Jazba Tul Haq

Jazba Tul Haq

جذبۃ الحق

ایک ہزار دو سو پچاس میل طویل تبلیغی سفر کی دلچسپ داستان
Author: Other Authors

Language: UR

UR
بزرگان جماعت احمدیہ

Book Content

Page 1

رالَّذِينَ جَاهَدُوا قِينَ نهُم مُسْلَنَاء وَ اِنَّ اللهَ لَمَعَ المحسنين اور (وہ لوگ جو تم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم انکو ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے اور یقینا اللہ معنوں کیساتھ ہے (الحكيوت ) جذبة الحق ایک ہزار دو سو پچاس میل طویق تبلیغی سفر کی دلچسپ داستان مصنفة حضرت مولانا سید عبدالواحد رحمۃ اللہ علیہ شاگرد رشید حضرت مولانا عبد الحی فرنگی محل با اشبیلیه

Page 2

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَناً اکابر حضرات صوفیہ کا قول ہے جذبةٌ من جَذَبَاتِ الْحَقِّ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ الثَّقَلَيْنِ یعنی ایک کشش کششوں سے حق تعالٰی کے بہتر ہے عمل سے جن اور انس کے.پس بناء علیہ نام اس رسالہ کا جَذَبَةُ الْحَقِّ رکھا گیا.اس میں متولف علامہ حضرت مولانا سید محمد عبد الواحد صاحب امیر جماعت احمدیہ بر ہمن بڑ یہ نے اپنے احمدی ہونے کی روئداد نہایت مختصر طور پر قلمبند فرمائی ہے.جسے دوسری بار حکیم عبد اللطیف شاہد نمبر ۱۴ مین بازار گوالمنڈی لاہور نے دسمبر ۱۹۶۶ء میں طالبان حق کے لئے شائع کیا.

Page 3

بسم الله الرحمن الرحیم نحمد الله الْعَظِيمِ وَنُصَلِّي وَنُسَلَّمَ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وجہ تالیف چونکہ اکثر حضرات بہت دنوں سے خاکسار سے اپنے احمدی ہونے کی رو مداد قلمبند کرنے کے لئے اشتیاق ظاہر کرتے تھے لیکن خاکسار موانع چند در چند کی وجہ سے اس کی تکمیل نہ کر سکتا تھا.اب چونکہ زندگی کا خاتمہ نظر آتا ہے معلوم نہیں کہ کب پیغام اجل آجاوے.لہذا ناچار نہایت محنت و کوشش سے باوجود لحوق کمال ضعف و نقاہت کے قلمبند کرتا ہوں تا کہ یادگار رہ جاوے اور طالبان حق کے لئے راہبر ہو.اول اول تو یہ ارادہ تھا کہ کسی قدر بسط کے ساتھ لکھوں.لیکن اس وقت بوجہ لحوق امراض گوناگوں و کمال ضعف و نقاہت نہایت مختصر لکھتا ہوں کہ ما لا يذNAWALANGUAGE GALANGANA KA : كله ل مشهور ہے ومن الله التوفيق.جانتا چاہئے کہ سابق میں خاکسار اپنے والد ماجد مرحوم و مغفور سے جو حضرت شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی مهاجر مکہ معظمہ قدس سرہ کے شاگرد تھے بیعت کر کے طریقہ محمدیہ میں جو حضرت سید احمد صاحب بریلوی قدس سرہ کا طریقہ ہے مسلک تھا.اور حضرت سید احمد قدس سرہ تیرھویں صدی ہجری کے مجد دامت محمدیہ علی نیھا الصلوۃ والتحیہ مانے جاتے تھے.لیکن جب تیرھویں صدی آخر ہونے لگی اور چودھویں صدی آنے لگی.تب خاکسار کو چودھویں صدی کے مجدد جدید کا خیال دامن گیر ہوا.کہ عنقریب کوئی دوسرا مجدد ظاہر ہو گا.اور اس بارے میں کچھ تجتس و شخص بھی عمل میں لایا.کیونکہ ہر ایک صدی کے

Page 4

2 کرنے پر مجدد جدید کا ظاہر ہونا ایک ضروری بات ہے منحوائے حدیث مشہور ان الله يبعث لهذه الأمة عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةٍ سَنَةٍ مَنْ تُحَدِّدُ لَهَا دينها (مشكوة) یعنی تحقیق الله تعالى مبعوث فرمائے گا واسطے اس امت کے اوپر سر ہر سو برس کے.اس شخص کو کہ تجدید کرے واسطے اس کے دین اس کا.جیم اس کا.جیسا کہ گذشتہ صدیوں میں ہوتے آئے ہیں.اور علمائے محققین اپنی اپنی تالیفات میں مفصل لکھتے آئے ہیں کمالا يَخْفَى عَلى أَهْلِ الْعِلْمِ وَالدَّرَايَةِ.جیسا کہ پوشیدہ نہیں ہے او پر اہل علم اور دریافت کے.پس ہر قوم اپنے اپنے مقتداء و معتقدیہ کی نسبت مجدد ہونے کا گمان کرنے لگے.چنانچہ غیر مقلدین جو اپنے کو اہل حدیث کہلاتے ہیں.نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی کی نسبت یہ گمان کرتے تھے اور بعض بعض مقلدین یعنی حنفی المذہب استاد نا حضرت مولینا محمد عبدالی صاحب مرحوم و مغفور لکھنوی کی نسبت بھی یہی گمان کرتے تھے چنانچہ مؤلف حدائق الحنفیہ نے مولانا مروح کا ذکر کرتے ہوئے اس طرح لکھا ہے.غرضیکہ کثرت تصنیفات اور تنشیر علوم دین کے سبب ہندوستان کے حنفیوں میں اس زمانہ میں اس جامعیت ولیاقت کا اور کوئی عالم و فاضل دکھائی ، نہیں دیتا جس سے ان کو اگر چودھویں صدی کا مجد د امت محمدیہ قرار دیا جاوے تو کوئی مبالغہ نہیں ہے اور بعض سوات د بنیر کے اخوند صاحب کی نسبت یہ گمان کرتے تھے اور بعض دیگر اشخاص کی نسبت.لیکن چونکہ کسی کو بھی متحقق طور پر یہ دعوی کرنے کی جرات نہیں ہوئی تھی.اس لئے کوئی بات متقرر نہ تھی.جس کے جی میں جو کچھ آتا تھا کہتا تھا اسی طرح پر چونکہ امام مہدی آخر زمان کے ظاہر ہونے کا بھی غالب مظنہ کی چودھویں صدی کا آغاز تھا اور وہ وقت بھی

Page 5

3 سر پر آچکا تھا اور اکثر علمائے محققین کا خیال بھی اسی طرف جھکا ہوا تھا.چنانچہ حضرت مولانا محمد عبدالحی صاحب مرحوم و مغفور لکھنوی اپنی تالیف لطائف مستحسنہ میں تحریر فرماتے ہیں.اقْتَرَبَ ظُهُورِ الْإِمَامِ الْمَهْدِى إِمَامٍ أَحْرِ الزَّمَانِ وَمَا أَدْر لَكُمْ لَعَلَّه يَظْهَرْ فِي هَذِ الْمِانَة L اور نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی تو اپنی تالیفات مثل حدیث الغاشیہ اور بیج الکرامہ وغیر ہم میں بہت ہی وضاحت اور صراحت کے ساتھ اپنا یہ گمان ظاہر کرتے ہیں پس اس تقریب سے بہت چھوٹے اور نا قابل لوگ بھی امام مہدی ہونے کا دعوی کر بیٹھے.لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں زمانے کی دست برد سے نیست و نابود ہو گئے.اور اس سے لوگوں کی طبیعت میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جو امام مہدی ہونے کا دعوی کرتا ہے جھوٹا ہوتا ہے.اسی اثناء میں افواہی طور پر سننے میں آیا کہ پنجاب کے علاقہ گورداسپور میں ایک شخص نے امام مہدی ہونے کا دعوی کیا ہے لیکن مجھے اس کی طرف چنداں توجہ دو وجہ سے نہ ہوئی.اول وجہ یہ کہ امام مہدی ہونے کا دعوی کرنے والے اکثر جھوٹے ہی ہوتے ہیں.جیسا کہ تجربہ سے ظاہر ہو چکا ہے اور دوسری وجہ یہ کہ چونکہ وہ خبر مجھ کو منکرین و مخالفین کے ذریعہ محض بری طرح سے پہنچی تھی.اس لئے اس خبر کی تحقیق کی طرف خاکسار کی توجہ مبذول نہ ہوئی.اسی زمانہ میں اتفاقا منشی محمد دولت خاں صاحب وکیل مرحوم کے لئے ایک ڈبیہ مفرح عنبری کا منگانا پڑا.پس میں نے ایک پوسٹ کارڈ وکیل صاحب کی طرف سے لاہور جناب حکیم محمد حسین صاحب قریشی کے پاس لکھ دیا.حکیم صاحب نے مفرح عنبری کی تو ایک ڈبیہ بھیجی.لیکن اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا رسالہ بھی جس کا نام تفسیر سورہ

Page 6

جمعہ تھا.وکیل صاحب کے نام مفت بھیج دیا.وہ رسالہ حضرت خلیفہ اول جناب مولانا نورالدین صاحب مرحوم و مغفور کا لکھا ہوا تھا.وکیل صاحب اس رسالے کو پڑھ کر چونکہ کچھ بھی نہ سمجھ سکے اس وجہ سے میرے پاس لے آئے اور کہنے لگے ذرا اسے دیکھئے تو سہی شاید وہاں ( لاہور میں کوئی نیا فرقہ نکلا ہے.ہم اس رسالے کو حکیم صاحب کے پاس واپس بھیج دیں گے.ہم کو اس بکھیڑے سے کچھ کام نہیں ہے.میں نے کہا واپس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہم اس کی حقیقت دریافت کریں گے.اور رد لکھیں گے.پس وکیل صاحب وہ رسالہ مجھ کو دے کر چلے گئے میں نے اول سے آخر تک اسے پڑھا.لیکن وہ رسالہ چونکہ طرز جدید پر لکھا گیا تھا.اس لئے کچھ بھی لطف نہ آیا.بلکہ بالکل فضول سا معلوم ہوا.کیونکہ جس طریق پر وہ لکھا گیا تھا ہم اس سے مانوس نہ تھے.اس میں یکا یک میری نظر اس رسالے کے ٹائٹل پیج پر پڑی جہاں لکھا ہوا تھا کہ اس رسالے کے مصنف کی علمیت کے قائل صرف ہندوستان ہی کے علماء نہیں ہیں بلکہ عرب و مصر شام و غیر ہم کے علماء بھی ہیں.اس نوٹ کو پڑھ کر میرا یہ خیال کہ عوام الناس جاہلوں کا کوئی فرقہ ہو گا ٹوٹ گیا.اور حقیقت دریافت کرنے کی طرف مجھے بڑی توجہ ہو گئی.آخرش میں نے وکیل صاحب کی طرف سے حکیم صاحب کو ایک پوسٹ کارڈ لکھا.اس کا مضمون تھا کہ جن امام کے آپ معقد ہوئے ہیں.ان کے کچھ حالات لکھیں.اور ان کی لکھی ہوئی کچھ کتابیں بھی ارسال فرما دیں.تاکہ ہم لوگ بھی ان کے فیض سے مستفیض ہو سکیں اسی اثناء میں اتفاقا خود وکیل صاحب بھی آگئے اور یہ دیکھ کر کہ میں نے ان کی طرف سے حکیم صاحب کو ایک پوسٹ کارڈ لکھا.انہوں نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ حکیم صاحب کتابوں کا کوئی وی پی بھیج دیں.یہ بھی لکھ دینا چاہئے کہ جو کچھ

Page 7

5 بھیجیں ہدیہ بھیجیں کیونکہ بغیر کچھ حقیقت دریافت کئے ہم روپیہ پیسہ خرچ نہیں کر سکتے.پس میں نے بھی وکیل صاحب کے کہنے سے ویسا ہی لکھ دیا.حکیم صاحب نے بڑے شدومد سے اس خط کا جواب وکیل صاحب کو یہ لکھا کہ جب آپ دیکھتے ہیں کہ دنیا کا کوئی کام بغیر پیسے کے نہیں پتا تو کیا دین اور خدا طلبی کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے آپ کے پاس پیسے نہیں ہاں ہو سکتا ہے کہ دس ہیں روپیہ کی کتابیں خرید کر ہم آپ کو بھیج دیں لیکن جبکہ ہم نزدیک والے اور غریبوں کے لئے اس قدر خرچ نہیں کر سکتے.تو آپ کے لئے جو اس قدر دور کے رہنے والے ہیں اور مرفہ الحال بھی ہیں روپے خرچ کرنا مناسب خیال نہیں کرتے.میں آپ کے لئے بھیجوں تو بھیجوں کیا کتا ہیں تو یہاں بہت ہیں.اور اخیر میں لکھا کہ آپ مہربانی فرما کر فی الحال صرف پانچ روپیہ میرے پاس بھیج دیں.تو میں کچھ کتابیں مناسب حال آپ کے انتخاب کر کے بھیج دوں گا.حکیم صاحب ممدوح نے حضرت صاحب کے کچھ حالات بھی مختصر طور پر لکھ کر بھیجا تھا جس میں آٹھم اور لیکھرام کے واقعات بھی کچھ تحریر تھے.اور ریویو آف ریلیجنز اردو کے چند رسالے بھی مفت روانہ کئے.وکیل صاحب نے ان رسالوں کو لا کر میرے پاس ڈال دیا.پس وہ رسالے میرے پاس پڑے رہے اور کبھی کبھی میں ان میں سے کسی نہ کسی کو اٹھا کر دیکھ لیتا تھا.اور دل میں کہتا تھا کہ اگر اس مدھی امام کی اپنی تصنیف کی ہوئی کوئی کتاب یا تحریر ہاتھ آتی تو حقیقت حال معلوم ہو جاتی.ان رسالوں کو الٹ پلٹ کرتے کرتے یکایک ایک دن حضرت صاحب کی ایک تحریر خاکسار کی نظر سے گذری.میں نہایت توجہ کے ساتھ اس کو پڑھنے لگا طرز تحریر سے ایک شان و عظمت ظاہر ہوتی تھی.پڑھتے پڑھتے اچانک ایک

Page 8

چکا چوند سا آنکھوں میں معلوم ہوا.پس آنکھوں کو مل کر پھر پڑھنے لگا.اور پھر ایساری معلوم ہوا اور پھر آنکھوں کو مل کر پڑھنے لگا.اور پھر وہی حالت ہوئی.تب میں نے غور سے دیکھنا شروع کیا.تب عبارتوں کے اندر ایک روشنی کی معلوم ہوئی.میں نے دل میں کہا کہ اہل باطل کی تو بہت سی تحریریں میں نے دیکھی ہیں.لیکن یہ کیفیت کسی میں نہیں پائی اہل باطل کے کلمات ظلمت سے پر ہوتے ہیں.یہ روشنی کیسی.پھر حضرت صاحب کی کتابیں دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی.اور ایک مرتبہ دل میں آیا کہ حکیم صاحب نے جو پانچ روپیہ وکیل صاحب کے پاس سے طلب کیا تھا وہی پانچ روپیہ خفیہ میں حکیم صاحب کے پاس اپنے نام سے بھیج دوں تاکہ حکیم صاحب کچھ کتابیں میرے نام پر روانہ کر دیں.لیکن اس اثناء میں رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے ایک ٹائٹل پیج پر حضرت صاحب کی تصنیف کردہ کتابوں کی ایک فہرست دیکھنے میں آئی.اس لئے حکیم صاحب کی وساطت کی ضرورت نہ رہی بلکہ میں نے براہ راست خودہی قادیان سے تھوڑی کتابیں مثلا ازالہ اوہام ہر دو حصہ.تحفہ گولڑویہ.نشان آسمانی لیکچر لاہور اور لیکچر سیالکوٹ وغیرہ وغیرہ بذریعہ وی.پی منگالیں.اور بہت ہی توجہ کے ساتھ ان کتابوں کو پڑھنے لگا.اور جہاں جہاں اپنی دانست کے خلاف کچھ پاتا تھا حاشیہ پر نشان کرتا جاتا تھا.تاکہ نظر ثانی میں اس کی اچھی طرح تحقیق کر سکوں.اور کبھی ایسا بھی اتفاق ہو تا تھا.کہ وہی کتاب پڑھتے پڑھتے شبہ دور ہو جاتا تھا.ان کتابوں کو پڑھنے کے بعد اور بھی کتابیں بدفعات منگایا اور پڑھتا گیا.آخر اور جوں جوں کتابیں پڑھتا تھا.شوق بڑھتا جاتا تھا اور صداقت کی روشنی دل میں پیدا ہوتی جاتی تھی.اول اول جب کتابیں پڑھتا اور کوئی بات دل میں کھنکتی

Page 9

تو تردید لکھنا شروع کر دیتا.لیکن جب اپنی تحریر پر نظر ثانی کرتا تھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ کچھ بھی نہ ہوئی اور پھاڑ ڈالتا تھا.اسی طرح کاغذ کے بہت سے اوراق ضائع ہوئے.اور بالآخر میں تھک کر رہ گیا اور تردید لکھنے کا خیال دور کر دیا.پھر حضرت صاحب کی تائید میں کچھ زور طبیعت صرف کرنے لگا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں غیر معمولی قوت معلوم ہوتی ہے.اس کے بعد میں حضرت صاحب سے بلا واسطہ خط و کتابت کرنے لگا.اور اپنے شبہات کے جوابات خود حضرت صاحب سے طلب کرنے لگا.چنانچہ میرے بعض سوالات کے جوابات حضرت صاحب کی تصنیف براہین احمدیہ حصہ پنجم میں چھپے ہوئے موجود ہیں جو چاہے دیکھ سکتا ہے.اس عرصہ میں مجھ پر کئی امور کھلے (۱) ایک یہ کہ اس جماعت میں بڑے بڑے علماء بھی ہیں جیسا کہ سابق اس کا کچھ ذکر بھی کیا گیا ہے.(۲) یہ کہ مدعی مہدویت خود بھی ایک بڑا عالم شخص ہے کہ اس کے سامنے دوسرا کوئی عالم کوئی چیز ہی نہیں.(۳) تیسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس مدعی مہدویت نے یہ علم کسی نامی گرامی عالم سے حاصل نہیں کیا.بلکہ اوائل عمر میں گھر میں کچھ معمولی سی تعلیم اس کی ہوئی تھی اس سے زیادہ کچھ نہیں.(۳) چوتھا امریہ کہ پنجاب و ہندوستان کے اکثر علماء اس کے اس قدر مخالف ہیں کہ جان تک لینے کو تیار ہیں.پھر مجھے یہ خیال آیا کہ مخالف علماء کے خیالات کو بھی دیکھنا چاہئے.تاکہ معلوم ہو کہ منصفانه احقاق حق و ابطال باطل کرتے ہیں.یا متعصبانہ کلام کرتے ہیں.پس جب سنتا کہ کسی عالم معتبر نے کوئی کتاب

Page 10

رسالہ لکھ کر حضرت صاحب کی تردید میں شائع کیا ہے فوراً اس کو منگا تا اور بڑے غور سے اس کو پڑھتا.اور حضرت صاحب کی تحریر کے ساتھ مقابلہ کر کے دیکھتا تھا.مخالف علماء کے بعض رسالوں کو بڑی جستجو سے گراں قیمت دے کر منگا تا اور بہت ہی بڑی توجہ کے ساتھ غور سے پڑھ کر کیفیت حال دیکھتا تھا.بالآخر منکشف ہو گیا کہ مخالف علماء کو احقاق حق و تحقیق مطلب منظور نہیں.بلکہ عوام الناس کو خوش کرنے کے لئے پرانی باتوں کی تائید حتی الامکان مد نظر رکھتے ہیں اور دلائل حقہ قویہ سے مدعی مہدویت کی باتوں کو نہیں پر کھتے اور خشیت اللہ سے بھی کچھ حظ نہیں رکھتے.بلکہ دنیا طلبی اور دنیوی عزت و آبرو کی محبت ان پر غالب ہے جیسا کہ گذشتہ زمانے میں تمام نبیوں کے ساتھ معالمہ ہو تا آیا ہے.ہے جیسا كَمَا لَا يَخْفَى عَلى أَهْلِ الْخِبَرَةِ - ہوتا المختصر وہ ساری کارگزاریاں جو اوپر لکھی گئیں.خفیہ خفیہ ہوتی رہیں اور لوگوں پر ظاہر نہیں کی جاتی تھیں حتی کہ وکیل دولت خان صاحب پر بھی اس کا اظہار نہ کیا جاتا تھا ہاں کبھی کبھی بعض مخلص تلامذہ پر میں خفیہ طور سے کچھ ظاہر کر دیتا تھا اور کبھی حضرت صاحب کی کوئی کتاب پڑھ کر ان کو سمجھا دیتا تھا.یہاں تک کہ وکیل صاحب کو میری اس کارروائی کی کچھ کچھ کیفیت معلوم ہو گئی.اور جب حضرت صاحب کی بعض کتابیں مجھ سے لے جا کر پڑھنے لگتے تب میں بھی ان کو کبھی کبھی کچھ سمجھانے لگا.پس انہوں نے بھی سلسلہ حقہ کا کچھ مزہ پایا.اور شوق سے سلسلہ کی کتابیں پڑھنے لگے.پھر سلسلہ حقہ کے معتقد بن گئے.اور خوب معتقد بنے یہاں تک کہ بعض لوگوں کو تبلیغ کرنے لگے.

Page 11

9 قبل میرے احمد کی ہونے کے ہی ہنگامہ سازی و جلسہ پردازی ہونے لگی اگرچہ برہمن بڑ یہ میں ہمارے یہاں خفیہ طور پر احمد بیت کا چرچا ہو تا تھا پھر بھی بنوائے آنکہ "مشک و عشق را نتواں نهفتن " اطراف و جوانب میں اس کی شہرت کسی قدر ہو گئی تھی.اور اس راہ سے لوگ میری کچھ نہ کچھ شکایت بھی کرنے لگے تھے.اس وجہ سے ایسے ایسے مولوی لوگ جو میرے سامنے آکر کچھ کہنے کی بھی طاقت نہ رکھتے تھے غائبانہ برا کہنے لگے اور عوام کے سامنے اس راہ سے کچھ نفسی و تمسخر بھی کرنے لگے یہ حال سنکر وکیل صاحب کو کچھ غصہ سا آگیا تو انہوں نے ایک جلسہ قرار دے کر اور تاریخ مقرر کر کے ایک اشتہار اس مضمون کا چھپوا دیا.کہ جو مولوی صاحبان سلسلہ احمدیہ کے خلاف دلائل محکم رکھتے ہیں انہیں چاہئے کہ اپنے دلائل لے کر جلسہ مذکورہ میں حاضر ہوں انہیں پیش کریں.الغرض اس اشتہار کے شائع ہوتے ہی اطراف و جوانب میں ایک دھوم مچ گئی اور ایک طوفان برپا ہو گیا.لوگ مولویوں کو کہنے لگے کہ آپ لوگوں کی جو اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے بڑی بڑی باتیں کیا کرتے ہیں اس جلسہ میں جانے پر کیفیت حال معلوم ہو گی.آپ لوگوں کو اس جلسہ میں ضرور جانا چاہئے.مخالف مولویوں میں میرا ایک سخت دشمن مولوی سعد اللہ نامی تھا اس نے اپنے بھتیجے کو جس کا نام مولوی شمس اللہ کی تھا اور اس وقت وہ کلکتہ ہائیکورٹ میں وکیل تھا بت زور کے ساتھ لکھا کہ اس نے (یعنی خاکسار نے) یہاں ایک جلسہ مباحثہ قرار دیا ہے اگر اس میں نہ جاؤں تو عوام میں میری مفت

Page 12

10 ہو گی اور اگر جاؤں تو اس سے (یعنی خاکسار سے مقابلہ مشکل ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے ایک یا دو ایسے زبردست فاضل مولوی بلا دیں جو اس کو دیعنی خاکسار کو اچھی طرح شکست دے سکیں.پس مولوی شمس اللہ کی نے اپنے چچا کی خاطر اس میں بڑی کوشش کی اور جستجو کے بعد دو (۲) مولویوں کو بلایا.ان میں سے ایک تو مولوی عبد الوہاب ہماری حنفی تھا.اور دوسرا مولوی عبداللہ چھپر دی جو گروہ اہل حدیث سے تعلق رکھتا تھا.یہ دونوں سلسلہ حقہ کے سخت دشمن ہے.المختصر روز مقررہ پر دونوں مولوی صاحبان صبح کے وقت بذریعہ سٹیمر برہمن بڑیہ میں وارد ہوئے.اور مولوی ولی اللہ سب رجسٹرار کے پاس جو مولوی شمس الد کی کے دوسرے چا تھے.فروکش ہوئے.اور وہیں ان کے کھانے وغیرہ کا انتظام ہوا.جلسہ کے اشتہار میں وقت مباحثہ آٹھ بجے دن قرار دیا گیا تھا اور ہم لوگ اس کے مطابق جلسہ گاہ میں جو ہمقام عید گاہ تھی جاپہنچے.لیکن مخالف مولوی صاحبان تقریباً ایک بجے وہاں گئے اور ان لوگوں کے جانے کے بعد اس بات پر گفتگو شروع ہوئی کہ بحث کس کس مسئلہ میں ہو گی.اور کس ترتیب سے ہو گی.جلسہ کے لوگ دو فریق ہو گئے ہماری طرف کے لوگ تو یہی کہتے رہے کہ اشتہار میں جو ترتیب لکھی ہوئی ہے اس طرح ہو.اور مخالف فریق کے لوگ کہتے تھے کہ اشتہار میں لکھی ہوئی ترتیب سے کیا غرض.مولانا صاحبان اس وقت جو ترتیب مقرر کریں اسی طرح ہو.اس نزاع نے بہت طول کھینچا اور کوئی فریق دوسرے فریق کی بات کو نہیں مانتا تھا.آخرش اس گفتگو ہی میں دن کے تین بجے کے قریب ہو گئے اور صورت حال ایسی ہو رہی تھی کہ بحث بالکل نہ ہو.اس وقت مولوی عبد الوہاب بہاری کھڑے ہو کر نہایت افسوس کے ساتھ

Page 13

11 کہنے لگے کہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ مشقت سفر اٹھا کر تو ہم یہاں پہنچ گئے لیکن ایک بات بھی کہنے کا موقعہ نہیں مل رہا.اور یہ محنت بالکل اکارت جاری ہے بہتر تو یہی تھا کہ جس اشتہار کے سبب آپ صاحبان یہاں آئے ہیں.اسی کے مطابق بحث شروع کریں.یہ سارے جھگڑے تو آپ ہی کی طرف سے ہو رہے ہیں.میں نے دیکھا کہ ہماری طرف کے بعض لوگ بھی چاہتے ہیں کہ وہ مولوی صاحبان جو اس قدر دھوم دھام سے آئے ہیں.ذرا ان سے بھی سن لیں کہ وہ کیا کہتے ہیں.پس میں نے اجازت دے دی.مولوی عبد الوہاب نے اس کو غنیمت سمجھا اور کھڑے ہو کر تقریر شروع کر دی.لیکن جس طرح غیر احمدی بازاری ملا کیا کرتے ہیں اسی طرح ادھر ادھر کی باتیں کہنے لگے اور محققانہ طور پر کوئی نکتہ بار یک یا تحقیق غامض بیان نہیں کیا یہاں تک کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر بٹھا کر اتارنے کے لئے سیڑھی تیار کرنے لگے اور اپنی تقریر کو بہت طول دے دیا یہ حالت دیکھ کر ہماری طرف کے ایک شخص نے میری طرف مخاطب ہو کر باہستہ کہا.معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے شرار نا یہ منصوبہ کیا ہے یہ سارا وقت مولوی عبد الوہاب نے لیویں اور آپ کچھ کہنے نہ پائیں.تاکہ بعد کو انہیں یہ کہنے کا موقع مل سکے.کہ کلکتہ سے آئے ہوئے مولویوں کے مقابل برہمن بڑیہ کے مولوی عبد الواحد صاحب زبان بھی نہ ہلا سکے.یہ سنکر میں جلد کھڑا ہو گیا اور بآواز بلند اہل جلسہ کو مخاطب کر کے کہنا شروع کیا.کہ حضرات کیا آپ آج صرف اسی طرف کی سنیں گے یا مجھے بھی کچھ کہنے کا موقع دیں گے.یہ سنکر ہر طرف سے لوگوں نے مولوی عبد الوہاب کو کہنا شروع کیا کہ بس اب آپ اپنی تقریر ختم کریں اور برہمن بدید کے مولانا صاحب کو کچھ کہنے دیں.پس

Page 14

12 مجبور أمولوی عبد الوہاب بہاری چپ ہو کر بیٹھ گئے.اور خاکسار نے کھڑے ہو کر بڑی تیزی کے ساتھ تقریر شروع کر دی.پہلے یہ تمہید اٹھائی کہ جس وقت سے میں مغربی ہند کے سفر سے اس ملک میں واپس آیا ہوں کوئی مولوی میرے مقابل کھڑا نہیں ہوا تھا.ان دنوں سننے میں آیا تھا کہ مغربی ہند کے دو زبر دست فاضل مولوی آئے ہیں یہ خبر سنکر میں بہت خوش تھا کہ ایک مدت کے بعد میں اپنے دل کے حو صلے نکالوں گا.اور فاضلانہ گفتگو ہوگی.اس وقت ایک شخص نے جو تقریر کی اس سے ظاہر ہو گیا کہ اس شخص کو علم سے کچھ بھی تعلق نہیں بلکہ اس سے بالکل بے بہرہ ہے.بازاری ملائشی جس طرح تقریریں کیا کرتے ہیں اسی طرح اس شخص نے بھی کی.کوئی عالمانہ نکتہ یا کوئی علمی تحقیق بیان نہیں کی.جو آیات قرآنی یا حدیثیں اس شخص نے بیان کیں.ان کے معانی بالکل غلط بیان کئے.اب آپ حضرات خاموش بیٹھ کر تھوڑی دیر سنیں میں ایک ایک آیت اور حدیث تلاوت کر کے ان کے معنی سناتا ہوں.اس کے بعد سب سے پہلے میں نے مسئلہ وفات مسیح اسرائیلی پر کچھ بیان کرنا شروع کیا.اور حیات مسیح کی تردید کرتا گیا.میری تقریر کی روانی کو دیکھ کر مخالفین کے چھکے چھوٹ گئے اور بیٹھ کر سننے کی تاب نہ رہی یہ دیکھ کرنا چا ر اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے مولویوں کو ساتھ لے کر جلسہ گاہ سے چلے جانے لگے.عام حاضرین میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ جب ان کے مولوی صاحب نے وعظ بیان کیا تب تو ہمارے مولوی صاحب بیٹھ کر سنتے رہے.مگر جب ہمارے مولانا صاحب تقریر کرنے لگے تو وہ سب اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے مولویوں کو ساتھ لے کر چلے جاتے ہیں لہذا دو ڑو اور انہیں ہر گز جانے نہ دو.اس خیال کا پیدا ہو نا تھا کہ کئی ہزار آدمیوں نے ان کو معہ ان کے مولوی کے گھیر لیا.اور جانے

Page 15

13 سے روکا.پس مجبور ہو کر وہ لوگ معہ اپنے مولویوں کے جلسہ گاہ میں واپس آگئے اور بیٹھ کر میری تقریر سننے لگے.یہ وقت نہایت ہی نازک تھا.اگر مخالفین کی طرف آدمی زیادہ ہوتے اور جلسہ گاہ سے بزور چلے جانا چاہتے تو اس وقت سخت مار پیٹ تک کی نوبت پہنچ جاتی.مگر چونکہ اس طرف آدمی بہت ہی کم تھے اس لئے وہ لوگ بزور چلے جانے کی جرات نہ کر سکے اور نا چار واپس آکر بیٹھ گئے.نہ کر سکے اور ناچار بیٹھ المختصر جب عصر کی نماز کا وقت تنگ ہونے لگا تو اذان دے دی گئی اور میں نے تقریر ختم کی.لوگ جلسہ گاہ سے اٹھ کر ادھر ادھر جانے لگے اور ہمارے مخالفین جلسہ گاہ چھوڑ کر چلے گئے.ہمارے احباب بھی نماز عصر و ہیں پڑھ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور اس دن کی کارروائی اس طرح ختم ہو گئی.دوسرے دن دیکھا گیا کہ مخالفین میں بڑی دوڑ دھوپ ہو رہی ہے.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک مفسد مخالف نے بازار میں جلسہ وعظ قرار دیا ہے.تاکہ اس میں مولوی صاحبان سلسلہ احمدیہ کی مذمت بیان کریں اور میری بھی توہین کی جائے.لیکن شان انہی کہ اس دن صبح کو جلسہ مذکورہ میں جانے سے پہلے ہماری مولوی صاحب نے میرے ایک شاگرد سے میرا مفصل حال دریافت کیا.جس قدر اسے معلوم تھا اس نے بیان کر دیا پھر بہاری مولوی صاحب نے اس سے یہ بھی دریافت کیا کہ تمہارے مولوی صاحب کی کوئی تصنیف چھپی ہوئی ہے یا نہیں.جس کے جواب میں اس شخص نے بتایا کہ مولانا صاحب کی متعدد تصانیف ہیں.اس پر مولوی مذکور نے میری کوئی کتاب دیکھنے کی خواہش ظاہر کی.اور اس نے رسالہ قبسات الانوار لے جا کر پیش کر دیا.اس کو دیکھ کر بہاری مولوی صاحب بالکل متغیر ہو گئے اور میری نسبت کہنے لگے

Page 16

14 کہ آدمی تو بہت ہی قابل معلوم ہوتے ہیں.اس سے قبل بعض رازداروں نے ان کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہاں کے لوگ بڑے مولوی صاحب کے ایسے معتقد ہیں کہ اگر ان کی نسبت کوئی نا ملائم لفظ آپ زبان پر لاویں گے تو یہاں سے عزت لے کر جانا مشکل ہو جائے گا جس کی تصدیق گذشتہ دن کے جلسہ کے حالات سے بھی ہو چکی تھی.پس اس وقت سے بہاری مولوی صاحب کو برہمن بڑیہ سے با عزت واپس جانے کی فکر پڑ گئی اور ہر طرح کے حیلے بہانے تلاش کرنے لگے.بهر کیف مولوی صاحبان بازار کے جلسہ میں گئے لیکن دل میں وہی خیال رہا.ایک مفسد مولوی نے کہیں سے ایک ایسا فتوئی بہم پہنچایا کہ جس میں احمدیوں کی خدمت لکھی ہوئی تھی اور جانے پر ہماری مولوی صاحب اسے پڑھ کر لوگوں کو سنائیں بازار کا جلسہ تو ہوا اور مولویوں نے تقریریں کیں لیکن کوئی نا ملائم لفظ میرے خلاف زبان پر نہ لا سکے.بلکہ بعض اوقات تعریف کرتے رہے.کہیں کہ ارادہ کیا کہ تقریروں کے ختم ہو جن مفسدوں نے میرے خلاف ان سے کچھ کھلانا یا فتویٰ کا اعلان کرانا چاہا تھا وہ ناکام رہے.مولویوں کی تقاریر نے ان کی ہمتیں پست کر دیں.جس مفسد مولوی نے اس بیہودہ فتوئی کو عوام میں پیش کرنے کے لئے جیب سے نکالا تھا.پھر جیب کے اندر رکھ لیا.اور یہ بھی سنا گیا.کہ بہاری مولوی صاحب اس جلسہ سے یہی کہہ کر اٹھے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ مولوی عبد الواحد صاحب کے مقابل کوئی دوسرا عالم اس علاقہ مشرقی بنگال میں موجود نہیں ہے.پس یہاں کے لوگوں سے جس طرح ہو سکے ان کو قادیانی ہونے سے باز رکھیں کیونکہ مبادا یہ مولوی صاحب قادیانی ہو گئے تو علاقہ کا علاقہ بالکل بے دین ہو جائے گا.الغرض مولوی صاحبان بازار کے جلسہ سے واپس آنے کے بعد سے اس فکر

Page 17

15 میں پڑ گئے کہ کسی طرح خاکسار سے ملیں.مگر چونکہ اس طرح چلے آنے میں لوگوں کے بد ظن ہو جانے کا خوف تھا اس وجہ سے یہ تدبیر ہونے لگی کہ خاکسار کو کسی طرح مولوی ولی اللہ صاحب سب رجسٹرار کے مکان پر لے جائیں.اور اس غرض کے لئے دو شخص تیار ہوئے کہ جس طرح بھی ہو گا مجھے سب رجسٹرار صاحب مذکور کے مکان پر لے جائیں گے.ان دونوں میں سے ایک تو ہائی سکول برہمن بڑیہ کے ہیڈ ماسٹر تھے.ور دوسرے صاحب برہمن بڑیہ کے ایک مسلمان تعلقہ دار تھے.یہ دونوں میری بڑی منت سماجت کرنے لگے اور بہت کچھ کہہ سن کر اس بات پر راضی کیا کہ میں وہاں چلا جاؤں کیونکہ اس سے پہلے بھی میں کبھی کبھی سب رجسٹرار صاحب کے مکان پر جایا کرتا تھا اور وہ مولوی صاحبان بھی جو کلکتہ سے آئے تھے مجھ سے ملنے کے لئے بہت مشتاق تھے.مولوی صاحبان خود ہی میرے پاس آتے.لیکن برہمن بدیہ کی عوام کی چہ میگوئیوں کے خیال سے رکتے تھے.المختصر میں ان کے ساتھ مولوی ولی اللہ صاحب کے مکان کی طرف روانہ ہوا.اور اس سے پہلے کہ میں وہاں پہنچوں مولوی ولی اللہ صاحب خود چل کرانائے راہ میں مجھ سے آملے اور تعظیم کے ساتھ مجھے لے گئے.وہاں میں نے دیکھا کہ جو مولوی صاحبان بیرو نجات سے تشریف لائے تھے وہ بیٹھے ہیں اور ان میں مولوی حسن علی نامی ایک شریر شخص بھی جو بہاری مولوی عبد الوہاب کا شاگرد کہلاتا تھا بینا ہے.اور ادھر ادھر موضع شہباز پور وغیرہ کے شریر النفس اشخاص تجمع ہیں.میرے پہنچتے ہی مولوی عبد الوہاب بہاری بڑے تپاک سے اٹھ کر مجھ سے ملا.اور ایک کرسی جو پہلے سے وہاں رکھی ہوئی تھی.میری طرف بڑھادی جس پر میں بیٹھ گیا اور مولوی عبد الوہاب سے مخاطب ہو کر کہنے لگا.

Page 18

16 مولوی صاحب آپ کو معلوم کہ یہاں آپ لوگوں کو بکیوں بلایا گیا ہے.مولوی نذر کو رنے نفی میں اس کا جواب دیا.تب میں نے کہا کہ آپ کو اس واسطے بلایا گیا ہے کہ آپ میرا مقابلہ کریں.کیونکہ یہاں کے مولوی میرے مقابل میں نہ ٹھر سکے.مگر آپ کو واضح رہے کہ کوہ ہمالہ کے اس طرف اس وقت کوئی ایسا مولوی نہیں ہے کہ جو آکر عبد الواحد کو شکست دے جائے.ہاں تبادلہ خیالات کا سلسلہ مینوں چل سکتا ہے.آج کل کے جتنے بڑے بڑے علماء ہند ہیں ان میں سے اکثر میرے ہم سبق رہ چکے ہیں.اور اساتذہ کے ہم عصر جتنے علماء تھے سب فوت ہو چکے ہیں اس وقت ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جو علماء موجود ہیں ان میں سے ہر ایک کے متعلق مجھے پوری واقفیت ہے کہ ان کا مبلغ علم کیا ہے.مولانا محمد عبد الحی صاحب لکھنوی کے متعدد خطوط میرے پاس اس وقت بھی موجود ہیں ان کو دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ میرے متعلق کیسا خیال رکھتے تھے.میری یہ باتیں سنکر مولوی عبد الوہاب بہاری مجھ سے دریافت کرنے لگے کہ مولانا عبدالحی صاحب سے میری کہاں کی ملاقات تھی اس پر میں نے انہیں بتایا کہ میں تو انہیں کا شاگرد ہوں.وسط ہند میں سوائے ان کے میں نے اور کسی سے نہیں پڑھا.یہ منکر بہاری مولوی صاحب مزید تفتیش کرنے لگے اور کہنے لگے.مولانا عبدالحی صاحب کے درسگاہ ہم تمام لکھنئو آپ کس وقت تشریف رکھتے تھے.میں نے انہیں بتایا کہ میں اس زمانہ میں وہاں تھا.جب مولوی عین القضاة صاحب اور مولوی ابوالحسن صاحب مولانا مرحوم سے پڑھتے تھے.تب تو وہ میری طرف کسی قدر غور سے دیکھ کر کہنے لگے کہ میں نے بھی آپ کو وہاں دیکھا تھا.ان کے اس کہنے پر میں نے بھی جو بغور ان کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ میں نے بھی انہیں لکھنو میں دیکھا تھا.پس ہم دونوں میں

Page 19

17 تعارف ہو گیا.اور مولوی عبدالوہاب ہماری بڑے اخلاص کے ساتھ مجھ سے ملے.چونکہ تعلیم کے زمانہ میں وہ مجھ سے نیچے کی جماعت میں پڑھتے تھے اس وجہ سے وہ کبھی کبھی میرے پاس آکر اپنا سبق یاد کرتے تھے.اس کا بھی انہیں خیال آگیا.ان وجوہ سے وہ میرے خیر اندیشوں میں سے ہو گئے.اور جب یہ بات میرے دوستوں میں مشہور ہو گئی کہ کلکتہ سے جو دو مولوی آئے ہیں وہ میری شاگردی کا اقرار کرتے ہیں تو وہ بہت ہی خوش ہوئے.غرضیکہ مولوی عبد الوہاب نے اپنے اس شریر شاگرد کو جو مولوی حسن علی کے نام سے مشہور تھا اور اکثر دیہاتوں میں میری مخالفت کیا کرتا تھا ترش روئی کے ساتھ مخاطب کیا اور کما حسن علی تم مولوی عبد الواحد صاحب کی خدمت میں بھی حاضر ہوتے ہویا نہیں چونکہ مولوی حسن علی مذکور کبھی بھی میرے پاس نہ آیا تھا اور میری مخالفت کیا کرتا تھا اس وجہ سے وہ کچھ جواب نہ دے سکا.اور خاموش رہا.اس وقت میں نے بتایا کہ بھلا وہ میرے پاس کیوں آنے لگا.وہ تو آپ کی تعلیم کے اثر سے جاہلوں میں بیٹھ کر میری شکایت کیا کرتا ہے.یہ سن کر مولوی عبد الوہاب آگ بگولا ہو گئے اور حسن علی سے بڑے غیظ و غضب کے ساتھ کہنے لگے.کہ کیا واقعی تم ایسا کرتے ہو.اگر سچ ہے تو اٹھ کر مولوی عبد الواحد صاحب سے معافی طلب کرو.یہ سنکر مولوی حسن علی تو ہکا بکا ہو کر رہ گیا.اور ناچار دست بستہ ہو کر مجھ سے معافی کا خواستگار ہوا.میں نے اپنے ہاتھ سے اس کو بٹھا دیا.اور کہا کہ اس کی ضرورت نہیں.لیکن بات یہ ہے کہ تم کو مناسب نہ تھا کہ ہم سب سے ایسی بد سلوکی کرتے.اگر تم ہم سے حسن سلوک کا برتاؤ کرو گے تو تمہاری آنے والی نسلیں بھی تم سے نیک سلوک کریں گی.اور اگر ہم سے بدسلوکی کرو گے تو اپنی آئندہ نسل سے کبھی بھلائی کی

Page 20

18 امید نہ رکھنا.تمہیں تو یہ چاہئے تھا کہ ہمارے پاس جو علمی دولت ہے وہ ہم سے حاصل کر کے رکھتے.کیونکہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ ہم نہ ہوں گے اور تم علم کے لئے ترسو گے.اور ہمیں یاد کرو گے.الغرض میں نے اس قسم کی نصیحت آمیز باتوں پر اپنے کلام کو ختم کیا اور دیکھا کہ سامعین جو شہباز پور کے لوگ معہ مولوی عبد الوہاب اور ان کے ہمراہیوں کے انتظار کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے ان کی دعوت کی تھی.پس بہاری مولوی صاحب اور مولوی عبد اللہ چھپروی مقام شہباز پو ر کو روانہ ہوئے اور میں بھی ان سے رخصت ہو کر اپنے گھر چلا آیا یہاں تک دوسرے دن کی کارروائی ختم ہوئی.تیسرا دن.معلوم ہوا کہ آج دو پسر تک بهاری مولوی صاحب اور ان کے ہمراہی شہباز پور سے برہمن بونیہ واپس آجائیں گے اور اپنے کسی پر ستار کے گھر دعوت کھا کر کلکتہ کی طرف روانہ ہو جائیں گے.اس دعوت کرنے والے شخص نے مجھ کو بھی دعوت دی تھی.لیکن چونکہ شہباز پور سے مولوی صاحبان کی واپسی میں دیر ہوئی اس وجہ سے میں نے اپنے گھرہی میں کھانا کھا لیا.اور اس دعوت میں نہ جا سکا.آخرش بہاری مولوی صاحب اور ان کے ہمرا ہی مولوی عبد اللہ چھپر وی بڑی دیر کے بعد شہباز پور سے واپس آئے.اور دعوت کا کھانا کھا کر اسٹیمر گھاٹ پر چلے گئے.تاکہ اسٹیمر پر سوار ہو کر کلکتہ کی طرف روانہ ہو جائیں.اتفاق میں بھی کسی ضروری کام کے لئے اسٹیمر گھاٹ پر چلا گیا.اور وہاں مولوی صاحبان سے ملاقات ہو گئی.بہت دیر تک ان سے بات چیت ہوتی رہی.آخرش میں نے ان کی دعوت بھی کردی اور کہا کہ آج میرے ہاں قیام کر کے کل کلکتہ کی طرف روانہ ہو جائیے گا.لیکن ہماری مولوی صاحب نے یہ عذر

Page 21

19 پیش کیا کہ فلاں دن میرے ایک مقدمہ کی تاریخ مقرر ہے.اگر آج یہاں سے نہ روانہ ہو جاؤں تو تاریخ مقررہ تک وہاں نہیں پہنچ سکتا.اس سے میرا تقریباً ایک ہزار روپیہ کا نقصان ہو جائے گا.اس مرتبہ آپ معاف فرمائیں کسی اور موقعہ پر جتنے دن آپ چاہیں گے آپ کے یہاں ٹھہروں گا.پھر میں نے زیادہ اصرار نہ کیا.اور وہ لوگ اسٹیم پر سوار ہو کر کلکتہ کی طرف روانہ ہو گئے.لیکن رخصت ہوتے وقت دونوں مولوی صاحبان نے مجھ سے اقرار کیا تھا کہ برہمن بڑیہ سے جانے کے بعد سلسلہ احمدیہ کی نسبت مجھ سے خط و کتابت ضرور کریں ہوں.ان سے مجھے مطلع کریں گے اور جس قدر عمدہ گے.اور جو ، ہمیں.وہ مجھے قیمتاً عنایت کریں گے.رسالے اس سلسلہ کے خلاف لیکن یہاں سے جانے کے بعد بہاری صاحب نے تو ایک ٹکڑا کاغذ کا بھی میرے پاس نہ بھیجا اور مولوی عبداللہ چھپر وی گو چند روز تک کچھ خط و کتابت کرتے رہے لیکن چونکہ ان کے خطوط میں صرف متعصبانہ جھگڑا ہو تا تھا.اور عالمانہ اور منصفانہ بات نہ ہوتی بلکہ ثناء اللہ کے رنگ میں تحقیر کر تا تھا اس وجہ سے میں نے اس سے خط و کتابت ترک کر دی.واللہ المعین یہاں تک کہ تیرے دن کی کارروائی ختم ہوئی.واللہ اعلم الخصر اس جنگ و جدل کے بعد بھی میں سلسلہ احمدیہ کی تحقیق حتی الامکان کرتا رہا.اور جب سنتا کہ کسی مخالف نے کوئی کتاب یا رسالہ سلسلہ احمدیہ کے خلاف لکھا ہے یا کسی احمدی عالم نے سلسلہ کی تائید میں کوئی رسالہ چھپوایا ہے اس کو منگا تا.غور سے پڑھتا اور دلائل کو جانچتا تھا قادیان کے اخبار " الحکم " اور "البدر" بھی میرے نام جاری تھے.مولوی ثناء اللہ امرتسری کے اخبار "الحدیث" کے پرچے بھی کبھی کبھی منگالیتا تھا.مجھ میں طرفداری بالکل نہ تھی.

Page 22

20 کیونکہ میں بالکل نہ جانتا تھا کہ قادیان بھی کوئی مقام ہے اور اس میں مرزا غلام احمد صاحب بھی کوئی شخص ہیں.مگر صرف خشیت الہی سے اس قسم کی تحقیق و تفتیش میں مصروف تھا صرف یہی خیال تھا کہ اگر فی الواقع یہ شخص اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے تو پروردگار عالم کے حضور جب جانا ہو گا تو کیا جواب دوں گا.اسی خوف سے میری یہ حالت تھی کہ کسی قسم کی کوشش تحقیق و تفتیش کی میں نے باقی نہ چھوڑی تنھا بیٹھ کر بھی میں اس بارہ میں غور و فکر کرتا.استخارہ وغیرہ بھی کرتا.اگرچہ میں درپردہ تحقیق و تفتیش میں لگا تھا پھر بھی میری شکایت اطراف و جوانب میں پھیلنے لگی.شریر لوگ یوں تو کچھ نہ کر سکتے تھے لیکن ہر سال عیدین کے موقعہ پر میری شکایت کرتے پھرتے اور اشرار و نابکار لوگوں کو مجھ سے بدظن کرتے تاکہ میں عید گاہ میں عید کی نماز کی امامت نہ کر سکوں حالانکہ میں ہی عیدین کی نمازیں پڑھایا کرتا تھا.لیکن ان کی شرارت ہمیشہ ناکام رہتی کیونکہ عین وقت پر جب میں عید گاہ میں پہنچ جاتا تو سب شر و فساد ٹھنڈا ہو جاتا.اور اشرار ناکام رہ جاتے.چنانچہ کئی سال تک یہی حال رہا اور میں شریروں کا حال دیکھتا اور صبر کرتا رہا کہ اللہ تعالی بہتر ہی کرے گا اسی دوران میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی خبر سننے میں آئی تو میں بہت گھبرا گیا کیونکہ بہت ی پیشگوئیاں متوقع الوقوع باقی تھیں اور میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مخالفین کو کیا جواب دوں گا.لیکن ان ہی دنوں قادیان سے شائع شدہ رسالوں کے مضامین نے میری بہت کچھ تشفی کر دی اور کوئی شک و شبہ باقی نہ رہا.

Page 23

21 بیان سفر هندوستان و پنجاب اور اکابر علماء سے گفتگو و بحث اگرچہ سلسلہ احمدیہ کی حقیقت مجھ پر کھل گئی تھی اور اس میں تشفی خاطر و شرح صدر بھی حاصل ہو گیا تھا تاہم چونکہ بنگالہ کے اکثر خاص و عام کہا کرتے کہ ہندوستان ماء اس طریقہ سے نفرت کرتے و پنجاب کے اکثر نامی ہیں.بلکہ اس کا نام بھی سنتا گوارا نہیں کرتے.اس لئے میرے دل میں اکثر یہ خیال پیدا ہو تا تھا کہ شاید ان علماء کی تحقیق میں کوئی وجہ دقیق اس طریقہ کے بطلان پر حاصل ہوئی ہو تو جب تک بالمشافہ ان علماء سے اس طریقہ کے بارے میں گفتگو نہ کرلوں.ہر گز اس طریقہ میں داخل نہ ہوں گا.اور بعض اوقات یہ بھی خیال آتا تھا کہ قادیان میں جو لوگ حضرت مرزا صاحب کی صحبت میں رہے ہوئے ہیں ان کی عملی حالت اور روحانی کیفیت بھی بچشم خود دیکھ لینی چاہئے کہ کیسی ہے تاکہ ہر طرح اطمینان و تسکین خاطر حاصل ہو جائے.پس میرے احمد کی ہونے میں مذکورہ بالا دونوں باتیں حائل تھیں.اور دونوں ایک سفر دراز کو چاہتی تھیں.میں ہر سال ارادہ کرتا تھا کہ اس مہینے کی تعطیل میں وہ سفر کروں.لیکن تعطیل کے شروع ہونے سے پہلے ہی میری طبیعت خراب ہو جاتی تھی.اور میں بیمار ہو جاتا تھا.لیکن ۱۹۱۲ عیسوی کے اکتوبر میں اللہ تعالٰی نے اپنے خاص فضل سے مجھے اس سفر کی توفیق عطا کی اور میری طبیعت بھی مفضلہ تعالٰی اچھی رہی.بعون الہی خاکسار مندرجہ ذیل تین دوستوں کو ساتھ لے کر عازم سفر ہو ا (۱) مولوی امداد علی (۳) قاری دلاور علی (۳) دھانو منشی.اول

Page 24

22 ہم لوگ مقام برہمن بڑیہ سے روانہ ہو کر شہر کلکتہ پہونچے.چونکہ سنا گیا تھا کہ مولانا شبلی نعمانی اس وقت لکھنو میں ہیں.اس لئے کلکتہ سے روانہ ہو کر پہلے لکھنو گیا.اور وہاں مرزا کبیر الدین احمد صاحب سیکرٹری انجمن احمد یہ لکھنو کے مکان پر فروکش ہوا.اگر چہ مرزا صاحب اپنی ملازمت پر گئے ہوئے تھے اور گھر پر موجود نہ تھے.پھر بھی ان کے بھائی صاحب بہت ہی خاطر و تواضع کے ساتھ پیش آئے.تیسرے پہر کو میں نے ان کو بتایا کہ میری اصل غرض لکھنئو آنے کی یہ ہے کہ مولانا شبلی صاحب سے مل کر تخلیہ میں کچھ باتیں کروں اس کے لئے کون سا وقت موزوں ہو گا.یہ سنکر انہوں نے اپنی انجمن احمدیہ کا ایک مطبوعہ فارم نکال کر مولانا شیلی کے نام ایک خط لکھا کہ بنگال سے ایک عالم ہمارے یہاں تشریف لائے ہیں اور جناب سے ملاقات کے خواہشمند ہیں براہ عنایت مطلع فرمائیں کہ جناب سے ملنے کا کونسا وقت موزوں ہو گا.یہ خطہ جب لکھا جا چکا تو میرے دل میں خیال گذرا کہ یہ لوگ یہاں قادیانی مشہور ہیں.پس اگر میں ان کے ذریعہ سے مولانا شیلی سے ملنے گیا تو وہ ہرگز شرح صدر کے ساتھ مجھ سے نہ ملیں گے.اور یہ بات میں نے مرزا کبیر الدین صاحب کے برادر عزیز پر ظاہر کی اور کہا کہ صرف ایک راہبر میرے ساتھ کر دیں.تاکہ مولانا شبلی کا گھر مجھے دکھا کر چلا آوے.میں خود ان سے حسب دلخواہ ملنے کی تدبیر کرلوں گا.پس انہوں نے بھی اس تجویز کو پسند کیا.اور ایک نوجوان کو جو شاید ان کا بھانجہ تھا میرے ساتھ کر دیا.وہ میرے ہمراہ مولانا شبلی صاحب کے مکان تک گیا اور مجھے جگہ دکھا کر چلا آیا.میں نے آگے بڑھ کر دیکھا کہ مولانا کے دروازے پر سائن بورڈ پر لکھا ہوا ہے کہ "جو صاحب مجھ سے ملاقات کرنا چاہیں وہ چار بجے کے بعد تشریف لادیں".

Page 25

23 اتفاقا اس وقت چار ہی بجے تھے پس میں مولوی امداد علی کو ساتھ لئے ہوئے جو میرے ہمراہ تھے مولانا شبلی کے حجرہ میں جا پہنچا.وہاں دیکھا کہ مولانا میرے حسب دلخواہ تھما بیٹھے ہوئے ہیں.مخفی نہ رہے کہ مولانا شبیلی صاحب سے تنہائی میں ملنے کی وجہ یہ تھی کہ سابق میں جب وہ علی گڑھ کالج کے عربی پر و فیسر تھے اس وقت میں نے ان کے پاس ایک جوابی پوسٹ کارڈ میں یہ سوال لکھ بھیجا تھا کہ اس وقت عیسی علیہ السلام کے حیات و وفات کے بارہ میں علماء کے درمیان سخت اختلاف ہے پس اس کے متعلق جناب کی کیا رائے ہے.بینواؤ تو جڑوا ؟ انہوں نے اس کے جواب میں اس طرح کی عبارت لکھی تھی.قرآن کریم سے بظاہر تو عیسی علیہ السلام کا وفات پانا ہی معلوم ہوتا ہے لیکن ہمارے علماء کا مذ ہب یہ ہے کہ وہ آسمان پر زندہ ہیں اور قریب قیامت کے وہ پھر دنیا میں نازل ہوں گے.انتي ناظرین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سوال و جواب میں کس قدر بعد ہے.اور اصل سوال جو ان کی رائے کے متعلق تھا.لوگوں کے خوف سے اس کا جواب انہوں نے نہ دیا جب کہیں بات میں نے ان سے بالمشافہ پو تھی تو انہوں نے کچھ اور ہی جواب دیا جیسا کہ عنقریب عرض کروں گا علاوہ اس کے میں نے بعض لوگوں کی زبانی سنا تھا کہ مولانا شیلی صاحب اس مسئلے یعنی وفات مسیح میں احمدیوں کے موافق ہیں اور لوگوں کے خوف سے اقرار نہیں کرتے.اسی لئے میں نے ان سے تخلیہ میں ملنے کا انتظام کیا تھا تا کہ وہ اقرار کرنے میں خوف نہ کریں.لیکن انہوں نے اقرار نہ کیا.کیو نکر کرتے.کیونکہ جس کے دل میں خدا کا خوف نہ ہو اور صرف انسانوں کا ڈر ہو ایسے شخص سے حق کا اعلانیہ اقرار کرانا بہت مشکل ہے.

Page 26

24 مکالمه با مولانا شبلی نعمانی الغرض مولانا شبلی صاحب کو ان کی نشست گاہ میں تنہا پا کر میں بہت خوش ہوا.اور سمجھا کہ شاید وہ حق کا اقرار کر لیں گے کہ واقعی حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں.خاکسار نے ان کے سامنے جاکر السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ عرض کیا.جس کے جواب میں انہوں نے وعلیکم السلام کہا.اور بیٹھنے کی تواضع کی.ایک کوچ پر جو وہاں بچھی ہوئی تھی بیٹھنے کے لئے کہا اور میرے بیٹھ جانے کے بعد دریافت کرتے رہے کہ وطن کہاں ہے اور کیا شغل رکھتا ہوں.میں نے اپنا نام بتایا اور کہا کہ بندے کا مکان جس حصہ ملک میں ہے وہاں جناب کا سا عالم میسر نہیں.پس اگر جناب اجازت دیں تو بندہ اپنے بعض شبہات عرض کرے.تا اس کا حل ہو جاوے.مولوی صاحب نے اجازت دے دی.تب خاکسار نے پوچھا کہ قادیانی عقائد کے بارے میں جناب کی کیا تحقیق ہے.مولوی شیلی صاحب نے فرمایا کہ مذاہب باطلہ میں سے ہے اور یہی اکثر علماء وقت کی رائے ہے.پس میں نے کہا کہ جناب نے کبھی اس مذہب کی تردید میں کچھ تحریر بھی فرمایا.یا نہیں؟ جس کے جواب میں مولانا نے فرمایا کہ نہیں.میں نے اس بارہ میں کبھی کچھ نہیں لکھا.پھر خاکسار نے کہا کہ لکھنا تو ضرور چاہئے تھا.آخر کیوں نہیں لکھا.مولانا نے جواب دیا کہ میں نے تجربہ کیا ہے کہ جب کبھی کسی باطل مذہب کی تردید کی جاتی ہے تو وہ مذہب اور بڑھتا ہے اور اگر خاموشی اختیار کی جاوے تو از خود بتدریج مٹ جاتا ہے.چنانچہ میں نے تاریخ طبری میں پڑھا ہے کہ بغداد میں شیعوں اور سینیوں کے درمیان بڑا جھگڑا تھا.سنی جب

Page 27

25 تک شیعوں کو دبانے کی غرض سے ان پر حملے کرتے رہے شیعہ اور ترقی کرتے جاتے تھے.اور جب سنیوں نے سکوت اختیار کیا تب سے شیعہ از خود کمزور ہونے لگے اور ان میں تنزل شروع ہو گیا.خاکسار نے کہا کہ جناب کی تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ علماء سلف نے خدا آب باطلہ کی تردید میں جو کتابیں لکھی ہیں وہ بے جا تھیں علاوہ بریں میں نے صواعق محرقہ کے آغاز میں دو حدیثیں دیکھی ہیں ان سے ایک یہ ہے کہ فرمایا رسول الله صلعم نے إِذَا ظَهَرَ الْفَتَنُ أَوْ قَالَ الْبِدْعَ وَ سَبِّ أَصْحَابِي فَلْيُظهِرِ الْعَالِمُ عِلَمَهُ فَمَنْ لَمْ يَفْعَلُ ذَلِكَ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَئِكَتِهِ و النَّاسِ أَجْمَعِينَ لا يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ فَرْضًا وَلَا عَدْلاً؟ یعنی آنحضرت سلم نے فرمایا.جب ظاہر ہوں فتنے یا فرمایا بدعتیں اور گالی دینا میرے اصحاب کو پس چاہئے کہ ظاہر کرے عالم اپنے علم کو اس پر.پس جس نے نہ کیا یہ پس اوپر اس کے لعنت اللہ تعالیٰ کی ہے اور فرشتوں کی اور آدمیوں کی نہ قبول کرے گا اللہ تعالی اس سے عبادات کو نہ نقل نہ فرض.انتہیلی اور اگر فرضا جناب کی دلیل کو تسلیم بھی کر لیا جاوے تب بھی چپ رہنا اس وقت مفید ہوتا ہے جب جناب تمام علماء ہند کو اپنے ساتھ متفق کر لیتے.اور سب کے سب خاموش رہتے اور بغیر اس کے فقط جناب کے چپ رہنے سے کیا فائدہ ہو گا جبکہ ہمیشہ ہر طرف سے تردید کی دھوم مچ رہی ہے جو عیاں ہے.میری یہ دلیل سن کر مولانا شیلی صاحب نے خاموشی اختیار کرلی.اور اتنی دیر تک سکوت میں رہے کہ جب پھر جواب کی امید باقی نہ رہی.تو خاکسار نے دوسری بات پوچھی.جو یہ تھی کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے حیات و وفات کے متعلق عام علماء میں بڑا اختلاف ہے.اور احمدی عقائد کے لوگ شدومد کے ساتھ وفات عیسی علیہ السلام ثابت

Page 28

26 کرتے ہیں.جس کا جواب دینا مشکل ہو رہا ہے.جناب کی تحقیق اس بارہ میں کیا ہے ؟ مولانا نے فرمایا کہ اس کے متعلق کوئی یقینی بات نہیں کی جاسکتی.کیونکہ ادھر بات تو وَما فَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ یعنی یہودیوں نے نہ تو حضرت عیسی کو قتل کیا اور نہ ان کو صلیب دیا اور ادھر فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرقيب عليهم بھی ہے یعنی جبکہ وفات دے دی تو نے مجھ کو اے پروردگار میرے فقط توی نگهبان رہا اوپر ان کے یعنی نصاری کے.انتہی خاکسار نے کہا کہ اس عقیدہ کو ٹھیک کرنے کے لئے اس قدر دور سے جناب کے پاس آیا.اب جب جناب بھی فرماتے ہیں کہ کچھ ٹھیک نہیں کہا جا سکتا تو آپ فرمائیے کہ اس کے لئے کہاں اور کس کے پاس جاؤں؟ اس پر مولانا نے فرمایا کہ کیا یہ ضروری ہے کہ شریعت کے ہر ایک مسئلے کو ٹھیک کر لیا جاوے.چنانچہ استوی علی العرش کے مسئلے میں حضرت امام مالک صاحب فرماتے ہیں الاستواء معلوم والكيفيّت مجهول والسؤال عَنْهُ بِدُعَة وَالْإِيْمَانُ بِهِ وَاحِبْ یعنی استواء کے معنی سب کو معلوم ہیں اور کیفیت اس کی مجمول ہے یعنی نا معلوم اور سوال کرنا اس سے بدعت ہے اور ایمان لانا ساتھ اس کے واجب ہے.انتہی پس خاکسار نے کہا کہ استوى على العرش صفات باری تعالیٰ میں سے ہے اور اللہ تعالٰی اپنی ذات و صفات کے ساتھ بے چون و بے چگون ہے.پس اگر استویٰ علی العرش کے بارے میں کہا جاوے کہ ہم اس کی کیفیت نہیں جانتے تو بے شک بجا ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام اگر چہ ایک نبی جلیل القدر تھے.مگر جنس بشر سے تھے.اور بشر کے لئے حیات و وفات ایک معمولی امر ہے پس یہ مسئلہ نظیر استواء علی العرش کی نہیں ہو سکتی.اس پر بھی مولانا شبلی

Page 29

27 صاحب سکوت کر گئے اور اس قدر دیر تک سکوت میں رہے کہ جب جواب کی امید باقی نہ رہی تو پھر خاکسار نے تو قف بسیار کے تیسری بات پوچھی.جو یہ تھی.که نزول مسیح کی حدیث تو صحیح بخاری میں بھی ہے جس کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ کہا جاتا ہے اس میں لفظ نزول کے کیا معنی ہیں.خصوصاً بعد ثبوت وفات مسیح کے اور احمدی لوگ تو وفات مسیح ثابت کرنے کے بعد ہی اس کو پیش کرتے ہیں جس کا جواب دینا بہت مشکل ہوتا ہے.مولانا شیلی صاحب نے جواب دیا کہ یہ ب حدیثیں تو اخبار احاد سے ہیں جو یقینی نہیں ہیں خاکسار نے کہا کہ اکثر حدیثیں تو اخبار احادہی میں سے ہیں.متواتر کہاں ہیں اور میں بھی تو بہت ہی کم قطع نظر اس کے اخبار احاد کے بھی تو معنی ہوتے ہیں معمل تو نہیں ہیں اور کلام تو معنی ہی میں ہے مفید یقین و مفید ظن ہونے میں تو نہیں ہے اس پر بھی مولانا شیلی نے سکوت فرمایا ار یہ تیسرا سکوت تھا مخفی نہ رہے کہ ان سکوتوں پر خاکسار مولوی شیلی کی مدح وستائش ہی کرتا ہے کیونکہ عالم کی شان ایسی ہی ہونی چاہئے.کہ جس امر میں جواب معقول کی راہ معقول نہ ہو سکوت اختیار کرے اور اب تو نا اہلوں کا زمانہ آپڑا ہے کہ سکوت کرنے کو موجب ننگ و عار سمجھتے ہیں.ایسے لوگ اس مثل کے مصداق ہیں ”ملا آن باشد که چپ نشود دانشمند حقیقت رس لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسے موقعوں پر سکوت نہ کرنا موجب ننگ و عار ہے.

Page 30

28 مکالمہ بامولوی عبد اللہ صاحب ٹونکی مولانا شیلی صاحب سے باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ یکایک ایک شخص معمر و معمم آگئے جن کو میں نے ان کی صورت سے نہ پہچانا.اسی عرصہ میں اور بھی دس باره آدمی باہر سے آکر فرش زمین پر بیٹھ گئے.چونکہ مولانا شبلی صاحب نے اس اول شخص کو بہت اعزاز کے ساتھ بٹھایا اس وجہ سے میں نے سمجھا کہ یہ شخص یہاں کا کوئی معزز مولوی ہے پس جب میں نے ان بزرگ سے ان کا اسم گرامی و دولت خانہ دریافت کیا.تو انہوں نے فرمایا کہ " ٹونک " اس پر میں نے کہا کہ وہی ٹونک نا جو ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست ہے.میری طرف سے یہ تفتیش سن کر انہوں نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ کسی قدر ترشرو سے ہو گئے.جس کی وجہ میں نے کچھ نہ کبھی یہاں تک گفتگو ہوئی کہ ان دس بارہ آدمیوں میں سے ایک شخص جو نیم مولوی سا نظر آتا تھا کھڑا ہو کر ادب سے کہنے لگا کہ آپ کے مخاطب مولیتا مفتی محمد عبد اللہ صاحب ٹو ٹکی ہیں یہ سن کر میں پھڑک اٹھا اور ان سے مصافحہ کر کے کہا کہ آپ تو اس وقت میرے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ ہیں کیونکہ خاکسار آپ کا نام نامی بہت دنوں سے سنتا رہا اور آپ کی ملاقات کا بڑا اشتیاق رکھتا تھا.آپ کے لکھنو میں مل جانے کا مجھے وہم و گمان بھی نہ تھا.مفتی صاحب ممدوح نے بھی میرا حال دریافت کیا.میں نے انہیں بھی وہی جواب دیا.جیسا مولانا شیلی صاحب کو دیا تھا اور چند شبہات کے پیش کرنے کی اجازت طلب کی.لیکن میری یہ درخواست سن کر وہ کچھ گھبرا سے گئے اور صاف لفظوں میں اجازت نہ دی.اس پر مولانا شبیلی صاحب کسی قدر مسکرا کر کہنے لگے کہ مولوی صاحب کو اور تو کچھ پوچھنا نہیں.فقط قادیانی مذہب کے متعلق کچھ دریافت کرنا

Page 31

29 ہے یہ سن کر مفتی ٹوٹکی صاحب کسی قدر زہر خندی کے ساتھ باہستگی گویا ہوئے کہ قادیانی مذہب کے متعلق کیا پوچھیں گے.ان کے اس سوال کو میں نے اجازت پر حمل کر کے کچھ پوچھنا شروع کیا.چنانچہ سب سے پہلے میں نے کہا کہ جناب نے قادیانی مذہب کے رد میں کبھی کچھ لکھا ہے.انہوں نے کہا." نہیں " میں نے پھر کہا کہ کیوں نہیں لکھا میں نے تو آپ کا دستخط مرزا صاحب کے مخالفین کے بعض بعض فتاویٰ تکفیر پر دیکھا ہے.ٹونکی مولوی صاحب نے کہا کہ مجھے مرزا کے مذہب کی تردید لکھنے کی فرصت ہی نہیں ہے.مرزا صاحب کے خیالات کی تردید کرنے والے اور بہت سے لوگ ہیں.چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے بہت کچھ لکھا ہے.پہلے تو وہ مرزا صاحب کے مرید تھے پھر مخالف ہو گئے.اس پر میں نے کہا.میں نے آپ کا لکھا ہوا ایک رسالہ حرمت'، غراب پر دیکھا ہے اور یہ نہایت تعجب کی بات ہے کیونکہ کوا کون کھاتا ہے؟ نہ آپ کھاتے ہیں نہ میں کھاتا ہوں اور نہ کو کھانے والا کسی کو میں نے دیکھا ہے دیو بندی جو مسئلہ حلت غراب کے بانی مبانی ہیں وہ لوگ بھی نہیں کھاتے فقط ایک فرضی بات ہے کہ ضد سے اس پر اڑے ہوئے ہیں.اس پر آپ کو رد لکھنے کی خوب فرصت ملی اور ادھر ہزاروں بلکہ لاکھوں آدمی آپ جیسے بزرگوں کے قاوی کے مطابق کا فر ہو رہے ہیں.پھر بھی آپ کو رد لکھنے کی فرصت نہیں ملتی.اس پر ٹونکی مولوی صاحب شرمندہ سے ہو گئے اور دیر تک سر نیچا گئے کچھ غور کرتے رہے اتنے میں مولانا شیلی صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے ملازم کو حکم دیا کہ کمرے کی سب کھڑکیاں کھول دے.اور ہماری طرف مخاطب ہو کر کہا.آپ لوگ اچھی طرح باتیں کرلیں.میں باہر جا کر بیٹھتا ہوں اور پھر ہا ہر جاکر ایک چارپائی پر جو بر آمدہ میں پڑی تھی بیٹھ گئے.اور یوں کہنا چاہئے کہ گویا اپنے عوض ایک اور شکار کے کونے کے حرام ہونے پر

Page 32

30 میرے لئے چھوڑ کر اپنی جان بچالے گئے.اب میں نے پھر ملتی ٹو کی صاحب سے پوچھا کہ اچھا جناب حیات و وفات عیسی علیہ السلام میں آپ کی کیا رائے ہے اس کا کچھ جواب نہ دے کر وہ جھٹ بول اٹھے کہ عیسی علیہ السلام کی وفات بھی اگر ثابت ہو جاوے تو مرزا صاحب کو اس سے کیا فائدہ.اصل کلام تو ان کی نبوت میں ہے میں نے کہا کہ مرزا صاحب جس قسم کی نبوت کا دعوی کرتے ہیں اس میں تو میں کچھ قباحت نہیں دیکھتا کیونکہ ان کا دعوی نبوت غیر تشریعی و علی کا ہے اس کی امتناع پر کوئی شرعی دلیل پیش نہیں کی جاتی.اور اکابر علمائے کرام نے بھی اس کے جواز کا اقرار کیا ہے.مثلا شیخ اکبر نے فتوحات مکیہ میں اور امام شعرانی نے الیواقیت والجواہر میں.اور ملا علی قاری نے موضوعات کبیر میں.اور شیخ محمد طاہر حنفی نے مجمع البحار میں.ٹونکی مولوی صاحب نے کہا کہ اس کے امتناع پر قرآن و حدیث میں دلائل قاطعہ موجود ہیں جن سے ہر قسم کی نبوت کا امتناع بعد آنحضرت صلعم کے ثابت ہوتا ہے میں نے کہا کہ اچھا پہلے قرآن کریم سے دیکھا جائے کہ کون سی آیت ایسی ہے جس سے ہر یک قسم کی نبوت کا امتناع بعد آنحضرت صلعم کے ثابت ہوتا ہے.انہوں نے یہ مشہور و مذکور آیت پڑھ دی.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين يعنی نہیں ہے محمد باپ کسی کا مردوں سے تمہارے لیکن رسول ہے اللہ کا اور خاتم یعنی مہر ہے نبیوں کا.میں نے کہا کہ یہ آیت تو بی بی زینب کے نکاح کے بارے میں ہے انہوں نے کہا ہاں.پس میں نے پوچھا.کہ اس آیت میں لفظ لکن جو کلمہ استدراک ہے اس کی وجہ استدراک کیا ہے اور لفظ رسول الله اور لفظ خاتم النبیین کی صلف کی کیفیت کیا ہے اور یہ دونوں معطوف اور معطوف علیہ مقام مدح میں واقع میں

Page 33

31 یا مقام زم میں لیکن ٹونکی مولوی صاحب نے اس سوال کے جواب سے پہلوتی کی.اور صرف لفظ خاتم النبیین کولے بیٹھے اور خاتم النبین کو بار بار خاتم النبیین کہتے رہے.میں نے کہا کہ حرف "ت " کو زبر کے ساتھ ادا کیجئے.انہوں نے کہا کہ زیر سے بھی آیا ہے اور زیر سے بھی آیا ہے.اور دونوں کے ایک ہی معنی ہیں میں نے کہا کہ ہو مگر آپ جس مصحف مجید میں تلاوت کرتے ہیں اس میں کیا لکھا ہے زبر سے یا زیر سے.تب انہوں نے بھی تسلیم کیا کہ وہاں زہر سے ہی لکھا ہے اور میں نے پوچھا کہ لفظ خاتم کے معنی مر کے ہیں یا نہیں تو انہوں نے اس کو بھی تسلیم کیا.اور باوجود ان دونوں اقراروں کے لفظ خاتم النبین کے معنی اخیر نبی کرنے لگے.میں نے کہا ان الفاظ کے معنی آپ نے جو آخر الانبیاء کئے ہیں اس کی کوئی دوسری نظیر کلام مستند عرب سے آپ دکھا سکتے ہیں اس کا تو کچھ جو اب انہوں نے نہ دیا اور جھٹ کردیا کہ حدیث شریف میں تو صاف لانبی بعدی آگیا ہے میں نے کہا کہ اس کے آپ کیا معنی کرتے ہیں.انہوں نے کہا کہ اس کے معنی تو بہت ہی واضح ہیں.اسم نکرہ تحت میں لائے نفی جنس کے جب واقع ہے تب ضرور نفی استغراقی کے معنے ہوں گے.میں نے کہا کہ احادیث میں اس قسم کی ترکیبیں کثرت سے واقع ہیں اور ہر جگہ نفی استغراقی کے معنی بن نہیں سکتے.چنانچہ ایک حدیث اس طرح مروی ہے کہ لَا إِيْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ وَلَا دِينَ لِمَA LANGUAGE ANAL NAWA یعنی جس میں امانت نہیں اس کا کچھ ایمان نہیں اور جس میں وفائے عہد و پیمان یعنی قول و قرار نہیں اس کا کوئی دین نہیں ہے.انتہی دیکھئے ان دونوں فقروں میں اسم نکرہ تحت میں لائے نفی جنس کے واقع ہے اور نفی استغراقی بن نہیں سکتا.کیونکہ اگر یہاں نفی استغراقی معنی کئے جائیں تو

Page 34

32 جو شخص امانت میں خیانت کرے اس کو بے ایمان یعنی کافر اور جو شخص اپنے قول و قرار کو توڑے گا اس کو بے دین یعنی کا فر کہنا پڑے گا.حالانکہ محققین و شراح حدیث اس حدیث کے ایسے معنی نہیں کرتے.چنانچہ شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے بھی حجتہ اللہ البالغہ میں ایسے معنی نہیں کئے بلکہ نفی کمال ایمان و نفی کمال دین کے معنی کئے ہیں.پس اس کے مطابق اگر حدیث لا نبی بعدی کے بھی معنی نفی کمال نبوت کے کئے جاویں.تب کچھ بھی اشکال باقی نہیں رہتا.بلکہ بلا تکلف یہ سنے ہوتے ہیں کہ آنحضرت صلعم نے نہیں جو صاحب کتاب صاحب شریعت و فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی کان گا.پس اگر آپ کے بعد کوئی نبی غیر صاحب ثبوت مستقلہ ہو نہیں تشریعی اور نقلی شریعت محمدیہ کے ماتحت ہو اور آنحضرت صلعم کے کمال اتباع سے ثبوت حاصل کرنے والا ہو تو اس کا امتناع اس حدیث سے کس طرح ثابت ہو سکتا ہے.اور اگر پھر بھی آپ ضد کریں اور اس سے آنحضرت مسلم کے بعد نبی کے آنے کا امتاع مطلق ثابت کرنا چاہیں تو پہلے بے دین ہونے کا فتوی عنایت کریں.تو پھر دیکھا جائے گا.یہ سن کر مفتی صاحب جو اس باختہ ہو گئے.اور وہاں سے اٹھ کرہا ہر مولانا شیلی صاحب کے پاس جابیٹھے اور جاتے وقت دبی زبان سے یہ بھی کہتے گئے.کہ ایسا ہونے سے تو آپ سب جو کچھ جی میں آوے کہہ سکیں گے ؟ المختصر چونکہ مغرب کی نماز کا وقت بہت قریب تھا اور دونوں مولوی صاحبان بھی فرار کر چکے تھے.ہم بھی وہاں سے اٹھ کر اور مولوی صاحبان مذکو رین کے پاس سے گذرتے ہوئے ان کو کچھ کلمات نصیحت آمیز بایں الفاظ کہتے چلے آئے کہ حضرات! آپ لوگ ہمہ تن دنیا کی طرف مائل ہیں اور دین کی طرف بالکل

Page 35

33 نظر نہیں کرتے.جب فتویٰ لکھتے ہیں.تو عنوان پر لکھتے ہیں.چہ فرمایید علمائے دین و مفتیان شرع متین.علمائے دین کیا ایسے ہی ہونے چاہئیں.لوگوں کو خوش کرنے سے اللہ تعالیٰ ہر گز خوش نہ ہو گا.دنیا کی یہ عزت و آبرو بالکل بے سود ہے اور دائی نہیں میرے یہ کلمات سن کر دونوں مولوی صاحبان میرا منہ لکھتے رہ گئے اور ہم رخصت ہو سرے دن میں خوب چلے آئے.محل گیا.مقصود یہ تھا کہ حضرت مولانا محمد عبد الحی صاحب مرحوم و مغفور کے داماد سے ملوں اور مولانا مرحوم کے گھر کا حال دریافت کروں لیکن وہاں جا کر معلوم ہوا کہ وہ گھر میں نہیں ہیں اور کہیں باہر گئے ہوئے ہیں.پس ان کی تلاش میں مولوی عبد الباری صاحب کے یہاں جا پہنچا.مولوی عبد الباری صاحب نے اس دن جلاب کی دوا استعمال کی تھی.پھر بھی ان سے کچھ باتیں ہوئیں اور وہ بھی میں نے اس غرض سے چھیڑا کہ تا انہیں معلوم ہو جائے.فقط اس بات کی بناء پر کہ ان کو معلوم ہو کہ میں بھی حضرت مولانا محمد عبدالحی صاحب مرحوم و مغفور کے شاگردوں میں سے ہوں.مولوی عبد الباری صاحب بات بات میں مجھے کہتے کہ مولوی صاحب آپ معقول آدمی ہیں.حالانکہ میں نے ان سے کوئی معقولیت ظاہر نہیں کی تھی.الغرض باتوں باتوں میں حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کی بابت بھی درمیان میں بات آگئی.مولوی عبد الباری صاحب کہنے لگے کہ میں قادیانیوں سے گفتگو کرتے وقت مسئلہ حیات د وفات مسیح سے گفتگو شروع نہیں کرتا بلکہ میری گفتگو مرزا صاحب کے دعوئی مہدویت پر کے دلائل سے شروع ہوتی ہے.میں نے کہا کہ یہ تو عام لوگوں کا طریق ہے.علمائے اہل تحقیق تو ہر گز ایسا نہیں کرتے بلکہ ان کا فرض تو یہ ہے کہ مسئلہ حیات مسیح کو پہلے دلائل قونیہ سے ثابت کر دیں جس سے سب

Page 36

34 بکھیڑے ملے ہو جاویں.لیکن شاید حیات مسیح کے دلائل قونیہ آپ کے پاس نہیں ہیں اس وجہ سے ایسا نہیں کرتے ورنہ ہر گزایسی کج راہی نہ اختیار کرتے.انہوں نے کہا کہ جس طریق سے مخالف کو جلد مغلوب کیا جا سکے گفتگو میں اسی طریق کو اختیار کرنا چاہئے.میں نے کہا کہ میرے نزدیک تو حیات مسیح پہلے ثابت کر دینے سے سب بکھیڑے طے ہو جاتے ہیں بشرطیکہ دلائل قویہ حیات مسیح اسرائیلی آپ کے پاس موجود ہوں انہوں نے کہا کہ حیات مسیح کے دلائل موجود ہونے پر اس کے ثابت کرنے میں کچھ مشکلات ہیں.اور مرزا صاحب کس ط طرح مہدی ہو گئے ؟ اس سوال کے آتے ہی قادیانی لوگ بہت جلد لاجواب ہو جاتے ہیں.تجربہ سے ایسا ہی معلوم ہوا ہے میں نے کہا کہ واقف احمدی ہو گا تو وہ آپ کے دلائل و علامت مهدی طلب کرے گا.اور اس وقت مشکلات آپ ہی پر آپڑیں گے.مولوی عبد الباری صاحب نے کہا کہ مہدی کے علامات بھی ہم اس سے دریافت کریں گے میں نے کہا پھر آپ کیا کام کریں گے.انہوں نے کہا کہ ہم مہدی کی علامات پر جرح کریں گے.میں نے کہا کہ آپ کے لئے سب سے بہتر طریق تو یہ ہے کہ آپ اس سے کہیں کہ دور بین یا خوردبین سے آپ کو دکھا دیوے کہ مہدی کیسا ہوتا ہے اس موقعہ کے لئے خاقانی نے خوب ہی کہا ہے انصاف نہاں شد و وفا ہم بالاخر میں نے کہا کہ جتنی باتیں آپ نے ارشاد فرمائیں وہ بالکل ہار جیت کی باتیں تھیں اس میں حق جوئی و حق طلبی اور خشیت اللہ نام کو نہ تھا آپ نے ذرا بھی خور نہیں کیا کہ یہ شخص فی الواقع مامور و مرسل من اللہ ہے یا نہیں اس دنیا و اہل دنیا نے تو ایک جم غفیر انبیاء و مرسلین کو اسی طرح رد کر دیا ہے جیسا اس..

Page 37

35 وقت آپ نے.اگر فی الواقع یہ شخص مامور من اللہ تھا تب جتنے لوگوں نے اس سے مخالفت کی اپنے لئے جہنم کی راہ صاف کی.العیاذ باللہ من ذالک.میرے اس آخری کلام کا کوئی جواب مولوی عبدالباری صاحب نے نہ دیا.الخصر اس قدر گفتگو کے بعد حضرت مولانا عبدالحی صاحب مرحوم کے نواسے آگئے.خاکسار ان کی احوال پرسی میں مشغول ہو گیا اور اس طرح سلسلہ گفتگو قطع ہو گیا.مخفی نہ رہے کہ سے تھی تو اس وقت ایک نو جو ان عبدالشکور نام کسی کسی وقت بول اٹھتا تھا.لیکن نوجوان بول ن عبد الباری فلو ہو رہی میں نے اس کو باقابل خطاب کوئی جواب نہ دیا.الغرض وہاں سے رخصت ہو کر میں نے مولوی عین القضاۃ صاحب سے ملنے کی کوشش کی.لیکن چونکہ وہ دن یوم جمعہ تھا اس وجہ سے قبل نماز جمعہ ان سے ملاقات نہ ہو سکی.اور بعد نماز جمعہ اگر چہ ملاقات ہوئی.لیکن وہ ان باتوں کی طرف متوجہ نہ ہوئے.اور گریز کرتے رہے.آخر میں وہاں سے اٹھ کر چلا آیا.اور اسی دن لکھنو سے روانہ ہو کر شام کو شاہجہانپور پہونچا جہاں جناب سید مختار احمد صاحب احمدی کے مکان پر قیام ہوا.وہ نہایت خاطر و تواضع کے ساتھ پیش آئے اور باصرار تمام ایک دن اپنے پاس مقیم رکھا سید مختار احمد صاحب کے پاس جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ جناب مفتی محمد صادق صاحب نے خاکسار کو ایک مرتبہ لکھا تھا کہ اگر مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی سے لمنا منظور ہو تو پہلے شاہجہانپور کے سید مختار احمد صاحب سے ان کا حال دریافت کر لینا.پس ان سے مولوی احمد رضا خاں صاحب کے حالات جس قدر بھی ہو سکا.دریافت کر کے شاہجہانپور سے بریلی کی طرف روانہ ہوا.اور شام کو وہاں پہنچ کر سرائے میں جا اترا.دوسرے دن حکم می مولوی امداد علی صاحب کو ہمراہ لے کر

Page 38

36 مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی کی ملاقات کو چل پڑا.مکالمه با مولوی احمد رضاخان صاحب بریلوی مولوی احمد رضا خاں صاحب کے مکان پر معلوم ہوا کہ وہ سیر کو باہر تشریف لے گئے ہیں لیکن بہت جلد واپس آجادیں گے بہر کیف وہ تھوڑی ہی دیر میں واپس آگئے اور تعینہ سلام اور احوال پرسی کے بعد وہ خود ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور میرے بیٹھنے کے لئے ایک اور کرسی منگاری.پھر ادھرادھر کی باتیں ہونے لگیں.دیو بندیوں سے جو ان کی سخت مخالفت تھی.اس خصوص میں بھی کچھ باتیں ہوئیں اس کے بعد میں نے ان سے دریافت کیا کہ مرزا صاحب قادیانی کی نسبت جناب کی کیا تحقیق ہے اور ان کو آپ کیا سمجھتے ہیں اس پر انہوں نے مندرجہ ذیل لمبی تحمید شروع کر دی.تمهید مولوی احمد رضا خاں صاحب ہمارے مخالف جو مدعی دین اسلام میں تین قسم کے ہیں.اول وہ جو ضروریات دین کے منکر ہیں.ہم ان کے حالات کو نہیں دیکھتے بلکہ ان کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں اور یہود و نصاریٰ کا سا برتاؤ ان سے کرتے ہیں.دوسرے وہ ہیں جن کو ہم گمراہ جانتے ہیں لیکن دائرہ اسلام سے خارج نہیں کھتے.جیسے " فرق باطلہ رافضی خارجی معتزلی و غیر ہم " تیسرے وہ ہیں کہ نہ ہم ان کو گمراہ جانتے ہیں اور نہ وہ ہم کو گمراہ جانتے ہیں.بلکہ سب آپس میں بھائی

Page 39

37 بھائی ہیں جیسے حنفی شافعی مالکی خیلی مرزا صاحب قادیانی کو ہم پہلے قسم مخالفین میں سے سمجھتے ہیں اس لئے ہم ان کے حالات و الہامات کو بالکل نہیں دیکھتے.میں نے کہا کہ آپ کی اس تمہید میں کلام کرنے کی گنجائش ہے لیکن میں ان میں کلام کرنا نہیں چاہتا.کیونکہ ان سے میری کوئی غرض متعلق نہیں ہے اس وقت میں آپ سے صرف یہ دریافت کرتا ہوں کہ آپ جو مرزا صاحب کو قسم اول مخالفین میں سے شمار کرتے ہیں اور ان کو دائرہ اسلام سے بالکل خارج سمجھتے ہیں تو مرزا صاحب میں کون سی ایسی بات پاتے ہیں.جس سے آپ ان کو بالکل دائرہ اسلام سے خارج کر رہے ہیں.فرمایا کہ دور جانے کی ضرورت نہیں فقط ان کے سے ہیں.فرمایا و دعوئی ثبوت ہی کو لے لیجئے.کہ کس بے باکی کے ساتھ اپنے تئیں نبی کہتے ہیں اور ان کے اتباع اب تک وہی گیت گا رہے ہیں تمام است محمدیہ کے نزدیک بعد آنحضرت صلعم کے دعوی نبوت کفر ہے جو قرآن و حدیث و اجماع امت سے ثابت ہے.میں نے کہا کہ مرزا صاحب نے جس نبوت کا دعویٰ کیا ہے وہ غیر تشریعی خالی ہے جو میرے خیال میں جاری و جائز ہے اگر آپ کہتے ہیں کہ گنجائش نہیں تو آپ دلائل دکھائیں اور سمجھائیں میں ضرور مان لوں گا.انہوں نے کہا کہ تمام دلائل شرعیہ مطلق واقع ہوئے ہیں.آپ ان سے نبوت غیر تشریعی اور خلی کا استثناء کہاں سے نکالتے ہیں میں نے کہا کہ استثناء کا موقع خود آپ کے دلائل ہی دیتے ہیں.میں بلا وجہ وجیہ ایسا نہیں کرتا.چنانچہ آپ کے قوی ترین دلائل میں سے قرآن کریم کے الفاظ خاتم النبیین ہیں ان میں تو امتاع نبوت کا ذکر ہی نہیں آپ لوگ زبردستی ہی ان سے آنحضرت مسلم کے بعد امتناع نبوت مطلقہ کے معنی نکالتے ہیں اور اس ترکیب کی کوئی نظیر بھی کلام مستند عرب سے نہیں دکھا سکتے.پھر حدیث شریف سے جو واضح ترین دلیل آپ کے

Page 40

38 ہاتھ میں ہے "لا نبی بعدی" ہے اور اس سے آپ لوگ زیر دستی نفی استغراق کے معنے نکالتے ہیں حالانکہ حدیثوں میں اس قسم کی ترکیبیں کثرت سے واقع ہیں.اور ہر جگہ نفی استغراقی کے معنی نہیں دیتیں.مثلا یہ حدیث کہ لَا إِيْمَانَ لِمَنْ لا أَمَانَة لَهُ وَلَا دِينَ لِمَن عَهْدَ له یعنی جس کی امانت نہیں اس کا ایمان بھی نہیں ہے اور جس کا عہد و پیمان و قول و قرار نہیں ہے اس کا کوئی دین حق بھی نہیں.انتیکی اس حدیث میں نفی استغراقی کے معنے ہرگز نہیں ہیں.اس لئے محققین شراح حدیث بھی اس میں نفی استغراقی کے معنی نہیں کرتے بلکہ نفی کمال کے معنے کرتے ہیں اور یہ معنی حدیث لا نبی بعدی" میں کرنے سے بخوبی گنجائش استثناء نبوت غیر تشریعی و ملی کی نکل آتی ہے.کمالا یخفی اور شیخ اکبر فتوحات کمیتہ میں اور امام شعرانی الیواقیت والجواہر میں اور شیخ محمد طاہر مجمع البحار میں اور ملاعلی قاری موضوعات کبیر میں کہتے ہیں کہ آنحضرت صلعم کے بعد غیر تشریعی نبی کا آنا خاتم النبیین کے منافی نہیں ہے یہ آپ کے کا آنا اجماع جعلی کو بھی توڑتا ہے.میری یہ تقریر سن کر وہ بد حواس سے ہو گئے اور میری تردید میں اور تو کچھ نہ کہہ سکے.ناچار یہی کہنے لگے کہ آنحضرت مسلم کے بعد امتناع نبوت کے دلائل کو کیا آپ تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں.میں نے کہا کہ استغفر اللہ.ہر گز میں دلائل قرآن و حدیث کو تحقیر کی نظر سے نہیں دیکھتا بلکہ ہر ایک کے مفاد کو ظاہر کرنا چاہتا ہوں.آپ ثابت کریں.کہ میرا کو نسا لفظ تحقیر پر دال ہے.العیاذ باللہ.میرے خیال میں جو کوئی ایسا کرے وہ میرے نزدیک قابل اخراج از دائرہ اسلام ہے تب انہوں نے کہا کہ اگر آپ دلائل قرآن و حدیث کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان میں پیچیدگیاں نہیں پیدا کرتے تو

Page 41

39 میں آپ کو اصل بات بتائے دیتا ہوں.میں نے کہا بہت خوب یہی میرا مین مقصد ہے آپ واضح طور پر فرما دیں پس مولوی صاحب نے فرمایا.اللہ تعالی اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدًا بَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ الله A KA NAKANGUAGE NOW یعنی نہیں ہے محمد باپ کسی کے مردوں سے تمہارے لیکن رسول اللہ کا ہے اور مہر نبیوں کے.انتہی اس آیت شریفہ میں جو لفظ خاتم النبيين ہے یہ لفظ بعد آنحضرت صلعم نبی کے آنے کے نص امتناع پر عموماً قاطع ہے.کوئی نبی کسی قسم کا بعد آنحضرت مسلم کے نہیں آسکتا.اور اگر کوئی کسی قسم کی نبوت کا دعوی کرے وہ بے شک کا فر ہے.اور دائرہ اسلام سے بالکل خارج ہے تب میں نے کہا کہ کیا اب بندہ بھی کچھ عرض کر سکتا ہے.فرمایا کہئے پس میں نے عرض کیا کہ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ آیت شریفہ مذکورہ بی بی زینب کے نکاح کے بارے میں ہے انہوں نے کہا ہاں اس میں کیا شک.میں نے کہا کہ اس آیت شریفہ میں جو کلمہ لکن حرف استدراک واقع ہوا ہے.اس کی وجہ استدراک کیا ہے بیان فرما دیں.مولوی صاحب نے کہا کہ اچھا میں پھر بتاؤں گا.ابھی الفاظ خاتم النبین پر غور کیجئے.میں نے کہا بہت اچھا فرما ہئیے کہ جملہ خاتم النبیین مقام مدح میں واقع ہے یا مقام زم میں انہوں نے کہا کہ مقام مدح میں.تب میں نے کہا کہ اب لفظ خاتم النبیین کے معنی بیان فرما دیں.بظاہر اس جملہ میں دو ہی لفظ ہیں عائم اور نبیین اور ظاہر ہے کہ نبیین جمع ہے لفظ نبی کا.اب باقی رہا لفظ خاتم کے معنے.پس فرمائیے اس لفظ کے کیا معنی ہیں انہوں نے کہا کہ اس کے معنے ہیں صر.میں نے کہا بہت خوب.پس خاتم النبیین کے معنے ہوئے مرغیوں کی.اب فرمائیے اس سے کیا مراد ہے انہوں نے کہا کہ سب

Page 42

40 نیوں کے بعد آخری نبی.میں نے کہا.کہ آخری کس لفظ کے معنے ہوئے.انہوں نے کہا کہ جب ہم فتوٹی وغیرہ لکھتے ہیں تو سب سے آخر میں مر کرتے ہیں.میں نے کہا کہ سبحان اللہ کیا آپ کا فعل بھی دلیل ہو گا.انہوں نے کہا کہ فقط میں کیا سب ہی تو ایسا کرتے ہیں یہ تو ایک عام دستور کی بات ہے میں نے کہا کہ سب کہاں ایسا کرتے ہیں.ایک میں ہوں میں تو ایسا نہیں کرتا.میری عادت ہے کہ دینے طرف حاشیہ پر مر کر دیتا ہوں اور ایسا ہی اور بھی بہت سے لوگ ہیں ماسوا اس کے بادشاہی عملداری سے لے کر انگریزی عملداری تک یہی دستور ہے کہ سرکاری کاغذوں پر سب سے اوپر مہر کرتے ہیں.تو کیا فقط آپ کی عادت اور فعل کے مطابق اللہ تعالی نے قرآن مجید میں لفظ خاتم النبيين نازل اللہ تعالیٰ مجید تو وہ کچھ نہ دے سکے.فرمایا ہے اس کا جب دیکھا کہ یہ بحث بہت مشکل ہے تب جھٹ حدیث لا نبی بعدی کی طرف رجوع کیا میں نے اس کے مقابل میں حدیث کو عَاشَ ابْرَابِیمْ لَكَانَ صِدِّيقَا نَبَیا پیش کر دی.یعنی آنحضرت مسلم نے فرمایا.کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو البتہ وہ نبی ہوتا.انکی این کو انہوں نے کہا کہ کلمہ لو کے ماتحت کا وقوع ضروری نہیں ہے میں نے کہا کہ نہ ہو ممکن الوقوع تو ہے پس اس سے بھی میرا مطلب حاصل ہے کیونکہ اس قدر تو ثابت ہوا کہ آنحضرت صلعم کے بعد نبی کا آنا ممکن ہے وهذا هو مرامی الخصر مولوی احمد رضا خاں صاحب سے گفتگو کرتے کرتے بہت دیر ہو گئی تھی.اور بارہ بج چکے تھے.اثناء گفتگو میں بعض اوقات مولوی صاحب کا چہرہ زرد ہو جاتا تھا.ان کا حال دیکھ کر مولوی امداد علی جو میرے ساتھ تھے گفتگو ختم

Page 43

41 کرنے کے لئے مجھ سے اشارہ پر اشارہ کرتے جاتے تھے چونکہ وقت بھی بہت صرف ہو چکا تھا اس وجہ سے ناچار میں نے گفتگو ختم کر دی اور مولوی احمد رضا خاں صاحب کے بعض رسالہ جات لے کر وہاں سے رخصت ہوا.اور یہ فقرہ میری زبان پر تھا.شعر ضمئی عالم بالا معلوم شد.اور یہ بحث یہاں ختم ہو گئی.مولوی احمد رضا خاں صاحب کے ساتھ گفتگو کے وقت ان کے مدرسہ کے مدرسین بھی ہماری گفتگو سننے کے لئے آگئے تھے.اور خاموش بیٹھ کر سنتے رہے لیکن کسی نے دم تک نہ مارا.اور میں بھی ان کی طرف متوجہ نہ ہوا.ہماری گفتگو کے تمام ہوتے ہی سب لوگ اٹھ کر ادھرادھر چلے گئے.میں بھی وہاں سے رخصت ہو کر اپنے جائے قیام یعنی سرائے کو واپس آیا اور کھانے سے فارغ ہو کر مولوی امداد علی و دیگر ہمراہیوں کو ساتھ لے کر امروہہ کی طرف روانہ ہو گیا.اور شام کو جناب مولوی سید محمد احسن صاحب کے مکان پر جا پہنچا انہوں نے بڑی خاطر و تواضع کے ساتھ ہمیں دو دن تک ٹھہرا رکھا.امروہہ جانے کی غرض یہ تھی کہ مولوی محمد احسن صاحب کے بعض رسالہ جات میں اکثر حوالہ جات کے بارہ میں مجھے کچھ شبہات تھے.اور میں ان کی تصحیح کرنا چاہتا تھا لیکن بوجہ کبیر سنی اور علالت کے مولوی سید محمد احسن صاحب کے جو اس درست نہ تھے.اس لئے عبارات مطلوبہ کتب منقولہ سے نکال نہ سکے.اور نکالتے کیسے ان کی بصارت بھی جواب دے چکی تھی.اور تمام قوائے جسمانی ضعیف ہو گئے تھے جب کچھ لکھنے کی ضرورت ہوتی تو وہ زبانی بتاتے جاتے اور ان کے فرزند محمد یعقوب صاحب لکھتے جاتے.کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ان کا ایک برانش بھی لکھتا تھا جس کے بارہ میں خود ہی ندا قا کہا کرتے تھے کہ اندھا گائے بسرا بجائے.تیسرے دن ہم امروبہ سے دہلی کی طرف روانہ ہو گئے

Page 44

42 وہاں پہنچ کر جناب میر قاسم علی صاحب کے گھر جا اترے.اور رات کو دیر تک ان سے باتیں ہوتی رہیں.صبح کے وقت ہم مطبع مجتبائی دیکھنے کے لئے گئے اور وہاں سے جناب مولوی عبدالحق صاحب متولف تغییر حقانی کی ملاقات کو ان کے مکان کی طرف چل پڑے.وہاں جا کر معلوم ہوا کہ وہ مکان پر تشریف نہیں رکھتے بلکہ خواجہ قطب الدین کے مزار کی زیارت کو گئے ہیں.دو گھنٹے کے بعد وہاں سے واپس آئیں گے.پس ہم نے دل میں خیال کیا کہ اتنی دیر تک یہاں بیٹھ کر کیا کریں گے.اس عرصہ میں حکیم اجمل خان صاحب کے مطب کی سیر بھی کرلیں.وہاں جا کر دیکھا کہ زن و مرد کے ہجوم سے گویا وہاں بازار لگا ہوا ہے یہ نظارہ ہم دیر تک دیکھتے رہے.اور وہاں بیٹھے بیٹھے دو پسر کا وقت ہو گیا.چونکہ یہ وقت نامناسب تھا اس لئے مولوی عبدالحق صاحب کے مکان پر اس وقت نہ گئے اور سیدھے اپنی اقامت گاہ پر چلے آئے.بعد نماز ظہر مولوی عبدالحق صاحب سے ملنے کے لئے میں پھر چلا.مکالمه بامولوی عبد الحق صاحب مئؤلف تفسیر حقانی اور وہاں جا کر دیکھا کہ مولوی صاحب اپنے دیوان خانہ میں تشریف فرما ہیں.اور ان کے پاس اور بھی چند آدمی موجود ہیں.میں بھی سیدھا ان کی نشست گاہ میں چلا گیا اور السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کا تحفہ پیش کیا انہوں نے بھی سلام کا جواب دیا اور اعزاز کے ساتھ بٹھایا.احوال پرسی کی پاس کے بعد ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں اسی عرصہ میں حاضرین میں سے ایک شخص نے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ حضرت پیر کو سجدہ کرنا اور پیر کا سجدہ کی ممانعت نہ کرنا

Page 45

43 شرعاً کیسا ہے مولوی صاحب نے جواب دیا کہ کفر ہے اور بڑا کفر ہے اس کے بعد میں نے بھی کچھ سوالات شروع کئے اور کہا کہ جناب والا ظهور مهدی و نزول صحیح کے بارے میں آپ کی کیا تحقیق ہے.مولوی صاحب نے جواب دیا.کہ مختلف احادیث میں ظہور مہدی اور نزول مسیح کی خبریں آئی ہیں.لیکن چونکہ یہ حدیثیں اخبار احاد سے ہیں اس لئے ان پر مجھے یقین کامل نہیں ہے ہاں ظنی طور پر ہم ان دونوں کی آمد کے قائل ہیں اگر آئے تو فبہا اور اگر نہ آئے تو کچھ حرج نہیں کیونکہ ہمیں مہدی و مسیح کی کوئی ضرورت بھی نہیں.ہم تو دین حق و شریعت نرالے کر بیٹھے ہیں اور قرآن کریم میں اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ یعنی 1 کامل کر دیا میں نے واسطے تمہارے دین تمہارا آگیا ہے پھر ہمیں مہدی و مسیح کی ضرورت ہے اگر کوئی مہدی بنے یا مسیح بنے.بننے دیجئے.ہمیں ان کی کچھ ضرورت نہیں.اور یہ بھی فرمایا کہ اگر مسیح آوے گا تو دجال کو ہلاک کرنے کے لئے آوے گا.دین و شریعت سے اس کو کوئی تعلق نہ ہو گا.ان کی یہ باتیں سن کر میں نے دل میں کہا کہ یہ تو عجیب ہی قسم کے آدمی ہیں بہر حال ان کو کسی طرح لاجواب کرنا چاہئے.آخرش کسی قدر نظر کے بعد میں نے کہا.جناب بندہ آج ہی صبح کو ایک مرتبہ پہلے بھی جناب کے دولت کدہ پر حاضر ہوا تھا لیکن اس وقت معلوم ہوا تھا کہ آپ خواجہ قطب الدین صاحب کے مزار کی طرف تشریف لے گئے تھے مولوی صاحب نے فرمایا جی ہاں.میں قطب صاحب کے مزار پر ہی گیا تھا.میں نے کہا کہ بھلا یہ تو فرمائیں کہ آپ وہاں کیوں گئے تھے.آپ تو وہ شخص ہیں کہ مسیح و مہدی کی بھی ضرورت نہیں سمجھتے.پھر خواجہ قطب الدین کے آپ کیوں محتاج ہوئے حالانکہ خواجہ قطب الدین آپ کے فتویٰ کے مطابق کافر ہیں.میں نے تو جناب کی مجلس میں آکر ہی یہ فتوی سنا.کہ مرید کا پیر کو سجدہ

Page 46

44 کرنا اور پیر کا مرید کے سجدہ کو قبول کر لینا کفر ہے.اور یہ واقعہ ہے کہ خواجہ قطب الدین اپنے مریدوں کا سجدہ قبول کر لیا کرتے تھے.چنانچہ میں نے نظام الدین اولیاء کے ملفوظات میں دیکھا ہے کہ بعض مرید آپ کی چوکھٹ پر سر رکھ دیتے تھے تو حاضرین میں سے ایک شخص نے حضرت نظام الدین سے دریافت کیا کہ یا حضرت کیا آپ اس کو جائز سمجھتے ہیں کہ لوگ ایسا کریں.تو آپ نے فرمایا.میں نے بارہا چاہا کہ اس کو موقوف کرا دوں لیکن چونکہ میں نے حضرت صاحب یعنی شیخ فرید الدین شکر تیج کے دربار میں دیکھا ہے اس لئے ممانعت کی جرات نہیں کرتا.اسی طرح شیخ ممدوح کے ملفوظات میں بھی لکھا ہے کہ مرید لوگ آکر چوکھٹ پر سر رکھ دیتے تھے تو حاضرین میں سے کسی نے پوچھا.یا حضرت کیا آپ اس کو جائز قرار دیتے ہیں کہ لوگ ایسا کریں.تو شیخ شکر سب نے بھی اسی طرح فرمایا کہ میں نے بارہا چاہا کہ اس کو موقوف کرا دوں لیکن چونکہ میں نے حضرت صاحب یعنی خواجہ قطب الدین بختیار کاکی" کے دربار میں دیکھا ہے کہ لوگ ایسا کرتے ہیں اس لئے ممانعت کی جرات نہیں کرتا.پس اس سے ثابت ہوا کہ خواجہ قطب الدین سجدہ قبول فرماتے تھے.اور آپ کے فتوی مذکور الصدر کے مطابق یہ کافر تھے.اور مسیح و مہدی کی فضیلت و آمد کی خبر " احادیث صحیح میں آئی ہے اور خواجہ قطب الدین کا کوئی ذکر احادیث صحیح کیا بلکہ غیر صحیح میں بھی نہیں ہے پس آپ کا مسیح و مہدی کا محتاج نہ ہونا اور خواجہ قطب الدین کے استخوان بوسیدہ کا محتاج ہوتا یا عجب ہے كما لا يخفى میری تقریر سن کر مولوی عبد الحق صاحب مبہوت سے ہو گئے بالا آخر یہی کہتے بنی کہ میں " برکت حاصل کرنے کے لئے گیا تھا.میں نے کہا کہ کیا آپ کے اَكْمَلْتُ لَكُم دینکم میں یعنی کامل کر دیا میں نے واسطے تمہارے دین تمہارا برکت نہیں PA

Page 47

45 ہے جو اپنے خود قرار داده کافر کے استخوان بوسیدہ سے برکت حاصل کرنے کے لئے گئے تھے.اس پر مولوی صاحب بہت ہی نجل ہوئے.اور سرجھکا لیا.پھر میں نے کہا کہ جناب نے ایک بات یہ بھی تو فرمائی تھی.کہ مسیح اگر آئے گا تو دجال کو ہلاک کرنے کے لئے آئے گا دین و شریعت سے اس کو کچھ تعلق نہ ہو گا.جناب نے تو صحیح بخاری ضرور دیکھی ہوگی اس میں تو نزول مسیح کی یہ حدیث لکھی ہے کہ كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنكُم اب فرمائیے کہ لفظ امام کے کیا معنی ہیں ؟ اگر آپ فرما دیں کہ امام کہتے ا ا ا ا ا آ آ امام ہیں ایسے ہونے جری پہلوان کو جو دجال جیسے عجیب الخلقت کو ہلاک کر سکے.تو فرمائیے آپ کے امام ابو حنیفہ صاحب میں یہ صفت تھی یا نہیں.اگر تھی تو ثابت کیجئے ورنہ ان کو آپ لوگ امام کیوں کہتے ہیں اور علاوہ اس کے صحیح سے تو آپ کے خیال میں وہی مسیح اسرائیلی مراد ہیں جو بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر تھے.یہ بزرگ رسول تو بہت ہی ضعیف اور کمزور آدمی تھے کہ فقط یہودیوں کے حملہ کی تاب نہ لاسکے اور تقریباً دو ہزار برس سے آسمان میں پناہ گزین ہیں کہ اس اثناء میں کبھی جرات نہ ہوئی.کہ تھوڑی دیر کے لئے ایک مرتبہ پھر اس زمین پر آویں اور اس وقت تو محکم آیت کریمه و من نعمره تنكسه في الخلق کے کبڑے ہو چکے ہوں گے ایک ایسے آدمی کو اللہ تعالی نہ معلوم کس مصلحت سے دنیا میں بھیجے گا.اور فعل الحكيم لا يخلوا عن الحكمة مثل مشہور کے خلاف ہو گا آمد اول میں ان سے کیا کار گذاری ایسی ہوئی تھی کہ پھر دوبارہ اللہ تعالی ان کو بھیجے گا.ہاں اگر نزول رستم کی کوئی روایت آپ مجھ کو نکال کر دکھا سکتے تو البتہ میں بہت ہی ممنون ہوتا.کیونکہ فردوسی نے شاہنامہ میں اس کی کارگذاری بہت لکھی ہے.یہ سن کر مولوی عبدالحق صاحب بننے لگے.

Page 48

46 اور ان کے ساتھ جتنے اور بے وقوف بیٹھے تھے سب کے سب نے ہنسنا شروع کیا.اور بات کی تہہ تک ذرا بھی نہ پہنچے.بات یہاں تک پہنچی تھی کہ مولوی عبد الحق صاحب اپنے خادم کو زور سے پکارنے لگے کہ چائے لاؤ جائے لاؤ.مولوی صاحب کو چائے پلاؤ.لیکن میں نے چائے نہیں لی.اور عذر کیا کہ میرے لئے چائے مضر ہے.المختصر ای پر میری گفتگو مولوی عبد الحق صاحب سے ختم ہوئی اور وہاں سے اٹھ کر ہم اپنی اقامت گاہ میں چلے آئے.اور دوسرے دن پنجاب کی طرف روانہ ہو گئے.پس اے حق کے طالبو! علمائے دنیا دار کا حال دیکھو کہ اپنی عزت و اعتبار قائم رکھنے کے لئے کس قدر احتیاط سے کام لیتے ہیں اور خدا کا خوف بالکل دل میں نہیں لاتے.اور اللہ تعالٰی کے مامور و مرسل کو قبول نہیں کرتے.بلکہ عوام کو معتقد رکھنے کے لئے حق بات کو بسا اوقات سمجھ کر بھی نہیں سمجھتے.اور اس قصور کے سبب اللہ تعالی نے نور معرفت ان سے سلب کر لیا ہے.اس لئے اسے شناخت بھی نہیں کر سکتے.یہ مولانا شبلی نعمانی اور مفتی عبد اللہ ٹونگی اور مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی اور مولانا عبد الحق مولف تغییر حقانی ہندوستان میں چوٹی کے علماء شمار کئے جاتے تھے جب انہیں کا یہ حال تھا تو انسی پر اوروں کو بھی قیاس کرنا چاہئے.اکثر خاص و عام مسلمان انہی کے انکار سے دھوکا کھا کر سلسلہ حقہ احمدیہ کو قبول نہیں کرتے.اور سمجھتے ہیں کہ ان علماء کے اندر بہت سا علم ہے یہ حضرات کیا غلط کہتے ہیں حالانکہ اندرونہ ان کا خالی ہوتا ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا.فاعتبر وايا اولی الابصار الغرض وہلی سے روانہ ہو کر امر تسر پہنچا وہاں مولوی ثناء اللہ صاحب سے

Page 49

47 ملاقات کرنی تھی.کچھ گفتگو کرنے کے شوق سے نہیں.کیونکہ پیشتر سے اس سے خط و کتابت تھی.اور اس کی بہت سی تالیفات حضرت صاحب کے خلاف میں منگا کر دیکھ چکا تھا.اور اس کا اخبار اہلحدیث بھی کبھی کبھی منگا تا تھا غرض اس کی شرارت کی کیفیت پہلے ہی سے مجھ پر ظاہر ہو چکی تھی.اس کے ساتھ ملاقات کرنا دو غرض سے تھا ایک تو اس کی صورت شکل دیکھنا تھا دوسرے میر قاسم علی صاحب نے دہلی سے ایک فرمائش یہ کی تھی کہ اگر مولوی ثناء اللہ سے آپ کی ملاقات ہو تو ان سے دریافت فرمائیے گا.کہ میرا اشتہار کا جواب کیوں نہیں سے کا دیتا.بات یہ ہے کہ میر صاحب نے ایک اشتہار چھپوایا تھا.کہ اگر مولوی ثناء اللہ اس اشتہار کے مطابق حضرت صاحب کی تکذیب کرے تو پچھتیس روپے بطور انعام کے میں اس کو دونگا.لیکن مولوی ثناء اللہ اس کو قبول نہیں کرتا تھا.میں نے جب مولوی ثناء اللہ سے پوچھا کہ آپ تو مکذب مرزا صاحب کے ہیں پھر میر صاحب کے اشتہار کے مطابق کیوں مذیب نہیں کرتے اور انعام موعود نہیں لیتے اس نے جواب دیا کہ یوں تو میں دن رات تکذیب کرتا رہتا ہوں اس میں مجھے عذر کیا ہے.لیکن یہ لوگ اس میں پیچ در پیچ لگاتے ہیں اس لئے میں قبول نہیں کرتا.مولوی ثناء اللہ پر اس قسم کے مطالبات اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ وہ سلسلہ احمدیہ سے اس قدر واقف ہے کہ ہر احمدی بھی اس قدر واقف نہیں ہے.فقط ضد اور دنیا طلبی اور بے ایمانی کی وجہ سے سلسلہ احمدیہ کو قبول نہیں کرتا.اس وجہ سے اس پر اس طرح سوال کیا جاتا ہے کہ مباہلہ کے بیچ میں کرے مگروہ بھی اس قدر شریر ہے کہ اس کو تاڑا جاتا ہے اور مباہلہ کے بیچ میں آنے سے اپنی جان بچا بچا کر چلتا ہے ہمیشہ سے اس کا یہی حال ہے لیکن جب اس سے میری ملاقات ہوئی.جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی اس کا چہرہ زرد ہو گیا تھا.

Page 50

48 نہ معلوم اس میں کیا سر ہے.واللہ اعلم.بر کیف اس نے مجھے کچھ ناشتہ کرانے کی کوشش کی.لیکن میں انکار کرتا رہا.پھر کہا کہ کچھ فواکہات حاضر کروں اس میں میں نے یہ عذر کیا کہ آخر فواکہات میں سے آپ سیب و ناشپاتی ہی لاویں گے اور اس سے میرا جی بھرا ہوا.ہے کیونکہ ریل گاڑی پر بیٹھے بیٹھے اس کا شغل رکھتا ہوں آخر کچھ دودھ شکر ملا کر لایا تو اس سے کچھ عذر کرنے کی کوئی معقول بات نہ پائی ناچار تھوڑا سا پی لیا.اور باقی مولوی اعداد علی کو جو میرے ساتھ تھے دے دیا.المختصر اسی دن امرتسر سے بٹالہ پہنچا.اور سرائے میں اترا.دوسرے دن.صبح کو مولوی محمد حسین بٹالوی کی ملاقات کو گیا اس کے ساتھ بھی گفتگو کرنے کے شوق سے نہیں گیا کیونکہ اس کے ساتھ بھی پیشتر سے میری خط و کتابت تھی.چنانچہ پہلی مرتبہ جو خط میں نے اس کو لکھا تھا اس کا مضمون یہ تھا کہ مرزا صاحب قادیانی کی شہرت یہاں تک بھی پہنچی ہے مگر ہم لوگ بہت دور رہتے ہیں اور آپ تو ماشاء اللہ عالم بھی ہیں زبر دست اور قرب و جوار میں بھی رہتے ہیں اور ہمیشہ مرزا صاحب سے رد و قدح بھی ہوتی رہتی ہے.پھر آپ سے زیادہ واقفیت مرزا صاحب کے حال سے اور کس کو ہو سکتی ہے.پس اس قدر خوشامدانہ کلام پر مولوی محمد حسین بالکل اچھل پڑے اور نهایت شدومد کے ساتھ لکھا کہ میرزا صاحب قادیانی کی تردید جس قدر میں نے کی تھی پنجاب و ہندوستان کے علماء میں سے کسی نے نہیں کی.سات برس تک میں یہی کام کرتا رہا.چنانچہ سات جلد میں اشاعتہ السنہ کی میرے پاس موجود ہیں اور قیمت ہر ایک کی تین روپیہ ہے اگر کیفیت حال دریافت کرنا منظور ہو تو آپ ان سب کو منگا کر دیکھ سکتے ہیں.

Page 51

49 میں نے جواب الجواب اس طرح لکھا کہ جناب کا عنایت نامہ پہنچا اور خاکسار نہایت محظوظ ہوا.لیکن آپ نے جو تحریر فرمایا ہے کہ سات برس تک آپ نے مرزا صاحب کے ساتھ رو و قدح کی ہے.اس سے مجھ کو بہت ہی تعجب ہوا.کیونکہ مرزا صاحب تو کوئی مولانا مولوی نہیں ہیں اور نہ کسی نامی گرامی استاد سے انہوں نے علم حاصل کیا.ایک ایسے شخص سے آپ نے سات برس تک نہ معلوم کیا کیا.ہم لوگوں کا تو قاعدہ ہے کہ کوئی بے جا سر کشی کرتا ہے تو بس ایک دور سالے میں اس کو بند کر دیتے ہیں.اور وہ ذلیل ہو جاتا ہے.پھر اور سر نہیں اٹھا سکتا.آپ اتنے بڑے فاضل بے بدل ہو کر مرزا صاحب جیسے مخص سے اس قدر مدت دراز تک کیا کرتے رہے.میرے خیال میں یہ بالکل تضیع اوقات معلوم ہوتی ہے آپ لکھتے ہیں کہ سات جلد میں اشاعتہ السنہ" کی آپ کے پاس موجود ہیں اور قیمت اکیس روپیہ ہے نہ میں اس قدر روپیہ دے سکتا ہوں اور نہ مجھے اس قدر فرصت ہے کہ سات دفتروں کو پڑھوں.میں فقط اس قدر چاہتا ہوں کہ آپ بتائیں اس سات برس کے عرصہ میں آپ نے کتنے مسائل میں مرزا صاحب کو شکست دی.اگر ان میں سے فقط تین مسئلے بطور نمونہ کے آپ خاکسار کو بتائیں جن میں آپ نے بین طور پر حجت کی راہ سے مرزا صاحب کو مغلوب کیا.اور ہزیمت دی ہو تب خاکسار بهت ممنون احسان ہو گا.اور اسی سے میں کیفیت حال سمجھ لوں گا اور سات دفتروں کے الٹنے کی حاجت نہ ہوگی.میرے اس خط کا جواب مولوی محمد حسین صاحب نے باوجود بار بار تقاضا کے نہ دیا.اس وقت سے میں نے ان کی حقیقت سمجھ لی تھی.ا مولوی محمد حسین کے پاس میرا جانا فقط دو مطلب کے لئے تھا.ایک تو یہ مطلب تھا کہ فتویٰ تکفیر جو حضرت صاحب پر انہوں نے لکھا تھا.اور بہت سے

Page 52

50 تکفیر باز مولویوں کی مہریں اس پر ثبت کرا کر اسے چھپوایا تھا.اس کا ایک نسخہ مجھے مطلوب تھا اور دوسرا مطلب یہ تھا کہ حضرت صاحب کی کتاب براہین احمدیہ پر انہوں نے جو ریو یو اس وقت لکھا تھا.جبکہ وہ حضرت صاحب کے مطبع تھے اس کا بھی ایک نسخہ مجھے مل جائے لیکن مولوی صاحب بٹالوی نے یہ عذر کیا کہ ان دونوں کا فقط ایک ایک نسخہ ان کے پاس ہے زیادہ نہیں ہے اس لئے پڑھ کر پھر واپس کرنا ہو گا.اس کے بعد سویاں اور دودھ چینی مجھے اور مولوی امداد علی کو جو میرے ساتھ تھے کھلایا اور کہنے لگے کہ قورمہ پلاؤ پکتا ہے ضرور کھانا کھا کر جائیے گا.میں نے کہا.کہ جو کچھ آپ نے کھلایا یہی بہت ہے ہمیں قادیان جانا ہے دیر نہیں کر سکتے.انہوں نے میرے قادیان نہ جانے کے لئے بہت کچھ حیلہ انگیز باتیں کیں.مگر میں نے ایک بھی نہ مانا اور کہا کہ جب اتنی دور آگئے ہیں تو بغیر قادیان دیکھے نہ جائیں گے.ایک بات انہوں نے یہ بھی کسی کہ مرزا جو کچھ کہ تھا اب تو وہ بھی نہ رہا.پھر آپ قادیان جاکر کیا کریں گے.میں نے کہا کہ جہاں آگ ہوتی ہے آگ کے بجھ جانے پر بھی اس کے آثار باقی رہ جاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں آگ تھی.الختصر بڑی کوشش کے بعد مولوی محمد حسین سے رخصت ہوا.اور چلتے وقت اس سے کئی رسالے عاریتاً لے کر آیا اور کہہ دیا کہ ابھی تو میں قادیان جاتا ہوں لوٹتے وقت آپ کی کتابیں انشاء اللہ تعالی دے جاؤں گا.وہاں سے اپنی فرودگاہ میں آکر کھانا کھایا.پھر قادیان کی طرف روانہ ہوا اور عصر کے وقت وہاں پہنچ گیا.عصر کی نماز کے قبل ہی خلیفہ اول حضرت مولینا نور الدین صاحب سے ملاقات کی.اور دیکھا کہ وہ صحیح بخاری شریف کا درس دے رہے ہیں.

Page 53

51 پس اس وقت کچھ مختصری باتیں ہوئیں اتنے میں عصر کی نماز کے لئے اذان ہوئی.اور مسجد مبارک میں نماز عصر پڑھی پھر مہمان خانہ میں جہاں جگہ ملی تھی.وہاں اپنے ونیز ہمراہیوں کے لئے بسترہ وغیرہ ٹھیک کیا.الغرض حضرت مولانا نورالدین صاحب سے پندرہ دن تک گفتگو ہوتی رہی.مگر اس طرح نہیں جس طرح غیر احمدی مخالف مولویوں سے گفتگو ہوئی تھی.بلکہ میں جن شبہات کو نوٹ کر کے لے گیا تھا.انہیں باتوں کو پیش کر کے جواب حاصل کیا.جس سے مجھے اطمینان کلی حاصل ہو گیا.اور قادیان کے.باشندوں کے حالات پر میں نے بھی بہت ہی غور و تدبر سے نگاہ کی بالآخر بفضل التی اس سلسلہ کی صداقت پر مجھے شرح صدر حاصل ہو گیا اور پھر کچھ تردد باقی نہ رہا.پس مزید توقف میں نے مناسب نہ جانا.اور ایک دن بعد نماز جمعہ میں نے مع اپنے ہمراہیوں کے حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور شکر الہی بجا لایا که NANGANGUAGE لِلَّهِ الَّذِى هَدْنَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِمُهْتَدِي لَوْلا أَنْ هَدَنَا اللهُ (اعراف ع (۵) بعد اس کے جب وطن کی طرف لوٹنے کا ارادہ کیا تب مجھے خیال ہوا کہ وطن پہنچنے پر تو ضرور سنت اللہ کے مطابق ہماری سخت مخالفت ہو گی.اور میری دو نوکریاں ہیں ایک تو برہمن ہدیہ کے ہائی سکول کے ہیڈ مولوی کا عہدہ.دوسری قضا یعنی میرج رجساری کا عمدہ یہ دو نوکریاں گویا میرے دو پاؤں ہیں اور کتے جو آدمی کو کاٹتے ہیں تو اکثر دونوں پاؤں میں سے کسی میں کاٹتے ہیں.پس مخالفین جو مجھ کو ضرر پہنچا دیں گے.تو انسی دونوں نوکریوں کے ذریعہ کیونکہ اسی میں زیادہ تر ان کا قابو ہے.پس بہتر ہے کہ مقام برہمن بڑیہ میں داخل ہونے کے قبل ہی میں ان دونوں نوکریوں کو چھوڑ دوں تاکہ مخالفین مجھ پر قابو نہ پائیں.یہ تجویز میں نے حضرت خلیفہ اول کے سامنے پیش کی.آپ نے اس

Page 54

52 کو پسند نہ کیا اور فرمایا.کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو گنہگار ہوں گے.کیونکہ اللہ تعالٰی نے ہر یک انسان کے رزق کے لئے ایک نہ ایک صورت لگا دی ہے.اگر اپنے ہاتھ سے اس کو توڑیں گے تو اللہ تعالٰی آپ سے ناراض ہو گا.اور اپنے رزق کی صورت خود آپ کو کرنی پڑے گی.اور آپ تکلیف میں پڑیں گے.ہاں اگر نوکریاں آپ کی از خود چلی جائیں.تو اللہ تعالیٰ دوسری صورت پیدا کر خدا گر حکمت بندد کرم دیگرے الغرض حضرت مولوی صاحب کے فرمانے کے مطابق میں نے اپنی نوکریوں کو نہ چھوڑا اور یونہی ہو کر قادیان سے بٹالہ کے سٹیشن کی طرف روانہ ہوا.چونکہ یکہ میں بہت تکان ہوتی ہے اس لئے ایک نم نم کرایہ کر کے چلا تھا اور ثم ثم والے سے کہدیا تھا کہ جب مولوی محمد حسین کے مکان کے قریب پہنچے تو ضرور مجھے مطلع کرے جب ہم ٹالہ پہنچے اور کچھ دور آگئے تو گاڑی والے نے کہا کہ آپ لوگ جس مولوی صاحب کا مکان تلاش کرتے ہیں ان کا مکان یہی ہے.تب میں نے تم تم کھڑا کرایا اور مولوی محمد حسین کے سارے رسالے اپنے ہمرا ہی امداد علی کو دے کر کہا کہ ان کو واپس دے کر جلد چلے آویں.ہم لوگ آگے بڑھتے ہیں.اگر مولوی محمد حسین میری بابت پوچھے تو کہد دینا کہ وہ سٹیشن پر چلے گئے ان کی طبیعت اچھی نہیں ہے.کیونکہ قادیان میں ان کو بخار ہو گیا تھا.مولوی امداد علی نے وہاں جا کر دیکھا کہ مولوی محمد حسین مسجد میں نماز ظہر پڑھ رہے ہیں.تھوڑی دیر توقف کرنے پر جب انہوں نے نماز ختم کی.تب مولوی امداد علی نے کتا ہیں ان کے ور الدین صاحب خلیفتہ المسیح سے رخصت

Page 55

53 حوالہ کیں اور واپس آنا چاہا.مگر وہ انہیں چھوڑنا نہیں چاہتے تھے اور قادیان کی کچھ باتیں پوچھنے لگے.اول تو یہ پو چھا کہ مولوی صاحب کہاں ہیں.جس کا مولوی امداد علی نے وہی جواب دیا جو میں نے کہہ دیا تھا.پھر پوچھا کہ آپ سب احمدی ہوئے یا محمدی رہے.انہوں نے صاف کہدیا کہ احمدی ہو گئے ہیں دعا کیجئے گا.یہ کہہ کر مولوی امداد علی به مجلت تمام چلے آئے.اور ہمارے ساتھ اری میں بیٹھ گئے.اس کے بعد ہم اسٹیشن بٹالہ پہنچے.اور ظہر کی نماز ادا کی.اتنے میں ایک احمدی بھائی نے کہا کہ عصر کی نماز گاڑی پر پڑھنی مشکل ہو گی.بہتر ہے کہ ظہر کے ساتھ عصر کی نماز جمع کرلی جاوے.لہذا ہم سب احمدیوں نے جو وہاں جمع ہو گئے تھے عصر کی نماز بھی پڑھ لی.نماز ادا کر لینے کے بعد اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر مل رہا تھا کہ دیکھا گیا ہوں کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی دو میل کا فاصلہ پا پیادہ طے کر کے آیا اور السلام علیکم کہہ کر مجھ سے کہنے لگا واہ مولوی صاحب! آپ مجھ سے ملاقات تک نہ کر کے آئے.میں نے اس کا وہی جواب دیا جو مولوی امداد علی نے دیا تھا.کیونکہ فی الواقع میری طبیعت اس دن ایسی خراب تھی کہ بات کرنے کو جی نہ چاہتا تھا.پھر مولوی محمد حسین مجھ سے پوچھنے لگا.کہ قادیان میں آپ نے کیا دیکھا.میں نے کہا کہ قادیان کوئی نمائش گاه یا تماشا کی جگہ تو ہے نہیں.ہاں بہت دنوں سے میں اس سلسلہ کے متعلق غور کر رہا تھا قادیان جا کر پندرہ دن تک رہنے اور جناب مولوی نور الدین صاحب سے بات چیت کرنے سے میرے جو شبہات تھے وہ سب دور ہو گئے اور شرح صدر حاصل ہو گیا.پس میں نے بیعت کرلی ہے میرے اتنا کہنے پر مولوی محمد حسین نے اپنی جیب سے ایک قلمی فتوئی نکالا اور پڑھ کر مجھے سنانے لگا.ہر چند میں نے منع کیا کہ میں اسے سننا نہیں چاہتا کیونکہ مجھے بھی فتویٰ بہت لکھنا آتا

Page 56

54 ہے.یہ موم کی ناک ہوتی ہے لکھنے والا جدھر پھیرنا چاہتا ہے ادھر ہی پھرتی ہے اس پر بھی وہ نہ رکا.اس فتویٰ کے عنوان پر یہ سوال لکھا ہوا تھا کہ مرزا قادیانی اور اس کے اتباع مسلمان ہیں یا کافر.یہ سنکر مجھے بھی کچھ غیظ آگیا.اور میں اس سے کہنے لگا.کہ سنتے تو سہی.آپ نے تو مرزا صاحب کے خلاف ابتداء ہی سے لکھنا شروع کیا تھا.لیکن اس فتویٰ نویسی کا نتیجہ کیا ہوا.یہی کہ آپ فتوے لکھتے لکھتے نیچے کی طرف جا رہے ہیں اور مرزا صاحب بلندی کی طرف صعود کر رہے ہیں.پھر بھی آپ کا فتویٰ لکھنے کا شوق کم نہیں ہو تا.کیا یہ فتویٰ آپ نے لکھا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نہیں لکھا.بلکہ دیو بند کے کسی مدرس نے لکھا ہے جب میں نے اس مدرس کا نام پوچھا تو نام نہ بتایا پھر میں نے کہا کہ دیو بندیوں اور وہابیوں کے خلاف عرب و عجم سے آئے ہوئے مطبوعہ فتاوی بکثرت میرے پاس موجود ہیں.آپ ان سب کا کیا جواب دیتے ہیں.اور کس بے غیرتی سے آپ مرزا صاحب کے خلاف فتویٰ لکھتے ہیں آپ کو شرم نہیں آتی.اگر کوئی پوچھے کہ نذیر حسین وہابی اور اس کے اتباع مسلمان ہیں یا کافر.تو آپ اس کا کیا جواب دیں گے.تب مبہوت سا ہو رہا.اس وقت میں نے کہا آپ ذرا خیال تو کریں کہ آپ کیا سے کیا ہو گئے ؟ اتنے میں شملہ کے ایک معزز احمدی جو وہاں موجود تھے مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ جناب مولوی صاحب سیہ بٹالوی صاحب اگلے دنوں جب شملہ جاتے تو اسٹیشن پر لوگ استقبال کے لئے جاتے تھے.مگر اس دن کی بات ہے کہ جب یہ ہمارے شہر میں پھر گئے تو کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی ان کی طرف نہ دیکھا یہاں تک کہ بیٹھنے کی جگہ بھی نہ دی.آخر اپنا پا سجامہ ایک جگہ بچھا کر بیٹھ گئے.المختصر ان سب باتوں سے مولوی محمد حسین کو بھی کچھ غیظ آگیا اور غصہ ہو کر

Page 57

55 کہنے لگا کہ میں نے " اشاعۃ السنہ" کی تین جلد میں جو آپ کو دی تھیں وہ واپس کر دیجئے.میں نے کہا کہ آپ نے تو وہ جلد میں مجھے ہبہ کردی ہیں.مولوی بٹالوی نے کہا.کہ میں آپ کو ایسا نہ سمجھتا تھا.میں نے کہا کہ آپ تو اہل حدیث کہلاتے ہیں.اور حدیث شریف میں وارد ہے کہ الرَّاحِعُ فِي هَبَتِهِ كا الراجع في قينه.پس جب تک آپ صحیح حدیثوں سے جہہ سے رجوع ا نہ کریں گے میں ہر گز کتابیں واپس نہ دوں گا.اتنے میں کرنے کا جواز گاڑی آگئی اور ہم سب عجلت کے ساتھ گاڑی پر سوار ہو گئے.اور مولوی محمد حسین اپنے مکان کی طرف سدھارے.فی الواقع وہ موقع بھی ایسا نہ تھا کہ اشاعۃ السنہ" کی وہ جلدیں اس وقت انہیں واپس کی جائیں کیونکہ اسباب ہمارے بالکل بندھے ہوئے تھے.اور ریل گاڑی کی آمد آمد تھی.ایسے وقت میں اسباب کا کھولنا اور کتابیں نکالنا مشکل تھا.اگر ممکن ہو تا تو میں ضرور کتابیں واپس کر دیتا.الفرض بٹالہ سے روانہ ہو کر لاہور پہنچا وہاں احمدیہ بلڈنگس میں جا اترا میرزا یعقوب بیگ اور ڈاکٹر محمد حسین شاہ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے بڑی خاطر تواضع کی.اور نہایت پر تکلف کھانے کھلائے وہ زمانہ خلیفہ اول کا تھا اور میرے قادیان میں قیام کے زمانہ میں یہ لوگ ایک مرتبہ قادیان بھی گئے تھے اور وہیں ان سے روشناس ہوئی تھی اس وقت یہ لوگ غیر مبائع اور علیحدہ فریق نہ تھے.دوسرے دن خبر پاتے ہی جناب حکیم محمد حسین صاحب قریشی بھی آگئے.ان کی ملاقات سے بہت ہی فرحت و خرمی حاصل ہوئی.کیونکہ آدمی بہت ہی عمدہ ہیں اور انہی کے ذریعہ اولاً مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خبر پہنچی تھی.جیسا کہ اوائل رسالہ میں اس کا ذکر آچکا ہے میرے لاہور قیام تک

Page 58

56 حکیم صاحب اکثر میرے ساتھ رہے.اور جب میرے پاس آتے.تو کچھ نہ کچھ ناشتہ مقسم مٹھائی اپنے ساتھ لاتے.اور ایک دن پر تکلف دعوت بھی کی.شہر لاہور کی سیر بھی کرائی اور تماشے دکھائے.بالآخر لا ہور سے روانہ ہو کر ہم کلکتہ لاہور واپس پہنچے چونکہ کلکتہ پہنچنے کے بعد مجھے بخار آگیا تھا.اس لئے کئی دن وہاں ٹھہرنا پڑا بعد افاقہ کے کلکتہ سے روانہ ہو کر اپنے وطن برہمن بڑیہ پہنچا.اور سنت اللہ کے مطابق اہل وطن مریدین و معتقدین میں مخالفت شروع ہوئی جس جس کو اللہ تعالٰی نے ہدایت کی وہ بیعت کر کے سلسلہ حقہ میں داخل ہوا.جس سے تقریباً ہزار آدمی یہاں احمدی ہو گئے.رہا مخالفین کی مخالفت اس کی تفصیل بہت ہی طویل ہے.جس کے لئے علیحدہ رسالہ کی ضرورت ہے.هَذَا مَا اَردُنَا إِبْرَادَةَ فِي هَذَا الْمَقَامِ وَعَلَى اللهِ التَّوَكَّلُ وَبِهِ الْاِعْتِصَامُ وَصَلَّى الله عَلَى مُحَمَّدٍ سَيّدِ الْأَنَامِ وَالِهِ الْعِظَامِ وَأَصْحَابِهِ الْكِرَامِ.دو خطوط واجب الاشاعت برادران! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکات.اس رسالہ جذبه الحق کے کچھ صفحے چھپ جانے کے بعد اس کے مصنف میرے والد ماجد حضرت مولانا سید محمد عبد الواحد صاحب بتاریخ ۴ ماه رمضان المبارک ۱۳۴۴ھ جمعرات کی شام کو 9 بجکر ۲۳ منٹ پر ۷۳ برس کی عمر میں دار فانی سے سرائے جاودانی کی طرف رحلت کر کے اپنے مولا سے جائے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ والد مرحوم کی وفات کے بعد اس رسالہ کا بقیہ حصہ چھپنے لگا.تب میں نے مناسب سمجھا کہ اس رسالہ کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ دو خطوط جو

Page 59

57 حضور علیہ السلام نے میرے والد مرحوم کو لکھے تھے.اور وہ ابتک محفوظ تھے.شائع کر دیئے جائیں.تاکہ حضور کے الفاظ بھی محفوظ ہو جائیں.اور جناب حکیم محمد حسین صاحب قریشی کا (جن کے ذریعہ والد مرحوم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کی خبر سب سے پہلے ملی تھی) وہ آخری محبت نامہ لے بھی چھپ جائے جو حضرت والد مرحوم کی وفات سے تقریباً ایک ماہ قبل آیا.اور ناظرین سے درخواست ہے کہ میرے والد مرحوم کے لئے دعاء مغفرت فرما کر والے والسلام مارسید سعید احمد احمدی مینیجر بنگال احمد یہ ایسوسی ایشن مقام بر همن بڑ یہ ضلع میر ابنگال منظور فرما دیں.زیادہ کیا تجربے کراں کر کے روخط sla پر اسلام کے دو حضرت مسیح موعود علیہ الہ بنام مولانا سید محمد عبد الواحد صاحب مرحوم حتی اخویم.السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته آپ کا عنایت نامہ پہنچا.اس وقت میں نہایت قلیل الفرصت ہوں.مگر میں نے ارادہ کیا ہے کہ آپ کے شبہات کا جواب اپنے ایک رسالہ میں جو میں نے لکھنا شروع کیا ہے.لکھدوں یہ رسالہ اگر خد اتعالیٰ نے چاہا تو نومبر ۱۹۰۵ء تک ختم ہو جائے گا.اور چھپ جائے گا.یہ آپ کے ذمہ ہو گا کہ آپ نومبر کے آخیر L اه مطبوعہ کتاب میں جناب حکیم محمد حسین قریشی صاحب کا مذکورہ خط شامل نہیں تھا اس لئے اس بار بھی شائع نہیں کیا جا رہا (ناشر) کے روحانی خزائن جلد 21 - ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 336 " 375

Page 60

58 میں یا دسمبر ۱۹۰۵ء کے ابتداء میں مجھے اطلاع دیں.تو میں رسالہ آپ کی خدمت میں بھیج دوں.اور امید رکھتا ہوں کہ رسالہ کے دیکھنے سے علاوہ آپ کے شبہات کے ازالہ کے اور بھی کئی قسم سے آپ کی واقفیت بڑھے گی.اگر چہ میرے نزدیک یہ معمولی اعتراضات ہیں جن کا متفرق کتابوں میں بار بار جواب دیا گیا ہے.مگر چونکہ تحریر سے سعادت اور حق طلبی مترشح ہو رہی ہے اس لئے محض آپ کے فائدہ کے لئے یہ تکلیف اپنے پر گوارا کرلوں گا.آپ کے قسم اور مذاق کے مطابق جہاں تک مجھ سے ہو سکے گا لکھ دوں گا.آئندہ ہر ایک امر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.مجھے امید تھی کہ یہ باتیں ایسی سل اور راہ پر پڑی ہیں کہ آپ تھوڑی سے توجہ سے خود ہی ان کو حل کر سکتے تھے.لیکن اس میں کوئی مصلحت الہی ہو گی کہ مجھ سے آپ نے جواب مانگا.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ قادیان - گورداسپور پنجاب

Page 61

59 ا خط نمبر دو خط نمبر دو العائلة مجھی اخویم سید محمد عبد الواحد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ ! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.دو تین ہفتہ سے پھر بیمار ہوں.اس لئے کام چھپوائی کتاب کا ابھی شروع نہیں کر سکا.آپ کے لئے اعتراض بھی میری نظر سے گذرے.خداتعالی کو آپ کو تسلی بخشے آمین.میں اگر ان اعتراضات کا جواب لکھوں تو طول بہت ہو جائے گا.اور میں اپنی متفرق کتابوں میں ان کا جواب دے چکا ہوں میں نے یہ تجویز سوچی ہے کہ جس طرح ہو سکے آپ ایک ماہ کی رخصت لے کر اس جگہ آجائیں.آمد و رفت کا تمام کرا یہ میرے ذمہ ہو گا.اس صورت میں ایک ماہ کے عرصہ میں آپ پوری تسلی سے سب کچھ دریافت کر سکتے ہیں اور انشراح صد ر خدا تعالی کے اختیار میں ہے لیکن اپنی طرف سے ہر ایک بات سمجھادی جاوے گی.اور اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آوے تو مقام افسوس نہ ہو گا.اور اس صورت میں آپ اس تمام کتاب کو جس میں آپ کے اعتراضات کا جواب ہے قبل از اشاعت دیکھ سکتے ہیں.میرے نزدیک یہ نهایت عمدہ طریق ہے.آپ یہ خیال نہ کریں کہ مجھے خرچ آمد و رفت بھیجنے کی

Page 62

60 کچھ تکلیف ہوگی.کیونکہ آپ کی تحریر میں رشد اور سعادت کی بو آتی ہے اور آپ جیسے رشید کے لئے کچھ مال خرچ کرنا موجب ثواب اور اجر آخرت ہے.جواب سے ضرور مطلع فرما دیں.والسلام را تم میرزا غلام احمد عفی عنہ ۲۴ جنوری ۱۹۰۶ء

Page 63

61 حضرت مولف مرحوم کا یہ تبلیغی سفرنامہ خاکسار نے طالبان حق کے لئے دوسری بار چالیس سال بعد شائع کیا ہے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اسے طالبان حق کے لئے بابرکت بنائے آمین.خاکسار حکیم عبد اللطیف شاہد تا جر کتب -۱۴- مین بازار گوالمنڈی لاہور ۲۰ دسمبر ۱۹۶۷ء

Page 63