹرول حاصل نہیں کر سکی ہے اور وہ اس کے برعکس سنیتا خان اپنے گورے چٹے خوبصورت بدن کی بدولت اور عریانیت سے بھر پور کام کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہے....سنیتا خان کے مقابلے پر اب کوئی اور نہیں ہے؟ سیکس کا میدان میں ویسے تو بہت سی اداکارائیں موجود ہیں جن میں چکوری ، میرا ہیلی ، سائرہ خان ، اور سب سے بڑھ کر ریشم مگر ان کے مقابلے میں جسمانی لحاظ سے سب.پرکشش ادکارہ صرف اور صرف سنیتا خان ہی ہے.جس کی سنیما اسکرین پر پہلی ہی انٹری قیامت برپا کر دیتی ہے اور وہ واحد فنکارہ ہے جس کو پورے پاکستان کے شائقین پسند کرتے ہیں.اب یہ بات بھی اخبارات میں فلموں میں کام کرنے پر پابندی لگادی ہے اور اس نے ایک خاص فلم میں بھی کام کیا ہے یہ فلم بہت جلد منظر عام پر آئے گی آپ کو تو انتظار ہوگا ہم بھی اس فلم کے انتظار میں ہیں.“ تبصرہ پکچر پوسٹ، چترالی ، میڈ یا سٹائل اور پتہ نہیں کیا کیا اور کون کون سے ماہانہ رسالہ جات ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں اسلامی مملکت خداداد سے ڈیکلریشن حاصل کر کے شائع ہورہے ہیں.مسلمان بھائی شائع فرمارہے ہیں.مسلمان بھائی مطالعہ فرما کر علم میں اضافہ فرما رہے ہیں اور مسلمان مستورات نگارخانوں میں یہ خبریں اور انٹرویو دینے کے لیے دن مصروفیات میں مشغول ہیں.طبیعت پر اگر گراں نہ گزرے تو پوچھ سکتا ہوں کہ کیا یہ سب عین اسلامی حرکات ہیں؟ کیا یہ خدمت اسلام ہو رہی ہے؟ کیا ان افعال سے دلی جذبات مجروح نہیں ہوتے؟ اور توہین رسالت بھی نہیں ہوتی.بسم الله الرحمن الرحیم والا خط ڈاک خانہ سے چوری کروا کے اس پر دلی جذبات مجروح کروانے والے دوستو نگار خانوں میں افعال پذیر ہونے والے یہ اعمال کہیں مکافات عمل تو نہیں بقول مولانا ابوالحمدضیاء القادری ختم شریف کے چاول حرام ہوں تو عورت کی منی پاک معلوم ہونے لگتی ہے.منظور ہے یہ تلخی یہ ستم ہم کو گورا دم ہے تو مدادائے الم کرتے رہیں گے مے خانہ سلامت ہے تو ہم سرخی مے سے تزئین دروبام حرم کرتے رہیں گے اسلامی مملکت خداداد کی اسلامی پہیلی بوجھیے اور سوچئے

Page 436

436 96 ء کا سال پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک اہم سال ہے.جب پہلی دفعہ تعزیرات پاکستان دفعہ 298C ،295C، 2954 کے تحت سکہ بند کافروں کے ساتھ ساتھ ایک سکہ بند مسلم پر بھی انہیں دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوا.اشارے اور وضاحت کے لیے ہم دونوں کے جرائم بتا دیتے ہیں سزا کیا ہوئی ہوگی؟ اور مقدمہ کتنی سرعت کے ساتھ درج ہو کر قانون کس طرح حرکت میں آیا ہو گا؟ یہ آپ سوچ کر بتائیے.پہلی کچھ یوں ہے.تو فیصلہ تو کر مگر اتنا نہ مسکرا کہ ہے اک اور فیصلہ اس فیصلے کے بعد داماد ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے مربی عبد القدیر تک دو مختلف الزام....یکساں F.IR دو مختلف انجام...دو مختلف سزا ئیں یوں تو پاکستان کی ارض پاک میں صاحب اقتدار اور مصاحبین اقتدار.طاقت کے نشے میں چور ہو کر بڑے بڑے عجیب و غریب کام سر انجام دے چکے ہیں اور دیتے جارہے ہیں.کسی ڈکٹیٹر کا منہ زور بیٹا ایک ہی گھر سے دو دو بیٹیوں کو اغوا کر لیتا ہے تو دوسرا جابر حاکم اپنے مخالف سیاستدان پر بھینس چوری کا مقدمہ ڈال کر اسے حوالات کی ہوا کھلا دیتا ہے.ایک حاکم وقت جو خود اپنے لیے تو شراب پینے کی دعویداری رکھتا ہے مگر دوسروں کے لیے مفتی اسلام بن جاتا ہے اور لاکھوں معصوم کلمہ گووں کو کا فرقرار دینے کا سرکاری فتویٰ جاری کر دیتا ہے.یہاں ایک طرف مولوی بٹن دبا کر جنت میں جانے کی نئی نویلی اصطلاح ایجاد کرتا ہے تو دوسری طرف اقتدار کا ایک بھوکا ڈکٹیٹر، جو 90 دن کو 11 سال میں بدلتے بدلتے ، اقتدار کے نشے میں اتنا عجیب زود حس واقع ہو جاتا ہے کہ اسے آذان اور السلام علیکم کی آواز ہی بری لگنے لگ جاتی ہے.وہ مساجد پر لکھے کلمہ کے الفاظ کو تڑوانے کے آرڈر دیتا ہے اور درود پڑھنے والوں کو قید با مشقت کے پروانوں سے نواز ناشروع کر دیتا ہے.دوستو! جس قوم کی اذان کی آواز سے دل آزاری ہونے لگ جائے.جو کلمہ لکھنے والوں کو مجرم قرار دے دیں.جو اعتکاف پر بیٹھنے کے لیئے چھٹی مانگنے والوں کو کال کوٹھڑیوں میں بند کر دیں تو پھر اس قوم کے اساتذہ کون سی دینیات پڑھانا شروع کر دیتے ہیں؟ اور ان کو کون سی کہانیاں پسندیدہ ہو جاتی ہیں؟ اقتدار کے نشے میں مست حکمرانوں کی دینیات کیا ہو جاتی ہے؟ ان کے لیے قانون کیسے خدمتگار بن کر کھڑا ہوتا ہے؟ اور وقت کے حسین کے لیئے قاضی عبدالشریح کیا کیا فیصلے کرتے ہیں؟ آئیے شرق پور سے اسلام آباد تک پھیلی اس کہانی کو سنتے ہیں.حمل نوعیت حیثیت ملزمان

Page 437

437 دوستو! بات کوئی زیادہ پرانی نہیں ہے.یہ 28 اکتوبر 1988ء کی سہ پہر تھی جب مکرم عبد القدیر شاہد صاحب مبلغ سلسلہ جماعت احمدیہ سمیت تین احمدیوں کے خلاف شرق پور تھانہ میں ایک F.IR زیر دفعہ 298C درج ہوئی.جرم کس قدر سنگین ہوگا کہ قانون نے حرکت میں آتے ذرہ دیر نہ لگائی اور اس قدر سرعت سے حرکت میں آیا کہ رات کے گیارہ بجنے سے پہلے پہلے تمام ملزمان کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جا چکا تھا.یہ تینوں ملزمان سالوں سال جیل کی کال کوٹھریوں اور عدالتوں کی روشوں میں سے دھکے کھاتے ہوئے 1996ء کے سال میں، ایک دفعہ پھر اکتوبر کے مہینے میں سے 26 اکتوبر کی دو پہر سے گزر رہے تھے کہ اچانک اسلام آباد پولیس نے ایک سکہ بند مسلمان جناب مکرم سعد خاں صاحب فرزند ارجمند محترمہ صبیحہ ضمیر صاحبہ وایڈ مرل ضمیر صاحب و داماد گرامی جناب ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب آف اٹامک انرجی ، مالک فرا بلز انٹر نیشنل اسکول واقع ایف سیون ٹو اسلام آباد کے خلاف بھی زیر دفعہ 295، 2954 مقدمہ درج کر مارا.یادر ہے یہ وہی سکول ہے جس میں اس وقت پینظر بھٹو صاحبہ کے بچے جناب بلاول زرداری بھٹو اور آصفہ سمیت ملک کی اہم ترین مقتدر شخصیات کے بچے زیر تعلیم تھے.یعنی مختصراً یہ کہ احمدی ملزمان ، تین سادہ سے غریب لوگ.ہو سکتا ہے ان میں سے بعض کو شرق پور کے محلے کے لوگ بھی پوری طرح نہ جانتے ہوں.ایک سلسلہ احمدیہ کا مبلغ.نماز پڑھانے اور اللہ رسول کے احکام کی اشاعت کے لیئے اپنی پوری زندگی وقف کرنے والا اور اسی کل سرمایہ حیات کا مالک.دوسری طرف جناب مکرم سعد خان صاحب ایک ایڈ مرل کا بیٹا ، طاقتوروں کا نواسہ، جناب ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کا داماد اور خود ملک کے چند بڑے مہنگے اور معروف سکول اور کالجوں میں سے ایک سکول یعنی فرا بلز انٹرنیشنل اسکول واقع ایف سیون ٹو اسلام آباد کا مالک.آگے چلیے مقدمہ درج کرتے ہوئے مجبوری یا سرعت کی نوعیت 1.28 اکتوبر 1988 ء کی دو پہر، شرق پور تھانہ میں ایک مولوی صاحب نے احمدی ”ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی.جو فوری قبول کرتے ہوئے اسی وقت نہ صرف زیر دفعه F.IR 298 | کاٹ دی گئی بلکہ رات ڈھلنے سے پہلے پہلے ملزمان کو سلاخوں کے پیچھے بھی پہنچا دیا گیا.یہاں سے ان غریب شرفاء کے وارثین ضمانت کی بھاگ دوڑ کے لیئے نکل کھڑے ہوتے ہیں...سالوں پر سال گزرتے رہے.مجسٹریٹ سے لیکر سپریم کورٹ تک یہ بھاگ دوڑ جاری رہی.سپریم کورٹ نے کیس کی سنگینی“ کے مدنظر ضمانت دیئے بغیر کیس واپس بھیج دیا.2.بعد تفتیش، 1989 میں پولیس نے مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمہ برائے سماعت داخل کیا.3 سال

Page 438

438 کچہریوں کے چکر لگو الگوا کر آخر کار 1991ء میں احمدیوں پر چارج شیٹ لگائی گئی.3.مزید دو سال یعنی 1993 ء تک گواہیاں ریکارڈ ہوتی رہیں اور 25 اگست 1993ء کو یہ کام مکمل ہو گیا صرف فیصلہ سنانا باقی تھا.4.14 ماہ مزید گزر چکے تھے.یہاں ایک طرف ان مظلوم احمدیوں پر جیل کی راتیں لمبی ہوتی جارہی تھیں تو دوسری طرف مدعیان اسلام کو ایک احساس بری طرح تڑپا رہا تھا کہ گناہ بڑا ہے جبکہ جرم کی دفعہ چھوٹی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ”خوفناک ملزم تھوڑی سی سزا پا کر پھر کہیں ایسے ہی مزید جرم کے ارتکاب کے لیئے آزاد ہو جائے.چنانچہ مقدمہ درج ہونے کے 6 سال بعد یعنی 17 اکتوبر 1994 کو یہ مولویان حضرات ایک دفعہ پھر عدالت میں دل کی آہ وزاری کی داستان لیکر پہنچ گئے اور درخواست دی کہ ملزمان کے اس گھناونے جرم کے مقابل پر قانون کی دفعہ 2980 کم ہے جس کی سزا صرف تین سال ہے.اس لیئے 295c کا اضافہ کیا جائے جس کی سزا موت تھی.اس درخواست کی سماعت مجسٹریٹ مکرم محمد صدیق صاحب نے 7 مارچ 1995 کو شروع کی اور 19 مارچ 1995 کو فیصلہ بھی سنادیا کہ واقعہ زیادتی ہوئی ہے جرم بہت بڑا ہے جو دفعہ 295 میں آتا ہے.جو اس عدالت کے دائرہ اکار سے باہر ہے.اور مسل مقدمہ سیشن جج شیخو پورہ کو بھجوادی.5.اس طرح یہ مقدمہ ایڈیشنل سیشن جج شیخو پورہ محد محمود چوہدری صاحب کی عدالت میں پیش ہوا جنہوں نے فیصلہ دیا کہ اس مقدمہ میں اس گناہ پر 295C کا اطلاق نہیں ہوتا.لہذا ٹرائل مجسٹریٹ صاحب فیصلہ 298C کے تحت سنا دیں.6 مگر ٹرائل مجسٹریٹ محمد صدیق صاحب نے 29 اگست 1995ء کو ایک بار پھر فیصلہ سنادیا کہ اس گناہ پر توہین رسالت 295C ہی لگتی ہے اور مسل دوبارہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شیخو پورہ کو بھجوا دی.7.اب کی بار ایڈیشنل سیشن جج محمد محمود چوہدری صاحب تبدیل ہو چکے تھے اب ان کی جگہ رانا زاہد محمود مقرر ہوئے تھے چنانچہ مقدمہ ان کی عدالت میں پیش ہوا.احمدی احباب کے وکیل نے پیش ہو کر 17 دسمبر 1995ء کو درخواست دی کہ چونکہ لوئر کوٹ نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ اس مقدمہ میں دفعہ 298C( جس کی سزا 3 سال) کا اطلاق نہیں ہوتا اس لیے مجسٹریٹ کو حکم دیا جائے کہ وہ پہلے 298C کے بارے میں حتمی فیصلہ فرما دیں مگر سیشن جج نے مورخہ 15 جولائی 1997ء کو یہ درخواست مسترد کر دی.8.اس کے بعد ہائی کورٹ رجوع کیا گیا.ہائی کورٹ میں 29 جولائی اور 31 جولائی کو بحث ہوئی.جسٹس محمد نعیم صاحب نے اپنے فیصلہ میں اس بڑے گناہ کے لیے 298C کو نا کافی قرار دیتے ہوئے 295C کو برقرار

Page 439

439 رکھنے کا حکم صادر فرمایا اور ساتھ ہی ایڈیشنل سیشن جج رانا زاہد محمود کو اس مقدمہ کی سماعت کرنے اور 30 دسمبر 97ء تک فیصلہ فرمانے کا حکم دے دیا.9.ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی اور ساتھ ہی اپیل کے دوران Stay Order کی درخواست کی گئی.مگر سپریم کورٹ کے جسٹس نثار صاحب نے نہ صرف اپیل خارج کردی بلکہ رانا زاہد محمود صاحب کو کہا کہ کیس کا فیصلہ 30 نومبر 1997ء ( یعنی مزید ایک مہینہ جلدی) تک کر دیا جائے.10.چنانچہ یکم دسمبر 1997ء کو رانا زاہد محمود نے فیصلہ صادر فرمایا کہ ملزمان کو 25-25 سال قید با مشقت اور 50-50 ہزار جرمانہ عدم ادائیگی کی صورت میں 2، 2 سال مزید قید.نوٹ: 88ء میں جب یہ مقدمہ شروع ہوا تو 295C کی سزا موت تھی مگر جب 1997ء میں فیصلہ ہوا تو قانون بدل کر سزا عمر قید ہو چکی تھی.اس لیے صرف عمر قید سزا ہوئی.ی احمدی ملزمان 10 سال تک عدالتوں کی خاک چھان چھان کر اور انصاف کے ایوانوں میں حاضریاں دے دے کر آخر 25 ، 25 سال سزا یعنی عمر قید کا پروانہ لیکر شیخو پورہ جیل کی اندھی سنسان کال کوٹھڑیوں کی طرف روانہ ہو چکے ہیں.شرق پور کے ان خوفناک ملزمان کو یہیں چھوڑ کر اسلام آباد کے شرفاء ملزمان کی طرف چلتے ہیں.24 اکتوبر 1996ء کی شام سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل کی نواسی اپنے سکول فرا بلز انٹر نیشنل سے واپس آئی اور اپنی امی عظمی گل کو بتایا کہ ان کے سکول میں اسلامیات کے نام پر کیا کیا عجیب و غریب اشیاء پڑھائی جارہی ہیں.( تفصیل آگے بتاتے ہیں) عظمی گل صاحبہ یہ سب سن کر بہت حیران ہوئیں اور فوراً تھا نہ کو ہسار میں مقدمہ درج کروانے پہنچ گئیں.مدعیا اگر جنرل حمید گل صاحب کی صاحبزادی تھیں تو نامزد ملزمان بھی کوئی شرق پور کے غرباء نہیں تھے.نتیجہ صاف ظاہر ہے تھانے دار صاحب نے مقدمہ درج کرنے سے صاف انکار کر دیا.لیکن اگر جناب مکرم سعد خان صاحب محترمہ صبح ضمیر صاحبہ وایڈ مرل ضمیر صاحب کے فرزند ارجمند اور جناب ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب آف اٹامک انرجی کے داماد گرامی و مالک فرا بلز انٹرنیشنل اسکول واقع ایف سیون ٹو اسلام آباد تھے تو جناب عظمی گل صاحب بھی آئی ایس آئی کے پاور فل ترین ڈی جی کی صاحبزادی تھیں.نتیجہ وہی ہوا اسلام آباد پور انعروں کی زد میں آگیا.26اکتوبر 1996ء کی صبح ، 80 کے قریب وکلاء آف اسلام آباد بار ایسوسی ایشن نے ایک قرار داد منظور کی اور

Page 440

440 کمشنر اسلام آباد کے دفتر کا گھیراؤ کر لیا.اور رپورٹ درج کرنے کا مطالبہ کیا.کمشنر صاحب نے ڈی سی اور S.S.P کیپٹن جمیل کو بلوایا اور عظمیٰ گل صاحبہ کا موقف سنا اور اس کے بعد انتہائی پریشانی سے F.I.R کاٹنے کا عندیہ دے دیا.چنانچہ سوا گیارہ بجے تھانہ انچارج انسپکٹر فرحت عباس کاظمی نے F.IR کائی.یہ رپورٹ زیر دفعہ 295A اور 295C کے تحت درج کی گئی.رپورٹ تو درج کر لی گئی لیکن اس رپورٹ میں کاریگری یہ رکھی گئی کہ تھانہ یہ معاملہ لیگل برانچ کو بھیجے گا جس کے بعد یہ فیصلہ ہوگا کہ یہ مسئلہ توہین رسالت کا ہے یا نہیں.بعد میں اس F.IR کو سیل اور پھر خارج کر دیا گیا.نہ ہی کوئی گرفتاری ہوئی.نہ ہی کوئی مقدمہ چلا، نہ ہی کوئی سزا.ید ملزمان کے وقوعہ کی نوعیت 1988ء تا 1997 ء تک پھیلے ہوئے شرق پور کے مقدمہ میں نامزد احمدی ملزمان کی F.IR میں دو جرم 1.گھر کے دروازے پر نہ صرف کلمہ طیبہ لکھنے کا جرم کیا بلکہ جب اس کو مٹانے کا کہا گیا تو انہوں نے صاف لکھے گئے تھے.انکار کر دیا.2.اپنے عقائد کی تبلیغ کی جبکہ اسلام آباد کے سکہ بند مسلمان جناب سعد خان صاحب کی F.IR توسیل کر دی گئی تھی جس کی وجہ سے تفاصیل تو باہر نہیں آسکیں مگر را بلز انٹر نیشنل سکول میں پڑھائی جانے والی اسلامیات کی کتاب کی مکمل تفصیلی رپورٹ ہفت روزہ تکبیر 14 نومبر 1996ء میں زیر عنوان افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی صفحہ 8 تا 11 اور اسی شمارے میں زیر عنوان کفر کی تعلیم اور توہین رسالت 16 تا 19 ملاخطہ کی جاسکتی ہے.نقل کفر، کفر نہ باشد.دل پر ہاتھ رکھ کر صرف چند خلاصہ کے الفاظ درج کرتا ہوں تا کہ اس پہیلی کا انجام لکھ سکوں.1.زمین و آسمان خدائے واحد نے نہیں بلکہ تین خداؤں زیم ، می بیر ، اور نکلوانے نے بنایا.2 نبی کریم صلی ا لم نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ کی بطن مادر کے اندر کی تصویر کشی 3.اللہ کے تخت کے چار پائیوں کو چار درندوں نے سہارا دیا ہوا ہے 4.’ خدا کے خلاف بغاوت کے تحت ذکر ہے کہ زیم می بیر اور نکوا نامی خداؤں نے اپنے جیسی مخلوق انسان بنائی اور پہلے انسان کا نام ”فیم رکھا.اس کو عقل اور حسن دیا مگر یہ فیم دیگر جانوروں سے خوبصورت ہونے کی وجہ تکبر کرنے لگا اور خدا سے بغاوت کے نغمے الاپنے لگا.خدا نے غضب ناک ہو کر پوری دنیا پھونک ڈالی لیکن چونکہ تخلیق

Page 441

441 کرتے وقت وہ کہ چکا تھا کہ تم کبھی نہیں مرو گے اس لیے یہ پہلا انسان جل جانے کے باوجود زندہ ہے.5.خدا نے زمین پر نگا ڈالی اور اسے خاکستر دیکھ کر شرمندہ ہوا اور درخت اگا دیئے.6.روشنی اور روحیں“ نامی باب میں حضرت جبرائیل اور اسرافیل اور عزرائیل کی تصاویر کشی.اور بہت کچھ خرافات استغفر الله من الخرافات كلها- انجام کی نوعیت کلمہ نہ مٹانے والے ” کافر اپنے جرم کی سزا بھگتنے سے بھی پہلے 9 سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ر ہے تاہم بعد میں عمر قید کی سزا کا پروانہ لیکر شیخو پورہ جیل میں واصل ہو چکے ہیں.جبکہ اس دنیا کے پروردگار کا نام اللہ کی بجائے زیم اور وحدہ لاشریک کی بجائے تین خدا بتانے اور پڑھانے والے کو کسی نے فٹے منہ بھی نہ کہا.ہے نہ مزیدار پہیلی ؟ اقتدار کے نشے میں مست حکمرانوں کو تو شائد اس پاکستانی پہیلی کا انجام سوچنے کی فرصت نہ ہوگی لیکن حضرت ثعبان ثوری کا قول اس موقعہ پر بہت یاد آ رہا ہے آپ نے فرمایا تھا: ”مبارک ہیں وہ لوگ جن کے پاس نصیحت کرنے کے لیے الفاظ نہیں اعمال ہوتے ہیں.“ اور حضرت مولانا رومی کا قول کہ: جس کے افعال شیطان اور درندوں جیسے ہوتے ہیں کریم لوگوں کے متعلق اس کو بدگمانی ہوتی ہے.“ آج جبکہ ڈاکٹر قدیر صاحب کا خاندان بھی انصاف کے حصول کے لیے ایوان عدل کی زنجیریں ہلانے میں مصروف ہے تو ایسے میں مجھے اسیر راه مولا مکرم عبد القدیر صاحب مبلغ سلسلہ کا چہرہ جناب چوہدری محمد علی صاحب کے اس شعر کی سرا پا تصویر بنا نظر آتا ہے: تو فیصلہ تو کر مگر اتنا نہ مسکرا کہ ہے اک اور فیصلہ اس فیصلے کے بعد قرآن مجید فرقان حمید کے تراجم کے عظیم سنہری تاج کو سروں پر سجائے ہوئے، جانے والے ہنستے کھیلتے زنجیروں اور بیڑیوں کو چومتے ہوئے زندان کے اندھیروں میں گم ہو گئے ، چلے گئے لیکن اے چشم فلک اور اے میرے ہمسفر ساتھیو ہم سب کے لیے یہ پیغام چھوڑ گئے ہیں: یه صحن درویش ، یہ لالہ وگل، ہونے دو جو ویراں ہوتے ہیں تخریب جنوں کے پردے میں تعمیر کے ساماں ہوتے ہیں منڈلائے ہوئے جب ہر جانب طوفاں ہی طوفاں ہوتے ہیں دیوانے کچھ آگے بڑھتے ہیں اور دست وگریباں ہوتے ہیں

Page 442

442 تو خوش ہے کہ تجھ کو حاصل ہیں میں خوش کہ میرے حصے میں نہیں وہ کام جو آساں ہوتے ہیں، وہ جلوے جو ارزاں ہوتے ہیں آسودہ ساحل تو ہے مگر شاید یہ تجھے معلوم نہیں ساحل سے بھی موجیں اٹھتی ہیں ، خاموش بھی طوفان ہوتے ہیں یہ خون جو ہے مظلوموں کا، ضائع نہ ہوجائے گا لیکن کتنے وہ مبارک قطرے ہیں جو صرف بہاراں ہوتے ہیں جو حق کی خاطر جیتے ہیں مرنے سے کہیں ڈرتے ہیں جگر جب وقت شہادت آتا ہے دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں نوٹ : فرا بلز انٹر نیشنل سکول کے بارے میں مکمل رپورٹ ہفت روزہ تکبیر 14 نومبر 1996ء میں زیر عنوان افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی صفحہ 8 تا 11 اور اسی شمارے میں زیر عنوان کفر کی تعلیم اور توہین رسالت صفحہ 16 تا 19 ملاخطہ کی جاسکتی ہے.منصور توسر دے کے سبک ہو گیالیکن دوستو! تحقیق کی اس منزل پر اگر بار نہ ہو تو ایک لمحہ کے لیے مڑ کر دیکھیے اور حضرات ثعبان ثوری کا قول یاد کیجئے آپ نے فرمایا تھا: مبارک ہیں وہ لوگ جن کے پاس نصیحت کرنے کے لیے الفاظ نہیں اعمال ہوتے ہیں.“ اور حضرت مولانا رومی کا قول کہ: جس کے افعال شیطان اور درندوں جیسے ہوتے ہیں کریم لوگوں کے متعلق اس کو بدگمانی ہوتی ہے.“ آج مبارک کون؟ اور کریم لوگوں کے بارے میں شک کرنے والا کون؟ یہ جانکاری ہی میری دردسر بن گئی ہے آسودہ ساحل تو ہے مگر کلمہ کا بیچ سینے پر سجائے ، درود شریف کا ور در کرتے ہوئے ، بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم انشاء اللہ اور السلام علیکم کے نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے 10 سال تک عدالتوں کی خاک چھا چھان کر اور انصاف کے ایوانوں میں حاضریاں دے دے کر آخر 25، 25 سال سزا یعنی عمر قید کا پروانہ لیکر شیخو پورہ جیل کی اندھی سنسان کال کوٹھریوں کی طرف روانہ ہو چکے ہیں.

Page 443

443 اے چشم فلک تو نے کبھی ایسا نظارہ بھی دیکھا تھا قرآن مجید کے تراجم پر جیلوں کی کال کوٹھڑیاں ، کلمہ طیبہ پڑھنے ، گھروں پر لگانے ہینوں پر سجانے اور ہتھوڑوں سے توڑنے اور محمد پر آہنی ضر میں لگانے سے انکار پر زندانوں کی آہنی سلاخیں.اسلام عليكم انشاء الله، نحمده ونصلى على مرسوله الكريم لکھنے اور کہنے پر عمر قید کی سزائیں اور بربریت کے پہاڑ سہنے والی یہ مخلوق ایک طرف اور دوسری طرف یہ فخریہ اعلان کرنے والے محافظین خستم نبوت ایک طرف کہ ہاں ہم وہیں سلوک کر رہے ہیں جو مکہ کے مشرک مظلوم صحابہ سے کیا کرتے تھے اور یہ ظلم ہمارا طرہ امتیاز ہے جسے ہم کبھی ختم نہیں ہونے دیں گے.مولانا تاج محمد بھٹی ناظم اعلی تحفظ ختم نبوت کو ئٹہ نے 2 احمد یوں کو کلمہ سینے پر لگانے پر گرفتاری کے خلاف گواہی دیتے ہوئے 25 دسمبر 1985ء کو مجسٹریٹ درجہ اول کوئٹہ کے ہاں یہ فخر یہ اعلان قلم بند کر وایا: یہ درست ہے کہ حضور رسول اللہ صلی ایام کے زمانے میں جو آدمی نماز پڑھتا تھا آذان دیتا تھا یا کلمہ پڑھتا تھا اس کے ساتھ مشرک یہی سلوک کرتے تھے جواب ہم احمدیوں سے کر رہے ہیں.( مصد قه نقل بیان گواه استغاثہ نمبر 2 تاج محمد ولد فیروز الدین مجریہ 23 دسمبر 1985ء) باب نمبر 17 یه خدمت نوازیاں اور میری مشکلات

Page 444

444 میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں جو فرق ہے تجھ میں اور مجھ میں یہ مصرع کاش نقش ہر در و دیوار ہو جائے جسے جینا ہو، مرنے کے لیے تیار ہو جائے اک ایسی شان پیدا کر باطل تھر تھرا اٹھے نظر تلوار بن جائے نفس جھنکار ہو جائے اک افریقی دربار آج خلاف معمول افریقی شہنشاہ نجاشی کا دربار اطلس و حریر پہنے درباری امراء کے ساتھ ساتھ قریشی وفد اور خرقہ پوش مسلمانوں سے بھرا ہوا تھا.ظلم و ستم کا ستایا دکھوں کے صحرا پار کر کے حبشہ کے دربار میں پہنچنے والا مسلمانوں کا یہ قافلہ تقریباً نڈھال حالت میں زیر لب کچھ ورد کرنے میں مصروف تھا جبکہ دوسری طرف قریشی سفارتکار زرق برق لباس میں رعونیت سے گردنیں اکڑائے بادشاہ سلامت کی آمد کے منتظر تھے انہیں واثق امید تھی کہ قریشی ریاست کی طرف سے لائے

Page 445

445 جانے والے بیش قیمت تحفے درباری امراء کے ساتھ ساتھ بادشاہ وقت کی آنکھوں پر بھی پٹی باندھ دیں گے.امراء کو بذریعہ انعامات وہ رات کو ہی خرید چکے تھے.بادشاہ حبشہ نجاشی تخت پر براجمان ہوئے.قومی اسمبلی جیسے دربار کی کاروائی شروع ہوئی ملکی ریاست کے وفد نے جواہرات و یا قوت سے جڑا وقیمتی تحائف پیش کرنے کے بعد مدعا بیان کیا کہ ان لوگوں نے نیا دین گھڑ کر ہمارے دین سے بغاوت کی ہے اور پھر یہاں بھاگ آئے ہیں.لہذا انہیں ہمارے حوالے کیا جائے تا کہ ہم انہیں اپنی ریاست میں لے جا کر اپنے قانون کے مطابق سزا دے سکیں.سرکار دو عالم فخر کائنات سینی پیہم کے تم مبارک حضرت جعفر طیار کی وہ تقریر ہر اس ایوان عدل میں شمع بن کر جگمگائے گی جہاں جہاں رشوت خور درباری امراء متکبر قریشی دین کے ٹھیکداروں کے ساتھ ملکر عدل وانصاف کی عندلیب پر دجالی جال ڈالنے کی کوشش کریں گے.آپ کی تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ ہم لوگ فسق و فجور کی ہر نوع میں مبتلا تھے زنا، ڈاکہ، چوری ، عصمت دری، پرائے مال پر نظر قبل ، بدخلقی، بے حیائی غرض جو برائی ممکن ہو سکے ہمارا معاشرہ اس میں ملوث تھا پھر خدا تعالیٰ رب العالمین نے اپنی سرکار سے رحم فرما کر ہم میں اپنا فرستادہ بھیجا جس کی لائی ہوئی پاکیزہ تعلیم سے ہم نے یہ تمام برائیاں چھوڑ دیں.ہم خدائے واحد کی پرستش کرنے والے اور مخلوق خدا کو اپنے ہاتھ کان پاؤں سے سلامتی دینے والے بن گئے.اپنی ہی بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کی بجائے دوسروں کے آرام کے لیے اپنی جانیں نچھاور کرنے والے بن گئے.ہمارا شعار "السلام علیکم“ بن گیا ہمارا معاشرہ ”اسلام“ بن گیا.غرض ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد پر کار بند ہو کر ہر ظلم سے ہاتھ روکنے والے بن گئے.یہی بات ہماری شناخت یہی بات ہمارا گناہ اور یہی ہماری بغاوت ہے.وائٹ ہاؤس لندن مارکہ قادیانی حضرات میں ایک فرستادہ کے آنے کے بعد بعض جرائم کی تفصیل ہم نے گذشتہ باب میں پڑھی.لیکن پھر دل میں یہ خیال جاگزیں ہوا.ہو نہ ہو یہ جرائم قادیانی لوگوں کے نچلے طبقے سے متعلقہ ہوں.اعلیٰ دماغ اور سپریم باڈی ان سے مختلف کردار کی مالک ہو.اور وہ کردار لازماً ملت اسلامیہ کے سنہری اخلاق سے متصادم ہوگا.وطن عزیز کی بربادی کے لیے یہ لوگ دن رات مصروف ہونگے.بقول جماعت احمدیہ کے شدید مخالف عالم دین مولوی عبد الرحیم اشرف قادیانیت کا مقابلہ کرنے والے علماء پہاڑ وں جیسی شخصیات تھیں.

Page 446

446 (المنير 23 فروری 1956 صفحہ نمبر (10) سوسوا سوسالوں سے یہ احمدیت اور غیر احمدیت کا مقابلہ جاری ہے.دونوں طرف کے گروہ اپنے اپنے انداز میں خدمت دین میں مصروف ہیں، اخلاق اور بدخلقی ، جنت نظیر معاشرہ اور جہنم نظیر معاشرہ ، عاشقان رسول کے افعال اور گمراہی میں بھٹکے ہوئے شیطان صفت اعمال میں فرق دیکھنا کوئی مشکل کام نہیں.تعصب کی عینک اتار کر اگر حضرات جعفر طیار کی تقرر کو دوبارہ پڑھ لیا جائے تو ہر انبوہ میں سے منصور حلاج واضح نظر آجائیں گے کیونکہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کا قول ہے کہ: حق کا پر ستار بھی ذلیل نہیں ہوتا چاہے سارا زمانہ اس کے خلاف ہو جائے اور باطل کا پیرو کار کبھی عزت نہیں پا تا چاہے چاند اس کی پیشانی پر نکل آئے“ اور حضرت مولانا جلال الدین رومی کا یہ قول کتنا سچا ہے کہ : جس کے افعال شیطان اور درندوں جیسے ہوتے ہیں کریم لوگوں کے متعلق اسی کو بدگمانی ہوتی ہے“ حضرت جعفر کے حکم کے مطابق میں نے قادیانی معاشرہ کی ان خدمات کا جائزہ لیا جو بقول ان کے ” خدائی فرستادہ آنے کے بعد وہ ادا کر رہے ہیں اور پھر میں نے اپنے علماء کی ان خدمات کا جائزہ لیا جو قادیانی فرستادہ آنے کے بعد وہ ادا فرمارہے ہیں.نتیجہ کتنا متضاد اور خوفناک ہوگا میرے وہم گمان میں بھی نہ تھا اور یہی حیرانی میری توبہ شکن مشکل بن گئی.مشکل نمبر 47 ہماری گھناؤنی خدمات دفن شده احمدی نعش با ہر پھینک کر کفن اتار دیا.دوسرے دن دفن، پھر کھیٹر پھینکا.آخر دریا کے کنارے ریت میں دفن جہاں گیدڑوں نے نکال کر آدھا حصہ جسم کا کھالیا، سارے شہر کا بھر پور نظارہ ، قادیانی کا عبرتناک انجام اور ہماری شاندار خدمت اسلام غازیان اسلام کی خدمت پر مبنی رپورٹ.$1946 46ء میں جماعت احمدیہ کے ایک فرد مکرم قاسم علی خاں اپنے وطن رام پور میں وفات پاگئے.ان کی نعش سے شاندار مومنانہ سلوک جو حلفیہ رپورٹ روز نامہ زمیندار میں شائع ہوئی پیش ہے.

Page 447

447 محمد مظہر علی خاں صاحب رامپوری اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” میرے مکان کے پیچھے جو کہ شاہ آباد گیٹ میں واقع ہے محلہ کا قبرستان تھا.صبح مجھ کو اطلاع ملی کہ قبرستان میں لاتعداد مخلوق جمع ہے اور قاسم علی کی لاش جو اس کے اعزہ رات کے وقت چپکے سے مسلمانوں کے اس قبرستان میں دفن کر گئے تھے لوگوں نے نکال باہر پھینکی ہے.میں فوراً اس ہجوم میں جا داخل ہوا اور بخدا جو کچھ میں نے دیکھا وہ نا قابل بیان ہے.لاش اوندھی پڑی تھی منہ کعبہ سے پھر کر مشرق کی طرف ہو گیا تھا.کفن اتار پھینکنے کے باعث متوفی کے جسم کا ہر عضوعریاں تھا اور لوگ شور مچارہے تھے کہ اس نجس لاش کو ہمارے قبرستان سے باہر پھینک دو.جائے وقوعہ پر مرحوم کے پسماندگان میں سے کوئی بھی پرسان حال نہیں تھا.لیفٹینٹ کرنل محمد ضمیر کی خوشامدانہ التجا پر نواب صاحب نے فوج اور پولیس کو صورت حال پر قابو پانے کے لیے موقع پر بھیجا کو توال شہر خان عبد الرحمن اور سپریٹنڈنٹ پولیس خان بہادر اکرام حسین نے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر لاش دوبارہ دفن کرانے پر مجبور کیا.لیکن اس جابرانہ حکم کی خبر شہر کے ہر کو نہ میں بجلی کی طرح پہنچ گئی.اور غازیان اسلام مسلح ہو کر مذہب و دین کی حفاظت کے لئے جائے وقوعہ پر آگئے.حکومت چونکہ ایک مقتدر آدمی کی ذاتی عزت کی حفاظت کے لیے عوام کا قتل و غارت گوارا نہیں کر سکتی تھی اس لیے پولیس نے لاش کو کفن میں لپیٹ کر خفیہ طور پر شہر سے باہر بھنگیوں کے قبرستان میں دفنا دیا.چونکہ مسلمان بہت مشتعل اور مضطرب تھے اس لیے انہوں نے بھنگیوں کو اس بات کی اطلاع کر دی.اور بھنگیوں نے اس متعفن لاش کا وہی حشر کیا جو پہلے ( مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں ) ہو چکا تھا.پولیس نے یہاں بھی دست درازی کرنی چاہی لیکن بھنگیوں نے شہر بھر میں ہڑتال کر دینے کی دھمکی دی بالآخر سپریٹنڈنٹ پولیس اور کوتوال شہر کی بر وقت مداخلت سے لاش کو دریائے کوسی کے ویران میدان میں دفن کرنے کی ہدایات کی گئیں.سپاہی جو لاش کے تعفن اور بوجھ سے پریشان ہو چکے تھے.کچھ دور تک لاش کو اٹھا کر لے جاسکے اور شام ہو جانے کے باعث اسے دریائے کوسی کے کنارے صرف ریت کے نیچے چھپا کر واپس آگئے.دوسرے روز صبح کو شہر میں یہ خبر اڑ گئی کہ قاسم علی کی لاش گیدڑوں نے باہر نکال کر گوشت کھا لیا.اور ڈھانچہ باہر پڑا ہوا ہے.یہ سن کر شہر کے ہزاروں لوگ اس منظر کو دیکھنے کے لیے جوق در جوق جمع ہو گئے میں بھی موقعہ پر جا پہنچا.لیکن میری آنکھیں اس آخری منظر کی تاب نہ لا سکیں اور میں ایک پھریری لیکر ایک شخص کی آڑ میں ہو گیا قاسم علی کی لاش کھلے میدان میں ریت پر پڑی تھی اسے گیدڑوں نے باہر نکال لیا تھا اور وہ جسم کا گوشت مکمل طور پر نہیں کھا سکتے تھے منہ اور گھٹنوں پر گوشت ہنوز موجود تھا.باقی جسم سفید ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا آنکھوں کی بجائے دھنسے ہوئے غار اور منہ پر داڑھی کے اکثر بال ایک درد ناک منظر پیش کر رہے تھے آخر کار پولیس نے لاش مزدوروں سے

Page 448

448 اٹھوا کر دریائے کو سی کے سپر د کر دی اور اس طرح ایک امیر جماعت مرزائیہ کا انجام ہوا.“ $1915 (روزنامہ زمیندار 21 جنوری 1951 ء ) 20 اگست 1915ء کو کنانورا ( مالا بار) کے ایک احمدی کے.ایس.احسن کا ایک چھوٹا بچہ فوت ہو گیا ریاست کے راجہ صاحب نے حکم دے دیا کہ چونکہ قاضی نے احمدیوں کے متعلق کفر کا فتویٰ دے دیا ہے اس لیے اس کی نعش مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہو سکتی.چنانچہ وہ بچہ اس دن دفن نہ ہو سکا دوسرے دن بھی شام کے قریب مسلمانوں کے قبرستان سے 2 میل اس نعش کو دفن کیا گیا.$1918 الفضل 19 اکتوبر 1915 صفحہ 6 احمدی عورت کی مدفون نعش اکھیڑ کر اُس کے شوہر کے دروازے پر لا کر پھینک دی.اہل حدیث 6 دسمبر 1918 ء ) دسمبر 1918 ء میں کٹک (صوبہ بہار ) کے ایک احمدی دوست کی اہلیہ فوت ہو گئیں.انہوں نے اسے قبرستان میں دفن کر دیا.جب مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ ایک احمدی خاتون کی لاش ان کے قبرستان میں دفن کی گئی ہے تو انہوں نے قبر اکھیڑ کر اس لاش کو نکالا اور اس احمدی کے دروازے پر جا کر پھینک دیا.مرزائیوں کی میت کی ہم خوب مٹی پلید کرتے ہیں.اہل حدیث کی یکم فروری 1918ء کی فخر یہ رپورٹ ) اہل حدیث نے زیر عنوان ” کٹک میں قادیانیوں کی خاطر درج ذیل فخریہ رپورٹ آف خدمت اسلام پیش کی.وہ جو کہاوت ہے کہ موئے پر سوڈرے سو وہ بھی یہاں واجب التعمیل ہو رہی ہے مرزائیوں کی میت کا مت پوچھئے.شہر میں اگر کسی میت کی خبر پہنچ جاتی ہے تو عام قبرستانوں میں پہرہ بیٹھ جاتا ہے کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے، کسی کے ہاتھ میں چھڑی ہے میت کی مٹی پلید ہو رہی ہے کہ کھوجتے تابوت نہیں ملتی.بیل داروں کی طلب ہوتی تو وہ ٹکا سا جواب دے دیتے ہیں.بانس اور لکڑی غائب ہو جاتی ہے.دفن کے واسطے جگہ تلاش کرتے کرتے پھول کا زمانہ بھی گزر جاتا ہے.ہر صورت سے ناامید ہو کر جب یہ ٹھان لیتے ہیں کہ چلو چپکے سے مکان کے اندر قبر کھود کر گاڑ دیں تو ہاتف غیبی افسران میونسپلٹی کو آگاہ کر دیتے ہیں اور وہ غرپ سے آموجود ہو کر خرمن امید پر کڑکتی بجلی گرا دیتے ہیں.“ 66 $1924

Page 449

449 16 مارچ 1928ء کو بھدرک (اڑیسہ) میں ایک احمدی شیخ شیر محمد کی بیٹی فوت ہوگئیں دفن کے وقت غیر احمدی بھاری جتھہ لیکر پہنچ گئے اور مارنے پیٹنے لگے آخر انہوں نے لاش گھر لے آئے اور صحن میں دفن کی.$1936 (الفضل 27 مارچ 1928 ء ) قادیانی بچے کی لاش قبرستان میں دفن کرنے سے روک کر خوشی کی لہر اسلام زندہ باد کے نعرے.(روز نامہ الہلال کی رپورٹ ) 12مارچ 1936ء کو بمبئی کے ایک احمدی دوست کا خوردسال بچہ فوت ہو گیا جب اُسے دفن کرنے کے لیے قبرستان لے گئے تو مخالفین نے جھگڑا شروع کر دیا کہ قبرستان سنی مسلمانوں کا ہے.قادیا نیوں کا نہیں کوئی قادیانی یہاں دفن نہیں ہوسکتا.کیونکہ قادیانی کافر ہیں پولیس کے ذمہ دار حکام نے جھگڑا بڑھتے دیکھا تو انہوں نے بمبئی میونسپلٹی کے توسط سے ایک الگ قطعہ زمین میں اُسے دفن کرا دیا.مگرمیت کے دفن کرنے کے لیے جو جگہ دی گئی وہ شہر سے بہت دور اور اچھوت کا مرگھٹ ہے.روزنامہ الہلال بمبئی اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جب مسلمانوں نے یہ خبر سنی کہ احمدی میت اس قبرستان میں دفن نہیں کی جائے گی تو اس اطلاع کے ملتے ہی مسلمانوں نے اسلام زندہ باد کے نعرے لگائے.ہر شخص مسرت سے شاداں نظر آتا تھا.وغیرہ وغیرہ الهلال بمبئی 14 مارچ 1936 ء ) یہ تو وہ چند خدمات کے مظاہرے ہیں جو انگریزی سرکار جیسی عدل پرور حکومت کے دور میں بجالائے گئے.پاکستان بننے کے بعد ان میں کتنی ترقی کی گئی اس کا نظارہ کرنے کے لیے دیکھئے تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ یقینا ایسے ایسے مناظر نظر آئیں گے کہ بس کتے لاشیں بھنبھوڑتے ہی نظر آئیں گے.$1953 1953 ء کا سال وطن عزیز پاکستان کی تاریخ میں اس حوالے سے سدا یا در کھا جائے گا کہ اس سال قادیانیوں کو مسلمان بنانے کے لیے شمشیر کا سہارا لیا گیا.سڑکیں خون سے رنگین اور عزتیں تار تار ہوگئیں.مال و املاک لوٹے گئے اور آگ کے الاؤ روشن کر دیئے گئے.منفرد واقعہ تھا اور منفرد انداز تھا اس لیے حکومت پنجاب نے اسے ضبط تحریر میں لانا بھی عین فرض منصبی گردانا.اعلیٰ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کا خلاصہ جناب کوثر جمال صاحب نے اپنی تصنیف ”مذہب کا سرطان میں یوں درج فرمائی ہے.

Page 450

450 اس دن کے واقعات کو دیکھ کر سینٹ بارتھولومیوڈئے یاد آتا تھا.حتی کہ ڈیڑھ بجے دوپہر مارشل لاء کا اعلان کر دیا گیا.ہم ذکر کر چکے ہیں کہ ایک دن قبل احمدی مدرس قتل کر دیا گیا تھا.6 مارچ کو ایک احمدی محمد شفیع بر ما والا مغلپورہ میں ہلاک کردیا گیا اور کالج کے ایک احمدی طالب علم کو بھائی دروازے کے اندر لوگوں نے چھرے مار مار کر ہلاک کر دیا.ایک اور احمدی مرزا کریم بیگ کو فلیمنگ روڈ پر چھرا مار دیا گیا.اور اس کی نعش ایک چتا میں پھینک دی گئی جو فر پیجر کو آگ لگا کر تیار کی گئی تھی.احمدیوں کی جو جائیداد میں اور دو کا نہیں اس دن لوٹی یا جلائی گئیں وہ یہ تھیں پاک ریز ، شفامیڈیکل اور سوکوموسیٰ اینڈ سنز کی دکان.راجپوت سائیکل ورکس ملک محمد طفیل اور ملک برکت علی کے چوب عمارتی کے احاطے اور گودام میسن روڈ پر ملک عبدالرحمن کا مکان اور مزنگ اور ٹمپل روڈ پر پانچ احمدیوں کے مکان جن میں شیخ نور احمد ایڈووکیٹ کا مکان بھی شامل تھا.6 مارچ کی رات عبد الحکیم مالک پایونیر الیکٹرک اینڈ بیٹری سروس کے مکان پر چھاپہ مارا گیا اور ان کی بوڑھی والد قتل کر دی گئی.جو عام حالات میں قانون وانتظام کے قیام کے ذمہ دار ہوتے ہیں کا ملا بے بس ہو چکے تھے اور ان میں 6 مارچ کو پیدا ہونے والی صورت حال کا مقابلہ کرنے کی کوئی گنجائش اور اہلیت باقی نہ رہی تھی.منظم حکومت کی مشینری بالکل بگڑ چکی تھی اور کوئی شخص مجرموں کو گرفتار کر کے یا ارتکاب جرم کو روک کر قانون کو نافذ العمل کرنے کی ذمہ داری لینے پر آمادہ یا خواہاں نہ تھا.انسانوں کے بڑے بڑے مجمعوں نے جو معمولی حالات میں معقول اور سنجیدہ شہریوں پر مشتمل تھے ایسے سرکش اور جنون زدہ ہجوموں کی شکل اختیار کر لی تھی جن کا واحد جذ بہ یہ تھا کہ قانون کی نافرمانی کریں اور حکومت وقت کو جھکنے پر مجبور کر دیں اس کے ساتھ یہ معاشرے کے ادنی اور ذلیل عناصر موجودہ بدنظمی اور ابتری سے فائدہ اٹھا کر جنگل کے درندوں کی طرح لوگوں کو قتل کر رہے تھے.ان کے املاک لوٹ رہے تھے اور قیمتی جائداد کونذرآتش کر رہے تھے.محض اس لیے کہ یہ ایک دلچسپ تما شا تھا یا کسی خیالی دشمن سے بدلہ لیا جارہا تھا.پوری مشینری جو معاشرے کو زندہ رکھتی ہے پرزہ پرزہ ہو چکی تھی اور مجنون انسانوں کو دوبارہ ہوش میں لانے اور بے بس شہریوں کی حفاظت کرنے کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ سخت سے سخت تدابیر اختیار کی جائیں.مذہب کا سرطان صفحہ 142 143 $1984 124 اپریل 1984ء کو جنرل ضیاء الحق صاحب نے بطور صدر پاکستان تعزیرات پاکستان میں مزید ترمیم کرتے ہوئے دفعات 298 ب اور 298 ج کا اضافہ کر دیا ترامیم یہ تھیں.1.دفعہ 298ب

Page 451

451 اگر قادیانی گروپ یا لا ہور گروپ کا کوئی بھی شخص ( جو اپنے آپ کو احمدی کہلواتا ہو یا اُس کا کوئی اور نام ہو ) تحریری تقریری یا کسی اور طرح سے.(الف) کسی شخص کو خلفائے راشدین یا صحابہ کرام کے علاوہ وہ خلیفتہ المسلمین.خلیفہ المومنین صحابی یا رضی اللہ عنہ کے الفاظ سے خطاب کرے.(ب) ازواج مطہرات کے علاوہ کسی خاتون کو ام المومنین کے الفاظ سے پکارے.(ج) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو اہل بیت کہے.(د) اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہے تو اس کو تین سال کی سزائے قید دی جاسکتی ہے اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا.2 - اگر قادیانی گروپ یا لا ہور گروپ کا کوئی شخص عبادت کی خاطر بلانے کے لیے اذان دیتا ہے یا اس طرح طلب کرنے کو اذان کہتا ہے تو اس کو تین سال تک سزا دی جاسکتی ہے اور وہ جرمانے کا مستوجب ہوگا.3.دفعہ 298 ج اگر قادیانی گروپ یالا ہور گروپ کا کوئی مرد اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو اور اپنے مذہب کو اسلام کا نام دیتا ہو یا اپنے عقائد کی اس طرح تبلیغ کرتا ہو کہ جس سے عام مسلمانوں کے عقائد مجروح ہوتے ہوں تو اس کی تین سال قید کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا.جنرل صاحب کے اس حکم سے ظلم کا وہ دور شروع ہوا جس پر بیگانے تو بیگانے اپنے بھی چیخ اٹھے بقول روز نامہ وفاق : مہذب و متمدن مسلمان شہری اس طرح کی اسلامی خدمات کسی بھی طور پسند نہیں کر سکے اسلامی ملک کی اسلامی خدمات" (15 اکتوبر 93ء) $1984 کلمه کیس 20 مئی 1984ء کو ندیم احمد (عمر 17 سال) ولد محمد اقبال منہاس وسیم احمد (عمر 20 سال ) ولد ناصر احمد اور خالد محمد ( عمر 17 سال) ولد شیر محمد کلمہ اپنی چھاتیوں پر لگانے کے جرم میں گرفتار کر لیے گئے.السلام علیکم کیس روز نامہ جنگ (راولپنڈی) نے 6 جون 1984ء کو لکھا کہ کئی سو احمد یوں کو دوسرے لوگوں سے ملتے وقت

Page 452

452 السلام علیکم کہنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے.5 جون 1984ء کو مانسہرہ میں ایک احمدی را نا کرامت اللہ صاحب ولد را نانعمت اللہ مالک رانا ٹریڈرز کو صرف السلام علیکم کہنے کی پاداش میں مقامی عدالت نے چھ ماہ کی قید باہ مشقت سنائی.F.I.R کے مطابق ان تمام لوگوں کے خلاف مقامی مسلمانوں اور ان کے مذہبی پیشواؤں نے مقدمات درج کروائے.$1985 13 احمد یوں پر کلمہ کیس اپریل 26 اور یکم مئی 1985ء کے درمیان 13 احمدی لیڈروں کو تھر پارکر سے گرفتار کر کے 30 دن حراست میں رکھا گیا.D.C رسول بخش بلوچ نے گرفتاری کی وجہ احمدیوں کا کلمہ طیبہ کاBadge لگانا بتائی.ڈرگ روڈ کا کلمہ کیس راجہ ناصر احمد صاحب کو 22 فروری 1985 کو مسلمان کے جذبات مجروح کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا.اسی دن رات تین بجے سب ڈویژن مجسٹریٹ کی قیادت میں پولیس کی بھاری نفری مقامی احمدی مسجد میں داخل ہوئی اور نقص امن کے الزام میں 41 افراد کو گرفتار کیا جو اگلے دن جمعہ کی تیاری کر رہے تھے اسی طرح راجہ ناصر احمد صاحب کو مسجد پر کلمہ لکھنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا.$1986 سرگودہا کیس 8 سے 11 مارچ.16 سے 26 مارچ کو سرگودھا میں 26 احمدیوں کو کلمہ اپنے سینوں پر آویزاں کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا.مردان کیس روزنامہ جنگ 19 ستمبر 1986ء کے مطابق مردان کے اسٹنٹ کمشنر مسٹر شاہ حسین آفریدی نے 2 احمدیوں کو فرداًفرداً 50 ہزار روپے جرمانہ سنایا اور 5 سال قید با مشقت سنائی.یہاں یہ بات یادر ہے کہ آرڈینس مذکور XX کے مطابق صرف 3 سال تک قید سنائی جاسکتی ہے.ٹو بہ ٹیک سنگھ کے مقدمات اگست 1986ء کو 9 احمدیوں کو کلمہ آویزاں کرنے کے جرم میں ٹو بہ ٹیک سنگھ جیل میں پابند سلاسل کر دیا گیا.

Page 453

453 11 اگست کو مزید چار افراد کو اسی طرح کے مقدمے میں گرفتار کر کے اندر کر دیا گیا.ستمبر 1986 سرگودھا کیس تین احمدیوں کو 2 سال قید با مشقت سنائی گئی.ان افراد کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے کلمہ بآواز بلند پڑھا تھا.سٹی مجسٹریٹ ظہیر خان نے ان افراد کو پی.سی سیکشن 298C کے تحت سزا سنائی.احمدی درزی کیس پشاور اس کیس کی ابتداء اس F.IR سے ہوتی ہے کہ جو 9 ستمبر 1985ء کو ہشت نگری پولیس سٹیشن پشاور میں درج کروائی گئی.محمد اور میں جو درزی کا کام کرتا تھا نے اپنی دوکان پر کلمہ آویزاں کیا تھا.اس کیس کا فیصلہ تقریباً ایک سال کے بعد ہوا جس کے مطابق محمد ادریس کو 10 ہزار جرمانہ اور 10 سال قید با مشقت سزا سنائی.درجہ اول مجسٹریٹ خداداد خان مسعود نے اس غیر انسانی سزا پر یہ تو ضرور کہا کہ احمدی آرڈنینس X X کے تحت کلمہ Diplay نہیں کر سکتے مگر یہ بتانے سے قاصر رہے کہ سزا کو اتنے زیادہ سالوں پر محیط کیوں کیا.اس کا رروائی کے لئے 35 علماء کرام پیش ہوتے رہے.فرنٹیئر پوسٹ کے مطابق 9 ستمبر 1986ء کو علماء کے بہت بڑے جلوس نے اس خوفناک جرم کے لیے پھانسی کی سزا دینے کا مطالبہ کیا.جنرل صاحب کا دور اقتدار یوں یوں سالوں کا سفر طے کرتا 90 دن سے دور ہوتا چلا گیا.توں توں احمدیوں پر مظالم کا دائرہ تنگ سے تنگ ہوتا گیا.1984 ء سے شروع ہونے والے اس تاریک دور میں کسی نہ کسی بستی سے احمدی کلمہ گووں کا جیل کی ٹھنڈی سلاخوں کی طرف سفر جاری رہا.روز کسی نہ کسی بستی میں احمدی گھروں پر لکھے کلمہ طیبہ پہ سرکاری ہتھوڑے برستے رہے.اور کسی نہ کسی بستی میں احمدی مساجد قرآن مجید سمیت آگ اور شعلوں میں ڈوبتی رہیں درد بڑھتا گیا اور پھر میں نے درد سے پھیلتی ہوئی آنکھوں کو بند کر لیا.سفاک ظلم سے بچنے کے لیے ایک لمبا فرار حاصل کیا اور 1986ء سے جمپ لیتے ہوئے 2190 دن بعد یعنی 1992ء میں پہنچ گیا.یقینا میں پاک و مطہر کلمہ طیبہ پر برسنے والے ہتھوڑوں کی آواز سننے کے لیے تیار نہ تھا.قرآن مجید کے جلتے ہوئے اوراق کو دیکھنے کی سکت نہ رکھتا تھا.لیکن میری بدنصیبی تھی کہ 2190 دن بھی وطن عزیز میں اسلامی حکومت ہی قائم تھی.اور اسلامی خدمات کا فریضہ مسلمان رہنماؤں کی مدد سے بطور احسن بغیر تسلسل کے ادائیگی کی کامیاب منازل طے کر رہا تھا.صرف 1992 ء کا جائزہ درج ذیل تھا.1992 اس سال کے دوران 150 سے زائد مقدمات احمدیوں کے خلاف درج کروائے گئے.مقدمات کی وجہ اس

Page 454

454 بار بھی قرآنی آیات.اسلامی شعار اور بسم اللہ کا لکھنا قرار پایا ان سب مقدمات کے تحت دوماہ سے دو سال تک کی قید سنائی گئی.حاصل کردہ تفصیلات کے مطابق: -1 _2 _3 _4 _5 4, 5, 6, 7, ∞0, 7._8 _9 -10 -11 -12 -13 -14 -15 11 سے زائد احمدی عبادت گاہوں کو شہید یا مسمار کر دیا گیا.11 سے زائد احمدی عبادت گاہوں کو تعمیر ہونے سے روک دیا گیا.22 احمد یوں کو دردناک طریقے سے قتل کر دیا گیا.22 احمد یوں کو شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا.12 سے زائد قبروں کی بے حرمتی کی گئی.19 مینوں کو دفنانے نہ دیا گیا.112 احمدی افراد کومختلف ناجائز مقدمات میں گرفتار کیا گیا.718 افراد پر کلمہ طیبہ کا Badge آویزاں کرنے پر گرفتار کیا گیا.729 افراد پر اذان کے الفاظ پڑھنے پر مقدمات بنائے گئے.10 افراد کے خلاف قرآن پاک کی تلاوت کے الزام میں مقدمات بنائے گئے.مختلف احمدی جرائد کے مدیران کے خلاف 38 مقدمات بنائے گئے.400 سے زائد احمدی مطبوعات کو ضبط کر لیا گیا.31 احمدی جو حکومت کے ملازم تھے کو ملازمتوں سے بلا جواز برطرف کر دیا گیا.245 کینال کی زمین جور بوہ میں احمدیوں کی ملکیت تھی کو حکومت نے اپنے قبضہ میں لے لیا.ڈیرہ غازی خاں کے خان محمد اور رفیق احمد نعیم کو 295A.B.C کے تحت گرفتار کر لیا گیا ان دونوں افراد نے قرآن پاک کو سرائیکی زبان میں Translate کیا تھا.قادیانی خدمات وطن عزیز میں قادیانی حضرات کی تعلیم و تربیت اور ان کو اسلام میں واپس لانے کے عظیم فریضہ ادا کرنے کے دوران ہونے والی خدمات کا جائزہ لینے کے بعد قادیانی حضرات کی طرف سے رجوع کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے 50 سال ان خدمات کے باوجود کس طرح گزارے.جماعت احمدیہ کے دوسرے امام مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے پاکستان بننے کے فوراً بعد اپنے نو جوانوں کو درج ذیل نصیحت کی :

Page 455

455 کبھی بھی یہ خیال مت کرو کہ لوگ تمہارے کام کی قدر نہیں کرتے تم لوگوں کی خاطر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی خاطر خدمت کرو اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور خدمت خلق کو اپنی زندگیوں کا مقصد بناؤ ایسا کرو گے تو پھر تمہاری کامیابی میں کوئی شبہ باقی نہیں رہے گا.“ اسی طرح ایک اور موقعہ پر فرمایا: مشعل راه جلد اول صفحه 846 ) تمہیں اپنے ملک کی عزت اور ساکھ دنیا میں قائم کرنا ہوگی تمہیں اپنے وطن کو دنیا میں روشناس کرانا ہوگا.ملکوں کی عزت کو قائم رکھنا بھی ایک بڑا دشوار کام ہے.لیکن ان کی عزت کو نبھانا اس سے بھی زیادہ دشوار کام ہے اور یہی دشوار کام تمہارے ذمہ ڈالا گیا ہے.تم ایک نئے ملک کی نئی پود ہو تمہاری ذمہ داریاں پرانے ملکوں کی نئی نسلوں سے بھی بہت زیادہ ہے.انہیں ایک بنی بنائی چیز ملتی ہے.انہیں آباؤ اجداد کی روایتیں وراثت میں ملتی ہیں مگر تمہارا حال یہ نہیں ہے تم نے ملک بنانا بھی ہے اور تم نے نئی روایتیں بھی قائم کرنی ہیں.ایسی روایتیں جن پر عزت اور کامیابی کے ساتھ آنے والی بہت سی نسلیں کام کرتی چلی جائیں.“ مشعل راه جلد اول صفحه 650، 651 قادیانی لوگوں نے اپنے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے 50 سال کیسے گزارے؟ ان کے گھروں کو لوٹنے ، جلانے اور بائیکاٹ کرنے والے حضرات کو جوابی طور پر نفرت اور قانون شکنی سے جواب دیا.وطن فروشوں کے گروہ سے جاملے یا معماران وطن کی صف اول میں اپنا نام لکھوا کر ہمیشہ کے لیے وطن عزیز کے محبان میں امر ہو گئے.سوال تاریخ سے پوچھتے ہیں تو ہر ہر شعبے کے درودیوار پر لکھا ہوا یہ پیغام جواب میں وصول ہوتا ہے.اگر آپ پچھلے سال کی تاریخ پاکستان کی ورق گردانی کریں تو احمدی سپوتوں کے کارنامے جگہ جگہ آپ کو بکھرے نظر آئیں گے زندگی کے ہر شعبہ میں احمدیوں نے نمایاں خدمات سرانجام دیں.چوہدری محمد ظفر اللہ خاں جیسا قانون دان، بین الاقوامی امور کا ماہر اور پروفیسر عبد السلام جیسا عظیم سائنس دان جسے دنیائے اسلام کا نیوٹن کہا جاتا ہے جس کا نام آتے ہی دنیا کے سائنس دان تعظیم سے سر جھکا لیتے ہیں.دفاع پاکستان کے سلسلہ میں جنرل اختر حسین فاتح چھمب جوڑیاں، جنرل عبدالعلی ملک فاتح چونڈہ ، جنرل افتخار جنجوعہ شہید ہیرو آف رن کچھ ، اقتصادیات جناب ایم.ایم.احمد ، ادب میں جناب قلندر مومند ، شیخ محمد اسماعیل پانی پتی.شاعری میں روشن تنویر، قیس مینائی، چوہدری محمد علی ، ثاقب زیروی، پیام شاہجہانپوری، اکبر حمیدی، صابر ظفر ، عبید اللہ علیم ،مبارک ظفر تعلیم وفلسفہ میں قاضی محمد اسلم جیسا استاد اور میاں محمد افضل جیسے ماہر تعلیم صحت کے شعبہ میں قاضی محمد بشیر اور جنرل محمود الحسن اور

Page 456

456 میجر جنرل مسعود الحسن نوری جیسے ماہرین، جنرل نیم احمد اور عقیل بن عبد القادر صاحب جیسے ماہرین امراض چشم.قانون وانصاف کے شعبہ میں شیخ بشیر احمد صاحب حج پنجاب ہائی کورٹ ، چوہدری عزیز احمد باجوہ، قاضی عبدالحمید جیسے ماہر قانون دان.اور اپنے شعبہ میں واحد بلکہ اپنے وقت میں دنیا بھر میں اکیلا ماہر لسانیات حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر جس نے ثابت کر دیا کہ عربی تمام زبانوں کی ماں ہے.پاکستان کا پہلا کوہ پیما جس نے 2-K چوٹی سر کرنے کی کوشش کی کرنل عطاء اللہ صحافت میں روشن دین تنویر، قمر اجنالوی اور ثاقب زیروی کے نام نظر آتے ہیں.غرضیکہ جس طرف نظر دوڑائیں اپنے اپنے شعبہ میں نمایاں کام کرنے والے احمدیوں کی خاصی تعداد ملے گی.دفاع کے میدان میں تحریک پاکستان کی آواز ہو یا بین الاقوامی مذاکرات، اور 1965ء کا میدان کارزار ہو یا 1971ء کا محاذ جنگ.جماعت احمدیہ کے جوان دیوانہ وار وطن کی آبرو کے لیے ہر میدان میں نمایاں خدمات سرانجام دیتے نظر آتے ہیں.1.1948ء کے جہاد کشمیر میں احمدی مجاہدین کی فرقان بٹالین نے پاک فوج کے شان بشانہ لڑتے ہوئے شاندار کارنامے سرانجام دیئے.1965ء کی جنگ میں میجر جنرل افتقار جنجوعہ وہ پہلے فاتح کمانڈر تھے جنہوں نے رن کچھ کے محاذ پر دشمن کا وسیع علاقہ بغیر کسی نقصان کے حاصل کر لیا.2 لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک نے 1965ء کی جنگ کے سب سے بڑے محاذ چھمب میں ہندوستانی افواج کو شکست دی.یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1965ء کی جنگ کے پہلے 2 ہلال جرأت احمدی جوانوں نے حاصل کئے.3.1965ء کی جنگ کے دوسرے بڑے محاذ چونڈہ کے محاذ پر لیفٹینٹ جنرل عبد العلی ملک نے ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ جیتی.4.11 ستمبر 1965ء کو سکوارڈن لیڈر منیر الدین احمد نے امرتسر میں نصب شدہ راڈار کو تباہ کیا جس سے پاک فضائیہ کو فیصلہ کن برتری حاصل ہوگئی.5.1971ء کی جنگ میں ایک منفرد ریکارڈ قائم ہوا کہ جنرل رینک کے دو فوجی آفیسر ز یعنی میجر جنرل افتخار جنجوعہ شہید اور میجر جنرل ناصر احمد زخمی ہوئے.اسی طرح لیفٹنٹ کرنل بشارت احمد بھی اس رینک کے واحد آفیسر ہیں جنہیں جنگی قیدی بنایا گیا.6.ان قربانیوں کا تعلق آفیسرز سے ہی نہیں بلکہ نچلی سطح پر بھی ہر رینک کے احمدی مجاہد نے قربانیاں پیش

Page 457

457 کیں.لاہور کے محاذ پر جان کا نذرانہ پیش کرنے والے میجر منیر احمد اور چھمب سیکٹر میں جان قربان کرنے والے میجر قاضی بشیر احمد جیسی مثالیں بھی ملتی ہیں.لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک ترکی کے دارالحکومت انقرہ سے 50 میل دور ایک ٹرک کار حادثے میں شہید ہو گئے آپ کی وفات پر صدر پاکستان نے فرمایا: دو مجھے لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک اور ان کی اہلیہ کی ناگہانی وفات سے سخت صدمہ پہنچا ہے جنرل کی وفات سے پاکستانی افواج کو ایک نا قابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ہے.“ (روز نامه امروز 23 اگست 1969 ء ) ترکی سے جنرل اختر حسین ملک کی میت پاکستان ائیر پورٹ پہنچنے پر چیف آف سٹاف جنرل عبدالحمید صاحب نے ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا: جنرل اختر حسین ملک کی افسوسناک موت پر ہر پاکستانی کو صدمہ ہوا ہے خصوصاً مسلح افواج کو کہیں زیادہ صدمہ ہوا ہے.جس سے مرحوم عرصہ سے منسلک ہے.مرحوم ایک عظیم سپاہی ، بہترین جرنیل اور شریف النفس انسان تھے.ان کی موت سے قوم کو بے حد نقصان پہنچا ہے.زمانہ امن ہو یا جنگ وہ قیادت کرنے کی بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے اور ان کے کارنامے ہمیشہ دوسروں کے لیے مثال بنے رہیں گے.“ بری فوج کے سر براہ جنرل محمد موسیٰ صاحب آپ کو ہلال جرات کا اعزاز دیے جانے کی تقریب میں کہا: مجھے آپ جیسے مجاہدوں کے درمیان موجود ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے جنہوں نے ایک ایسے مکار دشمن کے حملے کا دندان شکن جواب دیا جس نے بغیر اعلان جنگ کے رات کے اندھیروں میں اپنی قوت سے مذ ہوم حملہ کیا تھا.آپ نے اس کی تمام غلط فہمی دور کر دی اور ایسی عبرتناک شکست دی ہے جو رہتی دنیا تک اسے یادر ہے گی.میں آپ کی ہمت استقلال بے جگری اور بہادرانہ عظمت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ آپ نے اپنے مقدس اور محبوب وطن کی سلامتی اور حفاظت کے لیے والہانہ جنگ کی.“ ڈائری آف دی وار اردو ایڈیشن صفحہ 283 284) سابق وزیر دفاع اور سابق ممبر قومی اسمبلی جو خود رن آف کچھ کی جنگ میں شریک ہوئے میجر راجہ نادر پرویز صاحب جنرل اختر صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں: میجر جنرل اختر حسین ملک کے متعلق آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سپر انٹیلی جنٹ اور جنیکس تھے وہ ترکی میں رہے

Page 458

458 ہیں جہاں امریکی اور غیر ملکی جنرل بھی تھے.جنرل اختر ملک نے وہاں بھی اپنا سکہ منوایا.وہ لوگ اس بات کے قائل ہو گئے کہ ہاں پاکستان فوج میں کوئی جرنیل ہے.1965ء کی جنگ کی انہوں نے پلاننگ کی تھی اگر ہم اس پلاننگ کے تحت چلتے تو اکھنور قبضے میں آجاتا.اگر اکھنور قبضے میں آجاتا تو سیالکوٹ محفوظ ہو جاتا کیونکہ اکھنورا نڈین لائن آف کمیونی کیشن تھی.“ (مشرقی پاکستان کے پانچ کردار صفحہ 20) جماعت کے مشہور مخالف جناب مولانا شورش کا شمیری صاحب ان جنگ کے دنوں میں ایک احمدی جرنیل کی بہادری سے اتنے متاثر ہوئے کہ داد شجاعت یوں دی: ہر اک محاذ جنگ پران کو پچھاڑ دو ہندوستان کی فوج کا حلیہ بگاڑ دو واہگہ کی سرزمین پر حریفوں کی ٹولیاں اختر ملک کی زیر قیادت چتھاڑ دو ایک اور نظم میں یوں ارشاد ہوا : میدان کارزار پہ چھاتے ہوئے چلو جوش وفا کا نقش بٹھاتے ہوئے چلو دہلی کی سرزمین نے پکارا ہے ساتھیو اختر ملک کا ہاتھ بٹاتے ہوئے چلو اس کے سوا جہاد کے معنی ہیں اور کیا اسلام کا وقار بڑھاتے ہوئے چلو (رسالہ چٹان 13 ستمبر 65 صفحہ 4 بریگیڈئیر عبدالعلی ملک (چونڈہ کے ہیرو) بریگیڈئیر عبدالعلی ملک جو بعد میں لیفٹینٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پاگئے کو مختلف شخصیات اور اخبارات ورسائل نے یوں خراج تحسین پیش کیا : بھارت کے پورے آرمرڈ ڈویژن کو ایک قادیانی بریگیڈئیر نے صرف ایک ٹینک رجمنٹ سے روک دیا.(ماہنامہ حکایت) ماہنامہ حکایت نے نومبر 1984ء میں خراج تحسین کو یوں رقم فرمایا: ستمبر 1965ء میں سیالکوٹ چونڈہ سیکٹر پر بھارت نے پورے آرمرڈ ڈویژن سے حملہ کیا تھا.اس حملے کو ایک قادیانی بریگیڈئیر نے صرف ایک ٹینک رجمنٹ اور دو انفنٹری پلٹنوں سے روکا تھا.اس بریگیڈئیر کو اس کے ڈویژن کمانڈر نے حکم دیا تھا کہ پیچھے آؤ سیالکوٹ خالی کر دو ہم بہت پیچھے ہٹ کر (سیالکوٹ دشمن کو دیکر لڑیں گے.اس قادیانی بریگیڈئیر نے اپنے ڈویژن کمانڈر کا یہ حکم ماننے سے صاف انکار کر دیا تھا اور حملہ روک لیا تھا.اس بریگیڈئیر کا

Page 459

459 نام عبد العلی ملک ہے جو بعد میں میجر جنرل ہو گئے تھے.وہ جنرل اختر حسین ملک مرحوم کے چھوٹے بھائی ہیں.“ جنرل عبد العلی ملک نے چونڈہ کے محاذ پر تاریخ حرب کے تمام ماہرین کو حیران کر دیا روز نامہ امروز لاہور 23 اگست 1969ء کی اشاعت میں یوں خراج پیش کرتا ہے: (صفحہ 114) میجر جنرل عبد العلی نے چونڈہ کے محاذ پر ٹینکوں کی عظیم جنگ میں پاکستانی فوج کی کمان کی اور ایسے کارنامے سرانجام دیئے کہ تاریخ حرب کے ماہرین حیران و ششدر رہ گئے.فاتح رن کچھ میجر جنرل افتخار جنجوعہ (2 مرتبہ ہلال جرأت) میجر معین باری صاحب نے خراج تحسین ان الفاظ میں رقم کیا: پاکستان فوج دنیا کی بہترین فوجوں میں سے ایک ہے اس کے جو ان آفیسر نڈر بہادر اور جذبہ شہادت سے سرشار ہیں کہ ساری قوم ان پر فخر کر سکتی ہے.پاک فوج میں اب بھی میجر بھٹی شہید.میجر شریف خادم اور جنرل افتخار جنجوعہ شہید جیسے بہادر اور جری افسروں کی کمی نہیں 1965ء کی جنگ میں انہی فوجیوں نے بھارتی فوج کے حواس باختہ کر دیا تھا.“ (روز نامہ جنگ لاہور 19 نومبر 1986 ء ) قانون بین الاقوامی امور بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کی نمائندگی متحدہ ہندوستان میں مسلم لیگ کے صدر اور بعد میں بانی پاکستان سے بیٹے کا خطاب حاصل کرنے والے عظیم شخص چوہدری ظفر اللہ خان میں مندرجہ بالا تمام اوصاف یکجا ہو گئے تھے آپ کو بانی پاکستان نے اپنی کابینہ میں سب سے اہم عہدے وزیر خارجہ کے عہدے پر مامور فرمایا.جنوری 1948ء میں اقوام متحدہ میں بھارت کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کے خلاف شکایت درج کرادی چوہدری صاحب نے اس کیس کو کس ذہانت سے لڑ کر تاریخ میں انمٹ نام درج کروایا اس کا ثبوت وہ گلی گلی سے اٹھنے والی آواز ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے.وہ قراردادیں پاس کروانے والا شخص سر ظفر اللہ خان تھا.1948ء تا 1954ء چوہدری صاحب خود اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے سربراہ کے طور پر پیش ہوتے رہے.اس دوران آپ نے عالم اسلام کی انتہائی اہم اور گراں قدر خدمات انجام دیں.اس میں شمالی افریقہ کے مسلم ممالک لیبیا، تیونس، الجزائر، مراکش، کی آزادی اس کے علاوہ صومالیہ، سوڈان کے ممالک کے مسائل اور مصر سے نہر سویز پر قبضے کے دوران برطانوی فوج کی واپسی کے مسئلہ پر عالم عرب اور عالم اسلام کی زبردست حمایت کی بلکہ

Page 460

460 آپ کو عرب ممالک کا ترجمان کہا جانے لگا.1955ء میں آپ کا تقرر عالمی عدالت انصاف میں بطور حج ہوا.1958ء میں اس عدالت کے نائب صدر رہے.12 اگست 1961ء کو صدر پاکستان محمد ایوب خان نے آپ کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل نمائندہ مقرر کردیا اور ایک بار پھر آپ نے مسئلہ کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستانی عزائم کو پوری طرح بے نقاب کیا.آپ جنرل اسمبلی کے سترھویں اجلاس -63-1962 کے صدر منتخب ہوئے.مراکش کے شاہ حسن نے مراکش کا اعلیٰ ترین اعزاز آپ کو پیش کیا.1970ء میں آپ عالمی عدالت انصاف کے سربراہ چنے گئے.آپ اس عدالت کے پہلے ایشائی صدر تھے.آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ آپ جنرل اسمبلی کے سترھویں اجلاس کے صدر بنے اور عالمی عدالت انصاف کے صدر بھی.دنیائے سائنس میں پاکستان کی نمائندگی اور نوبل انعام دنیائے سائنس میں پاکستان ، دنیائے اسلام اور تیسری دنیا کی نمائندگی کرنے والا دنیائے سائنس کے آسمان کا واحد اور درخشندہ ستارہ جس نے اپنے علم اور تحقیق سے دنیا فزکس میں انقلاب کی بنیا د رکھی ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان سے ضلع جھنگ میں ایک احمدی گھرانے میں ہی پیدا ہوا تھا.سکول تا یو نیورسٹی ہر امتحان میں اول پوزیشن حاصل کرنے کی وجہ سے کیمرج یونیورسٹی میں سکالرشپ ملا اور ریاضی کی اعلی ترین سند ٹرائی پاس میں اول پوزیشن لیکر رینگلر کہلائے.کیمرج سے ہی آپ نے طبیعات میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی.کیمرج یونیورسٹی سے انہیں پی.ایچ.ڈی سے پہلے سمتھ پرائز بھی دیا گیا.جو انہیں ڈاکٹریٹ سے پہلے غیر معمولی کارکردگی پر دیا گیا تھا.1979ء میں آپ نے نوبل پرائز حاصل کیا.اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے طبیعات کے میدان میں دنیا کے دس اور بڑے اعزاز اور انعام حاصل کئے تھے.میکس دیل میڈل حاصل کرنے والے وہ پہلے سائنس دان تھے.انہوں نے سینکڑوں سائنسی مقالے لکھے.ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز اور تھرڈ ورلڈ نیٹ ورک سائنسیٹیفک آرگنائزیشن کا قیام ہے ان اداروں میں دنیا کے دوسو سے زائد عظیم سائنس دان شامل ہیں جن میں سے 10 نوبل انعام یافتہ ہیں.ماہنامہ عملی سائنس نے جولائی 1997 ڈاکٹر صاحب کو خراج تحسین یوں پیش کیا: عبد السلام ایک فرد نہیں ایک تحریک کا نام ہے.علم و دانش کی عمل و جفاکشی اور اپنے تہذیبی ورثہ میں جائے فخر کہ آنے والی نسلیں یقینا ڈاکٹر سلام کا نام اسی پیار و محبت وارفتگی اور فخر سے لیں گی جس طرح آج ہم بوعلی سینا، فارانی ، رازی، ابوالبشیم جیسے نامور سائنس دانوں کے نام فخر سے لیتے ہیں.ڈاکٹر صاحب کی شہرت واہمیت صرف پاکستان کے لیے ناز و افتخار نہیں.تیسری دنیا میں سب کے لیے ایک روشن جگمگاتے ستارے کی حیثیت رکھتے

Page 461

461 تھے.وہ تاریخ کے پہلے اور واحد سائنس دان ہیں جنہیں مہذب دنیا کے سب سے بڑے اعزاز نوبل انعام کا حقدار سمجھا گیا اور مستقبل قریب میں کوئی فرد ایسا کارنامہ انجام دیتا نظر نہیں آرہا.(علمی سائنس کراچی جولائی 1997 ء ) اردو ادب میں نمائندگی تمغہ حسن کارکردگی کا حصول دنیائے ادب میں صدارتی ایوارڈ حاصل کر کے وطن عزیز کی خدمت کرنے والے ادب و تحقیق میں صدارتی ایوارڈ تمغہ حسن کارکردگی حاصل کرنے والے 60 کتب کے مصنف شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی بھی ایک احمدی گھرانے میں پیدا ہوئے.جواہرات حالی، حالی کی غیر مطبوعہ نظمیں، سرسید کا سفر نامہ لندن ، مقالات سرسید 19 حصے، سیرت ابن ہشام اردو تر جمه ، تاریخ اشاعت اسلام مولانا حالی کی بہترین سوانح عمری ، طبقات ابن سعد ترجمه، کتاب الا ضام مفصل تاریخ اسلام، مشاہیر اسلام، جغرافیہ تاریخ اسلام وغیرہ کتب بھی آپ کی ہی تصنیف شدہ ہیں.آپ کی ان بہترین خدمات کی بناء پر 1970 میں آپ کو تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا.پشتو ادب میں نمائندگی تمغہ حسن کارکردگی اور ستارہ پاکستان کا حصول جولائی 1970ء میں پشاور کے نزدیک بازید خیل میں ایک احمدی گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ قلندر مومند کے نام سے پشتو ادب میں ٹمٹما رہا ہے.گومل یونیورسٹی کے لاء ڈیپارٹمنٹ کا چیر مین رہا.پھر پشتو ڈکشنری پرا جیکٹ کا ڈائریکٹر بنا.شاعری کے میدان میں ” گجرے نام سے مجموعہ شائع ہوا.جس کا روسی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے.پشتو زبان میں تنقید کی کتاب لکھی جو ایم.اے پشتو کے کورس میں شامل ہے.آپ کی بے مثال خدمات کی بناء پر 1979ء میں تمغہ حسن کارکردگی ” پرائڈ آف پر فارمنس اور 1991ء میں ”ستارہ پاکستان سے نوازا میڈیکل سائنس میں نمائندگی ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز کا حصول دفاع وطن میں احمدی سپوتوں کے کارنامے تو حیرت انگیز تھے ہی زخمی ہونے والے بہادروں کی مرہم پٹی میں کمر کو تختہ بنا لینے والے میجر جنرل ڈاکٹر محمود الحسن بھی ایک احمدی گھرانے میں پیدا ہوئے.آپ کی جنگی خدمات کے خراج کے طور پر افواج پاکستان نے آپ کو ہلال امتیاز ، ستارہ امتیاز اور تمغہ امتیاز

Page 462

جیسے عظیم ٹائٹلز سے نوازا.اسی طرح: 462 1 - شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے عربی زبان کو ام الالسنہ ثابت کر کے.2.خان بہادر ڈاکٹر قاضی بشیر صاحب نے ستارہ امتیاز حاصل کر کے..میجر جنرل نسیم احمد صاحب نے بین الاقوامی امراض چشم کی کانفرنسز میں پاکستان کی نمائندگی کر کے اور رمضان علی سید گولڈ میڈل حاصل کر کے.4.قاضی محمد اسلم جیسے ماہر تعلیم نے یونیورسٹی کا نفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کر کے.5.ڈاکٹر میر مشتاق احمد صاحب نے ستارہ خدمت حاصل کر کے.6.پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب 1969ء میں نئی تعلیمی پالیسی کے بارے میں حکومتی تجاویز پر نظر ثانی کمیٹی کے سیکرٹری کے طور پر حکومت کو جامع رپورٹ پیش کر کے.7.قمر اجنالوی صاحب نے چاہ بابل، مقدس مورتی جیسی کتب لکھ کر اور روز نامہ مسلم، روز نامہ ملت ، روز نامہ مغربی پاکستان وغیرہ کی ادارت کے فرائض سر انجام دے کر ثابت کر دیا کہ احمدی محبان وطن ہیں.جنہوں نے محنت اور خدمت کے اعتبار سے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا.وطن عزیز کے ہر تعمیری پہلو میں کہیں نہ کہیں احمدی سپوت ضرور نظر آتا ہے مگر تخریب میں کوئی بھی نہیں.ایک ایسے ہی موازنے کے موقعہ پر برصغیر کے ممتاز صحافی اور ماہنامہ نگار کے ایڈیٹر مولانا نیاز فتح پوری نے اپنے دلی جذبات کا اظہار جن الفاظ میں کیا وہی الفاظ میرے دلی کرب کی زبان بن گئے ہیں.آپ نے فرمایا: احمدیوں کو بے دین کہنے والے تو بہت ہیں مگر...اس وقت مسلمانوں میں ان ( احمد یوں ناقل ) کو بے دین و کافر کہنے والے تو بہت ہیں لیکن مجھے تو آج ان مدعیان اسلام کی جماعتوں میں کوئی جماعت ایسی نظر نہیں آتی جو اپنی پاکیزہ معاشرت، اپنے اسلامی رکھ رکھاؤ ، اپنی تاب مقارمت اور خوئے صبر و استقامت میں احمدیوں کے خاک پا کو بھی پہنچتی ہو.ایں آتش نیز لگ نه سوز وهمه کس را جب قادیان والوں میں صدائے اللہ اکبر بلند ہوتی ہے تو ٹھیک اسی وقت یورپ، افریقہ وایشیا کے ان بعید و تاریک گوشوں سے بھی یہی آواز بلند ہوتی ہے.جہاں سینکڑوں غریب الدیار احمدی خدا کی راہ میں دلیرانہ قدم آگے بڑھائے ہوئے چلے جارہے ہیں.باور کیجئے.جب میں دیکھتا ہوں کہ باوجود ان عظیم خدمات کے بھی اس بے ہمہ و باہمہ جماعت کو برا کہا جاتا

Page 463

463 ہے تو مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے اور مسلمانوں کی اس بے بصری پر حیرت ہوتی ہے.میں حقیر گدایاں عشق را کائیں قوم شہاں بے کمر وخسروانِ بے کلہ اند ( نقول از ماہنامہ نگار لکھنو بابت ماہ جولائی 1960 ، صفحہ 117 تا 119 ) شاید ایسے ہی کسی مواز نے کے بعد برصغیر یہ کے ممتازصحافی اور شاعر ایسا ہ لکھنے پر مجبور ہو گئے تھے.باب نمبر 18

Page 464

464 پیشگوئیاں تباہیاں اور آبادیاں پیغمبروں کی جنگ یا

Page 465

465 پیغمبروں سے جنگ سکاٹ لینڈ کا ایک نالائق بچہ سکاٹ لینڈ کے خوبصورت ملک میں 25 مئی 1847ء کی صبح نے ایک بچے کو جنم دیا جس کا نام جانا لیگزنڈر ڈوئی تجویز ہوا.جان الیگزنڈر ایک ذہین بچہ تھا.اس نے 6 سال کی ہی عمر میں بائبل کا دور ختم کر لیا اور 1872 ء میں پادری کا پیشہ اختیار کر کے سکاٹ لینڈ سے جنوبی آسٹریلیا چلا آیا.ڈوئی میں فن خطابت کا ملکہ خوب تھا.جس سے اُس نے خوب فائدہ اٹھایا اور جلد ہی اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی.1888ء میں اس نے امریکہ کی طرف ہجرت کی.جہاں وہ مختلف شہروں سے ہوتا شکا گو میں قیام پذیر ہوا.اپنی حیران کن شہرت اور ترقی سے مسحور ہو کر اس نے 1896ء میں نئے فرقے کی بنیاد رکھی اور اس کا نام کرسچن کیتھولک چرچ تجویز کیا.جلد ہی مریدوں کی تعداد لاکھوں کے ہندسے کو چھونے لگی تو اس نے شکا گو سے 150 میل دور جھیل مشی گن کے کنارے پر ایک خوبصورت علاقے میں ساڑھے 6 ہزارایکڑ پر مشتمل ایک قطعہ زمین خرید کر اپنا شہر بسانے کا فیصلہ کر لیا.اس نے اپنے مریدوں کو دعوت دی کہ وہ اس نئے آباد ہونے والے شہر میں قطعات خرید کر مکانات بنائیں.یہ قطعات بہت مہنگے داموں فروخت کئے گئے جس سے ڈوئی کو کروڑوں ڈالر کی آمد ہوئی اور آہستہ آہستہ ڈوئی کو اس شہر کے مطلق العنان حاکم کی حیثیت حاصل ہو گئی.شہر میں بڑی بڑی فیکٹریاں، دکانیں، کارخانے اور پرنٹنگ پریس جاری ہو گئے.یہ سب ڈوئی کی ملکیت شمار ہوئی کیونکہ اس نے قطعات زمین اور کمرشل علاقے لیز پر دے رکھے تھے اور ملکیت اپنے پاس رکھی تھی.جوں ڈولی کی شہرت زائن سے نکل کر سارے امریکہ میں پھیل گئی.چنانچہ شکاگو کے پروفیسر فرینکلن جانسن نے لکھا: گزشتہ بارہ برس میں کم ہی ایسے اشخاص گزرے ہوں گے جنہوں نے امریکی اخبارات میں اس قدر جگہ حاصل کی ہو جس قدر جان الیگزنڈرڈوئی نے حاصل کی ہے.نبی ، پیغمبر، بادشاہ ( بحوالہ درس عبرت صفحہ 42 مصنفہ بشیر احمد رفیق) چنانچہ اس عروج یافتہ پس منظر کے ساتھ اس شخص نے ایک طرف تو یہ دعویٰ کیا کہ :

Page 466

466 پہلا ایلیا تو ایک نبی تھا.دوسرا ایلیا یعنی زکریا کا بیٹا بھی آبائی طور پر ایک مبشر تھا مگر تیسرا ایلیا (یعنی ڈوئی ) نبی ہے مبشر بھی ہے اور بادشاہ بھی.“ (رسالہ انڈی پینڈنٹ 19 اپریل 1906 ء ) تو دوسری طرف اسلام کی تباہی اور بانی اسلام کے خلاف ہرزہ سائی شروع کر دی.میں محمد ( سال شم السلام) کے جھوٹوں کو نفرت کے ساتھ تصور کرتا ہوں ( خاکش بدہن ) (26 مئی 1900 ء لیوز آف ہلینگ) زائن کے لیے ضروری ہے کہ وہ انسانیت کے دامن سے اس گھناونے دھبے کو دھوڈالے.یروشلم سے اس ملعون جھنڈے کو ہمیں اتارنا ہو گا.ہلال اور صلیب کے درمیان ایک جنگ عظیم قریب نظر آ رہی ہے.“ (15 اگست 1903 لیوز آف ہیلنگ ) دنیا کے مغربی کنارے پر برجمان الیگزنڈر ڈوئی جب مندرجہ بالا خرافات میں مصروف تھا تو عین اس وقت دور مشرقی کنارے پر ہندوستان کے دور افتادہ قصبہ قادیان میں ایک برگزیدہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی اس دعوئی میں مصروف تھے کہ حضرت مسیح ناصری وفات پاچکے ہیں.اور امت میں جس شخص نے آنا ہے وہ میں ہی ہوں خدا تعالیٰ نے مجھے آنحضرت صلی اینم کی غلامی میں مثیل مسیح بنایا ہے اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ میرے ذریعہ برپاہوگی.دوانتہا ئیں.دو پیغمبر اور دو نمائندے دنیا میں موجود تھے.پریس کے جدید نظام نے جلد ہی دونوں کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا.حضرت مرزا صاحب نے اپنے آپ کو سچا مسیح و مہدی سمجھتے ہوئے اسلام کے نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہوئے اسلام کی حقانیت کے حوالے سے اُسے دعوت مباہلہ دے دی.پہلے پہل تو ڈوئی نے اس طرف بالکل توجہ نہ دی لیکن جب حضرت مرزا صاحب کے مباہلہ کے اشتہار بار بار امریکن اخبارات کی زنیت بننے لگے تو اس نے 27 دسمبر 1902ء کو اپنے اخبار میں یوں لب کشائی کی: ”ہندوستان میں ایک بیوقوف شخص ہے جو محمدی مسیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ مجھے بار بار کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کشمیر میں مدفون ہیں جہاں ان کا مقبرہ دیکھا جا سکتا ہے.وہ یہ نہیں کہتا کہ اس نے خود وہ دیکھا ہے مگر بیچارہ دیوانہ اور جاہل شخص پھر بھی یہ بہتان لگاتا ہے کہ حضرت مسیح ہندوستان میں فوت ہوئے.“ پھر مزید وضاحت یوں کرتا ہے: لوگ بعض دفعہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ تم نے اس بات کا یا اُس بات کا جواب دے دیا ہے کہ نہیں.جواب کیا

Page 467

467 تم یہ سمجھتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دیتا رہونگا.اگر ان پر اپنا قدم بھی رکھ دوں تو ان کی زندگی کو کچل کر رکھ دوں گا.مگر میں تو انہیں ڈر جانے اور زندہ رہنے کا موقع دیتا ہوں.“ یوں یاوہ گوئی کرتا ہوا جان الیگزنڈرڈوئی اس شخص کے مقابل پر آ گیا جو مثیل مسیح اور امام مہدی کے دعوی کے ساتھ دنیا کومخاطب کر رہا تھا.پیغمبروں کی یہ جنگ اپنے عروج پر پہنچ کرکس انجام سے دو چار ہوئی ؟ عیسائی پیغمبر جیتا یا مثیل مسیح محمدی سالی ایام ؟ دوستو! میرے لیے اس کہانی کے انجام کا مطالعہ اس حوالے سے بھی دلچسپ تھا کہ عیسائی پیغمبر تو عیسائی دنیا کے نمائندے کے طور پر دنیا میں موجود تھا جبکہ مسلمان نمائندہ یعنی محمدی مسیح کو امت مسلمہ اپنا امام یا نمائنده تو در کنار مسلمان بھی ماننے کے لیے تیار نہیں تھی پھر خدائی نصرت کس کے حصہ میں آئی آئیے اخبار رپورٹ ملاحظہ کرتے ہیں.اور یہی عرفان میری 48 ویں مشکل بن گئی.پیغمبروں کی جنگ“ یا پیغمبروں سے جنگ مشکل نمبر 48 امریکن اخبار The Truth Seeker 15 جون 1907ء کے پرچہ کے ایڈیٹورل میں زیر عنوان پیغمبروں کی جنگ لکھا: ڈوئی ( حضرت ) محمد صلای ایام کو نعوذ باللہ ) مفتریوں کا بادشاہ سمجھتا تھا اُس نے نہ صرف یہ پیشگوئی کی تھی کہ اسلام صحون کے ذریعہ تباہ کر دیا جائے گا.بلکہ وہ ہر روز یہ دعا بھی کیا کرتا تھا کہ ہلال (اسلامی قومی نشان ) جلد از جلد نابود ہو جائے.جب اسکی خبر ہندوستانی مسیح کو پہنچی تو اس نے ایلیائے ثانی کو للکارا کہ وہ مقابلہ کو نکلے اور دعا کریں کہ جو ہم دونوں میں جھوٹا ہو وہ بچے کی زندگی میں مرجائے قادیانی صاحب نے پیشگوئی کی کہ اگر ڈوئی نے اس چیلنج کو قبول کر لیا تو وہ میری آنکھوں کے سامنے بڑے دکھ اور ذلت کے ساتھ اس دنیا سے کوچ کر جائے گا اور اگر اس نے اس چیلنج کو قبول نہ کیا تو تب اس کا اختتام صرف کچھ توقف اختیار کر جائیگا.موت اس کو پھر بھی جلد پالے گی اور اس کے صیحون پر بھی تباہی آجائے گی.یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی کہ میحون تباہ ہو جائے.اور ڈوئی ( حضرت ) احمد ( علیہ السلام) کی زندگی میں مرجائے.مسیح موعود کے لیے یہ ایک خطرے کا اقدام تھا کہ وہ لمبی زندگی کے امتحان میں اس ایلیائے ثانی کو بلائیں کیونکہ دونوں میں سے چیلنج کرنے والا کم و بیش 15 سال زیادہ عمر رسیدہ تھا اور ایک ایسے ملک میں جو پلیگ اور متعصب مذہبی دیوانوں کا گھر ہو حالات اس کے مخالف تھے.مگر

Page 468

آخر کار وہ جیت گیا.“ 468 شکا گوٹر بیون نے 10 مارچ 1907ء کی اشاعت میں ڈوئی کے حسرت ناک انجام کی دلکشی یوں کی : یہ خود ساختہ پیغمبر بغیر کسی اعزاز کے اور بالکل کسم پرسی کی حالت میں مر گیا.اس وقت اس کے پاس نصف درجن سے بھی کم وفادار پیرو کار موجود تھے جن میں باتنخواہ ملازمین منجملہ ایک نیگرو کے شامل تھے.اس کے بستر موت پر اس کا کوئی قریبی عزیزہ نہیں آیا.اس کی بیوی اور لڑکا اس عرصہ میں جھیل مشی گن کے دوسرے کنارے والے مکان مکروہی میں ہی مقیم رہے.“ رسالہ انڈی پینڈنٹ نے 14 مارچ 1907 ء کے ایڈیٹوریل میں یہ منظر کشی یوں کی : وہ اپنی مذہبی اور مالی حالت میں آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے کمال کو پہنچا مگر پھر یک لخت نیچے آگرا اس حال میں کہ اس کی بیوی اس کا لڑکا اس کا چرچ سب اس کو چھوڑ چکے تھے.“ خدا تعالیٰ کسی جھوٹے نبی کو کبھی سرسبزی نہیں دکھاتا ہفت روزہ مہارت نے اپنی یکم تا 8 دسمبر 1996ء کی اشاعت میں جھوٹے نبی کی تباہی اور سر سبزی کی یوں نشاندہی کی ہے." قرآن مجید کی سورہ جمعہ میں اللہ تعالی آنحضرت صلی بینیم سے اعلان کرواتا ہے کہ اے رسول کہہ دے کہ اے یہود یو! اگر تم گمان کرتے ہو کہ تم دیگر لوگوں سے بڑھ کر اللہ کے پیارے ہو تو پھر موت کی تمنا کر کے دکھاؤ.اگر تم اپنے گمان میں سچے ہو ( یعنی اپنے پیارے خدا کی ملاقات کی تمنا کرو جس طرح کی تمنا پیارے کرنے والے کو ہوتی ہے) اگلی آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ یہ کبھی بھی ایسی تمنا نہیں کریں گے.اپنے ان عمال کے سبب سے جو وہ آگے بھیج چکے ہیں“.( یعنی وہ جانتے ہیں کہ ان محبت الہی کا دعویٰ محض جھوٹ کا پلندہ ہے ).قرآن کریم کا یہ دعویٰ کسی ایک فرقے یا قوم کی حد تک محدود نہیں بلکہ قیامت تک جھوٹوں کیلے ایک چیلنج ہے.مرزا غلام احمد قادیانی کے جھوٹے ہونے کی گونج ایک صدی سے زائد عرصہ پر محیط ہے.یادر ہے کہ مرزا صاحب کا دعوئی صرف محبت الہی کا نہیں تھا بلکہ ما مومن اللہ کا تھا جس کے جھوٹے مدعی کی شہ رگ کاٹ کر رکھ دینے کا اعلان سورۃ الحاقہ میں موجود ہے.یقینا خدا کا وعدہ جھوٹا نہیں ہوسکتا.پھر اگر خدا کا وعدہ جھوٹا نہیں ہوسکتا اور مرزا صاحب کا دعوی سچا نہیں تو مرزا صاحب کے متعلق علماء کے دعاوی اور الزامات کی ظاہری حقیقت ہمارے سامنے کیوں نہ کھل سکی اور کیوں مرزا صاحب سورۃ الحاقہ کی خدائی وعید کے گھیرے میں نہ آ سکے جبکہ مرزا صاحب خود خدا کو یوں مخاطب ہورہے ہیں.

Page 469

469 ترجمه اے قدیر و خالق ارض و سما اے رحیم و مهربان و رہنما اے کہ میداری تو برد لها نظر اے کہ تو نیست چیزے مستتر گر تو می بینی مراز پرفسق و شر گر تو دیداستی کہ ہستم بد گہر پاره پاره کن من بدکار را شاد کن این زمرہ اغیار را بردل شان ابر رحمت با بیار ہر مراد شاں بفضل خود برآر آتش افشاں بردور دیور من ههنم باش و تبه کن کار من اے قدیر! اس زمین و آسماں کے پیدا کرنے والے خدا! اے رحیم اور مہربان اور رہنما آقا! اے خدا ! کہ تو دلوں کی پاتال تک خبر رکھتا ہے اور اے وہ ذات کہ جس سے کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں.اگر تو مجھے فسق وشر سے پر دیکھتا ہے اور تو مجھے اس حال میں دیکھتا ہے کہ میں کوئی بد گہر ہوں.اگر تو مجھے بدکار سمجھتا ہے تو مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور اس کام سے میرے مخالفین کو خوش کر دے.اور اگر ” میرے مخالفین میرے مقابل حق پر ہیں تو ان کے دلوں پر برابر رحمت برسا اور ان کی ہر مراد اپنے فضل سے خود پوری فرما.میرے درود یوار پر آگ برسادے اور میرا دشمن ہو جا اور میرا کاروبار تباہ و برباد کر کے رکھ دے.قرآن کریم ماموریت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کی ہلاکت کی خبر دیتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بار بار یوں انذار کرتا ہے.حمد موسیٰ نے ان سے کہا کہ اللہ پر جھوٹا افتراء نہ کرو ورنہ وہ تم کو سخت عذاب سے برباد کر دے گا.(طه رکوع ۳) اگر جھوٹا ہے تو اس پر جھوٹ کا وبال آئے گا.(المومن رکوع ۴) مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کا شمار ان علماء میں ہوتا ہے جو مرزا صاحب کے ہم عصر بھی تھے اور ان کے خلاف سرگرم بھی تھے اور مرزا صاحب کی مخالفت کے باعث آج کے علماء کے ہیرو بھی.اپنی تفسیر ثنائی کے مقدمہ صفحہ 17 پر لکھتے ہیں.نظام عالم میں جہاں اور قوانین خداوندی ہیں یہ بھی ہے کہ کاذب مدعی نبوت کی ترقی نہیں ہوا کرتی بلکہ وہ جان

Page 470

470 سے مارا جاتا ہے.واقعات گزشتہ سے بھی اس امر کا ثبوت پہنچتا ہے کہ خدا نے کبھی کسی جھوٹے نبی کو سر سبزی نہیں دکھائی یہی وجہ ہے کہ دنیا میں باوجود غیر متناہی مذاہب ہونے کے جھوٹے نبی کی امت کا ثبوت مخالف بھی نہی بتلا سکتے.“ اسی صفحہ کے حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں: دعوی نبوت کا ذبہ مثل زہر کے ہے جو کوئی زہر کھائے گا ہلاک ہوگا.تو مولانا امرتسری کے بقول حضرت مرز اصاحب نے یہ زہر کھا یا لیکن وہ ہلاک نہ ہوئے.ہے کوئی کا ذب جہاں میں لاؤ لوگو کچھ نظیر میرے جیسی جس کی تائید میں ہوئی ہوں بار بار لاؤ تحدی کی انتہا ہے یہ لکھتے ہیں کہ میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس کی طرف سے ہوں وہ خوب جانتا ہے کہ میں مفتری نہیں.کذاب نہیں اگر تم مجھے خدا تعالیٰ کی قسم پر بھی اور ان نشانات کو بھی جو اس نے میری تائید میں ظاہر کئے دیکھ کر مجھے کذاب اور مفتری کہتے ہو تو پھر میں تمہیں خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ کسی ایسے مفتری کی نظیر پیش کرو کہ باوجود اس کے ہر روز افتراء اور کذاب کے جو اللہ تعالیٰ پر کرے.پھر اللہ تعالیٰ اس کی تائید اور نصرت کرتا جاوے.چاہیے تو یہ تھا کہ اسے ہلاک کرے مگر یہاں اس کے برخلاف معاملہ ہے.میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں صادق ہوں.اس کی طرف سے آیا ہوں مگر مجھے کذاب مفتری کہا جاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ ہر مقدمہ اور ہر بلا میں جو قوم میرے خلاف پیدا کرتی ہے مجھے نصرت دیتا ہے اور اس سے مجھے بچاتا ہے اور پھر ایسی نصرت کی کہ لاکھوں انسانوں کے دلوں میں میرے لئے محبت ڈال دی.میں اس پر اپنی سچائی کو حصر کرتا ہوں.اگر تم کسی ایسے مفتری کا نشان دے دو کہ وہ کذاب ہو اور اللہ تعالیٰ پر اس نے افتراء کیا ہو اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی ایسی نصرتیں کی ہوں اور اس قدر عرصہ تک اسے زندہ رکھا ہو اور اس کی مرادوں کو پورا کیا ہو.دکھاؤ“.آئندہ زمانہ میں اپنی قائم کردہ جماعت کی کامیابی کا اتنا یقین تھا کہ لکھتے ہیں : ( ملفوظات جلد چہارم صفحه 550 ) دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دنیا میں بڑی قبولیت پھیلائے گا اور یہ سلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا اور دنیا اسلام سے مراد یہ سلسلہ ہوگا.یہ اس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.“ (تحفہ گواٹر و به صفحه (56) ”اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس خدا کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنا یا وہ اپنی اس جماعت کو تمام

Page 471

471 ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر اک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامرادر کھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائیگی.قرآن کا راہنما اصول اور پچھلے سوسالوں پر ایک نظر (ہفت روزہ مہارت لاہور صفحہ 39-40 ) جب قرآن مجید کا راہنما اصول بقول مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب یہ طے پایا کہ جھوٹا نبی ترقی نہیں پاتا بلکہ جان سے مارا جاتا ہے جیسے آپ کے الفاظ ہیں.نظام عالم میں جہاں اور قوانین خداوندی ہیں یہ بھی ہے کا ذب مدعی نبوت کی ترقی نہیں ہوا کرتی بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے.واقعات گزشتہ سے بھی اس امر کا ثبوت پہنچتا ہے کہ خدا نے کبھی کسی جھوٹے نبی کو سرسبزی نہیں دکھائی یہی وجہ ہے کہ دنیا میں باوجود متنا ہی مذاہب ہونے کے جھوٹے نبی کی امت کا ثبوت مخالف بھی نہیں بتلا سکتے.( تفسیر ثنائی مقدمه صفحه 17 ) تو میں نے فیصلہ کن کوشش کے طور اس اصول پر بھی احمدیت کو پر کھنے کا عزم کیا اور احمدیت کے بانی اور بعد میں ان کے خلفاء کی پیشگوئیوں اور مخالفین کے اقوال اور دعاوی کو آمنے سامنے رکھا.اور پھر تاریخ اور سطح ارض پر جماعت احمدیہ کے پھیلاؤ، ترقی اور سرسبزی کو گراف کی صورت میں پر کھا، حاصل ہونے والے نتائج نے مجھے یہ کہنے پر مجبور کرد یا کہ واقعی خدا نے کبھی کسی جھوٹے نبی کو سر سبزی نہیں دکھائی“ اور یہی بات میری پریشان کن مشکل بن گئی ہے.آئیے سو سوا سالوں پر پھیلی اس مخالفت کی جنگ کی سال بسال بدلتی صورت حال کا جائزہ لیکر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس کی سرسبزی ہے کہ سال بسال بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اور کون ہے کہ مخالفت میں جوتیاں گھسا گھسا کر گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو چکا ہے.جماعت احمدیہ کی تباہی و بربادی کے متعلق مخالفین احمدیت کی پیش خبریاں قادیانیت کو میں نے ہی بنایا اور میں ہی اس کو برباد کر دوں 1870....میری وجہ سے یہ فتنہ ترقی نہ کر سکے گا...پیر مہر علی شاہ

Page 472

472 حجاز کے مبارک سفر مکتہ المکرمہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے ملاقات ہوئی جو ایک صحیح صاحب کشف انسان تھے جب ان کو میری آزاد اور بے باک طبیعت کا علم ہوا تو شدید اصرار اور تاکید سے حکم فرمایا کہ چونکہ عنقریب ہندوستان میں ایک فتنہ ظاہر ہونے والا ہے لہذا تم وطن واپس چلے جاؤ اگر بالفرض تم خاموش بھی رہے تو یہ فتنہ ترقی نہ کر سکے گا اور اس طرح ملک میں آرام رہے گا.چنانچہ میں پورے وثوق کے ساتھ حاجی صاحب کے اس کشف کو مرزا قادیانی کے فتنہ سے تعبیر کرتا ہوں.( ملفوظات طیبه بحوالہ روز نامہ اوصاف یکم اکتوبر 1999 ء اشاعت خاص) 1881.....اہل حدیث لیڈر مولوی محمد حسین بٹالوی میں نے ہی مرزا قادیانی کو اونچا کیا تھا اور میں ہی اس کو گرا دوں گا“ (رساله اشاعته السنة حوالہ فکر اقبال اور تحریک احمدیت صفحہ 348) 1889....جلد یہ فتنہ مضمحل ہو جائے گا...مولانا انور شاہ کشمیری مولانا محمد انور شاہ کشمیری صاحب کے متعلق مولانا یوسف بنوری صاحب ارشاد فرماتے ہیں: میں نے خود حضرت رحمتہ اللہ سے سنا ہے کہ جب یہ فتنہ کھڑا ہوا تو چھ ماہ تک مجھے نیند نہیں آئی اور یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ کہیں دین محمدی کے زوال کا باعث یہ فتنہ نہ بن جائے.فرما یا چھ ماہ کے بعد دل مطمئن ہو گیا کہ انشاء اللہ دین باقی رہے گا اور فتنہ مضمحل ہو جائے گا“.بن کر ہفت روزہ ختم نبوت 18 تا 24 دسمبر 1992 ء مضمون نگار مولانا یوسف لدھیانوی صفحه (11) 1934....جلد قادیانیت صفحہ ہستی سے مٹ کر صرف کتابوں میں رہ جائے گی...اخبار زمیندار لاہور اب افق ہند سے آفتاب اسلام طلوع ہو رہا ہے جس کی ضیاء باریوں کے سامنے غلامانہ نبوت کی گھٹائیں نہیں ٹھہر سکتیں.قادیانیت باقی رہے گی.لیکن صفحہ عالم پر نہیں بلکہ کتابوں کے صفحہ قرطاس پر اور وہ بھی محض عبرت......پرچہ 30 ستمبر 1934 صفحہ 10 1935ء صرف میں اپنے ہاتھوں سے قادیانیت تباہ کروں گا....سید عطاء اللہ شاہ بخاری ”مرزائیت کے مقابلے کے لیے بہت سے لوگ اٹھے لیکن خدا کو یہی منظور تھا کہ یہ میرے ہاتھوں تباہ ہو.(سوانح بخاری از خان کا بلی صفحه 100 نوٹ : یہ علیٰ جناب شورش کا شمیری نے 1974ء میں شائع کی.ان کی ایک نظم کا احمدیوں کی تباہی کے متعلق

Page 473

مصرع ہے: 473 میرے ہاتھوں ہی سے ان کی مرگ بے ہنگام ہے.چٹان 14 ستمبر 1974 ء ) 1936...جلد قادیانیت ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گی...مولانا ظفر علی خان 1936ء میں مولانا ظفر علی خاں نے اپنے شعری مجموعہ ” ارمغان قادیان کے ضمن میں لکھا: تم کو گر منظور ہے سیر جہاں قادیان اے مسلمانو! خرید و ارمغان قادیان جی کو بہلاو گے کیونکر گر نہ لو گے یہ کتاب کیونکہ مٹ جانے کو ہے نام ونشان قادیان قادیانیت الحمدللہ ختم ہونا شروع ہوگئی ہے.1936 ء...ڈاکٹر علامہ اقبال کی رائے جمہوریت کی نئی روح جو ہندوستان میں پھیل رہی ہے وہ یقینا احمدیوں کی آنکھیں کھول دے گی اور انہیں یقین ہو جائے گا کہ ان کی دینیاتی ایجاد بالکل بے سود ہے علامہ اقبال کی پیشگوئی ( پنڈت نہرو کے سوالات کے جواب میں 22 جنوری 1936 ء ) | یہ باور کرتے ہوئے کہ میرے دوا یک فلسفیانہ مضامین کی اشاعت سے یا مخالفین کی بر پا کردہ شورش سے جماعت احمدیہ عنقریب ختم ہو جائے گی علامہ اقبال نے سید سلمان ندوی کو لکھا: الحمد للہ کہ اب قادیانی فتنہ رفتہ رفتہ کم ہو رہا ہے“ اقبال نامہ نمبر 1 صفحه 109 مکتوب اقبال بنام سید سلیمان ندوی 7 اگست 1936 ء ) 1952ء 72 فرقوں کا اجتماع " آج مرزائے قادیانی کی مخالفت میں امت کے 72 فرقے متحد و متفق ہیں“ ( مولوی اختر علی خاں ابن مولوی ظفر علی خاں اخبار زمیندار 5 نومبر 1952ء) اس سال قادیانیت کو شکست دے دی جائے گی...53-1952ء بخاری کا سال......مرز محمود کو آگاہ رہنا چاہئے کہ اس کی بڑ کا سال گزر گیا ہے.لواب 53 ء بخاری کا سال ہے اور میں اپنے مولا کریم کے فضل و کرم سے کہ رہا ہوں کہ تم ہوشیار ہو جاؤ.آخری فتح میری ہوگی“.

Page 474

474 ( تقریر سید عطاء اللہ شاہ بخاری ختم نبوت کا نفرنس چنیوٹ 26 دسمبر 1952ء اخبار آزاد 16 جنوری 1953) 1953.....اگر صرف ظفر اللہ خاں کو وزارت سے ہٹا دیا جائے تو قادیانی 50 فیصد ختم ہو جا ئیں گے.....میرے باوا کی امت آج ظفر اللہ خاں کو ہٹا دو اگر کل کو پچاس فیصد مرزائی مسلمان نہ ہو جائیں تو میری گردن مار دو.اگر مرزائیوں کو اقلیت قرار دے دو تو محمود ڈھونڈے گا کہ میرے باوا کی امت کہاں ہے؟“ احراری اخبار آزاد 18 جنوری 1953 ء ) 1953...قادیانیوں کی ہر طاقت جلد ختم کر دی جائے گی...ہر طاقت ختم ”ہمارا ایمان ہے کہ مرزائیوں کو شکست ہوگی اور جو طاقت بھی ہمارے پروگرام میں حائل ہوگی ہم اسے بھی ہٹا دیں گے.“ 1974 ء شاہ فیصل اور جماعت احمدیہ اخبار آزاد 6 فروری 1953ء ) جمعیۃ المشائخ کے مقتدر لیڈر، جامعہ عربیہ کے پرنسپل مولانا منظور احمد چنیوٹی نے جو عرب ممالک کا سات ماہ کا دورہ مکمل کرنے کے بعد حال ہی میں وطن واپس تشریف لائے ہیں اپنے سعودی عرب کے دورہ کے تاثرات بیان کرتے ہوئے شاہ فیصل کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے قادیانیوں کے سلسلہ میں حکومت پاکستان کی راہنمائی کی اور تاروں کے ذریعہ حکومت پر زور دیا کہ وہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دے.“ 1974ء مسٹر بھٹو اور عقبی میں نجات......(نوائے وقت 3 اکتوبر 1974 ء ) روزنامہ نوائے وقت نے مسٹر بھٹو کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے اداریہ میں لکھا: کوئی عجب نہیں کہ قادیانیوں کو ناٹ مسلم قرار دینے کا یہ فیصلہ عقبی میں مسٹر بھٹو کی نجات کا موجب بننے کے ساتھ قوم کی بھی نشاۃ ثانیہ کا باعث بن جائے“.1974ء فرقوں کا متفقہ فیصلہ پرچہ 9 ستمبر 1974 ء ) قادیانیوں کو ناٹ مسلم قرار دینے کے فیصلہ کی ایک خاص اہمیت یہ بھی ہے کہ اس پر اجماع امت بالکل صحیح طور پر ہوا ہے اسلام کی تاریخ میں اس قدر پورے طور پر کسی اہم مسئلہ پر کبھی اجماع نہیں ہوا.قادیانی فرقہ کو چھوڑ کر

Page 475

475 جو بھی 72 فرقے مسلمانوں کے بتائے جاتے ہیں سب کے سب اس مسئلہ کے حل پر متفق اور خوش ہیں“.(نوائے وقت 16 اکتوبر 1974 ء ) 1974ء آدھے سے زیادہ قادیانیت ختم ہوگئی...از مولوی مودودی بیرونی ممالک میں قادیانیوں نے جو نفوذ حاصل کیا ہے وہ آدھے سے زیادہ اس وقت ختم ہو گیا ؟ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ نے اتفاق رائے سے ان کے غیر مسلم ہونے کی قرارداد پاس کی تھی“.(ہفت روزہ ایشیا 20 اکتوبر 1974 ء ) 1974ءاگر قادیانیت کو کافر قرار دے دو تو خدا کی قسم کوئی طاقت تمہارا بال بھی بیکا نہ کر سکے گی...مجلس ختم نبوت کے سر براہ مولوی یوسف بنوری ” میں نے زور دے کر اس میز کو دھکا دیا جو میرے سامنے پڑی تھی اور کہا کہ بھٹو صاحب ! بھٹو صاحب ! اگر اللہ کو راضی کرنے کے لیے تم مسلمانوں کے اس ( احمدیوں کو ناٹ مسلم قرار دینے کے مطالبہ کو مان لو تو خدا کی قسم! کوئی طاقت تمہارا بال بیکا نہیں کرسکتی.( تقریر 13 ستمبر 1974ء ہفت روزہ رسالہ ختم نبوت کراچی 20 اکتوبر 1992 ، صفحہ 25) 1974ء قادیانی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے شورش کشمیری اب اس کے بعد قادیانی مسئلہ پاکستان میں ہمیشہ کے لیے طے پا گیا ہے.بانس ہی نہ رہا تو بانسری کیا بجے گی.حضور سرور کائنات کے دربار میں مسٹر بھٹو کے لیے بڑا اجر ہے.انہوں نے ختم نبوت کی پاسبانی کی ہے آج ہر گھر میں مرد، عورتیں بچے بچیاں ان کے لیے دعا کر رہے ہیں.1974 ءاب قادیانیت سکڑنے کا وقت آگیا...سردار عبد القیوم صدر آزاد کشمیر اب قادیانیت کے سکڑنے بلکہ ختم ہونے کا وقت آگیا ہے“ چٹان 10 ستمبر 1974 ء ) ہفت روزہ لولاک مارچ 1974 ء ) | 1975ء قادیانیوں کا پردہ چاک ہو گیا.منظور احمد چنیوٹی مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے تمام متبعین کو عالم اسلام کی بڑی بڑی حکومتوں سعودی عرب، جمہور یہ مصر، جمہوریہ شام ، متحدہ عرب امارات اور پاکستان نے کا فرقرار دیتے ہوئے اپنے اپنے ملک میں ان کو خلاف قانون قرار دے دیا ہے.ان کی تبلیغی سرگرمیاں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے.ان کے دفاتر سر بمہر کر دیئے گئے ہیں.ان کی

Page 476

476 تمام املاک کو بحق سرکار ضبط کر لیا گیا.1975ء جو قادیانی ہندو پاک سے جانا چاہتے تھے ان کے اجازت نامے منسوخ کر کے ان کو بندرگاہوں سے ہی واپس کر دیا گیا.قادیانی حضرات اسلام کا لبادہ اوڑھ کر دنیا کو فریب دینے کی جو نا پاک کوشش کر رہے تھے اب ان کا پردہ چاک ہو چکا ہے.( عبرتناک انجام صفحہ 3 ناشر ادارہ مرکز یہ دعوۃ وارشاد چنیوٹ ) 1978 افریقہ میں تمام قادیانیوں نے تو بہ کر لی ہے.منظور احمد چنیوٹی مولانا نے افریقہ کے دورے سے واپسی پر ہفت روزہ خدام الدین لاہور کو درج ذیل انٹر ویودیا: ”ہمارے پچھلے دورہ کے بعد تقریباً ہر شہر میں بہت سے قادیانیوں نے توبہ کی اور اسلام میں داخل ہوئے.نزد لاگوس دار الحکومت نائیجریا میں جہاں ایک ہزار سے زیادہ قادیانی تھے اور ان کا اپنا ایک مرز واڑہ بھی تھا اب وہاں ایک بھی قادیانی نہیں رہا.سب تو بہ کر گئے ہیں اور مرزا اڑھ بھی اب مسجد بن چکا ہے اس کا امام جو پہلے قادیانی اب مسلمان ہو چکا ہے.اکر انز داباوان میں سو کے قریب قادیانی تو بہ کر چکے ہیں ابی کوٹہ میں بھی کئی قادیانی تو بہ کر چکے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پارلیمنٹ اور رابطہ کی تاریخی قرارداد سے دنیا کے ہر حصے میں قادیانیوں کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ہے.(رپورٹ دورہ یورپ و افریقہ صفحہ 7 تا 9 شائع کرده اداره مرکز یہ دعوت و ارشاد چنیوٹ) 1985.قادیانیت ایک کینسر ہے، میری حکومت اس کو ختم کر دے گی....جنرل ضیاء الحق قادیانیت کا وجود عالم اسلام کے لیے سرطان کی حیثیت رکھتا ہے اور حکومت پاکستان مختلف اقدامات کے ذریعہ اس بات کو یقینی بنارہی ہے کہ اس سرطان کا خاتمہ کر دیا جائے.“ (روز نامه مشرق کوئٹہ 10 اگست 1985 ء ) اگر آرڈی نینس کی خلاف ورزی کی گئی تو حکومت انتہائی سختی کے ساتھ نمٹے گی انہوں نے تالیوں کی گونج میں اعلان کیا کہ ( قادیانیوں کے خلاف قانون کا غیظ و غضب انتہائی شدید ہو گا“.( قادیانی ہماری نظر میں صفحہ 226) ”میرے والد محمد اکبر علی مرحوم کی ساری عمر سرکاری ملازمت کے ساتھ قادیانیوں کے خلاف جدو جہد کرتے ہوئے گزری.وہ قادیانیوں کو انگریز کا کھڑا کیا ہوا فتنہ سمجھتے تھے میں ان کا بیٹا ہوں“.(جنگ 18 نومبر 1983ء بحوالہ قادیانیت ہماری نظر میں صفحہ 225 ) آئیے اب سو سال پر پھیلی ان پیشگوئیوں کے برعکس بانی جماعت کی پیشگوئیوں کا جائزہ لیتے ہیں.

Page 477

477 میں خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہوں جسے کوئی تباہ نہیں کر سکتا.بانی جماعت احمدیہ کا حیرت انگیز اعلان جماعت احمدیہ کے مقابل پر آنے والے پہاڑوں جیسے علماء کی پیشگوئیوں کے برعکس بانی جماعت کیا اعلان فرمارہے تھے.آیئے اس کا جائزہ لیتے ہیں.$1884 1880 خدا میری سچائی کو زور آور حملوں سے خود ثابت کرے گا.بانی جماعت احمدیہ بانی جماعت احمدیہ نے اپنی پہلی تصنیف براہین احمد یہ چہار حصہ میں درج ذیل الہام درج فرمایا : دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا“.......(براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد 1 ص 665 مطبوعہ لندن ) 1893ء میں خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہوں...بانی جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ اس درخت کو کبھی نہیں کاٹے گا جس کو اس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.کیا کوئی تم میں سے اپنے اس پودے کو کاٹ سکتا ہے.جس کے پھل لانے کی اس کو توقع ہے پھر جو دانا و بینا اور ارحم الرحمین ہے وہ کیوں اپنے اس پودے کو کاٹے جس کے پھلوں کے مبارک دنوں کی انتظار کر رہا ہے تم خوب یا درکھو کہ تم اس لڑائی میں اپنے ہی اعضاء پر تلوار ما رہے ہو.( آئینہ کمالات اسلام ص 54 مطبوعہ لندن 1984 ء ) 1900...جو منصوبے ہو سکتے ہیں کر لو مگر مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے.بانی جماعت احمدیہ......سب مکر اور مکائد اور منصوبے کر لومگر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے اللہ تعالیٰ تمہیں ذلیل کرے گا اور تمہارے سب منصوبوں کو ناکام بنادے گا“.(لجنه النور روحانی خزائن جلد نمبر 16 صفحہ 313 مطبوعہ لندن 1984 ء ) 1902ء میں خدا کا مامور سیح ہوں میں غالب آؤں گا اور مخالفین شکست کھا ئیں گے.بانی جماعت احمدیہ چونکہ میں خدا کا رسول ہوں.مگر بغیر کسی شریعت اور نئے دعوئی اور نئے نام کے اس لیے مطابق آیت كتب الله لا غلبن انا ور سلی میرے مخالف شکست کھا ئیں گے اور میں ہی غالب آؤں گا“.نزول لمسی روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 80 مطبوعہ لندن ) 1903ء اے لوگو! سن لو خدا اس جماعت کو پوری دنیا میں پھیلائے گا.بانی جماعت احمد یہ اے لوگو ! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین ، آسمان بنا یاوہ اپنی جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلائے

Page 478

478 گا اور حجت اور برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا“.( تذكرة الشهادتین روحانی خزائن جلد 20 ص 66 مطبوعہ لندن 1984 ء ) فیصلہ کن اعلان میرا خدا صرف میری مدد کرے گا مجھے ہرگز ضائع نہیں کرے گا خواہ میری مخالفت میں تمام دنیا درندوں سے بدتر ہو جائے....بانی جماعت احمدیہ بانی جماعت احمدیہ کا حرف آخر کے طور پر ایک اہم اعلان درج کرتا ہوں: میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ میری مدد کرے گا اور مجھے ہرگز ہرگز ضائع نہیں کرے گا.اگر تمام دنیا میری مخالفت میں درندوں سے بدتر ہو جائے تب بھی وہ میری حمایت کرے گا.میں نامرادی کے ساتھ ہرگز قبر میں نہیں اتروں گا کیونکہ میرا خدا میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے اور میں اُس کے ساتھ ہوں.اگر سب لوگ مجھے چھوڑ دیں تو خدا ایک اور قوم پیدا کرے گا.جو میرے رفیق ہو نگے.نادان مخالف خیال کرتا ہے کہ میرے مکروں اور منصوبوں سے یہ بات بگڑ جائے گی.اور سلسلہ درہم برہم ہو جائے گا.مگر یہ نادان نہیں جانتا کہ جو آسمان پر قرار پاچکا زمین کی طاقت میں نہیں کہ اس کو محو کر سکے ہر ایک مخالف کو چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو اس سلسلہ کے نابود کرنے کے لیے کوشش کرے اور ناخنوں تک زور لگا دے اور پھر دیکھے کہ انجام کار وہ غالب ہوا یا خدا.پس یقینا سمجھو کہ صادق ضائع نہیں ہو سکتا وہ فرشتوں کی فوج کے اندر پھرتا ہے.بدقسمت وہ جو اس کو شناخت نہ کرے“.( براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 294-95 مطبوعہ لندن 1984ء) بانی جماعت کی طرف سے مخالفین کو چیلنج اور ان کو نا کامی کی پیشگوئی د میں نصحت اللہ مخالف علماء اور ان کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بد زبانی کرنا طریق شرافت نہیں.اگر آپ لوگوں کی یہی طبیعت ہے تو خیر آپ کی مرضی.لیکن اگر مجھے آپ لوگ کا ذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی اختیار ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بددعا ئیں کریں اور روروکر میرا استحصال چاہیں پھر اگر میں کا ذب ہوں گا تو ضرور دعائیں قبول ہونگی.اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں.لیکن یا درکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گریں کہ ناکیں گھس جائیں اور آنسوؤں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ وزاری سے بینائی کم ہو جائے اور آخر دماغ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگے یامالی خولیا ہو جائے تب بھی وہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں.جو شخص میرے پر بدعا کرے گا یہ دعا اسی پر پڑے گی.جو شخص میری نسبت یہ کہتا ہے کہ اس پر لعنت ہو.وہ

Page 479

479 لعنت اس کے دل پر پڑتی ہے مگر اس کو خبر نہیں اور جو شخص میرے ساتھ اپنی کشتی قرار دے کہ یہ دعائیں کرتا ہے کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے اس کا نتیجہ وہی ہے جو مولوی غلام دستگیر قصوری نے دیکھ لیا.کوئی زمین پر مر نہیں سکتا جب تک آسمان پر نہ مارا جائے.مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کر رہے ہیں میں وہ پودا نہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اکھڑ سکوں.اگر ان کے پہلے اور ان کے پچھلے اور ان کے زندہ اور ان کے مردے تمام جمع ہو جائیں اور میرے مارنے کے لیے دعائیں کریں تو میرا خدا ان تمام دعاؤں کو لعنت کی شکل بنا کر ان کے منہ پر مارے گا.دیکھو ! صد ہا دانشمند آدمی آپ لوگوں کی جماعت سے نکل کر ہماری جماعت میں ملتے جاتے ہیں.بھلا اگر کچھ طاقت ہے تو روکو وہ تمام مکر و فریب جو نبیوں کے مخالف کرتے رہے ہیں وہ سب کرو اور کوئی تدبیر اٹھا نہ رکھو.ناخنوں تک زور لگاؤ.اتنی بد دعائیں کرو کہ موت تک پہنچ جاؤ.پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو.خدا کے آسمانی نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں مگر بد قسمت انسان دور سے اعتراض کرتے ہیں جن دلوں پر مہریں ہیں ان کا ہم کیا علاج کریں.(ضمیمه اربعین 3-4 روحانی خزائن جلد 17 ص 471 472 مطبوعہ لندن 1984 ) | باب نمبر 19

Page 480

480 عکس انقلاب اور ميرى فيصله كن مشكلات سوا صدی کی مسافت کے بعد بانی جماعت احمدیہ 1889ء میں دعوی ماموریت کے ساتھ تاریخ پر جلوہ افروز ہوئے اور 1908ء میں رخصت ہو گئے جبکہ آپ کے مخالفین کی فوج سال بسال تاریخ کا سفر طے کرتی رہی.اس دوران 1933 ء ، 1953ء ، 1974ء اور 1984ء جیسے خوبصورت سنگ میل بھی ان کی راہ میں آئے.

Page 481

481 مختلف حکومتوں کی رفاقتیں بھی نصیب ہوئیں.اعلیٰ عدالتوں نے بھی دست شفقت عطا کیا.عالمی رابطہ اسلامی کی صحبتیں بھی دامن گیر ہوئیں.Black Gold کی جھلک بھی اندھیروں میں روشنی مہیا کرنے کے کام آئی.لوٹ مار قتل و غارت اور زنداں کی سہولت بھی مہیا ہوئی آرڈنینس اور قانون میں تبدیلیاں بھی لائی گئیں مگر ان تمام ناخنوں تک زور لگانے والے مرحلے کے بعد سواصدی کی مسافت پر جماعت احمد یہ اپنے گراف کے کس لیول پر ہے؟ تباہ و بربادی کے کنارے پر یا کامیابیوں کے آسمان پر؟ 1.مایوسی اور نا کا می کس کے حصے میں آئی ہے؟ 2.سرسبزی اور شادابی کس کو نصیب ہوئی ہے؟ 3 کس پر ہر چڑھنے والا دن ظلمت سے نور کی طرف کا سفر ہے؟ 4.کون ہے جو دوسروں کو تباہ کرتا کرتا اپنے پاؤں پر سے بھی گر پڑا ہے؟ 5 کس کا معاشرہ محبت رسول کی خوشبو سے بھرا ہوا ہے؟ 6 - کس کے ہاں روز فدایان دین جانی و مالی قربانی کے نذرانے نچھاور کر رہے ہیں؟ 7.کس کے ہاں الحاد و بے حیائی کا رونا رویا جا رہا ہے.8 کس کے مبلغین کے قدموں کی چاپ افریقہ کے جنگلوں سے لیکر جزائر نجی کے کناروں تک گونج رہی ہے؟ 9.کون ہے جو تبلیغی سفروں کے لیے زمین سے نکل کر آسمان تک جا پہنچے ہیں؟ 10.کون خدا کی مدد سے روز بروز ترقی کی منازل طے کرتارہا اور کون تباہی و بربادی کی تمام تر کوششوں کے باوجود ناکام و نامرادرہا.سوا صدی پر پھیلے اعداد شمار میری زندگی کی آخری اور فیصلہ کن مشکل بن گئی.مشکل نمبر 49 قادیانیت کے سیلاب کے آگے بند باندھنا ہمارے لیے ممکن نہیں رہا سوا صدی کی جنگ کے نتائج ملاحظہ کے لیے پیش ہیں: $1900 مرزا صاحب کے پاس بے تحاشا مالی قربانی کرنے والے فدائی ہیں جبکہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں.مولوی

Page 482

482 محمد حسین بٹالوی مولوی محمد حسین بٹالوی جنہوں نے سب سے پہلے نعرہ لگایا تھا کہ احمد بیت کو میں نے بلند کیا اور میں ہی تباہ کروں گا.اپنی زندگی کے آخر پر افسوس کو ان الفاظ میں درج فرماتے ہیں: مرزا کا یہ حال ہے کہ اول تو اس کا کام مفت ہو جاتا ہے اور اس کے مرید ہی وکیل و مختار ہو جاتے ہیں اور اگر اس کو چندہ کی ضرورت پڑے تو ایسے مواقع پر اس کے ہاں اس قدر چندہ کی بھر مار ہو جاتی ہے کہ گو یا تجارتی سبیل نکل آتی ہے.دس روپیہ کی ضرورت پیش آوے تو سور و پیہ جمع ہو جاتے ہیں.اہل حدیث اس کے مقابل میں کھڑے ہوں تو پہلے معقول چندہ جمع کر لیں.یہی امراب تک مانع نالش رہا ہے ورنہ اہل حدیث کبھی کے نالش کر دیتے“.$1926 اشاعۃ السنۃ نمبر 4 جلد 2 صفحہ 110 گھر بیٹھ کر جماعت احمدیہ کو برا بھلا تو ہر کوئی کہہ سکتا مگر یورپ امریکہ میں تبلیغ اسلام صرف یہی لوگ کر رہے ہیں....مولانا ظفر علی خاں روز نامہ زمیندار دسمبر 1926ء کی اشاعت میں جماعت احمدیہ کی کامیابیوں اور خدمت دین کی مشہور عام شہرت کو یوں قلمبند کرنے پر مجبور ہو گیا.گھر بیٹھ کر احمد یوں کو برا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان میں اور دیگر یورپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں.کیا ندوۃ العلماء، دیو بند فرنگی محل اور دوسرے علمی اور دینی مرکزوں سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ بھی تبلیغ واشاعت حق کی سعادت میں حصہ لیں“.$1947 جماعت احمدیہ کا منظم پروگرام پوری دنیا کی مسلمان بنانے کے لیے یورپ تک پھیل گیا ہے.دنیا کی مستند دستاویز انسائیکلو پیڈیا برٹین کا کا بھی اعتراف اس سال جماعت احمدیہ کی فتوحات برصغیر سے نکل کر یورپ اور امریکہ تک پھیل چکی تھیں اور اس میں اتنی شدت اور سرعت تھی کہ انسائیکلو پیڈیا برٹین کا بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گیا.جماعت احمدیہ کا ایک وسیع تبلیغی نظام ہے.نہ صرف ہندوستان میں بلکہ مغربی افریقہ ماریش اور جاوا میں بھی اس کے علاوہ برلن شکار گو اور لندن میں بھی اس کے تبلیغی مشن قائم ہیں ان کے مبلغین نے خاص کوشش کی ہے کہ یورپ کے لوگ اسلام قبول کریں اور اس میں انہیں معتد بہ کا میابی بھی ہوئی ہے.ان کے لٹریچر میں اسلام کو اس شکل میں پیش

Page 483

483 کیا جاتا ہے کہ جو نو تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے باعث کشش ہے.اس طریق پر نہ صرف غیر مسلم ہی ان کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں بلکہ ان مسلمانوں کے لیے بھی یہ تعلیمات کشش کا باعث ہیں جو مذہب سے بیگانہ ہیں یا عقلیات کی رو میں بہہ گئے ہیں ان کے مبلغین ان کے حملوں کا دفاع بھی کرتے ہیں جو عیسائی مناظرین نے اسلامی پر کئے“.(مطبوعہ 1947 ء جلد 12 صفحہ 711-712 بحوالہ احمدیت صفحہ 409) $1956 1953ء کا ہنگامہ خیز سال گزر چکا ہے.سینکڑوں احمدی گھر لوٹے اور جلائے جاچکے ہیں.عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کا نعرہ یہ سال بخاری کا ہے ماضی کی گرد میں روپوش ہو چکا ہے.ہم نے اس خونی سال سے 3 سال کی مسافت پر کھڑے ہو کر احمدیت کے افق کا طائرانہ جائزہ لیا تو احمدی ناکامیوں کی کہانی کی بجائے مخالفین کا ہی یہ اعتراف وصول پایا.ہمارے پہاڑوں جیسے علماء اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود احمدیت سے ہار چکے ہیں بلکہ 1953ء کی خوں ریزی بھی ان کی رفتار روک نہیں سکی...مولوی عبدالرحیم اشرف صاحب کا اعتراف مولوی عبدالرحیم صاحب جماعت احمدیہ کے چوٹی کے مخالفین میں شمارے ہوتے تھے مگر آخر کار ان کی ذاتی شرافت نے ان سے درج ذیل اعتراف کروا کر 1953ء کے سال کی تقدیر کا فیصلہ کر دیا.” ہمارے بعض واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں سے قادیانیت کا مقابلہ کیا لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیانی جماعت پہلے زیادہ مستحکم اور وسیع ہوتی گئی مرزا صاحب کے بالمقابل جن لوگوں نے کام کیا ان میں اکثر تقومی تعلق باللہ، دیانت، خلوص علم اور اثر کے اعتبار سے پہاڑوں جیسی شخصیتیں رکھتے تھے.سید نذیر حسین دہلوی ( وفات 1902 ء ) مولانا انور شاہ دیو بندی ( وفات 1932ء ) مولانا قاضی سید سلمان منصور پوری (وفات 1930 ء ) مولانا محمد حسین بٹالوی (وفات 1920 ء ) مولا نا عبدالجبار غزنوی (وفات 1913ء) مولانا ثناء اللہ امرتسری (وفات 1948ء) اور دوسرے اکابر رحمہم اللہ وغفرلبم کے بارے میں ہمارا حسن ظن یہی ہے کہ یہ بزرگ قادیانیت کی مخالفت میں مخلص تھے اور ان کا اثر ورسوخ بھی اتنا زیادہ تھا کہ مسلمانوں میں بہت کم ایسے اشخاص ہوئے ہیں جو ان کے ہم پایہ ہوں اگر چہ یہ الفاظ سننے اور پڑھنے والوں کے لیے تکلیف دہ ہونگے.لیکن اس کے باوجود ہم اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ان اکابر کی تمام کاوشوں کے باوجود قادنی جماعت میں اضافہ ہوا ہے متحدہ ہندوستان میں قادیانی بڑھتے رہے تقسیم کے بعد اس گروہ نے پاکستان میں نہ صرف پاؤں جمائے بلکہ جہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا وہاں ان کے کام کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تو روس امریکہ سے سرکاری سطح پر آنے والے سائنس دان ربوہ آتے ہیں ( گزشتہ ہفتے روس اور امریکہ کے دو سائنس دان ربوہ وارد ہوئے) اور دوسری جانب 1953 ء کے

Page 484

484 عظیم تر ہنگامہ کے باوجود قادیانی جماعت اس کوشش میں ہے کہ اس کا 57-1956ء کا بجٹ پچیس لاکھ روپیہ کا ہو.1953ء کے وسیع ترین فسادات کے بعد جن لوگوں کو یہ وہم لاحق ہو گیا ہے قادیانیت ختم ہوگئی ہے یا اس کی ترقی رک گئی انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ بلدیاتی اداروں میں بلکہ ( بعض اطلاعات کی بناء پر مغربی پاکستان اسمبلی میں قادیانی ممبر منتخب کئے گئے ہیں.(المنير 23 فروری 1956 ، صفحہ 10 ایڈیٹر کے اس اعتراف کے ٹھیک 32 سال بعد المنیر کے ہی سب ایڈیٹر امتیاز بلوچ صاحب بدلے حالات میں جماعت احمدیہ کی بدلی ہوئی تصویر کو اس طرح سے پیش کرتے ہیں.$1998 آج ہر قادیانی تن من دھن سے قربانی کر رہا ہے اور ڈش انٹینا کی مدد سے ان کی تبلیغ دنیا کے کناروں کو چھورہی ہے...33 سال بعد ایک اعتراف کا تسلسل " آج میں عمر کی تیس بہاریں دیکھ چکا ہوں.ایسے ادارے کے ساتھ وابستہ ہوں جس کے بانی نے تمام عمر قادیانیت کے خلاف لڑنے میں گزاری ہے میری مراد مولانا عبدالرحیم اشرف ہے اس ادارے میں مجھے رو قادیانیت پر بہت سی کتابیں پڑھنے اور علماء کی مجالس میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا ہے اور میں اب جا کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قادیانی ایک فرقہ ہی نہیں ایک منظم تحریک ہے.یہ تحریک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہمہ تن مصروف عمل ہے ان کا جال قادیان ربوہ سے لے کر برطانیہ اور کئی دوسرے ممالک تک پھیل چکا ہے.اور ہر قادیانی تن من دھن سے اپنی تحریک کی خاطر قربانی دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے.ڈش انٹینا کی مدد سے قادیانی کی تبلیغ دنیا کے کونے کونے تک پہنچ رہی ہے.گھر تو گھر انہوں نے ڈش انٹینا ان چاردیواریوں میں بھی نصب کر رکھے ہیں جنہیں یہ مساجد کا نام دیتے ہیں.قادیانی اور ان کی تحریک کبھی نہ پھولتی پھلتی اگر ہم مسلمانوں میں دینی شعور موجود ہوتا.ہماری کم علمی دین سے عملاً بیگانگی کا ان لوگوں نے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا ہے“.$1958 ہفت روزہ الاعتصام اگست 1998 ء.بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 27 نومبر تا 3 دسمبر 1998 ، صفحہ 16 | 1953ء کی لوٹ مار کے پس منظر میں مجھے ختم نبوت کے آرگن آزاد کی یہ پیشگوئی صدا یا در ہے گی کہ ”ہمارا ایمان ہے کہ مرزائیوں کو شکست ہوگی اور جو طاقت بھی ہمارے پروگرام میں حائل ہو گی ہم اسے بھی ہٹا دیں گے.

Page 485

485 ( آزاد 6 فروری 1953 ء ) راہ میں حائل ہونے والی ہر طاقت ہٹادی گئی.قانون کو ہاتھ میں لے لیا گیا.زندگی موت کے شعلوں کے سپرد کر دی گئی مگر نتیجہ ؟ کیا قادیانیوں کو شکست ہوگئی؟ یہی جاننے کے لیے میں نے 1953 ء سے 5 سال دور 1958ء کے برساتی مہینے میں چھلانگ لگائی.مگر یہاں بھی جو اعتراف سننے کو ملا وہ اُس خدائی فیصلہ سے مختلف نہ تھا جو 1889 ء سے جماعت احمدیہ کے حق میں چلا آ رہا ہے.پوری دنیا کو تبلیغ اسلام کرنے کا فخر صرف اور صرف احمدیت کے نصیب میں جاچکا ہے.ایڈیٹر جد و جہد کا اعتراف ایڈیٹر ماہنامہ جد و جہد جماعت احمدیہ کی تین خوبیوں کے عنوان کے تحت درج ذیل خبر درج کی ہے.پاکستان اور بھارت میں بیسوں فرقے موجود ہیں جن کو نام سے غرض ہے کام سے کوئی واسطہ نہیں بحث وتمحیص میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں لیکن عمل مفقود حالانکہ صرف عمل کر کے دکھلانا ہی اسلام کی خوبی ہے ورنہ مسلمان کا ہر دعوی عاشقی ایک مجذوب کی بڑسے کم نہیں.قطع نظر عقائد کے عملی طور پر مرزائی (احمدی) فرقہ باقی تمام فرقوں سے تین باتوں میں فوقیت رکھتا ہے.1.اسلامی مساوات ان میں اونچ نیچ شریف رذیل ادنی اعلی کی تمیز کم ہے سب کی عزت کرتے ہیں.2.بیت المال کا قیام یہ ایک با قاعدہ شعبہ ہے جس میں ہر مرزائی (احمدی ناقل) کو اپنی ماہوار آمداً کا 1/10 لا زما دینا پڑتا ہے صدقات.خیرات.فطرانہ.وغیرہ سب جمع کر کے یہ رقم صدقات جاریہ میں خرچ کی جاتی ہے.3 تبلیغ اسلام یہ فخر صرف اسی فرقہ کو حاصل ہے کہ سنی شعیہ.وہابی دیوبندی.چکڑالوی فرقہ کے لوگوں سے تعداد میں کم ہوتے ہوئے پھر بھی لاکھوں روپیہ سالانہ خرچ کر کے اپنے بل پر تبلیغی مشن غیر اسلامی ممالک میں بھیجتے ہیں اور خدا اور رسول سلام السلم ) کا پیغام غیر مسلمانوں تک پہنچاتے ہیں.ہمارے دیس میں بڑے بڑے امیر لوگ موجود ہیں اور فلاحی انجمنیں قائم ہیں مثلاً انجمن حمایت اسلام لاہور جولاکھوں روپیہ تعلیم پر خرچ کرتی ہے لیکن کوئی اللہ کا بندہ یا انجمن اس طرف تو جہ نہیں دے رہی.(ماہنامہ جد و جہد لا ہور جولائی 1958 ء) $1969

Page 486

486 تبلیغ اسلام کا ہر مہرا صرف احمدیوں کے ہی سر پر ہے وہ عیسائیوں کو ہو یا ہندوؤں کو...مولانا اشرف علی تھانوی خلیفہ مجاز مولانا عبد الماجد دریابادی کا اعتراف مولانا ایک تبلیغی خبر کے زیر عنوان درج ذیل اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں.مشرقی پنجاب کی ایک خبر ہے کہ اچار یہ دونو بھاوے جب پیدل سفر کرتے کرتے وہاں پہنچے تو انہیں ایک وفد نے قرآن مجید کا ترجمہ انگریزی اور سیرۃ النبوی پر انگریزی میں کتابیں پیش کیں.یہ وفد قادیان کی جماعت احمدیہ کا تھا.خبر پڑھ کر ان سطور کے راقم پر تو جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا اچار یہ جی نے دورہ اودھ کا بھی کیا بلکہ خاص قصبہ دریا باد میں قیام کرتے ہوئے گئے لیکن اپنے کو اس قسم کا کوئی تحفہ پیش کرنے کی توفیق نہ ہوئی.نہ اپنے کو نہ اپنے کسی ہم مسلک کو.نہ ندوی.دیو بندی تبلیغ اسلامی جماعتوں میں سے.آخر یہ سوچنے کی بات ہے یا نہیں کہ جب بھی کوئی موقع تبلیغی خدمت کا پیش آتا ہے.یہی خارج از اسلام جماعت شاہ نکل آتی ہے اور ہم دیندارمنہ دیکھتے رہ جاتے ہیں“.صدق جدید لکھنو 19 جون 1969 ء ) مہمیز 1970ء کے بعد ہم ایک ہنگامی دور میں داخل ہوتے ہیں 7 ستمبر 1974ء کو جماعت احمدیہ کو قومی اسمبلی نے غیر مسلم قرار دے دیا اس کے ٹھیک 10 سال بعد نئی حکومت نے احمدیوں کو اسلامی شعائر سے بھی منع فرما دیا اور اس کے لیے تین سال سزا اور جرمانہ کا قانون پاس کر دیا.سینکڑوں نہیں ہزاروں احمدی احباب کو کلمہ پڑھنے.اسلام علیکم کہنے اور تبلیغ کے جرم میں پس زندان بھی ڈال دیا.ان سب اقدامات کا حاصل وصول کیا ہوا.جماعت احمدیہ کی ترقی کی رفتار رک گئی ؟ کم ہوگئی ؟ یا غیر معمولی طور پر بڑھ گئی ؟.آئیے اس کا جائزہ تازہ ترین اعترافات سے لیتے ہیں.1992 آج کے دور میں احمدی یورپ اور امریکہ جیسے ملکوں میں جس یکسوئی سے تبلیغ اسلام میں مصروف ہیں اسے دیکھ کر آدمی سوچنے پر مجبور ہو جاتا کہ کیا واقعی یہ لوگ جھوٹے ہیں؟ منیجنگ ایڈیٹر ماہنامہ مہارت لاہور ناصر مصطفی فیروز کا دورہ یورپ سے واپسی پر اعتراف.حیران ہوں، روؤں دل کو، کہ پیٹوں جگر کو میں ناطقہ سر بہ گربیاں ہے اسے کیا کہئے گذشته چند ماه امریکہ برطانیہ اور یورپی ممالک میں بسلسلہ سیاحت جانے کا اتفاق ہوا.یورپ اور افریقہ کے بہت سے ممالک اور امریکہ کے ملک کینڈا میں وہ فرقہ جسے پاکستان میں غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے اور قانونی طور پر

Page 487

487 ان پر یہ پابندی بھی عائد ہے کہ وہ مسلمانوں کے نام اور ان کی اصلاحات کو استعمال نہیں کر سکتے انہیں ان ممالک میں احمدی مسلم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہ لوگ انتہائی منظم طریقے سے احمدیت کی تبلیغ و تلقین میں مصروف عمل ہیں اور اصل مسلمانوں کا تشخص اختیار کر چکے ہیں.اس وقت کینڈا، یورپ اور افریقہ کے بیشتر علاقوں میں احمدی مشنری پورے نظم وضبط اور مکمل یکسوئی سے احمدیت کی تبلیغ و تلقین میں مصروف ہیں ان کی سینکڑوں عبادت گاہیں، ہزاروں تبلیغی مراکز ، لاکھوں مبلغین بے تحاشا لٹریچر جدید سہولتوں سے مزین لائبریریاں، دار الحمد، اجتماعات اور مجالس کے ذریعے احمدیت کی تبلیغ واشاعت کا کام جاری ہے جس سے متاثر ہو کر سینکڑوں غیر مسلم احمدیت کے جال میں پھنس کر بزعم خود مسلمان ہو رہے ہیں جبکہ دوسری جانب مسلمان باہم دست وگر بیاں ہیں فقہی اور مسلکی اختلافات کے باعث مقد مے بازیاں ہورہی ہیں مسجد کی تالا بندی، ایک دوسرے کے خلاف عدالتی چارہ جوئی اور ان کے عوض جگ ہنسائی.المیہ یہ ہے کہ مسلمان جن کی کثیر تعداد ان علاقوں میں رہائش پذیر ہے اور علماء کرام وہاں بھی ایک دوسرے کے خلاف مذہبی جنون کے تابع محاذ آراء ہیں جبکہ غیر مسلم احمدی اپنے نظریات کی تبلیغ واشاعت میں ہمہ تن مصروف ہیں.ان علاقوں میں جو کچھ میں نے دیکھا سچ یہ ہے کہ بیان کرنے کی ہمت ہے نہ لفظ ساتھ دیتے ہیں.مگر ناطقہ سر بہ گر بیاں ہے اسے کیا کہئے اور حیران ہوں روؤں دل کو کہ پیٹوں جگر کو میں کہ مسلمان تو اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت سے اس قدر مغلوب ہیں کہ انہیں یہ بھی دکھائی نہیں دیتا کہ جنہیں ہم غیر مسلم کہتے ہیں وہ اسلام اور مسلمانوں کے نام پر کیا کر رہے ہیں؟ اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ ان علاقوں میں احمدیوں کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے مجھ جیسا دنیادار آدمی یقینا یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا واقعی یہ لوگ جھوٹے ہیں؟ کیا انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کا عمل درست تھا؟ کیا جن نظریات کو لیکر یہ طبقہ برطانیہ جرمنی افریقی ممالک اور کینڈا میں مصروف ہے اب یا کبھی بعد میں ان کولوگوں کے اذہان سے مٹا ناممکن ہو سکے گا.اگست 1992ء اے لوگو! قادیانیوں کے آگے بندھ باندھور نہ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں ہفت روزہ اہل حدیث لکھتا ہے: دینی جماعتوں کیلئے لمحہ فکریہ! " 25 اگست 1992ء کو روز نامہ جنگ لاہور کے صفحہ آخر پر قادیانی سربراہ مرزا طاہر احمد کی خبر نے چونکا دیا.

Page 488

488 حیران ہوں باطل پرست ستاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں لیکن دینی جماعتیں باہمی سر پھول ہیں مصروف ہیں.قادیانی باطل ہونے کے باوجود بہت آگے بڑھ رہے ہیں.شور وغل اور ہنگامہ آرائی کے بغیر نہایت خاموشی سے وہ اپنے مقاصد کے حصول میں شب وروز مصروف ہیں.قادیانیوں کا بجٹ کروڑوں رپوؤں پر مشتمل ہوتا ہے.تبلیغ کے نام پر دنیا بھر میں وہ اپنے جال پھیلا چکے ہیں.ان کے مبلغین دور دراز ملکوں کی خاک چھان رہے ہیں.بیوی بچوں اور گھر بار سے دور قوت لایموت پر قانع ہو کر افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں یورپ کے ٹھنڈے سبزہ زاروں میں آسٹریلیا، کینڈا اور امریکہ میں قادیانیت کی تبلیغ کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں.ادھر ہماری کیفیت یہ ہے کہ دینی جماعتوں کے بجٹ چندلا کھوں سے متجاوز نہیں ہوتے مگر اندرون پاکستان عیسائی مشنری ” ذکری اور بہائی لوگوں کو دین سے برگشتہ کرنے بلکہ مرتد بنانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں.ان کے تبلیغی مشن ، اُن کے اشاعتی پروگرام زور شور سے جاری ہیں وہ اپنے باطل مذاہب کی تبلیغ کے لئے لٹریچر کے انبار لگا رہے ہیں.پھر وہ جدید تعلیم سے آراستہ و پیراستہ ہو کر سائنس کی کرشمہ سازیوں سے خوب استفادہ کر رہے ہیں.مگر دینی جماعتیں اور ان کے سر براہ تکفیر کی بمباری میں مصروف ہیں.روز نامہ جنگ نے اپنے صفحہ آخر پر یہ خبر لگائی ہے کہ مرزا طاہر احمد کا خطاب سیارے کے ذریعے چار براعظموں میں ٹیلی کاسٹ کیا گیا.آسٹریلیا، افریقہ، یورپ، ایشیا.ہمارا عالمی روحانی اجتماعی عرفات کے میدان میں حج کے موقع پر ہوتا ہے تو حج کی پوری کفیات اور حرکات و سکنات سیارے کے ذریعے بعض ایشیائی اور افریقی ملکوں تک بمشکل پہنچائی جاتی ہیں.کسی ملک کے سربراہ کی تقریر یا خطاب سیارے کے ذریعے دنیا بھر میں کبھی ٹیلی کاسٹ نہیں کیا گیا.مختلف ممالک میں بڑی بڑی سیاسی جماعتیں اور ان کے قد آور سر براہ موجود ہیں اُن کی تقریریں اور بیانات بھی پریس کے ذریعے پھیلائے جاتے ہیں.سیارے کے ذریعے کبھی کاسٹ نہیں کئے گئے.ہمارے ملک میں دو بڑی قومی سیاسی جماعتیں موجود ہیں.1.پاکستان مسلم لیگ جس کے سربراہ جناب محمد خاں جونیجو ہیں.2.پاکستان پیپلز پارٹی جن کی قائد بنت بھٹو مسٹر بینظیر زرداری ہیں.یہ دونوں جماعتیں باری باری ملک کی حکمران رہتی ہیں.ان دونوں لیڈروں کی تقریر میں آج تک نہ ٹیلی کاسٹ کی گئیں اور نہ ہی دوسرے ملکوں میں انہیں پہنچایا گیا.میاں نواز شریف ملک کے وزیر اعظم اور قائد ایوان ہیں.صدر پاکستان غلام اسحاق خاں ، چیف آف سٹاف جنرل آصف نواز جنجوعہ ہیں ان کے خیالات، خطابات اور تقریریں بھی آج تک سیارے کے ذریعے ٹیلی کاسٹ

Page 489

489 نہیں کی گئیں.کیونکہ سیارے کے ذریعے ٹیلی کاسٹ کر کے دور دراز ممالک تک اپنے خیالات پہنچانا بہت مہنگا کام ہے جو ہمارے جیسے غریب ملک کی بساط سے باہر ہے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قادیانیوں کو اتنی خطیر رقم کہاں سے ملتی ہے؟ اس قدر وافرسر ما یہ انہیں کون مہیا کرتا ہے؟ ہم تو شروع سے یہ کہہ رہے ہیں کہ قادیانیت سیاسی دہشت گردوں کا نام ہے پہلے یہ برطانیہ کے گماشتے تھے اور برطانیہ کے لئے جاسوسی کے فرائض انجام دیتے تھے.محب وطن لوگوں کی مخبریاں کرتے اور انگریز کے تعاون سے اپنے ہاتھ رنگین کرتے تھے.لیکن اب وہ امریکہ اور بھارت کے ایجنٹ ہیں.بھارت نے ان سے ملی بھگت کر کے انہیں اپنا آلہ کار بنایا ہوا ہے.سی.آئی.ائے اور را‘ سے انکی گاڑی چھنتی ہے اور امریکہ بہادر یہی ان کے وسیع اخراجات ادا کر کے اپنے مفاد کے لئے اپنا آلہ کار بنائے ہوئے ہے.ملک کی مختلف دینی جماعتوں کے سر برا ہوں کے لئے یہ سوچنے کی بات ہے کہ ان کی غفلت سے اغیار کس قدر منظم اور سائنس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اب حالات کا تقاضا یہ ہے کہ دینی جماعتیں آپس کے جزوی اختلافات میں آزاد رہتے ہوئے اسلام کے اجتماعی مفاد کے لئے سر جوڑ کر بیٹھیں اور دشمنان دین کی خوب سرکوبی کرنا چاہیے ورنہ اغیار ہمیں طعنہ دیں گے کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں.مقام غور و فکر یہ ہے کہ مرزا طاہر احمد کو اس قدر فنڈ کہاں سے مل گیا ؟ کس کے مالی تعاون کے بل بوتے پر اُن کی تقریریں اور خطبے چار چار بر اعظموں میں ٹیلی کاسٹ ہورہے ہیں ہم پاکستان کی تمام دینی جماعتوں اور سر براہوں کو یہ دعوت فکر دیں گے کہ خدا کے لئے اسلام کی عظمت کے لئے دین کی سر بلندی کے لئے رسول اللہ کی ختم نبوت کے تحفظ کے لئے صحابہ کی ناموس کی حفاظت کے لئے اکٹھے ہو جائیں.جیسا کہ 1953ء میں اکٹھے ہوئے تھے.ورنہ ہمیں اندیشہ ہے.تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں اقبال مرحوم کی زبان میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ: تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے پاکستانی مسلمانو! تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں تفصیلی مضمون کسی دوسری مجلس میں لکھیں گے.مضمون سمیٹنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ 25 اگست کے روز نامہ جنگ لاہور کے صفحہ آخر کی خبر کے متن کو پیش کر دیا جائے.تا کہ اہل درد اہل دانش ، اہل فکر، خبر پڑھکر اس کا صحیح تجزیہ کرسکیں اور حالات وظروف کا جائزہ لے سکیں.روز نامہ جنگ بایں الفاظ سُرخی لکھتا ہے: مرزا طاہر احد کا خطبہ چار براعظموں میں ٹیلی کاسٹ کیا گیا ,,

Page 490

490 خبر کا متن یہ ہے : ربوہ : جماعت احمدیہ کے سر براہ مرزا طاہر احمد نے کہا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑی برائی جھوٹ ہے.انہوں نے کہا ہے کہ بدظنی بھی جھوٹ ہے اور دنیا کے اکثر جھگڑے بدظنی سے ہی پیدا ہوتے ہیں.جھوٹ رزق کو کھا جاتا ہے.اور جھوٹ بولنے والی قوموں کا رزق چھین لیا جاتا ہے.اس میں دیندار اور غیر دیندار کا کوئی فرق نہیں.جو قو میں سچ کو اختیار کرتی ہیں ان کے رزق میں برکت ملتی ہے.مسلم دنیا کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ایک دوسرے کیسا تھ محبت سے پیش آیا جائے.اور بھائیوں جیسے تعلقات قائم کئے جائیں.ان کا یہ خطبہ مواصلاتی سیارے کے ذریعے دنیا کے چار براعظموں میں ٹی وی پر دیکھا اور سنا گیا.ان براعظموں میں عنقریب آسٹریلیا، ایشیاء، یورپ اور افریقہ شامل ہیں.ان کے خطبات امریکہ اور کینیڈا میں بھی اسی طرح براہ راست مواصلاتی سیارے کے ذریعہ ڈش انٹینا کے ذریعے دیکھے اور سُنے جایا کریں گے.(روز نامہ جنگ 25 اگست 1992 ء ) ( ہفت روزہ اہلحدیث لاہور 11 ستمبر 1992 صفحه 11-12 معزز قارئین نے مندرجہ بالا بصیرت افروز مضمون پڑھ لیا ہے.یہ مضمون پڑھکر بعض سوالات ذہن میں اُبھرتے ہیں.مثلاً : 1.ہمارے علماء حضرات یہ خوشخبریاں سنانے کے عادی ہیں کہ قادیانی جماعت مٹ رہی ہے، بکھر گئی ہے حتی کہ دم تو ڑ رہی ہے لیکن یہ مضمون بتاتا ہے کہ یہ جماعت مری مٹی نہیں نہ ہی دم توڑ رہی ہے.بلکہ پہلے سے کئی گنا زیادہ پھیلا ؤ اور استحکام پاچکی ہے.2 مضمون نگار نے مرزا طاہر احمد کے خطبہ کا اقتباس شامل کر کے سادہ ذہنوں کو بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے.کہ قادیانیوں کا بجٹ کروڑوں کے لگ بھگ ہے.اور دینی جماعتوں کا بمشکل لاکھوں میں ہے.اور یہ سچائی سے رزق میں برکت آتی ہے.جھوٹ سے رزق میں کمی آتی ہے.کیا مضمون نگار یہی احساس دلانا چاہتا ہے؟ مئی 1994ء قادیانیت ہماری ہر کوشش کے باوجود ختم نہیں ہوئی بلکہ اب تو وہ ساری دنیا میں پھیل گئے ہیں.علامہ جاوید الغامدی جماعت اسلامی کے ترجمان ہفت روزہ زندگی نے علامہ جاوید الغامدی سے احمدیت کو تباہ کرنے کے پروگرام کے بارے میں انٹرویو کیا تو جواب میں تاریخ کو درج ذیل اعتراف وصول ہوا.س: قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے کیا وہ درست ہے؟ کیا غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی اسمبلی آئین میں اس ترمیم کی مجاز قرار دی جاسکتی ہے؟

Page 491

491 ج: دعوت کا طریقہ کار اپنانا چاہیے تھا.اس طرح قادیانیت آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی علماء اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے تو قادیانیت اسی طرح تحلیل ہو جاتی جس طرح بہائی اور اسماعیلی ختم ہو گئے.ہمارے ہاں قادیانیوں کو مضبوط کیا گیا ہے.تاہم اب جو قانون بن چکا ہے اس کی پیروی کرنی چاہیے ورنہ ریاست کا نظم باقی نہیں رہ سکے گا.اگر ہم صحیح دین واضح کر دیں تو غلط نظریات اپنی موت آپ مر جائیں گے.کسی کو گولی مار دینا دعوت نہیں ہے.س: آئین میں ترمیم کے بعد آرڈی نینس جاری کیے گئے اور شعائر اسلامی کی ممانعت کر دی گئی کل کو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ (احمدی ناقل ) اپنا نام بھی تبدیل کرلیں؟ ج: یہ غلط طریق کار کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے انڈے بچے ہیں اگر سلیقے سے کام لیا جا تا تو نوبت یہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی.وہ ہمارے ملک کے شہری تھے مگر اس اقدام سے بیرون ملک پھیل گئے.لندن میں مرکز قائم کرلیا.سٹیلائیٹ کے ذریعہ پوری دنیا تک اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں.انہیں گھر سے باہر منتقل کر دیا گیا تو یہ نتائج برآمد ہوئے.مصلحت کا تقاضا انہیں اپنے سے دور کرنا ہر گر نہیں تھا.اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس فتنہ سے نمٹنے کا غلط طریق کا را پنا یا گیا.مناسب طریقہ اپنایا جاتا تو نتائج یقینا بہتر ہوتے.اگست 1994ء (انٹرویو قربان انجم ہفتہ وار زندگی مدیر مجیب الرحمن شامی 7 تا 13 مئی 1994 ، صفحہ 40) قادیانیوں کا ایک امام ہے اور وہ ساری دنیا کو کنٹرول کر رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں جس کے بھی ساتھ 2 آدمی ہیں وہ بھی عالمی مرکز کا صدر کہلا رہا ہے.ماہنامہ الحق کی فریاد اسلامی انقلاب کے لئے ایک مرکز کی ضرورت ہے ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک اگست 1994، صفحہ 43-44 پر مندرجہ بالا عنوان کے تحت جناب محمد زاہد الحسینی آف اٹک کا مضمون شائع ہوا ہے.جس میں ایک مرکزیت کی طرف توجہ دلائی ہے.عیسائیت کا روما 2000 سال سے ہے وغیرہ وغیرہ.آگے جا کر لکھتے ہیں.قادیانیت کے سر براہ کو ہم نے یہاں سے بعافیت نکال کر آج کی دنیا کے عظیم مرکز میں پہنچا دیا ہے.وہ وہاں بیٹھ کر دُنیا بھر کے قادیانیوں کو کنٹرول کر رہا ہے.مگر ہمارا کیا حال ہے ہم كُنتم خير أمة کی تلاوت تو کرتے ہیں مگر ہمارا کوئی مرکز نہیں.جس کے ساتھ 2 آدمی ہیں وہ بھی عالمی مرکز کا صدر کہلا رہا ہے.کیا یہ صورت حال خطر ناک ہیں.پہلے وحدت مرکز پیدا کی جائے اس کے بعد انفرادی کاموں کی بجائے ایک عالمی امیر ہو.جس امت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف دو ہوں تب بھی ایک امام اور ایک مقتدی بن جائے.اس ایک ارب افراد کا کوئی

Page 492

492 امیر نہیں.جس کی اشد ضرورت ہے“.سر پہ اک سورج چمکتا ہے مگر آنکھیں ہیں بند مرتے ہیں بن آب وہ اور در پہ مہر خوشگوار نومبر 1994ء قادیانی اب سٹیلائٹ کے ذریعہ گھر گھر پہنچ گئے ہیں ان سے بچایا جائے....ہفت روزہ زندگی کی دہائی ہفت روزہ زندگی لاہور نے اپنی 4 نومبر تا 10 نومبر 1994ء کی اشاعت میں زیر عنوان ” قادیانی سٹیلائیٹ - ٹیلی ویژن چینل درج ذیل خبر درج کی نوائے وقت راولپنڈی 8 اکتوبر 1994ء کی ایک خبر ملاحظہ کیجئے.قادیانی چینل ، صورتحال سے نمٹنے کے لیے اقدامات کا فیصلہ.حکومت کو روز سینکڑوں احتجاجی خطوط اور تار موصول ہو رہے ہیں عوامی تشویش کے پیش نظر حکومت نے ایم.ٹی.اے سے متعلق تفصیلات طلب کر لیں“.اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) قادیانیوں نے انٹر نیشنل چینل ایم.ٹی.اے سے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے 12 گھنٹے کی جو نشریات شروع کر رکھی ہیں اس پر ملک بھر میں تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے.پتہ چلا ہے کہ اس سلسلہ میں حکومت کو ہر روز سینکڑوں کے حساب سے احتجاجی خطوط اور تار موصول ہورہے ہیں ان کے پیش نظر حکومت پاکستان نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے.قادیانیوں کے یہ پروگرام سٹیلائیٹ سٹیشنز 21 کے ذریعہ ہر روز صبح 11 بجے سے رات 11 بجے تک ٹیلی کاسٹ کیے جاتے ہیں جو دس فٹ قطر کی ڈش انٹینا کے ذریعہ دیکھے جاسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قادیانیوں نے مری روڈ راولپنڈی پر واقعہ اپنی عبادت گاہ میں ایک بڑا ڈش انٹینالگا رکھا ہے اور یہاں قادیانیوں کو پروگرام دکھائے جاتے ہیں.اگر چہ یہ پروگرام پاکستان سے باہر سے ٹیلی کاسٹ کیے جاتے ہیں تاہم حکومت نے عوام کی تشویش کے پیش نظر تفصیلات طلب کر لی ہیں“.(مندرجہ بالا مضمون اشتہار کی صورت میں ہفت روزہ زندگی میں تحریک فہم القرآن کی طرف سے میجر منہاس صاحب نے شائع کیا) مارچ 1997ء ہمارے علماء تو دس سوالوں کے جواب بھی نہیں دے سکتے جبکہ قادیانی اتنی تبلیغ اسلام کر رہے ہیں جتنا کبھی ہم نے سوچا بھی نہیں...بین الاقوامی مسلمان اسپرانتو ایسی سی ایشن کی دہائی روز نامہ اساس 24 مارچ 1997 سے غیر احمدی داستان کا ایک عبرت انگیز ورق.عالمی مسلمان اسپرانتو ایسوسی ایشن کی جانب سے روز نامہ اساس 24 مارچ 1997ء میں ایک لمبا چوڑا مضمون زیر عنوان.علماء کرام سے غیر مسلموں کے دس سوال : جرمنی میں ہونے والی بین الاقوامی اسلامی کا نفرنس میں غیر مسلموں

Page 493

493 کے سوالوں جواب دینے کون جائے گا“ شائع ہوا.تفصیل یہ ہے کہ جرمنی، نجیم ، اور ہالینڈ کی مشترکہ مسلمان اسپرانتو ایسوسی ایشن نے ایک محفل سوال وجواب مورخہ 27 اپریل 1997ء کو جرمنی کے شہر آچن (Aachen) میں منعقد کرنے کا پروگرام بنایا اور اس کے لیے جو زیادہ سوال پوچھے جاتے ہیں وہ تیار کئے جو تعداد میں دس تھے.اس کے بعد مجوزہ سوال جواب کی محفل سے سات مہینے قبل اکتوبر 1996ء میں پاکستان کے 32 جید علماء کرام کو یہ سوال بھیج دیئے گئے.ان علماء کرام میں قاضی حسین احمد، مولانا سمیع الحق ، مولانا فضل الرحمن، مولانا نورانی نیازی سمیت قریباً ہر فرقہ کے ممتاز عالم دین شامل تھے.ان سوالوں کو دیکھ کر کوئی بھی عالم دین اس محفل میں جانے کے لیے تیار نہ تھا جبکہ سفر اور رہائش کے اخراجات بھی یہ ایسوسی ایشن ہی مہیا کر رہی تھی.نئی صورت حال کے تحت ایسوسی ایشن نے 6 ستمبر 1996 ء کو پنڈی میں ایک سیمنار منعقد کیا اور تمام علماء دین کو دعوت دی کہ وہ اس فورم پر آکر ان سوالوں کے جوابات ریکارڈ کروادیں تا کہ ویڈیو فلم کے ذریعہ سے جوابات اس محفل میں حاضرین کو سنا دیئے جاسکیں.لیکن سیمینار میں بھی کسی عالم دین نے آنے کی جرات نہ کی آخر کار 24 مارچ 1997ء کو اس ایسوسی ایشن نے یہ ساری کہانی اور وہ 10 سوال روز نامہ اساس میں شائع کروا دیئے اور اس میں مجبوراً یہ اعتراف بھی دنیا کے لیے پیش کر دیا.زیر نظر تحریر پڑھتے وقت یہ بات پیش نظر رہے کہ یورپ کے ایک ملک سے قادیانیوں نے STN طرز کا ایک طرز کا ایک ٹی وی سٹیشن کرائے پر لے رکھا ہے جس پر 24 گھنٹے اسلام کے نام پر اپنے مسلک کی ترویج اور فروغ کے لیے انگریزی، ہسپانوی، اٹالین، فرانسیسی، جرمن، عربی اور اسپرانتو جیسی عالمی زبانوں میں نشریات پیش کی جاتی ہیں.ساری دنیا میں الیکٹرانک میڈیا.لٹریچر اور عقلی و سائنسی دلائل کے ذریعہ اسلام کے نام پر جتنا کام مرزائی اور قادیانی کر رہے ہیں اتنا ہم مسلمانوں نے سوچا بھی نہیں“.(روزنامه اساس 24 مارچ 1997 ء ) | دوستو! میں نے مڑکر مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری سمیت علماء کے اقوال کو دیکھا.پیر مہر علی شاہ صاحب کے لیے ایک دوسرے عالم دین کی پیشگوئی کوسنا.1953ء، 1974ء کے بڑھکتے شعلوں اور قرار دادوں کو دیکھا.قادیانیت کے سکڑنے کا وقت آ گیا جیسے اعلان کا بغور مطالعہ کیا.اور پھر روز نامہ اساس میں پھیلے اس اعتراف بے بسی کا مشاہدہ کیا تو جواب میں حضرت مرزا صاحب کے الفاظ نوشتہ دیوار بن کر نظر آنے لگے:

Page 494

494 یا درکھو! میرا سلسلہ اگر نری دکانداری ہے تو اس کا نام ونشان مٹ جائے گا لیکن اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یقینا اسی کی طرف سے ہے تو ساری دنیا اس کی مخالفت کرے.یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور فرشتے اس کی حفاظت کریں گے.اگر ایک شخص بھی میرے ساتھ نہ ہو اور کوئی بھی مدد نہ دے تب بھی میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہوگا.( ملفوظات جلد 8 صفحہ 147 ) آج سوسال کی مسافت پر کھڑے ہو کر اب میرے لیے فیصلہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں.نام ونشان مٹانے والے ضرور مٹے ہیں مگر احمدیت کا نام چار دانگ عالم میں پھیل رہا ہے جو صاف ثابت کرتا ہے یہ دکانداری نہ تھی.بلکہ خدائی سلسلہ ہی ہے.اگست 1999ء استہزاء اور طعن تشنیع کا انجام دوستو! احمدی تبلیغ جہاں برصغیر سے نکل کر دنیا کے تمام براعظموں میں پھیل گئی وہیں ٹھیک اس طرح سے دوسری طرف محافظین ختم نبوت کے پیرو کا راب ان جلسوں میں بھی آنے کے لیے تیار نہیں جن میں ان کے محبوب علما محو تقریر ہوتے ہیں.دنیا کی تاریخ میں یہ سانحہ بھی ایک عجیب شان رکھتا ہے.ایک طرف احمدیت کے نعرے دنیا کے چپے چپے سے بلند ہو چکے ہیں جبکہ دوسری طرف احمدیت کو تباہ و برباد کر دینے کے نعروں والے حضرات اپنے سامعین کی راہیں تکتے تکتے اونگھنا شروع ہو گئے ہیں.یہ خدا کا انتقام ہے یا احمدیت کی سچائی کی دلیل فیصلہ کرنے میں میری مدد کیجئے گا.جب استہزاء عروج پر تھا 1953 ء کا سال احمدی غیر احمدی کہانی میں ہمیشہ یادر کھا جائے گا اس سال مجلس احرار نے جماعت احمدیہ کے خلاف استہزاء کو اپنے عروج پر پہنچا دیا.ان دنوں کے حالات قلمبند کرتے ہوئے مصنف پاکستان کے مذہبی اچھوت“ لکھتا ہے.و مجلس احرار کے جلسوں میں عوام کے لیے لغویات کے سوا کچھ نہ ہوتا.احمدیوں کے ملک دشمن.چوہدری ظفر اللہ کی پالیسیوں پر لایعنی تنقید اور مذہب کے نام پر عوام کے جذبات کو بھڑکا کر بانی جماعت احمدیت.امام احمدیت اور سرکاری عہدوں پر فائز احمدی افسران کے خلاف نعرہ بازی کروائی جاتی احمدیوں کے قتل کو جنت میں داخلے کی ٹکٹ قرار دیا جاتا 19 اگست کو احمدیوں کے خلاف جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے عطاء اللہ شاہ بخاری نے یہاں تک کہہ

Page 495

495 دیا کہ تم کو چاہیے کہ قادیان سے ربوہ تک ہر درخت سے ایک ایک احمدی کو پھانسی پر لٹکا دو.استہزائی مجاسے ٹھرک تک (صفحہ 58-59 مصنف تنویر احمد میر مرتضیٰ علی شاہ الحسیب پبلشر ) 53ء کے حالات کی مصنف ” پاکستان کے مذہبی اچھوت نے تصویر نگاری میں بڑی محتاط روی سے کام لیا ہے جبکہ اصل تصویر کیا تھی کن حالات اور کسی فلسفہ اخلاق کے ساتھ احمدیت کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کا مصالحہ تیار ہورہا تھا.جماعت اسلامی کے ترجمان ” جہاں نو“ کے ایڈیٹر کی زبانی ملاخطہ کیجیے.آپ نے احمدیت کے خلاف ہونے والے جلسوں کی رپورٹنگ زیر عنوان ” مجا“ یوں کی ہے.کراچی میں ختم نبوت کانفرنس دھوم دھام سے ہوئی شاہ صاحب کا جلسہ بجلی کے چراغوں سے پوری طرح روشن تھا.قدم قدم پر لکڑی کے کھمبوں پر بجلی کی ٹیوبوں سے ایک جنگل بسا رکھا تھا.دو دن کے جلسوں میں (رات) کے نو بجے سے صبح کے تین چار بجے تک تقریریں ہوتی رہیں.حجاموں قلیوں اور ہاکروں کی ایک کثیر تعداد سینما کی بجائے وہاں جاتی رہی اور یہی سوچ کر جاتی رہی کہ سینما سے زیادہ لطف ان جلسوں میں ہے.لطیفوں قصوں کہانیوں اور شعر خوانیوں اور چٹکلوں سے معمور طول طویل تقریریں ہوئی طویل طویل اونچے سروں میں نظمیں پڑھی گئیں اور نعتیں سنائی گئی.کلو حجام نے کہا سینما میں کیا مجا آئے گا جو ان جلسوں میں آئے گا جو ان جلسوں میں آیا میں تو برابر جاتا رہا.دوکان بند کر کے رات کے گیارہ بجے سے صبح 4 بجے تک آج دن بھر سوتا رہا ہوں.ابھی ابھی دکان پر آیا ہوں اس سے پوچھا تم کیا سمجھے.کہنے لگا سمجھنا کیا ہے بس مجا آ گیا! چنانچہ یہی مجا تھا جو اس کا نفرنس سے لوگوں نے حاصل کیا.ہیں؟ جہان نو کراچی 18 مئی 1951 ء ) وقت کی دھول میں 40 سال چھپ جانے کے بعد آج ان جا پر مشتمل کا نفرنسوں کا کیا حال ہے؟ علماء کرام اپنے سامعین کو احمدیت کے مقابل پر کس حد تک بنیان مرصوص بناچکے ہیں؟ حاضری کیا ہے؟ اور حاضرین کیا جماعت احمدیہ کے شدید مخالف مولا نازاہد الراشدی کی زبانی اس ٹھر کی کہانی کا انجام دیکھتے ہیں.آپ نے روز نامہ اوصاف 19 اگست 99ء کی اشاعت میں زیر عنوان برطانیہ کی ختم نبوت کانفرنسیں ایک تفصیلی مضمون لکھا.کانفرنس کے انعقاد کی تاریخیں اور جگہ حدود اربعہ بیان کرنے کے بعد مقررین حضرات اور سامعین حضرات کی تصویر کشی ان الفاظ میں کی.

Page 496

496 ان کا نفرنسوں میں روئے سخن زیادہ تر قادیانیوں کی طرف ہوتا ہے.چونکہ برصغیر پاکستان بنگلہ دیش اور بھارت سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کا زیادہ تر سابقہ قادیانیوں سے پڑتا ہے اور اکثر و بیشتر علماء بھی انہی ممالک سے آتے ہیں پھر انہیں دنوں قادیانیوں کا سالانہ عالمی اجتماع بھی لندن میں ہوتا ہے اس لیے قادیانیت ہی ان کا نفرنسوں کے مقررین کی گفتگو کا مرکزی عنوان ہوتی ہے اور علماء کرام روایتی جوش و خروش کے ساتھ قادیانیوں کے خلاف غیظ وغضب کا اظہار کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے اگلے سال تک کے لیے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا فریضہ ادا کر دیا ہے ان ختم نبوت کانفرنسوں میں ہونے والی گفتگو کا مواد اور انداز بھی وہی روایتی یعنی موچی دروازے اور لیاقت باغ والا ہوتا ہے.جس سے پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش سے آکر آباد ہونے والے پرانے حضرات کا ٹھرک تو پورا ہو جاتا ہے.لیکن یہاں پیدا ہونے والے اور پروان چڑھنے والے نو جوانوں کے پلے کچھ نہیں پڑتا اس لیے ان اجتماعات میں نوجوانوں کی شرکت کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے.آگے چل کر تاسف سے یہ اعتراف بھی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں: یہ المیہ کم وبیش ہر کانفرنس میں شریک ہونے والے نوجوانوں کا ہے اور اب تو ان کا نفرنسوں کے منتظمین کے اجلاسوں میں دبے لفظوں یہ بات زیر بحث آنے لگی ہے کہ ان کا نفرنسوں کے آخر فائدہ کیا ہے؟“.مجا حاصل کرنے والی جس بھیڑ کے ساتھ احمدیت کو فتح کرنے نکلے تھے اب وہ ٹھرک کی وادی میں کس حال میں ہیں.علماء ان کو کہاں سے کہاں لے آئے ہیں.مولانا راشدی نے اس کی تصویر کشی کر کے گویا قرار واقعی دکانداروں کی نشاندہی کر دی ہے.آپ فرماتے ہیں: بھی گذشتہ روز کی بات ہے بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب عبدالمقیت ، مولا نا خدا الرحمن درخواستی اور راقم الحروف کولندن لانے کے لیے گاڑی لے کر وہاں پہنچے وہ علماء سے عقیدت رکھتے ہیں اور ان کی خدمت کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں مگر ان کی معلومات کا حال یہ تھا کہ مجھ سے پوچھنے لگے مولوی صاحب ! احمدی فرقہ کا بانی کون ہے؟ میں نے بتایا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کر کے اس نئے مذہب کی بنیاد رکھی تھی پھر سوال کیا کہ وہ کون سی صدی میں گزرا ہے؟ اس سے اندازہ کر لیں کہ علماء سے تعلق رکھنے والے اور دینی ذوق رکھنے والے حضرات کی معلومات کا حال یہ ہے کہ جو لوگ مسجد اور مولوی کے قریب پھٹکنے کے لیے تیار نہیں ہیں ان کی واقفیت کا عالم کیا ہو گا ؟“ ہم نے زندگی ضائع کردی...مولوی انورشاہ کشمیری کا مرنے سے قبل اعتراف (روز نامہ اوصاف 19 اگست 99

Page 497

497 جی وہی مولانا انور کشمیری صاحب جنہوں نے جماعت کی بربادی کے بڑے بڑے دعوے کئے تھے.مگر فوت ہونے سے قبل جب انہوں نے اپنی زندگی کے سودوزیاں حساب لگایا تو بے اختیار غمگین ہو کر سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ ہم نے زندگی ضائع کر دی.دیو بندی مفتی اعظم محمد شفیع جو اُن کے شاگرد خاص تھے نے اپنے خطبات میں اس کا ذکر یوں فرمایا ہے: ” میں حضرت مولانا سید محمد انورشاہ کشمیری کی خدمت میں ایک دن نماز فجر کے وقت اندھیرے میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت سر پکڑے ہوئے بہت غم زدہ بیٹھے ہیں.میں نے پوچھا مزاج کیسا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ٹھیک ہی ہے میاں.میاں مزاج کیا پوچھتے ہو عمر ضائع کر دی.میں نے عرض کی حضرت آپ کی ساری عمر علم کی خدمت میں اور دین کی اشاعت میں گزری.آپ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو پھر کس کی عمر کام میں لگی؟ تو حضرت نے فرمایا کہ میں تمہیں صحیح کہتا ہوں کہ اپنی عمر ضائع کردی...گمراہی پھیل رہی ہے.الحاد آ رہا ہے.شرک و بت پرستی چلی آرہی ہے.حرام و حلال کا امتیاز اُٹھ رہا ہے.لیکن ہم لگے ہوئے ہیں ان فرعی اور فروعی مسائل میں اس لئے غمگین بیٹھا ہوں اور محسوس کر رہا ہوں کہ عمر ضائع کر دی“ (امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے.تلخیص خطبات مفتی محمد شفیع وحدت امتص 7 ملخص حافظ ناصر و حافظ عمر تعاون شجاع الدین شیخ و محمد نعمان) دوستو! قرآن مجید نے ہمیں بتایا تھا کہ جھوٹا نبی کبھی سرسبزی نہیں دیکھ سکتا بلکہ نظام عالم میں جہاں اور قوانین خداوندی ہیں یہ بھی ہے کہ کا ذب مدعی نبوت کی ترقی نہیں ہوا کرتی بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے.واقعات گزشتہ سے بھی اس امر کا ثبوت پہنچتا ہے کہ خدا نے کبھی کسی جھوٹے نبی کو سر سبزی نہیں دکھائی یہی وجہ ہے کہ دنیا میں باوجود غیر متناہی مذاہب ہونے کے جھوٹے نبی کی امت کا ثبوت مخالف بھی نہیں بتلا سکتے.پھر مرزا صاحب کا اس بات کو بار بار پیش کرنا کہ اگر یہ دکانداری اور جھوٹا کاروبار ہوا تو خود خدا ہی مجھے تباہ کر دے گا.پھر دوسر طرف علماء کی تمام کوشش اور ہر ذریعہ کو استعمال کے بعد آج ناکامی و نامرادی کا اعلان یہ ساری بات منطقی طور ہمیں مجبور کر دیتی کہ احمدیت ایک سچائی کا نام ہے.جو خدا کی طرف سے آئی اور خدا کی طرف لے جانے کے لیے آئی ہے علماء کی مسلسل ناکامیوں نے میری تمام مشکلات کو حل کر دیا ہے اور یہی سچ ہے.ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے بانی جماعت احمد یہ فرماتے ہیں:

Page 498

498 خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقے کو غالب کرے گا اور میرے فرقے کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سواے سننے والو! ان باتوں کو یا درکھوان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ کر لو کہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.بانی جماعت کا یہ اعلان میں نے بار بار پڑھا.قوموں کے احمدیت میں داخل ہونے اور سلسلہ کے زمین پر محیط ہو جانے اور تمام روکوں کے درمیان سے اٹھائے جانے کی پیش خبریاں ذہن میں مستحضر کیں اور ان باتوں کو خدائی کلام کے طور پر صندوقوں میں محفوظ رکھنے کے ارشاد کو غور سے یاد کیا اور پھر احمدیت کی تاریخ کے سفر پر چل پڑا.تاریخ کے اس سفر پر میرے سامنے دوسری پیشگوئیاں بھی موجود رہی: اب افق ہند سے آفتاب اسلام طلوع ہورہا ہے جس کی ضیاء باریوں کے سامنے غلامانہ نبوت کی گھٹائیں نہیں ٹھہر سکتیں.قادیانیت باقی رہے گی لیکن صفحہ عالم پر نہیں بلکہ کتابوں کے صفحہ قرطاس پر اور وہ بھی محض عبرت بن کر.پھر یہ پیشگوئی بھی مجھے اچھی طرح مستحضر رہی : ”مرزائیت کے مقابلے کے لیے بہت سے لوگ اٹھے لیکن خدا کو یہی منظور تھا کہ یہ میرے ہاتھوں تباہ ہو“.اسی طرح سے ایک دوسرے بزرگ کی یہ پیشگوئی بھی : اب قادیانیت کے سکڑنے بلکہ ختم ہونے کا وقت آ گیا ہے“.اس پس منظر کے ساتھ میں نے احمدیت کے سوسالوں کا سال بہ سال سفر کیا.حاصل وصول مطالعہ کے طور پر میرے سامنے جو تصویر بنی وہ قرآن مجید کی اس آیت کی عملی تصویر تھی الله ولی الذین امنوا يخرجهم من الظلمات الى النور کہ جن کا دوست اللہ تعالیٰ بن جاتا ہے ان کے ہر دن میں اندھیروں سے روشنیوں کی طرف انتقال کا سفر شروع ہو جاتا ہے.

Page 499

499 میرے سامنے کوئی ایک بھی سال ایسا نہیں آیا کہ احمدیت کی فتوحات کا دائرہ رک گیا ہو.وہ برصغیر میں پھیلا ایشیا تک آیا اور پھر دنیا کے دوسرے براعظموں کی طرف مڑ گیا.وہ لاکھوں سے کروڑوں میں آئے اور زمین سے نکل کر فضاؤں میں پھیل گئے.بقول مصنف ” قادیانیت کا سیلاب اور ہماری حکمت عملی حقیقت یہ ہے کہ ہر آنے والا دن قادیانیت کو مزید عروج کی طرف لے کر جا رہا ہے اور قادیانیوں کا حلقہ اثر روز بروز پھیلتا جارہا ہے.قادیانی سینکڑوں سے ہزاروں ہو گئے پھر ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی اور اب دنیا بھر میں قادیانیوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تک جا پہنچی ہے“.تاریخ احمدیت کی ترقی کی رفتار کو کیسے محفوظ کیا نقشہ پیش ہے.دور امامیت 27 مئی 1908ء تا آخر 1908ء 30 مئی : خلیفتہ امسح الاول کے عہد میں صدر انجمن احمد ی کا پہلا اجلاس حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی صدارت میں ہوا.حضور نے بیت المال کا مستقل محکمہ قائم فرما دیا.یکم اگست : واعظین سلسلہ کے تقرر کے بعد پہلے واعظ شیخ غلام احمد صاحب کی روانگی.$1909 یکم مارچ : مدرسہ احمدیہ کی مستقل درس گاہ کی حیثیت سے بنیا درکھی گئی.اکتوبر : نیا اخبار نور جاری ہوا.$1910 7 جنوری : حضرت میر قاسم صاحب نے دہلی سے اخبار الحق جاری کیا.اکتوبر: یوپی میں مربیان احمدیت کے کامیاب دورے.دسمبر : بورڈ نگ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عمارت کی بنیا د رکھی.$1911 جنوری: حضرت میر قاسم علی نے رسالہ احمدی“ جاری کیا.قادیان میں دارلضعفاء کا قیام حضرت میر ناصر نواب صاحب منتظم.

Page 500

500 $1912 فروری: حضور کی تحریک پر انجمن مبلغین“ کا قیام.25 جولا ئی تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عمارت کی بنیاد رکھی.ستمبر : حضرت شیخ یعقوب علی صاحب نے رسالہ احمدی خاتون“ جاری کیا.$1913 19 جون : الفضل جاری ہوا.بانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود صاحب.جون : حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب کو انگلستان بھیجا گیا.26 جولائی: عربی کی اعلیٰ تعلیم کی خاطر حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو مصر اور شام کے لیے روانہ کیا گیا.قدرت ثانیہ کے مظہر ثانی $1914 اپریل: احمد یہ مشن لندن کا مستقل صورت میں قیام.$1915 15 جون : حضرت صوفی غلام محمد صاحب نے ماریشس میں احمد یہ مشن کا آغاز کیا.دسمبر : اسی سال مشہور خادم سلسلہ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین آف سکندر آباد دکن نے جماعت میں شمولیت اختیار کی.$1916 جنوری: مسٹر والٹر سیکرٹری سینگ مین کرسچین ایسویسی ایشن لاہور قادیان آئے.16 دسمبر : مشہور مستشرق اور آکسفورد یونیورسٹی کے پروفیسر مارگولیتھ قادیان آئے.$1917 12 مارچ: زار بھی ہوگا تو ہو گا اس گھڑی باحال زار کی پیشگوئی پوری ہوئی.21 جون : قادیان میں نور ہسپتال کا سنگ بنیا درکھا گیا.

Page 501

501 $1920 15 فروری: حضرت مفتی محمد صادق صاحب امریکہ میں مشن قائم کرنے کے لیے فلاڈلفیا کی بندرگاہ پر اترے مگر آپ کو شہر جانے سے روک دیا گیا.22 فروری : حضور نے بندے ماترم ہاں امرتسر میں صداقت اسلام وذرائع ترقی اسلام پر لیکچر دیا.مئی: حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو امریکہ میں داخل ہو کر تبلیغ کی اجازت مل گئی.7 جون : حضور نے مسجد فضل لندن کے لیے چندہ کی تحریک کی.9 ستمبر : لندن میں مسجد کے لیے زمین خریدنے پر قادیان میں پر مسرت تقریب منعقد کی گئی.1921 19 فروری: حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نے سیرالیون میں احمد یہ مشن کی بنیاد رکھی.28 فروری: حضرت مولا نا عبدالرحیم نیرغا نامیں احمد یہ مشن قائم کرنے کے لیے پہنچے.17اپریل: نائیجریا میں احمدیہ مشن کی بنیا د رکھی گئی.دسمبر : حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے شکا گوامریکہ میں احمد یہ مشن قائم کیا.$1922 18 فروری: مصر میں مشن قائم کرنے کے لیے شیخ محمود احمد صاحب عرفانی قادیان سے روانہ ہوئے.$1923 7 مارچ: حضور نے تحریک شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان فرمایا.12 مارچ: حضور نے مجاہدین کا پہلا وفد تحریک شدھی کے علاقہ میں روانہ فرمایا.ستمبر : جماعت احمدیہ کے زبر دست تبلیغی حملوں کے نتیجہ میں آریوں نے تحریک شدھی بند کرنے کا اعلان کر دیا.18 دسمبر محترم ملک غلام فرید صاحب جرمنی میں مشن قائم کرنے کے لیے برلن پہنچے.اسی سال جرمنی میں احمدیہ مسجد کے لیے ایک لاکھ روپیہ فراہم کیا گیا.$1924 28 مئی: امریکہ کے معروف مستشرق زو یمر قادیان آئے.12 جولائی: حضور اپنے پہلے سفر یورپ پر قادیان سے روانہ ہوئے.

Page 502

502 14 اگست: حضور دمشق پہنچے.7 اگست : حضور نے اٹلی کے وزیر اعظم مسولینی سے ملاقات کی.22 اگست : حضور لندن میں پہلی دفعہ وارد ہوئے.9 ستمبر : حضور نے ایسٹ اینڈ ویسٹ یونین کے اجلاس میں انگریزی میں لیکچر دیا.23 ستمبر : اسلام کی صداقت کے لیے ویمبلے کا نفرنس منعقد کی گئی جس میں حضور کا مضمون احمدیت یعنی حقیقی اسلام حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خاں صاحب نے پڑھا.16 اکتوبر: ایران میں مشن کا قیام عمل میں آیا.19 اکتوبر : حضور نے مسجد فضل لندن کی بنیاد رکھی.10 دسمبر : مولوی ظہور حسین صاحب تبلیغ اسلام کے لیے روس میں داخل ہوئے.دسمبر : اسی سال حضور نے امیر افغانستان پر اتمام حجت کے لیے دعوۃ الا میر نامی کتاب لکھی.$1925 16 جولائی: حضور نے علماء دیو بند کوتفسیر نویسی میں چیلنج دیا.17 جولائی: حضرت مولانا جلال الدین شمس اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب شام میں مشن قائم کرنے کے لیے دمشق پہنچے.ستمبر : حضرت مولوی رحمت علی صاحب نے انڈو نیشیا میں مشن کی بنیا د رکھی.اکتوبر: کلکتہ سے ماہوار رسالہ احمدی بنگلہ زبان میں جاری ہوا.اسی سال شیخ عبد القادر صاحب سابق سوداگر متل جماعت میں شامل ہوئے.$1926 29 جنوری: قادیان میں پہلی بار ایک جلسہ میں 24 زبانوں میں تقریریں کی گئیں.30 اکتوبر : سر شیخ عبدالقادر صاحب مسجد فضل لندن کا افتتاح کیا.15 دسمبر لجنہ اماءاللہ کے تحت رسالہ ”مصباح‘شائع ہونا شروع ہوا.دسمبر : قادیان سے انگریزی اخبارسن رائز جاری ہوا.$1929

Page 503

503 جون : حفیظ جالندھری کی قادیان آمد پر مجلس مشاعرہ ہوئی.جس میں حضور بھی شامل تھے.$1930 3 جنوری : مشہور مسلم لیگی لیڈرشوکت علی قادیان آئے.15اپریل: ڈچ قونصل مسٹرانڈر یا سا قادیان آئے.$1931 30 فروری : مولانا رحمت علی صاحب نے جاوا میں مشن قائم کیا.3 اپریل : مولانا جلال الدین صاحب شمس نے کہا بیر میں فلسطین کی پہلی مسجد سید نامحمود کا سنگ بنیا درکھا.30 مئی : ایک افغانی سیاح قادیان آیا.25 جولائی: حضور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے.$1935 2 مارچ: برما میں احمدیہ مشن کا قیام عمل میں آیا.6 مئی تحریک جدید کے تحت 3 مبلغین کا پہلا قافلہ قادیان سے بیرون ملک روانہ ہوا.27 مئی: ہانگ کانگ میں احمد یہ مشن کا قیام.مئی: سنگا پور میں احمد یہ مشن کا قیام.4 جون : جاپان میں احمد یہ مشن کا قیام.12 جولائی: شاہ فیصل مسجد فضل لندن میں تشریف لائے.$1936 یکم جنوری : مکرم ومحترم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ جماعت احمد یہ میں شامل ہوئے.جنوری: ارجنٹائن میں احمدی مشن کا قیام.21 فروری: بوڈ ایسٹ میں احمدیہ مشن کا قیام تحریک جدید کے تحت یہ پہلا یور پئین مشن تھا.10 مارچ: ملک محمد شریف صاحب گجراتی اسپین میں احمد یہ مشن قائم کرنے کے لیے میڈرڈ پہنچے.اپریل: البانیہ میں مولوی محمد الدین صاحب نے احمد یہ مشن کی بنیا د رکھی.نومبر : شیخ بکری عبیدی صاحب ( مشرقی افریقہ ) کا قبول احمدیت.

Page 504

504 دسمبر : یوگوسلاویہ میں احمد یہ مشن قائم ہوا.$1937 جنوری : سنگا پور میں پہلے فردحاجی جعفر صاحب احمدیت میں داخل ہوئے.17 جون: پیل یونیورسٹی امریکہ کے شعبہ مذاہب کے پروفیسر جان کلارک آرچر کی قادیان آمد اور حضور سے ملاقات.13 اکتوبر : سیرالیون مشن کی بنیا د رکھی گئی.دسمبر : اس سال اٹلی اور پولینڈ میں تبلیغی کوششوں کا منظم آغاز ہوا.$1938 3 مئی : ایک زرتشی ایرانی سیاح منوچہر آرین کی قادیان آمد اور قبول احمد یہ 18 دسمبر : اردو کے ممتاز ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ کی قادیان آمد.$1939 فروری: مسجد فضل لندن میں شاہ فیصل اور دوسرے معزز مسلم سیاسی عمائدین کی ایک جلسہ میں شامل ہو.16 اپریل: لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر جان ڈگلس سینگ کی قادیان آمد.3 دسمبر : دنیا بھر میں جماعت کی طرف سے پہلا یوم پیشوایان مذاہب نہایت جوش و خروش سے منایا گیا.اسی سال قرآن مجید کے گورمکھی اور ہندی تراجم کی اشاعت ہوئی.$1940 مارچ : نواب بہادر یار جنگ نے قادیان میں حضور کی ملاقات کا شرف حاصل کیا.26 جولا ئی : مجلس انصار اللہ قائم کی گئی اور حضرت مولوی شیر علی اس کے پہلے صدر مقرر ہوئے.7 اگست: انگلستان میں پہلا مناظرہ مولانا جلال الدین شمس نے ایک پادری سے کیا.20 اکتوبر : سرینگر میں احمدیہ مسجد کی بنیاد رکھی گئی.25 دسمبر : تفسیر کبیر کی جلد سوئم شائع ہوئی.28 دسمبر : جلسہ سالانہ پر 386 افراد بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوئے.$1941 24 اگست کوئٹہ میں احمدیہ مسجد کی بنیا د رکھی گئی.

Page 505

$1942 505 یکم اکتوبر : چینی مسلمانوں کی تنظیم نیشنل اسلامک سالونشین کے نمائندے شیخ عثمان کی قادیان آمد.اکتوبر : پٹنہ کے مشہور ادیب سید اختر احمد اور نیوی کی قادیان آمد اور اشترکیت اور اسلام کے معاشی نظام کے متعلق حضور سے استفادہ.$1943 12 مارچ: لیگوس نائیجریا کی پہلی مسجد کی بنیا د رکھی گئی.مئی: قرآن مجید کا سواحیلی ترجمہ مکمل ہو گیا.$1946 3 مئی: سیرالیون کی پہلی مجلس مشاورت منعقد ہوئی.17 مئی : فرانس میں احمد یہ مشن کا قیام.10 جون : احمد یہ مشن اسپین کا احیاء ہوا.$1947 14اکتوبر : اردن میں احمد یہ مشن کا قیام.13 نومبر : فرانس میں جماعت احمدیہ کا پہلا پبلک تبلیغی جلسہ منعقد ہوا.$1949 20 جنوری: جرمن میں مشن کا قیام.2 فروری : مسقط مشن قائم ہوا.27 فروری: حضور فرقان فورس کے مجاہدوں کا جائزہ لینے کے لیے محاذ کشمیر پر تشریف لے گئے.فروری: گلاسکومشن کا قیام.23 مئی : فرانس میں پہلی سعید روح نے احمدیت میں شمولیت اختیار کی.14-13 اگست: نائیجریا جماعت کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.27 اگست : لبنان میں احمد یہ مشن کا قیام.3 اکتوبر : ربوہ میں مسجد مبارک کا سنگ بنیاد.

Page 506

506 $1950 30 جنوری: بیرون ملک جماعت کا پہلا کالج غانا میں جاری ہوا.جون : گلاسکومشن سے ماہوار رسالہ The Muslim Herald جاری ہوا.یکم تمبر : حضور نے حیدرآباد کے تھیو سافیکل ہال میں اسلام اور کمیونزم کے موضوع پر لیکچر دیا.دسمبر: تفسیر کبیر العادیات تاکوثر شائع ہوئی.$1951 جنوری: عراق کی طرف سے مؤتمر عالمی اسلامی نمائندہ عبدالوہاب عسکری ربوہ آئے.فروری: چرچ آف انگلینڈ کے سر براہ اعلیٰ ڈاکٹر فشر کو سیرالیون مشن کی طرف سے مقابلہ کی دعوت دی گئی.16 اگست: تحریک جدید کا سپون مشن قائم ہوا.$1952 7 جنوری : حضور نے افتاء کمیٹی کا احیاء کیا.6 فروری: حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے دفتر کا سنگ بنیاد رکھا.5 اپریل: اسی دفتر کا افتتاح.$1954 28 فروری: مسجد مبارک میں سورہ مریم سے درس قرآن کا آغاز جو بعد میں تفسیر کبیر جلد چہارم کے نام سے شائع ہوئے.20 اپریل : حضور نے اور میٹیل اینڈ ریلیجس پبلشنگ کارپوریشن قائم فرمائی.14 مئی: سواحیلی ترجمہ قرآن کی اشاعت ہوئی.پہلا نسخہ حضور کی خدمت میں بھیجا گیا.نومبر : ڈچ ترجمہ قرآن شائع ہوا.$1954 27 جنوری: حضرت مصلح موعود کی طرف سے جماعت کے ایک وفد نے گورنر جنرل پاکستان غلام محمد صاحب کو ولندیزی ترجمہ قرآن کا تحفہ پیش کیا.22 فروری: لاہور میں دارالذکر احمد یہ مسجد کا سنگ بنیا د رکھا گیا.17اکتوبر : چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب عالمی عدالت کے صدر منتخب ہوئے.

Page 507

507 $1955 18 جون : حضور ہیگ (ہالینڈ) پہنچے.** 26 جون : جرمنی کے ایک بہت بڑے مستشرق KAMAOUR نے حضور کے ہاتھ پر احمدیت قبول کی حضور نے ان نام زبیر رکھا.22 جولائی: لندن میں مبلغین کی عالمی کانفرنس حضور کی زیر صدارت شروع ہوئی اور 24 جولائی کو ختم ہوئی.27 جولائی : مالٹا کے ایک انجینئر نے حضور کی بیعت کر کے مالٹا میں جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی.30 جولائی: حضور نے لندن میں ڈسمنڈ شا سے ملاقات فرمائی.9 دسمبر : بیگ (ہالینڈ) میں مسجد کا افتتاح فرمایا.اسی سال سوئیز رلینڈ میں تحریک جدید کے تحت مشن قائم ہوا.$1956 برما میں مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر ہوئی.اسی سال لائبیریا اور فلپائن میں تبلیغی مراکز کا قیام ہوا.$1957 22 فروری: ہمبرگ میں مسجد کا سنگ بنیا درکھا گیا.15 مارچ: تنزانیہ میں بیت الاحمدیہ دارالسلام کا افتتاح.22 جون : مسجد احمد یہ ہمبرگ کا افتتاح ہوا.27 جولائی: مسجد احمد یہ جنجہ ( یوگنڈا) کا سنگ بنیاد رکھا گیا.9 اگست: مسجد احمد یہ کمپالا ( یوگنڈا) کا سنگ بنیا د رکھا گیا.دسمبر : وقف جدید کا اعلان.$1958 ستمبر : مسجد نور فرینکفرٹ کا افتتاح ہوا.اسی سال سیرالیون میں مختلف مقامات پر 3 مساجد کی تعمیر ہوئی.$1959

Page 508

508 بیت الاحمدیہ جنجہ یوگنڈا اور مشن ہاؤس کی تعمیر مکمل ہو گئی.قرآن مجید کے جرمن ترجمہ کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت ہوئی.انڈونیشین زبان میں ترجمہ قرآن کی تکمیل.1960 فمینیسٹی زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ کا آغاز.اکرہ (غانا) میں مشن ہاؤس کی نئی عمارت کی تعمیر.رنگون میں مشن ہاؤس اور بیت کی تعمیر.امریکہ کے صدر آئزن پاور.والی اردن شاہ حسین صدر آسٹریلیا.وزیر اعظم کانگو اور دیگر اہم شخصیات کو قرآن مجید کا تحفہ دیا گیا.$1961 آئیوری کوسٹ میں احمد یہ مشن کا اجراء.ڈنیشن ترجمہ قرآن کے حصہ اول کی اشاعت.کیکمہ اور لوئین زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کی تکمیل.شنہشاہ مبشر صدر لائبریا.صدرصومالیہ کو قرآن مجید اور جماعتی لٹریچر کا تحفہ.نیروبی میں شیخ مبارک احمد صاحب کی طرف سے ڈاکٹر بلی گراہم کو روحانی مقابلے کا چیلنج.ماریشس مشن کی طرف سے 15 روز The message کا اجرائی.$1962 بیت امحمودز یورچ کا سنگ بنیاد از دست مبارک حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ.بیت النور راولپنڈی کی تکمیل.مشرقی پاکستان ( بنگلہ دیش ) میں مجلس خدام الاحمدیہ کا پہلا سالانہ اجتماع.تھائی لینڈ کے بادشاہ اور ملکہ الزبتھ کو تر جمہ قرآن کی پیشکش.$1963 مینڈے زبان میں ترجمہ قرآن مجید کی اشاعت.

Page 509

509 دی ڈیوک ایڈنبرا.شاہ کمبوڈیاکو تبلیغ اور قرآن مجید کا تحفہ.$1964 جزائر فجی میں مشن ہاؤس کی تعمیر.شمالی بور نیو میں سر بر آوردہ اصحاب کو تبلیغ احمدیت.8 نومبر 1965 تک یکم جنوری : بیت الاحمدیہ ٹانگانیکا کا سنگ بنیاد.اکتوبر : فری ٹاؤن ( سیرالیون ) میں مشن ہاؤس کا سنگ بنیا درکھا گیا.خلافت ثالثہ 1966ء 15 مارچ: حضور نے عیسائیوں کو توریت اور انجیل سے سورہ فاتحہ کے مقابلہ پر حقائق و معارف بیان کرنے کا چیلنج دیا اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی طرف سے مقرر کردہ انعامی رقم 500 سے بڑھا کر 50000 روپے کردی.6 مئی: ڈنمارک میں پہلی مسجد کا سنگ بنیاد کوپن ہیگن میں حضرت مرز ا مبارک احمد نے رکھا.یہ مسجد صرف اور صرف مستورات کے پیسے سے تعمیر ہوئی.28 اکتوبر: مسجد اقصیٰ ربوہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا.$1967 جنوری: ”اسلامی اصول کی فلاسفی“ کا انگریزی ترجمہ ایک لاکھ کی تعداد میں شائع ہوا.21 جولائی :مسجد النصرت کوپن ہیگن کا افتتاح.26 جولائی : وانڈ رور تھ ٹاون ہال لندن میں حضور کا خطاب بعنوان امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ.26 تا 28 اگست : انڈونیشیا کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.$1968 فروری: کینیڈا میں باقاعدہ جماعت کا قیام ہوا.مارچ : نجی میں پہلے احمدی نے اپنی زندگی دین کے لیے وقف کی ان کا نام ماسٹر محمد حنیف صاح $1969 مارچ لائبیریا کے علاقہ کیپ ٹاؤن میں جماعت کا پہلا پرائمری سکول جاری ہوا.

Page 510

510 مئی: سکنڈے نیویا کے مربی سلسلہ کمال یوسف صاحب کا دورہ آئس لینڈ جس سے وہاں پہلی دفعہ دین حق کی اشاعت ہوئی.$1970 5 اپریل: سوئٹزرلینڈ میں مسجد محمود کا حضور کے ہاتھ سے افتتاح.13 اپریل: حضور کی صدر نائیجریا یعقو بوگون سے ملاقات اور ابادان یونیورسٹی سے خطاب.20 اپریل: صدرغانا سے ملاقات.21 اپریل: احمد یہ مشن ہاؤس کماسی کی دو منزلہ عمارت کا افتتاح.29 اپریل: صدر لائبیریا ٹب مین سے ملاقات.2 مئی: صدر گیمبیا داود اجوار سے ملاقات.6 مئی: وزیراعظم سیرالیون سے ملاقات.10 مئی : بو میں سیرالیون کی مرکزی احمد یہ مسجد کا سنگ بنیا د رکھا.23 مئی: محمود ہال لندن کا افتتاح.1971 14 مارچ: احمد یہ دارالذکر جکارتہ کا افتتاح ہوا.31 مارچ : حضور نے مسجد اقصیٰ ربوہ کا افتتاح فرمایا.17 اپریل: چین کے سفیر چانگ تنگ کی ربوہ آمد اور حضور سے ملاقات.6 مئی: فیجی میں مسجد محمود کا افتتاح ہوا.18 نومبر لجنہ کی طرف سے حضور کی خدمت میں 2 لاکھ روپے اشاعت قرآن کے لیے پیش ہوئے.1973 18 فروری: جدید پریس کا سنگ بنیا درکھا.18 فروری: مسجد مهدی گولبازار کا سنگ بنیا د حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے رکھا.30 مارچ: حضور کا خطبہ جمعہ جو بعد میں ” مقام محمدیت کی تفسیر“ کے عنوان سے شائع ہوا.1974

Page 511

511 18 جنوری: حضور نے نگر پارکر کی خاطر وقف جدید کے لیے عام بجٹ سے ایک لاکھ روپے زائد اکٹھا کرنے کی تحریک کی.26 اگست : جمہوریہ داھومی ( بین ) کے دارالحکومت پورٹونو و میں پہلی احمد یہ مجد کا افتتاح.7 ستمبر : قومی اسمبلی پاکستان نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا.8 دسمبر : جزائر فجی کے دارالحکومت سووا میں مسجد فضل عمر اور مشن ہاؤس کا سنگ بنیا درکھا.اسی سال دسمبر میں یوگنڈا کی زبان میں ترجمہ و تفسیر قرآن کی اشاعت ہوئی.1975 مئی: میلا پالم ( تامل ناڈو ) میں نے مشن ہاؤس کا قیام.27 ستمبر : حضور نے گوٹن برگ سویڈن میں صد سالہ جوبلی منصوبہ کے تحت تعمیر ہونے والی پہلی مسجد بیت الذکر ناصر کا افتتاح فرمایا.جماعت احمد یہ ا چین کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.$1976 8-7-6 اگست: امریکہ کی احمدی جماعتوں کے 29 ویں سالانہ جلسہ سے حضور کا افتتاحی اور اختتامی خطاب.20 اگست : بیت ناصر گوٹن برگ میں درود.26 اگست: ناروے، 29 اگست ڈنمارک، یکم ستمبر جرمنی، 7 ستمبر سوئٹزرلینڈ ، 21 ستمبر ہالینڈ ، 14 ستمبر لندن.کا دورہ 15 ستمبر تا 17 اکتوبر : انگلستان کی احمدی جماعتوں کا تفصیلی دورہ.3 ستمبر: لائبیریا میں پہلے احمد یہ ہائی سکول کی عمارت کا افتتاح.دسمبر : حضرت بانی سلسلہ کی تفسیر سورہ یونس تا کہف شائع ہوئی.اسی سال یورو با زبان میں نائیجریا سے ترجمہ قرآن مجید شائع ہوا.$1977 جنوری: ہڈرزفیلڈ (انگلستان ) میں احمدیہ مسجد کا افتتاح.14 اپریل: تنزانیہ کے صوبہ نیوالا میں مشن ہاؤس کا قیام.29 اپریل: ملکہ انگلستان کی سلور جوبلی کے موقع پر جماعت احمدیہ کی طرف سے قرآن مجید کا تحفہ دیا گیا.122-21اپریل: مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کا پہلا سالانہ اجتماع.

Page 512

512 مئی : کینڈا میں احمدیہ بیت الذکر کی تعمیر کے لیے زمین کی خرید مشن ہاؤس کا قیام.16 جولائی : سری نگر میں احمدیہ مسجد کا سنگ بنیاد.$1978 4-3-2 جون : لندن میں کسر صلیب کانفرنس حضور نے 4 جون کو اختتامی خطاب فرمایا.برٹش کونسل آف چر چیز کی دعوت اور حضور کا چیلنج.26 جولائی: جماعت احمد یہ سری لنکا کا پہلا سالانہ جلسہ.$1979 26 جنوری: احمد یہ مشن ہاؤس کیلگری (کینیڈا) کا افتتاح ہوا.9 مارچ: قرطبه سپین میں نئے مشن کا قیام عمل میں آیا.4-3-2 جولائی : مجلس خدام الاحمدیہ انڈونیشیا کا پہلا سالانہ اجتماع.3 ستمبر : جاپان میں دوسرامشن یوکوہاما میں قائم ہوا.15 اکتوبر : ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو نوبل پرائز دینے کا اعلان ہوا.10 دسمبر : ڈاکٹر صاحب نے نوبل پرائز وصول کیا.دسمبر : غانا سے انگریزی ترجمہ قرآن 10 ہزار کی تعداد میں شائع ہوا.سپین اور ناروے میں مساجد کی زمین کی خرید.امریکہ میں 10 لاکھ قرآن کے نسخے پھیلانے کا منصوبہ.سری نگر میں احمدیہ مسجد مکمل.$1980 تا22 : 26 جون تا 22 اکتوبر : حضور نے 13 ممالک کا دورہ فرمایا: جرمنی ،سوئٹزرلینڈ، اسٹریا، ہالینڈ، وغیرہ.یکم اگست: مسجد نور او سلو ناروے کا افتتاح.24 اگست: غانا کے صدر مملکت سے ملاقات.30 ستمبر : مانچسٹر اور ہڈرزفیلڈ میں احمد یہ مشنون کا افتتاح.2 اکتوبر : بریڈ فورڈ میں احمد یہ مشن کا افتتاح.

Page 513

513 9اکتوبر : 700 سو سال بعد سپین میں تعمیر ہونے والی مسجد ” بشارت“ کا سنگ بنیاد.$1981 مئی: ناگویا ( جاپان ) میں پہلا یوم دعوت الی اللہ.9 اکتوبر : ٹوکیو میں مشن ہاؤس کا افتتاح.اکتوبر: اکرا (غانا) میں مشن ہاؤس کی تکمیل.8-7 نومبر مجلس انصاراللہ انڈونیشیا کا پہلا سالانہ اجتماع.15 دسمبر : شکاگو کی پبلک لائیبریری میں قرآن مجید کے نسخے رکھوائے گئے.$1982 مئی: سالسبری (زمبابوے) میں مشن ہاؤس کے لیے زمین کی خرید.6 جون : افریقہ کے ملک ٹوگو میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد کی تعمیر.خلافت رابعه خلافت رابعہ کے دور میں ہونے والی ترقی کو ایک غیر احمدی مصنف ”قادیانیت کا سیلاب نے اپنی کتاب کے آخر میں ” 1989 ء تک کی کارکردگی کے عنوان سے درج فرمایا ہے.خلافت خامسه $2005 ( قادیانیت کا سیلاب صفحہ 240 تا 251 سفر کو مختصر کرتے ہوئے صرف 2005ء میں جماعت احمدیہ کی طرف سے انٹرنیٹ پر جاری ہونے والی پریس ریلیز کو پیش کرتا ہوں : اس وقت تک خدا تعالیٰ کے فضل سے 181 ممالک میں جماعت احمد یہ قائم ہو چکی ہے.امسال تین نئے ممالک میں جماعت کا نفوذ ہوا.پچھلے اکیس سالوں میں 90 نئے ممالک میں احمدیت کا نفوذ ہوا.امسال پاکستان کے علاوہ دنیا میں 488 نئی جماعتیں قائم ہوئیں 497 نئے مقامات پر احمدیت کا پودا لگا اس طرح پر 985 علاقوں میں احمدیت کا نفوذ ہو.ا

Page 514

514 امسال خدا کے فضل سے بیرون پاکستان 319 مساجد کا اضافہ ہوا.ان میں سے 184 نئی اور 135 بنی بنائی اماموں سمیت ملیں.1984 سے لیکر جماعت احمدیہ کی 13776 مساجد کا ضافہ ہوا.جن میں سے 11695 مساجد اماموں سمیت جماعت میں داخل ہوئیں.حمد امسال 189 نئے مرا کز دعوت الی اللہ قائم ہوئے.اس طرح سے 1984 سے 1587 نئے مراکز دعوت الی اللہ قائم ہوئے.دنیا کی 60 زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم مکمل ہو کر شائع ہو چکے ہین اور 21 زبانوں میں مکمل ہو کر نظر ثانی کے مراحل سے گزر رہے ہیں.18 زبانوں میں 58 نئی کتب اور فولڈر ز تیار ہوئے اور اس وقت 27 زبانوں میں 151 فولڈر ز تیار ہورہے ہیں.دوران سال 257 نمائشوں کا اہتمام کیا گیا اور تقریباً 500000 لاکھ سے زائد افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچا.دوران سال 2755 بک سٹال اور بک فئیر ز کا انتظام کر کے 19 لاکھ سے زائد افراد تک جماعت کا پیغام پہنچایا گیا.دوران سال رقم پر میں اسلام آباد سے 2 لاکھ 11 ہزار کی تعداد میں کتب اور پمفلٹ شائع ہوئے.اسی طرح افریقہ کے مختلف پر یسوں سے 3 لاکھ 9500 کتب اور رسائل شائع ہوئے.اس وقت افریقہ کے 12 ممالک میں 37 ہسپتال اور کلینک دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں.465 سٹیر اور جونئیر سکینڈری سکول علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں جدید اس سال جماعت کی طرف سے دنیا کے مختلف tv چینلز پر 805 گھنٹے 1086 پروگرام نشر ہوئے جن کے ذریعہ 7 کروڑ سے زائد افراد تک جماعت کا پیغام پہنچا.برکینا فاسو میں جماعت کا پہلا ریڈیو اسٹیشن قائم ہو چکا ہے جس کے ذریعہ روزانہ 16 گھنٹے دین کا پیغام پہنچایا جارہا ہے اور جلد ان کے دارالحکومت میں tv قائم کرنے کی کوشش جاری ہے.55 ممالک میں 650 چھوٹے بڑے ہو میو شفاء خانے کام کر رہے ہیں.ربوہ میں طاہر ہومیو پیتھک کے ذریعہ 1 لاکھ 20 ہزار سے زائد مریضوں کا مفت علاج کیا گیا.جنوری 1993 سے m t a کا آغاز ہوا جواب پانچوں براعظموں میں 24 گھنے تبلیغ اسلام پہنچارہا ہے.

Page 515

515 اپریل 1987 میں خدمت دین کے کئے اپنے بچے وقف کرنے کی تحریک کا آغاز ہوا جسے وقف نو کا نام دیا گیا اس میں اب تک 20 ہزار سے زائد بچے وقف کئے جاچکے ہیں.امسال 29799 بیعتیں ہوئیں.جلسہ سلانہ uk اس سے قبل اسلام آباد کے وسیع علاقے میں منعقد کیا جاتا تھا مگر اب وہ بھی تنگ پڑ گیا ہے اب اگلے سال کے لئے 208 ایکڑ جگہہ خریدی گئی.1993 ء تا 2005 ء کے سال تک 16 کروڑ 62 لاکھ 82 ہزار 7 سو 17 نفوس جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے.امسال uk جلسہ پر 25000 سے زائد ا حباب شامل ہوئے.”میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں“ سوا صدی پر پھیلی یہ جنگ اپنے عواقب اور ثمرات کے ساتھ دنیا کے نقشے پر ایک مضبوط تاریخی حقیقت بن چکی ہے.جماعت احمدیہ کے حق میں نہ صرف خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے موسلا دھار بارش کی طرح نظر آرہے ہیں بلکہ 1.اس کے نفوس میں دنیا کے ہر کونے سے متقی لوگوں کے گروہ در گروہ قافلے جوق در جوق شامل ہورہے ہیں.ید وہ پوری دنیا میں اشاعت قرآن اور اشاعت اسلام کے واحد سفیر بن چکے ہیں.ید کسی باطل مذہب کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی موجودگی میں بانی اسلام پر اعتراض کی جرأت مفقود ہو چکی ہے.ا کسر صلیب کا تاریخی کارنامہ احمدیت کے ہاتھوں انتہائی کامیابی سے طے پا چکا ہے.مالی جانی اور وقت کی قربانی میں احمدی فدائیوں کی قربانی دشمنوں کو بھی متفق ہے.دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے جماعت احمدیہ کے فدائیاں کے گروہ مشرق سے مغرب تک ہر لمحہ زمین کو اسلام کے لیے فتح کر رہے ہیں.جماعت کی حیرت انگیز ترقیوں اور خدمت دین کے مقابلے پر صرف احمدیوں کی مساجد کو تالے لگوانے.احمدیوں کا تعاقب کرنے کے نعرے.احمدیوں کو عدالتوں میں جھوٹے مقدمات میں پھنسوانے کے کارنامے علماء کے ہاتھ میں نظر آتے ہیں جس سے نہ صرف پڑھا لکھا طبقہ نفرت کرتا بلکہ علماء کے اس فعل کو سستی شہرت اور روٹی پانی کا ذریعہ سمجھنے لگ گیا ہے نو جوان طبقہ علماء کے پاس پھٹکنے کے لیے بھی تیار نہیں جس سے علماء پریشان حال نظر آتے ہیں.

Page 516

516 بانی سلسلہ احمدیہ کے اپنے فتح یاب ہونے اور دشمن کے ناکام و نامراد ہونے والی دو ہری پیشگوئی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ پوری ہو چکی ہے.آج علماء کے پاس جماعت احمدیہ کی تبلیغ کو بذریعہ قانون اور دھونس دھاندلی کے روکنے کے کوئی چارہ کا رنہیں رہ گیا.اسی وجہ سے جماعت احمدیہ کو ایک طرف الیکشن میں غیر مسلم قرار دے کر حکومتی دوڑ سے الگ کر دیا گیا ہے اور دوسری طرف ہر حکومت کو اس شرط کے ساتھ اپنی خدمات پیش کی جارہی ہیں کہ وہ احمدیت پر ظلم کا دائرہ ٹوٹنے نہ دے بلکہ اس کو اور سخت کر دے.لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود جماعت احمدیہ کی صداقت نصف النہار بن کر نہ صرف سطح ارض کے افق کی شان بن چکی ہے تو دوسری طرف نام نہادمی فطین ختم نبوت کی رسوائیاں نصف النہار بن کر ان کی ذلت کا ہار بن چکی ہیں.آپ نے ایک طرف سلسلہ احمدیہ کی بے جا مخالفت کرنے والوں کو ان کے انجام کے آئینہ یوں دکھا دیا تھا.خدا رسوا کرے گا تم کو میں اعزاز پاؤں گا سنو اے منکرو اب یہ کرامت آنے والی ہے خدا کے پاک بندے دوسروں پر ہوتے ہیں غالب دلوں میں اس نشاں سے استقامت آنے والی ہے مری خاطر خدا سے یہ علامت آنے والی ہے تیرے مکروں سے اے جاہل مرا نقصان نہیں ہرگز کہ یہ جاں آگ میں پڑھ کر سلامت آنے والی ہے اگر تیرا بھی کچھ دیں ہے بدل دے جو میں کہتا ہوں کہ عزت مجھ کو اور تجھ پر ملامت آنے والی ہے بہت بڑھ بڑھ کے باتیں کی ہیں تو نے اور چھپایا حق مگر یاد رکھو اک دن ندامت آنے والی ہے بڑھ بڑھ کے باتیں کرنے والے ان ٹھیکیدار نما لوگوں کو خدا کی پکڑنے ندامت کی کس وادی میں لاپتا ہے یہ بات ان کے ضمیر علم ایمان اور ظرف کی کتنی شفاف آئینہ دار ہے جماعت احمدیہ کی سچائی کی یہ کتنی بے باک دلیل ہے کہ وہ لاکھوں سے نکل کر کروڑوں میں پھیل گئے.ان کی مالی قربانی کے بجٹ کروڑوں ڈالر کو چھورہے ہیں اور ان کے مخالفین روٹی کے ایک ایک ٹکڑے پر ایک دوسرے کی داڑھیاں نوچ رہے ہیں.“ خدا جب ایمان لیتا ہے حماقت آ ہی جاتی ہے.ایک سچی کہانی ایک سچا عبرت انگیز واقعہ:

Page 517

بے نقاب چہرے 517 جناب اسلم کھو کھر صاحب اپنے کالم میں لکھتے ہیں : بات اتنی پرانی بھی نہیں کہ قصہ پارینہ بن جائے.ابھی اس قابل شرم واقعے کو اتنے دن بھی نہیں ہوئے کہ ایک ماہ کوگر ہیں لگ سکیں.یہ پانچ اگست کا واقعہ ہے.اسلام آباد کے کنونشن سنٹر جسے فتوئی گاہ قرار دیا جا سکتا ہے، میں ملک بھر سے علماء نے شرکت کی تاکہ اس بل کے اندر پائے جانے والے سقم پر صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کو لحد کا فر اور لادین قرار دے کر حکومتی گاڑی کے رستے میں آنے والے سپیڈ بریکر وں کو ختم کیا جا سکے.کنونشن کے اختتام پر وہاں جو کچھ ہوا اسے سانحہ قرار دیا جا سکتا ہے.میں پہلے اس واقعے کی خبر کو رقم کر رہا ہوں جو ایک معاصر اخبار کے نامہ نگار خصوصی نے رپورٹ کی ہے.خصوصی نفاذ شریعت سے متعلق حکومت کو تجاویز دینے کے لئے ملک بھر سے آئے ہوئے علمائے کرام اور مساجد کے خطیب کنونشن سنٹر کے سبزہ زار میں لنچ بکسوں کا پیچھا کرتے ہوئے ایک دوسرے سے الجھ پڑے.بعض مذہبی شخصیات با قاعدہ ہاتھا پائی پر اتر آئیں.متعدد علمائے کرام کے کپڑے پھٹ گئے میزیں ٹوٹ گئیں.شامیانے اکھڑ گئے.اور بعض کمزور صحت رکھنے والے حضرات دھینگا مشتی میں کچلے گئے.بعد ازاں بعض معززین کو درجنوں لنچ بکسوں کے ساتھ جاتے دیکھا گیا جبکہ لنچ بکسوں کے حصول کی جدوجہد میں مصروف مذہبی شخصیات کی چیخ و پکار سے بے نیاز کنونشن سنٹر میں ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار پر سکون انداز میں لنچ کرتے رہے.تفصیلات کے مطابق ہفتہ کے روز وزارت مذہبی امور کی طرف سے نفاذ شریعت کے سلسلے ایک خ مشاورتی کنونشن کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں شرکت کے لیے ملک بھر سے علمائے کرام مساجد کے خطیب اور دیگر مذہبی شخصیات مدعو تھیں.کنونشن با قاعدہ ساڑھے دس بجے شروع ہوا.اور کسی وقفے کے بغیر دو پہر سوا دو بجے تک جاری رہا.وزیر اعظم محمد نواز شریف کنونشن کے آخری مقرر تھے.ان کی تقریر ختم ہوتے ہی دعا کرائی گئی جو نہی اجتماعی دعا ختم ہوئی شرکا ء اور شرفانے تیزی سے اور پوری قوت کے ساتھ سبزہ زار کا رخ کیا اور ایک عدد نان ایک عدد شامی کباب ایک عددسیب اور ایک عدد فراسٹ جوس پر مشتمل تھا بظاہر تعداد میں خاصے لنچ بکس موجود تھے لیکن ایک لنچ ایک مندوب کی طرف سے کئی کئی لنچ بکس حاصل کرنے کی جد و جہد نے قواعد وضوابط کو تہس نہس کر دیا.اور ظہرانے کی انتظامیہ ہینڈ زاپ کر کے ایک طرف ہوگئی.گتے کے بنے ہوئے لنچ بکس پھٹ گئے اور ان میں رکھی خوراک زمیں پر گر کر پاؤں میں آنے لگی چونکہ لنچ بکس میزوں پر رکھے ہوئے تھے اسی لئے مندوبین کے شدید اور اچانک حملے کی وجہ سے درجنوں میزیں ٹوٹ گئیں.اور ایک دوسرے کو دھکے دینے کے عمل نے شامیانے اکھیڑ

Page 518

518 دیئے.حصول خوراک کی اس کوشش میں بعض باریش معززین کے مابین تلخ کلامی بھی ہوئی اور نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی جس کے نتیجے میں تمیضیں اور آستینیں پھٹ گئیں.ٹوپیاں اور دستاریں پاؤں تلے روند دی گئیں یہ مظاہرہ کم وبیش آدھ گھنٹے تک جاری رہا.متعدد معززین کئی کئی لنچ بکس گاڑیوں میں رکھ کر نا معلوم مقام پر لے جاتے ہوئے دیکھے (روز نامہ اوصاف اسلام آباد 5 اکتوبر 1998 ء ) دوستو! تحقیق کی اس منزل پر پہنچ کر میرے لیے فیصلہ کرنا بالکل آسان ہو گیا.میں اپنا فیصلہ اسی جماعت کے حق میں دیتے ہوئے جماعت احمدیہ کو امام مہدی کی سچی اور حقیقی فوج سمجھتے ہوئی اسے خدائی درخت سمجھ کر آنحضور صل الا السلام کے حکم کے مطابق اس میں شمولیت کا اعلان کرتا ہوں اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی بیعت کا اعلان کرتا ہوں آخر پر میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا ایک اقتباس لکھ کر اس مضمون کو ختم کرتا کہ دوستو ! خدائی فوج دار کی آواز کو غور سے سنو! تحقیق کرو اور ایسا نہ ہو کہ کل ہم محترمین خدا کے حضور نافرمانوں میں کھڑے ہوں.میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں آخری اختیاه اے نادانو ! اور اندھو مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جاؤں گا کس بیچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کردیا جو مجھے ہلاک کرے گا.یقینا یا درکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ بیچ ہیں.میں کسی کی پرواہ نہیں کر سکتا میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا.کبھی نہیں چھوڑے گا کیا وہ مجھے ضائع کردے گا کبھی نہیں ضائع کرے گا.دشمن ذلیل ہو نگے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا میں اس کے ساتھ اور وہ میرے ساتھ ہے کوئی چیز ہمارا پیوند تو ڑ نہیں سکتی.اور مجھے اس کی عزت اور جل کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی بھی چیز پیاری نہیں کہ اس کے دین کی عظمت ظاہر ہو.اس کا جلال چمکے اور اس کا بول بالا ہو کسی ابتلاء سے اس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگر چہ ایک ابتلا نہیں کروڑا ابتلا ہو.ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے.من نہ آستم که روز جنگ بینی پشت من آں منم کا ندرمیاں خاک و خوں بینی سرے (انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد 9 صفحه (23)

Page 519

519

Page 520

520 ضميمه فریدون خان جدون صاحب نے اپنے تحقیقی سفر کو 1996 میں روک دیا تھا جب کہ یہ مقالہ اپنی اشاعت کی منزل پر 2016 میں پہنچ رہا ہے.درمیانی 20 سال میں جماعت احمدیہ ترقی کے بہت سے سنگ میل عبور کر چکی ہے اس لئے ناظرین کی معلومات میں مزید اضافہ کرنے کے لئے ادارہ اس کتاب کی اشاعت کے وقت اپنی طرف سے الفضل انٹر نیشنل میں شائع ایک رپورٹ کو ضمیمہ کو طور پر ساتھ شامل کر رہا ہے

Page 521

521 بسم اللہ الرحمن الرحیم جب سونا آگ میں پڑتا ہے تو کندن بن کے لکھتا ہے تحریر شروع ہوئی تھی واقعہ لا ہور یعنی 28 مئی 2010 کوالد یہ مساجد لا ہور میں ہونے والی بر بریت کی سفاک داستان سے.اس لئے اس کو ختم بھی اسی واقعہ کے نتائج کے ساتھ کرنا چاہوں گا.اللہ تعالی جزائے خیر دے مکرم نبیل احمد بٹ صاحب کو جنہوں نے مخالفین احمدیت کے سامنے ایک آئین کو دیا ہے.آپ کی تحریر جو کہ الفضل انٹر نیشنل میں 29 اگست 11 ستمبر س 9 12 میں شائع ہوئی کہ آپ جو یہ کہتے تھے کی 100 - 200 لاشیں گرا کر آپ احمدیت کے آگے خوف کا بند باندھ دیں گے کیا یہ ممکن ہوا ؟ یا پھر یہ کہ احمدیت کا سوتا شہادت کی بھٹی میں جل کر اور بھی کندن بن گیا ؟؟ احمدیت کی تیز رفتار تر قیات بم دھماکوں اور بارود کی بد بو سے کم پڑگئیں یا چہار جہت سے شش جہت میں بدل گئیں ؟ آپنے شام ڈھلنے سے سے قبل ان کئی منزلوں کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں مالی قربانی میں ترقی اموال کی قربانی میں اللہ تعالی نے جماعت کی توفیق کو پہلے سے بھی بڑھادیا اور 31 اکتوبر 2010 کو ختم ہونے والے تحریک جدید کے مالی سال میں جماعت کو گزشتہ سال سے 524,000 پاؤنڈ زائد قربانی کی توفیق دی.اور اس قربانی میں لاہور کا بدستور اول نمبر رہا.الفضل عرب 26 تا 2 دسمبر 2010 ص نمبر 8 2013 میں تحریک بدید کی یہ قربانی 7869100 پاؤنڈ کو آئی گئی.(الفضل اندر بیشتل 29 تا 5 دسمبر 2013 ص نمبر 5) یعنی سال 2010 کی 5468500 پاؤنڈ پر ان تین سالوں میں 2400600 پاؤنڈ کا صرف اضافہ ہوا.جو 44 فیصد بتا ہے...سال 2010 میں وقف جدید کامالی سال 351 سیر کو تم ہوا.اس موقعہ پر حضرت خلیفہ مسیح الامس ید اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے فرمایا الحمد للہ اس سال میں اللہ تعالی کے بڑے فضل ہوئے اور وقف جدید میں جماعت کو 3983000 پاؤنڈ سے اوپر کی قربانی پیش کرنے کی توفیق لی.اور گزشتہ سال کے مقابلے میں یہ قربانی اللہ کے فضل سے 664000 پاؤنڈ سے زائد ہے.پی اضافہ 19 فیصد المفضل عربات 26 جنوری 30 فروری 2011 م 6) ا...سال 2013 میں وقف جدید میں مالی قربانی 5484000 پاؤنڈ تک آئی گئی.یوں بشمول 2010 صرف وقف جدید کی مالی قربانی میں 1965000 پاؤنڈ کا اضافہ ہوا.یعنی 2009 کے مقابلے میں تقریبا 56 سے زائد (الفضل عر نائل 24 300 جنوری 2014 ص 9) نفوس میں ترقی 2010 2011 2012 اور 2013 کے برطانیہ کے جلسوں میں حضرت خلیفہ اصبح الناس ای واللہ تعالی بنصرہ العزیز کے بیان فرمودہ افضال و برکات میں سے چند درجاتیں

Page 522

2010 522 تعداد نو میا تعین.تعداد نئی جماعتیں.نئی تعمیر ہونے والی مساجد..458,760- 742- 115----- 179----- تعداد بنی بنائی ملنے والی مساجد..تعداد نے مشن با دستر ---------87 تعدانئے واقفین نو...2139- تعداد تقسیم پمفلٹس و فولڈرز -------3830,000 2011 تعدادٹومیانعین.......تعد ادنی جماعتیں.نی تعمیر ہونے والی مساعید.تعداد بنی بنائی ملنے والی مساجد.480,000-- 1018- 121- 298- تعداد سے مشن باور.....----121 تعداثے واقفین نو..3176- تعداد تقسیم پمفلیٹس وفولڈ رز -------76,78000 2012 تعداد نومیاکین....تعداد نئی جماعتیں.512,352- 957- نی تعمیر ہونے والی مساجد.119------- 219----- تعداد بنی بنائی ملنے والی مساجد.تعداد نئے مشن با دستر.........117 تعدا نے واقفین نو.- ---------3496 تعداد تقسیم پمفلٹس و فولڈرز -------52,74,000 2013 تعداد تو میا نهمین.تعدادی جماعتیں.نی تعمیر ہونے والی مساجد.تعداد بنی بنائی ملنے والی مساجد تعداد نے مشن با دستر...تعدا نے واقلین تو.......540,782-- 1052- 136- 258- 121 2801.تعداد تقسیم پمفلٹس و فولڈ رنر ------57,10,000 تعین سالوں کا میزان

Page 523

523 1533,134- 3027- 376- 775.359.9473- 186,62,000- 511,045 1009- 125- کی تعمیر ہونے والی مساجد..تعداد بنی بائی تدائے دالکین تو..س وفولدرز اوسطانی سال تعداد و مهاکین..نے والی مساحید..تعداد بنی بنائی ملنے والی مساجد -----258 120- 3157- 62,21,000 تعد اتے واللہین تو....س وفولد رتر آخری کالم میں دی گئی ان تین سالوں کے مجموعی افضال کی سالانہ اوسط کا2010 کے مقابلے میں غیر معمولی زیادہ ہونا کام ہے MTA کی برکات 2010 کے آخری خطبہ میں حضرت خلیفہ مسیح الامس اید الہ تعالی بصرہ العزیز نے فرمایا ہ اللہ تعالی نے اس سال ہمیں یہ بھی ایک فضل عطافرمایا ہے کہ ٹین ایک کے ذریعہ سے ایم ٹی اے پروٹین پروگرام بھی اب جاری تا.پہلے کہیں کا کا مجھے شین احمدیوں کے مخطوط آیا کرتے تھے اور وہ تھے بھی چند ایک..لیکن اب اللہ تعالی کے فضل سے ان کی تعداد سینکڑوں میں ہوگئی ہے.(الفضل عمر میشل 21 جنوری تا 27 نانوری 2010 ص8) جامعات میں ترقی 20 2012 کو امر کامل جاستی موثر این نانا کا آغاز ہوا.213 اکتوبر 2012 کو حضور نے جامعہ برطانیہ کی نئی عمارت کا افتتاح فرمایا.16 مبر 2012 کو یمن کی جامعہ کی نی مار کا بھی انتاج فرمایا افضل پر پیتل کی مار 2013) حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر و العزیز کے دست مبارک سے مساجد کے افتتاح الی ان تین سالوں میں امریکہ کینیڈا آسٹریلیا، نیزی لینڈ، این جرمنی اور برطانہ میںاللہ کے فضل سے 20 مساجد کا انفتاح 10 مئی ہیں، مساجد کا سنگ بنیاد حضرت علینہ ان الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دست مبارک اور دعاؤں سے ہوا.مساجد کی افتتاحی تقریبات میں ارباب اقتدار کی شرکت بالا تقریب سنگ بنیاد مسجد مریم آئر لینڈ میں میر، اراکین پارلیمنٹ اور صدر مملکت آئر لینڈ کا خصوصی پیام (انفضل عمر میں 29 اکتوبر 2010) تان بیت الرحمن ویلنسیا الین کے انتاج میں عمران پارلینٹ میر صاحبان ، اور متعدد سماجی اور سیای الخصیات کی انسولیت

Page 524

524 ( الفضل عربي 3 مئی 2013) بیت الرضمن دیکودر کینیڈا کے افتاح کی تقریب میں ممبران پارلیمنٹ، وزیر اعظم کینیڈا اور مختلف سیاسی اور سماجی شخصیات کی طرف سے ایک جذبات الفضل عرباتل 12 جولائی 2013) کے بیانات 15 شہروں کی طرف سے proclamation- 18 مئی کا دن Ahmadiyya day کے طور پر منایا کہ مل اغرب عمل 26 جولائی (2013 حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے غیرملکی دوروں میں اعلیٰ protocol اس عرصہ میں ایک اور پہلو جولنا یاں سامنے آ یا حضرت فایل صبیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نصر و اعرج کے غیر ملکی دوروں میں اعلی protocol کا مینا کیا جاتا تھا.اس طرح پر ہیں اور میڈ یا کی غیر معمولی تو جہ حضور کی طرف ہوئی.جرمنی کی پی اسمبلی میں حکومتی پارٹی سے اپنی ایہ بیت السوں میں حضور سے ملاقات کے لئے آئے.(الفضل عر مائل 30 جولائی 2010) جرمن پارلیت ممبر کی ریت ارشیہ میں آمد اور حضور سے ملاقات ( الفضل عرباض 15 جولائی 2011 ) وے کی وزیر دفاع کی بیت انصر میں حضور انور سے ملاقات اور مسرور ہاں میں اطاب (الفضل عربال 16 ستمبر 2011) تر قی کے وفاقی مہر بار لیست کی ریت بار شیر آمد اور حضور سے ملاقات (افضل پر میں 30 ستمبر 2011) ناروے کی حکومت کی طرف سے حضور انور کی آمد پر ایک خصوصی انکام کے تحت دو تمام سہولیات اور سکیورٹی جو کسی بھی ملک کے سر پر اور صدر کو دی جاتی ہے کا مہیا کر نا ( المفضل عمر ال 25 نومبر تا یکم دسمبر 2011 ص 2) بالا حضور کا ایک نمبر پارلیمنٹ کی دعوت پر با روبان پارلیمنٹ کا vist - پارلیمنٹ کے پریذیڈاٹ (آثار ) کی خواہش پر حضور کی ان سے ملاقات ہمہبر پارٹیوٹ کے اہتمام کے ترے حضور کے اعزاز میں احتمال اور address حضور کا جوابی خطاب اور میر ان پارٹیٹ سے گفتگو.ایک نمبر کا اظہار کہ اس تحت سالم.ممبران ورٹ نے پار ٹینٹ کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا ہے.( المعضل اتریشت 25 نومبر تا کمی نمبر 2011 م2) تارہ بیت الرشید بیبرگ میں میناروں کی تشہیر پر خصوصی تقریب میں صوبائی اور نیشنل پارلیمنٹ ممبران کی شرکت (النسل پر پیلس 11 جنوری 2013) بڑا جرمنی کے صوبہ سن کے صوبائی اسیلی کے اپو زمانی لیڈر کی دعوت پر حضور کا پارلینٹ کا وزٹ ممبران پارلینٹ کی منظور سے ملاقات الفضل الریاح یکم فروری 2013) بار فرینکفرٹ کے لارڈ مشیر کی حضور انور سے ملاقات (الفضل عربی عمل کم فروری 2013) با بیت الرضمن ویلنسیا چین کی اختنامی تقریب میں ممبران پارلینٹ چئیر اور اہم شخصیات کی شرکت ( المفضل عربی عمل کم فروری 2013) المبارات Wall Street Journal Los Angles Times کا منشور سے الخروج ( المفضل عر نائل 7 جون 147 جولائی 2013) ا کینیڈا کے پی CBC TV کواتروح ( الفضل (عراقل 23ست2013) اد کینیڈ کی فیڈرل پارلیٹ کے ممبر کی حضور انور سے ملاقات ( افضل عر بیل 13 ستمبر 2013) دستگا و ر میں انڈونیشیا کے سب سے بڑے روز نامہ اخبار Komas اور بات روز و نگارین Tempo کے صحافیوں کا حضور سے انترویج (المعضل انظر ، 18 اکتور 2013) جماعت احمد ہو سکے بر طانیہ میں قیام پر ایک سو سال مکمل ہونے کے موقع پرگنہ ہاں لندن میں مذاہب عالم کا نفرنس کا انعقاد مختلف مذاہب کے نماندند وں سیاسی لیڈروں، حکومتی اور سفارتی اہکاروں یعلمی اور ادبی حلقوں کی شرکت ما برطانوی پارلینٹ میں جماعت احمد یا انگلستان کی صد سالہ جوفی کی مناسبت سے تقریب کا انعتاد 8 و 30 ممبران پارلیمنٹ -12 ممبران پاناس آف انا ما ازاد مختلف المبارات اور ٹی وی کے اما مدد گان کی شرکت، نائب وزیر اعظم اور وزیر اللہ کا خطاب (افضل بریل 30اگست تان تبر

Page 524