JanatKaDarwaza

JanatKaDarwaza

جنت کا دروازہ

والدین کی خدمت اور اطاعت
Author: Other Authors

Language: UR

UR
اخلاقیات

فاضل مصنف نے خدمت والدین کے اہم موضوع پر کمال محنت سے دلنشین کتاب مرتب کی ہے۔ اور عصر حاضر میں انسانی معاشروں میں جنم لینے والے ایک المیہ کے متعلق درست ترین رہنمائی مہیا فرمائی ہے۔محترم عبدالسمیع خان صاحب کا یہ مؤثر مضمون ’’الفضل ‘‘ میں آٹھ اقساط میں شائع ہواتھا، جسےبعد میں موضوع کی افادیت، اہمیت اور ضرورت کے تحت نہایت خوبصورتی سے کتابی شکل میں پیش کیا گیا ہےتا اکرام والدین کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کے احکامات ، اسوہ رسول پاک ﷺ اور بزرگان کے دلکش عملی نمونوں پر مشتمل یہ ضروری پیغام ہر گھر تک باآسانی پہنچ سکے اور علم میں اضافے سے عمل کی ترغیب پیدا ہو۔


Book Content

Page 1

جنت کا دروازه والدین کی خدمت اور اطاعت پاکیزہ تعلیم اور دلکش نمونے

Page 2

رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيرًاة ترجمہ: بنی اسرائیل : ۲۵ اے میرے رب ان پر مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی.2

Page 3

Olaso B 0 الدین کی خدمت اور اطاعت پاکیزہ تعلیم اور دلکش نمونے

Page 4

بسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيم پیش لفظ بفضلہ تعالی الجنہ اماء الله کو جشن تشکر کے سلسلے کی توبہ دین کتاب "جنت کا دروازہ ، پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے.نے خدمت والدین کے اہم موضوع پر کمال محنت سے دلنشین کتاب مرتب کی ہے.فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء ماں محترم کا یہ موثر مضمون الفضل میں آٹھ اقساط میں شائع ہوچکا ہے.آپ کی خواہش پر موضوع کی افادیت ، اہمیت اور ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے، لجنہ کراچی نے کتابی صورت میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے.یہ کتاب کی منظوری کے بعد شائع ہو رہی ہے.ہماری دعا ہے کہ اکرام والدین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے احکام اور اسوہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بزرگوں کے نمونوں پڑشتمل یہ مضمون گھر گھر پہنچے تاکہ علم میں اضافے سے عمل کی ترغیب پیدا ہو.اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنی عبادت اور وحدانیت کے بعد والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے.واعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَ بِالْوَالِدَيْنِ إحسانا (النساء : ۳۷) اور تم اللہ کی عبادت کرد اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے

Page 5

ساتھ (بہت) احسان (کرو) قارئین کرام سے اُمید ہے کہ نہ صرف خود اس سے استفادہ کریں گے بلکہ اپنے بچوں کو بھی پڑھنے کی تاکید کریں گے تاکہ بچپن ہی سے ان کے دلوں میں والدین کی عزت قائم ہو.آج کل کے معاشرہ میں والدین کی عزت و خدمت کی طرف توجہ کم ہو رہی ہے میں سے معاشرہ میں کئی قسم کی برائیاں جنم لے رہی ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا اور والدین کی خوشنودی حاصل کرنے کی توفیق دے مطمئن و مسرور دل سے نکلی ہوئی دعائیں حاصل کریں.آمین.اور ان کی معاونات ہماری دعاؤں کی مستحق ہیں جو دینی تعلیم و تربیت کے لئے مفید سے مفید تر کتب مہیا کرتی رہتی ہیں.اللہ تعالیٰ خود ان کی جز ابن جائے.آمین اللهم آمین

Page 6

نمبر شمار داخله 1 فہرست مضامین عناوین 2 باب اول والدین کے احسانات 3 باب دوم خدمت کے بلند نمونے 4 باب سوم معروف اطاعت 5 باب چہارم والدین کیلئے دعا صفحہ نمبر 2 4.19 31 52 6 باب پنجم جنت ماں کے قدموں تلے ہے 70 7 باب ششم والدین کی طرف سے خدا کا شکر 84 8 باب ہفتم خدمت والدین کا بلند مقام 9 باب ہشتم خدمت والدین کی برکات 91 102 10 باب نہم وفات کے بعد خدمت والدین 107 11 باب دہم اطاعت کے دائرے 12 حاصل کلام 113 134

Page 7

2 داخله خدا کی تو حید اور عبادت کے قیام کے بعد انسان پر سب سے بڑا حق اس کے والدین کا ہے یہی وہ ہستیاں ہیں جن کے ذریعہ ایک فرد اس دنیا میں داخل ہوتا ہے اور یہی وہ وجود ہیں جن کی خدمت اور معروف اطاعت کے ساتھ انسان خدا کی رضا کی جنت میں داخل ہو سکتا ہے.اس لئے والدین بجاطور پر دنیا کا بھی دروازہ ہیں اور جنت کا بھی دروازہ ہیں.اسی بات کی وضاحت اس کتا بچہ میں قرآن و حدیث ارشادات حضرت مسیح موعود و خلفاء سلسلہ اور قابل اطاعت ہستیوں کے پاکیزہ کردار کی جھلکیوں سے کی گئی ہے.میں شائع ہوا تو بہت سے دوستوں نے اسے یکجا کرنے کی تحریک کی میں کا ممنون ہوں جن کی توجہ اور محنت سے یہ کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے لئے جنت کا یہ دروازہ بھی کھول دے اور ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم اپنی اولاد کے لئے بن جائیں.آمین

Page 8

3 ماں میاں گلدستہ حیات کا سب سے دلکش پھول ماں جس کا تصور کرتے ہی ہونٹوں پر مسکراہٹ اور روح میں مٹھاس گھلنے لگتی ہے.یاں خدا کی طرف سے انسانیت کے لئے حسین ترین تحفہ ہاں جس کے قدموں تلے جنت ہے باپ :باب: جو انسان کو خلعت وجود بخشتا ہے 1111 باپ جس کے ساتھ انسان کا رزق وابستہ ہے باپ جو ساری زندگی اولاد کی خوشیوں کے لئے لٹا دیتا ہے باپ جس کی رضا مندی میں خدا کی رضا مندی ہے کیا ان ماں باپ کا احسان کوئی اتار سکتا ہے

Page 9

4 باب اوّل والدین کے احسانات ☆ کسی کو خدا کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ بہت احسان کرو ☆ (قرآن) کوئی بیٹا اپنے والد کے احسانات کا بدلہ نہیں اتار سکتا ☆ (حدیث نبوی) خدمت والدین کی برکات اور ان کے احترام کا عالمی منشور

Page 10

5 احسان نہیں اتر سکتا حضرت ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:.لا يَجْزِى وَلَد وَالِداً إِلَّا أَن يَجِدَهُ مَمْلُوكًا فَيَشْتَرِيهِ فَيُعْتِقَهُ (صحیح مسلم کتاب الحق باب فضل حق الوالد حدیث نمبر 2779) یعنی کوئی بیٹا اپنے والد کے احسانات کا بدلہ نہیں اتار سکتا سوائے اس کے کہ باپ کسی کا غلام ہو.اور بیٹا اسے خرید کر آزاد کر دے.علامہ شہاب الدین احمد قلیو بی شافعی رحمہ اللہ (1069ھ ) تحریر فرماتے ہیں.ایک بزرگ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک بوڑھی عورت کو کندھے پر اٹھائے بیت اللہ کا طواف کر رہا ہے بزرگ نے اس شخص سے عورت کے متعلق استفسار کیا تو اس نے بتلایا کہ یہ میری ماں ہے اور میں سات برس سے اسی طرح اٹھائے ہوئے ہوں.میرے آقا یہ بتلائیے کہ کیا میں نے اس کا حق ادا کر دیا ہے وہ بزرگ بولے نہیں ہرگز نہیں اگر تمہاری عمر ہزار برس بھی ہو جائے اور تم اسے اسی طرح اٹھائے رہو تو تمہارا یا اٹھانا ان راتوں میں سے ایک رات کے برابر بھی نہیں ہو سکتا جس میں تمہاری والدہ تمہیں گود میں لیکر کھڑی رہی تھی اور تمہیں اپنے پستانوں سے دودھ پلا رہی تھی.( علمی ادبی تاریخی جواہر پارے.از نعیم الدین ناشر مکتب الخیر اردو بازار لاہور ) امر واقعہ یہ ہے کہ انسان نہ اللہ کا احسان اتار سکتا ہے نہ والدین کا کیونکہ وہ زمین پر خدا کی خالقیت اور ربوبیت کے بہترین مظہر ہیں.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی توحید اور عبادت کے قیام کے ساتھ ہی والدین کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہے.

Page 11

6 قیام تو حید اور برالوالدین اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاعْبُدُوا الله وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (النساء:۳۷) اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو.قرآن کریم کی اس آیت اور دیگر کئی آیات میں توحید اور عبادت کے قیام کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے.اور ان دونوں امور کا آپس میں گہرا تعلق ہے.خدا تعالیٰ تو کل کائنات کا خالق و مالک ہونے کی وجہ سے شکر نعمت کا مستحق ہے اور ضروری طور پر ہر انسان کے لئے اس کے والدین ایک محدود دائرہ میں ربوبیت کا فرض سرانجام دیتے ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے رحم" کو اپنے مقدس نام رحمان سے تخلیق کیا ہے.حضور ﷺ نے فرمایا.قَالَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَا اللهُ وَأَنَا الرحمنُ خَلَقَتُ الرَحِمَ وَشَقَقْتُ لَهَا مِنْ اِسْمِي فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَهَا بَتَتْهُ (جامع ترمندى كتاب البر والصلة باب فى قطيعة الرحم حديث نمبر 1830) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اللہ ہوں اور میرا نام رحمان بھی ہے میں نے رحم کو پیدا کیا ہے اور میں نے اسے اپنے نام رحمان سے بنایا ہے جو اس سے تعلق جوڑے گا میں اس سے تعلق جوڑوں گا اور جو اسے کاٹے گا میں اس سے قطع تعلقی کرلوں گا.اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.

Page 12

7 لا يدخُلُ الجَنَةَ قَاطِعُ ( صحیح بخاری کتاب الادب باب اثم القاطع حديث نمبر 5525) یعنی قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا.سب سے بڑا گناہ انسان کمزوریوں کا خطاؤں کا پتلا ہے.اپنی محدود زندگی میں بے شمار گناہ کرتا ہے.لیکن ان گناہوں کو اپنی شدت اور شناعت کے لحاظ سے ترتیب دیا جائے تو سب سے بڑا گناہ شرک اور والدین کی نافرمانی ہے.چنانچہ جب اللہ تعالی نے حرام امور کا حقیقی خلاصہ بیان فرمایا تو انہی دونوں امور پر مشتمل تھا.باقی سب تفاصیل ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِحْسَانًا قُلْ تَعَالَوا اتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُم عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ (الانعام: ۱۵۲) تو کہہ دے آؤ میں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کر دیا ہے (یعنی) یہ کہ کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور ( لازم کر دیا ہے کہ ) والدین کے ساتھ احسان سے پیش آؤ.سیدنا حضرت خلیق مسیح الرابع ایدہ اللہ بن رو اعز یز اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں.کہ اس آیت کو بعینہ ظاہری لفظوں میں دیکھا جائے تو یہ مطلب بنے گا.(.) تم پر حرام کر دیا ہے اللہ نے کہ خدا کا شریک ٹھہراؤ یاد نیاوی تعلقات میں والدین کا شریک ٹھہراؤ کیوں کروایا احسانا“.احسان کے پیش نظر کیونکہ اللہ کا بھی ایک ایسا احسان

Page 13

8 ہے تم پر جس میں کوئی کائنات میں اور شریک نہیں ہے بلکہ ساری کائنات اس کے احسان کا ایک مظہر ہے.تم پر احسان کیا تو کائنات وجود میں آئی تم پر احسان کرنا مقصود تھا تو کائنات کو پیدا کیا گیا تو اتنے بڑے احسان کے بدلے اگر تم اس کے شریک ٹھہرانے لگو تو اس سے زیادہ بے حیائی اور ناشکری ممکن ہی نہیں ہے.اور تمہیں وجود کی خلعت بخشی ماں باپ نے ماں باپ نہ ہوں تو تمہاری دنیا وجود میں نہ آئے.تو یہ دونوں اقدار مشترک ہیں.مشترکہ اقدار ہیں.خدا تعالی کی تخلیق میں اور ماں باپ کے اپنے بچوں کو پیدا کرنے میں یہ دونوں قدر مشترک ہیں اور جو احسان فراموش ہیں وہ تو یہ بھی کہہ دیتے ہیں ہم نے کب خدا سے کہا تھا کہ ہمیں پیدا کر و.اگر اپنی خاطر پیدا کیا تھا جو کچھ بھی کیا تو اس لوتھڑے کو سینے سے لگائے کیوں پھرے.کیوں اس کی تکلیفیں برداشت کیں.کیوں اس کو پال پوس کر پیار سے جو چیزیں اپنے اوپر خرچ کر سکتے تھے اپنی ذات کی قربانی کی ان پر خرچ کئے بچپن سے کتنے نخرے برداشت کئے.یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اپنی خاطر نہیں کیا.تمہاری خاطر ہی کیا ہے.اور احسان جو ہے وہ ان دونوں صورتوں میں بے مثال ہے کسی اور رشتے میں وہ احسان دکھائی نہیں دیتا جو خدا کے احسان سے مشابہ ہو جو ماں باپ اور بچے کے رشتے میں دکھائی دیتا ہے پس یہ وہ مضمون ہے اگر آپ غور کریں اس پر تو بڑے عظیم مطالب اس سے نکلتے ہیں.بنیادی طور پر احسان فراموشی کو سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا ہے.بنیادی طور پر احسان نا فراموشی کی تاکید فرمائی گئی یا احسان فراموشی کو حرام کر دیا.خطبہ جمعہ 24 جنوری 97 ، مطبوع الفضل انٹر نیشنل 14 مارچ 1997ء) اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ والدین کا شکر بھی لازم کر دیا ہے فرمایا:.وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِضَلُهُ فِي

Page 14

9 عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرُ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَى الْمَصِير (لقمان: 15) اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے حق میں تاکیدی نصیحت کی.اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری میں اٹھائے رکھا.اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں (مکمل) ہوا.(اُسے ہم نے یہ تاکیدی نصیحت کی کہ میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی.میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے.اسی لئے حضور نے فرمایا کہ والدین کی خدمت اور اطاعت کر کے انسان جنت میں داخل ہو سکتا ہے.صحیح مسلم میں حضرت ابوھریرہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا اس کی ناک خاک آلود ہو اس کی ناک خاک آلود ہو اس کی ناک خاک آلود ہو صحابہ نے عرض کیا: کس کی؟ فرمایا: وہ شخص جس نے اپنے ماں باپ دونوں میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی عمر میں پایا اور پھر جنت میں داخل نہ ہو سکا.(صحیح مسلم كتاب البر والصلة باب رغم انف من ادرک ابویه حدیث نمبر 4627) رمضان اور والدین یہی مضمون آنحضرت ﷺ نے رمضان کے تعلق میں بیان فرمایا ہے.رمضان جس کے مقاصد سارے قرآن کریم کا خلاصہ ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ اور والدین کو خوش کر کے جنت الفردوس حاصل کرو.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں.رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ رَمَضَانُ فَانْسَلَخَ قَبْلَ أَنْ يُغْفَرَلَهُ وَرَغِمَ أَنفُ رَجُلٍ أَدْرَكَ عِنْدَهُ أَبَوَاهُ الكَبَرَ فَلَمْ يُدْخِلَاهُ الجِنَّةَ (مسند احمد حدیث نمبر 7139)

Page 15

10 10 وہ آدمی بڑا بد قسمت ہے جس کی زندگی میں رمضان آیا اور گزر گیا قبل اس کے کہ اس کے گناہ بخشے جائیں.اور وہ آدمی بھی بڑا بد قسمت ہے جس نے اپنے والدین کو اپنے پاس بڑھاپے کی حالت میں پایا اور انہوں نے (اس کی خدمت کی وجہ سے ) اسے جنت میں داخل نہ کرایا.سید نا حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.والدین کی خدمت ایک بڑا بھاری عمل ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بد قسمت ہیں.ایک وہ جس نے رمضان پایا اور رمضان گزر گیا اور اس کے گناہ نہ بخشے گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اور والدین گزر گئے اور اس کے گناہ نہ بخشے گئے.والدین کے سایہ میں جب بچہ ہوتا ہے تو اس کے تمام ہم وغم والدین اٹھاتے ہیں.جب انسان خود دنیوی امور میں پڑتا ہے تب انسان کو والدین کی قدر معلوم ہوتی ہے.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 289) سیدنا حضرت خلیفة المسیح الرابع ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.حضرت رسول اللہ ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ رمضان شریف میں دو آدمی بڑے بد قسمت ہیں جو نہ خدا کو پاسکیں نہ ماں باپ کا کچھ کر سکیں رمضان گزر جائے اور ان دو پہلوؤں سے ان کے گناہ نہ بخشے گئے ہوں تو یہ دو الگ الگ چیزیں نہیں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط چیزیں ہیں.وجہ یہ ہے کہ اللہ کا سب سے بڑا احسان ہے اور اس احسان میں اور کوئی شریک نہیں ہے.یعنی اس نے آپ کو پیدا کیا اس نے سب کچھ بنایا اور ماں باپ بھی اس میں شریک ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ ماں باپ کو بھی اسی نے بنایا اور ماں باپ کو جو توفیق بخشی آپ کو پیدا کرنے کی وہ اسی نے پیدا کی.اپنے طور پر تو کوئی

Page 16

11 کسی کو پیدا کر ہی نہیں سکتا اپنے زور سے ایک معمولی سا خون کا لوتھڑا بھی انسان پیدا نہیں کر سکتا اگر خدا تعالی نے اس کو ذرائع نہ بخشے ہوں.تو پہلا مضمون یہ ہے کہ اللہ خالق ہے اس لئے اس کا شریک ٹھہرانے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے.اور سب سے بڑا ظلم ہے کہ خدا جس نے سب کچھ بنایا ہو اس کو نظر انداز کر کے نعمتوں کے شکریے دوسروں کی طرف منسوب کر دئے جائیں.پھر اس تخلیق کا اعادہ ماں باپ کے ذریعے ہوتا ہے اور پھر ماں باپ کے ساتھ آپ کا وجود بنتا ہے.اگر ایک تخلیق کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ احسان کا سلوک کریں گے تو جو عظیم خالق ہے لازما اس کے لئے بھی دل میں امتنان اور احسان کے جذبات زیادہ زور کے ساتھ پیدا ہوں گے اور پرورش پائیں گے پس یہ دو مضمون جڑے ہوئے ہیں.جو ماں باپ کے احسان کا خیال نہیں کرتا اور جوابا ان سے احسان کا سلوک نہیں کرتا اس سے یہ توقع کر لینا کہ وہ اللہ کے احسانات کا خیال کرے گا.یہ بالکل دور کی کوڑی ہے.پس ماں باپ کا ایک تخلیقی تعلق ہے جسے اس مضمون میں ظاہر فرمایا گیا ہے.اور رمضان مبارک میں اللہ تعالیٰ نے رمضان کا مقصد خداتعالی کو پانا قرار دے دیا ہے اور خدا تعالیٰ کو حاصل کرتا بنیادی مقصد بیان فرمایا ہے.پس اس تعلق سے حضرت رسول اللہ ہے جو سب سے زیادہ قرآن کا عرفان پلائے گئے آپ نے یہ مضمون ہمارے سامنے اکٹھا پیش کیا کہ رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتے وقت ہر قسم کے محسنوں کا احسان اتارنے کی کوشش کرو.ماں باپ کا احسان تو تم اتار سکتے ہو ان معنوں میں کہ تم مسلسل ان سے احسان کا سلوک کرتے رہو.عمر بھر کرتے رہو.اگر احسان نہ بھی اترے تو کم سے کم تم ظالم اور بے حیا نہیں کہلاؤ گے.تمہارے اندر کچھ نہ کچھ یہ طمانیت پیدا ہوگی کہ ہم نے اتنے بڑے حسن اور محسنہ کی کچھ خدمت کر کے تو اپنی ما الله

Page 17

12 طرف سے کوشش کر لی ہے کہ جس حد تک ممکن تھا ہم احسان کا بدلہ اتار دیں.اللہ تعالیٰ کے احسان کا بدلہ نہیں اتارا جا سکتا اور ایک ہی طریق ہے کہ ہر چیز میں اپنی عبادت کو اس کے لئے خالص کر لو اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ.(خطبہ جمعہ 17 جنوری 1997 ء مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 7 مارچ 1997ء) حضرت ابو امامہ سے روایت ہے ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے فرمایا.وہ دونوں تیری جنت اور دوزخ ہیں.(سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب بر الوالدین حدیث 3652) ایک اور روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الوالدُ أَوْسَطُ ابواب الجنةِ فَاضِعُ ذلك البابَ أَواحُفَظْهُ (سنن ترمذی كتاب البر والصله باب في الفضل في رضا الوالدين حديث 1822) والد جنت میں داخلے کا بہترین دروازہ ہے.اب تو چاہے تو اس دروازہ کو اکھاڑ دے یا اسے محفوظ رکھ.شرک اور والدین کی نافرمانی حضرت ابوبکر " بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.إلا أنبئكم بأكبر الكَبَائِرِ ثَلاثًا قَالُوابَلَى يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ الاِشْرَاك بِاللهِ وَعُقُوق الوالدينِ وجَلَسَ وَكَانَ متكنًا فَقَالَ أَلَا وَقُولِ الزُورِ قَالَ فَمَازَالَ يُكَبِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ.( صحیح بخاری کتاب الشهادات باب في شهادة الزور حديث 2460)

Page 18

13 یعنی حضور نے تین بار فرمایا کیا میں تمہیں بڑے بڑے گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ضرور بتائیں.آپ نے فرمایا اللہ کا شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا.پھر آپ جوش میں آ کر بیٹھ گئے اور فرمایا سنو خبر دار جھوٹ نہ بولنا.آپ نے اس بات کو اتنی دفعہ دہرایا کہ ہم نے چاہا کاش حضور خاموش ہو جائیں.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایده بنصرہ العزیزان بیان کردہ تینوں امور کا تعلق بیان کرتے ہوئے فرمایا ہیں.جھوٹ سب گناہوں کی جڑ ہے.شرک بھی جھوٹ کا ہی نام ہے اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا بھی ایک جھوٹ ہے.یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ہر شرک کی جڑ اپنے اندر رکھتی ہے ہر نا شکری کی جڑ اپنے اندر رکھتی ہے پس توحید کے منافی ایک ایسا گناہ ہے جو تو حید کے ہر پہلو سے اس کی حقیقت کو چاٹ جاتا ہے کچھ بھی باقی نہیں رہتا اور احسان مندی احسان کے خیال یا شکر گزاری کے جذبات کو بھی کلیہ چٹ کر جاتا ہے.جھوٹے لوگ نہ اپنے ماں باپ کے ہوتے ہیں نہ خدا کے ہوتے ہیں.ماں باپ کا ذکر خدا کے بعد اس تعلق میں بیان فرمایا گیا ہے اس نسبت سے بیان فرمایا گیا ہے کہ سب سے بڑا رشتہ تخلیق کا رشتہ ہے.خدا چونکہ خالق ہے اس لئے سب سے زیادہ اس کا حق ہے اور خدا کے بعد چونکہ ماں باپ تخلیق کے عمل میں بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ حصہ لیتے ہیں تمام رشتوں میں سب سے زیادہ تخلیقی عمل میں حصہ لینے والے ماں باپ ہوتے ہیں اس لئے خدا کے بعد اگر کسی کا حق ہے تو ماں باپ کا ہے اور جھوٹ ان دونوں کو تلف کر دیتا ہے.خطبہ جمعہ 24 مئی 1996 مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 12 جولائی 1996ء)

Page 19

14 والدین کے حقوق کا اتلاف اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا بھیا تک ہے کہ بعض دفعہ وہ شرک کو تو معاف کر دیتا ہے مگر عقوق والدین کو معاف نہیں کرتا.حضور ﷺ نے فرمایا.اللہ تعالیٰ سب گناہ دیتا ہے سوائے والدین کی نافرمانی کے.وہ اس فعل کے مرتکب کو مرنے سے پہلے زندگی میں ہی سزا دیتا ہے.(مشكوة كتاب الادب باب البر والصلة) اس ضمن میں یہ عبرتناک حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک شخص نے اپنے بوڑھے والد کو غصہ میں آ کر گھر سے دور دریا کے کنارے پھینک دیا.اس عرصہ بعد جب اس کا بیٹا جوان ہوا تو وہ اسی شخص کو اٹھا کر دریا کے قریب پھینکنے کے لئے جارہا تھا.جب کنارے پر پہنچا تو اس شخص نے کہا مجھے ذرا آگے کر کے پھینکنا کیونکہ اس جگہ تو میں نے اپنے باپکو پھینکا تھا اور تمہارا بیٹا تمہیں اس سے آگے جا رپھینکے گا.حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع اید واللہ فرماتے ہیں.ماں باپ کے متعلق جو حسن سلوک کی تعلیم ہے کوئی ایک بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا دونوں پانچ جائیں اس سلسلہ میں لوگوں میں کچھ حکایتیں بھی مشہور ہیں اور کچھ حکایتیں ایسی بھی ہیں جو واقعات پر مبنی ہیں.ان لوگوں کے نام لئے بغیر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بعض لوگ اپنے بوڑھے باپ سے ایسا سلوک بھی کرتے ہیں کہ اس کو نوکروں کے کوارٹروں میں جگہ دیتے ہیں.اس کے لئے اپنے پھٹے پرانے کپڑے رکھتے ہیں تا کہ وہ کسی غریب کو صدقہ دینے کی بجائے اپنے باپ کو دے دیں.ایسا ہی ایک واقعہ یہ مشہور

Page 20

15 ہے کہ ایک باپ کو اپنا بچہ بہت پیارا تھا.ایک دفعہ اس نے اس کے کمرے کی تلاشی لی دیکھا کہ کیا جمع کرتا ہے.اس میں بہت پھٹے پرانے بڑے سائز کے کپڑے پڑے ہوئے تھے.تو باپ نے حیرت سے پوچھا:.بیٹا ! تم نے اپنے کمرے میں یہ کیا گند جمع کیا ہوا ہے.اس نے کہا یہ آپ کے لئے ہے.جس طرح آپ نے میرے دادا کے لئے گندے کپڑے رکھے ہوئے تھے تو میں نے کہا وہی سلوک آپ سے ہونا چاہئے.جب آپ بڑی عمر کو پہنچیں گے تو آپ کو میں یہی کپڑے پہناؤں گا جو آپ میرے دادا کو پہنایا کرتے تھے.تو یہ ایک سبق آموز بات ہے.لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے واقعۂ لوگ اپنے باپ سے اور بعض دفعہ اپنی ماؤں سے ایسا سلوک کرتے ہیں جو نہایت تا قابل برداشت ہے.تو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی یہ نصیحت میں ان کو پہنچا دیتا ہوں کہ اگر تم نے ماں باپ یا دونوں کے قدموں سے جنت نہ لی تو ساری عمر ضائع کر دی اور اس کے متعلق ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ اگر رمضان گزر جائے اور کوئی شخص جنت نہ کما سکے اس پر بھی تف ہے.پس ابھی رمضان بھی گزرا ہے اس کے پس منظر میں یہ بھی یادر کھیں کہ ماں باپ کی خدمت کی جتنی توفیق مل سکے اور ضرور کریں.باپ کے متعلق تو کہہ سکتے ہیں کہ بعض دفعہ وہ اولاد پرختی بھی کرتا ہے نا ئیں بھی کرتی ہیں مگر جیسا دل ماں کا نرم ہے ایسا بچے کے لئے اور کسی کا دل نرم نہیں ہوتا.سورۃ دھرآیت 9 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الفضل ربوه 2 مئی 2000ء ) ويطعمون الطعام على حبه مسكينا ويتيما و اسيرا اور وہ کھانے کو اس کی چاہت کے ہوتے ہوئے مسکینوں اور قیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں.

Page 21

16 حضرت مسیح موعود اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں.اس آیت میں مسکین سے مراد والدین بھی ہیں کیونکہ وہ بوڑھے اور ضعیف ہو کر بے دست و پا ہو جاتے ہیں اور محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالنے کے قابل نہیں رہتے اس وقت ان کی خدمت ایک مسکین کی خدمت کے رنگ میں ہوتی ہے اور اسی طرح اولا د جو کمزور ہوتی ہے اور کچھ نہیں کر سکتی اگر یہ اس کی تربیت اور پرورش کے سامان نہ کرے تو وہ گویا یتیم ہی ہے پس ان کی خبر گیری اور پرورش کا تہیہ اسی اصول پر کرے تو لملفوظات جلد 3 صفحہ 599) ثواب ہوگا.سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع اس تسلسل میں فرماتے ہیں.یہ ایک بہت ہی عارفانہ نکتہ ہے جو پہلے کسی عالم کو نہیں سوجھا کہ اس میں مسکین سے مراد والدین بھی ہیں.جو اپنی دلی مسکینی اور عاجزی کی وجہ سے بچوں سے کچھ مطالبہ نہیں کرتے، کچھ نہیں کہتے کہ ان کو کیا ضرورت ہے.تو ایسے بچوں کو چاہئے کہ خود اپنے والدین کی احتیاجوں اور ضرورتوں پر نگاہ رکھیں اور ان کی ہر ضرورت کو ان کے مانگنے سے پہلے دے دیا کریں.کیونکہ مسکین وہ ہے جو مانگتا نہیں، غربت اور بد حالی کے باوجود مانگتا نہیں.اور ان کے اس تعفف کی وجہ سے بعض لوگ ان کو اغنیاء سمجھ لیتے ہیں.تو سب سے پہلے تو ماں باپ کی ضرورتوں پر دھیان ہونا چاہئے.ان کو موقعہ ہی نہیں دینا چاہئے کہ ان کو مانگنے کی ضرورت پڑے اور مسکین سمجھتے ہوئے یعنی دل کے مسکین سمجھتے ہوئے ان کی ضرورت کو مانگنے سے پہلے ہی پورا کر دینا چاہئے.الفضل 2 مئی 2000ء)

Page 22

17 احترام والدین کا عالمی منشور اسلام ایک ایسا فطری مذہب ہے کہ اس نے والدین کی عزت کے معاملہ کو انسانی بنیاد پر عالمگیر بنا دیا ہے.اور صرف اپنے والدین نہیں دوسروں کے والدین کی عزت کو بھی قائم کیا ہے اور چونکہ انسانوں کی بھاری اکثریت والدین بنتی ہے اس لئے در حقیقت اس حکم کے ذریعہ دین نے عالمی صلح و امن کے لئے عظیم الشان بنیاد میں قائم کر دی ہیں.حضرت نبی اکرم ﷺ نے فرمایا.ایک بہت بڑا گناہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے.حضور سے عرض کیا گیا کہ کوئی شخص اپنے والدین پر کس طرح لعنت کر سکتا ہے.آپ نے فرمایا.جب کوئی شخص دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ جواہا اس کے والد کو گالی دیتا ہے.اور جب کوئی کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ جوابا اس کی ماں کو گالی دیتا ہے.اس طرح آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دینے والا بن جاتا ہے ) بخاری کتاب الادب باب لا يسب الرجل والده حديث 5516) اس حکم کی بنیاد اس حکم قرآنی پر ہے کہ مخالفین کے غیر اللہ معبودوں کو بھی برا بھلا نہ کہو ورنہ وہ دشمنی اور جہالت کی وجہ سے اللہ کو گالیاں دینی شروع کر دیں گے.(انعام.109) ان دونوں حکموں کے ذریعہ بھی توحید اور والدین کے حقوق کے باہمی گہرے رابطہ پر روشنی پڑتی ہے.

Page 23

اسی لئے فرمایا.18 اگر کوئی کسی دوسرے کے ماں باپ کو گالیاں دے گا تو اپنے ماں باپ کی عزت نیلام کرنے والا ہو گا.اس لئے والدین کی عزت برقرار رکھنے کے لئے دوسروں کے والدین کا احترام ضروری ہے.اس طرح والدین کی حرمت کے قیام کے ذریعہ اسلام نے عالمی امن اور صلح کی مضبوط بنیاد میں قائم کر دی ہیں.

Page 24

19 باب دوم خدمت کے بلند نمونے ☆ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رضاعی والدہ کو چالیس بکریاں اور مال سے لدا ہوا اونٹ عطا فرمايا - ☆ رضاعی والدہ کے قبیله کی درخواست پر حضور نے چه هزار قیدیوں کو رہا کر دیا.☆ حضرت اسامہ نے والدہ کی خواہش پر قیمتی درخت قربان کر دیئے.

Page 25

20 20 ابدی حکم والدین کی عزت اور اطاعت کا حکم قرآن کریم سے خاص نہیں بلکہ کتب قیمہ کا حصہ ہے یعنی ان ابدی احکامات کا جو ہمیشہ سے انسان کو عطا کئے گئے ہیں.مثال کے طور پر قرآن کریم بنی اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.إِحْسَانًا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.بنی اسرائیل کو نصیحت وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَينِ (البقره: ۸۴) یعنی جب ہم نے بنی اسرائیل کا میثاق (ان سے) لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے اور والدین سے احسان کا سلوک کرو گے.اس ارشاد کی تفصیل کے لئے جب بائبل کی طرف رجوع کریں تو ان احکام پر نظر پڑتی ہے.خروج باب 20 آیت 12 میں لکھا ہے:.تو اپنے ماں باپ کو عزت دے تا کہ تیری عمر اس زمین پر جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے دراز ہو دے.ہے:.اسی طرح استثناء باب 21 آیت 18 تا 21 میں بھی اس کا ذکر بنتا ہے.لکھا اگر کسی آدمی کا بیٹا گرون کش اور گرا ہو جو اپنے باپ اور اپنی ماں کی آواز کو نہ سنے اور وے ہر چندا سے تنبیہ کریں پر وہ ان پر کان نہ لگاوے.تب اس کا باپ

Page 26

21 اور اس کی ماں اسے پکڑیں اور باہر لے جاکر اس شہر کے بزرگوں کے پاس اور اس جگہ کے دروازے پر لائیں اور وے اس شہر کے بزرگوں سے عرض کریں کہ یہ ہمارا بیٹا گردن کش اور گمراہ ہے ہرگز ہماری بات نہیں مانتا.بڑا ہی کھاؤ اور متوالا ہے.تو اس کے شہر کے سب لوگ اس پر پتھراؤ کریں کہ وہ مر جائے تو شرارت کو اپنے درمیان سے یوں دفع کیجیئو تاکہ سارا اسرائیل سنے اور ڈرے“.انبیاء کے پاکیزہ نمونے قرآن کریم نے ابنیاء کے پاکیزہ نمونے پیش فرمائے ہیں.حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم نے اپنی رویا کا ذکر حضرت اسماعیل سے کرتے ہوئے فرمایا اے میرے پیارے بیٹے یقیناً میں سوتے میں دیکھا کرتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس غور کر تیری کیا رائے ہے.اس نے کہا اے میرے باپ وہی کر جو تجھے حکم دیا جاتا ہے یقینا اگر اللہ چاہے گا تو مجھے تو صبر کرنے والوں میں سے پائے گا.(الصافات 103) اس طرح حضرت اسماعیل اپنے والد کی خواب پوری کرنے کے لئے گردن کٹانے کی خاطر تیار ہو گئے.والد کی اطاعت اور پھر اس کا عظیم الشان اجر ملنے کی یہ بے نظیر مثال ہے.حضرت یوسف علیہ السلام اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب حضرت یوسف کے والدین اور بھائی یوسف کے

Page 27

22 سامنے پیش ہوئے تو اس نے اپنے والدین کو اپنے قریب جگہ دی اور کہا کہ اگر چاہے تو مصر میں امن کے ساتھ داخل ہو جاؤ.اور اس نے اپنے والدین کو عزت کے ساتھ تخت پر بٹھایا اور وہ سب اس کی خاطر سجدہ ریز ہو گئے.(سورۃ یوسف 100 101) حضرت یحییٰ علیہ السلام حضرت یحی" کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَبَراً بِوَالِدَيْهِ وَلَم يَكُن جَبَّارًا عَصِيّاً (مريم -15) وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا تھا اور ہر گز سخت گیر اور نا فرمان نہیں تھا.حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالی فرماتا ہے کہ حضرت عیسی نے فرمایا.وبرا بوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَارًا شَقِياً ( مریم -33) اللہ نے مجھے اپنی ماں سے حسن سلوک کرنے والا ( بنایا ) اور مجھے سخت گیر اور سخت دل نہیں بنایا.کامل وجود والدین کی خدمت کو کمال تک پہنچانے والا وجود حضرت اقدس محمد مصطفی نے کا تھا.آپ نے نہ صرف اس بارہ میں جامع احکامات دیئے بلکہ ایسے عملی نمونے پیش فرمائے جو تمام اقوام کے لئے ہر زمانہ میں مشعل راہ ہیں.

Page 28

23 اسوہ رسول آنحضرت ﷺ کے والد محترم تو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے.اور آپ چھ سال کے تھے کہ آپ کی والدہ محترمہ بھی رحلت فرما گئیں.اس طرح حضور ے کو تقدیر الہی کے ماتحت والدین کی براہ راست خدمت کا موقع تو نہیں ملا مگر ان کے لئے آپ کے دل میں محبت کے بے پناہ جذبات تھے جن کے ماتحت آپ مسلسل درد سے ان کے لئے دعائیں کرتے رہے.مگر ان کی خدمت کے جذبہ کی تسکین آپ نے رضاعی والدین کی خدمت کر کے حاصل کی.اور یہ نمونہ چھوڑا کہ اگر اصلی والدین زندہ ہوتے تو آپ ان کی خدمت میں کیا کیا کسر نہ اٹھا رکھتے.حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ.حضور ﷺ کی رضاعی والدہ حلیمہ مکہ میں آئیں اور حضور ﷺ سے مل کر قحط اور مویشیوں کی ہلاکت کا ذکر کیا.حضور ﷺ نے حضرت خدیجہ سے مشورہ کیا اور رضاعی ماں کو چالیس بکریاں اور ایک اونٹ مال سے لدا ہوا دیا.طبقات ابن سعد جلد اول صفحه 113) ایک خاتون نے جنہوں نے حضور علی کو دودھ پلایا تھا حضور ا کے پاس مثل آنے کی اجازت طلب کی جب وہ حضور ﷺ کے پاس آئیں تو حضور ﷺ نے امی امی کہتے ہوئے ان کے لئے اپنی چادر بچھائی جس پر وہ بیٹھ گئیں.(طبقات ابن سعد جلد 1 صفحہ 114) حضرت ابوالکفیل بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد حضور سے بھرانہ مقام پر

Page 29

24 صلى الله گوشت تقسیم فرما رہے تھے کہ ایک عورت آئی اور حضور علیہ کے قریب چلی گئی.حضور ے نے اس کی بہت تعظیم کی اور اس کے لئے اپنی چادر بچھا دی.میں نے پوچھا یہ عورت کون ہے تو لوگوں نے کہا یہ حضور علے کی رضاعی والدہ ہیں.(ابوداؤد کتاب الادب باب بر الوالدین حدیث 4477) حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ فرماتے ہیں..ماں کی عزت تو الگ بات ہے اپنی رضاعی والدہ کے لئے آنحضرت ﷺے اس قدر اپنے دل میں احترام رکھتے تھے اپنی چادر ان کے لئے بچھا دی.اگر ماں زندہ ہوتی تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ رسول اللہ نے کیا سلوک فرماتے.جو اپنی رضاعی والدہ کے لئے ایسا نرم گوشہ رکھتا ہے وہ اپنی حقیقی والدہ کے لئے تو بلاشبہ ایک مثالی بیٹا ثابت ہوتا مگر یہ مقدر نہیں تھا.اللہ اپنی حکمتوں کو بہتر جانتا ہے.(الفضل ربوہ 2 مئی 2000ء) ایک بار حضور اللہ تشریف فرما تھے کہ آپ کے رضاعی والد آئے.حضور ے نے ان کے لئے چادر کا ایک گوشہ بچھا دیا.پھر رضاعی ماں آئیں تو آپ نے دوسرا گوشہ بچھا دیا.پھر آپ کے رضاعی بھائی آئے تو آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو اپنے سامنے بٹھا لیا.(ابوداؤد کتاب الادب باب بر الوالدین حدیث (4479) حضرت حلیمہ سعدیہ سے بھی پہلے حضور ﷺ کو ابولہب کی لونڈی تویہ نے دودھ پلایا تھا.حضور ﷺ اور حضرت خدیجہ اس کا مکہ میں بہت خیال رکھتے.حضرت خدیجہ نے تو ابولہب سے اس کو خرید کر آزاد کرنا چاہا مگر ابولہب نے انکار کر دیا.جب حضور مدینہ تشریف لے گئے تو ابولہب نے اسے آزاد کر دیا.حضور نے ہجرت کے بعد بھی اس کے حالات سے خبر رکھتے اور کپڑوں وغیرہ سے مددفرماتے رہتے تھے.(طبقات ابن سعد جلد اوّل صفحہ 109 - بیروت 1960ء)

Page 30

25 جنگ حنین میں بنو ہوازن کے قریباً چھ ہزار قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے.ان میں حضرت حلیمہ کے قبیلہ والے اور ان کے رشتہ دار بھی تھے جو وفد کی شکل میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور ﷺ کی رضاعت کا حوالہ دے کر آزادی کی درخواست کی.آنحضرت ﷺ نے انصار اور مہاجرین سے مشورہ کے بعد سب کو رہا کر دیا.(طبقات ابن سعد جلد اوّل صفحہ 114.بیروت 1960 ء) صحابہ اور بزرگان امت کے نمونے آنحضرت نے کی تربیت کے نتیجہ میں صحابہ اور بعد میں آنے والے بزرگان نے بھی اس مضمون میں نئے عنوان قائم کئے.چند مثالیں پیش خدمت ہیں.حضرت اسامہ کے پاس کھجور کے کئی درخت تھے.ایک دفعہ کھجور کے درختوں کی قیمت غیر معمولی طور پر بڑھ گئی.انہی ایام میں حضرت اسامہ نے ایک درخت کا تنا کھوکھلا کر کے اس کا مغز نکلا اور اپنی والدہ کو کھلایا.لوگوں نے حضرت اسامہ سے کہا ان دنوں کھجور کی قیمت بہت چڑھی ہوئی ہے.آپ نے ایسا کر کے قیامت گرادی ہے.فرمایا یہ میری والدہ کی فرمائش تھی اور وہ جس چیز کا مطالبہ کرتی ہیں اگر وہ میرے بس میں ہو تو میں ضرور پوری کرتا ہوں.طبقات ابن سعد جلد 4 صفحہ 71 وار بیروت للطباعة - بيروت - 1957ء) ایک صحابی نے پیدل خانہ کعبہ تک آنے اور حج کرنے کی نذر مانی تھی مگر بڑھاپے کی وجہ سے وہ بغیر سہارے کے ایسا کرنے سے قاصر تھے.ان کے دونوں بیٹے ان کو سہارا دے کر حج کرانے کے لئے لائے.حضور ﷺ نے دیکھا تو ان صحابی سے فرمایا سوار ہو جاؤ.اللہ تعالی تمہارے اپنے نفسوں کو عذاب دینے سے منی ہے.مسلم كتاب النذر باب من نذر أن يمشى الى الكعبةحديث 3100)

Page 31

26 ایک صحابی نے اپنی والدہ کو ایک لونڈی حبہ کی.(سنن ابی داؤد کتاب الوصايا باب الرجل يهب الهبة حديث 2492) ایک صحابی نے کھجوروں کا ایک باغ اپنی والدہ کو تحفہ کے طور پر دیا اور والدہ کی وفات کے بعد ان کے نام پر صدقہ کر دیا.(ابوداؤد كتاب البيوع باب من قال فيه ولعقبه حديث 3087) حضرت امام ابو حنیفہ حضرت امام ابو حنیفہ کا نمونہ بھی لائق تقلید ہے.ان کے والد امام صاحب کے بچپن میں فوت ہو گئے تھے.لیکن والد و مدت تک زندہ رہیں اور امام کو ان کی خدمت گزاری کا کافی موقع ہاتھ آیا وہ مزاج کی شکی تھیں.اور جیسا کہ عورتوں کا قاعدہ ہے.واعظوں اور قصہ گویوں کے ساتھ نہایت عقیدت رکھتی تھیں.کوفہ میں عمرو بن زرقہ ایک مشہور واعظ تھے.ان کے ساتھ خاص عقیدت تھی.کوئی مسئلہ پیش آتا تو امام صاحب کو حکم دیتیں کہ عمرو بن زرقہ سے پوچھ آؤ.امام تعمیل ارشاد کے لئے ان کے پاس جا کر مسئلہ پوچھتے وہ عذر کرتے کہ آپ کے سامنے میں کیا زبان کھول سکتا ہوں.فرماتے کہ والدہ کا یہی حکم ہے".اکثر ایسا ہوتا کہ عمرو کو مسئلہ کا جواب نہ آتا تو امام صاحب سے درخواست کرتے کہ آپ مجھے کو بتادیں میں اسی کو آپ کے سامنے دہرا دوں.“ کبھی کبھی اصرار کرتیں کہ میں خود چل کر پوچھوں گی خچر پر سوار ہوتیں امام صاحب پا پیادہ ساتھ ہوتے.خود مسئلہ کی صورت بیان کرتیں اور اپنے کانوں سے جواب سن لیتیں.جب تسکین ہوتی.ایک دفعہ امام صاحب سے پوچھا کہ یہ صورت پیش آئی ہے.مجھ کو کیا کرنا چاہئے.امام صاحب نے جواب بتایا.بولیں تمہاری سند نہیں.زرقہ واعظ تصدیق کریں تو مجھ کو انتہار آئے.امام صاحب ان کو لے کر زرقہ کے پاس گئے اور

Page 32

27 مسئلہ کی صورت بیان کی.زرقہ نے کہا آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں.آپ کیوں نہیں بتا دیتے.امام صاحب نے فرمایا میں نے یہ فتویٰ دیا تھا زرقہ نے کہا کہ بالکل صحیح ہے.یہ سن کر ان کو تسکین ہوئی اور گھر واپس آئیں.ابن عبیرہ نے جب امام صاحب کو بلا کر میر نشی مقرر کرنا چاہا اور انکار کے جرم پر درے لگوائے.اس وقت امام صاحب کی والدہ زندہ تھیں.ان کو نہایت صدمہ ہوا.امام صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مجھ کو اپنی تکلیف کا چنداں خیال نہ تھا.البتہ یہ رنج ہوتا تھا کہ میری تکلیف کی وجہ سے والدہ کے دل کو صدمہ پہنچتا ہے.(سیرة ائمہ رابعہ صفحہ 73 از رئیس احمد جعفری غلام علی اینڈ سنز) رفقاء مسیح موعود حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد کی تقریری بطور مربی انگلستان ہوئی تو ان کی مخواہ سوروپے ماہوار تھی.چندے اور دوسری کٹوتیوں کے بعد انہیں ساٹھ روپے ماہوار ملتے تھے جس میں سے بڑا حصہ وہ اپنی والدہ کو بھیج دیتے تھے.(الفضل 18 دسمبر 1955 ء ) حضرت مسیح موعود کی خدمت میں ایک ضعیف العمر شخص غالبا وہ بیعت میں داخل تھا.اور اس کا بیٹا نائب تحصیلدار تھا.جو اس کے ساتھ حاضر ہوا.باپ نے شکایت کی کہ یہ میرا بیٹا میری یا اپنی ماں کی خبر گیری نہیں کرتا.اور ہم تکلیف سے گزارہ کرتے ہیں.حضور نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے یطعمون الطعام (.) اور اس میں کیا شک ہے.کہ جب کوئی شخص اپنے ماں باپ اور اولاد اور بیوی کی خبر نہ لے.تو وہ بھی اس حکم کے نیچے مساکین (ماں باپ) بیتای ( بچے ) اسیر (بیوی) میں داخل ہو جاتے ہیں.تم خدا تعالیٰ کا یہ حکم مان کر

Page 33

28 ہی آئندہ خدمت کرو تمہیں ثواب بھی ہوگا اور ان کی خبر گیری بھی ہو جائے گی.اس نے عہد کیا کہ آج سے میں اپنی کل تنخواہ ان کو بھیج دیا کروں گا.یہ خود مجھے میرا خرچ جو چاہیں بھیج دیا کریں.پھر معلوم ہوا کہ وہ ایسا ہی کرتا رہا.ہیں.رفقائے احمد جلد 4 صفحہ 101 ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان) سگے بیٹوں سے بڑھ کر حضرت مولوی ابوالمبارک محمد عبد اللہ صاحب رفیق حضرت مسیح موعود فرماتے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مجھے اپنے سوتیلے والد خواجہ امیر الدین صاحب (مدفون بهشتی مقبر و قادیان.دمیت نمبر 1895 جو میرے والد صاحب کے ماموں زاد بھائی تھے) کی خدمت کا بھی بہت موقع ملا.آپ لاولد تھے.جب آپ بوڑھے ہو گئے اور کسی قسم کا کام کرنے کے قابل نہ رہے تو ان کی تیمارداری اور ہر قسم کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی.ان کی زندگی کے آخری سالوں میں میں گورنمنٹ ہائی سکول پسرور میں تعینات تھا.میں بعض اوقات ان کے کھانے کے لئے 20-20 سیر ساگودانہ قادیان لے جاتا تھا کیوں کہ عام کھانا ان کو بہضم نہ ہوتا تھا.وہ اپنے بھائیوں کو فخریہ کہا کرتے تھے کہ میرے سوتیلے بیٹے سے اپنے سگے بیٹوں کا مقابلہ کرلیں.ایک دفعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.سال 1925ء میں ایک دفعہ رومیوں کی اکٹھی تنخواہ لی جومیں نے قادیان آ کر اپنے والدین کو پیش کر دی.اس دن حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بعد نماز عصر بیت الاقصیٰ میں تقریر تھی.میں بھی گیا.حضور نے فرمایا کہ جماعت پر خاصہ قرض ہو گیا ہے اور ملازموں کی دو دو تین تین ماہ کی تنخواہر کی ہوئی ہے.حضور نے اس ضمن میں خاص

Page 34

29 چندہ کی تحریک فرمائی.مخمصے میں پڑ گیا.دونوں ماہ کی تنخواہ تو والدین کو دے چکا تھا.اور مانگنے میں شرم محسوس کرتا تھا.شام کو آیا تو میرے سوتیلے) والد صاحب نے پوچھا کہ حضور نے اپنی تقریر میں کیا فرمایا ہے.میرے بتانے پر انہوں نے فوراً ایک ماہ کی تنخواہ جو - 521 روپے سے زائد تھی.حضور کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے واپس کر دی.میں نے اگلے دن وہ رقم حضور کو بھجوادی.(حیات ابوالمبارک صفحہ 54,58) ڈاکٹر عبدالسلام صاحب محترم ڈاکٹر عبد السلام کی بیٹی ڈاکٹر رحمان تحریر فرماتی ہیں.ابا جان کی اپنے والدین کے لئے محبت اور ان کا اپنے بیٹے کے لئے والہانہ عشق فقید المثال تھا میرے دادا جان چود ہری محمد حسین صاحب بذات خود ایک ممتاز شخصیت کے مالک تھے اللہ تعالی سے عشق اور مذہب سے محبت ان کو اپنی زندگی کے اوائل سے ہی تھی خدا نے ان کی رہنمائی دعاؤں اور کشوف و رویا سے کی اور انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الاول کے ہاتھ پر 1914 ء میں احمدیت قبول کی جب وہ محض 12 سال کے تھے میرے والد کی پیدائش کے بعد انہوں نے اپنی زندگی اپنے بیٹے میں جملہ خوبیوں کو اجاگر کرنے اور ان کے تعلیمی کیرئیر کو بہتر بنانے کے لئے وقف کر دی یہ میرے دادا ہی تھے جنہوں نے میرے والد میں مطالعہ کا ذوق پیدا کیا اور ان میں عرق ریزی و محنت کرنے کا نظم و نسق پیدا کیا.دادا جان مرحوم و مغفور کا ایک ہر دلعزیز مقولہ یہ تھا Time and tide wait for no man میرے پیارے ابا جان دادا مرحوم کے مکمل مطیع اور فرمانبردار تھے اور ان کی رہنمائی کو بغیر سوچے و سمجھے قبول کرتے تھے میری دادی اماں کا نام ہاجرہ تھا جو حافظ نبی بخش صاحب کی دختر تھیں.دادی ماں نہایت رحمدل.سراپا محبت اور ساد و لوح

Page 35

30 انسان تھیں.جب کبھی ابا جان امتحان کی تیاری کر رہے ہوتے تو وہ جائے نماز بچھا کر نوافل میں دعا کرتیں کہ کامیابی ان کے قدم چومے.وہ میرے ابا جان کی بہت عزت کرتی تھیں ہی حال ابا جان کا تھا جب میرے والد نے نوبیل انعام جیتا تو اس سے ملنے والی رقم سے انہوں نے مستحق طلباء کے لئے ایک سکالرشپ جاری کیا جس کا نام محمد حسین و ہاجرہ حسین فاؤنڈیشن“ رکھا.ابا جان کی یہ وصیت تھی کہ بعد از وفات ان کو والدین کی قبروں کے ساتھ کی جگہ میں دفنایا جائے چنانچہ اللہ کے خاص کرم سے قبرستان میں ان کے لئے قبر کی جگہ محفوظ کر لی گئی تھی ان کی رحلت کے بعد میں اور میرا بھائی (احمد سلام ) ان کے کاغذات دیکھ رہے تھے تو پتہ چلا کہ انہوں نے وصیت نامے میں ایک بات کا اضافہ کیا تھا جو یہ تھا.اگر کسی وجہ سے مجھے ربوہ نہ لے جایا جا سکے تو میرے کتبہ پر یہ عبارت کندہ ہو اسکی خواہش تھی کہ وہ ماں کے قدموں میں دفن ہو".(الفضل ربوہ 3 جنوری 2001ء)

Page 36

31 باب سوم معروف اطاعت ☆ والدین سے ایسی باتیں کہو جن میں ان کی بزرگی اور عظمت پائی جائے ☆ بوڑھے اور مخالف دین ماں باپ کی خدمت کی شاندار تعلیم حضور نے حضرت اسماء کو مشرک والدہ سے حسن سلوک کا حکم دیا

Page 37

32 والدین کے ساتھ احسان اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعُبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَا أَوْ كِلَهُمَا فَلا تَقُل لَّهُمَا أُتٍ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمُهُمَا كَمَا رَبَّنِي صَغِيرًا (بنی اسرائیل: 24 25) اور تیرے رب نے فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے احسان کا سلوک کرو.اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا وہ دونوں ہی، تو انہیں اُف تک نہ کہہ اور انہیں ڈانٹ نہیں اور انہیں نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کر.اور ان دونوں کے لئے رحم سے عجز کا پر جھکا دے اور کہہ کہ میرے رب! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی.یہ آیت معارف کا بہت بڑا خزانہ ہے اور متعدد مضامین پر بہت عمدگی سے روشنی ڈالتی ہے چند اہم مضامین یہ ہیں.(1) والدین کے ساتھ احسان کیسے کیا جائے.(2) ناپسندیدگی اور کراہت کے باوجود ان کی اطاعت کی جائے.(3) والدین کے لئے دعا.ان سب مضامین کی تفصیل ترتیب وارج کی جاتی ہے.

Page 38

33 وبالوالدين احسانا والدین کے ساتھ جہاں تک احسان کا تعلق ہے اس کے متعلق یہ قطعی امر ہے کہ انسان اپنے والدین کے احسانات اتار نہیں سکتا.بلکہ آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر ایک شخص کا پورا مال اس کے والد کی ملکیت قرار دیا.یہ ورثے کا اور قانونی مسئلہ نہیں تھا بلکہ تربیتی اور اخلاقی لحاظ سے اولاد کو ایک زبر دست نصیحت تھی.ایک صحابی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ.میرے پاس مال ہے اور اولا دبھی ہے.لیکن میرے والد کو میرے مال کی ضرورت ہے.اس بارہ میں حضور ﷺ رہنمائی فرمائیں.حضور ﷺ نے فرمایا.تو اور تیرا مال سب تیرے والد کا ہے پھر فرمایا تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے اس لئے اپنی اولاد کی کمائی کھا سکتے ہو.(ابوداؤد كتاب البيوع باب في الرجل يا كل من مال والده حديث 3061) سید نا حضرت خلیفہ اسیح الاوّل نے فرمایا.وبالوالدين احسانا ماں باپ ایک تربیت کے متعلق ہی جس قدر تکلیف اٹھاتے ہیں اگر اس پر غور کیا جائے تو بچے پیر دھو دھو کر پئیں.میں نے چودہ 14 بچوں کا بلا واسطہ باپ بن کر دیکھا ہے کہ بچوں کو ذراسی تکلیف سے والدین کو سخت تکلیف ہوتی ہے.ان کے احسانات کے شکریہ میں ان کے حق میں دعا کرو.میں اپنے والدین کے لئے دعا کرنے سے کبھی نہیں تھکا.کوئی ایسا جنازہ نہیں

Page 39

34 پڑھا ہوگا جس میں ان کے لئے دعا نہ کی ہو.جس قدر بچہ نیک بنے ماں باپ کو راحت پہنچتی ہے اور وہ اسی دنیا میں بہشتی زندگی بسر کرتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان 24 فروری 1910ء) سیدنا حضرت مصلح موعود نے اس مضمون پر یوں روشنی ڈالی ہے.وبالوالدين احسانا کا حکم دے کر والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم بیان کیا ہے.کیونکہ والدین کا احسان خدا تعالیٰ کے احسان کاظل ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کا احسان حقیقی ہوتا ہے اور باقی سب احسان غلطی ہوتے ہیں.اور چونکہ والدین بھی اپنی اولاد کے لئے خدا تعالیٰ کی صفات کے ایک رنگ میں مظہر ہوتے ہیں.اس لئے توحید کے ذکر کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر فرمایا ہے.و بالوالدین احسانا سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہئے کہ والدین سے سلوک بھی احسان کے معروف معنوں میں کرنے کا حکم دیا گیا ہے.کیونکہ اس آیت میں احسان کا لفظ عام معنوں میں استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک اور معنی میں استعمال ہوا ہے.عربی زبان کا محاورہ ہے کہ کسی امر کے بدلہ کے لئے بھی وہی لفظ استعمال کر دیا جاتا ہے.جیسے ظلم کے بدلہ کا نام بھی ظلم رکھ دیا جاتا ہے اور اس سے مراد ظلم نہیں ہوتا بلکہ اس کے معنی صرف ظلم کا بدلہ لینے کے ہوتے ہیں.( تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 6 نظارت اشاعت ربوہ 1963ء) پھر فرمایا:.توحید پر یقین رکھنے کا حکم دینے کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے.کیونکہ وہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف ہی توجہ دلاتے ہیں.وہ طبعی قانون کا ایک ایسا ظہور ہیں جو قانون شریعت کی طرف لے جاتا ہے.کیونکہ وہ مبدی ( پیدا کرنے والی ذات) پر دلالت کرتے ہیں.والدین کے ذریعہ سے پیدائش بتاتی ہے کہ انسان اتفاقی

Page 40

35 طور پر پیدا نہیں ہو گیا.اس سے پہلے کوئی اور تھا.اور اس سے پہلے کوئی اور.غرض ایک لمبا سلسلہ تھا.جس سے اللہ تعالٰی کے وجود پر شہادت ملتی ہے.بغیر تناسل کے اصول کے انسان کا ذہن مبدا کی طرف جاہی نہیں سکتا تھا.اگر یہ نظام نہ ہوتا تو انسان کو اس لمبی کڑی کی طرف کبھی توجہ ہی نہ ہوتی.لیکن اس کے ساتھ ہی سلسلہ تناسل یہ بھی بتاتا ہے کہ انسانی پیدائش کی غرض اور اس کا مقصد بہت بڑا ہے پس توحید کے حکم کے بعد والدین کے متعلق احسان کا حکم دیا کیونکہ ایک احسان کی قدر دوسرے احسان کی قدر کی طرف توجہ کو پھراتی ہے.وبالوالدین احساناً.اس کا عطف ان پر ہے پورا جملہ یہ ہے ان احسنوا بالوالدین احساناً.یعنی اللہ تعالٰی نے ایک تو یہ حکم دیا ہے کہ خدا کے سوا کسی کو معبودنہ بناؤ اور ایک یہ کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو.اس جملہ میں کیا لطیف رنگ اختیار کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ کے احسانات کا انسان بدلہ نہیں دے سکتا.اس لئے خدا تعالٰی کے ذکر میں یہ بیان کیا کہ احسان تو تم کر نہیں سکتے پس ظلم سے تو بچو.لیکن والدین کے احسان کا بدلہ دیا جا سکتا ہے.اس لئے ان کے بارہ میں مثبت حکم دیا.( تفسیر کبیر جلد 4 صفحہ 321 نظارت اشاعت ربوہ ) سر تسلیم خم رہے سید نا حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.فلا تقل لهما اف ( ) یعنی اپنے والدین کو بیزاری کا کلمہ مت کہو اور ایسی باتیں ان سے نہ کرو جن میں ان کی بزرگواری کا لحاظ نہ ہو.اس آیت کے مخاطب تو آنحضرت لے ہیں لیکن دراصل مرجع کلام امت کی طرف ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد اور والدہ آپ کی خورد سالی میں ہی فوت ہو چکے تھے اور اس حکم میں

Page 41

36 ایک راز بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آیت سے ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جب کہ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ تو اپنے والدین کی عزت کر اور ہر ایک بول چال میں ان کے بزرگانہ مرتبہ کا لحاظ رکھ تو دوسروں کو اپنے والدین کی کس قدر تعظیم کرنی چاہئے اور اس کی طرف یہ دوسری آیت اشارہ کرتی ہے.وقضى ربك الا تعبدوا الا اياه وبالوالدين احساناً یعنی تیرے رب نے چاہا ہے کہ تو فقط اسی کی بندگی کر اور والدین سے احسان کر.اس آیت میں بت پرستوں کو جو بت کی پوجا کرتے ہیں سمجھایا گیا ہے کہ بہت کچھ نہیں ہیں اور بتوں کا تم پر کچھ احسان نہیں ہے انہوں نے تمہیں پیدا نہیں کیا اور تمہاری خورد سالی میں وہ تمہارے متکفل نہیں تھے اور اگر خدا جائز رکھتا کہ اس کے ساتھ کسی اور کی بھی پرستش کی جائے تو یہ حکم دیتا کہ تم والدین کی بھی پرستش کرو کیونکہ وہ بھی مجازی رب ہیں اور ہر ایک شخص طبعا یہاں تک کہ درند چرند بھی اپنی اولاد کو ان کی خورد سالی میں ضائع ہونے سے بچاتے ہیں.پس خدا کی ربوبیت کے بعد ان کی بھی ایک ربوبیت ہے اور وہ جوش ربوبیت کا بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.(حقیقۃ الوحی صفحہ 204-205) قل لهما قولا كريما كا خوبصورت ترجمہ حضرت مسیح موعود نے یہ فرمایا ہے.ان سے ایسی باتیں کہو جن میں ان کی بزرگی اور عظمت پائی جائے.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات صفحہ 4) حضرت مسیح موعود کا خط اس ضمن میں حضور کا ایک بہت ہی دل دہلا دینے والا ہے.شیخ عبدالوہاب صاحب ہندوؤں سے احمدی ہوئے تھے.اور ان کی دعوت الی اللہ سے والدہ بھی احمدی ہو گئیں.شیخ صاحب نے شادی کرنا چاہی تو والدہ نے اس

Page 42

37 خیال سے کہ بیٹا الگ ہو جائے گا رضا مندی ظاہر نہ کی.اور جب انہوں نے شادی کر لی تو اکثر اوقات بہو پر سختی کرتیں اور شیخ صاحب کچھ عرض کرتے تو برا منا تیں.شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ آخر میری والدہ حضرت مسیح موعود کی خدمت میں قادیان حاضر ہوئیں اور نہ معلوم حضور سے کیا کیا میری شکایت کی.جب وہ واپس آئیں تو حضور کے دست مبارک کا ایک خط ساتھ لائیں.جس پر حضور نے اپنے دستخط کرنے کے علاوہ اپنی مہر اور نشان انگوٹھا بھی ثبت فرمایا تھا.حضور کا مکتوب گرامی یہ تھا.مجھ کو یہ بات سن کر بہت رنج ہوا.اور دل کو سخت صدمہ پہنچا.کہ تم اپنی والدہ مسماۃ نکی کی کچھ خدمت نہیں کرتے اور سختی سے پیش آتے ہو اور دھکے بھی دیتے ہو.تمہیں یاد رہے کہ یہ طریق اسلام کا نہیں.خدا اور اس کے رسول کے بعد والدہ کا وہ حق ہے جو اس کے برابر کوئی حق نہیں.خدا کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ جو والدہ کو بد زبانی سے پیش آتا ہے اور اس کی خدمت نہیں کرتا.اور نہ اطاعت کرتا ہے وہ قطعی دوزخی ہے پس تم خدا سے ڈرو.موت کا اعتبار نہیں ہے ایسا نہ ہو کہ بے ایمان ہو کر مرو.حدیثوں میں آتا ہے کہ بہشت ماں باپ کے قدموں کے نیچے ہے.اور ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص کی والدہ کو رات کے وقت پیاس لگی تھی.اس کا بیٹا اس کے لئے پانی لے کر آیا.اور وہ سوگئی.بیٹے نے مناسب نہ سمجھا.کہ اپنی والدہ کو جگادے تمام رات پانی لے کر اس کے پاس کھڑا رہا.کہ ایسا نہ ہو کہ وہ کسی وقت جاگے اور پانی مانگے.اور اس کو تکلیف ہو.خدا نے اس خدمت کے لئے اس کو بخش دیا.سو سمجھ جاؤ کہ یہ طریق تمہارا اچھا نہیں ہے.اور انجام کار ایک عذاب میں گرفتار ہو جاؤ گے.اور اپنی عورت کو بھی کہو کہ تمہاری والدہ کی خدمت کرے اور بد زبانی نہ کرے.اور اگر باز نہ آوے تو اس کو طلاق دے دو.اگر تم میری ان نصیحتوں پر عمل نہ کرو.تو میں خوف کرتا ہوں کہ عنقریب تمہاری موت کی خبر

Page 43

38 نہ سنوں.تم نہیں دیکھتے کہ خدا تعالیٰ کا قہر نازل ہے اور طاعون دنیا کو کھائے جاتی ہے.ایسا نہ ہو کہ اپنی بدعملی کی وجہ سے طاعون کا شکار ہو جاؤ.اور اگر تم اپنے مال سے اپنی والدہ کی خدمت کرو گے تو خدا تمہیں برکت دے گا.یہ وہی والدہ ہے کہ جس نے دعاؤں کے ساتھ تمہیں ایک مصیبت کے ساتھ پالا تھا.اور ساری دنیا سے زیادہ تم سے محبت کی.پس خدا اس گناہ سے درگزر نہیں کرے گا.جلد تو بہ کرو.جلدی تو بہ کرو.ورنہ عذاب نزدیک ہے.اس دن پچھتاؤ گے دنیا بھی جائے گی اور ایمان بھی.میں نے باوجود سخت کم فرصتی کے یہ خط لکھا ہے.خدا تمہیں اس لعنت سے بچاوے جو نافرمانوں پر پڑتی ہے اگر تمہاری والدہ بد زبان ہے اور خواہ کتنا ہی بد خلقی کرتی ہے.خواہ کیسا ہی تمہارے نزدیک بری ہے اور سب باتیں اس کو معاف ہیں کیونکہ اس کے حق ان تمام باتوں سے بڑھ کر ہیں.تمہاری خوش قسمتی ہوگی کہ میری اس تحریر کو پڑھ کر تو بہ کرو.اور سخت بد قسمتی ہوگی کہ میری اس تحریر سے فائدہ نہ اٹھاؤ.شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ میں اس خط کو پڑھ کر کانپ گیا.اور میرے بدن میں کیکچی پیدا ہو گئی.بڑی خوشامد اور لجاجت سے اپنی والدہ سے معافی مانگی اور ان کو خوش کیا.اور زندگی بھر ان کی فرمانبرداری اور دل جوئی کو اپنا نصب العین بنالیا.رفقائے احمد جلد 10 ص 72 ملک صلاح الدین صاحب.احمد یہ بک ڈپو قادیان طبع اول 1966ء) ام ارشاد حضرت خلیفة اصبح الاول فلا تقل لهما اف اس قدر ان کی مدارت رکھو کہ اف کا لفظ بھی منہ سے نہ نکلے چہ جائیکہ ان کو

Page 44

39 جھڑ کو.(ضمیمه اخبار بدر قادیان 24 فروری 1910ء) رشاد حضرت خلیفہ اسیح الثانی عندک کے لفظ میں یہ بتایا ہے.کہ اگر وہ تمہاری کفالت میں بھی ہوں تو بھی کچھ نہ کہنا.کجا یہ کہ وہ الگ رہتے ہوں.اور پھر بھی تمہارے ہاتھوں تکلیف پائیں.کفالت کی خصوصیت اس لئے فرمائی.کہ ہر وقت کا پاس رہنے سے اختلاف زیادہ رونما ہوتے ہیں.اور پھر یہ بھی قاعدہ ہے کہ انسان جس پر خرچ کرتا ہے اس پر اپنا حق بھی بجھنے لگتا ہے.اف کلمہ میجر ہے یعنی ناپسندیدگی کا کلام یعنی یہ کہنا کہ مجھے یہ بات پسند نہیں اور پھر نا پسندیدگی کو عملی جامہ پہنانے کو کہتے ہیں یعنی نہ منہ سے نہ عمل سے ان کو دکھ دو.اسلام نے والدین کی خدمت کیلئے خاص ہدایت دی ہیں.آنحضرت نے نے فرمایا ہے.من ادرك احدو الديه ثم لم يغفر له فابعده الله عروجل (رواه احمد ابن کثیر جلد 6 صفحه 61) یعنی جس شخص کو اپنے والدین میں سے کسی کی خدمت کا موقع ملے اور پھر بھی اس کے گناہ نہ معاف کئے جائیں تو خدا اس پر لعنت کرے مطلب یہ کہ نیکی کا ایسا اعلیٰ موقعہ ملنے پر بھی اگر وہ خدا کا فضل حاصل نہیں کر سکا.تو جنت تک پہنچنے کے لئے ایسے شخص کے پاس کوئی ذریعہ نہیں.( تفسیر کبیر جلد 4 صفحہ 321 نظارت اشاعت ربوہ )

Page 45

40 عدل اور احسان سیدنا حضرت خلیفۃ اسیح الرابع ایدہ اللہ نے اس آیت کے تعلق میں عدل اور احسان کے مضمون کا فرق بیان کرتے ہوئے فرمایا.اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت اور توحید کی تعلیم دی وہاں فوری توجہ دلائی کہ میرے حق تو ادا کرو.ضرور کرنے ہیں تم نے اس کے بغیر تو تمہارا چارہ کچھ نہیں مگر یا درکھنا والدین کے ساتھ بھی احسان کا سلوک کرنا.اور پھر فرمایا کہ اگر وہ تم پر زیادتی بھی کریں تو اف تک نہیں کہنی.اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں یہ رجحان ہے کہ ماں باپ کے باقی سب احسان بھلا کر کہیں زیادتی ہو تو اف کہہ بیٹھتے ہیں اور بعض ایسے بھی بد نصیب ہیں کہ صرف اس جھگڑے میں کہ فلاں بیٹے کو تم نے زیادہ دے دیا یا فلاں بیٹی کو زیادہ دے دیا ہے.ماں باپ سے با قاعدہ لڑائی مول لے بیٹھتے ہیں قضاؤں میں پہنچ جاتے ہیں وہ جھگڑے پیچھا ہی نہیں چھوڑتے پھر کوئی اس بات کی حیاء نہیں کرتے کہ احسان کا ذکر خدا نے فرمایا ہے تم پر ماں باپ نے رحم کیا تھا تم پر احسان کیا تھا.تم بھی اس رحم کے مقابل پر احسان کا سلوک کیا کرو.عدل کا نہیں فرمایا اور اس میں بڑی حکمت ہے عدل کا ذکر نہ کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان سے نا انصافی سے پیش آؤ.مطلب یہ ہے کہ تم نے جب ماں باپ کے معاملے میں کوئی زیادتی دیکھی ہے تو عدل کے جھگڑے میں نہ پڑ جانا.یہ سوچنا کہ اللہ نے تمہیں احسان کی تعلیم دی ہے اور احسان عدل سے بالا ہے احسان میں عدل کے بکھیڑوں میں نہیں انسان پڑتا بلکہ احسان کا مطلب ہے کہ کسی نے اگر کوئی زیادتی بھی کر دی ہے تو تم وسیع حوصلگی دکھا ؤ اس سے چشم پوشی کرو.(خطبہ جمعہ 29 ستمبر 1995 ء روز نامہ الفضل ربوہ.17 جولائی 1996ء)

Page 46

41 کراہت کے باوجود اطاعت کرو قرآن کریم فرماتا ہے کہ ماں باپ کا حکم جب تک واضح طور پر اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات کے خلاف نہ ہو ان کی حتی الامکان اطاعت کی جائے.حتی کہ اگر ایسا حکم بھی ہو جو دنیاوی لحاظ سے نقصان دہ ہو اور انسان نا پسند کرتا ہو تب بھی ان کی اطاعت کی جائے اور اللہ سے اس کے اجر کی توقع رکھی جائے.حضرت مسیح موعود کی فطرت دین کی خدمت کے لئے وقف تھی اور دنیا داری کے جھمیلوں سے کچھ شوق نہ رکھتے تھے مگر اپنے والد صاحب کے اصرار پر محض اطاعت کے خیال سے ایک عرصہ تک سیالکوٹ میں رہنا پڑا.اور مقدمات میں ایک لمبا وقت گزرا جو آپ کے لئے ابتلاء عظیم تھا.آپ خود فرماتے ہیں.وہ چاہتے تھے کہ میں دنیوی امور میں ہر دم غرق رہوں جو مجھ سے نہیں ہوسکتا تھا مگر تا ہم میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا اور ان کے لئے دعا میں بھی مشغول رہتا تھا اور وہ مجھے دلی یقین سے بر بالوالدین جانتے تھے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 183 حاشیہ) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص مسلمانوں کے باہمی اختلاف میں شرکت پسند نہیں کرتے تھے مگر اپنے والد کے اصرار پر اطاعت کے خیال سے جنگ صفین میں شریک ہوئے کیونکہ ایک موقعہ پر حضور ﷺ نے انہیں فرمایا تھا کہ نماز پڑھو.روزہ رکھو اور والد کی اطاعت کرو.

Page 47

42 مگر جنگ میں شرکت کے باوجود حضرت عبداللہ نے نہ تلوار اٹھائی اور نہ نیزہ مارا اور نہ تیر چلایا.اور اس طرح اطاعت خداوندی اور اطاعت والدین کے مابین حسین توازن کا منظر پیش کیا.(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 235 از ابن اثیر جزری مکتبہ اسلامیہ طہران) مشہور صوفی حضرت محمد علی حکیم ترندی نے اعلیٰ مذہبی تعلیم کے حصول کے لئے دو طالبعلوں کے ہمراہ شہر سے باہر جانے کا ارادہ کیا.تو آپ کی والدہ نے کہا کہ میں ضعیف ہوں.مجھ کو اس عالم میں چھوڑ کر کہاں جاتا ہے.چنانچہ آپ رک گئے.اور دوسرے دونوں ساتھی چلے گئے.پانچ ماہ کے بعد ایک دن آپ گورستان میں بیٹھ کر رونے لگے.کہ میں یہاں بیکار ہوں.اور میرے ساتھی کل عالم ہو کر آئیں گے آپ ابھی روہی رہے تھے.کہ ایک طرف سے ایک نورانی شکل کے بزرگ نمودار ہوئے.اور آپ سے رونے کا سبب پوچھا.آپ نے سارا حال سنا دیا.اس بزرگ نے فرمایا کہ تم کوئی غم نہ کرو.اگر تم چاہو تو میں تم کو روزانہ سبق پڑھا دیا کروں گا.تا کہ تم ان سے پڑھ جاؤ.چنانچہ تین سال تک وہ بزرگ آپ کو روز سبق پڑھاتے رہے.فرماتے ہیں.کہ میں نے یہ دولت والدہ کی رضا مندی سے حاصل کی.(تذکرۃ الاولیاء ص 251-252 از فرید الدین عطار - مترجم - شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ) حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں نے کبھی بھی اپنے والدین کے حکم سے سرتابی نہیں کی.ایک دن والد صاحب نے مجھے ڈانٹا کہ تم سکول کیوں نہیں گئے اور حکم دیا کہ ابھی بستہ اٹھاؤ اور سکول جاؤ.میں فورا تعمیل حکم میں سکول چل دیا حالانکہ سکول بند تھا.سکول سے واپس آیا تو والد صاحب کے دریافت کرنے پر میں نے عرض کیا کہ

Page 48

43 آج سکول میں تعطیل ہے.خالد دسمبر 1985 صفحہ 86) فوراً روانہ ہو گیا ہیں.حضرت سید سرور شاہ صاحب کے بیٹے سید مبارک احمد صاحب سرور تحریر کرتے تایا جان حضرت سید محمد صادق صاحب مرحوم نے حضرت والد صاحب کو محط لکھا کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں.میری دولڑکیاں جوان ہیں.میں چاہتا ہوں کہ بڑی بیٹی کی شادی عزیز سید مبارک احمد سے کردوں.آپ عزیز کو میرے پاس کشمیر بھیج دیں.تا کہ وہ بھی یہاں کے حالات دیکھ لے.موسی تعطیلات میں میں لدرون میں ان کے پاس پہنچا.آپ نے علیحدگی میں باتوں باتوں میں رشتہ کے متعلق بھی ذکر کیا.اور اپنے خانگی حالات بتاتے ہوئے فرمایا.کہ اب میری عمر کا آخر ہے.نرینہ اولاد کوئی نہیں.میری یہ خواہش ہے کہ آنعزیز کو بطور خانہ داماد " یہاں رکھوں.اس طرح میری جائیداد خاندان سے باہر جانے سے محفوظ رہے گی اور تم مستقل طور پر یہاں رہائش رکھو.تا کہ میرے بعد جائیداد کے مالک بنو.میں نے بلایا تھا کہ تم خود حالات دیکھ سکو.میں نے محیط میں خانہ دامادی کا ذکر نہیں کیا تھا کہ مولوی صاحب اس بات کو نہیں مانیں گے.میں نے سوچا کہ اس میں کسی قسم کا خسارہ نہیں اور تایا جان کی خدمت بھی ہو جائے گی میں اس امر پر آمادہ ہو گیا.لیکن حضرت والد صاحب کا عدم اتفاق کا خوف بھی تھا.اس لئے عرض کیا کہ میں مفضل احوال والد صاحب کی خدمت میں تحریر کرتا ہوں.میں تو متفق ہوں.لیکن ان کی رضامندی بھی ضروری ہے.مجھے توقع ہے کہ حالات کے پیش نظر وہ بھی متفق ہو جائیں گے.حضرت والد صاحب کا جواب آیا تو سخت غصہ سے بھرا ہوا تھا.جس کا لب لباب یہ تھا کہ تم کو شرم آنی چاہیئے.کہ تمہارے والد نے تو اللہ

Page 49

44 تعالیٰ اور اس کے مسیح کی خاطر اپنا وطن اور اقارب کو چھوڑ چھاڑ کر قادیان ڈیرہ آ جما لیا.اور دنیوی حرص و آز کو خیر باد کہتے ہوئے پشاور کالج کی اعلیٰ ملازمت ترک کر دی.اور قادیان میں پندرہ روپے کی ملازمت قبول کر لی اور آج تک اپنے بھائیوں سے جدی جائیداد کا حصہ یا اراضی کا غلہ نہیں لیا.حالانکہ میرا بھی ویسا ہی حق تھا.جیسا کہ ان کا تھا.لیکن مجھے تم پر افسوس ہے کہ تم دین چھوڑ کر دنیا کی طرف جانا چاہتے ہو.حالانکہ تمہیں میری طرح دین کو دنیا پر مقدم رکھنا چاہئے تھا.تم فوراً قادیان واپس آ جاؤ.باوجود یکہ ابھی ڈیڑھ ماہ کی تعطیلات باقی تھیں میں دوسرے روز ہی وہاں سے قادیان کی طرف روانہ ہو گیا.( رفقاء احمد جلد 5 حصہ سوم صفحہ 80) مخالف ماں باپ ماں باپ اگر مخالف بھی ہوں اور ( دین حق ) کے علاوہ کسی اور دین کے متبع ہوتب بھی ان کے ساتھ حسن سلوک فرض ہے اور دنیاوی امور میں جہاں تک ممکن ہو ان کی مدارات ضروری ہے جس میں ان کی ہدایت کی دعا بھی شامل ہے.حضرت اسماء کی والدہ مشرکہ تھی.صلح حدیبیہ کے زمانہ میں وہ مکہ سے مدینہ آئیں تو حضرت اسمانہ نے حضور عالے سے پوچھا کہ کیا میں ان سے حسن سلوک کروں تو حضور ﷺ نے فرمایا ہاں ضرور کرو.بخاری کتاب الادب باب صلة الوالد المشرك) آنحضرت ﷺ نے اپنے چا اور حضرت علی کے والد ابو طالب کی وفات پر حضرت علی کو ارشاد فرمایا کہ:.آپ اپنے والد کی تجہیز و تعین کریں غسل دیں اور پھر دفنائیں.المسيرة الجلبیہ جلد 2 ص 190 از علی بن برہان الدین الحکمی مطبوع محمدعلی صحیح واولاده از هر مصر 1935ء)

Page 50

45 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں.میری والدہ مشرکہ تھیں میں انہیں اسلام کی تبلیغ کیا کرتا تھا.ایک دن جو میں نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے آنحضور ﷺ کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کئے میں روتا رو تا خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور تمام واقعہ سنایا آنحضرت ﷺ نے سنا تو زبان مبارک سے یہ فقرہ جاری ہوا.اللهم اهدام ابى هريره اے اللہ! ابو ہریرہ کی والدہ کو ہدایت دے دے حضرت ابو ہر یہ گھر آئے تو دیکھا کہ گھر کا دروازہ بند تھا اور پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی.والدہ قبل سے فارغ ہوئیں تو یوں گویا ہوئیں اشهد ان لا اله الا الله و اشهدان محمد رسول الله والدہ کے منہ سے کلمہ شہادت سنا تو خوشی سے روتے روتے نبی کریم علی کی خدمت میں حاضر ہوئے.والدہ کے قبول اسلام کا واقعہ سنایا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ اب دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میری اور میری والدہ کی محبت مومنوں کے دلوں میں پیدا کر دے چنانچہ آپ نے دعا کی.الاصابه جلد 4 صفحہ 204 از ابن حجر عسقلانی مطبع مصطفی محمد مصر 1939.دعا کرو حضرت مسیح موعود نے ایک نواحمدی کو تاکید کی کہ وہ اپنے والد کے حق میں جو سخت مخالف ہیں دعا کیا کریں انہوں نے عرض کی کہ حضور میں دعا کیا کرتا ہوں اور حضور کی خدمت میں بھی دعا کے لئے ہمیشہ لکھتا ہوں حضرت اقدس نے فرمایا کہ توجہ سے دعا کرو باپ کی دعا بیٹے کے واسطے اور بیٹے کی باپ کے واسطے قبول ہوا کرتی ہے اگر آپ بھی

Page 51

46 توجہ سے دعا کریں تو اس وقت ہماری دعا کا بھی اثر ہوگا.ہے.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 502) شیخ عبدالرحمان صاحب قادیانی کے والد سخت مخالف تھے.ملفوظات میں درج حضرت مسیح موعود شیخ عبد الرحمان صاحب قادیانی سے ان کے والد صاحب کے حالات دریافت فرماتے رہے اور نصیحت فرمائی کہ:.ان کے حق میں دعا کیا کرو ہر طرح اور حتی الوسع والدین کی دل جوئی کرنی چاہئے اور ان کو پہلے سے ہزار چند زیادہ اخلاق اور اپنا پاکیزہ نمونہ دکھلا کر ( دین ) کی صداقت کا قائل کرو.اخلاقی نمونہ ایسا معجزہ ہے کہ جس کی دوسرے معجزے برابری نہیں کر سکتے ( بچے دین ) کا یہ معیار ہے کہ اس سے انسان اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر ہو جاتا ہے اور وہ ایک ممیز شخص ہوتا ہے شاید خدا تعالیٰ تمہارے ذریعہ ان کے دل میں (دین) کی محبت ڈال دے.( دین ) والدین کی خدمت سے نہیں روکتا.دنیوی امور جن سے دین کا حرج نہیں ہوتا ان کی ہر طرح سے پوری فرماں برداری کرنی چاہئے دل و جاں سے ان کی خدمت بجالاؤ.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 492) ایک شخص نے سوال کیا کہ یا حضرت والدین کی خدمت اور ان کی فرمانبرداری اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر فرض کی ہے مگر میرے والدین حضور کے سلسلہ بیعت میں داخل ہونے کی وجہ سے مجھ سے سخت بیزار ہیں اور میری شکل تک دیکھنا پسند نہیں کرتے.چنانچہ جب میں حضور کی بیعت کے واسطے آنے کو تھا تو انہوں نے مجھے کہا کہ ہم سے خط و کتابت بھی نہیں کرتا اور اب ہم تمہاری شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے.اب میں

Page 52

47 اس فرض الہی کی تعمیل سے کس طرح سبکدوش ہو سکتا ہوں.فرمایا کہ:." قرآن شریف جہاں والدین کی فرمانبرداری اور خدمت گزاری کا حکم دیتا ہے وہاں یہ بھی فرماتا ہے کہ (.) بنی اسرائیل : 26 ) اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اگر تم صالح ہو تو وہ اپنی طرف جھکنے والوں کے واسطے غفور ہے.صحابہ (رضوان اللہ میم ) کو بھی ایسے مشکلات پیش آگئے تھے کہ دینی مجبوریوں کی وجہ سے ان کی ان کے والدین سے نزاع ہو گئی تھی.بہر حال تم اپنی طرف سے ان کی خیریت اور خبر گیری کے واسطے ہر وقت تیار رہو.جب کوئی موقعہ ملے اسے ہاتھ سے نہ دو.تمہاری نسیت کا ثواب تم کومل کے رہے گا.اگر محض دین کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرنے کے واسطے والدین سے الگ ہونا پڑا ہے تو یہ ایک مجبوری ہے.اصلاح کو مد نظر رکھو اور نیت کی صحت کا لحاظ رکھو اور ان کے حق میں دعا کرتے رہو.یہ معاملہ کوئی آج نیا نہیں پیش آیا.حضرت ابراہیم کو بھی ایسا واقعہ پیش آیا تھا.بہر حال خدا کا حق مقدم ہے.پس خدا تعالی کو مقدم کرو اور اپنی طرف سے والدین کے حقوق ادا کرنے کی کوشش میں لگے رہو اور ان کے حق میں دعا کرتے رہو.“ ملفوظات جلد پنجم جدید ایڈیشن صفحہ 450) والد کی بیعت حضرت میاں اللہ دتہ صاحب فرماتے ہیں.میں نے حضرت اقدس سے دعا کی درخواست کی کہ میرا والد سلسلہ کا سخت مخالف ہے حضرت اقدس نے دریافت کیا کہ اس کا کیا نام ہے میں نے اس کا نام جمال الدین بتایا اور پھر میرا نام دریافت کیا تو اللہ دتہ بتایا حضرت اقدس نے فرمایا کہ تم دعاؤں میں لگے رہو اور ہم بھی دعا کریں گے.اللہ تعالٰی دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا.اور پھر

Page 53

48 رخصت ہوتے وقت بھی حضرت صاحب نے یہی کلمات فرمائے اور اندر چلے گئے اور والد صاحب نے بعد ازاں سخت مخالفت کی سولہ سال برابر مخالفت پر اڑے رہے مگر میں دعا متواتر کرتا رہا.ایک دفعہ جلسہ پر جانے کے لئے میں نے ان کو تحریک کی کہ آپ کم از کم قادیان جلسہ دیکھ آؤ کیونکہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں چنانچہ جلسہ پر آنے سے پہلے والد صاحب نے کہا کہ مجھ سے اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ جب تک حق اور جھوٹ نہ دیکھوں مجھے موت نہیں آئے گی تمہارے کہنے پر نہیں جاؤں گا چنانچہ والد صاحب اپنی مرضی سے جلسہ پر آ گئے اور جلسے کے دوران میں بیعت کر لی اور بعد ازاں ایک سال تک زندہ رہے اور مارچ 1924 ء میں فوت ہو گئے.(الفضل 11 ستمبر 1998ء) حج اور دعا ایک صاحب نے حضرت مصلح موعود سے پوچھا کہ کیا غیر احمدی والدین کو حج کرانا جائز ہے.فرمایا جب غیر احمدی والدین کو وہ روٹی دے سکتا ہے تو جج کیوں نہیں کر سکتا.(روز نامہ الفضل 7 جولائی 1960ء) ایک نواحمدی نے حضرت مصلح موعود سے عرض کیا کہ میں اپنے ماں باپ کے لئے جو کفر کی حالت میں فوت ہوئے ہیں دعا کر سکتا ہوں یا نہیں حضور نے فرمایا.نام لئے بغیر اس طرح دعا کی جاسکتی ہے کہ اے خدا.میرے ماں باپ پر رحم فرما.ممکن ہے کہ وہ بظا ہر کفر کی حالت میں مرے ہوں لیکن خدا تعالی کے نزدیک ان پر اتمام حجت نہ ہوئی ہو اور وہ رحم کے مستحق سمجھے جائیں.یا پھر دادا پر دادا وغیرہ میں سے جو بھی رحم کے مستحق ہوں گے ان کے متعلق یہ دعاسنی جائے گی.(الفضل 18 ستمبر 1960 ء )

Page 54

49 غیر احمدی والدین کیلئے دعا ایک شخص نے حضرت مصلح موعود سے عرض کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ غیر احمدی والدین کے لئے دعا نہیں کرنی چاہیئے فرمایا.میں تو ان کے لئے دعا کا قائل ہوں.قرآن شریف نے صرف یہ کہا ہے کہ مشرک کے لئے دعا نہیں کرنی چاہئے باقی غیر احمدی والدین کیلئے انسان ہر وقت دعا کر سکتا ہے بلکہ اسے کرنی چاہیئے.(الفضل 11 - اگست 1960 ء ) میرا کوئی احسان نہیں شہید احمدیت رستم خان جلوز کی نوشہرہ کے رہنے والے تھے.ان کے احمدیت قبول کرنے پر والد صاحب نے بہت سختی کی.آخر عمر میں رستم خان کے والد صاحب صو بیدار دلاور خاں بہت ضعیف ہو گئے تھے تمام لڑکوں نے ان کی خدمت سے معذوری ظاہر کی تو وہ راولپنڈی میں رستم خان کے پاس چلے آئے.رستم خان اور صالحہ بیگم نے ان کی کمال خدمت کی.اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے بول و براز کراتے اور نہلاتے.ایک دن صو بیدار دلاور خان نے رستم خان سے کہا کہ رستم خان میں تم سے بہت خوش ہوں.میں نے ابتداء میں تمہارے ساتھ بہت سختی کی.مگر آخر میں تم ہی میرے کام آئے.اس پر رستم خان نے کہا کہ بابا مجھے میرے پیر کی یہی تعلیم ہے.یہ میرا آپ پر کوئی احسان نہیں.میں احمدی ہوں.اور یہ میرا فرض ہے.اس پر صو بیدار صاحب کہنے لگے.شاباش ہو تیرے پیر پر.میں بھی اس کو سچا جانتا ہوں.ان کی وفات کی وفات کے بعد رستم خان نے ہی ان کی تدفین کی.اگلے دن

Page 55

50 جب رستم خان دعا کے لئے قبرستان جارہے تھے تو کسی نے فائر کر کے انہیں شہید کر دیا.والد کی ہجرت مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب بیان کرتے ہیں.(حیات الیاس صفحہ 66) دسمبر 1929 ء میں ہمارے والد صاحب اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر اہل و عیال سمیت قادیان تشریف لے آئے.لیکن ہمارے دادا صاحب تیار نہ ہوئے.اور وطن میں ہی رہ گئے اس وقت ان کی عمر پچاسی برس کے قریب تھی.لیکن ہم سب کی یہ دلی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح قادیان آجائیں.اور وصیت کرنے کے بعد انہیں بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کی سعادت ملے.حضرت مولوی شیر علی صاحب میرے دادا صاحب کے خوب واقف تھے.ایک دن والد صاحب نے اپنے ہجرت کر کے قادیان آنے اور حضرت دادا صاحب کے وطن میں رہ جانے کا واقعہ کا ذکر کر کے دعا کی درخواست کی.اس کے بعد خاکسار کی جب بھی حضرت مولوی صاحب سے ملاقات ہوتی.تو آپ دادا صاحب کی ہجرت کی نسبت ضرور دریافت فرماتے جب میں نفی میں جواب دیتا.تو آپ فرماتے میں دعا کر رہا ہوں انشاء اللہ وہ قادیان آجائیں گے.اور وصیت بھی ان کو نصیب ہو جائے گی.چنانچہ حضرت مولوی صاحب کی دعاؤں کی برکت سے آخر اللہ تعالی نے چار پانچ سال کے بعد ہمارے دادا صاحب کو انشراح صدر بخشا.اور آپ قادیان تشریف ئے آئے بالآ خر آپ کو وصیت کو توفیق بھی ملی اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے.

Page 56

51 فالحمد لله على ذالک (سیرت شیر علی صفحہ 163 ) ساری بچت چوہدری بشیر احمد صاحب وڑائچ رجوعہ ضلع گجرات نے بیعت کی تو والد نے سخت مخالفت کی.جائداد سے عاق کر دیا قتل کے منصوبے بنے لگے تو وہ ہجرت کر کے سندھ چلے گئے.وہاں اللہ نے انہیں باعزت روزگار عطا فر مایا.دوسری طرف ان کے والد کی فصل اچھی نہ ہوتی.مویشی مرنے لگے.چوہدری صاحب سال کے آخر پر اپنی آمد کی ساری بچت اپنے مخالف والد کو بھیج دیتے.یہاں تک کہ والد نے خود ہی واپس آنے کی الفضل 9 مارچ 2001ء) اجازت دے دی.مسلسل خدمت حضرت مولوی محمد الیاس خان صاحب چارسدہ کے رہنے والے تھے.1909ء میں احمدیت قبول کی.آپ فرماتے ہیں کہ میں ابتدا سے اپنے والد صاحب کا بہت احترام کیا کرتا تھا.احمدیت قبول کرنے کے بعد جب میرے والد صاحب مخالفوں کے ساتھ مل کر احمدیت کے سخت مخالف ہوئے تو بھی بدستور میں ان کا ویسا ہی ادب و احترام کرتا جیسے پہلے کیا کرتا تھا اور اپنی تنخواہ سے ماہوار کچھ نہ کچھ ان کی خدمت میں پیش کرتا.حیات الیاس صفحہ 22 از عبدالسلام خان)

Page 57

52 52 باب چہارم والدین کے لئے دعا والدین کیلئے دعا کرتے رہو اے خدا ان پر رحم کر جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی بڑھاپے میں ماں باپ کو ویسی هی خدمت کی ضرورت ھوتی ھے جیسی بچپن میں بچے کو هوتی هے.☆ والدین کے لئے سکھائی جانے والی قرآنی دعا کے منفرد حقائق و معارف

Page 58

53 53 والدین کے لئے انبیاء کی دعائیں قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ سے پہلے انبیاء بھی والدین کے لئے دعائیں کرتے تھے اور یقینا یہ رویہ خدائی تفہیم اور تعلیم کے نتیجہ میں ہی ہوگا.اور یہ دعا ئیں خدا کو اتنی پسند تھیں کہ انہیں قرآن کریم میں ہمیشہ کے لئے محفوظ فرمالیا ہے.تا کہ امت محمد یہ بھی ان سے فائدہ اٹھائے.حضرت نوح کی دعا رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَى وَلِمَنُ دَخَلَ بَيْنِي مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ وَلَانزِدِ الظَّلِمِينَ إِلَّاتَبَارًا (سورة نوح : 29) اے میرے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو بھی اور اسے بھی جو بحیثیت مومن میرے گھر میں داخل ہوا اور سب مومن مردوں اور سب مومن عورتوں کو.اور تو ظالموں کو ہلاکت کے سوا کسی چیز میں نہ بڑھانا.حضرت ابراہیم کی دعا ربَّنَا اغْفِرْلِي وَلِوَالِدَى وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ (ابرانيم :42) اے ہمارے رب ! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو بھی اور مومنوں کو بھی جس دن حساب بر پا ہو گا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ وہ جامع دعا ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی دعاؤں میں شامل فرمایا ہے اور اب ساری امت محمد یہ اس دعا میں مشغول ہے.

Page 59

54 5.4 قرآنی دعا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّينِي صَغِيرًا (بنی اسرائیل : 25) اور ان دونوں کے لئے رحم سے عجز کا پُر مُجھکا دے اور کہہ کہ اے میرے رب ! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی.حضرت مصلح موعود اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں اس آیت میں یہ بھی اشارہ کر دیا کہ انسان بالعموم والدین کی ویسی خدمت نہیں کر سکتا جیسی کہ ماں باپ نے اس کے بچپن میں کی تھی اس لئے فرمایا کہ ہمیشہ دعا کرتے رہنا کہ اے خدا تو ان پر رحم کرتا کہ جو کسر عمل میں رہ جائے دعا سے پوری ہو جائے ی" کے معنی تشبیہ کے بھی ہوتے ہیں ان معنوں کی رو سے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ بڑھاپے میں ماں باپ کو ویسی ہی خدمت کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ بچے کو بچپن والدین کے لئے یہ دعا اس لئے بھی سکھائی گئی ہے کہ جو اللہ تعالی سے دعا کرتا رہے گا اسے خود بھی اپنا فرض ادا کرنے کا خیال رہے گا.عارفانہ دعا ( تفسیر کبیر جلد 4 صفحہ (322) اس دعا کے پس منظر اور دیگر عارفانہ مضامین پرسید نا حضرت خلیفہ امسح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک منفر دانداز میں روشنی ڈالی ہے آپ فرماتے ہیں: یہ وہ دعا ہے جو الہامی دعا ہے ان معنوں میں کہ اللہ تعالیٰ نے خود حضرت اقدس

Page 60

55 مد مصطفی میں ہے اور آپ کی امت کو سکھائی.دعا تو یہ ہے (.) (بنی اسرائیل: 25) اے میرے رب! دونوں پر میرے والد اور میری والدہ پر اس طرح رحم فرما جس طرح بچپن سے یہ میری تربیت کرتے چلے آئے ہیں.لیکن اس دعا کی گہرائی کو سمجھنے کے لئے اس کا وہ پس منظر جانا ضروری ہے جو یہی آیت کریمہ ہمارے سامنے کھول کر رکھ رہی ہے.پس پوری آیت کو پڑھنے کے بعد اس دعا کی اہمیت بھی سمجھ آتی ہے اور کن کن باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ دعا کرنی چاہئے یہ مضمون بھی ہم پر روشن ہو جاتا ہے.آیت یہ ہے وقضی ربک الا تعبدوا الا اياه و بالوالدین احساناً کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر فرما دیا ہے یہ فیصلہ کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ کی بجائے ریک لفظ ہے یعنی اے محمد ہے تیرے رب نے یہ فیصلہ صادر فرما دیا ہے.الا تعبدوا الا ایساہ کہ تم اس کے سواکسی کی عبادت نہ کرو.و بالوالدین احسانا اور والدین کے ساتھ احسان کا سلوک کرو.والدین کے ساتھ نیکی کے برتاؤ کی اتنی بڑی اہمت ہے کہ توحید کی تعلیم کے بعد دوسرے درجے پر خدا نے جس بات کا فیصلہ فرمایا وہ یہ تھا کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو.احسان کا لفظ کن معنوں میں استعمال ہوا ہے اس کے متعلق میں پھر دوبارہ آپ سے بات کروں گا.اگر ان میں سے کوئی تیرے ہوتے ہوئے تیری زندگی میں بڑھاپے تک پہنچ جائے ان میں سے خواہ ایک پہنچے یا دونوں پہنچیں فلا تقل لهما اف ان کو اف تک نہیں کہتی.اف نہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے بڑھاپے میں ایسی حرکتیں ہو سکتی ہیں جو ان کے بچپن کے سلوک سے مختلف ہوں.بچپن میں تو وہ بڑی رحمت کے ساتھ تمہاری تربیت کرتے رہے لیکن بڑھاپے کی عمر میں پہنچ کر انسان کو اپنے جذبات پر اختیار نہیں

Page 61

56 رہتا زیادہ زود رنج ہو جاتا ہے اور بہت سی صحت کی کمزوریاں اس کے مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا کر دیتی ہیں.پھر کئی قسم کے احساسات محرومی ہیں.اولاد بڑی ہو گئی.اپنے گھروں میں آباد ہو گئی اور جس طرح والدین توقع رکھتے ہیں کہ یہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی ویسا ہی معاملہ کرے گا اس میں کوئی کو تا ہی رہ جاتی ہے یا والدین کو وہم گزرتا ہے کہ ہم سے ویسا پیار نہیں جیسا اپنی بیوی اور اولا د سے ہے تو ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے قرآن کریم نے بڑی حکمت کے ساتھ فرمایال انقل لهما اف ایسی باتیں ہوں گی جن کے نتیجے میں ہو سکتا ہے تمہیں جائز یا نا جائز شکایت پیدا ہو اور والدین تم سے بظاہر سختی کا سلوک کرنا شروع کر دیں تو تم جو بچپن کی نرمی کے عادی ہو اس سلوک سے گھبرا کراف نہ کہہ بیٹھنا.اف کا لفظ کوئی گالی نہیں ہے.کوئی سخت کلامی نہیں ہے.ایک اظہار افسوس ہے.فرمایا کہ اظہار افسوس تک نہیں کرنا.ولا تنهر هـمـا اور جھڑکنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اپنے والدین کے ساتھ ہر گز سخت کلامی نہیں کرنی.وقل لهما قولا کریما اور ان کے ساتھ عزت کا کلام کرو.ہمیشہ احترام کے ساتھ ان سے مخاطب ہوا کرو.واخــفــض لهما جناح الذل اور اپنی نرمی کے پر ان کے اوپر پھیلا دو.من الرحمة رحمت کے اور نرمی کے یا رحمت کے نتیجے میں جونرمی پیدا ہوتی ہے اس کے پر ان پر پھیلا دو اور پھر یہ دعا کرو.کہ اے میرے رب! ان پر اسی طرح رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں بڑے رحم کے ساتھ میری تربیت فرمائی ہے.یہ بہت ہی پیاری اور کامل دعا ہے اور بہت سی ذمہ داریوں کی طرف جو اولاد کے ذمہ اپنے والدین کے لئے ہیں، ہمیں توجہ دلاتی ہیں لیکن اس دعا میں اور بھی بہت سی

Page 62

57 حکمتیں پنہاں ہیں.اب میں نسبتاً تفصیل سے اس آیت کے بعض مضامین کھول کر آپ کے سامنے رکھتا ہوں.والدین کے ساتھ احسان کا سلوک ضروری ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ احسان کا حکم دیا گیا ہے ادا ئیگی فرض کا نہیں اور احسان بظاہر ضروری نہیں ہوا کرتا.احسان تو ایسا معاملہ نہیں ہے کہ ہر انسان پر فرض ہو.کیا یا نہ کیا کوئی فرق نہیں پڑتا.یعنی اگر فرق پڑتا بھی ہے تو احسان ایک ایسی بات نہیں جو اگر انسان نہ کرے تو خدا کے نزدیک معتوب ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ نے ذمہ داریاں ادا کرنے کا حکم کیوں نہ دیا اور احسان کا حکم کیوں دیا ؟ اس میں اور بھی حکمتیں پوشید ہوں گی لیکن دو ایسی حکمتیں ہیں جن کو میں آپ کے سامنے کھولنا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ فرض کی ادائیگی پہلے ہوا کرتی ہے اور احسان بعد میں آتا ہے.اگر فرض ادا نہ ہو تو احسان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اس لئے قرآن کریم جو بڑی تصیح و بلیغ کتاب ہے خدا کا کلام ہے اس نے ایک لفظ میں اس سے پہلے ہونے والی ذمہ داریوں کا بھی ذکر فرما دیا اور مومن سے گویا یہ توقع رکھی کہ جہاں تک اس کی روز مرہ کی ذمہ داریوں کا تعلق ہے فرائض کا تعلق ہے وہ تو لازما وہ پورے کر رہا ہے.ان کو نہ پورے کرنے کا تو سوال ہی نہیں.لیکن جہاں تک والدین کا تعلق ہے محض ذمہ داریاں پورا کرنا کافی نہیں ہے.ان کے ساتھ احسان کا سلوک ہونا ضروری ہے.ایک یہ حکمت ہے.دوسری حکمت یہ ہے کہ یہاں لفظ احسان کو سمجھنے کے لئے ہمیں قرآن کریم کی ایک اور آیت کا سہارا لینا ہوگا جو اس مضمون کے لئے کنجی کی حیثیت رکھتی ہے.ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.حل جزاء الاحسان (.) کہ احسان کی جزا احسان کے سوا کیا ہو سکتی ہے.پس یہ احسان ان کے اوپر ان معنوں میں احسان نہیں ہے جن

Page 63

58 معنوں میں ہم ایک دوسرے پر احسان کرتے ہیں.یہ احسان والدین کے اوپر اولاد کی طرف سے کوئی یک طرفہ نعمت نہیں ہے جو ان کو ادا کی جارہی ہے بلکہ خدا تعالیٰ یہ بیان فرما رہا ہے کہ والدین نے تم سے احسان کا معاملہ کیا تھا.اس لئے صرف فرض کی ادائیگی کافی نہیں ہوگی جب تک تم ان سے احسان کا معاملہ نہیں کرو گے تم اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے والے نہیں بنو گے.چنانچہ فرمایا.هل جزاء الاحسان (-) که احسان کی جزار تو احسان کے سوا ہے ہی کوئی نہیں.کوئی شخص تم پر احسان کرتا چلا جارہا ہو اور تم اپنی روز مرہ کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہو تو یہ کافی نہیں ہے.چنانچہ اس مضمون کو آیت کے آخری حصے میں کھول دیا جہاں یہ دعا سکھائی گئی.(.) اے اللہ ان سے اسی طرح رحم کا سلوک فرما جس طرح یہ بچپن میں مجھے سے رحم کا سلوک فرماتے تھے صرف اپنے حقوق ادا نہیں کرتے تھے.محض مجھے زندہ رکھنے کے لئے اور روز مرہ کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے محنت نہیں اٹھاتے تھے بلکہ اس سے بہت بڑھ کر مجھ سے شفقت اور رحمت کا سلوک فرمایا کرتے تھے.میری معمولی سی تکلیف پر یہ بے چین ہو جایا کرتے تھے.میری اوٹی سی بیماری پر ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہو جایا کرتی تھیں اور انہوں نے جو مجھ سے سلوک فرمایا وہ رحمت کا سلوک ہے.پس مجھے جو احسان کا حکم ہے کہ میں بھی احسان کا سلوک کروں تو اے خدا ! میں اس احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتا اس لئے میں دعا کے ذریعے تجھ سے مدد چاہتا ہوں اور جب تک تو اس بارہ میں میری مدد نہ فرمائے حقیقت میں میرے والدین کے مجھے پر اتنے احسانات ہیں کہ میں جو بھی کوشش کروں اس کے باوجود ان احسانات کو چکا نہیں سکتا پس تو میری مددفرما اور رب ارحمها اے خدا تو ان کے اوپر رحم فرما اور میرے سلوک میں جو کمیاں رہ جائیں گی وہ تو اپنے رحم سے پوری فرمادے کمار بینی صغیر آ جس طرح بچپن میں یہ میری تربیت کرتے رہے تو ان کے ساتھ وہ سلوک فرما.

Page 64

59 بچہ کی تربیت میں سختی کی بجائے رحم کی ضرورت اس دعا نے ایک اور حیرت انگیز مضمون کو ہمارے سامنے کھول دیا کہ والدین بھی جہاں تک خدا کا تعلق ہے اس کی تربیت کے محتاج ہیں اور لهما اف کہنے کے ساتھ ان کی بشری کمزوریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے تو وہاں بھی خدا تعالیٰ کی ربوبیت کی بہت ضرورت ہے.انسان تو مرتے دم تک خدا کی ربوبیت کا محتاج رہتا ہے اس لئے یہ دعا بہت ہی کامل دعا ہے اور اس کے معنی یہ بنیں گے کہ اے خدا! اگر چہ بظاہر ان کے اعضاء مضمحل ہو چکے ہیں.یہ کمزوری کی طرف لوٹ رہے ہیں طاقت کے بعد ضعف ہو چکا ہے.لیکن ضعف کے وقت زیادہ رحم کے ساتھ تربیت کی ضرورت پیش آتی ہے.جب میں بچہ تھا تو میرے والدین نے مجھ سے میرے ضعف کی وجہ سے رحم کا سلوک کیا اور صغیراً" کے لفظ نے بتا دیا کہ بڑے ہو کر رحم کا معاملہ اتنا نہیں رہا کرتا جتنا بچپن میں ہوتا ہے.بچپن کی کمزوری ہے جو رحم کا تقاضا کرتی ہے.بچے کو آپ ایک بات سکھاتے ہیں.چلانا سکھا ئیں تو بار بار وہ گرتا ہے.بولنا سکھا ئیں تو بار بار غلطیاں کرتا ہے.تلاتا ہے.سبق پڑھا ئیں تو اس کو پڑھا ہوا سبق بار بار بھولتا چلا جاتا ہے.لفظ آپ رٹا بھی دیں تو پھر اگلی دفعہ جب سنتے ہیں تو اس لفظ میں پھر وہی غلطیاں کرنے لگ جاتا ہے.بعض دفعہ بچے کو پڑھانا اعصاب شکن ہوتا ہے اور حقیقت میں جب تک رحم کا معاملہ نہ کیا جائے اس وقت تک بچے کی صحیح تعلیم نہیں ہو سکتی.چنانچہ بعض والدین جو جہالت سے حوصلہ چھوڑ بیٹھتے ہیں وہ بچے سے بجائے رحم کے مفتی کا معاملہ شروع کر دیتے ہیں اور سختی کے ساتھ بچے کی تربیت ہو نہیں سکتی.اس میں بغاوت پیدا ہو جاتی ہے.اس میں سخت رد عمل پیدا ہوتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اس کی تربیت ہو اس کے اندر بچپن سے نقائص بیٹھ جاتے ہیں.پس اس آیت کریمہ نے اس حکمت کو بھی ہمارے سامنے

Page 65

60 روشن کر دیا کہ وہ والدین جو اچھی تربیت کرنے والے ہوں وہ بچپن میں رحم کے ساتھ تربیت کیا کرتے ہیں اور وہ لوگ جن کو یہ دعا سکھائی گئی ہے وہ کیونکہ دراصل حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے ساتھی ہیں، آپ کے غلام ہیں اس لئے ان کے والدین سے بہترین توقعات بھی پیش فرمائی گئیں اور یہ بیان کیا گیا کہ جس طرح ہمارے والدین بچپن میں ہماری کمزوریوں کے پیش نظر ہم سے سختی کرنے کی بجائے رحمت کا معاملہ کیا کرتے تھے اور تربیت میں بار بار بخشش کا سلوک فرماتے تھے اسی طرح اے خدا! اب میرے والدین کمزور ہو چکے ہیں تو ان کی غفلتوں اور کمزوریوں سے درگزر فرما اور ان کے ساتھ بخشش اور رحمت کا سلوک فرما.اس ضمن میں ایک یہ بات بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ کما کے لفظ نے ہمیں ہماری بہت سی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلا دی جو صرف والدین کی طرف سے نہیں بلکہ اپنی اولا د اور آئندہ نسلوں کی طرف سے ہمیں پیش آتی ہیں اور ہمیں انہیں کس طرح ادا کرنا چاہئے اس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.فرمایا: رب ارحمهما (-) یورپی معاشرے کے عذابوں کی وجہ گما کے لفظ نے یہ بتایا کہ اگر والدین بچوں کی تربیت رحمت کے ساتھ نہیں کرتے تو یہ دعا ان کے حق میں نہیں سنی جائے گی کیونکہ کسما کا مطلب ہے جیسے انہوں نے بچپن میں رحمت کے ساتھ میری تربیت کی یہ وہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو بھلا کر یورپ اپنے معاشرے میں کئی قسم کے عذاب پیدا کر چکا ہے.اولاد کے ساتھ حسن سلوک اور رحم کے ساتھ تربیت کرنا اس لئے بھی نہایت ضروری ہے تا کہ بعد میں بڑے ہو کر اس اولاد کا اپنے والدین سے اسی طرح رحمت اور نرمی اور مغفرت کا تعلق ہو.اگر

Page 66

61 بچپن ہی سے والدین اپنی زندگی کی لذتوں میں منہمک پڑے ہوں اور اولا د کو سکولوں کے سپرد کر دیں یا معاشرے کے سپرد کر دیں اور ان کی تربیت میں جو ذاتی تعلق پیدا کرنا چاہئے وہ تعلق پیدا نہ کریں ( تو یہ دعا ان کے حق میں نہیں سنی جائے گی ) یاد رکھیں یہاں بچوں کے ساتھ پیار کا ذکر نہیں ہے.بچوں کے ساتھ پیار تو ہر معاشرے میں والدین کو ہوتا ہی ہے.فرمایا ایسا پیار ہو جو تربیت میں استعمال ہوا ہو اور ایسا پیار نہ ہو جو تربیت خراب کرنے والا ہو.پس پیار کے متوازن ہونے کا بھی اس آیت میں ذکر فرما دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ وہ پیار ہی کام کا پیار ہے جس کے نتیجے میں اولاد اعلیٰ تربیت پائے.پس وہ والدین جو اس بات سے غافل رہتے ہیں ان کی سوسائٹیوں میں کئی قسم کی خرابیاں جگہ پکڑ جاتی ہیں اور ان کی اولادمیں جب بڑی ہوتی ہیں تو وہ اپنے والدین کے لئے نہ خدا تعالیٰ سے احسان کی دعائیں مانگتی ہیں نہ خود احسان کا سلوک کرتی ہیں.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بوڑھے آدمیوں کے گھر ایسے والدین سے بھر جاتے ہیں.جن کی اولادیں ان سے غافل ہو چکی ہوتی ہیں.ان کے ساتھ حسن سلوک تو در کنار ان کی معمولی سی غفلت پر ان کو ڈانٹتے ہیں ان سے قطع تعلقی کرتے ہیں ان کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتے ہیں اور جن جن معاشروں میں یہ مرض بڑھتا چلا جاتا ہے وہاں حکومت کے اخراجات بوڑھے لوگوں کے گھروں پر زیادہ سے زیادہ بڑھنے لگتے ہیں یہاں تک کہ بعض امیر ممالک بھی عاجز آ جاتے ہیں اور ان کے پاس اتنا روپیہ مہیا نہیں ہوتا کہ وہ اپنی سوسائٹی کے سب بوڑھوں کی ضرورتوں کو پورا کر سکیں جو ضرورتیں دراصل ان کی اولا د کو پوری کرنی چاہئے تھیں.لیکن جیسا کہ غالباً مولانا روم کا شعر ہے از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروید جو ز جو

Page 67

62 کہ اعمال کے جواثرات مرتب ہوتے ہیں ان سے غافل نہ رہنا.گندم از گندم بروید جوز جو گندم کا بیج ڈالو گے تو گندم ہی اُگے گی اور کو بوڈ کے تو ہو ہی اُگیں گے.جنریشن گیپ سے پاک سوسائٹی کا تصور اس لئے پہلی نسلوں کے ساتھ آنے والی نسلوں کا تعلق دراصل اس تعلق کا آئینہ دار ہے جو پہلی نسلوں نے اپنی چھوٹی نسلوں سے رکھا تھا.اگر اس میں شفقت تھی اور اس میں صرف شفقت ہی نہیں تھی بلکہ تربیت کے لئے استعمال ہونے والی شفقت تھی، اگر رحمت کا سلوک تھا اور اس رحمت کے نتیجے میں اولاد کے ساتھ بہت ہی حکمت کے ساتھ برتاؤ کیا گیا تا کہ ان کے اخلاق بگڑیں نہیں بلکہ سنورتے چلے جائیں اور اس رنگ کی تربیت کی گئی اور رحم کے نتیجے میں تربیت کی طرف زیادہ توجہ دی گئی تو ایسے لوگوں کی اولا دیں پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس احسان کو یاد رکھتے ہوئے فطری طور پر اپنے والدین کے لئے آخر وقت تک نرم رہتی ہیں اور ان کے ساتھ ان کے تعلق کٹ نہیں سکتے ایسی سوسائٹی میں کوئی Generation Gap پیدا نہیں ہوسکتا کیونکہ Generation Gap ایک بہت ہی خطرناک اصطلاح ہے اور آج کی ترقی یافتہ دنیا کی ایجاد ہے ورنہ قدیم سوسائٹیوں میں آج تک Generation Gap کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا یہ اعلیٰ تعلیم اور ترقی کی نشانی ہے بلکہ قرآن کریم نے جو حکمت بیان فرمائی ہے اس کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں یہ بیماری پیدا ہوتی ہے کہ ایک Generation اپنی چھوٹی Generation کے ساتھ محبت کا تعلق چھوڑ دیتی ہے اور تربیت سے غافل ہو جاتی ہے تو وہ نسل جب بڑی ہوتی ہے اپنی پہلی نسل سے بہت دور ہٹ چکی ہوتی ہے.ان کے درمیان فاصلے پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ فاصلے نسلاً بعد

Page 68

63 نسل بڑھتے چلے جاتے ہیں بجائے اس کہ وہ کم ہونے لگیں اس لئے یہ دعا جو سکھائی گئی اس کا پس منظر بھی خوب کھول کر بیان فرما دیا گیا اور اس کا جو بیچ کا حصہ ہے وہ ہے واخفض لهما جناح الذل (-) کراے بچو ! تم اپنے والدین کے لئے اس طرح نرمی کے پر پھیلا دو جیسے پرندے اپنے چوزوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنے پروں میں ڈھانپ لیتے ہیں.یہاں پر کا استعمال اس لئے کیا گیا تا کہ پرندوں کا اپنے بچوں کے ساتھ سلوک ایک تصویر کی صورت میں ہماری نظروں کے سامنے ابھر آئے اور فرمایا کہ اس طرح اپنے والدین کے ساتھ پیارا اور محبت کا سلوک کرو جس طرح پرندے اپنے بچوں کو پالتے ہیں، ان کی نگہداشت کرتے ہیں جو کلیتہ ان کے محتاج ہوتے ہیں.یہاں دراصل انسانوں سے ہٹ کر پرندوں کی مثال دی گئی ہے.جناح کا لفظ محاورہ ہے ضروری نہیں کہ پر کے لئے استعمال ہو.ایک صفت کے بیان کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے.لیکن کیوں استعمال ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پرندوں کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے کیونکہ پرندوں کے پر ہوتے ہیں.اور پرندے اپنے بچوں کی بعض دفعہ اس طرح لیبے عرصے تک تربیت کرتے ہیں کہ نہ وہ بچے دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں نہ کھا سکتے ہیں.ان کی چونچوں کو ٹھونگے مار مار کے وہ خوراک کے لئے کھلواتے ہیں اور جب تک وہ اس لائق نہیں ہو جاتے کہ خود آزاد زندگی بسر کر سکیں.اس وقت تک پرندوں کے والدین مسلسل محنت کرتے چلے جاتے ہیں.پھر اس میں ایک اور بھی حکمت ہے کہ دونوں پرندے اپنے بچوں کے لئے محنت کرتے ہیں اور صرف ماں پر نہیں چھوڑا جاتا.اور قرآن کریم نے جو ہمیں دعا سکھائی اس میں بھی اس مضمون کو کھول دیا گیا ہے آج کل کے جدید معاشروں میں ایک یہ بھی خرابی ہے اور ہمارے قدیم معاشروں میں بھی یہ خرابی ہے بلکہ بعض صورتوں میں تیسری

Page 69

64 دنیا کے ممالک میں یہ خرابی ترقی یافتہ ممالک سے بہت زیادہ پائی جاتی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ماں کا کام ہے تربیت کرے اور والد اس میں دخل نہیں دیتے.والد ساتھ مل کر محنت نہیں کرتے اور ماں پر چھوڑ دیتے ہیں کہ جس طرح چاہے ان کو پائے ان کا خیال رکھے نہ رکھے.والد تو صرف کمانے میں مصروف رہتے ہیں.اور سمجھتے ہیں ہم نے تو اپنا فرض ادا کر دیا.قرآن کریم نے جو دعا سکھائی اس میں یہ بتایا رب ارحمهما (.) کہ اے میرے اللہ ان دونوں پر اس طرح رحم فرما جس طرح ان دونوں نے رحم کے ساتھ میری تربیت کی.یعنی ماں اور باپ دونوں اولاد کے لئے محنت کرنے میں ابرابر کے شریک ہونے چاہئیں مگر ذمہ داریاں سمجھتے ہوئے نہیں بلکہ رحم کے نتیجے میں اور شفقت کے نتیجے میں.پس اس دعا کو اب دوباره واخفض لهما جناح الذل کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ وہاں پرندوں کی ہی مثال دی گئی ہے کیونکہ جانوروں کی دنیا میں سب سے زیادہ مل کر اولاد کی خدمت کرنے والے پرندے ہیں ان کے مقابل پر کسی اور جانور کی کوئی مثال نہیں دی جا سکتی.جس طرح پرندے دونوں مسلسل محنت کرتے ہیں اپنی اولاد کے لئے اس طرح دوسرے جانوروں میں اتنی مکمل مشتر کہ محنت کی مثال نہیں ملتی.گھونسلہ بنانے میں بھی وہ اسی طرح محنت کر رہے ہوتے ہیں.خوراک مہیا کرنے میں بھی اسی طرح محنت کر رہے ہوتے ہیں، بلکہ بسا اوقات آدھا وقت Male یعنی نر پرندہ بیٹھتا ہے اور پھر جہاں تک خوراک مہیا کرنے کا تعلق ہے اس میں بھی دونوں محنت کرتے ہیں مگر یز پرندے کو بعض دفعہ زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے خوراک مہیا کرنے میں تو فرمایا یہ بھی ہمیں اس دعا سے حکمت سمجھ آ گئی کہ صحیح تربیت کرنے میں ماں کے علاوہ باپ کو برابر کا شریک رہنا چاہئے.اور جہاں ماں اور باپ مل کر اولاد سے حسن سلوک کر رہے ہوں وہاں طلاقیں شاذ کے طور پر

Page 70

65 واقع ہوں گی.وہ گھر نہیں ٹوٹا کرتے.اکثر وہی گھر ٹوتے ہیں جہاں اولاد کی تربیت میں دونوں میں سے کسی ایک کا زیادہ دخل ہوتا ہے اور آپس کے تعلقات اس حد تک خراب ہو تے ہیں کہ دونوں بیک وقت اپنی اولاد کی ذمہ داریاں ادا نہیں کرتے.اسی وجہ سے ایسی اولادیں پھر بڑی ہو کر زیادہ خراب ہو جایا کرتی ہیں.بعض دفعہ وہ ماں کی سائیڈ لیتی ہیں کیونکہ ماں نے تربیت اور پیار میں زیادہ حصہ لیا.بعض دفعہ باپ کے ساتھ تعلق قائم رکھتی ہیں اور ماں کے خلاف ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ ماں نے تو ہماری ذمہ داریاں ادا نہیں کیں باپ قربانی کرتا رہا ہے تو اس طرح گھروں کے ٹوٹنے کے احتمالات بھی بڑھ جاتے ہیں.تربیت کے لئے رحمت ضروری ہے یہ صورت حال پھر بعض دفعہ ایسے خطرناک نتائج پر منتج ہو جاتی ہے جس کے آثار اس وقت ترقی یافتہ ممالک میں ہر جگہ دکھائی دے رہے ہیں.کہ اولاد کو اپنے والدین سے خطرہ پیدا ہو جاتا ہے.یورپ کے بعض علاقوں میں پولیس کی تحقیق کے مطابق تمہیں فیصد گھر ایسے ہیں جہاں بچے اپنے ماں باپ سے محفوظ نہیں ہیں.یہاں تک کہ جنسی بے راہ روی کا بھی شکار ہو جاتے ہیں.پس جہاں یہ صورت حال ہو وہاں یہ دعا کیسے کام کر سکتی ہے کہ رب ارحمهما (-) یہ ایک ایسے صالح معاشرے کی دعا ہے جہاں والدین نے اپنی اولاد سے محض عام سلوک نہیں کیا.ذمہ داریاں ہی ادا نہیں کیں بلکہ بے حد رحمت کا سلوک کیا اور ان کی تربیت شفقت سے کی کسی غصے کے ساتھ نہیں کی.اور تربیت کے لئے رحمت ضروری ہے.یاد رکھیں جہاں جلد بازی میں انسان غصے میں مبتلا ہو جاتا ہے.اولاد کو مارنے لگ جاتا ہے اس کو گالیاں دینے لگ جاتا ہے وہاں تربیت کا مضمون غائب چکا ہوتا ہے.اور نفسانی جوش سے تربیت نہیں ہوا کرتی.

Page 71

66 حضرت اقدس مسیح موعود ( ) نے اسی لئے ایک (رفیق) پر بہت ہی خفگی کا اظہار فرمایا جن کے متعلق اطلاع ملی تھی کہ وہ اپنی اولا د سے سختی کرتے ہیں اور مار کے ان کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں.اتنی سختی کا اظہار فرمایا کہ بہت کم میں نے حضرت مسیح موعود کو اپنے رفقاء پر اس طرح ناراض ہوتے دیکھا ہے اور بار بار اس طرف توجہ دلائی کہ تم دعا کیوں نہیں کرتے.اس سے پتہ چلا کہ خدا کے پاک بندے جو سچا ایمان رکھتے ہیں وہ تمام کوششوں میں سب سے زیادہ اہمیت دعا کو دیتے ہیں.تربیت میں سب سے اہم دعا ہے پس رب ارحمهما (-) میں ایک یہ پہلو بھی ہمارے سامنے آ گیا کہ وہ رستہ جس پر خدا کے انعام یافتہ لوگ چلا کرتے تھے وہ اپنی اولاد کے لئے صرف رحمت کا سلوک نہیں کیا کرتے تھے.ان کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے.اور ان کی دعائیں ان کے رحم کے نتیجہ میں ہوتی تھیں.کیونکہ رحم کے نتیجے میں وہ خود بعض سختیاں اختیار نہیں کر سکتے تھے.بعض جگہ وہ تجاوز نہیں کر سکتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں ہے کہ میں یہاں زبر دستی اس کو ٹھیک کر دوں.اس کے نتیجہ میں ان کے دل میں درد پیدا ہوتا تھا اور دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہوتی تھی.پس وہ لوگ جو منعم عليهم ہیں جن کو خدا نے اس رستہ پر کامیابی سے چلنے کی توفیق بخشی جو انعام یافتہ لوگوں کا رستہ تھا.انہوں نے اپنی اولادوں کے لئے دعا ئیں بھی بہت کیں.پس اس کے نتیجہ میں خدا نے بھی جوا با حسن سلوک سکھایا تو اس مضمون کو دعا پر ختم کیا.فرمایا وہ تمہارے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے اس میں دعا ئیں بھی شامل تھیں.نما کے لفظ نے بتا دیا کہ دعا ئیں ضرور شامل تھیں اگر دعا ئیں شامل نہ ہو تیں تو خداد عا سکھاتا کیوں ؟ پس اس مضمون کو دعا پر ختم کرنا اس آیت کو بہت ہی زیادہ دلکشی عطا کرتا ہے.بہت ہی حسین بنا دیتا ہے.کیسا

Page 72

67 کامل کلام ہے.تربیت کے سارے امور بھی اس میں بیان ہو گئے دونوں نسلوں کے تعلقات اس میں بیان ہو گئے وہ خطرات بیان ہو گئے جو ہمیں در پیش آسکتے ہیں جن سے ہمیں متنبہ کیا گیا اور پھر یہ بتایا گیا کہ تربیت کا بہترین طریق دعا ہی ہے پس جس طرح تمہارے والدین بچپن میں دعاؤں کے ذریعہ تم سے اپنی رحمت کا اظہار کرتے تھے تم بھی آخر پر خدا سے یہ دعا کیا کرنا اور اس دعا کو حسن سلوک کے بعد رکھا ہے.دیکھیں ! و اخفض لهما (-) ان پر اپنی رحمت کے پر پھیلا دو ان کو اپنے پروں کے نیچے لے لو.ساری بات بظاہر مکمل ہو گئی.پھر فرمایا نہیں مکمل ہوئی جب تک یہ دعا ساتھ نہیں کرو گے.اس وقت تک تم حقیقت میں احسان کا بدلہ احسان کے ذریعہ نہیں دے سکو گے.پس اس دعا نے اس مضمون کو مکمل کیا اس دعا کے وقت ان سب باتوں کو اگر ہم چیش نظر رکھیں تو اس دعا میں بہت گہرائی پیدا ہو جاتی ہے اور بہت عظمت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ دعا انگلوں کے لئے بھی مفید ہے اور گزرے ہوؤں کے لئے بھی مفید ہے اور ہر طرف برابر اثر دکھاتی ہے.توحید باری تعالیٰ کے ساتھ اس مضمون کا بہت گہرا تعلق ہے کیونکہ سوسائٹی میں وحدت توحید کے اعلیٰ قیام کے لئے ضروری ہے.اور سوسائٹی میں وحدت تبھی ممکن ہے اگر والدین کا اولاد کے ساتھ اور اولاد کا والدین کے ساتھ گہرا اٹوٹ تعلق قائم ہو چکا ہو.اسی کے نتیجہ میں خاندان استوار ہوتے ہیں اسی کے نتیجہ میں سوسائٹی میں یک جہتی پیدا ہوتی ہے.جہاں خاندانی رشتے ٹوٹ جائیں جہاں والدین اپنی اولاد سے الگ ہونے شروع ہو جائیں وہاں سوسائٹی پارہ پارہ ہو کر بکھر جاتی ہے اور ایک بکھری ہوئی منتشر سوسائٹی توحید پر قائم نہیں ہوا کرتی پس وحدت کے ساتھ اس مضمون کا ایک اور بھی گہرا تعلق ہے یعنی ایک تعلق تو یہ ہے کہ خدا کو اپنی توحید کے بعد سب سے زیادہ یہ چیز

Page 73

.68 پیاری ہے کہ مومن احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دینے والا ہو اور دوسرا تعلق یہ ہے جو میں نے بیان کیا ہے.ذوق عبادت صفحہ 257 تا 269 نظارت اشاعت ربوہ) حضرت ابو ہریرہ کا نمونہ اس دعا کے ضمن میں حضرت ابو ہریرۃ کا نمونہ بہت ہی دلکش ہے.حضرت ابو ہریرہ ایک زمانہ میں ذی الحلیفہ میں رہتے تھے (جو مدینہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہے) وہ ایک گھر میں مقیم تھے اور ان کی والدہ قریب ہی ایک دوسرے مکان میں تھیں.حضرت ابو ہریرہ جب بھی باہر نکلتے تو والدہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر انہیں سلام کرتے.جب وہ جواب دیتیں تو حضرت ابو ہریرہ ان کے لئے یہ دعا کرتے رحمك الله كما ربیتنی صغیراً اللہ آپ پر رحم فرمائے جس طرح آپ نے میرے بچپن میں رحمت کے ساتھ میری پرورش کی تھی.اس پر والدہ یہ دعا کر تھیں.رحمك الله كما بررتنى كبيراً اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے جس طرح تم بڑی عمر میں میرے ساتھ حسن سلوک کرتے ہو.حضرت ابو ہریرہ جب باہر سے واپس آتے تو یہی عمل دہراتے.الادب المفرد صفحہ 15 امام بخاری باب جزاء الوالدين مطبع التازيه حضرت مسیح موعود کی دعا حضرت مسیح موعود کی اپنی والدہ سے محبت اور ان کے لئے دعا کا ذکر آپ کے ساتھی یوں بیان فرماتے ہیں.

Page 74

69 حضرت مسیح موعود کو اپنی والدہ سے بے پناہ محبت تھی.جب کبھی ان کا ذکر فرماتے آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے.شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کا چشمد ید بیان ہے کہ حضور ایک مرتبہ سیر کی غرض سے اپنے پرانے قبرستان کی طرف نکل گئے.راستہ سے ہٹ کر آپ ایک جوش کے ساتھ اپنی والدہ صاحبہ کے مزار پر آئے اور اپنے خدام سمیت ایک لمبی دعا کی.حضور جب کبھی حضرت والدہ صاحبہ کا ذکر کرتے تو آپ چشم پر آب ہو جاتے.تاریخ احمدیت جلد اول صفحه 125 از مولا نا دوست محمد شاہد ادارۃ المصنفین )

Page 75

70 باب پنجم جنت ماں کے قدموں تلے ☆ جو عزت رسول اللہ نے عورت کو دی ھے کسی اور مذہب نے نھیں دی ☆ جتنا پیار ماں بچے سے کرتی ہے کوئی دوسری ہستی نہیں کر سکتی حضور نے حارثہ بن نعمان کی جنت میں قراءت سنی اور فرمایا وہ ماں سے بہت حسن سلوک کرتے تھے

Page 76

71 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ماں کی عظمت وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَنًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلَهُ وَ فِصْلُهُ ثَلْثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةٌ قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَ عَلَى وَالِدَيَّ وَ أَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَاَصْلِحُ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَ إِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (الاحقاف-16) اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تاکید کی ہے.سید اس وجہ سے کہ مشکل سے اس کی ماں نے اپنے پیٹ میں اس کو رکھا اور مشکل ہی سے اس کو جنا اور یہ مشکلات اس دور دراز مدت تک رہتی ہیں کہ اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کے دودھ کا چھوٹا میں مہینہ میں جا کر تمام ہوتا ہے یہاں تک کہ جب ایک نیک انسان اپنی پوری قوت کو پہنچتا ہے تو دعا کرتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھ کو اس بات کو توفیق دے کہ تو نے جو مجھے اور میرے ماں باپ پر احسانات کئے ہیں تیرے ان احسانات کا شکریہ ادا کرتا رہوں اور مجھے اس بات کو بھی توفیق دے کہ میں کوئی ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو جائے.اور میرے پر یہ بھی احسان کر کہ میری اولاد نیک بخت ہو اور میرے لئے خوشی کا موجب ہو اور میں اولاد پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ ہر ایک حاجت کے وقت تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں ان میں سے ہوں جو تیرے آگے اپنی گردن رکھ دیتے ہیں اور نہ کسی اور کے آگے.(ترجمہ: حضرت مسیح موعود از چشمه معرفت صفحه 200 حاشیه )

Page 77

72 اس آیت میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہوئے والدہ کے حقوق کا الگ اور خصوصی ذکر فر مایا گیا ہے.یہی مضمون دیگر آیات اور احادیث میں بھی ملتا ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں والدہ کو مقدم رکھا ہے کیونکہ والدہ بچہ کے واسطہ بہت دکھ اٹھاتی ہے.کیسی ہی متعدی بیماری بچہ کو ہو چپ ہو ہیضہ ہو طاعون ہوناں اس کو چھوڑ نہیں سکتی.ہماری لڑکی کو ایک دفعہ ہیضہ ہو گیا تھا.ہمارے گھر سے اس کی تمام قے وغیرہ پر میں بھی حجت اپنے ہاتھ پر لیتی تھیں.ماں سب تکالیف میں بچہ کی شریک ہوتی ہے.ی طبیعی محبت ہے جس کے ساتھ کوئی دوسری محبت مقابلہ نہیں کر سکتی.( ملفوظات جلد چہارم جدید ایڈیشن صفحہ 289 حضرت خلیفہ امسح الاول اس مضمون کے تعلق میں فرماتے ہیں.پہلے ماں باپ ہر دو کی طرف توجہ دلا کر پھر ساتھ ہی ماں کا خصوصیت کے ساتھ ذکر شروع کر دیا کیونکہ عمو مالوگ باپ کی عزت تو کرتے ہیں مگر ماں کی خدمت کا حق ادا نہیں کرتے.( حقائق الفرقان جلد 3 صفحہ 366 ) چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ماں کی خدمت کو بہت اہم قرار دیا ہے.جنت ماں کے قدموں تلے ہے حضور ﷺ نے فرمایا الجنة تحت اقدام الامهات ( الجامع الصغیر 144 - از علامہ سیوطی المکتبہ الاسلامیہ سمندری پاکستان)

Page 78

73 مذکورہ بالا حدیث ماں کے قدموں تلے جنت ہے کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستان کی مشہور لیڈر سروجنی نائیڈو نے اعتراف کیا سب سے زیادہ پیاری چیز جو اسلام ہندوستان میں لا یادہ یھی کہ.ماں کے قدموں تلے جنت ہے.برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول حصہ چہام صفحہ 45 ملک فضل حسین احمدی.پبلشر سید محمد سعید بریلوی طبع اول دسمبر 1929ء) یہ حدیث رسول اللہ کے جوامع الکلم کا شاہکار ہے.سید نا حضرت مصلح موعود اس کی تشریح میں فرماتے ہیں.یہ حدیث کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے یہ بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر ماں اچھی تربیت کرے تو اچھی نسل پیدا ہوگی اور جو انعامات باپ حاصل کرے گا وہ دائمی ہو جائیں گے.لیکن اگر ماں اچھی تربیت نہیں کرے گی تو باپ کے کمالات باپ تک ختم ہو جائیں گے اور دنیا کو جنات عدن حاصل نہیں ہونگی.یہی مفہوم اس حدیث سے بھی ظاہر ہوتا ہے جو معاویہ بن جاہمہ سے مروی ہے.وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ مجھے اجازت دیکھیئے کہ میں فلاں جہاد میں شامل ہو جاؤں آپ نے فرمایا.کیا تیری ماں زندہ ہے.اس نے کہا.ہاں حضور زندہ ہے.آپ نے فرمایا فَالزِمُهَا فَإِنَّ الجَنَّةَ تَحْتَ رجُلَيْهَا.(نسائی جلد ۲ کتاب الجہاد ) جا اور اسی کے پاس رہ کیوں کہ اس کے قدموں میں جنت ہے.معلوم ہوتا ہے اس میں بعض ایسے نقائص تھے جن کے متعلق رسول کریم ے سمجھتے تھے کہ اگر وہ ماں کی صحبت میں رہا تو اس کی عمدہ تربیت سے وہ دور ہو جائیں گے.ممکن ہے اس میں تیزی اور جوش کا مادہ زیادہ ہو اور رسول کریم ﷺ نے یہ سمجھا

Page 79

74 ہو کہ اگر یہ جہاد پر چلا گیا تو اس کی طبیعت میں جو جوش کا مادہ ہے وہ اور بھی بڑھ جائے گا لیکن اگر اپنی والدہ کے پاس رہا اور اس کی اطاعت کرتے ہوئے اسے اپنے جوشوں کو دہانا پڑا تو اس کی اصلاح ہو جائے گی.بہر حال کوئی ایسی ہی کمزوری تھی جس کی وجہ سے رسول کریم اے نے اس کے لئے ماں کی تربیت جہاد کے میدان سے زیادہ بہتر کبھی اور اسے اپنی والدہ کی خدمت میں رہنے کا ارشاد فرمایا.یہ حدیث بھی ظاہر کرتی ہے کہ جنت عورت کے تعاون کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی.غرض عورت کا جنت میں ہونا ضروری ہے نہ صرف انگلی جنت میں بلکہ دنیوی جنت میں بھی.کیونکہ اس کے بغیر کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی.خلافت راشدہ صفحه 118) اسلام میں ماں کا مقام ومرتبہ اس ارشاد کے معارف بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں.دنیا کے سب مذاہب میں عورت کا کسی نہ کسی رنگ میں ذکر ملتا ہے اور میں نے اس پہلو سے دنیا کے تمام مذاہب کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت ہے کہ جو عزت اور مقام اور مرتبہ قرآن کریم اور حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ نے عورت کو عطا فرمایا اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتا.جب انسان یہ موازنہ کرتا ہے تو تعجب میں غرق ہو جاتا ہے اور بہت ہی تکلیف دہ پر عذاب تعجب میں غرق ہو جاتا ہے کہ یہ تمام مذاہب جن میں عورت کا یا مثبت رنگ میں ذکر ملتا ہے تو بہت معمولی اور بے حیثیت یا منفی رنگ میں ذکر ملتا ہے اسلام پر حملے کرنے میں یہ سب سے زیادہ تیزی دکھاتے ہیں اور شوخی دکھاتے ہیں کہ اسلام میں عورت کا کوئی مقام اور مرتبہ نہیں.

Page 80

75 ایک دفعہ یورپ میں سوال و جواب کی کسی مجلس میں عیسائی خاتون نے یہ سوال کیا اور مجھے یاد نہیں کہ کبھی بھی سوال و جواب کی کوئی ایسی مجلس ہوئی ہو جس میں یہ سوال نہ کیا گیا ہوتو میں نے اسے کہا کہ میں صرف حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا ایک فرمان تمہیں سناتا ہوں.تم مذاہب کا ہی نہیں تمام دنیا کی تہذیبوں میں عورت کے ذکر کی تحقیق کر دیکھو اور وہ شان جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ایک چھوٹے سے پاکیزہ جملے میں عورت کو عطا کر دی ہے اس کا لاکھوں کروڑواں حصہ بھی مجھے کہیں اور سے لا کر دکھاؤ.میں نے اسے بتایا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی یو نے ایک مرتبہ فرمایا کہ تمہاری جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے.اتنا خوبصورت فقرہ ہے.عورت کے لئے اتنا عظیم اظہار تحسین ہے کہ جس کے متعلق یہ فقرہ کہا جائے بلا شبہ اس کو آسمان کی بلند ترین رفعتیں عطا ہو جاتی ہیں.کسی مرد کے متعلق نہیں فرمایا یا مردوں کے کسی گروہ سے متعلق نہیں فرمایا کہ ان کے پاؤں تلے ان کی اولادوں کی جنت ہے یا قوم کی جنت ہے.صرف عورت کو مخاطب کرتے ہوئے یہ ایسا سرٹیفکیٹ ایسا لقب عطا فرما دیا.ایسا مقام عطا کر دیا.ایسا طمح نظر اس کو بخشا جس کی کوئی مثال دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ملتی.جب میں نے اس کی مزید تفصیل بیان کی تو وہی خاتون جنہوں نے بڑی شوخی سے تو نہیں کہنا چاہئے مگر اعتماد کے ساتھ یہ جانتے ہوئے یہ احساس رکھتے ہوئے یہ سوال کیا تھا کہ اس سوال کا کوئی جواب کسی کے پاس نہیں ہو سکتا یہ سن کر نہ صرف یہ کہ اس کا سر جھک گیا بلکہ بعد میں تائید میں کھڑی ہوئی اور اس نے کہا آج مجھے پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ اسلام عورت کو کیا عزت عطا کرتا ہے اور کیا مقام بخشتا ہے.یہ ایک چھوٹی سی ہدایت ہے لیکن اس کے اندر ثبت رنگ کے بھی اور منفی رنگ کے بھی بہت گہرے مضامین ہیں.یہ محض ایک خوشخبری ہی نہیں بلکہ انذار کا پہلو بھی رکھتی

Page 81

76 ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی عے کا عورتوں کے متعلق مردوں کو یہ نصیحت کرنا یا تمام قوم کو یہ نصیحت کرنا کہ تمہاری جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے ایک بہت ہی معارف کا سمندر ہے جو ایک چھوٹے سے فقرے کے کوزے میں بند کر دیا گیا ہے.عورت کے اختیار میں ہے کہ قوم کا مستقبل بنائے.جس جنت کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ صرف آخرت کی جنت نہیں بلکہ اس دنیا کی جنت بھی ہے.کوئی قوم جسے اس دنیا کی جنت نصیب نہ ہوا سے آخرت کی جنت کی موہوم امیدوں میں نہیں رہنا چاہئے وہ محض ایک دیوانے کا خواب ہے کیونکہ جس کے دل کو اس دنیا میں سکینت نصیب نہیں ہوتی اسے آخرت میں بھی سکینت نصیب نہیں ہو سکتی.جو اس دنیا میں اندھے ہیں وہ اس دنیا میں بھی اندھے ہی اٹھائے جائیں گے.پس اس پہلو سے مسلمان عورت کی کچھ ذمہ داریاں ہیں جو اس دنیا کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہیں اور اس دنیا کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہیں.سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ ہر خاتون جو گھر کی ملکہ ہے کیا اس کے گھر میں جنت بن گئی ہے یا نہیں بنی ؟ کیا اس کی اولاد میں جنتیوں والی علامتیں پائی جاتی ہیں کہ نہیں؟ اسے دیکھ کر ہر عورت خود اپنے نفس کا جائزہ لے سکتی ہے اور اس بات کو پر کھ سکتی ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی عے کی پیش کردہ کسوٹی کے مطابق میں وہ عورت ہوں کر نہیں جس کا ذکر میرے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اتنے پیار اور اتنے ناز اور اتنے اعتماد کے ساتھ کیا ہے مجھے مخاطب کیا میرا ذکر فرمایا اور یہ کہا کہ اے مسلمان عورت جو میرے حلقہ ارادت میں داخل ہوئی تجھ سے مجھے یہ توقع ہے کہ تیرے پاؤں کے نیچے جنت ہے.پس یہ محض مردوں کے لئے ہی پیغام نہیں بچوں کے لئے ہی پیغام نہیں کہ تم اپنی جنت اپنی ماں کے پاؤں تلے ڈھونڈ و اور بالعموم یہی معنی ہیں جو سمجھے جاتے ہیں اور بیان کئے جاتے ہیں کہ عورت کا ادب کرو.عورت کی دعائیں لو حالانکہ

Page 82

77 اس سے بہت زیادہ وسیع تر معنی عورت کے کردار کے تعلق میں بیان ہوئے ہیں.اگر ہمارا معاشرہ ہر گھر کو جنت نہیں بنا دیتا تو اس حدیث کی رو سے وہ معاشرہ (دینی) نہیں ہے.اور اگر جنت کے جہنم بنانے میں مردوں کا قصور ہے تو یہ قصور محض اس وقت کے دائرے میں محدود نہیں جس میں اس کی شادی ہوئی اور ایک عورت کے ساتھ اس نے ازدواجی زندگی بسر کرنی شروع کی بلکہ اس کا تعلق ایک گزرے ہوئے زمانے سے بھی ہے.اس نے ایسی بد نصیب ماں بھی پائی کہ جس کے قدموں تلے اسے جنت کی بجائے جہنم ملی پس جنت کی خوشخبری سے یہ مراد نہیں کہ لاز م ہر ماں کے پاؤں تلے جنت ہے.مراد یہ ہے کہ خدا توقع رکھتا ہے کہ اے مسلمان عورتو! تمہارے پاؤں تلے سے جنت پھوٹا کرے اور جہاں تمہارے قدم پڑیں وہ برکت کے قدم پڑیں اور تمہاری اولادیں اور تم سے تربیت پانے والے ایک جنت نشان معاشرے کی تعمیر کریں.پس اس نقطہ نگاہ سے احمدی خواتین کو بہت کچھ سوچنے کی ضرورت ہے.بہت کچھ فکر کی ضرورت ہے.اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.اور جتنی (دینی) تعلیمات بعض عیوب سے تعلق رکھتی ہیں یعنی عورت کو بعض باتیں کرنے سے روکتی ہیں اور بعض ادا ئیں اختیار کرنے سے منع فرماتی ہیں ان کا اس حدیث کے مضمون سے بلاشبہ ایک گہرا تعلق ہے.وہ سب باتیں وہ ہیں جو جنت کو جہنم میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں.فرمایا.خطاب جلسہ سالانہ قادیان 27 دسمبر 1991ء سب سے پہلے ماں حضرت مقدام بن معدیکرب بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے تین بار

Page 83

78 الله اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ماؤں سے حسن سلوک کا حکم دیتا ہے پھر فرمایا اللہ تعالی تمہیں اپنے آباء سے حسن سلوک کی تلقین کرتا ہے اس کے بعد درجہ بدرجہ رشتہ دار اور تعلق داروں ہے.(سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب بر الوالدین حدیث 3651) حضرت ابن سلامہ السلمی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ نے تین بار والدہ سے حسن سلوک کا حکم دیا اور چوتھی دفعہ والد کا ذکر فرمایا.( سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب بر الوالد ین حدیث 3647) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ لوگوں میں سے میرے حسن سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے؟ آپ نے فرمایا.تیری ماں.اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ نے فرمایا.تیری ماں.اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ نے فرمایا.تیری ماں.اس نے چوتھی بار پوچھا.پھر کون؟ آپ نے فرمایا.ماں کے بعد تیرا باپ تیرے حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہے.پھر درجہ بدرجہ قریبی رشتہ دار.( بخاری کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبة حديث 5514) اس حدیث کی تشریح میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ایدہ اللہ فرماتے ہیں.یہاں جو ماں پر زور دیا گیا ہے مختلف احادیث میں کہیں ماں باپ کا اکٹھا کر آیا ہے کہیں الگ الگ آیا ہے تو اس میں اور امکانات ہیں.یا تو وہ شخص ماں سے اچھا سلوک نہیں کرتا تھا اس لئے تکرار کے ساتھ بار بار اس کو نصیحت کی گئی کہ تیری ماں.دوسرے یہ امر واقعہ ہے کہ ماں سے زیادہ بچے سے کوئی پیار نہیں کر سکتا.ماں سے زیادہ بچے کے لئے کوئی دکھ نہیں اٹھا سکتا.یہ ایک ایسی پکی بات ہے کہ اس کو حقیقت میں بھی بھلایا جا ہی نہیں سکتا اگر کسی انسان کے دل میں شرافت ہو.تو ماں اس کو پالتی ہے ماں

Page 84

79 اس کے لئے ہر قسم کے دکھ برداشت کرتی ہے ہر قسم کی گندگی صاف کرتی ہے اور جس طرح وہ پیار کرتی ہے ویسے کوئی اور رشتہ دار پیار نہیں کر سکتا.بیوی بھی پیار نہیں کر سکتی.ایک فرضی حکایت ہے مگر ہے بہت سبق آموز.کہتے ہیں کہ ایک لڑکے کو اپنی بیوی سے جاہلانہ حد تک عشق تھا اور ایسا جاہلانہ کہ اس کو خوش کرنے کے لئے ہر بیہودہ حرکت کرنے پر بھی تیار تھا.وہ اپنی ساس سے بہت جلتی تھی.اور اپنی ساس کو جب پنے بچے سے پیار کرتے ہوئے دیکھتی تھی تو اس سے اس کے دل میں حسد بھڑک اٹھتا تھا.تو ایک روز اس کی بیوی نے اپنے خاوند سے کہا کہ اگر تم مجھے خوش کرنا چاہتے ہو تو اپنی ماں کا سر طشتری میں سجا کر لاؤ ورنہ میرا خیال چھوڑ دو.اس بیوقوف بیٹے نے یہ کام کیا کہ طشتری میں اپنی ماں کا سرسجایا جبکہ وہ اپنی بیوی کی طرف آرہا تھا رستے میں ٹھوکر لگی اور اس کہاوت میں یہ ہے کہ اس کا سرزمین پر گر پڑا تو اس سر سے آواز آئی میرے بچے! تجھے چوٹ تو نہیں لگی.پس ماؤں کے دل ایسے ہوا کرتے ہیں.اگر چہ یہ کہاوت فرضی ہے مگر ان کے دل ایسے ہی ہوا کرتے ہیں.پس ماؤں سے جو غیر معمولی حسن سلوک کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بالکل صحیح ہے.ایسا ہی ہونا چاہئے اور میں امید رکھتا ہوں کہ ساری جماعت میں ماؤں کی الفضل 2 مئی 2000ء).عزت کی جائے گی.ایک صحابی حضور کے پاس آئے اور کہا مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے.کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے حضور نے فرمایا کیا تیری ماں زندہ ہے اس نے عرض کیا نہیں.تو فرمایا کیا تیری خالہ موجود ہے عرض کیا ہاں تو فرمایا اس کے ساتھ حسن سلوک کر.( خدا تیرا گناہ بخش دے گا) ترندی کتاب البر والصلہ باب فی بر الخالہ حدیث 1827)

Page 85

80 بزرگوں کے نمونے حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ میں رویا میں جنت میں داخل ہوا.اور اس میں قراءت سنی تو میں نے پوچھا یہ کون ہے تو اہل جنت نے کہا یہ حارثہ بن نعمان ہے وہ اپنی ماں کے ساتھ سب لوگوں سے بڑھ کر حسن سلوک کرنے والے تھے.حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں.(مشكوة كتاب الادب باب البر والصله ) کہ جس کام کو میں سب کاموں سے بعد جانتا تھا.وہ مقدم کام تھا.یعنی والدہ کی رضا مندی پھر فرمایا.کہ جس چیز کو میں مجاہدات و ریاضات شاقہ میں تلاش کرتا پھرتا تھا.وہ میں نے گھر میں آسانی سے حاصل کر لی ایک رات والدہ نے پانی طلب کیا.میں کوزہ میں سے پانی لینے گیا مگر وہاں پانی نہ تھا.گھڑے میں دیکھا.مگر وہاں بھی پانی نہ تھا.چنانچہ میں نہر پر جا کر پانی لایا.مگر میری واپسی تک والدہ پھر سوگئی تھیں.میں اسی طرح پانی کا کوزہ لئے کھڑا رہا.سخت سردی کے باعث کوزہ میں پانی جم گیا.جب والدہ بیدار ہوئیں.تو انہوں نے مجھ کو یوں کھڑے دیکھ کر سبب دریافت کیا.میں نے عرض کی.کہ شاید آپ بیدار ہوں اور پانی طلب کریں.لیکن میں حاضر نہ ہوں.اس ڈر کی وجہ سے میں کھڑا رہا.یہ سن کر والدہ نے پانی پیا اور میرے حق میں دعا کی.ایک رات کا ذکر ہے.والدہ نے فرمایا.کہ بیٹا آدھا دروازہ کھول دو.یہ کہہ کر وہ سو گئیں.میں اب حیران تھا.کہ کون سا دروازہ.دائیں طرف کا یا بائیں طرف کا کھولوں.اس شش و پنج میں کہ والدہ کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کر بیٹھوں.دروازے ہی میں کھڑے کھڑے ساری رات گزر گئی.صبح کے وقت میں نے دیکھا کہ

Page 86

81 جس چیز کی مجھے خواہش تھی وہ دروازے سے اندر داخل ہوئی.( تذکرۃ الاولیاء صفحه 107) بے بے جی اداس ہیں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی اپنی والدہ سے محبت اور اطاعت کا نمونہ قابل رشک ہے.فزکس لا رئیٹ ڈاکٹر عبدالسلام کا بیان ہے.انہیں اپنی والدہ صاحب سے جو مدت ہوئی فوت ہو چکی ہیں جس قدر محبت تھی اس کا اور جو سبق انہوں نے اپنی والدہ صاحبہ سے سیکھے ان کا وہ ہمارے سامنے اکثر تذکرہ کیا کرتے تھے.وہ اپنی کتاب کے صفحہ 297 پر اپنی والدہ کے یہ الفاظ نقل کرتے ہیں کہ "جس آدمی کو ہم پسند کرتے ہیں اس سے مہربانی کرنا کوئی نیکی نہیں ہے نیکی یہ ہے کہ ہم ان لوگوں سے مہربانی کا سلوک کریں جن کو ہم نا پسند کرتے ہیں.اسی طرح وہ فرمایا کرتی تھیں." دوستی وہ ہے جو ہمیشہ قائم رہے.وقتی دوستی دوستی نہیں ہوتی.خالد دسمبر 1985 ، صفحہ 59) محترم بشیر احمد خان رفیق سابق امام بیت الفضل لندن کا مشاہدہ:- " مجھے وہ سماں بھی کبھی نہ بولے گا جب آپ بہشتی مقبرہ قادیان میں اپنی والدہ صاحبہ مرحومہ کی قبر پر دعا کے لئے کھڑے ہوئے.اس وقت آپ کی حالت اس قدر غیر تھی کہ یوں لگتا تھا گویا آپ کسی اور جہاں میں ہیں.آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی اور سینہ یوں شدت غم سے اہل رہا تھا جیسے ہانڈی چولہے پر اہل رہی ہو.دیر تک آپ کی یہ کیفیت رہی.اگلے دن فرمایا کہ میں اپنی والدہ کی قبر پر ایسے وقت میں جانا چاہتا ہوں جب میں اکیلا ہوں.چنانچہ

Page 87

82 اگلے ہی روز بہت منہ اندھیرے آپ ان کی قبر پر دعا کے لئے تشریف لے گئے." (ماہنامہ خالد و سمبر 1985 صفحہ 88) محترم چوہدری حمید نصر اللہ صاحب امیر ضلع لاہور بیان کرتے ہیں:.جب بھی طبیعت ناساز ہوتی ہمیشہ اپنی بیٹی کو بلایا کرتے تھے.مجھ سے بارہا کہا کہ اعتہ اکئی کے آجانے سے مجھے اطمینان ہو جاتا ہے اور وہ کچھ ایسا کرتی ہے کہ میری طبیعت سے بے چینی دور وہ جاتی ہے.کئی مرتبہ اپنی بیٹی کو پاس بٹھا کر جبکہ خود لیٹے ہوتے تھے فرمایا کرتے تھے تم اونچی آواز میں دعائیں پڑھو.میں تمہارے ساتھ دہراؤں گا اس سے مجھے بہت سکون ملتا ہے اور باپ بیٹی یہ عمل دیر تک کرتے رہتے تھے.اس بات کا اظہار فرماتے کہ تمہاری شکل ہے بے جی سے ملتی ہے.ایک دفعہ لتہ الکئی دفعہ کمرے میں آئیں اور کوئی بات ایسی محبت سے عرض کی کہ بابا جی نے یکدم اوپر دیکھا تو آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے.ایسی حالت ہو گئی کہ امتہ ائی جس قدر تسلی اور شفقت سے اس حالت سے نکالنے کی کوشش کرتیں اسی قدر اثر زیادہ ہوتا.یہاں تک کہ امتہ ائی کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہاں ٹھہرے اور اپنے کمرے میں چلی گئی.بابا جی نے فرمایا آج لتہ اٹھی کو دیکھا تو یوں لگا کہ بے بے جی ہیں اور طبیعت بے چین ہو گئی.تین روز تک یہ حالت رہی کہ تمام وقت آنسو رواں رہے.اور باپ بیٹی دونوں ایک ایسی حالت میں تھے کہ نہ باپ کو جذبات پر ایسا قابو آیا کہ وہ بیٹی کو بلائے اور نہ ہی بیٹی کو ہمت ہوئی کہ باپ کے پاس جائے.جذبات محبت سے مغلوب ایک دوسرے کی خیریت معلوم کر لیتے تھے.“ انصار اللہ نومبر 1985 ء صفحہ 142)

Page 88

83 جناب ثاقب زیروی صاحب کی زبانی یہ رقت انگیز واقعہ سنیئے.میں (1970ء میں لندن سے ) پاکستان کو واپسی کے لئے تیار ہوا.اور سلام کے لئے حاضر ہوا تو اٹھ کر از راہ کرم گستری مجھے معالقہ سے نوازا.میری پیشانی پر بوسہ دیا اور حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بصد ادب ہدیہ سلام نذر کرنے کے لئے کہا.میں نے معانقہ کے دوران (سرگوشی کے سے انداز میں دعائیہ رنگ میں ) کہا اللہ آپ کو لمبی صحت والی اور برکتوں اور مسرتوں بھر زندگی عطا فرمائے.آپ کی شفقتوں نے میرے اس سفر کو ایک یادگار و ایمان افروز سفر بنا دیا " فرمایا "جزاک اللہ احسن الجزاء " لیکن لمبی زندگی کی دعا نہ کیجئے وہاں بے بے جی بہت اداس ہیں“.انصار اللہ نومبر 1985 ، صفحہ 158)

Page 89

84 باب ششم والدین کی طرف سے خدا کا شکر ☆ اے خدا مجھے توفیق دے کہ میں اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے پر اور میرے والدین پر کی ہے یه دعا آنحضرت ﷺ کے حوالے سے آپ کے هر متبع کو سکھائی گئی ھے والدین پر خدا کی نعمت کے شکر کا ایک طريق اعمال صالحه بجا لانا هے

Page 90

85 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اور ہم نے انسان کو تاکیدی نصیحت کی کہ اپنے والدین سے احسان کرے.اسے اس کی ماں نے تکلیف کے ساتھ اٹھائے رکھا اور تکلیف ہی کے ساتھ اسے جنم دیا.اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے کا زمانہ میں مہینے ہے.یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی کی عمر کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا تو اس نے کہا اے میرے رب! مجھے تو فیق عطا کر کہ میں تیری اس نعمت کا شکر یہ ادا کر سکوں جو تو تھے مجھ پر اور میرے والدین پر کی اور ایسے نیک اعمال بجالاؤں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے ذریت کی بھی اصلاح کر دے.یقیناً میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلا شبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں.اس آیت کا ایک اہم مضمون یہ ہے کہ :.(احقاف-16 ) انسان ان نعمتوں کا بھر پور شکریہ ادا کرے جو خدا نے اس کے والدین پر کی تھیں.اس بارہ میں حضرت رسول اللہ ﷺ کا نمونہ پیش فرمایا گیا ہے.اس آیت کا ترجمہ اور وضاحت کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ فرماتے ہیں.ہم نے الانسان یعنی محمد رسول اللہ کو انسان کامل کو یہ نصیحت فرمائی کہ اپنے والدین سے احسان کا سلوک کرو.یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تو اپنے والدین کا منہ نہیں دیکھا.والدہ کو دیکھا لیکن تھوڑے عرصہ کے لئے اور والد تو بعض روایات کے مطابق آپ کے پیدا ہونے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے.پس بوالدیه احسانا کا کیا مطلب ہے.یہاں دراصل آنحضرت ﷺ کو جونصیحت ہے وہ تمام ینی نوع انسان کو نصیحت ہے کیونکہ انسان کامل کو جو نصیحت کی جائے اس میں تمام ادنیٰ

Page 91

86 انسان شامل ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مزید کسی تمہید باندھنے کی ضرورت نہیں پڑی.فرمایا ہم نے انسان کامل سے یہ کہا تھا کہ یاد رکھو کہ اپنے والدین سے ہمیشہ احسان کا سلوک کرنا حملته امه کرها و وضعته کرها یه مضمون بھی دیکھ لیجئے عام ہے.تمام بنی نوع انسان پر یہ مضمون مشتمل ہے.آگے جا کر یہ مضمون اور رنگ اختیار کر جائے گا.تم دیکھو تمہاری ماؤں کا تم پر کتنا احسان ہے یا اگر لفظی ترجمہ کریں تو غائب میں مضمون بیان ہو رہا ہے.تو ترجمہ ہوگا ہر انسان کی ماں اسے بہت تکلیف سے پیٹ میں اٹھائے پھرتی ہے.(-) اور بہت تکلیف کے ساتھ جنم دیتی ہے.نو مہینے تک اپنے پیٹ میں پالتی ہے.ایسی حالت میں کہ وہ بہت ہی ادبی حالت سے ترقی کرتے کرتے انسان کی حالت تک پہنچتا ہے.اب آپ دیکھیں جس نے ربنا اللہ کا دعوی کیا تھا اسی کی مزید صفت بیان ہوئی ہے.رب کا مطلب ہی یہ ہے ادنی سے ترقی دے کر اعلیٰ حالت تک پہنچانے والا.انسانی رشتوں میں اس کی بہترین مثال ماں بنتی ہے فرمایا اپنی ماں کی طرف دیکھو کہ ہر انسان کی ماں نے اسے بڑی مصیبتوں سے پیٹ میں پالا اور پھر بڑے خطرات کے ساتھ اس کو جنم دیا.(-) اور یہ عرصہ پیٹ میں اٹھائے پھرنے کا اور پھر وضع حمل کا اور پھر دودھ پلانا یہ میں مہینوں تک پھیلا ہوا ہے.(.) یہاں تک کہ جب وہ بلوغت کو پہنچ گیا اور چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا.(-) تو اس نے دعا کی جو میں بیان کروں گا.یہاں میں نے کہا تھا کہ آگے جا کر مضمون بدل جائے گا.ایک مضمون ہے عام جو سارے بنی نوع انسان میں مشترک ہے.ہر ایک کی ماں اسی طرح اسے جنم دیتی ہے لیکن ہر شخص احسان مند نہیں ہوا کرتا.اب واپس حضرت محمد رسول اللہ مے کی طرف مضمون لوٹ گیا ہے.ایک عام واقعہ بیان کر کے جو سب بنی نوع انسان میں مشترک

Page 92

87 ہے پھر الانسان بمعنی محمد رسول اللہ اس مضمون کو دوبارہ اٹھا لیا گیا اور یہ کہا گیا کہ جب وہ بلوغت کو پہنچا اور 40 سال کی عمر کو پہنچا اور 40 سال کی عمر آپ کی نبوت کی عمر تھی اس لئے 40 سال کا لفظ استعمال ہوا ہے ورنہ ہر انسان تو 40 سال کی عمر کو پہنچنے پر یہ بات نہیں کہا کرتا.پس یقیناً قعطی طور پر یہاں حضرت اقدس رسول اللہ سے مراد ہیں اور آپ کا نقشہ بیان فرمایا ہے کہ آپ نبوت پانے کے بعد کیا دعا ئیں کیا کرتے تھے.فرمایا (-) اے میرے رب ! مجھے توفیق عطا فرما کہ اس نعمت کا شکر یہ ادا کر سکوں جو تو نے مجھ پر کی اور اس نعمت کو تمام کر دیا.( تمام کا مضمون لفظا ظاہر نہیں لیکن نبوت میں تمام کا لفظ شامل ہوتا ہے اس لئے تمام کا لفظ داخل کیا ) آیت کریمہ فرماتی ہے(.) اے میرے رب! مجھے تو فیق عطا فرما کہ میں اس نعمت کا شکر یہ ادا کرتا رہوں.شکر یہ ادا کر سکوں اس کی توفیق پاؤں جو تو نے مجھ پر فرمائی.و علی والدی اور میرے والدین پر تو نے جو نعت کی ہے اس کا بھی میں شکر ادا کروں.اب دیکھیں یہاں والدین سے آنحضرت ﷺ کے احسان کا یہاں ذکر نہیں فرمایا اس لئے کہ آپ کے والدین پہلے گزر چکے تھے.یہ مضمون لگتا ہے دو دھاگوں سے بنا ہوا ہے کبھی عام ہو جاتا ہے بھی خاص ہو جاتا ہے.عام ہو جاتا ہے تو تمام بنی نوع انسان پر پھیل جاتا ہے جب سمٹتا ہے تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں سمٹ آتا ہے.آپ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے خدا! مجھ پر تو نے جو اتنا بڑا احسان فرمایا یہ توفیق عطا فرما کہ اس پر شکر کا حق ادا کر سکوں اور صرف اسی کا نہیں بلکہ اپنے والدین کی طرف سے بھی تیرا شکر ادا کروں.صاف ظاہر ہے کہ والدین گزر چکے ہیں اور ان کو پتہ نہیں کہ کیا نعمت ان کو ملی ہے اور واقعہ آنحضرت ﷺ کے والدین گزر چکے تھے ان کو کیا پتہ تھا کہ ان کی صلب سے دنیا کا سب سے بڑا انسان پیدا ہونے والا ہے اور وہ ایسے

Page 93

88 الله اعلیٰ مدراج تک پہنچے گا کہ کبھی کسی انسان کے تصور میں بھی یہ نہیں آ سکتا تھا کہ کوئی شخص خدا کے اتنا قریب ہو جائے اور چونکہ والدین ایسی حالت میں گزرے تھے کہ ابھی وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور نہ مسلمان ہو سکتے تھے اور انبیاء کو حکم نہیں ہے کہ وہ اپنے ان والدین کے لئے دعا کریں جن کے متعلق احتمال ہو کہ وہ مشرک ہیں.اس لئے آنحضرت ﷺ نے دعا نہیں کی بلکہ یہ عرض کیا ہے کہ اے خدا! ان پر بھی تو نے بہت بڑا انعام کیا ہے.اتنا بڑا انعام کہ مجھے ان کے گھر پیدا کر دیا اور وہ شکر ادا نہیں کر سکتے.ان کو علم نہیں ہے کہ کیا احسان تو نے ان پر کیا ہے.مجھے توفیق عطا فرما کہ میں ان کی طرف سے تیرا شکر ادا کروں.میں سمجھتا ہوں کہ ان کی مغفرت کی دعا کرنے کا اس سے اعلیٰ طریق اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا اور ان معنوں میں احسان کا بدلہ بھی اتار گئے.مضمون دیکھیں کس طرح اٹھایا گیا ہے کہ والدین کے احسان کو یاد کرو.والدین کے احسان کو یاد کر کے آنحضرت فرماتے ہیں اے خدا! ان کی طرف سے مجھے شکر کی توفیق عطا فرما.پس جن کی طرف سے محمد رسول اللہ شکر یہ ادا کر رہے ہوں کیسے ممکن ہے میں تو یقین نہیں کر سکتا کہ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک نہ فرمائے.(.) اور شکر کی تعریف فرما دی.ہم جو زبانی شکر ادا کرتے رہتے ہیں یہ تو کوئی شکر نہیں.فرمایا شکر کس طرح ادا کروں فرمایا (-) میں ہمیشہ ایسا عمل کروں کہ جن کے نتیجہ میں تو راضی ہوتا رہے.اس میں شکر کا فلسفہ بھی بیان ہو گیا.ایک انسان شکر اس لئے کرتا ہے کہ کوئی شخص اس پر احسان کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ وہ اس احسان کا بدلہ چکا سکے.خدا کو آپ احسان کا بدلہ نہیں دے سکتے لیکن احسان کا بدلہ چکانے کی روح یہ ہے کہ جب آپ احسان اتارتے ہیں تو اگلا راضی ہوتا ہے.جب آپ کو کوئی تحفہ دے اور آپ اس کو اس سے بڑھ کر تحفہ دیں تو تھے تو عارضی چیزیں ہیں بعض دفعہ خود استعمال بھی نہیں کرتا کسی اور کو دے دیتا ہے یا پھینک دیتا ہے یا اس کے کام کی چیز نہیں ہوتی لیکن وہ راضی ہو جاتا ہے

Page 94

89 اگر محبت سے ایک ذرہ بھی کسی کو تحفہ دیا جائے تو وہ راضی ہو جاتا ہے تو کیسا عمدہ گہرا نفسیاتی نکتہ بیان فرمایا.فرمایا کہ میں تو تجھ پر احسان کر نہیں سکتا لیکن تجھے راضی تو کر سکتا ہوں اور احسان کا بدلہ تو اسی لئے چپکایا جاتا ہے کہ کوئی راضی ہو جائے بس اب تو ایسا فیصلہ فرما کہ ایسے عمل کی تو مجھے خود توفیق عطا فرما.مجھے معلوم نہیں تو کس عمل سے راضی ہو گا.جس عمل سے بھی تو راضی ہوتا ہے وہی عمل میں کرتا چلا جاؤں اور ساری زندگی میں تیری رضا حاصل کرتا رہوں.تجھے خوش کرتا رہوں(.) ذریتی اور یہی نہیں میری ذریت کو بھنی صالح بنا دے اور اس ذریت میں آپ سب شامل ہیں.صرف آنحضرت ﷺ کی جسمانی اولاد ہی نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان جنہوں نے آپ سے تعلق جوڑنا تھا یا آئندہ جوڑیں گے وہ سارے اس دعا میں شامل ہو جاتے ہیں.ذوق عبادت صفحه 408 تا411) یہ دعا جو آنحضرت ﷺ کے مبارک منہ سے نکلی قریباً انہی الفاظ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی زبان سے بھی قرآن کریم نے درج فرمائی ہے.حضرت سلیمان کی دعا رَبِّ أَوْرِعُنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَاَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّلِحِينَ (النمل - 20) اے میرے ربّ! مجھے توفیق بخش کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے پر کی اور میرے ماں باپ کی کی اور ایسے نیک اعمال بجالاؤں جو تجھے پسند ہوں.اور تو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیکو کار بندوں میں داخل کر.اس دعا کا مطلب بیان کرتے ہوئے سید نا حضرت خلیفہ امسیح الرابع اید واللہ

Page 95

90 90 بنصرہ العزیز فرماتے ہیں.صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء عارف تھے.خدا کی حکمت کے راز سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ اگر خدا نے توفیق نہ دی تو ہم شکر کا حق بھی ادا نہیں کر سکیں گے پس حضرت سلیمان کے منہ سے یہ دعا بہت زیب دیتی ہے کیونکہ آپ پر خدا کے بے انتہاء احسانات تھے.پس نہایت عاجزی کے ساتھ جھکتے ہوئے خدا کا خوف کھاتے ہوئے انہوں نے عرض کیا: (.) اے میرے رب مجھے تو فیق عطا فرما.(.) کہ میں تیری نعمت کا شکریہ ادا کر سکوں.() اس نعمت کا جو تو نے مجھ پر کی اور صرف اس کا نہیں.(-) اور اس نعمت کا بھی مجھ پرشکریہ واجب ہے جو تو نے میرے والدین پر کی.اب یا درکھیں اس دعا نے ہمیں ایک اور بہت گہر ا حکمت کا موتی پکڑا دیا.بچوں پر فرض ہے کہ اپنے والدین کا شکریہ بھی ادا کریں.اور والدین پر جو خدا نے نعمتیں عطا کیں.والدین کی زندگی تھوڑی ہوئی.اور وہ ان سب نعمتوں کا شکریہ ادا نہ کر سکے تو یہ اولاد کا فرض ہو گیا اور وہ والدین بھی جو خدا کے نیک بندے تھے اور انہوں نے خدا کا شکر کرتے ہوئے زندگی گزاری ان کی اولاد کو بھی یہ احساس ہونا چاہئے کہ ہم پر ہمارے ماں باپ کا احسان ہے.ہم اس احسان کا صرف اس رنگ میں بدلہ اتار سکتے ہیں کہ جو نیک کام وہ کیا کرتے تھے ان نیک کاموں کو ہم بھی کریں.جو خدا نے ان پر احسان کئے تھے ان احسانات کا شکریہ ہم ان کی طرف سے خدا تعالیٰ کے حضور پیش کریں تو کتنا عظیم الشان نبی تھا حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام.کتنی گہری معرفت اور حکمت کی باتیں کرنے والے تھے.آپ کی دعا ئیں بھی گہری حکمت پر مبنی تھیں.پس شکر یہ اپنا ہی نہیں بلکہ اپنے والدین کا بھی ادا کرنے کا خیال آیا.اور کہا وعلى والدی اور اپنے والدین کا بھی شکریہ ادا کروں اور کس طرح شکریہ ادا کروں؟ زبان سے نہیں.عرض کرتے ہیں (.) ایک ہی طریق ہے تیرا شکر یہ ادا کرنے کا نیک اعمال اعمال بجا لاؤں.ایسے اعمال بجالاؤں جو تجھے پسند آجائیں.( ذوق عبادت صفحہ 356-357)

Page 96

9.1 باب سفتم خدمت والدین کا بلند مقام حضرت اویس قرنی والدہ کی خدمت کی وجه سے رسول الله کی خدمت میں حاضر نه ھو سکے ☆ والدین کی خدمت بعض حالات میں حقوق اللہ سے بھی مقدم ہو جاتی ہے تین مقبول دعاؤں میں سے ایک والد کی دعا بھی ہے جورہ نہیں ہوتی

Page 97

92 رحمان خدا کی خوشبو اس زمین پر جو نعمتیں انسان کے لئے اس کے رب کی طرف سے اتاری گئیں ان میں سب سے بڑی نعمت حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا وجود مبارک تھا.اور تمام نبیوں اور ان کی قوموں سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ جب وہ موعود اقوام عالم آئے تو اس کے پاس حاضر ہو اور اس کی بیعت کرو.چنانچہ سعید روحوں نے جہاں تک ممکن تھا اس حکم پر لبیک کہا.اور ایسا نہ کرنے والے غضب الہی کا شکار ہوئے.مگر ایک استثناء ایسا ہے جو محمود قرار پایا.ایک شخص جو حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوسکتا تھا وہ اس لئے رکا رہا کہ اس کی والدہ کی خدمت کرنے والا اور کوئی نہ تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے اس شخص کی نیت اور عمل کو خوشنودی کی راہ سے دیکھا.یہ حضرت اویس قرنی تھے جو یمن کے رہنے والے تھے اور والدہ کی خدمت کی وجہ سے حضور ﷺ کی زیارت اور دستی بیعت سے مشرف نہ ہو سکے.اس رحمی تعلق کو حضور نے بے انتہا قدر کی نگاہ سے دیکھا اور فرمایا انى اجد نفس الرحمان من ههنا واشار الى اليمن (كنز العمال جلد 12 صفحہ 50 حدیث 33951 از علامه نورالدین علی متقی - موسسة الرسالة بيروت 1979ء) یعنی یمن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا مجھے اس طرف سے رحمن خدا کی خوشبو آتی ہے.پھر آپ نے حضرت عمر جیسے مقرب صحابی کو فرمایا کہ بہترین تابعی اولیس ہے.

Page 98

93 اس کی والدہ ہے جس کا وہ بہت فرمانبردار ہے اس سے ملوتو استغفار کی درخواست کرنا.چنانچہ حضرت عمر نے ایسا ہی کیا.(مسلم کتاب الفصائل باب فضائل اولیس حدیث 4613) حضرت مسیح موعود حضرت اویس قرنی کے تذکرہ میں فرماتے ہیں.پہلی حالت انسان کی نیک بختی کی ہے کہ والدہ کی عزت کرے.اولیس قرنی کے لئے بسا اوقات رسول اللہ ہے یمن کی طرف کو منہ کر کے کہا کرتے تھے کہ مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے.آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی والدہ کی فرمانبرداری میں بہت مصروف رہتا ہے اور اسی وجہ سے میرے پاس بھی نہیں آسکتا.بظاہر یہ بات ایسی ہے کہ پیغمبر خدا اے موجود ہیں مگر وہ ان کی زیارت نہیں کر سکتے صرف اپنی والدہ کی خدمت گزاری اور فرمانبرداری میں پوری مصروفیت کی وجہ سے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے دوہی آدمیوں کو السلام علیکم کی خصوصیت سے وصیت فرمائی یا اولیس کو یا مسیح کو.یہ ایک عجیب بات ہے جو دوسرے لوگوں کو ایک خصوصیت کے ساتھ نہیں ملی.چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت عمران سے ملنے کو گئے تو اولیس نے فرمایا کہ والدہ کی خدمت میں مصروف رہتا ہوں اور میرے اونٹوں کو فرشتے چرایا کرتے ہیں.ایک تو یہ لوگ ہیں جنہوں نے والدہ کی خدمت میں اس قدر سعی کی اور پھر یہ قبولیت اور عزت پائی.ایک وہ ہیں جو پیسہ چیسہ کے لئے مقدمات کرتے ہیں اور والدہ کا نام ایسی بری طرح لیتے ہیں کہ رذیل قو میں چوڑھے چار بھی کم لیتے ہوں گے.ہماری تعلیم کیا ہے؟ صرف اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی پاک ہدایت کا بتلا دینا ہے.اگر کوئی میرے ساتھ تعلق ظاہر کر کے اس کو مانا نہیں چاہتا تو وہ ہماری جماعت میں کیوں داخل ہوتا ہے؟ ایسے نمونوں سے دوسروں کو ٹھو کر لگتی ہے اور وہ اعتراض کرتے

Page 99

94 ہیں کہ ایسے لوگ ہیں جو ماں باپ تک کی بھی عزت نہیں کرتے.میں تم سے بچ بچ کہتا ہوں کہ مادر پدر آزاد کبھی خیر و برکت کا منہ نہ دیکھیں گے پس نیک نیتی کے ساتھ اور پوری اطاعت اور فرمانبرداری کے رنگ میں خدا رسول کے فرمودہ پر عمل کرنے کو تیار ہو جاؤ بہتری اسی میں ہے ورنہ اختیار ہے.ہمارا کام صرف نصیحت کرنا ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 295 اگر والدہ بوڑھی نہ ہوتی حضرت اویس قرنی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حضرت مسیح موعود کے رفقاء نے عظیم نمونے دکھائے.حضرت مولوی شیر علی صاحب فرماتے ہیں.میں جب 1897ء میں قادیان آیا تو جامع بیت اقصیٰ کی دیوار پر ایک تحریر قاضی ضیاء الدین صاحب سکنہ قاضی کوٹ ضلع گوجرانوالہ کی دیکھی اور اس کا مضمون یہ تھا کہ اگر وطن میں میری والدہ جو بوڑھی اور ضعیف ہیں نہ ہوتیں تو میں حضرت مرزا صاحب کی معیت سے جدا نہ ہوتا.( رفقاء احمد جلد 6 صفحہ 9) خدمت کی اہمیت والدین کی خدمت بعض حالات میں اتنی اہمیت اختیار کر جاتی ہے کہ حقوق اللہ پر بھی مقدم ہو جاتی ہے.اور آنحضور نے کے اپنے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے مخصوص حالات میں والدین کی خدمت اور اطاعت کو نماز حج اور جہاد پر بھی اولیت عطا فرمائی ہے.

Page 100

95 عبادت سے زیادہ ضروری آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو یہ واقعہ سنایا کہ ایک عورت نے اپنے بچے جریج کو جو یہود کی عبادت گاہ صومعہ میں نماز پڑھ رہا تھا آواز دی.جریج پریشان ہو گیا اور بار بار کہنے لگا اللحم ای وصلاتی اے اللہ ایک طرف میری ماں ہے دوسری طرف نماز.کیا کروں بہر حال اس نے نماز جاری رکھی.تھا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر جریج عالم ہوتا تو جانتا کہ ماں کی بات کا جواب دینا عبادت سے زیادہ ضروری ( بخاری کتاب التهجد باب اذا دعت الام ولدها في الصلواة وفتح الباری زیر حدیث ہذا جلد 3 صفحہ 78) مقبول حج حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا جو نیک اولا د اپنے والدین کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھتی ہے اس کی ہر نظر کے بدلے اس کے لئے مقبول حج کا ثواب لکھا جاتا ہے.صحابہ نے کہا اگر وہ ایک دن میں سو مرتبہ ایسی نظر ڈالے تو فرمایا ہاں اللہ سب سے بڑا اور پاک ہے (یعنی ایسا اجر دینا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں) ( مشکوة كتاب الادب باب البر والصلة) قرآن وسنت کی واضح تصریحات کی روشنی میں اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ

Page 101

96 اگر اولا ذحج کی نیت رکھتی ہو مگر والدین کی خدمت کی وجہ سے عملاً حج نہ کر سکتی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو حج کا ثواب عطا فر مایا ہے.چنانچہ حضرت اویس قرنی کی والدہ جب تک زندہ رہیں ان کی تنہائی کے خیال سے حضرت اویس نے حج نہیں کیا اور ان کی وفات کے بعد حج کا فرض ادا کیا.مستدرک حاکم کتاب معرفة الصحابه باب اوليس القرنی حضرت ابو ہریرہ کی والدہ جب تک زندہ رہیں ان کی خدمت کی وجہ سے حضرت ابو ہریرہ نے بھی حج نہیں کیا.(مسلم کتاب الایمان باب ثواب العبد حدیث (2144) ماں کے حق کی حفاظت حضرت ابو حازم مدنی کے متعلق ایک شیخ فرماتے ہیں.کہ ایک دفعہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.اس وقت آپ سوئے ہوئے تھے.چنانچہ میں تھوڑی دیر ٹھہرا رہا.جب آپ بیدار ہوئے تو مجھے دیکھ کر فرمانے لگے.کہ میں نے اس وقت پیغمبر کو خواب میں دیکھا.کہ آنحضرت ﷺ نے پیغام دے کر فرمایا ہے.کہ ماں کے حق کی حفاظت کرنا حج ادا کرنے سے بہتر ہے.لوٹ جا.اور اس کی دلجوئی کر چنانچہ میں وہاں سے لوٹا.اور حج کرنے کے لئے مکہ شریف نہ گیا.اس سے زیادہ میں نے کوئی بات آپ سے نہیں سنی.(بیان المطلوب ترجمه کشف المجوب از داتا گنج بخش صفحه 148 ترجمه مولوی فیروز الدین.فیروز سنز لاہور ) استقبال حضرت عثمان الحمیر ی رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق یہ ذکر آتا ہے کہ ایک شخص نے

Page 102

97 فرغانہ سے حج کا ارادہ کیا.نیشا پور میں پہنچ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.مگر آپ نے توجہ نہ کی.اس نے دل میں خیال کیا.کہ یہ معجب مسلمان ہے.کہ سلام کا جواب تک نہ دیا.آپ نے اس کے دل کے اس خطرے کو دیکھ کر فرمایا کہ کیا حج اس کا نام ہے.کہ ماں کو بیمار چھوڑ کر حج کرتے ہو.یہ کس حال میں جائز ہے.چنانچہ وہ وہیں سے واپس فرغانہ چلا گیا.جب تک اس کی ماں زندہ رہی خدمت کرتا رہا.والدہ کی وفات کے بعد جب وہ شخص آپ کی خدمت میں آیا تو آپ نے دوڑ کر اس کا استقبال کیا.( تذکرۃ الاولیاء صفحہ 235 از فریدالدین عطار متر حجم شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ) خدمت کرو حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والوں نے بیان فرمایا کہ شیر از میں ایک بزرگ رہتے تھے جو شخص آپ کی خدمت میں جا کر حج پر جانے کا ارادہ ظاہر کرتا تھا.آپ اس سے پوچھتے تھے کہ کیا تمہاری والدہ زندہ ہے یا مردہ.جو شخص یہ کہتا تھا کہ زندہ ہے آپ اسے حج پر جانے سے منع کرتے تھے.اور فرماتے تھے کہ تمہارا حج اس کی خدمت کرنا ہے.واپس جاؤ اور اس کی خدمت کرو.اشارات فریدی.مقابیس المجالس ملفوظات خواجہ غلام فرید صاحب ص 307 ترتیب رکن الدین ترجمه کپتان واحد بخش سیال اسلام بک فاؤنڈیشن لاہور ) غور سے دیکھا حضرت ابو محمد مراقش فرماتے ہیں کہ میں نے تمہیں سال تک محض تو کل پر حج کئے.لیکن جب غور سے دیکھا.تو وہ سب کے سب حج ہوائے نفس سے تھے.پوچھا کہ یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا.تو فرمایا کہ میری والدہ نے فرمایا کہ پانی کا گھڑا لے آؤ.تو ان کا

Page 103

98 یہ حکم مجھ پر ناگوار گذرا.جس سے مجھ کو معلوم ہو گیا.کہ میرے حج تمام کے تمام خواہش نفسانی کے ماتحت تھے.( تذکرۃ الاولیاء صفحہ 248 از فریدالدین عطار متر جم شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ) جہاد پر فضیلت ایک شخص حضور ﷺ کے پاس آیا اور کہا میں آپ کے پاس ہجرت کی بیعت کرنے کے لئے آیا ہوں اور والدین کو اس حال میں چھوڑ آیا ہوں کہ وہ رو ر ہے تھے آپ نے فرمایا لوٹ جا اور ان کو جا کر ہنسا جیسا کہ انہیں رلایا ہے.(نسائی کتاب البيعة باب البيعه على الهجرة حديث 4093) حضرت معاویہ بن جاہمہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والدہ جاہمہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ میں جہاد میں شرکت کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے رہنمائی لینے آیا ہوں.حضور نے فرمایا کیا تیری ماں موجود ہے انہوں نے کہا ہاں فرمایا پھر اس کی خدمت میں لگ جا.کیونکہ جنت اس کے قدموں تلے ہے.(سنن نسائی کتاب الجہاد باب الرخصة التخلف لمن له والدة حديث 3053) والدین کی خدمت کا جہاد ایک شخص نے حضور سے جہاد بالسیف میں شامل ہونے کی اجازت مانگی.حضور نے پوچھا کیا تیرے والد بین زندہ ہیں اس نے کہا ہاں یا رسول اللہ فرمایا پھر جا اور ان کی خدمت ( کا جہاد ) کر ( بخاری کتاب الجهاد باب الجهاد باذن الابوين حديث نمبر (2782

Page 104

99 i نئی زندگی سید عبداللہ شاہ کے بیٹے سید حمید احمد صاحب اپنے والد کے متعلق لکھتے ہیں.یہ 38- 1937 کا زمانہ تھا آپ ایک شپنگ کمپنی میں ملازم تھے ان کا بحری جہاز دنیا کے مختلف ممالک کے علاوہ حج کے لئے مسافروں کو سعودی عرب لے جایا کرتا تھا.اس ملازمت کے دوران آپ کو حج کرنا نصیب ہوا اور یوں بچپن میں دیکھی گئی خواب پوری ہوئی.جہاز چونکہ لمبے سفر پر رہتا تھا اس لئے والد و اکثر پریشان رہتی تھیں.جنگ عظیم کا زمانہ بھی تھا.ایک بار جب والد صاحب چھٹی لے کر گھر آئے تو والدہ ڈیوٹی پر واپس بھیجنے کے لئے تیار نہ ہوئیں.حضرت خلیفہ ثانی والدہ کی پریشانی کو خوب سمجھتے تھے.چنانچہ حکم ہوا عبداللہ تم کہیں نہیں جاؤ گے.والدہ کا خیال رکھو.تمہاری ملازمت کا یہیں بندوبست ہو جائے گا چنانچہ والد صاحب نے فرمانبرداری کا ثبوت دیتے ہوئے سفر الاؤنس سمیت /65 روپے ماہوار والی جہاز کی نوکری چھوڑ دی جبکہ اس وقت ایک افسر کی تنخواہ - 45 روپے ہوا کرتی تھی.ملازمت چھوڑنے کے بعد ایک بار وہی جہاز بیٹی سے آسٹریلیا کی طرف جارہا تھا راستہ میں جاپانیوں نے بمباری کر کے تباہ کر دیا.جہاز عملہ مسافروں سمیت سمندر میں غرق ہو گیا.اس واقعہ نے والد صاحب کی زندگی پر بڑا گہرا اثر ڈالا.والدہ اور امام وقت کی اطاعت سے گو یا دو بارہ نئی زندگی مل گئی.(الفضل 10 نومبر 2000ء) والدین کی دعا حضور ﷺ کا ارشاد ہے.تین دعائیں ہیں جو لازما قبول ہوتی ہیں.

Page 105

100 والد کی دعا مظلوم کی دعا مسافر کی دعا.(ابوداؤد كتاب الصلوۃ باب الدعاء بظهر الغيب حدیث نمبر (1313) اسی لئے قرآن کریم نے والدین کو اولاد کے حق میں دعائیں سکھائی ہیں.اور بزرگوں کا یہی وطیرہ ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.میری کوئی نمانی ایسی نہیں ہے جس میں میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا.( ملفوظات جلد 1 صفحہ 562 نظارت اشاعت ربوہ) اولاد کے حق میں آپ کی دعاؤں نے تو عالمی شہرت حاصل کر لی ہے.اور اللہ تعالی نے انہیں قبول بھی کس شان سے فرمایا ہے.پس مبارک وہ اولاد جو والدین کی دعائیں حاصل کرے جن کے مقدر میں قبولیت لکھی گئی ہے.امام بخاری کی آنکھیں امام بخاری کی والدہ بڑی عاہدہ اور صاحب کرامات تھیں.خدا سے دعا کرنا.گریہ وزاری کرنا ان کا حصہ خاص تھا.امام بخاری کی آنکھیں صغرسنی میں خراب ہوگئی تھیں.بھارت جاتی رہی.علاج سے عاجز آگئے.امام بخاری کی والدہ نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو خواب میں دیکھا کہ وہ فرما رہے ہیں کہ " تمہارے رونے اور دعا کرنے سے تمہارے بیٹے کی آنکھیں خدا نے درست کر دیں وہ کہتی ہیں کہ " جس شب کو میں نے خواب دیکھا.اس کو صبح کو میرے بیٹے کی آنکھیں درست ہو گئیں.روشنی پلٹ آئی.اور وہ بینا ہو گئے.“ سيرة البخاری صفحہ 42 محمد عبد السلام مبارکپوری اسرار کریمی پریس الہ آباد طبع اول 1329 ه )

Page 106

101 ہزاروں کے برابر ماں کی مقبول دعا کی ایک بہت بڑی مثال حضرت سیدہ ام طاہر کی دعا ہے.سیدنا.حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے بلند مقام میں یقینا ان کی والدہ کی بے قرار دعاؤں کا بہت بڑا دخل ہے.حضرت سیدہ ام طاہر نے ایک بزرگ کو تحریر فرمایا میرا تو ایک ہی بیٹا ہے دعا کریں کہ وہ ہزاروں کے برابر ایک ہو.(سیرت ام طاہر ص 162 تابعین رفقائے احمد جلد سوم.ملک صلاح الدین صاحب احمد یہ بک ڈپور بود طبع اول 1963ء) اور اللہ نے انہیں ہزاروں کا نہیں لاکھوں کروڑوں کا امام بنا دیا.دعا کا نتیجہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے متعلق ان کے خادم نصیب اللہ قمر صاحب بیان کرتے ہیں.آپ اپنی والدہ سے بہت محبت کرتے تھے.ان کے متعلق آپ نے میری والدہ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ہے.ایک دفعہ فرمایا کہ خدا نے میری سب خواہشیں پوری کی ہیں.بس اب ایک خواہش اور ہے اور یہ کہ میں اپنی والدہ کے پاس پہنچ جاؤں اور ان کی خدمت کروں.آپ نے اپنی والدہ کی ایک بڑے سائز کی تصویر اپنے سامنے لگائی ہوئی تھی.ایک دفعہ میں آپ کو بازو سے تھام کر اندر سے باہر کے بڑے کمرے میں لا رہا تھا.سامنے تصویر تھی فرمایا کہ یہ میری پیاری والدہ ہیں.میں تو کچھ چیز نہ تھا.جو کچھ بھی مجھے مرتبہ ملا ہے محض خدا کے فضل سے اور حضور کی شفقت اور میری والدہ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے." ( خالد دسمبر 1985 صفحہ 145)

Page 107

102 باب ہشتم خدمت والدین کی برکات ماں باپ کی اطاعت کرنے والے کے لئے جنت کے دو دروازے کھولے جاتے ہیں ☆ الله کی رضا والد کی رضا میں اور خدا کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے جو لمبی عمر اور رزق میں فراوانی چاهتا هو ماں باپ سے حسن سلوک کرے

Page 108

103 حصول جنت ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ والدین کا اولا د پر کیا حق ہے.آپ نے فرمایا.و ہی تیری جنت اور وہی تیری جہنم ہیں.ابن ماجہ کتاب الادب باب برالوالدین حدیث 3652) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے اپنے ماں اور باپ دونوں کی اطاعت کرتے ہوئے دن کا آغاز کیا اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں.اور اگر ایک کی اطاعت کی ہو تو ایک دروازہ کھولا جاتا ہے.اور جس نے ماں باپ دونوں کی نافرمانی کرتے ہوئے صبح کی اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھل چکے ہوتے ہیں اور اگر ایک کی نافرمانی کی ہو تو ایک دروازہ کھل جاتا ہے.کسی نے پوچھا اگر ماں باپ ظالم ہوں تو کیا پھر بھی ایسا ہو گا فرمایا.اگر چہ وہ ظالم ہوں اگر چہ وہ ظالم ہوں اگر چہ وہ ظالم ہوں.( مشکوۃ کتاب الادب باب البر والصلة) رضائے الہی حضور ﷺ نے فرمایا خدا کی رضا والد کی رضا میں مضمر ہے اور خدا کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں پوشیدہ ہے.تندی ابواب البر والصلة باب الفضل في رضا الوالدين حديث 1821) سید نا حضرت خلیفہ اسیح الاوّل فرماتے ہیں.

Page 109

104 بڑے ہی بد قسمت وہ لوگ ہیں جن کے ماں باپ دنیا سے خوش ہو کر نہیں گئے.باپ کی رضا مندی کو میں نے دیکھا ہے اللہ کی رضا مندی کے نیچے ہے اور اس سے زیادہ کوئی نہیں.افلاطون نے غلطی کھائی ہے.وہ کہتا ہے ”ہماری روح جواد پر اور منزہ تھی ہمارے باپ اسے نیچے گرا کر لے آئے.“ وہ جھوٹ بولتا ہے.وہ کیا سمجھتا ہے کہ روح کیا ہے.نبیوں نے بتلایا ہے کہ یہاں ہی باپ نطفہ تیار کرتا ہے پھر ماں اس نطفہ کو لیتی ہے اور بڑی مصیبتوں سے اسے پالتی ہے.نو مہینے پیٹ میں رکھتی ہے.بڑی مشقت سے حملته امــه کـرهـا و وضعته كرها (احقاف:16) اسے مشقت سے اٹھائے رکھتی ہے اور مشقت سے جنتی ہے.اس کے بعد وہ دو سال یا کم از کم پونے دو سال اسے بڑی تکلیف سے رکھتی ہے اور اسے پالتی ہے.رات کو اگر وہ پیشاب کر دے تو بستر کی گیلی طرف اپنے بیچے کر دیتی ہے اور خشک طرف بچے کو کر دیتی ہے.انسان کو چاہتے کہ اپنے ماں باپ ( یہ بھی میں نے اپنے ملک کی زبان کے مطابق کہہ دیا ہے ورنہ باپ کا حق اول ہے اس لئے باپ ماں کہنا چاہئے ) سے بہت ہی نیک سلوک کرے.تم میں سے جس کے ماں باپ زندہ ہیں وہ ان کی خدمت کرے اور جس کا ایک یا دونوں وفات پاگئے ہیں وہ ان کے لئے دعا کرے صدقہ دے اور خیرات کرے.ہماری جماعت کے بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے.وہ سمجھتے ہیں ہیں کہ مردہ کو کوئی ثواب وغیرہ نہیں پہنچتا.وہ جھوٹے ہیں ان کو غلطی لگی ہے.میرے نزدیک دعا استغفار صدقہ و خیرات بلکہ حج زکوۃ ' روزے یہ سب کچھ پہنچتا ہے.میرا یہی عقیدہ ہے اور بڑا مضبوط العقیدہ ہے.ایک صحابی نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے.اور عرض کیا کہ میری ماں کی جان اچانک نکل گئی اگر وہ بولتی تو ضرور صدقہ کرتی.اب اگر میں صدقہ کروں تو کیا اسے

Page 110

105 ثواب ملے گا.تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہاں.تو اس نے ایک باغ جو اس کے پاس تھا صدقہ کر دیا.حقائق الفرقان جلد اوّل صفحہ 183) عمر اور رزق میں برکت کا گر حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.جس شخص کی خواہش ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور رزق میں فراوانی ہو تو اس کو چاہئے کہ اپنے والدین سے حسن سلوک کرے اور صدایمی کی عادت ڈالے.(مسند احمد جلد 3 صفحہ 266 حدیث 12922 ) مشکلات سے نجات حضور ﷺ نے صحابہ کو یہ واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ تین آدمی سفر کے لئے نکلے اور رات انہیں ایک غار میں بسر کرنی پڑی.اس عرصہ میں پہاڑ سے ایک چٹان لڑھک کر غار کے منہ پر آگئی اور وہ اندر بند ہو گئے.انہوں نے آپس میں سوچا کہ اس مصیبت سے اب صرف دعا کے ذریعہ ہی نجات مل سکتی ہے.آؤ اپنے نیک اعمال کا واسطہ دے کر خدا سے دعا کریں.ان میں سے ایک آدمی نے کہا اے اللہ میرے ماں باپ ضعیف العمر تھے.اور میں اپنے اہل وعیال اور مال مویشی کو ان سے پہلے کچھ کھلانا پلانا حرام سمجھتا تھا ایک دن باہر سے چارہ لانے میں مجھے دیر ہوگئی اور شام کو جلدی والدین کے سونے سے پہلے نہ آسکا.جب میں نے ان کے لئے دودھ دوہا اور ان کے پاس لایا تو ان کو سویا ہوا پایا.تب میرے دل نے ان کو جگانا پسند نہ کیا اور نہ میں نے یہ چاہا کہ ان کو کھلانے پلانے سے پہلے اپنے اہل وعیال اور مال

Page 111

106 مویشی کو کھلاؤں پلاؤں.میں دودھ کا پیالہ اپنے ہاتھ میں پکڑے اس انتظار میں کھڑا رہا کہ وہ بیدار ہوں تو ان کو دودھ پلاؤں.اسی انتظار میں فجر ہوگئی اور بچے بھوک کی وجہ سے میرے قدموں میں بلبلاتے رہے.صبح کے وقت جب وہ بیدار ہوئے تو رات کا دودھ انہوں نے پیا.اگر اے خدا میں نے تیری رضا کی خاطر یہ کام کیا تھا تو اس مصیبت کو ٹال دے.چنانچہ اس دعا کی برکت سے وہ پتھر تھوڑ اسا سرک گیا.اسی طرح باقی دو نے بھی اپنی ایک ایک نیکی بیان کی اور وہ پتھر راستے سے ہٹ گیا.( بخاری کتاب الاجاره باب من استاجر اجیرا فترك الاجير احدیث (2111)

Page 112

107 باب نهم نہ وفات کے بعد خدمت والدین وفات یافته والدین کیلئے دعائیں کرو ان کے وعدے پورے کرو اور ان کے دوستوں کی عزت کرو ☆ وفات کے بعد والدین کی خدمت اور والدین کے دوستوں سے حسن سلوک ایک اہم نیکی ہے ☆ ایک صحابی نے حضور کے ارشاد پر اپنا باغ ماں کی طرف سے صدقہ کر دیا

Page 113

108 والدین کی خدمت اور شکر گزاری ایک ایسا دائمی سلسلہ ہے جو ان کی وفات کے بعد بھی جاری رہتا ہے.اور آنحضرت ﷺ نے اس کا طریق بھی سکھایا ہے.حضرت ابو اسید الساعدی بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ آنحضرت نے کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ یا رسول اللہ ! والدین کی وفات کے بعد کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے لئے کر سکوں؟ آپ نے فرمایا.ہاں کیوں نہیں.تم ان کے لئے دعا ئیں کرو ان کے لئے بخشش طلب کرو انہوں نے جو وعدے کسی سے کر رکھے تھے انہیں پورا کرو.ان کے عزیز واقارب سے اسی طرح صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو جس طرح وہ اپنی زندگی میں ان کے ساتھ کیا کرتے تھے اور ان کے دوستوں کے ساتھ عزت و اکرام کے ساتھ پیش آؤ.(ابو داؤد کتاب الادب باب في بر الوالدین حدیث 4476) حضرت خلیفہ امسح الرابع ایدہ اللہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.پس والدین کے حق میں جو دعائیں ہیں ان کے علاوہ یہ عملی تعلیم بھی ہے جس پر عمل بڑا ضروری ہے.والدین جو نیکی کیا کرتے تھے اور بیچ میں عمر کٹ گئی یعنی عمر منقطع ہو گئی اس نیکی کو اگر جاری رکھا جا سکتا ہو تو وہ نیکی ایسی ہے جو والدین کے درجات کو بلند کرنے کا موجب بنے گی.اس ضمن میں چندہ جات ہیں.بہت سے والدین با قاعدگی کے ساتھ چندہ دیتے ہیں اور وعدے کر دیتے ہیں بڑے چندوں کے.مگر اس سے پہلے کہ وہ پورا کر سکیں ان کو موت آجاتی ہے.تو ایسی صورت میں بچوں کا فرض ہے کہ اگر وہ حقیقت میں ماں باپ سے محبت کرتے ہیں اور ان کے مرنے کے بعد ان کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو خواہ باپ فوت ہو جائے اس خواہش کے ساتھ کہ میں یہ چندہ دوں گا یا ماں فوت ہو جائے

Page 114

109 دونوں کے لئے بچوں کو اس نیکی کو جاری رکھنا چاہئے اور اللہ تعالی کے فضل سے جماعت میں یہ نیکی پائی جاتی ہے.میں جانتا ہوں کہ ماں باپ کے مرنے کے بعد کثرت سے ان کے چندوں کو پورا کیا جاتا ہے.بچے چین نہیں لیتے جب تک ان کی اس نیک خواہش کو پورا نہ کر لیں خواہ کتنا ہی بوجھ اٹھانا پڑے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یہ نیکی بہت عام ہے.دوسرے اس میں فرمایا گیا ہے اس رشتہ داری کو ملانا جو اس کے ساتھ ہی ملائی جا سکتی ہے.یعنی ماں باپ کے وقت میں تو ان کے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کو دیکھ کر تم لوگ بھی ان رشتہ داروں سے حسن سلوک کر دیتے ہو.وہ گھر میں آتے ہیں ہنس کر بات کرتے ہو عزت سے سوال کرتے ہو لیکن کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ماں باپ کے گزرنے کے بعد پھر ان کو بھول جاتے ہیں.تو ان کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے.اور ایسے جلسہ کے موقعہ پر بھی مہمان آتے ہیں جو کسی زمانے میں ماں باپ کو بہت پیارے تھے اور عزیز تھے.ان کی رشتہ داری تھی یا نہیں تھی مگر ان سے بہت حسن سلوک کیا کرتے تھے تو ان کے مرنے کے بعد جو نیکیاں ان کو پہنچائی جاسکتی ہیں ان میں ان کے لئے عزت کے ساتھ اپنے گھر میں جگہ بنائی اور ان کے لئے ہر قسم کی آسائش کے سامان مبیا کرنے یہ بھی ایک بہت اہم نیکی ہے.ساتھ ہی فرمایا ان کے دوستوں کی بھی عزت کرنی چاہیئے.صرف رشتہ داروں کے لئے نہیں بلکہ دوستوں کے لئے.الفضل 2 مئی 2000ء) ایک صحابی حضور کے پاس آئے اور کہا کہ میری والدہ فوت ہو گئی ہے مگر اس پر ایک ماہ کے روزوں کی قضا ہے کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں فرمایا ہاں.پھر اس نے پوچھا اس نے حج نہیں کیا کیا میں اس کی طرف سے حج کروں فرمایا ہاں.

Page 115

110 ( سنن ابي داود كتاب الوصايا باب الرجل يهب الهبة حديث 2492) حضرت سعد بن عبادہ کی والدہ فوت ہو ئیں تو وہ حضور اللہ کے پاس آئے اور پوچھا کہ اگر میں ان کی طرف سے کوئی صدقہ کروں تو انہیں کوئی فائدہ پہنچے گا فرمایا ہاں تو انہوں نے اپنا مخراف نای باغ ان کی طرف سے صدقہ کر دیا.(بخاری کتاب الوصایا باب اذا قال ارضی او بستانی صدقہ للہ حدیث 2551) حضرت خلیفہ امسیح الاول فرماتے ہیں.میری والدہ کی وفات کی تار جب مجھے ملی تو اس وقت میں بھاری پڑھ رہا تھا.وہ بخاری بڑی اعلیٰ درجہ کی تھی.میں نے اس وقت کہا اے اللہ میرا باغ تو یہی ہے تو پھر میں نے وہ بخاری وقف کر دی.فیروز پور میں فرزند علی کے پاس ہے.( حقائق الفرقان جلد اول صفحہ 184) فوت شدگان کو ثواب پہنچانے والی احادیث کی وضاحت کے لئے سید نا حضرت خلیفة اسم الرابع اید والله بنصر و العزیز کا ایک ارشا دور ج کیا جاتا ہے.اس سوال پر کہ کسی فوت شدہ عزیز کو ثواب کس طرح پہنچایا جائے؟ حضور نے جواب دیا.آنحضرت ﷺ کی سنت سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر کوئی اپنی زندگی میں نیکیاں کرتا ہو ان کو اس کی موت کے بعد بھی جاری رکھنا جائز ہے اگر زندگی میں قرآن نہیں پڑھتا مرنے کے بعد اسے قرآن بخشوایا جائے تو یہ لغو بات ہے.ایک شخص نے حضرت رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ میری ماں صدقہ و خیرات بہت کیا کرتی تھی اور اس کی خواہش تھی کچھ دینے کے لیکن وہ اس سے پہلے فوت ہو گئی تو میرے لئے کیا حکم ہے.رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تم اس کی طرف سے صدقہ دو.اس کا ثواب خدا تعالٰی اس کو دے گا.یعنی وہ نیکی کی نیت کرنے والی تھیں.

Page 116

111 لیکن موت حائل ہو گئی.اب اس کو جاری رکھنا منع نہیں.اس لئے جماعت میں اپنے بزرگوں کی طرف سے چندے دینا جائز سمجھا جاتا ہے اور اس کو کثرت سے رواج دیا جاتا ہے.چنانچہ ہم بھی اپنے ماں باپ کی طرف سے چندے دیتے ہیں.اس لئے کہ وہ دیتے تھے.لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ ناد ہند کا چندہ میں دینا شروع کر دوں اس کا اسے ثواب ملے گا تو یہ لغو بات ہے.ایک آدی خود تو ساری عمر چندہ نہ دیتا ہو.اور اس کا بچہ مخلص بن جائے اور کہے میں اپنے باپ کے چندے پورے کروں گا تو وہ اس بچہ کے نام لگیں گے اس کے نادہند بزرگ کے نام نہیں لگیں گے تو جواز اس بات کا ہے کہ کسی سے جو نیکی ثابت ہو خصوصاً جو منفعت بخش نیکی ہو اس کو آگے جاری رکھنا جائز ہے اور اس کا ثواب بھی مل جاتا ہے.(مجالس عرفان 138 شائع کردو لجنہ اماءاللہ کراچی ) والدین کے دوستوں سے حسن سلوک حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا انسان کی بہترین نیکی یہ ہے کہ اپنے والد کے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرے.جبکہ اس کا والد فوت ہو چکا ہو یا کسی اور جگہ چلا گیا ہو.مسلم كتاب البر والصلة والادب باب فضل صلة اصدقاء الاب والام و نحوها حديث 4631) حضرت عبداللہ بن عمر ایک سفر میں تھے کہ راستہ میں ایک اعرابی ملا.حضرت عبداللہ نے اسے سلام کیا.اور جس گدھے پر سفر کر رہے تھے اس سے اتر پڑے اور اس بدو کو اس پر سوار کر دیا.اور اپنے سر پر باندھا ہوا عمامہ بھی اس کو دے دیا.کسی نے کہا یا عرابی تو تھوڑی تھوڑی چیزوں پر بھی راضی ہو جاتے ہیں آپ نے بہت زیادہ دے دیا.

Page 117

112 انہوں نے فرمایا اس کا والد میرے والد عمر کا دوست تھا اور حضور ﷺ نے فرمایا ہے باپ کے دوست کی اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا بڑی اعلیٰ نیکی ہے.مسلم كتاب البر والصلة باب فضل صلة.اصدقاء الاب حديث 4629) صحابی رسول ﷺ حضرت ابوالدرداء مرض الموت میں مبتلا تھے.کہ عبداللہ بن سلام کے بیٹے یوسف ان کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے.حضرت ابوالدرداء نے پوچھا کیسے آنا ہوا؟ تو انہوں نے عرض کی میرے والد سے آپ کے جو دوستانہ تعلقات تھے ان کی وجہ سے حاضر ہوا ہوں.(مسند احمد بن مقبل جلد 6 صفحہ 450 المكتب الاسلامی بیروت حدیث نمبر 26266) نیک اور بزرگ والدین کے وفات کے بعد ان کے ساتھ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ ان کی نیکیوں کو قائم رکھا جائے اور ان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے.اس ضمن میں سید نا حضرت مصلح موعود کا نمونہ لائق صد آفریں ہے.آپ حضرت مسیح موعود کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.آپ کی وفات کے معا بعد کچھ لوگ گھبرائے کہ اپ کیا ہوگا.انسان انسانوں پر نگاہ کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ دیکھو یہ کام کرنے والا موجود تھا یہ تو اب فوت ہو گیا.اب سلسلہ کا کیا بنے گا ؟ جب اس طرح بعض لوگ مجھے پریشان حال دکھائی دیئے اور میں نے ان کو یہ کہتے سنا کہ اب جماعت کا کیا حال ہو گا تو مجھے یاد ہے گو میں اس وقت 19 سال کا تھا مگر میں نے اس جگہ حضرت مسیح موعود کے سرہانے کھڑے ہو کر کہا کہ.اے خدا! میں تجھ کو حاضر ناظر جان کو تجھ سے سچے دل سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت احمدیت سے پھر جائے تب بھی وہ پیغام جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ تو نے نازل فرمایا ہے میں اس کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلا ؤں گا.“ روز نامہ الفضل 21 جون 1944ء) پھر آپ نے جس شان اور عظمت کے ساتھ یہ عہد نبھایا ہے دنیا اس پر گواہ ہے.

Page 118

113 باب دہم اطاعت کے دائرے ☆ اللہ اور رسول کے حکم کے مقابل ہر والدین کی اطاعت جائز نہیں ☆ حضرت سعد نے والدہ کے حکم پر اسلام کا دامن چھوڑنے سے انکار کر دیا حضرت ام حبیبہ نے اپنے مشرك والد کو رسول اللہ کے بستر پر بیٹھنے کی اجازت نہیں دی

Page 119

114 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مشروط اطاعت وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَكَ لِمُشْرِكَ بِي مَالَيسَ لَكَ بِهِ عِلْمٍ فَلا تطِعْهُمَا إِلَى مَرْجِعُكُمْ فَأَيْتُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (العنكبوت: 9.اور ہم نے انسان کو تاکیدی نصیحت کی کہ اپنے والدین سے حسن سلوک کر بے اور (کہا کہ ) اگر وہ تجھ سے جھگڑیں کہ تو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں، تو پھر ان دونوں کی اطاعت نہ کر.میری ہی طرف تمہارا لوٹ کر آنا ہے پس میں تمہیں ان باتوں سے آگاہ کروں گا جو تم کرتے تھے.پھر فرماتا ہے.وَإِنْ جَاهَدَكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلمٍ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبُهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَ اتَّبِعُ سَبِيْلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَى مرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (لقمان: 16) اور اگر وہ دونوں (بھی) تجھ سے جھگڑا کریں کہ تو میرا شریک ٹھہرا جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو ان دونوں کی اطاعت نہ کر.اور ان دونوں کے ساتھ دنیا میں دستور کے مطابق رفاقت جاری رکھ اور اس کے رستے کی اتباع کر جو میری طرف جھکا.پھر میری طرف تمہارا لوٹ کر آنا ہے پھر میں تمہیں اس سے آگاہ کروں گا جوتم کرتے رہے ہو.اس آیت کی تشریح میں حضرت خلیفہ اسیح الاوّل فرماتے ہیں: ماں باپ جن کی اطاعت اور فرمانبرداری کی خدا نے سخت تاکید فرمائی ہے.خدا

Page 120

115 کے مقابلہ میں اگر وہ کچھ کہیں تو ہر گز نہ مانو.فرمانبرداری کا پتہ مقابلہ کے وقت لگتا ہے.کہ آیا فرماں بردار اللہ کا ہے یا کہ مخلوق کا.ماں باپ کی فرماں برداری کا خدا نے اعلیٰ مقام رکھا ہے اور بڑے بڑے تاکیدی الفاظ میں یہ حکم دیا ہے.ان کے کفر و اسلام اور فسق و فجور یا دشمن اسلام وغیرہ ہونے کی کوئی قید نہیں لگائی اور ہر حالت میں ان کی فرمانبرداری کا تاکیدی حکم دیا ہے.مگر مقابلہ کے وقت ان کے متعلق بھی فرما دیا کہ (-) اگر خدا کے مقابلہ میں آجاویں تو خدا کو مقدم کرو.ان کو ہرگز نہ مانو غرض نفس ہو یا دوست ہوں.رسم ہو یا رواج ہوں.قوم ہو یا ملک ہو.ماں باپ ہوں یا حاکم ہوں.جب وہ خدا کے مقابلہ میں آجاویں یعنی خدا ایک طرف بلاتا ہے اور یہ سب ایک طرف تو خدا کو مقدم رکھو.(حقائق الفرقان جلد 3 صفحہ (231) حضرت مصلح موعود کا ارشاد ہے.فرماتا ہے.ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق بڑی تاکید کی ہے کہ ان سے نیک سلوک کیا جائے.ہاں اگر وہ تم سے اس بات کے لئے جھگڑیں کہ تم کسی کو میرا شریک قرار دے دو.جس کا تمہیں کوئی علم نہیں تو پھر ان کی بات نہ مانو.یعنی مومن کو جب اس کے ماں باپ سے اچھا معاملہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ مومن خدا تعالیٰ سے جو ماں باپ سے بھی زیادہ حسن ہے اچھا معاملہ نہ کرے.اور جب ماں باپ خدا تعالیٰ کے خلاف کوئی بات کہیں تو ان کی بات کو رد نہ کرے.بہر حال اس استثناء کے سواہر انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے اور ان کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کرے.تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 592 نظارت اشاعت ربوہ )

Page 121

116 حیرت انگیز نمونے اس آیت کی تعمیل میں صحابہ رسول اے اور بزرگوں نے عظیم الشان اور حیرت انگیز نمونے دکھائے ہیں.اگر سو جانیں ہوں حضرت سعد بن ابی وقاص اپنی والدہ کے بے حد فرمانبردار اور خدمت گزار تھے.انیس سال کا سن تھا کہ آپ کو آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کی سعادت نصیب ہوئی.ماں کو علم ہوا تو اسے سخت رنج ہوا اور اس نے قسم کھائی کہ جب تک سعد نئے دین کو نہ چھوڑیں گے میں نہ کھانا کھاؤں گی نہ پانی پیوں گی اور نہ ان سے بات چیت کروں گی چنانچہ اس قسم کو پورا کیا حتی کہ تیسرے دن بے ہوش ہو گئی اور نقاہت کی وجہ سے اسے خش پرفش آنے لگے.اسے اپنے سعادت مند فرزند سے یہ امید تھی کہ اسے مسلسل فاقہ اور تکلیف کی حالت میں دیکھ کر اس کا کہا ضرور مان لے گا اور دین حق سے برگشتہ ہو جائے گا اور ایمان کو اس کی خوشنودی پر قربان کر دے گا لیکن ایمان کا نشہ وہ نہ تھا جو ایسی ترشیوں سے اتر جاتا گوان پر سخت ابتلاء تھا.ایک طرف ماں کی جان کا خیال تھا اور دوسری طرف ایمان کے ضائع ہونے کا.ان حالات میں دنیا دار لوگ اپنی ماں کو کسی عقیدہ پر قربان کرنے کے لئے بہت کم تیار ہو سکتے ہیں.لیکن حضرت سعد ایمان کو ماں کی جان سے بہت زیادہ قیمتی سمجھتے تھے چنانچہ ماں کی اس دھمکی کا ان پر کوئی اثر نہ ہو اور اسے صاف کہہ دیا کہ اگر تمہارے قالب میں سو جانیں بھی ہوں اور ایک ایک کر کے ہر ایک جان نکل جائے تو بھی میں اپنے دین کو نہ چھوڑوں گا.(اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 292 ابن اثیر جزری.مکتبہ اسلامیہ طہران)

Page 122

117 اس سے بہتر نظر آیا نہ کوئی عالم میں لاجرم غیروں سے دل اپنا چھڑایا ہم نے میں آپ کو نہیں چھوڑ سکتا رسول اللہ ﷺ کو اپنے والدین پر ترجیح دینے کے سلسلہ میں حضرت زید کا اسوہ ایک روشن مثال ہے.حضرت زید بن حارثہؓ کو ایک اچھے خاندان کے نونہال تھے.لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے بچپن میں ہی ان کی متاع آزادی کو چھین لیا اور عکاظ کے بازار میں فروخت کے لئے لے آئے جہاں حکیم بن حزام نے خرید کر اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کے حضور پیش کر دیا اور اس طرح آپ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آگئے.ایک دفعہ ان کے قبیلہ کے بعض لوگ بہ نیت حج مکہ میں آئے تو انہیں پہچان لیا اور جا کر ان کے والد کو خبر دی جس پر اس کا خوش ہونا ایک طبعی بات تھی.چنانچہ وہ اپنے بھائی کو ساتھ لے کر مکہ میں پہنچا اور آنحضرت ﷺ سے بعد منت والحاج عرض کیا کہ میرے لڑکے کو آزاد کر دیں اور جو فدیہ چاہیں لے لیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے فدیہ کی کوئی ضرورت نہیں.زید کو بلا کر پوچھ لیا جائے اگر وہ جانا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں.چنانچہ حضرت ریڈ کو بلایا گیا اور آنحضرت ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کیا تم ان لوگوں کو جانتے ہو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں یہ میرے والد اور چاہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر ان کے ساتھ جانا چاہو تو جاسکتے ہو.ہر مشخص اندازہ کر سکتا ہے کہ بچپن میں والدین عزیز واقارب اور وطن عزیز سے دور ہو جانے والے کو اتنے لمبے عرصہ کی مایوسی کے بعد پھر جب ان سے ملنے کا موقعہ ملے اور

Page 123

118 پھر اپنے محبوب وطن میں جا کر ماں باپ بہن بھائیوں دوسرے رشتہ داروں دوست احباب اور بچپن کے ہم جولیوں سے آزادانہ طور پر ملنے جلنے میں کوئی رکاوٹ بھی حائل نہ ہو تو اس کے جذبات ایسے وقت میں کیا ہو سکتے ہیں.سامنے باپ اور چچا کھڑے تھے اور اس یقین کے ساتھ ان کے دل بھرے ہوئے تھے کہ ہمارا لخت جگر اب ہمارے ساتھ جائے گا.جدائی کی دلگرد از گھڑیاں اب ختم ہونے کو ہیں اور پھر اس کا کوئی دوبارہ امکان بھی نہ ہوگا کہ وہ تا عمر ہمارے پاس رہے گا.وہ یہ وہم بھی نہ کر سکتے تھے کہ جب زید کو آنحضور لے جانے کا اختیار دے رہے ہیں تو انہیں اس میں کوئی تامل ہو سکتا ہے؟ مگر حضرت زیڈ نے جواب دیا کہ میں حضور پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا.آپ ہی میرے ماں باپ ہیں.آپ کے در کو چھوڑ کر میں کہیں جانا پسند نہیں کرتا اس جواب کوسن کر ان کے والد اور چچا محو حیرت ہو گئے اور انہوں نے کہا زید کیا تم ہم پر غلامی کو ترجیح دیتے ہو.حضرت زیڈ نے کہا کہ ہاں مجھے اس ذات پاک میں ایسی خوبیاں نظر آئی ہیں کہ اس پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا.طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 40 42t بیروت - 1957 ء ) عشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پُر خطر عشق ہے جو سر جھکا دے زیر تیغ آبدار مجھے رسول اللہ کے حوالے کر دو ایک دن آنحضرت ﷺ نے ایک انصاری سے فرمایا تم اپنی لڑکی کے نکاح کا اختیار مجھے دے دو.وہ منتظر ہی تھے باغ باغ ہو گئے.لیکن آپ نے فرمایا میں اپنے لئے نہیں بلکہ جلیبیب کے لئے پیغام دیتا ہوں جلیبیب ایک ظریف الطبع صحابی تھے.انہوں نے جلیبیب کا نام سنا تو بولے اس کی ماں سے مشورہ کر لو.ماں نے

Page 124

119 جلیبیب کا نام سنا تو انکار کر دیا.لیکن لڑکی نے کہا رسول اللہ ﷺ کی بات نا منظور نہیں کی جاسکتی مجھے آنحضور کے حوالے کر دو.آپ مجھے کبھی ضائع نہیں کریں گے." (مسند احمد جلد 4 صفحہ 422 المكتب الاسلامی.بیروت حدیث 18948) دوسری روایت میں ہے.حضرت جلیبیب اچھی شکل وصورت کے مالک نہ تھے.آنحضرت ﷺ نے انصار کے ایک معزز گھرانے کی لڑکی کے ساتھ ان کا رشتہ تجویز کیا.مگر لڑکی کے ماں باپ کو اس پر اعتراض تھا.لڑکی کو اس کا علم ہوا تو قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی.(احزاب - 37) یعنی کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کے لئے جائز نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو اپنے معاملہ میں ان کو فیصلہ کا اختیار باقی رہے.پھر کہا اس صریح حکم خداوندی کے ہوتے ہوئے میں حیران ہوں.کہ آپ اس تجویز کے کیوں مخالف ہیں.میں اس رشتہ پر رضامند ہوں.جو مرضی رسول کریم والے کی ہے.وہ ہی میری ہے.رسول کریم لے کو اس کا علم ہوا تو آپ بہت مسرور ہوئے.اور اس لڑکی کی دینی و دنیاوی فلاح کے لئے دعا کی.الاستیعاب بر حاشیه اصا به جلد اول صفحه 259 از ابن عبد البر مطبع مصطفی محمد مصر 1939ء) یہ بے غرض اور کچی اطاعت بے شمر نہیں رہتی.آخرت کا اجر تو ان دیکھا ہے یہ محبت تو اسی دنیا میں رنگ لاتی ہے ایسی عظمتیں عطا کرتی ہے کہ نسلیں فخر کرتی ہیں.بسر و چشم منظور ہے ایک صحابی حضرت سعد الاسود سیاہ رنگ کے تھے.ان کی شکل و شباہت ان کی شادی میں روک تھی.اور ان کی ظاہری بدصورتی کی وجہ سے کوئی شخص ان کے ساتھ اپنی

Page 125

120 لڑکی کے رشتہ پر رضامند نہ ہوتا تھا.ایک مرتبہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا رسول اللہ کوئی شخص مجھے اپنی لڑکی کا رشتہ دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا.کیونکہ میری ظاہری شکل وصورت اور رنگ اچھا نہیں عمر و بن وہب قبیلہ بنو ثقیف کے ایک نو مسلم تھے.جن کی طبیعت میں درشتی تھی.آنحضرت ا نے حضرت سعد سے فرمایا کہ ان کے دروازے پر جا کر دستک دو اور بعد سلام کہو کہ نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تمہاری لڑکی کا رشتہ میرے ساتھ تجویز کیا ہے.عمرو بن وہب کی لڑکی شکل وصورت کے علاوہ دماغی اور دینی لحاظ سے بھی نمایاں حیثیت رکھتی تھی.حضرت سعد ان کے مکان پر پہنچے اور جس طرح آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا اسی طرح کہا.عمر و بن وہب نے یہ بات سنی.تو آپ کے ساتھ سختی سے پیش آئے.اور اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا لیکن بات اسی پر ختم نہیں ہوتی.بلکہ آگے جو کچھ ہوا وہ اس قدر ایمان پرور ہے کہ تمام مذاہب و ملل کی تاریخ اس کی کوئی مثال پیش نہیں کر سکتی خود اند راز کی یہ ساری گفتگو سن رہی تھی اس کے باپ نے حضرت سعد کو جو جواب دیا اسے سن کر وہ واپس ہو گئے.اور اس کے سوا اور وہ کر بھی کیا سکتے تھے لیکن لڑکی خود باہر نکل آئی حضرت سعد کو آواز دے کر واپس بلایا اور کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے میرے ساتھ آپ کی شادی کی تجویز کی ہے تو پھر اس میں چون و چراں کی کیا گنجائش باقی رہ سکتی ہے؟ یہ تجویز مجھے بسر و چشم منظور ہے اور میں اس چیز پر بخوشی رضا مند ہوں.جو خدا اور اس کے رسول کو پسند ہے اور ایمانی جرآت سے کام لے کر باپ سے کہا کہ آپ نے آنحضور کی تجویز سے اختلاف کر کے بہت غلطی کی ہے.اور بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور قبل اس کے کہ وحی الہی آپ کو رسوا کر دے.اپنی نجات کی فکر کیجئے.لڑکی کی اس ایمان افروز تقریر کا اس کے باپ پر بھی خاطر خواہ اثر ہوا.ان کو اپنی غلطی کا

Page 126

121 پوری طرح احساس ہو گیا اور فوراً بھاگے ہوئے دربار نبوی میں پہنچے اور عرض کی یا رسول اللہ مجھ سے بہت بڑی خطا سرزد ہوئی.مجھے سعد کی بات کا یقین نہ تھا.اور میں نے خیال کیا کہ وہ یونہی یہ بات کہہ رہے ہیں.اس لئے انکار کیا.مگر اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہے.اور صدق دل سے معافی کا خواستگار ہوں.میں نے اپنی لڑکی سعد سے بیاہ دی.(اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 268 از ابن اثیر جزری مکتبہ اسلامیہ طہران) قرعہ ڈالا گیا حضرت سعد بن خیثمہ جنگ بدر کے وقت کم عمر تھے.تا ہم شرکت کے لئے تیار ہو گئے چونکہ آپ کے والد بھی میدان جنگ میں جارہے تھے.انہوں نے کہا کہ ہم میں سے ایک کو ضرور گھر پر رہنا چاہئے اور بیٹے کو گھر رہنے کے لئے کہا.بیٹے نے جواب دیا کہ اگر حصول جنت کے علاوہ کوئی اور موقعہ ہوتا تو بسر و چشم آپ کے ارشاد کی تعمیل کرتا.اور اپنے آپ پر آپ کو ترجیح دیتا لیکن اس معاملہ میں ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں.آخر فیصلہ اس بات پر ٹھہرا کہ قرعہ ڈال لیا جائے چنانچہ قرعہ میں بیٹے کا نام نکلا اور وہ شریک ہوئے اور شہادت پائی.(اسد الغابہ جلد 2 صفحه 275 از ابن اثیر جزری مکتبہ اسلامیہ طهران ) قدم شہادت کہ محبت میں ہم نے رکھا ہے مسکرا کر ہمارے سینے کھلے ہوئے ہیں کہاں ہیں تیر آزمانے والے ہے حضور کا بستر ہے اہل مکہ نے جب حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دینے کا اعلان کیا تو اس کے نتائج سوچ کر پریشان ہو گئے سردار قریش ابوسفیان بن حرب مدینہ آئے اور حضور کے پاس پہنچے آپ

Page 127

122 مکہ پر چڑھائی کا ارادہ فرمارہے تھے ابوسفیان نے آپ سے اس بارے میں گفتگو کی کہ صلح حدیبیہ کی میعاد میں اضافہ فرما دیں حضور نے قبول نہ فرمایا وہ وہاں سے اٹھے اور اپنی بیٹی اور حرم رسول ام حبیبہ کے پاس گئے جب وہاں پہنچے اور حضور کے بستر مبارک پر بیٹھنا چاہا تو حضرت ام حبیبہ نے اس بستر کو لپیٹ دیا.ابوسفیان نے کہا اے میری بیٹی کیا تو اس بستر کو مجھ پر ترجیح دیتی ہے؟ حضرت ام حبیبہ نے فرمایا میں بستر کو تم پر ترجیح دیتی ہوں اس لئے کہ یہ حضور کا بستر ہے اور تم مشرک آدمی ہو.میں اچھا نہیں سمجھتی کہ تم حضور کے بستر پر بیٹھو.طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 100 بیروت 1958ء) غیرت ایمانی 1 غیرت رسول تو انسان سے وہ وہ کام کراتی ہے کہ عام حالات میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.غزوہ بنو المصطلق کے موقع پر جب رسول کریم ﷺ جنگ سے واپس تشریف لا رہے تھے تو ایک جگہ پر ایک ہی کنواں تھا اور پانی نکالنے والے زیادہ تھے جلدی کی وجہ سے بعض لوگوں میں اختلاف پیدا ہو گیا.اور بغیر کسی ارادے کے دو پارٹیاں بن گئیں ایک طرف مہاجرین کا گروہ نظر آنے لگا اور ایک طرف انصار کا.منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول نے جب یہ حالت دیکھی تو اس سے فائد ہ اٹھانے کا ارادہ کیا اور انصار کو مخاطب کر کے بڑے زور سے کہا تم نے خود ہی ان لوگوں کو سر پر چڑھالیا ہے ورنہ ان کی حیثیت کیا تھی کہ ہمیں ذلیل کرتے اب ذرا مدینے واپس پہنچ لینے دو مدینے کا سب سے بڑا معزز آدمی یعنی عبداللہ بن ابی بن سلول مدینہ کے سب سے ذلیل آدمی یعنی نعود بالله من ذلك محمد رسول اللہ مے کو وہاں سے نکال دے گا.(المنافقون.9) صحابہ میں گو اس وقت اختلاف اور جوش پیدا ہو گیا تھا مگر عبداللہ بن

Page 128

123 ابی بن سلول کے منہ سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ ان کے ہوش ٹھکانے آگئے.انصار نے فوراً سمجھ لیا کہ ہمارے ایمان کی آزمائش کا وقت ہے انہوں نے جھگڑاو میں ختم کر دیا اور مہاجرین کے لئے جگہ چھوڑ دی.مہاجرین نے تو اس وجہ سے جوش نہ دکھایا کہ خودان کے ساتھ جھگڑا تھا مگر انصار میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ اس فقرہ کے کہنے کے بعد عبداللہ بن ابی بن سلول زندہ رہنے کے قابل نہیں عبداللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے بھی اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیا کہ میرا باپ اب زندہ رہنے یہ کے قابل نہیں اور وہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ کو وہ بات پہنچی ہے جو میرے باپ نے کہی ہے آپ نے فرمایا ہاں پہنچی ہے اس کے بعد اس نے کہا یا رسول اللہ میرے باپ کے اس جرم کی سز اقتل کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے مگر میں ایک عرض کرتا ہوں کہ جب آپ میرے باپ کے قتل کا حکم دیں تو میرے ہاتھ سے اسے قتل کروائیں کیونکہ یا رسول اللہ میں یہ پسند نہیں کرتا کہ کسی اور شخص کے ہاتھ سے وہ قتل ہو اور میر انفس کسی وقت مجھے یہ جوش دلائے کہ وہ سامنے میرے باپ کا قاتل جاتا ہے اس سے بدلہ لے میں چاہتا ہوں کہ میرا باپ میرے ہی ہاتھ سے قتل ہو جائے تا کہ کسی کا بغض میرے دل میں پیدا نہ ہو.مگر رسول اللہ ﷺ نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے منع فرما دیا.(سیرت ابن کثیر جلد 2 صفحہ 215 تا 217 حالات غزوہ بنو مصطلق مترجم - مکتبہ قدوسیہ لاہور ) جنگ بدر میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح کا والد اپنے بیٹے حضرت ابو عبیدہ کی گھات میں نگار ہا مگر ہر دفعہ حضرت ابو عبیدہ ہٹ جاتے اور محفوظ رہتے لیکن جب ان کا والد باز باران کے سامنے آیا تو حضرت ابو عبیدہ نے اسے قتل کر دیا.مستدرک حاکم کتاب معرفۃ الصحابہ باب حلیۃ ابی عبیده)

Page 129

124 مندرجہ ذیل حکم قرآنی کی اطاعت کا کیسا شاندار نظارہ ہے کہ تو کوئی ایسے لوگ نہیں پائے گا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے ایسے لوگوں سے درستی کریں جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرتے ہوں خواہ ان کے باپ دادا ہوں یا ان کے بیٹے ہوں یا ان کے بھائی ہوں یا ان کے ہم قبیلہ لوگ ہوں.یہی وہ ( با غیرت ) لوگ ہیں جن کے دل میں اللہ نے ایمان لکھ رکھا ہے اور ان کی وہ اپنے امر سے تائید کرتا ہے اور وہ انہیں اپنی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے.اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے.یہی اللہ کا گروہ ہے خبر دار اللہ ہی کا گروہ ہے جو کامیاب ہونے والے ہیں.میں اسی دین پر قائم رہوں گا (المجادلہ: 23) حضرت خالد بن سعید ایک خواب کی بناء پر اسلام لائے.ان کے والد کو معلوم ہوا تو خالد کو پکڑنے کے لئے کئی آدمی بھیجے.جب وہ انہیں لے آئے تو والد نے انہیں شدید زدوکوب کیا اور انہیں ایک کوڑے سے مارا یہاں تک کہ ان کے سر پر مارتے مارتے وہ کوڑ اٹوٹ گیا.ان کے والد نے سمجھا کو اب شاید ان کے خیالات بدل گئے ہوں گے اور پوچھا کیا تم اب بھی محمد کی اتباع کرو گے.خالد نے جواب دیا خدا کی قسم یہ سچا دین ہے میں اس پر قائم رہوں گا.اس پر والد نے بہت گالیاں دیں اور انہیں قید کر دیا.بھوکا اور پیاسا رکھا یہاں تک کہ تین دن اسی حال میں گزر گئے.آخر ایک دن موقعہ پا کر فرار ہو گئے اور حبشہ کی طرف ہجرت کر طبقات ابن سعد جلد 4 صفحہ 94 بیروت.1957ء) گئے

Page 130

125 یا بجولاں حضرت ابو جندل بن سہیل نے جب کفر کی زنجیریں توڑیں تو باپ نے قید میں ڈال دیا اور سخت مظالم کئے یہاں تک کہ بدن زخموں سے چور چور ہو گیا.صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ اور سہیل کے درمیان معاہد ولکھا جا رہا تھا تو ابو جندل بھی کسی طرح پابجولاں وہاں آن پہنچے اور گو بھی معاہدہ پر دستخط نہ ہوئے تھے مگر سہیل نے بیٹے کو واپس کرنے پر اصرار کیا.صحابہ کے دل اپنے بھائی کی حالت زار دیکھ کر خون ہو رہے تھے.خود آنحضرت ﷺ کا محبت بھر ادل شدید اذیت میں مبتلا تھا مگر آپ نے معاہدہ کی پابندی کرتے ہوئے ابوجندل سے فرمایا ”صبر سے کام لو اور واپس چلے جاؤ.حضرت ابو جندل دوبارہ اپنے باپ کے ہاتھوں مصائب و آلام کی آگ میں چلتے رہے عمر آپ کے پائے ثبات میں ذرہ بھر لغزش نہ آئی.وہ ہاتھ جو حمد مصطفی ہے کا دامن تھام چکا تھا وہ کٹ تو سکتا تھا جدانہیں ہو سکتا تھا.( صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ حدیبیہ حدیث نمبر 3861) رنگ و روپ بدل گیا حضرت مصعب بن عمیر مکہ کے ایک نہایت حسین و خوش رو نو جوان تھے ان کی والدہ خناس بنت مالک نے مالدار ہونے کی وجہ سے اپنے لخت جگر کو نہایت ناز و نعم سے پالا تھا.چنانچہ وہ عمدہ سے عمدہ پوشاک اور لطیف سے لطیف خوشبو استعمال فرماتے تھے.خود آنحضرت کبھی ان کا تذکرہ کرتے تو فرماتے ” مکہ میں مصعب سے زیادہ کوئی حسین خوش پوش اور پروردہ نعمت نہیں ہے.

Page 131

126 مگر جب وہ حلقہ توحید میں داخل ہوئے تو یہ ساری نعمتیں ان سے چھن گئیں.جب ان کی ماں والد اور اہل خاندان کو اپنے بیٹے کے اس فعل کا پتہ لگا تو ان کی ساری محبت اور وارفتگی شعلے اگلتی ہوئی نفرت میں بدل گئی اور مجرم تو حید کے لئے شرک کی عدالت نے قید تنہائی کا فیصلہ سنایا.اور وہ عرصہ تک قید و بند کے مصائب برداشت کرتے رہے تا آنکہ خدا نے رہائی کے سامان پیدا فرمائے.مگر اس دوران ان کا تمام رنگ و روپ زائل ہو گیا.اور تمام عیش و ھم نے منہ پھیر لیا مگر تو حید کے اس فرزند نے ماں کی محبت اور اس کے ہر مطالبہ کو رد کر کے خدا اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی محبت کو ترجیح دی.طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 116 بیروت 1957ء) خداد یکھ رہا ہے حضرت عمر بن عبد العزیز کی والدہ ام عاصم حضرت عاصم بن عمر بن الخطاب کی صاحبزادی تھیں.علامہ ابن جوزی نے لکھا ہے کہ ایک روز رات کو حضرت عمر مدینہ کا گشت لگا رہے تھے کہ ایک دیوار کے نیچے تھک کر بیٹھ گئے.گھر کے اندر ایک عورت اپنی لڑکی سے کہہ رہی تھی کہ اٹھ کر دودھ میں پانی ملادے.لیکن لڑکی نے کہا کہ امیر المومنین نے منادی کرا دی ہے کہ دودھ میں پانی نہ ملایا جائے ماں نے کہا کہ اس وقت عمر اور عمر کے منادی دیکھ نہیں سکتے تم دودھ میں پانی ملا دو.اس نے جواب دیا کہ خدا کی قسم ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں مجمع میں امیر المومنین کی اطاعت کروں اور خلوت میں ان کی نافرمانی کا داغ اپنے دامن پر لگاؤں حضرت عمر نے یہ تمام گفتگوسن لی اور اپنے ساتھ نے کہا کہ اس دروازے اور اس جگہ کو یا درکھو.صبح ہوئی تو ان کو بھیجا کہ پتہ لگا ئیں کہ یہ کون عورتیں تھیں اور وہ صاحب شوہر ہیں یا نہیں؟ وہ آئے تو معلوم ہوا کہ لڑکی کنواری

Page 132

127 اور ماں بیوہ ہے.اب حضرت عمر نے اپنے لڑکوں کو جمع کیا اور کہا کہ " مجھے نکاح کی ضرورت ہوتی تو میں خود اس لڑکی سے نکاح کر لیتا.لیکن تم میں جو پسند کرے میں اس سے اس کا نکاح کر سکتا ہوں.عبداللہ اور عبد الرحمان کی بیویاں موجود تھیں.البتہ عاصم کو نکاح کی ضرورت تھی اس لئے انہوں نے اس سے عقد کر لیا اسی لڑکی سے حضرت عمربن عبدالعزیز کی ماں ام عاصم پیدا ہو ئیں.(سیرت عمر بن عبدالعزیز صفحه 11 از عبد السلام ندوی مطبع معارف اعظم گڑھ طبع دوم.1923ء) جماعت احمدیہ کے نمونے جماعت احمدیہ میں بھی اس قسم کے بیسیوں پائے جاتے ہیں مثال کے طور پر صرف چند نمونے بیان کئے جاتے ہیں.ہمارا ہے تو آ جائے گا حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی گھر والوں کے علم میں لائے بغیر قادیان پہنچے اور حضرت مسیح موعود کی بیعت کرلی.اور وہیں کے ہور ہے.گھر سے آئے کافی دن ہو گئے تھے اس لئے والدین اور بھائی بہنوں کو تشویش ہوئی ڈھونڈتے ڈھونڈتے والد صاحب قادیان پہنچ گئے.والد صاحب نے بڑی مصلحت سے اور بڑی منت سماجت اور لجاجت سے کہا کہ تمہاری ماں کی بینائی زائل ہو رہی ہے سب ترس گئے ہیں ایک دفعہ ہو آپ تمہیں میں دو ہفتہ میں پھر چھوڑ جاؤں گا.حضرت مسیح موعود نے پہلے تو والد کے ساتھ بھیجنے سے انکار فرمایا پھر کسی القاء یا اشارہ کے سبب فرمایا کہ باپ کے ساتھ چلے جاؤ بشر طیکہ وہ واپس آنے کی تحریری ضمانت دیں.

Page 133

128 یہ فیصلہ سن کر بھائی عبدالرحمن پر اپنے محبوب سے جدائی کا تصور جان لیوا ہونے لگا.پرانے واقعات تازہ ہونے لگے.جدائی کے عظیم صدمہ کے علاوہ گھر پہنچتے ہی شدید اذیتوں کا سامنا واضح تھا.فوراً خلوت میں گئے اور چند منٹوں کے لئے خدائے گی و قیوم کے آستانہ پر جھکے روئے اور گڑگڑائے کہ موٹی اپنے فضل سے بہتری فرما.میں تو ہر صورت میں تیرے مسیح کی اطاعت کروں گا.دعا سے آپ کو ایک سکینت ملی.حضرت حکیم نورالدین صاحب نے تجویز دی کہ بھائی عبدالرحیم صاحب کو ساتھ بھیج دیا جائے.تو حضرت اقدس نے فرمایا اور اس وقت حضور کا چہرہ مبارک سرخ تھا اور آواز میں ایک جلال شوکت اور رعب تھا.و نہیں مولوی صاحب! ہمیں نام کے (احمد یوں ) ضرورت نہیں ہمارا ہے تو آ جائے گا ورنہ کوڑا کرکٹ جمع کرنے سے کیا حاصل؟ قادیان دار الامان سے نکل کر ہر لمحہ اذیت ناک تھا.دوران سفر تو والد صاحب کا رویہ نرم رہا اور چوری چھپے نماز پڑھ لینے کی اجازت دیئے رکھی مگر اپنے علاقہ میں پہنچتے ہی فضا یکسر بدل گئی.بھائی عبدالرحمن صاحب چاروں طرف سے مصائب میں گھر گئے.ماں اور باپ آپ کی زندگی کو ایک لعنت قرار دیتے ہوئے موت کی تمنا کرتے بہن بھائی سب خون کے پیاسے ہو گئے.سب عزیز واقارب زبانی سختی اور طعن و تشنیع تک محدود نہ رہے بلکہ ہاتھوں اور لاتوں سے گزر کر چھڑیوں اور لاٹھیوں کے استعمال تک بات جا پہنچی.چھریوں اور کلہاڑیوں تک سے آپ پر حملے ہوئے.آپ کو گرا کر کئی رشتہ دار ا کٹھے چھاتی پر بیٹھ بیٹھ کر اذیت پہنچاتے.اسی طرح کی شدید تکالیف کے سبب آپ یہاں آٹھ نو ماہ کے عرصہ قیام کو ہمیشہ نہایت درجہ درد و غم اور رنج وستم کا زمانہ قرار دیتے تھے.کیونکہ ظلم و تشدد کا کوئی طریق نہ تھا جو آپ کے بزرگوں اور

Page 134

:129 عزیزوں نے آزمانے کی کوشش نہ کی ہو.اس کربناک صورت احوال اور درد انگیز کیفیت قلب و روح کے ساتھ آپ کو قادیان کی یا دستاتی.ان دنوں صبر وتحمل کے ساتھ ساتھ شب و روز دعائیں کرتے اور فرماتے کہ ہر طرح کے ان مظالم میں میرے لئے دو باتیں ڈھارس تھیں پہلی یہ کہ حضرت مسیح موعود بہت دفعہ آیت قرآنی احسب الناس ان يتركوا.....پڑھتے اور اس کا مضمون بیان فرماتے جس سے زندگی کی جھلک اور اور امید کی لہر دوڑنے لگتی مشکلات اور اجتلاؤس پر فتح پانے اور غالب آنے کی قوت و عزم میسر آ جاتا اور دل کو غیر معمولی سکون و یقین ملتا.دوسری بات حضرت مسیح موعود کا مشہور مقوله "خداداری چه غم داری سچا حوصلہ عطا کرنے کا ذریعہ تھی.جسمانی تشدد ذہنی اذیت اور معاشرتی دباؤ ایک طرف دوسری طرف ترغیب و تحریص اور سمجھانے بجھانے کا سلسلہ رات کو جاری رہتا والدہ ہمشیرہ اور دونوں بھائی اپنی جدائی محبت اور مذہبی تعصب کے حوالے سے زور دیتے رہے کہ احمدیت کو ترک کرد د.یہ سب کچھ تو والدین کے پاس پہنچ کر دیکھنا پڑا ادھر قادیان میں دو ہفتے کا کہہ کر آئے تھے اس لئے مہینوں کے گزرنے پر وہاں تشویش بڑھنے لگی.حضرت مولوی خدا بخش صاحب جالندھری نے آپ کے حالات معلوم کرنے کا مصمم ارادہ کیا اور پر مشتمت مسافت طے کر کے آپ کے پاس پہنچے اور چوری چھپے حالات معلوم کر ھے واپس چلے گئے.ایک لمبا عرصہ گزرنے کے ساتھ ساتھ والد صاحب نے آپ کو بھی اپنے ساتھ کام پر لگالیا تھا اور ارادہ کیا کہ ان کو الگ حلقہ لے دیں کہ انہی دنوں محکمانہ تبادلہ ہوا اور جلدی جلدی سب کو نئے ہیڈ کوارٹر لدھڑ نزد بہلول پور آنا پڑا.اس دوران زیادہ مدد اور

Page 135

130 نگرانی والد صاحب کے بھتیجے راج کرن نے کی جو کہ نہایت متعصب ہندو تھا کی کئی دفعہ حضرت بھائی جی سے ہاتھا پائی اور لاٹھی سوٹا ہوا.وقت گزرتا گیا حتی کہ ایک دن کسی ضرورت کے لئے خاندان کی ایک بوڑھی خاتون کو گاؤں سے لانے کے لئے آپ کی ڈیوٹی لگی جو اس اذیت ناک فضا سے نجات کی بنیاد بنی.سفر کے لئے آپ کو سانگلہ ہل سے ٹرین پر سوار ہوتا تھا.ایک مدد گار ساتھ کر دیا گیا جسے سٹیشن کے قریب پہنچ کر آپ نے واپس کر دیا اور خود ٹکٹ لے کر عازم سیالکوٹ ہوئے وہاں احباب سے مل کر قادیان کی طرف روانہ ہو گئے.اس طرح قریباً نو ماہ کی تلخ جدائی کے بعد آپ کو پھر سے قادیان میں امان می.خدا کے مسیح نے فرمایا تھا ہمارا ہے تو آ جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا حضرت اقدس مسیح موعود از حد مسرور و شادماں ہوئے اور فرمایا: آپ آگئے بہت اچھا ہوا.آپ کے والد صاحب نے وعدہ کا پاس نہ کیا اور آپ کو روک کر تکلیف میں ڈالا.ہمیں بہت فکر تھی مگر شکر ہے کہ آپ کو اللہ نے ثابت قدم رکھا اور کامیاب فرمایا.مومن قول کا پکا اور وفادار ہوتا ہے.“ قادیان دارالامان پہنچ کر آپ ماں باپ اور بہن بھائیوں کی محبتوں سے کہیں بڑھ کر زیادہ کچی اور وسیع محبت میں بسنے لگے.دوسری طرف جاننے والے ہندوؤں کے مینوں پر سانپ لوٹ گئے.آپ کو اغوا کرنے کی چار پانچ بار کوشش ہوئی.مگر خدا نے ہر طرح آپ کو ثابت قدم رکھا.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب نے والد صاحب اور دیگر عزیزوں کی ساری کوششیں دیکھتے ہوئے آخر کار ایک فیصلہ کیا اور اپنی والدہ محترمہ کے نام ایک مفصل خط لکھا کہ بالفرض آپ لوگ مجھے پکڑ لے جانے میں کامیاب بھی ہو جائیں اور میرے

Page 136

131 جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کا قیمہ بھی بنا دیں تب بھی میرے ہر ذرہ سے صدائے حق ہی بلند ہوگئی.یہ خط نتیجہ خیز ثابت ہوا اور گھر سے مخالفانہ پر تشدد کوششوں کا سلسلہ بکلی ختم ہو گیا.1900ء کے دوران گھر کی طرف سے اطمیان ہوا مگر تپ دق کے مرض میں مبتلا ہو گئے.ہر طرح کا علاج بے اثر معلوم ہونے لگا.علم ہونے پر حضرت مسیح موعود نے دعا شروع کی اور دوائی بھی بتائی جس سے دیکھتے ہی دیکھتے گویا مردہ زندہ ہونے لگا.ایک دن حضرت اقدس کی زیارت ہوئی.حضور نے احوال پوچھے تو کہنے لگے.حضور موت کے بعد ایک نئی زندگی ملتی معلوم ہوتی ہے“.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ٹھیک ہے کفر کا گوشت پوست تھا.وہ جاتا رہا اب سب خیر ہے.اسی دوران علالت کی خبریں سن کر والدہ قادیان آگئیں اس طرح حضرت بھائی جی کے سکون واطمینان کے علاوہ مناسب خوراک اور دیکھ بھال کا انتظام ہو گیا.والدہ صاحبہ حضرت اقدس گھر کی خواتین اور عام احباب کے غیر معمولی حسن سلوک سے از حد متاثر ہوئیں.آخر حضرت اقدس کی اجازت سے والدہ اپنے بیٹے کو ساتھ گھر لے گئیں اور بڑی ہمت و جرآت سے اپنے پاس رکھا اور کسی کے اعتراض کی پرواہ نہ کی بلکہ نمازیں وغیرہ پڑھنے کی کھلی اجازت دی.حضرت بھائی جی قریباً ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گھر رہ کر والدہ صاحبہ کی اجازت سے پھر قادیان واپس آگئے.اور ساری زندگی وہیں گزاری.خلاصه از الحکم مئی.جون 1938 ء کے متعدد پرچے)

Page 137

132 میں اس کو نہیں چھوڑ سکتا شیخ عبدالرحیم صاحب شر ما ( سابق کشن لعل ) ہندؤوں سے احمدی ہوئے.آغاز میں انہوں نے اپنے اسلام کو خفی رکھا.مگر ایک دن والدہ نے نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا.جب وہ برہم ہو ئیں تو شیخ صاحب نے فرمایا.میں ( احمدیت ) کو سچاند ہب سمجھتا ہوں.میں نے اس کو آزمایا ہے.میں اس کو کسی طرح نہیں چھوڑ سکتا.محض آپ کی خاطر اپنے ایمان کو چھپایا ہوا تھا اگر آپ ناراض ہوں گی اور مخالفت کریں گی تو میں اعلانیہ طور پر (احمدی) ہو جاؤں گا.اور گھر چھوڑ کر کہیں چلا جاؤں گا“.آخر والدہ اس بات پر رضا مند ہو گئیں کہ شیخ صاحب چھپ کر نماز پڑھ لیں مگر اپنے دین کی تبدیلی کا اعلان نہ کریں..کچھ عرصہ کے بعد شیخ صاحب نے اپنے احمدی ہونے کا عام اعلان کر دیا.برادری کے زور دینے پر والدہ نے ان کے ساتھ قطع تعلقی کردی.فرماتے ہیں برادری کے ڈر سے نہ میں ہی والدہ صاحبہ کوٹل سکتا تھا.اور نہ میری والدہ مجھے سے مل سکتی تھیں.میری والدہ صاحبہ کو مجھ سے بے حد محبت تھی.وہ میری جدائی کو برداشت نہ کر سکتی تھیں.اور روتی رہتی تھیں.شام کو دفتر بند کر کے جب میں احمد یہ بیت الذکر کو جاتا اور اپنے محلہ کے پاس سے گذرتا.تو میری والدہ مجھ کو دیکھنے کے لئے بازار کے ایک طرف کھڑی ہو جاتیں.یہ نظارہ بہت تکلیف دہ ہوتا.جب میں ادھر سے گذرتا تو اپنی والدہ کو روتے ہوئے پاتا.اکثر تو روتے روتے ان کی ھکھی بندھ جاتی.اور دور تک ان کے رونے کی آواز سنائی دیتی.مجھ کو بہت

Page 138

133 تکلیف ہوتی.مگر برادری کے ڈر سے ہم نہ ہل سکتے تھے.شیخ صاحب قادیان ہجرت کر گئے.بالآخران کی والدہ بھی قادیان آگئیں اور بیعت کر لی.( رفقاء احمد جلد 10 صفحہ 6741) سب نے بیعت کرلی حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے بیعت کی تو مخالفت پورے زور سے جاری ہو گئی.اس میں عوام کے علاوہ آپ کے والدین اور چھوٹا بھائی بھی شامل تھے.مگر آپ استقامت سے ایمان پر قائم رہے.اور تبلیغ کرتے رہے.ایک سال کے اندر اندر آپ کے والد صاحب چھوٹا بھائی اور دونوں بھاوجوں نے بیعت کر لی.آپ کے بڑے بھائی نے خلافت اولی میں بیعت کی.ایمان کی مضبوطی رفقاء احمد جلد 10 صفحہ 215) چوہدری بشیر احمد صاحب وڑائچ رجوعہ ضلع گجرات نے 1957 ء میں احمدیت قبول کی.والد نے آپ کی شدید مخالفت کی اور جائیداد سے عاق کر دیا تو آپ اپنے ماموں کے پاس چلے گئے.ان کے والد نے ان کو سمجھانے کے لئے چھوٹے بیٹے کو بھیجا مگر وہ بھی احمد ی ہو گئے.اور دونوں بھائی واپس آگئے مگر پھر سخت مخالفت کی وجہ سے سندھ چلے گئے اور اپنے ایمان پر قائم رہے یہاں تک والدہ کے ساتھ حسن سلوک کی بناء پر انہوں نے خود کہا کہ تم جس مذہب پر چاہو قائم رہو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے تب وہ چار سال کے بعد گھر واپس آگئے.(روز نامہ الفضل 9 مارچ 2001ء)

Page 139

134 حاصل کلام الغرض ماں باپ اس زمین پر خدا کی ربوبیت کے مظہر ہیں ان کی خدمت اور اطاعت سے جنت کے دروازے کھلتے ہیں ان کی دعا ئیں آسمان پر مقبول ہیں وہ زمین پر انسان کے سب سے بڑے محسن ہیں ان کا شکر ادا کرنا خدا نے واجب قرار دیا ہے ان کی خدمت کر کے جنت حاصل کیجئے اور اگر ایسا نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ ارشاد یا درکھیئے جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں ان کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہد خدمت سے لا پرواہ ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۹)

Page 140

نام کتاب تعداد 1000......شمارہ نمبر 64 طبع...دوم

Page 141

صفحات 28 20 32 16 20 ༄༅⌘ཙྭ ཉྩ 76 40 40 88 104 68 -2 -3 -4 -6 -7.8 -9 فہرست کتب اخلاق حسنہ " حضرت خلیفہ امسح الرابع کا خطبہ 25 مارچ 1988ء بمقام لندن " مقدس ورش" بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی پہلی کتاب : "سبز اشتہار اور لیکچر سیالکوٹ" حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں.کونپل " پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی و تربیتی نصاب.چشمہ زمزم " بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی دوسری کتاب غنچہ " سات سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب اس میں تصویروں کے ساتھ وضو کرنے اور نماز ادا کرنے کا طریقہ درج ہے.ضرورۃ الامام اور لیکچر لدھیانہ " حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں "THE NAZAREENTE KASTIMIRI CHRIST" دنیا پور کی مجلس عرفان.قوار بر قوامون" اصلاح معاشرہ پر کتاب 10 - "گل" دس سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب مکمل نماز با تر جمعہ 11- ایک بابرکت انسان کی سرگزشت" حضرت عیسی کی زندگی کے حالات 12- افاضات ملفوظات" حضرت مسیح موعود کے ملفوظات سے اقتباسات.13.اصحاب فیل " بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی تیسری کتاب 14 - " بیت بازی" درشین ، کلام محمود، در عون اور بخار دل سے منتخب اشعار 15." پانچ بنیادی اخلاق" حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا خطبہ 24 نومبر 1989ء 16 - : " تذکرۃ الشہادتین اور پیغام صلح حضرت بانی سلسلہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں.17 " حضرت رسول کریم ﷺ اور بچے " 18 - "صد سالہ تاریخ احمد بیت" بطر ز سوال و جواب 19 - "فتوحات" حضرت بائی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی انذاری پیشنگوئیاں.20 " بے پردگی کے خلاف جہاد" جلسہ سالانہ 1982 ، خواتین سے سیدنا حضرت خلیفہ اسح الرابع کا خطاب 21 " آداب حیات" قرآن کریم او را عادی ہے مبارکہ کی روشنی میں.22 "مجالس عرفان" حضرت خلیفہ اسیح کی مجالس سوال و جواب 23 " واقفین ٹو کے والدین کی راہنمائی کے لئے" 24 "بركات الدماء اور مسیح ہندوستان میں " حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں.25 " پدرگا و ذیشان" منتخب نعتوں کا مجموعہ 26.اگر اب صد سالہ جشنِ تشکر نمبر 1989 27 محراب" سوداں جلسہ سالانہ نمبر 1991ء 28." پیاری مخلوق" بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی چوتھی کہتا.29." دعوت الی اللہ " وصوت الی اللہ کے طریق.30 - "SAYYEDNA BILAL" بچوں کے لئے انگریزی میں حضرت سیدنا بلال کی زندگی کے حالات.31 " خطبه لقاء" سیدنا حضرت خلیفہ اسح الرابع کا خطبہ 23 مارچ 1990 32 " حوا کی پینیاں اور جنت نظیر معاشرہ " خطابات حضرت خلیفة اسم الرابع.33."میرے بچپن کے دن" حضرت مولوی شیر علی کے حالات زندگی.34 "ری الانبیاء" انبیائے کرام کے مستند حالا تو زندگی.35 - " عہدیداران کے لئے نصائح سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع کا 31 اگست 1991 ء کا خطاب 36 " گلدسته " تیرہ سال تک کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب 212 24 32 22200 2 24 58 92 480 72 28 224 144 24 48 144 204 252 60 28 30 48 160 28 152 20 120

Page 142

290 162 120 160 72 172 54 192 252 88 64 168 280 32 28 100 80 20 160 496 160 32 358 144 64 32 28 144 24 24 170 40 104 40 80 216 84 37- "سيرة و سوانح حضرت محمد بطرز سوال و جواب ).38 دعائے مستجاب دعا کا طریق اور حضرت مصلح موعود کے قبولیت دعا کے واقعات.39."ہماری کہانی " محترم حاجی عبد الستار آف کلکتہ کے حالات..40 " کلام طاہر" سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا شیریں کلام معہ فرہنگ.ال " انبیاء کا موعود" سیرت النبی پر بچوں کے لئے سلسلے کی پانچو میں کتاب.42." حضرت مرزا ناصر احمد خلیفہ اسح الثالث" حضرت طاہرہ صدیقہ صاحبہ کی مرتب کردہ کتاب زندگی.43 "ترکیبیں" آسان کم خرچ خالص اشیاء بنانے کی ترکیبیں.44 " قندیلیں" سبق آموز واقعات 45." جماعت احمدیہ کا تعارف" دعوت الی اللہ کے لئے ضروری معلومات.46- "سیرت حضرت محمد ی ولادت سے نبوت تک " بچوں کے لئے سیرۃ النبی کی کتاب.47- "نماز" با ترجمه با تصویر -48 ۲۶ گلشن احمد پندرہ سال تک کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب 49- "عاجزانہ راہیں" حضرت اقدس بانی سلسلہ کے ارشادات کی روشنی میں 30."اچھی کہانیاں" بچوں کے لئے سبق آموز کہانیاں.51 " قوار مر قوامون" حصّہ اوّل.52 دلچسپ سبق آموز واقعات" از تقاریر حضرت مصلح موعود 53- "سیرت حضرت محمدعی نبوت سے ہجرت تک " بچوں کے لئے سیرۃ النبی سہی کتاب 54." بے احمیدی کی ماں زندہ باد".55 - " کتاب تعلیم" 56 " تجلیات الہیہ کا مظہر محمد ع - 57 - "احمدیت کا فضائی دور ".58." امن کا گہوارہ مکہ مکرمہ " سیرت النبی پر بچوں کے لئے چھٹی کتاب.59 " بیعت عقبی اولی تا عالمی بیعت" 60 سیرت حضرت محمد مصطفے میں ہجرت سے وصال تک " بچوں کے لئے سیرۃ النبی کی کتاب 61.انسانی جواہرات کا خزینہ " سیرت النبی پر بچوں کے لئے ساتویں کتاب.62 - "حضرت محمد مصطفے کا بچپن" سیرت النبی پر بچوں کے لئے آٹھویں کتاب.63 مشاغل تجارت و حضرت خدیجہ سے شادی" سیرت النبی پر بچوں کے لئے نویں کتاب 164 " " والدین کی خدمت اور اطاعت ، پاکیزہ تعلیم اور دلکش نمونے.65."سیرت و سوانح حضرت محمد مصطفے آغاز رسالت" سیرت النبی پر بچوں کے لئے دسویں کتاب.66 - " کونپل (سندھی) پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی اور تربیتی نصاب 67 "ربوو" منظوم کلام 68."سیرت و سوانح حضرت محمدمصطفی اللہ دعوت الی اللہ اور ہجرت حبشہ "سیرت النبی پر بچوں کیلئے گیار ہوں کتاب.69 جوئے شیر ہیں" منتخب نظموں کا مجموعہ 70 - "سیرت و سوانح حضرت محمد مصط 71 "سفیر آخرت " آداب و مسائل 72 در تمین" مع فرهنگ 73.ہجرت لب وسفر طائف" سیرت النبی پر بچوں کیلئے بارہویں کتاب.74 ہجرت مدینہ مدینے میں آمد "سیرت النبی پر بچوں کیلئے تیر ہو میں کتاب.75 " مرزا غلام قادر احمد ".

Page 143

يَا رَبِّ سَبِّرْنِي بِجُنَّةِ عَفْوك كُنْ ناصِرَى وَمُصاحِبِ وَمُحَامِي اے میرے رب! مجھے اپنی بخشش کی ڈھال سے ڈھانپ لے میرا ساتھی ، میرا مددگار، اور میرا محافظ بن جا.يَا رَبِّ صَاحِبُهَا بِلُطْفِكَ دَائِماً s وَاجْعَلْ لَهَا مَأْ وَى بِقَبْرٍ سَامِي اے میرے رب! اس پر ہمیشہ لطف کرتے رہنا اور اُس کا ٹھکانا ایک بلندشان قبر میں بنانا.يَا رَبِّ أَنْعِمُهَا بِقُرْبِ محمد ذِي الْمَجْدِ وَالْإِحْسَانِ وَالْإكرامِ اے میرے رب ! اسکو قرب محمد کی نعمت عطا فرما جو بڑی بزرگی اور بڑا احسان کرنے والے ہیں جسکو تو نے عزت کلام محمود صفحہ 174 بخشی ہے.

Page 143