Language: UR
ستمبر 1980ء میں احمد اکیڈمی ربوہ کی طرف سے طبع کی جانے والی کتاب دراصل مولانا موصوف کی جلسہ سالانہ ربوہ 1979ء کی تقریر کا متن ہے۔ ضروری ابتدائیہ اور اختتامیہ کے علاوہ اس کتاب میں جماعت احمدیہ کی روحانی، تبلیغی، علمی، آئینی، قانونی، قومی، سیاسی، سماجی خدمات کا مع امثلہ ذکر کیا گیا ہے۔
جماعت احمدية ملی خدمات مولنا دوست محمد شاهد مؤرخ احمدیت
جماعت احمدية ملی خدمات مولنا دوست محمد شاهد مؤرخ احمدیت
هدیه بحرمت بر اور مر محترم شیر اور ہب کی ہر آف سرور حال رہوں کاس دعا انچارج شعبه تاریخ احمدیت 29 DEC 1980
جماعت احمد کی ملی بود تا تقرير جلسة الانة سنة رکا مولنا دوست محمد صاحب شاهد مونیخ احمدیت الناشر احمد اكيد يمي ربوه
با جازت نظارت اشاعت لٹریچر تصنیف.ربوہ جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں ! نام کتاب : جماعت احمدیہ کی ملی خدمات مولینا دوست محمد شاهد مصنف ناشد : مطبع قیمت جمال الدین انجم محمد محسن لاہور آرٹ پریس لاہو ار روپے تاریخ اشاعت : ستمبر ۶۱۹۸۰ کتابت : نور الدین خوشنویس ربوده
۵ ។ 1.11 " ۱۴ ۱۹ ۵۳ فهرست عنوان ا ایک حدیث مبارک احمدیت کا بنیادی مقصد، خدمت دھوئی ماموریت کی حقیقی غرض ۴ پانچ اقسام کی بخدمات اسلامیہ : روحانی خدمات تبلیغی خدمات علمی خدمات آئینی و قانونی خدمات قومی، سماجی اور سیاسی خدمات خدمات اسلامیہ کا مقدس پودا تناور درخت کی شکل میں i
۵۵ q..۱۲۴ عنوان روحانی خدمات تبلیغی خدمات علمی خدمات آئینی و قانونی خدمات بین الاقوامی سیاسی خدمات اختتام
3 بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِه نحْمَدُهُ وَنُصَلّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيهِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الت ساطر كنتُمْ خَيْرًا مَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِو تُؤْمِنُونَ بِاللهِ ( آل عمران : ۱۱۱) " جماعت احمدیہ کی پہلی خدمات " یہ ہے وہ موضوع جس پر بہ عاجز آج خدا کی دی ہوئی توفیق سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہے.ایک حدیث مبارک معرة رسامعین ! محبوب کبریا سید الاخبار من الملكين خاتم النبيين سيدنا و مولنا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبے صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک ہے:
ان الله عِنْدَ أقْوَامٍ نِعَمَّا اَفَرهَا عِندَهُم مَا كَانُوا فِى حَوَائِجِ الْمُسْلِمِينَ مَا لَمْ يَمَلُّوهُمْ، فَإِذَا مَلُوهُمْ نَقَلَهَا إِلَى غَيْرِهِمْ.رواه الطبراني " st ١٦٩ الترغيب والترهيب الجزء الرابع من مصرى ) یعنی اللہ تعالی کی کچھ نعمتیں قوموں کے پاس ایسی ہیں جنہیں وہ اُن کے ہاں اُس وقت تک باقی رکھتا ہے جب تک کہ وہ مسلمانوں کی ضروریات میں اُن کے کام آتی رہیں اور اُن سے اکتائیں نہیں.پھر جب وہ اُن سے اُکتا جاتے ہیں تو وہ ان نعمتوں کو اُن سے لے کر اوروں کو دے دیتا ہے.احمدیت کا بنیادی مقصد - خدمت اس ارشاد نبوی سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ہمارے سید و مولیٰ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی زبر دست خواہش تھی کہ آپ کی پیاری اُمت کو ہمیشہ ایسے بے نفس خادم میتر آتے رہیں جو اپنے بھائیوں کی ہمدردی
اور بھلائی میں پوری عمر نہایت مجز و انکسار سے سرگرم عمل رہیں.اور دیر اصل سید الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دلی کرب و اضطراب ہی تھا جس نے ایک ظلماتی زمانہ میں جبکہ زوال امت اپنی انتہاء تک پہنچ گیا تھا، عرش الہی کو ہلا کر رکھ دیا اور خدا تعالیٰ نے اُس جلیل الشان نبی کے ایک فرزند جلیل یعنی حضرت سیح موعود علیہ السلام پر اپنی تجلی خاص فرمائی اور خدا کے حکم سے ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا جس کا بنیادی نصب العین اور مقصد حیات ہی مسلمانان عالم کی خدمت ہے جیسا کہ آپ نے ۴ مارچ ۱۸۸۹ء کے اشتہار میں واضح فرمایا کہ :.ه ن " یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین یعنی تقوی شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لیے ہے تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور اُن کا اتفاق السلام کے لیے
برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہو اور وہ برکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آسکیں......وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں یتیموں کے لیے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کیلئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوشش اس بات کے لیے کریں کہ اُن کی عام برکات دنیا میں کھیلیں اور محبت الہی اور ہمدرد کی بندگان خدا
کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آوے " (اشتہار په مارچ ۳۶۱۸۸۹) صحابی رسول عربی محضرت جریر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ بعیت اسلام کرنا چاہتا ہوں حضور نے منجملہ اور باتوں کے ہر سلمان کی خیر خواہی کو بھی شرط اسلام قرار دیا.(صحاح ستہ) حضرت بانی احمدیت نے اسی اُسوہ محمدی کے مطابق بیعت کرنے والوں کے لئے جو دس ربانی شرائط مقرر فرمائیں اُن میں سے چوتھی شرط ان الفاظ میں تھی کہ :.عام ملالہ کو عموماً اورسلمانوں کوخصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی نا جائز تکلیف نہیں دے گا.نہ زبان سے نہ ہاتھ
۱۰ سے نہ کسی اور طرح سے " اور آٹھویں شرط یہ تھی کہ : وو دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ عزیز تو سمجھے گا.داشتهار میل تبلیغ) دھوئی ماموریت کی حقیقی غرض جہاں تک اپنے دعوئی ماموریت کا تعلق تھا حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اس کی غرض وغایت ہی یہ بتلائی کہ سے مرا مقصود ومطلوب و تمنا خدمت خلق است ہمیں کارم ہمیں بارہم ہمیں رسم ہمیں راہم نے باید مرا ایک ذرہ عرب بہائے این دنیا مینه از بهر اگر کسی که ماموریم خدمت را "C
یعنی میرا مقصود و مطلوب اور میری خواہش خدمت خلق ہے.یہی میرا کام یہی میری فقہ داری یہی میرا فریضہ اور یہی میرا طریقہ ہے.مجھے اپنے لئے ذرہ بھر دنیا کی عزت درکار نہیں.ہمارے لئے کرسی نہ بچھاؤ کہ ہم تو خدمت پر مامور ہیں.پانچ اقسام کی خدمات اسلامیہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کا عہد مبارک اسلام اور مسلمانوں کی عظیم الشان خدمات سے اسی طرح لبریز ہے جس طرح سمندر قطرات سے پر ہوتا ہے.آپ نے ملت اسلامیہ کی جو بے شمار خدمات انجام دیں وہ ایک سرسری مطالعہ سے اُکھولا پانچ حصوں میں تقسیم کی جاسکتی ہیں :- - روحانی خدمات ، ۲ تبلیغی خدمات ، علمی خدمات آئینی و قانونی خدمات، ۵.قومی، سماجی اور سیاسی خدمات روحانی خدمات روحانی خدمات سے مراد وہ عاجزانہ دعائیں ہیں جو
۱۲ قرن اول ہی سے مسلمانوں کی حقیقی فتح اور ترقی کا فیصلہ کن اور آخری حربہ ثابت ہوئی ہیں.چنانچہ تاریخ اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے خلفاء اور دیگر مشاہیر اقمت مثلاً مجاہد ایران حضرت عبد الرحمن بن سمرہ ، غازی قرطبه حضرت مغیث ؟ فاتح سندھ حضرت محمد بن قاسم اور مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر وغیرہ کی فتوحات کے ان واقعات سے بھری پڑی ہے جو خالصہ دعاؤں کے نتیجہ میں رونما ہوئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو بھی الهاماً خبر دی گئی کہ اس آخری زمانہ میں مسلمانوں کو دعا ہی کے ذریعہ تعلیم اور تسلط خطا ہو گا اسی لئے آپؐ نے دعاؤں کو انتہاء تک پہنچا دیا اور اپنی سجدہ گاہ کو عمر بھر اپنے آنسوؤں کے ساتھ تو بر رکھا جیسا کہ آپ خود ہی فرماتے ہیں وہ اندرین وقت مصیبت چاره ما بیکساں جز دعائے بانداد و گریه اشجار نیست اس مصیبت کے وقت ہم غریبوں کا علاج صبح کی دعا اور سحری کے رونے کے سوا اور کچھ نہیں.حضرت مولوی فتح الدین صاحب دھر کوئی آپ کے
۱۳ ابتدائی زمانہ کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی نے دیکھا کہ آپ آدھی رات کے قریب بہت بے قراری سے توپ رہے ہیں.میں ایسا خوفزدہ ہوا کہ سخت پریشانی میں مبہوت لیٹا رہا.قبیح عرض کی کہ کیا حضور کو کوئی تکلیف تھی ؟ فرمایا جس وقت ہمیں اسلام کی مہم یاد آتی ہے اور جو جو مصیبتیں اس وقت اسلام پر آرہی ہیں اُن کا خیال آتا ہے تو ہماری طبیعت اُن تو سخت بے چین ہو جاتی ہے اور یہ اسلام ہی کا درد ہے جو ہمیں اس طرح بے قرار کر دیتا ہے.“ دسیرة المبدئ حصہ سوم م۲۹) آپ کے جذبات غم اور نیم شبی دعاؤں کی کیفیت آپ کے ان تین دردناک اشعار سے بخوبی عیاں ہے.فرماتے ہیں سے میرے آنسو اس غم دلسوز سے تھمتے نہیں دیں کا گھر ویران ہے اور دنیا کے ہر عالی منار دیکھ سکتا ہی نہیں بی شعف و بین مصطفه مجھ کو کرا کے میرے سلطان کامیاب کامگار
۱۴ کے خدا تیرے لئے ہر ذرہ ہو میرا خدا مجھ کو دکھلائے بہار دیں کہ میں جموں شکبار الحمد لله ثم الحمد للہ جناب الہی کی طرف سے آپ کو بشارت دی گئی کہ آپ کی قوت و شوکت السلام کے بارے میں سب دُعائیں قبول ہوئیں.(تتمہ حقیقۃ الوحی صداها ) جس پر آپ نے پیش گوئی فرمائی کہ : " آسمان کا خدا مجھے بہلاتا ہے کہ آخر اسلام کا مذہب دلوں کو فتح کرے گا.پیغام صلح مسل) تبلیغی خدمات حضرت بانی سلسلها حمدیہ کی وہ تبلیغی خدمات جو دشمنان اسلام کے خوفناک اور پے درپے حملوں کے دفاع میں آپ کی طرف سے ظہور میں آئیں ایسی عظیم الشان اور بے مثال ہیں کہ اِس دور کے وہ ممتاز مسلمان لیڈر بھی جو آپ سے کچھ اختلاف رکھتے تھے آپ کو خراج تحسین ادا کئے بغیر نہیں رہ سکے مثلاً آپ کے انتقال پر : بر صغیر پاک و ہند کے متاز عالم دین مولانا ابو الکلام آزاد
نے آپ کو فتح نصیب ہو نیل قرار دیتے ہوئے لکھا :- مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے فلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدا فعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یاد گار چھوڑا جو اُس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے، قائم رہے گا " اخبار وکیل امرتسر مئی ۶۱۹۰۸ ) دہلی کے صاحب طرز ادیب اور گرزن گزٹ کے ایڈیٹر مرزا حیرت دہلوی نے اعتراف کیا کہ :.وو مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اُس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں.اُس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید ٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی تی حیثیت
14 ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا " (بحوالہ سلسلہ احمدیہ مشا) رسالہ علیگڑھ انسٹی ٹیوٹ نے لکھا کہ : " بے شک مرحوم اسلام کا ایک بڑا پہلوان تھا (بحوالہ تسخیر الا زبان، جلد ۳ نمبر د شاه ص۳۳۲) مولانا سید حبیب (شمالی ہند کے مشہور مسلم صحافی اور مدیر سیاست نے اپنی کتاب " تحریک قادیان میں تعلیم ر کیا کہ :.ر اُس وقت کہ آریا اور سیحی مبلغ اسلام پر بے پناہ حملے کر رہے تھے.اگتے دکئے جو عالم دین بھی کہیں موجود تھے وہ ناموس شریعت حقہ کے تحفظ میں مصروف ہو گئے مگر کوئی زیادہ کامیاب نہ ہوا اس وقت مرزا غلام احمد صاحب میدان میں اُترے اور انہوں نے مسیحی پادریوں اور آریا
اید شکوں کے مقابلہ میں اسلام کی طرف سے سینہ سپر ہونے کا تہیہ کر لیا......مجھے یہ کہنے میں ذرا پاک نہیں کہ مرزا صاحب نے اس فرض کو نہایت خوش اُسلوبی سے ادا کیا اور مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کر دیئے" (صفحہ ۲۰۷ تا ۲۱۰) حضور نے ۱۸۸۵ء میں ایشیا ، یورپ اور امریکہ کے تمام بڑے بڑے مذہبی لیڈروں ، فرمانرواؤں ، مہاراجوں عالموں مرتبوں ، مصنفوں اور نوابوں کو اردو و انگریزی اشتہار کے ذریعہ دعوت اسلام دی جس کا ذکر چاچڑاں شریف کے مشہور سجادہ نشین حضرت خواجہ غلام فرید صاحب نے کئی بار انتہائی تعریفی الفاظ میں کیا.ایک بار فرمایا :- مہ اوقات مرزا صاحب بعبادت خدا عزو جال میگز را ند یا نماز میخواند یا تلاوت قرآن شریف میکند یا دیگر شغل اشتغال مینماید و بر حمایت اسلام و دین مینال کمر همت بسته که ما که زمان لندن را نیز دعوت دین محمدی کرده است و بادشاه روس و فرانس و غیر ہمارا ہم دعوت
A اسلام نموده است و همه سعی و کوشش او در اینست که عقیده تثلیث و صلیب را که سراسر کفر است بگذارند استشارات فریدی حصہ سوم ایڈمیشن اول مشت (ترجمہ) حضرت مرزا صاحب تمام اوقات خدائے عز وجل کی عبادت میں گزارتے ہیں یا نماز پڑھتے ہیں یا قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہیں یا دوسرے ایسے ہی دینی کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور دین اسلام کی حمایت پر اس طرح کمر ہمت باندھی ہے کہ ملکہ نہ مان لنڈن کو بھی دین محمدی متبول کرنے کی دعوت دی ہے اور روس اور فرانس وغیرہ کے بادشاہوں کو بھی اسلام کا پیغام بھیجا ہے اور اُن کی تمام تر سعی اور کوشش اس بات میں ہے کہ وہ لوگ عقیدہ تثلیث و صلیب کو جو کہ سراسر کفر ہے چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کی توحید اختیار کرلیں.حضرت بانی احمدیت کی اس دعوت اسلام کی بازگشت امریکہ
19 رسم میں سنائی دی جہاں ایک گر جا کے لاٹ پادری اور روزنامہ ڈیلی گزٹ کے ایڈیٹر مسٹر الیگزنڈر رسل وب آپ سے خط و کتابت کے بعد عیسائیت چھوڑ کر مسلمان ہو گئے اور اس طرح آپ کے ذریعہ مسلم امریکہ کی بنیادی اینٹ رکھی گئی.مونگیر کے مشہور مشنری مولانا حسین علی صاحب نے اپنی کتاب "تائید حق" میں اس اہم واقعہ کی تفصیل پر روشنی ڈالی نیز بتایا کہ ضلع حیدر آباد سندھ تحصیل ہالہ میں حضرت سید پر اشہد الدین جھنڈے والے ایک صاحب کرامات بزرگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع دی گئی کہ انگلستان اورامریکہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے روحانی تصرفات کی وجہ سے اشاعت اسلام ہو رہی ہے.( من - ۸۹) علمی خدمات جہاں تک حضور کی علمی خدمات کا تعلق ہے اُن کا دامن بھی بہت وسیع ہے.حضور نے اپنے انقلاب انگیز لڑ پھر میں اسلامی علوم کے ہر شعبہ مثلاً تفسیر، حدیث، فقہ کلام، اخلاق، تاریخ، تمدن، معاشیات، گفت --=
۲۰ علم التعبير، سائنس، فلسفہ ، طبقات الارض پر اصولی روشنی ڈالی ہے.اس ضمن میں ایک بہت ایمان افروز پہلو یہ ہے کہ آپ نے خدا تعالٰی کے الہام ، القاء یا آسمانی بصیرت سے جو صحیح اسلامی نظریات پیش فرمائے وہ رفتہ رفتہ دنیاست اسلام کے بلند پایہ علمی حلقوں میں سند قبولیت حاصل کر رہے ہیں اور نامور علماء، فضلاء اور ادباء کی تحریروں میں اُن نظریات کی نمایاں جھلک صیاف دکھلائی دیتی ہے.آپ ہی عہد حاضر کے وہ مجاہد اعظم تھے جنہوں نے عقيدة نسخ في القرآن" کے خلاف موثر جہاد فرمایا جس کے شاندار اثرات دنیائے اسلام پر نمایاں ہو رہے ہیں.اور بالخصوص مصر اور پاکستان سے یہ آواز بلت.ہو رہی ہے کہ قرآن مجید کی کوئی آیت بھی منسوخ نہیں ہے.چنانچہ جامعہ قاہرہ مصر کے نامور عالم عبد المتعال محمد الجبری نے « النَّسْخُ فِى الشَّرِيعَةِ الْإِسْلَامِيَّةِ كَمَا اَ فَهَمُهُ ، کے نام سے اور پاکستان کے ممتاز مؤلف جناب رحمت اللہ صاحب طارق نے " تفسیر منسوخ القرآن کے نام سے نسخ کے رد میں مستقل اور مبسوط کتا بیں شائع کی ہیں مقدم الذکر
۲۱ کتاب قاہرہ سے 1971 ء میں اور موخر الذکر ملتان سے شائع ۱۹۶۱ء ہوئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرما یا تھا :- ور اسلام اس وقت موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا بول رہا ہے " (ضمیمہ انجام آتھم صت) نیز فرمایا وہ خدا اپ بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیا علامہ اقبال کا یہ شعر آپ کے اسی خیال کی عکاسی کرتا ہے کہ مثال کلیم جو اگر معرکہ آزما کوئی سے اب بھی درخت طور سے آتی ہے بانگ لا تخف ( بال جبریل) آپ نے عالم اسلام کو اس حقیقت سے مطلع فر مایا کہ قرآن مجید اور احادیث میں آخری زمانہ کے انقلابات ائم اور ایجادات کا ذکر ہے.اس نظریہ کی تائید میں ایک مصری عالم احمد بن محمد بن الصديق الغماری احسنی کی کتاب
ور مُطَابَقَةُ الاخْتِرَاعَاتِ الْعَصْرِيَّةِ لِمَا اخْبَرَبِهِ سيد البرية " چھپ چکی ہے.سَيّدُ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانان عالم کو بابونج و ماجوج اور دقبال کے فتنوں کی خبر دی تھی.آپ کے اس فرزند جلیل نے انکشاف کیا کہ یا جوج و یا جوج سے مراد انگریز روس اور امریکہ کی سیاسی طاقتیں ہیں.علامہ ڈاکٹر سر محمد ا قبال صاحب نے اس انکشاف کو بھی حد درجہ اہمیت دی ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں سے کھل گئے یا جوج اور ماجوج کے لشکر تمام لها چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حدنِ" يَنْسِلُون" علامہ موصوف کے علاوہ حیدر آباد دکن کے ایک مشہور محقق و فاضل ابو الجمال احمد کریم صاحب عباسی چھہ یا کوئی رکن مجلس اشاعت العلوم بھی کافی تحقیق کے بعد اسی نتیجہ پر پہنچے.ایک عرصہ ہوا کہ وہ اپنی تحقیق اپنی ضخیم تالیف حکمت بالغہ" میں مفصل طور پر شائع کر چکے ہیں.اسی طرح حال ہی میں لندن میں مقیم ایک محقق و مصنف علی اکبر صاحب کی کتاب اسرائیل مکتب شاہکارہ ہور کی طرف سے منظر عام پر آچکی ہے جس میں
۲۳ اسی نقطہ نگاہ پر مہر تصدیق ثبت کی گئی ہے.ماسکو ریڈیو نے ۶ در مینوری ۱۹۵۹ء کو اعلان کیا کہ روس کے مصنوعی سیارے اور راکٹ خدا سے ملاقات کرنے میں ناکام رہتے ہیں.روسی راکٹوں کو کسی ایسی اعلیٰ و ارفع ہستی کا پر نہیں اہے جسے مذہبی لوگ خدا کہتے ہیں اور اُسی کی عبادت کرتے ہیں.مولانا عبد الماجد صاحب دریا آبادی نے یا جو جیوں کا نعرہ کے زیر عنوان اس خبر یہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:." خدا کی تلاش راکٹوں اور میزائلوں کے ذرایہ سے کرنے کی کسی کو آج تک کیوں سوجھی ہو گی.دنیا میں آج تک بے شمار پیر اور پیمبر، راشی اور منی گزر چکے ہیں.....ادھر ذہن اُن بے شمار ادھر راہنماؤں میں سے کسی کا بھی نہ گیا کہ معبود حقیقی و خالق کائنات کی جستجو آتش بازیوں اور رائتش باریوں سے کی جائے.یہ جدت تو شروع سے دقبال اور یا جوج و ماجوج کے لئے مخصوص چلی آرہی تھی کہ اسی آسمان کی طرف ہوائی جہاز چھوڑیں گے یا تیر
۲۴ چلائیں گے اراکٹ اور میزائل کے صحیح ترجمے ہیں جو سکتے ہیں، اور پھر مندی کے نعرے لگائیں گے کہ ہم نے نعوذ باللہ خدا کا خاتمہ کر دیا ہے.حدیث کا قرب قیامت والا لٹریچر....اسی قسم کی پیش خبریوں سے بھرا پڑا ہے." ہفت روزه صدق جدید لکھنو - ۱۲ فروری ۶۱۹۵۹ ص ) آپ کے ہمعصر بعض دینی راہ نماؤں کے نزدیک علوم جدیدہ اور انگریزی کی تعلیم جائز نہ تھی بلکہ ان میں سے ابض کی تو بید رائے تھی کہ انگریزی حکومت کی یونیورسٹیوں میں مولوی فاضل کا امتحان دنیا بھی کافرانہ نظام کا معاون بلکہ اجرتی آلہ کار بننے کے مترادن ہے.(ملفوظات حضرت محمد الیاس "مش از محمد منظور نعمانی ، ناشر کتب خانہ حقانیہ کراچی) لیکن حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ :."دین کی خدمت اور اعلائے کلمۃ اللہ کی غرض سے علوم جدیدہ حاصل کرو اور
۲۵ بڑے جد و جہد سے حاصل کرو.....مگریاد رکھو کہ یہ کام وہی کر سکتا ہے یعنی دینی خدمت و ہی بجالا سکتا ہے جو آسمانی روشنی اپنے اندر رکھتا ہو" ملفوظات جلد اوّل مثلا ) آپ نے یہ حقیقت افروز خیال پیش کر کے سائنسی تحقیق کے نہایت وسیع درواز ہے کھول دیئے کہ مذہب خدا کا قول اور سائنس خدا کا فعل ہے جن میں کوئی تضاد نہیں.اس اہم نظریہ کے مقابل محمد عبدہ مفتی مصر نے فتوی دیا کہ قرآن اور سائنس دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں.اسلام اور تهذیب حاضره از محمد میر سابق چیف جسٹس آف پاکستان ص۱۲۳۳ پبلیشرز لاء پبلیشنگ کمپنی ، کچہری روڈ.لاہور ) پروفیسر کلیمنٹ ریگ انگلستان کے ایک مشہور ستیاح ہیئت دان اور لیکچرار تھے جو مئی ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور کی علم گفت گو سے متاثر ہو کر کئی سال بعد بالآخر داخل اسلام ہوئے.پروفیسر مذکور نے ملاقات کے دوران اس بات پر بہت خوشی کا اظہار کیا کہ آپ کا مذہب اسلام، سائنس کے مطابق ہے حضور
۲۶ نے فرمایا کہ خدا نے ہمیں اسی لئے بھیجا ہے تاہم دنیا پر ظاہر کریں کہ مذہب کی کوئی ثابت شدہ حقیقت سائنس کے خلاف نہیں.ذکر حبیب من ۴۲ از حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور ملفوظات جلد ۱۰ ۴۳۵۰) ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا :- ہمارا تو مذہب یہ ہے کہ علوم طبعی جس قدر ترقی کریں گے اور عملی رنگ اختیار کریں گے قرآن کی عظمت دنیا میں قائم ہوگی “ (ملفوظات جلد دوم شد سائنس کی وسیع دنیا اور کائنات کے غیر محدو درموند و اسراوپر آپ کا یہ شعر کتنی روشنی ڈالتا ہے کہ ے کیا عجب تو نے ہر اک ذرہ میں رکھتے ہیں خواص کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر آن اسرار کا ؟ ۱۸۹۴ ء میں حضور نے تحریک فرمائی کہ خدا تعالیٰ نے مغربی ممالک کی رُوحوں میں صداقت اسلام کے لئے ایک جنبش پیدا کر دی ہے جس سے فائدہ اُٹھانے کے لئے انگریزی دان اور عربی اور علم قرآن کے ماہر واعظوں کو بھجوایا جائے.اور فرمایا جو شخص انگریزی ملکوں میں خالصا اللہ کے لئے جائے گا وہ
برگزیدوں میں سے ہوگا اور اگر اس کو موت آجائے گی تو وہ شہیڈں میں سے ہوگا." نورالحق حصہ دوم ص ۲۵) آپ نے یہ تحریک اس زمانہ میں اٹھائی جبکہ مسلم بلاک کے پرجوش داعی و علمبردار علامہ جمال الدین افغانی مرحوم نے فرمایا کہ اگر ہم چاہتے ہیں یورپ کو اپنے مذہب کی دعوت دیں تو ہمارا فرض ہو گا کہ سب سے پہلے ہم انہیں قائل کرائیں کہ ہم مسلمان نہیں.(الوحي المحمدی ترجمه مکه از علامہ رشید رضا ) آپ نے اسلام کے نظریہ جہاد کی جو حسین اور دلکش تصویر کھینچی اُس سے علامہ سید رشید رضا مدیر المنار ، مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا شبلی نعمانی ، مولانا سید سلیمان ندوی خوا به حسن نظامی صاحب دہلوی جیسے اکا بر بھی بہت متاثر ہوئے جس کا واضح ثبوت اُن کی تصانیف سے ہمیں ملتا ہے.(الوسی المدتی ترجمه ۲۲۴ تا ۲۲۰، مسئله خلافت تا ۱۲۸۰۱۳، مقالات شبلی جلد اول مالك ، سيرة النبي جلده من ، رساله شیخ سنوسی حکام موجودہ زمانہ میں نظام اسلامی کی عالمگیر عمارت کی تعمیر صحیح اسلامی نقشہ پر موقوف تھی.حضرت امام الزمان نے اس بنیادی علمی ضرورت کو بھی با لقای ربانی پورا کیا.آپ کے پیش فرمودہ
۲۸ اسلامی نقستہ کے اہم نکات یہ تھے کہ :.-۱- قرآن شریف سب سے مقدم ہے جس سے بڑھ کر کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں اور جس میں قیامت تک کی ہر قسم کی ضرورتوں کا سامان ہے.-۲- قرآنی شریف کے بعد سنت کا درجہ ہے جس سے مراد آنحضرت لہ علیہ وسلم کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تو اتر کا ملی رنگ رکھتی ہے.-۳- شفقت کے بعد حدیث کا مقام ہے جو سنت رسول کی تاریخ ہے اور وصال نبوی کے قریباً ڈیڑھ سو سال بعد راویوں سے جمع کی گئی.( ز کشتی نوح در یویو به مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی) میر اسلامی نکات بھی دینی حلقوں کی توجہ کا خصوصی مرکز بین رہے ہیں جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کے ایک مشہور انشا پرداز اور مصنف جنہیں مسیحا ، لشکر اسلام کا سالار بلکہ خدا کا شاہکار تک کہا گیا ہے (ہفت روزہ ایشیا لاہور ۲۵ را گست ۶۱۹۷۴ء مث) اپنی کتاب تنقیحات مثلا میں تحریر کرتے ہیں کہ :.!
۲۹ ملت اسلامیہ کی عمارت در اصل اس ترتیب قائم ہے کہ پہلے قرآن پھر رسول اللہ کی شدت " ازاں بعد اُن کا ایک بیان روزنامه سیم لاہورے ارمٹی ۱۹۵۵ء صلے میں شائع ہوا جس میں انہوں نے شدت و حدیث کی بعینہ وہی تشریح کی جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے بیان فرمائی تھی.موصوف کے الفاظ یہ تھے کہ : سنت اُس طریقے کو کہتے ہیں جسے حضور نے خود اختیار فرمایا اور اُمت میں اُسے جاری کیا....اس کے برعکس حدیث سے مراد روایات ہیں." میرے قابل صد احترام بزرگو! اور بھائیو !! آپ یہ معلوم کر کے بہت حیران ہوں گے کہ مسلم زیما حضور کے اسلامی نظریات کی خوشہ چینی ہی نہیں کر رہے بلکہ آپ کی لاجواب اور اثر انگیز تحریرات و منظومات کو خود اپنی طرف منسوب کر کے شائع بھی کئے جارہے ہیں اور یہ متوازی سلسلہ ایک عرصہ سے پوری شد و مد کے ساتھ جاری ہے.بطور نمونہ صرف چند مثالیں ملاحظہ ہوں :- ایک عرصہ ہوا کہ مولوی جان محمد صاحب ایم اے سابق
ٹیچر گورنمنٹ ہائی سکول فیروز پور نے ایک کتاب اصلی عربی بول چال شائع کی جس میں آپ کا وہ شہرہ آفاق قصیدہ شائع کیا جو آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں لکھا اور آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۵۹۰ پر درج فرمایا.یہ وہی قصیدہ ہے جو يَا عَيْنَ فیضِ اللَّهِ وَالْعِرفان سے شروع ہوتا ہے جس پر آپ کو خدا نے بشارت دی کہ جو اس قصیدہ کو حفظ کرلیے گا اور ہمیشہ پڑھے گا میں اُس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دوں گا.دو تین عربی مترجم عصا) ۱۹۳۷ء میں ایک عالم مولوی حافظ عطاء اللہ صاحب کی کتاب اعجاز قرآن ہند وستانی کتب خانہ اُردو بازار جامع مسجد دہلی کی طرف سے چھپی جس کے سرورق پر بطور تعارف لکھا تھا کہ اس رسالہ میں محمد ہ تعالیٰ قادیانیت کے خیالی قلعوں کو اعجاز قرآن کی تین اقسام سے بمباری کر کے ملکی مسمار کر دیا گیا ہے اور اس کتاب کے آخر میں حضور کی پیاری نظم جمال وحسن قرآن نور جان ہر مسلماں ہے زیب قرطاس تھی.جنوری ۱۹۴۶ء کے رسالہ ” مولوی دہلی میں جناب مولانا
اسم لےے سید نذیر الحق صاحب کے بعض خطبات چھپے جن میں حضور کی تصنیف " براہین احمدیہ حصہ چہارم کے ۷۷ اسے لے کر ٨٠ ا وہ ۱۰۰ تک کے صفحات کا وہ مضمون لفظ لفظاً درج ہے جو نورِ محمدی کی روح پرور تفسیر پر مشتمل ہے.قیام پاکستان کے بعد لاہور سے شیخ سراج الدین اینڈ سنز کی طرف سے مولوی صاحب کی کتاب خطبات الحنفیہ طبع ہوئی.کتاب کے بنیسویں وعظ کا آغازہ بارہ اشعار سے ہوتا ہے جو حضور کے منظوم کلام در تمین " سے ماخوذ ہیں.سیالکوٹ سے فارورڈ بلاک صادقیہ اثنا عشریہ نے ایک مختصر رسالہ "حقیقت حدیث قرطاس" چھپوایا.جو بدالمتکلمین جناب ابو البیان مولانا سید ظهور الحسن شاه صاحب کی تالیف ہے.اس رسالہ کے صفحہ ۴۳ اور ے کا متن حضور کی تصنیف آئینہ کمالات اسلام صد اور براہین احمدیہ حصہ پنجم کی ان عبارتوں سے مزین ہے جن میں مسلمان w کی حقیقی تعریف بیان ہوئی ہے.اخبار آزاد " لاہور نے اپنی ۲۹ دسمبر ۱۹۵۰ء کی اشاعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مشہور شعر نقل کیا کہ وہ
اگر خوا ہی دلیلے عاشقش باش محمد است بربان محمد " پھر اقرار کیا کہ تمام انبیاء و مرسلین اور مجددین نے کر آنحضور کی تعریف کی ہے مگر حضور کی حقیقی تعریف اسی شعر میں بیان ہوئی ہے." اخبار لتنظيم المحدیث لاہور ۳۰ جون ۱۹۶۱ء کے مشرق پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظم راک نہ اک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے" خفیف سے لفظی تصرف کے ساتھ بڑی آب و تاب کے ساتھ شائع کی گئی البتہ اس کے آخری شعر میں بھلا " کا لفظ " ندیم کے تختص سے بدل دیا گیا." ماہنامہ ضیائے حرم " لاہور نے اپریل ۱۹۷۲ء کے شمارہ میں ایک فارسی نعت سپر د اشاعت کی اور اس کے نیچے تاج الدین نہریں رقم کا نام لکھ دیا گیا حالانکہ یہ قوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلم مبارک سے نکلی ہے اور میرا اخبار ریاض ہندا مرتسر یکم مارچ ۱۸۸۶ نا میں شائع شدہ ہے اور اس کا پہلا شعر یہ ہے کہ ہے
۳۳ جان و دلم فدائے جمال محمدا خاکم نشار کوچۂ آل محمد ا مدت ہوئی میر عثمان علی خان مرحوم نظام حیدر آباد دکن نے بھی راس نعت کے بعض اشعار میں تصرف کر کے اسے اپنے نام سے شائع کرا دیا تھا.چنانچہ ۱۹۷۵ ء میں میر عثمان علی خان کا جو دیوان حیدر آباد دکن سے نچھپا ہے اس کے صفحہ ۲۰۴ پہ بھی یہ اشعار شامل دیوان ہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی انعامی کتاب من الرحمن میں یہ نظریہ پیش کر کے دنیائے لسانیات میں تہلکہ مچا دیا کہ :.دنیا میں صرف قرآن شریف ایک ایسی کتاب ہے جو اس زبان میں نازل ہوا ہے جو ام الالسنہ اور الہامی اور تمام بولیوں کا منبع اور سرچشمہ ہے.(ضیاء الحق ) اس کتاب کی اشاعت پر نہیں سال بھی نہ گزرے تھے کہ رائل عرب اکیڈیمی کے ممتاز عیسائی ممبر الاستاذ آنستاس
۳۴ الكرملى (۶۱۸۲۶- ۲۱۹۳۰ نے اپنی کتاب نور اللغة العَرَبيّةِ ونُموها والتحالُهَا ، کے صفحہ ۱۲۲ تا ۱۶۴ میں حضور کی تحقیق کے عین مطابق یہ اعتراف بھی کیا کہ : "إنّ اللُّغَةَ الْعَرَبِيَّة أَو اللُّغَاتِ یعنی عربی زبان تمام زبانوں کی ماں ہے.حضور نے مسلم سلاطین کو یہ زور توجہ دلائی کہ وہ اپنے ممالک میں تر کی یا فارسی کی بجائے عربی زبان رائج کریں چنانچہ فرمایا : -1 كان من الواجب أن تُشَاعَ هَذِهِ مِنَ اللسان في البِلَادِ الْإِسْلَامِيَّةِ ، فَإِنَّه لِسَانُ اللهِ وَلِسَانُ رَسُولِهِ وَلِسَانُ الصحف المطهرة الهدى والتَّبْصَرَةُ لِمَنْ يرى ما ) یعنی واجب تھا کہ اسلامی ملکوں میں عربی زبان پھیلائی جاتی.اس لئے کہ وہ زبان ہے اللہ کی اور اس کے رسول کی اور پاک نوشتوں کی.حضور نے اپنی جماعت کے نو نہالوں مں عربی کی اشاعت کے لئے
۳۵ متعدد اقدامات فرمائے.عربی کے علاوہ آپ نے اُردو زبان کے فروغ کو بھی بہت اہمیت دی.آپ کے نزدیک اس زبان کے لئے تکمیل اشاعت دین کا بہترین ذریعہ بننا مقدر ہے.آپ کا پیدا کردہ اکثر و بیشتر لٹر پھر اُردو زبان میں ہے جس نے مستقبل میں عربی کے بعد اردو کے بین الاقوامی زبان بننے اور شہرت دوام پانے کی راہیں ہموار کر دی ہیں.آپ نے اُردو میں بہت سی نئی بندشوں جدید اصطلاحوں، نفیس و لطیف استعاروں اور نادر علمی و ادبی افکار و خیالات کا بیش بہا اضا فہ کیا.با و دسمبر ۱۹۱۳ء میں بمقام آگرہ آل انڈیا محمڈن اینگلو اور ٹیل ١٩ ایجو کیشنل کانفرنس کا ستائیسواں اجلاس منعقد ہوا جس میں خواجہ غلام الثقلین نے اپنے خطبہ صدارت میں اُن لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جنہوں نے اس کے فروغ اور ترقی میں نمایاں حصہ لیا آپ کو بھی اُن تا جداران سخن میں شامل کیا جن کو آج اُردو زبان میں بطور سند پیش کیا جاتا ہے مثلاً مولانا حاکی ، سرسید، داغ ، امیر اور قبلال.( رپورٹ اجلاس مذکور منت بحوالہ " چشمہ عرفان مطبوعہ قادیان)
آئینی و قانونی خدمات حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی آئینی و قانونی خدمات میں سے خاص طور پر مذہبی مباحثات کی اصلاح اور تعطیل جمعہ کی تحریکات ہمیشہ آپ زر سے لکھی جائیں گی.آپ نے ناموس مصطفے کے دفاع کے سلسلہ میں ۲ ستمبر ۱۸۹۵ء کو بذریعہ اشتہاریہ تحریک اُٹھائی کہ انگریزی حکومت تعزیرات ہند کی دفعہ ۲۹۸ میں توسیع کرکے یہ قانون پاس کر ہے کہ آئندہ ہر فرقہ پابند ہوگا کہ وہ مذہبی مباحثات میں کوئی ایسا اعتراض نہ کرنے گا جو خود اس کی الہامی کتاب یا پیشوا پر وارد ہوتا ہے.دوسرے یہ کہ فریق ثانی کی صرف اُن کتابوں پر تنقید کی جاسکے گی جو اس فریق کے نزدیک بھی مسلم ہوں.اس نکے ساتھ ہی آپ نے مسلمانوں کی معتہ و سلمہ کتب کی فہرست بھی دی اور پھر دشمنان اسلام کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ کتابیں چاہے دینِ اسلام کی کتابیں ہیں.اگر آپ لوگ اب بھی اس نوٹ کے جاری ہونے کے بعد بھی باز نہیں آئیں گے تو یہ حرکت دل آزاری اور تو ہیں متصور ہوگی اور ہم مسلمانوں کو حق ہو گا کہ عدالت میں
۳۷ اس کی چارہ جوئی کریں.حضرت اقدس کی اس تحریک کا مسلمانان ہند کی طرف سے انتہائی گرم ہوتی ہے خیر مقدم کیا گیا اور ملک کے نامی گرامی علماء ، افسر، وکلاء، تجار وغیرہ ہر طبقہ کے قریباً دو ہزار مسلمانوں نے وائسرائے ہند کے نام درخواست پر دستخط کر دیئے." ( آریہ دھرم قد ) اس موقع پر علی گڑھ تحریک کے بانی سرسید مرحوم کے بست راست نواب محسن الملک نے ۲ اکتوبر ۱۸۹۵ء کو مبیٹی سے تصور کی خدمت میں لکھا کہ :.".....خدا آپ کو اجر دے کہ آپ نے ایک دلی بوش سے مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہا ہے.یہ کام بھی آپ کا منجملہ اور بہت سے کاموں کے ہے جو آپ مسلمانوں کے بلکہ اسلام کے لئے کرتے ہیں.....آپ یقین رکھئے کہ میں ایسے کاموں میں جن سے اسلام پر جو حملے ہوتے ہیں وہ رو کے جائیں اور مسلمانوں کو جو تکلیف پہنچائی بھائی ہے اس میں تخفیف ہو دل و جان سے مدد کرنے کے لئے موجود ہوں ) (الحکم کے راگست ۱۹۳۴ رصد )
۳۸ آپ کی دوسری آئینی تحریک تعطیل جمعہ کی نسبت تھی.جب سے انگریز ہندوستان پر قابض ہوئے تھے ملک میں اتوار کی تعطیل جاری تھی اور مسلمان مجمعہ کے مقدس دن کی برکات سے بہت حد تک محروم تھے حضور نے یکم جنوری ۱۸۹۶ء کو مسلمانان ہند کی طرف سے وائسرائے ہند کے نام ایک اور اشتہار شائع کیا جس میں اسلامی نقطہ نگاہ سے جمعہ کی اہمیت واضح کرکے درخواست کی کہ وہ مسلمانوں کے لئے جمعہ کی تعطیل قرار دیں.تبلیغ رسالت جلده من تا ۱۰) ص یہ تحریک حضور کے بعد حاجی الحرمین حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب خلیفہ اسح الاول " کے عہد مبارک میں آپ کی جد و جہد اور توجہ سے ایک حد تک کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھیں پر اس دور کے مسلم اخبارات نے نہایت درجہ تعریفی الفاظ میں نوٹ لکھے.(الکم ۱۴۰۷ را گست ۱۹۱۱ء مٹہ کالم ۳۰۲) قومی ، سماجی اور سیاسی خدمات اب میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی بعض عظیم الشان قومی ، سماجی اور سیاسی خدمات کا خلاصہ ذکر کروں گا :-
۳۹ وو ا.آپ نے مسلمانوں کو مغربی تہذیب اور مغربی فلسفہ کے اثرات سے بچانے کی ہر ممکن جد و جہد فرمائی، اس کے ہولناک نتائج بے نقاب کئے اور مغرب کو امام بنانے اور یورپ کی تقلید پر فخر کرنے پر کڑی تنقید کی.تلفوظات جلد اول مشق اور خدا سے علم پا کر پیش گوئی فرمائی کہ : ) ا اسلام نہ صرف فلسفۂ جدیدہ کے حملہ سے اپنے نہیں بچائے گا بلکہ حال کے علوم مخالفہ کی جہا نہیں ثابت کر دے گا.اسلام کی سلطنت کو ان چھائیوں سے کچھ بھی اندیشہ نہیں ہے جو فلسفہ اور طبعی کی طرف سے ہو رہی ہیں.اُس کے اقبال کے دن نزدیک ہیں.اور میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں.حضرت بانی احمدیت کی یہ پر شوکت اور باطل شکن پیش گوئی اُس زمانہ میں شائع ہوئی جبکہ پادری عماد الدین اور دوسرے سرکاری حلقے آپ پر کھلم کھلا بغاوت کا الزام لگا ہے تھے.انگریزی پولیس آپ کی نقل و حرکت پر کڑی نگرانی رکھے
۴۰ ہوئے تھی اور قادیان کو برطانوی حکومت کے خلاف سرگرمیوں کے ایک مرکز کی حیثیت سے بہت مشکوک نظر سے دیکھا جاتا تھا.جیسا کہ اس دور کے نیم سرکاری انگریزی اخبار رسول اینڈ ملٹری گزٹ ۲۴۱ اکتوبری ۱۸۹ء کا مر۳) نے ایک خطر ناک مذہبی جنونی (A DANGEROUS FANATIC) کے عنوان سے لکھا :- "There is a well-known fanatic in the Punjab.He is now, we believe, in the Gurdaspur district, who calls himself Musal- man and also the Messiah....A fanatical vision of this sort is doubtless under the surveilance of the Police.Whenever he preaches abroad serious disturbances of the peace are imminent, for he has a numerous following who are only less fanatical than himself...He has undoubted literary ability and his writings are voluminous and learned all the elements present for form- ing a dangerous rallying point.Of course among the Orthodox he is anathema mor- antha...There is a subdued ferocity in his utterances that marks him out as dangerous possible crescentader....The Maulvi of Qadian has been under our observation for several years, and we can endorse the
ام above from our own knowledge of the man and his works.He is gaining strength and it may probably become our duty in the near future to treat him at more length." (The Civil & Military Gazette, Lahore, October 24, 1894).(ترجمہ) پنجاب میں ایک مشہور مذہبی دیوانہ ہے ہمارا خیال ہے اب وہ ضلع گورداسپور میں ہے.وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اور مسیح بھی...اس قسم کا وہمی اور مذہبی جنونی بلا شک پولیس کی نگرانی میں ہے جب کبھی وہ با ہر تبلیغ کرتا ہے امن عامہ میں بڑے فسادات کا فوری خطرہ ہوتا ہے کیونکہ اُس کے ماننے والے بے شمار ہیں....اُس کی ادبی قابلیت مسلمہ ہے اور اس کی تصنیفات بہت اور عالمانہ ہیں.اس میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جن کی ترکیر سے ایک خطر ناک مرکز بنا کرتا ہے......اُس کی باتوں میں ایک دبی ہوئی دہشت ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امکانی طور پر وہ ایک خطرناک ملائی ہے
۴۲...قادیان کا مولوی سالہا سال ہمارے سے زیر نظر رہا ہے اور ہم اپنی ذاتی معلومات کی بناء پر جو ہمیں اُس کی ذات اور اُس کے کام کے متعلق حاصل ہیں مندرجہ بالا رائے کی پوری طرح تائید کرتے ہیں.ہمارے نز دیک وہ طاقت پکڑ رہا ہے اور غالباً مستقبل قریب میں ہم پر یہ فرض عائد ہو جائے گا کہ ہم اس کی طرف زیاد تفصیل سے توجہ دیں “ (بحوالہ کتاب "بانی سلسلہ احمدیہ اور انگریز از مولنا عبد الرحیم صاحب درد ص ۷ تا ۷۴ مخالفت کے اس خوفناک محاذ کے باوجود حضرت اقدس نے مغربیت کے خلاف جہاد کا مشن پوری قوت سے بھاری رکھا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا الہامی مشن یہ تھا کہ : سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر میں جمع کر و على دين واحد رید کر ۲۴ نومبر ۱۹۰۵ء صت)
۴۳ راس فرمان ربانی کے مطابق آپ نے اُمت کو غیر مسلم رفتنوں کے مقابل ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی دعوت دی اور اپنے ہمعہ مسلم زعماء کو اللہ کے نام پر صلح کی طرف بلایا اُن کی خدمت میں سات سالہ مصالحت کے لئے درخواست کی اور فرمایا اگر اس عرصہ میں ” میری طرف سے خدا تعالی کی تائید سے اسلام کی خدمت میں نمایاں اثر ظاہر نہ ہوں اور...خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے وہ نشان ظاہر نہ کرے جن سے اسلام کا بول بالا ہو تو میں خدا تعالی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہمیںاپنے تئیں کاذب خیال کرلوں گا " ضمیمہ انجام آتھم ۳۵-۳۵) اتحاد بین مسلمین کی اس مبارک تحریک نے سعید الفطرت مسلمانوں کے قلوب پر بہت نیک اثر ڈالا اور وہ غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کی مہم میں شامل ہونے کے لئے کشاں کشاں آپ کی طرف آنے لگے.- بانی سلسلہ احمدیہ کے زمانہ میں مسلمانوں کی قابل ذکر حکومت صرف ترکی تھی.آپ کے سامنے کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس میں ترکی اور یورپ کی بڑی طاقتوں کو آپس میں لڑنا پڑا ہو سوائے اس جنگ کے جو سلطان عبدالحمید دثانی
_ اهم نام کے عہد حکومت میں ۹۷-۱۸۹۶ء کے دوران یونان کے ساتھ ہوئی تھی اور آپ نے اس معاملہ میں لڑکی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار فرمایا.(اسلامی نظریه حتا از حضرت مصلح موعود) آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ سلطان عبد الحمید کی یہ بات مجھے بہت پیاری لکھتی ہے کہ انہوں نے جنگ کے دوران جو نسلوں مشورہ کے دوران کہا کہ " کوئی خانہ تو خدا کے لئے بھی خالی رہنے دو الفضل ها را کتوبر ۱۹۳۵ ء مٹ) - آپ کا دل خون ہو گیا جب آپ کو جناب الہی کی طرف سے یہ الفاء ہوا کہ سلطان کے بعض ارکان سلطنت کے خیر خواہ نہیں بلکہ اپنی طرح طرح کی خیانتوں سے اس اسلامی سلطنت کو جو کرئین شریفین کی محافظ اور مسلمانوں کے لئے مغتنمات میں سے ہے کمزور کرنا چاہتے ہیں.(مجموعہ اشتہارات جلد ۲ من ۴.جماعت احمدیہ کی بنیاد سے قریباً چالیس سال قبل پورے ہندوستان میں انگریزی حکومت قائم ہو چکی تھی اور مسلمانوں نے اپنے پرسنل لاء پر عمل کرنے کی آزادی کے ساتھ یہاں رہنا قبول کر لیا تھا اسی لئے خلیفہ اسلمین ترکی نے ، ۵ داع میں یعنی جماعت احمدیہ کے قیام سے بتیس سال پہلے فتوی دیا کہ
۴۵ مسلمانان ہند کو انگریزی حکومت سے لڑنا نہیں چاہئیے.نیز سلطان العظم نے انگریزی افواج کو مصر سے گزر کر ہندوستان پہنچنے کی اجازت بھی عطا فرمائی تا ہنگامہ فرو کیا جاسکے.تاریخ اقوام عالم ص۱۳۹ از مرتضی احد خان، ترکوں کے ارضنوں پر فرضی مظالم ص ۲۳ ناشر مجلس خلافت ) اسی زمانہ میں مکہ سے تشفی ، شافعی اور مالکی مکتبہ فکر کے مفتیان عظام نے متفقہ طور پر ہندوستان کے دارالاسلام ہونے کا اعلان کیا.( "سید عطاء الله شاه بخاری ها ۱۳ از جناب شورش کا شمیری) بالکل یہی موقف برطانوی ہند کے مشہور علماء مثلاً حضرت مولانا عبد الحي صاحب حنفی لکھنوی اور مولانا احمد رضاخاں حنفی نے اختیار فرمایا " مجموع فتاوی مولوی عبدالحی لکھنوی جلد ۲ ص۲۳۵ و نصرت الابرار ۲ مطبوعہ صحافی پریس لاہور ایچیسن پنج ۱۲۹۸هر ) ۲۵ ۱۸۷۱ء میں مولانا نذیر حسین صاحب دہلوی شیخ الکل نے اپنے مفصل فتوئی میں لکھا کہ :.اس زمانہ میں جہاد کی شرطوں میں سے کوئی مشرط بھی موجود نہیں ہے تو کیونکر جہاد ہوگا.ہرگز نہیں ہو گا.علاوہ بریں ہم لوگ معاھد ہیں بر کار
" سے عہد کیا ہے پھر کیونکر عہد کے خلاف کر سکتے ہیں.دفتاوی نذیر یه جلد سوم من ناشر الحدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور) ۱۸۷۷ء میں خلیفتہ السلمین ترکی نے امیر شیر علی خان والی افغانستان کو انگریزوں کے خلاف اعلان جہاد کرنے کی ممانعت کی جس کی امیر نے فوری تعمیل کی اور ہندوستان کی سرحد پر اپنی فوجوں کا جمع ہونا روک دیا.بید یہ میری ات ارد و ترجمه خود نوشت سوانح " ضیاء الملة و الدین امیرعبدالرحمن خان نبازی حکمران دولت خدا دا د افغانستان - ترجمه ۶۱۹۰۱ مطبوعه مطب شخصی اگره (919-6 ۱۸۷۹ء میں مختلف فرقہ ہائے اسلام کی پسندیدگی سے مولوی محمد حسین صاحب بالوی نے "الاقتصاد في مَسَائِلِ الجهاد " کے نام سے ایک مبسوط رسالہ شائع کیا جس میں قرآن و حدیث اور فقہ حنفی کی رو سے ان اکابر کے خیالات کی پرزور تائید کی گئی تھی.جہاں تک برطانوی ہند کی مسلمان ریاستوں کا تعلق ہے وہ سب کی سب انگریزی حکومت کی وفادار اطاعت گزا را در خیر خواہ تھیں خصوصا ریاست حیدر آباد دکن
۴۷ جس کی نسبت بعض انگریزی حکام نے تسلیم کیا کہ اگر نظام دکن ہمارے ساتھ نہ ہوتے تو ہندوستان میں انگریزی حکومت قائم ہی نہ ہوسکتی.(حیات عثمانی اصلا مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ، مطبوعہ اعظم سٹیم پریس حیدر آباد دکن) ریاست بہاولپور کے انگریزوں کے ساتھ ایسے گہرے روابط و مراسم تھے کہ جب انگریزی حکومت دہلی پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی تو ۴ ۲ دسمبر ۱۸۵۷ء کو اس کی خوشی میں ریاست میں حسین چراغاں منایا گیا.بھاولپور کی سیاسی تاریخ " من از مسعود حسن شهاب) ۱۸۸۷ء میں ہندوستان بھر کے سب فرقہ ہائے اسلام نے ملکہ وکٹوریہ کی پنجاه سالہ بولی میں نہایت جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا.بے شمار کیمپوں ، مہتابیوں اور چراغوں کی روشنیوں نے اس خطہ کو بقعہ نور بنا دیا.پر تکلف ضیافتیں کی گئیں.آرائشی محراب تعمیر کئے گئے.مرکز میں مساجد میں دینی راہ نماؤں نے مشترکہ اجتماعات منعقد کئے جن میں انگریزی یا نفت کی برکات پر روشنی ڈالی، ایڈریس پڑھے اور قیصر پسند کی کی بیع کے لئے دعائیں کی گئیں.(رسالہ اشاعۃ الشیری
۴۸ بٹالہ جلد ۹ نمبر۷ - صفحه ۲۰۵ تا ۲۰۷) " مضياء الملة والدین امیر عبد الرحمن خان غازی محکمران دولت خدا دا د افغانستان ۱۸۸۰ء میں برسر اقتدار آئے آپ نے اپنی سوانح میں لکھا :- 1- ر اس میں شک نہیں کہ تمام دنیا کے مسلمان سلطنت برطانیہ کی دوستی کو روس کی دوستی پر ترجیح دیتے ہیں.....اگر روس اور برطانیہ اعظم میں جنگ ہوئی تو ہر حالت میں مسلمان سلاطین اور عام سلمان انگلستان کا ساتھ دیں گے.اول تو انہیں ملکہ معظمہ کی عملداری میں اپنے مذہبی رسوم ادا کرنے کی پوری آزادی ہے.دوسرے وہ یہ جانتے ہیں کہ روس کے ظلم و جور سے اُسی وقت تک نجات حاصل ہے جب تک کہ انگلستان سی عظیم الشان سلطنت مشرق میں اُس کا مقابلہ کرنے کے لئے موجود ہے.وہ خوب سمجھتے ہیں کہ اگر مشرق میں انگلستان کو
۴۹ زوال آیا تو شکل اسلامی سلطنتیں روس کے نوالہ ہوں گی کیا در برد به امیری صفحه ۲۱۸ و ۲۲۱) یہ تھا وہ ماحول جس میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مطلع ہند پر نمودار ہوئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے حکم و عدل کی حیثیت سے اگر پھر ان اکابر بین ملت کے مسلک کی تصدیق و توثیق فرمائی مگر ساتھ ہی مسلمانان عالم کو ان کی اخلاقی، علمی اور عملی ذمہ داریوں کی طرف بھی تو بہ دلائی اور فرمایا :- وَأَمرُنَا اَنْ نَّعِدَّ لِلْكَافِرِينَ كَمَا يُعدُّونَ لَنَا وَلَا نَرْفَعُ الْحُسَامَ قَبْلَ ان تُقْتَلَ بِالْحُسَامِ حقيقة المهدى من یعنی ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم کافروں کے مقابلہ میں وہی طرز اختیار کریں جو انہوں نے ہمارے مقابلہ میں اختیار کر رکھی ہو اور ہم اُن لوگوں کے مقابل پر تلوار نہ اٹھائیں جو ہمیں تلوار سے قتل نہیں کرتے.اس دستور العمل نے جہاں ملک میں صلح و آشتی کو بڑھایا
وہاں دردمند دل رکھنے والے مسلمانوں میں جہاد بالقرآن ، جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کی زبر دست روح پھونک دی - اُس زمانہ میں مسلمان سرکاری حلقوں میں معتوب تھے شرط سے کہ اور ہندو انگریزی حکام سے گٹھ جوڑ کرکے ملک بھر کی ملازمتوں اور تجارتوں پر قابض و مسلط ہو چکے تھے.اس آتشیں ماحول میں حضرت بانی جماعت احمدیہ نے ملکہ وکٹوریہ کو بذریعہ مکتوب نصیحت فرمائی کہ : انَّ الْمُسْلِمِينَ عَضُدُكِ الْخَاسِ وَلَهُم في ملككِ خُصُوصِيَّةً تَنْهَمِيْنَهَا فَانظُرِى إلَى المُسْلِمِينَ بِنَظَرِ خَاصٌ وَاقِرِى أعْيُنَهُمْ وَالفِى بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَاجْعَلى اكْثَرَهُمْ مِنَ الَّذِينَ يُقَرِبُونَ التَّفْضِيل التَّفضِيل - التَّخْسِيصُ التَّخصيص و في هذه بَرَكَاتُ وَ مَصَالِح - اَرضِيهِم فانكِ وَرَدَتِ ارْضَهُمْ وَ دِيَارَهُمْ فَإِنَّكِ نَزَلْتِ بِدَارِهِمْ وَانَاكِ الله
۵۱ مُلكَهُمُ الَّذِى امرُوا فِيهِ قَربا من الف سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُون فَاشْكُرِى رَبِّكَ وَ تَصَدَّقِي عَلَيْهِمْ فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يَتَصَد تُونِ الْمُلْكُ لِلَّهِ يُؤْتِى مَنْ يَشَاءُ وَيَنْزِعُ مِمَّنْ يَشَاءُ وَيُطِيلُ ايا الَّذِينَ يَشْكُرُونَ " يَّا (آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۳ - ۵۳۶) یعنی مسلمان تیرے دست و بازو ہیں اور انہیں تیرے ملک میں ایک ممتاز خصوصیت حاصل ہے جو تیری دور بین نگاہ سے پوشیدہ نہیں.پس تجھے چاہیے کہ اُن پر خاص طور پر شفقت و مہربانی کی نظر کرے اور ان کے راحت و آرام اور تالیف قلوب کو اپنا نصب العین بنائے اور اُن میں سے اکثر کو مراتب عالیہ اور مدارج قرب سے سرفرانہ فرمائے.میں دیکھتا ہوں کہ اُن کو دیگر اقوام فضیلت اور خصیص و ترجیح دینے میں کئی قسم کے مصالح اور
+ ۵۳ برکات مضمر ہیں.تو مسلمانوں کا دل راضی کر کہ تو نے اُن کی سرزمین پر قبضہ کیا ہے اور خدا تعالیٰ نے تجھے اُن کے ملک پر اقتدار بخشا ہے جس پر وہ قریباً قریباً ایک ہزار سال تک حکمران رہ چکے ہیں پس تو اپنے ربّ کے اِس انعام کا شکر بجالا اوران سے مہربانی و بخشش سے پیش آ کر خداوند کریم بخش و عطا کا سلوک کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.در حقیقت بادشاہت تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے وہ جسے چاہتا ہے بادشاہت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے اور اس کی بینت ہے کہ وہ اپنے شکر گزار بندوں کے ایام کو درازی بخشتا ہے.- حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی آخری تصنیف پیغام صلح میں دو قومی نظریہ اور مسلم لیگ کی ڈٹ کر تائید کی اور فرمایا اور یہ بات ہر ایک شخص باآسانی سمجھ سکتا ہے کہ سان اس بات سے کیوں ڈرتے ہیں کہ اپنے جائز حقوق
۵۳ کے مطالبات میں ہندوؤں کے ساتھ شامل ہو جائیں اور کیوں آج تک اُن کی کانگریس کی شمولیت سے انکار کرتے رہے ہیں اور کیوں آخر کا رہندوؤں کی درستی رائے محسوس کر کے اُن کے قدم پر قدم رکھا.مگر الگ ہو کر اور ان کے مقابل پرایک کے کم المین قائم کر دی مگر اُن کی شراکت کو قبول نہ کیا.صاحبو! اس کا باعث در اصل مذہب ہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں " (ما) اس عبارت میں مسلم منجن سے مرا قطعی طور پر آل انڈیا مسلم لیگ ہے جو سار دسمبر ۱۹۰۶ء کو ڈھاکہ میں قائم ہوئی جس کے پرچم تلے جمع ہو کر مسلمانان ہند نے پاکستان جیسی عظیم مملکت حاصل کی.خدمات اسلامیہ کا مقدس پودہ تناور درخت کی شکل میں ! برادران اسلام ! حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے شاندار اسلامی کار نا موں کا ایک بالکل نا تمام اور زنا مثل خاکہ آپ کے
۵۴ سامنے ہے.دنیا میں سچائی اول چھوٹے سے تخم کی طرح آتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ ایک تعظیم الشان درخت بن جاتا ہے.وہ پھل اور پھول لاتا ہے اور اپنی جھوٹی کے پرندے اس میں آرام کرتے ہیں ، اسی زبانی سنت کے مطابق آپ نے ۴۱۸۹ میں ہی یہ نمبر دے دی تھی کہ :." اس درخت کو اس کے پھلوں سے اور اس نیر کو اس کی روشنی سے شناخت کرو گے.(فتح اسلام میت) یا، صلات سیو خدا کے فضل سے خدمات اسلامیہ کا وہ مقدس پودا جس کی تخریہ کی آپ کے ہاتھ سے اور آبیاری خلفاء احمدیت کے ذریعہ ہوئی ، اب ایک تناور درخت بن چکا ہے اور ساری دنیا پر محیط ہے اور اس کی ہر شاخ رنگارنگ خدمات کے بے شمار شیرین پھلوں اور خوشنما پھولوں سے لدی ہوئی ہے.یہ اسلامی خدمات جو قمری اعتبار سے قریباً یوں صدی سے جاری ہیں سید نا حضرت مسیح موعود بانی جماعت احمدیہ N
۵۵ کے عہد مبارک کی طرح پانچوش انواع و اقسام پرمشتمل ہیں.یعنی روحانی تبلیغی اور علمی بھی ہیں اور آئینی اور سیا سی تھی.اس اجمال کی تفصیلات و بجزئیات ایک مبسوط تصنیف کا تقاضا کرتی ہیں.بلکہ میں بلا مبالغہ کر سکتا ہوں کہ اِس دورِ مبارک کی کثیر التعداد خدمات کے فقط عنوانات ہی گنوانا شروع کر دوں تو تقریر کا بقیہ وقت ختم ہو جائے گا مگر عنوان ابھی باقی رہیں گے لہذا میرے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ ہر نوع کی خدمات کا ایک مختصر ساخا کہ ہلدیہ سامعین کر دوں اور راس وقت میرا مقصود بھی دراصل یہی ہے.روحانی خدمات سب سے پہلے میں دعاؤں کی رُوحانی خدمات کو لیتا ہوں بسلسلہ احمدیہ کا مطبوعہ لڑی پھر گواہ ہے کہ جماعت احمدیہ کی انفرادی اور اجتماعی دعائیں ہمیشہ ہی عالم اسلام کی ترقی و بہبود کے لئے وقف رہی ہیں اور ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء یعنی قیامہ خلافت اولی کے دن سے لے کر اب تک ملت اسلامیہ پر کوئی ایسا نازک موقعہ نہیں آیا جس پر خلفا را حدیت
+ ۵۶ نے دل بریاں اور نیم گریاں سے دعانہ کی ہو.صرف بیچ نہیں مسلمانان عالم جب بھی مصائب و شدائد سے دو چار ہوئے اُن کی طرف سے جماعت احمدیہ کو ہمیشہ ہی دعاؤں کی اجتماعی تحریکات کی جاتی رہیں.کیونکہ ھے مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ ۱۹۳۵ء کا واقعہ ہے کہ سعودی عرب کے سلطان العظم میلا لہ الملک ابن سعود مرحوم نے ایک انگریز کمپنی سے پٹرول وغیرہ نکالنے کا معاہدہ کیا.ہندوستان کے بعض مسلمان حلقوں نے اسی بناء پر سلطان معظم کو بدنام کرنے کی با قاعدہ مہم شروع کردی کہ شاہ انگریزوں کے زیر اثر ہیں اور یہ کہ انگریز مد تبر سلطان سے معاہدوں کی آڑ میں عرب کے داخلی مسائل پر قابض ہونے کی سازش کر رہے ہیں اور وہ جب چاہیں پورے ملک میں استعمار کے جال بچھا سکتے ہیں جیسی کرسلطان کے ایک سوانح نگار نے لکھا کہ : اس کتاب کے مؤلف کی اینہ د متعال سے اسکی قدرت کاملہ اور رحمت واسعہ کے طفیل اور حضور سرور کائنات محمد مصطفے احمد مجتبے علیہ الصلوة والسلام
۵۷ کے نام و ناموس کے طفیل دُعا ہے کہ حجاز میں معدنیات دستیاب نہ ہوں اور استعمار پسندوں کو خشک اور بے آب و گیاہ مٹی کے سوا اس مقدس ملک میں کچھ ہاتھ نہ آئے " ، سوانح حیات سلطان ابن سعود ص۲۲۹ مطبوعه جالندھر ۶۱۹۳۶ از سید سردار محمد حسنی بی.اے) اس کے برعکس حضرت مصلح موعود ا نے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ : اب سلطان کو بد نام کرنے سے کیا فائدہ ؟ اس سے سلطان ابن سعود کی طاقت کمزور ہو گی اور جب اُن کی طاقت کمزور ہوگی تو عرب کی طاقت بھی کروں ہو جائے گی.اب ہمارا کام یہ ہے کہ دعاؤں کے ذریعہ سے سلطان کی مدد کریں اور اسلامی رائے کو ایسا منظم کریں کہ کوئی طاقت سلطان کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی جرات نہ کرے یا روزنامه افضل قادیان ۲ ستمبر ۲۱۹۳۵) حضرت مصلح موعود رضی شمند کی دل سے نکلی ہوئی دعاؤں کا
۵۸ انجازی نشان دیکھو کہ سعودی مملکت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے نہ صرف اس معاہدہ کے بداثرات سے بچا لیا بلکہ عرب کی سر زمین سے اس کثرت کے ساتھ معدنیات برآمد ہوئیں کہ اس کی کایا ہی پلٹ گئی جس نے مغربی دنیا کی آنکھوں کو بھی خیرہ کر دیا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى اِحْسَانِهِ اللهُمَّ زِدْ فَرد دوسری جنگ عظیم کے دوران جب محور کی فوجیں العالمین کے مقام تک پہنچ گئیں تو مصر براہ راست جنگ کی لپیٹ میں آگیا اور مشرق وسطی کے دوسرے ممالک خصوصا حجاز مقدس پر حملہ کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا.اس پر حضرت مصلح موعود نے ۲۶ جون ۱۹۴۲ء کو مصر کے اسلامی کارناموں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا :- " مصر کے ساتھ ہی وہ مقدس سرزمین شروع ہو جاتی ہے جس کا ذرہ ذرہ ہمیں اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے.نہر سویز کے ادھر آتے ہی آجکل کے سفر کے سامانوں کو مد نظر رکھتے ہوئے چند روز کی مسافت کے فاصلہ پر ہی
۵۹ وہ مقدس مقام ہے جہاں پہ ہمارے آقا کا وجود لیٹا ہے، جس کی گلیوں میں محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پائے مبارک پڑھا کرتے تھے جس کے مقبروں میں آپ کے والہ وشیدا خدا تعالے کے فضل کے نتیجے میٹھی نیند سو رہے ہیں اُس دن سو کی انتظار میں کہ جب صور پھونکا جائے گا وہ لبيك کہتے ہوئے اپنے رب کے حضور حاضر ہو جائیں گے.دو اڑھائی سو میل کے فاصلہ پر ہی وہ وادی ہے جس میں وہ گھر ہے جسے ہم خدا کا گھر کہتے ہیں اور جس کی طرف دن میں کم سے کم پانچ بار منہ کر کے ہم نماز پڑھتے ہیں اور جس کی زیارت اور حج کے لئے جاتے ہیں جو دین کے ستونوں میں سے ایک بڑا ستون ہے.یہ مقدس مقام صرف چند سو میل کے فاصلہ پر ہے اور آجکل موٹروں اور ٹینکوں کی رفتا ر کے لحاظ سے چار پانچ دن کی مسافت سے زیادہ فاصلہ پر نہیں اور ان کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں.وہاں جو
حکوم سے اُس کے پاس نہ ٹینک ہیں نہ ہوائی جہاز اور نہ ہی حفاظت کا کوئی اور سامان کھلے دروازوں اسلام کا خزانہ پڑا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ دیواریں بھی نہیں ہیں.اور بھوں بھوں دشمن ران مقامات کے قریب پہنچتا ہے ایک مسلمان کا دل لہ زجاتا ہے " " الفضل تمار جولائی ۶۱۹۴۲ص۲) دیار عرب کا یہ زہرہ گر از نقشہ کھینچنے کے بعد حضرت مصلح موعود نے دل ہلا دینے والے الفاظ میں تحریک دعا کرتے ہوئے فرمایا :- یہ مقامات روز بروز جنگ کے قریب بروز آرہے ہیں اور خدا تعالیٰ کی مشیت اور اپنے گناہوں کی شامت کی وجہ سے ہم بالکل بے بس ہیں اور کوئی ذریعہ ان کی حفاظت کا اختیار نہیں کر سکتے.ادنی ترین بات جو انسان کے اختیار میں ہوتی ہے یہ ہے کہ اس کے آگے پیچھے کھڑے ہو کہ جان دیدے مگر ہم تو یہ بھی نہیں کر سکتے اور اس خطر ناک وقت میں صرف ایک ہی ذریعہ باقی
ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں کہ وہ جنگ کو ان مقامات مقدسہ سے زیادہ سے زیادہ دور لے جائے اور اپنے فضل سے اُن کی حفاظت فرمائے.وہ خدا جس نے ابرکہ کی تباہی کے لئے آسمان سے وہا بھیجدی تھی اب بھی طاقت رکھتا ہے کہ ہر ایسے دشمن کو جس کے ہاتھوں سے اُس کے مقدس مقامات اور شعائر کوئی گزند پہنچ سکے مچل دے....پس میں دوستوں کو تو نبہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خدا تعالٰی سے دعائیں کریں کہ وہ اِن مقامات کی حفاظت کے سامان پیدا کر دے اور اس طرح دعائیں کریں کہ جس طرح بچہ بھوک سے تڑپتا ہو؟ چلاتا ہے ، جس طرح ماں سے جُدا ہونے والا بچہ یا بچہ سے محروم ہو جانے والی ماں آہ و زاری کرتی ہے اسی طرح اپنے رب کے حضور رو رو کر دعائیں کریں کہ اے اللہ ! تو خود ان مقدس مقامات کی محافظت فرما اور اُن لوگوں کی اولادوں کو تجو
: + آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جانیں قندا کر گئے اور اُن کے ملک کو ان خطرناک نتائج بھنگ سے جو دوسرے مقامات پر پیش آرہے ہیں بچائے.....جو کام آج ہم اپنے ہاتھوں سے نہیں کر سکتے وہ خدا تعالے کا ہاتھ کردے اور ہمارے دل کا دُکھ ہمارے ہاتھوں کی قربانیوں کا قائم مقام ہو جائے." الفضل در جولائی ۶۱۹۴۲ ) مجلس احرار کے انبار" زمزم نے ۱۹ر جولائی ۶۱۹۴۲ کی اشاعت میں لکھا :- موجودہ حالات میں خلیفہ صاحب نے مصر اور حجاز مقدس کے لئے اسلامی بغیرت کا جو ثبوت دیا ہے وہ یقیناً قابل قدر ہے اور انہوں نے اس غیرت کا اظہار کر کے مسلمانوں کے جذبات کی صحیح ترجمانی کی ہے " کواله افضل قادیان ۲۲ جولائی ۶۱۹۴۲ صل ) حضور کی اس تحریک پر دنیا بھر کی احمدیہ جماعتوں نے
۶۳ پُر سوز دعاؤں کا با قاعدہ سلسلہ جاری کر دیا اور پھر چند کے اندر اندر جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور بیسویں صدی کے اَصْحَابُ الفيل خانہ کعبہ پر حملہ کرنے سے پہلے ہی پاش پاش ہوگئے.ستمبر ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جہاں جماعت کو یہ پیغام دیا کہ دعا کی اور قربانیوں کے ساتھ اپنے محبوب وطن کومستحکم اور ناقابل تسخیر بنا دو وہاں آپ سود محبتم دنمار بن گئے اور آپ کو جنگ کے ابتدائی مرحلہ میں ہی جب جنگی خبریں بہت پریشان کن تھیں جناب الہی سے علم دے دیا گیا کہ پاکستان کی قابل فخر مسلح افواج ہی فتحیاب ہوں گی.جب آپ کی خدمت میں عرض کیا جاتا کہ پاکستان بہت کمزور ہے اور دیشن کیل کانٹوں سے لیس ہے تو فرماتے :- " سب کچھ صحیح ، مگر میرے خدا کی طاقت کے سامنے وہ کوئی تحقیقت نہیں رکھتا." و جنگ کی ابتدا سے لے کو آختر یک، آپ کی زبان مبارک پر یہی الفاظ رہے کہ :.
۲۳ اسلام ہی کی فتح ہوگی " چنانچہ ایسا ہی عمل میں آیا.(الفضل ۲۶ مار پ ۱۹۶۶ ء م )) پاکستان کا یہی وہ معرکہ تھا جس میں فاتح جوڑیاں لیفٹینینٹ جنرل اختر حسین ملک اور چونڈہ کے ہیرو لیفٹیننٹ جنرل عبد العلی ملک نے فقید المثال جرأت کا مظاہرہ کر کے اصحاب الفیل کے پرنچے اڑا دیئے.اور میجر منیر احمد اور محر قاضی بشیر اور سکویڈرن لیڈر خلیفہ منیر الدین اور دوسرے کئی احمدی شہیدوں نے اپنی جانیں مقدس وطن پر نشار کر دیں.مدیر یشان نے اسی موقعہ پر افواج پاکستان کو مخاطب کر کے ہوئے یہ نظم کہی تھی نے وو دہلی کی سرز میں نے پکارا ہے ساتھیو! اختر ملک کا ہاتھ بٹاتے ہوئے چلو گنگا کی وادیوں کو بتا دو کہ ہم ہیں کون ؟ جمن پر ذوالفقار چلاتے ہوئے چلو ہر ایک سومنات کی تعمیر توڑ دو ہر ایک بکرے کو گراتے ہوئے پہلو
۶۵ اس کے سوا چھا دو کے معنی ہیں اور کیا ؟ اسلام کا وقار بڑھاتے ہوئے چلو گاڑو زمین سندس اسلام کا علم ! مولی عشقی کا زور لگاتے ہوئے میلو ر ہفت روزہ چٹان لاہور - ۳ ار ستمبر ۶۱۹۶۵ ) ایک اور پاکستانی شاہ نے یہ رزمیہ اشعار کہے ہے کر رہا تھا غازیوں کی جب کہاں عبدالعلی تھا صفوں میں مثل طوفان رواں عبد العلی ہند کا وہ آتشیں طوفان مقابل اسکے وہ عزم و تبار ٹینک یوں گرتے گئے دشمن کے، جیسے خشک پات جب ہوئی تاریخ کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ فتح پائی غازیوں نے کس طرح بے دنیا ہے دنگ یہ جگہ یہ دن یہ ساعت عالمی تاریخ میں ثبت ہے اب درحقیقت عالمی تاریخ میں ر معرکه حق و با طبل صد از حضرت الحاج مولانا عرفان کے شدی داعی مجلس علماء پاکستان
۶۶ تبلیغی خدمات : اب ہم جماعت احمدیہ کی تبلیغی خدمات پر ایک ہم طائرانہ نظر ڈالتے ہیں جو نظام خلافت کے زیر قیادت ہے دراز سے دنیا کے گوشہ گوشہ میں جاری ہیں اور اسلام کی مذہبی تاریخ کا سنہری باب ہیں.اس سلسلہ میں خاکسار از خود کچھ کہنے کی بجائے غیر از جماعت شخصیتوں اور بزرگوں کی چند اہم آراء و افکار بیان کرنے پر اکتفاء کرے گا :- ا مسلم سٹینڈرڈ لنڈن کے سابق ایڈیٹر ملک عبدالقویم صاحب بارایٹ لاء نے ایک حقیقت افروز بیان میں لارنے فرمایا کہ :- سلسلہ احمدیہ کا اہم ترین اور درخشان ترین وہ کارنامہ ہے جس کا تعلق تبلیغ و توسیع اسلام سے ہے.....قرونِ اولیٰ اور وسطی کی اسلامی تاریخ اسلامی مبلغین اور مضامین کی مجاہدانہ سرگرمیوں سے لبریز ہے جنہوں نے اسلام کو جغرافیائی اور طبعی قیود سے آزاد جان کر ایک جہانگیر بر اور سی کا
مرجع بنایا.مگر یہ سرگرمیاں اور کوششیں زیادہ تر انفرادی حیثیت سے رونما ہوئیں سلسلہ احمدیہ نے اپنے تبلیغی نصب العین کو ایک ادارے کی صورت دے کر ایک منظم کوشش بنا دیا.اس منظم کار کردگی کا ایک ادنی کرشمہ ہے کہ سلسلہ احمدیہ کے مبلغین گزشتہ ربع صدی کے دوران میں ایشیا، افریقہ اور امریکہ میں متعد تقلبی یا ادارے قائم کرکے اعلائے کلمۃ الحق کر رہے ہیں.“ (بحوالہ " مرکز احمدیت قادیان مت ۴۵ مرتبہ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ) مفکر احرار جناب چودھری افضل حق صاحب اپنی کتاب " فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیاں میں لکھا :- " آریہ سماج کے معرض وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسد بے جان تھا....مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہوسکی، ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اُٹھا ، ایک مختصر سی جماعت
۶۸ اپنے گرد جمع کرکے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے بڑھا.اگر چہ مرزا غلام احمد صاحب کا دامن ہوا تاہم اپنی جماعت میں اشاعتی تڑپ فرقہ بندی کے داغ سمیرا کی جونہ صرف انسان نوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے " (صفحه ۲۴) - دیوبند کے مشہور روشن خیال عالم نے اپنی تفسیر الہام الرحمن میں حسب ذیل دچسپ واقعہ تحریر فرمایا :- " جميع اقوامِ عالم سے چند آدمی ایک خالص دینی اور مذہبی کا نفرنس (مؤتمر منعقد کرنے کی غرض سے ہمارے شہروں کی طرف آئے.جو راس بارہ میں بحث کرنا چاہتے تھے کہ انسانیت عامہ (عمومیہ) کے لئے کون سا دین مناسب ہے اور اُس مؤتمر کی زبان انگریز ہی تھی.تو میں نے علماء وقت سے سوال کیا کہ ان پر واجب نہیں تھا کہ اس موتمر میں کوئی ایسا شخص بھیجتے جوان لوگوں پر
۶۹ اسلام پیش کرتا ؟ تو انہوں ( علماء وقت) نے جواب میں کہا کہ کوئی فرض نہیں.میں نے کہ سبحان اللہ کیا کہنے وہ تو صیل کر تمہارے ملک هند وستان (متحدہ ہند و پاک میں تمہارے گھروں تک پہنچے ہیں (اور تمہارا یہ جواب ؟) تو (علماء وقت) کہنے لگے کہ ہم اُن کی انگریزی زبان نہیں جانتے ! میں نے کہا اگر تم اولاد مسلمین کو عظیم دین کی تعلیم دے کر پہلے اس فریضہ کو ادا کر چکے ہوتے تو وہی آج تمہاری طرف سے وکیل بن کر اسلام پیش کرتے لیکن ہوا یہ کہ مرزا قادیانی کے پر واروں سے ایک شخص اس موتمر میں گیا جس نے ان پر اسلام پیش کیا ! تو اب مجھے اہل علم حضرات سے سوال کا موقع ملا جس کے جواب میں گویا ہوئے یہی کافی ہے.میں نے کہا کیا تم قادیانیوں کی تکفیر سے رجوع کرتے ہو ؟ لیکن وہ اس کے بعد بھی ان کی تکفیر پر مقرر ہے ! اس پر میں نے کہا کہ تمہاری طرف سے فرض کفائی تھیسے ایک کافر
4.انسان ادا کر سکتا ہے.ہو نہ ہو دو باتوں میں سے ایک کا جاننا ضروری ہے.ایا تو کم قادیانیوں کو کافر نہ کہوتا کہ تم انہیں بلیغ اسلام میں اپنا وکیل بنا سکو.۲.یا اہل اسلام کے اُن لوگوں کو جو انگریزی زبان کے ماہر ہیں دینی تعلیم دو.لیکن انہوں (علماء وقت) نے نہ یہ بات مانی اور نہ وہ مانی الهام الرحمن في تفسير القرآن از علامه عبید اللہ سندھی آمده تا حاشیہ ناشر بيت الحكمة نا ا - امام ولی اللہ دہلوی، کبیر والا ملتان.نومبر ۶۱۹۷۷ ).بابائے صحافت ظفرا الملت مولانا ظفر علی خان صاحب نے سوار مارح ۱۹۳۶ء کو مسجد خیر الدین امرت سر میں تقریه فرمائی کہ : -1
" کان کھول کرشن لو تم اور تمہارے لگے بند مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے.عمود کے پاس قرآن ہے ، قرآن کا علم مرزا محمود کے پاس ایسی جماعت ہے جو تن من دھن اس کے اشارے پر اس کے پاؤں میں نچھاور کرنے کو تیار ہے.مرزامحمود کے پاس مبلغ ہیں ، مختلف علوم کے ماہر ہیں.دنیا کے ہر ایک ملک میں اُس نے جھنڈا گاڑ رکھا ہے کیا ایک خوفناک سازش » مصنفہ مولوی مظہر علی اظہر ) عاشقوں کا شوق قربانی تو دیکھ خوشی کی اس کہ میں ارزانی تو دیکھے ہے اکیلا کفر سے زور آزما احمدی کی روح ایمانی تو دیکھ ۵- پاکستان کے ایک فاضل و ادیب جناب محی الدین نماز میں اجمیری فرماتے ہیں :
۷۲ یورپ و امریکہ کی مذہب بیزار اور اسلام کی تعریف دنیا میں....اگر علم تبلیغ ہاتھ میں لیکر کوئی اُٹھا تو وہ یہی.....قادیانی فرقہ تھا.کامل اس فرقہ ریزہ ہا ر سے اُٹھا نہ کوئی کچھ ہوئے بھی تو یہی بند قدح خوار کیئے اس جماعت نے تبلیغی مقاصد کے لئے سر سے پہلے اسی سنگلاخ زمین کو چنا اور یورپ و امریجہ کا رخ کیا اور اُن کے سامنے اسلام کو اصلی و ساده صورت ہیں اور اس کے اصولوں کو ایسی قابل قبول شکل میں پیش کیا کہ ان ممالک کے ہزار ہا افراد و خاندان دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے اور يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ اَفَوَاجًا کا سماں آنکھوں میں پھر گیا.تاثرات مئات المطبوعه حیدر آباد سنده) غرب ممالک میں مصر و عراق کو جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں.ان ممالک کے تعظیم انشور
۷۳ بھی جماعت احمدیہ کی تبلیغی خدمات پر خواب نخسین اد کر چکے ہیں.چنانچہ مصر کے مشہور اخبار" الفتح " مر جمادی الآخر ۱۳۵۱ هـ مطابق ۲۲ اکتوبر ۶۱۹۳۲ ) نے لکھا :- " والذي يرى أَعْمَا لَهُمُ الْمُدْهِشَةَ یری ويقد لالا مُورَ حَقٌّ قَدْرِهَا لا يَمْلِك نَفْسَهُ مِنَ الدَّهْشَةِ وَالْإِعْجَابِ بِجِهَادِ هذِهِ الْفِرْقَةِ الْقَلِيْلَةِ الَّتِي عَمِلَتُ مَا لَمْ تَسْتَطِعْهُ مِنَاتُ الْمَلايين مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَقَدْ جَعَلُوا جِهَادَهُم هذا وَ نَجَا حَهُمْ اَكْبَرَ مُعْجِزَة تَدُل عَلَى صِدْقِ مَا يَزْعُمُونَ - وَسَاعَدَهُم على ذلِكَ مَوتُ غَيْرِهِمْ مِمَّنْ يَنْتَسِبُ إلى الاسلام ترجمہ : جو شخص معاملہ فہم ہو اور اُن لوگوں کے حیرت گیر کارناموں کو دیکھے وہ یقینا اس چھوٹی سی جماعت کے جہاد کو دیکھ کر حیران اور انگشت بدنداں کہ جائے گا.اس جماعت نے وہ کام کیا ہے جس کو
۷۴ کروڑوں مسلمان نہ کر سکے.ان لوگوں نے اپنے جہاد اور کامیابی کو اپنے دعوی کی صداقت پر سب سے بڑا معجزہ قرار دیا ہے.اُن کے اس بیان کو اُن لوگوں کی موت نے تقویت پہنچائی ہے جو اُن کے علاوہ اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں.اور عراق کے مسلمان لیڈر اور السّلَامُ البَغْدَادِيَّة کے ایڈیٹر الحاج علامہ عبد الوہاب عسکری اپنی کتاب مشاهداتي محت سماء الشرق" میں احمدیوں کی نسبت تحریر فرماتے ہیں :." وَجَدُ مَا تُهُمُ لِلدِّينِ الإِسْلَاتِي مِنْ وجهَةِ التَّنْشِيرِ فِي جَمِيعِ الأَقْطَارِ كَثِيرَةً وَاَنَّ لَهُمْ دَوَائِرَ مُنْتَظِمَةً دِيرُهَا أَسَاتِذَةُ وَعُلَمَاءُ وَهُمْ يَجْتَهِدُونَ بِكُلِّ الْوَسَائِلِ المُمْكِنَةِ الإِعْلَاءِ كَلِمَةِ الدِّينِ وَ منْ أَعْمَالِهِمُ الْجَبَّارَةِ الفُرُوعُ
۷۵ التّبْشِيْرِيَّةُ وَالْمَسَاجِدُال اَسَسُوْهَا فِى مُدُن آمـ بَدنِ امْرِيكَا وَ اَفْرِيقِيَّا وَ ادْرُبا فَهِيَ السِنَةَ ناطقةٌ مِّمَّا قَامُوا وَ يَقُومُونَ بِهِ مِنْ خِدْمَاتِ وَلَا شَكٍّ أنَّ لِلإسْلامِ مُسْتَقْبِلُ بَاهِرُ عَلَى يَدِهِمْ ترجمہ :.دین اسلام کے لئے اُن کی تبلیغی خدمات بہت زیادہ ہیں اور اُن کے ہاں بہت سے انتظامی شعبے ہیں جنہیں بڑے بڑے ماہرین اور علماء دین چلا ہے ہیں اور وہ دین اسلام کی سربلندی کے لئے تمام ممکن ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے کوشاں ہیں اور ان کے عظیم انسان کارناموں میں سے ایک عظیم کام امریکہ، افریقہ اور یورپ کے مختلف شہروں میں تبلیغی مراکز اور مساجد کا قیام ہے اور یه مراکز و مساجد ان کی ان عظیم خدمات کی منہ بولتی تصویر ہیں جو وہ پہلے اور اب بجا لا رہے ہیں اور اس امر میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اُن کے
ہا تھوں اسلام کا ایک تابناک مستقبل مقدر ہو چکا ہے.علمی خدمات معزز سامعین جماعت احمدیہ کے بے مثال تکلیفنی جہاد کی طرح اس کی علمی خدمات بھی اپنی نظیر آپ ہیں.یہی وہ خوش نصیب جماعت ہے جسے خدائی وعدوں کے مطابق مصلح موعود کے وجود مبارک میں ایک ایسا عظیم قائد بخشا گیا جس نے خدا تعالیٰ سے علوم ظاہری و باطنی رسیکھ کر علوم و فنون کے دریا بہا دیئے.اس صدی میں حضرت بانی ہو سلسلہ احمدیہ کے بعد اگر کسی شخصیت نے خدائی راہ نمائی سے عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق اسلامی علوم پر ہمہ گیر روشنی ڈالی ہے تو وہ صرف مصلح موجود ہیں اور آپ کا معرکہ آرا کثیر لٹریچر اس پر شاہد ناطق ہے.پاک و ہند کے مایہ ناز انشاء پرداز اور اردو ادب کے مسلم نقاد اور ماہنامہ نگار کے مدیر علامہ نیاز مجبوری آپ کی شہرہ آفاق " تفسیر کبیر پر ایک نگاہ ڈالتے ہی آپ کے
LL واله وشیدا بن گئے اور آپ کی خدمت میں لکھا: اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے.اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل نہیں تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے.آپ کی تبحر علمی ، آپ کی وسعت نظر، آپ کی غیر معمولی فکرو فر است ، آپ کا محسن استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے ! (الفضل ، ار نومبر ۶۱۹۶۳ ص۳) ت مصلح موعود کے انتقال پر مولانا عبد الماجد دریا آبادی حضرت جیسے بلند پایہ محقق و فاضل نے لکھا کہ :.قرآن و و علوم قرآن کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کی آفاق گیر تبلیغ میں جو کوششیں انہوں نے سرگرمی اولوالعزمی سے اپنی طویل عمر میں جاری تھیں ان کا اللہ ا نہیں صلہ دے علمی حثییت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح، تعیین و ترجمانی وہ کر گئے ہیں اس کا بھی ایک بلند و ممتاز مرتبہ
ہے " (صدق جدید لکھنو ، ارنومبر ۶۱۹۶۵ ) یا - " حضرت مصلح موعود شا نے اسلامیہ کالج لاہور کی مارٹن میٹا ریکل سوسائٹی کے زیر اہتمام ۲۶ فروری ۱۹۱۹ء کو اسلام میں / اختلافات کا آغاز ' کے عنوان پر مشہور عالم لیکچر دیا اورخ اسلام سید عبد القادر صاحب ایم.اے نے صدارتی خطاب فرمایا :- " آج شام کو جب میں اس ہال میں آیا تو مجھے خیال تھا کہ اسلامی تاریخ کا بہت سا حصہ مجھے بھی معلوم ہے اور اس پر میں اچھی طرح رائے زنی کر سکتا ہوں لیکن اب جناب مرزا صاحب کی تقریر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں ابھی طفل مکتب ہوں " الفضل در مارچ ۱۹۱۹ء ص ) اگلے سال جب یہ اہم لیکچر شائع ہوا تو موصوف نے اس کے تعارف میں لکھا کہ : " فاضل باپ کے فاضل بیٹے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کا نام نامی اس بات کی کافی
L9 ضمانت ہے کہ یہ تقریر نہایت عالمانہ ہے مجھے بھی اسلامی تاریخ سے کچھ شد بد ہے اور میں دھونی سے کہہ سکتا ہوں کہ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلمان بہت تھوڑے مورخ ہیں جو حضرت عثمان کے عہد کے اختلافات کی تہ تک پہنچ سکتے ہیں اور اِس مہلک اور پہلی خانہ جنگی کی اصلی وجو ہات کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے ہیں.حضرت مرزا صاب کو نہ صرف خانہ جنگی کے فتنہ کے اسباب سمجھنے میں کامیابی ہوئی ہے بلکہ انہوں نے نہایت واضح اور مسلسل پیرائے میں اُن واقعات کو بیان فرمایا ہے جن کی وجہ سے ایوان خلافت مد تیک تزلزل میں رہا میرا خیال ہے ایسا مد تل مضمون اسلامی تاریخ سے لچسپی رکھنے والے احباب کی نظر سے پہلے کبھی نہیں گزرا ہوگا " (پیش لفظ " اسلام میں اختلافات کا آغانہ ؟ حضرت مصلح موعود کی زندہ جاوید اور دل آویز تصانیف |
سرچشمہ علم و بصیرت ہیں، جو موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے قیامت تک مشعل راہ کا کام دیں گی حضور خود فرماتے ہیں را وہ کونسا اسلامی مسئلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ نہیں کھولا مسئلہ نبوت مسئلہ کفر مسئلہ خلافت ، مسئلہ تقدیر، قرآنی ضروری امور کا انکشاف اسلامی اقتصادیات اسلامی سیاسیات اور اسلامی معاشرت وغیرہ پر تیرہ سو سال سے کوئی وسیع مضمون موجود نہیں تھا.مجھے خدا نے اس خدمت دین کی توفیق دی اور اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ہی ان مضامین کے متعلق قرآن کے معارف کھولے.....جو شخص اسلام کی تعلیم کو پھیلانا چاہے گا اُسے میرا خوشہ چین ہونا پڑے گا یہ خلافت راشدہ صفحه ۴ ۲۵- ۲۵۵)
Al شان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام اور حضرت.مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے عظیم الشان لٹریچر اور آپ کے فیض و برکت سے جماعت احمدیہ میں بہت سی علمی شخصیتیں پیدا ہوئیں مثلاً حضرت مولینا شیر علی صاحب اور حضرت ملک غلام فرید صاحب جیسے مفتر ، مولانا شیخ مبارک احمد صاحب، عبدالہادی کیوسی صاحب اور عبد السلام صاحب میڈسن جیسے مترجم قرآن، حضرت میر محمد اسحق صاحب او حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جس نے ناز مین حدیث حضرت مرزا بشیر احمد صاحب جیسے مورخ ، حضرت ، مولینا غلام رسول صاحب را جیکی ، حضرت میر قاسم علی صاب ہے مولنا جلال الدین صاحت بمس، مولنا ابوالعطاء صاحب ملک عبدالرحمن صاحب خادم اور مولانا قاضی محمد نذیر صاب نے جیسے متکلم ، ملک سیف الرحمن صاحب فاضل جیسے فقیہ، حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب جیسے قانون دان اور مقرر، بجناب قاضی محمد اسلم صاح سے ماہر فتیات و فلسفه صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب جیسے ماہر اقتصادیات، حضرت مفتی محمد صادق صاحب، مهامه فضل حسین صاحب
۸۲ پروفیسر ناصرالدین عبداله صاحب ، گیانی و احدحسین صاحب بن گیانی عباداللہ صاحب اور جناب شیخ عبد القادر صاحب جیسے سکالر اور محق، مولانا شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی اور سید اختر اور نیوی (صدر شعبہ اُردو پینز یونیور جیسے بلند پایہ اردو ادیب اور شیخ محمد احمد صاحب پانی پیتی جیسے اُردو مترجم.یہ سب ملت اسلامیہ کے مایہ ناز خدائم ہیں جن کے قلمی و لسانی معرکے آسمان کے ستابہ وں کی طرح چمک رہے ہیں اور اُن کے نام کو بقائے دوام بخشنے کیلئے کافی ہیں.حضرت بانی حمیت کے نظریہ تم الاسن کی الهام تحقیق کو عالمی جنگ سے تعبیر کرتے ہوئے پیش گوئی فرمائی تھی کہ اس جنگ میں عنقریب اسلام کی طرف سے فتح کے نقارے سے بجیں گے ( من الرحمن مثلا ) حضور نے اپنی تصنیف ” من الرحمن میں کمال جامعیت سے ایسے بنیادی اصول متعین فرما دیئے تھے جن کو اگر دنیا کی دوسری زبانوں پر نطبق کیا جائے تو اُن کا عربی ماخذ
۸۳ بالبداہت ثابت ہو جاتا ہے.ران راہ نما اصولوں کی روشنی میں السنہ عالم کا گہرا مطالعہ کرنے اور پھر اس دعوئی کو عملاً ثابت کر دکھانے کا عظیم الشان کام در حقیقت ایک ادارہ کا تقاضا کرتا تھا جیس کو حضرت شیخ محمد احمد صاحب منظر نے تقریباً چالیس سال کی محنت اور جانفشانی سے کامیابی کے شاندار مراحل تک دیا ہے اور آپ دنیا کی چھیا لیں زبانوں لغات حل کر کے ثابت کر چکے ہیں کہ ان کے بنیادی الفاظ کا حقیقی سر حیشم منطقی اور یقینی طور پر عربی زبان ہے.آپ کی یہ علمی اکسیر متعدد کتب کی صورت میں پاکستان یورپ، امریکہ اور افریقہ میں بھی شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہے.آپ کی کتاب "ARABIC THE SOURCE OF ALL LANGUAGES پر پاکستان ٹائمزلاہور کے فاضل تبصرہ نگار نے مفصل تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ کتاب کا ہر صفحہ حیرت انگیز ہے اور جو بات بظاہر ناممکن نظر آتی تھی وہ اس کے ذریعے سے ایک حسابی صداقت کی طرح ثابت ہو چکی ہے اور یہ کتاب دُنیا کے لئے ایک چیلنج ہے.
۸۴ آپ کی دوسری کتاب ENGLISH TRACED TO ARABIC کی نسبت ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے رسالہ "صحیفہ" اپریل ۱۹۷۰ء میں یہ رائے دہی کہ : "مصنف نے لسانیات کے شعبے میں ایک ایسا صحیح اورمحکمہ نظریہ پیش کیا.ہے جس سے السنہ عالم کے اولین ماخذ کے متعلق اختلافات ختم ہو جانے چاہئیں." (بحواله الفضل ، ار اگست ۴۱۹۷۲) حضرات با حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو دین کی خدمت او را علائے کلمتہ اللہ کی غرض سے علوم جدیدہ حاصل کرنے کی صرف ہدایت ہی نہیں فرمائی بلکہ جیسا کہ آپ نے کل کے تاریخی انقلابی اجلاس میں سیدنا و اما منا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی زبان مبارک سے بھی سُنا حضرت مسیح موجود نے مارچ ۱۹۰۶ ء میں یہ حیرت انگیز پیش گوئی بھی فرمائی کہ :- "میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کہ مال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور
AD اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے " (تجلیات الہیہ ص۲) کمال علم و معرفت کا یہ پہلا ہی تمغہ اسلام و احمد ثیت کے قابل فخر فرزند اور مشہور عالم احمدی اور پاکستانی سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے لئے مقدر تھا جنہیں خدا کے فضل نے اپنے پاک رسول حضرت رسول عربی صلی اللہ علیہ و سلم اور شیخ محمدی کے فیضان کے طفیل حال ہی میں نیائے سا فمینس کے اعلیٰ ترین عالمی اعزاز و نوبل پرائز سے نوازا ہے.دو جناب ڈاکٹر صاحب نے اپنی خداداد بصیرت ودیانت سے علم طبیعات کی ایک ایسی پیچی پیدہ اور پراسرار گتھی کو سلجھانے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے جس کو " بیسویں صدی کے نیوٹن، نظریہ اضافیت کے موجد اور طبعیات کے ماہر اور نامور جرمن سائنسدان آئن سٹائن البرٹ EINSTEIN) اپنی تنیس سالہ کوششوں کے باوجود حل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تھے بیسویں صدی کے اس عظیم ترین سائنسی کارنامہ پر جو ڈاکٹر عبدالسلام صاحب سائنسدان نے انجام دیا ہے پوری دنیائے اسلام میں ALBERT 1889-1955) t +
AY خوشی اور مسرت کی زبر دست ہر دوڑ گئی ہے.پاکستان کے مقتدر مسلم پولیس نے آپ کو زبر دست خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی سائنسی تحقیقات نے توحید ذات باری تعالیٰ کی اسلامی صداقت (یعنی ALLENGE_ إِلَّا الله ) کی تصدیق کر دی ہے.مشرق ، اکتوبر ) اخبار صداقت لاہور نے اپنی ۸ار اکتوبر ۱۹۷۹ء کی اشنا میں صا پر قابل فخر اعزازہ " کے عنوان سے لکھا :- سائنس کی ترقی میں مسلمانوں کا حصہ علم و تہذیب کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے مگر عالم اسلام کو زوال آنے کے بعد مغربی ممالک ائنٹس میں اجارہ دار بن گئے ؟ ن گئے اور یہ تاثر عام ہو گیا که مسلمان اس میدان میں ہمیشہ کے لئے پیچھے رہ گئے ہیں.ڈاکٹر عبدالسلام نے طبعیات کے میدان میں تحقیقی کارنامہ انجام دے کر یہ تاثر ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا ہے کہ مسلمان سائنس کے میدان میں نمایاں کارنامے انجام نہیں دیے سکتے.ہم ڈاکٹر عبد السلام کو یہ شاندار اور قابل فخر
AL اعزاز حاصل کرنے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں.عالم اسلام کی بہت سی ممتاز اور سر بر آورد شخصیتوں اور سلم لیڈروں کی طرف سے موصوف کو متعد د پیغا نا ہوں ہو چکے ہیں جن میں آپ کو شاندار الفاظ میں مبارک باد دی گئی ہے.صدر پاکستان عزت مآب جنرل محمد ضیاء الحق نے نہ صرف تار دیا کہ : " آپ نے یقینی طور پر پاکستان کی عظمتوں کو چار چاند لگا دیئے ہیں کیا ڈ پاکستان ٹائمز ۱۶ اکتو بر ۶۱۹۷۹ ) بلکہ آپ کو حال ہی میں قائد اعظم یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹر آف سائنس کی ڈگری پیش کی گئی ہے اور حکومت کی طرف نشان امتیاز دیا ہے جو رسول کا سب سے بڑا ملکی اعزاز ہے.اسلامی بلیز کار می کی تحریک کے سربراہ شہزادہ محمد بن جبیل السعود نے کہا ہے کہ :.آپ کو ملنے والا اعزاز مسلمانان عالم کے لئے خوشی اور افتخار کا باعث ہے " لیبیا میں ٹریپولی کی الفتح یونیورسٹی کے را دنا ابراہیم
AA المنتصر نے یہ تہنیتی پیغام دیا ہے کہ نے یہ : بحیثیت ایک مسلمان بھائی کے ہم اس عزاز میں اپنے آپ کو شریک سمجھتے ہیں جو نہ صرف اپنے لئے بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے حاصل کیا ہے " اخبار جنگ کراچی ۳/ نومبر ۶۱۹۷۹ اسی طرح لیبیا کے وزیر علیم ڈاکٹر شمیل اور لیبیا کی اٹامک انرجی کے ڈاکٹر جمعہ نے اپنے پیغامات میں کہا :- آپ کا یہ اعز از ساری اسلامی نیا کے لئے باعث عزت و افتخار ہے !" لنڈن اسلامک کلچرل سینٹ کے ڈائریکٹرز کی برینا وی نے فرمایا :- پر و فیسر سلام نے نوبیل انعام حاصل کر کے دنیا کے مسلمان سائنسدانوں اور نوبل انعام کے درمیان حائل دیوار
٨٩ کو گرا دیا ہے ی“ (روزنامہ ڈان (DAWN) کراچی مورخه ۷ ارنومبر ۶۱۹۷۹ ) ایک پاکستانی کو نوبل انعام ملنے کے بعد عالم اسلام پر بین الاقوامی انعامات کے دروازے کھل گئے ہیں " در روزنامہ نوائے وقت کا ہو یا دسمبر ۱۹۷۹ ء صلا) ناز پاکستان و فخر عالم اسلام آج دے رہا ہے اب تو جس کو ذرہ جو سر بھی باج یعنی وہ پہلا مسلماں ڈاکٹر عبد السلام زیب سرنوبل پرائز کا ہوا ہے جس کے تاج قیس تینائی نجیب آبادی، کراچی) سور ہوئی.چودہ صدیوں میں دنیائے اسلام نے جو مشہو عالم سائنسدان پیدا کئے اُن میں پانچ کو خاص طور پر نظمت دوران نصیب ہے حضرت محمد بن زکریا رازی، حضرت شیخ بو علی سینا حضرت ابوریحان البیرونی ، حضرت عمر خیام نیشاپوری ، حضرت علامہ ابن رشد رَحِمَهُمُ اللهُ تَعَالٰی.اور یہ حیرت انگیز بات
۹۰ ور ہے کہ ان پانچوں میں سے کوئی بھی تکفیر سے نہیں بچا.حکمائے اسلام کر حصته اول و دوم از مولا نا عبد السلام صاحب ندوی.شعر العجم جلدا از علامہ شبلی نعمانی ، ڈاکٹر عبد السلام صاحب عالمی شہرت رکھنے والے چھٹے مسلم سائنسدان ہیں جن کو اُن کی زریں خدمات کے صلہ میں اس مبارک نعمت سے بھی سر فرانہ فرمایا گیا ہے.(اخبار جنگ کراچی ، ۱۲۳ نومبر ۴۱۹۷۹) سے یہ رتبہ بلند بالا ، جس کو بل گیا ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں ؟ آئینی و قانونی خدمات معزز حضرات ! جماعت احمدیہ کی آئینی و قانونی خدمات ملی کا دامن بھی بہت وسیع ہے.ان خدمات کی عظمتوں اور رفعتوں کا اندازہ ۱۹۲۷ء کے صرف ایک اقعہ سے باآسانی لگ سکتا ہے.شاتم رسول راجپال کو اُس کی رسوائے عالم کتاب رنگیلا رسول پر زیر دفعہ ۱۵۲ الف تعزیرات ہند چھ ماہ قید با مشقت اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ یا چھے ماہ قید مزید کی سزا ہوئی.راجپال نے پنجاب
۹۱ ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی.حج نے فیصلہ دیا کہ میں یہ نہیں سمجھتا “ یہ مقدمہ دفعہ ۱۵۳ - الف کی زد میں آتا ہے اس لئے..میں مرافعہ گزار کو بری کرتا ہوں اور مسلم آؤٹ لک اس فیصلہ کے خلاف اخبار " (CAMUSLIM OUT LOOK لاہور کے احمدی ایڈیٹر سید دلاور شاہ صاحب بخاری نے استعفی ہو جاؤ کے عنوان سے ایک اداری لکھا جس پر پنجاب ہائی کورٹ کی طرف سے ایڈیٹر اور اس کے مالک و طابع کے نام توہین عدالت کے جرم میں ہائیکورٹ کی طرف سے نوٹس پہنچ گیا.اخبار دور جدید لاہور ۱۶ اکتوبر ۱۹۳۳ء لکھتا ہے یہ و کے و مسلم آؤٹ لک کے اس کیس کے سلسلہ میں جو در حقیقت راجپال کے مقدمہ تحقیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک شاخسانہ تھا یشفیع مرحوم مغفور کی کوٹھی پر پنجاب کے بہترین و کلام اس غرض کے لئے جمع ہوئے تھے کہ اس مقدمہ کو ہائیکورٹ میں ججوں کے سامنے کون پیش کرے ، تو ان ہوئی
۹۲ کے آٹھ دس وکلاء نے رجوس کے سب لیڈر اور قومی رہنما اور سردار سمجھے جاتے نہیں متفقہ طور پر فیصلہ کیا تھا کہ اس کام کو چوہدری ظفر اللہ خان کے علاوہ اور کوئی شخص کامیابی کے ساتھ انجام نہیں دے سکتا.....چودھری صاحب نے ہائیکورٹ میں یہ کیس بڑی خوبی کے ساتھ پیش کیا اور اپنی سحر بیان تقریر کے آخری فقروں فرمایا کہ " حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جین کے احکام کے سامنے دنیا کی پالیس کروڑ آبادی کی گردنیں جھکی ہوئی ہیں جن کی غلامی پر دنیا کے جلیل القدر شہنشاہ عظیم الشان وزراء مشہور عالم جنبیل اور گر سٹی عدالت پر رونق افروز ہونے والے
۹۳ حیح (جن کی قابلیت پر زمانہ کو ناز ہے) فخر کرتے ہیں.ایسے انسان کامل کے متعلق راجپال کی تذلیل تحریر کو کسی حج کا یہ قرار دینا کہ اس سے نبی کریہ کی کوئی بہتک نہیں ہوئی تو پھر مسلم آؤٹ لک کے مضمون سے بھی یہ فیصلہ قرار دینے والے کہ اس سے کسی کی کوئی تحقیر نہیں ہوئی صائب الرائے ٹھہرتے ہیں.اس موقعہ پر مولانا ظفر علی خان صاحب جو اُس وقت موجود تھے فرط جوش میں آبدیدہ ہو گئے اور اُن سے رہا نہ گیا.وہ صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور چودھری صاحب کا ہاتھ
۹۴ چوم کر اُن کو گلے سے لگالیا " موس مصطفے کے تحفظ کی یہ ایک زبر دست آئینی جنگ تھی تم مینی جنگ تھی جس میں مسلمانان ہند حضرت مصلح موعود کی قیادت میں بالآخر فتحیاب ہوئے اور حکومت نے ایک نئی دفعہ کا اضافہ منظور کو لیا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے پیشوایان مذاہب کی عربات کے تحفظ کا قانون پہلے سے بھی زیادہ معین صورت اختیار کر گیا بچنا نچہ اخبار انقلاب لاہور نے احمدیوں کی قابل قدر خدمات اسلامی" کے عنوان پر لکھا : ور ر ہم اس فرقہ کی بعض قابل قدر خدمات اسلامی کا تہ دل سے اعتراف کرتے ہیں.امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے مقدمہ راجپال کے فیصلہ کے متعلق نہ صرف ہندوستان میں ہی مسلمانوں کی ہم آہنگی اختیار کی بلکہ مسجد لنڈن کے امام مولوی عبد الرحیم درد کو اس قسم کی ہدایات بھی بھیج دیں کہ بجھا تک ہو سکے اس سلسلہ میں مسلمانوں کی شکایات کو
۹۵ لیمنٹ تک پہنچا دو " (۱۳ را گست ۶۱۹۲۷ اور اخبار مشرق گورکھپور (۲۳ ستمبر ۱۹۴۲ء) نے یہ نوٹ دیا کہ :." جناب امام جماعت احمدیہ کے احسانات تمام مسلمانوں پر ہیں.آپ ہی کی تحریک سے ورتمان پر مقدمہ چلایا گیا.آپ ہی کی جمات نے رنگیلا رسول کے معاملہ کو آگے بڑھایا.سرفروشی کی اور جیلخانے جانے سے خوف نہیں کھایا.آپ ہی کے پمفلٹ نے جناب گورنر صاحب بہادر کو انصاف و عدل کی طرف مائل کیا.آپکا پمفلٹ مضبوط کر لیا مگر اس کے اثرات زائل نہیں ہونے دیا اور لکھ دیا کہ اس پوسٹر کی ضبطی محض اس لئے ہے کہ اشتعال نہ بڑھے اور اس کا تدارک نہایت ہی عادلانہ فیصلے سے
۹۶ کر دیا اور اس وقت ہندوستان میں جتنے فرقے مسلمانوں میں ہیں سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا ہندوؤں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہوا ہے ہیں صرف ایک احمد می جماعت ہے جو قرون اولی کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا جمعیت سے مرغوب نہیں ہے اور خاص اسلامی کام سرانجام دے رہی ہے." یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ عہد حاضر میں ملت اسلامیہ کی قانونی اور آئینی خدمات بجالانے کا جو عالمی فخرو است یا نه احمد ثیت کے بطل جلیل حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کو حاصل ہوا وہ رہتی دنیا تک یاد گار رہے گا.موجودہ دور کی مسلم دنیا کی کوئی تاریخ مکمل نہیں قراردی جاسکتی جب تک کہ اس میں آپ کے ناقابل فراموش کارناموں کا ذکر نہ کیا جائے حتمیر، فلسطین، پاکستان، مصر، شام، ،ایران، مراکش، تیونس، لیبیا ، لبنان، شرق اردن، الغرض
۹۷ عرب و عجم کے مسلم ممالک کے مسائل کی یو- این.اومیں ترجمانی کا سفق آپ نے اس شان کے ساتھ ادا کیا کہ اردن، شام، صومالیہ اور مراکش نے آپ کی شاندار اور مجاہدانہ خدمات کے اعتراف میں اپنے سب سے اعلیٰ نشان آپ کی خدمت میں پیش ! کئے اور پوری دنیا کی اسلامی صحافت میں آپ کے کار ہائے نمایاں کی دھوم مچ گئی.رسالہ طلوع اسلام (مارچ ۶۱۹۴۰ ) نے حضرت چوہدری صاحب کی اقوام عالم میں مسئلہ کے کی کامیاب وکالت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا -: ور حسن اتفاق سے پاکستان کو ایک ایسا قابل وکیل مل گیا جس نے اس کے حق و صداقت پر مبنی دعوے کو اس انداز سے پیش کیا کہ اس کے دلائل و براہین ، عصائے موسوی بن کر، دستیوں کے اُن تمام سانیوں کو نگل گئے اور ایک نیا نے دیکھ لیا کہ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا باطل بنا ہی اس لئے ہوتا ہے کہ حق کے مقابلہ میں میدان چھوڑ کر بھاگ جائے " (ص) الستید امین الحسینی مفتی اعظم فلسطین نے آپ کے نام
۹۸ مكتوب میں تحریر فرمایا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم آپ کی بیش بہا اسلامی خدمات کے لئے تہ دل سے ممنون ہیں.(ہفت روزہ لاهور و ار اگست (۶۱۹۷۹ شاہ فیصل نے ۵ رمئی ۱۹۴۸ء کو سعودی مملکت کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے چوہدری صاحب کو مکتوب لکھا کہ جب سے مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ میں پیش ہوا ہے آپ نے جس تندہی اور خلوص سے اعلیٰ تعاون اور عالی ظرفی کا مظاہرہ فرمایا نہیں اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں....آپ کی اعلیٰ اقدار نے نہ صرف عربوں کے دلوں میں بلکہ اقصائے عالم کے تمام راستباز لوگوں کے دلوں میں خواہش پیدا کر دی ہے کہ وہ آپ کی مساعی جمیلہ کی دل سے قدر کریں.د ہفت روزہ لاہور ۱۹ اگست ۶۱۹۷۹ ) السید عاصم الگیلانی سجادہ نشین درگاه خوش اعظم السيد عبد القادر الگیلانی نے در جولائی ۱۹۴۸ء کو حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نام مکتوب لکھا کہ :....آج مجھے یہ موقع بھی ملا کہ میں اپنے اور خاندان غوث الا عظم قدس سرہا کی طرف سے "
٩٩ آپکے اُس جہاد عظیم کا تہ دل سے شکریہ ادا کروں جو محض اسلامی جذبے کے ماتحت مجلس ام متحدہ کے سامنے ارض مقدس فلسطین کی حمایت میں آپ سے ظہور پذیر ہوا " (بحوالہ ' لاہور ۱۴ار اگست ۶۱۹۷۷ مگ) سعودی عرب کے وفد کے سینٹر ڈکی فلسطینی عرب مسٹر غونی دیجانی نے لکھا:.کہ آپ ہمارے لئے اللہ تعالٰی کی نعمت بن کر آئے ہیں.جناب عالی ! میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں آپ کے احسانات کا شکریہ ادا کرنے کے لئے دلی جذبات کا اظہار کرسکوں یا، مصر کے ممتاز سیاسی لیڈرا اسید مصطفے مومن نے ایسوسی ایڈریس آف پاکستان کو انٹرویو دیتے ہوئے (جو پاکستان کے مختلف اخبارات میں ۲۴ - ۲۵ مئی ۶۱۹۵۱ کو شائع ہوا) کہا :- ") چودھری محمد ظفراللہ خان عالم اسلام میں ایک قابل رشک مقام رکھتے ہیں یا نہیں !
t 1..مشرق وسطی میں (بالخصوص مصر اور دوسرے ممالک میں بجا طور پر ایک عظیم ترین سیاستدان تسلیم کیا جاتا ہے.انہوں نے اقوام متحدہ میں تیونس، مراکش، ایران اور مصر کی پرزور حمایت کر کے اسلام کی ایسی خدمت کی ہے جو دوسرا کوئی یڈر نہیں کر سکا یہ (بحوالہ لاہور اور اکتو برد ۹۷ اور جنگ) ر مصری سینیٹر جلال حسینی “ نے ۲۴ جون ۱۹۵۲ء کے برقیہ میں کہا :.میں آپ کو مسلمہ ممالک کی خدمت کی کے لئے انتھک کوششوں کے سلسلہ میں دلی قدر دانی کا یقین دلاتا ہوں.عرب عوام کو آپ نے اسلام کے لئے جہاد کا کما حقہ علم ہے" (بحوالہ لاہور ۸ در اکتوبر ۱۹۷۶ است) ۲۰ جون ۱۹۵۰ء کو لیبیا کے تین رکنی وفد نے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی خدمات جلیلہ کے لئے پاکستان کا ان الفاظ میں شکریہ ادا کیا :-
" پارکستان کے وزیر خارجہ نے لیبیا کے جذبا اور امنگوں کو اقوام متحدہ میں بے مثال طور پر پیش کیا ہے.یہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج لیبیا آزادی کے دروازے پر کھڑا ہے دلیبیا یکم جنوری ۱۹۵۲ ء کو آزاد ہو گیا.لیبیا پاکستان اور اس کے لائق صد احترام وزیر خارجہ کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا اور اس کے لئے ہمیشہ پاکستان کا ممنون احسان رہے گا " (بحوالہ لاہوہ استمبر ۱۹۷۶ء ص ) خب لیگ کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمن عام پاشا نے ایک بیان میں فرمایا : " ظفر اللہ خان اپنے قول اور اپنے کردار کی رو سے مسلمان ہیں.روئے زمین کے تمام ھوں میں اسلام کی مدافعت کرنے میں آپ کا میاب رہے اور اسلام کی مدافعت میں جو موقف بھی اختیار کیا گیا اُس کی کامیاب حمایت ہمیشہ آپ کا طرہ امتیاز رہا.اسی لئے آپ کی عزت عوام کے
دلوں میں گھر کرگئی اور مسلمانان عالم کے قلوب آپ کے لئے احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہو گئے.(بحوالہ اصحاب احمد جلد ۱ ص۲۱۳) دمشق کے مشہور جریدہ " الانیا مانے ۲۴ فروری ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں لکھا :- " ظفر اللہ خان وہ شخصیت ہیں جنہوں نے عرب ممالک کی ترجمانی کرنے میں اپنا انتہائی زور صرف کر دیا.آپ کا کام عربوں کی تاریخ میں ہمیشہ ہمیش کے لئے آب زر سے لکھا جاتا رہے گا " سابق وزیر اعظم پاکستان چودھری محمد علی صاحب نے کتاب " ظور پاکستان ۲۲۵ میں تحریر فرمایا :- عالیم اسلام کی آزادی، استحکام، خوشحالی اور اتحاد کے لئے کوشاں رہنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک تنقل مقصد ہے بحکومت پاکستان کا ایک اولین اقدام یہ تھا کہ مشرق کو تسطی کے ملکوں میں ایک خیر سگالی وفد بھیجا گیا.پاکستان نے فلسطین میں عربوں کے حقوق کو اپنا مسئلہ سمجھا اور
١٠٣ اقوام متحدہ میں پاکستان کے وزیر خارجہ ظفر اللہ فان اس کے فصیح ترین ترجمان تھے.علاوہ ازیں انڈونیشیا ملایا ، سودان، بیا ، طونس ، مراکش، نائیجیریا اور الجزائر کی آزادی کی مکمل حمایت کی گئی کیا بین الاقوامی سیاسی خدمات معرة ز حضرات ! اپنی تقریر کے اختیا میں حصہ میں مجھے مسلمانان عالم کی اس خادم اور خالص دینی تبلیغی جماعت کی بین الاقوامی سیاسی خدمات کا اجمالی تذکرہ کرنا ہے تاریخ گواہ ہے کہ جماعت احمدیہ نے خدا کے فضل و کرم سے حجاز مقدس، صر، شام، فلسطین، عراق، ایران ترکی، افغانستان، انڈونیشیا اور برصغیر پاک و ہند کے پیش آمدہ مسائل میں صحیح راہنمائی کر کے اظہار ہمدردی کرنے اور اُن کی تحریکات اسلامی کی تائید کرنے میں شاندار کردار ادار کیا ہے.اسلامی سیاسیات حاضرہ میں ستاد فلسطین اور تحریک
۱۰۴ پارکستان کو روزبر و ز جو غیر معمولی اہمیت حاصل ہو رہی بروز ہے اُس کے پیش نظر میں اس موقعہ پر انہی کے ذکر پر اکتفا کروں گا.یہ گویا جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کے تلاطم خیز سمندر کے دو قطرے ہیں.حضرت مصلح موعود کی قیادت میں احمدیہ پریس بسلسلہ احمدیہ کے مبلغین بلا در بیتہ و غربیہ اور پوری جماعت کی تمام تو ہمدردیاں شروع ہی فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ یہ ہی نہیں اور یہودیوں کی ناپاک سازشوں کو بے نقاب کرنے اور عرب مطالبات اور مفادات کی ترجمانی کا کوئی موقعہ انہوں نے فروگزاشت نہیں کیا.فل بر ۱۹۲۹ء کو قادیان میں مسلمانان تسطین بر بهبودی یورش کے خلاف زبر دست احتجاج کیا گیا.فروری ۱۹۳۹ء میں جب قضیہ فلسطین کے سلسلہ میں عرب ممالک کی لندن کا نفرنس منعقد ہوئی تو سعودی عرب کے شہزادہ امیری فصیل اور عرب ملکوں کے دیگر نمائندوں کا مسجد احمدیہ لنڈن میں ایک تاریخی اجتماع ہوا.اس تقریب پر حضرت مصلح موعود نے مولانا جلال الدین صاحب
۱۰۵ شمس کے نام یہ برقی پیغام ارسال فرمایا کہ :- میری طرف سے ہر رائل ہائی نس امیر فصیل ا فلسطین کا نفرنس کے (دوسرے) مندوبین کو خوش آمدید کہیں اور ان کو بتا دیں کہ جماعت احمد تیر کامل طور پر ان کے ساتھ ہے اور دُعا کرتی ہے کہ اللہ تعالٰی ان کو کامیابی عطا کرے اور تمام عرب ممالک کو کامیابی کی راہ پر چلائے اور اُن کو اسلامی دُنیا کی وہ لیڈرشپ عطا کرے جو اُن کو اسلام کی پہلی صدیوں میں حاصل تھی." الفضل دار ماریچ ۶۱۹۳۹ ) ۱۶ مئی ۱۹۲۸ء کو اسلام دشمن استعماری طاقتوں کی پشت پناہی میں دنیا ئے اسلام کے سینہ میں صہیونی حکومت کا زہر آلود خنجر پیوست کر دیا گیا.حضرت مصلح موعود نے اس کو ناک المیہ پر الْكُفَرُمِلَةٌ وَاحِدَةً کے نام سے ایک حقیقت افروز مضمون پیر د قلم فرمایا جس میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے فورا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی ولولہ انگیز تحریک فرمائی اور
1.4 صیہونیت کے درپردہ عزائم کو بے نقاب کر کے اس کے مقابلہ کے لئے ایک عالمگیر دفاعی منصوبہ بھی پیش فرمایا.حضور نے فرمایا :- دو سوال فلسطین کا نہیں سوال مدینہ کا ہے وال پر شام کا نہیں سوال خود کام مکرم کا ہے سوال زید اور یگر کا نہیں سوال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت کا ہے.دشمن با وجود اپنی مخالفتوں کے اسلام کے مقابل پراکٹھا ہو گیا ہے کیا مسلمان با وجود ہزاروں اتحاد کی وجو ہائیے اس موقع پر اکٹھا نہیں ہوگا ؟ " الفضل اس مٹی ۶۱۹۲۸ ۲ اس انقلاب انگیز مضمون نے شام ، لبنان، اردن اور دوسرے ممالک میں زبر دست تہلکہ مچا دیا شام ریڈیو نے
1.6 اس کا خلاصہ نشر کیا اور چوٹی کے عرب اخبارات نے اس کے اقتباسات شائع کئے اور آپکے پیش فرمودہ نظام شمل کو نہایت درجہ تسن قرار دیا او تسلیم کیا کہ مٹا فلسطین کے حق میں یہ نہایت کارگر را پی گنڈا اور موثر آواز ہے.استعماری طاقتوں کو بھلا مسلمانوں کے اتحاد کی یہ موثر ترین تحریک کب گوارا ہو سکتی تھی انہوں نے خود مسلمانوں ہی کے ایک طبقہ کو آلہ کار بنا کر جماعت احمدیہ کے خلاف پراپیگینڈا کرنے کی مہم شروع کرا دی.راس گهر می سازش کا سنسنی خیز انکشاف بغداد کے مقتدر جريدة الأنباء کے ایک فاضل نام نگار الأستاذ على الخياط آفندی نے کیا جو ان کے مسلم سے اخبار الانباء کے استمبر ۱۹۵۴ء کے شمارہ میں " منظر عام پر آچکا ہے.تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے با برکت عہد خلافت کے پہلے سالانہ جلسہ پور فرمایا تھا :- جلسہ پر فریایی " حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے الہامات کی رُو سے پاکستان وہ قلعہ ہند ہے جس میں
} E 1.A مُحمد رسُولُ الله صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزیں ہوئے ہیں یا الفضل ، ارجنوری ۱۹۲۶ ء نیز الهام مذکور کے لئے دیکھیں "تذکرہ امیت ۲ طبع سوم ) اس قلعہ اسلام کی بنیاد ، اس کی تعمیر، اس کے بہتحکام اور اس کے دفاع کے ہر مرحلہ پر احمدیوں نے اپنی طاقت و بساط سے بڑھ کر اپنے وقت اپنے مال ، اپنی غربت و آبرو اور اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کی ہیں.اور اِس صداقت میں ذرہ برابر شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ چمنستان پاکستان کو احمدی جوانوں اور احمدی خواتین نے اپنے مقدس خون سے سینچا اور سیراب کیا ہے.چنانچہ مؤرخ پاکستان مولانا میں احمد جعفری نے اپنی کتاب " " قائد اعظم اور ان کا عہد" میں ایک احمد می شہید ڈاکٹر ہارون الرشید اور ان کی بیوی کا دردناک واقعہ لکھا ہے جیسی تصویر کر کے آج بھی آنکھوں سے بے اختیار آنسوؤں کا دریا رواں ہو جاتا ہے.یہ واقعہ نومبر ۱۹۴۶ء میں گڑھے معتبشر کے میلہ میں پیش آیا جب کہ لاکھوں کا ہجوم تحریک پاکستان کے حامی چین رسو
1-4 یایی ایرانی درندوں کی طرح مولا مسلمانوں پر چشی درندوں کی طرح ٹوٹ پڑا مولانا نئیں جعفری لکھتے ہیں :- ڈا کٹر ہارون الرشید جومحکمہ صحت کے الخارج تھے بے دردی سے قتل کر دیئے گئے.اُن کی اہلیہ محترمہ کے کپڑے اتار دیئے گئے اور مجمع میں سے رکسی ایک شخص کو بہ حیثیت شوہ منتخب کر لینے کا حکم دیا گیا.انہوں نے انکار کیا تو انہیں مارتے مارتے ادھ موا کر دیا گیا.یہ واقعہ دریا کے کنارے پیش آیا تھا اُن کی سمجھ میں کچھ اور تو نہ آیا وہ دریا میں کود پڑیں اور نیم بے ہوش حالت میں بہت دور جا ریں ریت کرتی ہے؟ نہیں دیکھ لیا.وہ اُن کی ہوا لایا.کچھ مق زندگی کی باقی تھی علاج معالجہ سے بھی ہو گئیں.اب اپنے وطن لا ہو ر میں ہیں.گڑھ مکیش کے شہیدوں کی بے گور و کفن لاشیں کئی دن تک شارع عام پر پڑی لڑتی
11.رہ ہیں.کوئی اُن کی نماز پڑھنے والا یا نہیں دفن کرنے والا بھی نہ تھا ، آہ ! بنا کردند خوش رسمی بنخاک خون غلطیدن خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را (صفحه ۴ ۷۵۵۰۷۵) میرے بزرگو اور بھائیو استحریک پاکستان روز اول سے اب تک جن مراحل میں سے گزری ہے اُن میں سے بعض خاص طور پر قابل ذکر ہیں.مثلاً دو قومی نظریہ کی ترویج و اشاعت سنگٹن اور شدھی کے خلاف جہاد ، جلسہ ہائے سیرت النبی ، مسلمانان ہند کی اقتصادی و معاشی ترقی و بہبود کے لئے مساعی مسلم لیگ کے قومی پلیٹ فارم کی مضبوطی جدا گانہ نیابت کا مطالبہ، نہرورپورٹ کے خلاف جد و جہد راؤنڈ میں کانفرنس میںمسلم اقلیت کے حقوق کی موثر ترجمانی، موثر تحریک آزادی کشمیر ۶۱۹۳۱ شفیع لیگ اور جناح لیگ کا اتحادا قائد اعظم کی خدمت میں لنڈن سے واپسی کی تحریک ۴۶ - ۱۹۲۵ء کے مرکزی اور صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کی
زیر دست حمایت عبوری حکومت میں مسلم لیگ کی مشمولیت، خضر وزارت کے استعفا کی کامیاب کوشش، باؤنڈری میشن میں مسلم حقوق کی حفاظت اور وکالت مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی خدمت، آزادکشمیر حکومت کا قیام ، جنگ آزادی کشمیر، قدرتی آفات اور خدمت وطن یا پاکستان کے علمی، معاشی اور دفاعی استحکام میں حصہ.جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے حضور اگر لاکھوں کروڑوں سجدات تشکر کبھی بجا لائے تو بہت کم ہیں کہ محض اللہ کے فضل واحسان سے بر صغیر کی تمام مذہبی جماعتوں میں صرف اسی کمزور جماعت کو یہ سعادت بخشی گئی کہ وہ قیام پاکستان استحکام پاکستان اور دفاع پاکستان کے ہر اہم مرحلہ پر بے لوث خدمات بجا لا سکے.را س سلسلہ میں بطور نمونہ صرف چند اہم شہادتیں اور حیض تاریخی دستا ویزات پیش ہیں :- مولنا محمد علی صاحب جو ہر نے اپنے اخبار ہمدرد ۱ و ۲ ستمبر ۶۱۹۲۷ ) میں لکھا :- در ناشکر گنہاری ہوگی کہ جناب " ایران دینی و تمد
١١٢ اور اُن کی اُس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہکریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقفت کر دی ہیں.یہ حضرات اس وقت اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاسیات میں دیپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی تنظیم تبلیغ و تجارت میں بھی انتہائی جد وجہد سے منہمک ہیں.اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم قرقہ کا طرز تعمل سوادِ اعظم اسلام کے لئے بالعموم اور اُن اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمات اسلام کے بلند بانگ در باطن پیچ دعادی کے خوگر ہیں مشعل راہ ثابت ہو گا.(بحوالہ تاریخ احمدیت جلده ملت) شیر کشمیر شیخ محمد معبد اللہ صاحب نے ۲۷ اکتوبر ۶۱۹۳۲ کو حضرت مصلح موعود رض کی خدمت میں مکتوب لکھا کہ : نہ میر کی زبان میں طاقت ہے اور نہ میرے قلم میں زور اور نہ میرے پاس وہ الفاظ ہیں جن
١١٣ ہے سے کہ میں جناب کا اور جناب کے بھیجے ہوئے کا رکن مولانا درد ، سید زین العابدین صاحب وغیرہ کا شکریہ ادا کر سکوں.یقینا اس عظیم الشان کا م کا بدلہ جو کہ آنجناب نے ایک بے کس اور مظلوم قوم کی بہتری کے لئے کیا صرف خدائے لایزال سے ہی مل سکتا ہے.میری عاجزانہ دعا ہے کہ خدا وند کریم انجناب دُعا کو زیادہ سے زیادہ طاقت دے تاکہ آنحضور کار جو مسعود بے کسوں کے لئے سہارا ہو " قائد اعظم محمد علی جناح کی طرف سے اخبار ڈان" DAWN) در اکتوبر ۱۹۴۵ء کی اشاعت میں ایک مفصل خبر شائع کی گئی جس کا عنوان تھا :.وجو م "AHMADIYYA COMMUNITY TO SUPPORT MUSLIM LEAGUE" یعنی "جماعت احمد یسلم لیگ کی حمایت کرے گی“ اکتوبر ۱۹۴۶ء میں معینی جہاد پاکستان کے دوران میں متحدہ ہندوستان کی ایک مشہور سلم تنظیم نے " آنکھ مچولی
۱۱۴ پر مختصر تبصرہ کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا جس میں جماعت احمدیہ کی خدمات پاکستان کا تذکرہ کرتے ہوئے واضح لفظوں میں لکھا :."مسٹر جنات نے کوئٹہ میں تقریر کی اور مرزا محمود سران کورٹ میں کی اور مرزامحمود کی پالیسی کو سراہا.اس کے بعد سنٹرل اسمبلی کے الیکشن ہوئے تو تمام مرزائیوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دیئے " ) ا صفحه ۱۸-۱۹ ، نا نشر مجلس احرار اسلام قادیان) اہل حدیث کے متازعالم دین مولنا میر محمد ابراہیم صحاب سیالکوٹی نے ۲۳ جنوری ۱۹۴۶ء کو لکھا: احمدیوں کا اس اسلامی جھنڈے کے نیچے آجانا اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی سلم لیگ ہی مسلمانوں کی احد نمائندہ جماعت ہے.وجہ یہ کا محمدی لوگ کانگرس میں تو شامل نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ خالص مسلمانوں کی جماعت نہیں ہے.
ها...ہاں اس وقت مسلم لیگ ہی ایک ایسی - جماعت ہے جو خالص مسلمانوں کی ہے راس میں مسلمانوں کے سب فرقے شامل ہیں.پس احمدی صاحبان بھی اپنے آپ کو ایک اسلامی فرقہ جانتے ہوئے اس میں شامل ہو گئے جس طرح کہ اہل حدیث اور حنفی اور شیعہ و غیر هم شامل ہوئے، اور اس امر کا اقرار کہ احمدی لوگ اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہیں مولانا ابوالکلام صاحب کو بھی ہے کہ پیغام ہدایت در تائید پاکستان مسلم لیگ صفحہ ۱۱۲ ۱۱۳ مطبوعہ ثنائی پولیس امرت سرا جناب حمید نظامی صاحب اپنے اخبار نوائے وقت" لاہور (مورخه ۲۴۳ اگست ۱۶۱۹۴۸ میں حسب ذیل نوٹ شائع کیا :- "جب قائد اعظم نے یہ چاہا آپ پنجاب باونڈری
117 کمیشن کے سامنے مسلمانوں کے کیل کی عید سے اعلام پیش ہوں تو ظفر اللہ خاں نے فوراً یہ خدمت سرانجام دینے کی حامی بھری.....اور سے ایسی قابلیہ سے سرانجام دیا کہ قائداء خوش ہو کر آپ کو کیو این او میں پاکستانی وفد کا قائد مقرر کر دیا.جس طرح آپ نے ملت کی وکالت کا حق ادا کیا تھا اس سے آپ کے نام پاکستان کے قابل احترام خادجون میں شامل ہوچکا تھا.آپنے ملک ملت کی شاندار خدمات سرانجام دیں تو قائد اعظم انہیں حکومت پاکستان کے اس عہدے پر فائز کرنے پر تیار ہوگئے جو باعتبار منصب نے یر اعظم کے بعد سب سے اہم اور وقیع عہدہ شمار ہوتا ہے؟ ۱۹۴۰ء میں شنید نا حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت احمدیہ
112 کے رضا کاروں کی ایک بٹالین کشمیر کی جنگ آزادی کے لئے تیار کی اور بلا معا وصفہ اس کی خدمات تحریک آزادی کی ہائی کمان کے سپرد کر دیں.کمانڈر انچیف پاکستان نے احمدیوں کی اس بٹالین کی خدمات کو سراہتے ہوئے ، اریون ۱۹۵۰ء کو خصوصی پیغام دیا کہ : "Your Bn was composed entirely of volunteers who came from all walks of iife, young peasants, students, teachers, men in business; they were all embued with the spirit of service for Pakistan; you accepted no remuneration, and no publicity for the self sacrifice for which you all voluntered.Yours was a noble cause." "In Kashmir you were allotted an impor- tant sector, and very soon you justified the reliance placed on you and you nobly acquitted yourself in battle against heavy enemy ground and air attacks, without los- ing a single inch of ground.Your conduct both individual and col- lective and your discipline have been of a very high order."* ترجمہ : آپ کی بٹالین خاص رضا کا ریٹالین بھی میں میں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگ
شامل تھے.ان میں کسان بھی تھے اور مزدور پیشہ بھی، کاروباری لوگ بھی تھے اور نوجوان طلبہ و اساتذہ بھی.وہ سب کے سب خدمت پاکستان کے جذبہ میں سرشا تھے.آپ نے اس قربانی کے بدلے میں جس کے لئے آپ میں سے ہر ایک نے اپنے آپ کو بخوشی پیش کیا کسی تم کے معاوضہ اور شہرت و نمود کی توقع نہ کی یا کشمیر میں محاذ کا ایک اہم حصہ آپ کے سپرد کیا گیا اور آپنے اُن تمام توقعات کو پورا کر دکھایا جو راس ضمن میں آپ سے کی گئی تھیں.دشمن نے ہوا پر سے اور زمین پر سے آپ پر شدید حملے کئے لیکن آپ نے ثابت قدمی اور اولوالعزمی سے اس کا مقابلہ کیا اور ایک انچ زمین بھی اپنے قبضہ سے نہ جانے ایک دی.آپ کے انفرادی اور مجموعی اخلاق کا معیار بہت بلند تھا اور ظیم کا جذبہ بھی انتہائی قابل تعریف !!" جماعت احمدیہ کی یہ سب علی خدمات چونکہ اپنے اثر و نتائج کے اعتبار سے ابدی رنگ رکھتی ہیں اور حضرت مصلح موعود کی آسمانی قیادت میں انجام دی گئی ہیں اس لئے حضور کے نام اور تنظ {
١١٩ م کبھی سورج غروب نہیں ہوسکتا جیسا کہ حضور نے خود پیش گوئی فرمانی که : میں اُسی خدا کے فضلوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ میرا نام دنیا میں ہمیشہ قائم میرا رہے گا اور کوئیں مر جاؤں گا مگر میرا نام بھی نہیں ھٹے گا.یہ خدا کا فیصلہ ہے جو آسمان پر ہو چکا کہ وہ میرے نام اور میرے کام کو دنیا میں قائم رکھے گا." ( تقریر فرموده ۲۸ دسمبر ۶۱۹۹ روح پرور خطاب صفحه ۱۴ ۱۵ کم بر صغیر کے ممتاز ادیب سید ابو ظفر نازش صاحب رضوی نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے وصال پر اپنا یہ چشمدید واقعہ اخبار میں شائع کیا." ۱۹۴۰ء میں مجھے ایک سیاسی مشن پر قادیان جانا پڑا.اس زمانے میں ہندو اپنی سنگھٹنی شرارتوں کا ایک خاص منصو بہ بنارہے تھے.اس موقع پر مرحوم و مغفور امام صاحب جامع مسجد دہلی اور سیدی و مولائی خواجہ حسن نظامی صاحب علی الله مقامه
اور دیگر چوٹی کے مسلم اکا برنے مجھے نمائندہ بنا کر بھیجا کہ حضرت صاحب سے اس باب میں تفصیلی بات چیت گروں اور اسلام کے خلاف اس فتنے کے تدارک کے لئے اُن کی ہدایات لئے ہدا حاصل کروں.بریشن بہت خفیہ تھا کیونکہ ہندوستان کے چوٹی کے مسلمان اکا بر جہاں سمجھتے تھے کہ ہندوؤں کے اُس ناپاک منصوبے کا موثر جواب لمانوں کی طرف سے صرف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد د رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی دے سکتے ہیں.وہاں وہ عام مسلمانوں پر یہ ظا ہر کرنا بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ حضرت صاحب کو اپنا امیر سلیم کرتے ہیں.میں اس سلسلے میں قادیان تین دن مقیم رہا اور حضرت صاحب سے کئی تفصیلی ملاقاتیں کیں.ران ملاقاتوں میں دو باتیں مجھ پر واضح ہو گئیں دوبات ایت یہ کہ حضرت صاحب کو اسلام اور حضور سرور کائنات علیہ السّلام سے
IMI جو عشق ہے اُس کی مثال اس دور میں ملنا محال ہے.دوسرے یہ کہ تحفظ اسلام کے لئے جو اہم نکات حضرت صاحب کو سوجھتے ہیں وہ کسی دیگر مسلم لیڈر کے ذہن سے مخفی رہتے ہیں.میرا بیشن بہت کامیاب رہا.اور میں نے دہلی جا کر بھو رپورٹ پیش کی اُس سے مسلم زعماء کے حوصلے بلند سے بلند تر ہو گئے.نیز لکھا :- " افسوس ! کہ وہ وجود جو انسانیت کے لیے سراپا احسان و مروّت تھا آج اس دُنیا میں نہیں.وہ عظیم الشان سپر آج پیوند زمین ہے جس نے مخالفین اسلام
۱۲۲ کی ہر تلوار کا وار اپنے سینے پر یواشت کیا مگر یہ گوارا نہ کیا کہ اسلام کو گزند پہنچے......آپ نے دنیا کے بے شمار ممالک میں چار سو کے قریب مساجد تعمیر کو ائیں تب بلیغ اسلام کیلئے تبلیغ تقریباً یکصدمیشن قائم کئے جو عیسائیت کی بڑھتی ہوئی رو کے سامنے ایک آہنی دیوار بن گئے.مختصر یہ کہ حضرت صاحب نے اپنی زندگی کا ایک ایک سانس اپنے مولنے کی رضا اور اسلام کی سربلندی کے لئے f
۱۲۳ وقف کر رکھا تھا.خُدا اُن سے راضی ہوا وہ خُدا سے راضی ہوئے " روزنامه الفضل ابوه مورخه ا ر ا پریل ۱۹۲۶ تومان اوه سه راک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے حضرت مصلح موعود رضی الله عند فرمایا کرتے تھے :.ر جب سعودی ، عراقی ، شامی اور لبنانی ، ترک ، مصری اور یمینی سو رہے ہوتے ہیں میں اُن کے لئے دعاء کر رہا ہوتا ہوں.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۵صف)
اختتام ملت کا یہ بے مثال خدائی اپنے مولیٰ سے عمر بھر رات کی خاموش تنہائیوں میں مسلمانان عالم کے لئے کیا مانگت اور کیا طلب کرتا رہا ؟ میں اس راز سربستہ کو خدا کے اسی پیارے بندے کے پیارے الفاظ کے آشکار کر کے اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں.سید نا محمود المصلح الموعود نے فرمایا :- " ہماری اللہ تعالے سے یہی دُعَاء ہے کہ....دنیا میں سر کہیں لا اله إلا الله محمد رسُولُ اللہ کے پڑھنے والے نظر آئیں اور روس، امریکہ، برطانیہ
۱۲۵ اور فرانس کے لوگ جو آج اسلام پر منسی اُڑا رہے ہیں وہ سب کے سب اسلام کو قبول کر لیں اور انہیں اپنی ترقی کے لئے اسلام او مسلمانوں کا دست نگر ہونا پڑے.ہم ان ممالک کے دشمن نہیں.ہماری دعا ہے کہ یہ ملک ترقی کریں لیکن کریں اسلام اور مسلمانوں کی مدد سے.آج تو مشق اور مصر روس کے ہاتھوں کی طرف دیکھ رہا ہے کہ کسی طرح اُس سے کچھ مدد مل جائے.لیکن ہم چاہتے I
1 ۱۲۶ ہیں کہ اللہ تعالے دمشق اور مصر کے مسلمانوں کو پکا مسلمان بنائے اور پھر دُنیوی طاقت بھی اتنی دے کہ دمشق اور مصر روس سے مدد نہ مانگے بلکہ روس، دمشق اور مصر کو تاریں دے کہ ہمیں سامان جنگ بھیجو.اسی طرح امریکہ اُن سے یہ نہ کہے کہ ہم تمہیں مدد دیں گے.بلکہ امریکہ ،شام، مصر، عراق، ایران پاکستان اور دوسری اسلامی ملطنتوں سے کہے کہ ہمیں اتنے ڈالر بھیجو ہمیں
۱۲۷ ضرورت ہے ورنہ ہم تو خالص دین کے بندے ہیں اور دنیا سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی جو چیز ہے وہی ہمیں پیاری ہے.پس اللہ تعالیٰ اِسلام کے غلب کی کوئی صورت پیدا کرے اور خلافت کی اصل غرض بھی یہی ہے کہ مسلمان نیک رہیں اور اسلام کی اشاعت میں لگے رہیں یہاں تک کے اسلام کی اشاعت دُنی کے بچہ چیت پر ہو جائے اور کوئی غیر مسلم باقی t 1
! نہ رہے یا JA.16.درپورٹ مجلس مشاورت کے ۶۱۹۵ ص ۱۸) بطلما کی وادیوں سے جو نکلا تھا آفتاب بڑھتا ہے وہ نور نبوت خُدا کرے قائم ہو پھر سے حکم محمد جہان میں ضائع نہ ہو تمہاری یہ محنت خُدا کرے ماین واخِرُدَ عُومِنَا أَن الحَمدُ للهِ رَبِّ العلمين