Ju-eShereen

Ju-eShereen

جوئے شیریں

احمدی بچوں کے لئے منتخب نظمیں
Author: Other Authors

Language: UR

UR
بچوں کے لئے
منظوم کلام

Book Content

Page 1

جوئے شیریں احمدی بچوں کے لئے منتخب نظمیں

Page 2

澜 SyRe رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا اے میرے رب میرے علم کو بڑھا.رَبِّ ارني حقائق الأشياء اے میرے رب مجھے اشیاء کی حقیقت دیکھنے والی نظر دے.

Page 3

جوئے شیریں انتخاب از کلام حضرت مسیح موجود مرزا غلام احمد قادیانی ( آپ پر سلامتی ہو) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی المصلح موعود (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفة المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) - حضرت میر محمد اسمعیل صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو)

Page 4

شماره جو نے شیریں یخ خورشید احمد

Page 5

پیش لفظ بفضلہ تعالی الجنہ اماءالله کو جشن تشکر کے سلسلے کی 49 دیں کتاب جوئے شیریں ، پیش کرنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے.جوئے شیریں ، بچوں کے لئے نظموں پرمشتمل کتاب ہے.نظموں کا انتخاب محترم شیخ خورشید احمد صاحب (سابق ایڈیٹر الفضل نے کیا تھا.آپ کو حضرت سیدہ مریم صدیقہ حرم حضرت خلیفة المسیح الثانی ( صد البته امام الله مرکز بی) مرحومه مغفورہ کی رہنمائی حاصل تھی.کتاب کا تعارف بھی آپ ہی کا تحریر کردہ ہے." جوئے شیریں ، اب نایاب ہو چکی تھی.اللہ تعالیٰ اپنے بے شمار فضل نازل فرمائے محترم شیخ خورشید احمد صاب پر جنہوں نے اس جوئے شیرین کو جاری رکھنے کا کام لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کے حوالے کر دیا.اس کے علاوہ بچوں کے لئے اپنی دوسری کتابین را و ایمان، اور مختصر تاریخ احمدیت بھی لجنہ کراچی کو نایت کر دی ہیں.فجزاہ اللہ تعالی احسن الجزاء - ہماری خوش قسمتی کہ ہمیں حضرت خلیفة المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر والعزيز کا کر معارف کلام بھی میسر ہے چنانچہ اس کتاب میں آپ کی نظموں کا اضافہ کر دیا گیا ہے.یہ نظمیں ایم ٹی اے کی وجہ سے زبان زد عام ہو چکی ہیں.بچے انہیں ایک

Page 6

ہی پیاری کتاب میں دیکھ کر بہت خوش ہوں گے.اور مائیں بھی یقیناً یہی پسند کریں گی کہ اُن کے بچے پاکیزہ نظمیں پڑھیں.تاکہ اُن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت پر پکڑے اور پھر اُن کا ہر فعل دین حق کی سر بلندی کے لئے وقف ہو جائے.اللہ تعالیٰ ہماری اس کوشش کو قبول فرمائے اپنی رضا کی جنت عطا فرمائے عزیزه امتہ الباری ناصر صاحبہ اور اُن کی معاونات کو اپنی دعاؤں میں ضرور یادرکھیں جن کی محنت اور جذبہ خدمت دین کی بدولت مفید دینی علم ہمارے گھروں تک پہنچتا ہے.جزا من اللہ تعالیٰ احسن الجزاءور

Page 7

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تعارف در قم فرموده حضرت سید مریم صدیق صاحبه مدخلها العالي من الجراما راست مرکزی) احمدی بچوں میں مذہب سے محبت اور مذہب کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کے پڑھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ کتب شائع کی جائیں جہاں نشری ادب شائع کرنے کی ضرورت ہے وہاں تعظموں پرمشتمل کتا بچوں کی بھی ضرورت ہے تاکہ بیچھے ایسی نظمیں پڑھیں اور یاد کریں مین سے ان کے دلوں میں خدا تعالے کی عظمت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وتم سے محبت پیدا ہو، بچے جو بات سنتے ہیں بہت جلد باد کر لیتے ہیں.ریڈ یوٹی وی وغیرہ پرسن سن کر جو نظمیں انہیں یاد ہوتی ہیں وہ ان میں اعلیٰ اخلاق و اقدار پیدا کرنے کی بجائے بسا اوقات مضر اثرات پیدا کر دیتی ہیں.بہت ضروری ہے کہ اچھی نظمیں نہیں

Page 8

یاد کرائی جائیں.مکرمی شیخ خورشید احمد صاحب نے حضرت سیے موعود ( آپ پر سلامتی موم حضرت مصلح موعود حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت ڈاکٹر میر محمد تشکیل صاحب اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے کلام میں سے بیچھوں کے مناسب حال انتخاب کیا ہے.اس سے قبل وہ بچوں کے لئے راہ ایمان اور مختصر تاریخ احدیت میں لکھ چکے ہیں جو بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے بہت مفید ثابت ہوئیں.احباب کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو یہ نظمیں یاد کرائیں ان کا مطلب بجھائیں تا ان کے دلوں میں اسلام سے محبت پیدا ہو.اسلام کے لئے غیرت پیدا ہو اسلام کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا ہو.اور قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق زندگیاں گزارنے کا شوق پیدا ہو.

Page 9

نمبر شمار منتخب نظموں کی فہرست عنوان مصنوغیر کلام حضرت مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہو) صفحه ۱۲ تا صفحه ۳۸ اللہ تعالیٰ کی صفات قرآن مجید کے فضائل اسلام کی صداقت ۴.حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہ ہمارے عقائد نصرت الہی و وفات مسیح علیہ السلام ے تقوے -A اولاد کے حق میں دعائیں و صداقت حضرت مسیح موعود شہادت دعائے فاتحہ مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل کشا کے سامنے ۱۲ دردمندانہ دعائیں ۱۳ ۱۵ ۲۱ 1 = \ 2 2 [ { ۲۹

Page 10

ا ہمارا خدا ۲.قرآن مجھ کو دیدے.محمد پر ہماری جاں فدا ہے - یکی دُنیا میں سب کا بھلا چاہتا ہوں بلند پروازی کی ترغیب.آمین کی تقریب پر یاد جس دل میں ہو اس کی وہ پریشان نہ ہو بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے عہد شکنی نہ کمر و اہل وفا ہو جاؤ ظہور مہدی آخر زماں ہے راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو ۱۳ - نونہالان جماعت سے خطاب خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی ۱۴.جائیں گے ہم جہاں بھی کہ جانا پڑے ہیں ا قادیان کی یاد میں 19.تعریف کے قابل ہیں یا رب تیرے دیوانے یہ درد رہے گائن کے دوا تم صبر کر ووقت آنے دو ۴۲ ۴۴ ۴۵ है है है है : اه ۵۲ ۵۴ ۵۵ ۵۸ ۵۹ 41 ۲۲ کلام حضرت مرزا طاہر احمد خلیفة اسم الرابع ابنه الله على بصره العزيز مصلا تا ۹ ایک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی اسے شاہ مکی و مدنی سید انوری 44 4<

Page 11

-A +11 حضرت سید ولید آدم صلی اللہ علیہ وسلم ذکر سے بھر گئی ربوہ کی زمیں آج کی رات ہیں یادہ مست باده است ام احمدیت دو گھڑی صبر سے کام ہو ساتھیو ہم آن ملیں گے متوالو بیس دیر ہے کل یا پرسوں کی وقت کم ہے.بہت ہیں کام.چلو اپنے دیس میں اپنی لیستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا ہیں لوگ وہ بھی چاہتے ہیں دولتِ جہاں ملے نذر الاسلام کی ایک نظم کا منظوم ترجمہ کلام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہوں.پرواز کے پر پیدا کر کلام حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اللہ تعالی آپ سے راضی ہوا راه تا 1 ا پاک محمد مصطفے نبیوں کا سردار ۲.اللہ تعالیٰ کے حضور جاتے ہو مری جان خدا حافظ و ناصر التجائے قادیان.درویشان قادیان کے نام - بیٹی کی تقریب رخصتانہ پر حضرت مصلح موعود کی شان کی مقام محمود ۸۵ AC AA ۹۲

Page 12

کلام حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب اللہ تعالی آپکے راضی ہو) ماه تا 1 سلام حضور خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم محمد مصطفے سے جیتے ہے قرآن سب سے اچھا قرآن سب سے پیارا احمدی بچی کی دعا میرا نام پوچھو تو میں احمدی ہوں - نماز دُعا میں دُنیا پر دین کو مقدم کروں گا مجھ کو کیا بیعت سے حاصل ہو گیا ۱۰- امين 90 94 9< A 44 ١٠٢ ١٠٣

Page 13

انتخاب کلام حضرت مسیح موعود آپ پر سلامتی ہو) از در همین اردو)

Page 14

اللہ تعالیٰ کی صفات وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو جو کچھ کنبوں میں پاتے ہو اس میں وہ کیا نہیں سورج پہ خود کر کے نہ پائی وہ روشنی جب چاند کو بھی دیکھا تو اُس پار سا نہیں واحد ہے لاشریک ہے اور لازوال ہے سب موت کا شکار میں اُس کو فنا نہیں سب خیر ہے اس میں کہ اُس سے لگاؤ دل ڈھونڈو اسی کو بارد مقتوں میں وفا نہیں اس جائے کہ عذاب سے کیوں دل لگاتے ہو دوزخ ہے یہ مقام یہ پستان مرا نہیں قرآن مجید کے فضائل جمال وحسن قرآن نور جان پر سلماں ہے ترمے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآن ہے

Page 15

نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کہ دیکھا بھلا کیونکر نہ ہوسکیت کلام پاک جمال ہے بہار جاوداں پیدا ہے اس کی ہر عبارت میں ن وہ خوبی چین میں ہے نہ اس سا کھائی کہستاں ہے خدا کے قول سے قول بشر کیونکر برابر ہو وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہے بنا سکتا نہیں اک پاؤں کپڑے کا بشر ہرگز تو پھر کیونکر بنانا اور حق کا اس پہ آساں ہے ہمیں کچھ کیں نہیں بھا ئیو نصیحت ہے غریبانہ کوئی جو پاک دل ہوئے مل جہاں اُس پہ قرباں ہے نور فرقاں ہے جو سب ٹوروں سے اجیلی نکال پاک وہ میں سے یہ انوار کا دریا نکلا حق کی توحید کا مرتھا ہی چہ تھا پودا ناگہاں غیب سے یہ چشمہ اصفی انکلا

Page 16

JP یا الہی ! ترا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں نہیں نکلا سب جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں مئے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا کسی سے اس ٹور کی ممکن ہو.جہاں میں تشبیہ وہ تو ہر بات میں سر وصف میں بیتا نکلا قرآن کتاب تناں سکھلائے راہِ عرفان جو اس کے پڑھنے والے اُن پر خدا کے فیضاں اُن پر خدا کی رحمت جو اس پر لائے ایماں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَن تَرَانِي ہے چشمہ ہدایت جس کو ہو یہ عنایت یہ ہیں خدا کی باتیں ان سے ملے ولایت یہ نور دل کو بجھے دل میں کرے سرایت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي

Page 17

۱۵ قرآن کو یا د رکھنا پاک اعتقاد رکھنا فکر معاد رکھنا پاس اپنے زاد رکھتا اکسیر ہے پیارے صدق وسداد رکھنا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يراني اسلام کی صداقت اسلام سے نہ بھا گو راہ ہوئی یہی ہے اے سونے والو جاگو شمس الضحی یہی ہے مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہم میں بنایا اب آسمان کے نیچے دین خدا یہی ہے دنیا کی سب دکھا ئیں ہیں ہم نے دیکھیں بائیں آخر ہوا یہ ثابت دار الشفاء یہی ہے سب خشک ہو گئے ہیں جتنے تھے باغ پہلے ہر طرف میں نے دیکھا بستاں سہرا یہی ہے دُنیا میں اس کا ثانی کوئی نہیں ہے شربت پی لو تم اس کو یار و آب بقا یہی ہے

Page 18

14 اسلام کی سچائی ثابت ہے جیسے سورج پر دیکھتے نہیں ہیں دشمن کا یہی ہے اسلام کے محاسن کیونکہ بیاں کروں میں سب خشک باغ دیکھے پھول پھلا ہی ہے نسر طرف فکر کو دوڑا کے تھکا یا ہم نے کوئی دیں دین محند سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلاوے یہ عمر بارغ مستند سے ہی کھایا ہم نے ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا نور ہے نور الھو دیکھو سُنا یا ہم نے اور دینیوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے آؤ لوگو کہ نہیں نُورِ خدا پاؤ گے لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے

Page 19

شان حضرت محمد مصطفے صل اللہ علیہ وسلم وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمدہ دلبر مرا یہی ہے سب پاک ہیں ہمیر اک دوسرے سے بہتر یک از خدائے برتر خیر الور سے یہی ہے وہ آج شاہ دیں ہے وہ تاج مرسلین ہے وہ طیب وامیں ہے اس کی شنا یہی ہے وہ دلبر یگانہ علموں کا ہے خزانہ باقی ہے سب فسانہ ہے بے خطا ہی ہے اُس ٹور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں میں فیصلہ یہی ہے سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے

Page 20

مصطفے پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت اُس سے یہ نور لیا بار خدا یا ہم نے ربط ہے جان محمد سے میری جاں کو مرام دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے اس سے بہتر نظر آیا نہ کوئی عالم میں لاجرم غیروں سے دل اپنا چھڑا یا ہم نے تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے شان حق تیرے شمائل میں نظر آتی ہے تیرے پانے سے ہی اس ذات کو پایا ہم نے چھو کے دامن ترا ہر کام سے ملتی ہے ہوتے لا حرم در پہ ترے سر کو جھکایا ہم نے دلبرا مجھ کو قسم ہے تیری یکتائی کی آپ کو تیری محبت میں بھلایا ہم نے

Page 21

14 ہم ہوئے غیر اہم تجہ سے ہی اے خیر ارسال تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام مرچ میں تیری وہ گاتے ہیں ہو گا یا ہم نے قوم کے ظلم سے تنگ آ کے مرے پیارے آج شور محشر ترے کوچہ میں چھایا ہم نے ہمارے عقائد ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں دل سے ہیں خدام ختم المرسلین شرک اور بدعت سے ہم بیزار ہیں خاک راه احمد مختار ہیں سارے حکموں پر تمہیں ایمان ہے جان و دل اس راہ پر قربان ہے دے چکے دل اب تنِ خاکی رہا ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی خدا

Page 22

نصرت الہی خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے جب آتی ہے تو اک عالم کو اک عالم دکھاتی ہے وہ منبتی ہے ہوا اور پرنس راہ کو اڑاتی ہے وہ ہو جاتی ہے آگ اور ہر مخالف کو جلاتی ہے کبھی وہ خاک بن کر دشمنوں کے سر پہ پڑتی ہے کبھی ہو کہ وہ پانی ان پیراک طوفان لاتی ہے غرض رکھتے نہیں ہرگزہ خدا کے کام بندوں سے بھلا خالق کے آگے خلق کی کچھ نہیں جاتی ہے وفات حضرت بی خاصی علیه السلام این مریم مر گیا حق کی قسم داخل جنت ہوا وہ محترم ماتا ہے اس کو فرقان مصریر اس کے مرجانے کی دیتا ہے غیر وہ نہیں باہر رہا ہوا سے ہو گیا ثابت یہ نہیں آیا ہے

Page 23

۲۲ کوئی مردوں سے کبھی آیا نہیں یہ تو فرقاں نے بھی بتلایا نہیں اسے عزیز و سوچ کر دیکھو خدا موت سے بچتا کوئی دیکھا پھیلا کیوں بنایا ابن مریم کو خدا سنت اللہ سے وہ کیوں باہر رہا تقویٰ عجب گوہر ہے جس کا نام تقوی مبارک وہ ہے جس کا کام تقوی سنو ہے حاصل اسلام تقومی خدا کا عشق ہے اور حام تقویٰ مسلمانو! بناؤ تام تقولے کہاں ایہاں اگر ہے خام تقوی یہ دولت تو نے مجھ کو اسے خدادی فَسُمَانَ الَّذِي اخْتَرَى الْكَمَادِي مراک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے اگر یہ بڑھ رہی سب کچھ رہا ہے" الباقی مصر) "

Page 24

۲۲ اولاد کے حق میں فروسندانہ دعائیںاور التجائیں حمد وثنا اُسی کو جو ذاتِ جاودانی ہمسر نہیں ہے اس کا کوئی نہ کوئی ثانی باقی وہی ہمیشہ بغیر اس کے سب ہیں فانی غیروں سے دل لگا نا جھوٹی ہے سب کہانی سب غیر ہیں وہی ہے اک دل کا بیارِ جانی دل میں مرے نہیں ہے سُبحان من تراني تو نے یہ دن دکھا یا محمود پڑھ کے آیا دل دیکھ کر یہ احسان تیری ثنا میں لگایا صد شکر ہے خدا یا صد شکر ہے خدایا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ تَرَانِي ہے آج ختم قرآن نکلے میں دل کے ارماں تو نے یہ دن دکھایا میں تیرے منہ کے قرباں

Page 25

M اے میرے رب محسن کیونکر پیشکر احساس یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي لختِ جگر ہے میرا محمود بندہ تیرا دے اس کو عمر و دولت کر دور پر اندھیرا دن ہوں گرا دوں والے پر نور ہو سویرا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ تَرَانِي اس کے ہیں دوبرا اور ان کو بھی رکھیو خوشتر تیرا بشیر احمد تیرا شریف اصفه اے میرے دل کے پیارے اے مہرباں ہمارے کر ان کے نام روشن جیسے کہ میں ستارے یہ فضل کر کہ ہو دیں سیکو گہر یہ سارے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي یہ تین جو پسر ہیں تجھ سے ہی یہ نمبر ہیں یہ میرے بارو بر میں تیرے غلام در ہیں تو پیچھے وعدوں والا متشکر کہاں کدھر ہیں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ تَرَاني

Page 26

۲۴ کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دینی دولت کہ ان کی خود حفاظت ان پہ ہو تیری چیست دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عرات یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ تَرا ني شیطان سے دور رکھیو اپنے حضور رکھیں جان پرتو نور رکھیو دل کر سور رکھیو ان پر میں تیرے قرباں رحمت ضرور رکھیو یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي میری دعائیں ساری کریو قبول باری میں جاؤں تیرے داری کر تو مدد ہماری ہم تیرے در پہ آئے لے کر امید بھاری یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ تَرَانِي یہ مینوں تیرے چاکر ہو دیں جہاں کے ر ہیر یہ ہادی جہاں ہوں یہ ہوویں نور یکسر یہ مرجع شہاں ہوں یہ ہوویں مہر انور یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَن تراني

Page 27

ایل وقار ہوویں ، فخر دیا نہ ہوویں حق پر نثار ہو دیں مولیٰ کے یار ہوویں با برگ و بار ہو دیں اک سے ہزار ہوویں یہ روز کر مبارک سُلْمَانَ مَنْ يراني عیاں کر ان کی پیشانی پر اقبال بچانا ان کو پرنم سے بہر حال نہ آئے ان کے گھر تک رعب دبال نہ ہوں وہ دُکھ میں اور رنجوں میں پلال یہی امید ہے دل نے بتادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْأَمَادِي نجات ان کو عطا کر گندگی سے سمات ان کو عطا کر بندگی سے رہیں خوشحال اور فرخندگی سے بچانا اے خدا به زندگی سے

Page 28

وہ ہوں میری طرح دیں کے منادی نَسلِمَاتِ الذِي أَخْرَى الْأَمَارِي خُدایا تیرے فضلوں کو کیوں یاد بشارت تو نے دی اور پھر یہ اولا و کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد خبر تو نے یہ مجھ کو بارہا دی كَيْمَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَحَادِي مری اولاد سب تیری عطا ہے ہر اک تیری بشارت سے ہوا ہے یہ تیرا فضل ہے اسے میرے ہادی فَسُحَانَ الَّذِي اخْتَرَى الْأَعادِي بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہوگا ایک دن محبوب میرا

Page 29

٢٤ کروں گا دُور اُس مہ سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا بشارت کیا ہے اک دل کی غذادی فَسُبْحَانَ الَّذِي احْزَى الأعادي تجھے حمدوثنا زیبا ہے پیارے کہ تو نے کام سب میرے سنوارے تیرے احساں نہیں میرے سر پہ بھارے چمکتے ہیں وہ سب جیسے ستارے شرمیوں پر پڑے ان کے شرارے نہ ان سے تک سکے مقصد ہمارے انہیں ماتم ہمارے گھر میں شادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَمَادِي تجھے سب زور قدرت ہے خدایا تجھے پایا ہراک مطلب کو پایا سہراک عاشق نے ہے اک بیت بنایا ہمارے دل میں یہ دلبر سمایا

Page 30

وہی آرامیم جاں اور دل کو بھایا و ہی جس کو کہیں رب البر یا ہوا ظاہر وہ مجھ پر بالا میاد منی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَمَادِي مجھے اس یار سے پیوند جای ہے وہی حینت وہی دار الاماں ہے بیاں اس کا کروں طاقت کہاں ہے محبت کا تو اک دریا رواں ہے یہ کیا احسان ہیں تیرے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْإِمَادِي کہاں تک حرص و شوق مال فانی اُٹھو ڈھونڈو متنارع آسمانی کرد کچھ فکر ملک جاودانی یہ ملک و مال ہے جھوٹی کہانی خدا نے اپنی راہ مجھ کو بتادی فَسُبْحَانَ الزِي اخْرَى الْأَمَادِي

Page 31

دلائل صداقت حضرت یح موعود آپ پر لاتی ہوں اک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیر غار کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا معتقد لیکن اب دیکھو کہ چہ چاکس قدر ہے ہر کنار اُس زمانہ میں خدا نے دی تھی شہرت کی خیر جو کہ اب پوری ہوئی بعد از مرو به روزگار اب ذرا سوچو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے اس قدر امر یہاں پر کسی بشر کو اقتدار دیکھو خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا گمنام پا کے شہرہ عالم بنا دیا جو کچھ مری مراد محنتی سب کچھ دکھا دیا میں اک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا

Page 32

I راک قطرہ اس کے فضل نے دریا بتا دیا میں خاک تھا اُسی نے جھریا بنا دیا میں تھا غریب و بیکس و گنام دبے ہنر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر لوگوں کی اس طرف کو ذرا بھی منتظر نہ تھی میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی آپ دیکھتے ہو کیسا جویا جہاں ہوا اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا لغت ہے مفتری پر خدا کی کتاب میں عزت نہیں ہے ذرہ بھی اسکی جناب میں توریت میں بھی نیت کلام مجید میں لکھا گیا ہے رنگ و عید شہید میں کوئی اگر خدا پر کرے کچھ بھی افترا ہو گا وہ قتل ہے یہی اس مجرم کی سزا

Page 33

۳۱ پھر یہ عجیب غفلت رب قدیر ہے دیکھے ہے ایک کو کہ وہ ایسا شریر ہے پچیس سال سے ہے وہ مشغول انتہا سردان ہر ایک رات یہی کام ہے رہا پھر بھی وہ ایسے شوخ کو دیتا نہیں سزا گویا نہیں ہے یاد جو پہلے سے کہہ چکا کیا وہ خدا نہیں ہے جو فرقاں کا ہے خدا پھر کیوں وہ مفتری سے کرے اس قدر وقا کوئی بھی مفتری ہمیں دنیا میں آپ دکھا جس پر یہ فضل ہو یہ عنایات یہ عطا جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اسے روبہ زار و نزار کیوں مجب کرتے ہو گر میں آگیا ہو کر سیح خورد مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ یاد بسیار

Page 34

آسماں پر دعوتِ حق کے لئے اک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مردوں کی تا گاہ زندہ وار یہ اگر انساں کا ہوتا کاروبار ائے ناقصاں ایسے کاذب کے لئے کافی تھا وہ پروردگار کچھ بھی حاجت تمہاری نے تمہارے کمر کی خود مجھے نابود کرتا وہ جہاں کا شہریار پاک و برتر ہے وہ جھوٹوں کا نہیں ہوتا نصیر ورز اُٹھ جائے اماں پھر نیچے ہو دیں شرمسار اس قدر نصرت کہاں ہوتی ہے اک کذاب کی کیا تمہیں کچھ ڈر نہیں کرتے ہو کیوں بڑھ بڑھ کے گار سر طرف آواز دیتا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار

Page 35

۳۳ آسماں میرے لئے تو نے بنا یا اک گواہ چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک وتار تو نے طاعوں کو بھی بھیجا میری نصرت کے لئے تا وہ پورے ہوں نشاں جو ہیں سچائی کا مدار وہ لغو دیں ہے جس میں فقط قصہ جات ہیں ان سے رہیں الگ جو سعید الصفات میں صد حیف اس زمانہ میں قصوں پہ ہے مدار قصوں پر سارا دیں کی سچائی کا انحصار پر تفتقد معجزات کا کچھ بھی نشاں نہیں پس یہ خُدائے قصہ خدا نے جہاں نہیں دنیا کو ایسے قصوں نے یکسر تباہ کیا مشرک بنا کے گھر دیا، روسیہ کیا جس کو تلاش ہے کہ ملے اس کا کردگار اس کے لئے حرام جو قصوں پر ہونشار

Page 36

اس کا تو فرض ہے کہ وہ ڈھونڈے خُدا کا نور تا ہو دے شک وشبہ بھی اس کے دل کا دور تا اس کے دل پہ نور یقیں کا نزول ہو تا وہ جناب عز و جبل میں قبول ہو وہ رہ جو ذات عز وہیل کو دکھاتی ہے وہ رہ جو دل کو پاک و مظہر بناتی ہے وہ کہ جو یار گمشدہ کو ڈھونڈ لاتی ہے وہ رہ جو جام پاک یقین کا پلاتی ہے وہ تازہ قدرتیں جو خدا پر دلیل ہیں وہ زندہ طاقتیں جو یقیں کی سبیل ہیں اس بے نشاں کی چہرہ نمائی نشاں سے ہے پیچ ہے کہ سب نبوت سچائی نشاں سے ہے وہ خدا آپ بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم آپ بھی اس سے بولتا ہے میں کچھ کہتا ہے پیار

Page 37

۳۵ گوہر وحی خدا کیوں توڑتا ہے ہوش کر اک یہی دیں کے لئے ہے جائے عرب وافتخار شہادت دُعائے فاتحہ اے دوستو جو بھتے ہو اگر الکتاب کو اب دیکھو میری آنکھوں سے اس آفتاب کو سوچو دُعائے فاتحہ کو پڑھ کے بار بار کرتی ہے یہ تمام حقیقت کو آشکار دیکھو خدا نے تم کو بتائی دُعا یہی اس کے حبیب نے بھی پیٹائی دُعا ہی پڑھتے ہو پنج وقت اسی کو نماز میں جانتے ہو اس کی راہ سے ذریے نیاز میں اُس کی قسم کہ جس نے یہ سوتے آندری ہے اس پاک دل پہ جس کی وہ صورت پیاری ہے

Page 38

I یہ میسر رب سے میر لئے اک گواہ ہے یہ میرے صدق دعوئی یہ مہر الا ہے می مسیح ہونے پر یہ اک دلیل ہے میکر لئے یہ شاہد رب جلیل ہے پھر میرے بعد اوروں کی ہے انتظار کیا تو بہ کرو کہ جینے کا ہے اعتبار کیا مشکلیں کیا چیز ہی مشکلکشا کے سامنے اک نہ اک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے چھوڑنی ہوگی تجھے دنیائے فانی ایک دن ہر کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے مستقل رہنا ہے لازم کے بشر تحیہ کو سدا رنج و غم یاس والم فکر دبا کے سامنے

Page 39

۳۷ بارگاہ ایزدی سے تو نہ یوں مایوس ہو مشکلیں کیا چیز ہیں مشکلکشا کے سامنے حاجتیں پوری کرینگے کیا تری عاجز بشر کہ یہاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے چاہیے تجھ کو مٹانا قلب سے نقش روئی سر ٹھیکا میں مالک ارض و سما کے سامنے چاہیے نفرت بدی سے اور نیکی سے پیار ایک دن جاتا ہے تجھ کو بھی خدا کے سامنے راستی کے سامنے کی جھوٹ پھلتا ہے بھلا قدر کیا پتھر کی تعمیل بے بہا کے سامنے

Page 40

f اللہ تعالیٰ کے حضور در مسندانہ دعائیں اسے قدا سے چارہ سازی درود ہم کو خود بچا اے مرے زخموں کے مرہم دیکھ میرا دل فگار می و زخموں پر لگا مرہم کہ میں رنجور ہوں میری فریادوں کوشس میں ہوگی زار و نزار اے مرے پیارے فدا ہو تجھ پہ ہر ذرہ مرا پھیر دے میری طرف اسے ساریاں جنگ کی مہار ان دلوں کو خود مدال دے اے مرے قادر خدا تو تورب العالمیں ہے اور جہاں کا شہریار تیرے آگے محو یا اثبات نا ممکن نہیں جوڑنا یا توڑ نا سب کام تیرے اختیار اسے خدا کمزور ہیں ہم اپنے ماعتوں سے اٹھا تا تواں ہم ہیں ہمارا خود اٹھا لے سارا بار

Page 41

٣٩ I مجھ کو دے اک فوق عادت اے خدا بوش و تپش جس سے ہوجاؤں میں غم میں ہیں کے اک دیوانہ وار وہ لگا دے آگ میرے دل میں ملت کے لئے شکل پہنچیں جس کے ہر دم آسماں تک بے شمار اے خدا تیرے لئے ہر ذرہ ہو میرا خدا مجید کو دکھلاوے بہار دیں کہ جموں میں اشکبار اک کرم کر پھیر دے لوگوں کو فرقاں کی طرف نیز دے توفیق تا وہ کچھ کریں سوچ اور بیچار پیشہ ہے رونا ہمارا پیش رب ذوالمنن یہ شجر آخر کبھی اس نہر سے لائیں گے یار اے خدا اے کارساز و عیب پوش و کردگار اے مرے پیارے مرے محسن میرے پروردگار دوستی کا دکم جو بھرتے تھے وہ سب مٹھی بھوئے پر نہ چھوڑا ساتھ تو نے اے مرے حاجت برار

Page 42

۴۰ لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا ہوگاہ میں بار یه سراسر فضل و احسان ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گذار مکت سمجھ کو نہیں مطلب جنگوں سے ہے کام کام میرا ہے دلوں کو فتح کرتا نے دیار مجھ کو کیا ملکوں سے میر املک کے سر ہے جدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوان یار اے مرے پیاروشکیب وصبر کی عادت کرد وہ اگر پھیلا میں بدبو تم بنو شک تتار گالیاں سن کر دعا دوپا کے دیکھ آرام دو کیر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکار *

Page 43

انتخا كلام رت مصلح موو لایف اسم الثانی اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) ح واز کلام محمود

Page 44

۴۲ هما را خُدا مری رات دن میں یہی اک دُعا ہے کہ اس کالم کون کا اک خدا ہے اُسی نے ہے پیدا کیا اس جہاں کو ستاروں کو سورج کو اور آسماں کو وہ ہے ایک اُس کا نہیں کوئی ہمسر وہ مالک ہے سب کا وہ حاکم ہے سب پر نہ ہے باپ اس کا نہ ہے کوئی بیٹا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ہراک چیز پر اس کو قدر ہے، حاصل مراک کام کی اس کو طاقت ہے، حاصل پہاڑوں کو اس نے بھی کونچا کیا ہے سمندر کو اس نے ہی پانی دیا ہے یہ دریا جو چاروں طرف بہہ رہے ہیں اسی نے ہی قدر سے پیدا کئے ہیں

Page 45

۴۳ سمندر کی مچھلی.ہوا کے پرندے گھر یلو چرندے بنوں کے درندے سبھی کو وہی رزق پہنچا رہا ہے مراک اپنے مطلب کی شے کھا رہا ہے وہ زندہ ہے اور زندگی بخشتا ہے وہ قائم ہے ہر ایک کا آسرا ہے دلوں کی چھپی بات میں جانتا ہے بروں اور نیکیوں کو پہچانتا ہے وہ دیتا ہے بندوں کو اپنے ہدایت دکھاتا ہے ہاتھوں پہ اُن کے کرامت ہے فریاد مظلوم کی سننے والا صداقت کا کرتا ہے وہ بول بالا گتا ہوں کو بخشش سے بٹھانپ لیتا غریبوں کو رحمت سے ہے تھام لیتا یہی رات دن اب تو میری صدا ہے یہ میرا خدا ہے یہ میرا خدا ہے

Page 46

۴۴ قرآن مجھ کو دیے ایمان مجھ کو دیدے عرفان مجھ کو دیدے قربان جاؤں تیرے قرآن مجمہ کو دیدے دل پاک کر دے میرا دنیا کی چاہتوں سے شوحیت سے حقہ سبحان مجھے کو دیدے کر دے جو حق و باطل میں امتیاز کامل اے میرے پیارے ایسا فرقان مجھ کو دیدے ہم کو ترکی رفاقت حاصل رہے ہمیشہ ایسا نہ ہو کہ دھو کہ شیطان مجھ کو دیدے دنبال کی بڑائی کو خاک میں ملادوں قوت مجھے عطا کر سلطان مجھکو دیدے ہو جائیں جس سے ڈھیل سب فلسفہ کی چولیں میں محکیم ایسا بہ بیان مجھ کو دیدے

Page 47

۴۵ محمد پر ہماری جاں فدا ہے مستمد پر ہماری جاں خدا ہے کہ وہ کوئے صنم کا راہ نما ہے مرا دل اس نے روشن کر دیا ہے اندھیرے گھر کا میرے وہ دیا ہے مجھے اس بات پر ہے فخر محمود مرا معشوق محبوبِ خدا ہے محمد جونم را پیشوا ہے محمد جو کہ محبوب خدا ہے ہو اس کے نام پر قربان سب کچھ کہ وہ شاہنشہ ہر دوسرا ہے خدا کو اس سے مل کر ہم نے پایا و ہی اک راہ دیں کا راہ نما ہے

Page 48

میں دنیا میں سب کا بھلا چاہتا ہوں بتاؤں تمہیں کیا کہ کیا چاہتا ہوں ہوں بندہ مگر میں خدا چاہتا ہوں میں اپنے سیہ خانہ دل کی خاطر وفاؤں کے خالق وفا چاہتا ہوں جو پھر سے سرا کر دے سر خشک پودا چمن کے لئے وہ صبا چاہتا ہوں مجھے بیر ہرگز نہیں ہے کسی سے میں دنیا میں سب کا بھلا چاہتا ہوں ور ہی خاک جس سے بنا میرا پتلا میں اس خاک کو دیکھنا چاہتا ہوں نکالا مجھے جس نے میرے چمپین سے میں اس کا بھی دل سے بھلا چاہتا ہوں میرے بال و پر میں وہ بہت ہو پیدا کہ لے کہ قفس کو اڑا چاہتا ہوں

Page 49

بلند پروازی کی ترغیب میں اپنے پیاروں کی نسبت ہر گز نہ کرونگا پسند کبھی وہ چھوٹے درجہ پر راضی ہوں اور انکی نگاہ رہے نیچی وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مشیروں کی طرح سفر آتے ہوں ادنی سا تصور اگر دیکھیں تو منہ میں کف بھر لاتے ہوں وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر امید لگائے بیٹھے ہوں وہ اوئی اوئی خوشی کو مقصود بنائے بیٹھے ہوں شمشیر زباں سے گھر بیٹھے دیمن کو مارے جاتے ہوں میدان عمل کا نام بھی تو تو جھینپتے ہوں گھیراتے ہوں اے میری الفت کے طالب ! یہ میرے دل کا نقشہ ہے اب اپنے نفس کو دیکھ لے تو وہ ان باتوں میں کیسا ہے ہے تو اہش میری الفت کی تو اپنی نگاہیں اونچی کر تدبیر کے جھانوں میں مت پھینس کو قبضہ جا کے مقدر پر

Page 50

میں واحد کا ہوں دلدادہ اور واحد میرا پیارا ہے گر تو کبھی واحد بن جائے تو میری آنکھ کا تارا ہے تو ایک ہو ساری دنیا میں کوئی ساتھی اور شریک رہو تو سب دنیا کو دے لیکن خود تیرے ہاتھ میں بھیک ہجو رحضرت سیدہ مریم صدیقی کی امین رنوٹ : لجنات بچیوں کی امین کے موقع پر یہ ڈھائی نظم پڑھا کریں) مریم نے کیا ہے ختیم متراں اللہ کا ہے یہ اس پر احساس الفاظ تو پڑھ لئے ہیں سارے اب باقی ہے مطلب اور عرفاں اللہ سے یہ میری دعا ہے ان کو بھی کرے وہ اس پہ آساں توفیق ملے اسے عمل کی کامل ہو ہر اک جہت سے یہاں مولے کی عنایت و کرم کا سایہ رہے اس کے سربہ ہر آن حلقہ میں ملائکہ کے کھیلے ہر دم رہے اور اس سے شیطان ہو فضل خدا کی اس پر بارش پھیلا رہے خوب اس کا داماں

Page 51

3.سر وقف خیالِ یار از لی دل ٹو پر وفا سے مہر تاباں آنکھوں میں حیا پک رہی ہو منہ حکمت و نسل سے ڈر افشاں فکروں سے خُدا اسے بچائے پیدا کرے مومی کے ساماں ہو دونوں جہان میں معزز ہوں چھوٹے بڑے سبھی ثنا خواں مرضی ہو خدا کی اس کی مرضی مولیٰ کی رضا کی ہو یہ جو یاں سب عمر بسر ہو رتقا میں ہر لحظہ رہے یہ زیر بشر ماں امین کہیں میری دعا پر بیٹے ہیں تمام لوگ جو مولیٰ سے دُعا ہے پیاری بہنو ! تم کو بھی دکھائے وہ یہ خوشیاں

Page 52

یا د جس دل میں ہو اس کی وہ پریشان نہ ہو یاد جبس دل میں ہو اس کی وہ پریشان نہ ہو ذکر میں گھر میں ہو اس کا کبھی ویران نہ ہو حیف اس سر پر کر نہ ہو تابع تف ہے اس دل پر کہ جو بندہ احسان نہ ہو.وقت حسرت نہیں یہ ہمت و کوشش کا ہے وقت عقل و دانائی سے کچھ کام لے نادان نہ ہو یاد رکھ لیک کہ غلبہ نہ ملے گا جب تک دل میں ایمان نہ ہو ہاتھ میں قرآن نہ ہو کس طرح مانوں کہ سب کچھ ہے خزانے میں ترے پر ترے پاس مرے درد کا درمان نہ ہو کام وہ ہے کہ ہو جس کام کا انجام اچھا بات وہ ہے کہ جسے کہہ کے پشیمان نہ ہو

Page 53

بڑھتی ہے خدا کی محبت خدا کرے بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے حاصل ہو تم کو دید کی لذت خُدا کرے توحید کی ہولب پہ شہادت خُدا کرے ایمان کی ہو دل میں حلاوت خدا کرے حاکم رہے دلوں پر شریعت خدا کرے حاصل ہو مصطفے کی رفاقت خدا کرے مل جائیں تم کو زید و دیانت خدا کرے مشہور ہو تمہاری دیانت خُدا کرے ہر گام پر فرشتوں کا شکر ہو ساتھ ساتھ ہر ملک میں تمہاری حفاظت خُدا کرے قرآن پاک ہاتھ میں اور دل میں نور جو مل جائے مومنوں کی فراست خُدا کرے

Page 54

۵۲ بطحا کی وادیوں سے جو نکلا تھا آفتاب بڑھتار ہے وہ نور نبوت خُدا کرے قائم ہو پھر سے حکیم محمد جہان میں ضائع نہ ہو تمہاری یہ محنت خدا کرے تم ہوندا کے ساتھ خدا ہو تمہارے ساتھ موں تم سے ایسے وقت میں نعمت خدا کے اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ مت کے اس خدائی پہ رحمت خدا کرے شکنی نہ کرو اہل وفا ہو جاؤ عب شکنی نہ کرو اہل وفا ہو جاؤ اہل شیطان نہ بنو اہل خدا ہو جاؤ گرتے پڑتے دَر مولے یہ رسا ہو جاؤ اور پروانے کی مانند فدا ہو جاؤ

Page 55

۵۳ جو ہیں خالق سے خفا اُن سے خفا ہو جاؤ جو ہیں اس در سے جُدا اُن سے جدا ہو جاؤ حق کے پیاسوں کے لئے آپ بقا ہو جاؤ خشک کھیتوں کے لئے کالی گھٹا ہو جاؤ قطب کا کام دو تم شکست و تاریخی میں بھولے بھٹکوں کے لئے راہ نما ہو جاؤ راہ مولے میں جو مرتے ہیں وہی جیتے ہیں موت کے آنے سے پہلے ہی فنا ہو جاؤ مورد فضل و کرم وارث ایمان و بری عاشق احمد و محبوب خدا ہو جاؤ

Page 56

۵۴ ظہور مہدی آخر زماں ہے ظہور مہدی آخر زماں ہے سنبھل جاؤ کہ وقت امتحان ہے محمد میرے تن میں مل جہاں ہے یہ ہے مشہور جاں ہے تو جہاں ہے گیا اسلام سے وقت خزاں ہے ہوئی پیدا بہار جاوداں ہے نہیں دنیا کی خواہش ہم کو ہرگز خدا دیں پر ہی اپنا مال و جہاں ہے نہیں اسلام کو کچھ خوف محمود کہ اس گلشن کا احمد باغباں ہے رضی ہیں ہم اسی میں جس میں توری فنا ہو ہو فضل تیرا یارب یا کوئی ابتلا ہو راحتی ہیں ہم اس میں میں میں تری رضا ہو مٹ جاؤں میں تو اس کی پرواہ نہیں ہے کچھ بھی میری فنا سے حاصل گردین کو بقا ہو

Page 57

۵۵ سینہ میں جوش غیرت اور آنکھ میں حیا ہو لب پر ہو ذکر تیرا دل میں تری وفا ہو شیطان کی حکومت مٹ جائے اس جہاں سے حاکم تمام دنیا پر میرا مصطفے محمود عمر میری کٹ جائے کاش یونہی ہو رُوح میری سجدہ میں سامنے خُدا ہو نونہالان جماعت سے خطاب نونہالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو چاہتا ہوں کہ کروں چند نصائح تم کو تا کہ پھر بعد میں مجھ پر کوئی الزام نہ ہو جب گزر جائیں گے ہم تم پہ پڑے گا سب بار شتیاں ترک کرو طالب آرام نہ ہو

Page 58

04 خدمت دین کو اک فضل الہی جانو اس کے بدلہ میں کبھی طالب انعام نہ ہو دل میں ہو اور تو آنکھوں سے رواں ہوں آنسو تم میں اسلام کا ہو مغز فقط نام نہ ہو عقل کو دین پر حاکم نہ بتاؤ ہرگز یہ تو خود اندھی ہے گر تیر الہام نہ ہو رغبت دل سے ہو پابند نماز و روزه نظر انداز کوئی حقہ احکام نہ ہو پاس ہو مال تو دو اس سے زکواۃ و صدقہ فکر مسکیسی رہے تم کو نسیم ایام نہ ہو عادت ذکر بھی ڈالو کہ یہ ممکن ہی نہیں دل میں ہو عشق صنم لب پہ مگر نام نہ ہو دشمنی ہو نہ محبان محتد سے تمہیں جو معاندہ میں تمہیں ان سے کوئی کام نہ ہو

Page 59

۵۷ اُن کے ساتھ رہو فتنوں میں حصہ مت لو باعث فکر و پریشانی حکام نہ ہو تم مدتیر ہو کہ ترسیل ہو یا عالم ہو ہم نہ خوش ہوں گے کبھی تم میں گرا سلام نہ ہو مسرم مو شیر موجگی جو کہ آسائش ہو کچھ بھی ہومیت دیگر دعوت اسلام نہ ہو کام مشکل ہے مگر منزل مقصود ہے دُور اے میرے اہل وعاشت کسی کام نہ ہو ہم تو جس طرح نے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بد نام نہ ہو میری تو حق میں تمہارے یہ دُعا ہے پیارو کر یہ اللہ کا سایہ رہے نا کام نہ ہو

Page 60

خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی خدا سے چاہیے ہے کو لگائی کہ سب فانی ہیں پر وہ بغیر فانی وی راحت وی آرام دل کا اس سے روح کو ہے شادمانی بسپر ہوتا ہے وہ ہر نا تواں کا وہی کرتا ہے اس کی پاسبانی بچاتا ہے سراک آفت سے ان کو ملاتا ہے بلائے ناگہانی اُسی کو پا کے سب کچھ ہم نے پایا کھلا ہے ہم پر یہ راز نہانی خُدا نے ہم کو دی ہے کامرانی نسبحان الذي أو في الأماني عطا کر جاہ و عربات دو جہاں میں ملے عظمت زمین و آسماں میں نہیں ہم بلبلین بستان احمد رہے برکت ہمارے آشیاں میں ہمارا گھر ہوشل باغ جنت ہو آبادی ہمیشہ اس مکان میں نہیں ہم سب کے سب خدام احمد کلام اللہ پھیلائیں جہاں میں ہم خدام عطا کر کمر و صحت ہم کو یارب ہمیں صحت ڈال پیاسے استمال میں یہ ہوں میری دعائیں ساری مقبول ملے عزت ہمیں دونوں جہاں میں

Page 61

ترا وہ فضل ہو نا زل الہی کہ ہو یہ شور ہر کون ومکاں میں خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی نيمان الذى أولى الاماني جائیں گے ہم جہاں بھی کہ جاناہے ہیں غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا پڑے ہمیں اخیار کا بھی بوجھ اُٹھانا پڑے ہمیں اس زندگی سے موت ہی بہتر ہے اسے خدا جس میں کہ تیرا نام چھپا نا پڑے ہمیں پھیلائیں گے صداقت اسلام کچھ بھی ہو جائیں گے ہم جہاں بھی کہ جانا پڑے ہیں محمود کر کے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار رُوئے زمیں کو خواہ ہلانا پڑے ہمیں

Page 62

قادیان کی یاد میں ہے رضائے ذاتِ باری آب رضائے قادیاں مدعائے حق تعالے مدعائے قادیاں وہ ہے خوش اموال پر یہ طالب دیدار ہے بادشاہوں سے بھی افضل ہے گدائے قادیاں گر نہیں عرش معلی سے یہ ٹکراتی تو پھر سب جہاں میں گو محبتی ہے کیوں صدائے قادیاں میرے پیارے دوستو تم دم نہ لینا جب تلک ساری دنیا میں نہ لہرائے لوائے قادیاں یا تو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے قادیاں خیال رہتا ہے ہمیشہ اس مقام پاک کا سوتے سوتے بھی یہ کہہ اٹھتا ہوں ہائے قادیاں

Page 63

41 آہ کیسی خوشی گھڑی ہوگی کہ بانیل مرام باندھیں گے رخت سفر کو ہم برائے قادیاں گلشن احمد کے پھولوں کی اڑا لائی ہوا زخم تازہ کر گئی بادصبائے قادیاں جب کبھی تم کو ملے موقعہ دُعائے خاص کا یاد کر لیتا ہمیں اہل وفائے قادیاں تعریف کے قابل ہیں یارب تیرے دیوانے تعریف کے قابل ہیں یا رب تیرے دیوانے آباد ہوئے چین سے دُنیا کے ہیں ویرانے فرزانوں نے دنیا کے شہروں کو اجاڑا ہے آباد کریں گے آپ دیوانے یہ ویرانے ہوتی نہ اگر روشن وہ شمع رخ انور کیوں جمع یہاں ہوتے سب دُنیا کے پروانے

Page 64

ہے ساعت سعد آئی اسلام کی جنگوں کی آغاز توئیں کر دوں انجام خدا جانے یہ درد رہے گا ان کے دروان میکرو وقت آنے دو دشمن کو ظلم کی بڑ ھی سے تم سینہ و دل بربانے دو یہ درد رہے گا بن کے دُور تم صبر کر وقت آنے دو یہ عشق و وفا کے کھیت کبھی نوں سنے بغیر نہ بنیں گے اس راہ میں جان کی کیا پروا جاتی ہے اگر تو جانے دو تم دیکھو گے کہ انہیں میں سے قطرات محبت ٹیکیں گے با دل آفات و صائب کے چھاتے میں اگر تو چھانے دو صادق ہے اگر تو صدق دکھا قربانی کر ہر خواہش کی ہیں جنسِ وفا کے ناپنے کے دنیا میں یہی پیمانے دو جب سونا آگ میں پڑتا ہے تو کندن بن کے نکلتا ہے پھر گالیوں سے کیوں ڈرتے ہو دل جلتے ہیں جیل جانے دو

Page 65

عاقل کا یہاں پر کام نہیں وہ لاکھوں بھی بے فادہ ہیں مقصود مرا پورا ہو اگر مل جائیں مجھے دیوانے دو یہ زخم تمہارے سینوں کے بن جائیں گے شکر چمن اس دن ہے قادر مطلق یار مرا تم میرے یار کو آنے دو جو بچے مومن بن جاتے ہیں موت بھی ان سے ڈرتی ہے تم سچے مومن بن جاؤ اور شوق کو پاس نہ آنے دو یا صدق محمد بولی ہے یا احمد مہندی کی ہے وقا باقی تو پرانے قصتے ہیں تازہ ہیں یہی افسانے دو وہ تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیں یہ کیا ہی کسستا سودا ہے دشمن کو تیر چلانے دو محمود اگر منزل ہے کٹھن تو راہ نما بھی کال ہے تم اس پر بھروسہ کر کے چلو آفات کا خیال ہی جادو

Page 66

40 انتخاب کلام حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) (از کلام طاہر)

Page 67

44 جمہوری انبیاء صلی الہ علیہ وسلم.اک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی جو نور کی ہر شکل ظلمات پر دار آئی تاریکی پر تاریکی، گمراہی پر گمراہی ابلیس نے کی اپنے لشکر کی صف آرائی طوفان مفاد میں غرق ہو گئے سنجر وبر ایرانی و نادانی رومی و بخارائی بن بیٹھے خدا بند سے دیکھا نہ مقام اُس کا طاغوت کے چیلوں نے بہتھیا لیا نام اس کا تب عرش معلی سے اک نور کا تخت اترا ایک فوج فرشتوں کی ہمراہ سوار آئی اک ساعت نورانی خورشید سے روشن تر پہلو میں لئے جلوے بے حد و شمار آئی کا فور ہوا باطل ، سب فلم ہوئے زائل اُس شمس نے دکھلائی جب شان خود آرائی اہیں ہوا غمارت، چوپٹ ہوا کام اُس کا توحید کی یورش نے در چھوڑا ، نہ بام اُس کا مرزائے غلام احمد تھی جو بھی متابع جان کر بیٹھا تیار اس پر.ہو بیٹھا تمام اُس کا.دل اُس تھا دل اُس کی محبت میں ہر لحظہ تھا رام اس کا اخلاص میں کامل تھا وہ عاشق تام اُس کا اس دور کا پیساتی - گھر سے تو نہ کچھ لایا کے خانہ اُسی کا تھا.کے اُس کی تھی جام اُس کا

Page 68

42 سازندہ تھا یہ اس کے برب ابھی تھے بہت اُس کے دمن اس کی تھی گیت اُس کے لب اسکے پیام اس کا اک میں بھی تو ہوں یا رب.حیدر تبر داہم اس کا دل گاتا ہے گن اُس کے اب پچھتے ہیں نام اُس کا آنکھوں کو بھی دکھلائے.آنالب بام اُس کا کانوں میں بھی درس گھولے.بزرگام - خرام اس کا خیرات ہو مجھ کو بھی.اک جلوہ عام اُس کا پھر یوں ہو کہ نہ دن پر.الہام کلام اُس کا اس بام سے نور اترے نغمات میں ڈھل ڈھل کر نغموں سے اُٹھے خوش ہو.ہو جائے نمرود عنبر آسے شاہ کمی و مدنی سیداوری أن شاء مکی و مدنی سید انوری تجھ سا مجھے عزیز نہیں کوئی دوسرا تیرا غلامی در تیوں تیرا ہی اسیر عشق تو میرا بھی حبیب ہے ، محبوب کبریا تیرے جلو میں ہی مرا اٹھتا ہے ہر قدم چلتا ہوں خاک پا کو تیری چھوتا ہوا تو میرے دل کا نور ہے آے جان آرزو روشن تجھی سے آنکھ ہے اے نیر پائی میں جان و جسم ، سو تری گلیوں پہ ہیں نثار اولاد ہے، سو وہ ترے قدموں پہ ہے خدا تو وہ کہ میکے دل سے جگر یک اُتر گیا میں وہ کہ میرا کوئی نہیں ہے تیرے ہوا اے میرے والے مصطفی اے سید انور تھی اے کاش ہمیں سمجھتے نہ ظالم جدا جدا

Page 69

آزاد تیرا فیض زمانے کی قید سے برسے ہے شرق و غرب پر یکساں ترا گرفتم تو مشرقی نہ مغربی اسے خورشش جہات تیرا وطن عرب ہے نہ تیرا وطن نجم تو نے مجھے خرید یا اک نگہ کے ساتھ اب تو ہی تو ہے تیرے ہوا میں ہوں کا تقدیم ہر لحظہ بڑھ رہا ہے میرا تجھ سے پیار دیکھے بانسوں میں پس رہا ہے تیرا عشق رقم یکہ تم بک میری ہر ایک راہ تیری سمت ہے رواں تیرے سوا کسی طرف اٹھا نہیں قدم اے کاش مجھ میں قوت پرواز ہو تو میں اُڑتا ہوا پڑھوں ، تری جانب سُوئے حریم تیرا ہی فیض ہے کوئی میری عطا نہیں " این چشمہ رواں کہ تخلق خدا دیم یک قطره زیر کمال محمد است حبان و دکم فدائے جمال محمد است خاکم بشار کوچه آلِ محمد است

Page 70

44 صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں میں افضل و اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نام محمد کام مکرم صلی اللہ علیہ وسلم يادي کامل زہیر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے جلوۂ حسن کے آگے شرم سے نوروں والے بھاگے مہر و ماہ نے توڑ دیا دم مستی اللہ علیہ وسلّم اک جلوے میں آنا فانا.بھر دیا عالم کر دیئے روشن ار کی جب نیم - صلی اللہ علیہ وسلم اول و آخر، شارع و خاتم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 71

آج کی رات ربوہ میں ۲۷ ر رمضان المبارک کی رات کے روح آفریں مناظر سے متاثر ہو کر) ذکر سے بھر گئی ربوہ کی زمیں آج کی رات اُتر آیا ہے خُداوند یہیں آج کی رات شہر جنت کے ملا کرتے تھے طعنے جس کو بن گیا واقعت خُلدِ بریں آج کی رات وا در گریده انشا دیده و دل، کب آزاد کیں مرنے میں ہیں ترے خاک نشیں آج کی رات کوچے کوچے میں کیا شور متى نصر الله اجر تم نصرت باری ہے قریب آج کی رات جانے کس فکر میں غلطاں ہے میرا کا فیرگر ادھر اک بار جو آنکلے کہیں آج کی رات غیر مسلم کیسے کہتے ہیں.اُسے دکھلائے ایک ایک کین ربوہ کی جبیں آج کی رات گاز نیلید و دجال بلا سے ہوں مگر تیرے عشاق کوئی ہیں تو ہمیں آج کی رات آنکھ اپنی ہی تیرے عشق میں ٹپکاتی ہے وہ لہو جس کا کوئی مول نہیں، آج کی رات دیکھ اس درجہ غم ہجر میں روتے روتے مر نہ جائیں تیرے دیوانے کہیں آج کی رات جن پہ گزری ہے وہی جانتے ہیں.غیروں کو کیسے بتلائیں کہ متھی کتنی حسیں آج کی رات کاش اتر آئیں یہ اُڑتے ہوئے سیمیں لمحات کاش یوں ہو کہ ٹھہر جاتے ہیں آج کی رات

Page 72

خدام احمد نیت ہیں بادہ مست بادہ آشام احمدیت چلتا ہے دور میناؤ جامه احمدیت تشنہ کیوں کی خاطر ہر سمت گھومتے ہیں تھامے ہوئے سبوئے گلفام احمدیت خدام احمد نیت، خدام احمدیت جب دہریت کے دم سے مستمرونم تھیں فضائیں پھوٹی تھیں جا بجا جب اتحاد کی وبائیں تب آیا اک منادی.اور ہر طرف صدا دی آؤ کہ ان کی زد سے اسلام کو بچائیں زور دیا دکھائیں ، خُدام احمدیت پھر بارغ منطقے کا دھیان آیا ذوالمنن کو سینچا پھر آنسوؤں سے احمد نے اس چین کو آہوں کا تھا بلاوا پھولوں کی انجین کو اور کھینچ لائے نالے مرغان خوش گھن کو کوٹ آئے پھر وطن کو خُدام احمدیت چنکا پھر آسمان مشرق پہ نامیم احمد مغرب میں جگہ ایا ماہ تمام احمد و گماں سے بالا عالی مقام احمد ہم میں غلام خاک پائے غلام احمد دیم مرغان دامیم احمد ، خدام احمدیت ربوہ میں آجکل ہے جاری نظام اپنا پر قادیاں رہے گا مرکز مدام اپنا تبلیغ احمدیت دنیا میں کام اپنا دائر استعمال ہے گویا عالم تمام اپنا پوچھو جو نام اپنا ، خُدام احمدیت

Page 73

اُٹھو کہ ساعت آئی اور وقت جا رہا ہے پیر تسبیح دیکھو کب سے جگا رہا ہے گو دیر بعد آیا از راه دور لیکن وہ تیز گام آگے بڑھتا ہی جا رہا ہے تم کو بگا رہا ہے ، خدام احمدیت! مرد حق کی دُعا دو گھڑی میرے کام کو ساتھیو! آفت نگفت وجود عمل جائے گی آج مومین سے ٹکرا کے طوفان کا رخ پیکٹ جائے گا رت بدل جائے گی تم دعائیں کرو یہ ڈنا ہی تو تھی، جس نے لوٹا تھا سر کر نمرود کا ہے ازل سے یہ تقدیر کمرو دیت ، آپ ہی آگ میں اپنی جبل جائے گی یہ دعا ہی کا تھا معجزہ کہ عصا ساحروں کے مقابل بنا اردھا آج بھی دیکھنا مرد حق کی دعا، سحر کی ناگنوں کو نگل جائے گی نوں شہیدانِ اُمت کا اے کم نظر، رائیگاں کب گیا تھا کہ اب جائے گا ہر شہادت ترے دیکھتے دیکھتے ، پھول پھل لائے گی پھول پھل جائے گی ہے ترے پاس کیا گالیوں کے سوا.ساتھ میرے ہے تائید رب اتوری کل چلی تھی جو لیکھو پہ تیغ دُعا ، آج بھی، اذن ہو گا تو چل جائے گی

Page 74

دیر اگر ہو تو اندھیر ہرگز نہیں، قولِ أُمَلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِى مَتِيْن سنت اللہ ہے.لا جرم پائی ہیں، بات ایسی نہیں جو بدل جائے گی یہ صدائے فقیرانہ حق آشنا ، پھیلتی جائے گی شش جہت میں سدا تیری آواز اسے ڈش یک نوار اور قدم دھر دو تین میل جائے گی عصیر بیمار کا ہے مرض لا دوا ، کوئی چارہ نہیں اب دُعا کے سوا اے غلام سیخ الاماں ہاتھ اُٹھا، موت بھی آگئی ہو تو ٹل جائے گی الفضل کے صد سالہ میں تشکر نمبر کے لیے ہم آن ملیں گے متوالو.بس دیر ہے گل یا پرسوں کی تم دیکھو گے تو آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی.دید کے ترنسوں کی ہم آمنے سامنے بیٹھیں گے.تو فرط طرب سے دونوں کی آنکھیں ساون برسائیں گی.اور پیاس بجھے گی برسوں کی تم دور دور کے دیسوں سے.جب قافلہ قافلہ آؤ گے تو میکر دل کے کھیتوں میں بھولیں گی فصلیں سرسوں کی یشق و وفا کے کھیت رضا کے خوشوں سے کر جائیں گے موستم بدلیں گے.رُت آئے گی ساجن، پیار کے درسوں کی

Page 75

< میرے بھولے بھالے حبیب مجھے دیکھ لکھ کر کیا سمجھاتے ہیں کیا ایک انہی کو دُکھ دیتی ہے.جدائی لمبے عکرموں کی ؟ یہ بات نہیں دعاوں کے لیے لکھوں کی تم دیکھو گے ہم آئیں گے.جھوٹی نکلے گی.لاف خدا ناریوں کی دُور ہوگی کلفت عرصوں کی اور پیاس بجھے گی برسوں کی ہم گیت ملن کے گائیں گے بھولیں گی فصلیں سرسوں کی ہیمی کل کے قافلہ سالار وقت کم ہے.بہت ہیں کام.چلو تنگی ہو رہی ہے شام چلو زندگی اس طرح تمام نہ ہو کام رہ جائیں ناتمام چلو کہہ رہا ہے خدام یاد کیا جب تلک دم چلے گدام چلو دے رہی ہیں آوازیں مسبح محو سفر ہو شام چلو منزلیں ساتھیو میکے ساتھ ساتھ رہو قربتوں کا لئے پیام پلو تم اُٹھے ہو تو لاکھ اُجالے اُٹھے تم پہلے ہو تو برقی گام پلو

Page 76

کبھی ٹھہرو تو مثل ابر بہار جب برس جائے فیض عام - پلو رات جاگو کہ و نجوم کے ساتھ دن کو سورج سے ہم خیرام چلو ہو تہی کل کے قافلہ سالار آج بھی ہو تمہی امام جیلو تم سے وابستہ ہے جہانِ تو تمہیں سونپی گئی زمام.چلو آگے بڑھ کر تقدم تو لو.دیکھو عہد تو ہے تمہارے نام.چلو پیشوائی کرو.تمھاری طرف آ رہا ہے نیا نظام چلو اسے خوش.دل تیار - دست بکار یہ پیارو خدا کے پیاروں پر پہر در پہر شاد کام چلو دائم بھیجتے سلام چلو زیرو ٹیم میں دلوں کی دھڑکن کے موجزن ہو خدا کا نام.چلو دل سے اُٹھے جو نعرہ تکبیر ہو کرتا سے ہمکلام.چلو غم دنیا کی ہے دوا غم عشق دم عیسی نہیں.ہوا دیم عشق بخیر عالم میں اک بپا کر دو پیار کا غلغلہ - تلاطم عشق

Page 77

<4 اپنے ہیں میں اپنی بستی میں اک پینا بھی توگھر تھا اپنے دیس میں اپنی بستی میں راک اپنا بھی تو گھر تھا جیسی شندر تھی وہ بستی دیا وہ گھر بھی مندر تھا دیس بدیس لئے پھرتا ہوں اپنے دل میں اُس کی گتھا ئیں می کے کئی میں آن بسی ہے تن من دھن میں کے اندر تھا سادہ اور غریب تھی جنتا.لیکن نیک نصیب تھی جفتا فیض رسان عجیب تھی بنتا.ہر بندہ بندہ پرور تھا ہر کتنے لوگ تھے ، پتی بستی.کرموں والی اپنی بستی جو اُونچا تھا.نیچا بھی تھا.عرش نشیں تھا خاک کبر تھا اس کی دھرتی تھی آکاشی.اس کی پر جا تھی پر کاشی جس کی صدیاں تھیں متلاشی.گلی گلی کا وہ منظر تھا کرتے تھے آآ کے بیرے.پنکھ پکھیرو شام سویرے پھولوں اور پھلوں سے بوجھل.بستاں کا ایک ایک شجر تھا اُس کے سُروں کا چرچا جاتا.دیس بدیس میں ڈنکا با جا اس بستی کا پیتیم راجا پریشن گفتیا مرلی دھر تھا.

Page 78

چاروں اور بچی شہنائی.بھیجنوں نے اک دُھوم مچائی رت بھگوان مکن کی آئی.پیتیم کا درشن گھر گھر تھا گو تم بد تھا پڑھی لایا.سب رشیوں نے درس دکھایا علی اترا مہندی آیا جو سب نبیوں کا مظہر تھا مہدی کا دیدار محمد نبیوں کا سردار محمد نور نظر سرکار محمد.جس کا وہ منظور نظر تھا آشاؤں کی اُس بستی ہیں.میں نے بھی فیض اُس کا پایا مجھ پر بھی تھا اُس کا چھایا.جس کا میں ادنی چاکر تھا اتنے پیار سے کسی نے دی تھی میرے دل کے کواٹر پر دستک رات گئے میرے گھر کون آیا.اٹھ کر دیکھا تو ایسٹر تھا ریش سے فرش پر مایا اتری.روپا ہوگئی ساری دھرتی میٹ گئی گلفت چھا گئی مستی.وہ تھا میں تھا من مندر تجھ پر میری جان نچھاور - اتنی کر پا رک پاپی پر تھا جس کے گھر نارائن آیا.وہ کیڑی سے بھی کمتر تھا رب نے آخر کام سنوارے.گھر آئے پر ہا کے مارے آ دیکھے اونچے مینارے.نور خدا تا حد نظر تھا کولا نے وہ دن دکھلائے.پریمی رُوپ نگر کو آئے

Page 79

ساتھ رشتے پر پھیلائے.سایہ رحمت ہر کمر پر تھا عشق خدا مونہوں پر دستے، پھوٹ رہا تھا نور.نظر سے اکھین سے ئے پیت کی برسے.قابل دید.ہر دیدہ ور تھا لیکن آہ جو رستہ سکتے.جہان سے گزرے تجھ کو ترستے کاش دو زندہ ہوتے جن پر ہجر کا اک اک پل دو بھر تھا آخر دم تک تجھ کو پکارا.آس نہ ٹوٹی ، دل نہ ہارا مصلح عالم باپ ہمارا.پیکر صبر و رضا، امیر تھا سدا سہاگن رہے یہ بستی.جس میں پیدا ہوئی وہ ہستی جس سے نور کے سوتے پھوٹے.جو ٹوروں کا اک ساگر تھا ہیں سب نام خدا کے شندر - وا ہے گرو - الله اكبر سب خانی.اک وہی ہے باقی.آج بھی ہے جو کل ایشر تھا ہم کو قادیاں ملے ہیں ، لوگ وہ بھی چاہتے ہیں دولت جہاں ملے زمیں ملے.مکاں ملے.سکون قلب و جاں ملے پر احمدی وہ میں کرتین کے جب دعا کو ہاتھ اُنھیں.آپ آپ کے یوں کہیں کہ ہم کو قادیاں ملے غضب ہوا کہ مشرکوں نے ثبت کد سے بنائیے خدا کے گھر.کہ درس وحدت خدا جہاں ملے چلے چلو.تمہاری راہ دیکھتی ہیں مسجدیں دہ منتظر ہیں خانہ خدا سے پھر اذاں ملے

Page 80

بڑھے چلو براہ دیں خوش نصیب کر تمہیں خلیفہ المسیح سے امیر کارواں ہے جیو تو کامران جیور شہید ہو تو اس طرح کہ دین کو تمہارے بعد عمر جاوداں ہے ہے زندہ قوم وہ نہ جس میں ضعف کانٹاں ملے که طفل طفل ، پیر پیر، جس کا نوجواں ملے نذرالاسلام کی ایک نظم کا منظوم ترجمہ توحید کے پر چارک.میرے مرشد کا نام محمد ہے ہے بات یہی برھتی.مرے مرشد کا نام محمد ہے اُس نام کے جینے سے قرآن کا ہوتا ہے ادراک مجھے یہ سُندر نام ہونٹوں سے دل تک.کر دیتا ہے پاک محمد اللہ کے بہت پیارے.مرے مرشد کا نام محمد ہے وہ مولیٰ سے ملواتا ہے جب نام اس کائیں لیتا ہوں اک بحر نور کی موجوں پر.اک ٹور کی کشتی کھتا ہوں اے جنگ والو سن لو.مرے مرشد کا نام محمد ہے

Page 81

اُس نام کے دیپ جلاتا ہوں تو چاند ستارے دیکھتا ہوں سینے سے ہوش یک اُٹھتے ہوئے ٹوروں کے دھارے دیکھتا ہوں میرے نور مجسم صلی اللہ مُرشد کا نام محمد ہے اُس نام کا پلو پکڑے کپڑے اس دُنیا تک جاؤں گا اُس کے قدموں کی خاک تھے میں اپنی جنت پاؤں گا مردم نقد الاسلام - مرے مرشد کا نام محمد ہے

Page 82

انتخاب کلام حضرت عمر البشیر احم صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو)

Page 83

پرواز کے پرپیدا کر حسن اپنا ہی نظر آیا تو کیا آیا نظر غیر کاحسن جو دیکھے وہ نظر پیدا کر چشم احباب میں گنگو نے جگہ پائی تو کیا حسن واحساس سے دل خصم میںگھر پیدا کر یہ زرو مال تو دنیا میں ہیںکہ جائیں گے حشر کے روز جو کام آئے وہ ز پیدا کر محمدی اگر تھے بنتا ہے صحابہ کی مشیل دست و بازو و دل گروه جگر پیدا کر پھر وہی نالہ دہی غیر شیر ان کی دعا پھر وہی اگریہ وہی دیدۂ تر پیدا کر پھر دہی تنگ حظا اور وہی خویش عشق پھر دبی سوز و بی درد و اثر پیدا کر مرد ہی شہر وی تقوی و بی نفس کشی ہاں دہی ضبط وی منفض بصر پیدا کر و ته د طاعت و بے نفس و صدق و اخلاص حکمت و معرفت و علم و ہنر پیدا کر دین پر مال دین وجان تھے اُنکے قرباں رنگ یہ ہو سکے تجھ سے بھی اگر پیدا کر ان اسلام کی قائم و انہوں نے کی تھی نقشی عالم ہیں وہی یا یہ دگر پیدا کر سخت مشکل ہے کہ اس سال سے منزل یہ کئے ہاں اگر ہو سکے پرواز کے پر پیدا کر

Page 84

류 انتخاب کالام یدا ہوتا ہے اس گیم مصاحبہ حضرت (اللہ تعالی آپ سے راضی ہو) (از در عدن)

Page 85

پاک محمد مصطفے نبیوں کا سردار رکھ پیش نظر وہ وقت بہن جب زندہ گاڑی جاتی تھی گھر کی دیواریں روتی تھیں جب دُنیا میں تو آتی تھی جب باپ کی جھوٹی غیرت کا خون جوش میں آنے لگتا تھا جس طرح جنا ہے سانپ کوئی کیوں ماں تیری گھبراتی تھی یہ خون جگر سے پالنے والے تیرا خون بہاتے تھے جو نفرت تیری ذات سے تھی فطرت پر غالب آتی تھی کیا تیری قدر وقیمت تھی ؟ کچھ سوچ تری کیا عزت تھی تھا موت سے بدتر وہ جینا قسمت سے اگر پیچ جاتی تھی تھا صورت ہونا سخت خطا تھے تجھ پہ سارے خبر روا یه حروم نہ بخشا جاتا تھا تا مرگ سزائیں پاتی تھی گویا تو کنکر پتھر بھی احساس نہ تھا جذبات نہ تھے تو ہین وہ اپنی یاد تو کر ! ترکہ میں بانٹی جاتی تھی

Page 86

AD وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جاتا ہے تو بھی انسان کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار ! پاک محمد مصطفے نبیوں کا سردار اللہ تعالیٰ کے حضور اسے محسن و محبوب قمر اے میرے پیارے اے قوت جاں اے دل محزوں کے سہارے اے شاہ جہاں نور زماں خالق باری پر قیمت کو نہیں ترے نام پہ واری یارا نہیں پاتی ہے زبان شکر وشنا کا احسان سے بندوں کو دیا اون دعا کا کیا کرتے جو حاصل یہ وسیلہ بھی نہ ہوتا یہ آپنے دو باتوں کا جیلہ بھی نہ ہوتا تسکینی دل وراحت جاں ہی ہیں درسکتی آدمہ تھانہ سے اماں مل ہی دسکتی پروا نہیں باقی ہو بے شک کوئی چالا کافی ہے ترے دامن رحمت کا سہارا مایوس کبھی تیرے سوالی نہیں پھر تے بندے توکی درگاہ سے خالی نہیں پھرتے الک ہے جو تو چاہے تو مردوں کو جلا دے اے قادر مطلق مرے پیاروں کو شفا دے

Page 87

جاتے جوهری جان محمد حافظ و ناصر ر حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ ثالث رحمہ اللہ تعالی) کے زمانہ طالب علمی میں سفیر انگلستان کے موقعہ پر) جاتے ہو مری جان خدا حافظ و ناصر الله همان خدا حافظ و ناصر ہر گام پہ ہمراہ رہے نصرت باری ہر لمحہ و بر آن خدا حافظ و ناصر والی بو اعصاب علوم دو جہاں کے اے یوسف کنعان خُدا حافظ و ناصر ہر علم سے حاصل کر و عرفان النبی ٹیڑھتا ہے ایمان خدا حافظ و ناصر یرہ ہو فرشتوں کا قریب آنے پائے ڈرتا ہے شیطان محمد حافظ و ناصر سرگیجر کے خواص بنو لیک بایی شرط بھیگے نہیں دامان خدا حافظ و ناصر صر پاک ہو اغیار سے دل پاک نظر پاک اے بندہ سیمان خدا حافظ و ناصر محبوب حقیقی کی امانت سے خبردار اے حافظ قرآن خدا حافظ و ناصر

Page 88

التجائے قادیان ا سفر یورپ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی قادیان کی یاد میں نظم کے جواب میں ) سیدا ! ہے آپ کو شوق تھائے قادیاں ہجر میں خوں بارہ ہیں یاں چشم ہائے قادیاں سب تڑپتے ہیں کہاں ہے زینت دار الاماں رونق بستان احمد دل رُبائے قادیاں جان پڑھاتی تختی جن سے وہ قدم ملتے نہیں قالب بے روح سے میں کوچہ ہائے قادیاں روح بھی پانی نہیں کچھ چکی قالب کے بغیر ان کے منہ سے بھی نکل جاتا ہے ہائے قادیاں مود قا کو ناز جس پر جب سے ایسا مطاع کیوں نہ ہو شہور عالم پھر وفائے قادیاں

Page 89

^^ بختی دین محمد جس نے کی تیرے سپرد ہوتری کشتی کا حافظ وہ خدائے قادیاں مانگتے ہیں سب دُعا ہو کہ سراپا انتظار جلد شاہ قادیاں تشریف لائے قادیاں خالق ہر دو جہاں کی رحمتیں ہوں آپ پر والسّلام اے شاہ دیں اسے را منتہائے قادیاں درویشان قادیان کے نام خوشا نصیب کہ تم قادیاں میں رہتے ہو دیا ر جہ دئی آخر زماں میں رہتے ہو خدا نے بخشی ہے الدار کی نگہبانی اُسی کے حفظ میں اُس کی اماں میں رہتے ہو فرشتے ناز کریں جس کی پہرہ داری پیمر ہم اس سے دور ہیں تم اس مکان میں رہتے ہو

Page 90

٨٩ نہ کیوں دلوں کو سکون و سرور ہو حاصل کہ قرب خطہ رشک جناں میں رہتے ہو تمہیں سلام و دعا ہے نصیب صبح و مسا جوار مرقد شاہ زماں میں رہتے ہو شیں جہاں کی میں شب قدر اور دن عیدیں جو ہم سے چھوٹ گیا اس جہاں میں رہتے ہو کچھ ایسے گل ہیں جو پر مردہ ہمیں جدا ہو کر انہیں بھی یاد رکھو گلستان میں رہتے ہو تمہارے دم سے ہمارے گھروں کی آبادی تمہاری قید پہ صدقے ہزار آزادی

Page 91

فی آمَانِ الله ربعی کی تقری مستانہ پر لو جاؤ تم کو سایہ رحمت نصیب ہو پڑھتی ہوئی خدا کی عنایت نصیب ہو سپر ایک زندگی کی حلاوت نصیب ہو ہر ایک دو جہان کی نعمت نصیب ہو علم وعمل نصیب ہو عرفان نصیب ہو ذوقی دُعا وحسن عبادت نصیب ہو محمود عاقبت ہو رہے زیست با مراد خوشیاں نصیب عزت و دوای نصیب ہو پور شک آفتاب استاد نصیب کا آپ اپنی ہو مثال در قسمت نصیب ہو ہرا ایک دکھہ سے تم کو بچائے مرا خدا ہر ہر قدم پہ اس کی اعانت نصیب ہو ہر وقت دل میں پیار سے یاد نہ رہے یہ نعمت و سرور یہ جنت نصیب ہو اقبال تاج سر ہو ترے سکے تاج کا اس کو خُدا و خلق کی خدمت نصیب ہو میں تمہاری گود سے پہل کر وہ حق پرست ہاتھوں سے جن کے دین کی موت نصیب ہو اضی ہوں تم سے ہیں مر اللہ بھی رہے اس کی رضا کی تم کو مسرت نصیب ہو راحت ہی میں نے تم سے بہر طور پائی ہے تم کو بھی دو جہان میں راحت نصیب ہو حافظ خدا رہا.میں رہی آج تک امیں جس کی تھی اب اُسے یہ امانت نصیب ہو

Page 92

حضرت مصلح موعود کی شان میں بشارت دی مسیحا کو خدا نے تمہیں پہنچے گی رحمت کی نشانی ملے گا ایک فرزند گرامی عطا ہوگی دلوں کی شادمانی وہ آیا ساتھ لے کر فضل آیا بعد اکرام شاہ دو جہانی مٹاکر اپنی مستی راہ حق میں جہاں کو اس نے بخشی زندگانی یی مد نظر تھا ایک مقصد برائے دین احمد جانفشانی رہی نصرت خدا کی شامل حال گذاری زندگی با کامرانی ہمیں داغ جدائی آج دیگر ہوا حاضر حضور یار جانی جو اس نے نور بھیجا تھا جہاں میں ہوا واصل به رب جاودانی وہ جس کے قلب و روح و تن مبارک مبارک آمدن رفتن مبارک"

Page 93

۹۲ متظاهر می شود عرش پر ٹور سے لکھا گیا تاہم مشہود می کے مجمود نے پایا ہے مقام محمود ان کی خدمت میں خدا نے اسے پہنچایا جن کو ہر وقت پہنچتا تھا سلام محمود ے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے عاشق غلام حضرت مسیح الزمان -

Page 94

۹۳ انتخاب کلام حضر من الاعیه مهم اميل حصان اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) راز بخار دل)

Page 95

۹۴ راه میتوانید انا رحت من مصل الا الم را بستم بدرگاه ذی شان خیر الانام شفیع الوری مرجع خاص و عام بعد میجز دوشنت بصد احترام یہ کرتا ہے عرض آپ کا اک نظام کہ اسے شاہ کونین عالی مقام عَلَيْكَ الصَّلاةُ عَلَيْكَ السَّلام حسینان عالم ہوئے شر کیں جو دیکھا وہ مشن اور وہ گھر نہیں پھر اس پر وہ اخلاق اکمل تریں کہ دشمن بھی کہنے لگے اتریں زہے مخلق المکمل زبجے شین تام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السلام خلائق کے دل تھے یقیں سے تہی بتوں نے بھی حق کی جگہ گھیر لی ضلالت تھی دنیا پہ وہ چھارہی کہ تو جب ڈھونڈے سے ملتی نہ تھی ہوا آپ کے دم سے اس کا قیام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلام

Page 96

۹۵ محبت سے گھائل کیا آپ نے دلائل سے قائل کیا آپ نے جہالت کو زائل کیا آپ نے شریعت کو کامل کیا آپ نے بیاں کر دیئے سب حلال و حرام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السّلام نبوت کے تھے جس قدر بھی کمال وہ سب جمع تھے آپ میں لامحال صفات جمال اور صفات جلال مہر اک رنگ ہے میں عدیم المثال رایا ظلم کا عضو سے انتقام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلام مقدس حیات اور مظہر مذاق اطاعت میں کیتا عیادت میں طلاق سوار جہانگیر یکران براق که بگذشت از قصر نیلی رواق محمد ہی نام اور محمد ہی کام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلام

Page 97

94 مصطفے مجھتی ہے محمد مصطفے ہے مجتبی ہے محمد مولف ہے دل ربا ہے محمد جامع حسن و شمائل محمد محسن ارض و سما ہے کمالات نبوت کا خزانہ اگر پوچھو تو ختم الانبیا ہے شریعت اس کی کامل اور مدلل غذا ہے اور دوا ہے اور شفا ہے نہیں دیکھا ہے ان آنکھوں سے اسکو مگر دیکھا شیل مصطفے ہے مرے تو ظل سے ہی اڑ گئے ہوش تو پھر اصل خدا جانے کہ کیا ہے کروں کیا وصف اس شمس الضحی کا کہ جس کا چاند یہ بدر الدجی ہے محمد نیر راہ میرے ہے محمد شافع روز جزا ہے وسی زندہ نبی ہے تا قیامت کہ لنگر فیض کا جاری سدا ہے تیمی سے شہنشاہی پہ پہنچا مگر پھر بھی وہی عجز و دُعا ہے عرض سچ مچ محمد ہے محمد جیمی تو چار سُو صل علی ہے

Page 98

94 قرآن سے اچھا قرآن سے پیارا قرآن ہے اچھا قرآن ہے پیارا قرآن دل کی قوت قرآن ہے سہارا اللہ میاں کا خط ہے جو میرے نام آیا اکستانی ہی پڑھاؤ جلدی مجھے سیار پہلے تو ناظرے سے انھیں کرونگی دوشی پھر ترجمہ کھانا جب پڑھ چکوں میں سارا مطلب آئے جب تک کیونکر عمل ہے کی بے ترجمے کے ہرگز اپنا نہیں گزارا یارب تو تم کر کے ہم کو سکھانے قرآں ہر گھر کی یہ دوا ہو ہر درد کا ہو چارا دل میں جو میرے ایماں سینے میں نور فرقان بن جاؤں پھر تو سچ بیچ میں آسماں کا تارا احمدی بچی کی دُعا الہی مجھے سیدھا رستہ دکھادے مری زندگی پاک وطیب بنادے مجھے دین و دنیا کی دولت عطا کہ مہراک در داور دکھ سے ٹھیکو شفا دے زباں پر مری جھوٹ آئے نہ ہرگز کچھ ایسا سبق راستی کا پڑھا دے گنا ہوں سے نفرت بدی سے عداوت ہمیشہ رہیں دل میں اچھے ارادے

Page 99

ہراک کی کروں خدمت اور خیر خواہی جو دیکھے وہ خوش ہو کے مجھ کو دعا دے بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت سراسر محبت کی پشت کی بنادے بنوں نیک اور دوسروں کو بتاؤں مجھے دین کا علم اتنا سکھا دے خوشی تیری ہو جائے مقصود میرا کچھ ایسی لگن دل میں اپنی لگا دے بنادے ہمارے پیارے مادے مد کی دے تقی دے تھا دے فیلوے میرا نام ابا نے رکھا ہے مریم خدایا تو صدیقہ مجھے کو بنیادے ے یہ نظم حضرت ڈاکٹر صاحب نے اپنی بھی حضرت سیدہ مریم صافیہ صاحبہ کی طرف سے دان کے بچپن کے زمانہ میں لکھی تھی.احمدی کی تعریف ہوں اللہ کا بندہ محمد کی امت ہے احمد سے بعیت خلیفہ سے ساعت میرا نام پوچھو تو میں احمدی ہوں خدا کی عبادت رسولوں کی نصرت قیام شریعت بدلی کی اشاعت مرا نام پوچھو تو میں احمدی ہوں

Page 100

44 زمانہ سے ان بین بھی میرے دشمن ہوکے کا گر الزام کو چھو تو میں احمدی ہوں یہ ہمیں طلب میں خدا کی بہت خاک چھانی ہر اک دین دیکھا ہر اک جا دعا کی پھر انجام کو چھو تو میں احمدی ہوں د سادس مزائل ہوئے مجھ سے شامل یقیں میرا کامل حول حیثیت میں داخل بآرام پوچھو تو میں احمدی ہوں ہیں اثمار ایماں نجات اور عرفان مقامات مردان عاقات بزدار جو قتسام پوچھو تو میں احمدی ہوں میں کعبیہ ہوں سب کا حرم اپنے رب کا جو ملا مجسم کا تو مادی عرب کا ایک اسلام پوچھو تو میں احمدی ہوں نماز منکر و فحشاء سے انساں کو بچاتی ہے نماز رحمتیں اور برکتیں ہمراہ لاتی ہے نماز ابتداء سے انتہار تک ہے سراسر یہ دعا آدمی کو حق تعالے سے ملاتی ہے نمازہ

Page 101

١٠٠ پاکبازی اور طہارت وقت کی پابندیاں قدر دانوں کو سبق ایسے پڑھاتی ہے نماز زندگی ہے نخل ایماں کی یہی آب حیات موت ہے ضائع اگر کوئی بھی جاتی ہے نماز اے خدا ہم کو عطا کر اور ہماری نسل کو نعمتیں اور بخشش میں جو جو بھی لاتی ہے نماز ہمارا فرض ہے کرنا دکھ کا پھر آگے چاہے وہ مانے نہ مانے اگر مانے کرم اس کا ہے ورنہ وہ جانے اور اس کا کام جانے خدا ہے غیب داں اور جاتا ہے کہ کیا ہیں نعمت میں اور تازیانے دعائیں کو سبھی ہوتی ہیں منظور یہ فرمایا حضویہ مصطفے نے مگر مل جائے جو مانگا ہے تو نے نہیں ٹھیکہ لیا اس کا خُدا نے کبھی ملتا ہے جو دنیا میں مانگو کبھی حقے کے کھلتے ہیں ترانے کبھی کوئی مصیبت دور ہو کہ بدل جاتے ہیں تلخی کے زمانے

Page 102

عبادت بن کے رہ جاتی ہیں اکثرا اخدا اور اس کے بندے کو ملانے کبھی مقصد بدل جاتا ہے مثلاً بجائے زر پسر بھیجا خدا نے مگر نقصان دہ جو ہوں شمائیں کریم اس کا ہے گر اسکو زمانے نہیں محروم اس درگاہ سے کوئی کر خشش کے ہزاروں ہیں بہانے میں دنیا پر دیں کو مقدم کروں گا میں دنیا پر دیں و مقدم کروں گا اسی عہد پر اپنے قائم رہوں گا کو پر کر گروں گا پڑوں گا جیوں گا مروں گا مگر قول دے کر نہ ہرگز پھروں گا نہ میں دنیا پر دیں کو مقدم کروں گا اگر دین کو اپنے کر لوں گا قائم | | تو فصلوں کا وارث رہونگا میں دائم ہ گزرے گی یہ عمر مثل بہائم نہ مالک کی خفگی نہ کچھ لوم ولائم میں دنیا پر دیں کو مقدم کروں گا

Page 103

خدا کا ادب اور خلقت و شفقت خلوص نصیحت نبی کی محبت تخلق یا خلاق باری بغایت عزیز ویسی دین کی ہے حقیقت میں دنیا پر دیں کو مقدم کروں گا مجھے نفس شیطاں سے یارت بچانا نہیں ورنہ اپنا کہیں بھی ٹھکانا جو کمزور ہو اس کو کیا آزمانا میرا عہد خود ہی پورا کرانا میں دنیا پر دیں کو مقدم کروں گا مجھ کو کیا بعیت سے حاصل ہو گیا جب سے میں بعیت میں داخل ہو گیا تارک جملہ رزائل ہو گیا اک سپاہی بن گیا اسلام کا گھر سے لڑنے کے قابل ہو گیا کفر ہو گئی آنکھوں میں یہ دنیا ذلیل اور مقدم دین کامل ہو گیا مال اور املاک وقف دیں ہوئے شوق جاہ و مال زائل ہو گیا جہل کی تاریکیوں میں تھا اسیر احمدی ہوتے ہی فاضل ہو گیا کیا عجب اس سلسلہ کا حال ہے کل کا جاہل آن عاقل ہو گیا

Page 104

١٠٣ تھا کیمی جو تارک فرض شنی اب وہ پابند نواخل ہو گیا اب دعائیں بھی لگیں ہونے قبول فضل رتی جسے شامل ہو گیا حب قرآن عشق ختم المرسلیں ہر رگ و ریشہ میں داخل ہوگیا خاتمہ بالخیر کر دے اب خدا راستہ سیدھا تو حاصل ہو گیا طیبہ کی آمین طیبہ جی نے پڑھ لیا قرآں ہے یہ اللہ کا بڑا احسان اے خدا اے رحیم اے رحماں کی قدر میں کم ترے ہر آن قدر آں تو نے توفیق اور تمت دی اور پڑھنے کے سب دیئے ساماں یا تو پڑھتی تھی کل الف بے تے یا شنا آج ختم ہے قرآں جس طرح تو تے لفظ سکھلا کر کر دیا ہم کو خرم و شاداں میں سکھا دے اسی طرح یارب ترجمہ اور مطالب فرقان قلب میں طیبہ کے بھر دے تو نور فنر قال حلاوتِ ایماں کھول دے اس کے بھائی بہنوں پر راه مهر و محبت و عرفان

Page 105

۱۰۴ اور جماعت کے سارے بچوں پر فضل سے اپنے کہ یہی رحماں ے عزیز وشنو کہ بے قرآن حق سے ملتا نہیں کبھی انساں اس لئے شوق سے اسے سیکھو تا بنو تم مقرب یزداں ترجمہ اور حقیقت اور مطلب دین اسلام کی یہی پہچاں اپنے مالک کی یہ کتاب پڑھو اس کی مرضی کے ہو اگر جویاں عقل آتی ہے اس کے پڑھے سے علم بڑھتا ہے ہر گھڑی ہر آں پاک کرتی ہے سب گنا ہوں سے دور کرتی ہے گھر اور عصیاں یا الہی بنادے ہم سب کو فضل سے اپنے ماہر شر آں فیض سے اپنے خاص کر ہم کو تاکہ ہم دوسروں کو دیں فیضاں

Page 106

پیارے بچو! اپنے لئے خدمت دین کی توفیق کی دعا مانگا کرو پھر ہمیں اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا پیار ملے گا.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں اگر کوئی تائید دین کے لئے ایک لفظ نکال کر ہمیں دے دے تو ہمیں موتیوں اور اشرفیوں کی جھولی سے بھی زیادہ بیش قیمت معلوم ہوتا ہے.جو شخص چاہے کہ ہم اُس سے پیار کریں اور ہماری دعائیں نیازمندی اور سوز سے اس کے حق میں آسان ہو جائیں وہ ہمیں اس بات کا یقین دلا دے کہ وہ خادمِ دین ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے“ ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۷

Page 107

خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اُس پر نشار اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شبہ کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب سے دے چکے مال و جاں بار بار ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار لگاتے ہیں دل اپنا اُس پاک سے وہی پاک جاتے ہیں اس خاک سے

Page 107