Language: UR
جوئے شیریں احمدی بچوں کے لئے منتخب نظمیں
澜 SyRe رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا اے میرے رب میرے علم کو بڑھا.رَبِّ ارني حقائق الأشياء اے میرے رب مجھے اشیاء کی حقیقت دیکھنے والی نظر دے.
جوئے شیریں انتخاب از کلام حضرت مسیح موجود مرزا غلام احمد قادیانی ( آپ پر سلامتی ہو) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی المصلح موعود (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفة المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) - حضرت میر محمد اسمعیل صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو)
شماره جو نے شیریں یخ خورشید احمد
پیش لفظ بفضلہ تعالی الجنہ اماءالله کو جشن تشکر کے سلسلے کی 49 دیں کتاب جوئے شیریں ، پیش کرنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے.جوئے شیریں ، بچوں کے لئے نظموں پرمشتمل کتاب ہے.نظموں کا انتخاب محترم شیخ خورشید احمد صاحب (سابق ایڈیٹر الفضل نے کیا تھا.آپ کو حضرت سیدہ مریم صدیقہ حرم حضرت خلیفة المسیح الثانی ( صد البته امام الله مرکز بی) مرحومه مغفورہ کی رہنمائی حاصل تھی.کتاب کا تعارف بھی آپ ہی کا تحریر کردہ ہے." جوئے شیریں ، اب نایاب ہو چکی تھی.اللہ تعالیٰ اپنے بے شمار فضل نازل فرمائے محترم شیخ خورشید احمد صاب پر جنہوں نے اس جوئے شیرین کو جاری رکھنے کا کام لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کے حوالے کر دیا.اس کے علاوہ بچوں کے لئے اپنی دوسری کتابین را و ایمان، اور مختصر تاریخ احمدیت بھی لجنہ کراچی کو نایت کر دی ہیں.فجزاہ اللہ تعالی احسن الجزاء - ہماری خوش قسمتی کہ ہمیں حضرت خلیفة المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر والعزيز کا کر معارف کلام بھی میسر ہے چنانچہ اس کتاب میں آپ کی نظموں کا اضافہ کر دیا گیا ہے.یہ نظمیں ایم ٹی اے کی وجہ سے زبان زد عام ہو چکی ہیں.بچے انہیں ایک
ہی پیاری کتاب میں دیکھ کر بہت خوش ہوں گے.اور مائیں بھی یقیناً یہی پسند کریں گی کہ اُن کے بچے پاکیزہ نظمیں پڑھیں.تاکہ اُن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت پر پکڑے اور پھر اُن کا ہر فعل دین حق کی سر بلندی کے لئے وقف ہو جائے.اللہ تعالیٰ ہماری اس کوشش کو قبول فرمائے اپنی رضا کی جنت عطا فرمائے عزیزه امتہ الباری ناصر صاحبہ اور اُن کی معاونات کو اپنی دعاؤں میں ضرور یادرکھیں جن کی محنت اور جذبہ خدمت دین کی بدولت مفید دینی علم ہمارے گھروں تک پہنچتا ہے.جزا من اللہ تعالیٰ احسن الجزاءور
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تعارف در قم فرموده حضرت سید مریم صدیق صاحبه مدخلها العالي من الجراما راست مرکزی) احمدی بچوں میں مذہب سے محبت اور مذہب کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کے پڑھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ کتب شائع کی جائیں جہاں نشری ادب شائع کرنے کی ضرورت ہے وہاں تعظموں پرمشتمل کتا بچوں کی بھی ضرورت ہے تاکہ بیچھے ایسی نظمیں پڑھیں اور یاد کریں مین سے ان کے دلوں میں خدا تعالے کی عظمت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وتم سے محبت پیدا ہو، بچے جو بات سنتے ہیں بہت جلد باد کر لیتے ہیں.ریڈ یوٹی وی وغیرہ پرسن سن کر جو نظمیں انہیں یاد ہوتی ہیں وہ ان میں اعلیٰ اخلاق و اقدار پیدا کرنے کی بجائے بسا اوقات مضر اثرات پیدا کر دیتی ہیں.بہت ضروری ہے کہ اچھی نظمیں نہیں
یاد کرائی جائیں.مکرمی شیخ خورشید احمد صاحب نے حضرت سیے موعود ( آپ پر سلامتی موم حضرت مصلح موعود حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت ڈاکٹر میر محمد تشکیل صاحب اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے کلام میں سے بیچھوں کے مناسب حال انتخاب کیا ہے.اس سے قبل وہ بچوں کے لئے راہ ایمان اور مختصر تاریخ احدیت میں لکھ چکے ہیں جو بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے بہت مفید ثابت ہوئیں.احباب کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو یہ نظمیں یاد کرائیں ان کا مطلب بجھائیں تا ان کے دلوں میں اسلام سے محبت پیدا ہو.اسلام کے لئے غیرت پیدا ہو اسلام کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا ہو.اور قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق زندگیاں گزارنے کا شوق پیدا ہو.
نمبر شمار منتخب نظموں کی فہرست عنوان مصنوغیر کلام حضرت مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہو) صفحه ۱۲ تا صفحه ۳۸ اللہ تعالیٰ کی صفات قرآن مجید کے فضائل اسلام کی صداقت ۴.حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہ ہمارے عقائد نصرت الہی و وفات مسیح علیہ السلام ے تقوے -A اولاد کے حق میں دعائیں و صداقت حضرت مسیح موعود شہادت دعائے فاتحہ مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل کشا کے سامنے ۱۲ دردمندانہ دعائیں ۱۳ ۱۵ ۲۱ 1 = \ 2 2 [ { ۲۹
ا ہمارا خدا ۲.قرآن مجھ کو دیدے.محمد پر ہماری جاں فدا ہے - یکی دُنیا میں سب کا بھلا چاہتا ہوں بلند پروازی کی ترغیب.آمین کی تقریب پر یاد جس دل میں ہو اس کی وہ پریشان نہ ہو بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے عہد شکنی نہ کمر و اہل وفا ہو جاؤ ظہور مہدی آخر زماں ہے راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو ۱۳ - نونہالان جماعت سے خطاب خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی ۱۴.جائیں گے ہم جہاں بھی کہ جانا پڑے ہیں ا قادیان کی یاد میں 19.تعریف کے قابل ہیں یا رب تیرے دیوانے یہ درد رہے گائن کے دوا تم صبر کر ووقت آنے دو ۴۲ ۴۴ ۴۵ है है है है : اه ۵۲ ۵۴ ۵۵ ۵۸ ۵۹ 41 ۲۲ کلام حضرت مرزا طاہر احمد خلیفة اسم الرابع ابنه الله على بصره العزيز مصلا تا ۹ ایک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی اسے شاہ مکی و مدنی سید انوری 44 4<
-A +11 حضرت سید ولید آدم صلی اللہ علیہ وسلم ذکر سے بھر گئی ربوہ کی زمیں آج کی رات ہیں یادہ مست باده است ام احمدیت دو گھڑی صبر سے کام ہو ساتھیو ہم آن ملیں گے متوالو بیس دیر ہے کل یا پرسوں کی وقت کم ہے.بہت ہیں کام.چلو اپنے دیس میں اپنی لیستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا ہیں لوگ وہ بھی چاہتے ہیں دولتِ جہاں ملے نذر الاسلام کی ایک نظم کا منظوم ترجمہ کلام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہوں.پرواز کے پر پیدا کر کلام حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اللہ تعالی آپ سے راضی ہوا راه تا 1 ا پاک محمد مصطفے نبیوں کا سردار ۲.اللہ تعالیٰ کے حضور جاتے ہو مری جان خدا حافظ و ناصر التجائے قادیان.درویشان قادیان کے نام - بیٹی کی تقریب رخصتانہ پر حضرت مصلح موعود کی شان کی مقام محمود ۸۵ AC AA ۹۲
کلام حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب اللہ تعالی آپکے راضی ہو) ماه تا 1 سلام حضور خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم محمد مصطفے سے جیتے ہے قرآن سب سے اچھا قرآن سب سے پیارا احمدی بچی کی دعا میرا نام پوچھو تو میں احمدی ہوں - نماز دُعا میں دُنیا پر دین کو مقدم کروں گا مجھ کو کیا بیعت سے حاصل ہو گیا ۱۰- امين 90 94 9< A 44 ١٠٢ ١٠٣
انتخاب کلام حضرت مسیح موعود آپ پر سلامتی ہو) از در همین اردو)
اللہ تعالیٰ کی صفات وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو جو کچھ کنبوں میں پاتے ہو اس میں وہ کیا نہیں سورج پہ خود کر کے نہ پائی وہ روشنی جب چاند کو بھی دیکھا تو اُس پار سا نہیں واحد ہے لاشریک ہے اور لازوال ہے سب موت کا شکار میں اُس کو فنا نہیں سب خیر ہے اس میں کہ اُس سے لگاؤ دل ڈھونڈو اسی کو بارد مقتوں میں وفا نہیں اس جائے کہ عذاب سے کیوں دل لگاتے ہو دوزخ ہے یہ مقام یہ پستان مرا نہیں قرآن مجید کے فضائل جمال وحسن قرآن نور جان پر سلماں ہے ترمے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآن ہے
نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کہ دیکھا بھلا کیونکر نہ ہوسکیت کلام پاک جمال ہے بہار جاوداں پیدا ہے اس کی ہر عبارت میں ن وہ خوبی چین میں ہے نہ اس سا کھائی کہستاں ہے خدا کے قول سے قول بشر کیونکر برابر ہو وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہے بنا سکتا نہیں اک پاؤں کپڑے کا بشر ہرگز تو پھر کیونکر بنانا اور حق کا اس پہ آساں ہے ہمیں کچھ کیں نہیں بھا ئیو نصیحت ہے غریبانہ کوئی جو پاک دل ہوئے مل جہاں اُس پہ قرباں ہے نور فرقاں ہے جو سب ٹوروں سے اجیلی نکال پاک وہ میں سے یہ انوار کا دریا نکلا حق کی توحید کا مرتھا ہی چہ تھا پودا ناگہاں غیب سے یہ چشمہ اصفی انکلا
JP یا الہی ! ترا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں نہیں نکلا سب جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں مئے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا کسی سے اس ٹور کی ممکن ہو.جہاں میں تشبیہ وہ تو ہر بات میں سر وصف میں بیتا نکلا قرآن کتاب تناں سکھلائے راہِ عرفان جو اس کے پڑھنے والے اُن پر خدا کے فیضاں اُن پر خدا کی رحمت جو اس پر لائے ایماں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَن تَرَانِي ہے چشمہ ہدایت جس کو ہو یہ عنایت یہ ہیں خدا کی باتیں ان سے ملے ولایت یہ نور دل کو بجھے دل میں کرے سرایت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي
۱۵ قرآن کو یا د رکھنا پاک اعتقاد رکھنا فکر معاد رکھنا پاس اپنے زاد رکھتا اکسیر ہے پیارے صدق وسداد رکھنا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يراني اسلام کی صداقت اسلام سے نہ بھا گو راہ ہوئی یہی ہے اے سونے والو جاگو شمس الضحی یہی ہے مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہم میں بنایا اب آسمان کے نیچے دین خدا یہی ہے دنیا کی سب دکھا ئیں ہیں ہم نے دیکھیں بائیں آخر ہوا یہ ثابت دار الشفاء یہی ہے سب خشک ہو گئے ہیں جتنے تھے باغ پہلے ہر طرف میں نے دیکھا بستاں سہرا یہی ہے دُنیا میں اس کا ثانی کوئی نہیں ہے شربت پی لو تم اس کو یار و آب بقا یہی ہے
14 اسلام کی سچائی ثابت ہے جیسے سورج پر دیکھتے نہیں ہیں دشمن کا یہی ہے اسلام کے محاسن کیونکہ بیاں کروں میں سب خشک باغ دیکھے پھول پھلا ہی ہے نسر طرف فکر کو دوڑا کے تھکا یا ہم نے کوئی دیں دین محند سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلاوے یہ عمر بارغ مستند سے ہی کھایا ہم نے ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا نور ہے نور الھو دیکھو سُنا یا ہم نے اور دینیوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے آؤ لوگو کہ نہیں نُورِ خدا پاؤ گے لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے
شان حضرت محمد مصطفے صل اللہ علیہ وسلم وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمدہ دلبر مرا یہی ہے سب پاک ہیں ہمیر اک دوسرے سے بہتر یک از خدائے برتر خیر الور سے یہی ہے وہ آج شاہ دیں ہے وہ تاج مرسلین ہے وہ طیب وامیں ہے اس کی شنا یہی ہے وہ دلبر یگانہ علموں کا ہے خزانہ باقی ہے سب فسانہ ہے بے خطا ہی ہے اُس ٹور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں میں فیصلہ یہی ہے سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
مصطفے پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت اُس سے یہ نور لیا بار خدا یا ہم نے ربط ہے جان محمد سے میری جاں کو مرام دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے اس سے بہتر نظر آیا نہ کوئی عالم میں لاجرم غیروں سے دل اپنا چھڑا یا ہم نے تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے شان حق تیرے شمائل میں نظر آتی ہے تیرے پانے سے ہی اس ذات کو پایا ہم نے چھو کے دامن ترا ہر کام سے ملتی ہے ہوتے لا حرم در پہ ترے سر کو جھکایا ہم نے دلبرا مجھ کو قسم ہے تیری یکتائی کی آپ کو تیری محبت میں بھلایا ہم نے
14 ہم ہوئے غیر اہم تجہ سے ہی اے خیر ارسال تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام مرچ میں تیری وہ گاتے ہیں ہو گا یا ہم نے قوم کے ظلم سے تنگ آ کے مرے پیارے آج شور محشر ترے کوچہ میں چھایا ہم نے ہمارے عقائد ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں دل سے ہیں خدام ختم المرسلین شرک اور بدعت سے ہم بیزار ہیں خاک راه احمد مختار ہیں سارے حکموں پر تمہیں ایمان ہے جان و دل اس راہ پر قربان ہے دے چکے دل اب تنِ خاکی رہا ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی خدا
نصرت الہی خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے جب آتی ہے تو اک عالم کو اک عالم دکھاتی ہے وہ منبتی ہے ہوا اور پرنس راہ کو اڑاتی ہے وہ ہو جاتی ہے آگ اور ہر مخالف کو جلاتی ہے کبھی وہ خاک بن کر دشمنوں کے سر پہ پڑتی ہے کبھی ہو کہ وہ پانی ان پیراک طوفان لاتی ہے غرض رکھتے نہیں ہرگزہ خدا کے کام بندوں سے بھلا خالق کے آگے خلق کی کچھ نہیں جاتی ہے وفات حضرت بی خاصی علیه السلام این مریم مر گیا حق کی قسم داخل جنت ہوا وہ محترم ماتا ہے اس کو فرقان مصریر اس کے مرجانے کی دیتا ہے غیر وہ نہیں باہر رہا ہوا سے ہو گیا ثابت یہ نہیں آیا ہے
۲۲ کوئی مردوں سے کبھی آیا نہیں یہ تو فرقاں نے بھی بتلایا نہیں اسے عزیز و سوچ کر دیکھو خدا موت سے بچتا کوئی دیکھا پھیلا کیوں بنایا ابن مریم کو خدا سنت اللہ سے وہ کیوں باہر رہا تقویٰ عجب گوہر ہے جس کا نام تقوی مبارک وہ ہے جس کا کام تقوی سنو ہے حاصل اسلام تقومی خدا کا عشق ہے اور حام تقویٰ مسلمانو! بناؤ تام تقولے کہاں ایہاں اگر ہے خام تقوی یہ دولت تو نے مجھ کو اسے خدادی فَسُمَانَ الَّذِي اخْتَرَى الْكَمَادِي مراک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے اگر یہ بڑھ رہی سب کچھ رہا ہے" الباقی مصر) "
۲۲ اولاد کے حق میں فروسندانہ دعائیںاور التجائیں حمد وثنا اُسی کو جو ذاتِ جاودانی ہمسر نہیں ہے اس کا کوئی نہ کوئی ثانی باقی وہی ہمیشہ بغیر اس کے سب ہیں فانی غیروں سے دل لگا نا جھوٹی ہے سب کہانی سب غیر ہیں وہی ہے اک دل کا بیارِ جانی دل میں مرے نہیں ہے سُبحان من تراني تو نے یہ دن دکھا یا محمود پڑھ کے آیا دل دیکھ کر یہ احسان تیری ثنا میں لگایا صد شکر ہے خدا یا صد شکر ہے خدایا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ تَرَانِي ہے آج ختم قرآن نکلے میں دل کے ارماں تو نے یہ دن دکھایا میں تیرے منہ کے قرباں
M اے میرے رب محسن کیونکر پیشکر احساس یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي لختِ جگر ہے میرا محمود بندہ تیرا دے اس کو عمر و دولت کر دور پر اندھیرا دن ہوں گرا دوں والے پر نور ہو سویرا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ تَرَانِي اس کے ہیں دوبرا اور ان کو بھی رکھیو خوشتر تیرا بشیر احمد تیرا شریف اصفه اے میرے دل کے پیارے اے مہرباں ہمارے کر ان کے نام روشن جیسے کہ میں ستارے یہ فضل کر کہ ہو دیں سیکو گہر یہ سارے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي یہ تین جو پسر ہیں تجھ سے ہی یہ نمبر ہیں یہ میرے بارو بر میں تیرے غلام در ہیں تو پیچھے وعدوں والا متشکر کہاں کدھر ہیں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ تَرَاني
۲۴ کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دینی دولت کہ ان کی خود حفاظت ان پہ ہو تیری چیست دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عرات یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ تَرا ني شیطان سے دور رکھیو اپنے حضور رکھیں جان پرتو نور رکھیو دل کر سور رکھیو ان پر میں تیرے قرباں رحمت ضرور رکھیو یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي میری دعائیں ساری کریو قبول باری میں جاؤں تیرے داری کر تو مدد ہماری ہم تیرے در پہ آئے لے کر امید بھاری یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ تَرَانِي یہ مینوں تیرے چاکر ہو دیں جہاں کے ر ہیر یہ ہادی جہاں ہوں یہ ہوویں نور یکسر یہ مرجع شہاں ہوں یہ ہوویں مہر انور یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَن تراني
ایل وقار ہوویں ، فخر دیا نہ ہوویں حق پر نثار ہو دیں مولیٰ کے یار ہوویں با برگ و بار ہو دیں اک سے ہزار ہوویں یہ روز کر مبارک سُلْمَانَ مَنْ يراني عیاں کر ان کی پیشانی پر اقبال بچانا ان کو پرنم سے بہر حال نہ آئے ان کے گھر تک رعب دبال نہ ہوں وہ دُکھ میں اور رنجوں میں پلال یہی امید ہے دل نے بتادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْأَمَادِي نجات ان کو عطا کر گندگی سے سمات ان کو عطا کر بندگی سے رہیں خوشحال اور فرخندگی سے بچانا اے خدا به زندگی سے
وہ ہوں میری طرح دیں کے منادی نَسلِمَاتِ الذِي أَخْرَى الْأَمَارِي خُدایا تیرے فضلوں کو کیوں یاد بشارت تو نے دی اور پھر یہ اولا و کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد خبر تو نے یہ مجھ کو بارہا دی كَيْمَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَحَادِي مری اولاد سب تیری عطا ہے ہر اک تیری بشارت سے ہوا ہے یہ تیرا فضل ہے اسے میرے ہادی فَسُحَانَ الَّذِي اخْتَرَى الْأَعادِي بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہوگا ایک دن محبوب میرا
٢٤ کروں گا دُور اُس مہ سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا بشارت کیا ہے اک دل کی غذادی فَسُبْحَانَ الَّذِي احْزَى الأعادي تجھے حمدوثنا زیبا ہے پیارے کہ تو نے کام سب میرے سنوارے تیرے احساں نہیں میرے سر پہ بھارے چمکتے ہیں وہ سب جیسے ستارے شرمیوں پر پڑے ان کے شرارے نہ ان سے تک سکے مقصد ہمارے انہیں ماتم ہمارے گھر میں شادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَمَادِي تجھے سب زور قدرت ہے خدایا تجھے پایا ہراک مطلب کو پایا سہراک عاشق نے ہے اک بیت بنایا ہمارے دل میں یہ دلبر سمایا
وہی آرامیم جاں اور دل کو بھایا و ہی جس کو کہیں رب البر یا ہوا ظاہر وہ مجھ پر بالا میاد منی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَمَادِي مجھے اس یار سے پیوند جای ہے وہی حینت وہی دار الاماں ہے بیاں اس کا کروں طاقت کہاں ہے محبت کا تو اک دریا رواں ہے یہ کیا احسان ہیں تیرے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْإِمَادِي کہاں تک حرص و شوق مال فانی اُٹھو ڈھونڈو متنارع آسمانی کرد کچھ فکر ملک جاودانی یہ ملک و مال ہے جھوٹی کہانی خدا نے اپنی راہ مجھ کو بتادی فَسُبْحَانَ الزِي اخْرَى الْأَمَادِي
دلائل صداقت حضرت یح موعود آپ پر لاتی ہوں اک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیر غار کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا معتقد لیکن اب دیکھو کہ چہ چاکس قدر ہے ہر کنار اُس زمانہ میں خدا نے دی تھی شہرت کی خیر جو کہ اب پوری ہوئی بعد از مرو به روزگار اب ذرا سوچو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے اس قدر امر یہاں پر کسی بشر کو اقتدار دیکھو خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا گمنام پا کے شہرہ عالم بنا دیا جو کچھ مری مراد محنتی سب کچھ دکھا دیا میں اک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا
I راک قطرہ اس کے فضل نے دریا بتا دیا میں خاک تھا اُسی نے جھریا بنا دیا میں تھا غریب و بیکس و گنام دبے ہنر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر لوگوں کی اس طرف کو ذرا بھی منتظر نہ تھی میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی آپ دیکھتے ہو کیسا جویا جہاں ہوا اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا لغت ہے مفتری پر خدا کی کتاب میں عزت نہیں ہے ذرہ بھی اسکی جناب میں توریت میں بھی نیت کلام مجید میں لکھا گیا ہے رنگ و عید شہید میں کوئی اگر خدا پر کرے کچھ بھی افترا ہو گا وہ قتل ہے یہی اس مجرم کی سزا
۳۱ پھر یہ عجیب غفلت رب قدیر ہے دیکھے ہے ایک کو کہ وہ ایسا شریر ہے پچیس سال سے ہے وہ مشغول انتہا سردان ہر ایک رات یہی کام ہے رہا پھر بھی وہ ایسے شوخ کو دیتا نہیں سزا گویا نہیں ہے یاد جو پہلے سے کہہ چکا کیا وہ خدا نہیں ہے جو فرقاں کا ہے خدا پھر کیوں وہ مفتری سے کرے اس قدر وقا کوئی بھی مفتری ہمیں دنیا میں آپ دکھا جس پر یہ فضل ہو یہ عنایات یہ عطا جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اسے روبہ زار و نزار کیوں مجب کرتے ہو گر میں آگیا ہو کر سیح خورد مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ یاد بسیار
آسماں پر دعوتِ حق کے لئے اک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مردوں کی تا گاہ زندہ وار یہ اگر انساں کا ہوتا کاروبار ائے ناقصاں ایسے کاذب کے لئے کافی تھا وہ پروردگار کچھ بھی حاجت تمہاری نے تمہارے کمر کی خود مجھے نابود کرتا وہ جہاں کا شہریار پاک و برتر ہے وہ جھوٹوں کا نہیں ہوتا نصیر ورز اُٹھ جائے اماں پھر نیچے ہو دیں شرمسار اس قدر نصرت کہاں ہوتی ہے اک کذاب کی کیا تمہیں کچھ ڈر نہیں کرتے ہو کیوں بڑھ بڑھ کے گار سر طرف آواز دیتا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار
۳۳ آسماں میرے لئے تو نے بنا یا اک گواہ چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک وتار تو نے طاعوں کو بھی بھیجا میری نصرت کے لئے تا وہ پورے ہوں نشاں جو ہیں سچائی کا مدار وہ لغو دیں ہے جس میں فقط قصہ جات ہیں ان سے رہیں الگ جو سعید الصفات میں صد حیف اس زمانہ میں قصوں پہ ہے مدار قصوں پر سارا دیں کی سچائی کا انحصار پر تفتقد معجزات کا کچھ بھی نشاں نہیں پس یہ خُدائے قصہ خدا نے جہاں نہیں دنیا کو ایسے قصوں نے یکسر تباہ کیا مشرک بنا کے گھر دیا، روسیہ کیا جس کو تلاش ہے کہ ملے اس کا کردگار اس کے لئے حرام جو قصوں پر ہونشار
اس کا تو فرض ہے کہ وہ ڈھونڈے خُدا کا نور تا ہو دے شک وشبہ بھی اس کے دل کا دور تا اس کے دل پہ نور یقیں کا نزول ہو تا وہ جناب عز و جبل میں قبول ہو وہ رہ جو ذات عز وہیل کو دکھاتی ہے وہ رہ جو دل کو پاک و مظہر بناتی ہے وہ کہ جو یار گمشدہ کو ڈھونڈ لاتی ہے وہ رہ جو جام پاک یقین کا پلاتی ہے وہ تازہ قدرتیں جو خدا پر دلیل ہیں وہ زندہ طاقتیں جو یقیں کی سبیل ہیں اس بے نشاں کی چہرہ نمائی نشاں سے ہے پیچ ہے کہ سب نبوت سچائی نشاں سے ہے وہ خدا آپ بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم آپ بھی اس سے بولتا ہے میں کچھ کہتا ہے پیار
۳۵ گوہر وحی خدا کیوں توڑتا ہے ہوش کر اک یہی دیں کے لئے ہے جائے عرب وافتخار شہادت دُعائے فاتحہ اے دوستو جو بھتے ہو اگر الکتاب کو اب دیکھو میری آنکھوں سے اس آفتاب کو سوچو دُعائے فاتحہ کو پڑھ کے بار بار کرتی ہے یہ تمام حقیقت کو آشکار دیکھو خدا نے تم کو بتائی دُعا یہی اس کے حبیب نے بھی پیٹائی دُعا ہی پڑھتے ہو پنج وقت اسی کو نماز میں جانتے ہو اس کی راہ سے ذریے نیاز میں اُس کی قسم کہ جس نے یہ سوتے آندری ہے اس پاک دل پہ جس کی وہ صورت پیاری ہے
I یہ میسر رب سے میر لئے اک گواہ ہے یہ میرے صدق دعوئی یہ مہر الا ہے می مسیح ہونے پر یہ اک دلیل ہے میکر لئے یہ شاہد رب جلیل ہے پھر میرے بعد اوروں کی ہے انتظار کیا تو بہ کرو کہ جینے کا ہے اعتبار کیا مشکلیں کیا چیز ہی مشکلکشا کے سامنے اک نہ اک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے چھوڑنی ہوگی تجھے دنیائے فانی ایک دن ہر کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے مستقل رہنا ہے لازم کے بشر تحیہ کو سدا رنج و غم یاس والم فکر دبا کے سامنے
۳۷ بارگاہ ایزدی سے تو نہ یوں مایوس ہو مشکلیں کیا چیز ہیں مشکلکشا کے سامنے حاجتیں پوری کرینگے کیا تری عاجز بشر کہ یہاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے چاہیے تجھ کو مٹانا قلب سے نقش روئی سر ٹھیکا میں مالک ارض و سما کے سامنے چاہیے نفرت بدی سے اور نیکی سے پیار ایک دن جاتا ہے تجھ کو بھی خدا کے سامنے راستی کے سامنے کی جھوٹ پھلتا ہے بھلا قدر کیا پتھر کی تعمیل بے بہا کے سامنے
f اللہ تعالیٰ کے حضور در مسندانہ دعائیں اسے قدا سے چارہ سازی درود ہم کو خود بچا اے مرے زخموں کے مرہم دیکھ میرا دل فگار می و زخموں پر لگا مرہم کہ میں رنجور ہوں میری فریادوں کوشس میں ہوگی زار و نزار اے مرے پیارے فدا ہو تجھ پہ ہر ذرہ مرا پھیر دے میری طرف اسے ساریاں جنگ کی مہار ان دلوں کو خود مدال دے اے مرے قادر خدا تو تورب العالمیں ہے اور جہاں کا شہریار تیرے آگے محو یا اثبات نا ممکن نہیں جوڑنا یا توڑ نا سب کام تیرے اختیار اسے خدا کمزور ہیں ہم اپنے ماعتوں سے اٹھا تا تواں ہم ہیں ہمارا خود اٹھا لے سارا بار
٣٩ I مجھ کو دے اک فوق عادت اے خدا بوش و تپش جس سے ہوجاؤں میں غم میں ہیں کے اک دیوانہ وار وہ لگا دے آگ میرے دل میں ملت کے لئے شکل پہنچیں جس کے ہر دم آسماں تک بے شمار اے خدا تیرے لئے ہر ذرہ ہو میرا خدا مجید کو دکھلاوے بہار دیں کہ جموں میں اشکبار اک کرم کر پھیر دے لوگوں کو فرقاں کی طرف نیز دے توفیق تا وہ کچھ کریں سوچ اور بیچار پیشہ ہے رونا ہمارا پیش رب ذوالمنن یہ شجر آخر کبھی اس نہر سے لائیں گے یار اے خدا اے کارساز و عیب پوش و کردگار اے مرے پیارے مرے محسن میرے پروردگار دوستی کا دکم جو بھرتے تھے وہ سب مٹھی بھوئے پر نہ چھوڑا ساتھ تو نے اے مرے حاجت برار
۴۰ لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا ہوگاہ میں بار یه سراسر فضل و احسان ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گذار مکت سمجھ کو نہیں مطلب جنگوں سے ہے کام کام میرا ہے دلوں کو فتح کرتا نے دیار مجھ کو کیا ملکوں سے میر املک کے سر ہے جدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوان یار اے مرے پیاروشکیب وصبر کی عادت کرد وہ اگر پھیلا میں بدبو تم بنو شک تتار گالیاں سن کر دعا دوپا کے دیکھ آرام دو کیر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکار *
انتخا كلام رت مصلح موو لایف اسم الثانی اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) ح واز کلام محمود
۴۲ هما را خُدا مری رات دن میں یہی اک دُعا ہے کہ اس کالم کون کا اک خدا ہے اُسی نے ہے پیدا کیا اس جہاں کو ستاروں کو سورج کو اور آسماں کو وہ ہے ایک اُس کا نہیں کوئی ہمسر وہ مالک ہے سب کا وہ حاکم ہے سب پر نہ ہے باپ اس کا نہ ہے کوئی بیٹا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ہراک چیز پر اس کو قدر ہے، حاصل مراک کام کی اس کو طاقت ہے، حاصل پہاڑوں کو اس نے بھی کونچا کیا ہے سمندر کو اس نے ہی پانی دیا ہے یہ دریا جو چاروں طرف بہہ رہے ہیں اسی نے ہی قدر سے پیدا کئے ہیں
۴۳ سمندر کی مچھلی.ہوا کے پرندے گھر یلو چرندے بنوں کے درندے سبھی کو وہی رزق پہنچا رہا ہے مراک اپنے مطلب کی شے کھا رہا ہے وہ زندہ ہے اور زندگی بخشتا ہے وہ قائم ہے ہر ایک کا آسرا ہے دلوں کی چھپی بات میں جانتا ہے بروں اور نیکیوں کو پہچانتا ہے وہ دیتا ہے بندوں کو اپنے ہدایت دکھاتا ہے ہاتھوں پہ اُن کے کرامت ہے فریاد مظلوم کی سننے والا صداقت کا کرتا ہے وہ بول بالا گتا ہوں کو بخشش سے بٹھانپ لیتا غریبوں کو رحمت سے ہے تھام لیتا یہی رات دن اب تو میری صدا ہے یہ میرا خدا ہے یہ میرا خدا ہے
۴۴ قرآن مجھ کو دیے ایمان مجھ کو دیدے عرفان مجھ کو دیدے قربان جاؤں تیرے قرآن مجمہ کو دیدے دل پاک کر دے میرا دنیا کی چاہتوں سے شوحیت سے حقہ سبحان مجھے کو دیدے کر دے جو حق و باطل میں امتیاز کامل اے میرے پیارے ایسا فرقان مجھ کو دیدے ہم کو ترکی رفاقت حاصل رہے ہمیشہ ایسا نہ ہو کہ دھو کہ شیطان مجھ کو دیدے دنبال کی بڑائی کو خاک میں ملادوں قوت مجھے عطا کر سلطان مجھکو دیدے ہو جائیں جس سے ڈھیل سب فلسفہ کی چولیں میں محکیم ایسا بہ بیان مجھ کو دیدے
۴۵ محمد پر ہماری جاں فدا ہے مستمد پر ہماری جاں خدا ہے کہ وہ کوئے صنم کا راہ نما ہے مرا دل اس نے روشن کر دیا ہے اندھیرے گھر کا میرے وہ دیا ہے مجھے اس بات پر ہے فخر محمود مرا معشوق محبوبِ خدا ہے محمد جونم را پیشوا ہے محمد جو کہ محبوب خدا ہے ہو اس کے نام پر قربان سب کچھ کہ وہ شاہنشہ ہر دوسرا ہے خدا کو اس سے مل کر ہم نے پایا و ہی اک راہ دیں کا راہ نما ہے
میں دنیا میں سب کا بھلا چاہتا ہوں بتاؤں تمہیں کیا کہ کیا چاہتا ہوں ہوں بندہ مگر میں خدا چاہتا ہوں میں اپنے سیہ خانہ دل کی خاطر وفاؤں کے خالق وفا چاہتا ہوں جو پھر سے سرا کر دے سر خشک پودا چمن کے لئے وہ صبا چاہتا ہوں مجھے بیر ہرگز نہیں ہے کسی سے میں دنیا میں سب کا بھلا چاہتا ہوں ور ہی خاک جس سے بنا میرا پتلا میں اس خاک کو دیکھنا چاہتا ہوں نکالا مجھے جس نے میرے چمپین سے میں اس کا بھی دل سے بھلا چاہتا ہوں میرے بال و پر میں وہ بہت ہو پیدا کہ لے کہ قفس کو اڑا چاہتا ہوں
بلند پروازی کی ترغیب میں اپنے پیاروں کی نسبت ہر گز نہ کرونگا پسند کبھی وہ چھوٹے درجہ پر راضی ہوں اور انکی نگاہ رہے نیچی وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مشیروں کی طرح سفر آتے ہوں ادنی سا تصور اگر دیکھیں تو منہ میں کف بھر لاتے ہوں وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر امید لگائے بیٹھے ہوں وہ اوئی اوئی خوشی کو مقصود بنائے بیٹھے ہوں شمشیر زباں سے گھر بیٹھے دیمن کو مارے جاتے ہوں میدان عمل کا نام بھی تو تو جھینپتے ہوں گھیراتے ہوں اے میری الفت کے طالب ! یہ میرے دل کا نقشہ ہے اب اپنے نفس کو دیکھ لے تو وہ ان باتوں میں کیسا ہے ہے تو اہش میری الفت کی تو اپنی نگاہیں اونچی کر تدبیر کے جھانوں میں مت پھینس کو قبضہ جا کے مقدر پر
میں واحد کا ہوں دلدادہ اور واحد میرا پیارا ہے گر تو کبھی واحد بن جائے تو میری آنکھ کا تارا ہے تو ایک ہو ساری دنیا میں کوئی ساتھی اور شریک رہو تو سب دنیا کو دے لیکن خود تیرے ہاتھ میں بھیک ہجو رحضرت سیدہ مریم صدیقی کی امین رنوٹ : لجنات بچیوں کی امین کے موقع پر یہ ڈھائی نظم پڑھا کریں) مریم نے کیا ہے ختیم متراں اللہ کا ہے یہ اس پر احساس الفاظ تو پڑھ لئے ہیں سارے اب باقی ہے مطلب اور عرفاں اللہ سے یہ میری دعا ہے ان کو بھی کرے وہ اس پہ آساں توفیق ملے اسے عمل کی کامل ہو ہر اک جہت سے یہاں مولے کی عنایت و کرم کا سایہ رہے اس کے سربہ ہر آن حلقہ میں ملائکہ کے کھیلے ہر دم رہے اور اس سے شیطان ہو فضل خدا کی اس پر بارش پھیلا رہے خوب اس کا داماں
3.سر وقف خیالِ یار از لی دل ٹو پر وفا سے مہر تاباں آنکھوں میں حیا پک رہی ہو منہ حکمت و نسل سے ڈر افشاں فکروں سے خُدا اسے بچائے پیدا کرے مومی کے ساماں ہو دونوں جہان میں معزز ہوں چھوٹے بڑے سبھی ثنا خواں مرضی ہو خدا کی اس کی مرضی مولیٰ کی رضا کی ہو یہ جو یاں سب عمر بسر ہو رتقا میں ہر لحظہ رہے یہ زیر بشر ماں امین کہیں میری دعا پر بیٹے ہیں تمام لوگ جو مولیٰ سے دُعا ہے پیاری بہنو ! تم کو بھی دکھائے وہ یہ خوشیاں
یا د جس دل میں ہو اس کی وہ پریشان نہ ہو یاد جبس دل میں ہو اس کی وہ پریشان نہ ہو ذکر میں گھر میں ہو اس کا کبھی ویران نہ ہو حیف اس سر پر کر نہ ہو تابع تف ہے اس دل پر کہ جو بندہ احسان نہ ہو.وقت حسرت نہیں یہ ہمت و کوشش کا ہے وقت عقل و دانائی سے کچھ کام لے نادان نہ ہو یاد رکھ لیک کہ غلبہ نہ ملے گا جب تک دل میں ایمان نہ ہو ہاتھ میں قرآن نہ ہو کس طرح مانوں کہ سب کچھ ہے خزانے میں ترے پر ترے پاس مرے درد کا درمان نہ ہو کام وہ ہے کہ ہو جس کام کا انجام اچھا بات وہ ہے کہ جسے کہہ کے پشیمان نہ ہو
بڑھتی ہے خدا کی محبت خدا کرے بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے حاصل ہو تم کو دید کی لذت خُدا کرے توحید کی ہولب پہ شہادت خُدا کرے ایمان کی ہو دل میں حلاوت خدا کرے حاکم رہے دلوں پر شریعت خدا کرے حاصل ہو مصطفے کی رفاقت خدا کرے مل جائیں تم کو زید و دیانت خدا کرے مشہور ہو تمہاری دیانت خُدا کرے ہر گام پر فرشتوں کا شکر ہو ساتھ ساتھ ہر ملک میں تمہاری حفاظت خُدا کرے قرآن پاک ہاتھ میں اور دل میں نور جو مل جائے مومنوں کی فراست خُدا کرے
۵۲ بطحا کی وادیوں سے جو نکلا تھا آفتاب بڑھتار ہے وہ نور نبوت خُدا کرے قائم ہو پھر سے حکیم محمد جہان میں ضائع نہ ہو تمہاری یہ محنت خدا کرے تم ہوندا کے ساتھ خدا ہو تمہارے ساتھ موں تم سے ایسے وقت میں نعمت خدا کے اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ مت کے اس خدائی پہ رحمت خدا کرے شکنی نہ کرو اہل وفا ہو جاؤ عب شکنی نہ کرو اہل وفا ہو جاؤ اہل شیطان نہ بنو اہل خدا ہو جاؤ گرتے پڑتے دَر مولے یہ رسا ہو جاؤ اور پروانے کی مانند فدا ہو جاؤ
۵۳ جو ہیں خالق سے خفا اُن سے خفا ہو جاؤ جو ہیں اس در سے جُدا اُن سے جدا ہو جاؤ حق کے پیاسوں کے لئے آپ بقا ہو جاؤ خشک کھیتوں کے لئے کالی گھٹا ہو جاؤ قطب کا کام دو تم شکست و تاریخی میں بھولے بھٹکوں کے لئے راہ نما ہو جاؤ راہ مولے میں جو مرتے ہیں وہی جیتے ہیں موت کے آنے سے پہلے ہی فنا ہو جاؤ مورد فضل و کرم وارث ایمان و بری عاشق احمد و محبوب خدا ہو جاؤ
۵۴ ظہور مہدی آخر زماں ہے ظہور مہدی آخر زماں ہے سنبھل جاؤ کہ وقت امتحان ہے محمد میرے تن میں مل جہاں ہے یہ ہے مشہور جاں ہے تو جہاں ہے گیا اسلام سے وقت خزاں ہے ہوئی پیدا بہار جاوداں ہے نہیں دنیا کی خواہش ہم کو ہرگز خدا دیں پر ہی اپنا مال و جہاں ہے نہیں اسلام کو کچھ خوف محمود کہ اس گلشن کا احمد باغباں ہے رضی ہیں ہم اسی میں جس میں توری فنا ہو ہو فضل تیرا یارب یا کوئی ابتلا ہو راحتی ہیں ہم اس میں میں میں تری رضا ہو مٹ جاؤں میں تو اس کی پرواہ نہیں ہے کچھ بھی میری فنا سے حاصل گردین کو بقا ہو
۵۵ سینہ میں جوش غیرت اور آنکھ میں حیا ہو لب پر ہو ذکر تیرا دل میں تری وفا ہو شیطان کی حکومت مٹ جائے اس جہاں سے حاکم تمام دنیا پر میرا مصطفے محمود عمر میری کٹ جائے کاش یونہی ہو رُوح میری سجدہ میں سامنے خُدا ہو نونہالان جماعت سے خطاب نونہالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو چاہتا ہوں کہ کروں چند نصائح تم کو تا کہ پھر بعد میں مجھ پر کوئی الزام نہ ہو جب گزر جائیں گے ہم تم پہ پڑے گا سب بار شتیاں ترک کرو طالب آرام نہ ہو
04 خدمت دین کو اک فضل الہی جانو اس کے بدلہ میں کبھی طالب انعام نہ ہو دل میں ہو اور تو آنکھوں سے رواں ہوں آنسو تم میں اسلام کا ہو مغز فقط نام نہ ہو عقل کو دین پر حاکم نہ بتاؤ ہرگز یہ تو خود اندھی ہے گر تیر الہام نہ ہو رغبت دل سے ہو پابند نماز و روزه نظر انداز کوئی حقہ احکام نہ ہو پاس ہو مال تو دو اس سے زکواۃ و صدقہ فکر مسکیسی رہے تم کو نسیم ایام نہ ہو عادت ذکر بھی ڈالو کہ یہ ممکن ہی نہیں دل میں ہو عشق صنم لب پہ مگر نام نہ ہو دشمنی ہو نہ محبان محتد سے تمہیں جو معاندہ میں تمہیں ان سے کوئی کام نہ ہو
۵۷ اُن کے ساتھ رہو فتنوں میں حصہ مت لو باعث فکر و پریشانی حکام نہ ہو تم مدتیر ہو کہ ترسیل ہو یا عالم ہو ہم نہ خوش ہوں گے کبھی تم میں گرا سلام نہ ہو مسرم مو شیر موجگی جو کہ آسائش ہو کچھ بھی ہومیت دیگر دعوت اسلام نہ ہو کام مشکل ہے مگر منزل مقصود ہے دُور اے میرے اہل وعاشت کسی کام نہ ہو ہم تو جس طرح نے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بد نام نہ ہو میری تو حق میں تمہارے یہ دُعا ہے پیارو کر یہ اللہ کا سایہ رہے نا کام نہ ہو
خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی خدا سے چاہیے ہے کو لگائی کہ سب فانی ہیں پر وہ بغیر فانی وی راحت وی آرام دل کا اس سے روح کو ہے شادمانی بسپر ہوتا ہے وہ ہر نا تواں کا وہی کرتا ہے اس کی پاسبانی بچاتا ہے سراک آفت سے ان کو ملاتا ہے بلائے ناگہانی اُسی کو پا کے سب کچھ ہم نے پایا کھلا ہے ہم پر یہ راز نہانی خُدا نے ہم کو دی ہے کامرانی نسبحان الذي أو في الأماني عطا کر جاہ و عربات دو جہاں میں ملے عظمت زمین و آسماں میں نہیں ہم بلبلین بستان احمد رہے برکت ہمارے آشیاں میں ہمارا گھر ہوشل باغ جنت ہو آبادی ہمیشہ اس مکان میں نہیں ہم سب کے سب خدام احمد کلام اللہ پھیلائیں جہاں میں ہم خدام عطا کر کمر و صحت ہم کو یارب ہمیں صحت ڈال پیاسے استمال میں یہ ہوں میری دعائیں ساری مقبول ملے عزت ہمیں دونوں جہاں میں
ترا وہ فضل ہو نا زل الہی کہ ہو یہ شور ہر کون ومکاں میں خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی نيمان الذى أولى الاماني جائیں گے ہم جہاں بھی کہ جاناہے ہیں غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا پڑے ہمیں اخیار کا بھی بوجھ اُٹھانا پڑے ہمیں اس زندگی سے موت ہی بہتر ہے اسے خدا جس میں کہ تیرا نام چھپا نا پڑے ہمیں پھیلائیں گے صداقت اسلام کچھ بھی ہو جائیں گے ہم جہاں بھی کہ جانا پڑے ہیں محمود کر کے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار رُوئے زمیں کو خواہ ہلانا پڑے ہمیں
قادیان کی یاد میں ہے رضائے ذاتِ باری آب رضائے قادیاں مدعائے حق تعالے مدعائے قادیاں وہ ہے خوش اموال پر یہ طالب دیدار ہے بادشاہوں سے بھی افضل ہے گدائے قادیاں گر نہیں عرش معلی سے یہ ٹکراتی تو پھر سب جہاں میں گو محبتی ہے کیوں صدائے قادیاں میرے پیارے دوستو تم دم نہ لینا جب تلک ساری دنیا میں نہ لہرائے لوائے قادیاں یا تو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے قادیاں خیال رہتا ہے ہمیشہ اس مقام پاک کا سوتے سوتے بھی یہ کہہ اٹھتا ہوں ہائے قادیاں
41 آہ کیسی خوشی گھڑی ہوگی کہ بانیل مرام باندھیں گے رخت سفر کو ہم برائے قادیاں گلشن احمد کے پھولوں کی اڑا لائی ہوا زخم تازہ کر گئی بادصبائے قادیاں جب کبھی تم کو ملے موقعہ دُعائے خاص کا یاد کر لیتا ہمیں اہل وفائے قادیاں تعریف کے قابل ہیں یارب تیرے دیوانے تعریف کے قابل ہیں یا رب تیرے دیوانے آباد ہوئے چین سے دُنیا کے ہیں ویرانے فرزانوں نے دنیا کے شہروں کو اجاڑا ہے آباد کریں گے آپ دیوانے یہ ویرانے ہوتی نہ اگر روشن وہ شمع رخ انور کیوں جمع یہاں ہوتے سب دُنیا کے پروانے
ہے ساعت سعد آئی اسلام کی جنگوں کی آغاز توئیں کر دوں انجام خدا جانے یہ درد رہے گا ان کے دروان میکرو وقت آنے دو دشمن کو ظلم کی بڑ ھی سے تم سینہ و دل بربانے دو یہ درد رہے گا بن کے دُور تم صبر کر وقت آنے دو یہ عشق و وفا کے کھیت کبھی نوں سنے بغیر نہ بنیں گے اس راہ میں جان کی کیا پروا جاتی ہے اگر تو جانے دو تم دیکھو گے کہ انہیں میں سے قطرات محبت ٹیکیں گے با دل آفات و صائب کے چھاتے میں اگر تو چھانے دو صادق ہے اگر تو صدق دکھا قربانی کر ہر خواہش کی ہیں جنسِ وفا کے ناپنے کے دنیا میں یہی پیمانے دو جب سونا آگ میں پڑتا ہے تو کندن بن کے نکلتا ہے پھر گالیوں سے کیوں ڈرتے ہو دل جلتے ہیں جیل جانے دو
عاقل کا یہاں پر کام نہیں وہ لاکھوں بھی بے فادہ ہیں مقصود مرا پورا ہو اگر مل جائیں مجھے دیوانے دو یہ زخم تمہارے سینوں کے بن جائیں گے شکر چمن اس دن ہے قادر مطلق یار مرا تم میرے یار کو آنے دو جو بچے مومن بن جاتے ہیں موت بھی ان سے ڈرتی ہے تم سچے مومن بن جاؤ اور شوق کو پاس نہ آنے دو یا صدق محمد بولی ہے یا احمد مہندی کی ہے وقا باقی تو پرانے قصتے ہیں تازہ ہیں یہی افسانے دو وہ تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیں یہ کیا ہی کسستا سودا ہے دشمن کو تیر چلانے دو محمود اگر منزل ہے کٹھن تو راہ نما بھی کال ہے تم اس پر بھروسہ کر کے چلو آفات کا خیال ہی جادو
40 انتخاب کلام حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) (از کلام طاہر)
44 جمہوری انبیاء صلی الہ علیہ وسلم.اک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی جو نور کی ہر شکل ظلمات پر دار آئی تاریکی پر تاریکی، گمراہی پر گمراہی ابلیس نے کی اپنے لشکر کی صف آرائی طوفان مفاد میں غرق ہو گئے سنجر وبر ایرانی و نادانی رومی و بخارائی بن بیٹھے خدا بند سے دیکھا نہ مقام اُس کا طاغوت کے چیلوں نے بہتھیا لیا نام اس کا تب عرش معلی سے اک نور کا تخت اترا ایک فوج فرشتوں کی ہمراہ سوار آئی اک ساعت نورانی خورشید سے روشن تر پہلو میں لئے جلوے بے حد و شمار آئی کا فور ہوا باطل ، سب فلم ہوئے زائل اُس شمس نے دکھلائی جب شان خود آرائی اہیں ہوا غمارت، چوپٹ ہوا کام اُس کا توحید کی یورش نے در چھوڑا ، نہ بام اُس کا مرزائے غلام احمد تھی جو بھی متابع جان کر بیٹھا تیار اس پر.ہو بیٹھا تمام اُس کا.دل اُس تھا دل اُس کی محبت میں ہر لحظہ تھا رام اس کا اخلاص میں کامل تھا وہ عاشق تام اُس کا اس دور کا پیساتی - گھر سے تو نہ کچھ لایا کے خانہ اُسی کا تھا.کے اُس کی تھی جام اُس کا
42 سازندہ تھا یہ اس کے برب ابھی تھے بہت اُس کے دمن اس کی تھی گیت اُس کے لب اسکے پیام اس کا اک میں بھی تو ہوں یا رب.حیدر تبر داہم اس کا دل گاتا ہے گن اُس کے اب پچھتے ہیں نام اُس کا آنکھوں کو بھی دکھلائے.آنالب بام اُس کا کانوں میں بھی درس گھولے.بزرگام - خرام اس کا خیرات ہو مجھ کو بھی.اک جلوہ عام اُس کا پھر یوں ہو کہ نہ دن پر.الہام کلام اُس کا اس بام سے نور اترے نغمات میں ڈھل ڈھل کر نغموں سے اُٹھے خوش ہو.ہو جائے نمرود عنبر آسے شاہ کمی و مدنی سیداوری أن شاء مکی و مدنی سید انوری تجھ سا مجھے عزیز نہیں کوئی دوسرا تیرا غلامی در تیوں تیرا ہی اسیر عشق تو میرا بھی حبیب ہے ، محبوب کبریا تیرے جلو میں ہی مرا اٹھتا ہے ہر قدم چلتا ہوں خاک پا کو تیری چھوتا ہوا تو میرے دل کا نور ہے آے جان آرزو روشن تجھی سے آنکھ ہے اے نیر پائی میں جان و جسم ، سو تری گلیوں پہ ہیں نثار اولاد ہے، سو وہ ترے قدموں پہ ہے خدا تو وہ کہ میکے دل سے جگر یک اُتر گیا میں وہ کہ میرا کوئی نہیں ہے تیرے ہوا اے میرے والے مصطفی اے سید انور تھی اے کاش ہمیں سمجھتے نہ ظالم جدا جدا
آزاد تیرا فیض زمانے کی قید سے برسے ہے شرق و غرب پر یکساں ترا گرفتم تو مشرقی نہ مغربی اسے خورشش جہات تیرا وطن عرب ہے نہ تیرا وطن نجم تو نے مجھے خرید یا اک نگہ کے ساتھ اب تو ہی تو ہے تیرے ہوا میں ہوں کا تقدیم ہر لحظہ بڑھ رہا ہے میرا تجھ سے پیار دیکھے بانسوں میں پس رہا ہے تیرا عشق رقم یکہ تم بک میری ہر ایک راہ تیری سمت ہے رواں تیرے سوا کسی طرف اٹھا نہیں قدم اے کاش مجھ میں قوت پرواز ہو تو میں اُڑتا ہوا پڑھوں ، تری جانب سُوئے حریم تیرا ہی فیض ہے کوئی میری عطا نہیں " این چشمہ رواں کہ تخلق خدا دیم یک قطره زیر کمال محمد است حبان و دکم فدائے جمال محمد است خاکم بشار کوچه آلِ محمد است
44 صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں میں افضل و اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نام محمد کام مکرم صلی اللہ علیہ وسلم يادي کامل زہیر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے جلوۂ حسن کے آگے شرم سے نوروں والے بھاگے مہر و ماہ نے توڑ دیا دم مستی اللہ علیہ وسلّم اک جلوے میں آنا فانا.بھر دیا عالم کر دیئے روشن ار کی جب نیم - صلی اللہ علیہ وسلم اول و آخر، شارع و خاتم صلی اللہ علیہ وسلم
آج کی رات ربوہ میں ۲۷ ر رمضان المبارک کی رات کے روح آفریں مناظر سے متاثر ہو کر) ذکر سے بھر گئی ربوہ کی زمیں آج کی رات اُتر آیا ہے خُداوند یہیں آج کی رات شہر جنت کے ملا کرتے تھے طعنے جس کو بن گیا واقعت خُلدِ بریں آج کی رات وا در گریده انشا دیده و دل، کب آزاد کیں مرنے میں ہیں ترے خاک نشیں آج کی رات کوچے کوچے میں کیا شور متى نصر الله اجر تم نصرت باری ہے قریب آج کی رات جانے کس فکر میں غلطاں ہے میرا کا فیرگر ادھر اک بار جو آنکلے کہیں آج کی رات غیر مسلم کیسے کہتے ہیں.اُسے دکھلائے ایک ایک کین ربوہ کی جبیں آج کی رات گاز نیلید و دجال بلا سے ہوں مگر تیرے عشاق کوئی ہیں تو ہمیں آج کی رات آنکھ اپنی ہی تیرے عشق میں ٹپکاتی ہے وہ لہو جس کا کوئی مول نہیں، آج کی رات دیکھ اس درجہ غم ہجر میں روتے روتے مر نہ جائیں تیرے دیوانے کہیں آج کی رات جن پہ گزری ہے وہی جانتے ہیں.غیروں کو کیسے بتلائیں کہ متھی کتنی حسیں آج کی رات کاش اتر آئیں یہ اُڑتے ہوئے سیمیں لمحات کاش یوں ہو کہ ٹھہر جاتے ہیں آج کی رات
خدام احمد نیت ہیں بادہ مست بادہ آشام احمدیت چلتا ہے دور میناؤ جامه احمدیت تشنہ کیوں کی خاطر ہر سمت گھومتے ہیں تھامے ہوئے سبوئے گلفام احمدیت خدام احمد نیت، خدام احمدیت جب دہریت کے دم سے مستمرونم تھیں فضائیں پھوٹی تھیں جا بجا جب اتحاد کی وبائیں تب آیا اک منادی.اور ہر طرف صدا دی آؤ کہ ان کی زد سے اسلام کو بچائیں زور دیا دکھائیں ، خُدام احمدیت پھر بارغ منطقے کا دھیان آیا ذوالمنن کو سینچا پھر آنسوؤں سے احمد نے اس چین کو آہوں کا تھا بلاوا پھولوں کی انجین کو اور کھینچ لائے نالے مرغان خوش گھن کو کوٹ آئے پھر وطن کو خُدام احمدیت چنکا پھر آسمان مشرق پہ نامیم احمد مغرب میں جگہ ایا ماہ تمام احمد و گماں سے بالا عالی مقام احمد ہم میں غلام خاک پائے غلام احمد دیم مرغان دامیم احمد ، خدام احمدیت ربوہ میں آجکل ہے جاری نظام اپنا پر قادیاں رہے گا مرکز مدام اپنا تبلیغ احمدیت دنیا میں کام اپنا دائر استعمال ہے گویا عالم تمام اپنا پوچھو جو نام اپنا ، خُدام احمدیت
اُٹھو کہ ساعت آئی اور وقت جا رہا ہے پیر تسبیح دیکھو کب سے جگا رہا ہے گو دیر بعد آیا از راه دور لیکن وہ تیز گام آگے بڑھتا ہی جا رہا ہے تم کو بگا رہا ہے ، خدام احمدیت! مرد حق کی دُعا دو گھڑی میرے کام کو ساتھیو! آفت نگفت وجود عمل جائے گی آج مومین سے ٹکرا کے طوفان کا رخ پیکٹ جائے گا رت بدل جائے گی تم دعائیں کرو یہ ڈنا ہی تو تھی، جس نے لوٹا تھا سر کر نمرود کا ہے ازل سے یہ تقدیر کمرو دیت ، آپ ہی آگ میں اپنی جبل جائے گی یہ دعا ہی کا تھا معجزہ کہ عصا ساحروں کے مقابل بنا اردھا آج بھی دیکھنا مرد حق کی دعا، سحر کی ناگنوں کو نگل جائے گی نوں شہیدانِ اُمت کا اے کم نظر، رائیگاں کب گیا تھا کہ اب جائے گا ہر شہادت ترے دیکھتے دیکھتے ، پھول پھل لائے گی پھول پھل جائے گی ہے ترے پاس کیا گالیوں کے سوا.ساتھ میرے ہے تائید رب اتوری کل چلی تھی جو لیکھو پہ تیغ دُعا ، آج بھی، اذن ہو گا تو چل جائے گی
دیر اگر ہو تو اندھیر ہرگز نہیں، قولِ أُمَلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِى مَتِيْن سنت اللہ ہے.لا جرم پائی ہیں، بات ایسی نہیں جو بدل جائے گی یہ صدائے فقیرانہ حق آشنا ، پھیلتی جائے گی شش جہت میں سدا تیری آواز اسے ڈش یک نوار اور قدم دھر دو تین میل جائے گی عصیر بیمار کا ہے مرض لا دوا ، کوئی چارہ نہیں اب دُعا کے سوا اے غلام سیخ الاماں ہاتھ اُٹھا، موت بھی آگئی ہو تو ٹل جائے گی الفضل کے صد سالہ میں تشکر نمبر کے لیے ہم آن ملیں گے متوالو.بس دیر ہے گل یا پرسوں کی تم دیکھو گے تو آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی.دید کے ترنسوں کی ہم آمنے سامنے بیٹھیں گے.تو فرط طرب سے دونوں کی آنکھیں ساون برسائیں گی.اور پیاس بجھے گی برسوں کی تم دور دور کے دیسوں سے.جب قافلہ قافلہ آؤ گے تو میکر دل کے کھیتوں میں بھولیں گی فصلیں سرسوں کی یشق و وفا کے کھیت رضا کے خوشوں سے کر جائیں گے موستم بدلیں گے.رُت آئے گی ساجن، پیار کے درسوں کی
< میرے بھولے بھالے حبیب مجھے دیکھ لکھ کر کیا سمجھاتے ہیں کیا ایک انہی کو دُکھ دیتی ہے.جدائی لمبے عکرموں کی ؟ یہ بات نہیں دعاوں کے لیے لکھوں کی تم دیکھو گے ہم آئیں گے.جھوٹی نکلے گی.لاف خدا ناریوں کی دُور ہوگی کلفت عرصوں کی اور پیاس بجھے گی برسوں کی ہم گیت ملن کے گائیں گے بھولیں گی فصلیں سرسوں کی ہیمی کل کے قافلہ سالار وقت کم ہے.بہت ہیں کام.چلو تنگی ہو رہی ہے شام چلو زندگی اس طرح تمام نہ ہو کام رہ جائیں ناتمام چلو کہہ رہا ہے خدام یاد کیا جب تلک دم چلے گدام چلو دے رہی ہیں آوازیں مسبح محو سفر ہو شام چلو منزلیں ساتھیو میکے ساتھ ساتھ رہو قربتوں کا لئے پیام پلو تم اُٹھے ہو تو لاکھ اُجالے اُٹھے تم پہلے ہو تو برقی گام پلو
کبھی ٹھہرو تو مثل ابر بہار جب برس جائے فیض عام - پلو رات جاگو کہ و نجوم کے ساتھ دن کو سورج سے ہم خیرام چلو ہو تہی کل کے قافلہ سالار آج بھی ہو تمہی امام جیلو تم سے وابستہ ہے جہانِ تو تمہیں سونپی گئی زمام.چلو آگے بڑھ کر تقدم تو لو.دیکھو عہد تو ہے تمہارے نام.چلو پیشوائی کرو.تمھاری طرف آ رہا ہے نیا نظام چلو اسے خوش.دل تیار - دست بکار یہ پیارو خدا کے پیاروں پر پہر در پہر شاد کام چلو دائم بھیجتے سلام چلو زیرو ٹیم میں دلوں کی دھڑکن کے موجزن ہو خدا کا نام.چلو دل سے اُٹھے جو نعرہ تکبیر ہو کرتا سے ہمکلام.چلو غم دنیا کی ہے دوا غم عشق دم عیسی نہیں.ہوا دیم عشق بخیر عالم میں اک بپا کر دو پیار کا غلغلہ - تلاطم عشق
<4 اپنے ہیں میں اپنی بستی میں اک پینا بھی توگھر تھا اپنے دیس میں اپنی بستی میں راک اپنا بھی تو گھر تھا جیسی شندر تھی وہ بستی دیا وہ گھر بھی مندر تھا دیس بدیس لئے پھرتا ہوں اپنے دل میں اُس کی گتھا ئیں می کے کئی میں آن بسی ہے تن من دھن میں کے اندر تھا سادہ اور غریب تھی جنتا.لیکن نیک نصیب تھی جفتا فیض رسان عجیب تھی بنتا.ہر بندہ بندہ پرور تھا ہر کتنے لوگ تھے ، پتی بستی.کرموں والی اپنی بستی جو اُونچا تھا.نیچا بھی تھا.عرش نشیں تھا خاک کبر تھا اس کی دھرتی تھی آکاشی.اس کی پر جا تھی پر کاشی جس کی صدیاں تھیں متلاشی.گلی گلی کا وہ منظر تھا کرتے تھے آآ کے بیرے.پنکھ پکھیرو شام سویرے پھولوں اور پھلوں سے بوجھل.بستاں کا ایک ایک شجر تھا اُس کے سُروں کا چرچا جاتا.دیس بدیس میں ڈنکا با جا اس بستی کا پیتیم راجا پریشن گفتیا مرلی دھر تھا.
چاروں اور بچی شہنائی.بھیجنوں نے اک دُھوم مچائی رت بھگوان مکن کی آئی.پیتیم کا درشن گھر گھر تھا گو تم بد تھا پڑھی لایا.سب رشیوں نے درس دکھایا علی اترا مہندی آیا جو سب نبیوں کا مظہر تھا مہدی کا دیدار محمد نبیوں کا سردار محمد نور نظر سرکار محمد.جس کا وہ منظور نظر تھا آشاؤں کی اُس بستی ہیں.میں نے بھی فیض اُس کا پایا مجھ پر بھی تھا اُس کا چھایا.جس کا میں ادنی چاکر تھا اتنے پیار سے کسی نے دی تھی میرے دل کے کواٹر پر دستک رات گئے میرے گھر کون آیا.اٹھ کر دیکھا تو ایسٹر تھا ریش سے فرش پر مایا اتری.روپا ہوگئی ساری دھرتی میٹ گئی گلفت چھا گئی مستی.وہ تھا میں تھا من مندر تجھ پر میری جان نچھاور - اتنی کر پا رک پاپی پر تھا جس کے گھر نارائن آیا.وہ کیڑی سے بھی کمتر تھا رب نے آخر کام سنوارے.گھر آئے پر ہا کے مارے آ دیکھے اونچے مینارے.نور خدا تا حد نظر تھا کولا نے وہ دن دکھلائے.پریمی رُوپ نگر کو آئے
ساتھ رشتے پر پھیلائے.سایہ رحمت ہر کمر پر تھا عشق خدا مونہوں پر دستے، پھوٹ رہا تھا نور.نظر سے اکھین سے ئے پیت کی برسے.قابل دید.ہر دیدہ ور تھا لیکن آہ جو رستہ سکتے.جہان سے گزرے تجھ کو ترستے کاش دو زندہ ہوتے جن پر ہجر کا اک اک پل دو بھر تھا آخر دم تک تجھ کو پکارا.آس نہ ٹوٹی ، دل نہ ہارا مصلح عالم باپ ہمارا.پیکر صبر و رضا، امیر تھا سدا سہاگن رہے یہ بستی.جس میں پیدا ہوئی وہ ہستی جس سے نور کے سوتے پھوٹے.جو ٹوروں کا اک ساگر تھا ہیں سب نام خدا کے شندر - وا ہے گرو - الله اكبر سب خانی.اک وہی ہے باقی.آج بھی ہے جو کل ایشر تھا ہم کو قادیاں ملے ہیں ، لوگ وہ بھی چاہتے ہیں دولت جہاں ملے زمیں ملے.مکاں ملے.سکون قلب و جاں ملے پر احمدی وہ میں کرتین کے جب دعا کو ہاتھ اُنھیں.آپ آپ کے یوں کہیں کہ ہم کو قادیاں ملے غضب ہوا کہ مشرکوں نے ثبت کد سے بنائیے خدا کے گھر.کہ درس وحدت خدا جہاں ملے چلے چلو.تمہاری راہ دیکھتی ہیں مسجدیں دہ منتظر ہیں خانہ خدا سے پھر اذاں ملے
بڑھے چلو براہ دیں خوش نصیب کر تمہیں خلیفہ المسیح سے امیر کارواں ہے جیو تو کامران جیور شہید ہو تو اس طرح کہ دین کو تمہارے بعد عمر جاوداں ہے ہے زندہ قوم وہ نہ جس میں ضعف کانٹاں ملے که طفل طفل ، پیر پیر، جس کا نوجواں ملے نذرالاسلام کی ایک نظم کا منظوم ترجمہ توحید کے پر چارک.میرے مرشد کا نام محمد ہے ہے بات یہی برھتی.مرے مرشد کا نام محمد ہے اُس نام کے جینے سے قرآن کا ہوتا ہے ادراک مجھے یہ سُندر نام ہونٹوں سے دل تک.کر دیتا ہے پاک محمد اللہ کے بہت پیارے.مرے مرشد کا نام محمد ہے وہ مولیٰ سے ملواتا ہے جب نام اس کائیں لیتا ہوں اک بحر نور کی موجوں پر.اک ٹور کی کشتی کھتا ہوں اے جنگ والو سن لو.مرے مرشد کا نام محمد ہے
اُس نام کے دیپ جلاتا ہوں تو چاند ستارے دیکھتا ہوں سینے سے ہوش یک اُٹھتے ہوئے ٹوروں کے دھارے دیکھتا ہوں میرے نور مجسم صلی اللہ مُرشد کا نام محمد ہے اُس نام کا پلو پکڑے کپڑے اس دُنیا تک جاؤں گا اُس کے قدموں کی خاک تھے میں اپنی جنت پاؤں گا مردم نقد الاسلام - مرے مرشد کا نام محمد ہے
انتخاب کلام حضرت عمر البشیر احم صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو)
پرواز کے پرپیدا کر حسن اپنا ہی نظر آیا تو کیا آیا نظر غیر کاحسن جو دیکھے وہ نظر پیدا کر چشم احباب میں گنگو نے جگہ پائی تو کیا حسن واحساس سے دل خصم میںگھر پیدا کر یہ زرو مال تو دنیا میں ہیںکہ جائیں گے حشر کے روز جو کام آئے وہ ز پیدا کر محمدی اگر تھے بنتا ہے صحابہ کی مشیل دست و بازو و دل گروه جگر پیدا کر پھر وہی نالہ دہی غیر شیر ان کی دعا پھر وہی اگریہ وہی دیدۂ تر پیدا کر پھر دہی تنگ حظا اور وہی خویش عشق پھر دبی سوز و بی درد و اثر پیدا کر مرد ہی شہر وی تقوی و بی نفس کشی ہاں دہی ضبط وی منفض بصر پیدا کر و ته د طاعت و بے نفس و صدق و اخلاص حکمت و معرفت و علم و ہنر پیدا کر دین پر مال دین وجان تھے اُنکے قرباں رنگ یہ ہو سکے تجھ سے بھی اگر پیدا کر ان اسلام کی قائم و انہوں نے کی تھی نقشی عالم ہیں وہی یا یہ دگر پیدا کر سخت مشکل ہے کہ اس سال سے منزل یہ کئے ہاں اگر ہو سکے پرواز کے پر پیدا کر
류 انتخاب کالام یدا ہوتا ہے اس گیم مصاحبہ حضرت (اللہ تعالی آپ سے راضی ہو) (از در عدن)
پاک محمد مصطفے نبیوں کا سردار رکھ پیش نظر وہ وقت بہن جب زندہ گاڑی جاتی تھی گھر کی دیواریں روتی تھیں جب دُنیا میں تو آتی تھی جب باپ کی جھوٹی غیرت کا خون جوش میں آنے لگتا تھا جس طرح جنا ہے سانپ کوئی کیوں ماں تیری گھبراتی تھی یہ خون جگر سے پالنے والے تیرا خون بہاتے تھے جو نفرت تیری ذات سے تھی فطرت پر غالب آتی تھی کیا تیری قدر وقیمت تھی ؟ کچھ سوچ تری کیا عزت تھی تھا موت سے بدتر وہ جینا قسمت سے اگر پیچ جاتی تھی تھا صورت ہونا سخت خطا تھے تجھ پہ سارے خبر روا یه حروم نہ بخشا جاتا تھا تا مرگ سزائیں پاتی تھی گویا تو کنکر پتھر بھی احساس نہ تھا جذبات نہ تھے تو ہین وہ اپنی یاد تو کر ! ترکہ میں بانٹی جاتی تھی
AD وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جاتا ہے تو بھی انسان کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار ! پاک محمد مصطفے نبیوں کا سردار اللہ تعالیٰ کے حضور اسے محسن و محبوب قمر اے میرے پیارے اے قوت جاں اے دل محزوں کے سہارے اے شاہ جہاں نور زماں خالق باری پر قیمت کو نہیں ترے نام پہ واری یارا نہیں پاتی ہے زبان شکر وشنا کا احسان سے بندوں کو دیا اون دعا کا کیا کرتے جو حاصل یہ وسیلہ بھی نہ ہوتا یہ آپنے دو باتوں کا جیلہ بھی نہ ہوتا تسکینی دل وراحت جاں ہی ہیں درسکتی آدمہ تھانہ سے اماں مل ہی دسکتی پروا نہیں باقی ہو بے شک کوئی چالا کافی ہے ترے دامن رحمت کا سہارا مایوس کبھی تیرے سوالی نہیں پھر تے بندے توکی درگاہ سے خالی نہیں پھرتے الک ہے جو تو چاہے تو مردوں کو جلا دے اے قادر مطلق مرے پیاروں کو شفا دے
جاتے جوهری جان محمد حافظ و ناصر ر حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ ثالث رحمہ اللہ تعالی) کے زمانہ طالب علمی میں سفیر انگلستان کے موقعہ پر) جاتے ہو مری جان خدا حافظ و ناصر الله همان خدا حافظ و ناصر ہر گام پہ ہمراہ رہے نصرت باری ہر لمحہ و بر آن خدا حافظ و ناصر والی بو اعصاب علوم دو جہاں کے اے یوسف کنعان خُدا حافظ و ناصر ہر علم سے حاصل کر و عرفان النبی ٹیڑھتا ہے ایمان خدا حافظ و ناصر یرہ ہو فرشتوں کا قریب آنے پائے ڈرتا ہے شیطان محمد حافظ و ناصر سرگیجر کے خواص بنو لیک بایی شرط بھیگے نہیں دامان خدا حافظ و ناصر صر پاک ہو اغیار سے دل پاک نظر پاک اے بندہ سیمان خدا حافظ و ناصر محبوب حقیقی کی امانت سے خبردار اے حافظ قرآن خدا حافظ و ناصر
التجائے قادیان ا سفر یورپ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی قادیان کی یاد میں نظم کے جواب میں ) سیدا ! ہے آپ کو شوق تھائے قادیاں ہجر میں خوں بارہ ہیں یاں چشم ہائے قادیاں سب تڑپتے ہیں کہاں ہے زینت دار الاماں رونق بستان احمد دل رُبائے قادیاں جان پڑھاتی تختی جن سے وہ قدم ملتے نہیں قالب بے روح سے میں کوچہ ہائے قادیاں روح بھی پانی نہیں کچھ چکی قالب کے بغیر ان کے منہ سے بھی نکل جاتا ہے ہائے قادیاں مود قا کو ناز جس پر جب سے ایسا مطاع کیوں نہ ہو شہور عالم پھر وفائے قادیاں
^^ بختی دین محمد جس نے کی تیرے سپرد ہوتری کشتی کا حافظ وہ خدائے قادیاں مانگتے ہیں سب دُعا ہو کہ سراپا انتظار جلد شاہ قادیاں تشریف لائے قادیاں خالق ہر دو جہاں کی رحمتیں ہوں آپ پر والسّلام اے شاہ دیں اسے را منتہائے قادیاں درویشان قادیان کے نام خوشا نصیب کہ تم قادیاں میں رہتے ہو دیا ر جہ دئی آخر زماں میں رہتے ہو خدا نے بخشی ہے الدار کی نگہبانی اُسی کے حفظ میں اُس کی اماں میں رہتے ہو فرشتے ناز کریں جس کی پہرہ داری پیمر ہم اس سے دور ہیں تم اس مکان میں رہتے ہو
٨٩ نہ کیوں دلوں کو سکون و سرور ہو حاصل کہ قرب خطہ رشک جناں میں رہتے ہو تمہیں سلام و دعا ہے نصیب صبح و مسا جوار مرقد شاہ زماں میں رہتے ہو شیں جہاں کی میں شب قدر اور دن عیدیں جو ہم سے چھوٹ گیا اس جہاں میں رہتے ہو کچھ ایسے گل ہیں جو پر مردہ ہمیں جدا ہو کر انہیں بھی یاد رکھو گلستان میں رہتے ہو تمہارے دم سے ہمارے گھروں کی آبادی تمہاری قید پہ صدقے ہزار آزادی
فی آمَانِ الله ربعی کی تقری مستانہ پر لو جاؤ تم کو سایہ رحمت نصیب ہو پڑھتی ہوئی خدا کی عنایت نصیب ہو سپر ایک زندگی کی حلاوت نصیب ہو ہر ایک دو جہان کی نعمت نصیب ہو علم وعمل نصیب ہو عرفان نصیب ہو ذوقی دُعا وحسن عبادت نصیب ہو محمود عاقبت ہو رہے زیست با مراد خوشیاں نصیب عزت و دوای نصیب ہو پور شک آفتاب استاد نصیب کا آپ اپنی ہو مثال در قسمت نصیب ہو ہرا ایک دکھہ سے تم کو بچائے مرا خدا ہر ہر قدم پہ اس کی اعانت نصیب ہو ہر وقت دل میں پیار سے یاد نہ رہے یہ نعمت و سرور یہ جنت نصیب ہو اقبال تاج سر ہو ترے سکے تاج کا اس کو خُدا و خلق کی خدمت نصیب ہو میں تمہاری گود سے پہل کر وہ حق پرست ہاتھوں سے جن کے دین کی موت نصیب ہو اضی ہوں تم سے ہیں مر اللہ بھی رہے اس کی رضا کی تم کو مسرت نصیب ہو راحت ہی میں نے تم سے بہر طور پائی ہے تم کو بھی دو جہان میں راحت نصیب ہو حافظ خدا رہا.میں رہی آج تک امیں جس کی تھی اب اُسے یہ امانت نصیب ہو
حضرت مصلح موعود کی شان میں بشارت دی مسیحا کو خدا نے تمہیں پہنچے گی رحمت کی نشانی ملے گا ایک فرزند گرامی عطا ہوگی دلوں کی شادمانی وہ آیا ساتھ لے کر فضل آیا بعد اکرام شاہ دو جہانی مٹاکر اپنی مستی راہ حق میں جہاں کو اس نے بخشی زندگانی یی مد نظر تھا ایک مقصد برائے دین احمد جانفشانی رہی نصرت خدا کی شامل حال گذاری زندگی با کامرانی ہمیں داغ جدائی آج دیگر ہوا حاضر حضور یار جانی جو اس نے نور بھیجا تھا جہاں میں ہوا واصل به رب جاودانی وہ جس کے قلب و روح و تن مبارک مبارک آمدن رفتن مبارک"
۹۲ متظاهر می شود عرش پر ٹور سے لکھا گیا تاہم مشہود می کے مجمود نے پایا ہے مقام محمود ان کی خدمت میں خدا نے اسے پہنچایا جن کو ہر وقت پہنچتا تھا سلام محمود ے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے عاشق غلام حضرت مسیح الزمان -
۹۳ انتخاب کلام حضر من الاعیه مهم اميل حصان اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) راز بخار دل)
۹۴ راه میتوانید انا رحت من مصل الا الم را بستم بدرگاه ذی شان خیر الانام شفیع الوری مرجع خاص و عام بعد میجز دوشنت بصد احترام یہ کرتا ہے عرض آپ کا اک نظام کہ اسے شاہ کونین عالی مقام عَلَيْكَ الصَّلاةُ عَلَيْكَ السَّلام حسینان عالم ہوئے شر کیں جو دیکھا وہ مشن اور وہ گھر نہیں پھر اس پر وہ اخلاق اکمل تریں کہ دشمن بھی کہنے لگے اتریں زہے مخلق المکمل زبجے شین تام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السلام خلائق کے دل تھے یقیں سے تہی بتوں نے بھی حق کی جگہ گھیر لی ضلالت تھی دنیا پہ وہ چھارہی کہ تو جب ڈھونڈے سے ملتی نہ تھی ہوا آپ کے دم سے اس کا قیام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلام
۹۵ محبت سے گھائل کیا آپ نے دلائل سے قائل کیا آپ نے جہالت کو زائل کیا آپ نے شریعت کو کامل کیا آپ نے بیاں کر دیئے سب حلال و حرام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السّلام نبوت کے تھے جس قدر بھی کمال وہ سب جمع تھے آپ میں لامحال صفات جمال اور صفات جلال مہر اک رنگ ہے میں عدیم المثال رایا ظلم کا عضو سے انتقام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلام مقدس حیات اور مظہر مذاق اطاعت میں کیتا عیادت میں طلاق سوار جہانگیر یکران براق که بگذشت از قصر نیلی رواق محمد ہی نام اور محمد ہی کام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلام
94 مصطفے مجھتی ہے محمد مصطفے ہے مجتبی ہے محمد مولف ہے دل ربا ہے محمد جامع حسن و شمائل محمد محسن ارض و سما ہے کمالات نبوت کا خزانہ اگر پوچھو تو ختم الانبیا ہے شریعت اس کی کامل اور مدلل غذا ہے اور دوا ہے اور شفا ہے نہیں دیکھا ہے ان آنکھوں سے اسکو مگر دیکھا شیل مصطفے ہے مرے تو ظل سے ہی اڑ گئے ہوش تو پھر اصل خدا جانے کہ کیا ہے کروں کیا وصف اس شمس الضحی کا کہ جس کا چاند یہ بدر الدجی ہے محمد نیر راہ میرے ہے محمد شافع روز جزا ہے وسی زندہ نبی ہے تا قیامت کہ لنگر فیض کا جاری سدا ہے تیمی سے شہنشاہی پہ پہنچا مگر پھر بھی وہی عجز و دُعا ہے عرض سچ مچ محمد ہے محمد جیمی تو چار سُو صل علی ہے
94 قرآن سے اچھا قرآن سے پیارا قرآن ہے اچھا قرآن ہے پیارا قرآن دل کی قوت قرآن ہے سہارا اللہ میاں کا خط ہے جو میرے نام آیا اکستانی ہی پڑھاؤ جلدی مجھے سیار پہلے تو ناظرے سے انھیں کرونگی دوشی پھر ترجمہ کھانا جب پڑھ چکوں میں سارا مطلب آئے جب تک کیونکر عمل ہے کی بے ترجمے کے ہرگز اپنا نہیں گزارا یارب تو تم کر کے ہم کو سکھانے قرآں ہر گھر کی یہ دوا ہو ہر درد کا ہو چارا دل میں جو میرے ایماں سینے میں نور فرقان بن جاؤں پھر تو سچ بیچ میں آسماں کا تارا احمدی بچی کی دُعا الہی مجھے سیدھا رستہ دکھادے مری زندگی پاک وطیب بنادے مجھے دین و دنیا کی دولت عطا کہ مہراک در داور دکھ سے ٹھیکو شفا دے زباں پر مری جھوٹ آئے نہ ہرگز کچھ ایسا سبق راستی کا پڑھا دے گنا ہوں سے نفرت بدی سے عداوت ہمیشہ رہیں دل میں اچھے ارادے
ہراک کی کروں خدمت اور خیر خواہی جو دیکھے وہ خوش ہو کے مجھ کو دعا دے بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت سراسر محبت کی پشت کی بنادے بنوں نیک اور دوسروں کو بتاؤں مجھے دین کا علم اتنا سکھا دے خوشی تیری ہو جائے مقصود میرا کچھ ایسی لگن دل میں اپنی لگا دے بنادے ہمارے پیارے مادے مد کی دے تقی دے تھا دے فیلوے میرا نام ابا نے رکھا ہے مریم خدایا تو صدیقہ مجھے کو بنیادے ے یہ نظم حضرت ڈاکٹر صاحب نے اپنی بھی حضرت سیدہ مریم صافیہ صاحبہ کی طرف سے دان کے بچپن کے زمانہ میں لکھی تھی.احمدی کی تعریف ہوں اللہ کا بندہ محمد کی امت ہے احمد سے بعیت خلیفہ سے ساعت میرا نام پوچھو تو میں احمدی ہوں خدا کی عبادت رسولوں کی نصرت قیام شریعت بدلی کی اشاعت مرا نام پوچھو تو میں احمدی ہوں
44 زمانہ سے ان بین بھی میرے دشمن ہوکے کا گر الزام کو چھو تو میں احمدی ہوں یہ ہمیں طلب میں خدا کی بہت خاک چھانی ہر اک دین دیکھا ہر اک جا دعا کی پھر انجام کو چھو تو میں احمدی ہوں د سادس مزائل ہوئے مجھ سے شامل یقیں میرا کامل حول حیثیت میں داخل بآرام پوچھو تو میں احمدی ہوں ہیں اثمار ایماں نجات اور عرفان مقامات مردان عاقات بزدار جو قتسام پوچھو تو میں احمدی ہوں میں کعبیہ ہوں سب کا حرم اپنے رب کا جو ملا مجسم کا تو مادی عرب کا ایک اسلام پوچھو تو میں احمدی ہوں نماز منکر و فحشاء سے انساں کو بچاتی ہے نماز رحمتیں اور برکتیں ہمراہ لاتی ہے نماز ابتداء سے انتہار تک ہے سراسر یہ دعا آدمی کو حق تعالے سے ملاتی ہے نمازہ
١٠٠ پاکبازی اور طہارت وقت کی پابندیاں قدر دانوں کو سبق ایسے پڑھاتی ہے نماز زندگی ہے نخل ایماں کی یہی آب حیات موت ہے ضائع اگر کوئی بھی جاتی ہے نماز اے خدا ہم کو عطا کر اور ہماری نسل کو نعمتیں اور بخشش میں جو جو بھی لاتی ہے نماز ہمارا فرض ہے کرنا دکھ کا پھر آگے چاہے وہ مانے نہ مانے اگر مانے کرم اس کا ہے ورنہ وہ جانے اور اس کا کام جانے خدا ہے غیب داں اور جاتا ہے کہ کیا ہیں نعمت میں اور تازیانے دعائیں کو سبھی ہوتی ہیں منظور یہ فرمایا حضویہ مصطفے نے مگر مل جائے جو مانگا ہے تو نے نہیں ٹھیکہ لیا اس کا خُدا نے کبھی ملتا ہے جو دنیا میں مانگو کبھی حقے کے کھلتے ہیں ترانے کبھی کوئی مصیبت دور ہو کہ بدل جاتے ہیں تلخی کے زمانے
عبادت بن کے رہ جاتی ہیں اکثرا اخدا اور اس کے بندے کو ملانے کبھی مقصد بدل جاتا ہے مثلاً بجائے زر پسر بھیجا خدا نے مگر نقصان دہ جو ہوں شمائیں کریم اس کا ہے گر اسکو زمانے نہیں محروم اس درگاہ سے کوئی کر خشش کے ہزاروں ہیں بہانے میں دنیا پر دیں کو مقدم کروں گا میں دنیا پر دیں و مقدم کروں گا اسی عہد پر اپنے قائم رہوں گا کو پر کر گروں گا پڑوں گا جیوں گا مروں گا مگر قول دے کر نہ ہرگز پھروں گا نہ میں دنیا پر دیں کو مقدم کروں گا اگر دین کو اپنے کر لوں گا قائم | | تو فصلوں کا وارث رہونگا میں دائم ہ گزرے گی یہ عمر مثل بہائم نہ مالک کی خفگی نہ کچھ لوم ولائم میں دنیا پر دیں کو مقدم کروں گا
خدا کا ادب اور خلقت و شفقت خلوص نصیحت نبی کی محبت تخلق یا خلاق باری بغایت عزیز ویسی دین کی ہے حقیقت میں دنیا پر دیں کو مقدم کروں گا مجھے نفس شیطاں سے یارت بچانا نہیں ورنہ اپنا کہیں بھی ٹھکانا جو کمزور ہو اس کو کیا آزمانا میرا عہد خود ہی پورا کرانا میں دنیا پر دیں کو مقدم کروں گا مجھ کو کیا بعیت سے حاصل ہو گیا جب سے میں بعیت میں داخل ہو گیا تارک جملہ رزائل ہو گیا اک سپاہی بن گیا اسلام کا گھر سے لڑنے کے قابل ہو گیا کفر ہو گئی آنکھوں میں یہ دنیا ذلیل اور مقدم دین کامل ہو گیا مال اور املاک وقف دیں ہوئے شوق جاہ و مال زائل ہو گیا جہل کی تاریکیوں میں تھا اسیر احمدی ہوتے ہی فاضل ہو گیا کیا عجب اس سلسلہ کا حال ہے کل کا جاہل آن عاقل ہو گیا
١٠٣ تھا کیمی جو تارک فرض شنی اب وہ پابند نواخل ہو گیا اب دعائیں بھی لگیں ہونے قبول فضل رتی جسے شامل ہو گیا حب قرآن عشق ختم المرسلیں ہر رگ و ریشہ میں داخل ہوگیا خاتمہ بالخیر کر دے اب خدا راستہ سیدھا تو حاصل ہو گیا طیبہ کی آمین طیبہ جی نے پڑھ لیا قرآں ہے یہ اللہ کا بڑا احسان اے خدا اے رحیم اے رحماں کی قدر میں کم ترے ہر آن قدر آں تو نے توفیق اور تمت دی اور پڑھنے کے سب دیئے ساماں یا تو پڑھتی تھی کل الف بے تے یا شنا آج ختم ہے قرآں جس طرح تو تے لفظ سکھلا کر کر دیا ہم کو خرم و شاداں میں سکھا دے اسی طرح یارب ترجمہ اور مطالب فرقان قلب میں طیبہ کے بھر دے تو نور فنر قال حلاوتِ ایماں کھول دے اس کے بھائی بہنوں پر راه مهر و محبت و عرفان
۱۰۴ اور جماعت کے سارے بچوں پر فضل سے اپنے کہ یہی رحماں ے عزیز وشنو کہ بے قرآن حق سے ملتا نہیں کبھی انساں اس لئے شوق سے اسے سیکھو تا بنو تم مقرب یزداں ترجمہ اور حقیقت اور مطلب دین اسلام کی یہی پہچاں اپنے مالک کی یہ کتاب پڑھو اس کی مرضی کے ہو اگر جویاں عقل آتی ہے اس کے پڑھے سے علم بڑھتا ہے ہر گھڑی ہر آں پاک کرتی ہے سب گنا ہوں سے دور کرتی ہے گھر اور عصیاں یا الہی بنادے ہم سب کو فضل سے اپنے ماہر شر آں فیض سے اپنے خاص کر ہم کو تاکہ ہم دوسروں کو دیں فیضاں
پیارے بچو! اپنے لئے خدمت دین کی توفیق کی دعا مانگا کرو پھر ہمیں اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا پیار ملے گا.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں اگر کوئی تائید دین کے لئے ایک لفظ نکال کر ہمیں دے دے تو ہمیں موتیوں اور اشرفیوں کی جھولی سے بھی زیادہ بیش قیمت معلوم ہوتا ہے.جو شخص چاہے کہ ہم اُس سے پیار کریں اور ہماری دعائیں نیازمندی اور سوز سے اس کے حق میں آسان ہو جائیں وہ ہمیں اس بات کا یقین دلا دے کہ وہ خادمِ دین ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے“ ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۷
خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اُس پر نشار اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شبہ کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب سے دے چکے مال و جاں بار بار ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار لگاتے ہیں دل اپنا اُس پاک سے وہی پاک جاتے ہیں اس خاک سے