Language: UR
بسلسلہ صد سالہ خلافت احمدیہ جو بلی أمة المؤمنين حضرت جويبر به عن الله عنها لجنہ اماء الله
أم المؤمنين حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا
بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین
پیارے بچو! اُم المؤمنین حضرت جویری به من الانتقال الله رضی عنها آج ہم آپ کو آنحضرت ﷺ کی ایک بیوی ام المؤمنین حضرت جویریہ رضی اللہ عھما کے حالات بتائیں گے.پہلے ہم آپ کو وہ حالات بتا دیں جو اس وقت مدینہ میں تھے جب حضرت جویریہ رضی اللہ عنھا سے آپ علی کی شادی ہوئی.اس طرح حضرت جور یہ رضی اللہ عنھا کا تعارف بھی ہو جائے گا.الله آپ کے علم میں ہے کہ مکہ والوں کے بے حدستانے پر آپ ﷺ نے مکہ چھوڑ کر مدینہ میں رہنا شروع کیا تھا.مدینہ والوں نے بہت اچھا استقبال کیا.مسلمان بے حد خوش ہوئے مگر مدینہ میں اور مدینہ کے ارد گرد رہنے والے قبائل میں مخالفین بھی تھے.آنحضور علہ نے ہر قبیلے سے صلح صفائی اور امن سے رہنے کے طریقے اختیار کئے.بعض قبیلے ایسے بھی تھے جو بظاہر تو امن کے ساتھ رہنے کے وعدے کرتے تھے مگر اندر سے مخالف ہی تھے.مدینہ سے چھیانوے میل دور ایک بہت مشہور چشمہ تھا جس کا نام مریسیع تھا.اس کے پاس ایک قبیلہ بنو مصطلق آباد تھا.ان کے سردار کا نام حارث بن ابی ضرار تھا.اس شخص کو مسلمانوں سے بہت نفرت
2 تھی.غصے کی آگ میں جلتا تھا اور لوگوں سے کہتا کہ مکہ والے جس فتنہ کو ختم نہ کر سکے، مدینہ والے جس فتنہ کو ختم نہ کر سکے اُسے ہم ختم کریں گے.قریش مکہ بھی ہماری مدد کریں گے.اپنے اپنے جنگی ہتھیار لے کر مریسیع پہنچ جاؤ.ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے.مدینہ کے مسلمانوں کو ختم کر کے چھوڑیں گے.حارث کی بیٹی برہ کا شوہر مسافع بن صفوان بھی اُس کے ساتھ تھا.اُس پر جنگ کا جنون سوار ہو گیا تھا.ادھر آنحضرت میے کو علم ہو گیا کہ جنگی تیاریاں ہو رہی ہیں.آپ ﷺ کا طریق تھا کہ سنی سنائی بات پر یقین نہ کرتے تھے.آپ ﷺ نے ایک شخص بریدہ بن حصیب اسلمی کو روانہ کیا کہ جائزہ لے کر آئیں.اُنہوں نے واپس آ کر سب حالات سنائے تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو تیاری کا حکم دے دیا.(1) شعبان 5 ہجری کو مدینہ سے مسلمانوں کی فوج روانہ ہوئی.فوج کی روانگی کا سُن کر اُن کا سپہ سالار حارث بن ابی ضرار تو ڈر کے بھاگ گیا اُس کے فوجی بھی ادھر ادھر چلے گئے.مریسیع کے رہنے والوں نے اسلامی فوج کا مقابلہ کیا مگر جلد ہی شکست کھائی.مسلمانوں کو فتح ہوئی.دشمنوں کے گیارہ آدمی مارے گئے 600 جنگی قیدی بنے ، بہت سا مال غنیمت بھی ہاتھ لگا جو مارے گئے اُن میں حارث کا داماد مسافع بھی تھا.جو جنگی قیدی بنے اُن میں حارث کی بیٹی یہ بھی تھیں.مال غنیمت اُس
3 سامان کو کہتے ہیں جو اسلامی لشکر کا مقابلہ کرنے کے بعد بھاگ جانے اور شکست کھانے والے پیچھے چھوڑ جائیں.آپ ع مال غنیمت جہاد میں حصہ لینے والوں میں تقسیم فرما دیا کرتے تھے.اس تقسیم میں پروہت حارث، حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے حصے میں آئیں.بز و سردار کی بیٹی تھیں.غلامی میں لونڈی بن کر رہنا انہیں پسند نہ آیا.اسلام میں یہ طریق ہے کہ اگر لونڈی یا غلام کچھ رقم ادا کر دیں اور مالک رضا مند ہو جائیں تو انہیں آزادی مل سکتی ہے اس کو مکاتبت کہتے ہیں.بڑہ نے حضرت ثابت سے درخواست کی کہ اُن سے مکاتبت کر لیں.حضرت ثابت نے 9 اوقیہ سونے پر مکاتبت کر لی (2) ( اوقیہ سونا تولنے کا کوئی پیمانہ تھا ).مکاتبت تو کر لی مگر سونا کہاں سے لائیں وہ تو خالی ہاتھ تھیں.سوچنے لگیں کہ سُنا ہے مسلمانوں کا رسول محمد مے بہت رحم دل ہے اُن صلى الله سے قرض یا مدد کی درخواست کرتی ہوں.اگلے ہی دن حضور ملنے کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور درخواست کی.یا رسول اللہ ﷺ! میں قوم کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی ہوں مجھ پر جو مصیبت آئی ہے وہ آپ اللہ کو معلوم ہے میں نے اپنے آقا سے آزادی حاصل کرنے کے لئے 9 اوقیہ سونے پر مکاتبت کر لی ہے میری درخواست یہ ہے کہ اس رقم کو ادا کرنے میں میری مدد فرمائیں.(2) تر ونے اتنے وقار سے اچھے انداز میں مدد کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ علی
4 کے دل میں ڈالا کہ اگر اس سے شادی کر لیں تو اس قبیلے سے ساری دشمنیاں ختم ہو کر اسلام پھیلنے کے سامان ہو سکتے ہیں اور آپ ﷺ نے فرمایا.اُس سے 66 بھی بہتر ایک صورت ہے اگر تم اسے قبول کر لو.“ برہ نے عرض کی.فرمائیے:.آپ ﷺ نے فرمایا ” تمہاری طرف سے میں روپیہ ادا کر دیتا ہوں اور تم سے نکاح کر لیتا ہوں.“ بزہ کو معا اپنا ایک خواب یاد آیا جو کئی برس پہلے دیکھا تھا کہ میٹرب (مدینہ ) سے چلتا ہوا چاند اُن کی آغوش میں آگیا ہے.خواب کی تعبیر سامنے تھی آپ نے رضا مندی دے دی.اور یہ بابرکت شادی ہوگئی.نکاح کے وقت حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی عمر 20 سال تھی.(4) یہ نکاح 627ء میں ہوا.شادی کے بعد آنحضرت ﷺ نے آپ کا نام جویریہ رکھا.(5) حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنھا بہت خوبصورت تھیں.حضرت عائشہ نے فرمایا ہے جو یر یہ بڑی شیریں زبان، مناسب بدن، ملیح اور صاحب حسن و جمال عورت تھی.جو دیکھتا فریفتہ ہو جاتا.(6) آپ ﷺ نے بنو مصطلق کی ایک بہادر اور ذہین لڑکی سے رشتہ کر لیا صلى الله تو اس قبیلے کے سب افراد آپ مے کے رشتہ دار ہو گئے.اس تعلق سے صل الله مسلمانوں کو اچھانہ لگا کہ آنحضور میلے کے سسرالی عزیزوں کو قیدی بنا کر رکھیں
5 چنانچہ وہ سارے قیدی جو غزوہ مریسیع سے ہاتھ لگے آزاد کر دیئے گئے بغیر کسی مکاتبت یا لین دین کے.سب قیدی واپس آگئے تو ہر گھر میں اسلام اور بانی اسلام کی تعلیمات کا چرچا ہونے لگا اور لوگوں نے تیزی سے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا.خود حضرت جو ہر یہ راضی اور علما کے گھر میں اسلام کیسے داخل ہوا یہ ایک دلچسپ قصہ ہے.جب آپ کے والد کو پتہ چلا کہ جولوگ قیدی بنا لئے گئے ہیں اُن میں اُس کی لاڈلی بیٹی بھی شامل ہے تو وہ کچھ مال اسباب جس میں اونٹ بھی شامل تھے لے کر چلا ، تا کہ فدیہ ادا کر کے بیٹی کو آزاد کر لائے.راستے میں اُسے اُن میں سے دو اونٹ جو بہت قیمتی تھے دینے کو دل نہ چاہا.جب وادی حقیق میں پہنچا تو وہ اونٹ وہاں چھپا دیئے پھر رسول اللہ میلے کے پاس آیا اور کہا:.اے محمد علی ! تم میری بیٹی کو لے آئے ہو یہ اُس کا فدیہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا :.وہ دو اونٹ کہاں ہیں جنہیں تم عقیق کی وادی میں چھپا آئے ہو.دراصل اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو کشفاً سارا نظارہ دکھا دیا تھا.حارث یہ سُن کر سٹپٹا گیا اور اُس کے دل نے کہا یہ آدمی جھوٹا نہیں ہوسکتا.بآواز بلند کلمہ شہادت پڑھا اور مسلمان ہو گیا.اُس کے ساتھ اُس کے دو بیٹے عبد اللہ اور عمر و بھی مسلمان ہو گئے.(7) آپ ﷺ نے حضرت جویریہ رضی اللہ عنہ کو بلایا.حارث نے
6 رسول کریم ﷺ سے کہا کہ میں قبیلے کا سردار ہوں میری بیٹی لونڈی بن کر نہیں رہ سکتی.جب اُسے پتا لگا کہ وہ لونڈی بن کر نہیں رہے گی بلکہ رسول اللہ ﷺ کی بیوی بن کر رہے گی تو وہ بہت خوش ہوا آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ جویریہ کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ کہاں رہنا پسند کریں گی.حضرت جویریہ رضی اللہ عنھا نے کہا:.میں رسول اللہ علیہ کی خدمت میں رہنا پسند کرتی ہوں.“ (8) آپ نے دیکھا حضرت جو سر سید رضی الہ علما کی زندگی میں کتنی بڑی تبدیلی آئی.مخالف اسلام باپ کی بیٹی اور مخالف اسلام شوہر کی بیوی تھیں.باپ کو شکست ہوئی.شوہر مارا گیا آپ بیوہ ہو گئیں.قیدی بن کر آئیں.مگر رسول اللہ اللہ سے نسبت ہوتے ہی اسلام کی نعمت ملی اور بہت سے قیدی آزاد ہوئے.والد اور بھائی مسلمان ہو گئے غرض یہ کہ برکتوں کی ایک بارش تھی جو اس شادی سے شروع ہوگئی.حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں.میں نے کسی عورت کو جویریہ رضی اللہ عنھا سے بڑھ کر اپنی قوم کے حق میں مبارک نہیں دیکھا.ان کے سبب سے بنو مصطلق کے سینکڑوں گھرانے آزاد کر دیئے گئے.(9) آپ اپنی شادی کے دنوں کو یاد کر کے فرماتی ہیں:.میں نے حضرت رسول کریم ﷺ کی آمد سے تین راتیں قبل خواب
7 میں دیکھا تھا کہ چاند میثرب (مدینہ) کی جانب سے چلتا ہوا آیا اور میری گود میں گر گیا.میں نے یہ خواب کسی کو بتانا پسند نہیں کیا.جب ہم گرفتار ہوئے تو میں نے خواب پورے ہونے کی اُمید کی تو آپ ﷺ نے مجھے آزاد کر دیا اور میرے ساتھ شادی کر لی اس وقت میری عمر 20 سال تھی.“ (10) آنحضرت علیہ اور ازواج مطہرات کی سیرت کے متعلق بہت سی کتب لکھی گئی ہیں جن میں لکھنے والوں نے واقعات کی ترتیب اپنے اپنے خیال کے مطابق رکھی ہے.اس وجہ سے مختلف جگہوں پر مختلف انداز ملتا ہے.ہم نے اُن کتابوں کو پڑھ کر ایک خلاصہ آپ کے لئے لکھ دیا ہے جس سے اصل واقعات کا آپ کو علم ہو جائے گا تھوڑی بہت ترتیب کا فرق ہوگا مثلا کسی نے لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنھا کی شادی حضور ﷺ کے ساتھ حضرت جویریہ رضی اللہ عنھا کے باپ حارث کے آنے سے پہلے ہوئی تھی تو کسی نے لکھا ہے کہ حضرت جویر یہ رضی اند معما کے باپ نے ان کو آزاد کرا کے ان کی شادی حضور ﷺ کے ساتھ کی تھی تو اس سے خاص فرق نہیں پڑتا.اب ہم دیکھیں گے کہ آنحضور ﷺ اور حضرت جویریہ کیسے رہا کرتے تھے.حضرت جویریہ رضی اللہ صمہ اپنے قبیلے کے سردار کی بیٹی تھیں.عرب کے رئیسوں کے گھروں میں شان و شوکت اور آسائش تھی.آنحضور میلے کے گھر میں رہن سہن ، لباس خوراک ہر قسم کی سادگی تھی اور سادگی بھی انتہا کی تھی.
8 بیگمات کے حجرے کچی اینٹوں اور کھجور کی ٹہنیوں اور پتوں کے بنے ہوئے تھے.عام طور پر دروازوں پر پردے لٹکے ہوتے ، کواڑ نہیں تھے.چھت بس اس قدر اونچی کہ ہاتھ اٹھاؤ تو چُھو لو.چراغ نہیں جلتے تھے.حضرت عائشہ کے کمرے میں ایک بالا خانہ بھی تھا.ان حجروں کے ساتھ چھوٹے صحن بھی تھے.گھر اس قدر وسعت ضرور رکھتے تھے کہ مہمانوں کے قیام وطعام کا انتظام ہوسکتا تھا بعض گھروں میں مویشی بھی تھے.یہ تو تھی گھروں کی سادگی ، اب دیکھئے اُن میں سامان کیا تھا.عام طور پر چڑے کے گڑے میں گھاس بھری ہوتی تھی.تکیے میں بھی گھاس یا کھجور کے پتے ہوتے.اس کے علاوہ بہت ہی کم کوئی سامان ہوتا تھا.اسی طرح لباس کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ ایک سے زیادہ کپڑوں کے جوڑے بہت کم ہوتے تھے.آپ کی ازواج مطہرات بھی ایک ہی جوڑے میں گزارہ کر لیتیں.حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ بتایا.ہم میں سے ہر ایک زوجہ کے پاس ایک (جوڑا) کپڑے کے علاوہ اور کپڑا نہیں ہوتا تھا.(11) اب کھانے پینے میں سادگی بھی دیکھ لیجیے.حضرت عائشہ ہی کی روایت ہے کہ کئی دن چولہا نہ جلتا.کھجوروں اور پانی پر گزارا ہوتا.آپ اللہ کے گھر والے لگاتار تین دن روٹی نہ کھا سکتے.آپ دینے کے کھانے کی عادت میں بہت سادگی تھی.آپ ﷺ کی بیگمات نے بھی یہ عادت اپنالی اور صبر شکر سے گزارہ کرنے لگیں.گھروں کے
9 خرچ چلانے کی ساری ذمہ داری حضرت بلال پر تھی.جو کچھ تھے تحائف ، مالِ نقیمت سے آمد ہوئی سب حضرت بلال کی تحویل میں ہوتی.فرباء ومساکین میں بھی آپ ہی تقسیم فرماتے.ضرورت ہوتی تو قرض لے لیتے.فتح خیبر کے صلى الله بعد آنحضور ﷺ اپنی بیگمات کو ایک مہینے کے لئے 20 کلو کے قریب جو اور سال بھر کے لئے 2 من کے قریب کھجوریں اکٹھی دلوا دیتے تھے اسی میں سے مہمان داری اور صدقہ خیرات بھی جاری رہتا.(12) ان تنگ حالات میں ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:.اگر تمہیں یہ خواہش ہے کہ دنیا کی زندگی کا ساز وسامان تمہیں مل جائے تو آؤ میں تمہیں دنیا کا مال و متاع دے دیتا ہوں مگر اس صورت میں تم میری بیویاں نہیں رہ سکتیں پھر میں احسان و مروّت کے ساتھ تمہیں رخصت کر دوں گا لیکن اگر تم خدا اور اُس کے رسول کی خواہش رکھتی ہو اور آخرت کا اجر چاہتی ہو تو سن لو کہ تم میں سے ان نیکو کاروں کے لئے جو خدا کے منشاء کو پورا کریں خدا نے بہت بڑا اجر تیار کیا ہے.“ (13) 66 صلى الله آپ مہ کی ایک بھی بیوی نے یہ پسند نہ کیا کہ وہ آنحضرت علی کی جدائی برداشت کر لیں اور دنیا کی دولت لے کر رخصت ہو جائیں.پیارے صلى الله آقا میے کو سادگی پسند ہے تو سادگی ہی اچھی ہے.مگر آ نحضور میلے کے لئے تو دونوں جہان کی ہر نعمت پیدا کی گئی تھی پھر آپ ﷺ اتنے سادہ کیوں رہتے
10 تھے؟ اس لئے کہ آپ مدینے کا مقصد تو اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا تھا.دنیا کا عیش آپ مے کا مقصد ہی نہیں تھا.آپ ﷺ فرماتے ہیں.میرے رب نے الله میرے سامنے یہ اختیار رکھا کہ میرے لئے مکہ کی وادی کو سونے سے بھر دیا جائے میں نے عرض کی نہیں ! اے میرے رب میں تو اس بات پر خوش ہوں کہ ایک دن کچھ کھاؤں تو اگلے دن بھوکا رہوں.اس لئے کہ جب بھوکا رہوں تو تیری جناب میں تضرع کروں اور تیرے ذکر میں مشغول رہوں اور جب سیر ہوں تو تیرے شکر وحمد سے معمور رہوں.“ (14) کروڑوں کروڑ درود وسلام ہو اس پیارے نبی ﷺ پر جس نے اختیار ملنے پر دنیا کو چھوڑ کر دین کو مقدم رکھا اور اپنی ازواج کو بھی ایسی تربیت دی کہ اُمت کی ہر عورت کے لئے نمونہ اور مثال بنیں.کوئی غریب سے غریب، تنگ دست سے تنگ دست، عورت یا مرد یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُن کو ہمارے دُکھوں کا کیا پستہ وہ تو آسائش میں رہتے تھے.حضرت جویریہ رضی اللہ عنھا کے دل میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول علی کو خوش کرنے کا بہت جذبہ تھا.وہ اپنا اکثر وقت عبادت میں گزارتیں انہوں نے اپنے حجرے کے ایک کونے کو عبادت کے لئے مخصوص کر لیا تھا.صلى الله ایک دن آنحضور علیہ آپ کے گھر تشریف لائے.صبح کا وقت تھا.آپ عبادت میں مصروف تھیں.جب دو پہر کو وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ
11 آپ ابھی تک مصلے پر بیٹھی ہوئی عبادت کر رہی ہیں.حضور ﷺ نے دریافت کیا.اُس وقت سے یہاں بیٹھی ہو؟ کیا تم اسی طرح عبادت کرتی رہتی ہو؟ جواب دیا بے شک یا رسول اللہ ﷺ.جب آپ کو علم ہوا کہ اللہ تعالیٰ روزہ رکھنے کو بہت پسند فرماتا ہے تو کثرت سے روزے رکھنے لگیں.ایک جمعہ کے دن آنحضرت ﷺ ان کے گھر تشریف لائے تو معلوم ہوا کہ آپ نے روزہ رکھا ہوا ہے.آپ ﷺ نے پوچھا جو یہ یہ کل بھی روزہ تھا ؟ پولیس نہیں فرمایا.توکل رکھو گی ؟ جواب دیا نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا.تو پھر تم کو افطار کر لینا چاہیے.(15) آنحضرت ﷺہ صرف جمعہ کو روزہ رکھنا پسند نہیں فرماتے تھے.(16) آنحضرت علی کی بیگمات گھر میں آپ حملے کے ارشادات کو غور صلى الله سے سنتیں اور اُن پر ختی سے عمل کرتیں.آپ ﷺ سے عمل کو دیکھتیں اور دوسروں کو آپ ﷺ کی مثال دے کر نصیحت کرتیں.اس طرح آپ ﷺ کے ارشادات اور عمل کا ایک ایسار ریکارڈ محفوظ ہو گیا جس کے متعلق یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سو فیصد درست ہے.اس مشاہدہ میں آپ ﷺ کی بیگمات کے قریبی عزیز بھی شامل ہو گئے.جن سے بہت سی ایسی احادیث ملتی ہیں جو اسلام کے اصولوں کو کھول کر بیان کرتی ہیں یہاں مثال کے طور پر حضرت جویریہ رضی اللہ سما کے حقیقی بھائی عمرو بن حارث کی بیان کی ہوئی ایک روایت درج کرتے
12 ہیں.فرماتے ہیں:.نحضرت ﷺ نے اپنی وفات کے وقت کوئی درہم، کوئی دینار کوئی غلام اور کوئی لونڈی اپنے پیچھے نہیں چھوڑی.“ (17) اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے نہ صرف غلام آزاد کرنے کی تعلیم دی بلکہ اپنے عمل سے مثال بھی قائم فرمائی اور اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت صلى الله آپ ﷺ کے پاس کوئی دنیاوی دولت نہیں تھی.آپ ﷺ نے ساری عمر متاع آسمانی یعنی آسمانی دولت ڈھونڈی اور وہی ساتھ لے گئے.صلى الله ایک دفعہ حضور ﷺ حضرت جویریہ رضی اللہ عنھا کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: ” کچھ کھانے کو ہے؟ عرض کیا.یا رسول اللہ ﷺ میری کنیر نے صدقے کا گوشت دیا تھا بس وہی موجود ہے.“ حضور ﷺ نے فرمایا: "لے آؤ جس کو صدقہ دیا گیا پہنچ چکا.“ (18) حضرت جویریہ رضی اللہ عنھا نے اس بات کو یا د رکھا اور بیان کیا.یہ اُمت صلى الله پر آپ کا احسان ہے کیونکہ اس سے ایک بات کی وضاحت ہوگئی.آنحضرت سے نے اپنی آل اولاد کو صدقہ کھانے سے منع فرمایا تھا.واقعہ یہ ہوا تھا کہ ایک دفعہ آپ ع کے پاس ایک ٹوکرا کھجوروں کا صدقے کے لئے آیا.حضور میلے کے ننھے نواسے حسن نے کھجوریں دیکھیں تو ایک اُٹھا کر منہ میں ڈال لی.آپ ﷺ نے دیکھا تو اپنی انگلی حسن کے منہ میں ڈال کر وہ کھجور نکال کر پھینک
13 دی اور فرمایا صدقہ کی کھجور ہے جو تمہارے لئے کھانا جائز نہیں.اب ان دونوں باتوں پر غور کریں تو آپ ﷺ کی سوچ کی گہرائی پر حیرت ہوتی ہے.صدقہ تو سادات کو جائز نہیں لیکن اگر کوئی غریب اپنے صدقے میں سے کسی کو کچھ تحفہ دے تو وہ اس کے لئے جائز ہے کیونکہ صدقہ اُس کے لئے تھا.اُس نے آگے جس کو دیا اس کے لئے وہ تحفہ ہو گیا.بہت خوبصورت بات ہے جس میں غریبوں کی دل داری کا جذ بہ نظر آتا ہے اور دوسری طرف کسی مجبور کے پیٹ بھرنے کا سامان بھی.حضرت جویریہ رضی اللہ عنھا غریبوں کی بے حد ہمدرد تھیں.صدقہ وخیرات کر کے انہیں سکون ملتا تھا.کسی کی مدد کا موقع مل جائے تو اسے اللہ کی نعمت خیال فرمائیں.حضرت جویریہ رضی اللہ عنھا کو اپنے محبوب شوہر کا ساتھ صرف چھ سال میتر آیا.یہ ٹھنڈی چھاؤں جہاں سکون ہی سکون تھا.محبت کی خوشیاں تھیں.دلداری کی راحتیں تھیں.خدا نما و جو د کی صحبت تھی.وہ ساتھ چھوٹ گیا.جس پاک ہستی کو دیکھ کر آپ کو دنیا کی سب سے بڑی خوشی ملتی تھی اُس کی خوشی کی خاطر ایک آخری قربانی آپ نے یہ کی کہ اپنے محبوب شوہر کو آخری بیماری میں حضرت عائشہ کے حجرے میں رہنے کی اجازت دی.آپ ﷺ کا وصال ہوا تو ایسا لگا جیسے ساری دنیا میں اندھیرا چھا گیا ہے.آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور
14 ہونٹوں پر یہ دعا تھی.اے باری تعالیٰ تو جس حال میں رکھے میں راضی ہوں بس مجھے حوصلہ عطا فرما.(19) یقین ہی نہیں آتا تھا کہ آپ یہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں.ے صلى الله آپ کے رخصت ہو گئے تو باقی کچھ نہ رہا.آپ ملے ان کو ہر وقت یاد آتے کبھی کبھی جب بہت بے قرار ہو جاتیں تو اپنے حجرہ سے نکلتیں اور حضرت عائشہ کے حجرہ میں چلی جاتیں.جہاں مٹی کے ایک ڈھیر کے نیچے آپ ﷺ کا جسم مبارک آرام کر رہا تھا، سلام عرض کرتیں، قدموں میں بیٹھ جاتیں بے اختیا آنسو بہتے دل کی باتیں کرتیں.آخر دل و جذبات پر قابو پا کر وہاں سے اٹھتیں اورا اور اپنے حجرے میں تشریف لے آتیں اور یا دالہی میں مصروف رہتیں.(20) خلفائے راشدین نے ازواج مطہرات کو بہت عزت واحترام سے رکھا.حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں آپ کا وظیفہ چھ ہزار درہم سالانہ مقرر فر مایا تھا.حضرت جویریہ رضی اللہ علما سے 17 حدیثیں مروی ہیں.حضرت جویریہ نے رایج الاول 50 ہجری میں وفات پائی اس وقت آپ کی عمر 65 سال تھی.مروان نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں.(21)
15 -1 -2 - 2 3 4 5 4._5 -6 7.حوالہ جات خلاصہ سیرت خاتم النبین (صفحہ 558) سیر الصحابیات (صفحہ 79) سیرت سید البشر (صفحہ 478) ابن سعد جلد 8 حالات جویریہ سیرت خاتم النبيين ( أم المؤمنین حضرت جویریہ صفحہ 78) ابن سعد جلد 8 حالات جویریہ シ اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 420( حضرت جویریہ صفحہ 80) سیرت سید البشر حصّہ اوّل غلام رسول ( صفحه 479) _8 _9 سیر الصحابیات (صفحہ 79) اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 420 ( حضرت جویریہ صفحہ 80) -10 -11 -12 -13 -14 -15 صحابیات مبشرات ازواج مطہرات صحابیات انسائیکلو پیڈیا ( صفحہ 206) بخاری کتاب الحیض باب حل تصلى المرأة في ثوب حاضت فيه الفضل 25 جون 2004ء ہادی علی صاحب کے مضمون سے استفادہ سورہ احزاب آیت (29، 30 ) ترندی کتاب الزید باب فی توکل علی اللہ صحیح بخاری جلد 1 (صفحه 267)،سیر اصحابیات جلد دہم (صفحہ 81) 16 - رحمۃ اللعالمین جلد دوم صفحہ 217 ، امت کی مائیں (صفحہ 19) -17 -18 -19 -20 -21 بخاری بروایت مشکوۃ باب وفات الليه صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 400 سیر الصحابیات جلد دہم (صفحہ 81) تذکرہ صحابیات (صفحہ 80) تذکرہ صحابیات (صفحه 80) سيرة الصحابيات جلد دہم (صفحہ 80)
رض حضرت جویریہ (Hadrat Juvairiyah") Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.ISBN: 1 85372 984 1